Language: UR
بسلسلہ خلافت احمدیہ صد سالہ جو بلی أم المؤمنين حضرت سودہ رضی اللہ عنھا بنت زمعہ لجنہ اماء الله
أم المؤمنين حضرت سودہ رضی اللہ عنھا بنت زمعہ
بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جو بلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بنے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین
اُم المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ 1 پیارے بچو! أم المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ آج ہم آپ کو پیارے آقا آنحضرت ﷺ کی دوسری زوجہ مطہرہ کے بارہ میں بتائیں گے.انبیاء کرام کے اہل خانہ اور ازواج نہایت پیارا اور پاکیزہ مقام رکھتے ہیں.انبیاء کرام ان کی اس طرح تربیت کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے میں مدد گا ر بنتی ہیں.حضرت سودہ وہ پہلی خاتون ہیں جو حضرت خدیجہ کے انتقال کے بعد حضور علیہ کے نکاح میں آئیں اور جنہیں دوسری بیوی ہونے کا شرف حاصل ہوا.آپ کی والدہ کا نام شموس تھا.(1) قبیلہ بنی لوئی میں سب سے پہلے ایمان لانے کا شرف حضرت سودہ کو حاصل ہوا.آپ کی کوششوں سے آپ کے پہلے شوہر حضرت سکران اور میکے اور سسرال کے دوسرے افراد بھی ایمان لے آئے.اس بناء پر آپ کو پہلے ایمان لانے والوں میں ہونے کا شرف حاصل ہے.(2)
أم المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ 2 حضرت سودہ کا پہلا نکاح اپنے چچا زاد سکران بن عمرو سے ہوا تھا.(3) حبشہ کی پہلی ہجرت کے وقت تک حضرت سودہ اور ان کے شوہر مکہ ہی میں مقیم تھے لیکن جب مشرکین کے ظلم و ستم کی کوئی انتہا نہ رہی اور مہاجرین کی ایک بڑی جماعت ہجرت کے لئے آمادہ ہوئی تو اس میں حضرت سودہ اور ان کے شوہر بھی شامل ہو گئے.(4) اس طرح دوسری مرتبہ حبشہ ہجرت کرنے والے 86 مردوں اور 17 عورتوں میں یہ دونوں میاں بیوی بھی شامل تھے.(5) مسلمانوں کے قافلے آہستہ آہستہ مکہ سے ہجرت کر رہے تھے.یہ مخالفت کا زمانہ تھا جب مسلمان چھپ کر ، اونٹوں پر سوار ہوکر صحرا کی تپیتی ریت پر سفر کیا کرتے تھے.بعض اوقات گرمی کی شدت کی وجہ سے صرف رات ہی میں سفر کر ناممکن ہوتا تھا.حبشہ پہنچ کر مسلمانوں کو سکون نصیب ہوا.حبشہ کا بادشاہ نجاشی گو عیسائی تھا، مگر نیک اور خدا ترس تھا.نجاشی بادشاہ مسلمانوں کو اسلام پھیلانے سے روکتا نہیں تھا.اس لئے مسلمانوں کو حبشہ میں امن ملا.کفار مکہ سے یہ برداشت نہ ہوا اور انہوں نے حبشہ میں یہ اطلاعات بھجوانی شروع کر دیں کہ اہل مکہ نے مسلمانوں کے ساتھ محبت اور بھائی چارے
اُم المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ 3 کا سلوک کرنا شروع کر دیا ہے.چنانچہ یہ سن کر مسلمان اپنے ملک کی محبت میں کھنچے چلے آئے.ان واپس آنے والے مسلمانوں میں حضرت سودہ اور ان کے شوہر سکران بھی تھے.گیا.(6) مکہ واپس آنے کے کچھ عرصہ بعد حضرت سکر ان کا انتقال ہو ابھی حضرت سودہ کے شوہر حضرت سکران زندہ تھے جب حضرت سودہ نے دو بچے خواب دیکھے.آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ بستر پر لیٹی ہوئی ہیں کہ آسمان پھٹا اور چاند ان پر آ گرا.آپ نے اس خواب کا ذکر اپنے شوہر حضرت سکران سے کیا انہوں نے خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں عنقریب مر جاؤں گا اور تم عرب کے چاند محمد اللہ کے نکاح میں آ جاؤ گی.ایک اور مرتبہ آپ نے خواب دیکھا کہ حضور کریم میں اللہ تشریف صلى الله لائے اور آپ ﷺ نے اپنے پاؤں مبارک حضرت سودہ کی گردن پر رکھ دیئے.حضرت سودہ نے یہ خواب بھی اپنے شوہر حضرت سکران سے بیان کیا.انہوں نے کہا.بخدا اگر تم نے واقعی یہی خواب دیکھا ہے تو میں مرجاؤں گا اور رسول اللہ ہم تم سے نکاح فرمائیں گے.چنانچہ خدا کے فضل سے یہ خواب حرف بہ حرف پورا ہوا.(7)
اُم المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ 4 الله حضرت خدیجہ کے انتقال سے آنحضرت عمل نہایت پریشان و نمکین تھے.یہ حالت دیکھ کر آپ اللہ کے ایک صحابی حضرت عثمان بن مطعون کی بیوی خولہ نے آنحضور ﷺ سے عرض کی آپ شادی کیوں نہیں صلى الله کر لیتے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کس سے کروں؟ اس نے عرض کیا کہ آپ چاہیں تو غیر شادی شدہ لڑکی بھی موجود ہے اور بیوہ عورت صلى الله بھی.آپ ﷺ نے فرمایا کون " خولہ نے عرض کیا.ایک تو آپ ملنے کے عزیز دوست ابو بکر صدیق کی لڑکی عائشہ ہے اور دوسری سودہ بنت زمعہ ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا.اچھا تو پھر دونوں کے متعلق بات کرو.(8) حضرت خولہ نے جب حضرت سودہ سے حضور علی سے شادی کے متعلق ذکر کیا تو آپ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا.آپ فرمانے لگیں:.” میرا یہ نصیب! مجھے اور کیا چاہیے لیکن پہلے میرے والد سے بات کرلو.“ وہ حضرت سودہ کے والد کے پاس گئیں اور نکاح کا پیغام سنایا.انہوں نے کہا کہ میری نظر میں بہت مناسب رشتہ ہے.اپنی سہیلی سے پوچھ لو.حضرت خولہ نے کہا ” میں نے پوچھ لیا.والد محترم نے کہا ٹھیک ہے !بیٹی راضی ہے تو میں بہت خوش ہوں.‘ غرض سب 66
اُم المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ مراتب طے ہو گئے تو آنحضرت علیہ حضرت سودہ کے گھر تشریف لے گئے.حضرت سودہ کے والد نے ہی نکاح پڑھایا اور چار سو درہم مہر مقرر ہوا.اس طرح یہ نکاح رمضان 10 نبوی میں ہوا.نکاح کے وقت نبی کریم علی کی عمر مبارک پچاس سال تھی اور حضرت سودہ کی عمر بھی پچاس سال ہی تھی.حضور اکرم ﷺ سے حضرت سودہ کے نکاح کے وقت حضرت سکر ان کے دو بھائی حضرت سلیط بن عمر و اور حضرت حاطب بن عمر و شریک ہوئے.جبکہ حضرت سودہ کے بھائی ، عبد اللہ بن زمعہ نکاح کے وقت گھر پر نہیں تھے.وہ اس وقت تک مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے.چنانچہ جب واپس گھر آئے اور اس مبارک نکاح کی خبر ملی تو انہوں نے اسے افسوس ناک واقعہ سمجھ کر اپنے سر پر خاک ڈال لی کہ کیا غضب ہو گیا.اسلام لانے کے بعد وہ ہمیشہ اپنی اس حماقت و نادانی پر افسوس کرتے تھے.سردار انبیاء ﷺ نے حضرت سودہ کو اسی گھر میں ٹھہرایا جو صلى الله صلى الله حضرت خدیجہ الکبری کی ملکیت تھا.اس گھر میں حضور اکرم ﷺے اور الله حضرت علی کے علاوہ آپ ﷺ کی صاحبزادیاں حضرت ام کلثوم اور صلى الله حضرت فاطمہ بھی رہتیں تھیں جب کہ حضور ﷺ کی بڑی بیٹی حضرت رقیہ حبشہ میں تھیں.جب وہ والدہ کے انتقال کے بعد مکہ واپس آئیں تو جہاں بہنوں نے خوشی اور غمی کے ملے جلے جذبات سے استقبال کیا وہاں
اُم المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ 6 الله حضرت سودہا نے بھی حضرت رقیہ کو گلے لگایا اور پیار کیا.(9) نبوت کے تیرھویں سال نبی کریم ﷺ نے الہی حکم سے مدینہ ہجرت فرمائی.ہجرت فرمانے کے کچھ عرصہ بعد حضرت زید بن حارثہ اور حضرت ابو رافع کو دو اونٹ اور پانچ سو درہم دے کر مکہ روانہ کیا تا کہ آپ کے اہل خانہ کو لے آئیں.چنانچہ حضرت سودہ، حضرت ام کلثوم، حضرت فاطمہ ، حضرت اُم ایمن اور حضرت اسامہ بن زیدان کے ساتھ مکہ سے مدینہ آ گئے.یہ سب لوگ حضرت حارث بن نعمان انصاری کے گھر ٹھہرے.حضرت عائشہ صدیقہؓ کا نکاح حضور ﷺ سے مکہ میں ہو چکا تھا.ہجرت مدینہ کے بعد رخصتی ہوئی تو حضرت عائشہ بھی اس گھر میں تشریف فرما ہو ئیں.حضرت سودہ خوش مزاج اور زندہ دل خاتون تھیں اور آپ میں حسن مزاح بھی پائی جاتی تھی.کبھی کبھی اس انداز میں چلتی تھیں کہ حضور عے بھی تبسم فرماتے تھے.ایک روز حضرت سودہ نے حضور ﷺ سے کہا یا رسول اللہ علہ اکل رات میں نے آپ ﷺ کے پیچھے نفلی نماز پڑھی تھی.آپ یہ دیر تک رکوع میں رہے.مجھے رکوع میں جھکے ہوئے یوں محسوس ہوا کہ اب ناک سے نکسیر پھوٹ نکلے گی.میں نے
اُم المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ 7 اس اندیشے سے کہ کہیں خون کے قطرے نیچے گرنے نہ شروع ہو جائیں، اپنی ناک کو مضبوطی سے پکڑ لیا.آپ سے یہ بات سن کر بے ساختہ ہنس پڑے.حضرت سودہ نے اپنے پہلے خاوند سکران کے ساتھ حبشہ ہجرت کی صلى الله تھی جب رسول کریم ﷺ ان کے پاس آکر بیٹھتے تو کبھی کبھی وہ حبشہ میں گزرے ہوئے واقعات سناتیں.آپ یہ بڑی دلچسپی لیتے خصوصاً حضرت رقیہ اور داماد حضرت عثمان کے ذکر کو شوق سے سنتے جو ان دنوں حبشہ میں مہاجرین کی زندگی گزار رہے تھے.10 ہجری میں جب آنحضرت ﷺ نے حج کیا تو حضرت سودہ بھی ساتھ تھیں.چونکہ وہ دراز قامت تھیں اور بھاری جسم کی تھیں اس وجہ سے تیز چل نہیں سکتی تھیں.اس لئے آنحضرت ﷺ نے انہیں اجازت دی کہ لوگوں کے مزدلفہ روانہ ہونے سے پہلے ہی ان کو چلا جانا چاہیے کیونکہ بھیٹر میں چلنے سے ان کو تکلیف ہوگی.(10) حضرت عائشہ صدیقہ اس دن کو یاد کر کے ہمیشہ فرمایا کرتی تھیں کہ در کاش میں بھی آنحضرت علی سے اجازت لے کر لوگوں کی بھیڑ ہونے سے پہلے چلی جاتی اور فریضہ حج ادا کر لیتی کیونکہ بعد میں لوگوں کی بھیڑ کی وجہ سے چلنے پھرنے میں بہت مشکل پیش آئی.“
اُم المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ 8 حضرت سودہ سے پانچ احادیث مروی ہیں.اطاعت وفرمانبرداری میں حضرت سودہ تمام ازواج مطہرات سے ممتاز تھیں.آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر ازواج مطہرات کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ میرے بعد گھر میں بیٹھنا چنانچہ حضرت سودہ نے اس حکم پر اس سختی سے عمل کیا کہ پھر کبھی حج کے لئے بھی نہ نکلیں.اور مدینہ میں ہی رہیں.رسول اللہ اللہ کے دنیائے فانی سے کوچ کر جانے کے بعد حضرت سودہ نے سفر پر جانا ترک کر دیا.(11) آپ فر مایا کرتی تھیں.” میں نے حج بھی کر لیا ہے اور عمرہ کی سعادت بھی حاصل کر لی ہے.اب میں اپنے گھر میں ہی رہوں گی جیسا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے.(12) آپ بہت تھی ، خوش اخلاق اور خوش مزاج تھیں.آپ حضرت عائشہ صدیقہ کے بعد سخاوت اور فیاضی میں سب سے بڑھ کر تھیں.ایک دفعہ حضرت عمر نے ان کی خدمت میں ایک تھیلی بھیجی ، لانے والے سے پوچھا، اُس میں کیا ہے؟ وہ بولا درہم.آپ نے فرمایا :.کھجور کی طرح تھیلی میں درہم بھیجے جاتے ہیں." یہ کہہ کر اسی وقت سب کو تقسیم کر دیا.66 حضرت سودہ ہاتھ سے محنت کرنے والی اور قربانی کرنے والی
اُم المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ خاتون تھیں.طائف کے رہنے والے اپنے جانوروں کی کھالیں ذبح کرنے کے بعد سکھا کر آپ کو بھیج دیتے تھے.ان کو سیدھا کر کے اور کچھ مصالحہ وغیرہ لگا کر اس طرح بنا دیتی تھیں کہ پھر وہ لوگ اس چھڑے سے مختلف چیزیں بنا سکتے تھے اس محنت سے جو آمدنی ہوتی تھی آپ اس کو خدا کی راہ میں خرچ کر دیتیں اور اپنی ضرورت سے زیادہ کوئی چیز اپنے پاس نہ رکھتیں.حضرت سود کا بہت زیرک اور بہت سمجھدار تھیں ایک دن آپ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ جس روز آپ ﷺ میرے ہاں رہنے آتے ہیں وہ دن میں حضرت عائشہ کے لئے چھوڑتی ہوں آپ ﷺ میری باری کا دن حضرت عائشہ کے گھر گزاریں پیارے صلى الله آقا ع نے ان کی یہ درخواست منظور کر لی.(13) حضرت سودہ کا بات کرنے کا مقصد یہ تھا کہ حضرت عائشہ عمر کے اس دور میں ہیں جب حافظہ اچھا ہوتا ہے اور انسان سیکھ رہا ہوتا ہے حضرت سودہ کا خیال تھا کہ وہ آنحضرت ﷺ کی زیر تربیت زیادہ عرصہ گزاریں گی تو زیادہ علم سیکھ لیں گی.جو امت کے کام آئے گا اس طرح اپنی ذات پر امت کے فائدے کو تر جیح دی.حضرت عائشہ فرماتی ہیں حضرت سودہ کے علاوہ کسی عورت کو
أم المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ 10 دیکھ کر مجھے یہ خیال نہیں ہوا کہ اس کے قالب ( جسم ) میں میری روح ہوتی.ازواج مطہرات میں حضرت سودہ سب سے زیادہ دراز قامت تھیں.حضرت عائشہ کا قول ہے کہ جس نے ان کو دیکھ لیا اس سے وہ چھپ نہیں سکتی تھیں.حضرت سودہ کے مزاج میں یہ بات پائی جاتی تھی کہ انہیں جلد غصہ آجاتا اور پھر اس کا اظہار بھی کر دیا کرتی تھیں.ایک دفعہ آپ باہر کسی کام سے تشریف لے جارہی تھیں.حضرت عمر فاروق کا خیال تھا کہ عورتوں کو گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے.اس کا اظہار انہوں نے ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ سے بھی کیا تھا.حضرت سودہ چونکہ دراز قد تھیں اس لئے پہچانی جاتی تھیں.ایک دفعہ جب باہر تشریف لے گئیں تو حضرت عمر نے آپ کو پہچان لیا.اور کہا ” سودہ ہم نے تم کو پہچان لیا “ یہ جملہ صلى الله حضرت سودہ کو ناگوار گزرا.آپ نے نبی کریم ﷺ سے اس کی شکایت کی.اس واقعہ کے بعد پردہ کی آیت نازل ہوئی.(14) ,, ایک دفعہ ازواج مطہرات آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر تھیں انہوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ سے ہم میں سب سے پہلے کون مرے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا’ جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں
اُم المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ 11 گے.ازواج مطہرات نے اس کے ظاہری معنی لئے اور آپس میں ہاتھ نانے شروع کر دیے.سب سے بڑا اور لمبا ہاتھ حضرت سودہ کا تھا.لیکن ب سب سے پہلے حضرت زینب کا انتقال ہوا تو معلوم ہوا کہ ہاتھ کی لمبائی سے آپ مے کی مراد مقاوت اور فیاضی تھی.حضرت سودہ نے حضرت عمرؓ کے دور خلافت کے آخر میں 22 ہجری میں مدینہ میں انتقال فرمایا اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں.(15) پہلے شوہر حضرت سکر ان سے ایک لڑکے عبد الرحمن تھے.جو 16 ہجری کو بمطابق 637 میں حضرت سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں لڑے جانے والے معر کے ”جلولا‘ میں شہید ہوئے.(16) غرض حضرت سودہ وہ خوش قسمت خاتون تھیں جن کو اپنی نیکی و پاکیزگی کی وجہ سے سب سے بڑے انسان کی بیوی ہونے کا شرف حاصل ہوا اور اس مبارک رشتہ کی بشارت خدا تعالیٰ نے انہیں قبل از وقت دے دی تھی.آپ اطاعت کا کامل نمونہ تھیں.جو حکم خداوندی سنتیں اس پر مکمل طور پر عمل کرنے کی کوشش کرتیں.ہمارے لئے ان کا نمونہ راہ ہدایت ہے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے کامل اطاعت گزار بنیں جس طرح ہمارے بزرگوں نے اس کی مثال چھوڑی ہے.اس معزز خاتون پر خدا تعالیٰ کی
أم المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ 12 بے شمار رحمتیں اور برکتیں ہوں جن کو ہمارے پیارے نبی ﷺ کی رفیقہ حیات بنے اور آپ ﷺ کی خدمت کرنے کا شرف حاصل ہوا.آمین
13 اُم المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ حوالہ جات ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 82) ازواج مطہرات وصحابیات (صفحہ 92)، سیر الصحابيات مع اسوۂ صحابیات (صفحہ 31) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 83) سیر الصحابیات (صفحہ 31) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 83) ازواج مطہرات وصحابیات (صفحہ 83) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 84) ازواج مطہرات وصحابیات (صفحہ 85) سیرت خاتم النبین حصہ اول از حضرت مرزا بشیر احمد (صفحہ 176) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 85-86-87)، سیر الصحابیات (صفحہ 32) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 87-88-89) سیر الصحابیات (صفحہ 32-33) سیرت الصحابیات (صفحہ 33 ) (1) (2) (3) (4) (5) (6) (7) (8) (9) (10) (11) (12) (13)
اُم المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ 14 سیرت الصحابیات (صفحہ 34 ) (14) (15) (16) (17) (18) (19) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 89) صحیح بخاری ومسلم کتاب النکاح سیرت الصحابیات (صفحہ 34-35) سیرت الصحابیات (صفحہ 33) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 93)
حضرت سمیہ بنت خباط rd (Hadrat Sumayya Bint e Khibat) Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.ISBN: