Seerat-e-Tayyaba

Seerat-e-Tayyaba

سیرت طیبہ

سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخشاں پہلو
Author: Hazrat Mirza Bashir Ahmad

Language: UR

UR
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کے آخری برسوں 1959، 1960، 1961 اور 1962ء میں جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ’’ذکر حبیب‘‘ کے عنوان کے ماتحت بانی سلسلہ احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی سیرت کے مختلف پہلو اور حضور ؑ کی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات نہایت اچھوتے انداز میں بیان فرمائے تھے، واقعات کے انتخاب میں حضرت مرزا بشیر احمد ؓ کی نظر بہت گہری اور محتاط تھی ۔ عبارت میں سلاست اور روانی کے باوجود حضرت میاں صاحب ؓ کا انداز بیان اس قدر دلکش اور پرشوکت ہوتا تھاکہ سامعین پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی ۔ حضرت میاں صاحب ؓ کی زندگی میں یہ چاروں مقالات سیرت طیبہ، درمنثور، درمکنون اور آئینہ جمال کے نام سے علیحدہ علیحدہ شائع شدہ تھے ۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خواہش کے احترام میں نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ نے ان مقالات کو ایک ساتھ کتابی شکل میں شائع کیا ہے یوں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی سیرت کے درخشاں پہلوؤں کے مطالعہ کے لئے ایک لاجواب کتاب میسر آئی ہے۔


Book Content

Page 1

سیرت طیبہ (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخشاں پہلو ) حضرت مرزا بشیر احمد ایم.اے

Page 2

بسم اللہ الرحمن الرحیم پیش لفظ جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کی سیرت و سوانح پر اب تک بہت سی کتب چھپ چکی ہیں لیکن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کی اس موضوع پر تحریروں کا رنگ منفرد ہے.آپ نے اپنی زندگی کے آخری سالوں ۱۹۵۹، ۱۹۶۱،۱۹۶۰ اور ۱۹۶۲ میں جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ کے موقع پر ذکر حبیب“ کے عنوان کے ماتحت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی سیرت کے مختلف پہلو اور حضور کی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات نہایت اچھوتے انداز میں بیان فرمائے تھے واقعات کے انتخاب میں حضرت میاں صاحب کی نظر بہت گہری اور محتاط تھی.عبارت میں سلاست اور روانی کے باوجود حضرت میاں صاحب کا انداز بیان اس قدر دلکش اور پر شوکت ہو تا تھا کہ سامعین پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی.حضرت میاں صاحب کی زندگی میں یہ چاروں مقالات سیرت طیبہ، درمنثور، در مکنون اور آئینہ جمال کے نام سے علیحدہ علیحدہ چھپ چکی ہیں.حضرت میاں صاحب کی خواہش تھی کہ یہ مجموعی شکل میں بھی چھپ جائیں.اس خواہش کے احترام اور مضمون کی افادیت کے پیش نظر انہیں سیرت طیبہ کے نام سے شائع کیا جاتا ہے.

Page 3

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ما انا قلت میں تقریر کرنے کا عادی نہیں لیکن ۱۹۵۹ ء کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر مجھے ناظر صاحب اصلاح وارشاد کے شدید اصرار پر ذکر حبیب“ کے موضوع پر تقریر کرنی پڑی.حقیقتہ یہ بھی ایک تحریر تھی جو میں نے مقالہ کی صورت میں لکھی اور پھر اسے جلسہ کے اجتماع میں پڑھ کر سنایا.مگر اللہ تعالیٰ نے اس میں برکت ڈالی اور حاضرین نے اسے بہت پسند کیا اور میرے لئے حصول ثواب کا ایک اچھا موقع میسر آ گیا.اس مقالہ میں جواب سیرت طیبہ کے نام سے شائع کیا جا رہا ہے حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کے بلند اخلاق و کردار کے تین نمایاں پہلوؤں پر حضور کے اقوال اور حضور کی زندگی کے واقعات سے روشنی ڈالی گئی ہے.یہ تین پہلو محبت الہی ، عشق رسول اور شفقت علی خلق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں.اور یہی وہ تین بنیادی خلق ہیں جو ایک مسلمان کے دین و مذہب کی جان ہیں.آخر میں ایک مختصر سا ضمیمہ حضرت مسیح موعود کے اہل بیت یعنی حضرت اماں جان

Page 4

کے اخلاق فاضلہ پر بھی شامل کر دیا گیا ہے تاکہ مستورات کے لئے مخصوص دلچسپی اور ہدایت کا موجب ہو.خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه ۱۱ مارچ ۱۹۶۰ء

Page 5

سیرت طیبہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُه وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم سیرت طیبہ ( حضرت مسیح موعود کے خلق عظیم کے تین درخشاں پہلو ) اشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ آج حضرت میرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام مقدس بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات پر نصف صدی سے کچھ اوپر گذرتا ہے.میں اس وقت قریباً پندرہ سال کا تھا اور یہ وقت پورے شعور کا زمانہ نہیں ہوتا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق فاضلہ کے تین خاص پہلو اس قدر نمایاں ہو کر میری آنکھوں کے سامنے پھر رہے ہیں کہ گویا میں اب بھی اپنی ظاہری آنکھوں اور اپنے مادی کانوں سے ان کے بلند و بالا نقوش کو دیکھ رہا اور ان کی دلکش و دل آویز گونج کوسن رہا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلق عظیم کے یہ تین پہلو (اول) محبت الہی اور ( دوم ) عشق رسول اور ( سوم ) شفقت علی خلق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں اور انہی تین پہلوؤں کے چند جستہ جستہ واقعات کے متعلق میں اس جگہ کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.میرا یہ بیان ایک طرح سے گویا دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کا رنگ رکھتا ہے اور کوزہ بھی وہ جو بہت

Page 6

سیرت طیبہ چھوٹا اور بڑی تنگ سی جگہ میں محصور ہے اے.مگر خدا چاہے تو ایک مختصر سے بیان میں ہی غیر معمولی برکت ڈال سکتا ہے.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيمِ - وَهُوَ الْمُسْتَعَانُ فِي كُلِّ حَالٍ وَ حِينٍ لے مجھے اس مقالہ کو صرف پچپن منٹ میں ختم کرنا ہے.

Page 7

محبت الہی (1) سب سے پہلے اور سب سے مقدم محبت الہی کا نمبر آتا ہے کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو خالق و مخلوق کے باہمی رشتہ کا مضبوط ترین پیوند اور فطرت انسانی کا جزو اعظم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اس روحانی پیوند کا جس عجیب و غریب رنگ میں آغاز ہوا اس کا تصور ایک صاحب دل انسان میں وجد کی سی کیفیت پیدا کر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود کا جوانی کا عالم تھا جبکہ انسان کے دل میں دنیوی ترقی اور مادی آرام و آسائش کی خواہش اپنے پورے کمال پر ہوتی ہے اور حضور کے بڑے بھائی صاحب ایک معزز عہدہ پر فائز ہو چکے تھے اور یہ بات بھی چھوٹے بھائی کے دل میں ایک گونہ رشک یا کم از کم نقل کا رجحان پیدا کر دیتی ہے.ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود کے والد صاحب نے علاقہ کے ایک سکھ زمیندار کے ذریعہ جو ہمارے دادا صاحب سے ملنے آیا تھا حضرت مسیح موعود کو کہلا بھیجا کہ آجکل ایک ایسا بڑا افسر برسراقتدار ہے جس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں اس لئے اگر تمہیں نوکری کی خواہش ہو تو میں اس افسر کو کہہ کر تمہیں اچھی ملازمت دلا سکتا ہوں.یہ سکھ زمیندار حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوا اور ہمارے دادا صاحب کا پیغام پہنچا کر تحریک کی کہ یہ ایک

Page 8

بہت عمدہ موقعہ ہے اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے.حضرت مسیح موعود نے اس کے جواب میں بلا توقف فرمایا.حضرت والد صاحب سے عرض کر دو کہ میں ان کی محبت اور شفقت کا ممنون ہوں مگر میری نوکری کی فکر نہ کریں میں نے جہاں نوکر ہونا تھا ہو چکا ہوں“ (سیرۃ المہدی جلد اول صفحه ۴۳) یہ سکھ زمیندار حضرت دادا صاحب کی خدمت میں حیران و پریشان ہو کر واپس آیا اور عرض کیا کہ آپ کے بچے نے تو یہ جواب دیا ہے کہ ” میں نے جہاں نو کر ہونا تھا ہو چکا ہوں“ شاید وہ سکھ زمیندار حضرت مسیح موعود کے اس جواب کو اس وقت اچھی طرح سمجھا بھی نہ ہوگا مگر دادا صاحب کی طبیعت بڑی نکتہ شناس تھی کچھ دیر خاموش رہ کر فرمانے لگے کہ اچھا غلام احمد نے یہ کہا ہے کہ میں نوکر ہو چکا ہوں؟ تو پھر خیر ہے اللہ اسے ضائع نہیں کرے گا “.اور اس کے بعد کبھی کبھی حسرت کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ سچا رستہ تو یہی ہے جو غلام احمد نے اختیار کیا ہے ہم تو دنیا داری میں الجھ کر اپنی عمر میں ضائع کر رہے ہیں.“ مگر باوجود اس کے وہ شفقت پدری اور دنیا کے ظاہری حالات کے ماتحت اکثر فکر مند بھی رہتے تھے کہ میرے بعد اس بچہ کا کیا ہوگا ؟ اور لازمہ بشری کے ماتحت حضرت مسیح موعود کو بھی والد کے قرب وفات کے خیال سے کسی قدر فکر ہوا.لیکن اسلام کا خدا بڑا وفادار اور بڑا قدر شناس آتا ہے.چنانچہ قبل اس کے کہ ہمارے دادا صاحب کی آنکھیں بند ہوں خدا نے اپنے اس نوکر شاہی کو جس نے اپنی جوانی میں اس کا دامن پکڑا تھا اس عظیم الشان الہام کے ذریعے تسلی دی کہ 666- آليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ

Page 9

یعنی اے میرے بندے تو کس فکر میں ہے؟ کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں.“ ( تذکره صفحه ۲۰ مطبوعه ۲۰۰۴ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے اور بعض اوقات قسم کھا کر بیان فرماتے تھے کہ یہ الہام اس شان اور اس جلال کے ساتھ نازل ہوا کہ میرے دل کی گہرائیوں میں ایک فولادی شیخ کی طرح پیوست ہوکر بیٹھ گیا.اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں میری کفالت فرمائی کہ کوئی باپ یا کوئی رشتہ دار یا کوئی دوست کیا کر سکتا تھا؟ اور فرماتے تھے کہ اس کے بعد مجھ پر خدا کے وہ متواتر احسان ہوئے کہ ناممکن ہے کہ میں ان کا شمار کر سکوں.(کتاب البریہ صفحه ۳) (٢) ایک جگہ اس خدائی کفالت کے ایک پہلو کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی شکر کے انداز میں فرماتے ہیں کہ:.لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أُكْلِي وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْأَهَالِي“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۹۶) و یعنی ایک زمانہ تھا کہ دوسروں کے دستر خوان سے بچے ہوئے ٹکڑے میری خوراک ہوا کرتے تھے مگر آج خدا کے فضل سے میرے دستر خوان پر 66 خاندانوں کے خاندان پل رہے ہیں.“

Page 10

یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر مسجد میں یا اپنے چوبارے میں نماز اور روزہ اور تلاوت قرآن مجید اور ذکر الہی میں مصروف رہتے تھے اور اندر سے ہماری تائی صاحبہ جن کے ہاتھ میں سارا انتظام تھا بچا ہوار وکھا سوکھا کھانا آپ کو بھجوایا کرتی تھیں.خدائی نصرت اور خدائی کفالت کے اس عجیب و غریب واقعہ میں ہماری جماعت کے نوجوانوں اور خصوصاً واقف زندگی نوجوانوں کے لئے بھاری سبق ہے کہ اگر وہ بھی پاک وصاف نیست اور توکل علی اللہ کے خالص جذبہ کے ساتھ خدا کے نوکر بنیں گے تو وہ رحیم و کریم آقا جو سب وفاداروں سے بڑھ کر وفادار اور سب قدر شناسوں سے زیادہ قدر شناس ہے وہ انہیں بھی کبھی ضائع نہیں کرے گا.کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص اپنا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں دے اور وہ اس کے ہاتھ کو تھامنے سے انکار کرتے ہوئے اسے بے سہارا چھوڑ دے.حضرت مسیح موعود نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے کیا خوب فرمایا ہے کہ:.تجھے دنیا میں ہے کس نے پکارا کہ پھر خالی گیا قسمت کا مارا تو پھر ہے کس قدر اس کو سہارا کہ جس کا توہی ہے سب سے پیارا (بشیر احمد، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین مطبوعہ ۱۹۰۱ء در ثمین صفحه ۵۲) (۳) غالباً یہ بھی اسی سکھ زمیندار کا بیان ہے جس نے حضرت مسیح موعود کو ہمارے دادا

Page 11

کی طرف سے نوکری کا پیغام لا کر دیا تھا کہ ایک دفعہ ایک بڑے افسر یا رئیس نے ہمارے دادا صاحب سے پوچھا کہ سنتا ہوں کہ آپ کا ایک چھوٹا لڑکا بھی ہے مگر ہم نے اسے کبھی دیکھا نہیں.دادا صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ہاں میرا ایک چھوٹا لڑکا تو ہے مگر وہ تازہ شادی شدہ دلہنوں کی طرح کم ہی نظر آتا ہے اگر اسے دیکھنا ہو تو مسجد کے کسی گوشہ میں جا کر دیکھ لیں وہ تو مسیتڑ ہے اے.اور اکثر مسجد میں ہی رہتا ہے اور دنیا کے کاموں میں اسے کوئی دلچسپی نہیں.ہماری تائی صاحبہ کبھی کبھی بعد میں حضرت مسیح موعود کی خدا داد ترقی کو دیکھ کر اس روایت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کرتی تھیں کہ میرے تایا ( یعنی ہمارے دادا صاحب) کو کیا علم تھا کہ کسی دن غلام احمد کی ( سيرة المهدی جلد اول حصہ دوم صفحہ ۳۶۷) خاکسار جب بھی یہ روایت سنتا ہے تو مجھے لازما رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش بختی کیا پھل لائے گی.وہ حدیث یاد آ جاتی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ :.الَيْهِ رَجُلٌ كَانَ قَلْبُهُ مُعَلَّقًا بِالْمَسْجِدِ إِذَا خَرَجَ مِنْهُ حَتَّى يَعُودَ یعنی وہ شخص خدا کے خاص فضل و رحمت کے سایہ میں ہے جس کا دل ہر وقت مسجد میں لٹکا رہتا ہے.(ترمذی ابواب الزهد باب ما جاء في الحب في الله ) مسجد میں دل کے لٹکے رہنے سے یہ مراد ہے کہ ایسا شخص خدا کی محبت اور اس کی مسیتر پنجابی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں جس کا اکثر وقت مسجد میں بیٹھ کر نماز اور ذکر الہی میں گذرتا ہے

Page 12

عبادت میں اتنا منہمک رہتا ہے کہ اس کا زیادہ وقت مسجد میں ہی گذرتا ہے اور اگر وہ کسی کام وغیرہ کی غرض سے مسجد سے باہر آتا ہے تو اس وقت بھی وہ گو یا اپنا دل مسجد میں ہی چھوڑ آتا ہے کہ کب یہ کام ختم ہو اور کب میں اپنے نشیمن میں واپس پہنچو.ہونے والے ماموروں کی یہ بات ایسے حالات سے تعلق رکھتی ہے کہ جب وہ اپنے دعویٰ سے قبل ریاضات اور عبادات میں مشغول ہوتے ہیں ورنہ دعوئی کے بعد تو ان کی زندگی مجسم جہاد کا رنگ اختیار کر لیتی ہے جس کا ہر لمحہ باطل کا مقابلہ کرنے اور ڈوبتے ہوئے لوگوں کو بچانے میں گزرتا ہے.(۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں خدا کی محبت اتنی رچی ہوئی اور اتنا غلبہ پائے ہوئے تھی کہ اس کے مقابل پر ہر دوسری محبت پیچ تھی اور آپ اس ارشاد نبوی کا کامل نمونہ تھے کہ :.الْحُبُّ فِي اللهِ وَ الْبُغْضُ فِي اللهِ “.(ابو داؤد كتاب السنة باب مجانبة اهل الاهواء وبغضهم) یعنی سچے مومن کی ہر محبت اور ہر ناراضگی خدا کی محبت اور خدا کی ناراضگی کے تابع اور اسی کے واسطے سے ہوتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے ایک فارسی نظم میں خدا کی حقیقی محبت کا پیمانہ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ :.

Page 13

رچه غیر خدا بخاطر تست آں بت تست اے بایماں ست پر حذر باش زیں بتان نہاں دامن دل ز دست شاں برہاں ( براہین احمدیہ حصہ دوم روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۲۸،۱۲۷) یعنی جو چیز بھی خدا کے سوا تیرے دل میں ہے وہ (اے سست ایمان والے شخص ) تیرے دل کا ایک بت ہے.تجھے چاہیے کہ ان مخفی بتوں کی طرف ہوشیار رہ اور اپنے دل کے دامن کو ان بتوں کی دست برد سے بچا کر رکھ.(♡) یہ ایک عجیب نظارہ ہے کہ ادھر حضرت مسیح موعود نے خدا کی خاطر دنیا سے منہ موڑا اور ادھر خدا نے آپ کو دین و دنیا کی نعمتیں عطا کرنی شروع کر دیں.بلکہ حق یہ ہے کہ اس نے دونوں جہان آپ کی جھولی میں ڈال دیئے مگر آپ کی نظر میں خدا کی محبت اور اس کے قرب کے مقابل پر ہر دوسری نعمت پیچ تھی.چنانچہ ایک جگہ خدا کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ :.اے سرو جان و دل و ہر ذرہ ام قربان تو بر دلم بکشاز رحمت ہر در عرفان تو فلسفی کز عقل مے جو ید ترادیوانہ ہست دور تر هست از خرد با آں رہ پنہاں تو

Page 14

از حریم تو از نیاں بیچ کس آگه نه شد ہر کہ آ گه شد شد از احسان بے پایان تو عاشقان روئے خود را ہر دو عالم مید ہی ہر دو عالم هیچ پیش دیده غلمان تو چشمه سیحی روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۹۲،۳۹۱) د یعنی اے وہ کہ تجھ پر میر اسر اور میری جان اور میرا دل اور میرا ہر ذرہ قربان ہے تو اپنے رحم وکرم سے میرے دل پر اپنے عرفان کا ہر رستہ کھول دے.وہ فلسفی تو دراصل عقل سے کورا ہے جو تجھے عقل کے ذریعے تلاش کرتا ہے کیونکہ تیرا پوشیدہ رستہ عقلوں سے دور اور نظروں سے مستور ہے.یہ سب لوگ تیری مقدس بارگاہ سے بے خبر ہیں.تیرے دروازہ تک جب بھی کوئی شخص پہنچا ہے تو صرف تیرے احسان کے نتیجہ میں ہی پہنچا ہے.تو بے شک اپنے عاشقوں کو دونوں جہان بخش دیتا ہے مگر تیرے غلاموں کی نظر میں دونوں جہانوں کی کیا حقیقت ہے؟ وہ تو صرف تیرے منہ کے بھوکے ہوتے ہیں.66 دوست ان شعروں پر غور کریں.حضرت مسیح موعود کس ناز سے فرماتے ہیں کہ اے میرے آسمانی آقا! تو نے بے شک مجھے گو یا دونوں جہانوں کی نعمتیں دے دی ہیں مگر مجھے ان نعمتوں سے کیا کام ہے مجھے تو بس تو چاہیے.یہ وہی بات ہے کہ حضرت موسی کو خدا نے نبوت دی فرعون جیسے جبار بادشاہ پر غلبہ بخشا.ایک قوم کی سرداری عطا کی مگر پھر بھی ان کی پکار یہی رہی رب آرنی انظُرْ إِلَيْكَ یعنی خدایا! تیرے احسانوں

Page 15

کے نیچے میری گردن دبی ہوئی ہے مگر ذرا اپنا چہرہ بھی دکھادیجئے! یہی حال اپنے محبوب آقا حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ظلیت میں حضرت مسیح موعود کا تھا.چنانچہ دوسری جگہ خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:.در دو عالم مراعز یز توئی و آنچه میخواهم از تو نیز توئی (دیباچہ براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد ا صفحه ۱۶) (1) قرآن مجید سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کے بے نظیر معنوی اور ظاہری محاسن کی وجہ سے بے حد عشق تھا مگر باوجود اس کے قرآنی محبت کی اصل بنیاد بھی خدا ہی کی محبت پر قائم تھی فرماتے ہیں :.دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۵۷) یعنی قرآن کی خوبیاں تو ظاہر وعیاں ہیں مگر اس کے ساتھ میری محبت کی اصل بنیا داس بات پر ہے کہ اے میرے آسمانی آقا! وہ تیری طرف سے آیا ہوا مقدس صحیفہ ہے جسے بار بار چومنے اور اس کے اردگر دطواف کرنے کے لیے میرا دل بے چین رہتا ہے.“ ایک صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پالکی

Page 16

میں بیٹھ کر قادیان سے بٹالہ تشریف لے جا رہے تھے اور یہ سفر پالکی کے ذریعہ قریبا پانچ گھنٹے کا تھا.”حضرت مسیح موعود نے قادیان سے نکلتے ہی اپنی حمائل شریف کھول لی اور سورۂ فاتحہ کو پڑھنا شروع کیا اور برابر پانچ گھنٹے تک اسی سورہ کو اس استغراق کے ساتھ پڑھتے رہے کہ گویا وہ ایک وسیع سمندر ہے جس کی گہرائیوں میں آپ اپنے از لی محبوب کی محبت و رحمت کے موتیوں کی تلاش میں غوطے لگا رہے ہیں.(سیرۃ المہدی جلد ا حصہ دوم صفحہ ۳۹۵) (2) جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ کو اس کثرت اور اس تکرار کے ساتھ اپنی وفات کے قرب کے بارے میں الہام ہوئے کہ کوئی اور ہوتا تو اس کے ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑ جاتے مگر چونکہ آپ کو خدا کے ساتھ کامل محبت تھی اور اُخروی زندگی پر ایسا ایمان تھا کہ گویا آپ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں.آپ ان پے در پے الہاموں کے باوجود ایسے شوق اور ایسے انہماک کے ساتھ دین کی خدمت میں لگے رہے کہ گویا کوئی بات ہوئی ہی نہیں بلکہ اس خیال سے اپنی کوششوں کو تیز سے تیز تر کر دیا کہ اب میں اپنے محبوب سے ملنے والا ہوں.اس لئے اس کے قدموں میں ڈالنے کے لئے جتنے پھول بھی چن سکوں چن لوں (سلسلہ احمدیہ صفحہ ۱).یہ اسی طرح کی کیفیت تھی جس کے ماتحت آپ کے آقا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں شوق کے ساتھ فرمایا تھا کہ:.

Page 17

۱۳ اللَّهُمَّ الرّفِيقَ الْأَعْلَى اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى (صحیح بخاری کتاب الدعوات باب دعاء النبی صلی الله علیه وسلم) یعنی خدایا ! اب میں تیرے قدموں میں حاضر ہو رہا ہوں اور تیری قریب ترین معیت کا آرزومند ہوں“.(^) خدا نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس محبت کو ایسی قدر شناسی سے نوازا کہ جو اسی کی بے پایاں رحمت کا حق اور اسی کی بے نظیر قدرشناسی کے شایان شان ہے چنانچہ آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.اَنْتَ مِلَّى مَنْزِلَةِ تَوْحِيدِي وَ تَفْرِيدِي - اَنْتَ مِنِى مَنْزِلَةِ وَلَدِي إِنِّي مَعَكَ يَا ابْنَ رَسُولَ اللَّهِ - ( تذکرۃ صفحہ ۵۳، ۴۹۰،۴۴۲ مطبوعه ۲۰۰۴ء) د یعنی چونکہ اس زمانہ میں تو میری توحید کا علمبر دار ہے اور توحید کے کھوئے ہوئے متاع کو دنیا میں دوبارہ قائم کر رہا ہے اس لئے اے مسیح محمدی! تو مجھے ایسا ہی پیارا ہے جیسے کہ میری توحید اور تفرید.اور چونکہ عیسائیوں نے جھوٹ اور افتراء کے طور پر اپنے مسیح کو خدا کا اصلی بیٹا بنا رکھا ہے اس لئے میری غیرت نے تقاضا کیا کہ میں تیرے ساتھ ایسا پیار کروں کہ جو اولاد کا حق ہوتا ہے تا کہ دنیا پر ظاہر ہو کہ محمد رسول اللہ کے شاگرد تک اطفال اللہ کے مقام کو پہنچ سکتے ہیں اور چونکہ تو میرے محبوب محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے دین

Page 18

۱۴ کی خدمت میں دن رات مستغرق اور اس کی محبت میں محو ہے اس لئے میں تجھے اپنے اس محبوب کے روحانی فرزند کی حیثیت میں اپنی لا زوال محبت اور اپنی دائگی معیت کے تمغہ سے نوازتا ہوں.“ (۹) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ کی اس محبت اور اس معیت اور اس غیرت پر ناز تھا.چنانچہ جب آپ کو ۵/ ۱۹۰۴ ء میں مولوی کرم دین والے مقدمہ میں یہ اطلاع ملی کہ ہند و مجسٹریٹ کی نیت ٹھیک نہیں اور وہ آپ کو قید کرنے کی داغ بیل ڈال رہا ہے تو آپ اس وقت ناسازی طبع کی وجہ سے لیٹے ہوئے تھے.یہ الفاظ سنتے ہی جوش کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ گئے اور بڑے جلال کے ساتھ فرمایا کہ:.وہ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے! چنانچہ اپنے ایک شعر میں بھی فرماتے ہیں کہ (سیرۃ المہدی جلد احصہ اول صفحہ ۸۶) جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے رو بہ زار ونزار اور اسی نظم میں دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۳۱ و ۱۳۳)

Page 19

۱۵ دوستو! میں خدا کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی بے نظیر محبت اور پھر حضرت مسیح موعود کے ساتھ خدا کی لازوال محبت کی ایک بہت چھوٹی سی جھلک آپ کو دکھا رہا ہوں.اب اس پیج کو اپنے دلوں میں پیدا کرنا اور پھر اس پودے کو خدائی محبت کے پانی سے پروان چڑھانا آپ لوگوں کا کام ہے.قرآن کے اس زریں ارشاد کو کبھی نہ بھولو کہ :.الَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ (سورة بقرة :۱۶۲) یعنی مومنوں کے دلوں میں خدا کی محبت سب دوسری محبتوں پر غالب ہونی چاہیئے.(1+) محبت الہی کے متعلق حضرت مسیح موعود ایک جگہ ایسے رنگ میں گفتگو فرماتے ہیں کہ گویا آپ اس محبت کی شراب طہور میں مخمور ہو کر اپنے خدا سے ہمکلام ہورہے ہیں.فرماتے ہیں.میں ان نشانوں کو شمار نہیں کر سکتا جو مجھے معلوم ہیں.( مگر دنیا انہیں نہیں دیکھتی لیکن اے میرے خدا! میں تجھے پہچانتا ہوں کہ تو ہی میرا خدا ہے اس لئے میری روح تیرے نام سے ایسی اچھلتی ہے جیسا کہ ایک شیر خوار بچہ ماں کے دیکھنے سے اچھلتا ہے) لیکن اکثر لوگوں نے مجھے نہیں پہنچانا اور نہ قبول کیا.“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۱۱) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کو گواہ رکھ کر فرماتے ہیں.

Page 20

دیکھ ! میری روح نہایت توکل کے ساتھ تیری طرف ایسی پرواز کر رہی ہے جیسا کہ پرندہ اپنے آشیانہ کی طرف آتا ہے.سو میں تیری قدرت کے نشان کا خواہش مند ہوں لیکن نہ اپنے لئے اور نہ اپنی ذات کے لئے بلکہ اس لئے کہ لوگ تجھے پہچانیں اور تیری پاک راہوں کو اختیار کریں.“ (ضمیمه تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۵۱۱) (11) پھر اسی محبت الہی کے جوش میں اپنے اور اپنے مخالفوں کے درمیان حق و انصاف کا فیصلہ چاہتے ہوئے اپنی جان اور اپنے مال و متاع اور اپنی عزت و آبرو اور اپنے جمیع کاروبار کی بازی لگاتے ہوئے خدا کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں اور کس جذ بہ اور ولولہ سے فرماتے ہیں.اے قدیر و خالق ارض و سما اے رحیم و مہربان و رہنما اے کہ میداری تو بر دلہا نظر اے کہ از تو نیست چیزے مستتر گر تو می بینی مرا پرفسق وشر گر تو دید استی که هستم بد گہر پاره پاره کن من بدکار را شاد کن ، ایس زمرہ اغیار را آتش افشاں ، بر در و دیوار من دشمنم باش و تنبه کن کارمن در مرا از بندگانت یافتی قبله من آستانت یا فتی در دل من آن محبت دیده کز جہاں آں راز را پوشیده

Page 21

۱۷ بامن از روئے محبت کارکن اند کے افشاء آں اسرار کن اے کہ آئی سوئے ہر جو بندئے واقفی از سوز ہر سوزندئے زاں تعلق با که با تو داشتم زاں محبت ہا کہ در دل کاشتم خود بروں آ از پیٹے ابراء من اے تو کہف و ملجاء و ما وائے من آتش کاندر دلم افروختی وزدم آن غیر خود را سوختی ہم ازاں آتش رُخ من بر فروز ویں شب تارم مبدل کن بروز (حقیقة المهدی روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحه ۴۳۴) یعنی اے میرے قادر وقد بر خدا! اے وہ جو زمین و آسمان کا واحد خالق و مالک ہے.اے وہ جو اپنے بندوں پر بے انتہا رحم کرنے والا اور ان کی ہدایت کا بے حد آرزومند ہے.ہاں اے میرے آسمانی آقا جو لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں پر نظر رکھتا ہے جس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں.اگر تو دیکھتا ہے کہ میرا ندرونہ فسق و فساد اور فتنہ وشر کی نجاست سے بھرا ہوا ہے اگر تو مجھے ایک بدفطرت اور نا پاک سیرت انسان خیال کرتا ہے تو میں تجھے تیرے جبروت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھ بد کار کو پارہ پارہ کر کے رکھ دے اور میرے مخالفوں کے دلوں کو ٹھنڈا کر.تو میرے درو دیوار پر اپنے عذاب کی آگ برسا اور میرا دشمن بن کر میرے کاموں کو تباہ و بربادکر دے لیکن اگر تو جانتا ہے کہ میں تیرا اور صرف تیرا ہی بندہ ہوں.اور اگر تو دیکھ رہا ہے کہ صرف تیرا ہی مبارک آستانہ میری پیشانی کی سجدہ گاہ ہے.اگر تو میرے دل میں اپنی وہ بے پناہ محبت پاتا ہے جس کا راز اس وقت تک دنیا کی

Page 22

۱۸ نظروں سے پوشیدہ ہے تو اے میرے پیارے آقا! تو مجھے اپنی محبت کا کرشمہ دکھا اور میرے عشق کے پوشیدہ راز کولوگوں پر ظاہر فرمادے.ہاں اے وہ جو ہر متلاشی کی طرف خود چل کر آتا ہے اور ہر اس شخص کے دل کی آگ سے واقف ہے جو تیری محبت میں جل رہا ہے میں تجھے اپنی اس محبت کے پودے کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو میں نے تیرے لیے اپنے دل کی گہرائیوں میں لگا رکھا ہے کہ تو میری بریت کے لئے باہر نکل آ.ہاں ہاں اے وہ جو میری پناہ اور میرا سہارا اور میری حفاظت کا قلعہ ہے وہ محبت کی آگ جو تو نے اپنے ہاتھ سے میرے دل میں روشن کی ہے اور جس کی وجہ سے میرے دل و دماغ میں تیرے سوا ہر دوسرا خیال جل کر راکھ ہو چکا ہے تو اب اسی آگ کے ذریعہ میرے پوشیدہ چہرے کو دنیا پر ظاہر کر دے اور میری تاریک رات کو دن کی روشنی میں بدل دے.“ اس عجیب و غریب نظم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذات باری تعالیٰ کے ساتھ جس بے پناہ محبت کا اظہار کیا ہے وہ اتنی ظاہر وعیاں ہے کہ اس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں.ان اشعار کے الفاظ اس اسفنج کے ٹکڑے کا رنگ رکھتے ہیں جس کے رگ وریشہ میں مصفیٰ پانی کے قطرات اس طرح بھرے ہوئے ہوں کہ اسفنج کو پانی سے اور پانی کو اسفنج سے ممتاز کرنا ناممکن ہو جائے.مگر میں ان اشعار کی تحدی اور خدائی نصرت پر کامل بھروسہ کے پہلو کے متعلق دوستوں کو ضرور تھوڑی سی توجہ دلانا چاہتا ہوں.یہ اشعار جیسا کہ ہماری جماعت کے اکثر واقف کا راصحاب جانتے ہیں ۱۸۹۹ء میں کہے گئے تھے جس پر اس وقت ساٹھ سال کا عرصہ گذرا ہے جس کا زمانہ پانے

Page 23

۱۹ والے اس وقت ہزاروں لاکھوں لوگ موجود ہوں گے اور یہ عرصہ قوموں کی زندگی میں گویا کچھ بھی نہیں.مگر اس قلیل عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے ان غیرت دلانے والے متحد یا نہ الفاظ کے نتیجہ میں جس غیر معمولی رنگ میں ہزاروں مخالفتوں کے باوجود آپ کے سلسلہ کو ترقی دی اور اس کی نصرت فرمائی اور اسے پھیلایا اور اسے او پر اٹھایا ہے اس کا چھوٹا سا نظارہ ہمارے سالانہ جلسوں میں نظر آتا ہے جب کہ دو تین سو کی تعداد سے ترقی کر کے جماعت احمدیہ کے نمائندے نہ کہ کل افراد جو آج کل جلسہ سالانہ کے موقع پر مرکز سلسلہ میں جمع ہوتے ہیں خدا کے فضل سے قریب ستر اسی ہزار کی تعداد کو پہنچ جاتے ہیں اور احمدیت کے ذریعہ اسلام کا جھنڈا دنیا کے اکثر آزاد ملکوں میں ایشیا میں افریقہ میں یورپ میں امریکہ میں بلند و بالا ہو کر لہرا رہا ہے اور جو لوگ اس سے پہلے محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کونعوذ باللہ گالیاں دیتے تھے وہ آج مسیح محمدی کے خدام کے ذریعہ حلقہ بگوش اسلام ہو کر آپ پر درود و سلام بھیج رہے ہیں.فَيَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِمًا - (۱۲) بالآخر میں اپنے مضمون کے اس حصہ کے متعلق جو محبت الہی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے صرف یہ بات کہ کر اسے ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی محبت کا جذبہ آپ کی ذات تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ کو اس بات کی بھی انتہائی تڑپ تھی کہ یہ عشق کی چنگاری دوسروں کے دلوں میں بھی پیدا ہو جائے.چنانچہ آپ اپنی

Page 24

مشہور و معروف تصنیف کشتی نوح میں فرماتے ہیں :.کیا ہی بد بخت وہ انسان ہے جس کو اب تک یہ پتہ نہیں کہ اُس کا ایک خدا ہے جو ہر ایک چیز پر قادر ہے.ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لایق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ لعل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس ؤف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں“.کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱، ۲۲) دوستو ! ان الفاظ پر غور کرو اور اس محبت اور اس تڑپ کی گہرائی کا اندازہ لگانے کی کوشش کرو جو ان الفاظ کی تہہ میں پنہاں ہے.آپ یقینا اس کا صحیح اندازہ نہیں کر سکتے مگر جس قدر اندازہ بھی آپ اپنے ظرف کے مطابق کریں گے اس کے نتیجہ میں لازما آپ کی روحانیت میں علی قدر مراتب غیر معمولی بلندی اور غیر معمولی ترقی اور غیر معمولی روشنی پیدا ہوگی.

Page 25

۲۱ عشق رسول (1) محبت الہی کے بعد دوسرے نمبر پر عشق رسول کا سوال آتا ہے سو اس میدان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام عدیم المثال تھا.آپ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ:.بعد از خدا بعشق محمد مخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کا فرم (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۸۵) د یعنی میں خدا کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مخمور ہوں.اگر میرا یہ عشق کسی کی نظر میں کفر ہے تو خدا کی قسم میں ایک سخت کافر انسان ہوں.“ (٢) یہ خاکسار حضرت مسیح موعود کے گھر میں پیدا ہوا اور یہ خدا کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کے شکریہ کے لئے میری زبان میں طاقت نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ میرے

Page 26

۲۲ دل میں اس شکریہ کے تصور تک کی گنجائش نہیں.مگر میں نے ایک دن مر کر خدا کو جان دینی ہے.میں آسمانی آقا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میرے دیکھنے میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر بلکہ محض نام لینے پر ہی حضرت مسیح موعود کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھلی نہ آگئی ہو.آپ کے دل و دماغ بلکہ سارے جسم کا رواں رواں اپنے آقا حضرت سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق سے معمور تھا.(۳) ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود اپنے مکان کے ساتھ والی چھوٹی سی مسجد میں جو مسجد مبارک کہلاتی ہے اکیلے ٹہل رہے تھے اور آہستہ آہستہ کچھ گنگناتے جاتے تھے اور اس کے ساتھ ہی آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی تار بہتی چلی جارہی تھی.اس وقت ایک مخلص دوست نے باہر سے آ کر سنا تو آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت حسان بن ثابت کا ایک شعر پڑھ رہے تھے جو حضرت حسان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر کہا تھا اور وہ شعر یہ ہے.كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِي فَعَمِيَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنتُ أَحَاذِرُ (دیوان حسان بن ثابت ) دود یعنی اے خدا کے پیارے رسول ! تو میری آنکھ کی پتلی تھا جو آج رض

Page 27

۲۳ تیری وفات کی وجہ سے اندھی ہوگئی ہے.اب تیرے بعد جو چاہے مرے مجھے تو صرف تیری موت کا ڈر تھا جو واقع ہو گئی.“ راوی کا بیان ہے کہ جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس طرح روتے ہوئے دیکھا اور اس وقت آپ مسجد میں بالکل اکیلے ٹہل رہے تھے تو میں نے گھبرا کر عرض کیا کہ حضرت ! یہ کیا معاملہ ہے اور حضور کو کون سا صدمہ پہنچا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میں اس وقت حسان بن ثابت کا یہ شعر پڑھ رہا تھا اور میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہورہی تھی کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا.“ دنیا جانتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سخت سے سخت زمانے آئے ہر قسم کی تنگی دیکھی.طرح طرح کے مصائب برداشت کئے حوادث کی آندھیاں سر سے گذریں.مخالفوں کی طرف سے انتہائی تلخیوں اور ایذاؤں کا مزا چکھا.حتی کہ قتل کے سازشی مقدمات میں سے بھی گزرنا پڑا.بچوں اور عزیزوں اور دوستوں اور اپنے فدائیوں کی موت کے نظارے بھی دیکھے مگر کبھی آپ کی آنکھوں نے آپ کے قلبی جذبات کی غمازی نہیں کی لیکن علیحدگی میں اپنے آقا رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے متعلق ( اور وفات بھی وہ جس پر تیرہ سو سال گذر چکے تھے ) یہ محبت کا شعر یاد کرتے ہوئے آپ کی آنکھیں سیلاب کی طرح بہہ نکلیں اور آپ کی یہ قلبی حسرت چھلک کر باہر آگئی.کہ کاش یہ شعر میری زبان سے نکلتا !! اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حضرت حسان کا یہ شعر محبت رسول کے اظہار میں ہر دوسرے کلام پر فائق ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کے دل میں عشق رسول کے کمال کی وجہ سے ہر غیر معمولی اظہار محبت کے موقعہ پر یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ کاش یہ الفاظ بھی میری ہی

Page 28

۲۴ (۴) زبان سے نکلتے.قادیان میں ایک صاحب محمد عبد اللہ ہوتے تھے جنہیں لوگ پروفیسر کہہ کر پکارتے تھے وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن بہت مخلص تھے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو مختلف قسم کے نظاروں کی تصویریں دکھا کر ا پنا پیٹ پالا کرتے تھے.مگر جوش اور غصے میں بعض اوقات اپنا توازن کھو بیٹھتے تھے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں کسی نے بیان کیا کہ فلاں مخالف نے حضور کے متعلق فلاں جگہ بڑی سخت زبانی سے کام لیا ہے.اور حضور کو گالیاں دی ہیں.پروفیسر صاحب طیش میں آکر بولے کہ اگر میں ہوتا تو اس کا سر پھوڑ دیتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بے ساختہ فرمایا نہیں نہیں ایسانہ چاہیے ہماری تعلیم صبر اور نرمی کی ہے.پروفیسر صاحب اس وقت غصے میں آپے سے باہر ہورہے تھے جوش کے ساتھ بولے واہ صاحب واہ یہ کیا بات ہے آپ کے پیر یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی شخص برا بھلا کہے تو آپ فورا مباہلہ کے ذریعے اسے جہنم تک پہنچانے کو تیار ہو جاتے ہیں مگر ہمیں یہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص آپ کو ہمارے سامنے گالی دے تو ہم صبر کریں.پروفیسر صاحب کی یہ غلطی تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھ کر صبر کس نے کیا ہے اور کس نے کرنا ہے مگر اس چھوٹے سے واقعہ میں عشق رسول اور غیرت ناموس رسول کی وہ جھلک نظر آتی ہے جس کی مثال کم ملے گی.

Page 29

۲۵ (۵) پنڈت لیکھرام کو کون نہیں جانتا وہ آریہ سماج کے بہت بڑے مذہبی لیڈر تھے.اور اس کے ساتھ اسلام کے بدترین دشمن بھی تھے جن کی زبان اسلام اور مقدس بانی اسلام کی مخالفت میں قینچی کی طرح چلتی اور چھری کی طرح کاٹتی تھی.انہوں نے ساری عمر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابل پر کھڑے ہو کر اسلام اور مقدس بانی اسلام پر گندے سے گندے اعتراض کئے اور ہر دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو ایسے دندان شکن جواب دیئے کہ کوئی کیا دے گا.مگر یہ صاحب رکنے والے نہیں تھے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پنڈت لیکھرام کا یہ مقابلہ حضرت مسیح موعود کے ایک مباہلہ پر ختم ہوا جس کے نتیجہ میں پنڈت جی حضرت مسیح موعود کی دن دونی رات چوگنی ترقی دیکھتے ہوئے اور ہزاروں حسرتیں اپنے سینے میں لئے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے.انہی پنڈت لیکھرام کا یہ واقعہ ہے کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی سفر میں ایک سیٹشن پر گاڑی کا انتظار کر رہے تھے کہ پنڈت لیکھرام کا بھی ادھر گذر ہو گیا اور یہ معلوم کر کے کہ حضرت مسیح موعود کو اس جگہ تشریف لائے ہوئے ہیں پنڈت جی دنیا داروں کے رنگ میں اپنے دل کے اندر آگ کا شعلہ دبائے ہوئے آپ کے سامنے آئے.آپ اس وقت نماز کی تیاری میں وضو فر مار ہے تھے.پنڈت لیکھرام نے آپ کے سامنے آکر ہندووانہ طریق پر سلام کیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا.گویا کہ دیکھا ہی نہیں.اس پر

Page 30

۲۶ پنڈت جی نے دوسرے رخ سے ہو کر پھر دوسری دفعہ سلام کیا اور حضرت مسیح موعود پھر خاموش رہے.جب پنڈت جی مایوس ہو کر لوٹ گئے تو کسی نے یہ خیال کر کے کہ شاید حضرت مسیح موعود نے پنڈت لیکھرام کا سلام سنا نہیں ہوگا حضور سے عرض کیا کہ پنڈت لیکھرام آئے تھے اور سلام کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی غیرت کے ساتھ فرمایا کہ ”ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے !!! (سیرۃ المہدی جلد ا حصہ اول صفحه ۲۵۴ وسیرت مسیح موعود مصنفہ عرفانی صاحب) یہ اس شخص کا کلام ہے جو ہر طبقہ کے لوگوں کے لئے مجسم رحمت تھا ہندوؤں میں اس کے روز کے ملنے والے دوست تھے اور اس نے ہر قوم کے ساتھ انتہائی شفقت اور انتہائی ہمدردی کا سلوک کیا مگر جب اس کے آقا اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غیرت کا سوال آیا تو اس سے بڑھ کرننگی تلوارد نیا میں کوئی نہیں تھی، (4) اسی قسم کا ایک واقعہ لا ہور کے جلسہ وچھو والی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.آریہ صاحبان نے لاہور میں ایک جلسہ منعقد کیا اور اس میں شرکت کرنے کے لئے ہر مذہب وملت کو دعوت دی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی باصرار درخواست کی کہ آپ بھی اس بین الاقوامی جلسہ کے لئے کوئی مضمون تحریر فرمائیں.اور وعدہ کیا کہ جلسہ میں کوئی بات خلاف تہذیب اور کسی مذہب کی دل آزاری کا رنگ رکھنے والی نہیں

Page 31

۲۷ ہوگی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک ممتاز حواری حضرت مولوی نور الدین صاحب کو جو بعد میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ اول ہوئے بہت سے احمدیوں کے ساتھ لاہور روانہ کیا اور ان کے ہاتھ ایک مضمون لکھ کر بھیجا جس میں اسلام کے محاسن بڑی خوبی کے ساتھ اور بڑے دلکش رنگ میں بیان کئے گئے تھے.مگر جب آریہ صاحبان کی طرف سے مضمون پڑھنے والے کی باری آئی تو اس بندہ خدا نے اپنی قوم کے وعدوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مضمون میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اتنا ز ہرا گلا اور ایسا گند اچھالا کہ خدا کی پناہ.جب اس جلسہ کی اطلاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہنچی اور جلسہ میں شرکت کرنے والے احباب قادیان واپس آئے تو آپ حضرت مولوی نور الدین صاحب اور دوسرے احمدیوں پر سخت ناراض ہوئے اور بار بار جوش کے ساتھ فرمایا کہ جس مجلس میں ہمارے رسول اللہ کو برا بھلا کہا گیا اور گالیاں دی گئیں تم اس مجلس میں کیوں بیٹھے رہے؟ اور کیوں نہ فورا اٹھ کر باہر چلے آئے ؟ تمہاری غیرت نے کس طرح برداشت کیا کہ تمہارے آقا کو گالیاں دی گئیں اور تم خاموش بیٹھے سنتے رہے؟ اور پھر آپ نے بڑے جوش کے ساتھ یہ قرآنی آیت پڑھی کہ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِه (النساء : ۱۴۱) ( یعنی اے مومنو! ) جب تم سنو کہ خدا کی آیات کا دل آزار رنگ میں کفر کیا جاتا اور ان پر ہنسی اڑائی جاتی ہے تو تم ایسی مجلس سے فوراً اٹھ جایا کرو تا وقتیکہ یہ لوگ کسی مہذبانہ انداز گفتگو کو اختیار کریں.“

Page 32

۲۸ اس مجلس میں حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول بھی موجود تھے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الفاظ پر ندامت کے ساتھ سر نیچے ڈالے بیٹھے رہے.بلکہ حضرت مسیح موعود کے اس غیورانہ کلام سے ساری مجلس ہی شرم و ندامت سے کئی جارہی تھی.(سیرۃ المہدی جلد ا حصہ اول صفحه ۲۰۱،۲۰۰ روایت نمبر ۱۹۶) (<) خان بہادر مرز ا سلطان احمد صاحب مرحوم کو جماعت کے سب یا کم از کم اکثر دوست جانتے ہیں وہ ہماری بڑی والدہ صاحبہ کے بطن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے بڑے لڑکے تھے جو ڈ پٹی کمشنر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے اور دنیا کا بڑا وسیع تجربہ رکھتے تھے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی بھر حضور کی بیعت میں داخل نہیں ہوئے بلکہ حضور سے علیحدہ ہی رہے اور حضور کے خاندانی مخالفوں سے اپنا تعلق قائم رکھا.گو بعد میں انہوں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے زمانہ میں بیعت کر لی اور اس طرح آپ نے ہم تین بھائیوں کو چار کر دیا.بہر حال خان بہادرمرزا سلطان احمد صاحب کے غیر احمدی ہونے کے زمانہ کی بات ہے ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ کے اخلاق و عادات کے متعلق کچھ دریافت کروں چنانچہ میرے پوچھنے پر انہوں نے فرمایا کہ ایک بات میں نے والد صاحب ( یعنی حضرت مسیح موعود ) میں خاص

Page 33

۲۹ طور پر دیکھی ہے وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف والد صاحب ذراسی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے اگر کوئی شخص آنحضرت کی شان کے خلاف ذراسی بات بھی کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور غصے سے آنکھیں متغیر ہونے لگتی تھیں اور فورا ایسی مجلس سے اٹھ کر چلے جاتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تو والد صاحب کو عشق تھا.ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا اور مرزا سلطان احمد صاحب نے اس بات کو بار بار دہرایا.“ (سیرۃ المہدی جلد ا حصہ اول صفحه ۲۰۱،۲۰۰ روایت نمبر ۱۹۶) یہ اس شخص کی شہادت ہے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل نہیں تھا جس نے حضرت مسیح موعود کو اپنی جوانی سے لے کر حضور کی وفات تک دیکھا جس نے اسی سال کی عمر میں وفات پائی.جس کے تعلقات کا دائرہ اپنی معز ز ملا زمت اور اپنے ادبی کارناموں کی وجہ سے نہایت وسیع تھا اور جو اپنے سوشل تعلقات میں بالکل صحیح طور پر کہ سکتا تھا کہ جفت خوش حالاں و بد حالاں شدم د یعنی مجھے دنیا میں ہر قسم کے انسانوں سے واسطہ پڑا ہے مگر حضرت مسیح موعود کی زندگی میں غیر احمدی ہونے کی باوجود اس کے عمر بھر کے مشاہدہ کا نچوڑ اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والد صاحب کو عشق تھا.ایسا عشق میں نے کسی شخص میں نہیں دیکھا.“

Page 34

(^) ایک دفعہ بالکل گھریلو ماحول کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود کی طبیعت کچھ ناساز تھی اور آپ گھر میں چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے اور حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا اور ہمارے ناناجان یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم بھی پاس بیٹھے تھے کہ حج کا ذکر شروع ہو گیا.حضرت نانا جان نے کوئی ایسی بات کہی کہ اب تو حج کے لئے سفر اور رستے وغیرہ کی سہولت پیدا ہو رہی ہے حج کو چلنا چاہیے اس وقت زیارت حرمین شریفین کے تصور میں حضرت مسیح موعود کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں اور آپ اپنے ہاتھ کی انگلی سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے حضرت نانا جان کی بات سن کر فر مایا یہ تو ٹھیک ہے اور ہماری بھی دلی خواہش ہے مگر میں سوچا کرتا ہوں کہ کیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا ؟“ ( روایات نواب مبارکه بیگم صاحبه ) یہ ایک خالصۂ گھریلو ماحول کی بظاہر چھوٹی سی بات ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اس میں اس اتھاہ سمندر کی طغیانی لہر یں کھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں جو عشق رسول کے متعلق حضرت مسیح موعود کے قلب صافی میں موجزن تھیں.حج کی کس سچے مسلمان کو خواہش نہیں مگر ذرا اس شخص کی بے پایاں محبت کا اندازہ لگاؤ جس کی روح حج کے تصور میں پروانہ وار رسول پاک (فداہ نفسی) کے مزار پر پہنچ جاتی ہے اور وہاں اس کی آنکھیں

Page 35

اس نظارہ کی تاب نہ لا کر بند ہونی شروع ہو جاتی ہیں.(۹) رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی عشق کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کی آل اولاد اور آپ کے صحابہ کے ساتھ بھی بے پناہ محبت تھی.چنانچہ ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعود اپنے باغ میں ایک چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے آپ نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم (سلما ) اور ہمارے بھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے اپنے پاس بلایا اور فرما یا آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں.پھر آپ نے بڑے دردناک انداز میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات سنائے آپ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پوچھتے جاتے تھے.اس درد ناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا.یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریم کے نواسے پر کروایا مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا.“ اس وقت آپ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپ کا دل بہت بے چین ہورہا تھا اور یہ سب کچھ رسول پاک کے عشق کی وجہ سے تھا ( روایات نواب مبار کہ بیگم صاحبہ ).چنانچہ اپنی

Page 36

ایک نظم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کر کے فرماتے ہیں تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بارا ٹھا یا ہم نے اپنے سینہ میں یہ اک شہر بسایا ہم نے تیری الفت سے ہے معمور مرا ہر ذرہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۲۵) (1+) یہ اسی عشق کا نتیجہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہر وہ منظوم اور منتثور کلام جو آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں رقم فرمایا ایسے شہد کے چھتے کا رنگ اختیار کیا گیا تھا جس میں سے شہد کی کثرت کی وجہ سے عَسَلٍ مُصفی کے قطرے گرنے شروع ہو جاتے ہیں چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں اور کس محبانہ انداز میں فرماتے ہیں کہ عجب نوریست در جان محمد عجب لعلیست در کان محمد اگر خواہی دلیلے عاشقش باش محمد مہست برہان محمد دریں رہ گر کشندم در بسوزند تابم روز ایوان محمد تو جان ما منور کردی از عشق فدایت جانم اے جان محمد آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۴۹) د یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں خدا نے عجب نور ودیعت کر رکھا ہے اور آپ کی مقدس کان عجیب و غریب جواہرات سے بھری پڑی ہے.سو

Page 37

اگر اے منکر و تم محمد کی صداقت کی دلیل چاہتے ہو تو دلیلیں تو بے شمار ہیں مگر مختصر رستہ یہ ہے کہ اس کے عاشقوں میں داخل ہو جاؤ کیونکہ محمد کا وجوداس کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہے واللہ اگر آپ کے رستہ میں مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے اور میرے ذرہ ذرہ کو جلا کر خاک بنا دیا جائے تو پھر بھی میں آپ کے دروازے سے کبھی منہ نہیں موڑوں گا.سواے محمد کی جان! تجھ پر میری جان قربان تو نے میرے روئیں روئیں کو اپنے عشق سے منور کر رکھا ہے.“ (11) اسی طرح اپنی ایک عربی نظم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں انظر إلى برحمَةٍ وَتَحَتي يَا حِبْ إِنَّكَ قَدْ دَخَلْتَ مَحَبَّةٌ يَا سَيِّدِى أَنَا أَحْقَرُ الْغِلْمَانِ فِي مُهْجَتِي وَمَدَارِ كَي وَ جَنَّانٍ مِنْ ذِكْرِ وَجْهِكَ يَا حَدِيقَةً بَهْجَتِي لَمْ أَخُلُ فِي لَحْظِ وَلَا فِي ان جِسْمِي يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا يَا لَيْتَ كَانَتْ قُوَّةُ الطَّيَرَانِ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۹۴)

Page 38

۳۴ د یعنی اے میرے آقا! میری طرف رحمت اور شفقت کی نظر رکھ.میں تیرا ایک ادنی ترین غلام ہوں.اے میرے محبوب! تیری محبت میرے رگ وریشہ میں اور میرے دل میں اور میرے دماغ میں رچ چکی ہے.اے میری خوشیوں کے باغیچے میں ایک لمحہ اور ایک آن بھی تیری یاد سے خالی نہیں رہتا.میری روح تو تیری ہو چکی ہے مگر میرا جسم بھی تیری طرف پرواز کرنے کی تڑپ رکھتا ہے.اے کاش! مجھ میں اڑنے کی طاقت ہوتی.“ ان اشعار میں جس محبت اور جس عشق اور جس تڑپ اور جس فدائیت کا جذبہ جھلک رہا بلکہ چھلک رہا ہے وہ کسی تبصرہ کا محتاج نہیں.کاش ہمارے احمدی نوجوان اس محبت کی چنگاری سے اپنے دلوں کو گرمانے کی کوشش کریں اور کاش ہمارے غیر احمدی بھائی بھی اس عظیم الشان انسان کی قدر پہچانیں جس کے متعلق ہم سب کے آقا اور سردار حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ د دود يُدفَنُ مَعِي فِي قَبْرِي “ (کتاب الوفاء لا بن الجوزى ومشكوة وهج الكرامة ) یعنی آنے والے مسیح کو میری روح کے ساتھ ایسی گہری مناسبت اور ایسا شدید لگاؤ ہوگا کہ اس کی روح وفات کے بعد میری روح کے ساتھ رکھی جائے گی.“

Page 39

۳۵ (١٢) عشق کا لازمی نتیجہ قربانی اور فدائیت اور غیرت کی صورت میں ظاہر ہوا کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں یہ جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا.ایک جگہ عیسائی پادریوں کے ان جھوٹے اور نا پاک اعتراضوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں جو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات پر کیا کرتے ہیں کہ عیسائی مشنریوں نے ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بے شمار بہتان گھڑے ہیں اور اپنے اس دجل کے ذریعہ ایک خلق کثیر کو گمراہ کر کے رکھ دیا ہے.میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لوگوں کے اس ہنسی ٹھٹھانے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسول پاک کی شان میں کرتے رہتے ہیں.ان کے دل آزار طعن و تشنیع نے جو وہ حضرت خیر البشر کی ذات والا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے.خدا کی قسم اگر میری ساری اولا د اور اولاد کی اولا د اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیئے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ

Page 40

۳۶ وسلم پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں.پس اے میرے آسمانی آقا! تو ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلاء عظیم سے نجات بخش.“ ترجمه عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام اصل عربی عبارت یہ ہے تَحَتُوا لِلرَّسُوْلِ الْكَرِيمِ بُهْتَانَاتٍ وَأَضَلُّوا خَلْقًا كَثِيرًا بِتِلْكَ الْإِ فَتَرَاءِ وَ مَا أَذًى قَلْبِي شَيْءٍ كَاسْتِهْزَائِهِمْ فِي شَأْنِ الْمُصْطَفَى وَجَرْحِهِمْ فِي عِرْضِ خَيْرِ الْوَرى وَ وَاللهِ لَوْ قُتِلَتْ جَمِيعُ صِبْيَانِي وَ اولادِى وَاحْفَادِى بِأَعْيُنِنِي وَ قُطَّعَتْ أَيْدِي وَ أَرْجُلِي وَ أُخْرِجَتِ الْحَدَقَةُ مِنْ عَيْنِي وَ ابْعِدُتُ مِنْ كُلِّ مُرَادِي وَ أَونِي وَارَني مَا كَانَ عَلَى اشَقُ مِنْ ذَالِكَ رَبِّ انْظُرُ إِلَيْنَا وَ إِلَى مَا ابْتُلِينَا 66 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۵) (IM) کیا اس زمانہ میں اس غیرت اور اس فدائیت کی کوئی مثال پیش کی جاسکتی ہے؟ اور یہ صرف منہ کا دعویٰ نہیں تھا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری زندگی اور زندگی کا ہر چھوٹا اور بڑا واقعہ اس عظیم الشان فدائیت پر عملی گواہ تھا جسے آپ کے مخالف بھی شدید مخالفت کے باوجود قبول کرنے کے لئے مجبور تھے چنانچہ آپ کی وفات پر جو تعزیتی مقالہ امرتسر کے غیر احمدی اخبار وکیل نے لکھا اس میں مقالہ نگار لکھتا ہے.

Page 41

۳۷ "مرزا صاحب کی رحلت نے ان کے بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا ہے.اور اس کے ساتھ ہی مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا بھی جو اس کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی خاتمہ ہو گیا....مرزا صاحب کے لٹریچر کی قدرو عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے.اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پر خچے اڑا دیئے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اڑنے لگا....اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں بھی مرزا صاحب نے اسلام کی خاص خدمت سر انجام دی ہے....آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جائے ناممکن ہے کہ مرزا صاحب کی یہ تحریریں نظر انداز کی جاسکیں.“ (اخبار وکیل امرتسر جون ۱۹۰۸ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ بے مثال قلمی جہاد جو آپ نے اسلام کی صداقت اور قرآن کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے عمر بھر کیا وہ بے شک بظا ہر علمی نوعیت کا تھا اور بادی النظر میں اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے پہلو سے براہ راست کوئی تعلق نہیں مگر غور کیا جائے تو اسلام کو رسول پاک سے اور رسول پاک کو اسلام سے کسی طرح جدا نہیں کیا جاسکتا.پس دراصل یہ ساری خدمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق اور آپ کے لائے ہوئے دین کے ساتھ والہانہ

Page 42

۳۸ (۱۴) محبت ہی کا کرشمہ تھی.یہی وجہ ہے کہ اپنی عدیم المثال خدمات کے باوجود جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو ایک وفاشعارشاگرد اور ایک احسان مند خادم کی حیثیت میں اپنا ہر پھول آپ کے قدموں میں ڈالتے چلے جاتے ہیں اور بار بارعاجزی کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ آقا! یہ سب کچھ آپ ہی کی طفیل ہے میرا تو کچھ بھی نہیں.چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں میں اسی خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیم سے مکالمہ مخاطبہ کیا.اور پھر اسحاق سے اور اسمعیل سے اور یعقوب سے اور یوسف سے اور موسیٰ سے اور مسیح ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہم کلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی.ایسا ہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ ومخاطبہ کا شرف بخشا مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا.“ (تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۲،۴۱۱)

Page 43

۳۹ ایک اور جگہ اپنی ایک نظم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں متوالے ہو کر فرماتے ہیں:.وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نورسارا نام اس کا ہے محمد دلبر میرا یہی ہے اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۵۶) ان اشعار میں حضرت مسیح موعود نے جس رنگ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار و فضائل کی وسعت اور ان کے افاضہ اور اس کے مقابل پرا اپنی عاجزی اور انکساری اور آپ کے انوار سے اپنے استفاضہ کا ذکر فرمایا ہے وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں.دنیا کی تمام برکتوں اور تمام نوروں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کی طرف منسوب کر کے اپنے آپ کو ان انوار کے ساتھ اس طرح پیوست کیا ہے کہ جس طرح ایک بڑے طاقتور پاور سٹیشن کے ساتھ بجلی کی تاریں مل کر دنیا کو منور کیا کرتی ہیں.(۱۵) اسی طرح آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات طیبات کا ذکر کرتے ہوئے دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ :.

Page 44

ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا.اسی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا کے فرشتے آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان پر لئے آتے ہیں.اور ایک نے ان فرشتوں میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمدؐ کی طرف بھیجی تھیں.صلی اللہ علیہ وسلم (براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۵۹۸) الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسا عشق تھا کہ اس کی مثال نہیں ملتی.آپ کی جان اس عشق میں بالکل گداز تھی ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا اور اپنے حواس ظاہری و باطنی سے محسوس کیا کہ آپ کا ذرہ ذرہ محمد اور خدائے محمد اور دین محمد پر قربان تھا.آپ اپنی ایک نظم میں بڑے دردناک انداز میں فرماتے ہیں کہ:.دے چکے دل اب تن خا کی رہا تم ہمیں دیتے ہو کا فر کا خطاب ہے یہی خواہش کہ ہو وہ بھی فدا کیوں نہیں لو گو تمہیں خوف عقاب (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۱۴) بس اس کے سوا میں اس جگہ عشق رسول کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ ایک وسیع سمندر میں سے انسان صرف چند چلو ہی بھر سکتا ہے.اس لئے اس عنوان کے تحت اب میرے لئے صرف یہی دعا باقی ہے کہ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى

Page 45

۴۱ الِ مُحَمَّدٍ وَ عَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ وَبَارِكَ وَسَلِّمْ - وَيَأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا -

Page 46

۴۲ شفقت على خلق اللہ اب میں خدا کے فضل سے اپنے اس مضمون کے تیسرے حصہ کی طرف آتا ہوں جو شفقت علی خلق اللہ سے تعلق رکھتا ہے.میں نے اس مختصر سے مقالہ کے لئے (اول) محبت الہی اور ( دوم ) عشق رسول اور ( سوم ) شفقت علی خلق اللہ کے عنوان اس لئے منتخب کئے ہیں کہ یہ ہمارے دین اور مذہب کا خلاصہ اور ایک مسلمان کے ایمان و اخلاق کا مرکزی نقطہ ہیں حتی کہ ایک مامور من اللہ کی روحانیت اور اس کے اخلاق و کردار اور اس کی قدر و منزلت کو پہچاننے کے لئے بھی اس سے بڑھ کر کوئی اور کسوٹی نہیں.منبع حیات یعنی ذات باری تعالیٰ کے ساتھ گہرا پیوند ہو.پیغام الہی کے لانے والے رسول کی محبت روح کی غذا ہو اور مخلوق خدا کی ہمدردی کا جذبہ دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہو.بس ہمیں آمدنشان کا ملاں“ (1) میں نہایت اختصار کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جذبہ محبت الہی اور عشق رسول کے متعلق بیان کر چکا ہوں اب مختصر طور پر آپ کے جذ بہ شفقت علی خلق اللہ کے متعلق کچھ بیان کرتا ہوں.اس تعلق میں سب سے پہلے میرے سامنے وہ مقدس عہد آتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدائی حکم کے ماتحت ہر بیعت کرنے

Page 47

۴۳ والے سے لیتے تھے اور اسی پر جماعت احمدیہ کی بنیاد قائم ہوئی یہ عہد دس شرائط بیعت کی صورت میں شائع ہو چکا ہے اور گویا یہ احمدیت کا بنیادی پتھر ہے.اس عہد کی شرط نمبر ۴ اور شرط نمبر ۹ کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ ہر بیعت کرنے والا عہد کرے کہ :.عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصا اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا.نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے....عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا.اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائے گا.اشتہار تکمیل تبلیغ مورخه ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ ء کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه ۳۴۷) یہ وہ عہد بیعت ہے جو احمدیت میں داخل ہونے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائی حکم کے ماتحت مقرر فرمایا اور جس کے بغیر کوئی احمدی سچا احمدی نہیں سمجھا جاسکتا.اب مقام غور ہے کہ جو شخص اپنی بیعت اور اپنے روحانی تعلق کی بنیادہی اس بات پر رکھتا ہے کہ بیعت کرنے والا تمام مخلوق کے ساتھ دلی ہمدردی اور شفقت کا سلوک کرے گا اور اسے ہر جہت سے فائدہ پہنچانے کے لئے کوشاں رہے گا اور اسے کسی نوع کی تکلیف نہیں دے گا.اس کا اپنا نمونہ اس بارے میں کیسا اعلیٰ اور کیسا شاندار ہونا چاہیے اور خدا کے فضل سے ایسا ہی تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بارہا فرمایا کرتے تھے کہ میں کسی شخص کا دشمن نہیں ہوں اور میرا دل ہر انسان اور ہر قوم کی ہمدردی سے معمور ہے.چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں:

Page 48

۴۴ میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے.میں بنی نوع انسان سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر.میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے.انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بدعملی اور نا انصافی اور بداخلاقی سے بیزاری میرا اصول.“ اربعین نمبر اروحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۳۴۴) (۲) یہ ایک محض زبانی دعوی نہیں تھا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کی زندگی کا ہرلمحہ مخلوق خدا کی ہمدردی میں گذرتا تھا اور دیکھنے والے حیران ہوتے تھے کہ خدا کا یہ بندہ کیسے ارفع اخلاق کا مالک ہے کہ اپنے دشمنوں تک کے لئے حقیقی ماؤں کی سی تڑپ رکھتا ہے چنانچہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جو آپ کے مکان ہی کے ایک حصہ میں رہتے تھے اور بڑے ذہین اور نکتہ رس بزرگ تھے روایت کرتے ہیں کہ جن دنوں پنجاب میں طاعون کا دور دورہ تھا اور بے شمار آدمی ایک ایک دن میں اس موذی مرض کا شکار ہورہے تھے انہوں نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علیحدگی میں دعا کرتے سنا اور یہ نظارہ دیکھ کر محو حیرت ہو گئے.حضرت مولوی صاحب کے الفاظ یہ ہیں کہ:.

Page 49

۴۵ اس دعا میں آپ کی آواز میں اس قدر درد اور سوزش تھی کہ سننے والے کا پتہ پانی ہوتا تھا.اور آپ اس طرح آستانہ الہی پر گریہ وزاری کر رہے تھے جیسے کوئی عورت دردزہ سے بیقرار ہو.میں نے غور سے سنا تو آپ مخلوق خدا کے واسطے طاعون کے عذاب سے نجات کے لئے دعا فرما رہے تھے.اور کہہ رہے تھے کہ الہی اگر یہ لوگ طاعون کے عذاب سے ہلاک ہو گئے تو پھر تیری عبادت کون کرے گا.“ (سیرة مسیح موعود شمائل و اخلاق حصہ سوم صفحہ ۳۹۵ مولفه شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) ذرا غور کرو کہ آپ کے مخالفوں پر ایک عذاب الہی نازل ہو رہا ہے اور عذاب الہی بھی وہ جو ایک خدائی پیشگوئی کے مطابق آپ کی صداقت میں ظاہر ہوا ہے اور پیشگوئی بھی ایسی جس کے ملنے سے جلد باز لوگوں کی نظر میں آپ کی صداقت مشکوک ہو سکتی ہے مگر پھر بھی آپ مخلوق خدا کی ہلاکت کے خیال سے بے چین ہوئے جاتے ہیں اور خدا کے سامنے تڑپ تڑپ کر عرض کرتے ہیں کہ خدایا! تو رحیم وکریم ہے تو اپنی مخلوق کو اس عذاب سے بچالے اور ان کے ایمان کی سلامتی کے لئے اپنی جناب سے کوئی اور رستہ کھول دے.(۳) اس سے بڑھ کر یہ کہ جب آریہ قوم میں سے اسلام کا دشمن نمبر ا یعنی پنڈت لیکھرام آپ کی پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہوا تو آپ نے جہاں اس بات پر کہ خدا کی

Page 50

ایک پیشگوئی پوری ہوئی ہے اور اسلام کی صداقت کا ایک زبر دست نشان ظاہر ہوا ہے طبعا شکر اور خوشی کا اظہار فرمایا وہاں آپ کو پنڈت جی کی موت کا افسوس بھی ہوا کہ وہ صداقت سے محروم ہونے کی حالت میں ہی چل بسے.چنانچہ فرماتے ہیں:.” ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے.درد بھی ہے اور خوشی بھی.درد اس لئے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بدزبانیوں سے باز آجا تا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کیلئے دعا کرتا.اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہو جاتا.(سراج منیر روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۲۸) (۴) ایک دفعہ بعض عیسائی مشنریوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اقدام قتل کا سراسر جھوٹا مقدمہ دائر کیا اور ان مسیحی پادریوں میں ڈاکٹر مارٹن کلارک پیش پیش تھے.مگر خدا نے عدالت پر آپ کی صداقت کھول دی اور آپ اس مقدمہ میں جس میں عیسائیوں کے ساتھ مل کر آریوں اور بعض غیر احمد یوں مخالفین نے بھی آپ کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا کہ کسی طرح آپ سزا پا جائیں عزت کے ساتھ بری کئے گئے.جب عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تو کیپٹن ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے جو بعد میں کرنیل کے عہدہ تک پہنچے اور ابھی حال ہی میں فوت ہوئے ہیں آپ سے

Page 51

مخاطب ہوکر پوچھا :.۴۷ کیا آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر (اس جھوٹی کارروائی کی وجہ سے ) مقدمہ چلائیں؟ اگر آپ مقدمہ چلانا چاہیں تو آپ کو اس کا قانونی حق ہے.آپ نے بلا توقف فرمایا کہ میں کوئی مقدمہ کرنا نہیں چاہتا.میرا مقدمہ (سیرة مسیح موعود مصنفه عرفانی صاحب صفحہ ۱۰۷) آسمان پر ہے.“ (۵) مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی رئیس فرقہ اہل حدیث کو کون نہیں جانتا.وہ جوانی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوست اور ہم مکتب ہوتے تھے اور حضور کی پہلی تصنیف ” براہین احمدیہ پر انہوں نے بڑا شاندارر یو یو بھی لکھا تھا اور یہاں تک لکھا تھا کہ گزشتہ تیرہ سو سال میں اسلام کی تائید میں کوئی کتاب اس شان کی نہیں لکھی گئی مگر مسیح موعود کے دعوی پر یہی مولوی صاحب مخالف ہو گئے اور مخالف بھی ایسے کہ انتہاء کو پہنچ گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کفر کا فتویٰ لگا یا اور د قبال اور ضال قرار دیا.اور آپ کے خلاف ملک بھر میں مخالفت کی آگ بھڑکا دی.انہی مولوی محمد حسین صاحب کا ذکر ہے کہ وہ ایک دفعہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کے اقدام قتل والے مقدمہ میں آپ کے خلاف عیسائیوں کی طرف سے بطور گواہ پیش ہوئے.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وکیل مولوی فضل دین صاحب نے جو ایک غیر احمدی بزرگ تھے مولوی محمد حسین صاحب کی شہادت کو کمزور کرنے کے لئے ان کے خاندان اور

Page 52

۴۸ سب و نسب کے متعلق بعض طعن آمیز سوالات کرنے چاہے مگر حضرت مسیح موعود نے انہیں یہ کہہ کر سختی سے روک دیا کہ میں آپ کو ایسے سوالات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا اور یہ الفاظ فرماتے ہوئے آپ نے جلدی سے مولوی فضل دین صاحب کے منہ کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ کہیں ان کی زبان سے کوئی نا مناسب لفظ نہ نکل جائے اور اس طرح اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر اپنے جانی دشمن کی عزت و آبرو کی حفاظت فرمائی.اس کے بعد مولوی فضل دین صاحب موصوف ہمیشہ اس واقعہ کا حیرت کے ساتھ ذکر کیا کرتے تھے کہ مرزا صاحب عجیب اخلاق کے انسان ہیں کہ ایک شخص ان کی عزت بلکہ جان پر حملہ کرتا ہے اور اس کے جواب میں جب اس کی شہادت کو کمزور کرنے کے لئے اس پر بعض سوالات کئے جاتے ہیں تو آپ فورا روک دیتے ہیں کہ میں ایسے سوالات کی اجازت نہیں دیتا.(سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۷ ۲۴، ۲۴۸) یہ وہی مولوی محمدحسین صاحب ہیں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس شعر میں ذکر کیا ہے کہ :.قطعتَ وَدَادًا قَدْ غَرَسُنَاهُ فِي الصَّبَا وَلَيْسَ فُؤَادِي فِي الْوَدَادِ يُقَدِرُ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۳۳۵) د یعنی تو نے اس محبت کے درخت کو اپنے ہاتھ سے کاٹ دیا جو ہم نے جوانی کے زمانہ میں اپنے دلوں میں نصب کیا تھا.مگر میرا دل تو کسی صورت میں محبت کے معاملہ میں کمی اور کوتاہی کرنے والا نہیں.“

Page 53

۴۹ (1) دوستی اور وفاداری کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دل حقیقہ بے نظیر جذبات کا حامل تھا.آپ نے کسی کے ساتھ تعلقات قائم کر کے ان تعلقات کو توڑنے میں کبھی پہل نہیں کی اور ہر حال میں محبت اور دوستی کے تعلقات کو کمال وفاداری کے ساتھ نبھایا.چنانچہ آپ کے مقرب حواری حضرت مولوی عبد الکریم صاحب روایت کرتے ہیں کہ :.حضرت مسیح موعود نے ایک دن فرمایا میرا یہ مذہب ہے کہ جو شخص عہد دوستی باندھے مجھے اس عہد کی اتنی رعایت ہوتی ہے کہ وہ شخص کیسا ہی کیوں نہ ہو اور کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے میں اس سے قطع تعلق نہیں کر سکتا ہاں اگر وہ خود قطع تعلق کر دے تو ہم لاچار ہیں ورنہ ہمارا مذہب تو یہ ہے کہ اگر ہمارے دوستوں میں سے کسی نے شراب پی ہو اور بازار میں گرا ہوا ہو تو ہم بلاخوف لومۃ لائم اسے اٹھا کر لے آئیں گے.فرمایا: عہد دوستی بڑا قیمتی جو ہر ہے اس کو آسانی سے ضائع نہیں کر دینا چاہیے.اور دوستوں کی طرف سے کیسی ہی ناگوار بات پیش آجائے اس پر اغماض اور حمل کا طریق اختیار کرنا چاہیے.“ (سیرة مسیح موعود مصنفہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب صفحه ۴۶) اسی روایت کے متعلق حضرت مولوی شیر علی صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ

Page 54

السلام کے ایک نہایت مخلص صحابی تھے بیان کرتے تھے کہ اس موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا کہ اگر ایسا شخص شراب میں بے ہوش پڑا ہو تو ہم اسے اٹھا کر لے آئیں گے اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کریں گے اور جب وہ ہوش میں آنے لگے گا تو اس کے پاس سے اٹھ کر چلے جائیں گے تا کہ وہ ہمیں دیکھ کر شرمندہ (سیرۃ المہدی جلد ا حصہ دوم صفحه ۳۸۱) نہ ہو.66 اس سے یہ مراد نہیں کہ نعوذ باللہ شرابیوں اور فاسقوں فاجروں کو اپنا دوست بنانا ہیے بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی دوست ہو اور وہ بعد میں کسی کمزوری میں مبتلا ہو جائے تو اس وجہ سے اس کا ساتھ نہیں چھوڑ دینا چاہیے بلکہ وفاداری کے طریق پر اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے.احباب جماعت غور کریں کہ کیا وہ ان اخلاق پر قائم ہیں؟ اور یا درکھو کہ احمدیت کی اخوت کا عہد دوستی کے عہد سے بھی زیادہ مقدس ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا خوب فرمایا ہے:.انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا (بخاری کتاب المظالم و الغصب باب أعن اخاک ظالما او مظلوما) یعنی اپنے ہر دینی بھائی کی مدد تمہارا فرض ہے خواہ وہ ظالم ہے یا کہ مظلوم ہے.“ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مظلوم کی مدد تو ہم سمجھتے ہیں مگر ظالم کی مددکس طرح کی جائے ؟ آپ نے فرمایا ظالم کی مدد سے ظلم سے روکنے کی صورت میں کرو مگر بہر حال اخوت کے عہد کو کسی صورت میں ٹوٹنے نہ دو.

Page 55

۵۱ (<) قادیان میں ایک صاحب لالہ بڑھامل ہوتے تھے.یہ صاحب بہت کٹر قسم کے آریہ تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان کی بڑی مسجد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے ایک مینار کی بنیاد رکھی تو قادیان کے ہندوؤں نے ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے پاس شکایت کی کہ اس مینار کی تعمیر روک دی جائے کیونکہ اس سے ہماری عورتوں کی بے پردگی ہوگی یہ ایک فضول عذر تھا کیونکہ اول تو مینار کی چوٹی سے کسی کو پہچانا بہت مشکل ہوتا ہے اور پھر اگر بالفرض کوئی بے پردگی تھی بھی تو وہ سب کے لئے تھی جس میں احمدی جماعت بھی شامل تھی بلکہ جماعت احمد یہ پر اس کا زیادہ اثر پڑتا تھا کیونکہ یہ مینار احمدیہ محلہ میں تھا مگر ڈپٹی کمشنر نے حکومت کے عام طریق کے مطابق ہندوؤں کی یہ شکایت مجسٹریٹ صاحب علاقہ کے پاس رپورٹ کے لئے بھجوادی.یہ ڈپٹی صاحب قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود سے ملے اور مینار کی تعمیر کے متعلق حالات دریافت کئے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ ہم نے یہ مینار کوئی سیر و تفریح یا تماشا کے لئے نہیں بنایا بلکہ محض ایک دینی غرض کے لئے بنایا ہے تا کہ ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی پوری ہواور تا ایک بلند جگہ سے اذان کی آواز لوگوں کے کانوں تک پہنچائی جائے اور روشنی کا انتظام بھی کیا جائے.ورنہ ہمیں اس پر روپیہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں تھی.ڈپٹی صاحب نے کہا

Page 56

۵۲ کہ یہ ہند و صاحبان بیٹھے ہیں ان کو اس پر اعتراض ہے کہ ہمارے گھروں کی بے پردگی ہوگی.حضرت مسیح موعود نے فرمایا یہ اعتراض درست نہیں بلکہ ان لوگوں نے محض ہماری مخالفت میں یہ درخواست دی ہے ورنہ بے پردگی کا کوئی سوال نہیں.اور اگر بالفرض کوئی بے پردگی ہے بھی تو وہ ہماری بھی ہے.پھر آپ لالہ بڈھا مل کی طرف اشارہ کیا جو بعض دوسرے ہندوؤں کے ساتھ مل کر ان ڈپٹی صاحب کے ساتھ حضرت مسیح موعود کے پاس آئے تھے اور فرمایا کہ یہ لالہ بڈھا مل بیٹھے ہیں آپ ان سے پوچھیں کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ میرے لئے ان کو فائدہ پہنچانے کا کوئی موقع پیدا ہوا ہو اور میں نے ان کی امداد میں دریغ کیا ہو.اور پھر ان سے یہ بھی پوچھیں کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے نقصان پہنچانے کا انہیں کوئی موقع ملا ہو اور یہ نقصان پہنچانے سے رکے ہوں؟ حافظ روشن علی صاحب جو سلسلہ احمدیہ کے ایک جید عالم تھے بیان کیا کرتے تھے کہ اس وقت لالہ بڈھا مل پاس بیٹھے تھے مگر شرم اور ندامت کی وجہ سے انہیں جرات نہیں ہوئی کہ حضرت مسیح موعود کی بات کا جواب دینا تو در کنار حضور کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکیں.حقیقت یہ مخالفوں اور ہمسایوں پر شفقت کی ایک شاندار مثال (سیرۃ المہدی جلد احصہ اول صفحه ۱۳۸ روایات نمبر ۱۴۸) ہے.(^) ہماری جماعت کے اکثر پرانے دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائیوں مرزا امام دین صاحب اور مرزا نظام دین صاحب کو جانتے ہیں یہ دونو اپنی

Page 57

۵۳ بے دینی اور دنیا داری کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت ترین مخالف تھے بلکہ حقیقتہ وہ اسلام کے ہی دشمن تھے.ایک دفعہ انہوں نے محض حضرت مسیح موعود کی ایذا رسانی کے لئے حضور کے گھر کے قریب والی مسجد مبارک کے رستہ میں دیوار کھینچ دی اور مسجد میں آنے جانے والے نمازیوں اور حضرت مسیح موعود کے ملاقاتیوں کا رستہ بند کر دیا جس کی وجہ سے حضور کو اور قادیان کی قلیل سی جماعت احمدیہ کو سخت مصیبت کا سامنا ہوا اور وہ گو یا قید کے بغیر ہی قید ہو کر رہ گئے.لاچار اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے وکلاء کے مشورہ سے قانونی چارہ جوئی کرنی پڑی اور ایک لمبے عرصے تک یہ تکلیف دہ مقدمہ چلتا رہا اور بالآخر خدائی بشارت کے مطابق حضرت مسیح موعود کو فتح ہوئی اور یہ دیوار گرائی گئی.اس پر حضرت مسیح موعود کے وکیل نے حضور سے اجازت لینے بلکہ اطلاع تک دینے کے بغیر مرزا امام دین صاحب اور مرزا نظام دین صاحب کے خلاف خرچہ کی ڈگری حاصل کر کے قرقی کا حکم جاری کرالیا.اس پر مرزا صاحبان نے جن کے پاس اس وقت اس قرقی کی بے باقی کے لئے پورا روپیہ نہیں تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بڑی لجاجت کا خط لکھا اور یہاں تک کہلا بھیجا کہ بھائی ہو کر اس قرقی کے ذریعہ ہمیں کیوں ذلیل کرنے لگے ہو؟ حضرت مسیح موعود کو ان حالات کا علم ہوا تو آپ اپنے وکیل پر سخت خفا ہوئے کہ میری اجازت کے بغیر خرچہ کی ڈگری کیوں کرائی گئی ہے؟ اسے فوراً واپس لو.اور دوسری طرف مرزا صاحبان کو جواب بھجوادیا کہ آپ بالکل مطمئن رہیں کوئی قرقی نہیں ہوگی.یہ ساری کارروائی میرے علم کے بغیر ہوئی ہے.(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر ۲۴۲ وسیر مسیح موعود مصنفه عرفانی صاحب صفحه ۵ تا ۱۹)

Page 58

۵۴ دوست سوچیں اور غور کریں کہ حضرت مسیح موعود کے شرکاء کا جن کی دشمنی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی حضور کو دکھ دینے کے لئے اور حضور کی مٹھی بھر جماعت کو اس وقت جماعت مٹھی بھر ہی تھی ) پریشان کر کے منتشر کرنے کے لئے ایک خطر ناک تدبیر کرتے ہیں اور پھر اس تدبیر کو کامیاب بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں اور جھوٹا سچا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے.مگر جب وہ ناکام ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعود کی اطلاع کے بغیر ان پر خرچہ کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے تو بھاگتے ہوئے حضرت مسیح موعود کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ظالم ہوتے ہوئے گلہ کرتے ہیں کہ ہم پر یہ بوجھ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود مظلوم ہوتے ہوئے بھی اپنے دشمنوں سے معذرت کرتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے وکیل نے مجھ سے پوچھے بغیر یہ ڈگری جاری کرا دی ہے یہ سلوک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی) کے اس عدیم المثال سلوک کی اتباع میں تھا جو آپ نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے مفتوح اور مغلوب دشمنوں سے فرمایا تھا.آپ نے فرمایا.اذْهَبُوا أَنْتُمُ الطُلَقَاءِ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ - ( بخاری وزرقانی و تاریخ تخمیس ) یعنی جاؤ تم آزاد ہو میری طرف سے تم پر کوئی گرفت نہیں.“ (۹) پھر اپنے دوستوں اور خادموں کے لئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجسم عفو و

Page 59

تھے.چنانچہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اپنی تصنیف سیرۃ مسیح موعود میں حضرت مولوی نور الدین صاحب ( خلیفہ اول) کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی شفقت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :.ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ جن دنوں حضرت مسیح موعودا اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام کا عربی حصہ لکھ رہے تھے.حضور نے مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول کو ایک بڑا دو ورقہ اس زیر تصنیف کتاب کے مسودہ کا اس غرض سے دیا کہ فارسی میں ترجمہ کرنے کے لئے مجھے پہنچا دیا جائے.وہ ایسا مضمون تھا کہ اس کی خدا داد فصاحت و بلاغت پر حضرت کو ناز تھا.مگر مولوی صاحب سے یہ دو ورقہ کہیں گر گیا.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے ہر روز کا تازہ عربی مسودہ فارسی ترجمہ کے لئے ارسال فرمایا کرتے تھے اس لئے اس دن غیر معمولی دیر ہونے پر مجھے طبعا فکر پیدا ہوئی اور میں نے مولوی نور الدین صاحب سے ذکر کیا کہ آج حضرت کی طرف سے مضمون نہیں آیا اور کا تب سر پر کھڑا ہے اور دیر ہورہی ہے معلوم نہیں کیا بات ہے یہ الفاظ میرے منہ سے نکلنے تھے کہ مولوی نورالدین صاحب کا رنگ فق ہو گیا.کیونکہ یہ دو ورقہ مولوی صاحب سے کہیں گر گیا تھا.بے حد تلاش کی مگر مضمون نہ ملا اور مولوی صاحب سخت پریشان تھے.حضرت مسیح موعود کو اطلاع ہوئی تو حسب معمول ہشاش بشاش مسکراتے ہوئے باہر تشریف لائے اور خفا ہونا یا گھبراہٹ کا اظہار کرنا تو در کنار الٹا اپنی طرف سے معذرت فرمانے لگے کہ مولوی صاحب کو مسودہ کے گم ہونے سے ناحق تشویش ہوئی مجھے مولوی صاحب کی

Page 60

تکلیف کی وجہ سے بہت افسوس ہے.میرا تو یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے گم شدہ کا غذ سے بہتر مضمون لکھنے کی توفیق عطا فرمادے گا.“ (سیرۃ المہدی جلد احصہ اول روایت نمبر ۲۹۲ صفحه ۲۶۱،۲۶۰) اس لطیف واقعہ سے ایک طرف حضرت مسیح موعود کے غیر معمولی جذبہ شفقت اور دوسری طرف اپنے آسمانی آقا کی نصرت پر غیر معمولی تو کل پر خاص روشنی پڑتی ہے غلطی حضرت مولوی نور الدین صاحب سے ہوئی تھی کہ ایک قیمتی مسودہ کی پوری حفاظت نہیں کی اور اسے ضائع کر دیا.مگر حضرت مسیح موعود کی شفقت کا یہ مقام ہے کہ خود پریشان ہوئے جاتے ہیں اور معذرت فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب کو مسودہ گم ہونے سے اتنی تکلیف ہوئی ہے اور پھر تو کل کا یہ مقام ہے کہ ایک مضمون کی فصاحت و بلاغت اور اس کے معنوی محاسن پر ناز ہونے کے باوجود اس کے کھوئے جانے پر کس استغناء کے رنگ میں فرماتے ہیں کہ کوئی فکر کی بات نہیں خدا ہمیں اس سے بہتر مضمون عطا فرما دے گا! یہ شفقت اور یہ توکل اور یہ حمل خدا کے خاص بندوں کے سواکسی اور میں پا یا جا ناممکن نہیں.(1+) ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم کا ایک قریبی عزیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان میں آکر کچھ عرصہ رہا تھا ایک دن سردی کے موسم کی وجہ سے ہمارے نانا جان مرحوم نے اپنا ایک مستعمل کوٹ ایک

Page 61

۵۷ خادمہ کے ہاتھ اسے بھجوایا تا کہ یہ عزیز سردی سے محفوظ رہے.مگرکوٹ کے مستعمل ہونے کی وجہ سے اس عزیز نے یہ کوٹ حقارت کے ساتھ واپس کر دیا کہ میں استعمال شدہ کپڑا نہیں پہنتا.اتفاق سے جب یہ خادمہ اس کوٹ کو لے کر میر صاحب کی طرف واپس جارہی تھی تو حضرت مسیح موعود نے اسے دیکھ لیا اور پوچھا کہ یہ کیسا کوٹ ہے اور کہاں لئے جاتی ہو؟ اس نے کہا میر صاحب نے یہ کوٹ اپنے فلاں عزیز کو بھیجا تھا مگر اس نے مستعمل ہونے کی وجہ سے بہت برا مانا ہے اور واپس کر دیا ہے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا واپس نہ لے جاؤ اس سے میر صاحب کی دل شکنی ہو گی.تم یہ کوٹ ہمیں دے جاؤ.ہم پہنیں گے.اور میر صاحب سے کہہ دینا کہ میں نے رکھ لیا ہے.“ (سیرۃ المہدی جلد ا حصہ دوم صفحه ۳۰۵) یہ ایک انتہائی شفقت اور انتہائی دلداری کا مقام تھا کہ حضرت مسیح موعود نے یہ مستعمل کوٹ خود اپنے لئے رکھ لیا تا کہ حضرت نانا جان کی دل شکنی نہ ہو ورنہ حضرت مسیح موعود کوکوٹوں کی کمی نہیں تھی اور حضور کے خدام حضور کی خدمت میں بہتر سے بہتر کوٹ پیش کرتے رہتے تھے اور ساتھ ہی یہ انتہائی سادگی اور بے نفسی کا بھی اظہار تھا کہ دین کا بادشاہ ہوکر اترے ہوئے کوٹ کے استعمال میں تامل نہیں کیا.(11) انسان کے اخلاق کا ایک نمایاں پہلو اپنے اہل خانہ کے ساتھ سلوک سے تعلق

Page 62

۵۸ رکھتا ہے.میں اس معاملہ میں زیادہ بیان کرتے ہوئے طبعا حجاب محسوس کرتا ہوں اس لئے صرف اس مختصر سی بات پر اکتفا کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس ارشاد نبوی کا کامل نمونہ تھے کہ :.خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ (ترمذی ابواب المناقب باب فضل ازواج النبی صلی الله علیه وسلم) د یعنی خدا کے نزدیک تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ سلوک کرنے میں بہتر ہے.“ اس کی تشریح میں اس تاثر کو بیان کرنے میں حرج نہیں جو اس معاملہ میں حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جماعت کے دلوں میں پایا جاتا تھا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو ساری جماعت جانتی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مقرب صحابی تھے.ایک دفعہ ان کا اپنی بیوی کے ساتھ کسی امر میں کچھ اختلاف ہو گیا اور حضرت مفتی صاحب اپنی بیوی پر خفا ہوئے.مفتی صاحب کی اہلیہ نے اس خانگی ناراضگی کا حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی بڑی بیوی کے ساتھ ذکر کیا.غالبا ان کا منشاء یہ تھا کہ اس طرح بات حضرت اماں جان تک اور پھر حضرت مسیح موعود تک پہنچ جائے گی.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب طبیعت کے بہت ذہین اور بڑے بذلہ سنج تھے.اس رپورٹ کے پہنچنے پر مفتی صاحب سے فرمایا ”مفتی صاحب جس طرح بھی ہوا اپنی بیوی کو منالیں کیا آپ نہیں جانتے کہ آج کل ملکہ کا راج ہے؟ لطیفہ اس بات میں یہ تھا کہ ان ایام میں ہندوستان پر ملکہ وکٹوریہ کی حکومت تھی اور حضرت مولوی صاحب کے الفاظ میں یہ بھی اشارہ تھا کہ حضرت مسیح موعود مستورات کے حقوق کا بہت

Page 63

۵۹ خیال رکھتے اور ان معاملات میں اپنے اہل خانہ کے مشورہ کو زیادہ وزن دیتے ہیں.مفتی صاحب مولوی صاحب کا اشارہ سمجھ گئے اور فورا جا کر بیوی کو منا لیا.اس طرح گھر کی ایک وقتی رنجش جنت ارضی والے سکون اور راحت میں بدل گئی.(سیرۃ المہدی جلد احصہ دوم صفحه ۳۹۱ روایت ۴۳۲) (۱۲) انسان کے اہل خانہ میں اس کی اولا د بھی شامل ہے اور اس میدان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسوہ بہت بلند تھا.آپ اپنے بچوں کے ساتھ بڑی شفقت اور بڑی محبت کا سلوک فرماتے تھے مگر لازما دوسری محبتوں کی طرح یہ محبت بھی محبت الہی کے تابع تھی چنانچہ جب ہمارا سب سے چھوٹا بھائی مبارک احمد بیار ہوا اور یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حضرت مسیح موعود کو بڑی کثرت سے قرب وفات کے الہامات ہو رہے تھے تو آپ نے انتہائی توجہ اور جاں سوزی کے ساتھ اس کی تیمار داری فرمائی اور گویا تیمارداری میں دن رات ایک کر دیا.مگر جب وہ قضاء الہی سے فوت ہو گیا تو آپ اس کی وفات پر یہ شعر فرما کر کامل صبر کا نمونہ دکھاتے ہوئے پورے شرح صدر کے ساتھ راضی برضاء الہی ہو گئے اور خدا کی یاد میں مرنے والے بچے کو اس طرح بھول گئے کہ گویا وہ کبھی تھا ہی نہیں.فرماتے ہیں:.برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اسے بلایا بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پر اے دل تو جاں فدا کر

Page 64

بچوں کی تربیت کے معاملہ میں حضرت مسیح موعود " نصیحت کرنے اور بری صحبت سے بچانے کے علاوہ دعاؤں پر بہت زور دیتے تھے.چنانچہ جو اشعار آپ نے اپنے بچوں کے ختم قرآن کے موقعہ پر آمین کے رنگ میں فرمائے وہ اس روحانی طریق تربیت کی ایک بڑی دلکش مثال ہیں.میں یہاں نمونہ کے طور چند شعر بیان کرتا ہوں فرماتے ہیں.ہوشکر تیرا کیونکراے میرے بندہ پرور تیرا ہوں میں سراسر تو میرا رب اکبر تو نے مجھے دیئے ہیں یہ تین تیرے چا کر یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي یہ تین جو پسر ہیں تجھ سے ہی یہ ثمر ہیں یہ میرے بارو بر ہیں تیرے غلام در ہیں تو سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھر ہیں یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي شیطاں سے دور رکھیوا اپنے حضور رکھیو جاں پر زنور رکھیو دل پرسرور رکھیو ان پر میں تیرے قرباں ! رحمت ضرور رکھیو یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي

Page 65

۶۱ اور دوسری آمین میں فرماتے ہیں :.مرے مولیٰ مری یہ اک دعا ہے مری اولاد جو تیری عطا ہے تری درگاہ میں عجز وبکا ہے ہراک کو دیکھ لوں وہ پارسا ہے تری قدرت کے آگے روک کیا ہے عجب محسن ہے تو بحر الا یادی وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي نجات ان کو عطا کر گندگی سے برات ان کو عطا کر بندگی سے رہیں خوشحال اور فرخندگی سے بچانا اے خدا! بد زندگی سے وہ ہوں میری طرح دیں کے منادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي یقینا ہماری کمزوریوں کے باوجود ہماری زندگیوں کی ہر برکت انہی پاک دعاؤں کا ثمرہ ہے.

Page 66

۶۲ (IM) انسان کے اخلاق میں مہمان کا بھی ایک خاص مقام ہوتا ہے اس تعلق میں ایک مختصرسی بات کے بیان کرنے پر اکتفا کرتا ہوں ایک بہت شریف اور بڑے غریب مزاج احمدی سیٹھی غلام نبی صاحب ہوتے تھے جو رہنے والے تو چکوال کے تھے مگر راولپنڈی میں دکان کرتے تھے.انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں حضرت مسیح موعود کی ملاقات کے لئے قادیان آیا.سردی کا موسم تھا اور کچھ بارش بھی ہو رہی تھی.میں شام کے وقت قادیان پہنچا تھا.رات کو جب میں کھانا کھا کر لیٹ گیا اور کافی رات گذر گئی اور قریباً بارہ بجے کا وقت ہو گیا تو کسی نے میرے کمرے کے دروازے پر دستک دی.میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو حضرت مسیح موعود کھڑے تھے ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا گلاس تھا اور دوسرے ہاتھ میں لالٹین تھی.میں حضور کو دیکھ کر گھبرا گیا مگر حضور نے بڑی شفقت سے فرمایا.کہیں سے دودھ آ گیا تھا میں نے کہا آپ کو دے آؤں.آپ یہ دودھ پی لیں.آپ کو شاید دودھ کی عادت ہوگی.اس لئے یہ دودھ آپ کے لئے لے آیا ہوں سیٹھی صاحب کہا کرتے تھے کہ میری آنکھوں میں آنسو امڈ آئے کہ سبحان اللہ کیا اخلاق ہیں ! یہ خدا کا برگزیدہ صیح اپنے ادنیٰ خادموں تک کی خدمت اور دلداری میں کتنی لذت پاتا اور کتنی تکلیف اٹھاتا ہے.(سیرۃ المہدی جلد ا حصہ سوم صفحہ ۷۷۰ روایت ۸۶۸)

Page 67

۶۳ (۱۴) سیٹھی صاحب تو خیر مہمان تھے مجھے ایک اور صاحب نے سنایا کہ میں اپنی جوانی کے زمانہ میں کبھی کبھی حضرت مسیح موعود کے ساتھ خادم کے طور پر حضور کے سفروں میں ساتھ چلا جایا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود کا قاعدہ تھا کہ سواری کا گھوڑا مجھے دے دیتے تھے کہ تم چڑھو اور آپ ساتھ ساتھ پیدل چلتے تھے یا کبھی میں زیادہ اصرار کرتا تو کچھ وقت کے لئے خود سوار ہو جاتے تھے اور باقی وقت مجھے سواری کے لئے فرماتے تھے اور جب ہم منزل پر پہنچتے تھے تو چونکہ وہ زمانہ بہت سستا تھا حضور مجھے کھانے کے لئے چار آنے کے پیسے دیتے تھے اور خود ایک آنہ کی دال روٹی منگوا کر یا چنے بھنوا کر گزارہ کرتے تھے اور آپ کی خوراک بہت ہی کم تھی.(سیرۃ المہدی جلد ا حصہ دوم صفحہ ۶۲۷، ۶۲۸) (۱۵) حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کا ذکر اوپر گذر چکا ہے وہ بہت ممتاز صحابہ میں سے تھے اور انہیں حضرت مسیح موعود کی قریب کی صحبت کا بہت لمبا موقعہ میسر آیا تھا.وہ بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ گرمی کا موسم تھا اور حضرت مسیح موعود کے اہل خانہ لدھیانہ گئے ہوئے تھے میں حضور کو ملنے اندرون خانہ گیا.کمرہ نیا نیا بنا تھا اور ٹھنڈا تھا میں ایک چار پائی پر ذرا لیٹ گیا.اور مجھے نیند آ گئی.حضور اس وقت کچھ تصنیف

Page 68

۶۴ فرماتے ہوئے ٹہل رہے تھے.جب میں چونک کر جا گا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود میری چارپائی کے پاس نیچے فرش پر لیٹے ہوئے تھے.میں گھبرا کر ادب سے کھڑا ہو گیا.حضرت مسیح موعود نے بڑی محبت سے پوچھا مولوی صاحب ! آپ کیوں اٹھ بیٹھے؟ میں نے عرض کیا حضور نیچے لیٹے ہوئے ہیں میں اوپر کیسے سوسکتا ہوں؟ مسکرا کر فرمایا آپ بے تکلفی سے لیٹے رہیں میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا.بچے شور کرتے تھے تو میں انہیں روکتا تھا تا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آئے.اللہ اللہ ! شفقت کا کیا سیرت مسیح موعود مصنفہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب صفحہ ۳۶) عالم تھا !! (14) اب ذرا غریبوں اور سائلوں پر شفقت کا حال بھی سن لیجئے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کے گھر میں کسی غریب عورت نے کچھ چاول چرا لئے.لوگوں نے اسے دیکھ لیا اور شور پڑ گیا.حضرت مسیح موعود اس وقت اپنے کمرے میں کام کر رہے تھے شور سن کر باہر تشریف لائے تو یہ نظارہ دیکھا کہ ایک غریب خستہ حال عورت کھڑی ہے اور اس کے ہاتھ میں تھوڑے سے چاولوں کی گٹھڑی ہے.حضرت مسیح موعود کو واقعہ کا علم ہوا اور اس غریب عورت کا حلیہ دیکھا تو آپ کا دل پسیج گیا.فرمایا یہ بھوکی اور کنگال معلوم ہوتی ہے اسے کچھ چاول دے کر رخصت کر دو اور خدا کی ستاری کا شیوہ اختیار کرو.(سیرت حضرت مسیح موعود مصنفہ عرفانی صاحب حصہ اول صفحہ ۹۸) اس واقعہ پر کوئی جلد باز شخص کہہ سکتا ہے کہ یہ بات تو چوری پر دلیری پیدا کرنے

Page 69

والی ہے مگر دانا لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ جب مال خود حضرت مسیح موعود کا اپنا تھا اور لینے والی عورت ایک بھوکوں مرتی کنگال عورت تھی تو یہ چوری پر اعانت نہیں بلکہ حقیقتاً اطعام مسکین میں داخل ہے.حدیثوں سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے حالات میں جبکہ چوری کرنے والا بہت غریب ہوا اور انتہائی بھوک کی حالت میں کوئی کھانے کی چیز اٹھالے تو اسے سارق نہیں گردانا بلکہ چشم پوشی سے کام لیا ہے.(۱۷) ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعود چہل قدمی سے واپس آکر اپنے مکان میں داخل ہو رہے تھے کسی سائل نے دور سے سوال کیا.مگر اس وقت ملنے والوں کی آوازوں میں اس سائل کی آواز گم ہو کر رہ گئی اور حضرت مسیح موعود اندر چلے گئے.مگر تھوڑی دیر کے بعد جب لوگوں کی آوازوں سے دور ہو جانے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کے کانوں میں اس سائل کی دکھ بھری آواز کی گونج اٹھی تو آپ نے باہر آ کر پوچھا کہ ایک سائل نے سوال کیا تھا.وہ کہاں ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ حضرت وہ تو اسی وقت یہاں سے چلا گیا تھا.اس کے بعد آپ اندرون خانہ تشریف لے گئے مگر دل بے چین تھا.تھوڑی دیر کے بعد دروازہ پر اسی سائل کی پھر آواز آئی اور آپ لپک کر باہر آئے اور اس کے ہاتھ پر کچھ رقم رکھ دی اور ساتھ ہی فرمایا کہ میری طبیعت اس سائل کی وجہ سے بے چین تھی اور میں نے دعا بھی کی تھی کہ خدا اسے واپس لائے.(سیرۃ المہدی جلد ا حصہ اول روایت ۲۹۸ صفحه ۲۶۹)

Page 70

۶۶ الغرض حضرت مسیح موعود کا وجود ایک مجسم رحمت تھا.وہ رحمت تھا اپنے عزیزوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے دوستوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے دشمنوں کے لئے ، اور رحمت تھا اپنے ہمسائیوں کے لئے اور رحمت تھا اپنے خادموں کے لئے اور رحمت تھا سائلوں کے لئے اور رحمت تھا عامتہ الناس کے لئے اور دنیا کا کوئی چھوٹا یا بڑا طبقہ ایسا نہیں ہے جس کے لئے اس نے رحمت اور شفقت کے پھول نہ بکھیرے ہوں.بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ وہ رحمت تھا اسلام کے لئے جس کی خدمت اور اشاعت کے لئے اس نے انتہائی فدائیت کے رنگ میں اپنی زندگی کی ہر گھڑی اور اپنی جان تک قربان کر رکھی تھی.(IA) بالآخر ایک جامع نوٹ پر اپنے اس مقالہ کو ختم کرتا ہوں.ہمارے بڑے ماموں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم نے میری تحریک پر حضرت مسیح موعود کے اخلاق و اوصاف کے متعلق ایک مضمون لکھا تھا.اس مضمون میں وہ فرماتے ہیں:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت رؤوف و رحیم تھے سخی تھے مہمان نواز تھے اشجع الناس تھے ابتلاؤں کے وقت جبکہ لوگوں کے دل بیٹھے جاتے تھے آپ شیر نر کی طرح آگے بڑھتے تھے.عفو، چشم پوشی ، فیاضی ، خاکساری ، وفاداری ، سادگی عشق الہی ، محبت رسول، ادب بزرگان دین ، ایفاء عہد ،حسن معاشرت ، وقار، غیرت، ہمت، اولوالعزمی، خوش روئی اور کشادہ پیشانی آپ

Page 71

۶۷ کے ممتاز اخلاق تھے....میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس وقت دیکھا جب میں دو برس کا بچہ تھا.پھر آپ میری ان آنکھوں سے اس وقت غائب ہوئے جب میں ستائیس سال کا جوان تھا.مگر میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے آپ سے بہتر آپ سے زیادہ خوش اخلاق آپ سے زیادہ نیک، آپ سے زیادہ بزرگانہ شفقت رکھنے والا ، آپ سے زیادہ اللہ اور رسول کی محبت میں غرق رہنے والا کوئی شخص نہیں دیکھا.آپ ایک نور تھے.جو انسانوں کے لئے دنیا پر ظاہر ہوا.اور ایک رحمت کی بارش تھے جو ایمان کی لمبی خشک سالی کے بعد اس زمین پر برسی اور ا سے شاداب کر گئی.“ سیرۃ المہدی جلد ا حصہ سوم روایت ۹۷۵ صفحه ۸۲۴) یہی میری بھی چشم دید شہادت ہے اور اسی پر میں اپنے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ وَعَلَى مُطَاعِهِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكَ وَسَلِّمْ وَ آخِرُ دَعْوَنَا آنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه ۳ دسمبر ۵۹ء

Page 72

Page 73

۶۹ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ حضرت اماں جان بلند اخلاق.اعلیٰ روحانیت اور غیر معمولی مقام توکل ضمیمہ رسالہ کچھ عرصہ ہوا میں نے ایک مختصر سا نوٹ حضرت اماں جان اے مرحومه مغفوره کے بلند اخلاق اور بلند مقام توکل پر لکھا تھا سو اب جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ طیبہ پر ایک رسالہ چھپ رہا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ مختصر سا نوٹ بھی ضمیمہ کے طور پر اس کے ساتھ شامل کر دیا جائے تا کہ جس طرح دنیا میں یہ بزرگ ہستیاں ایک دوسرے کی رفیق حیات تھیں اسی طرح اس ذکر خیر میں بھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور میرے دل و دماغ بھی اس معنوی رفاقت سے سکون وراحت پائیں.حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا اپریل ۱۹۵۲ء میں فوت ہوئی تھیں.اس عرصہ میں مجھے کئی دفعہ ان کی سیرۃ کے متعلق کچھ لکھنے کی خواہش پیدا ہوئی مگر ہر دفعہ جذبات سے مغلوب ہو کر اس ارادہ کو ترک کرنا پڑا.اب بعض احباب کی تحریک پر ا سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ حرم محترم حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 74

ذیل کی چند مختصر سی سطور لکھنے کا ارادہ کر رہا ہوں.وَاللهُ الْمُوَقِّقُ وَالْمُسْتَعَانُ (1) حضرت اماں جان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ان کی شادی خاص الہی تحریک کے ماتحت ہوئی تھی.اور دوسرا امتیاز یہ حاصل ہے کہ یہ شادی ۱۸۸۴ ء میں ہوئی اور یہی وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعوی مجددیت کا اعلان فرمایا تھا اور پھر سارے زمانہ ماموریت میں حضرت امان جان مرحومه مغفوره حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفیقہ حیات رہیں.اور حضرت مسیح موعود انہیں انتہائی درجہ محبت اور انتہائی درجہ شفقت کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کی بے حد دلداری فرماتے تھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ زبردست احساس تھا کہ یہ شادی خدا کے خاص منشاء کے ماتحت ہوئی ہے اور یہ کہ حضور کی زندگی کے مبارک دور کے ساتھ حضرت اماں جان کو مخصوص نسبت ہے چنانچہ بعض اوقات حضرت اماں جان بھی محبت اور ناز کے انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کرتی تھیں کہ میرے آنے کے ساتھ ہی آپ کی زندگی میں برکتوں کا دور شروع ہوا ہے جس پر حضرت مسیح موعود مسکرا کر فرماتے تھے کہ ”ہاں یہ ٹھیک ہے.دوسری طرف حضرت اماں جان بھی حضرت مسیح موعود کے متعلق کامل محبت اور کامل یگانگت کے مقام پر فائز تھیں اور گھر میں یوں نظر آتا تھا گو یا دوسینوں میں ایک دل کام کر رہا ہے.

Page 75

اے (٢) حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے اخلاق فاضلہ اور آپ کی نیکی اور تقوی کومختصر الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں مگر اس جگہ میں صرف اشارہ کے طور پر نمونۂ چند باتوں کے ذکر پر اکتفاء کرتا ہوں.آپ کی نیکی اور دینداری کا مقدم ترین پہلو نماز اور نوافل میں شغف تھا.پانچ فرض نمازوں کا تو کیا کہنا ہے حضرت اماں جان نماز تہجد اور نماز ضحی کی بھی بے حد پابند تھیں اور انہیں اس ذوق وشوق سے ادا کرتی تھیں کہ دیکھنے والوں کے دل میں بھی ایک خاص کیفیت پیدا ہونے لگتی تھی.بلکہ ان نوافل کے علاوہ بھی جب موقعہ ملتا تھا نماز میں دل کا سکون حاصل کرتی تھیں.میں پوری بصیرت کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ فسی) کی یہ پیاری کیفیت کہ جُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلوة (يعنی میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے ) حضرت اماں جان کو بھی اپنے آقا سے ورثے میں ملی تھی.(۳) پھر دعا میں بھی حضرت اماں جان کو بے حد شغف تھا.اپنی اولاد اور دوسرے عزیزوں بلکہ ساری جماعت کے لئے جسے وہ اولاد کی طرح سمجھتی تھیں بڑے درد و سوز کے ساتھ دعا فرمایا کرتی تھیں اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے ان کے دل میں غیر معمولی تڑپ تھی.

Page 76

۷۲ اولاد کے متعلق حضرت اماں جان کی دعا کا نمونہ ان اشعار سے ظاہر ہے جو حضرت مسیح موعود نے حضرت اماں جان کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کی طرف سے اور گویا انہی کی زبان سے فرمائے.خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے آپ عرض کرتے ہیں :.کوئی ضائع نہیں ہو تا جوتر اطالب ہے کوئی رسوا نہیں ہوتا جو ہے جو یاں تیرا آسماں پر سے فرشتے بھی مدد کرتے ہیں کوئی ہو جائے اگر بندہ فرماں تیرا اس جہاں میں ہی وہ جنت میں ہے بے ریب و گماں وہ جو اک پختہ توکل سے ہے مہماں تیرا میری اولا دکو تو ایسی ہی کردے پیارے دیکھ لیں آنکھ سے وہ چہرہ نمایاں تیرا عمر دے رزق دے اور عافیت و صحت بھی سب سے بڑھ کر یہ کہ پا جائیں وہ عرفاں تیرا اپنی ذاتی دعاؤں میں جو کلمہ حضرت اماں جان کی زبان پر سب سے زیادہ آتا تھا وہ یہ مسنون دعا تھی کہ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيثُ - یعنی اے میرے زندہ خدا اور اے میرے زندگی بخش آقا! میں تیری رحمت کا سہارا ڈھونڈتی ہوں.“

Page 77

۷۳ ہے کہ.یہ وہی جذبہ ہے جس کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شعر فرمایا تری رحمت ہے میرے گھر کا شہتیر مری جاں تیرے فضلوں کی پند گیر (۴) جماعتی چندوں میں بھی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا بڑے ذوق وشوق سے حصہ لیتی تھیں اور تبلیغ اسلام کے کام میں ہمیشہ اپنی طاقت سے بڑھ کر چندہ دیتی تھیں.تحریک جدید کا چندہ جس سے بیرونی ممالک میں اشاعت اسلام کا کام سر انجام پاتا ہے اس کے اعلان کے لئے ہمیشہ ہمہ تن منتظر رہتی تھیں اور اعلان ہوتے ہی بلا توقف اپنا وعدہ لکھا دیتی تھیں بلکہ وعدہ کے ساتھ ہی نقد ادا ئیگی بھی کر دیتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ زندگی کا اعتبار نہیں.وعدہ جب تک ادا نہ ہو جائے دل پر بوجھ رہتا ہے.دوسرے چندوں میں بھی یہی ذوق وشوق کا عالم تھا.(۵) صدقہ و خیرات اور غریبوں کی امداد بھی حضرت اماں جان نَوَّرَ اللَّهُ مَرْ قَدَهَا کا نمایاں خلق تھا اور اس میں وہ خاص لذت پاتی تھیں اور اس کثرت کے ساتھ غریبوں کی امداد کرتی تھیں کہ یہ کثرت بہت کم لوگوں میں دیکھی گئی ہے.جو شخص بھی ان کے پاس

Page 78

۷۴ اپنی مصیبت کا ذکر لے کر آتا تھا حضرت اماں جان اپنے مقدور سے بڑھ کر اس کی امداد فرماتی تھیں اور کئی دفعہ ایسے خفیہ رنگ میں مدد کرتی تھیں کہ کسی اور کو پتہ تک نہیں چلتا تھا.اسی ذیل میں ان کا یہ بھی طریق تھا کہ بعض اوقات یتیم بچوں اور بچیوں کو اپنے مکان پر بلا کر کھانا کھلاتی تھیں اور بعض اوقات ان کے گھروں پر بھی کھانا بھجوادیتی تھیں.ایک دفعہ ایک واقف کار شخص سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کو کسی ایسے شخص (احمدی یا غیر احمدی یا غیر مسلم ) کا علم ہے جو قرض کی وجہ سے قید بھگت رہا ہو ( اوائل زمانے میں ایسے سول (CIVIL) قیدی بھی ہوا کرتے تھے ) اور جب اس نے لاعلمی کا اظہار کیا تو فرمایا کہ تلاش کرنا میں اس کی مدد کرنا چاہتی ہوں تا قرآن مجید کے اس حکم پر عمل کر سکوں کہ معذور قیدیوں کی مدد بھی کار ثواب ہے.قرض مانگنے والوں کو فراخ دلی کے ساتھ قرض بھی دیتی تھیں مگر یہ دیکھ لیتی تھیں کہ قرض مانگنے والا کوئی ایسا شخص تو نہیں جو عادی طور پر قرض مانگا کرتا ہے اور پھر قرض کی رقم واپس نہیں کیا کرتا.ایسے شخص کو قرض دینے سے پر ہیز کرتی تھیں تا کہ اس کی یہ بری عادت ترقی نہ کرے مگر ایسے شخص کو بھی حسب گنجائش امداد دے دیا کرتی تھیں.ایک دفعہ میرے سامنے ایک عورت نے ان سے کچھ قرض مانگا.اس وقت اتفاق سے حضرت اماں جان کے پاس اس قرض کی گنجائش نہیں تھی.مجھ سے فرمانے لگیں میاں ! ( وہ اپنے بچوں کو اکثر میاں کہہ کر پکارتی تھیں ) تمہارے پاس اتنی رقم ہو تو اسے قرض دے دو.یہ عورت لین دین میں صاف ہے.چنانچہ میں نے مطلوبہ رقم دے دی اور پھر اس غریب عورت نے تنگ دستی کے باوجود عین وقت پر اپنا قرضہ واپس کر دیا جو آج کل کے اکثر نو جوانوں کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے.

Page 79

۷۵ (4) حضرت اماں جان نَوَّرَ اللهُ مَرْقَدَهَا کو اسلامی احکام کے ماتحت یتیم بچوں کی پرورش اور تربیت کا بھی بہت خیال رہتا تھا.میں نے جب سے ہوش سنبھالا ان کے سایہ عاطفت میں ہمیشہ کسی نہ کسی یتیم لڑکی یالڑ کے کو پلتے دیکھا اور وہ یتیموں کو نوکروں کی طرح نہیں رکھتی تھیں بلکہ ان کے تمام ضروری اخراجات برداشت کرنے کے علاوہ ان کے آرام و آسائش اور ان کی تعلیم و تربیت اور ان کے واجبی اکرام اور عزت نفس کا بھی بہت خیال رکھتی تھیں.اس طرح ان کے ذریعہ بیسیوں یتیم بچے جماعت کے مفید وجود بن گئے.بسا اوقات اپنے ہاتھ سے یتیموں کی خدمت کرتی تھیں.مثلا یتیم بچوں کو نہلا نا.ان کے بالوں میں کنگھی کرنا.کپڑے بدلوانا وغیرہ وغیرہ.مجھے یقین ہے کہ حضرت اماں جان رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بشارت سے انشاء اللہ ضرور حصہ پائیں گے کہ آنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ كَهَاتَيْنِ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی ضم الیتیم یعنی قیامت کے دن میں اور یتیموں کی پرورش کرنے والا شخص اس طرح اکٹھے ہوں گے جس طرح کہ ایک ہاتھ کی دو انگلیاں باہم پیوست ہوتی ہیں.(۷) مهمان نوازی بھی حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے اخلاق کا طرہ امتیاز تھا.اپنے عزیزوں اور دوسرے لوگوں کو اکثر کھانے پر بلاتی رہتی تھیں.اور اگر گھر میں کوئی

Page 80

۷۶ خاص چیز پکتی تھی تو ان کے گھروں میں بھی بھجوا دیتی تھیں.خاکسار راقم الحروف کو علیحدہ گھر ہونے کے باوجود حضرت اماں جان نے اتنی دفعہ اپنے گھر سے کھانا بھجوایا ہے کہ اس کا شمار ناممکن ہے اور اگر کوئی عزیز یا کوئی دوسری خاتون کھانے کے وقت حضرت اماں جان کے گھر میں جاتی تھیں تو حضرت اماں جان کا اصرار ہوتا تھا کہ کھانا کھا کر واپس جاؤ.چنانچہ اکثر اوقات زبردستی روک لیتی تھیں.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مہمان نوازی ان کی روح کی غذا ہے.عیدوں کے دن حضرت اماں جان کا دستور تھا کہ اپنے سارے خاندان کو اپنے پاس کھانے کی دعوت دیتی تھیں اور ایسے موقعوں پر کھانا پکوانے اور کھانا کھلانے کی بذات خود نگرانی فرماتی تھیں.اور اس بات کا بھی خیال رکھتی تھیں کہ فلاں عزیز کو کیا چیز مرغوب ہے اور اس صورت میں حتی الوسع وہ چیز ضرور پکواتی تھیں جب آخری عمر میں زیادہ کمزور ہو گئیں تو مجھے ایک دن حسرت کے ساتھ فرمایا کہ اب مجھ میں ایسے اہتمام کی طاقت نہیں رہی میرا دل چاہتا ہے کہ کوئی مجھ سے رقم لے لے اور میری طرف سے کھانے کا انتظام کر دے.وفات سے کچھ عرصہ قبل جب کہ حضرت اماں جان بے حد کمزور ہو چکی تھیں اور کافی بیمار تھیں.مجھے ہماری بڑی ممانی صاحبہ نے جو ان دنوں میں حضرت اماں جان کے پاس ان کی عیادت کے لئے ٹھہری ہوئی تھیں فرمایا کہ آج آپ یہاں روزہ کھولیں.میں نے خیال کیا کہ شاید یہ اپنی طرف سے حضرت اماں جان کی خوشی اور ان کا دل بہلانے کے لئے ایسا کہ رہی ہیں چنانچہ میں وقت پر وہاں چلا گیا تو دیکھا کہ بڑے اہتمام سے افطاری کا سامان تیار کر کے رکھا گیا ہے.اس وقت ممانی

Page 81

صاحبہ نے بتایا کہ میں نے تو اماں جان کی طرف سے ان کے کہنے پر آپ کو یہ دعوت دی تھی.(^) حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا میں بے حد محنت کی عادت تھی.اور ہر چھوٹے سے چھوٹا کام اپنے ہاتھ سے کرنے میں راحت پاتی تھیں.میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے بارہا کھانا پکاتے ، چرخہ کاتے، نواڑ بنتے بلکہ بھینسوں کے آگے چارہ تک ڈالتے دیکھا ہے.بعض اوقات خود بھنگنوں کے سر پر کھڑے ہو کر صفائی کرواتی تھیں اور ان کے پیچھے لوٹے سے پانی ڈالتی جاتی تھیں گھر میں اپنے ہاتھ سے پھولوں کے پودے یا سیم کی بیل یا دوائی کی غرض سے گلو کی بیل لگانے کا بھی شوق تھا اور عموما انہیں اپنے ہاتھ سے پانی دیتی تھیں.(9) مریضوں کی عیادت کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی احمدی عورت کے متعلق یہ منتیں کہ وہ بیمار ہے تو بلا امتیاز غریب و امیر خود اس کے مکان پر جا کر عیادت فرماتی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق تسلی دیا کرتی تھیں کہ گھبراؤ نہیں خدا کے فضل سے اچھی ہو جاؤ گی.ان اخلاق فاضلہ کا یہ نتیجہ تھا کہ احمدی عورتیں حضرت اماں جان پر جان چھڑکتی

Page 82

۷۸ تھیں اور ان کے ساتھ اپنی حقیقی ماؤں سے بھی بڑھ کر محبت کرتی تھیں اور جب کوئی فکر کی بات پیش آتی تھی یا کسی امر میں مشورہ لینا ہوتا تھا تو حضرت اماں جان کے پاس دوڑی آتی تھیں.اس میں ذرہ بھر بھی شبہ نہیں کہ حضرت امان جان کا مبارک وجود احمدی مستورات کے لئے ایک بھاری ستون تھا.بلکہ حق یہ ہے کہ ان کا وجود محبت اور شفقت کا ایک بلند اور مضبوط مینار تھا جس کے سایہ میں احمدی خواتین بے انداز راحت اور برکت اور ہمت اور تسلی پاتی تھیں.(1+) مگر غالباً حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا کے تقویٰ اور توکل اور دینداری اور اخلاق کی بلندی کا سب سے زیادہ شاندار اظہار ذیل کے دو واقعات میں نظر آتا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض اقرباء پر اتمام حجت کی غرض سے خدا سے علم پا کر محمدی بیگم والی پیشگوئی فرمائی تو اس وقت حضرت مسیح موعود نے ایک دن دیکھا کہ حضرت اماں جان علیحدگی میں نماز پڑھ کر بڑی گریہ وزاری اور سوز و گداز سے یہ دعا فرما رہی ہیں کہ خدا یا تو اس پیشگوئی کو اپنے فضل اور اپنی قدرت نمائی سے پورا فرما جب وہ دعا سے فارغ ہو ئیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم یہ دعا کر رہی تھیں اور تم جانتی ہو کہ اس کے نتیجہ میں تم پر سوکن آتی ہے؟ حضرت اماں جان نے بے ساختہ فرمایا:.خواہ کچھ ہو مجھے اپنی تکلیف کی پرواہ نہیں میری خوشی اسی میں ہے کہ

Page 83

۷۹ 66 خدا کے منہ کی بات اور آپ کی پیشگوئی پوری ہو.“ دوست سوچیں اور غور کریں کہ یہ کس شان کا ایمان اور کس بلند اخلاقی کا مظاہرہ اور کس تقویٰ کا مقام ہے کہ اپنی ذاتی راحت اور ذاتی خوشی کو کلیتہ قربان کر کے محض خدا کی رضا کو تلاش کیا جا رہا ہے اور شاید منجملہ دوسری باتوں کے یہ ان کی اسی بے نظیر قربانی کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مشروط پیشگوئی کو اس کی ظاہری صورت سے بدل کر دوسرے رنگ میں پورا فرما دیا.(11) پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی اور یہ میری آنکھوں کے سامنے کا واقعہ ہے) اور آپ کے آخری سانس تھے تو حضرت اماں جان نور الله مَرْقَدَهَا وَرَفَعَهَا فِي أَعْلَى عِلْييْن آپ کی چارپائی کے قریب فرش پر آکر بیٹھ گئیں اور خدا سے مخاطب ہوکر عرض کیا کہ ”خدایا ! یہ تو اب ہمیں چھوڑ رہے ہیں مگر تو ہمیں نہ چھوڑ یو “ یہ ایک خاص انداز کا کلام تھا جس سے مراد یہ تھی کہ تو ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا.اور دل اس یقین سے پر تھا کہ ایسا ہی ہوگا.اللہ اللہ ! خاوند کی وفات پر اور خاوند بھی وہ جو گویا ظاہری لحاظ سے ان کی ساری قسمت کا بانی اور ان کی تمام راحت کا مرکز تھا توکل اور ایمان اور صبر کا یہ مقام دنیا کی بے مثال چیزوں میں سے ایک نہایت درخشاں نمونہ ہے.

Page 84

۸۰ مجھے اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا وہ بے حد پیارا اور مضبوطی کے لحاظ سے گویا فولادی نوعیت کا قول یاد آ رہا ہے جو آپ نے کامل توحید کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) کی وفات پر فرمایا کہ الا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَى لَا يَمُوتُ (بخاری کتاب اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب قول النبی صلی الله عليه وسلم لو كنت متخذا خلیلا....) د یعنی اے مسلمانو ! سنو کہ جو شخص رسول اللہ کی پرستش کرتا تھا وہ جان لے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں مگر جو شخص خدا کا پرستار ہے وہ یقین رکھے کہ خدا زندہ ہے اور اس پر کبھی موت نہیں آئے گی.“ بس اس سے زیادہ میں اس وقت کچھ نہیں کہنا چاہتا.وَ آخِرُ دَعْوَنَا آنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - وَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودِ وبَارِك وَسَلَّمْ خاکسار را قم آشم مرزا بشیر احمد ربوه

Page 85

در منثُور

Page 86

Page 87

۸۳ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ مَنْثُور ( یعنی چند بکھرے ہوئے موتی ) اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ گذشتہ سال کے سالانہ جلسہ میں جو دسمبر ۱۹۵۹ء کی بجائے جنوری ۱۹۶۰ء میں منعقد ہوا تھا مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کی سیرت کے بعض پہلوؤں پر ایک مضمون پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی.یہ مضمون جو بعد میں " کے نام سے چھپ چکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ کے تین بنیادی پہلوؤں سے تعلق رکھتا تھا یعنی اول محبت الہی دوم عشق رسول اور سوم شفقت علی خلق اللہ.اور یہی وہ تین اوصاف ہیں جو ایک سچے مسلمان کے دین و مذہب کی جان اور اس کے اخلاق حسنہ کی بلند ترین چوٹی کہلانے کا حق رکھتے ہیں.اس سال مجھے پھر مرکزی جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کے منتظمین نے ذکر حبیب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاکیزہ سیرۃ کے متعلق کچھ بیان کرنے کی دعوت دی ہے اور گو اس سال کا آخری نصف حصہ میری رفیقہ حیات ام مظفر احمد کی طویل اور

Page 88

۸۴ تشویشناک بیماری کی وجہ سے میرے لئے کافی پریشانی میں گذرا ہے اور ان کی تیاداری کی وجہ سے مجھے کئی ماہ تک ربوہ سے باہر لاہور میں ٹھہرنا پڑا ہے اور بعض دوسری پریشانیاں بھی رہیں مگر میں نے ان روکوں کے باوجود ناظر صاحب اصلاح و ارشاد کی دعوت کو اپنے لئے موجب سعادت سمجھتے ہوئے اسے قبول کر لیا اور اب اپنے دوستوں کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ و اخلاق کے چند پہلو پیش کرنے کے لئے حاضر ہوں.جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے میری گذشتہ سال کی تقریر حضرت مسیح موعود کی سیرۃ کے تین مخصوص بنیادی پہلوؤں سے تعلق رکھتی تھی جنہیں اپنے باہمی ربط کی وجہ سے گویا ہم تین لڑیوں والی مالا کا نام دے سکتے ہیں لیکن اس سال میں حضرت مسیح موعود کے اخلاق و عادات کے چند متفرق اور گویا غیر مربوط ( گوحقیقت کسی انسان کے اخلاق بھی فی الواقعہ غیر مربوط نہیں ہوتے ) پہلوؤں پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں تاکہ ہمارے دوستوں کو معلوم ہو اور دنیا پر بھی ظاہر ہو جائے کہ محمدی سلسلہ کا مسیح اپنے مربوط اخلاق اور بظاہر غیر مربوط اخلاق دونوں میں کس شان کا مالک تھا.اسی لئے میں نے اپنے موجودہ مضمون کا نام در منشور یعنی چند بکھرے ہوئے موتی رکھا ہے.یقینا ان بکھرے ہوئے موتیوں کو بھی ایک گہرے ربط و نظم کی زنجیر باندھے ہوئے ہے جو ایک طرف خالق کی محبت اور دوسری طرف مخلوق کی ہمدردی کے ساتھ فطری طور پر منسلک ہے.لیکن چونکہ بظاہر یہ اخلاق متفرق نوعیت کے ہیں اس لئے میں نے انہیں درمنثور کا نام دیا ہے اور اسی مختصر تمہید کے ساتھ میں اپنے اس مضمون کو خدائے رحمن و رحیم کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں.وَمَا تَوْفِيقِى إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ

Page 89

۸۵ (1) یہ ایک عجیب بات ہے جس میں اہل ذوق کے لئے بڑا لطیف نکتہ ہے کہ گو مقدس بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح ناصری کے مثیل کی حیثیت میں مبعوث ہوئے اور آپ اپنی جماعت میں زیادہ تر اسی نام اور اسی منصب کے ساتھ پکارے جاتے ہیں مگر باوجود اس کے آپ نے اپنی سیرت اور اپنے اخلاق و اوصاف میں حضرت مسیح ناصری کی نسبت اپنے آقا اور مطاع اور اپنے دلی محبوب حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرۃ کا بہت زیادہ ورثہ پایا ہے چنانچہ خود فرماتے ہیں :.پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمد جس پہ میر اسب مدار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۳۳) د یعنی گو میں مسیح ناصری کا مثیل بنا کر بھیجا گیا ہوں جنہیں ان کے یہودی دشمنوں نے صلیب پر چڑھا دیا تھا مگر میرا اصل منصب محمدی نیابت سے تعلق رکھتا ہے جس کے ساتھ غلبہ اور کامیابی مقدر ہو چکی ہے.“ اسی لئے جہاں عیسائیوں کے قول کے مطابق حضرت مسیح ناصری تین سال کی مختصر اور محدودی مامورانہ زندگی پا کر ایلی ایلی لما سبقتانی کہتے ہوئے جاں بحق ہو گئے وہاں خدا تعالیٰ نے مسیح محمدی کو ہر قسم کے موافق و مخالف حالات میں سے گزارا اور

Page 90

۸۶ گونا گوں اخلاق کے اظہار کا موقعہ عطا کیا اور آپ کو اپنے مشن میں ایسی بے نظیر کامیابی بخشی کہ دہلی کے ایک مشہور غیر احمدی اخبار کے قول کے مطابق مخالف تک پکار اٹھے کہ ”مرزا مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جو اس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں.اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور ایک جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی.نہ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا....اگر چه مرحوم پنجابی تھا مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ بلندی ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں....اس کا پرز ورلٹریچر اپنی شان میں بالکل نرالا ہے اور واقعی اس کی بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے....اس نے ہلاکت کی پیشگوئیوں مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا.“ ( کرزن گزٹ دہلی یکم جون ۱۹۰۸ء) (٢) اس کے بعد سب سے پہلی بات جو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ کے

Page 91

۸۷ متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں اور یہ ان بکھرے ہوئے موتیوں میں سے سے پہلا موتی ہے وہ اس پختہ اور کامل یقین کے ساتھ تعلق رکھتی ہے جو حضرت مسیح موعود کو اپنے خدا داد مشن کے متعلق تھا.یہ وصف آپ کے اندر اس کمال کو پہنچا ہوا تھا کہ آپ کے ہر قول و فعل اور ہر حرکت و سکون میں اس کا ایک زبر دست جلوہ نظر آتا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ آپ اپنے اس یقین کی وجہ سے بڑے سے بڑے پہاڑ کے ساتھ ٹکرانے کے لئے تیار ہیں.بسا اوقات اپنے خدا داد مشن اور اپنے الہامات کے متعلق مؤکد بعذاب قسم کھا کر فرماتے تھے کہ مجھے ان کے متعلق ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ دنیا کی کسی مرئی چیز کے متعلق زیادہ سے زیادہ ہو سکتا ہے.اور بعض اوقات اپنی پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ چونکہ وہ خدا کے منہ سے نکلی ہوئی ہیں اس لئے وہ ضرور پوری ہوں گی.اور اگر وہ سنت اللہ کے مطابق پوری نہ ہوں تو میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ مجھے مفتری قرار دے کر پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیا جائے.چنانچہ جب ایک متعصب ہند ولا لہ گنگا بشن نے پنڈت لیکھرام والی پیشگوئی پر یہ اعتراض کیا کہ پنڈت لیکھرام کی موت پیشگوئی کے نتیجہ میں نہیں ہوئی بلکہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود نے پنڈت جی کو خود قتل کروادیا تھا تو حضرت مسیح موعود نے جواب میں انتہائی غیرت اور تحدی کے ساتھ فرمایا کہ اگر لالہ گنگا بشن کا واقعی یہی خیال ہے تو وہ اس بات پر قسم کھا جائیں کہ نعوذ باللہ میں نے خود پنڈت لیکھرام کو قتل کرا دیا تھا.پھر اگر اس کے بعد لالہ صاحب ایک سال کے اندر اندر ایسی موت کے عذاب میں مبتلا نہ ہوئے جس میں انسانی ہاتھوں کا کوئی دخل متصور نہ ہو سکے تو میں جھوٹا ہوں گا اور مجھے بے شک ایک قاتل کی سزادی جائے.چنانچہ آپ نے بڑے زور دار الفاظ میں لکھا کہ:.

Page 92

ہیں: ۸۸ میں تیار ہوں اور نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ گورنمنٹ کی عدالت میں اقرار کر سکتا ہوں کہ جب میں (اس طرح کے خالصہ ) آسمانی فیصلہ سے مجرم ٹھہر جاؤں تو مجھے پھانسی دی جائے میں خوب جانتا ہوں کہ خدا نے میری پیشگوئی پوری کر کے دین اسلام کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے یہ فیصلہ کیا ہے پس ہر گز ممکن نہیں ہوگا کہ میں پھانسی ملوں." (اشتہار ۵ را پریل ۱۸۹۷ء) دوسری جگہ اپنے الہامات کے متعلق یقین کامل کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے یہ مکالمہ الہیہ جو مجھ سے ہوتا ہے یقینی ہے.اگر میں ایک دم کے لئے بھی اس میں شک کروں تو کافر ہو جاؤں اور میری آخرت تباہ ہو جائے.وہ کلام جو میرے پر ( خدا کی طرف سے) نازل ہوا یقینی اور قطعی ہے.اور جیسا کہ آفتاب اور اس کی روشنی کو دیکھ کر کوئی شک نہیں کر سکتا کہ یہ آفتاب ہے اور یہ اس کی روشنی ہے ایسا ہی میں اس کلام میں بھی شک نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر نازل ہوتا ہے اور میں اس پر ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدا کی کتاب پر “ تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۲) دوست غور کریں کہ یہ کس درجہ کا ایمان اور کیسا پختہ اور کیسا کامل یقین ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کفر و ایمان کی بازی لگاتے ہوئے پھانسی کے تختہ پر چڑھنے کے لئے تیار تھے.لاریب ایسا ایمان صرف اسی شخص کو حاصل ہوسکتا ہے جو

Page 93

۸۹ اپنی آنکھوں سے خدا کو دیکھ رہا ہو اور اپنے کانوں سے اس کا کلام سنتا ہو.کوئی شخص اپنی سمجھ کی کمی یا اپنے تدبر کی کوتاہی یا اپنے تعصب کی فراوانی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماموریت کے دعویٰ میں شک کر سکتا ہے مگر کوئی ہوش وحواس رکھنے والا انسان اس بات میں شک نہیں کر سکتا کہ آپ کو اپنے خدا دادمشن کے متعلق کامل یقین تھا.ایک جلد باز انسان آپ کو دھوکا خوردہ خیال کر سکتا ہے جیسا کہ بعض بظاہر غیر متعصب مغربی مصنفین نے اپنی کوتاہ بینی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خیال کیا ہے مگر کوئی شخص جس میں ابھی تک نو ضمیر کی تھوڑی سی روشنی بھی باقی ہے آپ کو دھوکا دینے والا قرار نہیں دے سکتا.(٣) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بے مثال محبت بلکہ عشق کا ذکر میری گذشتہ سال کی تقریر موسومہ سیرۃ طیبہ میں گذر چکا ہے.یہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے عشق کا تتمہ تھا کہ حضرت مسیح موعود کو تمام دوسرے نبیوں اور رسولوں کے ساتھ بھی غیر معمولی محبت تھی اور آپ اپنے عظیم الشان مقام کے باوجود ان سب کا بے حد ادب کرتے تھے.چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں :.ماہمہ پیغمبران را چاکریم ہمچو خاکے اوفتاده برورے ہر رسولے کو طریق حق نمود جان ما قرباں بر آں حق پرورے ( براہین احمدیہ حصہ اول روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۳)

Page 94

د یعنی میں ان تمام رسولوں اور نبیوں کا خدمت گذار ہوں جو دنیا میں خدا کا رستہ دکھانے کے لئے آتے رہے ہیں اور میں ان کے ساتھ اس طرح پیوستہ ہوں جس طرح کہ ڈیوڑھی کی خاک مکان کے ساتھ پیوستہ ہوتی ہے.میری جان ان سب پرستاران خدا پر (خواہ وہ کسی ملک اور کسی زمانہ میں آئے ہوں ) دلی محبت کے ساتھ قربان ہے کیونکہ وہ میری طرح میرے آسمانی آقا کے خادم تھے.“ اور چونکہ بعض ناواقف لوگوں کی طرف سے حضرت مسیح ناصری کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر خاص طور پر اعتراض کیا گیا تھا کہ آپ نے نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ کی بہتک کی ہے اس لئے آپ نے حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق خاص طور پر فرمایا کہ:.بخدا میں وہ سچی محبت اس سے ( مسیح سے ) رکھتا ہوں جو تمہیں ہرگز حاصل نہیں.اور جس نور کے ساتھ میں اسے شناخت کرتا ہوں تم ہر گز سے شناخت نہیں کر سکتے.اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ خدا کا ایک پیارا اور برگزیدہ نبی تھا.“ ( دعوت حق مشمولہ حقیقہ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۶۱۷) (۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور آپ کی آل اولاد کے ساتھ بھی حضرت مسیح موعود کو نہایت درجہ عقیدت تھی.چنانچہ صحابہ کرام کے متعلق کسی عقیدت سے اور کس

Page 95

۹۱ د لی جوش و خروش کے ساتھ فرماتے ہیں:.إِنَّ الصَّحَابَةَ كُلُّهُمْ كَذُيَّا قَدْ نَوَرُوا وَجْهَ الوَرَى بِضِيَاء تَرَكُوا أَقَارِبَهُمْ وَحُبَّ عِيَالِهِمُ جَاءُوا رَسُولَ اللَّهِ كَالْفُقَرَاءِ ذُبِحُوا وَمَا خَافُوا الْوَرَى مِنْ صِدْقِهِم بَلْ أَثَرُوا الرَّحْمَانَ عِنْدَ بَلاء تحت السُّيُوفِ تَشَهَدُوا لِخْلُوصِهِم شَهِدُوْا بِصِدْقِ الْقَلْبِ فِي الْأَمْلَاءِ الصَّالِحُونَ الْخَاشِعُونَ لِرَبِّهِمُ الْبَائِتُونَ بِذِكْرِهِ وَ بُكَا قَوْمُ كِرَام لَا نُفَرِّقُ بَيْنَهُمْ كَانُوا لِخَيْرِ الرُّسُلِ كَالْأَعْضَاءِ سر الخلافہ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۳۹۷) و یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ سورج کی طرح روشن تھے.انہوں نے ساری دنیا کو اپنے نور سے منور کر دیا.انہوں نے صداقت کی خاطر اپنے رشتہ داروں کو اور اپنے اہل وعیال کی محبت تک کو خیر باد کہہ دیا.اور رسول اللہ کی آواز پر غریب درویشوں کی طرح بے گھر اور بے در ہو کر آپ کے ارد گرد جمع ہو گئے.وہ خدا کے رستہ میں برضاء و رغبت ذبح کئے

Page 96

۹۲ گئے اور انہوں نے سچائی کی خاطر دنیا کا ذرہ بھر خوف نہیں کیا بلکہ ہر امتحان اور آزمائش کے وقت خدائے رحمن کے تعلق کو ترجیح دی.انہوں نے تلواروں کی جھنکار میں شہادت کے جام تلاش کئے اور ہر مجلس میں صداقت کی گواہی کے لئے بے خوف و خطر تیار رہے.وہ نیک اور متقی اور صرف خدا سے ڈرنے والے لوگ تھے اور خدا کی یاد میں گریہ وزاری سے راتیں گزارتے تھے.وہ ایسی برگزیده جماعت تھی کہ ایمان و اخلاص کے لحاظ سے ہم ان میں کوئی فرق نہیں کر سکتے.وہ اپنے آقا کے ساتھ دائیں اور بائیں جسم کے اعضاء کی طرح لیٹے رہے اور نصرت اور اعانت اور قربانی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.“ اسی طرح رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق کس محبت کے ساتھ اور کن زور دار الفاظ میں فرماتے ہیں :.د حسین رضی اللہ عنہ ظاہر و مظہر تھا اور بلاشبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلا شبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے سب سلب ایمان ہے اور اس امام کی محبت الہی اور تقویٰ اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے...تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے.‘“ اشتہار تبلیغ الحق ۱۸ اکتوبر ۱۹۰۵ء)

Page 97

۹۳ (۵) اسلام کے گذشتہ مجددین کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑی غیرت رکھتے تھے.ایک دفعہ ہمارے بڑے بھائی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی نے اپنے بچپن کے زمانہ میں جہانگیر کا شاندار مقبرہ دیکھنے کا شوق ہتک کی تھی.“ ظاہر کیا اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نصیحت کے رنگ میں فرمایا :.”میاں تم جہانگیر کا مقبرہ دیکھنے کے لئے بے شک جاؤ لیکن اس کی قبر پر نہ کھڑے ہونا کیونکہ اس نے ہمارے ایک بھائی حضرت مجددالف ثانی کی روایات میاں عبد العزیز صاحب مغل مرحوم) تین سوسال سے زائد زمانہ گذرنے پر بھی ایک مسلمان بادشاہ کے ایسے فعل پر جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے اسلامی تاریخ میں گویا ایک عام واقعہ ہے کیونکہ مسلمان بادشاہوں کے زمانہ میں ایسے کئی واقعات گذر چکے ہیں.حضرت اقدس علیہ السلام کا اس قدر غیرت ظاہر کرنا اور حضرت مجددالف ثانی کے لئے بھائی جیسا پیارا لفظ استعمال کرنا اس یگانگت اور محبت اور عقیدت کی ایک بہت روشن مثال ہے جو آپ کے دل میں امت محمدیہ کے صلحاء کے لئے موجزن تھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے اس ارشاد میں خود وضاحت فرما دی ہے حضور کی اس ہدایت کا یہ مطلب نہیں تھا کہ کسی مسلمان کو جہانگیر کا مقبرہ نہیں دیکھنا چاہیے وہ ایک جاہ وجلال والا مسلمان بادشاہ تھا اور ہمیں اپنے قومی اکابر اور بزرگوں بلکہ غیر قوموں کے بزرگوں کی بھی عزت کرنے کا حکم ہے مگر

Page 98

۹۴ چونکہ حضرت مسیح موعود اپنے بچوں کے دل میں غیر معمولی اسلامی غیرت اور صلحاء امت کا غیر معمولی ادب پیدا کرنا چاہتے تھے اس لئے آپ نے اس موقعہ پر اپنی اولا د کو ایک خاص نوعیت کی نصیحت کرنی مناسب خیال فرمائی.اس تعلق میں ایک اور دلچسپ روایت بیان کرنا بھی ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ عقیدہ تھا کہ مقتدی کے لئے نماز میں امام کے پیچھے بھی سورہ فاتحہ پڑھنی ضروری ہے اور آپ اس کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے کیونکہ سورۃ فاتحہ قرآن عظیم کا خلاصہ ہے اور قرآن سے آپ کو عشق تھا.ایک دفعہ آپ اپنی مجلس میں بڑے زور کے ساتھ اپنے اس عقیدے کا اظہار فرمارہے تھے کہ حاضرین مجلس میں سے کسی نے عرض کیا کہ حضور ! کیا سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ؟ اس پر حضرت مسیح موعود نے اس طرح رک کر کہ جیسے ایک چلتی ہوئی گاڑی کو بریک لگ جاتی ہے جلدی سے فرمایا:.دو نہیں نہیں ! ہم ایسا نہیں کہتے کیونکہ حنفی فرقہ کے کثیر التعداد بزرگ یہ عقیدہ رکھتے رہے ہیں کہ نماز میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی ضرورت نہیں.اور ہم ہر گز یہ خیال نہیں کرتے کہ ان بزرگوں کی نماز نہیں ہوئی.“ (سلسلہ احمدیہ وسیرۃ المہدی حصہ دوم ) اس دلچسپ روایت سے جماعت احمدیہ کے نوجوانوں کو بلکہ غیر از جماعت لوگوں کو بھی یہ لطیف سبق حاصل ہوتا ہے کہ اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے بھی مختلف الخیال نیک لوگوں کا ادب ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے.برزگوں کا قول ہے اور یہ فقرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک پر بھی کثرت کے ساتھ آتا تھا کہ:.

Page 99

۹۵ الطَّرِيقَةُ كُلُّهَا آدَبٌ د یعنی دین اور خوش اخلاقی کا سارا راستہ ادب کے میدان میں سے گذرتا ہے.“ (4) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صبر و استقلال بھی بے مثال نوعیت کا تھا.آپ کو اپنے خدا داد مشن کی انجام دہی کے لئے جن غیر معمولی مشکلات میں سے گذرنا پڑا اور جن خار دار جنگلوں اور جن پر خطر وادیوں اور جن فلک بوس پہاڑوں کو طے کرنا پڑا وہ آپ کی زندگی کے ہر لمحہ میں ظاہر و عیاں ہیں.آپ کی طرف سے ماموریت کا دعویٰ ہوتے ہی مخالفت کا ایسا طوفان اٹھا کہ الحفیظ الامان ! یوں نظر آتا تھا کہ ایک چھوٹی سی کشتی میں ایک کمزور سا انسان اکیلا بیٹھا ہوا اسے گویا ایک تنکے کے ساتھ چلا رہا ہے اور طوفان کا زور اسے یوں اٹھاتا اور گراتا ہے کہ جس طرح ایک تیز آندھی کے سامنے ایک کاغذ کا پرزہ ادھر ادھر اڑتا پھرتا ہے مگر یہ شخص ہراساں نہیں ہوتا بلکہ خدا کی حمد کے گیت گاتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے اور اس کا دل اس یقین سے معمور ہے کہ خدا نے مجھے بھیجا ہے اور وہی میری حفاظت کرے گا.یہ صبر و استقلال تھا جس پر آپ کے اشد ترین مخالف تک پکار اٹھے کہ مرزا صاحب صادق ہوں یا غیر صادق مگر اس میں کلام نہیں کہ وہ جس مشن کو لے کر اٹھے تھے اس پر اپنی زندگی کے آخری دم تک مضبوط چٹان کی طرح قائم رہے، چنانچہ آپ کی وفات پر ایک آریہ رسالہ کے

Page 100

۹۶ ایڈیٹر نے لکھا کہ :.”مرزا صاحب اپنے آخری دم تک اپنے مقصد پر ڈٹے رہے اور ہزاروں مخالفتوں کے باوجود ذرا بھی لغزش نہ کھائی.“ (رسالہ اندر لا ہور ) اسی طرح ایک عیسائی مصنف نے لکھا کہ :.”مرزا صاحب کی اخلاقی جرات جو انہوں نے اپنے مخالفوں کی طرف سے شدید مخالفت اور ایذارسانی کے مقابلہ میں دکھائی یقیناً بہت قابل تعریف ہے.“ (انگریزی رسالہ احمدیہ موومنٹ مصنفہ مسٹر ایچ.اے والٹر ) اور ایک غیر احمدی مسلمان اخبار نے لکھا کہ :.مرزا مرحوم نے مخالفتوں اور نکتہ چینیوں کی آگ میں سے ہو کر اپنا رستہ صاف کیا اور ترقی کے انتہائی عروج تک پہنچ گیا.“ ( کرزن گزٹ دہلی) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ وصف جہاں ایک طرف آپ کے غیر معمولی صبر و استقلال پر شاہد ہے وہاں وہ اس بات کی بھی زبردست دلیل ہے کہ آپ کو اپنے بھیجنے والے خدا کی نصرت پر کامل بھروسہ تھا کہ جو پودا اس نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے وہ اسے کبھی ضائع نہیں ہونے دے گا چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں اے آنکہ سوئے من بدویدی بصد تبر از باغباں بترس که من شاخ مثمرم (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۸۱) دد یعنی اے وہ جو میری طرف غصہ سے بھرا ہوا سو خنجر لے کر بھا گا آتا ہے تو آسمانی باغبان سے ڈر کہ میں اس کے اپنے ہاتھ کا لگا یا ہوا پھل دینے والا

Page 101

پودا ہوں.“ ۹۷ جماعت احمدیہ کے نوجوانوں اور مقامی جماعتوں کے امیروں اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے عہدیداروں اور سب سے بڑھ کر جماعت کے مبلغوں اور مربیوں اور مرکزی کارکنوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس غیر معمولی صبر اور استقلال اور اس غیر معمولی عزم اور اس غیر معمولی تو کل سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ اگر وہ بھی صبر وثبات سے کام لیں گے اور خدا کے بندے بن کر رہیں گے اور اپنے آپ کو ثمر دار پودے بنائیں گے تو خدا تعالیٰ ان کی بھی اسی طرح حفاظت کرے گا اور ان کے لئے بھی اسی طرح غیرت دکھائے گا جس طرح کہ وہ ہمیشہ سے اپنے نیک بندوں کے لئے دکھاتا چلا آیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک پنجابی زبان میں الہام ہے اور کیا خوب الہام ہے.خدا تعالیٰ آپ سے حد درجہ محبت کے الفاظ میں مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ:.وو ” جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو ( تذکرہ صفحہ اے) روحانیت کے میدان میں یہ زریں ارشاد انسان کے لئے سبق نمبر ایک کا حکم رکھتا ہے کاش کہ ہماری جماعت کے بوڑھے اور نوجوان ، عورتیں اور مرد، اس حقیقت کو اپنا جر زجان بنا ئیں کہ خداداری چه غم داری

Page 102

۹۸ (<) حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں اطاعت رسول کا بھی نہایت زبر دست جذبہ تھا اور آپ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اپنے آقا کی اتباع میں لذت پاتے اور اس کا غیر معمولی خیال رکھتے تھے.چنانچہ میں اس موقع پر دو بظاہر بہت معمولی سے واقعات بیان کرتا ہوں کیونکہ انسان کا کیریکٹر زیادہ تر چھوٹی باتوں میں ہی ظاہر ہوا کرتا ہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جبکہ آپ مولوی کرم دین والے تکلیف دہ فوجی مقدمے کے تعلق میں گورداسپور تشریف لے گئے تھے اور وہ سخت گرمی کا موسم تھا اور رات کا وقت تھا آپ کے آرام کے لئے مکان کی کھلی چھت پر چارپائی بچھائی گئی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سونے کی غرض سے چھت پر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ چھت پر کوئی پردہ کی دیوار نہیں ہے آپ نے ناراضگی کے لہجہ میں خدام سے فرمایا.” کیا آپ کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بے پردہ اور بے منڈیر کی چھت پر سونے سے منع فرمایا ہے.“ (سيرة المهدی) چونکہ اس مکان میں کوئی اور مناسب صحن نہیں تھا آپ نے گرمی کی انتہائی شدت کے باوجود نیچے کے مسقف کمرے میں سونا پسند کیا مگر اس کھلی چھت پر نہیں سوئے.آپ کا یہ فعل اس وجہ سے نہیں تھا کہ پردہ کے بغر چھت پر سونا کسی خطرے کا

Page 103

۹۹ موجب ہوسکتا ہے بلکہ اس خیال سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چھت پر سونے سے منع فرمایا ہے.ایک اور موقعہ پر جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے کمرے میں تشریف رکھتے تھے اور اس وقت باہر سے آئے ہوئے کچھ مہمان بھی آپ کی خدمت میں حاضر تھے کسی شخص نے دروازے پر دستک دی.اس پر حاضر الوقت لوگوں میں سے ایک شخص نے اٹھ کر دروازہ کھولنا چاہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان صاحب کو اٹھتے دیکھا تو جلدی سے اٹھے اور فرمایا ٹھہریں ٹھہریں میں خود دروازہ کھولوں گا.آپ مہمان ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان کا اکرام کرنا چاہیے.“ (سیرۃ المہدی حصہ اول روایت ۸۹ صفحه ۸۶) یہ دونوں واقعات بظاہر بہت معمولی نوعیت کے ہیں مگر ان سے اس غیر معمولی جذ بہ اطاعت پر زبر دست روشنی پڑتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں اپنے مطاع اور آقا اور محبوب کے لئے جاگزیں تھا.اور ایک قدرتی چشمہ کے طور پر ہر وقت پھوٹ پھوٹ کر بہتا رہتا تھا.آج کون ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایتوں کوملحوظ رکھتا ہے؟ (^) حضرت مسیح موعود کی زندگی تکلفات سے بالکل آزاد تھی.ہمارے ماموں جان یعنی

Page 104

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود کی صحبت میں قریباً ستائیس سال گزارے.اور وہ بڑے زیرک اور آنکھیں کھلی رکھنے والے بزرگ تھے.وہ مجھ سے اکثر بیان کیا کرتے تھے کہ مجھے دنیا میں بے شمار لوگوں سے واسطہ پڑا ہے اور میں نے دنیا داروں اور دینداروں سب کو دیکھا اور سب کی صحبت اٹھائی ہے.مگر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بڑھ کر کوئی شخص تکلفات سے کلی طور پر آزاد نہیں دیکھا.اور یہی اس عاجز کا بھی مشاہدہ ہے یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ کی تمام زندگی ایک قدرتی چشمہ ہے جو اپنے ماحول کے تاثرات سے بالکل بے نیاز ہو کر اپنے طبعی بہاو میں بہتا چلا جاتا ہے میں ایک بہت معمولی سی بات بیان کرتا ہوں دنیا داروں بلکہ دین کے میدان میں پیروں اور سجادہ نشینوں تک میں عام طور پر یہ طریق ہے کہ ان کی مجلسوں میں مختلف لوگوں کے لئے ان کی حیثیت اور حالات کے لحاظ سے الگ الگ جگہ ملحوظ رکھی جاتی ہے مگر اپنے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں قطعا ایسا کوئی امتیاز نہیں ہوتا تھا بلکہ آپ کی مجلس میں ہر طبقہ کے لوگ آپ کے ساتھ اس طرح ملے جلے بیٹھے ہوتے تھے کہ جیسے ایک خاندان کے افراد گھر میں مل کر بیٹھتے ہیں اور بسا اوقات اس بے تکلفانہ انداز کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ حضرت مسیح موعود بطاہر ادنی جگہ پر بیٹھ جاتے تھے اور دوسرے لوگوں کو غیر شعوری طور پر اچھی جگہ مل جاتی تھی.بیسیوں مرتبہ ایسا ہوتا تھا کہ چار پائی کے سرہانے کی طرف کوئی دوسرا شخص بیٹھا ہوتا تھا اور پائنتی کی طرف حضرت مسیح موعود ہوتے تھے.یاگی چارپائی پر آپ ہوتے تھے اور چادر وغیرہ والی چار پائی پر آپ کا کوئی مرید بیٹھا ہوتا تھا.یا اونچی جگہ پر کوئی مرید ہوتا تھا اور نیچی جگہ میں آپ ہوتے

Page 105

تھے.مجلس کی اس بے تکلفانہ صورت کی وجہ سے بعض اوقات ایک نو وارد کو دھوکا لگ جا تا تھا کہ حاضر مجلس لوگوں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کون سے ہیں اور کس جگہ تشریف رکھتے ہیں.مگر یہ ایک کمال ہے جوصرف خدا کے ماموروں کی جماعتوں میں ہی پایا جاتا ہے کہ اس بے تکلفی کے نتیجہ میں کسی قسم کی بے ادبی کا رنگ پیدا نہیں ہوتا تھا بلکہ ہر شخص کا دل آپ کی محبت اور ادب اور احترام کے انتہائی جذبات سے معمور ہوتا تھا.(سیرۃ المہدی جلد اول صفحه ۲۰۳ وسلسله احمد یہ وشمائل مصنفه عرفانی صاحب) (۹) مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ شروع میں جب مہمانوں کی زیادہ کثرت نہیں تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحت بھی نسبتا بہتر تھی آپ اکثر اوقات مہمانوں کے ساتھ اپنے مکان کے مردانہ حصہ میں اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور کھانے کے دوران میں ہر قسم کی بے تکلفانہ گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا تھا.گویا ظاہری کھانے کے ساتھ علمی اور روحانی کھانے کا دستر خوان بھی بچھ جاتا تھا.ایسے موقعوں پر آپ عموماًہر مہمان کا خود ذاتی طور پر خیال رکھتے تھے.اور اس بات کی نگرانی فرماتے تھے کہ اگر کبھی دستر خوان پر ایک سے زیادہ کھانے ہوں تو ہر شخص کے سامنے دستر خوان کی ہر چیز پہنچ جائے.عموما ہر مہمان کے متعلق دریافت فرماتے رہتے تھے کہ کسی خاص چیز مثلاً دودھ یا چائے پالسی یا پان کی عادت تو نہیں.اور پھر حتی الوسع ہر ایک کے لئے اس

Page 106

۱۰۲ کی عادت کے موافق چیز مہیا فرماتے تھے.بعض اوقات اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ کسی مہمان کو اچار کا شوق ہے اور اچار دستر خوان پر نہیں ہوتا تھا تو خود کھانا کھاتے کھاتے اٹھ کر اندرون خانہ تشریف لے جاتے اور اندر سے اچار لا کر ایسے مہمان کے سامنے رکھ دیتے تھے.اور چونکہ آپ بہت تھوڑا کھانے کی وجہ سے جلد شکم سیر ہو جاتے تھے اس لئے سیر ہونے کے بعد بھی آپ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ذرے اٹھا کر منہ میں ڈالتے رہتے تھے تاکہ کوئی مہمان اس خیال سے کہ آپ نے کھانا چھوڑ دیا ہے دستر خوان سے بھوکا ہی نہ اٹھ جائے.اللہ اللہ ! کیا زمانہ تھا.اسی طرح جب کوئی خاص دوست آپ کی ملاقات کے بعد واپس جانے لگتا تھا تو بعض اوقات آپ ایک میل یا دو دو میل تک اسے رخصت کرنے کے لئے اس کے ساتھ جاتے تھے اور بڑی محبت اور اکرام اور دعا کے ساتھ رخصت فرماتے تھے.اور مہمانوں کے واپس جانے پر آپ کے دل کو اس طرح رنج پہنچتا تھا کہ گویا اپنا ایک قریبی عزیز رخصت ہو رہا ہے.چنانچہ مہمانوں کے ذکر میں فرماتے ہیں:.مہماں جو کر کے اُلفت آئے بصد محبت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي دنیا بھی اک سرا ہے بچھڑے گا جو ملا ہے گر سو برس رہا ہے آخر کو پھر جُدا ہے

Page 107

شکوہ کی کچھ نہیں جا یہ گھر ہی بے بقا ہے روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي محمود کی آمین روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحه ۳۲۳) مہمان نوازی کے تعلق میں مولانا عبد الکلام آزاد کے بڑے بھائی مولانا ابوالنصر مرحوم کے قادیان جانے کا ذکر بھی اس جگہ بے موقعہ نہ ہوگا.وہ ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود کی ملاقات کے لئے قادیان تشریف لے گئے.بہت زیرک اور سمجھدار بزرگ تھے.قادیان سے واپس آکر انہوں نے اخبار ”وکیل امرت سر میں ایک مضمون لکھا جس میں مولانا ابوالنصر فرماتے ہیں کہ :.میں نے کیا دیکھا؟ قادیان دیکھا.مرزا صاحب سے ملاقات کی اور ان کا مہمان رہا.مرزا صاحب کے اخلاق اور توجہ کا مجھے شکریہ ادا کرنا چاہیے...اکرام ضیف کی صفت خاص اشخاص تک محدود نہ تھی.چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سا سلوک کیا....مرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے.آنکھوں میں ایک خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے.اور باتوں میں ملائمت ہے.طبیعت منکسر مگر حکومت خیز.مزاج ٹھنڈا مگر دلوں کو گرما دینے والا.بردباری کی شان نے انکساری کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیا ہے.گفتگو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ گو یا منقسم ہیں.مرزا صاحب کے مریدوں میں میں نے بڑی عقیدت دیکھی اور انہیں خوش اعتقاد پایا....مرز اصاحب کی وسیع الاخلاقی کا یہ ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثنائے

Page 108

۱۰۴ قیام کی متواتر نوازشوں پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقعہ دیا کہ ہم آپ کو اس وعدہ پر (واپس جانے کی ) اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتہ قیام کریں....میں جس شوق کو لے کر گیا تھا اسے ساتھ لایا.اور شاید وہی شوق مجھے دوبارہ لے جائے.“ (اخبار وکیل امرتسر بحوالہ شمائل مصنفہ حضرت عرفانی صاحب) قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد یعنی ہمارے دادا صاحب کے زمانہ کا ایک پھل دار باغ تھا.جس میں مختلف قسم کے ثمر دار درخت تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ طریق تھا کہ جب پھل کا موسم آتا تو اپنے مقیم دوستوں اور مہمانوں کو ساتھ لے کر اس باغ میں تشریف لے جاتے اور موسم کا پھل اتروا کر سب کے ساتھ مل کر بے تکلفی سے نوش فرماتے تھے.اس وقت یوں نظر آتا تھا کہ گویا ایک مشفق باپ کے ارد گرد اس کے معصوم بچے گھیرا ڈالے بیٹھے ہیں.مگر اس مجلس میں بھی علم و عرفان کا چشمہ جاری رہتا تھا اور عام بے تکلفی کی باتیں بھی ہوتی تھیں.اور خدا اور رسول کا ذکر تو حضرت مسیح موعود کی ہر مجلس کا مرکزی نقطہ ہوا کرتا تھا.(سلسلہ احمدیہ ) (1+) مہمانوں کے ذکر کی ذیل میں ایک درد ناک واقعہ کا خیال آگیا ہے جس کے ذکر سے میں اس وقت رک نہیں سکتا.افغانستان کے علاقہ خوست میں ایک نہایت درجہ بزرگ عالم رہتے تھے جو رؤسا کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے.اور افغانستان میں

Page 109

۱۰۵ ان کے علم اور نیکی اور شرافت اور خاندانی وجاہت کی وجہ سے ان کا اتنا اثر تھا کہ کابل میں امیر حبیب اللہ خان کی تاجپوشی کی رسم انہوں نے ہی ادا کی تھی.ان کا نام صاحبزادہ مولوی سید عبد اللطیف صاحب تھا.صاحبزادہ صاحب نے جب یہ سنا کہ قادیان میں ایک شخص نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو وہ تلاش حق کے لئے کابل سے قادیان تشریف لائے اور حضرت مسیح موعود کی ملاقات سے مشرف ہوئے اور چونکہ صحیح فراست اور نیک فطرت رکھتے تھے انہوں نے آتے ہی سمجھ لیا کہ حضرت مسیح موعود کا دعوی سچا ہے اور بیعت میں داخل ہو گئے.چند ماہ کے قیام کے بعد جب وہ وطن واپس جانے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے طریق کے مطابق انہیں رخصت کرنے کے لئے کافی دور تک بٹالہ کے رستہ پر ان کے ساتھ گئے اور جب جدائی کا آخری وقت آیا تو صاحبزادہ صاحب غم سے اتنے مغلوب تھے کہ زار زار روتے ہوئے حضرت مسیح موعود کے قدموں میں گر گئے.حضرت مسیح موعود نے ان کو بڑی مشکل سے یہ فرماتے ہوئے زمین سے اٹھایا کہ الْأَمْرُ فَوْقَ الْأَدَبِ اس وقت صاحبزادہ صاحب نے بڑی رقت سے عرض کیا.حضرت! میرا دل کہتا ہے کہ میری موت کا وقت آگیا ہے اور میں اس زندگی میں آپ کا مبارک چہرہ پھر نہیں دیکھ سکوں گا.“ (سیرۃ المہدی جلد اوّل صفحه ۲۳۶ شمائل مصنفہ حضرت عرفانی صاحب) چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ کابل پہنچنے پر امیر حبیب اللہ خان نے کابل کے ملانوں کے فتوے کے مطابق ان کو اولا بار بار توبہ کرنے کے لئے کہا اور سخت ترین سزا کی دھمکی کے علاوہ طرح طرح کے لالچ بھی دیے مگر جب انہوں نے سختی سے انکار کیا اور

Page 110

1+4 ہر دفعہ یہی فرمایا کہ جس چیز کو میں نے حق سمجھ کر خدا کی خاطر قبول کیا ہے اسے کبھی نہیں چھوڑوں گا.تو پھر ان کو ایک میدان میں کمر تک زمین میں گاڑ کر ان پر پتھروں کی بے پناہ بارش برسائی.حتی کہ اس عاشق الہی کی روح اپنے آسمانی آقا کے حضور حاضر ہوگئی اور انسان پر انسان کے ظلم اور مذہب میں بدترین تشدد کا یہ خونیں ڈرامہ ختم ہوا.جب حضرت مسیح موعود کو صاحبزادہ صاحب کی شہادت کی خبر پہنچی تو آپ نے بڑے درد کے ساتھ لکھا کہ: ”اے عبد اللطیف! تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھا یا.اور جولوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے...اے کابل کی زمین ! تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا....تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے.“ ( تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۷۴،۶۰) (11) چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی بھاری غرض و غایت اسلام کی خدمت اور توحید کا قیام تھی اور اس زمانہ میں حقیقی توحید کا سب سے زیادہ مقابلہ مسیحیت کے ساتھ ہے جو توحید کی آڑ میں خطرناک شرک کی تعلیم دیتی اور حضرت مسیح ناصری کو نعوذ باللہ خدا کا بیٹا قرار دے کر حضرت احدیت کے پہلو میں بیٹھاتی ہے اس

Page 111

لئے حضرت مسیح موعود کو عیسائیت کے خلاف بڑا جوش تھا اور ویسے بھی آپ کے منصب مسیحیت کا بڑا کام حدیثوں میں کسر صلیب ہی بیان ہوا ہے اس لئے آپ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات پر بہت زیادہ زور دیتے تھے کیونکہ صرف اس ایک بات کے ثابت ہونے سے ہی عیسائیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے یعنی وفات مسیح کے نتیجہ میں نہ تو الوہیت مسیح باقی رہتی ہے اور نہ تثلیث کا نام ونشان قائم رہتا ہے اور نہ کفارہ کا مسئلہ اپنی بودی ٹانگوں پر کھڑارہ سکتا ہے.بے شک وفات مسیح ناصری کا عقیدہ طبعا حضرت مسیح موعود کی اپنی صداقت کے ثبوت کے لئے بھی ایک پہلا زینہ ہے مگر اس مسئلہ کی اصل اہمیت جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود اس پر زیادہ زور دیتے تھے وہ موجودہ مسیحیت کے کھنڈن سے تعلق رکھتی ہے چنانچہ اکثر فرما یا کرتے تھے کہ " تم مسیح کو مرنے دو کہ اسی میں اسلام کی زندگی ہے 66 (احکام اگست ۱۹۰۸ء) کاش ہمارے دوسرے مسلمان بھائی اس نکتہ کو سمجھ کر کم از کم مسیحیت کے مقابلہ میں تو ہمارے ہمنوا ہو جا ئیں.حضرت مسیح موعود کے دعوے کو ماننا یا نہ ماننا دوسری بات ہے.مسیحیت کے باطل عقائد اور اس زمانہ میں ان عقائد کے عالمگیر انتشار کا حضرت مسیح موعود کے دل پر اتنا بوجھ تھا کہ آپ ایک جگہ در دو کرب سے بے قرار ہو کر بڑے جلال سے فرماتے ہیں کہ میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے.میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا ہے اور میری جان عجیب

Page 112

تنگی میں ہے.اس سے بڑھ کر اور کون سا دلی درد کا مقام ہوگا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے اور ایک مشت خاک کو رب العالمین سمجھا گیا ہے.میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جاتا اگر میرا مولیٰ اور میرا قادر و توانا خدا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر تو حید کی فتح ہے...وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا...وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی توحید جس کو بیابانوں کے رہنے والے بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا....تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی کہ خدا کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں.مگر مسیح ایک اور بھی ہے جو اس وقت بول رہا ہے خدا کی غیرت دکھلا رہی ہے کہ اس کا کوئی ثانی نہیں مگر انسان کا ثانی موجود ہے.“ (١٢) (اشتہار ۱۴ جنوری ۱۸۹۷ء) اسی تعلق میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایک دلچسپ روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک کمرہ میں بیٹھے تھے اور حضور کوئی تصنیف فرمارہے تھے کہ کسی شخص نے بڑے زور سے دروازے پر دستک دی.حضرت مسیح موعود نے مفتی صاحب سے فرمایا کہ آپ دروازہ پر جا کر معلوم کریں کہ کون ہے اور کیا پیغام لایا ہے.مفتی صاحب نے دروازہ کھولا تو دستک دینے والے

Page 113

1+9 صاحب نے بتایا کہ مجھے مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے بھجوایا ہے کہ حضرت مسیح موعود کہ خدمت میں حاضر ہو کر یہ خوشخبری سناؤں کہ فلاں شہر میں ایک غیر احمدی مولوی کے ساتھ مولوی صاحب کا مناظرہ ہوا ہے اور مولوی صاحب نے اسے مناظرہ میں شکست فاش دی ہے اور بہت رگیدا اور لاجواب کر دیا.مفتی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں یہ بات پہنچائی تو حضور نے مسکرا کر فرمایا میں اس زور دار دستک سے سمجھا تھا کہ یورپ مسلمان ہو گیا ہے اور یہ اس کی خبر لائے ہیں.“ (سیرۃ المہدی روایت ۲ ، ۳ ذکر حبیب مرتبہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ) یہ غالبا ایک وقتی لطیفہ کی بات تھی مگر اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یورپ کے مسلمان ہونے کا اتنا خیال تھا کہ آپ اپنے لئے حقیقی خوشی صرف اس بات میں سمجھتے تھے کہ مسیحیت کا بت ٹوٹے اور یورپ اسلام کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو جائے.اسی زبر دست جذ بہ بلکہ خدائی القاء کے ماتحت اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں: آسمان پر دعوت حق کے لئے ایک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اتار آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگہ زندہ وار

Page 114

کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع پھر ہوئے ہیں چشمہ توحید پر از جاں نثار باغ میں ملت کے ہے کوئی گل رعنا کھلا آئی ہے بادصبا گلزار سے مستانہ وار گوکہود یوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار آ رہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے آسماں سے ہے چلی تو حید خالق کی ہوا دل ہمارے ساتھ ہیں گومنہ کریں بک بک ہزار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۳۱، ۱۳۲) میں اس موقعہ پر یورپ اور امریکہ اور افریقہ کے احمدی مبلغوں سے کہتا ہوں کہ یہ نہ سمجھو کہ چونکہ غیر احمدی مسلمانوں نے وفات مسیح و حیات مسیح کی بحث کا میدان چھوڑ دیا ہے اس لئے یہ بحث اب ختم ہوگئی ہے.یہ بحث اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک کہ مسیحیت اپنے موجودہ عقائد کے ساتھ زندہ ہے.پس چاہیے کہ قرآن سے اور حدیث سے اور تاریخ سے اور مسیحی صحیفوں سے اور قدیم کتبات سے اور مدفون گنجینوں سے اور عقلی دلائل سے خدا کی نصرت چاہتے ہوئے مسیح کو فوت شدہ ثابت کرنے کے پیچھے لگے رہو تا وقتیکہ مسیح جو حقیقتا فوت ہو چکا ہے یورپ اور امریکہ اور دوسری عیسائی قوموں کی نظروں میں بھی فوت شدہ ثابت ہو جائے اور اسلام اور مقدس بانی اسلام کے نام کا بول بالا ہو اور یقین رکھو کہ بالآخر یہ ہوکر رہے گا کیونکہ قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا.66

Page 115

(۱۳) حضرت مفتی محمد صادق صاحب ہی روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ”ہمارے بڑے اصول دو ہیں.اول خدا کے ساتھ تعلق صاف رکھنا اور دوسرے اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاق سے پیش آنا.“ (ذکر حبیب صفحه ۱۸۰ ) آپ کی ساری زندگی انہی دو اصولوں کے اردگرد چکر لگاتی تھی.آپ نے خدا کی توحید کو قائم کرنے اور خالق و مخلوق کے تعلق کو بہتر بنانے میں اپنی انتہائی کوشش صرف کی اور اس کے لئے اپنی تمام طاقتوں کو وقف کر دیا.بسا اوقات فرمایا کرتے تھے کہ دوسرے مذاہب تو خدا کے حقیقی تصور سے ہی بے گانہ ہیں اور کئی قسم کی مشرکانہ باتوں میں پھنس کر اپنی روحانیت کو ختم کر چکے ہیں مگر مسلمان کہلانے والے بھی موجودہ زمانہ کے مادی ماحول کی تاریکیوں میں بھٹک کر خدا کو بھول چکے ہیں اور اس کی عظیم الشان طاقتوں سے نا آشنا ہیں.فرمایا کرتے تھے کہ خدا ایک زنده می و قیوم قادر و متصرف ہستی ہے جو اپنے سچے پرستاروں کے ساتھ دوستانہ اور مربیانہ تعلق رکھتا ہے وہ ان کی باتوں کو سنتا اور اپنے شریں کلام سے ان کو مشرف کرتا اور تکلیف اور مصیبت کے وقت ان کی مدد فرماتا ہے.چنانچہ اس پاک گروہ کا ذکر کرتے ہوئے جس میں آپ خود بھی شامل تھے فرماتے ہیں:.

Page 116

۱۱۲ ان سے خدا کے کام سبھی معجزانہ ہیں یہ اس لئے کہ عاشق یار یگانہ ہیں ان کو خدا نے غیروں سے بخشا ہے امتیاز ان کے لئے نشاں کو دکھاتا ہے کارساز جب دشمنوں کے ہاتھ سے وہ تنگ آتے ہیں جب بد شعار لوگ انہیں کچھ ستاتے ہیں جب ان کے مارنے کے لئے چال چلتے ہیں جب ان سے جنگ کرنے کو باہر نکلتے ہیں تب وہ خدائے پاک نشاں کو دکھاتا ہے غیروں پہ اپنا رعب نشاں سے جماتا ہے کہتا ہے یہ تو بندہ عالی جناب ہے مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۶) حضرت مسیح موعود کے خلاف دشمنوں نے سنگین مقدمات بنائے.آپ کو قتل کرنے اور کرانے کی سازشیں کیں حکومت کو آپ کے خلاف اکسا اکسا کر آپ پر عرصہ عافیت تنگ کرنے کی سیکیمیں بنا ئیں.آپ کی ترقی اور غلبہ کی پیشگوئیوں کے اثر کو مٹانے کے لئے آپ کے متعلق بالمقابل ہلاکت کی پیش خبریاں سنائیں آپ کو اپنے خدا داد مشن میں ناکام بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا.آپ کے ماننے والوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے مگر ہر مصیبت کے وقت آپ کا اور آپ کی جماعتوں کا

Page 117

۱۱۳ قدم خدا کے فضل و نصرت سے آگے سے آگے ہی بڑھتا چلا گیا.خدا کی غائبانہ مد دکوئی مادی چیز نہیں جو ٹو لنے سے محسوس کی جاسکے.وہ ایک نور اور اقتدار کی کرن ہے جو ابتداء میں صرف روحانی آنکھ رکھنے والوں کو نظر آیا کرتی ہے.اسی خدائی نصرت کو یاد کر کے حضرت مسیح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں اور کس شکر گزاری کے جذبے سے فرماتے ہیں:.مجھ پر ہر اک نے وار کیا اپنے رنگ میں آخر ذلیل ہوگئے انجام جنگ میں اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا میں خاک تھا اسی نے ثریا بنا دیا براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۰) قطرہ سے دریا بنے کا ایک نظارہ تو اس جلسہ میں بھی نظر آ رہا ہے کہ پچہتر کی قلیل تعداد سے شروع ہو کر اب ہمارے جلسہ میں حاضرین کی تعداد خدا کے فضل سے پچہتر ہزار تک پہنچ گئی ہے اور ثریا کا روحانی نظارہ بھی انشاء اللہ اقوام عالم کی ہدایت کے ذریعہ دنیا اپنے وقت پر دیکھ لے گی.(اله) ریاست کپورتھلہ کا ایک بڑا عجیب واقعہ ہے وہاں ایک مختصر مگر نہایت درجہ مخلص جماعت تھی جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عشق تھا اور حضور بھی ان فدائی

Page 118

۱۱۴ دوستوں کے ساتھ بڑی محبت رکھتے تھے.جیسا کہ اور کئی دوسرے شہروں میں ہوا ہے کپورتھلہ کے بعض غیر احمدی مخالفوں نے کپورتھلہ کی احمدی مسجد پر قبضہ کر کے مقامی احمدیوں کو بے دخل کرنے کی کوشش کی.بالآخر یہ مقدمہ عدالت میں پہنچا اور کافی دیر چلتا رہا.کپورتھلہ کے دوست بہت فکر مند تھے اور گھبرا گھبرا کر حضرت مسیح موعود کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کرتے تھے حضرت مسیح موعود نے ان دوستوں کے فکر اور اخلاص سے متاثر ہو کر ایک دن ان کی دعا کی درخواست پر غیرت کے ساتھ فرمایا گھبراؤ نہیں.اگر میں سچا ہوں تو یہ مسجد تمہیں مل کر رہے گی.“ ( اصحاب احمد جلد ۴) مگر عدالت کی نیت خراب تھی اور حج کا رویہ بدستور مخالفانہ رہا.آخر اس نے عدالت میں برملا کہہ دیا کہ تم لوگوں نے نیا مذ ہب نکالا ہے اب مسجد بھی تمہیں نئی بنانی پڑے گی اور ہم اسی کے مطابق فیصلہ دیں گے.مگر ابھی اس نے فیصلہ نہیں لکھا تھا اور خیال تھا کہ عدالت میں جا کر لکھوں گا اس وقت اس نے اپنی کوٹھی کے برآمدہ میں بیٹھ کر نوکر سے بوٹ پہنانے کو کہا.نوکر بوٹ پہنا ہی رہا تھا کہ حج پر اچانک دل کا حملہ ہوا اور وہ چند لحوں میں ہی اس حملہ میں ختم ہو گیا.اسی جگہ جو دوسراج آیا اس نے مسل دیکھ کر احمدیوں کو حق پر پایا اور مسجد احمدیوں کو دلا دی.یہ اسی قسم کا غیر معمولی نشان رحمت ہے جس سے قو میں زندہ ہوتی اور نصرت الہی کا کبھی نہ بھولنے والا سبق حاصل کرتی ہیں کپورتھلہ کی یہ جماعت وہی فدائی جماعت ہے جس کے ایمان اور اخلاص کو دیکھ کر ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا تھا کہ میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح کپورتھلہ کی جماعت اس دنیا میں

Page 119

۱۱۵ میرے ساتھ رہی ہے اسی طرح آخرت میں بھی میرے ساتھ ہوگی.“ (سیرۃ المہدی جلدا صفحه ۵۸ و نیز اصحاب احمد ذکر منشی ظفر احمد صاحب مرحوم ) (۱۵) قادیان میں ایک لڑکا حیدر آباد دکن سے تعلیم کے لئے آیا تھا.اس کا نام عبدالکریم تھا اور وہ ایک نیک اور شریف لڑکا تھا.اتفاق سے اسے حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں دیوانے کتے نے کاٹ لیا.چونکہ انبیاء کرام کی سنت کے مطابق حضرت مسیح موعود کا یہ طریق تھا کہ دعا کے ساتھ ساتھ ظاہری تدبیر بھی اختیار فرماتے تھے اور بعض نام نہاد صوفیوں کی طرح جھوٹے توکل کے قائل نہیں تھے.آپ نے اس لڑکے کو کسولی پہاڑ پر علاج کے لئے بھجوایا اور وہ اپنے علاج کا کورس پورا کر کے قادیان واپس آ گیا.اور بظاہر اچھا ہو گیا.مگر کچھ عرصہ کے بعد اس میں اچانک مخصوص بیماری یعنی ہائیدروفوبیا (Hydrophobia) کے آثار پیدا ہو گئے.حضرت مسیح موعود نے اس کے لئے دعا فرمائی اور ساتھ ہی مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر کو حکم دیا کہ کسولی کے ڈاکٹر کو تار دے کر عبد الکریم کی حالت بتائی جائے اور علاج کے متعلق مشورہ پوچھا جائے.کسولی سے تار کے ذریعہ جواب آیا کہ ساری تھنگ گین بی ڈن فاز عبد الکریم“ نہیں (Sorry Nothing can be done for Abdul Karim) د یعنی افسوس ہے کہ بیماری کے حملہ کے بعد عبد الکریم کا کوئی علاج

Page 120

اس پر حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ ان کے پاس علاج نہیں مگر خدا کے پاس تو علاج ہے.“ چنانچہ حضور نے بڑے درد کے ساتھ اس بچے کی شفا یابی کے لئے دعا فرمائی اور ظاہری علاج کے طور پر خدائی القاء کے ماتحت کچھ دوا بھی دی.خدا کی قدرت سے یہ بچہ حضور کی دعا سے بالکل تندرست ہو گیا یا یوں کہو کہ مردہ زندہ ہو گیا اور اس کے بعد وہ کافی لمبی عمر پا کر فوت ہوا.تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۸۱ تلخیص) اس واقعہ کے تعلق میں ایک اور ضمنی واقعہ بھی دلچسپ اور قابل ذکر ہے.میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب مرحوم جب لاہور میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے اور کلاس میں ہائیڈروفوبیا کی بیماری کا ذکر آیا تو حبیب اللہ شاہ صاحب مرحوم نے اپنے ایک ہم جماعت طالب علم سے عبد الکریم کا واقعہ بیان کیا.ان کے کلاس فیلو نے ضد میں آکر ان سے کہا کہ یہ کوئی بات نہیں ہائیڈ روفوبیا کا علاج بھی ہوسکتا ہے.سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے دوسرے دن اپنے کلاس فیلو کا نام لینے کے بغیر مگر اس کے سامنے اپنے انگریز پروفیسر سے پوچھا کہ اگر کسی شخص کو دیوانہ کتا کاٹ لے اور اس کے نتیجہ میں اسے بیماری کا حملہ ہو جائے تو کیا اس کا بھی کوئی علاج ہے؟ پروفیسر صاحب نے چھٹتے ہی جواب دیا کہ نتھنگ آن ارتھ کین سیو ہم (Nothing on earth can save him) دو یعنی اسے دنیا کی کوئی طاقت بچا نہیں سکتی.“

Page 121

۱۱۷ اس جگہ یا درکھنا چاہیے کہ معجزہ کے یہ معنی نہیں کہ کسی زمانہ اور کسی قسم کے حالات میں بھی کوئی انسان اس جیسا کام نہ کر سکے یا اس جیسی چیز نہ لا سکے.بلکہ اگر ایک مخصوص زمانہ میں کوئی چیز ناممکن سمجھی جاتی ہے اور اس زمانہ کا کوئی انسان اس پر قادر نہیں اور وہ اس وقت تک کے حالات کے ماتحت بشری طاقت سے بالا خیال کی جاتی ہے تو اگر ایسی بات کوئی مامور من اللہ اپنی دعا اور روحانی توجہ کے ذریعہ کر گذرے تو وہ یقینا معجزہ سمجھی جائے گی خواہ بعد کے کسی زمانہ میں وہ چیز دنیا کے لئے ممکن ہی ہو جائے مثلا بیماریوں کے علاج کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءُ إِلَّا الْمَوْتِ ( منداحمد) د یعنی خواہ لوگوں کو معلوم ہو یا نہ ہو خدا نے ہر بیماری کے لئے نیچر میں کوئی نہ کوئی علاج مقرر کر رکھا ہے.ہاں جب کسی کی موت کا مقدر وقت آ جائے تو وہ اٹل ہے جس کا کوئی علاج نہیں.“ پس اگر آئندہ چل کر مرض ہائیڈ روفوبیا کا کوئی علاج دریافت ہو جائے تو پھر بھی حضرت مسیح موعود کے اس معجزہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اپنے زمانہ کے لحاظ سے واقعی ایک معجزہ تھا جس کا جواب لانے کے لئے اس وقت کی دنیا عاجز تھی.اس کے مقابل پر بعض منجزات ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر زمانے میں دنیا کو عاجز کر دینے کی صفت میں لاجواب رہتے ہیں مثلا قرآن مجید کے ظاہری اور معنوی کمالات کا معجزہ.اقتداری پیشگوئیوں کا معجزہ.بالمقابل دعا کی قبولیت کا معجزہ.ہر حال میں رسولوں کے غلبہ کا معجزہ وغیرہ وغیرہ.اور حضرت مسیح موعود کو خدا نے یہ دونوں قسم کے معجزے عطا فرمائے.

Page 122

۱۱۸ (14) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ آریہ قوم کی دشمنی سب کو معلوم ہے اس قوم نے ہر میدان میں حضرت مسیح موعود سے شکست کھائی اور سینکڑوں نشان دیکھے مگر اپنی از لی شقاوت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کی مخالفت میں ہر آن ترقی کرتی گئی.اس قوم کا ایک فرد قادیان میں رہتا تھا جس کا نام لالہ شرم پت تھا لالہ صاحب حضرت مسیح موعود سے اکثر ملتے رہتے تھے اور آپ کی بہت سی پیشگوئیوں کے گواہ تھے مگر جب بھی حضرت مسیح موعود نے ان کو شہادت کے لئے بلایا انہوں نے پہلو تہی کی.یعنی نہ تو اقرار کی جرات کی اور نہ انکار کی ہمت پائی.مگر کٹر آریہ ہونے کے باوجود حضرت مسیح موعود ان کا بہت خیال رکھتے تھے.اور بڑی ہمدردی فرماتے تھے.شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مرحوم روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ لالہ شرم پت صاحب بہت بیمار ہو گئے.ان کے پیٹ پر ایک خطر ناک قسم کا پھوڑا نکل آیا اور وہ سخت گھبرا گئے اور اپنی زندگی سے مایوس ہونے لگے.جب حضرت مسیح موعود کو ان کی بیماری کا علم ہوا تو حضور خود ان کی عیادت کے لئے ان کے تنگ و تاریک مکان پر تشریف لے گئے.اور انہیں تسلی دی اور ان کے علاج کے لئے اپنے ڈاکٹر کو مقرر کر دیا کہ وہ لالہ صاحب کا باقاعدگی کے ساتھ علاج کریں.ان ڈاکٹر صاحب کا نام ڈاکٹر محمد عبد اللہ تھا اور قادیان میں اس وقت وہی اکیلے ڈاکٹر تھے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود ہر روز لالہ صاحب کی عیادت کے لئے ان کے مکان پر تشریف لے جاتے رہے.ان ایام

Page 123

119 میں لالہ شرم پت صاحب کی گھبراہٹ کی یہ حالت تھی کہ اسلام کا دشمن ہونے کے باوجود جب بھی حضور ان کے پاس جاتے تھے وہ حضور سے عرض کیا کرتے تھے کہ حضرت جی ! میرے لئے دعا کریں.اور حضرت مسیح موعود ہمیشہ ان کو تسلی دیتے تھے اور دعا بھی فرماتے تھے.حضرت مسیح موعود کی یہ عیادت اس وقت تک جاری رہی کہ لالہ صاحب بالکل صحتیاب ہو گئے.(شمائل حضرت مسیح موعود مصنفہ عرفانی صاحب) دوست غور کریں کہ اس سے بڑھ کر ایک دشمن قوم کے فرد کے ساتھ رواداری اور ہمدردی اور دلداری کا سلوک اور کیا ہوسکتا ہے؟ (۱۷) قادیان کے آریوں کا ایک اور واقعہ بھی بڑا دلچسپ اور ایمان افروز ہے جب حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کے مطابق پنڈت لیکھرام کی موت واقع ہوئی تو آریہ قوم کی مخالفت اور بھی تیز ہوگئی اور قادیان کے آریوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ایک اخبار نکالنا شروع کیا جس کا نام شبھ چنتک تھا.یہ اخبار جو تین کٹر آریہ سو مراج اور اچھر چند اور بھگت رام باہم مل کر نکالتے تھے.حضرت مسیح موعود اور جماعت احمدیہ کے خلاف گندے اعتراضوں اور گالیوں اور افتراؤں سے بھرا ہوا ہوتا تھا اور حضرت مسیح موعود نے اس پر ایک رسالہ قادیان کے آریہ اور ہم“ کے نام سے لکھا اور ان لوگوں کو شرافت اور انصاف کی تلقین کی اور کذب بیانیوں اور افترا پردازیوں سے باز رہنے کی نصیحت فرمائی مگر ان کی ناپاک روش میں فرق نہ آیا.انہی دنوں کے

Page 124

قریب قادیان میں طاعون کی وبا پھوٹی اور حضرت مسیح موعود نے خدا سے علم پا کر پیشگوئی فرمائی کہ اللہ تعالیٰ مجھے طاعون سے محفوظ رکھے گا اور اسی طرح میرے گھر کے اندر رہنے والے لوگ بھی طاعون سے محفوظ رہیں گے.چنانچہ اس بارے میں خدائی وحی کے الفاظ یہ تھے کہ إِنِّي أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ “ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۰) د یعنی میں جو زمین و آسمان کا خدا ہوں تیری اور تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر رہنے والے تمام لوگوں کی طاعون سے حفاظت کروں گا.“ مگر خدا برا کرے تعصب کا کہ وہ انسان کی آنکھوں پر عداوت کی پٹی باندھ کر اسے اندھا کر دیتا ہے چنانچہ جب اخبار شجھ چنتک کے ایڈیٹر اور منیجر وغیرہ نے یہ پیشگوئی سنی تو غرور میں آکر اور جوش عداوت میں اندھے ہو کر اچھر چند منیجر اخبار شجھ چنتک نے کہا یہ بھی کوئی پیشگوئی ہے میں کہتا ہوں کہ میں بھی طاعون سے محفوظ رہوں گا.اس کے چند دن بعد ہی قادیان میں طاعون نے زور پکڑا اور اخبار شبھ چنتک کے سارے رکن اس موذی مرض میں مبتلا ہو گئے.اور جب ان میں سے اچھر چند جس نے یہ بڑا بول بولا تھا اور اس کا ساتھی بھگت رام مر گئے اور سومراج ایڈیٹر شبھ چنتک ابھی بیمار پڑا تھا تو اس نے گھبرا کر قادیان کے ایک قابل احمدی حکیم مولوی عبید اللہ صاحب بسمل مرحوم کو کہلا بھیجا کہ میں بیمار ہوں آپ مہربانی فرما کر میرا علاج کریں.مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں ایک عریضہ لکھ کر پوچھا کہ سومراج ایڈیٹر شبھ چنتک طاعون سے بیمار ہے اور اس نے مجھ سے علاج کرنے کی

Page 125

۱۲۱ درخواست کی ہے حضور کا اس بارے میں کیا ارشاد ہے؟ حضرت مسیح موعود نے جواب میں فرمایا.آپ علاج ضرور کریں کیونکہ انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے مگر میں آپ 66 کو بتادیتا ہوں کہ یہ شخص بچے گا نہیں.“ چنانچہ بسمل صاحب کے ہمدردانہ علاج کے باوجودسومراج اسی شام کو یا اگلے دن مرکز اپنے بدنصیب ساتھیوں سے جاملا.الحکم ۱۰ اپریل ۱۹۰۷ بشمول روایت مرزا اسلام اللہ بیگ صاحب) اس عجیب و غریب واقعہ میں دو عظیم الشان سبق ہیں.ایک سبق حضرت مسیح موعود کی غیر معمولی انسانی ہمدردی کا ہے کہ اپنے اشد ترین مخالف اور بدترین دشمن کے علاج کے لئے اپنے ایک مرید کو ہدایت فرمائی اور دوسرا سبق خدائی غیرت کا ہے کہ ادھر ان لوگوں نے حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی پر ہنسی اڑائی بلکہ ان میں سے ایک نے آپ کے مقابل پر از راہ افتراء پیشگوئی کا بھی اعلان کیا اور ادھر خدا نے فوراً ان سب کو طاعون میں مبتلا کر کے ایک دو دن میں ہی ان کا خاتمہ کر دیا اور خدا کا یہ شاندار وعدہ بڑے آب و تاب کے ساتھ پورا ہوا کہ كتب الله لا غُلِبَنَّ انَا وَرُسُلِي (المجادلة: ۲۲) یعنی خدا نے یہ بات مقدر کر رکھی ہے کہ میں اور میرے رسول ہمیشہ اپنے مخالفوں کے مقابل پر غالب آئیں گے.“

Page 126

۱۲۲ (IA) لیکن اس عجیب و غریب دوہرے سین (Scene) کے باوجود جس میں ایک طرف انتہائی مخالفت کا نظارہ ہے اور دوسری طرف انتہائی غلبہ کا منظر ہے حضرت مسیح موعود نے ہر قوم کے لئے صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھایا اور ہر مذہب وملت کے بانی کو انتہائی عزت و اکرام سے یادرکھا بلکہ آپ نے عالمگیر امن اور صلح کی بنیادر کھتے ہوئے قرآن مجید سے یہ زریں اصول استدلال کر کے پیش کیا کہ چونکہ خدا ساری دنیا کا خدا ہے اس لئے اس نے کسی قوم سے بھی سوتیلے بیٹوں والا سلوک نہیں کیا بلکہ ہر قوم کی طرف رسول بھیجے اور ہر طبقہ کی ہدایت کا سامان مہیا کیا چنانچہ قرآن واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرُ (الفاطر : ٢٤) بھیجا ہو.“ یعنی دنیا کی کوئی قوم بھی ایسی نہیں جس کی طرف خدا نے کوئی مصلح نہ لیکن خدا کی واحدانیت کا یہ تقاضا تھا کہ جب مختلف قوموں میں ترقی کا شعور پیدا ہو جائے اور ان کے دماغی قوی پختگی حاصل کرنے لگیں اور ایک عالمگیر شریعت کو سمجھنے اور قبول کرنے کی صلاحیت کا زمانہ آجائے اور دنیا کی منتشر قوموں کو ایک دوسرے کی طرف حرکت پیدا ہو اور رسل و رسائل کے وسائل بھی وسیع ہونے شروع ہو جائیں تو پھر حضرت افضل الرسل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ایک دائمی اور عالمگیر شریعت نازل کر کے اور بالآخر آپ کے نائب حضرت مسیح موعود کے ذریعہ اس

Page 127

۱۲۳ شریعت کی دنیا بھر میں اشاعت کرا کے ساری قوموں کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع کیا جائے تا جس طرح دنیا کا خدا ایک ہے اس کا رسول بھی ایک ہو اور اس کی شریعت بھی ایک ، اور ایسا کہ مختلف قوموں اور مختلف ملکوں کی قومی اور ملکی تہذیب و تمدن کے جزوی اختلاف کے باوجود ان کا مرکزی نقطہ ایک رہے اور اخوت کی تاریں ساری دنیا کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھے رکھیں چنانچہ حضرت مسیح موعود اس معاملے میں ایک زبر دست پیشگوئی کا اعلان کرتے ہوئے فرماتے ہیں دوست غور سے سنیں کہ کس تحدی سے فرماتے ہیں.”اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کی رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب (اسلام ) اور اس سلسلہ (سلسلہ احمدیہ ) میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی....دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ ختم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے.“ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۷،۶۶)

Page 128

۱۲۴ (19) دوسرے نبیوں کی نبوت تو سب مسلمانوں میں مسلم ہی ہے چنانچہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل اور حضرت یعقوب اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہم السلام کے سامنے تمام مسلمانوں کی گردنیں عزت و احترام کے ساتھ جھکتی ہیں.لیکن اس قرآنی اصول کے مطابق کہ خدا تعالیٰ نے ہر ملک وقوم میں مختلف وقتوں میں اپنے رسول بھیجے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدائی انکشاف کے ماتحت ہندوستان کے مشہور قدیم مصلح حضرت کرشن کی نبوت کو بھی تسلیم کیا اور انہیں ایک پاکباز خدا رسیدہ بزرگ کے طور پر پیش کی جو قرآنی زمانہ سے پہلے خدا کا ایک سچا نبی اور اوتار تھا اور اس طرح آپ نے الہی منشاء کے مطابق ایک اور بڑی قوم کو عالمگیر روحانی اخوت کے دائرہ میں کھینچ لیا.بے شک کرشن جی کو ماننے والے لوگ اس وقت یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم (فَدَاهُ نَفْسِى) کے انکار کی وجہ سے ہدایت کے رستہ کو چھوڑ چکے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار صراحت فرمائی ہے کہ اس مذہب کی اصل صداقت پر قائم تھی اور کرشن خدا تعالیٰ کا ایک برحق رسول تھا جو قدیم زمانہ میں آریہ ورت کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا گیا تھا چنانچہ فرماتے ہیں راجہ کرشن جیسا کہ میرے پر ظاہر کیا گیا ہے درحقیقت ایک ایسا کامل انسان تھا جس کی نظیر ہندوؤں کے کسی رشتی اور اوتار میں نہیں پائی جاتی اور

Page 129

۱۲۵ اپنے وقت کا اوتار یعنی نبی تھا جس پر خدا کی طرف سے رُوح القدس اُترتا تھا.وہ خدا کی طرف سے فتح مند اور با اقبال تھا.جس نے آریہ ورت کی زمین کو پاپ سے صاف کیا.وہ اپنے زمانہ کا در حقیقت نبی تھا جس کی تعلیم کو پیچھے سے بہت باتوں میں بگاڑ دیا گیا.وہ خدا کی محبت سے پر تھا اور نیکی سے دوستی اور شر سے دشمنی رکھتا تھا.“ لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۲۹،۲۲۸) اسی طرح آپ نے ہندوستان کے ایک اور بڑے مگر جدید مذہبی بزرگ اور سکھ قوم کے بانی حضرت بابا نانک علیہ الرحمہ کی نیکی اور ولایت کو بھی تسلیم کیا اور اس بات کو دلائل سے ثابت کیا کہ حضرت بابا صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے دلی معترف تھے اور انہوں نے ہندو قوم میں اپنے مخصوص صوفیانہ طریق پر نیکی اور پاکبازی اور اخلاق حسنہ اور روحانیت کے پھیلانے کی کوشش کی.چنانچہ حضرت مسیح موعود" فرماتے ہیں.باوا نا نک ایک نیک اور برگزیدہ انسان تھا.اور ان لوگوں میں سے تھا جن کو خدائے عزوجل اپنی محبت کا شربت پلاتا ہے....بلا شبہ باوا نا نک صاحب کا وجود ہندوؤں کے لئے خدا کی طرف سے ایک رحمت تھی جس نے 66 اس نفرت کو دور کرنا چاہا تھا جو اسلام کی نسبت ہندوؤں کے دلوں میں تھی.“ (رساله پیغام اصلح روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۴۴۶،۴۴۵)

Page 130

(۲۰) اسی طرح قرآن کے مندرجہ بالا زرین اصول کے ماتحت جماعت احمد یہ اپنے مقدس بانی کی اقتداء میں چین کے کنفیوشس اور ایران کے زرتشت اور ہندوستان کے دوسرے مذہبی پیشوا گوتم بدھ کی بزرگی کو بھی فی الجملہ تسلیم کرتی اور ان کے متعلق محبت اور عقیدت کے جذبات رکھتی ہے.در حقیقت قرآنی تصریح کے علاوہ حضرت مسیح موعود کی یہ بھی تعلیم تھی کہ جس مذہبی پیشوا اور مامور الہی کو لاکھوں کروڑوں انسانوں نے قبول کر لیا اور ان کی صداقت دنیا میں قائم ہو کر وسیع علاقوں میں پھیل گئی اور راسخ ہوگئی اور غیر معمولی طور پر لمبے زمانہ تک ان کی مقبولیت کا سلسلہ چلتا گیا اُن کے متعلق قرآنی صراحت کے علاوہ عقلاً بھی یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ اُن کی اصل ضرور حق و صداقت پر مبنی تھی کیونکہ ایک جھوٹے اور مفتری انسان کو کبھی بھی ایسی غیر معمولی قبولیت حاصل نہیں ہوسکتی.حضرت مسیح موعود کی اس بے نظیر تعلیم نے جماعت احمدیہ کے نظریات میں گویا ایک انقلابی صورت پیدا کر کے دنیا میں ایک عالمگیر امن اور آشتی کی بنیاد قائم کر دی ہے بے شک فی الحال اس نظریہ نے ہماری مخالفت کا دائرہ بہت وسیع کر دیا ہے اور ہمیں گویا ایک عالمگیر آگ کے گھیرے میں لے لیا ہے کیونکہ ہر قوم ہمیں اپنار قیب اور حریف سمجھ کر ہم پر حملہ آور ہو رہی ہے مگر انشاء اللہ یہی نظریہ بالآخر عالمگیر اخوت کی بنیاد بنے گا اور حضرت سرور کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آپ

Page 131

۱۲۷ کے نائب اور بروز حضرت مسیح موعود کے ذریعہ دنیا ایک جھنڈے کے نیچے آجائے گی تب مسیح محمدی کا یہ قول پورا ہوگا کہ دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ تذكرة الشهادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۷) میں شاید اپنے اصل مضمون سے کچھ ہٹ گیا ہوں کیونکہ میرا مضمون حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کے اخلاق و عادات اور آپ کے جستہ جستہ حالات اور آپ کی مجلس کے کوائف اور آپ کے خاص خاص اقوال کے بیان کرنے سے تعلق رکھتا ہے مگر میں اس جگہ بظاہر اپنا رستہ چھوڑ کر بعض اصولی باتوں میں منہمک ہو گیا ہوں لیکن اگر غور کیا جائے تو جو باتیں میں نے اوپر بیان کی ہیں ان کا میری تقریر کے موضوع کے ساتھ گہرا نفسیاتی جوڑ ہے.کیونکہ یہ باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فطری رجحان اور پاک نظریات پر بھاری روشنی ڈالتی ہیں اور اس بات پر قطعی دلیل ہیں کہ آپ کا قلب مطہر ایک طرف اپنے خالق و مالک کے ساتھ نہایت گہرا پیوند رکھتا تھا اور دوسری طرف اس کی تاریں دنیا بھر کی مخلوق کو اس طرح اپنے گھیرے میں لئے ہوئے تھیں کہ کوئی فرقہ اور کوئی طبقہ اور کوئی گروہ ان کے مخلصانہ اور محبانہ ارتباط سے باہر نہیں رہا.آپ نے سچائی کی خاطر ہر قوم کی دشمنی سہیڑی مگر باوجود اس کے ہر قوم سے دلی محبت کی اور اپنے بے لوث اخلاص کو کمال تک پہنچادیا.مگر ضروری ہے کہ میں اپنے مضمون کے ابتدائی حصہ کی طرح بعض جزوی باتیں بھی بیان کروں تا کہ اصول کے

Page 132

۱۲۸ ساتھ جزئیات کی چاشنی بھی قائم رہے.اور میں اب انہی کی طرف پھر دوبارہ رجوع کرتا ہوں.(۲۱) غالباً ۱۶ / ۱۹۱۵ء کی بات ہے کہ قادیان میں آل انڈیا ینگ مین کرسچین ایسوسی ایشن کے سیکرٹری مسٹر ایچ.اے والٹر تشریف لائے.ان کے ساتھ لاہور کے ایف سی کالج کے وائس پرنسپل مسٹر لوکاس بھی تھے.مسٹر والٹر ایک کٹر سیحی تھے اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق ایک کتاب لکھ کر شائع کرنا چاہتے تھے جب وہ قادیان آئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملے اور تحریک احمدیت کے متعلق بہت سے سوالات کرتے رہے اور دوران گفتگو میں کچھ بحث کا سارنگ بھی پیدا ہو گیا تھا.اس کے بعد انہوں نے قادیان کے مختلف ادارہ جات کا معائنہ کیا اور بالآ خر مسٹر والٹر نے خواہش ظاہر کی کہ میں بانی سلسلہ احمدیہ کے کسی پرانے صحبت یافتہ عقیدت مند کو دیکھنا چاہتا ہوں.چنانچہ قادیان کی مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک قدیم اور فدائی صحابی منشی محمد اروڑ ا صاحب سے ان کی ملاقات کرائی گئی ، اس وقت منشی صاحب مرحوم نماز کے انتظار میں مسجد میں تشریف رکھتے تھے.رسمی تعارف کے بعد مسٹر والٹر نے منشی صاحب موصوف سے دریافت کیا کہ آپ مرزا صاحب کو کب سے جانتے ہیں اور آپ نے ان کو کس دلیل سے مانا اور ان کی کس بات نے آپ پر زیادہ اثر کیا.

Page 133

۱۲۹ منشی صاحب نے جواب میں بڑی سادگی سے فرمایا میں حضرت مرزا صاحب کو ان کے دعوئی سے پہلے کا جانتا ہوں میں نے ایسا پاک اور نورانی انسان کوئی نہیں دیکھا ان کا نور اور ان کی مقناطیسی شخصیت ہی میرے لئے ان کی سب سے بڑی دلیل تھی.ہم تو اُن کے منہ کے بھوکے تھے “ یہ کہہ کر حضرت منشی صاحب حضرت مسیح موعود کی یاد میں بے چین ہو کر اس طرح رونے لگے کہ جیسے ایک بچہ اپنی ماں کی جدائی میں بلک بلک کر روتا ہے.اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ یہ نظارہ دیکھ کر ان کا رنگ سفید پڑ گیا تھا اور وہ محو حیرت ہو کر منشی صاحب موصوف کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہے اور ان کے دل میں منشی صاحب کی اس سادہ سی بات کا اتنا اثر تھا کہ بعد میں انہوں نے اپنی کتاب احمد یہ موومنٹ میں اس واقعہ کا خاص طور پر ذکر کیا اور لکھا کہ مرزا صاحب کو ہم غلطی خوردہ کہہ سکتے ہیں مگر جس شخص کی صحبت نے اپنے مریدوں پر ایسا گہرا اثر پیدا کیا ہے اسے ہم دھو کے باز ہرگز نہیں کہہ سکتے.“ احمد یہ موومنٹ مصنفہ مسٹر ایچ اے والٹر ) دراصل اگر انسان کی نیت صاف ہو اور اس کے دل و دماغ کی کھڑکیاں کھلی ہوں تو بسا اوقات ایک پاکباز شخص کے چہرہ کی ایک جھلک یا اس کے منہ کی ایک بات ہی انسان کے دل کو منور کرنے کے لئے کافی ہو جاتی ہے.انبیاء اور اولیاء کی تاریخ ایسی باتوں سے معمور ہے کہ ایک شخص مخالفت کے جذبات لے کر آیا اور پھر پہلی نظر میں ہی یا پہلے فقرہ پر ہی گھائل ہو کر رہ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی ایک نظم

Page 134

میں فرماتے ہیں صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کر دگار ( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۲۹) (۲۲) حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بزرگ صحابی اور جماعت احمدیہ کے ایک جید عالم تھے فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مردان کا ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول کی طب کا شہرہ سن کر آپ سے علاج کرانے کی غرض سے قادیان آیا.یہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سخت ترین دشمن تھا اور بمشکل قادیان آنے پر رضامند ہوا تھا.اور اس نے قادیان آ کر اپنی رہائش کے لئے مکان بھی احمدی محلہ سے باہر لیا تھا.جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے علاج سے اسے خدا کے فضل سے افاقہ ہو گیا اور وہ اپنے وطن واپس جانے کے لئے تیار ہوا تو اس کے ایک احمدی دوست نے اسے کہا کہ تم نے حضرت مسیح موعود کو تو دیکھنا پسند نہیں کیا.مگر ہماری مسجد کو تو دیکھتے جاؤ.وہ اس بات کے لئے رضا مند ہو گیا مگر یہ شرط رکھی کہ مجھے ایسے وقت میں مسجد مبارک دکھاؤ کہ جب مرزا صاحب مسجد میں نہ ہوں.چنانچہ یہ صاحب اسے ایسے وقت میں قادیان کی مسجد مبارک دکھانے کے لئے لے گئے کہ جب نماز کا وقت

Page 135

۱۳۱ نہیں تھا اور مسجد خالی تھی.مگر قدرت خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ادھر یہ شخص مسجد میں داخل ہوا اور ادھر حضرت مسیح موعود کے مکان کی کھڑ کی کھلی اور حضور کسی کام کے تعلق میں اچانک مسجد میں تشریف لے آئے.جب اس شخص کی نظر حضرت مسیح موعود پر پڑی تو وہ حضور کا نورانی چہرہ دیکھتے ہی بے تاب ہو کر حضور کے قدموں میں آگرا اور اسی وقت بیعت کرلی.سیره المهدی حصہ اول روایت ۷۳ جلد ۱ صفحه ۵۴) اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر حال میں ہر شخص اسی قسم کا اثر قبول کرتا ہے کیونکہ اگر ایسا ہو تو کوئی شخص بھی صداقت کا منکر نہیں رہ سکتا.بلکہ یہ خاص حالات کی باتیں ہیں جب کہ ایک طرف کسی نبی یا ولی کے چہرہ پر خاص انوار الہی کا نزول ہو رہا ہو اور اس کی قوت موثرہ پورے جوبن اور جوش کی حالت میں ہو.اور دوسری طرف اثر قبول کرنے والے شخص کا دل صاف ہو اور اس کی وقت متاثرہ پوری طرح بیدار ہو.یہی وجہ ہے کہ جہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی پہلی آواز پر ہی قبول کر لیا اور لبیک لبیک کہتے ہوئے آپ کے قدموں میں آگرے اور خدائی رحمت کے طالب ہوئے وہاں ابو جہل ایک ہی شہر میں پہلو بہ پہلو ر ہتے ہوئے آخر وقت تک آپ کی مخالفت پر جما رہا اور عذاب کے نشان کا طالب ہو کر یہی کہتا ہوا مرگیا کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا.اس سے ظاہر ہے کہ اگر انسان کی اپنی آنکھیں بند ہوں تو اس کے لئے سورج کی روشنی بھی بے کار ہو کر رہ جاتی ہے.حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے کہ

Page 136

۱۳۲ حسن ز بصره - بلال از جبش.صہیب از روم ز خاک مکه اید اہل.این چه بوانی ست یعنی یہ عجیب قدرت خداوندی ہے کہ حسن نے بصرہ سے آکر اور بلال نے حبشہ میں پیدا ہو کر اور صہیب نے روم سے اٹھ کر رسول پاک کو قبول کر لیا مگر ابو جہل مکہ کی خاک میں جنم لینے کے باوجود صداقت سے محروم رہا.“ پس جو لوگ خدائی نور سے منور ہونا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنی آنکھیں ہمیشہ کھلی رکھیں ورنہ ہزار سورج کی روشنی بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی.قرآن مجید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منکروں کے متعلق کس حسرت کے ساتھ فرماتا ہے کہ يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ ( يس : ٣١) یعنی ہائے افسوس لوگوں پر! کہ کوئی رسول بھی ایسا نہیں آیا حتی کہ ہمارا خاتم النبین بھی کہ انہوں نے اس کا انکار کر کے اس پر ہنسی نہ اڑائی ہو.“ (۲۳) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب علیہ اسیح الثانی نے ایک دفعہ مجھ سے بیان کیا اور بعض اوقات مجلس میں بھی بیان فرماتے رہے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک ہندو جو گجرات کا رہنے والا تھا ایک برات کے ساتھ قادیان آیا.یہ شخص علم تو جہ یعنی ہینوٹزم (Hypnotism) کا بڑا ماہر تھا.اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس وقت ہم لوگ اتفاق سے قادیان آئے ہوئے ہیں چلو

Page 137

۱۳۳ مرزا صاحب سے بھی ملتے چلیں.اس کا منشاء یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے حضرت مسیح موعود پر توجہ کا اثر ڈال کر حضور سے بھری مجلس میں کوئی نازیبا حرکت کرائے جس سے لوگوں پر حضور کا روحانی اور اخلاقی اثر زائل ہو جائے.جب وہ مجلس میں حضور سے ملا تو اس نے حضور کے سامنے بیٹھ کر خاموشی کے ساتھ حضور پر اپنی توجہ کا اثر ڈالنا شروع کیا مگر حضرت مسیح موعود پوری دلجمعی کے ساتھ اپنی گفتگو میں مصروف رہے.تھوڑی دیر کے بعد اس شخص کے بدن پر کچھ لرزہ آیا اور اس کے منہ سے کچھ خوف کی آواز بھی نکلی لیکن وہ سنبھل گیا اور پھر زیادہ زور کے ساتھ تو جہ ڈالنی شروع کی.اس پر اس نے ایک چیخ ماری اور بے تحاشا مسجد سے بھاگتا ہوا نیچے اتر گیا.اس کے ساتھی اور بعض دوسرے لوگ بھی اس کے پیچھے گئے اور اس کو پکڑ کر سنبھالا.جب اس کے ہوش ٹھکانے ہوئے تو بعد میں اس نے بیان کیا کہ میں علم تو جہ کا بڑا ماہر ہوں میں نے ارادہ کیا تھا کہ مرزا صاحب پر توجہ ڈال کر ان سے مجلس میں کوئی نازیبا حرکت کراؤں مگر جب میں نے ان پر توجہ ڈالی تو میں نے دیکھا کہ میرے سامنے ایک شیر کھڑا ہے.میں اسے اپنا وہم قرار دے کر سنبھل گیا اور پھر دوبارہ توجہ ڈالنی شروع کی.اس پر میں نے دیکھا کہ وہ شیر میری طرف بڑھ رہا ہے جس سے میرا بدن لرز گیا مگر میں نے پھر اپنے آپ کو سنبھالا اور اپنی ساری طاقت اور ساری توجہ مجتمع کر کے اور اپنا سارا زور لگا کر مرزا صاحب پر توجہ ڈالی اس وقت میں نے دیکھا کہ وہ شیر خوفناک صورت میں مجھ پر اس طرح حملہ آور ہوا ہے کہ گویا مجھے ختم کرنا چاہتا ہے جس پر میرے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی اور میں مسجد سے بھاگ اٹھا.(سیرۃ المہدی روایت ۷۵.یہی روایت بعد میں کسی قدر اختلاف کے ساتھ تفسیر کبیر

Page 138

۱۳۴ سورة شعراء زیر آیت ۳۴ میں بھی بیان ہوئی ہے ) حضرت خلیفہ المسیح الثانی فرمایا کرتے ہیں کہ اس کے بعد وہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بہت معتقد ہو گیا اور جب تک زندہ رہا ہمیشہ بڑی عقیدت کے رنگ میں حضور کے ساتھ خط کتابت رکھتا رہا.اور وہ بیان کیا کرتا تھا کہ مرزا صاحب بڑے خدا رسیدہ بزرگ ہیں جن کے سامنے میری پینوٹزم کی طاقت بالکل بیکار ثابت ہوئی.اس روایت کے تعلق میں ہمارے دوستوں کو یا درکھنا چاہیے کہ علم توجہ یعنی ہینوٹزم دنیا کے علموں میں سے ایک لطیف علم ہے جس کا بنیادی ملکہ انسانی فطرت کے اندر قدرتی طور پر پایا جاتا ہے مگر یہ ملکہ عموم مخفی اور مستور رہتا ہے البتہ اسے مناسب مشق کے ذریعہ بیدار کیا جاسکتا اور بڑھایا جا سکتا ہے.اور بعض لوگ جن کی قوت ارادی زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور ان کے اندر توجہ جمانے یعنی کنسٹریشن (Concentration) کا مادہ زیادہ پختہ ہوتا ہے وہ لمبی مشق کے ذریعہ اس ملکہ میں کافی ترقی کر لیتے ہیں لیکن بعض مثالیں ایسی بھی دیکھی گئی ہیں کہ بعض لوگوں میں بلکہ شاذ کے طور پر بعض نو عمر بچوں تک میں یہ ملکہ قدرتی طور پر بھی بیدار ہوتا ہے اور وہ کسی قسم کی مشق کے بغیر ہی غیر شعوری رنگ میں توجہ جمانے اور اس کے اثرات پیدا کرنے میں ایک حد تک کامیاب ہو جاتے ہیں مگر ایسی قدرتی حالت اگر اسے مشق کے ذریعہ قائم نہ رکھا جائے بالعموم جلد زائل ہو جاتی ہے بلکہ یہ فطری ملکہ بعض جانوروں تک میں پایا جاتا ہے.چنانچہ سانپوں کی بعض اقسام اپنی آنکھوں کی توجہ کے ذریعے اپنے شکار کو مسحور کر لیا کرتی ہیں.اس تعلق میں یہ بات بھی یادرکھنی چاہیے کہ علم تو جہ یعنی پنوٹزم کوحقیقی روحانیت سے جو خدا تعالیٰ کے ذاتی تعلق کا دوسرا نام ہے کوئی واسطہ نہیں بلکہ یہ علم دنیا کے علموں

Page 139

۱۳۵ میں سے اسی طرح کا علم ہے جس طرح کہ طب یا ہیئت یا ہندسہ یا کیمسٹری یا فرکس وغیرہ دنیا کے علوم ہیں اور ہر شخص خواہ وہ کسی مذہب وملت سے تعلق رکھتا ہوا سے حاصل کر سکتا اور اپنی فطری استعداد کے مطابق مناسب مشق کے ذریعہ اس میں کافی مہارت پیدا کر سکتا ہے.چنانچہ مسلمانوں میں کئی صوفیاء اور ہندوؤں میں سے کئی جوگی اس علم کے ماہر گذرے ہیں اور اس علم کے ذریعہ بیماروں کا علاج بھی کرتے رہے ہیں اور یہی اس علم کا بہترین استعمال ہے.اور آج کل یورپ و امریکہ کے لوگ بھی اس علم میں کافی ترقی کر رہے ہیں.اور قدیم زمانہ میں جو ساحر حضرت موسیٰ کے مقابل پر آئے تھے وہ بھی غالبا اسی علم کے ماہر تھے مگر عصائے موسوی کے سامنے ان کا سحر ٹوٹ کر پاش پاش ہو گیا.چنانچہ قرآن مجید فرماتا ہے.إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ وَلَا يُفْلِحُ الشحِرُ حَيْثُ آتی (طه:۷۰) یعنی ان لوگوں نے ایک ساحرانہ چال چلی تھی.مگر خدا کے رسولوں کے مقابلہ پر کوئی ساحر کامیاب نہیں ہوسکتا خواہ وہ کسی رستہ سے آئے.(۲۴) اسی تعلق میں مجھے ایک اور روایت بھی یاد آئی ہے حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے مجھے سے بیان کیا کہ جب ابتداء میں حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے لدھیانہ میں ملے تو چونکہ حضرت منشی صاحب علم توجہ کے بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے اور اس علم کے ذریعہ مریضوں کا علاج بھی کیا کرتے

Page 140

تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے دریافت کیا کہ آپ توجہ کے علم کے ماہر ہیں اس علم میں آپ کا سب سے بڑا کمال کیا ہے؟ منشی صاحب مرحوم بڑے منکسر المزاج صوفی فطرت کے نیک بزرگ تھے انہوں نے ادب کے ساتھ عرض کیا کہ حضرت میں یہ کر سکتا ہوں کہ اگر میں کسی شخص پر توجہ ڈالوں تو وہ تڑپ کر زمین پر گر جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.د و منشی صاحب! اس سے اس کی روحانیت کو کیا فائدہ پہنچا اور آپ کی روحانیت کو کیا فائدہ پہنچا ؟ اور اس کے نفس کی پاکیزگی اور خدا کے تعلق میں کیا ترقی ہوئی ؟“ حضرت منشی صاحب بڑی نکتہ رس طبیعت کے بزرگ تھے بے ساختہ عرض کیا.حضرت ! میں سمجھ گیا ہوں.یہ ایک ایسا علم ہے جسے حقیقی روحانیت سے کوئی تعلق نہیں.“ یہ حضرت منشی احمد جان صاحب وہی بزرگ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعلیٰ روحانی مقام کو شناخت کر کے اور دنیا کی موجودہ ابتر حالت کو دیکھتے ہوئے حضور کے دعوئی اور سلسلہ بیعت سے بھی پہلے حضور کو مخاطب کر کے یہ شعر کہا تھا کہ ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نظر مسیحا بنو خدا کے لئے حضرت مسیح موعود تو خدا کی قدرت نمائی سے مسیح بن گئے مگر افسوس کہ حضرت منشی صاحب اس سے پہلے ہی اس دار فانی سے کوچ کر کے اپنے مولیٰ کے حضور جا پہنچے.(سیرۃ المہدی جلد ا حصہ اوّل صفحہ ۱۳۳)

Page 141

۱۳۷ (۲۵) دوستو! جیسا کہ میں شروع میں بیان کر چکا ہوں میرے اس مضمون کا عنوان در منشور ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق و عادات اور خاص خاص اقوال کے متعلق غیر مرتب موتی.اس لئے اس میں کسی ترتیب کا خیال نہ کریں خدا تعالیٰ نے بعض صورتوں میں بکھری ہوئی چیزوں میں بھی غیر معمولی زینت ودیعت کر رکھی ہے چنانچہ آسمان کے ستارے بظاہر بالکل غیر مرتب صورت میں بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں مگر ان میں اتنی خوبصورتی اور اتنی جاذبیت ہے کہ تاروں بھری رات کا نظارہ بعض اوقات انسان کو مسحور کر دیتا ہے.اسی طرح قرآن مجید نے اہل جنت کے نو خیز خدمتگاروں کے متعلق لُؤْلُؤًا مَّنْخُورًا کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی وہ اپنی خادمانہ مصروفیات میں ادھر ادھر گھومتے ہوئے یوں نظر آئیں گے کہ گویا کسی نے مجلس میں موتیوں کا چھینٹا دے رکھا ہے.خالق فطرت حسن و جمال کی آرائشوں کو سب سے بہتر سمجھتا ہے.اس کی بنائی ہوئی چیزوں میں خواہ وہ مرتب ہیں یا بظاہر غیر مرتب.بہترین حسن کا نظارہ پایا جاتا ہے.اور اس کی یہ بھی سنت ہے کہ بعض اوقات وہ اپنے بندوں کو جلال (Mejesty) کے ذریعہ مسحور کرتا ہے اور بعض اوقات جمال (Beauty) کے ذریعہ اپنی طرف کھینچتا ہے.چنانچہ اس کے رسولوں اور رسولوں کے خلیفوں میں بھی جلال و جمال کا لطیف دور نظر آتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام جلالی نبی تھے مگر ان کے آخری خلیفہ حضرت عیسی علیہ السلام جمالی صفات لے کر مبعوث ہوئے.اسی طرح

Page 142

۱۳۸ ہمارے آقا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بعثت کے لحاظ سے جلالی شان حملہ کے حامل تھے جن کے نور کی زبر دست کرنوں نے عرب کے وسیع ملک کو گویا آنکھ جھپکنے میں بت پرستی کی ظلمت سے نکال کر توحید کی تیز روشنی سے منور کر دیا.لیکن آپ کا آخری خلیفہ اور اسلام کا خاتم الخلفاء یعنی مسیح محمدی جمال کی چادر میں لپٹا ہوا آیا.چنانچہ آپ اپنی مشہور نظم میں جس میں آپ نے محبت الہی کے کرشموں کا ذکر کیا ہے فرماتے ہیں آں مسیحا که بر افلاک مقامش گویند لطف کر دی کہ از یں خاک نمایاں کردی دو یعنی لوگ تو مسیح کا ٹھکانا آسمان پر بتاتے ہیں اور اس کے نزول کے منتظر ہیں لیکن اے محبت الہی ! تیرا یہ کمال ہے کہ تو نے مجھ خاک کے پتلے کو زمین میں سے ہی ظاہر کر کے مسیحیت کے مقام پر پہنچادیا ہے.“ دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فلسفہ سلوک تمام کا تمام محبت کے محور کے ارد گرد گھومتا ہے خدا سے محبت.رسول سے محبت.مخلوق سے محبت.عزیزوں سے محبت.ہمسائیوں سے محبت.دوستوں سے محبت.دشمنوں سے محبت.افراد سے محبت.قوموں سے محبت.خدا تک پہنچنے کا رستہ محبت.اور پھر اپنے اصلاحی پروگرام کا مرکزی نقطہ بھی محبت.چنانچہ محولہ بالا نظم میں محبت کے گن گاتے ہوئے کس جذبہ کے ساتھ فرماتے ہیں:.گو حقیقت یہ ہے کہ آپ میں جلال و جمال کی ایسی دلآویز آمیزش تھی کہ آپ کے جمال و جلال میں فرق کرنا مشک ہے.منہ

Page 143

۱۳۹ اے محبت عجب آثار نمایاں کردی زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کردی ذره را تو بیک جلوه گنی بچوں خورشید اے بسا خاک کہ تو بچوں مہر تاباں کر دی جان خود کس نہ دہر بہر کس از صدق وصفا راست اینست که این جنس تو ارزاں کردی تا نه دیوانه شدم ہوش نیامد بسرم اے جنوں گرد تو گردم کہ چہ احساں کر دی آں مسیحا که بر افلاک مقامش گویند لطف کردی کہ ازیں خاک نمایاں کردی ( بدر ۱۶ را پریل ۱۹۰۴ء) یعنی اے محبت ! تیرے آثار عجیب و غریب ہیں کیونکہ تو نے آسمانی معشوق کے رستہ میں زخم کی تکلیف اور مرہم کی راحت کو ایک جیسا بنا رکھا ہے.تیری طاقت کا یہ عالم ہے کہ ایک ذرہ بے مقدار کو اپنے ایک جلوہ سے سورج کی طرح بنادیتی ہے اور کتنے ہی خاک کے ذرے ہیں جن کو تو نے چمکتا ہوا چاند بنادیا ہے.دنیا میں کوئی شخص کسی دوسرے کی خاطر صدق و اخلاص کے ساتھ جان نہیں دیتا.مگر حق یہ ہے کہ اے محبت ! تو نے اور صرف تو نے ہی اس جاں بازی کے سودے کو بالکل آسان کر دیا ہے.میں تو جب تک خدا کے عشق میں دیوانہ نہیں ہوا میرے سر میں ہوش نہیں آیا.پس اے

Page 144

جنونِ عشق ! میرے دل کی تمنا یہ ہے کہ تیرے ہی اردگر دطواف کرتارہوں کہ تو نے مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا ہے.وہ مسیح جسے لوگ اپنی غلطی سے آسمان پر بیٹھا ہوا بتاتے تھے تُو نے اے محبت ! اپنی کرشمہ سازی سے اُسے اس زمین میں سے ہی ظاہر کر دیا ہے.“ دوسری جگہ اپنی ایک اردو کی نظم میں سلوک الی اللہ کے مراحل کا ذکر کرتے ہوئے محبت کی تاثیرات کے متعلق فرماتے ہیں کوئی ره نزدیک تر راہ محبت سے نہیں طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشت خار اُس کے پانے کا یہی اے دوستو اک راز ہے کیمیا ہے جس سے ہاتھ آجائے گا زر بے شمار تیر تاثیر محبت کا خطا جاتا نہیں تیر اندازو! نہ ہونا سست اس میں زینہار عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پر خطر عشق ہے جو سر جھکا دے زیر تیغ آبدار فقر کی منزل کا ہے اول قدم نفي وجود پس کرو اس نفس کو زیر و زبر از بهر یار تلخ ہوتا ہے ثمر جب تک کہ ہو وہ نا تمام اس طرح ایماں بھی ہے جب تک نہ ہو کامل پیار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۳۹ تا۱ ۱۴)

Page 145

۱۴۱ (۲۶) اُس عدیم المثال محبت کی وجہ سے جو خدا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں تھی اور پھر اس محبت کی وجہ سے جو خدا کو آپ کے ساتھ تھی حضرت مسیح موعود کو خدا کی غیر معمولی نصرت اور حفاظت پر ناز تھا.چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ جب ایک آریہ نے اسلام پر یہ اعتراض کیا کہ قرآن نے حضرت ابراہیم کے متعلق یہ بات قانونِ قدرت کے خلاف بیان کی ہے اس لئے وہ قابل قبول نہیں کہ جب دشمنوں نے ان کو آگ میں ڈالا تو خدا کے حکم سے آگ اُن پر ٹھنڈی ہوگئی.اور حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول نے اس اعتراض کے جواب میں یہ لکھا کہ یہاں آگ سے حقیقی آگ مراد نہیں بلکہ دشمنی اور شرارت کی آگ مراد ہے اور بعض لوگوں نے اس جواب کو بہت پسند کیا.مگر جب حضرت مولوی صاحب کے اس جواب کی اطلاع حضرت مسیح موعود کو پہنچی تو آپ نے بڑے جلال کے ساتھ فرمایا کہ مولوی صاحب کو اس تاویل کی ضرورت نہیں تھی.خدا کے بنائے ہوئے قانونِ قدرت کا احاطہ کون کر سکتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک نہایت لطیف اور بصیرت افروز شعر میں فرماتے ہیں کہ : نہیں محصور ہر گز راستہ قدرت نمائی کا خدا کی قدرتوں کا حصر دعوی ہے خدائی کا اور حق بھی یہی ہے کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے جو باتیں بظاہر قانونِ قدرت کے

Page 146

۱۴۲ خلاف سمجھی جاتی تھیں وہ آج نئی نئی تحقیقاتوں اور نئے نئے انکشافوں کے نتیجہ میں قانونِ قدرت کے مطابق درست ثابت ہو رہی ہیں.اور پھر خدا اپنے بنائے ہوئے قانون کا غلام نہیں ہے بلکہ اپنے خاص مصالح کے ماتحت اس قانون میں وقتی طور پر مناسب تبدیلی بھی کر سکتا ہے جیسا کہ وہ خود قرآن میں فرماتا ہے کہ اللهُ غَالِبٌ على آمده (سوره یوسف آیت ۲۲) د یعنی خدا اپنی جاری کردہ تقدیر پر بھی غالب ہے اور اسے خاص حالات میں بدل سکتا ہے.“ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا اپنے بنائے ہوئے قانون اور سلسلہ اسباب کو توڑ دیتا ہے بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے تصریح فرمائی ہے مراد یہ ہے کہ بعض اوقات خدا ایسے مخفی در مخفی اسباب پیدا کر دیتا ہے جو دنیا کو نظر نہیں آتے مگر اُن کے نتیجہ میں اُس کے کسی بدیہی قانون میں وقتی تبدیلی رونما ہو جاتی ہے.( ملفوظات جلد اوّل صفحه ۱۱۴) پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی تحدی کے ساتھ فرمایا کہ اگر خدا نے اپنے کسی خاص الخاص تصرف سے اپنے پیارے بندے ابراہیم کے لئے دشمنوں کی لگائی ہوئی آگ کو سچ سچ ٹھنڈا کر دیا ہو تو اس میں ہرگز کوئی تعجب کی بات نہیں.حضرت مسیح موعود تو خدا کے مامور ومرسل تھے.یہ صداقت تو وہ ہے جسے امت محمدیہ کے اکثر سمجھدار لوگوں نے برملا تسلیم کیا ہے لیکن حضرت مسیح موعود نے اس موقعہ پر صرف ایک حقیقت اور ایک فلسفہ کا ہی اظہار نہیں فرمایا بلکہ ایک ربانی مصلح اور ذاتی مشاہدہ سے مشرف انسان کی حیثیت میں بڑے وثوق اور جلال کے ساتھ یہ بھی فرمایا احباب غور

Page 147

۱۴۳ سے سنیں کس شان سے فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم کا زمانہ تو گذر چکا اب ہم خدا کی طرف سے اس زمانہ میں موجود ہیں ہمیں کوئی دشمن آگ میں ڈال کر دیکھ لے.خدا کے فضل سے 66 ہم پر بھی آگ ٹھنڈی ہوگی.“ (سیرۃ المہدی روایت ۷ ۱۴) چنانچہ اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی ایک نظم میں بھی فرماتے ہیں ترے مکروں سے اے جاہل مرا نقصاں نہیں ہرگز کہ یہ جاں آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے تتمہ حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۹۵) لیکن اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ بھی صراحت فرمائی کہ ہمارا یہ کام نہیں کہ مداریوں کی طرح خود آگ جلا کر اس میں داخل ہونے کا تماشہ دکھاتے پھریں اور خدا کا امتحاں کریں.خدا کا امتحان کرنا اس کے ماموروں کی شان سے بعید ہے اور سنتِ انبیاء کے سراسر خلاف.ہاں اگر دشمن خود از راہ عداوت ہمیں آگ میں ڈالے تو ہم پر ضرور آگ ٹھنڈی ہوگی اور خدا ہمیں اس کے ضرر سے بچائے گا.(سیرۃ المہدی جلدا صفحه ۱۲۹ صفحه ۱۳۸) کاش! ہماری جماعت کے لوگ ایمان میں اتنی ترقی کریں اور خدا کے ساتھ اپنا ذاتی تعلق اس حد تک بڑھا ئیں کہ ان کے لئے بھی خدائی غیرت جوش میں آتی رہے اور وہ نہ صرف دشمنوں کی شرارت سے محفوظ رہیں بلکہ نصرت الہی کے پھریرے اڑاتے ہوئے ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھتے جائیں اور دنیا کے لئے روشنی اور ہدایت کا موجب بنیں.

Page 148

۱۴۴ (۲۷) ایک طرف تو حضرت مسیح موعود کو خدائی نصرت پر اتنا بھروسہ تھا کہ آگ میں پڑ کر سلامت نکل آنے کا یقین رکھتے تھے مگر دوسری طرف خدا کے رستہ میں ہر قربانی کے لئے اتنے تیار تھے کہ اُس کی خاطر ہر تکلیف کو راحت سمجھتے تھے چنانچہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم روایت کرتے ہیں کہ جس دن سپرنٹنڈنٹ پولیس حضرت مسیح موعود کے مکان کی تلاشی کے لئے اچانک قادیان آیا اور ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب مرحوم کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ سخت گھبراہٹ کی حالت میں حضرت مسیح موعود کے پاس بھاگے گئے اور غلبہ رقت کی وجہ سے بڑی مشکل کے ساتھ عرض کیا کہ سپر نٹنڈنٹ پولیس وارنٹ گرفتاری کے ساتھ ہتھکڑیاں لے کر آ رہا ہے.حضرت مسیح موعود اس وقت اپنی کتاب ” نور القرآن“ تصنیف فرما رہے تھے سر اٹھا کر مسکراتے ہوئے فرمایا: ”میر صاحب ! لوگ دنیا کی خوشیوں میں چاندی سونے کے کنگن پہنا کرتے ہیں ہم سمجھیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے رستہ میں لوہے کے کنگن پہن لئے “ پھر ذرا تامل کے ساتھ فرمایا:.مگر ایسا نہیں ہوگا خدا تعالیٰ کی حکومت اپنے خاص مصالح رکھتی ہے.وہ اپنے خلفائے مامورین کے لئے اس قسم کی رسوائی پسند نہیں کرتا.“ الحکم جلد ۳ نمبر ۲۴ ص ۲،۱ بحوالہ ملفوظات جلداول)

Page 149

۱۴۵ اللہ اللہ ! کیا شانِ دلربائی ہے کہ ایک طرف اتنی قربانی کہ مسکراتے ہوئے خدا کے رستہ میں ہتھکڑی پہننے کے لئے تیار ہیں اور دوسری طرف خدا کی نصرت پر ایسا بھروسہ کہ پولیس ہتھکڑیاں لے کر دروازے پر کھڑی ہے اور کس بے اعتنائی سے فرماتے ہیں کہ ’ایسا نہیں ہوگا میرا خدا مجھے اس رسوائی سے بچائے گا.“ (۲۸) اس موقعہ پر مجھے حضرت مسیح موعود کے بے نظیر توکل کا ایک اور واقعہ بھی یاد آ گیا.یہی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اپنے ایک خط میں فرماتے ہیں کہ ایک مجلس میں تو کل کی بات چل پڑی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میں اپنے قلب کی عجیب کیفیت پاتا ہوں جب سخت حبس ہوتا ہے اور گرمی کمال شدت کو پہنچتی ہے تو لوگ وثوق سے بارش کی امید رکھتے ہیں.ایسا ہی جب میں اپنی صندوقچی کو خالی دیکھتا ہوں تو مجھے خدا کے فضل پر یقین واثق ہوتا ہے کہ اب یہ بھرے گی.اور ایسا ہی ہوتا ہے.“ اور پھر خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر فرمایا کہ ” جب میرا کیسہ خالی ہوتا ہے تو جو ذوق اور سرور اللہ تعالیٰ پر توکل کا مجھے اس وقت حاصل ہوتا ہے میں اس کی کیفیت بیان نہیں کرسکتا.اور یہ حالت

Page 150

۱۴۶ بہت ہی زیادہ راحت بخش اور طمانیت انگیز ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ کیسہ بھرا ہوا ہو.“ الحکم جلد ۳ نمبر ۳۲ صفحه ۴، ۵ بحوالہ ملفوظات جلد۱) کیسہ تو اہلِ فقر کا اکثر خالی ہی رہتا ہے مگر حضرت مسیح موعود کے توکل کی شان ملاحظہ ہو کہ جس طرح ایک زیرک زمیندار اپنے بار بار کے تجربہ شدہ کنوئیں کے متعلق یقین رکھتا ہے کہ جب اس کا موجودہ پانی ختم ہونے پر آئے گا تو اس کے زیر زمیں سوتے خود بخود کھل جائیں گے اور کنواں پھر پانی سے بھر جائے گا.اسی طرح حضرت مسیح موعود کا دل اس یقین سے معمور تھا کہ ادھر میری جیب خالی ہوئی اور اُدھر آسمان کا غیبی ہاتھ اسے پھر بھر دے گا اور جو کام مجھے خدا نے سپرد کیا ہے اس میں روک پیدا نہیں ہوگی.یہ وہی مقام نصرت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو بالکل اوائل میں الہام فرمایا تھا کہ أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ د یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ؟“ حقیقت یہ ہے کہ یہ خدائی الہام شروع سے لے کر آخر تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر رحمت کا بادل بن کر چھایا رہا.(۲۹) محترم بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے

Page 151

۱۴۷ ایک پرانے اور مخلص صحابی ہیں اے اور حضور کے ہاتھ پر ہندو سے مسلمان ہوئے تھے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آخری سفر میں لا ہور تشریف لے گئے اور اُس وقت آپ کو بڑی کثرت کے ساتھ قرب وفات کے الہامات ہورہے تھے تو اُن دنوں میں میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ پر ایک خاص قسم کی ر بودگی اور نورانی کیفیت طاری رہتی تھی.ان ایام میں حضور ہر روز شام کے وقت ایک قسم کی بند گاڑی میں جو فٹن کہلاتی تھی ہوا خوری کے لئے باہر تشریف لے جایا کرتے تھے اور حضور کے حرم اور بعض بچے بھی ساتھ ہوتے تھے.جس دن صبح کے وقت حضور نے فوت ہونا تھا اُس سے پہلی شام کو جب حضور فٹن میں بیٹھ کر سیر کے لئے تشریف لے جانے لگے تو بھائی صاحب روایت کرتے ہیں کہ اُس وقت حضور نے مجھے خصوصیت کے ساتھ فرمایا کہ ”میاں عبد الرحمن ! اس گاڑی والے سے کہہ دیں اور اچھی طرح سمجھا دیں کہ اس وقت ہمارے پاس صرف ایک روپیہ ہے وہ ہمیں صرف اتنی دور تک لے جائے کہ ہم اسی روپے کے اندر گھر واپس پہنچ جائیں.“ روایات بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی) چنانچہ حضور تھوڑی سی ہوا خوری کے بعد گھر واپس تشریف لے آئے مگر اُسی رات نصف شب کے بعد حضور کو اسہال کی تکلیف شروع ہوگئی اور دوسرے دن صبح دس بجے کے قریب حضور اپنے مولیٰ اور محبوب ازلی کے حضور حاضر ہو گئے.لے افسوس! کہ اس رسالہ کی طباعت کے وقت حضرت بھائی قادیانی صاحب فوت ہو چکے ہیں.منہ

Page 152

۱۴۸ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور کے وصال کا واقعہ اس وقت پچاس سال گزرنے پر بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے گویا کہ میں حضور کے سفر آخرت کی ابتداء اب بھی اپنی آنکھوں.دیکھ رہا ہوں مگر اس وقت مجھے اس واقعہ کی تفصیل بتانی مقصود نہیں بلکہ صرف یہ اظہار مقصود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیوی مال و متاع کے لحاظ سے بعینہ اُس حالت میں فوت ہوئے جس میں کہ آپ کے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تھا.حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری بیماری میں جو کہ مرض الموت تھی جلدی جلدی مسجد سے اٹھ کر اپنے گھر تشریف لے گئے اور جو تھوڑا سا مال وہاں رکھا تھا وہ تقسیم کر کے اپنے آسمانی آقا کے حضور حاضر ہونے کے لئے خالی ہاتھ ہو گئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود نے بھی اپنی زندگی کے آخری دن اپنی جھولی جھاڑ دی تا کہ اپنے آقا کے حضور خالی ہاتھ ہو کر حاضر ہوں.بیشک اسلام دنیا کی نعمتیں حاصل کرنے اور ان کے لئے مناسب کوشش کرنے سے نہیں روکتا بلکہ قرآن خود حسنات دارین کی دعا سکھاتا ہے مگر انبیاء اور اولیاء کا مقام فقر کا مقام ہوتا ہے جس میں یہ پاک گروہ صرف خدا کا نوکر بن کر قوت لا یموت پر زندگی گذارنا چاہتا ہے.اسی لئے نبیوں کے سرتاج حضرت افضل الرسل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے دین و دنیا کا بادشاہ ہوتے ہوئے بھی اپنے لئے فقر کی زندگی پسند کی اور ہمیشہ یہی فرمایا کہ الْفَقْرُ فَخْرِى و یعنی فقر کی زندگی میرے لئے فخر کا موجب ہے.“

Page 153

۱۴۹ (۳۰) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے خداداد فرائض کی ادائیگی میں بھی اصل بھروسہ دعا پر تھا جو فقر ہی کا دوسرا نام ہے کیونکہ جس طرح اہلِ فقر ایک حد تک دنیا کے سہاروں سے کام لینے کے باوجود اصل بھر وسہ خدا کی غیبی نصرت پر رکھتے ہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود نے اسلام کی خدمت اور صداقت کی اشاعت میں تمام ظاہری تدابیر کو کام میں لانے اور جہاد فی سبیل اللہ کی کوشش کو انتہاء تک پہنچانے کے باوجود اپنا اصل بھروسہ دعا یعنی نصرت الہی کی طلب پر رکھا.آپ کے قلمی جہاد کا لوہا دنیا مانتی ہے جس نے مذہبی مباحث کا بالکل رنگ بدل دیا.اور اسلام کے مقابل پر عیسائیوں اور آریوں اور دہریوں کے دانت کھٹے کر دیئے اور آپ کے مخالفوں تک نے آپ کو فتح نصیب جرنیل“ کے لقب سے یادکیا.( اخبار وکیل‘امرتسر جون ۱۹۰۸ء) مگر باوجود اس کے آپ نے اپنا اصل حربہ ہمیشہ دعا کو قرار دیا اور اپنی ظاہری کوششوں کو خدا کی نصرت کے مقابل پر بیج سمجھتے ہوئے ساری عمر یہی اعتراف کرتے رہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی سے ہوگا.چنانچہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ وو دعا میں اللہ تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں.خدا نے مجھے بار بار یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ ہوگا.ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اس کے سوا کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں.جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا اس کو

Page 154

66 ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے.“ ۱۵۰ (ذکر حبیب مرتبہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ص ۱۷۹) (۳۱) اپنی وفات کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعا کی طرف بیش از پیش توجہ پیدا ہوگئی تھی.کیونکہ ایک طرف خدائی طاقتوں کی وسعت اور دوسری طرف انسانی کوششوں کی بے بضاعتی کے منظر نے آپ کی حقیقت شناس آنکھوں کو زیادہ سے زیادہ آسمان کی طرف اٹھانا شروع کر دیا تھا.چنانچہ آپ نے اپنی حیاۃ طیبہ کے آخری ایام میں اپنے رہائشی کمرے کے ساتھ خلوت کی دعاؤں کے لئے ایک خاص حجرہ تعمیر کرایا اور اس کا نام بیت الدعا رکھا تا کہ اس میں آپ اسلام کی ترقی اور اپنے خدا دادمشن کی کامیابی کے لئے خصوصیت کے ساتھ دعائیں کرسکیں اور اپنے آسمانی آقا کے حضور سرخرو ہو کر پہنچیں، اس بارے میں آپ کے مخلص صحابی حضرت مفتی محمد صادق صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ:- ”ہم نے سوچا کہ عمر کا اعتبار نہیں.ستر سال کے قریب عمر سے گذر چکے ہیں.موت کا وقت مقرر نہیں.خدا جانے کس وقت آجائے اور کام ہمارا ابھی بہت باقی ہے.ادھر قلم کی طاقت کمزور ثابت ہوئی ہے.رہی سیف سواس کے واسطے خدا تعالیٰ کا اذن اور منشاء نہیں.لہذا ہم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور اسی سے قوت پانے کے واسطے ایک الگ حجرہ بنایا اور خدا سے دعا

Page 155

۱۵۱ کی کہ اس مسجد البیت اور بیت الدعا کو امن اور سلامتی اور اعداء پر بذریعہ دلائل نیرہ اور براہین ساطعہ کے فتح کا گھر بنادے.“ روایات حضرت مفتی محمد صادق صاحب مندرجہ ذکر حبیب ص ۱۱۰،۱۰۹) اللہ اللہ ! کیا جذبہ انکساری ہے کہ سلطان القلم اور اس میدان میں فاتح اعظم ہوتے ہوئے بھی خدائی نصرت کے مقابل پر کس عاجزی سے اپنے قلم کی کمزوری کا اعتراف فرما رہے ہیں.یہ وہی جذبہ انکساری ہے جس کے ماتحت آپ نے اپنی ایک نظم میں فرمایا ہے کہ کرم خا کی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہوکر پا گیا درگہ میں بار حق یہ ہے کہ انسان کی کامیابی کا تمام راز خدا کی نصرت میں ہے.یہ نصرت دین کے میدان میں دعا کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے اور دنیا کے میدان میں خدا کے بنائے ہوئے قانونِ قدرت کے ذریعہ خفیہ طور پر اپنا اثر دکھاتی ہے.اسی لئے تمام نبیوں اور تمام ولیوں اور تمام خدا رسیدہ لوگوں نے ہر زمانہ میں دعا پر بہت زور دیا ہے کیونکہ یہ خالق اور مخلوق کے درمیان روحانی رشتہ کا مرکزی نقطہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الدُّعَاءُ مُخُ الْعِبَادَةِ “ (ترمذی ابواب الاحكام والفوائد باب ما جاء في فضل الدعاء )

Page 156

۱۵۲ د یعنی دعا عبادت کا اندرونی مغز اور اس کی روح ہے جس کے بغیر انسان کی عبادت ایک کھوکھلی ہڈی کے سوا کچھ حقیقت نہیں رکھتی.“ (۳۲) پس ہمارے دوستوں کو چاہیئے کہ دعاؤں میں بہت توجہ اور انہماک اور در دوسوز کی کیفیت پیدا کریں اور اسے اپنی زندگی کا سہارا بنا ئیں اور اس پر ایک بے جان رسم کے طور پر نہیں بلکہ ایک زبر دست زندہ حقیقت کے طور پر قائم ہو جائیں اور یقین رکھیں کہ خدا دعاؤں کو سنتا ہے مگر جس طرح وہ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کی التجاؤں کو مانتا ہے اسی طرح وہ کبھی بعض مصالح کے ماتحت ان کی درخواست کو رد کر کے اپنی بھی منواتا ہے.لیکن کسی دعا کا قبول نہ ہونا دعاؤں کی قبولیت کے بنیادی فلسفہ پر کوئی اثر نہیں رکھتا کیونکہ عام لوگوں کے لئے خدا آقا ہے اور آقا کو حق ہے کہ اپنے کسی خادم کی بداعمالی پر ناراض ہو کر اس کی بعض درخواستوں کو رد کر دے اور اپنے خاص بندوں کے لئے وہ آقا ہونے کے علاوہ دوست بھی ہے اور دوستی کا یہ تقاضا ہے کہ کبھی انسان اپنے دوست کی بات مانے اور کبھی اُسے اپنی بات منوائے.اور ان دونوں حالتوں میں کسی نہ کسی رنگ میں خدا کی رحمت ہی جلوہ گر رہتی ہے.دعاؤں کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.دوست غور سے سنیں کہ یہ بڑی حکمت کا کلام ہے.فرماتے ہیں کہ ”ہم نے اُسے دیکھ لیا کہ دنیا کا وہی خدا ہے اُس کے سوا کوئی نہیں کیا ہی

Page 157

۱۵۳ قادر و قیوم خدا ہے جس کو ہم نے پایا.کیا ہی زبر دست قدرتوں کا مالک ہے جس کو ہم نے دیکھا سچ تو یہ ہے کہ اُس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں مگر وہی جو اُس کی کتاب اور وعدہ کے برخلاف ہے سو جب تم دعا کرو تو اُن جاہل نیچریوں کی طرح نہ کرو جو اپنے ہی خیال سے ایک قانون قدرت بنا بیٹھے ہیں....کیونکہ وہ مردود ہیں اُن کی دعائیں ہرگز قبول نہیں ہوں گی.....لیکن جب تو دعا کے لئے کھڑا ہو تو تجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے کہ تیرا خداہر ایک چیز پر قادر ہے تب تیری دعا منظور ہوگی اور تو خدا کی قدرت کے عجائبات دیکھے گا جو ہم نے دیکھے ہیں....خدا ایک پیارا خزانہ ہے اس کی قدر کرو کہ وہ تمہارے ہر ایک قدم میں تمہارا مددگار ہے.....اُن لوگوں کے پیرومت بنو جنہوں نے سب کچھ دنیا کو ہی سمجھ رکھا ہے چاہئے کہ تمہارے ہر ایک کام میں خواہ دنیا کا ہو خواہ دین کا خدا سے طاقت اور توفیق مانگنے کا سلسلہ جاری رہے.....خدا تمہاری آنکھیں کھو لے تا تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا خدا تمہاری تمام تدابیر کا شہتیر ہے.اگر شہتیر گر جائے تو کیا کٹڑیاں اپنی چھت پر قائم رہ سکتی ہیں؟...مبار کی ہو اس انسان کو جو اس راز کو سمجھ لے اور ہلاک ہو گیا وہ شخص جس نے اس راز کو نہیں سمجھا.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۰ تا ۲۴) بس اسی پر میں اپنے اس مقالہ کو ختم کرتا ہوں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان روحانی اور اخلاقی اقدار کا وارث بنائے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں نازل ہوئیں اور پھر آپ کے خادم اور نائب حضرت مسیح موعود کے ذریعہ

Page 158

۱۵۴ ان کی تجدید ہوئی اور انہوں نے اس زمانہ کے تقاضوں کے مطابق ایک نئی روشنی پائی تا کہ اسلام کا بول بالا ہو اور جماعت احمدیہ کے ذریعہ دنیا کے کناروں تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور پھیل جائے اور حضرت مسیح موعود کا یہ الہام اپنی کامل شان اور جلال کے ساتھ پورا ہو کہ ” بخرام که وقت تو نزد یک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد پس اے عزیز و اور دوستو! اپنے قدموں میں مضبوطی پیدا کرو کہ ایک بہت بلند مینار کی چڑھائی آپ کا انتظار کر رہی ہے.وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه ۱۷ دسمبر ۱۹۶۰ء

Page 159

در مکنون

Page 160

Page 161

۱۵۷ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تحمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُه اس وقت تک ذکر حبیب کے موضوع پر خدا کے فضل سے میری دو تقریریں ہو چکی ہیں پہلی تقریر جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ۱۹۵۹ء میں ہوئی تھی جو " کے نام سے چھپ چکی ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کے تین مخصوص خصائل پر روشنی ڈالی گئی تھی یعنی (۱) محبت الہی اور (۲) عشق رسول اور (۳) شفقت علی خلق اللہ.اس کے بعد دوسری تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۶۰ء میں ہوئی جس کا عنوان در منشور تھا.اس تقریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض متفرق اخلاق و عادات اور روحانی کمالات پر روشنی ڈالنے کے علاوہ حضور کی بعض علمی تحقیقاتوں اور بین الاقوامی تعلقات پر اثر ڈالنے والے واقعات کا بیان تھا.سو الحمد للہ کہ یہ دونوں تقریریں خدا کے فضل سے کافی مقبول ہوئیں اور ان کا عربی اور انگریزی زبان میں بھی ترجمہ ہوکر بیرونی ممالک میں پہنچ چکا ہے.اس سال مجھے پھر ذکر حبیب کے موضوع پر ہی تیسری تقریر کے لئے کہا گیا ہے مگر گذشتہ ایام میں مجھے ذیا بیطس کا اتنا شدید حملہ رہا ہے کہ میں بلڈ شوگر کی زیادتی کی وجہ سے چلنے پھرنے سے ہی عملاً معذور ہو گیا تھا.اور صرف پاؤں گھسیٹ گھسیٹ کر

Page 162

۱۵۸ چند قدم چل سکتا تھا.دراصل یہ موذی مرض ایک سرکش گھوڑے کی طرح ہے اگر سوار چوکس اور محتاط ہو کر بیٹھے اور غافل نہ ہو تو یہ گھوڑا قابو میں رہتا ہے اور سوار کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہوتا اور نہ غفلت کی حالت میں بے قابو ہوکر سوار کو اوندھے منہ گرانے کے در پے ہو جا تا ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور ہمدرد ڈاکٹروں کے لمبے علاج کا نتیجہ تھا کہ بالآخر اس بیماری کے حملہ سے نجات ملی اور میں اس مضمون کے بیان کرنے کے قابل ہوا ہوں.لیکن اس عرصہ میں اتنا وقت گزر گیا کہ میں اس مضمون کے لئے خاطر خواہ تیاری نہیں کر سکا اور اب تک بھی ضعف کی صورت میں اس بیماری کا نتیجہ چل رہا ہے.بہر حال اب جو مواد بھی میسر ہے وہ اپنے حاضرین کے سامنے پیش کرتا ہوں.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيْمِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ

Page 163

۱۵۹ (1) میں نے اس سال کی تقریر کا نام دُرِ مکنون“ رکھا ہے یعنی ” غلافوں میں لیٹے ہوئے موتی.اس نام میں یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ گو اس وقت دنیا نے حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کو قبول نہیں کیا لیکن وقت آتا ہے کہ آپ کے لائے ہوئے بیش بہا موتیوں پر سے پردے اترنے شروع ہوں گے اور لوگوں کی آنکھوں میں بھی نور کی جھلک پیدا ہوگی تو پھر دنیا ان کی قدر و قیمت کو پہچانے گی کیونکہ وہ خدا کی طرف سے ہمیشگی کی ضمانت لے کر آئے ہیں.اور اس کے بعد جوں جوں زمانہ گزرے گا توں توں ان کی قدر و قیمت کی بلندی اور ان کے افادہ کی وسعت میں اضافہ ہوتا جائے گا.حضرت مسیح موعود اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑے درد و کرب کے ساتھ فرماتے ہیں کہ :- امروز قوم من نشناسد مقام من روزے بگریہ یاد کند وقت خوشترم ازالہ اوہام حصہ اول روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۸۴) د یعنی آج میری قوم نے میرے مقام کو نہیں پہچانا لیکن وہ دن آتا ہے 66 کہ میرے مبارک اور خوش بخت زمانہ کو یاد کر کر کے لوگ رویا کریں گے.“ یا درکھنا چاہیے کہ اس جگہ قوم سے جماعت احمدیہ مراد نہیں کیونکہ وہ تو حضرت مسیح موعود پر ایمان لا کر حضور کو شناخت کر چکی اور پہچان چکی ہے گو مختلف احمدیوں کی

Page 164

17.شناخت کے معیار میں بھی فرق ہے ) بلکہ اس جگہ قوم سے دوسرے مسلمان اور عیسائی اور ہندو اور بدھ اور سکھ اور دنیا کی تمام دوسری اقوام مراد ہیں جو اس وقت تک آپ کی شناخت سے محروم ہیں.یہ وہی دردناک ڈرامہ ہے جو ہر مرسل ربانی اور ماموریز دانی کے منکروں نے اپنے اپنے وقت میں کھیلا کہ جب کسی روحانی مصلح نے خدا کی طرف سے ہو کر اصلاح خلق کا دعوی کیا اور اس کا دل دنیا کی ناپاکیوں پر پگھل کر خدا کے حضور جھکا اور دنیا میں ایک پاک تبدیلی کا متمنی ہوا تو اس کی قوم نے اس کی مخالفت کی اور اس پر ہنسی اڑائی اور اس کے مقابلہ پر ڈٹ گئی اور اسے تباہ کرنے کے درپے ہوگئی لیکن جب مخالفت کا ابتدائی زمانہ گزر گیا تو بعد کی نسلوں میں آہستہ آہستہ مدعی کی صداقت کا شعور پیدا ہونے لگا اور اولا عمومی قدر شناسی اور بعدہ معین تصدیق کے جذبات ابھر نے شروع ہوئے اور دن بدن ترقی کرتے گئے.چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اپنے نامور پیشر و حضرت مسیح ناصری کی مثال دے کر فرماتے ہیں اور غور کر وکس شان سے فرماتے ہیں کہ :- مجھ سے پہلے ایک غریب انسان مریم کے بیٹے سے یہودیوں نے کیا کچھ نہ کیا اور کس طرح اپنے گمان میں اُس کو سولی دے دی.مگر خدا نے اس کو سولی کی موت سے بچایا....اور یا ( بعد میں ) وہ وقت آیا کہ....وہی یسوع مریم کا بیٹا اس عظمت کو پہنچا کہ اب چالیس کروڑ انسان اُس کو سجدہ کرتے ہیں.اور بادشاہوں کی گردنیں اُس کے نام کے آگے جھکتی ہیں.سو میں نے اگر چہ یہ دعا کی ہے کہ یسوع ابن مریم کی طرح شرک کی ترقی کا ئیں

Page 165

۱۶۱ ذریعہ نہ ٹھہرایا جاؤں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ایسا ہی کرے گا.لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا.اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.عالم کشف میں مجھے وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے.اور کہا گیا کہ یہ ہیں (وہ بادشاہ) جو اپنی گردنوں پر تیری اطاعت کا جوا اُٹھائیں گے اور خدا انہیں برکت دے گا.سواے سننے والو ! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.میں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا.اور میں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا.اور میں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں.یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا.پس اُس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر

Page 166

۱۶۲ ہے کہ اس مُشتِ خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا.“ تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۰۸ تا ۴۱۰) اوپر والے کشف میں جو آئندہ ہونے والے بادشاہوں کو گھوڑوں پر سوار دکھایا گیا ہے اس میں یہ لطیف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ بادشاہ یونہی نام کے بادشاہ نہیں ہوں گے بلکہ جاہ وحشمت والے صاحب اقتدار بادشاہ ہوں گے جن کے ہاتھوں میں طاقت کی باگیں ہوں گی.بہر حال یہ سب کچھ انشاء اللہ اپنے وقت پر روحانی اسباب اور قلوب کی فتح کے ذریعہ پورا ہوگا اور ضرور ہوگا.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدائے ارض وسما کی تقدیر ہرگز ٹل نہیں سکتی.وہ ایک پتھر کی لکیر ہے جو کبھی مٹائی نہیں جاسکتی جس کی صداقت کو دنیا حضرت آدم سے لے کر اس وقت تک ہزاروں لاکھوں دفعہ آزما چکی ہے.مگر ذرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انکساری اور کسر نفسی ملاحظہ کرو کہ دنیا کے سامنے تو خدائی وعدوں پر بھروسہ کر کے یوں گر جتے ہیں کہ جیسے ایک شیر ببر اپنے شکار کے سامنے گر جتا ہے مگر جب خدا کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو انتہائی عاجزی کے ساتھ اپنے آپ کو ایک نالائق مزدور اور مشت خاک کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں حق یہ ہے کہ اس دہرے تصور میں خدائی مرسلوں کی کامیابی اور ان کے غلبہ کا ابدی راز مضمر ہے (٢) مگر جہاں خدا کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے رسولوں اور ماموروں کی نصرت فرماتا

Page 167

۱۶۳ ہے اور ان کی ترقی اور غلبہ کے متعلق اپنے وعدہ کو غیر معمولی حالات میں پورا کرنے کا رستہ کھولتا ہے اور اپنی قدرت نمائی سے تمام روکوں کو دور کرتا چلا جاتا ہے وہاں دوسری طرف وہ مومنوں کی جماعت سے انتہائی قربانی کا بھی مطالبہ کرتا ہے اور گویا ایک موت کی وادی میں سے گزار کر انہیں کامیابی کا منہ دکھانا چاہتا ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں احباب غور سے سنیں کہ ان الفاظ میں ان کی ترقی کی کلید ہے: ”خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کریگا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ یہ انسان کی بات نہیں خدا تعالیٰ کا الہام اور رپ جلیل کا کلام ہے.اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان حملوں کے دن نزدیک ہیں.مگر یہ حملے تیغ و تبر سے نہیں ہوں گے اور تلواروں اور بندوقوں کی حاجت نہیں پڑے گی بلکہ روحانی اسلحہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مدد اترے گی.....سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اُس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے.لیکن ابھی ایسا نہیں.ضرور ہے کہ آسمان اُسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اُس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لیے ساری ذلتیں قبول نہ کر لیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت

Page 168

۱۶۴ ہے جس پر اسلام کی زندگی ، مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے.،، فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۹ تا ۱۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری توجہ اور ساری کوشش عمر بھر اسی بات میں صرف ہوئی کہ آپ اپنی جماعت کو اسلام کے لئے مرنا سکھا دیں.چنانچہ آپ کی اس تعلیم کے ماتحت آپ کی جماعت میں سے بہت سے لوگوں نے اسلام کی خدمت میں اس طرح زندگی بسر کی کہ گویا دنیا کے لحاظ سے زندہ درگور ہو گئے اور از جہاں و باز بیروں از جہاں کا نقشہ پیش کیا.اور کثیر التعدادلوگوں نے رسمی اور ظاہری وقف کے ذریعہ بھی اسلام کی خاطر موت کی زندگی قبول کی اور دنیوی ترقیوں کو خیر باد کہا اور بعض نے صداقت کی خاطر جسمانی موت کا مزا بھی چکھا اور شہادت کا درجہ پایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاں طبعاً ان کی جسمانی جدائی پر صدمہ محسوس کیا وہاں ایک بچے روحانی مصلح کی حیثیت میں ان کی غیر معمولی قربانی پر روحانی مسرت کا بھی اظہار فرمایا.چنانچہ جب صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب مرحوم کو کابل کی حکومت نے احمدیت کی صداقت قبول کرنے کی بناء پر نہایت ظالمانہ طریق پر زمین میں کمر تک گاڑ کر سنگسار کر دیا تو حضرت مسیح موعود نے اس کی اطلاع ملنے پر لکھا کہ :- ”اے عبد اللطیف ! تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا.اور جولوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے.“ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۰)

Page 169

۱۶۵ (۳) اس مقصد کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دو بنیادی باتوں پر انتہائی زور دیا.ایک خدا تعالیٰ کی کامل توحید پر ایمان لانا اور دوسرے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان لا کر آپ کے ساتھ کامل محبت اور آپ کی اطاعت کا سچا عہد کرنا.اور یہی وہ دو باتیں ہیں جن کی کلمہ طیبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ میں تعلیم دی گئی ہے.آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے رسولوں پر ایمان لانے کے بغیر انسان حقیقی توحید کا سبق کبھی نہیں سیکھ سکتا.نیچر کا مطالعہ اور عقلی دلیلیں انسان کو صرف اس حد تک لے جاتی ہیں کہ کوئی ”خدا ہونا چاہیئے لیکن اس کے آگے یہ مقام کہ ” خدا واقعی موجود ہے رسولوں کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اور فرمایا کرتے تھے کہ ہونا چاہیے اور ہے میں زمین و آسمان کا فرق ہے کیونکہ جہاں ہونا چاہیے کا مقام محض شک یا زیادہ سے زیادہ گمان غالب کا مقام ہے وہاں” ہے“ کا مقام مستحکم یقین کا مقام ہے اور ان دونوں میں کوئی نسبت نہیں.پھر رسولوں میں سے اپنے آقا اور مطاع اور محبوب حضرت خاتم النبيين محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق حضرت مسیح موعود کا دل خاص طور پر اس پختہ یقین.معمور تھا کہ چونکہ پہلے تمام نبی اور رسول صرف خاص خاص قوموں اور خاص خاص زمانوں کے لئے آئے تھے اور اس کے مقابل پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ساری قوموں اور سارے زمانوں کے لئے ہے اس لئے کامل توحید الہی کا سبق دنیا کو

Page 170

۱۶۶ صرف آپ ہی کے وجود باجود کے ذریعہ حاصل ہوا ہے اور پہلا کوئی نبی ایسا مکمل سبق نہیں دے سکا.چنانچہ ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے انتہائی محبت کے ساتھ فرماتے ہیں :- سب پاک ہیں پیمبر اک دوسرے سے بہتر لیک از خدائے برتر خیر الوریٰ یہی ہے پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اک قمر ہے اس پر ہر اک نظر ہے بدر الدجی یہی ہے تو رہ میں ہارے پار اس نے ہیں اتارے میں جاؤں اس کے وارے بس ناخدا یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۵۶) الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کے دین و مذہب کے یہی دو بڑے ستون تھے.ایک توحید الہی اور دوسرے رسالت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) انہی کے ذریعہ آپ نے اپنی جماعت کی اخلاقی اور روحانی تربیت فرمائی اور انہی کے ذریعہ آپ دنیا بھر میں اصلاح کا کام سرانجام دینا چاہتے تھے.اور آپ کا سارا تبلیغی اور تربیتی جہاد انہی دو عظیم الشان نکتوں کے اردگرد گھومتا ہے.خدا ایک ہے اپنی ذات میں ایک اور اپنی صفات میں ایک اور ہر جہت سے وحدہ لاشریک اور اس کے علم اور قدرت کی کوئی حد بندی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے آخری صاحب شریعت نبی اور خاتم النبین ہیں جن کو قرآن جیسی کامل کتاب دی گئی جو وحشی انسانوں کو مہذب انسان اور مہذب انسانوں کو با اخلاق انسان اور با اخلاق انسانوں کو با خدا انسان اور

Page 171

۱۶۷ باخدا انسانوں کو خدا نما انسان بنانے کے لئے آسمان سے نازل ہوئی ہے.چنانچہ ذات باری تعالیٰ اور اس کے پاک کلام کے متعلق فرماتے ہیں.دوست غور سے سنیں که کن زور دار الفاظ میں فرماتے ہیں :- ”یقینا سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر کانوں کے سن سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اس پیارے محبوب ( یعنی اپنے آسمانی آقا ) کا منہ دیکھ سکیں.میں جوان تھا.اب بوڑھا ہوا مگر میں نے کوئی نہ پایا جس نے بغیر اس پاک چشمہ کے اس کھلی کھلی معرفت کا پیالہ پیا ہو.اے عزیزو! اے پیارو! کوئی انسان خدا کے ارادوں میں اس سے لڑائی نہیں کر سکتا.یقینا سمجھ لو کہ کامل علم کا ذریعہ خدا تعالیٰ کا الہام ہے جو خدا تعالیٰ کے پاک نبیوں کو ملا.پھر بعد اس کے اس خدا نے جو دریائے فیض ہے یہ ہرگز نہ چاہا کہ آئندہ اس الہام پر مہر لگا دے اور اس طرح پر دنیا کو تباہ کرے.....انسان کی تمام سعادت اسی میں ہے کہ جہاں روشنی کا پتہ ملے اسی طرف دوڑے اور جہاں اس گم گشتہ دوست کا نشان پیدا ہو، اسی راہ کو اختیار کرے.دیکھتے ہو کہ ہمیشہ آسمان سے روشنی اترتی اور زمین پر پڑتی ہے.اسی طرح ہدایت کا سچا نور آسمان سے ہی اترتا ہے.....کامل اور زندہ خداوہ ہے جو اپنے وجود کا آپ پتہ دیتا رہا ہے اور اب بھی اس نے یہی چاہا ہے کہ آپ اپنے وجود کا پتہ دیوے.آسمانی کھڑکیاں کھلنے کو ہیں.عنقریب صبح صادق ہونے والی ہے.مبارک وہ جو اٹھ بیٹھیں اور اب نیچے

Page 172

۱۶۸ خدا کو ڈھونڈیں.....خدا ہی ہے جو ہر دم آسمان کا نور اور زمین کا نور ہے.اُسی سے ہر ایک جگہ روشنی پڑتی ہے.آفتاب کا وہی آفتاب (سرچشمہ ) ہے.زمین کے تمام جانداروں کی وہی جان ہے.سچا زندہ خدا وہی ہے.مبارک وہ جو اس کو قبول کرے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۴۲ تا ۴۴۴) چنانچہ اپنی ایک نظم میں خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں :.ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا چشمہ خورشید میں موجیں تری مشہور ہیں ہر ستارے میں تماشہ ہے تری چمکار کا دوسری جگہ حضرت افضل الرسل سید ولد آدم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور آپ کے انفاس طیبہ کی برکات اور فیوض کے متعلق اپنے ایک عربی قصیدہ میں فرماتے ہیں:.يَا قَلْبِي اذْكُرُ أَحْمَدا عَيْنَ الْهُدَى مُفْنِى الْعِدَا برا كَرِيمًا مُحْسِنا بخر الْعَطَايَا وَالْجَدا بدرٌ مُنِيرٌ زَاهِرُ في كُلِّ وَصْفِ حمدا إِحْسَانُهُ يُصْبِي الْقُلُوبَ وَحُسْنُه يُروى الصَّدى أطْلُبْ نَظِيرَ كَمَالِهِ فَسَتَنْد مَن مُلدّدًا

Page 173

۱۶۹ مَا إِنْ رَأَيْنَا مِثْلَهُ للقائمين مُسَهدا نُورٌ مِّنَ اللهِ الَّذِي أَحْيَ الْعُلُومَ تَجددا الْمُصْطَفَى وَالْمُجْتَبى وَالْمُقْتَدى وَالْمُجْتَدى کرامات الصادقین روحانی خزائن جلدے صفحہ ۷۰) یعنی اے میرے دل تو احمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو یا دکیا کر جو ہدایت کا سرچشمہ ہے اور حق کے دشمنوں کے لئے تباہی کا پیغام ہے.وہ نیکیوں کا مجموعہ اور شرافت کا پتلا اور احسانوں کا مجسمہ ہے.وہ بخششوں کا سمندر ہے اور سخاوتوں کا بحر بیکراں ہے.وہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن اور ضیا پاش ہے.اور وہی ہر تعریف اور ہر توصیف کا مستحق ہے.اس کے احسان دلوں کو گرویدہ کرتے ہیں اور اس کا حسن آنکھوں کی پیاس کو بجھاتا ہے اس کے کمالات کی نظیر تلاش کر کے دیکھ لو تم حیران اور مایوس ہو کر نادم ہو جاؤ گے مگر اس کی نظیر نہیں ملے گی.حق یہ ہے کہ ہم نے دنیا بھر میں اس جیسا سوتوں کو جگانے والا کوئی نہیں دیکھا.وہ خدا کی طرف سے ایک نور بن کر نازل ہوا اور خدا نے اس کے ہاتھ سے دنیا کو روحانی علوم میں نئی زندگی بخشی.وہ خدا کا برگزیدہ ہے اور چنیدہ ہے اور پیشوائے عالم ہے اور وہی تو ہے جو تمام فیوض کا منبع ہے.“

Page 174

(۴) اسلام کی سکھائی ہوئی کامل اور بے داغ تو حید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیع اور ارفع اخلاق فاضلہ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک فطرت پر اتنا گہرا اثر تھا کہ آپ کے لئے ساری دنیا بلا امتیاز قوم وملت ایک خاندان کا رنگ اختیار کر گئی تھی اور آپ سب کو حقیقتہ اپنے عزیزوں کی طرح سمجھتے تھے اور دشمنوں تک سے محبت رکھتے اور ان کے دلی خیر خواہ تھے چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں :.” بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے بھی دعا نہ کی جائے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا...حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے...شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے (ہم نے ) دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو.ایک بھی ایسا نہیں.اور یہی میں تمہیں کہتا ہوں.....پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تمہیں چاہیئے کہ تم ایسی قوم بنو جس کی نسبت آیا ہے کہ فَانهُمْ قَوْم لَا يَشْقَى جَلِيسُهُمْ یعنی وہ ایسی قوم ہے کہ ان کا ہم جلیس (اور اُن کے ساتھ ملنے جلنے والا ) بد بخت نہیں ہوتا“.( ملفوظات جلد سوم صفحہ ۹۶ و ۹۷ ماخوذ از الحکم ۱۷ راگست ۱۹۰۲ء) خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ سن لیں کہ وہ دنیا میں اسی طرح دشمنوں کے بھی

Page 175

121 دوست بن کر رہنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں جس طرح کہ ان کا امام سب کا دوست تھا.جس نے دشمنوں کے لئے بھی ہمیشہ دعا کی.تو جب دشمنوں کے متعلق احمدیت کی یہ تعلیم ہے تو پھر خود سوچ لو کہ دوستوں اور بھائیوں کے ساتھ محبت اور اخوت اور قربانی کا معیار کیسا بلند ہونا چاہیے.بے شک ہر سچے احمدی کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ دنیا سے بدی کو مٹانے کے لئے ہر وقت کوشاں رہے.مگر بدی اور بد میں بھاری فرق ہے.اسلام بدی کو پورے زور کے ساتھ مٹاتا ہے مگر بد کومٹانے کی بجائے نصیحت اور موعظہ حسنہ اور دعا کے ذریعہ اصلاح کی طرف کھینچنے کی کوشش کرتا ہے اور یہی صحیح رستہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت لیکھرام جیسے بدگود شمن اسلام کی ہلاکت پر بھی افسوس کا اظہار کیا اور فرمایا کہ میں اسے بچانا چاہتا تھا مگر وہ میری نصیحت کورد کر کے ہلاکت کے گڑھے میں جا گرا.(۵) دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں بلا امتیاز قوم وملت بنی نوع انسان کی ہمدردی اور دلداری کا جذبہ اس طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ وہ ایک پہاڑی چشمہ کی طرح جو اوپر سے نیچے کو بہتا ہے ہمیشہ اپنے طبعی بہاؤ میں زور کے ساتھ بہتا چلا جاتا تھا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی مرحوم جو حضرت مسیح موعود کے ایک بہت پرانے اور مقرب صحابی تھے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ منی پور آسام کے دور دراز علاقہ سے دو ( غیر احمدی ) مہمان حضرت مسیح موعود کا نام سن کر حضور کو ملنے

Page 176

۱۷۲ کے لئے قادیان آئے اور مہمان خانہ کے پاس پہنچ کر لنگر خانہ کے خادموں کو اپنا سامان اتارنے اور چار پائی بچھانے کو کہا.لیکن ان خدام کو اس طرف فوری توجہ نہ ہوئی اور وہ ان مہمانوں کو یہ کہہ کر دوسری طرف چلے گئے کہ آپ یکہ سے سامان اتاریں چار پائی بھی آجائے گی.ان تھکے ماندے مہمانوں کو یہ جواب ناگوار گزرا اور وہ رنجیدہ ہوکر اسی وقت بٹالہ کی طرف واپس روانہ ہو گئے.مگر جب حضور کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو حضور نہایت جلدی ایسی حالت میں کہ جوتا پہنا بھی مشکل ہو گیا ان کے پیچھے بٹالہ کے رستہ پر تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے چل پڑے.چند خدام بھی ساتھ ہو گئے.اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ میں بھی ساتھ ہولیا.حضور اس وقت اتنی تیزی کے ساتھ ان کے پیچھے گئے کہ قادیان سے دو اڑھائی میل پر نہر کے پل کے پاس انہیں جالیا اور بڑی محبت اور معذرت کے ساتھ اصرار کیا کہ واپس چلیں اور فرمایا آپ کے واپس چلے آنے سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے آپ یکہ پر سوار ہو جائیں میں آپ کے ساتھ پیدل چلوں گا مگر وہ احترام اور شرمندگی کی وجہ سے سوار نہ ہوئے اور حضور انہیں اپنے ساتھ لے کر قادیان واپس آگئے اور مہمان خانہ میں پہنچ کر ان کا سامان اتارنے کے لئے حضور نے خودا پنا ہاتھ یکہ کی طرف بڑھایا مگر خدام نے آگے بڑھ کر سامان اتار لیا.اس کے بعد حضور ان کے پاس بیٹھ کر محبت اور دلداری کی گفتگو فرماتے رہے اور کھانے وغیرہ کے متعلق بھی پوچھا کہ آپ کیا کھانا پسند کرتے ہیں اور کسی خاص کھانے کی عادت تو نہیں؟ اور جب تک کھانا نہ آ گیا حضور ان کے پاس بیٹھے ہوئے بڑی شفقت کے ساتھ باتیں کرتے رہے.دوسرے دن جب یہ مہمان واپس روانہ ہونے لگے تو حضور نے دودھ کے دو گلاس منگوا کر ان کے سامنے بڑی

Page 177

۱۷۳ محبت کے ساتھ پیش کئے اور پھر دو اڑھائی میل پیدل چل کر بٹالہ کے رستہ والی نہر تک چھوڑنے کے لئے ان کے ساتھ گئے اور اپنے سامنے یکہ پر سوار کرا کے واپس تشریف لائے.( اصحاب احمد جلد ۴) اس واقعہ میں دلداری اور انکساری اور اکرام ضیف اور جذبات اخوت کا جو بلند معیار نظر آتا ہے اس پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں.مگر میں اس موقعہ پر ربوہ کے افسر مہمان خانہ اور دیگر عملہ کوضرور توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اس لطیف روایت کو ہمیشہ اپنے لئے مشعل راہ بنا ئیں اور مرکز میں آنے والے مہمانوں کو خدائی مہمان سمجھ کر ان کے اکرام اور آرام کا انتہائی خیال رکھیں اور ان کی دلداری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں اور مرکز کے مہمان خانہ کو ایک روحانی مکتب سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو اس مکتب کا خادم تصور کریں اور اگر کسی مہمان کی طرف سے کبھی کوئی تلخ بات بھی سنی پڑے تو اسے کامل صبر اور ضبط نفس کے ساتھ برداشت کریں اور اپنے ماتھے پر بل نہ آنے دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب تک زندہ رہے حضور نے لنگر خانہ کے انتظام کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھا تا کہ انجمن کی طرف منتقل ہونے کے نتیجے میں کسی خدائی مہمان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور مہمان خانہ کے دینی ماحول میں فرق نہ آنے پائے.سو اب یہ مہمان خانہ جماعت کے ہاتھ میں ایک مقدس امانت ہے اور خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہے کہ مرکزی کارکن اس امانت کو کس طرح ادا کرتے ہیں.یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ اب کچھ عرصہ سے مہمان خانہ کے انتظام میں کافی اصلاح ہے.مگر ” نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز ““

Page 178

۱۷۴ (Y) دلداری اور غریب نوازی کا ایک اور واقعہ بھی بہت پیارا اور نہایت ایمان افروز ہے.یہی منشی ظفر احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک قادیان کی اوپر کی چھت پر چند مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کے انتظار میں تشریف فرما تھے.اس وقت ایک احمدی دوست میاں نظام دین صاحب ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی پھٹے پرانے تھے حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلہ پر بیٹھے تھے.اتنے میں چند معزز مہمان آکر حضور کے قریب بیٹھتے گئے اور ان کی وجہ سے ہر دفعہ میاں نظام دین کو پرے ہٹنا پڑا حتیٰ کہ وہ ہٹتے ہٹتے جوتیوں کی جگہ پر پہنچ گئے.اتنے میں کھانا آیا تو حضور نے جو یہ سارا نظارہ دیکھ رہے تھے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھالیں اور میاں نظام دین سے مخاطب ہو کر فرمایا ” آؤ میاں نظام دین ہم اور آ اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں یہ فرما کر حضور مسجد کے ساتھ والی کوٹھڑی میں تشریف لے گئے اور حضور نے اور میاں نظام دین نے کوٹھڑی کے اندر اکٹھے بیٹھ کر ایک ہی پیالہ میں کھانا کھایا.اس وقت میاں نظام دین خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے اور جولوگ میاں نظام دین کو عملاً پرے دھکیل کر حضرت مسیح موعود کے قریب بیٹھ گئے تھے وہ شرم سے کئے جاتے تھے.اس لطیف روایت سے تکبر اور نخوت کے خلاف اور دلداری اور مساوات اور

Page 179

۱۷۵ اخوت اور غریب نوازی کے حق میں جو عظیم الشان سبق حاصل ہوتا ہے وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کمال دانائی سے یہ سبق اپنے قول سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے دیا جو قول کی نسبت ہمیشہ زیادہ اثر رکھتا ہے.آپ کی غریب نواز آنکھ نے دیکھا کہ ایک خستہ حال دریدہ لباس مہمان کو آہستہ آہستہ نام نہاد ”بڑے لوگوں نے دانستہ یا نا دانستہ جوتیوں کی طرف دھکیل دیا ہے تو اس غیر اسلامی نظارے سے آپ کے دل کو سخت چوٹ لگی اور اس غریب شخص کے جذبات کا خیال کر کے آپ کا دل بے چین ہو گیا.اور آپ نے فوراً سالن کا پیالہ اور روٹیاں اٹھا ئیں اور اس مہمان کو ساتھ لے کر قریب کے حجرہ میں تشریف لے گئے اور وہاں اس کے ساتھ مل کر کھانا کھایا.بے شک جس شخص کو خدا نے دنیا میں عزت دی ہے ہمارا فرض ہے کہ عام حالات میں اس کے ظاہری اکرام کا خیال رکھیں لیکن یہ اکرام ایسے رنگ میں نہیں ہونا چاہیے کہ جس میں کسی غریب شخص کی تذلیل یا دل شکنی کا پہلو پیدا ہو.قرآن مجید کا یہ ارشاد کتنا پیارا اور مساوات کی تعلیم سے کتنا لبریز ہے کہ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتْقَاكُمُ (سورہ حجرات آیت (۱۴) ” یعنی اے مسلمانو! خدا کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز شخص وہی ہے جوز یادہ متقی اور زیادہ نیک ہے.‘ کاش ہماری جماعت اس ارشاد کو اپنا طرہ امتیاز بنائے اور دنیا میں حقیقی اخوت اور مساوات کا نمونہ قائم کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حدیث میں اپنی امت کے غریبوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ اگر نیکی پر قائم ہوں گے تو امیروں کی نسبت پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے.( ترمذی ابواب الزہد ).یہ ایک استعارے کا کلام ہے جس سے ظاہری غریب اور دل کے غریب دونوں مراد ہیں اور پانچ سو سال سے ایک لمبا عرصہ مراد ہے جس کی.

Page 180

اصل حقیقت کو صرف خدا جانتا ہے کیونکہ آخرت کی زندگی میں دنیا کے سالوں کے مطابق شمار نہیں ہوگا.وہاں کے وقت کا پیمانہ دنیا کے وقت کے پیمانے سے بہت مختلف ہے.مگر بہر حال اس حدیث سے یہ ثابت ہے کہ ہمارے آسمانی آقا کو غریب پروری اور غریب نوازی بہت مرغوب ہے اور حضرت مسیح موعود میں یہ صفت بہت نمایاں طور پر پائی جاتی تھی.(<) یہ مختصر سے دو واقعات ہیں جو میں نے اس جگہ بیان کئے ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جمالی صفات کی بڑی دلچسپ اور روشن مثالیں ہیں اور ایسی مثالوں سے آپ کی حیات طیبہ بھری پڑی ہے.جن میں سے بعض گزشتہ سالوں کی تقریروں میں بھی بیان کی جا چکی ہیں لیکن جہاں آپ کی زندگی کا غالب پہلو جمالی تھا جو محبت اور نرمی اور شفقت اور نصیحت سے تعلق رکھتا تھا اور چاند کی طرح دلکش اور دلنواز تھا وہاں کبھی کبھی جہاں ایمانی غیرت کا سوال پیدا ہوتا تھا آپ کی جلالی صفات بھی سورج کی تیز شعاعوں کی طرح بھڑک اٹھتی تھیں.میں اس تعلق میں اس جگہ دو ایسے واقعات بیان کرتا ہوں جو بظاہر بہت چھوٹے ہیں مگر حقیقتہ روحانی بمب شیل کا حکم رکھتے ہیں اور ان سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کو خدائی الہام پر کس قدر بھروسہ اور خدائی نصرت پر کتنا اعتماد تھا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب مرحوم بیان کرتے ہیں کہ جن دنوں گورداسپور میں حضرت مسیح موعود کے خلاف مولوی کرم دین ساکن بھیں کی طرف سے

Page 181

122 ایک طولانی مقدمہ چل رہا تھا اور کھدر پوش ہندو مجسٹریٹ مقدمہ کو لمبا کر کر کے اور قریب قریب کی تاریخیں ڈال ڈال کر حضرت مسیح موعود کو تنگ کر رہا تھا اور افواہ گرم تھی کہ وہ بزعم خود پنڈت لیکھرام کے قتل کا بدلہ لینا چاہتا ہے.ایک دن اس نے بھری عدالت میں حضرت مسیح موعود سے سوال کیا کہ کیا خدا کی طرف سے آپ کو کوئی ایسا الہام ہوا ہے کہ إِنِّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَاهَانَتك یعنی میں اس شخص کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلت کا ارادہ کرتا ہے.آپ نے بڑے وقار کے ساتھ فرمایا ہاں یہ میرا الہام ہے اور خدا کا کلام.اور خدا کا مجھ سے یہی وعدہ ہے کہ جو شخص مجھے ذلیل کرنے کا ارادہ کرے گا وہ خود ذلیل کیا جائے گا.مجسٹریٹ نے کہا ”اگر میں آپ کی ہتک کروں تو پھر ؟“ آپ نے اسی وقار کے ساتھ فرمایا خواہ کوئی کرے وہ خود ذلیل کیا جائے گا.“ مجسٹریٹ نے آپ کو مرعوب کرنے کی غرض سے دو تین دفعہ یہی سوال دہرایا اور آپ ہر دفعہ جلالی انداز میں یہی جواب دیتے گئے کہ ” خواہ کوئی کرئے“ اس پر مجسٹریٹ حیران اور مرعوب ہو کر خاموش ہو گیا.(اصحاب احمد جلد ۴ روایت نمبر ۴۹) دوست یا درکھیں کہ یہ اس زمانہ کی بات ہے کہ جب ملک میں انگریز کی حکومت تھی ہاں وہی انگریز جس کی خوشامد کا جماعت احمدیہ کو جھوٹا طعنہ دیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ مجسٹریٹ محض انگریز حکومت کے کھونٹے پر ہی ناچتا تھا.مگر باوجود اس کے جب ایمانی غیرت اور حق کی تائید کا سوال پیدا ہوا تو حضرت مسیح موعود سے بڑھ کر ینگی تلوار کوئی نہیں تھی.آپ نے اپنی ایک نظم میں کیا خوب فرمایا ہے کہ

Page 182

۱۷۸ بکار دیں نہ ترسم از جہانے که دارم رنگ ایمان محمد آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۴۹) د یعنی میں دین کے معاملہ میں سارے جہان سے بھی نہیں ڈرتا کیونکہ میں خدا کے فضل سے اپنے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان کا رنگ رکھتا ہوں.“ (^) اس موقعہ پر ضمنا نہایت مختصر طور پر اس سراسر غلط اور بے بنیاد الزام کے متعلق بھی کچھ کہنا غیر مناسب نہ ہوگا جو کئی ناواقف لوگ نادانستہ اور کئی مخالف لوگ دیدہ و دانستہ حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ پر انگریزوں کی مزعومہ خوشامد کے متعلق لگایا کرتے ہیں اور اس پس منظر کو قطعی طور پر بھول جاتے ہیں جس میں حضرت مسیح موعود نے پاک وصاف نیست سے اپنے زمانہ کی انگریز حکومت کی تعریف فرمائی ہے.یہ پس منظر مختصر طور پر دو خاص پہلوؤں سے تعلق رکھتا ہے جو ہر انصاف پسند محقق کو ہمیشہ ملحوظ رہنے چاہئیں.اول یہ کہ پنجاب میں بلکہ ہندوستان بھر میں انگریزوں کی حکومت سے پہلے کافی طوائف الملوکی کا زمانہ گزرا ہے اور خصوصیت سے پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے نسبتا مستحکم زمانہ کو چھوڑ کر بڑی دھاندلی رہی ہے جس میں دیہاتی علاقوں میں مسلمانوں کو نماز کے لئے اذان تک دینا قریباً قریباً ناممکن تھا اور کئی مسجدیں سکھ

Page 183

۱۷۹ گوردواروں میں تبدیل کر لی گئی تھیں حتی کہ خود قادیان میں اس وقت تک بھی دو قدیم مسجد میں گوردوارہ کی شکل میں موجود ہیں.اور عام بدامنی اور مذہبی رواداری کے فقدان کا تو کہنا ہی کیا ہے.یہ سب پر آشوب نظارے حضرت مسیح موعود کی آنکھوں کے سامنے تھے.ایسے روح فرسا منظر کے بعد امن کا سانس ہمیشہ خاص بلکہ خاص الخاص شکر گزاری کا موجب ہوا کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود سے زیادہ شکر گزار انسان کون ہوسکتا ہے؟ دوسرے یہ بات بھی ہمیشہ یادرکھنی چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی سیاسی لیڈر نہیں تھے بلکہ آپ حضرت مسیح ناصری کی طرح خالصہ جمالی رنگ میں مذہبی اور روحانی اصلاح کی غرض سے مبعوث کئے گئے تھے.اور طبعا آپ کی آنکھ ہر بات کو روحانی اور اخلاقی اصلاح کی نظر سے ہی دیکھتی تھی.اور چونکہ مذہبی آزادی دینے کے معاملہ میں حکومت انگریزی کی پالیسی بلا ریب بہت قابل تعریف تھی اور یورپ کی کوئی دوسری حکومت اس معاملہ میں انگریزوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی.حتی کہ ریاستہائے متحدہ امریکہ جیسا آزاد ملک اب تک بھی مذہبی آزادی اور مذہبی رواداری کے معاملہ میں انگریز قوم کی برابری نہیں کر سکتا اس لئے طبعاً ایک روحانی اور مذہبی مصلح کی حیثیت میں حضرت مسیح موعود نے انگریز حکومت کی تعریف فرمائی اور یہ تعریف اپنے پس منظر اور اپنے مخصوص ماحول کے لحاظ سے بالکل جائز اور درست تھی.بلکہ ان حالات میں تعریف نہ کرنا یقینا ناشکری اور بددیانتی کا فعل ہوتا.بہر حال جو شخص ان دو پہلوؤں کو جو میں نے اس جگہ بیان کئے ہیں مد نظر رکھ کر نیک نیتی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا مطالعہ کرے گا وہ اس بات کو یقینا آسانی سے سمجھ لے گا کہ حضرت مسیح موعود نے جو کچھ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے کی

Page 184

۱۸۰ انگریز کی حکومت کے متعلق لکھا تھا وہ ہرگز ہرگز خوشامد کے رنگ میں نہیں تھا بلکہ وہ صرف انگریزوں کے زمانہ کے قیام امن اور ان کی مذہبی آزادی کی پالیسی کی اصولی تعریف کے طور پر لکھا تھا.ورنہ مذہباً حضرت مسیح موعود نے مسیحیت کے باطل عقائد اور عیسائی پادریوں کے دجل اور مغربی ملکوں کی زہر آلود مادیت کے خلاف جو کچھ اظہار فرمایا ہے وہ اس قدر ظاہر وعیاں ہے کہ کسی تشریح کا محتاج نہیں.چنانچہ ایک جگہ اپنی ایک عربی نظم میں بڑی غیرت اور جوش کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں:.أنْظُرُ إِلَى الْمُتَنَظِرِينَ وَذَانِهِمُ وَ انْظُرُ إِلَى مَا بَدَأَ مِنْ أَدْرَانِهِمُ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ تَشَنُّرًا وَ يُنَجِّسُونَ الْأَرْضَ مِنْ أَوْثَانِهِمُ حَلَّتْ بِأَرْضِ الْمُسْلِمِينَ جُنُودُهُمْ فَسَرَتْ غَوَائِلُهُمْ إِلَى نِسْوَانِهِمْ يا رب أحمد يا إلهَ مُحمد اعْصِمُ عِبَادَكَ مِنْ سُمُومِ دُخَانِهِمْ يَا رَبِّ سَحْقُهُمْ كَسَحْقِكَ طَاغِيًا وَ انْزِلُ بِسَاحَتِهِمْ لِهَدُهِ مَكَاظِهِمْ يَا رَبِّ مَزْقُهُمْ وَ فَرِّقُ شَمْلَهُمْ يَا رَبِّ قَوْدُهُمْ إِلَى ذَوَبَانِهِمُ نور الحق حصہ اول روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۲۳ تا ۱۲۶)

Page 185

۱۸۱ دو یعنی مسیحیوں کی طرف دیکھو اور ان کے جھوٹے عقائد کوبھی دیکھو اور پھر ان ناپاکیوں کی طرف بھی دیکھو جو ان کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں.وہ اپنے ظلموں اور زیادتیوں کے ساتھ ہر بلندی سے کمزور قوموں کی طرف دوڑتے چلے آتے ہیں اور اپنے عقائد کے بتوں کے ذریعہ خدا کی زمین کو نا پاک کر رہے ہیں.بلکہ ان کے لشکروں نے مسلمانوں کی زمینوں میں بھی ڈیرے ڈال دیئے ہیں اور ان کے دجالی فتنے مسلمان عورتوں تک میں سرایت کر رہے ہیں.اے احمد کے آقا! اے محمد کے معبود و مسجود خدا تو اپنے بندوں کو ان کے خطرناک زہروں سے محفوظ رکھ.اے میرے رب تو ان کی طاقت کو اس طرح توڑ دے جس طرح کہ تو سرکش لوگوں کو توڑا کرتا ہے اور ان کی عمارتوں کو مسمار کرنے کے لئے ان کے میدان میں اتر آ.اے میرے رب تو ان کے جتھے کو بکھیر کر ان کی جمعیت کو منتشر کر دے اور ان کو تباہی کی طرف گھسیٹ گھسیٹ کر اس طرح پگھلا کر رکھ دے جس طرح کہ نمک پانی میں پگھلتا ہے.“ کیا مسیحیوں کے عقائد اور عیسائی پادریوں کے طور و طریق کے متعلق ایسے غیرت مندانہ خیالات ظاہر کرنے والا شخص انگریزوں کی عیسائی حکومت کا خوشامدی سمجھا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.ہرگز نہیں.باقی رہا انگریز کے زمانہ میں انگریزی حکومت کی وفاداری کا سوال.سو یہ ایک اصولی سوال ہے جسے خوشامد کے سوال کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں اور نہ اس سوال کو انگریزوں کے ساتھ کوئی خصوصی تعلق ہے.ایک پاکباز مسلمان بلکہ ایک نائب رسول

Page 186

۱۸۲ روحانی مصلح ہونے کی حیثیت میں حضرت مسیح موعود کا یہ پختہ عقیدہ تھا کہ قطع نظر مذہب وملت کے ہر مسلمان کو اپنے ملک کی حکومت کا وفادار شہری بن کر رہنا چاہیے.یہ وہی زریں تعلیم ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مکی زندگی میں جبکہ آپ قریش کی قبائلی حکومت کے ماتحت تھے اور حضرت موسیٰ نے اپنی مصری زندگی میں جبکہ وہ فرعون کی حکومت کے ماتحت تھے اور حضرت عیسی نے اپنی فلسطینی زندگی میں جبکہ وہ قیصر روما کے ماتحت تھے پوری پوری دیانت داری کے ساتھ عمل کیا.اور اسی کی اپنے متبعین کو تلقین فرمائی.اور یہی وہ پر امن تعلیم ہے جو قرآن حکیم نے اس اصولی آیت میں سکھائی ہے.أطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِى الْأَمْرِ مِنْكُمْ - (سوره نساء آیت ۶۰) د یعنی اے مومنو! خدا کی اطاعت کرو اور خدا کے رسول کی اطاعت کرو اور پھر اپنے حاکموں کی بھی اطاعت کرو جو تم پر مقرر ہوں.“ اس واضح تعلیم کے ماتحت جماعت احمد یہ جواب خدا کے فضل سے ایک عالمگیر جماعت ہے اور ایشیا کے اکثر ممالک اور مشرقی افریقہ اور مغربی افریقہ کے اکثر ممالک اور آسٹریلیا اور انڈونیشیا اور یورپ کے کئی ممالک اور شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ اور جزائر غرب الہند تک میں پھیل چکی ہے جہاں جہاں بھی ہے قطع نظر حکومت کے مذہب وملت کے اپنے اپنے ملک کی سچی وفادار اور دلی خیر خواہ ہے اور جو شخص ہماری نیت کو شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے خواہ وہ کوئی ہو وہ یا تو جھوٹا ہے یا دھوکہ خوردہ ہے.اس کے سوا کچھ نہیں.وَاللهُ عَلَى مَا نَقُولُ شَهِيدٌ وَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى مَنْ كَذَبَ

Page 187

۱۸۳ (۹) میں ایک ضمنی مگر ضروری بات کی وجہ سے اپنے مضمون سے ہٹ گیا.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جلالی شان کی بعض مثالیں بیان کر رہا تھا.چنانچہ ایک واقعہ مقدمہ مولوی کرم دین سکنہ بھیں سے تعلق رکھنے والا جو ملک کی ہند و عدالت میں پیش آیا بیان کر چکا ہوں.دوسرا جلالی نوعیت سے تعلق رکھنے والا واقعہ بھی اسی عدالت کا ہے.مسٹر چند ولعل مجسٹریٹ نے ایک دن عدالت میں لوگوں کا زیادہ ہجوم دیکھ کر عدالت کے کمرے سے باہر کھلے میدان میں عدالت کی کارروائی شروع کی اور نہ معلوم کس خیال سے عدالت کی کارروائی کے دوران میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پوچھا ” کیا آپ کو نشان نمائی کا دعوی ہے؟ حضرت مسیح موعود نے جواب میں فرمایا ”ہاں خدا میرے ہاتھ پر نشان ظاہر فرماتا ہے.مجسٹریٹ کے اس سوال میں طعن اور استہزاء کا رنگ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جواب دے کر تھوڑی دیر سکوت فرمایا گویا خدا کی طرف توجہ فرما رہے ہیں اور اس کی نصرت کے طالب ہورہے ہیں اور پھر بڑے جوش اور غیرت کے ساتھ فرمایا:- جو نشان آپ چاہیں میں اس وقت دکھا سکتا ہوں“ مجسٹریٹ حضور کا یہ جواب سن کر سناٹے میں آ گیا اور اسے سامنے سے کسی مزید سوال کی جرات نہیں ہوئی اور حاضرین پر بھی اس کا خاص اثر ہوا.اصحاب احمد جلد ۴ روایت (۴۸)

Page 188

۱۸۴ یہ واقعہ منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی اور بہت سے دوسرے لوگوں کا چشم دید اور گوش شنید ہے جن میں سے بعض غالباً اب تک زندہ ہوں گے.افسوس ہے کہ مجسٹریٹ کو اس موقعہ پر بات شروع کر کے اسے آگے چلانے کی ہمت نہیں ہوئی اور نہ اس نے از خود نشان نمائی کا ذکر چھیڑنے کے بعد حضرت مسیح موعود کے جلالی جواب پر نشان طلبی کی جرات کی ورنہ نا معلوم دنیا کتناعظیم الشان نشان دیکھتی! مگر کیا خود نشان طلب کرنے کے بعد پھر حق کی آواز سن کر مرعوب ہو جانا اپنی ذات میں ایک نشان نہیں؟ یقینا اس وقت کے لحاظ سے یہی ایک عظیم الشان نشان تھا کہ مکذب نے از خود ایک نشان مانگا مگر پھر حضرت مسیح موعود کے جواب سے ڈر کر خاموش ہو گیا.اس جگہ یہ اصولی بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ نشان نمائی اور معجزات اور کرامات کا دکھانا دراصل خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور رسول یا ولی صرف خدا کی قدرت کا آلہ کار بنتا ہے ورنہ اسے از خود معجزہ نمائی کی طاقت حاصل نہیں ہوتی.اسی لئے قرآن فرماتا ہے کہ انَّمَا الْأَيْتُ عِنْدَ الله ( سورہ انعام ) یعنی معجزات خدا کے اختیار میں ہیں وہ جب اور جس طرح چاہتا ہے اپنے رسولوں کے ذریعہ نشان ظاہر کرتا ہے مگر بعض اوقات خدا تعالیٰ کی یہ بھی سنت ہے کہ وقتی طور پر اپنے نبیوں اور رسولوں میں معجزہ نمائی کی طاقت ودیعت فرما دیتا ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ شق القمر میں یا جنگ بدر میں کافروں پر کنکروں کی مٹھی بھر کر پھینکنے کے وقت ہوا جب کہ محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کے اشارے سے خارق عادت معجزے کی صورت پیدا ہوگئی.ایسے معجزات اصطلاحی طور پر اقتداری معجزات کہلاتے ہیں اور معجزات کی دنیا میں استثناء کا رنگ رکھتے ہیں.سو معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر

Page 189

۱۸۵ بھی حضرت مسیح موعود کے ساتھ یہی ہوا کہ شروع میں آپ مجسٹریٹ کے سوال پر صرف یہ اصولی بات فرما کر خاموش ہو گئے کہ خدا میرے ہاتھ پر نشان ظاہر فرماتا ہے.لیکن جب خدائی غیرت جوش میں آئی اور اس نے اپنی خاص نصرت سے آپ کے اندر وقتی طور پر اقتداری معجزہ کی طاقت اور کیفیت ودیعت فرما دی تو آپ نے بڑے جوش اور جلال کے ساتھ فرمایا کہ ”جو نشان آپ چاہیں میں اس وقت دکھا سکتا ہوں.مگر افسوس ہے کہ مجسٹریٹ کے مبہوت ہو کر خاموش ہو جانے کی وجہ سے ہم ایک بڑے نشان سے محروم ہو گئے.(1+) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اقتداری معجزات کی تشریح اپنی کتاب ” آئینہ کمالات اسلام میں فرمائی ہے جہاں آپ انسان کے روحانی سلوک کے تین مدارج یعنی فنا اور بقا اور لقا کا ذکر کرتے ہوئے لقا یعنی ملاقات الہی کے درجہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ لقا کا مرتبہ تب سالک کیلئے کامل طور پر متحقق ہوتا ہے کہ جب ربانی رنگ بشریت کے رنگ و بو کو بتمام و کمال اپنے رنگ کے نیچے متوازی اور پوشیدہ کر دیوے جس طرح آگ لوہے کے رنگ کو اپنے نیچے ایسا چھپا لیتی ہے کہ نظر ظاہر میں بجز آگ کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا.....اس درجہ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی

Page 190

۱۸۶ طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سید و مولیٰ سید الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اُس کا اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو اور وہ سب اندھوں کی طرح ہو گئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہوگئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا.....اب ان تحریرات سے ہماری غرض اس قدر ہے کہ لقا کا مرتبہ جب کسی انسان کو میسر آتا ہے تو اس مرتبہ کے تموّج ( یعنی خاص لہر ) کے اوقات میں الہی کام ضرور اس سے صادر ہوتے ہیں ( گو درجہ میں خالص خدائی کاموں سے کسی قدر کم تر ) اور ایسے شخص کی گہری صحبت میں جو شخص ایک حصہ عمر کا بسر کرے تو ضرور کچھ نہ کچھ یہ اقتداری خوارق مشاہدہ کرے گا“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۴ تا ۶۸) لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار صراحت فرمائی ہے کہ معجزات خواہ خدا کی طرف سے اس کی غیر محدود طاقتوں کے ذریعہ سے دکھائے جائیں جیسا کہ عموماً ہوتا ہے یا استثنائی حالات میں روحانی قوت کے تموج کے وقت میں اقتداری طور پر خود نبی سے ظاہر ہوں دونوں صورتوں میں خدا کی طرف سے یہ ضروری شرط ہے کہ وہ کسی صورت میں خدا کے وعدہ اور خدا کی کتاب (یعنی سنت اللہ ) کے خلاف نہیں

Page 191

۱۸۷ ہوتے ورنہ نعوذ باللہ خدا پر اعتراض آتا ہے کہ اس نے اپنے وعدہ اور اپنی سنت کے خلاف کیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں تمام دنیا کا وہی خدا ہے جس نے میرے پر وحی نازل کی جس نے میرے لئے زبردست نشان دکھلائے جس نے مجھے اس زمانہ کے لئے مسیح موعود کر کے بھیجا اس کے سوا کوئی خدا نہیں نہ آسمان میں نہ زمین میں جو شخص اُس پر ایمان نہیں لاتا وہ سعادت سے محروم اور خذلان میں گرفتار ہے.ہم نے اپنے خدا کی آفتاب کی طرح روشن وحی پائی ہم نے اُسے دیکھ لیا کہ دنیا کا وہی خدا ہے اُس کے سوا کوئی نہیں کیا ہی قادر اور قیوم خدا ہے جس کو ہم نے پایا.کیا ہی زبردست قدرتوں کا مالک ہے جس کو ہم نے دیکھا سچ تو یہ ہے کہ اُس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں مگر وہی جو اُس کی کتاب اور وعدہ کے برخلاف ہے سو جب تم دعا کرو تو اُن جاہل نیچریوں کی طرح نہ کرو جو اپنے ہی خیال سے ایک قانون قدرت بنا بیٹھے ہیں جس پر خدا کی کتاب کی مہر نہیں کیونکہ وہ مردود ہیں اُن کی دعائیں ہر گز قبول نہیں ہوں گی...لیکن جب تو دعا کے لئے کھڑا ہو تو مجھے لازم ہے کہ یہ یقین رکھے کہ تیرا خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے تب تیری دعا منظور ہوگی اور تو خدا کی قدرت کے عجائبات دیکھے گا جو ہم نے دیکھے ہیں.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱،۲۰) یاد رکھنا چاہیے کہ سنت اور وعدہ کی استثناء سے نعوذ باللہ خدا کی قدرتوں کی حد بندی مقصود نہیں کیونکہ اسلام اور احمدیت کی تعلیم کے مطابق خدا تعالیٰ کی قدرتیں حقیقتاً غیر محدود ہیں جن کا حصر ممکن نہیں بلکہ سنت اور وعدے کی مستثنیات سے

Page 192

۱۸۸ خدا تعالیٰ کی ذات سے محض اس اعتراض کو دور کرنا مقصود ہے کہ وہ نعوذ باللہ اپنے کلام میں اپنی ایک سنت بیان فرماتا ہے اور پھر خود اس کے خلاف کرتا ہے.ایک وعدہ کرتا ہے اور پھر خود اس وعدہ کو توڑتا ہے.ورنہ جہاں تک خدا کی ایسی قدرتوں کا سوال ہے جو حقیقتہ قدرت کہلانے کی حقدار ہیں اور ان کی وجہ سے خدا میں کوئی نقص لازم نہیں آتا اور اس کے سبحان ( یعنی بے عیب ) ہونے کی صفت میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہوتا وہ یقینا غیر محدود ہیں.حضرت مسیح موعود اپنے ایک شعر میں کیا خوب فرماتے ہیں کہ :- نہیں محصور ہرگز راستہ قدرت نمائی کا خدا کی قدرتوں کا خضر دعویٰ ہے خدائی کا (11) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا سب سے بڑا عملی مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت اور ظلیت میں اسلام کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کے عالمگیر غلبہ سے تعلق رکھتا تھا.چنانچہ آپ کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ اسی مقدس جہاد میں گزرا اور یہ جہاد صرف ایک محاذ تک محدود نہیں تھا بلکہ آپ کو اسلام کے غلبہ کی خاطر دنیا کے ہر مذہب کے خلاف برسر پیکار ہونا پڑا اور آپ نے خدا کے فضل سے ہر محاذ پر فتح پائی حتی کہ آپ کی وفات پر آپ کے مخالفوں تک نے آپ کو فتح نصیب جرنیل“ کے شاندار لقب سے یاد کیا.(اخبار وکیل امرتسر ماہ جون ۱۹۰۸ء) لیکن اس جگہ آپ کی تمام مقدس جنگوں کی تفصیل بیان کرناممکن نہیں اور نہ میرا یہ مختصر سا مقالہ اس تفصیل

Page 193

۱۸۹ کا حامل ہوسکتا ہے مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس نے اپنے قرآنی وعدہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدین کلہ لے کے عالمگیر نشان کی ایک موٹی اور بد یہی علامت کے طور پر ایک وقت میں ہی سارے مذاہب کو اپنے مسیح محمدی کی خاطر ایک محاذ پر جمع کر دیا تا کہ دنیا بھر کے شکار ایک گولی کا نشانہ بن کر اسلام کے غلبہ کی متفقہ شہادت دے سکیں.اس واقعہ کی تفصیل نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مختلف کتابوں اور اشتہاروں میں آچکی ہے بلکہ خود اس مخلوط کمیٹی کی رپورٹ میں بھی درج ہے جو جلسہ اعظم مذاہب کے انتظام کے لئے مقرر ہوئی تھی اور مختلف مذاہب کے نمائندوں پر مشتمل تھی اور یہ ساری رپورٹیں ایک ہی حقیقت کی حامل ہیں اور وہ یہ کہ مذاہب عالم کے اس عظیم الشان جلسہ میں حضرت مسیح موعود کے مضمون کے ذریعہ اسلام کو ایسا غلبہ حاصل ہوا جو فی الواقعہ بے مثال تھا.میں اس جگہ حضرت مسیح موعود کے قدیم صحابی حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی روایت کا خلاصہ درج کرتا ہوں جس کے بعض حصے ابھی تک حقیقہ در مکنون ( یعنی غلافوں کے اندر چھپے ہوئے موتیوں ) کا رنگ رکھتے ہیں کیونکہ اس واقعہ کی عمومی اشاعت کے باوجود یہ مخصوص حصے ابھی تک زیادہ معروف نہیں ہیں.حضرت بھائی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ۱۸۹۶ء کے نصف آخر کا زمانہ تھا کہ اچانک ایک اجنبی انسان سادھو منش بھگوے کپڑوں میں ملبوس شوگن چندر نامی قادیان میں وارد ہوا.شیخص ایک اچھے عہدے پر فائز رہ چکا تھا اور اب اپنی بیوی بچوں کے فوت ہو جانے کے بعد دنیا سے کنارہ کش ہو کر صداقت اور خدا کی تلاش میں ادھر یعنی مسیح محمدی کے زمانہ میں خدا اسلام کو سارے دینوں پر غالب کر کے دکھائے گا.

Page 194

۱۹۰ ادھر گھوم رہا تھا اور اس بات کی تڑپ رکھتا تھا کہ اسے سچے رستے کا نشان مل جائے.اسی جستجو میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام سن کر قادیان آیا اور بہت جلد قادیان کی مجالس کا ایک بے تکلف ممبر نظر آنے لگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی باتیں سن کر اور خواہش معلوم کر کے فرمایا کہ ہماری تو بعثت کی غرض ہی یہ ہے کہ مذاہب کے اختلاف کا فیصلہ کر کے دنیا کو سچے خدا کا رستہ دکھا ئیں.سواگر آپ لاہور جیسے مقام میں کسی ایسے جلسہ کا انتظام کر اسکیں جس میں سارے مذہبوں کے نمائندے شامل ہو کر اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں اور مخلوق خدا کو خدا کا رستہ دکھانے میں مدد دیں تو یہ ایک بہت بڑی نیکی اور خدمت کا کام ہوگا اور دنیا کو اپنے بچے آقا و مالک کا نشان پانے میں مدد ملے گی.اس پر سوامی شوگن چند رلاہور جا جا کر مختلف مذہبوں کے زعماء سے ملتے رہے اور حضرت مسیح موعود کی توجہ اور دعا کی برکت سے بالآخر ایک بین الاقوامی جلسے کی تجویز پختہ ہوگئی جس میں دین و مذہب کے اصولوں اور خدا کی ہستی اور خدا کی صفات کے متعلق پانچ ایسے بنیادی سوال مقرر کئے گئے جو ہر مذہب کی جان اور ہر دینی نظر یہ فکر کا نچوڑ ہیں.حضرت مسیح موعود نے ان سوالوں کے جواب میں ایک مفصل مضمون لکھا اور جلسہ سے کئی دن پہلے ایک اشتہار شائع کیا اور اس اشتہار میں بڑی تحدی کے ساتھ یہ اعلان فرمایا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے کہ ا.میرا یہ مضمون سب پر غالب رہے گا.۲.یہ مضمون خدا تعالیٰ کی کبریائی کا موجب ہوگا اور اس کے مقابل پر تمام دوسرے مذاہب خیبر کے یہودی قلعوں کی طرح مفتوح ہوں گے اور ان کے جھنڈے

Page 195

سرنگوں ہو جائیں گے.۱۹۱ ۳.جوں جوں اس مضمون کی اشاعت ہوگی دنیا میں قرآنی سچائی زور پکڑتی جائے گی اور اسلام کا نور پھیلتا جائے گا جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کر لے.(اشتہار سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری ۲۱۴ / دسمبر ۱۸۹۶ء) مذاہب عالم کا یہ عظیم الشان جلسہ ۲۸،۲۷،۲۶ اور ۲۹ دسمبر کی تاریخوں میں لاہور میں منعقد ہوا اور اس میں اسلام اور مسیحیت اور ہندو مذہب اور سناتن دھرم اور آریہ مذہب اور سکھ مذہب اور برہموسماج اور فری تھنکر اور تھیوسافیکل سوسائٹی وغیرہ کے نمائندوں نے اپنے اپنے عقائد اور خیالات بیان کئے اور سات آٹھ ہزار کی عظیم الشان نمائندہ پبلک نے جس میں ہر طبقہ اور ہر ملت کے تعلیم یافتہ اصحاب شامل تھے جلسہ میں شرکت کی اور سب مقررین نے اپنے اپنے مذہب اور اپنے اپنے نظریات کی خوبیاں سجا سجا کر پیش کیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لکھا ہوا مضمون حضور کے ایک مخلص حواری حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے بلند اور بارعب آواز سے پڑھ کر سنایا اور اس وقت اس مضمون کی تاثیر کا یہ عالم تھا کہ حضرت بھائی عبد الرحمان صاحب بیان کرتے ہیں دوست خود انہی کے الفاظ میں سنیں.حضرت بھائی صاحب فرماتے ہیں کہ ”میں نے اپنے کانوں سے سنا کہ ہندو اور سکھ بلکہ کٹر آریہ سماجی اور عیسائی تک بے ساختہ سبحان اللہ سبحان اللہ پکار رہے تھے.ہزاروں انسانوں کا یہ مجمع اس طرح بے حس و حرکت بیٹھا تھا کہ جیسے کوئی بے جان بُت ہو اور اگر ان کے سروں پر پرندے بھی آ بیٹھتے تو تعجب کی بات نہ تھی.مضمون کی

Page 196

۱۹۲ روحانی کیفیت دلوں پر حاوی تھی.اور اس کے پڑھنے کی گونج کے سوالوگوں کے سانس تک کی بھی آواز نہ آتی تھی حتی کہ قدرت خداوندی سے اس وقت جانور تک بھی خاموش تھے اور مضمون کے مقناطیسی اثر میں کوئی خارجی آواز رخنہ انداز نہ ہورہی تھی.کاش! میں اس لائق ہوتا کہ جو کچھ میں نے اس وقت دیکھا اور سُنا اس کا عشر عشیر ہی بیان کر سکتا....کوئی دل نہ تھا جو اس لذت و سرور کو محسوس نہ کرتا تھا.کوئی زبان نہ تھی جو اس کی خوبی و برتری کا اقرار و اعتراف نہ کرتی تھی....نہ صرف یہی بلکہ ہم نے اپنے کانوں سے سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کئی ہندو اور سکھ صاحبان مسلمانوں کو گلے لگا لگا کر کہہ رہے تھے کہ اگر یہی قرآن کی تعلیم اور یہی اسلام ہے جو آج مرزا صاحب نے بیان فرمایا ہے تو ہم لوگ آج نہیں تو کل اسے قبول کرنے پر مجبور ہوں گے.“ اصحاب احمد جلد ۹ ازص ۲۵۲ تاص۲۶۱) اس مضمون کے متعلق حضرت منشی جلال الدین صاحب بلانوی مرحوم جنہوں نے جلسہ میں پڑھے جانے کے لئے اس مضمون کی صاف نقل تیار کی تھی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ میں نے اس مضمون کی سطر سطر پر دعا کی ہے.“ (اصحاب احمد جلد نهم ص ۲۶۵) دوست غور کریں کہ لکھنے والا خدا کا مامور ومرسل ہے اور مضمون وہ ہے جس کے متعلق خدا کا وعدہ ہے کہ وہ سب پر غالب آئے گا مگر پھر بھی خدا کا یہ برگزیدہ مسیح قدم قدم پر اور سطر سطر پر خدا سے دعا کرتا اور اس کی نصرت کا طالب ہوتا ہے.تو جب خدا

Page 197

۱۹۳ کے مسیح کا یہ حال ہے تو پھر ہم عاجز بندوں کو اپنے کاموں میں کتنی دعاؤں اور کتنے خدائی سہاروں کی ضرورت ہے!! کاش ہم دعا کی قدر و قیمت کو پہچانیں اور اسے اپنی زندگیوں کا لازمہ بنائیں کیونکہ اس کے بغیر کوئی روحانی زندگی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ لطیف مضمون ”اسلامی اصول کی فلاسفی“ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے بلکہ انگریزی زبان کے علاوہ بعض دوسری زبانوں میں بھی اس کا ترجمہ ہو کر یورپ اور امریکہ اور دنیا کے کئی دوسرے ملکوں میں پہنچ چکا ہے اور جہاں جہاں بھی یہ کتاب پہنچی ہے نیک فطرت علم دوست طبقے نے اس کے مضامین کی غیر معمولی بلندی اور گہرائی سے متاثر ہوکر اس کی انتہائی تعریف کی ہے.( مثلاً دیکھو تبلیغ ہدایت صفحہ ۲۴۴ تا ۲۴۶).کاش ہماری جماعت اس بے نظیر کتاب کی اشاعت کی طرف زیادہ توجہ دے تا کہ وہ خدائی نور جو اس مضمون کی تصنیف کے وقت آسمان سے نازل ہوا تھا جلد تر دنیا میں پھیل کر اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بلند کرنے اور قرآنی صداقت کو دنیا بھر میں پھیلانے کا رستہ کھول دے.اور انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا کیونکہ خدائے عرش اپنے مقدس مسیح کو پہلے سے فرما چکا ہے کہ بخرام که وقت تو نزد یک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد “ ( تذکره ص ۱۰۲ وص ۶۳۵) سوامی شوگن چندر صاحب کے متعلق حضرت بھائی قادیانی صاحب اپنی روایت کے آخر میں بیان کرتے ہیں کہ یہ سوامی صاحب جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان نشان کے سامان پیدا کئے جلسہ کی تمام کارروائی کے دوران میں اور پھر

Page 198

۱۹۴ جلسہ کی رپورٹ کی اشاعت تک تو ملتے ملاتے رہے مگر اس کے بعد معلوم نہیں کہ وہ کیا ہوئے اور کہاں گئے گویا خدائی قدرت کا ہاتھ انہیں اسی خدمت کی غرض سے قادیان لایا تھا اور پھر پہلے کی طرح غائب کر دیا.(۱۲) اسلام کی ہمہ گیر اور فاتحانہ تبلیغ کے لئے عربی زبان کا اعلیٰ درجہ کا علم ضروری ہے کیونکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا تھا اور وہ ایک عجیب وغریب روحانی عالم کی حیثیت رکھتا ہے جس میں بے شمار خزانے مدفون ہیں جو غور کرنے والوں کے لئے وقتاً فوقع نکلتے رہتے ہیں اور خدا کے فضل سے آئندہ بھی قیامت تک نکلتے رہیں گے.اور گو قرآن کی محکم اور بنیادی تعلیم ایک ہی ہے اور ایک ہی رہے گی مگر نئے نئے انکشافات کے ذریعہ خدا قرآن ہی کی برکت سے ہر قوم اور ہر زمانہ کی روحانی اور اخلاقی ضروریات کو پورا فرما تار ہے گا لیکن دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی زبان کا درسی علم بہت محدود تھا بلکہ ایک جگہ خود آپ نے اپنے درسی علم کے متعلق لکھا کہ محض شد بود تک محدود تھا ( نجم الہدی ص ۱۹) لیکن جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل و دماغ میں ایک عالمگیر مصلح کا جو ہر پاکر حضور کو اپنی خاص تربیت میں لے لیا تو دوسرے کمالات بخشنے کے علاوہ قرآنی علوم کی اشاعت کے لئے عربی زبان میں بھی معجزانہ طریق پر کمال کا مرتبہ عطا فر ما یا حتی کہ آپ نے عربی زبان میں کثیر التعداد اعلیٰ درجہ کی نہایت فصیح و بلیغ کتابیں لکھیں اور خدا سے اذن پا کر نہ

Page 199

۱۹۵ صرف ہندوستان کے علماء کو چیلنج کیا کہ وہ میرے مقابلہ پر آکر عربی زبان میں ایسی کتابیں لکھ کر پیش کریں جو اد بی معیار کے لحاظ سے بھی اور اپنے حسنِ معانی اور روحانی اور اخلاقی لطائف وغرائب کے لحاظ سے بھی لا جواب ہوں بلکہ آپ نے مصر اور شام اور عرب کے علماء کو بھی چیلنج کیا کہ اگر انہیں میرے خدا دامشن کے متعلق شک ہے اور اس نصرت النبی کے متعلق شبہ ہے جو خدا کی طرف سے مجھے حاصل ہو رہی ہے تو اور باتوں کو چھوڑ کر صرف اسی بات میں میرے دعوی کو آزما لیں کہ وہ میرے مقابلہ پر آکر عربی زبان میں جو خود ان کی اپنی زبان ہے میرے جیسا فصیح و بلیغ عربی کلام جو اسی طرح معنوی محاسن سے بھی لبریز ہو دنیا کے سامنے پیش کریں.مگر کیا ہندوستان اور کیا مصر اور کیا شام اور کیا عرب سب کے سب اس خدائی چیلنج پر بالکل خاموش ہو گئے اور حضرت مسیح موعود کی عربی لنظم و نثر کے مقابلہ پر اپنا کلام پیش کرنے سے عاجز رہے.یہ ایک زبردست نشان اور ایک عظیم الشان علمی معجزہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر خدا نے ظاہر فرمایا کہ گویا ایک اُمّی کے مقابلہ پر علماء و فضلاء کے منہ بند کر دیئے.دنیا جانتی ہے کہ عربی ادب کے میدان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابتداء کوئی درجہ حاصل نہیں تھا بلکہ کسی علم کے لحاظ سے تو آپ اپنے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح قریباً قریباً امی ہی تھے اور سوائے چند معمولی ابتدائی درسی کتابوں کے کوئی علم نہیں رکھتے تھے مگر جب خدا نے آپ کو اسلام کی خدمت کے لئے چنا اور دنیا کی اصلاح کے لئے مامور کیا اور خود آپ کا استاد بنا تو پھر اس نے اسی اُمّی کو دنیا بھر کے عالموں اور فاضلوں کا استاد بنا دیا اور اپنی خاص قدرت بلکہ خاص الخاص معجزه

Page 200

١٩٦ نمائی سے آپ کو عربی زبان میں ایسا کمال بخشا کہ آپ کے مقابلہ پر اہلِ زبان تک کی زبانیں گنگ ہو کر رہ گئیں.چنانچہ ایک جگہ خدا کے اس خاص فضل و رحمت اور خدا کی اس خاص الخاص عنایت اور نصرت کا ذکر تے ہوئے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.دوست غور سے سنیں.إِنَّ كَمَالِي فِي اللِّسَانِ الْعَرَبِي مَعَ قِلَّةِ جَهْدِى وَ قُصُوْرِ طَلَبِى ايَةٌ وَاضِحَةٌ مِنْ رَّبِّي لِيُظْهِرَ عَلَى النَّاسِ عِلْمِي وَ أَدَبِي فَهَلْ مِنْ مُّعَارِضِ فِي جُموعِ الْمُخَالِفِينَ وَ إِنِّي مَعَ ذَلِكَ عُلِّمْتُ أَرْبَعِينَ أَلْفًا مِنَ اللُّغَاتِ الْعَرَبِيَّةِ وَأَعْطِيْتُ بَسْطَةً كَامِلَةً فِي الْعُلُومِ الْآدَبِيَّةِ “ انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۳۴) یعنی عربی زبان میں میرا کمال با وجود میری کوشش کی کمی اور میری سعی کی قلت کے خدا کی طرف سے ایک روشن نشان ہے تا کہ اس ذریعہ سے خدا تعالیٰ لوگوں پر میری خدا داد علمی اور ادبی قابلیت ظاہر فرمائے اور مجھے دنیا بھر کے لوگوں پر غالب کر دے.اب کیا میرے سارے مخالفوں ( کیا ہندوستان اور کیا مصر اور عرب اور کیا شام) میں سے کوئی ہے جو میرے مقابلہ پر اس میدان میں کھڑا ہو سکے؟ اس علمی اور ادبی کمال پر خدا کا مزید فضل یہ ہے کہ اس نے مجھے عربی زبان کی چالیس ہزار لغات کا معجزانہ رنگ میں علم عطا کیا ہے اور مجھے علوم ادبیہ میں کامل وسعت بخشی ہے اور مجھے علوم ادبیہ میں کامل نصرت بخشی ہے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی زبان میں خدا تعالیٰ سے غیر معمولی نصرت

Page 201

۱۹۷ پانا اور وحی و الہام کے ذریعہ اس زبان میں کمال حاصل کرنا اور خدا کی طرف سے چالیس ہزار عربی لغات کا سکھایا جانا ایک زبانی دعوی نہیں تھا بلکہ یہ ایک ایسا دعویٰ تھا جس کی صداقت پر آپ کے سارے مخالفوں نے انتہائی مخالفت کے باوجود اپنی خاموشی بلکہ اپنے گریز کے ساتھ مہر لگا دی اور کوئی ایک فرد واحد بھی اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے آگے نہیں آیا بلکہ آپ کا یہ دعوئی تو ایسا شاندار دعوی تھا کہ اس پر سمجھدار غیر احمدی علماء تک نے واضح الفاظ میں آپ کی تصدیق کی اور آپ کی تعریف فرمائی ہے.چنانچہ برعظیم ہندو پاکستان کے ایک بڑے عالم اور غیر احمدی مفکر علامہ نیاز فتح پوری اپنے اخبار ” نگار میں لکھتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کی عربی دانی سے مخاطب کا انکار کرنا حیرت کی بات ہے شاید آپ کو معلوم نہیں کہ مرزا صاحب کے عربی کلام نظم و نثر کی فصاحت و بلاغت کا اعتراف خود عرب کے علماء اور فضلاء نے کیا ہے حالانکہ انہوں نے کسی مدرسہ میں عربی ادبیات کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب کا یہ کارنامہ بڑا ز بر دست ثبوت ان کے فطری اور وہی کمالات کا ہے.(اخبار نگار لکھنو ستمبر ۱۹۶۱ء) اس جگہ جو کچھ عرب ممالک کے متعلق بیان کیا گیا ہے اس میں حاشا وکلا ہرگز عرب اقوام کی تحقیر مقصود نہیں.عرب تو خدا کے فضل سے دین کے معاملہ میں ہمارے اولین استاد ہیں اور ہم نے بلکہ دنیا بھر نے دین کا پہلا سبق عربوں سے ہی سیکھا تھا اور عرب قوم میں ہی تاریخ عالم کا وہ افضل ترین انسان یعنی حضرت خیر الرسل سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوا جس کے سامنے سب اولین و آخرین کی گردنیں خم ہوتی ہیں

Page 202

۱۹۸ مگر اس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ خدا ساری قوموں کا خدا ہے اور اس کی یہ بھی سنت ہے کہ وہ اپنی نعمتوں کو بدل بدل کر تقسیم کرتا ہے پس اگر اس زمانہ میں اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں اور خوشہ چینوں میں سے ایک ہندی خادم کو اصلاح خلق کے لئے چنا ہے تو اس پر عربوں کو برا ماننے کی کوئی وجہ نہیں بلکہ وسیع اسلامی اخوت کے مطابق یہ نعمت بھی دراصل انہی کے ایک بھائی کے حصہ میں ہی آئی ہے.پس میں اپنے عرب بھائیوں سے کہتا ہوں کہ آپ لوگ اسلام کی پہلی بارش سے سیراب ہوئے.اب آؤ اور اسلام کی آخری بارش سے بھی حصہ پاؤ اور انشاء اللہ ضرور ایسا ہوگا کیونکہ خدا نے پہلے سے اپنے مسیح کو یہ خوشخبری دے رکھی ہے کہ يُصَلُّونَ عَلَيْكَ صَلَحَاءِ الْعَرَبِ وَأَبْدَالُ الظَّامِ " ( تذکرہ ایڈیشن دوم ص ۱۶۸) یعنی اے خدا کے مسیح وہ وقت آتا ہے کہ عرب کے نیک لوگ اور شام کے اولیاء تیری صداقت کو پہچان کر تجھ پر درود بھیجیں گے.“ (۱۳) اس موقعہ پر یہ بات بھی خاص طور پر یاد رکھنی چاہیے کہ چونکہ یہ زمانہ علمی زمانہ ہے اور قرآنی پیشگوئی کے مطابق اس زمانہ میں زمین اپنے اشکال یعنی تمام وزنی باتیں باہر نکال نکال کر منظر عام پر لا رہی ہے (سورہ زلزال آیت (۳) اس لئے خدا تعالیٰ نے اس زمانے کے موعود کے لئے بھی یہی پسند فرمایا ہے کہ اسے زیادہ تر علمی معجزات سے

Page 203

۱۹۹ ہی نوازا جائے اور پرانے زمانے کی ظاہری چمک دمک والی باتوں سے حتی الوسع اجتناب کیا جائے.حتی کہ حضرت سرور کائنات فخر رسل صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں بھی حضرت موسیٰ کے عصا اور ید بیضاء والے معجزات کی بجائے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت اور قرآن کے عجیب وغریب روحانی اور اخلاقی محاسن والا معجزہ پیش کیا اور یا ان عظیم الشان پیشگوئیوں پر اپنے افضل الرسل کی صداقت کی بنیاد رکھی جو آج سے تیرہ سو سال قبل سے شروع ہو کر آج تک پوری ہو ہو کر اسلام کی سچائی پر مہر لگاتی چلی آئی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریش مغلوب ہوں گے اور مکہ فتح ہوگا اور مکہ فتح ہو کر رہا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سارے عرب پر اسلام کی حکومت قائم ہوگی اور اسلام کی حکومت قائم ہو کر رہی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے ماننے والوں کے ہاتھوں سے کسریٰ اور قیصر کی حکومتیں خاک میں ملیں گی اور وہ خاک میں مل کر رہیں اور ان کے خزانے مسلمانوں کے ہاتھ آئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کی روحانی تاثیرات سے میرے پیر و علم و معرفت میں آسمان کے ستارے بنیں گے اور وہ ستاروں سے بھی آگے پہنچے.اور دنیا کے لئے چاند اور سورج کا مرتبہ پایا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بوئے ہوئے بیچ سے سینکڑوں سال تک اولیاء اور صلحاء کی ایک ایسی جماعت پیدا ہوتی گئی جس نے آسمانِ ہدایت میں گویا کہکشاں کا سا سماں باندھ دیا اور بالآخر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ ایک لمبے زمانہ کے بعد میری امت میں تنزل کے آثار پیدا ہوں گے اور یاجوج ماجوج اور غاروں میں چھپے ہوئے صلیبی علم بردار اپنی نیند سے

Page 204

بیدار ہو کر سر اٹھا ئیں گے اور مسلمانوں کو کچلنے کے لئے ہر بلندی سے بھاگے آئیں گے اور آج وہ بھاگے آرہے ہیں.یہ سب کچھ اور ان کے ساتھ بیشمار دوسری باتیں پوری ہوئیں اور اس طرح مسلمانوں کے تنزل میں بھی اسلام کی صداقت کا سورج چمکا کیونکہ یہ تنزل بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے عین مطابق ہے.مگر ہمارا آقا کوئی بے وفا آقا نہیں تھا جو اپنے گرتے ہوئے خادموں کا ہاتھ چھوڑ کر الگ ہو جاتا.اس نے جہاں مسلمانوں کے تنزل کی پیشگوئی فرمائی تھی وہاں اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا تھا کہ جب آخری زمانہ میں مسلمانوں پر غیر معمولی تنزل آئے گا تو خدا تعالیٰ میری امت میں سے ایک مثیل مسیح اور مہدی پیدا کرے گا جو گرتے ہوئے مذہب کو سنبھال کر اور گرتی ہوئی قوم کو سہارا دے کر انہیں پھر او پر اٹھالے گا اور اس کے ذریعہ اسلام نہ صرف خطرہ سے بچ جائے گا بلکہ بالآخر دنیا میں ایک انقلابی صورت پیدا ہوگی اور مغرب کے مادہ پرست لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا دم بھر نے لگیں گے.اس وقت یوں نظر آئے گا کہ گویا مشرق سے طلوع کرنے والا سورج مغرب سے چڑھ رہا ہے (بخاری کتاب الفتن ) پس اے تاریکی کو دیکھنے والے لوگو! گھبراؤ نہیں.بلکہ خوش ہوا ور خوشی سے اچھلو کہ اب اس کے بعد روشنی آنے والی ہے.مغرب کے عیسائی ممالک کے اس غیر معمولی انقلاب کی بہترین تصویر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک کشف میں بیان ہوئی ہے جہاں خدا تعالیٰ نے اس انقلاب کا ایک روشن فوٹو کھینچ کر رکھ دیا ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں میں دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا بحر ذخار کی طرح دریا ہے جو سانپ کی

Page 205

طرح بل پیچ کھاتا مغرب سے مشرق کو جا رہا ہے اور پھر دیکھتے دیکھتے.بدل کر مشرق سے مغرب کو الٹا بہنے لگا.“ تذکره ص ۴۸۲.مطابق الحکم ۲۷ اپریل ۱۹۰۳ء) مغربی استبداد کی موجودہ حالت کی کوئی تصویر اس سے بہتر نہیں کھینچی جاسکتی اور پھر لطف یہ ہے کہ جہاں اس بحر ذخار کے متعلق مغرب سے مشرق کی طرف بہنے کا ذکر ہے وہاں اسے سانپ سے تشبیہ دی گئی ہے جو ایک ڈسنے والا مہلک جانور ہے.لیکن جہاں اس کے سمت بدل کر مشرق سے مغرب کی طرف بہنے کا ذکر کیا گیا ہے وہاں اس تشبیہ کو ترک کر کے اسے صرف ایک پانی کے دھارے کے طور پر پیش کیا گیا ہے.یہ وہ لطیف اشارے ہیں جن سے خدا کا کلام ہمیشہ معمور ہوا کرتا ہے.اور بخدا میں اس پھوار کی ٹھنڈک ابھی سے عالم تخیل میں محسوس کر رہا ہوں جو آگے چل کر ہماری آئندہ نسلوں کو ہمارے ہونے والے مغربی بھائیوں کے پاک انفاس کی طرف سے پہنچنے والی ہے.بہر حال یہ خدا کا دکھایا ہوا نظارہ ہے جو ضرور ایک دن پورا ہوگا.حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں :- قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں بھی آخری زمانے کے اس عظیم الشان انقلاب کی بڑی خوشکن تصویر کھینچی ہے جو کمزور دلوں کو ڈھارس دینے اور

Page 206

۲۰۲ مضبوط دلوں کو خوشی کے جذبات سے لبریز کرنے کے لئے کافی ہے.فرماتے ہیں كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَاِمَامُكُمْ مِنْكُمْ (بخاری) د یعنی اے مسلمانو! تمہارے لئے وہ دن کیسا خوشی کا دن ہو گا کہ جب میری امت کا مسیح ابن مریم تم میں نازل ہوگا اور وہ تمہیں میں سے تمہارا امام ہوگا.مگر یا درکھنا چاہیے کہ خدا کا ہر کام ابتداء میں ایک بیج کے طور پر ہوتا ہے جسے لوگ دیکھ کر شروع میں بالکل حقیر سمجھتے اور اس پر ہنسی اڑاتے ہیں مگر بالآخر وہی چھوٹا سا بیج آہستہ آہستہ ایک بڑا تناور درخت بن جاتا ہے جس کی شاخوں کے نیچے تو میں آرام پاتیں اور پناہ لیتی ہیں.حضرت عیسی کے آغاز کو دیکھو کہ شروع میں ان کے مشن کی ابتداء کس قدر کمزور اور کتنی مایوس کن تھی مگر اب ان کے پیرو ساری دنیا پرسیل عظیم کی طرح چھائے ہوئے ہیں.بلکہ حضرت سرور کائنات فخر رسل ہی کے آغاز کو دیکھو کہ یہ بنی نوع آدم کا سالار اعظم شروع میں مکی کی گلیوں میں کس کمزوری اور کس مپرسی کی حالت میں پھرتا تھا اور مکہ کے قریش اس پر ہنسی اڑاتے تھے مگر جب یہ بظاہر چھوٹا سا پیچ عرب کی زمین میں سے پھوٹ کر نکلا تو کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے تمام معلوم دنیا پر رحمت کا بادل بن کر چھا گیا.یہی ترقی انشاء اللہ اسلام کے لئے احمدیت کے دور میں مقدر ہے.جو لوگ زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس جلال اور کس یقین کے ساتھ فرماتے ہیں :- ”دیکھو وہ زمانہ چلا آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا اس سلسلہ کی دنیا میں بڑی قبولیت پھیلائے گا.اور یہ سلسلہ مشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب میں

Page 207

پھیلے گا اور دنیا میں اسلام سے مراد یہی سلسلہ ہوگا.یہ باتیں انسان کی باتیں نہیں.یہ اس خدا کی وحی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں اور دوسری جگہ فرماتے ہیں (تحفہ گولٹر و بیہ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۹۰) میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ تذكرة الشهادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۷) (۱۴) بعض درمیانی باتوں کے ذکر کے بعد میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی دانی کے اعجاز کے بیان کی طرف لوٹتا ہوں.، میں بیان کر چکا ہوں کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص الخاص تائید و نصرت سے حضرت مسیح موعود کو حضور کی درسی تعلیم کی کمی اور عربی علم کی ظاہری بے بضاعتی کے باوجود عربی زبان میں کمال عطا کیا اور معجزانہ طور پر چالیس ہزار عربی لغات کے علم سے نوازا تو اس کے بعد حضور نے عربی میں کثیر التعداد فصیح و بلیغ کتابیں تصنیف فرما ئیں جو عدیم المثال نظم و نثر کے محاسن سے معمور تھیں جن کا جواب لانے سے ہندوستان اور عرب کے علماء اور فصحاء عاجز تھے مگر ابھی تک حضور نے عربی زبان میں کبھی تقریر نہیں فرمائی تھی اور نہ اس کے لئے کوئی موقعہ ہی پیش آیا تھا.لیکن اب اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے ۱۹۰۰ء مطابق ۱۳۱۷ ھ میں اس کا بھی ایک بہت عمدہ موقع پیدا کر دیا.یہ عربی تقریر جو حضور نے

Page 208

۲۰۴ عید الاضحی کے موقعہ پر فرمائی " خطبة الهامية “ کے نام سے چھپ چکی ہے اور باوجود اس کے کہ یہ تقریر ایک گھنٹے سے زائد وقت میں بغیر کسی قسم کی تیاری کے بالکل فی البدیہ طور پر کی گئی عربی کلام کا ایک ایسا نادر نمونہ ہے جسے پڑھ کر عرب ممالک کے ادیب بھی عش عش کر اٹھتے ہیں.اس عجیب وغریب واقعہ کے متعلق سلسلہ کے اخبارات اور کتب میں کسی قدر تفصیلی بیانات شائع ہو چکے ہیں مگر میں اس جگہ حضرت مسیح موعود کے قدیم نو مسلم صحابی حضرت بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کی چشم دید اور گوش شنید روایت کا خلاصہ بیان کرتا ہوں.حضرت بھائی صاحب روایت کرتے ہیں کہ عید الاضحی ۱۹۰۰ ء سے ایک دن قبل جو حج کا دن تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نور الدین صاحب ( خلیفہ اول) کو کہلا بھیجا کہ میں یہ حج کا دن خاص دعاؤں میں گزارنا چاہتا ہوں اس لئے جو دوست دعا کی درخواست دینا چاہیں آپ ان کے نام لکھ کر اور فہرست بنا کر مجھے بھجوا دیں.چنانچہ حضرت بھائی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس دن کثرت کے ساتھ حضرت مولوی نورالدین صاحب کی وساطت سے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں دعا کی درخواستیں پہنچیں اور بعض اصحاب نے براہ راست بھی دعا کی درخواست لکھ کر حضور کی خدمت میں بھجوائی.اور چونکہ اس زمانہ میں عید کے موقعہ پر بیرونی مقامات سے بھی کافی دوست عید پڑھنے اور حضرت مسیح موعود کی ملاقات سے مشرف ہونے کے لئے قادیان آجایا کرتے تھے وہ بھی اس غیبی تحریک میں شامل ہوگئے.اور یہ دن قادیان میں خاص دعاؤں اور غیر معمولی تضرعات اور بڑی برکات میں گزرا.دوسرا دن عید کا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز سے پہلے فرمایا کہ

Page 209

اللہ تعالیٰ نے مجھے ارشاد فرمایا ہے کہ آج تم عربی میں تقریر کرو.تمہیں قوت دی گئی اور نیز یہ الہام ہوا.كَلَامُ أَفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبِّ كَرِيمٍ.( یعنی تمہاری اس تقریر میں خدائے کریم کی طرف سے فصاحت اور برکت عطا کی جائے گی ) ( تذکره ص ۳۵۷) چنانچہ پہلے عید کی نماز حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھائی اور اس کے بعد حضرت مسیح موعود نے ایک مختصر سا خطبہ اردو میں دیا جس میں خصوصیت کے ساتھ جماعت کو باہم اتفاق و اتحاد اور محبت کی نصیحت فرمائی اور پھر حضور نے حضرت مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کو اپنے قریب آکر بیٹھنے کے لئے ارشاد فرمایا اور فرمایا کہ ’اب جو کچھ میں بولوں گا وہ چونکہ خاص خدائی عطا سے ہے آپ لوگ اسے توجہ سے لکھتے جائیں تا کہ وہ محفوظ ہو جائے ورنہ بعد میں شاید میں خود بھی نہیں بتا سکوں گا کہ میں نے کیا کہا تھا.“ ( اصحاب احمد جلد ۹ روایت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی) اس کے بعد حضور مسجد اقصیٰ قادیان کے درمیانی دروازہ میں ایک کرسی پر مشرق کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے اور عربی زبان میں اپنی تقریر شروع کی جس کا پہلا فقرہ یہ تھا کہ يَا عِبَادَ اللهِ فَكُرُوا فِي يَوْمِكُمْ هَذَا يَوْمَ الْأَضْحَى فَإِنَّهُ أُوْدِعَ اسْتَرَارًا 66 لأولى النهى " یعنی اے خدا کے بندو! اپنے اس دن کے معاملے میں غور کرو جو حج اور عید کی

Page 210

۲۰۶ قربانیوں کا دن ہے کیونکہ خدا کی طرف سے اس دن میں عظمندوں کے لئے بڑی بڑی حکمتیں ودیعت کی گئی ہیں.حضرت بھائی صاحب بیان کرتے ہیں کہ کرسی پر بیٹھنے اور تقریر شروع کرنے کے بعد یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا اب حضور کسی دوسری دنیا میں چلے گئے ہیں.حضور کی آنکھیں قریباً بند تھیں اور چہرہ مبارک اس طرح پر منور نظر آتا تھا کہ گویا انوار الہیہ نے اسے پوری طرح ڈھانپ کر غیر معمولی طور پر روشن اور ضیا پاش کر رکھا ہے.اس وقت حضور کے چہرہ پر نظر نہیں جمتی تھی اور حضور کی پیشانی سے نور کی اتنی تیز شعائیں نکل رہی تھیں کہ ہر دیکھنے والے کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی تھیں.زبانِ مبارک تو بظا ہر حضور ہی کی چلتی ہوئی نظر آتی تھی مگر کیفیت کچھ ایسی تھی کہ گویا وہ بے اختیار ہو کر کسی غیبی طاقت کے چلانے سے چل رہی ہے.حضرت بھائی صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت کی حالت لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں.اس وقت کے انقطاع الی اللہ اور توکل اور ر بودگی اور بے خودی اور محویت کا یہ عالم تھا کہ اس کی تصویر کھینچنا انسانی طاقت سے باہر ہے.حضور کی اس فصیح و بلیغ معجزانہ عربی تقریر کے بعد جو کتاب خطبہ الہامیہ کے ابتدائی اڑتیس صفحوں میں چھپ چکی ہے حاضرین کی خواہش پر حضرت مولوی عبد الكريم صاحب نے اسی مجلس میں اس تقریر کا اردو میں ترجمہ کر کے سنایا.ترجمہ کے دوران میں اللہ تعالیٰ کے کسی خاص القا یا اندرونی جذبہ کے ماتحت حضرت مسیح موعود ایک فقرہ پر کرسی سے اٹھ کر بے اختیار سجدے میں گر گئے اور حضور کے ساتھ ہی سارے حاضرین نے بھی اپنی پیشانی اپنے آسمانی آقا کے سامنے زمین پر رکھ دی.اصحاب احمد جلد ۹ ص ۲۶۷)

Page 211

۲۰۷ اس فی البدیہ اعجازی تقریر کے متعلق حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں "سبحان اللہ اُس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا.....یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدا نے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۷۶) (10) مجھے اس وقت خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرت کا ایک اور واقعہ بھی یاد آیا ہے جو ہے تو بظاہر بہت چھوٹا سا مگر اس میں خدائی تائید و نصرت کا عجیب وغریب جلوہ نظر آتا ہے.حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ کسی بحث کے دوران میں کسی شوخ مخالف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی حوالہ طلب کیا اور بحث میں حضور کو بزعم خود شرمندہ کرنے کی غرض سے اسی وقت دم نقد اس حوالہ کے پیش کئے جانے کا مطالبہ کیا.وہ حوالہ تو بالکل درست اور صحیح تھا مگر اتفاق سے اس وقت یہ حوالہ حضرت مسیح موعود کو یاد نہیں تھا اور نہ اس وقت آپ کے حاضر الوقت خادموں میں سے کسی کو یاد تھا.لہذا وقتی طور پر شمات کا اندیشہ پیدا ہوا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑے وقار کے ساتھ صحیح بخاری کا ایک

Page 212

۲۰۸ نسخہ منگوایا اور اسے ہاتھ میں لے کر یونہی جلد جلد اس کی ورق گردانی شروع کر دی اور پھر ایک ورق پر پہنچ کر فرمایا یہ لو حوالہ موجود ہے.دیکھنے والے سب حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے کہ حضور نے کتاب کے صفحات پر نظر تک نہیں جمائی اور حوالہ نکل آیا.بعد میں کسی نے حضرت مسیح موعود سے پوچھا کہ حضور یہ کیا بات تھی کہ حضور پڑھنے کے بغیر ہی صفح الٹتے گئے اور آخر ایک صفحہ پر رک کر حوالہ پیش کر دیا.حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ جب میں نے کتاب ہاتھ میں لے کر ورق الٹانے شروع کئے تو مجھے یوں نظر آتا تھا کہ اس کتاب کے سارے صفحے بالکل خالی اور کورے ہیں اور ان پر کچھ لکھا ہوا نہیں اس لئے میں ان کو دیکھنے کے بغیر جلد جلد اُلٹاتا گیا.آخر مجھے ایک ایسا صفحہ نظر آیا جس میں کچھ لکھا ہوا تھا اور مجھے یقین ہوا کہ خدا کے فضل ونصرت سے یہ وہی حوالہ ہے جس کی مجھے ضرورت ہے اور میں نے بلا توقف مخالف کے سامنے یہ حوالہ پیش کر دیا اور یہ وہی حوالہ تھا جس کا فریق مخالف کی طرف سے مطالبہ تھا.(سیرۃ المہدی حصہ دوم.روایت نمبر ۳۰۶ صفحه ۲۸۲ باختلاف الفاظ ) دوستو ! سنو اور غور کرو کہ ہمارے امام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی کیسی خارق عادت نصرت شاملِ حال تھی کہ جب مخالفوں کے ساتھ بحث کے دوران میں شماتت کا خطرہ پیدا ہوا تو ایک وفادار دوست اور مربی کے طور پر خدا تعالیٰ فوراً حضرت مسیح موعود کی مدد کو پہنچ گیا اور کشفی رنگ میں ایسا تصرف فرمایا کہ حضور کو کتاب کے سارے صفحے خالی نظر آئے اور صرف اسی صفحہ پر ایک تحریر نظر آئی جہاں مطلوبہ حوالہ درج تھا.یہ باتیں اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہیں کہ اسلام کا خدا ایک زندہ ، جی و قیوم، قادر و متصرف خدا ہے جو اپنی غیر معمولی قدرت نمائی سے اپنے خاص بندوں کو اپنے اعجازی نشان

Page 213

دکھاتارہتا ہے.۲۰۹ مگر یا درکھنا چاہیئے کہ خدا کے مامور ومرسل نعوذ باللہ مداری نہیں ہوتے کہ یونہی تماشے کے طور پر ایسے شعبدے دکھاتے پھریں بلکہ جب کوئی حقیقی ضرورت پیدا ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ فوراً سامنے آکر اپنے بندوں کے بوجھ اُٹھا لیتا ہے اور ان کی حفاظت فرماتا اور ان کی مدد کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نہایت پیارا شعر ہے کہ جب حق کے دشمن خدا کے ماموروں اور مرسلوں کو تنگ کرتے اور ذلیل کرنے کے درپے ہوتے ہیں اور صداقت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے تو اس وقت خدا اپنی غیر محدود غیبی طاقتوں کے ساتھ آگے آجاتا ہے اور کہتا ہے یہ تو بندہ عالی جناب ہے مجھ سے لڑ واگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۶) (MM) اس قسم کی غیر معمولی غیبی نصرت کی مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک دو نہیں.دس ہیں نہیں بلکہ سینکڑوں ملتی ہیں.مگر چونکہ سنت اللہ کے مطابق اس قسم کے عام واقعات عمو نا محدود قسم کی پرائیویٹ مجلسوں میں یا خاص دوستوں میں ظاہر ہوتے ہیں اس لئے جہاں حضرت مسیح موعود نے اپنی کتابوں میں اپنے خاص معجزات کا ذکر کیا ہے وہاں اس قسم کے عام خوارق کے ذکر کی ضرورت نہیں سمجھی.البتہ

Page 214

حاضر الوقت احمدیوں کی روایتوں کے ذریعہ بعض باتیں ضرور منظر عام پر آ گئی ہیں.چنانچہ جو واقعہ اب میں بیان کرنے لگا ہوں وہ بھی اسی قسم کے چھوٹے چھوٹے واقعات میں سے ہے جو مرسل یزدانی کی روحانی توجہ اور خدا تعالیٰ کی غیبی نصرت کی شعاعوں سے معمور ہیں.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی بیان کرتے ہیں کہ جب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کے بعد لدھیانہ میں ٹھہرا ہوا تھا تو ایک صوفی منش شخص نے چند سوالات کے بعد حضرت مسیح موعود سے دریافت کیا کہ کیا آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کر سکتے ہیں؟ حضرت مسیح موعود نے جواب میں فرمایا کہ اس کے لئے مناسبت شرط ہے“ اور پھر میری طرف منہ کر کے فرمایا یا جس پر خدا کا فضل ہو جائے“ حضرت منشی ظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ اسی رات مجھے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی.(اصحاب احمد جلد ۴ ص ۹۲) منشی صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ اس کے بعد بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا اور توجہ سے مجھے کئی دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی.چنانچہ منشی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود مجھے خواب میں اپنے ساتھ مدینہ منورہ لے گئے.میں مزار مبارک کی جالیوں کے اندر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنا چاہتا تھا مگر معلوم ہوا کہ یہ جالی میرے قد سے زیادہ اونچی ہے اس پر حضرت مسیح موعود نے میری دونوں بغلوں میں اپنے ہاتھوں کا سہارا دے کر مجھے اونچا

Page 215

۲۱۱ کردیا اور اس وقت میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرکھلی ہوئی ہے اور آپ میرے سامنے اپنے پورے روحانی جمال کے ساتھ تشریف رکھتے ہیں.ایک اور موقع پر بھی مجھے حضرت مسیح موعود نے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ حضور اس کی بیعت قبول فرمائیں.چنانچہ میں نے حضرت مسیح موعود کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی.بیعت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے از راہ نصیحت فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ تمام نیکیوں کو اختیار کرو اور تمام بدیوں سے بچ کر رہو.“ 66 (اصحاب احمد جلد ۴ ص ۱۲۸) یہ وہ عظیم الشان روحانی تاثیر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک توجہ سے پیدا ہوئی اور اس کے نتیجے میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے لئے رسولِ مقبول کی زیارت کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو گیا.اور گویا حضرت مسیح موعود کے دل کی خواہش اور آنکھ کے اشارے نے منشی صاحب موصوف پر روحانی فیوض کا غیر معمولی دروازہ کھول دیا.کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ آنانکه خاک را بنظر کیمیا کنند آیا بود که گوشه چشم بما کنند یعنی خدا کے بعض پاک بندے ایسے ہوتے ہیں کہ اپنی ایک نظر سے مٹی کو سونا بنادیتے ہیں.کاش کسی ایسے بزرگ کی اچٹتی ہوئی نظر ہم پر بھی پڑ جائے.وہ برگزیدہ لوگ جنہوں نے اس قسم کے نشانات معاہدہ کئے اور اس قسم کے

Page 216

۲۱۲ نظارے دیکھے خدا کے فضل سے کسی آزمائش اور کسی امتحان کے وقت لغزش نہیں کھا سکتے کیونکہ وہ بات جو دوسروں کے لئے محض شنید ہے وہ ان لوگوں کے لئے دید ہے.حضرت مسیح موعود سے منشی ظفر احمد صاحب کی ملاقات غالباً ۱۸۸۳ء میں ہوئی اور فوت وہ اگست ۱۹۴۱ ء میں ہوئے.یہ قریباً ۶۰ سال کا زمانہ بنتا ہے.اس طویل عرصہ میں مرحوم کا ہر قدم ایمان اور اخلاص اور محبت اور قربانی میں مسلسل بلندی کی طرف اٹھتا چلا گیا اور کبھی کوئی لغزش نہیں آئی.حالانکہ اس زمانہ میں خدائی سنت کے مطابق احمد یہ جماعت پر مصائب کے زلزلے بھی آئے ، حوادث کی آندھیاں بھی چلیں ، ابتلاؤں کے طوفانوں نے بھی اپنا زور دکھایا مگر یہ خدا کا بندہ آگے ہی آگے قدم اٹھاتا چلا گیا اور بالآخر سب کچھ دیکھ کر اور سارے عجائبات قدرت کا نظارہ کر کے اپنے محبوب آقا کے قدموں میں پہنچ گیا.اور یہ بات صرف حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے ساتھ ہی خاص نہیں تھی بلکہ جس نے بھی حضرت مسیح موعود کی صحیح صحبت اٹھائی اور خدائی نشانات دیکھے اور ایمان کی حلاوت کا حقیقی مزہ چکھا (اور ایسے لوگ ہزاروں ہیں ) وہ حق و صداقت کی ایک آہنی دیوار بن گیا جسے کوئی زلزلہ اپنی جگہ سے ہلانے اور گرانے کی طاقت نہیں رکھتا تھا.کاش جماعت کی آئندہ نسلیں بھی حضرت مسیح موعود کے صحابہ والا ورثہ پائیں اور خدا کو اپنے دل کی آنکھوں سے دیکھیں اور اس کی رضا کے رستہ پر گامزن ہوں تاکہ صلحاء کے ایک لمبے سلسلہ کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کا روحانی ورثہ قیامت تک چلتا چلا جائے.اے کاش کہ ایسا ہی ہو.

Page 217

۲۱۳ (۱۷) انہی منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی ایک اور بڑی دلچسپ روایت ہے کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ میں مقیم تھے تو میں اور خان محمد خاں صاحب مرحوم کپورتھلہ کے ایک غیر احمدی رئیس اور عالم دین ڈاکٹر صادق علی صاحب کوساتھ لے کر لدھیانہ گئے.کچھ وقت کے بعد حضرت مسیح موعود حسب طریق بالوں میں مہندی لگوانے لگے تو اس وقت ایک تعلیم یافتہ آریہ بھی حضور کی ملاقات کے لئے آ گیا.وہ ایم.اے پاس تھا اور بہت تیز اور طرار تھا.حضور ابھی مہندی لگوا ہی رہے تھے کہ اس آریہ نے اسلام کی تعلیم پر کوئی اعتراض کیا.حضرت مسیح موعود نے ڈاکٹر صادق علی صاحب سے فرمایا کہ آپ ان صاحب سے ذرا گفتگو کریں تو میں اس عرصہ میں مہندی لگوالوں.چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے اس آریہ کے اعتراض کا جواب دیا مگر اس نے ڈاکٹر صاحب کی تقریر کے جواب میں ایسی سجا سجا کر تقریر کی کہ ڈاکٹر صاحب عالم دین ہونے کے باوجود اس کے سامنے خاموش ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ دیکھا تو غیرت میں آکر فوراً مہندی لگوانی بند کر دی اور اس آریہ سے مخاطب ہو کر اس کے اعتراض کا جواب دینا شروع کر دیا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضور کی تقریر دلائل کے لحاظ سے قریباً قریباً وہی تھی جو ڈاکٹر صادق علی صاحب نے کی تھی مگر حضور کا انداز ایسا مؤثر اور اتنا دلنشین تھا اور حضور کی

Page 218

۲۱۴ تقریر روحانی تاثیر میں اس طرح ڈوبی ہوئی تھی کہ وہ آریہ بے تاب ہو کر حضور کے سامنے سجدے میں گر گیا.حضور نے اپنے ہاتھ سے اسے اٹھایا اور سجدہ کرنے سے منع کیا.اس کے بعد یہ آریہ حضرت مسیح موعود کو دونوں ہاتھوں سے ہندوانہ طریق پر بڑے ادب کے ساتھ سلام کرتے ہوئے حضور کی طرف پیٹھ پھیرنے کے بغیر پچھلے پاؤں پیچھے ہٹتے ہوئے باہر چلا گیا.اصحاب احمد جلد ۴ ص ۹۴ یہ عجیب و غریب روایت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غیر معمولی علمی رعب اور آپ کی خدا داد روحانی تاثیر کی بڑی دلچسپ مثال ہے.ڈاکٹر صادق علی صاحب گو احمدی نہیں تھے مگر کپورتھلہ کے رئیس تھے اور علماء کے زمرہ میں شمار ہوتے تھے مگر جہاں وہ اس آریہ کا جواب سن کر ساکت ہو گئے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چند منٹ کی تقریر نے اس آریہ پر ایسا جادو کا اثر کیا کہ وہ حضور کے سامنے بے تاب ہوکر سجدے میں گر گیا.حالانکہ منشی ظفر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ حضور کی تقریر بحیثیت مجموعی انہی دلائل پر مبنی تھی جو ڈاکٹر صادق علی صاحب نے بیان کئے تھے مگر جہاں ڈاکٹر صادق علی صاحب کے الفاظ بے روح اور بے جان تھے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہر ہر لفظ اس روحانی جذب و اثر سے معمور تھا جو خدا کے ماموروں اور مرسلوں کو خاص طور پر عطا کیا جاتا ہے.بیشک بے باکی سے انکار کرنے والے اور خدا کے رسولوں کے سامنے گستاخانہ طریق پر بڑھ بڑھ کر اعتراض کرنے والے بھی ہر زمانے میں ہوتے چلے آئے ہیں اور ہمارے آقا سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ابوجہل اور امیہ اور عقبہ اور شیبہ وغیرہ جیسے بدباطنوں کی مثالیں پائی جاتی

Page 219

۲۱۵ ہیں.مگر جس شخص میں ذرا بھی سعادت کا مادہ ہو اور اس کے دل کی آنکھیں بالکل ہی اندھی نہ ہو چکی ہوں وہ علی قدر مراتب خدائی ماموروں اور مرسلوں کی روحانی تاثیرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.یہ آریہ بھی اپنے پرانے قومی تعصبات کی وجہ سے مسلمان تو نہیں ہو سکا مگر اس کا دل مفتوح ہو کر حضرت مسیح موعود کے قدموں میں گر چکا تھا اور اس کے بعد اسے کبھی حضرت مسیح موعود کے سامنے آنے اور آنکھیں اونچی کرنے کی جرات نہیں ہوئی.اسی روایت میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی اس وقت کی تقریر کا ڈاکٹر صادق علی صاحب پر بھی ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اسی دن حضور سے علیحدگی میں مل کر بیعت کی درخواست کی اور اصرار کیا کہ میری بیعت ضرور قبول فرمائی جائے.مگر حضرت مسیح موعود نے یہ خیال کر کے کہ ڈاکٹر صاحب غالباً کسی وقتی جذبہ کے ماتحت ایسا کہہ رہے ہیں عذر کر دیا اور فرمایا کہ آپ جلدی نہ کریں اور اچھی طرح سوچ سمجھ لیں.ایسا عذر حضرت مسیح موعود کی طرف سے رحیمانہ شفقت کی بناء پر ہوا کرتا تھا کیونکہ جب آپ یہ محسوس کرتے تھے کہ کوئی شخص جلدی میں پورے سوچ بچار کے بغیر بیعت کرنے لگا ہے تو آپ اس ڈر سے کہ وہ بعد میں بیعت کا عہد توڑ کر اور ارتداد کا رستہ اختیار کر کے خدائی عذاب کا نشانہ نہ بن جائے بیعت قبول کرنے سے انکار فرما دیا کرتے تھے کہ جلدی نہ کرو اور اچھی طرح سوچ سمجھ لو.پھر ان میں سے سعید الفطرت لوگ تو کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ آکر بیعت کر لیتے تھے مگر بعض لوگ مخالفانہ اثر کے ماتحت رُک جاتے تھے.اس جگہ ایک جملہ معترضہ کے طور پر میں اپنے دوستوں سے یہ معذرت کرنا

Page 220

۲۱۶ چاہتا ہوں کہ میں نے گزشتہ چند روایتیں ہائی بلڈ پریشر کی حالت میں لکھی ہیں جس کے علاوہ میرے سینہ میں اور بائیں بازو میں کافی درد بھی لاحق رہا ہے اس لئے میں ان روایتوں کے بیان کرنے میں پوری توجہ سے کام نہیں لے سکا اور سکون اور یکسوئی کی حالت میسر نہیں آئی.اور چونکہ یہ عوارض کم و بیش اب تک چل رہے ہیں اس لئے اب میں اپنا بقیہ مضمون بڑے اختصار کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کروں گا.دراصل میری غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر خیر کے ذریعہ ایک طرف جماعت احمدیہ کے دلوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنا اور دوسری طرف غیر از جماعت اصحاب کو یہ بتانا ہے کہ خدا کے فضل سے سلسلہ احمدیہ کا مقدس بانی نہ صرف اعلیٰ ترین اخلاق کا حامل تھا بلکہ روحانی لحاظ سے بھی ایسے بلند مقام پر فائز تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد اس کی نظیر نہیں ملتی.اور میں امید کرتا ہوں کہ اس غرض کے لئے وہ چند روایتیں کافی ہیں جو میں نے اس جگہ بیان کی ہیں اس لئے میں اب صرف دو تین اور باتیں بیان کر کے اپنے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.”اگر در خانہ کس اس حرفے بس است (۱۸) جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرت اور حضور کی دعاؤں کی قبولیت اور حضور کی روحانی توجہ کے نشانات بے شمار ہیں اور حضور کے زمانہ میں قریباً ہر احمدی نے ایسے غیر معمولی نصرتوں کے

Page 221

۲۱۷ نشانات دیکھے اور حضور کی دعاؤں کی قبولیت کے ایمان افروز نظارے مشاہدہ کئے ہیں.چنانچہ میں اس جگہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کی ایک اور دلچسپ روایت بیان کرتا ہوں جس میں نہ صرف دعا کی قبولیت کا خاص منظر نظر آتا ہے بلکہ شفاعت کے مسئلہ پر بھی بڑی روشنی پڑتی ہے.یہ واقعہ جو میں بیان کرنے لگا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور سلسلہ کے اخباروں میں مذکور ہو چکا ہے مگر میں اس جگہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کی روایت بیان کرنے پر اکتفا کروں گا.حضرت مولوی صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مقرب صحابی تھے اور نہایت زیرک اور معاملہ فہم بزرگ تھے بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ کا چھوٹا لڑکا عبدالرحیم خان سخت بیمار ہو گیا.چودہ دن تک ایک ہی بخار لازم حال رہا.اور اس پر حواس میں فتور اور بیہوشی بھی لاحق ہوگئی اور ٹائیفائڈ کا خطرناک حملہ ہوا.حضرت مولوی نور الدین صاحب (خلیفہ اول) علاج فرماتے تھے.اور چونکہ وہ نہایت ماہر اور نامور طبیب تھے اور غیر معمولی ہمدردی بھی رکھتے تھے اس لئے انہوں نے اپنے علم کی پوری قوت اور وسیع طاقت سے کام لیا مگر بالآ خر ضعف اور عجز کا اعتراف کر کے سپر انداز ہو جانے کے سوا کوئی راہ نظر نہ آئی اور بچہ دن بدن اور لحظہ بلحظہ کمزور ہو کر قبر کی طرف جھکتا چلا جاتا تھا.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بڑی بے تابی کے ساتھ عرض کیا گیا کہ عبدالرحیم خان کی زندگی کے آثار ا چھے نہیں اور حالت بظاہر مایوس کن ہے.حضور پہلے سے ہی دعافرمارہے تھے.حضرت مولوی نورالدین صاحب کی طرف سے اس خیال کا اظہار

Page 222

۲۱۸ ہونے پر حضور نے زیادہ توجہ سے دعا کرنی شروع کی اور حضور کے دل میں اس بچے کے متعلق بہت درد پیدا ہوا.حضور دعا فرما ہی رہے تھے کہ حضور پر خدا کی یہ فیصلہ گن وحی نازل ہوئی کہ تقدیر مبرم ہے اور ہلاکت مقدر (الحکم ۱۷ / ۲۴ نومبر ۱۹۰۳ء) حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بیان فرماتے ہیں کہ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جب خدا تعالیٰ کی یہ قہری وحی نازل ہوئی تو میں بے حد مغموم ہوا اور اس وقت میرے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکل گئے کہ یا الہی اگر یہ دعا کا موقعہ نہیں تو میں اس بچے کے لئے شفاعت کرتا ہوں.“ اس پر خدا کی طرف سے یہ جلالی وحی نازل ہوئی کہ مَنْ ذَالَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ - د یعنی خدا کے حضور ا جازت کے بغیر کون شفاعت کر سکتا ہے؟“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ اس جلالی وحی سے میرا بدن کانپ گیا اور مجھ پر سخت ہیبت طاری ہوئی کہ میں نے بلا اذن شفاعت کی ہے مگر ایک دو منٹ کے بعد ہی پھر خدا کی وحی نازل ہوئی کہ إِنَّكَ أَنْتَ الْمَجَاز د یعنی تجھے شفاعت کی اجازت دی جاتی ہے“ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شفاعت کے رنگ میں دعا فرمائی اور اس

Page 223

۲۱۹ کے نتیجہ میں بیمار بچہ لحظہ بہ لحظہ صحتیاب ہونا شروع ہو گیا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد ہر ایک شخص جو اس بچہ کو دیکھتا تھا اس کا دل خدا تعالیٰ کے شکر سے بھر جاتا تھا کہ لاریب حضور کی دعا سے ایک مردہ زندہ ہو گیا ہے.دوست سوچیں اور غور کریں کہ یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے کہ ماہر طبیب بچے کی حالت دیکھ کر اس کی صحت کے متعلق مایوسی کا اظہار کرتے اور سپر ڈال دیتے ہیں بلکہ دعا ہونے پر خدا تعالیٰ خود بھی فرماتا ہے کہ تقدیر مبرم ہے اور ہلاکت مقدر‘ مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کی اجازت سے شفاعت کرتے ہیں تو یہ شفاعت خدا کے ہاں مقبول ہوتی ہے اور گویا ایک مردہ زندہ ہوکر قبر سے باہر آ جاتا ہے.سچ ہے کہ قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے اس روایت سے شفاعت کے مسئلہ پر بھی دلچسپ روشنی پڑتی ہے.شفاعت بھی گو ایک قسم دعا ہی کی ہے مگر وہ عام دعا سے بہت بالا اور ارفع چیز ہے.دراصل شفاعت کے معنی دو چیزوں کے باہمی جوڑ کے ہیں.دعا کرنے والا تو صرف سوالی بن کر خدا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے مگر شفاعۃ کرنے والا اپنے خاص تعلق کا واسطہ دے کر اور اپنے آپ کو خدا سے پیوست کر کے خدا سے ایک چیز مانگتا ہے.اور ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اس لئے خدا نے اجازت کے بغیر شفاعت جائز نہیں رکھی.کیونکہ جب خدا کا کوئی خاص مقرب بندہ اپنے تعلق کا واسطہ دے کر خدا سے شفاعت کے رنگ میں کوئی چیز مانگتا ہے تو اُس وقت خدا تعالیٰ کی محبت غیر معمولی طور پر جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے بندے کے اکرام کی وجہ سے انکار

Page 224

۲۲ نہیں کرنا چاہتا.لیکن چونکہ انسان بعض اوقات دعا میں غلطی بھی کر سکتا ہے اور خدا سے ایسی چیز مانگ سکتا ہے جو اس کی کسی مصلحت کے خلاف ہے اس لئے خدا نے اپنی ازلی حکمت کے ماتحت یہ شرط مقرر کر رکھی ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر شفاعت نہ کی جائے.اسی روایت کو دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شفاعت سے روک کر اپنا قانون بھی پورا کر لیا اور پھر فوراً ہی اجازت دے کر اپنے محبوب مسیح کی عزت بھی قائم کر دی.یہ ایک بہت بڑا امتیاز ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کونو از اگیا.چنانچہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اس روایت کے بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اے احمد یو! تمہیں مبارک ہو کہ یہ دولت خدا تعالیٰ نے تمہارے حصے میں رکھی تھی.پس خدا کا شکر کرو اور اس کی قدر کرو.“ الحکم ۲۴ / ۱۷ نومبر، بدر ۴۱/۴۲.اکتوبر ۱۹۰۳ء) اس روایت سے تقدیر کے مسئلہ پر بھی بڑی لطیف روشنی پڑتی ہے اور اس قرآنی آیت کی تفسیر گویا مجسم ہو کر آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے کہ اللهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِه د یعنی خدا اپنی تقدیر پر بھی غالب ہے اور خاص حالات میں اپنے فیصلہ کو بدل سکتا ہے.“ چنانچہ باوجود اس کے کہ میاں عبدالرحیم خاں کے متعلق خدا نے وقتی حالات کے ماتحت خود فرمایا تھا کہ ” تقدیر مبرم ہے اور ہلاکت مقدر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شفاعت پر اپنی اس تقدیر کو بدل دیا اور بچے کو گویا موت کے منہ سے نکال لیا.دوستو ! سوچو اور غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کالا یا ہوا مذہب

Page 225

۲۲۱ کتنا پیارا اور کتنا دلکش ہے کہ اس نے ہر حالت میں سچے مسلمانوں کو مایوسی میں مبتلا ہونے سے بچایا ہے اور بظاہر غیر ممکن حالات میں بھی خدائی فضل و رحمت کا جھنڈا بلند رکھا ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَيَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تسليما - (19) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کی قبولیت کا ایک اور غیر معمولی واقعہ بھی مجھے یاد آ گیا جو خود مجھ سے ایک احمدی دوست عطا محمد صاحب پٹواری نے عرصہ ہوا بیان کیا تھا.منشی صاحب بیان کرتے تھے کہ میں دین کی طرف سے بالکل غافل اور بے بہرہ تھا بلکہ دین کی باتوں پر ہنسی اڑایا کرتا تھا.شراب پیتا تھا اور رشوت بھی لیتا تھا.اور جب میرے حلقہ کے بعض احمدی مجھے تبلیغ کرتے تو میں انہیں مذاق کیا کرتا تھا.آخر جب ایک دن ایک احمدی دوست نے مجھے اپنی تبلیغ کے ذریعہ بہت تنگ کیا تو میں نے انہیں جواب دیا کہ میں تمہارے مرزا کو خط لکھ کر ایک بات کے متعلق دعا کراتا ہوں.اگر میرا وہ کام ہو گیا تو میں سمجھوں گا کہ وہ بچے ہیں.چنانچہ میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں خط لکھا کہ آپ مسیح موعود اور ولی اللہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور ولیوں کی دعائیں قبول ہوا کرتی ہیں میری اس وقت تین بیویاں ہیں اور باوجود اس کے کہ میری شادی پر بارہ سال گزر چکے ہیں ان تینوں میں سے کوئی اولاد نہیں.میں چاہتا ہوں کہ میری سب سے بڑی بیوی سے خوبصورت اور صاحب اقبال لڑکا پیدا ہو.

Page 226

آپ اس کے لئے دعا کریں.۲۲۲ اس خط کے جواب میں مجھے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے لکھا کہ حضور فرماتے ہیں کہ " آپ کے لئے دعا کی گئی.خدا تعالیٰ آپ کو خوبصورت اور صاحب اقبال لڑکا عطا کرے گا اور اسی بیوی سے عطا کرے گا جس سے آپ کو خواہش ہے.مگر شرط یہ ہے کہ آپ زکریا والی توبہ کریں.“ منشی عطا محمد صاحب بیان کرتے تھے کہ میں چونکہ دین سے بالکل بے بہرہ تھا میں نے ایک واقف کا راحمدی سے پوچھا کہ زکریا والی تو بہ سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ زکریا والی تو بہ سے یہ مراد ہے کہ ”بے دینی چھوڑ دو حلال کھاؤ نماز روزہ کے پابند ہو جاؤ اور مسجد میں زیادہ آیا جایا کرو.چنانچہ میں نے سچی نیت سے تو بہ کر کے اس نصیحت پر عمل کرنا شروع کیا اور میری حالت دیکھ کر لوگ تعجب کرتے تھے کہ اس شیطان پر کیا جادو چلا ہے کہ اس نے ساری بدیوں سے یک لخت تو بہ کر لی ہے.اس پر چار پانچ ماہ کا عرصہ گزرا ہوگا کہ میں ایک دن گھر گیا تو اپنی بڑی بیوی کو روتے ہوئے پایا.میں نے سبب پوچھا تو اس نے بتایا کہ پہلے تو صرف یہی مصیبت تھی کہ اولاد نہیں ہوتی تھی اور آپ نے میرے اوپر دو بیویاں کیں.اب دوسری مصیبت یہ شروع ہوگئی ہے کہ میرے ایام ماہواری بھی بند ہو گئے ہیں اور اولاد کی امید بالکل ہی باقی نہیں رہی.میں نے کہا تم کسی دائی کو بلا کر دکھاؤ تا کہ وہ کوئی دوائی دے اور

Page 227

۲۲۳ ایام ماہواری پھر جاری ہو جائیں.چنانچہ اس نے ایک دائی کو بلایا جس نے اسے دیکھ کر سخت حیرانی کے ساتھ کہا کہ ” میں تو تجھے ہاتھ نہیں لگاتی کیونکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا تیرے اندر بھول گیا ہے اور تیرے پیٹ میں بچہ ہے حالانکہ تو توبانجھ تھی.چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد حمل کے پورے آثار ظاہر ہو گئے اور میں نے لوگوں سے کہنا شروع کیا کہ دیکھ لینا اب میرے گھر لڑکا پیدا ہوگا اور ہو گا بھی خوبصورت اور صاحب اقبال.آخر ایک دن رات کے وقت میری بڑی بیوی کے گھر بچہ پیدا ہوا اور جو بہت خوبصورت تھا.میں اسی وقت قادیان کی طرف بھاگ گیا اور میرے ساتھ کئی اور لوگ بھی قادیان گئے اور ہم نے حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کر لی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ لڑکا جس کا نام شیخ عبدالحق ہے.خدا کے فضل سے اب تک زندہ ہے اور بہت مخلص احمدی ہے اور ایک معمولی دیہاتی پٹواری کے گھر میں پیدا ہونے کے باوجود خدا نے اسے ایسا با اقبال کیا کہ ایگزیٹو انجنئیر کے معزز عہدہ تک پہنچ گیا اور خدا کے فضل سے خوش شکل اور خوب رو بھی ہے اور ہماری جماعت کے ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے اسے دیکھا ہوگا.دوست غور کریں کہ یہ کتنا غیر معمولی نشانِ قدرت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کی برکت سے ظاہر ہوا.بچے تو دنیا میں پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں اور بعض اوقات شادی کے کئی کئی سال بعد پیدا ہوتے ہیں مگر اس واقعہ میں یہ غیر معمولی خصوصیت ہے کہ یہ بچہ بعینہ ان چار شرائط کے مطابق پیدا ہوا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی تھیں اور وہ شرائط یہ ہیں (اول) سالہا سال کی مایوسی کے بعد بچہ پیدا ہوا.

Page 228

۲۲۴ ( دوم ) جیسا کہ دعا کے نتیجہ میں ظاہر کیا گیا تھا یہ بچہ بڑی بیوی کے بطن سے پیدا ہوا حالانکہ دو چھوٹی نسبتا جوان بیویاں گھر میں زندہ موجود تھیں.( سوم ) یہ بچہ خدا کی طرف سے اچھی شکل وصورت لے کر پیدا ہوا حالانکہ والد کی شکل معمولی رسمی سی تھی.(چہارم ) پھر یہ بچہ ایسا صاحب اقبال نکلا کہ ایک معمولی دیہاتی پٹواری کے گھر جنم لے کر ایگزیکٹو انجنئیر کے معزز عہدہ تک پہنچ گیا اور دینی لحاظ سے بھی بہت مخلص نکلا.ان چار شرائط کا بیک وقت پورا ہونا یقیناً خدا کی قدرت کا ایک بہت نادر نمونہ ہے.پھر اس دعا کی یہ روحانی برکت بھی ظاہر ہوئی کہ نہ صرف منشی عطا محمد صاحب کو اس کے ذریعہ تو بہ اور ہدایت نصیب ہوئی بلکہ ان کے گاؤں کے بہت سے دوسرے لوگوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے اس نشان کے ذریعہ ہدایت کا رستہ کھول دیا.وذلك فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيمِ - (سیرۃ المہدی جلد اول حصہ اول ص ۲۲۰-۲۲۱ روایت ۲۴۱) حق یہ ہے کہ احمدیت کی تاریخ دعاؤں کی قبولیت کے نشانوں سے بھری پڑی ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ نیکی اور تقوی اختیار کر کے اس قسم کی قدرت نمائیوں کے لئے اپنے اندر اہلیت اور صلاحیت پیدا کریں.اسلام کا خدا زندہ اور قادر مطلق خدا ہے وہ کسی زمانہ میں بھی اپنے نیک بندوں کا ہاتھ چھوڑ کر پیچھے نہیں ہٹا.مگر بعض لوگ خود ہی اپنی سستیوں اور غفلتوں کی وجہ سے اس کی رحمت کے سایہ سے محروم ہو جاتے ہیں.کاش جماعت احمد یہ قیامت تک اس خدائی نعمت سے محروم نہ ہو

Page 229

۲۲۵ اور اس کے اندر ہمیشہ ایسے صالح اور پاکباز لوگ پیدا ہوتے رہیں جو دعاؤں کی قبولیت کے ذریعہ جماعت میں روحانیت کو زندہ اور مذاہب کی کشمکش میں اسلام کو غالب رکھیں.اے خدا تو ایسا ہی کر ! (٢٠) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کی قبولیت کے نشان تو بے شمار ہیں جن کے ذکر سے آپ کی کتابیں بھری پڑی ہیں اور ہزاروں لاکھوں لوگ ان کے گواہ ہیں.مگر میں اس جگہ صرف ایک مزید واقعہ کے ذکر پر اکتفا کرتا ہوں.میں اپنی گذشتہ سال کی تقریر میں بیان کر چکا ہوں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات ہوئی تو اس وقت حضور کا گھر روپے پیسے سے بالکل خالی تھا.اور حضور اپنا آخری روپیہ بھائی عبد الرحمن صاحب قادیانی کے ذریعہ اس گاڑی بان کو دے چکے تھے جس کی گاڑی میں حضور وفات سے قبل شام کے وقت ئیر کے لئے تشریف لے گئے تھے (در منثور روایت نمبر ۲۹ ).اس کے بعد اچانک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوگئی اور حضور کا یہ الہام پورا ہوا کہ الرَّحِيْلُ ثُمَّ الرَّحِيْلُ - یعنی ” اب کوچ کا وقت آ گیا ہے.کوچ کا وقت آگیا ہے“ اور اس کے ساتھ ہی یہ الہام بھی ہوا کہ ڈرومت مومنو! یعنی اے احمد یو! ہمارے مسیح کی وفات سے جماعت کو طبعاً سخت دھنگا پہنچےگا مگر تم ڈرنا نہیں اور خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط رکھنا پھر انشاء اللہ سب خیر ہے.

Page 230

۲۲۶ اس کے بعد جب ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو صبح دس بجے کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات ہوئی تو جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اس وقت ہمارا گھر دنیوی مال وزر کے لحاظ سے بالکل خالی تھا.ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ کی روایت ہے (اور یہ بات مجھے خود بھی مجمل طور پر یاد ہے ) کہ ہماری اماں جان یعنی حضرت امّم المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے اس وقت یا اس کے تھوڑی دیر بعد اپنے بچوں کو جمع کیا اور صبر کی تلقین کرتے ہوئے انہیں ان نہ بھولنے والے الفاظ میں نصیحت فرمائی کہ بچو! گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ گئے.انہوں نے آسمان پر تمہارے لئے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا.“ (روایات نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ) یہ کوئی معمولی رسی تسلی نہیں تھی جو انتہائی پریشانی کے وقت میں نم رسیدہ بچوں کو ان کی والدہ کی طرف سے دی گئی بلکہ یہ ایک خدائی آواز اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شاندار الہام کی گونج تھی کہ آليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ.یعنی ” کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ؟ اور پھر اس وقت سے لیکر آج تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں نے ہمارا اس طرح ساتھ دیا ہے اور اللہ کا فضل اس طرح ہمارے شاملِ حال رہا ہے کہ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہر بال ہو جائے سخن ور تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس رنگ میں ہماری دستگیری فرمائی ہے اس کی

Page 231

۲۲۷ مثال ملنی مشکل ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نسل اور تقویٰ اور اخلاص اور خدمتِ دین کے مقام پر قائم رہے گی تو حضور کی دردمندانہ دعا ئیں جن کا ایک بہت بھاری خزانہ آسمان پر جمع ہے قیامت تک ہمارا ساتھ دیتی چلی جائیں گی.اپنے بچوں کی آمینوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خصوصیت کے ساتھ اپنی اولاد کے لئے اس درد و سوز اور اس آہ و زاری کے ساتھ دعائیں کیں ہیں کہ میں جب بھی انہیں پڑھتا ہوں تو اپنے نفس میں شرمندہ ہو کر خیال کرتا ہوں کہ شاید ہماری کمزوریاں تو ان دعاؤں اور ان بشارتوں کی حقدار نہ ہوں مگر پھر کہتا ہوں کہ خدا کی دین کو کون روک سکتا ہے؟ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس عجیب وغریب شعر کو یاد کرتا ہوں کہ تیرے اے میرے مربی! کیا عجائب کام ہیں گرچہ بھا گئیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار خدا کرے کہ ہم ہمیشہ نیکی اور دینداری کے رستہ پر قائم رہیں اور جب دنیا سے ہماری واپسی کا وقت آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا کی روحیں ہمیں دیکھ کر خوش ہوں کہ ہمارے بچوں نے ہمارے بعد اپنے آسمانی آقا کا دامن نہیں چھوڑا.دوستوں سے بھی میری یہی درخواست ہے کہ جہاں وہ اپنی اولاد کے لئے دین و دنیا کی بہتری کی دعا کریں ( اور کوئی احمدی کسی حالت میں بھی اس دعا کی طرف سے غافل نہیں رہنا چاہیئے ) وہاں وہ ہمارے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ صدق وسداد پر قائم رکھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان دعاؤں کو جو حضور نے اپنی اولاد کے لئے فرمائی ہیں اور نیز ان دعاؤں کو جو حضور

Page 232

۲۲۸ نے اپنی جماعت کے متعلق فرمائی ہیں اور پھر ان بشارتوں کو جو خدا کی طرف سے حضور کو اپنی اولا د اور اپنی جماعت کے متعلق ملی ہیں بصورت احسن پورا فرمائے اور ہماری کوئی کمزوری ان خدائی بشارتوں کے پورا ہونے میں روک نہ بنے اور ہم سب خدا کے حضور سرخرو ہوں.اُمِيْن يَا أَرْحَمَ الرّاحِمین.(۲۱) میں نے ابھی ابھی بیان کیا ہے کہ اگر جماعت احمد یہ ایمان اور اخلاص اور قربانی کے مقام پر قائم رہے تو وہ خدا کے فضل سے ان تمام بشارتوں سے حصہ پائے گی جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی خاص وحی کے ذریعہ جماعت کی آئندہ ترقی کے متعلق دی ہیں.بے شک خدائی سنت کے مطابق درمیان میں بہت سے ابتلاء آئیں گے اور کئی قسم کے فتنے سر اٹھا ئیں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑی تحدی کے ساتھ فرماتے ہیں کہ جولوگ آخر تک صبر اور استقلال سے کام لیں گے اور اپنی وفاداری میں کوئی رخنہ پیدا نہیں ہونے دیں گے وہ خدا کے فضل سے بالآخر کامیاب اور غالب ہوں گے اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی چنانچہ میں اس جگہ حضور کے رسالہ الوصیۃ سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں دوست غور سے سنیں کہ یہ الفاظ ایک طرح سے حضور کے آخری الفاظ ہیں جو جماعت کے لئے وصیت کے رنگ میں لکھے گئے.حضور لکھتے ہیں خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک

Page 233

۲۲۹ دوسروں پر غلبہ دوں گا سوضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی و عدہ کا دن ہے وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اُس نے وعدہ فرمایا...ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے....وہی میرا خدا تمہارا خدا ہے.پس اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو.اگر تم پورے طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو میں خدا کی منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم برگزیدہ ہو جاؤ گے....یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ پیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے....مگر وہ سب لوگ جوا خیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں جنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے.66 (رساله الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۵ تا ۳۰۹)

Page 234

۲۳۰ دوستو اور عزیزو! آپ نے حضرت مسیح موعود کی وصیت والے کلام کا اقتباس من لیا.اب اس پر عمل کرنا اور اس کی روح پر قائم رہنا ہم سب کا مشترکہ کام ہے.خدا کرے کہ ہم اس ذمہ داری کو ایسے رنگ میں ادا کرنے کی توفیق پائیں جو قیامت کے دن خدا کی رضا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سرخروئی کا موجب ہو.اور ہماری ناچیز کوششوں میں خدا ایسی فوق العادت برکت ڈالے کہ ان کے ذریعہ اسلام کو پھر وہ شان و شوکت اور وہ چمک دمک اور وہ غلبہ اور سر بلندی حاصل ہو جائے جو اسے پہلے زمانے میں حاصل ہوئی تھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کرتا کہ ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے دور میں آگے ہی آگے اٹھتا چلا جائے.اور خدا کا یہ فرمان کامل آب و تاب کے ساتھ پورا ہو کہ لَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأَوْلى أَمِين يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ - وَأَخِرُ دَعْوَانَا آنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - اسلام اور احمدیت کا ادنیٰ خادم خاکسار مرزا بشیر احمد ربوہ ۲۷ / دسمبر ۱۹۶۱ء

Page 235

آئینہ جمال

Page 236

Page 237

۲۳۳ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْد أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ وَبَارِك وَسَلِّمُ.دوستو! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ مجھے اس سال پھر ذکرِ حبیب یعنی حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کے خاص خاص حالات اور نشانات اور اخلاق فاضلہ کے مضمون پر تقریر کرنے کے لئے کہا گیا ہے.اس سے قبل اسی مضمون پر خدا کے فضل سے میری تعین تقریریں ہو چکی ہیں.پہلی تقریر ۱۹۵۹ء کے جلسہ سالانہ میں ہوئی تھی جو کے نام سے چھپ چکی ہے اور انگریزی میں بھی اس کا ترجمہ ہو چکا ہے اس تقریر کا مرکزی نقطہ محبت الہی اور عشق رسول تھا.خدا کے فضل سے یہ تقریر جماعت کے دوستوں اور غیر از جماعت اصحاب میں یکساں مقبول ہوئی کیونکہ اس کے لفظ لفظ میں حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کی عاشقی شان ہویدا ہے.دوسری تقریر ۱۹۶۰ء کے جلسہ سالانہ میں ہوئی تھی جو در منثور کے نام سے چھپ چکی ہے اور بہت دلچسپ اور دلکش روایات اور بعض نئی

Page 238

۲۳۴ تحقیقاتوں پر مشتمل ہے اور انگریزی میں بھی اس کا ترجمہ ہوکر بیرونی ممالک میں پہنچ چکا ہے.یہ تقریر بھی خدا کے فضل سے پہلی تقریر کی طرح بہت مقبول ہوئی اور اپنوں اور بیگانوں دونوں نے اسے پسند کیا.تیسری تقریر ۱۹۶۱ء کے جلسہ سالانہ میں ہوئی جو در مکنون کے نام سے چھپی ہے اور انگریزی میں بھی اس کا ترجمہ ہو چکا ہے اور یہ انگریزی ترجمہ انشاء اللہ بہت جلد رسالہ کی صورت میں شائع ہو جائے گا.اس تقریر میں زیادہ تر حضرت مسیح موعود کے معجزات اور حضور کے ہاتھ پر غلبہ اسلام اور دعاؤں کی قبولیت کا ذکر ہے اور الحمد للہ کہ یہ تقریر بھی خدا کے فضل سے مقبول ہوئی اور میں امید کرتا ہوں کہ میرا آسمانی آقا مجھے ان تقریروں کے ثواب سے نوازے گا اور جماعت کے لئے بھی انہیں برکت و رحمت کا موجب بنائے گا.موجودہ تقریر اس سلسلہ کی چوتھی تقریر ہے.میں نے اس تقریر کا نام ” آئینہ جمال رکھا ہے.کیونکہ میرا ارادہ ہے کہ اس میں زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کی جمالی شان اور اس کے مختلف پہلوؤں کے متعلق کچھ بیان کروں.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيمٍ - عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ -

Page 239

۲۳۵ (1) جیسا کہ سب لوگ جانتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کا مرکزی نقطہ مہدویت اور مسیحیت کے دعوئی کے اردگرد گھومتا ہے.آپ نے خدا سے الہام پا کر دعوی کیا کہ اسلام میں جس مہدی کے ظہور کا آخری زمانہ میں وعدہ دیا گیا تھا وہ خدا کے فضل سے میں ہی ہوں اور اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ اس زمانہ میں اسلام کو دوبارہ غلبہ عطا کرے گا اور دنیا میں اسلام کا سورج پھر اسی آب و تاب کے ساتھ چمکے گا جیسا کہ وہ اپنے ابتدائی دور میں چمک چکا ہے.آپ نے اس دعویٰ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ دراصل اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دو بعثتیں مقرر کر رکھی تھیں.ایک بعثت اسلام کے دور اول کے ساتھ مخصوص تھی جو جلالی رنگ میں ظاہر ہوئی اور محمدیت کی شان کی مظہر تھی.اور دوسری بعثت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جمالی نام احمد کے ساتھ وابستہ تھی آخری زمانہ میں حضور سرور کائنات کے ایک خادم اور نائب کے ذریعہ مقدر تھی.یہی وہ بعثت ہے جس کی طرف قرآنِ مجید کی سورۃ جمعہ میں آیت أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے.” یعنی آخری زمانہ میں ایک جماعت ظاہر ہوگی جس کی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ایک بروز اور نائب کے ذریعہ تربیت فرمائیں گے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ جب کے نام مرزا غلام احمد - ولادت فروری ۱۸۳۵ء.وفات مئی ۱۹۰۸ء

Page 240

۲۳۶ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آخَرِينَ مِنْهُم والی آیت نازل ہوئی تو صحابہ کے دریافت کرنے پر کہ یا رسول اللہ ! یہ آخَرِينَ مِنْهُمْ کی جماعت کون ہے؟ آپ نے اپنے صحابی حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان دنیا سے اُٹھ کر ثریا کے دور دراز ستارے پر بھی چلا گیا تو 66 پھر بھی ان اہل فارس میں سے ایک شخص اُسے دوبارہ دنیا میں اتار لائے گا.“ (بخاری کتاب التفسير تفسير سورة جمعة) سو اس زمانہ میں جو لا ریب اخرین کا زمانہ ہے اللہ تعالیٰ نے مقدر کر رکھا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ نفسی ) کے احمد نام کی جمالی شان حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ جو نسلی لحاظ سے فارسی الاصل تھے دنیا میں ظاہر ہو اور اسلام اپنے وسطی دور کی کمزوری کے بعد پھر غیر معمولی ترقی اور عالمگیر غلبہ کی طرف قدم بڑھانا شروع کر دے.چنانچہ جماعت احمدیہ کے وسیع فاتحانہ تبلیغی نظام کے ذریعہ جس نے خدا کے فضل سے ساری دنیا کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے اس غلبہ کا بیج بویا جا چکا ہے.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے خدا سے علم پا کر لکھا ہے اب یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور پھلے گا اور کوئی نہیں جو اسے روک سکے.یہی وہ مقامِ مہدویت ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حدیث میں بڑی تحدی کے ساتھ فرماتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر دنیا کی زندگی میں صرف ایک دن بھی باقی ہوگا تو تب بھی خدا اس دن کو لمبا کر دے گا تاوقتیکہ وہ اس شخص کو مبعوث کر دے جو میرے اہل یعنی

Page 241

۲۳۷ میرے عزیزوں میں سے ہوگا اور اس کا نام میرے نام کے مطابق ہوگا اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام کے مطابق ہوگا ( یہ استعارہ کے رنگ میں کامل موافقت کی طرف اشارہ ہے ) اور وہ ظاہر ہوکر اپنے نورِ ہدایت کے ذریعہ دُنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا.حالانکہ وہ اس سے پہلے ظلم وجور سے بھری ہوئی ہوگی.“ (ابو داؤد کتاب الفتن اول كتاب المهدى ) یہ خیال کہ اسلام میں ایک خونی مہدی کی پیشگوئی کی گئی ہے جو اسلام کو دنیا میں جبر کے ساتھ پھیلائے گا بالکل باطل اور بے بنیاد ہے.اسلام میں کوئی ایسی پیشگوئی نہیں.یہ سب کو نہ بین لوگوں کے سطحی خیالات ہیں کہ استعارے کے کلام کو حقیقت پر محمول کر لیا گیا ہے.اس کے لئے بے شمار قرآنی صراحتوں کے علاوہ صرف یہی عقلی دلیل کافی ہے کہ جبر کے نتیجہ میں اخلاص کے بجائے نفاق پیدا ہوتا ہے یعنی یہ کہ دل میں کچھ ہو اور ظاہر کچھ اور کیا جائے اور اسلام سے بڑھ کر نفاق کا کوئی دشمن نہیں.قرآن تو یہاں تک فرماتا ہے کہ ”منافق لوگ قیامت کے دن جہنم کے بدترین حصہ میں ڈالیں جائیں گے.“ (٢) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دوسرا بنیادی دعوی مسیحیت کا دعویٰ ہے یعنی آپ نے اُس مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا جس کی خدا تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور آنحضرت

Page 242

۲۳۸ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں امت محمدیہ کے لئے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں مسلمانوں میں مسیح ناصری کا ایک مثیل ایسے وقت میں ظاہر ہوگا جبکہ دنیا میں مسیحیت کا بڑا زور ہوگا اور نصرانیت تمام اکناف عالم میں غلبہ پاکر اپنے مشرکانہ عقائد اور مادی نظریات کا زہر پھیلا رہی ہوگی.امت محمدیہ کا یہ مسیح اسلام کی طرف سے ہو کر مسیحیت کے باطل عقائد کا مقابلہ کرے گا اور اپنے روشن دلائل اور روحانی طاقتوں کے ذریعہ مسیحیت کے غلبہ کو توڑ دے گا.چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ خدا ضرور ضرور اسی طرح مسلمانوں میں خلفاء بنائے گا جس طرح کہ اس نے اس سے پہلے (موسیٰ کی امت میں ) خلفاء بنائے اور ان خلفاء کے ذریعہ خدا اپنے دین کی حفاظت فرمائے گا اور (دین کے میدان میں ) مسلمانوں کی خوف کی حالت کو امن کی حالت سے بدل دے گا.“ ( قرآن مجید.سورۂ نور ) اسی طرح حدیث میں ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم تفصیل اور تشریح سے فرماتے ہیں.دوست غور سے سنیں کہ کس شان سے فرماتے ہیں کہ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں ضرور ضر ور مسیح ابن مریم اس شان سے کہ (گویا وہ آسمان سے اُتر رہا ہے ) جو حکم و عدل بن کر تمہارے اختلافات کا فیصلہ کرے گا اور وہ مسیحیت کے زور کے وقت میں ظاہر ہو کر صلیبی مذہب کی شوکت کو توڑ کر رکھ دے گا.“ (صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی )

Page 243

۲۳۹ حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ نے خدا سے الہام پا کر دعویٰ کیا کہ میں وہی مهدی اور وہی مسیح ہوں جس کے ہاتھ پر بالآخر اسلام کا غلبہ اور مسلمانوں کی ترقی اور مسیحیت کی شکست مقدر ہے.اور دراصل غور کیا جائے تو مہدویت اور مسیحیت کے دعوے حقیقتہ ایک ہی ہیں.کیونکہ وہ ایک دعوے کی دوشاخیں ہیں.صرف دو جہتوں کی وجہ سے انہیں دو مختلف نام دے دیئے گئے ہیں.اسی لئے ان دونوں پیشگوئیوں میں حالات بھی ایک جیسے بیان کئے گئے ہیں.مہدی ہونے کے لحاظ سے آنے والے کے ہاتھ پر اسلام کی تجدید مقدر تھی اور ازل سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ جب آخری زمانہ میں مسلمانوں میں تنزل کے آثار پیدا ہوں گے اور مسلمانوں کے عقائد میں فتور آجائے گا تو اس وقت اس امت کا مہدی ظاہر ہوکر مسلمانوں کے بگڑے ہوئے عقائد کی اصلاح کرے گا اور مسلمانوں کو اپنے آسمانی علم کلام اور باطنی نور ہدایت اور خدا داد روحانیت کے زور سے بلندی کی طرف اٹھاتا چلا جائے گا.دوسری طرف مسیح ہونے کے لحاظ سے آنے والے مصلح کا یہ کام تھا کہ وہ مسیحیت کے غلبہ کے وقت ظاہر ہو کر صلیب کے زور کو توڑ دے اور اسلام کو پھر اس کے دور اول کی طرح دنیا میں غالب کر دے.سو دراصل یہ دونوں نام ایک ہی مصلح کو دیئے گئے ہیں اسی لئے ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں صاف طور پر فرماتے ہیں کہ لَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى (سنن ابن ماجه کتاب الفتن بابُ الصَّبْرِ عَلَى الْبَلَاءِ )

Page 244

۲۴۰ یعنی اے مسلمانو! سُن لو کہ آنے والے عیسی کے سوا کوئی اور مہدی موعود نہیں ہے.“ (۳) جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں در حقیقت یہ دونوں نام جمالی صفات کے مظہر ہیں اور ضروری تھا کہ ایسا ہی ہوتا کیونکہ موجودہ زمانہ میں کسی قوم کی طرف سے مسلمانوں پر دین کے معاملہ میں جبر نہیں کیا جاتا اور ظاہر ہے کہ امن کی حالت میں جبکہ دین کے معاملہ میں کسی غیر قوم کی طرف سے مسلمانوں پر جبر نہ کیا جارہا ہو جبر سے کام لینا قرآن مجید کی صریح ہدایت لا إكراه في اللينين ( یعنی دین کے معاملہ میں ہرگز کوئی جبر نہیں ہونا چاہیئے ) کے قطعی طور پر خلاف ہے بلکہ یہ ایک انتہائی ظلم و تعدی کا فعل ہے جس کی اسلام کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دیتا.حضرت مسیح ناصری حضرت موسیٰ“ کے بعد جن کے وہ خلیفہ تھے اور موسوی شریعت کے پابند تھے چودہ سوسال بعد جمالی رنگ میں مبعوث ہوئے اور یہودی لوگ اپنے زعم باطل میں جھوٹی امیدیں لگا کر ایلیا نبی کے نزول کے لئے جس کا ان کو وعدہ دیا گیا تھا ( ملا کی باب ۴ آیت ۵ ومتی باب ۱۱ آیت ۱۵) آسمان کی طرف دیکھتے رہ گئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمد یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چودہ سو سال بعد عوام کی توقع کے خلاف آسمان سے نازل ہونے کی بجائے زمین سے ظاہر ہوئے.اور جس طرح حضرت مسیح

Page 245

۲۴۱ ناصری نے امن کے ماحول میں جمالی رنگ میں اپنے دین کی خدمت کی اسی طرح مقدر تھا کہ مسیح محمدی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں رہتے ہوئے جمالی رنگ میں جنگ وجدال کے بغیر اسلام کی خدمت کرے گا اور اپنے قولی اور قلمی جہاد اور روحانی نشانوں کے ذریعہ دنیا پر ثابت کر دے گا کہ اسلام ایسا پیارا اور دلکش اور ایسا مدلل مذہب ہے کہ اس کی اشاعت کے لئے ہرگز ہرگز کسی جبر و تشدد کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ اپنی بعثت کی غرض و غایت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.دوست غور سے سنیں ” خدا نے اس رسول کو یعنی کامل مسجد کو اس لئے بھیجا ہے کہ تا خدا اس زمانہ میں یہ ثابت کر کے دکھلا دے کہ اسلام کے مقابل پر سب دین اور تمام تعلیمیں ہیچ ہیں.اور اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو تمام دینوں پر ہر ایک برکت اور دقیقہ معرفت اور آسمانی نشانوں میں غالب ہے.یہ خدا کا ارادہ ہے کہ اس رسول کے ہاتھ پر اسلام کی چمک دکھلاوے.کون ہے جو خدا کے اِرادوں کو بدل سکے.خدا نے مسلمانوں کو اور ان کے دین کو اس زمانہ میں مظلوم پایا.اور وہ آیا ہے کہ تا ان کمز ور لوگوں اور ان کے دین کی مدد کرے....اور وہ ہر چیز پر قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے(خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ ) اپنی قوت اور امنگ کے ساتھ زمین پر چل یعنی لوگوں پر ظاہر ہو کہ تیرا وقت آ گیا.اور تیرے وجود سے مسلمانوں کا قدم ایک محکم اور بلند مینار پر جا پڑا ہے.محمدی غالب ہو گئے.وہی محمد جو پاک اور برگزیدہ اور

Page 246

۲۴۲ نبیوں کا سردار ہے.خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا.وہ (خدا) جو فوجوں کا مالک ہے وہ اس طرف توجہ کرے گا اور آسمان سے تیری بڑی مدد کی جائے گی.“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۲۶۶ ۲۶۷) (۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پر زور علم کلام اور زبردست خدائی نشانات اور روحانی تعلیم و تلقین کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر آخَرِينَ مِنْهُمْ کی جماعت قائم کی اور آپ کی اس جماعت نے خدا کے فضل سے اپنی غیر معمولی جدو جہد اور اپنی پر امن تبلیغ اور اپنے وسیع لٹریچر اور اپنی بے نظیر مالی قربانی کے ذریعہ دنیا میں اسلام کی عالمگیر تبلیغ کا عظیم الشان نظام قائم کر رکھا ہے.اور باوجود اس کے کہ یہ جماعت ابھی تک اپنی تعداد اور اپنی مالی طاقت اور اپنے دیگر ذرائع کے لحاظ سے بے حد کمزور ہے اور دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ پر گویا آئے میں نمک کے برابر بھی نہیں اس کے مبلغ دنیا کے دور دراز ممالک میں پہنچ کر اسلام کا جھنڈا بلند کرنے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا بول بالا کرنے میں دن رات لگے ہوئے ہیں حتی کہ اس وقت پاکستان اور ہندوستان کو چھوڑ کر جماعتِ احمد یہ کا ایک سو سے زائد مبلغ ایسا ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں اسلام کی تبلیغ کا کام

Page 247

۲۴۳ سرانجام دے رہا ہے اور دنیا کی ہر قوم کے سنجیدہ طبقہ میں اسلام کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے.اور یورپ اور امریکہ کے جو لوگ آج سے چالیس پچاس سال پہلے اسلام کی ہر بات کو شک اور اعتراض کی نظر سے دیکھتے تھے اب خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور روحانی توجہ کے طفیل ایسا تغیر پیدا ہوا ہے کہ وہی لوگ اسلام کی تعلیم کو تعریف اور قدر شناسی کی نظر سے دیکھنے لگ گئے ہیں اور اسلام کا جھنڈا چارا کناف عالم میں اپنے نظریاتی اثر و رسوخ کے لحاظ سے بلند سے بلند تر ہوتا چلا جارہا ہے.بے شک ابھی یہ ترقی الہی سنت کے مطابق صرف ایک پیج کے طور پر ہے مگر اس بیج کی اٹھان ایسی ہے کہ اہلِ عقل و دانش کی دور بین نگاہیں اس میں ایک عظیم الشان درخت کا نظارہ دیکھ رہی ہیں.اور میسحیت جس نے اس سے پہلے گویا دنیا کی اجارہ داری سنبھال رکھی تھی اب اسلام کے مقابل پر برابر پسپا ہوتی چلی جارہی ہے.چنانچہ براعظم افریقہ کے متعلق جو حضرت مسیح ناصری کے مٹادوں کا تازہ قلعہ بن رہا تھا.بعض مسیحی مبصروں نے برملا تسلیم کیا ہے کہ اگرا افریقہ میں مسیحیت ایک انسان کو کھینچتی ہے تو اس کے مقابل اسلام دس لوگوں کو کھینچ کر لے جاتا ہے.“ ( ورلڈ کرسچن ڈائجسٹ جون ۱۹۶۱ء) ی محض خدا کا فضل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانی توجہ اور درد بھری دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ اس وقت جماعت احمدیہ کی حقیر کوششوں سے پاکستان اور ہندوستان کو چھوڑ کر صرف یورپ اور امریکہ اور افریقہ اور ایشیا کے بنتیں مختلف ملکوں

Page 248

۲۴۴ ۶۸ میں اسلام کے چونسٹھ تبلیغی مراکز قائم ہو چکے ہیں جن میں ایک سو اٹھارہ احمدی مبلغ دن رات اسلام کی تبلیغ میں لگے ہوئے ہیں.ان میں سے اڑسٹھ پاکستانی ہیں جو مرکز کی طرف سے بھجوائے گئے ہیں اور پچاس ایسے ہیں جن کو لوکل طور پر تبلیغ کے کام میں لگایا گیا ہے.اور یہ لوگ بھاڑے کے ٹو نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دلی ذوق و شوق سے دینی تعلیم حاصل کر کے اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کر رکھی ہیں اور یہ لوگ إِلَّا مَا شَاءَ اللہ خدا کے فضل سے رینیون کی مقدس جماعت میں داخل ہیں جن کی قرآن مجید خاص طور پر تعریف فرماتا ہے.یہی تیز رفتاری خدا کے فضل سے دیگر سامانِ جہاد کی تیاری میں نظر آتی ہے چنانچہ اس وقت تک جماعتِ احمدیہ کی کوشش سے خدائے واحد کی عبادت کے لئے مختلف بیرونی ملکوں میں گزشتہ چند سالوں میں دو سو نوے مسجد میں تعمیر ہو چکی ہیں.اسی طرح یورپ اور امریکہ اور افریقہ میں جماعت احمدیہ کی قائم کردہ نئی درسگاہوں کی تعداد چوالیس ہے اور جماعت کی طرف سے بیرونی ملکوں میں شائع ہونے والے تبلیغی اخباروں اور رسالوں کی تعدادا نہیں ہے جو پاکستانی اور ہندوستانی اخباروں کے علاوہ ہے اور قرآن مجید کے جو ترجمے اس وقت تک یورپین....اور افریقن زبانوں میں جماعتِ احمدیہ کی طرف سے تیار کئے جاچکے ہیں ان کی تعداد گیارہ ہے جن میں سے پانچ چھپ چکے ہیں اور بقیہ کے چھپنے کا انتظام کیا جارہا ہے.اور دیگر کثیر التعداد دینی لٹریچر اس کے علاوہ ہے.اور خدا کے فضل سے یہ سلسلہ دن بدن وسیع ہوتا جارہا ہے اور ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا سے علم پا کر فرماتے ہیں کہ

Page 249

۲۴۵ ”اے تمام لو گوشن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامرا در کھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی......یادرکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا.ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا.اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اُترا.تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے.اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک

Page 250

۲۴۶ تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے.“ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۶، ۶۷) یہ عظیم الشان نتائج خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود کی دردمندانہ دعاؤں اور جماعت احمدیہ کی دن رات کی والہانہ تبلیغ اور اسلام کے لئے ان کی مخلصانہ کوششوں اور قربانیوں کے نتیجہ میں پیدا ہور ہے ہیں اور پیدا ہوتے چلے جائیں گے تاوقتیکہ اسلام کے کامل غلبہ کا دن آ جائے اور دنیا پر ظاہر ہو جائے کہ فتح و ظفر کی کلید خدا کے ہاتھ میں ہے اور یہ کہ اسلام کو اپنی اشاعت کے لئے کسی جبر واکراہ کی ضرورت نہیں بلکہ وہ اپنے غیر معمولی حسن و جمال اور اپنی زبر دست روحانی قوت اور مسیح محمدی کی بے نظیر جمالی کشش کے زور سے دنیا کو فتح کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور اسی آئینہ جمال کو میں انشاء اللہ اپنے اس مضمون میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيمِ - (۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ ۱۳ رفروری ۱۸۳۵ء کو جمعہ کے دن قادیان میں پیدا ہوئے.یہ سکھوں کا زمانہ اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کے آخری ایام تھے.اس کے بعد ۱۸۷۶ء میں آپ کے والد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کی وفات ہوئی.اور گو اس سے پہلے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر وحی و

Page 251

۲۴۷ الہام کے نزول کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا لیکن اس وقت سے تو گویا خدائی رحمت کی تیز بارش مسلسل برسنی شروع ہوگئی اور والد کا سایہ اٹھتے ہی خدائی نصرت نے آپ کا ہاتھ مضبوطی کے ساتھ تھام لیا.اس کے بعد مارچ ۱۸۸۲ء میں حضرت مسیح موعود کو ماموریت کا پہلا الہام ہوا ( براہین احمدیہ حصہ سوم ص ۲۳۸) جو اس عظیم الشان روحانی جہاد کا آغاز تھا جو آدم سے لے کر آج تک ہر مرسل یزدانی کے زمانہ میں ہوتا چلا آیا ہے لیکن اب تک بھی حضور نے بیعت کا سلسلہ شروع نہیں کیا تھا اور نہ ہی جماعت احمدیہ کی بنیاد قائم کی گئی تھی.جماعت کی بنیاد بالآخر خدائی حکم کے ماتحت ۱۸۸۹ء کے ابتداء میں آکر قائم ہوئی اور گویا خدائی خدمت گاروں کی باقاعدہ فوج بھرتی ہونی شروع ہوگئی.اس کے جلد بعد ہی حضور نے خدا سے الہام پا کر مسیح موعود اور مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا جس پر چاروں طرف سے مخالفت کا ایسا طوفان اٹھا کہ الْحَفِيظ وَ الْأَمَانِ.اور یہ مخالفت آپ کی تاریخ وفات تک جو ۱۹۰۸ء میں ہوئی برابر تیزی کے ساتھ بڑھتی چلی گئی اور ہر قوم آپ کی مخالفت میں حصہ لینے کو فخر سمجھنے لگی اور جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے خدا کی یہ از لی سنت پوری ہوئی کہ کوئی خدائی مصلح ایسا نہیں آتا جس کا انکار نہ کیا جاتا ہو اور اسے بنی ، مذاق اور طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنایا جاتا ہو.(سورہ انیس آیت ۳۱) ماموریت کے الہام کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کچھ اوپر چھبیس سال زندہ رہے اور بیعت کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد آپ نے اس دنیا میں قریباً ہمیں سال گزارے جو قمری حساب سے قریباً اکیس سال کا زمانہ بنتا ہے اور یہ طویل زمانہ

Page 252

۲۴۸ ایک طرف مخالفت کی انتہائی شدت اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود کی جمالی صفات کی غیر معمولی شان کے ظہور میں گزرا.جیسا کہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح حضرت مسیح موعود کے بعض قریبی رشتہ داروں نے بھی آپ کی مخالفت کی.آپ کی بستی والوں نے بھی مخالفت کی.شہروں کے باشندوں نے بھی مخالفت کی.دیہات کے رہنے والوں نے بھی مخالفت کی.امیروں نے بھی مخالفت کی.غریبوں نے بھی مخالفت کی.مولویوں نے بھی مخالفت کی اور انگریزی خوانوں نے بھی مخالفت کی پھر مسلمانوں نے بھی مخالفت کی اور عیسائیوں نے بھی مخالفت کی اور ہندوؤں نے بھی مخالفت کی اور آزاد خیال لوگوں نے بھی مخالفت کی اور ہر طبقہ اور ہر ملت نے مخالفت کے ناپاک خون میں اپنے ہاتھ رنگے.لیکن ہر مخالفت کے وقت آپ کی جمالی صفات زیادہ آب و تاب کے ساتھ چمکیں اور دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ چودھویں رات کا روحانی چاند جس نے عرب کے سراج منیر سے نور حاصل کیا تھا ایسا نہیں کہ اس کی روشنی کسی عارضی سایہ سے متاثر ہوکر مدھم پڑ جائے.چنانچہ آپ آہستہ آہستہ ہر طبقہ اور ہر فرقہ اور ہر مکتب خیال میں سے سعید الفطرت لوگوں کو کھینچتے چلے گئے حتیٰ کہ آپ کی وفات کے وقت چار لاکھ فدائی آپ کے روحانی حسن و جمال پر فریفتہ ہو کر آپ کے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو چکے تھے.چونکہ ہر خوبی اور ہر حسن کا منبع خدا کی ذاتِ والا صفات ہے اس لئے جمالی صفات کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کے حسن و جمال کی مثال دیتے ہوئے اپنے ایک لطیف شعر میں فرماتے ہیں

Page 253

۲۴۹ چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۵۲) د یعنی چودھویں کے چاند کے حسن اور دلکشی اور دار بائی اور ٹھنڈک اور اس کی مسحور کر دینے والی تاثیر کو دیکھ کر میں کل رات بالکل بے چین ہو گیا کیونکہ اس میں میرے آسمانی معشوق اور خالقِ فطرت کے حسن و جمال کی 66 کچھ کچھ جھلک نظر آتی تھی.“ اسی نظم میں آگے چل کر آپ خدا کے عشق میں متوالے ہو کر فرماتے ہیں ایک دم بھی کل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا جاں گھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا شور کیسا ہے ترے کوچہ میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا (1) حق یہ ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز کے حسن و جمال کا منبع صرف اور صرف خدا کی ذاتِ والا صفات ہے.وہی دنیا کی چیزوں کو جمال کی دلکشی عطا کرتا ہے اور وہی ہے جو ان کو جلال کی شان وشوکت سے زینت بخشتا ہے.ایک میں سورج کی روشنی کی

Page 254

۲۵۰ طرح آنکھوں کو خیرہ کرنے والی تیزی ہے جس کی حدت اور رعب کی وجہ سے کسی کی مجال نہیں کہ اس کو طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے.اور دوسرے میں چاند کی سی ٹھنڈک اور دلر بائی ہے جو دیکھنے والے کو مسحور کر کے رکھ دیتی ہے اور خدا کی بار یک در بار یک حکمت نے نقاضہ کیا کہ اپنے رسولوں اور نبیوں میں بھی اسی جلال و جمال کا دور چلائے.چنانچہ باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی ایک ہی سلسلہ کے نبی تھے اور ایک ہی شریعت کے تابع تھے مگر دونوں کے زمانوں اور ان زمانوں کے الگ الگ حالات نے تقاضا کیا کہ حضرت موسیٰ کونئی شریعت کے ساتھ جلالی شان میں بھجوا یا جائے اور حضرت عیسی کو جمالی شان میں موسوی شریعت کی خدمت اور اشاعت کے لئے مبعوث کیا جائے.حضرت عیسی نے اپنی اس تابع حیثیت کو خود بھی انجیل میں بر ملاطور پر تسلیم کیا ہے.چنانچہ فرماتے ہیں یہ نہ سمجھو کہ میں توراۃ یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں.کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ( یعنی جب تک نئی روحانی زمین اور نیا روحانی آسمان پیدا نہ ہو جائے جو محمد رسول اللہ صلعم اور قرآنی شریعت کے ذریعہ پیدا ہو گیا ) ایک نقطہ یا ایک شوشہ تورات سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے.“ (متی باب ۵.آیت ۱۷ و ۱۸) جلال و جمال کا یہی لطیف دور محمدی سلسلہ میں بھی چلتا ہے چنانچہ ہمارے آقا

Page 255

۲۵۱ حضرت سرور کائنات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) جلالی شان میں ظاہر ہوئے جن کے نور نے آسمانی بجلی کی چمک کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے سارے عرب بلکہ اس وقت کی ساری معلوم دنیا کو اپنی ضیا پاش کرنوں سے اس طرح منور کر دیا کہ اقوام عالم کی آنکھیں خیرہ ہو کر رہ گئیں.مگر آپ کے خادم اور ظلن کامل مسیح محمدی آبانی سلسلہ احمدیہ نے پہلی رات کے چاند کی طرح اپنی ٹھنڈی ٹھنڈی کرنوں کے ساتھ طلوع کیا اور اب آہستہ آہستہ بدر کامل بنتے ہوئے دنیا کے کناروں تک دیکھنے والوں کی آنکھوں پر جادو کرتا چلا جارہا ہے.الہی سلسلوں میں جلال و جمال کا نظام خدا تعالیٰ کی عجیب وغریب حکمت پر مبنی ہے جب خدا نے کسی نئی شریعت کے نزول کے ذریعہ دنیا میں کوئی نیا سلسلہ قائم کرنا ہوتا ہے تو اس وقت اس کی سنت یہ ہے کہ وہ کسی جلالی مصلح کو مبعوث فرماتا ہے جو اپنی پختہ تنظیم اور مضبوط نظم ونسق کے ذریعہ ایک نئی جماعت کی بنیا درکھ کر اسے خدا کی نازل کردہ جدید شریعت پر قائم کر دیتا ہے جس کے لئے کسی نہ کسی رنگ میں حکومت کے نظام کی ضرورت ہوتی ہے مگر جب کسی نئی شریعت کا نزول مقصود نہیں ہوتا بلکہ صرف سابقہ شریعت کی خدمت اور بگڑے ہوئے عقائد کی اصلاح اور قوم کی روحانی اور اخلاقی تربیت اصل غرض و غایت ہوتی ہے تو ایسے وقت میں جمالی مصلح مبعوث کیا جاتا ہے جو محبت اور نصیحت اور فروتنی اور تربیت اور اصلاحی پروگرام کے ذریعہ اپنا کام کرتا ہے مگر بہر حال دعاؤں اور معجزات کا سلسلہ دونوں نظاموں میں یکساں جاری رہتا ہے.کیونکہ یہی دو چیزیں ہر روحانی نظام کی جان ہیں.حضرت موسیٰ جلالی شان کے ساتھ ظاہر ہوئے اور ان کے چودہ سو سال بعد

Page 256

۲۵۲ خدائی پیشگوئی کے مطابق حضرت عیسی نے جمالی شان کے ساتھ فروتنی کے لباس میں ظہور کیا اسی طرح ہمارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ( فداہ نفسی ) جلالی شان کا جبہ زیب تن کئے ہوئے جاہ و حشمت کے ساتھ منظر عالم پر آئے اور آپ کے چودہ سو سال بعد آپ کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے شاگرد اور خادم حضرت مسیح محمدی نے اپنے سفید جھنڈے کے ساتھ جمالی شان میں آسمانِ ہدایت سے نزول کیا.و تمت كَلِمَةُ رَبَّكَ صِدْقًا وَ عَدُلًا - (<) جیسا کہ میں ابھی بیان کر چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمالی مصلح تھے جو اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں مبعوث کئے گئے جس طرح کہ اسرائیلی سلسلہ میں حضرت موسیٰ کے بعد حضرت عیسی جمالی رنگ میں ظاہر ہوئے.یہ درست ہے کہ جب کسی روحانی مصلح کو جمالی یا جلالی کہا جاتا ہے تو اس سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ اس کی ہر بات جمالی یا جلالی شان رکھتی ہے بلکہ اس کی طبیعت اور اس کے طریق کار کے غالب رجحان کی وجہ سے اسے جمالی یا جلالی کا نام دیا جاتا ہے ورنہ حق یہ ہے کہ ظل اللہ یعنی خدا کے نائب ہونے کی حیثیت میں ہر روحانی مصلح میں ایک حد تک جلالی اور جمالی دونوں شانیں پائی جاتی ہیں.مگر جس مصلح میں خدائی مشیت اور زمانہ کے تقاضے کے ماتحت جلالی شان کا غلبہ ہوا سے اصطلاحی طور پر جلالی

Page 257

۲۵۳ مصلح قرار دیا جاتا ہے اور ایسے مصلح عموماًانئی شریعت کے قیام یا کسی زبر دست نئی تنظیم کے استحکام کے لئے آتے ہیں.دوسری طرف جس روحانی مصلح میں جمالی شان کا غلبہ ہوتا ہے اسے جمالی مصلح کا نام دیا جاتا ہے.گوجیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ظل اللہ یا کامل عبد ہونے کی وجہ سے اس میں بھی کبھی کبھی جلالی شان کی جھلک پیدا ہو جاتی ہے مگر اس کے مقام کا مرکزی نقطہ بہر حال جمالی رہتا ہے.جلالی اور جمالی شانوں کا یہ لطیف دور ایک حد تک خلفاء کے سلسلہ میں بھی چلتا ہے چنانچہ حضرت ابوبکر جمالی شان رکھتے تھے مگر حضرت عمر جلالی شان کے ساتھ ظاہر ہوئے.اسی طرح سلسلہ احمدیہ کے پہلے خلیفہ حضرت مولوی نور الدین صاحب جمالی خلیفہ تھے مگر جیسا کہ مصلح موعود والی پیشگوئی میں مذکور ہے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ”جلالِ الہی کے ظہور کا موجب قرار دیئے گئے.جلال اور جمال کے اس دور میں بڑی گہری حکمتیں ہیں جن کے بیان کرنے کی اس جگہ ضرورت نہیں.بہر حال چونکہ حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمد یہ مسیح ناصری کی طرح جمالی شان کے مصلح تھے اس لئے آپ کے تمام کاموں میں جمالی شان کا غلبہ نظر آتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شفقت و محبت اور پند ونصیحت اور عفو و کرم کے اس پیکر نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے احمد نام کی ظلیت میں جنم لے لیا ہے.حضرت مسیح موعود نے دنیا میں شادی بھی کی اور خدا نے آپ کو اولاد سے بھی نوازا اور آپ کو مخلص دوست بھی عطا کئے گئے اور دشمنی کرنے والوں نے بھی اپنی دشمنی کو انتہا تک پہنچادیا اور ہر رنگ میں آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور آپ کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی

Page 258

۲۵۴ گئیں اور جھوٹے مقدمات کھڑے کئے گئے اور حکومت کو آپ کے متعلق بدظن کرنے کی تدبیریں بھی کی گئیں اور آپ کے ماننے والوں کو انتہائی تکالیف کا نشانہ بھی بنایا گیا مگر آپ نے نہ صرف اپنے عزیزوں اور دوستوں اور ہمسایوں کے لئے اور نہ صرف حکومت کے لئے جس کے آپ اسلامی تعلیم کے مطابق کامل طور پر وفادار تھے بلکہ اپنے جانی دشمنوں کے لئے بھی اپنی فطری رحمت کا ثبوت دیا اور اپنی جمالی شان کا ایسے رنگ میں مظاہرہ کیا جس کی مثال نہیں ملتی.(^) میں نے اپنی ایک گزشتہ تقریر میں بیان کیا تھا کہ کس طرح کابل کے سابق حکمران امیر حبیب اللہ خان نے اپنے ملک کے ایک بہت بڑے رئیس اور پاک فطرت نیک بزرگ کو جنہوں نے اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کی تھی حضرت مسیح موعود کو قبول کرنے پر زمین میں گاڑ کر بڑی بے رحمی سے سنگسار کر دیا تھا.اور اس عاشق مسیح کی روح آخر تک یہی پکارتی رہی کہ جس صداقت کو میں نے خدا کی طرف سے حق سمجھ کر پہچان لیا ہے اسے دنیا کی ادنی زندگی کی خاطر کبھی نہیں چھوڑ سکتا.جب صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب شہید کے قتل کا حکم دینے والا امیر حبیب اللہ خان اس واقعہ کے بعد انگریزی حکومت کا مہمان بن کر ہندوستان آیا تو اخباروں میں یہ خبر چھپی کہ بعض اوقات امیر حبیب اللہ خان بوٹ پہنے ہوئے مسجد کے اندر چلا گیا اور اسی حالت

Page 259

۲۵۵ میں نماز ادا کی اس پر بعض اخباروں میں اعتراض اٹھایا گیا کہ امیر کی یہ حرکت غیر اسلامی ہے اور آداب مسجد کے خلاف ہے.اور کسی احمدی نے یہ خبر حضرت مسیح موعود کو بھی جاسنائی کہ امیر حبیب اللہ خان نے مسجد کی ہتک کی ہے اور جوتے پہن کر اندر چلا گیا ہے اور جوتوں میں ہی نماز ادا کی ہے.اس پر حضرت مسیح موعود نے اعتراض کرنے والے کو فورا ٹوک کر فرمایا کہ اس معاملہ میں امیر حق پر تھا کیونکہ جوتے پہنے ہوئے نماز پڑھنا جائز ہے.“ (اخبار بدر ۱۱ را پریل ۱۹۰۷ء) سنانے والے نے تو یہ خبر اس لئے سنائی ہوگی کہ چونکہ امیر حبیب اللہ خان احمدیت کا دشمن ہے اور اس نے ایک برگزیدہ اور پاکباز احمدی بزرگ صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب کو محض احمدیت کی وجہ سے انتہائی ظلم کے طریق پر سنگسار کرادیا ہے اس لئے غالباً حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُس کی دشمنی اور عداوت کی وجہ سے اُس کا ذکر آنے پر اُس کے متعلق ناراضگی کا اظہار فرمائیں گے مگر اس پیکرِ انصاف و صداقت نے جو اپنے جانی دشمنوں کے لئے بھی حق و انصاف کا پیغام لے کر آیا تھا سنتے ہی فرما یا کہ یہ اعتراض غلط ہے اس میں امیر کی کوئی غلطی نہیں کیونکہ جوتے پہن کر مسجد میں جانا جائز ہے 66 یہ اس وسیع رحمت کا ثبوت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاک دل میں دوستوں اور دشمنوں اور اپنوں اور بیگانوں اور چھوٹوں اور بڑوں سب کے لئے خالقِ

Page 260

۲۵۶ فطرت کی طرف سے یکساں ودیعت کی گئی تھی.(۹) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وسیع عفو و رحمت کا ایک اور دلچسپ واقعہ بھی مجھے اس جگہ یاد آ گیا.شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی جو حضرت مسیح موعود کے مشہور وقائع نگار تھے اپنی تصنیف ”حیات احمد میں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جبکہ حضرت مسیح موعود لا ہور میں قیام فرما تھے اور ایک مقامی مسجد میں فریضہ نماز ادا کر کے اپنی فرودگاہ کی طرف واپس تشریف لے جارہے تھے ایک قوی ہیکل شخص نے جوان ایام میں مہدی ہونے کا مدعی تھا اور محمد رسول اللہ کی بجائے مہدی رسول اللہ کا کلمہ پڑھتا تھا پیچھے کی طرف سے آکر حضرت مسیح موعود پر اچانک حملہ کر دیا اور حضور کو زور کے ساتھ اٹھا کر زمین پر دے مارنے کی کوشش کی.یہ بد بخت حضور کو گرا تو نہ سکا مگر ( میں نے دوسرے طریق سے سنا ہوا ہے کہ ) اس کے اچانک حملہ سے حضور کچھ ڈگمگا گئے اور حضور کا عمامہ مبارک گرتے گرتے بچا.اس پر سیالکوٹ کے ایک مخلص دوست سید امیر علی شاہ صاحب نے فورا لپک کر اس شخص کو پکڑ لیا اور اسے دھکا دے کر الگ کرتے ہوئے ارادہ کیا کہ اسے اس گستاخی اور قانون شکنی اور مجرمانہ حملہ کی سزا دیں جب حضرت مسیح موعود نے دیکھا کہ سید امیر علی شاہ صاحب اُسے مارنے لگے ہیں تو حضور نے بڑی نرمی کے ساتھ مسکراتے ہوئے فرمایا

Page 261

۲۵۷ شاہ صاحب! جانے دیں اور اسے کچھ نہ کہیں.یہ بے چارہ سمجھتا.کہ ہم نے اس کا (مہدی والا ) عہدہ سنبھال لیا ہے.“ ( حیات احمد مصنفه عرفانی صاحب جلد سوم ص ۲۱۰) شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد جب تک حضرت مسیح موعودا اپنی قیام گاہ تک نہیں پہنچ گئے حضور بار بار پیچھے کی طرف منہ کر کے دیکھتے جاتے تھے تا کہ کوئی شخص غصہ میں آکر اسے مار نہ بیٹھے اور تاکید فرماتے جاتے تھے کہ اسے کچھ نہ کہا جائے.یہ وہی وسیع عفو و رحمت اور خاص جمالی شان ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹا یا ہم نے لیکن خدائے غیور کی غیرت کا نظارہ دیکھو کہ حضرت مسیح موعود نے تو اس وحشیانہ حملہ کرنے والے کو معاف کر دیا اور اس کے ساتھ عفو ورحمت کا سلوک فرما یا مگر خدا نے اپنے محبوب مسیح کا انتقام لے لیا اور انتظام بھی ایسے رنگ میں لیا جو اسی کے شایانِ شان ہے.چنانچہ عرفانی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد اُس حملہ کرنے والے شخص کا حقیقی بھائی جس کا نام پیغمبر اسنگھ تھا احمدی ہو گیا اور اخلاص میں اتنا ترقی کر گیا کہ اس نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہو کر نہ صرف اپنے بھائی کی طرف سے معافی مانگی بلکہ اُسی شہر لاہور کی ایک مجلس میں جہاں اس کے بھائی نے خدا کے مقدس مامور کی گستاخی کی تھی حضور پر محبت اور عقیدت کے ساتھ پھول برسائے.

Page 262

۲۵۸ اُس شخص نے اپنا نام پیغمبر اسنگھے اس لئے رکھا ہوا تھا کہ احمدی ہونے سے پہلے اُس کا دعویٰ تھا کہ وہ سکھوں کا گرو یا اوتار ہے مگر جب اللہ تعالیٰ نے اُس پر حقیقت کھول دی تو اُس نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہو کر حضور کے قدموں میں اپنے دل کی راحت پائی (حیاتِ احمد جلد سوم ص ۲۱۰) یہ پیغمبر اسنگھ ایک بھاری بھر کم جسم کا انسان تھا اور احمدی ہونے کے بعد حضرت مسیح موعود کے ساتھ بڑا اخلاص رکھتا تھا اور اکثر اوقات حضور کی محبت اور تعریف میں شعر گا تا پھرتا تھا اور کبھی کبھی تبلیغ کی غرض سے حضرت بابا نانک کے چولے کی طرح کا ایک چولہ بنا کر بھی پہنا کرتا تھا.یہ اسی قسم کا لطیف خدائی انتقام ہے جیسا کہ خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن ابو جہل سے لیا تھا کہ اُس کی موت کے بعد اُس کا بیٹا عکرمہ آنحضرت کی غلامی میں داخل ہو گیا اور اسلام کی بھاری خدمات سرانجام دیتا ہوا شہید ہوا.احمدیت میں خدا کے فضل سے ایسی مثالیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں ہیں کہ باپ مخالف تھا مگر بیٹے کو احمدیت کا عاشق زار بننے کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت مسیح موعود نے تمثیلی رنگ میں کیا خوب فرمایا ہے کہ دد گه بصلحت کشند و گاه بجنگ“ ( براہین احمدیہ حصہ دوم روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۲۵) دو یعنی کبھی تو لوگ تجھے صلح کے ذریعہ شکار کرتے ہیں اور کبھی جنگ کے طریق پر مارتے ہیں.“

Page 263

۲۵۹ (1+) اسی قسم کی شفقت و رحمت کا ایک واقعہ قادیان کے ایک آریہ لالہ ملاوامل صاحب کے ساتھ بھی پیش آیا.لالہ صاحب نو جوانی کے زمانہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے مگر اپنے مذہبی اور قومی تعصب میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ حضرت مسیح موعود نے انہیں کئی دفعہ اُن خداداد نشانوں کی گواہی کے لئے بلایا جو ان کی آنکھوں کے سامنے گزرے تھے اور وہ ان کے چشم دید اور گوش شنید گواہ تھے مگر وہ ہمیشہ مذہبی تعصب کی وجہ سے شہادت دینے سے گریز کرتے رہے.ایک دفعہ یہی ملا وامل صاحب دق کے مرض میں مبتلا ہو گئے اور حالت بالکل مایوسی اور نا امیدی کی ہو گئی.اس پر وہ ایک دن بے چین ہو کر حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی حالتِ زار بتا کر بہت روئے اور باوجود مخالف ہونے کے اُس اثر کی وجہ سے جو حضرت مسیح موعود کی نیکی کے متعلق ان کے دل میں تھا حضور سے عاجزی کے ساتھ دعا کی درخواست کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کی یہ حالت دیکھ کر رحم آگیا اور آپ کا دل بھر آیا اور آپ نے ان کے لئے خاص توجہ سے دعا فرمائی جس پر آپ کو خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا د یعنی اے بیماری کی آگ تو اس نوجوان پر ٹھنڈی ہوجا اور اس کے

Page 264

لئے حفاظت اور سلامتی کا موجب بن جا.“ (حقیقۃ الوحی نشان نمبر ۱۱۷ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۷۷) چنانچہ اس کے بعد لالہ ملا وامل صاحب بہت جلد اس خطر ناک مرض سے جوان ایام میں گویا موت کا پیغام سمجھی جاتی تھی شفا یاب ہو گئے اور نہ صرف شفا یاب ہو گئے بلکہ سوسال کے قریب عمر پائی اور ملکی تقسیم کے کافی عرصہ بعد قادیان میں فوت ہوئے.اور باوجود اس کے کہ وہ آخر دم تک مذہباً کثر آریہ رہے ان کی طبیعت پر حضرت مسیح موعود کی نیکی اور تقویٰ اور آپ کی خدا داد روحانی طاقتوں کا اتنا گہرا اثر تھا کہ جب ملکی تقسیم کے وقت قادیان اور اس کے گردو نواح میں شدید فسادات رونما ہوئے اور سکھوں اور ہندوؤں نے اپنے مظالم کے ذریعہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا اور بہت سے بے گناہ مسلمان مرد اور عورتیں اور بچے اور بوڑھے اور بعض احمدی بھی بڑی بیدردی کے ساتھ مارے گئے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور جماعت کے اکثر دوست پاکستان کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے اور صرف وہی پیچھے رہ گئے جن کو جماعتی انتظام کے ماتحت مقدس مقامات کی آبادی کے لئے ٹھہرے رہنے کا حکم دیا گیا تھا تو اس وقت لالہ ملا وامل صاحب نے اپنے بیٹے لالہ دا تارام کو بلا کر نصیحت کی کہ دیکھو تم ہرگز احمدیوں کی مخالفت نہ کرنا کیونکہ مرزا صاحب نے پیشگوئی کی ہوئی ہے کہ ان کی جماعت قادیان پھر واپس آئے گی اور میں دیکھ چکا ہوں کہ جو بات مرزا صاحب کہا کرتے تھے وہ پوری ہو جایا کرتی تھی.( مسل رپورٹ ہائے از قادیان)

Page 265

۲۶۱ ایک کٹر آریہ کا اپنی انتہائی مخالفت کے باوجود یہ تاثر حضرت مسیح موعود کی صداقت اور آپ کی نیکی اور روحانی تاثیر کی زبردست دلیل ہے.وَالْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْأَعْدَاءُ - (11) لالہ ملا وال صاحب سے تعلق رکھنے والی روایت کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کے اپنے مرکز قادیان سے نکلنے اور پھر واپس آنے کی پیشگوئی کا ذکر ضمنی طور ہر او پر گزر چکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی دراصل اپنے اندر غیر معمولی شان رکھتی ہے اور جب خدا کے فضل سے اس پیشگوئی کا دوسرا حصہ جو قادیان کی واپسی سے تعلق رکھتا ہے پورا ہوگا تو اس کی شان اور بھی زیادہ آب و تاب سے ظاہر ہوگی اور دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ نہ صرف غیب کے علم کی کنجی خدا کے ہاتھ میں ہے بلکہ ہر قسم کی قدرت اور تصرف اور تقدیر خیر وشر کی کلید بھی اسی آسمانی آقا کے قبضہ میں ہے.اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عرصہ ہوا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ دل دہلا دینے والا الہام ہوا تھا کہ داغ ہجرات“ د یعنی اے خدا کے مسیح! تجھے یا تیری جماعت کو ایک دن ہجرت کا داغ دیکھنا ہوگا.“ (ستمبر ۱۸۹۴ء بحوالہ تشحیذ الا ذہان جون و جولائی ۱۹۰۸ء)

Page 266

۲۶۲ اس الہام کی بناء پر نیز انبیاء کی عمومی سنت کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہمیشہ یہ خیال رہتا تھا اور حضور کبھی کبھی ذکر بھی فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں یا ہمارے بعد ہماری جماعت کو ایک دن قادیان سے ہجرت کرنی پڑے گی.چنانچه ۱۹۴۷ء میں آکر حضور کا یہ الہام غیر معمولی حالات میں پورا ہوا اور وہ یہ کہ باوجود اس کے کہ ضلع گورداسپور کی آبادی میں اکثریت مسلمانوں کی تھی اور ملکی تقسیم کے متعلق سمجھوتہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے پاکستان کے حصہ میں ڈالے جائیں گے فیصلہ کرنے والے افسروں نے قادیان کا علاقہ ہندوستان کے حصہ میں ڈال دیا اور جماعت کے خلیفہ اور جماعت کے کثیر حصہ کو کئی قسم کی تکلیفیں برداشت کر کے اور نقصان اٹھا کر اور قربانیاں دے کر پاکستان کی طرف ہجرت کرنی پڑی.اور اس طرح ظاہری حالات اور توقعات کے بالکل خلاف حضرت مسیح موعود کا داغ ہجرت والا الہام اپنی انتہائی تلخی کے ساتھ پورا ہوا اور اس پیشگوئی کی پہلی شاخ جو ہجرت سے تعلق رکھتی تھی حضرت مسیح موعود کی صداقت کا ایک زبردست نشان بن گئی.قادیان جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مولد ومسکن تھا اور وہیں حضرت مسیح موعود نے اپنی زندگی کے دن گزارے اور وہیں خدائے واحد کی عبادتیں کیں اور وہیں اپنی دعاؤں سے زمین و آسمان کو ہلایا اور وہیں حضور کا جسدِ مبارک اپنے بے شمار فدائیوں کے ساتھ اس دنیا کی آخری نیند سورہا ہے وہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا.خدا کی یہ تقدیر بہر حال ایک بڑی تلخ تقدیر ہے اور جماعت کے لئے ایک زبردست امتحان بھی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ تقدیر آسمان سے یہ الارم بھی مسلسل دے رہی

Page 267

۲۶۳ ہے کہ اب پیشگوئی کے دوسرے حصہ کے پورا ہونے کا وقت آ رہا ہے.اس کے لئے گریہ وزاری سے دعائیں کرو اور خدا کی طرف سے نزول رحمت کے طالب بنو.چنانچہ قادیان کی واپسی کے متعلق حضرت مسیح موعود کا ایک واضح الہام یہ ہے کہ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيكَ بَغْتَةً - (کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ ٹائٹل پیج ) یعنی زمین و آسمان کا مالک خدا جس نے تجھ پر قرآن کی تبلیغ فرض کی ہے وہ تجھے ضرور ضرور ایک دن تیرے وطن ( قادیان ) کی طرف واپس لے جائے گا.اور میں تیری مدد کے لئے اپنی فوجوں کے ساتھ اچانک پہنچوں گا.“ یہ خدائے عرش کی وہ تقدیر ہے جو ہجرت والی پیشگوئی کی دوسری شاخ کے طور پر حضرت مسیح موعود کے قلب صافی پر نازل کی گئی اور انشاء اللہ وہ ضرور اپنے وقت پر پوری ہو کر رہے گی.ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ وقت کب آئے گا یہ غیب کی باتیں ہیں جو خدا کے ازلی علم کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.مگر ہم یہ بات قطعی طور پر جانتے ہیں اور ہماری نسلوں کو یہ بات اپنے پاس لکھ رکھنی چاہیے کہ قادیان جو خدا کے ایک مقدس رسول کا تخت گاہ ہے وہ انشاء اللہ ضرور ضرور ہمیں جس رنگ میں بھی خدا کو منظور ہوا ایک دن واپس ملے گا.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خدا کی یہ تقدیر ایک ایسی پتھر کی لکیر ہے جو کبھی نہیں مٹ سکتی.ہم کسی حکومت کے بدخواہ نہیں اور ہمیں خدا کا اور اس کے

Page 268

۲۶۴ رسول کا اور اپنے امام کا یہی حکم ہے کہ جس حکومت کے ماتحت بھی رہو اُس کے دل سے و فادار بن کر رہو.پس پاکستان کے احمدی پاکستان کے وفادار ہیں اور ہندوستان کے احمدی ہندوستان کے وفادار ہیں.اور اسی طرح ہر دوسرے ملک کے احمدی اپنے اپنے ملک کے وفادار ہیں اور جھوٹا ہے وہ شخص جو ہماری نیتوں کو شبہ کی نظر سے دیکھتا ہے.ہم خدا کے فضل سے ایک خدائی مامور کی جماعت ہیں جو نیکی اور راستی اور دیانت پر قائم کی گئی ہے اور جھوٹ بولنا لعنتی انسان کا کام ہے.ہم وہی بات کہتے ہیں جو خدا نے ہمیں بتائی ہے اور دنیا کا امن بھی اسی اصول کا متقاضی ہے مگر یا درکھنا چاہیئے کہ یہ تقدیر خدا کی ان تقدیروں میں سے ہے جو بغتةً کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں یعنی ان کی درمیانی کڑیاں نظر سے اوجھل رہتی ہیں اور آخری نتیجہ اچانک نمودار ہو کر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.پس حضرت مسیح موعود کے الہام کے مطابق یہی انشاء اللہ اس پیشگوئی کی صورت میں بھی ہو گا لیکن کب اور کس طرح ہوگا یہ خدائی غیب کی باتیں ہیں جن میں ہمیں قیاس آرائی کی ضرورت نہیں.خدا کی قدرت تو اتنی وسیع ہے کہ وہ جب کسی بات کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی طرف سے محض کُن کا اشارہ ہونے پر اُس کے سامان ہونے شروع ہو جاتے ہیں.پس مایوس نہ ہو اور اپنی ہمتوں کو بلند رکھو اور دعائیں کرتے چلے جاؤ اور نیکی اختیار کرو تا کہ خدا جلد اپنے وعدہ کا دن لے آئے.اسلام کا خدا تو اس بات پر بھی قادر ہے کہ اپنے خاص الخاص تصرف کے ساتھ ایسے غیر متوقع حالات پیدا کر دے جس کے نتیجہ میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کسی ایسے فیصلہ کا رستہ کھل جائے جو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ہو.

Page 269

۲۶۵ حضرت مسیح موعود نے کیا خوب فرمایا ہے کہ قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے (١٢) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ خدائی رحمت کے چھینٹے گرنے کا ذکر کر رہا تھا.یہ چھینٹا بلا امتیاز دوست و دشمن سب لوگوں اور سب طبقوں اور سب قوموں پر علی قدر مراتب گرتا تھا مگر طبعاً یہ چھینٹا دوستوں پر زیادہ گرتا تھا لیکن دوسروں کے لئے بلکہ دشمنوں تک کے لئے بھی گاہے گاہے نشانِ رحمت کے طور پر گرتا رہتا تھا.ایک آریہ مخالف کے لئے تو اس رحمت کے چھینٹے کا ذکر اوپر گزر چکا ہے اب کابل سے آئی ہوئی ایک غریب مہاجر احمدی عورت کا بھی ذکر سن لوجس نے غیر معمولی حالات میں حضرت مسیح موعود کے دم عیسوی سے شفا پائی.مسماۃ امتہ اللہ بی بی سکنہ علاقہ خوست مملکت کا بل نے مجھ سے بیان کیا کہ جب وہ شروع شروع میں اپنے والد اور چچا سید صاحب نور اور سید احمد نور کے ساتھ قادیان آئی تو اس وقت اس کی عمر بہت چھوٹی تھی اور اس کے والدین اور چا چی حضرت سید عبداللطیف صاحب شہید کی شہادت کے

Page 270

۲۶۶ بعد قادیان چلے آئے تھے.مسماۃ امۃ اللہ کو بچپن میں آشوب چشم کی سخت شکایت ہو جاتی تھی اور آنکھوں کی تکلیف اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ انتہائی درد اور سرخی کی شدت کی وجہ سے وہ آنکھ کھولنے تک کی طاقت نہیں رکھتی تھی.اس کے والدین نے اس کا بہت علاج کرایا مگر کچھ افاقہ نہ ہوا اور تکلیف بڑھتی گئی.ایک دن جب اس کی والدہ اسے پکڑ کر اس کی آنکھوں میں دوائی ڈالنے لگی تو وہ ڈر کر یہ کہتے ہوئے بھاگ گئی کہ میں تو حضرت صاحب سے دم کراؤں گی چنانچہ وہ بیان کرتی ہے کہ میں گرتی پڑتی حضرت مسیح موعود کے گھر پہنچ گئی اور حضور کے سامنے جا کر روتے ہوئے عرض کیا کہ میری آنکھوں میں سخت تکلیف ہے اور درد اور سرخی کی شدت کی وجہ سے میں بہت بے چین رہتی ہوں اور اپنی آنکھیں تک کھول نہیں سکتی.آپ میری آنکھوں پر دم کردیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا تو میری آنکھیں واقعی خطر ناک طور پر ابلی ہوئی تھیں اور میں درد سے بے چین ہو کر کراہ رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی انگلی پر اپنا تھوڑا سا لعاب دہن لگا یا اور ایک لمحہ کے لئے رُک کر (جس میں شاید حضور دل میں دعا فرمارہے ہوں گے) بڑی شفقت اور محبت کے ساتھ اپنی یہ انگلی میری آنکھوں پر آہستہ آہستہ پھیر دی اور پھر میرے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا بچی جاؤ اب خدا کے فضل سے تمہیں یہ تکلیف پھر کبھی نہیں ہوگی.“ روایت مسماۃ امۃ اللہ بی بی مہاجرہ علاقہ خوست ) مسماۃ امتہ اللہ بیان کرتی ہے کہ اس کے بعد آج تک جبکہ میں ستر سال کی بوڑھی ہو چکی ہوں کبھی ایک دفعہ بھی میری آنکھیں دکھنے نہیں آئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ

Page 271

۲۶۷ السلام کے دم کی برکت سے میں اس تکلیف سے ہمیشہ بالکل محفوظ رہی ہوں حالانکہ اس سے پہلے میری آنکھیں اکثر دُکھتی رہتی تھیں اور میں بہت تکلیف اٹھاتی تھی.وہ بیان کرتی ہے کہ جب حضرت مسیح موعود نے اپنا لعاب دہن لگا کر میری آنکھوں پر دم کرتے ہوئے اپنی انگلی پھیری تو اس وقت میری عمر صرف دس سال کی تھی.گویا ساٹھ سال کے طویل عرصہ میں حضرت مسیح موعود کے اس روحانی تعویذ نے وہ کام کیا جو اس وقت تک کوئی دوائی نہیں سکی تھی.دوستوں کو یا درکھنا چاہیئے کہ دم کرنے کا طریق دراصل دعا ہی کی ایک قسم ہے جس میں قولی دعا کے ساتھ کرنے والے کی آنکھوں کی توجہ اور اس کے لمس کی برکت بھی شامل ہو جاتی ہے اور یہ وہی طریقہ علاج ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض حدیثوں میں بھی مذکور ہے اور جس کے ذریعہ حضرت عیسی بھی بعض اوقات اپنے مریضوں کا علاج کیا کرتے تھے.چنانچہ کسی شاعر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (فدا نفسی) کی تعریف میں کیا خوب کہا ہے کہ حسن یوسف، دم عیسی ، ید بیضا داری آنچه خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری یعنی تو یوسف جیسے بے مثال حسن کا مالک ہے اور تو مریضوں کو اچھا کرنے میں عیسی کے دم شفا کی غیر معمولی تاثیر بھی رکھتا ہے اور تجھے موسی کی طرح وہ چمکتا ہوا ہاتھ بھی حاصل ہے جس نے فرعون اور اس کے ساحروں کی نظروں کو خیرہ کر دیا تھا.پس لا ریب تیرے اندر وہ ساری خوبیاں جمع ہیں جو

Page 272

۲۶۸ دنیا کے کسی انسان کو کسی زمانہ میں حاصل ہوئی ہیں.“ دم کے طریقہ علاج کے متعلق یہ بات بھی ذکر کرنی ضروری ہے اور دوستوں کو یا درکھنی چاہیئے کہ گو یہ طریقہ علاج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گاہے گاہے کے عمل سے ثابت ہے مگر اسے کثرت کے ساتھ اختیار کرنا اور گویا منتر جنتر بنالینا ہرگز درست نہیں.کیونکہ بے احتیاطی کے نتیجہ میں اس سے بہت سی بدعتوں کا رستہ کھل سکتا ہے.بہتر یہی ہے کہ جیسا کہ قرآن مجید نے فرمایا ہے دعا کا معروف طریق اختیار کیا جائے اور اگر کسی وقت دم کے طریقہ علاج کی ضرورت سمجھی جائے یا اس کی طرف زیادہ رغبت پیدا ہو تو ضروری ہے کہ کسی نیک اور متقی اور روحانی بزرگ سے دم کرایا جائے ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے اندیشہ ہوسکتا ہے کہ برکت کی بجائے بے برکتی کا دروازہ کھل جائے.(۱۳) ابھی ابھی حضرت مسیح موعود کی دعا سے ایک بد حال مریضہ کے شفاء پانے کا ذکر کیا گیا ہے.حضور کی زندگی میں ایسی معجزانہ شفایابی کی مثالیں ایک دو نہیں دس ہیں نہیں بلکہ حقیقتہ بے شمار ہیں جن میں سے بعض حضور نے مثال کے طور پر اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں بیان فرمائی ہیں اور بعض لوگوں کے سینوں اور تحریری دستاویزات میں محفوظ ہیں.ان میں سے اس جگہ میں صرف ایک بات نمونہ کے طور پر بیان کرتا ہوں.

Page 273

۲۶۹ جماعت کے اکثر دوست ہمارے چھوٹے ماموں حضرت میر محمد الحق صاحب کو جانتے ہیں.انہوں نے حضرت خلیفہ اول مولوی نورالدین صاحب سے اور بعض دوسرے احمدی علماء سے علم حاصل کیا اور پھر اپنی فطری ذہانت اور مشق اور ذوق وشوق کے نتیجہ میں جماعت کے چوٹی کے علماء میں داخل ہو گئے.ان کا درس قرآنِ مجید اور درسِ حدیث سننے سے تعلق رکھتا تھا اور مناظرے کے فن میں تو انہیں ایسا یدطولیٰ حاصل تھا کہ بڑے بڑے جبہ پوش مولوی اور عیسائی پادری اور آریہ پنڈت ان کے سامنے بحث کے وقت طفلِ مکتب نظر آتے تھے.انہی میر محمد اسحق صاحب کے بچپن کا ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ وہ سخت بیمار ہو گئے اور حالت بہت تشویشناک ہو گئی اور ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے متعلق دعا فرمائی تو عین دعا کرتے ہوئے خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ سَلَامٌ قَوْلًا مِّن رَّبٍ رَّحِيمٍ ( بدرا ارمنی و الحکم ۱۷ رمئی ۱۹۰۵ء) یعنی تیری دعا قبول ہوئی اور خدائے رحیم و کریم اس بچے کے متعلق تجھے سلامتی کی بشارت دیتا ہے“ رض چنانچہ اس کے جلد بعد حضرت میر محمد اسحق صاحب بالکل توقع کے خلاف صحتیاب ہو گئے اور خدا نے اپنے مسیح کے دم سے انہیں شفا عطا فرمائی اور اس کے بعد وہ چالیس سال مزید زندہ رہ کر اور اسلام اور احمدیت کی شاندار خدمات بجالا کر اور ملک و ملت میں بہت سی نیکیوں کا بیج بو کر قریباً پچپن سال کی عمر میں خدا کو پیارے

Page 274

۲۷۰ ہوئے.وَكُلُّ مَن عَلَيْهَا فَان ويبلى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ.مگر اس واقعہ کے تعلق میں ایک بہت عجیب بلکہ بے حد عجیب وغریب اور نہایت درجہ لطیف خدائی کرشمہ یہ ظاہر ہوا کہ جب چالیس سال کے بعد حضرت میر صاحب کی اجل مسمی کا وقت آگیا اور خدائی حکم کے ماتحت آسمان کے فرشتوں نے ان کا نام پکارا تو اس وقت یہ عاجزان کے پاس ہی کھڑا تھا اور وہ قریباً نیم بیہوشی کی حالت میں بستر میں پڑے تھے اور حافظ محمد رمضان صاحب مسنون طریق پر ان کے قریب بیٹھے ہوئے سورہ یس سنارہے تھے تو عین اس وقت جبکہ حافظ صاحب قرآنِ مجید کی اس آیت پر پہنچے جو حضرت میر صاحب کے بچپن کے زمانہ میں ان کے متعلق حضرت مسیح موعود کو الہام ہوئی تھی یعنی سَلَام قَوْلًا مِّنْ رَّبٍ رَّحِيمٍ تو حضرت میر صاحب نے آخری سانس لیا اور خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.گو یا بچپن میں اس خدائی رحمت کے پیغام نے ان کے لئے دنیا کی زندگی کا دروازہ کھولا اور چالیس سال بعد بڑھاپے میں انہی قرآنی الفاظ میں خدا کے فرشتوں نے انہیں اُخروی زندگی کے دروازے پر کھڑے ہوکر آواز دی.بچپن کی بیماری میں حضرت مسیح موعود کے اس الہام نے ان کے لئے جسمانی صحت کا پیغام دیا اور زندگی کی آخری بیماری میں فرشتوں نے انہیں انہی الفاظ میں جنت کے دروازے پر کھڑے ہو کر اھلا و سھلا کہا.یقینایہ کوئی اتفاقی بات نہیں بلکہ خدائی قدرت ورحمت کا عجیب و غریب کرشمہ ہے جو خدا نے اپنے اس نیک اور مجاہد بندے کے لئے ظاہر فرمایا کہ شروع میں انہی الفاظ میں اُسے بیماری کی حالت میں دنیوی زندگی کی بشارت دی اور پھر چالیس سال بعد انہی

Page 275

۲۷۱ الفاظ کے ذریعہ اس کے لئے اُخروی نعمتوں کا دروازہ کھول دیا.دوست غور کریں کہ ہمارے علیم وخبیر خدا کا علم کتنا وسیع اور اس کی قدرت کتنی عجیب و غریب ہے کہ بجلی کے بٹن کی طرح ایک ہی سوچ ایک وقت میں دنیا کی نعمتوں کا نظارہ دکھاتی ہے اور دوسرے وقت میں وہی سوچ پردہ اٹھا کر جنت الفردوس کا نظارہ پیش کر دیتی ہے.اور یہ دونوں نظارے حضرت میر صاحب کے لئے خدا کی غیر معمولی رحمت اور حضرت مسیح موعود کی غیر معمولی جمالی شان سے معمور ہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِك وَسَلِّم - (۱۴) اب میں ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرتا ہوں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے رشتہ داروں بلکہ مخالف رشتہ داروں تک کے ساتھ رحیمانہ اور مشفقانہ سلوک تھا.دراصل چھوٹے چھوٹے گھر یلو واقعات ہی زیادہ تر انسان کے اخلاق کا صحیح اندازہ کرنے کے لئے بہترین معیار ہوتے ہیں.کیونکہ اُن میں کسی قسم کے تکلف کا پہلو نہیں ہوتا اور انسان کی اصل فطرت بالکل عریاں ہو کر سامنے آجاتی ہے.واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کے ساتھ اپنے نئے بنے ہوئے حجرے میں اکٹھے کھڑے باتیں کر رہے تھے کہ اُس وقت میں بھی اپنی بچپن کی عمر میں کسی لڑکے کے ساتھ کھیلتا ہوا اُس حجرے میں پہنچ

Page 276

۲۷۲ گیا اور چونکہ اس کمرے کے باہر کھڑ کی کھلی تھی اور اُس کھڑکی میں سے ہمارے چچا یعنی حضرت مسیح موعود کے چچا زاد بھائی مرزا نظام الدین صاحب کا مکان نظر آرہا تھا میں نے کسی بات کے تعلق میں اپنے ساتھ والے لڑکے سے کہا کہ ”دیکھو وہ نظام الدین کا مکان ہے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے یہ الفاظ کسی طرح سن لئے اور جھٹ پلٹ کر مجھے نصیحت کے رنگ میں ٹوک کر فرمایا کہ ”میاں آخر وہ تمہارا چا ہے اس طرح نام نہیں لیا کرتے.“ (سیرت المہدی روایت نمبر ۳۸ حصہ اول صفحه ۲۸) جیسا کہ میں دوسری جگہ بیان کر چکا ہوں مرز انظام الدین صاحب ہمارے چچا ہونے کے باوجود حضرت مسیح موعود کے اشد ترین مخالف بلکہ معاند تھے.اور اس مخالفت کی وجہ سے اُن کا ہمارے ساتھ کسی قسم کا تعلق اور راہ و رسم نہیں تھا اور اسی بے تعلقی کے نتیجہ میں میرے منہ سے بچپن کی بے احتیاطی میں یہ الفاظ انکل گئے مگر حضرت مسیح موعود کے اخلاق فاضلہ کا یہ عالم تھا کہ آپ نے مجھے فورا ٹوکا اور تربیت کے خیال سے نصیحت فرمائی کہ اپنے چچا کا نام اس طرح نہیں لیا کرتے اور آج تک میرے دل میں حضور کی یہ نصیحت ایک آہنی میخ کی طرح پیوست ہے اور اس کے بعد میں نے کبھی اپنے کسی بزرگ کا نام تو در کنار کسی خورد کا نام بھی ایسے رنگ میں نہیں لیا جس میں کسی نوع کی تحقیر کا شائبہ پایا جائے.ہمارے دوستوں کو چاہیئے کہ اپنے بچوں اور بچیوں کے حالات اور اقوال کا بڑی توجہ کے ساتھ جائزہ لیتے رہیں اور جہاں بھی وہ دیکھیں کہ ان کے اخلاق و عادات میں کوئی بات اسلام اور احمدیت کی تعلیم یا آداب کے

Page 277

۲۷۳ خلاف ہے اُس پر فوراً نوٹس لے کر اس کی اصلاح کردیں کیونکہ بچپن کی اصلاح بڑا وسیع اثر رکھتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ الطَّرِيقَةُ كُلُّهَا آدَبَّ یعنی دین کا رستہ تمام کا تمام ادب و تادیب کے میدان میں سے ہوکر گزرتا ہے.کاش! ہر احمدی باپ اور ہر احمدی ماں اس سنہری نصیحت کو حرز جان بنالے.(۱۵) اس تعلق میں ایک اور واقعہ بھی یاد آ گیا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کو یہ اطلاع ملی کہ یہی مرزا انظام الدین صاحب جو حضرت مسیح موعود کے اشد ترین مخالف تھے بیمار ہیں.اس پر حضور ان کی عیادت کے لئے بلا توقف اُن کے گھر تشریف لے گئے.اس وقت ان پر بیماری کا اتنا شدید حملہ تھا کہ اُن کا دماغ بھی اُس سے متاثر ہو گیا تھا.آپ نے اُن کے مکان پر جا کر ان کے لئے مناسب علاج تجویز فرمایا جس سے وہ خدا کے فضل سے صحتیاب ہو گئے.ہماری اتاں جان حضرت ام المومنین رضی اللہ عنھا بیان فرماتی تھیں کہ باوجود اس کے کہ مرزا نظام الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت مخالف بلکہ معاند تھے آپ اُن کی تکلیف کی اطلاع پا کر فوراً ہی ان کے گھر تشریف لے گئے اور ان کا علاج کیا اور ان سے ہمدردی فرمائی.سیرت المہدی حصہ سوم روایت ۵۲۲)

Page 278

۲۷۴ یہ وہی مرزا نظام الدین صاحب ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بعض جھوٹے مقدمات کھڑے کئے اور اپنی مخالفت کو یہاں تک پہنچا دیا کہ حضرت مسیح موعود اور حضور کے دوستوں اور ہمسایوں کو دکھ دینے کے لئے حضور کی مسجد یعنی خدا کے گھر کا رستہ بند کر دیا.اور بعض غریب احمدیوں کو ایسی ذلت آمیز اذیتیں پہنچا ئیں کہ جن کے ذکر تک سے شریف انسان کی طبیعت حجاب محسوس کرتی ہے.(سیرت المہدی حصہ اوّل روایت نمبر ۱۳۰،۱۲۹ ) مگر حضور کی رحمت اور شفقت کا یہ عالم تھا کہ مرزا نظام الدین صاحب جیسے معاند کی بیماری کا علم پا کر بھی حضور کی طبیعت بے چین ہوگئی.اس واقعہ سے حضور کے اس قول کی شاندار عملی تصدیق ہوتی ہے جسے میں نے گزشتہ سال کی تقریر میں بیان کیا تھا جس میں حضور فرماتے ہیں کہ ہمارا کوئی دشمن سے دشمن انسان بھی ایسا نہیں جس کے لئے ہم نے کم از کم دو تین دفعہ دعا نہ کی ہو ( ملفوظات جلد سوم ص ۹۶ وص ۹۷) اللہ اللہ ! کیا دل تھا اور اس دل نے خدائی رحمت کے وسیع سمندر سے کتنا حصہ پایا تھا!! کاش جماعت احمدیہ کے مرد اور عورتیں اور بچے اور بوڑھے اور خواندہ اور نا خواندہ خدا کی طرف سے اسی قسم کی رحمت کا ورثہ پائیں تا کہ وہ اس جمالی شان کا آئینہ بن جائیں جو آسمان کے خالق و مالک کی طرف سے حضرت مسیح موعود کو عطا کی گئی تھی.آمین یا اَرْحَمَ الرّاحِمین.

Page 279

۲۷۵ (14) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی غیر معمولی جمالی صفات اور آپ کے بے مثال حسن و احسان کے باوجود خدائی سنت کے مطابق دنیا کی ہر قوم نے حضرت مسیح موعود کی انتہائی مخالفت کی اور کوئی دقیقہ آپ کو تکلیف پہنچانے اور نا کام رکھنے کا اٹھا نہیں رکھا اور ہر رنگ میں اپنے دروازے آپ پر بند کر دیئے.میں اس تعلق میں ایک چھوٹا سا دلچسپ واقعہ بیان کرتا ہوں.۱۹۰۵ء کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود دہلی تشریف لے گئے جو آپ کی زوجہ مطہرہ یعنی ہماری اماں جان رضی اللہ عنھا کا مولد ومسکن تھا.مگر یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ وہاں جانے سے پہلے حضور نے ایک رؤیا دیکھا کہ حضور دتی گئے ہیں لیکن حضور نے وہاں کے سب دروازوں کو بند پایا ہے.( تذکرہ ص ۵۶۸) چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب آپ دہلی پہنچے تو ساری قوموں کی طرف سے آپ کی شدید مخالفت کی گئی اور ہر قوم اور ہر طبقہ نے آپ پر اپنا دروازہ بند کر دیا.بے شک لوگ ملنے کے لئے آتے تھے اور کافی کثرت کے ساتھ آتے تھے لیکن اکثر لوگ تو مخالفت کی غرض سے ہی آتے تھے اور انکار کی حالت میں ہی استہزاء کرتے ہوئے واپس لوٹ جاتے تھے.اور بعض بر ملا مخالفت تو نہیں کرتے تھے مگر بزدلی کی وجہ سے خاموش رہتے تھے اور بعض جن کے دل میں کچھ ایمان کی چنگاری روشن ہوتی تھی وہ مملکتِ روما کے ہر قل کی طرح اُس چنگاری کو اپنے ہاتھ سے بجھا کر اپنی جھولی

Page 280

جھاڑتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے.دتی نہ صرف بڑے بڑے جاہ و حشمت والے مسلمان بادشاہوں اور شان و شوکت والے حکمرانوں کا دارالحکومت رہا تھا بلکہ اس کی سرزمین میں بہت سے بزرگ اور اولیاء اور صلحاء بھی پیدا ہوئے تھے جن کے مزار آج دتی کے زندہ انسانوں کی بجائے لوگوں کی زیادہ کشش کا موجب بنے ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی منکسرانہ طبیعت اور نیک لوگوں کی سنت کے مطابق ارادہ کیا کہ جو مجددین اور اولیاء کرام دتی کی خاک میں مدفون ہیں اُن کی قبروں پر جا کر دعا کریں اور اُن کے لئے اور اہل دتی کے لئے خدا سے خیر و برکت کے طالب ہوں.چنانچہ حضور اس سفر کے دوران میں حضرت شیخ نظام الدین اولیاء اور حضرت سید ولی اللہ شاہ اور حضرت خواجہ باقی باللہ اور حضرت خواجہ بختیار کا کی اور حضرت خواجہ میر درد رحمتہ اللہ علیہم کے مزاروں پر تشریف لے گئے اور ان کی قبروں پر کھڑے ہو کر درددل سے دعا فرمائی.جب آپ حضرت شیخ نظام الدین اولیاء کے مزار پر تشریف لے گئے تو اُس وقت یہ عاجز بھی بچپن کی عمر میں آپ کے ساتھ تھا.مجھے خوب یاد ہے کہ دعا کے بعد حضور نے فرمایا کہ اس وقت اس جگہ لوگوں کی کثرت ہے اور شور زیادہ ہے ورنہ میں یقین رکھتا ہوں کہ مجھے اس جگہ کشف کے ذریعہ بیداری کی حالت میں ہی حضرت شیخ نظام الدین اولیاء کی ملاقات ہو جاتی.اُس وقت خواجہ حسن نظامی صاحب مرحوم بالکل نوجوان تھے اور وہ حضور کے ساتھ ہوکر بڑے ادب کے طریق پر حضور کو درگاہ کی مختلف زیارت گاہیں دکھاتے پھرتے تھے.

Page 281

۲۷۷ بالآخر جب حضرت مسیح موعود دلی کے سفر سے قادیان کو واپس روانہ ہونے لگے تو خواجہ حسن نظامی صاحب نے حضور سے درخواست کی کہ آپ حضرت نظام المشائخ کے مزار پر تشریف لے گئے تھے اس کے متعلق کچھ مناسب الفاظ تحریر فرماویں.حضور نے وعدہ فرمایا کہ قادیان جا کر لکھ دوں گا.چنانچہ قادیان واپس پہنچنے پر حضور نے خواجہ حسن نظامی صاحب کو ذیل کی تحریر لکھ کر بھجوادی جو دتی کے حالات سفر اور دتی والوں کے انکار کی گویا ایک جیتی جاگتی تصویر ہے.حضور اس تحریر میں فرماتے ہیں کہ ” مجھے جب دہلی جانے کا اتفاق ہوا تو مجھے ان صلحاء اور اولیاء الرحمن کے مزاروں کی زیارت کا شوق پیدا ہوا جو اس خاک میں سوئے ہوئے ہیں کیونکہ جب مجھے دہلی والوں کی طرف سے محبت محسوس نہ ہوئی تو میرے دل نے اس بات کے لئے جوش مارا کہ وہ ارباب صدق وصفا اور عاشقانِ حضرت مولیٰ جو میری طرح اس زمین کے باشندوں سے بہت سے جور و جفا دیکھ کر اپنے محبوب حقیقی کو جاملے اُن کے متبرک مزاروں سے ہی اپنے دل کو خوش کرلوں.پس میں اسی نیت سے حضرت خواجہ شیخ نظام الدین اولیاء رضی اللہ عنہ کے مزار متبرک پر گیا.اور ایسا ہی دوسرے چند مشائخ کے متبرک مزاروں پر بھی گیا.خدا ہم سب کو اپنی رحمت سے معمور کرے.آمین ثم آمین.الراقم عبد اللہ الصمد غلام احمد المسيح الموعود من الله الاحد 66 ( بدر ۲۴ / نومبر ۱۹۰۵ء) حضرت مسیح موعود کی اس تحریر میں جس گہرے رنج و الم اور جس دلی حسرت کا

Page 282

۲۷۸ اظہار نظر آرہا ہے وہ کسی تشریح کا محتاج نہیں.گویا یہ خیال کہ دلی کا تاریخی شہر جس کی خاک میں سینکڑوں عالی مرتبہ بزرگ اور صلحاء اور اولیاء مدفون ہیں حضور کے لائے ہوئے نور ہدایت اور اسلام کے دور ثانی کی برکات سے محروم رہا جا رہا ہے حضور کے دل کو بے چین کر رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضور گو یا کشفی حالت میں اپنی آنکھوں کے سامنے ان کثیر التعداد بزرگوں کو دیکھ رہے تھے جو دتی کے چپہ چپہ میں مدفون ہیں اور پھر ان سے ہٹ کر حضور کی نظر ان بزرگوں کی موجودہ اولاد کی طرف جاتی تھی جواب اپنی جہالت اور تعصب کی وجہ سے اس نور کا انکار کر رہی تھی جسے دیکھنے کے لئے ان کے لاکھوں کروڑوں باپ دادا ترستے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے.یہی وہ حسرت تھی جس نے حضور کے دل کو بے چین کر دیا مگر حضرت مسیح موعود کی یہ حسرت ہر گز مایوسی کے رنگ میں نہیں تھی بلکہ رنج اور افسوس اور دکھ کے رنگ میں تھی.اور یہ اسی قسم کی حسرت تھی جس کے متعلق خود خدائے عرش انبیاء کے انکار کا ذکر کرتے ہوئے قرآن میں فرماتا ہے کہ ياخشرة على العِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مَنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِعُونَ.(سورة ليس آیت ۳۱) د یعنی حسرت ہے دنیا کے لوگوں پر کہ خدا کی طرف سے جو رسول بھی ان کی طرف آتا ہے وہ ہمیشہ اس کا انکار کرتے اور اس پر ہنسی اڑاتے ہیں.“ چنانچہ دوسری جگہ لوگوں کے اس انکار اور اپنی اس حسرت کے ساتھ ملاتے ہوئے اپنی آئندہ شاندار مقبولیت کی طرف اشارہ کر کے فرماتے ہیں کہ

Page 283

۲۷۹ امروز قومِ من نشناسد مقامِ من روزے بگریہ یاد کند وقت خوشترم ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۸۴) یعنی آج میری قوم نے میرے مقام کو نہیں پہچانا لیکن وہ وقت آتا ہے جبکہ وہ رو رو کر بڑی حسرت کے ساتھ میرے مبارک زمانہ کو یاد کیا کرے گی.“ اور دوسری جگہ خدا تعالیٰ کی زبردست نصرت اور اپنے مشن کی یقینی اور قطعی کامیابی کے متعلق بڑی تحدی کے ساتھ فرماتے ہیں کہ ”اے لوگو! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ان کے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جا ئیں تب بھی خدا ہرگز تمہاری دُعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کر لے.اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو.کا ذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور....میں اس زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں.جو جھوٹ اور

Page 284

۲۸۰ افترا کے ساتھ ہو اور نیز اس حالت پر بھی کہ مخلوق سے ڈر کر خالق کے امر سے کنارہ کشی کی جائے.....یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا.“ اربعین حصہ سوم روحانی خزائن جلد ۷ ا ص ۴۰۱،۴۰۰) یہ وہ ایمان کامل اور یقین محکم ہے جو انبیاء کے دل پر آسمان کی بلندیوں سے نازل ہوتا ہے اور اس ایمان کو یہ زبردست طاقت حاصل ہوتی ہے کہ وہ پہاڑوں کو پاش پاش کرتا اور پانیوں کو چیرتا اور طوفانوں کو پھاند تا چلا جاتا ہے اور یہی وہ ایمان ہے جس میں خدا کی طرف سے دلوں کو فتح کرنے کی حیرت انگیز قوت ودیعت کی جاتی ہے.(۱۷) اس جگہ میں جملہ معترضہ کے طور پر کچھ اپنے متعلق کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ ۱۹۶۲ ء قریباً تمام کا تمام میری صحت کی خرابی میں گزرا ہے.اور بعض اوقات تو اس دوران میں میری صحت بہت زیادہ گر جاتی رہی ہے.تین بیماریاں تو مجھے پرانی لگی ہوئی ہیں یعنی نقرس اور ہائی بلڈ پریشر اور ذیا بیطس جو تینوں کافی تکلیف دہ اور خطرناک ہیں.اس کے علاوہ اکثر اوقات میری نبض بھی زیادہ تیز رہتی ہے جو گھبراہٹ اور بے چینی کا موجب ہوتی ہے.مزید برآں ۱۹۶۲ ء کے آخر میں آکر مجھے دل کی تکلیف کا

Page 285

۲۸۱ بھی عارضہ ہو گیا اور میرے دل میں ایسا نقص پیدا ہو گیا کہ بار بار دل میں درد اٹھتا تھا جس کی لہر بائیں بازو کی طرف جاتی تھی جو ایک خراب علامت سمجھی جاتی ہے.دراصل ایک دفعہ ۱۹۵۴ء میں مجھے دل کی بیماری کا حملہ ہوا تھا جس کی وجہ سے میں چار ماہ تک موت وحیات کے درمیان لٹکتا رہا.مگر اس کے بعد میرے خدا نے مجھ پر رحم کیا اور کئی سال تک میری صحت ایسی رہی کہ گو میں بالکل تندرست تو نہیں ہوسکا مگر خدا کے فضل سے علمی کاموں میں توجہ دینے اور ایک حد تک محنت کرنے کے قابل ہو گیا لیکن ۱۹۶۲ء کے آخر میں جبکہ میری عمر شمسی حساب سے ستر سال ہورہی ہے غالباً زیادہ کام کرنے کی وجہ سے میری یہ تکلیف پھر عود کر آئی اور بعض اوقات روزانہ اور بعض اوقات وقفہ وقفہ کے ساتھ دل کی تکلیف کے دورے ہونے لگے اور کمزوری بہت بڑھ گئی.حال ہی میں لاہور کے ایک قابل ڈاکٹر نے جو ماہر امراض قلب ہیں مجھے ربوہ میں آکر دیکھا اور میرے دل اور جگر اور سینے وغیرہ کا معائنہ کرنے اور دل کا ای سی.جی فوٹو لینے کے بعد انہوں نے بتایا کہ میرے دل کو کافی نقصان پہنچ چکا ہے اور مزید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور تاکید کی کہ مجھے کچھ عرصہ تک محنت اور کوفت اور پریشانی والے کام سے کلی طور پر اجتناب کرتے ہوئے مکمل آرام کرنا چاہیئے.ان حالات میں مجھے موجودہ تقریر ذکر حبیب یعنی ” آئینہ جمال“ کی تیاری میں اس دفعہ خاطر خواہ توجہ دینے کا موقعہ نہیں مل سکا.یعنی نہ تو میں ٹھیک طرح روایات اور واقعات کا انتخاب کر سکا ہوں اور نہ ہی میں نے ان روایات اور واقعات کو مؤثر اور

Page 286

۲۸۲ دلچسپ رنگ میں بیان کرنے کی طاقت پائی ہے بلکہ محض سرسری مطالعہ اور سرسری انتخاب کے نتیجہ میں جو عام روایتیں میرے علم میں آئیں انہیں سادہ زبان میں بیان کر دیا ہے.آگے اللہ تعالیٰ انسان کی زبان اور قلم میں تا خیر ڈالنے والا ہے اور میں اسی سے بہتری کی امید رکھتا ہوا اپنے دوستوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر وہ ان حالات میں میرے اس مجموعہ میں کوئی خامی یا کمزوری دیکھیں تو مجھے معذور تصور فرما ئیں.اور اگر کوئی خوبی پائیں تو اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں اور صحت کی کنجی خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہی اپنے فضل سے سنانے والے کو صحت کے ساتھ سنانے اور اپنے بیان میں اثر پیدا کرنے کی توفیق دے سکتا ہے اور وہی ہے جو سننے والوں کے دل و دماغ کی کھڑکیاں کھولنے کی طاقت رکھتا ہے.بس اسی جملہ معترضہ کے ساتھ میں اپنے اصل مضمون کی طرف رجوع کرتے ہوئے اپنے بقیہ مضمون کو مختصر طور پر بیان کرنے کی کوشش کروں گا.وَمَا تَوْفِيقِی إِلَّا بِاللهِ الْعَظِيمِ - (IA) میں اپنی گزشتہ سال کی تقریر میں اقتداری معجزات کی تشریح کے متعلق کچھ بیان کر چکا ہوں.ایسے معجزات خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی وحی والہام کے نزول کے بغیر محض ایک مرسل یزدانی کی روحانی قوت سے وجود میں آتے ہیں اور اس کی صداقت

Page 287

۲۸۳ اور خدائی نصرت کی زبردست دلیل بن جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی میں ایسے بہت سے معجزات کی مثال ملتی ہے کہ جب آپ نے اپنی قوتِ قدسیہ اور خدادا دروحانی طاقت کے ذریعہ غیر معمولی معجزات کا عالم پیدا کر دیا.مثلاً بعض اوقات جبکہ کوئی فوری علاج میسر نہیں تھا آپ نے ایک عزیز صحابی کی بیمار آنکھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور وہ خدا کے فضل سے کسی قسم کے ظاہری علاج کے بغیر اچھی ہوگئی.( بخاری حالات غزوہ خیبر ) یا آپ نے کسی اشد ضرورت کے وقت تھوڑے سے پانی کے برتن میں اپنی انگلیاں ڈالیں اور وہ آپ کے ہاتھ کی برکت سے جوش مار کر بہنے لگا اور صحابہ کی ایک بڑی تعداد اس سے سیراب ہو گئی.(بخاری باب شرب البركة و الماء المبارك) یا غذا کی قلت کے وقت میں آپ کی برکت سے تھوڑا سا کھانا کثیر التعداد صحابہ کے لئے کافی ہو گیا اور سب نے اس کھانے سے سیری حاصل کی.(بخاری باب غزوہ خندق) یہ سب اقتداری معجزات کی روشن مثالیں ہیں جو خدائے عرش نے اپنے محبوب رسول کی خاطر اس کے ہاتھ پر ظاہر فرمائیں.اسی قسم کے اقتداری معجزات خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں بھی کافی تعداد میں ملتے ہیں.مثلاً آپ نے کسی بے چین بیمار پر اپنا ہاتھ رکھا اور وہ محض آپ کے ہاتھ کے چھونے سے شفایاب ہو گیا.یا آپ نے کسی فوری ضرورت کے وقت تھوڑے سے کھانے میں اپنی انگلیاں ڈالیں اور وہ کثیر التعدادلوگوں کے لئے کافی ہو گیا وغیرہ وغیرہ.بے شک جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے معجزات کا منبع صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور کسی نبی یا رسول کو از خود یہ طاقت

Page 288

۲۸۴ حاصل نہیں کہ وہ خدائی اذن کے بغیر کوئی معجزہ دکھائے (سورۂ مومن آیت ۷۹ ) اور نہ ہی نبیوں کی یہ شان ہے کہ وہ نعوذ باللہ مداریوں کی طرح تماشہ دکھاتے پھریں.مگر یہ بھی خدا ہی کی سنت ہے کہ بعض اوقات وہ اپنے خاص پیاروں اور مقبولوں کی خاطر مومنوں کے ایمان میں تازگی پیدا کرنے یا ان کے عرفان میں زیادتی کا رستہ کھولنے کے لئے اس قسم کے خارق عادت نشانات دکھاتا ہے کہ خدا کے اذن کے ساتھ ان کی طرف سے صرف اشارہ ہونے پر یا محض ہاتھ کے چھو جانے سے غیر معمولی نتائج پیدا ہو جاتے ہیں مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ طاقت کسی نبی یا رسول کو مستقل طور پر حاصل نہیں ہوتی بلکہ صرف استثنائی طور پر وقتی صورت میں خدا کی طرف سے ودیعت کی جاتی ہے.لیکن چونکہ ایسے اقتداری معجزات کی مفصل تشریح میری گزشتہ سال کی تقریر میں گزر چکی ہے ( در مکنون صفحہ ۳۷ تا ۴۳) اس لئے اس جگہ اس کے متعلق زیادہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں.یہاں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے صرف ایک دو واقعات یسے بیان کرتا ہوں کہ جب گھر میں کھانا تھوڑا تھا اور اچانک مہمان بہت زیادہ آگئے اور منتظمین کو فکر پیدا ہوا تو حضرت مسیح موعود کے دم کی برکت سے یہ تھوڑا سا کھانا ہی كثير التعداد مہمانوں کے لئے کافی ہو گیا.میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے جو حضرت مسیح موعود کے بہت مخلص اور بڑے قدیم صحابی تھے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چند مہمانوں کی دعوت کی مگر عین اس وقت جبکہ کھانا کھانے کا وقت آیا زیادہ مہمان آگئے

Page 289

۲۸۵ اور مسجد مبارک مہمانوں سے بھر گئی.اس پر حضرت مسیح موعود نے حضرت بیوی جی کو اندر کہلا بھیجا کہ اور مہمان آگئے ہیں کھانا زیادہ بھجواؤ “ اس پیغام کے جانے پر حضرت اماں جان نے گھبرا کر حضرت مسیح موعودگواندر بلوایا اور کہا کہ کھانا تو بہت تھوڑا ہے اور صرف اُن چند مہمانوں کے مطابق پکایا گیا تھا جن کے متعلق آپ نے فرمایا تھا.اب کیا کیا جائے ؟ حضرت مسیح موعود نے بڑے اطمینان کے ساتھ فرمایا کہ د گھبراؤ نہیں اور کھانے کا برتن میرے پاس لے آؤ.“ پھر حضرت مسیح موعود نے اس برتن پر ایک رومال ڈھانک دیا اور رومال کے نیچے سے اپنا ہاتھ گزار کر اپنی انگلیاں چاولوں کے اندر داخل کر دیں اور پھر یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لے گئے کہ اب تم کھانا نکالو خدا برکت دے گا.“ میاں عبداللہ صاحب روایت کرتے ہیں کہ یہ کھانا سب نے کھایا اور سب سیر ہو گئے اور کچھ بچے بھی گیا.(سیرت المہدی حصہ اول روایت ۱۴۴ صفحه ۱۳۴) (19) میں نے جب میاں عبداللہ صاحب کی یہ دلچسپ روایت حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا کے پاس بیان کی تو انہوں نے فرمایا کہ ایسے واقعات حضرت مسیح موعود کی برکت سے ہمارے گھر میں بارہا ہوئے ہیں.چنانچہ انہوں نے ایک لطیف واقعہ

Page 290

۲۸۶ مثال کے طور پر بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے بہت تھوڑ اسا پلاؤ پکا یا جوصرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ہی کافی ہوسکتا تھا مگر اس دن نواب محمد علی خان صاحب جو ہمارے ساتھ والے مکان میں رہتے تھے وہ اور ان کی بیوی اور بچے وغیرہ سب ہمارے گھر آگئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا کہ ان کو بھی کھانا کھلاؤ.میں نے حضرت مسیح موعود سے کہا کہ چاول تو بالکل ہی تھوڑے ہیں کیونکہ میں نے یہ چاول صرف آپ کے لئے ہی تیار کروائے تھے.اس پر حضرت مسیح موعود نے چاولوں کے پاس آکر ان پر دم کیا اور مجھ سے فرمایا 66 اب تم خدا کا نام لے کر ان چاولوں کو تقسیم کردو." حضرت اماں جان فرماتی تھیں کہ ان چاولوں میں ایسی فوق العادت برکت پیدا ہوئی کہ نواب صاحب کے سارے گھر والوں نے یہ چاول کھائے اور حضرت مولوی نور الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب کے گھروں میں بھی چاول بھجوائے گئے اور ان کے علاوہ کئی دوسرے لوگوں کو بھی دیئے گئے اور چونکہ وہ ” برکت والے چاول مشہور ہو گئے تھے اس لئے بہت سے لوگوں نے ہم سے آ آکر چاول مانگے اور ہم نے سب کو دیئے اور خدا کے فضل سے وہ سب کے لئے کافی ہو گئے.ย سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۱۳۴، ۱۳۵ روایت نمبر ۱۴۴) حضرت اماں جان فرماتی تھیں کہ اس قسم کے اور بھی بہت سے واقعات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں گزرے ہیں کہ خدا نے حضور کے دم کی

Page 291

۲۸۷ برکت سے عین وقت پر جبکہ کوئی انتظام نظر نہیں آتا تھا تھوڑے سے کھانے کو زیادہ کر دیا.دراصل چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تاکید فرماتے تھے کہ جو مہمان بھی آئے وہ کھانے سے محروم نہ رہے اور اکثر مہمان اچانک آجاتے تھے اور قادیان اُن دنوں میں ایک چھوٹا سا گاؤں ہوتا تھا جس میں کھانے کی چیزیں نہیں ملتی تھیں اس لئے بہر حال جس طرح بھی میسر ہوتا تھا سب کے لئے وقت بے وقت کھانے کا انتظام کیا جاتا تھا اور خدا کے فضل سے وہ کافی ہو جاتا تھا.دنیا کے لوگ جو اپنے مادی قانون کے تصورات اور مادی مشاہدات.گھرے ہوئے ہیں وہ شاید ان باتوں کو نہ سمجھ سکیں کیونکہ وہ روحانی آنکھوں سے محروم ہیں مگر جن لوگوں نے خدا کو دیکھا اور پہچانا ہے اور اس کی وسیع قدرتوں کا مشاہدہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ حقیقتا خداہی دنیا کا واحد خالق و مالک ہے اور خدا ہی ہے جس نے اپنی از لی حکمت کے ماتحت دنیا میں خیر وشر کی تقدیر جاری کر رکھی ہے اور وہی ہے جس نے زمین و آسمان کی چیزوں میں مختلف خواص ودیعت کئے ہیں.اور پھر خدا اپنے بنائے ہوئے قانون کا غلام نہیں بلکہ جیسا کہ وہ قرآن میں خود فرماتا ہے وہ خاص حالات میں خاص ضروریات کے ماتحت اپنے قانون کو وقتی طور پر بدل بھی سکتا ہے.اس لئے ایسے لوگ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہیں کہ خدا کی طاقتیں اتنی وسیع اور اتنی عجیب و غریب ہیں کہ جن کی نہ کوئی حد ہے نہ حساب.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ لوگ اپنے مادی ماحول سے آگے نکل کر اپنی روحانیت کی آنکھیں کھولیں اور پھر وہ تماشہ دیکھیں جو ہزاروں نبیوں اور ہزاروں ولیوں کے زمانہ میں دنیا دیکھتی چلی آئی

Page 292

ہے.کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ۲۸۸ بیادر بزمِ مستان تا به بینی عالمی دیگر بہشتے دیگر و ابلیس دیگر آدمی دیگر د یعنی خدا کی محبت میں مخمور ہوکر اس کے عاشقوں کے زمرہ میں داخل ہو جاؤ پھر تمیں اس مادی دنیا کے علاوہ ایک بالکل اور دنیا نظر آئے گی جس کا 66 بہشت بھی اور ہے اور ابلیس بھی اور ہے اور آدم بھی اور ہے.“ (٢٠) دوسرے نیک لوگوں نے تو اپنی اپنی استعداد اور اپنی اپنی روحانی طاقت کے مطابق بہشت دیکھے ہوں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کا بہشت کلیۂ خدا کی ذاتِ والا صفات میں مرکوز تھا.آپ خدا کے عشق میں اس قدر محو اور مخمور تھے کہ جزا اور سزا کے خیال سے اس طرح بالا ہو گئے تھے جس طرح کہ آسمان کا ایک بلند ستارہ زمین کی پستیوں سے بالا ہوتا ہے.میں آپ کے اس بے مثال عشق کی چند مثالیں اپنی تقریر سیرۃ طیبہ میں بیان کر چکا ہوں جس میں محبت الہی اور عشق رسول کا مضمون میری تقریر کا مرکزی نقطہ تھا.آپ کا نفس اس طرح نظر آتا تھا کہ گویا وہ ایک عمدہ اسفنج کا ٹکڑا ہے جس میں خدا کی محبت کے سوا کسی اور کی محبت کے لئے جگہ باقی نہ تھی.ایک جگہ آپ اللہ تعالیٰ کے عشق میں متوالے ہو کر فرماتے ہیں کہ

Page 293

۲۸۹ ”ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے ہماری اعلیٰ ایذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوب صورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لایق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ عمل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱، ۲۲) دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں دوست غور سے سنیں کہ کس والہانہ انداز میں فرماتے ہیں کہ وہ ابتلا کے وقت ہمیں اندیشہ صرف اپنی جماعت کے بعض کمزور لوگوں کا ہوتا ہے میرا تو یہ حال ہے کہ اگر مجھے صاف آواز آئے کہ تو مخذول ہے اور تیری کوئی مراد ہم پوری نہیں کریں گے.تو مجھے خدا تعالیٰ کی قسم ہے کہ پھر بھی میرے اس عشق و محبت الہی اور خدمت دین میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی.اس لئے کہ میں تو اسے دیکھ چکا ہوں.اور پھر آپ نے یہ قرآنی آیت پڑھی کہ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا.( یعنی کیا خدا جیسا بھی کوئی اور ہے جسے محبت کا حق دار سمجھا جا سکے؟).سیرت مسیح موعود مصنفہ مولوی عبد الکریم سیالکوٹی صاحب) باقی رہی رسول کی محبت سو وہ خدا کی محبت کا حصہ اور اسی کی ظل ہے.اور ناممکن ہے کہ ایک سچا مومن خدا کی محبت سے تو سر شار ہونگر خدا کے بھیجے ہوئے افضل الرسل کی

Page 294

۲۹۰ محبت سے محروم رہے.بہر حال یہ وہ بہشت ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود نے جزا سزا کے خیال سے بالکل بالا ہو کر دین کی خدمت کی اور اسلام کا بول بالا کرنے کے لئے اپنی جان کی بازی لگادی اور یہی وہ بہشت ہے جس میں حضور اپنے آقا اور مقتدا اور محبوب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جزا سزا کے دن خدا کے فضل سے جگہ پائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایک نظم میں خدا تعالیٰ کی محبت کے گن گاتے ہوئے کیا خوب فرمایا ہے کہ ہراک عاشق نے ہے اک بت بنایا ہمارے دل میں یہ دلبر سمایا وہی آرام جاں اور دل کو بھایا وہی جس کو کہیں رب البرايا مجھے اس یار سے پیوندِ جاں ہے وہی جنت وہی دارالاماں ہے بیاں اس کا کروں طاقت کہاں ہے محبت کا تو اک دریا رواں ہے بے شک اُخروی زندگی کی جنت بھی حق ہے اور دوزخ بھی حق ہے اور مومن اور کافر اپنے اپنے ایمان اور اعمال کے مطابق اس جنت و دوزخ میں جگہ پائیں گے مگر نبیوں اور رسولوں کی حقیقی جنت صرف خدا کی محبت اور خدا کے عشق میں ہوتی ہے بلکہ عام صلحاء کے لئے بھی اصل مقام رضائے الہی کا ہے اس لئے قرآن مجید میں جنت کی

Page 295

۲۹۱ عام نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد رضوانِ الہی کا خاص طور پر علیحدہ صورت میں ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایا وَرِضْوَانٌ منَ اللهِ أَكْبَرُ (سورۃ توبہ آیت ۷۲) یعنی جنت کی نعمتوں میں خدا تعالیٰ کی رضا سب سے اعلیٰ نعمت ہے اور یہی ہر سچے مومن کے سلوک کا منتہی ہونا چاہیئے کہ وہ ”حور و قصور“ کی جنت کے پیچھے لگنے کی بجائے خالقِ ارض و سما کی بے لوث محبت کی فضاؤں میں بسیرا کرے.(۲۱) محبت محبت کو کھینچتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا اور اس کے محبوب حضرت افضل الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم (فدا نفسی) سے ایسی شدید محبت کی جو حقیقۂ بے مثال تھی اور پھر ان دو محبتوں کے نتیجہ میں آپ نے مخلوق کی ہمدردی اور شفقت کو بھی انتہاء تک پہنچا دیا.اس سہ گونہ محبت کے نتیجہ میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسی مخلص جماعت عطا فرمائی جو آپ کے ساتھ غیر معمولی اخلاص اور عقیدت کے جذبات رکھتی تھی اور اپنے ایمان کی مضبوطی اور اپنے جذ بہ قربانی اور معیار اطاعت میں خدا کے فضل سے صحابہ کے رنگ میں رنگین تھی.اور مخالفوں کی انتہائی مخالفت کے باوجود یہ الہی جماعت برابر ترقی کرتی چلی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اسے ہر رنگ میں بار آور اور برومند کیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود کی وفات کے وقت آپ کے یہ حلقہ بگوش فدائی چار لاکھ کی تعداد کو پہنچ چکے تھے.اور ان میں سے ہر ایک حضرت مسیح موعود پر

Page 296

۲۹۲ اس طرح جان دیتا تھا جس طرح ایک پروانہ شمع کے گرد گھومتا ہوا جان دیتا ہے.اور یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ حضرت مسیح ناصری کی اس قلیل سی جماعت کے مقابلہ پر جو انہیں اپنی زندگی کے ایام میں میسر آئی مسیح محمدی کی اس کثیر التعداد جماعت کا مقامِ محبت اور اخلاص اور ایمان اور جذ بہ قربانی کتنا بلند تھا! میں اس جگہ صرف مثال کے طور پر پانچ احمد یوں کا ذکر کرتا ہوں جو جماعت احمدیہ کے مختلف طبقات سے تعلق رکھتے تھے اور یقیناوہ سب کے سب ایسے نہیں تھے جو جماعت کے چوٹی کے ممبر سمجھے جاتے ہوں بلکہ ان میں سے بعض تو ایسے عام احمدیوں میں سے تھے جنہیں شاید جماعت کے اکثر دوست جانتے بھی نہیں.ان میں سب سے اول نمبر پر حضرت مولوی نورالدین صاحب تھے جو غیر منقسم ہندوستان کے مشہور ترین علماء اور قابل ترین اطباء میں شمار کئے جاتے تھے انہوں نے بیعت کا سلسلہ شروع ہوتے ہی پہلے نمبر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور پھر حضور پر ایسے گرویدہ ہوئے کہ اپنا وطن چھوڑ کر قادیان میں ہی دھونی رما کر بیٹھ گئے.اور حضرت مسیح موعود کی وفات پر جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ بنے.ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کا معیار ایسا شاندار اور ایسا بلند تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ ان کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ میرے پیچھے اس طرح چلتے ہیں جس طرح کہ انسان کے ہاتھ کی نبض اُس کے دل کی حرکت کے پیچھے چلتی ہے.آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ ص ۵۸۶ ترجمه از عربی ) ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب حضرت مسیح موعود نے دلی سے حضرت مولوی نور

Page 297

۲۹۳ الدین صاحب کو کسی کام کے تعلق میں قادیان کے پتے پر ایک تار دلوائی اور تار لکھنے والے نے یہ الفاظ لکھ دیئے کہ بلا توقف دتی پہنچ جائیں.اس وقت حضرت مولوی صاحب اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے روز مرہ کے کام میں مصروف تھے اس تار کے ملنے پر آپ فورا وہیں سے اُٹھ کر بغیر اس کے کہ گھر جائیں یا سفر کے لئے گھر سے کوئی خرچ منگوائیں یا بستر ہی تیار کرائیں یا اور ضروری سامانِ سفر ساتھ لیں قادیان کے اڈے کی طرف روانہ ہو گئے.اور جب کسی نے اس کیفیت کو دیکھ کر کہا حضرت آپ اس طرح بغیر کسی سامان کے لمبے سفر پر جارہے ہیں ! تو حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ امام نے بلایا ہے کہ ” بلا توقف آجاؤ اسلئے اب میرا ایک منٹ کے لئے بھی رکھنا جائز نہیں اور میں جس طرح بھی ہوا بھی جارہا ہوں خدا نے بھی آپ کے اس توکل کو غیر معمولی قبولیت سے نوازا.چنانچہ رستہ میں ہی غیبی طریق پر سارے انتظامات بلا روک ٹوک ہوتے چلے گئے اور آپ اپنے امام کی خدمت میں بلا توقف حاضر ہو گئے.یہ وہی حضرت مولوی نورالدین صاحب ہیں جن کی نیکی اور تقویٰ اور علم اور فراست اور محبت اور عقیدت اور قربانی کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود نے اپنے ایک شعر میں فرمایا ہے کہ چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے یعنی کیا ہی اچھا ہو کہ امت کا ہر فرد نور دین بن جائے اور یقیناً ایسا ہی ہوا اگر ہر مسلماں کا دل یقین کے نور سے بھر جائے“

Page 298

۲۹۴ لاریب حضرت مولوی صاحب کے علم اور اخلاص اور تقویٰ اور توکل اور اطاعت امام کا مقام بہت ہی بلند اور ہر لحاظ سے قابل رشک تھا.دوسری مثال جیسا کہ میں اپنی سابقہ تقریر میں بھی تفصیل سے بیان کر چکا ہوں حضرت مولوی سید عبد اللطیف صاحب شہید کی ہے.یہ بزرگ مملکت افغانستان کے رہنے والے تھے اور اس علاقہ کے چوٹی کے دینی علماء میں سے سمجھے جاتے تھے اور ساتھ ہی بڑے بااثر رئیس بھی تھے حتی کہ انہوں نے ہی امیر حبیب اللہ خان کی تاج پوشی کی رسم ادا کی تھی.جب صاحبزادہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مسیح اور مہدی ہونے کا دعوئی سنا تو تحقیقات کے لئے قادیان آئے اور اپنے نورِ فراست سے آپ کو دیکھ کر اور آپ کے دعوی کو پہچان کر فوراً قبول کر لیا.اُن کے واپس جانے پر کابل کے علماء نے ان کے متعلق کفر کا فتویٰ دیا اور واجب القتل قرار دے کر امیر کے پاس ان کے سنگسار کئے جانے کی سفارش کی.چنانچہ اس فتویٰ کی بناء پر امیر حبیب اللہ خان نے آپ کو سنگسار کرنے کا حکم دے دیا، اس پر حضرت صاحبزادہ صاحب کو بڑے ظالمانہ طریق پر کمر تک زمین میں گاڑ دیا گیا اور امیر نے خود موقعہ پر جا کر ان کو آخری دفعہ سمجھایا کہ اب بھی وقت ہے کہ اس عقیدے سے باز آجائیں مگر وہ ایک پہاڑ کی طرح اپنے ایمان پر قائم رہے اور یہی کہتے ہوئے پتھروں کی بے پناہ بوچھاڑ میں جان دے دی کہ جس صداقت کو میں نے خدا کی طرف سے حق سمجھ کر دیکھا اور پہچانا ہے اسے کبھی نہیں چھوڑ سکتا.‘ اور اس طرح بہت سے لوگوں کے بعد آنے کے باوجود خدا کی راہ میں آگے نکل گئے.حضرت مسیح موعود ان کے متعلق

Page 299

فرماتے ہیں کہ ۲۹۵ پُر خطر ہست این بیابان حیات صد ہزاراں اژر د بایش در جهات صد ہزاراں فرسخے تا کوئے یار دشت پر خار و بلایش صد ہزار بنگر این شوخی ازاں شیخ عجم ایں بیاباں کرد طے از یک قدم (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۶۰) یعنی یہ زندگی کا بیابان جنگل خطروں سے بھرا پڑا ہے جس میں ہزاروں زہریلے سانپ ادھر اُدھر بھاگتے پھرتے ہیں اور آسمانی معشوق کے رستے میں لاکھوں کروڑوں میل کا فاصلہ ہے جس میں بے شمار خاردار جنگلوں اور لاکھوں امتحانوں میں سے گزرنا پڑتا ہے مگر اس عجمی شیخ کی ہوشیاری اور تیز رفتاری دیکھو کہ اس خطر ناک جنگل کو صرف ایک قدم سے طے کر گیا.“ پھر ایک چوہدری رستم علی صاحب تھے جو حضرت مسیح موعود کے پرانے صحابی تھے اور بڑے سادہ مزاج بزرگ اور مخلص انسان تھے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے جماعت میں کسی خاص موقعہ پر چندے کی تحریک کی اور چوہدری رستم علی صاحب کو بھی خط لکھا.اسی دن اتفاق سے اُن کو اُن کی خاص ترقی کے احکام آئے تھے اور وہ سب انسپکٹر پولیس سے انسپکٹر بنا دیئے گئے تھے اور اُن کی تنخواہ میں اتنی روپے ماہوار کا

Page 300

۲۹۶ اضافہ ہو گیا تھا مسیح محمدی کے اس پروانے نے حضرت مسیح موعود کولکھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ میری یہ ترقی صرف حضور کی دعا اور توجہ کے نتیجہ میں ہوئی ہے کیونکہ ادھر حضور کا مکتوب گرامی پہنچا اور اُدھر میری اس ترقی کا آرڈر آ گیا اس لئے میں یہ ساری ترقی کی رقم حضور کی خدمت میں بھجواتا ہوں اور انشاء اللہ آئندہ بھی ہمیشہ بھجواتا رہوں گا.چنانچہ جب تک وہ زندہ رہے اپنی اس غیر معمولی ترقی کی ساری رقم حضور کی خدمت میں اسلام کی تبلیغ کے لئے بھجواتے رہے اور اس کے علاوہ اپنا سابقہ چندہ پچیس روپے ماہوار بھی بدستور جاری رکھا اور خود نہایت قلیل رقم پر گزارہ کرتے رہے اور قربانی کا ایک ایسا اعلیٰ نمونہ قائم کیا جس کی نظیر بہت کم ملتی ہے.( بدر ۱۴ جنوری ۱۹۰۹ ء والفضل یکم مئی ۱۹۶۲ء) پھر ایک گاؤں کے رہنے والے بابا کریم بخش صاحب ہوتے تھے.وہ زیادہ تعلیم یافتہ تو نہیں تھے مگر بے شمار دوسرے احمدیوں کی طرح حضرت مسیح موعود کی محبت اور اطاعت میں گداز تھے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود قادیان کی مسجد میں کچھ وعظ فرمارہے تھے اور پیچھے آنے والے لوگ پچھلی صفوں میں کھڑے ہوکر سن رہے تھے اور ان سے بعد میں آنیوالوں کے لئے رستہ رکا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود نے انتظام کی سہولت کی غرض سے ان لوگوں کو آواز دے کر فرمایا کہ بیٹھ جاؤ اس وقت بابا کریم بخش صاحب مسجد کی گلی میں سے ہو کر مسجد کی طرف آرہے تھے اُن کے کانوں میں اپنے امام کی یہ آواز پہنچی تو وہیں رستہ میں ہی زمین پر بیٹھ گئے اور پھر آہستہ آہستہ رینگتے ہوئے مسجد میں پہنچے تا کہ امام کے حکم کی نافرمانی نہ ہو.وہ بیان کیا کرتے تھے کہ میں

Page 301

۲۹۷ نے خیال کیا کہ اگر میں اسی حالت میں مر گیا تو خدا کو اس بات کا کیا جواب دوں گا کہ اُس کے میسیج کی آواز میرے کانوں میں پہنچی اور میں نے اس پر عمل نہ کیا.(سیرت المہدی روایت نمبر ۷۴۱ حصہ سوم صفحہ ۶۷۳) پھر ایک منشی عبدالعزیز صاحب دیہاتی پٹواری تھے یہ بھی پرانے صحابیوں میں سے تھے اور بڑے نیک اور قربانی کرنے والے خدمت گزار انسان تھے انہوں نے مجھ سے خود بیان کیا کہ ایک دفعہ جب ایک مقدمہ کے تعلق میں حضرت مسیح موعود گورداسپور تشریف لے گئے تو اُس وقت حضور بیمار تھے اور حضور کو پیچش کی سخت تکلیف تھی اور حضور بار بار قضائے حاجت کے لئے جاتے تھے.میں حضور کے قریب ہی ٹھہر گیا اور جب بھی حضور رفع حاجت کے لئے اٹھتے تھے میں فوراً حضور کی خدمت میں پانی کا لوٹا حاضر کر دیتا تھا.حضور مجھے بار بار فرماتے تھے کہ میاں عبدالعزیز آپ سوجائیں اگر ضرورت ہوئی تو میں آپ کو جگالوں گامگر میں ساری رات مسلسل جاگتا رہا تا کہ ایسا نہ ہو کہ حضور مجھے کسی وقت آواز دیں اور میں نیند کی حالت میں حضور کی آواز کو نہ سن سکوں اور حضور کو تکلیف ہو.صبح اٹھ کر حضرت مسیح موعود نے مجلس میں خوش ہو کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا فضل ہے کہ مسیح ناصری ایک شدید ابتلاء کے وقت میں لوگوں سے بار بار کہتا تھا کہ ” جاگتے رہو اور دعا کرو مگر وہ سوجاتے تھے (متی باب ۲۶ آیت ۳۹ تا ۴۶) مگر ہم ایک عام بیماری کی حالت میں منشی عبد العزیز صاحب سے بار بار کہتے تھے کہ سو جاؤ مگر وہ ہماری وجہ سے ساری رات جاگتے رہے اور آنکھ تک نہیں جھپکی.(سیرت المہدی حصہ سوم روایت نمبر ۷۰۱ صفحه ۶۳۹)

Page 302

۲۹۸ یہ پانچ مثالیں میں نے محض بطور نمونہ حضرت مسیح موعود کے صحابیوں کے مختلف طبقات میں سے منتخب کی ہیں ورنہ آپ کے صحابہ خدا کے فضل سے آپ کی محبت اور عقیدت اور اخلاص اور قربانی اور نیکی میں حقیقتہ اس زمانہ میں دنیا کے لئے ایک پاک اسوہ اور حضرت مسیح موعود کی صداقت کی زبردست دلیل تھے.حضرت مسیح ناصری کا یہ قول کتنا سچا اور کتنی گہری حقیقت پر مبنی ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے مگر افسوس ہے کہ حضرت مسیح ناصری کو اپنی فلسطینی زندگی میں اپنے درخت کے شیریں پھل دیکھنے نصیب نہ ہوئے اور مسیح کے آخری ابتلاء میں جو صلیب کی شکل میں رونما ہوا مسیح کے حواریوں نے بڑی کمزوری اور بے وفائی دکھلائی.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب رسول کی برکت سے مسیح محمدی کو بڑی کثرت کے ساتھ نہایت شیریں پھل عطا کئے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک جگہ اس خاص فضل الہی کا ذکر کرتے ہوئے بڑے شکر و امتنان کے ساتھ فرماتے ہیں کہ میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں جو سچے دل سے میرے پر ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ بجالاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت ایسے روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں.میں اپنے ہزار ہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیروان سے جو ان کی زندگی میں اُن پر ایمان لائے تھے ہزار درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں اور ان کے چہروں پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا

Page 303

۲۹۹ نور پاتا ہوں...میں دیکھتا ہوں کہ میری جماعت نے جس قدر نیکی اور صلاحیت میں ترقی کی ہے یہ بھی ایک معجزہ ہے.ہزارہا آدمی دل سے فدا ہیں.اگر آج ان کو کہا جائے کہ اپنے تمام اموال سے دستبردار ہو جاؤ تو وہ دستبردار ہونے کے لئے مستعد ہیں.پھر بھی میں ہمیشہ ان کو اور ترقیات کے لئے ترغیب دیتا ہوں اور ان کی نیکیاں ان کو نہیں سنا تا مگر دل میں خوش ہوں.“ (الذکر احکیم نمبر ۴ ص ۱۶، ۱۷) سچ ہے اور پھر سچ ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے خدا کرے کہ حضرت مسیح موعود کے ہاتھ کا لگایا ہوا خدائی پودا قیامت تک اسی قسم کے شیریں پھل پیدا کرتا چلا جائے اور ہماری نسلیں اور پھر نسلوں کی نسلیں اس مقدس ورثہ کی قدر و قیمت کو پہچانیں جو حضرت مسیح موعود کے صحابہ کے ذریعہ جماعت کو حاصل ہوا ہے.(۲۲) مجھے ایک اور واقعہ یاد آیا جس میں ایک طرف مخلصین جماعت کی محبت اور عقیدت اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود کے حسنِ تادیب و تربیت کی بڑی دلچسپ مثال ملتی ہے.جیسا کہ اکثر دوست جانتے ہیں دنیا کے لوگوں میں کسی عوامی لیڈر کے ساتھ اپنی دلچسپی اور عقیدت کے اظہار کا ایک معروف طریق یہ بھی ہے کہ بعض اوقات جب کوئی ہر دلعزیز لیڈر کسی شہر میں جاتا ہے تو اس شہر کے لوگ اس کی گاڑی میں

Page 304

گھوڑے جو تنے کی بجائے اس کے اکرام و احترام کی غرض سے اُس کی گاڑی میں خود لگ جاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے اس کی گاڑی کو کھینچتے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ آخری ایام میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لے گئے تو چند جو شیلے احمدی نوجوانوں کو دنیا کی نقل میں خیال آیا کہ ہم بھی اپنے پیارے امام کو گاڑی میں بٹھا کر اُس کی گاڑی کو خود اپنے ہاتھوں سے کھینچیں اور اس طرح اپنی دلی محبت اور عقیدت کا ثبوت دیں چنانچہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ آج ہم حضور کی گاڑی کو کھینچنے کا شرف حاصل کریں گے لیکن حضرت مسیح موعود نے اس تجویز کو نا پسندیدگی کے ساتھ رڈ فرما دیا اور نوجوانوں کی تربیت کے لئے فرمایا ”ہم انسانوں کو حیوان بنانے کے لئے دنیا میں نہیں آئے بلکہ حیوانوں 66 کو انسان بنانے کے لئے آئے ہیں.“ روایات میاں عبد العزیز صاحب مغل بحوالہ حیات طیبہ ص ۴۵۶، ۴۵۷) یہ ایک سادہ سابے ساختہ نکلا ہوا کلام ہے مگر ان الفاظ سے حضرت مسیح موعود کے قلب صافی کے ان گہرے جذبات پر کتنی لطیف روشنی پڑتی ہے جو آپ اپنے آسمانی آقا کی طرف سے لے کر دنیا میں نازل ہوئے تھے.اگر کوئی دنیا دار انسان ہوتا تو نوجوانوں کی اس پیشکش پر خوش ہوتا اور اسے اپنی عزت افزائی سمجھتا مگر اس آئینہ جمال“ کی شان دیکھو کہ اس کے نزدیک اس کے نفس کی عزت کا کوئی سوال نہیں تھا بلکہ صرف اور صرف اُس پیغام کی عزت کا سوال تھا جو وہ خدا کی طرف سے لے کر آیا

Page 305

تھا.حق یہ ہے کہ اس وقت دنیا کا کثیر حصہ اپنے فطری روحانی جو ہر کوکھوکر عملاً حیوانیت کی طرف جھک گیا ہے اور مادیت کے دبیز ظلماتی پردوں میں اس کی روحانیت اس طرح چھپ گئی ہے جس طرح کہ سورج گرہن کے وقت اُس کی تیز روشنی پردوں کے سایہ کے پیچھے چھپ جایا کرتی ہے اسی لئے جب خدا نے حضرت مسیح موعود کو مبعوث فرما یا تو حضور کو یہ الہام کیا کہ يُحْيِ الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ - ( تذکرہ ص اے وص ۶۵۹) یعنی ہمارا یہ مسیح دین کو اس کے کمزور ہو جانے کے بعد پھر زندہ کرے گا اور اسلامی شریعت کو دنیا میں پھر دوبارہ قائم کر دے گا.“ بے شک مقابلہ سخت ہے اور بے حد سخت.اور کفر و شرک کی فوجیں چاروں طرف سے اسلام پر حملہ آور ہو رہی ہیں اور مادیت کی طاقتیں روحانیت کو کچلنے کے در پے ہیں مگر آخری فتح یقینا حق کی ہوگی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خدا دادمشن کامیاب ہوکر رہے گا.حضور ایک جگہ خدا سے علم پا کر اپنے مشن کی کامیابی اور اسلام کے آخری غلبہ کے متعلق فرماتے ہیں.دوست غور سے سنیں یقینا سمجھو کہ ( کفر و اسلام کی ) اس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجز دشمن کی طرح صلح جوئی کی حاجت نہیں بلکہ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے جیسا کہ وہ پہلے کسی وقت اپنی ظاہری طاقت دکھلا چکا ہے.یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلّت کے ساتھ پسپا ہوگا اور اسلام فتح

Page 306

پائے گا.حال کے علوم جدیدہ کیسے ہی زور آور حملے کریں.اور کیسے ہی نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ چڑھ چڑھ کر آویں مگر انجام کا ران کے لئے ہزیمت ہے.میں شکر نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ اسلام کی اعلیٰ طاقتوں کا مجھ کو علم دیا گیا ہے جس علم کی رو سے میں کہ سکتا ہوں کہ اسلام نہ صرف فلسفہ جدیدہ کے حملہ سے اپنے تئیں بچائے گا بلکہ ( زمانہ ) حال کے علوم مخالفہ کو جہالتیں ثابت کر دے گا اسلام کی سلطنت کو ان چڑھائیوں سے کچھ بھی اندیشہ نہیں ہے جو فلسفہ اور (علوم) طبعی کی طرف سے ہورہے ہیں اس کے اقبال کے دن نزدیک ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آسمان پر اس کی فتح کے نشان نمودار ہیں.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ ص ۲۵۵،۲۵۴) (۲۳) میں اپنی تقریر کے شروع میں بیان کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کی بعثت کی دو بڑی غرضیں تھیں.ایک غرض اسلام کے احیاء تجدید اور غلبہ سے تعلق رکھتی تھی اور دوسری غرض کا تعلق کسر صلیب سے تھا.یعنی مسیحیت کے زور کو توڑ کر اور دنیا میں مسیح پرستی کو مٹا کر سچی توحید کو قائم کرنا.بے شک حضرت مسیح ناصری خدا کے ایک برگزیدہ نبی تھے جن کی ہم دل و جان سے عزت کرتے ہیں مگر ان کے بعد ان کی قوم نے یہ خطرناک ظلم ڈھایا کہ حق وصداقت کے رستہ کو چھوڑ کر انہیں خدا کا بیٹا بنالیا اور اس

Page 307

طرح دنیا میں ایک بھاری شرک کی بنیا درکھ دی.حالانکہ مسیح کی ساری زندگی اور زندگی کا ہرلمحہ اس بات پر شاہد ناطق ہے کہ وہ خدا یا خدا کا بیٹا ہر گز نہیں تھا بلکہ وہ دوسرے انسانوں کی طرح ایک عورت کے بطن سے پیدا ہوا اور کمزوری کی حالت میں ہی دنیا میں زندگی گزاری اور عاجزی اور فروتنی کے طریق پر اپنے خدا داد مشن کی تبلیغ کی اور ہمیشہ خدائے واحد کی پرستش میں اپنا وقت گزارا.اور پھر بد بخت یہودیوں نے اس مقدس انسان کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ کھڑا کر کے اسے صلیب کی سزا دلوادی مگر خدا نے اپنی معجزانہ تقدیر سے اسے اس لعنت کی موت سے بچا لیا.مسیح کا کوئی ایک قول یا اس کی زندگی کا کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جو اسے دوسرے نبیوں سے ممتاز کرتا ہو بلکہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو حضرت موسیٰ کی شریعت کے تابع اور اسرائیلی سلسلہ کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ اور ایک غیر تشریعی نبی کے طور پر پیش کرتا رہا.اور چونکہ حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ بھی ایک مرسل یزدانی تھے اس لئے نہ صرف آسمانی برادری میں شامل ہونے کی حیثیت میں بلکہ مثیل مسیح ہونے کی حیثیت میں بھی آپ مسیح ناصری سے محبت کرتے اور اسے عزت کی نظر سے دیکھتے تھے.مگر چونکہ آپ افضل الرسل خاتم النبیین سید ولد آدم کے قدموں میں ظاہر ہونے والے خاتم الخلفاء تھے اس لئے لازماً آپ کا درجہ خدا کے فضل سے مسیح ناصری سے بلند تھا.چنانچہ آپ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اُس سے بہتر غلام احمد ہے دافع البلاء روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۴۰)

Page 308

۳۰۴ دوسری طرف چونکہ مسیحیت کے عقائد بگڑ چکے تھے اور توحید کی جگہ تثلیث نے لے لی تھی جو شرک کا ہی دوسرا نام ہے اس لئے حضرت مسیح موعود نے اپنے فرضِ منصبی کے لحاظ سے مسیحیت کے باطل خیالات کا مقابلہ کرنے اور صلیب کے زور کو توڑنے میں انتہائی توجہ دی اور تقریر اور تحریر کے ذریعہ ان کے غلط عقائد کا پورا پورا کھنڈن کیا حتی کہ مخالفوں تک نے آپ کو عیسائیوں اور آریوں کے مقابلہ پر فتح نصیب جرنیل“ کے لقب سے یاد کیا اور اس کے مقابل پر مسیحیوں نے بھی ہر رنگ میں حضرت مسیح موعود کا مقابلہ کرنے اور حضور کو نیچا دکھانے کی سر توڑ کوشش کی اور ہر طرح کی امکانی چالوں سے کام لیتے ہوئے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر مقابلہ میں کامیاب اور سر بلند کیا اور آپ خدا کے فضل سے اس دار فانی سے کامیابی اور فتح و ظفر کا پرچم لہراتے ہوئے رخصت ہوئے اور اب آپ کے بعد آپ کی جماعت اپنے نہایت محدود و وسائل کے باوجود آزاد دنیا کے قریباً ہر ملک میں اسلام کا جھنڈا بلند کرنے میں دن رات لگی ہوئی ہے اور مسیحیت پسپا ہورہی ہے اور اسلام ترقی کر رہا ہے.اس تعلق میں ایک عجیب واقعہ مجھے یاد آیا کہ ایک دفعہ بٹالہ کے مسیحیوں نے جو قادیان کے تقرب کی وجہ سے زیادہ تعصب رکھتے تھے اور حسد سے جلے جاتے تھے حضرت مسیح موعود کے دلائل اور زور دار علم کلام کے سامنے عاجز آکر حضور کی خدمت میں یہ چیلنج بھیجا کہ اگر آپ واقعی خدا کی طرف سے ہیں تو ہم ایک خط کے اندر کچھ عبارت لکھ کر اور اُسے سر بمہر لفافے میں بند کر کے آپ کے سامنے میز پر رکھ دیتے ہیں اگر آپ سچے ہیں تو اپنی روحانی طاقت کے ذریعہ اس لفافہ کے اندر کا

Page 309

مضمون بتادیں.ان کا خیال ہوگا کہ غالباً حضرت مسیح موعود اس عجیب و غریب چیلنج کو ٹال دیں گے اور انہیں حضور کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے کا موقعہ مل جائے گا مگر حضرت مسیح موعود نے اس چیلنج کے ملتے ہی غیرت کے ساتھ فرمایا کہ میں اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں اور اس مقابلے کے لئے تیار ہوں کہ دعا اور روحانی توجہ کے ذریعہ آپ کے بند خط کا مضمون بتادوں مگر شرط یہ ہے کہ اس کے بعد آپ لوگوں کو مسلمان ہونا ہوگا“ (اصحاب احمد جلد چہارم ص ۱۰۴) حضرت مسیح موعود کے اس تحدی والے جواب کا عیسائیوں پر ایسا رعب پڑا کہ وہ ڈر کر بالکل خاموش ہو گئے اور خود اپنی طرف سے چیلنج دینے کے بعد حضرت مسیح موعود کے سامنے آنے کی جرات نہ پائی اور مسیحیت کو شکست ہوئی اور اسلام کا بول بالا ہوا.یہ درست ہے کہ جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے خدا کے رسولوں کو از خود غیب کا علم حاصل نہیں ہوتا (سورہ انعام آیت (۱۰۹) مگر یہ بھی درست ہے اور خدا کی ازلی سنت میں داخل ہے کہ وہ اکثر اپنی مشیت اور اپنے مصالح کے ماتحت نبیوں پر غیب کی خبریں ظاہر فرما تارہتا ہے تا کہ خدائی دین کو خدائی نشانوں کے ذریعہ تقویت حاصل ہو.یا درکھنا چاہیئے کہ عیسائیوں کے اس چیلنج کے جواب میں حضرت مسیح موعود نے جو یہ فرمایا تھا کہ اگر میں بند خط کا مضمون بتا دوں تو پھر آپ لوگوں کو مسلمان ہونا ہو گا تو یہ کوئی رسمی جواب اور کوئی معمولی شرط نہیں تھی بلکہ حضرت مسیح موعود کی صداقت اور اسلام کی سچائی کی ایک زبر دست دلیل تھی.خدا کے مامور کوئی فضول اور عبث کام نہیں

Page 310

کیا کرتے اور نہ وہ نعوذ باللہ دنیا کے مداریوں کی طرح لوگوں کو تماشہ دکھاتے پھرتے ہیں بلکہ ان کی غرض و غایت صرف حق کی تائید کرنا اور صداقت کی طرف لوگوں کو دعوت دینا ہوتی ہے.اور وہ صرف وہی کام کرتے اور صرف اسی جگہ ہاتھ ڈالتے ہیں جہاں انہیں اپنے خدا داد مشن کی تائید اور صداقت کی تصدیق کا کوئی سنجیدہ پہلو نظر آئے.کاش بٹالہ کے عیسائی اس موقعہ پر مردانہ جرات سے کام لے کر آگے آتے اور خدا اسلام کی تائید میں کوئی چمکتا ہوا نشان ظاہر کرتا جس سے دنیا کی روحانیت کو فائدہ پہنچتا اور حق کا بول بالا ہوتا.حضرت مسیح موعود اپنی ایک نظم میں عیسائیوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں آؤ عیسائیو ادھر آؤ نور حق دیکھو! راہ حق پاؤ ! جس قدر خوبیاں ہیں فرقاں میں کہیں انجیل میں تو دکھلاؤ! سر پہ خالق ہے اس کو یاد کرو یونہی مخلوق کو نہ بہکاؤ! ہے یہ فرقاں میں اک عجیب اثر کہ بناتا ہے عاشق دلبر کوئے دلبر میں کھینچ لاتا ہے پھر تو کیا کیا نشاں دکھاتا ہے اس کے منکر جو بات کہتے ہیں یونہی اک واہیات کہتے ہیں بات جب ہو کہ میرے پاس آویں میرے منہ پر وہ بات کہہ جاویں مجھ سے اُس دلستاں کا حال سنیں مجھ سے وہ صورت و جمال سنیں آنکھ پھوٹی تو خیر کان سہی نہ سہی یونہی امتحاں سہی (براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۹۹،۲۹۸)

Page 311

مگر عیسائی دنیا یا درکھے کہ وہ اس قسم کی ہوشیاری اور حیلہ جوئی سے بچ نہیں سکتے.مسیحیت کے دن اب گنے جاچکے ہیں.صلیب ٹوٹ کر رہے گی اور اسلام بہر حال فتح پائے گا اور غالب ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ”میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے....میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جا تا اگر میرا مولا اور میرا قادر وتوانا (خدا) مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر تو حید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے جود سے منقطع کئے جائیں گے.مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا....خدا نے چاہا ہے کہ ان دونوں کی جھوٹی معبودانہ زندگی کو ( دلائل اور براہین کے ذریعہ ) موت کا مزا چکھائے.سو اب وہ دونوں مریں گے.کوئی ان کو بچا نہیں سکتا.اور وہ تمام خراب استعدادیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا.وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا.“ (اشتہار ۱۴ جنوری ۱۸۹۷ء و تذکره ص۲۹۹)

Page 312

۳۰۸ (۲۴) یہ سب کچھ جو ابھی بیان کیا گیا ہے خدائے عرش نے حضرت مسیح موعود علیہ السلا کو الہاماً بتایا اور حضور نے دنیا پر ظاہر فرمایا اور وہ اپنے وقت پر پورا ہوگا اور ضرور ہوگا اور یہ ایک اٹل آسمانی تقدیر ہے جس کی تمام نبی اور تمام آسمانی پیغامبر اپنے اپنے وقت میں خبر دیتے آئے ہیں اور ہمارے آقا حضرت سرور کائنات صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ (فَدَاهُ رُوحِي وَ جَنَانِي ) نے خاص طور پر خدا کی قسم کھا کر خبر دی تھی کہ مہدی اور مسیح کے ظہور سے آخری زمانہ میں اسلام کے دوسرے اور دائمی غلبہ کا دور آئے گا اور صلیبی عقائد اور صلیبی طاقتوں کا ہمیشہ کے لئے زور ٹوٹ جائے گا اور ایک نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان.مگر یہ بھی خدا کا ہی بنایا ہوا از لی قانون ہے کہ اُس نے ہرامر میں کامیابی کے لئے تقدیر اور تدبیر کا مخلوط اور مشتر کہ نظام قائم کر رکھا ہے.تقدیر خدا کی مشیت اور خدا کے حکم کے ماتحت آسمان کی بلندیوں سے نازل ہوتی ہے اور اس کی تاریں فرشتوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں جو خدا کے حکم سے پردہ غیب میں رہتے ہوئے خدائی نظام کو چلاتے ہیں.اور تدبیر کی تاریں خدائے علیم وحکیم نے بندوں کے ہاتھ میں دے رکھی ہیں.چنانچہ جب کسی مامور ومرسل کے ذریعہ دنیا میں کوئی نیا نظام قائم ہوتا ہے تو مومنوں کا گروہ خدا کی انگلی کو دیکھ کر اس کی تقدیر کے حق میں اپنی تدبیروں کو حرکت دینا شروع کر دیتا ہے.اور پھر یہ دونوں حرکتیں مل کر دنیا میں ایک

Page 313

عظیم الشان تبدیلی پیدا کر دیتی ہیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے خدا کی طرف سے فتح اور غلبہ کی عظیم الشان بشارتوں کے باوجود ظاہری تدبیر کے ماتحت اسلام کی خدمت کے لئے اتنی قربانیاں کیں کہ دنیا کی تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی.اسی طرح جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آئندہ ہونے والے غیر معمولی تغیرات اور اسلام واحمدیت کے عالمگیر غلبہ کی پیشگوئی فرمائی ہے وہاں حضور نے اپنی جماعت کو بھی زبر دست تحریک کے ذریعہ ہوشیار کیا ہے کہ اس الہی تقدیر کے پیچھے اپنی تدبیر کے گھوڑے ڈال دو اور پھر خدا کی قدرت کا تماشہ دیکھو.چنانچہ حضور فرماتے ہیں سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اُس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے.لیکن ابھی ایسا نہیں.ضرور ہے کہ آسمان اُسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم (اپنے ) سارے آراموں کو اُس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لیے ساری ذلتیں قبول نہ کرلیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ (فدیہ ) کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے.“ فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۱،۱۰)

Page 314

۳۱۰ اور بالآخر اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.دوست غور سے سنیں کہ کس محبت اور کس درد کے ساتھ فرماتے ہیں کہ ”اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی اپنا آرام اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو.اگر چہ میں جانتا ہوں (سنو کہ ) میرا دوست کون ہے؟ اور میرا عزیز کون؟ وہی جو مجھے پہچانتا ہے.مجھے کون پہنچاتا ہے؟ صرف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں ( خدا کی طرف سے ) بھیجا گیا ہوں اور مجھے اُس طرح قبول کرتا ہے جس طرح وہ لوگ قبول کئے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں.دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں.مگر جن کی فطرت کو اُس عالم کا حصہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے.جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اُس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اُس سے کرتا ہے جس کی طرف سے میں آیا ہوں میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اُس روشنی سے حصہ لے گا مگر جو شخص وہم اور بدگمانی کی وجہ سے دُور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا.اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا.مگر جو شخص میری دیواروں سے دُور رہنا چاہتا ہے ہر طرف سے اس کو موت در پیش ہے! اور اُس کی لاش بھی سلامت

Page 315

نہیں رہے گی (یعنی روحانی رنگ میں اس کا نام ونشان تک مٹ جائے گا ).مجھ میں کون داخل ہوتا ہے؟ وہی جو بدی کو چھوڑتا ہے اور نیکی کو اختیار کرتا ہے اور کچی کو چھوڑتا اور راستی پر قدم مارتا ہے اور شیطان کی غلامی سے آزاد ہوتا اور خدا تعالیٰ کا ایک بندہ مطیع بن جاتا ہے.ہر ایک جو ایسا کرتا ہے وہ مجھ میں 66 ہے اور میں اُس میں ہوں.“ فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۴) خدا کرے کہ ہم اور ہماری نسلیں ہمیشہ ہمیش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت وجود کی سرسبز شاخیں بن کر رہیں اور ہمارے ذریعہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام نامی اور اسماء گرامی چارا کناف عالم میں فتح و ظفر کے نقاروں کے ساتھ گونجیں اور خدا کا یہ کلام اپنی شان کے ساتھ پورا ہو کہ پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد " امين يَا رَبَّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِينَ خاکسار مرزا بشیر احمد ربوه ۲۸ / دسمبر ۱۹۶۲ء

Page 315