Seerat-e-Tayyaba Mahboob-e-Kibria

Seerat-e-Tayyaba Mahboob-e-Kibria

سیرت طیبہ محبوب کبریا ﷺ

حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبیین ﷺ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ النبی

مصنف نے یہ مقالہ مجلس انصاراللہ مرکزیہ پاکستان کی طرف سے منعقدہ  ایک انعامی مقابلہ کے لئے  مرتب کیا تھا جسے تب اول انعام کا حقدار قراردیا گیا تھا، جسے بعد ازاں کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔ موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن نظارت نشر و اشاعت قادیان کا شائع کردہ ہے جس میں محبوب کبریاء ﷺ کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر باحوالہ مواد جمع ہوگیا ہے۔


Book Content

Page 1

سيرت طيبه محبوب کبریا صلی اللہ علیہ والہ وسلم حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسعود احمد خورشید سنوری

Page 2

نام کتاب : سیرت طیبہ محبوب کبریا صلی لیستم مصنف مسعود احمد خورشید سنوری طبع اول طبع اول انڈیا ربوه، پاکستان $2011: حالیہ طباعت انڈیا : ستمبر 2013ء 1000: : فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمدیہ قادیان ، تعداد مطبع ناشر ضلع گورداسپور ، پنجاب، انڈیا.143516 ISBN: 978-81-7912-331-7 Seerate Tayyaba Mehbube Kibriya By: Masood Ahmad Khursheed Sanori

Page 3

نمبر شمار پیش لفظ ۴ فہرست مضامین مضامین خدائے ذوالجلال کی محبوبیت کا اظہار قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے القاب هُدًى لِلْمُتَّقِينَ آنحضرت ﷺ کی جامعیت اقوال و افعال کے لحاظ سے صفحہ نمبر 1 -234 24 14 29 33 37 40 41 44 59 60 61 باب نمبر 1 آنحضرت ﷺ کا اللہ تعالیٰ سے عشق و محبت کا تعلق باب نمبر 2 آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بے نظیر تعلیم باب نمبر 3 آنحضرت ﷺ کے اپنے اقوال اور احادیث مبارکہ باب نمبر 4 آنحضرت ﷺ کی صداقت ،ایمانداری اور اخلاق فاضلہ باب نمبر 5 آنحضرت صلی اللہ والہ وسلم کا پیغام حق دنیا کو پہنچانا آنحضرت صلی اللہ والہ وسلم بحیثیت داعی الی اللہ طائف والوں کو پیغام حق مدینہ کے لوگوں کو پیغام حق بادشاہوں کو تبلیغ 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴

Page 4

65 73 80 81 81 81 81 89 % 80 86 84 81 83 باب نمبر 6 ۱۵ رحمۃ للعالمین ﷺ کا مخلوق خدا سے شفقت اور پیار کا سلوک نمر باء اور کاسہ یتامی کی خبر گیری باب نمبر 7 ۱۶ باب نمبر 8 آنحضرت ﷺ کا شادیاں کرنا اور اہل بیت سے مشفقانہ سلوک آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا رشتہ داروں سے حسن سلوک ا.بیٹیوں سے حسن سلوک ب.نواسوں سے حسن سلوک ج.منہ بولے بیٹے سے پیار رشتے داروں سے حسن سلوک ہ عورتوں سے حسن سلوک و عورت کے حقوق بطور والدہ ذعورت کے حقوق بطور بیٹی ۱۷ ۱۸ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳

Page 5

پیش لفظ میں اس مضمون کو اپنے پیارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بابرکت اسم گرامی سے معنون کرتا ہوں.تذکرہ ایڈیشن پنجم مطبوعہ قادیان کے صفحہ نمبر ۶۳ پر حضور علیہ السلام کے ۱۸۶۶ء کے میں بابرکت الہام درج ہیں، اُن میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اور خوشخبری درج ہے.تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بڑھاؤں گا اور اُن کے نفوس اور اموال میں بھی برکت بخشوں گا.“ چنانچہ جب میری والدہ رحیمن بیبی صاحبہ صحابیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اہلیہ حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری نے اپنی بیماری اور کمزوری کی حالت میں ڈاکٹروں اور حکیموں کے اُن کو لا علاج قرار دینے کے بارہ میں حضور علیہ السلام کی خدمت اقدس میں سارا حال بیان کیا اور دعا کی درخواست کی تو حضور علیہ السلام نے دومرتبہ دعا کرنے کا وعدہ فرمایا اور پھر تیسری مرتبہ حضور علیہ السلام نے اپنا رخ انور آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ اُن سے کہہ دو ( یعنی اپنے خاوند سے کہہ دو کہ اتنی اولاد ہوگی کہ سنبھال نہیں سکو گے.“ چنانچہ خدائے قادر و توانا رب العالمین نے اس قول عظیم کو شرف قبولیت بخشے ہوئے لفظ بہ لفظ پورا فرمایا اور 14 بچے عطا فرمائے جن میں سے ایک یہ عاجز نابکار بھی ہے.یہ تحریر اس لیے پیش کی جارہی ہے کہ یہ حضرت امام الزمان مهدی دوران عاشق صادق حضرت رسول کریم ﷺ کی صداقت کا چمکتا نشان ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق تو کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے مردے زندہ کئے لیکن مسیح محمدی علیہ السلام نے خدائے قادر و توانا کی عظمت اور جلالت ظاہر کرنے کے لئے اس سے نیست سے ہست کا معجزہ مانگا اور بڑی شان سے پورا ہوا.فالحمد للہ علی ذالک.

Page 6

میں عزیزم مکرم صفی الرحمن خورشید مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا ممنون ہوں کہ اُنہوں نے اس مضمون کی پروف ریڈنگ ، طباعت اور اشاعت کے تمام کام قابل قدر طور پر انجام دیئے.فجزاه الله احسن الجزاء.والسلام احقر العباد مسعود احمد خورشید سنوری عفی عنہ از امریکہ

Page 7

نوٹ :.انصار اللہ مرکز یہ ربوہ نے تحریری مقابلہ کے لئے آنحضرت علی سیرت کا عنوان منتخب کیا.چنانچہ یہ مقالہ اس مقابلہ میں انعام یافتہ قرار پایا اور مکرم مسعود احمد خورشید سنوری صاحب کراچی حال فلوریڈا.امریکہ کو نقد ایک ہزار روپے کا انعام اور قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تالیف سیرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم عنایت کی گئی.خورشید

Page 8

هو بسم الله الرحمن الرحيم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اصر ہم قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور اُس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں لمصل ( أصلح الموعود ) سیرت طیبہ محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کی تعریف خداوند کریم نے خود بیان فرمائی ہے کہ آپ مومنوں کے لئے رؤف ، رحیم ہیں.تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں اور نبیوں کے سردار ہونے کے ساتھ سراج منیر بھی ہیں.جیسا که مندرجہ ذیل آیات میں ذکر موجود ہے.بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَّحِيمٌ (التوبه : ۱۲۸) مومنوں کے ساتھ محبت کرنے والا ( اور ) بہت کرم کرنے والا رحمة للعلمين 0 ( انبیاء : ۱۰۸) دنیا کے لئے رحمت خاتم النبيين ( الاحزاب: ۴۱) نبیوں کی مہر سِرَاجًا منيراه (الاحزاب :۴۷) چمکتا ہوا سورج خدائے ذوالجلال کی محبوبیت کا اظہار مندرجہ ذیل آیات وحدیث میں پایا جاتا ہے

Page 9

إِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ طَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيما ه (الاحزاب: ۵۷) قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ه (ال عمران : ۳۲) لولاك لما خَلَقْتُ الْأَفَلَاكه (حديث قدسى ) قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے القاب طیب اور ہادی (r: b) طة یس :) يش الانسان کامل انسان (الاحزاب : ۷۳) عبد الله اللہ کا بندہ (الجن :۲۰) المزمل چادر میں لپٹنے والے (المزمل : ٢) المدثر بارانی کوٹ پہننے والے (المدثر : ۲) بھیج درود اُس محسن پر تو دن میں سو سو بار پاک محمد مصطفے نبیوں کا سردار وَإِنَّكَ لَتَدُعُوهُمْ إلى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ه (المومنون : ۷۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: پس یا درکھو کہ کتاب مجید کے بھیجنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا ہے کہ تا دنیا پر عظیم الشان رحمت کا نمونہ دکھاوے کہ جیسے فرمایا: وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رحْمَةً لِلْعَلَمِينَ 0 ( الانبیاء(۱۰۸) اور ایسا ہی قرآن مجید کے بھیجنے کی غرض بتائی کہ ھدی 2

Page 10

لِلْمُتَّقِينَ ( ملفوظات جدید ایڈیشن جلد اوّل صفحہ نمبر ۲۲۶) أطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُول کا حکم قرآن مجید میں 19 مرتبہ ہے.بلکہ فرمایا: مَن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ الله ج ( النساء: ۸۱) ” جو اس رسول کی پیروی کرے تو اُس نے اللہ کی پیروی کی.“ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یہ ہدایت نامہ ہے متقیوں کے لئے اس ہدایت نامہ کے سب سے بڑے عالم اور عامل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم كَانَ خَلَقَهُ الْقُرْآنَ “ کے مصداق ہوئے.چنانچہ تقوی کے سب سے اونچے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدائے ذوالجلال و الاکرام نے رَحْمَةً لِلْعلمين“ (الانبیائ: ۱۰۸) اور ذِكْرًا رَسُولًا “ (الطلاق: ۱۱-۱۲) کے عالی القاب سے ملقب فرما یا نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کی تعریف میں فرمایا اِنَّكَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ “ (القلم:۵) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ذکر رسول قرار دے کر بارگاہ عالی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو ہدایت نامہ عطا کیا گیا اُس کو ذِکر مُبرَگ اَنزَلْنَه (الانبیائ: ۵۱) قرار دیا گیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مبارک ذکر پر انتہائی قدم صدق سے گامزن ہوئے اور اُمت مسلمہ کی راہنمائی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا کیونکہ خدائے ذوالجلال نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا تھا کہ تو کہہ دے وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيماً فَاتَّبِعُوهُ “ (الانعام: ۱۵۴) کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس اس کی پیروی کرو.“ 3

Page 11

بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کو فرض قرار دے دیا اور ارشاد ہوا: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران: ۳۲) تو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو پھر میری اتباع کرو.اس صورت میں وہ بھی تم سے محبت کرے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جامعیت اقوال و افعال کے لحاظ سے محمد ہی نام اور محمد ہی کام علیک الصلوة علیک السلام خدائے ذوالجلال نے عرش بریں پر اپنے محبوب کا نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھا.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت اور شان کا بیان خود اپنے پاک کلام میں کیا اور ازل سے ابد تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام ، رحمتیں اور برکتیں نازل کرنے کا بڑے پیار سے تذکرہ کیا.اور ساری دنیا کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود وسلام بھیجنے کے لئے پابند کر دیا.اس سے بڑھ کر اعزاز اور شان نہ دنیا کے کسی انسان کسی نبی یا رسول کو حاصل ہوا اور نہ ہوسکتا ہے.يَا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ دَائِمًا في هَذِهِ الدُّنْيَا وَبَعْثِ ثَانٍ ( القصيده) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق صادق حضرت امام مہدی علیہ الصلوۃ والسلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کا تذکرہ اس رنگ میں فرماتے ہیں: جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد رکھا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ نہایت تعریف کیا گیا.سو یہ غایت درجہ کی تعریف حقیقی طور پر خدا تعالیٰ کی شان کے لائق ہے مگر ظلی طور پر 4

Page 12

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ایسا ہی قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نور جو دنیا کو روشن کرتا ہے اور رحمت جس نے عالم کو زوال سے بچایا ہوا ہے آیا ہے اور رؤوف اور رحیم جو خدا تعالیٰ کے نام ہیں.ان ناموں سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پکارے گئے ہیں اور کئی مقام قرآن شریف میں اشارات اور تصریحات سے بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر اتم الوہیت ہیں اور ان کا کلام خدا کا کلام اور ان کا ظہور خدا کا ظہور اور ان کا آنا خدا کا آنا ہے.جامعیت تامہ کی وجہ سے سورۃ آل عمران جزو تیسری میں مفصل یہ بیان ہے کہ تمام نبیوں سے عہد واقرار لیا گیا کہ تم پر واجب ولازم ہے کہ عظمت و جلالیت شان ختم الرسل پر جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ایمان لاؤ اور ان کی اس عظمت اور جلالیت کی اشاعت کرنے میں بدل و جان مدد کرو.اسی وجہ سے حضرت آدم صفی اللہ سے لے کرتا حضرت مسیح کلمتہ اللہ جس قدر نبی و رسول گزرے ہیں وہ سب کے سب عظمت و جلالیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار کرتے آئے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے توریت میں یہ بات کہہ کر کہ خدا سینا سے آیا اور شعیر سے طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے ان پر چمکا صاف جتلا دیا کہ جلالیت الہی کا ظہور فاران پر آکر اپنے کمال کو پہنچ گیا اور آفتاب صداقت کی پوری پوری شعائیں فاران پر ہی آکر ظہور پذیر ہوئیں...اور ہمارے مخالف بھی جانتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں سے بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی رسول نہیں اُٹھا سود دیکھو حضرت موسی سے کیسی صاف صاف شہادت دی گئی ہے کہ وہ آفتاب صداقت جو فاران کے پہاڑ سے ظہور پذیر ہوگا اس کی شعائیں سب سے زیادہ تیز ہیں اور سلسلہ ترقیات نور صداقت اس کی ذات جامع با برکات پر ختم ہے...اس تمام تقریر کا مدعا وخلاصہ یہ ہے کہ عند العقل قرب الہی کے مراتب تین قسم پر منقسم ہیں اور تیسرا مرتبہ قرب کا جو مظہر اتم الوہیت اور آئینہ خدا نما ہے حضرت سید نا و مولا نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مسلم ہے جس کی شعاعیں ہزار ہا دلوں کو منور کر رہی ہیں اور بے شمار سینوں کو اندرونی ظلمتوں سے پاک کر کے نور قدیم تک پہنچارہے ہیں.واللہ در القائل.محمد عربی بادشاہ ہر دوسرا کرے ہے روح قدس جس کے در کی دربانی 5

Page 13

خدا تو نہیں کہہ سکوں یہ کہتا ہوں کہ اس کے مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی ) حضرت مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریروں کی رو سے، جلد اوّل صفحہ ۴۳۳ - ۴۳۴، مرتبه سید داؤ د احمد مطبوعه نظارت اشاعت ربوه صفحه ۴۳۳، ۴۳۴) اسی طرح حضرت مسیح موعود اپنے فارسی کلام میں آپ کی افضلیت اور جامعیت کا تذکرہ فرماتے ہیں: صد ہزاراں یوسفے بینم دریں چاہ ذقن وآں مسیح ناصری شد از دم او بے شمار تاجدار ہفت کشور آفتاب شرق و غرب بادشاہ ملک و ملت ملجاء ہر خاکسار آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۷) یعنی ہمارے پیارے آقا وسرور کائنات سید الانبیاء، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قدر بلند مرتبہ اور عظیم شان رکھتے ہیں کہ آپ کی ذات والا صفات میں لاکھوں ( یوسف علیہ السلام جیسے ) نبیوں کے کمالات پائے جاتے ہیں اور آپ کی قوت قدسی اتنی بلند ہے کہ آپ کے انفاخ قدسیہ سے ان گنت اور بے شمار مسیح ناصری جیسے انبیاء پیدا ہوئے اور ہوتے رہیں گے.(جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيل (عوالی اللئالی العزيزية جلد ۴ مطبوعه ۱۹۸۵ء تم - ایران ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب جہانوں کے تاجدار ہیں اور مشرق و مغرب کے آفتاب ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملک اور ملت کے بادشاہ ہیں اور ہر خاکسار کے طلباء و ماوی ہیں.صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.عرش بریں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدائے ذوالجلال نے سب سے بڑا اعزاز یہ عطا فر مایا کہ رب العالمین قادر و توانا خدا تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمۃ للعالمین کی 6

Page 14

سند عطا فرماتا ہے.چنانچہ فرمایا: وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (سورة الانبياء: ۱۰۸) اس آیت کریمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جامعیت ، فضیلت اور عظمت بیان کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کے لئے رحمت بنائے گئے ہیں.جب کہ کسی دوسرے نبی کو یہ اعزاز عطا نہیں ہوا.اس لئے خداوند کریم کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام دنیا کی طرف مبعوث ہونے کا اعلان کرنے کا حکم ہوا اس بارہ میں حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: اور ایسا ہی فرمایا.يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (سورة الاعراف: ۱۵۹) قرآن شریف کے دوسرے مقامات پر غور کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اتنی فرمایا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے آپ کا کوئی اُستاد نہ تھا.مگر بایں ہمہ کہ آپ اُمّی تھے.حضور کے دین میں امیون اوسط درجہ کے آدمیوں کے علاوہ اعلیٰ درجہ کے فلاسفروں اور عالموں کو بھی کر دیا.قل یا ایها الناس إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جميعًا کے معنی نہایت ہی لطیف طور پر سمجھ میں آسکتے ہیں.جمیعا کے دو معنی ہیں.اول تمام بنی نوع انسان یا تمام مخلوق.دوم تمام طبقہ کے آدمیوں کے لئے یعنی متوسط ، ادنیٰ اور اعلیٰ درجہ کے فلاسفروں اور ہر ایک قسم کی عقل رکھنے والوں کے لئے غرض ہر عقل اور ہر مزاج کا آدمی مجھ سے تعلق کرسکتا ہے.“ نیز حضور علیہ السلام نے فرمایا: وو ( ملفوظات جدید ایڈیشن ، جلد اول، صفحہ ۷۷) چونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کل دنیا کے انسانوں کی روحانی تربیت کے لئے آئے تھے اس لئے یہ رنگ حضور علیہ الصلوۃ والسلام میں بدرجہ کمال موجود تھا.اور یہی وہ مرتبہ ہے جس پر قرآن کریم نے متعدد مقامات پر حضور کی نسبت شہادت دی ہے.اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے مقابل اور اسی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کا ذکر فرمایا 7

Page 15

ہے.وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (سورة الانبياء : ۱۰۸) ( ملفوظات جدید ایڈیشن ، جلد اول، صفحہ ۷۷) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جامعیت، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بلند مقام ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برتری یعنی آپ کا سیڈ ہونا.یعنی تمام جہانوں کے سردار.آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فضل الرسل ہونا.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام محمود پر فائز کیا جانا.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرب خداوندی کا مقام اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا كافة للناس ہونا یعنی تمام دنیا کے لئے مبعوث کیا جانا.ان باتوں سے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ بھری پڑی ہیں.ایک پیاری حدیث پیش خدمت ہے.جس میں خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جامعیت اور پانچ خصوصیات کا ذکر فرمایا ہے: حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے پانچ ایسی باتیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی اور نبی کو عطا نہیں ہوئیں.اول مجھے ایک مہینے کی مسافت کے اندازے کے مطابق خدا دا در عب عطا کیا گیا ہے.دوسرے میرے لئے ساری زمین مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنادی گئی ہے.تیسرے میرے لئے جنگوں میں حاصل شدہ مال غنیمت جائز قرار دیا گیا ہے، حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے جائز نہیں تھا.چوتھے مجھے خدا تعالیٰ کے حضور شفاعت کا مقام عطا کیا گیا ہے اور پانچویں مجھ سے پہلے ہر نبی صرف اپنی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا لیکن میں ساری دنیا اور سب قوموں کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں.(چالیس جواہر پارے، صفحہ ۱۹ مرتبہ قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) آپ کی پانچویں خصوصیت کی تشریح کرتے ہوئے قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: 8

Page 16

پانچویں خصوصیت آپ کی یہ ہے کہ جہاں گزشتہ نبی صرف خاص خاص قوموں کی طرف اور خاص خاص زمانوں کے لئے آئے تھے وہاں آپ ساری قوموں اور سارے زمانوں کے واسطے مبعوث کئے گئے ہیں.یہ ایک بڑی خصوصیت اور بہت بڑا امتیاز ہے جس کے نتیجہ میں آپ کا خدا دادمشن، ہر قوم اور ہر ملک اور ہر زمانے کے لئے وسیع ہو گیا اور آپ خدا کے کامل اور مکمل مظہر قرار دیئے گئے ہیں یعنی جس طرح ساری دنیا کا خدا ایک ہے اسی طرح آپ کی بعثت سے ساری دنیا کا نبی بھی ایک ہو گیا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ بَارِكَ وَسَلِّمْ.(چالیس جواہر پارے،صفحہ ۲۱) جب یہ ثابت ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث ہوئے تھے تو ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ گزشتہ انبیائے کرام کے مقابلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کارنامے کیسی بلندشان کے ہیں اور کتنی عظمت رکھتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عالی منصب اور بلند مقام کو آسمان کی رفعتوں تک پہنچادیتے ہیں.اس بارہ میں بھی سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود کی روح پرور تقریر ملاحظہ فرمائیں.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت کفار عرب بھی فرعونیت سے بھرے ہوئے تھے وہ بھی فرعون کی طرح باز نہ آئے.جب تک انہوں نے جلالی نشان نہ دیکھ لیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام موسیٰ کے کاموں کے سے تھے اس موسی کے کام قابل پذیرائی نہ تھے لیکن قرآن شریف نے منوایا.حضرت موسی کے زمانہ میں گو فرعون کے ہاتھ سے بنی اسرائیل کو نجات ملی لیکن گناہوں سے نجات نہ ملی.وہ لڑے اور کج دل ہوئے اور موسیٰ پر حملہ آور ہوئے لیکن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری پوری نجات قوم کو دی.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر طاقت، شوکت ،سلطنت اسلام کو نہ دیتے ، تو مسلمان مظلوم رہتے اور کفار کے ہاتھ سے نجات نہ پاتے.اللہ تعالیٰ نے ایک تو یہ نجات دی کہ مستقل اسلامی سلطنت قائم ہوگئی.دوسرے یہ کہ گنا ہوں سے ان کو کامل نجات ملی.خدا تعالیٰ نے ہر دو نقشے کھینچے ہیں کہ عرب پہلے کیا تھے اور پھر کیا ہو گئے.اگر ہر دو نقشے اکٹھے کئے جائیں تو ان کی پہلی حالت کا اندازہ لگ جائے گا سو اللہ تعالیٰ نے ان کو دونوں 9

Page 17

نجاتیں دیں.شیطان سے بھی نجات دی اور طاغوت سے بھی “.(ملفوظات جدید ایڈیشن، جلد اوّل صفحہ ۲۶) کسی نبی کی زندگی کے حالات اور سوانح اس طرح دنیا کے سامنے نہیں آئے اور نہ ہی تاریخ کی کتابیں یا مذہبی کتب میں کسی نبی کا ایسا تذکرہ موجود ہے جیسا ہمارے پیارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کا نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ اور پاکیزہ کردار کے بارہ میں سینکڑوں ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں.لیکن یہ موضوع اب بھی تشنہ تکمیل ہے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی فرزند جلیل حضرت امام مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں: حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ ان کے اخلاق بالکل مخفی ہی رہے.شریر یہود جن کو گورنمنٹ کے ہاں کرسیاں ملتی تھیں اور رومی گورنمنٹ ان کے گروہ کی وجہ سے عزت کرتی تھی.میسیج کو تنگ کرتے رہے مگر کوئی اقتدار کا وقت حضرت مسیح کی زندگی میں ایسا نہ آیا جس سے معلوم ہو جاتا کہ وہ کہاں تک باوجود مقدرت انتقام کے عفو سے کام لیتے ہیں مگر برخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ایسے ہیں کہ وہ مشاہدہ اور تجربہ کی محک پر کامل المعیار ثابت ہوئے.وہ صرف باتیں ہی نہیں بلکہ اُن کی صداقت کا ثبوت ہمارے ہاتھ میں ایسا ہی ہے جیسے ہندسہ اور حساب کے اصول صحیح اور یقینی ہیں اور ہم دو اور دو چار کی طرح ان کو ثابت کر سکتے ہیں لیکن کسی اور نبی کا متبع ایسا نہیں کر سکتا.اسی لئے آپ کی مثال ایک ایسے درخت سے دی جس کی جڑھ، چھال، پھل، پھول پتے غرض ہر ایک چیز مفید اور غایت درجہ مفید، راحت رساں اور سرور بخش ہے.(انفاخ قدسیه صفحه ۱۲۷-۱۲۸ مطبوعه نظارت اشاعت ربوہ تقریر جلسه سالانه ۱۳۰ دسمبر ۱۸۹۷ء) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوت قدسیہ اور حاشر روحانی ہونے کے بارہ میں حضرت مسیح موعود اپنے پیارے قصیدہ میں فرماتے ہیں: 10

Page 18

أَحْيَيْتَ أَمْوَاتَ الْقُرُوْنِ بِجَلُوَةٍ مَاذَا يُمَائِلُكَ بِهَذَا الشَّانِ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدیوں کے مردے ایک ہی جلوہ سے (روحانی طور پر ) زندہ کر دیئے.کون ہے جو اس اعلیٰ شان میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نظیر ومثیل ہو سکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت یسوع مسیح کے کام اور ان کے حواریوں کے کارناموں کی ایک ہلکی سی جھلک پیش فرمائی.آپ فرماتے ہیں: ایسا ہی مسیح علیہ السلام کی زندگی پر نظر کرو.ساری رات خود دعا کرتے رہے.دوستوں سے کراتے رہے آخر شکوہ پر اتر آئے اور ایلی ایلی لِمَا سَبَقْتَنِی بھی کہہ دیا یعنی اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ؟ اب ایسی حسرت بھری حالت کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ مامور من اللہ ہے.جو نقشہ پادریوں نے مسیح کی آخری حالت کا جما کر دکھایا ہے وہ تو بالکل مایوسی بخشتا ہے.لافیں تو اتنی تھیں کہ خدا کی پناہ.اور کام کچھ بھی نہ کیا.ساری عمر میں کل ایک سو بیس آدمی تیار کئے اور وہ بھی ایسے پست خیال اور کم فہم جو خدا کی بادشاہت کی باتوں کو سمجھ ہی نہ سکتے تھے اور سب سے بڑا مصاحب جس کی بابت یہ فتویٰ تھا کہ جو زمین پر کرے، آسمان پر ہوتا ہے اور بہشت کی کنجیاں جس کے ہاتھ میں تھیں.اس نے سب سے پہلے لعنت کی.اور وہ جو امین اور خزانچی بنایا ہوا تھا.جس کو چھاتی پر لٹاتے تھے.اس نے تیس درم لے کر پکڑ وادیا.اب ایسی حالت میں کب کوئی کہہ سکتا ہے کہ مسیح نے واقعی ماموریت کا حق ادا کیا.“ نیز حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: 66 ( ملفوظات جدید ایڈیشن ، جلد اول صفحه ۳۴۵،۳۴۴) و سچی بات یہی ہے کہ سب نبیوں کی نبوت کی پردہ پوشی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہوئی.“ ( ملفوظات ، جدید ایڈیشن جلد اول صفحه ۳۴۴) یہ امر ایک کھلی کھلی حقیقت ہے کہ ہمارے پیارے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندگی 11

Page 19

کے تمام ادوار سے گزرے اور جب تک کوئی انسان ان تمام دوروں سے نہ گزرے جن میں وہ کبھی تو محکوم ہو اور کبھی حاکم اور حاکم بھی حاکم اعلیٰ.یونہی تمام عرب کا بادشاہ اور اس کی زندگی میں ایسے نشیب وفراز آئے ہوں جن کو سن کر انسانی روح وجد میں آجاتی ہے اور اس کے شاندار کار ہائے نمایاں کی تعریف و توصیف میں سب دوست دشمن رطب اللسان ہوتے ہیں.چنانچہ اس بات میں حضرت امام مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں: ”میرا مذ ہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اسوقت تک گزر چکے تھے.سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے.جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہر گز نہ کر سکتے.ان میں وہ دل اور وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبی گوملی تھی.اگر کوئی کہے کہ یہ نبیوں کی معاذ اللہ سوء ادبی ہے تو وہ نادان مجھ پر افترا کرے گا.میں نبیوں کی عزت اور حرمت کرنا اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں لیکن نبی کریم کی فضیلت کل انبیاء پر میرے ایمان کا جز و اعظم ہے اور میرے رگ وریشہ میں ملی ہوئی بات ہے.یہ میرے اختیار میں نہیں کہ اس کو نکال دوں.بدنصیب اور آنکھ نہ رکھنے والا مخالف جو چاہے سو کہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کام کیا ہے جو نہ الگ الگ اور نہ مل مل کر کسی سے ہوسکتا تھا.اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعات پیش آمدہ کی اگر معرفت ہو اور اس بات پر پوری اطلاع ملے کہ اس وقت دنیا کی کیا حالت تھی اور آپ نے آکر کیا کیا ؟ تو انسان وجد میں آکر اللهُمَّ صَلَّ عَلَی مُحَمَّدِ کہ اُٹھتا ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے قرآن شریف اور دنیا کی تاریخ اس امر کی پوری شہادت دیتی ہے کہ نبی کریم نے کیا کیا اور نہ وہ کیا بات تھی جو آپ کے لیے مخصوصا فرمایا گیا: إِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِي يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا.(سورۃ الاحزاب : ۵۷) کسی دوسرے نبی کے لئے یہ صدا نہیں آئی.پوری کامیابی پوری تعریف کے ساتھ یہی 12

Page 20

ایک انسان دنیا میں آیا جو محمد کہلا یا صلی اللہ علیہ وسلم.( ملفوظات جدید ایڈیشن، جلد اول صفحه ۴۲۰-۴۲۱) حضرت رسول مقبول، خاتم النبیین ،محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مندرجہ بالا عظمت شان اور فضیلت تامہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کی ایک روح پرور اور دلنشین تحریر ملاحظہ فرمائیں.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیاء اور سب رسولوں سے بہتر اور بزرگ تر تھے اور خدائے تعالیٰ کو منظور تھا کہ جیسے آنحضرت اپنے ذاتی جوہر کے رُو سے فی الواقعہ سب انبیاء کے سردار ہیں ایسا ہی ظاہری خدمات کے رُو سے بھی ان کا سب سے فائق اور برتر ہونا دنیا پر ظاہر اور روشن ہو جائے اس لئے خدائے تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو کافہ بنی آدم کے لئے عام رکھا تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محنتیں اور کوششیں عام طور پر ظہور میں آویں.موسیٰ اور ابن مریم کی طرح ایک خاص قوم سے مخصوص نہ ہوں اور تاہر یک طرف سے اور ہر یک گروہ اور قوم سے تکالیف شاقہ اُٹھا کر اس اجر عظیم کے مستحق ٹھہر جائیں کہ جو دوسرے نبیوں کو نہیں ملے گا.( براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد نمبر ۱ صفحه ۶۵۳، ۶۵۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات تمام خوبیوں کا مجموعہ تھی.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوانی اس بات پر شاہد ناطق ہیں کہ آپ کو نیکی سے پیار تھا اور تقویٰ کی باریک راہوں پر گامزن تھے.سچ ہے مشک آنست که خود ببوید نہ کہ عطار بگوید.چنانچہ آپ کی قوم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسالت عظمی پر فائز کئے جانے سے قبل ہی امین اور صدیق کا خطاب دے دیا تھا.اس بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ دیبا چ تفسیر القرآن میں فرماتے ہیں....پس محض کسی شخص کا امانت دار اور صادق ہونا اس کی عظمت پر خاص روشنی نہیں ڈالتا لیکن کسی شخص کو ساری قوم کا امین اور صدیق کا خطاب دے دینا.یہ ایک غیر معمولی بات ہے اگر مکہ کے لوگ ہر نسل کے لوگوں میں سے کسی کو امین اور صدیق کا خطاب دیا کرتے تب بھی امین اور 13

Page 21

صدیق کا خطاب پانے والا بہت بڑا آدمی سمجھا جاتا لیکن عرب کی تاریخ بتاتی ہے کہ عرب لوگ ہر نسل میں کبھی کسی آدمی کو یہ خطاب نہیں دیا کرتے تھے بلکہ عرب کی سینکڑوں سال کی تاریخ میں صرف ایک ہی مثال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملتی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اہل عرب نے امین اور صدیق کا خطاب دیا.پس عرب کی سینکڑوں سال کی تاریخ میں قوم کا ایک ہی شخص کو امین اور صدیق کا خطاب دینا بتاتا ہے کہ اس کی امانت اور اس کا صدق دونوں اتنے اعلیٰ درجہ کے تھے کہ ان کی مثال عربوں کے علم میں کسی اور شخص میں نہیں پائی جاتی تھی.عرب اپنی باریک بینی کی وجہ سے دنیا میں ممتاز تھے.پس جس چیز کو وہ نا در قرار دیں وہ یقینا دنیا میں نادر ہی سمجھے جانے کے قابل تھی.(دیباچ تفسیر القرآن صفحه ۲۳۵،۲۳۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدائے ذوالعرش نے بھی یہ سند خوشنودی عطا فرمائی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) مُطَاعِ ثُمَّ آمِين ( سورۃ التکویر: ۲۲) ہیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں سرکار دو عالم ہیں وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امین بھی ہیں نیز فرمایا: وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْى يُوحَى (سورة النجم: ۴-۵) کہ وہ اپنی خواہش نفسانی سے کلام نہیں کرتا بلکہ اس کا پیش کردہ کلام صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی ہے.اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امین ہونے کی زبر دست دلیل بھی خود دے دی اور فرمایا: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيمٍه ( سورة التكوير : ٢٠) کہ ہمارا پیارا محبوب رسول ایسے درست طریقہ سے ہمارا کلام دنیا تک پہنچاتا ہے اور اس امانت کا فرض ایسے احسن طریقہ سے انجام دیتا ہے کہ اس سے بڑھ کر امین اور صدیق کوئی نہیں ہو سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنے صدیق ہونے کی اپنی زبان معارف بیان 14

Page 22

سے تصدیق فرمائی.چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں: روایت آتی ہے کہ عبداللہ بن عمر و بن العاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے جو بھی سنتے تھے وہ لکھ لیا کرتے تھے اس پر بعض لوگوں نے انہیں منع کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی خوش ہوتے ہیں کبھی غصہ میں ہوتے ہیں تم سب کچھ لکھتے جاتے ہو یہ ٹھیک نہیں ہے.عبداللہ بن عمرو نے اس پر لکھنا چھوڑ دیا لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَكْتُبْ فَوَالَّذِي نَفْسِىٰ يَدَهُ مَا يُخْرِجُ مِنْهُ إِلَّا الْحَقَّ نکلتا ہے.(ابوداؤ د کتاب العلم باب کتابة العلم ) یعنی تم بے شک لکھا کرو کیونکہ خدا کی قسم میری زبان سے جو کچھ نکلتا ہے.حق اور راست ( سيرة خاتم النبيين مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ ۲۰) قبائل قریش میں جب حجر اسود کو اس کی اصلی جگہ پر رکھنے کے متعلق اختلاف ہوا اور ہر شخص مرنے مارنے پر آمادہ ہو گیا تو اسی امن کے شہزادہ امین نوجوان کو خانہ کعبہ کی طرف آتے دیکھ کر لوگ بے ساختہ بولے.هَذَا الْأَمِينُ رَضِيْنَا.هَذَا مُحَمَّدٌ آمِينَ آمِينَ آپ کے ایک بدترین دشمن کی گواہی بھی سن لیجئے.اہل مکہ کو خیال پیدا ہوا کہ حج کے موقعہ پر لوگ جمع ہوں گے تو شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں.کسی نے کہا کہ ہم کہہ دیں گے کہ یہ شاعر ہے کسی نے کہا مجنوں کہہ دیں گے کسی نے کہا جھوٹا کہہ دیں گے.ان میں سے زبر دست مخالف نظر بن حارث نے کھڑے ہو کر جوش سے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم میں جوان ہوا سب سے اچھے اخلاق کا مالک تھا وہ تم سب سے زیادہ راست باز تھا وہ تم سب سے زیادہ امین تھا مگر جب تم نے اس کی کنپٹیوں میں سفید بال دیکھے اور تمہارے پاس وہ تعلیم لے کر آیا جس کا تم انکار کر رہے ہو تو تم نے کہہ دیا کہ وہ جھوٹا ہے.خدا کی قسم وہ ہرگز جھوٹا نہیں یہ گواہی تھی جو انظر ابن الحارث نے آنحضرت صلی اللہ علیہ 15

Page 23

وآلہ وسلم کی صداقت پر دی.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوستوں ، دشمنوں ، سب کی نظر میں اخلاق حسنہ کا منبع تھے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ہر ورق اپنے اندر اخلاق حسنہ کا منور حسن رکھتا ہے اور اس طرح انوار و برکات ارضی و سماوی سے پر ہے جیسے لہریں مارتا ہوا سمندرا اپنی روانی اور جوش میں کائنات کے ذرہ ذرہ کو اپنے ساتھ بہائے لئے جاتا ہے.اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس طرح اخلاق حسنہ کا خود مظاہرہ فرمایا جس سے دنیا کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں.وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لاکھوں انسانوں کو بھی پاک و مظہر بنا دیا.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کی عرش بریں کے مالک نے بھی تعریف کی اور فرمایا: وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ه ( سورة القلم : ۵) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی لازمی قراردی گئی اور فرمایا: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.(سورة الاحزاب : ۲۲) اور یہاں تک کہہ دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کے بغیر خدا تعالیٰ کی محبت نہیں حاصل کر سکتے.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ ( سورة آل عمران : ۳۲) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام صادق اور سچے محب حضرت امام مہدی علیہ السلام نے بھی آپ کی عظیم شان کے جلوے سے متاثر ہو فرمایا.والله إِنَّ مُحَمَّدًا كَرِدَافَةٍ وَبِهِ الْوَصُوْلُ بِسُدَّةِ السُّلْطَانِ ( القصيده) ترجمہ : خدا کی قسم.یقینا محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے لئے وزیر کی مانند ہیں.اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے واسطے سے خدائے بادشاہ کی چوکھٹ تک رسائی ہوتی ہے؟“ نیز حضرت اقدس نے فرمایا: 16

Page 24

سوخدا نے توریت میں موسیٰ کی بُردباری کی ایسی تعریف کی جو بنی اسرائیل کے تمام نبیوں میں سے کسی کی تعریف میں یہ کلمات بیان نہیں فرمائے ہاں جو ا خلاق فاضلہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰ سے ہزار ہا درجہ بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام ان اخلاق فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے.انگ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِیم ( سورۃ القلم : ۵ ) تو خُلق عظیم پر ہے......ایسا ہی اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاق فاضلہ و شمائل حسنہ نفس انسانی کو حاصل ہو سکتے ہیں وہ تمام اخلاق کاملہ تامہ نفس محمدی میں موجود ہیں.سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو دوسری جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا: وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا (سورۃ النساء : ۱۱۴) یعنی تیرے پر خدا کا سب سے زیادہ فضل ہے اور کوئی نبی تیرے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا..66 (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلدا ،صفحہ ۶۰۶ بقیه حاشیه در حاشیه ۳) ”ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء کے نام اپنے اندر جمع رکھتے ہیں.کیونکہ وہ وجود پاک جامع کمالات متفرقہ ہے پس وہ موسی بھی ہے اور عیسی بھی اور آدم بھی اور ابراہیم بھی اور یوسف بھی اور یعقوب بھی.اسی کی طرف اللہ جل شانہ اشارہ فرماتا ہے.فَبهذىهُمُ اقْتَدِه (سورۃ الانعام ۹۱ ) یعنی اے رسول اللہ تو ان تمام ہدایات متفرقہ کو اپنے وجود میں جمع کر لے جو ہر یک نبی خاص طور پر اپنے ساتھ رکھتا تھا.پس اس سے ثابت ہے کہ تمام انبیاء کی شانیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں شامل تھیں اور در حقیقت محمد کا نام صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ محمد کے یہ معنی ہیں کہ بغایت تعریف کیا گیا اور غایت درجہ کی تعریف تبھی متصور ہو سکتی ہے کہ جب انبیاء کے تمام کمالات متفرقہ اور صفات خاصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہوں.( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۳۴۳) سچ تو یہی ہے کہ : 17

Page 25

تَمَّتْ عَلَيْهِ صِفَاتُ كُلِّ مَزِيَّةِ خُتِمَتْ بِهِ نَعْمَاءُ كُلِّ زَمَانٍ (القصيده) ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہر قسم کی فضیلت کی صفات مکمل ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس پر ہر زمانہ کی نعمتیں ختم ( کامل ) کر دی گئیں.نیز فرمایا هُوَ خَيْرُ كُلَّ مُقَرَّبِ مُتَقَدِّمٍ وَالْفَضْلُ بِالْخَيْرَاتِ لَابِزَمانِ ( القصيده) ترجمہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر مقرب سے افضل ہیں (اور شان میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں ) اور ( یادر ہے کہ ) فضیلت لمبی عمر پانے سے نہیں بلکہ نیکیوں کی وجہ سے ہوتی ہے.الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کریمانہ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل حسنہ کے نا پیدا کنار سمندر کو دیکھ کر آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام نے یہ ترانہ گایا: شان حق ترے شمائل میں نظر آتی ہے پایا ترے پانے ہی اس ذات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق صادق حضرت امام مہدی علیہ السلام نے جس طرح اپنے پیارے آقا کی تعریف و توصیف بیان فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کریمانہ اور اخلاق فاضلہ کی جس احسن رنگ میں تصویر کھینچی ہے اُس سے روح وجد میں آجاتی ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح کو دوحصوں پر منقسم کر دیا ایک حصہ 18

Page 26

دکھوں اور مصیبتوں اور تکلیفوں کا.اور دوسرا حصہ فتحیابی کا.تا مصیبتوں کے وقت میں وہ خلق ظاہر ہوں جو مصیبتوں کے وقت ظاہر ہوا کرتے ہیں اور فتح اور اقتدار کے وقت میں وہ خلق ثابت ہوں جو بغیر اقتدار کے ثابت نہیں ہوتے سو ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں قسم کے اخلاق دونوں زمانوں اور دونوں حالتوں کے وارد ہونے سے کمال وضاحت سے ثابت ہو گئے.چنانچہ وہ مصیبتوں کا زمانہ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تیرہ برس تک مکہ معظمہ میں شامل حال رہا اُس زمانہ کی سوانح پڑھنے سے نہایت واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اخلاق جو مصیبتوں کے وقت کامل راستباز کو دکھلانے چاہئیں یعنی خدا پر توکل رکھنا اور جزع فزع سے کنارہ کرنا اور اپنے کام میں سست نہ ہونا اور کسی کے رُعب سے نہ ڈرنا.ایسے طور پر دکھلا دیئے جو کفار ایسی استقامت کو دیکھ کر ایمان لائے اور شہادت دی کہ جب تک کسی کا پورا بھروسہ خدا پر نہ ہوتو اس استقامت اور اس طور سے دکھوں کی برداشت نہیں کرسکتا.اور پھر جب دوسرا زمانہ آیا یعنی فتح اور اقتدار اور ثروت کا زمانہ تو اس زمانہ میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق، عفو اور سخاوت اور شجاعت کے ایسے کمال کے ساتھ صادر ہوئے جو ایک گروہ کثیر کفار کا انہیں اخلاق کو دیکھ کر ایمان لایا.دکھ دینے والوں کو بخشا اور شہر سے نکالنے والوں کو امن دیا.اُن کے محتاجوں کو مال سے مالا مال کر دیا اور قابو پا کر اپنے بڑے بڑے دشمنوں کو بخش دیا چنانچہ بہت سے لوگوں نے آپ کے اخلاق دیکھ کر گواہی دی کہ جب تک کوئی خدا کی طرف سے اور حقیقۂ راستباز نہ ہو یہ اخلاق ہرگز دکھا نہیں سکتا یہی وجہ ہے کہ آپ کے دشمنوں کے پرانے کیسے یکلخت دور ہو گئے آپ کا بڑا بھاری خلق جس کو آپ نے ثابت کر کے دکھلا دیا وہ خلق تھا جو قرآن شریف میں ذکر فرمایا گیا ہے اور وہ یہ ہے: قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (انعام: ۱۶۳) یعنی ان کو کہہ دے کہ میری عبادت اور میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا خدا کی راہ میں ہے یعنی اُس کا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور نیز اُس کے بندوں کے آرام دینے کے لئے ہے تا میرے مرنے سے اُن کو زندگی حاصل ہو.اسلامی اُصول کی فلاسفی صفحہ ۱۹۰ - ۱۹۲) 19

Page 27

نیز حضرت امام الزمان علیہ السلام فرماتے ہیں: اور جو اخلاق کرم اور مجود اور سخاوت اور ایثار اور فتوت اور شجاعت اور زُہد اور قناعت اور اعراض عن الدنیا کے متعلق تھے وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک میں ایسے روشن اور تاباں اور درخشاں ہوئے کہ مسیح کیا بلکہ دنیا میں آنحضرت سے پہلے کوئی بھی ایسا نبی نہیں گذرا جس کے اخلاق ایسی وضاحتِ تامہ سے روشن ہو گئے ہوں کیونکہ خدائے تعالیٰ نے بے شمار خزائن کے دروازے آنحضرت پر کھول دیئے.سو آنجناب نے اُن سب کو خدا کی راہ میں خرچ کیا اور کسی نوع کی تن پروری میں ایک جبہ بھی خرچ نہ ہوا.نہ کوئی عمارت بنائی.نہ کوئی بارگاہ تیار ہوئی بلکہ ایک چھوٹے سے کچے کو ٹھے میں جس کو غریب لوگوں کے کوٹھوں پر کچھ بھی ترجیح نہ تھی.اپنی ساری عمر بسر کی.بدی کرنے والوں سے نیکی کر کے دکھلائی اور وہ جو دل آزار تھے اُن کو اُن کی مصیبت کے وقت اپنے مال سے خوشی پہنچائی.سونے کے لئے اکثر زمین پر بستر اور رہنے کے لئے ایک چھوٹا سا جھونپڑا.اور کھانے کے لئے نانِ جو یا فاقہ اختیار کیا.دنیا کی دولتیں بکثرت اُن کو دی گئیں، پر آنحضرت نے اپنے پاک ہاتھوں کو دنیا سے ذرا آلودہ نہ کیا اور ہمیشہ فقر کو تونگری پر اور مسکینی کو امیری پر اختیار رکھا اور اُس دن سے جو ظہور فرمایا تا اُس دن تک جو اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے.بجز اپنے مولیٰ کریم کے کسی کو کچھ چیز نہ سمجھا اور ہزاروں دشمنوں کے مقابلہ پر معرکہ جنگ میں کہ جہاں قتل کیا جانا یقینی امر تھا.خالصاً خدا کے لئے کھڑے ہو کر اپنی شجاعت اور وفاداری اور ثابت قدمی دکھلائی.غرض مجود اور سخاوت اور زہد اور قناعت اور مردمی اور شجاعت اور محبت الہیہ کے متعلق جو جو اخلاق فاضلہ ہیں.وہ بھی خداوند کریم نے حضرت خاتم الانبیاء میں ایسے ظاہر کئے کہ جن کی مثل نہ کبھی دنیا میں ظاہر ہوئی اور نہ آئندہ ظاہر ہوگی........کیونکہ وجود باجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ایک نبی کے لئے ستم اور مکمل ہے.اور اس ذاتِ عالی کے ذریعہ سے جو کچھ امر مسیح اور دوسرے نبیوں کا مشتبہ اور مخفی رہا تھا.وہ چمک اُٹھا اور خدا نے اس ذات مقدس پر انہیں معنون کر کے وحی اور رسالت کو ختم کیا کہ سب کمالات اس وجود باجود پرختم ہو گئے.وهَذَا فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مِّنْ يَشَاءُ ( براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد نمبر اصفحه ۲۸۹ تا۲۹۲ حاشیہ نمبر۱۱) 20

Page 28

ہمارے پیارے آقا ومولا حضرت خاتم النبیین محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پیارے محسن حقیقی قادر و توانا کی رضا حاصل کرنے اور ہر روز اپنی جان پر کھیل جانے کے باوجود دنیا کے سب انسانوں حتی کہ انبیاء کرام کے مقابلہ میں بھی بہترین نمونہ پیش کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا کوئی دن ایسا نہیں چڑھتا تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خالق و مالک کی رضا حاصل کرنے کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش نہ کرتے ہوں اور کوئی رات ایسی نہیں آتی تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دل و جان سے اپنے آپ کو اس خدائے ذوالجلال کے حضور حاضر نہ کرتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن آپ کے مشن کو تباہ کرنے کے لئے ہر دم آمادہ نظر آتے تھے جبکہ خداوند کریم حفاظت کے سامان فراہم کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کا لوہا دنیا سے منواتا چلا گیا.اور اس سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کا کیا بین ثبوت ہوگا کہ دشمن اپنے منصوبوں اور مکروہ کارناموں سے اسلام کے نور کو بجھانے کی کوششوں میں ناکام رہا اس بارہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محب صادق اور غلام حضرت امام مہدی علیہ السلام کی روح پرور تحریر ملاحظہ فرمائیں: حضور علیہ السلام فرماتے ہیں : پانچ موقعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہایت نازک پیش آئے تھے جن میں جان کا بچنا محالات سے معلوم ہوتا تھا اگر آنجناب در حقیقت خدا کے سچے رسول نہ ہوتے تو ضرور ہلاک کئے جاتے.(۱) ایک تو وہ موقعہ تھا جب کفار قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا اور قسمیں کھالی تھیں کہ آج ہم ضرور قتل کریں گے.(۲) دوسر اوہ موقعہ تھا جب کہ کافر لوگ اُس غار پر معہ ایک گروہ کثیر کے پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع حضرت ابوبکر کے چھپے ہوئے تھے.(۳) تیسر اوہ نازک موقعہ تھا جب کہ اُحد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے تھے اور کافروں نے آپ کے گرد محاصرہ کر لیا تھا اور آپ پر بہت سی تلوار میں چلائیں مگر کوئی 21

Page 29

کارگر نہ ہوئی یہ ایک معجزہ تھا.(۴) چوتھاوہ موقعہ تھا جب کہ ایک یہودیہ نے آنجناب کو گوشت میں زہر دے دی تھی اور وہ زہر بہت تیز اور مہلک تھی اور بہت وزن اُس کا دیا گیا تھا.(۵) پانچویں وہ نہایت خطرناک موقع تھا جب کہ خسرو پرویز شاہ فارس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے مصمم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کے لئے اپنے سپاہی روانہ کئے تھے.پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان تمام پر خطر موقعوں سے نجات پانا اور ان تمام دشمنوں پر آخر کار غالب ہو جانا ایک بڑی زبردست دلیل اس بات پر ہے کہ در حقیقت آپ صادق تھے اور خدا آپ کے ساتھ تھا.(روحانی خزائن جلد ۲۳ ، چشمہ معرفت صفحه ۲۶۳ حاشیه ) حبیب کبریا حضرت خاتم النبین سید المرسلین محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بابرکت اور پاکیزہ زندگی کے متعلق بعض باتیں آپ پڑھ چکے ہیں.اب میں اختصار کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کے متعلق جو دنیا کے تمام انسانوں سے ممتاز مقام رکھتے تھے اور خداوند کریم نے بھی آپ کو اسی لئے تیس ( سب انسانوں کے سردار ) رحمہ العلمین اور رؤف رحیم کے پیارے خطاب عطا کئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کو اسوہ حسنہ قرار دیا تھا.لہذا یہ ذکر ہمارے لئے ہر طرح خیر و برکت کا موجب ہوگا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوہ حسنہ پر چل کر ہم دین و دنیا کی بھلائی بھی حاصل کر سکیں گے.اُن میں سے چند باتیں جو عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہیں : ۱ - آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اللہ تعالی سے عشق و محبت کا تعلق اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر کام ہی تقویٰ کو مد نظر رکھ کر رضائے الہی کے تحت کرنا.۲- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی.-۳- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے اقوال اور احادیث مبارکہ.22

Page 30

-۴- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور ایمانداری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ.۵ - آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبلیغ حق.4 - آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رحمۃ للعلمین ہونا.اور مخلوق خدا سے شفقت کا سلوک، غرباء اور یتیموں کی خبر گیری.اصحاب الصفہ سے پیار کا سلوک.سلوک.ے - آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شادیاں کرنا.اہل بیت سے مشفقانہ سلوک.- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رشتہ داروں، عورتوں، ہمسایوں، جانوروں سے حُسن ۹ - آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخاوت ۱۰ - آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شجاعت ۱۱ - آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمنوں سے عفو کا سلوک.ان موضوعات میں سے ہر موضوع ایک مستقل اور مفصل مضمون کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس وقت مختصر طور پر اس بارہ میں کچھ لکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر لحاظ سے جامعیت اور برتری کو پیش کرنا ہے وَهُوَ الْمُرَادُ.23 23

Page 31

(1) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اللہ تعالیٰ سے عشق و محبت کا تعلق اللہ تعالیٰ سے تعلق کی شہادت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ کا خواب ہے کہ میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے اس کا نام محمد رکھا گیا ہے انہوں نے خواب میں یہ بھی دیکھا کہ اُن کے اندر سے ایک چمکتا ہوانور نکلا ہے جو دور دراز ملکوں میں پھیل گیا ہے دوسری شہادت یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چار سال کے تھے اور جنگل میں اپنے رضاعی بھائیوں سے کھیل رہے تھے کہ دوفرشتے متمثل ہو کر آئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ مبارک چاک کر کے اُس میں نور اور ایمان بھرا یہ ایک کشف تھا جس کی تعبیر یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے دل اور سینہ کو نور سے بھر دیا ہے.چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہوش سنبھالتے ہی اپنے پیارے خالق و مالک سے دل لگالیا اور دنیاوی ہر قسم کے لہو ولعب اور رنگ راگ کی محفلوں سے ہمیشہ دور رہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب تیس سال سے زیادہ ہوئی تو آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کی عبادت کی رغبت پہلے سے زیادہ جوش مارنے لگی آخر آپ مشہر کے لوگوں کی شرارتوں، 24

Page 32

بدکاریوں اور خرابیوں سے متنفر ہو کر مکہ سے دوتین میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک پتھروں سے بنی ہوئی چھوٹی سی غار میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے لگ گئے.حضرت خدیجہ چند دن کی غذا آپ کے لئے تیار کر دیتیں آپ وہ لے کر غار حرا میں چلے جاتے تھے اور اُن دوتین پتھروں کے اندر بیٹھ کر خدا تعالیٰ کی عبادت میں رات اور دن مصروف رہتے تھے.(دیباچه تفسیر القرآن صفحه ۱۱۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدا تعالیٰ سے محبت اور عشق کی داستان حضرت مصلح موعود اس طرح بیان فرماتے ہیں: ”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی عشق الہی میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے باوجود بہت بڑی جماعتی ذمہ داری کے دن اور رات آپ عبادت میں مشغول رہتے تھے نصف رات گزرنے پر آپ خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے اور صبح تک عبادت کرتے چلے جاتے یہاں تک کہ بعض دفعہ آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے اور آپ کے دیکھنے والوں کو آپ کی حالت پر رحم آتا تھا حضرت عائشہ کہتی ہیں ایک دفعہ میں نے ایسے ہی موقعہ پر کہا یا رسول اللہ آپ تو خدا تعالیٰ کے پہلے ہی مقرب ہیں آپ اپنے نفس کو اتنی تکلیف کیوں دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اے عائشہ! أَفَلَا اكُونُ عَبْدًا شَکورا.جب یہ بات سچی ہے کہ خدا تعالیٰ کا میں مقرب ہوں اور اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل کر کے مجھے اپنا قرب عطا فرمایا ہے تو کیا میرا یہ فرض نہیں کہ جتنا ہو سکے میں اُس کا شکر یہ ادا کروں کیونکہ آخر شکر احسان کے مقابل پر ہی ہوا کرتا ہے.آپ کوئی بڑا کام بغیر اذن الہی کے نہیں کرتے تھے چنانچہ آپ کے حالات میں لکھا جا چکا ہے کہ باوجود مکہ کے لوگوں کے شدید ظلموں کے آپ نے مکہ اُس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ پر وحی نازل نہ ہوئی اور وحی کے ذریعہ سے آپ کو مکہ چھوڑنے کا حکم نہ دیا گیا.........خدا کا کلام آپ سنتے تو بے اختیار ہو کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے خصوصا وہ آیات جن میں آپ کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے........نماز کی پابندی کا آپ کو اتنا خیال تھا کہ سخت بیماری کی حالت میں جب کہ خدا 25

Page 33

تعالیٰ کی طرف سے گھر میں نماز پڑھ لینے اور لیٹ کر پڑھ لینے تک کی بھی اجازت ہوتی ہے آپ سہارا لے کر مسجد میں نماز پڑھانے کے لئے آتے..........شرک سے آپ کو اس قدر نفرت تھی کہ وفات کیوقت جب کہ آپ جان کندن کی تکلیف میں مبتلا تھے آپ کبھی دائیں کروٹ لیٹتے اور کبھی بائیں کروٹ لیٹتے اور یہ فرماتے جاتے خدا ان یہود اور نصاریٰ پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنالیا ہے........جب مکہ کے لوگوں نے آپ کے سامنے ہر قسم کی رشوتیں پیش کیں تا آپ بتوں کی تردید کرنا چھوڑ دیں اور آپ کے چا ابو طالب نے بھی اس امر کی سفارش کی اور کہا کہ اگر تم نے اتنی بات بھی نہ مانی تو میری قوم ، اگر میں نے تمہارا ساتھ نہ چھوڑا تو مجھے بھی چھوڑ دے گی تو آپ نے فرمایا اے چا! اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو بانہیں لا کر کھڑا کر دیں تب بھی میں خدائے واحد کی توحید کو پھیلانے سے نہیں رک سکتا.اسی طرح اُحد کے موقعہ پر جب مسلمان زخمی اور پراگندہ حالت میں ایک پہاڑی کے نیچے کھڑے تھے اور دشمن اپنے سارے ساز و سامان کے ساتھ اس خوشی میں نعرے لگا رہا تھا کہ ہم نے مسلمانوں کی طاقت کو توڑ دیا ہے جب ابوسفیان نے کہا أغل هُبل أغل مبل یعنی مبل کی شان بلند ہو یعنی ہبل کی شاند بلند ہو تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو جو دشمن کی نظروں سے چھپے کھڑے تھے اور اس چھپنے ہی میں اُن کی خیر تھی حکم دیا کہ جواب دو الله أغلى وَأَجَلُ اللَّهُ أَعْلَىٰ وَأَجَلُ اللہ ہی سب سے بلند اور جلال والا ہے اللہ ہی غلبہ اور جلال رکھتا ہے (دیباچه تفسیر القرآن صفحه ۲۴۰ تا ۲۴۲) جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعوی نبوت سے بھی قبل کئی کئی دن گھر سے باہر غار حرا میں جا کر اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات پر غور فرماتے اُس کے نام کا ورد کرتے اللہ تعالیٰ کی تقدیر تھی کہ اس عبادت کے نتیجہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مزکی دل انوارِ خداوندی کا مهبط بن گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ جو بڑا علمی ذوق رکھتی تھیں اور نہایت ذہین اور نکتہ رس تھیں.فرماتی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر وقت خدا کا ذکر کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 26

Page 34

زبان ہر وقت ذکر سے تر رہتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوتے وقت، پہلو بدلتے وقت، بیدار ہوتے وقت، وضو یا غسل کرتے وقت ، لباس بدلتے وقت ، گھر سے باہر جاتے وقت ، گھر میں آتے وقت، مسجد میں داخل ہوتے وقت، مسجد سے نکلتے وقت سواری پر سوار ہوتے وقت، بلندی پر چڑھتے وقت، نئے چاند کو دیکھتے وقت، ہوا کی تیزی کے وقت، بارش کے نزول کے وقت ، نیا پھل ملنے پر، بیت الخلاء کو جاتے وقت، بیت الخلاء سے نکلتے وقت ، دودھ پیتے وقت، کسی بستی میں داخل ہوتے وقت ، بعض مخصوص دُعائیں پڑھتے جو سب کی سب احادیث میں درج ہیں.ان سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کا یہ پیغمبر ہر آن خدا کی یاد میں محور ہتا تھا......اسی لئے آپ کے شدید دشمن بھی کہا کرتے تھے کہ عشق محمدر بہ حمد تو اپنے رب کا عاشق ہے.“ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم از غلام باری صفحه ۱۶۲ تا ۱۶۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اللہ تعالیٰ سے عشق و محبت اور خدا پرستی کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق صادق حضرت امام مہدی علیہ السلام نے نہایت روح پر ور اور وجد آفرین تقریر فرمائی.حضور فرماتے ہیں: آپ کے مبارک ناموں میں ایک سر یہ ہے کہ حمد اور احمد مجودو نام ہیں اُن میں دو جدا جدا کمال ہیں.محمد کا نام جلال اور کبریائی کو چاہتا ہے جو نہایت درجہ تعریف کیا گیا ہے اور اس میں ایک معشوقانہ رنگ ہے کیونکہ معشوق کی تعریف کی جاتی ہے پس اس میں جلالی رنگ ہونا ضروری ہے.مگر احمد کا نام اپنے اندر عاشقانہ رنگ رکھتا ہے کیونکہ تعریف کرنا عاشق کا کام ہے وہ اپنے محبوب اور معشوق کی تعریف کرتا رہتا ہے.اس لئے جیسے محمد محبوبانہ شان میں جلال اور کبریائی کو چاہتا ہے اسی طرح احمد عاشقانہ شان میں ہو کر غربت اور انکساری کو چاہتا ہے اس میں ایک سر یہ تھا کہ آپ کی زندگی کی تقسیم دو حصوں پر کر دی گئی.ایک تو مکی زندگی جو تیرہ برس کے زمانہ کی ہے اور دوسری زندگی جو مدنی زندگی ہے اور وہ دس برس کی ہے.مکہ کی زندگی میں اسم احمد کی بجلی تھی.اس وقت آپ کی دن رات خدا تعالیٰ کے حضور گریہ و بکا اور طلب استعانت اور دُعا میں گذرتی تھی اگر کوئی شخص آپ کی اس زندگی کے بسر اوقات پر پوری اطلاع رکھتا ہو تو اُسے معلوم ہو جائے گا کہ جو تضرع اور زاری 27

Page 35

آپ نے اس کی زندگی میں کی ہے وہ کبھی کسی عاشق نے اپنے محبوب و معشوق کی تلاش میں کبھی نہیں کی اور نہ کر سکے گا پھر آپ کی تضرع اپنے لئے نہ تھی بلکہ یہ تضرع دنیا کی حالت کی پوری واقفیت کی وجہ سے تھی.خدا پرستی کا نام و نشان چونکہ مٹ چکا تھا اور آپ کی روح اور ضمیر میں اللہ تعالیٰ میں ایمان رکھ کر ایک لذت اور سرور آچکا تھا اور فطریا دنیا کو اس لذت اور محبت سے سرشار کرنا چاہتے تھے اُدھر دنیا کی حالت کو دیکھتے تھے تو اُن کی استعداد میں اور فطرتیں عجیب طرز پر واقع ہو چکی تھیں اور بڑے مشکلات اور مصائب کا سامنا تھا غرض دنیا کی اس حالت پر آپ اگر یہ وزاری کرتے تھے اور یہاں تک کرتے تھے کہ قریب تھا کہ جان نکل جاتی اسی کی طرف اشارہ کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ.(الشعراء: ۴) یہ آپ کی متضرعانہ زندگی تھی اور اسم احمد کا ظہور تھا اُس وقت آپ ایک عظیم الشان توجہ میں پڑے ہوئے تھے.اس توجہ کا ظہور مدنی زندگی اور اسم محمد کی بجلی کے وقت ہوا جیسا کہ اس آیت سے پتہ لگتا ہے وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدٍ (ابراہیم : ۱۶) ( ملفوظات جدید ایڈ یشن جلد اول صفحه ۴۲۳) الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پیارے رب کریم سے دنیا کے تمام انسانوں سے بڑھ کر عشق و محبت کا اظہار کیا اور آسمانی رفعتوں اور بلندیوں کو طے کر کے فَكَان قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى (النجم:۹) کے مطابق معراج عبودیت کا وہ مقام حاصل کر لیا اور قرب کے اُس عظیم اور بلند ترین مقام پر پہنچے جہاں دنیا کے انسان تو کیا جبریل امین کو بھی پر مارنے کی طاقت نہ تھی.اللهم صل على محمد و آل محمد 28

Page 36

(٢) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے نظیر تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو اول المسلمین ٹھہرے تو اس کا یہی باعث ہوا کہ اوروں کی نسبت علوم معرفت الہی میں اعلم ہیں یعنی علم اُن کا معارف الہیہ کے بارے میں سب سے بڑھ کر ہے اس لئے ان کا اسلام بھی سب سے اعلیٰ ہے اور وہ اول المسلمین ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس زیادت علم کی طرف اس دوسری آیت میں بھی اشارہ ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ كَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا ( النساء: ۱۱۴) یعنی خدا تعالیٰ نے تجھ کو وہ علوم عطا کئے جو تو خود بخود نہیں جان سکتا تھا اور فضل الہی سے فیضانِ الہی سب سے زیادہ تیرے پر ہوا یعنی تو معارف الہیہ اور اسرار اور علوم ربانی میں سب سے بڑھ گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی معرفت کے عطر کے ساتھ سب سے زیادہ تجھے معطر کیا..66 آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۱۸۷،۱۸۶) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدائے رحمن نے ایسی پیاری مکمل ارفع واتم تعلیم عطا فرمائی جو پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی تھی بلکہ جب موسی جیسے بزرگ نبی کو یہ بشارت ملی کہ اُن کے بعد ایک عظیم الشان نبی آئے گا جو آتشی شریعت لانے والا ہوگا وہ ایسی تعلیم لائے گا جو بے نظیر اور لاثانی 29

Page 37

اور لافانی ہوگی تو موسی کے دل میں شوق انگڑائیاں لینے لگا کہ اے خداوند کریم مجھے بھی وہ نور اور تجلی دکھا جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا جائے گی.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسی تو اُس جلوہ یا تجلی یا نور یا آتشی شریعت کا بوجھ آپ اور آپ کی قوم نہیں آٹھا سکتے کیونکہ وہ کامل شریعت ہے جسے کامل انسان ہی برداشت کر سکے گا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کامل تعلیم ملی جو سب پہلی تعلیموں سے اپنی شان میں ارفع واعلی تھی چونکہ پہلے تمام انبیاء علیہم السلام مختص القوم اور مختص الزمان تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم تمام انسانوں کے لئے تھی اور قیامت تک ممتد تھی اس لئے قرآن کریم کی ارفع تعلیم کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا.چنانچہ حضرت امام الزماں دی علیہ السلام فرماتے ہیں:.یہ امر قرآن شریف سے بخوبی ثابت ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ب الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِيناً (المائدہ : ۴) یعنی آج میں نے قرآن کے اُتارنے اور تحمیل نفوس سے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام پسند کر لیا.حاصل مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید جس قدر نازل ہونا تھا نازل ہو چکا اور مستعد دلوں میں نہایت عجیب اور حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا کر چکا اور تربیت کو کمال تک پہنچادیا اور اپنی نعمت کو اُن پر پورا کر دیا اور یہی دور کن ضروری ہیں جو ایک نبی کے آنے کی علت غائی ہوتے ہیں.اب دیکھو یہ آیت کس زور شور سے بتلا رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز اس دنیا سے کوچ نہ کیا جب تک کہ دین اسلام کو تنزیل قرآن اور تکمیل نفوس کامل نہ کیا گیا.......اور یہی ایک خاص علامت منجانب اللہ ہونے کی ہے جو کاذب کو ہرگز نہیں دی جاتی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کسی صادق نبی نے بھی اس اعلیٰ شان کے کمال کا نمونہ نہیں دکھلایا کہ ایک طرف کتاب اللہ بھی آرام اور امن کے ساتھ پوری ہو جائے اور دوسری طرف تکمیل نفوس بھی ہو اور بایں ہمہ کفر کو ہر ایک پہلو سے شکست اور اسلام کو ہر ایک پہلو سے فتح ہو.“ ( نور القرآن نمبر ۱ بحوالہ مرزا غلام احمد ۴۶۴) 30

Page 38

اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اور مدح میں جو لفظ خاتم النبیین فرمایا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا شدہ تعلیم خاتم الکتب ہے.اُس کی خوبیوں اور فضیلت کو حضرت امام مہدی علیہ السلام نے ان روح پرور اور وجد آفریں الفاظ میں بیان فرمایا: خاتم النبیین کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا ہے بجائے خود چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہو اور سارے کمالات اُس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں.کیونکہ کلام الہی کے نزول کا عام قاعدہ اور اُصول یہ ہے کہ جس قدر قوت قدسی اور کمالِ باطنی اس شخص کا ہوتا ہے اُسی قدر قوت اور شوکت اُس کلام کی ہوتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا.اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے اس اعلیٰ مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقامات کمال آپ پر ختم ہو چکے تھے اور آپ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے اس مقام پر قرآن شریف جو آپ پر نازل ہوا.کمال کو پہنچا ہوا ہے اور جیسے نبوت کے کمالات آپ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہو گئے آپ خاتم النبیین ٹھہرے اور آپ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری.جس قدر مراتب اور وجوه اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں اُن سب کے اعتبار سے آپ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچی ہوئی ہے.یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت، کیا باعتبار ترتیب مضامین ، کیا باعتبار تعلیم کیا باعتبار کمالات تعلیم ، کیا باعتبار ثمرات تعلیم.غرض جس پہلو سے دیکھواسی پہلو سے قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے.اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی ہے یعنی جس پہلو سے چاہو مقابلہ کرو خواہ بلحاظ فصاحت و بلاغت، خواہ بلحاظ مطالب و مقاصد، خواه بلحاظ تعلیم ، خواہ بلحاظ پیشنگوئیوں اور غیب کے جو قرآن 31

Page 39

شریف میں موجود ہیں.غرض کسی رنگ میں دیکھو، یہ معجزہ ہے.“ نیز فرمایا: ( ملفوظات جدید ایڈ یشن جلد دوم صفحه ۲۷،۲۶) قرآن شریف ایسا معجزہ ہے کہ نہ وہ اوّل مثل ہوا اور نہ آخر کبھی ہوگا اُس کے فیوض و برکات کا در ہمیشہ جاری ہے اور وہ ہر زمانہ میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا.......آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت واستعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اس لئے آپ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پایہ اور رتبہ کا ہے کہ دوسرا کوئی شخص اس ہمت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہوگا.کیونکہ آپ کی دعوت کسی محدودوقت یا مخصوص قوم کے لئے نہ تھی جیسے آپ سے پہلے نبیوں کی ہوتی تھی.بلکہ آپ کے لئے فرمایا گیا انِّی رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جميعًا (الاعراف: ۱۵۹) اور مَا اَرْسَلُنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِين ( الانبياء : ۱۰۸) جس شخص کی بعثت اور رسالت کا دائرہ اس قدر وسیع ہوا.اس کا مقابلہ کون کر سکتا ہے.اس وقت اگر کسی کو قرآن شریف کی کوئی آیت بھی الہام ہو تو ہمارا یہ اعتقاد ہے کے اس کے اس الہام میں اتنا دائرہ وسیع نہیں ہو گا جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور ہے.( ملفوظات جدید ایڈیشن جلد دوم صفحه ۴۱،۴۰) یا نبی اللہ توئی خورشید رہ ہائے ھدی بے تو نآرد رو برا ہے عارف پرہیز گار یا نبی اللہ لب تو چشمہ جاں پرور است یا نبی اللہ تو کی درراہ حق آموزگار (آئینہ کمالات اسلام صفحه ۲۵) 32 2

Page 40

(۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے اقوال اور احادیث مبارکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاہر قول جو احادیث مبارکہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے وہ تمام کا تمام قرآن حکیم کی تفسیر پر مشتمل ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن تمام امور کو جو خداوند کریم نے اپنے پاک کلام میں اجمالی طور پر بیان فرما دیئے تھے اُن کو اپنی سنت یعنی پاکیزہ عمل کے ذریعہ اور اپنے صحابہ رضوان اللہ علیہم کے سامنے بیان کر کے قیامت تک کے لئے ایسا ذخیرہ دنیا کو دیا ہے کہ نہ کسی نبی نے ایسی جامع اور مکمل تعلیمات دیں اور نہ ہی آئندہ اس پاکیزہ تعلیم کے علاوہ اب کسی نئی تعلیم کی ضرورت باقی رہی.آپ کی پاکیزہ ارفع واعلی تعلیم انسانیت کی ضرورت کے مطابق دونوں زبر دست پہلوؤں پر مشتمل ہے.یعنی تعظیم امر اللہ اور شفقت علی خلق اللہ.اور ہزاروں احادیث مبارکہ موجود ہیں اگر ہم بغور مطالعہ کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم ہمیں اپنے خالق و مالک حقیقی سے کامل روحانی تعلق پیدا کرنے کے تمام ذرائع بتلاتی ہے اور اُس کی خوشنودی حاصل کر کے ہی ہم انسانیت کے دائرہ میں رہ سکتے ہیں.رِضْوَانُ مِنَ اللَّهِ اکبر یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہی انسانی زندگی کا بنیادی مقصد ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا تب ہی حاصل ہو سکتی ہے جب ہم اُس کی وحدانیت پر کامل ایمان لا کر اعمال صالحہ بجالا وہیں.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ 33

Page 41

وسلم کی پاکیزہ تعلیم نے صحابہ پر ایسا اثر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق صادق امام مہدی علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا: جَاءَ وَكَ مَنْهُوبِينَ كَالْعُرْيَانِ فَسَتَرْتَهُمْ بِمَلَاحِفِ الْإِيْمَانِ صَادَفَتَهُمْ قَوْمًا كَرَوْثٍ ذِلَةً فَجَعَلْتَهُمْ كَسَبِيْكَةِ الْعِقْيَانِ (القصيده صفحه ۱۶) ترجمہ: ” وہ آپ کے پاس لئے بیٹے اور روحانی لحاظ سے ننگے لوگوں کی مانند آئے.پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کو ایمان و تقومی کے لحاف اور چادر میں اوڑھا دیں.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عربوں کو اُن کے گناہوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے گوبر کی مانند ذلیل قوم پایا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قوت قدسیہ سے اُن کو خالص سونے کی ڈلی مانند بنا دیا.“ ایک اور حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کی ایک ہلکی سی جھلک اس طرح دکھائی گئی ہے اور حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”اے بادشاہ! ہمارا یہ حال ہے کہ ہم جہالت اور گمراہی کے گڑھے میں رہ رہے تھے ہم بتوں کی پوجا کرتے تھے گندی فحش باتیں بکتے تھے مُردار کھایا کرتے تھے ہم میں کوئی انسانیت کی خوبی نہ تھی خداوند تعالیٰ نے جس کا فضل تمام جہان پر چھایا ہوا ہے محمد گو( اس پر اللہ کی رحمت اور سلامتی ہو ) ہمارے لئے رسول کر کے بھیجا.اُس کی شرافت نسب اور راست گفتاری ،صفا باطنی اور دیانت داری سے ہم خوب آگاہ ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی ظاہر فرمائی اور وہ اللہ کا پیغام لے کر ہمارے پاس آیا کہ صرف ایک خدا پر ایمان رکھو اور اس کی صفات اور ذات میں اور کسی کو شریک مت کرو.اور بتوں کی پرستش مت کرو راست گفتاری اپنا شعار ٹھہراؤ امانت میں کبھی خیانت نہ کرو.اپنے تمام ابنائے جنس سے ہمدردی رکھو.پڑوسیوں کے حقوق کی نگہداشت کرو.34

Page 42

عورت ذات کی قدر کرو.یتیموں کا مال نہ کھاؤ.پاکیزگی اور پرہیز گاری کی زندگی اختیار کرو.خدا کی عبادت کرو اُس کی یاد میں کھانا پینا تک بھول جاؤ راہِ خدا میں غریبوں کی مدد کے لئے خیرات کرو.(صفحہ نمبر ۲۳۲ شانِ محمد محصہ اوّل) یہ تو ہوئی وہ تعلیم جو ابتداء میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تیئیس (۲۳) سالہ دور نبوت میں اپنی امت کو وہ تعلیم دی جو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے اور دنیا میں کسی نبی کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کا نور اور روشنی تمام جہانوں کے لئے ہدایت ، رہنمائی اور رحمت و برکت کا موجب ہوئی.چنانچہ حضرت امام مہدی علیہ السلام نے فرمایا: روشنی ازوے بہر قومی رسید نور أو رخشید بر هر کشوری امی و در علم و حکمت بے نظیر زیں چہ باشد حجتے روشن ترے آں شراب معرفت دادش خدا کز شعاعش خیرہ شد ہر اخترے ہرا براہین احمدیہ حصہ اوّل روحانی خزائن جلد | صفحہ ۱۹،۱۸) ترجمہ: حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکیزہ تعلیم اس قدر جامع الکمل اور اتم تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی روشنی کا نور دنیا کی ہر قوم کو منور کر گیا اور آپ کی محبت بھری تعلیم کا نور دنیا کی ہر مملکت اور ہر شہر میں خوشبو کی طرح پھیل گیا........آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر چہ خودامی تھے لیکن آپ کی تعلیم علم اور حکمت کے خزانوں سے پر تھی اور ایسی بے نظیر تھی کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے.35

Page 43

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدائے رحیم و کریم نے اپنی معرفت کی ایسی بہترین اور اکمل ترین شراب پلائی جس کی شعاعوں سے دنیا کے تمام چاند ستارے بھی ماند پڑ گئے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق فرمایا: آفتاب ہر زمین و هر زمان رہبر ہر اسود و ہر احمرے ( براہین احمدیہ حصہ اوّل روحانی خزائن جلد ا ،صفحہ ۱۹) کہ ہمارے پیارے آقا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم ہر کالے اور گورے کے لئے رہنمائی اور ہدایت کا موجب ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ 36

Page 44

(لد) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت، ایمانداری اور اخلاق فاضلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدیق اور امین ہونا تو اس سے قبل پیش کیا جا چکا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیارے خدا نے آپ کو سند خوشنودی عطا فرما دی کہ اے ہمارے محبوب انگ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیم (القلم: ۵) یقینا یقینا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی وہ دنیا کی سب سے عظیم المرتبت شخصیت ہیں جو اپنے اخلاق فاضلہ اور اخلاق کریمانہ میں دنیا کے ہر انسان سے سبقت لے گئے ہیں آپ کے اخلاق فاضلہ کی عظمت کی خدا تعالیٰ بھی تعریف کرتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم اخلاق کو پیار و محبت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیم اس کی سب سے بڑی وجہ یہی تھی کہ خدائے ذوالجلال نے قرآن حکیم میں جن جن اخلاق حسنہ کو اپنانے کا حکم دیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہایت احسن طریقہ سے اپنے پیارے رب کے احکام کو عملی جامہ پہنایا اور ایک دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ ایک انسان بھی ایسے عظیم اخلاق کا مالک ہوسکتا ہے.اس جدید مادی دنیا میں بھی ایک غیر قوم کے شخص نے دنیا کے ۱۰۱ بڑے انسان کتاب میں ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہلے نمبر پر رکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے افضل انسان قرار دیا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت 37

Page 45

عائشہ رضی اللہ عنھا کی گواہی بھی آپ کے اخلاق کے بارے میں ملاحظہ ہو.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں: رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ تیرہ چودہ سال کی عمر میں آپ سے بیاہی گئیں اور کوئی سات سال کا عرصہ آپ کی صحبت میں رہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے اُن کی عمر ۱ ۲ سال کی تھی اور وہ پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں لیکن باوجود اس کے اُن پر یہ فلسفہ روشن تھا ایک دفعہ آپ سے کسی نے سوال کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق تو کچھ فرمائیے تو آپ نے فرمایا كَانَ خَلَقَهَ كُلُّهُ القُرْآنَ ( بخاری ) یعنی آپ کے اخلاق کا کیا پوچھتے ہو جو کچھ آپ کہا کرتے تھے انہی باتوں کا قرآن کریم میں حکم ہے اور قرآن کی لفظی تعلیم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل سے جدا گانہ نہیں ہے ہر خلق جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اُس پر آپ کا عمل تھا اور ہر عمل جو آپ کرتے تھے اُسی کی قرآن کریم میں تعلیم ہے یہ کیسی لطیف بات ہے.معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اتنے وسیع اور اتنے اعلیٰ تھے کہ ایک نوجوان لڑکی جو تعلیم یافتہ بھی نہیں تھی اُس کی توجہ کو بھی اس حد تک پھرانے میں کامیاب ہو گئے کہ ہندو، یہودی اور مسیحی فلسفی جس امر کی حقیقت کو نہ سمجھ سکے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس امر کی حقیقت کو پاگئیں اور ایک چھوٹے سے فقرہ میں آپ نے یہ لطیف فلسفہ بیان کر دیا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک راستباز اور مخلص انسان دنیا کو ایک تعلیم دے اور پھر اس پر عمل نہ کرے یا خود ایک نیکی پر عمل کرے اور دنیا سے اسے چھپائے.اس لئے تمہیں محمد رسول اللہ سلم کے اخلاق معلوم کرنے کے لئے کسی تاریخ کی ضرورت نہیں وہ ایک راستباز اور مخلص انسان تھے جو کہتے تھے وہ کرتے تھے اور جو کرتے تھے وہ کہتے تھے ہم نے اُن کو دیکھا اور قرآن کریم کو سمجھ لیا.تم جو بعد میں آئے ہو قرآن پڑھو اور محمد رسول اللہ کو سمجھ لو.اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكَ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيد (دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۱۰۷،۱۰۶) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کے بارے میں حضرت امام مہدی علیہ 38

Page 46

السلام کی ایک تحریر پیش کی جاچکی ہے.آپ علیہ السلام ہی کی ایک دوسری روح پرور اور وجد یہ آفریں تحریر ملاحظہ ہو.حضور فرماتے ہیں: ”جو اخلاق فاضلہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰ سے ہزار ہا درجہ بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام ان اخلاق فاضلہ کا جامع ہیں جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے : انگ لَعَلٰی خُلُق عَظیم (القلم : ۵) توخلق عظیم پر ہے اور عظیم کے لفظ کے ساتھ جس چیز کی تعریف کی جائے وہ عرب کے محاورہ میں اُس چیز کے انتہائے کمال کی طرف اشارہ ہوتا ہے مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس سے یہ مطلب ہوگا کہ جہاں تک درختوں کے لئے طول وعرض اور تناوری ممکن ہے وہ سب اس درخت میں حاصل ہے.ایسا ہی اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاق فاضلہ و شمائل حسنہ نفس انسانی کو حاصل ہو سکتے ہیں وہ تمام اخلاق کاملہ تامہ نفس محمدی میں موجود ہیں سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں.براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۰۶ حاشیہ نمبر ۳) آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کی ایک اور شاندار دلیل یہ بھی دی اور فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جس قدر اخلاق ثابت ہوئے ہیں وہ کسی اور نبی کے نہیں کیونکہ اخلاق کے اظہار کے لئے جب تک موقعہ نہ ملے کوئی خلق خلاق ثابت نہیں ہوسکتا.مثلاً سخاوت ہے لیکن اگر روپیہ نہ ہو تو اس کا ظہور کیونکر ہو.ایسا ہی کسی کو لڑائی کا موقع نہ ملے تو شجاعت کیونکر ثابت ہو.ایسا ہی عفو، اس صفت کو وہ ظاہر کر سکتا ہے جسے اقتدار حاصل ہو.غرض سب خلق موقع سے وابستہ ہیں اب سمجھنا چاہئے کہ یہ کس قدر خدا کے فضل کی بات ہے کہ آپ کو تمام اخلاق کے اظہار کے موقعے ملے “ (الحکم ۳۱ جولائی ۱۹۰۲ء صفحہ ۸،۷) 39

Page 47

نیز فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمیع اخلاق کے متم ہیں اور اس وقت خدا تعالیٰ نے آخری نمونہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق کا قائم کیا ہے.(شان محمد صفحہ ۵۷ ) اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ هِ اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِهِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمُ ٥ ( سورة العلق ۲-۲) ترجمہ: اپنے رب کا نام لے کر پڑھ جس نے (سب اشیاء کو ) پیدا کیا اور جس نے انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا.پھر ہم کہتے ہیں قرآن کو پڑھ کر سنا تارہ کیونکہ تیرا رب بڑا کریم ہے.وہ رب جس نے قلم کے ساتھ علم سکھایا ہے اور آئندہ بھی سکھائے گا).40 40

Page 48

(۵) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دنیا کو پیغام حق پہنچانا ١ - يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَإِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللهِ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ترجمہ: اے رسول! تیرے رب کی طرف سے جو کلام بھی تجھ پر اتارا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا.اگر تو نے ایسانہ کیا تو گویا تو نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا.ب فَاصْدَعُ بِمَا تُؤْمَرُ - (المائده: ۶۸ تفسیر صغیر صفحه ۱۹۴) جس بات کے پہنچانے کا تجھے حکم دیا جاتا ہے وہ کھول کر لوگوں کو بتا دے.(الحجر: ۹۵ تفسیر صغیر صفحه ۴۲۸) ج- وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكَرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اور ہم نے تجھ پر یہ کامل ذکر نازل کیا ہے تاکہ تو لوگوں کو اس فرمان الہی سے آگاہ کرے جو تیری طرف اتارا گیا ہے.(النحل: ۴۵) د - أَدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ 41

Page 49

أحْسَنُ ترجمہ: اے رسول ! تو لوگوں کو حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ اپنے رب کی طرف بلا اور اچھے طریق کے مطابق اُن سے بحث کر.(النحل: ۱۲۶ تفسیر صغیر صفحه ۴۵۱) ر- فَإِنَّمَا يَسِّرْنَهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَيَّرَ بِهِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِهِ قَوْمًا لُنَّا.پس ہم نے اس قرآن کو تیری زبان میں آسان کر کے اتارا ہے.تو اس کے ذریعہ متقیوں کو بشارت دے اور اس کے ذریعہ سے جھگڑ الوقوم کو ہوشیار کر.س - وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا.اور اس قرآن کے ذریعہ اُن سے بڑا جہاد کر.(مریم: ۹۸ تفسیر صغیر صفحه ۵۰۸) (الفرقان : ۵۳ تفسیر صغیر صفحه ۵۹۱) ش - لَقَدْ مَنَ اللهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُوْلًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلْلٍ مُّبِينٍ ترجمہ: اللہ نے مومنوں میں ایک ایسا رسول بھیج کر جو انہیں اس کے نشان پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے، یقینا اُن پر احسان کیا ہے اور وہ اس سے پہلے یقینا کھلی کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے.(ال عمران : ۱۶۵ تفسیر صغیر صفحه ۱۲۷ ص - لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَنْذِرَ ابَأَؤُهُمْ فَهُمْ غَفِلُونَ ترجمہ: تا کہ تو اُس قوم کو ہوشیار کرے جن کے باپ دادوں کو ہوشیار نہیں کیا گیا اور وہ غافل پڑے تھے.(یس : تفسیر صغیر صفحہ ۷۲۵) ض - اُتْلُ مَا أُوحِيَ إليكَ مِنَ الْكِتَبِ.42

Page 50

اس کتاب ( یعنی قرآن ( میں سے جو کچھ تیری طرف وحی کیا جاتا ہے اُسے پڑھ.(العنکبوت : ۴۶ تفسیر صغیر صفحہ ۶۵۸) تَبْرَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَلَمِيْنَ نَذِيرًا.ترجمہ: وہ ذات بڑی برکت والی ہے جس نے فرقان اپنے بندے پر اتارا ہے تا کہ سب جہانوں کے لئے ہوشیار کرنے والا بنے.(الفرقان: ۲ تفسیر صغیر صفحہ ۵۸۴) ط - يَأَيُّهَا الْمُدَّثِرُه ثُمَّ فَأَنْذِرُ ترجمہ: اے بارانی کوٹ پہن کر کھڑے ہونے والے، کھڑا ہو جا اور دور دور جاکے لوگوں کو ہوشیار کر.(المدثر : ۲ تا ۳ تفسیر صغیر صفحه ۹۷۹) ع - وَأَنْذِرُ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ترجمہ: اور تو سب سے پہلے ) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا.(الشعراء:۲۱۵ تفسیر صغیر صفحه ۶۱۴ ) - عْ فَذَكِّرُ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرَه ترجمہ: پس نصیحت کر کہ تو تو صرف نصیحت کرنے والا ہے.(الغاشیہ:۲۲ تفسیر صغیر صفحه ۱۰۳۲) ف - فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتُ ترجمہ: پس ( تو اسی دین کی طرف ) لوگوں کو پکار اور تو (اسی طرح دین پر ) استقلال سے قائم رہ جس طرح تجھے کہا گیا ہے.(الشوری:۱۶ تفسیر صغیر صفحہ ۸۰۱) 43 لله

Page 51

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحیثیت داعی الی اللہ يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا وَدَاعِيَّا إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرًا جا منيرا.(الاحزاب : ۴۶-۴۷) ترجمہ: ”اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے تجھ کو اس حال میں بھیجا ہے کہ تو دنیا کا نگران بھی ہے مومنوں کو خوشخبری دینے والا بھی ہے اور ( کافروں کو ) ڈرانے والا بھی ہے اور نیز اللہ تعالیٰ کے حکم سے اُس کی طرف بلانے والا اور ایک چمکتا ہوا سورج بنا کر بھیجا ) ہے.“ يَأَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَإِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائده : ۶۸) ترجمہ: ”اے رسول! تیرے رب کی طرف سے جو ( کلام بھی) تجھ پر اُتارا گیا ہے اُسے (لوگوں تک پہنچا اور اگر تو نے (ایسا) نہ کیا تو (گویا) تو نے اُس کا پیغام ( بالکل نہیں پہنچایا اور اللہ تجھے لوگوں (کے حملوں) سے محفوظ رکھے گا بھیج درود اُس محسن پر تو دن میں سوسو بار ماک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار ( در عدن) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا کام اللہ تعالیٰ کا پیغام دنیا کو پہنچانا تھا تا کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کیا اور خدائے رحمن و رحیم کی عنایات اور تفضلات کے مورد بنے.اسی طرح اُس کی مخلوق بھی حسب مراتب خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے اور اُس کا قرب حاصل کرنے اور پیار و محبت کا تعلق قائم کرنے کی راہیں اُنہیں معلوم ہو 44

Page 52

جائیں اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی عنایات اور اُس کے تفضلات کا مورد بن سکیں چنانچہ خدائے رحمن کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی با برکت اور پر معارف وحی جس کا نزول غارِ حرا میں ہوا اُس میں دنیا کی رہنمائی نجات اور فلاح و بہبود کے لئے خدائے ذوالجلال کے حکم سے فرشتہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورۃ العلق کی پانچ آیات کریمہ پڑھا ئیں جن میں نہایت ہی پر حکمت ارشادات ربانی بیان کئے گئے ہیں.مثلاً : 1 - اقْر أبِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ.اس آیت کریمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پیارے خالق و مالک حقیقی کا پیغام جو قرآن مجید کی پاکیزہ ارفع و اعلیٰ اور مکمل تعلیم کی شکل میں دیا جار ہا تھا.دنیا کو پہنچانے کا حکم تھا اور تیرا رب کہ کر اپنے پیار و محبت کا اظہار بھی فرمایا کہ یہ ساری کائنات ہم نے تیرے لئے ہی مسخر کی ہے جیسا کہ حدیث قدسی ہے لَو لَاگ لِمَا خَلَقْتُ الافلاک.( موضوعات کبیر صفحه ۵۹ مطبوعہ دہلی ) 2- خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.اس آیت کریمہ میں علق کے لفظ سے رب العالمین نے انسان کی پیدائش میں اپنے خالق حقیقی کی محبت و پیار اور قرب و تعلق حاصل کرنے کی طرف اشارہ فرمایا ہے تا کہ انسان ربوبیت ، رحمانیت ، رحیمیت اور مالکیت کی صفات پر غور کر کے اپنے رب کریم کی حمد کے ترانے گائے الحمد لله رب العالمین اور اُس کی صفات حسنہ کا مظہر بننے کی پوری پوری کوشش کر کے اُس کی رضا مندی کی جنت کو حاصل کرے.وَرِضْوَانُ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ - 3- اقْرَأَوَ رَبُّكَ الْاكْرَم.اس آیت کریمہ میں قرآن حکیم کی ارفع و اعلیٰ بینظیر اور لاثانی ولا فانی پاکیزہ تعلیم کو رب کریم کے حکم اور اُس کے فضل و رحم کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے فرمایا گیا ہے جس کے لئے نئے سے نئے سامان خداوند کریم نے مہیا فرمانے کا اشارہ اگلی آیت کریمہ میں فرما دیا ہے.اس آیت کریمہ کی تشریح حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح فرمائی ہے.یعنی جتنا تو قرآن پڑھ کر لوگوں کو سنائے گا اُتنا ہی تیرے رب کا شرف اور انسان کا شرف ظاہر ہوگا.( حاشیہ تفسیر صغیر صفحه ۱۰۴۸ مطبوعه ۲۰۰۶ قادیان) 45

Page 53

4- الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ.اس آیت کریمہ میں اللہ جل شانہ نے پیشگوئی فرمائی کہ اب قرآنی علوم قلم کے ذریعہ سے دنیا میں اشاعت پذیر ہوں گے اور قرآنی انوار اور علوم ومعارف کا وہ بحر ذخارجس کے لئے سات سمندروں کی سیاہی اور تمام روئے زمین کے درختوں کی قلمیں بھی نا کافی ہوں گی خواہ سات سمندر سیاہی کے اور بھی ملا دیئے جائیں اس کے روئے زمین پر پھیلا دینے کے لئے ایسے نئے سے نئے سامان اور ایسی ایسی ایجادات کرنے کی انسان کو صلاحیت بخشے گا کہ دنیا حیرت میں پڑ جائے گی اور اُس دن رب رحمن ورحیم کے خاص فضل و کرم سے یہ نظارہ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہوگا.يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُوْنَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ ۚ وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا (طه : ۱۰۹ تفسیر صغیر صفحه ۵۲۲) ترجمہ: اُس دن لوگ پکارنے والے کے پیچھے چل پڑیں گے جس کی تعلیم میں کوئی کبھی نہ ہوگی پس تو سوائے کھسر پھسر کے کچھ نہ سنے گا.اور وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا - ( الزمر : ۷۰ تفسیر صغیر صفحہ ۷۷۲) ترجمہ: اور زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہو جائے گی.اور قرآن کریم کا ذكر للعلمین (التکویر : ۲۸ تفسیر صغیر صفحه ۱۰۱۲) یعنی دنیا کے لئے عزت اور شرف کا موجب ہونا اور خدا تعالیٰ سے تعلق کے لئے یہی واحد راستہ ہونا روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا.نیز قرآن حکیم کا إِنَّهُ لَقَوْل فَضل ( الطارق : ۱۴) یعنی یقینا قطعی اور آخری بات ( جو کہ علم و حکمت کے خزائن سے پر ہے ) ثابت ہو جائے گا.عَلَمَ بِالْقَلَمِ کے بارہ میں ہی دوسری جگہ ارشادر بانی ہے: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ.(التکویر : ۱۱ تفسیر صغیر صفحه ۱۰۱۱) چنانچہ دیکھ لیجئے قرآن کریم کی اور اسلام کی اشاعت میں ریل / تارر ڈاک رہوائی جہاز بحری جہاز ریڈیو وائرلیس رٹیلی ویژن رٹیپ ریکارڈر کمپیوٹر اور قسم قسم کے جدید پریس اور فوٹو گرافی وغیرہ لگے ہوئے ہیں اور خدا جانے مزید بھی کون کون سی نئی نئی ایجادات ظہور پذیر ہوں گی.46

Page 54

5 - عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمْ.اس آیت کریمہ میں بھی اللہ جل شانہ نے پیشگوئی فرمائی ہے کہ ہم قرآن حکیم کے ذریعہ سے انسان کو وہ کچھ سکھلائیں گے جو آج تک اُس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا اور نہ ہی کسی شریعت یا کسی دنیاوی علم کے ذریعہ سے ایسی پر حکمت باتیں سکھلائی گئی تھیں چنانچہ قرآن حکیم میں ہر قسم کے علوم اعلیٰ ارفع اور اکمل طور پر بیان ہوئے ہیں جن کا پہلی کتب میں ذکر بھی نہیں ملتا اس سے قرآن حکیم کی عظمت بھی ظاہر ہوگی اور دوسری سب تعلیموں پر فضیلت بھی ثابت ہوگی.پس الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُم دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمْ الْإِسْلَامَ دِينًا.(المائدہ:۴) کہہ کر یہ بات دنیا پر روزِ روشن کی طرح آشکار بھی کر دی کہ ہماری پیشگوئی پوری بھی ہوگی اور ہم نے مکمل نظام شریعت یعنی اسلام کی نعمت قرآن کریم کے ذریعہ سے تمہیں عطا فرما دیا.اور علوم و حکمت کے وہ خزائن جو رہتی دنیا تک کے لئے انسان کے لئے ضروری تھے قرآن کریم کے ذریعہ عطا کر دیئے گئے اور مطھرون کے ذریعہ سے اُن کی پاکیزہ تشریحات پاؤ نہ تعالیٰ دنیا میں ظاہر ہوتی رہیں گی.مندرجہ بالا پانچ آیات کریمہ کے ذریعہ سے جن انوار و برکات کے دنیا میں ظاہر ہونے کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسلام کی جو جامع تعلیم عطا کئے جانے کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے جو لطیف تفسیر اور تشریح تحریر کی ہے قابل ذکر ہے.اُس کے کچھ اقتباسات پیش خدمت ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدائے رحمن نے پہلی وحی میں ہی کن پاکیزہ علوم سے نوازتے ہوئے اپنا پیغام دنیا میں پہنچانے کی بھاری ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کی تھی.حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں: وو یہ پہلی رحمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نوازا اور پہلی نعمت ہے جس سے اُس نے اپنے فضل سے انہیں حصہ عطا فر ما یا پس اس سورۃ کی ابتدائی آیات اس لحاظ سے خاص طور پر اہمیت رکھتی ہیں کہ یہ قرآن کریم کے لئے بمنزلہ بیج اور گٹھلی کے ہیں اور ان آیات کے نزول کے بعد باقی قرآن نازل ہوا ہے یوں تو سارا قرآن ہی اہمیت رکھتا ہے مگر 47

Page 55

جذباتی طور پر : اقْرَأَبِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.ایسی اہمیت رکھنے والی آیات ہیں کہ جب انسان ان کو پڑھتا ہے اُس کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور وہ کہتا ہے یہ وہ آیات ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے قرآن سے روشناس کرایا......تو اللہ تعالیٰ کا وہ آخری کلام جس کے ذریعہ دنیا قیامت تک ہدایت پاتی رہے گی ، جس کے ذریعہ انسانی پیدائش کا مقصد پورا ہوا.جس کے ذریعہ انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوا جس کے ذریعہ خالق اور مخلوق کا تعلق آپس میں قائم کیا گیا اُس کی بنیاد جن آیات پر ہے ان کی اہمیت اور عظمت سے کون شخص انکار کر سکتا ہے جس طرح میاں بیوی شوق سے باہم ذکر کرتے ہیں کہ ہمارا نکاح کس طرح ہوا یا دوست شوق سے یہ ذکر کرتے ہیں کہ ہماری دوستی کا آغاز کس طرح ہوا اسی طرح اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.وہ الفاظ ہیں جن کو پڑھتے ہی انسان کا دل فرط محبت سے اچھلنے لگتا ہے اُس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی ہے، اُس کے خوابیدہ جذبات میں ایک حرکت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ کہتا ہے یہ وہ آیات ہیں جن کے ذریعہ مجھے اپنے رب کا وصال حاصل ہوا.جن کے ذریعہ انسان اور خدا کا باہمی رشتہ جوڑا گیا اور دوستی کا وہ آخری مرحلہ قائم کیا گیا جو خدا اور بندے کے درمیان ہونا چاہئے.“ ( تفسیر کبیر جلد نهم ۲۲۶) اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ کی تفسیر میں حضور فرماتے ہیں: اثر اوہ پہلا لفظ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا اور جس میں اسلام کے ظہور کے ساتھ ہی بعض عظیم الشان پیشگوئیوں کا اعلان کر دیا گیا.اقراً کے اصل معنی گو کسی لکھی ہوئی چیز کے پڑھنے کے ہیں مگر اس کے ایک معنی اعلان کرنے کے بھی ہیں اور یہ دونوں معنے ایسے ہیں جو اس مقام پر نہایت عمدگی کے ساتھ چسپاں ہوتے ہیں.اگر اثر آکے معنی اعلان کرنے کے لئے جائیں تو اِقْرَأَ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ کے یہ معنے ہوں گے کہ تو اس کتاب کا اعلان اپنے اُس رب کے نام کے ساتھ کر جس نے تجھے پیدا کیا.اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس میں پہلے دن ہی یہ خبر دے دی گئی ہے کہ یہ کلام محمد رسول 48

Page 56

اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے لئے نہیں بلکہ دنیا کی ساری قوموں اور قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لئے ہے.“ ( تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ ۲۴۹) پھر فرماتے ہیں: لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلا فقرہ یہی نازل ہوتا ہے کہ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا کے سامنے اعلان کر اور اُسے بتا کہ اُسے اس کا خالق رب اپنی طرف بلاتا ہے اس طرح پہلے لفظ کے ذریعہ ہی اس حقیقت کو روشن کر دیا گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ساری دنیا کے لئے ہے اسود اور احمر اس پیغام کے مخاطب ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض ہے کہ وہ تمام لوگوں تک اس پیغام کو پہنچائیں اور وہ لوگ جو آستانہ الہی سے بھٹک چکے ہیں اُن کو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف واپس لائیں.اقر آ کے دوسرے معنی کسی لکھی ہوئی چیز کو پڑھنے کے ہوتے ہیں ان معنوں کے لحاظ سے اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو لکھی جائے گی اور پھر یہ کھی ہوئی کتاب بار بار پڑھی جائے گی چنانچہ اگر واقعات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن دنیا میں وہ پہلی کتاب ہے جو ابتدائے نزول کے ساتھ ہی لکھی گئی ہے اس کے علاوہ دنیا میں اور جس قدر الہامی کتابیں پائی جاتی ہیں اُن میں سے کوئی ایک کتاب بھی ایسی نہیں جو نازل ہونے کے وقت ہی لکھ لی گئی ہو صرف قرآن کریم ہی ایک کتاب ہے جس کے متعلق یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ اُسے لکھا جائے گا اور اس طرح شروع سے ہی اُس کی حفاظت کا سامان کیا جائے گا اور وہ پیشگوئی حرف بہ حرف پوری بھی ہوگئی.( تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ ۲۴۹-۲۵۰) اقْرَأْ بِاسْمِ رنگ تو اپنے رب کے نام کے ساتھ دنیا میں کھڑا ہو اور اُن سے کہہ کہ مجھے ان باتوں کے پہنچانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اگر تم انکار کرو گے تو تم میرا انکار نہیں کرو گے بلکہ خدا کا انکار کرو گے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس کے نام کے ساتھ تمہارے سامنے میں اپنی رسالت کا اعلان کر رہا ہوں گور تک کا لفظ استعمال کر کے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 49

Page 57

کے عقائد کی صحت کا اعلان کیا گیا وہاں پائم رہتک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا بھی اظہار کیا گیا ہے رسول یہی کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کی ہدایت کے لئے کھڑا کیا گیا ہے اور میں اُسی کے نام کے ساتھ اپنے دعاوی تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں.“ ( تفسیر کبیر جلد ۹، صفحه ۲۵۹) غرض پہلی وحی میں ہی پانسم رنگ کہہ کر ایک طرف تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقائد کی درستی کا اعلان کر دیا اور دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا بھی اعلان کر دیا اور بتا دیا کہ یہ جو کچھ کہتا ہے اپنی طرف سے نہیں کہتا.بلکہ ہماری طرف سے کہتا ہے اس تشریح کو حوظ رکھتے ہوئے اقْرَأَبِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ کے یہ معنے ہوں گے کہ تو اپنے اس رب کے نام کا جس کو صرف تو ہی اس زمانہ میں صحیح طور پر سجھتا ہے دنیا میں اعلان کر اور لوگوں کو بتا کہ باقی تمام تشریحات رب کی اُس کے مقابل میں باطل ہیں.اسی طرح تو دنیا میں اُس تعلیم کا اعلان کر جو ہم تجھ پر نازل کر رہے ہیں کیونکہ یہ تعلیم صرف تیرے لئے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لئے ہے یہ تعلیم لکھی جائے گی، پڑھی جائے گی اور بار بار پڑھی جائے گی پس تو ایک فرد کی حیثیت سے اس کو نہ پڑھ بلکہ اس حیثیت سے پڑھ کہ خدا نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ میں یہ تعلیم ساری دنیا کے سامنے پیش کروں ہم تیرے ساتھ ہیں اور ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تو ہمارا سچا رسول ہے گویا اقرأ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ میں وہ تمام مفہوم آ گیا جو اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلَهُ میں بیان کیا گیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اقر اباسم رنک تو دوسرے الفاظ میں اس کلمہ شہادت کا اعلان کر دیا گیا کہ اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلَهُہ یعنی میں اُس خدائے واحد کو تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں جس کا علم مجھے حاصل ہے اور جو صیح اور سچا علم ہے میں اُس کے نام پر تمہیں اُس کی وحدانیت پر ایمان لانے کا پیغام دیتا ہوں اگر تم میری اس بات کو نہیں مانو گے تو اللہ تعالیٰ کے حضور مجرم اور گناہ گار قرار پاؤ گے کیونکہ میں اس کا رسول ہوں اور میں اُس کے نام پر کھڑا ہوا مجھے کہا گیا ہے کہ میں اس تعلیم کو چھپا کر نہ رکھوں بلکہ دنیا میں پھیلاؤں اور ہر فرد کے کان تک اللہ تعالیٰ کی 50

Page 58

اس آواز کو پہنچاؤں غرض پہلے دن ہی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کلمہ شہادت کو پوشیدہ رکھ دیا تھا.اور بتا دیا تھا کہ تو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ہے دنیا میں یہ اعلان کر کہ تو خدا تعالیٰ کا رسول ہے تیرا نظریہ ربوبیت الہی ہی سچا نظریہ ہے اور اس کلام کو دنیا تک پہنچانا تیرا فرض ہے.66 ووو ( تفسیر کبیر جلد نهم صفحه ۲۵۳) دوسرے معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ : اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَق تو اس خدا کا نام لے کر پڑھ جس نے مخلوق کو پیدا کیا ہے یعنی اُس کی اس صفت کو جو پیدائش عالم کا موجب ہے اپنی مدد کے لئے بلا اور اُس سے کہہ کہ يَارَبِّ الَّذِي خَلَقْتَ الْخَلْقَ اے میرے رب اگر تو نے مخلوق کو اُس کمال کے لئے پیدا کیا ہے جس کے ظہور کا مجھ سے واسطہ ہے تو پھر اُس مقصد کو پورا کر جس کے لئے تو نے مجھے دنیا میں کھڑا کیا ہے گویا علاوہ پبلک میں اپنی رسالت کا ملہ کا اعلان کرنے کے اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی ہدایت دیتا ہے کہ جب تو ہم سے اپنی ترقی کے لئے دعا مانگنے لگے تو ہمیشہ اس طرح مانگ کہ اے خدا جس نے تمام مخلوق کو اس دن کے لئے پیدا کیا تھا میں تجھے تیری اس صفت خلق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جب اس دن کے لئے تو نے ساری دنیا کو پیدا کیا تھا اور اس قدر دیر سے تیرا یہ ارادہ تھا جواب پورا ہونے لگا ہے تو اب اس وقت میری خاص مدد فرما اور میرے اعلان نبوت میں برکت ڈال.غرض ادھر پبلک میں یہ اعلان کر کہ جس مقصد کے لئے مجھے بھیجا گیا ہے وہ معمولی نہیں بلکہ جس دن سے دنیا پیدا ہوئی ہے اُسی دن سے یہ مقصد اللہ تعالیٰ کے مد نظر تھا.اُدھر خدا سے یہ دعا مانگ کہ جس مقصد کے لئے تو نے مجھے کھڑا کیا ہے اس میں مجھے کامیابی عطا فر ما کیونکہ اگر مجھے اپنے مقصد میں ناکامی ہوئی توسلسلہ مخلوق کا مقصد حقیقی باطل ہو جائے گا اس لئے میں تجھے اُسی صفت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جو مخلوق کی پیدائش کا باعث ہوئی کہ تو مجھے کامیاب کر.مجھے ناکامی سے بچا کیونکہ میری ناکامی میں تمام مخلوق کی ناکامی ہے.اس طرح ایک طرف اللہ تعالیٰ نے اُس پیغام کی عظمت کو ظاہر کر دیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نازل ہوا تھا اور دوسری طرف دعا کی قبولیت کا ایک لطیف 51

Page 59

طریق اُس نے آپ کو سکھا دیا....پھر فرمایا: ( تفسیر کبیر جلد نهم صفحه ۲۵۶) پس اگر اُس صفت کو ملحوظ رکھ کر دعا کی جائے جو دعا کے ساتھ مطابقت رکھتی ہو تو انسان کی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے.اسی حکمت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے یہاں باشم رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ کا اضافہ کیا اور فرمایا جب تو دعامانگنے لگے تو اس رنگ میں دعا مانگ کہ اے خدا جس نے پیدائش عالم سے میری بعثت کو اپنی دنیا کا مقصد قرار دیا ہوا ہے میں تجھ سے اسی ارادہ کا واسطہ دے کر التجا کرتا ہوں کہ تو مجھے کامیاب کر.اگر تو اس رنگ میں دعا مانگے گا تو تیری دعا بہت جلد قبول ہوگی اور توقکیل سے قلیل عرصہ میں اپنے مقاصد کو حاصل کر لے گا.“ حضور دوسری جگہ فرماتے ہیں: ( تفسیر کبیر جلد نهم صفحه ۲۶۹) اقْرَأْ بِاسْمِ رَنگ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تو رسول ہونے کی حیثیت سے اس کام کو شروع کر ہماری تائید تیرے ساتھ ہوگی اور ہماری نصرت تیرے شامل حال ہوگی.پس باوجود اس حقیقت کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام جہان کا مقصود تھے اور پیدائش عالم کے روحانی ارتقاء کا آخری نقطہ صرف آپ کی ذات تھی پھر بھی ان الفاظ کی زیادتی بلاوجہ نہیں کی گئی بلکہ ان میں بہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ کہہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان کیا گیا ہے اور آپ کو کہا گیا ہے کہ تو ہمارے نام کیساتھ دنیا کو یہ پیغام سنا جو لوگ تجھ پر ایمان لائیں گے انہیں میری رضا حاصل ہوگی اور جو انکار کریں گے وہ میرے عذاب کا نشانہ بنیں گے.‘ ( تفسیر کبیر جلد نم صفحہ ۲۶۸-۲۶۹) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَق کی تفسیر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں:.پس تعلق کا کمال دنیا میں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا ہے اور تعلق پیدا کرنے والی تعلیم کا کمال قرآن کریم نے پیش کیا ہے کہ اُس کے لفظ لفظ اور حرف 52

Page 60

حرف سے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کا عشق پھوٹ پھوٹ کر ظاہر ہو رہا ہے دشمن سے دشمن عیسائیوں کی کتابیں جب ہم پڑھتے ہیں تو وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی محبت پر جتناز در قرآن کریم نے دیا ہے اتناز ور دنیا کی اور کسی کتاب میں نظر نہیں آتا.کوئی صفحہ اُٹھا کر دیکھ لو اس میں جگہ جگہ اللہ تعالی کا ذکر آئے گا اور بات بات میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ کیا جائے گا اور یہ کیفیت کسی ایک سورۃ یا ایک پارہ سے مخصوص نہیں.بسم اللہ سے لے کر والناس تک قرآن کریم پڑھ جاؤ اُس کا کوئی صفحہ ایسا نظر نہیں آئے گا جس میں بار بار اللہ تعالیٰ کا نام نہ آتا ہو اور بار اللہ تعالیٰ کی محبت پر زور نہ دیا گیا ہو.“ عَلَّمَ بِالْقَلَم کے بارہ میں حضور فرماتے ہیں: ( تفسیر کبیر جلد نهم صفحه ۲۶۸) پھر علم بالقلم کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ قرآن کریم کے ذریعہ آئندہ سارے علوم دنیا میں پھیلیں گے چنانچہ آج جس قدر علوم نظر آتے ہیں یہ سب قرآن کریم کے طفیل معرض وجود میں آئے ہیں.“ ( تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ ۲۷۱) اور پھر عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ تمام علوم کی تکمیل قرآن کریم کے ذریعہ کرے گا.........اسی حقیقت کی طرف اللہ تعالیٰ نے ان نہایت ہی مختصر مگر جامع الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمْ یعنی قرآن اور اسلام کے ذریعہ دنیا کو وہ علوم سکھائے جائیں گے جو اس سے پہلے اُس کے خواب و خیال میں بھی نہیں آئے.“ ( تفسیر کبیر جلد نم صفحہ ۲۷۵) ان آیات کریمہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ دیباچہ تفسیر القرآن میں تحریر فرماتے ہیں: اس موقعہ پر ان آیتوں کا اس لئے ذکر کر دیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا یہ ایک اہم واقعہ ہے اور قرآن کریم کے لئے یہ آیات ایک بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتی ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ کلام نازل ہوا تو آپ کے دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ 53

Page 61

کیا میں خدا تعالیٰ کی اتنی بڑی ذمہ داری ادا کر سکوں گا ؟ کوئی اور ہوتا تو کبر اور غرور سے اس کا دماغ پھر جاتا کہ خدائے قادر نے ایک کام میرے سپرد کیا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا م کرنا جانتے تھے.کام پر اترانا نہیں جانتے تھے.آپ اس الہام کے بعد حضرت خدیجہ کے پاس آئے.آپ کا چہرہ اترا ہوا تھا اور گھبراہٹ کے آثار ظاہر تھے........حضرت خدیجہ نے پوچھا آخر ہوا کیا؟ آپ نے سارا واقعہ سنایا اور فرمایا میرے جیسا کمزور انسان اس بوجھ کو کس طرح اُٹھا سکے گا حضرت خدیجہ نے کہا کلا و الله ما یخزیک الله ابدا انک لتصل الرحم و تحمل الكل وتكسب المعدوم وتقرى الضيف وتعين على نوائب الحق(بخاری باب بد الوحی )..........خدا کی قسم یہ کلام خدا تعالیٰ نے اس لئے آپ پر نازل نہیں کیا کہ آپ نا کام اور نامراد ہوں اور خدا آپ کا ساتھ چھوڑ دے.خدا تعالیٰ ایسا کب کر سکتا ہے آپ تو وہ ہیں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں اور بے کس اور بے مددگار لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں وہ اخلاق جو ملک سے مٹ چکے تھے وہ آپ کی ذات کے ذریعہ سے دوبارہ قائم ہورہے ہیں مہمان نوازی کرتے ہیں اور کچی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں کیا ایسے انسان کو خدا تعالیٰ ابتلاء میں ڈال سکتا ہے؟ پھر وہ آپ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو عیسائی ہو چکے تھے اُنہوں نے جب یہ واقعہ سنا تو بے اختیار بول اُٹھے آپ پر وہی فرشتہ نازل ہوا ہے جو موسیٰ پر نازل ہوا تھا.گویا استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ والی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا.جب اس بات کی خبر زید آپ کے آزاد کردہ غلام کو جو اس وقت کائی پچیس تیس سال کے تھے اور علی ” آپ کے چچا کے بیٹے کو جن کی عمر اس وقت گیارہ سال کی تھی پہنچی تو دونوں آپ پر فورا ایمان لے آئے.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۱۱۳، ۱۱۴) اس کے بعد حضرت ابوبکر بھی فوراً ایمان لے آئے.حضرت مصلح موعودؓ مزید تحریر فرماتے ہیں: یہ ایک چھوٹی سی جماعت تھی جس سے اسلام کی بنیاد پڑی ایک عورت کہ بڑھاپے کو پہنچ رہی تھی.ایک گیارہ سالہ بچہ، ایک جوان آزاد کردہ غلام بے وطن اور غیروں میں رہنے والا جس کی 54

Page 62

پشت پر کوئی نہ تھا.ایک نوجوان دوست اور ایک مدعی الہام.یہ چھوٹا سا قافلہ تھا جو دنیا میں نور پھیلانے کے لئے کفر وضلالت کے میدان کی طرف نکلا.لوگوں نے جب یہ باتیں سنیں اُنہوں نے قہقہے لگائے.انہوں نے ایک دوسرے کو آنکھیں ماریں اور نظروں ہی نظروں میں ایک دوسرے کو جتایا کہ یہ لوگ مجنون ہو گئے ہیں ان کی باتوں سے گھبراؤ نہیں، بلکہ سنو اور مزہ اُٹھاؤ مگر حق اپنی پوری شان کے ساتھ ظاہر ہونا شروع ہوا.اور یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مطابق حکم پر حکم حکم پر لم ، قانون پر قانون، قانون پر قانون ( باب ۲۸، آیت (۱۳) ہوتا گیا.تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں “ اور ” ایک اجنبی زبان سے جس سے عرب پہلے نا آشنا تھے خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ عربوں سے باتیں کرنی شروع کیں.نوجوانوں کے دل لرزنے لگے.صداقت کے متلاشیوں کے جسموں پر کپکپی پیدا ہوئی.اُن کی ہنسی اور ٹھٹھے اور استہزاء کی آوازوں میں پسندیدگی اور تحسین کے کلمات بھی آہستہ آہستہ بلند ہونے شروع ہوئے.غلاموں، نوجوانوں اور مظلوم عورتوں کا ایک جتھا آپ کے گرد جمع ہونے لگ گیا کیونکہ آپ کی آواز میں عورتیں اپنے حقوق کی داد رسی دیکھ رہی تھیں غلام اپنی آزادی کا اعلان سن رہے تھے ، نوجوان بڑی بڑی اُمیدوں اور ترقیوں کے راستے کھلتے ہوئے محسوس کر رہے تھے.“ (دیباچه تفسیر القرآن صفحه ۱۱۴ ، ۱۱۵) ” جب مخالفت تیز ہوگئی اور ادھر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے اصرار سے مکہ والوں کو خدا تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچانا شروع کیا کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا خدا ایک ہے، اُس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.جس قدر نبی گزرے ہیں سب ہی اُس کی توحید کا اقرار کیا کرتے تھے اور اپنے ہم قوموں کو بھی اسی تعلیم کی طرف بلایا کرتے تھے.تم خدائے واحد پر ایمان لاؤ.ان پتھر کے بتوں کو چھوڑ دو کہ یہ بالکل بیکار ہیں اور ان میں کوئی طاقت نہیں.اے مکہ والو! کیا تم دیکھتے نہیں کہ ان کے سامنے جوند رو نیاز رکھی جاتی ہے اگر اُس پر مکھیوں کا جھرمٹ آ بیٹھے تو وہ ان مکھیوں کو اڑانے کی بھی طاقت نہیں رکھتے اگر کوئی ان پر حملہ کرے تو وہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتے.اگر کوئی اُن سے سوال کرے تو وہ جواب نہیں دے سکتے اگر کوئی ان سے مدد مانگے تو وہ اُس کی مدد 55

Page 63

نہیں کر سکتے مگر خدائے واحد تو مانگنے والوں کی ضرورت پوری کرتا ہے سوال کرنے والوں کو جواب دیتا ہے مدد مانگنے والوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو زیر کرتا ہے اور اپنے عبادت گزار بندوں کو اعلی ترقیات بخشتا ہے.اُس سے روشنی آتی ہے جو اس کے پرستاروں کے دلوں کومنور کر دیتی ہے پھر تم کیوں ایسے خدا کو چھوڑ کر بے جان بتوں کے آگے جھکتے ہو اور اپنی عمر ضائع کر رہے ہو.تم دیکھتے نہیں کہ خدا تعالیٰ کی توحید کو چھوڑ کر تمہارے خیالات بھی گندے اور دل بھی تاریک ہو گئے ہیں.تم قسم قسم کی وہمی تعلیموں میں مبتلا ہو.حلال وحرام کی تم میں تمیز نہیں رہی.اچھے اور برے میں تم امتیاز نہیں کر سکتے.اپنی ماؤں کی بے حرمتی کرتے ہو اپنی بہنوں اور بیٹیوں پر ظلم کرتے ہو اور اُن کے حق انہیں نہیں دیتے.اپنی بیویوں سے تمہارا سلوک اچھا نہیں.یتامی کے حق مارتے ہو اور بیواؤں سے برا سلوک کرتے ہو.غریبوں اور کمزوروں پر ظلم کرتے ہو اور دوسروں کے حق مار کر اپنی بڑائی قائم کرنا چاہتے ہو.جھوٹ اور فریب سے تم کو عار نہیں.چوری اور ڈاکہ سے تم کو نفرت نہیں.جوا اور شراب تمہارا شغل ہے.حصول علم اور قومی خدمت کی طرف تمہاری توجہ نہیں.خدائے واحد کی طرف سے کب تک غافل رہو گے.آؤ اور اپنی اصلاح کرو اور ظلم چھوڑ دو، ہر حقدار کو اُس کا حق دو.خدا نے اگر مال دیا ہے تو ملک وقوم کی خدمت اور کمزوروں اور غریبوں کی ترقی کے لئے اُسے خرچ کر دعورتوں کی عزت کرو اور اُن کے حق ادا کرو.یتیموں کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھو اور اُن کی خبر گیری کو اعلیٰ درجہ کی نیکی سمجھو.بیواؤں کا سہارا بنو.نیکیوں اور تقویٰ کو قائم کر و انصاف اور عدل ہی نہیں بلکہ رحم اور احسان کو اپنا شعار بناؤ.اس دنیا میں تمہارا آنا بیکار نہ جانا چاہئے.اچھے آثار اپنے پیچھے چھوڑو.تا دائمی نیکی کا بیج بویا جائے.حق لینے میں نہیں بلکہ قربانی اور ایثار میں اصل عزت ہے پس تم قربانی کرو.خدا کے قریب ہو.خدا کے بندوں کے مقابل پر ایثار کا نمونہ دکھاؤ تا خدا تعالیٰ کے ہاں تمہارا حق قائم ہو.بے شک ہم حاکم ہیں مگر ہماری کمزوروی کو نہ دیکھو.آسمان پر سچائی کی حکومت کا فیصلہ ہو چکا ہے اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے عدل کا تر از ورکھا جائے گا اور انصاف اور رحم کی حکومت قائم کی جائے گی جس میں کسی پر ظلم نہ ہوگا.مذہب کے معاملہ میں دخل اندازی نہ 56

Page 64

کی جائے گی.عورتوں اور غلاموں پر جو ظلم ہوتے رہے ہیں انہیں مٹا دیا جائے گا اور شیطان کی حکومت کی جگہ خدائے واحد کی حکومت قائم کر دی جائے گی.(دیباچه تفسیر القرآن صفحه ۱۱۹ تا ۱۲۰ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ شاندار تعلیم مکہ والوں کے سامنے بار بار پیش کی تو ایک دن مکہ کے سردار جمع ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چا ابوطالب کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ کا بھتیجا ہمارے بتوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دے تو ہم اُسے اپنا سردار بنالیں گے یا اگر دولت کی خواہش ہے تو دولت پیش کر دیں گے اگر حسین ترین عورت اُس کو درکار ہے وہ مہیا کر دیں گے اگر وہ ہماری تجاویز قبول نہ کرے تو آپ کو اپنا بھتیجا چھوڑنا پڑے گا ورنہ آپ کی قوم آپ کی ریاست سے انکار کر کے آپ کو چھوڑ دے گی حضرت ابوطالب کے لئے یہ بات بہت شاق تھی چنانچہ انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلوا کر سارا ماجرا سنایا اور اُن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اُن کے آنسوؤں کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.”اے میرے چا! میں یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنی قوم کو چھوڑ دیں اور میرا ساتھ دیں آپ بیشک میرا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنی قوم کے ساتھ مل جائیں لیکن مجھے خدائے واحدہ لاشریک کی قسم ہے کہ اگر سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کر کھڑا کر دیں تب بھی میں خدا تعالیٰ کی توحید کا وعظ کرنے سے باز نہیں رہ سکتا.میں اپنے کام میں لگا رہوں گا جب تک خدا مجھے موت دے.آپ اپنی مصلحت کو خود سوچ لیں.یہ ایمان سے پُر اور یہ اخلاص سے بھرا ہوا جواب ابوطالب کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھا.اُنہوں نے سمجھ لیا کہ گو مجھے ایمان لانے کی توفیق نہیں ملی.لیکن اس ایمان کا نظارہ دیکھنے کی توفیق ملنا ہی سب دولتوں سے بڑی دولت ہے اور آپ نے کہا اے میرے بھیجے جا اور اپنا فرض ادا کرتا رہ.قوم اگر مجھے چھوڑ نا چاہتی ہے تو بیشک چھوڑ دے میں تجھے نہیں چھوڑ سکتا.(ابن ہشام زرقانی) (دیباچه تفسیر القرآن صفحه ۱۲۱) 57

Page 65

اس کے بعد مکہ والوں کے مظالم انتہا کو پہنچ گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعض ساتھیوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت بھی دے دی لیکن انہوں نے اُن کے ساتھ بھی نارواسلوک کئے اور اُن کا پیچھا بھی کیا اور حبشہ تک بھی جا کر سازشیں کیں.اس پر بھی ان کے دل ٹھنڈے نہ ہوئے اور جب ان ظلموں کے باوجود مسلمانوں کے ایمان میں تزلزل نہ آیا تو کفار مکہ نے مسلمانوں کا کلی طور پر مقاطعہ کر دیا اور ان مظالم سے تنگ آکر مسلمان شعب ابی طالب میں محصور ہوکر رہ گئے اور تین سال متواتر شعب ابی طالب میں تکالیف اٹھاتے رہے اور تھوڑے ہی دنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفاشعار بیوی حضرت خدیجہ اس مقاطعہ کے دنوں کی تکلیفوں کے نتیجہ میں فوت ہو گئیں اور ایک مہینہ بعد حضرت ابوطالب بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے.58

Page 66

طائف والوں کو پیغام حق حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ----..” جب مکہ کے لوگوں نے باتیں سننے سے ہی انکار کر دیا اور یہ فیصلہ کر لیا کہ مارو اور پیٹوںگر بات بالکل نہ سنو، تو آپ نے طائف کی طرف رخ کیا طائف مکہ سے کوئی ساٹھ میل کے قریب جنوب مشرق کی طرف ایک شہر ہے ، جو اپنے پھلوں اور اپنی زراعت کی وجہ سے مشہور ہے.یہ شہر بت پرستی میں مکہ والوں سے کم نہ تھا..........جب آپ طائف پہنچے تو وہاں کے رؤساء آپ سے ملنے کے لئے آنے شروع ہوئے لیکن کوئی شخص حق کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوا.......وہ ایک دن جمع ہوئے.کہتے اُنہوں نے اپنے ساتھ لئے.لڑکوں کو اُکسایا اور پتھروں سے اپنی جھولیاں بھر لیں اور بے دردی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتھراؤ کرنا شروع کیا.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہر سے دھکیلتے ہوئے باہر لے گئے.آپ کے پاؤں لہولہان ہو گئے اور زید آپ کو بچاتے ہوئے سخت زخمی ہوئے مگر ظالموں کا دل ٹھنڈا نہ ہوا وہ آپ کے پیچھے چلتے گئے اور چلتے گئے جب تک شہر سے کئی میل دور کی پہاڑیوں تک آپ پہنچ گئے اُنہوں نے آپ کا پیچھا نہ چھوڑا.جب یہ لوگ آپ کا پیچھا کر رہے تھے تو آپ اس ڈر سے کہ خدا تعالیٰ کا غضب ان پر نہ بھڑک اُٹھے آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھتے اور نہایت الحاح سے دعا کرتے الہی ان لوگوں کو معاف کر کہ یہ نہیں جانتے کہ یہ کیا کر رہے ہیں.“ 66 (دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۱۲۷،۱۲۶) ”آپ کے اس سفر کے متعلق دشمنوں کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ اس سفر میں آپ نے بے 59

Page 67

نظیر قربانی اور استقلال کا نمونہ دکھایا ہے سرولیم میورا اپنی کتاب ” محمد “ ( دی لائف آف محمد صفحہ ۹۷ ناقل ) میں لکھتے ہیں : محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے طائف کے سفر میں ایک شاندار شجاعانہ رنگ پایا جاتا ہے.اکیلا آدمی جس کی اپنی قوم نے اُس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور اُسے دھتکار دیا خدا کے نام پر بہادری کے ساتھ نینوا کے یوناہ نبی کی طرح ایک بت پرست شہر کو تو بہ کی اور خدائی مشن کی دعوت دینے کے لئے نکلا.یہ امر اس کے اس ایمان پر کہ وہ اپنے آپ کو کلی طور پر خدا کی طرف سے سمجھتا تھا ایک بہت تیز روشنی ڈالتا ہے.“ (دیباچ تفسیر القرآن صفحه ۱۲۸) مدینہ کے لوگوں کو پیغام حق حج کے ایام میں........آپ منی کی وادی میں پھر رہے تھے کہ چھ سات آدمی جو مدینہ کے باشندے تھے آپ کی نظر پڑی آپ نے اُن سے کہا آپ کس قبیلہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا خزرج قبیلہ کے ساتھ.آپ نے کہا وہی قبیلہ جو یہودیوں کا حلیف ہے؟ انہوں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا کیا آپ لوگ تھوڑی دیر بیٹھ کر میری باتیں سنیں گے؟.........آپ نے انہیں بتایا کہ خدا کی بادشاہت قریب آرہی ہے، بت اب دنیا سے مٹادیئے جائیں گے.توحید کو دنیا میں قائم کر دیا جائے گا نیکی اور تقوی پھر ایک دفعہ دنیا میں قائم ہو جائیں گے کیا مدینہ کے لوگ اس عظیم الشان نعمت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟ انہوں نے آپ کی باتیں سنیں اور متاثر ہوئے.اور کہا آپ کی تعلیم کو تو ہم قبول کرتے ہیں باقی رہا یہ کہ مدینہ اسلام کو پناہ دینے کے لئے تیار ہے یا نہیں.اس کے لئے ہم اپنے وطن جا کر اپنی قوم سے بات کریں گے پھر ہم دوسرے سال اپنی قوم کا فیصلہ آپ کو بتا ئیں گے یہ لوگ واپس گئے اور انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں میں آپ کی تعلیم کا ذکر کرنا شروع کیا........جب اُن حاجیوں سے مدینہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی کو سنا، آپ کی سچائی اُن کے 60

Page 68

دلوں میں گھر کر گئی اور اُنہوں نے کہا یہ تو وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کی یہودی ہمیں خبر دیا کرتے تھے......چنانچہ اگلے سال حج کے موقعہ پر پھر مدینہ کے لوگ آئے.بارہ آدمی اس دفعہ مدینہ سے یہ ارادہ کر کے چلے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہو جائیں گے ان میں سے دس خزرج قبیلہ کے تھے اور دواؤں کے مٹی میں وہ آپ سے ملے اور انہوں نے آپ کے ہاتھ پر اس بات کا اقرار کیا کہ وہ سوائے خدا کے اور کسی کی پرستش نہیں کریں گے ، وہ چوری نہیں کریں گے، وہ بدکاری نہیں کریں گے، وہ اپنی لڑکیوں کو قتل نہیں کریں گے، وہ ایک دوسرے کے اوپر جھوٹے الزام نہیں لگائیں گے، نہ وہ خدا کے نبی کی دوسری نیک تعلیمات میں نافرمانی کریں گے.یہ لوگ واپس گئے تو انہوں نے اپنی قوم میں اور بھی زیادہ زور سے تبلیغ شروع کردی.“ (دیباچه تفسیر القرآن صفحه ۱۳۰،۱۲۹) آخر تیسرا حج بھی آپہنچا اور مدینہ کے حاجیوں کا قافلہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل مکہ میں وارد ہوا......اس دفعہ مدینہ کے مسلمانوں کی تعداد ۷۳ تھی.اُن میں ۶۲ خزرج قبیلہ کے تھے اور گیارہ اوس کے تھے اور اس قافلہ میں دو عورتیں بھی شامل تھیں.(دیباچه تفسیر القرآن صفحه ۱۳۲، ۱۳۳) بادشاہوں کو تبلیغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے وقت تبلیغ عام کا دروازہ کھل گیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے بعد نزول اس آیت کے کہ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ (الاعراف:۱۵۹) دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کی طرف دعوت اسلام کے خط لکھے تھے اور نبی نے غیر قوموں کے بادشاہوں کی طرف دعوت دین کے ہرگز خطا نہیں لکھے کیونکہ 61

Page 69

وہ دوسری قوموں کی دعوت کے لئے مامور نہ تھے.یہ عام دعوت کی تحریک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ سے ہی شروع ہوئی اور مسیح موعود کے زمانہ میں اور اس کے ہاتھ سے تکمیل تک پہنچی.( شان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حصہ اوّل صفحہ ۷ ۱۲۸،۱۲) حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تحریر فرماتے ہیں: مدینہ تشریف لے آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ کیا کہ آپ اپنی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچا ئیں........آپ نے ایک مہر بنوائی جس پر محمد رسول اللہ کے الفاظ کھدوائے اور اللہ تعالیٰ کے ادب کے طور پر آپ نے سب سے اوپر اللہ کا لفظ لکھواد یا نیچے ”رسول“ کا پھر نیچے ”محمد“ کا.محرم ۶۲۸ ، میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خط لے کر مختلف صحابہ مختلف ممالک کی طرف روانہ ہو گئے.ان میں سے ایک خط قیصر روما کے نام تھا اور ایک خط ایران کے بادشاہ کی طرف تھا ایک خط مصر کے بادشاہ کی طرف تھا جو قیصر کے ماتحت تھا.ایک خط نجاشی کی طرف تھا جو حبشہ کا بادشاہ تھا.اسی طرح بعض اور بادشاہوں کی طرف آپ نے خطوط لکھے.“ (دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۱۹۳) قیصر روم کے پاس جب خط پہنچا تو بادشاہ نے ترجمان سے پڑھوایا پھر حکم دیا کہ کوئی عرب کا قافلہ آیا ہو تو اُن لوگوں کو پیش کرو.....اتفاقاً ابوسفیان ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ اُس وقت وہاں آیا ہوا تھا.بادشاہ نے ابوسفیان سے مختلف سوالات دریافت کئے اور جوابات سن کر یہ نتیجہ نکالا.وپس میں سمجھتا ہوں کہ وہ نبوت کے دعوی میں سچا ہے اور میرا خود یہ خیال تھا کہ اس زمانہ میں وہ نبی آنے والا ہے مگر میرا یہ خیال نہیں تھا کہ وہ عربوں میں پیدا ہونے والا ہے اور جو جواب تو نے مجھے دیئے ہیں اگر وہ بچے ہیں تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ وہ ان ممالک پر ضرور قابض ہو جائے گا“.( بخاری ) 29 62 (دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۱۹۵)

Page 70

تیسرا خط آپ نے نجاشی کے نام لکھا......جب یہ خط نجاشی کو پہنچا تو اُس نے بڑے ادب سے اس خط کو اپنی آنکھوں سے لگا یا اور تخت سے نیچے اُتر کر کھڑا ہوگیا اور کہا کہ ہاتھی دانت کا ایک ڈبہ لاؤ چنا نچہ ایک ڈبہ لایا گیا اس نے وہ خط ادب کے ساتھ اُس ڈبہ میں رکھ دیا.اور کہا جب تک یہ خط حبشہ میں محفوظ رہے گا حبشہ کی حکومت بھی محفوظ رہے گی چنانچہ نجاشی کا یہ خیال درست ثابت ہوا......‘ ( دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۱۹۹،۱۹۸) الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیغام حق دنیا کے ہر نفس کو پہنچانے کی پوری پوری کوشش فرمائی اور اس فریضہ کی ادائیگی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا یہاں تک کہ خدائے ذ والعرش نے فرمایا: لَعَلَّكَ بَاخِعْ نَفْسَكَ اَلَا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ.(الشعراء:۴) ترجمہ: کہ شاید تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے گا کہ وہ کیوں مومن نہیں ہوتے.یعنی تیرا پاکیزہ دل کافروں کے سچائی کے انکار کو برداشت نہیں کر سکتا اور خواہش کرتا ہے کہ وہ بھی ہدایت پا جائیں.( تفسیر صغیر صفحہ ۴۶۷) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فریضہ کو احسن رنگ میں ادا کرنے کے متعلق آپ کے عاشق صادق حضرت امام مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں: یر زبر دست دلیل ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی کہ آپ ایسے وقت میں آئے که ساری دنیا عام طور پر بدکاریوں اور بداعتقادیوں میں مبتلا ہو چکی تھی اور حق و حقیقت اور توحید اور پاکیزگی سے خالی ہو گئی تھی پھر دوسری دلیل آپ کی سچائی کی یہ ہے کہ آپ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کی طرف اُٹھائے گئے جب اپنے فرض رسالت کو پورے طور پر ادا کر کے کامیاب و با مراد ہو چکے.( الحکم ۷ امارچ ۱۹۰۳ء صفحہ نمبر ۴ بحوالہ شان محمد محصہ اوّل صفحه ۳۵،۳۴) آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجتہ الوداع کے مبارک موقعہ پر ایک لاکھ صحابہ کرام کے مجمع کو جبل رحمت پر ایستادہ ہو کر جو عظیم الشان ہدایت دی اور پیغام حق پہنچایا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.تم سے خدا کے ہاں میری نسبت پوچھا جائے گا.تم کیا جواب دو 63

Page 71

گے.“ صحابہ کرام نے عرض کی ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا کا پیغام پہنچادیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق رسالت ادا فرما دیا اور اپنا فرض پورا کر دیا اور ہماری خیر خواہی فرمائی.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اُٹھائی اور تین بار فرمایا: خدا یا گواہ رہنا، خدا یا گواہ رہنا، خدا یا گواہ رہنا“ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ اسی لئے خدائے ذوالعرش نے بھی آسمان سے یہ سند خوشنودی عطا فرمائی وَوَجَدَگ صالاً فَهَدى (الضحی : ۸) اور جب اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنی قوم کی محبت میں سرشار دیکھا تو اُن کی اصلاح کا صحیح راستہ تجھے بتا دیا یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! تو اپنی قوم کی ہدایت کی خواہش میں سرشار تھا سو ہم نے تجھے وہ راستہ بتادیا جس سے تو قوم کی اصلاح کر سکے.( تفسیر صغیر صفحه ۸۳۱) پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت تک اپنی پاکیزہ تعلیم سے دنیا کی راہنمائی کے سامان مہیا فرمائے سبحان اللہ.اور دنیا نے دَاعِيَا إِلَى اللَّهِ بِاذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا - ( الاحزاب: ۴۷) کا حسین جلوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات میں مشاہدہ کر لیا.يَارَب صَلِّ عَلَى نَبِيَّكَ دَائِمًا في هَذِهِ الدُّنْيَا وَبَعْثٍ ثَانٍ == 64

Page 72

(1) رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مخلوقِ خدا سے شفقت اور پیار کا سلوک غرباء اور بیتائی کی خبر گیری آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان صفات کریمانہ کا تذکرہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اپنے فارسی اشعار میں اس طرح فرماتے ہیں: خواجه و مر عاجزان را بنده بادشاہ و بے کساں را چاکرے آں ترحمها که خلق از وے بدید کس ندیده در جہاں از مادری را برحمت دستگیر خستہ جاناں را به شفقت غم خورے در ثمین فارسی صفحہ ۷ بحوالہ مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریرات کی رو سے صفحہ ناتواناں نیز فرماتے ہیں: (۴۸۸۴۸۷ دم اگر کسی نبی کی فضیلت اُس کے اُن کاموں سے ثابت ہو سکتی ہے جن سے بنی نوع کی سچی ہمدردی سب نبیوں سے بڑھ کر ظاہر ہو تو اے سب لوگو! اٹھو اور گواہی دو کہ اس صفت میں محمد صلی 65

Page 73

66 اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں.“ تبلیغ رسالت جلد ششم صفحه ۹ حوالہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحریروں کی رو سے صفحہ ۴۰۸) آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چونکہ غریبوں کے مولیٰ اور منجی تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے : اللَّهُمَّ احْيِنِى مِسْكِيْنَا وَ اَمَتِنِى مِسْكِينًا وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاكِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ یعنی اے اللہ مجھے مسکین ہونے کی حالت میں زندہ رکھ مسکین ہونے کی حالت میں وفات دے اور مساکین کے زمرہ میں ہی قیامت کے دن مجھے اُٹھا.“ ( ترمذی ابواب الزہد باب ما جاء ان فقراء المهاجرين ) اور ایک دوسری حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: الْفَقْرَ فَخْرِی کہ مجھے اپنے فقر پر فخر ہے.ابھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ بھی نہیں کیا تھا.اُس وقت جب غارِ حرا میں آپ پر افر اوالی آیات کریمہ کا نزول ہوا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ کو اس عظیم ذمہ داری کے متعلق بتلایا تو اُس وقت حضرت خدیجہ نے جو شاندار الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف میں بیان فرمائے وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں.ان الفاظ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخلوق خدا سے شفقت اور پیار کے سلوک اور احسانات کا تذکرہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے.اُنہوں نے فرمایا اور شہادت دی کہ كَلَّا وَ اللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللهُ اَبَدًا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اندیشے غلط ہیں اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی رسوا نہیں کرے گا.اِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتقرى الضَّيْفَ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَعِينُ عَلَى نوائبِ الْحَقِّ ( بخاری کتاب بدء الوحی ) کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور وہ اخلاق فاضلہ جو دنیا سے مٹ گئے ہیں اُن کو پھر سے قائم کر رہے ہیں اگر کوئی شخص بغیر کسی شرارت کے پھنس جاتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کی مدد کرتے ہیں.( بخاری ) انسان کی سب سے بڑی گواہ اُس کی بیوی ہی 66

Page 74

ہوسکتی ہے جو ہر وقت اُس کے حالات کو دیکھتی ہے.پس یہ گواہی سب سے معتبر گواہی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واقعہ میں طہ تھے یعنی ایک کامل مرد میں جو فضائل پائے جانے چاہئیں وہ سب کے سب آپ میں پائے جاتے تھے.اُم المومنین حضرت خدیجہ کی گواہی عین درست تھی کیونکہ شادی کے بعد انہوں نے اپنے سارے اموال اور غلام اپنے عظیم المرتبت شوہر کی خدمت میں پیش کئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں تو یہ سب کچھ راہ خدا میں دے دوں گا اور حضرت خدیجہ نے خندہ پیشانی سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاحب اختیار ہیں جس طرح چاہیں کریں چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام غلاموں کو آزاد کر دیا اور وہ تمام مال لے کر حاجت مندوں اور غرباء میں تقسیم کر دیا.اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پیارے رب کریم کی مخلوق سے کس قدر ہمدردی تھی اور کس طرح اُن کے لئے بے دریغ مال خرچ کیا.حضرت رحمة للعلمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا مشفق انسان نہ دنیا میں کبھی پیدا ہوا اور نہ کبھی ہوگا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت ہر طبقہ کے انسانوں سے تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ سے ہی انسانیت کا شرف قائم ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حقیقی معنوں میں انسان دوست تھے اور اس میں غریب امیر کا کوئی امتیاز نہ تھا.اسی وجہ سے خدائے ذوالعرش نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سند خوشنودی عطا فرمائی.فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ (ال عمران : ١٦٠) ترجمہ : ”خداوند کریم کی رحمت کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نرم دل اور نرم خویعنی شفیق واقع ہوئے ہیں.66 اور خداوند کریم نے آپ کی پیاری پیاری صفات کریمانہ اور لوگوں سے شفقت اور پیار کے سلوک اور اُن کی ہر دم خیر چاہنے اور اُن کے دکھ میں پڑنے سے خود تکلیف پریشانی اور رنج میں مبتلا ہونے کے بارے میں اپنی پاک کتاب میں شاندار الفاظ میں خراج تحسین کا اظہار فرمایا: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُوْلُ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيْضٍ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ 67

Page 75

رَءُوفٌ رَّحِيمُ (التوبة: ۱۲۸) ترجمہ : ” (اے مومنو!) تمہارے پاس تمہاری ہی قوم کا ایک فرد رسول ہو کر آیا ہے تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق گزرتا ہے اور وہ تمہارے لئے خیر کا بہت بھوکا ہے اور مومنوں کے ساتھ محبت کرنے والا اور بہت کرم کرنے والا ہے.“ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشفقانہ اور کریمانہ صفات کا ایسے شاندار الفاظ میں تذکرہ فرما دیا ہے کہ جس سے بڑھ کر کوئی انسان آپ کی شان میں مزید الفاظ ادا کرنے کی ہمت نہیں پاتا کیونکہ آپ کی ساری ہی خوبیاں تو بیان کر دی گئی ہیں کہ آپ کسی فرد بشر کی تکلیف نہیں دیکھ سکتے اور اپنی ہمت طاقت سے بڑھ کر اُس کی ہمدردی میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کو حاضر ہیں.پھر ساری دنیا کے لئے ہر قسم کی بھلائیاں چاہنے والے ہیں اور اپنے آسمانی آقا خداوند کریم سے بھی سب انسانوں کے لئے بھلائی کی دعائیں مانگتے اور خیر کے طلبگار ہیں.اور سب سے بڑھ کر مومنوں کے لئے تو محبت اور کرم کی برسات برساتے رہتے ہیں.سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ اصحاب صفہ غریب اور بے کس لوگ مسجد نبوی میں رہتے تھے.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کی ہر طرح دلداری فرماتے اور جو کچھ مہیا ہوتا ان خدا کے بندوں میں تقسیم فرماتے رہتے.ان اصحاب میں حضرت ابوہریرہ بھی تھے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عنایات اور شفقت سے ہمیشہ حصہ پاتے تھے جن کا احادیث مبارکہ میں تذکرہ موجود ہے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید سے ایسا حسن سلوک کیا کہ اُس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنا منہ بولا بیٹا بھی بنایا.اُن کے ساتھ اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب کی شادی بھی کر دی اُن کے بیٹے کو ناز و نعمت سے پالا باپ بیٹے کو فوج کا کمان دار بھی بنایا الغرض ان گنت شفقتیں فرمائیں.غریبوں پر شفقت فرماتے ہوئے ایسے پیارے احکام دیئے جو قیامت تک غریبوں کے 68

Page 76

حق میں ہر ایک تعمیل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات بابرکات پر درود بھیجنے کا موجب ہوتی رہے گی ملاحظہ ہوں چند احادیث مبارکہ: ۱.حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مزدور کو اُس کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو.“ (حدیقہ الصالحین دو نیا ایڈیشن صفحہ ۵۸۵) کتنا زریں اور پیارا اصول ہے اگر اس پر عمل ہو تو دنیا خوشحال ہو جائے.۲- حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دو تین باتیں جس میں ہوں اللہ تعالیٰ اُسے اپنی حفاظت اور رحم میں رکھے گا اور اُسے جنت میں داخل کرے گا.پہلی یہ کہ وہ کمزوروں پر رحم کرے دوسری یہ کہ وہ ماں باپ سے محبت کرے.تیسری یہ کہ خادموں اور نوکروں سے اچھا سلوک کرے.“ وو ( حديقة الصالحین نیا ایڈیشن صفحہ ۵۸۵،۵۸۴) -۳- حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب تم میں سے کسی کا نوکر کھانا تیار کر کے لائے اور تم اُسے اپنے پاس بٹھا کر نہ کھلا سکو تو کم از کم ایک دو لقمے تو اُسے کھانے کو دیدو کیونکہ اُس نے یہ کھانا محنت کر کے تمہارے لئے تیار کیا ہے اس میں اُس کا بھی حق ہے.“ (حدیقہ الصالحین نیا ایڈیشن صفحہ ۵۸۴).حضرت جبیر بن مطعم " بیان کرتے ہیں کہ غزوہ حنین سے واپسی کے دوران ایک موقع پر کچھ اُجڈ دیہاتی آپ کے پیچھے پڑ گئے وہ بڑے اصرار سے سوال کر رہے تھے جب آپ انہیں دینے لگے تو انہوں نے اتنارش کیا کہ آپ کو مجبوراً ایک درخت کا سہارا لینا پڑا.حتی کہ آپ کی چادر چھین لی گئی آپ نے فرمایا میری چادر مجھے واپس دے دو.مجھے کیکروں کے بہت بڑے جنگل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا اگر اس وسیع جنگل کے برابر بھی میرے پاس اونٹ ہوں تو میں اُن کو تقسیم کرنے میں خوشی محسوس کروں گا.اور تم مجھے کبھی بھی بخل سے کام لینے والا بڑہانکنے والا یا بز دلی دکھانے والا نہیں پاؤ گے.( بخاری کتاب الجہاد.بحوالہ حدیقۃ الصالحین نیا ایڈیشن صفحہ ۳۳) 69

Page 77

۵ - حضرت عبد اللہ بن ابوبکر بیان کرتے ہیں کہ ایک عرب نے ان سے ذکر کیا کہ جنگ حنین میں بھیٹر کی وجہ سے اُس کا پاؤں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں پر جا پڑا.سخت قسم کی چپلی جو میں نے پہن رکھی تھی اُس کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پاؤں بری طرح زخمی ہو گیا.حضور نے تکلیف کی وجہ سے ہلکا سا کوڑا مارتے ہوئے فرمایا: بسم اللہ تم نے میرا پاؤں زخمی کر دیا ہے اس سے مجھے بڑی ندامت ہوئی.ساری رات میں سخت بے چین رہا کہ ہائے مجھے سے یہ غلطی کیوں ہوئی.صبح ہوئی تو کسی نے مجھے آواز دی کہ حضور تمہیں بلاتے ہیں.مجھے اور گھبراہٹ ہوئی کہ کل کی غلطی کی وجہ سے شاید میری شامت آئی ہے بہر حال میں حاضر ہوا تو حضور نے بڑی شفقت سے فرمایا کل تم نے میرا پاؤں کچل دیا تھا اور اس پر میں نے تمہیں ایک کوڑا ہلکا سا مارا تھا اُس کا مجھے افسوس ہے یہ اسی بکریاں تمہیں دے رہا ہوں یہ لو اور جو تکلیف تمہیں مجھ سے پہنچی ہے، اسے دل سے نکال دو.حضو کی اس شفقت اور مشفقانہ انداز سے میری پریشانی کو دور کرنے پر میں حیران رہ گیا.) (مسند دارمی باب فی سخا النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بحوالہ حدیقۃ الصالحین نیا ایڈیشن صفحہ ۳۱، ۳۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ بہت بڑا اور بھاری احسان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلامی کی لعنت کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا.اس کا تذکرہ ایک طویل داستان ہے.یہاں پر صرف غلاموں سے حسن سلوک کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند ارشادات عالیہ پیش ہیں جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی ہمیشہ عمل پیرا ر ہے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلاموں لونڈیوں سے ہر قسم کی پابندیاں اور ظلم و ستم ختم کرائے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو غلام رکھنا ہی پسند نہ فرمایا بلکہ تریسٹھ غلام آزاد کئے اس بارے میں حضرت مصلح موعود تحریر فرماتے ہیں: غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کا آپ ہمیشہ ہی وعظ فرماتے رہتے آپ کا یہ ارشاد تھا کہ اگر کسی شخص کے پاس غلام ہو اور وہ اُس کو آزاد کرنے کی توفیق نہ رکھتا ہو تو اگر وہ کسی وقت غصہ میں اُس کو مار بیٹھے یا گالی دے تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ اُس کو آزار کر دے (مسلم جلد ۲ کتاب 70

Page 78

الایمان ) اسی طرح آپ غلاموں کو آزاد کرنے کے متعلق اتنا زور دیتے تھے کہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے جو شخص کسی غلام کو آزاد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس غلام کے ہر عضو کے بدلہ میں اُس کے ہر عضو پر دوزخ کی آگ کو حرام کر دے گا.پھر آپ فرمایا کرتے تھے غلام سے اتنا ہی کام لو جتنا وہ کر سکتا ہے اور جب اُس سے کوئی کام لو تو اُس کے ساتھ مل کر کام کیا کرو تا کہ ذلت محسوس نہ کرے (مسلم جلد ۲ کتاب الایمان ) اور جب سفر کرو تو یا تو اُس کو سواری پر اپنے ساتھ بٹھا ؤ یا اُس کے ساتھ باری مقرر کر کے سواری پر چڑھو اس بارے میں آپ اتنی تاکید فرماتے تھے کہ حضرت ابو ہریرہ جو اسلام لانے کے بعد ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے اور آپ کی اس تعلیم کو اکثر سنتے رہتے تھے وہ کہا کرتے تھے اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں ابوہریرہ کی جان ہے اگر اللہ کے رستہ میں جہاد کا موقع مجھے نہ مل رہا ہوتا اور حج کی توفیق نہ مل رہی ہوتی اور میری بڑھیا ماں زندہ نہ ہوتی جس کی خدمت مجھ پر فرض ہے تو میں خواہش کرتا کہ میں غلامی کی حالت میں مروں کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غلام کے حق میں نہایت ہی نیک با تیں فرمایا کرتے تھے.(مسلم جلد ۲ کتاب الایمان) معرور بن سوید روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابوذرغفاری کو دیکھا کہ جیسے اُن کے کپڑے تھے ویسے ہی اُن کے غلام کے تھے اس کی وجہ پوچھی کہ آپ کے کپڑے اور آپ کے غلام کے کپڑے ایک جیسے کیوں ہیں تو انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کو اس کی ماں کا طعنہ دیا جو لونڈی تھی اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو ایسا شخص ہے جس میں ابھی تک کفر کی باتیں پائی جاتی ہیں غلام کیا ہیں تمہارے بھائی ہیں اور تمہاری طاقت کا ذریعہ ہیں خدا تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت وہ کچھ عرصہ کے لئے تمہارے قبضہ میں آجاتے ہیں پس چاہیئے کہ جس کا بھائی اس کی خدمت تلے آجائے وہ جو کچھ خود کھاتا ہے اُسے کھلائے اور جو کچھ خود پہنتا ہے اسے پہنائے اور تم میں سے کوئی شخص کسی غلام سے ایسا کام نہ لے جس کی اُسے طاقت نہ ہو اور جب تم انہیں کوئی کام بتاؤ تو خود بھی اُن کے ساتھ مل کر کام کیا کرو.(مسلم جلد ۲ کتاب الایمان ) (دیباچه تفسیر القرآن صفحه ۲۵۴) 71

Page 79

روایت ہے کہ مصعب بن عمیر ایک صحابی تھے جنہوں نے ناز و نعمت میں زندگی بسر کی تھی جب مدینہ ہجرت کر کے آئے تو مخالفوں نے سب کچھ چھین لیا اب اُن کے پاس جسم چھپانے کے لئے کافی لباس بھی نہ ہوتا.حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو دیکھتے تو آبدیدہ ہو جاتے.( ترمذی ابواب صفۃ القیامه بحوالہ صفحہ ۲۰۲ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اس واقعہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ کسی انسان کا دکھ میں پڑنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سخت دکھ میں ڈال دیتا تھا اسی لئے تو خدائے ذوالعرش نے بھی فرما یا عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُم کہ تمہارا دکھ میں پڑنا ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شاق گزرتا ہے.صَلُّوْا عَلَيْهِ وَآلِهِ حضرت ابوالدردا بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا.کمزوروں میں مجھے تلاش کر د یعنی میں اُن کے ساتھ ہوں اور ان کی مدد کر کے تم میری رضا حاصل کر سکتے ہو یہ حقیقت ہے کہ کمزوروں اور غریبوں کی وجہ سے ہی تم خدا کی مدد پاتے ہو اور اُس کے حضور سے رزق کے مستحق بنتے ہو.( ترمذی ابواب الجهاد بحوالہ حدیقہ الصالحین نیا ایڈیشن صفحہ ۵۷۱) چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : سچا سخی وہی ہے جسے دولت ملے اور وہ اسے تقسیم کرے.آپ کو خدا تعالیٰ نے ظالم دشمنوں پر فتح دی اور آپ نے ان کو معاف کر دیا.آپ کو اس نے بادشاہت دی اور آپ نے اس بادشاہت میں بھی غربت سے گزارہ کر کے اور سب مال حاجت مندوں میں تقسیم کر کے اس بات کو ثابت کر دیا کہ آپ مغرباء کی خبر گیری کی تعلیم اس لئے نہیں دیتے تھے کہ آپ کے پاس کچھ تھا نہیں بلکہ آپ جو کچھ کہتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے.( ہمار ا رسول ۴ صفحه (۳۹) 72

Page 80

(۷) ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شادیاں کرنا اور اہل بیت سے مشفقانہ سلوک اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ایک تحریر ملاحظہ فرمائیں.آپ فرماتے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اُن کی کئی بیویاں تھیں اور یہ کہ آپ کا یہ فعل نعوذ باللہ من ذالک عیاشی پر مبنی تھا مگر جب ہم اس تعلق کو دیکھتے ہیں جو آپ کی بیویوں کو آپ کے ساتھ تھا تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ آپ کا تعلق ایسا پاکیزہ ایسا بے لوث اور ایسار وحانی تھا کہ کسی ایک بیوی والے مرد کا تعلق بھی اپنی بیوی سے ایسا نہیں ہوتا اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق اپنی بیویوں سے عیاشی کا ہوتا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہئے تھا کہ آپ کی بیویوں کے دل کسی روحانی جذبہ سے متاثر نہ ہوتے مگر آپ کی بیویوں کے دل میں آپ کی جو محبت تھی اور آپ سے جو نیک اثر اُنہوں نے لیا تھا وہ بہت سے ایسے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی بیویوں کے متعلق تاریخ سے ثابت ہیں....“ 66 (دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۲۰۵) قرآن حکیم میں سورہ احزاب کی آیات کریمہ ۳۰،۲۹ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: 73

Page 81

”اے نبی اپنی بیویوں سے کہ کہ اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دنیوی سامان دے دیتا ہوں اور تم کو نیک طریق سے رخصت کر دیتا ہوں.اور اگر تم اللہ اور اُس کے رسول اور اُخروی زندگی کے گھر کو چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ نے تم میں سے پوری طرح اسلام پر قائم رہنے والیوں کے لئے بہت بڑا انعام تجویز کیا ہے.“ اس سوال کے جواب میں امہات المومنین کا یہی جواب تھا کہ انہیں دنیوی مال و منال سے سروکار نہیں بلکہ وہ اپنے پیارے خدا اور اس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور رضا کے تحت اپنی زندگیاں بسر کرنا چاہتی ہیں اور اُنہوں نے صبر اور استقلال سے اسی مؤقف پر اپنی زندگیاں گزار ہیں.شادی کے ذریعہ سے انسان بنی نوع کی ہمدردی کی بنیاد ڈالتا ہے.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: خَيْرُكُمْ خَيْرُ كُمْ لِأَهْلِهِ یعنی تم میں سے سب سے زیادہ بنی نوع انسان کے ساتھ بھلائی کرنے والا وہی ہو سکتا ہے کہ پہلے اپنی بیوی کے ساتھ بھلائی کرے.مگر جو شخص اپنی بیوی کے ساتھ ظلم اور شرارت کا برتاؤ رکھتا ہے ممکن نہیں کہ وہ دوسروں کے ساتھ بھی بھلائی کر سکے کیونکہ خدا نے آدم کو پیدا کر کے سب سے پہلے آدم کی محبت کا مصداق اُس کی بیوی کو ہی بنایا ہے پس جو شخص اپنی بیوی سے محبت نہیں کرتا یا اُس کی خود بیوی ہی نہیں.وہ کامل انسان ہونے کے مرتبہ سے گرا ہوا ہے اور شفاعت کی دو شرطوں میں سے ایک شرط اُس میں مفقود ہے اس لئے اگر عصمت اُس میں پائی بھی جائے تب بھی وہ شفاعت کرنے کے لائق نہیں لیکن جو شخص کوئی بیوی نکاح میں لاتا ہے وہ اپنے لئے بنی نوع کی ہمدردی کی بنیاد ڈالتا ہے کیونکہ ایک بیوی بہت سے رشتوں کا موجب ہو جاتی ہے اور بچے پیدا ہوتے ہیں اُن کی بیویاں آتی ہیں اور بچوں کی نانیاں اور بچوں کے ماموں وغیرہ ہوتے ہیں اور اس طرح پر ایسا شخص خواہ نخواہ محبت اور ہمدردی کا عادی ہو جاتا ہے اور اس کی اس عادت کا دائرہ وسیع ہو کر سب کو اپنی ہمدردی سے حصہ دیتا ہے.ریویو آف ریلیجنز اُردو جلد اول صفحه ۱۷۵ تا ۱۷۷ بحوالہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی اپنی تحیر روں کی رو سے صفحہ ۴۲۳) 74

Page 82

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی شادیاں کیں.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں عظیم تھے اور باہر بھی عظیم تھے.اس معاملہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پاکیزہ کردار اپنی معراج کو پہنچا ہوا ہے کسی دوسرے نبی کا ایسا مثالی کردار ہمارے سامنے نہیں ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی لا انتہادینی اور ملی وقومی مصروفیات کے باوجودا اپنی ازواج مطہرات سے جس طرح شفقت، محبت اور پیار کا سلوک کیا اور اُن کی روحانی تربیت فرما کر انہیں روحانیت کے بام عروج پر پہنچایا وہ ہر طرح سے قابل صد ستائش اور تحسین کے لائق ہے.اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پاکیزہ کردار ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کے تمام امور میں ازواج مطہرات سے مشورہ لیتے اور اپنے مفید مشوروں سے گھر والوں کو مستفیض فرماتے : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کا کام کاج کرنے میں بھی عارنہ سمجھتے اور گھر کے کام میں بیویوں کا ہاتھ بٹاتے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُ كُم لِأَهْلِيْ (سنن ابن ماجہ کتاب النکاح) کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل سے بہتر سلوک کرے اور میں تم سب سے بہتر اپنے اہل کے ساتھ سلوک کرتا ہوں..پس شادیاں کر کے اپنے بہترین اخلاق ہمدردی اور موانست کا اعلیٰ نمونہ ہمارے لئے قائم فرما دیا.خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت کاملہ سے اسی پاک مقصد کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چار سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی تاکہ: ا.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ حسنہ قائم ہو جس کی تقلید کر کے دنیا قیامت تک مستفیض ہوتی رہے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر حرکت وسکون کا ذکر پایا جاتا ہے جس کو پڑھ کر اور اس پر عمل کر کے ہم اپنی دنیا اور عاقبت سنوار سکتے ہیں.۲ - دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی اپنی پاک سیرت اور اعلیٰ اخلاق کا نمونہ قائم فرما جائیں جو اُس زمانہ کے لوگوں کے لئے بھی اُسوہ حسنہ ہو اور آنے والی نسلوں کے لئے قابل تقلید مثالیں موجود ہوں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسی لئے پیارے احکام بیان فرماتے ہوئے فرمایا: إِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهَّرَكُمْ 75

Page 83

تَطْهِيرًا ( الاحزاب : ۳۴ تفسیر صغیر صفحه ۶۹۳) ترجمہ: اے اہل بیت! اللہ تم میں سے ہر قسم کی گندگی دور کرنا اور تم کو کامل طور پر پاک کرنا چاہتا ہے.نیز آیات کریمہ نمبر ۳۲ اور ۳۵ میں اہل بیت کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرماں برداری اور اللہ تعالیٰ کی آیات اور حکمت کی باتوں پر عمل کرنے اور اُسے یادر کھنے کا حکم دیا.یعنی اس پاکیزہ اور پر حکمت کلام الہی کو دنیا میں بھی پہنچاؤ پس آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادیوں کا یہی سر اور بھید ہے اور یہی حکمت پنہاں ہے کہ وہ خود اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کی پوری پوری فرماں بردار بن کر اور کلام الہی کوحرز جان بنا کر دنیا کے لئے اعلیٰ نمونہ بنیں.چنانچہ تاریخ شاہد ہے اور ہزاروں احادیث مبارکہ سے ازواج مطہرات کی سیرت کے واقعات ملتے ہیں کہ انہوں نے نہایت ہی پاکیزہ اور شاندارا خلاق فاضلہ کے نمونے قائم کئے مثلاً اُن کی محبت الہی اور حب رسول ، انقطاع الی اللہ، نیکی ، تقویٰ، پرہیز گاری ،سخاوت ،صبر وقناعت اور شفقت علی خلق اللہ وغیرہ.اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایت ازلی سے ازواج مطہرات کو مومنوں کی مائیں قرار دیا.اس امر سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باذنِ الہی شادیاں کرنا ایک مقبول بارگاہ الہی فعل تھا.دونوں جانب سے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فعل عورت کی دنیا میں عزت قائم کرنے کا موجب بنے اور بشریت کے تقاضے پورے ہوں کیونکہ مرد اور عورت دونوں ہی بشر اور خدا تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور جس طرح مرد اپنے لئے عزت شرف کا مقام چاہتا ہے اسی طرح عورت کو بھی عزت اور شرف کا درجہ دیا جائے اور جس طرح مرد اپنے لئے احترام اور محبت چاہتا ہے اُسی طرح عورت کو بھی احترام قدر اور محبت کی نگاہ سے دیکھا جائے.اسی لئے احسن الخالقین نے فرما یا : وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً- (الروم : ۲۲) کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان پیار اور رحم کارشتہ پیدا کیا ہے.پس اُمہات المومنین نے روحانیت میں ترقی کر کے ایک عظیم الشان مقام پیدا کیا جو خاص طور پر ہر مسلمان عورت کے لئے بہترین اُسوہ ہے کیونکہ امہات المومنین نے گھر یلو زندگی کو بھی جنتی بنایا اور ایک پاک معاشرہ قائم کر دکھایا اور خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ 76

Page 84

والہ وسلم کی فرماں برداری کا بھی بہترین نمونہ قائم کر دیا.خدا تعالیٰ کی محبت کا ذکر وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدَ حَبالِلہ.(البقرہ:۱۶۶) میں پایا جاتا ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا ذکر الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى (الشوری: ۲۴) میں ملتا ہے.یہ دو بڑے ذرائع ہیں جن سے رضائے الہی کی جنت حاصل ہوتی ہے اور ہمارا سر فخر سے بہت اونچا ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ امہات المومنین نے ان دونوں ذرائع کے حصول میں بہترین نمونہ پیش کیا.ام المومنین حضرت عائشہ نے تو قلیل عرصہ کی صحبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایسا بلند روحانی مقام حاصل کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نصف دین عائشہ سے سیکھو.اُم المومنین حضرت خدیجہ نے تجارت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاملات سے روز اول سے ہی آپ کو امین اور صدیق پا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق فاضلہ اور شمائلہ حسنہ کو پرکھ لیا تھا.اسی لئے انہوں نے خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نکاح کا پیغام بھجوایا.اول وحی کے نزول پر آپ کے اخلاق کریمانہ کی بہترین تعریف و توصیف بیان کی جو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے اور شادی کے بعد جان و دل سے اپنے عظیم المرتبت شوہر کی خدمت اور اطاعت وفرماں برداری کا بہترین نمونہ چھوڑا.حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غار حرا میں کھانا حضرت خدیجہ خود پہنچا تیں تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سکون سے اپنے پیارے رب کریم کی یاد میں محو رہ سکیں بخاری شریف میں روایت ہے کہ ایک دفعہ جبرائیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا خدیجہ برتن میں کچھ لا رہی ہیں اُن کو خدا تعالیٰ کا اور میرا سلام پہنچادیں سبحان اللہ حضرت خدیجہ نے محبت الہی میں اس قدر ترقی کی کہ خدائے ذوالعرش کی طرف سے اُنہیں سلام کا تحفہ پہنچایا گیا.الغرض حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادیاں دنیا کے لئے برکتوں اور رحمتوں کے سامان فراہم کرگئیں.اس بارہ میں حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی رُوح پرور تحریر کے اقتباسات ملاحظہ ہوں.حضور فرماتے ہیں : 77

Page 85

اگر ہمارے سید و مولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیویاں نہ کرتے تو ہمیں کیونکر سمجھ آسکتا کہ خدا کی راہ میں جاں فشانی کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے بے تعلق تھے کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بھی بیوی نہیں تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی بیویاں اپنے نکاح میں لا کر امتحانوں کے موقعہ پر یہ ثابت کر دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی لذات سے کچھ بھی غرض نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی مجردانہ زندگی ہے کہ کوئی چیز آپ کو خدا سے روک نہیں سکتی.تاریخ دان لوگ جانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں گیارہ لڑکے پیدا ہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہو گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک لڑکے کی وفات کے وقت یہی کہا کہ مجھے اس سے کچھ تعلق نہیں.میں خدا کا ہوں اور خدا کی طرف جاؤں گا ہر ایک دفعہ اولاد کے مرنے میں جولخت جگر ہوتے ہیں منہ سے نکلتا تھا کہ اے خدا ہر ایک چیز پر میں تجھے مقدم رکھتا ہوں مجھے اس اولاد سے کچھ تعلق نہیں.کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بالکل دنیا کی خواہشوں اور شہوات سے بے تعلق تھے اور خدا کی راہ میں ہر ایک وقت اپنی جان ہتھیلی پر رکھتے تھے.....اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی بجز حضرت عائشہ کے سب سن رسیدہ تھیں بعض کی عمر ۲۰ برس تک پہنچ چکی تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعد ازواج سے یہی اہم اور مقدم مقصود تھا کہ عورتوں میں مقاصد دین شائع کئے جائیں اور اپنی صحبت میں رکھ کر اُن کو علم دین سکھایا جائے تا وہ دوسری عورتوں کو اپنے نمونہ اور تعلیم سے ہدایت دے سکیں.( بحوالہ شان محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حصہ اول صفحہ نمبر ۱۳۵ تا ۱۳۷) کسی نے کیا خوب کہا ہے: چناں زندگی کن که باصد عیال ندا دی بدل غیر آں ذوالجلال ترجمه: که سو عیال کے ہوتے ہوئے اپنی زندگی کو اس طرح بسر کر کہ تیرا دل صرف خداوند ذوالجلال والاکرام کے ذکر میں ہی لگا ہو اور تیرا ملجا و ماویٰ صرف خدائے ذوالجلال ہی ہو.سبحان 78

Page 86

اللہ یہ شعر ہمارے پیارے آقا محبوب خدا خاتم النبین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات با برکات پر صد درصد صادق اور پورا آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطلوب و مقصود و مطاع صرف خدائے ذوالجلال کی ذات بابرکات ہی تھی جیسا کہ فرمایا گیا: قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ.(الانعام : ۱۶۳) یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو کہہ دے کہ میں صرف خدائے واحد کا پرستار ہوں کسی دوسری چیز سے مجھے کوئی تعلق نہیں میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا صرف اس خالق و مالک ربّ العالمین کے لئے ہی ہے.سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ 79

Page 87

(۸) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رشتہ داروں سے حسن سلوک 1- بیٹیوں سے حسن سلوک: آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلوک اس بارے میں بھی قابل تقلید تھا.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ کی شادی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عم زاد حضرت علی سے ہوئی تھی حضرت فاطمہ سے پیار کا یہ حال تھا کہ حضرت فاطمہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھ کر بیٹی کا استقبال کرتے اُسے خوش آمدید کہتے اُس کی پیشانی پر بوسہ دیتے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں اپنی لخت جگر فاطمہ کے گھر جاتے اور سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے جاتے.حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی زینب حضرت فاطمہ سے بڑی تھیں مکہ سے ہجرت کے وقت دشمنوں نے انہیں سواری سے گرا دیا تھا اس چوٹ کے اثر سے وہ بیمار رہنے لگیں چھ سال بیمار 80

Page 88

رہنے کے بعد وہ خدا کو پیاری ہو گئیں.حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں خود لحد میں اُتارا.روئے مبارک پر غم کے آثار ہو ید ا تھے فرمایا یہ بیچاری اکثر بیمار رہتی تھیں میں نے اللہ تعالی سے اس کے لئے بہت دُعا کی ہے.ب نواسوں سے حسن سلوک آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی عزیز بیٹی حضرت فاطمہ کے بیٹوں حضرت حسن اور حضرت امام حسین سے بہت پیار فرماتے انہیں گود میں اٹھاتے سینہ سے لگاتے اُن کا منہ چومتے عجیب انداز میں اُن سے لاڈ و پیار کرتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسین علیہ السلام کو پکڑا ہوا ہے اس کے پاؤں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں پر ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے تھے.آ جاؤ! چڑھو! اوپر چڑھو ! یہاں تک کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے پاؤں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ پر آگئے پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسین کو کہا منہ کھولو.حضرت امام حسین علیہ السلام نے منہ کھولا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منہ چوم لیا اور کہا الہی میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ.ج- منہ بولے بیٹے سے پیار ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ بولے بیٹے حضرت زید کے بیٹے اُسامہ کے چوٹ لگ گئی.حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اُس کا خون صاف کرتے تھے اور ماں کی طرح پیار کرتے ہوئے فرماتے تھے اگر اُسامہ لڑکی ہوتی تو میں اُسے زیور پہنا تا.“ ( حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم از مولانا غلام باری سیف صفحه ۲۵۲-۲۵۵) رشتے داروں سے حسن سلوک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتے داروں سے حسن سلوک کے عنوان کے تحت حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں:....رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بزرگ تو آپ کے بچپن میں ہی 81

Page 89

فوت ہو گئے تھے، بیویوں کے بزرگ موجود تھے اور آپ ہمیشہ ان کا ادب کرتے تھے جب فتح مکہ کے موقعہ پر آپ ایک فاتح جرنیل کے طور پر مکہ میں داخل ہوئے تو حضرت ابوبکر اپنے باپ کو آپ کی ملاقات کے لئے لائے اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر سے کہا آپ نے ان کو کیوں تکلیف دی میں خود اُن کے پاس حاضر ہوتا.(سیرۃ حلبیہ جلد ۳ صفحہ ۹۹)........ایک شخص نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ یا رسول اللہ میرے رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں اُن سے نیک سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بدسلوکی کرتے ہیں میں اُن سے احسان کرتا ہوں اور وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں میں اُن کے ساتھ محبت سے پیش آتا ہوں.وہ مجھ سے ترش روئی سے پیش آتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ بات ہے تو پھر تو تمہاری خوش قسمتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی مددتمہیں ہمیشہ حاصل رہے گی.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۲۵۹) رشتہ دار تو الگ رہے آپ اپنے رشتہ داروں کے رشتہ داروں اور اُن کے دوستوں تک کا بھی بہت خیال رکھتے تھے جب کبھی آپ قربانی کرتے تو آپ محضرت خدیجہ کی سہیلیوں کی طرف ضرور گوشت بھجواتے.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحه ۲۶۰) حضرت حلیمہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضاعی والدہ تھیں اُن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت انس تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں عزت و توقیر کی نظر سے دیکھتے تھے اور ماں کا درجہ عطا کرتے تھے جب ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلیمہ کو آتے دیکھا تو اپنی چادر کندھوں سے اُتار کر نیچے بچھا دی اور اس پر حلیمہ سعدیہ سے بیٹھنے کی درخواست کی......غزوہ حنین میں حلیمہ کی قوم کے افراد قید ہوئے اور مجبور ہو کر حلیمہ کے بچوں کے پاس گئے کہ جاؤ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سفارش کرو.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیر تک انتظار کرتے رہے تھے آخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجبور ہو کر فوجیوں میں مال غنیمت تقسیم کر دیا صرف غلام رہنے دیئے کہ حلیمہ کی ایک بچی آپ صلی اللہ علیہ 82

Page 90

وآلہ وسلم کے پاس سفارش لے کر آگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”میں نے تمہارا بہت انتظار کیا آخر تنگ آکر مال تقسیم کر دیا اب تم خود ہی پسند کر لو آیا میں مال واپس لے کر تم کو دوں یا قیدی چاہئیں“.اُس نے قوم سے مشورہ کر کے جواب دیا کہ ہمیں قیدی چاہئیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لشکر اسلام کے سامنے یہ معاملہ رکھا اُنہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم خوشی سے اپنے اپنے قیدی آزاد کرنے کے لئے تیار ہیں.چنانچہ اسی وقت قبیلہ ہوازن کے چھ ہزار قیدی رہا کر دیئے گئے.(سیرة الحلبیہ جلد ۳ بحوالہ تخلیق الاول از حفیظ الرحمن صفحه ۱۶-۱۷) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ لوگوں میں سے میرے حسن سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے آپ نے فرمایا تیری ماں پھر اُسنے پوچھا پھر کون؟ آپ نے فرمایا ” تیری ماں اس نے پوچھا پھر کون؟ آپ نے فرمایا ” تیری ماں“ اس نے چوتھی بار پوچھا پھر کون؟ آپ نے فرمایا ”ماں کے بعد تیرا باپ تیرے حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے پھر درجہ بدرجہ قریبی رشتہ دار.( بخاری کتاب الادب بحوالہ حدیقۃ الصالحین نیا ایڈیشن صفحہ ۳۴۶،۳۴۵) ه-عورتوں سے حسن سلوک عورتوں کے حقوق ادا کرنے اور اُن سے حسن سلوک کرنے کے بارے میں دنیا کے عظیم المرتبت انسان رحمة للعلمين حبیب خدا، خاتم الانبیاء، سرور کائنات ، فخر موجودات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احسانات عظیمہ کا تذکرہ کرنے کے لئے دفتر درکار ہیں.قرآن پاک کے متبرک اوراق اور احادیث مبارکہ ان مضامین پر شرح وبسط سے روشنی ڈالتے ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صنف نازک سے انتہائی پیار و محبت ، مروت اور احسان کی پیاری تعلیم دی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر انسان کو یاد کرایا کہ وہ عورت کے پیٹ سے ہی پیدا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی مخلوق ہونے کے لحاظ سے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں دونوں ہی جنس واحد کی پیداوار ہیں 83

Page 91

اور دونوں کے جذبات یکساں ہیں.فتح مکہ کے موقعہ پر جب ایک کا فر کا نپتا ہوا آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ' گھبراؤ مت میں قریش کی اس عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی.“ لباب الاخیار صفحہ ۹۸ بحوالہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفحہ ۲۱۳) اس فقرہ میں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرْ مِثْلُكُمْ کے تحت اپنی عاجزی اور انکساری کا اظہار فرمایا وہاں عورت کی عزت و تکریم کو بھی قائم فرما دیا کہ وہ ماں ہونے کے لحاظ سے بلند مرتبہ رکھتی ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل وعیال سے جس بہترین سلوک کا اسوہ حسنہ ہمارے لئے قائم فرمایا اُس کے بارے میں پہلے کچھ تذکرہ کیا جا چکا ہے.اب عورت کے متعلق بطور ماں، بیٹی، بیوی جن زریں اصولوں سے امت مسلمہ کوسرفراز فرمایا اور عورت کی عزت نفس کو قائم فرما یا اس کے بارے میں چند باتیں عرض خدمت ہیں.یہاں پر یہ بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ موجودہ زمانہ میں اسلام کی پاکیزہ تعلیمات کونہ سمجھنے کی وجہ سے جوشور بر پا ہے کہ عورت کو برابری کے حقوق دیئے جائیں وہ سراسر نا نہی ہے اسلام نے تو آج سے چودہ سو سال قبل عورت کے ہر لحاظ سے حقوق کی تعیین کر دی اور کوئی معاملہ ایسا نہیں چھوڑا جس میں تفصیل کے ساتھ عورت کے حقوق قائم نہ کر دیئے ہوں صرف تدبر اور تفکر کی ضرورت ہے.و عورت کے حقوق بطور والدہ قرآن حکیم نے والدین کے متعلق حکم فرمایا : ۱ - وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا کہ ماں اور باپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں.(بنی اسرائیل : ۲۴ تفسیر صغیر صفحه ۴۵۶) ۲ - وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ ہم نے انسان کو تاکید کی کہ وہ والدہ اور والد کے ساتھ حسن سلوک کیا کریں.(لقمان: ۱۵ تفسیر صغیر صفحہ ۶۷۵).وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسَانًا.ہم نے انسان کو اپنے والدین ( یعنی ماں اور 84

Page 92

باپ ) سے احسان کرنے کی تعلیم دی.(الاحقاف ۱۶ تفسیر صغیر صفحہ ۸۳۵) ۴- وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ اور انسان کو حکم ہے کہ رحم کے جزبات کے ماتحت ان کے سامنے عاجزانہ رویہ اختیار کر.بنی اسرائیل: ۲۵ تفسیر صغیر صفحه ۴۵۶) ه فَلَا تَقُلْ لَهُمَا افَ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَولًا كَرِيمًا.پس ان دونوں کو یعنی والدہ اور والد کو اُف تک نہ کہیں اور نہ انہیں جھڑ کیں بلکہ والدین سے ہمیشہ نرمی سے بات کیا کریں.( بنی اسرائیل: ۲۴ تفسیر صغیر صفحه ۴۵۶) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی قبلاً پیش کر چکا ہوں کہ ایک صحابی کے سوال پر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار نیک کام کا جوارشادفرمایا وہ والدہ کی خدمت کرنے کا فرمایا اور چوتھی بار والد کی خدمت کرنے کا اور پھر درجہ بدرجہ رشتہ داروں کی خدمت کرنے کا ارشاد فرمایا: اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو جہاں عورت سے حسن سلوک کا ارشاد فرمایا وہاں یہ بھی فرما یا الْجَنَّةُ تَحْتَ اَقْدَامِ أَمَهْتِكُمْ کہ اے مسلمانو! جنت تمہاری ماں کے قدموں کے نیچے ہے.جس کا یہ مطلب ہے کہ ماں کی عزت قدر اور خدمت کر نا تم پر فرض ہے اگر یہ نیک کام کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت کو پالو گے اگر والدین کی خدمت نہیں کرو گے اور (ماسوا دین کے معاملے کے ) اُن کے احکام کی پیروی نہیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لو گے.اس فرمان میں عورت کے لئے بھی ایک اور پہلو کا شاندار طریقہ سے اظہار فرما دیا گیا کہ اولادکو جنت میں پہنچانے کے لئے اُن کی بہترین تعلیم تربیت ماں کا فریضہ ہے جب وہ اولاد کی صحیح تربیت کرے گی اور وہ نیک کام انجام دیں تو رضائے باری تعالیٰ کی جنت کو حاصل کر سکیں گے.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والدین تو بچپن ہی میں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس تعلیم پر ایسا بہترین عمل کر کے دکھا یا جس کا بار بار ذکر احادیث مبارکہ میں آتا ہے.حضرت اویس قرنی کے متعلق آتا ہے 85

Page 93

کہ وہ اپنی والدہ کی خدمت میں مصروف ہونے کی وجہ سے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کو نہ آ سکے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اویس قرنی کو سلام کا تحفہ بھجوایا.ذ- عورت کے حقوق بطور بیٹی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ تک عربوں میں یہ رسم چلی آرہی تھی کہ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جاہلیت کی اس رسم کو گناہ عظیم اور گناہ کبیرہ انسانیت سوز ظلم قرار دے کر اس رسم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے کیا ہی خوب فرمایا: رکھ پیش نظر وہ وقت بہن جب زندہ گاڑی جاتی تھی گھر کی دیوار میں روتی تھیں جب دنیا میں تو آتی تھی ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتلایا کہ زمانہ جاہلیت میں جب وہ کچھ دنوں کے لئے گھر سے گیا ہوا تھا تو اس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی اور اُس کی ماں نے اُسے کچھ سال چھپائے رکھا اور بڑے پیار و محبت سے پالا پوسا.اور ایک دفعہ اُسے بناؤ سنگھار کر کے والد کو دکھایا.اُس نے پھر بھی رحم نہ کیا اور اُس کو جنگل میں لے جا کر زندہ درگور کر دیا.بچی ابا ابا پکارتی رہی.جب اُس نے یہ واقعہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو فرط غم سے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آنسو گرنے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنے روئے کہ دامن تر ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ” ظالم تو نے کس طرح یہ فعل کیا جب کہ وہ تجھے پکارتی رہی ہائے ابا کیا کر رہے ہو!“.(سنن دارمی صفحہ ا بحوالہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفحہ ۱۹۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض احادیث مبارکہ کی رو سے دو اور بعض میں تین بیٹیوں کی صحیح پرورش اور تعلیم وتربیت کرنے پر جنت کا مستحق قرار دیا.اس سلسلہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں: ”حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ ایک غریب عورت میرے پاس آئی اور اُس کے 86

Page 94

ساتھ اُس کی دو بیٹیاں بھی تھیں اس وقت ہمارے گھر میں سوائے ایک کھجور کے کچھ نہ تھا میں نے وہی کھجور اُس کو دے دی اُس نے وہ کھجور آدھی آدھی کر کے دونوں لڑکیوں کو کھلا دی اور پھر اُٹھ کر چلی گئی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں داخل ہوئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعہ سنایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”جس غریب کے گھر میں بیٹیاں ہوں اور وہ اُن کیساتھ حسن سلوک کر لے خدا تعالیٰ اُسے قیامت کے دن عذاب دوزخ سے بچائے گا.“ پھر فرما یا اللہ تعالی اس عورت کو اس کے اس فعل کی وجہ سے جنت کا مستحق بنائے گا.“ (مسلم جلد ۲ کتاب الفصائل بحوالہ دیباچ تفسیر القرآن صفحه ۲۵۲،۲۵۱) قرآن حکیم میں بیٹی کو بھی وراثت میں حصہ دار قرار دے کر اس کی عزت وتوقیر میں اضافہ کیا گیا ہے.وَأَخِرُ دَعْوَنَا آنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ عربی قصیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند منتخب اشعار يَا عَيْنَ فَيْضِ وَالْعِرْفَانِ اے اللہ تعالیٰ کے فیض اور عرفان کے چشمے يَسْعَى إِلَيْكَ الْخَلْقُ كَالظَّمْأَنِ لوگ سخت پیاسوں کی طرح تیری طرف دوڑتے ہیں يَا بَحْرَ فَضْلِ الْمُنْعِم الْمَثَانِ اے انعام دینے اور احسان فرمانے والے خدا کے فضل کے سمندر بِالْكِيْزَانِ تَهْوِى الیگ الزُّمَرُ لوگ فوج در فوج کو زے لئے تیری طرف تیزی سے آ رہے ہیں يَا شَمْسَ مُلْكِ الْحُسْنِ وَالْإِحْسَانِ اے ملک حسن و احسان کے آفتاب 87

Page 95

نَوَّرْتَ وَجْهَ الْبَر وَالْعُمْرَانِ تو نے بیابانوں، صحراؤں اور آبادیوں کو منور کردیا ہے قَوْمَ رَئَ وَکَ وَامَّةً قَدْ أُخْبِرَتْ ایک قوم تیرے دیدار سے مشرف ہوئی اور ایک جماعت نے ذَلِكَ الْبَدْرِ الَّذِي أَصْبَانِي اس بدر کی خبر سنی جس نے مجھے اپنا فریفتہ اور شیدا بنا لیا ہے مِنْ يَامَنُ يَا وہ گا غدا فِي نوره وَضِيَائِهِ جو اپنے نور اور روشنی میں لتَيَرَيْنِ وَنَوَّرَ الْمَلَوَانِ مہر و ماہ کی طرح ہو گیا ہے اور اپنے نور سے رات دن کو منور کر دیا ہے بَدْرَنَا يا آيَة الرَّحْمَنِ اے ہمارے چودھویں کے چاند اے خدائے رحمن کے نشان الشَّجَعَانِ أهْدَى الْهُدَاةِ وَأَشْجَعَ اے سب ہادیوں سے بڑے ہادی اور سب بہادروں سے بڑے بہادر إِنِّي أَرَى فِي وَجْهِكَ الْمُتَهَدِّلِ میں تیرے خنداں و درخشاں چہرے میں ایک ایسی يَفُوْقُ شَمَائِلَ الْإِنْسَانِ شَأْنًا شان دیکھتا ہوں جو انسانی شمائل پر فوقیت رکھتی ہے أَحْيَيْتَ أَمْوَاتَ الْقُرُونِ بِجَلْوَةٍ تو نے صدیوں کے مردے ایک جلوہ سے زندہ کر دیئے يُمَاثِلُكَ بِهذا مَاذَا الشَّانِ کون ہے جو اس شان میں تیرا نظیر ہو سکے 88

Page 96

أرْسِلْتَ مِنْ رَبِّ تو محسن کریم کی طرف في الْفِتْنَةِ الصَّمَّائ مُحْسِنِ وَالطَّعْيَانِ خوفناک فتنے اور طغیانی کے وقت بھیجا گیا يَا لَلْفَتَى مَا حُسْنُه وَجَمَالُهُ واہ کیا ہی صاحب حسن و جمال مرد ہے يُصْبِى الْقَلْبَ كَالرَّيْحَانِ رَيَّاهُ جس کی خوشبو دل کو ریحان کی طرح شیفتہ کرلیتی ہے وَجُهُ الْمُهَيْمِنِ ظَاهِرُ فِي وَجْهه اللہ تعالیٰ کا چہرہ اس کے چہرے میں نظر آتا ہے وَشُئُوْنُهُ لَمَعَتْ بهذا الشّان اور اس کے تمام حالات اسی شان کے ساتھ چمکتے ہیں يُحَبُّ وَيَسْتَحِقُ فَلذَا جَمَالُهُ اسی لئے تو وہ محبوب ہے اور اس کا جمال اس لائق ہے شَغَفًا به مِنْ زُمْرَةِ الْأَخْدَانِ کہ دوستوں کی جماعت کو چھوڑ کر اس سے دل بستگی پیدا کی جائے سُجُخ كَرِيمْ بَاذِلْخِلُ التقى وہ خوش خلق، معزز، صاحب جودو عطا، تقویٰ دوست ہے خِرْقُ وَفَاقَ طَوَائِفَ کریم اور سخی اور سب جوانوں فائق فَاقَ الْوَرى پر بِكَمَالِه الْفِتْيَانِ ہے وَجَمَالِهِ وہ سب مخلوقات سے اپنے کمال اور اپنے جمال اور 89

Page 97

وَجَلَالِهِ وَجَنَانِهِ الرَّيَّانِ اپنے جلال اور اپنے شاداب دل کے ساتھ فوقیت لے گیا ہے لَاشَكَ أَنَّ مُحَمَّدًا خَيْرًا لُوَرى بیشک محمد ﷺ بہتر مخلوقات اور صاحب کرم و عطا اور رِيقُ الْكِرَامِ وَنُخْبَةً الْأَغْيَانِ شرفاء لوگوں کی روح اور ان کی قوت اور چیدہ اعیان ہیں تَمَّتْ عَلَيْهِ صِفَاتُ كُلِّ مَزِيَّةٍ ہر قسم کی فضیلت کی صفات آپ میں علی الوجہ الا تم موجود ہیں خُتِمَتْ به نَعْمَائُ كُل زَمَانٍ اور ہر زمانے کی نعمت آپ کی ذات پر ختم ہے والله ان مُحَمَّدًا كَرِدَافَةً اللہ تعالیٰ کی قسم یقینا محمد ﷺ جانشین کی مانند ہیں وَبِهِ الْوَصَوْلُ بشدة السُّلْطَانِ اور آپ ہی کے ذریعہ دربار شاہی تک رسائی ہوسکتی هُوَ ہے فَخْرُ كُلِّ مُطَهَّرٍ وَمُقَدَّسٍ آپ ہر مطہر و مقدس کے لئے باعث فخر ہیں يُبَاهِي الْعَسْكَرُ وبه الرُّوْحَانِي ور روحانی لشکر آپ ہی کے وجود باجود پر مفتخر و نازاں ہے اور هُوَ خير كُل مُقَرَّبِ آپ ہر پہلے مقرب وَالْفَضْلُ بِالْخَيْرَاتِ مُتَقَدِّم افضل ہیں لَا بِزَمَانِ اور فضیلت کار ہائے خیر پر موقوف ہے نہ کہ زمانہ پر 90

Page 98

الْفَيْتُهُ بَحْرَ الْحَقَائِقِ وَالْهُدَى میں نے آپ کو حقائق اور ہدایت کا سمندر پایا كَالقُرَفِي وَرَأَيْتُهُ اللَّمْعَانِ اور آب و تاب میں آپ کوموتی کی مانند دیکھا يَارَبَ صَلِّ عَلَى نَبِیکَ دَائِمًا اے میرے رب اپنے نبی ہمیشہ درود بھیج ! فِي پر هذه الدنيا وَبَعْثٍ ثَانِي اس دنیا میں بھی اور دوسرے عالم میں بھی! دَرگ آفرین اے أَنْتَ يَا اِمَامَ مقتدائے السَّبُوْقُ وَسَيِّدُ الْعَالم عالم ! الشُّجَعَانِ تو سب سے آگے بڑھا ہوا اور تمام بہادروں کا سردار ہے أنْظُرُ الى بِرَحْمَةِ وَتَحَتُنٍ مجھ پر رحم سيدى أَنَا شفقت کی نظر کرنا أَحْقَرُ الْغِلْمَانِ اے میرے آقا میں تیرا ایک ناچیز غلام ہوں انگ يَاحِتٍ قد دَخَلْتَ مَحَبَّةً اے میرے پیارے تیری محبت میرے خون، میری جان فِي مُهْجَتِي وَمَدَاركي وَجَنَانِي میرے حواس اور میرے دل میں رچ گئی ہے.! مِنْ ذِكْرِ وَجْهِكَ يَا حَدِيْقَةً بَهْجَتِي اے میری مسرت کے باغ تیرے منہ کی یاد سے 91

Page 99

أَخْلُ فِي لَحْظٍ وَلَا فِي أَن میں ایک آن اور ایک لحظہ بھی خالی نہیں ہوتا جِسْمِي يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا میرا جسم شوق غالب کے سبب تیری طرف اڑا جاتا ہے لَيْتَ كَانَتْ قُوَّةً الطيران اے کاش! مجھ میں قوت پرواز ہوتی ! اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ترجمہ: اے اللہ تومحمد صلی اللہ علیہ وسلم پر فضل نازل فرما اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر.جس طرح تو نے فضل کیا ابراہیم پر اور ابراہیم کی آل پر.یقینا تو بہت تعریف والا اور بڑی بزرگی والا ہے.اے اللہ تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر برکت نازل فرما.جس طرح تو نے برکت نازل کی ابراہیم پر اور ابراہیم کی آل پر.یقینا تو بہت تعریف والا اور بڑی بزرگی والا ہے.92

Page 99