Language: UR
چودھویں اور پندرھویں صدی ہجری کا سنگم فکر انگیز تاریخی لمحات نظر ثانی و اضافه شده ایڈیشن بعہد خلافت خامسه ) ایچ.ایم.طارق
ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD چودھویں اور پندرھویں صدی ہجری کا سنگم (اردو) Chaudhween aur Pandhrween Sadi Hijri Ka Sangam (The Juncture of the Fourteenth and Fifteenth Century of Hijrah) Complied by: H M Tariq First published in 1980 Reprinted (with some additions) in UK in 2021 O Islam International Publications Limited Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey GU9 9PS, UK Printed at: For more information please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-710-5
چودھویں اور پندرھویں صدی ہجری کا سنگم نمبر شمار 1 2 3 4 5 6 7 8 فهرست عناوین عنوان فهرست عناوین تعارف از حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس انصاراللہ پیش لفظ نقش اول از مؤلف دیباچہ نظر ثانی واضافہ شدہ ایڈیشن بعہد خلافت خامسه باب :1: قرآن کریم میں زمانہ ظہور مسیح و مہدی کی خبر يُدَبِّرُا لأمُرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ...الخ ( السجدة : 6) وَ إِنَّا عَلَى ذَهَابِ بِهِ لَقَدِرُونَ (المؤمنون : 19) فهرست عناوین صفحہ 1 11 17 19 21 21 22 23 له الله وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمِ (الجمعة: 4) 9 عکس حوالہ نمبر 1: آیت وَآخَرِينَ مِنْهُم میں فی الامیین“ سے مراد ” و بعث فی 25 آخرین رسلاً منهم“ ہے.کتاب فی حروف اوائل السور 10 وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ - - الخ (النور: 56) 11 12 13 14 15 16 عکس حوالہ نمبر 2: زمانہ موسی 1292 قبل مسیح - قصص القرآن وَ إِنَّهُ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا (الزخرف: 62) عکس حوالہ نمبر 3: علامہ ابن عربی کی تشریح حدیث نزول مسیح تفسیر ابن عربی هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (الزخرف: 67) عکس حوالہ نمبر 4: سورۃ الزخرف : 67 میں بَغْتَةً کے اعداد 1407 - اقتراب الساعة هُوَ الَّذِى أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: 10) 28 30 32 35 38 39 41
چودھویں اور پندرھویں صدی ہجری کا سنگم 17 2 فهرست عناوین 42 عکس حوالہ نمبر 5 : آیت مذکور بالا میں غلبہ دین مہدی کے وقت ہوگا.البحر المحیط 18 عکس حوالہ نمبر 6: غلبہ دین حضرت عیسی اور امام مہدی کے وقت ہوگا.فتح البیان | 44 عکس حوالہ نمبر 7 : سورۃ الصف : 10 میں بیان غلبہ نزول عیسی کے بعد ہو گا.تفسیر حسینی 46 19 20 22 21 عکس حوالہ نمبر 8: امام مہدی کے ظہور کے وقت غلبہ دین ہوگا.بحارالانوار ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ باب 2 بائیل میں مسیح موعود کا سن ظہور 48 51 22 عکس حوالہ نمبر 9: حضرت دانی ایل نے مسیح موعود کے ظہور کا زمانہ 1290 52 سے 1335 بیان کیا.دانی ایل 23 عکس حوالہ نمبر :10: انجیل میں مسیح کی آمد ثانی کی علامات اور نشانیاں جنگیں، 55 قحط ، زلازل، چاند سورج گرہن ،ستاروں کا گرنا بیان کی گئی ہیں.متی باب 3: نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علی 24 25 26 27 28 -- 57 عکس حوالہ نمبر 11 : بسیج ناصرئی اور مسیح موعود کے حلیہ کا فرق.نصر الباری شرح بخاری 58 60 60 عکس حوالہ نمبر 12: حضرت ابن عباس اور توفی بمعنی موت.نصر الباری عکس حوالہ نمبر 13: سورۃ المائدہ 118 سے وفات مسیح کا ثبوت.نصر الباری 62 عکس حوالہ نمبر 14: إمَامُكُم مِنكُمُ “ سے مراد امتی مسیح - نصر الباری 64 29 عکس حوالہ نمبر 15 : " أَمَّكُم مِنكُمْ “ تم میں سے صحیح تمہاری امامت کرے گا.مسلم 65 30 31 32 مسیح و مہدی ایک ہی وجود کے دو نام عکس حوالہ نمبر :16:لا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى سنن ابن ماجہ 67 68 عکس حوالہ نمبر 17 مسیح اور مہدی ایک ہی وجود ہیں.مسند امام احمد بن حنبل 71 33 34 عکس حوالہ نمبر 18: مہدی کو سلام کا ارشاد نبوی.مسند امام احمد بن حنبل شہادت حضرت خواجہ غلام فرید صاحب کہ عیسی اور مہدی ایک ہی شخص ہے 73 74
چودھویں اور پندرھویں صدی ہجری کا سنگم 3 فهرست عناوین عکس حوالہ نمبر 19 : شہادت حضرت خواجہ صاحب کہ مرزا صاحب مہدی ہیں 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 باب 4: امام مہدی کا زمانہ پیدائش ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ı عکس حوالہ نمبر 20: بارہ سوسال (1200) بعد ظہور مہدی.مرقاۃ المفاتیح عکس حوالہ نمبر :21: علامات قیامت 1200 سال بعد - تحفہ اثناعشریہ عکس حوالہ نمبر 22 : ” غلام احمد قادیانی کے اعداد 1300.ازالہ اوہام عکس حوالہ نمبر 23: امام مہدی کا سن ظہور 1240 - النجم الثاقب امام مہدی کے زمانہ پیدائش کے بارہ میں بزرگان سلف کے اندازے عکس حوالہ نمبر 24: مہدی کا سن ظہور 1255.الیواقیت والجواہر عکس حوالہ نمبر 25 : مہدی کا سن ظہور 1255.نور الابصار باب 5: مہدی کی صداقت کے دو عظیم نشان.چاند وسورج گرہن ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ قرآن کریم میں سورج وچاند گرہن کے نشان کا ذکر سورة القيامة : 10-8 کی تفسیر میں علماء سلف کی رائے 76 79 60 80 82 84 8895 87 88 91 93 93 93 47 عکس حوالہ نمبر 26 : سورج و چاند گرہن علامات قیامت میں سے ہیں.اعلام الحدیث 95 98 48 عکس حوالہ نمبر 27 تفسير وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ - حكمة البالغة 49 عکس حوالہ نمبر 28: علامہ ابن عربی اور چاند سورج گرہن کا زمانہ.ابن خلدون 100 50 51 52 53 54 عکس حوالہ نمبر 29 : حدیث دار قطنی میں چاند وسورج گرہن کا ذکر حدیث دارقطنی کے دیگر شواہد حدیث دارقطنی کی تائیدی روایات اقوال الآخرت از مفتی غلام محمد سرور میں کسوف و خسوف کا ذکر 102 104 105 105 عکس حوالہ نمبر 30: شہادت علامہ عبد العزیز پر ہاڑوی کہ گرہن 1311ھ میں 107
چودھویں اور پندرھویں صدی ہجری کا سنگم 4 فهرست عناوین 55 عکس حوالہ نمبر 31 حضرت نعمت اللہ شاہ ولی صاحب کے قصیدہ میں ذکر گر ہن 108 عکس حوالہ نمبر 32: حضرت خواجہ غلام فرید صاحب کی شہادت بابت گرہن سورج اور چاند گرہن کی قانون قدرت کے مطابق تاریخیں 56 57 58 59 حدیث نبوی میں چاند و سورج گرہن کی تاریخوں کی تعیین عکس حوالہ نمبر 3: چاند گرہن کی تاریخیں 13,14,15.ابن تیمیہ 112 115 116 117 60 عکس حوالہ نمبر 34: چاند گرہن 13,14,15 اور سورج گرہن 29, 27,28 کی 120 تاریخوں میں ہی ہوسکتا ہے.حج الکرامہ 61 عکس حوالہ نمبر 35: چاند گرہن 13 اور سورج گرہن 27 کو.احوال الآخرت 122 نشان چاند سورج گرہن کا چودھویں صدی میں پورا ہونا چاند سورج گرہن کا ثبوت 62 63 64 عکس حوالہ نمبر 36: چاند گرہن کی مجوزہ تاریخ 12، 13 رمضان.جنتری فصلی 65 66 عکس نمبر 37 : سورج گرہن 16اپریل 1894ء کے نقشہ جات عکس نمبر 38: سورج گرہن 25 مارچ 1895ء کے نقشہ جات 124 125 125 127 128 67 عکس حوالہ نمبر 39: چاند گرہن 13 اور سورج گرہن 8 2 رمضان کو ہوا.سراج 129 الاخبار 68 عکس حوالہ نمبر 40: سورج گرہن 16 اپریل 1894 کو ہوا.سول اینڈ ملٹری گزٹ 130 69 نشان چاند سورج گرہن کے نتیجہ میں قبول احمدیت.حضرت حاجی محمد دلپذیر صاحب بھیروی 131 70 عکس حوالہ نمبر 41: چاند گرہن 13 اور سورج گرہن 28 رمضان کو ہوا.احوال 132 الآخرت مصنفہ حضرت حاجی محمد دلپذیر صاحب بھیروی 71 حضرت میاں محمد الدین صاحب گجرات.حضرت عبدالروف بھیروی صاحب 135 حضرت میاں عبداللہ صاحب.حضرت مولوی غلام رسول صاحب 72 136
فهرست عناوین 73 74 75 76 77 78 الله 79 80 81 82 83 84 حضرت شیخ نصیر الدین صاحب 137 چاند سورج گرہن کا نشان دیکھ کر ہدایت پانے والے دیگر اصحاب کی فہرست 138 حدیث چاند سورج گرہن پر اعتراضات کے جواب اعتراض 1 : روایت کسوف و خسوف مرفوع متصل نہیں ہے عکس حوالہ نمبر 42: روایات حضرت امام باقر کا مقام.بحارالانوار اعتراض 2 : حدیث کسوف و خسوف کا راوی جابر جعفی ضعیف ہے عکس حوالہ نمبر 43: روایت حضرت جابر جعفی از ائمہ اہل بیت صحیح ہے عکس حوالہ نمبر 44: مہدی زمانہ کا حلفیہ اعلان 139 139 140 142 142 144 145 145 146 149 150 152 باب 6: زمانہ مسیح و مہدی کی الہامی شہادات حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی گواہی عکس حوالہ نمبر 45 : ظہور مہدی 1288 میں.تاریخ بلوچستان حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی الہامی گواہی 85 عکس حوالہ نمبر 46: مہدی ظہور کے لئے تیار ہیں.مجموعہ رسائل شاہ ولی اللہ نواب صدیق حسن خان کی نجح الکرامہ میں گواہی 86 87 عکس حوالہ نمبر 47 : ظہور مہدی آخر تیرھویں صدی یا آغاز چودھویں صدی 88 عکس حوالہ نمبر 48 : ظہور مہدی ہرا ندازے کے مطابق چودھویں صدی میں عکس حوالہ نمبر 49: مہدی، مجد داور مجتہد ہوں گے.بنج الکرامہ 89 153 155 156 90 عکس حوالہ نمبر 50: امام مہدی کی تاریخ ظہور 1268 لفظ ” چراغ دین میں 158 عکس حوالہ نمبر 51: مہدی کے ظہور کی تمام علامات صغری پوری ہو چکی ہیں.159 علامہ سید نورالحسن خان کی گواہی 91 92 160
فهرست عناوین 93 عکس حوالہ نمبر 52 : چودھویں صدی کے فتنے ظہور مہدی کی نشانی.اقتراب الساعة 161 94 95 96 97 98 99 100 101 102 خواجہ حسن نظامی کی گواہی عکس حوالہ نمبر 53 : ظہور مہدی 1335 ھ یا 1340ھ میں.کتاب الامر علامہ ابو حفص محمد عتیق اللہ کی گواہی.حسن المساعی علامہ سید محمد عبد الحئی کی گواہی 163 164 167 167 عکس حوالہ نمبر 54 : ظہور مہدی کی علامات پوری ہو چکی ہیں.حدیث الغاشیہ 168 حافظ برخوردار آف چیٹی شیخاں کی گواہی حضرت سید محمد حسن امروہوی کی گواہی 171 171 عکس حوالہ نمبر 55 : ظہور مہدی چودھویں صدی کے آغاز میں.کواکب دریہ 172 عکس حوالہ نمبر 56: کیخسر واسفند یار کی گواہی.دبستان مذاہب عکس حوالہ نمبر 57: علامہ سیدابوالحسن ندوی کی گواہی.قادیانیت 175 177 179 181 182 184 185 عکس حوالہ نمبر 58: شیخ بہائی کی گواہی کہ ظہور مہدی 1300 میں.کشکول سید آل محمد نقوی مہر جائسی صاحب کی گواہی.گوہر یگانہ عکس حوالہ نمبر 59 : ظہور مہدی 1386ھ میں.گوہر یگانہ علامہ اصغر بروجردی کی گواہی 103 104 105 106 107 108 عکس حوالہ نمبر 60: 1300 میں ملک و دین پر انقلاب.نورالانوار 109 حضرت پیر صاحب آف کوٹھہ شریف کی گواہی کہ مہدی ( مجدد) پیدا ہو گیا ہے 188 110 عکس حوالہ نمبر 61: مہدی پیدا ہو گیا ہے.سوانح حیات 189 111 عکس حوالہ نمبر :62: حضرت پیر صاحب کوٹھہ شریف کی گواہی کہ وقت ظہور 193 195 1300 ہے.در اسرار آواز خلق نقاره خدا 112
113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 127 فهرست عناوین باب 7 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی قرآن کریم میں علامات زمانہ مسیح و مہدی سورة التکویر میں علامات زمانہ مسیح و مہدی پہلی علامت : سورج کا لپیٹا جانا دوسری علامت : ستاروں کا ٹوٹنا تیسری علامت : پہاڑوں کا چلنا چوتھی علامت: اونٹوں کا متروک ہونا اور نئی سواریوں کی ایجاد آسٹریلیا میں اونٹوں کے بے کار ہونے کا نشان عکس نمبر 63: آسٹریلوی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سکہ پانچویں علامت : وحشیوں کا اکٹھا ہونا چھٹی علامت : سمندروں کا پھاڑا جانا عکس نمبر 64: نقشہ نہر پانامہ عکس نمبر 65: نقشہ نہر سویز 197 197 199 201 202 204 206 207 209 210 211 212 213 214 215 ساتویں علامت : نفوس کا باہم ملایا جانا آٹھویں علامت : زندہ درگور کی جانے والی کے بارہ میں پرسش 128 نویں علامت: اشاعت صحف.دسویں علامت : آسمان کی کھال ادھیڑی جانا 216 129 130 131 132 گیارھویں علامت : جہنم کا بھڑ کا یا جانا بارھویں علامت : جب جنت قریب کی جائے گی سورۃ الانفطار میں علامات زمانہ مسیح و مہدی شرک کا عام ہونا.علماء کا قحط سمندروں کا ملایا جانا 217 218 219 219
133 134 سورة الانشقاق میں علامات زمانہ مسیح و مہدی آسمانی نشانات کا تواتر ذوالسنین یعنی دمدار ستارہ کا نشان 135 عکس حوالہ نمبر 66 : ظہور مہدی اور مشرق سے ستارہ.عقدالدرر فی اخبار المنتظر 136 عکس حوالہ نمبر 67 : ذوالسنین ظہور مہدی کی علامت.مکتوبات امام ربانی لوگوں کا نشانات پر غور کرنے کے لئے تیار ہونا.زمین کا پھیلاؤ فهرست عناوین 137 138 139 140 141 142 143 144 145 146 147 148 علم ارضی کی تحقیق انسان کے لئے محنت و مجاہدہ کی ضرورت.اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا اشارہ سورۃ ہود میں آخری زمانہ کی طرف فکر انگیز توجہ سورۃ المرسلات میں آخری زمانہ کے مامور کا ذکر سورۃ النبا میں اسلام کی فتح کی خبر احادیث میں علامات زمانہ مہدی علامات زمانہ مہدی اور علمائے امت عکس حوالہ نمبر 68: ریل گاڑی قرب دجال کی علامت ہے.ہدیہ مہدویہ ارشادات مهدی دوراں حضرت بانی جماعت احمدیہ باب 8: مسیح و مہدی کا شدت سے انتظار وصیت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی 149 عکس حوالہ نمبر 69: مہدی کو سلام پہنچانے کی تڑپ.رسائل امام شاہ ولی اللہ منظوم کلام میں مسیح و مہدی کے لئے تڑپ کا اظہار اور شدت انتظار 150 151 152 153 حضرت فرید الدین عطار نیشا پوری.دل محمد شاد پسروری محمد رفیع سودا.امام محمد ناسخ.سید شکیل سہسوانی حکیم محمد مومن.حضرت سید بے نظیر شاہ صاحب 220 220 221 223 225 226 226 227 228 229 230 233 234 237 241 241 242 244 244 245 246
154 155 156 157 158 159 160 161 162 163 فهرست عناوین س حوالہ نمبر 70 کہ دیکھوں ان آنکھوں سے مہدی کا نور.جواہر بے نظیر 248 عکس حوالہ نمبر 71 : حضرت عیسی آوسی مہدی ہور امام.انواع بارک اللہ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال 250 252 باب 9 حضرت بانی جماعت احمدیہ کا دعویٰ مسیح و مہدی اور مخالفت 255 منکرین مسیح موعود کے لئے لمحہ فکریہ عکس حوالہ نمبر 72 : مہدی کے خاص دشمن علماء.فتوحات مکیہ عکس حوالہ نمبر 73 : علماء مہدی کو کافر ٹھہرائیں گے.بیج الکرامہ عکس حوالہ نمبر 74: علماء مہدی کا انکار کریں گے.مکتوبات امام ربانی باب 10: مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ فرقہ ناجیہ کون؟ 258 259 261 263 267 268 268 164 عکس حوالہ نمبر 75: میری امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی.جامع ترمندی 165 | عکس حوالہ نمبر 76: قریش نے 7 ستمبر کو رسول اللہ کے خلاف قرار داد پیش کی ، اسی 274 166 روز پاکستان کی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا.عکس حوالہ نمبر 77 : ناجی فرقہ طریقت احمد یہ پر چلنے والا ہوگا.مرقاۃ المفاتیح 279 167 عکس حوالہ نمبر 8 7 : مرقاۃ کے مترجم نے ” ناجی فرقہ طریقت احمدیہ پر 281 ہوگا“ کا ترجمہ چھوڑ دیا.مرقاۃ المفاتیح 168 عکس حوالہ نمبر 79: ایک ہزار سال بعد حقیقت محمدی کا نام ” حقیقت احمدی 283 285 286 293 ہو جائے گا.مبدا و معاد آخری اتمام حجت جفا کارمنکروں کا انجام بعض اصطلاحات اور چند مشکل الفاظ کے معانی ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ 169 170 171
10 10 بارو مسیح ره مسیح وقت کہ تھی جن کی انتظار تکتے تکتے جن کی کروڑوں ہی مر گئے آئے بھی اور آگے چلے بھی گئے ایام سعد ان کے آه وہ بسرعت گزر گئے پل بھر میں میل سینکڑوں برسوں کی ڈھل گئی صدیوں کے بگڑے ایک نظر میں سدھر گئے صد حیف ایسے وقت کو ہاتھوں کھو دیا ނ وا حسرتا! کہ جیتے ہی جی تم تو گئے کلام حضرت مصلح موعودؓ.الفضل 9 جون 1925 ، صفحہ 1 )
11 تعارف بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم تعارف از حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (صدر مجلس انصاراللہ مرکزیہ 1979 ء تاجون 1982ء) آنحضور ﷺ کی ہجرت سے لے کر آج تک تیرہ صدیاں گزرگئیں اور چودھویں بھی ختم ہونے کو ہے صرف چند سانس باقی ہیں جو اس مضمون کے شائع ہوتے ہوتے رک چکے ہوں گے.یہ ایک عجیب صدی ہے.اس جیسی کوئی اور صدی دیکھنے یا سننے میں نہیں آئی.صرف اسلامی تاریخ ہی میں نہیں کسی بھی مذہبی تاریخ میں کسی صدی کے ایسے چرچے اور تذکرے نہیں ملتے جیسے اس صدی کے تذکرے عالم اسلام میں ملتے ہیں.آخر کیوں ایسا ہے؟ اس کی اہمیت کا راز کس بات میں ہے اور کیوں نہ صرف یہ صدی بلکہ صدی کا سر غیر معمولی شہرت پکڑ گیا.اس صدی کے آغاز پر وہ غیر معمولی واقعہ کیا ہونا تھا جس نے اس صدی کو اتنی شہرت دی.ایک اور عجیب بات اس صدی کے متعلق یہ نظر آتی ہے کہ دنیا میں کبھی کسی صدی کو کسی مذہب کے پیروکاران نے اس اہتمام سے رخصت نہیں کیا اور اس کے اختتام کا ایسا چر چانہیں کیا جیسا چودھویں صدی کے متعلق آج عالم اسلام نے کیا ہے.آخر کیوں تمام مسلمان سر براہانِ مملکت اور دیگر احباب اختیار کے دل میں یہ بات گڑ گئی کہ یہ صدی اس لائق نہیں کہ اسے بغیر خاص اعزاز اور اہتمام کے رخصت کیا جائے بلکہ یہ ایسی شان رکھتی ہے کہ تمام دنیا کی مسلمان حکومتوں کی طرف سے الوداعی تقریبات کے انتظام کی خاطر ایک مشتر کہ مجلس انتظامیہ تشکیل دی جائے.ان دو امور کی روشنی میں تمام عالم اسلام میں اہلِ فکر و نظر یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ جستجو کریں کہ آخر اس صدی میں کیا بات ہے اور جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے تو وہ پہلے سے بھی بڑھ کر شدت اور کرب سے اس امام کا انتظار کر رہے ہیں جس کے متعلق علماء یہ کہا کرتے تھے کہ لازماً چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہوگا اور امت مسلمہ کو ہر مصیبت سے نجات بخشے گا اور ہر کامیابی سے ہمکنار کرے گا.
12 تعارف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب شور اور یہ سارا اہتمام کیا محض اتفاقی حادثات ہیں یا واقعتاً اسلام کے مستقبل اور اس کی نئی زندگی اور اس کے عالمگیر غلبہ سے اس صدی کا کوئی تعلق تھا.اگر چہ عوام کیلئے یہ کافی ہے کہ علماء ان کو بتاتے رہے کہ لازماً اس صدی کے آغاز پر ہی موعود امام نے آنا ہے مگر اہلِ علم مزید جستجو چاہتے ہیں.اس ضمن میں بعض بنیادی اور اصولی چیز میں ضرور پیش نظر رکھنی چاہئیں.مثلاً یہ کہ اگر اتنا اہم واقعہ کسی زمانہ میں ہونے والا تھا کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے نہ صرف موجودہ صدی کے علماء اور حکمرانوں کی توجہ اس طرف مبذول کرائیں بلکہ گذشتہ صدیوں کے علماء بھی اس کا ذکر کرتے چلے آئیں.تو کیا قرآن کریم میں بھی اس کا واضح ذکر اور اشارہ موجود ہے اور کیا احادیث نبویہ میں بھی چودھویں صدی کا تذکرہ ملتا ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ امت محمدیہ میں ہونے والے عظیم الشان واقعات کے متعلق ہم یہ باور نہیں کر سکتے کہ قرآن و حدیث تو ان کے بارہ میں خاموش رہیں اور محض بعد میں آنے والے علماء کو اللہ تعالیٰ اس سے مطلع فرما دے.لیکن قرآن وحدیث پر غور ہو تو اس بنیادی امر کوضرور پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ضروری نہیں کہ چودھویں صدی کا لفظ قرآن وحدیث سے تلاش کیا جائے.ایک متقی اور حقیقت پسند تحقیق کرنے والے کا یہ کام ہے کہ یہ دیکھے کہ کیا کوئی ایسا مضمون قرآن و حدیث میں بیان تو نہیں ہوا جو نمایاں طور پر اس صدی کی طرف انگلی اُٹھا رہا ہو.اگر ایسے واضح اشارے مل جائیں تو پھر علماء امت کی پیشگوئیوں کو ایک بہت بڑی تقویت حاصل ہو جائے گی اور محض سرسری طور پر ان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.اس طرح یہ بات بھی بجھنی آسان ہو جاتی ہے کہ آخر کیوں غیر معمولی الہی تقدیر کے ماتحت تاریخ انسانیت میں پہلی بار ایک صدی کو ایسے اہتمام سے رخصت کیا جارہا ہے.جب ہم قرآنِ کریم پر غور کرتے ہیں تو یہ عجیب حقیقت سامنے آتی ہے کہ حضرت محمد مصطفی عالی کو موسوی سلسلہ کے پہلے صاحب شریعت نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشابہ قرار دیا گیا ہے.جیسا کہ فرمايا:إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً شَاهِداً عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولاً ( المزّمّل : 15) اور دوسری طرف امت محمدیہ میں ویسی ہی خلافت جاری ہونے کا وعدہ کیا گیا ہے جیسا کہ حضور ا کرم علی
13 تعارف سے پہلے خلافت جاری کی تھی.جیسے فرمایا: وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمُ ( النور : 56) پس یہ عجیب مشابہت ہے کہ پہلا نبی پہلے نبی کے مشابہ اور بعد میں آنے والے نائبین رسول حضرت موسیٰ کے بعد آنے والے نائبین کے مشابہ ہوں گے.جب اس مضمون پر مزید غور کرتے ہیں اور حدیث سے اس کی تفسیر معلوم کرتے ہیں تو وہاں بھی عین اسی نص قرآن کے مطابق مشابہتوں کا مزید تفصیلی ذکر ملتا ہے.مثلاً فرمایا: عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ اور مزید بار بار بڑی تحدی کے ساتھ یہ خبر دی کہ میری امت کے آخر پر مسیح ابن مریم آنے والا ہے اور یہ پیشگوئیاں آنحضور نے بڑے تو اتر اور بڑی تاکید کے ساتھ فرمائیں.یہاں تک کہ تقریباً ساری امت صدیوں سے اس انتظار میں بیٹھی ہے کہ کب وہ زندگی بخش مسیجا نازل ہوگا.ہمارے مضمون کے تعلق میں جو نہایت دلچسپ بات ذہن میں اُبھرتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح جو حضرت موسیٰ کی شریعت کے آخری خلیفہ اور اسی شریعت کے تابع ایک غیر تشریعی نبی تھے ، حضرت موسیٰ سے تیرہ سو سال بعد یعنی چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہوئے.پس یہ کیا اتفاق ہے یا توارد ہے یا تقدیر الہی ہے کہ امت محمدیہ کا پہلا صاحب شریعت رسول امت موسویہ کے پہلے رسول کے مشابہ ہو، امت محمدیہ کے اہل اللہ علماء انبیائے بنی اسرائیل کی شان رکھنے والے ہوں اور جیسے حضرت موسیٰ کے آخرین میں حضرت مسیح ابن مریم آئے تھے ایسا ہی اس امت کے آخر میں بھی مسیح ابن مریم ہی آئے.یہاں تک بات واضح اور قطعی اور قرآن وحدیث کی نصوص کے عین مطابق ہے.لیکن تعجب اس بات پر ہے کہ حضرت مسیح ناصری بھی چودھویں صدی کے سر پر آئے تھے اور علمائے امت مسلمہ بھی بکثرت ہمیں یہ بتاتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ امام مہدی ، جن کا زمانہ نازل ہونے والے مسیح ابن مریم کے زمانہ سے مشترک ہوگا ، نے بھی چودھویں صدی کے سر پر آنا تھا.جب اس پہلو سے علماء کی پیشگوئیوں پر غور کرتے ہیں تو معاملہ صرف ان کی حد تک نہیں رہتا بلکہ بات قرآن وحدیث تک جا پہنچتی ہے اور دل بڑی سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنے کیلئے مجبور ہو جاتا ہے کہ دراصل اس صدی کی اہمیت ایک عظیم الشان آسمانی مصلح کے ظہور سے ہی وابستہ تھی ورنہ اگر امام ہتمام کا تصور اس صدی سے نکال دیا جائے تو اس صدی کی کوئی بھی امتیازی شان دوسری صدیوں سے باقی نہیں رہتی.
14 تعارف یہاں تک تو ہم استدلال کی قوت سے پہنچ گئے مگر دل کچھ مزید اطمینان کا بھی تقاضا کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ کوئی ایسی قطعی شہادت بھی ملے جس سے نہ صرف یہ صدی یقینی طور پر معین ہو جائے بلکہ اس کا سریعنی آغاز کا زمانہ بھی کھل کر سامنے آجائے کہ ہاں اس وقت کسی امام نے آنا تھا جب اس طمانیت کی جستجو میں ہم فرمودات حضور اکرم پر نظر ڈالتے ہیں تو اچانک نگاہ ایک حیرت انگیز اور عظیم الشان پیشگوئی تک پہنچ کر اٹک جاتی ہے جو امام مہدی کے ظہور سے تعلق رکھتی ہے اور بعض ایسی علامات کو بیان کرتی ہے جو آسمان سے تعلق رکھنے والی ہیں اور جن کے بنانے پر کسی انسان کا کوئی اختیار نہیں بلکہ ساری دنیا کی طاقتیں بھی مل جائیں تو ان علامات کو بنانے پر قدرت پائیں.ہماری مراد اس پیشگوئی سے ہے کہ جب امام مہدی ظاہر ہوں گے تو ان کی گواہی میں چاند اور سورج مخصوص شرائط کے ساتھ گواہی دیں گے.اس پیشگوئی کا تفصیلی ذکر اس رسالہ میں قارئین مطالعہ فرما سکتے ہیں.فیصلہ کن بات یہ ہے کہ یہ پیشگوئی اگر چودھویں صدی کے آغاز پر، ان تمام شرائط کے ساتھ پوری ہو چکی ہو، جن کا ذکر ملتا ہے تو اس سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جائے گی کہ چودھویں صدی کا تذکرہ بے سبب نہ تھا اور علماء نے یونہی اپنے نفس سے بے تکی باتیں نہیں کی تھیں بلکہ قرآن وحدیث کے واضح اشاروں سے جو استدلال انہوں نے کیا یا خود خدا سے خبریں پاکر اس صدی کی نشاندہی کی تو خدا تعالی کی فعلی شہادت نے قطعی طور پر ثابت کر دیا کہ ان کے تمام استدلال درست تھے اور واقعتاً آنے والے امام نے چودھویں صدی کے سر پر ہی ظاہر ہونا تھا.آئندہ چند صفحات میں اس امر کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ مختلف مکاتب فکر کی طرف منسوب ہونے والے اپنے اپنے خیال اور اعتقاد کے مطابق مختلف علماء یا کتب کو نسبتا زیادہ وزن دیتے ہیں، کوشش کی گئی ہے کہ بزرگانِ سلف میں سے متفرق مکاتب فکر کے چوٹی کے بزرگان اور علماء کے بعض حوالے نمونة پیش کیے جائیں.اُمید ہے یہ مطالعہ اور عزیزم حافظ مظفر احمد صاحب کی یہ نہایت پاکیزہ کوشش قارئین کی علمی پیاس بجھانے کا موجب بنے گی.لیکن آخر پر میں اس درد آمیز تعجب کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر چہ تمام عالم اسلام بڑی شان و شوکت اور اہتمام کے ساتھ اس صدی کو الوداع کہہ رہا ہے مگر کم ہی ہوں گے جن کو یہ خیال آتا ہو گا کہ وہ امام کہاں گیا جس کے دم قدم سے برکت پا کر یہ صدی ہماری نظر میں
15 تعارف ایسی معزز بنی اور کم ہی ہوں گے جو سوچتے ہوں گے کہ اگر امام مہدی کے تصور کو اس صدی سے نکال دیا جائے تو اس کی قیمت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے اور بہت کم ہوں گے جو اس فکر میں غلطاں ہوں کہ اگر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ساری باتیں لفظاً لفظاً سچی ثابت ہوئیں، یہاں تک کہ چاند سورج نے بھی آسمان سے گواہی دے دی ، تو وہ امام آخر کہاں گیا جس کی صداقت کی شہادت چاند سورج نے دینی تھی.راقم الحروف اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہے کہ میرا ایک ایسی جماعت سے تعلق ہے یعنی جماعت احمدیہ، جس کا ذہن مذکورہ تمام الجھنوں سے پاک ہے کیونکہ ہم آنحضرت عیہ کی تمام پیشگوئیوں کو نہ صرف اعتقاداسچا مانتے ہیں بلکہ عملاً گواہی دیتے ہیں کہ وہ تمام پیشگوئیاں پوری ہو گئیں اور وہ امام بھی صدی کے سر پر آ گیا جس نے قادیان سے تیرھویں صدی کے آخر اور چودھویں کے سر پر یہ اعلان کیا کہ میں ہی وہ امام اور تمثیلی مسیح ہوں جس کے آنے کی خبر آ نحضرت ﷺ نے دی تھی.پس ہمیں تو وہ امام مل گیا اور وہ دولہا بارات لے کر آ گیا جس کی صدیوں سے انتظار تھی.اس لیے ہم خوش قسمت ہیں اور اپنے رب سے راضی ہیں کہ اس نے پورے ایک سو سال تک ہمیں اپنے دین کی راہ میں عظیم الشان قربانیوں کی تو فیق بخشی.پس ہم تو اس صدی کو کسی ظاہری شان و شوکت یا ڈھول ڈھمکوں کے ساتھ رخصت نہیں کر رہے بلکہ ہمارے دل حمد و ثناء سے معمور ہیں اور ہم اس عزم اور دعاؤں کے ساتھ اس صدی کو الوداع کہہ رہے ہیں اور آنے والی صدی کا استقبال کر رہے ہیں کہ اے خدا ہمیں پہلے سے بھی بہت بڑھ کر محمد مصطفی یا اے کے دین کو دنیا میں غالب کرنے کی توفیق عطا فرما اور پہلے سے بڑھ کر اس راہ میں قربانیاں پیش کرنے کی توفیق عطا فرما تا کہ چودھویں صدی اگر غلبہ اسلام کی تیاری کی صدی تھی تو پندرھویں صدی غلبہ اسلام کی تکمیل کی صدی بن جائے اور سارے جھوٹے خداؤں پر ہمیشگی کی موت آجائے اور توحید خالص جو حضرت محمد مصطفیٰ نے دنیا کے سامنے پیش کی اُس کے نور سے سارا عالم بھر جائے.یہی وجہ ہے کہ دوصدیوں کے اس عظیم سنگم پر وداع و استقبال کیلئے جو الوداعی اور استقبالیہ کلمہ ہمارے امام نے حرز جان بنانے کی تلقین کی اور فرمایا کہ قیام توحید کی خاطر اب دن رات اس کلمہ کا ورد کرو کیونکہ روحانی دنیا کے وداع و استقبال اسی طرح کے ہوتے ہیں.وہ کلمہ یہ ہے:.
16 لَا إِلهَ إِلَّا الله لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ لَا إِله إِلَّا الله تعارف آپ بھی دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں کہ اگر ہم جو دنیا کی نظر میں مغضوب اور خدا کی نظر میں نیک اور اچھے لوگ ہیں اور اُسی کے مخلص بندے اور محمد مصطفی ہے کے بچے غلام ہیں تو خدا تعالیٰ آپ کو بھی توفیق بخشے کہ ہمارے ساتھ شامل ہو کر اپنی عاقبت سنوار لیں اور ایسی حالت میں جان دیں کہ وقت کے امام کے منکرین میں آپ کا شمار نہ ہو بلکہ اُن نیک بختوں میں شمار ہو جو سعید فطرت رکھتے ہیں اور آمَنَّا وَ صَدَّقْنَا کہہ کر اپنے رب کی طرف سے بھیجے ہوؤں کی تصدیق کرتے ہیں.آمین (نومبر 1980ء)
17 پیش لفظ پیش لفظ دنیا کے بڑے بڑے تمام مذاہب کی مستند کتابوں میں آخری زمانہ میں ایک موعود مصلح کی خبر بڑی کثرت سے پائی جاتی ہے.قرآن کریم اور احادیث میں بھی آخری زمانہ میں ایک مہدی اور مثیل مسیح کی پیشگوئی موجود ہے.نیز علماء امت اور ہزاروں اولیائے کرام اور بزرگان سلف نے رویا و کشوف اور الہامات کے ذریعہ خدا تعالیٰ سے علم پا کر اس مسیح و مہدی کے زمانہ کی تعین بھی فرمائی ہے.مکاشفات اکابر اولیاء اور صوفیائے عظام بالا تفاق اس بات پر شاہد ہیں کہ مسیح موعود کا ظہور چودھویں صدی کے سر پر ہوگا اور اس سے تجاوز نہیں کرے گا.اس بارہ میں حوالے بے شمار ہیں تاہم چند اہم مستند حوالے اصل کتابوں کے عکس کے ساتھ اس کتا بچہ میں پیش کیے جا رہے ہیں.حوالوں کے ساتھ ضروری وضاحت بھی کر دی گئی ہے.بعض حوالے طویل تحقیق و تلاش کے بعد پاکستان کی بڑی بڑی لائبریریوں سے دستیاب ہوئے ہیں.پھر بھی بعض کتب نہیں مل سکیں ، اس لیے ان کے صرف حوالے ہی ساتھ شامل کر دیئے گئے ہیں.ان حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کو ایک مدت سے بڑی شدت سے مہدی ومسیح کا انتظار تھا اور علمائے کرام اور بزرگان و اولیائے امت نے رویا و کشوف کی روشنی میں بیان کیا تھا کہ تیرھویں صدی میں مسیح موعود کا پیدا ہونا ضروری ہے تاکہ چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہو سکے.گویا مسیح موعود کیلئے تیرھویں وچودھویں صدی دونوں کا پانا ضروری تھا.اب جبکہ چودھویں صدی بھی ختم ہو گئی اور پندرھویں صدی کا آغاز ہے ان دونوں صدیوں کا سنگم اپنے پس منظر کے اعتبار سے تاریخ انسانی کا اہم ترین موڑ ہے جو عالم انسانیت کیلئے عموماً اور امت مسلمہ کیلئے خصوصاً فکر انگیز تاریخی لمحات ہیں کہ وہ موعود اقوام عالم وہ مسیح و مہدی جس کا مدتوں سے انتظار تھا کہاں ہے؟ قرآن و حدیث ، بائبل اور ہزاروں اولیاء اللہ اور بزرگوں کے کشف والہام جھوٹے نہیں ہو سکتے.اس لحاظ سے 8 نومبر 1980ء کو چودھویں صدی کا وداع اور پندرھویں صدی کا استقبال دنیا
18 پیش لفظ کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے.سوچنا یہ ہے کہ غلبہ اسلام اور مسیح و مہدی کی موعود چودھویں صدی گزرگئی.عالم اسلام نے اور مسلمانوں نے اس میں کیا کھویا کیا پایا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ موعود جس نے چودھویں صدی میں ظاہر ہونا تھا مقررہ وقت پر ظاہر ہو چکا ہو اور دنیا نے اسے نہ پہچانا ہو اور قبول نہ کیا ہو.اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی ناراضگی کی مورد بن رہی ہو.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دنیا کو اپنے بچے مہدی ومسیح کو مانے کی توفیق دے تا ساری دنیا لَا إِلهَ إِلَّا الله کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جائے.اور خدا کی تو حید اور اس کا جلال دنیا میں چھکے اور اس کے دین اور رسول کی فتح ہو.آمین والسلام خاکسار ایچ.ایم.طارق 4 نومبر 1980ء بمطابق 26 ذوالحجہ 1400ھ
19 دیباچہ ( نقش ثانی ) دیباچہ ( نظر ثانی واضافہ شدہ ایڈیشن) 1980 ء میں چودھویں صدی ہجری کے اختتام اور پندرھویں صدی کے آغاز پر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب (اس وقت صدر مجلس انصار اللہ پاکستان) کی خاص تحریک اور اعانت سے خاکسار کی کتاب ” ، مجلس انصار اللہ کی طرف سے شائع ہوکر مقبول عام ہوئی.فالحمد للہ سالانہ اجتماع انصار اللہ کے موقع پر کتاب کا پہلا ایڈیشن ختم ہوتے ہی دوبارہ شائع کرنا پڑا.مجھے یاد ہے اس وقت مکرم محمود احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ ( جن کی عاملہ میں عاجز کو بطور مہتم تربیت خدمت کی توفیق مل رہی تھی) نے بے ساختہ تبصرہ فرمایا کہ: ”ہو تم خدام میں اور کتاب انصار کی طرف سے شائع کروادی.ان کی خدمت میں مؤدبانہ وضاحت کی کہ یہ جملہ کام حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے ذاتی دلچسپی ، خصوصی توجہ اور حوصلہ افزائی سے مکمل کروایا ہے.ورنہ من آنم کہ من دانم اس کتاب کے نایاب ہونے کے بعد بھی مانگ رہی مگر بوجوہ مزید اشاعت نہ ہوسکی.حال ہی میں میرے عزیز دوست برادرم مکرم نصیر احمد قمر صاحب ایڈیشنل وکیل الاشاعت لنڈن نے ذاتی طور پر توجہ دلائی کہ اس کتاب پر نظر ثانی کے بعد میسر حوالہ جات کے بہتر عکس مہیا ہو جائیں تو زیادہ مناسب ہے.اللہ تعالی جزا دے ابن فضل صاحب کو جن کے خصوصی تعاون سے یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے.ان کے ساتھ عزیزم ابو فاضل بشارت صاحب نے پروف ریڈنگ، تلاش حوالہ جات اور نظر ثانی میں تعاون کیا.فجز اھم اللہ احسن الجزاء چالیس برس بعد اس کتاب کے نقش ثانی میں ایڈیشن اول میں 18 کتب کے 25 حوالہ جات کے 36 عکس کے مقابل پر مزید 38 کتب کے 49 اضافی حوالہ جات کے 116 عکس شامل ہیں.اس طرح کل 74 حوالہ جات کے 152 عکس شامل کتاب ہیں جن میں درج ذیل اضافے قابل ذکر ہیں :.1 - قرآن کریم میں امام مہدی کے ظہور سے متعلق آغاز کتاب میں متعلقہ آیات کے تراجم اور
20 دیباچه ( نقش ثانی ) استدلال مع حوالہ جات مزید واضح کر کے پیش کئے گئے ہیں.اور آیت نمبر کا حوالہ ”بسم اللہ کوسورت کی پہلی آیت شمار کرتے ہوئے دیا گیا ہے جو رائج الوقت نسخوں سے ایک نمبر زائد ہوتا ہے.2.متعلقہ حوالوں کے عکس کے ساتھ ان کا مختصر تعارف بھی پیش کر دیا گیا ہے.3- قاری کی سہولت کے لئے متعلقہ حوالہ کی عبارت نمایاں کر دی گئی ہے.4.عربی یا فارسی حوالہ جات کا اردو تر جمہ اسی صفحہ کی ذیل میں دے دیا گیا ہے.5.حوالہ جات کے تراجم ترجیحاً غیر از جماعت کتب سے لئے گئے ہیں.نیز حسب ضرورت ترجمہ کی غلطی کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے.6.کتاب کے آخر میں زمانہ مسیح موعود کی علامات کے متعلق سورۃ التـكـويـر اور سورۃ الانفطار وغیرہ کی روشنی میں ایک عمدہ مضمون کا اضافہ بھی شامل ہے.7.کتاب میں استعمال کی گئی بعض اصطلاحات اور چند الفاظ کے معانی کتاب کے آخر پر دیے گئے ہیں.اللہ تعالی سنگم کا یہ نظر ثانی شدہ آن لائن ایڈیشن افادہ عام کا موجب بنائے.آمین اس کام کی تکمیل کے دوران حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی اس دیرینہ خواہش کی تعمیل کی طرف بھی پرزور تحریک و توجہ ہوئی جس کا اظہار حضور انور نے لنڈن میں ایک ملاقات میں فرمایا تھا کہ جماعت کے علمی مسائل وفات مسیح، ختم نبوت، صداقت مسیح موعود اور اعتراضات سلسلہ کے جوابات پر مشتمل قدیم و جدید حوالہ جات بھی جو خاکسار کے پاس ہیں شائع کر دینے چاہئیں.ایسے حوالہ جات کے عکس کا جو قیمتی اثاثہ اس عاجز کے پاس محفوظ ہے اور جن کی ترتیب و تدوین اور تعارف و ترجمہ کا کام دیگر مصروفیات کے باعث سست روی کا شکار رہا.اس مفید مسودہ کی جلد تر تکمیل کے لئے بھی دعا کی عاجزانہ درخواست ہے تا یہ حوالہ جات بعد از تکمیل جملہ احباب جماعت کے لئے عموماً اور داعیان الی اللہ کے استفادہ کے لئے بطور خاص مہیا ہوسکیں.اللہ تعالی یہ کتاب بھی نافع الناس بنائے.آمین خاکسار ایچ.ایم.طارق 2021
21 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر قرآن کریم میں متفرق مقامات پر آخری زمانہ میں امام مہدی کے ظہور کی خبر کے ساتھ اس کے زمانہ ( چودھویں صدی) کی طرف بھی اشارہ ہے.چند آیات مع مختصر وضاحت پیش ہیں:.1- پہلی آیت: يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ( السجدة : 6) یعنی وہ (اللہ ) آسمان سے زمین تک اپنے حکم کو اپنی تدبیر کے مطابق قائم کرے گا.پھر وہ اس کی طرف ایسے وقت میں جس کی مقدار ایسے ہزار سال کی ہے جس کے مطابق تم دنیا میں گنتی کرتے ہو، چڑھنا شروع کر دے گا.عام مفسرین کے نزدیک اس آیت میں امر (شریعت) کے آسمان سے نزول اور پھر عروج سے مراد فرشتوں کا آسمان سے اترنا اور واپس جانا ہے.اس معنی کے مطابق فرشتے زمین پر ہر حکم بجالانے کے بعد آسمان کی طرف واپسی کے لئے ایک ہزار سال انتظار کرتے ہیں جو عقلاً درست نہیں کیونکہ اس کے نتیجہ میں سارا نظام عالم اور سلسلہ موت وحیات بھی درہم برہم ہو کر رہ جائے جو ملائکہ کے ذریعے قائم ہے.فرشتوں کا تعمیل حکم کے بعد ایک ہزار سال انتظار کا معنی اس لئے بھی درست نہیں کہ ملائکہ کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (التحریم: 7) یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی فوری تعمیل کرتے ہیں نہ کہ ایک ہزار سال انتظار.دراصل مذکورہ بالا آیت میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی پیشگوئی ہے جیسا کہ الفاظ اپنے حکم کو اپنی تدبیر کے مطابق قائم کرے گا میں خبر دی ہے.پھر فرمایا کہ اس کے بعد ایک ہزار سالہ دور ایسا آئے گا جس میں احکام قرآنی اور ان پر عمل اٹھ جائے گا.تب اللہ تعالی ایک آدم ثانی یعنی مسیح موعود کو تجدید دین کے لئے مبعوث فرمائے گا اور وہ زمانہ خیر القرون یعنی پہلی تین صدیوں سے ایک ہزار سالہ دور ضلالت
22 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر کے بعد (یعنی 1300 سال بعد ) مقدر تھا.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا بہترین زمانہ میری صدی ہے.اس کے بعد بہتر ان لوگوں کا زمانہ ہے جو ان کے بعد آئیں گے اور پھر ان لوگوں کی صدی جوان کے بعد ہوں گے.پھر ان کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن میں جھوٹ عام ( بخاری کتاب المناقب باب فضائل اصحاب النبي ) ہوگا.صلى الله حضرت بانی جماعت احمدیہ نے وضاحت فرمائی ہے کہ اس آیت میں ایک پیشگوئی تھی جو خیر القرون ( پہلی تین صدیوں ) اور ہزار سالہ دور ضلالت کے بعد چودھویں صدی میں آنے والے مسیح و مہدی پر زبردست دلیل ہے اور یہ آپ کے وجود میں پوری ہوئی.آپ فرماتے ہیں:.یہ انسان ہی مسیح موعود ہے.اس کی بعثت ان صدیوں سے جو بہترین صدیاں تھیں ،ایک ہزار برس گزرنے کے بعد مقدر کی گئی تھی....اس میں مشرکوں کی کثرت ہو گئی تھی سوائے چند لوگوں کے جو تقویٰ شعار تھے.یہ پورے ایک ہزار برس ہیں نہ اس سے زیادہ نہ کم.پس اگر تم سوچ بچار سے کام لو تو اس سے 66 بڑی دلیل اور کیا ہوگی.“ خطبہ الہامید اردو ترجمه صفحه 255-257) 2 - دوسری آیت: وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَاسْكَتْهُ فِي الْأَرْضِ وَ إِنَّا عَلَى ذَهَابِ بِهِ لَقَدِرُونَ (المؤمنون : 19) اور ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے مطابق پانی اتارا پھر اسے زمین میں ٹھہرادیا اور ہم اسے لے جانے پر بھی یقیناً قدرت رکھتے ہیں.اس آیت میں آسمانی روحانی پانی ( یعنی نور نبوت) کے روئے زمین پر نازل ہو کر اس وقت تک موجود رہنے کا ذکر ہے جب تک خدا چاہتا ہے پھر وہ اسے اٹھا لیتا ہے اور اپنی پیاسی مخلوق کے لئے تازہ پانی کا انتظام کرتا ہے.ان معنی پر مزید قرینہ اس آیت کے اعداد بحساب جمل ہیں جو 1274 بنتے ہیں اور یہ عجیب توارد ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کی 1250ھ قادیان میں پیدائش پر آپ کا نام ”غلام احمد“ رکھا گیا اور ” غلام احمد قادیانی کے اعداد 1300 بنتے ہیں ( یعنی تیرھویں صدی) اور اس آیت کے
23 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر اعداد بحساب حروف جمل 1274 ہیں جو ہجرت نبوی کے بعد وہ زمانہ ہے جس میں حضرت مرزا صاحب پیاسی دنیا کو سیراب کرنے کی روحانی خدمت کے لئے تیار کیے جارہے تھے.آپ خود فرماتے ہیں:.مسیح ابن مریم کی آخری زمانہ میں آنے کی قرآن شریف میں پیشگوئی موجود ہے.قرآن شریف نے جو مسیح کے نکلنے کی چودہ 1400 سو برس تک مدت ٹھہرائی ہے بہت سے اولیاء بھی اپنے مکاشفات کی رُو سے اس مدت کو مانتے ہیں اور آیت وَإِنَّا عَلَى ذَهَابِ بِهِ لَقَادِرُونَ (المؤمنون (19) جس کے بحساب جمل 1274 عدد ہیں، اسلامی چاند کی سطح کی راتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جس میں نئے چاند کے نکلنے کی اشارت چھپی ہوئی ہے جو غلام احمد قادیانی“ کے عددوں میں بحساب جمل پائی جاتی ہے.“ (ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 464 ایڈیشن 2008) وَ إِنَّا عَلَى ذَهَابِ بِهِ لَقَادِرُونَ“ کے اعداد بحساب جمل : ن میزان ' , و 1 ل ق 02 ع ا ل ی ز 1 ن T , ب ب 1274 50 6 200 30 70 1 10 700 5 1 2 2 5 30 100 1 4 50 1 6 1274ھ میں ہی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی عین عالم جوانی میں رسول اللہ کی زیارت سے عالم کشف میں فیضیاب ہوئے جس کی کسی قدر تفصیل اگلی آیت میں بھی بیان ہے.براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 274 تا 275 حاشیہ در حاشیہ نمبر 1 ایڈیشن 2008) نیز آپ فرماتے ہیں:.خود قضاء وقدر نے اس عاجز کا نام جو رکھوایا ہے تو وہ بھی ایک لطیف اشارہ اس طرف رکھتا ہے کیونکہ غلام احمد قادیانی 1300 کے عدد بحساب جمل پورے تیرہ سو نکلتے ہیں یعنی اس نام کا امام چودہویں صدی کے آغاز پر ہوگا.غرض صلى الله آنحضرت ﷺ کا اشارہ اسی طرف تھا.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 31 ایڈیشن 1988 )
24 غلام احمد قادیانی کے اعداد بحساب جمل : قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر غ لام ح م و ق , ی 1 40 1 408 4 100 1 4 10 30 1000 ن ی میزان 1300 10 1 50 3 - تیسری آیت: وَاخَرير الْعَزِيزُ الْحَكِيمِ ( الجمعة: 4) ايَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ یعنی انہی (امین) میں سے دوسروں کی طرف بھی (اس رسول کو مبعوث کیا ہے ) جو ابھی اُن سے نہیں ملے ، وہ کامل غلبہ والا اور صاحب حکمت ہے.سورۃ جمعہ کی اس آیت کی بیان فرمودہ تفسیر نبوی صحیح بخاری میں یہ ہے کہ ” آخرین“ سے مراد اہل فارس ہیں جو ایمان کے دنیا سے اٹھ جانے اور ثریا کی بلندی پر چلے جانے کے بعد اُسے واپس لا کر دنیا میں قائم کریں گے.(بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الجمعة) علامہ موسیٰ جار اللہ ترکستانی (متوفی: 1949ء) نے سورۃ الجمعہ کی تیسری آیت کی تفسیر علم کلام اور نحو کی رو سے کرتے ہوئے دوسری آیت کے جملہ فی الامیین“ کے حرف جار ” فِی “کو تیسری آیت و آخرین پر عطف قرار دیتے ہوئے یہ تقدیر مراد لی ہے وَ بَعَثَ فِي آخَرِيْنَ رُسُلاً مِنْهُمْ.پھر اس آیت کے معنی بیان کرتے ہوئے علامہ موسیٰ جار اللہ فرماتے ہیں:.اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ وہ خدا جس نے امیین میں ایک رسول امیوں میں سے بھیجا وہی آخرین میں سے رسول ان میں بھیجے گا.اس طرح ہر قوم کا رسول اس میں سے ہوگا اور یہ سب رسول امتوں میں اسلام کے رسول ہونگے.بنی اسرائیل کے ان نبیوں کی طرح جو بنی اسرائیل میں تو رات کے رسول تھے." ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 1: کتاب فی حروف اوائل السور صفحہ 133 بیت الحکمہ لاہور 1942
25 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر - عکس حوالہ نمبر : 1 فتَوَكَّلْ عَلَى الله.إِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِينِ (٩:٢٤) 49:74) ن عَلَيْنَا حَة وَقَرانَهُ ، فَإِذَا قَرَأَنَاهُ فَاتَّبِعْ قَرانَهُ تهران عَلَيْنَا بَيَانَة.كتاب في حروف اوائل السور فیه تحلیل روح تاريخ الاسلام في ادواره) الفته لإبناء الامة وخيرات بناتها ، وأَهْلَلْتُ به لوجه الله الكريم الغازي مصطفی کمال آتاتورک ( فقد كان أهداى مفلح وأعظم قائد عسكري سياسي) أَهْدَى اتحاف احترام وثناء وتعظيم ) عرض الكتاب للإمام السندي مطالعه باهتمام في ايام فكتب: هذا كتاب لو باع بوزنه ذهباً لكان البائع مغبونا.لاهور بيت الحكمة ١٧ فروري سنة ١٩٤٢ الهندية.1 ۱۹۴۲
26 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر عکس حوالہ نمبر : 1 فان الآية الكريمة من باب عطف المعمولين بعاطف واحد على عاملين مختلفين ، والمجرور مقدم : ومعنى هذه الآية الكريمة الثالثة : هو الذي بعث في الاميان رسولاً من الاميين ، وبعث فی آخرین رسلا من آخرين.فكل امة لها رسول من نفسها.وهؤلاء الرسل هم رسل الاسلا في الامم ، مثل انبياء بنى اسرائيل هم رسل التوراة في بنى اسرائيل.وتقدم في الفصل (۱۵) الخامس عشر من فصول هذا الكتاب آيات في رسل الاسلام الى الامم (۶:۵۹) (۲۱ : ۵۸) (۱۷۱ : ۳۷) (۵۱ : ۲۳) (۱۷۹ :۳) وتعتقد ان كل كلمة في الكتاب الكريم لها إفادة ، وكل كلمة وجملة في الكتاب الكريم لها بلاغة وكل آيات في القرآن الكريم لها اعجاز ، وكل هذه العقائد الثلاث حقائق قطعية لا ريب فيها المؤمن ، ولا لاحد.فاذا كان كذلك فحمل هذه الآيات على غير ما ذكرنا لا ينبغي لا حد من اهل العلم.هذه ملاحظة.ولعلها جليلة، مهمة.ذكرتها لاهل الرغبة من كرام الطلبة لم ارها لاحد من اهل العلم ولا ا راني مخطئاً.ومع كل ذلك فليكن الطالب على احتياط.وَلْيَسْتَبِقُ ، وَلا يَسْتَبقِ.وعلى الله قصد السبيل.والله هو ولى الهداية والتسهيل.عنه لك تعديك ربُّكَ لأقرت من هذا رَ شداً.ترجمہ: نحوی لحاظ سے اس آیت کریمہ میں دو الگ عامل حرف جار ” فی“ ) ایک عطف (واؤ) کے ساتھ دو معمول لانے کے قاعدہ کے مطابق (امین اور آخرین ) آئے ہیں اور مجرور (آخرین ) مقدم ہے.آیت کا یہ مطلب ہے کہ وہ خدا ہی ہے جس نے امیین میں ایک رسول امیوں میں سے بھیجا اور وہ آخرین میں سے رسول آخرین میں سے بھیجے گا.اس طرح ہر قوم کا رسول اس میں سے ہوگا اور یہ سب رسول دیگر امتوں میں اسلام کے رسول ہونگے.بنی اسرائیل کے ان نبیوں کی طرح جو بنی اسرائیل میں تو رات کے رسول تھے.
و 1 27 حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں:.قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر " وہ مسیح موعود چودھویں صدی کے سر پر آیا اور جیسا کہ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِھم کے عدد سے 1275 نکلتے ہیں اسی زمانہ میں وہ اصلاح خلق کے لئے طیار کیا گیا." خ یان شہادت القرآن روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 375 ایڈیشن 2008) وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ کے اعداد بحساب جمل : ن عالم ا ی ل ح ق 6 40 30 40 550 40 50 10 200 6001 6 100 8 30 101 T , 2 1 م میزان 1275 40 5 1275ھ کا عیسوی سال 1859ء بنتا ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:.حضرت مسیح موعود نے آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمُ (الجمعة: 4) کے حوالہ سے ایک اور نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اس کے اعداد 1275 بنتے ہیں...اور فرمایا ہے کہ یہی وہ سال بنتے ہیں جب میں روحانی لحاظ سے اپنی بلوغت کی عمر کو تھا اور اللہ تعالیٰ مجھے تیار کر رہا تھا.“ ( خطبہ جمعہ 3 فروری 2006) حضرت بانی جماعت احمدیہ کو اس زمانہ میں رسول کریم کی زیارت ہوئی.آنحضور نے آپ کے ہاتھ میں آپ کی ایک کتاب دیکھ کر اس کا نام پوچھا تو آپ نے قطبی نام بتایا...تب حضرت بانی جماعت احمدیہ کے دل میں ڈالا گیا کہ دروازے کی چوکھٹ کے پاس ایک مردہ ہے جس کا زندہ ہونا اللہ تعالیٰ نے اس پھل کے ذریعہ مقدر کیا ہے.پھر اچانک وہ مردہ زندہ ہو کر حضرت مرزا صاحب کے پاس آیا اور آپ نے اس پھل کی ایک قاش اسے دی جس پر آنحضرت ﷺ کی کرسی بہت اونچی ہوگئی.( ملخص از براہین احمدیہ حصہ سوم ر- خ جلد 1 صفحه 274 تا275 حاشیہ در حاشیہ نمبر 1.آئینہ کمالات اسلام ر- خ جلد 5 صفحہ 549-548) اس رویا میں رسول اللہ کے فیضان کی برکت سے آپ کے ذریعہ اسلام کی ترقی کی طرف اشارہ تھا.مرتب " تذکرہ" کے مطابق یہ واقعہ 1864ء سے کئی سال پہلے قریباً 60-1859 کا ہے جب حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی عمر 25-24 برس تھی.
28 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر 4 چوتھی آیت: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ، وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنَا ، يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا، وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ(النور: 56) یعنی تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا ، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نا فرمان ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ان میں اسی طرح روحانی خلیفے مقرر فرمائے گا جس طرح اس نے ان سے پہلے لوگوں میں خلیفے مقرر فرمائے تھے.قرآن شریف کے مطابق پہلی قوموں میں اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت آدم اور حضرت داؤڈ بھی خلیفہ ہوئے.وہ روئے زمین پر خدا تعالیٰ کے جانشین تھے اس لئے خلیفہ اللہ کہلائے.پھر بنی اسرائیل میں بھی خلافت کا سلسلہ جاری رہا جیسا کہ حدیث نبوی ہے کہ بنی اسرائیل کی اصلاح احوال انبیاء کرتے رہے.ان میں جب بھی کوئی نبی فوت ہوا اس کا خلیفہ اور جانشین نبی ہوا، مگر میرے معا بعد نبی نہیں ہوگا بلکہ خلیفے ہوں گے.( بخاری کتاب الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل ) پس جس طرح بنی اسرائیل میں حضرت موسی کے معا بعد حضرت یوشع بن نون کے ذریعہ خلافت قائم ہوئی اور ان کے بعد کئی نبی اور رسول ان کے جانشین ہوئے.سورۃ النور کی آیت استخلاف کے مطابق اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے بعد اس مشابہت کا وعدہ پورا کر کے حضرت ابوبکر کے ذریعہ خلافت کا سلسلہ شروع فرمایا جو رسول اللہ کی پیشگوئی کے مطابق خلافت راشدہ کے تمھیں سالہ عظیم الشان دور کی صورت میں پورا ہوا.پھر جب رسول اللہ کی دوسری پیشگوئی کے مطابق خلافت ملوکیت میں بدل گئی تو روحانی خلافت مجد دین کی صورت میں جاری رہی.
29 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر موسوی و محمدی سلسلہ کے خلفاء کی اس مشابہت کے مطابق ضروری تھا کہ تیرہویں صدی کے آخر میں سلسلہ موسویہ کے تیرہویں خلیفہ حضرت مسیح ناصری کے مشابہ رسول اللہ یہ کے تیرہ سو سال بعد بھی امت محمدیہ میں ایک خلیفہ مثیل مسیح کے طور پر آئے تاکہ دونوں سلسلوں کی مشابہت روحانی برکات صلى کے لحاظ سے پوری ہو.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ سے تیرہ سو سال بعد حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو 1290ھ میں مبعوث فرمایا جن کا دعویٰ مثیل مسیح اور امام مہدی ہونے کا ہے.آپ ن كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم“ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا :.ما میں مدت کی بھی تعیین ہے کیونکہ مسیح موسیٰ کے بعد چودہویں صدی میں آیا تھا اس لیے ضروری تھا کہ آنے والا محمدی مسیح بھی چودہویں صدی میں آئے.“ الحکم جلد 6 نمبر 39 مورخہ 31اکتوبر 1902 صفحہ 6) چنانچہ حضرت عیسی حضرت موسی کے 1292 سال بعد تیرھویں صدی کے آخر میں مبعوث ہوئے تھے کیونکہ جدید تاریخی تحقیق کے مطابق حضرت موسی کا زمانہ حضرت عیسی سے 1292 سال قبل مسیح بنتا ہے جیسا کہ کتاب قصص القرآن کے حوالہ سے ظاہر ہے.یہ قرآنی پیشگوئی کی صداقت کا کیسا زبردست ثبوت ہے کہ امت محمدیہ میں مثیل مسیح کے مدعی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب بھی 1250ھ میں پیدا ہوکر 1290ھ میں الہام سے مشرف ہوئے جن کے نام غلام احمدقادیانی“ کے اعداد 1300 بھی تیرھویں صدی پر قرینہ ہیں.ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر :2 قصص القرآن جلد اول صفحہ 329 ، ندوۃ المصنفین دہلی
30 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر جدید تحقیق کے مطابق حضرت موسی کا زمانہ 1292 قبل مسیح یعنی حضرت عیسی سے 1292 سال پہلے تھا.ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 2 قصص القرآن جلد اول صفحہ 329 عکس حوالہ نمبر : 2 قصص العشران جلد اول تالیف مدلینا محمد حفیظ الرحمن سیوہاروی رفیق ملی یقین دہی ندورة المصنعاب
31 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر عکس حوالہ نمبر : 2 ۳۲۹ رواں رہے ہیں.جسکے آخری خاندان فارس کی شہنشاہی کا تھا جو کہ یہ قبل از مسیح سکندر کے ہاتھوں من ہوگیا.ان میں سے حضرت یوسف کا فرعون یہیں از عمالقہ کے خاندان سے تھا جو دراصل وب خاندانوں ہی کی ایک شاخ بھی تو اب سوال یہ ہو کہ حضرت موسی علیہ اسلام کے ب د کاوون دن ہو اور کس خاندان سے متعلق ہو ؟ عام مورخین عرب اور مفسرین اس کو بھی عمالقہ اسی کے خاندان کا فرد بتاتے ہیں اور کوئی ان کا نام ولید دین مصوب ابن ریان بتاتا اور کوئی منصوب بن ریان کہتا ہو اور ان میں سے ازریاب نفین کی رائے یہ ہو کہ اس کا نام ریان یا ریان ابا تھا.ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس کی کنیت ابو مر ہتھی.یہ سب اقوال قدیم مورخین کی تحقیقی روایات پر مبنی تھے مگر اب اجہ بہ مصری اثری تحقیق رجری کتبات کے پیش نظر اس سلسلہ میں دوسری رائے سامنے آئی ہوں.وہ یہ کہ موسی علیایت نام کے ان کا فرعون رییس ثانی کا بیٹا منفتاح ہو جس کا دور حکومت یا قوم سے شروع ہو کر ایم ختم ہوتا ہو.اس تحقیقی روایت سے متعلق احمد یوسف احمد آفندی نے ایک مستقل مضمون لکھاہے یہ مصری ار کے مصور میں اور اثری و جرای تحقیق کے بہت بڑے عالم ہیں اُن کے اس مضمون کا نہ بعد نجار نے قصص الانبیاء میں نقل کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے.یہ بات پاپ تحقیق کو پہنچ چکی ہو کہ یوسف علیہ السلام جب مصر میں داخل ہوتے ہیں تو یہ فرصت کے موالی ویا خاندان کا زمانہ تھا اور اس فرعون کا نام ابابی الاول " تھا جس نے اس کی شہادت اس مجری کشید سے حاصل کی جو عزیز مصر فوتی فارع ، فوطیفاء کے مقبرہ میں پایا گیا.اور سترہویں خاندان کے بھتی آثار سے یہ بھی ثابت ہوچکا ہو کہ اس نماندان سے قبل گر قریب ہی زمانہ میں مصر میں ہولناک قحط پڑ چکا تھا.لہذا ان تعینات کے بعد آسانی سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ حضرت یوسف کا داخل مصر ابابی الاول کے زمانے میں تقریاست تراقم ہوا ہو.اور حضرت یوسفت کا عزیز مصر کے یہاں پہنا اور پھر قید خان کی زندگی بسر کر تا ان دونوں کی مدت کا اندازہ کر کے کہا جا سکتا ہو کہ نی ارائیل حضرت دیست
32 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر 5.پانچویں آیت وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ للسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا (الزخرف: 62) یعنی يقيناً يه قیامت کی نشانی ہے پس اس میں شک نہ کرو.حضرت ابن عباس کی ایک روایت کے مطابق اس آیت ( میں ان کی ضمیر ) سے مراد حضرت عیسی بن مریم ہیں اور اس آیت سے ( بطور قیامت کی نشانی ) قرب قیامت میں ان کا نزول مراد ہے.(المستدرک علی الحین للحاکم جزء 2 صفحہ 486) مفسرین میں سے علامہ ابن جریر نے طبری میں، امام رازی نے تفسیر کبیر میں، علامہ ابوحیان نے البحر المحیط میں ، علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اور علامہ سیوطی نے در منثور میں اس آیت سے مذکورہ بالا روایت کے مطابق حضرت عیسی کا دوبارہ نزول مراد لیا ہے.مگر حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابن عباس کی اس روایت کو صحیح بخاری میں ان کی اُس دوسری روایت پر ترجیح نہیں دی جاسکتی جس میں خود انہوں نے آل عمران کی آیت يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ ( آل عمران : 56) میں توفی کے معنی موت بیان کر کے حضرت عیسی کی وفات تسلیم کی ہے.( صحیح بخاری کتاب التفسير باب زیر آیت سورۃ المائدة:103) پھر بخاری میں ہی حضرت ابن عباس کی دوسری روایت سے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي (اے اللہ ! جب تو صلى الله نے مجھے وفات دے دی.المائدة 118) کے تحت رسول اللہ ﷺ کی بیان فرمودہ یہی تفسیر بمعنی موت بیان کی ہے.( صحیح بخاری کتاب النفسير سورة المائدة) اس آیت سے حضرت عیسی اور رسول اللہ یہ دونوں کی وفات ثابت ہوتی ہے اور چونکہ قرآنی فیصلہ کے مطابق وفات کے بعد کوئی شخص جسم سمیت دوبارہ دنیا میں نہیں آسکتا (الانبیاء: 96)لہذا حضرت مسیح کا جسمانی طور پر دوبارہ نزول اس آیت سے مراد نہیں ہوسکتا.چنانچہ علامہ عبد الرؤوف مناوی نے فیض القدیر شرح جامع الصغیر میں ، علامہ ابن حجر ہیثمی نے الصواعق المحرقہ میں ، علامہ شبلنجی نے نورالابصار میں تابعی مقاتل بن سلیمان (متوفی: 150ھ ) کے حوالہ سے اسی آیت سے بجائے مسیح ناصری کے امام مہدی کا ظہور مراد لیا ہے.بعید نہیں کہ ان کی یہ رائے
33 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر حديث لا المهدى الا عیسیٰ ابن مریم کہ عیسی کے سوا کوئی مہدی نہیں ) کے پیش نظر ہو جیسا کہ علامہ ابن عربی ( متوفی : 628ھ) نے اس کی تصریح بھی کی ہے (جس کا آگے ذکر ہوگا).نزول ابن مریم کے معنی اس لئے بھی قابل قبول نہیں کہ إِنَّهُ “ کی ضمیر کا مرجع بعض مفسرین نے مسیح ناصری کی بجائے قرآن کو قرار دیا ہے.فتح القدير للشوکانی جزء 4 صفحہ 643) البتہ اس آیت سے مہدی یا مثیل مسیح کا آنا ضرور مراد لیا جا سکتا ہے جیسا کہ آیت مذکورہ سے ما قبل آیات میں مثیل مسیح کے مضمون کے واضح اشارے موجود ہیں جہاں دو دفعہ مثل کا لفظ آیا ہے جس کے معنی نظیر کے ہوتے ہیں اور جس میں ظہور مثیل ابن مریم کی پیشگوئی ہے.فرمایا:.وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ (الزخرف: 58) یعنی جب ابن مریم کو بطور مثیل پیش کیا جائے تو آپ کی قوم اس پر تالیاں پیٹتے ہوئے شور مچا کر استہزاء کرے گی.چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کے مثیل مسیح ہونے کے دعوئی پر استہزاء اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر ایک قرینہ ہے.اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں:.د یعنی قرآن مجید میں ابن مریم کے دوبارہ آنے کی خبر جب پڑھتے ہیں تو شور مچادیتے ہیں کہ کیا وہ ہمارے معبودوں سے اچھا ہے کہ ہمارے معبودوں کو تو جہنم میں پھینکا جاتا ہے اور اسے دنیا کی اصلاح کے لئے واپس لایا جاتا ہے.حالانکہ دونوں واقعات میں زمین آسمان کا فرق ہے.مسیح علیہ السلام خود اپنی بندگی کا اقرار کرتا ہے اور وہ مرد صالح تھا اس کا مقابلہ مشرکوں یا مشرکوں کے سرداروں سے نہیں 66 ہوسکتا ، ( نوٹ تفسیر صغیر زیر آیت ہذا صفحہ 650)
34 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر انہی معنی کی تائید حضرت علامہ محی الدین ابن عربی (متوفی : 628ھ ) کی لطیف تفسیر سے بھی ہوتی ہے.انہوں نے حدیث نزول مسیح کی استعادة تعبیر کرتے ہوئے یہ لطیف روحانی معنی لکھے ہیں کہ:.آیت کا مطلب یہ ہے کہ عیسی علیہ السلام قیامت کبری کی علامات میں سے ہیں اور آپ کا نزول قیامت کے قریب ہوگا.اس کے بعد آپ نے کسر صلیب اور قتل دجال اور ارض مقدسہ میں مسیح کے نزول کی وضاحت کی ہے کہ کسر صلیب سے مراد ادیان باطلہ اور صلیبی مذہب کا بطلان ہے اور قتل دجال کا مطلب غالب اور گمراہ گروہ پر اس کا غلبہ ہے اور ارضِ مقدسہ میں اس کے نزول کی تعبیر یہ ہے کہ پاک مادہ سے اس کی سرشت کا خمیر اٹھایا جائے گا.ان احادیث کو اشارات اور رموز و کنایات پر محمول کرتے ہوئے آخر میں علامہ ابن عربی فرماتے ہیں کہ یہ اس صورت میں ہے جب مہدی ہی عیسی بن مریم ہوں جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ نہیں ہے مہدی مگر عیسی بن مریم.ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 3 تفسیر ابن عربی جلد دوم صفحه 219-220 مطبوعہ 1238ھ مصر آیت بالا کے علاوہ بھی تفسیر ابن عربی میں متعدد مقامات پر آخری زمانہ میں امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا ذکر ہے.مزید تفصیل کیلئے دیکھیں تفسیر ابن عربی جلد اول صفحہ 10 ،353،240.جلد دوم صفحہ 130 ، 136 ،220، 287 314 مطبوعہ 1238ھ مصر)
35 عکس حوالہ نمبر :3 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر الجزء الثاني من تفسير الشيخ الاكبر العارف بافته تعالى العلامة محيى الدين بن عربی اعاد الله خلينا من بركاته آمین
36 ترجمہ: ”حضرت عیسی " قیامت کبری کی عکس حوالہ نمبر : 3 نشانیوں میں سے ہیں اور یہ اس وجہ سے ہے *(519)0 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر (بقیہ ترجمہ ) اور امام کا پیچھے ہٹنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کہ اس (صحیح) کا نزول قیامت کی نشانیوں میں سے ہے.مقدسہ کی گھائی پر جس کا نام افیق ہے اترے گا اور اس کے ہاتھ میں نیزہ ہوگا جس سے وہ (مسیح) کے وقت میں دین محمدی کو من شدته وا بلامه وانه لعل الساعة أى أن عيسى عليه السلام مما اپنے رتبہ اور مقام میں باقی تمام (روحانی ) قطب کی وجہ سے ہے اور دینوں پر اولیت حاصل ہونے کا حدیث میں کیا گیا ہے کہ وہ (ہی) ارض بعد لویہ القيامة الكبرى وذلك أن نزول من اشراط الساعة قبل علمية في الحديث ينزل على ثنية من الأرض المقدسة اسمها أفق و ی ویدہ احساس ہوگا جو اس کے مقام جال کومل کرے گا ور وہ صلیب توڑے گا اور حربہ بقتل بها الدجال ويكسر الصليب ويهدم البيع والكائر حضرت عیسی کو اس امام کا آگے کرنا وہ وہ ) وہ گرتے اور کیسے گرائے گا اور وہ بیت و يدخل بيت المقدس والناس في صلاة الصبح فيتأخر الامام فيقدمہ اور شریعت محمدیہ پراس کی اقتدا کرنا المقدس میں داخل ہوگا اور لوگ صبح کی نماز میں عیسی علیہ السلام و اصلى خلفه على دين محمد صلى الله عليه وسلم لمت مصطفویہ اسلامیہ کی پیروی اور ہوں گے تو امام پیچھے بہے گا اور حضرت عیسی فالنفسة المعمان أفق اشارة الى مظهره الذى يتجد فيه والارض شریعت محمدی ) تبدیل نہ اس کو آگے کریں گے اور اس کے پچھے دین حمد المقدمة الى المادة الظاهرة التي يكون منها جسد، والحرية اشارة الى ہونے کی طرف اشارہ ہے.اور در اصل اس حدیث میں انیق نامی گھائی میں صورة القدرة والشركة التي تظهر فيها وقتل الدجال بها العمارة الی اگر چہ وہ (صحیح) ان لوگوں کو ظاہری توحید سکھائے گا اور ان کو قیامت اشارہ اس (مسیح) کے اس مظہر یا طل کی عالیہ علی المتغلب المضل" الذى يخرج وفى زمانه وكسر الصليب ﷺ کی پیروی میں نماز پڑھیں گے.إلى کبری کے حالات اور باقی رہنے عطا کرے گا.طرف ہے جس میں مجم ہو کر وہ آئے گا اور وهدم السمع والكنائس إشارة إلى رفعه الاديان المختلفة والے چہرے کے طلوع کی معرفت ارض مقدسہ سے مراد وہ پاک مادہ ہے جس او د خولہ بیت المقدس اشارة الى وصوله الى مقام الولاية الذاتية سے اس (صحیح) کا جسم بنے گا اور نیزہ اس في الحضرة الالهية الذى هو ستقام القطب وكون الناس في صلاة | یہ اس صورت میں ہے جب مہدی قدرت اور شوکت کی طرف اشارہ ہے جس میں وہ ظاہر ہوگا اور قل دجال اس (مسیح) کے الصبح اشارة الى اتفاقي المحمدين على الاستقامة في التوحيد عند خود عیسی بن مریم ہو جیسا کہ حدیث غلیہ کی طرف اشارہ ہے جو اسے گراہ کرنے طلوع صبح یوم النسامة الكبرى إذا هورنورشمس الوحدة وتأخر میں آیا ہے لَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى والے اس غالب کے خلاف حاصل ہوگا جو الامام اشارة الى شعور المقام بالدين المحمدى فى وقته تقدمہ علی اور اگر مہدی اس کے علاوہ کوئی اور ہو تو بیت المقدس میں اس کے داخلے اس کے زمانے میں خروج کرے گا اور سر الكل في الرتبة امكان قبيته وتقديم عيسى عليه السلام ايله صلیب اور گرجے اور کیسے گرانے میں اس (صحیح) کے مختلف ادیان کو شکست دینے کی اس واقتداؤه به على الشريعة المحمدية اشارة الى متابعته الدالة سے مرا داس مقام مشاہدہ میں داخل ہونا ہے جو مقام قطب سے ورے ہے میں ہٹتا ہے طرف اشارہ ہے اور بیت المقدس میں ان المصطفوية وعدم تغير الشرائع وان كان يعلم التوحيد العمانی ہے اور امام جونماز میں چھے آتا ہے (صحیح) کے داخلیہ سے مراد اس کے حضرت وبعر فهم أحوال القيامة الكبرى وضلوع الوجه الباقى هذا اذا وہ مہدی ہے اور باوجود یکہ وہ اپنے الوہیت میں ذاتی مقام ولایت کی طرف سكان المهدى عيسى بن مريم على ماروى في الحديث لا مھدی الا زمانے کا قطب ہے اس کا پیچھے بنا اشارہ ہے جو قطب کا مقام ہے اور لوگوں کے عيسى بن مريم وإن كان المهدى شيره فدخوله بيت المقدس رصوله صاحب ولایت اور صاحب نبوت محمدی یعنی مسلمان بوجہ وحدت کے نور کے والی محل المشاهدة دون مقام القعاب والامام الذى يتأخر هو المهدى صبح کی نماز میں ہونے میں یہ اشارہ ہے کہ : (عیسی) کے ادب و لحاظ کی وجہ سے ہے اور حضرت عیسی کا اس (مسیح) کو ظاہر ہونے کے قیامت کبری کی بح طلوع وانما يتأخر مع كونه قلب الوقت مراعاة الادب صاحب الولاية من امامت میں آگے کرنا اس کے مقام ہونے کے وقت توحید پراستقامت سے قائم صاحب النبوة وتقديم عيسى عليه السلام اياء لعله يتقدمه في نفس قطب کے علم کی افضلیت واولیت کی م ہوں گے.(بقیہ ترجمہ) وجہ سے ہے.
37 عکس حوالہ نمبر : 3 (+55) قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر ترجمہ: اور اسکے پیچھے الامر لمكان قطبيته وصلاته خلفه على الشريعة المحمدية اقتدار، به تحقيق اللاستفاضة منه ظاهرا وباطنا والله أعلم وانما قال (واتسعون شریعت تحدید پر واتبعون هذا صراط مستقيم هذا صراط مستقيم لان الطريقة المحمدية هي صراط الله لكونه باقيا ال ولا يصدنكم الشيطان انه نماز پڑھنے سے مراد به بعد الفناء قد ينه دين الله وصراطه صراط الله وأتباعه أتباع اس کی پیروی اور لكم عدو مبين ولما جاء الله فلا فرق بين قوله و اتبعوني وقوله واتبعوا رسولى ولهذا كان ظاہری و باطنی لحاظات عدی.بالبينات قال قد جئتكم واللہ اعلم متابعته تورث محبة الله اذ طريقه هي طريق الوحدة الحقيقية التي اس سے فیض حاصل تختلفون فيه فانه و ا وأطيعون الوحدة وارتفاع الاثنينية يوجب المحبة الحقيقية (هل ينظرون الا لا بالحكمة ولا بين بعض الذين لااستقامة الالها ولهذا لم يسع عيسى الا اتباعه عند الوصول الى کرنا ہے.ان الله هو رلى وربكم فاعبدوه الساعة أن تأتيهم أى ظهور المهدى دفعة وهم غافلون عنه ( الاخلاء ) فاختلف يومئذ بعضهم لبعض عدو الا المتقين) الخلة اما أن تكون خيرية أولا الاحزاب من بينهم فويل للذين والخبرية اما أن تكون فى الله أ ولله والغير الخيرية اما أن يكون سبيها الان ظلموا من عذاب يوم أليم هل اللذة النفسانية أو النفع العقلى والقسم الاول هو المحبة الروحانية هذا صراط مستقيم ينتظرون الا الساعة أن تأتيهم الذاتية الم الذاتية المستندة الى تناسب الارواح في الازل لقر بها من الحضرة بغتة وهم لا يشعرون الاخلاء الاحدية وتساو بها فى الحضرة الواحدية التي قال فيها فا تعارف | يومئذ بعضهم لبعض عدو الا منها التلف فهم اذا برزوا فى هذه النشأة واشتاقوا الى أوطانهم المتقين يا عباد لا خوف عليكم فى الغرب وتوجهوا الى الحق وتجردوا عن ملابس الحس ومواد اليوم ولا أنتم تحزنون الذين الرجس فلما تلاقوا تعارفوا واذا تعارة واتحابوا النجانهم الاصلى آمنوابا باتنا وكانوا مسلمين وتماثلهم الوضعى وتوافقهم فى الوجهة والطريقة وتشابم هم فى السيرة ا ادخلوا الجنة أنتم وأزواجكم والغريزة وتجردهم عن الاغراض الفاسدة والاعراض الذاتية تحبرون يطاف عليهم اصداف من التي هي سبب العداوة وانتفع كل منهم بالآخر فى اوكه وعرفاته وتذكره لاوطانه والتذيلقامه وتصفى بصنانه وتعا ونوا فى أمور الدنيا من وأنتم فيها والآخرة فهى الخلة التامة الحقيقية التي لا تزول أبدا كمية الاولياء والانبياء والاصفياء والشهداء والقسم الثانى هو الـ والمحبة القلبية المستندة إلى تناسب الاوصاف والاخلاق والسر الفاضلة ونشأته الاعتقادات والأعمال الصالحة كمية الصلحاء والابرار فيما منهم ومحبة ذهب وأكواب وفيها ما تشتهيه الانفس وتلذ لا ين وأنتم فيها.خالدون العرفاء |
38 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر 6 چھٹی آیت : هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (الزخرف 67) کیا وہ اس کے سوا کچھ اور انتظار کر ہے ہیں کہ (قیامت کی گھڑی ) ان کے پاس اچانک اس طرح آجائے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے.علامہ ابن عربی ( متوفی : 628ھ) نے اس آیت سے ظہور مہدی مراد لیا ہے.وہ فرماتے ہیں:.66 ” مہدی کا ظہورا چانک ہو گا اس حال میں کہ لوگ اس سے غافل ہوں گے.( تفسیر ابن عربی جلد دوم صفحه 220 مطبوعہ 1238ھ مصر.ملاحظہ ہو کس برصفحہ 17 ) نواب نورالحسن خان صاحب لکھتے ہیں :.بعض علماء نے اس آیت شریف هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً اور قوله تعالى وَلَا تَأْتِيهِمُ إِلَّا بَغْتَةً سے یہ استدلال کیا ہے کہ قیامت سن سات میں بعد چار سو برس کے قائم ہو جائے گی اس لیے کہ عد دحروف بغتة“ کے ایک ہزار چار سوسات ہوتے ہیں وَالْعِلْمُ عِنْدَ اللهِ تعالی.اس بناء پر مشتمل ہے کہ مہدی علیہ السلام سر صدی پر برآمد ہوں.یہ احتمال قوی ہے بلکہ صدی سے پہلے بھی اگر آ جاویں تو کچھ دور نہیں ہے.ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 4: اقتراب الساعة مصنفہ نواب نورالحسن خان 1301ھ صفحہ 220 - مطبع مفید علم الکائنہ گرہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ غلام احمد قادیانی، جن کے نام کے اعداد بحساب جمل بھی تقدیر الہی سے 1300 بنتے ہیں ، چودھویں صدی کے سر پر مسیح و مہدی بن کر مبعوث ہوئے اور 1311ھ میں آپ کے حق میں مہدی کے لئے رسول اللہ ﷺ کے بیان فرمودہ نشان چاند و سورج گرہن بھی ظاہر ہوئے.لے مزید تفصیل کیلئے دیکھیں الصراط السوی فی احوال لمھدی مصنفہ 1335ھ جس میں علامہ محمد سبطین السرسوی نے 41 آیات سے ظہور مہدی کا استدلال کیا ہے.
39 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر عکس حوالہ نمبر : 4 قال السُه وَتَعَا العَرَ العَة وَالشاوية اِقتَرَابُ السَّاعَة طيعَ في مَطة بإدارة المنشي محمد احمد خان الصوفي سلمه الله تعالى f AIT-I
40 عکس حوالہ نمبر : 4 ۲۲ قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر بعد افراد ہونگے تو تین ایک قحطانی ہے یہ اکیس برس حکمرانی کریگا باقی امرا کے لئے طلوع شمس تک مغرب سے بیس برس فرض کرو اگر زیادہ فرض نہین کرتے ہو سو میں سب بات ایک سوئیس برس کی ہوئی دجال چالیس برس رہیگا کا تقدم اگر یہ سب برسین نہین بین تو و و پرس اسے تو کی طرح مت کم ہوگی کیونکہ اسکے ایام طول طویل ہونگے تیر بعد طلوع شمس کے لوگ ایک سونہیں برس شھر بنگے ایک روایت بین یون آیا ہے کہ شرار بعد خیار کے ایک سو بیس برس تک رہیں گے پھر انہیں موت جلدی کریگی یہ سب تین سو میں بس ہوئے اب بعد ہزار سال ہجرت کے قریب استی نریس کے گزرت یہ چار سو برس ہوتے ہیں اس صدی کے پورے ہونے تک چار سو تیس برس ہو جا دینگے سیوطی کا قول گزر چکا کہ پانسو برس تک نوبت نہ پہونچے گی بعض علما نے اس آیت شریف فهل ينظرون الا ان تأتيهم الساعة بغتة اور قوله تعالى ولا تا بتهم الا بقت کے بعد بات نکالی ہے کہ قیامت سند سات میں بعد چار سو برس کے قائم ہو جا دیگی اسلئے کہ عدد حروف بفتہ کے ایک ہزار چار سو سات ہوتے ہین والعلم ے اسلئے کہ عند اللہ تعالے اس بنا پر محمل ہے کہ مہدی علیہ السلام سرمندی پر بر آمد ہون یہ احتمال قوی ہے بلکہ صدی سے پہلے ہی اگر آجا دین تو کچھہ دور نہیں ہے ! رجال انہین کے زمانہ خلافت میں نکلیگا اسکا نکلنا سر صد نی پر ہو گا نہ ہی عمل ہے که ظهور مهدی کا دوسری صدی تک متاثر ہے یہ دوسر کی صدی قطعاً ان سے فوت ہوں مگر جبکہ یہ تا غیر ہو گی تو ضرور ہے کہ اس اس صدی پر اللہ تعالے کسی ایک ایسے شخص کو سمجھے گا جو امر دین است کو زندہ کر دیگا جسطرح حدیث مشہور میں آچکا ہے سیوطی نے اپنے منظومہ میں کہا ہے شرط یہ ہے کہ صدی گزر جا وے اور وہ مجدد زندہ رہے لوگ او سکی طرف علم من انشار به کرین وہ اپنے کلام میں نصرت سنت کرے ایک حدیث قوی مین یون بھی آیا ہے کہ وہ اہل بیت مصطفے اسے ہو گا دوسر احتمال کو
41 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر 7.ساتویں آیت: يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (التوبۃ : 33-32) یعنی وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں حالانکہ اللہ ہر حال میں اپنا نور پورا کرنے والا ہے خواہ کا فر نا پسند کریں.وہی (خدا) ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کرے.آیت بالا سے ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تکمیل شریعت فرمائی.تکمیل اشاعت ہدایت کا کام آپ کے خلفاء اور مجددین کے ذریعہ جاری رہا.امام مہدی کے وقت میں تمام دینوں پر اتمام حجت کے بعد اس غلبہ دین کی تکمیل مقدر تھی.چنانچہ سنی اور شیعہ مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس آیت میں دینِ اسلام کے تمام ادیان پر جس غلبہ کا ذکر ہے وہ مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ میں ہوتا ہے.علامہ ابوحیان اندلسی (متوفی: 745ھ) نے تفسیر البحر المحیط میں بروایت حضرت ابو ہریرکا و حضرت جابر بن عبد اللہ اس آیت میں مذکور غلبہ دین حضرت عیسی کے وقت بیان کیا جبکہ سُدی کی روایت کے مطابق یہ غلبہ مہدی کے وقت میں ہوگا.ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 5: البحر الحيط الجزء الخامس صفحه 406 دارالفکر بیروت علامہ نواب صدیق حسن خان صاحب ( متوفی : 1307ھ) نے اپنی تفسیر فتح البیان میں لکھا ہے کہ یہ غلبہ حضرت عیسیٰ اور امام مہدی کے ظہور کے وقت ہوگا.ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 6: فتح البیان الجزء الخامس صفحه 289 مكتبه العصرية بيروت شیعہ مفسر علامہ سید محمد رضا جلالی نائینی (متوفی : 1389ھ) نے تفسیر حسینی میں لکھا کہ اس آیت میں بیان فرمودہ غلبہ حضرت عیسی کے نزول کے بعد ہوگا.ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 7 تفسیر حسینی جلد اول جزء دہم صفحہ 57 شیعہ امام حضرت محمد باقر (متوفی :114ھ) کی روایت ہے کہ امام مہدی کے ظہور کے وقت یہ غلبہ ہو گا.ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 8: بحارالانوار جلد 52 صفحہ 346 مطبوعہ 1403ھ بیروت
42 عکس حوالہ نمبر : 5 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر البحر المحيط في التفسير المحمد بن يوسف الشهير بأبي حيان الأندلسي الغريبا في ٦٥٤ - ٧٥٤ هـ الجزء الخامس طبعة جديدة بعناية الشيخ زهير جعيد دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع
ترجمه.٤٠٦ 43 عکس حوالہ نمبر : 5 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر سورة التوبة / الآيات : ۳۱ - ۳۳ هو الذي أرسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون ) هو محمد ﷺ ، والهدى التوحيد أو القرآن أو بيان الفرائض أقوال ثلاثة.ودين الحق : الإسلام إن الدين عند الله الإسلام) (۱) والظاهر أن الضمير في ليظهره عائد على الرسول لأنه المحدّث عنه، والدين هنا جنس أي : ليعليه على أهل الأديان كلهم، فهو على حذف مضاف.فهو لا الله و غلبت أمته اليهود وأخرجوهم من بلاد العرب، وغلبوا النصارى على بلاد الشام إلى ناحية الروم والمغرب، وغلبوا المجوس على ملكهم، وغلبوا عباد الأصنام على كثير من بلادهم مما يلي الترك والهند وكذلك سائر الأديان.وقيل : المعنى يطلعه على شرائع الدين حتى لا يخفى عليه شيء منه، فالدين هنا شرعه الذي جاء به.وقال الشافعي : قد أظهر الله رسوله الا الله على الأديان بأن أبان لكل من سمعه أنه الحق، وما من الأديان باطل.وقيل: الضمير يعود على الدين فقال أبو هريرة، والباقر، وجابر بن عبد الله : إظهار الدين عند نزول عيسى ابن مريم ورجوع الأديان كلها إلى دين الإسلام، كأنها ذهبت هذه الفرقة إلى إظهاره على أتم وجوهه حتى لا يبقى معه دين آخر.وقالت فرقة : ليجعله أعلاها وأظهرها، وإن كان معه غيره كان دونه، وهذا القول لا يحتاج معه إلى نزول عيسى، بل كان هذا في صدر الأمة، وهو كذلك باق إن شاء الله تعالى.وقال السدي : ذلك عند خروج المهدي لا يبقى أحد إلا دخل في الإسلام وأدى الخراج.وقيل: مخصوص بجزيرة العرب، وقد حصل ذلك ما أبقى فيها أحداً من الكفار.وقيل: مخصوص بقرب الساعة، فإنه إذ ذاك يرجع الناس إلى دين آبائهم ، وقيل : ليظهره بالحجة والبيان.وضعف هذا القول لأن ذلك كان حاصلاً أول الأمر.خالفه وقيل : نزلت على سبب وهو أنه كان لقريش رحلتان : رحلة الشتاء إلى اليمن، ورحلة الصيف إلى الشام والعراقين فلما أسلموا انقطعت الرحلتان لمباينة الدين والدار، فذكروا ذلك للرسول الله الله فنزلت هذه الآية.فالمعنى : ليظهره على الدين كله في بلاد الرحلتين وقد حصل هذا أسلم أهل اليمن وأهل الشام والعراقين.وفي الحديث: «رويت لي الأرض فاريت مشارقها ومغاربها ، وسيبلغ ملك أمتي ما زوي لي منها، قال بعض العلماء : ولذلك اتسع مجال الإسلام بالمشرق والمغرب ولم يتسع في الجنوب انتهى.ولا سيما اتساع الإسلام بالمشرق في زماننا فقل ما بقي فيه كافر، بل أسلم معظم الترك التتار والخطا، (۱) سورة آل عمران : ۱۹/۳.ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ ، حضرت امام باقر اور حضرت جابر بن عبد اللہ کا قول ہے کہ اس آیت میں جس اظہار دین (یعنی غلبہ اسلام ) کا ذکر ہے وہ حضرت عیسی بن مریم کے نزول کے وقت اور تمام ادیان کے دین اسلام کی طرف رجوع کے وقت ہو گا...اور ( اسماعیل بن عبد الرحمان) سدی (متوفی : 127ھ ) کا قول ہے کہ یہ غلبہ ظہور مہدی کے وقت ہوگا جبکہ کوئی ایک شخص بھی باقی نہیں رہے گا مگر اسلام میں داخل ہو جائے گا.
44 عکس حوالہ نمبر : 6 فتح البر في مقامت القرآن قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر تفسير سلفي أثري خال من الإسرائيليات والجدليات المذهبية والكلامية يغني عن جميع التفاسير ولا تغني جميعها عنه تأليف السيد الامام العلاقة الملك المزيد من الا الباري ابى الطيب صديقه بن حسن بن على الحسين الفن فى البخاري " ١٢٤٨-١٣٠٧ھ " عني بطبعه وقدم له وراجعه خادم العلم عبد الله بن ابراهيم الأنصاري الجزء الخامس بيروت
45 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر عکس حوالہ نمبر : 6 تفسير سورة التوبة ۲۸۹ هُوَ الَّذِى أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ (٣٣) ولَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ يَتَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِّن الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَلَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ الله وَالَّذِينَ يَكْذِرُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ثم أكد هذا بقوله : وهو الذي أرسل رسوله يعني محمداً بالهدى أي يهدي به الناس من البراهين والمعجزات والأحكام التي شرعها الله لعباده والتوحيد والاسلام والقرآن ودين الحق وهو دين الاسلام، وفائدة ذكره مع دخوله في الهدى قبله بیان شرفه وتعظيمه كقوله والصلاة الوسطى ليظهره أي ليظهر رسوله أو دين الحق بما يشتمل عليه من الحجج والبراهين.على الدين كله أي على سائر الأديان وهو أن لا يعبد الله إلا به، فلا دين بخلاف الاسلام إلا وقد قهرهم المسلمون وظهروا عليهم في بعض المواضع وان لم يكن كذلك في جميع مواضعهم، فقهروا اليهود وأخرجوهم من بلاد العرب، وغلبوا النصارى على بلاد الشام وما والاها الى ناحية الروم والغرب، وغلبوا المجوس على ملكهم، وغلبوا عباد الأصنام على كثير من بلادهم مما يلي الترك والهند وكذلك سائر الأديان.فثبت أن الذي أخبر الله عنه في هذه الآية قد وقع وحصل، وكان ذلك الغيب فكان ،معجزاً، وقد ذكرنا فتوح الاسلام في كتابنا حجج الكرامة في آثار القيامة الذي حررناه بعد هذا التفسير، وقيل ذلك عند نزول عيسى وخروج المهدي فلا يبقى أهل دين إلا دخلوا في الاسلام، ويدل له بعض الأحاديث، فمنها حديث أبي هريرة قال النبي صلى الله عليه وسلم: إخباراً عن ترجمہ: اور یہ کہا گیا ہے کہ یہ غلبہ دین ) حضرت عیسی کے نزول اور امام مہدی کے ظہور کے وقت ہوگا اور اس وقت کوئی دین والے باقی نہیں رہیں گے مگر اسلام میں داخل ہو جائیں گے اور اس کے حق میں بعض احادیث بھی دلیل ہیں.
46 عکس حوالہ نمبر : 7 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر جلد اول مواد علیہ تغیر حسینی (فارسی) تصنیف بزرگترین دانشمند سده نهم هجری کمال الدین حسین کاشفی با تیم و مقدمه و جایزگاری و سید محمد رضا جلالی نائینی حق چاپ و تقلید محفوظ و مخصوص است به کتابفروشی چانچانا اقبال هدیه با جلد عالی ٢٥ ريال مرداد ماه ۱۳۱۷
47 عکس حوالہ نمبر : 7 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر سورة التوبة صفحه پنجاه و هفتم جزردهم دور يريد الجاحدون ليطفؤاء بیت و بابى الله الا ان يتمه (۱) جراغی را که ایزد بر فروزد کی کش تف کند سیلش سوزد بس بیان انعام اور میکند و میفرماید فرستاد (۳۳) اوست آن خداوندی که بفضل شامل خود فرستاده خود را که محمد عليه السلام است به قرآن که محض هدایت است و بدین درست که اسلام است و ارسال برای آن بود تا ظاهر غالب گرداند دین خود را برهمة دينها و منسوخ سازد احکام آنها را و ان بعد از نزول عیسی ( ع ) خواهد بود که برروی زمین جز دین اسلام نخواهد ماند و اگرچه کرامت دارند مشرکان در این صورت را ی کنند (۳۴) ای کسانی که ایمان آورده اید.بدرستیکه بسیاری از علماء و زهاد یهود و نصاری هر آینه که میخورند ، الهای مردم انرا ارشوت در حکم و باز دارند خلق را از دین خدای یعنی منع میکنند از دخول در اسلام و آنان از اهل کتاب و غیر ایشان که از روی حرص و بخل گنج می نهند زر را و نقره را و نفقه نمی گنجها را در راه خدا یعنی زکوة نمیدهند چه در خبر آمده است ما ادى زکوته فليس بكنز ) آنچه زكوة آنرا داده اند گنج نیست ) یعنی گنجی که بر آن و عیدی مترتب باشد و وعید آنست که ارمود ، پس بشارت ده گنج نهادگان زکوة ادهنده را بعذابی دردناک.(۳۵) روزی که گرم شود یعنی برا فروزند ، آتش را بر آن انجها در آتش دوزخ.اس داغ کرده شود بدان دینارها و دره های - 1 میخواهند انکار کنندگان که درو نشانند نور خداوند را و نمیخواهد خدای مگر آنکه آن نور را کامل و افزون گرداند یعنی خداوند اور خود را کامل خواهد کرد )..) ترجمہ : وہی خدا ہے جس نے اپنے فضل سے اپنے رسول حضرت محمد ﷺ کو قرآن کے ساتھ بھیجا، جو ہدایت محض ہے اور درست دین کے ساتھ جو اسلام ہے.اور اس لئے بھیجا تا کہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کرے اور ان ادیان کے احکامات کو منسوخ کرے اور ایسا عیسی کے نزول کے بعد وقوع پذیر ہوگا اور زمین پر بجز اسلام کوئی دین نہ رہے گا اگر چ مشرکین نا پسند ہی کریں.
48 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر بحارالانوار میں بھی اس آیت کی تشریح میں ذکر ہے کہ دینِ اسلام کا تمام ادیان پر مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ میں غلبہ ہوگا.ملاحظہ ہو: بحارالانوار جلد 52 صفحہ 346 مطبوعہ 1403ھ بیروت عکس حوالہ نمبر : 8 بحر الأنوار الْجَامِعَةُ لِدُرَرِ أَخْبَارِ الأَيْمَةِ الأَطبَارِ تأليف العلم العلامة الحجة فخر الأمة المولى الشيخ محمد باقر المجلسي قدس اللہ سرہ الجزء الثاني والخمسون دار إحياء التراث العربي بيروت - لبنان
49 عکس حوالہ نمبر : 8 تاريخ الامام الثاني عشر قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر مج ٥٢ طلعت عليه الشمس ويأخذوا موقفاً يقفون فيه ، ويختفون منه قدر زمان ذبح بعير ، ويحتمل المكان أيضاً ولعل المراد بإحداث الحدث إحراق الشيخين الملعونين فلذا يسمونه بالطاغية.قوله « فيمنحه الله أكتافهم، أي يستولي عليهم كأنه يركب أكتافهم أو كناية ن نهاية الاقتدار عليهم كأنه يستخرج أكتافهم.عن قوله : ( لتجفل الناس ، أي تسوقهم باسراع.وقال الجوهري : مطاردة الأقران في الحرب حمل بعضهم على بعض يقال: هم فرسان الطراد ، و قد استطرد له وذلك ضرب من المكيدة ، وقال : يقال جريدة من خيل لجماعة جردت من سائرها لوجه.والتعايي من الاعياء والعجز و العي خلاف البيان.المفضل بن عمر ، عن أبي عبد الله قال : إذا قام قائم ۹۲ شی : عن آل محمد استخرج من ظهر الكعبة سبعة وعشرين رجلاً خمسة وعشرين من قوم موسى الذين يقضون بالحق و به يعدلون (۱) وسبعة من أصحاب الكهف ويوشع وصي موسى و مؤمن آل فرعون وسلمان الفارسي وأبا دجانة الأنصاري، ومالك الأشتر.شا G المفضل مثله بتغيير وسيأتي في الرجعة عن.٩٣- شي : عن أبي المقدام ، عن أبي جعفر في قول الله « ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون» (۲) يكون أن لا يبقى أحد إلا أقر بمحمد الله.وقال في خبر آخر عنه ، قال : ليظهره الله في الرجعة.۹۴ - شي : عن سماعة ، عن أبي عبد الله د هو الذي أرسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون ، قال : إذا خرج القائم لم يبق مشرك بالله العظيم ولا كافر إلا كره خروجه.(۱) اشارة الى قوله تعالى في الاعراف: ۱۵۸د و من قوم موسى امة يهدون بالحق و به يعدلون ، والحديث في العياشي ج ۲ ص ۳۲.في ذيل الاية.(۲) براءة : ۳۳.راجع تفسير العياشي ج ۲ ص ۸۷ وهكذا الحديث الاتى.ترجمہ: حضرت امام ابو جعفر سے اللہ تعالی کے اس ارشاد لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَو كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ”ایسا ہوگا کہ کوئی ایک شخص بھی باقی نہیں رہے گا مگر وہ محمد کا اقرار کر لے گا.
50 قرآن کریم میں زمانہ ظہور مہدی ومسیح کی خبر مندرجہ بالا آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مہدی کا ظہور ایسے زمانہ میں ہو گا جب اسلام کمزور اور مغلوب ہوگا اور وہ آکر سارے دینوں پر اسے غالب کرے گا.اس لحاظ سے اسلام کی کمزوری کا زمانہ بھی یہی چودھویں صدی ہے.رَسُولَهُ بِالْهُدى (صاحب ہدایت رسول ) کے الفاظ میں بھی ” مہدی“ کی طرف اشارہ ہے جس کے معنی ہدایت یافتہ کے ہیں.حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں:.سلسلہ کے آخری خلیفہ مجدد کو چودھویں صدی کے سر پر ظاہر کرنا تکمیل نور کی طرف اشارہ ہے کیونکہ مسیح موعود اسلام کے قمر کا متمم نور ہے اس لئے اس کی تجدید چاند کی چودھویں رات سے مشابہت رکھتی ہے اسی کی طرف اشارہ ہے اس آیت میں کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّہ کیونکہ اظہار تام اور تمام نورا ایک ہی چیز ہے.اور یہ قول کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الاديان كُلَّ الأَظْهَارِ مساوی اس قول سے ہے کہ لِيُتِمَّ نُورَهُ كُلَّ الْإِثْمَامِ اور پھر دوسری آیت میں اس کی اور بھی تصریح ہے اور وہ یہ ہے : يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (الصف 9) اس آیت میں تصریح سے سمجھایا گیا ہے کہ مسیح موعود چودھویں صدی میں پیدا ہو گا.کیونکہ اتمام نور کے لئے چودھویں رات مقرر ہے.“ (تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 124 ایڈیشن 2008) نیز فرمایا:.یہ آیت که هُوَ الَّذِى أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (الصف 10) در حقیقت اسی مسیح ابن مریم کے زمانہ سے متعلق ہے کیونکہ تمام ادیان پر روحانی غلبہ بنجر اس زمانہ کے کسی اور زمانہ میں ہرگز ممکن نہیں تھا.“ (ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 464 ایڈیشن 2008)
51 بائبل میں مسیح موعود کا سن ظہور بائبل میں مسیح موعود کا سن ظہور بائبل میں آخری زمانہ میں ایک موعود مصلح کے نازل ہونے کی خبر دینے کے ساتھ اس کے زمانہ کے حالات اور علامات کا نقشہ بھی کھینچا گیا ہے.دانی ایل باب 12 آیت 11 تا 13 میں مسیح کے ظہور کا سن اور زمانہ بھی بتا دیا گیا ہے.ذکر ہے کہ اس وقت جب یہودی اپنی رسم سوختنی قربانی کو چھوڑ دیں گے اور بدچلنیوں میں مبتلا ہو جائیں گے، ایک ہزار دوسونوے سال ہوں گے جب مسیح موعود ظاہر ہوگا.! دانیال نبی نے اس مسیح موعود کا زمانہ تیرہ سو پینتیس برس لکھا ہے.گویا 1290 کے عدد سے 1335 تک مسیح علیہ السلام کو ظاہر ہونا چاہیے تھا جو تیرھویں کا آخر اور چودھویں صدی کا سر ہے، اور دلچسپ و پر لطف بات یہ ہے کہ ایسا ہی ہوا سے ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 2: بائبل دانی ایل باب 12 آیت 11 تا 13.پاکستان بائبل سوسائٹی، انارکلی، لاہور ا.آیت گیارہ میں ایک ہزار دو سو نوے دن سے مراد سال ہیں.( اللہ کا دن تو ہزار سال کے برابر بھی ہوتا ہے اور پچاس ہزار سال کے بھی) ۲.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے 1290ھ میں دعوی اماموریت فرمایا اور 1326ھ میں وفات پائی.
52 عکس حوالہ نمبر : 9 بائبل میں مسیح موعود کا سن ظہور کتاب مقدس یعنی پرانا اور نیا عہد نامہ (عہد عتیق اور عہد جدید) اُردو زبان کا یہ ترجمہ اصلی متن کے مطابق مستند ہے پاکستان بائیل سوسائٹی انار کلی ،لاہور.پاکستان
A:M 53 عکس حوالہ نمبر : 9 وانی امل.موسیق اور ہم دور.اور جب وہ مقدس لوگوں کے اقتدار ک نیست کر سجے گا پر دانش ور سمجھیں گے ؟ بائبل میں مسیح موعود کا سن ظہور ۳:۱ (1) اور جس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائے چکیں گے تو یہ سب کچھ پورا ہو جائے گا (۸) اور میں نے سنا پر سمجھ نہ سکا.تب میں نے کہا آے گی اور وہ اُجاڑنے والی مکر وہ چیز نصب کی جائے گی ایک ہزار دو سو نوے دن ہوں گے (۱۲) مبارک ہے دو جو ایک ہزار میرے خُداوند ان کا انجام کیا ہوگا ؟؟ (1) اُس نے کہا آئے دانی ایل ٹو اپنی راہ لے کیونکہ یہ تین سو پینتیس روز تک انتظار کرتا ہے باتیں آخری وقت تک بند و سر بمہر رہیں گی (10) اور بہت (۱۳) پر تو اپنی راہ لے جب تک کہ مدت پوری نہ ہو لوگ پاک کیئے جائیں گے اور صاف و براق ہوں گے لیکن کیونکہ تو آرام کرے گا اور ایام کے اختتام پر اپنی میراث میں شریر شرارت کرتے رہیں گے اور شریروں میں سے کوئی نہ اُٹھ کھڑا ہوگاں تعارف ہوسیع ہو سیخ نہیں شمالی سلطنت میں منادی کرتا تھا.وہ عاموس نبی کے بعد ہوا.سی اس ۷ ق م میں سقوط سامریہ سے پہلے بدامنی کا زمانہ تھا.ہو سیع کو اپنے لوگوں کی بت پرستی کی خاص فکر تھی.وہ چاہتا تھا کہ لوگ خُدا کے وفادار ہو جائیں.ہو سیچ نے بے وفائی کی تصویر کو بڑی دلیری اور صفائی سے پیش کیا اور خود ایک بے وفا عورت سے اپنی اذیت ناک اور مصیبت بھری شادی کے حوالہ سے اس کی وضاحت کی.جس طرح اس کی بیوی جمر نے اُس سے بے وفائی کی اسی طرح خدا کے لوگوں نے خُداوند کو ترک کر دیا تھا.اس وجہ سے اسرائیل پر غضب نازل ہوگا.لیکن آخر میں اپنے لوگوں کے لئے خدا کی باوفا محبت غالب آئے گی اور وہ اُمت کو اپنے اوپر گردیدہ کرے گا اور با ہمی تعلق بحال کرے گا.اس محبت کا اظہار بہت دل گداز انداز میں کیا گیا ہے : ”اے افرائیم میں تجھ سے کیونکر دست بردار ہو جاؤں؟ آے اسرائیل میں تجھے کیو نکر ترک کروں ؟ میرا دل مجھ میں بیچ کھاتا ہے.میری شفقت موجزن ہے.“ (۸:۱۱ ) مضامین کا خاکہ ہوسیع کی شادی اور خاندان اسرائیل کے خلاف پیغام تو بہ کا پیغام اور وعدہ ۵:۳۱:۱ ۱۹:۱۳ -۱:۴ 9-11 ا (1) شابان بیہوداہ کر نیاہ اور کو تام اور آخر اور جو قیاہ اور ہو سیخ کی بیوی اور اولاد شاه اسرائیل پر تمام بن یو اُس کے ایام میں خداوند کا کلام (۲) جب خداوند نے شروع میں ہو ستیج کی معرفت جو مسیح بن پیر کی پر نازل ہواہ کلام کیا تو اُس کو فر مایا کہ جا ایک بدکار بیوی اور بدکاری کی 1 AZ
54 بائبل میں مسیح موعود کا سن ظہور انجیل میں مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئی میں زمانہ کی علامات اور نشانیاں جنگیں ، قحط، زلازل، چاند سورج گرہن ،ستاروں کا گرنا وغیرہ بیان کی گئی ہیں جو من و عن تیرھویں صدی ہجری اور انیسویں صدی عیسوی کے زمانہ پر چسپاں ہوتی ہیں، جس میں حضرت بانی جماعت احمدیہ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا.متی باب 24 میں ہے کہ :.”اس کے شاگردوں نے الگ اس کے پاس آ کر کہا ہم کو بتا کہ یہ باتیں کب ہوں گی؟ اور تیرے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا ؟ یسوع نے جواب میں ان سے کہا..تم لڑائیاں اور لڑائیوں کی افواہ سنو گے.خبر دار ! گھبرا نہ جانا ! کیونکہ ان باتوں کا واقع ہونا ضروری ہے لیکن اسوقت خاتمہ نہ ہوگا.کیونکہ قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی اور جگہ جگہ کال پڑیں گے اور بھونچال آئیں گے.لیکن یہ سب باتیں مصیبتوں کا شروع ہی ہوں گی.....جیسے بجلی پورب سے کوند کر پچھتم تک دکھائی دیتی ہے ویسے ہی ابن آدم کا آنا ہوگا...ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمانوں کی قو تیں ہلائی جائیں گی اور اس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا.اور اس وقت زمین کی سب قو میں چھاتی پیٹیں گی اور ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی.اور وہ نر سنگے کی بڑی آواز کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وہ اس کے برگزیدوں کو چاروں طرف سے آسمان کے اس کنارے سے اس کنارے تک جمع کریں گے.“ ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 10: بائبل متی باب 24 آیات 3 تا 39.پاکستان بائبل سوسائٹی انارکی، لاہور
۳۸:۲۳ 55 عکس حوالہ نمبر : 10 متی بائبل میں مسیح موعود کا سن ظہور ۲۵۳ اور جو تیرے پاس بھیجے گئے اُن کو سنگسار کرتا ہے ! کتنی بار میں (1) اُس وقت لوگ تم کو ایذا دینے کے لئے پکڑوائیں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پر دں تلے جمع کر لیتی ہے اور تم کو قتل کریں گے اور میرے نام کی خاطر سب قو میں تم ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کر لوں مگر تم نے نہ سے عداوت رکھیں گی (10) اور اُس وقت بہتیرے ٹھو کر چابا ! (۳۸) دیکھوتمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا کھا ئیں گے اور ایک دوسرے کو پکڑوائیں گے اور ایک ہے (۳۹) کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے مجھے پھر دوسرے سے عداوت رکھیں گے (1) اور بہت سے جھوٹے ہر گز نہ دیکھو گے جب تک نہ کہو گے کہ مبارک ہے وہ جو نبی اٹھ کھڑے ہوں گے اور بہتیروں کو گمراہ کریں گے خُداوند کے نام سے آتا ہے ؟ (۲) اور بے دینی کے بڑھ جانے سے بہتیروں کی محبت ٹھنڈی پیشوع سرود علیم کی بربادی کی بات کرتا ہے پڑ جائے گی (۳) مگر جو آخر تک برداشت کرے گا وہ نجات پائے (مرقس ۱:۱۳-۲؛ لو قا ۲۱: ۵-۶) گان (۱۴) اور بادشاہی کی اس خوشخبری کی منادی تمام دنیا میں ۲۴ (۱) اور پیشوع میکل سے نکل کر جا رہا تھا کہ اس کے شاگرد ہوگی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو.تب خاتمہ ہوگا اس کے پاس آئے تاکہ اسے ٹیکل کی عمارتیں دکھائیں 2 اجاڑ نے والی مکروہ چیز (۲) اس نے جواب میں اُن سے کہا کیا تم ان سب چیزوں کو (مرقس ۱۴:۱۳- ۳۳: کو قا ۲۰:۲۱ - ۲۴) نہیں دیکھتے ؟ میں کمر سے بچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پھر پر (۱۵) پس جب تم اُس اُجاڑ نے والی مکر وہ چیز کو جس پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے گا 2 کا ذکر دانی ایلی نبی کی معرفت ہوا.مقدس مقام میں کھڑا ہوا مصیبتیں اور ایذائیں (مرقس ۱۳ ۱۳۳۰ و ۲۱: ۷-۱۹) دیکھو پڑھنے والا سمجھ لے ) 0(1) تو جو یہودیہ میں ہوں وہ (۳) اور جب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا اُس کے پہاڑوں پر بھاگ جائیں 2 (۱۷) جو کو ٹھے پر ہو وہ اپنے گھر کا شار گردوں نے الگ اُس کے پاس آکر کہا ہم کو پتا کہ یہ اسباب لینے کو نیچے نہ اترے Q(۱۸) اور جو کھیت میں ہو وہ اپنا باتیں کب ہوں گی؟ اور تیرے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کا کپڑائینے کو پیچھے نہ کوئے (19) مگر افسوس اُن پر جو ان دنوں میں حاملہ ہوں اور جودُودھ پلاتی ہوں ۵۱ (۲۰) پس دُعا کرو کہ (۴) پیشوع نے جواب میں اُن سے کہا کہ خبردار! کوئی تم کو جاڑوں میں یا سبت کے دن بھاگنا نہ پڑے Q (۲) کیونکہ اس تم کو گمراہ نہ کر دے Dig) کیونکہ بہتیرے میرے نام سے وقت ایسی بڑی مصیبت ہوگی کہ دنیا کے شروع سے نہ اب تک آئیں گے اور کہیں سے میں میسج بنوں اور بہت سے لوگوں کو ہوئی نہ کبھی ہوگی (۲۲) اور اگر وہ دن گھٹائے نہ جاتے تو کوئی بشر نشان کیا ہوگا ؟ گمراہ کریں گے (۶) اور تم لڑائیاں اور لڑائیوں کی افواہ بھٹو نہ بچتا مگر برگزیدوں کی خاطر دوران گھٹائے جائیں گے گے.خبردار! گھبرا نہ جانا! کیونکہ ان باتوں کا واقع ہونا ضرور (۲۳) اس وقت اگر کوئی تم سے کہے کہ دیکھو مسیح یہاں ہے لیکن اُس وقت خاتمہ نہ ہو گا (4) کیونکہ قوم پر قوم اور ہے یا وہاں ہے تو یقین نہ کرنا (۲۴) کیونکہ جھوٹے مسیح اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی اور جگہ جگہ کال پڑیں گے جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے اور ایسے بڑے نشان اور اور بھونچال آئیں گے (۸) لیکن یہ سب باتیں مصیبتوں کا عجیب کام دکھائیں گئے کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ شروع ہی ہوں گی.کرلیں (۲۵) دیکھو میں نے پہلے ہی تم سے کہہ دیا ہے ؟ MA
56 بائیل میں مسیح موعود کا سن ظہور ۲۶:۲۴ عکس حوالہ نمبر : 10 متی ۱:۲۵ (۲۲) پس اگر وہ تم سے کہیں کہ دیکھو وہ بیابان میں ہے تو نوح کے دنوں میں ہو اؤ یا ہی ابن آدم کے آنے کے وقت ہو باہر نہ جانا یاد کھو وہ کوٹھریوں میں ہے تو یقین نہ کرنا (۷) کیونکہ گا (۳۸) کیونکہ جس طرح طوفان سے پہلے کے دنوں میں جیسے بجلی پورب سے کو نہ کر پچھنم تک دکھائی دیتی ہے ویسے ہی لوگ کھاتے پیتے اور بیاہ شادی کرتے تھے اس دن تک کہ نوح کشتی میں داخل ہو ا (۳۹) اور جب تک طوفان آکر ان سب ابن آدم کا آنا ہوگا (۲۸) جہاں مردار ہے وہاں گدھ جمع ہو جائیں گے کو بہانہ لے گیا ان کو خبر نہ ہوئی اس طرح ابن آدم کا آنا ہوگا.ابن آدم کی آمد (مرقس ۲۴:۱۳-۲۷؛ کو ق ۲۵:۲۱-۲۸) (۴۰) اس وقت دو آدمی کھیت میں ہوں گے ایک لے لیا جائے گا (۲۰) اور فوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک اور دوسرا چھوڑ دیا جائے گا (۳) دو عورتیں چنگی چیستی ہوں ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گی.ایک لے لی جائے گی اور دوسری چھوڑ دی جائے گی ؟ کریں گے اور آسمانوں کی قوتیں بلائی جائیں گی (۳۰) اور (۲۲) پس جاگتے رہو کیونکہ تم نہیں جانتے کہ تمہارا اُس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا.اور اُس خُداوند کیس دن آئے گا (۴۳) لیکن یہ جان رکھو کہ اگر گھر وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی اور ابن آدم کو بڑی کے مالک کو معلوم ہوتا کہ چور رات کے کون سے پہر آئے گا قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے تو جاگتا رہتا اور اپنے گھر میں نقب نہ لگانے دیتا (۴۴) اس دیکھیں گی (۳۱) اور وہ نرینگے کی بڑی آواز کے ساتھ اپنے لئے تم بھی تیار رہو کیونکہ جس گھڑی تم کو کمان بھی نہ ہوگا فرشتوں کو بھیجے گا اور وہ اُس کے برگزیدوں کو چاروں طرف سے اپنا آدم آ جائے گا آسمان کے اس کنارے سے اس کنارے تک جمع کریں گے ؟ دیانتدار یا بد دیانت نوکر (گو قا۱۲ ۴۱-۴۸) انجیر کے درخت سے سبق (۳۵) پس وہ دیانتدار اور نظمند نوکر کون سا ہے جسے (مرقس ۱۳: ۲۸-۳۱؛ کو قا ۲۹:۲۱-۳۳).مالک نے اپنے نوکر چاکروں پر مقرر کیا تا کہ وقت پر اُن (۳۲) اب انجیر کے درخت سے ایک تمثیل سیکھو.کو کھانا دے؟(۲۱) مبارک ہے وہ نوکر جیسے اُس کا مالیک آ جونہی اُس کی ڈالی نرم ہوتی اور پتے نکلتے ہیں تم جان لیتے ہو کہ کر ایسا ہی کرتے پائے (۴۷) میں تم سے بچ کہتا ہوں کہ وہ گرمی نزدیک ہے (۳۳) اسی طرح جب تم ان سب باتوں اسے اپنے سارے مال کا مختار کر دے گا (۸) لیکن اگر وہ کو دیکھو تو جان لو کہ وہ نزدیک بلکہ دروازہ پر ہے 2 (۳۳) میں خراب نو کر اپنے دل میں یہ کہہ کر کہ میرے مالک کے آنے تم سے بیچ کہتا ہوں کہ جب تک یہ سب باتیں نہ ہو لیں پینسل میں دیر ہے (۳۹) اپنے ہم خدمتوں کو مارنا شروع کرے اور ہرگز تمام نہ ہوگی (۳۵) آسمان اور زمین مل جائیں گے لیکن شرابیوں کے ساتھ کھائے ہے (۵) تو اُس نوکر کا مالک ایسے میری باتیں ہر گز نہ ملیں گی ؟ دن کہ وہ اُس کی راہ نہ دیکھتا ہو اور ایسی گھڑی کہ وہ نہ جانتا ہو آ اُس دن اور گھڑی کو کوئی نہیں جانتا ( مرقس ۳۲:۱۳-۳۷؛ لوقا ۲۶:۱۷-۳۰، ۳۴-۳۶) شامل کرے گا.وہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگاں (۳۶) لیکن اُس دن اور اُس گھڑی کی بابت کوئی نہیں دس گنواریوں کی تمثیل موجود ہو گا (۵) اور خوب کوڑے لگا کر اُس کو ریا کاروں میں جانتا.نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر صرف باپ (۳۷) جیسا ۲۵ (۱) اُس وقت آسمان کی بادشاہی اُن دس گنواریوں کی ٣٣٩
57 نزول مسیح اور ارشادات نبویہ عامر نزول مسیح اور ارشادات نبو یه عالی قرآن شریف کے علاوہ احادیث نبویہ میں بھی آخری زمانہ میں مثیل مسیح موعود کے آنے کی خبر بڑی کثرت اور تواتر سے ملتی ہے.امام بخاری نے صحیح بخاری میں نہایت عمدہ اور پر حکمت ترتیب کے ساتھ ایسی روایات کا ذکر کر کے اپنا یہ نقطہ نظر بیان کیا ہے کہ جس ابن مریم کے نزول کی خبر ہے اس سے مراد دراصل اسکے روحانی مثیل کا آنا ہے.1.حضرت عیسی بن مریم اور آخری زمانہ میں آنے والے مسیح موعود کے حلیوں کا فرق بیان کر کے بتا دیا کہ رسول اللہ اللہ نے معراج کی رات حضرت عیسی کو دیکھا.ان کا رنگ سرخ اور بال گھنگریالے تھے جیسا کہ بنی اسرائیل اور اہل فلسطین کا حلیہ ہوتا ہے.اور آنیوالے مسیح کو رویا میں طواف کعبہ کرتے دیکھا تو ان کا رنگ گندمی اور بال سیدھے بیان فرمائے.ان کے پیچھے دجال طواف کر رہا تھا.ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 11: نصر الباری شرح بخاری جلد ہفتم صفحه 528 اختلاف حلیین.ناشر مکتبہ الشیخ بہادر آباد کراچی اس کشف نبوی نے کھول دیا کہ گزشتہ اسرائیلی مسیح اور آنیوالا موعود مسیح دو الگ وجود ہیں.یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہندوستان میں مثیل مسیح کا دعوی کرنے والے حضرت بانی جماعت احمدیہ کا حلیہ عین اس حدیث کے مطابق ہے.حوالہ نمبر 14,15 میں امام بخاری نے واضح فرمایا کہ آنیوالامثیل ابن مریم بنی اسرائیل کی بجائے امت محمدیہ میں سے ہوگا.حوالہ نمبر 13, 12 میں امام بخاری نے دو قرآنی آیات آل عمران 56 اور مائدہ 118 سے مسیح ابن مریم کی وفات ثابت کی ہے.
58 نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علیہ عکس حوالہ نمبر 11 نَصْرٌ مِّنَ اللهِ وَعَحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ نصر الباري شرح اردو صَحِيح البخاري مولفه حضرت العلامه مولانا محمد عثمان فتح ال شیخ الحدیث مظاهر العلوم وقف تنہا ہو کہ شاگرد رشید شیخ الاس الا حضرت مولانا مت بر حسین احمدان الله کی جلد نام کے کیا ۱۵۰ کم کی باب: ۱۷۲۴-۲۱۲۸ کم کی حدیث: ۲۱۷۲-۳۷۳ کے كتاب الجهاد، كتاب بدء الخلق، كتاب الانبياء عليهم السلام، كتاب المناقب مكتبة الشيخ ۳/ ۴۳۵، بہادر آباد، کراچی نمبر ۵.فون: 34935493-021
59 نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علی ۵۲۸ عکس حوالہ نمبر: 11 ار کتاب الانبیار / باب: ارشاد الہی اور کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے.حدیث: (۱۰-۳۲۰۹) ۳۲۰۹ حدثنا محمدُ بنُ كَثِيرٍ حَدَّتَنَا إِسْرَائِيلُ أَخْبَرَنَا عثمانُ بنُ المُغِيرَةِ عن مجاهِدٍ عَنِ ابنِ عُمَرَ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم رَآيْتُ عِيسَى وَمُوسَى وَإِبْرَاهِيمَ فَأَمَّا عِيسَى فَأَحْمَرُ جَعْدٌ عَرِيضُ الصَّدْرِ وَأَمَّا مُوسَى فَآدَمُ جَسِيمٌ سَبْطٌ كَانَهُ مِنْ رِجَالِ الرُّط.ترجمہ حضرت ابن عمر نے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے حضرت عیسی ، حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیہم السلام کو دیکھا حضرت عیسی علیہ السلام نہایت سرخ گھونگھریالے بال والے اور چوڑے سینے والے تھے، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام گندم گون در از قامت اور سیدھے بال والے تھے جیسے کوئی قبیلہ زر کا فرد ہو.رط: سوداں کا ایک قبیلہ، یا ہنود کا، جہاں کے لوگ لیے قد کے دبلے پتلے ہوتے ہیں، غالبا یہ جاٹ کا معرب ہے.واللہ اعلم مطابقته للترجمة مطابقة الحديث للترجمة في ذكر لفظ عيسى عليه الصلوة والسلام.تعد موضعه و الحديث هنا ص ۲۸۹ - ۳۲۱۰ و حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بنُ المُنْذِرِ حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ حَدَّثَنَا مُوسَى عَن نَافِعٍ قَالَ قَالَ عِبدُاللَّهِ ذكر النبي ﷺ يَومَ بَينَ ظَهْرَانَي النَّاسِ المَسِيحَ الدَّجَّالَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ أَلَا إِنَّ المَسيحَ الدَّجَّالَ أَعْوَرُ العَيْنِ اليُمنى كَانَ عَيْنَهُ عِنبَةٌ طَافِيَةٌ وَأَرَانِي اللَّيْلَةَ عِندَ الكَعْبَةِ فِي المَنَامِ فَاذَا رَجُلٌ آدَمُ كَأَحْسَنِ مَاتَرَى مِنْ الرِّجَالِ تَضْرِبُ لِمَّتَهُ بَيْنَ مَنْكِبَيْهِ رَجلُ الشَّعرِ يَقْطَرُ رَاسُهُ مَاءً وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَى رَجُلَيْنِ وَهُوَ يَطُوقُ بالبيت فقلتُ من هذا فقالوا المَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ثمَّ رَأَيْتُ رَجُلًا وَرَاءَهُ جَعْدًا قَطَطًا أَغْوَرَ عَيْنِ اليُمْنَى كَاشْبَهِ مَنْ رَأَيْتُ بابنِ قَطَنِ وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَى مَنْكِبَى رَجُلٍ يَطُوفُ بالبَيْتِ فقلتُ مَنْ هذا فقالوا المَسِيحُ الدَّجَّالُ تَابَعَهُ عُبَيْدُ اللهِ عن نافع.ترجمہ | حضرت عبداللہ بن عمر نے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کے درمیان دجال کا ذکر کیا اور فرمایا کہ اس میں کوئی شبہ نہیںکہ اللہ تعالی کا نا نہیں ہے اور مسیح دجال داہنی آنکھ کا کانا ہے (اسلئے اس کا خدائی کا دعوی بداہت غلط ہوگا ) اسکی آنکھ پھولے ہوئے انگور کی طرح ہوگی، اور میں نے رات خواب میں کعبہ کے پاس ایک گندمی رنگ کے آدمی کو دیکھا گندمی رنگ کے آدمیوں میں شکل وصورت کے اعتبار سے سب سے زیادہ حسین جسکے زلف کاندھوں تک سیدھے بال تھے اسکے سر سے پانی ٹھیک رہا تھا وہ اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے شانوں پر رکھے ہوئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ تو لوگوں نے بتایا کہ یہ سیح بن مریم (عیسی علیہ السلام ہیں) پھر ان کے پیچھے میں نے ایک اور حص کو دیکھا سخت گھونگھریالے بال واپنی آنکھ کا کانا جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ابن قطن کے بہت مشابہ وہ اپنے دونوں نصر الباری جلد ہفتم
60 نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علی 2.امام بخاری نے کتاب التفسير سورة المائدہ میں آل عمران کی آیت 56 يَا عِیسَی إِنِّی مُتَوَفِّيكَ کہ اے عیسی میں تجھے وفات دینے والا ہوں، میں ( حضرت عیسی سے طبعی موت کے اس وعدہ ) کے معنی حضرت ابن عباس سے موت بیان کیے ہیں تا کہ المائدہ کی آیت 118 فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي میں یہ وعدہ بصورت وفات پورا ہونے پر دلیل ہو.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر : 12 نَصْرٌ مِّنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ نظم الباري شرح اُردو صَحِيح البخاري مولفه حضرت العلامة مولانا محمد عتمان نفتح والا شيخ الحديث مظاهر العلوم وقف ستار نيور شاگر در شید شیخ الاسلام حضرت مَوْلَانَا مير حسين الحديد في عيد الهلالي جلد ہم دپاره : ۱۸ - ۲۰ باب : ۲۲۲۰ - ۲۲۲۵ حدیث: ۴۱۴۷-۴۹۴۳ ناشر كتاب التفسير مكتبة الشيخ ۴۴۵/۳، بہادر آباد، کراچی نمبر ۵.فون: 34935493-021
نصر الباري بیع کی تعلیل ہوگی.61 عکس حوالہ نمبر : 12 نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علی كتاب التفسير وقال ابن عباس متوفيك ممتل اشارہ ہے آیت کریمه اذ قال الله يا عيسى اني متوفيك ورافعك الى.(سوره آل عمران ) اور ابن عباس نے فرمایا ہے کہ متوفیک کے معنی ہیں مینک یعنی میں کچھ کو مار ڈالنے والا ہوں ، یہ لفظ تونیک اس سورہ یعنی سورہ کا مکہ میں نہیں ہے اس لئے شارح بخاری علامہ عینی اور اس مقام پر ناراضنگی و نلگی ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ بے محل ہے.لیکن امام بخاری روتے اس کو سورہ مائدہ میں اس مناسبت سے لایا ہے کہ اس سورہ میں سے فلما تو فسقيتني كنت انت الرقيب عليهم ، ظاہر ہے کہ دونوں کا مادہ ایک ہے اس لئے اس کی تفسیر سیر یہاں بیان کردی ہے.حمد ثنا موسى بن اسمعيل قال حدثنا إبراهيم بن سعد عن صالح بن كيسان عن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب قال البحيرة التي يُمنع درها للطواغيت فلا يحلبها احد من الناس، والسائبة التي كانوا يستبونها لا يهتهم لا يحمل عليها شئ قال وقال ابو هريرة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيت عمرو بن عامر الخزاعي قصبه في النار كان أول من سيب السوائب، والوصيلة الناقة البكر تبكر فى اول نتاج الابل ثم تثني بعد بانثى وكانوا ليسلبونها لطواغيتهم إن وصلت احداتهم بالأخرى ليس بينهما ذكر والحام فحل الابل يضرب الخيرات المحدود فاذا قضى ضرابه ودعوه للطاغيت واعفوه من الحمل فلم يحمل عليه فى وسموه الحام وقال لى ابو اليمان اخبرنا شعيب عن الزهري قال سمعت سعيد : قال يخبره بهذا قال وقال ابو هر مرة سمعت النبي صلى الله عليه وسلم نحوه ورواه ابن الهاد عن ابن شهاب عن سعيد عن ابي هريرة سمعت النبي صلى الله عليه وسلم ترجم له حضرت سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ بحیرہ وہ اونٹنی ہے جس کا دودھ بنوں کے نام پر روک لیا جائے (یعنی بتوں کے لئے وقف کر دیا جائے) پھر اس کا دودھ کوئی شخص نہ در ہے.اور سائبہ وہ جانور ہے جس کو وہ اپنے بتوں کے نام پر آنا چھوڑ دیتے ہیں اور اس پر کوئی چیز لادی نہیں جاتی رنہ کوئی سواری کی جاتی ریعنی سانڈ ، قال وقال ان سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ ابو ہریرہ رضہ نے بیان کیا کہ جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ دوزخ میں اپنی آنتوں کو گھسیٹ رہا تھا، اس نے سے پہلے سائبہ (سانڈ چھوڑنے کی رسم نکالی تھی، اور وصیلہ وہ نوجوان اونٹنی تھی جو پہلے پہل اونٹنی زیادہ بچہ جنتی پھر دوسری مرتبہ بھی اونٹنی ہی جنتی ریعنی نراونٹ نہیں جنتی ، ایسی اونٹنی کو بھی وہ بہتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے، اگر وہ لگاتار دو بار اونٹنیاں جنتی تو ان دونوں اداروں کے درمیان کوئی کر یہ نہ ہوتا ، اور عام (حامی، وہ نراونٹ تھا جو مادہ پر شمار کی ہوئی بستیں کرتا ر جفتی کرتا، پھر جب اپنی مقررہ تعداد پوری کر لیتار اس کے نطفے سے دس بچے پیدا ہو جاتے) تو اس کو بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے
62 نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علی 3.پھر امام بخاری نے اپنی کتاب التفسیر میں مسیح ابن مریم کی وفات کے بارہ میں ان کے اپنی موت کے اقرار پر مشتمل آیت قرآنى فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِم ( المائدہ:118) پیش کی.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر :13 نَصْرٌ مِّنَ اللَّهِ وَفَحْ قَرِيبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ نظم الباري شرح اردو صحيح البخاري الله حضرت العلامة مولانا محمد عثمان فتح ال شیخ الحدیث مظاهر العلوم وقف سہارنپور شاگر در شید شیخ الاس الا حضرت مولانا امیر حسین احمد مران الله کی جلد بہت کم کی پاره: ۱-۱۵ که در باب : ۱۷۴۴۲-۲۱۷۸ پاره: ۱۱- ۱۵ باب : ۱۷۲۴-۲۱۶۸ کی حدیث: ۲۶۰۲-۳۶۸۳ كتاب الجهاد، كتاب بدء الخلق كتاب الانبياء عليهم السلام، كتاب المناقب • مكتبة الشيخ ۳/ ۴۲۵، بہادر آباد، کراچی نمبر ۵.فون: 34935493-021
۵۳۲ 63 عکس حوالہ نمبر:13 نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علی کتاب الانبیا (۲۰۵۰) باب: حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کے اترنے کا بیان حدیث: (۳۲۱۷) عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تُحْشَرُونَ حُفَاةٌ غُرَاةً عُزلاً ثمَّ قَرَأَ كَمَا بَدَانَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ فَاوَّلُ مَنْ يُكْسَى إبْرَاهِيمُ ثمَّ يُؤخَذُ بِرِجالٍ مِنْ أَصْحَابِي ذَاتَ اليَمِينِ وَذَاتَ الشِّمَالِ فَاقُولُ أَصْحَابِي فيُقالُ الهُم لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُندَ فَارَقْتَهُمْ قَالُولُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَادُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْ شَهِيدٌ إِنْ تُعَذِّبُهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرُ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ العَزِيزُ الْحَكِيمُ ذُكِرَ عن أبي عبدِ اللَّهِ عَن قَبِيْصَةَ قَالَ هُمُ الْمُرْتَدُونَ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلَى عَهْدِ أَبِي بَكْرٍ فَقَاتَلَهُمْ أَبُو بَكْرٍ ) ترجمہ حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ (قیامت کے دن قبروں سے ) ننگے پاؤں، نگے بدن اور بغیر ختنہ کے اٹھائے جاؤ گے پھر آپ ﷺ نے (سورہ انبیار کی ) یہ آیت تلاوت کی "كما بدان" الآیہ جیسے ہم نے پہلی بار پیدا کیا ویسے ہی ہم دوبارہ بھی پیدا کریں گے یہ ہمارا وعدہ ہے جو ضرور ہم پورا کریں گے اور سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے (پھر اور پیغمبروں کو ) پھر میرے اصحاب میں سے کچھ تو داہنی (جنت کی) طرف لیجائے جائیں گے اور بعضوں کو بائیں (دوزخ کی) طرف تو میں کہوں گا (ہائے ہائے ان کو دوزخ کی طرف کیوں لیجاتے ہو؟) یہ تو میرے اصحاب ہیں تو مجھے بتایا جائے گا ( فرشتے کہیں گے آپ کو معلوم نہیں ) جب سے آپ نے ان کو چھوڑا اس وقت انہوں نے ارتداد اختیار کر لیا، میں اس وقت وہی کہوں گا جو عبد صالح عیسی بن مریم علیہا السلام نے کہا کہ میں جب تک ان میں رہا ان کی نگرانی کرتا رہا پھر جب تو نے مجھے کو اٹھا لیا تو آپ ہی اس کے نگہبان تھے اور آپ ہر چیز کے نگہبان ہیں ارشاد العزیز الحکیم تک.محمد بن یوسف فریری نے کہا ابوعبداللہ یعنی امام بخاری نے قبیصہ (اپنے شیخ) سے نقل کیا کہ مرتدین سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت ابو بکر کے عہد خلافت میں ارتداد اختیار کیا تھا اور ابو بکر نے ان سے جہاد کیا مطابقة للترجمة مطابقة الحديث للترجمة في قوله "عيسى بن مريم".تعدد موضعه و الحديث هناس ۴۹۰ ، وهو الحديث ص ۴۷۳ ، وياتی ص ۶۶۵ ، ص ۱۹۳ ، ص ۹۶۶ - ۲۰۵۰ در باب نُزُولِ عِيسَى بنِ مَرْيَمَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حضرت عیسی بن مریم علیہما السلام کے ( آسمان سے اترنے کا بیان ۳۲۱۷ و حَدَّتَنَا إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبِي عَن صَالِح عن ابن شهاب جلد السلام بغیر الباری نوٹ: یہاں مترجم نے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی کا ترجمہ اپنے عقیدہ کے مطابق اٹھالیا کیا جو انصاف کا خون ہے اور تحریف کے زمرہ میں آتا ہے.یہ ترجمہ اس لئے خلاف واقعہ ہے کہ رسول اللہ علیہ کے بارہ میں بھی یہی جملہ آیا ہے اور آپ اپنی مسلمہ وفات کے بعد خدا تعالیٰ کے حضور یہ کیسے عرض کر سکتے ہیں کہ ” جب تو نے مجھے اٹھا لیا.“
64 نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علی -4 حسب فیصلہ قرآنی وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (الانبياء: 96) فوت شده واپس نہیں آتے ، امام بخاری مثیل مسیح ابن مریم کے امت محمدیہ میں سے امام ہو کر آنے کی حدیث لائے ہیں.ملاحظہ ہو :.عکس حوالہ نمبر : 14 arr ار کتاب الانبار / باب : حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کے اترنے کا بیان / حدیث : (۳۲۱۸) ان سَعِيدَ بنَ المُسَيْبِ سَمِعَ آبَاهُرَيْرَةَ قَالَ قالَ رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوهِكُنَّ أَنْ يَنزِلَ فِيْكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلاً فَيَكْسِرُ ويقتل الخنزير ويَضَعُ الحَرْبَ وَيُقِيضُ المال حتى لا يقبله أحد حتى تكون السجدة الوَاحِدَةُ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ثم يقولُ ابُو هُرَيْرَةَ وَاقْرَوا إِنْ شِبْتُمْ وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبلَ مَوْتِهِ وَيَومَ القِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا.ترجمہ حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسی بن مریم علیہا السلام تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نزول فرمائیں گے اور صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر (سور) کو مارڈالیں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گے (اسلام قبول کرو ورنہ بل) اس وقت مال کھیل پڑے گا (یعنی مال و دولت کی اتنی کثرت ہوگی ) کہ کوئی لینے والا نہیں ملے گا اور ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا پھر ابو ہریرہ ( اس روایت کو بیان کر کے ) کہتے تھے اگر تم چاہو تو ( سورہ نسار کی ) یہ آیت پڑھو "وان من اهل الكتاب" الآیہ اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہوگا جو عیسی علیہ السلام کی وفات سے پہلے ایمان نہ لائے.یا یہ مطلب ہے کہ کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہوگا جو مرنے سے پہلے حضرت عیسی پر ایمان نہ لائے، اور قیامت کے دن میستی ان پر گواہی دیں گے.مطابقته للترجمة مطابقة الحديث للترجمة ظاهرة.تعد موضع و الحديث هنا ص ٣٩٠، ومرّ الحديث ص ۲۹۶ ، دس ۳۳۶، مسلم اول من ۸۷ اس آیت سے معلوم ہوا کہ بیٹی آسمان پر زندہ موجود ہیں کیونکہ آیت کریمہ ہے: "وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الكِتابِ إِلَّا تشریح ليؤمنن به قبل موته" یعنی یہود و نصاری عیسی علیہ السلام کی وفات سے پہلے ٹیسٹی پر ایمان لا ئینگے ان.مفصل تشریح مع اشکال و جواب کیلئے مطالعہ کیجئے نصر اسم ص ۷۹.۳۲۱۸ و حَدَّثَنَا ابْنُ بُكَيْرٍ حَقَنَا اللَّيْثُ عن يُونُسَ عن ابن شهاب عن نافع مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ قالَ رسولُ الله صلى الله عليه وسلم كَيْفَ أَنتُمْ إِذَا نَزَلَ ابنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ تَابَعَهُ عُقَيْلٌ وَالْأَوْزَاعِى.ترجمہ حضرت ابو ہریرہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا جب مریم کے بیٹے (حضرت عیسی علیہ السلام) تم میں اتریں گے اور تمہارا امام تم ہی سے (یعنی تمہاری قوم میں سے ) ہوگا.اس حدیث کی متابعت عقیل اور اوزاعی نے بھی کی.مطابقته للترجمة | مطابقة الحديث للترجمة ظاهرة.تعد موضعه و الحديث هنا ص ۴۹۰ مسلم کتاب الایمان ص ۸۷ نهر الباري
65 نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علیہ بخاری کی روایت اِمَامُكُمْ مِنْكُمُ کی مزید تشریح مسلم کی روایت اَمَّكُمُ مِنكُمُ سے ہوتی ہے کہ امت میں آنیوالا مسیح موعود ہی امامت کروائے گا نہ کہ کوئی اور.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر : 15 صحیح مُسلم ابوالحسين مسلم بن الحجاج القشيري النيسابورى (۲۰٤ھ.۲۶۱ھ) اردو تر جمہ کے ساتھ جلداول نور فاؤنڈیشن
صحیح مسلم جلد اول 99 66 عکس حوالہ نمبر : 15 149 کرے گا.نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علی کتاب الایمان وَلَتَذْهَبَنَّ الشَّحْنَاءُ وَالتَبَاغُضُ وَالتَّحَاسُدُ اور وہ مال کی طرف بلائے گا مگر کوئی اس کو قبول نہیں وَلَيَدْعُوَنَّ إِلَى الْمَالِ فَلَا يَقْبَلُهُ أَحَدٌ 214...حَدَّلَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى :214: حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ہے أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنِ ابْنِ نے فرمایا: تمہارا کیا حال ہوگا جب ابنِ مریم تم میں شهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ نازل ہو گا اور تمہارا امام تم میں سے ہو گا.الْأَنْصَارِيِّ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فِيكُمْ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ 215 {...} و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِم 215 حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ملے حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي نے فرمایا: تمہارا کیا حال ہوگا جب ابن مریم تم میں ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَمِّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ نازل ہو گا اور وہ تمہاری امامت کرے گا.مَوْلَى أَبي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْيَمَ فيكُمْ وَأَمَّكُمْ 216 {...} و حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرب 216 حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِم حَدَّثَنَا ابْنُ أَبي ﷺ نے فرمایا: تمہارا کیا حال ہو گا جب ابنِ مریم تم ذِنْبِ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى أَبِي میں نازل ہوگا اور تمہاری امامت تم میں سے ہوتے قَتَادَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ الله صلی ہوئے کرے گا.میں نے ابن ابی ذئب سے کہا کہ اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ اوزاعی نے زہری سے، انہوں نے نافع سے، انہوں فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ فَأَمَّكُمْ مِنْكُمْ فَقُلْتُ لِابْنِ نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ وَ اِمَامُكُمْ أَبِي ذَنْبِ إِنَّ الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنَا عَنِ الزُّهْرِيِّ مِنْكُمْ تو ابن ابی ذئب نے کہا تمہیں پتہ ہے کہ عَنْ نَافِعٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَإِمَامُكُمْ مِنْكُمْ أَمَّكُمْ مِنْكُمُ کا کیا مطلب ہے؟ میں نے کہا آپ صحیح مسلم جلد اول قَالَ ابْنُ ابي 150 كتاب الايمان ذئب تَدْرِي مَا أَمَّكُمْ مِنْكُمْ قُلْتُ مجھے بتا دیں.انہوں نے کہا : وہ تمہارے رب تبارک تخبرُنِي قَالَ فَأَمَّكُمْ بِكِتَابِ رَبِّكُمْ تَبَارَكَ وتعالٰی کی کتاب اور تمہارے نبی علیہ سنت کے وَتَعَالَى وَسُنَّةِ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مطابق امامت کریں گے.
67 نزول مسیح اور ارشادات نبویہ عامر مسیح و مہدی ایک ہی وجود کے دو نام احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آخری زمانہ میں جس مسیح و مہدی کے نزول کی پیشگوئی آنحضرت نے فرمائی اس سے مراد ایک ہی وجود ہے، مسیح اور مہدی اس کے دوصفاتی نام ہیں.امام ابن ماجہ نے اپنی کتاب سنن ابن ماجہ میں یہ حدیث بیان کی ہے جس میں ارشاد نبوی ہے کہ عیسی ابن مریم کے سوا کوئی مہدی نہیں.ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 16 بسنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدة الزمان جلد سوم صفحه 459-458 متر جم علامہ وحید الزماں اس حدیث پرفنی لحاظ سے جو اعتراض پیدا ہوتے ہیں ان سب کا جواب خود مترجم کتاب علامہ وحید الزمان صاحب نے حاشیہ صفحہ 48 پر دیا ہے.ایک بڑا اعتراض اس حدیث کے ایک راوی محمد بن خالد کو مجہول قرار دینا ہے، جس کا جواب یہ ہے کہ علامہ ابن معین نے انہیں ثقہ راوی قرار دے کر ان کے مجہول ہونے کا اعتراض رد کر دیا.اسی حاشیہ میں دیگر بعض اعتراضات کا جواب علامہ ابن کثیر کی طرف سے صفحہ 49 پر پیش ہے جس کے مطابق انہوں نے اس حدیث کو مشہور، راوی خالد جندی کو جند کا موذن اور امام شافعی کا استاد قرار دے کر یہ روایت قبول کی.اور بحوالہ مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه از علامه ابو العباس شهاب الدین احمد بن ابی بکر (متوفی: 840 ھ ) یہ حدیث قبول کرتے ہوئے اس کی یہ تطبیق کی ہے کہ عیسی ہی مہدی کامل ہیں.(حوالہ نمبر 16)
68 عکس حوالہ نمبر : 16 وما انعم الرسو سين ابن ماجد شرف ۴۳۴۱ احادیث نبوی بیدی کا مستنداد گران به مجموعه جس کو امام ابو عبد الله محمدان یزید ابن ماجه قزوینی روالله تعالی کے پانچ لاکھ احادیث کیوں بیوی کے مجموعہ سرمنتخب فرمایا تھا رحته سوم ترجمه و فوائد حضرت علامہ وحید الزمان را ناشر اسلامی اکادمی اُردو بازار، لائبو- پاکستان نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علی
سفن این ماجه استطعمم 69 عکس حوالہ نمبر: 16 ۲۵۸ مر جاؤ دیکھے صل الله نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علی كتاب الفتن انس بن مالک سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ محمد بن ادريس الشافعي ، حدثني محمد علیہ وسلم نے فرمایا روز بروز سختی زیادہ ہوتی بھا ریگی ان خالد العبدِي مَنْ آبانِ بنِ صَالِحٍ ، مَن اور روٹی کمانا لوگوں پر دشوار ہوگا یہ قیامت کے احسن ان انس بن مالك أَن رَسُول قرب کا حال ہے) اور دنیا میں ادبار پڑھتا جا وینگا الله صلى الله عليه وسلم قال لا يزداد الأمور یعنی مصیبت اور منلی اور محتاجی نکبت اور خواری ) اور الاسدة - وَلَا الدُّنْيَا إِلَّا ادْبَارًا وَلَا النَّاسُ لوگوں میں خیلی زیادہ ہوتی جہادیگی در سید رکھ کر اپنے بھائی الأشعا، ولا تقوم الساعة إلا على شمارِ النَّاسِ مسلمان کو تجارت کیلئے نہ دیں تھے ، اور قیامت نہیں قائم ہوگی.مگر بد ترین لوگوں پر اور مہدی کوئی نہیں ہے وَرَ الْمَهْدِى الأعيسى بن مريم - سوا حضرت کیلئے بن مریم علیہ السلام کے لیے لے اس حدیث کو حاکم نے بھی مستدرک میں روایت کیا لیکن اس میں بجائے انتقال کے مثالہ ہے اور مثالہ کہتے ہیں خراب اربری کھجور کو اور اعتقال منبع بہت عقل کی مقفل دو شخص میں کی نہ برائی سے ڈر ہو نہ اس سے نفع کی امید ہو یعنی بے کار غافل شخص.نے اس حدیث کو حاکم نے بھی مستدرک میں نکالا اور کہاکہ یہ امام شافعی کے افراد میں سے ہے اور ذہبی نے میزان میں کہا یہ حدیث نکر ہے تفرد ہوا اس کے ساتھ یونس بن عبد الا علی شافی سے اور ایک روایت میں یونس سے یوں ہے کہ مجھ سے حدیث بیان کی گئی شافعی سے اس صورت میں یہ حدیث منقطع ہے اور ایک جماعت نے اس کو یونس سے یوں روایت کیا کہ مجھ سے حدیث بیان کی شافعی نے ابن اثیر کی روایت میں بھی اس طرح ہے اس صورت میں یہ حدیث متصل ہوگی مگر مسیح یہ ہے کہ یونس نے اس کو شافعی سے نہیں سنا اور اس کی استاد میں محمد بن خالد بندی ہے اندوی نے کہا وہ منکر الحدیث ہے اور حاکم اور ابن الصلاح نے امالے میں کہا وہ مجہول ہے لیکن تختہ کیا اسکو بیچنے بین معین نے اور ابان بن صالح سچا ہے لیکن اس نے حسن سے نہیں سنا اور ابن الصلاح نے اس حدیث میں ایک اور علت نکالی کہ بیہقی نے اس کو مرسل روایت کیا حسن سے ابان بن ابی عیاشی کے طریق سے اور امام مہدی کے ثبوت میں متواتر حدیثیں وارد ہیں کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کام میں سے ہوں گے اور سات سال تک حکومت کریں گے اور حضرت علی علیہ السلام انھی کے زمانہ میں اتریں گے اور صرف سی روایت اس قدر مستند در روایتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور محمد بن خالد کو گو ابن معین نے نعتہ کی مگر وہ معروف نہیں ہے اہل حدیث کے نزدیک اور ابو عبد اللہ حافظ نے کہا وہ ایک مجمول شخص ہے اور اختلاف ہے اس کے اسناد میں بعضوں نے اس کو روایت کیا جندی سے اس نے ابان بن ابی عیاش سے اس نے محسن سے مرسلا تو جدی مجہول ہے اور ا ان بن ابی عیاش متروک ہے اور حسن کی روایت مرسل ہے اور مہدی کے خروج میں بہت احادیث وارد ہیں ان کا استاد اس روایت سے زیادہ بھیجے ہے اور حافظ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں ابوالحسن علی بن محمد سے روایت کیا میں نے امام شافعی کو خواب میں دیکھا وہ کہتے تھے یونس بن عبد الاعلے نے میرے اوپر پھوٹ باند حاجندی کی حدیث میں انہوں نے حسن سے انہوں نے انس سے مہدی کی باب میں شافعی نے کہا جلد سود الله
سنن ابن ماجه 70 عکس حوالہ نمبر : 16 ۴۵۹ نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علی كتاب الفتن ۲۵- بَابٌ أَشَرَاطِ السَّاعَةِ قیامت کی نشانیوں کا بیان ر کا کام کے دور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور الرفاعى، محمد بن يَزِيدَ ، قَالاتنا الويكون روایت ہے.کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.میں ياش تا ابو حَصِينَ عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، ي هُرَيرَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ الله صلى الله قیامت اس طرح بھیجے گئے يه وسلم بِعِثْتُ آنَا وَ السَّاعَةُ ، لَهَاتَيْنِ ہیں.اور آپ نے اپنی دو انگلیوں عليه یہ میری حدیث نہیں ہے اور نہ میں نے اس کو بیان کیا اور یونس نے میرے اوپر جھوٹ باندھا اور میقی نے خطا من خطا علیٰ الشافعی میں کیا کہ یہ حدیث منکر ہے امام شافعی کی پھر احمد بن سنان سے نکالا انہوں نے کہا میں بیٹے بن معین کے پاس بیٹھا تھا اتنے میں صالح ان کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھ کو شافعی سے پہنچا کہ یہ ایک حدیث راہی ہے اور شافعی تو ہمارے نزدیک ثقہ ہیں اور اگر یہ حدیث منکر ہو تو اس کے منکر ہونے کی وجہ یہ ہوگی کہ محمد بن خالد جندی نے اس کو روایت وہ ایک شیخ مجمول ہے اور اس کی عدالت ثابت نہیں ہوئی جس سے اس کی روایت مقبول ہو اور شافی کے سوا کیسے بن السکن نے بھی اس حدیث کو روایت کیا جندی سے اسی طرح تو معلوم ہوا کہ غلطی اس میں جندی کی ہے اور یہ حدیث مشہور ہے کئی طریقوں سے مگر ان میں یہ فقرہ نہیں ہے کہ بلا ہد می الا مینے بن مریم اور حافظ ابن کثیر نے بدایہ والنہایہ میں کا کہ یہ حدیث مشہور ہے جندی کی روایت سے جو موذن تھا اور شیخ تھا شافعی کا اور اس سے کئی لوگوں نے روایت کی اور وہ مجبول نہیں ہے جیسے حاکم نے گمان کیا بلکہ ابن معین سے منقول ہے کہ وہ تفہ ہے لیکن بعضوں نے اس کو جبندی سے اس نے ابان بن عیاش سے اس نے حسن سے مرسلا نکالا اور حافظ مرمی نے نقل کیا کہ کسی نے شافعی کو خواب میں دیکھا انہوں نے اس حدیث کا انکار کیا اور کہا کہ یونس نے مجھ پر جھوٹ باندھا یہ میری حدیث نہیں ہے اور ا بن کیپر نے کہا کہ یونس نقات میں سے ہے اور صرف خواب کی وجہ سے اس پر طعن نہیں ہو سکتا اور یہ حدیث بہ ظاہر مخالف ہے ان حدیثوں کے جو صدی کے باب میں آئیں ہیں اور اگر غور کرو تو تطبیق ممکن ہے اس طرح سے کہ مہدی سے مراد مہدی کا مل ہو وہ حضرت عیسی علیہ السلام ہی ہوں گے رمصباح الزجاجہ مختصرا ) مترجم کتا ہے اگر یہ حدیث مجھے بھی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جو مہدی کی وفات کے بعد ہو گا قیامت کے قریب اور حضرت علی علیہ السلام حضرت صدمی علیہ السلام کے بہت دنوں بعد تک زندہ رہیں گے اس وقت کوئی میری نہ ہو گا بجز حضرت عیسی علیہ السلام کے اب اس میں اور صدی کے اثبات کی حدیثوں میں کوئی تخالف نہ ہا اور کیونکر ممکن ہے کہ ایک ضعیف منکر روایت سے بندی کی متعدد حدیثوں کو رد کریں اور مہدی کا ہماری امت میں کسی نے انکار نہیں کیا بجز این خلدون مورخ کے اور اس کا قول اجتماع کے خلاف اعتبار کے لائق نہیں ہے اور ابن خلدون محدث نہیں ہے صرف مورخ ہے.جلد سوئم
71 نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علی مسیح و مہدی کے ایک وجود ہونے کا مضمون امام احمد نے مسند احمد بن حنبل میں بھی بیان کیا ہے کہ:.وہ وقت قریب ہے کہ جو کوئی تم میں سے زندہ ہو وہ عیسی بن مریم کا زمانہ پائے گا جو امام مہدی اور حکم عدل ہو گا اور کسر صلیب کرے گا.ملاحظہ ہو: عکس حوالہ نمبر : 17 کردیں ہیں کونئے لو اور سے منع کریں اس باز آجائے رحمة الله منام المد بالا جلد چهارم مؤلف حضرة الامام ابن حنبل (المولى العلم) مولانا محه مظفراقبال حدیث نمبر : ۷۱۱۹ تا حدیث نمبر : ۱۰۹۹۷ M اقر امنش عرف ستريد ارد و باران لاهور 042-37224228-37355743:3
72 نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علیہ منام احمد بن جنبل بین یه مترجم عکس حوالہ نمبر: 17 ۵۶۴ مسند ابى هريرة سيله عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَفَلَسَ رَجُلٌ بِمَالِ قَوْمٍ فَرَأَى رَجُلٌ مَتَاعَهُ بِعَيْنِهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِـ من غيره ( راجع: ٨٥١٧] (۹۳۰۹) حضرت ابو ہریرہ بینہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس آدمی کو مفلس قرار دے دیا گیا ہو اور کسی شخص کو اس کے پاس بعینہ اپنا مال مل جائے تو دوسروں کی نسبت وہ اس مال کا زیادہ حقدار ہے.( ٩٣٠ ) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّلْنَا مَعْمَرٌ قَالَ أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمْسٌ مِنْ الْفِطْرَةِ الْحِمَانُ وَالاسْتِحَدَادُ وَنَتْفُ الْإِبْطِ وَتَقْلِيمُ الْأَطْفَارِ وَقَصُّ الشَّارِبِ (راجع: ۷۱۳٩).(۱۳۱۰) حضرت ابو ہریرہ ٹی لینے سے مروی ہے کہ نبی علیہ نے فرمایا پانچ چیزیں فطرت کا حصہ ہیں، ختنہ کرنا زیر ناف بال صاف کرنا بغل کے بال نوچنان ناخن کا نان مونچھیں تراشنا.( ٩٣١١ ) حَدَّلْنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ الْقُرْدُوسِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا وَالصُّومُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ يَدَعُ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ مِنْ جَرَّايَ القَوْمُ لِي وَأَنَا اجْزِى بِهِ وَلَخُلُوفُ قَمِ الصَّائِمِ عِندَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ أَطْيَبُ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ ( راجع: ٧١٩٤] (۹۳۱۱) حضرت ابو ہریر و انہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ارشاد باری تعالی ہے ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہوتا ہے لیکن روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا ، بندہ میری خاطر اپنا کھانا پینا ترک کرتا ہے لہذا روزہ میرے لیے ہوا اور میں خود ہی اس کا بدلہ دوں گا ، روزہ دار کے منہ کی بھیک اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ عمدہ ہے.( ۹۳۱۲ ) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنكُمُ أَنْ يَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إمَامًا مَهْدِيًّا وَحَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرُ الصَّليب ويقتل الخنزير ويَضَعُ الْجِزْيَةَ وَتَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا (۹۳۱۲) حضرت ابو ہریرہ ٹی اللہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ نے فرمایا تقریب تم میں حضرت عیسی علیہ ایک منصف حکمران کے طور پر نزول فرمائیں گے ، جو زندہ رہے گا وہ ان سے ملے گا ، وہ صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو مل کر دیں گے ، جزیہ کو موقوف کر دیں گے اور ان کے زمانے میں جنگ موقوف ہو جائے گی.( ۱۳۱۳ ) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ قَالَ مَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَلُ بِي [صححه مسلم (٢٢٦٦)].[انظر: ١٠.١١٣].(۱۳۱۳) حضرت ابو ہریرہ یا اللہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ لی عوام نے ارشاد فرمایا جسے خواب میں میری زیارت نصیب ہو جائے ، اسے یقین کر لینا چاہئے کہ اس نے میری ہی زیارت کی ہے کیونکہ شیطان میری شکل و صورت اختیار کرنے کی طاقت نوٹ: یہاں مترجم نے امام مھدیا کا کوئی ترجمہ نہیں کیا جونا دانستہ ہے تو سہو اور عمداً ہے تو خیانت ہے.جبکہ اسی کتاب کے صفحہ 177 پر مہدی کا ترجمہ حضرت مہدی ہی کیا ہے.یہاں بھی ترجمہ ہوگا حضرت عیسی امام مہدی ہو کر آئیں گے.“
73 نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علی مسند احمد کی ایک اور روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ”جو کوئی تم میں سے عیسی ابن مریم علیہ السلام کا زمانہ پائے وہ ان کو میر اسلام پہنچائے.ملاحظہ ہو : عکس حوالہ نمبر: 18 مسندامام احمد بن فیل بره مترجم ۲۲۸ مسند أبي هريرة سنة رضى الله هُرَيْرَةَ قَالَ كُنتُ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ حِينَ بَعَتَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ مَكَةَ بِرَانَّةٌ فَقَالَ مَا كُنتُمْ تُنَادُونَ قَالَ كُنَّا نَادِى أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مُؤْمِنْ وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَإِنَّ أَجَلَهُ أَوْ آمَدَهُ إِلَى أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِذَا مَضَتْ الْأَرْبَعَةُ الْأَشْهُرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بَرِى مِنْ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ وَلَا يَحُجُ هَذَا الْبَيْتَ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكْ قَالَ فَكُنْتُ أَنَادِى حَتَّى صَحِل صَوْلِي (۷۹۷۴) حضرت ابو ہریرہ میں اللہ سے مروی ہے کہ جس وقت نبی علی نے حضرت علی دی ان کو اہل مکہ کی طرف براوت کا پیغام دے کر بھیجا تھا، میں ابدی کے ساتھ ہی تھا، کسی نے پوچھا کہ آپ لوگ کیا اعلان کر رہے تھے ؟ انہوں نے بتایا کہ ہم لوگ یہ منادی کر رہے تھے کہ جنت میں صرف وہی شخص داخل ہو گا جو مؤمن ہو، آج کے بعد بیت اللہ کا طواف کوئی شخص بر ہنہ ہو کر نہیں کر سکتے گا، جس شخص کا نبی علیہ کے ساتھ کوئی معاہدہ ہو، اس کی مدت چار مہینے مقرر کی جاتی ہے، چار مہینے گزرنے کے بعد اللہ اور اس کے رسول مشرکین سے بری ہوں گے ، اور اس سال کے بعد کوئی مشرک حج بیت اللہ نہیں کر سکے گا، یہ اعلان کرتے کرتے میری آواز بیٹھ گئی تھی.( ٧٩٦٥) حَلَلْنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ إِنِّي لَأَرْجُو إِنْ طَالَتْ بِي حَيَاةٌ أَنْ أُدْرِكَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنْ عَجِلَ بِي مَوْتُ فَمَنْ أَدْرَكَهُ مِنكُمْ فَلْيَقْرِنُهُ مِنِّي السَّلَامَ ( راجع: ٧٩٥٧).(۷۹۶۵ ) حضرت ابو ہریرہ یا اللہ سے مروی ہے کہ امید ہے کہ اگر میری عمر طویل ہوئی تو میری ملاقات حضرت عیسی علیہ سے ہو جائے گی لیکن اگر میری رخصت کا پیغام پہلے آ جائے تو تم میں سے جن کی بھی ان کے ساتھ ملاقات ہو، وہ انہیں میر اسلام پہنچا دے.( ١٩٦٦) حَدَّتَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ خَطَبَ رَجُلٌ امْرَأَةٌ يَعْنِي مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْظُرُ إِلَيْهَا فَإِنَّ فِي أَعْيُنِ الْأَنْصَارِ شَيْئًا (راجع: ۷۸۲۹) (۷۹۶۶) حضرت ابو ہریرہ ٹینہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے انصار کی ایک عورت کے پاس پیغام نکاح بھیجا، نبی مہینہ نے مرد نے فرمایا کہ اسے ایک نظر دیکھ لو، کیونکہ انصار کی آنکھوں میں کچھ عیب ( ٧٩٦٧) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّلْنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوشِكُ أَنْ تَضْرِبُوا وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً أَنْ يَضْرِبَ النَّاسُ اكْبَادَ الْإِبِلِ يَطْلُبُونَ الْعِلْمَ لَا يَجِدُونَ عَالِمًا أَعْلَمُ مِنْ عَالِمِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَقَالَ قَوْم هُوَ الْعُمَرِى قَالَ فَقَدَّمُوا مَالِكًا صححه ابن حبان (٣٧٣٦)، والحاكم (٩٠/١) حسنه الترمذى وقال الذهبي تظيف الاسناد غريب المتن.قال الألباني: ضعيف (الترمذي: ٢٦٨٠)].(۷۹۶۷) حضرت ابو ہریرہ کی خانہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ نے فرمایا وہ زمانہ قریب ہے کہ جب لوگ و درور از ہے حصول علم کے
74 نزول مسیح اور ارشادات نبویہ عار شہادت حضرت خواجہ غلام فرید صاحب کہ عیسی اور مہدی ایک ہی شخص ہے: سرائیکی علاقہ کے ایک نڈر، حق گو مرد با صفا و ولی اللہ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب آف چاچڑاں شریف ضلع بہاولپور (متوفی: 1901ء ) حضرت بانی جماعت احمدیہ کے مصدق تھے.ان کے مرید پنجاب اور سندھ میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں.انہوں نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کی پاکیزہ سیرت وکردار اور دینی کارناموں کی تائیدی شہادات کے ساتھ آپ کی تصدیق فرمائی.( انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 344 ایڈیشن 2008) 1891ء میں جب مولوی محمد حسین بٹالوی اور دیگر علمائے ہند حضرت بانی جماعت احمدیہ کے خلاف فتویٰ کفر پر حضرت خواجہ صاحب سے دستخط کروانے گئے تو آپ نے فتوی تکفیر پر اتفاق نہیں فرمایا.پھر حضرت بانی جماعت احمدیہ کی شرطی پیشگوئی کے مطابق جب 27 جولائی 1896ء کو پادری عبد اللہ آتھم کی وفات ہوئی اور آپ نے 58 مولوی صاحبان اور 46 سجادہ نشینوں کو بذریعہ رجسٹری دعوت مباہلہ دیتے ہوئے انہیں اپنا ایک عربی رسالہ بھجوایا.حضرت خواجہ غلام فرید صاحب کا نام سجادہ نشینوں میں چوتھے نمبر پر درج تھا.اس کے جواب میں حضرت خواجہ صاحب نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کی صالحیت کی گواہی دی اور آپ سے خط و کتابت میں محبت واحترام کا رشتہ قائم رکھا.( انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 322 تا324 ایڈیشن 2008) مزید برآں حضرت بانی جماعت احمدیہ کے دعوی مثیل عیسی اور امام مہدی کی تصدیق کرتے ہوئے حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا: "اگر انہوں نے مہدی اور عیسی ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ بھی جائز بات ہے.“ ( اشارات فریدی مقبوس نمبر 83 صفحہ 179) اشارات فریدی کی فارسی عبارت کا ترجمہ پیش خدمت ہے:.اسی اثناء میں حافظ مگوں سکنہ حدود گڑھی بختیار خان نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے متعلق نا مناسب اور ناروا باتیں کہنی شروع کیں اس وقت حضرت خواجہ صاحب ابقاء اللہ تعالیٰ ببقائہ کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ نے
75 نزول مسیح اور ارشادات نبویہ عار اس حافظ کو تنبیہ کی اور اسے ڈانٹا اس حافظ نے عرض کی قبلہ! جب کہ مرزا صاحب میں حضرت عیسی بن مریم کے حالات اور صفات اور مہدی موعود کے اوصاف نہیں پائے جاتے تو ہم کس طرح اعتبار کر لیں کہ وہ عیسی اور مہدی ہیں.حضور خواجہ صاحب ابقاه الله ببقائہ نے فرمایا کہ مہدی کے اوصاف پوشیدہ اور چھپے ہوئے ہیں وہ اوصاف ایسے نہیں جیسے لوگوں کے دلوں میں بیٹھے ہوئے ہیں پس کیا تعجب ہے کہ یہی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مہدی ہوں.جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ بارہ دجال ہیں.پس اسی قدر مہدی ہیں اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ عیسی اور مہدی ایک ہی شخص ہے.اس کے بعد فرمایا کہ یہ کوئی شرط نہیں ہے.کہ مہدی کی تمام علامات جو کہ لوگوں کے دلوں میں ان کے اپنے خیال اور فہم کے مطابق بیٹھی ہوئی ہیں ظاہر ہو جائیں.بلکہ اے حافظ ! بات دوسری طرح ہے اگر اسی طرح ہوتا جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہیں تو تمام دنیا مہدی برحق کو جان لیتی اور اس پر ایمان لے آتی.جیسا کہ پیغمبر ہیں کہ ہر نبی کی امت کئی گروہ ہوگئی بعض پر اس پیغمبر کا حال ظاہر ہی نہ ہوا.اس وجہ سے اس گروہ نے انکار کر دیا اور کافر ہو گیا.اگر ہر نبی کی امت پر اپنے وقت کے نبی کا حال منکشف ہو جاتا تو تمام مسلمان ہو جاتے جیسا کہ آنحضرت ﷺ ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے اوصاف و علامات کتب سماویہ میں لکھے صلى الله نے ہوئے تھے اور جب آنحضرت یہ ظاہر ہوئے اور مبعوث ہو گئے تو انہوں نے بعض علامات کو اپنی سمجھ اور فہم اور خیال کے مطابق نہ پایا پس جن لوگوں پر آنحضرت کا معاملہ ظاہر ہو گیا تو وہ ایمان لے آئے جس گروہ پر آپ کا حال نہ کھلا انہوں نے انکار کر دیا.اسی طرح مہدی کا حال ہے.پس اگر مرزا صاحب مہدی ہوں تو کونسی بات مانع ہے.“ ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 19 : اشارات فریدی فارسی مقبوس نمبر 56 صفحہ 123-124
76 عکس حوالہ نمبر : 19 حوموجود و مشهود ذلك الكتاب لا ريب فيه نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علی ار باپ شریعت و طریقت را همراه برایت و اصحاب معرفت و حقیقت را نوید سعادت یاد که دراین زمان فهمین اقتران کتاب مستطاب الب الالباب احادیث و قرآن گلشن از باند و در بنگا فری اسرار توحیدی سمی بتائیس المجالس المعروف به اشلان ریدی از عفوظات تقلب دار طوت روزگار سلطان العارفین خلیفة اسم السموات والارضین مرکن ذلك الولاميته والعرفان المتصرف في الاكوان روح المعرفت قلب الحقيقة نور لفض وجود رکت ذات مقدس حضور اقدس قبایل توحیدحضرت خواجه امیر رضی است عالی من که جمع کرده بنده رکن الدین پر بار سنگی ثبته اله تعالی علی الصدق والیقین است بفرمان بدایت بینیان سندان امین حبته الواصلین قطب الموحدین شیخ ان اسلام مصوب آبی مورد انوارنا مناسی عشقت واجه می ریش ایجاد این دام قیفه واسع الس الناس بطول با این توجه افتا الملك فخر الا مراء بہادر میر گوناد پیرزنگ سلمه دربه
77 عکس حوالہ نمبر :19 ۱۲۳ التقاه الله تعالى بقائه به نهایت متوجه و خورسند گردیده میرا حرف بحرف و لفظ بلفظ سماع فرمودند و در بعض بعض جا اصلاح نیز نمودند چنانچه در بعضی مقامات که بیاض نکند و بود و آنجا را انگنده بودم بعبارت مور نمودن الحمد ته علی ذلک مقبوس پنجاه و ششم بعداز نمازظهر روز شنبه در جاه بتاریخ بیست و هفتم از ماه رمضان شریف المبارک سال سیزده صد و چهاردهم هجری المقدس دولت پاے بوس وزیارت حضرت اقدس کہ عباد تے وسعاد تے بہتر ازین نیست میسر گردی اندین انار حافظ گمون سکنه حد و دگری اختیار خان نسبت مرزا غلام احمد مصاب رمانی منقط و ناسزا گفتن آغاز کرد همیکه چهره انور حضور خواجہ ابقاه السد تعالی مبقائه متغیر گردید و بران حافظ بانگ زدند در جر نمودند و سے عرض کرد که قبله چون حالت وصفات حضرت عیسی بن مریم علیه سلام و ا و صاف مهدی موعود در مرزا صاحب یافته نمیشوند چگونه اعتبار کنیم که دست علینی و مهدی حضور خواجه ابقاه است تعالی فرمودند که واصان بتادی پوشیده و پنهان بستند آنچنان نیستند که در ولهای مردم نشسته است چه عجب گرامین مرزا صا حب غلام احمد قادیانی مهدی باشد چه در حدیث شریف آمده که در ازده و جال اند پس چندان مهدی اند و در حدیثی دار دشده است که میسی و مهدی یکی است بعد ازان فرمودند که شرط نیست که همه علامات مهدی موافق خیال و فهم مردم که در دامهای خود پنداشته اندظاہر شوند که حافظا امر دیگری است اگر چنین بودی که مردم خیال میکنن پس او را همه خلق مهدی برحق دانسته با دایمان آوردن چنانکه پیغمبران که اسمت برنجی چیند گرده شد سے بر بعضے کسان که حال آن غیر مکشوف شد پس آنها ایمان سے آوردند و بر بعضنے کسان حال آن منجیب میشتیه می شد و بر بعضے کسان ہر گز حال آن پیغمبر مکشوف نہ می گشت از این سبب همین گرده انکار نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علی ترجمہ: اسی اثناء میں حافظ مگوں سکنہ حدود گڑھی بختیار خان نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے متعلق نا مناسب اور ناروا باتیں کہنی شروع کیں اس وقت حضرت خواجہ صاحب ابقاه اللہ تعالیٰ ببقائہ کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ نے اس حافظ کو تنبیہ کی اور اسے ڈانٹا اس حافظ نے عرض کی قبلہ! جب کہ مرزا صاحب میں حضرت عیسی بن مریم کے حالات اور صفات اور مہدی موعود کے اوصاف نہیں پائے جاتے تو ہم کس طرح اعتبار کر لیں کہ وہ عیسی اور مہدی ہیں.حضور خواجہ صاحب ابقاه الله ببقائه نے فرمایا کہ مہدی کے اوصاف پوشیدہ اور چھپے ہوئے ہیں وہ اوصاف ایسے نہیں جیسے لوگوں کے دلوں میں بیٹھے ہوئے ہیں پس کیا تعجب ہے کہ یہی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مہدی ہوں.جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ بارہ دجال ہیں.پس اسی قدر مہدی ہیں اور ایک حدیث میں آیا ہے کہ عیسی اور مہدی ایک ہی شخص ہے.اس کے بعد فرمایا کہ یہ کوئی شرط نہیں ہے.کہ مہدی کی تمام علامات جو کہ لوگوں کے دلوں میں ان کے اپنے خیال اور فہم کے مطابق بیٹھی ہوئی ہیں ظاہر ہو جائیں.بلکہ اے حافظ ! بات دوسری طرح ہے اگر اسی طرح ہوتا جیسا کہ لوگ خیال کرتے ہیں تو تمام دنیا مہدی برحق کو جان لیتی اور اس پر ایمان لے آتی.جیسا کہ پیغمبر ہیں کہ ہر نبی کی امت کئی گروہ ہو گئی بعض پر اس پیغمبر کا حال ظاہر ہی نہ ہوا.
78 عکس حوالہ نمبر : 19 ۱۲۴۷ نزول مسیح اور ارشادات نبویہ علیہ ار درد کا رشد اگر تنام است بر غیر رمان آن نمی شون شد هر مسلمانان بودند انه کارت ملی اسرمایہ دار ملک کا ان علامات اخرت مسلم درکت بادی کو ترقی بودند و چون آن حضرت صلی الله علیه و آله وسلم ظاهر شد تد و مبعوث گردیدند بعض علامات را مطابق بندار و هم تیم خود با یافتند پس بران کسان که امر نفرت کشوف شداد شان ایان آوردند در ران گروه که کشوف نشد انکار کردند هم چنین است حال مهدی پس اگر مرزا صاحب مهد می باشد کدام امانع است بعد ازان کتاب نفحات الانس طلب فرمودن این بنده را هم حروف نوبت د کتاب را بر داشته پیش حضور به تنها د وران کتاب مقامی میدند انگاه این قائده بیان فرمودند که حضرت شیخ ابوسعید ابوالخيرضى اله تعالی عنه می فرمایند این کودک بودم روز سے بقصد نماز ه همراه پدر نگار خود نیت در اشنا را شیخ ابو الامام بشه یاسین رضی الله تعالی عنه سیدن از پدرم پرسیدند که اے ابو البران کودک از آن کیست پدرم گفت از آن من است شیخ ابواندا مه بروست من نظر کرده چشم تراب نمودند فرمودند که بابا الخیرین نی دانست که این جهان بر مر میں انگہ جاے خالی می دیدم و درویشان ضائع میشوند اکنون که زیاد میده این گشتم که ولایت پاین کودک را نصیب خواهد بود هرگاه از ناز جمعه فارین شدیم مومنه شیخ و امام رضی الله تعالی غیر سیم درپیش حضرت ایشان پیش تیم دران صومعه طائی بود بلند مود که ابوسعید ابرد در ر ر ا ت ا ر سے دوران طاق نشاده شده است فرد گیرو یر خود بودند دیگر همه ما دادند و فرمودند که او را در این نواند در این گفت تاسی شینه سبب چیست که از ان قرص ترک نصیب من نکردی شیخ ابو القاسم فرسود ندا سے اس وجہ سے اس گروہ نے انکار کر دیا اور کافر ہو گیا.اگر ہر نبی کی امت پر اپنے وقت کے نبی کا حال منکشف ہو جاتا تو تمام مسلمان ہو جاتے جیسا کہ آنحضرت ہیں کہ آنحضرت کے اوصاف و علامات کتب سماویہ میں لکھے ہوئے تھے اور جب آنحضرت ظاہر ہوئے اور مبعوث ہو گئے تو انہوں نے بعض علامات کو اپنی سمجھے اور فہم اور خیال کے مطابق نہ پایا پس جن لوگوں پر آنحضرت کا معاملہ ظاہر ہو گیا تو وہ ایمان لے آئے جس گروہ پر آپ کا حال نہ کھلا انہوں نے انکار کر دیا.اسی طرح مہدی کا حال ہے.پس اگر مرزا صاحب مہدی ہوں تو کونسی بات مانع ہے.
79 امام مہدی کا زمانہ پیدائش امام مہدی کا زمانہ پیدائش احادیث نبویہ اور بزرگانِ سلف کے رویا و کشوف سے پتہ چلتا ہے کہ مہدی معہود نے تیرھویں صدی میں پیدا ہونا تھا تا کہ چودھویں کے سر پر ظاہر ہو سکے.احادیث نبو سیا اور سن پیدائش: صحاح ستہ کی کتاب ابن ماجہ میں یہ حدیث ہے:.الآيَاتُ بَعْدَ الْمِائَتَيْن“ ( سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن باب الآیات) یعنی دوسوسال کے بعد نشانات کا ظہور ہو گا.حضرت ملا علی قاریؒ ( متوفی 1014ھ) نے مرقاۃ شرح مشکوۃ میں اس سے یہی مراد لیا ہے کہ مہدی اور مسیح کی پیدائش جو آیات کبری میں سے ہے، تیرھویں صدی میں ہوگی اور چودھویں صدی میں اس کا ظہور ہوگا.فرماتے ہیں:.”لفظ الماً تین یعنی دوسوسال کے اوپر جو مال تخصیص کا ہے وہ یہ معنے دیتا ہے کہ ایک ہزار سال کے دوسو سال بعد عظیم نشان ظاہر ہوں گے جن میں مسیح و مہدی کا ظہور سب سے بڑا نشان ہے جو تیرھویں صدی میں ہوگا.“ ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 20: مرقاۃ شرح مشکوۃ مترجم جلد دہم صفحہ 177.مکتبہ رحمانی اردو بازار لاہور علامہ ابوالحسن السندی (متوفی: 1138ھ) نے ابن ماجہ میں اس حدیث کی شرح میں بیان کیا ہے کہ اس حدیث سے مراد تیرھویں صدی میں نشانات کا ظہور ہے.( حاشیہ السندی جلد 2 صفحہ 502 دار الجیل بیروت)
80 عکس حوالہ نمبر : 20 امام مہدی کا زمانہ پیدائش مرقاة المفاتيح.اُردو للعلامة اشيخ القاری علی بن سلطان محمد الفارسی هجری ١٠١٤ شرح مشكوة المصابيح سر للامام العلامة محمد بن عبدالله الخطيب التبريزي المتوفى ٧٤١ مترجم : مولا نار او محمد ندیم MAKTAB-E-REHNICHIA جلد دہم مكتب رحمانی إفراسنر غزل سٹریٹ اردو بازان لاهور فون: 37355743-37224228-042
81 عکس حوالہ نمبر : 20 امام مہدی کا زمانہ پیدائش مرقاة شرح مشكوة أردو جلد دهم اسلام کو شان و شوکت حاصل ہونے کے وقت سے ہے.122 حضور علیہ السلام کی وفات سے اس کی ابتداء مراد ہے.كتاب الفتن یہ بھی احتمال ہے کہ المتین میں الف لام عبد کیلئے ہو، اور ” مائتین“ سے مراد ہزار سال کے بعد دو سو سال ہوں.اور یہ وہ وقت ہوگا، جب قیامت کی چھوٹی نشانیاں ظاہر ہو چکی ہونگی اور امام مہدی کے ظہور ، حضرت عیسی علیہ السلام کے ظہور، اور دوسری پے در پے علامات مثلاً مغرب سے سورج کے طلوع ہونے ، دابتہ الارض کے نکلنے، اور یا جوج ماجوج کے نکلنے کا زمانہ قریب ہو چکا ہوگا.علامہ طیبی فرماتے ہیں "الآیات بعد المائتين مبتدا خبر ہیں (اور مضاف محذوف ہے) ای تتابع الآيات بعد الماتين" ہے (یعنی قیامت کی نشانیوں کا پے در پے ظاہر ہونا دو سور ۲۰۰ سالوں کے بعد ہوگا.) اور اس کی تائید گذشتہ حدیث کے جملے "و آيات تتابع كنظام قطع سلكه فتتابع سے ہو رہی ہے بظاہر دو سور ۲۰۰ سالوں کا اعتبار اس حدیث کے بیان کے بعد سے ہے ( انتھی) اور عقل مند لوگوں کیلئے اس توجیہ کا غیر واضح ہونا پوشیدہ نہیں.تخریج: اسی طرح حاکم نے مستدرک حاکم میں بھی نقل کیا ہے.۵۳۶۱ : وَعَنْ تَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّايَاتِ السُّودَ قَدْ جَاءَتْ مِنْ قِبَلِ خُرَاسَانَ فَاتَرُهَا فَإِنَّ فِيهَا خَلِيفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِيُّ - رواه احمد وَالْبَيْهَقِي فِي دَلَا لِلَ النُّبُوَّةِ اخرجه الترمذي في السنن ٤٦٠٢٤ حديث رقم ٢٢٦٩ وابن ماجه في السنن ١٣٦٧/٢ حديث رقم ٤٠٨٤ والبيهقي في دلائل النبوة ٥١٦/٦ ترجمہ : " حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ” جب ایسے سیاہ جھنڈوں کو دیکھو جو خراسان کی جانب آئے ہوں تو تم ان کا ستقبال کرنا کیونکہ اس میں اللہ تعالٰی کے خلیفہ حضرت مہدی ہوں گے.اس روایت کو امام احمد نے اور دلائل النبوۃ میں بیہقی نے نقل کیا ہے“.تشریح : قوله: اذا رايتم......فاتوها : رأيتم : اس سے عام خطاب مقصود ہے اور رؤية" سے رویت بصری مراد ہے.ممکن ہے کہ ” سواد خراسان کی جانب سے آنے والے مسلمانوں کے لشکروں کی کثرت سے کنایہ ہو، بظاہر یہ حارث اور منصور کے لشکر ہونگے.فأتوها: ضمیر منصوب ” الرايات " کی طرف راجع ہے، یعنی ان جھنڈوں کی طرف متوجہ ہو جانا اور ان کے حاملین کا استقبال کرنا اور ان لشکروں کے امیر کا حکم قبول کرنا.قوله فان فيها خليفة الله المهدى
82 88 امام مہدی کا زمانہ پیدائش حافظ علامہ غلام حلیم صاحب ، تحفہ اثنا عشریہ مطبوعہ 1302ھ میں فرماتے ہیں کہ بارہ سو سال بعد قیامت کی علامات اور بڑے نشانات کا ظہور ہوگا.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر : 21 محمد اله علی حسن که درین ایام فرخنده فرجام کتاب لا جواب اعجاز انتهاب فضائل و کر است نصاب در کشف حال شیوه بیان اصول ما خذا امامیه و دیگر حالات ایشان مشهور به نفقه عالم با عمل فاضل المل محافظ غلام عليها من شيخ قطه الدين محرابن شيخ ابو اله یوز می جناب مولوی احسان الله صاحب بی محلی مد
83 عکس حوالہ نمبر :21 امام مہدی کا زمانہ پیدائش حصہ اتفاع ل ظهو الايات لعداوا تلین یکهزاره دو ساز هجرت میبا به بلیز بعدازان علامات قیامت شروه خوانان و نیز مخالفین او می گویند که مهدی سرصد خواهد بر آمد نه در اوسط آن و فریب بخروج عیسی بن مرید خواهد بود و نه لبنا ما - انان واحدها ایرسای خوابد که ونه سرما به همرمن رای و تخرج او حرم شریف مکه است نه سرین رای در عوی امامت دیگر یل سال خواهد کر و نه در حالت منحروند در آوران شیخوخت پس اگر در علامات و امارات مذکورہ خلاف کرده برآید و در وقتی از اوقات مردم را در رنگ علما و مشائخ دعوت بدین و احکام شریعیت بکند و تعارق عادات و میرات بنماید یقین است که کسی تویش حال او نخوابد بود لا اقلا شیعه که مدل و جان خواهان این روز ماند و از خدا این مرا دریا میخواست و نیز او را جریبه باشد که با قریه دعوی میکنند که مهدی موعود با قرات و ناوسیه و قومی میاشند که مهدی موعود حفر صافی است و منطور یه نگوینی که موسی بن حضرت و این دعاوی در تار مبت شائع و خالی شد و هیچی کرد دنبال یکی ازین بزرگواران بابت مهدویت نیفتاد و نه رساند و با جراحی ترسانیدن، و سید محمد جونپورم ہندوستان بیانگ بلند او های مصدومیت نمود و یا در کثیر از خانه دکن و رامیوتا خود را مهد و لقب کرد انتقام اد کردند و هیچکس انتها را قتله سیاست تکر و خصوصا در تمام الف از حیرت خیر العشش که در عراقین و خراسان تسلط صفویه موهاد و در دکن سلاطین مینه و عادل شاهیه که در نهایت سر به فلو تشیع داشتند بهم رسیدند و در هند و ستند و بنگاله زمان عهدکه سلطنت جهانگیر بادشاه بود و از جهان بیگم و اقارب اور معنی سلطنت می کردند و براین مردم عراق و خراسان بودند و زر او اسر او صوبه داران در همین تدریب نلو تمام داشتند الوقت را چرا از دست داد و خروج به فرمود و اولیاء خود را خص بنا بر تو هم از خانان ما ور النهر او قیام ره روم از فائده و لطف محروم داشت و او را چه ضرور بود که اول الطریق نفره در سنجار او سمرقند یا در اسلام بول ظهور نماید که خوف این مرومه باشد این همه اقطار و سبعه و ممالک فیجه چه بروی تنگی می کرد و انچه شریف مراقنی ذکر کرده که در ابتدا ایرا و دیار خود ظاہر و از اعداد خودمستر بود و چون امر طالب شدید شد از دشمن و دوست پنهان شد تا دوستان نادان خیر او را فاش نکنند و موجی غلامیندن دشمنان نشوند کلامیست که نا واقفان فن تاریخ را بآن غریب تو ارشاد و واقفان این فن باشتر و متسخ می نمایند هیچ یک از مورخین در تاریخ خود نوشته که مجاعه در طلب محمودین الحسن العسکری جاسوسی کرده و درون خانها در آمده باشند یا حرف تلاش ایشان در ان زمان دو رویداد بو سر مین راسی بر زبان خلائق افتاده باشد یا خلیفه و امرا و موک آن عصر با این و قدغه بخاطر رسیده باشند خیران علما سے اثنا عشریه که در مقام توجیه مصیبت آن بزرگ این احتمالات موہومه ذکر میکنند کے قوات این در نیست بلکه تا حال از روی تواریخ اینهم به ثبوت ترسیده که در خانه اما م من حسابی مینی میلی چنین جا چنان پیدا نشد و آنها مردم مهدی موعود دانسته در پی اینا وقتل او افتادند حاشا و کلا و معهد اغیبت به ترجمہ: ایک ہزار دوسو سال ہجرت پر گزرنے کے بعد علامات قیامت شروع ہوں گی.
84 امام مہدی کا زمانہ پیدائش حضرت بانی جماعت احمدیہ پر اس حدیث ” دو سو سال بعد خاص نشانات“ کا مفہوم توجہ کے نتیجہ میں کھولا گیا.آپ فرماتے ہیں:.عکس حوالہ نمبر : 22 روحانی خزائن جلد ۳ 1A9 ازالہ اوہام حصہ اول آنے کا وقت چودہویں صدی کا شروع سال بتلا گئے ہیں چنانچہ شاہ ولی اللہ صاحب محدث و بلوی قدس سرہ کی بھی یہی رائے ہے اور مولوی صدیق حسن صاحب مرحوم نے بھی اپنے ایک رسالہ میں ایسا ہی لکھا ہے اور اکثر محدثین اس حدیث کے معنے میں کہ جو الآیات بعد المأتين ہے اسی طرف گئے ہیں.اگر یہ کہو کہ مسیح موعود کا آسمان سے دمشق کے منارہ کے پاس انترنا تمام مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے تو اس کا جواب میں اسی رسالہ میں لکھ چکا ہوں کہ اس بات پر ہر گز اجماع نہیں قرآن شریف میں اس کا کہاں بیان ہے وہاں تو صرف موت کا ذکر ہے بخاری میں حضرت بحبسی کی روح کے ساتھ حضرت عیسی کی روح کو دوسرے آسمان پر بیان کیا ہے اور دمشق میں اترنے سے اعراض کیا ہے اور ابن ماجہ صاحب بیت المقدس میں اُن کو (۱۸۵) نازل کر رہے ہیں اور ان سب میں سے کسی نے یہ دعوی نہیں کیا کہ یہ تمام الفاظ و اسماء ظاہر پر ہی محمول ہیں بلکہ صرف صورت پیشگوئی پر ایمان لے آئے ہیں پھر اجماع کسی بات پر ہے.ہاں تیرہویں صدی کے انتقام پر مسیح موعود کا آٹا ایک اجماعی عقیدہ معلوم ہوتا ہے.سواگر یہ عاجز مسیح موعود نہیں تو پھر آپ لوگ مسیح موعود کو آسمان سے اتار کر دکھلا دیں.صالحین کی اولاد ہو مسجد میں بیٹھ کر تفریع اور زاری کرو تا کہ عیسی ابن مریم آسمان سے فرشتوں کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تشریف لاویں اور تم بچے ہو جاؤ.ورنہ کیوں ناحق بدظنی کرتے ہو اورز میر الزام آیت كريم لا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلم آتے ہو خدائے تعالی سے ڈرو.لطیفه چند روز کا ذکر ہے کہ اس عاجز نے اس طرف توجہ کی کہ کیا اس حدیث کا جو الأيات بعد الماتين ہے ایک یہ بھی منشاء ہے کہ تیرہویں صدی کے اواخر میں مسیح موعود کا ظہور ہو گا اور کیا اس حدیث کے مفہوم میں بھی یہ عاجز داخل ہے تو مجھے کشفی طور پر اس مندرجہ ذیل نام کے اعداد حروف کی طرف توجہ دلائی گئی کہ دیکھ یہی مسیح ہے کہ جو تیر ہویں صدی کے پورے ہونے پر ظاہر ہونے والا تھا پہلے سے یہی تاریخ (1) بنی اسرائیل: ۳۷ ہم نے نام میں مقرر کر رکھی تھی اور وہ یہ نام ہے غلام احمد قادیانی اس نام کے عدد پورے تیرہ سو ہیں اور اس قصبہ قادیان میں بجز اس عاجز کے اور کسی شخص کا غلام احم نام نہیں بلکہ میرے دل میں ڈالا گیا.ہے کہ اسوقت بجز اس عاجز کے تمام دنیا میں غلام احمد قادیانی کسی کا بھی نام نہیں اور اس عاجز کے ساتھ اکثر یہ عادت اللہ جاری ہے کہ وہ سبحانہ بعض اسرار اعداد حروف تنگی میں میرے پر ظاہر کر دیتا ہے.ایک دفعہ میں نے آدم کے سن پیدائش کی طرف توجہ کی تو مجھے اشارہ کیا گیا کہ ان اعداد پر نظر ڈالو جو سورۃ العصر کے حروف میں ہیں کہ انہیں میں سے وہ تاریخ نکلتی ہے.
85 امام مہدی کا زمانہ پیدائش النجم الثاقب مطبوعہ 1310ھ مطبع احمدی پٹنہ میں امام مہدی کاسن ظہور 1240 بتایا گیا ہے.عکس حوالہ نمبر : 23 اموران که در امان میں امن و امان حسینی النجم الثاقب اقتدار مان یاسی الدين الواجب ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ایرانیان
86 عکس حوالہ نمبر :23 او سپر ایمان لانا واجب ہنر جیسے اشتراط ساعت تخرج دجال نزول عیسی و ظهور مهدی الی قولہ منکر ان اہلخانہ کا کافر ہے فتنہ.قولہ صفحہ الکترال تحت حدیث حدیقہ بن یمان تصیح نقل کیا کہ اقول یہ حدیث بھی از بعین مین مولف کی نہیں ہے بہر حال جبکہ دو ضعفوں کا لفظ خود او سنے لکھد یا ہے دعوے صحت استناد کا نہین کیا ہے با این ہمہ یہ بولنا کہ تصحیح نقل کرا کر ی خبطگی ہو یا خمار کی.قولہ اثبات اپنے عقیدہ فائدہ و خیال کا سدہ کا اس بروایت سے کرے اقوال اس سے عقیدہ پلیدہ اور خیال سراپا خلال آپکا میں حق ہو گیا کہ جو لوگ ستمسک و حامل بروایات ضعاف بین وہ لوگ معاذ اللہ عقیدہ فاسده و خیال کا سده والا بین تو اول نمبر ماشاء امتدان دو نون صفات کے کامل آپ ہی بہین اور آپ کے حضرات مشیرہ آپا کے تین عوے میں تین روایت تینون تضعیف اور چونکہ مولف محرابید کسب تمامی کتب دینیه چه حدیث وجه نقد و چه اخبار وموا الله و اخلاق، دایت حضن حدیث مذیقه برایان ۱۲ قال حال مامون اذا مضت الف و باستان داریغون بنا بعث الله المهدی نیا بجون ملی بد خلق كثير و في لفظ مجمع على يد المهدي خلق كبير بير المرقد فيخليه الله تعالى تغير تد من عردين ابائهم ويبغضون من خلية مر خليفة الذي كان من افضل الناس في هذا الا يا مركيبغضهم الله ويزيدهم.طغيانهم يعمهون الا المعتصمون بكتاب الله وسنتي والمناسب يتحسسون المهدى جبلا جيلا وهو يفر منهم حجر احمرار ف اذا جاء امرالله ثم يا مرة الله بحجم البيت فاذا فرغ من الحجم ومهنته الصنعة يحج ويملاء الاسره انت قبله ظلما وجور الخرج ابن القطان وال السكن و ابن ابی شیبه و عبد ابن حمید و ضعفوه اوران خوارزمیبه او تقسطا میں یہی الفاظ متقول بین لیکن نما بسته ر کے لکھا ہے اور الر یا مرہ اللہ کو مجرد امر اللہ کہا اس اچھے مامی کار در کانون کے خریدار یار میں ان کو ری مینوی گانا امام مہدی کا زمانہ پیدائش ترجمہ: حضرت حذیفہ بن الیمان سے روایت ہے کہ جب ایک ہزار دو سو چالیس سال گزر جائیں گے تو اللہ تعالیٰ مہدی کو ظاہر فرمائے گا اور ایک خلق کثیر ان کے ہاتھ پر بیعت کرے گی.(یادر ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب کاسن ولادت 1250 ھ ہے.چالیس سال کی عمر میں آپ الہام الہی سے مشرف ہو چکے تھے.23 مارچ1889ء میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کا آغاز ہوا اور آپ کی زندگی میں لاکھوں لوگوں نے آپ کی بیعت کی.)
87 امام مہدی کا زمانہ پیدائش امام مہدی کا زمانہ پیدائش اور بزرگان سلف کے اندازے: 1.حضرت علامہ عبدالوہاب شعرانی نے الیواقیت والجواهر (مطبوع مصر 1305ھ) میں امام مہدی کے ظاہر ہونے کا ذکر کرتے ہوئے اُن کا سن پیدائش 255 سال بعد از ایک ہزار سال لکھا ہے.یعنی 1255 اُن کی ولادت کا زمانہ ہے.مزید فرماتے ہیں کہ ظہور مہدی ، دقبال اور ابنِ مریم علامات قیامت میں سے ہیں.پھر لکھتے ہیں کہ شیخ تقی الدین بن ابی المنصور نے اپنا عقیدہ یہ بیان کیا ہے کہ اُس ”یوم کے آخری سو سال میں یہ نشان ظاہر ہوں گے جس کا آنحضرت ﷺ نے حدیث ان صَلَحَتْ أُمَّتِي فَلَهَا يَوْمٌ میں وعدہ فرمایا ہے.موصوف اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آنحضور کی مراد یہ تھی کہ ایک ہزار سال کے بعد دینِ اسلام اضمحلال کا شکار ہو جائے گا اور یہ کمزوری کا دور 1130 سے ہوگا.اُس وقت سے مہدی کا انتظار کرنا چاہیے.امام مہدی حسن عسکری کی اولاد سے ہوں گے اور اُن کی ولادت ایک ہزار 255 سال بعد وسط شعبان میں ہوگی.ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 24: الیواقیت والجواہر الجزء الاول، صفحہ 561-562.داراحیاء التراث العربی، بیروت لبنان
88 عکس حوالہ نمبر : 24 اليواقيت والجواهر في بيان عقائد الأكابر وبأسفله الكبريت الأحمر في بيان علوم الشيخ الأكبر محي الدين بن العربي المتوفى سنة ( ٥٦٣٨ ) وهو منتخب من كتاب لواقح الأنوار القدسية المختصر من الفتوحات المكية تأليف الشيخ عبد الوهاب بن أحمد بن علي الشعراني المصري الحنفي ات ٥٩٧٣) طبعة جديرة بصمة ومخرجة الآيات القرآنية الكريمة الجز الأول داراحياء التراث العربي مؤسسة التاريخ العربي بيروت - لبنان امام مہدی کا زمانہ پیدائش
89 عکس حوالہ نمبر : 24 امام مہدی کا زمانہ پیدائش المبحث الخامس والستون : في بيان أن جميع أشراط الساعة التي أخبرنا بها الشارع حق 071 الفتوحات المكية والمراد بهذه الجنة وهذه النار جنة البرزخ وناره لا الجنة والنار الكبيرتان اللتان يدخلهما الناس بعد الحساب والمرور على الصراط قال وهذا مما غلط فيه بعض أهل الله في كشفهم فإنهم إذا طولعوا بشيء من أحوال الآخرة يظنون أن ذلك صحيح وأنهم شاهدوا الآخرة على الحقيقة وليس كذلك وإنما هي الدنيا أظهرها الله تعالى لهم في عالم البرزخ بعين الكشف أو النوم في صورة ما جهلوه من أحكام الدنيا في البقظة فيقولون رأينا الجنة والنار والقيامة وأين الدار من الدار وأين الإتساع من الإنساع ومعلوم أن القيامة ما.وإذا رؤيت في الحياة الدنيا فما إلا قيامة الدنيا ونار الدنيا وفي الحديث الصحيح: رأيت هي هي الآن موجودة هذا الجنة والنار في مقامي هذا وما قال رأيت جنة الآخرة ولا نار الآخرة بل قال في عرض.الحائط من الدار الدنيا وذكر أنه رأى في النار صاحبة الهرة التي حبستها وعمرو بن لحي الذي سيب السوائب وكان ذلك كله في صلاة الكسوف في اليقظة وفي حديث آخر مثلت لي الجنة في عرض هذا الحائط وتمثال الشيء ما هو عين الشيء بل هو شبهه فقط ولا معنى لقول من قال إن أهل النار اليوم في النار الكبرى فإذا كان يوم القيامة رجعوا إلى القير ثم بعثوا أو حشروا أو حوسبوا ثم يدخلون النار ثانياً.(قلت): ويكفي أحدنا الإيمان بعذاب القبر ولا يحتاج إلى بيان كيفية الحقيقة فإن العقول تعجز عن مثل ذلك وسيأتي في مبحث خلق الجنة والنار مزيد كلام فراجعه والله تعالى أعلم.المبحث الخامس والستون في بيان أن جميع أشراط الساعة التي أخبرنا بها الشارع حق لا بد أن تقع كلها قبل قيام الساعة من وذلك كخروج المهدي ثم الدجال ثم نزول عيسى وخروج الدابة وطلوع الشـ مغربها ورفع القرآن وفتح سد يأجوج ومأجوج حتى لو لم يبق في الدنيا إلا مقدار يوم واحد لوقع ذلك كله قال الشيخ تقي الدين بن أبي منصور في عقيدته وكل هذه الآيات تقع في المائة الأخيرة من اليوم الذي وعد به رسول الله ﷺ أمته بقوله إن صلحت أمتي فلها : يوم وإن وأحسن ومن جمع الطرفين فقد فاز بالحسنيين الإسلام صراط قويم والإيمان خلق كريم والإحسان شهود القديم إذا صح الانقياد كان علامته خرق المعتاد المسلم لا يحتاج إلى تأويل فهو معرس في حسن مقيل.من (وقال) : من مال إلى الآمال اخترمته الآجال ليس بالمواتي من اشتغل بالماضي والآتي والحليم الأواه.كان مشتغلاً بالله ومن كان عبداً لغير الله فما عبد إلا هواه لأن العدو أخذ به عن طريق هداه وقال في قوله تعالى: (حَتَّى تعلم ﴾ [محمد: ٣١] ما علم الشيء قبل كونه فما من حيث كونه العلم يتغير بتغير المعلوم ولا يتغير المعلوم إلا بالعلم فقولوا لنا: كيف علمه ترجمہ: علامات قیامت جن کی خبر آنحضرت ﷺ نے دی وہ برحق ہیں اور قیامت سے قبل ان کا واقع ہونا لازمی ہے.اور یہ علامات خروج مہدی پھر دجال پھر نزول عیسی اور دابتہ کا خروج اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور قرآن کا اٹھ جانا اور یا جوج ماجوج کے بند کا کھلنا ہیں.یہاں تک کہ اگر دنیا میں صرف ایک دن بھی باقی رہا تو یہ سب علامات ضرور پوری ہوں گی.
90 عکس حوالہ نمبر : 24 امام مہدی کا زمانہ پیدائش ٥٦٢ النصف الجزء الثاني من البواقيت والجواهر في بيان عقائد الأكابر فسدت فلها نصف يوم يعني من أيام الرب المشار إليها يقوله تعالى : لوران يوما عِندَ رَبِّكَ كالفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ ﴾ [الحج : ٤٧] قال بعض العارفين وأول الألف محسوب من وفاة علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنه آخر الخلفاء فإن تلك المدة كانت من جملة أيام نبوة رسول الله ﷺ ، ورسالته فمهد الله تعالى بالخلفاء الأربعة البلاد مراده أن بالألف قوة سلطان شريعته إلى انتهاء الألف ثم تأخذ في ابتداء الاضمحلال إلى أن يصير الدين غريباً كما بدأ وذلك الاضمحلال يكون بدايته من مضي ثلاثين سنة في القرن الحادي عشر فهناك يترقب خروج المهدي عليه السلام وهو من أولاد الإمام حسن العسكري ومولده عليه السلام ليلة من شعبان سنة خمس وخمسين ومائتين وهو باق إلى أن يجتمع بعيسى بن مريم : عليه السلام فيكون عمره إلى وقتنا هذا وهو سنة ثمان وخمسين وتسعمائة، سبعمائة سنة وست سنين هكذا أخبرني الشيخ حسن العراقي المدفون فوق كوم الريش المطل على بركة الرطل بمصر المحروسة على الإمام المهدي حين اجتمع به ووافقه على ذلك شيخنا سيدي علي الخواص رحمهما الله تعالى وعبارة الشيخ محبي ا الدين في الباب السادس والستين وثلثمائة من الفتوحات: واعلموا أنه لا بد من خروج المهدي عليه السلام لكن لا يخرج حتى تمتلىء الأرض جوراً وظلماً فيملؤها قسطاً وعدلاً ولو لم يكن من الدنيا إلا يوم واحد طول الله تعالى ذلك اليوم حتى يلي ذلك الخليفة وهو من عترة رسول الله ﷺ من ولد فاطمة رضي الله عنها جده الحسين بن علي بن أبي طالب ووالده حسن العسكري ابن الإمام علي النقي بالنون ابن محمد التقي بالتاء ابن الإمام علي الرضا ابن الإمام موسى الكاظم ابن الإمام جعفر الصادق ابن الإمام محمد الباقر ابن الإمام زين العابدين علي ابن الإمام الحسين ابن الإمام علي بن أبي طالب رضي الله عنه بواطىء اسمه اسم رسول الله يبايعه المسلمون بين الركن والمقام يشبه رسول الله الله في الخلق بفتح الخاء وينزل عنه في الخلق بضمها إذ لا يكون أحد مثل رسول الله فی اخلاقه والله تعالى يقول: ﴿وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ) [القلم: ٤).هو في أجسي الجبهة أقنى الأنف أسعد الناس به أهل الكوفة يقسم المال بالسوية ويعدل في الرعية يأتيه الحكم هذه مسألة حارت فيها العقول وما ورد فيها منقول وقال : لا نقل نحن إياء لقوله : نَاجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَمَ اللهِ) [التربة : ٦] فأنت الترجمان والمتكلم الرحمن فقيده كلام الله بالأمكنة بكونه في المصاحف والألسنة يقول القارىء قال الله.ثم إنه يتلو الحروف ظروف والصفة غير الموصوف عند أهل الكشف والشهود وهو عين المقصود فإذا نطقت فاشهد بمن تنطلق التنزيه تحديد فلا تقل بالتجريد وقال في حديث اشتمني ابن آدم من اشتكي إلى غير مشتكي فقد حال عن الطريق وخرج عن مناهج التحقيق ولولا اقتدار العبد على دفع الأذى ما شكا الحق إليه ذا فالخلق مشتكي الحق والحق مشتكي الخلق ومن شكا إلى جنسه فما شكا إلا إلى نفسه.وقال من ذل الله فقد أشبه الفروع ومن تكبر فقد أشبه الأصول فالرجوع إلى الفروع ترجمہ: دین کی کمزوری کے اس دور کا آغاز 1130 کے بعد ہو گا.اس وقت مہدی کے خروج کا انتظار کیا جائیگا.اور وہ امام حسن عسکری کی اولاد سے ہوں گے.اور ان کی پیدائش کا وقت ایک ہزار ) 255 سال بعد ماہ شعبان کی درمیانی رات ہے.
91 امام مہدی کا زمانہ پیدائش 2.شیعہ مسلک کی معتبر کتاب نور الابصار میں علامہ مومن بن حسن شبلنجی (متوفی: 1308ھ) نے لکھا ہے کہ علامہ شعرانی کے مطابق مسیح و مہدی کی پیدائش کا سال 1255ھ ہے.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر :25 نور الأَبْصَا ي مناقب آل بيت المختار تأليف الشريج بومريح السبانجي محمد وطعم حلبي دار المعرفة بيروت لبنان مكتبة أسامة بن زيد حلب - أقبول - سومرها
٣...٠٠٠٠٠٠٠۹۸ 92 عکس حوالہ نمبر : 25 امام مہدی کا زمانہ پیدائش الباب الثاني / فصل في ذكر مناقب محمد بن الحسن الخالص بن علي الهادي.فأنت لهذا الأمر قدماً معين كذلك قال الله أنت خليفتي قال وفي كتاب (جامع الفنون في مبحث الجبال : جبل رضوي هو من المدينة على سبع مراحل وهو جبل منيف ذو شعاب وأودية وهو أخضر يرى من بعيد وبه أشجار ومياه زعم الكيسانية أن محمد بن الحنفية رضي الله عنه حي وهو مقيم به وأنه بين أسدين يحفظانه وعنده عينان نضاختان تجريان بماء وعسل وأنه يعود بعد الغيبة ويملأ الأرض عدلاً كما ملئت جوراً وهو المهدي المنتظر فإنما عوقب بهذا الحبس لخروجه إلى عبد الملك وقيل إلى يزيد بن معاوية قال: وكان السيد الحميري على هذا المذهب وهو القائل : ألا قل للوصي فدتك نفسي أطلت بذلك الجبل المقاما وهذه كلها أقوال فاسدة وبضائع كاسدة ليس بها فائدة فإن محمد بن الحنفية رضي الله عنه توفي بالمدينة المنورة وقيل : بالطائف كما تقدم وإنما الخليفة المنتظر هو محمد بن عبد الله المهدي والقائم في آخر الزمان وهو يولد بالمدينة المنورة لأنه من أهلها كما أخبر به وبعلاماته النبي الذي لا ينطق عن الهوى إن هو إلا وحي يوحى.تتمة رضي في الكلام على أخبار المهدي : واعلم أنهم اختلفوا فيه هل هو من ولد الحسن السبط رضي الله عنهما وهو ما رواه أبو داود في سننه وذهب إليه المناوي في (كبيره) : وكأن سره تركه الخلافة لله عز وجل شفقة على الأمة أو من ولد الحسين السبط الله عنه قال بعضهم وهو الصحيح : واسمه أحمد أو محمد بن عبد الله قال القطب الشعراني في (اليواقيت والجواهر): المهدي من ولد الإمام الحسن العسكري بن الحسين ومولده ليلة النصف من شعبان سنة خمس وخمسين ومائتين بعد الألف وهو باق إلى أن يجتمع بعيسى ابن مريم عليه السلام هكذا أخبرني الشيخ حسن العراقي المدفون فوق كوم الريش المطل على بركة الرطل بمصر المحروسة ووافقه على ذلك سيدي علي الخواص.صفته : شاب أكحل العينين أزج ) الحاجبين أقنى الأنف كث اللحية على (1) زج الحاجب زججاً دق في طول وتقوس.(1) ترجمہ: اس (مهدی) کی پیدائش 15 شعبان 1255 کو ہوگی.
93 چاندوسورج گرہن مہدی کی صداقت کے دو عظیم نشان.چاند سورج گرہن قرآن کریم میں امام مہدی کے لئے سورج و چاند گرہن کے نشان کا ذکر اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے:.فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ (القيامة 8-10) کہ جب نظر چندھیا جائے گی اور چاند گہنا جائے گا اور سورج اور چاند دونوں کو جمع کر دیا جائے گا.ان آیات میں آخری زمانہ میں مہدی معہود کی صداقت میں ظاہر ہو نیوالے نشان یعنی رمضان کے مہینہ میں سورج اور چاند کو گرہن لگنے کی طرف اشارہ ہے.اس آیت کی تفسیر میں علماء سلف کی رائے بالعموم مفسرین نے اس آیت کو قیامت کی وہ آخری نشانی قرار دیا ہے جس کے پورا ہونے کی صورت میں نظام کائنات درہم برہم ہو جائے گا اور چاند اور سورج مکمل طور پر بے نور ہوکر تباہ ہو جائیں گے.یہ واقعہ جو اپنی ذات میں آپ قیامت ہے ، قیامت کی دلیل کیسے بن سکتا ہے ؟ پس اس آیت میں خسف کے معنے چاند سورج گرہن کے ہیں کیونکہ کسوف و خسوف ہم معنی ہیں اور ان کا مطلب چاند یا سورج کی روشنی کا وقتی طور پر زائل ہونا اور ان میں تغیر آجانا ہے اور خسوف میں چاند اور سورج کے جمع ہونے سے مراد دونوں کو قرب قیامت کی نشانی کے طور پر گرہن لگنا ہے نہ کہ قیامت کا بر پا ہونا.یہی وجہ ہے کہ بعض محقق علمائے سلف نے قیامت سے پہلے چاند سورج گرہن کے یہ نشانات انذار وتخفیف کی خاطر پر بیان کیے ہیں جن میں علامہ خطابی، علامہ احمد مکرم عباسی اور علامہ ابن عربی کے حوالے بطور نمونہ پیش ہیں.علامہ ابن عربی نے تو اس نشان گرہن کو امام مہدی کے ظہور سے منسلک کیا ہے.ان کی بات میں اس لئے بھی زیادہ وزن ہے کہ انذار و تخویف کے یہ نشان امام مہدی کے ظہور کے بعد ان کے انکار پر ظاہر ہی ہوں گے تاکہ دنیا مہدی کی طرف رجوع کرے.
94 چاندوسورج گرہن علامہ ابوسلیمان حمد بن محمد خطابی (متوفی: 388ھ) نے یہ بات بخاری کی حدیث :."إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ الله کہ سورج اور چاند اللہ تعالی کے نشانوں میں سے دونشان ہیں اور کسی کی موت یا پیدائش کی وجہ سے ان کو گرہن نہیں ہوتا کے ضمن میں بیان کی.وہ تحریر فرماتے ہیں:.اس بارے میں ایک تیسرا پہلو بھی بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالی کے نشانوں میں سے یہ دونوں نشان زمانہ قیامت کے قرب پر دلیل ہیں.اور یہ دوائیسی نشانیاں ہیں جو قیامت کی ان علامات اور نشانیوں میں سے ہیں جو اس (قیامت) سے پہلے ظاہر ہوں گی جیسا کہ قیامت کے قریب چاند وسورج گرہن کے بارہ میں خبر دیتے ہوئے فرمایا: - فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ القَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ (القيامة : 10-8 کہ جب نظر چندھیا جائے گی اور چاند گہنا جائے گا اور سورج اور چاند دونوں کو جمع کر دیا جائے گا ) اور بعض دفعہ یہ نشان اللہ تعالیٰ کے بندوں کو خوف دلانے کے لئے بھی ہوتے ہیں تا کہ وہ اپنی خطاؤں اور لغزشوں کی وجہ سے گھبرا کر تو بہ اور استغفار کی طرف رجوع کریں.اور اس بات کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے:.وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخُويُفا بنى اسرائيل : 60) یعنی ہم نشانات صرف اس لئے بھیجتے ہیں تا کہ خوف پیدا ہو جائے.“ ملاحظہ ہو کسی حوالہ نمبر 26: اعلام الحدیث الجزء الاول صفحہ 612-1611 حیاء التراث مکہ المکرمہ
المملكة العربية السعودية جامعة أم القرى معهد البحوث العلمية وأحياء التراث الإسلامى مركز احياء الثراث الإسلامي مكة المكرمة 95 عکس حوالہ نمبر : 26 QURA من التراث الاسلامي علا الحربي في شرح صحيح البخاري للإمام أبي سليمان حمد بن محمد الخطابي ۳۱۹ - ۳۸۸ه تحقيق ودراسة رقية عبد الرحمن آل سعود الجزء الأول چاند وسورج گرہن
96 عکس حوالہ نمبر : 26 وسلم أن الذى كانوا يَتوَهُمُونه من ذَلِك باطل ، وأن خُسوف الشمس والقمر آيتان من آياتِ الله تعالَى يُريهما خَلَقَه لِيَعْلَمُوا أَنهما خَلقَانِ مُسَخَّران الله عزَّ وجل ليس هُما سُلطان في غَيرهما ، ولا قدرة على ٩٨ ب الدفع عن أنفُسِهما.وأنهما لا يستحقان أن يُعْبدًا ، فَيُتَّخِذَا إِلهين ، وهو معنى قوله عَزَّ وجلَّ ؛ ومِنْ آياته الليل والنهارُ والشَّمسُ والقمر لا تَسْجُدُوا للشَّمْس ولا لِلْقَمَر وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الذِي خَلَقَهُنَّ إن كُنتُمُ إِيَّاه تَعْبُدُونَ ) (۱) ، وأمر عند كسوفها أن يُفْزَع إلى الصَّلاةِ والسجود لله الذى يستَحِقُّ العِبادَةَ والسَّجُودَ دُونَهما ، إبطالاً لقَوْل الجهال الذين يعبدونهما ، وإفساداً لِلمذاهبهم في عبادتهما ، والله أعلن.وقد يُحتمل أن يَكُونَ المعنى في الأمر بالصَّلاةِ عند الكُسُوف الفَزَعَ إلى الله عزَّ وجَلَّ ، والتَّضَرُّعَ له في دَفْعِ الضَّرَرِ والآفاتِ التي تتوهمها الأنفُس ، وتتحدَّث بها الخَوَاطِرُ تحقيقاً لإضافَةِ الحوادثِ كُلِهَا إلى الله تعالى ، ونَفْياً لها عن الشَّمْسِ والقَمَرِ ، وإبطالاً لأحكامها والله أعلم وقد قيل فيه وجه ثالث : وهو أنهما آيتان من آياتِ الله الدالة على قُرب زَمانِ السَّاعة وأمارتان من أماراتها وأشراطِها المُتَقَدِّمة لها كَمَا قد قال مخبراً عن خسوفهما في القيامة : فاذا بَرقَ البَصَرُ وخَسَف القَمَرُ وجمع الشَّمْسُ والقَمْرُ (۲) وقد يَكُون ذَلِك أيضاً أنه يخوف بهما (۱) (۲) سورة فصلت : الآية ٣٧.سورة القيامة : الآيات ۷۰ - ۰۰۹ -111- چاند وسورج گرہن ترجمہ: اس بارے میں ایک تیسرا پہلو بھی بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالی کے نشانوں میں سے یہ دونوں نشان زمانہ قیامت کے قریب ہونے پر دلیل ہیں.اور یہ دو نشانیاں قیامت کی ان علامات اور نشانیوں میں سے ہیں جو اس (قیامت) سے پہلے ظاہر ہوں گی جیسا کہ قیامت کے قریب چاند و سورج گرہن کے بارہ میں خبر دیتے ہوئے فرمایا: فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ وَخَسَفَ القَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ.اور بعض دفعہ یہ نشان اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو خوف دلانے کے لئے بھی ہوتے ہیں.
97 عکس حوالہ نمبر : 26 النَّاسَ لِيَفَرْعُوا إلى التّوبَة والاستغفار من الزَّلَل والخَطايا ، ودَلِيلُ ذَلِك قوله عَزَّ وجل : وما تُرسل بالآيات إلا تخويفا) (۱).ويُؤكِّد ذلك حَدِيثُ أبي بكرة.(1) سورة الإسراء : الآية ٥٩.چاند سورج گرہن ترجمہ: تا کہ وہ اپنی خطاؤں اور لغزشوں کی وجہ سے گھبرا کر تو بہ اور استغفار کی طرف مائل ہوں اور اس بات کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے:.وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخُويُفا (بنی اسرائیل : 60) یعنی ہم نشانات صرف اس لئے بھیجتے ہیں تا کہ خوف پیدا ہو جائے.“
98 چاند وسورج گرہن حکمۃ البالغہ مصنفہ ابوالجمال احمد مکرم عباسی (مطبوعہ مدرسہ نظامیہ 1332ھ) میں بھی سورۃ القیامۃ کی مذکورہ بالا آیات سے کسوف و خسوف مرادلیا گیا ہے.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر: 27 ۶۴۹ وقوع الشمس والقمر دونوں ایک جگہ جمع کر دئے جائیں.- جان کے گھن سے بعض لوگوں نے تو یہی گہن مراد لیا ہے جوہمیشہ ہو اگتی مگر یہ قول ساقط ہے کیونکہ ایسے گہن کو علامات قیامت سے کوئی مناسبت نہیں ہے بعض مفسرین نے چاند گہن سے اسکی روشنی کا زائل ہونا مراد لیا ہے اور یہی صحیح ہے چاند سورج کے جمع ہونے سے کیا مطلب ہے اس میں بھی بین المشرمن اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ سورج اور چاند دونوں ایک جگھ جمع ہو جائیں گے اور اکثروں کا یہ مسلک ہے کہ چاند و سوچ دونوں اکھٹے ہوں گے لینی دونوں کی روشنی زائل ہو جائیگی.فلسفی اعتراض کرتا ہے کہ چاند سورج کا اکھٹا ہونا اور چاند میں گہن لگنا دونوں با تیں ایک وقت میں نہیں ہو سکتیں کیونکہ چاند میں گہن اسوقت لگتا ہے جب اس کے اور سورج کے بیچ میں زمین حائل ہوتی ہے تو آیت کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ہی وقت میں دونوں اکھٹا بھی ہوں گے اور ایک دوسرے سے ہزاروں لاکھوں کوس کے فاصلہ پر بھی ہوں گے اور یہ اجتماع ضدین حال جوا قرآن مجید میں یہ تونہیں فرمایا گیا ہے کہ چاند گہن اور چاند سورج کا اجتماع ایک ہی آن میں ہوگا بلکہ ان دونوں خبروں کو صرف عاطفہ واو کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جو صرف جمع کے لئے آتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ قیامت سے پہلے چاند میں کہن لگیگا اور چاند سورج اکھٹا کئے جائیں گے رہی یہ بات کہ
99 علامہ ابن عربی اور چاند سورج گرہن کے تعیین زمانہ کی پیشگوئی: چاندوسورج گرہن حضرت علامہ ابن عربی " ( متوفی 628ھ ) صاحب کشف بزرگ تھے.علامہ ابن خلدون (متوفی: 808ھ) نے اپنے مقدمہ میں ظہور مہدی کے بارہ میں ان کا ایک قول نقل کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چاند اور سورج کو ظہور مہدی کے زمانہ میں گرہن ہوگا.جو 1311 کا سال بنتا ہے اور اسی ہجری سال میں یہ گرہن واقع ہوا.مورخ ابن خلدون علامہ ابن عربی کے اس قول کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:.امام مہدی کا ظہور خ ف ج کے اعداد گزرنے پر ہو گا ، ان حروف سے مراد ان کے عدد بحساب ابجد لئے ہیں.خ کے 600ف کے 80 اور ج کے 3 ہوتے ہیں اور ان کا مجموعہ 683 ہوتا ہے.“ ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 28 : مقدمہ ابن خلدون مترجم صفحہ 354 - ناشر اصح المطابع کارخانہ تجارت کتب آرام باغ فرمی روڈ کراچی دراصل یہ حروف ان آیات خَسَفَ الْقَمَرُ وَ جُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ (القيامة: 10-9) کا مخفف ہیں جس میں چاند اور سورج کے اکٹھے گرہن لگنے کا ذکر ہے.ابن خلدون نے تو اس سے ساتویں صدی میں ظہور مہدی و نشان گرہن مراد لیا مگر ان میں سے کوئی بات بھی ظاہر نہیں ہوئی.اس پیشگوئی کی حقیقت علامہ ابن عربی کی وفات کے 683 سال بعد واقعاتی طور پر 1311ھ میں ظاہر ہوئی.ابن عربی کی وفات کے سال (628ھ ) میں 683 سال جمع کریں تو 11 13 بنتا ہے، وہی سال جس میں سورج اور چاند کو رمضان المبارک 1311ھ بمطابق 1894ء میں بالترتیب 13 اور 28 رمضان کو گرہن ہوا.
100 چاند وسورج گرہن عکس حوالہ نمبر : 28 مقدمة ابن خلدون مقدمه كتاب العبر ديوان المبتدا و البت في ايام العرب المجر والبربر ومن قائم PALA دی السلطان الكبير مولد علامه عبدالرحمن بن مسلمون المغربی ( م ) مولانا سعد حسن حسنان یوسفی (فاضل الہیات) اع ناشر ا داراست اما با مری روڈ کراچی کرانچی بکٹ ڈی ہو 22/1 گولیمار کراچی.
101 چاند وسورج گرہن مقدمه این خواردن رح عکس حوالہ نمبر: 28 کتا چہ یا ظاہری کہ بنی عبد المطاب میں سے ہو یا پامانی کے خواص آقت سے کوئی ہو.ابن العربی الحاتمی نے اپنی کتاب انتشار مغرب میں حضرت ہی کو نام ارامیا کے نام سے یاد کیا ہے.اور ابن الفات چاندی کی اینٹ سے بھی تعمیر کیا ہے.یہ دراصل اس حدیث کی طرف اشارہ ہے تین کو امام بخاری باب خاتم الیلیین میں لائے ہیں.بدین مضمون کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم فرماتے ہیںکہ میری مثال اتے انبیا میں ایسی ہے کہ مثلا ایک شخص نے کہیں مکان نهایت مکمل بنوا یا اگر ایک ایسٹ کی جگہ اس میں چھوڑ ہیں.لہذا میں وہ اینٹ میں نہیں سے پورے مکان کی صحیح تکمیل ہوئی.اسی لئے مسرت خاتم النبیین کو " گفتہ " کہا جاتا ہے کہ آپ نے ہنساء نبوت کی کڑیاں پوری کر دیں.اور اس تحمیلی میلونگ پہنچایا.یہ آپ کو معلوم ہیں میں چکا کہ ترسو درجات میں وایت کو نبوت کی جگہ قرار دیا گیا ہے تو جن بزرگ - ولایت ختم ہو جائے ، ان پر اس کی تکمیل ہوا ان کے خاتم الاولیاء کہہ سکتے میں ہے.طرح آنحضرت کو خاتم الانبیاء کہا گیا.آپ نے نبوت کی تکمیل فرمانی اور آپ کی ذات پر وہ ختم ہوئی اور تیس طرح آنجناب کو حدیث مذکور میں بطور نشیل بہت بیت امکان کی اینٹ کہا گیا ہے اسی طرح خاتم الاولیا کو بھی جب کہ سکتے ہیں.مگر اس میں بھی درجہ نبوت اور درجہ ولایت میں جو فرق ہے وہ مینا ر ہے گا.اسی لئے انہوں نے آنحضرت کی ثبت الہب کیا اور حضرت ام حیدری کو بیت الفت کیونکر سونے اور چاند ہی میں بھی بڑھیا گھٹیا اور کم و بیش رتبہ کا فرق ہے.ابن الى واصل نے ابن العربی سے نقل کیا ہے کہ امام منتظر باب بیت میں سے ہوں گے اور حضرت فاطمہ رند کی اور ادویہ سے ایران کا ظہور ، ت ج حجر می گذرنے پر ہو گا.گویا ان ترون سے مراد ان کے علا: بحساب ابجد لئے ہیں.خ کے تھ سورت کے اتنی اور ج کے تین ہوتے ہیں.اور ان کا موفہ کو سو تراس ہوتا ہے.لینی ساتویں صدی کے آخر میں ظہور کہ میں گے.لیکن تب یہ عادت گذرگئی اور امام منتر کا شہر نہیں ہوا تو بہت سٹے پائے اور عقیدتمند لگے کہنے کو امان مدت سے ظہور مراد نہیں بلکہ ان کی پیدائش مرا ر ہے.اور پیدائش کو ظہور سے تجھے کہ دیا ہے.در اصل ان کا ظہور نت میکنی بعد کہیں ہو گا.مغرب کے اطراف سے نکلیں گے جو یا ابن العرو کے حساب سے جب ان کی پیدائش شستہ کی مانی تو طیبہ کام وقت یعنی منہ میں ان کی ، تیم بیس برس کی ہو گی.یہ یہ بی عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ م محمدی سے شمار کر کے مسلمہ میں وجبال نکلے گا اور کرم محمدی کی ابتدا.ان کے نزدیک آنحضرت کی وفات سے ایک ہزار برس تک ہے.ابن ابی واصل کتاب قلع النعلین کی شرح میں رقم طراز ہے کہ امام منتظر قائم بامراللہ جن کو محد المہدی خاتم الا و نیاء سے یاد کیا جاتا ہے ، نہیں نہیں چنیں گے بلکہ والی ہوں گے.اللہ تعالٰی کی روح اور اس کے جبیب ہوں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ عالم اپنی قوم میں ایسا ہے جیسے کہ نبی اپنی امت میں.اور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے مانند ہیں.اور یہ خوشخبری اول یوم محمد تھا سے پانچ برس یعنی دو پہر تک بر ایر پلی آئی.دو پہر گزرنے کے بعد مشاری کی خوشی وقت کے تقیہ مہینے آنے سے بڑھتی گئی.کہندی کا بیان ہے کہ یہ امام اوگوں کو ظہر کی ناز پڑھائیں گے.اسلام کو زندہ کریں گے.عدل وانصاف پھیلائیں گے.جزیرہ اندلس کو فتح کرتے ہوئے روم تیک نکل جائیں گے اور اس کو بھی زیرا اقتدار لائیں گے.پھر مشرق کیا کرو کریں گے اور اس کو اپنے زیر نہیں لائیں گے قسطنطنیہ کو فتح کرلیں گے.غرض تمام ملک ان کی قلمرو میں آجائیں گے مسلمانی قوت پکڑ لیں گے.اور اسلام کا بول بالا ہوگا.دین حنیف کے گا اس کی پاکیزگی ظاہر ہوگی.یہ کہ ظہر سے عصر تک نماز ہی کا وقت ہے.آنحضرت نے فرمایا ہے کہ ان دونوں کے درمیان کا وقت بھی نمازہ ہی ہے.
102 حدیث نبوی میں امام مہدی کے لئے سورج وچاند گرہن کے نشان کا ذکر : چاند و سورج گرہن سنن دار قطنی میں حضرت امام باقر کی روایت میں امام مہدی کے لئے چاند اور سورج گرہن کی پیشگوئی ہے.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر : 29 سنن الدارقطني تأليف الإمام الحافظ علي بن حسم الدار قطني المتوفى سنة ٣٨٥هـ على عليه وفرع أحباديه مجدي بن منصور بن سید الشورى الحقنا الفهارس العالمية العامة في آخر المجلد الثاني الجزء الثاني دار الكتب العلمية بيروت - لبنان
كتاب العيدين 103 عکس حوالہ نمبر : 29 چاند و سورج گرہن 이 ١٧٧٤ - حدثنا أبو بكر النيسابوري ، ثنا أحمد بن سعيد بن إبراهيم الزهري ، ثنا سعيد بن حفص خال النفيلي ، ثنا موسى بن أعين ، عن إسحاق بن راشد ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة : ( أن رسول الله ﷺ و كان يصلي في كسوف الشمس والقمر أربع ركعات وأربع سجدات ، وقرأ في الركعة الأولى بالعنكبوت أو الروم ، وفي الثانية ياسين.١٧٧٥ - حدثنا ابن أبي الثلج ، ثنا محمد بن سنان القزاز ، ثنا بكار بن يونس أبو يونس الرام، ثنا حميد ، عن الحسن ، عن أبي بكرة قال : كسفت الشمس في عهد رسول الله ، ، فقال : إن الشمس والقمر آيتان الحديث ، وقال فيه : ( ولكن اللهَ إِذَا تَجَلَّى لشيء مِن خَلَقَه خَشَعَ لَهُ ، فَإِذَا كُسَفَ وَاحِدٌ مِنْهُمَا فَصَلُّوا وَادْعُوا (٢).١٧٧٦ - حدثنا ابن أبي داود ، ثنا عيسى بن شاذان ، ثنا محمد بن محبوب البناني ، ثنا (٦٤) محمد بن دينار الطاحي ، عن يونس ، عن الحسن ، عن أبي بكرة قال : قال رسول الله ﷺ : ( إن الله عَزَّ وَجَلَّ إِذَا نَجَلى لشيء من خلقه خشع لـ ، تابعه نوح بن قيس ، عن يونس بن عبيد.۱۷۷۷ - حدثنا أبو سعيد الأصطخري، ثنا محمد بن عبد الله بن نوفل ، ثنا عبيد بن يعيش ثنا يونس بن بكير ، عن عمرو بن شمر ، عن جابر ، عن محمد بن علي قال : ( إن المهدينا آيتين لم تكونا منذ خلق السماوات والأرض ، تنكسف القمر لأول ليلة من رمضان ، وتنكسف الشمس في النصف منه ، ولم تكونا منذ خلق الله السماوات والأرض ۱۷۷۸ - حدثنا ابن أبي داود ، ثنا أحمد بن صالح ومحمد بن سلمة قالا : نا ابن وهب ، عن عمرو بن الحارث ، أن عبد الرحمن بن القاسم حدثه ، عن أبيه ، عن عبد الله بن عمر ، عن رسول الله ﷺ قال : ( إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله لا ينخسفان لموت أحد ولا لحياته ، ولكنهما آيتان من آيات الله ، فإذا رأيتموها فَصَلُّوا (٥).(٤) (٦٥) *** ترجمہ: ہمارے مہدی کی صداقت کے دو نشان ہیں اور یہ صداقت کے دونوں نشان جب سے دنیا بنی ہے کسی کے لئے ظاہر نہیں ہوئے.رمضان میں چاند کو ( چاند گرہن کی راتوں میں سے) پہلی رات کو جبکہ سورج کو ( سورج گرہن کے دنوں میں سے ) درمیانے دن کو گرہن لگے گا.اور یہ نشان جب سے دنیا بنی ہے کسی کے لئے ظاہر نہیں ہوئے.
حدیث دار قطنی کے دیگر شواہد: 104 چاند سورج گرہن سنن دار قطنی میں بیان فرمودہ یہ حدیث نبوی درج ذیل علمائے امت نے بھی بیان کی ہے:.اکمال الدین مصنفہ شیخ صدوق (متوفی : 381ھ ) جلد دوم صفحہ 369 مطبوعہ کتاب فروش تهران تذکرہ مصنفہ علامہ قرطبی ( متوفی: 656ھ ) جزء 1 صفحہ 1208 مكتبة دار المنهاج النشر والتوزيع الطبعة الاولی 1425 ھ ریاض الحاوی للفتاویٰ مصنفہ علامہ سیوطی (متوفی : 911ھ) جزء2 صفحہ 78 دار الفکر للطباعة و النشر بيروت لبنان 1424ھ - القول المختصر مصنفہ علامہ ابن حجر بیشمی (متوفی 974ھ ) الباب الثالث صفحہ 57 للطبع النشر والتوزیع قاہرہ مصر - الفتاوی الحدیثیہ مصنفہ علامہ شیخ حمد شہاب الدین ابن حجر کھیمی (متوفی 974ھ ) صفحہ 42 مطبعۃ دارالمعرفۃ بیروت لبنان مکتوبات امام ربانی مصنفہ حضرت مجددالف ثانی (متوفی: 1034ھ ) دفتر دوم صفحہ 239 مکتوب 67 مترجم قاضی عالم الدین نقشبندی صاحب مطبع عرفان افضل پر لیس لاہور آخری گست مصنفه مولوی محمد رمضان حنفی مجتبائی (مطبوعہ: 1278ھ) حج الکرامہ مصنفہ نواب صدیق حسن صاحب ( متوفی :1307ھ ) صفحہ 344 مطبوعہ 1290ھ اقتراب الساعة مصنفہ نواب نور الحسن خان صاحب (متوفی: 6 3 3 1ھ ) صفحہ 106 مطبوعہ 1301ھ مطبعة مفید علم الکائنہ قیامت نامه فارسی و علامات قیامت اردو مصنفہ شاہ رفیع الدین صاحب محدث دہلوی ( 1915ء) ولی پرنٹنگ ورکس باہتمام لالہ ٹھاکر داس پر نٹر کتاب الروضہ صفحہ 100 مطبع منشی نول کشور لکھنو عقائد الاسلام صفحہ 183،182 مصنفہ عبدالحق
105 چاند و سورج گرہن حدیث چاند سورج گرہن کی تائیدی شہادات احوال الآخرت موسوم به اقوال الآخرۃ میں چاند سورج گرہن کا ذکر : اسی طرح ایک اور بزرگ مفتی غلام سرور ( متوفی : 1307ھ) نے بھی احوال الآخرت موسوم به اقوال الآخرت صفحہ 16 میں یہ شعر لکھا ہے:.بہت قریب ظہور مہدی وی سمجھو نال یقینے چن سورج دو ہیں گرہ جاسن وچ رمضان مہینے صوفی بزرگ و ماہر اہل نجوم عبدالعزیز پر ہاڑوی ملتان کے ایک عالم صوفی بزرگ، ماہر علم نجوم عبدالعزیز پر ہاڑوی (متوفی: 1239ھ) کا زمانہ مہدی میں چاند سورج گرہن کے بارہ میں ایک شعر ہے:.در سن ” غاشی" ( 1 1 3 1 ھ) ہجری دو قران خواهد بود از پئے مہدی , دجال نشان خواهد بود کہ سال ” ناشی میں جس کے اعداد 1311 ہیں دو ا کٹھے گرہن ہوں گے جو مہدی اور دقبال کے ظہور کیلئے نشان ہوں گے.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 205 ایڈیشن 2008) ” غاشی“ کے اعداد بحساب جمل: غ ۱ ش ی ٹوٹل 1 10 300 1000 1311 ملتان کے ایک غیر احمدی دوست مکرم احمد خان خاکوانی افغانی نے 4 رمضان 1324ھ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ کی زندگی میں اسکے بارے حلفیہ گواہی دیتے ہوئے لکھا:.میں حلفا خداوند کریم کی قسم کھا کر کے یہ شہادت لکھتا ہوں کہ میں 1290ھ سے بھی پہلے شیعہ صاحبان ساکنان ملتان سے سنا کرتا تھا جس کو شیعہ صاحبان بڑے شد و مد سے اپنے امام علیہ السلام مهدی موعود کے ظاہر ہونے کی تصدیق میں
از 106 چاند وسورج گرہن پڑھا کرتے تھے اور اس سے یہ مطلب نکالتے تھے کہ 1311ھ میں حضور علیہ السلام ظاہر ہو کر تمام ملک پر شیعہ مذہب کی تائید فرما ئینگے.وہ بیت یہ ہے:.در سن ” غاشی" ( 1 1 3 1 ه ) ہجری دو قران خواهد بود یئے مہدی و دیبال نشان خواهد بود اور نیز یہ کہتے تھے کہ یہ بہیت پچاس ساٹھ برس سے حضرت شیخ محمد عبد العزیز پر ہاڑوی ملتانی نے جو ولی کامل گزرے ہیں از روئے الہام ربانی فرمایا تھا...1311ھ میں معلوم ہوا کہ قادیان ضلع گورداسپور میں مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان نے مہدویت کا دعوی کیا ہوا ہے اور اس بیت کے مصداق وہ ثابت ہوئے ہیں کیونکہ اسی 1311ھ میں ایک حدیث شریف کی رو سے ماہ رمضان میں کسوف و خسوف کا ہونا مراد تھا جو واقع ہو گیا...میں مرزا صاحب قادیانی کا مرید نہیں اور نہ اب تک بیعت کی ہے...یہ شہادت امام الزماں مہدی دوراں کے حق میں لاثانی اور بے نظیر شہادت ہے.اس کو ایک دفعہ پھر بھی زور وشور سے مشتہر کرنا ضروری ہے تاکہ قیامت کا وبال گردن پر نہ رہے..ولا تكتمو الشهادة وما علينا الا البلاغ......یہ شہادت ایک ایسے شخص کی ہے جو اپنے زمانہ میں امام الزماں اور اپنی صدی کا مجدد ہوگزرا ہے.اس کے نام سے ایک عالم آگاہ ہے اور حسن اتفاق یہ ہے کہ اسی بزرگ نے اپنی کتاب عقائد نبراس میں ایک قول بھی لکھا ہے کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں.راقم احمد خان ولد عبد الخالق خاں 66 خاکوانی ملتانی حاضر الوقت بمقام بھیرہ ضلع شاہ پور 4 رمضان المبارک 1324ھ.“ ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 30: اخبار بدر 14 مارچ 1907 صفحہ 8 نوٹ: یہ شہادت اخبار بدر 14 مارچ 1907ء میں شائع ہوئی جسکی آج تک کسی نے تردید نہیں کی.
107 چاند وسورج گرہن عکس حوالہ نمبر :30 مایش بیت کا مطلب اب کھل گیا کہ دو تیران کے لفظ سے کورس کی الگ بات ہے مگر خدائی تائید و میں نیزہ ہے مین مرزاف ان گیری اینگوی مهدی مد و یتیمان کسون خسوفت مراد تا جر حاضر او قت علی پرپر امان مل جاعت کا بیان ہیں مگر اس کی امی کا نام ایک امامت کا کام ترین باسم الرحمن الرحیم با نمره ونتی ملا رسول الكريم آنان در خیالی بعدی جوشیده صاحبان اپنے خیال مین باندی می یقین اور کامل یقین سے کہتا ہوں کہ حاضر ہدایت مری کی بوری حضرت محمد صادق اور میرا یار باید ایدہ الہ تائید ہوئے تھے کہیں سے ظاہر نہ ہوا بلکہ یہ بہیت ہو حدیث میں ہم ہزار کوشش اور ہزار جانتا ہی کرین خدا تعالی ان کی تائید السلام علیکم در همه دید وبر کاتره میرے پاس اور رمضان شریف کسوف خسرت والی کے اسی قدیمی پر صادق آیا مین ہ ہم یہ بھی نہ رشکین سکے اورنہ کر سکے.چشتیوں کے گذشته کی آپ طاقت بڑھی ہے جو آپکے یہ چدین درج کرنے کے اب اس کے وقوع کو تیرہ چودہ سال گزر چکے ہیں کیوئی - ایک پیشور نے حضرت مرزا صاحب کی تصدیق کی ہے جو انسان نے مجھے راتم تصدیق نے دی اور تاکیدا مر گیا اور کار معمول بات تھی جبکہ ساری دنیا کے شیعہ کو لا یر ا نے کے علاتی می شهر یزد گالی اور تھے اور ہزاروی چینی نقشبندیان دین گرین باعث عدیم الفرصتی در خود اپنی طویل باری کے والی اور حاضر الوقت مدعی کے منہ ملکی موریہ کون کرے مرزا صاحب کے دشمن ہیں مگر کچھہ ہی نہیں کر سکے.گوردی صاحب آپ کی خدمت مین نہ بھیج سکا.ایسار سال خدمت سے السلام سے لڑ کانی تصدیق ہوچکی ہے.نے جیسے عداوت کا بڑا انشا باب سے مرزا صاحب کی یاد محمد حسین طبیب احمد آبادی از بمیره مین پر چیتا مون که سلامه به مین کون هندی ظاهر گرم بازاری ہوئی.خدا مہر ایک کو ہدایت کرتی.آمین ہوا کسی نئے دیور نے کیا ہوا اتنا کس سکے حق میں یہ دونر مین رمضان را در بین استان سے بحیرہ مین بخاریست حضرت امام الزمان کی نسبت آسمانی نشان ظاہر ہوئے حدیث میں تو کوئی نہ بتایا حضرت معظم طبیب اول مراسم ناموری محمدحسین صاحب مهربانی ہوا نہ تمہاری بیت المام بائی کی تصدین نخل به نظر ایک شفاخانہ حاضر مو ایران اخبار ہنر کے دیکھنے ا هم از نظر رنگونی ی سی ال صادق کی اب کوئی شخص صحیح العقل انکار کر سکتا ہے کا موقہ مور اور خیال آیاکہ مجھے یہ شہادت معلوم ہے جس کا ظاہر بوبیت سال ها شیری سے پہلے کے مشہور چلا آتا تھار کرنے والا ایسا شخص بین ایران اگر اس کو راتوری جماعت کو لوگوں مین انسان کا رہنے والا احمد خان نام افغان خاکوانی پیر حاضر الوقت مدعی کے حق میں صادق نہیں آیا.نے ایک خفیف شہادت سمجھا ہوا ہے حالانکہ یہ شہادت عبد الخالق نعمان مرحوم ملفا خداوند کریم کی تم کر کے یہ مین مرزا صاحب قاراپنی کامیہ نین اور نہ ان یک امر از ان معدی در ان کے حق مین ایرانی اور بے نیت بادت ستعادت لکھتا ہوں کہ من منشعلہ ورہ سے بھی پہلے بیعت کی ہے مگر شر یہ لوگ جہان کے دشمن ہیں اور لائن ہے اس کو نیک اور پھر بھی زور شور سے مشترکہ نا ضروری ہے شید صاحبان ساکنان ملتان سے سنا کرتا تھا جس کو شیعہ کا نام سن کر جیل جاتے میں مجھے ضرور مرزائی یقین تاکہ قیامت کا بیان گردن پر نه ترور ولا تنمو الشهادة صاحبان بر شد وقہ سے اپنے امام علیہ السلام کریں گے.بین ساری دنیا کے بیشون کو انکار کر کہتا دما علينا الا البلاغ - بریولان باغ باشد دیس مہدی بندر عود کے ظاہر ہونے کی تصدیق میں پڑہا کہتے ہوں کہ اس تدریج سے دشمنی کی بار سیب مین جایز ہے مراقم - احمد خان ولد عبد الخالق خان افغان خاکوانی مستانی مطلب نکالتے تھے کہ ان میں کیا آپ کو مزانین کیا خداوند تعالی کی جناب مین حاضر عاضر الوقت بعام چیره ضلع شاه ابور حضور علیہ السلام کا ہر مر کر شام ملک پر شیعہ مذہب کی نہیں ہونا.تائید فرامین کے وہ میت یہ ہے.اب اگر کوئی شخص اس طرح بہتان کی نجاست کھانے - رمضان المببرک له و من درین فاشی هیجری و قرآن خواهد بود گے کہ یہ بہت کسی نے اب بنا لیا ہے تو ہم اس کے مونہ ملا یہ شہادت ایک ایسے شخص کی سہے جوانی زمانہ میں ام الدنا السمارة پر لعنت کا جوتا مارنے کو مستعد ہیں.نشر امام بخش اور اپنی صدی کا مجعدہ ہو گزر اس سے اس کے نام شریعت سے از پے مندی و جال نشان خواهد بود صاحب سواری امام الدین صاحب شاینی ونشی قادر بخش آی علم کا ہو اور من تفاق یہ ہے کہ اس بزرگ نے اپنی کتاب نوں نیز کہتے تھے کہ یہ بہت سچاس ساتھ برس سے صاحب وغیرہ پیش آستین راست اس بیری کے ذاکه زنده موجود شرح مقاما نیر اس میں ایک قول بھی کہا ہے کہ حضرت حضرت شیخ محمدعبد العزیز پر ماروی ملتانی رحمہ اعلی ہیں، اسی طرح بے شمار لوگ شیعہ وسنی اس بہت کے جیسے علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.منہ سے پیر ولی کامل گذرتے میں الہ یہ دوئے الامام ربانی فریایا جانے والے اب بھی ہیں.ان منکر ہو جاویں تو یہ الگ.أجرت اشتہارات محارم مشهور چلا آتا ہے جوں جوں نہ وہ قریب آتا بات ہے.اس پیشین گوئی کو جو العام ربانی سے حضرت تقسیم صفحه سال چھا تین اہ آیاہ کیلئے گیا.شیعہ صاحبان کا انتظار بڑھتا گیا.ملالہ دو میں معلوم مولی کلا عر فاضل بے نظیر مصنف ہے عدیل مولانا حضرت پورا صفحہ را که قادیان مطلع گورداسپور مین میرزا امام احمد صاحب عبدالعزیز رحمت اله علی نے کہا تھا اور ہم نے اپنی انکلون راین قادری انا نے مہدیت کا دعوے کیا ہوا ہے اورلہ سے پورا ہوتا کہ کیا یہ کوئی توڑی بات نہیں سار ایک کالم اس بہیت کے مصداق دو ثابت ہوئے ہیں کیونکہ اسی دنیا کے منکرین کا مونھ کالا کرنے کے لئے کافی ہے سب لو له حرمین ایک حدیث شریف کی کہ دو سے ماہ رمضان منکرین ملکہ کوئی ایسا د ی صد در میت کہا دین جس کے بین کسوت خسومت کا ہونا مرادہ تھا جو واقع ہو گیا اور اس حق میری اس قدر شده من صادق آتا ہو مومن سیتی سنتر *..$ ۲۵ کام
108 چاند وسورج گرہن اربعین فی احوال المحمد تین میں درج حضرت نعمت اللہ شاہ ولی " کے قصیدہ میں مہدی کی صداقت کے لئے چاند سورج گرہن کے نشان کا ذکر ہے.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر: 31 گتا.ارعين في أحوال المهديين عليه السلا من محمد اسمعیل شهید هلون جمة خلیفه عليه الله علون ار شد و اقل حضرت مجدد صد سیزده می شتیکال جناب پر یلو کے لئے
109 عکس حوالہ نمبر : 31 مکرو تا دیر و حیله در هر جا از صفار و کبار می بینم بقعه خیر سخت گشت خراب جای جمع شرار می بینیم اند کی اسن گر بود امروز درحد کو ماری شیمی گر چه می بینیم این همه نعیم شادی غمکاری میم بعد امسال و چند سال دگر عالمی چون نگار می بینیم بادشاہ شام دانائی سروری باد فارسی نیم حکم امثال صورتی دگرست نه چو بیدار دار می بینیم ین دی سال چور گذر این سال بوالعجب کار و بارسی بیم اگر در آئینه ضمیر جهان گرد و زنگ و غبار می نیم ظلمت ظلم ظالمان دیار بی حد و بی شمار می بینیم جنگ و آشوب و فتنه د بیدار در میان و کنار می بینیم بنده را خواجه وش کمی پایم خواجه را بنده دار می بینیم هر که او بار بار بود امسال خاطرش زیر بار می بینیم در همش کم عیار مینیم دیگر براد دچار می بینم سکه نوزنند بر رخ زر مریکا نے حاکمان ہفت اقلیم باه را روسیاه می نگرم را دل نگار می نم مانده تاجر از دور دست بین همراه در بازار بی سیم جور ترک تبار ی چاند سورج گرہن حال بند و خراب می یابم ترجمہ الف: تیرہ سوسال (ہجرت سے ) گزرنے کے بعد میں عجیب معاملات دیکھتا ہوں.ترجمہ ب: میں چاند کو سیاہ ہوتے دیکھ رہا ہوں اور سورج کو پریشان حال دیکھ رہا ہوں.
110 چاند وسورج گرہن چودھویں صدی میں نشان چاند سورج گرہن کے ظہور پر حضرت خواجہ غلام فرید صاحب کی تائیدی گواہی حدیث نبوی کے مطابق مہدی کے نشان کے طور پر چودھویں صدی کے سر پر 1311ھ بمطابق 1894ء ، 13 رمضان کو چاند گرہن اور 28 تاریخ کو سورج گرہن ظاہر ہوا تو بعض مولوی حضرات نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ گرہن 13 اور 28 رمضان کی بجائے خارق عادت طور پر یکم اور پندرہ رمضان کو ہونا چاہیے تھا.اس پر حضرت خواجہ صاحب ٹیکسوف و خسوف کے بارہ میں دار قطنی کی حضرت امام باقر کی بیان کردہ حدیث کا ذکر کر کے حضرت بانی جماعت احمدیہ کے حق میں 1894 میں اس نشان کے پورا ہونے اور دنیا پر اتمام حجت کو اپنی مجلس میں پیش کرتے ہوئے فرمایا:.اس زمانہ کے مولویوں نے یہ طفلانہ سوال کیا ہے کہ حدیث شریف سے یہ معنے ظاہر ہوتے ہیں کہ رمضان شریف کی پہلی رات کو چاند گرہن ہوگا اور اسی ماہ رمضان میں سورج کو بھی گرہن ہوگا اور یہ چاند گرہن رمضان کی تیرھویں تاریخ کو واقع ہوا ہے اور سورج گرہن رمضان کی اٹھائیسویں تاریخ کو واقع ہوا ہے اور یہ بات حدیث شریف کے فرمان کے خلاف ہے.وہ کسوف و خسوف کوئی اور ہو گا جو کہ مهدی برحق کے زمانہ میں واقع ہوگا.اس کے بعد خواجہ صاحب ابقاء اللہ ببقائه نے فرمایا: سبحان اللہ اسٹیے حضرت مرزا صاحب نے مذکورہ حدیث کے کیا معنی کئے ہیں اور منکر مولویوں کو کیا جواب دیا ہے.حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ حدیث شریف کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے مہدی کی تائید اور تصدیق کے لئے دو نشان مقرر ہیں.اس وقت سے کہ جب سے آسمان وزمین پیدا ہوئے یہ دونوں نشان کسی مدعی کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے اور وہ دو نشان یہ ہیں کہ مہدی موعود کے دعوی کے وقت چاند گرہن پہلی رات کو ہوگا اور وہ چاند گرہن کی تین راتوں میں سے پہلی رات یعنی تیرھویں رات ہے.اور سورج گرہن اس دن ہوگا کہ سورج گرہن کے دنوں
111 چاند وسورج گرہن میں سے درمیانہ دن یعنی ماہ رمضان کی اٹھائیسویں تاریخ ہے.اس کے بعد حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ بے شک حدیث شریف کے معنی اس طرح ہیں جس طرح حضرت مرزا صاحب نے بیان فرمائے.کیونکہ چاند گرہن ہمیشہ مہینہ کی تیرہ ، چودہ ، پندرہ تاریخ میں واقع ہوتا ہے اور سورج گرہن ہمیشہ مہینہ کی ستائیس، اٹھائیس انتیس تاریخ میں واقع ہوتا ہے.پس چاند گرہن 16اپریل 1894 کو واقع ہوا.اور وہ رمضان کی 13 تاریخ کو جو چاند گرہن کی راتوں میں سے پہلی ن ہے، کو واقع ہوا اور سورج گرہن ،سورج کو گرہن لگنے کے دنوں میں سے درمیانے دن وقوع پذیر ہوا.“ ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 32: اشارات فریدی فارسی مقبوس نمبر 27 صفحہ 71-72
112 عکس حوالہ نمبر: 32 حقموجود و مشهود ذلك الكتاب الريب فيه ار باپ شریعت و طریقت را راه برای اصحاب معرفت و حقیقت را نور سعادت یاد که دراین زمان فقمیض اقتران کتاب مستطاب لب اللباب احادیث و قرآن گفتن از اندوق در میان فری اسرار توحید سمی بنتا لیس المجالس المعروف به ال افریدی ا ملفوظات تلعب مدار روش روزگار سلطان العارفين خليفة السف السموات والارضنين مكنت ذلك الولایت والعرفان المتصرف في الاكوان روح المعرفت قلب الحقيقة اور بعض وجود حت ذات مقدس حضور اقدس قبایل وحی در خواب اور ریفری استای من که جمع کرده بنده رکن الدین پربار سونی ثبت اسد عالی علی الصدق والیقین است بران برایت نوان سندان امین حبه الواصلين قلب الموحدین شیخ الاسلام و آبی مورد ان انا ماهی ها التكاليم ان بجارانی را فرا اسراء بدالعلی خان صاحب بهادر امیر نونی مسلمه ر به چاند وسورج گرہن
113 عکس حوالہ نمبر: 32 61 رسال کرد که این پیشین گوئی حضرت رسول اله صلی الہ علیہ السلام بابائے ظهور مهدی موعود فرموده بودند.اکنون تمام شده است بر همه واجب که مهدیت من اعتراف کنید و اقرار نمائید پس مولویان وقت طفلا در سوال کردند که از حدیث ترین این منی برمی آید که از اول شب رمضان خسوف قمر شود و در نیمه رمضان وان شمس گردد و این خسوف بتاریخ سیر و هم رمضان واقع گشته دا سون تاریخ است درشتم ریضان بوقوع آمده این خلاف منطوق حدیث ایستان سوف و کسوت دیگر خواهد بود که در زمان مهدی بر حق وقوع باید بعد ازان حضور نور خواجہ البقاه السد تعالیٰ سبقائه فرمودند سبحان الله بشنوید آنچه مرزا صاب معنی حدیث شریف مذکور بیان نموده و مولویان منگران را جواب داده است مردان صاحب گفته که معنی حدیث شریف این است که برای تائید و تصدیق محمدی مام دو نشان مقر اند از ان مدت که آسمانها و زمین پیدا شده اند آن دو نشان در وقت کے مدعی بطور نیامده و آن دو نشان این است که در وقت ادعا مهدی موعود خوست قمر در آن اول شب خواهد بود که آن شب از سه شب خسون اول است یعنی شب سیز د امر انه رمضان دکسون شمس دران روز خواهد بود که از ایام کسوف در میاند روز است یعنی بیست در شتر از معنان بعد انسان حضور فرمودند که بیشک معنی حدیث شریف این چنین است که مرزا صاحب بیان کرده چه فسون تمر میں تاریخ سیزدهم یا چهاردهم با پانزدهم ماه واقع میشو دوکسون شمس همیشه در تاریخ بیست و هفتم با بیست و شتر با بیست دهم ماه بوتو می آید پس فسوف قمر که تاریخ مش تر از ماه اپریل ۱۸۳ ۶ بروده صد و نود و چهارم عیسوی واقع چاند وسورج گرہن ترجمہ: اس زمانہ کے مولویوں نے یہ طفلانہ سوال کیا ہے کہ حدیث شریف سے یہ معنے ظاہر ہوتے ہیں کہ رمضان شریف کی پہلی رات کو چاند گرہن ہوگا اور اسی ماہ رمضان میں سورج کو بھی گرہن ہوگا اور یہ چاند گرہن رمضان کی تیرھویں تاریخ کو واقع ہوا ہے اور سورج گرہن رمضان کی اٹھائیسویں تاریخ کو واقع ہوا ہے اور یہ بات حدیث شریف کے فرمان کے خلاف ہے.وہ کسوف و خسوف کوئی اور ہوگا جو کہ مہدی برحق کے زمانہ میں واقع ہوگا.اس کے بعد خواجہ صاحب ابقاء اللہ ببقائہ نے فرمایا: سبحان اللہ اسکیے حضرت مرزا صاحب نے مذکورہ حدیث کے کیا معنی کئے ہیں اور منکر مولویوں کو کیا جواب دیا ہے.حضرت مرزا صاحب نے فرمایا کہ حدیث شریف کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے مہدی کی تائید اور تصدیق کے لئے دونشان مقرر ہیں.اس وقت سے کہ جب سے آسمان وزمین پیدا ہوئے یہ دونوں نشان کسی مدعی کے وقت میں ظاہر نہیں ہوئے اور وہ دونشان یہ ہیں کہ مہدی موعود کے دعوئی کے وقت چاند گرہن پہلی رات کو ہوگا اور وہ چاند گرہن کی تین راتوں میں سے پہلی رات یعنی تیرھویں رات ہے.اور سورج گرہن اس دن ہوگا کہ سورج گرہن کے دنوں میں سے درمیانہ دن یعنی ماہ رمضان کی اٹھائیسویں تاریخ ہے.اس کے بعد حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ بے شک حدیث شریف کے معنی اس طرح ہیں جس طرح حضرت مرزا صاحب نے بیان فرمائے.کیونکہ چاند گرہن ہمیشہ مہینہ کی تیرہ ، چودہ ، پندرہ تاریخ میں واقع ہوتا ہے اور سورج گرہن ہمیشہ مہینہ کی ستائیس ،اٹھائیں ، انتیس تاریخ میں واقع ہوتا ہے.پس چاند گرہن 6 اپریل 1894 ء کو واقع ہوا.
114 عکس حوالہ نمبر: 32 Ly نده است و آن تاریخ سیزدهم رمضان که ادل شب از شبهای منسون است بوقوع آمده و کیسین در میانه رو از روز باکسون شمس واقع گشته است بعد ازان مسجد مبارک بر سر نهاد نمه نماز عه شمار با جماعت گزار دند بنده همینه دران جماعت داخل بود.آنگاه ین بنده راقم الحرف برو نا خودآدم خور خواص العاده است عالی بانک همچنان شامل بخدا ماند مقبوس بیست دبیشتر بوقت عشار شب جمعه تاریخ در ازماه رمضان است سال سیزده صدر چهاردهم بجری المقدس دولت پاسے بوس زیارت حضت اقتی که عبارتی وسعادتی ، ترازین نیست میگردی حضور خواتاق افتاد یا کم لبقائه رض عشا با جماعت گذاردند روشن رواتب گذارده دعای سبحان ذو الملك والملكوت اسحاروى العزت والعظمت والهيبت والقدميت والكبرياء والجبروت سبها لك الحر الذ والاضلا و الموت سبوح قدوس ربنا ورب الملئكة والروح اللهم اجرنا من الناد ماریا ماریا می خواند در برای شروع شدند مانافلامری که همیشه پیش امام حضور خوابطالقان ما اله تعالی به بقائه دی بوده است در فرمودند که امشب یک سپاره بخوانی پس یک T د تمام تاریخ خوانده شد صور خواجه تباه است تعالی بدلتان تشریف فرم شدند.استعالی در این بنده ام محرم دیگر حضار پر وفاق خویش آوند مقبور است و هر وقت عمرو و به تاریخ درمان ماه رمضان سال مذکور دولت پا بوس وزیارت حضرت اقدس که عبادت و سعادتی بهترازین نیست حاصل شدر همین روز در فضای آسمان ابر بوده است حضور خواجه ابقاه اسر تعالی بقائه و نا ایک بار پرسیدند که اب بینک ست یا غلیظ هم حضار عرض کردند که اغلیظ شده است نفعنا و حضور خواجه ابقاه السه تعالی را نظر بدیدن ابرو با را محبت کمال بوده است برخاستند ودند که بردی انگاری چاند وسورج گرہن ترجمہ: اور وہ رمضان کی 13 تاریخ کو ( جو 23 مارچ 1894 تھی.ناقل) چاند گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات کو واقع ہوا اور سورج گرہن، گرہن لگنے کے دنوں میں سے درمیانے دن (28 رمضان بمطابق 6 اپریل.ناقل ) وقوع پذیر ہوا.
115 چاند وسورج گرہن سورج اور چاند گرہن اور قانون قدرت میں اس کی تاریخیں چاند گرہن اور سورج گرہن کا چاند سورج اور زمین کی گردش اور مینوں کی رفتار کے ساتھ تعلق ہے.چاند زمین کے گرد گردش کرتا ہے اور زمین اپنے چاند کے ساتھ سورج کے گرد گردش کرتی ہے.جب چاند گردش کرتے کرتے سورج اور زمین کے درمیان حائل ہو جائے تو اس کے نتیجہ میں سورج کی شعاعیں زمین پر نہیں پہنچتیں تو اسے سورج گرہن کہتے ہیں.چاند کی گردش کی جو رفتار مقرر ہے اس رفتار سے گردش کرتے ہوئے چاند تین دنوں میں یہ فاصلہ طے کرتا ہے.یعنی قمری مہینے کی 27-28.29 تاریخوں کو.27 تاریخ سے پہلے موجودہ رفتار کے مطابق سورج کو گرہن نہیں لگ سکتا.اسی طرح قمری مہینہ کی 29 تاریخ کے بعد بھی یعنی 30 تاریخ کو سورج کو گرہن نہیں لگ سکتا کیونکہ ان ایام میں چاند سورج اور زمین کے درمیان نہیں ہوتا.اسی طرح جب چاند گردش کرتے کرتے زمین کے دوسری طرف چلا جاتا ہے اور چاند اور سورج کے درمیان زمین آجاتی ہے تو چاند پر سورج کی شعاعیں نہیں پڑتیں جس کے نتیجہ میں چاند تاریک ہو جاتا ہے اور اسے چاند گرہن کہا جاتا ہے.اور مقررہ رفتار کے مطابق یہ فاصلہ تین دنوں میں طے ہوتا ہے.یعنی قمری مہینے کی 13-14-15 تاریخوں کو.13 تاریخ سے پہلے اور 15 تاریخ کے بعد چونکہ چاند زمین اور سورج ایک قطار میں نہیں ہوتے اس لیے چاند کو گرہن نہیں لگ سکتا.ان تاریخوں سے ہٹ کر چاند اور سورج کو تب ہی گرہن لگ سکتا ہے جب چاند اور سورج کی گردش کی رفتار یا تیز ہو جائے یا کم ہو جائے اور ایسا ہونا خلاف قانون قدرت ہے.
116 چاند سورج گرہن حدیث نبوی میں چاند و سورج گرہن کی تاریخوں کی تعیین حدیث مبارکہ میں مذکور " اول لیلۃ " اور " فی النصف " سے یکم رمضان اور 15 رمضان کو گرہن لگنا مراد نہیں جیسا بعض لوگوں کا خیال ہے.کیونکہ پہلی کے چاند کو ہلال کہتے ہیں جبکہ حدیث میں قمر کے الفاظ ہیں جو تیرھویں.چودھویں کے چاند کے لئے آتا ہے.دوسرے پہلی چاند کا گرہن قانون قدرت کے بھی خلاف ہے.چاند کو ہمیشہ اس کی 13، 14، اور 15 کو گرہن لگتا ہے جبکہ سورج کو گرہن 27، 28، اور 29 کی قمری تاریخوں میں لگتا ہے اس میں تبدیلی نہیں آسکتی کیونکہ یہ سب سیارے اپنے مقررہ مستقل مدار پر گردش میں ہیں (لیس: 29 تا 41) اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چاند گرہن کے ذکر میں اول لیلہ سے مراد 13 رمضان جبکہ سورج گرہن کے ذکر میں فی النصف سے مراد 28 رمضان مراد ہے.اس امر کی تائید میں بزرگان سلف کے حوالہ جات پیش ہیں:.مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ کے مطابق چاند و سورج گرہن کی تاریخیں: علامہ ابن تیمیہ (متوفی : 728ھ) سے قمری مہینہ کی 14 تاریخ کو چاند گرہن اور 29 کو سورج گرہن کے بارے میں فتویٰ پوچھا گیا تو انہوں نے اس کا جواب لکھا کہ :.چاند اور سورج گرہن کے اوقات اسی طرح مقرر ہیں جس طرح ہلال کے طلوع ہونے کا وقت مقرر ہے اور دن رات کے پیدا ہونے اور گرمی سردی کے آنے کے موسم مقرر ہیں اور یہ سب سورج اور چاند کی گردش کی پیروی کرتے ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ قانون بھی جاری ہے کہ ہلال تیسویں یا اکتیسویں دن نکلتا ہے اور یہ کہ مہینہ میں یا انتیس کا ہوتا ہے تو یہ گمان کرنا کہ مہینہ اس سے کم یا زیادہ ہوسکتا ہے غلط ہے.چاند کے مکمل ہونے کی یہ تاریخیں 14،13 اور 15 روشن را تیں کہلاتی ہیں جن کا روزہ بھی رکھنا بھی مستحب ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ قانون بھی جاری ہے کہ سورج کو گرہن صرف اس وقت لگتا ہے جب چاند چھپ جاتا ہے ( یعنی 27 تا 29 کی قمری تاریخیں) ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 33: مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ المجلد الاول صفحه 320 مطبوعہ 1983ء، بیروت
117 عکس حوالہ نمبر : 33 مجموعة فتاوى ابن تهیه لشيخ الإسلام تقي الدين ابن تيمية الحراني المتوفى شكانة هـ طبعة منقحة ومصححة ١٤٠٣ هـ - ١٩٨٣ م المجلد الاول دار الكتب العالمية بيروت - لبنان چاند وسورج گرہن
118 عکس حوالہ نمبر : 33 وسلم إلى الناس، وتلقاه أصحابه عنه الإيمان والقرآن ، حروفه ومعانيه وذلك مما أوجاء الله اليه ما قال تعالى ( وكذلك أوحينا اليك روحا من أمرنا ما كنت تدرى ما الكتاب ولا الايمان - ولكن جعلناه نور آنهدى به من نشاء من عبادنا ) وتجوز القراءة في الصلاة وخارجها بالقراآت الثابتة الموافقة لرسم المصحف كما ثبتت هذه القراآن وليست شاذة حينئذ والله أعلم (۲۳۲) مسئلة في قول اهل التقاويم فى ان الرابع عشر من هذا الشهر يخسف القمر.وفى | التاسع والعشرين تكسف الشمس فهل يصدقون في ذلك واذا خسفا هل يصلى لهما ام يسبح واذا صلى كيف صفة الصلاة ويذكر لنا أقوال العلماء في ذلك ! الجواب الحمدلله.الخسوف والكسوف لهما أوقات مقدرة كما لطلوع الهلال وقت مقدر وذلك مما أجرى الله عادته بالليل والنهار والشتاء والصيف وسائر ما يتبع جريان الشمس والقمر وذلك من آيات الله تعالى كما قال تعالى ( وهو الذى خلق الليل والنهار والشمس والقمر كل في فلك يسبحون) وقال تعالى (هو الذى جعل الشمس ضياء والقمر نورا وقدره منازل لتعلموا عدد السنين والحساب ما خلق الله ذلك الا بالحق) وقال تعالى ( والشمس والقمر بحسبان وقال تعالى فالق الاصباح وجعل الليل سكنا والشمس والقمر حسبانا ذلك تقدير العزيز العليم ( وقال تعالى ( يسألونك عن الاهلة قل هى مواقيت للناس والحج) وقال تعالى (ان عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهرا في كتاب الله يوم خلق السموات والارض منها أربعة حرم ذلك الدين القيم (وقال تعالى وآية لهم الليل نساخ منه النهار فاذاهم مظلمون والشمس تجرى المستقر لها ذلك تقدير العزيز العليم والقمر قدرناه منازل حتى عاد كالمرجون القديم لا الشمس ينبغي لها ان تدرك القمر ولا الليل سابق النهار وكل في فلك يسبحون) وكما ان العادة التي اجراها الله تعالى ان الهلال لا يستهل الا ليلة ثلاثين من الشهر أو ليلة احدى وثلاثين وان الشهر لا يكون إلا ثلاثين أو نسمة وعشرين فمن ظن ان الشهر يكون أكثر من ذلك أو أقل فهو غالط فكذلك أجرى الله العادة ان الشمس لا تكسف الا وقت الاسترار وان القمر لا يخسف الا وقت الإبدار ووقت ابداره هي الليالى البيض التى يستحب صيام أيامها ليلة الثالث عشر والرابع عشر والخامس عشر فالقمر لا يخف الا فى هذه الليالي والهلال يستر آخر الشهر إما ليلة واما - ليلتين كما يستر ليلة تسع وعشرين وثلاثين والمشمس لا تكسف الا وقت استراره.وللشمس چاند وسورج گرہن ترجمہ: اللہ تعالی نے اپنی یہ سنت جاری کی ہے کہ سورج کو صرف انہی دنوں میں کرہن لگتا ہے جب چاند آخری تاریخوں میں ہوتا ہے اور چاند کو صرف انہی راتوں میں گرہن لگتا ہے جب اس پر بدر کی حالت ہو یعنی تیرھویں ، چودھویں اور پندرھویں رات ، یہ وہ روشن را تیں ہیں جن کا روزہ رکھنا مستحب ہے.پس چاند کو سوائے ان راتوں کے گرہن نہیں لگتا.جبکہ ہلال آخری راتوں میں چھپ جاتا ہے، کبھی ایک رات اور کبھی آخری دورا تیں.جیسا کہ وہ انتیسویں یا تئیسویں رات کو مکمل چھپا ہوتا ہے اور سورج کو صرف انہی آخری تاریخوں میں گرہن لگ سکتا ہے جب چاند چھپا ہو.
119 چاند و سورج گرہن نج الکرامہ کے مطابق چاند وسورج گرہن کی تاریخیں: مشہور اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خان صاحب (متوفی: 1307ھ ) اپنی کتاب حج الکرامہ کے صفحہ 344 پر امام محمد باقر کی مہدی کے لئے چاند سورج گرہن کے نشان ظاہر ہونے کی حدیث کا ذکر کر کے لکھتے ہیں:.”حضرت مجددالف ثانی نے دوسری جلد میں لکھا ہے کہ مہدی کی حکومت کے ظہور کے زمانہ میں 14 رمضان کو سورج گرہن ہوگا اور پہلی تاریخ کو چاند گرہن، زمانے کے تجربے اور اہل نجوم کے حساب کے خلاف ہے.اس کے بعد اس پر نواب صاحب کا اپنا تبصرہ یہ ہے : میں کہتا ہوں کہ اہل نجوم کے نزدیک چاند گرہن، سورج کے مقابل پر ایک خاص حالت میں ہوتا ہے اور 13 ،14 ،15 کےسوا یہ واقع نہیں ہوتا.اسی طرح سورج گرہن ، چاند کے ساتھ خاص حالت میں آنے پر 27 ،28 اور 29 کے سوا نہیں ہوتا.پس چاند اور سورج دونوں کا ایک مہینہ میں ان تاریخوں میں ہونا اہل نجوم کے حساب کے خلاف اور بہت زیادہ عجیب ہے.“ ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر :34: حج الکرامہ صفحہ 344 - مطبع شاہجہانی بھوپال
120 عکس حوالہ نمبر : 34 دی این گرت به سال لہزا رو چند نو و بیرت نبوی البعوض الق کو کتنا ہے آثار القيامة چاند وسورج گرہن
121 چاند وسورج گرہن عکس حوالہ نمبر : 34 ۳۴۴ زمانه قیامت بسیار شوند د حاکم اکثر روی زمین گردند و مصداق این خبر از مدت یک ریال بار زیاده در عالم مورچه مشہو بت در رساله حشر به نوشته چون جمله علامات حاصل شو د قوم نصاری غلبه کنند و بر ملکه ای بسیار من شوند انتی و ابو ذر گفته شنیدم آنحضرت را می فرمین باشد در مصر مردی انفنس قریشی مالک شو و سلطنت را و مغلوب شد و در آخر و سنتزع گرد و از و می ملک بگریز ولسوی روم و بیار و ایشانرا بسوی اسکندریه و جنگ کنند مسلمانان با دمی و این اول قتال امیشان باشد اتخرجه الرویانی فی مسنده و این عساکر فی تاریخه و حدیث معلول ست یا ختلاف طرق و گرین الماص گفته بلاک شود مصر چون می شود بچهار قوس قوس ترک قوس دوم و قوس جش و قوس اندلس میافته شد قوس اول و اینک یافته شوند بقیه اقواس اخرجه نعیم بن حماد مراد جنگ نصار بر ملک مهرست و آنر انجما کسوف قمر دم اول شب رمضان و خسوف شمس در نیمه رمضان است علی بن عبد الدین عیباد گفته بیرون نیاید مهدی تا آنکه ظاهر شود از افتاب علامتی اخرجه نعیم بن حماد و ابو الحسن الخیری فی الجزیات واخرج شد ا حافظ ابو بکر بن احمد بن الحسن ابن حماد ايضا عن كثيرين مرة الحضرمی والبیقے ایضا و محمد بن علی گفته مهدی را و و آیت است که نبوده از روز یکه خدا اسمانها و زمین آفرید کسوف گیرد مانستان شبه ولا زماه رمضان و آفتاب نصف رمضان اجتماع این برد و کسوف در ماهی گاهی نبوده مجد الف ثانی در مجلد ثانی گفته در زمان ظهور سلطنت مهند چهار و سم رمضان کسوف شمس خواهد شد و در اول آن ماه خسوف قمر خلاف عادت زمان و بر خلاف حسان الله انتی گویم حنوف قرمز دبل بنجوم بتقابل شمس به هیئت مخصوص میشود و در غیر تاریخ سیزدهم و چهاردهم و پانزدهم اتفاق نمی افتد و همچنین کسوف شمس نزد اقتران قمر بر شکل خاص در غیر تاریخ بست و سفت و بست و بهشت بوست و نهم نمیشود پس قوم این مرد و در ماه واحد در غیر تواریخ مذکوره مخالف حساب بنجوم ست و غرابت دارد اما از قدرت قادر قدیر پیچ مستغرب قیمت در رساله حشر به نوشته علامت این قصه است که پیش ازین که ماه رمضان گذشته باشد در وی دو کسوف شمس قمر شده باشد انتهی و در استان گفته و و بار در رمضان صنوف قمر شوهر دیندا لانا فی الاول کا ہو واضح و آنها نخواست طلوع قرن می امنین امام محمد باقری علی بن حسین گفته چون برسد عصبانی در خراسان طلوع کند قرن زی استین در شرق د اول طلوع کرده بود برای پلاک قدم نوح کرده وقتی که غرق شد کنان در طوفان رسم طالع شده بود در زمانه ابراهیم چون او را در آتش انداختند و زمانی که کشته شده می بوین گردی علیه السلام و چون این آیت به بنیاد پناه جوئید بخدا از شرور وفتن و طلوع او بعد خسوف شمن قر شود باز و رنگ کنند مردم تا انکه ظاهر شو و ابقع نام مروی در مصرا خرج نجربین کار و کلام در بین ستاره گذشته و این طلوع در آن ان طلوع متقارن زمان مهدی علیه السلام باشد و هم وسی از شریک وایت کرده که منکسف نشود قمر در رمضان دو بار پیش از خروج مهدی و حسین بن علی گفته چون ببینید علامتی از آسمان و آتشی از طرف مشرق بسته رونا یا هفت روز پیش متوقع شوید کشایش آل محمد و مسلم و ابو عمرو والی گفته که حکم بن عقبه گفته محمد بن علی را شنید که بیرون آید از شما مردی که انصاف کند دوربین است گفت ارزو دارم من چیزی که ارزو و الهند آنرا مردم و اگر نهان ترجمہ: حضرت مجددالف ثانی نے دوسری جلد میں لکھا ہے کہ مہدی کی حکومت کے ظہور کے زمانہ میں 14 رمضان کو سورج گرہن ہوگا اور پہلی تاریخ کو چاند گرہن ، زمانے کے تجربے اور اہل نجوم کے حساب کے خلاف ہے.اس کے بعد اس پر نواب صاحب کا اپنا تبصرہ یہ ہے: میں کہتا ہوں کہ اہل نجوم کے نزدیک چاند گرہن ،سورج کے مقابل پر ایک خاص حالت میں ہوتا ہے اور 15،14،13 کے سوا یہ واقع نہیں ہوتا.اسی طرح سورج گرہن ، چاند کے ساتھ خاص حالت میں آنے پر 28،27 اور 29 کے سوا نہیں ہوتا.پس چاند اور سورج دونوں کا ایک مہینہ میں ان تاریخوں میں ہونا اہل نجوم کے حساب کے خلاف اور بہت زیادہ عجیب ہے.
122 چاند وسورج گرہن مشہور اہلحدیث بزرگ حافظ محم لکھو کے (متوفی 1311ھ) نے احوال الآخرت میں گرہن کی تاریخیں 13 اور 27 رمضان بیان کی ہیں.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر :35 دان الساعة اتية لا ريب في مَاهُ احوال الآخر: مولانا حافظ محمدی با اظہار شرکت کے ناشهر ۴۰ را زارا ہو
123 عکس حوالہ نمبر: 35 ۳۱ چاند سورج گرہن اور ان میں ایوانوں کی روایت سے تو روایت ہے اس میں یہ مضمون صریح موجود ہے امند دو ساله متن ترندی اور ابوداود بن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ زبان رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے کر دیا فنا ہو گی یہاں ہیں کہ تمائم زوزمین عربی جان اسنوں جاکر دیکے کوئی ذرہ ایمان نہ پائے کوٹڑی شہرت سردی جاتی بودھ میں سرہاد سے ایک تم میرے اہلیت سے ہیں کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے ہدے کارن جول نہ دیوان کا نام الان نام نام ان کے امتی اور پھر ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ایران خل پوسے وچہ نیت لوکاں قہر الہی آوے چنگے وقت نہ دے بارش کی کہ میں اسے کہتے ہیں اور از امرود کو یبا کردے کہا یہاں تک کہ میرا فرمایا بہت نشان عذاباں ظاہر ہوس اوس زمانے چلی سخت نیا جیسے کرسی شرخ جانے بہانا ویسے بیت کا ایک شخصیت اللہ تعالی انمٹانے سے گا جس کا نام نہیں آسماناں تھیں پھر دگی سخت بھو پال بھی آوا بعضیاں لوکاں صورت بارے بصورت بن جانے کا کامیاب ہوا اوراس کے بانی کا نام میرے باپ کے نام کے مطابق جدایهہ باناں ظاہر ہوسن آوے قوم کفارای سیر ملکیں سن رومان شاماں کم کرن اشراران عمده تا زمین و مایه انسانیت نے دین لوگ دکھانا ندی بستے دین لوگ اوہ قبولن شوکت دیکھ انا مری اوڈرک کنیو کے نھیں نال صلاح جینگاں دی ہے اور ہم سے ہوئی اور نظلم ہے سے بھرے سے لگا.جس طرح اس سے سے یعنی ان کی خصلت اور سیرت کے وسچھ اکٹھے ہوسن شکر اہل ایماناں کہن کرو سلطان کے نوں رل یک مردانہ اختر علی شیعی ایران است کے مطابق ہوگی اور ان کی شکل و بیان علامت کبری قیامت که اول ظهور محمد مهدی است حضرت علی امام حسن نوں ہک دینہ دیکھ الائیا ایہ بیٹا میرا سید ہے جیویں پیغمبر فرمایا صورت آنحضرت صلی اللہ علیہ کہ عمر کی صورت سے مشابہ ہوگی با متن ا کے یعنی اس سال یا جو مضان کی تیرہویں تاریخ کو کسوف لینے چاند پشت اسدی تقی مرد روسی یک نام محمد والا اسندگی و بوی خونی دی صورت فریق نرالا کاری و جان منیان به فائده عدلوں بھرسی خوب زمیں نوں مہدی ایمو جانو آستر نان بائی دابھی عبداللہ باپ پیچھا نو و ماسی و روایات کی بھول ہے میاں اکثر ظاہر ہو چکی ہیں.الا ماشاء الله کر از نا امین و چه وستی اسلا جہاں پیارے بولن لگا اور کر بولے بیٹاں تے ہتھے مارے ان گروتین کو مردوں سے نائیک ہونا تا حال نہیں لیکن اگرگردوں سے تیں ہوئیں جن ستیہ ویں سورج گرہن وہی اس کے اندر ماہ رمضان لکھا یہ ہی روایت والے راوی ہو یوں ہوا ہے.تو کیونکہ مرد عنوی بہت کم ہیں اکثر مرد ائیں ۱۲ مندرج اس نوں علم لدنی ہوسی عمر ہوسی سن چالی فریکے طرف روانہ ہوسی نورج مدینے والی بہت بہت اور موتیوں کے بتائیے خلقت ڈھونڈھ اس ٹول بھی کرسن شاه تمامی کے دے پھر بیعت کر سن کیسے رکن یمانی کهف اصحاب ولی سب حاضر ہوا ابدال ہو شام نیوں اک آوازه سنسن سید خواص عالی نوٹ: مصنف نے 26 تا 28 کو گرہن کی تاریخ خیال کر کے درمیانی تاریخ 27 رمضان کا ذکر کیا جبکہ گرہن کی مستند مصدقہ تاریخیں 27 تا 29 ہوتی ہیں جن کا نصف یا وسط ، ان کی درمیانی تاریخ 28 رمضان بنتی ہے جس میں عملاً سورج گرہن لگ کر ثابت ہو گیا کہ پیشگوئی میں یہی تاریخ مراد تھی نہ کہ 15 رمضان، جیسا کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں.
124 چاند سورج گرہن نشان چاند سورج گرہن کا چودہویں صدی میں پورا ہونا خدا تعالی کی فعلی شہادت کے مطابق حدیث نبوی میں مذکور یہ عظیم الشان نشان عین چودھو میں صدی کے سر پر رمضان 1311 ہجری بمطابق 1894ء میں ظاہر ہوا.اور کھل گیا کہ حدیث رسول کے مطابق مہدی کی صدی چودھویں ہی تھی.چاند گرہن کی (15،14،13 ) قمری تاریخوں میں سے پہلی تاریخ 3 1 رمضان بمطابق 23 مارچ 1894 ء کو اور سورج گرہن کی قمری تاریخوں (27، 28، 29 ) میں سے دوسری تاریخ 28 رمضان بمطابق 6 اپریل 1894ء کو ہوا.قادیان میں احباب جماعت نے حضرت مسیح موعود کی معیت میں سورج گرہن کا نظارہ کیا.نماز کسوف حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی نے پڑھائی جو مسجد مبارک میں تقریباً تین گھنٹہ جاری رہی.تاریخ احمدیت جلد 1 صفحہ 502) کسوف و خسوف کا نشان ظاہر ہونے پر مکہ مکرمہ میں بالخصوص اور دیگر تمام اسلامی ممالک میں بھی بڑی خوشیاں منائی گئیں کہ اب اسلام کی ترقی کا وقت آ گیا اور امام مہدی پیدا ہو گئے.(تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 154 ایڈیشن 2008) مسیح الزمان نے کیا خوب فرمایا:.لئے تو نے بنایا اک گواہ آسمان میرے لئے تو نے چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار در مشین اردو صفحہ 145.اسلام انٹر نیشنل پبلی کیشنز لمیٹڈ ) وہ یارو جو مرد آنے کو تھا راز تم کو شمس و قمر تو آ چکا بھی بتا چکا در شین اردو صفحہ 169 اسلام انٹر نیشنل پبلی کیشنز لمیٹڈ )
125 چاند وسورج گرہن ثبوت گرہن جنتری فصلی 1303 بمطابق 1311ھ میں کسوف و خسوف سے پہلے اندازہ سے اس کی متوقع تاریخ 12 رمضان بتائی گئی تھی جو فی الواقعہ 13 رمضان کو وقوع پذیر ہوا.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر : 36 جشری فصلی
126 عکس حوالہ نمبر : 36 روز چهارشنبه چهارشنبه دو شینه سه شنبه چهارشنبه دوشنبه چهارشنبه جشنبه ۱۸۹۴۱۳ ۱۱ ۱۸۱۵ میان مارچ کا حصہ بدی کیفیت تعطیات ۱۴ ' اماوس ساکن سدی عمیم L ۲۸ r A ۲۹ " d ۳۰ ۴ غره رمضان D 11 r ร If jo ۴ A الد 9 ^ ۱۵ j.17 b " ۱۱ 16 ۱۲ ۱۳ in 9.۱۳ ۱۳ 19 ۱۴ ۱۴ " 12 پونم دو یوم تعطیل تبدولی و خسوف قمر یہائن بدی بگیرم ۲۱ ۱۳ 14 ۲۲ ۱۳ 16 ۲ 10 JA 14 ۴ ۲۵ 14 ۲۰ ۲۶ 16 ۲۱ ۲۷ A ۲۲ 6 14 ۲۳ ^ ۲۹ 9 ۳۰ ۲۵ ۲۲ ۱۰۲۹ اپریل ۲۳ " ۲۴ PA ۱۲ po ۲۵ ۲۹ ۱۳ ۲۶ يكيوم مقابل اليلة القدر ۲۷ ۳۱ چاند وسورج گرہن
127 عکس نمبر : 37 مشرقی ممالک میں سورج گرہن 16 اپریل 1894ء کے نقشہ جات چاند وسورج گرہن Eclipse Ends At Sunrise Maximum Eclipse At Sunrise Eclipse Begins At Sunrise ༩ PATH OF THE UPON THE SURFACE OF THE EARTH ON'S PENUMBRA IN THE AN ECLIPSE OF THE SUN.Eclipse Begins At Sunset Maximun Eclipse At Sunset Eclipse Ends At Sunset Path of Total Eclipse Path of Partial Eclipse THE NAUTICAL ALMANAC AND ASTRONOMICAL EPHEMERIS Мар Satellite Greenland Iceland Sweden United Kingdom Norway Russia Poland Germany Ukraine Kazakhstan Mongolia Italy Spain North Atlantic Turkey iraq Ocean Algeria Libya Egypt Afghanistan Pakistan Saudi Arabia Thailand Mali Niger Sudan Chad GD Nigeria Ethiopia DRC Kenya Tanzania Angola Namibial Madagascar South Atlantic Botswana Indian Ocean EclipseWise.com Japan South Korea North Pacific Ocean Unite Me Indonesia Papua New Guines Australia South Pacific EclipseWise.com کے نقشہ میں ہندوستان ، عرب وغیرہ میں 6 اپریل 1894 کو سورج گرہن واضح دیکھا جاسکتا.
چاند وسورج گرہن 128 عکس نمبر : 38 مغربی ممالک میں سورج گرہن 25 مارچ 1895ء کے نقشہ جات Eclipse Ends At Sunrise" Maximum Eclipse At Sunrise Eclipse Begins At Sunrise Map Canada PATH OF THE MOON'S PENUMBRA UPON THE SURFACE OF THE EARTH, DURING THE PARTIAL ECLIPSE OF THE SUN, MARCH 25, 1895.THE NAUTICAL ALMANAC AND ASTRONOMICAL EPHEMERIS Satellite Greenland Finland Iceland Sweden GE Norway United Kingdom United States North Atlantic Ocean Spen Mexico Venezuela Colombia Brazil Russia EclipseWise.com Poland Germany Ukraine Kazakhstan Mongolia France Italy Japan Turkey China South Korea a Iraq Iran Algeria Libya Egypt Afghanistan Pakistan Saudi Arabia India Thailand Mali Niger Sudan Chad Nigeria Ethiopia Kenya.DRC Indonesia Tanzania Papua New Guinea Angola EclipseWise.com کے نقشہ میں امریکہ ودیگر مغربی ممالک میں 25 مارچ1895 کو سورج گرہن واضح دیکھا جا سکتا ہے.
129 چاند وسورج گرہن سراج الاخبار 11 جون 1894ء میں چاند گرہن 13 رمضان اور سورج گرہن 28 رمضان کو لگنے کا ذکر ہے.ملاحظہ ہو : 4 عکس حوالہ نمبر : 39 جون سرت الاخبار ان انار به این سایت دوسری بات کراواگرایی ا اہل علم نقل گفته و انا کا ہی ہو تو رہی ہیں.یہ کوئی اس زیاد اندان کاری بر می داند ولات الرجال الاسنان الام علاوه کرمانی است کوکوی کلم رابین و نانوکالی رات کی تاریکی مطلق قادر شد موضوع کہا جیساکہ موضوعات المشران اور المارک ترین کام اوردیگر رویت پانچ اور کسی کو رانی کا کام پر لای لای من و هم استالون بتجاری ایسی ایسا ہی سیم کیا تو پر اس میں ضعیف کامیون و تمسک پکڑ کر ان حادیث توی لانا اور لوکا بہت ایک معانی کراپن سال کے مطابق کرنا نہار اور حدیث وہ ہر سودا زیانیار کو ماسک ماردین مین ایکا کر رہے ہوجاتے انکارکیا جاتا ہے ان ان انسان انا بہتی زبان کا ہر اورده عمر بن علان لدينا الي المكونات على السمن ان کی تاویل کیا گی یا نبی الامین و واكن الاستنكف القراول ليات من مضان وذ من الشمس و النصفان ولم تكونيا انی میدیایی با این وجود اگر این مرش این است زندان ارایش مند خلق الله السموات و الارش انسوی که از مضمون موردا به هری کین کی ہوتی اب است این ارین اینیست تو بودی گروه می گریویایرانیت یا تکلیف ابنای او بی انصافی و سی دی کارت به تامین ای روشن اور وام را چه در اراک ریسی زیرا که عصمت دری اور احکام با دیاگ نیست مهدی بریسی بریارا خالی ان ال پر انار در این من با دین کی ای ای رمانی سکتی اور ان کی اما انیایی یا ایا نیکی یا اینا یا انسانی المیدان تاویلات کی ہی دست ہوسکتی ان تمدید کار کنیم تا بتوانیم که او برای کار و نشان این ام مہدی الآم ماحب عیسی و غیره و غیره به سرزمین وآسمان برای و در دانشان وقوع میں نہیں : چاند گرین کاپہلی رات رمضان مین ی وی وی کی آپکی تو پانی اور مضراب در برتری اورسوج گرین مگان فرمان مین اور ایا این برای استان زمین رامان پا کر بیا مهور این را ثابت کاری امسال کاکسون و سون چونکه مطابق بشار اس حدی کند مواد یک یان گرین جای بیلی رات کیسین انیایالت اورگرای بیل ویبر اور یو اسلام رمضان کا در سوری این کارا کو وا تیرا دین سراپا مطلب کیا بات ہوسکتا ایان تورکیا وقت بالین اوسراوی میری کاروباری لیلین پیدا کیا ا و ا الا ان ماده اوران مبعوث نہیں فرمان پر کس رو کیا اسے مہدی کام ان کا ہم کہتی می کنید قول آنجا که در این حال اگر سکو صبح بیان لیا اور توانا راشد منہ کا معنی سورج گرین ہوگا ونیا کرد بین میدان بی اسلامی آذان پر سبدین گونج ری اکنون بنگان هدایای خود و تیم ترین کی تہوار ممالک کی ترانه ان های مینا اور فرد دارت به علشان جان از سیارات من امتي في تسيف اور مانان ایران را با پیروی کریں کیا برایم یک سمت یک امن کا کرد این سانیا بانوانوں کی نکته این بی بی کا کینک فی الصف يوم سواران را وار اور سواری در مناون کاکوئی میزنید یارات کابیان تاکیکار براگ گیری ان دنیا هم دویست و لحاظ مانکن خیال کیا اور اور توان وہی ہیں جو دین کو اتار کر کے ین ان کا اسلام کی پری میں نہیں کرایہ دیا اور ایران اسلام يا منى اين بيكون القرم مالی رات کرمان این بنا اورسورة الشمس ا ر ا انسانی این استاتون دوران ایرانین ہوتا ہی بیان اما این سرا چاند این او د کوسن گرمین نام میشه ارتحال ہوسکتاری انت چاند گرہن بجائے پہلی رات کے 13 رمضان کو اور سورج گرہن بجاۓ15 کے28 کو ہوا ہے.
130 عکس حوالہ نمبر: 40 چاند وسورج گرہن Rough Irghad thetert, but bubual there ve more sub- alter in more ways bay troops are in hole of Baluchistan the known wish of o insist on Sind aled in the Bombay dhe object being per, so far as posible, Able by the abilitlen of miestwhich they re- But nothing balte- is every consideration of ecleney, suitability of istrative simplicity is op rse on which the Home ing to insist, we trust that India),and the friends of will struggle strenuous- of the army and the tax- he military reorganization of settlement being deli.ad muddled by the efforts chielly swayed by regard sand provincial suscepti- be new Premier in his fret of Lords, that "before conceded by the Imperial ind, as the predominant partnership of the three have to be convinced early fastened 1on by ravirtail throwing are for Home Rule, and tests of the hostile Par.sebery, however, took occa- few days later to repudi- amng that had been read l'explained that he meant, was to be deposed till the LAHORE APRIL 1894 HINDI LORD ROSEBERY'S PROSPECTS Tact is no doubt a very useful gift; but it is quite possible for a statesman to haye too much of it.Indeed it is probable that the possession is more pleasant to the owner then useful to his party or conducive to his continuance in power..This is the fock from which Lond Rosebery must steer warily be is to avold shipwreck.For tact is the art of making, people think that.yout agree with then more completely than is really the case, or that you sympathise with their claims and wishes more than it is quite discreet to say, or that you esteem and like them better than you really do.And very probably at rst the man who produces these impressions does gain the good wishes and the support of many who would otherwise not have spoken for him, or voted for him." Yet the strength given to a statesman by such methods as these is for the most part only temporary.For, however much the man in power desire to conciliat: others, he must act sooner or later, and he is sure to do more or less than is expected, of him.It is of the essence of tact to smooth objections without confuting opi- nious, or removing prejudices, and to obtain support by raising expectations that are never fulfilled.Besides a great portion of the efforts of the man of tact are devoted to making people imagine that he is person- ally much more inclined to agree with them, or to like them than is in fact the case.By degrees the expectations raised are Un pointed, as it is impossible conceal his feeling, especially if that feeling is one of indifference or contempt.Thus he is gradually surrounded by a number of men who are disappointed, and a still larger and more dangerous company of those who are secretly of opinion that they have been slighted or insulted.of tact.may The really great man has little need He leads by force of character and, which is perhaps much the same thing, by strength of will, and he 1 wn volunt drink 11 1009, th h The Akeble Benjamin is o looked her sister, or Alwell Porte The Rev.Mr.with high addlone, was wont to The guess cause Njoistry of making g pleasant all found will not last19 Lord Rosebery depended on be gifts and talents of soft-speech-and- judicious compromise which are so useful to - an arbitrator, they would scarcely be found sufficient to sustain even the most superior person in the office of Prime Minister wonderful rapidi'y, and it is not impossible Events move quickly, men come and go with that a Minister, of whom all men ny all kinds of good things shon d, fall,, into an irrecoverable position of respectable medi- ocrity-some, even now predict that Lord Rosebery is inore likely to end his career as a Duke than as Premier.BY THE AWAY dinner Sir Dennis Fitzpatrick will give a party, on Tuesday, the rott, "to meet Sir Meredyt and Lady Plowder." Sir Danaja Fuzpatrick has accepted a naear of R.#59, presented by llis Highness the Rajs of Faridkot as a thanksgiving for His Honour's lucky escape in his late tanga accident, The money has been divided between the Mayo Hospital and the Lahore Poor Heuse.The Maharaja of Benares will call on the Lieutenant-Governor a 4-30 r.N.on the 9th instant, and His Honour will pay n on the toth.His return visit at 9 A.N.Highness will stop in the Kapurthala llous: The visits will be public ones with the usual ceremonies.A.M.The eclipse was perfectly observed nt Lahore yesterday betweer.7-30 and 9-30 While it lasted the unlight was so much reduced B To remind one of the pleasant sunshine only summer's day.an English The orders of the Deputy Commissio ter at Thanesar, issued at the suggestion of the Sanitary Commissioner, prohibiting all new.of taking up their abode there, is, of course, arrivals from entering the town for, the purpose causing some inconvenience to those who had previously arranged to put up with their friends and relations, and cthers, who are said to have hired houses for the occasion; but obviously it is undes rable to over- crowd the city, the space in which is but, allah.Members supported gathers round him a following who are limited.must be convinced of the hand before it could be wards, that a sufficient of Home Rule must b: ah constituencies betore uld be strong enough to ult would be attained.iority of English attracted and subdued by that gift of personal influence which is so powerful and 80 the mony, and healthy o daken by M group and gu made his the ride ra dress, amid carriage the, carri without be is way throu was quickly chera which ellop the ha for Kapurthri spent.The same c the wedding i ably, was rati at Mian Mir Iable arrange Home," whe blew all th ed hat.storm T Prod company fro most eni other amuse that an exa the 20th P time last y plan in fu sulry, to a of-door cat The ten from 64int then came clo sending the the weather in threatening.urgently was the cars of th Mr.Falch in Bechtler jewellers, h business, n nection with Mr.Fale collection o representin years past 4,800 by said intend It is admitted that, this year's is the difficul: to define.We mean such an largest gathering that has ever taken place at influence as John Henry Newman exercised The Eclipse Fair.It is curious to note the excess at Oxford or, in a greater sphere, Mr.of women over men at the f, quite three to Gladstone exercised in politics.In the case an.There is the usual gathering of beggars and of the late Prime Minister this force was fakirs of all descriptions, exhib ting the sacred marvellously exhibited.We have been told, cow with additional horns, legs, pieces of flesh.and our own experience confirms the fact, &c.projecting from various parts of the animal's of late year that it was impossible to resist the magic body.These Delhi, the Spledged to Hom is eloquence, or the charm of his com- good businibitors seem to be doing There is- Home Ra majority sctive against the Oppo- of Lords.pany, and that opponents often felt it difficult to retain a mental.attitude of opposition and criticism while they listened to the speeches which were not so much nd nat judging from-the number of city, wiin pice, and silver pieces that are continually not lighted the questigely Pouring in, The Brahmins, too, are having, an excellent time of it; as the offerings made increasing are both large and rich.Not a few of the of kerosine ributor to the latter arena Chil ترجمہ: کل لاہور میں 7:30 سے 9:30 تک واضح طور پر سورج گرہن کا مشاہدہ کیا گیا.اس دوران سورج کی محدود شعاؤں کے باعث موسم ، مغربی ممالک کے موسم گرما کے خوشگوار دنوں کا منظر پیش کر رہا تھا.
131 چاند وسورج گرہن نشان چاند سورج گرہن کے نتیجہ میں قبول احمدیت صداقت حضرت مسیح موعود کے اس روشن نشان کے ظاہر ہونے پر مہدی موعود کے منتظرین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی.یہ نشان دیکھ کر سینکڑوں سعید الفطرت روحوں کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی جس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بانی جماعت احمدیہ نے فرمایا:.”ہمارے لئے کسوف خسوف کا نشان ظاہر ہوا اور صد ہا آدمی اس کو دیکھ کر ہماری جماعت میں داخل ہوئے.“ (انوار الاسلام مطبوعہ 1894 ء روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 33 ایڈیشن 2008ء) ان خوش نصیبوں میں سے چند ایک کا نہایت دلچسپ مگر مختصر ذکر پیش ہے:.1.حضرت حاجی محمد دلپذیر صاحب بھیروی: آپ اعلیٰ پایہ کے پنجابی شاعر و ادیب تھے.آپ کی بعض کتب پنجابی لٹریچر میں بطور نصاب شامل ہیں.1894ء میں آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت نصیب ہوئی.آپ نے اپنی منظوم پنجابی کتاب احوال الآخرت (مطبوعہ: 1316ھ) میں چاند گرہن کی تاریخ 13 اور سورج گرہن کی تاریخ 28 رمضان بیان کرتے ہوئے لکھا:.چن سورج نوں گرہن لگے گا وچہ رمضان مہینے ظاہر جدوں محمد مہدی ہوسی و چہ زمینے ایہہ خاص علامت مہدی والی پاک نبی فرمائی و چہ حدیثاں سرور عالم پہلوں خبر سنائی تیراں سو یاراں سند وچ ایہہ بھی ہوگئی پوری گرہن لگا چن سورج تائیں جیونکر امر حضوری واہ سبحان اللہ کیا رتبہ پاک حبیب خدائی تیراں سو برس سال جس اگروں پیشگوئی فرمائی تیرھویں چن اٹھیویں سورج لگن گرہن دوہانوں ایہ تاریخاں سرور عالم خود کہہ گئے اساں نوں ماہ رمضان مہینے اندرا یہ سب واقع ہوسی جدوں امام محمد مہدی ظاہر اٹھ کھلوسی ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر :41: احوال الآخرت صفحہ 50-51
132 عکس حوالہ نمبر : 41 J فَتَبَارَكَ اللهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ہوش والمستد که درین ان بمینیت فرجام كتاب جواب تمة أحوال الأخر مصنف مولوی حاجی محمد دلپذیر صاب عباسی بھیڑی.لہ یار صیحت کے بعد نگانے کا پتہ پاکستان یکھا بازار ہوں چاند سورج گرہن
الا تقريب الدنيا حتى 133 عکس حوالہ نمبر :41 ۵۰ یا شام ادراک کی موسی نظام پر سفیانی نانا ظلم سے قتل کرایسی آل رسول ریا نی ا ا ا ا ا ا ا ال ان بنیاد داشت ویسی حاکم شهر مصر دا جو کوئی دیکھے سید زادہ مثل القا میں کو ایر مبنی ایوانی آمر اسی نے کیا پھر دو فرقے ہو جان نصاب سے جیتی قوم تمامی ایک مقابل شاه به ولی داد و جامنی حام ہود بھی دنیا تا ہے کہ شام اندر جنگ کلسین شکرشاہ پر ہائے او رک کر مقتول مخالف فتح انہاں نہیں پا ی بی ایم کے کوئی نسائی چون سے ساتوں آئی دین علیان غالب ہو یا جھو ٹو کرے ڈیا جو موسی أمن الوراء ے نے اس کے ایک سیاسی بونے کر ناک جو اب اسے چپ کریں ہے اد یا جھو ٹوں شرم نه میتونی دینہ روایت ابو داؤ سے آپنے ویانا دین محمدی غالب ہو یا ہو ئی نشستہ اساڈی اول آخر دین بنی نوں ہے امداد دست راو ہوئی نام باپسر مانی واشراف شد تھے پرانے طرف اسی کی اتنی بات ہوئے جس دینے پھر ان جنگ میا دان مومن بہت سنے شاہ رومی ترت شباتر باران بالای این پاسن این رومان شاماں چہ پینے آکر یوسی بھی اہل اسلا مال کا مستانی و بین الا قوم نصاری غالب کو درہ سے دین عیسائی نہ بہت دور نصار یا تو الہ کڑے بہت لو کا نام ظم کے لئے ہے انہیں بہت اہمت پر جاگہ لنگھ جا دان - غرب کنارے ایران جا کے خیر توں بہتے بادان اول مسلمانوں سے میلے دل وچہ حسرت آئے لکھن کویں امام محمد صدی رب ملانے سے الجنائي : ۱۲ انسان خدای یک د چهر دایت در آیا ہے اہم مسلمہ بھتیں جوتیاں بغیر تھیں جو فرما یا د ناظمه مهدی الی میری نہیں تھیں الادا در ۱۲ ET ابتدا آثار قیامت گیری که اول آن ظهور امام مهدی علیه سلامات من است و نے پھرالہ میری تربت نکالی قرعه دستی ایمان را بورسی بین درجات حقوق بین ادیان نام محمد مهدی اسدا این اسدی مائی باپ موسی عبدالله اینوں کیا رسول خدائی بین ای ایرانی باید به صورت شاد شندی نسلوں پر سی اور سہارا حضرت رکھے میر وانگوں ادا فلق نیا را می میدارد اما به اخلاق بندی رو نگون صورت فرق ضروری اچانک کشادہ متھا چہرہ روشن نوری - ام علم الہاتی ہوی اسنوں خصلت پاک بنی دی استانی اوپر ستجد مریسی ار سی جیجے ولیدی ولپندین چن سون نوں گرین لگیگا وجہ رمضان مہینے ظاہر جدول محمد مہدی ہو کسی چو نہ لینے غفر ای خاص علامت مہدی الی پاک بھی فرمائی وہ حدیثشان سر در عالم اپلوں خبر تائی.عنہ تیران سوریاران سنه و چه اید بھی ہوگئی پوری گرمین لگا چین که سی مائیں جیو نکہ امر حضوری جو دن بھتیں چین سورج تائیں خالق پاک و پایا ایسا واقعہ دینی اندرا گے کدی نہ آیا.چاند وسورج گرہن ترجمہ: چاند سورج کو رمضان کے مہینہ میں مہدی کے دنیا میں ظہور کے وقت گرہن ہوگا.امام مہدی کی یہ خاص علامت بطور پیشگوئی نبی کریم ﷺ نے حدیث میں بیان فرمائی اور 1311ھ میں یہ بھی پوری ہوگئی جب چاند اور سورج کو اللہ کے حکم سے گرہن لگا.جس دن سے اللہ تعالیٰ نے چاند اور سورج گرہن کو پیدا کیا، ایسا واقعہ پہلے بھی دیکھنے میں نہیں آیا.
134 عکس حوالہ نمبر: 41 ۵۱ چاند وسورج گرہن واہ سبحان اللہ کیا رتبہ پاک حبیب خدائی تیران سوبر سال میں اگروں مینگوئی فرمائی تر جوین من اٹھویں درج لن گرین و پانوں ایہ تاریخان سر در عالم خود کہہ گئے اسان نوں ماہ رمضان مہینے اند ر ایک واقعہ ہوسی.جدول امام محمد مہدی ظاہر اٹھ کھلوسی این بین برابر پوری ابا کل ماہ ہوئی سارے عالم میں تماشتہ ہو گیا کوئی.اے این بنا مفید اندا السند یا نا سمعوا چالی پریسان عمر مریدی ہوسی اویس نے بانے جس پہلے یہ واقعہ سارا موسی رچہ بہانے اعلی اللہ ایسی خلیفہ امرداب حدوں تمہارے شاہ رومی لوں کو تیز نکلی ہوئی مول محمد مہندی و چہ دینے پیارے انہیں سنو اور اس نے امد تا بیداری کرو که اید نکل شتابی و بقول حضرت کے طرف سد باران مت کے تحت خلافت والا لوگ میر گل پانی یه بگرتان الایه دا کتنی مدت میں تھوڑ نیند سے لوگ بناند تائیں ہے اور لے خلیفہ کرئیے ڈھونڈن ایجا میں کان بارداری جو ٹھا ٹوے مہدی والا کتنے لوک کرلین اپر طلع نفر دے مارے مار جھوٹ اکھین من عمل قال قتال رسول اللہ صلے بر ابدال او ا د خدا اسنوں پھر ڈھوڈیا اور کہ کن اہم رہاہے کے طواف کر یا اللہ اور مسلم بھی من ده کو البر اتنے خوش بوان نہیں پوست تجھے پیا کروانا جامیان چه ته میمون کردے الله د اشکاران ایقان المعامل الان پر رائے زور روز دوران اندی جیت او تھے کرسن شام عراق میں دیندے آن خلیفہ پرسن.مجھے الا انا اتنا ان مرد ما د انتر یقینی جیوں جیون سان غیر انباندی جو ابدا گرامی در ستون و رول پاس اوہامنے حاضر ہون تمامی بنام یک سایت پنے اتے اوہ آدمی حضرت مہدی لوکاں لدھا غم کئے دلگیران این سلامی فوجاں اوتھے ون گفت در میرا ان سے ان ایرانی ادیر مقد مے لشکر ند یک کے ہوم الع ایہ در الف بینی اسماناں میں یہ آواز پکارے بیدار خلیفہ مہدی استون نمون سارے ام جوابیہ کے اسد تائیں سے کن دھر کے اے کرے اطاعت اسدی صدق پکیر کر کے ہی بنیاد پانے تمھیں نہیں آل حق حضرت مول معا مسن ایمان بیت بود میری پیاده زردہ گانے کہی ہوئی خلافت تیری سے کان میں رہے قرارا تے نمکین این خوان بہت پرانا دولت نال پر دیا.بیت اللہ سے بو ہے اگے نازل ہو یا ہو یا کار این سی ہے پیغمبر نے نعمان تاج البر وان بہنوں کے دوالے در تے کہ محمد مہدی اسنون مسلمانان چه دورتے کہ اب ہے کار واجب نے خلق انہائے کولوں جو چہ دستای سن و در دور اولین ان من بندر کون زیاد این رایانه های اداری آنے کی خو په دور دور دربار نہر دل و جان کشک حمایت کاران آنے اپنے شہروں میری روی این نوع ابوہ اور را به کار گیر اسنوا من ادھر نہ جائیں پراوہ ہوڑیاں پہنتی ہیں مارے کافر تائیں کی برادرا قتل کریں غالب کوئی نہ ہوسی اور یک بند کردیا حضرت مهدی دی پابوسی ترجمه: واہ سبحان اللہ احبیب پاک ﷺ کا کیا رتبہ ہے جنہوں نے تیرہ سو برس پہلے یہ پیشگوئی فرمائی کہ (رمضان ! کی) تیرہ تاریخ کو چاند کو اور اٹھائیس کو سورج دونوں کو گرہن ہوگا.حضرت سرور عالم نے خود ہمیں یہ تاریخیں بتا گئے کہ جب امام مہدی ظاہر ہوگا تو رمضان المبارک کے مہینہ میں یہ سب واقع ہوگا.
135 چاندوسورج گرہن 2- حضرت میاں محمد الدین صاحب گجرات: ( بیعت: 1896) بیان کرتے ہیں:.میں براہین احمدیہ پڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت پر ایمان لا چکا تھا اور بیعت کے لئے ابھی خط نہیں لکھا تھا.شام کے وقت میں اور میاں ( مرزا) محمد نسیم صاحب بلانی کی مسجد میں اس کے صحن کی مشرقی دیوار پر بیٹھے تھے..12 رمضان جو شب تیرھویں تھی.چہارشنبہ (بدھ کے روز چاند گرہن لگا.میرے پاس گھڑی نہ تھی.مگر بعد میں معلوم ہوا ساڑھے چھ بجے دو گھنٹہ خسوف رہا.اور 28.رمضان بروز جمعہ ساڑھے سات بجے دن کے کسوف یعنی سورج گرہن رہا.جس کی بابت محمد نسیم صاحب نے احوال الآخرۃ کا یہ شعر سنایا:.تیرھویں چن ستیویں سورج گرہن ہوسی اوس سالے اندر ماه رمضانے لکھیا اک روایت والے بعد اس کے تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ستیویں رات کا تب کی غلطی ہے بموجب حدیث دار قطنی اٹھیویں چاہئے تھی.“ (رجسٹر روایات غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ 123) 3.حضرت عبد الرؤف بھیروی صاحب ( بیعت : 1898) بیان کرتے ہیں:.بچپن کے زمانہ میں میری عادت تھی...مدرسہ سے جب فراغت ہوتی تو گھر میں آکر دینی کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا مثلاً احوال الآخرة، زينت الاسلام و زینت الایمان وغیرہ وغیرہ.ان میں امام مہدی و عیسی وغیرہ کی نشانیاں بھی پڑھتا تھا...جب ماہ رمضان میں سورج گرہن اور چاند گرہن 1311ھ میں ہوا.ان کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا.شیشہ پر سیاہی لگا کر دیکھا...میرا بھائی غلام الہی جس کا نام 313 میں درج ہے وہ مجھ کو قادیان 1898ء میں ہمراہ لایا اور آ کر دستی بیعت کر کے پھر بھیرہ کو واپس چلا گیا.“ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 6 صفحہ 276-279)
136 چاند وسورج گرہن 4.حضرت میاں عبداللہ صاحب احمدی جنڈ و سا ہی سیالکوٹ (بیعت : 1901) فرماتے ہیں:.میں حافظ محمد صاحب لکھوکے کی تصنیف احوال الاخرت میں علامات مہدی پڑھ رہا تھا.جب میں نے یہ شعر پڑھا کہ :.تیر ہوئیں چن ستویں سورج گرہن ہو سی اوس سالے تو مجھے اللہ تعالیٰ نے اس طرح بتایا جس طرح کوئی استاد شاگر د کو بتاتا ہے.فرمایا مرزا غلام ہی مہدی ہے.اور مجھے حضرت مرزا غلام احمد کا نام کہ یہی سچا مہدی اس وقت ہے.مفصل طور پر بتایا گیا کہ کوئی شک شبہ نہ رہا.“ رجسٹر روایات غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 2 صفحہ 139 ) 5- حضرت مولوی غلام رسول صاحب ساکن مجوکہ ضلع خوشاب ( تحریری بیعت: 1901) چاند گرہن لگنے سے پہلے جنتری سال 1894ء شائع ہونے پر یہ بات عوام میں مشہور ہوئی کہ اس سال رمضان میں چاند گرہن ہو گا.اس وقت حضرت مرزا صاحب مسیح و مہدی کا دعوی فرما ر ہے تھے.مؤلف کتاب ہذا کے دادا حضرت مولوی غلام رسول صاحب آف مجوکہ نیلا گنبد لاہور کے مدرسہ میں حدیث پڑھتے تھے.اس نشان کے بعد انہیں قبول احمدیت کی توفیق ملی.حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.1894ء میں جب سورج گرہن اور چاند گرہن ہوا.اس وقت میں لاہور میں مولوی حافظ عبد المنان صاحب سے ترمذی شریف پڑھتا تھا...ان دنوں حافظ محمد لکھو کے والے پتھری کا آپریشن کروانے کے لئے لاہور آئے ہوئے تھے.میں بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا.ان سے جب عوام نے دریافت کیا کہ سی نشان آپ نے اپنی کتاب احوال الآخرۃ میں واضح طور پر لکھا ہے...انہوں نے کہا کہ میں بیمار ہوں صحت کی درستی کے بعد کچھ کہ سکوں گا البتہ اپنے لڑ کے عبد الرحمان محی الدین کو حضرت مرزا صاحب کی مخالفت سے روکتا ہوں کہ اللہ تعالی کے
137 چاند وسورج گرہن راز عجیب ہوتے ہیں لیکن وہ زندہ نہ رہ سکے اور جلد ہی راہی ملک عدم ہو گئے.ان ہاتوں سے گو میرا دل حضرت اقدس کی سچائی کے بارہ میں مطمئن ہو چکا تھا." خطبہ جمعہ حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20 مارچ 2015.اصحاب احمد جلد دہم حصہ اول و دوم صفحہ 178 ) حافظ محمد صاحب آف لکھو کے، واقع گرہن سے قبل بیمار ہو کر لاہور بغرض علاج لا ہور آئے اور صفر 1311 ھ /1893 ء میں ہی حافظ صاحب وفات پا گئے.(اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 19 صفحہ 519) اور اپنی کتاب احوال الآخرۃ سے کئی اہلحدیث کی ہدایت کا موجب ہوئے.-6 حضرت شیخ نصیر الدین صاحب آف مکند پور ضلع جالندھر: علماء سے احوال الآخرة “ پیشگوئیوں کی مشہور کتاب سنتے تو دل گواہی دیتا کہ آنے والے کا وقت تو یہی معلوم ہوتا ہے لیکن امام مہدی کا ظہور کیوں نہیں ہو رہا...ایک دن ایک مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے.ایک مولوی صاحب بڑی پریشانی کے عالم میں اپنی رانوں پر ہاتھ مار مار کر سورج اور چاند گرہن کا ذکر کر کر کے کہہ رہے تھے کہ اب تو لوگوں نے مرزا صاحب کو مان لینا ہے کیونکہ پیشگوئی کے مطابق گرہن تو لگ چکا ہے.آپ کے کان میں یہ آواز پڑی تو پریشانی اور بڑھی کہ مولوی صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟ اگر پیشگوئی پوری ہو گئی ہے تو بڑی خوشی کی بات ہے.چنانچہ آپ نے بڑی آہ وزاری سے دعائیں شروع کر دیں کہ مولیٰ کریم تو ہی میری رہنمائی فرما...اسی دوران آپ نے حضرت مسیح موعود کے دعوی کے بارے میں سنا اور قادیان پہنچ کر بلا چون و چرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر لی خطبہ جمعہ حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20 مارچ 2015.تاریخ احمدیت ضلع راولپنڈی صفحہ 163 164 )
138 چاند وسورج گرہن چاند سورج گرہن کا نشان دیکھ کر ہدایت پانے والے دیگر اصحاب کی فہرست : 1 - حضرت قاضی محمد اکبر صاحب ( بیعت: 1894) 2.حضرت قطب الدین صاحب آف قادیان (بیعت : 1894) 3.حضرت نبی بخش صاحب سابق قادر آبادنواں پنڈ (بیعت : 1894) -4 حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی ( بیعت: اکتوبر 1895) 5.حضرت حافظ صوفی غلام محمد صاحب آف ماریشس (بیعت : 1895) 6 حضرت مولانا امام الدین صاحب ( بیعت : 1899) 7.حضرت ماسٹر محمداللہ داد صاحب.گجراں تحصیل شکر گڑھ گورداسپور ( بیعت : 1901) 8.حضرت محمد عبد اللہ صاحب جلد ساز سکنہ ریاست مالیر کوٹلہ (بیعت : 1902) 9.حضرت چوہدری عبداللہ خاں صاحب ریٹائر ڈ سب رجسٹرار بہلول پور ( بیعت: 1902) 10.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب سہالہ ضلع راولپنڈی (بیعت : 1903) 11 - حضرت سید نذیر حسین شاہ صاحب گھٹیالیاں سیالکوٹ (بیعت : 1904) 12.حضرت حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری ( بیعت : 1905) 13 - حضرت میاں عبد العزیز صاحب: (بیعت: 1906) 14.حضرت مولوی بدرالدین صاحب 15.حضرت غلام مجتبی صاحب سابق رسول پور تحصیل کھاریاں ضلع گجرات
139 چاند و سورج گرہن حدیث چاند سورج گرہن پر اعتراضات کے جواب: اعتراض نمبر 1: بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ حدیث مرفوع متصل نہیں ہے حضرت امام محمد باقر بن حضرت علی زین العابدین کا قول ہے.جواب: خانوادہ اہل بیت رسول کے چشم و چراغ حضرت امام حسین کے پوتے حضرت امام محمد باقر بن حضرت علی زین العابدین خود فرماتے ہیں کہ :.میں جب بھی کوئی حدیث بغیر سند بیان کرتا ہوں تو اس کی سند اس طرح ہوتی ہے کہ مجھ سے میرے پدر بزرگوار حضرت امام زین العابدین نے بیان کیا اور ان سے میرے جد نامدار امام حسین نے اور ان سے ان کے جد امجد جناب رسالت مآب الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور آپ ﷺ سے جبرائیل امین نے بیان کیا اور ان سے خداوند عالم نے ارشاد فرمایا.“ ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 42: بحارالانوار جلد 4 ص 71 - محفوظ بک ایجنسی مارٹن روڈ کراچی امر واقعہ یہ ہے کہ اہل بیت رسول کی عظمت اور سچائی اور راستبازی کی وجہ سے کوئی ان سے سند کا تقاضا نہیں کرتا تھا.
140 عکس حوالہ نمبر: 42 جملہ حقوق بحق ناشر محفوظ ہیں بحار الأنوار علامة محمد باقر مجلسى ترجمه مولانا سید حسن امداد ممتاز الافاضل در حالات حضر امام محمد باق العالم * محفوظ ایک اجنبی كراوي چاند وسورج گرہن
141 عکس حوالہ نمبر: 42 چاند وسورج گرہن کبھی بہاری امام محمد باقر عیال دام سے ملاقات ہوئی تو آپ نے میت خروج عطیہ اور لباس میں کچھ کہ نایت فرمایا اور یہ بھی ارشاد ہوا کہ تمہارے ہم نے سے پہلے ہی ہم نے یہ تمہارے لیے رکھ چھوڑا تھا.الارشاد ۲۱) مناقب ابن شہر آشوب جلد ۳ صفحہ ۳۲۷ میں بھی عمرو اور سید اللہ سے اسی طرح مروی ہے.کتاب الارشاد میں سلیمان بن ترمیم سے.نقول ہے کہ امام محمد باقر عد السلام میں پانچ کچھ سوسے ہزار درہم تک عطافرمایا کرتے تھے اور کسی وقت بھی اپنے بھائیوں عرض مندوں اور اپنی ذات سے امید و آرزو رکھنے والوں کو عطا کرنے سے رنجیدہ و ملول نہیں ہوئے.(الارشاد ص۲۸۳) یہی روایت مناقب ابن شهر آشوب جلد ۲ صفحہ ۳۳۷) میں ہزار درہم کے الفاظ تک بیان کی گئی ہے.کتاب الارشاد میں امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ سے آپ کی حدیث مرسل بلا حوالہ سند کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب میں کوئی حدیث بیان کرتا ہوں اور اس کی سند کو بیان نہیں کرتا تو اس کی سند اسی طرح ہوتی ہے کہ مجھ سے مرے بھی بند گوار نے بیان کیا اور ان سے میرے جد نامدار امام حسین عملیات نام نے اور ان سے ان کے جد امجد بجناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ ا کہ تم نے فرمایا اور آپ سے جبرئیل امین نے بیان کیا اور ان سے خدا وند عالم نے ارشاد فرمایا.حضرت امام نے فرمایا کہ م پرلوگوں کا معاملہ بڑی مصیبت ہے کہ ہم انہیں حق کی طرف ہوتے ہیں تو وہ جواب نہیں دیتے اور ہماری آواز پر لبیک نہیں کہتے اگرہم انہیں چھوڑ دیں تو ہمارے علاوہ کسی دوسرے سے ہدایت نہیں پاسکتے آپ نے ارشاد فرمایا کہ وگ ہم سے کیوں بچتے ہیں اور ہم میں کیوں عیب نکالتے ہیں ہم اہل بیت رحمت میں شجر ثبوت اور علم وحکمت کی کمان اور معدن ہیں ہم وہ جہ ہی یہاں فرشتوں کا نزول ہوا اور وحی اتری.ر الارشاد (۳۸) ។ امام وارث علوم انبیا رہیں مناقب ابن شہر آشوب میں مسند ابو حنیفہ سے یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ روای کہتا ہے جب بھی میں نے کسی مسئلہ میں جابر جعلی سے کچھ دریافت کیا تو انہوں نے اس کے بارے میں حدیث پیش کی اور جب وہ امام محمد باقر علیرات نام کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے تو یوں کہتے تھے کہ مجھے سے ونسی الا رمیا ، اور وارث علوم انبیاء نے یہ بیان فرمایا ہے.ابو نعیم نے ملیتہ الا لیا میں ام محمد باقر علیات سلام کی شان میں اس طرح کے الفاظ کہے یں کہ وہ امام حاضرذاکر خاش ما بر حضرت ابو عفرمحمد بن علی باقر علیات اہم ہیں.حلیة الاولیا بعد منتال)
142 اعتراض نمبر 2 : اس حدیث کا ایک راوی جابر جعفی ضعیف ہے.جواب: جابر جعفی کی ائمہ اہل بیت سے روایت صحیح ہوتی ہے.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر : 43 كتاب الضعفاء والمتروكين چاند وسورج گرہن تأليف الإمام أبي الحسن علي بن عمر الدار قطني المتوفى سنة ٣٨٥هـ حققه وَعَلَّق عليه السيد صبحي البدري السامرائي مؤسسة الرسالة
چاند وسورج گرہن - 181 ١٤٢ 143 عکس حوالہ نمبر: 43 الجيم جَلْد بن أيوب، كوفي، عن معاوية بن قرة، متروك.جابر بن يزيد الجُعْفِي.إن اعتبر له بحديث بعد حديث، صالح إذا من - ١٤٣ كان عن الأئمة.جعفر (۱) بن الزبير الشامي ، ،، بصري عن القاسم، عن أبي أُمَامَة، - 188 _ 181 - ١٤٢ متروك.جعفر بن عبد الواحد الهاشمي، وَليَ قضاء النغر، يَضَع.وضعفه إسحاق بن راهويه وأحمد، وقال الهنجاني تركه شعبة ويحيى وعبد الرحمن.الضعفاء الصغير؛ الكامل ١ / ٢٢٥ /ب؛ المجروحين ١/ ، میزان الاعتدال ٤٢٠/١.وقال النسائي : متروك، وتركه يحيى وابن مهدي ؛ وقال الحافظ : ضعيف رافضي.الضعفاء والمتروكين ۹۸؛ الكامل ۱ / ق ۱۹۷؛ میزان الاعتدال ۳۷۹/۱؛ تقريب التهذيب ١٢٣/١.(۱) في «الظاهرية»: وجعفر.١٤٣ - مُتهم تركه أحمد وغيره وكذبه ،شعبة، وقال البخاري : متروك الحديث.الضعفاء الصغير ٤٦ ؛ الضعفاء والمتروكين ۱۰۸؛ الكامل ١/ ٢٠٧ / ب ؛ ميزان الاعتدال ٤٠٦/١ ؛ تقريب التهذيب ١٣٠/١ ١٤٤ - وقال أبو زرعة : روى أحاديث لا أصل لها، وقال ابن عدي : يسرق الحديث، ويأتي بالمناكير عن الثقات، وقال ابن حبان كان ممن يسرق الحديث ويقلب الأخبار.الجرح والتعديل ٤٨٣/٢؛ الكامل ١ / ٢١٦ / ب ؛ المجروحين ٢١٥/١؛ میزان الاعتدال ٤١٢/١.۷۲ ترجمہ: جابر بن یزید جعفی.جب ائمہ اہل بیت سے روایت کرتے ہیں تو وہ صحیح ہوتی ہے (جیسا کہ روایت چاند سورج گرہن امام محمد باقر حضرت زین العابدین سے ہے جو حضرت امام حسین کے پوتے اور حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے پڑپوتے تھے).
144 چاند وسورج گرہن مہدی زمانہ کا حلفیہ اعلان حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: ” مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس نے میری تصدیق کے لئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا ہے.“ عکس حوالہ نمبر :44 روحانی خزائن جلد ۱۷ ۱۴۳ جن کو مہدی بننے کا شوق تھا یہ طاقت نہ ہوئی کہ کسی حیلہ سے اپنے لئے رمضان کے مہینہ میں خسوف کسوف کرالیتے.بیشک وہ لوگ کر وڑ ہا روپیہ دینے کو تیار تھے اگر کسی کی طاقت میں بجز خدا تعالیٰ کے ہوتا کہ اُن کے دعوے کے ایام میں رمضان میں خسوف کسوف کر دیتا.مجھے اس خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اُس نے میری تصدیق کے لئے آسمان پر یہ نشان ظاہر کیا ہے اور اُس وقت ظاہر کیا ہے جبکہ مولویوں نے میرا نام دجال اور کذاب اور کا فر بلکہ اکفر رکھا تھا.یہ وہی نشان ہے جس کی نسبت آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں بطور پیشگوئی وعدہ دیا گیا تھا اور وہ یہ ہے.قل عندى شهادة من الله فهل انتم مؤمنون.قل عندى شهادة من الله فهل انتم مسلمون یعنی ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی ایک گواہی ہے کیا تم اس کو مانو گے یا نہیں.پھر ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی ایک گواہی ہے کیا تم اس کو قبول کرو گے یا نہیں.یادر ہے کہ اگر چہ میری تصدیق کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت گواہیاں ہیں اور ایک سو سے زیادہ وہ پیشگوئی ہے جو پوری ہو چکی جن کے لاکھوں انسان گواہ ہیں.مگر اس الہام میں اس پیشگوئی کا ذکر محض تخصیص کے لئے ہے.یعنی مجھے ایسا نشان دیا گیا ہے جو آدم سے لے کر اس وقت تک کسی کو نہیں دیا گیا.غرض میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر قسم کھا سکتا ہوں کہ یہ نشان میری تصدیق کے لئے ہے نہ کسی ایسے شخص کی تصدیق کیلئے جس کی ابھی تکذیب نہیں ہوئی اور جس پر یہ شور تکفیر اور تکذیب اور تفسیق نہیں پڑا اور ایسا ہی میں خانہ کعبہ میں کھڑا ہو کر حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ اس نشان سے صدی کی تعیین ہو گئی ہے کیونکہ جبکہ یہ نشان چودھویں صدی میں ایک جو شخص کی تصدیق کے لئے ظہور میں آیا تو متعین ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی کے ظہور کے لئے چودھویں صدی ہی قرار دی تھی.کیونکہ جس صدی کے سر پر یہ پیشگوئی پوری ہوئی (۳۳)
145 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات زمانہ مہدی کی الہامی شہادات حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی گواہی حضرت نعمت اللہ شاہ ولی (متوفی 560ھ) ہندوستان کے ایک صاحب کشف بزرگ تھے.آپ اپنے ایک قصیدہ میں امام مہدی کے ظہور کی خبر دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.باش نعمت اسرار مکن فاش خاموش در سال "کنت کنض باشد چنیں زمانہ یعنی کنت کنض“ (جس کے اعداد 1240 بنتے ہیں ) وہ زمانہ ہے جس میں امام مہدی نے ظاہر ہونا ہے.تاریخ بلوچستان مطبوعہ 1907ء میں آپ کا ایک قصیدہ درج ہے.اس میں مہدی کا سن ظہور 1288 بتلایا گیا ہے جو تیرھویں صدی کا آخر اور چودھویں کا سر ہے.فرماتے ہیں:.-1- در هزار و دو صد هشتاد هشت آں شاہ دین مهدی آخر زماں اندر جہاں پیدا شود یعنی 1288 میں وہ شاہ دین مہدی آخر زماں دنیا میں ظاہر ہوں گے.(حضرت بانی جماعت احمدیہ 1290ھ میں مامور ہوئے ) اسی قصیدہ کا ایک اور شعر ہے:.2 غ ش چوں گذشت از سر سال العجب کاروبار می بینم جب غ اورش کے اعداد ( 1000+300=1300) گذر جائیں گے تو میں عجیب نشان رونما ہوتے دیکھ رہا ہوں.( 1311ھ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ کے دعوئی مہدی کے بعد چاند سورج کو رمضان میں گرہن ہوا.) ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 45: تاریخ بلوچستان صفحه 613-614 سنگ میل پبلی کیشنز، چوک اردو بازار لاہور
146 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات عکس حوالہ نمبر 45 تاریخ بلوچستان مصنفة رائے بہاور بہتو رام 19.6 تلخیص و تعارف سلیم اختر سنگ میل پبلی کیشنز چوک اردو بازار ، لاہور
147 عکس حوالہ نمبر : 45 411 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات باز نوبت پر ہمایوں میرسد از لایزال عمد ران افغان کے اند آسمان پیدا شود میدانداں شاہ جہانگیر است عالم را پناه نہ انکہ دور نطقها اندر جہاں پیدا شود درودار چون کند عزم سفر ندین سرا سے در وارنا تانی صاحب قرآن شاه جهان پیدا شود یشتر از قرن کمتر از چهل شاهی کند تا که پورش خوبرو شد بدران ندیده امشود رخنه گردد عالم تک ادگر دوسراب انہ عجائب باشن و کم آب و نان پیدا شود در بهر خلتی ماندا نیچینی گر دو سیال مشتری انه آسمان آتش نشان پیدا شود راستی کمتر شود کذب در غل گرد و نزدل و دست دشمن گر دور تک اندر جهان پدیدار همچنان و دختر شاه پادشاهی او کند تا که او فرزنداد جنگ بدان پیدا شود اویر آید می کند آوازده سبه دو جہاں والے در خلق عالم سرفشان پیدا شود اندرال اثنا قضا انه آسمان آید یاد بگیر نه انکه نام اور معظم در جہاں پیدا شود خلق از د سے جملہ در دوران اود گرد دو ستون بر جراحت با نے عالم مرهم آن پیدا شود.اینچنین تا چند رسا سے پادشاہی او کند عاقبت فرزند کوچک والے آن پیدا شود از طفیل متقدمش گرد و جهان در اعتدال غم بدار گرد و نه عالم خوش جہاں پیدا شود همچنان دو عشر سال او شود فرمان روا تم نماند در جهان خورم زمان پیدا شود بعد انہاں شاه قومی زور است احمد شاه باد متکی نمانده در جهای خودم نه مان پیدا شود چون کند عزم سفر سوئے عدم آل بادشاہ تا چهل این ریخته را در خانه دانش پیدا شود قوم سکھ یا چیره دستی پا کند بر مسلمین ، تا چهل این جور یدخت اندران پیدا نشود بعدازاں گیر و تعالے ملک مند دوستان تمام تا بعد محکمش میان مهندوستان پیدا شود تا شود در عهد آنها مید به بدعت با رواج شاه غربی بهتر فلش خوش عناں پیدا شود در میان این قرآن گردہ لیتے جنگ عظیم قتلی عالم بے شیر در جنگ آن پیدا سود فتح شاہ غربستان بنده رشیخ جهد قوم ملے را شکست بگیاں پیدا شود، وز مزار در دو صد تا دشت ای شاه دین مهدی آخر زماں اندر جہاں پیدا شود غامیه در اسلام باشنده تا چهل در ملک مهند بعد انسان و حال لعین از استهال پیدا شود ترجمہ: 1288 میں وہ شاہ دین مہدی آخر زماں دنیا میں ظاہر ہوں گے.
148 عکس حوالہ نمبر :45 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات از پر اس وقع و جال تعیین آینه قرود میلے مریم سهم از آسمان پیدا شود پانصد و هفتا و مجری برد تا این گفته شده انہ برائے اہل دین امن و امان پیدا شود نعمت الله شاه را چو آگاهی شده از معترتیب گفته او بے شہر بر سر ندمان پیدا شود دیگر صورت کردگار نے بینم حالت روه ند گاره از نجوم این سخن تھے گوئم بلکہ انہ کر دگا ر ہے.فین شیبی چون گذشت از سرسال بوالعجب کا رویا کہ حکم امسال صورت دیگر است.نہ نچو گیرت دار ہے: باع التجار بوستان جہاں بے بہا ر و شجارے بیہ بچوں زمستان اولین بگذشت بہار دو گمش تو بهار در خراسان مصر شام و عراق فتنه کار قرار تیک تا یک غرب شود یکی خوں شاں نقل زارہ سے بیتہ نائب مهدی آشکارا شود ملک من آشکار می بینم بعد انه وه خود امام نور در پایه الورد کہ جہاں زرد قرار نے مبینم صورت در میرن جو پیغمبر خلق از وبختیار سے بینم م ح م محمد دال سے خوانم نام او با رفتار مے بستم ید بیضا او چه پا پینده باز دور الستار می بینم تا چهل سال اسے میر اور من دور آں شہر یار سے بیشم گرگ با میش سیر با آمود رچراگاہ برقرار می بینم عضو باشد وزیر سلطا تم نعمت الله نشته در کیفے مدارا کا مکار ہے بیشم از همه بر قرار نے بیستم ترجمہ: جب غ اورش کے اعداد ( جو 1300 ہیں ) گذر جائیں گے تو میں عجیب نشان رونما ہوتے دیکھ رہا ہوں.
149 << زمانہ مہدی کی الہامی شہادات ” أربعين في احوال المهديين مصنفہ حضرت شاہ اسماعیل شہید صاحب، مطبوعہ 1860 کے ضمیمہ میں درج قصیدہ میں حضرت نعمت اللہ ولی صاحب فرماتے ہیں کہ : میں یہ بات اٹکل سے نہیں کہتا بلکہ خدائے کردگار سے علم پا کر کہتا ہوں کہ مہدی و عیسی ظاہر ہوں گے.نام احمد ہوگا، سیرت وصورت آنحضرت مہ جیسی ہوگی.ان کو ایک یادگار بیٹا عطا ہوگا اور اسلام کو ان کے ذریعہ غلبہ نصیب ہوگا.”غ “ اور “ سال یعنی 1200 سال کے بعد عجیب و غریب کام دیکھتا ہوں یعنی اس وقت یہ نشان ظاہر ہونا شروع ہوں گے.(کیونکہ غ“ کے اعداد 1000 اور “ کے اعداد 200 ہوتے ہیں.) 6699 اسمعواصوت السماء جاء اسح جاء السح نیز بشنو از ز میں آمد امام کامگار حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی الہامی گواہی حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی (متوفی: 1176ھ ) بارھویں صدی کے مجد داور صاحب کشف و الهام بزرگ تھے.اپنی کتاب تفہیمات الہیہ کی تفہیم نمبر 227 میں دعوئی مجددیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ”اللہ سبحانہ نے مجھے خلعت مجددیہ پہنائی“.پھر تفہیم 228 میں اپنی الہامی گواہی دی ہے کہ مہدی ظاہر ہونے والا ہے.فرماتے ہیں:.”میرے رب نے (جس کی شان بہت بلند ہے ) مجھے علم دیا ہے کہ قیامت کا زمانہ قریب ہے اور مہدی ظاہر ہونے کے لیے بالکل تیار ہے.“ ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 46 : مجموعه رسائل امام شاہ ولی اللہ جلد ہفتم حصہ اول صفحہ 510.شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جو 12 ویں صدی کے مجدد تھے،انہوں نے تو اور بھی معین کر دیا ہے یعنی 1268.اور یہ کم و بیش وہی زمانہ بنتا ہے جس زمانہ میں مسیح موعود کے ظہور کی توقع کی جارہی تھی.“ خطبه جمعه 3 فروری 2006)
150 زمانیہ مہدی کی الہامی شہادات عکس حوالہ نمبر: 46 مجموعه رسائل امام شاہ ولی الله الفهيمات الهيه البدور البازغه دراصل حضرت شاہ صاحب کے واردات قلبی، مکاشفات روحانی، اسلامی احکام، معاشرتی مسائل، مصطلحات علوم اسلامی کا شاہکار نمونہ اور علوم الہیات کا نا در خزینہ ہیں ( جلد ہفتم) (حصہ اوّل) تحقیق و تعلیق مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی
151 عکس حوالہ نمبر : 46 ۵۱۰ زمانہ مہدی کی الہامی شہادات ۲۲۷- تفهیم مجددیت میرے دورہ حکمت ختم ہونے پر اللہ سبحانہ نے مجھے خلعت مجددیہ پہنائی، پھر میں نے خلعت حقانیہ پہنی اور مجھے سے تمام علم فطری و فکری سلب کر لیے گئے.میں حیران و ششدر رہ گیا کہ مجھے مجددیت کس طرح دی گئی.پھر میرے رب جل جلالہ نے طریق خاص کی وضاحت کی.اس کے ذریعہ بغیر نظر فکری کے امیت اور مجددیت کے درمیان جمع کرتا ہے اور میں اب تک مجددیت کی تفصیل نہیں پاسکا.البتہ اس کا اجمال مجھے عطا کر دیا گیا اور میں مختلف امور کے درمیان جمع کا طریقہ جان گیا.اور میں یہ بھی جان گیا کہ شریعت میں رائے زنی کرنا تحریف اور قضا میں قابل قدر ہے.۲۲۸- تفهیم قرب قیامت کا ذکر مجھے میرے رب جل جلالہ نے بتایا کہ قیامت قریب آگئی ہے.اور مہدی خروج کے لیے تیار ہیں.اور طریقہ متاثرہ کے حامل کے بعد کمال کا نمو منقطع ہو گیا ہے.اور ممکن ہے کہ یہ وہی سب سے زیادہ طویل زندگیوں کی پرواہ نہ کرے.سبحان اللہ کمال کے امر کے لحاظ سے کیسے فتنے نازل ہوئے ہیں کہ اس میں ان انوار کا عکس نظر آتا ہے جو وحی کے حامل ہیں.انا لله وإنا إليه راجعون.۲۲۹- تفهيم: عوام اور انبیاء کے درمیان فرق کا میداً کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دل و دماغ میں پھونکتے اور کشف جیسے امور میں عوام انبیاء کے ساتھ شریک ہوتے ہیں.خاص طور سے تکوینی امور میں.اور انبیاء ان کے درمیان کچھ امور میں مختص ہوتے ہیں.جیسے ان کی طرف فرشتے کا بھیجنا اور ان کا اس کو دیکھنا.لیکن ہمارے نزدیک معاملہ ایسا نہیں ہے.بلکہ عوام علم کے اخذ کرنے میں ان کے ساتھ بالکل بھی شریک نہیں ہوتے کہ ان کا وحی کو اخذ کرنا صرف اس لیے ہے کہ وہ اس پانی کی مانند ہے جس
152 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات نواب صدیق حسن خان کی گواہی نواب صدیق حسن خان (متوفی 1307ھ ) اہلحدیث کے بڑے عالم فاضل انسان تھے.مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب ( اہلحدیث) نے ان کو مجد دوقت قرار دیا ہے.آپ کی کئی تصنیفات ہیں.ایک اہم فارسی تالیف حج الکرامہ فی آثار القیامۃ ہے.اس کتاب میں متعدد مقامات پر چودھویں صدی میں امام مہدی کے ظہور کا ذکر ہے.مصنف نے مختلف بزرگان سلف کے اقوال ظہور مہدی نقل کر کے آخر میں اُن کے ظہور کے بارے اپنی رائے بھی چودھویں صدی کی دی ہے.(i).اپنی کتاب کے صفحہ 41 پر لکھتے ہیں:.تیرھویں صدی میں جو دس سال باقی ہیں اس میں امام مہدی ظہور فرمائیں گے یا چودھویں صدی کے عین سر پر تشریف لائیں گے.یہ بات لازم اور ضروری ہے کہ چودھویں صدی کے پہلے سال میں قیامت کبری کی نشانیاں ظاہر ہوں جن میں سب سے بڑی نشانی مہدی کا آنا ہے.“ ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 47: حج الکرامہ صفحہ 41- مطبع شاہجہانی بھوپال (ii).کتاب کے صفحہ 52 پر علامات زمانہ مسیح و مہدی کا ذکر کر کے لکھتے ہیں :.66 و بر ہر تقدیر ظہور مہدی بر سر صد آئندہ احتمال قوی ظاهر دارد “ کہ ہر صورت میں آئندہ صدی ( چودھویں ) میں مہدی کے ظہور کی پختہ امید ہے.ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 48 : حج الکرامہ صفحہ 52 مطبع شاہجہانی بھوپال (iii).صفحہ 139 میں گیارھویں، بارھویں اور تیرھویں صدی کے مجددین کا ذکر کر کے لکھا:.چودھویں صدی کے سر پر جس میں دس سال باقی ہیں اگر مہدی و عیسی نازل ہوں تو وہ مجد داور مجتہد ہوں گے.“ ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 49: حج الکرامہ صفحہ 139 - مطبع شاہجہانی بھوپال
153 عکس حوالہ نمبر : 47 دیان این کیت کی صیہ فوٹو ر ہجرت نبوی است به خالق کو کتنا ہے اثار القيامة الكرامة مین بنا نا ا اا ا الا الا بالا با نام ای غفراد زمانہ مہدی کی الہامی شہادات
154 عکس حوالہ نمبر: 47 ام زمانہ مہدی کی الہامی شہادات ساب میں اگر روایت هفت هزار ساله بودن بر دنیا از مین بسوط ادم تانهای عالم بست رسید اصبح بهین باشد که مولد بی مسلم در اوسط الف سادس بست و نه زیادت بر الوف سبعه من چه از کجاست چون تاریخ هم علی اختلا فهم بر یک نسیم بر کیک حساب نیست غالب می خلاف یکدیگر ست اگر این اختلاف سنوات در مدت امین سبوط آدم رسول خیریت آوران نجا ناشی شده باشد مستبعد نیست اما از جریات اقوال وارده درین با یادت چند سال بر هفت هزار سال مستفاد می شود و و عبد آن چنانکه با ینظام رعیت سیوطی گفته که بقای است بعد از هزار سال از رحلت آنحضرت مسلم از پانصد سال تجاور زنگند و احضن العمار وقت ا و که فتوی تظهر و مهدی و خروج دجال نزول عیسی و دیگر اشراط کبری در مانده شده داده بودند آنرا رد کرد و از پیش خود اثبات نموده که این است رالف یا ده شو ولی این زیارت پانصد سال رسید زیرا که واردشده که در دنیا از وقت ادم تاقیان ساعت هفت برادر سالمت و تخفت علم و آخرین داشتم مبعوث شده وارد شده که خروج و جال بر سر مد سال شود و وسیم فرود آمده او را بکشد و چهل سال در زمین باند و مردم بعد از طلوع شمس از مغرب کیصد و بیست سال کمک کنند بیان پر ونلفه فاصله چهل سال است پس این دو صدر سال شد که ناگزیریت از ان و تمکن نیست که این مدت یکهزار و نهصد سال کشند و برین تقدیر رات و نیا از وقت رحلت نبوی تا آخر یک هزار و چهار صد سال بالیقین پانصد سال علی الاحتمال باشد انتهی گویم حاصل این قبول انست که مدت دنیا هفت هزار سال بست و بعثت انحضرت سلم مثلا در اول بانته سادس از الف ساوس شدن چه باقی از زنان انحضرت تا قیام ساعت یکزار و پانصد سال باشد باید آن قریب بنیروده صد سال تا امروز گذشته و باقی از پانصد و وحید سال است و در ان بین همه اشراط کبری بظهوره رسد و مقدمه این اشتراط ظهور مهدی است پس توان گفت که درین هره سال که از مانته ثالث عشر باقی ست ظهور کند یا بر رصد هارد هم شیخ علی متقی در رساله بران اخبار و اثار والده بر اخیر درت هم آورده و بستنی گفته که اوا ن که اول هزاره هفتم محسوب است.از وقت و ثبات علی بن ابی طالب کرم الله وجهم بنا براینکه رسانه خلافات بالات را در بنادر ایام نبوت ست و این نیز شیر تاخیر در است گرمه مدنی قلیل باشد و اگر مانه خلافت ام حسن بن علی ارمنی نشده کو شش ماه بود تقریبا الابدان منم کنند روزی چند دیگر افزون میشود زیرا که محکم الخلافه بعد ت تالمون بسته این ایام حسن نیز داخل زمانه نبوت است ولیکن بر نظر تحقیق این حساب را در صحت تعداد سنوات پیچ و مغل نیست همین دیرین عمر دنیا از هبوط آدم تا تامی عالم ماز میت و نیاسیان سوز آدم و مولد شیرینی قوم مسلم مستند در تنش طول مان بوت و غلات ا اگر رات بیعت با ارسال الطبية تدين حق ان تست اول ما ایران این باشد که از سوال اور بالین نبوی مسلم بمزار و نهصد سالی بوده و ولادت وی معالم بر سرانه مادری از الف سادس اتفاق افتاده و اختلاف میریز نجمین اصحابنے بجا و ارباب تقویم دین تو این بنا برتقاوم، وام سابقه وبعد از نه مامی و انقطاع و سیول انبار این با خرین با تفاوت سنین شسته قمری سطلت تفرق فقط و مستی زیادت را نقصان حساب است ولیکن بین تقدیر لازم می آید که سال اول مهرچهار وم ا طوری برای کبری قیامت تجاوز نکند چه برای وقوع این اشراط بحسب الت اخبار که بنی ان نسیم ات ہیں جو صد سال باقی است که از تاریخ امروز بعد در سال تا میشود و نزد بعضی خروج و جال بر رانند یلصور مدنی مفت ساسان پیش از وی باشد و برین تقدیر ظهور او را از امره ۳ سال باقی است و هر چند وجود شرایطه صفری نامه ها در نیوقت ترجمہ: ان سالوں میں اشراط کبری ظاہر ہوں گی.ان نشانیوں کے مقدمہ کے طور پر ظہور مہدی ہے.پس کہا جا سکتا ہے کہ یہ چند سال جو کہ تیرھویں صدی سے باقی رہتے ہیں ان میں مہدی ظہور کرے گا یا چودھویں صدی کے سر پر.
155 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات عکس حوالہ نمبر : 48 or بعدل و داو پر کند چنانکه یجور وستم پر شده بود و مقابله روم بکن در همه گیری و قسطنطینی را فتح نماید و خر مرج دجال دردمن او شود و یه علیه السلام فرود آمده در پس نماز بگذارد و هرچه سرای این تا اینکه نمونه با شکو که است والده علم حقیقته اسحالا نهی قف گویم حدیث ندا کورد و احتمال دارد و یکی آنکه مراد د و صد سال از هجرت است دوم آنکه بعد الف از ہجرت است و موند اول است انکه جمیع با اکثر آیات از زلازل ریاح کو جفات و باریدن خون سنگ نفتی این احتمال قدر سالم و رنج و سیاح طیر و سیحه از آسمان و خرت و نار و طاعون و جز آن بعد بافتین واقع شده در آخر خلافت مامون تا آنکه در خلافت متوکل خیلی کثرت توالی پیدا کرد و هنوز در ترقی است و دلالت دارد و بر آن حدیث بهترین شما بعد د و صد سال م خفیف کا ذ باشد و بطریق ضعیف مردمی است که پیدا نشود بعد د و صادر سال مولودی که باشند خدا را دره من حاجت برین تقدیر تهویه آیات قریه ساعت مقید نخواهد بود بما بعد الانتین اگر مراد احتمال ثانی است یعنی بعود و صد سال از اف پس لازم نمی آید تا خرمهدی تا این وقت بنا بر جواز اختصاص آیات بعض آیات کبری مجید دابتہ الارض مطلوب پس از معرب رم کعبه و خروج نار از عدن و خو آن و بر بر تقدیر طور مهدی بر سر صد آینده احتمال قومی ظاهر دارد و اگر مناطر شد پین حق تعالی اعلم باست با حوال عباد و بلا فصل ششم در بیان خلافت بنی امید عباسید و دیگر لوگ وسایطیه کی درست اسلامیه در عرب عجم فرمان روانی باستقلال ما كما ان بالشبع باستحقاق با نتخاب کرده اند و زمان تکه ست ایشان ا آفرین از هجرت کشیده و بقایی است مرحومه تا یک الف مطابق خب بخیر سادق بوجوده ای این صورت گرفته پس باید دانست که چون سی سال از رحلت خیر البشر صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وسلم که مدت خلافت را بنده همان بود و بگذشت دنیا ملک معصومین گردید ور زمام حکومت ارض بات میں ایسه تبیا حضرت عثمان بن عفان بنی الله عنه آمد و شد انچه شد و تا آخرسند میکنین، دواتر منفر من شد اجد ملک بقیضه اقتدار بین العباس آمد و ایشان باند بست چهار سال قمری در یج و شکر می کردند نوت بعد بوستان اسلام انضارت و رونق تمام داشت اگر یا سیا از ایشان محمد خلافت بر سوم کاسه و وام باید بدون ملاک ابرویی گرفتن اپرا و ان خلیفه از امر اپنی امیر معاویه ان بی سینان بهت رضی الله عنه و آخر ایشان مرور این جعد می است مدت تک ایشان خود و چند سال است که تقریبا نزار ماهی باشی بیعت خلافت با معاویه رو زاجتماع حکمی به معنی گفته، بیت المقدس قتل على بيت تاسة ورقلع امام مس از امر ریاست اقع شده وی زیاد راکه از اولاد عبید بودند تا بخود مستلحی کرده براشیده والی ساخت و خواستان و بجستان را بسوی اورمضاف نمود و بند و بحرین و عمان را برامین و من جمع ساخت نمال معاویه خیره ی حه بعد ان ادعاء علمی اسب میکردندا مانام اونی بردند یا ابوتراب یا گفت گویند ایل شام میل شدید به اتم بعبد الرحمن بنجم الدين الوليد معاویه او را ز برد مانید و درسته جهل بهشت قسطنطینی افت کرد و بین بیش ابر نام این زیر وابوایو با افساری هم بونده دین بچا پشتر حاوی از مردم بیت ولایت عهد براتی به یاد گرفت را شام د خوان در بین بیعت ماندند و از این مدینه سید این نمره این به و عبد الرحمن بن ابی بر انکار نمونه بد در ماه جیب شد شصت از هجرت مفاد پو د وات کرد مدت خلافت او نوزده سال پوسته ماه درست رفت.مزیت اسلام آورد معایی مراه پدی وراتی که د بوده کات سول خدا معلم در حال به نام تا چهار سال و تاویه و سال بعده شمان بران مقصرية ترجمہ: امام مہدی کے ظہور کا ہر اندازے کے مطابق آئندہ صدی میں قوی امکان ہے اور اگر تاخیر ہو جائے تو اللہ بہتر جانتا ہے.
156 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات عکس حوالہ نمبر: 49 ۱۳۹ یر بودن شرارتی خیال توم با تو من بعدی یونتون و مریوان و هاوین بیان اور املت به سر به گرو گفتم این کدام مرق ست تا انکه مصاحف را دیدم عثمان این روایت بی سرور شد و ابو هریره واست نبرار در هم در جایزه دادین گفت اللہ انک تحفظ علینا حدیث نبینا علم و آن پنج معلوم شد که آنحضرت مسلم بوجی الهی سیده است که عثمان در خلافت خودتان مصاحف خواهد پرداخت عمربن خطاب خلافت خود تاریخ هجرت مقر خواهد کرد و صحابه احادیث منوطه معلوم الوقوع روایت کرد انگر ذکر کرده اندکه است تاریخ در زمن نبوی او دویست و عمربن خطاب صرف در وضع آن استبداد نمود و انتي بعده ذکر مجد و کثیر التالیف بودن خود و شهرت آن توالی در بلاد نجم و عب رسیدن خود بر تنها اجتهاد مطلق بر رصد نم کرده و در جای الابرار گفته علامه ناصری فرسوده شک نیست در آنکه فتنه مانه تاسع تامین فتنه سلیم خان و حروب و با برادران پیشتر ایشان با اولا دست باز حراج با صاحبات و کسر و قتال اخذ بلاد او باز اجتماع او بجسر مصر و قتل سلطان و اکا بر مرا، آنجا و گرد با اهالی مصر انچه کرد و درمانته عا شرفتن کثیره متوالیه غیرنقطع الى الآن بود تا انکه ال اسلام با یکدیگر در قتل بعض مریض را معامله کفار کردند و متحدیث حجة الوداع آمده لا تر ججن احدى كفارا يضر به عنكم رقاب بعض انتهی موریانه حاوفی مشر ور استسلیم بند فتنه اکبر پادشاه و پلی بود و ذکرش خواهد آمد و در شر و فتن و ترویج رسوم کفر و نفاق و فسوق و رفت و جور کردم ز قرامطه با طنیه بو و و مجد این ماه پیشیخ احمد سر مهندی فاروقی است و حدت وجود را بوحدت شهود فرود آورده تصوف را از بدرعات صوفیه پاک کرد و جهانگیر پادشاه را سجده تحیت نکرد و در قلعه گوالیار محبوس گردید و در مانه تانی تر فتنه فقیها ولاد اکبر از سلاطین علی و طوائف الملوک ہندو زوال سلطنت محمول صنعت اتفاق افتاد و مجدان این بابته و مجتهدان این عصر در بند شاہ ولی اللہ محدث علوی و در عین سید محمد بن اسمعیل بن صلاح الامیر الیمنی و محمد بن عبد الوبان سلیمان بن علی اندی و شیخ محمد حیات المدن و امثال ایشان ند و دها وال نه ثالث عشر غلبه فرینج براکرمدن و اطراف ملکت ہندوستان و خانه بر بادی اسلام و مسلمانان شد و علمار دین مقبومن شدند و تبیل شیوع نام گرفت تا انگره در مید کسری بلکہ ہزار نفس یک الم مجه بدسم نتوان یافت بفعل الله ما یشاء و حکم با یرید و نوبت تا با انجا رسید که اگر امروز یکی دعوی اجتهاد کند یا ادھار تجدیدین نماید از پر سنو گر و مدر شعر و شفیع مرمی شود و مدعیان شیخت و فضیلت بگیر تجهیل و تبدیع وی برخیزند و او را در حضره بدوزندگی بسر بودن دشوار افتد و مفقوت بر یگانه و یگانه شود و منظره و و مردوا هر دانشمند گرد و و نعوذ باشد من جمیع ماکر به الله ومحمد این ماه محمد بن علی شوکانی در بین شاه عبد العزیز و ملوی به نام ایشانی در بنداند و هم شیخ اسمعیل بن عبد الغنی بن علی الله و علوی که به تبعیت سید احمد بریلوی توحید را از شرک سنت را از بدعت ممتاز ساخت هم بزبان و بیان سهم سیف و سنان برکت تجدید تالیف با وجود الخطاط الى الآن موجود دست بر سرمان چهاردهم که دو سال کامل آنرا باقی ست گرظهور مهدی علیه السلام و نزول عیسی صورت گرفت پس ایشان مجد و مجتهد باشند و نه هر که از زمره علما سهند و جزان تدوین سنت در اکثر ابواب ع شریف کرده و تالیف و در حیات وی با قطار ارم رسیده و از رد و قبول معاصرین در ترویج سن صحیح تصنیف کتب رسائل در تفسیر و حدیث پاک نداشتنه ست وی مجدد دین باشد قف متبع دوا دین اسلام دکتر تاریخ واقوال علما متقی شعرت بانک سر مرد ترجمہ: چودھویں صدی کے سر پر جس میں دس سال باقی ہیں اگر مہدی وعیسی نازل ہوں تو وہ مجد داور مجتہد ہوں گے.
157 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات پھر نواب صدیق حسن خان صاحب صفحہ 394 پر فرماتے ہیں:.(i) اہلِ سنت کا یہی مذہب ہے کہ الآیات بعد الماشین یعنی بارہ سو سال گذرنے کے بعد یہ علامات شروع ہو جائیں گی اور مہدی مسیح اور دجال کے نکلنے کا وقت آجائے گا.ابوقبیل کا قول ہے کہ سن 1204 میں مہدی کا ظہور ہوگا.لیکن یہ قول بھی صحیح نہ نکلا.شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا کشف ہے کہ ان کو تاریخ ظہور مہدی لفظ چراغ دین میں بتائی گئی ہے جس کے اعداد 1268 بنتے ہیں.(ii) قاضی ثناء اللہ پانی پتی (متوفی : 1225ھ ) نے رسالہ سیف مسلول میں لکھا کہ علمائے ظاہری و باطنی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تیرھویں صدی کے اوائل میں ظہور مہدی ہوگا...بعض مشائخ اپنے کشف میں یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ مہدی کا ظہور بارہ سو برس سے پیچھے ہوگا اور تیرھویں صدی سے تجاوز نہیں کرے گا.ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 50 : حج الکرامہ صفحہ 394 - مطبع شاہجہانی بھوپال اسی کتاب کے صفحہ 395 پر موصوف لکھتے ہیں کہ :.(الف) یہ سال تو گذر گئے اور تیرھویں صدی سے صرف دس برس رہ گئے اب تک نہ مہدی نہ عیسی دنیا میں آئے.میں بلحاظ قرائن قویہ گمان کرتا ہوں کہ چودھویں صدی کے سر پر ان کا ظہور ہوگا.(ب) وہ قرائن یہ ہیں کہ تیرھویں صدی میں دجالی فتنے بہت ظہور میں آگئے ہیں اور اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح نمودار ہورہے ہیں اور اس تیرھویں صدی کا فتن و آفات کا مجموعہ ہونا ایک ایسا امر ہے کہ چھوٹے بڑے کی زبان پر جاری ہے.یہاں تک کہ جب ہم بچے تھے تو بڑھی عورتوں سے سنتے تھے کہ حیوانات نے بھی اس تیرھویں صدی سے پناہ چاہی ہے.(ج) اب وہ وقت قریب ہے کہ جو مہدی اور عیسی کا ظہور ہو کیونکہ علامات صغریٰ سب وقوع میں آگئی ہیں.اور ان نشانیوں کا ذکر کر کے لکھتے ہیں کہ یہ سب واضح علامات اور روشن نشانات اس بات پر گواہ ہیں کہ اب وہ وقت ظہور مسیح و مہدی بہت نزدیک ہے.ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 51: حج الکرامہ صفحہ 395 - مطبع شاہجہانی بھوپال
158 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات عکس حوالہ نمبر : 50 ۱۳۹۴ مرفع بن ستمائة و الفار اخت القاف بنائین و اہیم السجده بواحدة من اسفل ثلاثیه و درک متمانه و ثبات و ثمانون سنتر وی نیا اخر القرن السابع ولا الحرم لا الحق لم يظهر تمل ذلك تبيض المقلدين لهم على ان المراد بتلك المدة مولده وعبر يفهمون من مولدة ان خروج يكون بعدالعشر السمانة فانه الامام التام من ناحية المرتبال این بین الا اذا كان مولده ما علم ان البرنی سنتر ثلاث و ثانین وتمانه یکون عمر عند خروجه ستاد عشیرن من انتهی و حمان حفیه گفته بودیم تر علی مردی سوال کرد از دری کہ مہدی کی بیژن بی گفت بیمات و عقد کرد بدست خود هفت به یعنی از یک تانه شهر و فر مو بیژن آید در آخر زمان خروجه اسام 200 ومحمد وقد سبق بالحديث مع الكلام عليه في وضعه گویم شاید این شارت ست با نه ظهور وی بعد از هفتصد سال از هجرت شود سیخ تا این است خود بیرون نمی آید بعد از ان خروج او مرجوست تا کی بر آید چه بدیت شامل مابعد کثرت صفی الدین بن ابی المنصور عقیده خود گفته در حدیث آمده ان صلحت امتی فلمها يوم وان فسدت فلها نصف یوم مراد دانست که اگر میخوان یاقوت سلطان (i) شریعت تا انتہا رالف می ماند زیراکی یکی نزد پروردگار برابر نور در سال است بعد هو امر شریعت مضمحل گردد و دین غریب میانه در بیت امر بود و ابتدار این انحلال بعد گذشتن سی سال از قرن یازدهم باشد و در نوقت انتظار کرده شود خورد مہدی علیہ السلام انتی و ابو قبیل گفته اجتماع مردم بر عهدی درسته و و صد چهار باشد یعنی بعد هزار سال از بحجرت ار در نیم بن ها و باین حساب ظهور او بر سرصد نیرو هم از چرتکه ما در نیم لازم می آید گویند شاه ولی اللہ محدث ولو تاریخ ظہوں اور لفظ چراغ دین یافته و بحساب جمل عدد وی یکهزار و و و صد و شصت و هشت میشود و این مخالف ظهور او بر سرمانه ست برائت که باشد اللهم مگراین تاریخ ولادت او گفته است نه تاریخ خروج زیر که این حساب گر بر رفتند جلوه گر شود عمر اونسی و دو سال باشد و اگر در عشره اولی از مانته خروج فرماید چپل دو ساله باشد لیکن این سالها گذشت از مهدی نشانی در عالم بافته شده این کشف صحیح نیامد قاضی ثارالله پان پتی در سیف سلول گفته ظہوا اوبین و تین لارا ارتباط با ما مسیر را از بین گفته اندیکی منی بینی تاریخ بود و از ایراد اصلا بابت نشده انتی و ندا ہو الحق الصریح و بعض از مشایخ و اہل علم گفته اند که خروج او بعد دوازده صد سال از ہجرت شود و نه از سیزده صد تجاوز نکند زیرا که مدت عمر دنیا با سقاط کسرات همین هفت هزار و پانصد سال مط من تخمین فشارج او ماند و بعثت انحضرت علم در اول بار رفتم اتفاق افتاده سیوطی گفته وار دست که و جال بر سرانه خروج کند ویلے از اسمان فرد آمدہ اور ابتل رساند و چهل سال در زمین باند و مردم بعد طلوع شمس از مغرب یکصد و بیست سال کمک کنند وسیای فیتی برق چپل بیا ست این و صد سال شد و خروج دجال قبل تای شمس از غرب است مدت این خروج و جال مطلوع شمس معلم نیس که پیره اتی چون حال خروج و جال اتفاق نیفتاده مدت دنیا قریب سه صد سال پر الف منتز اند گشت منا گفته اند که بار این است از فرار تجاوز کند اما از پانصد سال پران تجاوز نشود و نیز وارد شده که ظاهرا مهدی هم برسرمانه باشد مجد الف آنان در مجله تا ذ کر ترن في سنين گفته قدوم اوعليه الرعنوان بر رمانه خواهد بود و در نوقت از مانه بیست و هشت سال گذشته اتمی وا با نیرین با شاه دست و سروانی دست بودن مهدی مجد دین سنت الله میران جاری شده که هر محمد دین در سرصد بیارینا آید پر ظہور مہدی ہم بر سرمایه می باید نه در وسط مانه وپایان او و خروج او پیش از و جال بیفت سال بود و د جال پرست ترجمہ: (i) - صفی الدین بن ابی منصور نے اس حدیث میں کہ اگر میری امت درست رہی تو اس کے لئے ایک یوم ہے اور اگر بگڑ گئی تو نصف یوم.درستی سے مراد قیام شریعت اور یوم سے مراد اللہ تعالی کے نزدیک ایک ہزار سال ہے.جس کے بعد شریعت میں کمزوری آگئی اور دین کمزور ہو گیا.چنانچہ اس کمزور حالت میں گیارھویں صدی کے 30 سال گزر جانے پر امام مہدی کا انتظار کرنا چاہیے.اور ابوقبیل نے کہا ہے کہ لوگ مہدی پر 204 میں یعنی ہجرت کے ایک ہزار سال بعد 1204 کے بعد جمع ہوں گے.اور اسی حساب سے اس تیرھویں صدی میں مہدی کا آنالازم ہے.اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے فرمایا ہے کہ امام مہدی کی تاریخ ظہور لفظ چراغ دین ہے کہ بحساب جمل اس کے اعداد 1268 بنتے ہیں.اگر چہ یہ صدی کا سر نہیں ہے ممکن ہے کہ یہ انھوں نے اس کی تاریخ ولادت بیان کی ہو نہ کہ تاریخ ظہور.(i).اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے اپنی کتاب سیف مسلول میں کہا کہ علماء ظاہر و باطن نے اپنے گمان اور اندازے کے مطابق مہدی کا زمانہ تیرھویں صدی ہجری کا آغاز بتایا ہے.لیکن معین تاریخ ظہور آنحضرت ﷺ سے ثابت نہیں ہے.
159 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات عکس حوالہ نمبر : 51 الف ۳۹۵ عیسی بن مریم کشته شود په قول میوانی که دنبال پسرانه خارج گردو معنی وی دانست که با ته خبر و هند می ترول میشی خورموج او جان احدست مهرماه تا ده سال بلکه بست سال ملکه زیاده از ان منصور است فاصله تقلیل بیان ظهور و خروج ایشان الحق التفات نیست چون ازین قرن که در شمار عمل از سنین جهت روی مسلم سیزدهم ست نو و سال گذشته و مهدی در عالم ظاهر نشده بخاطر میرسد که شاید بر سر صد چنار ہم ظهر وی اتفاق افتد و ابو نصر از ابو عبد الله جعفر صادق آورده که بیژن نیا مهدی گر در سالهای طاق سال یکم یا سومیانی با ستم بینیم و یا عشرہ اولی اول پایه شمرده وبی شده تا صف اول کے اول المانه است نزد ظاہر عقل و دور بعض روایات آمده که ظهوره و هفت سال پیش از و جال بود و و جلال بر سرمانه خروج کند میدم مجد دین است اگر درباره مجددین آمده که ان الله سبعت علی راس کل مائته سنته من بجد لها امرو یا پس بعضی از ان گفته اند که در حد شرط است که مانه بگذرد و وی زنده باشد پس اگر ظهور او را پیش از دجال هفت سال فرض کنند و بقارم تا خروج و قتل آن بین بیان مهم نمایند منافاتی بیان این برد و روایت باقی نمی ماند والله اعلم د سوید اوست و جو دفتن صغیری تما بها در عالم تسلسل می ریزنگ پاره ای شب روسلا گو بر که یکی بعد دیگرے سفید و بودن این صدر یزد هم موقع فتن آنان کثیر تعظیم چیزی است که بر زبان که د د شهرت دارد تانک طفل بودیم پیرزنان را میشنیدیم که میگفتند حیوانات ازین بانه بنام خواسته اند و هرچند این معنی بعینه از حدیتی میت ثابت نیست اما ملاحظه انقلاب لم و تقلب حوال بنی اوم که د بین مان اخرست شاہد عدل ست برانکه پیش این زنگ گیتی باین عنوان نبود شرح این اجرا و امیر لو بله و دفاتر تقیه میخوابه مشتی متون از خروا واند کی از بسیار درا ابواب سابقه حلوه گر شده مابقی را بیران قیاسی باید کرد و انچه باقی مست همین ظہور مہد بی موجود تا کی اتفاق افتد و کدام دقت از از سند آتیه مرضی او تعالی باشد این همه تواریخ مستخرجه کاشفان عالمان محبت انی شات بلکه نوعی از او عار علم الغیب است که حق تعالی بدان مستاثر بوده و احدی از خلق دران با وی شریک نیست خطار در کشف بسارست نعم الاجمل اینقدر میتوان گفت که زمانه فاطمی منتظر قریب محصول مرحو القرب است زیرا که مراآینده نیرین (ج) و هر فاتت بعید میباشد و وقوع امارات صفری جمیعها و تغیر عظیم عالم واہل عالم و ضعف نام اسلام و رفع علم و شیوع جهل کثرت منسق و فجور و بعضا و حسد و حسه ید مال و قصر یمیت در تحصیل اسباب معاش و ذبول کلی از دار آخرت و ایشتار کا ال دنیا برا خرمی امارات علیه علامات میڈ قریب مان ظهورا دوست و احمد علم بالصواب سياق الكلام فی ہذا انشا اللہ تعالی فتی وضع آخر ايضاً فصل اما اعوان و انصار و صاحب ایست مهدی پس این عباس گفته انصار و مردم شام باشند مشته صد و پانزوہ کس مجد اصحاب رنعیم بن حماد از ابن مسعود اور وہ بخیر سابقه نفر علما من افق شتی علی غیر میعاد بایع کل رجل منهم ثلاثمائه و بضعه عشر رجلامتی تجتمعوا بلکہ الحدیث مراد باین هفت نفر و مبایمان شان اعوان مهدی اند و نیز روی از کعب در ده که گفت قادة المهدى خير الناس ابل نفرت و بیعته من ابل الكوفة واليمن ابدال الشام مقدمة جبران ساخته میں کائیل الحدیث علی متقی در بریان گفته ناصران یاران مهدی کی فیان اہل میرج ابدال شام باشند انتی فعل ماضی گفته فریم کند خدای تعالی برای او قوم بسیار مانند پاره های تو بر تو برو خرید آنحضرت مسلم بیرون آید مردمی از دو بار به گفته میشود او را حارث وی حراث است یعنی کشتار بر متمده اشکراو مردمی باشد که او را منصور گویند الحدیث اخرجا ابو روان ترجمہ: (الف).یعنی نزول عیسی ، مہدی اور خروج دجال کی ایک ہی صدی ہے.اور صدی کا سر 10 سال بلکہ 20 سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ کو تصور کیا جاتا ہے.ان کے ظہور اور خروج کا درمیانی عرصہ توجہ کے لائق نہیں.یہ صدی بحساب جمل رسول کریم ﷺ کی ہجرت کے بعد سے تیرھویں صدی ہے.90 سال گزر چکے ہیں اور مہدی ظاہر نہیں ہوا.میرا خیال ہے کہ شاید چودھویں صدی کے سر پر اس کا ظہور ہو.(ب).اس تیرھویں صدی میں بکثرت بڑی بڑی آفات اور فتن ظاہر ہوں گے، یہ باتیں زبان زدعام اور مشہور ہیں.یہاں تک کہ جب ہم بچے تھے تو بزرگ عورتوں سے سنتے تھے کہ حیوانات نے بھی اس صدی سے پناہ مانگی ہے.(ج).اور اس کے وقوع کی تمام علامات صغری میں عالم اور اہل عالم میں عظیم تغیر ، اسلام کا کامل ضعف، اور علم کا اٹھ جانا، اور جہالت کا پھیل جانا، اور فسق و فجور اور حسد و بغض کی کثرت، اور مال کی شدید محبت کا پیدا ہو جانا ، اور اسباب معاش کے حصول کی ہمت ٹوٹ جانا، اور آخرت سے کلی طور پر غافل ہو جانا اور دنیا کے لئے کامل طور پر قربان ہو جانا، اس کے ظہور کے زمانہ کے نزدیک ہونے کی آخری، واضح اور روشن علامات میں سے ہیں.
160 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات علامه سید نورالحسن خان ابن نواب صدیق حسن خان آف بھوپال کی گواہی اقتراب الساعة ابوالخیر سید نور الحسن خان صاحب کی 1309 ھ کی تصنیف ہے.اس کا نام اقتراب الساعة سورة القمر کی پہلی آیت اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ سے ماخوذ ہے یعنی قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا.حضرت علامہ ابن عربی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس میں امام مہدی کی آمد کی پیشگوئی ہے جو زمانہ دور ان قمر یعنی چودھویں صدی میں تشریف لائیں گے.1 - اقتراب الساعۃ کے مصنف بڑی شدت سے چودھویں صدی میں مہدی کے منتظر نظر آتے ہیں اور اس کے ظہور کی تمنا کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : چودھویں صدی کا پہلا سال ہے اور مہدی ابھی ظاہر نہیں ہوئے حالانکہ ان کو تیرھویں صدی میں ظاہر ہونا چاہیے تھا.پھر اس امید کا اظہار کرتے ہیں کہ شاید چار چھ برس میں چودھویں کے سر پر ان کا ظہور ہو.2.پھر کتاب الاشاعة في علامات الساعة کے حوالہ سے لکھتے ہیں: انہوں نے مہدی کے ظہور کا اندازہ بارھویں یا تیرھویں صدی بتایا تھا وہ بھی ٹھیک نہ اترا.پھر چودھویں صدی کے فتنوں کا ذکر کر کے مہدی کی ضرورت کا ذکر کرتے ہیں کہ اب تو اسے ظاہر ہونا چاہیے.ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 52: اقتراب الساعۃ صفحہ 321 مطبع مفید علم الکائنہ آگرہ 1301ھ افسوس صد افسوس ! باوجود یکہ مصنف کتاب کے زمانہ چودھویں صدی میں ہی مہدی کے دعویدار حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب نشانوں کے ساتھ ظاہر ہو چکے تھے مگر موصوف ان کی شناخت سے محروم رہے.ایں سعادت بزور بازو نیست
161 عکس حوالہ نمبر: 52 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات اقترابُ السَّاعَة طبع في مطبعة مفيد عن الكانة دائرة بإدارة المنشي شهر احمد خان الصوفي سلمه انه تعالى f ۱۳۰۱هر
162 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات عکس حوالہ نمبر :52 ۲۲۱ ار رایت نعیم بن حماد ترجیح دیتی ہے محمد بن حنفیہ سے روایت کیا ہے يقوم المهدی سنت کائین اسیطرح جعفر صادق علیہ السلام سے بھی مروی ہے کہ مہدی سندروسو مین نکل کپڑے ہونگے یعنی بعد بزار بجری کے اپنی تبدیل نے کہا اجتماع الناس علی الہی سنة أربع وماتين اخرجه تعیمر بن عماد ایضا مین کہتا ہوں اس حساب سے 1 ظہور مہدی کا شروع تیرہویں صدی پر ہونا چاہئے تھا مگر یہ صدمی پوری گزرگئی قیدی نہ آئے اب چودہویں صدی ہمارے سر پر آئی ہے اس صدی سے اس کتا ہے کے لکھنے تک چہ مہینے گزر چکے ہیں شاید اللہ تعالے اپنا فضل و عدل رحم و گرم فرماتے چار چہ برس کے اندر مہدی ظاہر ہو جا وین اتنی بات تو ضرور ہوئی کہ تیرہویں صدی کے اوائل میں بھی حسب وعدہ رسالت پنا ہی مسلم مجدد دین کے پائے گئے ہیں قاضی القضاة محمد بن علی شوکانی اسی صدی سیزر و بم کے مجدد تھے قطر صفایین بارہویں صدی کے آخر مین پیدا ہوئے سندی گزرگئی زندہ رہے بیا تک کہ سنہ پچاس یا بچپن میں اس صدی کے انتقال فرما یا جیسے حضرت سنت اپنے جوئی پرویسی کسی سے نہ دیکھی سنی جزاه الله عن المسلمين خايما مهندمین سید احمد بریلوی قدس سرہ مسجد و ہوئے اتنے بھی رفع شرک و بدعت کا خوب ہو ا صاحب اشاء سنہ ایکیز است چستر ہجری مین تھے انہون نے اندازہ ظہور مہدی علیہ السلام کا اول بار جوین شد 2 یا تیر جوین صدی مین کیا تھا گروه حساب شیک نه او ترا آب به صدی چو و جوین شرح ہے ہر طرف سے آواز فتنے وفاد نے کانوں کو بھر دیا ہے دیکھئے اونٹ کس کل بیٹھے ہماری فاقہ مستی کونسا رنگ لا ر سے تبلیه ، شام میں کہا بے وجہ جمع کی درمیان ان روایات کے یہ ہے کہ کمال ظہور انکا وقت فتح قسطنطینیہ کے سنہ و وسومین ہو گا یعنی بعد ہزار بھری کے سارے آدمیوں کا اجتماع نزدیک ان کے سنہ دوسو چار مین ہوگا یہ بات بعد فتح روسیه و قاطع کے ہوگی سومی روایت کہہ منافی خروج
163 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات خواجہ حسن نظامی کی گواہی خواجہ حسن نظامی صاحب کی تصنیف ” کتاب الا مریعنی امام مہدی کے انصار اور ان کے فرائض 1912ء میں شائع ہوئی.اس میں انہوں نے ظہور امام مہدی چودھویں صدی میں ہونے کا ذکر کیا اور بتایا ہے کہ ان کے ظہور کی تمام علامات پوری ہو چکی ہیں اور یہی زمانہ ان کے ظہور کا ہے.صفحہ 41 کے حوالہ میں خواجہ حسن نظامی حضرت ابن عربی کی کتاب فتوحات مکیہ باب وزراء المہدی سے ایک حوالہ پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے 1335ھ میں ظہور مہدی کی خبر دی ہے.پھر صفحہ 56 میں الم کے میم سے ظہور مہدی کی طرف اشارہ لیا ہے کہ امام مہدی 1340 ھ میں ظاہر ہو جائے گا.چنانچہ 1340 ھ کے سال کے ساتھ مسلمانوں کو بہت امیدیں رہیں یہاں تک کہ یہ سال گذر گیا.ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 53: کتاب الا مر صفحہ 41-56 مطبوعہ 1913 ء درویش پر لیس دہلی خواجہ حسن نظامی صاحب کے زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب مسیح و مہدی کا دعوی فرما چکے تھے اور آپ کی تائید میں 1311ھ میں رمضان کے مہینہ میں خاص تاریخوں میں چاند سورج گرہن کا نشان بھی ظاہر ہو چکا.مگر چونکہ خواجہ حسن نظامی صاحب کو اپنی گدی چھوڑ کر حضرت مرزا صاحب کو ماننے کی توفیق نہ ملی اس لئے اپنے مریدوں کو مزید انتظار کی طفل تسلیاں دے کر ٹال مٹول کرتے رہے مگر کب تک؟ چودھویں صدی کے جو سال 1335 یا 1340 انہوں نے اپنے اندازے سے بتائے ان میں بھی کوئی اور مہدی نہ آیا.مگر چودھویں صدی میں مہدی کے آنے پر خواجہ صاحب قائم رہے.جس کے لئے میدان میں ایک ہی مدعی ہیں اور وہ ہیں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام !!
164 عکس حوالہ نمبر :53 وئے اضافہ کے بعد دوسری بار چینی ) كتاب الأمر یامین زمانہ مہدی کی الہامی شہادات مام مہدی کے نصال اور ان کے فرائض حضه دوم شیخ سنوسینی سائیں زرنشتی موسائی عیسائی اور ہندو تہذیب کی سند اور معتبر کتابوں سے حضرت امام شماری نے ظہور کی بشارتیں.او حضرت رسول خدا صلی الہ علیہ وسلم کی صحیح حدیثیوں سے بادشا کایل و رنج و سروج کا ثبوت اور شہنشاہ جارج پنجم کے اسلامی اوصاف، اور انگریزی پاریمنٹ دعوت بالم او شیخ نفوسی کی بتائی ہوئی وہ آیات نہیں اس کی آئندہ ہونیوالی یا روایت رہے.اور سلمانوں کو ہندوؤں عیسائیوں سے کہوں وغیرہ سے دوستی کی امین اور پیش نیا ہیں ن وفاداری پیدا کرنے والی موثر ہیں ہیں اور حضرت امام مہدی کے انصار کے فرائض غیر دین جانیان جو سیاہی مولائی حضرت خوا جیسی بن ظامی سنوسی خواهر زاده حضرت به نظام ماند اولیا محبوب آبی دبیر حلقہ نظام مشائ دہلی و آنریری بیعت ایڈ میٹر اخبار توحید نے مرتب فرمایا نکار محمد انوار شیمی قادر می سیج انجاز تقویت امیر اٹھہ نے مست ہو میں ابطه و مشتری ما محمد الواری ماں کے (چیوا کر شائع کیا،
165 عکس حوالہ نمبر :53 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات اہم امام مہدی کے انصار اور انکے فرائض طور پر واقف ہو جائیں.بالفصل صرف ایک نہر پیش کی جاتی ہے.آپ کا ارشاد ہے کہ حکومت عثمانیہ عین عبدالحمید خان نانی سلطان کی حکومت ۳۲ برس یہ ہے گی.اس کے بعد وہ معزول ہوں گے.اور انکے بعد اللہ برس کے عرصہ مین دو سلطان اور تخت نشین ہوں گے کہ اتنے میں حضرت امام مہدی کا ظہور ہو جائے گا.سلطان عبدالحمید خان غالبات کے دام مین تخت نشین ہوئے ہیں اور شر الومین مغرول ہوئے.اس سا ہے پور سے ۲ سویرس کی حکومت ثابت ہے.اسکے بعد پہلے بادشاہ سلطان محمد کہ شاد این دو سر اور موسی.اور سماع میں یعنی کن سے پانچ برس بعد حضرت امام کا ظہور ہو گا.گویا حضرت امام ابن عربی نے اسے سلام میں ظہور مہدی کی خبر دی ہے.حضرت شاہ نعمت اللہ ولی کے مشہور و معروف قصیدے کے چند اشعار بھی نقل کئے جاتے ہیں تاکہ ناظرین سب مجموعہ کو سامنے رکھ کر رائے زنی کر سکین اور بیض میرے کہنے پر ہر وہ نہ رکہین بلکہ پرانے نوشتوں کا ثبوت دیکین ہند کے گزشتہ واقعات بیان کرتے کرتے آپ فرماتے ہیں در مهند تزلزل آید چون نه لزال قیامت آن زلزله به قهر که آید به هند یا نه دو کس بنام احمد گمراہ کنند بے حد سانہ ند از دل خود تفسیر فی القرآنه طاعون و قحط یک جا گردو بہت پیدا بین گوشتان بمیرند هر جا ازین بهانی بعد آن شود چونگی با روسیه جاپان جاپان نتیخ یا بد بر کانک روسیانه سرحد جدا نمائند از جنگ با از آمیند صلح کنند اما صلح منافقانه انه بادشاه اسلام عبد الحمید ثانی چون کیقباد و گر باشند عاد لانتا بر او نصارات اخدا ہر سو فلو نمائید پس نمک او بگیرند با حیله و بهاند در حین بیقراره ی هنگام اضطراری تجھے کند چو باری بر حال موسسات گردند بر سلیمان خاله ی فنیل یزدان یعنی که قوم افغان باشند صد علام
166 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات عکس حوالہ نمبر: 53 امام مہدی کے انصار اور انکے فرائض ۵۹ اقبال تمدن جدید کی دنیا میں کلمتہ السر کی تبلیغ کرنی چاہتے ہیں.تم کو لازم جو کہ در بار رسالت کے فرمان واجب الاذعان کی تعمیل کے لیے دل و جان سے کمر بستہ ہوتا وقت آ گیا کہ یورپنے امریکی چین و جاپان اور اُن تمام ممالک میں جہان سائنس اور علوم جدیدہ کی اشاعت ہو رہی ہے.اسلامی صداقت کی روحانیت پھیلائی جائے لہندا تم سب کیل کانٹے سے درست ہو جاؤ.پہلے اپنے حالات کی اصلاح کرد ودر اپنے وجو کو اسلامیت کا جسم نمونہ بنا لو اور ہونے علوم سیکھنے شروع کر دتا کہ تخت کے فشاء کے موافق مذکورہ سرزمین پر امر حق کو راج کر سکو.قرآن شریفین سے پہلے اکثر کا نعظم نے بیڑیا ہوگا.اس مین اشارہ ہو کہ آل محمد ایس کتاب علم) کو جس میں کچھ کرنے میں عالم گیر کنکے لے کھڑی ہوگی.اس کم کے سیم میں اس نائب رسول مہدی کے ظہور کی خیر ہے یعنی وہ کلام میں ظاہر موت اور تمہارے منتشر اور پراگندہ کاموں کو سمیٹ کر یک جا کر دے گا.اور ہے جہاں کو اسلام کے حقانی دائرے میں لے آئیگا.ا جنا ہے حالت اپنے تخت کی جانب سے اس غلط فہی کی اصلاح ضروری ہو جو یورپ کی قومون مین پہیلی ہوئی ہے.وہ لوگ ہما رے نائب مہدی کے نام سے طرح طرح کے وہم کرتے ہیں.انکو اطمینان رکہنا چاہئیے.ہمارا ہوئی انکی مملکت میں ہاتہ نہیں ڈالے گا.امن وامان کو برہم نہیں کرے گا.اُسکا کام صرف یہ ہوگا کہ باطنی اور روحانی تسکین کے ذرائع دینا مین شائع کرے.اور انسانوں کو ظاہری دو مستند یکی ساتھ باطنی نسائی دولت ہیں پانے اور لکھا جاچکا ہے کہ وقت وہ دنیا میں آئیگا.سینے میں اسکے طریق رہتا کو قبول کرلیں گی.اور اسکی ہدایت پر عمل شروع کر دینگی پیرا ہی کا نام مہدی کی حکومت ہے؟ الای رومانیت کی جہاں پر سلویا نہیں کہ لوگوں کے تاج و تخت چھینے جس طرح جرین و گریز سروس فرانس مغیرہ کی سلطنتین اب قائم ہیں جہدتی کے وقت یہی ہیں
167 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات متفرق شہادات ان کے علاوہ بھی کئی علماء جن کو حضرت بانی جماعت احمدیہ ( جو عین چودھویں صدی کے سر پر نشانات کے ساتھ آئے ) کو مسیح و مہدی کے طور پر شناخت کی توفیق نہ ملی وہ اپنے ہم خیال ساتھیوں سے وعدہ فردا ضرور کرتے رہے، مگر اپنے بیان سے اس بات پر ضرور مہر ثبت کر دی کہ مہدی کی صدی چودھویں ہی تھی.علامہ ابو حفص محمد عتیق اللہ صاحب کی گواہی علامہ ابو حفص محمد عتیق اللہ 1301ھ میں تحریر فرماتے ہیں:.اب تیرھویں صدی بھی ختم ہوگئی.نو ماہ گذر گئے.دیکھئے اس صدی کے سر پر کس کو یہ خلعت فاخرہ مرحمت ہوتا ہے.اللہ کرے امام مہدی علیہ السلام ہی آجائیں وہی اس صدی کے مجد دہوں گے.“ حسن المساعي الى نصح الرعية والراعی صفحہ: 296) علامہ سید محمد عبدالحئی صاحب کی گواہی ایک بزرگ عالم سید محمد عبد الحی ابن حکیم سید محمد عبد الرزاق مرحوم بن سید فتح علی مغفور سا کن قدیم منڈ واضلع فتح پور نے ایک کتاب ماہِ رجب 1301 ھ میں تالیف کی اور 1309ھ میں شائع ہوئی.کتاب کا نام حدیث الغاشیہ ہے اور لفظ غاشیہ کے اعداد بھی 1317 بنتے ہیں.گویا اس نام میں بھی صاحب کتاب نے چودھویں صدی کی طرف اشارہ کیا ہے اور کتاب میں بھی امام مہدی کے ظہور کا آخری زمانہ تیرھویں صدی بتایا ہے اور لکھا ہے کہ تمام علامات ان کی ظاہر ہو چکی ہیں.اب وقت ظہور کا بہت قریب ہے.صفحہ 345 کے حوالہ سے ظاہر ہے کہ آخری وقت ظہور مہدی کا تیرھویں صدی بتایا گیا تھا اور علامات بھی ان کے ظہور کی پوری ہو چکیں.صفحہ 350 کے حوالہ میں چودھویں صدی میں مہدی کیلئے شدت انتظار کا اظہار ہے.ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 54 : حدیث الغاشیہ صفحہ 350,345 - المكتبة الاثر یہ سانگلہ ہل ضلع شیخوپورہ
168 عکس حوالہ نمبر :54 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات از ولاناسید بعد اسی رحمہ اللہ تعالے كشف الغمه عن افتراق الامة از نواب صدیق حسن خان صاحب نے الله لی المكتبة الأربة سانگله هل ه ضلع شیخوپوره
169 عکس حوالہ نمبر :54 Fra زمانہ مہدی کی الہامی شہادات تو حسنی ہوں ان کی طرف سے حسینی عباسی ہو ین ان سے انکا نسب التا ہو یا وہ صدی جو اولاد مہا رہے ہونگے.وسری شخص میں وہ ہوبھی گئے یہ مہدی مو جو د ہو نیوالے میں بعض ح حفاظ نے کہا ان كون اللهل هي من تدريبية مسلم ما تواتر من ذلك فلا يسمع المدلول ولا التفات الخيرية كتاب الفن الجليل بتاريخ القدس التحلیل بین لک نا ہی مهدی مدینہ میں پیدا ہونگے اسکا نام بغیر خدا صلے اسلامیہ وآلہ سلم کا نام ہوگا بیت المقدس کو ہجرت کر کے آوین کے محمد بن حنفیہ نے کیا خوران کی طرف سے کالے نشان نکلیں گے لشکری الیون کے کپڑے سفید ہونگے اس لشکر کا سپر ان شعیب بن صالح نام سولیتی نسیم ہوگا وہ اصحاب سفیانی کو شکست دیکر بیت المقدس مین آوینیا محمد علی سلطنت جاد یا تین سو آدمی شام کے لو کے پاس دینگے اسکے ملنے اور مہدی کو حکومت سپرد کرنے میں تنشر ماہ کا وقفہ ہوگا یہ جو آیا ہی کہ کیا مهدي الا جیسی اس حدیث کو ابن حزم نے بایاں کماری انتی یعنی پہلے سفیانی دمشق سے نکلی کا پھر تیمی خراسان سے پھر صدی حدیث سے یہ پانی میں پیدا ہونگے کے میں ظاہر ہونگے امن کی طرف ہجرت کرینگے کے ولے درمیان رکن اسمقام کے اپنے زبر دستی بیعت کر گئے یہ اس بیعت لینے سے ناخوش ہو نگے انکی عمر وقت ظہور کے پاس س ہوگی یہ مجدد دین میں اسلیے نکلنا انکا ترین سردی یا آخر صدی پرخیال کیا گیاہی ہی بہتر کیک آغاز صدمی پر اطلاق را سریانہ کا ہو سکتا ہی یہ بات کسی حدیث میں نہیں آئی کہ کون سی صدی کے آخر یا اول میں ظاہر ہو نگے ملیار و صوفیہ نے کشف و الہام و قرائن اخبار و آم سے جون جون کی صدی بتائی مجھے تھے وہ ٹھیک نہین پاری سنہ ہجری سے سند تک ہر صدی کو قتل انکے نظور کا شہر یا تھاوہ مدت گندر کی صدی نہ آئے آپ چودہویں صدی کا آغاز ہی دیکھنے اب بھی آتے بین یا نسین اتنی بات تو نه وری کے علامات بعیدہ انکے ظہور کے سب کے سب گزر گئے علامات قریب نظر آتے ہیں اس ہے.معلوم ہوا بھی کہ وقعت نور کا بہت قریب آگاہی حاصل اسلام قائد کا علیہ مودی کا یہ ہوا کہ میانہ تو سرخ سفید رنگ کشادہ پیشانی یا تھا چمکتا ہوا ناک اونچی توند جیسے روشن تارو تجون بار یک لمسی الگ الگ گینی را می برای آنکه بیا پیشم مسکین است چکتے
170 عکس حوالہ نمبر :54 ۲۵۰ زمانہ مہدی کی الہامی شہادات رمین کے نور میں انصاری سے صلح ر سینگی اختلاف موت کا باعتبار تفاوت ظور و قوت کے ہیں.اشاعه بین چالیس برس کو ترجیح دی جو سفارینی کا میں خاطر بی اسی طرف معلوم ہوتا ہر ایک روایت مین چون آیا بر که من کذب بالمهدي فقد کفر یعنی کوئی کسے کہ مہدی نہ آونگے وہ کا فریبر اخر جد الامام الحافظ ابن الامكات بسند مرضي إلى جابر مرفوع أقاله السفاريني ثم قال قد كثرت بخروجه الروايات حتى بلغت حد التواتر المعنوي وشاع ذلك بين علما و السنة حتى على من معتقلات و انتھی پھر سفارینی نے یہ کا بر وقد روي من الصحابة بروايات متعال دة وعن التابعين ومن بعد هم سايفيل مجموعه العلم القطعي بخروجه فالايمان بفروج المهدي واجب كما هو مقرر عند اهل العلم و مدون في مقائل اهل السنة والجماعة انتهى مديرة انتقال بیت المقدس میں ہو گا میں علیہ السلام نمازجنازہ پر مین گے زمین دفن کرینگے اتکام تا اپنی موت سے ہوگا فائد کا صدی کا ظاہر ہوتا عیسی علیہ اسلام کا اورتر از جال کا بر آمد ہونا قریب یکدیگر پر اس لیے سیوطی نے یہ کہا ہے کہ دجال سر صدی پر بھی گا جعفر صادق نے کہا ہر مهدی سالهای طاق مین برآمد ہون گے پیلی یا تیرے یا پانچوین یا ساتوین باترین سال انتهی اسین گویا حشره اولی کو سرحدی شهر ایا پر مگر اطلاق سرصدی کا بین کن بلکہ نصف صدی پر بھی ہو سکتا ہو لگن اسمین بھی شک نہین ہے کہ متبادر لفظ ر اس باشت یہی ہے کہ عشرہ اولی کے ختم ہونے سے پہلے برآمد ہونا چاہیے اب چودہویں صدی آگئی ہے چپ اہ گزر گئے این اس صدی کا یہ پہلا سال ہے دیکھیے کونسے طلاق سال میں تشریف لاتے ہیں بعضی ال تیم کہتے ہیں اس صدی کے سال بنفسم میں خود کرین گے خدا یوں نہیں کرے لکن ہے.سند صیح کے اس بات پر پورا یقین نہین ہو سکتا ہے بہت تواریخ مظفر نگر گیمین صمدی نہ آنری سیر با در موسی آباد تناکه دویم منزل یاس زیمر را بگذر زد و یکی است انا آنا میسی علی السلام کا ارتر تا پارا ایران پر ضد کرکے کمین جلدی آجا دین یہ بارہا ایک چاہیے
171 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات حافظ برخوردار صاحب آف چیٹی شیخاں کی گواہی حافظ برخوردار صاحب آف چیٹی شیخاں سیالکوٹ اپنی کتاب ”انواع مصنفہ 1176ھ میں مہدی کا زمانہ چودھویں صدی قرار دیتے ہیں.ان کا شعر ہے:.پیچھے ہک ہزار دے گذرے ترے سو سال حضرت مہدی ظاہر ہوسی کرسی عدل کمال حضرت سید محمد حسن صاحب امروہوی (متوفی :1323ھ) کی گواہی کواکب دریہ حضرت سید محمد حسن صاحب رئیس امروہہ (متوفی: 1323ھ ) کی تصنیف ہے.مصنف نے کتاب کے صفحہ 155 پر ظہور مہدی کا زمانہ چودھویں صدی بتایا ہے.صفحہ 161 پر آیت حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَاجُوجُ وَمَاجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ ينسِلُونَ (الانبیاء : 17) کے بعد لکھتے ہیں:.پس اس کے بعد قیامت کا انکار سفاہت ہے اور ان واقعات کی یہ صورت ہونے والی ہے کہ غالباً اس سال 1312ھ سے تیرہ چودہ سال بعد چار سلطنتوں نصاری کا اتحاد ہو گا جن میں ایک روم ، اٹلی ہو گا تو اس وقت میں ساڑھے تین سال تک مکاشفات انجیل کے مطابق اہلِ اسلام و نصاریٰ اٹلی وغیرہ میں جنگ عظیم ہوگی جو ملحمہ کبری کر کے ہے اور نصاریٰ کی فتح ہوگی تو امام ہمام مہدی علیہ السلام حسنی مکہ میں مدینہ سے تشریف لاویں گے.“ ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 55: کو اکب دریہ صفحہ 155-161 مطبع سید المطابع امروہہ
172 عکس حوالہ نمبر: 55 و من يتوكل على الله فهو حسبه الحمد لله و البته که در بین زنان مین تو امان کتاب کا جواب سمی بر تالیف حضرت حکیم سید پروین اصابت کہیں اور بے چینی پایش مولفات زمانیہ مہدی کی الہامی شہادات
173 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات عکس حوالہ نمبر : 55 ۱۵۵ لفظ بولا گیا ہو اور تیاریوں کا حال تو معلوم ہی ہو فائدہ واضح ہو کہ جیسے قیامتین چند بین و یه موردی چند میں ایک مہدی شمن عیل ہنسی موعود ہر وہ جنت کے ایت مرتضی و ذی النورین میں اول از عباس تکین وہ حسبک ایت الی افتادہ کو سیاہ نیزوں سے خراسان کی بینا اور حارث حراث اس دولت کا امام ابراہیم عباسی کا معتقد مسمی ابو سلم تھا جسکو مرتضی بھی اپ کے خطبوں میں یاد فرماتے اور مقدمتہ الجیش آسکا منعق دو التقی آن کا باپ تھا اور عید باشترین باس چار شخصوں کا نام لیتے جیسے سا بقائد کور ہو اور و سرا ابو القاسم سلوات اسما لیگ کے امام چنین علا اسلام کی اولادمین موعود با یک ایران و انصاری پر رہا میری حضور غوث الاعظم رضی اللہعنہ بین جو وسط امین حضور صلی الہ علیہ آلہ وسلم میچ کے بارد گر آنے نہیں تشریف حدیث لاؤ اگر فیدهاشمی شرط ہر وگرنہ بظاہر عثمان بادشاہ بانی دولت عثمانیہ اس صفت کا ہوں یا صلاح الدین وغیرہ چوستے مہدی موعود سنی بین اور سنی حدیث ابو ربی الاعلی کی منتر کا واحد بیش ردید کی ہیں کہ عیسی علیہ اسلام کو ارادت مہدی ہوئی کہ مسیح آپکے خلفہ ہونگے دیکھی ہیں اور فصل کے دنیا کی جمین صاحب از با رانی مصوری سے میچ کو سلطنت کی اس تحقیق سے ہر اک حدیث کا مطلب غور کرناہے باب میں چا ہیے اور اس تحقیق و تفصیل کے جانے سے لا علم ہو ا کہتے ہیں دیکی این درد کی مقد مہ کیسی کیسی غلطیاں کھائے ہیں جکا جواب تغیر انذا البرہان کے مقدم دوم کے اخر میں نے کہا اور فاتم اخیر صدی علیہ السلام کی آمد کی خبر ترکوں کی تباہی کے بعد ہی مخفی رہے کہ انجیل مکاشفات میں جواد کروں کو کہا ہوا اور انکا منعقد ہونا ملک مقدر سے قیامت کا قرب جس حدیث ہوا اور ترکوں کی بادشاہت غالباً انیس سال بعدستہ ہیں الہ سے بنا ہوگی اور سنہ مقتول ہو لارڈ میں کر میں شب میں روشنی حامی ہونی ہی ہادی کرمان کے پیٹ میں آنے کی شب گیر حساب ہے، جو عشق کے عدد تیرہ سو سی سے جسم: سے کرتا ہوں پس ان کی تشریف آوری اکیس سال بعد اس ترانے سے ہونیوالی ہو والہ اعلم بالصواب ) باب العلامات بین بدى الساعة وذكر الدجال یہ مقام غور طلب ہو کہ یہ علامات بین یدی السماعہ ہی ہیں اس وقت سے ساعت کا شروعات ہو او وہی حدیث سے ظاہر ہے کہ ہزار سال بعد حضور ان اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے میں قیام کی جو پایش را با کاران
174 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات عکس حوالہ نمبر: 55 141 لا تقرير الاعلام کردند قیت داشتم مکاری کے شه بالاخرت اردو هاندان بینی آیا زیره قوله ب امام ے اور مسلمان اقلیت ام المومنین زین ہوگئی تھی جیسے سماج ستر میں ہر اور ہزار سال اہل اسلام زاد کے بعد زمینی کی برابر ہوگی اور برقیات کے لیے صو ر ہو گا جب کتاب کا شفات کو مقریم که عبارت شماری عالم شارل سے تو وہی قرآن کی مورد کف میں اور ان سے مارا اور روایات کا کاران ایران ی اروم اروم ملکت جنت زمینی کو اطراف پر مسلہ ہے کے بنے لیے بین زمینی کو بجائے سات انٹیریا کے پالیتی ہیں کی وسعت کردی ہے جس کا مروج بجانب شمال سے صورت روس والوں کا ہر گی اور جانب جنوب سراچه ویت انگری اور ستر گال و غیره ت و گرچه در زمره بی استربینی رنگ رو زمین مین داخل مینا در سیج واست تا از مین اگر تا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا و و ا ہے اور ان کی سواری میں ایل سفید ترین فارسی سے تا روشن جاری ہوگی بین ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا نا امیدی درجات آسین بجای جنتر برادلی در ناته بار آید و روز میں جس کا دس میل پر مقدم بیش بر خوان کاری امور که دو طرفون مین شرک کا اصل ہو جسے ترین نامی ہوتی ہوا در رویال عید مهدی کی آمر کے آریگا جگر مش طنطنہ کو صدی لای سلامتی اسرار و رک رک کر کے یونین اور صدای پایانی دور لک میں پتا نبین ہو گا اور خروج اول تمام سندکی شک سنتے ہی عبارت بوده گورا : حضور صل شادی ر مسلمین ای وی راجوری کا ہوگی اور فرو می مانی بزارسال به شرح ز از اسلام سے ایک روسی شاہ بن گیا پس خروج سوم میں جی کے آثار ظا ہرین کیا جا زرد ہو تیں اس وہم قیامت میں صاف ظاہر ہو گیا جائے فرق تركل اللي من ورت میں خیر ا حرام على قرية املكناها انتم لا يرجعون حتى اذا فتحت بالجوج وماجوج وهو من کل حلب پنسلوں کی سے میم کا انکمال بھی ظاہر چالیس کے بعد قیامت کا انکار سنا ہی ہو اوران واقعات به صورت پولسوالی رو که خدا با اسی سال میرا انجریہ سے تیرہ پر دو سال بعد چار سلطتون شماری کا شمار یو گا جنین یک و مال ہو گا تو اس وقت میں سار پہر تین سال کی مکاشفات انجیل کے مطابق اہل اسلام و نصاری الی زیره مین جار نیام ہو گیا اور کیا کر تے تو اور نصاری کی نیتی ہوگی قرام سهام مهدی عالی اسلام حسن کر میں چین نے شریفی دینگے جیسے خراسان سے مودی جی کی کی آمر ہوچکی اور ندی حسینی سادات اسماعیلیہ سے ہو گا اور ہم یہ یمنی علیہ اسلام کے اخیام
175 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات علامہ کیخسر واسفند یار (متوفی: 1080 ھ ) کی گواہی دبستان مذاہب مصنفہ کیسر و اسفندیار ( لکھنو 1294ھ طبع فارسی مترجم رشید احمد جالندھری مطبوعہ 2002) کے مطابق حدیث عَلى رَأْسِ أَلْفِ وَ ثلثِ مِائَةٍ تَطْلُعُ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِهَا یعنی تیرھویں صدی کے سر پر مغرب سے طلوع شمس سے مراد امام مہدی ہیں.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر : 56 دبستان مذاهب اُردو ترجمه تصنيف: کیمرو اسفندیار تعليقات : رشید احمد (جالندھری) ادارہ ثقافت اسلامیہ ۲- کلب روڈ.لاہور
176 عکس حوالہ نمبر : 56 ۲۹۲ زمانہ مہدی کی الہامی شہادات میں حق اور باطل دونوں ہیں.حق کی علامت وحدت اور باطل کی علامت کثرت ہے، وحدت تعلیم سے متصل ہے اور کثرت رائے سے.اور تعلیم جماعت کے ساتھ ہے اور جماعت امام کے ساتھ ہے، اس کے برعکس رائے مختلف فرقوں کے ساتھ ہے اور یہ فرقے اپنے سرداروں کے ساتھ متفق ہیں، لہذا حق کو باطل سے ممتاز کرنے اور حق و باطل کی مشاببت کو دور کرنے اور دونوں میں ایک طرح تمیز و تفریق کرنے کے لیے طرفین کے لیے ایک تراز و بنانا چاہیے جس میں سب کو وزن کیا جائے.وہ کہتا ہے کہ یہ میزان (ترازو) ہم نے کلمہ شہادتین سے اقتباس کیا ہے جو کہ نفی اور اثبات سے مرکب ہے چنانچہ جو کچھ نفی کا مستحق ہے وہ باطل ہے اور جو کچھ اثبات کا مستحق ہے، وہ حق ہے.اس ترازو میں ہم شیر و شکر ، صدق و کذب اور جملہ متضاد چیزوں کا وزن کرتے ہیں.اس کلام کا راز اور نکتہ یہ ہے کہ اس مقالہ میں ہر لفظ امامت سے معلم اور توحید کے اثبات کی طرف راجع ہے اور یہ بات اثبات امامت کو مع نبوت کے اس طور پر شامل ہے کہ خود نبوت امامت سے مل کر نبوت ہوتی ہے، ان مباحث میں کلام کی انتہا نہیں ہے.اس نے عوام کو علم میں غور و خوص کرنے سے اور خواص کو متقدمین کی کتابوں کے مطالعہ سے منع کیا، سوائے اس شخص کے جو کتابوں کے حالات کی کیفیت اور جن لوگوں نے باتیں کہی ہیں، ان کے درجات سے واقف ہو اور اپنے اصحاب کے لیے الہیات میں صرف اس پر اقتصار کیا کہ تمہارے لیے اللہ للہ محمد است.“ اور مخالفین کہتے ہیں، اللہ اللہ معقول است یعنی وہ وہ ہے جس کی طرف ہر عاقل کی عقل ہدایت کرے.جب لوگ ان لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ باری تعالی موجود ہے یا نہیں، وہ واحد ہے یا کثیر، عالم ہے یا جاہل اور قادر ہے یا نہیں تو جواب میں صرف اسی پر اکتفا کرتے ہیں کہ اللہ اللہ محمد است یعنی وہ خدا ہے جس نے رسول کو مخلوق کی طرف ہدایت کرنے کے لیے بھیجا اور رسول مخلوق کے بادی ہیں.اس فرقہ کے لوگ اکثر مقامات پر ہیں لیکن مشرق کے کوہستانی علاقوں میں اور ختا و کاشغر کے نواح میں اور تبت میں بکثرت ہیں.اس کتاب کے مصنف نے ۱۰۵۴ھ (۱۶۴۴ء) میں اس فرقہ کے ایک شخص مسمی میر علی اکبر کو ملتان میں دیکھا تھا.اور ان باتوں میں سے اکثر اُسی سے سنیں.خلفائے اسماعیلیہ نے مغرب میں کافی عرصہ خلافت میں گزارا.خواجہ نصیر طوسی نے جس زمانے میں وہ خود کو اسماعیلی ظاہر کرتے تھے، اولین خلیفہ کے نسب کو جس طور سے اسماعیلیہ پسند کرتے ہیں، یوں بیان کرتا ہے.محمد المهدی بن عبد اللہ بن احمد بن محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق.اس نے امامت کے مرتبہ کو ظاہر کی امارت کے ساتھ جمع کیا اور انہوں نے کہا ہے کہ مهدی آخر الزماں سے مراد محمد بن عبداللہ ہیں.مخبر صادق سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا علی راس الف و ثلثمائة يطلع الشمس من مغربها ( ایک ہزار تین سو سال کے شروع میں آفتاب مغرب سے طلوع ہو گا.) یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں لفظ شمس سے مراد محمد بن عبداللہ ہیں اور ابو یزید کو جس نے آپ کے خلاف سرکشی کی تھی ، دنبال سمجھتے ہیں.اکثر فضلاء اسماعیلیہ کے پیرو ر ہے ہیں چنانچہ منجملہ افاضل شعراء کے امیر ناصر خسرو تھا جو اسماعیل
177 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات علامہ سیدابوالحسن ندوی (متوفی :1420ھ ) کی گواہی علامہ سید ابوالحسن ندوی صاحب اپنی کتاب ”قادیانیت میں تیرھویں صدی کے اختتام کو ظہور مسیح موعود کا زمانہ قرار دیتے ہیں.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر: 57 قادیانیت 5 ابو الحسن بن علی کے ندوی کی
178 عکس حوالہ نمبر : 57 17 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات پیدا ہو گیا تھا.جو شخص یہ منی منی زیادہ پیش کرتا تھا، آنا ہی وہ عوام میں مقبول ہوتا.اور ان کی عقیدت و احترام کا مرکز بنتا ، عیار دور ولیوں اور چالاک دین فروشوں نے خوام کی اس ذہنیت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا.طبیعت میں اور دماغ نا قابل فہم چیز کے متبول کرنے کے لیے ہر نئی پیز کو ماننے کے لیے ، ہر دعوت و فکر کا ساتھ دینے کے لیے اور ہر روایت و افسانے کی تصدیق کے لیے تیار ہوگئی تھی.مسلمانوں پر عام طور پر یاس و ناامیدی اور حالات و ماحول سے شکست خوردگی کا غلبہ تھا شاہ کی عد وجود کے انجام اور مختلف دینی اور عسکری تحریکوں کی ناکامی کو دیکھ کر معتدل اور معمولی ذرائع اور طریقہ کار سے انقلاب حال اور اصلاح سے لوگ مایوس ہو چلے تھے.اور عوام کی بڑی تعداد کسی مرد غیب کے ظہور اور کسی ملھم اور موید من اللہ کی آمد کی منت نظر متھی.کہیں کہیں یہ خیال بھی ظاہر کیا جاتا تھا کہ تیرہویں صدی کے اختام پر مسیح موعود کا ظہور ضروری ہے، جلسوں میں زمانہ آخر کے ستنوں اور واقعات کا چھر چاتھا.شاہ نعمت اللہ ولی کشمیری کے طرز کی پیش گوئیوں اور الہامات سے سہارا حاصل اور غم کیا غلط کیا جاتا تھا.خواب ، فالوں اور غیبی اشاروں میں مقناطیس کی کشش تھی.اور وہ ٹوٹے ہوئے دلوں کے لیے مومیائی کا کام دیتے تھے.پنجاب ذہنی انتشار دبے چینی ، ضعیف الاعتقادی اور دینی نا واقفیت کا خاص مرکز تھا.ہندوستان کا یہ علاقہ اسی برس سے مسلسل سکھ حکومت کے مصائب برداشت کر چکا تھا.جو ایک طرح کی مطلق العنان فوجی حکومت متی، ایک صدی سے کم کے اس عرصہ میں پنجاب کے مسلمانوں میں عقاید میں تزلزل اور دینی حیثیت میں خاصا ضعت آپ کا مقار مسیح اسلامی تعلیم عرصہ سے منتو بھی.اسلامی زندگی اور معاشرے کی بنیادیں متزلزل ہو کا بھی رانوں اور طبیعتوں میں انتشار پراگندگی تھی اور
شیخ بہائی (متوفی:1030ھ) کی گواہی 179 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات شیخ بہائی نے اپنی کتاب ” کشکول میں سن 1300 کو اسلام کے لئے انقلابی سال قرار دیا ہے.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر : 58 كشكوك التوالي محمد بن الحسين بن عبد الصمد الطارئي العالي في نور او الجهني المتوفية ١٠٣٠ هـا الجو الثاني ال محمد البنت الحسين العالمية
المجلد الثاني.180 عکس حوالہ نمبر : 58 لقد ذلّ من بالت عليه الثعالب.لكل صارم نبوة، ولكل جواد كبوة.لعل له عذر وأنت تلوم.لكل ساقطة لاقطة.لسان من رطب ويد من حطب.ليس النائحة الثكلى كالمستأجرة.ما حك جلدك مثل ظفرك.معاتبة الإخوان خير من فقدهم.يا حبذا الإمارة ولو على الحجارة.يكسو الناس وأسته عارية.يدك منك وإن كانت شلاء.[ ١٤٨٢ ] سلطان الغ بيك كوركاني : ۵۷۳ زمانہ مہدی کی الہامی شہادات بینی تو بغا ملک مغیر گشته در وقت غلط زیـروز برتر گشته در سال غلت اگر بمانی بینی ملک و ملل و مذهب و دین برگشته [ ١٤٨٣ ] للمحقق الطوسي : در الف و ثلاثین دو قرآن میبینم وز مهدی و دجال نشان میبینم یا ملک شود خراب یا گردد دین سریست نهان و من عیان میبینم [ ١٤٨٤] فصل في أمثال العامة والمولدين : الحاوي لا ينجو من ! الحيات.الشاة المذبوحة لا يؤلمها سلخ.طلع القرد في الكنيف، وقال هذه المرآة لهذا الوجه الظريف.الغائب حجته معه.ترجمہ: ایک ہزار اور تین سو ( یعنی تیرہ سو سال کے اندر ) میں دو گرہن ( چاند اور سورج کے ) نشان دیکھتا ہوں اور میں مہدی اور دجال کے نشان دیکھتا ہوں یا حکومت تباہ ہو جائے گی یا دین پھر جائے گا.یہ ایک پوشیدہ راز ہے اور میں اسے ظاہر دیکھتا ہوں.
181 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات ایک اور تصنیف ” مجمع النورین میں مختلف الفاظ سے بحساب جمل 1270 اور 1280 کے سال ملک وملت کیلئے انقلاب انگیز قرار دیے ہیں.اسی سلسلہ میں ان کا ایک شعر ہے:.در سال ”غرن“ ملک مکد رگردد در سال غرص زیروز بر برگردد یعنی سال غرن (غ : 1000 + ر: 200 + ن : 50) کے اعداد 1250 میں ملک کی حالت مکدر ہوگی اور سال غرص ( غ : 1000+ ر: 200 + ص: 90) کے اعداد 1290 میں وہ زیر وزبر ہو جائے گا.یعنی انتہائی کمزور حالت ہو جائے گی.یہ پر لطف توارد ہے کہ 1250ھ حضرت بانی جماعت احمدیہ کی ولادت کا سال ہے اور بعمر 40 سال 1290ھ آپ کے الہام الہی سے مشرف ہونے کا سال.مگر جو اس امام وقت کو پہچان نہ سکے وہ چودھویں صدی کے آئندہ سالوں کا انتظار کرتے رہے.سید آل محمد نقوی مہر جائسی صاحب کی گواہی کتاب گوہر یگانہ ( سن تالیف 1965ء) میں علامہ سید آل محمد نقوی مہر جائسی نے مہدی کے زمانہ کی تعیین کے زیر عنوان ان کا زمانہ علامہ باقر مجلسی کے حوالہ سے چودھویں صدی بتایا ہے.مصنف نے امام عصر کے ظہور کا تعین عنوان قائم کیا ہے اور اسی سلسلہ میں صفحہ 46 پر علامہ باقر مجلسی کے رسالہ رجعت میں بحوالہ تفسیر عیاشی سن ظہور مہدی 1155ھ بتایا ہے.لیکن چونکہ اس وقت تک مہدی ظاہر نہیں ہوئے اس لیے صاحب کتاب نے ایک اور تاویل سے وہ زمانہ 1386ھ نکالا ہے.اس کے بعد پیشگوئی بذریعہ رویائے صادقہ کے عنوان سے بھی مہدی کے ظہور کا زمانہ یہی قرار دیا ہے.ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 59 : گوہر یگانہ صفحہ 47،46 محفوظ بک ایجنسی مارٹن روڈ کراچی
182 عکس حوالہ نمبر : 59 گوہر یگانه در حالات و ارشادات امام زمانه تليف قدوۃ السالکین جناب سید آل محمد تقوی مهر جائی دام مجاراة نی حضرت علامہ جزائر می مطر ترجمه مولانا سید حسن ابدا و تا الانفال محفوظ ایک اجنبی مارٹن روڈ کراچی فون : ۴۲۴۲۸۶ كلام زمانہ مہدی کی الہامی شہادات
183 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات عکس حوالہ نمبر : 59 کی جس پرانی مستجیر بک یا امان الخائفین.دوسری امام حسن کی جس پر انی واثق برحمتک کندہ ہو گا.رین اقدس چالیس سال کا معلوم ہوگا.اس طرح تنہا کر خانہ کعبہ پرپہنچیں گے.اہل مکہ سو جائیں گے.حضرت دست مبارک روڑے اقدس پر پھیریں گئے اور فرمائیں گے.حمد و شکر اُس خدا کا جس نے ہمارے وعدے کو بچا گیا اور بہشت کو ہماری میراث کی کہ جہاں ہم چاہیں قرار کریں.بعد اس کے درمیان محجر اسود اور مقام ابراہیم پر آپ کھڑے ہونگے اور ایک نمود نور زمین سے آسمان تک بلند ہوگا.صبح کو تین سو تیرہ مومنین خدمت حضرت میں حاضر ہوں گے.جن میں سے کچھ مومنین ہندوستان سے مذکور ہیں.(علمدار حضرت امام عصر محمد حنفیہ ہوں گے ) ہو جب حدیث امام علی رضا، اسی ہزار ملانگ محمد تین قبر الحسین حضرت قائم کے پابہ رکاب شریک جہاد ہوں گے اور انتقام خون ناحق مظلوم کربلائیں گے.امام عصر کے ظہور کا تعین اگر چہ روایات میں امام عصر کے ظہور کی صرف علامات ہی بیان کی گئی ہیں اور اس کے تعین کی نفی کی گئی ہے مگر اس سلسلہ میں ایک روایت اور ایک خواب ہم درج کرتے ہیں.جس کو رویائے صادقہ کہا جاسکتا ہے جس سے آپ کے وقت ظہور پر روشنی پڑتی ہے.وہ تو ہوا.علامہ مجلسی علیہ الرحمہ نے اپنے رسالہ رجعت میں تفسیر عیاشی سے ایک روایت درج کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ يقوم قائمنا عند انقضائها باترا.یعنی ہمارا قائم - الترا کے خاتمہ پر قصور کرے گا.اس حدیث کے معنی علامہ مجلسی نے یوں کئے کہ قرآن کے پانچ سورے جہاں الراء" آیا ہے اس کو جمع کرکے اس کے عدد دھوڑے 1100 ہجری بنا جو گزر گیا.اور آپ کا ظہور نہیں ہوا.وہ پانچ سورے یہ ہیں.(1) ہوں.(۲) ابراہیم (۳) حجر (۳) یونس (۵) یوسف - حالانکہ قرآن کریم میں ایک چھٹا سورہ اعدہ بھی ہے.جس میں اترا ہے.لہذا آپ کل چھ سورے ہوئے اقرار کے عدد ۲۳۱ ہیں.اس کو ل سے ضرب دینے پر ۱۳۸۶ پکاتا ہے.یہ اگر جہ محملات میں سے ہے لیکن اگر اس کا یہی مطلب ہے جو علامہ مجلسی نے سمجھا ہے.تو سا چھہ یعنی آج سے دو سال بعد آپ کا ظہورہ موفور السرور ہوگا.عجل الله تعالی فرجه و سبیل الله مخرجا -
علامہ اصغر بروجردی صاحب کی گواہی 184 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات ایک شیعہ بزرگ علامہ شیخ علی اصغر بروجردی نے اپنی کتاب نور الانوار میں مسیح و مہدی کے زمانہ کی علامات اور تعیین پر بحث کی ہے.صفحہ 99 پر علامہ بروجردی نے مغرب سے طلوع آفتاب سے مراد امام مہدی کا ظہور لیا ہے اور لکھا ہے کہ کئی علمائے عظام اور صوفیائے کرام نے یہ معنے کیے ہیں.صفحہ 215 پر علامہ نے ایک شعر میں امام مہدی کے ظہور کا زمانہ بھی بتایا ہے:." اندر ملک صرفی اگر بمانی زنده ملت دین بر گردد ترجمہ : ”صرفی سال میں اگر میں زندہ رہا تو ملک و دین پر ایک انقلاب آئے گا.( صرفی کے اعداد 1300 بنتے ہیں.) صرفی‘ کے اعداد بحساب جمل : ص ر غ ی ٹوٹل 1300 10 200 1000 90 ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر :60: نور الانوار صفحه 99-215 مطبوعہ 1328ھ
185 عکس حوالہ نمبر : 60 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات تو اخر در حقیقت کتاب نورالانوار که در متن این کتابم تا به طور است نوریست از تجلیات رضا لان اعلا امين عام الملک اندها که وا وا میری یا مصر منه التقاطع المران شریکین د الزمان از اول تولد آن مفخرد و درمان در اولاد آدم تا روز قیامت و هرکس که سب شیعه اثنی عشریه داخلت از عالم دو عالی چون بشرف مطالعه این سطور میمنت دستور قائم شود قطعا خارج از عموم حدیث مشهورین مات ولم يعرف امام زمان نا امید شده است زیرا که آن را است تفتیش احوال آنحضرت با حربا را با ان
186 عکس حوالہ نمبر : 60 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات از پشیمانی شود این سینه بیاره نفع بسیار است کسی را کی سیر ترین دعا لودی های خلاق بودر کن بودنم این زمان خوشدن سرور باشیان صاحبش باید میشی بوق کا بینین نفی در این صحرابه که ا برای نوار نعنش میشود این چارت کم بود انصار ولی مقصد برام یک به بنده میرسد این بنایی انست درویش د شاه بوطی س سود دارد بوق نقش بیشمار ه جان مال طرحی است دومی خواجه زاده نقد و جنسش بار با داد تا بهره آور دوز او صدر تم او جلدی بوق داد و این گرفت حرارت در حرکت او به به و اوضاع املاک هم بهم خورد و استمان دارد که افتاب (1) امر نماید که حرکت نکند بواسطه خرقلات الافلاک و تحقیق اینکه را در کتا سیف شهید در حدیث رو شمس نموده ام و این ایستادن افتاب کار کود شمس گویند.و در هر روز جمعه از برای شمس کودی واقع میشود و در نزد زوال ظهر و جان اینکه روز جمعه اقصر ایام اس از اتمام هفته و بواسطه رکود شمس با ید اطول امام شود و این از اسرار الهیه است مشتم طلوع نمودن افتقا است در یکروز از فهرست مغرب بخلاف عادت که از مشرق طلوع میکند پیشه و این را از جمله علا بات قیامت کبری بعضی شمرده اند و باین طلوع نظم و نظام حرکت افلاک بهم نخودم خورد و احتمال دارد که مراد از طلوع آفتاب در اینجا ظهور نور جال بیمال با علات طور کمال باشان بر گزیده ذو الجلال و حضرت قا در مقال مهدی آل محمد صه شد مومی در نفع خود چون شهر و درست صاحب بوق کوئی مروة چنانچه بعضی از علما احلام و محمد مین فخام اور ابا یعنی محل نموده اند و خبر باین مضمون وارد شده است نهم کشته شدن نفس زکیه است در پشت گونه فراز صلحا، و این نفس زکیه غیر از حسن نکته است که در میان آن چه دیدی جان بوبی دینه با معتاد داری استخوان محکم دلش بر نروید رزد و از نزدیک خواجه دارند فقداش بار منی و نقد مشن خود به زودی خواهد را مشوری عجب آمدید گشت پهنان مجه مهر کلر خان گفت با خود خوش عجب که دخرید و مقام کشته میشود و چنانچه گذشت و این برد و علامت طور است اما اینکه آن اولی قریب تیزمان ظهور کشته میشود و این اخیر احتمال دارد بعید از زمان خوب و انشود یا قریب با و پس مکن است که بعد از این و اقتشو دو گفت که و قشده نشان در قضیه ایده و ما نیز در قصه پر خفته بنیه و خار کو نه شامل اطراف نجف اشرف کی جاتی نا نباید او پشیمان به سرم حال باید من دوم زمین راستین او نفهمیده برفت از نزدین بر دل بر جان فشاند ا کرمی صاحب این بوق کو با بودن دادش بازی زومه ای برای پور ترجمہ: آٹھویں علامت ایک دن سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہے، برخلاف عادت کہ جو ہمیشہ مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور بعض نے اس کو قیامت کی جملہ علامات کبری میں شمار کیا ہے...اس طلوع آفتاب سے یہاں مراد خداوند قادر اور ذوالجلال کے برگزیدہ، بینظیر، بے مثل اور باکمال نور جمال مہدی آل محمد ﷺے ہیں.چنانچہ بعض عظیم علماء اور محد ثین نے مہدی ل محمد ﷺ کو ہی اس کا مصداق قرار دیا ہے.
۲۱۵ 187 عکس حوالہ نمبر :60 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات خل شیطان میں رحمن سراب سر از دخان ظلمتی پر نور خود خیر مخص شهربین میره پر نموده کوه و هامون در شیر برگردهم آورنده از هی دبیرگی ستراد کی اندرنگ یین ناحسین استین و شیعه غیر آنی حشریه از صاحات غیر متقاربه را بر میدارد و بر یکه ین کی ان سب و و جهانی بدر رنگ - زمان است قربانی کنید ایت است قرار مید به غالب برادریان مختلفه بشمشیر شهر بار میشود و این اوضاع ننده در دنیا بر استبدل با و ضاع جدید میکند همه چیز را بدل مسی از دید شاهی ه هیچ گوشی شیده باشد این چشم ندیده باشد و بخاطر خطور نکرده و اقتضا زمین آسمان فصول اربع از پایز و بهار و تابستان و زمستان، بل اقتضاء ات دیگر میشوند ه هیچ شبارتی حال و احوال این زمان ندارد چنانچه بعضی از امور غریبه در خود نمی دهد در این جمله فکر کنیم تا آنکه موجب و شنائی چشم شیعیان شود اگرچه ساختن مابین امور دیگری قربان شیطان بریم آن کی قربان محمن و رحیم این درو قربانی و این قربان من تا فروزان بایدت نوربین س مجان خلقی را کوه کوه پیش او را بریز دارد و با شکوه نورهان میشود چون در سر خون سحابی گاه نهان خورشید زد این کار این کلات باشند دکن میران هم باز آینده کان وقوع واقعاتی را دارد در این غول کافران مشرکان قبول نمیکردند و با کار ایشان می افرود و لکن مان در بها اوضاع عالم دار کون خواهد شد اندر صرفی اگر جانی زنده ملک ملک وقات دین بر گردد) و ما قرب شخصت امور جک یاد غریبه خشه که در زماد هاست و زمان جت منظور خواهد رسید با آنکه از آنحضرت بروز خواهد خود در این خانه دیس ی کنیم تا که موجب پارتی بصیرت شیعیان شود و با اتقارات ایشان نیز این این وال که ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا د د د ده که هر کس از مردم عالم تو این یکی از شیعیان میخواهد حاضر شد و بگیره از زنده و مرده قرض داران قرض دو ایمان نظر هموم الأم ا می چند دور از نار سموم در خوات آید و مغلوں نے ہجوم را کهان نازی شود نویسین شهوار عرصه حق الیقین احمد النخور شهید افلاک و خور ه زودی موجود در ارومیه از آسمان بر این می آید جوانان که چراشیده نائی راه ما بین بگویندش نخود و یا به نا پای و اسپس دو کیر در اندرود پس طبیش خیره خیره میکرد بر زمین ابد فلک از آریان ترجمہ: اگر لفظ صرفی کے اعداد (1300) میں، میں زندہ رہا تو ملک وملت اور دین میں انقلاب آئے گا.این چکار بد بود ای بی تیم گار امام و ورود به گرین ما لب التوريم أو مطلوب است بار یمین ام غالب پیلوری
188 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات مجدد چودھویں صدی کے متعلق حضرت پیر صاحب آف کوٹھہ شریف کی گواہی: حضرت سید امیر صاحب المعروف حضرت جی صاحب صوبہ سرحد کے مقام کوٹھہ شریف (صوابی) میں مشہور پیر صاحب الہام گزرے ہیں.حضرت اخوندسوات صاحب کے بیان کے مطابق موصوف کا دعویٰ الہام حضرت جبرائیل سے ہمکلام ہونے کے علاوہ یہ بھی تھا کہ سورۃ فتح کی ایک آیت بھی ان پر نازل ہوئی.نیز ان کا یہ بھی مسلک تھا:.نبوت ختم نہیں ہوئی، اگر رسول اکرم کے بعد کوئی دعوی پیغمبری کا کرے تو جائز ہے.“ ( تذکرہ صوفیائے سرحد صفحہ 569-570 مصنفہ اعجاز الحق قدوسی) حضرت پیر کوٹھہ صاحب کے خلیفہ خاص مولانا حمید اللہ حمید سوات بیان کرتے ہیں کہ:.ایک روز ہمارے مرشد حضرت کوٹھہ صاحب والے فرمانے لگے کہ مہدی پیدا ہو گیا ہے لیکن ابھی ظاہر نہیں ہوا.اس بات کو سن کر مولوی محمد یکی اخونزادہ اس بات پر مصر ہوئے کہ اس بیان کو خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر تحریر کریں پس میں بحکم آیت لا تكتموا الشھادۃ...خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر لکھتا ہوں کہ حضرت صاحب کوٹھہ ایک دو سال اپنی وفات سے پہلے یعنی 1292ھ یا 1293ھ میں چند خواص میں بیٹھے ہوئے تھے اور ہر ایک باب سے معارف اور اسرار میں گفتگو شروع تھی.ناگاہ مهدی (مجدد) کا تذکرہ درمیان میں آ گیا.فرمانے لگے کہ مہدی (مجدد) پیدا ہو گیا ہے ان کے منہ سے یہ الفاظ افغانی زبان میں نکلے تھے: ”چہ مہدی پیدا شوے دے اور وقت ظہور نہ دے، یعنی مہدی پیدا ہو گیا ہے لیکن ابھی ظاہر نہیں ہوا.بعد اس کے حضرت نے ذی الحجہ 1294ھ میں وفات پائی.“ ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 61: سوانح حیات سلطان اولیاء حضرت سید امیر صاحب المعروف حضرت جی کوٹھہ صفحہ 291 از الحاج صاحبزادہ محمد اشرف زیر اہتمام صاحبزادہ فاؤنڈیشن کو ٹھہ ضلع صوابی مردان
189 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات عکس حوالہ نمبر: 61 يايها الذين امنو الله الله وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسَيْلَةَ اے ایمان والو ڈرو اللہ سے اور تلاش کرو اس تک پہنچنے کا وسیلہ سوانح حياة (المائدہ : ۳۵) سلطان الاولياء حضرت سید امیر صاحب المعروف حضرت جی صاحب کو ٹھہ مصنف وتحقق : الحاج صاحبزادہ محمد اشرف سلسل مطبوعات نمی صاحبزاده یک فاوندین کورته ضلع سوان مردان
190 عکس حوالہ نمبر: 61 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات ہوا کرتا ہے وہ پیدا ہو گیا ہے.ہماری باری چلی گئی ہیں اس لئے کہتا ہوں کہ ہم کسی اور کے زمانے میں ہیں.میں نے پوچھا کہ نام کیا ہے؟ تو فرمایا کہ نہیں بتاؤں گا مگر اس قدر بتلاتا ہوں کہ زبان اس کی پنچائی ایک دوسرے موقعہ پر حضرت صاحب کے خاص خلیفہ مولانا حمید اللہ حمید (سوات) بنایا کرتے ہیں کہ ایک روز ہمارے مرشد حضرت صاحب کو ٹھر والے فرمانے لگے کہ مہدی پیدا ہو گیا ہے لیکن ابھی ظاہر ہوا.اس بات کو سن کر فضیلت پناه مولوی محمد خیلی اخونزادہ اس بات پر مصر ہوئے کہ اس بیان کو خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر تحریر کریں پیس میں محکم آيت ولا تكتموا الشهادة ومن يكتمها فانه اثم قلبه خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر لکھتا ہوں کہ حضرت صاحب کو ٹھر ایک دو سال اپنی وفات سے پہلے یعنی 129ھ یا ساتھ میں اپنے چیند خواص میں بیٹھے ہوئے تھے، اور ہر ایک باپ سے معارف اور اسرار میں گفتگو شروع تھی.ناگاه مهدی (مجرد) کا تذکرہ درمیان آگیا.فریح لگے کہ مہدی (مجرد) پیدا ہو گیا ہے.ان کے منہ سے یہ الفاظ افغانی زبان میں نکلے تھے " چہ مہدی پیدا شوے دے او وقت ظہور نہ دے " یعنی مہدی پیدا ہو گیا ہے لیکن ابھی ظاہر نہیں ہوا.بعد اس کے حضرت موصوف نے سلخ ذی الحجمد ۹ ا ھ میں وفات پانی.حضرت جی صاحب کی گفت اور کشف کے مطابق ان کی خیال کی آخری دہائی میں درج ذیل تجتدین و اولیاء اللہ پیدا ہو چکے تھے :
191 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات حضرت بانی جماعت احمدیہ اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ ( 1900ء) میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.ایک اور مشہور بزرگ جو اسی زمانہ میں گزرے ہیں جو کوٹھہ والے کر کے مشہور ہیں.ان کے بعض مرید اب تک زندہ ہیں انہوں نے عام طور پر بیان کیا ہے کہ میاں صاحب کو ٹھہ والے نے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ مہدی پیدا ہو گیا ہے.اور اب اس کا زمانہ ہے اور ہمارا زمانہ جاتا رہا اور یہ بھی فرمایا کہ اس کی زبان پنجابی ہے.66 اسی کتاب کے حاشیہ میں روایت ہذا کے معتبر راویوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ مزید فرماتے ہیں:.ان راویوں میں سے ایک صاحب مرزا صاحب کر کے مشہور ہیں جن کا نام محمد اسمعیل ہے....انہوں نے مولوی سید سرور شاہ صاحب کے پاس بیان کیا کہ میں نے حضرت کو ٹھہ والے صاحب سے سُنا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ مہدی آخر الزمان پیدا ہو گیا ہے ابھی اس کا ظہور نہیں ہوا اور جب پوچھا گیا کہ نام کیا ہے تو فرمایا کہ نام نہیں بتلاؤں گا مگر اس قدر بتلاتا ہوں کہ زبان اس کی پنجابی ہے....ایک اور بزرگ معمر سفید ریش ہیں جن کا نام گلزار خاں ہے یہ بھی حضرت کو ٹھہ والے صاحب سے بیعت کرنے والے اور متقی پر ہیز گار خدا ترس نرم دل اور مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کے پیر بھائی ہیں ان دونوں بزرگوں کی چشم دید روایت بذریعہ مجی مولوی حکیم محمد یحیی صاحب دیگرانی مجھے پہنچی ہے.مولوی صاحب موصوف ایک ثقہ اور متقی آدمی ہیں اور حضرت کوٹھہ والے صاحب کے خلیفہ کے خلف الرشید ہیں.انہوں نے 23 جنوری 1900ء کو میری طرف ایک خط لکھا تھا...کہ حضرت صاحب مرحوم کو ٹھہ والے فرماتے تھے کہ مہدی آخر الزمان پیدا
192 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات ہو گیا ہے مگر ظہور ابھی نہیں ہوا تو اس بات کا مجھ کو بہت خیال تھا.....حافظ قرآن، نور محمد نام اصل متوطن گڑھی اماز کی حال مقیم کوٹھہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت کوٹھہ والے ) ایک دن...فرمانے لگے کہ جو خدا کی طرف سے ایک بندہ تجدید دین کے لئے مبعوث ہوا کرتا ہے وہ پیدا ہو گیا ہے ہماری باری چلی گئی.میں اس لئے کہتا ہوں کہ ہم کسی غیر کے زمانہ میں ہیں.پھر فرمانے لگے کہ...اُس پر اس قدر شدائد مصائب آئیں گے جن کی نظیر زمانہ گذشتہ میں نہ ہوگی مگر اس کو کچھ پروانہ ہوگی اور سب طرح کے تکالیف اور فساد اس وقت ہوں گے اُس کو پروانہ ہوگی.66 زمین آسمان مل جائیں گے اور الٹ پلٹ ہو جائیں گے اُس کو پروانہ ہوگی.“ (تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 144-145 وحاشیہ ایڈیشن 2008) پیر صاحب نے آنے والے مجدد کا زمانہ تیرھویں صدی کا آخر یعنی 1294ھ اور چودھویں صدی کا آغا ز بیان فرمایا.یہی وہ زمانہ ہے جس میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مامور ہوئے.ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 62: در اسرار مصنفہ علامہ صفی اللہ ، صاحبزادہ بک فاونڈیشن کو ٹھہ
193 عکس حوالہ نمبر : 62 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات سلطان الأولياء حضرت سيد امير کی ملفوظات و تعلیما سے متعلق شهره آفاق فارسی تصنیف در اسرار دارد و ترجمه ) نظم الدرر فى سكك السّير علامة مُلا صفي الله غفله الحاج عبد الرزاق کوثر صاحبزاده یک فاونڈیشن کو ٹھ
194 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات عکس حوالہ نمبر : 62 ۵۳۹ کرتا ہے.اس حدیث کو ابو داؤد اور مشکواۃ شریف نے نقل کیا ہے.دیرت محمدی کا مجدد اور آئین مصطفوی کا مبین (یعنی بیان کرنے والا) بنا کر تیرھویں صدی میں اس امت کو عطا فرمایا ہے.اور اس دین متین اور شرع مبین نے اس سے تجدید پائی.روایت کرتے ہیں کہ ہر زمانے کا مجد وجب دایر فنا سے دار بقاء کو رحلت فرماتا ہے تو آئندہ پیدا ہونے والے مجدد کے متعلق اُس کو بذریعہ الہام اطلاع ملتی ہے.لہذا حضرت صاحب نے ایک ہزار دو سو چورانوے (۵۱۲۹۴) میں اطلاع دی تھی کہ دوسرا مجدد پیدا ہو گیا ہے.لیکن اُس کے ظہور میں کچھ عرصہ باقی رہتا ہے.اور اس فقیر یعنی مصنف کتاب ہذا کی نظر میں یہ چھ سال کا عرصہ ہے (غالباً مصنف ۱۲۹۴ مجمع چھ سال یعنی ۱۳۰۰ کے حساب سے یہ کہتا ہے ) عرض ممترجم یہاں فاضل مصنف نے اپنے گلہائے عقیدت پیش کر کے حضرت صاحب کی تاریخ وفات لکھتی ہے چونکہ یہ اُس کی اپنی عقیدت اور محبت کے خوشبودار پھول ہیں.اس لئے میں اُن کو بجہ پیش کر کے قارئین کو براہ راست اُس سے متعارف اور روشناس کرنا چاہتا ہوں اور ان پھولوں کی خوش نمائی کو تر جمہ کے غیر موزون لباس کی گرانباری اور ان گلہائے عقیدت کی خوشبو کو ترجمہ کے ہار میں پرو کر اس کی نزاکت اور خوشبو کو ٹھیس پہنچانا نہیں چاہتا اور بطور تبرک ان کو مصنف کے اپنے ہی الفاظ میں درج کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں اور اپنے ساتھ قارئین کو بھی محفوظ کرنا چاہتا ہوں.
195 زمانہ مہدی کی الہامی شہادات کشمیری میگزین آواز خلق نقاره خدا اخبار کشمیری میگزین لاہور نے 17 اکتوبر 1921 ء کے پرچہ میں 1340ھ کے ساتھ مسلمانوں کی کچھ امیدیں“ کے عنوان سے لکھا:.مسلمانوں کی ان کتابوں میں جو پیشینگوئیوں کیلئے مشہور ہیں 1340ھ کے متعلق بہت زیادہ پیشگوئیاں موجود ہیں.گو ہمیں بروئے اسلام اور مطابق شریعت کسی پیشگوئی پر یقین کرنے کی ضرورت نہیں تاہم یہ دیکھ کر کہ اس سے پہلے جو پیشینگوئیاں ہو چکی ہیں وہ سب پوری اتری ہیں بلالحاظ یقین کرنا ہی پڑتا ہے.“ آگرہ اخبار آگرہ اخبار ظہور امام الزمان کے تحت لکھتا ہے کہ:.ظہور امام الزمان علیہ السلام بھی اس قیامت کے آثار قریبہ میں سے ایک 66 نمونہ اور ایک نشان ہے جو عنقریب اور غالباً اسی سال پورا ہونے والا ہے.“ (21 اکتوبر 1921ء) لیکن 1340ھ میں بھی مسلمانوں کی یہ امید بر نہ آئی.چنانچہ آگرہ اخبار 7 /ستمبر 1922ء، 1340ھ کا سال گذرنے پر لکھتا ہے:.’ سنا تھا اور کہنے والے یقین کے ساتھ کہتے تھے کہ 1340ھ میں حضرت امام مہدی کا ظہور ہے مگر وہ سال ختم ہوا اور کسی گوشئہ دنیا سے ظہور امام علیہ السلام کی کوئی ہے.مثلاً: خبر ہنوز موصول نہیں ہوئی.“ بعض اور کتب و رسائل کے نام سامنے آئے ہیں جن میں مہدی کا زمانہ چودھویں صدی درج م تلخیص التواریخ صفحہ 300 میں بھی یہی زمانہ مہدی کا لکھا ہے.
زمانہ مہدی کی الہامی شہادات 196 Tit Bits, 15 December 1900 Page: 269☆ His Glorious Appearing By James Springer White (1895) Page:81- Free Thinker, 17 October 1900 -☆ The King of The Lord, Pqge: 1-✰
197 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی قرآن شریف اور احادیث نبوی سے رسول کریم عمرہ کے کامل فرمانبردار اور خادم اسلام امتی مسیح و مہدی کے زمانہ ظہور اور اس کی علامات و نشانات کا تفصیلی ذکر ملتا ہے جو چودھویں صدی میں اس وقت پوری ہوتی نظر آتی ہیں، جب مسیح و مہدی کا ایک دعویدار حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بھی موجود ہیں.اس لحاظ سے آپ کا دعویٰ مزید غور اور توجہ کے لائق ہو جاتا ہے.قرآن کریم میں علامات زمانہ مہدی قرآن شریف کا تدبر سے مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ کسی مامور من اللہ یا نبی کی آمد پر برپا ہو نیوالے روحانی انقلاب کے لیے قیامت، حشر اور الساعۃ وغیرہ کا محاورہ استعمال ہوا ہے.جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا کام بھی روحانی مردے زندہ کرنا تھا، اس لئے فرمایا: - يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (الانفال: 25 ) کہ اے وہ لو گو جوایمان لائے ہو! اللہ اور رسول کی آواز پر لبیک کہا کرو جب وہ تمہیں بلائے تا کہ وہ تمہیں زندہ کرے.پھر جب رسول کریم ﷺ کی صداقت کے لیے نبوت کے پانچویں سال میں شق قمر کا نشان ظاہر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اسے قرب ساعت کی علامت قرار دیتے ہوئے فرمایا: اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ (القمر (2) کہ قیامت قریب آگئی اور چاند دو ٹکڑے ہو گیا.اب ظاہر ہے اس سے مراد قرب قیامت کبری نہیں کہ وہ قیامت تو پندرہ سو سال گزر جانے پر بھی نہیں آئی تو پھر قرب ساعت سے کیا مراد تھی ؟ در اصل عربوں میں چاند کو ان کی حکومت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور چاند کے دوٹکڑے ہو جانے میں دراصل ان کی حکومت کے خاتمہ کی طرف اشارہ تھا.چنانچہ صلى الله اس آیت کے نزول کے آٹھ سال بعد سردارانِ مکہ نے رسول اللہ علیہ کو اپنے شہر تک سے نکالا اور پھر صلى الله مزید آٹھ سال بعد رسول اللہ ﷺ اس مکہ میں جب فاتحانہ شان سے داخل ہوئے تو یہ گھڑی اہل مکہ کے
198 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی لئے قیامت صغریٰ سے کم نہ تھی.سورہ قمر کی یہ پیشگوئی صرف 16 سال بعد بڑی شان سے پوری ہوگئی اور ثابت ہو گیا کہ قرب ساعت سے مراد فتح مکہ تھی.یہی مضمون بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا:.اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ (الأنبیاء 2 ) یعنی ان (کافر) لوگوں کے حساب کا وقت قریب آ گیا ہے.اور وہ غفلت میں اعراض کر رہے ہیں.مکی دور کی اس آیت میں بھی قیامت کبری کی بجائے فتح مکہ کی پیشگوئی تھی جو بڑی شان سے پوری ہوئی.پھر مکی دور کے آخری زمانہ میں فرمایا: وَإِنَّ السَّاعَة لَاتِية (الحجر: 86) که ساعت آیا ہی چاہتی ہے.اس میں ساعت ہجرت کی طرف اشارہ تھا.پھر سورۃ نحل کے شروع میں فرمایا: أَتى أمرُ اللهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ( الحل : 2) یعنی اللہ کا حکم ( وہ موعود وقت ) آہی گیا ہے.پس تم اس کے متعلق جلدی نہ کرو.یہاں امر اللہ سے مراد قیامت کبری کی بجائے فتح مکہ تھی جو ہجرت کے آٹھ سال کے قلیل عرصہ میں ہی حاصل ہوگئی.اسی بناء پر رسول کریم ﷺ نے اپنی انگشت شہادت کے ساتھ دوسری انگلی کو ملا کر فرمایا تھا:.أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ“ ( بخاری کتاب الرقاق باب قول النبی الا الله بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَين ) کہ میں اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح ملے ہوئے ہیں.جس کا ایک مطلب یہ تھا کہ فتح مکہ کی قیامت صغریٰ آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے جڑی ہوئی ہے.اور آپ ﷺ کی زندگی میں ظاہر ہوکر رہے گی.جیسا کہ ترمذی کی روایت میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:.میں نفس قیامت میں ہی بھیجا گیا ہوں.پھر میں اس سے اتنا آگے بڑھ گیا جتنا درمیانی انگلی کی لمبائی اور انگشت شہادت میں فرق ہے.“ ( ترمذی ابواب الفتن باب مَا جَاءَ فِي قَولِ النَّبِيِّ أَنَا وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ ) یعنی میری بعثت ہی ایک روحانی قیامت تھی.پھر انگلی کے فرق کے برابر آگے بڑھنے کے بعد ایک اور قیامت برپا ہوئی.دونوں انگلیوں کا فرق بالعموم ہر انسان کی درمیانی انگلی کا آٹھواں حصہ بنتا
199 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی ہے.اس مثال میں اگر انگلی کو رسول اللہ ﷺ کی عمر (63) سال شمار کیا جائے تو اس کے آٹھویں حصہ یعنی قریباً آٹھ سال بعد ہجرت نبوی مکہ فتح ہوا اور یہ پیشگوئی پوری ہوئی جو بوقت ہجرت اس اشاراتی زبان میں کی گئی تھی.دوسری تاویل کی صورت میں اگر اس حدیث سے مراد قیامت کبری لی جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ آخری زمانہ اور خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کا وہ دور شروع ہو چکا، جس کے آخر میں قیامت کبری ہے.حشر اجساد کی اس بڑی قیامت سے پہلے رسول اللہ علیہ نے کئی اور علامات و نشانات کا ذکر بطور اشراط الساعة فرمایا ہے جن کا آغاز آپ کے دم قدم سے ہو گیا.چنانچہ سورۃ محمد میں یہ اعلان فرمایا کہ:.فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا فَأَنَّى لَهُمْ إِذَا جَاءتُهُمْ ذِكْرَاهُمْ (محمد(19) پس کیا وہ محض ساعت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ اچانک ان کے پاس آجائے پس اس کی علامات تو آچکی ہیں پھر جب وہ بھی ان کے پاس آجائے گی تو اس وقت اُن کا نصیحت پکڑنا اُن کے کس کام آئے گا.سورة التکویر میں علامات زمانہ مہدی قرب قیامت اور اس کی شروعات کی نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص قیامت کو اس طرح معلوم کرنا چاہے جس طرح آنکھوں دیکھی چیز تو اسے چاہیے کہ وہ سورۃ التکویر، سورۃ الانفطار اور سورۃ الانشقاق پڑھے.“ (ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب ومن سورة اذا الشمس كورت) شیعہ لٹریچر میں بھی یہی حدیث درج ہے کہ:.”جو شخص قیامت کو اس طرح معلوم کرنا چاہے جس طرح آنکھوں دیکھی چیز تو 66 وہ سورۃ تکویر پڑھے.“ ( تفسیر مجمع البیان الطبرسی جزء 10 صفحہ 210 الطبعة الاولی مطبع دار المرتضی بیروت، لبنان 1427ھ تفسیر نورالثقلین جزء 8 صفحہ 119 الطبعة الاولی ، موسسة التاريخ العربی لبنان ) اس حدیث میں بھی قیامت سے مراد قیامت کبری نہیں جو دنیا کے فنا ہو جانے کے بعد ہوگی
200 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی بلکہ اس سے مراد مسیح و مہدی کے ظہور کا زمانہ ہے جسے مجاز ا قیامت قرار دیا گیا ہے.اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ ان سورتوں میں بیان ہونے والی پیشگوئیاں تیرہ سوسال بعد ہمارے اس آخری زمانے میں بڑی صفائی سے پوری ہو کر ایک مدعی مسیح و مہدی کی سچائی پر گواہ بن کر یہ اعلان آفتاب آمد دلیل آفتاب کر رہی ہیں کہ یعنی سورج کا طلوع ہونا اپنی دلیل آپ ہوتا ہے.قیامت صغریٰ کی ان علامات کا پورا ہونا قیامت کبری کے وجود پر دلیل بن سکتا ہے.ورنہ سورتوں میں قیامت کے ثبوت میں محض اس کے ظہور کی علامات کا بیان کیسے دلیل ہوسکتا ہے؟ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ان علامات یعنی قیامت صغریٰ کو دیکھ لیا اس نے گویا اپنی آنکھوں سے قیامت دیکھ لی کہ وہ پھر آکر رہے گی.دوسری طرف ان علامات کو قیامت کبری پر چسپاں کرنے سے ان کا سارا مفہوم ہی بگڑ جاتا ہے کیونکہ قیامت کو قانون نیچر معطل ہو گا جبکہ ان سورتوں میں دنیا میں موجود قوانین طبعی کی بات ہورہی ہے.اس بات کی دوسری دلیل کہ ان سورتوں میں قیامت کبری کا نہیں بلکہ آخری زمانہ کی علامات صلى الله بیان ہیں، یہ ہے کہ رسول اللہ یہ نے سورہ تکویر کی ایک آیت وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِلَتُ کی خود تغییر فرما دی کہ اس کا تعلق مسیح کے زمانہ ظہور سے ہے.چنانچہ آپ نے مسیح کے ظہور اور اس کے کام و مقاصد بیان کرتے ہوئے اس کے زمانہ کی علامت یہ بیان فرمائی کہ:.ر مسیح کے نزول و ظہور کا وہ وقت ہوگا جب اونٹنیاں متروک ہو جائیں گی اور ان کو تیز رفتاری کے لیے استعمال نہیں کیا جائیگا.“ (مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسی بن مریم حا کما بشر بعتہ نہین محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) یعنی نئی تیز رفتار سواریاں موٹر، ریل، جہاز وغیرہ ایجاد ہو جائیں گی جن کی پیشگوئی قرآن شریف میں چودہ سو سال سے موجود تھی کہ اللہ تعالیٰ ایسی سواریاں پیدا کرے گا جو تم نہیں جانتے (النحل : 9).اور یہ زمانہ چودہویں صدی ہی ہے ( جس میں ان سواریوں کو جانوروں کی سواری پر تیز رفتاری میں برتری حاصل ہوگئی ) جس پر سورۃ تکویر میں بیان کردہ دیگر علامات چسپاں ہو رہی ہیں.
201 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی سورۃ تکویر کی ابتدائی بارہ آیات میں جو بارہ علامتیں شروعات قیامت کی بیان ہوئیں ان کے بارہ میں رسول اللہ ﷺ کی بیان فرمودہ تفسیر کے علاوہ صحابہ نے بھی آپ سے علم پا کر یہی تفسیر بیان کی ہے.چنانچہ حضرت ابی بن کعب، حضرت ابن عباس اور ابوالعالیہ اس پر متفق ہیں کہ ان آیات میں سے ابتدائی چھ آیات کا تعلق بہر حال دنیا سے ہے.( الدر المنثور فی التفسیر بالماثور جز 80 صفحه 427 دار الفکر بیروت تفسیر البغوی جزء 5 صفحہ 215 دارا حیاء التراث العربی، بیروت الطبعة الاولی 1420ھ ) سورۃ التکویر کی بقیہ چھ آیات کے بارہ میں ایک صاحب بصیرت خود جائزہ لے سکتا ہے کہ اگر وہ بھی اس دنیا میں پوری ہورہی ہیں تو یہی بات پہلی چھ علامتوں کی طرح اپنی گواہ آپ ہے.مزید برآں سورۃ تکویر کی مذکورہ ان بارہ نشانیوں کے بارہ میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے بھی ایک ایسے صوفیانہ لطیف نکتہ کا اشارہ دیا ہے جو ان علامات کے قیامت کبری کی بجائے قیامت صغریٰ میں پورا ہونے کی تائید کرتا ہے.ان کے مطابق اہل تاویل کے نزدیک یہ بارہ حوادث اسی دنیا میں ہی ہر انسان کی موت کے وقت بھی پیش آتے ہیں جو ایک فردی قیامت صغری ہوتی ہے.(تحفہ اثنا عشریہ صفحہ 275) حضرات صوفیہ نے ان بارہ حالتوں کو مراتب سلوک طے کرنے پر نہایت لطیف پیرائے میں محمول کیا ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں مگر حضرت شاہ صاحب کے اس قول سے یہ ضرور ثابت ہو جاتا ہے کہ یہاں قیامت کبری کی بجائے اس دنیا سے تعلق رکھنے والے زمانہ کی علامات ہیں جو پوری ہو کر قیامت کبری پر گواہ ہیں.رسول اللہ ﷺ اور قرآن شریف کی صداقت کو ظاہر کر رہی ہیں جیسا کہ ہر آیت کی الگ تفسیر سے ظاہر وباہر ہے.ملاحظہ ہو:.پہلی علامت.سورج کا لپیٹا جانا إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ ( التكوير : 2 ) یعنی جب سورج لپیٹا یاڈھانکا جائے گا.الف.یہاں روحانی سورج سے رسول اللہ ﷺ کا وجود مراد ہے جنہیں قرآن کریم نے بھی یہ نام دیتے ہوئے سراج منیر فرمایا ہے.( الاحزاب (47) اس میں پیشگوئی تھی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جب آنحضرت کی تعلیمات کو لپیٹ کر رکھ دیا جائے گا اور خود تراشیدہ نئے نئے نظریات اور بدعات کا
202 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی دنیا میں پر چار کیا جائے گا.جیسا کہ چودہویں صدی میں اس علامت کا پورا ہونا کسی پر مخفی نہیں.بقول الطاف حسین حالی وہ دین ہوئی بزمِ جہاں، جس سے چراغاں آج اُس کی مجالس میں نہ بنتی نہ دیا ہے فریاد ہے اے کشتی ءِ اُمت کے نگہباں بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے ب.اس آیت کے دوسرے معنے صحابہ رسول حضرت ابو ہریرہ کا اور حضرت ابن عباس نے سورج کے ساتھ چاند کی روشنی کے بھی کمزور پڑ جانے یا نور کے جاتے رہنے کے لئے ہیں یعنی اس وقت بطور نشان سورج اور چاند کو گرہن ہوگا.حضرت ابی بن کعب نے تو واضح طور پر اس پیشگوئی کو قیامت سے قبل کا نشان قرار دیتے ہوئے بتایا کہ لوگ بازار میں ہونگے اور سورج کی روشنی جاتی رہے گی.سورۃ القیامۃ آیت (10-8) میں بھی اس نشان کی طرف اشارہ ہے.اس لحاظ سے یہاں سورج اور چاند کے اس گرہن کی طرف بھی اشارہ ہے.جس کی خبر رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے مہدی کے دو نشانات کے طور پر رمضان کے مہینہ کی خاص تاریخوں میں واقع ہونے کی دی.یہ دونوں نشان چودھویں صدی میں حضرت بانی جماعت احمدیہ کے دعوی مسیح و مہدی کے بعد 13 رمضان 1311ھ بمطابق 21 مارچ 1894ء اور 28 رمضان مطابق 16اپریل کو آسمان پر ظاہر ہو کر آپ کی صداقت کے گواہ بنے.دوسری علامت ستاروں کا ٹوٹنا: دوسری نشانی بیان کرتے ہوئے فرمایا: وَإِذَا النُّجُومُ الكَدَرَتْ (اللور: 3) اور جب ستارے ماند پڑ جائیں گے.صلى اللهم الف.ستاروں سے مراد علمائے دین ہیں اسی لئے رسول کریم علیہ نے اپنے صحابہ کو روشن ستاروں کی طرح قرار دیا ( مشکوۃ کتاب المناقب باب مناقب الصحابہ الفصل الثالث) النجوم میں ”ال معرفہ کے لیے ہے.اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ جس زمانے میں علمائے دین کے ایک خاص گروہ میں تقویٰ اور روحانیت نہیں رہے گی ، وہی وقت مسیح اور مہدی کے ظہور کا ہو گا.فسادزمانہ کے ایسے ہی وقت میں کسی
203 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی مصلح یا خدائی مامور کی ضرورت ہوتی ہے.علامہ نواب نورالحسن نے چودہویں صدی میں ان علامات کے پورا ہونے کی گواہی دی کہ اس امت کے علماء آسمان کے نیچے بدتر ہو چکے ہیں.( اقتراب الساعۃ مصنفہ نواب نورالحسن خان 1309ھ ،صفحہ 12 مطبع مفید علم الکائنہ گرہ) ب مفسرین علماء نے انکدرت کے دوسرے معنے ستاروں کے ٹوٹ کر گرنے کے بھی کیے ہیں.اس لحاظ سے بھی یہ قیامت سے قبل مسیح موعود کی ایک نشانی ہے.چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ کے زمانہ میں شہاب ثاقب کثرت سے گرنے کا یہ نشان 28 نومبر 1885ء میں بطور ارہاص ظاہر ہوا ، جس کا ایک دنیا نے مشاہدہ کر کے گواہی دی.اس قسم کے meteor storm کو علم فلکیات کی اصطلاح میں Andromedids کہا جاتا ہے.یہ ایک دمدار ستارے(comet) کے پیچھے چھوڑے ذرات کے زمین کی فضا سے ٹکرانے سے پیدا ہوتے اور نہایت روشن شہاب ثاقب نظر آتے ہیں جسے ستاروں کے ٹوٹنے سے موسوم کیا جاتا ہے.یوں تو تاریخ میں Andromedid قسم کے Meteor Storm کئی مرتبہ آئے جن میں ایک گھنٹے میں صرف سود و سوشہاب ثاقب گرتے ہوئے دکھائی دیئے.مگر چودھویں صدی میں سال 1885ء میں ایک اندازہ کے مطابق ایک گھنٹہ میں 75 ہزار شہاب ثاقبہ گرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے جو ایک حیرت انگیز نشان تھا.1882ء میں حضرت بانی جماعت احمدیہ کے الہام ماموریت کے ساتھ آپ کو رمی شہاب کی پیشگی خبر دی گئی اور 1885ء میں یہ نشان ظاہر ہوا اور آپ نے وضاحت فرمائی: کہ جس زمانہ میں یہ واقعات کثرت سے ہوں اور خارق عادت طور پر ان کی کثرت پائی جائے تو کوئی مرد خدا دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اصلاح خلق اللہ کے لئے آتا ہے کبھی یہ واقعات ارہاص کے طور پر اس کے وجود سے چند سال پہلے ظہور میں آجاتے ہیں اور کبھی عین ظہور کے وقت جلوہ نما ہوتے ہیں اور کبھی اس کی کسی اعلی فتح یابی کے وقت یہ خوشی کی روشنی آسمان پر ہوتی ہے.“ ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 107-108 حاشیہ ایڈیشن 2008)
204 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی ستاروں کے ٹوٹنے کے اس عظیم الشان نشان کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ:.اس رات کو جو 28 نومبر 1885ء کے دن سے پہلے آئی ہے اس قدرت شہب کا تماشا آسمان پر تھا جومیں نے اپنی تمام عمر میں اس کی نظیر کبھی نہیں دیکھی اور آسمان کی فضا میں اس قدر ہزار ہا شعلے ہر طرف چل رہے تھے جو اس رنگ کا دنیا میں کوئی بھی نمونہ نہیں تا میں اس کو بیان کر سکوں مجھ کو یاد ہے کہ اُس وقت یہ الہام بکثرت ہوا تھا کہ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللَّه رَمی سو اُس رمی کور می شهب سے بہت مناسبت تھی یہ شہب ثاقبہ کا تماشہ جو 28 نومبر 1885ء کی رات کو ایسا وسیع طور پر ہوا جو یورپ اور امریکہ اور ایشیا کے عام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ چھپ گیا لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ بے فائدہ تھا.لیکن خداوند کریم جانتا ہے کہ سب سے زیادہ غور سے اس تماشا کے دیکھنے والا اور پھر اُس سے حظ اور لذت اٹھانے والا میں ہی تھا.میری آنکھیں بہت دیر تک اس تماشا کے دیکھنے کی طرف لگی رہیں اور وہ سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہو گیا تھا.جس کو میں صرف الہامی بشارتوں کی وجہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا کیونکہ میرے دل میں الہاما ڈالا گیا تھا کہ یہ تیرے لئے نشان ظاہر ہوا ہے.“ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 110-111 بقیہ حاشیہ ایڈیشن 2008) تیسری علامت پہاڑوں کا چلنا : سورۃ تکویر میں قرب قیامت کی تیسری نشانی یہ بیان فرمائی: وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ (التلوی: 4) اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے.الجبال میں ”المعرفہ کے لئے ہے.اس میں یہ نشانی مذکور تھی کہ:.الف.پہاڑوں کو توڑ کر ان میں سرنگیں اور راستے بنائے جائیں گے اور ان کے پتھر سڑکیں بنانے کیلئے دور دور تک لے جائے جائیں گے.اس زمانہ میں یہ پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی.
205 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی ب.دوسرے معنے پہاڑوں کے چلائے جانے کے یہ ہیں کہ اس وقت زلازل اس کثرت سے آئیں گے کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ کر سرک جائیں گے.یہ نشانی بھی اس زمانہ میں پوری ہوئی اور ظہور مسیح و مہدی کی چودہویں صدی میں اتنے زلزلے آئے کہ گزشتہ چودہ سوسال میں اس کی نظیر نہیں ملتی.تفصیل کیلیے دیکھیں پیسہ اخبار یکم مئی 1905ء) زلازل کے نتیجہ میں بعض دفعہ پہاڑ بھی اپنی جگہ چھوڑ جاتے ہیں.جیسے چند سال قبل 2015 ء میں نیپال میں آنے والے زلزلہ نے زمین کی ہیئت بدل دی.اور اس کی وجہ سے ہمالیہ پہاڑوں کی ایک چوڑی پٹی نیچے سرک گئی جبکہ ملحقہ کھٹمنڈو بیسن کی سطح بھی بلند ہوگئی اور یہ پورا خطہ جنوب کی جانب دومیٹر تک سرک گیا.(بی بی سی اردو 17 دسمبر 2015ء) اسی طرح 2019ء میں میر پور آزاد کشمیر کے زلزلہ کے موقع پر زمین نے دائیں بائیں حرکت کی اور نہر کی طرف کھسکنا شروع ہوگئی.(اخبار انڈیپنڈنٹ اردو 25 ستمبر 2019ء) ج.اس نشانی کا تیسرا پہلو پہاڑ کے مجازی معنی سلاطین اور بڑی قومیں ہونے کے لحاظ سے ہے اور ان کے چلائے جانے سے مراد یہ کہ بادشاہوں کی قدر و منزلت کم ہو کر جمہوریت کی شروعات ہوگی اور قوموں کے عروج و زوال کا دور ہوگا جیسے اس زمانہ عین چودھویں صدی میں شہنشاہ برطانیہ کا ہندوستان اور اپنی دیگر کالونیز میں زوال اور روس میں زار خاندان کی بادشاہی کا تاراج ہونا.(حضرت بانی جماعت احمدیہ کی پیشگوئی زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی با حال زار کے من وعن پورا ہونے کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 388-386 ایڈیشن 2007ء) سورۃ طور میں بھی ان معنی کے لحاظ سے بادشاہوں اور قوموں کی اس ہلاکت کو جھٹلانے سے وابستہ کیا ہے.فرمایا: وَتَسِيرُ الْجِبَالُ سَيْرًا فَوَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ (الطُّور 11-12) یعنی بادشاہوں اور قوموں کے زوال کا یہ نشان دیکھ کر بھی جھٹلانے والوں کے لیے ہلاکت ہوگی.جیسا کہ ان نشانات کے ظہور کے بعد مسیح و مہدی کو جھٹلانے والوں کیلیے طاعون اور زلازل وغیرہ سے ہلاکت حصہ میں آئی.
206 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی د.پہاڑوں کے چلائے جانے کا چوتھا مطلب اس سے اگلی آیت وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَت (جس میں اونٹنی کی سواری بے کار ہونے کا ذکر ہے ) کے لحاظ سے ہے جو عملاً پورا بھی ہو چکا ہے اور وہ پہاڑ جیسی عظیم نئی سواریوں کی پیشگوئی ہے کہ پہاڑوں کی طرح بڑے بڑے سمندری جہاز اور فضائی جہاز سفر اور بار برداری کے لیے استعمال ہوں گے.ایسی سواریوں کی ایجاد کی مناسبت سے اگلی آیت میں پیشگوئی ہے کہ اس وقت عرب کے صحرا کا جہاز اونٹ بھی بے کار ہوجائے گا اور تیز سفر کے لیے موٹر، ریل، جہاز وغیرہ زیادہ استعمال ہوں گے.چوتھی علامت اونٹوں کا متروک ہونا اور نئی سواریوں کی ایجاد: فرمایا: وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتُ (التصوير :5) یعنی جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی.عشائر“ کے معنے گا بھن اونٹنی کے ہیں جس کی عربوں میں بڑی قیمت تھی اور اس میں پیشگوئی تھی کہ وہ بھی بے کار اور بے قیمت ہو جائیں گی.عشار پر ”المعرفہ کے لئے ہے جس کا مطلب ہے کہ خاص قسم کے اونٹ کی سواری متروک ہو جائے گی.رسول اللہ ہو نے مسیح کے ظہور کے وقت اس کے مقصد اور کام کے ساتھ ایک یہ نشانی بھی بیان فرمائی:.وَلَيُتْرَكُنَّ الْقِلاصُ فَلا يُسْعَى عَلَيْهَا “ مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسی بن مریم حا کما بشریعت نبینا محمد) کہ مسیح کے زمانہ میں اونٹنیوں سے تیز رفتاری کے لئے کام نہیں لیا جائے گا.اس میں پیشگوئی تھی کہ ایسی تیز سواریاں موٹر، ریل، جہاز ایجاد ہو جائیں گی کہ ان کے مقابل پر اونٹنیوں کا استعمال متروک ہو جائے گا، چنانچہ چودہ سو سال قبل رسول اللہ ہے جب مکہ میں یہ پیشگوئی فرمارہے تھے تو ہر طرف سے اونٹوں کے قافلوں کا سلسلہ قطار اندر قطارحج کے لیے آتا تھا.آج اس کی جگہ موٹر، ریل، جہاز لے چکے صلى الله ہیں اور کیسی شان سے یہ پیشگوئی پوری ہو کر رسول اللہ علیہ اور قر آن کی صداقت عیاں کر رہی ہے.علامہ خواجہ حسن نظامی نے مسیح و مہدی کے جائے ظہور ہندوستان میں اس علامت کے پورا ہونے کے بارہ میں یہ اعتراف کیا کہ:.
207 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی ”موٹروں اور ریل گاڑی کی ایجاد سے اونٹوں کی سواری بیکار ہوگئی اور یہ تمام 66 علامات زمانہ مہدی چودہویں صدی تک پورے ہو گئے.“ ( کتاب الا مر صفحہ 6.مطبوعہ 1913ء.درویش پریس دہلی) آسٹریلیا میں اونٹوں کے بے کار ہونے کے غیر معمولی نشان کا ظہور جس شان کے ساتھ براعظم آسٹریلیا میں ” وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَت“ کی پیشگوئی کا حیرت ناک نشان ظاہر ہوا وہ اپنی مثال آپ ہے.آسٹریلیا ( جس کا بڑا حصہ ویران بنجر صحرا پر مشتمل ہے) کی تعمیر و ترقی کے لیے 1859ء میں اونٹ برٹش انڈیا سے درآمد کرنے کا سلسلہ تیرہویں صدی ہجری میں شروع ہوا جب چودہ اونٹوں اور تین شتر بانوں کا پہلا قافلہ وہاں پہنچا.پیشگوئی کے مطابق بیسویں صدی ( یعنی ظہور مسیح کی چودہویں صدی میں موٹر اور ریل وغیرہ کی ایجاد کے بعد 1908ء میں اونٹ متروک ہونا شروع ہوئے.پہلا ٹرک جنوبی آسٹریلیا کے شہر ایڈلڈ سے کئی ہزار میل کا سفر کر کے شمالی آسٹریلیا کے شہر ڈارون پہنچا یہ ٹرک آج بھی وہاں میوزیم میں محفوظ ہے ) پھر ان کو جنگل میں بغیر چرواہے کے بے کار چھوڑ دیا گیا.بیسویں صدی کے آخر میں ان جنگلی وحشی اونٹوں کی آبادی تیزی سے بڑھ کر ہزاروں تک پہنچ گئی.اکیسویں صدی کے آغاز میں تو ایسے آوارہ جنگلی اونٹوں کی تعداد کا اندازہ ایک ملین ہو گیا جو ہر آٹھ سے دس سال میں دو گنا ہو کر مقامی باشندوں Aborignies کے لیے کئی مسائل پیدا کرنے لگے خصوصاً قحط سالی میں مقامی لوگوں کے محفوظ پانی اور غسل خانوں وغیرہ کو اونٹ نقصان پہنچانے لگے.اس پر حکومت آسٹریلیا کو با قاعدہ وحشی اونٹوں کو سنبھالنے کے لیے National Federal Action Plan وضع کر کے ہزاروں اونٹوں کو بندوق سے شوٹ (shoot) کرنا پڑا.اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کی خوفناک قحط سالی میں ہزاروں اونٹ صحرا میں پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ازخود ہلاک ہو گئے.ان مسائل سے نبٹنے کے لیے گورنمنٹ نے 2009ء کے پانچ سالہ منصوبہ میں انیس ملین آسٹریلوی ڈالر کا بجٹ رکھا جس کے تحت کئی ہزار اونٹوں کو شوٹ کر کے بے کار اونٹوں کی تعداد کم کی گئی.اس غرض کے لیے مسلسل بارہ دن 289 گھنٹے ہیلی کاپٹرز کی مدد سے 45000 مربع میل کے علاقہ
208 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی میں 11560 اونٹوں کو بذریعہ گولی اڑا دیا گیا جس پر فی اونٹ 30 ڈالر خرچ آیا.آسٹریلیا کے بعض حلقوں خصوصاً اونٹ کا گوشت وغیرہ کے کاروبار سے متعلق کمپنیوں کی طرف سے اس کی مخالفت بھی ہوئی.جس پر کچھ قتل کے بعد 2020 ء کی قحط سالی میں پھر اونٹ پانی کی تلاش میں شہروں کا رخ کر کے آبادی کو نقصان پہنچانے لگے تو ہیلی کاپٹرز کے ذریعہ پروفیشل شوٹرز کے ذریعہ چار سے پانچ ہزار اونٹ ہلاک کرنے پڑے.اور اسی سال آسٹریلیا آنے والے قدیم شتر بانوں کی خدمات کے اعتراف میں ایک سکتہ ایجادکر کے اس کی پشت پر مذکورہ بالا مختصر تاریخ رقم کر دی گئی ہے جو دوسرے لفظوں میں اس قرآنی پیشگوئی کا منہ بولتا ثبوت ہے.ملاحظہ ہو عکس نمبر 63 : آسٹریلوی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سکہ پس یہ پیشگوئی چودھویں صدی میں مسیح و مہدی کے زمانہ میں لفظاً ومعنا پوری ہوگئی.تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: "Decline and the fall of the Australian camel"Cairns post retrieved 6 March 2016.ii."Managing the Impacts of Feral Camels Across Remote Australia"(PDF).Ninti One 2013.pp.59–60.Retrieved 8 March 2016.iii."Australia Plans To Kill Thirsty Camels".CBS News.Associated Press.26 November 2009.Archived from the original on 27 November 2009.Retrieved 27 November 2009.
209 عکس نمبر : 63 :3 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی AFGHAN CAMFLEERS 50 AFGHAN CAMELEERS PIONEERS OF INLAND TRANSPORT in 1959, the Victorian Expedition Committee commissioned the 24 camets and three cameleers Camels were we going to vital for exploration and canying supplies The, was the beginn contribution made by cameleers to the development of irland Ad cameleers known collectively in Australia at the time as Afghani places including Pakistan Afghanistan and Turkey At one point Australia's population rebed on Afghan cameleers for surv One hundred and sixty years later the Royal Australian Mest acknowledges a the vital contribution of the cameleers to Australia's history, With this spec NOMINAL SPECIFICATIONS Denomination 50c Mass 15.55 Diameter Metal CAN 31.51 mm Finish Uncirculated My 30 000 آسٹریلوی حکومت کی جانب سے جاری کردہ سکہ کا عکس
پانچویں علامت وحشیوں کا اکٹھا ہونا 210 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی سورة التكویر سے قرب قیامت کی پانچویں نشانی یہ بیان فرمائی: وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ (التكويیر 6) اور جب وحشی اکٹھے کئے جائیں گے.الوحوش میں ”المعرفہ کے لئے ہے.الف.اس آیت میں پہلی خبر یہ دی گئی تھی کہ ظہور مسیح کے زمانے میں دنیا میں خاص جانوروں کو ایک جگہ جمع کیا جائے گا یعنی ان کے چڑیا گھر بنائے جائیں گے.چودھویں صدی میں یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے.ب - وَإِذَا الوُحُوشُ حُشِرَت کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وحشی قوموں میں بھی تہذیب کا دور دورہ ہوگا اور علوم وفنون کی ترقی کے باعث رذیل اور حقیر سمجھی جانے والی قو میں بھی اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑی ہوں گی جیسا کہ افریقہ میں کالونیل ازم کے خاتمہ کے بعد یہ پیشگوئی بھی چودھویں صدی میں پوری ہوئی.ج - حشر کے ایک معنے جلاوطن ہونے کے بھی ہوتے ہیں.اس لحاظ سے تیسرا پہلو اس نشان کا یہ تھا کہ وحشی قوموں کو ان کے ملکوں سے نکال دیا جائے گا جیسا کہ چودھویں صدی میں یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی اور امریکہ اور آسٹریلیا میں ایسا ہوا.امریکہ میں سرخ فام یار یڈ انڈینز کے ساتھ ایسا نارواسلوک کیا گیا.چنانچہ 1907 ء میں امریکہ کے علاقہ اوکلاہوما کے ریاست بننے کے بعد اس علاقے میں مقامی سرخ فاموں سے نہ صرف مزید زمین چھینی گئی بلکہ بہت سے دوسرے علاقوں کے باشندوں کو جبری ہجرت پر مجبور کر کے ریاست کے ایک چھوٹے سے رقبے میں ہانک دیا گیا.اس کے نتیجے میں امریکہ کے اصلی، پہلے اور مقامی باشندوں اور قبائل کو چھوٹے چھوٹے رقبوں تک محدود کر دیا گیا.ان جگہوں کو رمیز رویشن کہا جاتا ہے.یہ نظام آج بھی موجود ہے.د.چوتھے ممکنہ معنے اس آیت کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ انسانوں میں بھیس بدل کر جانوروں کی شکل بنانے کا رواج ہوگا.یہ نشانی بھی ہمارے زمانہ میں پوری ہورہی ہے.چنانچہ عاشوراء محرم میں لوگ انسان ہوکر شیر، چیتا، ریچھ وغیرہ کا سوانگ لیتے اور روپ دھارتے ہیں.گویا عملاً انسانیت سے مسخ ہوکر
211 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی وحشی بن جانے کا ثبوت دیتے ہیں.اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک میں 31اکتوبر کو Halloween Day مناتے ہیں.Halloween میں گلی کوچوں، بازاروں، سیر گاہوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈراؤنے چہروں اور خوف ناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں.چھٹی علامت سمندروں کا پھاڑا جانا: وَإِذَا الْبِحَارُ سُجّرَتْ (التكوير : 7) اس جامع آیت میں کئی پیشگوئیاں مضمر تھیں.عربی میں بحار سمندر کو بھی کہتے ہیں اور دریا کو بھی.اور تبجیر کے معنے پھاڑنے یا خشک کرنے کے ہیں یعنی جب بعض خاص سمندر پھاڑے یا خشک کیے جائیں گے کیونکہ البجار میں ”المعرفہ کے لئے ہے.الف.سمندر پھاڑے جانے کی صورت میں اس آیت میں نہر سویز اور نہر پانامہ کی پیشگوئی تھی جو نہر سویز کے ذریعہ بحیرہ قلزم کو بحیرہ روم سے اور نہر پانامہ کے ذریعہ بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس کو با ہم ملانے سے چودھویں صدی میں پوری ہوئی.ملاحظہ ہو کس نمبر 64-65: نقشہ نہر سویز ونہر پانامہ
212 عکس نمبر :64 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی Caribbean Sea (1) Limon Bay Gatun Dam (2) Gatun Locks Lake Madden PANAMA Gatun 3 Lake Panama Canal 4 Chagres River Culebra Cut Centennial Bridge Pedro Miguel 6 Miraflores Locks 7 Panama City PANAMA 10 20 Km Pacific Ocean نقشہ نہر پانامہ تعارف : نہر پانامہ ایک بحری نہر ہے جس کے ذریعے بحری جہاز بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان سفر کر سکتے ہیں.اس نہر کو دنیا کے 7 عجائبات میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے.اس کی تعمیر سے قبل بحری جہاز براعظم جنوبی امریکا کے گرد چکر لگا کر بحر الکاہل میں داخل ہوتے تھے.نہر کی تعمیر کے بعد نیویارک سے سان فرانسسکو کے درمیان بحری فاصلہ 9 ہزار 500 کلومیٹر (6 ہزار میل ) ہو گیا جو اس سے قبل 22 ہزار 500 کلومیٹر (14 ہزار میل) تھا.اس جگہ نہر کی تعمیر کا منصوبہ 16 ویں صدی میں سامنے آیا تاہم اس پر تعمیر کا آغاز فرانس کی زیر قیادت 1880ء میں شروع ہوا.اس کوشش کی ناکامی کے بعد اس پر امریکہ نے کام مکمل کیا اور 1914ء میں اس نہر کو کھول دیا گیا.77 کلومیٹر (48 میل ) طویل اس نہر کی تعمیر میں کئی مسائل آڑے آئے جن میں ملیریا، یرقان کی وباء زمینی تو دے گرنا شامل ہیں.اس نہر کی تعمیر کے دوران اند از 271 ہزار 500 مزدور ہلاک ہوئے.آج نہر پانامہ دنیا کے اہم ترین بحری راستوں میں سے ایک ہے جہاں سے ہر سال 14 ہزار سے زائد بحری جہاز گذرتے ہیں جن پر 203 ملین ٹن سے زیادہ سامان لدا ہوتا ہے.اس نہر سے گذرنے کا دورانیہ تقریبا 9 گھنٹے ہے.نہر کو Lock & Dam System طرز پر تعمیر کیا گیا ہے.نہر Gatun Locks ، Pedro Miguel Locks، Miraflore Locks کے علاوہ Gatun Dam اور دو جھیلوں Gatun Lake اور Miraflore Lake پر مشتمل ہے.جھیلوں کی دونوں جانب دروازے(Locks) نصب کیے گئے ہیں جن میں پانی کو کم یا زیادہ کر کے بحری جہاز کو جھیل کی سطح پر لایا جاتا ہے اس طرح جہاز جھیل عبور کر کے دوبارہ نہر اور بعد ازاں سمندر میں پہنچ جاتا ہے.
213 عکس نمبر : 65 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی Mediterranean Sea ASIA Suez Canal EGYPT AFRICA © 2012 Encyclopaedia Britannica, Inc.Red Sea N W- -E S نقشه نهر سویز تعارف : نہر سویز مصر کی ایک سمندری گزرگاہ ہے جو بحیرہ روم کو بحیرہ قلزم سے ملاتی ہے.اس کے بحیرہ روم کے کنارے پر پورٹ سعید اور بحیرہ قلزم کے کنارے پر سویز شہر موجود ہے.یہ نہر 163 کلومیٹر (101 میل) طویل اور کم از کم 300 میٹر چوڑی ہے.اس نہر کی بدولت بحری جہاز افریقہ کے گرد چکر لگائے بغیر یورپ اور ایشیا کے درمیان آمد ورفت کر سکتے ہیں.1869ء میں نہر کی تعمیر سے قبل اس علاقے سے بحری جہاز ایک جانب سامان اتارتے تھے اور بحیرہ قلزم تک اسے بذریعہ سڑک لے جایا جاتا تھا.1869ء میں اس نہر کے کھل جانے سے انگلینڈ سے ہندوستان کا بحری فاصلہ نہ صرف 4000 میل کم ہو گیا بلکہ مون سون پر انحصار بھی کم ہو گیا اور یہ واقعہ بھی چودھویں صدی میں ہوا.
214 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی ب.اگرتبجیر کا معنی پھاڑنا اور خشک کرنا اور بحار کا معنی دریا لیا جائے تو اس آیت میں آب پاشی کی خاطر دریاؤں کو پھاڑ کر نہریں نکالنے کی بھی ایک پیشگوئی ہے.جیسا کہ سورۃ الانفطار کی آیت وَإِذَا البحَارُ فُجِّرَتْ (الانفطار : 4) میں لفظ " تمجیر کا بھی ذکر ہے.جس کے معنے پھاڑنے کے ہوتے ہیں.چنانچہ انگریز حکومت نے چودہویں صدی میں ہندوستان کے دریاؤں کو پھاڑ کراس میں نہروں کا ایک جال بچھایا.ج تسجیر کے دوسرے معنی بھرنے (fill کرنے ) کے ہیں ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت میں یہ پیشگوئی تھی کہ سمندر کشتیوں اور بحری جہازوں سے بھر جائیں گے.چنانچہ چودھویں صدی میں بحری قوت میں غیر معمولی ترقی کے نتیجہ میں ایسا ہی ہوا.د تبجیر کے تیسرے معنے جوش مارنے کے بھی ہوتے ہیں جیسے سورۃ الطور میں ” وَ الْبَحْرِ الْمَسْجُورِ “ ( الطُّور 7) جوش مارنے والے سمندر کی قسم کھائی گئی ہے.اس لحاظ سے اس پیشگوئی میں آخری زمانہ میں زلازل کے نتیجہ میں سمندروں کے جوش مارنے اور ان میں سونامی وغیرہ کی پیشگوئی تھی جو سیح و مہدی کے زمانہ چودہویں صدی میں اس طرح پوری ہوئی کہ 27 اگست 1883ء کوانڈونیشیا میں سونامی کے نتیجہ میں جاوا اور سماٹرا کے 36000 افراد ہلاک ہوئے.جون 1893ء میں جاپان میں 100 فٹ اونچی سونامی میں 27000 افراد لقمہ اجل بنے اور یہ سلسلہ جاری ہے.سا تو میں علامت نفوس کا باہم ملایا جانا قرب قیامت کی ساتویں نشانی یہ بیان فرمائی: وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتُ (النور: 8) جب نفوس ملا دیئے جائیں گے.الف.اس میں ایک یہ پیشگوئی تھی کہ مسیح کے زمانہ میں آمدروفت اور رسل و رسائل کے ذرائع ترقی پر ہوں گے اور مختلف قوموں اور علاقوں کے افراد کا آپس میں ملاپ اور رابطہ بڑھ جائے گا.جیسا کہ مسیح و مہدی کی چودہویں صدی میں شروع ہوا اور جدید ذرائع رسل و رسائل ومواصلات کے نتیجہ
215 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی میں دنیا کے گلوبل و پیج (Global Village) بننے کا نقشہ اپنے عروج پر ہے.ب.اس آیت کے دوسرے معنے ایک حدیث کی روشنی میں یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ہر آدمی کو اس جیسے عمل کرنے والے سے ملا کر جوڑ دیا جائے گا.چنانچہ چودہویں صدی میں عیسائیت ہندوستان میں آئی تو کئی کمزور ایمان لوگ اسلام چھوڑ کر عیسائی ہوئے اور اپنی جیسی آزاد خیال انگریز عیسائی عورتوں سے شادیاں کرنے لگے.یوں با قاعدہ گرجوں میں ایسے مرتدین کے باہم رشتے اور جوڑ طے ہونے لگے.اور یہ پیشگوئی اس رنگ میں بھی پوری ہوئی.(ملخص از حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 332) آٹھویں علامت زندہ درگور کی جانے والی کے بارہ میں پرسش قرب قیامت کی آٹھویں نشانی یہ بیان فرمائی: وَإِذَا الْمَوْءُ دَةُ سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ (التکویر 9-10) جب زندہ گاڑی جانے والی لڑکی کے بارہ میں سوال کیا جائے گا کہ آخر کس گناہ کے بدلہ میں اس کو قتل کیا گیا.اس پیشگوئی میں اشارہ تھا کہ مسیح موعود کے زمانے میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا قانوناً جرم بن جائے گا اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس سے باز پرس ہوگی اور سزا دی جائے گی.چنانچہ چودہویں صدی میں یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی اور انگریز حکومت نے 1870ء میں ایک قانون جاری کیا جس میں نومولود بچیوں کو گنگا رہانے سمندر میں ڈال دینے، صحیح نگہداشت نہ کرنے کی وجہ سے ہلاک کرنے اور ماں کے پستانوں پر زہر لگا کر قتل کرنے کی فتیح بے رحم رسم کی مذمت کی ( Act No viii of 1870 ) اور اس کی خلاف ورزی کرنے والے کو چھ ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ یا دونوں کی سزا مقرر کی.(The Unrepealed General Acts of the Governor General in Council Vol 2 Page 165 From 1868 to 1876, Third Edition) اور یوں اس قانون نے اس پیشگوئی کو بھی پورا کر دیا.جس کے نتیجہ میں ایک طرف عورت کے حقوق کی آواز بلند ہوئی اور معصوم لڑکیوں کے زندہ درگور کرنے کا خاتمہ ہوا.دوسرے اسقاط حمل کے متعلق با قاعدہ قانون بن گیا اور یوں ناجائز قتل ہونے والی بچیوں کی باز پرس کا سلسلہ قانو ناشروع ہو گیا جو اس سے پہلے موجود نہ تھا.
216 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی نویس علامت اشاعت صحف سورۃ التکویر سے قرب قیامت کی نویں نشانی یہ بیان فرمائی: وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (التصویر: 11) اور جب صحیفے نشر کئے جائیں گے.صحیفہ کے معنے کتاب، رسالہ یا اخبار کے ہوتے ہیں اور مصحف یعنی قرآن شریف کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے.الصحف پر ال“ معرفہ کے لئے ہے.یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں خاص کتب و رسائل کی اشاعت کثرت کے ساتھ ہوگی.چنانچہ پریس وغیرہ وسائل نشر واشاعت کی ایجاد کے نتیجہ میں چودہویں صدی میں جس شان سے یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی اس سے پہلے نہ تھی اور قرآن کریم اور دیگر کئی کتب کی اشاعت پہلے سے کہیں زیادہ کثرت سے ہوکر وہ بآسانی دستیاب ہونے لگیں.دسویں علامت آسمان کی کھال ادھیڑی جانا فرمايا: وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتْ (التور: 12 ) کہ جب آسمان کی کھال ادھیڑ دی جائے گی.الف.اس آیت میں یہ پیشگوئی تھی کہ جس طرح کسی جانور کی کھال اتارنے کے نتیجے میں اس کے جسم کے اندرونی اعضاء نظر آنے لگ جاتے ہیں اسی طرح مسیح کے زمانہ میں Astronomy یعنی علم فلکیات بہت ترقی پر ہوگا.یہ پیشگوئی بھی اس زمانہ میں پوری ہوئی اور علم فلکیات کے آلات دور بین وغیرہ ایجاد ہوکر غیر معمولی ترقی ہوئی.ب.دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ آسمانی روحانی علوم سے پردہ ہٹایا جائے گا چنانچہ چودھویں صدی مسیح و مہدی نے آکر رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق وہ قرآنی علوم اور روحانی خزا نے اپنی پچاسی سے زائد اردو اور عربی کتب کے ذریعہ دنیا میں تقسیم کیے اور اعلان عام کیا کہ خزائن جو ہزاروں سال مدفون تھے ހނ اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار وہ
217 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی گیارھویں علامت جہنم کا بھڑ کا یا جانا سورۃ التکویر میں زمانہ مسیح موعود کی گیارھویں نشانی یہ بتائی کہ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعَرَتْ (التکویر: 13) اور جب جہنم بھڑکائی جائینگی.یعنی اس زمانہ میں دنیا میں گناہوں کی بہت کثرت ہوگی اور گناہ گار اپنے گناہوں میں بڑھتے چلے جانے کے نتیجے میں جہنم کو بھڑکاتے چلے جائیں گے.اس زمانہ میں مسیح کا ظہور ہوگا.مسیح موعود کی آمد سے پہلے دجال اور یا جوج ماجوج کا ظہور ہے کیونکہ ان دونوں کا تعلق جہنم کی آگ اور اسے بھڑکانے سے خاص ہے چنانچہ دجال کی ایک نشانی ہی رسول اللہ علیہ نے یہ بیان فرمائی کہ اس کے ساتھ دو نہریں ہوں گی وہ ان میں سے ایک کو جنت اور دوسری کو آگ کہے گا.اور جس نہر میں وہ لوگوں کو جنت کہہ کر داخل کرے گا وہ دراصل جوش مارنے والی آگ ہوگی.(مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال ) دجال سے مراد وہ مذہبی لبادہ اوڑھنے والے یورپین پادری ہیں جو مذہبی لحاظ سے تو حید خالق کو چھوڑ کر تثلیث اور کفارہ کا پر چار کر کے عقیدہ کے ساتھ خدا کے غضب کا جہنم بھڑ کانے والے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: تَكَادُ السَّمَوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَذَا.أَنْ دَعَوُا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا ( مریم 91-92) قریب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ لرزتے ہوئے گر پڑیں کہ انہوں نے رحمان کے لئے بیٹے کا دعویٰ کیا ہے.حدیث نبوی کے مطابق اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ غیرت اپنی توحید کی ہے.( صحیح بخاری کتاب الحدود بـــاب مـن رَأَى مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلاً فَقَتَلَهُ) دجال کے مشرکانہ عقائد کے علاوہ وہ دجالی مغربی تہذیب جس میں کفارہ کے عقیدہ کے نتیجہ میں بے حیائی، زنا و بدکاری، اشاعت فحشاء ، ہم جنس پرستی ، شراب نوشی اور جوا وغیرہ عام ہیں.مخلوق خدا کی نافرمانی کے یہ سب مکروہ کام بھی خالق کے غضب اور جہنم کو بھڑ کا ئیں گے.اسی طرح یا جوج ماجوج بھی انہی مغربی اقوام کا ہی سیاسی نام ہے جو اجیج سے نکلا ہے اور جس کے معنے ہی آگ کے شعلہ مارنے یا بھڑ کنے کے ہیں.اور یہ قو میں سیاسی آگ بھڑ کانے میں بھی
218 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی سرفہرست ہیں کیونکہ اپنی ترقی کے نتیجہ میں ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم وغیرہ کی طاقت ان کے پاس ہے جس کے ذریعہ وہ دنیا کو آن واحد میں خاکستر کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کر چکی ہیں اور جس کا ایک نظارہ جنگ عظیم دوم میں ہیروشیما اور ناگاساکی میں دیکھا گیا.اسی لیے دجال اور یا جوج ماجوج کی ظاہری طاقت کے لحاظ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ لَا يَدَان لأحَدٍ بِقِتَالِهِمْ ( مسلم كتاب الفتن ) ان کے مقابلہ کی کسی کو تاب نہ ہوگی.بارھویں علامت جب جنت قریب کی جائے گی الف- وَإِذَا الْجَنَّةُ أُزُلِفَتْ (التكوير (14) اس آیت میں قرب قیامت کی بارہویں نشانی بتائی ہے کہ جنت کو قریب کر دیا جائے گا.حدیث میں مذکور ہے کہ خدا تعالیٰ مسیح ابن مریم کو بھیجے گا اور وہ لوگوں کو یا جوج ماجوج کی بھڑکائی ہوئی ظاہری جہنم سے بچانے کے لیے دعا کا راستہ اختیار کرے گا اور بندوں کو طور پہاڑ یعنی عبادت اور دعا کی طرف بلائے گا اور دجال کے تہذیبی جہنم کو ایک جنت نظیر معاشرہ سے بدل دے گا.حدیث دجال میں یہ پیشگوئی ہے کہ مسیح ابن مريم يُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال ) اپنے ساتھیوں کو جنت میں ان کے درجات بتائے گا.پس و اذَا الْجَنَّةُ ازْ لِفَت سے مراد ہے کہ مسیح و مہدی پر پختہ ایمان لا کر جان و مال کی قربانیاں کر نیوالوں پر جنت اس دنیا میں ایسی قریب کر دی جائے گی جیسے وہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کو اس پر حق الیقین تھا.چنانچہ دس صحابہ تو اسی دنیا میں جنت کی بشارت پا کر عشرہ مبشرہ کہلائے.313 اصحاب بدر اور 1400 اصحاب حدیبیہ کو بھی اس دنیا میں پروانہ جنت ملا.اور مدینہ کی جنت البقیع میں تو سینکڑوں جنتی صحابہ آسودہ خاک ہوئے.ب.اس آیت کا ایک اور مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب گناہوں کی کثرت ہوگی تو اس زمانہ میں تھوڑی نیکی کرنے والا بھی جنت کے قریب ہو جائے گا جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا مَنْ تَمَسَّكَ بِسُنَّتِي عِندَ فَسَادَ أُمَّتِي فَلَهُ أَجْرٍ مِائَة شَهِيد یعنی جس نے میری امت کے فساد کے وقت میری سنت کو مضبوطی سے پکڑا اس کے لئے سوشہید کا درجہ ہے.( مشکوۃ کتاب الایمان باب الاعتصام بالكتاب والسنة الفصل الثانی)
219 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:.سورۃ التکویر میں جہاں اس زمانہ کے حالات کی پیشگوئیاں ہیں وہاں اسلام کی آئندہ ترقی بھی مسیح موعود کے ذریعے سے ہی وابستہ کی گئی ہے.“ ( خطبہ جمعہ 3 فروری 2006) سورة الانفطار میں علامات زمانہ مہدی شرک اور بت پرستی کا عام ہونا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ (الانفطار : 2 ) کہ جب آسمان پھٹ جائے گا یعنی جس زمانہ میں مسیح موعود کا ظہور ہو گا اس زمانہ میں شرک اور عیسی پرستی دنیا میں پھیل چکی ہوگی جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ زمین پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کرے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عیسی پرستی کی وجہ سے قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائے.(سورۃ مریم: 91) یعنی دنیا میں طرح طرح کے عذابوں کا سلسلہ جاری ہو گا.چنانچہ چودھویں صدی میں عذاب طاعون ، جنگوں اور زلزلوں کے ذریعہ یہ پیشنگوئی بھی پوری ہوئی.علمائے دین کا نابود ہونا فرمايا: وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ (الانفطار : 3) یعنی جب ستارے جھڑ جائیں گے.رسول کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کو بھی روشن ستاروں جیسے قراردیا، اس لحاظ سے آیت میں یہ پیشگوئی تھی کہ حقیقی علمائے دین دنیا سے نابود ہو جائیں گے اور ہدایت دینے والے لوگ کم ہو جائیں گے.جیسا کہ سورۃ تکویر کی آیت وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ (التکویر 3 ) میں تفصیل بیان ہو چکی ہے.سمندروں کا باہم ملایا جانا پھر فرمایا: وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَت (الانفطار : 4) یعنی سمندر یا دریا پھاڑ دیئے جائیں گے جیسا کہ سورۃ التکویر کی آیت وَإِذَا الْبِحَارُ سُحِرَت میں بیان ہوا ہے.یعنی سمندروں کو باہم ملایا جائے گا جیسے چودھویں صدی میں ہی نہر سویز اور پانامہ اور دریاؤں کو پھاڑ کر نہریں بنائی گئیں.
آثار قدیمہ کا ظاہر ہونا 220 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی پھر فرمایا وَ إِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ (الانفطار : 5 ) یعنی جب قبریں اکھیڑی جائیں گی.اس آیت میں تحقیقات آثار قدیمہ کی طرف اشارہ ہے کہ اس زمانہ میں مدفون بستیاں اور پرانے مقبرے اکھیڑ کر نعشیں مختلف عجائب گھروں میں رکھی جائیں گی.جیسا کہ چودھویں صدی کے زمانہ میں یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی.سورة الانشقاق میں علامات زمانہ مہدی آسمانی نشانات کا تواتر : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّت الانشقاق:2) جب آسمان پھٹ جائے گا یعنی آسمان سے متواتر نشانات کے ظہور کا سلسلہ شروع ہوگا جیسا کہ حدیث میں موتیوں کی مالا ٹوٹنے سے پے در پے موتی گرنے کی طرح مسلسل نشانات کے ظہور کا اشارہ ہے.( ترمذی ابواب الفتن بــاب مـا جاء في علامة حلول المسخ و اخسف ) چنانچہ حضرت مرزا صاحب کے دعوی مسیح و مہدی کے زمانہ میں ذوالسنین یعنی دمدار ستارہ کے طلوع ہونے (1882)، شہاب ثاقبہ کے گرنے (1885) اور چاند اور سورج کے گرہن (1894) جیسے واقعات مسلسل رونما ہوئے.شہاب ثاقبہ اور سورج چاند گرہن کا تفصیلی ذکر پہلے ابواب میں آچکا ہے، دمدارستارہ کا مختصر ذکر پیش ہے:.زوالسنین یعنی دمدار ستارہ کا نشان: دمدار ستارے جسامت میں چند سو میٹر سے 40 کلومیٹر تک کے ہوتے ہیں.یہ مٹی ، چٹان اور برف کے ہوتے ہیں.جب یہ ستارے نظام شمسی سے گزرتے ہیں تو سورج کی شعاؤں کے اثر سے ان میں بخارات اور ذرات اٹھتے ہیں جو کہ ان کے گرد ایک روشن ہالہ بناتے ہیں.یہ ہالہ ایک دم کی صورت دکھائی دیتا ہے جس کی وجہ سے انھیں دمدار ستارہ کہا جاتا ہے.رسول اللہ ﷺ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ : مہدی کے خروج سے قبل مشرق سے ایک ستارہ نکلے گا جس کی چمکتی ہوئی دم ہوگی.“ ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 66: عقد الدرر فی اخبار المنظر صفحہ 140 الطبعة الثانية مطبع مكتبه المنار اردن 1989ء
221 عکس حوالہ نمبر: 66 مكتبة الفتن وأشراط الساعة الكتاب الأول عقد الدررفى اخبار منت منظر وهو المهدي ليلا علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی الشيخ العالم العلامة يوسف بن عيسى بن علي بن عبد العزيز المقدني الشافعي السلمي حققه وراجع نصوصه وعلق عليه وخرج أحاديثه الشيخ مهين الله صالح عبد الرحمن البوريني مكتبة المنار الأردن - الزرقاء
222 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی من الطعام ما استطعت ).عکس حوالہ نمبر : 66 أخرجه نعيم بن حماد (۱) ۱۷۷ - وعن سيف بن عُمير قال : كنت عند أبي جعفر المنصور فقال لي : « ابتداء يا سيف بن عُمير ، لا بد من مُنادٍ يُنادي من السماء باسم رجل من ولد أبي طالب فقلت : جعلت فداك يا أمير المؤمنين ، تروي هذا.قال : إي ، والذي نفسي بيده لسماع أذناي له فقلت : يا أمير المؤمنين ، إن هذا الحديث ما سمعته قبل وقتي هذا ؟ فقال : يا سيف إنه لحق (۲) ، وإذا كان فنحن أولى من يُجيبه.أما إن النداء إلى رجل من بني عمنا كذلك (۳) فقلت : رجل من ولد فاطمة.فقال : نعم يا سيف ، لولا أني سمعته من أبي جعفر محمد بن علي ، وحدثني به أهل الأرض كلهم ما قبلته ، ولكنه محمد بن علي عليهما السلام (٤) ) ۱۷۸ - وعن كعب قال : « إنه يطلع نجم من المشرق قبل خروج المهدي له ذَنَب (٥) يضيء ).أخرجه الحافظ أبو عبد الله ، نعيم بن حماد في كتاب (٦) « الفتن ) ۱۷۹ - وعن شريك (۷) أنه قال : « بلغني أنه قبل خروج المهدي (۱) في باب ما يُذكر من علامات من السماء ٣ : ٦٠ ب وهو مقطوع.وفي سنده الوليد بن مسلم وهو كثير التدليس والتسوية ، ولم يصرح بالسماع.(٢) في (ب) : إنه الحق (۳) زيادة من (أ) (٤) منقطع وهو في كتاب : بشارة الأنام : ص ۹۸ من كتب الشيعة.(٥) هذه الجملة سقطت من (أ).وفي : الفتن » : له ذناب (٦) في باب ما يُذكر من علامات السماء ٣ : ٦١ أ بسند ضعيف جداً فيه الوليد بن مسلم القرشي مدلس ، وفيه مجهول ، وهو أيضاً عن كعب.(۷) في أ : شراك ١٧٥ ترجمہ: مہدی کے خروج سے قبل مشرق سے ایک ستارہ نکلے گا جس کی ایک روشن اور چمکدار دم ہوگی.
223 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی حضرت مجددالف ثانی (متوفی : 1034ھ) نے ذوالسنین کو ظہور مہدی کی علامت قرار دیا.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر : 67 مکتوبات امام ربانی ہے مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سربندی قدس الله سير العزیز کے اسرار شریعیت اور معارف طریقت کو ثور وانتقد محمد انه مکاتیب مستند اردو ترجمہ جلد دوم سوم مع رساله مبدأ و معاد أردو اردو ترجمہ : مولانا قاضی عالم الدین صاحب نقشبندی مجددی ادارة اسلاميات الامور ١٩٠ - ۱۹۰ - انار کلی ، لاہور
ترجمه مکتوبات 224 عکس حوالہ نمبر : 67 ۲۴۴ علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی امام ربانی دختر دم لقد جاءَت رسل ربنا بالحق اللہ تعالے کی حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر ور ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم کبھی ہدایت نہ پاتے.بیشک ہمارے اللہ تعالیٰ کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں : صحیفہ شریفہ جو فرز ند عزیز نے مولانا ابوالحسن کے ہمراہ روانہ کیا تھا پہنچا.اور بڑی خوشی صل ہوئی تم نے ستون کی نسبت جو مشرق کی طرف سے پیدا ہوا تھا.دوبارہ دریافت کیا ہے ؟ سو جاننا چاہئے کہ شہر میں آیا ہے.کہ جب عباسی پادشاہ جو حضرت مہدی رضہ کے ظہور کے مقدمات میں سے ہے.خراسان میں پہنچ گیا.مشرق کی طرف قرن در سنین رود نداند والا سینگ ، طلوع کریگا.اس کے حاشیہ میں لکھا ہے.کہ ستون مذکور کے دو بسر ہو نگے.پہلے پہل اس وقت طلوع ہوا تھا.جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم ہلاک ہوئی تھی.پھر حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ واستسلام کے زمانہ میں طلوع ہوا تھا.جب کہ ان کو آگ میں ڈالا تھا.اور فرعون اور اس کی قوم کے بلاک ہونے کے وقت بھی طلوع ہوا تھا.اور حضرت کیجئے علیہ الصلوۃ والسلام کے قتل کے وقت بھی ہوا تھا.جب اس کو دیکھیں.حق تعالے کی بارگاہ میں فتوں کی شر سے پناہ مانگیں.یہ سفیدی ہو مشرق کی طرف سے طلوع ہوئی تھی.اول ستون منتور کی صورت نہیں تھی.بعد ازاں ٹیڑھی ہو کو سینگ کی مانند ہو گئی.شاید اسی اعتبار سے فرمایا ہو کہ اس سینگ کے دو نو ظرف دانتوں کی طرح باریک ہو گئے تھے.ان دونو طرفوں کو دوسر اعتبار کیا ہے.جیسے کہ نیزہ کے دو نو طرت باریک ہوں.اور ان کو دوسر اعتبار کریں - برادرم شیخ محمد طاہر بخشی جونیور سے آیا ہے.اور کہتا ہے.کہ اس ستون کے اوپر کی طرف دانتوں کی طرح دو سر تھے جن میں تھوڑا سا فاصلہ تھا جنگل میں اس بات کو تشخیص کیا تھا.اور لوگوں نے بھی اسی طرح شہر دی ہے - یہ طلوع اس طلوع سے الگ ہے.جو حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالی عنہ کے آنے کے وقت پیدا ہو گا.کیونکہ حضرت مہدی رضی اللہ عنہ صدی کے بعد آئینگے.اور ابھی تو میں سے اٹھائیس سال گزرے ہیں + نیز حدیث میں حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالے منہ کی علامتوں میں آیا ہے کہ مشرق کی طرف سے ایک ستارہ طلوع کریگا جس کی اوم نورانی ہو گا.یہ ستارہ جو
225 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی حضرت مسیح موعود کی زندگی میں دمدار ستارہ ایک سے زائد مرتبہ ظاہر ہوا.جن میں چند نمایاں سال یہ ہیں:.1 1835ء جس سال مسیح الزماں کی پیدائش ہوئی.11 - 1880 سن اشاعت براہین احمدیہ |||.1882ء میں ظاہر ہونے والے دمدار ستارہ کو 1882 Great September Comet of کہا جاتا ہے.یہ - ستارہ اتنا اتنا عظیم الشان تھا کہ اسے گزشتہ ہزار سال کے دوران سب سے غیر معمولی Comet کہا جاتا ہے..1908 ء جس میں مسیح الزمان کی وفات ہوئی.لوگوں کا نشانات پر غور کرنے کے لئے تیار ہونا فرمایا: وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ ( الا شقاق : 3) یعنی جیسا کہ نشانات کی کثرت کا تقاضا تھا ان کی وجہ سے بڑے بڑے لوگ اور عالم بھی خدا تعالیٰ کی باتوں پر غور کے لیے تیار ہو جائیں گے.چنانچہ سنجیدگی سے غور کرنے والے لاکھوں کی جماعت نے مدعی مسیح و مہدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کو قبول کرنے کی سعادت پائی.زمین کا پھیلاؤ پھر فرمایا: وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّت الانشقاق: 4 ) اور جب زمین پھیلا دی جائے گی یعنی مسیح موعود کے زمانہ میں تحقیقات سے ثابت ہو جائے گا کہ کئی اور کترے بھی زمین کا حصہ ہیں جیسے چاند اور مریخ وغیرہ.چنانچہ ہمارے اس زمانہ میں اسی خیال کے تحت راکٹ وغیرہ کے ذریعہ ان کتوں تک رسائی کی کوشش کی گئی.چاند پر تو انسان پہنچنے میں کامیاب بھی ہو گیا اور دیگر ستاروں تک رابطہ کر کے زمین کو وسعت دینے کی یہ کوشش جاری ہے.خلائی سفر میں اہم ترین پیش رفت خلائی شٹل کی ایجاد ہے.خلائی سفر کے سلسلے میں 1 Voyager اور 2 Voyger انسان کی ترقی کا بے مثال کارنامہ کہے جاسکتے ہیں.جو کہ نظام منشی
226 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی کے سیاروں کے مطالعہ خاص کے لیے روانہ کیے گئے ان بے مثال خلائی جہازوں نے سیاروں کے متعلق بے انتہا قیمتی معلومات فراہم کیں.1 Voyager اور 2 Voyger اب کبھی لوٹ کر زمین پر واپس نہیں آئیں گے لیکن ان کی سائنسی دریافتیں، ان کی غیر معمولی معلومات اور روداد سفر ضرور ہم تک پہنچتی رہیں گی، اسی طرح اب تک جتنے بھی روانہ کردہ خلائی مشن اس وقت محو پرواز ہیں اور زمین سے رابطے میں ہیں، انسانیت ان کی معلومات سے فیضیاب ہوتی رہے گی.الغرض مسیح و مہدی کے اس زمانہ میں آسمانی علوم علم فلکیات میں غیر معمولی ترقیات ہوئیں اور اس قرآنی پیشگوئی کا پورا ہونے کا ثبوت بنیں.علم ارضی کی تحقیق پھر فرمایا:وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّت ( الانشقاق :5) اور جو کچھ اس میں ہے نکال پھینکے گی اور خالی ہو جاے گی یعنی علم ارضیات کی تحقیق کے نتیجہ میں زمین کے اتنے راز ظاہر ہوں گے کہ ایسے معلوم ہوگا کہ کوئی راز باقی نہیں رہا.انسان کے لئے محنت و مجاہدہ کی ضرورت اس کے بعد فرمایا: يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ ( الا تشقاق : 7 ) یعنی اے انسان ! یہ الہی نشانات دیکھ کر ہی کم از کم مجھے اللہ تعالیٰ کو پانے اور اس کے لیے محنت و مجاہدہ کی طرف توجہ ہونی چاہیے.چنانچہ چودھویں صدی میں ان نشانات کے ظہور کے بعد ایک کثیر جماعت حضرت بانی جماعت احمدیہ پر ایمان لائی اور عبادات اور مالی و جانی قربانی میں مجاہدہ کر کے اپنے رب کی رضا حاصل کرنے والے بنے.خدا کی ذات اور آخرت پر پختہ ایمان کے نتیجہ میں ہی یہ سب حاصل ہوسکتا ہے.اسی مناسبت سے یہاں یوم جزا کا ذکر کرنے کے بعد پھر فرمایا: اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا اشارہ فلا أُقيم بالشفق (الإلتحاق: 17) کہ ہم شہادت کے طور پر شفق کو پیش کرتے ہیں جو
227 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی سورج ڈوبنے کے بعد تھوڑی دیر رہتی ہے کہ ایسے ہی اسلام کے سورج ڈوبنے کا زمانہ بھی شفق کی طرح مختصر اور چھوٹا ہوگا اور اسلام ایک تاریک رات کی لپیٹ میں آنے کے بعد اسی قانون طبعی اور سنت الہی کے مطابق پھر سورج کے طلوع ہونے کا زمانہ بھی دیکھے گا.پھر فرمایا: وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَ (الانشقاق (19) ہم چاند کو بھی جب وہ تیرہویں کا ہو جائے شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں یعنی اسلام کے سورج کا یہ آغاز تیرہویں صدی ہجری سے ہو جائے گا اور جس طرح چودھویں، پندرھویں، سولہویں راتوں کا چاند تقریباً مکمل ہوتا ہے اس طرح ان صدیوں میں اسلام کی ترقی مکمل ہوگی.یہ مضمون بیان کر کے پھر فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایسے اور اتنے نشان دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے اور یہ قرآنی آیات و نشان پا کر بھی اطاعت نہیں کرتے بلکہ تکذیب پر کمر بستہ رہتے ہیں جیسا کہ فی زمانہ ہورہا ہے.سورۃ ہود میں آخری زمانہ کے لئے فکر انگیز توجہ ایک روایت کے مطابق آنحضرت ﷺ نے سورۃ تکویر کے ساتھ بعض اور سورتوں هود،واقعه مرسلات اور نباء کا ذکر کر کے فرمایا کہ ان سورتوں نے مجھے بوڑھا کر دیا.( ترمذی ابواب تفسیر القرآن باب وَمِنْ سُورَةِ الْوَاقِعَة ) اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ ان سورتوں میں آخری زمانہ مسیح موعود کی علامات اور نشانات کے ساتھ ایک موعود مصلح کی تکذیب کے بعد گزشتہ قوموں کی طرح ہلاکت کا اشارہ ہے.جو کوئی خوش ہونے کی بات نہیں اس لیے رسول کریم ﷺ کو بھی غم اور فکر دامن گیر ہوا.چنانچہ سورۃ ہود میں قوم نوح، قوم ہوں، قوم صالح، قوم ابراہیم ولوط اور قوم شعیب، مدین اور قوم موسیٰ کے اپنے نبیوں کے انکار کے بعد ہلاکت کا ذکر ہے.اور موعود آخر الزمان کی صداقت کے دلائل میں دلیل کے طور پر سورۃ ہود آیت 18 میں (بمطابق استثناء باب 18 آیت 18 ) آپ کے حق میں حضرت موسی کی پیشگوئی اور وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْہ میں رسول اللہ ﷺ کی پیروی میں آپ کے بعد آنیوالے تائیدی
228 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی گواہ مسیح و مہدی کی پیشگوئی کر کے فرمایا کہ جو احزاب ( یعنی مسلمان فرقے ) اس موعود کا انکار کریں گے ان کا ٹھکانہ آگ ہوگا جیسا کہ اس کی تشریح میں خود رسول اللہ ﷺ نے 73 فرقوں کی نشاندہی کر کے كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةَ وَاحِدَة ( ترمذی ابواب الايمان باب مَا جَاءَ فِيْمَنُ يَمُوتُ وَهُوَ يَشْهَدُ أَن لَّا إِلهُ إِلَّا الله) کی وضاحت فرمائی.اور سورت کی آخری آیات میں فرمایا کہ یہ باتیں مومنوں کے لیے تو نصیحت ہوں گی مگر منکروں کو انذار واختباہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ ( ہود 123) اور انتظار کرو ہم بھی یقیناً انتظار کرنے والے ہیں.کہ کہیں تمہارا بھی وہ انجام نہ ہو جو پہلی قوموں کا ہوا.اسی طرح سورۃ واقعہ کی مکی سورت میں رسول اللہ علیہ کے ذریعہ غلبہ اسلام کے عظیم واقعہ کا ذکر کر کے بتایا کہ آپ کے صحابہ کی طرح قربانی کر نیوالی ایک دوسری جماعت وَثُلَّةٌ مِنَ الآخِرِينَ (الواقعۃ 41) ہوگی.اور ان جماعتوں کی اس دنیا میں کامیابیاں آخرت کے ثبوت کے لیے گواہ ہوں گی اور انکار کرنے والے اصحاب الشمال کے بارہ میں جہنم کا فیصلہ ہوگا.اب ظاہر ہے یہ بات بھی رحمت للعالمین کے لیے دکھ کا موجب تھی کہ آپ کی امت کا ایک گروہ بوجہ انکار عذاب کا شکار ہوگا اور یہی غم آپ کے بڑھاپے کا موجب ہوا.سورۃ المرسلات میں آخری زمانہ کے مامور کا ذکر پھر سورۃ مرسلات میں بھی بعض تو وہی نشان دہرائے ہیں جو سورۃ تکویر میں زمانہ مسیح موعود میں بطور پیشگوئی بیان ہوئے تھے.مثلاً فَإِذَا النُّجُومُ طُمِسَت (المرسلات 9) جب ستارے ماند پڑ جائیں گے یعنی علماء میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا.وَإِذَا السَّمَاءُ فُرِجَت (المرسلات (10) اور آسمان میں شگاف ہو جائیں گے.یعنی الہام کا سلسلہ پھر شروع ہو گا کہ خدا کے مسیح اور مہدی کا ظہور ہوگا.وَإِذَا الْجِبَالُ نُسِفَت ( المرسلات (11) یعنی اس زمانہ میں دنیا کے بادشاہ گرائے جائیں گے اور قوموں میں عروج وزوال کی علامات شروع ہوں گی.
229 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی وَإِذَا الرُّسُلُ أُقتت (المرسلات (12) یہ وہ زمانہ ہوگا جب سب رسول اس وقت مقرر پر لائے جائیں گے یعنی مسیح و مہدی جو آنحضرت کی غلامی میں آئے گا ، اس کا آنا سب نبیوں کا آنا ہوگا.آیت 15 میں مکہ کے ابتدائی دور میں نازل ہونے والی اس سورت میں ”یوم الفصل یعنی فیصلہ کے دن کے حوالہ سے فتح مکہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ المرسلات (16) اور واضح فرمایا کہ وہ دن خدا کے نبیوں کے جھٹلانے والوں کی تباہی کا ہوگا.یہ دن قیامت نہیں ہوسکتا کیونکہ اس دن کوئی نبی مبعوث نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیا سے متعلق ہی یہ سب آیات ہیں.چنانچہ آیت 31 میں آخری زمانہ کے مامور کو جھٹلانے والوں کے لیے تین شعبوں والے عذاب کا ذکر ہے یعنی ایسی عالمی جنگ عظیم جو بری، بحری اور فضائی حملوں پر مشتمل ہوگی اور آسمان سے آگ کے شعلے پھینکے گی.یہ واقعہ بھی قیامت کا نہیں بلکہ اسی دنیا کا ہے جن کے ظہور کے بعد قیامت کے ثبوت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہے گا.اس لیے اس کے بعد آخر میں اس قیامت کا ذکر ہے جس پر بعثت مسیح موعود روحانی قیامت کی ایک دلیل ہے.سورۃ النبا میں اسلام کی فتح کی خبر چوتھی کی سورت نبسا ہے جو رسول اللہ علیہ کے بال سفید کرنے کا موجب ہوئی.اس سورت میں بھی گزشتہ سورۃ مرسلات کا مضمون جاری رکھتے ہوئے یوم الفصل یعنی فیصلہ کے دن کی حقیقت نبأ عظیم یعنی عظیم الشان خبر کے طور پر فتح مکہ کی پیشگوئی بیان کی گئی ہے.جس کے ظہور کو آخرت کی دلیل اور ثبوت کے طور پر پیش کیا اور بتایا کہ انکار کرنے والے اس دنیا میں عذاب کے مورد ہوں گے.
230 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی احادیث میں علامات زمانہ مہدی شیخ علی اصغر بروجردی ( متوفی : 1934 ء) نے آیت قرآنی فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَنْ تَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا ( محمد : 19) کی تفسیر میں علامات مہدی بیان کی ہیں.اس آیت کا ترجمہ یہ ہے:.” پس کیا وہ محض ساعت کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ اچانک ان کے پاس آجائے پس اس کی علامات تو آچکی ہیں.“ اس آیت کی تفسیر میں وہ یہ روایت لائے ہیں:.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا (محمد 19 ) کی تفسیر میں اپنے صحابہ کرام سے ذکر فرمایا کہ قیامت کی جو علامات میں تمہیں بتا تا ہوں ممکن ہے کہ اس سے مراد قیامت صغریٰ یعنی امام مہدی کے ظہور اور اس کے بعد کا زمانہ ہو چنانچہ بعض ائمہ اہل بیت کی روایات میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ” قیامت اور ساعت“ کے بارے میں جو علامات بیان فرمائی ہیں اس سے مرا قیامت صغریٰ ہے جو آل محمد یعنی حضرت امام مہدی کی تشریف آوری یعنی اس کا زمانہ ظہور اور اس کی ابتداء کے حالات ہیں.اس پر حضرت سلمان فارسی نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ علامات بیان فرمائیے تو حضور نے فرمایا کہ اس زمانہ کی علامت نماز کو ضائع کرنا شہوات کی پیروی ، مال کی زیادہ تعظیم اور دین کو دنیا کے عوض بیچ ڈالنا ہوں گی.“ (نورالانوار صفحہ 13 مطبوعہ 1328ھ ترجمه از فارسی) اس روایت میں بیان کردہ علامات کی تائید دیگر متعد دروایات حدیث سے بھی ہوتی ہے چنانچہ حضرت جبرائیل نے رسول کریم ﷺ کو الساعۃ کی یہ اشراط یعنی علامات بھی بتا ئیں:.اول یہ کہ جب لونڈی اپنے آقا کو جنے ، دوسرے جب سیاہ اونٹوں کے پچرانے والے بڑی بڑی بلند عمارتیں بنانے لگیں.وہ قیامت کبری ان پانچ باتوں میں ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا.پھر جبرائیل نے یہ آیت پڑھی: إِنَّ اللَّهَ
231 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ (لقمان: 35) یقیناً اللہ ہی ہے جس کے پاس قیامت کا علم ہے.66 صلى الله (بخاری کتاب الایمان باب سُؤالِ جِبْرِيلَ النَّبِيِّ عَنِ الإِيمَان وَالإِسْلَامِ وَالْإِحْسَانِ وَعِلْمِ السَّاعَةِ) رسول الله کی بیان فرمودہ اس پیشگوئی کے مطابق قیامت کبری کی امارات کا سلسلہ جو آپ ﷺ کے ظہور سے شروع ہوا.قرون وسطی میں بھی آگے بڑھا اور لونڈی کے آقا کو جنم دینے کی یہ علامت 1206ء مطابق 602ھ میں اس وقت پوری ہوئی جب ہندوستان میں باقاعدہ ایک خاندان غلاماں کی حکومت کا آغاز ہوا جو 1290 ء تک قائم رہی.قرب قیامت کی دوسری علامت اونٹوں کے چرواہوں کے بلند و بالا عمارتوں میں مقابلہ کا سلسلہ ہمارے زمانہ میں چودھویں صدی سے سعودی عرب اور عرب ریاستوں میں تیل کی دریافت کے بعد سے تا حال جاری ہے.حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ نے فرمایا:.قرب قیامت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھ جائے گا اور جہالت غالب آجائے گی اور زنا پھیلے گا اور شراب پی جائے گی اور عورتوں کی کثرت ہوگی اور مرد کم ہوں گے.یہاں تک کہ پچاس عورتوں پر ایک نگران ہو گا.“ ( ترمذی ابواب النفقن باب ما جاء فی اشراط الساعة ) حضرت علیؓ اور حضرت ابو ہریرہ کی روایات میں امت کے پندرہ ایسے بد خصائل کا ذکر ہے کہ جب وہ ظاہر ہوں گی تو اس زمانہ کے لوگوں پر آزمائش آئے گی.یعنی وقت کے امام کا ایمان یا انکار اور اس کے نتیجہ میں نازل ہونے والی بلاء.آپ نے فرمایا کہ:.1.جب مال غنیمت کو دولت کا ذریعہ بنایا جائے گا2.اور امانت کو مال غنیمت سمجھا جائے گا3.اور زکوۃ کو چٹی 4.اور مر دعورت کی اطاعت کرے گا اور اپنی ماں سے بدسلوکی 5.اور دوستوں سے حسن سلوک اور والد سے زیادتی 6.اور مساجد میں آوازیں ( شور ) بلند ہو گا 7.اور کمینے لوگ قوم کے سردار ہونگے 8.اور ایک آدمی
ہے کہ:.232 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی کی عزت اس کے شر سے بچنے کے لیے ہوگی 9.اور شراب پی جائے گی 10.اور ریشم پہنا جائے گا 11 اور گانے والی لونڈیاں اور باجے رکھے جائیں گے 12.اور لعنت کریں گے امت کے آخری لوگ پہلوں کو 13.تو اس وقت انتظار کرنا سرخ ہوا کا 14.اور حسف یعنی گرہن کا 15.اور مسخ یعنی زلازل کا.(ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء فى علامة حلول المسخ والخسف ) حضرت ابو ہریرہ کی روایت میں احوال زمانہ کی مذکورہ بالا نشانیوں کے ساتھ مزید یہ بھی ذکر اس وقت نشانات پے در پے ظاہر ہوں گے جیسے موتیوں کی لڑی کا پرانا دھا گہ ٹوٹ گیا اور دانے گرنے لگے.ایسا ہی تیزی سے آثار و علامات قیامت کا ظہور ہوگا.“ (ترمذی ابواب الفتن باب ماجاء فى علامة حلول المسخ والخسف) ان تمام نشانات کو رسول کریم ﷺ نے شروعات قیامت یا اس کے قرب کی علامات قرار دیا.چنانچہ حضرت حذیفہ بن اسید بیان کرتے ہیں کہ:.صلى الله ہم قیامت کا ذکر کر رہے تھے تو رسول اللہ علیہ تشریف لائے اور آپ نے فرمایا کہ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ اس سے پہلے دس نشان ظاہر نہ ہوں پھر آپ نے دخان ، دجال، مغرب سے سورج کے طلوع ہونے اور عیسی بن مریم کے ظہور ، یا جوج ماجوج کی آمد اور تین قسم کے خسوف یعنی زلازل مشرق ، مغرب اور جزيرة العرب میں اور دسویں ایک آگ کا ذکر کیا جو یمن سے نکلے گی اور لوگوں کو ان 66 کے حشر کی جگہ کی طرف ہانکے گی.‘“ ( مسلم كتاب الفتن باب في الآيات التي تكون قبل الساعة)
233 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی ہدیہ مہدویہ علامات زمانہ مہدی اور علمائے امت دجال اور یا جوج ماجوج کے ظہور پر امام مہدی نے ان کا مقابلہ کرنا تھا.جس زمانہ میں ان کا ظہور علمائے امت نے تسلیم کیا وہی زمانہ امام مہدی کا ہے.علامہ محمد زمان خان آف دکن نے 1293ھ میں ریل گاڑی کو قرب دجال کی علامت قرار دیا اور 1290ھ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ مامور ہوئے.ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 68: ہدیہ مہدویہ مصنفہ علامہ محمد زمان خان صفحه 89 مطبوعہ 1293ھ مطبع نظامی کانپور کواکب دریہ خواجہ حسن نظامی (متوفی : 1374ھ) نے چودھویں صدی میں گواہی دی کہ مسیح موعود نے یا جوج ماجوج ( مرا دروس اور انگریز قوم ) کو شکست دینی تھی.( کواکب دریہ صفحہ 163 - کتاب الامر از خواجہ حسن نظامی صفحه 5، 10،6 مطبوعہ 1913 ء درویش پر لیس دہلی ) حج الكرامه مہدی کی ایک علامت یہ تھی کہ ستارہ ذوالسنین اور دمدار ستارہ طلوع کرے گا.نتج الكرامه صفحه 345 مطبع شاہجہانی بھوپال.مکتوبات مجد والف ثانی دفتر دوم صفحه 244 مترجم قاضی عالم الدین صاحب نقشبندی مطبع عرفان افضل پریس لاہور ) ستارہ ذوالسنین 1299ھ میں نکلا.(اخبار روزگار 9 ستمبر 1983ء) اقتراب الساعة اقتراب الساعۃ میں ان علامات کے بیان کے بعد لکھا ہے کہ کتاب الاشاعۃ فی علامات الساعة" میں لکھا ہے :.یہ سب نشانیاں ان کے زمانہ میں موجود ہیں بلکہ روز بروز بڑھتی جارہی ہیں اور قریب ہے کہ انتہاء کو پہنچ جائیں..اس کے بعد نواب نورالحسن خان اپنی رائے لکھتے ہیں کہ یہ بات صاحب الاشاعۃ نے 1076ھ میں کہی تھی اب 1301ھ ہے.اب تو رہی سہی نشانیاں بھی پوری ہوگئی ہیں.( اقتراب الساعة مصنفہ نواب نورالحسن خان 1301 صفحہ 54 مطبع مفید علم الکائنہ آگرہ)
234 عکس حوالہ نمبر : 68 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی
235 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی عکس حوالہ نمبر: 68 ت کا سوم ین چنا نچہ فرمایا که يَسْتَلْكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ قَل السَّاعَةِ قُل إنما علمها عندال پر اس مقدمے میں حضرت اور و مين السائل اور اہل کتاب در گوگ برابر می چین ان ہر اہل اس کا ہے صاحب تقويم التاريخ ام اہل شام سے صاحب درس نے تحقیق ناہے کہ ولادت با سعادت کا ہین اور قیا من عيدة علم السَّاعَةِ لا يخليها زيوم خلقت الی یوم افقیت کا مدرج فی الحدیث ہے کہ کسی امی ہے کے موافق لفظ مثل الدنیا کو تو کے واسطے اضافہ کر دیا اورمسلم کتابی کی عبرت میں بیان تاہی پر اس واسطے کہ نص قرآنی کے مخالف پراور در کلام راوی اور کی وبیشی الفاظ : اسواسطے الفاظ حدیث کے محققین کے نزدیک مخلوط و مین چنانچه سران میں می جامع صغير من الماركه الدنيا سبعة أيام من ايام الاخرة ا ی اسکو دیلمی نے مسند فردوس انس نبی اللہ عنہ سے روایت کیا اور یہ حدیث ضعیف ہو اور الدنيا سبعة الان شته انا اخر ما القا کو طبرانی نے معجم پیرین اور بہیقی نے دلائل میں ضحاک برنج مل بہتی سے استاد و سی روایت کیا مر او ستایشی کہا کہ اس حدیث میں کچھ سا نہیں ہے اور الفاظ اسے نص 2 أو اسکی حقیقت سوبر امر تعالی کے کوئی نہیں جانتا ہو اور ابن اثیر وغیرہ محمدتی ہے تمام کہ الفاظ اس کے موضوع میں انتہی فائد ہ بیان اس امرین کریلوے اپنی گاڑانی وخانی کبھی علامت تور جال کی ہو مسلم نے انس بنی اللہ عنہ سے روایت کی کہ فرمایا رسول خدا صلی البته علیہ سارے السياسمين ر او سمون حال کا وریہ بھی روایت کی کہا ل استعمان اور یہ بھی اعض روایات میں آیا ہو گی رسکے تو وہ روٹیونگا اور پا بیان اس ام این که روی بینی کار میاد
نور الانوار 236 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی نور الانوار میں علامہ بروجردی نے ان علامات زمانہ کے بارہ میں لکھا ہے کہ:.وزراء ظالم ہو جائیں گے ، اہلِ معرفت خیانت کریں گے ، قراء فاسق ہوں گے، جھوٹی گواہی عام ہوگی، فسق و فجو را علانیہ ہوگا، بہتان اور تہمت زیادہ ہوگی، شریر لوگ معزز ہوں گے، عورتیں تجارت میں مردوں کے ساتھ شریک ہوں گی ، چھوٹے بڑے کیے جائیں گے، جھوٹے کی تصدیق کی جائے گی اور خیانت کار کو امین سمجھا جائے گا، عورتیں گانا بجانا کریں گی ، مرد عورتوں کی شکل و شباہت بالوں وغیرہ میں اختیار کریں گے اور عورتیں مردوں کا روپ اپنائیں گی ، مرد عورتوں کا لباس اور عورتیں مردوں کا لباس پہنیں گی ، طلب علم کی بجائے لوگ دنیا طلبی کی طرف زیادہ مائل ہوں گے اور دنیا کے کاموں کو دین پر مقدم کریں گے، لوگ بظاہر مومن و شفی نظر آئیں لیکن اندر سے درندے اور بھیڑیے ہوں گے اور دجال ظاہر ہوگا.“ ان علامات کا ذکر کرنے کے بعد صاحب کتاب لکھتے ہیں کہ :.یہ علامات کتاب کے سال تالیف 1268ھ میں موجود ہیں اور سالِ اشاعت کتاب 1273ھ میں تو اعلیٰ درجہ پر بالکل ظاہر وباہر نظر آتی ہیں بلکہ کئی لحاظ سے زیادہ روشن اور صاف طور پر یہ علامات پوری ہو چکی ہیں.(نورالانوار صفحہ : 138 - 139 مطبوعہ 1328ھ ) امام مہدی کے انصار اور ان کے فرائض خواجہ حسن نظامی اپنی کتاب امام مہدی کے انصار اور ان کے فرائض صفحہ:3 (مصنفہ 1912ء درویش پریس.دہلی ) میں لکھتے ہیں:- اس میں کوئی شک نہیں کہ جو آثار اور نشانات مقدس کتابوں میں مہدی آخر الزمان کے بیان کیے گئے ہیں وہ آج کل ہم کو روز روشن کی طرح صاف نظر آرہے ہیں اور مجبور التسلیم کرنا پڑتا ہے کہ زمانہ خیر البشر بعد از رسول حضرت محمد بن عبداللہ،.مہدی آخر الزمان علیہ الصلوۃ والسلام قریب آگیا ہے.“
237 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی ارشادات مهدی دوراں حضرت بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب ان تمام علامات کو اپنے زمانہ میں پورا ہونے کے متعلق فرماتے ہیں کہ:.اس آخری زمانہ کی نسبت خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ خبریں بھی دی تھیں کہ کتابیں اور رسالے بہت سے دنیا میں شائع ہو جائیں گے اور قوموں کی باہمی ملاقات کے لئے راہیں کھل جائیں گی.اور دریاؤں میں سے بکثرت نہریں نکلیں گی.اور بہت سی نئی کانیں پیدا ہو جائیں گی.اور لوگوں میں مذہبی امور میں بہت سے تنازعات پیدا ہوں گے.اور ایک قوم دوسری قوم پر حملہ کرے گی.اور اسی اثناء میں آسمان سے ایک صور پھونکی جائے گی.یعنی خدا تعالیٰ مسیح موعود کو بھیج کر اشاعت دین کے لئے ایک تجلی فرمائے گا.تب دین اسلام کی طرف ہر ایک ملک میں سعید الفطرت لوگوں کو ایک رغبت پیدا ہو جائے گی.اور جس حد تک خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے تمام زمین کے سعید لوگوں کو اسلام پر جمع کرے گا.تب آخر ہوگا.سو یہ تمام باتیں ظہور میں آگئیں.ایسا ہی احادیث صحیحہ میں آیا تھا کہ وہ مسیح موعود صدی کے سر پر آئے گا.اور وہ چودھویں صدی کا مجد د ہو گا.سو یہ تمام علامات بھی اس زمانہ میں پوری ہو گئیں.“ ( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 359 ایڈیشن 2008) نیز فرمایا : ” اور احادیث صحیحہ میں لکھا ہے کہ جب علامات کا ظہور شروع ہو گا تو تسبیح کے دانوں کی طرح جبکہ اُن کا دھاگہ توڑ دیا جائے وہ ایک دوسرے کے بعد ظاہر ہوتی جائیں گی.اس صورت میں ظاہر ہے کہ غلبہ صلیب کی علامت کے ساتھ اور تمام علامتیں بلا توقف ظاہر ہونی چاہئیں.اور جو علامتیں اب بھی ظاہر نہ ہوں اُن کی نسبت قطعی طور پر سمجھنا چاہئیے کہ وہ علامتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان
238 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی نہیں فرمائیں یا بیان فرمائیں مگر ان سے ان کے ظاہری معنے مراد نہ تھے کیونکہ جب علامات کا تسبیح کے دانوں کی طرح ایک کے بعد دوسرے کا ظاہر ہونا ضروری ہے، تو جو علامت اس نظام سے باہر رہ جائے اور ظاہر نہ ہو اس کا باطل ہونا ثابت ہوگا.دیکھو یہ علامتیں کیسی ایک دوسرے کے بعد ظہور میں آئیں (1) چودھویں صدی میں سے چودہ برس گزر گئے جس کے سر پر ایک مجدد کا پیدا ہونا ضروری تھا (2) صلیبی حملے مع مخش گوئی اسلام پر نہایت زور سے ہوئے جو کسر صلیب کرنے والے مسیح موعود کو چاہتے تھے.(3) ان حملوں کے کمال جوش کے وقت میں ایک شخص ظاہر ہوا جس نے کہا کہ میں مسیح موعود ہوں.(4) آسمان پر حدیث کے موافق ماہ رمضان میں سورج اور چاند کا گسوف خسوف ہوا.(5) ستارہ ذواسنین نے طلوع کیا وہی ستارہ جو حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت میں نکلا تھا جس کی نسبت حدیثوں میں پیشگوئی کی گئی تھی کہ وہ آخر زمان یعنی مسیح موعود کے وقت میں نکلے گا.(6) ملک میں طاعون پیدا ہوا ابھی معلوم نہیں کہاں تک انجام ہو.یہ بھی حدیثوں میں تھا کہ آخر زمان یعنی مسیح کے زمانہ میں طاعون پھوٹے گی.(7) حج بند کیا گیا.یہ بھی حدیثوں میں تھا کہ آخر زمان یعنی مسیح کے زمانہ میں لوگ حج نہیں کر سکیں گے.کوئی روک واقع ہوگی.(8) ریل کی سواری پیدا ہوگئی.یہ بھی حدیثوں میں تھا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ایک نئی سواری پیدا ہوگی جو صبح اور شام اور کئی وقت چلے گی اور تمام مدار اس کا آگ پر ہوگا اور صد ہا لوگ اُس میں سوار ہوں گے (9) باعث ریل اکثر اونٹ بے کار ہو گئے.یہ بھی حدیثوں اور قرآن شریف میں تھا کہ آخری زمانہ میں جو مسیح موعود کا زمانہ ہو گا اونٹ بے کار ہو جائیں گے.(10) جاوا میں آگ نکلی اور ایک مدت تک کنارہ آسمان سُرخ رہا.یہ بھی حدیثوں میں تھا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ایسی آگ نکلے گی.(11) دریاؤں میں سے بہت سی نہریں نکالی گئیں.یہ قرآن
239 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی شریف میں تھا کہ آخری زمانہ میں کئی نہریں نکالی جائیں گی.ایسا ہی اور بھی بہت سی علامتیں ظہور میں آئیں جو آخری زمانہ کے متعلق تھیں.اب چونکہ ضرور ہے کہ تمام علامتیں یکے بعد از دیگرے واقع ہوں اس لئے یہ ماننا پڑا کہ جو علامت ذکر کردہ عنقریب وقوع میں نہیں آئے گی وہ یا تو جھوٹ ہے جو ملایا گیا اور یا یہ سمجھنا چاہئیے کہ وہ اور معنوں سے یعنی بطور استعارہ یا مجاز وقوع میں آگئی ہے.اور طریق عقلی بھی یہی چاہتا ہے کہ مسیح موعود کا اسی طرح ظہور ہو کیونکہ عقل کے سامنے ایسی کوئی سنت نہیں جس سے عقل اس امر کو شناخت کر سکے کہ آسمان سے بھی لوگ صدہا برس کے بعد نازل ہوا کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کے نئے نشان بھی یہی گواہی دے رہے ہیں.کیونکہ اگر یہ کاروبار انسان کی طرف سے ہوتا تو بموجب وعدہ قرآن شریف چاہیئے تھا کہ جلد تباہ ہو جاتا.لیکن خدا اس کو ترقی دے رہا ہے.بہت سے نشان ایسے ظاہر ہو چکے ہیں کہ اگر ایک منصف سوچے تو بدیہی طور پر ان نشانوں کی عظمت اُس پر ظاہر ہوسکتی ہے.“ ایام اصلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 312-314 ایڈیشن 2008) پھر فرمایا: ”جس مہدی یا مسیح نے آنا تھا وہ آچکا.کیا ضرور نہ تھا کہ وہ مسیح غلبہ صلیب کے وقت آتا؟ کیا سب سے اول درجہ کی علامت مسیح موعود کی یہ نہیں ہے کہ وہ صلیب کے غلبہ میں آئے گا.اب خود دیکھ لو کہ اس تیرہ سو برس کے عرصہ میں صلیبی مذہب کس قدر ترقی کرتا گیا اور کس قدر نہایت سُرعت کے ساتھ اس کا قدم دن بدن آگے ہے.ایسی قوم ملک ہند میں کونسی ہے جس میں سے ایک جماعت اس مذہب میں داخل نہیں کی گئی.کروڑہا کتابیں اور رسالے دینِ اسلام کے رڈ میں شائع ہو چکیں یہاں تک کہ اُمہات المومنین جیسی گندی کتاب بھی تمہاری تنبیہ کے لئے عیسائیوں کے ہاتھ سے شائع ہوئی.بیچاری چودھویں صدی میں سے بھی جس
240 علامات مسیح و مہدی اور چودھویں صدی پر ایسی ضرورت کے وقت میں مجدد نے آنا تھا سولہ 16 برس گزر گئے لیکن آپ لوگوں نے اب تک مسیح موعود کی ضرورت محسوس نہیں کی.زمین نے صلیبی مذہب کے غلبہ کی وجہ سے مسیح موعود کی ضرورت پر گواہی دی اور آسمان نے خسوف کسوف کو رمضان میں عین مقررہ تاریخوں پر دکھلا کر اُس مہدی معہود کے ظاہر ہو جانے کی شہادت دی.اور جیسا کہ مسیح کے وقت کی نشانی لکھی تھی اونٹوں کی سواری اور بار برداری میں بھی ریل گاڑیوں نے فرق ڈال دیا اور جیسا کہ علامات میں لکھا تھا ملک میں طاعون بھی پھوٹی ، حج بھی روکا گیا اور اہلِ کشف نے بھی اسی زمانہ کی خبر دی اور نجومی بھی بول اُٹھے کہ مسیح موعود کا یہی وقت ہے اور جس نے دعویٰ کیا اُس کا نام بھی یعنی غلام احمد قادیانی اپنے حروف کے اعداد سے اشارہ کر رہا ہے یعنی تیرہ سو 1300 کا عدد جو اس نام سے نکلتا ہے وہ بتلا رہا ہے کہ تیرھویں صدی کے ختم ہونے پر یہی مجدد آیا جس کا نام تیرہ سو کا عدد پورا کرتا ہے.مگر آپ لوگوں کی اب تک 66 آنکھ نہیں کھلی.“ اسی حوالہ کے حاشیہ میں فرمایا:.اخبار ڈان میں جس سے پرچہ ٹریبیون مورخہ 8 جولائی 1899 ء نے نقل کیا ہے ایک فاضل منجم کی یہ پیشگوئی شائع کی گئی ہے کہ 1900 عیسوی کے ساتھ ایک نیا دور شروع ہوتا ہے اور یہ دونوں سن یعنی 1890ء تا 1900 ء ایک عظیم الشان دورہ ختم کرتے ہیں جس کے خاتمہ پر سورج منطقه البروج کے ایک نئے بُرج میں داخل ہوتا ہے اور اس ہیئت کی تاثیر سے یعنی جبکہ سورج ایک نئے برج میں داخل ہو جیسا کہ قدیم سے ہوتا رہا ہے.1900ء میں زمین پر مسیح کلمۃ اللہ کا ایک نیا اوتار اور خدا کا ایک نیا مظہر ظہور کرے گا اور وہ مسیح کا مثیل ہوگا اور دنیا کو بیدار کر کے ایک اعلیٰ زندگی بخشے گا.دیکھوٹر یون 8 جولائی 1899 ء مطبوعہ لاہور تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 158-157 ایڈیشن 2008)
241 مسیح و مہدی کا شدت سے انتظار مسیح و مہدی کا شدت سے انتظار تیرھویں اور چودھویں میں بڑی شدت ، بے قراری اور اضطراب سے مسیح و مہدی کا انتظار تمام مذہبی حلقوں میں کیا جارہا تھا.ایک طرف علمائے امت کو اس کا زمانہ پا کر اُسے رسول اللہ کا سلام پہنچانے کی تمنا تھی تو دوسری طرف عوام الناس سراپا انتظار.مسلمان شعراء اس کی عظمت وشان اور مدح و ستائش میں نغمہ سرا تھے اور اپنے قصیدوں کے ہار لیے اس موعود کیلئے چشم براہ.صوفیائے کرام اور اولیائے عظام وصیتیں کرتے گذرے کہ جب مہدی آئے تو اسے قبول کرنا ، اسے رسول اللہ کا سلام پہنچانا اور وہ اس کے جلد ظہور کیلئے خدا کے حضور دست بدعا ر ہے.وصیت حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی (متوفی: 1175ھ ) 66 حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے اپنی ایک وصیت میں لکھا ہے:.اس فقیر آرزوئے تمام دارد اگر ایام حضرت روح الله علیه السلام را در یابد اول کسے کہ تبلیغ سلام کند من باشم وگر من آنرا نہ دریافتم ہر کسے کہ از اولا دیا اتباع ایس فقیر زمان بہجت نشان آنحضرت علی نبینا وعلیه السلام در یا بد حرص تمام کند در تبلیغ سلام تا کتیبه آخره از کتائب محمد یه ما باشیم “ یعنی یہ فقیر انتہائی آرزو رکھتا ہے کہ اگر امام مہدی اس عاجز کے زمانہ میں ظاہر ہوں تو پہلا شخص حضرت امام مہدی کو اپنے پیارے آقا کا سلام پہنچانے والا یہ فقیر ہو.اگر میری اولا دیا میرے متبعین کے زمانہ میں امام مہدی کا ظہور ہو تو پورے خلوص اور شوق کے ساتھ نبی پاک کا سلام ان کی خدمت میں پیش کریں تا کہ ہم محمدی لشکر کے آخری دستہ میں شامل ہوں.ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 69: مجموعہ رسائل امام شاہ ولی اللہ جلد دوم صفحہ 534 شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی
242 عکس حوالہ نمبر : 69 مجموعة مسیح و مہدی کا شدت سے انتظار رسائل امام شاہ ولی اللہ جلد دوم (فقه ، تاریخ فقه، اجتهاد و تقلید تفسیر واصول تفسیر ، تاریخ علوم وفنون ، نظر یہ تعلیم اور وصیت نامہ میر تقتل امام شاہ ولی اللہ کے نادر و نایاب رسائل و کتب کا گرانقدر مجموعہ ) ترتیب و تقديم مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی شاہ ولی اللہ انسٹی ٹیوٹ
243 عکس حوالہ نمبر : 69 ۵۳۴ مسیح و مہدی کا شدت سے انتظار ریموں کا جاری کر لیتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کے موقعوں کے لئے دو چیزیں مقرر فرمائیں ہیں، ولیمہ کی دعوت اور عقیقہ، ان دونوں کو اختیار کرنا چاہئے اور ان کے علاوہ دوسری چیزوں کو ترک کرنا چاہئے یا ان کا زیادہ اہتمام نہ کرنا چاہئے ، ہم لوگوں کے ہاں ایک اور بری رسم یہ ہے کہ ماتم کے سلسلے میں سوئم ، جہلم، شش ماہی اور سالانہ فاتحہ پر بہت اسراف کرتے ہیں، ان سب رسموں کا عرب اولین میں بالکل وجود نہ تھا، صحیح بات یہ ہے کہ تین دن تک میت کے وارثوں کی تعزیت اور انھیں ایک دن ایک رات کھانا دینے کے علاوہ اور کوئی رسم نہ کی جائے ، میت ہو جانے کے تین دن بعد خاندان کی عورتیں جمع ہوں اور مرنے والے کے رشتہ دار عورتوں کو خوشبو لگائیں اور اگر اس کی بیوی ہے تو وہ عدت ختم ہو جانے کے بعد سوگ ختم کر دے.ہم میں سے خوش قسمت وہ ہے جو عربی زبان کی صرف و نحو اور اس کی کتب ادب سے مناسبت پیدا کرے، حدیث اور قرآن میں سے اسے درک حاصل ہو ، فارسی و ہندی کتابوں ، علم شعر، معقولات ، اس سلسلے کی جو دوسری چیزیں پیدا ہوگئی ہیں، ان میں مشغول ہونا اور تاریخ ، بادشاہوں کی سرگزشتوں اور صحابہ کے باہمی نزاعات کا مطالعہ کرنا گم راہی در گم راہی ہے، اگر رسم زمانہ ان چیزوں میں مشغول ہونے کی مقتضی ہو تو یہ ضروری بات ہے کہ وہ اسے علم دنیوی سمجھیں، اس سے متنفر رہیں اور توبہ واستغفار اور اظہار ندامت کرتے رہیں، ہمارے لئے یہ لازمی ہے کہ حرمین محترمین جائیں اور ان کے آستان پر اپنی پیشانی رگڑیں، اس میں ہمارے لئے سعادت ہے اور اس سے پہلو تہی کرنے میں ہمارے لئے شقاوت ہے..آٹھویں وصیت ، حدیث شریف میں آیا ہے." من ادرک منکم عیسی بن مریم فليقرأ منى السلام (۱) ( جو تم میں عیسی بن مریم کو پائے تو وہ میرا انھیں سلام دے ) اس فقیر کی یہ پوری آرزو ہے کہ اگر اسے حضرت روح اللہ علیہ السلام کا زمانہ ملے تو سب سے پہلے جو انھیں سلام کہے ، وہ میں ہوں، اگر میں وہ زمانہ نہ پاؤں تو اس فقیر کی اولاد یا متبعین میں سے جو بھی ان کے مبارک زمانے کو پائے ، وہ انھیں سلام پہنچانے کی پوری کوشش کرے تا کہ ہم محمدی تشکروں میں سے آخری شکر ہوں، پس سلام ہو، اس پر جو ہدایت کی اتباع کرے.(1) اس حدیث کو الحاکم نے اپنی مستدرک میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے.
244 مسیح و مہدی کا شدت سے انتظار اظہار ہے.منظوم کلام میں مسیح و مہدی کے لئے تڑپ کا اظہار چند بزرگ مسلمان شعراء کے اشعار بطور شہادت پیش ہیں جن میں امام مہدی کے لئے تڑپ کا حضرت شیخ فریدالدین عطار نیشا پوری (متوفی : 620ھ) مشہور صوفی بزرگ و شاعر حضرت شیخ فریدالدین عطار نیشا پوری فرماتے ہیں:.صد ہزاراں اولیاء روئے زمیں از خدا خواهند مهدی یقیں یا الہی مهدیم از غیب آر بہترین خلق برج اولیاء یعنی لاکھوں اولیائے کرام نے یقین کے ساتھ مہدی علیہ السلام کو خدا سے چاہا اور ان کے ظہور کی دعائیں کیں.اے میرے اللہ ! میرے مہدی کو عالم غیب سے ظاہر فرما جو مخلوق میں سے سب سے بہتر اور اولیاء میں ”بر ج“ کا مقام رکھتے ہیں.ینابیع المودة جلد 3 صفحه 532 از شیخ سلیمان ناشر موسسه الاعلی مطبع بیروت، لبنان) دل محمد شاد پسروری دل محمد شاد پسروری سکھوں کے پُر آشوب دور میں ملکی حالات کا تذکرہ ایک درد انگیز نظم میں کرتے ہوئے مہدی کو اس طرح پکارتے ہیں:.امام مہدی آخر زماں بیا وقت ندانم از تو شود که ظهور قسمت یا اے امام مہدی تشریف لائیے کہ وقت آپ کے ظہور کا تقاضا کرتا ہے.وائے قسمت میں نہیں جانتا کب آپ کا ظہور ہوگا.تذکرہ شعرائے پنجاب صفحہ 148 مؤلفہ خواجہ عبدالرشید ایڈیشن 1981ء)
245 مسیح و مہدی کا شدت سے انتظار محمد رفیع سودا ( متوفی: 1195) اردو زبان کے مشہور شاعر محمد رفیع سودا فرماتے ہیں:.اے شاہ دیں پناہ شتابی ہوویں شاد تو دشمن تا دوست کر ہو ظہور پائمال کلیات سود اصفحہ 263، مطبع منشی نولکشور لکھنو 1932 ء) امام بخش ناسخ (متوفی : 01254 ) امام بخش ناسخ ، قرب زمانہ مہدی کا اعلان یوں کرتے ہیں:.آمد مهدی و عیسی ہے قریب اے ناسخ کہہ دے اب قوم نصاری کو مسلماں ہووے کلیات ناسخ جلد اول صفحہ 254 مدون ڈاکٹر اور نگ زیب عالمگیر، مطبع پنجاب یونیورسٹی پریس لاہور.2012ء) سید شکیل سہسوانی منشی سید شکیل احمد سہسوانی اسلام کی حالت زار کے مرثیہ میں مہدی کی آمد کا شدت سے انتظار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.دین احمد کا زمانه ނ مٹا جاتا ہے نام قہر ہے اے میرے الله ! ہوتا ہے ٹوٹ پڑتا نہیں کس واسطے یا کیوں زمیں شق نہیں ہوتی 6 فلک تماشا کیا ہے لیے مہدی برحق نہیں ظاہر ہوتے عیسی کے اترنے میں خدایا کیا ہے کس عالم الغیب ہے، آئینہ ہے کیا کہوں ملت اسلام کا نقشہ کیا ہے حال الحق الصريح في حياة أسبح صفحہ 133 مطبوعہ 1309 مطبع انصاری دہلی ) الصرح في
246 مسیح و مہدی کا شدت سے انتظار حکیم محمد مومن ( متوفی : 1269ھ) حکیم محمد مومن مہدی کو سلام پہنچانے کیلئے بے قراری کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:.زمانه مهدی موعود تو کا پایا اگر مومن پہلے تو کہیو سلام پاک حضرت کا (کلیات مومن صفحہ 52 سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور 2007ء) امام الطائفہ صوفیائے کرام حضرت سید بے نظیر شاہ صاحب (متوفی : 1932ء) امام الطائفہ صوفیائے کرام حضرت سید بے نظیر شاہ صاحب قادری حسینی کا منظوم کلام ” جواہر بے نظیر تولکشور لکھنو سے چھپا.جس کی پیشانی پر بے نظیر مقدس الہامی مثنوی اور ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ کا عنوان رقم ہے اور طویل القابات آپ کے نام کے ساتھ لکھے ہیں.آپ آنحضرت ﷺ کی مدح کرتے ہوئے مہدی کا ذکر بھی کرتے ہیں:.معلوم معلوم تھا تھا ظہور کچھ فتور انداز پیشن بھی زمانے کا آئیں بھی جب تک پڑے گا نہ مہدی کا اس نظم جو وہ بڑھ جائے گا تازہ کریں گے مصالح کی گھٹانے حد ره و فساد داد رو ނ وہ مخلص نواز بڑھانے کے ہوں گے مجاز کر لحاظ ضرورت کریں اصل شریعت کریں ނ و وہ
وہ انہیں وہ اصول 247 سیرت وہ کمالات بھی شریعت کی ساری خدائی ہو محمد دے تجدید گا توحید مسیح و مہدی کا شدت سے انتظار ہو ہو (جواہر بے نظیر صفحہ 9-10 مطبع منشی نولکشور لکھنو) پھر بارگاہ ایزدی میں مناجات کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.پلا ساقیا اب وہ جام طہور دیکھوں ان آنکھوں سے مہدی کا نور اب تنگ آ رہا ہوں بہت جی ނ میں موید ہوں تائید غیبی ނ میں که خاصان میں اونوا پھدی سے اول رفیقان مهدی ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 70 : جواہر بے نظیر صفحہ 21.مطبع منشی نولکشور لکھنو ہوں ہوں
248 عکس حوالہ نمبر : 70 ذلك الكتاب لا ريب فيه مسیح و مہدی کا شدت سے انتظار ٢١/ ب کو لانا بینظیر مقدس الها می شنوی الكلام المطابقة صوفيا کا پہلا صحیفہ لینے مقدمات جوابے نظیر رفت پاکحال - مطب غشی نولکشور موقع کی مین چھپا ما مقبول بار کا
249 عکس حوالہ نمبر : 70 ۲۱ مسیح و مہدی کا شدت سے انتظار جواہر منظر طر مناجات پلا ساقیا اب وہ جام طور کہ دیکھوں ان آنکھون سے مہندی کا نوب ون ان بنا پیر خمن انه لطفی خاص کر اس بزم مین ہوں انصقر الجو میں بنگ آرہا ہوں بہت جی سے مین موید ہوں تائید غیبی سے مین کر عشق و تمیز پر جوش دے مجھے عین مستی میں تو ہوش دے کہ خاصان او و ایملی سے ہوں میں اول رفیقان مہدی سے ہوں پلا وہ مر حکمت بالعنہ کہ کا منہ بھی ہو شمس سان بازنه کرون ہر طرح سے میں رفع فساد زبان قلم بھی ہو تیغ جہاد حرم میں نہ جب تک ہون وار حضور نگہداشت پر حاسدون سے ضرور سلامی مجھے دے وہ شان کمال کہ ہو جس میں تیرا جمال و جلال عطا کر وہ شمشیر بران مجھے کرے اپنا آصف سلیمان مجھے فراغت جو ہر فرض منصب سے ہو تو قطع تعلق بیان سب سے ہو جو ہو کل مشاغل سے فرصت مجھے ملے اسپر میری اجازت مجھے تو پھر مین حرم کا مسافر بنون مدینے کی جانب مہاجر بنون مخالف مصالح کے ہو یہ اگر وطن ہی میں مرکر مجھ کو گریم سفر میں
250 حافظ بارک اللہ لکھو کے والے ( متوفی :1266ھ) فرماتے ہیں:.عکس حوالہ نمبر: 71 سیح و مہدی کا شدت سے انتظار 9
251 عکس حوالہ نمبر : 71 حیح و مہدی کا شدت سے انتظار سلم قولا واليوم الآخرالز سائل از کتابها یشی نوا است ام هشت بزر دو ورق نا جابی زبان سیل غیر منقول انا واقع بینا احادیث مکتب معتبر ۱۲ ش توله سی دو نفخر مستورات الحنفی نے امید کن وصور جینے کرنا ومقتول بنے نظمی گشته با بستر تالین انواع ماخرت کرو بر ین سال ر دو بار خواهد بود که برای میدانید یکه ریقہ سے اس بار بود و ند کور سود سویم منے روایات بعد از انحله بسیار ر احمال الآخرت داشته ام لا له تر لانوین حضرت معاویه جان تبانی با خاص اصحاب اوستون برانه ترکیه ای او را و صورات بعد انان تعین تا بدین بزرگات بات جو یہ بہتان ہے توین برینا بی امان به عقیده بنیان کیتا ایه بیان تا کفرون شده گوران به توان دینی جوانی واليوم الأخير منے منیر روز قیام بھی ملنے دیاں سختیان این حق تمام منا کے نکمیر را و چوب سوال جو ان سب کا فر بیضے عاصیان قهری حق صدام یہی علامات قیا تے این حق تمام حضرت عینی آویسی مهدی بود امام تا رجال العین نوان کر یہ سے اور فضاہ دوست قدیم یا جوج ماجوجه ی ظاہر تو کیا بنیان بونشانیان کریمی رباعیات بی دانه انار من بد انما مر مروان بیانی مغرب بنون اوسی صورت نیک وال | البلوسی اور بیان پست یک وبال ابھی دو نتے صورت سے جو سن استمارا پہلے نفره بان تون مورت تخلق منا باقی مہین بست نوال مورمن فطر تمرین بیان جنت و نرخ مروح کان کیسے عرشی یکی از دو تو لفی مورد علامت استان های کرسی موریان پیوند می رون انها انو ته پانام نیکی بدی تولیسیا تجنب تراز و حق بھی نام اعمالہ سے حسن به بیشک سے ملین مومنان کہتے ہیہ عناب پینے و جوان کی جن کے بہ او نما ندہ سے یاس ہاتہ جناب پرندی و میان ایسی تو کیا حرصات قیامت میں ہونے تک نے آن انتومین حق کی بیان تو ان جنگون است اما در بیا ایسے تمشیر تمدین کا لی کنوان است است ایسی نیس تمامیان وانون کے امور نے اور که بر گیا ئے سجے تو ان ترامی بهزاران کود توان پهلوان است کی بنیا ندا مروا بسر کل جهاندا است و انه نخوا امت کاران منگے ، بین فصل عطا ین نفس عطا حمه فرشته برای نگس کہا دوما است قالین بچھے جنگو سی خلقت دارو را مومن چیره بینگ این شهر من کل کیا کیا پنجے وانگوں کا بیضے وانگوان دار نے بعضے جو ہوا صدایت نکرده که ها را می بست مریم مورد ریت آمده که صراف رہنے کسان را با دوزخ اریک تریاز موی باشد و ین و بازاریابان هران باشد و در روایتی اشه و اوان من است خام رین باستان خود بگنده زنده گیسو میدان روز سخن گویز خبر موهایی و کانام رسولان توان در این - ملا علی قاریان یا جوج ماجوج کی قوم ظاہر ہوگی.ینگر، ترجمہ: یہی قیامت کی تمام علامات ہیں، حضرت عیسی اور امام مہدی آئیں گے تاکہ وہ ملعون دجال کو تباہ کریں.پھر
متفرق اشعار 252 مسیح و مہدی کا شدت سے انتظار اس دور کے فلسفی شاعر علامہ اقبال بھی مہدی کے منتظر نظر آتے ہیں.لکھتے ہیں :- دنیا ہو کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت جس کی نگہ زلزلة عالم افکار ( مهدی بر حق از ضرب کلیم صفحہ 36 - مطبع اظہار سنز پرنٹرز لا ہور ) اے وہ کہ تو مہدی کے تخیل نومید نہ کر آہوئے مشکیں ނ ہے بیزار ختن کو مهدی از ضرب کلیم صفحہ 47 - مطبع اظہار سنز پرنٹرز لا ہور ) پھر کہتے ہیں :- سوار اشہب دوراں بیا فروغ ديدة امکاں بیا کہ اے شہسوار زمانہ ! جلد تشریف لائیے اور اسے دنیا کی آنکھوں کی رونق ! جلد ظاہر ہو.( مثنوی اسرار خودی مرحله سوم نیابت البی از اسرار ورموز صفحہ 51.شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور 1964) 1912ء میں اخبار وطن میں ایک دردانگیز نظم شائع ہوئی.جس کا پہلا شعر یہ تھا:.ظهورت شتاب گن صاحب الزمان یا عالم زدست رفت تو یا در رکاب من یعنی اے صاحب الزمان جلد ظہور فرمائیے کیونکہ جہان ہاتھ سے گیا جلد تیار ہوئے.( اخبار وطن 1912 ء علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ ) جناب اثر بخاری نے شیعہ رسالہ معارف اسلام ” صاحب الزمان نمبر“ میں ایک نظم ” آئیے کے عنوان سے لکھی ہے.جس میں بے چین ہوکر مہدی منتظر کو پکارا ہے.لکھتے ہیں:.اے جانشین احمد مختار آئے اے ورثه دار حیدر کرار آیئے
حد ނ 253 مسیح و مہدی کا شدت سے انتظار بڑھ گئی ہیں مظالم کی سختیاں جتنا بھی جلد ہو سکے سرکار آیئے J.آ بھی جائیے گا مرے منتظر امام منتظر ہیں عزادار آپے ارمان شوق زیارت لیے ہوئے بیٹھے ہوئے ہیں طالب دیدار آیئے سید حیدری صاحب اشک رضوی انتظار مہدی سے بے قرار ہو کر یوں گویا ہیں:.میرے مولا تھک گئی ہے اب تو چشم انتظار تو شوق دید اے آقا ! گیا آ کہ ہو گذر ہے اب درہم برہم نظام کائنات چلا شیرازه ارض ایک اور قطعہ ملاحظہ ہو:., سما زیر , زبر نگاه چشم براه ہے حضور T بلاکشان محبت کو یوں جائیے تڑپائے ہیں آزما انتظار کی گھڑیاں امام خدا را ظہور فرمائیے ( معارف اسلام جنوری 1966، صفحہ 20.مدیر غیاث الدین ، ناشر ادارہ معارف اسلام لاہور ) جناب اقبال حسین اقبال سونی پتی کہتے ہیں:.بغیر امیر پریشاں ہے کاروان جہاں بھگت رہا ہے سزا اس کو بھول جانے کی ( معارف اسلام اپریل 1976 ، صفحہ 11 - مدیر غیاث الدین ، ناشر ادارہ معارف اسلام لاہور )
254 جناب علی زیدی قصیدہ درشان امام زمانہ میں لکھتے ہیں:.مسیح و مہدی کا شدت سے انتظار رہے گا جستجو میں اے خدا قلب تپاں کب تک رہے گا دیکھنا رہے دل ہے بار گراں کب تک خدا کے واسطے اب تو نقاب رُخ ہٹا دیں نا گا دل یہ بے تاب سر بار گراں کب تک بہت ڈھونڈا ملتا نہیں تیرا کہاں جاؤں رہیں تاریک آنکھوں میں میری کون و مکاں کب تک ( معارف اسلام مئی 1976 ء.مدیر غیاث الدین ، ناشر ادارہ معارف اسلام لاہور ) بزرگ شعراء کے یہ چند نمونے اس امر کا ثبوت ہیں کہ مہدی موعود کی آمد کا انتظار چودھویں صدی میں کتنا شدید تھا، دنیا سراپا انتظار تھی.مگر افسوس صد افسوس !!! جب وہ آیا تو دنیا نے اس کا انکار کر دیا.اس آنے والے مسیح و مہدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی صاحب نے تاسف کے ساتھ کیا خوب فرمایا:.یاد وہ دن جب کہ کہ کہتے تھے یہ سب ارکان دین مهدی موعود حق اب جلد ہو گا آشکار کون تھا جس کی تمنا تھی اک جوش سے کون تھا جس کو نہ تھا اس آنے والے سے پیار وہ دن جب آ گئے اور چودھویں آئی صدی اوّل ہو گئے منکر یہی دیں کے منار پھر پھر دوبارہ آگئی احبار پھر میسج وقت کے دشمن ہوئے میں رسم یہود دار در مشین اردو صفحہ 157-158 اسلام انٹر نیشنل پبلی کیشنز لمیٹڈ )
255 دعوی مسیح و مهدی حضرت بانی جماعت احمدیہ کا دعویٰ مسیح و مہدی اور مخالفت مہدویت کا وہ دعوے دار جسے ہم احمدیوں نے قبول کیا اور اس کامل یقین کے ساتھ اس پر ایمان لائے کہ بارہا اپنے گھر جلوا دیے اور زندگی بھر کی متاع لٹوا دی.جس پر ہمیں ایسا کامل یقین تھا کہ ہمارے بڑے، بچے ، عورتیں اور مرد ذبح کیے گئے مگر اس پر بھی ہمارا ایمان متزلزل نہ ہوا بلکہ ہر ابتلاء پر پہلے سے بڑھتا رہا.ہاں اس عظیم امام کے اپنے الفاظ میں اس کے دعوئی کا کچھ ذکر پیش کرناضروری ہے تا کہ وہ لوگ جن کو اللہ تعالیٰ روحانی بصیرت عطا فرماتا ہے اور اہل اللہ کو پہچاننے کی قدرت رکھتے ہیں وہ خود اپنے دل کے نور سے اس امر کا فیصلہ کریں کہ بلاشبہ یہ آواز ایک سچے اور پاک انسان کی آواز ہے اور اس کلام میں نفس اور شیطان کے وساوس کا کوئی دخل نہیں.امام زمانہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:.” جب تیرھویں صدی کا اخیر ہوا اور چودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجد د ہے.“ (کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 201 بقیہ حاشیہ ایڈیشن 2008) بذریعہ وحی الہی میرے پر بتصریح کھولا گیا کہ وہ مسیح جو اس امت کیلئے ابتداء سے موعود تھا وہ آخری مہدی جو تنزل اسلام کے وقت اور گمراہی کے پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست خدا سے ہدایت پانے والا..جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریم ﷺ نے دی تھی وہ میں ہی ہوں.“ ( تذکرۃ الشهادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 3-4 ایڈیشن 2008) پھر فرماتے ہیں:.مجھے اس خدا کی قسم ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس پر افتراء کرنا لعنتوں کا
256 دعوی مسیح و مهدی کام ہے کہ اُس نے مسیح موعود بنا کر مجھے بھیجا ہے.“ ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 210 ایڈیشن 2008) اب جبکہ چودھویں صدی ختم ہو چکی ہے.آج بھی بعض کم فہم لوگ چودھویں صدی کے موعود کے آسمان سے اترنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں.حضرت بانی جماعت احمدیہ نے کیا خوب فرمایا کہ آنیوالا آ گیا.اب کسی اور کا انتظار فضول ہے بفرض محال آسمان سے کوئی اُتر بھی تو سب سے پہلے ہم اس کو قبول کریں گے لیکن یہ امید میں عبث ہیں.آپ کس شان اور تحر ی سے فرماتے ہیں:.یا درکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا.ہمارے سب مخالف جو ، اب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر ان کی اولا دجو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولا د کی اولا دمرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی.تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گذر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا.تب دانشمند یکدفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کا انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ ختم بویا گیا.اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.“ پھر فرماتے ہیں:.( تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 67 ایڈیشن 2008 ) سو یہ عاجز عین وقت پر مامور ہوا.اس سے پہلے صدہا اولیاء نے اپنے الہام
جائے گی؟ 257 سے گواہی دی تھی کہ چودھویں صدی کا مجد دسیح موعود ہوگا اور احادیث صحیحہ نبویہ پکار پکار کر کہتی ہیں کہ تیرھویں صدی کے بعد ظہور مسیح ہے.پس کیا اس عاجز کا یہ دعویٰ اس وقت عین اپنے محل اور اپنے وقت پر نہیں ہے؟ کیا یہ مکن ہے کہ فرمودۂ رسول خطا جاوے؟ میں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اگر فرض کیا جائے کہ چودھویں صدی کے سر پر مسیح موعود پیدا نہیں ہوا تو آنحضرت ﷺ کی کئی پیشگوئیاں خطا جاتی ہیں اور صد ہا بزرگوار صاحب الہام جھوٹے ٹھہرتے ہیں.“ دعوی مسیح و مهدی ( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 340 ایڈیشن 2008) وائے افسوس !! کیا ہزاروں اولیائے کرام اور بزرگانِ سلف کی گواہی بلا وجہ جھوٹ قرار دے دی آه صد آه !! ہزاروں صاحب کشف والہام صوفیائے عظام کے کشوف والہامات کو کیا کرو گے؟ کیا رسول اللہ کی پیشگوئیوں کو چھوڑ دو گے؟ حق یہ ہے کہ جب آنے والا آ گیا جس کا صدیوں سے انتظار تھا تو اسے قبول کرنا ہی عین سعادت ہے.اے کاش !! دنیا اب بھی اس عین وقت پر آنے والے امام منتظر کی آواز پر کان دھرے.اُس نے کیا خوب کہا: وہ آیا منتظر تھے جس کے دن رات كهل گیا روشن ہوئی بات دکھائیں آسماں نے ساری آیات زمیں نے وقت کی دے دیں شہادات پھر اس کے بعد کون آئے گا ہیہات خدا کچھ ڈرو چھوڑو معادات خدا نے جہاں کو ـان الّذى أخزى الان سنا دی الاعــ ادی
258 دعوی مسیح و مهدی منکر دین مسیح موعود کیلئے لمحہ فکریہ! بالآخر طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نصوص قرآنیہ، ارشادات نبویہ اور اولیائے کرام و بزرگان اسلام کے رویا و کشوف اور علمائے عظام کے مستند حوالوں کے باوجود عین وقت پر آنے والے اس مسیح موعود کا آخر انکار کیوں کیا جا رہا ہے.حتی کہ بڑے بڑے علماء اس کے منکر ہیں.تو یا درکھنا چاہیے کہ جس طرح ہمیشہ خدا کے فرستادوں کا انکار ہوتا آیا ہے، جیسا کہ فرمایا: - وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمُكُرُوا فِيهَا (الانعام 124) مسیح موعود کا انکار بھی اس کی صداقت کی ایک اور نشانی اور زبردست دلیل ہے کیونکہ بزرگانِ سلف نے خدا سے علم پا کر یہ بھی لکھا تھا کہ مہدی کا انکار کیا جائے گا.جیسا کہ صاحب کشوف حضرت علامہ ابن عربی نے پیشگوئی فرمائی کہ:- ” جب مہدی ظاہر ہوں گے تو اُن کے خاص دشمن صرف فقہاء ہوں گے.“ ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 72: فتوحات مکیہ جزء الثالث صفحہ 328.داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان اسی طرح حج الکرامہ میں نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھی اس کی تائید میں لکھا کہ :- ” مہدی کی سخت مخالفت ہو گی اور علمائے وقت ان پر دجال کا فتویٰ دیں گے.“ ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 73 : حجج الکرامہ صفحہ 363 مطبع شاہجہانی بھوپال مکتوبات مجد دالف ثانی شیخ احمد سر ہندی میں ذکر ہے کہ علماء عیسی علیہ السلام کے بعض دقیق مسائل اور لطیف تشریحات کے باعث ان کا انکار کریں گے.ملاحظہ ہو کس حوالہ نمبر 74 : مکتوبات امام ربانی مترجم دفتر دوم مکتوب 55 صفحہ 195 - مترجم قاضی عالم الدین نقشبندی مطبع عرفان افضل پریس لاہور
259 عکس حوالہ نمبر: 72 الفتوحات المكية في معرفة الأسرار المالكية والملكية تأليف الشيخ الأكبر محيي الدين محمد بن علي بن محمد بن أحمد بن عبد الله الطائي، الحاتمي المعروف بابن عربي (توفي سنة ٦٣٨ هـ) الجزء الثالث قدم له محمد عبد الرحمن المرعشلي طبعة جديدة مصححة ومخرجة الآيات إعداد مكتب التحقيق بدار إحياء التراث الإسلامي دار احياء التراث العربي بيروت - لبنان دعوی مسیح و مهدی
ނ 260 عکس حوالہ نمبر: 72 ٣٦٦ ــ باب في معرفة منزل وزراء المهدي الظاهر في آخر الزمان الذي بشر به رسول الله ﷺ وهو من أهل البيت ۳۲۷ و أنه معصوم ولا معنى للمعصوم في الحكم إلا أنه لا يخطىء، فإن حكم الرسول لا ينسب إليه خطأ، فإنه ﴿ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْمَوَى إِنْ هُوَ إلَّا وحى يُوحَى ) [ النجم : ٣، ٤] كما أنه لا يسوع القياس في موضع يكون فيه الرسول ل موجوداً وأهل الكشف النبي عندهم موجود فلا يأخذون الحكم إلا عنه، ولهذا الفقير الصادق لا ينتمي إلى مذهب إنما هو مع الرسول الذي هو مشهود له، كما أن الرسول مع الوحي الذي ينزل عليه فينزل على قلوب العارفين الصادقين من الله التعريف بحكم النوازل أنه حكم الشرع الذي بعث به رسول الله ﷺ وأصحاب علم الرسوم ليست لهم هذه المرتبة لما أكبوا عليه من حب الجاه والرياسة والتقدم على عباد الله وافتقار العامة إليهم، فلا يفلحون في أنفسهم ولا يفلح بهم وهي حالة فقهاء الزمان الراغبين في المناصب من قضاء وشهادة وحسبة وتدريس.وأما المنتمسون منهم بالدين فيجمعون أكتافهم وينظرون إلى الناس من طرف خفي نظر الخاشع ويحركون شفاههم بالذكر ليعلم الناظر إليهم أنهم ذاكرون ويتعجمون في كلامهم ويتشدقون ويغلب عليهم رعونات النفس وقلوبهم قلوب الذئاب لا ينظر الله إليهم، هذا حال المندين منهم لا الذين هم قرناء الشيطان لا حاجة الله بهم ليسوا للناس جلود الضأن من اللين أخوان العلانية أعداء السريرة، فالله يراجع بهم ويأخذ بنواصيهم إلى ما فيه سعادتهم، وإذا خرج هذا الإمام المهدي فليس له عدة مبين إلا الفقهاء خاصة فإنهم لا تبقى لهم رئاسة ولا تمييز عن العامة، ولا يبقى لهم علم بحكم إلا قليل ويرتفع الخلاف من العالم في لأحكام بوجود هذا الإمام، ولولا أن السيف بيد المهدي لأفتى الفقهاء بقتله، ولكن الله يظهره بالسيف والكرم فيطمعون ويخافون فيقبلون حكمه من غير إيمان بل يضمرون خلافه كما يفعل الحنفيون والشافعيون فيما اختلفوا فيه، فلقد أخبرنا أنهم ون في بلاد العجم أصحاب المذهبين ويموت بينهما خلق كثير ويفطرون في شهر رمضان ليتقووا على القتال، فمثل هؤلاء لولا قهر الإمام المهدي بالسيف ما سمعوا له ولا أطاعوه بظواهرهم كما أنهم لا يطيعونه بقلوبهم بل يعتقدون فيه أنه إذا حكم فيهم بغير مذهبهم أنه على ضلالة في ذلك الحكم، لأنهم يعتقدون أن زمان أهل الاجتهاد قد انقطع وما بقي مجتهد في العالم، وأن الله لا يوجد بعد م أحداً له درجة الاجتهاد، وأما من يدعي التعريف الإلهي بالأحكام الشرعية فهو عندهم مجنون مقسود الخيال لا يلتفتون إليه، فإن كان ذا مال وسلطان القادرا في الظاهر إليه رغبة فى ماله وخوف سلطانه و هم ببواطنهم کافرون به.أتمنهم وأما المبالغة والاستقصاء في قضاء حوائج الناس فإنه منعين على الإمام خصوصاً دون جميع الناس، فإن الله ما قدمه على خلقه ونصبه إماماً لهم إلا ليسعى في مصالحهم هذا والذي ينتجه هذا السعي عظيم، وله في قصة موسى عليه السلام لما مشى في حق أهله ليطلب لهم ناراً يصطلون بها ويقضون بها الأمر الذي لا ينقضي إلا بها في العادة وما كان عنده عليه السلام خبر بما جاءه فأسفرت له عاقبة ذلك الطلب عن كلام ربه فكلمه الله تعالى في عين حاجته وهي النار في الصورة ولم يخطر له عليه السلام ذلك الأمر بخاطر، وأي شيء أعظم من هذا؟ وما حصل له إلا في وقت السعي في حق عباله ليعلمه بما في قضاء حوائج العائلة من الفصل فيزيد حرصا في سعيه في حقهم، فكان ذلك تنبيها من الحق تعالى على قدر ذلك عند الله تعالى وعلى قدرهم لأنهم عبيده على كل حال، وقد وكل هذا على القيام بهم كما قال تعالى : ( الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النساء ) [النساء : ٣٤] فأنتج له الفرار من الأعداء الطالبين قتله الحكم والرسالة كما أخبر الله تعالى من قوله عليه السلام فَفَرَرْتُ مِنكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لي ربي حُكْمَا وَجَعَلَى مِنَ الْمُرْسَلِينَ ) [الشعراء: ٢١] وأعطاه السعي على العيال وقضاء حاجاتهم كلام الله وكله سعي بلا شك، فإن الفاز أتى في قراره بنسبة حيوانية فرت نفسه من الأعداء طلباً للنجاة وإبقاء للملك والتدبير على النفس الناطقة، فما سعى بنفسه الحيوانية في فراره إلا في حق النفس الناطقة المالكة تدبير هذا البدن وحركة الأئمة كلهم العادلة إنما تكون في حق الغبر لا في حق أنفسهم، فإذا رأيتم السلطان يشتغل بغير رعينه وما يحتاجون إليه فاعلموا أنه قد عزلته المرتبة بهذا الفعل ولا فرق بينه وبين العامة.ولما أراد عمر بن عبد العزيز يوم ولي الخلافة أن يقبل راحة لنفسه لما تعب من شغله بقضاء حوائج الناس دخل عليه ابنه فقال له : يا أمير المؤمنين أنت تستريح وأصحاب الحاجات على الباب من أراد الراحة لا يني أمور الناس، فبكى عمر وقال : الحمد لله الذي أخرج من ظهري من ينبهني ويدعوني إلى الحق ويعينني عليه، فترك الراحة وخرج إلى الناس وكذلك خضر واسمه بليا بن ملكان بن فالغ بن عابر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح علیه السلام كان في جيش قبعته أمير الجيش يرتاد لهم ماء وكانوا قد فقدوا الماء فوقع بعين الحياة فشرب منه فعاش إلى الآن وكان لا يعرف ما خص الله به من الحياة شارب ذلك الماء، ولقيته بإشبيلية، وأفادني التسليم للشيوخ وأن لا أنازعهم، وكنت في ذلك اليوم قد نازعت شيخاً في مسألة وخرجت من عنده فلقيت الخضر بقوس الحنية فقال لي : سلم إلى الشيخ دعوی صحیح و مهدی ترجمہ : جب امام مہدی ظاہر ہوں گے تو لوگوں میں سے ان کے کھلے کھلے دشمن صرف فقیہ ہوں گے کیونکہ ان کے لئے حکومت نہیں بچے گی اور نہ ہی ان کی عوام الناس سے ممتاز حیثیت باقی رہے گی.
261 دعوی مسیح و مهدی نج الکرامہ میں نواب صدیق حسن خان صاحب نے لکھا کہ مہدی کی سخت مخالفت ہو گی اور علمائے وقت ان پر دجال کا فتویٰ دیں گے.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر: 73 أثار القيامة الكرامة
262 دعوی مسیح و مهدی عکس حوالہ نمبر : 73 اوت مانیا او تعالین سنین اخرج ابو بكر البزار في مسنده والطبراني في سجو الکبیر الاوسط و در سندش داود بن ابھی میریم من ابریست و این هر دو سخت ضعیف اند و از این عباس فرما آمده که پادشاه تمام روی زمین چهار کس اند و و مومن والقرمین و سلیمان دو کافر نرود و بخت نصرو نزدیک است که مالک شود تمام اور انجیان زابل بت من اخرجه ابن الجوزی نی تاریخه گونید بیدار نخند مهدی نانم را نریزد خون را و مقاتل کند بر سنت ترک ند پانچ سنت را گرانه قائم ساز دانرا ونه هیچ دشت را نگرز انگی بردارد آنراو قائم ودین سلام در آخر زمان بزمانه او نانا بو در اول زمان به سخاوت مهد تحضرت مسلم و الارقام دنیا گردد و صلیب با بشکند و خوی البم شد ابن حجر این علامات را در فکر مهدی در قول مختصر آورده و این و وصف آخر در حال ما یسی علیه السلام نیز وار گشته نیست منافات میان پر وزیراکه متیل که اینکار از پردو بزرگوار بوجود آید دانست هر دو با اقبال و بعدت زمان باشد چه مهدی و عیسی پر دوناصرین اسلام و تابع سنت خیران نام و می مغربی سول کریم باشند سپس فعلا عمل بریری گویا مصنع دیگری است بلا تفاوت و چون مهدی علیه السلام مقاله بر احیا سنت امانت بدعت فرماید علماء وقت که خوگر تقلید فقتهار و اقتدار متناسخ و آبار خود باشند گویند این مرد خانه براند از دین و ملت ماست مخالفت برخیزند و بحسب الات خود حکم تکفیر و تحلیل می کنند اما از سطوت سیف او و جلال شوکش کار ایشان پیش نرود و دودمان تقلید بی چراغ گردد و دولت کده سنت بوجد با جو وی منو شود بنیان تنبع غالب منیان مقدر مغلوب گرند دیوند و ماری نیم بن حماد عن ابی جعف قال نظیر است بكة عند العشامورات رسول اله علم قميصه سیفه و علامات کو بیان فا اصل العشانا وی با على صوته يقول اذكركم الله بها اناس مقام بین یدی یکم فقد بعث الانبياء وانزل اكتب امركم ان لا تشرکوا به شینا ان تحافظوا على طاعته و طاعتہ سولہ وان تحب انا احسن القران و نیت وانا امات و تكونوا ا عوانا على الهدمی وزرا على التقوى فان الدنيا قد ونا فنار بام زو العا وانت بالانصرام عن اقبالها واني ادعوكم الى الشد والی رسوله والعمل كتابه امانته اب اطلاع احبار السته الخ و تورین روایت ملی است با آنچه ذکر کردیم با وضح بیان چین بیرت وسریت وی علیه السلام و اخرج الضاعن على النبي سلمان المهدى رجل من عترت يقاتل علی سنتی کا قاتلت انا علی الوحی و این مقامہ پر سفت ما وقت راست می نشیند که تقریبا تقسیم علمان زمان را سفت شمرده نشو ورنه این مقاله ی منی ندارد و با کما ایران برکت نشان می نظر بقوت اسلام رفع ظلمات لفرو انام وعلوم قسط و عدل وضع جود وستم عروین می باشد که جهان چنان شو از مدال و که اخت بازه علاج تاختند دیده حمام کنده در اشاعه گفته پرکن مهدی در مهانی است محمده را بتونگری و مرکند سنادی را که نداند هر که را حاجت باشد.در بال گو باید بگیرد پس نباید او را نگیری گوید منم سائل فرماید بیا خازن را دیگر او را که مهدی امر کرده است ترا که هراسان بل کی خازن گوید بگیر هر دو دست خود تا آنکه چون ال را کنار کشد نادم شود و گوید ینم حریص است رسول خد السلام و ایز رد را نیز یکی گنجایش کرد اوشان او خواهد که آنال را و این بداما از وی استرداد نکنند و مردی بفرماید و چیز بخشی را داشتم نمی گیریم نے گویم این حدیث را احمد در سند و ابولیلی از ابوسعید مرفوعا آورده اند ورجالهم القات و قد خرجه التردي من تنفطر و اول حدیث این ست بشه کم بالمهدی رجل من قریش من عترتی مبعث على اختلاف من الناس زلازل لیلا را لا من تساق و عدلا کامنت جو را و النهایه من عند ساكن السماء وسباكر الارض تعقيم المال صحاحا فقال له رجل با صحاحا قال با الو به این کار وسباكرااااااااالحالات ترجمہ : جب امام مہدی علیہ السلام سنت کو زندہ کرنے کے لئے اور بدعت کو مٹانے کے لئے جد و جہد کریں گے تو علماء وقت جو فقہاء اور مشائخ اور آباء کی تقلید کے عادی ہوں گے کہیں گے کہ یہ شخص ہمارے دین و مذہب کو برباد کرنے والا ہے اور مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوں گے.اور اپنی عادت کے مطابق اسے گمراہ اور کافر ٹھہرائیں گے.
263 دعوی مسیح و مهدی مکتوبات مجد دالف ثانی ، سید احمد سر ہندی میں ذکر ہے کہ علماء عیسی علیہ السلام کے بعض دقیق مسائل اور لطیف تشریحات کے باعث انکار کریں گے.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر :74 مکتوبات امام ربانی ہے مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرهندی قدس الله سير العزیز کے اسرار شریعیت اور معارف طریقیت مسجد نور گرانقدر مجد دانه مکاتیب کا مستند اردو ترجمہ جلد دوم سوم مع رساله مبدأ و معاد أردو اردو ترجمہ : مولانا قاضی عالم الدین صاحب نقشبندی مجددی ادارة اسلاميات الامور ۱۹۰ - انار کلی ، لاہور
264 ترجمه مکتوبات عکس حوالہ نمبر :74 ۱۹۵ لوگوں کے لئے یکساں حکم ہے حکیم ثانی حکم اول کا ناسخ ہے : امام ربانی دفتر دوم پس ہمارے بغیر صلی اللہ علیہ وسلم کی پچھلی سنت پہلی سنت کی ناسخ ہوگی.حضرت پنے علے نبیاء علیہ الصلوۃ والسلام جو نزول کے بعد اس شریعت کی متابعت کرینگے.انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا اتباع بھی کریں گے کیونکہ اس شریعت کا نتے جائیے نہیں بیج نہیں کہ علماء ظاہر حضرت بلئے علیہ السلام کے مجترات سے ان کے ماخذ کے کمال قیق اور پوشیدہ ہونے کے باعث انکار کر جائیں.اور ان کو کتاب وسنت کے مخالف جائیں.حضرت علے روح اللہ کی مثال حضرت امام عظم کو فی رحمتہ اللہ علیہ کی سی شال ہے.جنہوں نے درع و تقوے کی برکت اور سنت کی متابعت کی دولت سے اجتهاد اور استنباط میں وہ درجہ بلند اصل کیا ہے.جس کو دوسرے لوگ سمجھ نہیں سکتے.اور ان کے مجتہدات کو وقت معافی کے باعث کتاب وسنت کے مخالف جانتے ہیں.اور ان کو اور ان کے اصحاب کو اصحاب رائے خیال کرتے ہیں.یہ سب کچھ ان کی حقیقت و درایت تک نہ پہنچنے اور ان کے فہم و فراست پر اطلاع نہ پانے کا نتیجہ ہے.امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے کہ جس نے ان کی فقاہت کی باریکی سے تھوڑا سا حصہ حاصل کیا ہے.فرمایا ہے کہ الفقهاء كلهم عيال إلى حنيفة - القاب البوحنيفہ کے عیال ہیں.ان کم ہمتوں کی جرات پر افسوس ہے کہ اپنا قصور دوسروں کے ذمے لگاتے ہیں.بیت قاصر کے گر کند این طائف را عون قصور حاش میشد که بر آدم بیزیان این گله را رالوی اش که بر ہمہ شیران جہاں نبسته این سلسله اند رویه از حیله جان تجلد این عسل همه ترجمه مت گر کوئی قاصد گائے طعن انکے حال پر تو بہ تو بہ گر زبان پر لاؤں میں اس کا گلہ شیر ہیں باندھے ہوئے ہیں سلسلہ میں ہے کہ لومڑی حیلہ سے توٹے نے کس طرح یہ سلسلہ اور یہ جو خواجہ محمد بار سارحمتہ اللہ علیہ نے فصول ستے میں لکھا ہے کہ حضرت علئے علی السلام نزول کے بعد امام ابو حنیفہ کے مذہب کے موافق عمل کرینگے.ممکن ہے کہ اسی مناسبت کے باعث جو امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کو حضرت عیسے کے ساتھ ہے لکھا ہو یعنی حضرت دعوی مسیح و مهدی
265 دعوی مسیح و مهدی ان پیشگوئیوں کے مطابق ضروری تھا کہ بچے مسیح کا انکار کیا جاتا ، سوایسا ہی ظہور میں آیا جو حضرت بانی جماعت احمدیہ کی سچائی کا ثبوت ہے اور منکرینِ مسیح موعود کے لیے لمحہ فکریہ! حضرت بانی جماعت احمدیہ فرماتے ہیں:.پیشگوئی کے مطابق ضرور تھا کہ انکار بھی کیا جاتا.اس لیے جن کے دلوں پر پر دے ہیں وہ قبول نہیں کرتے.میں جانتا ہوں کہ ضرور خدا میری تائید کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ اپنے رسولوں کی تائید کرتا رہا ہے.کوئی نہیں کہ میرے مقابل پر ٹھہر سکے.کیونکہ خدا کی تائیدان کے ساتھ نہیں.“ ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 210 ایڈیشن 2008) پھر فرمایا:- ”مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا.میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے نوروں میں سے سب سے آخری نور ہوں.بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے.“ کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 61 ایڈیشن 2008) اپنی جماعت کی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.”اے تمام لوگوسُن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا وے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد ر کھے گا.اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.اگر اب مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان کیونکہ کوئی نبی نہیں
دعوی مسیح و مهدی 266 جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا.پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹھا کیا جاتا.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.يَحَسُرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَايَاتِيْهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وُنَ (يس: (31) پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے.مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے روبرو آسمان سے اترے اور فرشتے بھی اُس کے ساتھ ہوں اُس سے کون ٹھٹھا کرے گا.پس اس دلیل سے بھی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے اترنا محض جھوٹا خیال ہے.“ ( تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66-67 ایڈیشن (2008)
267 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ ؟؟ رہا یہ سوال کہ ایک عالم باعمل بچے مسلمان کو مسیح موعوڈ پر ایمان لانے کی کیا ضرورت ہے.تو اس کا جواب قرآن شریف کی آیت استخلاف میں یہ ہے کہ : وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَالِكَ فَأُولئِكَ هُمُ الْفَاسِقُون ( النور : 56) کہ جولوگ بھی امت میں آنے والے موعود روحانی خلفاء کی دینی کامیابیاں دیکھنے کے بعد ان کا انکار کریں گے وہ لوگ فاسق ہوں گے.رسول اللہ علیہ نے بھی فرمایا:- جس نے امام زمانہ کو نہیں پہچان وہ جاہلیت کی موت مرا ““ اسی طرح فرمایا :- ( مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 96) جس نے مہدی کی تکذیب کی اس نے کفر کیا.“ ( عقد الدرر فی اخبار المنتظر صفحہ 230 الطبعة الثانية 1989 مطبع مكتبه المنار اردن) حضرت بانی جماعت احمد یہ فرماتے ہیں:.” میرا انکار میرا انکار نہیں بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول علیہ کا انکار ہے کیونکہ جو میری تکذیب کرتا ہے وہ میری تکذیب سے پہلے معاذ اللہ اللہ تعالیٰ کو ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 364 ایڈیشن 1988 ء) جھوٹا ٹھہرا لیتا ہے.“
268 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ فرقہ ناجیه کون؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ بنی اسرائیل میں اس کثرت سے اختلاف ہوا کہ وہ بہتر 72 فرقوں میں تقسیم ہوگئے ، اور میری امت تو اس سے بھی زیادہ تہتر 73 فرقوں میں بٹ جائے گی.سب فرقے آگ میں ہوں گے سوائے ایک جماعت کے صحابہ نے عرض کیا وہ کون سی جماعت ہوگی ؟ آپ نے فرمایا: ”وہ میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے.‘ ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر: 75 66 رسول اللہ جو کچھ تم کودیں اس کو لے لو اور سب سے منع فرمائیں اسے باز آجاؤ جامع ترمذی جلد دوم مؤلّف مام ابن عیسی محمد بن عیسی ترندی باستان مترجم یگان ما علم دوران لانا یا ان الرمان بادر الوحيد الرمان تسهیل و تخریج آیات حافظ خالد سلفی فاضل جامع رحمانیہ گارڈن ٹاؤن، لاہور سلامی گشت نشانه فضل الہی مارکیٹ ، چوک اردو بازارہ لا ہو Ph:7223506-7230718
269 عکس حوالہ نمبر: 75 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ جامع ترندی جلد ) أَبْوَابُ الْإِيمَانِ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں تکرار کی مہلت نہیں.اللهم جنبنا من كلها وارزقنا اتناع السنة وامتنا عليها.١٥٦٥: بَابُ افْتِرَاقِ هَذِهِ الْأُمَّةِ باب : افتراق امت کے بیان میں ۳۷۰ : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلَّی ۲۶۴۰: روایت ہے ابی ہریرہ سے کہ رسول اللہ صل للہﷺ نے فرما یا متفرق ہو اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ تَفَرَّقَتِ الْيَهُودُ عَلی گئے یہودا کہتر بہتر فرقوں پر اور نصاری بھی اسی کی ماننڈ اور ہو جائے گی إحدى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً أو النقين وسبعين فرقة- میری امت تہتر فرقے.ف: اس باب میں سعد اور عبداللہ بن عمر اور عوف بن مالک سے بھی روایت ہے حدیث ابی ہریرہ کی حسن ہے صحیح ہے.۲۶۴۱ : عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ ۲۶۴۱: روایت ہے عبداللہ بن عمرو سے کہ فرمایا رسول اللہ کی ایم نے آئے اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَأْتِيَنَّ عَلى أمنى ما گا میری امت پر ایک ایسا زمانہ جیسا کہ آیا تھا بنی سرائیل پر اور مطابق الي عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ ہوں گے دونوں کے زمانہ جیسے مطابق ہوتی ہے ایک نعل دوسرے نعل حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى امه علانیہ لگان کے یہاں تک کہ اگر ہوگا اُن میں کوئی شخص ایسا کہ وہ زنا کرے اپنی ماں فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي اِسرائیل سے علانیہ تو ہو گا میری امت میں سے ایسا شخص کہ مرتکب ہو اس امر شفیع تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِفُ امنی کا اور بنی اسرائیل متفرق ہوئے بہتر مذہبوں پر اور متفرق ہوگی میری كُتُهُمْ فِى النَّار الامله امت تہتر مذہبوں پر سب اہل مذہب دوزخی ہیں مگر ایک مذہب والے على : وَاحِدَةً قَالُوا وَ مَنْ هِيَ يَا رَسُولَ الله قال ما انا عرض کی صحابہ نے کہ وہ کون ہیں یا رسول اللہ کی تین ہم آپ میں یہ ہم نے جس پر عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي میں ہوں اور میرے اصحابی یعنی کتاب وسنت پر.اللہ: یہ حدیث حسن ہے غریب ہے مفسر ہے نہیں جانتے ہم مشکل اس کی مگر اسی سند سے.مترجع : شاہ ولی اللہ قدس سرہ نے حجۃ اللہ میں لکھا ہے فرقہ ناجیہ وہ ہے کہ تمسک ہو اس نے عقیدہ اور عمل میں بالکلیہ ظاہر کتاب و سنت پر اور جس پر گذرے ہیں جمہور صحابہ و تابعین اگر چہ مختلف ہوں وہ فیما بینھم ان چیزوں میں کہ جس میں نص جلی نہ ہو اور نہ ظاہر ہوا ہو صحابہ سے اس میں کوئی امر متفق علیہ اور وجہ ان کے اختلاف کی استدلال کرنا ہو ان کا بعض کتاب وسنت پر سے یا تفسیر ہو ان میں سے کسی مجمل کی اور غیر ناجیہ وہ فرقہ ہے کہ متحمل ہو گیا ہو کسی عقیدہ میں خلاف عقیدہ سلف کے یا کسی عمل میں سوا ان کے عملوں کے اتھلی اور یہ قول گو یا بعنہ تفسیر ہے آنحضرت مسلم کے قول مبارک کی جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب ) اور اس حدیث میں کلام ہے اس سے زیادہ کہ تفصیل اس کی مذکور ہے ( يقظة اولى الاعتبار مما دروفی ذکر النار واصحاب الدار) میں اور یہ کتاب بیان نار میں بے نظیر ہے کہ اسلام میں شاید اس کا ثانی تصنیف نہ ہوا ہو.۳۷۳۲ : عَن عبد الله بن عَمْرٍو يَقُولُ سَمِعْتُ ۲۶۳۲: روایت ہے عبداللہ بن عمرو سے کہتے تھے کہ سامیں نے رسول رسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ إِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَتَعَالى خلق اللہ سے کہ فرماتے تھے بے شک اللہ بزرگ و برتر نے پیدا کیا اپنی مخلوق کو خَلْقَهُ فِي ظُلُمَةٍ فَا لَقَى عَلَيْهِمْ مِنْ نُورِهِ فَمَن یعنی جن و انس کو تاریکی میں پھر ڈالا ان پر نور سو جس پر پہنچا وہ نور اس نے أَصَابَةَ مِنْ ذلِكَ النُّورِ اهْتَدَى وَمَنْ اَخْطَاةَ ضَلَّ راہ پائی اور جس کو نہ پہنچاوہ گمراہ ہو گیا اس لیے میں کہتا ہوں کہ سوکھ گیا قلم فيذلِكَ أَقُولُ جَقَّ الْقَلَمُ عَلَى عِلم اللَّهِ علم الہی پر.
270 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ اس حدیث کو امام ترمذی نے فنی لحاظ سے ”حسن غریب“ قرار دیا ہے یعنی حدیث عمدہ ہے مگر صرف ایک سند سے مروی ہے چونکہ قرآن شریف اور صحیح بخاری سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے نیز عملی طور پر خود واقعات زمانہ نے بھی اس حدیث کو سچا ثابت کر دیا ہے اس لئے یہ حجت ہے.حدیث میں مذکور مسلمانوں کے تہتر 73 فرقے بعض علماء نے تو نام بنام شمار کر کے بھی دکھائے ہیں.( مرقاۃ المفاتیح اردو جلد اول صفحہ 767) لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ چودہ سال میں بننے والے مسلمان فرقوں کا شمار اس سے بھی کہیں زیادہ ہو چکا ہے.لہذا یہاں ستر 70 کا عد دمحاورہ عرب کے مطابق کثرت کے لئے ثابت ہوتا ہے جیسا کہ خود قرآن کریم نے یہ محاورہ استعمال کیا ہے.(التوبة: 80) حدیث کے الفاظ كُلُّهُمْ فِي النَّار کے جو معنے اہل سنت نے کیے وہ عکس ترجمہ صفحہ 227 سے ظاہر ہیں کہ سوائے ایک مذہب یا فرقہ کے باقی سب دوزخی ہیں.ہمارے نزدیک یہ معنے سورہ البقرہ کی آیت 81 اور 112 کی روشنی میں درست نہیں کیونکہ کسی کے جہنمی یا جنتی ہونے کا علم صرف خدائے عالم الغیب کو ہے لہذا کسی کے دوزخی ہونے کا بلا دلیل فتویٰ قابل قبول نہیں.سب فرقوں کے فِی النَّارِ یعنی آگ میں ہونے سے مراد قرآنی محاورہ کے مطابق لڑائی اور نفرت و مخالفت کی آگ بھڑکانا بھی ہوسکتا ہے (سورہ المائدہ: 65) یعنی سارے فرقے مل کر ایک ناجی فرقہ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جائیں گے.دوسرے یہاں حسد کی آگ بھی مراد ہو سکتی ہے کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ حسد انسان کی نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو.(ابو داؤد کتاب الادب باب في الحسد) مزید برآل كلهم في النار جملہ اسمیہ ہے جس میں استمرار کی وجہ سے حال و استقبال دونوں کا مفہوم ہے یعنی وہ سب فرقے زمانہ حال میں بھی آگ میں ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے.اس جملہ کا یہ حالیہ مفہوم صرف مخالفت و نفرت اور حسد کی آگ پر ہی چسپاں ہوتا ہے.ضرورت یہ جائزہ لینے کی ہے کہ آخر فی زمانہ وہ کونسی جماعت ہے جس کے خلاف سارے مسلمان مخالفت اور نفرت کی آگ بھڑ کانے میں متحد ہیں، بلاشبہ وہی مذہب یا جماعت ناجی ہوگی.
271 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ 1974ء میں احمدیوں کو ناٹ مسلم قرار دینے کے بعد سے لے کر آج تک تمام مسلمان فرقے تحفظ ختم نبوت کے پلیٹ فارم پر جماعت احمدیہ کے خلاف نہ صرف مخالفت کی آگ بھڑکانے میں متحد ہیں بلکہ احمدیوں کے مکانوں، دکانوں، مساجد کو ظاہری آگ لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور اس طرح عملاً یہ پیشگوئی پورا کرنے کا موجب ہوتے ہیں.دوسری طرف جماعت احمد یہ عالمگیر کی مسلسل ترقیات دیکھ کر بھی حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں.پس اس دنیا میں اس آگ میں شامل ہونے کی یہ گواہی جہنم کی آگ پر ایک قرینہ تو ہوسکتی ہے قطعی دلیل نہیں.اس لئے دیگر کلمہ گو فرقوں کو جہنمی کہنے سے گریز کرنا ہی امن کا راستہ ہے.یہ ذکر ہو چکا ہے کہ مسلمانوں میں فرقہ بندی والی اس حدیث کی تائید قرآن شریف سے بھی ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا: - إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (الانعام : 160) یعنی یقینا وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہ در گروہ ہو گئے، تیرا ان سے کچھ بھی تعلق نہیں ان کا معاملہ خدا ہی کے ہاتھ میں ہے پھر وہ اُن کو اُس کی خبر دے گا جو وہ کیا کرتے تھے.اسی طرح صحیح بخاری میں ہے کہ ایک وقت آئے گا جب رسول اللہ اللہ کے راستہ پر چلنے والے گروہ یہ راستہ چھوڑ دیں گے.تب حضرت حذیفہ بن الیمان نے عرض کیا یا رسول اللہ ! جاہلیت کے شتر اور خرابیوں کے بعد اسلام کی خیر ہمیں نصیب ہوئی.کیا اب اس خیر کے بعد پھر کوئی شتر آنیوالا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اس میں دھواں اور دھندلاہٹ ہوگی.عرض کیا کیسا دھواں؟ فرمایا ایک ایسی قوم ہوگی جو میرا طریق چھوڑ کر دوسرے راستہ پر چلے گی.پھر اس کے بعد آنیوالا شتر جہنم کی دعوت دینے والے لوگ ہیں جو ان کی بات مانے گا اسے اس میں ڈال دیں گے.حضرت حذیفہ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہ ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا: - تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ یعنی تم مسلمانوں کی اس جماعت میں شامل ہونا جن کا ایک امام ہو.عرض کیا اگر کوئی جماعت یا امام نہ ہو ؟ رسول کریم ﷺ نے
272 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ فرمایا پھر ان تمام فرقوں سے کنارہ کشی کرنا خواہ درخت کی جڑیں بھی چبانی پڑیں یہاں تک کہ تجھے موت آجائے اور تو اسی حالت میں ہو.(بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوه في الاسلام) تہتر فرقوں والی حدیث مذکور میں بھی رسول کریم نے فرقہ ناجیہ کی نشانی مَا أَنَا عَلَيهِ وَاَصْحَابِی میں فرما دیا کہ اس سے مراد میرا اور میرے صحابہ کامذہب یا راستہ ہے.یعنی رسول اللہ اور آپ کے صحابہ نے جس طرح قرآنی تعلیم اور ارکان اسلام پر عمل کر دکھا یا وہی نمونہ اس ناجی فرقہ کا بھی ہوگا.صلى الله.رسول اللہ یہی کی سنت و اسوہ اور صحابہ کا طرز عمل کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ تاریخ کا ایسا روشن باب ہے جس سے ہر ذی شعور مسلمان بچہ بھی واقف ہے.وہی کٹھن خار دار راہ جس پر چلتے ہوئے رسول الله ﷺ اور صحابہ کرام نے کفار مکہ کی سخت مخالفت اور رکاوٹوں کے باوجود کمال استقامت سے قرآن وسنت پر عملدرآمد کر دکھایا جس کی عملی تصویر یوں بنتی ہے:.1.رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کلمہ توحید ورسالت کا اقرار کر کے بڑے عزم و ہمت سے اس پر عمل پیرا ر ہے جبکہ ان کے مخالف کفار مکہ خود دین ابراہیمی کے دعویدار بن کر آپ ﷺ کو صابی ، یعنی نئے مذہب کے موجد گویا ناٹ مسلم قرار دیتے تھے.(بخارى كتاب التيمم باب من يقتل ببدر ، معجم الكبير لطبراني جلد 4 ص 179 ، كنز العمال جلد 12 ص 450) صلى الله 2.رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ پنج وقتہ نمازیں ادا کرتے تو کفار انہیں عبادت سے روکتے تھے.(سورہ العلق : 10 تا 11) مگر انہوں نے ماریں کھا کر بھی نمازیں ادا کیں.کلمہ گو مسلمانوں کو اذان سے بھی روکا جاتا تھا.نبی کریم ﷺ کے صحابہ نماز کیلئے اذان دیتے تو کفار شور مچا کر انہیں مذاق کا نشانہ بناتے تھے (سورہ المائدة 59:) بقول ابومحذورہ وہ خود اذان بلال کی نقلیں اتارنے میں پیش پیش تھے.(طبقات الکبری جلد3 ص 234) 4 کلمہ گو مسلمانوں کا راستہ سرا پا مظلومیت اور کفار قریش کی راہ مسلسل ظلم تھی.انہوں نے رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ پر مکہ میں متواتر تیرہ سال تک مظالم کئے ، تین سال تک ان کا بائیکاٹ کر کے شعب ابی طالب میں قید رکھا.انہیں مارا پیٹا، ان کی مذہبی آزادی سلب کی.پھر انہیں ناحق ان کے گھروں سے نکالاشی کہ ان کے قتل سے بھی باز نہ آئے.(سورہ الحج: 40) مجبوراً5 نبوی میں
273 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ آپ کے صحابہ کو ملک حبشہ کی ایک عادل عیسائی حکومت میں ہجرت کر کے پناہ لینی پڑی.5.مکہ میں مسلمانوں کو تبلیغ کا بھی حق حاصل نہ تھا.حالانکہ مسلمانوں کیلئے فریضہ تبلیغ جہاد کبیر کا درجہ رکھتا ہے.(سورہ الفرقان : 53) مگر کفار قریش نے رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کی تبلیغ پر پابندی عائد کر رکھی تھی.مسلمانوں کی بات سنے کیلئے آنیوالوں کو بھی روکا جا تا اور جب رسول کریم ہر جے اور عرب کے میلوں پر اپنا پیغام پہنچانے جاتے تو ابولہب اور اس کے ساتھی شور مچا کر اس میں روک ڈالتے.مجبوراً آپ طائف تبلیغ کرنے گئے تو انہوں نے بھی مار مار کر لہولہان کر کے نکال دیا.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 ص (492) 6.مکہ میں کلمہ گو مسلمانوں کی دیگر عبادات پر بھی پابندی تھی.کفار انہیں قرآن کریم کی تلاوت سے بھی منع کرتے.اور کہتے کہ جب وہ تلاوت قرآن کریں تو شور مچا دیا کرو.اس طرح تم غالب آ سکتے ہو (سوره حم السجدہ : 27) حضرت ابو بکر صبح نماز میں بآواز بلند قرآن پڑھتے تو کفار اس بہانہ سے منع کرتے کہ ہماری عورتوں بچوں پر اثر ہو جاتا ہے.بالآخر تلاوت کرنے کے اصرار پر حضرت ابوبکر کو شہر مکہ چھوڑ دینے کی سزا سنائی گئی.(بخاری کتاب الكفالة باب جوار ابي بكر في عهد النبي) سزاسنائی الله 7.تیرہ سال تک مسلمان قریش مکہ کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے.رسول اللہ یہ 14 ویں سال کے دوسرے مہینے صفر کے آخر تک مکہ میں مقیم رہے.(دلائل النبوة للبيهقى جزء2 صفحه 465) 24 صفر بمطابق 7 ستمبر 622ء کو پہلے پہر سردارانِ قریش نے بقول علامہ صفی الرحمن مبارکپوری مکہ کی پارلیمان دارالندوہ میں رسول کریم ﷺ کے خلاف قید یا قتل کرنے یا مکہ سے نکال دینے کی قرار داد بالاتفاق منظور کی.(الرحیق المختوم اردو ترجمه صفحه 227) تو اسی شب باذن الہی آپ حضرت ابوبکر کے ساتھ گھر سے نکل کر جانب جنوب مکہ سے تین میل پر غار ثور میں پناہ گزیں ہو گئے.چوتھے روز 28 صفر بمطابق 11 ستمبر آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی.مگر یہاں بھی دشمن نے تعاقب کیا.علامہ مبارکپوری نے بحوالہ رحمۃ للعالمین مصنفہ قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری 27 صفر کورسول اللہ کے بغرض ہجرت مدینہ نکلنے کا ذکر کیا ہے جو دراصل غار ثور سے نکلنے کی تاریخ ہے.
274 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ جدید تحقیق کے مطابق دراصل رسول کریم ﷺ غار ثور میں تین دن قیام کے بعد 28 صفر کو مدینہ روانہ ہوئے تھے.اپنے گھر سے 25 صفر کو غار ثور کے لئے نکلے تھے.(تاریخ الخمیس جزء 1 صفحہ 322) پاکستان کی قومی اسمبلی کی احمدیوں کے خلاف قرار داد 7 ستمبر 1974ء کو ہوئی.جبکہ مختار پاشا مصری کی شہرہ آفاق تصنیف کے مطابق 24 صفر کو بھی 7 ستمبر کی تاریخ تھی جب قریش کی پارلیمان نے رسول اللہ کے خلاف قرارداد پاس کی.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر : 76 كتاب التوفيقات الإلهامية في مقارنة التواريخ الهجرية بالسنين الإفرنكية والقبطية تأليف اللواء المطري محمد مختار باشا
275 عکس حوالہ نمبر : 76 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ قيراط ذراع سنة ١ هجرية : غاية فيضان النيل بمقياس الروضة أوائل أشهرها توافق سنة | توافق سنة ۳۳۸ قبطية / ٦٢٢ افرنكية توقيعات هجرية محرم الجمعة ۲۲ ابیب ١٦ يوليه أول السنة الهجرية، على الصحيح ، وكانت تسمى عند العرب بسنة الاذن.صفر الأحد ۲۲ مسری ربيع اول الاثنين ١٥ الغسطس ١٥ توت ۳۳۹ - الأحد ٢٩ اغسطس سنة ٦٢٢ = ١٥ صفر سنة ١.في 8 منه(1) دخل النبي صلى الله عليه ١٦ توت ۳۳۹ ۱۳ سبتمبر مسجد أسس على التقوى ) (٢).١٦ بابه ۱۳ اکتوبر فيه (٣) زيد في صلاة العصر ركعتين.وسلم، قباء، واقام بها الثلاث والاربع والخميس، وأسس مسجد قباء، الذي نزل فيه ربيع الأربع جماد أول الخميس ١٥ هاتور ۱۱ نوفمبر جماد ثاني | السبت ١٥ كيهك ۱۱ ديسمبر 1 يناير ٦٢٣ يوافق السبت ٦ طوبه سنة ٣٣٩ الموافق ٢٢ جماد الثاني سنة ١.رجب الأحد ١٤ طوبه ٩ يناير ٦٢٣ شعبان الثلاث ١٤ امشير ٨ فبراير رمضان الأربع ۱۳ برمهات ۹ مارس شوال ذو القعدة ذو الحجة الاثنين الجمعة السبت ۱۳ برموده ۸ ابريل ۱۲ بشنس ۷ مايو ۱۲ بؤنه يونيه فيه (1) بنى النبي صلى الله عليه وسلم بعائشة ، رضي الله عنها.فيه (٥) سير سعد بن أبي وقاص إلى الأبواء.فيها (٦) ولد أمير المؤمنين عبد الله بن الزبير ابن العوام، وأول شي دخل في جوفه هو ريق النبي صلى الله عليه وسلم.۳۳ (1) أي من ربيع الأول.(٢) التوبة : ١٠٨.(۳) أي في ربيع الثاني.(٤) أي في رمضان.(٥) أي في ذي القعدة.(٦) اي في السنة الأولى للهجرة.مختار پاشا مصری کے کیلنڈر بالا میں یکم ربیع الاول کو 13 ستمبر 622 تھی (یوں 24 صفر کو 7 ستمبر بنتی ہے ).رسول کریم 24 سے 27 صفر تک غارثور میں اور 28 صفر کو وہاں سے عازم مدینہ ہوئے.8 ربیع الاول کو قباء پہنچے اور تین دن بعد مدینہ ورو د فرمایا.یوں پارلیمان مکہ کی قرارداد کی طرح قومی اسمبلی پاکستان 1974ء کی ” احمدی ناٹ مسلم کی قرار داد 7 ستمبر میں گہری مماثلت وسیع معنی رکھتی ہے.
276 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ 8.مدینہ کے کلمہ گو مسلمانوں کے فریضہ حج پر بھی پابندی تھی.قریش مکہ نے ہجرت نبوی کے بعد فتح مکہ ہونے تک آٹھ 8 سال کا عرصہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کو بیت اللہ میں آکر عبادت کرنے سے روکا اور انہیں حج کرنے کی اجازت نہ دی.(بخاری کتاب المغازی باب ذكر النبي من بقتل بيدرو غزوة الحديبيه) 9.مدینہ کے کلمہ گو مسلمانوں کی مالی قربانیوں پر بھی کفار مکہ کو سخت اعتراض تھا.رسول کریم ہے اور آپ کے صحابہ عمر بھر اپنے اموال بطور زکوۃ وصدقات اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرتے رہے.(سورہ الصف 12 ) جبکہ کفار ہمیشہ ان پر حملہ آور ہو کر ان کی محنت کی کمائی کو اپنے لئے حلال جان کر ان کے اموال لوٹنے کے درپے رہے.(سورہ التوبه: 13) 10 - قریش مکہ شہید کلمہ گو مسلمان شہداء کی نعشوں کی توہین کرنے سے بھی باز نہ آئے.جنگِ بدر میں شہید ہونے والے مسلمانوں کے ناک کان کاٹ کر ان کی نعشوں کا مثلہ کر کے ان کی بے حرمتی کی گئی.(بخاری کتاب المغازى باب غزوة بدر) الله کتنا پُر خطر مگر پر استقامت تھا ہمارے نبی ﷺ اور صحابہ کا راستہ کہ جس پر چلنا آج بھی ناجی فرقہ کی سچائی کا نشان اور طرہ امتیاز بن گیا.مگر اس کے بالمقابل اس راستہ پر چلنے سے روکنے والے کفار قریش کا انسانیت سوز کردار بھی کتنا شرمناک اور بھیانک تھا.یہ دو واضح کردار آج بھی تقویٰ اور انصاف کی آنکھ سے بآسانی پہنچانے جا سکتے ہیں کہ آج مسلمانوں کے موجود تمام فرقوں میں کونسی کلمہ گو جماعت کس ڈگر پر چل رہی ہے.اگر 7 ستمبر 1974ء تک کلمہ گو احمدیوں کے خلاف آئینی ترمیم سے پہلے ناجی فرقہ کی پہچان میں کوئی ابہام تھا بھی تو اس کے بعد یہ معاملہ روشن ہو چکا ہے، کیونکہ اسلام کے دعویدار تمام فرقوں نے مل کر بھٹو حکومت کی سرپرستی میں کلمہ گو احمدی مسلمانوں کو قریش دارالندوہ کی طرح اپنی اسمبلی میں عین 7 ستمبر کی ہی تاریخ کو قانونی طور پر ناٹ مسلم قرار دے کر رہی سہی مشابہت بھی پوری کر دی.اور یوں سب فرقوں نے اپنے عمل سے ناجی فرقہ کو اپنے سے ممتاز اور جدا کر دیا.اب رسول اللہ کی بیان فرمودہ ان علامات کی روشنی میں ناجی فرقہ کی تلاش ایک تقوی شعار مسلمان کا فرض ہے کہ مذکورہ بالا چند موٹی موٹی نشانیاں جماعت احمدیہ کے علاوہ آج کس فرقہ میں پوری
277 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ ہوتی ہیں.کیا کسی فرقہ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ کی طرح مامور من اللہ مسیح و مہدی کا دعویدار واجب الا طاعت امام یا اس کا خلیفہ موجود ہے؟ تا کہ رسول اللہ اللہ کی نصیحت کے مطابق ایک متلاشی حق ایسے کلمہ گو مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے وابستہ ہو جائے.کیا آج دنیا کے نقشہ پر جماعت احمدیہ کے علاوہ کوئی ایسی جماعت ہے جس میں نظام خلافت کے تابع صحابہ جیسی اطاعت ، وحدت کے ساتھ اعلیٰ اخلاق و کردار کے نمونے موجود ہوں ؟ نہیں کوئی بھی تو نہیں.بلکہ ان ڈیڑھ اینٹ کی مساجد بنانے والے نام نہاد علماء کے درمیان صرف ایک امام جماعت احمد یہ ہیں جن کی آواز پر ان کی بیعت کرنے والے اپنا تن من دھن سب قربان کرنے کے لئے تیار ہیں ، وہ ان کے ایک اشارہ پر اٹھتے اور بیٹھتے ہیں.ان باہم دست و گریبان اور فتاویٰ تکفیر کا بازار گرم کرنے والے فرقوں کے منتشر ہجوم کے مابین باہم محبت والفت میں مربوط اس جماعت کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں ایک احمدی کو کانٹا بھی چھے تو سب عالم کے احمدی بے چین اور بے قرار ہو کر اپنے مولیٰ کے حضور دست بدعا ہوتے ہیں اور یہی اس جماعت کی کامیابی کا راز ہے.کیا مظلوم احمدیوں کی طرح ایماندار، صداقت شعار، دعا گو،صابر و شاکر ، عبادت گزار، تقویٰ شعار، دیانت دار با اخلاق صاحب کردار لوگ اس کثرت سے کسی اور فرقہ میں موجود ہیں جیسے صحابہ کی جماعت میں تھے یا آج احمدی جماعت ہی اس کی علمبردار ہے، جس کے غیر بھی اعلانیہ معترف ہیں.کیا آج احمدیوں کی طرح کوئی اپنے مالوں اور جانوں کی قربانی راہ خدا میں کر رہا ہے جیسے صحابہ کرتے تھے؟ احمدیوں کی ان قربانیوں کے نتیجہ میں دنیا کے 212 ممالک میں اشاعت دین ہو رہی ہے، خدا کے گھر تعمیر ہورہے ہیں، قرآن کریم کے تراجم ساری دنیا میں شائع ہورہے ہیں اور ایم ٹی اے کے ذریعے ساری دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہے.پھر یہ بھی تو دیکھو کہ کیا آج کلمہ گو احمدیوں کے سوا کسی اور فرقہ کو کلمہ طیبہ، اذان، نمازوں ، قرآن پڑھنے، حج کرنے یا تبلیغ سے روکا جاتا اور انہیں مبتلائے آلام کیا جاتا ہے جیسے صحابہ رسول کو کیا جاتا تھا؟ نہیں ہرگز نہیں تو پھر ناجی کون ہے؟
278 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ کیا مذہب کے نام پر کلمہ گو احمدیوں کے علاوہ کسی سے بائیکاٹ، یا مار پیٹ، یا گھر بار سے نکالنے، مالوں سے محروم کرنے ، قید یا قتل کرنے کا سلوک جاری ہے جن کو صحابہ کرام کی طرح عیسائی عادل حکومتوں میں پناہ لینے کی نوبت در پیش ہو ؟ نہیں ہرگز نہیں تو پھر نا جی کون ہے؟ آج کون ظالم ہیں جو مظلوم احمدیوں کے مُردوں تک کی بے حرمتی کر کے انہیں دفن ہونے سے روکتے اور ان کی قبروں کے کتبے اکھیڑنے سے بھی باز نہیں آتے؟ کیا کلمہ، اذان اور قرآن و نماز سے روکنے والے، مساجد و مینار گرانے والے اور قبروں کی بے حرمتی کرنیوالے مسلمان رسول اللہ اور صحابہ کے نمونہ پر ہیں؟ جنہوں نے تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کا احترام سکھایا؟ (الحج: 41) آج کون کلمہ کی عبارتیں توڑ پھوڑ اور قبروں کے کتبے اکھیڑ کر ان کی تو ہین کا مرتکب ہو رہا ہے؟ حسب توفیق سب مسلمان فرقے یا احمدی فرقہ ناجیہ؟ اگر مذکورہ بالا صفات کا حامل کوئی اور فرقہ چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے تو پھر اس میدان میں تنہا موجود جماعت احمدیہ ہی وہ فرقہ ناجیہ ہے جس کی عملی گواہی خدا کے رسول ﷺ اور صحابہ کے کردار نے دی اور آپ کے بچے غلام چودہ سو سال سے دیتے چلے آئے.ان میں سے ایک نمایاں بزرگ اہلِ سنت کے امام حضرت علامہ ملاعلی قاریؒ (متوفی: 1014ھ بمطابق 1606ء) تھے ، جنہوں نے اللہ سے علم پا کرنا جی فرقہ کا نام ہی فرقہ احمد یہ بیان فرمایا تھا.ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 77 : مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح الجزء الاول صفحہ 381 دارالکتب العلمیة بیروت لبنان حضرت مجددالف ثانی ( متوفی : 1034ھ) نے اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر یہ بات بیان فرمائی کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے ہزار سال بعد ایک ایسا زمانہ آنیوالا ہے جس میں حقیقت محمدی کا نام حقیقت احمدی ہو جائے گا.ملاحظہ ہو عکس حوالہ نمبر 79: مبدا و معاد مترجم از حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحب صفحه 205 مطبوعہ احمد برادرز پرنٹرز ناظم آباد کراچی
279 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ حضرت ملاعلی قاری نے ایک پیشگوئی کے رنگ میں ناجی فرقہ کا نام بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ وہ طریقت احمد یہ پر ہو گا.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر : 77 مرقاة المفاتيح للعلامة الشيخ علي بن سلطان محمد القاري المتوف سنة الاهـ شرح مشكاة المصابيح للاقام العلاقة محمد بن عبد الله الخطيب التبريزي المتوفي سنة ٧٤١ه تحقيق الشيخ جمال عيتاني تنبیه وضعنا حتى المشكاة في أعلى الصفحات ، ووضعنا أسفل منها نص مرقاة المفاتيح والحقنا في آخر المجلد الحادي عشر كتاب الإكمال في أسماء الرجال الكونترا جيم ومعهمال المشكاة للعلاقة التبريزي الجزء الأول المحتوى كتاب الأيمان - كتاب العـ منشورات محمد والی بیضون لنشر كتب السنة والجماعة دار الكتب العلمية بيروت - لبنان
280 عکس حوالہ نمبر : 77 کتاب الإيمان / باب الاعتصام بالكتاب والسنة رواه الترمذي.مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ ۱۳۸۱ ۱۷۲ ـ (۳۳) وفي رواية أحمد، وأبي داود، عن معاوية: «ثنتان وسبعون في النار، وواحدة في الجنة، وهي عليه مبالغة في مدحها وبياناً لباهر اتباعها حتى يخيل أنها عين ذلك المتبع ، أو المراد بما الوصفية على حد ونفس ما سواها أي القادر العظيم الشأن سوّاها، فكذا هنا المراد هم المهتدون المتمسكون بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين من بعدي فلا شك ولا ريب أنهم هم أهل السنة والجماعة.وقيل: التقدير أهلها من كان على ما أنا عليه وأصحابي من الاعتقاد والقول | والفعل فإن ذلك يعرف بالإجماع، فما أجمع عليه علماء الإسلام فهو حق وما عداء باطل.واعلم أن أصول البدع كما نقل في المواقف ثمانية : المعتزلة القائلون بأن العباد خالقو أعمالهم وينفي الرؤية وبوجوب الثواب والعقاب وهم عشرون فرقة، والشيعة المفرطون في محبة علي كرم الله وجهه وهم اثنان وعشرون فرقة والخوارج المفرطة المكفرة له رضي الله | عنه ومن أذنب كبيرة وهم عشرون فرقة والمرجئة القائلة بأنه لا يضر مع الإيمان معصية كما لا ينفع مع الكفر طاعة وهي خمس فرق والنجارية الموافقة لأهل السنة في خلق الأفعال والمعتزلة في نفي الصفات وحدوث الكلام وهم ثلاث فرق والجبرية القائلة بسلب الاختيار عن العباد فرقة واحدة، والمشبهة الذين يشبهون الحق بالخلق في الجسمية والحلول فرقة أيضاً | فتلك اثنان وسبعون فرقة كلهم في النار والفرقة الناجية هم أهل السنة البيضاء المحمدية والطريقة النقية الأحمدية، ولها ظاهر سُمي بالشريعة شرعة للعامة وباطن سُمي بالطريقة منهاجا للخاصة وخلاصة خصت باسم الحقيقة معراجاً لأخص الخاصة؛ فالأول نصيب الأبدان من الخدمة، والثاني نصيب القلوب من العلم والمعرفة والثالث نصيب الأرواح من المشاهدة والرؤية.قال القشيري والشريعة أمر بالتزام العبودية، والحقيقة مشاهدة الربوبية فكل شريعة غير مؤيدة بالحقيقة فغير مقبول، وكل حقيقة غير مقيدة بالشريعة فغير محصول ؛ فالشريعة قيام بما أمر.والحقيقة شهود لما قضي وقدر وأخفى وأظهر، والشريعة حقيقة من حيث إنها وجبت بأمره والحقيقة شريعة أيضاً من حيث إن المعارف به سبحانه وجبت بأمره.والله در من قال من أرباب الحال : ألا فــــالــزمـوا سنة الأن الا فاحفظوا سيرة ومـن يــبــتــدع بــدعـة لم يكرم * بو دانه رتب (رواه الترمذي) أي عن ابن عمر وكذا.۱۷۲ - (وفي رواية أحمد أي أحمد بن حنبل وأبي داود عن معاوية) أي بعد قوله : وإن هذه الأمة ستفترق على ثلاث وسبعين فرقة» اثنتان وسبعون في النار وواحدة في الجنة وهي الحديث رقم ۱۷۲ : أخرجه أحمد في المسند ٤/ ۱۰۲ وأبو داود ٥/٥ حديث رقم ٤٥٩٧.ترجمہ: پس بہتر فرقے ہیں، سب آگ میں اور فرقہ ناجیہ وہ روشن سنت محمد یہ والے اور پاکیزہ طریقت احمد یہ والے ہیں.
281 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ کتاب ہذا کے مترجم نے سہو یا عمداً (واللہ اعلم ) عربی عبارت کا یہ ترجمہ کہ ناجی فرقہ طریقت احمد یہ پر ہوگا، سوالیہ نشان والی جگہ پر چھوڑ دیا ہے.اگر عمداً ایسا کیا ہے تو یہ تحریف کے زمرہ میں آتا ہے.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر : 78 مرقاة المفاتيح.للعلامة الشيخ القارى على بن سلطان محمد القارى هجری ١٠١٤ شرح اُردو شكوة المصابيح للامام العلاقة محمد بن عبد الله الخطيب التبريزى المتوفى ٧٤١ مترجم : مولانارا و محمدندیم ا جلد اول | MAKTABA-E-REMANIA اقرأ سنتر عرنی سٹریٹ اردو بازار لاهور فون: 37355743-37224228-042
282 عکس حوالہ نمبر : 78 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ مرقاة شرح مشكورة المو لاوان 292 كتاب الايمان بعض کا کہنا ہے کہ یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ امت ارتکاب بدعات میں بنی اسرائیل وغیرہ سے ایک درجہ بڑھ کر ہوگی.بعض کا کہنا ہے کہ اُمت سے مراد امت دعوت ہے، چنانچہ اس صورت میں ۷۳ کے عدد میں وہ منتیں بھی شامل ہو جائیں گی جو ہمارے قبلہ پر نہیں ہیں اور ایک احتمال یہ ہے کہ امت سے مراد امت اجابت ہے.اس صورت میں ۳ے کا عدد ہمارے اہل قبلہ کے ساتھ مخصوص ہوگا.دوسری بات زیادہ ظاہر ہے.ابہری جمیلہ سے منقول ہے کہ اکثر کے نزدیک اس سے مراد امت اجابت ہے.قوله: كلهم في النار الا ملة واحدة "ملة" منصوب ہے، اور مضاف محذوف ہے، ای: الا أهل ملة کیونکہ یہ ایسے اعمال کا ارتکاب کریں گے جو موجب نار ہوں گے.اپنے غلط عقائد اور بداعمالیوں کی بناء پر دوزخ میں داخل ہوں گے لہذا جس کے عقائد و اعمال اس حد تک فساد انگیز نہ ہوں گے وہ دائرہ کفر میں نہیں آئیں گے اور اپنی سزا کی مدت گزار نے کے بعد دوزخ سے نکال لئے جائیں گے.قوله: ما أنا عليه و اصحابی : " ا " خبر ہے اور مبتدا محذوف ہے.ای: هی ما انا عليه الخ زیر نظر حدیث میں جنتی گروہ کو الجماعت" کہا گیا ہے اور اس سے مراد اہل علم اور صحابہ ہیں ان کو الجماعت کے نام سے اس لئے موسوم کیا گیا ہے کہ یہ سب کلمہ حق پر جمع ہیں اور دین و شریعت پر متفق ہیں رہے باقی ۷۲ فرقے اُن کی تفصیلات اہل اسلام نے جمع کی ہیں جن میں زیادہ معروف آٹھ ہیں اور باقی ان کی مختلف شاخیں ہیں اور وہ جو آٹھ معروف ہیں وہ اس طرح ہیں: معتزله شیعه خوارج مرجیہ ) تجاریہ جبریہ مشبہ ناجیہ ۷۲ فرقوں کی تفصیل: معتزله ه مرجیہ ۲۰ ۰۵ ۲۲ خوارج جبرید ۲۰ f ا.طول ؟؟؟؟؟؟؟ اس کا ایک ظاہر ہے جس کو شریعت کہا جاتا ہے، یہ عام لوگوں کیلئے ہے.اس کا ایک باطن ہے جس کو طریقت کہا جاتا ہے؟ یہ خاص لوگوں کیلئے ہے.آگے فرماتے ہیں: وخلاصة خصت باسم الحقيقة معراجا لأخص الخاصة، فالأول نصيب الأبدان من الخدمة، والثاني نصيب القلوب من العلم والمعرفة والثالث نصيب الأرواح من المشاهدة والرؤية قشیری پیے فرماتے ہیں: شریعت نام ہے التزام عبودیت کا اور حقیقت نام ہے مشاہدہ کیوبیت کا.چنانچہ ہر وہ شریعت جو حقیقت کی تائید سے خالی ہو غیر مقبول ہے، اور ہر وہ حقیقت جو شریعت کے ساتھ مقید نہ ہو غیر محصول ہے.پس شریعت مامور بہ کے قیام کا نام ہے اور حقیقت نام ہے قضاء و قدر اور مخفی و ظاہر کے شہود کا اور شریعت حقیقت ہے اس حیثیت سے کہ اس کے امرے واجب ہوئی ہے اور حقیقت شریعت ہے اس اعتبار سے کہ اللہ جل شانہ کے معارف بھی اس کے امر سے واجب سوالیہ نشان کی جگہ پر عربی عبارت کا ترجمہ محذوف ہے.
283 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ حضرت مجددالف ثانی نے بھی اپنی کتاب مبدا و معاد میں پیشگوئی کے رنگ میں بیان فرمایا کہ ایک ہزار اور چند سال بعد حقیقت محمدی کا نام حقیقت احمدی میں تبدیل ہو جائے گا.ملاحظہ ہو:.عکس حوالہ نمبر: 79 ان من وين كة فمن شاء اتخذ إلى ربه سبيله الحمد شد که رساله شریقہ مصفر امام ربانی حضرت محمد الف ثانی شیخ احمد فاروقی نقشبندی سربندی قدس سره مع اردو ترجمہ از حضرت مولانا سید زوار حسین شاه ما نقشبندی مجددی رحمه اله علیه مؤلف عمدة السلوك عمدة الفقه وغيره باہتمام شا ادارہ مجددیہ - ناظم آباد ۳.کراچی 12 ۳۷ مطبوعه به احمد برادرس پر تشریں.ناظم آباد.کراچی عشر
اردو ترتیه 284 عکس حوالہ نمبر : 79 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ ۲۰۵ بدأ و معاد فرمایا گیا اور ابنائے جنس کے درمیان ممتاز فرمایا گیا.یہ سب کچھ اللہ کے حبیب کے صدقے اور اللہ کے رسول کی برکت سے ہوا.آپ پر میرے اور آپ کی آل پر فاضل تر رحمتیں اور کامل تر سلامتیاں نازل ہوں.حقیقت کعبہ کے مقام میں جاننا چاہئے کہ جس طرح کعبہ کی صورت.حقیقت محمدی کا عروج چیزوں کی صورتوں کی مسجود ہے.اسی طرح حقیقت کعبہ اُن چیزوں کی حقیقتوں کی مسجود ہے.اور میں ایک عجیب بات کہتا ہوں، جو اس سے پہلے نہ کسی نے سنی اور نہ کسی بتانے والے نے بتائی، جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے صرف مجھے بتائی اور صرف مجھ پر الہام فرمائی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ آن سرور کائنات علیہ وعلی آلہ الصلوات و التسلیمات کے زمانہ حالت سے ایک ہزار اور چند سال بعد ایک زمانہ ایسا بھی آنے والا ہے کہ حقیقت محمدی اپنے مقام سے عروج فرمائے گی اور حقیقت کعبہ کے مقام میں (ریسائی پاکر اس کے ساتھ) تحد ہو جائے گی.اس وقت حقیقت محمدی کا نام حقیقت احمدی ہو جائے گا.اور وہ ذات احمد جل سلطانہ کا مظہر بن جائے گی.اور دونوں مبارک نام (محمد) واحمد) اس سمتی ) مجموعه حقیقت محمدی و حقیقت کعبہ میں محقق ہو جائیں گے.اور حقیقت.محمدی کا پہلا مقام رجہاں وہ اس سے پہلے تھی خالی رہ جائے گا اور وہ اس وقت تک خالی ہی رہے گا یہانتک کہ حضرت عیسی علی نبینا
285 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ آخری اتمام حجت حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اپنی صداقت جانچنے کا کیا ہی فیصلہ کن معیار ٹھہرایا ہے.فرماتے ہیں:.” خدا تعالیٰ کے الہام اور وحی سے کہتا ہوں وہ جو آنے والا تھا وہ میں ہوں.قدیم سے خدا تعالیٰ نے منہاج نبوت پر جوطریق نبوت رکھا ہوا ہے وہ مجھ سے جس کا جی چاہے لے لے.“ پھر فرمایا:.( ملفوظات جلد د دوم صفحہ 383 ایڈیشن 1988ء) میں کوئی بدعت نہیں لایا جیسا کہ حنبلی شافعی وغیرہ نام تھے ایسا ہی احمدی بھی نام ہے.بلکہ احمد نام میں اسلام کے بانی احمد ﷺ کے ساتھ اتصال ہے اور یہ الله اتصال دوسرے ناموں میں نہیں.احمد ، آنحضرت ﷺ کا نام ہے.اسلام احمدی ہے اور احمدی اسلام ہے...خدا تعالی کے نزدیک جو مسلمان ہیں وہ احمدی ہیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 502 ایڈیشن 1988ء) پس کیا ہی خوب فرمایا عین وقت اور ضرورت پر اس آنے والے نے :- میں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر وہ ہوں نور خدا جس ہوا دن آشکار وقت تھا وقت مسیحا کسی اور کا وقت آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا میں میں ނ
286 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ جفا کارمنکروں کا انجام تاریخ اپنے آپ کو دہراتی چلی آئی ہے.قرآن شریف میں سورۃ ہود اور اس کی مثل دیگر سورتوں اور سورۃ الشعراء میں بھی منکروں اور تکذیب کرنے والوں کا ہولناک عبرت آموز انجام مذکور ہے.ازمنہ رفتہ کی طاقتو را قوام عاد و ثمود وغیرہ نے جب اپنے رسولوں سے تکذیب واستہزاء کا سلوک کیا تو خدائے قہار کے قہر کا مورد بن کر ہمیشہ کے لئے ایسے راندہ درگاہ ہوئے کہ آج بھی ان پر لعنت برستی ہے.وہ اہل بصیرت کے لئے عبرت کا نمونہ ہیں.آج بھی خدائے قادر و جبار کی یہ تقدیر کون بدل سکتا ہے کہ ظالم کبھی بامراد نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ نا کامی کا منہ دیکھتے ہیں.پس جس طرح خدا کے نام پر جھوٹا دعویدار سب سے بڑا ظالم ہوتا ہے اسی طرح خدا کے بچے مامور کی تکذیب و انکار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ بھی سب سے بڑا ظالم قرار دیتا ہے، وہ خدا کی گرفت سے بھی بچ نہیں سکتے اور ناکامی و نامرادی ان کا مقدر ہے (العنکبوت: 69) اس زمانہ میں یہ دونوں گروہ موجود اور اپنے آخری انجام کے منتظر ہیں.پس دور حاضر کے مامور من اللہ پر ایمان لانے والوں کا بھی حضرت ھوڈ کی طرح آج یہی اعلان ہے کہ فانتظروا انى معكم من المنتظرين كه تم انتظار کرو، ہم بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہیں.خدائی سفیروں کی تو ہین کرنے والوں کے انجام کا ذکر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسح الرابع نے ان پر شوکت الفاظ میں فرمایا :.انبیاء کے دشمنوں کی وہ ساری تاریخ ایک کھلی ہوئی کتاب کی طرح میری آنکھوں کے سامنے پھر گئی جو بڑے بڑے مغرور اور سرکش بادشاہوں کے سرتوڑے جانے کی خبر دیتی ہے اور بڑی بڑی عظیم قوموں کی ہلاکت اور بربادی کی داستان بیان کرتی ہے.جب کبھی ان بادشاہوں نے جن کے رعب اور ہیبت سے زمین کا نیا کرتی تھی اللہ کے سفیروں اور اس کے در کے فقیروں کو حقارت سے دیکھا اور ان کو رسوا کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ کی غیرت اور جلال نے خود انہی کو ذلیل اور رسوا کر دیا
287 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ ،ان کی عزتوں کو خاک میں ملادیا اور ان کی سلطنتوں کو پارا پارا کر دیا.ان کی عظمتوں کے پرزے اڑا دیئے گئے اور ان کے تکبر ٹوٹ کر اس طرح ریزہ ریزہ ہو گئے جیسے کانچ کا برتن کوئی غضبناک ہاتھ کسی چٹان پر دے مارے.وہی زمینیں جو کبھی ان کے ہیبت و جلال سے کانپا کرتی تھیں ان کے بد انجام کے نظارے سے لرز نے لگیں....ان کی جمعیتیں کام نہ آئیں اور ان کی کثرت نے ان کو کوئی فائدہ نہ دیا.وہ ہلاک کی گئیں مگر آسمان نے ان کے حال پر کوئی آنسو نہ بہایا.وہ برباد کی گئیں مگر زمین نے ان کی بربادی پر کوئی تاسف نہ کیا.ہاں زمین و آسمان نے بیک آواز ان پر لعنت کی اور وقت نے لعنت کی اس پھٹکار کو اس طرح محفوظ کر لیا کہ قیامت تک اس کی گونج سنائی دیتی رہے گی.“ (خطابات طاہر.تقاریر جلسہ سالا نه قبل از خلافت صفحه 422 طبع اول 2006) حضرت بانی جماعت احمدیہ نے امت میں اپنے زمانے کے موعود مامور اور حکم چودھویں صدی کے منکروں کا انجام کیسی پر حکمت اور لطیف و بلیغ تمثیل میں بڑی تحدی سے بیان فرمایا ہے کہ ہر تکذیب کرنے والا شخص اپنی زبان اور قلم ہاتھ کی شامت سے پکڑا جائے گا.آپ فرماتے ہیں:.”ہمارا گر وہ ایک سعید گروہ ہے جس نے اپنے وقت پر اس بندہ کو قبول کر لیا ہے جو آسمان اور زمین اور کے خدا نے بھیجا ہے اور ان کے دلوں نے قبول کرنے میں کچھ تنگی نہیں کی کیونکہ وہ سعید تھے اور خدائے تعالیٰ نے اپنے لئے انہیں چن لیا تھا.عنایت حق نے انہیں قوت دی اور دوسروں کو نہیں دی اور ان کا سینہ کھول دیا اور دوسروں کا نہیں کھولا.سوجنہوں نے لے لیا انہیں اور بھی دیا جائے گا اور ان کی بڑھتی ہوگی مگر جنہوں نے نہیں لیا ان سے وہ بھی لے لیا جائے گا جو ان کے پاس پہلے تھا.بہت سے راستبازوں نے آرزو کی کہ اس زمانہ کو دیکھیں مگر دیکھ نہ سکے مگر افسوس کہ ان لوگوں نے دیکھا مگر قبول نہ کیا ان کی حالت کو میں کس قوم کی حالت
288 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ سے تشبیہ دوں اُنکی نسبت یہی تمثیل ٹھیک آتی ہے کہ ایک بادشاہ نے اپنے وعدہ کے موافق ایک شہر میں اپنی طرف سے ایک حاکم مقرر کر کے بھیجا تا وہ دیکھے کہ در حقیقت مطیع کون ہے اور نافرمان کون اور تا اُن تمام جھگڑوں کا تصفیہ بھی ہو جائے جو اُن میں واقع ہو رہے ہیں چنانچہ وہ حاکم عین اُس وقت میں جبکہ اس کے آنے کی ضرورت تھی آیا اور اُس نے اپنے آقائے نامدار کا پیغام پہنچادیا اور سب لوگوں کو راہِ راست کی طرف بلا یا اور اپنا حکم ہونا اُن پر ظاہر کر دیا.لیکن وہ اس کے ملازم سرکاری ہونے کی نسبت شک میں پڑ گئے تب اُس نے ایسے نشان دکھلائے جو ملازموں سے ہی خاص ہوتے ہیں مگر انہوں نے نہ مانا اور اُسے قبول نہ کیا اور اُس کو کراہت کی نظر سے دیکھا اور اپنے تئیں بڑا سمجھا اور اس کا حکم ہونا اپنے لئے قبول نہ کیا بلکہ اس کو پکڑ کر بے عزت کیا اور اُس کے منہ پر تھوکا اور اس کے مارنے کے لئے دوڑے اور بہت سی تحقیر و تذلیل کی اور بہت سی سخت زبانی کے ساتھ اُس کو جھٹلایا تب وہ اُن کے ہاتھ سے وہ تمام آزار اُٹھا کر جو اس کے حق میں مقدر تھے اپنے بادشاہ کی طرف واپس چلا گیا اور وہ لوگ جنہوں نے اُس کا ایسا بُرا حال کیا کسی اور حاکم کے آنے کے منتظر بیٹھے رہے اور جہالت کی راہ سے ایسے خیال باطل پر جمے رہے کہ یہ تو حاکم نہیں تھا بلکہ وہ اور شخص ہے جو آئے گا جس کی انتظاری ہمیں کرنی چاہئے سو وہ سارا دن اس شخص کی انتظار کئے گئے اور اُٹھ اُٹھ کر دیکھتے رہے کہ کب آتا ہے اور اس وعدہ کا با ہم ذکر کرتے رہے جو بادشاہ کی طرف سے تھا یہاں تک کہ انتظار کرتے کرتے سورج غروب ہونے لگا اور کوئی نہ آیا آخر شام کے قریب بہت سے پولیس کے سپاہی آئے جن کے ساتھ بہت سی ہتھکڑیاں بھی تھیں سو انہوں نے آتے ہی اُن شریروں کے شہر کو پھونک دیا اور پھر سب کو پکڑ کر ایک ایک کو ہتھکڑی لگا دی اور عدالت شاہی کی طرف بجرم عدول حکمی اور مقابلہ ملازم سرکاری چالان کر دیا
289 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ جہاں سے انہیں وہ سزائیں مل گئیں جن کے وہ سزاوار تھے.سو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہی حال اس زمانہ کے جفا کارمنکروں کا ہوگا ہریک شخص اپنی زبان اور قلم اور ہاتھ کی شامت سے پکڑا جائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سُنے.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 191-190 ایڈیشن 2008) نشاں کو دیکھ کر انکار کب تک پیش جائے گا ارے اک اور جھوٹوں پر قیامت آنے والی ہے ترے مکروں سے اے جاہل! میرا نقصاں نہیں ہرگز آگ میں پڑ کر سلامت آنے والی ہے که یہ جاں بہت بڑھ بڑھ کے باتیں کی ہیں تُو نے اور چھپایا حق یاد رکھ اک دن ندامت آنے والی ہے خدا رسوا کرے گا تم کو میں اعزاز پاؤں گا سنو اے منکرو ! اب کرامت آنے والی ہے خدا ظاہر کرے گا اک نشاں پُر رُعب و پُر ہیبت دلوں میں اس نشاں سے استقامت آنے والی ہے خدا کے پاک بندے دوسروں پر ہوتے ہیں غالب مری خاطر خدا یہ علامت آنے والی ہے ނ تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 595 ایڈیشن 2008) آخر میں چودہویں صدی کے امام مسیح و مہدی کے پانچویں خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ان با برکت کلمات پر اختتام کرتے ہیں:.پہلے یہ کہا کرتے تھے کہ گو مسیح و مہدی نے چودہویں صدی میں آنا ہے لیکن ابھی نہیں آیا اور ابھی چودہویں صدی ختم نہیں ہوئی ، بڑا عرصہ پڑا ہے اس کے ختم
290 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ ہونے میں.پھر چودہویں صدی بھی ختم ہو گئی.بعض جاہل مولویوں نے تو...کہا کہ چودہویں صدی لمبی ہوگئی ہے ابھی ختم ہی نہیں ہو رہی.پھر شاید کسی نے سمجھایا کہ یہ کیا جہالت کی باتیں کرتے ہو.پھر کچھ نام نہاد پروفیسروں اور ڈاکٹر علماء کو بھی اپنی علمیت کے اظہار کرنے کا موقع ملا، لوگوں کو اکٹھا کرنے کا موقع ملا.تو انہوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ مسیح و مہدی کی آمد تو قرب قیامت کی نشانی ہے اس لئے ابھی وقت نہیں آیا...اور بعض عرب علماء نے اپنے پہلے نظریہ کے خلاف یہ تو تسلیم 6** کر لیا...کہ حضرت عیسی کی وفات ہو چکی ہے اور ساتھ یہ بھی کہنے لگ گئے کہ مسیح کی آمد ثانی کی جواحادیث ہیں وہ ساری غلط ہیں، اب کسی نے نہیں آنا.اور یہ کہ ہم جوعلماء ہیں یا بعض ملکوں میں علماء کے ادارے ہیں دین کی تجدید کرنے کے لئے یہی کافی ہیں...پھر انہوں نے جماعت کے خلاف جھوٹے فتووں کی بھر مار کر دی...اور یہ فتوے صرف مسلمانوں میں احمدیوں کے خلاف نفرت اور فساد پھیلانے کے لئے جاری کئے گئے ہیں...ان پر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں صرف اتنا ہی کہتے ہیں بلکہ یہی دعا ہے کہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ وَالْفَاسِقِین.اور ان فتوے دینے والوں کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں...ایک وقت تک تمام علماء اس بات پر متفق تھے کہ مسیح و مہدی کا ظہور چودہویں صدی میں ہو گا یا اس کے قریب ہوگا اور تمام پرانے ائمہ اور اولیاء اور علماء اس بات کی خبر دیتے آئے کہ یہ زمانہ جو آنے والا ہے مسیح و مہدی کے ظہور کا ہوگا اور جو اس زمانے کے لوگ تھے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے یا قریب زمانے کے وہ تو مسلمانوں کے حالات دیکھ کر اس یقین پر قائم تھے کہ عنقریب مسیح و مہدی کا ظہور ہو گا.اس زمانے میں جن لوگوں کو دین کا دردتھا خدا سے
291 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اسلام کی اس ڈوبتی کشتی کو سنبھال لے...یہ سب کچھ ہورہا تھا...لیکن یہ بھی کہتے ہیں مسیح کی ضرورت نہیں اور یہ کہ مہدی یا مسیح کا ابھی وقت نہیں آیا...ان علماء کو اگر وہ حقیقت میں علماء ہیں غور کرنا چاہئے سوچنا چاہئے کہ یہ پرانے بزرگوں کی بتائی ہوئی خبریں ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہیں قرآن کریم نے بھی مسیح کے آنے کی کچھ نشانیاں بتائی ہیں.ان پر غور کریں اور یہ کہہ کر عوام کو گمراہ نہ کریں کہ ان ساری باتوں کا ، ان آفات کا مسیح کی آمد سے کوئی تعلق نہیں ہے...پس یہ حال ان علماء کا دیکھ کر ہمیں خاموش نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ کوشش کر کے ہر مسلمان کو ان کا یہ حال بتانا چاہئے کہ انہوں نے تو اللہ ورسول کی بات نہ مان کر اس انجام کو پہنچنا ہے جہاں اللہ کی ناراضگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے.لیکن اے مسلمانو ! اگر تم اللہ کی رضا چاہتے ہو، دنیا، دین اور آخرت بچانا چاہتے ہو تو اس وقت اس زمانے کے حالات پر غور کرو اور تلاش کرو کہ یہ زمانہ کہیں مسیح موعود کا زمانہ تو نہیں ہے اور مسلمانوں کی یہ بے چارگی کی حالت اور یہ آفات وغیرہ بے وجہ کی دلوں کی سختی کا نتیجہ تو نہیں ہے...پس ائمہ نے قرآن وحدیث سے علم پا کر بتا دیا کہ مسیح موعود اس زمانے میں ہو گا.علماء سابقہ اور موجودہ نے کہا کہ اس زمانے کے حالات بتارہے ہیں، مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ نبی ہونا چاہئے.قرآن کریم نے نشانیاں بتا دیں جن میں سے بعض کا میں نے ذکر کیا ہے.یہ آخری زمانے کی باتیں ہیں، جب یہ باتیں ہورہی ہوں تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ مسیح موعود کا زمانہ ہی ہے...سورۃ تکویر میں جہاں اس زمانے کے حالات کی پیشگوئیاں ہیں وہاں اسلام کی
292 مسیح موعود پر ایمان لانے کی ضرورت؟ آئندہ ترقی بھی مسیح موعود کے ذریعہ سے ہی وابستہ کی گئی ہے.ان کے ذریعہ سے اکٹھے ہونے کی خبر دی گئی ہے.اس لئے ان لوگوں میں سے کسی کو اس خیال میں نہیں رہنا چاہئے کہ مسیح موعود کو مانے بغیر اسلام اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کر لے گا.یا یہ لوگ اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کر لیں گے...اللہ تعالیٰ مسلمان کہلانے والے علماء کو بھی عقل دے اور مسلمان امت کو بھی کہ یہ حق کو پہچان سکیں.اللہ تعالیٰ ان کا سینہ کھولے، دماغ کھولے.ہمارا کام ان کے لئے دعا بھی کرنا ہے اور ان کو راستہ بھی دکھانا ہے، اور وہ ہمیں کرتے چلے جانا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی 66 توفیق عطا فرمائے.“ ( خطبہ جمعہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 3 فروری 2006)
293 بعض اصطلاحات اور چند مشکل الفاظ کے معانی بعض اصطلاحات اور چند مشکل الفاظ کے معانی صفحه الفاظ کتاب 22 معنی اوضاحت 66 بحساب جمل ابجد کے عددوں کے حساب سے ، مثلاً ”الف‘ کا 1، ”ب“ کے 2 ” ج“ کے 3 کے 4 اعداد ہیں.علی ہذا القیاس 23 چاند کی سطح راتیں 24 24 تقدیر 34 رموز و کنایات 34 36 98 50 50 54 54 79 استعاره چاند کی آخری تاریک راتیں تقدیر کے لغوی معنی اندازہ کے ہیں.اصطلاح میں عربی جملہ میں محذوف الفاظ کا اندازہ کرنا.رمز کی جمع : اشارہ ، راز ، بھید کنایہ کی جمع: ایما، رمز ،اشارہ، مجازاً استعارہ علم بیان کی اصطلاح میں مجاز کی ایک قسم جس میں کسی لفظ کے مجازی اور حقیقی معنی کے درمیان تشبیہ کا علاقہ ہوتا ہے اور بغیر حروف تشبیہ کے حقیقی معنی کو مجازی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے.سالکوں کی اصطلاح میں قطب غوث.وہ ولی اللہ جس پر دنیا کے انتظام اور نگہبانی کا مدار ہو.نور کو پورا کرنے والا مکمل غلبه قطب متم نور اظہار تام پورب و پچھتم نرسنگے آیات کبری مشرق و مغرب ایک قسم کا بجانے کا سینگ ،صور، ناقور، بگل.اس کو قر نا بھی کہتے ہیں جس میں پھونک کر آواز نکالی جاتی ہے.بڑی نشانیاں
93 انذار و تخفیف 294 بعض اصطلاحات اور چند مشکل الفاظ کے معانی عذاب سے پہلے ڈرانا اور خوف دلانا 201 مراتب سلوک مراتب مرتبہ کی جمع ، درجے ، رتبے ، مناصب 202 203 سلوک راستہ چلنا.راہ.نیک روی.طریقہ صوفیوں کی اصطلاح میں تقرب حق تعالیٰ کی طلب.راہ خدا جوئی.تلاش حق ال معرفه وہ ”ال“ جو عربی زبان میں کسی اسم اور صفت کے ساتھ آکر اس کے معنوں میں خصوصیت پیدا کر دیتا ہے.ارہا ارہاص کے لغوی معنی مکان کو اینٹ ہٹی اور پتھر کے ساتھ مضبوط و مستحکم بنانے کے ہیں.240 246 252 287 اصطلاح میں برکات سماوی وظہور نبوت سے پہلے رونما ہونے والے خارق عادت امورار ہاص کہلاتے ہیں.منطقة البروج وہ بڑا دائرہ جس پر آسمانی بارہ برج واقع ہیں.پیشن پہلے قبل از وقت پیشتر اشہب دوراں زمانے کا شاندار گھوڑا تاسف افسوس، حسرت، پچھتاوا، رنج، ملال