ScientificAchievementsofMuslims

ScientificAchievementsofMuslims

مسلمانوں کے سائنسی کارنامے

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

مسلمانوں کے سائنسی کارنامے مصنف محمد زکریا ورک مرکز فروغ سائنس، علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی، علی گڑھ

Page 2

حرف اول سائنس کی تاریخ میں مسلمانوں نے پانچ سوسال کے عرصے میں جو شاندار کارنامے سرانجام دئے ، ان کی مختصر تفصیل اس کتاب میں پیش کی جاری ہے.سائنس پر کسی ایک قوم یا علاقے کی اجارہ داری نہیں رہی ہے بلکہ چینیوں ، ہندوؤں ، ایرانیوں، یونانیوں، مسلمانوں اور آج کے دور میں اہلِ یورپ و امریکہ نے اس میں برابر کا حصہ لیا ہے.سائنس انسانیت کی مشترکہ میراث ہے جس میں مسلمانوں کا بڑا حصہ ہے.یہ ہماری ذمے داری ہے کہ جس چیز سے انسانیت کو فائدہ پہنچتا ہے اس کے فروغ میں بھر پور حصہ لیں.مسلمان حکماء واطبا اور اسلامی سائنسی دور کے مطالعے کا شوق مجھے میں سال قبل تہذیب الاخلاق میں اسلام اور سائنس پر ٹھوس علمی مضامین پڑھنے سے شروع ہوا.اس کے بعد میں نے اس موضوع پر درجنوں کتابیں پڑھ ڈالیں.پچھلے بیس سال میں راقم السطور نے جو کچھ مطالعے سے حاصل کیا اس کا ماحصل یہ کتاب ہے جو آپ کے ہاتھوں میں ہے.دوسرے لف میں یہ کہہ لیں کہ یہ خریطہ علم میری زندگی کا نچوڑ ہے.امید واثق ہے کہ یہ کتاب آپ کے ازدیاد علم کا باعث ہوگی کیونکہ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ: روشنی کے قوانین کس نے دریافت کیسے؟ سب سے پہلے کس نے قوس و قزح کی سائنسی وجہ بیان کی تھی ؟ چیچک وخسرہ میں فرق سب سے پہلے کس نے بتلایا تھا ؟ لفظوں خورد بینی کیڑے یا مائیکروب (microbes) کا نظریہ سب سے پہلے کس نے پیش کیا تھا؟

Page 3

الرجی (allergy )اور امیونولوجی (immunology) کی سب سے پہلے تشخیص کس نے کی تھی؟ جراثیم (bacteria) کی دریافت سب سے پہلے کس نے کی تھی ؟ پھیپھڑوں میں خون کی گردش کا نظریہ سب سے پہلے کس نے پیش کیا تھا؟ امراض چشم اور ان کے علاج سے دنیا کو کس نے روشناس کرایا.سرجری کی باضابطہ ابتدا کس نے کی؟ منظم ہسپتال کا تصور سب سے پہلے کس نے پیش کیا ؟ فوٹو لینے والے کیمرے کا خیال سب سے پہلے کس کو آیا ؟ ریاضی میں جدید علم ہندسہ اور صفر کے علاوہ الجبرا اور جیومیٹری سے دنیا کو کس نے متعارف کرایا ؟ سورج پرسن اسپاٹس (sun spots) کس نے دریافت کئے تھے؟ بارود(gun powder) کس نے دریافت کیا؟ میزائل (missile) کس نے بنانے شروع کئے؟ شیشہ کس نے ایجاد کیا؟ گھڑی کی ایجاد کا سہرا کس کے سر ہے؟ ان سب دلچسپ سوالوں کے جوابات آپ کو اس کتاب میں ملیں گے.اب ایک مود بانه گزارش: سائنسی تعلیم کے فروغ کے لیے برصغیر میں اردو میں سائنس کی تعلیم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اردو میں تکنیکی الفاظ کو کس طرح لکھا جائے.مثلاً یہ کہنا تو آسان ہے کہ ایٹم (atom) کے اندر مرکزہ ہوتا ہے اور برقئے باہر چکر لگاتے ہیں جبکہ انگلش میں اس کا اظہار یوں ہوگا کہ ایٹم کے اندر نیوکس (nucleus) ہوتا ہے اور الیکٹران (electrons) باہر چکر لگاتے ہیں.اسکول میں طالب علم ان تکنیکی الفاظ کو سکھ تو لے گا مگر یو نیورسٹی سطح پر جا کر اسے تمام ٹیکنیکل اصطلاحات (technical tems) انگریزی میں پڑھنے ہوں گے.دنیا کے تمام سائنسی رسالے (journals) اور جدید تحقیقات پر مبنی مضامین آئے دن انگریزی میں ہی لکھے اور پڑھے جاتے ہیں.اس لئے بہتر ہے کہ طالب علم شروع ہی سے ان الفاظ کو انگریزی میں سیکھ لے اور تمام ٹیکنیکل الفاظ جوں کے توں اردو میں لکھ دیے جائیں.میری ناقص رائے میں اردو میں تکنیکی اصطلاحات کے متبادل الفاظ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے.بولنے میں اردو کی یہ حالت ہے کہ انگریزی کے الفاظ روز مرہ گفتگو میں زیادہ بولے جاتے ہیں.اس لیے تحریر میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ میں مرکز فروغ سائنس، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ڈائریکٹر پروفیسر سید ابوالہاشم رضوی صاحب کا شکر گزار ہوں جن کی تحریک پر یہ کتاب لکھی گئی ہے.مطلوبہ کتابوں کے حصول میں کنگسٹن کی پبلک لائبریری (Kingston Public Library) کا خاص طور پر تہ دل سے ممنون ہوں جنہوں نے مجھے دوسرے شہروں کی لائبریریوں سے مطلوبہ کتابیں منگوا کر دیں.میں یہ کتاب بشری ، ذیشان اور عدنان کے نام معنون کرتا ہوں.کنگسٹن کینیڈا محمد زکریا ورک

Page 4

و پیاده سائنس کا مسلمان طالب علم جب یہ دیکھتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے اور سائنس کی ساری دریافتیں اور ایجادیں یورپ اور امریکہ کی رہین منت ہیں تو اسے بہت مایوسی ہوتی ہے.سائنس کے نقشے میں مسلمانوں کو نہ دیکھ کر اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے دینیات اور شعر و ادب کے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کوئی قابل ذکر کام انجام نہیں دیا ہے.دوسری قومیں ہم سے علمی و سائنسی لحاظ سے امتیاز رکھتی ہیں اور دنیا کی سائنسی تاریخ ان کے کارناموں سے منور ہے.یہ خیال سائنس کے نوجوان طلبہ ہی کے دل میں نہیں پیدا ہوتا، بہت سے پڑھے لکھے افراد کے ذہنوں میں بھی یہ بات رہتی ہے کہ مسلمانوں کا سائنس سے کوئی رشتہ نہیں ہے.اس کا تعلق محض مغربی اقوام سے ہے اور یورپ اور امریکہ ہی کے محققین نے سائنس کی مختلف شاخوں میں نت نئی دریافتیں کی ہیں اور سائنس کا ہر مضمون ان کے گراں بہا احسانات کا اسیر ہے.دراصل اس احساس کی تین بڑی وجوہات ہیں.ایک، تاریخ سائنس سے بے خبری اور مسلمانوں کے عظیم الشان علمی کارناموں سے مکمل طور پر ناواقفیت ، دوسرے، اہل مغرب کی طرف سے انہیں چھپانے کی منظم کوششیں، تیسرے موجودہ زمانے میں سائنس ٹیکنالوجی اور طب کے میدان میں محیر العقول کارناموں اور اکتشافات میں کسی بھی دوسری قوم کے مقابلے یورپ اور امریکہ کے سائنس دانوں کو حاصل بھاری سبقت اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان کی تشہیر.سائنس کے اس عہد میں تاریخ کی ورق گردانی پدرم سلطان بود کی بات نہیں ہے.اس

Page 5

کے مطالعے سے اسلاف کے وہ کارنامے سامنے آتے ہیں جو انہوں نے گزشتہ ادوار میں سائنس کی ترقی و پیش رفت کے لیے انجام دیے ہیں.کوئی دریافت اچانک ظہور میں نہیں آتی ، وہ بڑے اتار چڑھاؤ اور ایک ارتقائی تسلسل کا نتیجہ ہوتی ہے، اس کی تہ میں بہت سی معلوم و نا معلوم کاوشوں کو دخل ہوتا ہے اور اس کی مکمل و ترقی یافتہ شکل بہت سے تجربوں اور مرحلوں سے گزرنے کے بعد وجود پذیر ہوتی ہے.اس کے عہد بہ عہد ارتقا کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ سائنس کے انکشافات کے لئے راستہ ہموار کرنے میں کس طرح پیش رو محققین نے اپنی زندگیاں کھپائی ہیں اور کس عزم و حوصلے سے نا مساعد اور دشوار حالات میں اس کی شمع کو انہوں نے روشن رکھا ہے.ان کے خون جگر کے بغیر سائنس کا یہ نقش نا تمام رہتا اور کوئی دریافت اتنی جلدی منصہ شہود پر نہ آتی.علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مرکز فروغ سائنس کے قیام کا ایک بنیادی مقصد جہاں دینی مدارس کے لئے سائنس کے مختلف عنوانات پر کتابیں مہیا کرنا اور ان کے معیار وسطح کے مطابق سائنس کی معلومات سے انہیں بہرہ ور کرنا ہے، وہاں ورکشاپ اور مذاکروں کے ذریعے سائنس سے دلچسپی اور فروغ بھی اس کے پیش نظر ہے.مسلمانوں کا سائنس سے جو رشتہ رہا ہے اور انہوں نے سائنس کی تاریخ میں جو قابل قدر نقوش ثبت کیے ہیں اس کا تعارف بھی اس کے منصوبے میں شامل ہے.یہ کتاب اسی منصوبے کا ایک حصہ ہے.محمد ذکر یا ورک صاحب ایک بڑے وسیع المطالعہ شخص ہیں.انہوں نے نہ صرف تاریخ طب و سائنس کی مختلف زبانوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے بلکہ دنیا کے ان اہم کتب خانوں میں جو اپنے پیش قدر مخطوطات کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں، خود جا کر بہت سے مخطوطات ملاحظہ کئے ہیں اور ان سب کی روشنی میں سائنس کے مختلف مضامین میں مسلمانوں کے کارناموں اور ان کی تصانیف کا ذکر کیا ہے.ان کی اس تالیف کا مقصد نوجوان مسلمانوں کے دلوں میں سائنس کی محبت اور رغبت پیدا کرنا ہے.انہوں نے اس حکایت لذید کومستند حوالوں اور خود اہل مغرب کے بیانات کے ذریعے مرتب کرنے کی کوشش کی ہے، اس میں اگر چہ کافی اختصار سے کام لیا گیا ہے لیکن اس مختصر جائزے سے سائنس میں مسلمانوں کے حصے کا بھر پور تعارف ہوتا ہے اور یہ اندازہ کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی.ڈاکٹر سید محمد ابوالہاشم رضوی صاحب نے مرکز فروغ سائنس کے کاموں میں جو غیر معمولی دلچسپی لی ہے اور جس جذبے اور انہماک سے وہ اسے ترقی دینے کے لیے کوشاں ہیں ، وہ بے حد قابل ستائش ہے.مجھے امید ہے کہ ان کے زیر اہتمام یہ مرکز اپنے ان مقاصد کو بہتر طور پر حاصل کرے گا جس کے لئے اسے قائم کیا گیا ہے.تاریخ سائنس پر اس مفید اور معلومات افزا کتاب کی اشاعت کے لئے وہ ہم سب کے شکریے کے مستحق ہیں.علی گڑھ ۲۸ دسمبر ۲۰۰۴ء سید ظل الرحمن صدر ابن سینا اکیڈمی آف میڈیول میڈیسن اینڈ سائنسیز

Page 6

16 1- تعارف ترتیب 2.مسلمانوں میں سائنس کی روایت (الف) عربی میں یونانی کتب کے تراجم (ب) بغداد میں بیت الحکمہ کی داغ بیل (ج) طلیطلہ میں تراجم کی تحریک (1500-1100ء) (د) شہرہ آفاق مسلمان سائنس داں (ه) سائنسی اکتشافات کی حقیقت 3- علم طب 4- علم الا دوستة الادوية 5- علم ریاضی 6- علم طبیعیات 7- علم فلکیات 8- فلکیاتی جدول 9- امراض عین 10- علم المناظر 11 - علم کیمیا 12- علم جغرافیہ 65 81 61 27 ة م ق ته 89 102 113 119 124 137

Page 7

1 1 تعارف لفظ ”سائنس لاطینی زبان سے ماخوذ ہے.اس کے لغوی معنی علم کے ہیں.سائنس، کائنات اور فطرت کے حقائق کے علم کا نام ہے کسی خود ساختہ علم کا نام نہیں.فطرت میں موجود اشیا کی چھپی ہوئی حقیقتوں کے جاننے کا نام سائنس ہے.چونکہ یہ کارخانہ قدرت خدا کا تخلیق کردہ ہے،اس لئے ان اشیا کا جو بھی حصہ سائنس دریافت کرتی ہے وہ فی الحقیقت مالک کائنات کی کارفرمائیوں کی ایک جھلک ہوتا ہے.گویا کائنات خدا کا کام اور آسمانی صحیفے اس کا کلام ہیں.مناظر قدرت، ماڈے اور مختلف توانائیوں کی خصوصیات اور ان کے آپس کے تعلقات کو سمجھنے کا نام بھی سائنس ہے اور جب روز مرہ کے کاموں میں سائنس استعمال میں آتی ہے تو ٹیکنالوجی کہلاتی ہے.سائنس کا آغاز یونان سے ہوا جو ساتویں صدی عیسوی تک اس کرہ ارض پر سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک تھا.یہ ملک تمام علوم وفنون کا مرکز تھا.دنیا کے جملہ ممالک کے محققین (scholars) علم وفن صنعت و حرفت اور سائنس و ٹیکنا لو جی سیکھنے کے لئے یہاں آیا کرتے تھے.یونانی سائنس کی شروعات علم ریاضی سے ہوئی.آرشمیدس (Archimedes) اور فیثا غورث (Pythagoros) یونان کے دو عظیم ریاضی داں تھے.آرشمیدس نے میکانیات ( Mechanics) کے موضوع پر بہت تحقیق کی.سائنس کا ہر طالب علم آرشمیدس پرنسپل ( Archimedes Principle) اور آرشمیدس پرابلم ( Archimedes Problem) سے واقف ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ جب ایک مسئلے کا حل اسے مل گیا تو وہ بازار میں بھاگتا جاتا اور کہتا 156 167 177 182 214 223 233 236 13 - علم فلسفہ 14 - علم تاریخ 15- علم موسیقی 16.مسلمانوں کی ایجادات 17 - اسلامی کتب خانے 18 - ہندوستانی اسلامی تہذیب اور سائنس حرف آخر مآخذ و مصادر

Page 8

3 2 جاتا تھا یوریکا.گیا.مجھے مل گیا.یوریکا (Eureka...Eureka) مجھے مل یونانی آرکی ٹیکچر (Architecture) میں جیومیٹری (Geometry) کے علم کا بہت حصہ تھا.یونان کا سنہری دور 600 ق م تھا.عمارتوں کی تعمیر میں فزکس (Physics) کا استعمال کیا گیا نیز جنگ کے دوران بھی اس علم سے فائدہ اٹھایا گیا.یونانیوں نے علیم ہئیت (Astronomy) سے علم میں خاطر خواہ اضافہ کیا.یونانیوں نے ہی نظریاتی سائنس (theoretical science) کی بنیاد رکھی جب اپنے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں انہوں نے سوالات اٹھانے شروع کیے.انہوں نے یہ جانے کی کوشش کی کہ چیزیں کہاں سے آئیں اور کس طرح بنائی جاتی ہیں؟ اس عظیم اور دیر پا تہذیب نے جو علما اور مشہور سائنس داں پیدا کیے ان میں سے چند کے نام یہ ہیں: بقراط، جالینوس (طب)، بطلیموس ( علم ہیت، جغرافیہ)، سقراط، افلاطون، ارسطو (فلسفه)، ہیروڈوٹس ( علم تاریخ ) اور ہومر ( شاعری).ان سائنس دانوں کی چند مایہ ناز تخلیقات کی سرسری تفصیل یہ ہے: بقراط: Elements، افلاطون: Republic ، ارسطو Conic Sections Poetics, Rhetoric، اقلیدس : Elements، اپالو نیوس: Conics ارشمیدس: The Sphere and the Cylinder.شومی قسمت سے تیسری صدی قبل مسیح کے بعد یہ قوم زوال پذیر ہوگئی اور رفتہ رفتہ اس کا نام صفحہ ہستی سے مٹ گیا.ہوا یہ کہ یونان جب اپنے اقتدار کے اوج کمال پر تھا تو یہ اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ جنگ و جدال میں مصروف ہو گیا اور سلطنت روما یعنی رومن ایمپائر (Roman Empire) سے جنگ میں بری طرح شکست سے دوچار ہوا.جب یونان رومن ایمپائر کا حصہ بن گیا تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی رک گئی علمی گہوارے کھنڈروں میں تبدیل ہو گئے اور سائنس داں پیدا ہونا بند ہو گئے.سائنس کی ترویج و ترقی میں مصر کے قدیم ترین شہر اسکندریہ نے بھی حصہ لیا.323 ق م میں سکندراعظم کی وفات کے بعد اس کی سلطنت مختلف حصوں میں بٹ گئی.مصر پر اس کے ایک جنرل بطلیموس (Ptolemy) نے قبضہ کر لیا اور اگلے تین سوسال تک اس کا خاندان یہاں حکمراں رہا.اس خاندان کے ایک حکمراں نے یہاں ایک لائبریری اور میوزیم کی بنیاد رکھی اور یہ شہر جلدی ہی سائنسی علوم کا مرکز بن گیا.اس لائبریری کے دو مشہور ڈائریکٹر آرشمیدس اور جالینوس تھے.اسکندریہ کی اکیڈمی (Academy) میں ایک ممتاز ریاضی داں بھی تھا جس کا نام اقلیدس (Euclid 330-260 BC) تھا.اس نے بے مثل کتاب جیومیٹری کے عناصر ( Elements of Geometry) لکھی.اگلے دو ہزار سال تک یہ کتاب محققوں اور ریاضی دانوں کے زیر مطالعہ رہی.اقلیدس نے علم مناظر پر بھی ایک اہم کتاب لکھی.اس کی اکثر کتابوں کے تراجم عربی میں کیسے گئے.سلی (Sicily) کا رہنے والا آرشمیدس (BC 287-212) عہد قدیم کا ریاضی داں تھا.جبکہ اس کا باپ علم ہئیت میں مہارت رکھتا تھا.اسکندریہ میں اس کی ملاقات اقلیدس کے شاگردوں سے ہوئی.پانی نکالنے کے لئے ارشمیدس نے چکر دار پیچ مصر میں ہی ایجاد کیا تھا.اس نے بہت ساری میکانیکی ایجادات بھی کیں جیسے لیور مخلوط چرخی وغیرہ.اس نے علیم سکون سیالات (Hydrostatics) کا قانون وضع کیا.اس کی وفات کے بعد اس کی قبر پر ایک کرہ اور اس کے گرد ایک سلنڈر نقش کرایا گیا تھا.اسکندریہ میں ایک اور عظیم سائنس داں گزرا ہے جس کا نام بطلیموس ( Claudius Ptolemy 100-178 AD) تھا.اس نے جغرافیہ اور ہئیت پر اہم کتابیں لکھیں.اس کی کتاب لی (Al-Magiste) کا مطالعہ سائنس داں پچھلے دو ہزار سال سے کرتے آرہے ہیں.اس سٹیک کتاب کا یونانی نام میکالے میتھمیٹک سنہ ہے اور اس کا مخفف مجسطی سنیکس (Magiste Syntaxis) ہے.عرب مترجمین نے اس کا (Megale Mathematike Syntaxis)

Page 9

5 عنوان المسلی رکھ دیا جو بھی تک مروج ہے.امجسطی علم بعیت کی بنیادی کتاب ہے جس میں اسٹار کیٹلاگ (star catalogue کے علاوہ آلات بیت بھی دیے گئے ہیں.بطلیموس کی دوسری اہم کتاب کا نام جیوگرافیکل آؤٹ لائن (Geographical Outline) ہے.دونوں کتابوں کے عربی میں کئی بار تراجم کیے گئے.اس کتاب میں عہد قدیم کے ایک ماہر طب جالینوس (Galen 130-200 AD) کا نام بار بار آئے گا.اس لیے اس کا تعارف بھی یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے.جالینوس یونانی فلاسفہ (philosophers) اور اطبا ( physicians) میں بہت ممتاز ہے.اس کا نام طب میں معتبر مانا جاتا ہے.اس نے چارسو سے زیادہ کتا ہیں قلم بند کیں جن میں سے 140 یونانی زبان میں محفوظ ہیں.اصل زبان میں تو اس کی کتا بیں امتداد زمانہ کے ہاتھوں خرد برد ہو گئیں مگر ان کے تراجم عربی اور لاطینی میں دستیاب ہیں.اس کی متعدد تصنیفات طب پر ہیں.نویں صدی میں حنین ابن اسحق نے بغداد میں اس کی کتابوں کے عربی اور سریانی میں تراجم کیے.مسلمانوں نے علم طب انہی کتابوں سے سیکھا.گیارہویں صدی میں اسلامی اسپین میں عربی سے ان کتابوں کے تراجم لاطینی میں کیے گئے اور یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا آغاز ہوا.جالینوس کا علمی اثر یورپ پر دیر پا تھا.جب بطحا کی سنگلاخ پہاڑیوں سے ساتویں صدی میں اسلام کا آفتاب طلوع ہوا تو اس وقت بازنطینی حکومت یعنی ایسٹرن رومن ایمپائر (Eastem Roman Empire)،جس کا دارالحکومت استنبول تھا، اپنے عروج پر تھی.افسوس کہ اس دور حکومت میں بادشاہوں کو علم سے کوئی دلچسپی نہ تھی.چنانچہ ایک بادشاہ تھیوڈو سیکس دوئم (Theodosius-ll) کے حکم پر اسکندریہ کی شہرہ آفاق لائبریری کو نذر آتش کر دیا گیا.پھر اس کے بعد ایک اور بادشاہ زینو (Zeno) کے حکم پر رہا یعنی اڑیسہ (Edessa) کے شہر میں موجود اسکول کو بند کروادیا گیا جو دوسری صدی سے سریانی زبان اور یونانی علوم کی تعلیم کا مرکز چلا آرہا تھا.ایک اور بادشاہ جسٹن (Justin) نے ایتھنز (Athens) کے شہر میں موجود افلاطون (Plato) کی اکیڈمی اور اسکندریہ کی اکیڈمی کے دروازوں پر قفل لگوا دیے.اڈیسہ اور نا صبیہ ( Nasibia) کے شہروں کے نسطوری (Nastorian) راہب اور اسکندریہ کے فلسفی جب بازنطینی ارباب اقتدار کے اذیت ناک سلوک سے تنگ آگئے تو وہ ایران ہجرت کر گئے جہاں اس وقت ساسانی بادشاہ بر سر اقتدار تھے.یہاں آکر انہوں نے اپنی مذہبی اور یونانی عالموں کی کتابوں کے ترجمے کرنے شروع کر دیے.چنانچہ جب مسلمانوں نے شام اور ایران کو فتح کیا تو ان کو یہاں یونانی علمی ورثے کے بیش قیمت خزینے ہاتھ آئے.عربوں نے ان مفتوحہ علاقوں میں جو علمی خزانے پائے ، انہیں عربی میں منتقل کرنا شروع کیا.یہ سلسلہ ایک سوسال (750-850ء) تک جاری رہا اور اس کے بعد ان کتب کے تراجم شروع کیے جن کے تراجم ابھی تک سریانی اور کلدانی زبانوں میں نہیں ہوئے تھے.یونان کے علاوہ مسلمانوں نے ہندوستانی ، چینی اور ایرانی علوم سے بھی استفادہ کیا.یونانی اور مسلم سائنس دانوں میں نمایاں فرق یہ تھا کہ اہل یونان کے علوم نظریاتی تھے جبکہ مسلم سائنس دانوں نے اطلاقی علوم کی بنیاد مشاہدات اور تجربات پر رکھی.اگلے پانچ سو سال تک اسلامی دنیا علم و فن اور سائنس و ٹیکنالوجی کا مرکز بنی رہی جس کا دارالخلافہ بغداد تھا.اس عرصے میں کوئی علم ایسا نہ تھا جس کے فروغ میں مسلمانوں نے حصہ نہ ادا کیا ہو.کوئی ایجاد یا دریافت ایسی نہ تھی جس کا سہرا مسلمانوں کے سر نہ رہا ہو.پوری دنیا کے عالم اور سائنس داں ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے لگے.اس امر کا ذکر مشہور مصنف میکس مائر ہاف (Max Myerhof) نے یوں کیا ہے: ڈوبتے ہوئے یونانی سورج (علم) کی روشنی کو لے کر اسلامی سائنس کا چاند اب چمکنے لگا اور اس نے یورپ کے عہد وسطی کی تاریک ترین رات کو روشن کیا.یہ چاند بعد میں یورپ کے نشاۃ ثانیہ کا دن طلوع ہونے کے بعد ماند پڑ گیا.[1]

Page 10

7 00 6 2 مسلمانوں میں سائنس کی روایت سائنس کے مختلف شعبوں میں مسلمان حکماء اور اطبا کے کارناموں کے باضابطہ مطالعے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے دور میں علمی سرگرمیوں اور معاشرتی حالات کا بھی جائزہ لیا جائے تا کہ یہ معلوم ہو کہ سائنسی موضوعات پر ان کی کاوشیں کتنی گراں بہا تھیں جن کے ثمرات سے عرب ممالک، یورپ اور بعد میں تمام دنیا بہرہ ور ہوئی.در حقیقت سائنس میں ان کے ہی کارناموں نے موجودہ سائنس کو بھی بنیاد بخشی ہے اور ان کے فیوض سے ہی سائنس کے دروبام منور ہیں.(الف) عربی میں یونانی کتب کے تراجم آٹھویں صدی میں یونانی ،لاطینی سنسکرت ، پہلوی اور سریانی زبانوں میں دنیا کے کل علم کا تمام ذخیرہ موجود تھا.عربی زبان ان علوم سے بے بہرہ تھی.اس علم کے ذخیرے کو عربی میں منتقل کرنے کی تحریک کا کام آٹھویں صدی میں بغداد کے خلیفہ المنصور کے عہدِ خلافت سے شروع ہوا.بغداد کے دانشوروں نے ریاضی، ہیت ، طب، فلسفے کی کتابوں کو حاصل کرنے ، ترجمہ کرنے اور کتابت کر کے ان کو پھیلانے کا جو فقید المثال کام شروع کیا وہ اگلے دو سو سال (نویں اور دسویں صدی تک جاری رہا.ترجمے کی ایسی ہی تحریک یورپ میں بارہویں صدی میں شروع ہوئی جب اسپین کے شہر طلیطلہ (Toledo) میں ترجمہ نگاروں (جیرارڈ آف کر یمونا اور مائیکل اسکاٹ ) نے عربی سے اس تمام سائنسی سرمائے کو یورپ کی زبانوں ( لاطینی، اطالوی، انگریزی، عبرانی اور فرانسیسی) میں منتقل کرنا شروع کر دیا جس سے یورپ میں نشاۃ ثانیہ ظہور پذیر ہوئی.بغداد نے علمی اور سیاسی دارالخلافہ ہونے کی حیثیت سے اتنی ترقی حاصل کی تھی کہ وہ یونان اور روم کے شہروں کا مقابلہ کرتا تھا.رفتہ رفتہ بغداد سے یہ علمی ذخیرہ اسلامی اسپین پہنچا جہاں قرطبہ (Cardoba) اور طلیطلہ نے بغداد کو مات کر دیا.یوروپین محققین اسلامی اسپین کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے آتے تھے.جب ان یورپی عالموں نے عربی زبان سیکھی اور مسلمانوں سے روابط قائم ہوئے تو ان کو احساس ہوا کہ عربی میں سائنس کا کتنا عظیم الشان ذخیرہ موجود ہے.یقینا اگر بغداد کے حکماء نے علم کے اس سرمائے کو محفوظ نہ کیا ہوتا تو یورپ آج بھی اپنے تاریک دور (dark age) کے خواب غفلت میں پڑا ہوتا.کتابوں کے تراجم کا کام سریانی زبان سے عربی زبان میں شروع ہوا کیونکہ یونانی زبان سے اکثر کتا ہیں سریانی میں ترجمہ ہو چکی تھیں.سریانی عراق میں اس وقت قومی زبان تھی.تا ہم اس کے بعد یونانی سے عربی میں براہ راست تراجم کا کام شروع ہوا.یہ سارے کام نویں اور دسویں صدی میں انجام پائے یہاں تک کہ یونانی زبان میں موجود علم کا تقریباً سارا ذخیرہ عربی میں منتقل ہو گیا.ہندوستان کی بعض کتابیں بھی عربی میں ترجمہ کی گئیں.عربی میں ترجمے کی تحریک کا کام دو مسودات سے شروع ہوا جو خلیفہ منصور ( 775-754ء) کے دربار میں ہندوستان سے 773ء میں ایک ماہر فلکیات گنگا لے کر آیا تھا.ایک مسودہ ریاضی کا تھا اور دوسرا فلکیات کا.ان مسودات کے تراجم سنسکرت سے عربی میں کیے گئے.ریاضی کی یہ کتاب ہندوستان کے سائنس داں برہم گپت کی سوریا سدھانتا (625 ) تھی جس کا ترجمہ عربی میں زیج السند ہند الکبیر کے نام سے ابراہیم الفزاری نے کیا تھا.گنگا کی دو دیگر کتابوں الارکند اور الا جمھر کے بھی عربی میں ترجمے کیے گئے.ہندوستان سے ہی ریاضی کے ہند سے عربوں میں آئے اور عربوں سے یہ یورپ

Page 11

9 8 پہنچے.عربوں نے ان ہندسوں کو ہندی کہا مگر یورپ میں ان کو عربی ہند سے کہا جاتا ہے.صفر بھی عربوں کے توسط سے یورپ پہنچا.اسے بھی انہوں نے ہندوستان سے لیا تھا.صفر کے لفظی معنی خالی کے ہوتے ہیں.یورپ میں اس وقت ہند سے لاطینی حروف میں لکھے جاتے تھے.اس لئے ان عربی ہندسوں کے آتے ہی علم ریاضی میں انقلاب آ گیا.آج کمپیوٹر سائنس میں خیرہ کن ترقی ان ہندی یا عربی ہندسوں ہی کی مرہونِ منت ہے.بر اس کے علاوہ ادبیات میں خلیفہ منصور کے دور خلافت میں ہندوستانی فلسفی بد پائی کی تصنیف پنچ تنتر کا ترجمہ فارسی میں ہو چکا تھا اور اب اس کا ترجمہ عربی میں ابن المقفع (متوفی 760ء) نے کلیلہ و دمنہ کے نام سے کیا.یہ کہانیوں کی کتاب ہے جس میں جانور اپنے تجربات بیان کرتے ہیں.انگریزی میں اس کا ترجمہ بد پائی فیلس (Bidpai Fables) کے عنوان سے کیا گیا.یہ عربی زبان کا پہلا ادبی شاہکار تھا، یورپ میں اس کا ترجمہ چالیس زبانوں میں کیا گیا [2].کتاب الفہر ست جو محمد ابن الحق الندیم ( متوفی 1955ء) نے دسویں صدی عیسوی میں لکھی تھی.اس کے انگریزی ترجمے کی دوجلدیں کوئیز یو نیورسٹی، کنگسٹن ( Queens University, Kingston) میں موجود ہیں.اس میں لکھا ہے کہ جن ہندوستانی طبیبوں اور ہئیت دانوں کی تصنیفات کا عربی میں ترجمہ کیا گیا وہ ہیں: بھا گا ہارا، راجہ ،منکہ، دا ہر، اندو، را نا کالا، آری کالا، گنگا منجیل ، جدار.ان اطبا میں منکہ خاص طور پر ہارون رشید کے علاج کے لئے آیا تھا.وہ فارسی زبان بھی جانتا تھا اس لئے طبابت کے ساتھ اس نے سنسکرت کی کتابوں کے فارسی اور عربی میں عمدہ تراجم کیے.چنانچہ شاناق نے زہروں پر جو کتاب لکھی تھی اس کا عربی میں ترجمہ منکہ نے ہی کیا تھا.فارسی کی ادبی کتاب ہزار افسانہ کا ترجمہ نویں صدی عیسوی میں الف لیلتہ ویلی کے نام سے کیا گیا.انگریزی میں اس کا ترجمہ عربیئن نائٹس (Arabian Nights) کے نام سے ہوا اور اس کتاب کو بہت پسند کیا گیا کیونکہ اس وقت تک یورپ میں کہانیوں کی یا ادب کی کوئی کتاب موجود نہیں تھی.شطرنج بھی ہندوستان سے ایران کے راستے عربوں میں پہنچا اور وہاں سے یورپ پہنچا.یورپ میں شطرنج کا ذکر سب سے پہلی بارشہنشاہ الفانسو، اسپین ( King Alfonso of Castle, Spain) (1252-1282ء) کی ایک کتاب میں ملتا ہے.شطرنج میں جب بادشاہ قابو میں آجائے تو اسے فارسی میں شر مات کہتے ہیں.انگریزی کا لفظ چیک میٹ (checkmate) اسی سے ماخوذ ہے.ذی مرتبت خلیفہ منصور نے ایران کے شہر جند نیشاپور کے ہسپتال کے چیف میڈیکل آفیسر ابن بختیشوع کو اپنے علاج کے لیے بلوایا.جلد ہی یہ اس کا درباری طبیب بن گیا اور اس کی چھ نسلوں نے شاہی طبیبوں کے فرائض انجام دیے.ابن بختیشوع کا ایک پوتا جبریل بختیشوع ہارون رشید (809-786ء) کا درباری طبیب تھا.بغداد میں جند یشا پور کی طرز کا سب سے پہلا ہسپتال جبریل نے ہی تعمیر کیا تھا.المصور ہسپتال بغداد میں ابھی تک موجود ہے.بطلیموس کی کتاب امجسطی کا پہلا عربی ترجمہ یحیی ابن خالد برکی نے کیا [3].ایک اور ترجمه حجاج ابن مطار نے 827ء میں کیا.عربی میں اس کے نام کے ساتھ ال لگنے سے اس کا نام کتاب اجسطی رکھا گیا جس کے معنی ہیں عظیم کتاب.انسانیت ان مسلمان مترجمین کی ہمیشہ ممنون و احسان مند رہے گی جنہوں نے اس کا ترجمہ عربی میں کر کے اس انمول خزانے کو محفوظ کر لیا ور نہ اصل یونانی کتاب کب کی نا پید ہو چکی ہے.جیومیٹری کا ماہر ابن مطار، پہلا مسلمان تھا جس نے اسکندریہ کے عالم اقلیدس کی کتاب عناصر (Elements) کا ترجمہ کیا جس سے عربوں میں جیومیٹری کے علم کا آغاز ہوا.مقدمات اقلیدس کی زمانہ حال تک زبر دست افادیت کے پیش نظر 1893ء میں اس کا ڈینش (Danish) زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا.

Page 12

11 10 (ب) بغداد میں بیت الحکمۃ کی داغ بیل بغداد کی اصل اہمیت اقتصادی خوشحالی سے نہیں بلکہ علمی کارناموں کی وجہ سے تھی.مامون رشید (833-813ء) کے دور خلافت میں اس کے حکم پر یونانی کتابوں کے عربی ترجمہ و تالیف کا کام بامِ عروج کو پہنچ گیا.اس نے بغداد میں بیت الحکمۃ کے نام سے 830ء میں ایک اکیڈمی کی بنیاد رکھی جو ایران کی جندیشا پور کی میڈیکل اکیڈمی اور اسکندریہ کی اکیڈمی کو مات دے کر سائنس میں تحقیق کا اعلی مرکز (advance centre) بن گئی.اس پر اس نے دو لاکھ دینار (950,000 ڈالر) خرچ کیے تھے.اس اکیڈمی میں ایک لائبریری، ایک رصد گاہ ، سائنس دانوں کے قیام کے لیے مکانات ، سائنسی ساز و سامان اور ایک دارالترجمہ تھا.عیسائی، یہودی، پارسی، ہندو، مسلمان یعنی ہر مذہب اور ہر قوم کے سائنس دانوں کو یہاں ریسرچ کرنے کی اجازت تھی.اس کا پہلاڈائریکٹر ابن ماسویہ اور تیسرا ڈائر یکٹر حنین ابن اسحق (877-809ء) تھا.ہر ہفتے اس کی علمی نشست منعقد ہوتی تھی.بیت الحکمہ کے چار مترجمین کا ذکر یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے : یعقوب الکندی، ثابت ابن قرة ، يوحنا ابنِ بطریق اور حنین این الحق.یہاں دو ہندو ترجمہ نگار بھی تھے یعنی منکہ اور دوبان.منکہ فارسی اور دوبان عربی جانتا تھا.الکندی کا شمار بہترین مترجمین میں ہوتا ہے.وہ کئی زبا نہیں جانتا تھا اس لئے اس نے یونانی کتب کے ترجمے کیے.فلسفے کی مشکل کتابوں کی توضیح، تلخیص اور تفصیل لکھی.ثابت ابن قرة نے امجسطی کا دوبارہ ترجمہ کیا نیز آرشمیدس کی تمام کتابوں، اپالو نیوس اور اقلیدس کی ریاضی اور جیومیٹری کی کتابوں کے یونانی سے تراجم کیسے اور بعض کی شرحیں لکھیں.وہ بطلیموس کے نظام شمسی کا سب سے پہلار یفارم تھا.یوحنا ابن بطریق طب سے زیادہ فلسفے کا ذوق رکھتا تھا ، اس لیے اس نے ارسطو کی کتب کے تراجم کیے نیز زہر اور اس کے اثرات پر کتاب السمومات و دفع مضار بالکھی.حنین این الحق نے جالینوس کی طلب اور فلسفے کی کتابوں کا ترجمہ عربی میں کیا ، اس کے علاوہ اس نے ارسطو کی طبیعیات اور پرانے عہد نامہ کا یونانی سے ترجمہ کیا.حنین کے ذہین وفطین شاگردوں نے یونانی حکماء افلاطون (Plato) ، بقراط (Hippocrates) اقلیدس (Euclid)، فیثا غورث ( Pythagorous)، بطلیموس (Ptolemy)، سقراط (Socrates)، ارسطو (Aristotle)، جالینوس (Galen) کی کتابوں کے عربی میں ترجمے کیسے اور خود بھی ریاضی ، کیلکولس (calculus) اور ہئیت میں خاطر خواہ اضافے کیے.حسنین خود یونانی زبان سے واقف تھا اس لئے اس نے پرانی کتابوں اور مخطوطات کی بازیابی کے لیے استنبول تک کا سفر کیا.حسنین نے جالینوس کی ہیں کتابیں یونانی سے سریانی میں اور نناوے عربی میں ترجمہ کیں، نیز سولہ تراجم پر نظر ثانی کی.یوں وہ طبی کتابوں کا سب سے عظیم مترجم تھا.اس نے امراض چشم پر خود ایک کتاب "عشر مقالات فی العین لکھی جو شاید دنیا میں اس موضوع پر پہلی کتاب تھی.کہا جاتا ہے کہ ہر وہ کتاب جس کا اس نے ترجمہ کیا اس کے وزن کے برابر خلیفہ مامون رشید اس کو معاوضے میں سونا دیتا تھا.حسنین کے ان تراجم کے چند پرانے مسودات استنبول کی اباصوفیالا سبریری میں ابھی تک محفوظ ہیں.انسانیت حنین کا نام ہمیشہ عزت و تکریم سے لیتی رہے گی کیونکہ اگر اس نے ان یونانی کتب کے تراجم نہ کیے ہوتے تو ہم اس خزینے سے محروم رہ جاتے جبکہ اصل یونانی کتب کب سے ناپید ہو چکی ہیں.تراجم کے کام کے لیے دو طریقے استعمال کیے گئے.(1) ایک یہ کہ یونانی لفظ کو جوں کا توں عربی میں لکھا گیا جس سے ترجمہ لفظی ہو گیا.لیکن مسئلہ یہ تھا کہ عربی میں اصطلاحی الفاظ نہیں تھے.(2) دوسرا طریقہ جو نین کے دارالترجمہ میں اختیار کیا گیا وہ یہ تھا کہ پورے فقرے کو پڑھ کر اور اس کا مفہوم سمجھ کر اسے عربی میں منتقل کیا گیا.واضح رہے کہ یونانی اس وقت ایک مردہ زبان تھی تاہم اس میں بہت ساری طبعی وفنی اصطلاحات تھیں جن کے مترادف الفاظ عربی میں نہیں

Page 13

13.12 تھے اس لئے بعض دفعہ یونانی لفظ کو عربی میں جوں کا توں لکھ دیا گیا جیسے ارتھ میٹک (Arithmetic)، فرکس(Physics) ، کیٹے گوریز (Categories)، جیوگرافی (Geography)، میوزک (Music) وغیرہ.بعد میں عربی میں ایسے الفاظ اختراع ہو گئے جیسے علم الحساب، علم طبیعیات، فلسفہ، جغرافیہ، موسیقی وغیرہ.حنین کی ترجمہ کردہ اہم کتابوں میں سے چند کے نام یہ ہیں مختصر من کتاب الاخلاق لجالینوس، في علم ارسطر الطوس في لتشريح، في التشريح العين، في احساء القياسات، فی علم بقراط بالتشريح، في افکار ارسطر اطوس فى مدوات الامراض، في عمل التشريح ، في التشريح الى المتعلمون، في قومی الادویہ، فی الترياق تغییر کتاب بقراط فی ترکیب الا دو یہ تفسیر کتاب اخلاط.یہ کتابیں یورپ کے کتب خانوں اور یو نیورسٹیوں جیسے اسکور یال، اسپین (Scorial, Spain)، بوڈلین ، آکسفورڈ (Bodlean.Oxford)، ویٹی کن ، اٹلی (Vatican, Italy)، برلن، کر جھنگن ، جرمنی میں دیکھی جا سکتی ہیں.(ج) اسپین میں ترجمے کی تحریک (1500-1100ء) بارہویں صدی میں اسپین سے شمع اسلام کی ضوفشانیوں سے جب یورپ منور ہونا شروع ہوا تو وہاں کے اہل علم کو عربی زبان میں موجود علم کے خزانوں کا حال معلوم ہوا.چنانچہ اور پہلا عالم ہے جو انگلینڈ سے اسلامی اسپین اور سلی گیا.سب سے پہلے اس نے الخوارزمی کی کتاب الحساب کا ترجمہ لاطینی میں کیا جس میں عربی ہندسوں کو بیان کیا گیا تھا.اس نے اقلیدس کی عناصر کا بھی عربی سے ترجمہ کیا جس سے اہل یورپ اقلیدس سے متعارف ہوئے.سوال و جواب کی صورت میں اس نے ایک کتاب نیچرل کو چنس (Natural Questions) Natural)لکھی جس میں عرب سائنس کو پیش کیا گیا تھا.چیسٹر کے رابرٹ (1160-1110 Robert of Chester) نے انگلستان سے ہجرت کر کے شمالی اسپین میں سکونت اختیار کی تھی.اس کا سب سے بڑا کارنامہ 1144 ء میں قرآن مجید کا لاطینی میں ترجمہ ہے.1145 ء میں اس نے الخوارزمی کی عہد آفریں کتاب الجبر والمقابلہ کا لاطینی میں ترجمہ کیا تو اہل یورپ الجبرا کے علم سے متعارف ہوئے.اس تصنیف کا لاطینی سے انگریزی میں ترجمہ نیو یارک سے 1915ء میں شائع ہوا.یہ کنگسٹن کی کوئیز یونیورسٹی لائبریری میں موجود ہے.دو سال بعد وہ لندن واپس چلا گیا جہاں اس نے البتانی کی عہد آفریں زیج کو مد نظر رکھ کر لندن کے طول بلد کے فلکیاتی جدول تیار کیے.جیرارڈ آف کر کیمونا (87-1114 Gerard of Cremona) اٹلی سے طلیطلہ ہجرت کر کے آیا تھا.وہاں اس نے ایک عیسائی عالم سے عربی زبان سیکھی.اس نے ایک دارالترجمہ کی بنیاد رکھی جہاں عربی کی 92 کتابوں کے تراجم لاطینی میں کیے گئے.جیسے بطلیموس کی با قاعدہ ایک منظم تحریک کے تحت بغداد کی طرح ایک دارالترجمه (School of Translation) امجسطی اور ابن سینا کی القانون.اس نے آرشمیدس، ارسطو، اقلیدس، جالینوس ، محمد بن زکریا کی بنیاد طلیطلہ میں رئیس الاسقفہ ریمنڈ (Archbishop Raymond) نے 1130ء میں رکھی.جہاں ہر مذہب ، ہر طبقہ، ہر خطہ، ہر مکتب خیال سے وابستہ مشرقی علوم کے ماہر ترجمے کے کام میں مصروف ہو گئے تاکہ عربی کی مشہور تصانیف کا لاطینی میں ترجمہ کیا جائے اور علوم اسلامی رازی ، الکندی ، ابن الہیثم، الفارابی کی کتابوں کے بھی تراجم کیے.سسلی میں بھی عربی کتب کے تراجم کا کام کیا گیا.یہاں بطلیموس کی کتاب علم المناظر (optics) کا ترجمہ یوجین آف پالیرمو ( 1160 Eugene of Palermo) نے کیا.پھر سالم ابن فرج (Salim Ibn Faraj) نے الرازی کی کتاب الحاوی کا ترجمہ کیا.ابن الہیشم اس ضمن میں ہاتھ کا رہنے والا ایڈے لارڈ (1150-1090 Adelard of Bath) کی کتاب علم المناظر کا ترجمہ کسی نا معلوم شخص نے کیا.اسی طرح عربی میں جالینوس کی علم تشریح سے استفادہ کیا جائے.

Page 14

Khawarizmi Alfraganus Albumaser Alkindus Johannitus 15 14 (Anatomy) پر کتاب کی تلخیص کسی شخص نے کی.مائیکل اسکاٹ ( Michael the Scott 1175-1235 ) یہاں کا سب سے عظیم مترجم تھا، جو شہنشاہ فریڈرک دوم (Fredrick-II) کا درباری محقق تھا.اس نے البطر و جی کی ایسٹرونومی پر کتاب الہیہ اور ابن رشد کی ارسطو کی کتابوں کی شرحوں کے تراجم کیے.حیاتیات پر ارسطو کی کتاب کے ترجمے سے یورپ پہلی بار اس کے نظریات سے متعارف ہوا.ان تراجم میں مائیکل کی مدد یہودی اور مسلمان فضلا اور مترجمین نے کی تھی.ان کتابوں سے یورپ کے جن دانشوروں نے فائدہ اٹھایا ان کے نام ہیں: Alexander of Hales (1245), Robert Grosetest (1253), Roger Bacon (1294), Albert Magnus (1280), St.Thomas Aquinas (1274).(1) شہرہ آفاق مسلمان سائنس داں ترقی کے اس دور میں جب مسلمان سائنس داں مسند علم پر فائز تھے تو ان میں بڑے بڑے حکیم ، ادیب، فلسفی، ریاضی داں، جغرافیہ داں ، تاریخ داں اور علم طب کے ماہر پیدا ہوئے.ان علما نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے جن معرکتہ الآرا تصنیفات کو سپرد قلم کیا اور جن کا اثر مشرق و مغرب کی درسگاہوں میں صدیوں تک نمایاں طور پر نظر آتا رہا ان کا اجمالی خاکہ پیش کیا جاتا ہے: نام میدان عمل، نام تصنیف 1 ابن الحق ( 767 ء) سوانح نگار، مولف سیرت رسول الله الله جابرابن حیان کیمیاداں علم کیمیا کا باوا آدم، مولف (721-815ء) كتاب السبعين لاطینی نام Geber ۶ ا.حکیم محیی (833) نا منصور ہئیت داں، اسلامی دنیا میں ستاروں کی سب سے پہلی تریج تیار کی حجاج بن یوسف مطر ہندسہ واں ، کتاب الجسطلی پر نظر ثانی اور اصلاح کی ، مقدمات اقلیدس مرتب کی موسی الخوارزمی ریاضی داں باہر بہیت علم ریاضی کا ابوال آباء موئف الجبر والمقابلہ اور علم الحساب (833) (863) ابوالعباس الفرغانی ہئیت داں ہمشی گھڑی ایجاد کی، مولف (861) جوامع النجوم ابو معشر بلخی بایت داں، تین کتابیں لکھیں : مدخل، (+886) زیج ، الوف : علی این ربن طبری طبیب، طب پر جامع اور ضخیم کتاب (870) فردوس الحکمۃ کا مولف الحق الكندى فلسفی، علم الا عداد پر چار کتابیں اور علم (801-870ء) المناظر پر ایک کتاب لکھی ، 265 کتابوں کا مصنف حنین ابن اسحق طبیب اور بکثرت کتابوں کا مترجم (807-873) ثابت ابن قرة طبيب ، ریاضی داں ، مہندس، ترجمہ نگار (+826-901)

Page 15

Albucasis Avicenna Alhazen Algazel 17 ۲۲ Rhazes ۲۱ ابوالوفا البز جانی ماہر نبیت ، ریاضی داں (+940-998) ابن یونس ہئیت داں ، ریاضی داں ، مؤلف (1008) زیج الحاكمي الكبير ۲۳ ابوالقاسم الزہراوی طبیب، جراح، مؤلف كتاب التصريف ۲۶ (936-1013) الکرخی (1029ء) ریاضی داں بوعلی ابن سینا فلسفی، طبیب محقق ، طبیعیات داں، (980-1037ء) مؤلف قانون فی الطب ( معلم ثالث ) ابن الہیشم ریاضی داں، ماہر طبیعیات علم بصارت کا (965-1039ء) بانی ۲۷ ابوریحان البیرونی جغرافیہ داں، ریاضی داں، (973-1048ء) | ماہر طبیعیات، مؤلف قانون المسعودی > ۲۸ ۲۹ ۳۰ علامه ابن حزم تقابلی مطالعہ ادیان پر دنیا کی پہلی کتاب لکھی، اندلسی (1064ء) 400 کتابوں اور رسائل کا مصنف ابو حامد الغزالی فلسفی جدید فلسفہ اخلاق کا موجد، (1058-1111ء) مؤلف احیاء العلوم عمر بن خیام ریاضی داں بشاعر فلسفی، ماہر علم فلکیات (1048-1131ء) مولف کتاب الجبر والمقابله | 16 ۱۴ سنان ابن ثابت طبیبوں کے رجسٹریشن اور امتحان کا طریقہ جاری کیا ، نصاب تعلیم مقرر کیا (943) ۱۳ محمد بن زکریا الرازی ( جالینوس العرب) طبیب فلسفی، (865-923ء) کیمیاداں، مولف کتاب الحادی الطيرى تاریخ داں، عالم دین (+839-923) ۱۴ と ۱۵ جابر الجنانی بیت داں ، ریاضی داں سائن (Albatenius (sine (858-929ء) کو سائن (cosine) ٹینجیٹ (tangent)، کو مینجمینٹ (cotangent) دریافت کئے.ابونصر الفارابی عظیم فلسفی (معلم ثانی) طبیعیات، جیومیٹری، (870-950ء) کیمیا اور موسیقی کا ماہر ۱۷ المسعودی (956 ء ) | جغرافیہ داں، مولف مروج الذهب IɅ عبد الرحمن الصوفى بعیت داں، کتاب الكواكب الثابت المصور Azophi (,903-986) ۱۹ ابوالمنصور موفق ہراتی ماہرعلم الادویہ مؤلف حقائق الا دو یہ (+961) عریب ابن صاعد طبیب اور تاریخ داں القرطبي (976ء)

Page 16

19 لسان الدین طبیب، دنیا کا پہلا شخص جس نے طاعون ابن الخطیب کے متعدی مرض ہونے کے بارے میں بتایا 3 ۴۲ جلال الدین السیوطی تاریخ دان (1445-1505ء ) | (Philologist) ماہر لسانیات دسویں صدی میں عراق میں لکھی جانے والی الغبر ست الندیم کے 670-645 صفحات میں 82 سائنس دانوں کے نام مختصر حالات اور ان کی تصانیف کے نام دیے گئے ہیں جن میں سے اکثر کے نام اوپر درج کیے گئے ہیں.[4] (ہ) سائنسی اکتشافات کی حقیقت یورپ میں انسائیکلو پیڈیا (Encyclopedia) اور تاریخ سائنس ( History of Science) کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سائنس کو پروان چڑھانے میں صرف یورپ اور امریکہ ہی کی کوششوں کو دخل ہے.حالانکہ سائنس کی پرورش دوسری تہذیبوں اور دوسرے ملکوں میں بھی ہوئی جیسے چین ، ہندوستان اور اسلامی ممالک.کتاب کے اس حصے میں ان سائنسی حقائق کو بے نقاب کیا جائے گا جن کی تعلیم یورپ اور امریکہ میں دی جاتی ہے مگر صد حیف مسلمان حکماء کی دریافتوں اور سائنس کی ترقی میں ان کے حصے کا کوئی تذکر نہیں کیا جاتا ہے: (1) مغربی ممالک میں تعلیم دی جاتی ہے کہ تاریخ انسانی میں راجر بیکن ( Roger Bacon متوفی 1292 ء ) وہ پہلا شخص تھا جس نے اڑنے کی مشین کا ڈائیگرام بنایا اور انسان کی پرواز کا تصور پیش کیا.لیونارڈو داونچی Leonardo Da Vinci) نے اڑنے والی مشینوں کے خاکوں کے علاوہ ان کے پروٹو ٹائپ بنائے.لیکن بیسویں صدی کے تاریخ واں فلپ ہستی (Philip Hitti) کے مطابق امر واقعہ یہ ہے کہ قرطبہ کا باشندہ عباس ابن فرناس (متوفی 873ء) پہلا شخص تھا جس نے نویں صدی میں فلائنگ مشین بنائی اور تماشائیوں کے سامنے قرطبہ کی پہاڑی Averroes Avenpace Avenzoar Maimonides Annafis 18 ۳۱ ابوعبد الله الادریسی جغرافیہ داں، مولف نزہت المشتاق فی ۳۲ ۳۵ ۳۸ ۳۹ اختراق الآفاق ابن رشد طبیب فلسفی ، مولف کتاب الکلیات (1126-1199ء) ارسطو کا شارح ابن باجه فلسفی، ارسطو کی کتابوں کا شارح (1095-1138) ابن زهر طبیب، مولف کتاب التيسير (1090-1162) ابن میمون یہودی فلسفی ، طبیب (+1135-1204) نصیر الدین القوسی فلسفی، ماہر ہئیت ، ریاضی داں، مولف (1201-1274ء) تذكرة في العلم الهئيت ابن النفیس طبیب، مولف الشامل في الطب، دورانِ (1288ء) خون کی دریافت کرنے والا پہلا طبیب قطب الدین طبیب، ماہر طبیعیات، پہلا انسان شیرازی (1311ء) جس نے قوس و قزہ کی توضیح پیش کی ابن خلدون ماہر سماجیات، تاریخ داں (1332-1406) غیاث الدین ریاضی داں الکاشی (1436ء)

Page 17

21 20 20 سے اس نے کچھ دور لمبی پرواز بھی کی.مگر اس کے گلائیڈر (glider) میں اترنے کے لیے پرندوں جیسی دوم نہیں تھی اس لئے اس کو اترتے وقت چوٹیں آئیں.راجر بیکن نے عربی کتابوں سے پرواز کا علم کئی سو سال بعد حاصل کیا.بغداد ائر پورٹ پر ابن فرناس کا مجسمہ نصب ہے.اسی طرح لیبیا نے ایک یادگاری ٹکٹ بھی اس کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جاری کیا تھا.(2) مغرب میں کہا جاتا ہے کہ شیشے کے بنے ہوئے آئینوں کی ایجاد و نیس (Venice) میں 1291 ء میں ہوئی.حقیقت یہ ہے کہ اسلامی اسپین میں شیشے کے آئینے گیارہویں صدی میں زیر استعمال تھے.وینس کے لوگوں نے شیشہ سازی (glass production) کا علم شام (Syria) کے ماہرین سے نویں اور دسویں صدی میں حاصل کیا تھا.(3) چودھویں صدی تک دنیا میں صرف آبی گھڑیاں (water clocks) ہوتی تھیں.1335ء میں ملان (Milan) کے شہر میں پہلی میکانکی گھڑی (mechanical clock) بنائی گئی جو وزن سے چلتی تھی.بقول ول ڈیورانٹ (Will Durant) حقیقت یہ ہے کہ پہلی گھڑی اسلامی اسپین میں ابن فرناس نے نویں صدی میں بنائی جو ٹھیک وقت دیتی تھی اس کا نام المقاطہ تھا.پھر مسلمانوں نے رصد گاہوں میں استعمال کے لیے بیتی گھڑیاں بنائی تھیں جن کے ڈائیگرام دیکھے جا سکتے ہیں.ہارون الرشید کے زمانے میں گھڑیاں عام طور پر بنائی جاتی تھیں.چنانچہ اس نے اپنے ہم عصر فرانس کے بادشاہ شارلیمان (Charlemagnen) کو ایک گھڑی تھنے کے طور پر بھیجی تھی.یہ یورپ میں پہنچنے والی پہلی گھڑی تھی.اسی طرح بغداد کی مستنصر یہ یونیورسٹی کی بڑی دیوار کے دروازے پر ایک گھڑی آویزاں تھی جس کا ڈائیل (dial) نیلے رنگ کا تھا اس پر سورج مسلسل محو گردش رہ کر وقت بتلاتا تھا.یورپ میں گھڑیاں بنانے کا علم عربی کتابوں کے لاطینی تراجم سے پہنچا.ملاحظہ فرمائیے درج ذیل مسکت حوالہ : "We have the drawing of an astrolabe with gears belonging to Al-Biruni...which was forerunner of the mechanical clock" [5] ابن شاطر نے دمشق کی امیہ مسجد کے مینار پرشی گھڑی (sun dial)1371ء میں بنائی تھی جو طلوع آفتاب، نصف النہار، اور غروب آفتاب کو مد نظر رکھتے ہوئے پانچوں نمازوں کے اوقات بتاتی تھی.(4) مغرب میں کہا جاتا ہے کہ گیلی لیونے ستر ہویں صدی میں پینڈولم (pendulum) ایجاد کیا تھا.اس نے گر جا گھر میں لگے چہل چراغ کو ہوا کے جھونکے سے جھولتے دیکھا جس سے اس کو یہ تحریک ملی.جب کہ حقیقت یہ ہے کہ پینڈ ولم مصر کے ممتاز سائنس داں ابن یونس نے دسویں صدی میں ایجاد کیا تھا.جس نے جھولنے والی گردش ( oscillatory motion) کوتحریر میں بیان کیا.مسلمان گھڑی سازوں نے اس کا استعمال گھڑیوں میں پندرہویں صدی میں کیا تھا.(5) آئزک نیوٹن (Isaac Newton) نے روشنی (light)، عدسہ (lens) اور پرزم (prism) کا صحیح مصرف بیان کیا جو کہ علم مناظر (optics) کی بنیاد ہیں.حقیقت یہ ہے کہ گیارہویں صدی کے مسلمان سائنس داں ابن الہیشم نے صدیوں قبل ایسے نظریات پیش کیے تھے جن کو بعد میں علم مناظر کی بنیاد بنایا گیا.بہت سے محققین نے اس کو علم بصریات کا جد امجد کہا ہے.سولہویں اور ستر ہویں صدی میں یورپ میں جو کتا میں شائع ہوئیں ان میں ابن الہیثم کو بطور سند پیش کیا جاتا رہا.اس نے کیمرہ آ سکیورا (camera obscura) کا تصور پیش کیا جس سے جدید کیمرہ ایجاد ہوا.اس طرح کہا جاتا ہے کہ نیوٹن نے سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا کہ سفید روشنی مختلف رنگوں کی شعاعوں سے بنی ہوتی ہے.حقیقت یہ ہے اس کا سہرا بھی ابن الہیشم اور چودہویں صدی کے ایرانی سائنس داں کمال الدین فارسی کے سر ہے.نیوٹن نے روشنی کے موضوع پر کئی اہم دریافتیں کیں مگر یہ ان میں سے نہیں تھی.(6) کہا جاتا ہے کہ ریگونومیٹری(trigonometry) کو یونانیوں نے فروغ دیا تھا.

Page 18

23 22 حقیقت یہ ہے کہ یونانیوں کے ہاں یہ ایک نظریاتی سائنس رہی مگر التانی نے اس کو عملی طور پر استعمال کیا.چنانچہ اس کے بنیادی فنکشن سائن کو سائن اور ٹینجیٹ عربی کی اصطلاحیں ہیں.سائن کی عربی اصل جیب ہے جس کا لاطینی ترجمہ سائن ہے.کہا جاتا ہے کہ ریاضی میں ڈیسی مل فریکشن (decimal fraction) کا آغاز ایک ڈچ سائمن اسٹیون (Simon Stevin) نے 1589ء میں کیا.یعنی 1/2 کو 0.5 لکھا جا سکتا تھا.حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے اس کا استعمال الکاشی نے اپنی کتاب مفتاح الحساب میں پندرہویں صدی میں کیا.قرین قیاس ہے کہ سائمن نے یہ آئیڈیا الکاشی کی کتاب پڑھ کر لیا ہوگا.اسی طرح کہا جاتا ہے کہ الجبرا کے سمبل X & Y کا استعمال فرانسیسی ریاضی داں ویٹا (Vieta) نے 1591ء میں شروع کیا جس نے اپنی کتاب میں مساوات کا حل ان حروف سے کیا.حقیقت یہ ہے کہ الجبرا کے موجد مسلمان تھے جنہوں نے نویں صدی میں الجبرا کی مساوات میں ایسے ہی حروف کا استعمال کیوبک ایکوئٹیشن (cubic equation) کے حل میں کیا تھا.اسی طرح یورپ کی کتابوں میں لکھا ہے صفر سے کم اعداد کا تصور ( یعنی منفی نمبر ) جیرانا مو کا رڈانو (Cardano) نے 1545ء میں پیش کیا تھا.حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ریاضی داں منفی نمبروں کا استعمال کار ڈانو سے چار سو سال قبل کر چکے تھے.(7) کہا جاتا ہے کہ لاگ رقم (Logrithm) اور لاگ رقم ٹیبلز (tables) جان نیپئیر (John Napier) نے 1614ء میں دریافت کیے تھے.امر واقعہ یہ ہے لاگ رھم مسلمانوں نے ایجاد کیے تھے.(8) صاحب کمال انسان اور بلبل ہزار داستان عمر خیام نے ریاضی میں ایک تہلکہ خیز اضافہ کیا جس کو بائنومیل کو ایفی ٹیکینٹ (Binomial coefficients) کہا جاتا ہے.یورپ میں اس دریافت کا نام پاسکل ٹرائی اینگل (Pascal's triangle) رکھ دیا گیا.(9) جدید محققین جیسے ایڈورڈ کینیڈی (Edward Kennedy) اور آٹو نیو گے برگر (Neugeberger) نے تسلیم کیا ہے کہ کو پریکس (Copernicus متوفی 1543ء) نے جدید ایسٹرونومی کی جو عمارت تعمیر کی تھی وہ صرف اقلیدس کی کتاب العناصر اور جالینوس کی کتاب المجسطی کے مطالعے سے ممکن نہیں تھی.بلکہ اس میں دو اور تھیورم (theorems) کا بہت دخل تھا.یہ تھیورم کو پر ٹیکس سے تین سو سال قبل اسلامی ممالک میں وضع کیے گئے تھے جن کا مقصد یونانی علم ہئیت کی اصلاح تھا.تھیورم آف نصیر الدین ( Theorem of Nasiruddin) کا نام تو سی کپل (Tusi Couple) بھی ہے جسے عالم بے بدل نصیر الدین القوسی نے بعد میں وضع کیا تھا.اس تھیورم کی وضاحت کے لیے انٹرنیٹ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے جہاں اس موضوع پر معلومات کا بیکراں ذخیرہ موجود ہے.مختصر یہ کہ یہی تھیورم کو پر نیکس نے سولہویں صدی میں اپنی شاہکار کتاب میں پیش کیا اور جہاں القوسی نے اپنے ڈائیگرام میں الف لکھا تھا، کو پریکس نے اسے A لکھا، جہاں الطوسی نے 'ب' لکھا تھا ، اس نے نے لکھا اور ہو بہو وہی ڈائیگرام پیش کیا.دوسرے تھیورم کا نام الا ردی تھیورم (Al-Urdi Theorem) ہے جومحی الدین الا روی (متوفی 1266ء) نے 1250ء میں پیش کیا تھا.حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہی تھیورم کو پر ٹیکس کی کتاب میں تین سو سال بعد نظر آتی ہے.طرفہ یہ کہ الاردی نے یہ تھیورم ایک نئے تصور (concept) کی صورت میں پیش کر کے اس کا حسابی ثبوت بھی پیش کیا جبکہ کو پر ٹیکس نے اس کا ثبوت پیش نہیں کیا.چنانچہ کیپلر (Kepler) اور اس کے استاد میستلن (Maestlin) کے درمیان خط و کتابت میں کیپلر نے اس سے پوچھا کہ کو پر ٹیکس نے اس کا ثبوت کیوں نہیں پیش کیا تھا؟ اس کے استاد نے اس کا ثبوت خود پیش کیا.بہر حال یہ دونوں تھیورم کو پر ٹیکس کی ایسٹرونومی میں اس قدر بنیادی حیثیت کے ہیں کہ ان کو الگ کرنا ناممکن ہے.(10) غیاث الدین الکاشی (متوفی 1450 سمر قند ) نے ریاضی اور ہیئت میں اہم اضافے کیے.خاص طور پر اس نے ڈے سی مل فریکشن میں اتنی اہم باتیں بیان کیں کہ وہ خود کو اس

Page 19

25 24 کا موجد تصور کرتا تھا.اس کو لمبی لمبی کیلکولیشن (calculation) کرنے کا بہت شوق تھا.اس نے ایکوئٹیشن (equation) کے حل کرنے کا ایک ایسا نیا طریقہ ایجاد کیا جسے اب ہارنر کا طریقہ (Horner's method) کہا جاتا ہے.(11) ابن شاطر نے چاند کا جو ماڈل پیش کیا اور عطارد ( Mercury) کی حرکت کے بارے میں جو ماڈل تیار کیا وہ ہو بہو وہی ہے جو بعد میں کو پرنیکس نے پیش کیا تھا.(12) جابر ابن الفلح اندلس کا ایک عظیم ریاضی داں تھا جس نے پلین اور اسفیر یکل ٹریگا نو میٹری (plane and spherical trigonometry) میں بہت اضافے کیے.اس کی کتابوں کے تراجم لاطینی اور عبرانی زبانوں میں کیسے گئے تھے.عجیب بات ہے کہ ٹریگا نومیٹری کے مسائل کو حل کرنے والے اس کے پیچیدہ طریقے پندرہویں صدی کے عظیم ریاضی داں جو بان مولر (1476-Muller) کی کتاب ڈائی ٹرائی اینگولس (1464-Die Triangulis) میں پائے گئے.اس نے بعض پیرا گراف تو ہو بہو نقل کئے ہیں.چنانچہ اٹلی کے ریاضی داں جی.کار ڈانو (G.Cardano متوفی 1576 ء) نے اس علمی سرقے کو اپنی کتاب میں بے نقاب کیا ہے.مزے کی ایک اور بات یہ ہے کہ کو پرنیکس نے اپنے علمی شاہکار میں جس قسم کی ٹریگا نومیٹری کا پنی کتاب کے شروع میں ذکر کیا ہے اس کی تحریک اسے جابر کی اصلاح المسطی سے ملی جو اس کے کسی دوست نے اسے تحفے میں دی تھی.اس کتاب کے مطالعے کے بعد کو پر نیکس نے جابر کی طرح بطلیموس کے نظریات پر تنقید کر کے ایسے نظام کائنات کا خاکہ پیش کیا جس کا مرکز آفتاب تھا.(13) مسلمان ریاضی دانوں کو اقلیدس کے مفروضہ پنجم ( fifth postulate) کو دریافت کرنے کا بہت شوق تھا.اس ضمن میں نصیر الدین طوسی نے ایک خاص جیومیٹرک کنسٹرکشن (geometric construction) دریافت کی.طوسی کی اس دریافت کو نیوٹن (Newton) سے پہلے برطانیہ کے عظیم ریاضی داں جان والس (1703-1616 J.Wallis) نے اپنی ریسرچ میں استعمال کیا.اس کے بعد ایک اور ریاضی داں سچیر کی (1733-1667 Saccheri) نے بھی اسے استعمال کیا مگر کسی نے بھی اس کا سہرا طوسی کے سر نہیں باندھا.(14) بغداد کے ریاضی داں ثابت بن قرة (متوفی 901ء) نے ایمی کیبل نمبرز ( amicable numbers) معلوم کرنے کے لیے ایک منفرد فارمولا دریافت کیا تھا.عجیب بات ہے کہ سات سو سال بعد فرانس کے ممتاز ریاضی داں پیر فرما(.65-Pierre Fermat1601) نے ثابت بن قرة کے اسی فارمولے سے مشابہ فارمولے کو استعمال کر کے ایمی کیبل نمبر ز کا دوسرا جوڑ (second pair of amicable numbers ) دریافت کیا.مگر اتنی تکلیف گوارا نہیں کی کہ وہ ثابت بن قرة کے کام کا ذکر کرتا.(15) قابل رشک ماہر فلکیات ابو الوفا نے 998ء میں ہئیت کے علم میں ایک بنیادی چیز دریافت کی جسے تھر ڈلونران ایکوالٹی (third lunar inequality) کہا جاتا ہے مگر چھ سو سال بعد اس کا سہرا بھی یورپ میں ڈینش ماہر ہئیت ٹانگو برا ہے کے سر باندھ دیا گیا.[6] ( 16 ) سلطان القلم ابوریحان البیرونی دنیا کا پہلا ریاضی داں تھا جس نے ٹریگا نومیٹری کو ریاضی کی الگ شاخ تسلیم کیا تھا.اس نے علم مثلث کے بعض اہم ترین مسائل کی کتاب القانون المسعودی میں وضاحت کی ہے ان میں سے ایک کا نام نظریہ عوامل ( Theory of Functions) ہے.یہ آج کے دور میں جس طرح لکھا جاتا ہے اس کا سلسلہ لا متناہی ہے مگر البیرونی نے اسے صرف تین درجے تک لکھا ہے.اس کلیے کو یورپ میں نیوٹن اور اس کے چند ہم عصر ریاضی دانوں کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.[7] (17) شام اور مصر میں اطبا کے سرخیل ابن النفیس نے ریوی دوران خون (pulmunary circulation system) تیرہویں صدی میں دریافت کیا.اس کے تین سو سال بعد پرتگال کے مائیکل سرویس (Michael Servetus) نے یہی نظریہ پیش کیا.یورپ میں اس دریافت کا اعزاز ولیم ہاروی اور سرویس کو دیا جاتا ہے.(18) جامع کمالات را زی پہلا کیمیا داں تھا جس نے بیان کیا کہ

Page 20

27 26 26 گندھک (Sulphur)، نمک (salt) اور پارہ (mercury) یہ تین خواص ہر قسم کی اشیا میں پائے جاتے ہیں.یہی دریافت یورپ میں پارا سیکس (Paracelus) نے صدیوں بعد کی تھی.(19) ابن الہیشم نے نظریہ پیش کیا کہ روشنی کی شعاع جب کسی میڈیم (medium) سے گزرتی ہے تو وہ ایسا راستہ اختیار کرتی ہے جو آسان ہونے کے علاوہ تیز تر بھی ہوتا ہے.صدیوں بعد پیئر فرمانے یہی نظریہ پیش کیا جواب فرماز پرنسپل آف لیسٹ ٹائم (Fermat's principle of least time) کہلاتا ہے.(20) ابن الہیشم نے اصول جمود (law of inertia) دریافت کیا، اس کے صدیوں بعد یہی اصول گیلیلیو اور نیوٹن کے قوانین حرکت کا جز قرار پایا.3 علم طلب طب کے میدان میں مسلمان اطبا اور حکماء نے اس قدر شاندار کارنامے سر انجام دیے ہیں کہ ان کے لئے کئی ہزار صفحات درکار ہوں گے.مسلمانوں نے علم کی اس اہم اور بنیادی شاخ کے ہر رنگا رنگ پہلو جیسے سرجری (Surgery)، دینی امراض، امراض چشم ، متعدی امراض، علم تشریح اور علم منافع الاعضا (Anatomy and Physiology)، نفسیاتی امراض، نئے امراض کی شناخت طبی آلات کی ایجادات ہسپتالوں کے قیام، اطبا کے رجسٹریشن، دواؤں کی ماہیتی نگرانی (quality control) نئی دواؤں کی تیاری طبی کتابوں کی تصنیف، طب میں کیمیا کا استعمال اور غذا سے امراض کا علاج وغیرہ میں بے شمار قابل قدر اضافے کیے.تشریح الابدان کی عربی.لاطینی ڈکشنری سے پتہ چلتا ہے کہ لاطینی کے کون سے الفاظ عربی سے ماخوذ ہیں جیسے نا (Nucha) اور بعض شریانوں کے نام مثلاً بیسیلک اور سیفینس ( & basilic ! saphenous) وغیرہ.یورپ میں پہلا میڈیکل اسکول اٹلی کے شہر سیل نو (Salerno) میں شروع ہوا تھا.شہر کی آب و ہوا مریضوں کی صحت یابی کے لیے نہایت موافق تھی.اس کالج میں چونکہ طبی نصابی كتب ( medical text books) کا فقدان تھا.لہذا قسطنطین (Constantine) جیسے متجر عالم کو اس کالج کے لئے طبی کتابوں کے ترجمے کرنے پر مامور کیا گیا.سیلر نو کے بعد جو دوسرا میڈیکل کالج یورپ میں شروع ہوا وہ فرانس اور اسپین کی سرحد کے قریب شہر مانٹ پیلیئر

Page 21

29 28 سے ہسپتالوں کا آغاز کیا تھا اس قسم کے ہسپتال یورپ کے اسٹراس بورگ (Strasbourg) (Montpellier) میں تھا.اس شہر میں عربوں اور یہودیوں کی ایک کثیر تعداد آباد تھی بلکہ بعض مقامی باشندے ایسے بھی تھے جو عربی بڑی روانی سے بولتے تھے.اس علمی ماحول میں یورپ کی میں 1500 ء میں قائم ہوئے.واضح رہے کہ اسلامی ہسپتالوں میں طب کے طلبہ کو عملی تعلیم میڈیکل تعلیم اور تربیت پر عربی طب کا بہت نمایاں اثر نظر آتا ہے ( جیسے ہسپتالوں کی تعمیر اور (clinical instruction ) بھی دی جاتی تھی.ایسی تعلیم کا رواج یورپ میں 1550ء کے بعد نظم و ضبط) یہودی مترجمین اور مولفین نے طلیطلہ، اشبیلیہ اور قرطبہ میں تربیت حاصل کی تھی.شروع ہوا.ابتدا میں ان میڈیکل کالجوں میں سرجری کو عیب سمجھا جاتا تھا بلکہ 1183ء میں چرچ ایک یوروپین عالم میرون (Meron) نے کھلے بندوں اعتراف کیا ہے کہ یورپ کے ہسپتالوں کے ایک فرمان کے مطابق سرجری کو طبی نصاب میں شامل کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی.لیکن میں نورالدین سلجوقی کے شفا خانہ (دمشق) اور سلطان منصور قلادن کے ہسپتالوں ( قاہرہ) کی سرجری کے موضوع پر عربی کتب کے تراجم جب دستیاب ہونا شروع ہو گئے تو اس کو تعلیمی نصاب مماثلت اور مشابہت کی جھلک صاف نظر آتی ہے.اسلامی ممالک میں ہسپتال دس قسم کے ہوتے تھے.جذامیوں کے لیے شفا خانے، میں شامل کر دیا گیا.یورپ میں طب کی تعلیم کے لیے تمام نصابی کتب مسلم محققین ، اطبا اور معتبر مصنفین کی کتابوں کا ترجمہ تھیں.مزید برآں یورپ میں یو نیورسٹیاں ( اٹلی اور اسپین میں ) "The system of universities and colleges that began to develop in 12th century Europe was parallel in many ways to the Madrasa system of the medieval Islamic lands.As the European system developed roughly 100 years after that in the Muslim world, it is highly probable that the Western universities were modeled on Muslim institutions of learning."[8] پاگل خانے ، نابینا گھر اور یتیم خانے.قیدیوں کے لئے شفا خانے طبی مراکز ، عام شفا خانے اسلامی طرز کے مدرسوں پر شروع ہوئی تھیں : (جنرل ہاسپٹل ) ، گشتی شفا خانے (mobile dispensaries ) ، فوجی ہسپتال اور ہسپتالوں سے ملحق طبی اسکول.بغداد کے ہسپتالوں کے تذکرے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بڑے اعلیٰ انتظام وانصرام کے تھے مثلاً عبودی ہسپتال، الرشید شفاخانہ ( ہارون رشید نے تعمیر کرایا) ، المقتدر شفاخانہ، ابن فرات شفاخانہ بدر غلمان شفاخانہ (ثابت بن قرة نے تعمیر کرایا ) ، السعیدہ شفاخانہ (سنان بن ثابت نے تعمیر کرایا).ہر ہسپتال کے ساتھ طبی اسکول ، کتب خانہ، دوا خانہ (Pharmacy)، مسجد عوامی حمام ہوتے تھے.قاہرہ کے طولون ہسپتال سے منسلک کتب خانے میں ایک لاکھ کتا ہیں جمع تھیں جبکہ مستنصر یہ مدرسہ میں اتنی ہزار کتابیں تھیں.مریضوں کے نام رجسٹر (log book) میں لکھے جاتے تھے.ان کے مرض کی شناخت، علاج اور کھانے کا بھی ریکارڈ رکھا جاتا تھا.تمام علاج مفت ہوتا تھا.فارمیسی میں تمام ادویات تیار کی جاتی تھیں.عورتوں اور مردوں کے لئے الگ وارڈ ہوتے تھے.یہ بات قابل غور ہے کہ سیلر نو اور مانٹ پیلیئر شہروں کے میڈیکل کالج اور ہسپتال اسلامی اسپین اور مصر کے ہسپتالوں کے نمونے پر بنائے گئے تھے.مسلمانوں نے جس منظم طریقے کتاب الفهرست ابن ندیم میں 29 مسلمان اطبا کے حالات اور کارناموں کی تفصیل مختصراً دی گئی ہے.ان میں سے چند کا ذکر اگلے صفحات میں کیا جائے گا.اس میں ان ہندوستانی کتابوں کی فہرست بھی دی گئی ہے جو طب پر تھیں اور جن کا عربی میں ترجمہ کیا گیا تھا.جیسے بیچی ابن خالد بر مکی نے کنکا سے کتاب سوس روتا کا ترجمہ کرنے کی فرمائش کی.کرا کا کتاب کا ترجمہ عبد اللہ ابن علی نے کیا.نفشال کا ترجمہ بھی کیا گیا جس میں ایک سو بیماریوں کا ذکر اور ان کا علاج بیان کیا گیا تھا.رائے پالی نے ہندوستانی سانپوں پر کتاب کا ترجمہ کیا.

Page 22

31 30 حبيش ابن الاعصم ( حسین ابن الحق کا بھانجا ) نویں صدی میں بغداد کا طبیب تھا جس نے جالینوس کی تین کتابوں کے تراجم سریانی میں اور 35 کتابوں کے ترجمے عربی میں کیے.وہ اپنے ماموں حسنین کا شاگرد ہونے کے ساتھ ترجمے کے کام میں اس کا دست راست بھی تھا.موسیٰ ابن خالد بھی حنین کے دارالترجمہ سے منسلک تھا جس نے جالینوس کی سولہ کتابوں کے حسنین کے سریانی میں کیے ہوئے تراجم سے عربی میں ترجمہ کیے.علی ابن ربن الطبر می (861) محمد بن زکریا رازی کا استاد تھا جس نے کتاب فردوس الحكمة 850ء میں لکھی.اس کتاب میں فلسفہ، حیوانیات، نفسیات، ہئیت ،حمل اور جنین پر اظہار خیال کیا گیا ہے.اس کے علاوہ اس نے دین و دانش اور حفظ صحت بھی لکھیں.مؤخر الذکر کتاب کا مسودہ بولین لائبریری میں موجود ہے.حسین ابن اطلق (877ء) کی کتاب تاریخ الاطبا بہت مستند کتاب تھی اس کے علاوہ حسین نے کتاب علل العین ، کتاب القرح، کتاب كناش الخفف ، کتاب الاسنان، کتاب الاغذیہ سپر قلم کیں.اس نے جالینوس کی 130 کتب کا یونانی اور لاطینی سے عربی میں ترجمہ کیا.نیز اس کے قابل فرزند اسحق ابن حسنین نے نوے کتب کے تراجم کیے.الكندي (866-801ء) کو طب سے بڑا شغف تھا.اس نے بقراط کی طبی معلومات پر ایک کتاب تحریر کی تھی.طب کے موضوع پر اس نے بیس سے زیادہ کتابیں لکھی تھیں.ان کتابوں میں اس نے زیادہ تر معدے کی تکالیف ، نقرس ( گٹھیا کی ایک قسم)، بخار کی اقسام، زہر کی سرایت کے اسباب ہلغم سے پیدا ہونے والے امراض اور اچانک موت کی وجہ پر اظہار خیال کیا.اس نے جذام پر بھی بحث کی اور دماغ کے خلیوں کی ساخت اور اس کے ہر حصے کے مخصوص افعال کا بھی تذکرہ کیا.واضح رہے کہ آٹھویں صدی سے بارہویں صدی تک ستر سے زیادہ طبیبوں نے سائنس کی اس اہم شاخ طب میں بہت معرکۃ الآرا کتابیں اور رسالے تصنیف کیے.یہ محض شاخسانہ نہیں بلکہ یہ نادر کتب یورپ کی مختلف مشہور لائبریریوں جیسے بوڈلین لائبریری، آکسفورڈ (Bodlein University, Oxford)، برٹش لائبریری، لندن ( British Library London) میں آج تک محفوظ ہیں.رازی کی پچاس کے قریب کتب یورپ کی علمی درسگاہوں میں محفوظ ہیں.اس کی شاہکار کتاب الحاوی (۲۵ جلدیں) کالاطینی ترجمہ کانٹی نینز (Continens) کے عنوان سے کیا گیا.( راقم السطور نے 1999ء میں آکسفورڈ کی بوڈلین لائبریری میں اس کا سرسری مطالعہ کیا تھا).چودہویں صدی میں پیرس کی فیکلٹی آف میڈیسن کا مکمل نصاب تین کتابوں کتاب الحاوی ، کتاب المنصوری ( Liber Almansoris) اور القانون فی الطب پر مشتمل تھا.یو نیورسٹی آف پیرس (University of Paris) کے اسکول آف میڈیسن کے وسیع و عریض ہال میں رازی اور ابن سینا کی تصاویر (paintings) طب میں ان کے لا زوال کاموں کے باعث آویزاں ہیں.ثابت ابن قرة (901-836ء) کی چیدہ چیدہ طبی تصانیف یہ ہیں: کتاب فی النبض، کتاب فی اوجاع الكلى والمثانه، الذخيره في علم الطب الروضه في الطب الكناش ، كتاب في علم العين ، كتاب في الجدرى والحصبه ، كتاب البطر و ( جانوروں کے علاج پر کتاب).علی ابن العباس اہوازی (994-Haly Abbas) جو سلطان عضد الدولہ کا شاہی طبیب تھا، اس نے طب میں کتاب الملکی یعنی کتاب الکامل الصناعة في الطب تحریر کی.یہ عربی میں طب کی پہلی کتاب تھی جس کا لاطینی ترجمہ 1127ء میں لائبریجیکس (Liber Regius) کے عنوان سے ہوا.قسطنطین افریقی کا کیا ہوا ترجمہ پین تجنی (Pantegni ) کے عنوان سے 1539ء میں طبع ہوا.عربی زبان میں یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے جو 1294ء میں قاہرہ سے منظر عام پر آئی تھی.طب میں اس کی دو دریافتیں قابل ذکر ہیں: روڈ یمینٹری کنسپشن آف کیپیلری سسٹم ( rudimentary conception of capillary system) اور پروف آف دی موشنس آف دی ومب.....چائلڈ ڈز ناٹ کم آؤٹ...اٹ از پشڈ آؤٹ proof of the motions of the womb, child)

Page 23

32 _does not come out, it is pushed out.) سنان بن ثابت (1943ء) بڑا ماہر طبیب اور لائق منتظم تھا.تین عباسی خلفاء کا بتیس سال 908ء سے 1940ء تک شاہی طبیب رہا.طب میں اس نے جو اصلاحات کیں ان میں سب سے اہم بغداد میں (932-931 ء ) اطبا کا رجسٹریشن، امتحان کا طریقہ کار اور مطب (medical practice) کے لئے لائسنس جاری کرنے کا طریقہ تھا.خلیفہ کے حکم پر اس نے اطبا کا شمار کرایا جن کی تعداد ایک ہزار کے قریب نکلی.اس نے نصاب تعلیم مقرر کیا اور اطبا کا با قاعدہ تحریری اور زبانی امتحان لیا.ایک ہزار میں سے جو 800 طبیب کامیاب ہوئے ان کو لائسنس (license) جاری کیے گئے.کامیاب ہونے والوں کا رجسٹریشن کیا گیا اور سرکاری سند دی گئی.لائسنسنگ 33 یورپ میں شائع ہو چکے تھے.اس کا آخری ایڈیشن و فیس (Venice) سے 1542ء میں منظر عام پر آیا تھا.اس کے متعدد قلمی نسخے برٹش میوزیم ، آکسفورڈ، کیمبرج، اسکور یال، استنبول، رام پور، مدراس کے کتب خانوں میں موجود ہیں.ہندوستان سے اصل کتاب شائع ہو گئی ہے.تاجدار فین زکریا رازی کی قادر الکلامی اور فکر کی ندرت بیانی قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے.تحریر کا لطف پڑھنے والے کو مستقل اپنی توجہ کے حلقے میں لئے رہتا ہے.مجرب نسخوں پر مشتمل کتاب الجدری والحصبہ چیچک اور خسرہ پر دنیا کی پہلی کتاب ہے جس میں رازی نے اس کے اسباب کا پتہ لگایا، احتیاط اور علاج دریافت کیا.اس کے تراجم لاطینی ، فرانسیسی اور انگریزی میں کیے گئے.اس کا پہلا لاطینی ترجمہ 1498ء میں وینس سے زیور طبع سے آراستہ ہوا تھا.یونانی بورڈ (licensing board) کا انچارج محتسب ہوتا تھا.امریکہ کی ہر ریاست میں سنان ابن ثابت ترجمہ پیرس سے 1548ء میں ، فرانسیسی ترجمہ 1763ء میں ، انگریز کیا ترجمہ 1848ء میں اور کے طریقہ کار کے مطابق اسٹیٹ لائسنسنگ بورڈ ہیں جو ڈاکٹروں کو لائسنس جاری کرتے ہیں.جرمن ترجمه ( Ueber die Pocken und die Masern)1911ء میں لیپزگ کینیڈا میں بھی ہر صوبے میں وزرات صحت میں ڈاکٹروں کی رجسٹری کا محکمہ ہوتا ہے.دوا خانوں میں ادویات کی جانچ پڑتال کے لئے عباسی خلافت میں فارماسسٹ مقرر تھے جو ماہیتی نگرانی ( کوالٹی کنٹرول) اور معائنہ (inspection) کرتے تھے.امریکہ میں یہی کام فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈ منسٹریشن (Food and Drug Administration یعنی (FDA) کا محکمہ کرتا ہے.عالم اسلام کے بطل جلیل محمد بن زکریا رازی (925-865ء) کی بے نظیر کتاب الحاوی فى الطب پچیس جلدوں میں ایک طبی انسائیکلو پیڈیا ہے جس کا مسودہ اس کی بہن کے پاس تھا اور جسے اس کی وفات کے بعد اس کے قابل شاگردوں نے مدون کیا.یہ کتاب رازی کے نظریات، تجربات اور خیالات کا نچوڑ ہے.اس کا لاطینی ترجمہ 1279ء میں سلی کے یہودی عالم فرج بن سالم نے کیا.یہ کتاب یورپ کے میڈیکل کالجوں میں کئی سو سال تک بطور طبی نصاب پڑھائی جاتی رہی.1986ء میں یہ لائبر ڈکٹس الحاوی (Liber dictus Alavi ) کے عنوان سے لاطینی میں پریس کی ایجاد کے بعد زیور طبع سے آراستہ ہوئی.1866 ء تک اس کے چالیس ایڈیشن (Leipzig) سے شائع ہوا تھا.کنگسٹن (کینیڈا) کی کوئیز یونیورسٹی کی میڈیکل لائبریری میں اس کا جرمن اور انگریزی ترجمہ موجود ہے جس کا مطالعہ راقم نے کیا ہے.ایک درجن زبانوں میں اس اعلی علمی کتاب کے 1866-1498 ء کے عرصے میں چالیس ایڈیشن منصہ شہود پر آئے تھے.(3) علم طب پر مبنی رازی کی ایک اور کتاب المنصوری کا ترجمہ ملان، اٹلی سے 1481ء میں طبع ہوا.اس کا نواں باب مقبول عام تھا جو لیو ، فرانس سے 1490ء میں شائع کیا گیا.(4) کتاب منافع الاغذیه و دفع مضارھا میں غذاؤں کے فوائد اور نقصانات بیان کیے گئے ہیں.(5) کتاب الصیٰ فی الکلی والمثانہ گردے اور مثانہ کی پتھری کے متعلق ہے.(6) کتاب القولنج کا نام ہی اس کے لکھنے کی وجہ بتلاتا ہے.(7) کتاب اوجاع المفاصل نقرس اور عرق النساء پر چار صفحے کا رسالہ ہے.(8) مقالہ فی ابدال الادویہ میں صفحے کا رسالہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اگر ایک دوا میسر نہ ہو تو اس کی جگہ کون سی دوا استعمال کی جاسکتی ہے.فارسی اور اردو میں اس کا ترجمہ

Page 24

35 34 ہو چکا ہے.(9) آٹھ صفحے کا رسالہ فی الباؤ اسم با سملی ہے.(10) کتاب المدخل الى الطب میں بحث کی گئی ہے کہ علم طب کے لئے کن علوم کا حاصل کرنا ضروری ہے.(11) قرابادین صغیر میں مرکب دواؤں کا بیان ہے.(12) کتاب فی التجارب میں وہ تجربات مذکور ہیں جو اسے مختلف امراض کے علاج کے دوران حاصل ہوئے.(13) کتاب برء الساعۃ میں ان ادویات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے ایک گھنٹہ میں علاج کیا جا سکتا ہے.اردو میں اس کا ترجمہ لکھنو سے چھپا ہے.فرانسیسی میں ترجمہ مع عربی متن شائع ہوا ہے.(14) کلام فی الفروق بین الامراض دس صفحے کا رسالہ ہے جس میں متشابہ امراض کی تفریق کا طریقہ بیان کیا گیا ہے.(15) کتاب الملو کی 38 صفحات کے اس رسالے میں غذا کے ذریعے امراض کا علاج بیان کیا گیا ہے.یہ خاص طور پر امرا اور سلاطین کے لئے لکھی گئی تھی.(16) کتاب طب الفقراء کا موضوع یہ ہے کہ جس شہر یا علاقہ میں طبیب موجود نہ ہوں تو غریب لوگ معمولی دواؤں اور غذاؤں سے اپنا علاج خود کیسے کر سکتے ہیں.(17) سولہ صفحے کے رسالے المرشد کا اصلی نام الفصول فی الطب، کا مطالعہ ہر طبیب کے لئے ضروری تھا.1500 ء میں وینس سے اس کا ترجمہ اطالوی زبان میں شائع کیا گیا ہے.اخلاق حسنہ سے متصف ابو بکر محمد بن زکریا الرازی نے جن موضوعات پر خامہ فرسائی کی وہ ہیں : تعدیہ (infection)، چک، بچوں کی بیماریاں، مریض پر نفسیاتی اثرات، جانوروں کی آنتوں سے بنے ٹانگوں سے زخموں کی سلائی.بغداد میں ہسپتال تعمیر کرنے کے لیے اس نے تجویز کیا کہ جہاں ہوا میں لٹکا ہوا گوشت دیر سے خراب ہو اس مقام پر تعمیر کیا جائے گویا اس نے جراثیم (bacteria) اور تعدیہ (infection) کے مابین تعلق معلوم کر لیا تھا جو طبی تاریخ میں ایک عظیم دریافت اور سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.دقیقہ رس عالم ، طبیب، کیمیاداں رازی کے اشہب قلم سے 184 کتابیں منظر عام پر آئیں.البیرونی نے اس کی کتابوں کی فہرست تیار کی جس کے مطابق اس نے 56 کتابیں طب پر ، سات نیچرل سائینس (natural science) پر ، دس ریاضی پر ، 17 فلسفے (Philosophy) پر، 14 د مینیات پر 22 کیمیا پر 6 مابعد الطبیعیات (Metaphysics) پر اور 12 دیگر عنوانات پر قلم بند کیں.ان میں سے چند کتب کے نام یہ ہیں: کتاب کیفیۃ الابصار، کتاب الطب الملو کی ، کتاب الفالج، کتاب اللقوة، کتاب ہئیت القلب.زکریا رازی نے جسے جالینوس العرب (The Arabic Galen ) کہا گیا ہے، طب میں الکحل (Alcohol) کا استعمال شروع کیا.اس نے حساسیت اور مناعت (allergy & immunology) پر دنیا کا پہلا رسالہ لکھا.اس نے حساسی ضیق النفس (allergic asthma) کو دریافت کیا.اس نے الرجی کے بارے میں کہا کہ یہ وہ عارضہ ہے جو موسم بہار میں گلاب کے پھول سونگھنے پر لاحق ہوتا ہے.یوں وہ پہلا طبیب تھا جس نے ہے فیور (hay fever) کو سب سے پہلے دریافت کیا.عمل جراحی میں اس نے ایک کارآمد آلہ ایجاد کیا جس کا نام نشتر (seton) ہے.اشیا اور ادویات کا وزن کرنے کے لیے اس نے میزان طبعی (physical balance) ایجاد کیا.علم طب میں وہ یقیناً طیب اعظم کا درجہ رکھتا تھا.اگر وہ بیسویں صدی میں پیدا ہوا ہوتا تو بلاشبہ وہ میڈیسن کے نوبل انعام کا مستحق ہوتا.ابوالحسن الطبری (دسویں صدی) نے فلسفہ، نیچرل سائنس اور طب میں خوب نام پیدا کیا.وہ رکن الدولہ (976-932ء) کا شاہی طبیب تھا.اس نے معالجات البقراطیہ نامی کتاب لکھی جس میں صحت ، ادویاتی علاج (medical therapy) اور نفسیاتی علاج (psychotherapy) پر روایتی اعتقادات کے بجائے نئے نظریات (theories) پیش کئے.اس نے خارش کے کیٹرے(itch-mite) کو دریافت کیا.ابو منصور الحسن القمری (990 ، قم ، ایران ) ابو علی ابن سینا کا قابلِ احترام استاد اور سامانی حکمراں المنصور کا شاہی طبیب تھا.اس کی کتاب الغنى والمنى( Book of wealth and

Page 25

37 36 wishes) سلطان المنصور کے نام سے معنون کی گئی ہے.یہ تین حصوں میں تقسیم ہے: اندرونی بیماریاں، خارجی بیماریاں اور بخار.ہندوستان میں یہ کتاب عربی متن اور اردو ترجمے کے ساتھ شائع ہوگئی ہے.علم طب کی آبرو، شیخ الرئیس ابوعلی ابن سینا کی شہرہ آفاق طبی کتاب القانون کا ترجمہ کین (Canon) کے عنوان سے کیا گیا.اس کا پہلا یوروپین ایڈیشن 1473ء میں شائع ہوا پھر 1475ء میں دوبارہ طبع ہوا.سولہویں صدی میں اس کے سولہ ایڈیشن جاری ہوئے ، 1650 ء تک اس کتاب کے متواتر تراجم کثیر تعداد میں شائع ہوتے رہے.مؤرخین کا کہنا ہے کہ دنیا میں طب کے موضوع پر سب سے زیادہ شائع ہونے والی یہی کتاب ہے.بعض لوگ اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کو طبی بائیبل (Bible of Medicine) بھی کہتے ہیں.واضح رہے کہ 1395ء میں پیرس کی فیکلٹی آف میڈیسن کا پورا نصاب رازی اور ابن سینا کی کتابوں پر مشتمل ہوتا تھا.اسی لئے ان کی تصاویر ابھی تک وہاں کے بڑے ہال میں دیوار پر آویزاں ہیں.علاوہ ازیں رازی کی ایک پینٹنگ پرنسٹن انسٹی ٹیوٹ، نیو جرسی، امریکہ کے چرچ کی کھڑکی (stained glass) پر آویزاں ہے.(عاجز کے پاس اس پینٹنگ کی کمپیوٹر پر بنی رنگین کاپی موجود ہے جس میں عربی حروف میں کتاب الحاوی بسم اللہ الرحمن الرحیم ، الرازی،صاف پڑھا جاسکتا ہے.اس کے بائیں ہاتھ میں کتاب الحاوی دکھائی گئی ہے).شاہ الاطبا ابوعلی ابن سینا کی انقلاب آفریں کتاب القانون فی الطب ( دس لاکھ الفاظ پر مشتمل ۵ جلدوں میں) علم طب کی بے نظیر کتاب ہے.اس بحر ذخار کی کمیت ہی حیرت انگیز نہیں بلکہ اس کی معنوی کیفیت بھی اتنی ہی گراں بہا ہے.اس میں پائے جانے والے ان گنت آبدار موتیوں کا باہر نکال کر لانا ضروری تھا تا کہ دوسری قومیں بھی اس سے متمتع ہوسکیں.لہذا اس کا لاطینی میں ترجمہ بارہویں صدی میں جیرارڈ آف کر یمونا نے لائبر کینونس (Liber Canonis) کے عنوان سے کیا جو 1544ء، پھر 1582ء اور پھر 1595ء میں طبع ہوا.پانچ جلدوں میں اس کا عربی ایڈیشن روم سے 1593ء میں شائع ہوا.اس سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے دوران بھی یہ کتاب زبر دست افادیت کا درجہ رکھتی تھی.اس معرکۃ الآرا تصنیف کے جزوی تراجم ملان سے 1473 ء، وینس سے 1483ء اور پڑ وآ (Padoa) سے 1478ء میں شائع ہوئے نیز عبرانی میں ترجمہ نیپلز (Naples) سے 1491ء میں اور جرمن ایڈیشن 1796 ء میں ہیل (Halle) سے طبع ہوا [9].دنیا کی مختلف زبانوں میں، اب تک اس کا ترجمہ 87 مرتبہ کیا جاچکا ہے.یادر ہے کہ 1200 ء سے 1700 ء تک یہ معرکۃ الآرا کتاب یورپ کے میڈکل کالجوں میں نصابی کتاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی.اس کی تصدیق فرانس کی مانٹ پیلیئر یونیورسٹی کے آرکائیوز (archives) میں موجود پوپ کلے مینٹ پنجم (Pope Clement-V) کا 1309ء کا جاری شدہ ایک فرمان ہے جس کے مطابق القانون 1557 ء تک یہاں کے نصاب تعلیم میں شامل رہا.اسی طرح لو آن یونیورسٹی (Louvan University) کے آرکائیوز میں موجود دستاویزوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ستر ہویں صدی کے شروع تک یہاں کے پروفیسر صرف رازی اور ابن سینا کی کتب کو قابل اعتبار و استناد سمجھتے تھے.انیسویں صدی کے آغاز تک ساربون (Sorbonne) یو نیورسٹی میں طالب علم کو اس وقت تک میڈیکل پریکٹس کالائسینس نہیں دیا جاتا تھا جب تک کہ اس کو ابن سینا کی کتاب القانون پر دسترس نہ حاصل ہو.پندرہویں صدی میں القانون کے سولہ ایڈیشن اور سولہویں صدی میں اس کے ہیں ایڈیشن شائع ہوئے.سترہویں صدی میں اس کے اور بھی ان گنت ایڈیشن منظر عام پر آئے.لاطینی اور عبرانی میں اس پر کثیر تعداد میں شرحیں لکھی گئیں.یورپی طب کی بنیادیں ابھی تک اس کی تحقیقات پر استوار ہیں.ابن سینا کی دیگر مشہور عالم طبی کتابیں ہیں : کتاب الشفاء، کتاب القولنج ، کتاب الحواشی علی القانون ، کتاب الا دو یہ القلبية - سيد اظل الرحمن نے قانون ابن سینا اور اس کے شارعین و مترجمین، نیز یورپ میں القانون کے تراجم اور اشاعتوں پر تفصیل سے لکھا ہے.اس اردو کتاب کا فارسی میں ترجمہ بھی تہران سے شائع ہو گیا ہے.

Page 26

39 38 حیثیت طبیب ابن سینا نے تپ دق کا متعدی ہونا دریافت کیا.پانی ہٹی یا دھول سے مرض کا پھیلنا.اس نے لکھا ہے کہ پانی کے اندر چھوٹے چھوٹے مہین کیڑے مائیکروب ) ہوتے ہیں جو انسان کو بیمار کر دیتے ہیں.اس نے مین جائٹس (meningitis) کے مرض کی تشخیص کی.اس نے نفسیاتی بیماریوں کی پہچان اور ان کا علاج بیان کیا.جلد کی بیماریوں کو بیان کیا.اس نے صحت پر آب و ہوا اور غذا کے اثرات کا بیان کیا.اس نے مریضوں کو بے ہوشی کی دوا (oral anaesthetics) مثال افیون دینے کو کہا.اس نے کہا کہ سرطان کی صورت میں جسم کے متاثرہ حصے کو کاٹ دینا مناسب ہے بلکہ رسولی (tumor) کی طرف جانے والی تمام رگوں کو بھی کاٹ دیا جائے اگر یہ کافی نہ ہو تو پھر اس حصے کو گرم لوہے سے داغ دیا جائے.(جدید زمانے میں بھی بیطریقہ مروج ہے اور جلانے کے لیے لب ریڈی ایشن (radiation) کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے).اس نے پھیپھڑے کی جھلی کا ورم ( Pleurisy) معلوم کیا.اس نے اختناق الرحم (hysteria) اور مرگی کے دوروں میں فرق واضح کیا.اس نے بتلایا کہ سل (phthisis) کی بیماری متعدی ہوتی ہے.شیخ الرئیس بو علی سینا کی ایک پینٹنگ جس میں ان کو.طالب علموں کو طب کا درس دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے مشرق میں القانون فی الطب ابھی تک دنیا کی لازوال کتابوں میں شمار کی جاتی ہے.ایک ہزار سال گزرنے کے باوجود ابھی تک یہ مسلمہ کتاب تسلیم کی جاتی ہے.اگر ابن سینا اس صدی میں پیدا ہوا ہوتا تو یقین واثق ہے کہ اسے میڈیسن کے علاوہ دیگر مضامین میں نوبل پرائز (Nobel Prize) ضرور دیا جاتا.یہ کہنے میں مجھے کوئی باک نہیں کہ اپندرہویں اور سولہویں صدی میں یورپ میں علیم معالجہ کا دارومدار اسلامی طب پر تھا.مثلاً ایک اطالوی مصنف فراری ڈی گریڈو ( Ferraride Grado) نے اپنی کتابوں میں بوعلی سینا کا حوالہ تین ہزار مرتبہ دیا ہے.جبکہ رازی اور جالینوس کی کتابوں کے حوالہ جات ایک ہزار مرتبہ دیے ہیں.واضح رہے کہ اس مصنف نے یورپ میں طب پر سب سے پہلے جو کتاب شائع کی وہ رازی کی کتاب الحاوی کے نویں باب کا ترجمہ تھا.ابن مسکویہ (1030ء) فارس کے بادشاہ عضد الدولہ کے ند مائے خاص میں شامل تھا.اس نے طب ، منطق ، ریاضیات ، طبیعیات، حساب اور کیمیا پر کتابیں لکھیں.اس نے فن وادب کی تاریخ بھی لکھی.فن تاریخ پر اس کی کتاب تجارب الامم میں 983 ء تک کے واقعات درج ہیں.ڈی گونجے (De Goeje) کا کیا ہوا تر جمہ لائیڈن ( Leiden) سے 1871 ء میں شائع ہوا.چھ جلدوں میں کتاب آداب العرب والفرس فلسفہ پر اور اخلاق عالیہ پر تہذیب الاخلاق ، ترتیب السعادات، کتاب السیر، الفوز الاصغر، الفوز الاکبر ہیں.کتاب الاشربہ طب پر ہے.اس کے نزدیک طب کے دو حصے ہیں، ایک حصے میں حفظانِ صحت کے طریقے بتائے جاتے ہیں.دوسرے حصے میں زائل شدہ صحت کو بحال کیا جاتا ہے.روحانی طب میں یہ دونوں حصے موجود ہیں.اس نے حقیقی مسرت کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں: اچھی صحت، مال و دولت ، شہرت و نیک نامی ، مقاصد میں کامیابی ، خوش اعتقادی.ابن بطلان (1066ء، بغداد) عیسائی طبیب تھا جس نے تقویم الصحہ کے نام سے کتاب لکھی.اس کی افادیت کے پیش نظر اس کے تراجم لاطینی اور فرانسیسی میں کیے گئے.اس نے راہبوں کے لیے بھی طب پر ایک کتاب لکھی جس کا مخطوط نیشنل لائبریری آف میڈیسن میں موجود ہے.ابن ابی صادق ( 1968ء ، ایران ) نے بقراط کی کتاب المفصول کی شرح بسیط لکھی، نیز جنین ابن اسحق کی مسائل فی الطب کی شرح لکھی اور الرازی کی شکوک علی بطلیموس کی بھی شرح لکھی.

Page 27

41 40 مصر کے علی ابن رضوان (1067-998 ء) نے بقراط اور جالینوس کی کتابوں کی شرحیں لکھیں اور بغداد سے قاہرہ میں آئے ہوئے ابن بطلان کے ساتھ صحت اور طب کے موضوع پر مناظرے کیے.قاہرہ کے ہسپتال اور کتب خانے اس وقت پوری دنیا کے لیے مرجع خاص و عام تھے.اس لئے عالم اسلام کے طبیب یہاں ہجرت کر کے آباد ہو جاتے تھے.حفظانِ صحت پر اس نے فی دفع مضار الا بدان بارض مصر لکھی.ابوعلی عیسی ابن جزلہ ( 1100ء، بغداد) نے تقویم الا بدان فی تدبیر الانسان لکھی جس میں 352 بیماریوں کے جدول دیے گئے تھے.اس میں ہر بیماری کی شناخت اور اس کا علاج دیا گیا تھا.خلیفہ المقتدی (1094-1075ء) کے لئے اس نے منہاج البیان لکھی جس میں ادویات حروف تہجی کے مطابق درج کی گئی تھیں.سعید ابن ہبت اللہ (1102ء، بغداد) خلیفہ المقتدی کے دور حکومت کا طبیب اور فلسفی تھا.اس نے کتاب المنغنی کی تلخیص تیار کی.پیدائش انسان پر مقالہ فی خلق الانسان لکھا جس میں حمل، روح افزائش، تنزل، وضع حمل ، ولادت، مدت حمل پر روشنی ڈالی گئی ہے.نجیب الدین سمرقندی (1222ء، ہرات ) نے الاسباب والعلامات لکھی جس کی شرح نفیس کرمانی نے سپر قلم کی علم الادویہ (Pharmacology) پر اس نے اصول ترکیب الادویہ اور ادویہ المفردة لکھیں.مریضوں کے لئے کتاب اغذیہ المرضی تھی.جوڑوں کے درد کے لئے اس نے فی مدوات وجعل المفاصل لکھی.آنکھوں کے عوارض پر اس نے فی کیفیات ترکیب طبقات العین لکھی.قرابادین ( میڈیکل فارمولری) میں فی معالجات الامراض اور فی الادویہ استعمله عند الصیادہ تھیں.شمس الدین شہر زوری نے 1282ء میں تاریخ طب پر ایک مفید کتاب عہد اسلامی سے قبل کے 34 اور اسلامی عہد کے 77 حکماء اور اطبا کے حالات اور اقوال زریں پر لکھی تھی.طبریزی نے اس کتاب بائیوگرافیکل ڈکشنری (Biographical Dictionary) کا ترجمہ کیا.ابن النفیس قرشی (1288-121 ء ، دمشق اور مصر ) نے طبی تعلیم دمشق کے معروف ہسپتال بیمارستان النوری میں حاصل کی جس کی بنیاد نور الدین زنگی نے رکھی تھی.طب کے علاوہ اس نے فقہ، ادبیات (literature) اور دینیات کا علم بھی حاصل کیا.1236ء میں وہ قاہر منتقل ہونے پر المنصوری ہسپتال میں رئیس الا طبا مقرر ہوا.اس کے بعد حاکم مصر کا شاہی طبیب بھی بنا.وفات سے قبل اس نے اپنا گھر ، ذاتی لائبریری اور شفاخانہ منصور یہ ہسپتال کے نام وقف کر دیا.ابن النفیس طب پر ایک انسائیکلو پیڈیا تین سو جلدوں میں احاطہ تحریر میں لانا چاہتا تھا.چنانچہ اس نے تعلیم کتاب الشامل فی الطب تصنیف کی جس کا ایک مسودہ دمشق میں محفوظ ہے.ابن سینا کی القانون کے حصہ تشریح (anatomy) پر اس نے شرح تشریح القانون (1242ء) لکھی ، اس شرح میں اس نے پھیپھڑوں کی ساخت کو صحیح طور پر بیان کیا اور انسانی جسم میں دورانِ خون کی تفصیل درج کی.اس نے دل سے عمل اور خون کی شریانوں کے بارے میں نئی معلومات مہیا کیں.جدید تحقیق کے مطابق وہ پہلا طبیب تھا جس نے ریوی دوران خون دریافت کیا.اس انقلابی دریافت نے جالینوس جیسے عہد قدیم کے طبیب اعظم کے نظریے کو باطل قرار دیا جس نے کہا تھا کہ خون قلب کے دائیں طرف سے سیدھا بائیں طرف چلا جاتا ہے جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ خون دل کے دائیں جوف سے پھیپھڑوں میں سے گزر کر بائیں جوف میں جاتا ہے.ابن النفیس نے یہ نظریہ ایسٹر یکٹ ریزنگ (abstract reasoning) سے دریافت کیا جبکہ یہی بات انگلینڈ کے بادشاہ چارلس اول (1-Charles) کے شاہی طبیب ولیم ہاروے (1657-1578ء) نے تین سوسال بعد انسانوں اور جانوروں کی چیڑ پھاڑ کے ذریعے دریافت کی تھی.ابن النفیس کی اس حیرت انگیز دریافت کا علم دنیا کو مصر کے ڈاکٹر محی الدین الطاطائی کے ڈاکٹریٹ کے مقالے سے ہوا جو انہوں نے 1924ء میں جرمنی کی یونیورسٹی آف فرائی برگ (Freiburg) میں ڈاکٹریٹ کے لیے لکھا تھا.ورنہ اہل یورپ اس کا سہرا ولیم ہاروے اور مائیکل سرویس کے سر ہی باندھتے رہتے.

Page 28

43 ابن ابی اصیبعہ قاہرہ کا ذی علم اور وسیع المعلومات طبیب تھا.اس نے اطبا کی سوانح عمریوں پر ایک شاندار کتاب عیون الانباء فی طبقات الاطباء ترتیب دی جو قاہرہ سے دوسری مرتبہ 1948ء میں شائع ہوئی تھی.جرمنی کے مستشرق وسٹن فلڈ (99-1808-Wustenfeld) نے اپنی کتاب میں تین سو مسلمان طبیبوں اور ادیبوں کے نام گنوائے ہیں.اڈولف فونان (1910-Adolf Fontan) نے اپنی کتاب Zur Quellen Kunde der Persische میں لکھا ہے کہ صرف ایران میں طب کے موضوع پر چارسو کتا ہیں لکھی گئی تھیں.مسلمان اطبا نے جس نوعیت کی سرجری (Surgery) کی ، ایک مغربی مصنف نے اس کی اجمالی تفصیل ان الفاظ میں پیش کی ہے: Right lung 42 Bronchus Left lung Asteria venosus Left auricle Vencus arteriosus aht article "Aorta, blood vital spirt Left ventric ventricle Vena cava ابن النفیس کی تھیوری آف پلمونری سرکولیشن کی وضاحت ابن النفیس نے القانون کی پانچوں جلدوں کی تلخیص لکھی جس کا نام کتاب الموجز ہے.یہ اس قدر مشہور ہوئی کہ اس پر حل موجز کے نام سے اس کی بہت سی شرحیں اور حواشی لکھے گئے.غذا کا اثر انسان کی صحت پر کیا پڑتا ہے، اس موضوع پر اس نے مشاہدے اور تحقیق سے كتاب المختار في الاغذیہ لکھی.بغيات الطالبین و حجتہ المتطبین (جو طبیبوں کے لئے حوالہ جاتی کتاب ہے) کی تصنیف کی.ابن نفیس کی دو اور شرعیں مشہور ہیں یعنی شرح طبیعات الانسان لبقراط، اور شرح مسائل حنین.اس نے آنکھوں کی بیماریوں پر بھی قیمتی معلومات والی کتاب مہذب فی الکحل لکھی.اس کا ایک اور طبعی کا رنامہ درج ذیل ہے: "He was the first to write on a capillary network joining arteries and veins, and the effect of lung movement in delaying the healing of tuberculosis." "Vessical probes, incision of abcesses, functions of ascitis and hydrocelitis, tumour were treated, arrow heads were removed, wounds sutured, tonsils removed, apmutations, close hernias, vericose veins, intestinal sutures with thread.(Dentistry) extract diseased teeth, make artificial teeth from bone and attach them to healthy by steel wire."[10] عزالدین سویدی (1292ء) طبیب اور فلسفی ، ابن بیطار کا شاگرد اور ابن ابی اصیحہ کا دوست تھا.اس کی کتاب تذکرہ میں امراض کے اسلامی اور یونانی نسخے دیے گئے ہیں.تمام نسخے سر سے پاؤں تک بلحاظ امراض مرتب ہیں.شاہرانی نے اس کی تلخیص لکھی تھی.ابو البرکات بغدادی نامور طبیب اور مشہور فلسفی تھا.سلاطین سلجوقیہ کے دربار میں اس کو قدر و منزلت حاصل تھی.اس نے متعدد کتابیں قلم بند کیں.ان میں سب سے مشہور کتاب المعتمر “ ہے ، جسے دائرة المعارف حیدر آباد نے شائع کیا تھا.اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ فلسفہ و حکمت کے مسائل پر نقد و بحث کی گئی ہے اور تمام مسائل واضح اور شستہ عبارت میں لکھے گئے ہیں.

Page 29

45 44 نجم الدین شیرازی (1330ء) نے کتاب الحاوی فی علم التداوی ( حاوی صغیر ) لکھی جس میں اس نے بقراط، جالینوس کے علاوہ بہت سے مسلمان اطبا کی رائے بھی دیں.مسعود سجزی (1334ء) نے حقائق اسرار طب لکھی.مصر میں چودہویں صدی میں دو اور نامور طبیب پیدا ہوئے یعنی اکفانی اور ابراہیم شاد بلچپس.ابراہیم شاد نے چودہویں صدی میں امراض العین پر ایک کتاب لکھی جس سے مصر میں آنکھ کے آپریشن کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں.اسی طرح ایک اور طبیب داؤ دانطا کی (وفات 1599ء قاہرہ) جس کی کتاب الذخیره (Treasury) بہت مشہور ہے.حاجی زین العطار (متوفی 1403ء ) ایران کے حکمراں شاہ شجاع کا 1358ء سے 1384 ء تک شاہی طبیب تھا.اس نے فارسی زبان میں ضخیم کتاب اختیارات بدیعی مرتب کی.محمد ابن یوسف زہروی (متوفی 1518ء) نے ایک طبی لغت تیار کی جو حروف تہجی کے مطابق تھی.اس میں تشریح، علم الامراض (Pathology)، ادویہ اور اطبا کے نام تمجی وار دیے گئے ہیں.” بحر الجوہر" کا مخطوطہ نیشنل لائبریری آف میڈیسن، میری لینڈ، امریکہ.National Library of Medicine, Maryland, USA) میں موجود ہے.حکیم سلطان علی طبیب خراسانی (1526ء ایران) نے خراسان اور سمرقند میں چالیس برس کے مطب و معالجہ اور تحقیق و تدقیق کے بعد دستور العلاج فارسی زبان میں لکھی تھی.ابن حسین حنفی (1593ء) نے طب نبوی پر ایک مفید کتاب لکھی.مصنف کے اپنے ہاتھ سے کتابت کیا ہوا ایک مخطوطہ نیشنل لائیبری آف میڈیسن، امریکہ میں موجود ہے.نورالدین محمد عبد اللہ شیرازی (سترہویں صدی) نے شاہ جہاں کے دور میں طب دارا شکوہی کتاب لکھی جس میں یونانی اور ہندی علم طب کا نچوڑ پیش کیا گیا تھا.یہ دارا شکوہ کے نام معنون تھی.اس نے علم الادویہ کی ایک لغت تیار کی جس کا نام الفاظ الا دو یہ تھا.یہ مغل بادشاہ شاہجہاں کے نام معنون تھی.مقصود علی طبریزی (1602 ء ایران) ہندوستان کا عظیم ترجمہ نگار تھا جس نے مغل بادشاہ جہانگیر کے حکم پر عربی سے متعدد کتابوں کے فارسی میں تراجم کیے.ترکی کے صالح ابن نصر ابن سولم (1669ء) نے جو سلطان محمد چہارم کا شاہی طبیب تھا، غایتہ الاتفاق فی تدبیر بدن الانسان لکھی جس میں نئے نئے امراض جیسے اسکروی (scurvy) کلوروسس (chlorosis)، اینیمیا (anemia ) ،انگلش انگلش سوئٹ یعنی انفلوئنزا (english sweat or influenza) کا ذکر کیا.حکیم محمد اکبر ارزانی (1722ء) نے قرابادین قادری تدوین کی جسے اپنے مرشد حضرت غلام عبد القادر جیلانی کے نام سے معنون کیا ہے.میزان الطب اور مجربات اکبری کے علاوہ انہوں نے مفرح القلوب کے نام سے قانونچہ کی شرح لکھی اور القانون فی الطب کی تلخیص کی.محمد مہدی ابن علی نقی (1728ء) نے زاد المسافرین فارسی زبان میں لکھی جو مسافروں کے لیے علاج اور حفظانِ صحت کے موضوع پر تھی.رستم جرجانی (سولہویں صدی، احمد نگر ) دکن کے حکمراں خاں احمد جیلانی اور نظام شاہ برہان کا شاہی طبیب تھا.اس نے فارسی زبان میں طب پر کئی تصانیف قلم بند کیں، نیز ایک قرابادین بھی مرتب کی جو بہت مفید اور کار آمد تھی.مصطفیٰ بہجت آفندی (1833ء ہتر کی) ترکی سلطان کا استنبول میں رئیس الاطبا (Royal Chief Physician) تھا.اس نے القانون فی الطب کا ترکی میں ترجمہ کیا.اس کا مخطوطہ نیشنل لائبریری آف میڈ لین، امریکہ میں موجود ہے.حکیم محمد شریف خاں (1805ء، ہندوستان) مغل حکمراں شاہ عالم (1806-1759 ء ) اور اس کے بیٹے اکبر شاہ ثانی کا طبیب خاص تھا.نیز ہندوستانی اردو یہ پر ایک کتاب تالیف شریفی لکھی.اس کی تمام تصنیفات عربی اور فارسی میں تھیں.حکیم شریف خان مسیح الملک حکیم اجمل خاں کا جد امجد ہے.اسلامی اسپین کے طبیب اسلامی اسپین نے بھی بہت سے یگانہ روزگار طبیب پیدا کیے جن کی موقر تالیفات و تصنیفات نے گہرے اثرات مرتب کئے.ان میں سے حسدے (ترجمہ نگار ) ، ابن الجزار ( کتاب زاد المسافر)، عریب ابن صاعد القرطبی ( خلق الجنين)، ابن الجبل ( تاریخ الاطبا الحکما تغییر اسماءالا دوبی،

Page 30

47 46 مقالہ فی ذکر الا دویہ ) ، ابن الوافد ( ادوية المفردة ، كتاب الوصاد)، ابن حیان القرطبی (کتاب المتین 60 جلدوں میں).ابن الصلت (شاہی طبیب) ، الغافقی ( الادوية المفردة)، ابو القاسم الزہراوی (التصريف ) ، ابن زہر (کتاب التيسير ) ، ابن طفیل ، ابن رشد (کتاب الکلیات)، لسان الدین الخطیب ( کتاب الیوسفی ، 60 کتابوں کا مصنف) کے نام قابل ذکر ہیں.اعلی و ماغ طبیب عریب بن صاعد (976ء) خلیفہ عبدالرحمن الناصر (961-912ء) کا شاہی طبیب تھا.اس نے عورتوں کے امراض پر تحقیق کی یعنی حمل کا قیام ، جنین کی حفاظت، زچہ اور بچہ، دایه گیری پر تحقیقات حمل سے متعلق تمام کیفیتوں کے مشاہدات، تجربات اور نتائج قلم بند کرتا رہا اور انہیں کتاب خلق الجنین (964ء) کی صورت میں مرتب کیا.بن جلجل (994-944ء) اندلس کا مشہور مورخ اور طبی تاریخ نویس تھا اس کی پیدائش قرطبہ میں ہوئی.14 سال کی عمر میں اس نے طب کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا اور زندگی کے چوبیسویں زینے پر جب قدم رکھا تو مطب کا سلسلہ شروع کر دیا.وہ خلیفہ ہشام الثانی کا خاص طبیب تھا.اس کا علمی شاہکار تاریخ الاطباء الحکما ء ہے جو عربی زبان میں طب کی تاریخ پر مستند کتاب ہے.اس میں 57 لوگوں کی سوانح عمریاں پیش کی گئی ہیں جن میں 31 مشرقی طبیبوں اور باقی افریقہ اور اندلس کے اطبا اور حکماء کی زندگیوں پر ہیں.اس کی دو اور کتا ہیں تفسیر اسماء الا دو یہ اور مقالہ فی ذکر الا دو یہ طب پر ہیں.اس نے ایک اور دلچسپ کتاب لکھی جس میں طبیبوں کی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے.ایک اور مقالہ ایسی ادویہ پر لکھا جو دیستوریوس (Dioscorides) کی کتاب الحشائش (Materia Medica) میں نہ تھیں مگر اسپین میں پائی جاتی تھیں.ابن الجزار (1009ء، تیونس) قیروان کا معروف طبیب تھا.اس کی کتاب زاد المسافر کا ترجمہ یونانی ، لاطینی اور عبرانی میں کیا گیا.کتاب میں چیچک کے مرض کا بیان بہت ہی حیران کن ہے.اس نے مصر میں پھیلنے والی طاعون کی وبا کی سائنسی وجوہات پیش کیں.زاد المسافر کا انگریزی ترجمہ 1998ء میں لندن سے شائع ہوا تھا ( Ibn al-Jazar on sexual 1998 ,diseases, Arabic text & Eng.London).اس نے ایک رسالہ فی نسیان و علاجہ بھی لکھا تھا جس کا ترجمہ 1995ء میں شائع ہوا تھا.کتاب الاعتماد فی ادویہ المفردة کا لاطینی میں ترجمہ 1230 ء میں کیا گیا تھا.قلزم انسانیت کا مینارہ ضو بار، ابوالقاسم الزہراوی (1013 ء لاطینی نام Albucasis) قرطبہ کے نزدیک نے تعمیر شدہ شہر الزہراء کا رہنے والا تھا ( راقم الحروف نے 1999ء میں اسپین 10 LL 13 14 17 18 21 23 22 24 20 20 SURGICAL INSTRUMENTS OF THE ARABS, ACCORDING TO ABULCASIM After plates in Gurit's "Geschichte der Chirurgie" 1.A pincher for extracting foreign bodies from the ear 2.An ear syringe for injections 3.A tongue depressor 4.Concave scissors for the removal of tonsils 5.Curved pinchers for foreign bodies in the throat Sto ag Instruments for the treatment of the teeth 30.Forceps at to 25.Levers and hooks for the removal of roots ad.Stronk pinchers for the hanie 28 and 29.Files for the teeth 17.A tooth saw 6 ابو القاسم زہراوی کے بنائے ہوئے آلات سر جبری

Page 31

449 49 48 شبه المفصول السنان في الطرف كاترى وقد يمنع است طيلة الصور ون کاشی ها استان كاسات المشار قطع نها ويزمران شاء الله تعالى صور و مدفع ايضا صورة خسارة من الفنان فيها عليه قليلا ليلا سكس عند جد الامر الحبيني مورة مياه ذات الشوكين سور ميضعين عرينين القطع الجنين ابو القاسم زہراوی کی کتاب التصریف میں دیے گئے سرجری کے آلات کی سیاحت کے دوران اس شہر کے کھنڈرات اشکبار آنکھوں سے دیکھے تھے ).یہ قرون وسطی کا سب سے عظیم سرجن ، فارماسسٹ اور سائیکالوجسٹ تھا.اس کا علمی شاہکار کتاب التصريف لمن عجز عن التأليف، جراحت کے موضوع پر تمیں ابواب میں ہے.اس نے یہ کتاب پچاس سال کے مطب اور معالجے کے بعد قلم بند کی.اس میں جراحی کے دو سو آلات کی تصویر میں دی گئی ہیں اور تیں کے قریب آلات کی تصویریں ایسی ہیں جو اس نے سرجری کے دوران خود استعمال کیے تھے ان آلات کی تصویریں پیش کی جارہی ہیں).اپنی نوعیت کی منفرد اس تنظیم کتاب کا ایک باب سرجری پر ہے جس میں اس نے کٹاریکٹ (cataract) کے آپریشن کا تفصیل سے ذکر کیا ہے.زخموں کو سینے کے لیے اس نے ریشم کا دھاگہ استعمال کیا.اس نے ہیموفیلیا (haemophilia) کا بھی ذکر کیا.بزرگوں کے لیے صورة مجرد فيه تحجرات ضورة مجرد معطوف الطرف صورة مجرد اخر صغير صورة مجرد مريض صورة مقطع للمعظم ابوالقاسم زہرادی کے بنائے ہوئے سرجری کے کچھ اور آلات اس نے نقلی دانت (dentures) گائے کی ہڈی سے بنائے ،اس کے سات سوسال بعد امریکہ کا پہلا صدر جارج واشنگٹن لکڑی کے ڈیچر لگا تا تھا.الزہراوی نے یوں آرتھوڈین ٹسٹری (Orthodentistry) کی بنیاد رکھی.اس نے سرجری میں کپاس کا استعمال شروع کیا ، دانت کی سرجری کے دوران ، نیز عورتوں کی اندام نہانی کے لیے بھی.اس نے گلے کے عام تھائی رائیڈ

Page 32

51 50 (Goiter) اور کینسر آف تھائی رائیڈ (cancer of thyroid) میں فرق بتلایا.اس نے گردوں سے پتھری نکالنے کے لئے مثانہ کا آپریشن کیا.کان کے اندر کا مشاہدہ کرنے کے لیے آلات بنائے.ہسپتال جاتے وقت مریض کے لیے پھول لے جانے کا طریقہ الزھراوی نے مروج کیا.اس نے تجویز کیا کہ کپڑے کسی خوشبو دار صندوق میں رکھے جائیں تا کہ پہننے کے بعد بھینی بھینی خوشبو آئے.یورپ و امریکہ میں خواتین کپڑے دھونے کے دوران واشنگ مشین میں فیرک سافٹر (fabric softener) استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد کپڑوں میں خوشبو ڈالنا ہوتا ہے.ہڈیوں کو جوڑنے کے طریقے اس نے ایجاد کیے، نیز ہڈیوں کو کاٹنے کے آلات بھی ایجاد کیے.آلات جراحت پر بحث کے ساتھ اس نے نظری علوم میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.اس کے دیگر اضافات درج ذیل ہیں: Zahrawi's contribution in medicated cosmetics include under-arm deodrants, hair removing sticks and hand lotions.In Al-Tasreef hair dyes are mentioned turning blond hair to black, even correcting curly hair.He mentioned benefits of suntan lotions.For bad breath he suggested cinnamon, cardamom or chewing coriander leaves.He included methods for bleeching the teeth.For cold relief he suggested a mixture of camphor, musk and honey (similar to Vick's Vapor Rub).ممتاز اطالوی ترجمہ نگار جیرارڈ آف کریمونا نے 68 عربی کتابوں کے تراجم لاطینی میں کیے تھے.ان تراجم کے بعد اہل یورپ اسلامی طب سے متعارف ہوئے.ان کتابوں میں سے ایک تیرہ حصوں پر مشتمل کتاب التصریف تھی جس کا ترجمہ 1187ء میں ہوا تھا.یہ ترجمہ 1497ء میں ویانا (Vienna) سے چھاپہ خانے کی ایجاد کے بعد شائع ہوا، اس کے بعد تین ایڈیشن 1566ء، 1569ء اور 1597ء میں شائع ہوئے.عربی اور انگریزی میں اس کا ترجمہ آکسفورڈ سے 1778ء میں بے چینگ (J.Channing) نے شائع کیا اور فرانسیسی ایڈیشن 1861ء میں منصہ شہود پر آیا.یورپ کے شہروں سالیر نو اور مانٹ ہیلیئر کی جامعات میں یہ کتاب سرجری کے موضوع پر بارہویں صدی سے لے کر سترہویں صدی تک پڑھائی جاتی رہی.لندن سے سرجری کے موضوع پر اس کا ضخیم حصہ ایم ایس، پنک (M.S.Pink) نے 1973ء میں شائع کیا جو کوئیز یونیورسٹی اور کنگسٹن کی میڈیکل لائبریری میں بھی موجود ہے.میں نے اس کا بالاستعیاب مطالعہ کیا ہے.ابن سینا کی القانون کی طرح التصریف بھی پانچ سو سال تک یورپ کے میڈیکل کالجوں کے نصاب تعلیم میں شامل رہی.ان اطبا کی لا زوال شہرت اور عظمت کے پیش نظر الرازی، ابن سینا اور زہراوی کے پورٹریٹ ملان (اٹلی) کے کیتھیڈرل (Cathedral of Milano) میں دیوار پر نصب ہیں.زہراوی کو فن جراحت کا ابوا الآبا کہا جاتا ہے، یورپ میں یہ کتاب پانچ سو سال تک چھائی رہی تا آنکہ ترکی کے شرف الدین نے ایک اور عمدہ کتاب لکھی.ابن الوافد (1075-1008ء) قرطبہ کا معروف طبیب تھا اور اس نے آسان ادویہ پر کتاب الاودیۃ المفروۃ کے نام سے کتاب لکھی ، اس کی تیاری میں اس نے ہمیں سال صرف کیے.جیرارڈ آف کر یمونا نے اس کا ترجمہ لاطینی میں کیا جو اسٹراس بورگ اور ویانا سے 1558ء میں شائع ہوا.سر ٹامس آرنلڈ (Sir Thomas Arnold) کے مطابق یہ ترجمہ اس قدر مقبول عام تھا کہ پچاس مرتبہ شائع ہوا.کتاب الوساد کا ترجمہ جوڑا بن ناتھن (Juda ben Nathan) نے کیا.ابنِ وافد کی تصنیف مجموع الفلاحہ زراعت پر عمدہ کتاب ہے.کا روان فلسفہ کا سالار، ابن رشد (1198 ء لاطینی نام Averroes) اپنے دور کا ایک مانا ہوا حاذق و ممتاز طبیب تھا.طب میں اس کی معرکۃ الآرا تصنیف کلیات فی الطب ہے جو درج ذیل ابواب پر مشتمل ہے.تشریح، منافع الاعضا، حفظانِ صحت، ادویہ، امراض، امراض کی شناخت اور امراض کی روک تھام.اس کو یہودی مصنف فرج بن سالم نے 1255ء میں لاطینی میں منتقل کیا.اس کے مزید تراجم و فیس سے 1496ء میں، آگس برگ (Augsburg) سے

Page 33

53 52 1519ء میں عربی متن مع لاطینی ترجمہ آکسفورڈ سے 1778ء میں، فرانسیسی ترجمہ 1861ء میں ترتیب وار شائع ہوئے.ابن رشد نے طب پر ہیں کتا میں قلم بند کیں.علم طب میں اس کا نا قابل فراموش کارنامہ یہ ہے کہ اس نے آنکھ کے پہلے پر دے جس میں بصارت کی حس ہوتی ہے یعنی ریٹینا (Retina) کا صحیح سائنسی عمل بیان کیا ( The retina and not the lens in the eye is the photo-receptor) "کلیات میں اس نے تہلکہ خیز اکتشاف کیا کہ جس شخص کو چیچک ایک بار ہو جائے پھر اس کو دوبارہ لاحق نہیں ہوتی.کتاب میں اس نے نفسیات پر بھی اظہار خیال کیا ہے، نفسیات پر اس کے نظریات سے امریکی مصنف ولیم جیمز نے خوب اس کا مسودہ نیشنل لائیبر یری، رباط (مراکش) میں ہے.کتاب میں کلینکی مشاہدات ( clinical reports) کثرت سے ہیں.یہ سریاتی و کلینکی کتاب تھیں اجزا میں ہے جسے اس نے اپنے م دیرینہ ابن رشد کی فرمائش پر ترتیب دی تھی.انتیسیر ایک عرصے تک یورپ کی جامعات کے تعلیمی نصاب میں شامل تھی.مار ابن زہر دنیا کا سب سے پہلا پیرا سائکالوجسٹ (Parasitologist) تھا جس نے خارش کے کیڑوں (scabies) کو بیان کیا.اس کے علاوہ طب میں اس کی پانچ دریافتیں قابل ذکر ہیں یعنی رسولی، درمیانی کان کا التهاب، التهاب غلاف القلب، فالج حلقوم ،قصبة استفادہ کیا (James1842-1910, Principles of Psychology.) الریہ کی عمل جراحی ,tumors, inflammation of middle ear, pericarditis فاضل فرانسیسی عالم ارنسٹ رینان (Ernest Renan) نے 1852ء میں اس کی سوانح حیات پر ایک مبسوط کتاب تحریر کی ہے جس کا قیمتی نسخہ کوئیز یونیورسٹی کی اسٹا فر لائبریری (کنگسٹن ، کینیڈا) میں بھی موجود ہے.کتاب میں ابن ابی اصیحہ اور الذھابی کی عربی میں رقم فرمودہ اس کی سوانح عمری کے ساتھ اس کی ایک کتاب محنہ بھی شامل کی گئی ہے.ابو مروان ابن زہر (1162 ء ، لاطینی نام Avenzoar ) اندلس کا عظیم طبیب اور معالج تھا.اس کی پیدائش اشبیلیہ (Seville) میں ہوئی.وہ خلیفہ عبدالمومن (1163ء) کا شاہی طبیب تھا.اس کے خاندان میں مسلسل کئی نسلوں تک طبیب پیدا ہوتے رہے.طب پر اس کی کتا ہیں التریاق اور الاغذیہ امیر عبدالمومن کے نام منسوب تھیں.کتاب تذکرہ کو اس نے بیٹے کے نام منسوب کیا جو باپ کی طرح ماہر طبیب تھا.قرطبہ میں اپنے تلامذہ کے لیے اس نے ایک ضخیم قرابادین مدون کی.اس طبیب حاذق نے بخار کے لیے ٹھنڈے مشروبات کا استعمال تجویز کیا، نیز اچھی صحت کے لیے صاف ہو الا زمی قرار دی.امور زینت (cosmetics) پر کتاب فی الزينة لکھی.مثانہ پر کتاب فی علل الکلیہ کھی.دو اور قابل ذکر کتا میں اصلاح الانفس والاجساد اور جامع اسرار الطب ہیں.طب میں اس کا علمی شاہکار امراض پر کتاب التيسير في المداوات والتد بیر ہے.paralysis of pharynx, tracheotomy).اندلس نے ایک یہودی طبیب موسیٰ ابن میمون بھی پیدا کیا جو بعد میں مصر ہجرت کر گیا جہاں وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا ذاتی معالج بنا.یادر ہے کہ طبیبوں کے رجسٹریشن کا آغا زستان بن ثابت (متوفی 943ء) نے بغداد میں شروع کیا تھا.جو طبیب ہونے کے ساتھ ایک اچھا منتظم بھی تھا.اس نے حکم دیا کہ ملک کے تمام اطبا کی گنتی کی جائے اور پھر امتحان لیا جائے.کامیاب ہونے والے آٹھ سو طبیبوں کو حکومت نے رجسٹر کیا اور سر کاری سر ٹیفکیٹ جاری کیے.نیز امتحان پاس کر کے مطب چلانے کے لیے لائسنس جاری کرنے کا نظام اس نے شروع کیا.دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں ڈپلوما اور رجسٹریشن کا یہ سلسلہ شروع ہو گیا اور ابھی تک جاری ہے.محی الدین ابن العربی (1240ء) شیخ الاکبر اسپین کے عظیم صوفی تھے جنہوں نے دوصد کے قریب کتابیں قلم بند کیں.ایک رسالہ علم قیافہ (Physiogonomy) کے موضوع (یعنی انسان کے خدو خال دیکھ کر اس کی شخصیت کے بارے میں رائے قائم کرنا ) پر لکھا جس کا ترجمہ کچھ سال قبل اسپینی زبان میں کیا گیا ہے.

Page 34

54 مراد یوسف بے ابراہیم (1952-1877ء) نے قاہرہ میں میڈیکل پریکٹس شروع کی.پھر جرمنی چلا گیا.وہ بچوں کے عوارض کا ماہر تھا.میونخ (Munich) میں چلڈرن ہاسپیٹل (children hospital) کا ایک عرصے تک ڈائریکٹر رہا.بچوں کے نظام اعصاب، نوزائیدہ بچوں کے امراض میں اس کو اختصاص حاصل تھا.میڈیسن میں ایک ٹیکسٹ بک اور ہینڈ بک ترتیب دی.بچوں کی ایک بیماری جس کا نام بیک ابراہیم مرض (Beck-ibrahim disease) ہے وہ اس کے نام سے ہی منسوب ہے.ایک اور جینیاتی بیماری جس کا نام الفیز سنڈروم (Alfis syndrome) ہے، وہ بھی ایک مصری مسلمان ڈاکٹر عمر عالفی نے دریافت کی جو اس وقت کیلی فورنیا (Califormia) میں مقیم ہیں.یوروپی زبانوں میں عربی کتابوں کے ترجمے مصنف نام کتاب علی ابن عباس اہوازی کتاب الملکی ابن بیطار کتاب الجامع ترجمه ( لاطینی یا دوسری مغربی زبان) Liber Regius زکریا الرازی کتاب المنصوری زکریا الرازی کتاب الجدري والحصير کتاب الفصول Liber Almansorum 55 De Aspectebus Depeste جیرارڈ آف کر یمونا گرین پل زکریا الرازی زکریا الرازی کتاب العلل لاطینی اور جرمن میں جیرارڈ آف کریمونا : ابن سینا القانون في الطب ابن سینا كتاب الشفاء عل بن ربن طبری فردوس التحكمة نام مترجم ابن وافد کتاب الادوية المفردة Canon of Medicine Sanatio Paradise of Wisdom جیرارڈ آف کریمونا ابراہام آف ٹا رئوس ابو القاسم الزہراوی کتاب التصريف ابومروان ابن زهر کتاب التيسير نا معلوم ابن رشد كتاب الكليات Colliget ابن رشد کتاب الانفصال بونا کا سما مائیکل اسکات عبرانی ، لاطینی، انگریزی ابوالمنصور موفق کتاب الادویہ (فارسی) عبدالخالق اخوند، پروفیسر جونی فرج ابن سالم منصور بن محمد تشریح منصوری 1908ء میں لایپزنگ سے شائع ہوئی Tacuini Sanitatus Guide of the Poor Continens ابن بطلان تقويم الصحية ابراہیم الجزاری علاج الغرباء زکریا الرازی کتاب الحادی

Page 35

سید اسماعیل جرجانی ذخیره خوارزم شاہی ابن القفطی اخبار العلماء Thesaurus 56 1903 ء میں لیپرگ سے شائع ہوئی اب یہاں ان میڈیکل اصطلاحات کے نام دیے جاتے ہیں جو عرف عام میں زیر استعمال ہیں: کافور (Camphor) ، زعفران ( Saffron)، جلا با (Jalapa)، کباب چینی (Cubebs)، روح الخمر (Alchohol) ، پھل بول (Acacia)، لاکھ (Loch)، گوند بول (Gum Acacia) کشته (Calcinated)، دواؤں کا قوام ( amalgam)، قرع انبیق ( Alembic)، جوع بقری (Bulemia) ، اسہال دموی ( Dysentry)، قولون آنت (Colon)، معدے کی ہضم شدہ غذا (Chyle)، طبقه قرنیه ( Cornea)، پت ( Bile) لبلبہ (Pancreas) بلغم ( Phelm)، اکسیر حیات (elixir) ، الكيميا ( alchemy) ، حقنہ (enema) ، سوڈا (soda)، امی (tamarind)، مشک ( musk)، جانکل (nutmeg)، لونگ (cloves)، بورک پاؤڈر (borax) وغیرہ.یادر ہے کہ عرق کشید کرنے کے لیے انبیق مسلمانوں نے ہی ایجاد کیا تھا.علم الجراثيم عدیم المثال طبیب محمد بن زکریا رازی سے کہا گیا کہ وہ بغداد میں ایک نئے ہسپتال کی تعمیر کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب کرے.اس نے شہر کے مختلف علاقوں میں گوشت لٹکانے کے بعد مشاہدہ کیا کہ کس جگہ پر گوشت سب سے آخر میں خراب ہوا.پھر اس نے اسی مقام پر ہسپتال تعمیر کرنے کا مشورہ دیا.اس نے دنیا میں سب سے پہلے چیچک اور خسرے میں فرق بتلایا.یہ بھی بتایا کہ یہ دونوں متعدی بیماریاں ہیں.ابن سینا نے دق (tuberculosis) کے متعدی ہونے اور کھانسی کے ذریعے اس کے پھیلنے کا ذکر کیا.زخموں کو جراثیم سے پاک (disinfect) 57 کرنے کے لیے اس نے الکحل استعمال کرنے کو کہا ، اس سے قبل رازی بھی الکحل کو دافع عفونت (antiseptic) کے طور پر استعمال کر چکا تھا.ابن خاتمہ نے کہا انسان کے جسم کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے جرثومے ہوتے ہیں جو جسم کے اندر جا کر بیماری پیدا کرتے ہیں.چودہویں صدی میں طاعون کی وجہ سے لوگ یورپ میں اجل رسیدہ ہو رہے تھے.اس کو کالی وبا (black death) کہا جاتا تھا.جاہلانہ عیسائی اعتقادات کی وجہ سے کسی کو کچھ معلوم نہ تھا کہ اس نا گہانی آفت یا عذاب الہی کی وجہ کیا ہے؟ مگر غرناطہ کے روشن دماغ طبیب ابن الخطیب نے اس متعدی مرض کی سائنسی وجہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جو شخص اس مرض میں مبتلا ہوتا ہے اس سے جب دوسرے لوگ ملتے ہیں یا اس کے کپڑے، برتن یا کان کی بالیاں استعمال کرتے ہیں تو وہ بھی اس مرض کے پھندے کے اسیر ہو جاتے ہیں.لہذا مریض کے کپڑے، برتن وغیرہ ہرگز استعمال نہ کیے جائیں.مریضوں کے مشاہدہ ومعائنہ کے بعد اس نے طاعون اور تعدیہ (infection) کے بارے میں کہا : "The existence of contagion is established by experience, investigation, the evidence of senses and trustworthy reports.These facts constitute a sound argument.The fact of infection becomes clear to the investigator who notices how he who establishes contact with the afflicted, gets the disease, whereas he who is not in contact, remains safe, and how transmission is effected through garments, vessels and earrings." نفسیاتی علاج نفسیاتی علاج (psychotherapy) کے میدان میں رازی اور ابن سینا مانے ہوئے نفسیاتی معالج تھے.انہوں نے ذہنی امراض کی تشخیص اور ان کے علاج کے لیے ایسے طریقے

Page 36

59 58 استعمال کیے جو فرائڈ (Freud) اور ینگ (Jung) نے بیسویں صدی میں مریضوں پر آزمائے.مثلاً رازی کو جب بغداد کے جنرل ہاسپٹل کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا تو اس نے ذہنی مریضوں کے لیے خاص وارڈ شروع کیا.اس کی زندگی کا ایک اور مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ کسی خلیفہ کے علاج کے لیے اس کو بلایا گیا جو جوڑوں کے درد کی وجہ سے صاحب فراش تھا.اس نے گرم پانی کا نسل تجویز کیا، جب خلیفہ نسل نے رہا تھا تو رازی حمام میں گھس گیا اور اس کو پنجر دکھا کر دھمکایا کہ میں تم کو تہ تیغ کر دوں گا.اس خوف سے خلیفہ کے جسم میں نیچرل کلورک کی کمیت بڑھ گئی اور اس کے جوڑوں میں نرمی آ گئی.چنانچہ خلیفہ غصہ اور خوف سے پانی کے طب کے اندر اپنے گھٹنوں پر کھڑا ہو گیا اور رازی کی طرف لپکا.یہی اس کا علاج تھا.شیخ الرئیس ابن سینا نے جمر جان کے امیر قابوس بن وشمگیر کے بھانجے کا علاج ورڈ ایسوسی ایشن (word association) سے کیا جو آج بھی ایک عمدہ نفسیاتی طریقہ علاج تسلیم کیا جاتا ہے.مریض کو شیخ کے حضور میں پیش کیا گیا.وہ منہ سے کچھ نہ بولتا تھا، ہمہ وقت خاموش پڑا رہتا تھا.شیخ نے مریض کی نبض دیکھی اور کہا کسی ایسے شخص کو بلایا جائے جو جر جان کے سب گلی کوچوں سے واقف ہو.ایک شخص نے شیخ کو گلی کوچوں کے نام بتلائے ، اب شیخ نے مریض کی نبض پر پھر ہاتھ رکھا اور اس شخص سے کہا کہ گلی کو چوں کے نام ٹھہر ٹھہر کر بتلائے ، شیخ کی نظریں اس کے چہرے پر تھیں.وہ شخص نام بولتا جار ہا تھا.ایک محلے کا نام آیا تو شیخ نے نبض میں عجیب سی حرکت محسوس کی.مریض کے چہرے کا رنگ بدل گیا.اب شیخ نے کسی ایسے شخص کو بلانے کو کہا جو اس محلے کے ہر گھر سے واقف ہو اور ہر ایک کا نام جانتا ہو.مریض کے سامنے دوبارہ نام دہرائے گئے.ایک گھرانے کا نام آیا تو مریض کی حالت پھر غیر معمولی ہوگئی ، نبض تیز ہو گئی ، پسینہ چھوٹ گیا.اب شیخ نے کہا کہ فلاں گھر میں رہنے والے تمام افراد کے نام بتلاؤ.ایک نام دہرانے پر مریض ماہی بے آب ہو گیا.شیخ وہاں سے اٹھا اور امیر قابوس کے کمرے میں گیا اور اس سے کہا کہ یہ نوجوان عشق کے مرض میں مبتلا ہے.فلاں محلے کے فلاں گھر میں جو خاتون رہتی ہے اس سے اس کی شادی بلالیت و لعل کر دی جائے.امیر نے تحقیقات کروائی، شیخ کی بات صحیح نکلی ، شادی کر دی گئی اور مریض صحت یاب ہو گیا.مالیخولیا کا علاج بو یہ خاندان کا شہزادہ مجد الدولہ رے کے شہر میں مالیخولیا کے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہو گیا.وہ اپنے آپ کو بیل سمجھنے لگا اور بیل کی طرح ڈکا رتا تھا.نہ کھا تا تھا نہ پیتا تھا.بس یہی کہتا تھا کہ مجھے ذبح کر دو.بادشاہ علاء الدولہ بہت متفکر ہوا.شیخ کو مریض کی حالت جتلائی گئی ، شیخ نے غور وفکر کے بعد بادشاہ سے کہا میں جو کچھ کہوں اس پر عمل کیا جائے.شیخ نے کہا کہ شہزادے سے کہہ دو کہ تمہیں ذبح کرنے کے لیے قصاب آ گیا ہے، تیار ہو جاؤ.شیخ نے اس کے ہاتھ پاؤں بندھوا د یے اور پھر قصابوں کی طرح چھری پر چھری رگڑ کر آگے بڑھا اور اس کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گیا.اس کے بدن کو ٹولا اور کہا یہ بیل بہت لاغر ہے ہم اس کو ذبح نہیں کریں گے جب فربہ ہو جائے گا تو ذبح کریں گے.اس کے ہاتھ پاؤں کھول دیے گئے.اس کے بعد شہزادے نے کھانا پینا شروع کر دیا.رفتہ رفتہ اس کا مرض جاتا رہا اور صحت یاب ہو گیا.[11] نجیب الدین سمرقندی نے پہنی بیماریوں کی تفصیل لکھی جو اس نے مریضوں میں خود مشاہدہ کی تھیں.مثلاً اس نے ایجی ٹیٹیڈ ڈپریشن (agitated depression)، آبسیشن (obssession)، نیوروس (neurosis)، سائیکوسس (psychosis)، سیکسوئل امپوٹینس (sexual impotence)، ڈیمینشیا (dementia) کا ذکر کیا.اسلامی ممالک میں نفسیاتی اور دماغی امراض کا ہسپتال بغداد میں 705ء میں تعمیر ہوا.اس کے بعد قاہرہ میں 800ء میں فیض (مراکش) میں آٹھویں صدی میں ، دمشق میں 1270ء میں دینی مریضوں کو گرم حمام کے علاوہ مفت دوائیں دی جاتی تھیں، نیز ان سے ہمدردانہ سلوک کیا جاتا تھا.علاج بالموسیقی (music therapy) اور آکو پیشنل تھیراپی (occupational therapy)

Page 37

61 4 60 سے بھی علاج کیا جاتا تھا، ایسے معالج تعلیم یافتہ ہوتے تھے.مریضوں کی تفریح کے لیے موسیقار (live) music bands) بلائے جاتے تھے جن کے ہمراہ گویے اور مسخرے بھی ہوتے تھے.العنوان وفيه موجرة النقرة التي فيها العظام الويدي التيمور بالوهم وحته الجبهة وليه با يليه يكون وعظام الرأى ما لفظها الا هي قوة الآن فيها العالم وقوة اخرنا النفر وعليه يد وبما لا وفى الجهو نقيات وإلى انها التالين لقريات قائم علم الحیوانات پر لکھی گئی دسویں صدی عیسوی کی ایک کتاب کا ایک صفحہ علم الادویہ الکندی کا علم الادویہ (Pharmacology) پر مطالعہ وسیع تھا.اس نے نئی نئی جڑی بوٹیاں تلاش کر کے ان پر تجربات کیے، ان کی خصوصیات واثرات معلوم کیے اور ان کی درجہ بندی کی.اس نے اپنے زمانے میں رائج تمام دواؤں کی صحیح خوراک کا تعین کیا.علاج کے لیے وہ محض دوا پر انحصار نہ کرتا تھا بلکہ پرہیز و احتیاط کی بھی ہدایت دیتا تھا.اس طرز علاج کو طب وقائی کہا جاتا ہے.اس موضوع پر اس نے کتاب بھی لکھی جس میں اس نے غذا کے ذریعے علاج کا تذکرہ کرتے ہوئے وہا اور امراض کے اسباب پر بھی بحث کی ہے.ساتھ ہی روز مرہ کے کھانوں میں ضروری تبدیلیاں کرنے کی سفارش بھی کی ہے.ابن سینا کی بے نظیر کتاب القانون کی دوسری جلد میں 760 دواؤں کی تفصیل دی گئی ہے جبکہ پانچویں جلد میں مختلف ادویہ اور جڑی بوٹیوں کو ملا کر مرکب دوائیں بنانے کے طریقے بیان کیے گئے ہیں.چنانچہ القانون کی یہ دو جلد میں ادویہ مفردہ اور ادویہ مرکبہ پر مشتمل ہیں.البیرونی جس کا قلم زندگی بھر چلتا رہا، اس موضوع پر اس کی کتاب کا نام الصید نہ فی الطب ہے جس کا جرمن ترجمہ میکس مائیر ہوف (Max Myerhof) نے کیا ہے.کتاب میں پانچ ابواب ہیں.720 دوائیوں کے نام تبھی واردیے گئے ہیں.ہر دوا کا نام عربی، یونانی ،شامی، ایرانی سنسکرت اور بعض دفعہ عبرانی میں دیا گیا ہے.جڑی بوٹیوں کے احوال کے ساتھ یہ بھی درج ہے کہ ان کی جائے پیدائش کہاں کی ہے.اس کے علاوہ ان کی تاثیرات بھی بیان کی گئی ہیں.

Page 38

63 62 اسلامی اسپین کا ضیاء الدین ابن بیطار (1270 ء) قرون وسطی کا سب سے مشہور اس نے ریاضی ، علم ہئیت (الحدیقہ الوجیز ) ، منطق ( تقویم الذھن ) موسیقی علم الا دو یہ اور ماہر ادویہ (pharmacist) اور ماہر نباتات تھا.اس نے نباتات کا علم ذاتی مشاہدات اور معالجات ( انتصار) پر متعدد کتابیں تصنیف کیں.اس کی کتاب الادویۃ المفردۃ کا ترجمہ 1260ء تجربات سے حاصل کیا.1219ء میں اس نے تحقیق کے لیے اسپین مصر ( دس سال)، عرب، میں لاطینی میں کیا گیا.الغافقی (1165ء) قرطبہ کا نامور طبیب اور ماہر ادویہ تھا.اس کو علم نباتات شام اور عراق کی سیاحت کی تاکہ جڑی بوٹیوں کے نمونے اکٹھا کر سکے.اس کے شاگردوں میں (Botany) پر عبور حاصل تھا.قدیم عربی ادبیات الغافقی (Classical Arabic Literature) سے ایک مشہور شاگرد ابن ابی اصیعہ تھا جس نے 600 مسلمان اطبا کی سوانح حیات پر میں اس موضوع پر اس کی تصنیف جس میں اسپین اور شمالی افریقہ کے پودوں، درختوں اور نباتات عیون الانباء فی طبقات الاطبا تیار کی.ابن بیطار کی کتاب الجامع المفردات الا دو یہ والا غذ یہ ( مطبوعہ قاہرہ 1291ء) میں 1400 سے زیادہ جڑی بوٹیوں اور نباتات کو بمطابق حروف ابجد ترتیب دیا گیا ہے.اس نے نباتات کی معرفت، حصول، ناموں کی قسموں کے اختلاف اور مقام پیدائش پر روشنی ڈالی.ان میں سے دوسو کے قریب جڑی بوٹیاں اس سے قبل نا معلوم تھیں.کتاب میں 150 مسلم اطبا کے حوالے اور میں یونانی اطبا کے حوالے دیے گئے ہیں اور ان کی تصنیفات میں موجود غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے.اس کالا طینی ترجمہ 1758ء میں اٹلی سے شائع ہوا.بلاشبہ عربی زبان میں یہ سب سے مستند کتاب ہے.اردو میں بھی اس کا ترجمہ شائع ہو گیا ہے.کا ذکر کیا گیا ہے سب سے زیادہ اہم اور جامع تصور کی جاتی ہے.اس کی کتاب الادویۃ المفردة میں جڑی بوٹیوں کے نام عربی ، لاطینی اور بربری زبانوں میں دیے گئے ہیں.الا دریسی نے اس موضوع پر کتاب الجامع الصفت اشتات النبات لکھی جس میں جڑی بوٹیوں کے نام شامی، یونانی، فارسی ، ہندی ، لاطینی اور بربری زبانوں میں پیش کیے گئے ہیں.یہاں افغانستان کے دیدہ دور محقق ابوالمنصور الموفق کا ذکر بھی ضروری ہے جو ہرات کا باشندہ تھا.اس نے علم الادویہ کے موضوع پر کتاب الا بنید عن الحقائق الا دویہ لکھی جس میں یونانی ، شامی ، عربی اور ہندی علوم کا نچوڑ پیش کیا گیا.اس میں 585 امراض اور ان کے علاج سے ابن بیطار کی دوسری تصنیف کتاب المغنی فی الادویۃ المفردۃ میں ادویہ کا ذکر ان کی بحث کی گئی ہے.یہ علاج 466 قسم کی نباتاتی ادویہ سے، 75 معدنی ادویہ سے اور 44 حیوانی ادویہ سے کیا گیا ہے.اس نے سوڈیم کاربونیٹ (Sodium carbonate) اور پوٹاشیم کاربونیٹ (potassium carbonate) میں فرق بتلایا.حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ کتاب اصل حالت میں فارسی زبان میں ویانا کے میوزیم میں موجود ہے.اس کتاب کے مسودے کی کتابت ایرانی شاعر اسدی نے کی تھی.1838ء میں اس کتاب کا لاطینی ترجمہ شائع ہوا تھا.اصل شفایابی اور تاثیر کی نسبت سے کیا گیا ہے.پودوں اور جڑی بوٹیوں کے نام عربی، یونانی اور لاطینی زبانوں میں دیے گئے ہیں.اس کی تیسری کتاب کلام فی النبات کا اچینی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے.سلیمان ابن حسان ابنِ عجل (994ء) نے طبقات الاطبا والحكماء ( History of Medicine) لکھی جس میں 57 دقیقہ رس طبیبوں کی سوانح عمریاں دلکش و شگفتہ انداز میں تحریر کی گئی ہیں.اس نے مختلف عقاقیر کو از سرنو دریافت کیا.علم الادویہ پر اس کی تین کتابیں قابل ذکر فارسی کتاب بھی کئی مرتبہ چھپ چکی ہے.ہیں، تفسیر اسماء الادویۃ المفردة ، مقالہ فی الذکر الادویۃ اور مقالہ فی ادویۃ الترياقية - امیہ ابن ابی الصلت (1134ء) دینیہ (Denia) کے بادشاہ کے دربار میں شاہی طبیب اور ہئیت داں تھا.وفیات الاعیان میں صفحہ 230 پر اس کا لقب الا دیب الحکیم دیا گیا ہے.جارج سارٹن نے اس کی چار خاص باتوں کا ذکر کیا ہے: 1.He distinguished between sodium carbonate and potassium carbonat.

Page 39

65 5 64 2.He knew arsenious oxide, cupric oxide, silicic acid 3.He knew toxicological effects of copper and lead compounds, 4.He was aware of the composition of plaster of paris and its surgical use.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کافور کو سب سے پہلے عربوں نے ہی بطور علاج استعمال کیا تھا.علم الادویہ کی درج ذیل اصطلاحات عربی سے ماخوذ ہیں: alchohol, zedoary sherbert, camphor, lemon, syrup, alizarin, borax, amber, bezoar, talc اور tartar مختلف زبانوں میں قرابادین کو منتقل کرنے کا وقیع کام بھی سب سے پہلے عربوں نے کیا تھا.صاعد بن بشر نے فالج اور لقوہ کا علاج بغیر بعض اغذیہ کے استعمال سے کیا.مشہور مؤرخ جرجی زیداں نے اپنی مایہ ناز کتاب تاریخ التمدن الاسلامی میں المسلمون فی الطب کے باب میں اس کی مکمل تفصیل دی ہے.¦ علم ریاضی علم ریاضی کی تاریخ میں نویں صدی سے پندرہویں صدی کے عرصے میں مسلمانوں کے علاوہ کسی دوسری قوم کے افراد کا کام نظر نہیں آتا ہے.اس عرصے میں مسلم ملکوں میں بہت معروف ریاضی داں پیدا ہوئے ، ان میں سے چند نام ہیں: الخوارزمی (850ء) بنوموسی (800ء) الكندي (873ء ) الما بانی (860ء) ، ثابت ابن قرة (901ء) ابو الحسن الاقلیدسی (980ء) الخازن ( 971ء) ابو کامل (930ء) ابوالوفا (998ء) القوہی (1000ء) ابومحمود الجند کی (1000ء) ابن یونس المصرى (1009ء) ابوسعید سجزی (1020ء) ابو منصور البغدادی (1037ء) ابن الہیشم (1040ء) ابوبکر الکراچی (1029ء) محمد ابن معاذ الجیانی (1079ء) عمر خیام (1131ء) ابن سکی السماوال (1180ء) محی الدین مغربی (1283ء) ابن البناء مراکشی (1321ء) شمس الدین خلیلی (1380ء ) شمس الدین سمرقندی (1310ء) ابولحسن الکالا صادی (1486ء) الکاشی (1429ء ) کمال الدین فارسی (1320ء) قاضی زادہ (1436ء).یادر ہے کہ الجبرا، الگورزم (algorithm)، صفر، روٹ (root) ،سائن (sine) اور عربی ہند سے مسلمانوں کی ایجاد ہیں.آٹھویں صدی میں علم ریاضی اور طب مسلمانوں نے یونانی کتابوں کے ترجموں کے ذریعے حاصل کیا تھا.ہندوستان کے ایک نامور ریاضی داں کی کتاب کا بھی عربی ترجمہ ہارون رشید کے زمانے میں کیا گیا تھا.اس میدان میں مسلمانوں کا جو حصہ ہے اس کے بارے میں ایک مصنف نے کہا ہے:

Page 40

67 -- Y 66 "The Arabs did much original work in this field.They seemed to have a great gift of lucidity and were remarkably clear organizers and classifiers, qualities essential to Mathamatics.[12] عدیم النظیر عراقی سائنس داں موسیٰ الخوارزمی (وفات 850ء) پہلا نا مور مسلمان ریاضی داں تھا، جسے علم الجبرا کا موجد تسلیم کیا جاتا ہے.اس نے دو کتابیں مرتب کیں یعنی علم الحساب اور الجبر والمقابلہ.یہ کتابیں الجبرا میں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں.اس نے علم الاعداد سے بھی دنیا کو 830ء کے لگ بھگ متعارف کرایا.چنانچہ انگریزی زبان میں انگریزی ہند سے عربک نیومرلس (Arabic numerals) کہلاتے ہیں.یورپ میں اس وقت رومن ہند سے رائج تھے جن کا لکھنا بہت ہی مشکل تھا مثلاً عربی ہندسوں میں 38 لکھنا رومن طریقہ (XXXV11) کی بہ نسبت بہت آسان ہے.عربی ہند سے فی الحقیقت آجکل کے کمپیوٹر دور کی بنیادی اینٹ ہیں.مسلمانوں کا یورپ پر سب سے بڑا احسان یہی ہندی ہند سے ہیں اور اس کے ساتھ اعشاریہ کا نظام بھی جو انہوں نے اہل ہند سے سیکھا تھا.درج ذیل اصطلاحات بھی عربی سے انگریزی میں آئی ہیں.,algebra, algorithm, zenith, atlas, azimuth, cipher الگورزم کا لفظ الخوارزمی کے نام کی بگڑی ہوئی شکل ہے.zero or nadir بغداد کے روشن خیال خلیفہ مامون رشید نے جب بیت الحکمۃ ( سائنس اکیڈمی ) قائم کی تو خوارزمی نے ایک گہرا تحقیقی مقالہ شب و روز کی دیدہ ریزی کے بعد مرتب کیا اور پھر اسے بغداد کی سائنس اکیڈمی کو بھیج دیا.اس مقالے کی پڑتال کے بعد اسے بیت الحکمہ کا نمبر بنادیا گیا.یہ طریقہ آج کے زمانہ میں بھی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے رائج ہے.الخوارزمی کی ریاضی میں نصف درجن سے زیادہ شاہکار کتابیں چودہویں صدی میں جب یورپ پہنچیں تو دانشوران یورپ کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے ان سے بہت استفادہ کیا.لاطینی میں الخوارزمی کی عہد آفریں کتاب المختصر فی حساب الجبر والمقابلہ کا پہلا ترجمہ انگلینڈ کے فاضل رابرٹ آف کیٹن (Robert of Kelton) نے 1145ء میں کیا جو یوں شروع ہوتا ہے dixit Algorithmi ( یعنی الخوارزمی کہتا ہے ).الخوارزمی کا لفظ رفتہ رفتہ الگور قسم (Algorithm) بن گیا.اس کا دوسرا ترجمہ اطالوی مترجم جیرارڈ آف کر میمونا نے لاطینی میں ڈی جبرا ایٹ موکا بولا (De Jabra et Almucabola) کے نام سے کیا.علم الجبرا کا نام POOHTAROCCOR اسی کتاب کے نام سے ماخوذ ہے.یوں یورپ میں الجبرا کے علم کا آغاز ہوا.الخوارزمی نے غیر معلوم چیز کے لیے شئے کا لفظ استعمال کیا تھا.جب اس کتاب کا ترجمہ اچینی زبان میں ہوا تو شئے کا ترجمہ xay کیا گیا کیونکہ x کوش کہہ کر بو لتے ہیں ، مرور زمانہ کے ساتھ xay کے لفظ کا مخفف صرف X رہ گیا ، چنانچہ اب 1200 JET Мухаммед Даль-Хорезми معلوم چیز یا کمیت کے لیے ایکس استعمال کیا جاتا ہے [13].یہ کتاب ایک ہزار سال تک یورپ کی درسگاہوں میں الخوارزمی کی 1200 ویں سالگرہ کے موقعے پر 6 ستمبر بطو رنصابی کتاب پڑھائی جاتی رہی.1983ء کو جاری شدہ سوویت یونین کا ڈاک ٹکٹ الخوارزمی کی علم ہئیت پر کتاب کا ترجمہ فاضل برطانوی مصنف ایڈے لارڈ آف ہا تھ (Adelard of Bath) نے کیا.جارج سارٹن (Sarton) نے الخوارزمی کو روئے زمین کا عظیم ترین سائنس داں کہا ہے.بنو موسی یعنی محمد (ریاضی داں ) احمد ( علم الحیل کا ماہر ) اور الحسن ( علم ہندسہ کا ماہر )

Page 41

69 68 تینوں بھائی بیت الحکمہ کے ممتاز رکن تھے.ان کے والد موسیٰ ابن شاکر با کمال بحیت داں تھے.خلیفہ المامون ان کا سر پرست تھا.ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے عربک اسکول (Arabic School of Mathematics) کی بنیاد رکھی.محمد ابن موسی بیت ، میشه جھلک آف اقلیدس اور ریاضی کا ماہر تھا فوج کے سپہ سالار کی حیثیت سے بھی اس نے خدمات انجام دیں.اس نے ترکوں پر لڑائی میں فتح حاصل کی تو اس کی سالانہ آمدنی چارلاکھ دینار ہوگئی.اس دولت کو اس نے سائنس کے فروغ کے لئے بے دریغ صرف کیا.اس نے بلا دروم ( ترکی ، یونان ) میں گماشتے بھیجے اور ان کے ذریعے یونانی علوم وفنون کی بیش قیمت کتابیں منگوائیں.دور دور سے مترجمین (حسنین ، ثابت ابن قرة) کو معاوضہ دے کر بلوایا اور ان سے غیر عربی کتب کے تراجم کروائے.حسن نے جیومیٹری میں اپنی جودت طبع سے کمال کا درجہ حاصل کیا.اس نے ریاضی کے چند ایسے مسائل کو حل کیا جن کی طرف کسی کا ذہن نہیں گیا تھا ان مسائل میں ایک زاویے کا تین مساوی حصوں میں تقسیم ہونا (Trisecting an angle) ہے.حسن کی کتاب معرفت ما اسخاط الاشکال کا ترجمہ جیرارڈ نے کیا تھا.جس میں اس نے آرشمیدس کی طرح جیومیٹری میں (method of exhaustion) استعمال کیا.ابوسعید الضرير (846ء جرجان) مشہور ریاضی داں اور ہئیت داں تھا اس نے جیومیٹری کے مسائل پر قلم اٹھایا اور ایک مسئلہ پر جس کا نام ڈرائنگ آف میریڈین ( drawing of the meridian) ہے اس نے جو کام کیا ہے وہ عربی سائنس کے ذخیرے میں ایک قیمتی اضافہ ہے.عباس ابن سعید الجوہری (860ء) بیت الحکمہ کا فاضل رکن تھا.اس نے شرح اقلیدس لکھی ، اس نے اقلیدس کے پیش کردہ مفروضوں کے علاوہ خود پچاس مفروضے پیش کیے.الطوسی نے ان میں سے چھ مفروضوں کا حوالہ دیا ہے.اس نے پیرالیل پوسٹولیٹ (parallel postulate) کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی.اس طرح وہ پہلا مسلمان ریاضی داں تھا جس نے یہ ناکام کوشش کی ، مگر یہ کوشش قابل ستائش ضرور تھی.الكندی (870-805ء) کی وسعت نظر ، عبقریت اور تبجحر علمی کا اندازہ اس کی تصانیف کی کثرت سے لگایا جا سکتا ہے.اس نے فلسفہ (Philosophy) ، دینیات ، منطق، علم فلکیات، کیمیا، ریاضی، جیومیٹری، بصریات ، طب علم الادویہ اور موسیقی پر کتا بیں قلم بند کیں.ابن الندیم نے الفہرست (مطبوعہ 987 ء ) میں اس کی 242 تصانیف کے نام دیے ہیں جبکہ اسلامک اسٹڈیز، کراچی کے مارچ 1965ء کے شمارے میں اس کی کتابوں کی تعداد 350 بتائی گئی ہے جن میں سے تقریباً ساٹھ یاستر مخطوطات ابا صوفیہ لائبریری (استنبول) میں محفوظ ہیں.الکندی ریاضی کی منطقی نوعیت سے اس قدر متاثر تھا کہ اس نے یہ ثابت کرنے کی بار بار کوشش کی کہ ریاضی سیکھے بغیر کوئی شخص فلسفی نہیں بن سکتا.اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے اس نے ریاضیاتی اصولوں کا اطلاق طب، نجوم ، بلیت ، موسیقی اور علم المناظر پر کیا.اس طرح اس نے فلسفے اور سائنس میں مفاہمت پیدا کی اور سائنٹیفک طریقے (scientific method) کی بنیاد رکھی.ریاضی پر اس کی چند کتب کے نام یہ ہیں: الحساب الہندی، تالیف الاعداد، رسالة في الخطوط والضرب، رسالة في الكمية المضافة (On Relative Quantity).ثابت ابن قرة (901-836ء) لاطینی ، یونانی، سریانی اور عربی زبانوں کا ماہر تھا.اس نے عربی میں 150 کتابیں منطق، ریاضی، علم ہیت اور طب پر تصنیف کیں اور مادری زبان سریانی میں مزید 15 کتابیں لکھیں، اس نے جیومیٹری اور الجبرا میں تطبیق پیدا کی.اس نے اسفیر یکل ٹریگا نومیٹری (spherical trigonometry) اور انٹیگرل کیلکولس (integral calculus) اور میں قابل قدر اضافے کیے.سن ڈائیل (sun dial) پر مقالہ لکھا.دارالترجمہ کی بنیاد رکھی ، جس میں اس کا بیٹا سنان ، دو پوتے اور ایک پڑپوتا شامل تھا.اس نے بطلیموس، اقلیدس، آرشمیدس کی ریاضی کی کتابوں کے یونانی زبان سے عمدہ تراجم کیے.ریاضی میں اس کی مشہور ترین تصانیف مسائل الجبر بالبراهین علی ہندسیہ، کتاب المفروضات، رساله في شكل القطعه ، مقاله في المساحت، كتاب في مساحت الاشکال ہیں.جس طرح حسنین نے طبی کتابوں کے تراجم کیے تھے، ثابت نے

Page 42

171 70 ریاضی اور جیومیٹری کی کتابوں کے کثیر تراجم کیے.کتاب المدخل الى علم الاعداد ثابت ابن قرة بيروت سے 1958ء میں شائع ہوئی ، اس کا فرانسیسی ترجمہ 1978ء میں پیرس سے منظر عام پر آیا.روایت ہے کہ خلیفہ معتضد با اللہ ایک مرتبہ ثابت کا ہاتھ پکڑے باغ میں ٹہل رہا تھا کہ یک لخت اس نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا.ثابت نے پوچھا اے امیر المومنین کیا ہوا؟ اس نے کہا میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ کے اوپر تھا چونکہ علم بلند ہوتا ہے اس کے اوپر کوئی بلندی حاصل نہیں کر سکتا.تم عالم ہو اس لیے میں نے اپنا ہاتھ اوپر سے ہٹا لیا.اسحق ابن حنین (901ء ، بغداد) مشہور مترجم حنین کا ہنر مند بیٹا تھا جس نے اپنے باپ کے دارلتر جمہ کو چار چاند لگائے.اس نے ارسطو، اقلیدس، بطلیموس، آرشمیدس کی کتب کے عربی میں تراجم کیے.قسطا این لوقا بعلبکی (912 ء ) طبیب، فلسفی، ماہر ہئیت اور ریاضی داں تھا.اس نے یونانی مصنفین جیسے ڈانفینٹس (Diophantus)، ہیرون (Heron) اور آٹو لائیکوس (Autolycos) کی کتابوں کے تراجم کیے یا ان پر نظر ثانی کی یا جملہ تراجم اس کی زیر نگرانی کیے گئے.اس نے کروی اصطرلاب پر عالمانہ مقالہ لکھا تھا.احمد ابن یوسف المصری (912-835ء بغداد) نے بطلیموس کی کتاب سینٹی لو کیم (Centiloquium) کی شرح لکھی جس کا لاطینی ترجمہ وینس (Venice) سے 1493ء میں شائع ہوا تھا.اس نے مزید دو کتابیں آن میلر آرکس ( On Similar Arcs) اور ریشیو اینڈ پروپورشن (Ratio and Proportion) پرلکھی تھیں.دوسری کتاب کا لاطینی ترجمہ جیرارڈ نے کیا.یورپ کے کئی ریاضی داں لیونارڈو ڈا پیسا (Leonardo da Pisa)اور جور ڈانس (Jordanus) نے جی بھر کر اس سے استفادہ کیا.اس نے ٹیکس کے حسابی مسائل کا حل بھی پیش کیا جو اطالوی ریاضی داں فیبوناچی (Fibonacci 1170-1250ء) نے اپنی کتاب لیبر ابا چی Liber Abaci) میں بڑی ڈھٹائی سے جوں کے توں نقل کر دیا تھا.ابوالعباس النیریزی (922ء) خلیفہ المعتصد کے دور کا ملبر ہئیت اور ریاضی داں تھا.اس نے زیج تیار کی اور فضا پر مقالہ لکھا اور بطلیموس اور اقلیدس کی کتابوں کی شرحیں لکھیں جن کے لاطینی تراجم جیرارڈ آف کریمونا نے کیسے کردی اصطرلاب پر اس کی تصنیف عربی زبان میں منفر تھی.ابو کامل (930ء) کا لقب الحسیب المصری تھا.وہ الخوارزمی کے بعد بہت بڑا مسلمان ریاضی داں تھا.اس نے کتاب الترائف في الحساب اور کتاب انحمس لکھیں.اٹلی کے ریاضی داں فیونا چی نے اس کی کتابوں سے بہت سارے مسائل اور ان کے حل اپنی کتابوں میں نقل کیے.اس کی کتابوں کا مطالعہ لیونارڈو ڈاونچی نے بھی کیا تھا [14].اس کی کتاب الکامل یعنی الجبرا آف ابو کامل (Algebra of Abu Kamil) کو یورپ سے 1912ء میں کا پرنسکی (Kaprinski) نے شائع کیا.عبرانی میں فن زی (Finzi) نے اس کا ترجمہ کیا اور اس کی شرح لکھی جو عبرانی متن کے ساتھ یونیورسٹی آف وسکانسن پریس ( ملوا کی ) نے 1966ء میں شائع کیا تھا.یادر ہے کہ لیونا پیڈوفیو ناچی (1250-1170 Fibonacci) نے ریاضی میں ایک کتاب لیبر ابا چی (1202ء Liber Abaci) تصنیف کی تھی جس سے عربی کے علم الاعداد کی یورپ میں ترویج ہوئی.اس کتاب میں اس نے عربی ہند سے ایک سے لے کر نو تک اور صفر استعمال کیا ، مندرجہ ذیل اقتباس یہ حقیقت عیاں کرتا ہے: "Fibonacci studied under a Muslim teacher, and travelled in Egypt, Syria and Greece.The horizontal bar used in fractions was regularly used by him and was known in the Islamic world."[15] جب خلیفہ المقتدر مسند آرائے خلافت تھا تو اس کے دور میں ابو عثمان سعید دمشقی (932ء) طبیب اور ریاضی داں تھا.اس نے اقلیدس کے دسویں مقالے (Book-X) کا عربی میں ترجمہ کیا.اس نے ارسطو، جالینوس کی کتابوں کے بھی تراجم کیے.915ء میں بغداد، مکہ، مدینہ کے تمام عوامی ہسپتال اس کی زیر نگرانی تھے.

Page 43

73 72 ابوالحسن الاقلید یسی (1980-920 ء شام ) نے دو اہم کتابیں لکھیں یعنی کتاب الفصول في الحساب الہندی اور کتاب الحجاری فی الحساب.پہلی کتاب کا انگریزی ترجمہ صیدان (Saldan) نے کیا.وہ پہلا ریاضی داں تھا جس نے ڈیسی مل فریکشنز (decimal fractions) ایجاد کیے.اگر چہ بعض محققین کہتے ہیں کہ یہ دریافت غیاث الدین الکاشی نے کی تھی.یورپ میں اس کا سہرا ڈچ (Dutch) سائنس داں سائمن اسٹیون (1620-1548ء Stevin) کے سر باندھا جاتا ہے جو حقائق سے صریحاً انحراف ہے.اقلیم سائنس کا تاجدار ابن الہیشم بھی ایک ہمہ جہت شخصیت کا مالک تھا.وہ قرون وسطی کا عبقری مہندس، ریاضی داں، متجر طبیعیات داں، فاضل طب اور زود نولیس مصنف تھا.اس کی پچاس سے زیادہ کتب ابھی تک دنیا کی مختلف لائیبریریوں میں محفوظ ہیں جن سے علم کے پیاسے فائدہ اٹھا رہے ہیں.ریاضی پر اس کی ہیں کتابیں ہم تک پہنچی ہیں جن میں سے تین کتابیں اقلیدس کی کتاب عناصر (Elements) سے پیدا ہونے والے اشکالات کا حل پیش کرتی ہیں.ان کے علاوہ ایک اور تصنیف بعنوان " اقلیدس کے عناصر کے اشکالات کا حل اس کے کئی مخطوطات دستیاب ہوئے ہیں.اس نے ہلالی شکلوں کی تربیع پر بھی دو کتابیں لکھی تھیں.اس کی مزید دو کتا ہیں مقالہ فی التحليل والترکیب اور مقالہ فی المعلومات ہیں.ابن الہیثم کا ریاضی سے متعلق مشہور ومعروف مسئلہ ابن الہیثم (Alhazen Problem) کتاب المناظر جلد پنجم میں بیان کیا گیا ہے.انٹرنیٹ پر بھی مزید معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں.ریاضی پر اس کی کامل دسترس کا اندازہ اس کی کتابوں کے ناموں سے لگایا جاسکتا ہے مثلاً : شرح اصول اقلیدس، شرح الجسعی و تلخیص، کتاب الجامع في اصول الحساب، فی مسائل الہندسیہ (اس کا مسودہ کتب خانہ ملکیہ ، قاہرہ اور بوڑلین ، آکسفورڈ میں ہے ).کتاب الجبر والمقابلہ تلخیص علم المناظر اقلیدس و بطلیموس ، مقاله في الحساب الہندی، تحلیل مسائل الهندسيه والعددية ( شماریات پر ) ، کتاب في حساب المعاملات ، فی اشکلال الهلالية ( انڈیا آفس لائبریری ،لندن ).ابوسهل ويجن بن رستم الکوہی (دسویں صدی طبرستان) بویہ خاندان کے سلطان عضد الدولہ شمس الدولہ ، شرف الدولہ 989-962ء کے زمانے کا ریاضی داں تھا.وہ بغداد میں شرف الدولہ کے محل کے باغ میں واقع رصد گاہ کا ڈائر یکٹر تھا.چونکہ وہ آلات رصد بنانے میں بھی کمال رکھتا تھا اس لئے اس نے اپنے بنائے ہوئے آلات رصد گاہ میں نصب کیے تھے.اس نے ریاضی میں کئی کتابیں سپر و قلم کیں.ابن الہیشم اور البیرونی نے اپنی کتابوں میں اس کی تصنیفات کا ذکر کیا ہے.عمر خیام نے اس کو عراق کا ممتاز ریاضی داں لکھا ہے.اٹھارہویں صدی میں مصر کے محقق مصطفی صدقی نے اس کی کتابوں کی خود کتابت کی تھی.ابو الوفا البو جانی (999-940 ء ایران ) بھی اپنے دور کا با کمال ریاضی داں تھا.اس نے ریاضی پر جو شاندار کتابیں لکھیں ان میں سے چند یہ ہیں، تفسیر الخوارزمی فی الجبر والمقابلہ تفسیر کتاب دیو فنطيس في الجبر، کتاب استخراج الملعب ، کتاب المنازل في الحساب ، اس میں علم الحساب کی سات منازل ہیں اور ہر منزل کے سات ابواب ہیں.اس کتاب میں اس نے سائن ٹیبلز (sine tables) کے علاوہ کسر اعشاریہ (فریکشن ) اور مرکب بھی استعمال کیے.اس کا مسودہ رضا لائبریری ، رام پور میں محفوظ ہے.جیومیٹری پر اس نے عمل الہندسہ کھی اور زاویوں کے جیب معلوم کرنے کا نیا کلیہ وضع کیا.غلام جیلانی برق نے اپنی کتاب ”اسلام کے یورپ پر احسان" صفحہ 215 پر لکھا ہے کہ ابو الوفا کی کتابیں آٹھ سو سال تک یورپ کی درسگاہوں میں زیر مطالعہ رہیں.یہ بات قابل ذکر ہے کہ ابوالوفا نے اسفیر یکل ٹریگا نومیٹری پر دنیا کی سب سے پہلی کتاب قلم بند کی تھی.[16] جیومیٹری میں اس نے یکساں مسبع (regular heptagon) جیسے پیچیدہ مسئلے کا آسان حل معلوم کیا.جارج سارٹن (George Sarton) نے ٹریگا نومیٹری میں اس کے درج ذیل کارنامے گنوائے ہیں:

Page 44

..74 1.First to show the generality of sine theorem, 2.Gave a new method of constructing sine tables, 3.Calculated a table of tangents, and 4.Introduced secant and cosecant.[17] ابوبکر الکرخی (1029-953 ء ، بغداد ) کا لقب الحسیب (calculator ) تھا.اس نے اصطرلاب و کیفیات عمله و تبار ه - [18] 75 محمد ابن عبدالباقی (1100ء بغداد) نے اقلیدس کی عناصر کے دسویں باب پر شرح لکھی جو بہت مشہور تھی.جیرارڈ نے اس کا ترجمہ کیا.لیپزگ سے یہ 1899 ء میں شائع ہوئی تھی.ایران کے رجلِ عظیم ابن سینا نے 450 کتابیں اور رسائل لکھے جن میں سے 240 ریاضی میں معتبر اور مستند کتابیں تصنیف کیں جیسے الفخری ( الجبر اپر کتاب) علل حساب الجبر، المدخل محفوظ ہیں.اس نے اکثر تصانیف صبح وشام کے اوقات یا سفر کے دوران گھوڑے پر سوار یا علم النجوم، کتاب نوادر اشکال اور الکافی فی الحساب.مؤخر الذکر کا قلمی نسخہ استنبول میں ہے.قید خانے میں لکھیں.جس شخص کے ایما پر کتاب لکھی اس کا اصل نسخہ اسی کو دے دیا.اس کی وفات ایڈولف ہوخ ہائم (Adolf Hochheim) نے 1880ء میں اس کا جو جرمن ترجمہ کیا تھا وہ فرینکفرٹ (Frankfurt) سے 1998ء میں دوبارہ شائع ہوا ہے.عمر خیام (1112-1038ء) قرون وسطی کا سب سے بڑا محقق اور ریاضی داں تھا.اس کے بعد اس کے عزیز ترین شاگرد ابو عبید جوز جانی نے متفرق مقامات سے کتابیں تلاش کر کے ان کو مدون کیا.ان میں سے ایک دانش نامہ علائی تھی جسے پڑھ کر روح وجد کر اٹھتی ہے.اس کی جملہ کتابوں میں سے 40 فلسفے پر اور 40 طب پر ہیں.اس نے نفسیات، کی کتاب رسالہ فی البراهین علی مسائل الجبر والمقابلہ کا فرانسیسی میں ترجمہ 1851 ء میں حیاتیات، ریاضی ، ہئیت منطق اور ریاضی پر بھی قلم اٹھایا.کتاب الشفا کا آٹھواں باب ریاضی پر فرانس و د پکے (F.Woepke) نے کیا.اس کا انگریزی ترجمہ الجبرا آف عمر خیام، نیویارک ہے.اس نے ریاضی کو جیومیٹری، بیت ، حساب اور موسیقی میں تقسیم کیا.جیومیٹری کا سیکشن اقلیدس (Algebra of Omar Khayyam, New York) سے 1931ء میں شائع ہوا.اس کی کے عناصر پر منحصر ہے.اس کے علاوہ اس نے مختصر الجسطی، مختصر الاقلیدس، مختصر فی الزاویہ بھی تین اور کتابیں شرح الاشكال المصادرات کتاب اقلیدس، مشکلات الحساب اور زیج ملک شاہی زیب قرطاس کیں.کتاب النجات میں چار ابواب ریاضی پر ہیں جو بعد میں دانش نامہ ہیں.اس کی کئی کتا بیں یورپ کے علمی خزائن میں اب تک محفوظ ہیں.واضح رہے کہ مسلمان ہی (Book of Science میں شامل کر دیے گئے.دانش نامہ کا فرانسیسی ترجمہ (1958 ,Avicenna, Le Livre de science) پیرس سے شائع ہوا تھا.اس کے قلمی نسخے برٹش میوزیم لندن میں موجود ہیں.ٹریکنومیٹری کے موجد تھے.کوشیار ابن لبان جیلی (1000ء) جیلان کا رہنے والا اور اپنے زمانے کا بہت بڑا ریاضی داں تھا.ریاضی پر اس کی مبسوط کتاب اصول حساب الہند ہے جس کا ترجمہ پرنسپلس آف ہندور یکننگ ، وسکانسن ،امریکہ,Principles of Hindu Reckoning, Wisconsin قاضی زاده (1436-1364ء، ترکی اعلی قسم کا ریاضی داں اور ہئیت داں تھا.سمرقند میں وہ الغ بیگ کے دربار میں مقربین میں تھا.سمرقند میں جب 1421ء میں یونیورسٹی قائم ہوئی 1965 )USA) میں شائع ہو چکا ہے.اس کی دوسری کتابیں درج ذیل ہیں: فی امتثالات تو اس کو اس کا چانسلر مقرر کیا گیا.یہاں کی مشہور رصد گاہ کے ڈائریکٹر الکاشی کی رحلت کے بعد وہ 1429ء میں اس کا ڈائریکٹر مقرر ہوا.ریاضی میں اس نے رسالہ فی الحساب اور الجبرا میں رسالتہ فی الريح الجامع ( مخطوطہ ابا صوفیہ، استنبول میں ہے ) ، تجرید اصول ترکیب الجيوب المدخل في صنعته احکام النجوم ( برٹش میوزیم) ، رساله فی العبد والاجرام ( خدا بخش لائبریری ، پٹنہ )، کتاب الجيب (onsine) لکھا.علم فلکیات پر رسالہ فی الہنیہ والہندستہ اور رسالہ فی سمت القبلہ قلم بند کیا.

Page 45

77 ترجمہ پر کا ٹرکس (Picatrix) لکھیں.76 اندلس کے ریاضی داں اسلامی اسپین نے جو فاضل ریاضی داں اور ماہرین ہئیت پیدا کیے ان میں سے چند نام ابن السمع (1035ء) نے غرناطہ (Granada) میں پرورش پائی.وہ ایک ریاضی داں اور ماہر معیت تھا.ریاضی میں اس کی کتاب المعاملات اور حساب الحوی ( کیلکولس پر) یہ ہیں: مسلمہ المجر یطی (کتاب المعاملات) ، ابن الصفار (اصطرلاب پر مقالہ، زیج تیار کی)، مشہور ہیں.اس نے دو کتابیں جیومیٹری اور دو اصطرلاب کی صنعت د استعمال پر بھی لکھیں.ایک الجیانی ( مقاله الفجر - مطراء شعاع الکواکب ) ، الزرقالی ( آلات ساز ) ، الکرمانی ( ریاضی داں)، زیج بھی تیار کی جو المجر یعلی کی زیج جیسی اعلی تھی.ابن معاذ الجیانی (1079 ء) ریاضی اور علیم ہئیت کا ماہر تھا.ریاضی میں اس نے مقالہ ابن السمع (حساب الحوی.دو کتابیں جیومیٹری پر، زیج)، ابن ابی رجال ، سرقبطہ کا با دشاہ یوسف اطمئن ( کتاب استعمال) ابراهام باری (جیومیٹری پرکتابیں ، جابر ان الم ( کتاب في شرح النسبہ اور بعیت میں سورج سے مکمل گرہن پر مقالہ لکھا.یہ سورج گرہن قرطبہ میں یکم جولائی الہیہ ، اصلاح اجسطی، ابراهام بن اذرا ( ریاضی پر کتاب)، نورالدین البطر وجی ( کتاب فی 1079ء کو ظہور پذیر ہوا تھا.ایک مقالہ الفجر کے نام سے لکھا جس کا ترجمہ جیرارڈ آف کر یمونا نے الهئية ) ، ابن البناء (82) کتابوں کا مصنف)، القالاصادی، ابن زکریا غرناطی، ابن منعم (فقه کیا.ستاروں کی ایک زیج بھی تیار کی جس میں وقت کے تعین ، نئے چاند کے طلوع جیسے الحساب ) ، ابن بدر ( مختصر فی الجبر )، ابن لیسامین (ارجوزہ یا سامینیا ).مسلمہ المجر یطی (1007ء) کی ولادت مجریط (Madrid) میں ہوئی لیکن زندگی کا زیادہ عرصہ قرطبہ (Cardova) میں گزرا جہاں اس نے ایک مکتب فکر کی بنیاد رکھی جس میں موضوعات پر اظہار خیال کیا.ایک اور تصنیف مطراء شعاع الکواکب کے نام سے بھی لکھی یہ سب کتب اور رسالے میڈرڈ سے چالیس میل دور کتب خانے اسکو ریال کی رعب دار، محل نما، عالی شان عمارت میں موجود ہیں جس کو راقم الحروف نے 1999 ء میں خود دیکھا تھا.اس نے الز ہرادی اور ابن خلدون جیسے عالموں نے تعلیم حاصل کی.وہ اسلامی اسپین کا سب سے پہلا اقلیدس کی کتاب عناصر کے پانچویں باب کی شرح لکھی اور اسفیر یکل ٹریگا نومیٹری پر کتاب معروف ہدایت داں اور ریاضی داں تھا.اس نے الخوارزمی کی زیج کی اصلاح کی نیز اس پر نظر ثانی کی.اصطرلاب پر ایک مقالہ لکھا جس کا لاطینی میں ترجمہ جان آف سیول (John of Seville) نے مجہولات قصی الکرہ لکھی.جابر ابن افلح ( 1150ء) بارہویں صدی کا ممتاز بیت داں اور ریاضی داں تھا جس کی کیا.ریاضی میں کمرشیل ارتھ میٹک (Commercial arithmetic) پر ایک کتاب عمر اشبیلیہ میں گزری.اس کی جلیل القدر کتاب اصلاح المجسطی تھی جس کا عربی نسخہ برلن لائبریری المعاملات تصنیف کی ، اس کے قاعدے منضبط کیے اور اصول بنائے، نیز بطلیموس کی کتاب پلینی اسفیر (Plainisphere) کی شرح لکھی.اس کی ستاروں کی زیج کو ایڈے لارڈ آف ہاتھ (Adelard of Bath) نے لاطینی میں منتقل کیا.اس کی کوششوں سے اسپین میں ریاضی اور میں موجود ہے.اس کتاب کی زبر دست اہمیت کے پیش نظر جیرارڈ آف کر یمونا نے اس کا ترجمہ لاطینی میں کیا اور 1274ء میں اس کا ترجمہ عبرانی میں کیا گیا.اس کتاب میں اس نے بطلیموس کے نظریات پر کڑی تنقید کی اور اس کے کئی نظریات سے اختلاف کیا.بطلیموس کی بیان کردہ غلطیوں کو کیمسٹری جیسے عقلی علوم متعارف ہوئے.علم ہئیت میں اس کی کتاب کا ترجمہ مائیکل اسکاٹ نے اس نے واضح طور پر بیان کیا.اشبیلیہ کی جامع مسجد کے منارہ (La Geralda) میں رات کے 1217ء میں کیا.اس کا لقب الحسیب تھا.علم کیمیا پر دو کتابیں رتبات الحکیم اور غیاث الحکیم ، لاطینی وقت گھنٹوں بیٹھ کر اس نے کئی سال تک فلکی مشاہدات کیے.راقم الحروف نے 1999ء میں اسپین

Page 46

79 78 کی سیاحت کے دوران اس مینارہ کا مشاہدہ کیا تھا.مینارے کے اندر سیڑھیوں کی جگہہ ریمپ (ramp) ہے.چنانچہ مؤذن اذان دینے کے لیے گھوڑے پر سوار ہو کر اوپر کی منزل پر جاتا تھا.اس کی تصنیف کتاب الہیہ میں ایک باب اسفیر یکل ایسٹرونومی پر ہے جس سے یورپ میں ٹریگا نومیٹری کے علم میں توسیع ہوئی.1970ء میں یو نیورسٹی آف مانچسٹر ) Manchester) ، انگلینڈ میں ایک طالب علم آر.پی.لارچ ( R.P.Lorch) کو جا R.P.Lorc) کو جابر اور مغرب میں اس کے اثرات" (Jaber & his influence in the West) موضوع پر مقالہ لکھنے ، ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی تھی.ابن الحصار (بارہویں صدی) کا ذکر ابن خلدون نے اپنے مشہور مقدمے میں اس کی ریاضی پر تصنیف کتاب الحصار الصغیر کے حوالے سے کیا تھا.موسیٰ ابن طبون (Moses lon Tamoon) نے اس کتاب کا ترجمہ 1271ء میں عبرانی میں کیا تھا.1893 ء میں دریافت ہونے والے ایک مخطوطے کے مطابق کتاب کا نام کتاب البیان والتذکر ہے.جرمن اسکالر ایچ سوتر (H.Suter) نے اس کا جرمن ترجمہ کیا تھا.نورالدین البطر و جی (1204ء) اپنے دور کا نامور ہئیت داں تھا اس کی تصنیف کتاب فی البیة کا ترجمہ مشہور مترجم مائیکل اسکاٹ نے 1217 ء میں طلیطلہ ( ٹو لیڈو) میں کیا.پر کھلے (Berkley) امریکہ سے اس کا ایڈیشن 1952 ء میں شائع ہوا.عبرانی میں اس کا ترجمہ ویانا سے 1531ء میں طبع ہوا تھا.لاطینی میں کیلو مینس (Caluminus) نے اس کا ترجمہ کیا.البطر و جی فلکی مشاہدات کرتے وقت انسانی حواس پر زیادہ اعتبار نہ کرتا تھا کیونکہ مشاہدہ کرنے والے اور فلکی کروں کے درمیان فاصلہ بہت زیادہ ہوتا ہے.کو پر ٹیکس کے دور تک یورپ کے سائنسدانوں پر اس کے سائنسی نظریات کا گہرا اثر تھا.کو پر ٹیکس کو اس کے علمی خزانے سے کئی تصورات ملے، اس لئے اس نے البطر وجی کا ذکر اپنے علمی شاہکار ڈاریوولیوشنی بس (De Revolutionibus) میں کیا.اس کی بے پناہ شہرت کے پیش نظر چاند کا ایک حصہ (Mare Nectaris) اس کے نام سے منسوب ہے.کتاب فی الہیہ کا انگریزی ترجمہ بمع عربی متن برنارڈ گولڈ اسٹائن (Goldstein) نے Al-Bitruji: On Principles of Astronomy کے نام سے کیا جو امریکہ سے 1971 ء میں شائع ہوا تھا.ابن البناء (1321ء) فیض (مراکش) کی یو نیورسٹی میں طلبا کو ریاضی کی تمام شاخوں حساب الجبرا ، جیومیٹری اور بیت کی تعلیم دیتا تھا.بہیت پر اس نے جو کتاب لکھی اس میں اس نے سب سے پہلی بار المناخ (موسم ) کا لفظ استعمال کیا جس سے جنتری (almanac) کا لفظ ماخوذ ہے.اس نے 82 کتابیں تصنیف کیں.ریاضی میں اس کی قابل ذکر کتا بیں عمل الحساب، کتاب الاصول ( اقلیدس کا تعارف)، کتاب الاصول والمقدمات في الجبر والمقابله ، کشف الاسرار عن علم الحروف الغبار ، رفع الحجاب تلخيص عمل الحساب، شرح رفع الحجاب ( تلخیص کی شرح) اور مقالہ الا ربع ہیں.تنبیہ الا باب علی مسائل الحساب 1978ء میں دریافت ہوئی تھی.علم ہئیت پر کتاب الانواع اور منہاج الطالب فی تعدیل الکواکب (ستاروں کی گردش پر طالب علموں کے لیے ہنیڈ بک ) بھی اس کی ایک اہم کتاب ہے.منہاج کا جزوی ترجمہ اسپینی زبان میں 1956ء میں پروفیسر جے ویرنیٹ ( Prof.J.Vernet) نے کیا تھا.ملان میں آٹھویں انٹر نیشنل کانگریس آف ہسٹری آف سائنس ( V||| International Congress of History of Science) کے موقعے پر پروفیسر ویر نیٹ نے ابن البناء کے ہئیت پر موجود مخطوطات پر ایک مقالہ پڑھا تھا.ابن البناء نے اصطرلاب پر ایک مقالہ لکھا تھا جس کا نام صفحہ شکر یہ تھا.ابن زکریا الغرناطی (1406ء) نے اس کی تلخیص عمل الحساب کی شرح لکھی تھی.اسلامی اسپین میں عظیم ریاضی داں ابوالحسن القالا صادی (1486ء) علم ریاضی اور الجبرا کا ماہر تسلیم کیا جاتا تھا.اس کی کتابیں ایک عرصے تک شمالی افریقہ کے اسکولوں کے نصاب میں شامل تھیں.وہ اندلس کا آخری ریاضی داں تھا.” الارجوزہ الیا سامیبیا میں اس نے الجبرا کے اصول نظم میں بیان کیے.مشہور ریاضی داں ابن البناء کی کتاب عمل الحساب کی تلخیص لکھی.

Page 47

81 80 عمل الحساب، التبصره في علم الحساب اور کشف الجلباب عن علم الحساب، ریاضی پر اس کی اہم کتابیں ہیں.اس کا سب سے بڑا کارنامہ الجبر میں عربی حروف (algebraic symbols) کا استعمال ہے: جیسے 'و ( جمع کے لیے ) الی (منفی) 'فی (ضرب) اور علی ( تقسیم) دش (شئے ، نا معلوم چیز کے لیے ) م (ایکس اسکوائر ) ہک (ایکس کیوب ).یہ عربی حروف اس نے کشف الاسرار عن علم الحروف الغبار میں بیان کیے تھے.این قاضی صاعد اندلسی (1068ء) کی کتاب طبقات الامم اور علامہ جمال الدین القفطى (1248ء) کی کتاب اخبار العلما باخبار الحکماء کی بنیاد پر اسپین کے عا سن چیز پیریز (Sanches-Perez) نے اندلس کی ہسٹری آف میتھے میںکس اور ایسٹرونومی کی ببلیو گرافی 1921ء میں تیار کی.جس میں 191 ریاضی دانوں اور ماہرین فلکیات کی کتابوں اور رسائل کا ذکر کیا.اس موضوع پر زمانہ حال کے چار مغربی محققین بھی بہت ریسرچ کر چکے ہیں یعنی اسٹائن شنائیڈر (Steinschneider)، سوتر (Suter)، وو پکے (Woepke) اور ریناڈ (Renaud).مسلمان اسکالر اے ایس بسعیدان (Saidan) کی کتاب تاریخ علم الجبرفی العالم العربی کویت 1985ء(Kuwait) بھی قابل ذکر ہے.6 علم طبیعیات قرون وسطی کے نامور اور ممتاز طبیعیات دانوں میں الکندی، رازی ، بوعلی ابن سینا، الخازنی، البیرونی ، ابن الہیشم ، القوسی ، شیرازی، الفارسی ، ابن یونس، ابن باجہ کے نام قابل ذکر ہیں.ان طبیعیات دانوں نے جن گونا گوں اہم موضوعات پر تحقیق کی وہ ہیں، قوت، رفتار، روشنی، حرارت ، خلا، آواز اور روشنی کی رفتار، میکانیات، مادے کی کثافت، زمین کی گردش، زمین کا گول ہونا، پینڈولم کی ایجاد، میزان انطبعی کی ایجاد، وقت اور اس کی پیمائش ، ہن ڈائیل، اصطرلاب، گھڑی کی ایجاد، فلکیاتی گلوب، ہوا کا لچیلا پن، مقناطیسی کمپاس کی ایجاد، گن پاؤڈر کی ایجاد، بندوق اور منجنیق کا استعمال علم المناظر میکانیکی کیلنڈر، قوس و قزح.جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا الکندی دو سو کتابوں کا مصنف تھا جن میں سے 39 علم ہئیت پر 24 طب پر، پانچ نفسیات پر اور 44 علم طبیعیات پر تھیں.اس نے ان ضخیم کتابوں میں پیچیدہ سوالات کا حل پیش کیا مثلاً عناصر اربعہ کی ماہیت کیا ہے؟ وقت کیا ہے؟ گرمیوں میں فضا خنک کیوں ہوتی ہے؟ آسمان نیلا کیوں نظر آتا ہے؟ اس کی چند کتابوں کے نام ملاحظہ فرمائیں : کتاب في مابيئة الزمان، كتاب في الكواكب، كتاب في استخراج بعد مركز القمر فی الارض، کتاب معرفة العاد الجبال (یعنی پہاڑوں کی بلندی معلوم کرنے کا طریقہ ).مسلمان طبیعیات دانوں کا ذکر ابن الہیشم جیسے نامور شہرۂ آفاق سائنس داں کے بغیر ہرگز مکمل نہیں ہو سکتا ہے.ول ڈیورانٹ جیسے ممتاز مغربی فاضل نے اپنی کتاب

Page 48

83 82 ایج آف فیتھ (Age of Faith میں اس کی تصنیف کتاب المناظر (لاطینی ترجمہ Opticae Thasaurus) کو علم المناظر کا شاہکار (masterpiece of optics) کہا ہے.ابن الہیشم نے جو ریسرچ حد بی عدسوں پر کی تھی اس پر مزید تحقیق سے یورپ میں مائیکرواسکوپ (microscope) اور ٹیلی اسکوپ (telescope) ایجاد ہوئیں.راجر بیکن ، ابن الہیشم کے علم بصریات پر تجربات سے اس قدر متاثر تھا کہ ول ڈیورانٹ یہ کہنے پر مجبور ہوگیا: ابن الہیشم کے بغیر راجر بیکن کے نام سے تاریخ کے اوراق خالی ہوتے: "Without Ibn al-Haitham, Roger Bacon would have never been heard of." (Age of Faith, by Will Durant) عراق میں پیدا ہونے والے اس سائنس داں ابن الہیشم ( بطلیموس ثانی ) نے گونا گوں سائنسی موضوعات پر ایک سو سے زیادہ کتابیں اور رسالے قلم بند کیے، جن میں سے چند کے نام یہ ہیں: تربیع الدائرہ، مسئلہ ہندیہ، اصول الکواکب، کتاب المناظر، بیت العالم، الہالہ قوس و قزح، صورت الکسوف ضوء القمر ، روئیۃ الکواکب.ابن الہیشم کے مطابق روشنی ایک قسم کی توانائی ہے.روشنی کے بارے میں اس کا نظریہ تھا کہ یہ نور ہے جو خط مستقیم میں سفر کرتی ہے.اس کو سفر کرنے کے لیے کسی میڈیم یا واسطے کی ضرورت نہیں ہوتی.اس نے آنکھ کی فزیالوجی (physiology)، بناوٹ، فریب نظر ( optical illusion ) علم تناظر (perspective) دور بینی تصویر ( binocular vision) رنگ بهراب (mirage) ، انعکاس اور انعطاف کے نظریے علم مرایا (dioptrics/catoptrics)، ہالے (halos) ، قوس و قزح (rainbow)، کہکشاں (galaxy)، دم دار ستارے (commet) جیسے دقیق موضاعات پر عمیق مطالعے سے ان کی سائنسی توجیہات پیش کیں.اس نے تجربہ کر کے دکھایا کہ سورج اور چاند افق پر بڑے کیوں نظر آتے ہیں؟ سورج اور چاند ڈوبتے اور نکلتے کیسے ہیں؟ ستارے رات کے وقت جھلملاتے کیوں ہیں؟ اللہ نے انسان کو ایک کے بجائے دو آنکھیں کیوں دی ہیں؟ چھڑی کو پانی میں رکھا جائے تو وہ ٹیڑھی کیوں نظر آتی ہے؟ ہم دیکھتے کیسے ہیں؟ ہمیں چیزیں کیوں اور کیسے نظر آتی ہیں؟ غرضیکہ کسی مسئلے کا حل پیش کرنے سے قبل وہ عملی طریقہ اختیار کرتا ، پھر اپنے مشاہدے کے نتائج بیان کرتا تھا.اس نے آنکھ کے مختلف حصوں کی تشریح کی اور آنکھ کے نازک ترین حصوں کو بیان کیا.اس نے عدسہ اس حصے کا نام تجویز کیا جو آنکھ کے بیچ ابھرا ہوا ہوتا ہے.یہ مسور کی دال کی شکل کا.ہوتا ہے.عدسہ کالاطینی ترجمہ لینز (lens) ہے.لاطینی میں مسور کو لینٹل (lentil) کہتے ہیں جس سے لفظ لینز (lens) بن گیا.ابن الہیشم نے تجربات کے ذریعے ثابت کیا کہ اگر کسی تاریک کمرے کی دیوار میں ایک چھوٹا سا سوراخ سورج کے رخ پر ہو اور اس سوراخ کے دوسری طرف کمرے میں ایک پردہ اس طرح ہو کہ باہر کی روشنی کا عکس اس پر دے پر پڑے تو پردے پر جن اشیاء کا عکس بنے گا وہ الٹی نظر آئیں گی.اس کو کیمرہ آبسکیور کہا جاتا ہے.صدیوں بعد فوٹو لینے والا کیمرہ اس سائنسی اصول کے پیش نظر بنایا گیا تھا.اس لئے یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کہ کیمرے کا موجد ابن الہیشم تھا.ابن الہیثم کی کروی آئینوں پر تحقیقات اس کے زندہ جاوید کارناموں میں سے ایک ہے.جب روشنی کی متوازی شعائیں ایک صاف مقعر آئینے (concave mirror) پر پڑتی ہیں تو وہ منعکس ہو کر ایک خاص نقطے میں سے گزرتی ہیں اس نقطے کو ماسکہ (focus) کہا جاتا ہے.اس نے تجربات کے ذریعے دکھایا کہ انعکاس اور انعطاف کے زاویوں کا تناسب ہمیشہ یکساں نہیں ہوتا.اس نے عدسے کی میگنی فائنگ پاور (magnifying power) کی تشریح کی اور کرہ ہوا میں انعطاف کا تفصیلی مطالعہ پیش کیا.اس نے بیان کیا کہ صبح صادق اس وقت شروع یا ختم ہوتی ہے جب سورج افق سے 19 ڈگری نیچے ہوتا ہے.اس نے بائی نا کولر ویژن (binocular vision) کی بھی وضاحت پیش کی.ابن سینا نے بھی فزکس میں چند یادگار اضافے کیے.اس نے ایک آلہ ایجاد کیا جو موجودہ دور شئیر کیلیپرس (Vernier Callipers) سے مشابہ تھا.اس نے ، توانائی (energy)،

Page 49

85 84 حرارت (heat)، روشنی (light) ، قوت (force) ، خلا ( vacuum) ، انفنٹی (infinity) پر اظہار خیال کیا.وقت (time) اور حرکت (motion) کے مابین تعلق دریافت کیا.اس نے کہا کہ روشنی کی رفتار معین ہے.سے 42 میل دور ایک موضع دھریالہ جلوپ کے 1795 فٹ اونچے پہاڑ پر سے زمین کا قطر اور محیط معلوم کیا.اس نے زمین کا محیط 24779 میل نکالا جو موجودہ پیمائش سے 78 میل کم تھا.البیرونی نے ستاروں کی زیج تیار کرنے کے علاوہ جن آلات رصد پر ٹھوس مقالے رقم کیے وہ ہے وہastrolabe ، planisphere اور armillary sphere ہیں.ایک کینیڈین مصنف کی تحقیق کے مطابق البیرونی نظام شمسی پر یقین رکھتا تھا جس کے مطابق زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور اپنے محور پر بھی [20].وہ سائنسی مشاہدات اور قوانین سے اس قدر مطمئن تھا کہ زمین کے گول ہونے پر اس کو مزید کسی بھی دلیل کی ضرورت نہ تھی.ول ڈیورانٹ اس بارے میں کہتا ہے: "(Albiruni) took it for granted that earth is round, noted the attraction of all things toward the centre of the earth.The earth turns daily on its axis and annually around the sun." [21] زاویه شفاع ابن سینا کی بنائی ہوئی ڈائیگرام جس میں قوس و قزح کی وضاحت کی گئی ہے نکتہ سنج ، نکتہ شناس البیرونی بھی ایک جلیل القدرطبیعیات داں تھا.وہ زمین کے گول ہونے ، اپنے محور پر گردش کرنے اور سورج کے گرد سالا نہ گردش پر یقین رکھتا تھا.کتاب تفہیم میں اس نے زمین کا گول نقشہ دیا تا کہ مختلف سمندروں کا محل وقوع بتایا جاسکے.اس نے آسمان پر ستاروں کے جھرمٹ یعنی کنسٹی لیشن (constellation) کو مختلف جانوروں کی تصویروں سے بیان کیا.یہ طریقہ ابھی تک مروج ہے.اس نے کہا کہ روشنی کی رفتار آواز کی رفتار کی نسبت بہت زیادہ ہے.اس نے ایک میکانیکی کیلنڈر ایجاد کیا جس کی ڈرائنگ سائنس میوزیم لندن میں موجود ہے.پھر اس نے ایک اصطرلاب بنایا جس میں گیئر (gear) لگے ہوئے تھے.یہ بعد میں میکانیکی کلاک بنانے میں معاون ثابت ہوا [19].اس نے 1018ء میں جہلم (پاکستان) عالی دماغ البیرونی کے بارے میں تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ اس عالم کے ہاتھ میں ہر وقت قلم ہوتا تھا.سال میں وہ صرف دو دن یعنی نوروز اور مہر جان کے دن تصنیف و تالیف کا کام نہیں کرتا تھا.کتابوں کے بارے میں کہتا تھا کہ یہ میری اولا د معنوی ہیں.اندلس کے درخشندہ فلسفی ابوبکر ابن ماجہ (1139ء، لاطینی نام Avempace) نے طبیعیات میں جو نئے نظریات پیش کیے وہ ابن رشد کی کتابوں کے ذریعے گیلیلیو جیسے نامور سائنس داں تک پہنچیں.یا درہے کہ گیلیلیو اٹلی کے شہر پیڈ ڈا (Padua) کا رہنے والا تھا جہاں قرون وسطی میں عربی کتابوں کے تراجم کا کام پورے زور وشور سے ہوا تھا.اس حقیقت کا ذکر ایک مصنف برک ہارٹ ( Burkhardt ) نے اپنی تصنیف مورش کلچر ان اسپین (Moorish Culture in Spain) میں بھی کیا ہے مثلاً ابن باجہ نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ کسی

Page 50

87 86 بھی متحرک چیز کی رفتار اس کی حرکی قوت کے برابر ہوتی ہے( Speed of a moving object is equal to the moving force).اسی طرح اس نے یہ نظریہ بھی پیش کیا کہ وہ قوت جس کی وجہ سے سیب درخت سے نیچے زمین کی طرف گرتا ہے، اس قوت کی وجہ سے ہی اجرام سماوی بھی ایک مخصوص دائرے میں حرکت کرتے ہیں.[22] یگانه روزگار ابن باجہ نے علم ہئیت میں خاطر خواہ اضافہ اس رنگ میں کیا کہ اس نے تھیوری آف اپنی سائکلس ( theory of epicycles ) کی تردید کی کیونکہ یہ ارسطو کے فزیکل ماڈل (physical model) سے میل نہ کھاتی تھی.چنانچہ اندلس اور یورپ میں اس کے بعد سے بطلیموس کے نظام کائنات کو رد کر کے اس کا متبادل پیش کیا جانے لگا.ابن ماجہ کے اس نظریے نے ٹامس ایکوئے نس (1274ء Aquinas)، ڈن اسکوٹس (1308 Dun Scotus) کو علمی طور پر بہت متاثر کیا اور آنے والے یورپین سائنس دانوں کو پرٹیکس (1543ء Copernicus)، ٹائیکو برا ہے (1601ء Tycho Brahe) گیلیلیو کے لیے راستہ ہموار کر دیا.ان کی سوچ کی نہج اس طرف مڑگئی اور سورج کو نظام کا ئنات کا مرکز سمجھا جانے لگا.ایک اور نظریہ جو بعد میں گیلیلیو اور نیوٹن کے قوانین حرکت کا جزو بن گیا، ابن باجہ نے یوں بیان کیا تھا: کتاب سے بہت علمی استفادہ کیا تھا.الخازنی نے اپنی دوسری اہم کتاب میزان الحکمۃ میں کثافت کے جدول ( tables of densities) بھی دیے ہیں.ڈکشنری آف سائنٹفک بایو گرافی میں الخازنی پر ایک مبسوط مقالہ لکھا کیا ہے جس میں اس کے ہائیڈرو اسٹیٹک بیلنس (hydrostatic balance) کا ڈائیگرام بھی دیا گیا ہے [24].اس کی کتاب میزان الحکمۃ حیدرآباد سے 1940ء میں شائع ہوئی تھی."In the absence of a medium, the body would move with its original velocity.Velocity would decrease in proportion to the resistance of the medium." [23] ابن باجہ کی زندگی پر ایک دلچسپ کتاب رسائل فلسفیہ لابی بکر بن باجہ بیروت سے 1983ء میں منظر عام پر آئی تھی.عبدالرحمن الخازنی (1200ء) تبجحر عالم تھا.یہ مرو(Merv) کا رہنے والا تھا.اس نے ایک کتاب کشش ثقل اور پانی کے وزن ، ثقافت اور حجم پر تصنیف کی.راجر بیکن نے اس بے نظیر عبد الرحمن الخازنی کا بیان کیا ہوا میزان الحکمة ڈاکٹر عبد السلام (1996-1926ء) بیسویں صدی کے عظیم ریاضی داں، ماہر طبیعیات، منتظم اور مدرس تھے جن کو 1979ء میں دنیا کے سب سے بڑے سائنسی انعام نوبل پرائز سے نوازا گیا.انہوں نے چالیس سال تک تحقیق اور تدریس کا کام کیا.انہوں نے ایک درجن گراں قدر کتابیں تصنیف کیں اور 250 دقیق سائنسی مقالے لکھے، ایک سو پر مغز تقاریر اور درجنوں سائنسی تعلیمی

Page 51

89 88 رپورٹیں تیار کیں.ان کے علمی شاہکار آئیڈیلز اینڈ ریئلیٹیز (Ideals and Realities) کا ترجمہ دنیا کی بارہ زبانوں میں ہو چکا ہے.وہ شش جہت اور پہلودار شخصیت کے حامل تھے.منجھے ہو ئے ادیب، عمدہ مقرر اور مصلح وقت تھے.تیسری دنیا ، خاص طور پر مسلمانوں کے لیے جو کچھ انہوں نے کیا وہ سائنس کی تاریخ کا سنہری باب ہے.بغداد کے بیت الحکمہ کی طرز پر انہوں نے اٹلی کے شہر تریستے (Trieste) میں انٹر نیشنل سینٹر فار تھیورٹیکل فزکس ( International Centre for Theoretical Physics-ICTP) قائم کر کے تیسری دنیا پر احسان کیا، جہاں سے تقریباً 30,000 ہزار مسلم سائنس داں سائنسی تعلیم سے بہرہ ور ہو کر سائنس کے شجر کی آبیاری کر رہے ہیں.یہ مرکز اب عبد السلام انٹرنیشنل سینٹر فار تھیور مشکل فزکس ( Abdus Salam International Centre for Theoretical Physics) کے نام سے جانا جاتا ہے.زین العابدین ڈاکٹر عبد الکلام (پیدائش 1931ء) نے ایروناٹیکل انجیر نگ (Aeronautical Engineering) میں 1958ء میں ڈاکٹریٹ حاصل کی.1962ء میں ان کی سربراہی میں سٹیلائیٹ لانچ کیے گئے.1982ء میں ہندوستان کا میزائل پروگرام انہوں نے شروع کیا.1992ء میں وہ ہندوستان کے وزیر دفاع کے مشیر خاص بنے.1998ء میں آپ کی قیادت میں ہندوستان میں ایٹمی دھماکے کیے گئے.جولائی 2002ء میں آپ کا انتخاب ہندوستان کے صدر جمہوریہ کے طور پر ہوا.7 علم فلکیات اسلامی دنیا میں سائنسی مضامین میں سب سے زیادہ اہمیت علم ہئیت کو دی گئی کیونکہ اس کے ذریعے مسلمان دنیا کے کسی بھی مقام سے قبلے کا رخ تلاش کر سکتے تھے.نمازوں کے اوقات ادائیگی نیز مذہبی تہواروں جیسے نئے چاند کے طلوع ہونے پر عید الفطر، عید الاضحی یا رمضان کے مقدس مہینے کے پہلے دن کا تعین بھی ضروری تھا.علم فلکیات میں مسلمانوں نے اصطرلاب کے علاوہ تمام اسلامی ممالک میں رصد گاہیں تعمیر کیں، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ رصد گاہ مسلمانوں ہی کی ایجاد ہے.انہوں نے آفتاب و ماہتاب کی روشنی ، زمین کی حرکت، روشنی کی رفتار جیسے دقیق مسائل پر تحقیقات کیں.سال اور ماہ کی مدت مقرر کی.کسوف و خسوف کے اسباب پیش کیے.اسپین کے فاضل ہئیت داں اور آلات بنانے والے الزرقلی (1080ء) نے دعویٰ کیا کہ ستاروں کے مدار بیضوی ہوتے ہیں یعنی وہ حرکت کرتے ہوئے انڈے کی شکل کے دائرے میں سفر کرتے ہیں نہ کہ گول دائرے میں.یہ اس دور کا ایک انقلابی نظر یہ تھا جس کی تصدیق کئی سو سال بعد کو پر ٹیکس نے کی.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ البیرونی نے اپنی ایک کتاب میں پورے یقین سے کہا تھا کہ زمین اپنے مدار پر گھومتی ہے.ابن رشد نے مراکش میں قیام کے دوران من اسپائس (sun spots) دریافت کیے تھے.خلیفہ مامون الرشید (833-786ء) اپنے باپ خلیفہ ہارون الرشید سے بڑھ کر سائنس دانوں کا سر پرست تھا.اس نے یونانی زبان میں موجود سائنس کی کتابیں حاصل کرنے

Page 52

91 90 کے لئے بازنطینی شہنشاہ لیون دی آرمینین (820-813 Leon the Armenian) کے پاس سفارتی مشن بھیجا تھا.اس کے حکم سے بہت سے مخطوطات کے تراجم عربی میں کیے گئے.اس کی ہدایت پر پامیرا (Palmyra) کے مقام پر رصد گاہ تعمیر کی گئی.اس نے کرہ زمین کے محیط (گھیر) کی پیمائش معلوم کرنے کے لیے ستر سائنس دانوں کو ذمے داری سونپی.ان سائنس دانوں کا صدر الفرغانی تھا، انہوں نے زمین کا گھیر 25,009 میل نکالا جبکہ موجودہ پیمائش 858, 24 میل ہے.اس کے کہنے پر دنیا کا ایک بڑا نقشہ بھی بنایا گیا تھا جو بڑی حد تک دنیا کے موجودہ نقشے کے مطابق ہے.ابن عباس الجوہری نے المامون کے عہد خلافت میں بغداد (830-829ء) اور دمشق (833-832ء) میں کیسے جانے والے فلکی مشاہدات میں شرکت کی تھی.اس نے اقلیدس کی جیومیٹری کی کتاب عناصر پر شرمیں لکھی تھیں.الحجاج ابن یوسف (833ء) پہلا مسلمان ترجمہ نگار تھا جس نے اقلیدس کی عناصر اور بطلیموس کی انسٹی جیسی دقیق سائنسی کتابوں کے عربی میں تراجم کیے.جبش الحسیب (874ء) نے دس سال تک بغداد میں اجرام فلکی کے مشاہدات کے بعد تین زیجیں تیار کیں.829ء میں جب سورج کو گرہن لگا تو اس نے عین اس موقعے پر سورج کی بلندی سے وقت کا تعین کیا.اس نے ٹیلر آف شیڈوز (tables of shadows) بھی تیار کیے.علی ابن عیسیٰ اصطرلابی (836ء) کے نام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آلات رصد بنانے کا ماہر تھا.اس نے اصطرلاب بنانے پر مقالے لکھے تھے.سیجی ابن ابی منصور (831ء) نے بغداد میں فلکی مشاہدات کیسے اور کئی کتابیں علم ہیت پر لکھیں.اس نے زیج تیار کی جس کا نام زیج ممتحن المامونی تھا.اس کا پوتا ہارون ابن علی (901ء) بھی آلات رصد بنانے کا ماہر تھا.بغداد کے تین ممتاز سائنس داں بھائیوں ”موسی برادران کوخلیفہ المامون نے ایک سائنسی پروجیکٹ یعنی عرض بلد کی ڈگری نکالنے کا کام سونپا.اس کے لیے انہوں نے شمالی عراق کے ریگستان میں جاکر کام کیا.انہوں نے چاند، سورج اور ستاروں کے مشاہدات کیے.ایک ستاره ریگولس (Regulus) کا مشاہدہ بغداد میں واقع اپنے گھر سے دس سال تک (840-851ء) کیا.ان کا یہ گھر بلند پل پر واقع تھا.دو بھائیوں یعنی محمد (متوفی 872ء) اور احمد نے سال کی مدت معلوم کی جو 365 دن اور چھ گھنٹے تھی.ابو العباس الفرغانی (861ء ، ترکستان) خلیفہ مامون الرشید کا نجم ، اور عالی مرتبہ ہئیت واں تھا.اس نے بیت پر جامع کتابیں قلم بند کیں جیسے اصول علم النجوم، المدخل الی علیم ہدیت افلاک، کتاب الحركات السماویہ، جوامع علم النجوم - جوامع کالا طینی ترجمہ جیرارڈ آف کر یمونا نے 1135 ء میں کیا.جرمن ترجمہ 1537 ء میں نیو رمبرگ سے، فرانسیسی ترجمہ 1546ء میں پیرس سے اور دوبارہ 1590ء میں فرینکفرٹ سے شائع ہوا.اپینی زبان میں اس کا ترجمہ 1493ء میں منصہ شہود پر آیا.انگریزی ترجمہ کم پینڈیم آف ایسٹرونومی (Compendium of Astronomy) یورپ میں سولہویں صدی تک مقبول عام تھا [25].اس نے طغیانی ناپنے کا آلہ (Nilometer) اور دھوپ گھڑی (sundial) بھی ایجاد کی.ابو اسحق الکندی (873ء) وہ منفرد ماہر فلکیات تھا جس نے با قاعدہ رصد گا ہی نظام کی پیش رفت کی.بعض مغربی مستشرقین نے اس کو اپنے عہد کا بطلیموس قرار دیا ہے.اس نے ایک رسالے میں چاند کی 28 منزلیں بیان کیں.اس نے بتلایا کہ چاند 26 دنوں میں کتنی مسافت طے کرتا ہے اور زمین پر اس کا طلوع اور غروب کیوں ہوتا ہے.علم فلکیات پر اس کی درج ذیل کتابیں مشہور ہیں : کتاب فی المناظر الفلكية ، رسالہ فی کیفیات نجو المية ، كتاب في امتناع مساحة الفلك الاقصیٰ، رسالہ فی رجوع الكواكب ، رسالة في حركات الكواكب ، رسالة في علم الشعاع، رسالة في النجوم، رسالة في الهالات للشمس، والقمر الاضواء النیر ہ (سورج چاند کے گرد بالوں پر )، رسالۃ فی مطرح الشعاع ، رسالة في رؤیۃ الہلال.ابو مشعر بلنی (886 Albumasar) خلیفہ معتمد (892-870ء) کے بھائی کا منجم تھا.اس نے علم فلکیات پر 24 کتابیں تصنیف کیں جیسے بیت الفلک ، کتاب اثبات النجوم،

Page 53

93 92 زيج الكبير ، زيج الصغیر.ان کتابوں کو لاطینی زبان میں جیرارڈ آف کر یمونا نے منتقل کیا.ابن خلکان نے اس کی تین کتابوں کا ذکر کیا ہے.مدخل ، الوف (ایک ہزار ) ، اور زیج [26].محمد ابن الحسین ابن العادامی (دسویں صدی) نے زیج نظم العقد تیار کی جو اس کی وفات کے بعد اس کے روشن خیال شاگر د ہشام المدنی نے پایہ تکمیل تک پہنچائی.مشاہدہ افلاک کے جامع انظر ماہر جابر الجنانی (929ء) نے بیالیس برس تک اجرام سماوی کے مطالعے کے بعد مبسوط کتابیں قلم بند کیں جیسے کتاب الزیج ، کتاب مطلع البروج (zodiac)، کتاب اقدار اتصالات ، شرح کتاب اربع لبطلیموس.اس نے آفتاب اور ماہتاب کے جو مشاہدات کیے تھے ان کا استعمال یورپ میں 1749ء میں کیا گیا تھا.مثلاً ڈن تھارن (Dunthorn) نے اس کا نظریہ چاند کی عام رفتار معلوم کرنے کے لیے استعمال کیا.اس نے سورج کا مدار معلوم کیا.سال کی مدت معلوم کی جو 365 دن 5 گھنٹے 46 منٹ اور 24 سیکنڈ تھی.اس نے موسموں کی مدت معلوم کی.مندرجہ ذیل حوالہ بھی اس کی علمیت پر دال ہے: His great discovery that the direction of the sun's eccentric as recorded by Ptolemy, was changing.Expressed in terms of more modern astronomical conceptions, this is to say that the earth is moving in a varying ellipse.[27] رابرٹ آف چیسٹر نے البانی کی اس کتاب کا جو تر جمہ کیا تھا وہ نا پید ہے البتہ اس کا ایک اور لاطینی ترجمہ بارہویں صدی میں Die Scientia Stellarim کے عنوان سے ہوا تھا جو 1537ء میں نیورمبرگ سے زیور طبع سے آراستہ ہوا.یہ نادر ترجمہ ویٹیکن کی مشہور لائٹر مری میں نایاب کتابوں کے حصے میں محفوظ ہے.ایک سو سال بعد اس کا اچینی ترجمہ پلیٹو آف ٹیوالی (Plato of Tavoli) نے کیا جو 1537ء میں طبع ہوا.اطالوی محقق نالینو (Nallino) نے 1899ء میں ملان سے عربی متن ، لاطینی ترجمہ اور شرح تین جلدوں میں شائع کیا.یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے دور میں البتانی کی کتاب کا مطالعہ اہم اور بنیادی اہمیت کا حامل تھا.جارج سارٹن کا کہنا ہے کہ البانی کے ستاروں کے مشاہدات نہایت صحیح اور عمدہ تھے.میڈرڈ کی اسکو ریال لائبریری میں اس کی عربی زبان میں مرتبہ زیج ابھی تک محفوظ ہے.جرمن ہئیت داں جو ہانس میولر (1476ء) نے البتانی کی زیج کی مدد سے دنیا کا ایک نقشہ تیار کیا جس کے دقیق مطالعے اور رہنمائی سے کرسٹوفر کولمبس نے نئی دنیا دریافت کی تھی.عبد اللہ ابن اماجور (933-885ء ، ترکی ) اجرام فلکی کے مشاہدات کرنے میں مشاق تھا.اس نے اپنے بیٹے ابوالحسن علی اور اپنے آزاد کردہ غلام ملح کے ساتھ ٹیم بنا کر یہ مشاہدات کیے، جیسا کہ ہمارے زمانے میں بھی سائنس داں گروپ بنا کر کسی پروجیکٹ پر کام کرتے ہیں.ابن یونس نے ان کے چند مشاہدات کو ریکارڈ کیا تھا.تینوں نے مل کر تین زیجیں بھی تیار کی تھیں جن کے نام الخالص، المنظر اور البدیع تھے.سنان ابن ثابت (946-909 ء ) ثابت ابنِ قرۃ کا پوتا تھا.اس نے مجسطی کی شرح لکھی نیز جیومیٹری اور آلات رصد (سن ڈائیل ) پر مقالے لکھے.ابو محمود الجندی (1000ء ) ایرانی ہئیت واں تھا جس نے رے کے قریب ایک آلہ السدس الفخری بنا یا تھا.بقول البیرونی اس نے یہ آلہ خود دیکھا تھا ، اس آلے میں ہر ڈگری کو 360 حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور سیکنڈ بھی دکھائے گئے تھے.ہئیت کا دوسرا آلہ جو اس نے بنا یا وہ آلاۃ الشمیلہ (comprehensive instrument) تھا.یہ اصطرلاب اور قواڈرنٹ (quadarant) کا متبادل تھا.اس نے رسالہ فی المیل وارض البلاد المشرق کے علاوہ زریج الفخری بھی تیار کی جس کا مسوده کتب خانہ مجلس ، تہران میں موجود ہے.ابوالقاسم ابن الاعلم (985ء، بغداد ) کو عضد الدولہ کے دربار میں خلعت فاخرہ حاصل تھا.اس کے فلکی مشاہدات کا ہر شخص مداح تھا.اس کی زیج دوسو سال تک اہمیت کی حامل رہی.آخر میں اس پر کچھ جنون کی کیفیت طاری ہوگئی تھی ، چنانچہ جوزیج اس نے مرتب کی تھی اس کو پانی میں ڈال دیا.مگر حسن اتفاق کہ اس کا ایک نسخہ محفوظ رہا.

Page 54

95 94 قاہرہ کی سائنس اکیڈمی کے عالی دماغ رکن عبد الرحمن ابن یونس (1009ء) نے وقت کی پیمائش کے لیے پینڈولم (pendulum) ایجاد کیا.علیم ہئیت میں اس کی حیرت انگیز دریافت انحراف دائرة البروج (inclination of the ecliptic) ہے جس کی قیمت اس نے 23 ڈگری، 35 منٹ نکالی تھی.اس کی دوسری اہم دریافت اوج شمس (Sun's apogee) کا طول فلکی (longitude) ہے جو اس نے 86 ڈگری اور 10 منٹ قرار دیا تھا.اس کی تیسری اہم دریافت استقبال اعتدالین (precession of equinoxes) کی صحیح قیمت معلوم کرنا ہے.اس دریافت سے زمین کے محور کی حرکت کا پتہ چلتا ہے.اس نے بتایا کہ زمین کا محور (axis) ساکن نہیں بلکہ مدھم رفتار سے اپنی جگہ سے گولائی میں گردش کرتا ہے.یہ حرکت ہمیں محسوس نہیں ہوتی ہے.یہ پیمائش اتنی چھوٹی ہے کہ اسے معلوم کر لینا ابن یونس کے مشاہدے تحقیقی مطالعے اور ہئیت دانی کا کمال تھا.اس کی مشہور زمانہ زریج کا نام زیج الحاکمی الکبیر ہے جس میں اس نے تیس کے قریب چاند گرہن بیان کیے ہیں.اس سائنسی ڈاٹا (scientific data) کا استعمال امریکی بنیت واں سائمن نیو کومب (Simon Newcomb) نے کیا تھا.اس کی دوسری اہم تصانیف درج ذیل ہیں : کتاب غایة الانتفاع، کتاب السمت ، کتاب الجيب (sine tables)، کتاب الظل (cotangent tables)، کتاب التعديل الحکم اور نماز کے اوقات پر نظم.ابو الوفا (1011ء) کی شہرت اگر چہ ریاضی داں کی حیثیت سے ہے مگر اس نے علم ہئیت میں جو شاندار دریافت کی وہ یہ ہے کہ سورج میں کشش ہوتی ہے اور چاند گردش کرتا ہے.اس نے مزید کہا کہ چاند کی زمین کے گرد گردش کے دوران سورج کی کشش کے اثر کے ماتحت خلل واقع ہوتا ہے، اس وجہ سے دونوں اطراف میں ایک ڈگری پندرہ منٹ کا فرق پڑتا ہے.علم ہئیت کی اصطلاح میں اس کو ای ویکشن (evection یعنی چاند کا گھٹنا بڑھنا کہتے ہیں.اختلال قمر کے بارے میں اس کی اس اہم دریافت کی تصدیق ٹائی کو برا ہے (Tycho Brahe) نے چھ سو سال بعد کی تھی اور اہل یورپ کی دھاندلی ملاحظہ ہو کہ اس دریافت کا سہرا بھی ٹائی کو برا ہے کے سر باندھا جاتا ہے.ہیت پر اس کی نہایت مفید کتاب الکامل تھی جو بطلیموس کی کتاب سے بہت ملتی جلتی تھی.احمد بن محمد بجستانی (1024ء) نکتہ آفریں ماہر فلکیات تھا جس نے زمین کی گردش کو دلائل کے ساتھ تفصیل سے بیان کیا.اس دور کے مسلمان سائنس دانوں نے گردش زمین پر کافی بحث کی تھی اور اس کی مخالفت اور موافقت میں دلائل پیش کیے تھے.یورپ میں کہا جاتا ہے کہ کو پرٹیکس (1543-1473ء Copernicus) نے سب سے پہلے زمین کی گردش کا نظریہ پیش کیا تھا مگر امر واقعہ یہ ہے کہ بجستانی پانچ سو سال قبل اس نظریے کومشتہر کر چکا تھا.ابوالحسن علی احمد نسوی (1030ء) کی اہم دریافت وقت کی تقسیم در تقسیم کے لیے ایک نئے طریقے کی ایجاد ہے جسے حساب ستین کہتے ہیں.اس نے وقت کی ایک ساعت ( گھنٹہ ) یا زاویے کو ساٹھ پر تقسیم کیا، اس ساٹھویں حصے کو اس نے دقیقہ کہا جس کے لفظی معنی ہیں خفیف یا بار یک.اس دقیقہ کو اس نے دوبارہ تقسیم کیا جسے اس نے ثانیہ کہا اس طرح ساعت کی تقسیم دقیقہ اور ثانیہ میں ہوگئی.رفتہ رفتہ دقیقہ کے لیے انگریزی میں منٹ (minute) کا لفظ وضع ہو گیا جس کے معنی انگریزی میں خفیف یا باریک کے ہیں.ثانیہ کے لیے انگریزی میں سیکنڈ (second) کا لفظ بن گیا.گھڑی کے ڈائیل پر جو ہند سے کندہ ہوتے ہیں اور جو منٹ (دقیقہ ) اور سیکنڈ ( ثانیہ ) میں تقسیم ہیں وہ ابوالحسن ہی کی ذہانت کا کرشمہ ہیں.ابو علی ابن سینا (1037ء) نے بطور مشاہداتی بیت داں علم فلکیات اور ہئیت میں کئی یادگار کارنامے سر انجام دیے جس کا اندازہ اس کی کتابوں سے لگایا جا سکتا ہے.کتاب الانصاف ( 20 جلدوں میں ) ، مقالہ فی آلات الرصد یہ مقالہ فی بیت الارض، مقاله في كيفية الرصد ، مقاله فى اجرام السماویہ، قیام الارض في الوسط، مقالة فی خواص خط الاستواء.اس نے اجرام فلکی کے مشاہدات اصفہان اور ہمدان میں کیسے تھے.اس نے کہا کہ وینس (Venus) سیارہ زمین کے

Page 55

96 زیادہ نزدیک ہے بجائے سورج کے.اس نے ستاروں کے کوآرڈی نیٹ (coordinate) جاننے کے لیے ایک آلہ ایجاد کیا.اس نے بغداد اور جرجان کے عرض بلد میں فرق معلوم کیا.اس نے بتایا کہ روشنی کی رفتار معین ہے(velocity of light is finite).ابن الہیشم (1040 ء ، مصر) ایک ماہر ہئیت داں تھا.اس کی 92 تصانیف میں سے کم از کم میں رسالے علم ہیت کے موضوع پر ہیں.ان میں سے زیادہ تر نہایت مختصر اور ضمنی موضوعات سے متعلق ہیں.ان رسائل میں عملی مسائل جیسے کسی گھڑی سمت قبلہ کا تعین ، اختلاف نظر اور ارتفاع کو اکب پر بحث کی گئی ہے.اس نے ایک رسالہ دنیا کے خدو خال پر لکھا جس میں وہ چاند کو پاش کیا ہوا جسم لکھتا ہے جو سورج کی روشنی منعکس کرتا ہے.اس کا ایک اور رسالہ افلاک و تدویر کے جھکاؤ میں تبدیلی ہے.الشکوک علیٰ بطلیموس میں اس نے بطلیموس کی تین تصانیف (امجسطی، سیاراتی نظریات اور بصریات) پر سیر حاصل تنقید کی ہے.علیم ہیت پر اس کی طویل ترین تصنیف مجسطی کی شرح تھی جس کا مخطوطہ استنبول کی ابا صوفیہ لائبریری میں کچھ عرصہ قبل دریافت ہوا تھا.البیرونی (1048ء) کی کتاب مکالید علم الہیہ کا فرانسیسی ترجمہ دمشق سے 1985ء میں شائع ہوا تھا.علم ہبیت پر اس کی مشہور تصنیف کتاب التفہیم کا ترجمہ انگریزی میں رمزے رائٹ (Ramsay Wright) نے 1934ء میں کیا تھا.اس کتاب میں اس نے زمین کی اپنے محور پر گردش کرنے کا دعوی کیا تھا.قانون المسعودی تین جلدوں پر مشتمل حیدر آباد (دکن) سے 1954-1956 ء میں شائع ہوئی تھی.ہندوستان کے پنڈت اس کی وسعت علم سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے اس کو دیا ساگر ( علم کا سمندر) کے لقب سے نوازا تھا.البیرونی کے بارے میں ایک مصنف کہتا ہے کہ : 97 animals to depict the constellations."[28] ابوالفتح عمر خیام (1122-1048ء) ایک ذہین ریاضی داں اور ماہر فلکیات تھا.اس (a) Base plate Teeth on the gears have been omitted.Figure 10.3 (b) is an 'ex- ploded' section to show the meshing of the gear-wheels.Hole a on Figure 10.3 (b) and 10.3 (d) is the same diameter as one of sil- vered circles on wheel 7.Moon Moon's Phones Sun (b) Gear-wheels (c) Moon's volvelle (wheel 7) (d) Lid البیرونی کا بنایا ہوا کیلینڈر "Albiruni wrote an astronomical encyclopedea which discusses the possibility that the earth might rotate around the Sun - long before Tycho Brahe and drew the first map of the sky, using

Page 56

99 98 نے ایران میں ایک نیا جلالی کیلنڈر مارچ 1079ء میں شروع کیا جو جولیئن (Julian) اور گریگورین (Gregorian) کیلنڈروں سے ہزار درجہ بہتر ہے.اس کیلنڈر کے مطابق 3770 سال میں ایک دن کا فرق پڑتا ہے.لیپ ائیر (leap year ) کا تصور سب سے پہلے اس نے ہی پیش کیا تھا.اہلِ ایران ان کو دز دیدہ ( چرائے ہوئے ) دن کہتے ہیں.اس نے سال کی مدت 365.24219858156 دن نکالی جبکہ اس وقت کمپیوٹر نہیں ہوتے تھے.اس کی کتاب الجبر والمقابلہ کا مطالعہ قرون وسطی میں یورپ کی تمام جامعات میں کیا جاتا تھا.اس کا ترجمہ فرانس کے فاضل مستشرق وہ پکے (Woepke) نے 1851ء میں فرانسیسی میں کیا.اس شاندار کتاب میں اس نے ریاضی کے ایک ایسے مسئلے کا حل اپنی ارفع علمی اور ذہنی قابلیت سے پیش کیا تھا جس کا نام اب یورپ میں پاسکل ٹرائی اینگل (Pascal's Triangle) ہے.اس نے بائی نومتیل تھیورم (Binomial theorem) اور کو ایفی شیئنٹس (co-efficients) ایجاد کیسے نیز جیومیٹری میں اس نے نظریہ متوازی خطوط ( theory of parallel lines) پیش کیا جس کا استعمال نامور ریاضی داں ڈیکارٹ (Descartes ) نے خوب کیا.علم ہئیت میں زیج ملک شاہی اور رسالہ مختصر طبیعات اس کی مشہور کتا بیں ہیں.اگر چه ابن رشد (1198ء) کی شہرت ارسطو کی کتابوں کے شارح اور تلخیص نگار کی حیثیت سے ہے مگر بطور بیت داں بھی اس کا مرتبہ کچھ کم نہیں ہے.اس میدان میں اس کا یادگار کارنامہ یہ ہے کہ اس نے سن اسپائس دریافت کیے.وہ بیت میں مختلف نظریات کی تاریخ سے بخوبی واقف تھا.اس نے افلاک میں موجود اجرام کے مشاہدے (یعنی رصد ) کی اہمیت بیان، کی.ایک نکتہ داں ماہر ہیت ہونے کے ناطے اس نے اجرام فلکی کو تین قسموں میں تقسیم کیا: (1) وہ جو انسانی آنکھ سے نظر آتے ہیں (2) جو آلات بئیت کی مدد سے نظر آتے ہیں اور (3) ایسے اجرام فلکی جن کا ہونا عضل سے ثابت ہوتا ہے مگر ان کو دیکھنے کے لیے کئی نسلوں کے درمیان باہمی تعاون ضروری ہوتا ہے مثلاً ہیلیز کامٹ (Halley's Comet).ہئیت پر اس نے جو قابلِ ذکر یں ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا م ای وی را تاک والثوابت ، کتاب اقلیدس فی المجسطی.ابن رشد کی طرح اندلس میں علم فلکیات کے ایک اور عالم عریب ابن صاعد (981ء) نے اس موضوع پر اہم کتاب لکھی جس کا نام کتاب تفصیل الزمان و مسائل الا بدان تھا.ابوعلی الحسن المراکشی (1281ء ، مصر) نے اسفریکل ایسٹرونومی (Spherical astronomy) اور ٹائم کیپنگ (time keeping) اور آلات ہیت پر منحنیم انسائیکلو پیڈیا لکھا.یہ اسلامی آلات ہئیت اور رصد پر اہم کتاب تھی.شمس الدین سمرقندی (1276ء ) نصیر الدین طوسی اور قطب الدین شیرازی کا ہم عصر تھا.ریاضی میں اس نے کتاب اشکال التاسیس لکھی جس کی شرح قاضی زادے نے کی.تذکرة الہیہ ہئیت پر اس کی مشہور کتاب کا نام ہے.اس نے 77-1276ء کی ستاروں کی ایک فہرست (star catalogue) تیار کی.علم کلام پر اس نے رسالہ فی آداب الحث لکھا جس کی متعد دلوگوں نے شرحیں کیں.زکر یا این محمد القزوینی (1283ء ایران ) نے کاسموگرافی پر عجائب المخلوقات وغرائب الموجودات لکھی جس کے تراجم اس کی ندرت خیال کے پیش نظر فارسی اور ترکی زبان میں کیے گئے.جرمن محقق وستن فلڈ نے اس کو مدون کر کے 1849ء میں گوئیسنکن (جرمنی) سے شائع کیا.1986ء میں اس کا جرمن ترجمہ Die Wunder des Himmels und der Erde کے عنوان سے شائع ہوا.وہ جغرافیہ پر آثار البلاد واخبار العباد جیسی اہم کتاب کا بھی مصنف ہے.ظریف الطبع ، شگفتہ مزاج قطب الدین شیرازی (1332ء) نے علم الفلک پر نہایة الا در اک فی درایۃ الافلاک اور التفتہ الشاہیہ عربی میں تحریر کیں اور فارسی میں جہانِ دانش لکھی.اس کے علاوہ اس نے القوی کی فلکیات پر کتاب تذکرۃ کی شرح بھی لکھی.خوشیار این لبان الجلیلی نے دو تیح الجامع اور البلیغ تیار کیں.ابلیغ کا قلمی نسخہ برلن لائبریری میں موجود ہے.

Page 57

101 100 غیاث الدین الکاشی (1429ء) ممتاز ریاضی داں اور علم فلکیات کا ماہر تھا.اس کا لقب مولانائے عالم ( عربی میں مولانا کا مطلب سائنس داں ہے ) تھا.ریاضی میں اس کی مفتاح الحساب اور فی حساب الہند مشہور تھیں.علم فلکیات میں اس نے پانچ قابل قدر کرتا ہیں لکھیں بسلم السماء (Stairway to Heaven) کروں کے سائز اور فاصلوں پر تھی.مختصر در علم الہئیت ( مخطوطه بر ٹش میوزیم ) ، خاقانی زیج ، نزہت الحدائق ( اس کتاب میں ایک آلہ رصد کا ذکر ہے جو اس نے ایجاد کیا تھا ).رسالہ در شرح آلات رصد میں آٹھ آلات کا ذکر کیا ہے جن میں سے چھہ یہ تھے: سی.اے.نالینو(C.A.Nallino) کی اس کتاب سے ہوتا ہے جس میں عرب ہئیت دانوں کے حالات زندگی چار جلدوں میں روم سے 1911ء میں بڑے اہتمام سے شائع ہوئے ہیں.اس کی عربی اشاعت علم الفلك عند العرب في القرون الوسطی جو دراصل ایک جلد میں چاروں جلدوں کی تلخیص ہے، اس کا ایک نسخہ راقم السطور نے حال ہی میں امریکہ کے نایاب کتابوں کے بنک اسٹور abebooks.com سے حاصل کیا ہے.Triquetrum, Armillary Sphere, Equinoctial Ring, Double Ring, Fakhri Sextant, Small Armillary Sphere.[29] بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے یونانی علما کی نقل کی اور بذات خود سائنسی علوم میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا.یہ بات قطعا غلط ہے.اس کی ایک روشن مثال اندلس کا بہیت داں جابر ابن افلح ہے جس نے بطلیموس کی مستند کتاب الجسطی میں غلطیاں تلاش کیں اور اصلاح مجسطی لکھی.اس کے دیباچے میں اس نے مجسطی کی ان غلطیوں کی فہرست پیش کی ہے.شیرازی نے اس کتاب کا خلاصہ لکھاتھا.جیرارڈ آف کر میمونا نے اس کالاطینی میں ترجمہ کیا.اس کتاب کا اثر یورپ کی ٹریگا نومیٹری پر بہت تھا.یورپی عالم ایس بریڈن (S.Bredon) نے اسطی کی جو شرح لکھی تھی اس کا زیادہ تر حصہ جابر کی کتاب کا چربہ تھا.جرمن سائنس داں ریجیو مان تانس (Regiomontanus) نے 1460ء میں کتاب ڈی ٹرائی اینگولس (De Triangulis) D کمی جس کا چوتھا باب اصلاح المجسطی کی صریح نقل تھا.یادر ہے کہ قرونِ وسطیٰ کا ہر عالم ہیت کا ماہر بھی ہوتا تھا گویا ہیت کے مطالعے کے بغیر عالم کہلانا غیر ممکن تھا.ایک ہزار سال گزرنے کے باوجود ہئیت کی اہمیت کو ہر سائنس داں تسلیم کرتا ہے شاید اسی وجہ سے اسے کو مین آف سائینسز (Queen of Sciences) بھی کہا جاتا ہے.علم فلکیات میں فی الحقیقت مسلمانوں کی شاندار تحقیقات کا اندازہ اٹلی کے محقق

Page 58

103 102 8 فلکیاتی جدول ( زیج) زیج کے معنی قالین میں جھول یا خم کے ہیں مگر تکنیکی معنی فلکیاتی جدول کے ہیں.اس کے کئی فوائد تھے : زیج کے ذریعے کروں کی پوزیشن ( آسمان پر فلکی اجسام کا محل وقوع)، چاند کی منازل، سورج گرہن، چاند گرہن ، موسموں کے اوقات، طول بلد، عرض بلد ، طلوع آفتاب، غروب آفتاب کے اوقات ، سیاروں کے روزانہ اور ماہانہ محل وقوع اور اسلامی مہینوں کے آغاز اور تہواروں کے لیے نئے چاند کے نکلنے کی تاریخ معلوم کی جاتی تھی.زیج گویا علم ہیت کی ہینڈ بک ہوتی تھی.سال کی مدت 365 دن، پانچ گھنٹے ،48 منٹ اور 24 سیکنڈ بیان کی ہے.وہ پہلا سائنس داں تھا جس نے اپنی سائنسی تحقیق میں ٹریگا نومیٹری کی اصطلاحیں جیسے سائن (sine)، کو سائن (cosine) ٹینجیٹ (tangent) اور کو ٹیننٹ (cotangent) استعمال کیں.اس کے علاوہ اس نے اپنی ریسرچ میں جیومیٹری کے بجائے ٹریگا نومیٹری کو استعمال کیا.کو پر نیکس ، ٹائیکو برا ہے، کیپلر نے اس کی زیج الصابعی سے بے حد استفادہ کیا تھا.عباس ابن فرناس (متوفی 887ء) خلیفہ عبد الرحمن الثانی کے دربار میں شاعر اور نجم تھا.اس نے کئی نئی ایجادات کیں.وہ بغداد سے ستاروں کی مشہور زیج اپنے سفر سندھ کے دوران ساتھ لایا جس کے بعد اسپین میں بیت کے علم کو فروغ حاصل ہوا.تاریخ میں آیا ہے کہ وہ پہلا شخص تھا جس نے قرطبہ کے ایک پہاڑ سے ہوا میں اڑنے کی کوشش کی جس کے لیے اس نے پروں کا خاص لباس بنا یا تھا.وہ کچھ دور تک ہوا میں اڑ کر گیا.اس نے اندلس میں مشرقی موسیقی کو بھی متعارف کرایا نیز اپنے گھر میں آلات رصد تعمیر کیے گھڑیال اور پلینی ٹیریم (Planetarium) بنایا.عبد الرحمن الصوفی (986-903ء، رے، ایران ) پہلا عالمی بیت داں تھا جس نے قرون وسطی میں علم ہیئت کے تمام آلات اور جدول (astronomical tables ) 964ء میں اینڈرومیڈا کیلکسی (Andromeda galaxy M31) کو دریافت کیا.ہمارے اسلامی ممالک سے یورپ پہنچے تھے.پھر بعیت کی تمام اصطلاحات عربی سے ماخوذ تھیں.بڑے بڑے مسلمان ہئیت دانوں جیسے الصوفی ، الفرغانی، البیرونی، ابن سینا، الزرقلی ، الطوسی، الغ بیگ کی معتبر کتابوں کے تراجم لاطینی اور عبرانی میں کیے گئے.محمد بن جابر البتانی کی ستاروں کی زیج آخری بار روم سے 1899ء میں شائع ہوئی تھی.البتانی نے بطلیموس کے نظریے کے برعکس کہا کہ سورج کو گرہن ہر سال لگتا ہے.1749ء میں یورپ کے بہیت داں ڈن تھارن نے البتانی کے نظریات کی مدد سے چاند سے متعلق نظریہ پیش کیا جس کا نام سیکیولر ایکسیلیریشن آف دی موومینٹ آف دی مون secular acceleration of the movement of the moon) ہے.البتانی نے نئے چاند کے دیکھنے کی پیشگی تاریخ معلوم کرنے کا طریقہ بھی بتایا.اس نے ایک نظام شمسی سے باہر کسی اور اسٹار سسٹم کے ہونے کا یہ پہلا تحریری ثبوت تھا جس کا ذکر اس نے اپنی تصنیف کتاب الكواكب الثابت المصور ( Book of Fixed Stars ) میں کیا.یہی کہکشاں سات سو سال بعد جرمن بیت داں سائمن ماریس (Simon Marius متوفی 1624ء) نے دسمبر 1612ء میں دور بین کی مدد سے دریافت کی تھی.الصوفی کی کتاب کے تراجم یورپ کی کئی زبانوں میں کیے گئے جس سے اس کتاب کا اثر یورپ کی ایسٹرونومی پر دیر پا اور گہرا تھا.یہ کتاب دائرۃ المعارف عثمانیہ نے 1953ء میں شائع کی تھی.کتاب مذکور کو آبزرویشنل ایسٹرونومی کا شاہکار کہا جاتا ہے.اس کی دوسری تصنیف کتاب العمل بالاصطرلاب 1962ء میں ء میں شائع کی گئی تھی.اس عظیم ہئیت داں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے چاند کے ایک 47 کیلو میٹر لمبے

Page 59

105 104 کر میٹر (crater ) کا نام الصوفی (Azophi) رکھا گیا ہے.میڈرڈ ( مجریط) کے رہنے والے ابو القاسم مجریعلی (1007ء) نے الخوارزمی کی زیج کو مدون کیا.ایڈے لارڈ آف ہاتھ نے اس کا ترجمہ بارہویں صدی (1126ء) میں کیا تھا.اس نے اصطرلاب کی صنعت پر ایک رسالہ لکھا جس کا لاطینی میں ترجمہ کیا گیا.ریاضی میں اس کی کتاب المعاملات اکا ؤنٹنگ کے موضوع پر ہے.ابوالحسن ابن یونس ( 1009-950 ء ) نے بہت سے فلکیاتی مشاہدے قاہرہ کی رصد گاہ میں کیے.یہ رصد گاہ دارلحکمہ کا حصہ تھی جو بغداد کے بیت الحکمۃ کے بعد مسلمانوں کی دوسری مشہور اکیڈمی تھی.دارلحکمتہ ایک سو پینسٹھ سال (1171-1005ء) مصروف عمل رہی.اس کی کتاب الترتیج الكبير الحاكمی عمدہ تصنیف ہے جس میں ستاروں کے مشاہدات کا کیٹیلاگ دیا گیا ہے.اس زیج کو مکمل کرنے میں اس نے سترہ سال صرف کیے.اس میں چاند گرہن کے مشاہدے کا بھی ذکر ہے جس کے مطالعے کے ذریعے امریکی بیت داں سائمن نیو کومب (1909-1835ءSimon Newcornb) نے اپنی لونز تھیوری (Lunar Theory) پیش کی تھی.فرانسیسی مصنف سیڈی لاٹ (Sedillot) نے اس کا فرانسیسی ترجمہ کیا تھا جبکہ عمر خیام نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا.یگانہ روزگار ابن الہیثم (1039-965ء) کی فلکیات میں تصنیف کتاب الہئیہ (Resume of Astronomy) تھی جس میں اس نے کروں کی حرکت کا فزیکل ماڈل پیش کیا.یورپ میں اس کتاب کا اثر جو ہانس کیپلر کے زمانے تک مند تھا.نصیر الدین الطوسی بھی اس کتاب سے متاثر تھا.ابوریحان البیرونی نے 1000 ء میں کتاب القانون المسعودی فی الہئیت النجوم لکھی جس میں ہئیت اور ٹریگا نومیٹری کے نئے نئے تھیورم پیش کیے.اس کی کتاب جلاء الا ذہان فی زیج الجنانی بھی عمدہ کتاب ہے.اقلیم طب کے تاجدار، عالم بے بدل، شیخ الرئیس ابن سینا نے علم فلکیات پر ہمدان کی رصد گاہ میں ریسرچ کی جس کے آثار قدیمہ حال ہی میں دریافت ہوئے ہیں.اس نے ہئیت کا آلہ بنا یا جو و رئیر اسکیل (Vernier Scale) سے بہت مشابہ ہے.اس نے سیارہ زہرہ (Venus) کا اپنی آنکھوں سے 1032ء میں مشاہدہ کیا اور غور و فکر کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ یہ کرہ سورج کے بجائے زمین سے زیادہ قریب ہے.اہلِ یورپ کی دھاندلی ملاحظہ ہو کہ انہوں نے اس سائنسی اکتشاف کا سہرہ انگریز ہئیت واں جرمیا ہراکس (Jeremia Horrocks) کے سر باندھ دیا جس کا اکتشاف اس نے ابن سینا کے سات سو سال بعد 1839ء میں کیا تھا.ابن سینا نے یہ بھی کہا کہ روشنی کی رفتار معین ہوتی ہے.اس لئے وہ پہلا سائنس داں تھا جس نے روشنی کی رفتار کا نظریہ پیش کیا.حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس نے فزکس ، فلکیات اور میڈیسن کے سائنسی مسائل کے حل کے لیے ریاضی کا استعمال اس زمانے میں کیا.موجودہ عہد میں اب یہ عام رواج بن چکا ہے.طلیطلہ کے مشہور ہئیت داں ابو اسحق الزرقلی ( 1087ء) کی شہرہ آفاق زیج (Toledan Tables) کا ترجمہ بارہویں صدی میں کیا گیا.اس نے ایک نادر اصطرلاب الصفحہ کے نام سے ایجاد کیا تھا جس کی صنعت کی تفصیل پر مشتمل رسالے کا ترجمہ عبرانی اور اطالوی زبانوں میں کیا گیا.لاطینی میں اس کا ترجمہ جیرارڈ آف کر یہونا نے کیا.ہسپانوی میں اس کا ترجمہ عالم بادشاہ الفانسو دہم ( Alfonso X) نے خود کیا تھا.یورپ کی تمام جامعات میں یہ کتاب اس موضوع پر سند تسلیم کی جاتی تھی.کو پر نیکس (1543ء) جیسے آفاقی عالم نے اپنی انقلابی کتاب ڈی ریوولیوشنی بس میں الزرقلی اور البانی کے علمی احسانات کا واشگاف الفاظ میں اعتراف کیا ہے.الزرقلی نے بہت سے سائنسی آلات بنائے جو اپنے عہد کے اعلیٰ ترین آلات تھے نیز اصطرلاب بنانے پر جو مقالہ لکھا اس کا حوالہ کو پر ٹیکس نے اپنی کتاب میں دیا ہے.اس کے ٹریگا نومیٹری ٹیبلز کا ترجمہ 1534ء میں نیورمبرگ سے طبع ہوا تھا.این اسحق تمیمی (مراکش 1222ء) نے ایک نامکمل زیج اپنی یادگار چھوڑی.اس کا مخطوطہ ڈی.اے.کنگ (D.A.King) نے 1978 ء میں آندھرا پردیش اسٹیٹ لائبریری

Page 60

107 106 ( نمبر 298) حیدرآباد میں دریافت کیا تھا.انجل میسٹریس ( Angel Mestres) نے اس زیج کو مدون کیا اور اس کی شرح بھی لکھی.یہ تحقیقی کام اس نے پی ایچ.ڈی کے مقالے کے طور پر بارسی لونا یونیورسٹی (اسپین) میں جنوری 2000 ء میں پیش کیا.نصیر الدین القوسی (1274-1201ء) کی بہیت میں علم و معرفت کا سر چشمہ تذکرہ فی علم الہعیہ ہے جس کا لاطینی ترجمہ فیگو را کاٹا (Figura Cata) کے عنوان سے چودہویں صدی میں کیا گیا.انگریزی میں اس کا ترجمہ جمیل راجب (F.J.Rageb) نے کیا جو نیو یارک سے 1993ء میں شائع ہوا تھا.اس کتاب میں الطوسی نے بہت سے پرانے ، فرسودہ نظریات پر کڑی تنقید کی ، نیز اس نے اپنا تیار کردہ کردی ماڈل (planetary model) پیش کیا، کو پر ٹیکس نے اس سے ملتا جلتا ماڈل پانچ سو سال بعد پیش کیا تھا.الطوسی نے مراغہ ( آذر بائیجان) میں 1262ء میں فلکیاتی رصد گاہ تعمیر کی جس میں دیگر سائنسی آلات کے علاوہ ایک بارہ فٹ لمبا قواڈرنٹ (Quadrant) اور ایک ایزی متھ (Azimuth) تھا جسے اس نے خود تیار کیا تھا.اس نے ایک دارالکتب کی بنیاد بھی ڈالی جس میں کئی لاکھ کہتا ہیں تھیں.اس نے بارہ سال کی شب و روز کی دیدہ ریزی ومحنت سے ستاروں کی زیج الخانی ہلاکو خان کے لئے تیار کی جس میں آسمان کا نقشہ اور 990 ستاروں کا کیٹلاگ تھا.کتاب تذکرہ فی علم الہیہ میں اس نے چاند ، مرکزی اور وینس کی حرکت پر بطلیموس کے فرسودہ نظریات کو رد کر کے ایک جدید نظام تجویز کیا جس کے مطابق سیاروں کے مدار بیضوی (elliptic) بنتے تھے.اس کو بنیاد بنا کر جو ہانس کیپلر (Kepler) نے اپنا جدید شمسی نظریہ کا ئنات( Heliocentric system یعنی آفتاب کا مرکز کائنات ہونا ) پیش کیا تھا.[30] قطب الدین شیرازی (1310-1237 ء ) نصیر الدین طوسی کا شنا گر د تھا.اس کے افکار پر فارابی اور ابن سینا کا بہت گہرا اثر تھا.منطق ، فلسفہ، طب، ہئیت اور اخلاق پر اس کی پندرہ کتابوں میں سے چند کے نام یہ ہیں: نہایتہ الا در اک فی درلیتہ الافلاک (ہنیت )، آداب الاطباء (طب)، حکمۃ العین ( قزوینی کی کتاب کی شرح طبیعیات پر تحفۃ السعد یہ ( پانچ جلد ، قانون ابن سینا کی شرح)، مفتاح المنان ( تفسیر ، چالیس جلد ) ، درة التاج (فارسی میں فلسفہ پر ).غرناطہ کے بہیت وال محمد ابن رقام (1315ء) نے دوز بیجیں تیار کیں.ان زیجوں پر محمد عبد الرحمن (ادارہ تاریخ علوم العرب، حلب، سیریا) نے پی ایچ.ڈی کا مقالہ حساب اطوال فی زج الشمیل فی تہذیب الکامل لابن الرقام لکھا اور باری لونا یونیورسٹی (اسپین) میں ستمبر 1996ء میں پیش کیا.تیمور لنگ کا پوتا، روشن دماغ سلطان الغ بیگ (1449-1393ء) ترکستان کا حکمراں ہونے کے ساتھ ایک مسلمہ ریاضی داں اور منفرد ہیت داں بھی تھا.سمر قند کے شہر میں اس نے ایک عالیشان رصد گاہ تعمیر کی جو 120 فٹ اونچی تھی.اس کا قطر 250 فٹ تھا، عمارت کی صورت گول تھی.روسی ماہرین آثار قدیمہ نے اس کے آثار 1908ء میں دریافت کیسے تھے اس کی تصویر بیسویں صدی کے معروف ہئیت داں فریڈ ہوئیل (Fred Hoyle) کی کتاب ایسٹرونومی (Astronomy)، نیو یارک 1972ء میں دیکھی جاسکتی ہے.اس رصد گاہ میں ہئیت کے گوناگوں آلات موجود تھے جیسے سیکس ٹینٹ (sextant)، آرمری (armilary)، سن ڈائٹر (sun dials) ، ایسٹر ولیب (astrolabe - سلطان الغ بیگ نے کتاب زيج الجديد سلطانی تصنیف کی جس کا انگریزی میں ترجمہ ٹیلز آف پلینیٹری موشنز (Tables of Planetary Motions) کے عنوان سے 1917ء میں کیا گیا.جارج سارٹن نے اس زیج کو اسلامی دنیا کا ماسٹر پیس آف آبزرویشنل ایسٹرونومی (Masterpiece of Observational Astronomy) کہا ہے.اس کا لاطینی ترجمہ 1650ء میں بے گریوز (J.Greaves) نے لندن سے شائع کیا.زیج الجدید میں الغ بیگ نے ایسی غلطیوں کا ازالہ کیا جو اس نے عربوں کے گزشتہ اسٹار کیٹیلاگ میں دیکھی تھیں.یوں اس نے 992 ستاروں کا محل وقوع دوبارہ معین کیا نیز

Page 61

108 109 عبد الرحمن الصوفی کے اسٹار کیٹیلاگ سے 27 ستاروں کا اضافہ کیا.اس کا عربی ترجمہ قاضی حسن مکی نے ستر ہویں صدی میں کیا جس نے تیونس اور مراکش کے ممالک میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں قبولیت عام حاصل کی.مصلح الدین مصطفیٰ (1561 ء ، ترکی ، استنبول میں قاضی کے عہدے پر فائز تھا.اس نے مذہبی موضوعات پر ضخیم کتابیں لکھیں نیز طاعون پر رسالہ لکھا.محمد تقی الدین (1585ء) کے لئے سلطان مراد سوم نے رصد گاہ تعمیر کروائی تھی.اگر چہ چند سال بعد یہ منہدم کر دی گئی کیونکہ تقی الدین نے پیش گوئی کی تھی کہ ترکی کسی جنگ میں فتح حاصل کرے گا مگر ایسا نہ ہوا.اس نے فلکیات میں آلات رصد پر متعدد رسائل اور میکینکل کلاک (mechanical clock) پر ایک ٹھوس رسالہ تحریر کیا.ذیل ہے: جن مسلمان سائنس دانوں نے چھ سو سال میں زیج تیار کیں ان کی اجمالی تفصیل درج سائنس داں شمار 1 احمد النهادی ريج المشتمل 2 سیمی ابن منصور، سند بن علی زیج 1 علم ہئیت سے متعلق کا رنامہ ابن العالم 9 الرازي زیج کتاب ہئیت العالم ، رسالہ فی غروب الشمس والكواكب آلات رصد تیار کیے 10 الکوہی 11 ابوالوفا بز جانی زیج شامی 12 محمود الجندي ریج اور آلات رصد تیار کیے زیج اور آلات رصد 13 ہارون بن علی 14 ابن یونس ( مصر ) زيج الحاكمي الكبير 15 مسلمہ الحجر یطی (اسپین) ( الجنانی کی زیج کی تلخیص لکھی 16 الزرقلی (اسپین) زیج، آلات رصد تیار کیے ، نیا اصطرلاب بنایا الصحیفہ 17 جابر ابن اللح (اسپین) اصلاح الجمسطی لکھی، ( بطلیموس کی نظریات پر تنقید ) 18 ابن رشد 19 البطر وجی 20 عمر المراكشي مراکش میں مشاہدات کے دوران سورج پرسن سپاٹ دریافت کیے آلات رصد تیار کیے 21 نصیر الدین القوس زیج الخافی تیار کی 3 ما شاء الله 4 ابو معشر بلخی آلات رصد اور فلکیاتی مشاہدات کیے 22 | الوغ بیگ زیج زیج جدید سلطانی موسی برادران ( محمد ، احمد حسن) زیج 6 الباني زیج، رقہ کی رصد گاہ میں محمد ابن الحسین ابن العادامی زیج ( نظم العقد ) یورپ کی پہلی رصد گاہ اسلامی اسپین کے شہر ویلنسیا کے باشندے ابراہیم السہد کی نے 1081ء میں ایک فلکیاتی گلوب (celestial globe) بنایا جس کا ڈایا میٹر 81.5 تھا.اشبیلیہ کی جامع مسجد کا مینار جس کا نام ہیرالڈا آف سیول (Giralda of Seville) ہے اور جواب کیتھڈرل کا حصہ ہے،

Page 62

111 110 تین سوفٹ اونچا ہے.ایک زمانے میں موزن گھوڑے پر سوار ہو کر اس کی بالائی منزل پر جا کر اذان دیا کرتا تھا.اسی لیے اس میں سیڑھیوں کی جگہ ریمپ (camp) بنایا گیا ہے.یہاں مشہور بلیت داں جابر ابن اللح نے اپنی تصنیف اصلاح الجمسطی کے لیے 1240ء میں ستاروں کے مشاہدات کیے تھے.یہ کتاب یورپ میں مقبول عام تھی.فی الحقیقت ہیرالڈا یورپ کی سب سے پہلی رصد گاہ تھی.راقم الحروف نے اس مینار کو 1999ء میں اسپین کی سیاحت کے دوران دیکھا تھا.اینٹوں سے بنی مینار کی عمارت میں داخل ہوتے ہی عربی زبان میں اس کی تعمیر کی مختصر تاریخ سنگ مرمر کی تختی پر دیوار میں نصب ہے.اس کے مطابق یہ خلیفہ ابو یعقوب یوسف کے دور میں 1185ء میں مکمل ہوا تھا.مینار کے اوپر کی منزل پر چار جانب کشادہ کھڑکیاں ہیں جہاں سے رات کے وقت ہر سمت سے اجرام فلکی کا مشاہدہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے.دن کے وقت یہاں سیاحوں کا جم غفیر ہوتا ہے جن کے کیمرے بے دریغ تصاویر لیتے ہیں.انٹرنیٹ پر ٹائیکو برا ہے ( 1801-1546ء) کے نام پر معلومات کرنے سے میں یہ دعوئی پڑھ کر حیران رہ گیا کہ اس نے دنیا کی سب سے پہلی رصد گاہ تعمیر کی تھی جبکہ اسلامی ممالک میں رصد گا ہیں خلیفہ المامون کے دور میں ہی تعمیر ہونا شروع ہوگئی تھیں.چنانچہ اگلے سات سو سال میں جو رصد گا ہیں مختلف اسلامی ممالک میں تعمیر ہوئیں ان کی مختصر تفصیل یہ ہے: شمار رصد گاہ کا نام مقام ڈائریکٹر 1 شماسیه رصد گاہ 829 بغداد سند بن علی، عباس سعید جو ہری موسی برادران 2 باب الطاق رصدگاہ بغداد 3 قاسیون کے پہاڑ پر رصد گاہ 830ء دمشق یحیی ابن منصور 4 رقہ (شام) کی رصد گاہ رقہ الجانى 5 شرف الدولہ کی رصد گاہ 984ء بغداد رستم الکوہی ، ابوالوفا بوز جانی (محل کے اندر) 6 المقتم پہاڑ پر قاہرہ کی رصد گاہ قاہرہ ابن یونس +996 ہمدان کی رصد گاہ 1023 ء ہمدان ملک شاہ کی رصد گاہ 1092ء اصفہان الدینوری قاہرہ و الافضل رصد گاہ 1101 ء 10 ہیرالڈا ٹاور کی رصد گا 0 1172ء اشبیلہ جابر ابن اسح افلح 11 فیض، مراکش کی رصد گاہ1204 ء فیض 12 مراغہ کی رصدگاہ 1259 ء مراغہ نصیر الدین القوسی ، صدرالدین شجاع 13 تبریز کی رصد گاہ 1295ء تبریز 14 سمرقند کی رصد گاہ (الغ بیک) سمرقند جمشید الکاشی (مغل بادشاہ بابر نے اپنی +1402 15 استنبول کی رصد گاہ 1577 ء استنبول سوانح میں کہا ہے کہ اس کے آثار قدیمہ اس نے دیکھے تھے.اس تین منزلہ رصد گاہ کو روسی ماہرین آثار قدیمہ نے 1908ء میں تلاش کیا تھا اس کی خوبصورت تصویر اس کتاب میں موجود ہے.[31] مذکورہ بالا رصد گاہوں کے ماڈل کو سامنے رکھ کر یورپ میں رصد گاہیں بننا شروع ہوئیں.پیرس 1666ء، گرین وچ 1675 ء ، لیڈن 1632ء، کوپن ہیگن 1637 ء.جرمنی کے i

Page 63

113 112 بادشاہ ولیم آف پیس (Wilhelm of Messe متوفی 1592ء) نے کاسل (Kassel) کے شہر میں رصد گاہ بنوائی جس میں استعمال ہونے والے تمام کے تمام آلات یا تو اسلامی ممالک سے لائے گئے تھے یا ان کی نقل کر کے نئے آلات بنائے گئے تھے.کو پرٹیکس نے اپنی رصد گاہ میں جو آلات استعمال کیے وہ مراغہ کی رصد گاہ میں بنائے گئے تھے.پھرٹا ئیکو برا ہے نے یورانے برگ (Uraniborg) میں جو ہئیت کے آلات استعمال کیسے جیسے ,Quadrant, Azimuth armillary sphere، وہ بھی اسلامی تھے.انڈسی ماہر ہئیت جابر ابن افلح نے بھی ایک آلہ ایجاد کیا تھا جس کا نام ٹور کے ٹم (Torquetum) تھا جو یورپ میں مقبول عام تھا.9 امراض العین مصر میں لوگ اکثر آشوب چشم میں مبتلا رہتے تھے، اس صورت حال کے پیش نظر وہاں امراض العین (Opthalmology) پر بطور خاص تحقیق کی گئی ، خاص طور پر فاطمی خلیفہ الحاکم کے دور خلافت میں اس موضوع پر بڑا کام کیا گیا.اسی طرح مشرق وسطی کے دوسرے ممالک میں رہنے والے باشندے آنکھ کے امراض سے دو چار رہتے تھے، چنانچہ مسلمان اطبا نے نویں اور دسویں صدی میں امراض چشم کے علاج کے لیے کافی و شافی علاج نکالے.آنکھ کی سرجری اور موتیا بند کے آپریشن قاہرہ ، بغداد اور دمشق میں عام تھے.موتیا بند کا پہلا آپریشن شاید مصر میں 1256ء میں کیا گیا تھا.مسلمان اطبا نے 800 ء سے 1300ء کے عرصے میں ساٹھ آئی سرجن (eye surgeons) اور ماہرین چشم (specialists) پیدا کیے جبکہ یورپ میں کسی ایک کا بھی حوالہ نہیں ملتا.ڈھائی سو سال کے عرصے میں مسلمان ماہرین نے امراض چشم پر اٹھارہ کتابیں لکھیں جبکہ قدیم یونانی حکماء نے ایک ہزار سال میں اس موضوع پر پانچ کتابیں لکھی تھیں.اسی طرح مسلمان حکماء نے اس موضوع پر کل تمیں کتابیں لکھیں جن میں چودہ ابھی تک خوش قسمتی سے دستیاب ہیں.اس میدان میں جن نامور اطبا نے موشگافیاں کیں ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں.علی ابن عباس اہوازی چنین ابن اسحق، علی بن عیسی ، زکریا رازی ، ابن سینا، ابن رشد - ان ماہرین امراض عین کی طوطی پانچ سو سال تک بولتی رہی.امراض العین میں جو اہم اور چونکا دینے

Page 64

115 114 والی دریافتیں مسلمانوں نے کیں ان کی مختصر تفصیل پیش کی جاتی ہے.آنکھوں کے امراض پر سب سے پہلے علی ابنِ عباس اہوازی نے کامل الصناعۃ میں پرس تفصیلات پیش کیں.اس نیٹر ائی جیم (Pterygium) کے آپریشن کا بھی ذکر کیا ہے.آنکھ کا سب سے پہلا ڈائیگرام حنین این الحق نے (877ء) اپنی کتاب العشر مقالات فی العین میں پیش کیا.حسنین نے اپنے مقالے میں چیزوں کو دیکھنے کی جو تھیوری پیش کی اس کے مطابق اشیا کے دیکھنے میں آنکھ کا عدسہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے.دیکھنے کی قوت تو دماغ سے آتی ہے ( مراد آپٹک نرو (optic nerve) ہے مگر اشیا سے ٹکرا کر آنے والی کر نیں آنکھ کے لینز (lens) میں جذب ہو جاتی ہیں.علی بن عیسی (Jesu Hali 1931 ء ) طبیب حاذق اور ماہر امراض چشم تھا.اس نے آنکھ کے امراض پر زبر دست تحقیقات کیں اور اپنے مشاہدات و تجربات ضخیم اور معیاری کتاب تذکرۃ الکحالین میں جمع کئے.اس کتاب کے تین حصے ہیں.اس تصنیف میں آنکھ کی 130 بیماریوں کا بیان ہے نیز ان 143 مفرد دواؤں اور جڑی بوٹیوں کے نام مع ان کے خواص بیان کیے گئے ہیں جو آنکھوں کے لیے مفید ہیں.اس کا لاطینی ترجمہ 1499ء میں شائع ہوا، 1903ء میں اس کو فرانسیسی اور 1904ء میں جرمن زبان کے قالب میں ڈھالا گیا.محمد بن زکریا رازی پہلا آپٹومیٹرسٹ (optometrist) تھا جس نے بصارت فکر اور تحقیقی انجاک کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ آنکھ کی پتلی روشنی ملنے پر رد عمل کرتی ہے.اس نے اپنے مقالے میں لکھا کہ آنکھ سے شعائیں خارج نہیں ہوتیں جیسا کہ یونانی حکماء خیال کرتے تھے.امراض چشم پر اس کی مبسوط کتاب کا ترجمہ جرمن زبان میں 1900 ء میں منظر عام پر آیا تھا.اس نے امراض العین پر اپنی شاہ کار (masterpiece) کتاب الحاوی کے علاوہ تین رسالے قلم بند کیے جن میں وہ عرش کے تارے توڑ لایا: کیفیت الابصار، کتاب فی بیتہ العین اور مقالہ فی علاج العین بالحدید.کتاب الحاوی میں رازی نے گلا کو ما(Glaucoma) کی تفصیل بھی بیان کی ہے.اس نے یہ انقلاب آفریں نکتہ بھی بیان کیا کہ آنکھیں بذات خود روشنی کا منبع نہیں ہیں یعنی روشنی آنکھوں سے خارج ہو کر کسی شئے پر نہیں گرتی جس سے وہ ہمیں نظر آنے لگتی ہے، یہ نظریہ یونانی حکماء کے نظریات کے بالکل برعکس تھا.یہ اکتشاف اس کی غیر تقلیدی اور آزاد سوچ کی بھی عمدہ دلیل ہے.عالی وقار ابن سینا نے آنکھ کے اندر موجود تمام رگوں اور پٹھوں کو تفصیل سے بیان کیا.این رشد نے بھی اس موضوع پر متعد در سالے تحریر کیے اور تحقیق کے بعد یہ بات کہی کہ آنکھ کا عدسہ نہ کہ لینز آنکھ کے اندر فوٹوری سیپٹر (photo receptor) کا کام کرتا ہے.ابن الہیشم نے آنکھ کی تشریح کے کئی ڈائیگرام بنائے اور آنکھ کے مختلف حصوں کی تکنیکی اصطلاحات (technical terminology) بھی ایجاد کیں جیسے ریٹینا ( Retina)، کیا ریکٹ (Cataract) اور کور نیا (Cornea) ابھی تک مستعمل ہیں.یوروپین زبانوں میں اصطلاحات اس کے بنائے ہوئے ڈائیگرام سے لی گئی ہیں یا ان کا معنوی ترجمہ کیا گیا ہے.مثلاً : ثقب العنبيه (Pupil)، القرنیہ (Cornea) ، البیضیہ (Albugineous humor) یه (Crystalline humor) الزجاجیه (Virtuous humour)، الاعصاب البصری (Optic nerve) الجليد ابن الہیشم نے بیان کیا کہ روشنی (باہر سے) آنکھ کے حساس پر دے یعنی ریٹینا پر جس میں بصارت کی حس ہوتی ہے، اسی طرح گرتی ہے جس طرح تاریک کمرے (dark room) میں روشنی کسی سطح پر دیوار کے سوراخ میں سے گرتی ہے.اس طرح پردہ بصارت پر جو امیج (image) بنتی ہے وہ آپٹک نرد کے ذریعے دماغ تک پہنچتی ہے.ایک مغربی مصنف جے.جے.والش (J.J.Waish) نے اپنی کتاب دی پریکٹس آف میڈیسن (1767-The Practice of Medicine) میں لکھا ہے کہ رات کے وقت کے اندھے پن کی شناخت سب سے پہلے یورپ کے ماہر طب ہا بر ڈین (Haberden) نے کی

Page 65

117 116 تھی حالانکہ اس کا ذکر حسین ابن الحق نے مقالہ العشر میں اور علی ابن عیسی نے تذکرۃ الکحالین میں صدیوں قبل کیا تھا.پھر علامہ برہان الدین نفیس نے شرح الاسباب میں لکھا ہے کہ وہ شخص جو چھوٹے الفاظ کمزور نظر کی وجہ سے نہ پڑھ سکتا ہو تو وہ عینک کے استعمال سے ٹھیک طور پر پڑھ سکتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر میں اس وقت عینکوں کا عام رواج تھا.ابوالمنصور نے غنی ومنی میں کمزور نظر کی وجوہات بیان کی ہیں.ایسے شخص کو قبض کی شکایت رہتی ہے، وہ چمکدار چیز کی طرف دیکھتا رہا ہو، یا وہ چھوٹے حروف والی کتاب پڑھتا رہا ہو یا وہ شکر زیادہ کھا تا رہا ہو.آخری نکته بالکل درست ہے کیونکہ زمانہ حال میں اس کو ڈائبیٹک ریٹینو پیتھی ( diabetic retinopathy) کہا جاتا ہے.مشاہدے میں آیا ہے کہ ذیا بیطس کے مریضوں کی بینائی اکثر کمزور یا رفتہ رفتہ بالکل ختم ہو جاتی ہے.ابو منصور نے لکھا ہے کہ الکندی نے نہ صرف گلا کو ما کو بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے بلکہ اس کا علاج بھی خود کیا ہے.محمد ابن منصور زریں دست، سلجوق سلطان ابوافتح ملک شاہ (1093ء) کے دور حکومت کا ماہر امراض چشم تھا.اس نے آنکھوں کے علاج پر زبر دست کتاب نور العین لکھی.هرش برگ (Hirschberg) نے اس کا جرمن میں ترجمہ کیا جو لیپزگ سے 1905 1905ء میں شائع ہوا.ایک اور ماہر امراض چشم سمیع الدین نے گلا کو ما کو آنکھ کا سر درد بیان کیا تھا.شام کے خلیفہ ابن ابی المحاسن نے 1258ء میں اپنی کتاب الکافی فی الکحل میں گلا گوما کے بہت سارے آپریشن (operation) بیان کیے تھے.ابن الہیشم نے بھی اس موضوع پر بہت تحقیقات کیں.اس نے جیومیٹری (geometry) اور علم بصریات کے قوانین کو ملا کر بہت سارے بصری مسائل (optical problems) کے حل پیش کیے اور عملاً ثابت کیا کہ جب کسی شے پر روشنی پڑتی ہے تو اس سے نکلنے والی شعاعیں ہماری آنکھ تک آتی ہیں اور ہم اس چیز کو دیکھ لیتے ہیں.شیشے کی عینک کو لوگ جدید دریافت خیال کرتے ہیں لیکن شیشے کے عدسوں کا استعمال ابن الہیشم نے شروع کیا تھا.نصیر الدین الطوسی نے علم بصارت پر دو مخنیم رسالے لکھے (1) المباحث فی انعکاس الاشاعت و الانعطاف (2) تحریر المناظر ابنِ ابراہیم شادیلی کی تصنیف کتاب العمده مصر میں نصابی کتاب تھی جس کا مطالعہ ہر طبیب کے لیے از بس لازمی تھا.اس نے بیان کیا کہ انسانی دماغ اور آنکھ کا آپس میں گہرا تعلق ہے، نیز یہ کہ ہر انسانی نسل میں آنکھ کا رنگ مختلف ہوتا ہے.کتاب میں اس نے ٹرے کو ما(trachoma) کے چار مر حلے بھی بیان کیے.قطب الدین شیرازی نے علم بصریات (Optics) میں قوس وقزح کے بننے کی سائنسی وجہ بیان کی.اس کے عبقری شاگرد کمال الدین الفارسی نے تنقیح المناظر لکھ کر ابن الہیشم کے بعض نظریات (theories) کی تصحیح کی.شیرازی نے جن موضوعات پر خامہ فرسائی کی وہ ہیں: ریٹینا، آپٹکس ششی ایزما chiasma)، آپٹک نرو.اس نے تھیوری آف ویژن (theory of vision) بھی پیش کی.اس نے ابن الہیشم کے کیمرہ آئس کیور پر مزید تحقیق اور تجربات کیے اور بتایا کہ کیمرے میں چھوٹے سوراخ سے روشنی کے آنے پر جو عکس بنتا ہے وہ سوراخ کے سائز پر منحصر ہوتا ہے.سوراخ جتنا چھوٹا ہو گا عکس اتنا ہی صاف و شفاف بنے گا.انہوں نے فضائی علم تناظر ، روشنی کے انعطاف اور رنگوں کے اثرات پر سیر حاصل بحث کی.امراض چشم پر مسلمان اطبا کے نتیجہ فکر سے صفحہ قرطاس پر جو سکہ بند کتا ہیں منتقل ہوئیں ان کی تفصیل ہمارے دور کے طبیب حاذق حکیم محمد سعید کی کتاب فارمیسی اینڈ میڈیسن تھرودی مڈل اجز (Pharmacy & Medicine Through the Middle Ages) میں صفحات 103-112 پر اس طرح درج ہے: تذكرة الحالين علی ابن عیسی كتاب التصريف ابوالقاسم الزہراوی ( باب امراض العين ) اعشر مقالات فی العین حنین ابن الحق شرح الاسباب برہان الدین ابن نفیس کامل الصناعة على ابن عباس المجوسی نور العيون الغافقی

Page 66

119 118 کتاب الحادی - کیفیتة محمد بن زکریا رازی کتاب نتیجه الفکر فی علاج احمد القیسی الابصار کتاب فی بیتہ العین محمد بن زکریا رازی امراض البصر تنقيح المناظر کمال الدین الفارسی غنی و منی الحسن القمرى كتاب العمدة المحلية في صداقه ابن ابراہیم صداقة الامراض البصرية الشاديلي نور العین زرین دست تدقيق النظار ابن الوافد اندلسی القانون في الطب ابو علی ابن سینا تشریح الابدان (Anatomy) کے موضوع پر القانون فی الطب کی مختلف جلدوں میں اظہار خیال کیا گیا ہے.ان تمام حصوں کو ایک عالم نے اکٹھا کر کے شائع کیا ہے اور اس کے حاشیے میں ابن النفیس کی شرح بھی درج کی ہے.عبد الطیف بغدادی نے مصر میں قحط کے دوران مردہ انسانوں کے جبڑے دیکھے اور ان میں ہڈیوں کی صحیح تعداد معلوم کر کے جالینوس کی تحقیق کو غلط ثابت کیا.چودہویں صدی میں منصور ابن الیاس شیرازی نے فارسی میں کتاب تشریح بدن انسان لکھی.یہ کتاب تیمور لنگ کے پوتے کے نام سے معنون تھی جو فارس کے صوبہ کا پندرہ سال (1409-1394ء) تک حکمراں رہا تھا.یہ کتاب جسم کے پانچ نظام یعنی پانچ ابواب ( ہڈیاں، اعصاب، پٹھے، رگیں وشر یا نہیں اور دل و دماغ) میں تقسیم ہے.اس کتاب میں بہت سارے ڈائیگرام دیے گئے ہیں جو امریکہ کی نیشنل لائبریری آف میڈلین (National Library of Medicine) کی ویب سائٹ : (http:/www.nlm.nih.gov/exhibition/islamic_medical/islamic-10.htm/ پر دیکھے جا سکتے ہیں.10 علم المناظر علم المناظر (Optics) روشنی کے علم (Science of Light) اور اس کے مطالعے کا نام ہے.اس کے ذکر میں یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ رازی پہلا طبیب تھا جس نے یہ اکتشاف کیا کہ آنکھ کی پیلی روشنی ملنے پر رد عمل کرتی ہے.ابن سینا نے آنکھ کے چھے خارجی عضلات (extrinsic muscles) بیان کیے.موتیا بند کے آپریشن کے لیے عمار بن علی الموصلی نے ایک خاص سوئی بنائی تھی.بصریات میں الکندی کی اہم ترین تصنیف رسالۃ فی اختلاف المناظر ہے.جیرارڈ نے اس کا لاطینی ترجمہ ڈٹی اسپیکٹیپس (De Aspectibus) کے نام سے کیا تھا.یہ کتاب قرون وسطی میں ابن الہیشم کی تصنیف کے بعد سب سے زیادہ پڑھی جاتی تھی بلکہ یورپ میں ہونے والی کئی دریافتیں اس کتاب کی مرہونِ منت تھیں : "The book on opitcs by Alkindi, provided Europe a basis on which to build future discoveries in the West." [32] علم المناظر میں اس نے چند اہم مسائل پر بحث کی جیسے خط مستقیم میں نور کا گزر، نظر کا بلا واسطہ عمل ، نظر کا آئینے کے ذریعے عمل ، نظر پر زاویه دید کا اثر ، دید کے مغالطے، الکندی کی اس با کمال کتاب سے راجر بیکن اور پولش طبیعیات داں وٹلو (Witelo) نے بہت کچھ سیکھا.الکندی نے علم فلکیات کو بھی اپنا موضوع فکر بنایا اور چودہ تصانیف آنے والی نسلوں کے لئے چھوڑیں جو اب تک اپنی جلا سے اذہان کو روشن کر رہی ہیں.

Page 67

121 120 ابن الہیثم کو بصریات کے مضمون پر بڑی دسترس حاصل تھی جس کی بنا پر اس کو عالمگیر عظمت اور شہرت حاصل ہوئی.یورپ میں بھی وہ ماہر بصریات کے طور پر بہت مقبول رہا ہے.اس کی شہرہ آفاق تصنیف کتاب المناظر جو سات جلدوں پر مشتمل ہے، بصریات کی ایک اہم کتاب ہے.اس شہرہ آفاق کتاب میں اس نے بصریات کے موضوع پر ایسے ایسے زلزله خیز اکتشافات کیسے کہ اس کو علم مناظر کا جد امجد تسلیم کیا جاتا ہے.( یہ کتاب AMAZON.COM سے خریدی جا سکتی ہے).انگریزی میں اس کا ترجمہ عبد الحمید صا برا نے دی آپٹکس آف الہیشم (The Optics of Alhazen) کے نام سے دو جلدوں میں کیا جسے لندن یونیورسٹی نے 1989ء میں شائع کیا.دونوں جلد میں کوئیز یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود ہیں.کتاب اول میں اس نے نظر یہ نور و بصارت کو بیان کیا ہے.کتاب دوئم میں اس نے تعقل (Cognition) کا نظریہ پیش کیا ہے جس کی بنیاد بصری حواس پر ہوتی ہے.کتاب سوئم میں دو چشمی بصارت پر بحث کی گئی ہے، اس میں بصارت اور پہچان کی غلطیوں کی بھی تو جیہہ پیش کی گئی ہے.کتاب چہارم کا موضوع انعکاس ہے.اس حصے میں وہ بتاتا ہے کہ اگر شعارع منعکس جو کسی بھی قسم کے آئینے سے پیدا ہو کر آنکھ تک پہنچتی ہے تو اس کی شعاع واقع کیسے دریافت کی جائے گی ؟ کتاب پنجم میں انعکاس پر مزید تحقیق کی گئی ہے.اس باب میں اس نے آنکھ کی ساخت بھی بیان کی ہے.انعکاس کے سبب پیدا ہونے والی بصری غلطیوں پر بحث باب ششم میں کی گئی ہے.کتاب ہفتم نظریہ انعطاف سے متعلق ہے.تمام مسائل پر بحث کرتے وقت آنکھ کی پوزیشن کا خاص خیال رکھا گیا ہے.کتاب المناظر علم بصارت پر دنیا کی سب سے پہلی اور جامع کتاب تھی.یہ دنیا کی سب سے پہلی معیاری نصابی کتاب تھی جس کا ترجمہ لاطینی میں Thesaurus Opticus کے عنوان سے کیا گیا اور جسے بازل (سوٹزر لینڈ) سے 1572ء میں رز نر (Risner) نے شائع کیا.اس کتاب نے چھ سو سال تک تمام سائنس دانوں جیسے قطب الدین شیرازی، پیکا الله اعراف والعديد من المسيرة ابن الہیثم کی کتاب المناظر میں دی ہوئی ڈائیگرام جس میں اعصاب بصری کی وضاحت کی گئی ہے راجر بیکن ، جون پیکھم ) جونم (John Peckham) ، لیوی بن جرمن ( Levi Ben Gerson) وٹلو (Witelo)، اسٹل (Snell) کو ورطہ حیرت میں ڈالے رکھا اور وہ اسے بطور مآخذ استعمال کرتے رہے.اس کتاب کو کیپلر (Kepler) نے بھی اپنی تحقیق میں استعمال کیا تھا [33].کیپلر کی کتاب آپ پٹکس (Optiks) کے شائع ہونے تک یورپ میں یہ مقبول عام کتاب تھی.آپٹکس پر نیوٹن کے نظریات میں بھی اس کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے.راجر بیکن عربی زبان سے شناسا تھا چنانچہ اس نے عربوں سے جو کچھ سیکھا اس کا اعتراف ان الفاظ میں کیا : "we have it all from them (unbelievers)." را جر بیکن کی مبسوط کتاب اوپس مے جس (Opus Majus) کا پانچواں باب اس کی اپنی سوچ کی پیداوار نہیں بلکہ یہ ابن الہیشم کی کتاب المناظر کی صریح نقل اور شرح ہے [34].بیکن کی یہ کتاب کوئیز یونیورسٹی کی اسافر لائبریری میں موجود ہے.راقم نے اس کا مطالعہ کیا ہے.پانچویں حصے کا عنوان آپٹیکل ہے.اس میں راجر بیکن علم بصریات پر الہیثم کے علاوہ ابن سینا اور

Page 68

123 122 ابن رشد کے نظریات کا ذکر بھی بار بار کرتا ہے.یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کہ کتاب المناظر کے بغیر شاید راجر بیکن کے نام سے آج تاریخ کے اوراق بالکل خالی ہوتے.کتاب المناظر پر نظر ثانی و صحیح کمال الدین الفارسی (1320ء) نے کی اور کتاب تنقیح المناظر ترتیب دی.دائرۃ المعارف عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد نے تنقیح المناظر 30-1928ء میں شائع کی تھی.علم المناظر پر کمال الدین کی اپنی کتاب البصائر فی علم المناظر بھی ہے.ابن الہیشم نے آنکھ کا ایک ڈائیگرام بنایا تھا جو اس کتاب میں شامل کیا جا رہا ہے.اس میں اس نے آپٹک نرو بھی دکھائی ہے.اس نے اپنا نظریہ بصارت ان الفاظ میں پیش کیا ہے: اس کی ایک اور کتاب ضوء القمر بھی بصریات سے متعلق ہے.اس کتاب میں اس نے مختلف تجربات کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ چاند سے روشنی کا انتشار اسی نوع کا ہے جس نوع کا انتشار خود منور اجسام سے ہوتا ہے.مقالہ فی صورۃ الکسوف میں کیمرہ مظلمہ جیسے اہم موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے.بصریات کے موضوع پر ابن الہیشم کی دیگر کتب درج ذیل ہیں: مقالہ فی الرایا المحرقہ بالدوائر، مقاله في المرايا الحرقة القطوع، مقالہ فی اضواء الکواکب.مقالہ فی بیت العالم اس کا ترجمہ لانگر مین (Langermann) نے کیا جو نیو یارک سے 1970ء میں شائع ہوا تھا.علم المناظر پر کمال الدین فارسی کی کتاب میں دی گئی ڈائیگرام جس میں کیمرہ مظلمہ کی وضاحت کی گئی ہے "Vision is a product of an agent wholly external to the seeing eye." D irculi confolids.amferentiam:Et concauitatis ner fuperficie con- milis, Et desli ai fuper fuperfi- io cofimilit:quo ruo eft fitus con non mutatur in- cauitatis meraik folidationis ufq qui eft pars pyra pud totú oculi, niu.Etiam decla quetrifit per c alu cófoltdatióis, dio concauitatis nó muterar apud pperficies concs.rcúferentis circu declinatióis.mu idationis:ifts of ad cócauituti ner declinationis.L A tunicara, randis keltereita fuper s, & extéditur in midalis, quoalg aperui: & erit fi Granitatis neral omnib.partib.o nicarb uifus,idé Tunica Tunica Tunica 17 \Corned humpy OR والله اروي humor views Mustuli oculum mouentes Tenuis cerebri membrana porojo NERVVS OPTICYS.Temas certori membrunn, JENŠČIO | Dunir cerebri membrana, j ابن الہیشم کی کتاب المناظر کے لاطینی ترجمے کا ایک صفحہ

Page 69

125 i 124 11 علم کیمیا یہ بات مسلمہ ہے کہ مسلمان علم کیمیا (Chemistry) کے موجد تھے.کیمیا کا لفظ ہی اس بات کی شہادت کے لئے کافی ہے.علم کیمیا میں بہت سی اصطلاحات عربی سے ماخوذ ہیں.جیسے زنک آکسائیڈ (tutia) ، زرکون ، الکسیر ، الکحل، انٹی مونی، الکلی ، سوڈا وغیرہ.عربی کے بعض اصطلاحی الفاظ اس قدر مشکل تھے کہ ان کا ترجمہ ناممکن تھا اس لئے ان کو انگریزی میں معمولی تبدیلی کے ساتھ نقل کر دیا گیا.جیسے انبیق (alembic)، الکلی ( alkali) کافور ( camphor)، براق (borax)، اکسیر (elixir)، زعفران (saffron)، جمرة ( Jar)، یاسمین ( Jasmine)، قند ( candy)، قهوه ) coffee)، گلاب (Julep) طوفان (typhoon)، تمر ہندی (tamarind)، شراب (syrup)، شربت ( sherbet) ، ، حنا(henna)، شکر(sugar)، اسفناخ (spinach) اور سم سم (sesame).مسلمانوں نے اشیا کا نقل (density) معلوم کرنے کا طریقہ نکالا.انہوں نے علم تصعید اور قلمیں بنانے کے طریقے نکالے.خوشبودار پودوں سے عطر نکالا.گن پاؤڈر ( بارود ) ایجاد کیا.بارہویں صدی تک یورپ میں علم کیمیا پر ایک کتاب بھی موجود نہ تھی.کیمیا پر جابر اور رازی کی عربی کتب کے تراجم کے بعد اہل یورپ اس علم سے متعارف ہوئے.اسلامی دور حکومت میں تاجر اور سائنس داں اشیا کا وزن معلوم کرنے کے لئے دو اکائیوں کا استعمال کرتے تھے یعنی درہم اور اوقیہ.جب مسلمانوں کے علمی خزانے عربی کتابوں کے تراجم کے ساتھ یورپ منتقل ہوئے تو وزن کی یا کائیاں بھی وہاں پہنچیں اور دانشوران یورپ نے ان کو اپنا یا.اوقیہ آؤنس (ounce) بن گیا اور درہم گرام (gram).ہسپتالوں اور فارمیسی میں آؤنس اور گرام کا استعمال دوائیوں کو تولنے کے لئے ابھی تک مستعمل ہے، اس طرح وہ امت مسلمہ کے سنہری دور کی یاد دلاتا ہے.نمینم کی برهم سلوا هذه كركه بغير ما بل بحوث حزل تفرك بغيره ولاسيا فافهم ذلك ان شاء الله والله ا ده صورة المكركة بغير ما و دست بل يوعدور الجزل والوق بعد حشو المراع بالورد أ ولمسات التور و برهو النور وز مر اننا رخ او التعبوا والهنديا أو بورق الفريسة المزروع بدمشق و هذه هو ما فافهم ذلك ارسنا الله تعالي و بدا بين وهو حسبنا ونعم الوكيل و هوا هممون ارجا انونا موعد الجم مقلوبة يصعد فيه اللهب والدخان بالدخية ومطور عليه بسور مني منله كهذه الداير بين التي في ديل سده الور چودہویں صدی عیسوی میں الدمشقی کی کتاب نخبت الدہر کے ایک مخطوطے میں درج عرق گلاب کشید کرنے کے لیے استعمال کیا جانے والا بھاپ کا تنور مسلمانوں میں علم کیمیا کا آغاز خالد بن یزید نے کیا جو دوسرے اموی خلیفہ یزید کا بیٹا کے تھا.چونکہ اس کو خلافت سے محروم کر دیا گیا تھا اس لئے اس نے فن کیمیا میں دل لگایا تا کہ کاروبار خلافت سے بے نیاز رہے.اس مقصد کے لئے اس نے ان یونانی حکماء سے جو اسکندریہ میں

Page 70

127 126 رہتے تھے اور عربی زبان بولتے تھے یونانی یا قبطی زبان سے کتابیں عربی میں ترجمہ کروائیں.ان حکماء میں سے اسکندریہ کے اسٹیفن (Stephen of Alaxandria) نے کیمیا کی متعدد کتابوں کے ترجمے کیے.جابر ابن حیان (817ء) کو علم کیمیا کا جد امجد تسلیم کیا جاتا ہے.وہ علم کیمیا کا محقق اور بے شمار کیمیائی مرکبات کا موجد تھا.اس نے علم کیمیا پر تین سو کے قریب شاہکار کتابیں اور پُر از معلومات رسالے سپرد قلم کیے جن کی فہرست ابن ندیم نے اپنی شہرہ آفاق کتاب الفہر ست میں دی ہے.اس کی ترجمہ شدہ کتابوں میں کتاب الملک (Book of Kingdom) اور کتاب الریاض (Book of Balance) انگریزی میں دستیاب ہیں.بقول پروفیسر ہتی ، جابر ابن حیان کی کتب نے یورپ اور ایشیا کے علم کیمیا پر گہرا اثر چھوڑا.اس کی کتاب الکیمیا کالا طینی ترجمہ را برٹ آف چیسٹر نے 1144ء میں کیا.جبکہ کتاب السبعین کا ترجمہ جیرارڈ آف کر یہونا نے 1187ء میں کیا.(یادر ہے کہ رابرٹ آف چیسٹر نے سب سے پہلے 1145ء میں قرآن پاک کا ترجمہ لاطینی میں کیا تھا ).جابر حضرت امام جعفر صادق " 765-700 ء کا شاگرد عزیز تھا.طوس میں اس نے جان جان آفریں کے سپرد کی.بوقت رحلت اس کے تکیے کے نیچے کتاب کا مسودہ تھا.تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ جابر ابن حیان کی تجربہ گاہ شہر کوفہ میں دریائے دجلہ کے کنارے پر تھی جس کے آثار قدیمہ اس کی وفات کے دو سو سال بعد کوفہ کے باب دمشق کے پاس مکانوں کو منہدم کرتے ہوئے دریافت ہوئے تھے.جابر نے کیمیائی تجربات میں کمال پیدا کر کے اس کے اصول اور قواعد مرتب کیے جو ہزار سال گزرنے کے باوجود آج تک مستعمل ہیں.اس کے کچھ کار ہائے نمایاں درج ذیل ہیں: (۱) عمل تصعید سے دواؤں کا جو ہر اڑانا (sublimation).اس طریقے کو جابر نے سب سے پہلے اختیار کیا (2) اس نے قلمیں بنانے (crystallisation ) کا طریقہ دریافت کیا (3) کشید (Distillation) کا طریقہ اس نے ایجاد کیا (4) اس نے تین قسم کے نمکیات معلوم کیے.(5) اس نے دھات کو جسم کر کے کشتہ بنانے (oxidisation) کا طریقہ دریافت کیا (6) اس نے کئی قسم کے تیزاب بنائے جیسے نائٹرک ایسڈ (nitric acid ) ، ہائیڈروکلورک haniu F A رت ساله تیرہویں صدی عیسوی میں لکڑی کے چولہے پر گرم ہوتے ہوئے aludel میں گیسوں کی گردش دکھائی گئی ہے ایسڈ (hydrochloric acid)، سلور نائیٹریٹ (silver nitrate)، امونیم کلورائیڈ (ammonium chloride).ان کے بنانے کے طریقے اس کی کتاب صندوق الحکمۃ میں دیے گئے ہیں.(7) چمڑے اور کپڑے کو رنگنے کا طریقہ دریافت کیا (8) محقق جابر نے بالوں کو سیاہ کرنے کے لیے خضاب تیار کیا (9) جابر کی سب سے اہم ایجاد قرع انبیق ہے جو عرق کھینچنے کا آلہ ہے.اس کے ذریعے عرق کشید کرنے سے جڑی بوٹیوں کے لطیف اجزا حاصل ہوتے ہیں.(10) اس نے کپڑے اور لکڑی کو واٹر پروف کرنے کے لیے وارنش ایجاد کی.(11) اس نے گلاس بنانے میں مینگنیز ڈائی آکسائیڈ (mangnese dioxide) تجویز کیا.(12 ) اس نے بتایا کہ لوہے کو صاف کر کے فولاد بنا یا جا سکتا ہے.وہ دھات صاف کر نے کے کام یعنی

Page 71

129 128 میٹالرجی (metallurgy) سے واقف تھا.اس نے لوہے کو زنگ سے بچانے کا طریقہ نکالا.(13) دھاتوں کے بارے میں بتایا کہ سب دھاتیں گندھک اور پارے سے بنتی ہیں.دھات کا کشتہ بنانے پر اس کا وزن قدرے بڑھ جاتا ہے.(14) اس نے موم جامہ بنایا تا کہ اشیا کو رطوبت سے خراب ہونے سے بچایا جا سکے.(15) اس نے گریس (grease) بنانے کا فارمولا قواریر ( phials)، با رانی ) Jars ) تنور ( (oven) عطون ( Potter's kils) نسب (pestle) ، کره (round mould) ، راوک (filter) ، سله (basket)، قندیل (candle) قفس (cage) ، خیش (filter linen)..الکحل کا موجد بھی رازی ہے.اس نے الکحل کے علاوہ سلفیورک ایسڈ (روح الذج) ایجاد کیا (16) اس نے بہت ساری عملی کیمیائی ترکیبیں (practical chemical process ) ایجاد کیا.ہائیڈ روسلفیورک ایسڈ (روح اصلح ) بنانے کی ترکیب بھی تجویز کی سرجری کے لیے اس دریافت کیں.اس طرح اس نے اطلاقی سائنس کی بنیاد رکھی.(17) سونے کو پگھلانے کے لئے اس نے ایکوا ریجیا ( aqua regia ) دریافت کیا.(18) زریں حروف میں کتابت کا طریقہ بھی اسی نے شروع کیا.ابو بکر محمد بن زکریا رازی قرون وسطی کا سب سے بڑا کیمیا داں تھا.رازی کی کیمیا میں عدیم المثال کتاب سر الاسرار ہے جس کا لاطینی ترجمہ لیبر سیکٹر میٹورم با کارس ( Liber Secretorum Bubacaris) کے عنوان کے تحت کیا گیا اس کتاب میں اس نے distillation, calcination & crystallisation جیسے دقیق موضوعات پر مبسوط بحث کی ہے.اس نے ستائیس آلات کا بھی ذکر کیا ہے جو اس نے اپنی تجربہ گاہ میں استعمال کیسے تھے جیسے کھرل (mortar)، نسب (pestels)، چمٹا ( tongs)، مقطی (shears)، بیکر ( beakers)، آلۂ کشید (alembics) وغیرہ.تجربہ گاہ میں اس نے جن کیمیائی آلات کا ہونا ضروری قرار دیا ان کی تفصیل سر الاسرار میں یوں دی گئی ہے : [35] (1) ایسے آلات جو پگھلانے اور عمل حرارت کے لئے ہوں.منفاخ (bellows)، مغرافہ (ladel)، بوطقا (crucible)، چمٹا (tongs ) مقطی (shears) مکسر (hammer)، مباکہ (iron mould).(2) کیمیائی اشیا کو پروسیس کرنے کے لئے آلات ( یعنی تدبیر ).انبیق (retort)، عثال (audel) ، عقده (beakers) ، کیزان ( glass cups) ، کنانی ( bottles/flasks)، نے ایک کارآمد نشتر ( seton) بنایا.اس نے دواؤں کے صحیح وزن کے لیے میزان طبعی (hydrostatic balance) ایجاد کیا جس میں چھوٹی چھوٹی اشیا کا صحیح وزن کیا جا سکتا ہے.یہ تر از وسائنس لیب میں استعمال ہوتا ہے.اس نے مادے پر غور کر کے جمادات، نباتات اور حیوانات کے لحاظ سے اس کی تقسیم کی.جاندار اشیا کو نامیاتی (organic) اور غیر نامیاتی (inorganic) میں تقسیم کیا اور ان کی درجہ بندی کی.اس نے زیتون کے تیل سے گلیسرین تیار کی.اس نے کہا کہ تمام اشیا خلیوں سے بنتی ہیں جن کا مدار کیمیائی رد عمل پر ہوتا ہے.وہ پہلا کیمیا داں تھا جس نے بیان کیا کہ سلفر (sulphur ) ، سالٹ (salt) اور مرکزی (mercury) کے تین خواص ہر قسم کی اشیا میں پائے جاتے ہیں ( بحوالہ سرالاسرار ).یہی دریافت یورپ میں پاراسیلیس (Paracelus) نے صدیوں بعد کی تھی.[36] مادے کے بارے میں رازی کا نظریہ (theory of matter) درج ذیل تھا: "Bodies are composed of indivisible elements and of empty space between them.These (atoms) were eternal and possessed a certain size." اجسام چھوٹے چھوٹے عناصر سے بنے ہوتے ہیں جن کے درمیان میں جگہ ہوتی ہے.یہ ایٹم غیر فانی ہوتے ہیں اور ان کا سائز یقینی ہوتا ہے.اس نے درج ذیل کیمیائی عمل کو بیان کیا:

Page 72

130 distillation, calcination, solution, evaporisation, sublimation, crystallization, filtration, amalgamation, and ceration.سر الاسرار میں اس نے (1) چھ قسم کی معدنیات کی شناخت بتائی.(2) چار قسم کی اسپرٹ (spirit)، پارہ ( mercury)، امونیا (ammonia)، گندھک (sulphur) اور ریا لنگر (Realgar) یعنی ریڈ سلفائیٹ آف آرسینک (red sulphite of arsenic) (3) سات قسم کی دھاتیں (4) چھ قسم کے بوریکس (borics) بشمول بو ریکس اور نظرون Natron) (5) گیارہ قسم کے نمکیات ، راک سالٹ rock salt)، چونا (lime)، پوٹاش (potash)، مائیکر و کامک (microcosmic) سالٹ ، الکلی (alkali)(6) پوٹاشیم کا کیمیکل سمبل K اسی سے ماخوذ ہے.(7) تیرہ قسم کے پتھر مثلاً malachite (copper oxide), haematite (ferric oxide), gypsum (calcium sulphate) & alum (8) چھ قسم کے سلفیٹ بیان کئے.نظرون سوڈیم کاربونیٹ اپنی اصلی حالت میں مصر کے مغربی صحرا میں پایا جاتا ہے.نظرون کے لفظ سے انگریزی کا لفظ (Natron) اخذ ہوا ہے.سوڈیم کے لئے اس کا سمبل Na ہے.رازی نے کاسٹک سوڈا ( سوڈیم ہائیڈ رو آکسائیڈ ) بنانے کی ترکیب بھی دی ہے.سر الاسرار کا ترجمہ جرمن میں رسکا (Ruska) نے کیا.ایک یورپین دانشور اسٹیپل ٹن (Stapleton) نے رازی کو گیلی لیو ( Galileo) اور بائل (Boyle) سے اول درجہ کا سائنس داں قرار دیا ہے.اس نے 184 کتابیں تصنیف کیں جن میں سے ہیں کے قریب فارسی میں علم کیمیا پر تھیں : کتاب مدخل تعلیمی، اثبات صنعت، کتاب سنگ ، کتاب تدبیر، کتاب اکسیر، کتاب شرف صنعت، کتاب ترتیب، کتاب تدابیر، کتاب شواہد، کتاب آزمائش زر وسیم، کتاب سر حکیماں، کتاب سر، کتاب سرسر - آرزوئے آرزو خواہ ، کتاب طبیب، کتاب الخواصان 131 میں کتاب سر الصناعةہ کا قلمی نسخہ اسکور یال اور لیپزگ میں موجود ہے.اس کی دوسری کتابوں میں کتاب طب النفوس اور طب الروحانی ہیں.یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہالینڈ میں رازی کی کتابیں سترہویں صدی تک یونیورسٹی کے نصاب میں شامل تھیں.محمد ابن عمیل تمیمی (960-900ء) نے کتاب الماء الورقی والارض الحجہ میںلکھی جس کا لاطینی میں ترجمہ بولا کیمیکا (Tabula Chemica) کے عنوان سے کیا گیا.کیمیا پر اس کی دوسری پر از معلومات تصنیف رسالته الشمس الی الہلال کا ترجمہ بھی لاطینی میں کیا گیا.اسلامی اسپین کا سب سے معروف کیمیا داں مسلمہ الحجر علی تھا جس نے اس موضوع پر دو کتا میں سپرد قلم کیں یعنی رتبات الحکیم اور غایة الحکم مؤخر الذکر کتاب کا ترجمہ بادشاہ الفانسو دہم کے حکم پر لاطینی میں پی کا ٹریکس (Picatrix) کے عنوان سے 1250ء میں اسپین کے ایک عالم نے کیا.یہ کتاب یورپ میں قرون وسطی میں کیمیا کے علم پر مستند آخذ بھی جاتی تھی اور کئی سو سال تک درسی نصاب میں شامل رہی.علم حیوانیات پر اس نے کتاب الحیوانات ترتیب دی.ابو منصور موفق اگر چہ ماہر ادویہ تھا مگر کیمیا میں بھی اس نے بعض باتیں بیان کیں جو حیران کن ہیں: 1.وہ پہلا شخص تھا جس نے سوڈیم کاربونیٹ اور پوٹاشیم کاربونیٹ میں فرق بتلایا کیونکہ ان میں فرق بہت ہی کم ہوتا ہے.2.اس نے سفید طوطیا (arsenious oxide ) کو خالص سفید پاؤڈر بتایا.اس نے ایک اور سفید پاؤڈر کا ذکر کیا جس کو سلی سک ایسڈ (silicic acid) کہتے ہیں جو بانس سے حاصل ہوتا ہے.3.اس نے پلاسٹر آف پیرس بنانے کا طریقہ بیان کیا.جسم (gypsum) کو گرم کرنے سے جو لیلشیئم آکسائیڈ (calcium oxide) بنے گا اس میں انڈے کی سفیدی ملانے سے پلاسٹر آف پیرس بنتا ہے جو ٹوٹی ہڈیوں کو جوڑنے میں کام آتا ہے.

Page 73

133 132 4.اس نے بتایا کہ تانبہ ہوا لگنے پر سبز رنگ کا ہو جاتا ہے مگر اسے حرارت دی جائے تو یہ سیاہ رنگ کا یعنی کا پر آکسائڈ ہو جاتا ہے، جس سے بالوں کو رنگا جا سکتا ہے.[37] वर्षों المستوقد موقع الوقر نوز تدى الما يعلم ما يجعل فيهان وهل الصورة.الکندی کے ایک مخطوطے میں بیان کیے گئے نویں صدی عیسوی میں عرق گلاب کشید کرنے کے دو برتن ڈاکٹر احمد حسن ذویل (امریکہ) بیسویں صدی کے مشہور و معروف کیمیاداں ہیں.ان کی پیدائش مصر میں ہوئی.اسکندریہ یونیورسٹی (مصر) سے ایم اے کرنے کے بعد بین سلوانیا یو نیورسٹی ( University Pennsylvania) سے انہوں نے 1974ء میں ڈاکٹریٹ کیا.ا نیشنل اکیڈمی آف سائنس، امریکن اکیڈمی آف سائنس، تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنس کے ممبر ہیں.ان کو دنیا بھر سے پچاس کے قریب انعامات مل چکے ہیں.مصر کی حکومت ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ان پر ڈاک ٹکٹ جاری کر چکی ہے.اس وقت وہ کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ ٹیکنالوجی (Caltech) میں کیمیکل فزکس کے پروفیسر ہیں.ان کو 1999ء میں کیمسٹری کا نوبل انعام دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے فیمٹو کیمسٹری (Femto Chemistry) میں دنیا کا تیز ترین کیمرہ ایجاد کیا ہے جو کیمیائی رد عمل کے دوران ایک مالیکیول (molecule) کے اندر ایٹمز (atoms) کو دیکھ سکتا ہے.ان کی خود نوشت سوانح عمری دو پیج تھر و ٹائم ( Voyage Through Time) دو سال قبل 2002ء میں شائع ہوئی تھی.نباتاتی علوم نباتات پر ابو حنیفہ دینوری (895-815ء) نے کتاب النباتات (Book of Plants) لکھی جس میں اس نے بہت سے نئے پودوں کا ذکر کیا.اس نے علم نباتات کو تین حصوں میں تقسیم کیا (1) غلہ کے لئے کاشت کیے جانے والے پودے(2) پھول دار نباتات (3) جنگلی پودے.اس نے 1120 پودوں کو متعارف کرایا.اس نے نباتات کی جنسی زندگی پر روشنی ڈالی.اس نے لکھا که نوع انسانی کی طرح نباتات بھی فرحت و اضطراب محسوس کرتے ہیں.اس نے طبی پودوں کی حفاظت کے لیے سائنسی بنیادیں فراہم کیں.اس نے نباتات کی غذائیت محفوظ کرنے کے طریقوں کا جائزہ لیا.واضح رہے کہ مسلمان ماہرین نباتات قلم کاری (grafting) کے ذریعے نئے پودے اگانا جانتے تھے مثلاً انہوں نے گلاب اور بادام کے پیروں سے نئے پھول تیار کیے تھے.عبد اللہ الا در سیسی نباتات کا مشہور عالم تھا.اس نے سریانی، فارسی ، ہندوستانی ناموں پر مشتمل نباتات کی ایک لغت تیار کی تھی.اس میں نباتات کے طبی خواص اور طریقہ استعمال پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی.عثمان عامر جاحظ (869ء) بہت بڑا ماہر حیوانیات (Zoologist) تھا.اس کی تصنیف کتاب الحیوان قاہرہ سے سات جلدوں میں 1963ء میں شائع ہوئی تھی.انگریزی میں اس کا

Page 74

135 الجاحظ "ALJAKIZ" 134 DATAR POSTAGI حکومت قطر کے ذریعے جاری کردہ جاحظ کا ڈاک ٹکٹ ترجمہ بک آف اینیملس (Book of Animals) کے نام سے ایل.کوف (L, Kopf) نے کیا ہے.اس نے نظریہ ارتقا (Theory of Evolution) پیش کیا اور بتایا کہ زندگی جمادات سے نباتات، نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے انسانوں میں ارتقا پذیر ہوتی ہے.مندرجہ ذیل حوالہ اس کی علمیت کا ثبوت ہے: "He inaugurated the genre of 'essay' taking psychological analysis and critical synthesis to great heights"[38] ابو بکر ابن وحشیہ بہت بڑا زراعت داں تھا.کا شتکاری، کیمیا اور طلسمات پر اس کی تصنیفات کی تعداد تین سو کے قریب تھی.اس نے 904ء میں ضخیم کتاب الفلاحة النبطية عربی میں لکھی تھی.کتاب میں اس نے پیڑ پودوں کی اصلاح اور ان کو لاحق ہونے والی بیماریوں کے علاج لکھے تھے.تیسرے باب میں اس نے کنواں کھود نے کی ترکیب بتائی.اس نے مختلف انواع واقسام کے نباتات، ان کو لگانے ، دیکھ بھال کرنے ، کھاد ڈالنے اور سیراب کرنے پر سیر حاصل معلومات مہیا کیں.عریب ابن صاعد نے زراعت کے موضوع پر کتاب اقوات الصنعہ ( Book of لکھی ہے.(Calendar ابن العوام اندلسی علوم زراعت اور نباتات کا عالم تھا.فن زراعت پر اس کی بے مثال تصنيف الفلاحہ ہے.اس کا مخطوطہ اسکور یال (اسپین) لائبریری میں موجود ہے.اس کا اسپینی ترجمہ دو جلدوں میں 1802ء میں شائع ہوا.1878ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن اشبیلیہ سے شائع ہوا.کتاب میں اس نے مختلف پودوں کے اگانے کاشت کاری کے جانوروں، زمین کی اقسام، زمین کی خصوصیات اس کو سونگھ کر ، چھوکر ، چکھ کر اور دیکھ کر معلوم کرنے پر لکھا ہے.اس نے لکھا ہے کہ سورج اور ہوا دونوں زمین کی اصلاح میں اثر کرتے ہیں.اس کا ایک نظریہ جدید نظریات کے مطابق ہے کہ زمین کے نیچے کی مٹی میں نمو پذیری نہیں ہوتی ہے، ایسی مٹی میں پودے اچھے نہیں ہوتے ہیں.اس نے کھاد کی قسمیں، بنانے کے طریقے نیز پودوں اور پھلوں کو لاحق ہونے والے امراض سے چھٹکارے کے طریقے بتلائے.گیارہویں صدی میں اندلس میں زراعت ( فلاحہ ) کے ماہرین طلیطلہ اور اشبیلیہ کے شاہی نباتاتی باغ ( Royal Botanical Garden) میں ریسرچ اور تجربات کیا کرتے تھے.شمالی اٹلی کے شہروں میں اسی طرز کے نباتاتی باغ سولہویں صدی میں بننا شروع ہوئے تھے.ابن مسکویہ پہلا شخص تھا جس نے زندگی کے ارتقا کا نظریہ پیش کیا.اس نے یہ بات بھی کہی کہ نباتات میں زندگی ہے، پودوں میں نزاور مادہ ہوتے ہیں جیسے کھجور مشہور تاریخ داں المسعودی نے بھی نظریہ ارتقا پیش کیا تھا.ایک اور ماہر حیوانیات محمد ابن الدمیری (1405-1301ء، قاہرہ) نے حیات الحیوان لکھی جس کا مخطوطہ امریکہ کی نیشنل لائیبر بری آف میڈیسن ( میری لینڈ ) میں موجود ہے.غیاث الدین اصفہانی (1474ء) نے دانش نامہ جہاں جیسا نادر انسائیکلو پیڈیا لکھا جس میں علم معدنیات (منرالوجی) علم موسمیات (میٹر یولوجی)، علم نباتات (باٹنی) اور

Page 75

137 12 علم جغرافیہ علم جغرافیہ میں مسلمانوں نے بطلیموس کی کتاب جغرافیہ (Geography) سے خاصہ استفادہ کیا تھا.اسلامی دنیا کا سب سے پہلا جغرافیہ داں الخوارزمی تھا جس نے کتاب صورت الارض تصنیف کی.اس کتاب میں اس نے بطلیموس کی کتاب میں پیش کیے گئے جغرافیہ کے علم میں ترمیم اور اضافے کرنے کے علاوہ مفید نقشے بھی پیش کیے.اس نے دنیا کا ایک نقشہ تیار کیا جس میں دنیا کوسات اقلیم میں تقسیم کیا گیا تھا.اس نے دنیا کا ایک رنگین نقشہ تیار کیا جس میں شہر ، قریہ، زمین، سمندر، ستارے، کرے، آباد اور غیر آباد علاقے دکھائے گئے تھے.علاوہ ازیں اس نے ایک خاص کتاب لکھی جس کا ایک نسخہ ویانا میں موجود ہے اس میں دو ہزار شہروں کے طول بلد ، عرض بلد کے جدول دیے گئے ہیں.ان کو آرڈی نیٹس (coordinates) کا بڑا فائدہ یہ تھا کہ مسلمان ان کی مدد سے کعبہ کا رخ متعین کر کے نماز ادا کرتے تھے.بیت الحکمہ کے دوسرے اراکین کے ساتھ کام کر کے الخوارزمی نے زمین کا قطر بھی نکالا جو اس کے نزدیک 27,000 میل تھا.یوسف الکندی نے جغرافیہ کے موضوع پر ایک کتاب رسم المعمور من الارض لکھی تھی.اس کے علاوہ یعقوبی (1879) نے کتاب الممالک تصنیف کی.اسلامی دنیا میں اس وقت ڈاک کا نظام (postal system) جاری ہو چکا تھا اس لئے المسالک والممالک کے عنوان پر کئی جغرافیہ دانوں اور سیاحوں نے کتابیں لکھیں.جس کی کئی وجوہات تھیں : مثلا حج پر پیدل جانے کے لئے راستوں کا تعین ، تاجروں کے لئے شہروں، منڈیوں کی معلومات، بڑی بڑی شاہراہوں کی تفصیل، 136 تشریح الابدان ( اناٹومی ) پر اظہار خیال کیا گیا تھا.علم نباتات میں بہت سارے پودوں کے نام عربی سے آئے ہیں.مثلاً : lilac, coffee, musk, ribes, sumach, jasmine, mezereon, saffron,.sesame taraxacum الخرشوف (artichoke) ، برقوق (apricot ).

Page 76

139 138 مسافروں کے لئے کھانے پینے اور سرایوں کی معلومات، ڈاک کی ترسیل کے لئے مراکز کا محل وقوع اور نشاہدہی ، بحری معلومات.احمد السرحی (899ء ) نے المسالک و الم الجیسی اہم کتاب تصنیف کی نیز ایک اور کتاب رسالہ فی البحر والمياء والجبال بھی لکھی.ابوالقاسم ابن خراد به (850ء) کی کتاب المسالک والمما لک عربی میں جغرافیہ کی سب سے پرانی کتاب ہے جس میں اسلامی دنیا میں تجارت کے راستے بیان کیے گئے ہیں.حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب میں چین، کوریا اور جاپان کے بھی جغرافیائی حالات دیے گئے ہیں.ڈی گوئے جے نے اس کا فرانسیسی ترجمہ کیا جو لیڈن سے 1889ء میں شائع ہوا ہے.نویں اور دسویں صدی میں عرب مسلمانوں نے بحر ہند کا علم سفر کے ذریعے حاصل کیا.ایک مسلمان تاجر سلیمان 1861ء میں چین گیا اور وہاں کے حالات قلم بند کیے.عربی میں چین پر یہ پہلی کتاب تھی.اس نے لکھا کہ چین میں لوگ دستخط کرنے کے بجائے انگوٹھا لگاتے ہیں.مشہور ریاضی داں ثابت ابن قرة نے بطلیموس کی کتاب ” جغرافیہ کا عربی میں ترجمہ کیا.دسوس ) میں ابوزید بلخی، ابو اسحق ابراہیم الاستخری ، اور ابن حوقل نے اس عنوان پر کتابیں لکھیں.الاستخری نے عرب، عراق اور خوزستان کا دورہ کیا.اس کی کتاب المسالک والممالک Routes & Kingdo is) کا ترجمہ اطالوی اور جرمن زبانوں میں ہو چکا ہے.ابوالقاسم بن علی ابن حوقل ، عراق کا باشندہ تھا اس نے چھتیں سال تک 973-947ء عراق، ایران ، وسط ایشیا، اسپین ، شمالی افریقہ، مصر اور سسلی کے سفر کیے.اس کی تصنیف منیف کتاب صورۃ الارض 988ء میں لکھی گئی تھی.یہ کتاب سب سے اہم ماخذ ہے.جے اینچ کر یمرز (J.H.Kramers) نے 1938ء میں عربی متن کی تدوین اور ترجمے کے فرائض انجام دئے ، ای.جے برل لیڈن (E.J.Brill Leiden) نے اسے شائع کیا.اس کا فرانسیسی ترجمہ جی وائٹ (G.Wiet) نے 1964ء میں شائع کیا تھا.[39] ابن سرافیون (900ء) نے جغرافیہ پر ایک کتاب لکھی جس میں سمندروں، جھیلوں، جزیروں، پہاڑوں اور دریاؤں کو تفصیل سے بیان کیا گیا تھا مثلاً اس نے دریائے دجلہ، عرفات اور نیل کی جو تفصیلات دیں وہ قیمتی معلومات ہیں.بغداد کی تمام نہروں کا بھی اس نے ذکر کیا.اس کا مخطوطہ برٹش میوزیم لندن میں موجود ہے اور اس کا انگریزی ترجمہ ہو چکا ہے Baghdad during the Abbasid Caliphate by G.L.Strange, Oxford ) 1900 ).ابو علی ابن رسطہ (903ء اصفہان) نے العلق النفیسہ لکھی جس میں بہت سے ممالک کے حالات دیے گئے تھے.اس کا ترجمہ ڈی.گوئے ہے (De Goeje) نے لیڈن (ہالینڈ) سے 1892ء میں شائع کیا.کچھ حصوں کا ترجمہ روسی زبان میں بھی ہو چکا ہے.ابوزید بلخی (934ء) مشہور ریاضی داں اور جغرافیہ داں تھا اس کی کتاب صور الا قالیم میں کثیر تعداد میں نقشے دیے گئے تھے.حسن ہمدانی 951-893 یمن کا معروف ماہر جغرافیہ داں تھا.اس کی کتاب ” صفات جزيرة العرب میں پھلوں ، سبزیوں، قیمتی پتھروں اور دھاتوں پر مفید معلومات پیش کی گئی ہیں.علم فلکیات میں اس نے سرائر الحکمۃ فی علوم النجوم لکھی.علم طب میں اس کی کتاب القومی گم شدہ ہے.اس کی دیگر کتا بیں الحرث والنخلہ ( زراعت پر ) ، الابل (اونٹ پر ) کتاب الجواہر (سونے چاندی پر ) ہے.آخری کتاب کا ترجمہ جرمن زبان میں ہو چکا ہے.دسویں صدی میں ہی احمد ابن فضلان نامی جغرافیہ داں اور سیاح کو خلیفہ المقتدر نے 921ء میں بلغاریہ کے بادشاہ کے دربار میں بھیجا.اس نے روس کے دور دراز علاقوں (Volga & Caspian) تک سفر کیا.اس کتاب کا جرمن ترجمہ سینٹ پیٹرز برگ (St.Petersburg) سے 1823ء میں شائع ہوا.ابو عبد اللہ محمد بن احمد المقدسی (1000-947 ء بیت المقدس کا رہنے والا ) ابن حوقل کا ہم عصر تھا.فلسطین کے اس باشندے نے اپنا طویل سفر یروشلم سے شروع کیا اور اسلامی ممالک کی بیس سال تک سیاحت کی.جس کا نتیجہ احسن التقاسیم المعرفة الا قالیم (Knowldege of theClimes) پانچ سال کی محنت کے بعد 990ء میں کتاب کی صورت

Page 77

141 140 میں منصہ شہود پر آیا.اس کتاب کو فرانسیسی عالم ڈی گوئے جے نے 1877ء میں مدون کر کے اس کا فرانسیسی ترجمہ جزوی طور پر شائع کیا.ابو دلاف الینوعی ( مکه و بخارا ) سامانی حکمراں نصر ابن اسماعیل (942-913ء) کے دربار سے منسلک تھا.وہ ہندوستان 942 ء میں تبت کے راستے سے آیا اور کشمیر، افغانستان اور سجستان کے راستے واپس گیا.اس نے سفر کے حالات عجائب البلدان میں قلم بند کیے.اس کا فرانسیسی میں ترجمہ جی فیرانڈ (G, Ferrand) نے 1913 ء میں شائع کیا.ابوالحسن المسعودی (957ء قاہرہ) عالم اسلام کا سب سے بڑا جغرافیہ دال اور تاریخ داں تھا.اس نے 30 جلدوں پر مشتمل انمول انسائیکلو پیڈیا مروج الذہب والمدائن الجواہر 1947ء میں قلم بند کیا.اس کتاب میں جغرافیہ علم طبقات الارض اور طبیعی تاریخ کا نایاب ذخیرہ موجود ہے.اس کتاب میں دنیا کی تاریخ میں پہلی بار تحریر میں پن چکی کا ذکر کیا گیا ہے جو بجستان کے مسلمانوں نے ایجاد کی تھی.955ء میں ایک زلزلہ آیا، اس نے اس کے بیان کے ساتھ اس کی سائنسی وجوہات پیش کیں، پھر اس نے بحیرہ مردار ( Dead Sea) کے پانی کی صفات یعنی زمینی سائنس (Earth Sciences) پر اظہار خیال کیا.المسعودی نے 915ء میں ایران کا سفر کیا.وہاں سے وہ بغداد کے راستے ہندوستان پہنچا اور ملتان منصورہ اور دوسرے شہروں کا دورہ کیا.وہاں سے وہ کر مان گیا.918ء میں پھر واپس ہندوستان آیا اور گجرات گیا جہاں اس وقت بندرگاہ والے شہر چمور میں دس ہزار عرب آباد تھے.وہاں سے وہ دکن گیا.وہاں سے سیلون، انڈو چائینا اور پھر چین.مروج الذہاب میں اس نے یہودیوں، عیسائیوں ، ہندوستانیوں اور ایرانیوں کے ساتھ ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے.ہندوستان سے متعلق واقعات چوتھے باب میں ہیں جو عربی اور لاطینی میں گلڈے ماکسٹر (Gildemeister) نے بون (جرمنی) سے 1838 ء میں شائع کیے تھے.سے قاہرہ واپس آنے پر اس نے دوسری کتاب مروج الزمان نکھی ، پھر اس کتاب کے ضمیمے کے طور پر اس نے کتاب الاوسط لکھی جس میں واقعات کو تاریخ وار لکھا گیا ہے.وفات والے سال 957ء میں اس نے کتاب التنبیہ والاشراف لکھی جس میں گزشتہ کتابوں کا خلاصہ اور اغلاط کی نشاندہی کی گئی ہے.اس کا ترجمہ ڈے گوئے جے نے کیا جو آٹھ جلدوں میں لیڈن سے 1894ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا.وہ پہلا مسلمان عالم تھا جس نے اس کتاب میں نظریہ ارتقا پر اپنے خیالات قلم بند کرتے ہوئے جمادات سے نباتات، نباتات سے حیوانات اور حیوانات سے انسان کے ارتقا کو عین ممکن سمجھا.اس نے 34 کتابیں تالیف کیں مگر ظالم وقت کے ہاتھوں 30 آسودہ خاک ہوگئیں اور چار ہم تک پہنچی ہیں جن کا ذکراو پر کیا گیا ہے.ابوریحان البیرونی (1050ء) بھی جامع النظر جغرافیہ داں تھا.اس کی کتاب الہند، ہندوستان کے متعلق معلومات کا بے مثال خزینہ ہے.اس کا ترجمہ لندن سے 1888ء میں شائع ہوا تھا.اس نے حیران کن اکتشاف کیا کہ ہندوستان کسی زمانے میں سمندر تھا جو رفتہ رفتہ ندیوں کی لائی ہوئی سیلابی مٹی سے بھرتا رہا.اس کتاب میں اس نے براعظم امریکہ کے موجود ہونے پر قیاس آرائی ان الفاظ میں کی تھی: "It is possible, even likely, that each pair of the quarters of the earth forms a coherent uninterrupted unity, the one as a continent, the other as an ocean." اس نے سندھ، پنجاب، بیاس، ستلج ، رادی، جہلم دریاؤں کے نام دیے.اس نے ہندوستان کے مختلف شہروں کے طول بلد اور عرض بلد تیار کیے جیسے پشاور (33,44، سیالکوٹ 30,58 ، ملتان 29,40 - وہ زمین کے گول ہونے پر یقین رکھتا تھا، اس نے کہا کہ دن رات کے تغیر وتبدل میں نیز مشرق و مغرب میں وقت میں فرق زمین کے گول ہونے کی وجہ سے ہے.وہ نظام شمسی پر یقین رکھتا تھا.اس نے ارضیات کے علم کی بنیاد رکھی.دنیا میں پہلی بار اس نے ثابت کیا کہ وہ قدرتی

Page 78

143 142 چشمے جو سورج کی وجہ سے نکل آتے ہیں، دراصل وہ پانی میں برقی کیمیائی یعنی الیکٹرو کیمیکل کی تلقین فرمائی ہے اور دو نمازیں غروب آفتاب کے بعد ادا کی جاتی ہیں.اس نے خود سے سوال (electro chemical) عمل کے زور سے ابھرتے ہیں.چونکہ اس کو سنسکرت، یونانی، سریانی، کیا کہ اس صورت حال کے پیش نظر مسلمان وہاں نمازیں کیسے ادا کریں گے؟ خوش قسمی سے اس فارسی، عربی زبانوں پر عبور حاصل تھا اس لئے اس نے بہت سی کتابوں کے سنسکرت سے عربی میں وقت البیرونی دربار میں موجود تھا.اس نے سلطان کو یقین دلایا کہ اس مظہر فطرت کا ذکر قرآن اور عربی سے سنسکرت میں ترجمے کیے.اس نے 180 کتابیں لکھیں.کتاب التفہیم میں اس نے مجید (الکہف، آیت 90) میں موجود ہے.( ترجمہ ) پھر اس نے (ایک دوسری مہم کی) تیاری کی زمین کا گول نقشہ پیش کیا تا کہ سمندروں کا محل وقوع بیان کر سکے.آثار الباقیہ میں اس نے علمی ، یہاں تک کہ طلوع آفتاب کی حد تک جا پہنچا، وہاں اس نے دیکھا کہ سورج ایک ایسی قوم پر طلوع تاریخی، مذہبی، فلسفیانہ باتیں لکھنے کے علاوہ زمین اور آسمان کا نقشہ بنانے کا نیا طریقہ پیش کیا.ہو رہا ہے جس کے لئے دھوپ سے بچنے کا کوئی سامان ہم نے نہیں کیا ہے (تفہیم القرآن ).1970ء کی دہائی میں اس عبقری شخصیت کی ایک ہزار سالہ برسی بڑے تزک و احتشام کے ساتھ دانش مند سلطان اس کی مسکت دلیل سن کر مطمئن ہو گیا.کراچی، نیو یارک اور طہران میں منائی گئی تھی.گیارہویں صدی میں ناصرخسرو ( پیدائش 1003ء ) گرامی منزلت شاعر فلسفی اور سیاح ابوریحان کا تعلق خوارزم شاہ کے دربار سے بھی رہا.ایک روز بادشاہ ہاتھی پر سوار تھا.مکہ معظمہ جاتے ہوئے وہ فلسطین سے گزرا اور یروشلم کا 1047ء میں دورہ کیا.صلیبی جنگوں سے ابوریحان کے مکان کے پاس سے گزرا تو اس کو باہر بلانے کا حکم دیا.ابوریحان کو باہر آنے میں قبل یروشلم کے حالات کو اس نے بڑے خوبصورت رنگ میں قلم بند کیا ہے.اس سے قبل وہ ہندوستان ذرا تاخیر ہوگئی تو بادشاہ نے سواری کی باگ موڑ دی.اسی دوران البیرونی با ہر نکل آیا اور بڑے احترام سے کہا حضور عالی ، خدا کی قسم آپ سواری سے نہ اتریں.اس پر خوارزم شاہ نے یہ شعر پڑھا: العلم من اشرف الولایات یا تی کل الورٹی ولایاتی ( علم سب سے معزز ملک ہے، اس کے پاس لوگ آتے ہیں وہ خود نہیں آتا ).ایک عمیق نظر سائنس داں ہونے کی حیثیت سے البیرونی کو معلوم تھا کہ قطب شمالی میں کے سفر میں سلطان محمود کے دربار میں حاضر ہو چکا تھا.اس نے فارسی میں کتاب سفرنامہ 1045ء میں رقم کی ، جس کا فرانسیسی ترجمہ گائے کی اسٹرینج (Guy Le Strange) نے کیا تھا.عبد العزیز البکری (1094ء) قرطبہ کا سب سے عظیم جغرافیہ داں اور نقشہ ساز ( کارٹو گرافر) تھا.وہ ایک اچھا شاعر اور ماہر لسانیات (Philologist) بھی تھا.اس کی تصنیف کتاب المسالک والممالک جغرافیہ کی مشہور ترین کتابوں میں ہے جس میں علم الاقوام اور تاریخی موسم گرما میں دن چو میں گھنٹے کا اور موسم سرما میں رات چوبیس گھنٹے کی ہوتی ہے.بیان کیا جاتا ہے معلومات درج کی گئی ہیں.الجیریا میں یہ آخری بار 1857ء میں شائع ہوئی تھی.اس کتاب کا عربی کہ سلطان محمود غزنوی کے دربار میں ایک مالدار تاجر آیا جو قطب شمالی کا سفر کر کے واپس آیا تھا.اس نے بیان کیا کہ وہاں کے لوگ جانوروں کی کھالیں پہنتے ہیں، وہ برف کے اندر سوراخ بنا کر مچھلیاں پکڑتے (ice fishing) ہیں، سفید رنگ کے ریچھ (polar bear ) گھومتے پھرتے ہیں اور موسم گرما میں دن اتنے لمبے ہوتے ہیں کہ سورج غروب ہی نہیں ہوتا.معز ز سلطان کو اس کی آخری بات سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ نبی پاک ﷺ نے مسلمانوں کو پانچ وقت نماز پڑھنے ادب پر گہرا اور دیر پا اثر تھا.قدیم جغرافیہ میں اس نے ایک اور کتاب المعجم الجمع بھی لکھی جو حجاز (سعودی عرب) کے جغرافیہ پر تھی.جرمن عالم وستن فلڈ نے اس کتاب کو مدون کیا ہے اور یہ گوتنگن (Gottingen، جرمنی ) سے 1876ء میں شائع ہوئی ہے.اسی طرح اس نے ایک اور کتاب اندلس کے مختلف النوع درختوں اور نباتات پر بھی لکھی.یا قوت بن عبد اللہ الحموی (1229-1179ء ، ترکی ) کی نادر الوجود کتاب معجم البلدان

Page 79

145 144 چھ جلدوں میں لیپزگ سے 1886ء میں وسٹن فلڈ نے شائع کی.اس کتاب کو جغرافیائی معلومات کا خزانہ کہا جاتا ہے.شہروں کے نام اور حالات حروف تہجی کے مطابق دیے گئے ہیں.اسپین سے لے کر ہندوستان تک اسلامی ممالک کے حالات اس میں بڑی تفصیل سے درج ہیں.اس کی تلخیص صفی الدین ( 1300ء) نے مراصد الاطلاع کے نام سے قلم بند کی.یاقوت نے شہروں کی معجم مشترک کے نام سے لکھی.اس کی دوسری معرکۃ الآرا تصنیف منجم الادبا، در حقیقت مسلمان حکماء کی معجم (ڈکشنری) ہے.دونوں کتابوں کو پروفیسر مارگولیتھ (Margoliath) نے 1935ء میں شائع کیا تھا.بارہویں صدی میں جید عالم زمخشری نے ایران کے ایک علاقے سے متعلق کتاب الفارس لکھی.غرناطہ (اندلس) کے رہنے والے ابو بکر الر ہری (1137ء) نے جغرافیہ کے موضوع پر کتاب الجغرافیہ لکھی.ابوحمید الغرناطی (1169ء) بھی ایک مانا ہوا جغرافیہ داں تھا.اس نے اس موضوع پر چار کتا ہیں قلم بند کیں : عجائب العجائب، عجائب المخلوقات، عجائب المغرب، تحفۃ الباب ونخبتہ العجائب - عبد الرحیم المازنی (1169ء) نے جو الا دریسی کا ہم عصر تھا، مصر، عراق، شام، ایران ، ترکی وغیرہ مختلف ممالک کے سفر کے بعد تحفتہ الالباب ونختۃ العجائب لکھی.پھر شام ، افریقہ، اسپین ، بحر خزر (Caspian Sea) کے ساحل کے سفر کے بعد نعتہ الاذان فی عجائب البلدان لکھی.اس کی دو اور اہم کتابیں المغرب ان بعد عجائب البلدان اور تحفہ الکبار فی اشعر البحر (سمندری سفر کے متعلق ) ہیں.ابو الحسن محمد ابن احمد ابن جبیر (1217-1145ء) بھی اندلس کا ایک معروف اور ممتاز سیاح تھا اس نے تین بار مختلف ممالک کا سفر کیا.سفر کے دوران اس نے روز نامچہ لکھا.مراجعت پر اپنا سفر نامه رحله ابن جبیر کے نام سے مرتب کیا.جس میں اس نے ساعۃ جامع دمشق ( گھڑیال) کا ذکر کیا ہے.اس دلچسپ سفرنامے سے مختلف ملکوں ، لوگوں کے بارے میں معلومات کے علاوہ جہاز رانی (navigation) خبر رسانی (communication) کے بارے میں وافر معلومات ملتی ہیں.انگریزی میں اس کا ترجمہ لندن سے 1952ء میں دی ٹریولیس آف ابن جبیر ( The Travels of Ibn Jubayr) شائع ہو چکا ہے.فرانسیسی ترجمہ بھی تین جلدوں میں شائع ہوا تھا.اس کے سفرنامے سے ابن الخطیب، المقریزی، المقاری ، ابن بطوطہ نے خوب استفادہ کیا.سلی کے رہنے والے عالم بے بدل ابو عبد اللہ الا در یسی (1166ء) نے وہاں کے بادشاه را جر دوم (Roger II) کے نام سے موسوم کتاب الرجر (Book of Roger) لکھی اس کا دوسرا نام " نزہت المشتاق في اختراق الآفاق ہے.یورپ میں یہ 1592ء میں منظر عام پر آئی اور پہلا لاطینی ترجمہ 1619ء میں روم سے شائع ہوا.وہ ایک مسلمہ نقشہ ساز ( کارٹو گرافر ) تھا.اس نے چاندی کا ایک گلوب اور دنیا کا گول نقشہ قرص ( disc) کی صورت میں تیار کیا جس میں یورپ، ایشیا، افریقہ، درمیان میں جزیرہ نما عرب اور بحیرہ روم صاف نظر آتے ہیں.اس ادریسی کا بنایا ہوا دنیا کا نقشہ

Page 80

147 | 146 نے ایک اٹلس (atlas) تیار کیا جس میں 73 نقشے دیے گئے تھے.رائن ہارٹ ڈوزی (Reinheat Dozy) نے اس کتاب کو 1886ء میں مدون کیا بعد میں اس کا فرانسیسی ترجمہ شائع ہوا.اس کی دوسری قابل قدر تصنیف کا نام روضۃ الناس ونز بہت النفس ہے.اسلامی اسپین کے عبدالحمید الغرناطی (1169ء) کو سفر کا بہت شوق تھا.وہ ایک ماہر و مشاق جغرافیہ داں کی حیثیت سے بہت ممتاز تھا.اس نے اسپین سے ہجرت کر کے مصر کو اپنا وطن بنایا اور عراق، ایران اور وسط ایشیا کے ممالک کا سفر کیا.اس نے دو کتا میں تصنیف کیں.عجائب المغرب اور تحفۃ الالباب.پہلی کتاب اگر چہ ہیت پر ہے مگر اس میں اسپین کے بعض عجائبات اور نوادرات کا ذکر بھی کیا گیا ہے.غرناطہ کے رہنے والے ابن سعید مغربی (1274ء) نے شمالی یورپ کا سفر کیا ، وہاں سے آرمینیا اور تا تاری ممالک تک گیا جہاں وہ ہلا کو خاں کے دربار میں پہنچا اور اس کا مہمان خصوصی بنا.اس نے کتاب الجغرافیہ فی الاقاليم (Extent of the Earth) کے نام سے ایک کتاب لکھی.مصر کے عمادالدین ابوالفداء (1273 ء) نے ایک کتاب تقویم البلدان کے عنوان سے ترتیب دی جو یورپ میں مقبول عام تھی.شمس الدین دمشقی (1327 ء) شام کے شہر ربوہ کی مسجد کے امام تھے.انہوں نے 1325ء میں کتاب نخبتہ الدھر فی عجائب البر والبحر ترتیب دی.انہوں نے مسعودی ، ابن حوقل اور یا قوت کی کتابوں سے استفادہ کیا.انہوں نے مالا بار اور کار ومنڈل (جنوبی ہندوستان) کے ساحلی شہروں کے نام اور حالات اس قدر تفصیل سے دیے ہیں کہ انسان انگشت بدنداں رہ جاتا ہے.پندر ہویں صدی میں عبد الرزاق سمر قندی نے ڈسکرپشن آف افریقہ (Description of Africa) کے نام سے کتاب لکھی.زکریا القزوینی (1283 -1203ء ایران ) نے کائناتیات (cosmography) کے موضوع پر عجائب المخلوقات وغرائب الموجودات لکھی.عجائب البلدان (1262ء) اور آثار البلاد و اخبار العباد (1275ء) جغرافیہ پر تھیں.اس نے زمین کو سات اقالیم میں تقسیم کیا.کتاب میں سوانح عمریوں کے علاوہ، فرانس اور جرمنی کے شہروں کے تعلق سے بھی معلومات پیش کی گئی ہیں.حمد اللہ المستوفی نے ہلاکو خاں کے پڑ پوتے سلطان ابوسعید ایلخانی کے دور میں فارسی میں نزہت القلوب (1340ء)لکھی جس میں سارے اسلامی ملکوں کے جغرافیائی حالات درج کیے ہیں.باکو ( آذربائیجان ) شہر میں گرم چشموں اور تیل کے کنوؤں کا بھی ذکر کیا ہے.اس نے تاریخ کے موضوع پر بھی ایک کتاب تاریخ گزیدہ کے نام سے لکھی تھی.ابوعبد الله محمد ابن بطوطه مراکشی (1369-1304ء ) اسلامی دنیا کا عظیم جغرافیہ داں اور نامور سیاح تھا.وہ غیر معمولی دینی شغف رکھنے والا ، رقیق القلب اور حسن سلوک کرنے والا تھا.علم دین کے ساتھ وہ تفقہ فی الدین کے زیور سے بھی آراستہ تھا.اس نے بائیس سال کی عمر (1325ء) میں تنہا حج کے عزم سے مراکش سے مکہ کا سفر کیا.اس کے بعد اس نے اپنی زندگی سیر و سیاحت میں وقف کر دی.اس نے الجیریا، تیونس، عراق، مصر، شام، مشرقی افریقہ، افغانستان، ہندوستان، چین اور روس کے سفر کیے.ہندوستان میں اس وقت سلطان محمد تغلق کی حکومت تھی.دہلی میں دس سال تک قاضی القضاۃ کے عہدے پر رہنے کے بعد سلطان نے اس کو اپنا سفیر بنا کر چین بھیجا.اس نے بحیرہ احمر، بحر عرب اور چین کے بحری سفر بھی کیے.اس نے زندگی میں 75,000 ہزار میل کا سفر کیا جو ایک ریکارڈ تھا.اس نے تمہیں سال (1354-1325 ء ) سفر میں گزارے اور فیض (مراکش) مراجعت پر این جزی الکلمی (وفات 1356ء) کوسفر نامه املا کروایا جس نے اس کے سفر نامے کی کتابت تین ماہ دسمبر 1355ء) میں مکمل کی.اس کا انگریزی ترجمہ ٹریولز آف ابن بطوطه (Travels of Ibn Batuta لندن سے شائع ہو چکا ہے.انٹرنیٹ Google.com پر بھی اس دلچسپ سفر نامے کے طویل اقتباسات پڑھے جا سکتے

Page 81

149 ہیں.اردو میں بھی اس کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے.148 غیاث الدین الکاشی (1420ء) نے ہئیت میں تمام تحقیقی کا م سمر قند میں الغ بیگ کی رصد گاہ میں کیا تھا.اس کی مشہور کتاب فارسی زبان میں زیج خاقانی تھی جس میں اس نے 515 شہروں کے طول بلد اور عرض بلد دیے تھے.اس کے مخطوطات انڈیا آفس لائبریری لندن اور ابا صوفیہ استنبول میں موجود ہیں.ای ایس کینیڈی (E.S.Kennedy) نے ان جدولوں کو مدون کر کے امریکہ سے 1987ء میں شائع کیا ہے.اس کا ایک نسخہ الکاشی جیوگرافیکل ٹیبلز (Al-Kashi's Geographical Tables) کنگسٹن یونیورسٹی کی اسٹافر لائبریری میں موجود ہے.عاجز نے کتاب کے مطالعہ سے ہندوستان کے پرانے شہروں کے جو طول بلد ، عرض بلد نکالے وہ درج ذیل ہیں.ان جدولوں کا عنوان ہے: جدول اطوال البلدان عن جزائر الخالدات وعروضها عن خط الاستواء 109,26 Kanoj 114,26 Kaulam (Kerala) 120,13 Mahura (Mathura) 116,24 Mansura (Hyderabad, Sind) 105,26 Birun (Hyderabad, Pakistan) 104,24 Saduban (Sehwan, Sind) 104,28 Somnath (Gujarat) 107,22 ہندوستان میں شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور حکومت میں اس دور کے نامور انشا پرداز ، مورخ اور جغرافیہ داں ابوالفضل علامی ( پیدائش 1551ء) نے فارسی میں آئین اکبری لکھی جس میں ہندوستان کے جغرافیائی حالات صوبہ وار دیے گئے ہیں.مولانا حالی نے حیات جاوید میں لکھا ہے کہ اس کا انگریزی ترجمہ ایچ بلیک مین (H.Blackman) نے.1873ء میں کیا تھا.اکبر نامہ تاریخ کی لازوال کتاب ہے جو تین جلدوں میں 1907ء میں شائع ہوئی تھی.ہندوستان میں اکثر جغرافیہ داں ایران سے آکر آباد ہوئے تھے.ان میں سے ایک امین احمد رازی جو اکبر کے دور حکومت میں ہندوستان آیا تھا اور نور جہاں کے والد غیاث الدین کا رشتہ دار تھا.اس نے اپنے زمانے تک کی ہندوستان کی تاریخ لکھی جس میں ایک باب دکن پر تھا.فارسی زبان میں جغرافیہ پر اس کا شاہکار ہفت اقلیم (1593ء) ہے جس میں مختلف ممالک کے شہروں، قریوں اور نوادرات کا حال بیان کیا گیا ہے.ایک اور ہندوستانی عالم محمد بن عمر العاشق نے مناظر العالم ( Description of the World) کے نام سے ایک کتاب لکھی جو 1598ء میں دمشق میں منظر عام پر آئی [40].الحسن غرناطی (1554-1485ء، تیونس ) نے چار لمبے سفر کیے.اٹلی میں سفر کے دوران اس کو غلام بنالیا گیا اور اس کا نام لیودی افریقن (Leo the African) رکھ دیا گیا.اس نے افریقہ پر ایک غضب کی کتاب لکھی جو المسالک والممالک کے سلسلے کی ایک کڑی تھی.اس نے افریقہ کے شہروں کے درمیانی فاصلے میلوں میں دیے.افریقہ کے نقشے بنانے والے نقشہ سازوں نے اس کتاب سے بہت فائدہ اٹھایا.تاریخ عالم کے اس دور میں ترکی ایک بڑی طاقت بن چکا تھا.ترکی کا مشہور ایڈ مرل سدی علی (1562ء ) فاضل ریاضی داں، ماہر ہئیت و جغرافیہ داں تھا.اس نے اپنے ہندوستان کے سفرنامے کو مرآة الممالک 1556ء کے نام سے قلم بند کیا.اس نے گجرات، سندھ، لاہور اور دہلی کے سفر کیے.دہلی میں اس کی ملاقات بادشاہ ہمایوں سے ہوئی تھی.علم بحریہ (Oceanography) پر اس کی کتاب المحیط (1554ء ) بیش قدر معلومات کا خزانہ ہے.ایڈمرل محی الدین پیری رئیس (1554-1470ء) نے کولمبس کے آخری نقشے کی نقل تیار کی تھی.بحری علوم پر اس کی انمول تصنیف کتاب البحریہ 1521ء میں شائع ہوئی تھی.یہ جہاز رانوں کے لیے لکھی گئی تھی.کتاب میں اہم موضوعات پر خامہ فرسائی کی گئی ہے جیسے طوفانوں کا آنا، فلکیاتی سفر (astronomical navigation)، جزائر اور ان کے اردگرد کے ممالک کے حالات ، قطب نما، پرتگالی قوم کا بحر ہند پر قبضہ ، کولمبس کے ذریعہ دنیا کی دریافت - کتاب میں بحیرہ روم اور Aegean Sea کے 219 چارٹس (charts) دیے گئے ہیں.جزائر کے

Page 82

151 150 علاوہ ساحلی علاقوں، بندرگاہوں (لیبیا، تیونس) کے بارے میں تفصیلات نقشوں کے ہمراہ دی گئی (1490 Nautical Directory تھیوریٹکل اور پریکٹیکل نیوی گیشن پر بنیادی کتاب کا درجہ رکھتی تھی جس میں اس نے بحر ہند اور بحیرہ احمر میں بحری سفر پر بیش قیمت معلومات ، سمندری راستوں، مقناطیسی سوئی اور بندرگاہوں کے نام دیے ہیں.آج بھی اس کتاب کی اتنی ہیں.یورپ میں اس معرکۃ الآرا کتاب کے تمھیں نسخے محفوظ ہیں.ان میں سے ایک نسخہ والٹر آرٹ گیلری ، بالٹی مور، امریکہ (Walter Art Gallery, Baltimore, USA) میں ہے.اس (Hess) نے کتاب کا انگریزی ترجمہ اے بک آف سی لورس (A Book of Sea Lares) کے نام سے شائع کیا.کتاب کے اکیسویں باب میں وہ قاری کو بتا تا ہے کہ ایک نیا بر اعظم بھی ہے جس کا نام انٹی لیا (Antilia) ہے جہاں کے پہاڑوں میں سونے کی کانیں اور سمندروں میں موتی پائے جاتے ہیں.یہاں کے مقامی باشندوں کے چہرے چیٹے اور آنکھوں کے درمیان بالشت بھر کا فاصلہ ہوتا ہے.قاہرہ کے میوزیم میں ایسے قیمتی آلات، نا در نقشے ، پرانی کتابیں اور مخطوطات محفوظ ہیں جو ہزاروں سال پرانے ہیں [41].ترکی کے ایڈ مرل سلیمان الماہری نے بحر ہند ملیشیائی، جزائر اور بحری سفروں پر پانچ لکھیں.ان میں سے کتاب علوم البحریہ میں جہاز رانی سے متعلق علم ہئیت (Nautical Astronomy)، بحیرۂ عرب میں بحری راستے مشرقی افریقہ کا ساحلی علاقہ ،خلیج بنگال، ملایا (ملیشیا)، انڈو چائنا کے ساحلی علاقے مون سون پر بیش از قیمت معلومات ہیں.اس کتابیں کتاب کا ترکی میں ترجمہ امیر البحر علی بن حسین سدی علی نے 1562ء میں کیا تھا.پندرہویں صدی میں عالم اسلام میں ایک بہت بڑا، قابل جہاز راں ( نیوی گیٹر ) پیدا ہوا جس کا نام شہاب الدین احمد ابن ماجد تھا.اس کا لقب اسد البحر تھا.اس کو بحیرہ احمر اور بحر ہند کے تمام بحری راستوں کا علم تھا.مسلمان جہاز رانوں کے لیے وہ ولی اللہ کا درجہ رکھتا تھا.چنانچہ وہ بحری سفر پر روانہ ہونے سے قبل سورۃ فاتحہ اس کی یاد میں تلاوت کیا کرتے تھے.اس نے نثر اور نظم میں 38 کتابیں تصنیف کیں جن میں کئی ایک جہاز رانی کے موضوع پر تھیں.اس نے 1462ء میں ایک نظم لکھی جس میں 1082 اشعار تھے.اس نظم میں اس نے نیوی گیشنل تھیوری کو اعلیٰ رنگ میں بیان کیا.مسلمان جہاز رانوں کے لیے اس کی تصنیف منیف کتاب الفوائد ہی اہمیت ہے.پرتگالی جہازراں واسکوڈے گاما جب 1498ء میں مالنڈی (ایسٹ افریقہ ) کے مقام پر پہنچا تو خوش قسمتی سے اس کی ملاقات ابن ماجد سے ہوگئی.چنانچہ اس کے بحری جہازوں کے بیڑے کا معلم ( کیپٹن ) ابن ماجد مقرر ہوا جو بحر ہند کو عبور کر نے کے تمام راستوں سے واقف تھا اس لئے وہ ان کو کالی کٹ کی بندرگاہ تک لے گیا.وائے افسوس ابنِ ماجد نے ایسا نہ کیا ہوتا کیونکہ اس کے بعد بحر ہند میں عربوں کی فوقیت ختم ہوگئی اور پرتگالی اور یورپین قوموں کا تسلط ہو گیا [42].مصطفیٰ بن عبد اللہ حاجی خلیفہ (1657-1608 ترکی ) نے بیس سال تک معلومات اکٹھا کرنے کے بعد جغرافیہ کا انسائیکلو پیڈیا کشف الظنون عن اسماء الكتب والفنون لکھا.کتاب میں محمد عاشق ، سدی علی، پری رئیس کی کتابوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے.اس میں یورپ کے مصنف مرکیٹر (Mercator) کی اٹلس سے بھی فائدہ اٹھایا گیا ہے.اوشینو گرافی کے موضوع پر بھی اس نے ایک کتاب لکھی جس میں بحر ہند میں موجود جزائر کا ذکر کیا گیا ہے.اس کا جرمن ترجمہ فلوگل (Flugel) نے کیا.لیپزگ سے 1858-1835ء میں شائع ہوا تھا.مسلمان اور نئی دنیا کی دریافت مسلمان تاریخ دانوں نے جغرافیہ اور تاریخ کی جو کتابیں قلم بند کیں یا جن کے انہوں نے تراجم کیے اس سے جغرافیہ کے علم میں خاطر خواہ اضافہ ہوا.مسلمانوں کی علمی بصیرت ( زمین کا گول ہونا ) ، ان کے بنائے ہوئے نقشوں ، بحری راستوں (sea lanes) کی نشاہدہی ، سفر کے لیے اصطرلاب اور بحری قطب نما جیسے آلات کے طفیل 1492ء میں نئی دنیا (امریکہ )

Page 83

153 152 دریافت ہوئی تھی.مثلاً المسعودی نے اپنی کتاب مروج الذہب میں لکھا ہے کہ اسپین کے خلیفہ عبد اللہ ابن عمر (912-888ء) کے دور میں قرطبہ کا ایک نیوی گیٹر ابنِ سعید ابن اسود اٹلانٹک اوشین کو 889ء میں پار کر کے ارض مجہولہ (ساؤتھ امریکہ ) تک گیا اور وہاں سے نایاب چیزیں لے کر آیا.اسی طرح اس نے دنیا کا جو نقشہ تیار کیا تھا اس میں اٹلانٹک اوشین کو تاریکی اور دهند والاسمندر اور امریکی براعظم کو ارض مجہولہ لکھا تھا.اسی طرح یہ بات بھی مصدقہ اور مسلم الثبوت ہے کہ ابوریحان البیرونی نے امریکی براعظم کے ہونے پر قیاس آرائی کی تھی.ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں لکھا ہے کہ میں نے مغرب کی طرف دیکھا تو مجھے کشف میں نظر آیا کہ سمندر کے اس پار ایک اور ملک بھی ہے.اندلس کے تاریخ داں ابوبکر ابن قطبیہ نے اپنی کتاب میں ابن فرخ کا واقعہ بیان کیا جو فروری 999ء میں بحری سفر کر کے گنڈو ( کیناری آئی لینڈ ) گیا ، وہاں کے بادشاہ گو آنا ریگا (King Guanariga) سے اس کی ملاقات ہوئی مئی کے مہینے میں وہ لوٹ آیا.الا در سیسی (1155ء) نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بارہویں صدی میں نارتھ افریقہ کے آٹھ جہاز راں امریکہ تک گئے تھے.یہ سفر انہوں نے لزبن (Lisbon) سے شروع کیا ، ان کے جہاز میں کھانے پینے کی چیزیں کئی مہینوں تک کے لیے کافی تھیں.کئی ہفتوں کے سفر کے بعد جب وہ خشکی پر پہنچے تو ان کو گرفتار کر لیا گیا مگر ایک عربی بولنے والے مترجم نے ان کو رہائی دلوائی.گویا مسلمان امریکہ میں موجود تھے.مسلمان جہاز رانی میں اس قدر ماہر تھے کہ ان کے لئے بحر اوقیانوس کو پار کر کے ساؤتھ امریکہ تک آنا جانا ہر گز اچنبھے کی بات نہیں تھی.چودہ زبانوں کے ماہر سارٹن (1956-1884 G.Sarton) نے انٹروڈکشن ٹو ہسٹر ی آف سائنس (Introduction to History of Science) صفحہ 724 پر لکھا ہے کہ آئس لینڈ کا ایک شخص لیف ایرکسن (Leif Eericsson) اتفاق سے 1000ء میں امریکہ کے شمال مشرقی ساحل پر پہنچ گیا.کچھ عرصہ بعد کینیڈا کے مشرقی صوبوں نیوفا ؤنڈ لینڈ اور لیبراڈور میں آئس لینڈ کے لوگوں کی کالونی قائم ہوگئی.اس کے بعد 1006ء میں گرین لینڈ سے تھور فن کارل سیفنی (Thorfin Karlsefni) امریکہ پہنچ گیا.اس امر سے اس دعوی کو تقویت ملتی ہے کہ کرسٹوفر کولمبس (Christopher Columbus) سے کئی صدیاں قبل امریکہ دریافت ہو چکا تھا.ہندوستان کے ایک اسکالر نفیس احمد نے اپنی کتاب مسلم کنٹری بیوشن ٹو جیو گرافی [43] میں جن چالیس مسلمان جیو گرافرز کے اسماء گرامی اور کتابوں کے نام دیے ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے: موسیٰ الخوازی (کتاب صورة الارض)، الکندی (رسم المعمور من الارض)، سرخشی (کتاب المسالك والمالک، رسالہ فی البحر والمياء الجبال) ، ثابت ابن قرة (بطلیموس کی کتاب جغرافیہ کا ترجمہ کیا ) ، این خراد به ) کتاب المسالک والمالک)، اصباح السلامی (کتاب اسماء جبال)، یعقوبی ( کتاب البلداں)، المروازی (فتوح البلداں)، ہمدانی ( کتاب البلدان 902 )، ابن رسطه ( العلاق النفیر (903 ء ، ابن فضلان (رساله)، ابو الفراج ( کتاب الخراج )، الجیهانی (عجائب البلداں، اس میں ہندوستان کے حالات ہیں)، ابو زید بلخی (کتاب اشکال، صورة الاقاليم، کتاب المسالك والممالک ( ابو الحق ابراہیم الاستخاری ( کتاب المسالک والممالک)، ابوالقاسم ابن حوقل ، المسعودی ( مروج الذهب)، الحائق ( كتاب جزيرة العرب)، المقدسی (احسن التقاسیم 985ء) ، البیرونی ( تحقیق ما فی الہند)، ناصر خسرو (سفرنامه 1045)، البكرى (كتاب المسالك والممالک) ، ابو بکر زہری ( تحفه الا باب ونخبت العجاب ، عجائب البلدان )، ابو محمد ابداری 1289ء ، ابن جبیر (رحله)، ابن سعید المغر بی 1274ء ( کتاب جغرافیہ فی اقالیم)، الا دریسی ) نزہت المشتاق ) ، الموصلی ( عیون الاخبار )، یا قوت حموی 1229ء ( معجم البلداں)، زکریا القزويني ( عجائب المخلوقات ) ، ابوالفداء ( تقویم البلداں)، حمد الله المستوفی (نزہت القلوب 1340 ء ) الدمشقی 1327 ء ( عجائب البر والبحر )، ابن بطوطہ ( رحاله)، عبد الرزاق ( مجمع البحرین)، احمد رازی (هفت اقلیم )، محمد عاشق 1598ء ( مناظر

Page 84

155 154 العالم ) ، حاجی خلیفہ 1657ء ( کشف الظنون)، کارٹو گرافی دنیائے اسلام کا سب سے پہلا کارٹو گرافر موسیٰ الخوارزمی تھا جس نے اپنے تیار کردہ نقشوں کی وضاحت کی طور پر کتاب صورۃ الارض لکھی تھی.اس کے بنائے ہوئے نقشوں میں طول بلد ، عرض بلد نہ دیے گئے تھے.خلیفہ المامون کے حکم پر جن ستر سائنس دانوں نے باہم مل کر دنیا کا ایک نقشہ تیار کیا تھا اس ٹیم میں الخوارزمی بھی شامل تھا.البلاذری نے فتوح البلداں میں لکھا ہے کہ خلیفہ المنصور کو بصرہ کی تمام نہروں کا نقشہ پیش کیا گیا تھا.ابوزید بلخی کی اٹلس کو اسلامی اٹلس ( Islamic Atlas) کہا جاتا ہے.اس میں اس نے دنیا کا ایک نقشہ دینے کے علاوہ عرب کا نقشہ بحر ہند کا نقشہ، مراکش، الجیریا کا نقشہ بحیرہ روم کا نقشہ اور دنیائے اسلام کے مختلف حصوں کے بارہ نقشے دئے تھے.اس اٹلس کی وضاحت کے طور پر اس نے ایک کتاب بھی لکھی تھی.ابوعبداللہ المقدسی نے کتاب احسن التقاسیم میں ہر وہ خطہ جس کا اس نے سفر کیا تھا اس کے حالات دیتے ہوئے اس کا نقشہ شروع میں دیا.اس نے اسلامی دنیا کو چودہ حصوں میں تقسیم کر کے ایک رنگین نقشہ دیا جس میں سڑکوں کا رنگ سرخ، ریت کو پہلا نمکین پانی والے سمندر کو سبز ، دریا نیلے رنگ کے اور پہاڑ بھورے رنگ کے تھے.البیرونی نے کتاب التفہیم میں دنیا کا گل نقشہ دیا تھا تا کہ سمندروں کا محل وقوع پیش کر سکے.آثار الباقیہ میں اس نے زمین اور آسمان کو پروجیکٹ کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ وضع کیا تھا.القزوینی نے بھی دنیا کا ایک نقشہ تیار کیا.عبد الرحمن الصوفی نے قاہرہ میں قیام کے دوران 1040 ء میں دو فلکیاتی گلوب بنائے تھے.الا دریسی کے جدت پسند دماغ نے سسلی کے بادشاہ را جر دوم ( Roger II) کے دربار میں 1154ء میں چاندی کا ایک گلوب اور دنیا کا گول نقشہ ایک ڈسک پر تیار کیا جس میں یورپ، ایشیا، افریقہ، درمیان میں جزیرہ نما عرب، بحیرہ روم صاف نظر آتے ہیں.اس نے ایک زبر دست اٹلس تیار کی جس میں 73 نقشے دیے گئے تھے.موصل کے ابنِ حولہ نے 1275ء میں کانسے کا ایک گلوب بنایا تھا.ترکی کے پیری رئیس (Piri Rais) نے اوشینو گرافی پر ایک عمدہ کتاب 1521ء میں لکھی جس میں بحیرہ روم کے تمام ساحلی علاقوں کے نقشے بھی دیے گئے تھے.

Page 85

157 156 13 علم فلسفہ آٹھویں صدی میں مسلمان حکماء نے یونانی فلسفیوں کی کتابوں کے عربی میں تراجم کیے اور ان سے خوب اکتساب علم کیا.یونانی فلسفہ اور نظریات جب اسلام میں داخل ہوئے تو الفارابی اور ابن سینا کے ذریعے انہوں نے قبولیت عام کی سند پائی.ان دونوں وسیع النظر، آزاد خیالات (liberal) کے فلسفیوں کی کتابوں کے عربی سے لاطینی میں تراجم ہوئے اور یورپ کے عالموں نے ان سے بالاستعیاب اکتساب کیا.مثلاً ابن سینا کی ان کتابوں نے یورپ میں دیر پا اثر چھوڑا: رسال: القضاء والقدر، اقسام الحكمة ، كتاب البر والاثم ، عیون الحکمۃ ، کتاب الاشارات.فلسفہ کا شہر یار الکندی عربوں میں سب سے پہلا فلسفی تھا اس لئے اس کو فیلسوف الحرب بھی کہا جاتا ہے.وہ ایک جامع النظر ریاضی داں بھی تھا.اس کے عقیدے کے مطابق کوئی بھی شخص ریاضی کا علم حاصل کیے بغیر فلسفی یا طبیب نہیں بن سکتا.اس نے فلسفے کی اصطلاحات سے عربی زبان کو آشنا کیا، جیسے اس نے اللہ تعالیٰ کے لیے واجب الوجود کی اصطلاح استعمال کی.اقلیم ہم میں بھی ہیں یا ہم میں پیدا ہو سکتی ہیں.یوں ایسی برائیاں ہمارے پیش نظر ہوں گی اور ہم ان کی اصلاح کر سکیں گے.اس نے فلسفے پر ہیں شاہکار تصانیف قلم بند کیں جن میں سے کئی کتابوں کالا طینی میں ترجمہ مائیکل اسکاٹ نے کیا.جیسے رسالہ فی ماہیتہ العقل.ابو بکر محمد بن زکریا رازی (932ء) کے افکار، کیمیا، طب ،طبیعیات اور فلسفہ میں سند سمجھے جاتے ہیں.یورپین عالم راجر بیکن (Roger Bacon) اپنی تصانیف میں بار بار اس کا ذکر کرتا ہے.اس کی اکتالیس کتابیں فلسفے پر ہیں جیسے کتاب فی الذاة، كتاب ببيت العالم، كتاب في الحركة، كتاب الخلاء والملاء، كتاب في العلم الالنبي ، كتاب السر في الحملة، كتاب في ان للعالم خالقاً حكيماً - كتاب في السيرة الفاضلة وسيرة اهل المدينة موخر الذكر كکتاب کو 1935ء میں فرانسیسی ترجمے کے ساتھ پال کراؤس (Paul Kraus) نے اٹلی سے شائع کیا.بطور فلسفی رازی نے اس کتاب میں اپنے اخلاق بیان کیے ہیں اور اس پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیا ہے.فارسی میں اس کا ترجمہ آقا عباس ارشتیانی نے کیا ہے.اس کے کئی فلسفیانہ خیالات و نظریات غیر اسلامی ہونے کے باعث با نظر استحسان نہیں دیکھے جاتے تھے.ابونصر الفارابی (950-870ء، ترکستان ) تحصیل علم کے بعد چالیس سال تک بغداد میں رہا.پھر سیف الدولہ کے دربار میں چلا گیا.دربار میں جس وقت پہنچا تو اس وقت علما کسی مسئلے پر بحث کر رہے تھے ، پہلے تو وہ دہلیز پر خاموش بیٹھا رہا پھر بحث میں کود پڑا.سیف الدولہ اس اجنبی کی نکتہ آفرینی سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا.چنانچہ جلد ہی وہ صاحبِ طرز ، اس نے تخلیق عالم کے مسئلے پر افلاطونی انداز میں نظر ڈالی.روح کی ماہیت کو اس نے مستند اور ثقہ بند فلسفی تسلیم کیا جانے لگا.علم منطق میں شارح ارسطو کی حیثیت سے اس نے جو سنہری نظریہ تنزلات کی روشنی میں حل کیا.اس کے نزدیک مرد کامل (ideal man) وہ ہے جو جسمانی کارنامے انجام دیے ان کی وجہ سے شہرتِ دوام ملی.اس کے تبحر علمی کے باعث اس کو معلم ثانی کا لذتیں ترک کرتا ہے اور اپنی زندگی غور وفکر میں گزارتا ہے.ایسے انسان کو وہ مرد صالح یا مظہر لقب دیا گیا، معلم اول (ارسطو) کی رعایت سے یہ بہت بڑا اعزاز تھا.وہ پہلا شخص ہے جس نے صفات الہیہ کہتا ہے.اس نے اصلاح نفس کا درج ذیل طریقہ بیان کیا.انسان کو اپنے دوست حکمیاتی اصولوں پر علوم کی طبقہ بندی کی جو آج تک مروج ہے.اس کو منطق پر اتنا عبور حاصل تھا و احباب کو آئینہ بنانا چاہتے اور جو برائیاں ان میں نظر آئیں، ان کے بارے میں سمجھنا چاہئے کہ یہ کہ ابن سینا کے بقول اس نے منطق الفارابی کی کتاب مابعد الطبیعات سے سیکھی تھی.اس نے

Page 86

159 158 پہلے سماجی زندگی کا نظریہ پیش کیا.وہ علم اخلاق کا نکتہ داں تھا.ابن سینا، ابن رشد، ابن میمون جیسے فلسفی اس کے نقیب تھے.جدید فلسفے کا بانی جرمن فلسفی ایمانوئیل کانٹ (Emanuel Kant) اور الفارابی کے نظریہ عقل کے تقابلی مطالعے سے یہ نتیجہ مستنبط ہوتا ہے کہ کانٹ الفارابی کے نظر یہ عقل سے متاثر تھا.آئینہ دار اس کی کتاب الشفاء 18 جلدوں میں ہے.جرمن زبان میں اس کا ترجمہ ڈاکٹر ہورٹن (Dr.Horton) نے شرح کے ساتھ شائع کیا تھا.اس کی دوسری کتابوں میں کتاب الاشارات و التنبيهات، كتاب النجات، مقاله في النفس، كتاب الموجز الكبير، علم المنطق، رساله حي بن يقظان، فلسفہ مشرقیه، رساله في العشق تعليقات ، تاويل الرؤيا، عشر مسائل ابوریحان البیرونی ہیں.شیخ کے فلسفیانہ نظریات کی واضح جھلک یورپ کے فلسفی ڈیکارٹ (Descarte) میں پائی جاتی ہے.ابن سینا نے اپنی کتابوں میں جن مسائل پر قلم اٹھایا وہ گونا گوں ہیں نفس کیا ہے؟ عشق کیا ہے؟ نباتاتی ارتقا، واجب الوجود ، عقل اور ایمان ، فلسفہ اخلاق، عارف کی صفات، تصوف و شریعت.اس کا فلسفہ تیرہویں صدی تک یورپ میں پورے زور وشور سے پڑھایا جاتا تھا اور مشرق و مغرب میں اسے بڑی قدر و منزلت سے دیکھا جاتا تھا.اس کے فلسفے کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اس نے یونانی فلسفہ اور اسلامی تعلیمات میں تطبیق کی بھر پور کوشش کی.اس کے نزدیک انسان اعمال میں آزاد ہے.مسرت قرب یزداں اور الم بعد یزداں ہے.نماز میں روح اللہ سے ہم کلام ہوتی ہے.انسان پر اللہ کی سب سے بڑی نوازش عقل ہے نہ کہ مذہب.اور اک خدا عقل کا انتہائی نقطہ کمال ہے.الفارابی کے اشہب قلم سے 160 کتابیں نمودار ہوئیں جن میں سے پچاس فلسفے پر ہیں.ان میں سے چند یہ ہیں: کتاب الاخلاق، کتاب في العلم الالہی ، كتاب سياسية المدنية مطبوعه حیدر آباد دکن 1968ء) ، کتاب فی الجن ، کتاب شرح السماء والعالم، کتاب الرد علی جالینوس، كتاب النجوم بتحصيل السعادة رسالة فى العقل، كتاب في اسم الفلسفه، کتاب الرد على الرازی، المدنية الفاضلة (مطبوعہ لیڈن 1891ء) ، ماہیتہ النفس، فی الخلاء.جیرارڈ آف کریمونا اور جان آف سیولے نے اس کی متعدد کتابوں کے لاطینی میں ترجمے کیے.احصاء العلوم (Survey of Sciences) کو عثمان امین نے مدون کر کے قاہرہ سے 1949ء میں شائع کیا تھا.ابن سینا (1037-980ء) شہرہ آفاق فلسفی ،عبقری طبیب، سائنس داں ، عالم وحکیم، مہتم بالشان کتابوں کا مصنف تھا اسی لئے اس کو شیخ الرئیس علم و حکمت کا بادشاہ ) کا لقب دیا گیا.اس کی تصنیفی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اہم سے اہم کتاب کو مطالعہ اور کسی کتاب کی مدد کے بغیر محض اپنی یادداشت سے لکھوا تا تھا.چنانچہ ایک دفعہ جب کسی سیاسی خطرے پر مرتب کیا اور اس کے حق میں عقلی دلائل دیے.اشارات میں اس نے کلیات تصوف، عارفوں کے پیش نظر ابو غالب کے گھر میں روپوش تھا تو کسی کتاب کی مدد کے بغیر اس نے کتاب الشفاء کے ہیں جز و یادداشت سے لکھوائے.اس نے اپنی تصنیفات میں جدید معلومات کا اضافہ کیا مثلاً علم ہئیت کے ایسے مسائل حل کیے جو اس کے پیشرو محققین کے ذہن میں نہیں آئے تھے.موسیقی میں ایسے مسائل اختراع کیے جن سے قدما بے خبر رہے.رصد کے نئے آلات ایجاد کیے.متعدد کتابیں دوسروں کی تحریک پر زیب قرطاس کیں.شیخ نے فلسفہ پر 22 کتابیں اور معارف رسائل لکھے.جدت فکر اور ندرت اظہار کی شیخ بوعلی سینا کا سب سے بڑا علمی کارنامہ یہ ہے کہ اس نے تصوف کو سائنسی اصولوں کے درجات اور ان کے حالات پر بحث کی.اس نے معجزات، کرامات، وحی اور الہام کا سبب تاثیر نفسانی کو قرار دیا.گیارہویں صدی میں جدید فلسفہ اخلاق کے بانی ، علم نفسیات اور فلسفے سے عظیم محقق امام محمد بن احمد الغزالی (1111ء) نے فلسفے کے موضوع پر سخت محنت، دیده ریزی، خاره شگافی سے کئی شاہکار کتابیں قلم بند کیں جن میں احیاء العلوم ، مقاصد الفلاسفة، تحافة التحافة،

Page 87

161 160 کیمیائے سعادت ،مشکوۃ الانوار، قانون الرسول، معراج السالکین، میزان العمل قابل ذکر ہیں.ان کتابوں کے تراجم یورپ میں کیے گئے اور یورپ کے بڑے بڑے مفکرین ، فلاسفہ اور مذہبی رہ نماؤں جیسے سینٹ ٹامس اکیونس (St.Thomas Acquinas) کی آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے ان کے نظریات سے خوب استفادہ کیا.ان کی تصنیف منیف شرح عجائب القلب کا ترجمہ جرمن زبان میں Die Wunder des Herzens کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے.ان کی آپ بیتی المنتقد من الضلال کا انگریزی ترجمہ کنگسٹن کی پبلک لائبریری میں موجود ہے.اردو میں اس کا ترجمہ سرگزشت غزالی لاہور سے 1959ء میں شائع ہوا تھا.احیاء العلوم کا ترجمہ محمد احسن نے کیا اور لکھنو سے 1955ء میں چار جلدوں میں شائع ہوا تھا.شبلی نعمانی کی کتاب الغزالی لکھنو سے 1901 ء میں شائع ہوئی تھی.ابن الہیشم (1039ء) بلند پایہ طبیب، مہندس، ماہر بصریات اور فلسفی تھا.اس نے دو درجن کتابیں سنجیدہ فلسفیانہ مسائل پر لکھیں.مقالہ فی العالم ، مقاله في الالم واللذة ، مقالة في صانع العالم، مقالة فی قدم العالم، مقالة فی بیت العالم ( اس آخری کتاب کو یہودی فاضل یعقوب بن ماہر نے عبرانی میں منتقل کیا ، پھر اس کے لاطینی اور ہسپانوی تراجم بھی کیے گئے ).اسلامی اسپین نے جو مایہ ناز دانشور اور فلسفی پیدا کئے ان میں ابن حزم ، ابن ماجہ ، ابن طفیل اور ابن رشد صف اول کے فلسفیوں میں شمار کیے جاتے ہیں.سر زمین اندلس نے تہذیب و ثقافت کے بہت سے چراغ روشن کیے جن کی ضیا پاشیوں نے یورپ سے جہالت کے پردے ہٹائے.ان میں سے ایک یگانہ روزگار عالم ابن حزم (1064-994 ء ) تھا.وہ قرطبہ میں پیدا ہوا.خلیفہ عبد الرحمن الخامس کا وزیر بنا.چند ماہ بعد سیاست سے کنارہ کش ہو کر تالیف و ترجمہ کے کام میں ہمہ تن مصروف ہوا.وہ بیک وقت فلسفی ، مورخ، محدث، فقیہہ اور عربی کا زبردست ادیب اور شاعر تھا.اس نے تقابلی مطالعہ ادیان (comparative study of religions) پردنیا کی سب سے پہلی کتاب الملل والنحل (Book of Sects) قلم بند کی.اس نے اس کی چند فلسفیانہ تصنیفات جن میں اس نے علم و حکمت کے ایسے موتی نکالے کہ ان کی چمک سے آج بھی آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں یہ ہیں: کتاب بین التورات والانجیل ، التقريب بعد المنطق ، كتاب شرح الموطاء مداوة النفوس.اس کی تصانیف کی تعداد چار سو کے قریب ہے.دیگر کتابوں کے نام ہیں: طوق الحمامه، کتاب الفصل فی الملل والنحل (اس کا اردو ترجمہ عبد اللہ آمدی نے کیا جو جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد، دکن نے 1945ء میں شائع کیا تھا) جوامع السیاسیة، کتاب الاحکام فی اصول الاحکام، ابطال القياس، تواریخ الخلفاء، ابطال القياس (منطق).ابو بکر ابن باجہ (1138ء) اندلس کا مشہور فلسفی، ادیب، شاعر اور حافظ قرآن تھا مگر اس کی شہرت عام طور پر فلسفیانہ علوم میں ہے.مشاہیر اسلام میں اس نے سب سے پہلے ارسطو کی کتب کی تشریح و توضیح کی طرح ڈالی.لسان الدین الخطیب نے اس کو اندلس کا آخری فلسفی قرار دیا ہے.اندلسی مؤرخ ابن سعید نے اپنی کتاب نفح الطیب میں لکھا ہے کہ اس کو مغرب میں وہی درجہ حاصل تھا جو مشرق میں الفارابی کو حاصل تھا.عبد السلام ندوی نے حکمائے اسلام میں اس کی بائیس فلسفیانہ تصنیفات کے نام گنائے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں: کتاب اتصال العقل، رسالۃ الوداع، کتاب تدبير المتوحد، کتاب النفس [44].اس کی آزاد خیالی کی بنا پر علمائے اندلس نے اس پر فتوئی تکفیر لگایا تھا.اس نے امام غزالی کے اس نظریے کو کہ حقیقت کا مشاہدہ صرف وجدان سے ہو سکتا ہے اور وجدان سے ہی سکونِ قلب جنم لیتا ہے، ہدف تنقید بنایا.اس کے نزدیک حصول مسرت کا واحد راستہ یہ ہے کہ انسان علما و حکماء سے ملے اور محبت کو اوڑھنا بچھونا بنائے.ابن طفیل (1185ء) غرناطہ میں وزارت کے منصب پر فائز رہا.اس کا وجد آفریں فلسفیانہ ناول ”حتی ابن یقطان ہے جس میں اس نے اپنے فلسفیانہ خیالات کہانی کی صورت میں پیش کیے ہیں.اس کے دیباچہ میں اس نے تاریخ فلسفہ بیان کی ہے نیز یہ بھی کہا ہے کہ انسانی فکر کی منتہا خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور زندگی کی آخری منزل خدا تعالی سے اتحاد ہے.اس ناول کا

Page 88

163 162 ترجمہ 1671ء میں ایڈورڈ پوکاک (Edward Pocock) نے لاطینی میں فیلوسوفس آٹو ڈیڈ کاٹس (Philosophus Autodidcatus) کے نام سے کیا ، اس سے یورپ کے لوگوں پر اس کی اہمیت آشکار ہوئی اور دنیا کی دیگر زبانوں میں بھی اس کے تراجم کیے گئے.کنگسٹن کی پبلک لائبریری میں اس کا ایک عربی نسخہ موجود ہے جو بیروت سے شائع ہوا تھا.اس کے فلسفے کا ماحصل یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز دوسروں کے لیے ہے.درخت اپنا پھل خود نہیں کھاتے.دریا اپنا پانی خود نہیں پیتے.یہ بہاریں، یہ برساتیں، یہ نفھے، یہ زمزمے سب دوسروں کے لیے ہیں.پس وہی زندگی نظام کائنات کے مطابق ہو سکتی ہے جو دوسروں کے لیے ہو.خدا کی ذات سورج کی روشنی کی مانند ہے جس کا عکس اگر ٹھوس مادے پر پڑے تو گمان ہوتا ہے کہ ٹھوس مادے سے روشنی پھوٹ رہی ہے لیکن ایک شفاف شئے سے گزرے تو صرف سورج کی روشنی کا مظاہرہ ہوگا.اس نے حسنِ ازل سے آشنائی کے تین مراحل بتائے ہیں.اول انسان اپنی ذات میں جذب ہو جاتا ہے اور دوسری تمام اشیا سے تعلق ختم کر لیتا ہے.دوم انسان حقیقت سے آشنائی پر بے انتہا مسرت محسوس کرتا ہے اور اس کیفیت میں اپنی ذات کو پالیتا ہے.سوم انسان اپنی ذات خدا کی ہستی میں جذب کر دیتا ہے اور تمام اشیا اس کے نزدیک معدوم ہو جاتی ہیں.اس کی تصانیف میں رسالۃ فی النفس ، کتاب فی البقع المسکونہ ہیں.فلسفیوں کا سرخیل قاضی ابن رشد القرطبی (1198ء ) اندلس کا عظیم فلسفی تھا.اس کی کتابیں چھ سو سال تک یورپ کی درسگاہوں کے نصاب میں شامل رہیں.راجر بیکن نے اس کو ارسطو اور ابن سینا کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا افلسفی قرار دیا ہے.فلسفے کے موضوع پر اس کی قابل ذکر کتابیں ہیں : مبادی الفلسفہ، تحافة التحافة، کتاب کشف المنائج، العادلہ عقائد الملة فصل المقال.ابن رشد نے ارسطو کی 38 کتابوں کی شرح اور تلخیص لکھیں.وہ ارسطو کو صاحب المنطق کہا کرتا تھا.ارسطو کی کل کتابوں کی جو شر میں اس نے لکھیں وہ تین قسم کی ہیں (1) جوامع یا شرح بسيط (large commentaries) میں اس نے ارسطو کے ہر فقرے کو پہلے تصریح کے ساتھ بیان کیا، پھر اپنی طرف سے اس کی شرح بیان کی، (2) تلخیص یا شرح متوسط یا صغیر ( medium commentary) میں اس نے ارسطو کا پورا متن نقل نہیں کیا بلکہ اس کی عبارتوں کے ابتدائی فقروں کو نقل کر کے اس کی شرح پیش کی (3) مختصرات (short commentaries ) میں اس نے ارسطو کی کتاب کا متن دیے بغیر اس کے مطالب بیان کیے.یہودی حکماء نے یورپ میں ابن رشد کی بہت ساری کتابوں کے تراجم کیے، یا اس کی کتابوں پر شر میں لکھیں.یو نیورسٹی آف پیڈ وا (University of Padua ،اٹلی) کے مطبع خانے نے 1480ء سے 1580 ء کے عرصے میں اس کی کتابوں کے سو کے قریب تراجم شائع کیے.سلی کے بادشاہ فریڈرک دوم نے 1224ء میں اٹلی کی یو نیورسٹی آف نیپلز (University of Naples ) میں ابن رشد کی کتابیں نصاب میں شامل کیں.1973ء میں فرانس کے بادشاہ لوئی یاز دہم (Louis X نے حکم دیا کہ فرانس کی تمام درسگاہوں میں اس کی وہ کتابیں نصاب میں شامل کی جائیں جن کا تعلق ارسطو سے ہے.حقیقت تو یہ ہے کہ اس عظیم المرتبت مسلمان فلسفی نے یورپ کو اپنے تبحر علمی سے گراں بار احسان کیا.یورپ کی ذہنی بیداری اور حیات ثانیہ اس کے ذکر سے لبریز ہیں.ارسطو کی کتابوں کی شرحیں لکھنے کی بنا پر اس کو شارح اعظم (The Commentator) کے لقب سے بھی نوازا گیا.روایت ہے کہ شہرہ آفاق یہودی عالم موسیٰ ابن میمون خود ابن رشد کی کتب پر شرحیں لکھا کرتا تھا.اس کی کتاب تحافة الفلاسفہ کا لاطینی ترجمہ 1328 ء میں کیا گیا.فریڈرک دوم (Frederick II) کے درباری محقق مائیکل اسکاٹ نے بھی اس کی متعدد کتابوں کی شرحیں لکھیں.مائیکل نے 1230ء میں ابن رشد کی کتاب شرح کتاب السماء والعالم اور شرح مقالہ فی الروح کا ترجمہ کیا.اس کی متعدد کتابیں جیسے شرح الارجوزہ لابن سینا ، شرح جالینوس، مقالہ فی الترياق، کتاب الکلیات وغیرہ میڈرڈ کے قریب واقع مشہور زمانہ اسکور یال لائبریری (Escorial Library)

Page 89

165 164 میں عبرانی اور عربی میں موجود ہیں.اس کے علاوہ امپیریل لائبریری، پیرس اور آکسفورڈ کی با ڈلین (Bodlean) لائبریری میں اس کی تصنیفات کے نسخے عبرانی رسم الخط میں محفوظ ہیں.کہا جاتا ہے کہ عبرانی میں توریت کے بعد ابن رشد کی تصنیفات سے زیادہ کسی اور عالم کی کتابوں کی اتنی کثیر اشاعت نہیں ہوئی.عربی میں موسیٰ ابن میمون ( 1204 Maimonides ) کے علمی شاہکار کا نام دلالة الحیربین ہے.اس عالم نے اپنی تمام کتابیں ماسوامشثناء تو را، عربی میں تصنیف کیں اور سب کی سب لاطینی میں ترجمہ ہوئیں.اس کے فلسفیانہ افکار سے اسپینوزا (1677 Spinoza) اور جرمن فلسفی کانٹ بہت متاثر تھے.اس نے جالینوس کی اکیس کتابوں کے خلاصے لکھے.اس نے فلسفے کا علم مسلمان فلسفیوں کی کتابوں کو پڑھ کر حاصل کیا.دلالتہ الحیربین میں اس نے گونا گوں موضوعات پر قلم اٹھایا جیسے خدا اور فطرت ، قضاوقدر، نیکی اور بدی.اس نے کہا کہ انسان خدا کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں جان سکتا.وہ صرف یہ کر سکتا ہے کہ خدا کے بارے میں کہے کہ خدا کیا نہیں ہے ( What God is not).اس نے بائبل کی بہت ساری آیات کی لفظی کے بجائے تمثیلی تفسیر کی.1958ء میں یونیسکو کے زیر اہتمام اس کی 850 ویں سالگرہ منائی گئی اور ایک کا نفرنس کا اہتمام کیا گیا.ٹائم میگزین کے 23 دسمبر 1985ء کے شمارے میں ایک مضمون نگار نے اس کو قرون وسطی کا سب سے اثر انگیز مفکر قرار دیا.محی الدین ابن العربی (1240-1165 ء ) عالم اسلام کے سب سے عظیم صوفی فلسفی تھے جن کا لقب الشیخ الاکبر تھا.انہوں نے 200 سے زائد رسائل اور کتابیں لکھیں جن میں سے بعض کتابوں کے صفحات ایک ہزار سے زیادہ تھے.ان کی کتاب فتوحات مکیہ کے ایک ایک لفظ میں معرفت کا سمندر موجیں مار رہا ہے.فلسفے پر ان کی کتاب فصوص الحکم“ کا ترجمہ لندن سے 1980ء میں دی بیرلس آف وزڈم(The Bezels of Wisdom) شائع ہوا تھا.اس کتاب پران کے بہت سے مداح ایک سو سے زیادہ شرحیں اور تفاسیر لکھ چکے ہیں.انہوں نے تصوف اور فلسفے میں اتحاد کی کوشش کی.تصوف پر ان کا اثر دیر پا تھا اور اب تک محسوس کیا جاتا ہے [45].ان کی چند دیگر تصانیف یہ ہیں: الافہام ، اربعین، البحر المحیط ، کشف الاسرار ( تفسیر میں جلدوں میں)، السر المكتوم، جلاء القلوب، رسالة في مابينه القلوب، مراتب القلوب.ان کا سب سے بڑا فلسفہ نظرية وحدت الوجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات کا ایک ظاہر ہے جو نظر آرہا ہے اور ایک باطن ہے جس کا نام اللہ ہے.عبداللہ ابن تیمیہ (1263-1228ء) شام کے شہر حران میں پیدا ہوئے.علما کی نظریاتی مخالفت کی وجہ سے آٹھ سال تک پابند سلاسل رہے.ہمیشہ تصنیف و تالیف میں مصروف رہے اور پانچ سو کتابیں زیب قرطاس کیں.یونانی فلسفے پر پہلی کاری ضرب امام غزائی نے لگائی اور آخری ابن تیمیہ نے ان کی چند فلسفیانہ تصانیف کے نام یہ ہیں: الارادة والامر، القضاء والقدر، درجات الیقین ، معارج الوصول، عرش الرحمن الرد علی فلسفته ابن رشد، ابطال وحدۃ الوجود.اقلیم ہیت کے شہنشاہ نصیر الدین الطوسی کی علم اخلاق پر موتیوں کی لڑیوں میں پروئی کتاب اخلاق ناصری ہے جو کئی سو سال تک لوگوں کے قلب و ذہن پر چھائی رہی.تجرید العقائد علم کلام پر معرفت کا خزینہ ہے جس پر قدیم اور جدید شرحیں بڑی تعداد میں لکھی گئی ہیں.عمر بن ابراہیم خیام غضب کا شاعر، ماہر فلکیات، موسیقار، ریاضی داں ہونے کے ساتھ ساتھ یگانہ روز گار فلسفی بھی تھا.اس نے فلسفے کے موضوع پر درج ذیل کتابیں حوالہ قرطاس کیں: رسالہ الكون والتکلیف ، جواب الثالث المسائل، رساله في الكليات الوجود، رساله الضياء العقلي في الموضوع الکلی ، رسالہ فی الوجود [46].رسالہ کون (هستی) و تکلیف (احکام خداوندی) میں اس نے دو دلچسپ سوالوں کا جواب دیا: ایک یہ کہ خدا نے یہ دنیا ( خصوصاً انسان ) کیوں بنائی؟ دوسرے انسانوں کو عبادات بجالانے کی کیوں تکلیف دی؟ مایہ ناز عالم و فلسفی جلال الدین السیوطی (1505-1445 ء ، مصر ) کا ان تھک قلم شب و روز چلتا رہا.انہوں نے قرآن، حدیث، تاریخ، فقہ، فلسفہ پر پانچ سو ساٹھ کتابیں

Page 90

167 166 زیب قرطاس کیں.ان کی چند بصیرت افروز فلسفیانہ تصانیف یہ ہیں: انوار الحلک تحفۃ الجلساء، در الکلم ، قلائد الفوائد ،صون المنطق والكلام، انبیا ء الا ذکیا.شمس الدین این کمال پاشا (1528 ء ، ترکی) نے فلسفیانہ مسائل پر دوسو کتابیں لکھیں.رسالہ فی تحقیق الروح، رسالہ فی الجبر والقدر، رساله في بيان وحدة الوجود، في تحقيق الکلام، رساله في تحقيق المعجزة ، رساله فی مسئله خلق الاعمال، طبقات اصحاب، الامام الاعظم، تفسیر القرآن، نگارستان ( به طر ز گلستان).صدرالدین شیرازی ملاصدرا (1640-1528ء) نے اصفہان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دس سال زہد وریاضت میں تم شہر کے پاس ایک گاؤں میں گزارے.باقی زندگی شیراز میں اللہ وردی مدرسے میں استاد کے عہدے پر متعین رہے.ایک لیگانہ روزگار فلسفی کی حیثیت سے انہوں نے عربی میں پچاس سے زیادہ کتابیں لکھیں.کتاب الحکمۃ العرشية، الشواهد الربوبیه، رسائل، تعليقات على البيات كتاب الشفاء، كتاب المبداء والمعاد، مفاتح الغیب، شرح اصول من الکافی، ڈاکٹر غلام جیلانی برقی نے فلسفیانِ اسلام میں 150 مسلمان فلسفیوں کے حالات مع ان کی کتابوں کے نام اور افکار پیش کیے ہیں.} 14 علم تاریخ عربوں میں تاریخ نویسی کی ابتدا اس وقت ہوئی جب عبد اللہ ابن المقفع نے فارسی کی کتاب خدائی نامہ کا ترجمہ آٹھویں صدی میں عربی میں سیارالملوک انجم کے نام سے کیا.ابن الحلق نے خلیفہ منصور (768ء) کے دور خلافت میں سیرت رسول اللہ لکھی جو نبی پاک نے کی سوانح حیات پر پہلی کتاب تھی.اس کے بعد تاریخ کے موضوع پر اس کثرت سے کتابیں لکھی گئیں جو شمار سے باہر ہیں.کتاب کشف الظنون میں علم تاریخ پر مسلمانوں کی 1300 کتابوں کی فہرست دی گئی ہے.اس سے اس کثیر تعداد کا اندازہ کیا جاسکتا ہے.ابوالعباس احمد البلاذری (892ء) نے جو ایرانی نسل سے تھا، کتاب فتوح البلدان لکھی جسے نبی پاک نہ کی جنگی فتوحات، خلفائے راشدین کی فتوحات اور ان روایات کو بنیاد بنا کر کھا تھا جو اس نے مختلف ممالک کے سفر کے دوران خود سنی تھیں.اس کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے [47].اس کی دوسری کتاب انساب الاشراف تھی.ابوحنیفہ دینوری (895ء) نے کتاب اخبار الطوال (long history) ایران کی تاریخ پر لکھی.احمد ابن ابی یعقوب (یعقوبی ) کی کتاب البلداں میں قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے واقعات 872 ء تک دیے گئے ہیں.یہ ہالینڈ سے 1883ء میں دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی.محمد بن جریر الطبر ی(923ء) پہلا قابل ذکر مسلمان تاریخ داں تھا.اس نے بغداد اور قاہرہ کے سفر کیے.متاع عزیز کے چالیس برس وہ روزانہ چالیس صفحات قلم بند کرتا رہا جس کا نتیجہ تاریخ الرسول والملوک تھا.اس نے قرآن پاک

Page 91

169 168 کی تفسیر بھی لکھی ہے.ابوالفرج اصفہانی (967-897ء) نے عرب شاعری پر کتاب الاغانی ہیں جلدوں میں تصنیف کی جو ہارون رشید کی مدح میں لکھی گئیں ایک سوگراں قدر نظموں کو بنیاد بنا کر ترتیب دی گئی تھی.اس نے ہر شاعر کی سوانح عمری پیش کی اور اس کی نظم پر تبصرہ کیا.اس نے پرانے عرب مصنفین کی ایسی کتابوں سے لمبے لمبے اقتباسات نقل کیے جو وقت گزرنے کے ساتھ بھلا دی گئی تھیں، اس سے کتاب الاغانی کی اہمیت مزید بڑھ گئی.ابنِ خلدون نے مشہور زمانہ تصنیف مقدمہ میں الا غانی کو عربوں کا رجسٹر ( Register of Arabs) لکھا ہے.کتاب میں دور جاہلیت سے لے کر نویں صدی تک عرب تہذیب کی تاریخ درج ہے.لیڈن سے یہ کتاب 1888ء میں شائع ہوئی تھی.ابن القطبیہ الدینوری (889-829ء) نے آداب تصانیف پر کاتبوں کے لیے آداب الکاتب لکھی.اس کی اہم ترین کتاب عیون الاخبار ( منتخب تاریخ) تھی.اس کی دو اور کتابیں کتاب المعارف (Book of General Knowledge) اور کتاب الشعر والشعراء بھی قابل ذکر ہیں.علی بن حسین المسعودی (957-888ء) نے آرمینیا، ہندوستان ،سیلون، زنجبار، مڈغاسکر اور چین کے سفر کیے.زندگی کے آخری ایام اس نے شام اور مصر میں گزارے.اس کا علمی شاہکار مروج الذهب والمدائن تھیں جلدوں میں ہے یہ تاریخ عالم (world history) کی مستند کتاب ہے جو 947ء پر ختم ہوتی ہے.اس کی دیگر کتابوں کے نام اخبار الزمان ، کتاب الاوسط اور کتاب التنبیہ والاشراف ہیں.ابن خلدون نے اس کو امام المؤرخین کا لقب دیا ہے.اندلس کے ابومروان (1075ء) نے تاریخ اندلس موسوم المتین ساٹھ جلدوں میں ترتیب دی.بزرگ ابن شہریار (دسویں صدی ) ایرانی بحری جہاز کا کیپٹن تھا.اس نے سفر کے دوران سبق آموز قصے کہانیوں کو لوگوں سے سن کر قلم بند کیا.اس کتاب کا نام عجائب الہند ہے جس کا انگریزی ترجمہ اے بک آف مارویس آف انڈیا (A Book of Marvels of India) کے نام سے 1928ء میں روٹیج ، انگلینڈ (Routledge, UK) سے شائع ہو چکا ہے.نورالدین المقدسی (1004ء) نے بیس سال کے اسفار کے بعد احسن التقاسیم فی معرفت الاقالیم 985ء میں قلم بند کی.جن خطوں کا اس نے دورہ کیا ان خطوں کے رنگین نقشے بھی ساتھ میں دیے ہیں.وہ جہاں بھی گیا وہاں کے پانی کے بارے میں اس نے ضرور لکھا ہے.مصر میں نیلو میٹر دیکھ کر اسے بھی کتاب میں بیان کیا ہے.ایک اور شہر میں اس نے واٹر کلاک دیکھی جس سے پانی تقسیم کیا جارہا تھا.دمشق کے حالات میں اس نے وہاں کی جامع مسجد کا ذکر کر کے اس کے چار دروازوں باب البريد، باب الساعۃ ، باب الفرادس اور باب جیرون کا ذکر کیا.کتاب کے کچھ حصوں کا انگریزی ترجمہ بی اے کولنس (B.A Collins) کے ذریعے مشین ، امریکہ ( Michigan, USA) سے 1974ء میں "المقدسی : دی مین اینڈ ہر ورک ( Al-Muqaddasi - The Man and His work) کے نام سے شائع ہو چکا ہے.این ندیم نے الفہر ست لکھی جس میں عربوں کی ادبی تاریخ کے موضوع پر دسویں صدی کے اختتام تک کے اندراجات ہیں.الواقدی نے کتاب المغازی لکھی.ابن ندیم نے واقدی کی مزید 28 کتابوں کا ذکر کیا ہے.یتمی (1036ء) نے کتاب الہیمینی میں محمود غزنوی کے حالات قلم بند کیے.جرجی الکین (عیسائی مؤرخ) کی کتاب مجموع المبارک کا ترجمہ لاطینی میں 1625ء میں شائع ہوا.[48] ابوالحسن الماوردی (1058 ء ، بغداد) نے کتاب احکام السلطانیہ سیاست کے موضوع پر لکھی.یہ بون، جرمنی (Bonn, Germany) سے 1853ء میں شائع ہوئی تھی.علم اخلاق پر اس کی ایک کتاب آداب الدنیا والدین بھی ہے جو مصر اور ترکی کے اسکولوں میں پڑھائی جاتی تھی.ابوبکر خطیب بغدادی (1071-1002ء) نے بغداد کے علما کے تذکرے کے طور پر تاریخ بغداد لکھی جو چودہ جلدوں میں ہے.ناصر خسرو (1088ء)، جس کا لقب حجہ خراسان تھا،

Page 92

171 170 نے سات سال تک شام فلسطین، مصر، عرب اور ایران کے سفر کیے اور جو کچھ دیکھا سناوہ سفر نامہ کی صورت میں قلم بند کیا.چارلس شیفر (Shefer) نے اس کا فرانسیسی ترجمہ کیا جو پیرس سے 1881ء میں شائع ہوا.نظام الملک (1092ء) نے سلجوق حکمراں ملک شاہ کے لئے نظام حکومت پر مبسوط سیاست نامہ فارسی زبان میں لکھا.اس کتاب میں حکومت کے کام کے طریقوں اور نظم ونسق پر اظہار خیال کیا گیا ہے.ابن الجوزی (1200ء) نے تاریخ کے موضوع پر مرآة الزمان لکھی.عزالدین ابن الاثیر (1160-1233ء) نے تاریخ عالم پر تاریخ الکامل لکھی جو 1231ء تک کے مکمل حالات پر مشتمل ہے ( وفیات الاعیان، جلد دوم صفحہ 288).یہ یخنیم کتاب چودہ جلدوں میں لیڈن سے 1876-1851ء میں شائع ہوئی تھی.انگریزی میں اس کا ترجمہ ڈی ایس رچرڈس (D.S.Richards) کے ذریعے 2002 ء میں دی اینلس آف سلجوق ٹرکس (The Annals of Saljuk Turks) کے نام سے شائع ہوا تھا.چھ جلدوں پر مشتمل اس کی دوسری کتاب اخبار الصحابہ میں 7500 صحابہ کرام رضوان اللہ کے حالات زندگی پیش کیے گئے ہیں.جمال الدین ابن القفطی ( مصر 1248ء) نے تاریخ قاہرہ پر لکھنے کے علاوہ فلسفیوں اور طبیبوں کے حالات پر کتاب اخبار العلماء بأخبار الحکماء لکھی جو لیپزگ سے 1903ء میں شائع ہوئی تھی.یہ 26 کتابوں کا مصنف تھا.ابن ابی اصیبعہ (1270ء) نے عیون الانباء فی طبقات الاطباء لکھی جو تاریخ الاطبا پر ایک مستند اور معتبر کتاب سمجھی جاتی ہے.یہ یورپ میں 1884ء میں شائع ہوئی تھی.اس کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے.ابن خلکان (1282-1211ء) نے ایک بایوگرافیکل ڈکشنری (biographical dictionary) وفیات الاعیان کے نام سے لکھی جس کا انگریزی ترجمہ چار جلدوں میں 1842ء میں شائع ہوا.یہ کوئیز یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود ہے.اندلس کے تاریخ داں اندلس میں بھی کئی ممتاز تاریخ داں پیدا ہوئے جنہوں نے وسیع المعلومات کتابیں سپر و قلم کیں: ابن حیان (کتاب المقتبس اور تاریخ الاندلس )، ابن عبد ربہ (عقد الفريد )، ابن القطبيبه ( تاریخ الاندلس)، الفرازی ( تاریخ علماء اندلس)، احمد ابن رازی ( 937ء)، ابن صاعد (طبقات الامم ) عبد الرحمن ابن خلدون ( مقدمہ ).ابوبکر احمد رازی (937ء) کو اسپین کے لوگ E.I.Cronista por excelecia کہتے تھے.تاریخ اندلس پر اس کی عربی کتاب تو دستیاب نہیں البتہ اس کے پرتگالی اور کا سٹیلین تراجم موجود ہیں.ابو عبد اللہ اندلسی نے ڈکشنری آف سائنس لکھی.عریب ابن صاعد القرطبی (976ء) خلیفہ عبد الرحمن الثالث کے دربار کا معزز رکن تھا.کچھ عرصہ خلیفہ الحکم الثانی کے دربار میں بھی اعلیٰ عہدے پر فائز رہا.وہ ایک معروف تاریخ داں اور حاذق طبیب تھا.اس نے اندلس اور افریقہ کے سیاسی حالات پر ایک کتاب تصنیف کی.طب پر کتاب خلق الجنین نیز کیلنڈر پر ایک رسالہ کتاب الانواع بھی اس کی یادگار ہیں.این جلجل (994-944 ء ) اندلس کا مشہور طبی مورخ تھا.14 سال کی عمر میں اس نے طلب کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا اور جب زندگی کے 24 ویں زینے پر قدم رکھا تو طبابت کے پیشے سے منسلک ہوا.وہ خلیفہ ہشام نانی کا ذاتی معالج تھا.اس کا علمی شاہر کار تاریخ الاطباء والحكماء عربی زبان میں طب کی مبسوط تاریخ ہے.اس میں 57 سوانح عمریاں پیش کی گئی ہیں جن میں 31 مشرقی طبیبوں اور بقیہ افریقی و اندلسی اطبا اور حکماء کی زندگی کے حالات ہیں.اس کی دو اور کتابیں «تفسیر اسماء الا دویہ اور مقالہ فی ذکر الا دویہ طلب پر ہیں.علاوہ ازیں اس نے ایک اور دلچسپ کتاب لکھی جس میں اطبا کی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے.ایک مقالہ ایسی جڑی بوٹیوں پر لکھا ہے جو یونانی عالم دیس قوریدوس (Dioscorides) کی کتاب الحشائش میں نہ تھیں مگر اسپین

Page 93

173 172 میں پائی جاتی تھیں.ابن القطیبہ (وفات 997ء) مشہور تاریخ داں اور قواعد صرف و نحو (gramer) کا ماہر تھا.اس کی کتاب تاریخ الاندلس میں 893-750 ء تک کے واقعات بیان کیے گئے ہیں.جبکہ دوسری کتاب الانفتاح الاندلس میں خلیفہ عبد الرحمن الثالث کے دور حکومت تک کے واقعات کا تذکرہ ہے.کتاب التصريف الا فعال صرف ونحو کی پہلی کتاب تھی.ابو وليد ابن الفرازی (1013-962ء) کی پیدائش قرطبہ میں ہوئی جہاں وہ قانون کے پیشے سے منسلک رہا.حرمین شریفین کی زیارت کے بعد جب وہ واپس اپنے وطن آیا تو اس کو ویلینسیا (Valencia) کا قاضی مقرر کیا گیا.اس کی تصنیف تاریخ علماء الاندلس (History of Scientists) میڈرڈ سے 1891 ء میں شائع ہوئی تھی.ابن حیان القرطبی (988-1076ء) نے پچاس کتابیں تصنیف کیں جن میں امتین ساٹھ جلدوں میں تھی مگر اب یہ نایاب ہے.دوسری تصنیف کتاب المقتبس فی تاریخ الاندلس (اندلس کے مسلمان حکماء کی سوانح عمری) دس جلدوں میں ہے اور ابھی تک دستیاب ہے.یہ آخری بار پیرس سے 1937 ء میں منظر عام پر آئی تھی.قاضی صاعد اندلسی (1070ء) طلیطلہ میں قاضی کے عہدے پر فائز تھے.تاریخ میں اس نے کتاب طبقات الام تصنیف کی جس کا اثر تاریخ دانوں پر ہمیشہ رہا اور اسے کثرت سے استعمال کیا گیا.سائنس کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اس نے کہا کہ آٹھ قوموں یعنی ہندی ، ایرانی ، کلدانی، یونانی، لاطینی، مصری، یہودی اور مسلمانوں نے سائنس کی ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اس نے یورپ کی اقوام کو تیسرے درجے کی قوموں میں شامل کیا.طبقات کا فرانسیسی ترجمہ بلا شیر (R.Blachere) نے کیا جو پیرس سے 1935ء میں شائع ہوا تھا.مزید برآں، اس نے اندلس کے ممتاز علما پر بھی ایک کتاب لکھی جس میں مسلم اور غیر مسلم علما کو شامل کیا گیا تھا.بلیت پر بھی اس نے ایک مقالہ لکھا جو اس کے ذاتی مشاہدات پر مبنی تھا.اجرام سماوی کے ان مشاہدات سے الزرقلی نے استفادہ کیا تھا.ابن بسام (1147ء) نے اندلس کی ادبی تاریخ پر کتاب الذخیرہ تصنیف کی جس کا ادبی اسلوب اور طرز بیان منفرد تھا یہ معلومات کا نادر اور نایاب خزانہ تھا.عبد الرحمن ابن خلدون ( 1406 - 1332ء ) جدید علم بشریات ( Modern Anthropology) کا باوا آدم تسلیم کیا جاتا ہے.وہ اسلامی تہذیب و تمدن کی آخری عظیم علمی شخصیت تھی.اس کے تبحر علمی اور فضیلت کا اندازہ ٹوئن بی (Toynbee) کے ان الفاظ سے ہوتا ہے: "He conceived and formulated a philosophy of history which is undoubtedly the greatest work of its kind." اس نے الفارابی اور ابن سینا کے خیالات سے اتفاق نہیں کیا اور اپنی کتابوں میں اس بات کا اظہار کیا کہ کس طرح ٹوپوگرافی (topography) اور ڈیموگرافی (demography) اور اقتصادی حالات انسان کی سماجی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں.اس نے تاریخ عالم کو مسلسل اجتماعی حرکت اور ارتقا پذیر قرار دیا.بطور پیشہ وہ غرناطہ، فیض (مراکش) اور شام میں سفیر کے عہدے پر فائز رہا.اس کو بحیثیت سفیر تیمور لنگ کے دربار میں بھی جانے کا شرف حاصل ہوا.اس کا علمی شاہکار کتاب العبار و دیوان مبتداج و الخبار في ايام العرب والعجم سات جلدوں میں ہے.پہلی جلد مقدمہ پر مشتمل ہے.اس مقدمے نے بہت شہرت حاصل کی اور فی الحقیت یہ علم تاریخ کا شاہکار ہے.اس مقدمے نے اس کے نام کوزندہ جاوید بنا دیا.انیسویں صدی میں اس کا ترجمہ فرانسیسی میں ہوا اور 1958ء میں اس کا انگریزی ترجمہ کیا گیا.[49] ابن خلدون بہت حد تک عقلیت پسند تھا.اس نے قرونِ وسطیٰ میں مسلمانوں کے علمی کارناموں کا سہرا غیر عرب مسلمانوں کے سر باندھا جس سے عرب دانشور اس کے خلاف ہو گئے.مثلاً اس نے کہا کہ یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ دین اور سائنس کے بہت سارے محقق غیر عرب

Page 94

175 174 تھے.کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس عظیم دانشور کی عظمت کو مسلمان تو پورے طور پر نہ جان سکے لیکن دانشورانِ مغرب نے اس کی علمی شان کو پہچانا اور اس کی عظمت کا بانگِ دہل اعتراف کیا.رشیدالدین (1317-1247ء) کسی معروف ایرانی یہودی طبیب کا بیٹا تھا جو میں سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوا.اس کو منگول بادشاہ نے منگول قوم کی تاریخ اور ان کی جنگی فتوحات پر کتاب لکھنے پر مامور کیا چنانچہ اس نے جامع التواریخ 1307ء میں مکمل کی جو فارسی زبان میں عمدہ کتاب ہے.الذھمی ( 1348 - 1274ء ، دمشق) نے تاریخ الاسلام لکھی.ابن کثیر (1301-1372ء) نے قرآن پاک کی تفسیر کے علاوہ سیرت رسول اللہ اللہ اور تاریخ اسلام پر البدایہ والنہایہ ( چودہ جلدوں میں) لکھی.جلال الدین السیوطی ( 1505-1445ء) نے تفسیر القرآن، حدیث، شریعت اور علم تاریخ پر متعدد کتابیں قلم بند کیں.دلیل مخطوطات السیوطی میں آپ کی تصنیف کردہ 723 کتابوں، رسالوں اور مضامین کی فہرست دی گئی ہے.جیسے جامع الجوامع ، اتقان فی علوم القرآن تفسیر جلالین ، طب النبوى، مناقب الخلفاء، تاريخ الخلفاء، شرح تقریب النووی ، مصر والقاہرہ (مصر کی تاریخ پر مقبول عام کتاب).تقی الدین مقریزی (1442-1364ء) مصر کا مشہور عالم تاریخ داں تھا.اس کی تمام تصنیفات مصر پر ہیں.دو جلدوں پر مشتمل ذکر الخطاط والآثار کا فرانسیسی ترجمہ 1895ء میں کیا گیا.ایوبی اور ملک حکمرانوں کی تاریخ پر کتاب کا فرانسیسی میں ترجمہ 1845ء میں ہوا.اس نے مصر کے علما اور حکماء کی سوانح عمریوں پر المنتفی کے نام سے کام شروع کیا جسے وہ اتنی جلدوں میں لکھنا چاہتا تھا مگر سولہ مکمل کر سکا.اس کے دستخط شدہ مخطوطات لیڈن اور پیرس میں موجود ہیں.ابو العباس المقری (1632-1591ء ، الجیریا) نے زندگی میں پانچ بار جج کیا.وہ دمشق میں صحیح بخاری پر درس دیا کرتا تھا.اس نے اسلامی اسپین پر تاریخ کی مشہور کتاب تھیتہ الطیب من غصن یورپ میں چالیس سال تک سفر کرتا رہا.متاع عزیز کے آخری تین سال اس نے دس جلدوں میں اپنی شاہکار کتاب بگ آف ٹریولیس (BookorTravels) لکھنے میں صرف کیے.[50] مرتضی الزبیدی (1791-1732ء) کا تعلق ہندوستان سے تھا مگر وہ ہجرت کر کے یمن میں آباد ہو گئے تھے.وہاں سے قاہرہ منتقل ہو گئے.وہ ایک زبردست انشا پرداز تھے.انہوں نے حدیث پر کتابوں کے علاوہ امام الغزائی کی احیاء العلوم کی شرح لکھی.عربی میں ایک مفید لغت تیار کی.مصر میں ان کی شہرت دعاؤں کی قبولیت اور شفاعت کے اعلیٰ مقام کی وجہ سے دور دور تک پھیلی ہوئی تھی.تاریخ کے موضوع پر بھی ایک مبسوط کتاب ان کی یاد گار ہے.دور حاضر کے تاریخ داں ہندوستان کے غلام علی آزاد بلگرامی (اٹھارہویں صدی ) عالم، محقق، مؤرخ اور کثیر التصانیف تھے.انہوں نے سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان میں ، ہندوستان کی علمی فضلیت پر اظہارِ خیال کیا ہے.کچھ علما اور اکابرین ہند کی سوانح عمریاں بھی پیش کی ہیں.ہندوستان کی عشق و عاشقی کی روایات اور یہاں کی عورتوں کی اقسام اور ان کی خصوصیات کو بھی بیان کیا ہے.علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں (1898-1817ء) برصغیر کے مسلمانوں کے سب سے بڑے محسن اور ہمدرد تھے.35 برس تک سول جج کے عہدے پر فائز رہے.ان کی عظمت فکر، ژرف نگاہی ، نکتہ دانی، حکمت و دانش کو صفحہ قرطاس کی زینت بنا نا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے.بلند پایہ فلسفی ہمفکر، ماہر تعلیم مفسر قرآن ہونے کے ساتھ وہ ایک بڑے مؤرخ بھی تھے.تاریخ پر ان کی اکیس کتابوں میں سے چند کے نام یہ ہیں: آثار الصنادید، جلاء القلوب ( سیرت رسول الله ) ، تدوین آئین اکبری، تاریخ سرکشی بجنور، صل الله الاندلس الرتیب لکھی جس کا ترجمہ و تلخیص لندن سے 1843-1840ء میں شائع ہوا.یہ کتاب قاہرہ تدوین و صحیح تاریخ فیروز شاہی برنی، جام جم ( تیمور سے لے کر بہادرشاہ ظفر تک چوالیس سلاطین سے بھی 1885ء میں منظر عام پر آئی تھی.اولیاء شلابی (1682-1614ء، ترکی) سلطنت عثمانیہ اور کے حالات ) سلسلۃ الملوک (202 شاہانِ دہلی کے حالات).

Page 95

177 176 طا حسین (1973-1889ء) مصر کے بلند پایہ انشا پرداز ، ناول نگار اور مؤرخ تھے.ان کی خود نوشت سوانح عمری کا نام الایام ہے.مستقبل الثاقفة فی مصر میں انہوں نے مصری تہذیب ، عرب شناخت، اور عربی زبان کے مستقبل پر اظہار خیال کیا ہے.موجودہ صدی میں ایران کے عالم ڈاکٹر سید حسین نصر ( پیدائش 1933 ء) نے بہت ساری مستند کتابیں اسلامی سائنس کی تاریخ پر لکھ کر غیر معمولی شہرت حاصل کی ہے.وہ 1979ء تک تہران میں پروفیسر تھے جہاں انہوں نے ایرانین اکیڈمی آف فلاسفی کی بنیاد رکھی.1984ء تا حال وہ جارج واشنگٹن یونیورسٹی، امریکہ میں پروفیسر ہیں.ان کی بیس سے زیادہ کتا بیں شائع ہو چکی ہیں جن میں سے کئی کتابوں کے ترجمے جرمن ،ترکی، اسپینین اور اردو میں ہو چکے ہیں.ان کی چند معروف کتابوں کے نام ہیں: Introduction to Islamic Cosmological Doctrines, Science & Civilisation in Islam, Islamic Science: An Illustrated Study, Man & Nature, The Heart of Islam, Ideals & Realities of Islam.چالیس سال کے تدریسی عرصے میں انہوں نے سیکڑوں نامور شاگرد پیدا کیے ہیں.عربی زبان کا پہلا انسائیکلو پیڈیا عربی زبان میں جدید انسائیکلو پیڈیا لبنان کے رسالہ الجنتان کے ایڈیٹر بطروس بستانی نے 1876 ء میں شائع کیا.اس کا نام دائرۃ المعارف تھا.اس کی گیارہویں جلد 1900 ء میں قاہرہ سے شائع ہوئی تھی جس میں حروف ابجد کے لحاظ سے ع تک کی معلومات درج کی گئی تھیں.واضح ہو کہ انگلینڈ، فرانس اور جرمنی میں ایسے انسائیکلو پیڈیا اٹھارہویں صدی میں منظر عام پر آنے شروع ہو گئے تھے.ترکی زبان میں ایسا انسائیکلو پیڈیا یعنی قاموس عالم شمس الدین سمعی نے استنبول سے 1898ء میں شائع کیا تھا.15 علم موسیقی مسلمان موسیقاروں نے مختلف قسم کے موسیقی کے آلات ایجاد کیے.اسی طرح انہوں نے موسیقی کے علم پر بھی کتابیں لکھیں.خلیفہ المامون کے دربار میں ابراہیم الموصلی، اسحق بن ابراہیم ، یکئی مکی اور موسیقی کے کئی دیگر ماہرین موجود رہتے تھے.اسپین کا شہر اشبیلیہ موسیقی کے آلات بنانے کا مرکز تھا.گیتار (guitar) جو فی الحقیقت عرب عود سے بنایا گیا تھا اس میں پانچواں تار مشہور سیاہ فام موسیقار زریاب نے لگایا تھا.حنین ابن اسحق نے موسیقی پر ارسطو کی دو اور جالینوس کی جملہ کتابوں کے عربی میں تراجم کیے.الحق الکندی بھی ایک مانا ہوا عود بجانے کا ماہر (lute peformer) تھا.وہ پہلا مفکر تھا جس نے موسیقی کو سائنس کے زمرے میں شامل کیا.اسی نے پہلی بار اپنی کتاب میں موسیقی کا لفظ استعمال کیا.اس کا عقیدہ تھا کہ موسیقی مختلف سُروں کی ہم آہنگی کا نام ہے.ہر سُر کا ایک درجہ ہوتا ہے.اس نے تعداد ارتعاش معلوم کرنے کا طریقہ ایجاد کیا.اس نے خود بھی کئی سر ایجاد کیے اور ان کی درجہ بندی کی.اس نے موسیقی سے کئی مریضوں کا علاج کیا.الکندی اور الفارابی کی کتابوں کے ساتھ ساتھ ابن سینا اور ابن رشد کی موسیقی کی کتابوں کے ترجمے یورپ میں کیے گئے.یہ کتابیں یورپ میں موسیقی کے نصاب تعلیم میں شامل تھیں [51].زکریا یوسف کی کتاب مؤلفات الکندی الموسیقیہ ( مجمع اعلمی العراقی ، بغداد 1962 ء ) موسیقی پر قابل ذکر کتاب ہے.

Page 96

179 178 حکایت ہے کہ بصرہ میں ایک تاجر کا بیٹا سکتہ کا شکار ہو گیا.تاجر نے اطبا کو بلوایا مگر کوئی علاج کارگر نہ ہوا.آخر میں الکندی کو بلایا گیا.کندی نے اپنے ایک شاگر د سے کہا کہ سارنگی لاؤ اور فلاں دھن نکالو.اس دھن میں نہ جانے کیا جادو تھا کہ لڑکا اٹھ بیٹھا.کندی نے کہا کہ اس کی زندگی کے چند لمحے باقی ہیں اس لئے اس سے جو کہنا ہے وہ کہ لو.کچھ وقفے کے بعد کندی نے اشارے سے رباب کو روک دیا اور لڑ کا داعی اجل کو لبیک کہہ گیا.احمد سرخی تلمیذ الکندی (899ء) نے موسیقی، فلسفہ اور منطق میں بہت شہرت حاصل کی.یہ خلیفہ معتضد عباسی (902-893ء) کا استاد، ندیم و جلیس رہا.القفطی نے تاریخ الحکماء میں اس کی چوبیس کتابوں کے نام دیے ہیں جیسے کتاب الموسیقی الكبير، کتاب السياسية، کتاب زاد المسافر، کتاب قاطیغورس، کتاب انالوطیقا.ایک اور عالم ابوالفرج اصفہانی نے عربی میں موسیقی پر چار کتابیں لکھیں.الفارابی موسیقی کے علم وفن دونوں میں مہارت تامہ رکھتا تھا.بقول ابن ابی اصبیحہ وہ ایک باجے کا موجد تھا جس سے جذبات انگیز نغمے نکلتے تھے (طبقات الاطباء).ابن خلکان نے وفیات الاعیان میں لکھا ہے کہ الفارابی نے جو باجہ ایجاد کیا تھا وہ قانون کے نام سے مشہور تھا.تذکرہ نگار لکھتے ہیں کہ جب وہ سیف الدولہ کے دربار میں پہنچا تو اس وقت علما کسی مسئلہ پر بحث کر رہے تھے.پہلے تو وہ دہلیز پر خاموش بیٹھا رہا پھر بحث میں کود پڑا.سیف الدولہ اس اجنبی کی نکتہ آفرینی سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا.جب محفل ختم ہوئی تو امیر نے سازندوں کو طلب کیا.فارابی نے ان کی ساز نوازی اور پھر ان کے راگ پر کڑی تنقید کی.بعد ازاں اپنی بانسری نکالی اور تین مرتبہ بجائی پہلی لے پر سب ہنسنے لگے، دوسری پر سب رو دیے اور تیسری پر سب سو گئے.فارابی نے موسیقی پر پانچ کتابیں تصنیف کیں جن میں سے چار یہ ہیں : کتاب المدخل الی موسیقی، کتاب ترتیب النغم، رساله فی الاخبار عن الصنا الموسيقى، كتاب الموسيقه الكبيره (Grand Book of Music) - مؤخر الذکر کتاب میں نظریہ آواز (theory of sound) نہایت عمدہ طریقے سے پیش کیا گیا ہے.اس کی افادیت کے پیش نظر اس کا فرانسیسی ترجمہ 1935ء میں پیرس سے شائع ہوا.جبکہ کتاب الموسیقی کا ترجمہ جیرارڈ آف کر یمونا نے 1187ء میں لاطینی میں کیا.بقول پروفیسر بہتی : "He added a theoretical fifth string to the lute (al-Ud) and thereby reached the double octave without resorting to the shift.The scale he used is still in vogue." [52] ابو الحسن علی ابن نافع زریاب (857-789ء) بغداد سے ہجرت کر کے قرطبہ امیر عبدالرحمن الثانی (852-822ء) کے دور خلافت میں آیا تھا.اس نے موسیقی کے میدان میں کئی کارنامے سر انجام دیے مثلاً اس نے عود میں پانچواں تار لگایا.وہ خود ایک زبر دست ماہر موسیقی تھا.امیر کے دربار میں اس شاہی موسیقار کی تنخواہ دوسوسونے کے دینا تھی.اس کو ایک ہزار گانے نوک زبان تھے.اس نے عود کو اسپین میں متعارف کیا.اس نے قرطبہ میں موسیقی کے ایک اسکول (school of music) کی بنیاد رکھی.زریاب اپنے دور کا عظیم موسیقار ہونے کے ساتھ فیشن ماڈل بھی تھا.اس کے کپڑے اس قدر نفیس ہوتے تھے کہ لوگ ان کا استعمال فیشن سمجھتے تھے.اس نے میز پر میز پوش کو رواج دیا.اس نے گرمیوں میں سفید کپڑے اور سردیوں میں گہرے رنگ کے کپڑے پہنے کو کہا، نیز موسموں کے بدلنے پر ان کے لیے معین تاریخ دی.اس نے اسپین میں شطرنج اور پولو شروع کیا.اس نے چمڑے کے فرنیچر (furniture) کو رائج کیا.وہ خوش خوراک بھی تھا، اس نے بہت سی نئی غذائی تراکیب کو اسپین میں رواج دیا جیسے اس نے کہا کہ کھانے کی قامیں ایک ایک کر کے پیش کی جائیں اور کھانے کے آخر پر بیٹھا دیا جائے.اس نے مشروبات کے لیے سونے کے پیالے کے بجائے بلوری گلاس (crystal glass) کا استعمال شروع کیا.اس نے کھانے کے آداب یعنی ٹیبل میرس(table manners) کو رواج دیا.اس

Page 97

181 180 نے خوشبو لگانے (perfume) ، سامان زیب و زینت (cosmetics)، ٹوتھ برش (toothbrush) اور ٹوتھ پیسٹ (tooth paste ) کو رائج کیا.اس نے چھوٹے بالوں کے فیشن کو رواج دیا.دنیا کا پہلا زیبائش حسن کا مرکز (beauty salon) اس نے شروع کیا.اس کی یہ سب باتیں آج کے دور میں بھی مروج ہیں.[53] مائیکل اسکاٹ (Michael Scott) نے 1232ء میں ابن رشد کی کتاب کا ترجمہ کیا جو اس نے ارسطو کی موسیقی کی کتاب پر بطور شرح لکھا تھا.سسلی کے بادشاہ فریڈرک دوم کے دربار میں تمام موسیقار عربی النسل تھے.اسلامی اسپین کے ایک عالم گند سیالوی (Gundisalvi) نے موسیقی پر جو کتاب لکھی اس کا ایک باب الفارابی کی کتاب کا لفظی ترجمہ تھا.راجر بیکن کی کتاب او پس ٹرشیم (1294 Opus tertium) میں ایک باب موسیقی پر ہے جس میں وہ اقلیدس، بطلیموس کے ساتھ ان سینا اور الفارابی کی آرا بھی قاری کی نذر کرتا ہے.اینگل برٹ (1331 Engleberto) نے اپنی تصنیف ڈی موزیکا (De Musica) میں ابن سینا کی آرا کو بہت وقعت دی ہے.اسلامی اسپین کے عیسائی عالم ریمنڈلل (Raymond Lull) نے جو کچھ موسیقی پر لکھا وہ عرب اساتذہ سے ماخوذ تھا.ابن سینا کی کتاب القانون سے موسیقی والے حصے کو عیسی این الحق نے عبرانی میں منتقل کیا.ایک اور عالم ابراہام باریہ 1236) Abraham Bar Haya) نے ابن سینا کی موسیقی کی کتاب کا عبرانی میں ترجمہ کیا اور اینڈریو الپا گو(Andrew Alpago) نے 1520ء میں لاطینی میں ترجمہ کیا.نیز موسیٰ بن طبون نے عربی میں لکھی گئی موسیقی کی بہت سی کتابوں کو عبرانی زبان میں ڈھال کر آنے والی نسلوں پر احسانِ عظیم کیا.المسعودی نے مروج الذھب میں عربوں میں علم موسیقی کے آغاز کا ذکر کیا اور اس کا موازنہ دوسرے ممالک میں علم موسیقی سے کیا.اندلس کے عظیم القدر فلسفی ابو بکر ابن باجہ کو فن موسیقی میں خاص مہارت حاصل تھی.ابنِ خلدون نے مقدمہ میں اس کو صاحب التلاحین المعروفہ لکھا ہے.وہ عود خوب بجاتا تھا.اس نے فن موسیقی میں نہایت عمدہ کتاب لکھی تھی اور بہت سے راگ ایجاد کیے تھے جن کو اندلس میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی [54].یورپ میں بہت سارے آلات موسیقی فی الحقیقت عرب اور ایرانی آلات کی نقل تھے جیسے عود سے Guitar یا Mandolin بنا.قانون سے ہارپ (Harp)، رباب سے فڈل (Fiddle)، ئے سے فلوٹ (Flute)، بکری کی کھال سے بنے ہوئے غائیتہ سے بیگ پائپ (Bagpipe).مندرجہ ذیل فہرست سے ناموں کی مماثلت صاف ظاہر ہے: عرب / ایرانی آلات شعور الرباب القطر ( گیتاره ) النقارة الدف النفير الطبل زلالی ارغون طنبوره یورپ میں ان کا نام Lute Rebec Guitar Naker Adufe Anafil Atabal Xelami Organ Tambourine موسیقی پر مزید معلومات کے لیے امنون شلواہ (Ammon Shilaah) کی کتاب دی تھیوری آف میوزک ان عربک رائٹنگز ( The Theory of Music in Arabic 900-1900 Writings) مطبوعہ نچین (1979-Munchen) کا مطالعہ کرنا چاہئے.

Page 98

183 182 16 مسلمانوں کی ایجادات صدیاں گزرنے کے باوجود قرونِ وسطیٰ کے مسلمان دانشوروں، سائنس دانوں، طبیبوں ، صنعت کاروں اور انجینئروں کی تخلیقات اور ایجادات کی تابانیوں میں ذرہ بھر بھی فرق نہیں آیا.ان کے پیش کردہ نظریے، ان کی دریافتیں ، ان کی بنائی ہوئی مشینیں اور ان کے بنائے ہوئے آلات آج بھی ترقی کے اس دور میں جدید علوم و فنون کی بنیاد ہیں اور بعض نظریات معمولی ردو بدل کے ساتھ جوں کے توں تسلیم کیے جاتے رہے ہیں جن کا ذکر کتاب کے ابتدائی حصے میں کیا گیا ہے.ان بے نظیر انسانوں نے کا رزار حیات کے مختلف النوع شعبوں میں عملی تجربے کیے اور علمی وفنی اور طبی کارناموں کے ذریعے بنی نوع انسان کی فلاح کے لیے فطرت کے رازوں سے پر دے اٹھائے.اس کی قدرے تفصیل اس حصے میں پیش کی جارہی ہے.امت مسلمہ میں جو انجینئر ، آر کی ٹیکٹ ، میٹالر جسٹ، سول انجینئر اور موجد پیدا ہوئے ان میں سے چند کے اسمائے گرامی یہ ہیں: جابر ابن حیان ( کیمیا داں، انجینئر ) ، الکندی (فری سسٹ، انجینئر، میٹالرجسٹ)، رازی ( کیمسٹ انجینئر ، فریشین ) بنوموسی برادران ( انجینئر )، ابن الہیشم (فری سسٹ انجینئر)، البیرونی (فری سسٹ انجینئر ) ، الجزاری (انجینئر ) اور تقی الدین (انجینئر ).انجینئر نگ کے پیشے سے تعلق رکھنے والے اپنے نام کے ساتھ مہندس لکھتے تھے.اسی طرح آرکیٹیکٹ المعمار، ریاضی داں الحبیب، واچ میکر الساعتی اور اصطرلاب بنانے والے اصطرلابی کہلاتے تھے.بغداد پانچ سو سال تک امت مسلمہ کا صنعتی (industrial) اور تجارتی (commercial) مرکز رہا.یہاں 1869ء میں لکھی جانے والی ایک کتاب میں ایک سو مشینوں کا ذکر ملتا ہے جیسے میکینکل کھلونے سروس ایلی ویٹرز ، ونڈ ملز، واٹر ملز، واٹر کلاک چلتی آلات، واٹر یلیز اور آٹو میٹک مشینیں [55].اس کتاب کا نام کتاب الحیل(Book of Artifices) ہے جو موسی برادران ( محمد 872ء ، احمد اور حسن) نے تصنیف کی تھی، یہ تینوں بھائی باکمال ریاضی داں، مترجمین کے کفیل اور قدرداں تھے.ان ایک صد مشینوں میں سے ہیں عملی اور سود مند تھیں باقی محض سائنسی کھلونے.ان مشینوں میں جس قسم کے پیچیدہ آلات اور سسٹم بیان کیے گئے وہ یہ ہیں: Feedback control system, closed loop principle, complex gear trains & automatic cut off machines.مسلمانوں نے جو مشینیں ایجاد کیں ان کا خلاصہ یہ ہے: پینڈولم، واٹر کلاک ہنسی گھڑی ، اصطرلاب سمندری سفر کے لیے قطب نما، گن پاؤڈر ، توپ ، صابن، کاغذ، فوٹو گرافی کے لیے کیمرے کا اصول ، ڈوبے بحری جہاز کو سطح آب پر لانا ، پن چکی ، راکٹ کے ڈائیگرام علم مساحت کا آلہ (ورنئیر اسکیل)، ہائیڈرالک انجنئیر نگ.مسلمان سائنس دانوں کو معلوم تھا کہ سائنس میں تحقیق اور اضافے کے لیے زیادہ بہتر ناپنے والے آلے یعنی پری سیزن انسٹرومینٹس (precision instruments) ضروری ہیں مثلاً البیرونی کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ بطلیموس نے اپنے نظریات کے لئے جو آلات استعمال کیے تھے وہ اتنے چھوٹے تھے کہ ان کے مشاہدات سے صحیح نتائج اخذ کرنا غیر ممکن تھا.ملاحظہ فرمائیے درج ذیل حوالہ : "While Muslim scientists did not wholly abandon the Greek

Page 99

184 tradition, they reformulated it by introducing a new concept of how knowledge ought to progress, a concept that still governs the way science is done today.Better instruments and better methods would bring accurate results.[56] گلاس ساتویں صدی میں مشرق وسطی میں گلاس کا استعمال عام تھا.عراق کے شہر سامرا میں گلاس بنائے جاتے تھے.موصل اور نجف میں بھی اعلیٰ قسم کا گلاس بنتا تھا.دمشق کے علاوہ رقہ ، حلب ، سیڈون ہبران بھی گلاس بنانے کے مراکز تھے.دمشق کا گلاس پوری اسلامی دنیا میں سب سے اچھا سمجھا جاتا تھا.گلاس سے فلاسک، بوتلیں ، شراب کی بوتلیں اور عطر کی شیشیاں نیز کیمسٹری کے تجربات کے لیے ٹیسٹ ٹیوب بنائی جاتی تھیں.گیارہویں صدی میں گلاس کھڑکیوں میں لگایا جاتا تھا.بارہویں صدی میں مسلمان منقش گلاس استعمال کرتے تھے.گلاس کے استعمال کے لیے مصر میں قاہرہ اور اسکندریہ مشہور تھے.گیارہویں صدی میں یونان میں مصر کے کاریگروں نے دو فیکٹریاں لگائیں تو یورپ میں اس کا استعمال شروع ہوا.منگولوں کے حملوں کے بعد شام سے بہت سارے کا ریگر یورپ چلے گئے.پھر صلیبی جنگوں کے دوران دینیس (اٹلی) کے کاریگروں نے 1277 ء کے ایک معاہدے کے تحت شام سے گلاس بنا نا سیکھا.ویس کے لوگوں نے اس فن کو خوب ترقی دی اور تیرہویں صدی میں آرٹ کا مظاہرہ گلاس پر کیا جانے لگا.اسلامی اسپین میں غالباً ابن فرناس نے سب سے پہلے گلاس بنا یا تھا.اس نے اپنے گھر میں ایک پلینی ٹیریم بنایا جس میں ستارے، بادل حتی کہ آسمانی بجلی کو بھی دیکھا جا سکتا تھا.مشہور عرب امریکن تاریخ داں فلپ بہتی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ابن فرناس دنیا کا 185 پہلا انسان تھا جس نے قرطبہ کی پہاڑی سے ہوا میں اڑنے کی کوشش کی تھی.برتن اور کپڑے اسلامی دنیا میں بعض شہر اپنی مصنوعات کی وجہ سے مشہور تھے جیسے خراسان شیشے کے کارخانوں کے لیے.بصرہ صابن، کاغذ اور قواریر کے لیے.کوفہ ریشمی کپڑوں کی تیاری اور ملک شام سونے چاندی کے قسم ہاتم کے برتن بنانے کے لیے مشہور تھا.اندلس میں تلوار میں بنانے میں طلیطلہ اور کاغذ بنانے میں قرطبہ کا اپنا مقام تھا.قرطبہ کے بنے چمڑے کو قرطبی (cordwain) اور بغداد کے کپڑے کو بالڈا چین (Baldachin) کہا جاتا تھا.موصل کے بنے ہوئے کپڑے کو مکمل (muslin) کہتے تھے.صابن صابن مسلمانوں کی ایجاد ہے.صابن بنانے کی ترکیب رازی نے تفصیل سے لکھی ہے.صابن بنانے کا عمل زیتون کے تیل اور الکلی پر مشتمل تھا.بعض دفعہ اس میں نیترون بھی شامل کیا جا تا تھا.شام صابن سازی کا مرکز تھا، جہاں رنگین، خوشبودار اعلی قسم کا صابن بنایا جا تا تھا.شام کے شہروں نابلس ، دمشق ، حلب اور سامرا سے صابن غیر ممالک کو برآمد کیا جاتا تھا.مسلمان صفائی کو ایمان کا نصف حصہ جانتے ہیں اس لئے صابن کا استعمال اسلامی ممالک میں ایک ہزار سال قبل ہو گیا تھا جبکہ اس وقت یورپ میں نہانا معیوب فعل سمجھا جاتا تھا.انیسویں صدی میں ملکہ برطانیہ وکٹوریہ غسل لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی تھیں اس لئے وہ خوشبو کا استعمال بہت کرتی تھیں.اسلامی اسپین میں کپڑا بھی نہایت عمدہ بنایا جاتا تھا.یہاں کے کپڑے کی مانگ پوری دنیا میں تھی.

Page 100

187 186 کاغذ کا غذا گر چہ چین میں ایجاد ہوا انگر 712ء میں یہ سمرقند میں بننا شروع ہو چکا تھا.794 ء میں بغداد میں کاغذ کی پہلی مل قائم ہوئی تھی جہاں کا غذ کپاس سے بنایا جانے لگا تھا.بغداد سے یہ اسپین پہنچا اور وہاں سے یورپ.انگریزی کا لفظ ریم (Ream) یعنی میں دستوں کی گڈی عربی سے ماخوذ ہے.اٹلی میں کاغذ کی پہلی فیکٹری 1261ء میں لگی جبکہ انگلستان میں پہلی مل 1494ء میں قائم ہوئی تھی (یعنی بغدار میں پیپرل کے قیام سے سات سو سال بعد ).تیرہویں صدی میں مسلمان طباعت کے لیے خاص کوالٹی کا کا غذ استعمال کرتے تھے جس پر چھپائی کانسہ (bronze) کے بنے حروف تہجی سے کی جاتی تھی.ان ہندسوں کو سیاہی یا پنکچر (tincture) میں بھگو یا جا تا تھا.مسلمانوں کا یورپ پر سب سے بڑا احسان کا غذ کی صنعت ہے.اس کے بغیر پرنٹنگ پریس کی ایجاد بالکل بیکار ہوتی.کاغذ کے معیار کے مطابق اس کے نام ہوتے تھے.بغدادی کاغذ سب سے عمدہ قسم کا ہوتا تھا جس پر خلیفہ وقت کے فرامین اور معاہدات قلم بند کیے جاتے تھے.شامی کاغذ کی مختلف قسمیں تھیں جیسے حموی کاغذ سرکاری محکموں میں استعمال ہوتا تھا ، ہوائی کاغذ نہایت ہلکا کا غذ تھا جس پر لکھے خطوط کبوتروں کے ذریعے ارسال کیے جاتے تھے.ایئر میل خط اسی کاغذ کی یاد دلاتے ہیں.کا غذ مختلف رنگوں میں بنایا جا تا تھا.مسلمانوں نے فنِ خوش نویسی کو بام عروج تک پہنچایا.انہوں نے بہت سے پُرکشش اسالیب ایجاد کیے.اس فن کا استعمال کا غذ پر تحریر کے علاوہ تاریخی عمارتوں پر قرآن مجید کی آیات کو خوبصورتی سے لکھنے میں کیا گیا.انہوں نے جلد سازی کے فن کو بھی خوب ترقی دی، اس کا ثبوت وہ دلآویز کتابیں ہیں جو یورپ اور ایشیا کے کتب خانوں میں محفوظ ہیں.میٹالرجی جہاں تک میٹالرجی (Metallurgy) کا تعلق ہے لو ہا، تانبا اور دوسری معدنیات کانوں سے نکال کر شہروں میں لائی جاتی تھیں.شہروں میں انہیں بڑے بڑے تندوروں میں پگھلایا جاتا تھا.زیگر و کا شہر سونا، چاندی، پارہ، بوریکس کے لیے مشہور تھا.چاندی، تانبا اور سیسہ کے لیے افغانستان اور تانبے کے لیے قبرص اور لوہے کے لیے اناطولیہ اور بلوچستان مشہور تھے.دھاتوں کو پگھلا کر کھانے کی قابیں (dishes)، کھانے کی ٹریز (trays)، پھول دان، پانی کے جگ اور ہتھیار بنائے جاتے تھے.دمشق میں بنے ہوئے بندوق کے کندے یورپ میں مقبول عام تھے.مسلمانوں کی ملٹری ٹیکنالوجی کے بارے میں ایک مصنف کہتا ہے: They invented siege machines derived from Roman technology, and made use of artillery.Their advance command of chemistry made them the first to use gunpowder, besides the cannon balls, their projectiles included incendiary bombs and vitriol devices.[57] ہائیڈرالک انجنئیر نگ خلیفہ ہارون الرشید بذات خود عالی دماغ انجینئر تھا.تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ سوئیز نهر (Suez Canal) کھودنے کا خیال سب سے پہلے اس کو آیا تھا تا کہ بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو آپس میں ملا دیا جائے.اس نے عین اسی مقام پر نہر کھودنے کا سوچا تھا جہاں اس وقت سوئیز کینال موجود ہے.مگر اس کے وزیر یکی برمکی نے اس تجویز کے خلاف مشورہ دیا اور کہا کہ با زنطینی حکومت کا بحری بیڑہ بحیرہ روم سے بآسانی مکہ معظمہ کو سنگین خطرے میں ڈال دے گا.چنانچہ یہ خیال ترک کر دیا گیا.[58]

Page 101

189 188 مسلمان جغرافیہ دانوں ( الاصطخری ، ابن حوقل المقدسی ، ابن جبیر اور الا دریسی) نے اسلامی انجینیئر نگ اور مشینوں کا ذکر اپنے سفر ناموں میں کیا ہے.نیز مسلم ممالک اور غیر مسلم ممالک کے درمیان تجارت پر روشنی ڈالنے کے علاوہ شہروں ، قریوں کے حالات، بڑی بڑی شاہراہوں، بلند دروازوں اور مساجد کا ذکر کیا ہے.اس کے علاوہ انہوں نے زراعت کے موضوع پر بھی کافی روشنی ڈالی ہے.مختلف فصلوں کی کا شتکاری نیز فوڈ پروسیسنگ (food processing) کا ذکر کیا ہے.مثلاً المقدسی نے اپنے سفر نامے میں نہروں کے نظام پر کافی روشنی ڈالی ہے.اس نے مصر میں پانی کے دو بندھوں (dams) کا بھی ذکر کیا ہے جن کا مقصد دریائے نیل میں سیلاب آنے پر پانی کو محفوظ کر کے استعمال میں لانا تھا.یہ بندھ پانی سے بجلی پیدا کرنے اور آبپاشی کا ذریعہ بھی تھے.دسویں صدی میں فارس کے صوبے میں امیر عضد الدولہ نے 1960ء میں شیراز اور استخار کے درمیان دریائے کور کے اوپر واٹر ڈیم (water dam) تعمیر کروایا جو 30 فٹ اونچا اور 250 فٹ لمبا تھا.اس میں واٹر وھیل استعمال کیے گئے تھے، ہر وھیل کے نیچےمل بنائی گئی تھی، اس کا نام بندامیر تھا جواب بھی دیکھا جاسکتا ہے.زراعت کے لیے واٹر سپلائی نیز واٹر پاور کے لئے اسلامی اسپین میں ویلینسیا (Valencia) کے مقام پر جو واٹر ڈیم تھا وہ 25 فٹ اونچا اور 420 فٹ لمبا تھا.اس کی چوڑائی 160 فٹ تھی.ہائیڈ راکس (Hydrolics) کے قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میں پانی بچیں فٹ لمبے پلیٹ فارم پر سترہ فٹ کی اونچائی سے گرتا تھا.یوں اس کی بنیاد کو نقصان نہیں پہنچتا تھا.ایک ہزار سال گزرنے کے باوجود یہ ابھی تک موجود ہے.مایہ ناز مسلمان انجینئر الجزاری نے 1206ء میں انجینئر نگ پر اپنی کتاب میں پانی سے چلنے والے ایسے پسٹن پمپ (piston pump) کا ذکر کیا ہے جس میں دوسلنڈر (cylinder) اور ایک سکشن پائپ (suction (pipe) تھا.ایک اور مشین میں اس نے کر بینک (crank) استعمال کیا جو دنیا میں کر بینک کے استعمال کی پہلی مثال تھی.i الجزاری کا ڈبل ایکٹنگ پمپ Σ الجزاری کی بنائی ہوئی پہلی واٹر ریز جنگ مشین

Page 102

ELEVATION Section AA 191 }} 190 الجزاری کی بنائی ہوئی چوتھی واٹر ریزنگ مشین تقی الدین نے 1560ء میں پانی سے چلنے والے پمپ کا ذکر کیا جس میں چھ سلنڈر تھے.ہائیڈرالک انجینئر نگ کے موضوع پر عراق میں گیارہویں صدی میں دو کتا بیں لکھی گئی تھیں.پہلی کتاب کا مصنف الحسن الحسیب الکراجی (1029ء) تھا اس کا نام انباط المياء الخفیہ ہے یعنی چھپے ہوئے پانی کے ذخیرے کو سطح پر لانا.کتاب کے پانچویں باب میں سروے انگ(surveying) اور سروے انگ انسٹرو مینٹس (surveying instruments) پر معلومات ہیں.دوسری کتاب عراق میں نہروں کی تعمیر اور ان کی دیکھ بھال پر ہے.الا دریسی نے بھی قرطبہ میں واٹر ڈیم کا ذکر کیا ہے جو خاص قسم کے پتھر سے بنایا گیا تھا.اس کے ستون سنگ مرمر کے تھے.ڈیم میں تین مل ہاؤسز تھے، ہر عمارت میں آنے کی چار میں تھیں.یہ چکیاں عرصہ دراز تک زیر استعمال رہیں.[59] المقدسی نے بیان کیا ہے کہ دریائے دجلہ کے سرچشمے پر ایک مل واٹر پاور سے کام کرتی تھی.الا مسٹری نے لکھا ہے کہ ایران کے صوبہ کرمان میں ایک دریا کے سرچشمے پر ہیں ملیں کام AL ELEVATION Section BB PLAN تقی الدین کا بیان کیا ہوا پانی سے چلنے والا چھ سلنڈ روالا پسٹن پمپ (سولہویں صدی)

Page 103

193 192 کرتی تھیں.قرون وسطی کے اسلامی ممالک میں واٹر ریز رنگ مشینز یعنی سقایہ (جانور سے چلنے والا کنواں ) اور نور یا واٹر وھیل ) کا ذکر بھی ملتا ہے.بلاذری نے نور یا کی تعمیر کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے.المقدسی نے اہواز (خوزستان) میں دریا کے کنارے نوریاؤں کا ذکر کیا ہے.الا در یسی نے اسپین کے شہر طلیطلہ ( ٹولیڈو) میں ہائیڈرالک انسٹالیشن (hydrolic installation) کا حوالہ دیا ہے جس میں نو ریا سے پانی پچاس فٹ کی بلندی تک لایا جاتا تھا اور اسے آبی ذخیرے (Aqueduct) میں اکٹھا کر کے شہر کو سپلائی کیا جاتا تھا.قرطبہ کی جامع مسجد میں وضو کے لئے پانی قریبی پہاڑوں سے پائپوں کے ذریعے لایا جاتا تھا.پن چکی کی ایجاد پن چکی کی ایجاد اور اس صنعت کی ترقی بجستان ( افغانستان ) میں ہوئی تھی.نویں صدی میں بنو موسیٰ نے کتاب الحیل میں اس کا ذکر کیا ہے.مسعودی نے مروج الذھب (947ء) میں پن چکی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کے ذریعے پانی کنوؤں سے سطح زمین پر باغوں کی آبیاری کے لئے لایا جا تا تھا.الا مطحوری نے المسالک والممالک ( قاہرہ 1961 ء) میں لکھا ہے کہ سیستان میں پن چکیاں دسویں صدی میں کثیر تعداد میں زیر استعمال تھیں.سرولیم میور (Muir) نے اپنی کتاب دی کیلیفیٹ (1915) The Caliphates) میں لکھا ہے کہ حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں عرب میں پن چکی تھی.الدمشقی نے اپنی کتاب نخبتہ الدھر میں لکھا ہے کہ پن چکیاں قلعوں کے میناروں پر یا پہاڑوں کی چوٹیوں پر تعمیر کی جاتی تھیں.پن چکی کے خانے میں چکی کے پاٹ (mill stone ) ہوتے تھے اور زیریں خانے (lower chamber) میں روٹر (rotor) ہوتے تھے.اس کا محور (axle ) عمودی ہوتا تھا.اس میں چھ یا بارہ پنکھے ہوتے تھے.یورپ میں اس کا ذکر 1105ء کے فرانسیسی چارٹر (French Charter) میں ملتا ہے.پن چکیاں پانی نکالنے کے علاوہ آنا یا کئی پینے کی چکیاں چلانے میں بھی استعمال ہوتی تھیں.مصر میں گنے کو کچلنے کے لئے بھی انہیں استعمال کیا جاتا تھا.ویسٹ انڈیز ( گیا نا ٹرینی ڈاڈ ) میں پن چکیاں مصر کے کاریگروں ہی نے لگائی تھیں جن کو شکر بنانے میں استعمال کیا جاتا تھا.1.Brick pier 2.Main-post 4.Quarter-bar 5.Retaining strap 6.Heel of main-post A typical East Anglian post-mill 7.Centering wheels 8.Crown-tree 9.Side-girt 10.Brace 11.Cap-rib 12.Steps or ladder 13.Weather-beam 14.Wind-shaft 15.Tail-beam 16.Sail-stock مسلمانوں کی ایجاد کردہ پن چکی 3.Cross-tree مسلمان جغرافیہ دانوں نے اپنی کتابوں میں محراب والے پکی اینٹوں یا پتھروں کے پلوں کا بھی ذکر کیا ہے جو اسلامی عہد سے قبل رومن یا ساسانی عہد سے تعلق رکھتے تھے.الا دریسی نے قرطبہ میں دریائے وادی الکبیر پر رومن عہد کے بہت سے محراب والے پل کا ذکر کیا ہے (راقم الحروف نے 1999ء میں اسپین کی سیاحت کے دوران اس پل پر چل کر

Page 104

195 194 وادی الکبیر کا نظارہ کیا تھا.ابن حوقل نے عراق میں سانجا کے مقام پر 112 فٹ لمبے پل کا ذکر کیا ہے.الا صحری نے ایران میں دریائے شب پر اس پل کا ذکر کیا ہے جو اموی گورنر الحجاج (674ء) کے طبیب کا بنایا ہوا تھا.القزوینی نے اپنی کتاب آثار البلاد مصنفہ 1276ء میں خوزستان میں از ہاج کے مقام پر ساسانی پل کے بارے میں لکھا ہے جس میں صرف ایک محراب تھی.المقدسی نے دمشق میں پانی کے ایک خوبصورت فوارے کا حوالہ دیا ہے.دوسال بعد ابنِ جبیر نے ایسے ہی ایک فوارے کا تذکرہ کیا ہے جس میں پانی اوپر کی طرف جا تا تھا جیسے درخت کی شاخیں.اس نے جیرون گیٹ کے باہر تعمیر ہونے والے گھڑیال کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے جو بارہویں صدی میں تعمیر ہوتے ہوئے اس نے خود دیکھا تھا.پٹرول اسلامی ممالک میں پیٹرولیم (petroleum) اور اس کی صفائی (refining) کی صنعت ان کی اقتصادی خوش حالی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے.خام پیٹرولیم (crude petroleum ) کے لیے قدیم کتابوں میں نفط کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.رازی نے کتاب سرالاسرار میں اس کے کشید کرنے کی ترکیب درج کی ہے.اس نے خود کیمیائی تجربات کے دوران آلات کو گرم کرنے کے لئے روغن نفطہ استعمال کیا تھا.باکو ( آذربائجان ) کا شہر تیل کے لئے مشہور تھا جہاں سے تیل سے بھرے جہاز دوسرے ملکوں کو روانہ ہوتے تھے.خلیفہ المعتمد نے 885ء میں دار بند کے شہریوں کو تیل سے ہونے والی آمد کو خرچ کرنے کی اجازت دی تھی.المسعودی نے یہاں کی آئل فیلڈ (oil field) کو 915ء میں دیکھا تھا.مشہور سیاح مارکو پولو (Marcopolo) بھی یہاں آیا تھا.عراق میں خام تیل کی پیداوار ہوتی تھی.علم الادویہ کے مشہور مصنف داؤد انطاکی نے لکھا ہے کہ یہ تیل سیاہ رنگ کا ہوتا تھا.سینا کے صحرا اور خوزستان ( ایران ) میں بھی تیل نکالا جاتا تھا.پیٹرولیم جنگ اور ایندھن میں استعمال ہونے کے علاوہ دوائیں بنانے میں بھی استعمال ہوتا ہے.شپ بلڈنگ حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں مصر کی فتح کے بعد بحیرہ روم میں مسلمانوں نے قبرص پر 649 ء میں اور رھوڈز کے جزائر (Rhodes Islands) پر 672ء میں قبضہ کر لیا تھا.شمالی افریقہ اور اسپین پر قبضے کے بعد بحیرہ روم مکمل طور پر مسلمانوں کے زیر تسلط آ گیا.سلی پر قبضہ 827ء میں ہوا ، اٹلی اور فرانس کے ساحلوں پر بحری حملے کیے گئے.بحری جہاز مصر اور شام میں بنائے جاتے تھے.بحری جہاز کے لئے سفینہ یا مر گب کا لفظ استعمال ہوتا تھا.جہاز کے کپتان کو الرئیس کہتے تھے.اور جنگی بیڑے کے کپتان کو امیر البحر (admiral) کہا جا تا تھا.پائلٹ یا جہاز راں (navigator) کو معلم کہا جاتا تھا.درج ذیل فارسی اصطلاحات عربی میں مستعمل تھیں : با لنج ( cabin) ، بندر (port)، دفتر ( sailing instructions)، قریب، دورق ، دو پنج ship's boat)، دید بان (look out boy) ناخدا (shipmaster)، رہ نما سے رحمانی _(type of sailing ship)(book of nautical instructions) مشہور جہازراں ابنِ ماجد نے رحمانی تیار کی تھی.وقال (mast)، اناجپر (anchor)، الربان (captain)، البنانیه (Sailors)، دو پیچ ( dinghy)، القريب (life boat)، مطیال (canoe) جہاز کئی قسم کے ہوتے تھے ، ایک قسم کا جہاز جسے شینی (shini) کہتے تھے.اس میں 143 چپو ہوتے تھے.972ء میں مصر کے فاطمی خلیفہ نے مقس کی بندرگاہ پر 600 بحری جہاز بنوائے تھے.ایک اور قسم کا جہاز بوطا سہ (buttasa) کہلاتا تھا جس میں چالیس بادبان ہوتے تھے ، ان میں عملہ سمیت 1500 لوگ سفر کر سکتے تھے.غراب قسم کے بحری جہاز اور شمالندی جہاز

Page 105

197 196 مال بردار ہوتے تھے.غراب جہاز کا نام یورپ میں کو روسیٹ (corvette) پڑ گیا اور شالندی کو شالیند (challand) کہا جانے لگا.شو باک جہاز میں چپوؤں کے ہمراہ بادبان بھی ہوتے تھے.جنگی جہازوں میں میزائل اور تیر انداز ہوتے تھے.جہاز کے عملے میں ہر قوم کے لوگ ہوتے تھے مگر بحری جنگیں صرف مسلمان لڑتے تھے.[60] جہاز سازی (ship building) کی صنعت اسلامی دنیا میں ایک وسیع صنعت تھی جہاں تجارتی جہازوں کے علاوہ جنگی جہاز بھی بنائے جاتے تھے.مختلف بندرگاہوں پر ڈاک یارڈز (dock yards) ہوتے تھے جن کو دار الصنعۃ کہا جاتا تھا.انگریزی کا لفظ آرسینل (arsenal) اسی سے ماخوذ ہے.بڑے بڑے دریاؤں پر نجی ڈاک یارڈز بھی ہوتے تھے.المقدسی نے اپنی کتاب دسویں صدی میں لکھی تھی اور اس میں اس نے بارہ قسم کے جہازوں کی تفصیل دی ہے.بصرہ ، صراف اور عمان میں شپ یارڈ (ship yard) بنائے گئے تھے.مصر میں اسکندریہ اور فسطاط میں شپ یارڈ تھے.دریائے نیل پر روضہ کے مقام پر گورنر ابن طولون نے 884ء میں ایک سوجنگی جہاز بنوائے تھے.اندلس میں اشبیلیہ،امیر یا اور ویلنسیا میں بحری ڈاک یارڈ تھے.تیونس میں مہدیہ کے مقام پر 912ء میں نیا ڈاک یارڈ تعمیر کیا گیا تھا جس میں تمھیں بڑے بحری جہاز لنگر انداز ہو سکتے تھے.سلطان صلاح الدین ایوبی کے زمانے میں مصر میں جہاز بنا کر ان کے حصوں کو اونٹوں پر لاد کر شام لایا جاتا تھا جہاں ان کو جوڑا جاتا تھا.میکانیات احمد موسیٰ بن شاکر (858ء) نے میکانیات پر اپنی منفر د تصنیف کتاب الخیل میں ایک سو تین متحرک اور میکینکل مشینوں کا ذکر کیا ہے.اس کتاب کو احمد الحسن نے 1981ء میں شائع کیا جبکہ اس کا انگریزی ترجمہ ڈانلڈبل (Donald Hill) نے 1979ء میں کیا.اس کتاب کو ابن خلکان نے بچشم خود دیکھا تھا.خلیفہ متوکل باللہ کو چونکہ آلات متحرکہ کا بہت شوق تھا اس لئے اس فن کی بدولت احمد موسیٰ کو اس کے دربار میں رسوخ حاصل تھا.اہلِ اسلام میں اس فن پر یہ پہلی کتاب تھی.مؤرخین کا خیال ہے کہ ہارون الرشید نے جو واٹر کلاک فرانس کے شہنشاہ شارلیمان کو بطور تحفہ ہاتھی کے علاوہ بھیجا تھا وہ اسی میکینکل انجنیئر کا بنایا ہوا تھا.یہ پہلا موقعہ تھا کہ کسی نے یورپ میں ہاتھی دیکھا تھا.اس کی کتاب میں آلات کے لئے جو حصے(component) دیے گئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: bent-tube siphons, conical valves, concealed air-holes, balances, pulleys, gears, floats and cranks.گھڑیاں ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے.نمازوں کے اوقات کے تعین کے لئے گھڑیوں کی موجودگی ضروری تھی.اس لئے ان کی ایجاد کی طرف مسلمانوں نے خاص توجہ دی.بغداد کے خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے ہم عصر فرانس کے شہنشاہ شارلیمان کو بطور تحفہ جو گھڑی بھجوائی تھی، یورپ میں اس گھڑی کو دیکھ کر لوگ مجسمہ حیرت بن گئے تھے.بغداد کی مستنصر یہ یو نیورسٹی کے سامنے ایک گھڑیال بنایا گیا تھا جس کا ڈائل (dial) نیلے رنگ کا تھا اس میں سورج کی گردش کو دکھایا گیا تھا جس سے وقت کا پتہ چل جاتا تھا.مصر کے فاطمی حکمراں الحاکم بامر اللہ کے دور حکومت کے سائنس داں ابن یونس نے پنڈولم ایجاد کیا تھا.گیا رہویں صدی میں اسلامی اسپین کے انجینئر المرادی نے گھڑیوں پر ایک کتاب میں 18 واٹر کلاک کی تفصیل پیش کی تھی جو اس نے اندلس میں بنائی تھیں.اس نے ایک واٹر کلاک ایسی بنائی تھی جس میں گیئر (gear) اور بیلنسنگ (balancing) کے لیے پارے (mercury) کو استعمال کیا گیا تھا.کتاب میں اس نے قوت کے ایک جگہ سے

Page 106

199 198 دوسری جگہ تبادلے کے لیے گیئرز کا ذکر کیا ہے.یورپ میں اس امر کا ذکر 1365ء میں اٹلی کے جیووانی (Giovanni) نے کیا تھا.ابن یونس نے پانچ بڑی خود کار مشینوں (automatic machines) کا ذکر کیا ہے.اس نے گھڑی کے ساتھ اس کی صنعت پر بھی ایک رسالہ لکھا تھا جس کا اصل نسخہ ابھی تک خستہ حالت میں موجود ہے اس میں ملٹی پل گیئر ٹرینز (multiple gear-trains) کی وضاحت ڈائیگرام کے ذریعے کی گئی ہے.جرمنی میں گھڑیاں 1525 ء اور انگلینڈ میں 1580ء میں بننا شروع ہوئی تھیں.اسلامی اسپین کے ہئیت داں الزرقلی نے دریائے لے گز (Tagus) کے کنارے پر 1050ء میں طلیطلہ میں واٹر کلاک بنایا تھا.یہ گھڑی نہ صرف دن اور رات کا وقت گھنٹوں میں بتلاتی تھی بلکہ چاند کی منازل بھی بتلاتی تھی.یہ گھڑی ایک عمارت کے اندر دو تالابوں پر مشتمل تھی جن میں پانی زمین دوز آبی ذخیرے سے آتا تھا.جب نیا چاند طلوع ہوتا تو یہ تالاب بھرنا شروع ہو جاتے اور جب چاند گھٹنا شروع ہوتا تو یہ خالی ہونا شروع ہو جاتے یہاں تک کہ چاند کی 29 ویں تاریخ کو دونوں بالکل خالی ہو جاتے.اس واٹر کلاک میں کوئی ایسا آٹو میٹک میکانزم (automatic compensating mechanism) تھا جس کی وجہ سے اگر ایک تالاب میں پانی دوسرے سے لایا جاتا تو پہلا خود بخود اپنے لیول پر آجاتا تھا.جب عیسائیوں نے 1085ء میں اس شہر پر قبضہ کیا تو یہ گھڑی کام کر رہی تھی.بلکہ یہ 1133 ء تک وقت دیتی رہی.کہا جاتا ہے کہ بادشاہ الفانسو دہم نے اپنے کا ریگروں سے کہا کہ پتہ کرو یہ کیسے کام کرتی تھی.اس کے کاریگروں نے اس کو کھول تو لیا مگر پھر اسے ٹھیک طریقے سے بند نہ کر سکے.محمد ابن علی خراسانی (1185ء) دیوار گھڑی بنانے کا بہت بڑا ماہر تھا.اس کا لقب الساعتی تھا.اس نے دمشق کے باب جبرون میں ایک گھڑی بنائی تھی.باب جبرون کو باب الساعة بھی کہا جاتا تھا.اس کے بیٹے رضوان ابن الساعتی ( واچ میکر) نے اس گھڑی کی بناوٹ کو اور زیادہ بہتر بنایا اور اس کی مرمت کی.اس گھڑی کی بناوٹ اور استعمال پر اس نے 1203ء میں ایک رسالہ لکھا جسے جدید دور میں آپریٹنگ مینوئل (operating manual) کہا جاتا ہے، گھڑی سازی پر یہ ایک بہترین تصنیف تھی.نون +6 رضوان الساعتی کی بنائی ہوئی واٹر کلاک ال 10 12 بدیع الزماں الجزاری جو سب سے بڑا مسلمان میکینکل انجینئر تھا.اس کی کتاب الجامع بين العلم و العمل فی صنعت الحیل 1206ء میں دیار بکر سے منظر عام پر آئی تھی.ڈانلڈ بل (DonaldHill) نے 1974ء میں انگریزی میں اس کا ترجمہ دی بک آف نالج آف انجینٹس میکینکل ڈیوائسز (The Book of Knowledge of Ingenious Mechanical Devices) کے نام سے کیا.کتاب کا قلمی نسخہ آکسفورڈ کی بوڈ لین لائبریری میں محفوظ ہے.کتاب میں جن مشینوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ ہیں: واٹر کلاک، کینڈل کلاک، آٹو میٹک مشین، فا ون ٹین، واثر ریزنگ مشین وغیرہ.ان میں سے بہت سی مشینیں ایسی ہیں جو بدیع الزماں نے خود بنائی تھیں.مشینوں کی ساخت اور صنعت پر 173 ڈائیگرام اس شکل میں پیش کیے ہیں کہ آنے والا انسان ان کو بآسانی بنا سکتا ہے.چنانچہ سائنس میوزیم لندن میں ورلڈ آف اسلام فیسٹیول

Page 107

201 200 S الجزاری کی بنائی ولی واٹر کلاک (World of Islam Festival) کے موقعے پر 1976ء میں ایک گھڑی اس کے پیش کردہ ڈائیگرام کو مد نظر رکھ کر بنائی گئی جس نے نہایت عمدہ طریقے سے کام کر کے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا.الجزاری نے واٹر کلاک بنانے میں نت نئے تصورات اور تکنیک کو استعمال کیا.اس نے جو مشینیں ڈیزائن کیں وہ تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں: callibration, feed back control method, use of paper models to make designs, use of wooden templates, balancing of wheels and one way hinges.الجزاری نے مشینوں کے جملہ پرزے اور ان کے بنانے کی جو خاص تکنیک استعمال کی وہ صدیوں بعد یورپ میں بازیافت (re-invention) کی صورت میں منظر عام پر آئی جیسے اس نے مخروطی والوز (conical valves) استعمال کیے تھے.یہی والوز بعد میں اطالوی موجد لینارڈو ڈا ونچی نے بھی استعمال کیے.الجزاری نے واٹر کلاک میں فلوٹ کنٹرولڈ ریگو لیٹر( float controlled regulator) استعمال کیا.یورپ میں یہی ریگولیٹر اسٹیم با نکرز (boilers (steam boilers) میں استعمال کیا گیا، انگلینڈ میں اس کا پیٹنٹ 1784ء میں دائر کیا گیا تھا.بقا في اسع الفائدة عظیم ریاضی داں اور آلات ساز نيت مكانه بل يستغل لان قاهرته حق نمود قدرا على فيه المائية يومين عبد الرحمن الخازنی نے کتاب میزان الحکمة 1222ء میں تصنیف کی.اس میں مائع ، ٹھوس من اسفله تحب والتقي الأبخل من الخاسر القولية يقوفه ويوصل عنها وعيكم وليكن انه مر السق قاعدة البقاء نار فان مالت الناجحة فقلت اشیاء کشش ثقل ) gravitational يها المداد لا تجد للستور المخرج الماء attractions جیسے موضوعات پر اظہار خیال لسطين وليكن مستترین قطرها شهرا الات اصابع مخمومه و تعمل من ا الوان تتقاطعان كل فاديا قائمة کیا گیا ہے.آٹھویں باب میں اسٹیل سے گھڑی (Clepsydra) بنانے اور اس کے استعمال پر روشنی ڈالی گئی ہے.قابل غور بات یہ ہے کہ الخازنی نے اس کی ڈائی مینشن (dimension) میٹرئیل (material) اور اس کی مکمل امتیازی تفصیل یعنی اسپیسی فی کیشن (specification) تحریر کی ہے.اس کی بنائی ہوئی واٹر کلاک ریت اور پانی سے چلتی تھیں.الخازنی نے اپنے پیش رو گھڑی سازوں، خاص طور پر ابن الہیشم کی بنائی ير الصفيه ودان علي الرها Legend A-Bartam al reservar 8 - Large floar C - Smati saat D-Float chamber F - Tap G – Aperture H.Conical valen K - Cora baaging to mechanisms 0 ہوئی گھڑی کا بھی کتاب میں ذکر کیا ہے.الجزاری کا بیان کیا ہوا واٹر کلاک کا ریگولیٹر

Page 108

203 202 گھنٹہ گھروں جیسی بڑی بڑی واٹر کلاک بنانے کی روایت عالم اسلام میں چودہویں صدی تک جاری رہی.اس کا ثبوت فیض (مراکش) میں اس دور کی دو گھڑیاں ہیں جو الساعتی کی گھڑی سے بہت ملتی جلتی تھیں.یورپ میں وزن سے چلنے والی گھڑیوں کا رواج تیرھویں صدی میں شروع ہوا تھا.تقی الدین نے 1551ء میں کتاب الطروق الصنعیہ آلات روحانی لکھی.اس کا مخطوطہ ڈبلن ( آئر لینڈ) کی چیسٹر بی ٹی لائبریری (Chester Beatty Library) میں محفوظ ہے.احمد الحسن نے اس کو 1976 ء میں زیور طبع سے آراستہ کیا.اس میں گھڑیوں، واٹر پمپ، واٹر ٹربائن (turbine) کے نہایت عمدہ ڈائیگرام دیے گئے ہیں.اس نے رصد گاہ کے لئے کلاک بنایا نیز ترکی میں پاکٹ واچ (pocket watch) کے پائے جانے کا ذکر کیا.نظر کی عینک ابن الہیشم نے اپنی خراد مشین یعنی لیتھ (lathe) پر عد سے (lenses) اور کروی آئینے (curved mirrors) بنائے.عدسوں کے خواص جاننے کے لیے اس نے آتشی شیشے بھی بنائے.اس نے محراب دار شیشے (concave mirror) پر ایک نقطہ معلوم کرنے کا طریقہ ایجاد کیا جس سے عینک کے شیشے دریافت ہوئے.آلات رصد ابو محمود الجندی (1000ء) نے ایک آلہ السدس الفخری بنایا.بقول البیرونی اس نے یہ آلہ خود دیکھا تھا.اس آلے پر ہر ڈگری کو 360 حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور سیکنڈ بھی دکھائے گئے تھے.دوسرا آلہ جو اس نے بہیت پر بنایا وہ آلاۃ اشمیلہ (Comprehensive instrument) تھا یہ اصطرلاب اور قواڈرنٹ کا متبادل تھا.ابوریحان البیرونی اپنے علمی تبحر اور تحقیقی انہماک کی وجہ سے مشہور تھا اسے ہندوؤں نے ودیا ساگر ( علم کا سمندر ) کے لقب سے نوازا تھا.اس نے اصطرلاب، پلینی اسفیر اور آرملری اسفیر مشینوں کی ساخت پر مقالے لکھے تھے.اسی طرح اس کے ہم عصر ممتاز سائنس داں بوعلی سینا نے علم مساحت کا ایک پیمانہ ایجاد کیا تھا جس سے موجودہ زمانے کا ور نئیر اسکیل بنایا گیا ہے.اسلامی اسپین کا ابو الحق الزرقلی (1087ء Arzachel) اپنے عہد کا مانا ہوا انجینئر اور ایسٹرونومیکل آبزرور (astronomical observer) تھا جس کا لقب النقاش تھا.قاضی ابن سعید کی درخواست پر وہ قرطبہ سے طلیطلہ گیا تا کہ وہاں اس علم کے دلدادہ ایک متمول اندلسی کے لیے خاص قسم کے آلات بنا سکے.طلیطلہ کے شہر میں اس نے واٹر کلاک تعمیر کیے جو 1135ء تک زیر استعمال رہے.اس نے ایک نیا اصطرلاب الصفیہ کے نام سے بنایا جس سے سورج کی حرکت کا مشاہدہ کیا جا سکتا تھا.یہ ابھی تک باری لونا ( Barcelona) کی فابرا رصد گاہ (Fabra Observatory) میں نمائش کے لیے رکھا ہوا ہے.الصفحہ پر اس نے ایک مقالہ (operating manual) بھی رقم کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیپلر (Kepler) سے کئی صدیاں قبل اس بات کا اظہار کر چکا تھا کہ آسمانی کرے بیضوی صورت میں گردش کرتے ہیں (orbits are elliptical).مقالے میں مرکزی سیارے کی گردش کو بیضوی لکھا گیا ہے.پولینڈ کے عظیم ہئیت داں کو پر نیکس نے اپنے علمی شاہکار ڈی ریوولیوشنی بس میں الزر قلی کا ذکر کرتے ہوئے اس کے علمی احسان کا واشگاف الفاظ میں ذکر کیا ہے.اس کے فلکی مشاہدات کو مد نظر رکھتے ہوئے کو پرٹیکس کو اپنے نظام شمسی ( heliocentric system) کے وضع کرنے میں بہت مددملی.الزرقلی کی تیار کردہ زیج ٹو لیڈن ٹیبلز ( Toledan tables) کہلاتی ہے جس کا ترجمہ جیرارڈ آف کر یمونا نے کیا.یہ ترجمہ یورپ میں عرصہ دراز تک مقبول عام رہا.اسپین کے بادشاہ الفانسو دہم کے بیت دانوں نے جو الفانسین ٹیبلز تیار کیے تھے وہ اسی زیج کی جدید کاری کی کوشش تھی.اس کے 48 قلمی نسخے یورپ کے مختلف مشہور کتب خانوں

Page 109

205 204 میں محفوظ ہیں، چاند کی سطح کا مفروضی حصہ مارے نو بیم (Mare Nubium) اس کے نام سے منسوب ہے.جنگی اسلحہ شام کے ایک محقق اور موجد حسن الر ماہ (HasanA-Rammah) نے ملٹری ٹیکنالوجی پر ایک شاندار کتاب 1280ء میں تصنیف کی جس میں راکٹ کا ڈائیگرام دیا گیا تھا.اس راکٹ کا ماڈل امریکہ کے نیشنل ایئر اینڈ اسپیس میوزیم (Air & Space Museum) واته واشنگٹن میں موجود ہے.مذکورہ کتاب میں گن پاؤڈر بنانے کے اجزائے ترکیبی بھی دیے گئے ہیں.الرازی نے اس کے لیے پوٹاشیم نائٹریٹ تجویز کیا تھا.ابن بیطار نے 1240ء میں گن پاؤڈر کا ذکر اپنی کتاب میں کیا.صلیبی جنگوں کے دوران گن پاؤڈر فسطاط (مصر) میں بنایا گیا تھا.پیرس کی لائبریری اور استنبول کے ابا صوفیہ کتب خانے میں ایسے عربی مخطوطات محفوظ ہیں جن میں توپ کا ذکر کیا گیا ہے.اندلس میں 1248ء میں شہر کے دفاع کے لیے تو میں استعمال کی گئی تھیں.اسی طرح غرناطہ کے دفاع کے لیے بھی 1319ء میں تو پوں کو استعمال کیا گیا تھا.جب ترکی کے سلطان عثمان کی فوج نے 1453ء میں استنبول کو فتح کیا تو اس نے دیو قامت توپ استعمال کی تھی جس کا 400 کیلوگرام کا بھاری گولہ 2.4 کیلومیٹر دور سے دشمن پر پھینکا جاتا تھا.اس نے ایک بڑے اطالوی جہاز کو دوٹکڑے کر دیا تھا.اس توپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے 70 بیلوں اور ایک ہزار سپاہیوں کی ضرورت ہوتی تھی.یادر ہے کہ ایڈمرل کا لفظ امیر البحر سے بنا ہے.میر فتح اللہ خاں کو بارود ایجاد کرنے کا افتخار حاصل ہے.یوروپین محقق راجر بیکن نے بارود بنانے کا طریقہ عربی کتابوں کے لاطینی تراجم سے سیکھا تھا.ترکی کے سلطان محمد الثانی کو جنگی اسلحہ بنانے کا بہت شوق تھا.اس کے ایک قابل انجینئر مصلح الدین نے ایک حیرت انگیز توپ بنائی تھی جس کا وزن اٹھاروشن تھا، اس کی لمبائی ہیں فٹ تھی اور اس میں 150 پاؤنڈ کا گولہ جا تا تھا.یہ توپ اس وقت لندن ٹاور میوزیم میں موجود ہے.اس کو استنبول کے محاصرے کے دوران سلطان کی فوجوں نے استعمال کیا تھا.ملکہ وکٹوریہ کی درخواست پر سلطان عبدالعزیز نے یہ توپ 1868ء میں لندن بھجوائی تھی.پیغام رسانی خلفائے راشدین کے زمانے میں جنگوں اور فتوحات کے دوران پیغام رسانی (communication) تیز رفتار اونٹوں کے ذریعے ہوتی تھی.اموی خلفاء کے دور میں ڈاک ( برید ) کا نظام شروع ہوا.عباسی خلفاء کے عہد ( ساتویں اور آٹھویں صدی) میں برید کا الگ محکمہ قائم تھا.بڑی شاہراہوں پر ڈاک کے مراکز قائم تھے.پیغام رساں گھوڑوں اور نیچروں پر سفر کرتے تھے.ضروری ، خفیہ پیغامات کے لئے کبوتر استعمال ہوتے تھے.مصر میں مختلف مقامات پر تربیت یافتہ کبوتروں کے لئے برج ہوتے تھے.کبوتروں کے ذریعے جانے والا پیغام خاص قسم کے ہلکے پھلکے کاغذ پر لکھا ہوتا تھا جس سے ہوائی ڈاک ( برید الجوی ) کا نظام شروع ہوا.عباسی دور خلافت میں فوج کے خاص نفطون ( آتش گیر) دستے ہوتے تھے جو فائر پروف لباس زیب تن کرتے تھے تا کہ جب وہ آتش گیر بم یا میزائل پھینکیں تو خود آگ سے محفوظ رہیں.اسلامی ممالک میں نافطہ کوٹک لائم (Quicklime) اور شورے (Saltpetre) سے یا پیٹرولیم سے بنایا جاتا تھا.ایسا آتشی مادہ ، مرزاق کے ذریعے پھینکا جاتا تھا.فخر مد بری نے فن تیراندازی کے موضوع پر ایک کتاب آداب الحرب والشجاع لکھی تھی جو دہلی کے فرمانروا شمس الدین التمش (1236-1211ء) کے نام معنون تھی.قطب نما مقناطیسی سوئی کو اگر چہ چین کے لوگوں نے دریافت کیا تھا مگراس کا صحیح مصرف مسلمانوں

Page 110

207 206 نے نکالا یعنی انہوں نے جہاز رانوں کے لئے رحمت کا آلہ قطب نما (Mariner's compass ) آلے کا نام ، عصائے طوسی ) معین الدین الاردی (مراغہ کی رصد گاہ کا ماہر فلکیات جس نے ایجاد کیا.جارج سارٹن کہتا ہے: اصطرلاب میں ایلی ڈیڈ (alidade) کا اضافہ کیا.جارج سارٹن نے ہسٹری آف سائنس، "Chinese were the first to perceive the directive property of the magnetic needle, but they failed to use it to any rational purpose.The first practical use of magnetic needle is credited by the Chinese themselves to foreigners, Muslims."[61] اس آلے کی مدد سے جہاز رانی میں بہت آسانی ہوئی.مسلمانوں کے لیے شاید اس کا اولین فائدہ خانہ کعبہ کا رخ تلاش کرنا تھا.اسی طرح ایک سروے انگ کے آلے جس کو تھیوڈ ولائٹ (theodolite) کہتے ہیں ، وہ بھی مسلمانوں کی ہی ایجاد ہے.اسلامی اسپین کے سائنس داں ابو الصلت نے 1134ء میں ایک ایسا حیرت انگیز آلہ ایجاد کیا تھا جس کی مدد سے ڈوبے ہوئے جہاز کو سطح آب پر لایا جا سکتا تھا.اسلامی اصطرلاب اصطرلاب دو ہزار سال پرانا آلہ ہے.ہیت کا یہ آلہ اندازاً 400 قدم سے پہلے بنایا گیا تھا.ایسٹرو کے معنی ہیں ستارہ اور لیب کے معنی ہیں دیکھنا یا معلوم کرنا.اس کا سب سے زیادہ استعمال اور ترقی نویں صدی میں اسلامی دنیا میں ہوئی.مسلمانوں میں پہلا اصطرلاب ابراہیم الفزاری نے 796 ء میں بنایا تھا ( الفہر ست الندیم ، جلد اول صفحہ 649).اس کے بعد جن نامور موجدوں اور آلات سازوں نے یہ آلہ بنایا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: النیریزی (922ء)، الخازنی ( کتاب زیج الصفيحہ )، النجدی (992ء ، اس نے سدس الفخری بنایا، یورپ میں سیکس ٹینٹ کا آلہ اس کی نقل تھا)، الجلیلی (1029ء)، البیرونی، رستم الکوہی، ابوسعید سنجاری، الزر قلی (1088، صفحہ ) ، بدیع الزماں اصطرلابی (1140ء، گلوب بھی بنایا ) ،مظفر الطوسی (1213ء، 1068ء میں طلیطلہ میں بنے ہوئے کرپ فلکی کے نقشے پرمینی اصطرلاب کی سامنے کی تصویر 1068ء میں طلیطلہ میں بنے ہوئے کرۂ فلکی کے نقشے پر مبنی اصطرلاب کی پشت کی تصویر

Page 111

209 208 جلد دوم صفحات 15-1013 میں ان آلات کی فہرست دکی ہے جو اس نے بنائے تھے ) اور ہندوستان کا نامور انجینئر ضیاء الدین اصطرلابی.اس کی شخصیت پر مولاناسید سلیمان ندوی کا مضمون معارف اگست 1933 ء میں شائع ہوا تھا.[62] عربوں نے اس کے مختلف النوع استعمال کے پیش نظر کئی قسم کے اصطرلاب تیار کیے تھے (جیسے آج کل کئی قسم کے کمپیوٹر ہیں مثلاً آئی بی ایم، میک ان ٹاش ): حلقات اعتدالیہ ( دو چیزوں کے درمیان فاصلہ معلوم کرنے کے لیے)، ذات الاوتار ( اونچائی پر جگہوں کے اوقات کے لیے ) ، ذات السمت والارتفاع ( فاصلے معلوم کرنے کے لیے ) ، حلقات الکبری، حلقات الصغری مسطح اصطرلاب، ذات الصفيحہ ( مختلف پلیٹوں سے بنا ہوا ) ، شمالی اصطرلاب (شمالی کرہ ارض کے لیے)، جنوبی اصطرلاب (جنوبی کرہ ارض کے لیے )، کامل اصطرلاب ( سورج کے متعلق).واضح رہے کہ جہازراں سورج کی اونچائی جاننے کے لیے سترھویں صدی تک اصطرلاب ہی استعمال کیا کرتے تھے.پیتل سے بنے ٹکیہ کی شکل کے اصطرلاب کا سائز چار PISCES December BAGITTARIUS CAPRICORNUS اضطر لاب کا پشت والا حصہ انچ کے قریب اور اس کا ڈایا میٹر سات انچ ہوتا تھا، اس کے ہینڈل کو عروہ کہتے تھے.ایران، هندوستان ، عراق، شام، مصر تمام اسلامی ممالک میں اصطرلاب بنائے گئے تھے.اس کے ذریعے مسلمان ہئیت دانوں نے نہ صرف نئے ستارے تلاش کیے اور ان کے کیٹلاگ تیار کیے بلکہ اس کو بحری سفروں کے دوران بھی استعمال کیا گیا.اس کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ تھی کہ مسلمان اس کی مدد سے کسی بھی خطہ زمین سے نماز کے لیے قبلہ کا رخ تلاش کر سکتے تھے.یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے آغاز کے ساتھ اس کا تعارف اسلامی اسپین سے 1275 ء میں ہوا جہاں ماشاء اللہ کا بنایا ہوا سطح اصطرلاب مقبول عام تھا.ٹیلی اسکوپ کی ایجاد سے کچھ عرصہ قبل 1610ء تک یہ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا فلکیاتی آلہ تھا.یورپ میں 1650ء میں سیکس ٹینٹ (Sextant) کی ایجاد کے بعد اس کی افادیت ختم ہو گئی.مسلمانوں کا بنایا ہوا اصطرلاب

Page 112

211 210 اصطرلاب در حقیقت پرانے زمانے کا کمپیوٹر تھا کیونکہ اس کے ذریعے انسان مندرجہ ذیل کام کر سکتا تھا راستہ تلاش کرنا، بلڈنگ کی اونچائی معلوم کرنا ، رات یا دن کا وقت معلوم کرنا جبکہ گھڑیاں نہیں ہوتی تھیں ، رات کے وقت ستاروں کا محل وقوع معلوم کرنا، کسی بھی شہر یا دنیا کی کسی بھی جگہ پر سورج کے طلوع اور غروب کے اوقات معلوم کرنا ، خطہ ارض پر کسی بھی جگہ سے مکہ کا صحیح رخ تلاش کرنا علم نجوم کے چارٹ تیار کرنا نیز زیج یعنی ایسٹرونومیکل ٹیبلز کی تیاری.بحری سفر کے دوران سمت معلوم کرنے والے اصطرلاب کو میری نرز ایسٹرولیب (mariners astrolabe) کہتے تھے.مولانا سید سلیمان ندوی کی تحقیق کے مطابق الادریسی نے اپنی کتاب میں قطب نما کا ذکر کیا تھا ( مضمون عرب نیوی گیشن ، اسلامک کلچر ، اکتوبر 1942ء).آج سے چار سال قبل راقم الحروف کو شکاگو (امریکہ ) کے ایڈلر ایسٹرونومی میوزیم (Adler Museum) میں جانے کا موقعہ نصیب ہوا جہاں اکتیس اصطرلاب نمائش کے لیے رکھے ہوئے ہیں.میوزیم کے اس حصے کا نام اسلامک ایسٹرونومی ہے.میوزیم میں دیوار پر اسلامی دنیا کا نقشہ ہے اور جملہ ماہرین ہئیت میں اسلامی دنیا کے ممتاز ہئیت داں نصیر الدین الطوسی کا نام سر فہرست ہے.اصطرلاب کے ذریعے کسی بھی شہر کے بارے میں جانا جا سکتا ہے مثلاً ایک تجربے کے ذریعے انسان اصطرلاب سے مکہ مکرمہ کو بغداد سے تلاش کر سکتا ہے ( یہ تجربہ میں نے بھی کیا تھا).ایک اور تجربے سے انسان اصطرلاب پر لگے آلے ایلی ڈیڈ ( alidade) کے ذریعے آسمان پر موجود ستارے کو دیکھ کر بتلا سکتا ہے کہ یہ کتنی ڈگری پر واقع ہے.میوزیم میں کل 31 اصطرلاب میں سے چند کی تفصیل یہ ہے (1) ایک اصطرلاب اسپین میں محمد ابن یوسف ابن حاتم نے 1240 ء میں تیار کیا تھا (2)1558ء میں اسپین کے باشندے آرسینیس (G.Arsenius) نے تیار کیا تھا (3) یہ 1598ء میں فرانس کے باشندے مارٹی ناٹ (Martinot) نے تیار کیا تھا (4) ایک آلہ لاہور کے باشندے نے بنایا ہے اور اس پر لکھا ہے عمل ضیاء الدین محمد ابن ملا اصطرلابی ہمایوں لاہوری 1057 ہجری ( 1647 عیسوی) (5)1130ء میں ایران کے باشندے بدر الدین عبد اللہ کا سلطان ابوالقاسم محمود کے لئے بنایا ہوا اصطرلاب بھی میوزیم کی زینت ہے.آکسفورڈ میں واقع ہسٹری آف سائنس کے میوزیم میں موجود پیتل اور چاندی کا پندرہویں صدی عیسوی کا مشرقی اسلامی نقطے میں بنا ہوا گول اصطرلاب ایک مغربی مصنف اے ایل میر (ALMayer) نے اپنی کتاب ”اسلامک ایسٹرولسٹس (Islamic Astrolabists) میں اسلامی ممالک میں بننے والے تمام اصطر لابوں کی تفصیل مع ان کے بنانے والوں کے پیش کی ہے نیز یہ کہ دنیا کے مختلف میوزیم میں ایسے اصطرلاب کہاں

Page 113

213 212 کہاں موجود ہیں.اسی طرح جرمن اسکالر ہائن رخ سوتر (Heinrich Suter) نے اپنی کتاب میں پانچ سو کے قریب مسلمان ریاضی دانوں، ہئیت دانوں کے نام اور ان کی تاریخ ساز تصانیف کے نام پیش کیے ہیں.یورپ میں مسلمان بیت دانوں کے بنائے ہوئے کئی خوبصورت اصطرلاب برٹش میوزیم میں محفوظ ہیں.جیسے اصفہان کے احمد ابن ابراہیم نے 984ء میں جو اصطرلاب بنایا وہ آکسفورڈ میوزیم میں موجود ہے.طلیطلہ (اسپین) کے ایک کاریگر ابراہیم بن سعید السہلی نے 1066ء میں ایک منقش اصطرلاب بنایا تھا جو وکٹوریہ میوزیم میں موجود ہے.اسی طرح مشہور شاعر چاسر (Chaucer) نے جو اصطرلاب استعمال کیا تھا وہ آکسفورڈ کے مرٹن کالج (Merton College) میں محفوظ ہے.مسلمان ہئیت دانوں نے جو عظیم کارنامے انجام دیے ان کی پہچان آسمان پر موجود مندرجہ ذیل ستاروں کے مجموعوں کے عربی ناموں سے ہوتی ہے.برج حمل.Aries ، برج ثور - Taurus ، برج جوزا - Gemini، برج سرطان - Cancer، برج اسد - Leo برج سنبلہ - Virgo ، برج میزان Libra، برج عقرب - Scorpion، برج قوس Sagittarius برج جدی - Capricorn ، برج دلو - Aquarius ، برج حوت - Pisces علاوہ ازیں چاند کے کئی حصوں کے نام مسلمان ہئیت دانوں ( الزرقلی ، البطر وجی) کے ناموں سے منسوب ہیں.ہیت کی متعدد اصطلاحات جیسے azimuth, azure, alidade theodolite, almanac, zenith, nadir, mattress atlas عربی زبان سے ہی ماخوذ ہیں.آسمان پر سب سے درخشندہ ستاروں میں سے پانچ سو سے زیادہ ستاروں کے نام عربی سے ماخوذ ہیں.اس طرح وہ آج بھی ان عظیم مسلمان بیت دانوں کی یاد تازہ کرتے رہتے ہیں جنہوں نے ان کو دریافت کیا تھا: آخر النهار ( دن کا آخر ) العقرب ( بچھو ) عین ( آنکھ ) الجبار الغراب (کوا) الدبران الطائر (عقاب) يد الجوزه ذنب الزجاجہ ( مرغی کی دم ) ذنب السجدی ( بکری کی دم ) Deneb Algedi Therta Eri Acamar Beta Sco Acrab Epsilon Tau Ain Beta Ori Algebar Delta Cry Algorab Alpha Tau Aldebaran Alpha Aql Altair Alpha Orion Betelgeuse Alpha Cygny Deneb الدفدی (مینڈک) الصدر (سینه) Delta Cap Beta Cet Diphda Alpha Cas Shedir القائد (لیڈر) منقب الفرس الفرقد ( گائے کا بچھڑا) الفاختة اليف الرجل ( پاؤں) ثعبان (سانپ) قم الحوت ( مچھلی کا منہ ) Alpha Peg Markab Gamma Umi Pherkad Alpha col Phact Kappa Ori Saiph Beta ori Alpha Dra Rigel Thuban Alpha Psa Fomalhaut Omnicron Eri Keid

Page 114

215 214 17 اسلامی کتب خانے عہد، وسطی میں عالم اسلام کے ہر شخص کو کرتا ہیں جمع کرنے کا جنون کی حد تک شوق ہوتا تھا.اسلامی ملکوں کے ہر بڑے شہر میں علما و محققین سیاح بن کر علم کی تلاش میں سفر کرتے رہتے تھے.ہر بڑی مسجد کے ساتھ اکثر کتب خانے بھی وابستہ ہوتے تھے.950ء میں موصل کی ایک لائبریری میں طالب علموں کو کاغذ اور کتابیں مہیا کی جاتی تھیں.رے ( طہران ، ایران) کی لائبریری کا کیٹیلاگ دس جلدوں میں تھا.بصرہ (عراق) کی لائبریری میں کام کرنے والے محققین کو وظیفہ دیا جاتا تھا.مشہور جغرافیہ داں یا قوت نے جب اپنی ضخیم کتاب لکھنی شروع کی تو وہ تین سال تک خوارزم اور مرد کے کتب خانوں میں کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا.عوامی کتب خانوں (public libraries) کے علاوہ عام لوگوں کے گھروں میں بھی کتب خانے ہوتے تھے.جیسے امیر بخارا نے جب ابن مسکویہ کو اپنے دربار میں آنے کی دعوت دی تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس کی کتابوں کو منتقل کرنے کے لیے چار سو اونٹ درکار ہوں گے.الواقدی کی وفات کے بعد اس کے گھر میں کتابوں کے 600 ڈبے پائے گئے تھے.محمد ابن الندیم نے 987ء میں فہرست العلوم لکھی جس میں اس وقت تک کی تمام کتابوں اور مصنفین کا ذکر کیا گیا ہے.الطبر می (923-839ء) نے چالیس سال کی محنت شاقہ کے بعد کتاب اخبار الرسول والملوک لکھی یہ پندرہ جلدوں میں ہے.المسعودی نے شام، عرب فلسطین ، فارس، ہندوستان کے سفر کے بعد 1947ء میں 30 جلدوں میں انسائیکلو پیڈ یا لکھا تھا.عالم اسلام کے شہرہ آفاق طبیب بوعلی سینا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے تمام علوم اٹھارہ سال کی عمر میں بخارا کے سامانی فرمانروا نوح ابن منصور کے شاہی کتب خانے صوان الحکمیہ میں موجود کتابوں کے مطالعے سے حاصل کر لیے تھے جہاں ہر موضوع پر بے شمار کتابیں موجود تھیں.یہ شاہی کتب خانہ ایک شاندار اور دلآویز عمارت میں تھا جس میں ہر مضمون کے لیے الگ الگ بہترین کمرے مخصوص تھے.کتابیں سلیقے سے صندوقوں اور دیدہ زیب الماریوں میں رکھی ہوئی تھیں.ایک پورا کمرہ شعر وادب کے لیے اور ایک وسیع کمرہ فن طب کی کتابوں کے لیے مخصوص تھا.ایک کمرے میں علم فقہ سے متعلق ، ایک کمرے میں علوم قرآن سے متعلق اور ایک کمرے میں فلسفہ و حکمت سے متعلق کتابیں تھیں.بعض ایسی نادر کتابیں بھی تھیں جن کے ناموں سے بھی لوگ واقف نہیں تھے.شیخ الرئیس بوعلی سینا کی فکر ونظر میں وسعت پیدا کرنے میں اس کتب خانے کا بڑا حصہ تھا.الفارابی کی ایک نایاب کتاب کا مخطوطہ یہاں ان کے ہاتھ لگ گیا جس نے ان کے ذہن پر انمٹ نقوش مرتسم کیے.انہوں نے اپنی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ پہلے تو ذوق و شوق سے کتب خانے کی سیر کی ، پھر قدیم حکماء کی کتابوں کی فہرست دیکھی تو ایسی کتا میں نظر آئیں جن کے نام بھی لوگ نہیں جانتے تھے.غیر معمولی حافظہ اور شب و روز کے مطالعے سے وہ جلد ہی تمام علوم پر حاوی ہو گئے.[63] سلطان عضد الدولہ نے شیراز میں ایک عظیم کتب خانہ قائم کیا تھا.اس زمانے میں کتب خانوں کو خز امتہ الکتب کہتے تھے.ابنِ مسکو یہ اس کتب خانے کا خازن (چیف لائبریرین ) تھا.کہا جاتا ہے کہ کتب خانوں کے نگراں صرف عالم اور محقق ہی بنائے جاتے تھے.مثلاً ابن سینا بخارا کے اور ابن مسکویہ ، رے (ایران) کے کتب خانے کے نگراں تھے.اسی طرح فاطمی خلیفہ عبدالعزیز کے کتب خانے کا نگراں بھی ایک عالم تھا.عورتیں بھی بعض دفعہ نگراں ہوتی تھیں جیسا کہ ایک خاتون تو فیق دارالعلوم بغداد کی نگراں تھی.

Page 115

217 216 مصر کے فاطمی خلیفہ الحاکم بامر اللہ نے بھی قاہرہ میں ایک اکیڈمی دار الحکمہ کی بنیاد رکھی جس کا ڈائر یکٹر مشہور ریاضی داں ابن یونس (متوفی 1009ء) تھا.یہ اکیڈمی قاہرہ میں 1005-1117 ء تک کام کرتی رہی.بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے کتب خانے میں سولہ لاکھ کتابیں تھیں.اس کے چالیس کمرے تھے.لوگ یا تو وہاں بیٹھ کر کتابوں کا مطالعہ کرتے یا پھر گھر لے جاتے تھے جس کے لیے ان کو نام اور پتہ دینا ہوتا تھا.بعض نادر مخطوطات ایسی الماریوں میں رکھے جاتے تھے جن پر قفل لگا ہوتا تھا.الماری کے دروازے پر فہرست کتب لٹکی ہوتی تھی جس کو دیکھ کر کتاب عاریتاً کی جاسکتی تھی.اس اکیڈمی میں رصد گاہ ، ہوٹل اور طبیہ کالج بھی قائم تھے.خلیفہ الحکم الثانی 976-961 ء نے قرطبہ میں 27 فری اسکول (free school) کھول رکھے تھے.یہاں کی یونیورسٹی میں اس نے چیئر (Chair) قائم کی تھیں جن کے لیے پروفیسر مشرق کے اسلامی ممالک سے لائے جاتے تھے.آج کل یورپ اور امریکہ کی جامعات میں کسی ممتاز شخصیت کے نام سے جو چیئر قائم کی جاتی ہیں، وہ اسی کی نقل ہیں.اس کو خود کتابوں کے مطالعے کا اس قدر شوق تھا کہ اس کی شاہی لائبریری میں چار لاکھ کتابیں تھیں جن کا کیٹیلاگ چالیس جلدوں میں تھا جن میں صرف کتاب کا نام اور کتاب کی مختصر تفصیل درج کی گئی تھی.اس نے سیکڑوں کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ان پر اپنے ہاتھ سے حاشیے لکھے تھے.خود اس نے ایک کتاب تاریخ الاندلس کے نام سے لکھی.اس مشہور زمانہ خزینۃ الکتب کی بنیاد اس کے والد ماجد خلیفہ عبد الرحمن الثالث نے رکھی تھی.الحكم الثانی نادر کتابوں کے لیے سرکاری نمائندے مشرق کے ممالک میں بھیجا کرتا تھا.اس نے ایرانی شاعر الاصفہانی کو اس کے دیوان کتاب الاغانی ( گیتوں کی کتاب) کی پہلی جلد حاصل کرنے کے لیے ایک ہزار دینار کی پیش کش کی تھی.(واضح رہے کہ عربی ادب کی تاریخ پر کتاب الاغانی 21 جلدوں میں ہے ).قرطبہ کی اس شاہی لائبریری کی الماریاں خوشبودار لکڑی سے بنی تھیں جن میں کتابیں بڑی ترتیب اور نفاست سے رکھی جاتی تھیں.اس کے کمروں کی چھت پر دیدہ زیب بیل بوٹے بنے ہوئے تھے.اس کا فرش سنگ مرمر کا تھا.ریڈنگ روم سے ملحقہ کمرے میں درجنوں کی تعداد میں کا تب، جلد ساز اور نقاش دن رات کام میں مصروف رہتے تھے.کتابوں کی کتابت اعلیٰ قسم کے عمدہ کاغذ پر کی جاتی تھی.اس کی دیواریں الا باسٹر (alabaster) کی تھیں.کا تب اچھے قتسم کے کاغذ پر نفیس کتابت کرتے تھے.اس کے چیف لائبریرین کا نام تالید تھا جبکہ اس کی معاون لینی نام کی ایک خاتون تھی.ایک خاتون فاطمہ خود اچھی قلم کار تھی اور عمدہ کتابوں کی تلاش میں لمبے لمبے دشوار سفر کیا کرتی تھی.شہر میں ایک خاتون عائشہ نام کی تھی جس کا اپنے گھر میں ذاتی کتب خانہ تھا.اس کو کتابوں کا اس قدر والہانہ شوق تھا کہ عمر بھر اس.خا کہ ھر ھر اس نے شادی نہیں کی.الموحد شہزادی جس کا نام الولا دا ( وفات 1072ء) تھا اور جو خلیفہ حمد الثانی استکلفی کی بیٹی تھی وہ نہ صرف اپنی خوبصورتی بلکہ اپنی شاعری اور رعنائی خیال کی وجہ سے بھی لوگوں کے دل موہ لیتی تھی.قرطبہ میں اس کا دولت کدہ ممتاز شاعروں، عالموں اور دانشوروں کے لیے جمع ہونے کا خاص مقام تھا.اشبیلیہ کی خاتون صفیہ بھی ایک نامور شاعرہ اور مقررہ تھی جو کتابوں کی نفیس کتابت کرنے میں اپنا جدا گانہ مقام رکھتی تھی.غرناطہ کی حفصہ (وفات 1184ء) کی شاعری کے بارے میں المقری نے بیان کیا ہے کہ اس کی شاعری گویا بلبلوں کی زبان میں تھی.[64] قرطبہ میں عوامی کتب خانے بھی تھے.کتابوں کے خاص بازار تھے جہاں سناروں کی دکانوں سے زیادہ لوگوں کا ہجوم رہتا تھا.معمولی ملازم، غلام، بلکہ ہیجڑے بھی مطالعے میں منہمک رہتے تھے.اس کے برعکس یورپ میں روم کے شرفا اور رؤسادستخط کرنے کے بجائے دستاویزوں پر صلیب کا نشان لگا دیتے تھے.یورپ کے سب سے بڑے کتب خانے کینٹر بری (Canterbury) میں پانچ ہزار کتا ہیں تھیں اور فرانس کے راہب خانے کلونی (Cluny) کے کتب خانے میں صرف 570 کتا بیں تھیں.یادر ہے کہ یورپ میں قرون وسطی میں صرف پادری اور راہب ہی عالم ہوتے تھے جبکہ اسلامی دنیا میں لکھنا پڑھنا ہر خاص وعام کا اوڑھنا بچھونا ہوتا تھا.قرطبہ کے متمول لوگوں کے عالی شان بنگلوں میں بھی ذاتی کتب خانے ہوتے تھے.

Page 116

219 218 ن الدین ابن الخطیب نے نصحتہ الطیب میں لکھا ہے کہ یہ کتب خانے ایسے تھے کہ محنتی اور شوقین افراد علم کے اتھاہ سمندر میں ڈوب کر اس کی گہرائیوں سے قیمتی جواہر باہر نکال لاتے تھے : "....where studious could dive into the fathomless sea of knowledge, and bring up its inestimable pearls."[65] قرطبہ کے زوال کے بعد طلیطلہ، ویلنسیا، بارسی لونا اور غرناطہ کے لوگ کتب خانوں سے کتابیں اٹھا کر لے گئے.یورپ کی مشہور یو نیورسٹیوں اور لائبریریوں جیسے آکسفورڈ ، کیمبرج، ڈرہم، برلن ، گوتھنگن ، بون، ہائیڈل برگ ، ٹیوبنگن ، ویانا، ویٹیکن ، استنبول ، پیرس اور میڈرڈ کی اسکو ریال کی لائبریریوں میں تین لاکھ کے قریب نسخے ابھی ایک محفوظ ہیں.برٹش میوزیم کی عربی کی کتابوں کا کیٹیلاگ دو ضخیم جلدوں میں اور برلن کی لائبریری کا کیٹلاگ دس جلدوں میں ہے.شمالی امریکہ میں مانٹریال کی میک گل یونیورسٹی (Mc Gill University) میں ایک لاکھ کتابیں اور عربی، فارسی، ترکی اور اردو کے ہاتھ سے لکھے ہوئے نادر نسخے موجود ہیں.اسی طرح امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے کتب خانے میں بھی اسلامی طب پر نادر و نایاب قلمی نسخے موجود ہیں.اس کی ویب سائٹ یہ ہے :www.nlm.nih.gov/arabic نصیر الدین الطوسی نے مراغہ میں جو رصد گاہ بنائی تھی اس میں بھی ایک بہت بڑا کتب خانہ تھا جس میں کتابوں کی تعداد لاکھوں میں تھی.ہندوستان کے شہنشاہ جلال الدین موجودہ زمانے میں ہندوستان کے دو کتب خانے خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ایک پٹنہ کی خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری اور دوسرے رضا لائبریری، رام پور.خدا بخش لائبریری کو بانکی پور، پٹنہ میں 29 اکتوبر 1891ء کو وقف قرار دیا گیا تھا.یہ بنیادی طور پر مخطوطات کی لائبریری ہے.خصوصاً یہاں عربی اور فارسی کتابوں کا بے مثل ذخیرہ موجود ہے.یہاں 15000 قلمی نسخے ہیں جن کا کیٹیلا گ چونتیس جلدوں میں ہے.اس کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہاں مغلیہ عہد کی انمول پینٹنگز (paintings) بھی محفوظ ہیں.اردو کے پرانے رسالوں اور جرائد کا بہت بڑا ذخیرہ ہے.ایک ہزار سے کچھ زیادہ رسالوں کے دولاکھ شمارے دستیاب ہیں جن میں شائع شدہ مضامین کے فہرست وار کیٹیلاگ کے کارڈ دو لاکھ کے قریب ہیں.لائبریری قابل ذکر قلمی نسخوں کو جدید کتابوں کی شکل میں چھاپ رہی ہے.کچھ روز پہلے نارتھ یارک ( ٹورنٹو، کینیڈا) کی پبلک لائبریری میں میری نظر سے تاریخ کشمیر مؤلفہ محمد اعظم مکتوبہ 1758 ء گزری.اس کا اردو ترجمہ بادشاہ محمد شاہ کے عہد (1846ء) میں دہلی سے طبع ہوا تھا.خدا بخش لائبریری نے اس کی عکسی اشاعت 2000 ء میں شائع کی ہے.دیوان حافظ کا ایک نسخہ یہاں موجود ہے جس کو ہمایوں ایران میں سیاسی پناہ کے دوران واپسی پر اپنے ساتھ لایا تھا.سائنس پر بھی بہت سے مضامین ہیں جبکہ اردو داں طبقہ فراموش کر چکا ہے کہ اردو میں کبھی سائنس کا ایسا زبردست ذخیرہ موجود تھا.ایک اہم شعبہ یہاں آڈیو ٹیپنگ محمد اکبر (1605-1556ء) کی لائبریری عظیم الشان تھی اس میں صدیوں پرانے ، نایاب قلمی ( audio-taping) کا ہے جو ہم لوگوں کی آوازوں کی صدا بندی کرتا ہے.نسخے جمع تھے.وہ ہاتھ سے کتابت شدہ کتابوں کو مشین پر چھپی کتابوں کے مقابلے ترجیح دیتا تھا.ایک تاریخ داں کے مطابق اس کی لائبریری میں 24,000 کتابیں تھیں جن کی قیمت ساڑھے تین ملین ڈالر تھی.وہ شاعروں کو بے دریغ وظائف دیتا تھا.اس کو ہندو شاعر بیر بل اتنا عزیز تھا کہ اس نے ایک چٹکی میں اس کو ملٹری کا جرنیل بنا دیا.اس کے دربار کی زبان فارسی تھی اس لیے مہا بھارت یسنسکرت سے بہت سی مذہبی اور علمی کتابیں فارسی میں ترجمہ کی گئیں.[66] سمیت رضا لا تبریری کا آغاز 29 نومبر 1794 ء میں ہوا تھا.یہ رام پور کے آخری نواب رضا علی خاں کے نام سے منسوب ہے.یہاں پندرہ ہزار نایاب سکے اور تصویریں ہیں.دس زبانوں میں پچاس ہزار کے قریب نادر قلمی نسخوں ، نایاب کتابوں ، دستاویزوں، ہاتھ کی بنی تصویروں ، علم نجوم کے آلات، کمپاس، گلوب، ہاتھی دانت پر بنی تصویروں، دست کاری ، خطاطی، طلا کاری ، انوکھے کاغذ اور روشنائی کے نایاب نمونوں کا بے مثال خزانہ پوشیدہ ہے.بعض کتابیں

Page 117

221 220 مصنفوں کے ہاتھ کی کتابت شدہ ہیں.بہت ساری کتابوں پر عالموں، نوابوں، بادشاہوں اور عظیم ہستیوں کے دستخط اور مہریں لگی ہوئی ہیں.ڈیڑھ سو سے زیادہ ایک خاص قسم کے درخت کی چھال پر لکھی کتابیں ہیں.پانچ سو سے زیادہ کتابیں طلا کاری، گل بوٹوں اور نقش و نگار کا نمونہ ہیں.ایک بہت ہی باریک ہاتھی دانت کی پلیٹ پر شہنشاہ اکبر اور اس کے نورتنوں کی بنائی ہوئی تصویر ہے.چمڑے اور کاغذ پر کہی ہوئی بعض کتابیں ہزار سال پرانی ہیں.1700 سے زیادہ قلمی نسخے اس لائبریری کی زینت ہیں، جن میں سنسکرت اور ہندی کے نسخے بھی ہیں.یورپ میں عربی کتب کا ذخیرہ شاید کوئی قاری یہ کہے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اس کتاب میں مسلمان سائنس دانوں کی جن تصانیف کا ذکر ہے وہ واقعی لکھی گئی تھیں اور یہ محض قصے کہانیوں والی بات نہیں ہے تو بصد ادب گزارش ہے کہ برطانیہ کی درج ذیل عظیم الشان لائیبریریوں میں عربی کتابوں کا جو نادر ذخیرہ موجود ہے وہ اس بات کی تصدیق کے لیے کافی ہے.انڈیا آفس لائبریری ، لندن، برٹش لائبریری ، لندن، بوڈلین لائبریری (آکسفورڈ)، ایڈنبرا یو نیورسٹی لائبریری (اسکاٹ لینڈ) ، کیمبرج یونیورسٹی لائبریری ، ڈرہم یو نیورسٹی لائبریری، رائیل ایشیاٹک سوسائٹی لائبریری.صرف برٹش میوزیم کی اسلامی مخطوطات کی فہرست دو جلدوں میں ہے اور چار ہزار مخطوطات پر مشتمل ہے.یہاں اس بات کا ذکر دلچسپی کا باعث ہوگا کہ سلی کے بادشاہ فریڈرک دوم (1250-1194 || Fredrick) نے 1224ء میں نیپلز (Naples, Italy ) میں یورپ کی پہلی یو نیورسٹی ایک منشور کے تحت قائم کی تھی اس میں درس تدریس کے لیے تمام کتابیں عربی میں تھیں.راقم السطور کو 1999 ء میں بوڈلین لائبریری دیکھنے کا موقعہ ملا تھا.یہاں داخلے کے لیے کسی پروفیسر کے تعارفی خط کا ہونا ضروری ہے.پاسپورٹ کی فوٹو کاپی بنا کر، دو پاؤنڈ فیس کی رقم لے کر ایک دن کے لیے مجھے اجازت نامہ دے دیا گیا.پھر عاجز سے ایک کمرے میں بیٹھنے کے لیے کہا گیا جہاں پینسل اور قلم لے جانا ممنوع تھا.وہاں عہد وسطی کی عربی کتب کی بڑے سائز کا ایک کیٹیلا گ تھا جس میں سے عاجز نے الرازی، جابر ابن افلح ، الزہراوی ، این زہر، ابن الہیشم ، ابن سینا، کی کتب کا انتخاب کیا اور متعلقہ افسر مجھے وہ کتابیں کچھ وقفے کے بعد لالا کر دیتا رہا.میں اس بات کا شاہد ناطق ہوں کہ اس پیشِ نظر کتاب میں بیان کردہ تصانیف واقعی لکھی گئی تھیں اور وہ آج بھی دنیا کی عظیم الشان لائبریریوں میں موجود ہیں.جرمنی میں صرف برلن لائبریری کے عربی مخطوطات کی فہرست دس ضخیم جلدوں میں دستیاب ہے.ہر جلد میں ایک ہزار مخطوطات کا ذکر ہے.اس کے علاوہ گو تھنگن ، بون تو بنگن ، ہائیڈل برگ، ہمبرگ، میونخ ، ٹیو بینگن کی جامعات کے کتب خانوں میں صد ہانا در اسلامی نسخے اور مخطوطات کا ایک ذخیرہ موجود ہے.اسپین میں میڈرڈ سے چالیس میل دور اسکو ریال لائبریری اور میڈرڈ کی نیشنل لائبریری میں بھی صد با مخطوطات موجود ہیں.(1999ء میں راقم السطور قرطبہ سے کار کے ذریعے لمبا سفر طے کر کے اسکور یال عربی کتب دیکھنے کے اشتیاق میں عبد الباسط کے ہمراہ گیا تھا مگر اس روز لائبریری بند تھی.ہم نے خوبصورت محل نما عظیم الشان عمارت کے باقی حصے کی مایوس ہو کر سیر کی).بوڈلین لائبریری نے اسلامی دنیا کی ایک ہزار سالہ پرانی نادر کتب میں سے پچاس کتب کی نمائش کا اہتمام 1981 ء میں کیا تھا.یہ کتابیں قرون وسطی کے علما نے فلسفہ ، طب، طبیعیات، ریاضی اور جغرافیہ جیسے علوم پر لکھی تھیں.اس نمائش کا نام دی ڈاکٹرینا عربم (The Doctrina Arabum) تھا جوڑ یونٹی اسکول (Divinity School) کی پانچ سوسالہ قدیم عمارت میں لگائی گئی تھی.نمائش میں راجر بیکن کی کتاب اوپس ٹرئیس (Opus Tertius) بھی تھی جس میں اس نے ابن الہیشم اور الزر قلی کو خراج عقیدت پیش کیا ہے.مائیکل اسکاٹ کی حیوانیات پر ترجمہ کردہ کتابیں بھی تھیں جو اس نے بادشاہ فریڈرک دوم کے حکم پر کی تھیں.یونانی

Page 118

223 222 عالم اپالو نیوس آف پیر گا (Appalonius of Perga) کی کتاب کو نکس (Conics) کے تین حصوں کا عربی ترجمہ بھی تھا جن کے مطالعے سے ایڈمنڈ ہیلی (Edmond Halley) نے اپنی کتاب 1710ء میں شائع کی تھی.نمائش میں الغ بیگ کی زیج عربی زبان میں تھی جس کا لاطینی میں ترجمہ کر کے پروفیسر جان گریوز (Prof.John Greaves) نے لاطینی میں ستاروں کی زیج تیار کی تھی.یہاں لاطینی زبان میں وہ مخطوطات بھی تھے جو تیرہویں اور چودہویں صدی میں یورپ کی جامعات میں بطور نصاب شامل تھے، ایسے مخطوطات مرٹن کالج کی لائبریری میں محفوظ ہیں.ویٹیکن کی مشہور زمانہ لائبریری جس کا آغاز 1451ء میں ہوا تھا اس میں دو لین کتابوں کے ساتھ ساتھ 75,000 مخطوطات عربی زبان کے علاوہ دوسری زبانوں میں موجود ہیں.اسی طرح یہاں قرآن پاک کی 33 ویں سورۃ آیات 73 اور 74 کا ایک صفحہ موجود ہے جو تیونس میں تیرہویں صدی میں لکھا گیا تھا.امریکہ کی نیشنل لائبریری آف میڈیسن ، میری لینڈ میں بھی طب کے موضوع پر نادر مخطوطات اور کتابوں کا بیش قیمت ذخیرہ موجود ہے.ہندوستان کی خدا بخش لائبریری، پٹنہ اور رضا لائبریری، رام پور، سالار جنگ میوزیم ، حیدر آباد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دار العلوم دیوبند، جامعہ ہمدردنئی دہلی اور بکثرت ذاتی کتب خانوں میں بھی کتابوں اور مخطوطات کا انمول ذخیرہ موجود ہے.٦ ļ 18 ہندوستانی اسلامی تہذیب اور سائنس تاریخ دانوں کے مطابق رسالت مآب حضور سرور کائنات ﷺ کی بعثت مبارکہ سے قبل مالا بار کے ساحل پر عربوں کے کچھ قبیلے آباد تھے.ظہور اسلام (610ء) کے بعد ان لوگوں نے مقامی آبادی میں تبلیغ کا کام شروع کیا.کہا جاتا ہے کہ کالی کٹ کا بادشاہ ان کی تبلیغی کوششوں سے مشرف بہ اسلام ہوا تھا.آٹھویں صدی کے بعد عرب اور ایران سے کثیر تعداد میں لوگ ہندوستان آئے.محمد بن قاسم پہلا مسلمان جرنیل تھا جس نے 711ء میں سندھ پر قبضہ کیا.ہندوستان میں پہلی اسلامی سلطنت غزنوی خاندان کی تھی.1258ء میں سقوط بغداد کے بعد عراق کے علماء سائنس داں ، ادیب، ماہرین طب، پناہ لینے ہندوستان منتقل ہوئے.اس طرح یہاں اسلامی تہذیب کے ساتھ ساتھ اسلامی سائنس کے نئے دور کا آغاز ہوا.غلام خاندان کی حکومت کے دوران دہلی کے عظیم الشان قطب مینار کی تعمیر ہوئی.دہلی کے نواح میں مسلمان حکمرانوں کے مزار فن تعمیر کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں.بلبن کا مزار ، ہمایوں کا مزار شالیمار باغ ، شاہی مسجد لاہور، آگرہ میں شاہجہاں کا تعمیر کردہ تاج محل فن تعمیر کا لازوال شاہکار ہیں.دہلی کے حکمرانوں کو میکانیکی مشینیں (mechanical devices) بہتر سے بہتر بنانے کا بہت شوق تھا.جن میں چرخی (pulley) اور پیل پایہ ( piers) قابل ذکر ہیں.کتاب صراط فیروز شاہی میں ایسے تیرہ آلات کا ذکر کیا گیا ہے جن کے ذریعے بھاری پتھر اور تعمیر کا سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا تا تھا.

Page 119

225 224 سلطان ناصر شاہ (1511 - 1500 ء) کے دور حکومت میں ایک عالم محمد ابن داؤد نے عربی کتابوں کا فارسی زبان میں ترجمہ کیا جو اس دور میں ہندوستان کی سرکاری زبان تھی.اس کتاب میں کئی مشینوں کے ڈائیگرام بھی شامل ہیں.فرانسیسی سیاح مانسے راٹ (Monserrate) کا کہنا ہے کہ اس نے مغلیہ بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کو خود مشینوں پر کام کرتے ہوئے نیز نئی مشینوں کے بنانے کی ہدایات دیتے ہوئے دیکھا تھا.دہلی کا ایک ماہر ہیئت اور ممتاز سائنس داں حکیم فتح اللہ (1589ء) جو شیراز کا باشندہ تھا ہر نئے سال کے موقعے پر اپنی نت نئی سائنسی ایجادات کی نمائش کیا کرتا تھا.اس نے کئی کتابیں بھی تالیف کیں جن میں اس نے میکانیکی ایجادات، ان کے سائنسی اصول ، ضرورت اور استعمال پر اظہار خیال کیا.فتح پور سیکری اور تاج محل کے علاقوں میں پانی مشینوں کے ذریعے ایک سو گز اونچے ٹینکوں میں بھرا جاتا تھا جو بعد میں ملحقہ باغات میں استعمال ہوتا تھا.سنسکرت میں ریاضی کے موضوع پر تمام ذخیرہ مسلمانوں نے عربی میں منتقل کیا تھا اور بعض صورتوں میں انہوں نے خود بہت قابل قدر اضافے کیسے مثلاً اقلیدس کی کتاب عناصر (Elements) ، جس کا عربی ترجمہ نصیر الدین الطوسی نے کیا تھا، کا فارسی میں ترجمہ قطب الدین شیرازی نے 1311ء میں کیا.ان تراجم کو بنیاد بنا کر ہندوستان کے ریاضی داں عبدالحمید محرر غزنوی نے کتاب دستور الباب فی علم الحساب تحریر کی جس کے تالیف کرنے میں اس نے عرق ریزی سے چھبیس سال صرف کیے.فیضی (1592-1547ء) جو ابولفضل کا بھائی اور شہنشاہ اکبر کا درباری عالم تھا، نے سنسکرت کی کتاب لیلاوتی مصنفہ بھاسکر آچاریہ (1160-1114ء ) کا1587ء میں فارسی ترجمہ کیا.اس کتاب میں الجبرا اور جیومیٹری کے تھیورم بیان کیے گئے تھے.یہ ترجمہ اس قدر مقبول ہوا کہ ریاضی داں عطاء اللہ رشدی نے 1634ء میں بھاسکر آچاریہ کی باقی کتابوں کے بھی تراجم کیے جو الجبرا اور علم مساحت ( ٹریگا نومیٹری ) کے موضوع پر تھیں.نصیر الدین القوی اور مشہور ریاضی داں بہاء الدین العاملی ( 1621-1547ء) کی کتابیں ہندوستان میں اس قدر ہا تھوں ہاتھ لی گئیں کہ استاد احمد معمار لاہوری (متوفی 1649ء) اور ان کے بیٹوں عطاء اللہ رشدی، لطف اللہ اور نوراللہ نے بھی ریاضی پر ٹھوس علمی مقالے زیب قرطاس کیے.واضح رہے کہ احمد معمار تاج محل اور لال قلعہ کا آر کی ٹیکٹ (architect ) تھا.جامع مسجد دہلی اور تاج محل پر قرآنی آیات نقاش نور اللہ نے منقش کی تھیں.استاد احمد کے سارے بیٹے اور پوتے قابل انجنیر اور ریاضی داں تھے.وہ اپنے دور کی تمام یونانی، عربی اور سنسکرت میں موجود ریاضی کی کتابوں سے واقفیت رکھتے تھے.جلال الدین محمد اکبر کے شاہی طبیب حکیم علی گیلانی نے 1593ء میں لاہور میں ایک عجیب و غریب حوض تعمیر کیا تھا اس کا طول و عرض 20 گز اور گہرائی 3 گز تھی.درمیان میں ایک حجرہ تھا جس میں ایک درجن آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی.چھت پر اونچا مینار تھا.حجرے کے دروازے کھلے رہتے تھے اس کے باوجود پانی اس کے اندر نہیں آ سکتا تھا.حوض حکیم علی دیکھنے شہنشاہ اکبر بنفس نفیس لاہور گیا اور پانی میں غوطہ لگا کر حجرے کے اندر بھی پہنچا.اسی طرح کا ایک اور حوض حکیم علی نے شہنشاہ جہانگیر (1627-1605ء) کے عہد میں آگرہ میں بنایا تھا جسے دیکھنے جہانگیر خود گیا تھا.ہندوستان میں مسلمانوں نے ہیت کے میدان میں ابو ریحان البیرونی جیسے عالم بے بدل کی سائنسی تحقیقات کو آگے بڑھایا.یہاں کے مسلمان بطلیموس کی کتاب سینٹی لو کیم (Centiloqium) کے فارسی اور عربی تراجم سے بخوبی آگاہ تھے.وہ اس کی دوسری اہم کتاب امجسطی سے بھی واقف تھے جس میں علم ہئیت اور علم مساحت ( ٹریگا نومیٹری ) پر اس کے نظریات پیش کیے گئے ہیں.ستاروں کی زیج جو دہلی میں تیار کی گئی اس کا نام زیج ناصری ہے جس کو

Page 120

227 226 محمود ابن عمر نے سلطان ناصر الدین محمود (1449-1447ء) کے عہد میں تیار کیا تھا جو سلطان کے نام سے معنون تھی.سلطان فیروز شاہ تغلق کے دور حکومت میں کتاب بری بات سمیت (Brihat Samhit) کا ترجمہ فارسی میں کیا گیا جس سے دنیا کو ہندوؤں کے علم ہئیت کی وسعت کا اندازہ ہوا.اس کا عربی ترجمہ البیرونی اس سے قبل کر چکا تھا.اسی طرح ہندوؤں کی کتاب سر یا سدھانتا ( عربی نام سند ہند ) بھی مسلمانوں کے علمی حلقوں میں وقعت کی نظر سے دیکھی جاتی تھی.مہاراجہ جے سنگھ (1743-1699ء) کو علم ریاضی اور ہئیت سے بہت لگاؤ تھا اس نے ہندو، مسلم اور یورپین طریقہ مشاہدات کو زیر استعمال لا کر وارانسی (بنارس) میں 1710 ء میں ، دہلی میں 1724ء میں اور جے پور میں 1730ء میں جدید رصد گا ہیں تعمیر کروائیں ان میں پیتل سے بنے آلات استعمال کیے گئے تھے.بعد میں یہی آلات مٹی اور اینٹوں سے بنائے گئے جیسے بر اس سرکلس اور ایکوئیٹیو ریل سرکس ( Brass circle and equatorial circles ) اس نے سنسکرت میں اصطرلاب پر کتاب بینت را را جارا کا نالکھی علیم بہیت میں اس کی دوسری کتاب جا تاوے نو دا تھی.اس نے زیج محمد شاہی کے تیار کروانے میں دامے، درمے، قدمے مدد کی.اس نے عربی میں موجود سائنس کی کتابوں کے سنسکرت میں تراجم بھی کروائے.زیج محمد شاہی کی تیاری میں مسلمان، ہندو اور یورپین محققین نے حصہ لیا تھا.ہندوستان سے ماہرین ہئیت انگلینڈ گئے اور فلپ ڈی ہائر (Phillipe de Hire) کے ہئیت کے جدول اپنے ساتھ لائے تاکہ ان کا موازنہ زیج محمد شاہی سے کیا جا سکے.نظامیہ رصد گاه (Nizamia Observatory, Hyderabad) حیدرآباد میں تعمیر ہوئی تھی.18 1908ء میں نظام حیدرآباد نے اس کی سر پرستی کی اور 15 اینچ ریفر یکٹر (refractor "15) سے ستاروں کے نقشے تیار کیے گئے.اس کے بعد 8 انچ ایسٹر و گراف ( astrograph "8 ) سے 800,000 ستاروں کی 12 کیٹلاگ شائع کئے گئے.اس کے ڈائر یکٹر بھش کرن نے یہاں 15 انچ گرب ٹیلی سکوپ (Grubb Telescope "15) لگوایا.کچھ عرصے بعد ہی یہ رصد گاہ عثمانیہ یونیورسٹی کے زیر اہتمام آگئی.1944ء میں اکبر علی اس کے ڈائیریکٹر بنے ، 1968ء میں یہاں 48 انچ ٹیلی اسکوپ (telescope "48) نصب کی گئی.اضطرلاب ایرانی عالم نصیر الدین الطوسی نے اصطرلاب بنانے کے موضوع پر ایک رسالہ بست باب در اصطرلاب کے نام سے قلم بند کیا تھا.یہ کتاب ہندوستان میں مسلمانوں کے زیر مطالعہ رہی.ہندوستان کے سائنسی حلقوں میں بہاء الدین العاملی کا بھی بہت اثر تھا.1437ء میں سمرقند میں تیمور لنگ کے پوتے سلطان الغ بیگ (1449-1393ء) کے حکم پر ایک عالی شان رصد گاہ تعمیر کی گئی تھی ( روسی ماہرین آثار قدیمہ نے اس کے آثار 1900ء میں کھدائی کر کے نکالے تھے ).1447ء میں اس نے دنیا کے مانے ہوئے ہئیت دانوں اور چوٹی کے عالموں کو اکٹھا کیا اور ان کو یہ پراجیکٹ سونپا کہ وہ ہیت کی جدو لیس (astronomical tables ) تیار کریں.جس کا نتیجہ زیج جدید سلطانی کی صورت میں نکلا.روشن خیال شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے حکم پر اس زیج کا سنسکرت میں ترجمہ کیا گیا.مغلیہ عہد کے مشہور سول انجنئیر نجم الدین نے بھی دہلی میں سلطان محمد شاہ کے دور حکومت (48-1719ء) میں ایک رصد گاہ تعمیر کی تھی.[67] شہنشاہ اکبر کے دور حکومت میں ایک عالم مرزا خاں نے موسیقی پر کتاب تحفتہ الہند تصنیف کی.شہنشاہ ہمایوں نے اپنے آبا و اجداد کی علمی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اصطرلاب بنانے کے نئے ماڈل تیار کر وائے.مغل شہنشاہ شاہجہاں کے نہایت ممتاز ہئیت داں فرید الدین مسعود دہلوی (1629ء) نے الغ بیگ کی تیار کردہ زیج کو بنیاد بنا کر زیج شاہجہانی اکتوبر 1629ء میں شاہجہاں کو پیش کی.اس نے 1597ء میں ایک کتاب " صراط استخراج تصنیف کی جو علم ہدایت پر جامع اور مبسوط کتاب تھی.

Page 121

229 228 شاہجہاں کے وزیر آصف خاں نے زیج شاہجہانی کے سنسکرت میں ترجمے کے لئے دہلی کے ممتاز براہمن عالم نیہ ند کو مامور کیا.440 صفحات کا یہ ترجمہ سدھانتا سندھو 1630ء میں مکمل ہوا.اس کی گیارہ نقلیں 45x33 cm کے جہازی کاغذ پر بنوا کر شمالی ہندوستان کے مسلمان شرفا میں تقسیم کی گئیں.چار نقلیں اس وقت جے پور کے محل کی لائبریری میں موجود ہیں.ایک زیج کے پہلے صفحہ پر شاہجہاں کی شاہی مہر ثبت ہے.نتیہ نند نے اس ترجمے میں فارسی اور عربی کی اصطلاحات کو اس طرح پیش کیا تا کہ انہیں ہندو مہر بیت آسانی سے سمجھ سکیں.اس نے ہندی اور اسلامی ہئیت میں فرق واضح کیا.اس ترجمے کی تکمیل کے دوران نتیہ نند نے جو نئے الفاظ ایجاد کیے وہ فلپ ڈی ہا تر ( 1718ء) کے ایسٹرونومیکل ٹیبلز کے سنسکرت کے ترجمے میں بھی استعمال کیے گئے تھے [68].اس عہد کے محمد فاضل نے اپنی کتاب مجمع الفضائل شاہ جہاں کے نام معنون کی یہ 1836ء میں منصہ شہود پر آئی تھی.شاہجہاں کے دور حکومت ہی میں موسیقی پر کتاب شمس الاصوات لکھی گئی.اس کے علاوہ عنایت خاں نے شاہجہاں نامہ لکھا جس کا ترجمہ اے آر فلر (A.R.Fuller) نے کیا اور زیڈ اے ڈیسائی نے اسے مدون کر کے دہلی سے 1990ء میں شائع کیا ہے.ہندوستان میں اسلامی طب کی بنیاد ابو بکر محمد ابن زکریا الرازی اور شیخ الرئیس ابوعلی حسین ابن سینا کی بصیرت افروز کتابوں پر رکھی گئی تھی.ازبکستان کے صوبہ خوارزم میں ایک عالم سید اسماعیل جرجانی نے کتاب ذخیرہ خوارزم شاہی تحریر کی.اس کتاب کا ہندوستان میں بارہویں صدی سے لے کر پندرویں صدی تک اثر قائم رہا.اس وجد آفریں کتاب میں انسانی جسم کی ساخت، علم طب کی تعریف، بیماری کی شناخت ، مرض کی وجوہات ، بخار، زہر کے اثرات جیسے موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے.اسی طرح ایک اور طبیب نفیس ابن عوض کرمانی (1424ء) نے مدلل اور مسکت کتاب شرح اسباب و علامات لکھی جس کا مطالعہ عام تھا.ایران سے آئے ہوئے ایک کشمیری حکیم منصور ابن احمد نے کفایہ مجاہد یہ جیسی کتاب تصنیف کی.اسی طرح بادشاہ ہمایوں کے ایک طبیب یوسف این محمد ہراتی کی کتاب میں امراض کے علاج اور ان کے نسخے دیے گئے تھے.سلطان سکندر لودھی کے ایک وزیر نے کتاب معدن الشفاء سکندرشاہی لکھی جس میں اسلامی اور ہندی طب کی معلومات کو اکٹھا کیا گیا تھا.اسی طرح نامور تاریخ داں محمد قاسم ہندوشاہ (متوفی 1824ء جو فرشتہ کے نام سے مشہور ہے ) نے کتاب دستور الاطباء لکھی.شہنشاہ اکبر کے نامور وزیر ابولفضل کے بھتیجے نور الدین محمد عبد اللہ نے جڑی بوٹیوں اور مفرد دواؤں پر کتاب لکھی جس میں ان کے نام عربی، فارسی، لاطینی ، اسپینی ، ترکی اور سنسکرت زبانوں میں دیے گئے تھے.یہ کتاب مغل بادشاہ شاہجہاں کے نام معنون تھی اور اس کا نام الفاظ الادویہ تھا.حکیم علی گیلانی (1609-1554ء ) عہد مغلیہ کا نامور طبیب تھا جس کو طب، ریاضی اور دیگر علوم حکمیہ میں مہارت حاصل تھی.وہ اکبر 1605-1556ء کے دربار سے وابستہ تھا جس نے اس کو جالینوس الزماں کا خطاب عطا کیا تھا.وہ واحد ہندوستانی طبیب تھا جس نے ابن سینا کی کتاب القانون کی پانچوں جلدوں کی مکمل شرح لکھی.اس کے مخطوطات رضا لائبریری رام پور میں موجود ہیں.اس شرح کی پہلی جلد جامع الشرحین لکھنو سے 1950ء میں شائع ہوئی تھی.اس کا ایک اور شہ پارہ ادب مجربات گیلانی ہے.علم طب پر ایک اور کتاب محمد رضا آف شیرازی نے ریاض عالمگیری تصنیف کی جو شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے نام معنون تھی.حکیم غلام امام نے ہندوستان میں فارسی میں علاج الغرباء لکھی جو 19 ویں صدی میں اس کی بے پناہ مقبولیت کے پیش نظر کئی بار شائع ہوئی تھی.

Page 122

231 230 مدارس ہندوستان کے مسلمان سلاطین کے عہد مسعود میں سلطان محمود غزنوی نے ایک جامع مسجد اور مدرسہ بنوایا تھا.شہاب الدین غوری نے اجمیر میں متعدد دینی مدارس قائم کیسے تھے جو ہندوستان کے قدیم ترین مدارس ہیں.بیان کیا جاتا ہے کہ جو علما دوسرے ممالک سے ہندوستان آتے وہ اپنے ساتھ چالیس چالیس اونٹوں پر کتابیں لاد کر لایا کرتے تھے.سلاطین ہند جن علما یا سرکردہ افراد کو ہندوستان آنے کی دعوت دیتے وہ اگر خود نہ آسکتے تو کتابیں بھجوا دیا کرتے تھے.سلطان شمس الدین التمش نے متعدد مدر سے قائم کیے.معز الدین غوری کا جاری کردہ معزی مدرسہ آج بھی بدستور علم کی روشنی سے دنیا کو روشن کر رہا ہے.فیروز شاہ تغلق نے جو مدرسہ کھولا اس کے مدرس مولانا جلال الدین رومی تھے.شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور میں مدارس کے تعلیمی نصاب میں اخلاق کے علاوہ ریاضی ، طب ، منطق ، طبیعیات اور تاریخ کے مضامین شامل ہوتے تھے.شاہجہاں نے دہلی کی جامع مسجد میں مدرسہ دار البقا بنوایا تھا.آگرہ کی جامع مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ شہزادی جہاں آرا نے بنوایا تھا.اور نگ زیب کے عہد میں جو جید علما مع اسلام جلاتے رہے ان میں مولوی مبارک، شاہ ولی اللہ، شاہ عبدالعزیز ، شاہ رفیع الدین ہمفتی صدرالدین، مولوی عبدالحی کے نام نامی قابل ذکر ہیں.اور نگ زیب عالمگیر کے عہد میں سیال کوٹ علم کا گہوارہ تھا.اس دور کے مدارس میں تدریس کا وقت صبح سے دو پہر اور نماز ظہر سے غروب شمس تک ہوتا تھا.اٹھارویں صدی کے اوائل میں ایک بزرگ ملا نظام الدین نے دینی تعلیم کا نیا نصاب شروع کیا جس کو درس نظامی کہا جاتا ہے اور جو آج بھی دینی مدراس میں جاری ہے.فلسفیان ہندوستان و پاکستان فیضی (1595-1547ء) شہنشاہ اکبر کا ملک الشعرا تھا.وہ بیک وقت مؤرخ ، انشا پرداز اور فلسفی تھا.اس کے قلم سے ایک سو کتا بیں نکلیں.اس نے گیتا اور مہا بھارت ( کچھ حصوں کو ) کو فارسی میں منتقل کیا.ریاضی کے کچھ مسائل لاطینی سے فارسی میں ترجمہ کیے.قرآن پاک کی تفسیر سواطع الالہام میں قادر الکلامی کا ایسا نمونہ دکھا یا کہ اول تا آخر ایک بھی نقطہ دار حرف ( ب ، ت ن ، ج ش ) استعمال نہیں کیا.شاہراہ معرفت پر ایک ایسا مقام بھی آتا ہے جہاں زمان و مکاں کے حجابات اٹھ جاتے ہیں.مرزا عبد القادر بیدل (1722-1644ء) فکر ونظر کے اعتبار سے سراسر فلسفی تھا.اس نے انداز ا130,000 معرفت سے بھر پور اشعار کہے.ہر دیوان میں فلسفیانہ اشعار کثرت ملتے ہیں.چند مشہور مجموعے یہ ہیں: کلیات، چہار عناصر، نسخه عرفان، طور معرفت، ساقی نامه، صنائع و بدائع.مولانا ابوالکلام آزاد (1958-1888ء) برصغیر کے قادر الکلام ادیب اور بلند پایہ مقرر تھے.علمی تبحر کا یہ عالم تھا کہ ہر کتاب پر مرحبا کی صدائیں بلند ہوئیں.ایک درجن تصانیف میں سے ہر تخلیق ندرت خیال کا شاہکار ہے.تذکرہ.ترجمان القرآن.غبار خاطر.مکالمات.مجموعہ مضامین.راحت و الم کا احساس با ہر سے نہیں آتا بلکہ یہ خود ہمارا اندر کا احساس ہے جو کبھی زخم لگا تا اور کبھی مرہم بن جاتا ہے.عشق الہی کی پہلی شرط ترک ماسوا ہے یہ جبھی ممکن ہے کہ دل چوٹ کھائے ، اسی چوٹ کا نام عشق ہے.نیاز فتح پوری (1966-1984ء) پینسٹھ سال تک مسلسل تصنیف و تالیف میں مشغول رہے.انشاء، تنقید، مذہب، فلسفہ، افسانہ پر 35 کتابیں لکھیں.وہ مفکرین مغرب کی عقلیت سے بہت مرعوب تھے.انہوں نے زندگی کے معموں کو بذریعہ عقل حل کرنے کی کوشش کی.ان کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے ” نگار میں ان کی 65 غزلوں اور 5261 نثری تخلیقات نے لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں حرکت پیدا کی.چند کتابیں یہ ہیں: من و یزداں، شاعر کا انجام، گہوارہ تمدن ، مذاہب عالم کا تقابلی مقابلہ.عبد الماجد دریا بادی (1967-1892 ء ) علی گڑھ سے بی اے کرنے کے بعد

Page 123

233 232 دارالترجمہ، عثمانیہ یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے.کئی سال تک مفت روزہ سچ اور صدق جدید کے مدیر رہے.درجن بھر کتابوں کے مصنف تھے جن میں سے چند فلسفیانہ ہیں: مبادی فلسفہ.فلسفہ جذبات.فلسفہ اجتماع.مکالمات بر کلے (ترجمہ).علامہ محمد اقبال (1938-1873 ء) ہندو پاک کے اس عظیم القدر فلسفی کی زندگی اور شاعری پر ڈیڑھ سو سے زیادہ کتابیں لکھی جاچکی ہیں.اردو کے علاوہ دنیا کی دیگر زبانوں میں بھی ان کی شخصیت پر لکھا جا چکا ہے.ڈاکٹر نکلسن (Nicholson) نے اسرار خودی کا انگریزی میں ترجمہ کیا.جرمنی کے مستشرق نے ان کی چند نظمیں جرمن میں ترجمہ کر کے چمڑے پر لکھوا کر علامہ کو بھجوائیں.ترکی کے ادیب حسین دانش نے متعد د نظمیں ترکی زبان میں ترجمہ کی ہیں.علامہ اقبال کی چند تصانیف یہ ہیں.پیام مشرق، زبور عجم ، جاوید نامہ ضرب کلیم.علامہ عنایت اللہ مشرقی (1963-1888ء) ممتاز ادیب ، مفسر، فلسفی اور آتش مزاج رہ نما تھے.کیمبرج یونیورسٹی (برطانیہ) سے ریاضی میں اعلیٰ مہارت کی بنا پر رینگلر (Wrangler) کا خطاب ملا تھا.چند تصانیف یہ ہیں: تذکرہ ، خریطہ، اشارات، قول فیصل، متعدد رسائل، مقالات، ارمغان حکیم وغیرہ.ڈاکٹر ولی الدین (1967-1900 ء ) طویل عرصہ تک عثمانیہ یو نیورسٹی میں فلسفے کے معلم رہے.فلسفے پر وہ متعدد کتابوں کے مصنف ہیں: تاریخ مسائل فلسفہ، مقدمہ فلسفہ، فلسفہ کی پہلی کتاب، تاریخ فلسفہ اسلام (عربی سے ترجمہ)، اخلاقیات، فلسفہ کیا ہے؟، قنوطیت (فلسفه یاس).حرف آخر اس کتاب کے مطالعے سے قاری پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو گئی ہو گی کہ یورپ نے مسلمانوں کی کتابوں کے تراجم کے ذریعہ سائنسی تحقیقات کو آگے بڑھایا مگر اس سلسلے میں انہوں نے جو بڑی علمی بددیانتی (intellectual dishonesty) کی وہ یہ تھی کہ انہوں نے ان کتابوں کے لاطینی تراجم کرتے وقت ان کے مصنفین کے ناموں کا بھی ترجمہ کر دیا.لہذا ان ناموں سے یہ اخذ کرنا مشکل ہو گیا کہ ان کتابوں کے مصنف مسلمان تھے یا غیر مسلم.جیسے الرازی (Rhazes) ، ابن سینا (Avicenna)، الجانی (Albatinius) ابوالقاسم الزہراوی (Albucasis) ، ابن رشد ( Averroes ) ، ابن الہیشم (Alhazen)، جابر ابن حیان (Geber).یہ اتنا بڑا علمی سرقہ تھا کہ آج مسلمانوں کو یہ طعنے سننے پڑتے ہیں کہ سائنس میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے.چونکہ ترجمہ کرنے والے اکثر راہب یا متعصب پادری تھے اس لئے ممکن ہے انہوں نے اسلام کے خلاف اپنا بغض اور باطنی رقابت کا اظہار یوں کیا کہ مسلمان حکماء کے نام ہی بدل دیے.وقت کا تقاضہ ہے کہ ان حکماء کے کارناموں پر مضامین اور کتابیں لکھی جائیں تا کہ وہ اپنی آب و تاب کے ساتھ اجاگر ہوں اور ان کی علمی فضیلت کی دھاک بیٹھ جائے.مسلمان سائنس دانوں کے کارناموں کو یاد کر کے ہمیں ماضی میں کھو جانے کے بجائے اسلامی دنیا کے تابناک مستقبل کے لیے ٹھوس بنیادوں پر عمارت کھڑی کرنی ہو گی تا کہ آنے والی

Page 124

235 234 نسلوں کا ذہن سائنس کا نام آتے ہی یورپ و امریکہ کی طرف جانے کے بجائے یہ محسوس کرے کہ یہ ہماری میراث ہے.ہم میں سے بہت سے لوگ تاریخ سائنس سے محروم ہونے کی بنا پر یورپ و امریکہ سے بہت مرعوب نظر آتے ہیں.ان کو جاننا چاہئے کہ سائنس کی تمام نعمتیں غیروں ہی کی دین نہیں ، ان کی پروان میں ہمارا بھی حصہ ہے.سائنس پر کسی ایک قوم کی اجارہ داری نہیں ہے، کبھی ہندوستان اور چین نے اس کے فروغ میں حصہ لیا تو کبھی مسلمانوں نے کبھی یورپ والوں نے تو کبھی امریکہ والوں نے.سائنس اور ٹیکنالوجی نے قوموں کو عروج تک پہنچایا.سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہر چیز کسی نہ کسی طرح سے وابستہ ہے.ہر شعبہ حیات میں سائنس کو دخل ہے.اسلامی دنیا خاص طور پر ایران، پاکستان اور ہندوستان میں سائنس کی تعلیم کی طرف خاص توجہ دی جارہی ہے.وہ دن دور نہیں جب ہندوستان ، چین اور مسلم دنیا ایک بار پھر سائنس میں ترقی کر کے زبردست علمی طاقت بن جائیں گے اور اب جو طالب علم آکسفورڈ، کیمبرج اور ہارورڈ میں آتے ہیں وہ پھر اعلی تعلیم کے لئے ان ملکوں تک جایا کریں گے.اسلامی دنیا اس وقت 42 ممالک پر مشتمل ہے.عرب ممالک میں سائنس و ٹیکنالوجی پر مجموعی پیداوار کا صرف 0.5 فی صد خرچ کیا جا رہا ہے.جبکہ جاپان میں 2.9 فی صد خرچ کیا جاتا ہے.انگریزی سے ناواقفیت کی وجہ سے عرب ممالک میں انٹر نیٹ کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے.عربی زبان میں ویب سائٹ رفتہ رفتہ تیار کی جارہی ہیں.اسلامی ممالک سے ہنر مند افراد، کمپیوٹر کے ماہر اور سائنس داں دیوانوں کی طرح مغربی ممالک کا رخ کر رہے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں سائنس دانوں کی نہ قدر ہے اور نہ کام کی وہ سہولتیں.ان کے امریکہ یا یورپ چلے جانے سے مقامی سائنس دانوں کی فعال نسل پروان چڑھنے میں بھی رکاوٹ پیدا ہورہی ہے.سائنسی علوم پر نئی تحریروں اور کتابوں کا فقدان ہے.پوری دنیا میں سالانہ ایک ملین تحقیقی مقالے اور سائنسی کتب شائع ہوتی ہیں.جبکہ تمام عرب ممالک میں سائنس و ٹیکنالوجی پر 2001ء میں صرف 330 ترجمہ شدہ کتابیں شائع ہوئیں.عرب ممالک میں محض ڈیڑھ فی صد آبادی کے پاس کمپیوٹر ہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ سائنس دانوں کو کام کرنے کی آزادی، وافر سہولتیں، مالی وسائل، کتب و رسائل، ماحول اور وقت فراہم کیا جائے.جس طرح ہارون الرشید، مامون الرشید ، فاطمی خلیفہ الحاکم بامر اللہ ، ایران کے ساسانی فرمانرواؤں نے سائنس کی سر پرستی کی تھی ہمارے حکمراں بھی تیل کی بے پناہ دولت سے بغداد، قاہرہ، طہران، لاہور، علی گڑھ ، انقرہ میں بیت الحکمہ تعمیر کریں.اٹلی کے انسٹی ٹیوٹ فار تھیور ٹیکل فزکس ( تریستے ) کے طرز کے سائنسی علوم کے انسٹی ٹیوٹ بڑے بڑے شہروں میں قائم کیسے جائیں.تمام اسلامی ممالک کی لائبریریوں میں کمپیوٹر لگائے جائیں تا کہ ہر خاص و عام کمپیوٹر آشنا ہو جائے.فورڈ فاؤنڈیشن (Ford Foundation) کی طرز کی اسلامی فاؤنڈیشن بنائی جائیں.عمارتوں، ایئر پورٹس، کالجوں اور اداروں کے نام جز وقتی یا موسمی سیاست دانوں کے بجائے اعلیٰ دماغ سائنس دانوں کے نام پر رکھے جائیں.یورپ کی نشاۃ ثانیہ کی طرح کی اسلامی نشاۃ ثانیہ وقت کی اہم ضرورت ہے.بعض دانشوروں کے نزدیک ملائیت اس نشاۃ ثانیہ میں بڑی رکاوٹ ہے.تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یورپ میں پادریت سے چھٹکارا ملتے ہی تاریک دور ختم ہونا شروع ہوا تھا.ضرورت اس امر کی ہے کہ سائنسی تخلیقات اور سائنسی تعلیم کے عمل کو تیز کیا جائے.دینی مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ سائنسی تعلیم بھی لازمی قرار دی جائے.اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا جائے.ذہنی غلامی سے چھٹکارا جلد حاصل کیا جائے.واللہ الموفق بالصواب!

Page 125

237 236 10.Mathe, Jean 11.Nadvi, Ibrahim Emadi 12.Glubb, Sir John 13.Bloom, J.& Blair, S.14.Sarton, George 15.Boyer, Carl 16.Boyer, Carl 17.Sarton, George 18.Gillispie, C.C.19.Schacht, Joseph 20.Savory, R.M.Civilization of Islam, Crescent Books, NY 1980, p 127 Musalman Sciencedaan (in Urdu), Maktaba Al Hasnat, Delhi 1993, p 172 The Empire of the Arabs, Hodder and Stoughton, London 1963, p 328 2.Hitti, Philip K.References تأخذ و مصادر 1.Monthly “Science" (in Urdu) September 1996 Makers of Arab History, St.Martin Press, NY 1968, p 86 Al Fihrist, Columbia University Press, NY 1970, p 639 Al Fihrist, Columbia University Press, NY 1970 Islam: A Thousand Years of Faith & Power, TV Books, NY 2000, p 128 3.Al-Nadim, Ibn 4.Al-Nadim, Ibn- Introduction to the History of Science, Vol.I, Baltimore, USA 1927, p 630 History of Mathematics, Wiley & Sons, NY 1968, p 224 History of Mathematics, Wiley & Sons, NY 1968, p 276 Introduction to the History of Science, Vol.I, Baltimore, USA 1927, p 699 Dictionary of Scientific Biography, Vol.VII, NY 1970-1980, p 531 Legacy of Islam, Clarendeon Press, Oxford, 1974, p 479 Introduction to Islamic Civilization, Cambridge 5.Schacht, Joseph 6.Bammate, Haider 7.Nadvi, Ibrahim Emadi 8.Bloom, J.& Blair, S.9.Sarton, George Legacy of Islam, Clarendeon Press, Oxford, 1974, p 476 Muslim Contribution to Civilization, Islamic Centre, Geneva, 1962, p 20 Musalman Sciencedaan (in Urdu), Maktaba Al Hasnat, Delhi 1993, p 196 Islam: A Thousand Years of Faith & Power, TV Books, NY 2000, p 123 Introduction to the History of Science, Vol.I, Baltimore, USA 1927

Page 126

239 238 31.Gippenreiter, V 32.Frye, R.33.Mathe, Jean 34.Salam, Abdus (Author) Lai, C.H.(Editor) 35.Hasan, Ahmad Y.36.Singer, Charles 37.Holmyard, E.J 38.Mathe, Jean 39.40.Tillotson Fabled Cities of Central Asia, Abbeville Press, Connecticut, USA 1989, p 73 The Golden Age of Persia, Weiderfield and Nicolson, London 1975, p 164 Civilization of Islam, Crescent Books, NY 1980, p 123 Ideals and Realities World Scientific Publishing Company, Singapore 1987, p 283 Islamic Technology, Cambridge Univ.Press, UNESCO, Paris 1986, p 134 A short History of Scientific Ideas to 1900, Oxford University Press, UK 1959, p 146 Alchemy, Penguin Books, Baltimore, USA 1968, p 90 Civilization of Islam, Crescent Books, NY 1980, p 132 Encyclopedia of Islam, Volume III, p 787 Mughal India, Chronicle Books, San Francisco, USA 1990, p 170 21.Durant, Will 22.Burkhardt 23.Gillispie, C.C.24.Gillispie, C.C.University Press, London 1976, p 116 Age of Faith, Simon & Schuster, NY 1950, p 244 Moorish Culture in Spain, McGraw Hill, NY 1972, p 166 Dictionary of Scientific Biography, Vol.I; NY 1970-1980, p 409 Dictionary of Scientific Biography, Vol.VII, NY 1970- 1980 25.Glubb, Sir John The Empire of the Arabs, Hodder and Stoughton, London 1963, p 328 26.Wafyatul Ayaan (English Translation), Vol.I, p 325 27.Singer, Charles 28.Mathe, Jean 29.Gillispie, C.C.30.Saeed, Hakim M.(Editor) A Short History of Scientific Ideas to 1900, Oxford University Press, UK 1959, p 151 Civilization of Islam, Crescent Books, NY 1980, p 120 Dictionary of Scientific Biography, Vol.IV, NY 1970- 1980, p 236 Albiruni:CommemorativeVolume, Hamdard Foundation, Karachi, 1979, p 566

Page 127

241 240 52.Hitti, Philip K 53.Goodwin, Geofry 54.Nadvi, Abdussalam 55.Moktefi, M.56.Bloom & Blair 57.Mathe, Jean 58.Glubb, Sir John 59.Smith, N 60.Hasan, Ahmad Y.61.Sarton, George 62.Ahmad, Nafis Makers of Arab History, St Martin Press, NY 1968, p 197 Islamic Spain, Chronicle Books, San Francisco, USA 1990, p 43 Hukama-e-Islam (in Urdu), Azamgarh 1956, p 27 The Arabs in the Golden Age, Millbrook Press, Connecticut, 1992, p 50 Islam: A Thousand Years of Faith & Power, TV Books, NY 2000, p 131 Civilization of Islam, Crescent Books, NY 1980, p 26 The Empire of the Arabs, Hodder and Stoughton, London 1963, p 287 Man & Water, London 1976, Islamic Technology, Cambridge Univ.Press, UNESCO, Paris 1986, p 126 Introduction to the History of Science, Baltimore, USA 1927, p 764 Muslim Contribution to Geography, M.Ashraf, Lahore, 1976, p 105 41.Gillispie, C.C.42.Boorstin, D.43.Ahmad, Nafis 44.Nadvi, Abdussalam Dictionary of Scientific Biography, Vol.X, NY 1970-1980, p 619 The Discoverers, New York 1983, P 181 Muslim Contribution to Geography, M.Ashraf, Lahore, 1976, p 24-62 Hukama-e-Islam (in Urdu), Azamgarh 1956, p 27 45.Devis, B.& Others (ed.) Encyclopedia of Religion, Vol.46.Gillispie, C.C.47.Hitti, Philip K.48.Nicholson, R.A.49.Braudel, F 50.Ahmad, Akbar S VI, New York 1987, p 554 Dictionary of Scientific Biography, Vol.VII, NY 1970-1980, p 32 The Origin of Islamic States, NY 1916, p 240 Literary History of Arabs, Cambridge University Press, UK 1969, p 355 A History of Civilization, A.Lane, NY 1987, p 88 Islam Today, IB Tauris Publishers, London, UK 2002, p 79 51.Hitti, Philip K.Near East in History, D.Van Nostrand, New Jersey 1966, P 268

Page 128

242 63.Nadvi, Ibrahim Emadi 64.Irving, Washington Musalman Sciencedaan (in Urdu), Maktaba Al Hasnat, Delhi 1993, p 165 Alhambra, Darf Publishers, 1983, p 120 65.Gayangos, P.(Translator) Nafhtu Tib, Vol.I New York 66.Durant, Will 67.Durant, Will 68.Sabra, A.I.1964, p 139 Our Oriental Heritage, Simon & Schuster, NY 1954, p 468 Our Oriental Heritage, Simon & Schuster, NY 1954, p 122 The Enterprise of Science in islam, London 2003, p 269 کتاب میں شامل شکلیں اور ڈائیگرام مندرجہ ذیل ذرائع سے ماخوذ ہیں: 1.Ahmad, Nafis 2.Collins, Basil 3.Gillispie, C.C.4.Hill, Donald 5.Hill, Donald 6.Hourani, George 7.Sabra, A.I.Muslim Contribution to Geography Al-Muqaddasi-The Man and His Work Dictionary of Scientific Biography (Various Volumes) Book of Knowledge by Al-Jazzari A History o Engineering Arab Seafaring The Enterprise of Islam کچھ مصنف کے بارے میں.محمد زکر یا ورک گورداسپور ، ہندوستان میں 28 جون 1946 ء کو پیدا ہوئے.کراچی سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1971ء میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے گو تھنکن (جرمنی) منتقل ہو گئے.1973ء سے کینیڈا میں اپنے دو ہونہار بیٹوں کے ساتھ مقیم ہیں.گزشتہ میں سال سے وہ کینیڈا میں اردو ادب کے فروغ کے سلسلے میں سرگرم عمل ہیں.ان کی نگارشات کینیڈا ، ہندوستان، امریکہ، انگلینڈ اور پاکستان کے مؤقر جرائد و اخبارات کی زینت بن چکی ہیں.بطور مترجم وہ دو کتابیں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر چکے ہیں.بطور مؤلف نوبل انعام یافتہ سائنس داں ڈاکٹر عبد السلام کی عہد ساز زندگی پر دو کتا ہیں تالیف کر چکے ہیں.پاکستان اور ہندوستان میں ان کو مقابلہ مضمون نویسی میں انعامات مل چکے ہیں.1996ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مجلہ تہذیب الاخلاق کے مقابلہ مضمون نویسی قوموں کے عروج و زوال میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا کردار میں ان کو اول انعام سے نوازا جا چکا ہے.اردو، عربی، انگریزی اور جرمن زبانوں پر کو ان کو ملکہ حاصل ہے.زندگی میں 45 بارخون کا عطیہ دے چکے ہیں.1997ء میں ان کو حرمین شریفین کی زیارت نصیب ہوئی.سیر و سیاحت کے علاوہ وہ مطالعے کے شوقین ہیں.کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو کی منسٹری آف ہیلتھ کے کمپیوٹر ڈپارٹمنٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد کینیڈا میں اردو ادب کی تاریخ قلم بند کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.

Page 128