Salman Rushdie Urdu

Salman Rushdie Urdu

سلمان رشدی بھوتوں کے آسیب میں

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اسلام پر اعتراضات
اختلافی مسائل و اعتراضات

1988ء میں سلمان رشدی نے ایک نام نہاد ناول لکھا جس پر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا میں شور اٹھنے لگا، ایک گروہ نے اس  کتاب کو نذر آتش کرتے ہوئے اس کے مصنف کے واجب القتل ہونے کے فتاویٰ جاری کردیئے اور دوسرے گروہ نے عوام الناس کے ٹیکس کے پیسوں سے مصنف کی جسمانی حفاظت، تشہیر اور اس کو ہیرو بنانے کی راہ اپنا لی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد، رہنمائی اور توجہ سے مکرم محمد ارشد احمدی صاحب نے سلمان رشدی کی توہین آمیز، اشتعال انگیز، ادبی لحاظ سے غیر معیاری اور بودی کتاب کا انگریزی زبان میں مدلل اور مناسب ردّ تیار کیا جسے 1996میں کتابی شکل میں شائع کردیا گیا تھا، زیر نظر کتاب، اس کا اردو ترجمہ ہے جسے مکرم محمد زکریا ورک صاحب اور چوہدری محمد ادریس صاحب نے بڑی محنت سے مکمل کیا ہے اور انگلستان سے اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز نے قریباً 200 صفحات پر 2007ء میں طبع کیا ہےجس میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں کئے گئے ضروری اضافے اور ترامیم بھی شامل ہیں۔ ٹھوس علمی بحثوں، مدلل  و معقول تجزیوں اور باحوالہ مواد سے مزین اس کتاب میں مصنف نے نہایت صفائی سے  اہل مشرق کی انتہا پسندی کوبھی  ردّ کیا ہے اور اہل مغرب کی بے حسی اور دوہرے معیاروں کی قلعی کھول کر ان کے غلط رویوں کی مذمت بھی کی ہے۔


Book Content

Page 1

سلمان رشدی بھوتوں کے آسیب میں مصنف : محمد ارشد احمدی مترجم : محمد زکر یا ورک

Page 2

Salman Rushdie, Haunted by his unholy Ghosts by: Mohamed Arshad Ahmedi (Urdu Translation) Translated into urdu by : Muhammad Zakariyya Virk (Law Graduate Karachi), Canada & Chaudhry Muhammad Idris, MA; M.Ed; (USA) First Published in UK in 2007 Islam International Publications Limited and Muhammad Arshad Ahmedi Published by: Islam International Publications Limited Islamabad, Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ United Kingdom Printed in UK at: Raqeem Press, Tilford, Surrey ISBN: 1 85372 947 7

Page 3

باب نمبر پیش لفظ عنوان اظہارتشکر تعارف فہرست مضامین صفحہ نمبر اول دیباچه اسلام اور نبی پاک ﷺ پر ابتدائی حملے اسلام پر حملوں کا موازنہ رشدی کے عقب میں سائے دوم صلیبی جنگیں سوم چهارم صلیبی جنگیں ، نو آبادیات اور سامراجیت اسلامی موازنه اسلام کے خلاف نفرت اسلام پر علمی اور ادبی حملے کالونیلزم اور عیسائیت برتر مغربی تہذیب مسلمانوں کی آزاد خیالی مصلح وقت کا ظہور مایوسی کا عالم اور مغرب کا خوف 7 8 9 88 15 17 19 22 23 27 29 33 37 39 41 43 47 ان تق الله الله په چه نه له چه ته شه 48 3

Page 4

50 51 61 این میان یان ده ؟ لا لا لله له له لا لا ه ه ه م م 55 56 57 61 62 65 68 68 70 71 72 74 75 79 79 80 81 83 85 85 نکته نزاع ایک موازنہ فکر اسلامی کی تشکیل نو کے منصوبے نیا آزاد خیال سکالر اسلام اور خود کفالت مغربی مستشرقین میسکم روڈنسن نبی پاک ﷺ پر الزامات قرآن پاک پر حملے ڈاکٹر نارمن ڈینئیل اسلام کا تصور (1350-1100) آنحضور ﷺ کی وفات نفس پروری جبر والی مورتی مستشرقین میں مماثلت پروفیسر ولیم منٹگمری واٹ سکالرز کی نئی پود ڈاکٹر مائیکل نذیر علی ملتے جلتے حملے دور حاضر کے حملے عالمی نظام نو آنحضور ﷺ کے کردار پر تہمتیں شیطانی اثرات تہم 4

Page 5

868 00 92 96 89 91 86 103 109 113 115 116 116 118 121 123 126 131 133 134 134 138 143 147 148 و ہم گیارہ باره مغرب کے اونچے طبقہ کا پس منظر سلمان رشدی کی مختصر سوانح رشدی، عفریت کا جنم گریمس ٹڈ نائٹس چلڈرن شیم دی سٹینک ورسز دی سٹینک ورسز کا افسانہ میکسم روڈنسن ڈاکٹر نذیر علی منٹگمری واٹ کیرن آرم سٹرانگ چوده پندره The Stanic Verses رشدی کی نظر میں حضرت سلمان فارسی رسول اللہ ﷺ کے خلاف مزید الزامات ہتک خدا، ارتداد اور الحاد ہتک خدا و رسول اور آزادی تقریر بائبل کی تعلیمات رشدی سے موازنہ تک خدا و رسول کا قانون بیسویں صدی میں تک خدا و رسول کے بارہ میں اسلامی تعلیمات رشدی کے خلاف فتویٰ اور مغربی ذرائع ابلاغ مذہب اور کلچر 5

Page 6

سولہ ذرائع ابلاغ میں ہونے والے اچھے تبصرے رشدی کو دیوتا بنا دیا گیا رشدی کو پہلے سے انتباہ ایک تلخ آمیز مشاہدہ اپنی قسمت کا مالک ستره اٹھارہ انیس رشدی The Stanic Versus کے دفاع میں رشدی بیان دیتا ہے رشدی کا اُلٹے پاؤں پھر جانا ہارون اینڈ دی سی آف سٹوریز ایسٹ ویسٹ رشدی عوام میں آنا شروع کرتا ہے رشدی کے لئے نوبل پرائز مصنف کوکس نے مارا؟ حرف آخر دی سٹینک ورسز لکھنے کی اصل وجہ رشد یوں کی نئی نسل کارٹون کا تنازعہ شہزادہ چارلس کا خطاب ارشادات امام جماعت احمدیہ رشدی کے بیانات شرح الفاظ مصادر مصنف کا تعارف 153 155 157 157 159 161 163 164 170 172 175 178 180 183 186 188 189 190 191 195 197 201 205

Page 7

پیش لفظ سلمان رشدی کا رسوائے زمانہ ناول آج سے اٹھارہ سال قبل لندن سے شائع ہوا تھا.اس کا جواب سید نا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی زیر ہدایات و نگرانی جماعت احمد یہ برطانیہ کے محمد ارشد احمدی نے 1996ء میں لکھا تھا.اب اس مدتل کتاب کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے جو سید نا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے زیر ارشاد کیا گیا ہے.یہ ترجمہ محمد زکر یا ورک صاحب ( کینیڈا) نے بڑی محنت سے کیا ہے.مجھے امید ہے کہ اردو پڑھنے والے اس سلیس آسان فہم ترجمہ سے حسب توفیق متمتع ہوں گے اور اس کی اشاعت اور ترسیل پوری دنیا میں بڑے وسیع پیمانہ پر کی جائے گی.ترجمہ کی نظر ثانی اور پروف ریڈنگ میں خاکسار کی مدد عبد السلام ظافر صاحب، مرزا محمود احمد صاحب، امتہ العلی زمینو بیه احمد صاحبہ، صبیحہ لون صاحبہ اور فریدہ خان صاحبہ نے کی ہے.ابتدائی طور پر ٹائپنگ کینیڈا کے ابو ذیشان صاحب نے کی جبکہ ٹائپ سیٹنگ محمود احمد ملک صاحب نے بڑی محنت سے کی ہے.اللہ تعالیٰ مصنف، مترجم اور جملہ احباب کو جنہوں نے اس کتاب کی تیاری میں خدمت کی توفیق پائی ہے، جزائے خیر عطا فرمائے.آمین خاکسار منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف ،لندن 7 جولائی 2007ء

Page 8

اظہار تشکر میں دل کی گہرائی سے عالمی جماعت احمدیہ کے سر براہ خلیفتہ المسیح الرابع حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں جن کو مجھ پر اعتماد تھا اور انہوں نے میرے ذمہ یہ ریسرچ کا کام سپر دفرمایا.انہوں نے مسلسل میری رہنمائی فرمائی جس کی مجھے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بے انتہاء ضرورت تھی اور جس سے مجھے بہت حوصلہ ملتا تھا.نیز رضوان مرزا کا شکر گذار ہوں جنہوں نے ابتدائی ریسرچ کی.اسی طرح مسز شوکیہ میر تنویر کھوکھر ، سفیر بھٹی کا جنہوں نے تکنیکی اور ماہرانہ رائے سے مدد کی.اور ہمیشہ مسکراتے ہوئے ولید احمد جنہوں نے بے انتہا کارآمد مدد سے اس کام میں حصہ لیا کا بھی شکر گذار ہوں.فرید احمد اور فضل شاہد احمد خاص طور پر میرے شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے کئی مواقع پر شوق سے راتوں کو باگ کر اپنی کارآمد رائے اور تکنیکی معلومات کی مدد سے اس کام کو اختتام تک پہنچایا.فضل نے اپنی خدمات سے میری رائے کے مطابق پوری طرح سے یہ ثابت کر دیا کہ اس کی زندگی کا حصول صرف ومبلڈن فٹ بال کلب ہی نہیں ہے.ارشد احمدی 8

Page 9

تعارف جب سلمان رشدی نے اپنا نام نہاد ناول 1988 ء میں شائع کیا تو اس سے دنیا بھر میں ایسی نزاعی بحث چھڑ گئی جس کی مثال ملنا محال ہے.اس ناول میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا تھا ان کے خلاف لوگ گلیوں میں دیوانہ وار نکل آئے، جلوس نکالے گئے.ناول کے مضامین سے عوام الناس میں جس قسم کے شدید رد عمل کا اظہار ہوا ، اس کے پیش نظر بعض مظاہرے اشتعال انگیزی پر منتج ہوئے جس سے متعدد لوگ یا تو زخمی ہوئے یا پھر ہلاک ہو گئے.دنیا بھر کے مسلمان ممالک نے اس ناول کی اشاعت کو مذموم قرار دیا اور ایران کے آیت اللہ خمینی نے رسوائے زمانہ فتویٰ جاری کیا، جس سے مغربی اقوام کا رد عمل شدید مخالفت اختیار کر گیا.انہوں نے اس کتاب کی تائید میں ایٹری چوٹی کا زور لگا دیا.اس سے ملتا جلتا رد عمل برطانیہ میں ہوا جہاں یہ کتاب شائع ہوئی تھی.برطانوی انتظامیہ نے یہ کہہ کر لا چاری کا اظہار کر دیا کہ انہوں نے آزادی تقریر کے حق کا بہر صورت تحفظ کرنا ہے.یوں اس بودی دلیل کی آڑ میں انہوں نے "Spy catcher" والے سیکنڈل کو بڑی آسانی سے نظر انداز کر دیا اور بعد ازاں برطانیہ میں مخش چینل والے ٹیلی ویژن کی آنے والی سٹیلائٹ ٹراسمشن پر بابندی عائد کردی.جہاں تک برطانوی انتظامیہ کا تعلق ہے یوں لگتا ہے کہ ائیر ویوز پرخش زبان کی ٹرانسمشن سے اس کے مقدس اصول آزادی تقریر کی خلاف ورزی ہوتی تھی لیکن نخش زبان کی اشاعت جس کا واحد مقصد معزز ہستیوں کے خالص کیریکٹر پر گند اچھالنا تھا ، جس سے ہزاروں شہریوں کے دل دکھے، ان کو آزردہ خاطر کرنے سے کوئی حق تلفی نہ ہوئی.پھر زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ، اس ناول کو ادب کا بہترین نمونہ قرار دے کر اس کی منادی کی گئی ، بلکہ اس کو مشہور زمانہ بکر ایوارڈ (Booker Award) کے لئے نامزد کیا گیا.مصنف کا استقبال ہیرو کے طور پر کیا گیا، اور اس کی رسوائے زمانہ کتاب میں سے اقتباسات 9

Page 10

اجلاسوں میں پڑھ کر سنائے گئے.جب مسلمانوں نے احتجاج کیا تو ان پر غیر رواداری اور عہد وسطیٰ کی ذہنیت کے مالک ہونے کی مہر تصدیق لگائی گئی.سلمان رشدی کی کتاب کو بریڈ فورڈ ( برطانیہ ) میں نذر آتش کرنے پر معاملہ اور بھی بگڑ گیا.کیونکہ میڈیا نے اس کو موضوع بحث بنالیا اور اس واقعہ کے مناظر کی فلم کو بار بار دکھا یا گیا.اس بات نے مغرب میں مقیم مسلمانوں کے جذبات کو بھڑ کایا اور وہ طبقہ جو پابندی قانون کے ساتھ پر امن طور پر رہ رہا تھا، اگلی کئی دہائیوں کیلئے اس کا رجحان جارحانہ اور متحار بانہ ہو گیا.چنانچہ برطانیہ کے مسلمانوں نے جب عدالتوں میں جا کر داد رسی کی تو ان کی مصالحتی کوششیں روز اول سے ہی نا کامی کا منہ تک رہی تھیں.ایک ایسے معاشرہ میں جہاں کئی مذاہب کے پیروکار بستے ہوں، خدا کی شان میں گستاخی، برطانوی قوانین بادی الرائے میں صرف اہل نصاری کے جذبات مجروح ہونے سے بچانے کیلئے بنائے گئے ہیں نہ کہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کیلئے ، بالخصوص مسلمانوں کے لئے تو قطعا نہیں.یہ کہنے کی ضروت در پیش نہیں آتی جب اس کتاب کو اتنی شہرت ملی تو یہ راتوں رات سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی.کئی ممالک میں اس پر پابندی عائد ہونے کے باوجود پہلے سال ہی میں صدہا اور ہزار ہا کی تعداد میں بک گئی.اشاعتی ادارہ وائیکنگ (Viking ) کی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ بکنے والی کتاب بن گئی.بہر کیف سلمان رشدی کی قسمت سر بہ مہر ہوگئی.کتاب کے مخالفین کی طرف سے دھمکیوں اور دشمنی کے جذبات نے اسے مجبور کر دیا کہ وہ روپوش ہو جائے اور پہلے دو سال میں اس کو اپنا گھر 54 مرتبہ بدلنا پڑا.تا ہم اس کی انگشت نمائی ہوئی اور اسے آزادی اور آزادی تقریر کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا جانے لگا.برطانوی حکومت نے اس کی حفاظت کے لئے ٹیکس ادا کرنے والے عوام کے پیسے کو بے دریغ استعمال کیا.امریکہ کے صدر اور برطانیہ کے وزیر اعظم سے اسے خصوصی ملاقات کا موقعہ دیا گیا.اگر ایک طرف رشدی کے خلاف مسلمانوں کا رویہ دیکھا جائے اور دوسری طرف اہل مغرب کا رد عمل تو دونوں میں ایک نمایاں فرق نظر آتا ہے."رشدی ، بھوتوں کے آسیب میں " 10

Page 11

ان دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کرتی ہے.ارشد احمدی صاحب کی کتاب اہل مشرق کی انتہا پسندی کو رد کرتی اور اہل مغرب کے رویہ کی مذمت کرتی ہے.یہ ہمیں بتاتی ہے کہ جہاں تک فتویٰ جاری کرنے کا تعلق ہے اس کا جواز اسلامی تعلیمات میں کہیں نہیں ملتا.اہل مغرب کے رویہ کی مذمت کرتے ہوئے ارشد احمدی صاحب ایک قدم اور آگے گئے ہیں تا کہ اس سارے معاملہ میں مغرب کے شر انگیز کردار کو بے نقاب کیا جاسکے.مصنف نے خوب واضح کیا ہے کہ جذبات مجروح کرنے والے اس نوع کے ناول کی اشاعت کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے.بلکہ اسلام اور بانی اسلام ﷺ کے خلاف نفرت کا نتیجہ ہے جو آغاز اسلام سے لے کر گذشتہ چودہ صدیوں سے بھڑک رہی تھی.آنحضرت ﷺ کے دور رسالت میں جو سازشیں ہوئیں ان سے لے کر کلیائی جنگوں کی بربریت تک کو تفصیلا دیکھا گیا ہے،اس بر بریت کی بازگشت خلیج کی 1991 ء والی جنگ میں بھی سنائی دیتی ہے.مصنف نے مغربی مستشرقین کے کردار پر بھی روشنی ڈالی ہے.جنہوں نے اخلاص کا لبادہ اوڑھ کر اپنی تحریروں میں اسلام اور بانی اسلام ﷺ کے خلاف نفرت کے بیج بوئے ہیں.اسلام کے خلاف عداوت کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دشمنی کی اس آگ کو بعض مسلمانوں نے خود بھڑ کا یا ہے.مغرب کی مادی ترقی سے چکا چوند ہو کر بعض مسلمان دانشوروں نے اسلام کے اس مسخ شدہ رُخ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے شروع کر دئے ، اس لئے وہ بھی اس نفرت کے ذمہ دار ہیں.سلمان رشدی ادب کی اس صنف کا نتیجہ ہے جس کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ اس کی تمام تحریروں کا احاطہ کیا جائے.اس کے بارہ میں یہ چیز خاص نوٹ کی گئی ہے کہ اس پر سیکس (جنس) کا خبط اس قدر سوار ہے کہ جو اسے مخش بازاری زبان میں لکھنے پر مجبور کرتا ہے.ایسی مخش عبارتیں اس کی تحریروں کا امتیازی وصف ہیں بشمول بچوں کیلئے لکھی گئی کتابوں کے.رشدی میں یہ چیز بھی قابل ذکر ہے کہ وہ غرور اور خود فریبی میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے وہ شہرت حاصل کرنے کیلئے کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا.ایک لحاظ سے یہ شہرت کے ساتھ رنگ رلیاں منانے کے موقعہ کا امکان ہی تھا جس نے اسے ایسا قابل نزاع ناول لکھنے پر آمادہ کیا.آخر کار اس کے قلم سے نکلی ہوئی کتاب نے آنحضرت ﷺ اور تاریخ اسلام میں مذکور دیگر اسلامی صلى الله 11

Page 12

شخصیات کے کردار کو مسلنے کی ناپاک کوشش کی قتل میں ملوث لوگ ایسا اکیلے نہیں کرتے اور یہی وہ مقام ہے جہاں ارشد احمدی صاحب نے ناقابل تردید شہادت پیش کی ہے، یہ شہادت حالات پر مبنی ہونے کے باوجود اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ بعض دوسرے ادارے بھی اس میں ضرور شامل تھے.مصنف کی دلیل یہ ہے کہ وہ شخص جو بذات خود یہ دعوی کر چکا ہو کہ اسے اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں وہ اس کے باوجود ایسی ایذارساں عبارتیں قابل احترام شخصیات کے بارہ میں لکھ جائے کہ ان سے ان کے متبعین کو زیادہ سے زیادہ گزند پہنچے.پھر وہ پوچھتا ہے کہ قبل از اشاعت مصنف کو ایک خطیر رقم کیوں ادا کر دی گئی؟ مزید یہ کہ ناشرین کتاب نے قانونی مشیروں کے مشورہ کو رد کرتے ہوئے کتاب کی اشاعت کو روکنے سے کیوں انکار کیا ؟ ان اور اس طرح کے دوسرے سوالوں کا جواب تو تبھی مل سکتا ہے اگر اس نتیجہ پر پہنچا جائے کہ رشدی کو اس مذموم مقصد کیلئے در پردہ تیار کیا گیا تھا اور شرارت کرنا ہی اسکا اصل مقصد تھا.ایسی گندی شرارت سے چند ایک کے اسلام کے خلاف جذبات تو شاید ٹھنڈے پڑ جائیں لیکن اس سے نسلی تعلقات کو استوار کرنے میں کوئی مدد نہیں ملتی.اس کے اثرات برطانیہ میں بہت گہرے مرتب ہوئے ہیں.مسلمان شہریوں اور مقامی باشندوں کے درمیان خلاء حائل ہو گیا ہے.ا حزب طاہرا اور تحریک خلافت اجیسے گروہوں کی جڑیں مضبوط ہوگئی ہیں.ان کے ہتھکنڈوں نے اسلام کے خلاف شبہات کو تقویت بخشی ہے اور دونوں طبقوں میں عدم اعتماد پیدا ہو گیا ہے.اس دائرہ اثر کو ختم ہو جانا چاہئے.اہل مغرب کو چاہئے کہ اسلام کے بارہ میں کلیسائی جنگوں اور ایک زمانہ سے چلی آنے والی جھڑپوں کے نتیجہ میں مرتب ہونے والے نظریات کو ترک کر دیں.چاہئے کہ وہ اس پالیسی کو خیر باد کہہ دیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو بنیاد پرستی میں دھکیل کر ان کو بنیاد پرستی کی وجہ سے سزاوار بھی قرار دینا ہے.خیر ابھی فضاء افسردگی کے جذبات اور مکمل تباہی کے خیالات سے پوری طرح مکدر نہیں ہوئی.کیونکہ اسلام کی مذمت میں آواز بلند کرنے والوں میں چند ایسے لوگ بھی مغرب میں موجود ہیں جو پرنس چارلس کی طرح غلطی کی نشاندہی کر کے باہمی مفاہمت کے لئے صدا بلند کر رہے ہیں.ارشد کی کتاب میں یہ قابل قدر کوشش کی گئی ہے کہ مسلمانوں کا جواب ان کے عقائد میں کمی بیشی کے 12

Page 13

بغیر مفاہمت کے رنگ میں پیش کیا جائے.ادی سٹینک ورسز ' کو اس کے سیاق و سباق میں پیش کر کے مسلمانوں کو ان کے مجروح جذبات سے عقلمندانہ اور ذمہ دارانہ طریق پر نپٹنے میں مدد دی گئی ہے.مذہبی معاملات میں ایک انچ بھی چھوڑے بغیر مفاہمت کا پل تعمیر کرنے کی یہ کتاب عمدہ کوشش کرتی ہے.یہ کتاب اس طرح سے مذہب اسلام کا اصلی چہرہ پیش کر کے اہل مغرب کے شبہات و تفکرات کو کم کرنے اور اس دین کے پیروکاروں کے خلاف عناد کی آگ کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے.یہ کتاب ہر مکتب فکر کے لوگوں کے لئے مثبت مواد کی حامل ہے خواہ ان کا تعلق مشرق سے ہویا مغرب سے،خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم.اس لحاظ سے زیر نظر کتاب قابل قدر ہے اور امید کی جاتی ہے کہ یہ پورے ذوق و شوق سے پڑھی جائے گی.ولید احمد لندن 1996ء 13

Page 14

14

Page 15

دیباچہ تقریباً تمام مغربی دنیا اس فتویٰ پر اشتعال میں آگئی تھی جو کہ ایران کے سربراہ آیت اللہ خمینی نے سلمان رشدی کی کتاب ”شیطانی آیات شائع ہونے پر جاری کیا تھا.اس وقت تمام دنیا کے مسلمانوں کے دلی جذبات کی ہتک جو ہوئی اور ٹھیس پہنچی تھی اسے یکسر نظر انداز کرتے ہوئے یہ معاملہ آزادانہ رائے کے اظہار کی طرف موڑ دیا گیا.اور اسطرح بالخصوص مغربی میڈیا کو از سر نو عالم اسلام اور تمام مسلمانوں پر اعتراض کرنے کا موقع مل گیا.اسلام کے خلاف دلوں میں دبی ہوئی چنگاری پھر سے بھڑ کنے لگی اور اس وجہ سے اسلام اور مغرب کے درمیان فاصلہ اور بھی بڑھ گیا.اس ( رشدی افیئر ) کے بھیانک قصّے کے معابعد بہت سے سوالات ہونے بھی تھے اور کئے بھی گئے.کون تھایا کون تھے جنکے اوپر یہ الزام عائد کیا جا سکتا ہے جو تمام دنیا کو ایک امن کے جھنڈے تلے اکٹھا ہونے میں رکاوٹ پیدا کر رہے ہیں؟ کیا آپ کسی ایک انسان کو بے جا آزادی رائے کا حق دے کر کروڑ ہا ملکی باشندوں کے دلوں کو دکھ نہیں پہنچا رہے.ایک افسانہ کے پردہ میں کیا اس بات کی اجازت ہے کہ جان بوجھ کر شائستگی کی حد کو پار کیا جائے؟ کیا سلمان رشدی واقعی مسلمان تھا؟ وہ اسلام کے بارہ میں کیا علم رکھتا تھا.اور درحقیقت اسلام کے بارہ میں اس کے کیا احساسات ہیں، اور کس طرح گذشتہ سالوں میں یہ بدل گئے.کیا شیطانی آیات“ ایک مذہبی بحث ہے یا شروع سے ہی ایک سیاسی ٹائم بم تھا.خبردار کئے جانے کے بعد بھی کہ The " "Stanic Verses کتاب ایک سنگین صورت اختیار کر جائے گی کہ وہ اس کو سنبھال نہیں سکے گا، کیسے ممکن تھا کہ اکیلا رشدی ساری دنیا سے ٹکر لے سکے اور امید رکھے کہ وہ بیچ نکلے گا.ان تمام نتائج سے بے نیاز ہو کر وہ کیا چیز تھی جس نے اس کو اپنے اشاعت کے اس فیصلے پر قائم رہنے دیا ؟ 15

Page 16

وو سلمان رشدی.بھوتوں کے آسیب میں کتاب ان تمام سوالات اور بہت سے متعلقہ سوالات کے جوابات ثقہ حوالہ جات کے ساتھ دیتی ہے.در حقیقت یہ کتاب ابتداء اسلام سے لے کر عہد حاضر تک مخالف اسلام سازشوں کو بھی بے نقاب کرتی ہے.16

Page 17

باب اول اسلام اور نبی پاک ﷺ پر ابتدائی حملے اسلام پر حملے، جس طرح کہ دوسرے مذاہب کے ساتھ ہوتا آیا ہے ، روز اول سے ہونا شروع ہو گئے تھے.جو نبی نبی پاک ﷺ نے نبوت کا دعوی کیا تمام مکہ راتوں رات عملی طور پر آپ کے خلاف محاذ آرائی میں لگ گیا.اہل مکہ نے اپنے نا پاک بد عزائم کے ذریعہ اس نئے دین کو نیست و نابود کر نے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ، یعنی صرف ایک خدا کی عبادت کے تصور کو.سرور کائنات ﷺ کے متبعین کو سخت سے سخت سزائیں دی گئیں، ایسی کہ تاریخ انسانیت میں کسی قوم کے لوگوں کو ایسی ظالمانہ اذیتیں نہ دی گئی تھیں.اسلام پر ہونے والے حملے ابتداء جسمانی نوعیت کے تھے.اسلام کے معاندین کا خیال تھا که رسول مقبول ﷺ کو قتل کر دینے سے یہ نیا مذ ہب پینے سے قبل ہی ختم ہو جائیگا.اور ایسا کرنے کے لئے معاندین اسلام تمام قسم کے حربے استعمال کرنے پر آمادہ تھے.لیکن سچے مذہب میں ایک پنہاں صفت لچک کی ہوتی ہے جس کو زور بازو سے چھینا نہیں جا سکتا.اسلام پر بھی یہی صورت حال صادق آتی ہے.طاقت کے استعمال کی یہ کوششیں اسلام کے خلاف رائیگاں گئیں.ہر گذرنے والے دن کے ساتھ اسلام بے نظیر کامیابیوں کے ساتھ پھیلتا چلا گیا.جیسا کہ تاریخ گواہ ہے جلد ہی سارے جزیرہ نما عرب نے اسلام بخوشی قبول کر لیا.آنحضور علیہ کے وصال کے بعد بھی اسلام کے پھیلنے کی رفتار جوں کی توں بڑھتی رہی اور زیادہ وقت نہ گزرا کہ اسلام یورپ کے دروازے پر دستک دینے لگا.تقریباً یہی وہ وقت ہے جب اسلام پر حملوں نے علمی صورت اختیار کر لی ، اس کے سرغنہ بعض عیسائی اور یہودی قلم کار تھے جنہوں نے اس امر کو اپنا پیدائشی حق اور مقصد حیات قرار دے دیا 17

Page 18

کہ انہوں نے قرآن پاک اور احادیث میں نقائص اور تضاد تلاش کرنے ہیں.وہ اسلام کے خلاف حملوں کے لئے ہر قسم کے ذرائع کو استعمال کرنے لگے اور بدترین غلاظت اچھالنے کے لئے نبی پاک ﷺ کو ہدف بنالیا.شاید کچھ یہودی اور عیسائی ایسے بھی تھے جنہوں نے خود اپنے انبیاء کرام کی جد و جہد کو فراموش کر دیا تھا اور نا دانستہ طور پر ایک مشتر کہ دشمن یعنی اسلام کے خلاف متحد ہو گئے.اس منظر کا مختصر سا خا کہ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام نے ان الفاظ میں پیش کیا ہے: "عیسائی لوگ اسلام کے مٹا دینے کے لئے جھوٹ اور بناوٹ کی تمام باریک باتوں کو نہایت درجہ کی جانکا ہی سے پیدا کر کے ہر ایک رہزنی کے موقع اور محل پر کام میں لا رہے ہیں اور بہکانے کے نئے نئے نسخے اور گمراہ کرنے کی جدید جدید صورتیں تراشی جاتی ہیں اور اس انسان کامل کی سخت تو ہین کر رہے ہیں جو تمام مقدسوں کا فخر اور تمام مقربوں کا سرتاج اور تمام بزرگ رسولوں کا سردار تھا.یہاں تک کہ ناٹک کے تماشاؤں میں نہایت شیطنت کے ساتھ اسلام اور ہادی پاک اسلام کی برے برے پیرائیوں میں تصویریں دکھلائی جاتی ہیں اور سوانگ نکالے جاتے ہیں اور ایسی افترائی تہمتیں تھیڑ کے ذریعہ سے پھیلائی جاتی ہیں جن میں اسلام اور نبی پاک کی عزت کو خاک میں ملا دینے کیلئے پوری حرامزدگی خرچ کی گئی ہے...اسلام کی پاک تا شیروں کے روکنے کیلئے جس قدر پیچیدہ افترا اس عیسائی قوم میں استعمال کئے گئے اور پر مکر حیلے کام میں لائے گئے اور ان کے پھیلانے میں جان تو ڑ کر اور مال کو پانی کی طرح بہا کر کوششیں کی گئیں یہاں تک کہ نہایت شرمناک ذریعے بھی جن کی تصریح سے اس مضمون کو منزہ رکھنا بہتر ہے اسی راہ میں ختم کئے گئے " فتح اسلام صفحہ 5.روحانی خزائن جلد نمبر 3) عصر حاضر کے مغربی مستشرقین نے بھی گزشتہ صدیوں کے اپنے ہم منصبوں کے در پردہ عزائم کا اعتراف کیا ہے.میکسم روڈنسن (Maxim Rodinson) جو ایک فرانسیسی مستشرق ہے وہ اپنی کتاب امحمد امیں مغربی قلم کاروں کے بد عزائم کا اعتراف کرتا ہے اگر چہ وہ خود کو اس زمرہ میں شامل نہیں کرتا.وہ کھلم کھلا قرآن پاک کے کلام الہی ہونے کے دعوی کی مذمت کرتا ہے اگر چہ 18

Page 19

اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مسلمانوں کے دین کو وہ عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.وہ لکھتا ہے لیکن میں اس سے متفق نہیں اور میں بعد میں بھی اپنی رائے بدلنے والا نہیں جیسا کہ متعدد دیگر مستشرقین ایسا کر چکے ہیں یعنی مبہم محاوروں کے ذریعہ اصل مطلب کو چھپالوں " (Rodinson, Mohammed, page 218) ہانس کنگ (Hans Kung) جو ایک بے باک جرمن ماہر الہیات ہے وہ بھی عیسائیوں کے قرآن کریم کے مطالعہ کی اصل غرض بیان کرتا ہے.اس نے اس بات کا سراغ ازمنہ وسطی کے زمانہ تک جالگایا ہے.وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے "جہاں تک لوتھر کا تعلق ہے وہ اس بات کے حق میں تھا کہ قرآن کا ترجمہ اور اس کی اشاعت ہونی چاہئے محض اس لئے تاہر ایک کو معلوم ہو سکے کہ یہ کیسی ملعون ،شرمناک اور مایوس کن کتاب ہے جو جھوٹ سے لبریز ، من گھڑت باتوں اور خوفناک (Kung, Christianity and the World Religions, page 20) چیزوں پر مبنی ہے" مصنف نے تیر نشانہ سے کچھ زیادہ دور نہیں پھینکا.میرے خیال میں وہ یہ کہہ کر فراخدلی کا اظہار کر رہا ہے کہ آجکل کے سکالرز بڑے روادار ہیں.یہ بات عوام کے بارہ میں تو ٹھیک ہوسکتی ہے کیونکہ سکالروں کی رائے پہلے سے زیادہ پختہ ہے کہ وہ محمد صلعم کے دین سے محض نفرت کی بناء پر اسلام کی مسخ شدہ تصویر کو قائم و دائم رکھ سکیں.ایک زیادہ سوچا سمجھا فارمولا جو آجکل کے سکالروں پر چسپاں ہوتا ہے وہ کچھ یوں ہوگا: " جہالت سے چل کر گستاخیوں کے راستہ سے ہوتے ہوئے نفرت پر منتج ".اسلام پر حملوں کا موازنہ اسلام پر ابتداء میں جو حملے ہوئے ان کا عصر حاضر میں ہونے والے حملوں سے موازنہ کیا جاسکتا ہے.حضرت نبی پاک ﷺ کے زمانہ میں خاص طور پر جنگی میدانوں میں مسلمانوں پر دشمن کا پلہ ہمیشہ بھاری ہوتا تھا.وہ عملی طور پر کمترین ہوتے تھے ، وہ تعداد میں کم ہوتے تھے، ان کے پاس ہتھیار کم ہوتے تھے، ان کے پاس دشمن کی نسبت کم گھوڑے اور کم اونٹ ہوتے تھے، اور اکثر مسلمانوں کو جنگ کے داؤ پیچ کی کوئی تربیت نہ تھی ، نہ ہی میدان جنگ کا تجربہ.اس کے برعکس 19

Page 20

اہل مکہ تعداد میں بہت زیادہ تھے.بعض دفعہ ایک مسلمان کے مد مقابل تین مکہ والے ہوتے تھے.انہیں وافر تعداد میں سامان رسد، ہتھیار، گھوڑے اور اونٹ مہیا تھے.سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ کبھی مہارت یافتہ اور تجربہ کار سپاہی تھے.لیکن اس واضح فرق کے باوجود فتح و ظفر مسلمانوں کو بار بار نصیب ہوئی کیونکہ وہ روحانی طور پر ایک ماوراء گروہ سے تعلق رکھتے تھے.نیز ان کا ایک خدا پر غیر متزلزل اور یقینی ایمان تھا.وہ اپنے عظیم راہنما کی مکمل اور نہ دل سے اطاعت کرتے تھے.مزید برآں ان میں جو با افراط صفات پائی جاتی تھیں ان کی بنیا دصدق اور اطاعت پر تھی.نیز مشکل وقت میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے.اگر ہم پہلے دور کا آج کے دور سے مقابلہ کریں تو بڑی گہری مماثلت نظر آتی ہے.برتری کے تمام وسائل مغرب کی یہودی اور عیسائی اقوام کو میسر ہیں.انہیں ذرائع ابلاغ یعنی ٹیلی ویژن، ریڈیو، اخبارات پر مکمل کنٹرول حاصل ہے.اگر چہ یہ امر بظاہر نظر نہیں آتا تا ہم ان تمام ذرائع کو اسلام اور اسلام کے مقاصد کے خلاف بلا روک ٹوک متواتر استعمال کیا جاتا ہے.ہر جہت سے کوئی موقعہ کھوئے بغیر حملے کئے جارہے ہیں.یہ بلاشبہ پرانے دور کے اہل مکہ کی ہتھیاروں میں بالا دستی کے مترادف ہے.ان کی مادی طاقت کا انسان کو ہر وقت ہر جگہ احساس ہوتا ہے.اس کا مظاہرہ خلیج کی جنگ کے دوران نمایاں طور پر ہو گیا تھا جب وہ غنڈہ گردی کی دھمکیاں دینے لگے اور اتحادیوں کی مجموعی طاقت کو ایک مسلمان قوم کے مقابلہ پر لا کر کھڑا کر دیا.مغربی اقوام کے اتحادیوں کے عزائم لوگوں پر واضح تھے لیکن میں اس موضوع کی تفصیل میں یہاں جانا نہیں چاہتا.میں مغربی مستشرقین کے زہر یلے قلم کا جواب دینا چاہتا ہوں اور ایسے لوگوں کی نقاب کشائی کروں گا جن کے سحر اور ہاتھ کی صفائی کو استعمال میں لا کر خطر ناک خیالات اور شیطانی وساوس کو اکسانے کی کوشش کی گئی ہے.ان مستشرقین کے ساتھ بعض دوسرے فلسفی اور مبصرین (بشمول چند آزاد خیال اصلاح شده مسلمان ) بھی ملے ہوئے ہیں جو ایسی کتابوں کے مطالعہ میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ وہ اپنے دینی عقائد کو پس پشت ڈالنا شروع کر دیتے ہیں.وہ الہامی صداقت کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں.وجود اور ہستی باری تعالیٰ جیسے مسائل ان کے نزدیک سنجیدہ نہیں ہیں.ان میں سے کئی ایک تو مذہب کے 20

Page 21

مخالف ہیں اور چونکہ وہ فطری خیالات کے ہوتے ہیں اس لئے وہ مذہب سے عناد پیدا کر لیتے ہیں.کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے نو جوان، قبل اس کے کہ تعلیم مکمل کریں ، وہ مذہب کے لیئے اپنے فرائض کو فراموش کر کے مذہب کو ہی خیر باد کہہ دیتے ہیں.کچھ اس قسم کے ماحول کا پرورده شخص افق پر ابھرا اور مغرب کے ہاتھوں میں آلہ کار بن گیا.اور جب اس سے ان گنت دولت کا وعدہ کیا گیا تو وہ بھی مغرب کے جرم میں برضا ورغبت شریک کار بن گیا.یہ شخص سلمان رشدی تھا.یہ اس کی خوش قسمتی ہوتی اگر اس نے حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی علیہ السلام کی ایک نظم میں کی گئی نصیحت کی طرف توجہ کی ہوتی اے برادر دل منہ در دولت دنیائے دوں زہر خوں ریز ست در ہر قطرہ ایس انگبیں فتح اسلام صفحہ نمبر 45 ، روحانی خزائن جلد نمبر 3) امر واقعہ تو یہ ہے کہ یہ سلمان رشدی کا ہی قلم تھا جس نے کتاب ادی سیٹنگ ورسز' The Satanic Verses لکھ کر مہلک ترین زہر اگلا.یہ سب کچھ کس طرح وقوع پذیر ہوا ؟ وہ کس طرح انہونے کام پر تیار ہو گیا؟ اس کا ذہن اس طرف کیسے گیا جس کا کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا؟.کیا اس میں مالی منفعت سے بڑھ کر بھی کوئی عصر شامل تھا ؟ کیا اس واقعہ کا تعلق سیاست سے تھایا کہ مذہب سے؟ کیا یہ مذکورہ امور کوملاکر تیار کی گئی سازش تھی جو معاندین اسلام نے تیار کی تھی؟ کیا اس کو مکمل پیکیج بنا کر سلمان رشدی کو پیش کیا گیا تھا جس میں اس کو پیشگی معاوضہ رقوم (Royalties) دی گئیں جو مشروط تھیں؟.کیا پھر ا سے حکم دیا گیا کہ جاؤ سر دھڑ کی بازی لگا دو اور جو بھی ذلیل ترین کام کر سکتے ہو کر دکھا ؤ؟ اس نے ضرور اس بچے کی طرح محسوس کیا ہو گا جسے چاکلیٹ فیکٹری میں ہنگامہ آرائی کا پروانہ دے دیا گیا ہو.وہ اپنی لانچی آنکھوں پر بہ مشکل یقین کر سکا ہوگا.لیکن جیسا کہ حقائق سے ظاہر ہے وہ اس میں سے ایک جانور بن کر نکلا، جو غلاظت میں لت پت تھا.اور اس سے لالچ ،منافقت ،شنید، خدا کی شان میں گستاخی اور ارتداد کی بو آرہی تھی.21

Page 22

رشدی کے عقب میں سائے رشدی کو اپنی کرتوتوں کے نتائج کا ضرور پہلے سے علم ہوگا.یہ ناممکن ہے کہ وہ اس قدر سادہ لوح تھا یا اس کے پس پشت میں جو طاقتیں کارفرما تھیں وہ اس قدر طاقتور تھیں کہ اس کی مجال نہ چل سکی یا وہ خود کو ان سے کنارہ کش نہ کر سکا.یا پھر اگر مافیا سٹائیل کا محاورہ مستعار لیا جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ اسے ایسی پیش کش کی گئی کہ وہ اسے ٹھکرانہ سکا.اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ سلمان رشدی جیسے ایک فرد کا کام نہیں تھا.اگر اسلام کے بارہ میں اس کے محدود علم کو ، اس کی غیر اسلامی پرورش کو، اس منصوبہ کی پشت پر مالی امداد کو اور نبی پاک سرور کائنات ﷺ اور اسلام پر جو علمی حملے ہوئے ان کو دیکھا جائے تو یہ تمام حقائق اس بات کی غمازی کر رہے ہیں کہ یہ مذہب کے خلاف ایک زبر دست سازش تھی جس سے مغربی طرز فکر اور اصول پرستی کو ٹھیس پہنچتی تھی.تمام حقائق اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ یہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مابین سازش تھی جس میں انہوں نے کرایہ کے ٹو سے ساز باز کی جو آج کے زمانے میں فاؤسٹ (Faust) کہلانے کا حقدار ہے.یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ گٹھ جوڑ کا ازدواجی رشتہ جنت کی بجائے کسی اور مقام پر تیار کر کے عمل میں لایا گیا تھا.اسلام اور حضرت نبی پاک ﷺ پر ازمنہ وسطی سے لے کر آج تک جو حملے ہوئے ہیں میں ان میں سے چند ایک کا جائزہ لوں گا اور دکھاؤں گا کہ ان میں کس قدر گہری مماثلتیں ہیں جو مبصرین اور مستشرقین کی علمی تصانیف میں پائی جاتی ہیں.اور یہ بھی عیاں ہو جائیگا کہ کسطرح محدود مکتب فکر اور حوالہ جات کو مغربی مصنفین نے صدیوں سے استعمال کیا ہے اور انہوں نے اسلام اور اس کے پاک پیغمبر ﷺ کی بلا ثبوت کے مسخ شدہ تصویر پیش کی ہے.اور یہ بھی واضح ہو جائیگا کہ سلمان رشدی کی کتاب The Satanic Verses کی آخری شکل ان تمام حملوں کی اصل غرض ہے جو ماضی میں آنحضرت ﷺ پر ہوتے آئے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ کتاب انتظامی اور بد ارادوں کے ساتھ مخش ترین لب ولہجہ میں لکھی گئی تھی.22

Page 23

باب دوم صلیبی جنگیں سلمان رشدی کی رسوائے زمانہ کتاب دی سیٹنگ ورسز The Satanic) (Verses کے پس پردہ جو مسموم کج فکری پائی جاتی ہے اس کا پتہ لگانے کے لئے ہمیں ماضی کی طرف رخ کرنا ہو گا.بالکل اس دور تک جب عہد وسطیٰ میں اسلام پر صلیبی جنگوں کے حملے ہور ہے تھے جس سے مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین پہلی مرتبہ حقیقی اور اصلی تصادم وقوع پذیر ہوا.مسلمانوں نے یورپ کے کئی ممالک پر قبضے کرنے شروع کر دئے تھے اور یہ کہنا بجا ہوگا کہ اہل یورپ عرب کلچر، فلسفہ، سائنس اور میڈیسن کے علاوہ اسلام کی اقتصادی اور عسکری طاقت کی مدح سرائی کر رہے تھے " Hans Kung, Christianity and the World) 20 Religions, p کئی عیسائیوں نے بشمول ان کے حکمرانوں کے مسلمانوں کی رسوم کو اپنانا شروع کر دیا تھا.بلکہ کئی ایک تو مشرف بہ اسلام ہونا شروع ہو گئے تھے.مغربی مورخین نے اس دور کو مسلم کا لونیلزم ( توسیع نو آبادیات) کا نام دیا ہے.وہ جو مرضی کہہ لیں لیکن اس حقیقت سے فرار نہیں کہ یہ تاریخ کا ایک ایسا دور تھا جسے مغربی مؤرخین نے بھی مذہبی رواداری کا دور قرار دیا ہے.جس میں یہودیوں اور عیسائیوں کو حق حاصل تھا کہ وہ ایک محفوظ اقلیت بن جائیں اور امن و امان سے بلاخوف زندگی گزارتے ہوئے اپنے مذہب کی پیروی کرتے چلے جائیں.ہانس کنگ مسلمانوں کی اس رواداری کو تسلیم کرتا اور اس کا عیسائیت سے ان الفاظ میں موازنہ کرتا ہے: ازمنہ وسطی کی اسلامی دنیا میں یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کی زیادہ آزادی سے پیروی کر سکتے تھے یہ نسبت آجکل کے جابرانہ حکومتوں کے ممالک میں.ازمنہ وسطی کے عیسائیوں میں اسکے بالمقابل فرق بہت نمایاں ہے.قتل عام نسبتا شاذ ہی تھا اور مسلمان اس میں بالکل شریک کارنہ ہوتے تھے.قتل عام کو اخلاق نہ صرف معیوب سمجھا جاتا تھا بلکہ ایسا کرنا بھی خلاف قانون تھا.چونکہ 23

Page 24

قانون خدائی قانون تھا اس لئے اسے گناہ کے زمرہ میں شمار کیا جاتا تھا" (Christianity and the World Religions, p 104) جیسا کہ تاریخ میں اپنے اپنے دور کی بڑی طاقتوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے کہ کبھی وہ وقت بھی سر پر آن پڑتا ہے کہ ایوان حکومت لڑکھڑانے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ لیکن یقینی طور پر ناممکن ممکن میں بدل جاتا ہے اور بڑی سلطنت کی طاقت ایک ہاتھ سے نکل کر دوسرے ہاتھ میں چلی جاتی ہے.مغرب میں گیارھویں صدی کے اواخر میں مسلمان عہد حکومت کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا جو خدائی منصوبہ کے عین مطابق تھا اور اس کی پیش خبری قرآن مجید میں دی جا چکی تھی.گیارھویں صدی میں اتحاد کا شیرازہ بکھر نے لگا، اور مسلمان عہد حکومت کے حصے بخرے ہونے لگ پڑے.شمال مغربی سپین کے شہزادوں کے ہاتھ موقعہ لگ گیا ( جواب تک نیم آزاد تھے اور مسلمانوں کی مرکزی حکومت کو خراج ادا کرتے تھے ) کہ وہ مکمل طور پر آزاد ہو جائیں اور ان علاقوں پر قبضہ کر لیں جو ان کے تابع تھے.رفتہ رفتہ اسلامی حکومت المرابطون کے ہاتھوں سے نکل کر بر بر اقوام کے ہاتھوں اور وہاں سے الموحد حکمرانوں کے ہاتھ میں آگئی.الموحد حکومت کے خاتمہ کے بعد عیسائی فاتحین نے بڑی تیزی سے ترقی کرنا شروع کر دی.اگر چہ ہسپانوی مؤرخین میں بھی عربوں سے آزادی اور دوبارہ قبضہ (Reconquista) کے بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اتنی بات ضرور واضح ہے کہ اس کا آغاز اس وجہ سے ہوا تا کہ اسلامی تہذیب اور طرزفکر کی لہروں کو تھام لیا جائے کیونکہ اس سیلاب میں عیسائیت نے بھی ڈوب جانا تھا.اسلامی تہذیب اس قدر ترقی یافتہ تھی کہ عیسائیوں کے پاس مسلمانوں کو سپین سے نکالنے کے حق میں کوئی دلیل باقی نہ رہی تھی.حتی کہ 1602 ء تک جب ویلنسیا (Valencia) کالاٹ پادری جب بادشاہ فلپ سوم کو مسلمانوں کے ملک بدر کرنے کی وجوہات بیان کر رہا تھا تو اس نے یوں تبصرہ کیا : " وہ تو تمام مذہبی امور میں آزادی ضمیر کے حق میں ترانے گاتے ہیں.ترک قوم اور پیروکاران محمد ( ﷺ ) اس میں مبتلا ہیں اور وہ عوام کو اس سے لطف اندوز کرانا چاہتے ہیں." ہائے بیچارے عیسائیوں کو آزادی سے عبادت کرنے پر مجبور کیا گیا، انہیں کھلم کھلا اپنی 24

Page 25

رسومات منانے کی اجازت دی گئی تھی، اور ان ستمگر مسلمانوں نے ان کے گرجا گھر تعمیر کرنے میں ان کا ہاتھ بٹایا.ایک اور مؤرخ ہیو ٹریور رو پر (Hugh Trevor-Roper) نے اپنی کتاب میں صلیبی جنگوں کے مشکوک عزائم پر تبصرہ کیا ہے جس کا یورپ کی توسیع کے پلان میں پورا حصہ تھا.یروشلم میں مقدس مقامات کو آزاد کرانے سے اس کا ہرگز کوئی تعلق نہ تھا.وہ کہتا ہے " ہسپانوی عیسائیوں کی پین میں مسلمانوں پر پیش قدمی اور مشرقی یورپ میں جرمن نو آبادکاروں کے سلاوک قوم کے خلاف پیش قدمی، اور انگلستان کے اینگلو نارمن جا گیر داروں کا آئر لینڈ پر قبضہ، اور شمالی فرانس کے جاگیر داروں کا لینگوئے ڈاک (Languedoc ) پر قبضہ، اور خود بازنطینی سلطنت پر فرینک جا گیر داروں کی فتحیابی کو دیکھ کر ہمیں باور کرنا پڑتا ہے خواہ ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں کہ صلیبی جنگیں اس نو آبادیاتی توسیع کا لازمی حصہ تھیں.مغربی مؤرخین کی ایک عرصہ سے یہ رائے چلی آرہی ہے کہ صلیبی جنگیں غلامی میں جکڑے ہوئے اہل مغرب کا جن کا مسلمانوں نے استحصال کیا تھا ان کے خلاف روحانی اور مادی جوابی حملہ تھا.اور اس جد و جہد کو مشرق اور مغرب یا اسلام اور دنیائے عیسائیت کے درمیان سنسنی خیز بنا کر پیش کیا گیا.بعض نے تو صلیبی جنگوں کی تحریک کو مسلمانوں کے خلاف اعیسائی جہاد کا نام دیا ہے.تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ صلیبی عیسائیوں کا اصل اور حقیقی محرک مقدس مقامات کو آزاد کرانا اور عیسائیت کو منکروں کے پنجہ سے نجات دلانا تھا.لیکن یہ بیان کردہ خیالات کیا تھے اور ان کے حصول میں جو ذرائع اختیار کئے گئے وہ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں.میں مغربی مصنفین کی کتابوں سے اقتباسات پیش کروں گا جنہوں نے صلیبی جنگوں کے دوران یورپی عیسائیوں کے غیر عیسائیانہ کردار کو تسلیم کیا ہے.اٹھارویں صدی کے مؤرخ ڈیوڈ ہیوم (David Hume) کے نزدیک " صلیبی جنگیں ایک آفاقی جنون اور جنگجوؤوں کے غیر حقیقی اور رومانوی طیش کی وباء اور انسانی حماقت کا پائیدار کتبہ تھیں جو کسی بھی زمانہ یا قوم میں ظاہر ہوا ہوا" (صفحہ 28 ).پھر لینارڈ ڈبلیو لیوی ( Leonard W.Levy) پروفیسر آف ہیومینیٹی کٹئیر مانٹکالج امریکہ اپنی مقبول عام اور قابل نزاع کتاب خدا کے خلاف بغاوت (Treason against God ) میں لکھتا ہے کہ صلیبی جنگوں کا دور اس 25

Page 26

قدر بہیمانہ تھا کہ نا قابل تصور ہے." صلیبی جنگجوؤوں نے ارض مقدس میں مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام بلا تفریق کیا حتی کہ عورتیں اور بچے بھی نہ بچ سکے" (صفحات 115-116 ).وہ جو ایک مقدس جنگ تھی آخر کار وسیع پیمانہ پر بربریت کی شکل اختیار کر گئی.اس دور کے اور اس کے بعد آنیوالی صدیوں میں ہونے والے عیسائی مؤرخین نے ان راہزن صلیبی جنگجوؤوں کی لوٹ مار کی تصدیق کی ہے اور ان کے ہر بہیمانہ عمل کا جواز نکال کر عیسائیت کا تحفظ کرنے والوں کی تعریف اور شہادت کے رنگ میں تصویر کشی کی ہے.ایک برطانوی مؤرخ ٹریور رو پر (Trevor Roper ) نے اپنی کتاب میں ان میں سے چند ایک کا ذکر ایڈورڈ گبن (E.Gibbon) کے حوالہ سے کیا ہے." سادہ لوح صلیبی جنگجو جنہوں نے اپنے اشتعال انگیز مگر مقدس اعمال کی تاریخ کے واقعات کو درج کرنے کا وقت نکال لیا.وہ جب ہر خونریز باب کا خاتمہ کرنے لگے تو کتاب مقدس سے حوالے نکالے اور اپنے عزائم پر سوچ بچار کی تو وہ سولہویں صدی کے ہسپانوی فاتحین (conquistodors) سے کچھ کم نہ تھے.ان کے نزدیک ترک قوم رسوا اور بد بخت منکرین میں سے تھی.وہ خدا اور ہم سب کے دشمن تھے، جبکہ عیسائی جو جنگوں میں مارے گئے تھے وہ جنت نصیب ہوئے جہاں وہ سفید چولہ زیب تن کئے ہوئے ہیں اور شہادت ان کی فتحیابی کی علامت ہے".(The Rise of Christian Europe, page 101) ٹریور رو پر نے وضعدار فرقہ جیسوایٹ (Jesuit ) سے منسلک لوئیس مائم برگ ( Louis Maimbourg) کے چند ایک نظریات کا بھی ذکر کیا جوصلیبی جنگجوؤں کے اعمال کو حق بجانب گردانتا ہے.اس کے نزدیک صلیبی جنگیں کچھ بھی ہوں مقدس جنگیں تھیں، جن کی بربریت کا جواز ان کے اعلیٰ روحانی مقاصد میں پنہاں تھا.پھر وہ مزے لے کر بیان کرتا ہے کہ کس طرح یروشلم کو فتح کرنے کے بعد عیسائیوں نے بحیثیت فاتح اپنی فتح کے حقوق سے فائدہ اٹھایا.ہر جگہ بکھرے ہوئے قلم شدہ انسانی سر کاٹی ہوئی ٹانگیں اور جسم سے الگ کئے گئے بازو، جسم ٹکڑوں میں چیرے ہوئے دکھائی دیتے تھے انہوں نے ماؤں کی گودوں میں موجود بچوں کو قتل کر کے ان کا نشان مٹا دیا ، تا اس بد بخت قوم کے ساتھ وہی کچھ ہو گزرے جو خدا نے اس سے قبل عملی کا ٹیٹس 26

Page 27

(Amalekites) قوم کے لئے مقدر کیا تھا." (The Rise of Christian Europe, pp 101/102) سرسٹیون رسی مان (Sir Steven Runciman) نے صلیبی جنگوں اور عصر حاضر کا عیسائی متوازن نقطہ نظر اپنی تین جلدوں پر مشتمل کتاب کے آخر پر پیش کیا ہے.اگر چہ اس نے نرم زبان اور لب ولہجہ اختیار کیا ہے لیکن پھر بھی صلیبی جنگوں کے ظلم وستم اور بہیمت کا اندازہ آسانی سے ہو جاتا ہے.صلیبی جنگوں کی فتح دراصل مذہب کی فتح تھی.لیکن مذہب بغیر دانشمندی کے خطرناک چیز ہے صلیبی جنگیں المناکی اور بربادی کی داستان تھی.جب ایک مؤرخ صدیوں پرانے واقعات پر نظر ڈالتا ہے تو ان بہادری کی کہانیوں کے سامنے اس کا جذبہ تعریف غم کے نیچے چھپ جاتا ہے اور اس سے انسانی فطرت کی خامیوں کی نشاندہی ہونے لگتی ہے.بہادری کی فراوانی کے ساتھ ساتھ بلند مقاصد، ظلم اور لالچ مہم جوئی اور ثابت قدمی کے ساتھ اندھی اور تنگ نظر خود راستی نے کلنک کا ٹیکہ لگا دیا ہے.جنگ مقدس اس سے زیادہ کچھ نہ تھی کہ خدا کے نام پر غیر رواداری کا لمبا عمل ثابت ہوئی جو روح القدس کے خلاف گناہ ہے " (A History of the Crusades, Harmondswoth, Penguin, 1965, p 480) صلیبی جنگیں ، نو آبادیات اور سامراجیت جب مغرب کی عیسائی اقوام مسلمانوں کا یورپ سے اخراج کر چکیں تو انیسویں صدی کے دوران برطانیہ اور فرانس نے مسلمان ممالک پر حملے کرنے شروع کر دئے.مثلاً فرانس نے 1830ء میں الجیریا کو اپنی کالونی بنالیا، اور برطانیہ نے عدن کو 1839ء میں کالونی بنالیا.باہمی طور پر دونوں ممالک نے تیونس (1881ء)، مصر (1882ء )،سوڈان (1898ء )، لیبیا اور مراکش ( 1912ء) پر قبضہ کر لیا.اگرچہ 1920ء میں انہوں نے عرب اقوام سے وعدہ کیا تھا کہ سلطنت عثمانیہ کی پسپائی کے بعد ان کو آزادی دے دی جائیگی لیکن پھر بھی برطانیہ اور فرانس نے شرق اوسط کو زیر انتظام ریاست اور زیر نگرانی ریاست میں تقسیم کر کے قبضہ جمائے رکھا.صلیبی جنگوں، یوروپین نو آبادیاتی نظام اور عیسائی مشنری کام میں گٹھ جوڑ پر کافی بحث و تکرار ہو چکی ہے، اہل مغرب نے اس نظریہ کو تسلیم کرنے میں انقباض ظاہر کیا ہے لیکن بعض مستشرقین اور مغربی 27

Page 28

مصنفین نے دیانت داری سے کام لیتے ہوئے اس نقطہ نظر سے اتفاق کیا ہے.مثلاً منٹگمری واٹ اپنی کتاب میں لکھتا ہے : " تاریخ کی سدھ بدھ رکھنے والے عیسائی آج صلیبی جنگوں پر نازاں ہیں اور شاید یہ کہنے میں دریغ نہیں کرتے کہ ان میں کالونیلزم کا عنصر شامل تھا." (Watt, Muslim-Christian Encounters, page 82) کیرن آرام سٹرانگ (Karen Armstrong) جو ایک برطانوی مصنفہ، براڈ کاسٹر اور سابقہ رومن کیتھولک راہبہ ہے.وہ دوسروں سے زیادہ دیانت دار ہے.اس نے مسلمانوں کے نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے اپنی کتاب Muhammad, A Western Attempt to Understand Islam میں لکھا ہے : " آج کے دور میں اسلامی دنیا مغربی سامراجیت اور عیسائی تبلیغ کا صلیبی جنگوں سے رابطہ نکالتی ہے، اور وہ ایسا کرنے میں غلط ڈگر پر نہیں ہیں.جب 1917ء میں جنرل ایلین بی (General Allenby) یروشلم میں داخل ہوا تو اس نے صلیبی جنگوں کی تکمیل کا اعلان کیا.جب فرانسیسی دمشق میں داخل ہوئے تو ان کا کما نڈر سلطان صلاح الدین ایوبی کے مزار واقع جامع مسجد پر کھڑے ہو کر چلا یا " اے صلاح الدین ہم لوٹ آئے".عیسائی مشنری کام نو آبادیات بنانے والوں کی پشت پناہ پر تھا تا کہ مسلمانوں کی روایتی تہذیب کو مفتوحہ ممالک میں کم تر کر دے.نو آبادیات بنانے والوں کی منطق کچھ اس طرح تھی کہ وہ انہیں ترقی اور روشن خیالی کی ڈگر پر ڈال رہے ہیں لیکن ان کو اس کوشش کا جواب تشدد اور حقارت کی صورت میں ملا." (K.Armstrong, Muhammad, page 40 ) یہ ظلم وستم اور بہیمانہ سلوک انیسویں صدی اور بیسویں صدی پر حاوی رہا.الجیریا میں امن لانے میں کئی سال بیت گئے اور جب بھی الجیریا کے عوام نے مزاحمت کی تو اسے جوابی وحشیانہ حملوں کے ذریعہ پچل دیا گیا.عصر حاضر کا فرانسیسی مؤرخ ایم باڈری کورٹ (M.Baudricourt ) ان جوابی حملوں کی جھلک یوں پیش کرتا ہے : " ہمارے سپاہی جو حملے سے واپس آرہے تھے وہ شرمسار تھے قریب اٹھارہ ہزار درخت خاکستر کر دئے گئے ، عورتیں، بچے اور ضعیف العمر افراد موت کے گھاٹ اتار دئے گئے.بعض بد قسمت خواتین جن کو کان میں بالیاں، بازو پر ، یا ٹانگ میں چاندی کے چھلے پہننے کی عادت تھی، ان کو دیکھ کر حرص کی دیوی بیدار ہو جاتی تھی.ان چھلوں کا 28

Page 29

فرانسیسی چھلوں سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا.یہ چھلے نوجوان لڑکیوں کے اعضاء کے ساتھ یوں جوڑ دئے جاتے ہیں کہ ان کو الگ نہیں کیا جاسکتا چاہے وہ عمر میں بڑی بھی ہو جائیں.انہیں اتارنے کے لئے سپاہی ان کے اعضاء کاٹ دیتے اور ان کو اس زخمی حالت میں زندہ چھوڑ دیا جاتا تھا." (Maudricourt, La Guerre et le Gouvernement de l'Algiere, Paris, 1853, page 160) اسلامی موازنه اس کے برخلاف مسلمانوں کی فتوحات کس قدر مختلف تھیں.جب مسلمانوں نے کسی جنگ میں فتح حاصل کی تو کسی بھی جگہ پر بھی ایسی خون ریزی، ایسی بہیمیت اور ظلم و ستم کی مثال نظر نہیں آتی.جنگی قیدیوں سے انسانی سلوک کے بارہ میں قرآن حکیم کی تعلیمات کس قدر مختلف تھیں ، ایسی تعلیمات جو فاتح کو مفتوح سے اچھا سلوک سکھلاتی ہیں.اس ہمدردانہ تعلیم کے عملی نمونہ کی مثال آنحضور ﷺ کے نمونہ سے کہیں بہتر نہیں ہو سکتی.مسلمان فاتحین کا حضرت محمد ﷺ کی سرکردگی میں مکہ میں داخل ہونا ، رحمدلی اور درگذر کا ایسا واقعہ ہے جس کی مثال تاریخ میں ملنا ناممکن ہے.حضرت نبی پاک ﷺ اور ان کے پاک صحابہ کرام کے خیالات ضرور اہل مکہ کے ہاتھوں سالہا سال تک ملنے والے ایذارسانی کی طرف گئے ہوں گے.ان کو انسانیت کی حدود سے باہر جا کر دکھ اور تکلیف پہنچائی گئی انہوں نے اپنے اہل بیت اور احباء کو ذبح ہوتے دیکھا.اور قتل عام سے دریغ نہ کیا گیا محض اس لئے کہ وہ خدائے واحد پر ایمان رکھتے تھے.اور جب وہ فتحیاب ہو چکے اور دشمن واقعتا ان کے قدموں پر پڑا ہوا تھا، تو ان سے کس رد عمل کی توقع ہو سکتی تھی ؟ محمد ظفر اللہ خاں جو ایک معروف مذاہب عالم کے احمدی سکالر تھے وہ اپنی کتاب Muhammad, Seal of the Prophets میں اس کا منظر یوں پیش کرتے ہیں: حضرت محمد ﷺ نے قریش کے لیڈروں کو بلایا اور ان سے سوال کیا کہ ان کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جانا چاہئے.تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ ان کو جیسی بھی سزا کا حقدار سمجھیں وہی مناسب ہے.لیکن انہیں اس بات کا علم تھا کہ آپ ﷺ ان کی برادری سے ہیں اور فراخدل بھی ہیں اور اسی کی بناء پر سلوک فرمائیں گے.اور اس پر آپ حضور ﷺ نے سزا کا اعلان حضرت صلى الله 29

Page 30

یوسف علیہ السلام کے الفاظ میں کیا جو انہوں نے اپنے بھائیوں سے مخاطب ہو کر کہے تھے کہ آج تم سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائیگا.(سورۃ یوسف 39:12) آپ ﷺ نے انہیں فرمایا کہ تم آزاد ہو، اہل مکہ کی آپ کے لئے حقارت اور تضحیک، ان کا لامحدودعناد اور نفرت ، ان کی سالہا سال پر محیط بلاتعطل سنگین اور ظالمانہ ایذا رسانی، تمام لڑائی جھگڑے، تمام مشکلات اور مصائب، آپ کے پیارے اور جانثار صحابہ کا جانی نقصان.تمام کے تمام اس فتح کے لمحہ میں ایک طرف الگ رکھ دئے گئے اور ان کی یاد ذہنوں سے اوجھل ہوگئی اور خدا تعالیٰ کے نام پر جو بے حد رحمان اور رحیم ہے، جو خالق ہے اور ہر کسی کا آقا ہے...محبت اور رحم کے دروازے کھول دئے گئے ، صبح کے وقت جو جانی دشمن تھے وہ دو پہر تک گہرے دوست بن گئے ، بعض دل ابھی بھی پژمردہ تھے، بے عزتی جو رحمدلی کے آگے نرم پڑ چکی تھی اس کو برداشت کرنا مشکل تھا لیکن پیغمبر خدا ﷺ نے جس رحمدلی اور فراخدلی سے مرہم لگائی تھی اس کے صحت بخش اثرات کے سامنے وہ زیادہ دیر باقی نہ رہ سکی.جس وسیع پیمانے پر آپ نے بے مثال در گذر اور ہر جہت سے پوری رحمدلی کا سلوک کیا تاریخ اس جیسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے.II (Zafrullah Khan, Muhammad - Seal of the Prophets, pp 235-236) اس رحمدلی اور در گذر کی مثال کو خلفائے اسلام اور دوسرے مسلمان لیڈروں نے بھی آنحضور ے کے بعد جاری رکھا.مثلاً مشہور صلاح الدین جس کی تعریف و توصیف میں مغربی مؤرخین بھی رطب اللسان ہیں.عظیم فرانسیسی ادیب وولٹیئر (Voltaire) نے صلاح الدین کو اپنا ہیر و تسلیم کیا تھا.: " وہی صلاح الدین جو صلیبی جنگجوؤوں کا عظیم ترین دشمن تھا.جب وہ عیسائیوں کو میدان جنگ میں شکست فاش دے چکا تو مرتے دم اس نے وصیت کی کہ اس کا متروکہ مسلمان، یہودی، اور عیسائی غرباء میں غیر جانبداری کیسا تھ تقسیم کر دیا جائے." (Voltaire, The Rise of Christian Europe, page 104) رومانوی ناول نویس سر والٹر سکاٹ ( Sir Walter Scott) بھی سلطان و صلاح الدین کی خوبیوں کے گن گاتا ہے.وہ اس کو یورپ کے شریف النفس حکمرانوں سے وابستہ کرتا ہے.وہ بہ یک وقت اپنے ہیرور چرڈ دی لائن ہارٹ (Richard, the LionHeart) کے ظلم و ستم اور تشدد سے بھی خوب آگاہ تھا.اس نے جو صلیبی جنگوں کی روئیداد لکھی وہ اس کی کہانی 30

Page 31

'The Talisman' کے دیباچہ میں لکھتا ہے : " وہ دور جس کا تعلق صلیبی جنگوں سے ہے...وہ ایک ایسا دور تھا جس میں رچرڈ اول کے جارحیت کا کردار بہت عجیب ہے.جنگلی مگر رحمدل، بہادری کا اعلیٰ نمونہ، خوبیوں کا اچنبھے، اور پھر اس کی نامعقول غلطیاں، یہ صلاح الدین سے متضاد تھیں.اس کے کردار میں عیسائی اور انگریز بادشاہوں کا ظلم و استبداد، دنگہ فسا در چا بسا ہوا تھا ( جس سے کسی مشرقی حکمران کو تعلق ہونا چاہئے تھا) اس کے برعکس صلاح الدین نے نہایت درجہ پارسائی اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا جو کہ کسی مغربی حکمران کی حکمت عملی اور مصلحت اندیشی ہونا چاہئے تھی." (Walter Scott, Muslim-Christian Encounters, pp 79-80) اسی طرح کا تقابلی کردار ہمیں سپین میں نظر آتا ہے جو اسلام کی آمد کے بعد جلتی دوزخ سے نجات پا کر بہشت ارضی بن گیا.اس کا خلاصہ مصنف سٹینلی لیپول (Stanley Lanepool) نے اپنے الفاظ میں یوں پیش کیا ہے: " اندلس پر کبھی بھی اس قد ر حمدلانہ، منصفانہ، اور دانشوارانہ حکومت کسی نے نہ کی تھی جیسی کی عرب فاتحین نے کی.بالعموم عوام صابر و شاکر تھے بس اتنے ہی صابر و مطمئن جتنے کہ وہ لوگ جن کے حکمران ایک مختلف نسل اور عقیدہ والے تھے.اور وہ اس سے حد درجہ بڑھ کر خوش جس قدر کہ وہ اس وقت تھے جب ان کے حکمران ان کے اپنے ہم مذہب لوگ تھے جس پر ان کا اعتقاد واجبی سا تھا.(The Moors in Spain) "مسلمانوں نے اپنی مفتوحہ اقوام کو خواہ وہ کسی مذہب سے ہی تعلق رکھتے ہوں، اپنے مذہب کی پیروی کی کھلی آزادی دے رکھی تھی".Albert & E.Vail, Transforming) (Light مسلمانوں نے جس طرح مختلف مذاہب و ملت والوں پر حکومت کی اس کی وضاحت سٹینلی لینول کے درج ذیل اقتباس میں کی گئی ہے.: " محکوم لوگوں کو اپنے قوانین اور حج رکھنے کی اجازت تھی.انہیں وہ حقوق حاصل تھے جن کی گوتھک ( Gothic ) بادشاہوں نے بھی اجازت نہ دی تھی.وہ اپنی زمینیں بیچ کر سکتے تھے.مذہبی رواداری میں انہیں کوئی خسارہ نہیں تھا.بجائے ان پر جبر کرنے کے یا ز بر دستی ان کا عقیدہ بدلنے کے جس طرح گوتھک بادشاہوں نے یہودیوں سے کیا تھا، اس کے برخلاف عربوں نے انہیں مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہ کیا.انہیں مکمل آزادی تھی کہ وہ جس کی چاہیں عبادت کریں...عیسائیوں کی اپنے نئے حکمرانوں سے تشفی کا بہترین ثبوت 31

Page 32

اس حقیقت سے ملتا ہے کہ آٹھویں صدی میں ایک دفعہ بھی مذہبی بغاوت نہ ہوئی." روڈنی کیسلڈن (Rodney Castleden) نے اپنی کتاب World (1994 History (Paragon میں یہودیوں کو جو مصیبتیں دوسری قوموں کے ہاتھوں پہنچیں ان کا ذکر بار بار کیا ہے.لیکن مسلمانوں کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر ایذارسانی کا ایک بھی حوالہ نہیں دیا.سچ بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہمیشہ ہی اعلیٰ خوبیوں کے نمونہ کا مظاہرہ کیا.لیکن عیسائی مصنفین کی اکثریت نے ان سے انصاف کا سلوک نہیں کیا کہ وہ اپنے مد مقابل کے اوصاف بیان کر سکیں.انہوں نے عیسائیوں کو اسلام کے نظام عقائد سے محفوظ رکھنے کے لئے جو ہتھکنڈے استعمال کئے ان میں سے ایک یہ تھا کہ اپنے مد مخالف پر کسی بھی صورت میں بہتان تراشی کی جائے.32

Page 33

باب سوم اسلام کے خلاف نفرت یہ بات واضح ہے کہ اہل مغرب صلیبی جنگوں کے ظلم و تشدد اور بے شرمی سے خوب آشنا ہیں.بے شمار مصنفین اور مورخین فتیح واقعات بیان کر کے ان کی مذمت کر چکے ہیں اس لئے ہم نے سوچا کہ انہوں نے اس سے کوئی تو سبق سیکھا ہو گا.لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے.طرفہ تماشا یہ کہ باوجود یکہ وہ ان رسوا شدہ تاریخی شواہد سے داغدار ہو چکے ہیں لیکن آج پھر حکمران عیسائی اقوام اسی نوع کے وحشیانہ اور بہیمانہ طرز عمل کا مظاہرہ کر رہی ہیں.مثلاً 1992 ء کی خلیج کی جنگ میں ان سب نے گٹھ جوڑ کر کے ایک قوم پر ہلہ بول دیا.چند ہفتوں میں ہی اتحادیوں نے عراق کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا.فضاء میں سے ہوائی بمباری کر کے جو بھی سامنے آیا بلا تفریق ہلاک کر دیا گیا، جن میں معصوم عوام ، عورتیں اور بچے شامل تھے.یہ سب کچھ نام نہاد انصاف کے نام پر روا رکھا گیا.آج کے دور کے صلیبی جنگجوؤں نے اپنے وحشیانہ اقدام پر غلاف چڑھا کر جواز نکال لئے اور اپنی جارحیت کو اچھائی اور شرافت کا نام دے کر اصلیت کو چھپا لیا.خلیج کی جنگ شروع میں چونکہ دو مسلمان ممالک کے درمیان تھی اس لئے عیسائی اقوام کو اس بات کا فکر نہ تھا کہ وہ کس کا ساتھ دیں جب تک کم از کم ان میں سے ایک قوم کا مکمل طور پر تباہ ہونا قطعی تھا.آج بھی اسلام کے خلاف نفرت کچھ اسی نوعیت کی ہے.بوسنیا کی جنگ میں بھی اہل مغرب نے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی پر تشویش کا اظہار کیا، اگر اہل مغرب فی الواقعہ اس جنگ کو ختم کرنے کے خواہاں ہوتے تو وہ بوسنین مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد اور بغض و عناد کو چند ہی ہفتوں میں ختم کر سکتے تھے جس طرح انہوں نے اتحادیوں کی مجموعی طاقت کو بروئے کار لا کر خلیج کی جنگ کو ختم کیا تھا.لیکن بوسنیا کی جنگ مزید چار سال تک جاری رہی اور صورت حال بجائے سدھرنے کے رفتہ رفتہ دگر گوں ہوتی گئی.یہ تو اہل مغرب کی دورخی تنگ نظری کی ایک اعلیٰ درجے کی 33

Page 34

مثال ہے.اور اس سے اقوام متحدہ ایک بار پھر غیر مؤثر اور بے کار ادارہ ثابت ہوئی.اہل مغرب کی اسلام کے خلاف نفرت بہت قابل فہم اور بڑی آسانی سے سمجھ آسکتی ہے.مشکل یہ ہے کہ دنیا اس کا نوٹس نہیں لینا چاہتی اور یہ دوزخ ان کے عین سامنے ہے جس کو وہ نظر انداز کر دیتے ہیں.کسی نامعلوم وجہ سے مغرب کی عیسائی اقوام اسلام کے خون کو خونخوار چمگاڈر کی طرح چوسنا چاہتی ہیں.انہیں اسلام کے علاوہ کسی اور دوسرے مذہب کا خون تشفی بخش نہیں لگتا ہے.دوسرے مذاہب عالم جیسے ہندو ازم اور بدھ ازم سے وہ ہرگز خوف زدہ نہیں ہوتے کیا یہ اس وجہ سے ہے کہ اسلام دور دراز علاقہ سے نہیں آیا یا اس میں غیر ملکی جادو نہیں جس کا تصور ان ہندوستانی مذاہب کے بارہ میں عوام الناس کے ذہنوں میں پایا جاتا ہے.ایک جرمن مؤرخ پروفیسر جوزف وان الیس ( Josef van Ess) نے اسلام سے نفرت کے موضوع پر اپنے موقف کا اظہار ہانس کنگ کی کتاب میں یوں کیا ہے: اسلام سے دلچسپی تو بہت پرانی ہے.ذرائع ابلاغ سے اسلام سے متعلق جو کچھ سننے یا پڑھنے میں آتا ہے اور جو صاحب دانش لوگوں کی بھی رائے ہے وہ بہت چونکا دینے والی ہے.چونکا دینے والی دو رنگ میں، ایک یہ کہ یہ یک طرفہ آراء اور تعصب پر مبنی ہیں اور دوسرے یہ کہ جس قسم کے آسیب زدہ لب ولہجہ کو اختیار کیا جاتا ہے اس سے بدھ مت اور ہندومت سے بمقابلہ اسلام کوئی خوف نہیں کھاتا.خوف تو ایک طبعی چیز ہے.اس طرح کے ماحول میں گھسے پٹے نظریات کی فراوانی ہونے لگتی ہے اور مزید جاننے یا سمجھنے یعنی جس کی خواہش عمومیات اور جلد بازی کے ساتھ اخذ کئے ہوئے نتائج میں کھو کر رہ جاتی ہے...اسلام کے خلاف من گھڑت محاورے لاشعور کی گہرائیوں میں پڑے ہوتے ہیں اور بلا اعتراض قبول کر لئے جاتے ہیں.اس کی مثال اخبارات کے کارٹونوں میں مل جاتی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ہمارے ثقافتی ورثہ کا حصہ نہیں ہے.اساتذہ اس موضوع کے لئے نہ بھی تیار تھے اور نہ ہی اب تک تیار ہیں " (Kung, Christianity & the world religions, pp 5-6) ہانس کنگ اسی کتاب میں اس سے ملتے جلتے وسوسے کا اظہار کرتا ہے : " تاریخ کے دھارے پر اسلام اکثر دنیائے عیسائیت کے لئے ایک خلل انداز ، دھمکی آمیز اور خوف میں مبتلا کر دینے والی حقیقت بن کر سامنے آیا ہے.اور یہ حقیقت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے دو ہزار 34

Page 35

سال بعد اور حضرت محمد ( ﷺ) کے چودہ سو سال بعد ا کثر عیسائیوں کے نزدیک اسلام ابھی تک ایک شرانگیز واقعہ سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ عیسائیت سے جغرافیائی طور پر نزدیک ہے اور دراصل اسکی وجہ بھی اس کی جغرافیائی نزدیکی ہے.عصر حاضر کی زندگی کی نبض پر انگلی رکھ کر حال ہی میں مشہور مصنفین نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کو مغرب کی تاریخ کے دھارے کو بدل دینے والا بدشگون واقعہ قرار دیا ہے.ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ اسلام ہمیں اجنبیت کا احساس دلاتا ہے اور سیاسی اور اقتصادی طور پر ہندومت یا بدھ مت سے زیادہ دھمکی آمیز لگتا ہے.بہر کیف یہ ایک ایسا امر ہے جسے ہمیں سمجھنے میں دشواری پیش آئی ہے." (صفحہ 19 ) ایک ہماری ہمعصر برطانوی ادیب کیرن آرم سٹرانگ صدیوں پرانی زہریلی اینٹی سیمی ٹزم کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں میں نئی مفاہمت پیدا ہو جانے پر اظہار خیال کرتے ہوئے سوال کرتی ہے کہ ان دو عظیم ادیان یعنی یہودیت اور عیسائیت کے سکالر یکدم پرانی عداوتوں کو برطرف کر کے صلح کرنے پر کیوں آمادہ ہو گئے ہیں.شاید انہوں نے اختلافات کو اس وجہ سے نظر انداز کیا ہے کہ اسب سے بڑے دشمن اسلام کی روند تی لہروں کی روک تھام کر کے مغرب کو زیروز بر ہونے سے بچالیا جائے.جہاں تک تمام دنیا کی خیر سگالی کا تعلق ہے تو اسلام کو اجنبی مذہب سمجھا جاتا ہے.کیرن آرم سٹرانگ کی زود فہمی کی داد دیجئے کہ اس نے اس امر کا یہ کہہ کر اعتراف کیا ہے کہ " اسلام تمام اہم مذاہب میں سے واحد مذہب ہے جو دائرہ خیر سگالی سے خارج لگتا ہے اور کم از کم مغرب میں اپنا منفی تصور قائم رکھا ہوا ہے باوجود یکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تیسرا مذہب ہے اور مغرب کی یہودی اور عیسائی روایات کے عین مطابق ہے.لیکن اسلام سے پرانی عداوت بحر الکاہل کے دونوں ساحلوں پر (یعنی یورپ اور امریکہ ) روز افزوں ہے.اور لوگ اس مذہب پر حملے کرنے سے دریغ نہیں کرتے باوجود یکہ اس کے متعلق ان کا علم محدود ہے." آرم سٹرانگ اس نفرت کی وجوہات کی وضاحت یوں کرتی ہے : " جارحیت تو قابل فہم ہے، کیونکہ ہماری صدی میں سوویٹ یونین کے عروج تک کسی طرز حکومت اور آئیڈیا لوجی نے مغرب کو اسلام کی طرح مسلسل چیلنج نہ کیا تھا.جب ساتویں صدی میں اسلامی سلطنت معرض وجود میں آئی تو اس وقت یورپ ایک پسماندہ علاقہ تھا.مذہب اسلام نے کمال سرعت سے مشرق اوسط کی دنیائے 35

Page 36

عیسائیت اور شمالی افریقہ کے عظیم چرچ کو زیرنگیں کر لیا.یہ درخشندہ کامیابی بہت خطرناک تھی.کیا خدا نے عیسائیوں سے منہ موڑ لیا تھا اور منکرین کو اپنی نظر کرم کا مورد بنا لیا تھا.؟ جب یورپ تاریکی کے دور ( ڈارک ایجز ) سے باہر نکل آیا اور اپنی عظیم تہذیب قائم کر چکا تو پھر بھی اسلام کی بڑھتی ہوئی اسلامی سلطنت کا خوف انہیں لاحق رہا.یورپ اس طاقتور اور اثر آفریں تہذیب پر اپنا کوئی خاص اثر نہ جما سکا.اس خوف کیوجہ سے مغربی عیسائیوں کے لئے ناممکن ہو گیا کہ وہ مذہب اسلام کے بارہ میں منطقی اور حقیقت پسندرہ سکیں مغربی سکالروں نے اسلام کو خدا کی شان میں گستاخی کرنے والا مذہب کہا اور پیغمبر اسلام کو عظیم متنیتی کے طور پر پیش کر کے ان کی مذمت کی جس نے ایک اشتعال انگیز مذہب کی بنیاد رکھی تا وہ تلوار کے بل بوتے پر پوری دنیا کو فتح کرلے.اہل مغرب کے لئے محمد ایک خوفناک بھوت بن گیا جس کا ذکر مائیں نافرمان بچوں کو ڈرانے کیلئے کرتیں.یورپ نے اسلام کا یہ مسخ شدہ تصور قبول کر لیا.اور آج بھی اسلام کے بارہ میں ہمارے خیالات کو متاثر کرتا چلا آتا ہے.II (Armstrong, Muhammad, A Western attemp to Understand Islam, pp 10,11) مغربی مصنفین کی اکثر و بیشتر تحریریں جو سپر د قلم کی گئی ہیں ، وہ رسول مقبول ﷺ اور دوسری برگزیدہ شخصیات کے بارہ میں ان کی قدر و قیمت کم کرنے والی اور ان کی آبرو ا چھالنے والی ہیں.اسلام کے بارہ میں عوام الناس میں پائے جانیوالی غلط فہمیوں کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اسلام کے بارہ میں غلط معلومات رکھتے ہیں.منٹگمری واٹ نے دیانتداری سے کام لیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ اسلام کی خوبیوں اور خصائل کی اچھی طرح تشہیر نہیں کی گئی کہ جس سے اس کا مسخ شدہ پر تو بدلا جا سکے." کئی عیسائی صلاح الدین کی شریف النفس سرداروں جیسی بردباری کا اعتراف کرنے لگے لیکن اس موضوع پر بہت کم عالمانہ کام ہوا ہے.یہ فرانس اور مغربی یورپ کے سکالر ہی تھے جنہوں نے اسلام کا نیا اور تفصیلی تصور قائم کیا" (Watt, M.C.Encounters, pp 80/81) اسلام کا یہ نیا اورتفصیلی عکس در حقیقت ایسے پیچیدہ اور مسخ شدہ طریق سے پیش کیا گیا تا کہ اسلام کی تمام خوبیوں کی نفی ہو سکے.اب میں ازمنہ وسطیٰ کے دور سے شروع کر کے یورپ کے بعض ایسے ہی مصنفین کا جائزہ پیش کروں گا.36

Page 37

باب چهارم اسلام پر علمی اور ادبی حملے یورپ میں عیسائی محققین کے اسلام پر قابل ذکر حملے قرون وسطی میں خصوصاً بازنطینی علماء دین کی طرف سے آٹھویں صدی سے لیکر تیرھویں صدی کے دوران شروع ہوئے.ایسے حملوں کا جرمنی کی یو نیورسٹی آف منسٹر (Munster) کے پروفیسر عادل تھیوڈور کھوری (Adel-Theodore Khoury) نے مطالعہ کیا ہے.کتاب کا نام Polimeque.359-365 Byzantine L'Islam, Leiden, Brill, 1972, pp ہے.اس قسم کی تصانیف میں اسلام کی تصویر ایک جھوٹے مذہب کے طور پر پیش کی گئی ہے، ایسا مذہب جس کا رجحان بت پرستی کی طرف تھا.محمد ( ﷺ) کو نعوذ باللہ ایک مفتری نبی کے طور پر پیش کیا گیا جو شیطان کا چیلہ تھا جس کا محرک ابوالکذب تھا.اور وہ خود یقینا عیسی کا دشمن تھا.آپ (صلعم) کی مزعومہ اخلاقی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر بات کا بتنگڑ بنایا گیا ہے.قرآن کو جھوٹی الہامی کتاب کہا گیا ہے جس میں محمد (صلعم) نے نہ صرف عہد نامہ عتیق اور جدید سے مواد نکال کر پیش کیا ہے، بلکہ اس میں ایسا مواد بھی شامل کیا گیا ہے جو منکرین جیسے مانے کینز (Manichaeans) کا وضع کردہ ہے، بلکہ اس میں من گھڑت مواد بھی شامل ہے.اس طرح اسلام کی تصویر کشی ایک ضرر رساں، شیطان کی وحی سے محرک شدہ مذہب کے طور پر کی گئی ہے جس کی تباہی عیسائی علمائے دین کی دلی تمنا تھی.اس ہتک اور افتراء پردازی کے کام کو آگے بڑھانے میں دوسرے عیسائی علما جیسے پیٹر دی ویز ایبل (Peter the venerable) ریکولڈ و مانٹی کروچ Ricoldo da Monte) Croce اور خاص طور پر ٹامس ایکوئے ناس (Thomas Acquinas ) نے پوری سعی کی.انہوں نے ایسی کتابیں لکھیں جیسے Disputations against the Saracens 37

Page 38

1 3 and the Quran جن کا موضوع سخن اسلام تھا، اگر چہ کچھ مواد ان میں صحیح اور ٹھوس تھا، مگر وہ اسلام کا غلط پر تو پیش کرنے میں کامیاب ہو گئے جو چار طرح کا تھا: اسلام سراسر جھوٹ پر مبنی ہے اور صداقت کو دیدہ و دانستہ طور پر بگاڑا گیا ہے.محمد (صلعم) نے جھوٹ اور سچ کو خلط ملط کر دیا.2 اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو طاقت، تشدد، اور تلوار کے ذریعہ پھیلایا جاتا ہے.اسلام ایک مذہب ہے جو نفس پرستی کی تعلیم دیتا ہے.مسلمان کی روز مرہ کی زندگی کو سمجھنے میں جنسیت کا بہت بڑا پہلو ہے.یہ فرض کر لیا گیا کہ مسلمان بہت ساری بیویاں رکھ سکتا ہے ،صرف چار ہی نہیں بلکہ سات یا دس یا پھر اس سے بھی زیادہ.یہ کہ بہشت میں اس کو دلر با حور میں ملنے کا وعدہ کیا گیا ہے.ایک ادیب نے تو یہاں تک گمان کر لیا کہ قرآن میں زنا کی اجازت دینے والی آیات پائی جاتی ہیں اور بعض دوسری آیات کے متعلق بھی تصور کر لیا گیا کہ وہ خلاف معمول جنسی حرکات کی اجازت دیتی ہیں یا پھر ایسے فعل پر اکساتی ہیں.4 محمد دجال ( یعنی عیسی کا دشمن ہے.محمد کو جھوٹا نبی سمجھا گیا گویا کہ وہ حقیقت میں نبی نہیں تھا.اس نے عیسوی مذہب کی مخالفت میں نیا دین ایجاد کر لیا پس وہ ضرور کسی شیطانی فعل میں مصروف کار تھا، اور لا زم وہ شیطان کا آلہ کار یا کارندہ تھا.یہ الفاظ دیگر وہ دجال ہے.سرکار دو عالم ﷺ کے پاک کردار کو مزید ٹھیس پہنچانے اور بد نام کرنے کیلئے آپ پر اخلاقی کمزوریوں کا الزام عائد کیا گیا.جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ محمد ( ﷺ ) غیر سنجیدہ، شہوت پرست اور دھوکہ باز تھے.ٹامس کارلائل نے ان اعتراضات کو ایک سو سال قبل پوری شدت کے ساتھ استعمال کیا.اسلام کی اس مسخ شدہ تصویر کے اہم پہلو جن کی تشکیل عیسائی سکالرز نے بارھویں اور تیرھویں صدی کے دوران کی تھی وہ آج تک یورپین فکر ونظر کو کنٹرول کئے ہوئے مثلاً مشہور فرانسیسی مستشرق میکسم روڈنسن (Maxime Rodinson) اپنی کتاب Mohammed میں اس موضوع پر یوں اظہار خیال کرتا ہے : " علی الخصوص عیسائیوں نے اسے اپنا کادشمن بنالیا، بول و براز کا ڈھیر، مرگی کے مریض کا فراڈ.اس کے مریدوں نے اس کی جو باتیں بیان کی تھیں ان کو توڑ مروڑا گیا تا اس کی ایک بدنما تصویر بنائی جاسکے جس سے وہ ایک ظالم، ہے.38

Page 39

نفس پرست فرد کی حیثیت سے دیکھا جائے جو ہر قسم کی بدی اور جرم میں لت پت ہے.II (Rodinson, Mohammmed, pp 301/302) کوئی صاحب عقل سلیم ایسی باتوں کو بمشکل ہی باور کرے گا.کالونیلزم اور عیسائیت یورپین خصوصاً برطانوی، فرانسیسی اور ولندیزیوں نے تین سے چار سو سال کے عرصہ میں ایشیائی اور افریقن بر اعظموں پر پہلے تجارت کے ذریعہ پھر حد درجہ کے سیاسی دباؤ کے ذریعہ اور بالآخر اقتصادی نظام نو آبادیات کے ذریعہ اپنی طاقت کا تسلط جمائے رکھا.ان تغیر پذیر حالات میں اور عیسائی مشنریوں کی طرف سے تسلط جمانے کی کوششوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے جنہوں نے مقامی باشندوں پر عیسائیت ٹھونس دی.یورپین کا لونیلزم مقامی عوام پر انتہائی ناگوارگزری.حکمراں طبقہ نے ان مقامی باشندوں پر اپنی فوقیت کا بر ملا اظہار کیا جسے تسلیم کرنے میں مغربی مصنفین کو کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی.اس کی مثال ہمیں اے جے بالفور (A.J.Balfour ) اور لارڈ کرومر (Lord Cromer) کی تقاریر اور تصانیف میں مل جاتی ہے جن میں 1910ء کے لگ بھگ مصر پر برطانوی تسلط کے بارہ میں ذکر پایا جاتا ہے.انہوں نے برطانوی فوقیت کا ہونا بغیر سوال اٹھائے فرض کر لیا اور مشرق کی ہر قسم کی کمزوریوں کو ضرورت سے زیادہ رنگ میں بیان کیا جیسے خود حکمرانی کی گنجائش نہ رکھنا، معاشرتی اور اخلاقی گراؤ منطقی طور پر سوچ بچار کر سکنے کی عدم قابلیت ہونا وغیرہ.کالونیاں بنانے والوں نے یقیناً اپنے محکوموں سے کم ہمدردی کا سلوک کیا ان توقعات کے برعکس جو ایسے لوگوں سے ہو سکتی ہیں جن کا دھرم انسانی شرافت کی تکریم کا پر چار کرتا تھا.یہ سچ ہے کہ یورپین مادی طور پر فوقیت رکھتے تھے اور باقی ماندہ دنیا ان کے اعلیٰ نظام تعلیم اور نظام حکومت سے نفع اٹھا رہی تھی لیکن اس چیز کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اس قسم کے تفوق کو اخلاقی تفوق سے الجھا دیا جس کے نتیجہ میں وہ اہل مشرق اور افریقہ کو اخلاقی لحاظ سے کمتر انسان سمجھنے لگے.ان کے نزدیک ایسے لوگوں کو عیسائیت کے ذریعہ حقیقی روشنی کی طرف رہ نمائی کی اشد ضرورت تھی.بلکہ اس پر حد لگا دی تا کہ اس سے آگے کوئی سوچ ہی نہ سکے.39

Page 40

مضمون وائیٹ کالونیلزم کے ناظمین اور جن ممالک کے عوام پر وہ حکومت کرتے تھے ان کے مابین تعلقات کا دیا نتداری سے تجزیہ ٹامس مرٹن (Thomas Merton) نے ایک 'Cargo Cults of South Pacific میں کیا ہے جو اسکی کتاب میں شامل اشاعت ہے.وہ کہتا ہے : " ہم اپنے سیاہ فام بھائی کی مدد کے لئے یقیناً تیار ہیں لیکن یہ مدد گستاخی ، شیخنی اور خوشدلی کے رنگ میں کی جاتی ہے.ہم اس کی مدد اس لئے کرتے ہیں تا وہ ہو بہو ہماری طرح کا ہو جائے جبکہ اس کے لئے ہماری طرح کا ہو جانا ناممکن ہے.اسطرح ہم اسے ایک پیچیدہ صورتحال میں ڈال دیتے ہیں اور پھر ہم حیران ہوتے ہیں کہ وہ کیونکر روحانی اذیت محسوس کرتا ہے.یقیناًیہ تو ہمارا بہانہ ہے کہ ہم ہر کسی کو اپنے راز میں حصہ دار بنانا چاہتے ہیں.جیسی دولت وامارت ہمارے حصہ میں آئی ہے ہم ہر کسی کو اس میں شریک بنا نیکے خواہشمند نہیں ہیں.لیکن ہم جو کچھ کہتے ہیں اس کا اصل مطلب کچھ اور ہوتا ہے.ہم اپنے سے کم درجہ لوگوں کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں.ہم ان میں اپنا مفاد کچھ اس طور پر ودیعت کرتے ہیں کہ غیر ترقی یافتہ ممالک ہماری ماتحتی میں آج بھی مصروف عمل ہیں." (Merton, Love & Living, Bantam Books, New York, 1980, p77) جہاں تک مادی طاقت کا تعلق ہے اہل مغرب کا یہ غرور جو پورے عروج کو پہنچ چکا تھا اس کے بارہ میں چودہ سو سال قبل قرآن مجید میں اللہ قادر مطلق نے سورۃ الکھف (36-18:35) میں قبل از قت اطلاع دے دی تھی.اس میں اللہ تعالی نے دو بڑی قوموں یعنی اہل نصاری اور مسلمانوں کی حالت کو تمثیلی رنگ میں پیش کیا ہے: وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ ۚ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُةٌ اَنَا اَكْثَرُ مِنْكَ مَا لَا وَّ أَعَزُّ نَفَراً.وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَنْ تَبِيْدَهذِهِ اَبَداً - (ترجمہ) ” اور اس کے بہت پھل (والے باغ) تھے.پس اُس نے اپنے ساتھی سے جب کہ وہ اس سے گفتگو کر رہا تھا کہا کہ میں تجھ سے مال میں زیادہ اور جتھے میں قوی تر ہوں.اور وہ اپنے باغ میں اس حال میں داخل ہوا کہ وہ اپنے نفس پر ظلم کرنے والا تھا.اس نے کہا میں تو یہ خیال بھی نہیں کر سکتا کہ یہ بھی برباد ہو جائیگا.40

Page 41

مندرجہ بالا آیات کریمہ میں بتلایا گیا ہے کہ اپنی رنگ برنگی تاریخ میں عیسائی اقوام اپنی طاقت میں ایک بار پھر اعلیٰ مقام تک پہنچ جائینگی.اس کی ابتدا ء سترھویں صدی کی صبح طلوع ہونے سے ہوئی جب یورپ کی اقوام نے عظیم الشان ترقیات حاصل کرنا شروع کیں.انہوں نے بے مثال طاقت اور شہرت حاصل کر لی جو انیسویں صدی میں اپنے عروج کو پہنچ گئی.اپنی مادی ترقی پر فخر کرتے ہوئے مغربی عیسائی اقوام کی زندگی آرام و آسائش اور عیش و عشرت والی ہو گئی اور اپنے غرور اور گستاخانہ رویہ کی وجہ سے انہیں غلط فہمی ہو گئی کہ ان کی طاقت، مادی ترقی اور بہبودیت ہمیشہ قائم و دائم رہے گی.وہ اپنے غلط احساس حفاظت اور اطمینان سے عارضی سکون حاصل کر کے مکمل طور پر گناہ اور بے انصافی کی زندگی میں روپوش ہو کر رہ جائیں گے.یہ سب کچھ عجب رنگ میں لفظ یہ لفظ یح ثابت ہو رہا ہے.برتر مغربی تہذیب اب ہم کالونیوں کی رعایا کو محکوم بنانے کی طرف لوٹتے ہیں.محکوموں کے سامنے یہ لالچ رکھی جاتی رہی کہ وہ مفروضہ برتر مغربی تہذیب، نظام تعلیم اور عمومی طرز حیات کے پھلوں کا مزہ لے سکتے ہیں مگر اس کے ساتھ محکوموں کو اتنی دور رکھا جاتا کہ وہ مزید مزا حاصل کرنے کیلئے واپس ان کے پاس آتے رہیں.لیکن انہیں کبھی جی بھر کر مزہ لینے کی اجازت نہ دی جاتی تھی.مغربی طرز کی جو تعلیم مہیا کی جاتی تھی اسے اکثر مقامی لوگ پسند کرتے تھے، جن میں بہت سارے مسلمان بھی شامل تھے.لیکن عیسائیت قبول کرنے کا دباؤ ہمیشہ موجود ہوتا تھا.حتی کہ میڈیسن کے میدان میں ہسپتال اور میڈیکل کلینک قائم کر دئے جاتے ، وہاں سے بعض جگہوں سے رپورٹ ملی ہیں کہ علاج کی شرط یہ تھی کہ مریض ان کی عبادت میں شامل ہوں گے یا پھر وعظ کو ہی سنیں گے.ہندوستان میں ہندؤں اور افریقہ میں قدیم دور کے لوگوں کی ایک بھاری تعداد کو مادی ضروریات سے مجبور ہو کر عیسائیت کو قبول کرنا پڑا.تاہم مسلمانوں میں سے مذہب تبدیل کرنے والوں کی تعداد بہت کم تھی شاید اس لئے کہ عین اس وقت مغربی علماء دین نے اسلام کی مسخ شدہ 41

Page 42

تصویر پیش کرنے کی روایت کو جاری رکھتے ہوئے کثیر تعداد میں کتابیں شائع کیں.چونکہ اس وقت اسلام کی طرف واپس لوٹنے کی تحریک شروع ہو چکی تھی اس سے عیسائی مشنریوں کے عزائم فنح ہو گئے.پس اسلام ہمیشہ ہی مغربی عیسائی اقوام کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوا ہے.ان کے تمام دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے منصوبہ میں ہمیشہ خطرہ سمجھا جاتا رہا ہے اور انہوں نے اپنے عزائم کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی.اسلام کے خلاف نفرت ہندوستان میں بھی عیاں تھی.برطانوی راج کے دوران یہ بات کھل کر واضح ہوگئی کہ حکمرانوں کو ہندوؤں سے زیادہ انس تھا بجائے مسلمانوں کے جنہیں وہ حقیر خیال کرتے تھے.اس کی واضح مثال ارل ماؤنٹ بیٹن ہے جو ہندوستان کا آخری وائسرائے تھا.برطانوی ٹی وی کے چینل فور کے ایک حالیہ پروگرام بعنوان Secret Lives جو 9 مارچ 1995 ء کو دکھایا گیا تھا، مؤرخین اور سوانح نگاروں نے ماؤنٹ بیٹن کی ہندو لیڈر جواہر لال نہرو کی بے جا جانبداری اور محمد علی جناح کے لئے نفرت پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا.مؤرخین نے ماؤنٹ بیٹن پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ اس نے ہندؤوں اور مسلمانوں کو خانہ جنگی پر اکسایا تھا جس میں قریب قریب ایک ملین افراد موت کی آغوش میں چلے گئے، ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی.ہندوستان کی آزادی کے بعد جب وہ انگلستان واپس لوٹا تو ہر کسی نے اس کو ہیرو اور مرد اعظم کے طور پر اس کا استقبال کیا.ان میں حکمران لیبر پارٹی جس کا سر براہ ایٹلی تھا اور کنز روٹیو پارٹی والے شامل تھے.ان سب نے مل کر اس کو ہندوستان میں کامیابی حاصل کرنے پر مبارک باد پیش کی.کیا ایسی خانہ جنگی اکسانے پر جس میں تقریباً ایک ملین لوگ ہلاک ہو گئے ، اسے ہیر وازم کی مثال سمجھا جاسکتا ہے؟ لیکن وہی کچھ ہوا جو اس کے مقدر میں تھا.کیا یہ نا قابل یقین ستم ظریفی نہیں کہ تقریباً ایک ملین افراد کے قتل عام کے تمہیں سال بعد ارل ماؤنٹ بیٹن خود آئی آراے (IRA) کے بم کا نشانہ بن کر ایک ملین ٹکڑوں میں ریزہ ریزہ ہو گیا.اس کی وضاحت یوں ہی کی جاسکتی ہے کہ یہ مغرب کے دو بالا تر فرقوں یعنی پروٹسٹنٹ اور رومن کھولک عیسائیوں کے درمیان خانہ جنگی کا نتیجہ تھا.42

Page 43

مسلمانوں کی آزاد خیالی عین اس وقت جب اسلام کی طرف واپس لوٹنے کی تحریک ( بنیاد پرستی ) شروع ہوئی ، مغربی تعلیم تک رسائی ممکن ہوگئی اور مغربی مصنفین کی طرف سے اسلام کا منفی استحسان جب شروع ہوا تو مسلمان سکالرز کے ذہنوں میں آزاد خیالی نے جنم لینا شروع کر دیا.مستشرقین نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا جنہوں نے یہ کہنے کی کوشش کی تھی کہ مسلمانوں کے اخلاق اور عادات و اطوار دگرگوں ہو چکے ہیں جس کی بڑی وجہ سخت اور کٹر اسلامی قوانین ہیں.مغربی معاشرہ میں قبولیت حاصل کرنے کیلئے انہیں بعض پرانی رسوم کو ترک کر دینا ہوگا اور انہیں مذہب کے بارہ میں اپنے قدامت پسند رویہ کو ڈھیل دینا ہوگی.گذشتہ صدی کے نصف سے لے کر موجودہ زمانے تک اسلامی طرز فکر کی بلا شبہ تشکیل نو ہوئی ہے.بعض قدامت پسند مصلح بھی پیدا ہوئے جن کا مطمح نظر یہ تھا کہ اسلام میں جو غیر اسلامی باتیں درآئیں ہیں ان کی تطہیر کی جائے نیز قرآن اور دور قدیم کی روایات کی طرف رجوع کیا جائے.اس کے برعکس آزاد خیال مصلحین کی رائے میں دارالاسلام کی تطہیر اور تجدید وقتی تقاضوں کے ساتھ ساتھ ہونی چاہئے.انیسویں اور بیسویں صدی میں بعض آزاد خیال علماء بھی ہوئے ، ان میں خاص طور پر جمال الدین افغانی (97-1839) محمد عبدہ (1905-1849) اور سرسید احمد خاں (98-1817) قابل ذکر ہیں جنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے خیالات کو بہت متاثر کیا.برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں ایک طاقت ور ادارہ تھی اور اس کا کولونیل سامراج کے قیام میں حد درجہ عمل دخل تھا.اس کا مقامی باشندوں کی آبادی جو ہندؤں ، عیسائیوں اور مسلمانوں پر مشتمل تھی ، گہرا اثر ورسوخ تھا.جوں جوں وقت گزرتا گیا عوام الناس برطانیہ سے فرمانبرداری اور وطن سے حب الوطنی میں بٹ کر رہ گئے.کئی لوگوں نے جن میں ہندوستانی مسلمان بھی شامل تھے، فیصلہ کیا کہ انہیں اعلانیہ طور پر اظہار کر دینا چاہئے کہ وہ تخت برطانیہ کے فرمانبردار ہیں.نیز یہ کہ ان کی نجات صرف مغربی علوم کے سیکھنے میں ہے.ان دو مقاصد کے مدنظر ان کو یقین ہو گیا کہ برطانوی حکومت بظاہر 43

Page 44

زوال پذیر مغل حکومت سے بہتر ہے اور مزید یہ کہ اگر وہ فلاح و بہبود کے خواہاں ہیں تو ان پر یورپین سائنس اور علوم کی تحصیل لازم وملزم ہے.پھر بعض لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے نا سمجھی اور سادگی میں یہ فرض کر لیا کہ برطانوی عیسائی اسلام کو تباہ کرنے کے خواہاں نہیں بلکہ اس کے حقیقی خیر خواہ ہیں.اور وہ مسلمانوں کو معاشرتی ، سیاسی اور اقتصادی طور پر ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں.لیکن انہوں نے ایک بہت بڑے خطرہ کو نہ بھانپا تھا جوان کی ترقی کو روک دے گا یافی الواقعہ تر قی کا آغاز ہونے سے پہلے ہی ختم کر دے گا.مسلمانوں کی مادی، معاشرتی اور علمی و ذہنی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کا مذہب کی طرف قدامت پسند رجحان تھا.اس لئے اس مسئلہ پر قابو پانے کے لئے آزاد خیال مصلحین نے دینِ اسلام کے بنیای اعتقادات پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت محسوس کی اور بعض پہلوؤں میں نرم برتاؤ کا پرچار کیا تا کہ اپنی لادینی امنگوں کے لئے جگہہ پیدا کر سکیں.اور جیسا کہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے جب اصولوں میں نرمی اور کسی طرح کا ڈھیلا پن آجائے اور جب اصلی تعلیم سے انحراف شروع ہو جائے اور اپنے اعتقادات پر معذرت خواہی سے کام لیا جائے اور انسان سمجھوتہ کرنا شروع کر دے، تو گمراہی کے راستہ کی کوئی انتہا نہیں رہتی.آہستہ آہستہ مگر یقینی طور پر وہ قعر مذلت میں گر جاتے ہیں.سرسید احمد خاں سے عمر میں چھوٹے مگر ان کے ہمعصر مشہور ہندوستانی جدت پسندسید امیر علی نے 1873ء میں اسپرٹ آف اسلام کے نام سے کتاب لکھی جو جلد ہی اسلامی آزاد خیالی کا دستور عمل بن گئی.کتاب کے ایک کثیر حصہ میں سرکار دو عالم کے بعض ان افعال پر معذرت کی گئی ہے جن پر غیر مسلم محققین اکثر تنقید کرتے آئے ہیں.امیر علی مغربی مستشرقین کے جادو کا ایک اور شکار بن گیا.یہ اسی قسم کے آزاد خیال مفکرین ہی تھے جنہوں نے اسلام کی وحدانیت اور کڑی سادگی کا بہ نسبت یورپین طرز حیات کے قبول کرنے میں تناقض دیکھا.یہ اسی قسم کے آزاد خیال لوگ ہی تھے جنہوں نے جانتے بوجھتے اس بات سے آگاہ کیا کہ متعدد اسلامی قوانین فرسودہ ہو چکے ہیں اور موجودہ زمانے کے لئے موزوں نہیں.وہ اسلامی قوانین کو معنوی نہ کہ لفظی لحاظ سے قابل قبول سمجھتے 44

Page 45

تھے.امیر علی کے قول کے مطابق قانون کی روح کے معنی یہ ہیں کہ راستبازی سے پیار کیا جائے، اچھے اعمال بجالانے کی کوشش کی جائے ، خدا اور اس کی مخلوق سے محبت کا عملی نمونہ اختیار کیا جائے.وہ ترمذی کی ایک حدیث کا حوالہ دے کر ثابت کرتا ہے کہ سرور کائنات ﷺ نے اپنے قانون کو غیر مبدل قرار نہیں دیا تھا.اور اس توقع کا اظہار کیا کہ جونہی روحانیت میں ترقی بڑھتی جائیگی اس کے ساتھ ہی قانون کی پیروی کم سے کم تر ہوتی چلی جائیگی.امیر علی کے خیال کے مطابق محمد عے کے دئے ہوئے کئی قوانین وقتی حالات کے پیش نظر تھے جو نہی حالات بدل گئے تو قوانین بھی صلى الله کالعدم ہو گئے.ایسے نام نہاد مسلمانوں کے ذہنوں میں کس قسم کے ناقابل یقین خیالات اور تصورات نے جگہ پائی تھی ؟ آزاد خیالوں کی نئی پود نے اسلامی نظریات کی تشکیل نو کی کوشش کی اور عیسائی مستشرقین کے ہاتھوں میں آلہ کار بن گئے.انیسویں صدی کے نصف میں یہ اسی قسم کی آزاد خیالی تھی جس نے اسلام کی بنیادوں کو ایسا نا قابل بیان نقصان پہنچایا جس نے اس کو ہلا کر رکھ دیا.علاوہ ازیں اسلام کے پاک پیغمبر ﷺ پر مغربی مستشرقین نے جو ظالمانہ اور کینہ پرور حملے کئے ان میں کوئی کمی یا تنزل ہوتا نظر نہیں آتا تھا.انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا.پس یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے اپنے مذہب کی پیروی کرنا دو بھر ہو گیا.اس سے سرکار دو عالم کی ایک پیش گوئی پوری ہوگئی کہ ایک وقت ایسا آئیگا کہ حقیقی اسلام کا کچھ بھی باقی نہ رہ جائیگا سوائے نام کے.در حقیقت کئی مسلمانوں نے اپنا مذہب تبدیل کر لیا اور عیسائیت، ہندومت یا دہر یہ پن کے پیروکار بن گئے.آزاد خیالی کا ماحصل یہ ہے کہ برطانویوں کو جان بوجھ کر نہ چھیڑا جائے کیونکہ وہ تو اسلام کو نیست و نابود نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس کے خیر خواہ تھے اور مسلمانوں کو کامیابی سے ہمکنار ہوتا دیکھنا چاہتے تھے.چودہ سوسال قبل نازل ہونے والا خدا کا کلام پھر ایک بار پوری صداقت سے پورا ہوا.اللہ تعالیٰ نے تو پہلے ہی سے تنبیہ کر دی تھی کہ اہل یہود اور اہل نصاریٰ اللہ کے نور کو بجھانے کی سعی کریں گے ( یعنی دین اسلام کو ).سورۃ التوبہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِـوا نُوْرَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَ يَا بَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُوْرَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَفِرُوْنَ (9:32) 45

Page 46

وو وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھا دیں.اور اللہ ( ہر دوسری بات ) رڈ کرتا ہے سوائے اس کے کہ اپنے نور کو مکمل کر دے خواہ کا فر کیسا ہی نا پسند کریں.انیسویں صدی کے اواخر میں دشمنان اسلام محمد ﷺ کے دین کو بدترین حالت میں دیکھ کر اور اس پر ہر جہت سے ہندوؤں ، عیسائیوں، آریوں اور دہریوں کے مشترکہ حملے ہوتے دیکھ کر ضرور خوشی کے شادیانے بجاتے ہوں گے.مسلمان اپنے مذہب پر تقریبا شرمندگی محسوس کرنا شروع کر چکے تھے اور اپنے عقائد کے کمزور عذر اور معذرتیں پیش کرنے لگے تھے.(4) 46

Page 47

باب پنجم مصلح وقت کا ظہور اسلام بے شک اس وقت پست حالت میں تھا.مصلح زمانہ کے ظہور کے لئے یہ نہایت موزوں وقت تھا تا وہ تحفظ مذہب کا دعویٰ کرے اور اسلام کو اس کی اصلی حالت اور قرون اولیٰ کی شکل میں بحال کر دے.یوں اسلام کے پیغمبر ﷺ کی ایک دوسری پیش گوئی کا پورا ہونا مقدر تھا.قادر مطلق کا یہی منصوبہ تھا کہ جس طرح پر آنحضور ﷺ کی بعثت ایسے لوگوں میں ہوئی جو تاریک زمانہ کے تاریک ترین دور میں رہ رہے تھے اور جو دور جا ہلیت کہلاتا تھا.اس وقت بنی نوع انسان روحانیت سے عاری ہو چکی تھی پس اسی طرح آج کے دور کے مصلح کا ظہور بھی ایسے لوگوں میں ہونا مقدر تھا جنہوں نے اسلام کو ماسوائے اس کے نام کے صفحہ ہستی سے مٹادیا ہوا تھا.بالکل جس طرح محمد ( ﷺ ) اس دور کا مرد کامل تھے اسی طرح مصلح زمانہ کا دین اسلام کے دفاع کے لئے ساز وسامان سے لیس ہونا ضروری تھا.مصلح وقت حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے مسیح اور مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا جس کا ہر کسی کو انتظار تھا آپ احمد یہ مسلم جماعت کے بانی تھے.آپ نے اسلام کا مکمل طور پر دفاع کرنے کیلئے معقول، مؤثر اور دل موہ لینے والے دلائل اس کی صداقت کے ثبوت میں پیش کئے.آپ نے محمد ﷺ کو نا پاک حملوں سے بری ثابت کیا اور آنحضور اللہ کا شریفانہ کردار جو اصلیت کا جیتا جاگتا نمونہ تھا اسے بدنما اور داغدار دھبوں سے صاف کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اور ایسا کارنامہ سرانجام دیا جو کسی دوسرے مسلمان نے سرانجام نہ دیا تھا اور وہ تھا عیسائیت کو اس کی بنیادوں سے جس پر اس کی تعمیر ہوئی تھی اکھیڑ دینا، یعنی تثلیث کا عقیدہ.آپ نے فی الواقعہ صلیب کو توڑ دیا اور یہ سب برطانوی حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے ہوا جو بزعم خود نصرانیت کے دفاع کے دعویدار تھے.47

Page 48

حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے واشگاف اعلان کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات صلیب پر ہرگز نہیں ہوئی.عیسائیوں کیطرح دوسرے تمام قدامت پسند مسلمانوں کو بھی اس دعوی نے چونکا دیا جو اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا کے ہمراہ آسمان پر زندہ موجود ہیں جبکہ ان کے اپنے پیارے محبوب نبی محمد عه زمین میں مدفون ہیں.اس ز بر دست دعوی کے پیش نظر اس امر میں کوئی تعجب نہیں ہے کہ مرزا غلام احمد علیہ السلام پر مسلمانوں اور عیسائیوں نے باہم مل کر ہر طرف سے حملے کرنا شروع کر دئے.اگر چہ باقی مسلمانوں نے انہیں کوئی خاص وقعت نہ دی اور احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھ لیا، تا ہم حضرت مرزا غلام احمد کی آمد سے نیند کی آغوش میں پڑے مسلمانوں پر گہرا اثر ہوا.یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کے پاس زیادہ وسائل نہیں تھے، کوئی مادی طاقت اس کی پشت پناہی نہیں کر رہی تھی ، وہ خود تن تنہا تھا ، اس نے ایسے نا قابل یقین دعاوی عیسائیت کی بالا دستی کے خوف کے بغیر کر دئے؟ اس چیز نے ایک سے زیادہ طریقے سے دوسرے مسلمانوں کو ہمت اور یقین کامل بخشا کہ وہ اُٹھ کھڑے ہوں ، اپنے ارد گرد دیکھیں اور اپنے دین کا دفاع شروع کریں.تحریک احیاء دین کی کئی ایک تحریکات چل پڑیں جن کا مقصد مذہب کی طرف لوٹنا تھا.اس دقت سے لے کر اب تک عموماً مگر خاص طور پر مذہبی شعور اور قدامت پسندی کی طرف لوگوں کا رجحان ہو گیا ہے.کئی ایک تو حد سے بڑھ گئے اور ضرورت سے زیادہ آگے بہت آگے نکل گئے ہیں.انہوں نے اپنے اوپر یہ فرض کر لیا ہے کہ قوم کو دنیا داری اور مغربیت کی طرف پھسلنے سے بچانا ہے جس کو وہ کفر اور فقدان اخلاق کے برابر سمجھتے ہیں.انہوں نے انقلابی رول ادا کرنا شروع کر دیا ہے.پاکستان اور ایران اس عالمی رجحان کی دنیائے اسلام میں ڈرامائی مثالیں ہیں اور مذہبی قدامت پسندی کی طرف واپس لوٹنے کی مہم ایک نئی اور زبردست طاقت کی طرح محسوس کی جارہی ہے.مایوسی کا عالم اور مغرب کا خوف یہ سب کچھ مغربی عیسائی اقوام کے لئے زبردست دھچکا کا موجب بنا ہو گا جن کے برے 48

Page 49

عزائم اور تدابیر ایک دفعہ پھر سے ناکام ہوگئیں.انہوں نے سنجیدگی سے غور کیا ہوگا کہ سابقہ صدی کے اختتام پر انہوں نے اپنی کر تو تیں دکھا دیں اور اسلام کو ہادی برحق ﷺ کی طرح وفات یافتہ قرار دے کر اسے مدفون کر دیا تھا جبکہ عیسائیت بادلوں کے دوش پر عروج کی پرواز کرتے بظاہر نظر آ رہی تھی.لیکن مغرب کے لئے ابھی بدتر حالات مقدر تھے.پچھلی دو تین دہائیوں میں خصوصاً برطانیہ اور بعض دوسرے یورپین ممالک کے علاوہ امریکہ اور کینیڈا کی طرف تمام دنیا کے نسلی گروہوں کی بھاری تعداد میں نقل مکانی نے مغرب کے معاملات کو تہ و بالا کر دیا.یہ درست ہے کہ بعض نسلی اقلیتوں کے کلچر پر بر تر مغربی کلچر مکمل طور پر چھا گیا تھا، ویسٹ انڈیز ، افریقہ، مشرق بعید اور ہندوستان کے لوگوں نے مغربی طرز معاش میں گھل مل جانے کی کوشش کی ہے تا وہ مغربی معاشرے میں قبول کر لئے جائیں اور بنیادی طور پر انہوں نے غیر مداخلت کا رویہ روا رکھا ہے ، یہ جان کر کہ جب روم میں ہو تو رومن لوگوں جیسا بود و باش اختیار کر لو.اگر چہ ان نو آباد کاروں نے اپنے بنیادی مذہب کو ایک حد تک محدود رکھا ہے تاہم انہوں نے معاشرتی پہلو سے مغربی عادات اپنالی ہیں.مثلاً مرد و عورت کا آزادی کے ساتھ میل جول کرنا ، ان کے لباس کی طرح لباس پہننا، بلا روک ٹوک شراب نوشی کرنا ، رقص کرنا اور جو اکھیلنا.اہل مغرب کا خیال تھا کہ شاید بھولپن کی وجہ سے مسلمان بھی گمراہ ہو کر اپنے دین سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور صراط مستقیم سے بھٹک جائیں گے اور اسلام کا نام رفتہ رفتہ پارہ پارہ ہو جائیگا.لیکن اہل مغرب کو کف تاسف ملنا پڑا اور اسلام نے بنیاد پرستی کی طرف ڈرامائی انداز میں منہ موڑ لیا.قانون ، اقتصادیات ، اور خاص طور پر تہذیت میں بنیاد پرستی.اسلام کے اس احیاء کے ذریعہ ابتدائی دور کے اسلام کی طرف واپس جانے کا رجحان پیدا ہو گیا.نہ صرف اسلامی ممالک میں بلکہ مغرب میں بھی، مغربی عیسائی اقوام کی سرزمین کے عین درمیان.محلہ کی مسجد میں امام لصلوۃ کا سماجی درجہ ایک حد تک بہتر ہو گیا اور اس کے نقطہ نظر کو نہایت درجہ تکریم کے ساتھ سنا جانے لگا.اس مذہبی ماحول میں سرگرمی کا ایک اور پہلو یہ نکلا کہ مذہبی طلباء کی انجمنوں نے پروان چڑھ کر مقبول عام ہونا شروع کر دیا.ان انجمنوں نے مغرب کے خلاف کئی ایک مظاہروں کا انتظام وانصرام کیا.یادر ہے کہ ایسے تمام مظاہرے حقیقی طور پر اسلامی نہیں ہیں لیکن ان سے مذہب کے 49

Page 50

ساتھ لوگوں کے لگاؤ کا اظہار ہوتا ہے اور یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جس سے انہیں اپنی شخصیت کی پہچان کا احساس ہوتا ہے.اسلامی بنیاد پرستی کی طرف واپسی سے عورتوں کے مقام پر نمایاں اثر پڑا ہے.برقعے کا پھر سے فیشن ہو گیا.اسلام میں عورت کے مزعومہ درجہ دوم کے شہری ہونے کے متعلق اہل مغرب کی جانب سے شدید پراپیگنڈہ کے باوجود مغرب میں گزشتہ دہائی میں عورتیں اس تعداد میں حلقہ بگوش اسلام ہو رہی ہیں کہ اہل مغرب کے لئے یہ سب سے زیادہ باعث تشویش اور خطرہ کا معاملہ بن گیا ہے اور وہ اس کی روک تھام کی ضرورت شدت سے محسوس کرنے لگے ہیں.نکته نزاع نسلی اقلیتوں کے خلاف برطانویوں کو سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ وہ ان کے ملک میں رہنے اور آباد ہونے کی نیت سے آتے ہیں مگر وہ اپنے میزبان ملک کے اطوار اور طریقوں کو اپناتے نہیں تا کہ وہ نئی سوسائٹی میں آسانی سے قبول کئے جاسکیں.خواہ قبول ہونے کا مطلب یہ ہو کہ وہ اپنی بعض یا تمام پرانی روایات اور مذہبی اعتقادات کو خیر باد کہہ دیں.اس کا ہدف علی الخصوص برطانوی مسلمان ہیں جنہیں وہ ضدی اور مغربی تہذیب کے طرز کی سوسائٹی کے قیام میں رکاوٹ سمجھتے ہیں.اہل مغرب کو مسلمانوں کی جو فکر اور تشویش لاحق ہے وہ حقیقی ہے.انہیں پتہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت جو مغرب میں سکونت پذیر ہے وہ اس کو خدا کا منکر معاشرہ سمجھتے ہیں.اسلام ایسی روحانی رہ نمائی مہیا کرتا ہے جو دوسرے مذاہب فراہم نہیں کر سکتے.انہیں یہ فکر بھی لاحق ہے کہ جب مؤذن مومنین کو نماز کے لئے بلاتا ہے تو اس کی آواز میں گر جا گھر کی گھنٹیوں کی آواز گم ہو جاتی ہے.ایسے مسلمان جو مغرب میں رہائش پذیر ہیں ، اقدار کے معیار کو محفوظ کرنے اور دنیا کا اسلامی زاویہ نگاہ محفوظ کرنے پر تلے ہوئے ہیں.بلاشبہ مسلمان چاہتے ہیں کہ ان کو ( بہ حیثیت ) انسان پسند کیا جائے ، وہ گھل مل جانا چاہتے ہیں، اور ( زندگی میں ) کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہتے ہیں.لیکن ان تمام باتوں سے بڑھ کر وہ 50

Page 51

مسلمان رہنا پسند کرتے ہیں.یہ وہ دکھتی رگ ہے جو مغربی عیسائیوں کے احساسات کو ٹھیس پہنچاتی ہے.وہ مسلمانوں کے روحانی اقدار سے دلی لگاؤ کو جو آجکل مغرب میں نہ ہونے کے برابر ہے ایک گہری حسد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.وہ لوگ جو مسلمانوں کے خلاف ایسے خیالات اپنے دل میں رکھتے ہیں ان کیلئے بہتر ہوگا کہ وہ رائے ہیٹرس لی (Roy Hattersley ) کے اس تبصرہ سے استفادہ کریں.رائے ہیٹرس کی ایک مقبول عام، برطانوی پارلیمنٹ کا باعزت رکن ہے.اس نے سنڈے ٹائمنر ( 16 جون 1993 میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں اس نے ونسٹن چرچل کے برطانیہ میں مختلف نسلوں کے امتزاج کے بارہ میں نظریات کو چیلنج کرتے ہوئے درج ذیل رائے پر اپنے مضمون کو ختم کیا : " ایک بات تو یقینی ہے مسلمان اب برطانیہ میں ہی مقیم رہیں گے، وہ یہاں رہیں گے اور استقامت کے ساتھ اسلامی روایات اور رجحانات کے ساتھ رہیں گے.وہ برطانیہ کی لادین سوسائٹی میں گھل مل نہیں جائیں گے اور نہ ہی دوسروں سے مطابقت پیدا کرنے کی خاطر جعلی پردہ کے پیچھے چھپ جائیں گے.یا تو ہم ان کی خوبیوں کو سراہ سکتے ہیں ان کی اچھائیوں پر مزید کام کر سکتے ہیں، ان کے ساتھ اختلافات کو تسلیم کر سکتے ہیں ، یا پھر ہم شک و شبہ والا ، خوفزدہ اور بے ذائقہ ماحول پیدا کر سکتے ہیں.عام سوجھ بوجھ اور ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اختلافات کو قبول کرتے ہوئے شادمانی کے ساتھ زندگی بسر کریں." ایک موازنہ آئیے اب ہم تصویر کے دوسرے رخ کو لیں اور اہلِ مغرب کے کردار پر طائرانہ نظر ڈالیں کہ وہ خود کس حد تک ان ممالک کے رسوم اور اعتقادات کو اپنا سکے جن پر وہ حکومت کرنے گئے اور حکومت کی.علی الخصوص اس میں عیسائی پادریوں کا کردار کیسا تھا؟.مغربی پادری مسلمان ممالک میں بادشاہتوں کی چھتری تلے حفاظت پا کر داخل ہوئے.ابتداء میں یہ طریقہ ان کے لئے بہت سودمند ثابت ہوا اور اسلامی ممالک میں مشن قائم ہو گئے.تاہم موجودہ حالات میں یہ طریقہ بوجھ ثابت ہو رہا ہے کیونکہ اکثر مغربی مشنریوں اور مور د نفرت مغربی سامراجیت کو لوگ ایک ہی سکے کے 51

Page 52

دورخ سمجھتے ہیں.اس سے پہلے اور اب بھی مغربی مشنریوں کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ وہ ثقافتی باڑوں میں مل جل کر رہنے کو پسند کرتے ہیں.جس ملک میں وہ رہائش پذیر ہوتے ہیں اس کی تہذیب کو فی الواقعہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے جیسا کہ ڈاکٹر علی نے کھلے بندوں اعتراف کیا ہے.کم از کم اسے تو معلوم ہونا چاہئے کیونکہ وہ خود ایک عیسائی مشنری ہے جس نے اپنے کیرئیر کی ابتداء ایک مسلمان ملک میں کی تھی.وہ کہتا ہے "اگر چہ وہ (عیسائی مشنری ) ایک مسلمان ملک میں رہائش رکھتے ہیں لیکن وہ اس قسم کا رویہ اپنائے رکھتے ہیں گویاوہ ابھی تک مغربی یورپ یا شمالی امریکہ میں رہ رہے ہوں".(154 Islam, A Christian Perspective, page ) ڈاکٹر علی مزید اعتراف کرتا ہے مغرب نے سامراجیت کے ذریعہ جو تسلط اور کا لونیل استحصال کیا ہے تاریخ اس کی شاہد ہے )" (صفحہ 155) یہ دلیل اور بھی وزنی ہو جاتی ہے کیونکہ یہ ایک عیسائی مشنری کے قلم سے نکلی ہے جو ایک ایسے ملک میں پیدا ہوا جس پر اہل مغرب کا گہرا اثر و رسوخ تھا اور انہیں کے تبلیغی مشن کی پیداوار ہے.ڈاکٹر علی مزید کہتا ہے : " اس نکتہ کی نشاندہی کرتے ہوئے کہ تارکین وطن کو کسی ملک کے غریب ترین طبقہ کے ساتھ مل بیٹھنا ان کے کام کا حصہ تو بنایا جا سکتا ہے لیکن اسے کسی لحاظ سے بھی مقامی تہذیب کے ساتھ یکسانیت کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہئے.یہ مفروضہ بذات خود گستاخی کی نشاندہی کرتا ہے جس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ مشنری تہذیب ہی ہمیشہ برتر ہوتی ہے اور یہ کہ مہمان تہذیب کے ساتھ یکسانیت پیدا کرنے سے احساس محرومی پیدا ہوتا ہے.تاہم کئی ایک مشنری ملک کی مقامی زبان کا سطحی علم رکھنے سے آگے نہیں جاتے جس میں وہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں جس کی خدمت کے لئے انہیں بلایا گیا تھا.انہیں اس ملک کے علم فنون، موسیقی اور علم ادب کی کوئی شدھ بدھ نہیں ہوتی".(صفحہ 156) ڈاکٹر علی قوم پرست عیسائیت کی ایک قسم، جو اپنی فطرت میں ہی اپنے اندر جھانکنے والی اور جاہلیت پر مبنی ہے ، اس سے پیدا ہونے والے حقیقی خطرات سے بخوبی آگاہ ہے.کیا یہ موازنہ حیران کن نہیں ہے؟ جب مغربی طاقتیں دوسرے ممالک میں جا کر بس گئیں جس میں مسلمان 52

Page 53

ممالک بھی شامل ہیں تو انہوں نے حکمران کی حیثیت سے اپنی برتری کو ان پر ٹھونسا مگر اپنی تہذیب کو محفوظ رکھا.وہ اپنے سماجی حلقوں میں محدود رہے، لیکن اب جبکہ مسلمان دوسری قومیتوں کے ساتھ مغرب میں بسنے کیلئے آئے ہیں، بلکہ یہاں خدمت کرنے آئے ہیں اور قانون کی پابندی کرنے والے شہریوں کے طور پر معروف ہیں تو پھر ان کا انتخاب الزام تراشی کے لئے کر لیا جاتا ہے کہ وہ مغربی تہذیب اور بود و باش کو اختیار نہیں کرتے.ان پر باڑے (مخصوص بستیاں ) بنانے کا الزام لگایا جاتا ہے اور یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے تک محدود گروہوں کی صورت میں رہتے ہیں.کیا یہ انصاف پسندی ہے؟ ہرگز نہیں.53

Page 54

54

Page 55

باب ششم فکر اسلامی کی تشکیل نو کے منصوبے کالونیل ہندوستان میں فکر اسلامی کی تشکیل نو کی طرف لوٹتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ اہل مغرب جو پہلے آزما چکے تھے وہ یہ تھا کہ اس دور کے مسلمان آزاد خیال علماء کو اسلام کو مغربیت کی طرف لے جانے والے ذرائع اور وسائل کے اظہار کی کھلی چھٹی دے دی، تا کہ اسے اس طرح تسلیم کر لیا جائے جیسے یہ مسلمانوں کی اہل مغرب کے سامنے عذر خواہی ہو.مزید یہ کہ جس بات کو اہل مغرب جھٹلا نہیں سکتے وہ یہ ہے کہ فکر اسلامی کی تشکیل نو کے مکار منصو بہ کو ان کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی.ڈاکٹر مائیکل نذیر علی نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے:" جب ہم مشرق وسطی سے ہندوستان کی طرف رجوع کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں پر مسلم جدت پسندی یورپ کے اثر ورسوخ کے ردعمل کے طور پر شروع نہیں ہوئی تھی.بلکہ تقریباً اس کی سر پرستی میں ایسا ہوا تھا." (Ali, Islam - A Christian Perspective, page 107) ان کی تمام کوششوں اور پشت پناہی جو اسلام کو آزاد خیال بنانے کے منصوبہ کے پیچھے تھی اور جس کی ابتداء پر توقع تھی، کے باوجود یہ منصوبہ بری طرح ناکام ہو گیا.جس کی بڑی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ آزاد خیالی کو مغرب کے اونچے طبقہ کے لوگوں نے ہی توجہ دی اور علماء میں قبولیت نہ حاصل کر سکی.ایک اور وجہ جس کا اعتراف ڈاکٹر علی نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ : " اس دور کی مسلم آزاد خیالی کے مخاطب یورپ کی ذہنیت رکھنے والے لوگ ہی تھے ، عالم اسلام میں اس کی ناکامی کا سبب اسی میں مضمر ہے." (صفحہ 139) پس یورپ کا حال کچھ ایسا تھا کہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن.فکر اسلامی کی تشکیل نو کیلئے ان کا منصوبہ قریب قریب چل پڑا جس کیلئے پہلے انہوں نے اپنے مستشرقین کو استعمال کیا جن کے فریب کار فیشن نے جادو کا استعمال قلم سے کیا وہ ایک طرف تو سرکار دو عالم ﷺ کی مدح ثنائی کرتے اور دوسری طرف انہیں سولی پر چڑھا دیتے.اس کا ہدف زیادہ تر مغربی دنیا کے عوام تھے 55

Page 56

تا کہ وہ اسلام کو نظر استحسان سے دیکھنے سے اعراض کریں.انہیں یہ تشویش لاحق تھی کہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں حلقہ بگوش اسلام ہو رہے ہیں.دوسرے انہوں نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واسطے مسلمانوں کے اپنے ہی علماء کو استعمال کیا جنہوں نے اپنی سوچ میں آزاد خیالی دکھائی تھی.اور اس مقصد کے لئے ان کا استحصال کیا تاکہ ان کی اپنی صفوں میں قدامت پسندی میں نرمی پیدا کی جاسکے.جب یہ منصوبہ بھی نا کام رہا تو ایک نئے اور زیادہ شیطانی منصوبہ کی تیاری کی گئی.جو گزشتہ تمام منصوبوں کو ملا کر ان سے زیادہ عیار اور فریب میں ڈالنے والا تھا.انہوں نے اس کی تیاری میں دلجمعی سے وقت صرف کیا تا کہ اس سے حتی المقدور نقصان پہنچایا جا سکے.مسلمانوں کی آزاد فکر خیالی کی تشکیل نو کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی اور اس نئی آزاد خیالانہ تعبیر کے لئے ضروری تھا کہ وہ ملاؤں اور دوسرے انتہا پسندوں کے وضع کردہ قدامت پسند پروگرام کا معقول متبادل پیش کریں.پس وہ کون نیا آزاد خیال عالم ہو سکتا تھا جو اسلامی نظریات میں انقلابی تبدیلی پیدا کر دے تاکہ اس سے اہل مغرب اور عیسائیت فائدہ اٹھا سکیں.ایسے نظریات جور و بہ منزل تھے اور ابھی بھی ہیں.ڈاکٹر علی نے اس نئے آزاد خیال عالم کے بارہ میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس کے کردار کو یوں بیان کیا ہے : " نئے آزاد خیال شخص کیلئے ضروری تھا کہ وہ بنیادی طور پر عالم اسلام سے مخاطب ہو، اسے سامراجیت کے خلاف کارفرما قوتوں کا محاسبہ کرنا ہو گا، جو آج کی دنیا کا حصہ ہیں".(صفحہ 139) نیا آزاد خیال سکالر الله مستشرقین کی تمام سابقہ تصانیف دینی علماء کے فائدہ کیلئے لکھی گئیں تھیں جن کا طرز تحریر پیچیدہ اور تاریخی زاویہ نگاہ تک محدود تھا.ہادی برحق ﷺ پر جو اہانتیں اور تہمتیں لگائے گئی تھیں ان میں سے اکثر کو احتیاط کیسا تھ چھپالیا گیا تھا تا کوئی وسیع پیمانے پر شور و غوغا نہ کر سکے.انہوں نے بہ یک وقت اسلام کا مسخ شدہ اور مبہم تصور پیش کیا.اسلام اور اس کی برگزیدہ ہستیوں کو منفی پہلو اور فاسق و فاجر کے طور پر پیش کرنے کیلئے ضروری تھا کہ ایک افسانہ نگار کے فن کو استعمال میں لایا جائے 56

Page 57

جو اپنے ہیجان خیز طرز تحریر سے زیادہ سے زیادہ عوام الناس پر اثر ڈال سکے.بفرض محال اگر معاملہ بگڑ بھی جائے تو انسان یہ عذر تراش لے کہ یہ تو افسانہ طرازی پر مبنی تصنیف تھی.پس ایک موزوں امیدوار کی تلاش شروع ہوگئی جو مغرب کے ذلیل منصوبوں کے معیار پر پورا اترتا ہو.اس معمہ کے آخری ٹکٹرے نے ابھی ابھرنا تھا.بہتر ہوگا کہ ایسا آزاد خیال شخص بھارت یا پاکستان سے ہو، وہ صرف نام کا مسلمان ہو، وہ مغرب کے اونچے طبقہ کا ممبر ہو اور اگر وہ ممتاز قلم کار ہوتو اور بھی بھلا.اس کام کیلئے بیج شاید سالہا سال قبل یا شاید صدیوں قبل بودئے گئے تھے اور اب اس کا زہریلا پھل پک کر تیار ہو چکا تھا.ان کا مقصود شاطر کھلاڑی تھا مگر وہ تاش کے پتوں کا جو کر ثابت ہوا.بعد میں حقائق نے ثابت کر دیا کہ یہ کوئی مذاق نہیں تھا اور تمام متفکر لوگوں کے لئے یہ کوئی معمولی سا معاملہ نہیں تھا.بلکہ معاملہ بالکل اس کے برعکس ثابت ہوا.دنیا بھر کے غیر مسلم بھی اپنی زبان کے ذخیرہ الفاظ میں ایک نئے لفظ کا اضافہ کر نیوالے تھے.قطع نظر اس کے کہ وہ کون سی زبان بولتے تھے اور وہ لفظ تھا فتوی.سلمان رشدی کے لئے سٹیج تیار ہو چکا تھا جو تمام شرائط پر پورا اترتا تھا.سیبوں کے ڈھیر میں گندے سیب بھی ہوتے ہیں لیکن اہل مغرب نے ڈھیر کے بالکل نیچے جا کر سب سے متعفن سیب رشدی کی شکل میں نکالا.مزید برآں اس گندے سیب کو باقی ماندہ دنیا کے سامنے رکھ دیا تا وہ یہ کہہ سکیں کہ اسلام میں اس طرح کے اسیب رفتہ رفتہ عمومی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں.میں اس موضوع کی طرف لوٹ کر آؤں گا.اسلام اور خود کفالت اسلام کو مورد تنقید ایک اور وجہ سے بھی بنایا جاتا ہے کہ یہ خود کفالت کا پر تو ہے.مغربی مستشرقین نے ہمیشہ ہی مسلمانوں کی ایسی تصویر کشی ہے کہ وہ اسلام میں اپنے اعتقادات اور تعلیمات میں اندھا دھند پیروی کرتے ہیں.اور یہ کہ اسلام ان کی روحانی اور مادی ضروریات پوری کرنے میں خود کفیل ہے.دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو دوسروں کے اعتقادات کا علم حاصل کرنے سے منع کیا جاتا ہے.جس سے ظاہر ہے کہ انہیں عام انسان کی ذہنی صلاحیتوں پر اعتبار نہیں کہ وہ سچ اور جھوٹ میں فرق کر سکتا ہے.منٹگمری واٹ اپنی کتاب میں اس خیال کی تاریخ 57

Page 58

نبی پاک ﷺ کے دور میں جانکالتا ہے: کئی ایک احادیث اور ابتدائی دور کے مسلمانوں کے واقعات ایسے پائے جاتے ہیں کہ جن سے اس اصول کو تقویت ملتی ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ مذہبی امور پر بحث کرنا خوشگوار نہیں.جب خلیفہ عمر محمد ( ﷺ) کے پاس یہودیوں یا عیسائیوں کی ایک کتاب لے کر آئے تو مؤخر الذکر ناراض ہو گئے " صلى الله (Muslim-Christian Encounters, page 43 ) سر میملٹن گب (Sir Hamilton Gibb ) اس زاویہ نظر سے ایک قدم اور آگے نکل گیا ہے.وہ اپنی کتاب میں کہتا ہے کہ علماء کے لئے اسلامی تاریخ کو پیش کرنے کے لئے امذہبی اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری ہو گیا.تاکہ اس کے بارہ میں اگر سوال اٹھایا جائے تو اسے کفر سمجھا جائیگا.(Modern Trends in Islam, University of Chicago Press, 1947, page 125) انہوں نے اسلام کی کیسی مسخ شدہ اور غلط تصویر پیش کی ہے؟.یہ محمد ( ﷺ) ہی تھے جنہوں نے نہ صرف اہل کتاب کے ساتھ بلکہ کفار کے ساتھ بھی رواداری اور تکریم کے ساتھ برتاؤ کا سب سے بڑا عملی نمونہ پیش کیا.سرکار دو عالم ﷺ نے نہ صرف مذہبی امور میں رواداری سے کام لینے پر زور دیا بلکہ انہوں نے ایک بلند معیار قائم کیا.مثال کے طور پر ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے.عیسائی قبیلہ نجران کے ایک وفد نے مدینہ میں آپ (صلعم) سے ملاقات کی تا کہ مذہبی امور میں تبادلہ خیالات کر سکیں.وفد میں چرچ کے کئی عمائدین بھی شامل تھے.گفتگو مسجد ( نبوی ) میں ہوئی اور کئی گھنٹوں تک جاری رہی.ایک مرحلہ پر آن کر وفد کے عمائدین نے مسجد سے باہر جانے اجازت چاہی تاکہ کسی مناسب جگہ پر عبادت کر سکیں.سرکار دو عالم (صلعم) نے فرمایا کہ انہیں مسجد سے باہر جانے کی ضرورت نہیں.کیونکہ وہ تو خدا کی عبادت کی جگہ ہونے کی وجہ سے مقدس ہو چکی ہے اور انہیں مسجد ہی میں عبادت کر لینی چاہئے."( زرقانی) یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ نبی پاک ﷺ کی زندگی میں ہونے والے متعد دواقعات میں سے یہ ایک واقعہ ایسا ہے جس میں تکریم اور رواداری کو اپنی بلندی کو چھوتے دیکھا گیا ہے.اس کی نظیر کسی دوسرے مذہب یا پیغمبر میں نہیں ملتی.یہ اسلام کی آفاقیت کے خلاف محض حسد و کینہ اور اس 58

Page 59

کی خود کفالت کا خوف ہے جو عیسائیوں کے ذہنوں پر حاوی ہے اور ان کے لئے سخت تکلیف اور دکھ کا باعث بنا ہوا ہے.ان کے حقیقی خوف کو منٹگمری واٹ نے بھی واضح کیا ہے.وہ کہتا ہے : " جب بھی کوئی تاریخ عالم کو جو مسلم سکالرز نے قرآن کریم میں بیان کئے ہوئے شعور سے لکھی ہے سامنے رکھ کر دیکھتا ہے تو اس کے لئے اسلام اور عالم اسلام کے ماوراء جو کچھ بھی ہے اس میں مسلمانوں کی دلچسپی کی کمی ہرگز باعث حیرت نہیں ہوگی.چونکہ محمد خاتم النبین تھے اور اسلام آخری مذہب اس لئے تاریخ ایک تسلسل سے دنیا بھر میں اسلام کی آخری فتح کی طرف حرکت کر رہی ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ عیسائیت بالآخر شاید مکمل طور پر زیر گوں ہو جائیگی " (Watt, Muslim-Christian Encounters, page 49) شاید یہی خوف اور اصل وجہ تھی جس نے مغربی مستشرقین کو جنم دیا.جیسا کہ منٹگمری واٹ اسی محولہ بالا کتاب میں برملا اعتراف کرتا ہے : " یورپین کالونیاں بنانے والوں کی کئی ایک تصانیف کا مقصد اسلام کو بہتر طور پر سمجھنا تھا تا وہ اسے بہتر طریق سے کنٹرول کرسکیں...کالونیاں بنانے والوں کی طاقت کے زیر سایہ عیسائیوں نے اپنے طور پر کئی گروپ بنالئے یہ ان کی بیوقوفی ہوتی اگر وہ کھلے عام اسلام کو ہدف تنقید بناتے یا اس کا مسخ شدہ تصور قائم کر لیتے جس طرح کہ مغربی یورپ میں قائم ہو چکا تھا" (صفحات 73-72) منتگمری واٹ کے تبصرہ جات کو نوٹ کرنا دلچسپی سے خالی نہیں کیونکہ اس کا شمار مغربی مستشرقین کے دیوتاؤں میں ہوتا ہے اور یہاں وہ صاف صاف بیان کرتا ہے کہ مستشرقین کا مقصد اسلام کو کنٹرول کرنا تھا.جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام پر قابو پانامشکل ہو رہا تھا اور یہ تمام دنیا میں پھیل رہا تھا.وہ مزید تسلیم کرتا ہے کہ مغربی ناقدین اسلام نے یورپ میں اس کا مسخ شدہ تصور قائم کر رکھا تھا.59

Page 60

60

Page 61

باب ہفتم مغربی مستشرقین اب میں اس صدی کے چند مغربی مستشرقین کا جائزہ لے کر ان کی تصنیفات کا موازنہ پیش کروں گا جس سے یہ روز روشن کی طرح واضح ہو جائیگا کہ ان تمام کتابوں کا ماخذ ایک ہی ہے.سرکار مدینہ، آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم ، قرآن پاک اور احادیث نیز وہ تمام امتیازی خصوصیات و نمایاں صفات جن کا اسلام سے ذرا سا بھی تعلق تھا سب پر ایک جیسے الزامات لگا کر ان کو نشانہ استہز ا بنایا گیا ہے.مزید برآں جس بات کا پتہ چلتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ فریب کاری سے کام لیتے ہوئے اپنا مؤقف پیش کرتے ہیں.ایک جگہہ پر وہ سرکار دو عالم ﷺ کے بارہ میں تعریفی کلمات کہتے تو اس کے معابعد وہ انہیں صلیب پر چڑھا دیتے ہیں.منافقت ان کی تحریروں کا امتیازی وصف ہے اور اس کا استعمال اس وقت سے جاری ہے جب اسلام پر ابتدائی علمی حملے ہونا شروع ہوئے تھے.روڈنسن (Maxime Rodinson) فرانسیسی مستشرق میکسم رو ڈنسن پیرس میں یہودی مزدوروں کی ٹریڈ یونین کے بانی کا بیٹا تھا.روڈنسن نے بعد میں کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور دہر یہ ہو گیا.اس کی سب سے مشہور اور متنازع سادہ سے عنوان والی تصنیف کا نام محمد ' ہے.کتاب امحمد میں ساتویں صدی کے عرب معاشرہ پر اسلامی نظریات کے اثر کو زیر بحث لایا گیا ہے.صلى الله اس کتاب میں وہ نبی پاک کے کارناموں کو ان کے دور کے آئینہ میں دیکھتا ہے لیکن کتاب میں آپ کے پاک کردار اور اسلام کی شریف النفس شخصیات پر ہتک عزت اور بہتان تراشی والے حملے یکے بعد دیگرے کئے گئے ہیں.یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کی ولادت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے بھی اُکسانے کی کوشش کی گئی ہے جب ان کے والد محترم کو جنسی اشتہاء 61

Page 62

رکھنے والا بنا کر پیش کیا گیا جو ایک کے بعد دوسری بیوی کے پاس جنسی تشفی کے لئے جاتا رہتا ہے.آنحضرت کے بچپن کے واقعات کو غیر معتبر اور ان کا حوالہ فرضی کہانیوں کے طور پر دیا گیا ہے.یہ کہا نیاں وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ خوبصورت اور روحانی طور پر بہتر ہوتی چلی گئیں (صفحہ 143 ).روڈ نسن لکھتا ہے کہ زمانہ نبوت سے پہلے محمد (صلعم ) اپنے آباء والے مذہب کی پیروی کرتے تھے.وہ مزید کہتا ہے کہ انہوں نے العزیٰ کی دیوی پر ایک بھیڑ کا چڑھاوا چڑھایا تھا.(صفحہ 48) وہ احادیث کو مفروضی سمجھتا ہے اور ان کے بارہ میں جعلسازی کے لفظ استعمال کرتا ہے.صلى الله نبی پاک ﷺ پر الزامات اس کتاب میں آنحضرت ﷺ کو دیوانہ ، عارف ، کا ہن ( قسمت کا حال بتلانے والا ) انقلابی ، اور وہ جس کو مرگی کے دورے پڑتے ہوں کہا گیا ہے.(صفحہ 57-53).روڈنسن یہ بھی کہتا ہے کہ مثال کے طور پر اٹھارویں صدی کے عقلیت پسند فلسفی بھی عذرخواہ عیسائیوں اور علمائے دین کی طرح محمد کو با کمال فراڈا کی عمدہ مثال کے طور پر دیکھتے ہیں.(صفحہ 76) جب اسلام کا آغاز ہوا اس وقت بلاشبہ عرب کے ملک کی حالت تاریخ عالم میں بدترین سمجھی جاتی تھی.ناقدین نے اس قسم کا تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اس زمانہ کے اثرات کا محمد (صلعم) اور آپ کے صحابہ پر بھی ضرور اثر ہوا ہو گا.جبکہ روڈنسن مزید لکھتا ہے : " وہ ( محمد ) جس دور میں رہتا تھا اور اُن عربوں کی جن کی اس نے قیادت کرنی تھی ان کی ناشائستہ فطرت کے پیش نظر انہیں مرعوب کرنے کے لئے اسے فراڈ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا." (صفحہ 76) جہاں تک اسلام کے ابتدائی سالوں میں جنگوں کا تعلق ہے محمد (صلعم) کو جارح کے طور پر پیش کیا گیا ہے.ایسا جارح جس نے جنگی قیدیوں پر کوئی رحم نہ کیا اور وہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے سب کچھ کر گزرنے کیلئے تیار رہتا تھا.روڈنسن لکھتا ہے : " وہ رضا کار جس نے آپ کو قتل کرنا اپنے ذمہ لیا تھا، اس نے پیغمبر اسلام سے وضاحت کی کہ فریب کاری ، عیاری، اور جھوٹ کا سہارالینا ضروری ہے.محمد نے اس کو قابل اعتراض نہ سمجھا." (صفحہ 176).آنحضور ﷺ کو اس طور سے پیش کیا گیا ہے کہ ان میں صبر نام کا بھی نہیں تھا اور وہ ہمیشہ غصہ میں بپھرے رہتے تھے اور اس وجہ 62

Page 63

سے اپنے دشمنوں کے خلاف وحشیانہ عمل سرزد کرتے تھے.وہ کہتا ہے: "ہم نے دیکھا ہے کہ محمد کے پاس بعض ایسے دیوانے نوجوان کارندے تھے جو عملاً اس کی انگلیوں کے اشاروں پر ناچتے تھے.جو اس موقعہ ملنے کے انتظار میں رہتے تھے کہ جہاں کہیں بھی ضرورت پڑے مخالفت کو پھل کے رکھدیں." (صفحہ 224-223).پھر وہ مزید لکھتا ہے: "محمد نے اپنے چیلوں کو مکمل آزادی دے رکھی تھی." (صفحہ 184).روڈنس کمینگی میں کس قدر گر گیا ہے کہ نبی پاک ﷺ کی پاک زندگی کے حقائق و واقعات کو بیان کرنے میں وہ مکاری اور تصنع سے کام لیتا ہے.میکسم رو ڈنسن دوسرے مستشرقین سے چنداں مختلف نہیں.یہ سب ایک ہی قبیل کے ہیں جب وہ دوسروں کی ہاں میں ہاں ملا کر نبی پاک ﷺ پر تہمت لگاتا ہے کہ وہ (نعوذ باللہ) اوباش تھے.آپ (صلعم) پر الزام تراشا گیا ہے کہ انہیں نو جوان اور پری پیکر عورتوں کی خواہش رہتی تھی : " اگر چہ ہم جانتے ہیں کہ زندگی کے اواخر میں اس میں عشق لڑانے کا میلان ہو گیا تھا ہم بمشکل تصور کر سکتے ہیں کہ ایسے کئی مواقع پیدا الله نہیں ہوئے ہوں گے جب...اس نے دل میں ( کسی سے ) زنا کرلیا ہو".(صفحہ 55) ما سوا چند قابل تکریم استثناؤں کے اہل مغرب نے وہ سب کچھ نظر انداز کر دیا جو چودہ صدیوں سے رسول کریم ﷺ کی زندگی اور اسلام میں واضح طور پر جو اچھائی اور نیکی پائی جاتی تھی.جب انہیں آپ کے پاک نمونہ اور نظریات کا سامنا کرنا پڑا تو کمزور اور نا قابل ثبوت حیلے بہانے ڈھونڈ نے شروع کر دئے.رسول اکرم ﷺ پر بہتان لگانا مغربی مستشرقین کا محبوب مشغلہ رہا ہے.ان بہتانوں میں سے ایک یہ ہے کہ اواخر عمر میں آپ ہوس پرست ہو گئے تھے.یہ ایک شرعظیم ہے جس پر ذرا بھی توجہ دئے بغیر فور مستر د کر دینا چاہئے.اس لئے کہ یہ آپ کی پاک زندگی اور نیک کردار کے سخت ناموافق ہے.اس دعوی کو مان لینا کہ تعدد ازدواج اعلیٰ درجہ کی روحانیت کی نفی ہے ہرگز کوئی وقعت نہیں رکھتا.یادر ہے کہ تمام بڑے بڑے مذاہب کی الہامی کتب میں تعدد ازدواج کو ممنوع نہیں قرار دیا گیا.تمام یہودی انبیاء کی ، بشمول حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ، متعدد ازواج تھیں.ان انبیاء میں سے کسی ایک نے بھی یہ دلیل کبھی پیش نہیں کی کہ اس وجہ سے وہ صالح زندگی نہیں گزار 63

Page 64

سکتے تھے.یہ موضوع شرارت پسندوں کیلئے مضحکہ خیز اور اُکسانے والا بن کر رہ گیا ہے.مغربی مستشرقین جنہوں نے اس موضوع کو اچھالا اور تمام دنیا کے سامنے اس کا ڈھنڈورا پیٹا.ایسے ویسٹرن سکالرز جنہوں نے معقول اور منطقی غور و فکر کے بعد نیک خیالات کا اظہار کیا لیکن ان کو کلیتا عوام کے سامنے پیش نہ کیا کہ اب کوئی ان کتب کی طرف توجہ بھی نہیں دیتا.مثال کے طور پر پروفیسر لور اویشی و گلیری ( Prof.Laura Veccia Vaglieri) جو یو نیورسٹی آف نیپلز میں عربی اور اسلامک کلچر کی تدریس کا کام کرتی تھیں ، اس نے درج ذیل خیالات کا اظہار کیا ہے: اعداء اسلام نے محمد کو ایک ہوس پرست انسان اور بدچلن شخص کے طور پر پیش کر کے ان کی ازدواجی زندگی میں کمزور پہلو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے جو ان کے مشن سے مطابقت نہ رکھتا تھا.وہ اس حقیقت پر غور کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ زندگی کے اس دور میں جب انسان کے اندر شہوانی قوت بہت زیادہ ہوتی ہے ، اگر چہ وہ اس وقت عرب لوگوں کے معاشرہ میں رہتا تھا جہاں تعدد ازدواج کا قانون چلتا تھا جہاں طلاق دینا بہت آسان تھا وہ صرف ایک عورت سے بیاہا ہوا تھا یعنی خدیجہ سے جو ان سے عمر میں کافی بڑی تھی اور یہ کہ پچیس سال تک وہ خدیجہ سے پیار کرنے والا وفا دار شوہر رہا.صرف اس وقت جب اس (خدیجہ ) کی وفات ہوئی اور وہ خود عمر میں پچاس سال سے زیادہ تھا تب اس نے ایک سے زیادہ مرتبہ شادی کی.ان شادیوں میں سے ہر ایک شادی کا کوئی نہ کوئی معاشرتی یا سیاسی پہلو تھا.ماسواعائشہ کے اس نے ایسی عورتوں سے شادی کی جو نہ تو کنواری تھیں نہ ہی نوجوان اور نہ ہی خوبصورت.کیا اس چیز کا نام شہوت پرستی ہے؟ (An Interpretation of Islam, pp 67-68) رسول اکرم ﷺ کی حضرت عائشہ سے شادی کرنے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ زندگی بھر لوگوں کی اسلامی طریق سے تربیت کر سکیں خاص طور پر عورتوں کی.حضرت عائشہ نے اس فرض کو غیر معمولی رنگ میں احسن طور پر سر انجام دیا.اور نہ صرف نبی پاک ﷺ کی زندگی میں بلکہ اس کے بعد بھی عرصہ دراز تک لوگوں کی رہ نمائی کا بہت بڑا ذریعہ ثابت ہوئیں.اس قسم کی تھی حضرت محمد (صلعم) کی دور اندیشی.64

Page 65

سر محمد ظفر اللہ خاں جو مذاہب عالم کے ایک بلند پایہ احمدی عالم تھے انہوں نے رسول اکرم کے کردار کی شرافت کی متناسب منطقی دلیل اور آپ ﷺ کے کردار کی شرافت پر نظر غائر ڈالی ہے.انہوں نے اس طرح سے ان بہتانوں سے شکوک کو رفع کیا ہے جو اس خدا کی صلى الله شریف ترین مخلوق پر لگائے گئے.انہوں نے اپنی مشہور کتاب امحمد خاتم النبین ' میں آنحضور علی کی زندگی کا بہترین جائزہ پیش کرتے ہوئے درج ذیل دلیل پیش کی ہے: " ما سوائے حضرت سودہ کے ساتھ آپ کی شادی کے ، جو ایک نیک معمر، غریب بیوہ تھیں جن کی شادی کے بعد کی تمام ہونے والی شادیاں مدینہ میں ہجرت کے بعد عمل میں آئیں.مدینہ میں آپ کس قدر مصروف کار تھے اور کس قسم کی زندگی بسر کر رہے تھے ؟ ایک عام قاری بھی آپ کی بھاری ذمہ داریوں سے گہرے طور پر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.آپ کا اپنی ذمہ داریوں کو محنت کے ساتھ نبھانا، آپ کا متبعین کو اپنے مذہب کی تعلیمات سکھلانا، غیر معمولی مصروفیت کے ساتھ ان کی روحانیت اور اخلاق کی پند و نصیحت کے ذریعہ مدد کرنا، روزانہ پانچ وقت کی نمازوں کی امامت کرنا، مدینہ کی مختلف النوع آبادی کے معاملات کے نظم ونسق کو چلانا، رات کے بیشتر حصہ میں نفلی نمازیں ادا کرنا ، ان سب کا سوچ کر خیال آتا ہے کہ آپ اپنی بیویوں کی صحبت میں بھلا کتنا وقت گزارتے ہوں گے، آپ اپنے وقت کا اور کیا مصرف نکالتے ہوں گے...نبی کریم ﷺ کی زندگی صرف سادہ زندگی کا ہی نمونہ نہ تھی بلکہ ایک سخت زہد کی بھی.انہوں نے کسی قسم کی بے اعتدالی کی اجازت نہ دی.نہ ہی اپنے آپ کو اور نہ ہی اپنی بیویوں کو حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم یہ ایک کنواری سے زیادہ حیادار تھے.کیا یہ ایسے شخص کی وضع قطع ہوگی جو شہوانی خواہشات میں ڈوبا ہوا ہو.اور کئی عورتوں سے شادی کر کے جنسی خواہشات کی تشفی کے لئے ہر موقعہ کی تلاش میں رہتا ہو" (Zafrulla Khan, Muhammad - Seal of the Prophets, page 280) قرآن پاک پر حملے میکسم رو ڈنسن نے قرآن پاک کی عصمت و پاکیزگی کے متعلق شکوک پیدا کر کے اسلام پر حملوں کو جاری رکھا ہے.وہ یورپین مستشرقین کی کتب کو مسلمان مفسرین ( قرآن ) کی کتب پر ترجیح 65

Page 66

دیتا ہے.وہ عبرانی کے جرمن سکالر تھیوڈور نو لڈک (Theodore Noldeke) کا سرگرم پیروکار نظر آتا ہے " جس نے قرآن پاک کے سٹائیل کی خامیوں پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے "(صفحہ 93).اس نے مزید مطلب نکالا کہ قرآن پر رسول پاک (صلعم) کی ہدایت پر نظر ثانی کی گئی تھی اور عیسائی عقلیت پسندوں کے نقطہ نظر کو پیش کرتا ہے کہ " محمد کذب و افتراء کے قصور وار تھے انہوں نے دیدہ و دانستہ اپنے خیالات اور نظریات کو اللہ کے نام سے منسوب کر دیا" (صفحہ 218) اور یہ کہ انہوں نے "راستی کو کھینچ تان دیا".(صفحہ 78) یہ چیز مزعومہ طور پر بعض آیات میں شیطانی اثرات کا موجب بن گئی ، جیسا کہ روڈنسن لکھتا ہے : " غیر مسلموں کو صاف نظر آ جاتا ہے کہ محمد نے جو الفاظ سنے تھے اور جو ان پر ہو بیتی (جس کا اظہارالفاظ میں بالکل ناممکن تھا) وہ کس طرح معجزانہ طور پر صحیح الفاظ کے روپ میں ڈھل گئے.شاید وہ الفاظ ان کو ان کے نیم شعور نے لکھوائے تھے.اس پر ان کو خود بھی شک تھا بلکہ انہوں نے ان کے منبع پر شک کا اظہار کیا تھا.وہ اس وسوسہ سے لاحق تھا کہ انسانی وجدان نے شاید اس کا کچھ حصہ لکھا تھا اور جیسا کہ ہم نے دیکھا انہوں نے بعد میں ایک مرحلہ پر اس امر کا اعتراف کیا کہ اس میں شیطان اپنی ہدایات و احکامات شامل کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا.(صفحہ 219) روڈنسن نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے اپنی کتاب میں محمد (صلعم) کا جائزہ خالصتاً ایک غیر جانبدارانہ نقطہ نظر سے پیش کیا ہے لیکن کتاب لکھنے کی وجوہات کتاب کے پیش لفظ اور تمہ میں ظاہر ہوگئی ہیں.پیش لفظ میں وہ کتاب لکھنے کا ایک قسم کا جواز پیش کرتا ہے جبکہ ایسی کئی کتب اس سے پہلے محمد ﷺ کے بارہ میں لکھی جاچکی ہیں، خصوصاً حال ہی میں لکھی جانے والی.یقینا وجہ یہ ہے کہ اسلام پر مستقل اور مسلسل یلغار نے دوام کا رنگ اختیار کر لیا ہے.ان یلغاروں نے کسی نہ کسی رنگ میں جاری رہنا تھا، اس سے زیادہ اچھا طریقہ کیا ہو سکتا ہے کہ اسلام کے نبی پاک ﷺ کے نقائص بیان کئے جائیں اور من مرضی سے انہیں جو چاہیں بنالیں ، اور انہیں صرف اصلی روشنی سے کم روشنی میں ہی نہیں پیش کریں بلکہ انہیں گستاخ اور حقارت آمیز زبان میں بیان کیا جائے.کتاب کے اختتام کے قریب وہ پاؤں جما کر اپنی اصل خصلت کو ظاہر کرتا ہے جب وہ آنحضور ﷺ کے کردار کا خلاصہ پیش کرتا ہے.حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی 66

Page 67

کتاب ”فتح اسلام میں مغربی سکالرز کے تعصب کے متعلق مسلمانوں کو قبل از وقت یہ کہ کر متنبہ کر دیا تھا کہ مغربی اقوام فریب کاری اور دھوکہ بازی کے ذرائع کو استعمال میں لا کر اپنے جھوٹوں اور جعلسازیوں سے عوام کو گمراہ کریں گی.روڈنسن نے آخری دو پیراگراف میں رسول اکرم علی کی زندگی کا خاکہ بیان کرتے ہوئے جو زبان استعمال کی ہے، اس کے ذو معنی الفاظ پر ذرا غور کریں: تصویر چنداں سادہ نہیں ہے، یہ کوئی شیطانی عجیب الخلقت چیز بھی نہیں نہ ہی سردخون والا جعلساز ، نہ ہی سیاسی نظریہ پیش کرنے والا اور نہ ہی عارف جو کلیتا خدا سے لو لگاتا ہو.اگر ہم نے اسکو درست طریق سے پہچان لیا ہے تو محمد ایک پیچیدہ انسان تھا، تضادات سے بھر پور.وہ عیاشیوں کا رسیا تھا لیکن زہد و تقاء میں ڈوبا ہوا.وہ اکثر رحمدل لیکن بعض دفعہ ظالم بھی تھا.بعض دفعہ وہ نرم مزاج اور کبھی نروس ہوتا تھا.بہادر اور بزدل، فریب اور صاف گوئی کا امتزاج ، در گذر کرنے والا اور بیک وقت زبردست کینہ پروری کا حامل، فخر کر نیوالا اور عاجزی کا سراپا، پاکباز اور شہوانی خواہشوں کا مالک، ذہین اور بعض معاملات میں بے وقوف اور نجمی انسان تھا".(صفحہ 313) مستشرقین کا جنتر منتر کھل کر سامنے آ گیا ہے اور یہی وہ طلسم ہے جس نے محمد (صلعم) میں مزعومہ نقائص کو نمایاں کیا ہے جو مفروضہ طور پر شیطانی اثر و رسوخ ان کے ذہن میں داخل کر نیکا ذمہ دار ہے، جسطرح وہ ایک عام بشر کے ذہن میں داخل کرتے ہیں.یہ میکسم روڈ نسن کا یکطرفہ فیصلہ ہے اور اس کے اختتامی پیرا گراف میں اس نے جو مطلب نکالا ہے وہ بھی انتہائی جھوٹی فروتنی مگر اپنی بڑائی کے الفاظ میں ختم ہوتا ہے: "کیا ہمیں ان پیچیدگیوں اور تضادوں پر تعجب کا اظہار کرنا چاہیے ؟ یہ جوخو بیوں اور خامیوں کا امتزاج تھا.وہ بہر حال دوسرے انسانوں کی طرح محض انسان تھا انہی بشری خامیوں کے زیر بار اور اسی قسم کی صلاحتیوں کا مالک، محمد ابن عبداللہ قریش کے قبیلہ کا ، ہمارا بھائی".(صفحہ 313) واہ بلا شبہ کیسا بھائی ہے، جس شخص کو میکسم روڈ نسن جیسا بھائی مل جائے اسے کسی دشمن کی کیا ضرورت ہے؟ 67

Page 68

ڈاکٹر نارمن ڈینیئل (Dr Norman Daniel) ڈاکٹر نارمن ڈینیئل دوسری جنگ عظیم سے قبل کوئنیز کالج آکسفورڈ کا عالم و فاضل تھا اور بعد میں ایک عظیم مغربی مستشرق ولیم منٹگمری واٹ کا جنگ کے بعد چیلہ بن گیا.پروفیسر واٹ اس کے پی ایچ ڈی کے مقالہ کا نگران تھا.واٹ جیسے نگر ان کے تحت کام کر کے یہ تعجب نہیں تھا کہ ڈاکٹر ڈینیئل کی بعد میں شائع ہونے والی کتب واٹ کی مضحکہ خیز نقل ہوں جو اس نے مسلم عیسائی مناظروں میں ادبی مضامین کے بطور لکھیں..ڈاکٹر ڈینئیل کی سب سے مشہور کاوش مغربی مستشرقین کے قائم کردہ عنوان کے مطابق تھی کہ یورپین ذہنوں میں اسلام کا مسخ شدہ تصور کیوں پیدا ہوا؟ اس چیز کو عیسائی معاشرہ نے اپنا عقیدہ بنالیا اور یہی وہ سب کچھ ہے جس کی ڈاکٹر ڈینیل نے خاکہ کشی کی ہے.لیکن جلد ہی یہ امر واضح ہو گیا کہ طریقہ واردات تو ایک ہی ہے، دلائل بھی ایک جیسے ہیں ، مواد کے محدود ماخذ بھی ایک ہی ہیں اور مشکوک مقاصد جو نمایاں ہوئے وہ بھی ایک جیسے ہیں.ڈاکٹر ڈے نیل کی اس تصنیف کا نام ہے: : 1960 ,Islam & the West - The Making of an Image.اس کتاب میں ڈاکٹر ڈینئیل نے اسلام کے بارہ میں اڑھائی سوسال کے عرصہ 1350-1100ء کے دوران مغربی نظریات کی تشکیل کا جائزہ پیش کیا ہے.اسلام کا تصور (1350-1100ء) ڈاکٹر ڈینئیل مذکورہ عرصہ کے دوران اسلام کے خلاف عوام میں مقبول اور مسخ شدہ تصور کا حوالہ پیش کر کے کتاب کو شروع کرتا ہے.مثلاً قرآن پاک کے خالص اور منجانب اللہ ہونے کے بارہ میں شکوک کا اظہار کیا گیا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ کتاب ہے نیز ان روایات کے بارہ میں بھی جن کا ذکر احادیث میں پایا جاتا ہے.مزید برآں سرور کائنات ﷺ کے کردار کے پاک وصاف ہونے کے بارہ میں شکوک پیدا کئے گئے.بارھویں اور چودھویں صدی کے درمیانی عرصہ میں یہ عام ہوا چل نکلی تھی کہ نبوت کا کوئی ٹیسٹ ہونا چاہئے.اس کا معیار قائم کرنے کیلئے پیمانہ بنالیا گیا جس کے مطابق انبیاء کرام پر فیصلہ اس معیار کے مطابق صادر کیا جانے لگا.اگر بالفرض عیسائی مناظر 68

Page 69

یہ ظاہر کرسکیں کہ محمد صلم نبی نہیں تھے تو پھر اسلام کا سارا تانا باناٹوٹ گیا.ڈاکٹر ڈینیئل مزید کہتا ہے کہ اس مفروضہ کا الٹ بھی صحیح متصور ہوگا.یہ الفاظ دیگر اگر عیسائی مناظر یہ ثابت کر سکیں کہ محمد (صلعم) ایک بچے اور صادق نبی تھے تب اسلام نصرانیت کیلئے حقیقی خطرہ ثابت ہو جائیگا.پس لازمی تھا کہ (صلعم) کو سچا نہ ثابت ہو سکنے کیلئے ان میں نقائص نکالے جائیں.یہ ثبوت کہ "محمد نے نبی کا لقب جھوٹے طور پر اختیار کیا اس کی واشگاف وضاحت کرنی ضروری تھی".(صفحہ 67) تو یہ کام عیسائی مصنفین کا مرہون منت ہوا.ڈاکٹر ڈینئیل ، پیٹر دی وینیر یبل ( Peter the Venerable) کا حوالہ اور خاص کر پیڈ روڈی الفانسو (Pedro de Alfonso) اور پیٹر آف پائیٹیٹر ( Peter of Poitier) کے حوالہ جات دیتا ہے جن کی مجموعی اسکیموں کا خلاصہ یہ ہے کہ "محمد نبی ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ تو ایک لٹیرا، قاتل، دغا باز اور زنا کار تھا " نیز یہ کہ قرآن کریم کی تعلیمات "جو شرمناک اور متضاد ہیں انکی تصدیق معجزات سے نہیں ہو سکتی".(صفحہ 68) ڈاکٹر ڈینئیل مزید کہتا ہے : "اسلام میں جو وحی کے نزول کا دعوی پا یا جاتا ہے محمد کی زندگی اس کو غلط ثابت کرتی ہے اور اس کو سب سے منفی ترین ثبوت سمجھا گیا.اس مقصد کیلئے مصنفین نے تسلیم کر لیا اور یہ ظاہر کرنے کی خواہش کی کہ محمد نچلے طبقہ میں پیدا ہوا اور شروع ہی سے بت پرست تھا جس نے ریشہ دوانی سے طاقت پر قبضہ کر لیا اور مزعومہ الہامات کا بہانہ تراش کر اپنی طاقت کو قائم ودائم رکھا.جس نے اپنی طاقت کو تشدد کے وسیلہ سے پھیلایا اور اسے وسعت دینے کیلئے دوسروں کو شہوت پرستی کی اجازت دی جس کا وہ خود بھی عادی تھا." (صفحہ 79) مغربی مستشرقین کی کتب کے حوالہ سے ڈاکٹر ڈینیئل نے اسلام کے بگڑے ہوئے تصور کی خاکہ کشی کی جو کوششیں کی ہیں وہ بجا مگر وہ خود عیسائی چرچ کے عقائد کا شکار بن گیا.اور یہ واضح طور پر تب سامنے آتا ہے جب وہ اپنی تحریروں میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ محمد کے خلاف اتہامات میں کچھ تو صداقت ہونی چاہئے کیونکہ ہر کوئی اس امر کی طرف اشارے کنائے کر رہا ہے.محمد کی سوانح کے جو واقعات قلم بند کئے گئے ہیں ان کا حقیقت سے جو تعلق ہے، افسانوی واقعات کے قطع نظر جو کچھ کہا گیا ان میں دو موضوع پے در پے ابھرتے ہیں.محمد تشدد پسند تھا، اس نے جنگ دوسروں پر تھوپی اور لوٹ مار کیلئے بے احتیاطی سے قتلوں کے جو احکامات صادر کئے وہ ذاتی اغراض 69

Page 70

کیلئے تھے.امر ثانی یہ ہے کہ اس پر انسانی کمزوریاں غالب آسکتی تھیں ، اسے زوال و عروج سے گزرنا پڑا.عام زندگی میں قسمت کا اتار چڑھاؤ اس کی تاریخ ظاہر کرتی ہے " (صفحہ 96) ڈینٹل بھی گزشتہ مستشرقین کے گھسے پٹے راستوں پر گامزن ہے جس طرح وہ محمد (صلعم) کے کردار پر شہوت پرستی کا الزام عائد کرتا ہے.اس مقصد کے لئے متعدد صفحات ضائع کر دئے گئے لیکن میں صرف ایک ہی حوالہ دیتا ہوں جس کا بیان تکلیف دہ ہے.لیکن اس مثال سے قاری کو مصنف کے بدارا دوں اور کینہ پروری کا اندازہ ہو جائیگا : " شاید عہد وسطی کی مقبول ترین کہانی محمد کی زینب بنت جحش سے شادی زید بن حارثہ سے طلاق ہونے کے بعد کی ہے.یہ کہانی اپنے اندر پولیس کی چوکی کے کردار کی مقبول عام فریا د رکھتی ہے.یعنی منہ بولے بیٹے کی بیوی کے ساتھ قریب قریب زنا محمد نے جب خود کو انسانی جسم کی حرص کی مدافعت کے قابل نہ پایا تو خصوصی وحی کو اپنے لئے بطور جواز کے استعمال کیا." (صفحہ 97) اس دور کے عیسائی مناظرین کے ان تمام الزامات اور دعاوی کیساتھ ، عہد وسطی کے عیسائیوں نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ محمد کے عورتوں کے ساتھ ( مزعومہ ) برے سلوک نے یہ ناممکن بنادیا کہ وہ نبی بننے کا حقدار تھا.صلى الله آنحضور ﷺ کی وفات رسول کریم ﷺ کی وفات کے موضوع پر مختلف النوع اور نا قابل یقین کہانیاں گھڑ لی گئی تھیں.سوانح نگاروں کے نزدیک اولیاء کی اموات ایک خاص اہمیت کی حامل ہوتی تھیں اور عہد وسطی کی روایات کے مطابق محمد (صلعم) کی وفات، جو کہ ولی کے متناقض ہے، کو بھی مذہبی اہمیت کا حامل سمجھا گیا.اسے ایسے طور پر پیش کیا گیا جیسے یہ بے رحمی کی وحشتناک موت تھی.بعض دفعہ ایسے گویا ایک عام انسان کی موت جس پر خدا کی خاص رحمت کے نشانات ظاہر نہ ہوئے ہوں.ان افتراؤں میں سے بعض کا بیان بہت درد ناک ہے.اور ان کا کسی قسم کی زیادتی یا کم تفصیل سے کسی پڑھنے والے کو سزا دینا بے حرمتی کا مصداق ہوگا.اگر کسی کو نبی کریم ﷺ کے وصال کی جو جھوٹی کہانیاں گھڑ لی گئیں ان کی تفصیل میں جانے کی خواہش ہے تو اسے چاہئے کہ وہ 70

Page 71

ڈاکٹر ڈینیئل کی کتاب کے متعلقہ حصوں ( صفحات 107-102) کا مطالعہ کر لے.ڈاکٹر ڈینیئل جب بعض کہانیوں پر اندھا دھند اعتماد کر لیتا ہے تو اس کی منافقت کھل کر سامنے آجاتی ہے.نبی کریم ﷺ کی موت کو موجب ذلت کہنے کا بڑا مقصد یہ تھا کہ ان پر غیر مقدس صفات کا سیاہ دھبہ لگایا جا سکے.جیسا کہ ڈاکٹر ڈینیئل لکھتا ہے : " جس طرح اچھی موت نیک ہستی کی نشانی ہوتی ہے اس کے مطابق (اسلام کے ) پیغمبر کو کماحقہ موت آئی، کما حقہ اس رنگ میں کہ وہ وحشتناک موت تھی اور یقینا یوں اس لئے ہوا تا اس کے غیر مقدس ہونے پر مہر ثبت ہو جائے ".(صفحہ 106) نفس پروری نفس پروری کا جو الزام عائد کیا جاتا ہے اس رخ سے اسلام پر حملے جاری رکھے گئے.ماضی اور آجکل کے مغربی قاری کیلئے یہ موضوع خاصی دلچسپی کا باعث ہے اتنا کہ ان پر خبط سوار ہو جاتا ہے.جہاں تک جنس کے بارہ میں اخلاق کا تعلق تھا ڈاکٹر ڈینیل کہتا ہے : " محسوس کیا گیا کہ یہ موضوع دنیائے عیسائیت کی بہبودی کے لئے جس قدر بنیادی تھا اتنا ہی لوگوں کے تخیل کو بھڑ کانے والا بھی تھا.مسلمانوں کی اخلاقی قیود سے مزعومہ آزادی پر عیسائیوں نے جو تنقید کی اور مبالغہ سے کام لیا اس میں انہوں نے زیادتی کا پہلو اختیار کیا تھا".(صفحہ 135) ڈاکٹر ڈینیئل مستشرقین کے حقیقی عزائم کا اعتراف کرتا اور ان مزعومہ حقائق کے مآخذ کا بھی جن کا حوالہ اکثر دیا جاتا ہے.ان کا منبع بھی ایک ہی مکتب خیال اور علمی تحقیق ہوتا ہے." کم و بیش تمام مصنفین کا یہ رجحان رہا ہے کہ وہ اسلام اور اسکے پیغمبر کے بارہ میں خود فرضی کہانیوں کو گلے لگائے رکھیں جیسے وہ ان کی ذاتی ملکیت ہوں.اور اس طرح کہ وہ عیسائی تصور کے مطابق ہوں.وہ " حقائق " جن سے اسلام کا جھوٹا ہونا ثابت ہوان کو سب دوسرے حقائق پر ترجیح دی جاتی تھی مشہور عالمانہ اور مقبول عام کتب میں یہی مناظرانہ خاکہ مشترک ہے.ان کے مقاصد میں نامکمل یگانگت اور اعداد و شمار کے استعمال میں اسی قسم کا انداز پایا جاتا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ کن حدود کے اندر رہ کر ایسے کیا گیا.جو زیادہ نا قابل یقین تھا اسے مسترد کر دیا جو زیادہ معتبر تھا 71

Page 72

اسے قبول کر لیا ایک صورت میں نہیں تو اگلی میں سہی.اسلام پر حملے کرنے میں جھوٹی گواہی کا استعمال آفاقی صورت اختیار کر چکا تھا." (صفحہ 241-240) ڈاکٹر ڈینیل اپنے ہم عصروں کی طرح بلاخوف تردید اغلط بیانی اور عیسائیوں کے اصل خوف کی وجہ بیان کرتا جو یہ ہے کہ اسلام نے اہل مغرب کو اپیل کرنا شروع کر دیا تھا: " عہد وسطی بھی دوسرے ادوار کی طرح تھا جس میں تاریخی حقائق اور مخالفوں کے نظریات کو از سر نو ترتیب دیا گیا تا که بلند و بانگ مقصد کیلئے مناسب ثابت ہوں.یہ بیان کرنا اہم ہے کہ حقائق اور اسلامی عقائد کی یوں دوبارہ ترتیب دی گئی کہ اس سے ان کی تردید ہوتی تھی اور ان کا مقصد بھی عیسائیوں کے لئے تردید ہی تھا.درحقیقت اسلام کو کبھی اسطرح پیش نہیں کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کیلئے نفرت انگیز ہو.اس میں کیا شک ہے کہ اسقدر مواد تو تھا ہی جس سے مسلمانوں میں نفرت پیدا ہو جائے.لیکن اسلام کا جو نا خوشگوار عکس عیسائیوں نے تیار کیا وہ عیسائی آنکھوں کو نا خوشگوار بنانے کیلئے بنایا گیا تھا.کسی نہ کسی طرح اسلام کو غیر مؤثر بنا دیا گیا یا غیر مشابہ یا پھر واقعی تمام اہم عیسائی تعلیمات سے متناقض".(صفحات 265-264) اسلام کے کٹر مخالفین جو ڈاکٹر ڈینیئل کی طرح کے ہیں وہ اوپر بیان کردہ حقائق سے ہرگز انکار نہیں کر سکتے.اس کو کئی بار اسلام سے عیسائیت کو خطرہ اور حسد کا اعتراف کرنا پڑا.اس کے فوراً بعد ایک مثال پیش کی گئی: "اسلام ابھی تک جنگی محاذ پر تھا اس بناء پر بطور دشمن اس کا برملا اعتراف ضروری تھا اور اس رنگ میں پیش کیا جانا کہ اس سے عیسائی تہذیب کے کسی ایک جزو کو بھی بدلنا نہ پڑے اہم بات یہ تھی کہ مغرب کیلئے موزوں اور یہ وقتی ضرورت کے مطابق تھا.اس طریق سے عیسائیوں کو ارتداد سے محفوظ رکھنا تھا.اس چیز سے دنیائے عیسائیت کو عزت نفس ملی تا اس تہذیب کا مقابلہ کر سکے جو اس سے بدر جہا بہتر تھی."(صفحہ 270) جبر والی مورتی اسلام کے بارہ میں سب سے زیادہ مقبول عام فرضی کہانی جو تخلیق کی گئی وہ یہ تھی کہ اسلام کس طرح پھیلا؟ نیز یہ دعویٰ کہ اسلام طاقت کے بل بوتے پر پھیلا جس کے لئے تلوار استعمال کی 72

Page 73

گئی.قرآن پاک کی برتر اور ہمدردی والی تعلیم جس کی عملی تفسیر نبی پاک (صلعم) نے فرمائی اس کو درخور اعتناء نہیں جانا جاتا.یہ تبدیلی دین بزور جبر کی تصویر دیدہ و دانستہ طور پر کھینچی گئی تا کہ عیسائیت سے نکل کر اسلام قبول کرنے والوں کی رفتار کی روک تھام کی جاسکے.لیکن یہ تصویر اس دور میں لفظاً ایک خاکہ کے طور پر پیش کی گئی تھی اور مغربی مستشرقین نے ہر موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے دنیا کے سامنے پیش کیا.گزشتہ کئی صدیوں سے لیکر زمانہ حال تک مسلمانوں کے دلوں میں ہمیشہ ہی سرور کائنات کی ایسی عزت و تکریم رہی ہے کہ آپ کی ذات مبارک کی تصویر کشی یا خا کہ کشی ممنوع قرار دیدی گئی.لیکن بعض مستشرقین نے بے حسی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کے عین الٹ کیا.ڈاکٹر ڈینیئل کا بھی اس زمرہ کے بے حس مصنفین میں شمار ہوتا ہے.اس نے کہیں سے اس قسم کی تصویر تلاش کر کے اپنی کتاب میں شامل کی ہے.تصویر کے ساتھ جو نوٹ لکھا گیا ہے وہ بھی سنگدلانہ ہے.ڈینیئل نے اسے "سیاہی سے تیارہ شدہ محمد کا خاکہ کا نام دیا جو عہد وسطیٰ کے ایک مسودہ سے لیا گیا جس میں وہ اکیلا پڑا نظر آتا ہے.اس کا مقصد بظاہر کسی اصل عبارت کی وضاحت کرنا نہ تھا“.(صفحہ 134) اس خا کہ میں محمد (صلعم) کی تصویر اس طور سے دی گئی ہے کہ دائیں ہاتھ میں تلوار ہے.تلوار کے ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے تک یہ الفاظ کندہ ہیں: "gladius Mahumeti pictus" بائیں ہاتھ میں قرآن ہے جس کی جلد پر لکھا ہے "lex et alcoranus".اسلام کی یہ وہ خیالی تصویر ہے جسے دشمنان اسلام نے پیش کیا ہے.حضور نبی پاک ﷺ کے گلے میں تعویذ لٹک رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ قسمت کا حال بتانے والے، شیطان کو نکالنے والے، ایک ایسے شخص تھے جو اپنے جادو سے لوگوں کو مسحور کر کے ان سے مذہب تبدیل کروالیتا تھا.گویا یہ کافی نہ تھا.ڈاکٹر ڈینیئل کی گستاخی اور دیدہ دلیری ملاحظہ کیجئے جب وہ تجویز کرتا ہے کہ اس قسم کا برتا وا عزت افزاء ہے.ایسا سوچ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اگر محمد ﷺ کی عزت افزائی والی تصویر کشی اس نوعیت کی ہے تو پھر اگر ہتک آمیز تصویر کشی کی جائے تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا ؟ 73

Page 74

مستشرقین میں مماثلت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مستشرقین کی مذہب اسلام اور خصوصاً محمد ﷺ کی زندگی کے مطالعہ کی اصل غرض ان کی مسخ شدہ تصویر پیش کرنا تھا جس کا پتہ آسانی سے چل جاتا ہے.تقریباً تمام مصنفین نے گٹھ جوڑ کر لیا ہے کہ وہ ایک ہی نوع کے محدود ماخذوں کا استعمال کریں جن کو وہ پہلے ہی بار بار استعمال کر چکے ہیں.وہ کسی گھسے پٹے پرانے ریکارڈ کی طرح سنائی دینے لگے ہیں.انہوں نے محمد (صلعم) کی زندگی کا پس منظر پیش کیا : جزیرہ نما عرب جہاں آپ کی پیدائش ہوئی ، آپ کی ابتدائی زندگی ، آپ کا نبوت کیلئے انتخاب اور آپ کے حالات بوقت وفات یہ سب اس طور سے پیش کئے گئے کہ آپ محض ایک انسان تھے جس سے غلطی سرزد ہو سکتی تھی اور آپ پر رسوا کرنے والی بد قسمتی وارد ہو سکتی تھی.(فی الحقیقت یہ بعینہ وہی طریقہ واردات ہے جسے سلمان رشدی نے اپنے رسوائے زمانہ ناول میں استعمال کیا ہے.) مستشرقین کی مدتوں سے یہ عادت چلی آرہی تھی کہ وہ ایک ہی قسم کے موضوعات پر گزشتہ مؤقر مصنفین کے حوالہ جات دیتے تھے.ان کے مآخذ بہت محدود ہوتے تھے.جیسا کہ خود ڈاکٹر ڈینیئل نے فرانسیسی مستشرق ری لینڈ (Reland) کی کتاب De Relgione' 'Mohammedica سے حوالہ دیا ہے: " اگر کبھی کوئی مذہب دشمن کے ہاتھوں بگاڑ کر پیش کیا گیا ہے تو یہ مذہب اسلام تھا.یہ رواج تھا کہ جس نو جوان میں محمدی مذہب کے جاننے کا جوش اور جذبہ پیدا ہوتا اسے بشمول کیتان (Ketton) پرانے صائب الرائے لوگوں کے پاس بھیج دیا جاتا تھا بجائے اسکے کہ اسے یہ مشورہ دیا جائے کہ عربی زبان سیکھے تاکہ محمد کی باتیں اس کی زبان میں سن سکے." (صفحہ 295) ری لینڈ نے یہ اصول قائم کیا کہ اسلام کے بارہ میں حقائق کی واحد سند صرف مسلمان ہی کو حاصل ہوگی.اور یہی دلیل نصف صدی قبل ایڈورڈ پو کاک سینئیر (Edward Pocock Sr) نے بھی دی تھی.ڈاکٹر ڈینیل کہتا ہے کہ اسلام پر اکثر علمی حملے جو قرون وسطی میں ہونا شروع ہوئے وہ نہایت پائیدار ثابت ہوئے اور ان کا آجکل کی مغربی سوچ پر گہرا اثر ہے.74

Page 75

"اسلام کے تقریباً چودہ صدیوں کے عرصہ میں عیسائیوں نے تثلیث اور مجسم خدا میں اعتقاد کو مسلمانوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کی سعی کی ہے.انہوں نے جواباً اسلام پر حملہ کرنا شروع کر دیا کہ محمد یہ دعوئی کہ وہ وحی کے نزول کا وسیلہ ہے اس کو ماننے سے انکار کر دیا جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے کردار نے ایسا ہونا ناممکن بنا دیا.آخر کار انہیں صداقت اور غلطی کی آمیزش میں فیصلہ کرنا تھا.اس کی قدر و قیمت کا کیسے اندازہ لگایا جائے؟ کس طرح غلطی کا جائزہ لیا جائے؟ اور ہر ایک کی اہمیت کو کیسے متوازن کیا جائے؟ آخری نتیجہ کا کیسے جائزہ لیا جائے ؟ ان نکات کے بارہ میں عہد وسطیٰ کا نظریہ حد درجہ پائیدار نکلا اور اس کا یہ خاکہ آج تک اہل مغرب کے ثقافتی ورثہ کا حصہ ہے." (صفحہ 275) پروفیسر ولیم منٹگمری واٹ بلا شبہ دور جدید کے تمام مغربی مستشرقین میں سے مشہور ترین مستشرق منٹگمری واٹ ہے.یو نیورسٹی آف ایڈنبرا (سکاٹ لینڈ) کا سابق پروفیسر عربی اور اسلامیات.اسے مستشرقین کا آخری دیو تا قرار دیا جاتا ہے.اس نے اسلام اور رسول کریم ﷺ کے بارہ میں کئی کتابیں تصنیف کی ہیں بشمول ,Muhammad at Mecca, Muhammad at Medina Muslim-Christian Encounters, Islamic Fundamentalism & Modernity.پروفیسر واٹ مغرب کی اسلام کے خلاف جہد و جہد میں ان کے اسلحہ خانہ کا قابل ذکر کل پرزہ بن چکا ہے.دراصل وہ تمام دنیا میں مسلمانوں کیلئے تازیانہ بن چکا ہے.اس کے کام اور ریسرچ کی تعریف کرتے ہوئے دوسرے تمام مستشرقین نے اسے سر آنکھوں پر بٹھایا ہے.وہ اسے سب سے زیادہ خراج تحسین اس طرح پیش کرتے ہیں کہ جس فریب کاری سے اس نے اسلام کے ڈھانچہ میں شکوک اور نفرت کے بیج بوئے ہیں وہ اس کی نقل اپنی کتابوں میں کرتے ہیں.انہوں نے بڑے مایوسی کے عالم میں نبی کریم ﷺ کے کردار پر نیز ان کے صحابہ کرام (رضوان اللہ ) پر دھبے لگانے کی کوشش کی.انہوں نے قرآن کریم میں اور حدیث کی روایات میں تضاد تلاش کرنے 75

Page 76

کی کوشش کی ہے.منٹگمری واٹ نے جو کچھ لکھا ہے وہ اس سے پہلے مغربی سکالرز کے پیش کردہ مواد کے مقابلہ میں کچھ بھی نیا نہیں ہے.لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس نے اسے کس طور پر پیش کیا ہے.بالکل اسی طرح جیسا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا: " بہکانے کے نئے نئے نسخے اور گمراہ کرنے کی جدید جدید صورتیں تراشی جاتی ہیں " فتح اسلام صفحہ 3 ).سر میملٹن گب (Sir Hamilton Gibb) نے ایک رسالہ ہبرٹ جرنل Hibbert Journal میں واٹ کی کتاب Mohammad at Mecca پر غیر دانستہ طور پر نقد و نظر کرتے ہوئے کہا تھا: " یہ کتاب تاثر دیتی ہے کہ جیسے یہ کسی ایسے شخص نے لکھی ہے جو تخیل میں خود انہیں حالات سے گزر رہا ہو جن حالات سے محمد کو مکہ میں دو چار ہونا پڑا.اس جہت میں وہ گذشتہ سوانح نگاروں پر فوقیت لے گیا ہے." یہی امر اس بنیادی مسئلہ کی وجہ اور فساد کی جڑ رہا ہے.مستشرقین خصوصاً مغرب میں رہنے والوں نے اپنے تخیل کو بے لگام چھوڑ دیا ہے اور اپنے دلائل کی بنیاد شنید پر رکھی ہے.انہوں نے حقائق کو اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے توڑ مروڑ دیا ہے.حضرت محمد ﷺ کے کردار کو اسطرح تشکیل دیا ہے کہ وہ ان کے جذبات ، طرز خیال اور مضحکہ خیز تصورات کے عین مطابق ہو.مثال کے طور پر میں بعض مخصوص فرضی صورتیں پیش کروں گا.واٹ نے اپنی کتاب Islamic Fundamentalism & Modernity میں اسلامی روایت کے مطابق قرآن کے بارہ میں شک کا اظہار کیا ہے کہ آیا یہ کلام الہی ہے؟ وہ اس کی وحی میں انسانی عصر کے شامل ہونے" کی بات کرتا ہے.مجھے یقین ہے کہ قاری دیکھ لے گا کہ اس دعوی کا کئی بار دوسرے مغربی سکالرز نے بھی اعادہ کیا ہے.واٹ قرآن پاک میں مذکور تاریخی حقائق کے بیان میں ”غلطیوں کی نشاہدہی کرتا ہے جیسے : مریم جو عیسی کی والدہ تھیں، اس کو مریم جو ہارون کی بہن تھی " (28:19) کہہ کر بظاہر خلط ملط کر دیا گیا.دونوں کو عربی میں مریم کہا جاتا ہے.اس سے اہم بات یہ ہے کہ عیسی کو صلیب پر چڑھایا گیا اور وہ صلیب پر ہی فوت ہوئے (4:157) دونوں کا انکار کیا گیا ہے.اور یہ دعویٰ کہ عیسائی تین 76

Page 77

خداؤں کی پوجا کرتے ہیں.(4116 & 4:171:73)...(صفحہ 83) منٹگمری واٹ کی کوئی کتاب اس وقت تک مکمل خیال نہیں کی جاسکتی جب تک وہ عادت سے مجبور ہوکر سرور کائنات ﷺ کے کردار پر حملہ نہ کر لے.اور وہ کسی مغربی قاری کو مایوس نہیں کرتا جب وہ لکھتا ہے : "محمد کو کامل مثالی نمونہ بنا لینے ، اور ابتدائی اسلامی سوسائٹی کی سچائی کے بارہ میں شک پایا جاتا ہے.لازماً محمد نے عالم جوانی میں اہل مکہ کے غیر اسلامی نظریات میں سے کچھ حصہ ضرور پایا ہوگا".(صفحہ 86) حضرت محمد مصطفی عملے کو ایک ایسا شخص بنا کر پیش کیا گیا جو کڑے حالات میں اپنے وعدہ کا پاس نہ کرتا تھا.مثلاً محمد ایٹ مدینہ کتاب میں واٹ لکھتا ہے : " یہ یقیناً مقدس مہینہ تھا جس میں خوں ریزی سے اجتناب ضروری تھا لیکن خود محمد نے مقدس ایام پر خصوصاً عمل نہ کیا " (صفحہ 47).واٹ اپنی تمام کتب میں مسلسل اس بات پر زور دیتا ہے کہ محمد جارح تھے.انہوں نے اپنے دین کو طاقت اور تلوار کے ذریعہ پھیلایا.وہ آگے جا کر اسی کتاب میں لکھتا ہے : " بعض اوقات محمد نے چست و چو بند آدمیوں کو اکسایا کہ وہ اپنے پڑوسیوں کے خلاف طاقت استعمال کریں.ان ہی میں سے ایک از دشا نوعہ کے قبیلہ کا سراد بن عبد اللہ تھا جو محمد کے پاس تقریباً بارہ افراد کے ساتھ آیا.محمد نے اسے ان آدمیوں پر لیڈر مقرر کر دیا.اور انہیں کھلی چھٹی دے دی کہ اسلام کے نام پر اس علاقہ کے کسی بھی غیر مسلم سے خوں ریزی کریں."(صفحہ 120) گزشتہ چند دہائیوں میں واٹ یقیناً مغرب کا ایک با عزم عالم چلا آ رہا ہے اور ایک سے زیادہ ذرائع ابلاغ میں اظہار رائے کے مواقع میسر آئے ہیں جن سے وہ تھک چکا ہے.جیسا کہ وہ اپنی کتاب امحمد ایٹ مدینہ میں کھلے بندوں اعتراف کرتا ہے : میں نے محمد کے بارہ میں جو کچھ کہنا تھاوہ کہ لیا ہے اگر میں اس سے زیادہ کہوں گا تو ممکن ہے کہ میں نے جو اچھا تاثر دینے کی کوشش کی ہے اس کے زائل ہونے کا احتمال پیدا ہو جائے." شاید ہمیں واٹ کی سرزنش پر ممنون ہونا چاہئے.اگر آجنگ اس نے اپنی کتب لکھ کر حضرت محمد ﷺ کا اچھا تاثر قائم کرنیکی کوشش کی ہے تو میں یہ سوچ کر ہی کانپ جاتا ہوں کہ اگر وہ محمد ے کے کردار کو آلودہ کرنے کا قصد کر لیتا تو کیسے بھیانک نتائج مرتب ہوتے.صل الله 77

Page 78

78

Page 79

باب ہشتم سکالرز کی نئی پود مغرب میں عیسائی متقین کیلئے منٹگمری واٹ کا متبادل تلاش کر لینا یقینا ایک بہت مشکل امر رہا ہوگا، وہ ہر قسم کے راستوں اور امکانات کی تلاش میں سرگرداں رہے ہوں گے.انہوں نے ہندو پاکستان کی اقوام میں بھی محققین کی تلاش جاری رکھی.شاید یہ ان کا مستقبل کا منصوبہ تھا کہ ان قوموں کے اندر ہی سے چھپے غدار تلاش کریں اور رفتہ رفتہ مگر یقینی طور پر ان کی مغرب میں بے نقابی کی جائے.ڈاکٹر مائیکل نذیرعلی.ان متبادل محققین میں سے سب سے پہلا ڈاکٹر مائیکل نذیر علی تھا، جو پاکستان کے لاہور کیتھیڈرل کا پرووسٹ رہ چکا تھا.اور جو برطانیہ میں پہلا ایشین ڈایوسیز کا بشپ (لاٹ پادری) بنا تھا.اس کو یہ اعزاز جنوری 1995ء میں دیا گیا تھا.ڈاکٹر علی کی پیدائش پاکستان میں ہوئی ، اس کا خاندان مسلمان تھا مگر اپنے باپ سمیت اوائل عمر میں ہی مذہب تبدیل کر کے عیسائی ہو گیا.اپنی نوجوانی سے اس نے اپنی عمر کا کثیر حصہ برطانیہ میں گزارا اس لئے وہ اہل مغرب کے لئے ایک مثالی آلہ کارنکلا جس کا استحصال ممکن تھا.اور اسکی ہمت افزائی کی گئی کہ وہ اسلام پر عیسائی نقطہ نگاہ سے طبع خیال کرے.ڈاکٹر علی نے اپنا اکثر مواد گذشتہ مستشرقین اور بعض آزاد خیال مسلمان محققین سے مستعار لیا ہے.لہذا اس نے جو کچھ پیش کیا وہ نہ تو نیا اور نہ ہی چونکا دینے والا تھا.اس نے پہلی کتاب جو 1980ء میں تحریر کی اس کا عنوان تھا: Islam - A Christian Perspective جس میں وہ عیسائیوں کے اس امر پر دلی حسد کو بیان کرتا ہے کہ محمد ﷺ کے متبعین دوسرے انبیاء بشمول حضرت عیسی علیہ السلام کے مقابلہ میں کس طرح آپ کی تعظیم و تکریم زیادہ کرتے ہیں.حسد تو کتاب 79

Page 80

کے لفظ لفظ میں ٹپک رہا ہے.اس کی دیدہ دلیری ملاحظہ ہو.وہ تجویز کرتا ہے کہ عیسائیوں کا خدا اس خدا سے بہتر ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہوا ہے.وہ کہتا ہے :" قرآن میں ہمیشہ متقیوں اور مومنوں سے خدا کے پیار کا ذکر ہوا ہے لیکن گناہ گاروں سے پیار کا کہیں بھی ذکر نہیں.اس کے برعکس عہد نامہ جدید (انجیل ) گناہ گاروں سے خدا کے پیار کا اکثر ذکر کرتا ہے." (صفحہ 62) ملتے جلتے حملے صلى الله اس کے اس بودے دعوی کے جواز کی کوششیں دوسرے عیسائی سکالرز سے مختلف نہیں جنہوں نے آسانی کا راستہ یہ نکالا کہ اسلام کے نبی پاک ﷺ پر حملے بڑے بڑے افتراؤں اور کہانیوں نیز توری مروڑی ہوئی حکایات کے ذریعے کئے.مثلاً ایک چھوٹے پیراگراف کی مختصرسی جگہ میں وہ محمد ﷺ پر کئی زمانوں سے کیا جانے والا پرانا الزام دہراتا ہے کہ وہ شہوت پرست اور ظالم تھے.ڈاکٹر علی لکھتا ہے: "محمد کی زندگی کا سارا سانچہ سر تا پا عرب تھا.اس کا کثرت ازدواج کرنا، اس کی داشتا ئیں ، غربت کے ایام میں اس کا مال بردار قافلوں پر حملے کرنا، اس کا نا قابل بیان ظلم اور کے ساتھ اچانک جود وسخا کی طرف میلان...یہ تمام باتیں محمد کے کردار کی اتھاہ گہرائیوں میں رچی بسی ہو ئیں تھیں.(صفحہ 24) ڈاکٹر مائیکل علی دیگر مغربی سکالروں سے اتفاق کرتا ہے اور شیطانی خیالات کو محمد علی کی طرف منسوب کرتا ہے.: " اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ پہلے تو اس نے لات، منات اور عزا کی دیویوں کو اپنے اور اللہ کے درمیان شفاعت کر نیوالا تسلیم کر لیا بعد میں اس نے کہ دیا کہ یہ آیت شیطان نے دل میں ڈالی تھی اور اسے تبدیل کر دیا." (صفحہ 25) مصنف نبی کریم ﷺ کے کردار کے خلاف مزید جارحیت کا مظاہرہ یوں کرتا ہے : " پریشان کر دینے والی بات یہ ہے کہ محمد نے گیارہ بیویوں سے شادی کی جو اس وحی کی خلاف ورزی تھی جس کا اس نے خدا سے ملنے کا دعویٰ کیا تھا.اور پھر " پیغمبر کی یہ روایت بھی مشہور ہے کہ اسے تین چیزیں محبوب تھیں نماز ، عطر اور عورت".(صفحات 33-32) اس کے علاوہ اس قسم کا مواد پوری کتاب میں ملتا ہے ان میں سے ایک کا بھی یہاں حوالہ 80

Page 81

دینا اذیت کا موجب ہوگا.میرے خیال میں مجھے اس پر مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ ڈاکٹر مائیکل علی کی اس تصنیف پر deja-vu ( پہلے کہیں دیکھا ہوا ہے ) ہر صفحہ پر لکھا ہوا ہے.لیکن جہاں تک مغرب کے قابل نفرین منصوبہ کا تعلق ہے یہ کتاب نہ ہی اتنی زوردار تھی اور نہ ہی اتنی ضرر رساں تھی کہ ہلکا سا ارتعاش پیدا کر سکے یا ایسا ارتعاش جس کی کوئی اہمیت ہو.یہ انتہائی بودی اور بمشکل نزاعی کتاب تھی.اب کسی اور چیز کی منصوبہ بندی کرنا ضروری تھا جو اس سے زیادہ ڈرامائی اور سنسنی خیز ہو.ایسی چیز جو ہر کسی کو چوکنا کر دے اور ہر کوئی دھیان دے.یہ تمام منصوبوں اور سازشوں کا معراج ہو جسے اسلام کے دوخونی دشمنوں یعنی یہود اور نصاری نے مل کر تیار کیا ہو.قبل اس کے کہ ہم اس منصوبہ کے انجام تک آئیں اجازت دیجئے کہ میں قاری کو بعض دوسرے لازمی اجزاء کا جن کا اس منصوبہ کے پھل آور ہونے کے لازمی اجزاء ہیں ان کے بارہ میں تازہ ترین معلومات مہیا کروں.دور حاضر کے حملے ابھی تک اہل مغرب کو اسلام کی قدامت پسند سوچ میں مداخلت کرنے میں کامیابی حاصل نہ ہوئی تھی.حریفوں کی صفوں میں کسی نہ کسی طرح شک کے بیج بونے درکار تھے.عیسائی اقوام اس بات سے بھی آگاہ تھیں کہ اسلام میں ایک چھوٹی سی مگر زیادہ تر خاموش آزاد خیال رائے کی جماعت موجود تھی جس کے استحصال کے لئے انہوں نے بے دھڑک کوشش کی تھی.شریعت کو اسطرح پیش کیا گیا کہ یہ تو اخلاقی نقطہ نگاہ سے عہد وسطیٰ کے نظریات سے ملتی جلتی تھی.اس کو زندگی کے نئے سوشل ڈھانچے کے مطابق ڈھالنے کیلئے بیسویں صدی کے اختتام تک کوئی کوشش نہ کی گئی تھی.منٹگمری واٹ کی کتاب Islamic Fundamentalism and Modernity کے اختتامی پیراگراف (صفحہ نمبر 143) میں مغربی مستشرقین سے وابستہ امیدیں اور توقعات پوری طرح افشا ہو گئیں.: " جب عام فہم مسلمان اس امر سے آگاہ ہوتے کہ وہ بہشتی حالات جن کا ان کو وعدہ دیا گیا ہے تبھی پیدا ہو سکتے ہیں جبکہ وہ اسلام کے ابتدائی دور کی طرف رجوع کر جائیں.جبکہ ایسے حالات کا ظہور پذیر ہونا ناممکن ہے تو ان کے جذبات میں ایسے لوگوں کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو 81

Page 82

جاتی جو اس قسم کی حکمت عملی کا پر چار کرتے ہیں." کس قدر سنگین غلط فہمی کے ساتھ انہوں نے فیصلے کئے کہ یہ تدابیر الٹا انہی پر لاگو ہو گئیں.واٹ کا ہر مفروضہ درست تھا کہ جذبات میں شدید نفرت پیدا ہو جائے لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ بالآخر یہ تدبیران ہی لوگوں کے اپنے خلاف ہو گئی جنہوں نے اس قسم کے خیال کو جنم دینے کی کوشش کی تھی.اور وہ اہل مغرب ہی تھے.82

Page 83

باب نهم عالمی نظام نو دور حاضر کا ایک اور اہم مسئلہ جس کی وجہ سے مغرب نے اسلام کو تباہ و بربادکرنے کی ٹھان لی وہ درج ذیل نقطہ نگاہ سے مستنبط کیا جاسکتا ہے.یہ کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں کہ آجکل کی بڑی طاقتوں نے ایک عالمی نظام نو کا خواب دیکھ رکھا ہے جس کا لیڈر امریکہ ہوگا جو اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور قوم تسلیم کیا جاتا ہے.اہل مغرب کی سوچ بچار کے مطابق سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کا مطلب یہ ہے کہ نسل انسانی واحد عالمی نظام کی جانب قدم رنجہ ہے.اقوام متحدہ میں پہلے ہی ایک قسم کا سیاسی اتحاد پایا جاتا ہے جو اگر چہ زیبائش کی نوعیت کا ہے اور کسی بھی سیاسی مسئلہ کے حل کیلئے غیر مؤثر ہے.ایک واحدا تیز فہم عالمی تہذیب بنانے کیلئے بھی دنیا میں تحریک پائی جاتی ہے مگر یہ ابھی تک اتحاد سے کوسوں دور ہے.دنیا کی اکثر اقوام مغرب کے پڑھے لکھے طبقہ کے لادینی پہلو کو قبول کر رہی ہیں.لیکن اس سے آگے تنوع بہت زیادہ ہے خاص طور پر مذہب کے معاملے میں.یہ تحریک جو متحدہ عالمی تہذیب کیلئے ہے اس کے مقاصد کو بروئے کارلانے کا مطلب ہوگا کہ تمام ادیان کو اس ابھرتے ہوئے اتحاد کیلئے اپنے رویہ کو دوبارہ زیر غور لانا ہوگا.خاص طور پر (فنڈامینٹلسٹ ) بنیاد پرست اسلام.وہ اس بات کو ترجیح دیں گے کہ تمام مذاہب میں مصالحت پیدا ہو کیونکہ پیش آمدہ مستقبل میں ان کا نصب العین مذاہب کی برادری قائم کرنا ہے.کامل قوت اور کامل طاقت کا مالک مغرب دنیا کو یہ نظام نو دے رہا ہے.یہ سب کو دعوت دے رہا ہے کہ اس میں سے اپنا حصہ لے لیں بشرطیکہ وہ اس میں حصہ دار ہوں.اسلام سے ان کو خطرہ یہ ہے کہ یہ خود کفالت کی شیخی بگھارتا ہے اور یہ اقوام عالم میں بشمول مغرب کے جنگل میں آگ کی طرح پھیلتا جارہا ہے.اسلام کے آغاز تک، عیسائیت کو پہنچ کر نیوالا نسبتا کوئی نہ تھا.یہ دنیا کے تمام حصوں میں دو 83

Page 84

عقائد کے پر چار کے ذریعہ پھیلتی رہی.ایک یہ کہ نجات ملنا صرف اور صرف یسوع مسیح کے ذریعہ ہی ممکن تھا اور دوسرے یہ کہ عیسائیت دوسرے تمام مذاہب پر فوقیت رکھنے والا عقیدہ تھا.اب معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی بے نظیر اشاعت کے بعد سے خصوصاً یورپ کے عیسائی بیدار ہو گئے ہیں اور اس بات کا نوٹس لے رہے ہیں کہ ان کے عالمی غلبہ کے منصو بہ کو اسلام سے حقیقی خطرہ ہے.اب مسلمانوں کی باری ہے کہ وہ تبلیغ کریں کہ صرف اسلام ہی صراط مستقیم کی طرف کچی روشنی ہے.بلا شبہ اب اسلام کا پلڑا بھاری ہوگا.اس مسئلہ کو جو عیسائی اقوام کیلئے یقیناً مصیبت بن چکا ہے کنٹرول کرنے کیلئے انہوں نے اس رائے کو پورے زور کیسا تھ آگے بڑھایا کہ متحدہ عالمی کلچر ابھر رہا ہے.لہذا تمام مذاہب اس بات کا اعلان کریں کہ بہر کیف وہ سب کم و بیش ایک ہی چیز کیلئے کوشاں ہیں.اس قسم کا طرز خیال کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کیلئے خود کو دوسرے مذاہب سے برتر سمجھنے کیلئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑے گا.عیسائی اقوام کیلئے تو یہ عمل ذلت کے ساتھ ہتھیار ڈال دینے کے مصداق تھا.یہاں تک کہ واٹ بھی اپنی کتاب محمد ایٹ مدینہ میں بڑا دلچسپ اور قابل ذکر تبصرہ کرتا ہے: "ہماری دنیاروز بروز اون ورلڈا بنتی جارہی ہے اور اس ایک دنیا میں یگانگت اور مماثلت کا رجحان پایا جاتا ہے.اس رجحان کی بناء پر وہ دن بلا شبہ ضرور طلوع ہوگا جب یکساں اخلاقی اصولوں کا ایک مجموعہ ہوگا جو نہ صرف افادیت میں آفاقی ہونے کا دعویٰ کرے بلکہ حقیقتا تمام دنیا میں تقریباً آفاقی سطح پر قبول کر لیا جائیگا.مسلمان دعوی کرتے ہیں کہ محمد کردار اور اخلاق میں بنی نوع انسان کیلئے بہترین نمونہ ہے اسطرح کہنے سے وہ عالمی رائے عامہ کو دعوت دیتے ہیں کہ محمد کے بارہ میں اپنی رائے دیں.اب تک اس امر پر کم ہی عالمی رائے دی گئی ہے لیکن اسلام کی خوبیوں کی وجہ سے اس پر آخر کار سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا."(صفحہ 333) امر واقعہ یہ ہے کہ محمد ﷺ کے کردار اور مذہب اسلام کو لوگ کافی توجہ دیتے آئے ہیں بالخصوص گذشتہ صدی کے دوران.اور یہ کہ اس بات پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا رہا ہے.تسلیم کہ یہ الله سب کچھ ہوالیکن غلط مقاصد کی خاطر.84

Page 85

صلى الله آنحضور ﷺ کے کردار پر تہمتیں مغربی مستشرقین اور خاص طور پر واٹ نے ، اس مواد سے خوب خوب فائدہ اٹھایا جو حضرت محمد ﷺ کی زندگی کے واقعات کی معمولی سے معمولی تفصیل بیان کرتا ہے.محمد ﷺ کی زندگی تو ایک کھلی کتاب کی مانند تھی جسے ہر کوئی آزادی کے ساتھ پڑھ سکتا تھا.بنی نوع انسان کی تاریخ میں کبھی کسی شخص واحد کے اعمال اور اقوال کو اس طرح نہیں پر کھا گیا جس طرح اسلام کے نبی محمد ﷺ کے اعمال واقوال کو پر کھا گیا ہے.مغربی محققین کا یہ مقصد تو کبھی تھا ہی نہیں کہ حضرت محمد کے کردار کا کلی طور بنظر استحسان مطالعہ کریں بلکہ ہمیشہ ہی کسی نہ کسی قسم کے عیب نکالے گئے.جب ان کو اس صح نظر میں کامیابی نہ ہوئی تو انہوں نے واقعات کو دغا بازی اور دروغ بیانی کے ساتھ مسخ کر دیا.وہ سخت مایوس ہو کر اس نصب العین پر مرکوز ہو گئے یہاں تک کہ بعض مستشرقین نے اپنی ساری کی ساری تصانیف کو اس مقصد کیلئے وقف کر دیا.اس قدر کہ بالآخر انہوں نے خود کو محمد (صلعم) کی جگہ تصور کر لیا.اور اپنے خیال میں آپ کی طرح سوچنا شروع کر دیا اور اپنے جعلی اور حاسدانہ خیالات وتصورات کو جمع کر کے محمد علی کی طرف منسوب کر دیا.در اصل حقیقی وجہ تو حسد ہے وہ کسی انسان کو ایسا کامل سمجھ ہی نہیں سکتے اور اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ باقی ماندہ غیر مسلم دنیا اس جادوگر اور اس انسان کامل' کے سحر میں پھنس نہ جائے انہوں نے آپ کی مزعومہ اخلاقی گراوٹوں اور فیصلوں میں غلطیوں کو آپ کی طرف منسوب کر کے آپ کو عام لوگوں کی طرح بنا دیا.پھر اخلاقی فروگزاشتوں نے ہی اسے موقعہ فراہم کیا کہ وہ اپنی خود تراشیده وحی کو اللہ کی طرف منسوب کر دے.سو اس طرح اسٹینک ورسزا کا تصور معرض وجود میں آیا تھا.شیطانی اثرات قرآن پاک کی جانچ پڑتال رسول اکرم ﷺ کے کردار کی طرح بڑھ چڑھ کر کی گئی.اسے سوالات کی صورت میں جانچا گیا، ایک آیت کے بعد دوسری آیت، لفظ کے بعد دوسر الفظ، یہ کام مفسرین اور متقین نے کیا چاہے وہ مسلمان تھے یا غیر مسلم.لیکن عیسائی اور یہودی محققین کا 85

Page 86

نصب العین یہی رہا کہ وہ قرآن پاک میں اندرونی تضادات تلاش کرنے کی کوشش کریں، تناقضات نکالیں، اور تاریخی حقائق کے بیان میں غلطیاں ہرصورت میں ڈھونڈیں، چاہے اس مقصد کے حصول میں افتراء اور فریب کو ہی کیوں نہ استعمال میں لانا پڑے.اس ضمن میں خصوصاً اہل یہود نے حسد اور کینہ کے اظہار میں مسابقت لے جانے میں پوری کوشش کی.آنحضور ﷺ کے دعویٰ کہ وہ اللہ سے وحی پاتے ہیں ، یہ دعویٰ یہودیوں کے ہر دلعزیز عقیده که صرف یہودی ہی خدا کی پسندیده و چنیدہ قوم ہیں اور صرف انہی کے ذریعہ خدا اپنے آپ کو منکشف کرتا ہے، اس کی تردید کرتا تھا.اس حسد نے غالباً ایک دوسری توجیہہ کو جنم دیا کہ دشمنان اسلام نے کیونکر شیطانی خیالات کو نبی کریم ﷺ سے منسوب کیا؟ اسلئے تا کہ یہ ثابت ہو سکے کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب پر خدائی منظوری کی مہر نہ ثبت ہو جائے.ہانس کنگ نے بھی مغربی محققین کی اس غلطی کا اپنی کتاب میں اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے کہ آیا قرآن اللہ کا کلام ہے یا نہیں، اعتراف کیا ہے : "صرف عیسائی محققین نے ہی نہیں بلکہ بعد میں لا دینی ذہنیت کے مالک مغربی دینی علماء نے بھی بغیر سوچے سمجھے قرآن کو کلام الہی ہونے کی بجائے اسے محمد کا کلام سمجھ کر اس کا مطالعہ کیا".(Christianity & the World Religions, page 29) بلکہ واٹ بھی خود اپنی کتاب میں مغربی مستشرقین کی اسلام پر غیر متوازن تنقید پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے "اگر چہ انہوں (مستشرقین ) نے جو کچھ کہا سچ کہا وہ اسلام پر اپنی تنقید جس سے بطور مذہب اسلام کی اقدار اور کارناموں کی مثبت تحسین نظر آتی ، اس میں توازن پیدا کرنے میں ناکام رہے.اس لئے یہ ہر گز باعث تعجب نہیں کہ مسلمان مستشرقین سے عناد ر کھنے لگے ".(Muslim-Christian Encounters, page 115) مغرب کے اونچے طبقہ کا پس منظر ابھی تک جو دلائل پیش کئے گئے ہیں وہ کسی نہ کسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور تاریخی حقائق کے ذریعہ دانستہ یا بعض صورتوں میں نا دانستہ طور پر، ہماری توجہ اس زمانہ کے "رشدیوں " کی موجودہ نسل کی افزائش کی طرف مبذول کراتے ہیں.86

Page 87

صورت حال کا دوبارہ جائزہ لیتے ہوئے ہم ہندوستان کو جاتے ہیں جس وقت آخری صدی کا اختتام ہو رہا تھا.ویسٹرن کولونیلزم کی موجودگی ، آزاد خیالی کا اثر ، اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے دینی فکر کی تشکیل نو ، جس کی پشت پناہی مغربی طاقتوں کے در پردہ عیسائی مشنری تحریک کر رہی تھی، ایک بڑی تعداد میں مسلمان اسلام سے نکل کر عیسائیت میں داخل ہو گئے.خیر کچھ بھی ہو، اور بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے اسلام سے عیسائیت تک کی حدود تو پار نہ کیں ،مگر جب وہ اپنے تہذیبی ماحول سے غیر مطمئن ہو گئے تو انہوں نے اس سے مقابلہ کرنے کی ٹھان لی.وہ نسلی، لسانی اور طبقاتی ماحول میں رہنا پسند نہ کرتے تھے، وہ اپنی ہی تہذیب پر شرمندگی محسوس کرنے لگے.ان میں احساس کمتری پیدا ہو گیا.وہ مسلمان صرف نام کے تھے اور اس بات پر ہی ان کا تعلق اسلام کے ساتھ ختم ہو جاتا تھا.ان کی سوچ اور نقطہ نظر کلی طور پر مغربی تھے.ان کی سب سے بڑی آرزویہ تھی کہ مغربی طرز زندگی میں وہ کسی بھی طرح قبول کر لئے جائیں.تو یہ تھا مغرب سے تعلیم یافتہ لوگوں کا نیا طبقہ جن میں سے اکثر نے اسلامی عالمی نقطہ نظر سے اتفاق نہ کیا.یہ تھے نام نہاد مغرب کے اونچے طبقہ والے جن سے سلمان رشدی کے خاندان کا تعلق تھا.87

Page 88

88

Page 89

باب دہم سلمان رشدی کی مختصر سوانح احمد سلمان رشدی کی پیدائش آزادی ہند سے دو ماہ قبل ممبئی شہر میں جون 1947ء کو ہوئی، جس کے بعد ایک الگ مملکت پاکستان نے جنم لیا.اس کا دادا خالقی دہلوی ایک ڈاکٹر اور پرانی دلی میں کامیاب بزنس مین تھا.وہ اردو کا غیر اہم مضمون نویس اور شعراء کا سر پرست تھا.دہلوی نے اپنا نام بدل کر رشدی رکھ لیا جو عرب فلاسفر ابن رشد کے نام پر تھا جس کا وہ مداح تھا.شاید اس نام میں ایک پیش گوئی مضمر تھی کیونکہ ابن رشد سلمان کے اپنے الفاظ میں قدامت پسندی کے ساتھ قدم چلا کر نہ چلتا تھا.(Waterstone's Magazine, Autumn, 1995, page 7) سلمان رشدی کا نانا عطاء اللہ اور نانی امیر بٹ کشمیری مسلمان تھے.سلمان اپنے باپ انیس کے بارہ میں لکھتا ہے : " ایک المناک شخصیت، امیر آدمی کی اکلوتی نرینہ اولاد، اس نے اپنی زندگی دولت گنوادینے میں ضائع کر دی" (Waterstone Magazine, page 7) سلمان کی پرورش ممبئی شہر میں برطانوی ماحول ، برطانیہ پر مرکوز طریقہ ہائے زندگی میں ہوئی.اپنے گورے چٹے رنگ کی وجہ سے وہ اپنے ہم وطنوں کو سفید فام لگتا تھا.فلپ ہاورڈ (P.Howard) دی ٹائمنر اخبار کے ادبی ایڈیٹر کے الفاظ میں وہ "غلط رنگ والا ، غلط مذہب والا ، غلط طبقہ والا ، غلط ملک کا شہری تھا" (The Times, London, 15 February 1989) جب سلمان رشدی تیرہ برس کا تھا تو اس کے باپ نے اس کو رنگی ، انگلستان اعلیٰ تعلیم کیلئے روانہ کیا.وہاں اسے مخفی نسلی برتاؤ کا پہلی بار سامنا کرنا پڑا اور اسے جلد ہی احساس ہو گیا کہ اسے انسان کی بجائے انڈین کی نظر سے زیادہ دیکھا جاتا تھا.تعلیم ختم کرنے پر اس نے اپنے والدین 89

Page 90

سے بھارت واپس آنیکی التجا کی مگر اس دوران اس نے کیمبرج میں ایک نمائش میں انعام حاصل کیا تھا، اس کے والدین نے اسے مجبور کیا کہ وہ کیمبرج جائے جہاں اسے کچھ کامیابی حاصل ہوئی تھی.اس نے تاریخ کا مطالعہ کیا خصوصاً ایسی کتب کا جن پر اسلامی دنیا میں پابندی لگائی گئی تھی.برطانیہ میں اس کی اینگلو انڈین بے جانخوت اور قدامت پسندی ختم ہوگئی اور وہ انتہا پسند بن گیا.کیمبرج سے وہ پاکستان لوٹ گیا جہاں اس کے والدین نقل مکانی کر چکے تھے.اسے پاکستان کے نئے قائم شدہ ٹیلی ویژن محکمہ میں ملازمت مل گئی لیکن اپنے منہ پھٹ ہونے اور غیر قدامت پسندانہ خیالات کی وجہ سے اسے سیاسی مخالفت اور مذہبی تعصب کا سامنا کرنا پڑا.اس وجہ سے اس کا اسلام سے اختلاف اور نفرت زیادہ بڑھ گئی جس کا سہرا وہ اپنے والدین کے سر باندھتا ہے، جیسا کہ رشدی خود کہتا ہے : " یہ بات کہ میری پرورش مذہب سے آزاد گھرانے میں ہوئی یہ میرے والدین کا سب سے بڑا تحفہ تھا" (Waterstone's Magazine, page 7) پاکستان سے خوف زدہ اور بددل ہو کر وہ برطانیہ واپس آگیا اور اشتہارات کا کاپی رائٹر بن کر بمشکل تمام گزارہ کرنے لگا.بچے کھچے وقت میں حقیقی قلم کاری میں وقت صرف کرنے لگا.اس کی پہلی شادی برطانوی لڑکی کلاریسالو آرڈ (Clarissa Luard) سے ہوئی جس کے بطن سے اسکا بیٹا ظفر پیدا ہوا ، جو اس وقت تمہیں سال کے لگ بھگ ہے.بعد میں اس نے اس کو طلاق دے کر ایک امریکن ناول نویس میری این و گنز ( Marianne Wiggins) سے شادی کر لی جس سے اس کی علیحدگی ہو گئی.پھر اس نے 1990ء میں الیز بیتھ ویسٹ (Elizabeth West) سے شادی کی جس سے اس کا بیٹا ملن پیدا ہوا.اس کی چوتھی شادی اپریل 2004ء میں ہندو ایکٹریس پر مالکشمی سے ہوئی جو بتیس سال کی تھی جبکہ وہ چھپن سال کا تھا.اس کے باپ کا انتقال 1987ء میں ہوا، جو اپنے بیٹے کی قسمت کا حال جاننے سے محروم رہا.اس کی ماں نگین پاکستان میں رہتی ہے.اس کی تین چھوٹی بہنیں ہیں ہمشین ، نروید اور نبیلہ.90

Page 91

باب گیارہ رشدی ، عفریت کا جنم معلوم قبل اس کے کہ میں اسٹینک ورسز پر حقیقت پسندی کے ساتھ نظر ڈالوں ، مناسب مع ہوتا ہے کہ سلمان رشدی کی گذشتہ کتابوں پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تا اس کی ادبی طرز تحریر، اس کی طرزفکر اور اور اس کے دماغ پر مسلط خبط کا تجزیہ کیا جاسکے جس نے اس کو رسوائے زمانہ ناول لکھنے پر مجبور کر دیا.اس کی طرز تحریر کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ الجھی ہوئی اور پراگندہ قسم کی ہے.اس کے خیالات زیادہ تر مذہبی اور سیاسی ہیں، اور اس کے دماغ پر مسلط جنسی قسم کے خبط زیادہ مسلط ہیں جن میں مخش قسم کی گھٹیا بازاری زبان استعمال کی گئی ہے.رشدی کے ناولوں سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے تصورات ایسے بے لگام ہیں، جن کی کوئی حد نہیں اور ان میں موجود بے لگامی مغربی قارئین کو متوجہ کرتی ہے جو غیر معمولی اور ہیجانی کیفیت کو پسند کرتے ، اور اگر معمولی معمولی وقفے کے بعد اس میں سیکس اور ہوس پرستی کو شامل کر دیا جائے تو پھر مغربی قاری اس پر لٹو ہو جاتا ہے.یہ اس دور کا بہت بڑا المیہ ہے کہ مغرب پر ہر قسم کی سیکس کا جادو چھایا ہوا ہے، جتنا زیادہ یہ نیم وحشی ہوگا اتنا ہی اچھا ہے.رشدی کے ناول پڑھ کر قاری محسوس کرتا ہے کہ یہ اشاروں کنایوں اور معموں سے بھرے ہوئے ہیں.ان پر معمولی سا غور کرنے سے انسان یہ جان لیتا ہے کہ ان کا لکھنے والا گمراہ کن اور اشتہا پسند دماغ کا مالک ہے جو شرافت کی حدود بار بار بڑی بے شرمی اور بے حیائی کے ساتھ پھلانگ جاتا ہے.اس کے ناول پڑھ کر اس کے مذہب، سیاست اور سیکس کے بارہ میں خیالات معلوم ہو جاتے ہیں.اس کی پوشیدہ گستاخی اور ہیجانی خوف ابھر کر سطح آب پر آجاتی ہے..سٹینک ورسز سے قبل کی تصنیفات در حقیقت ایک قسم کا عذر اور بعد میں آنیوالی رسوائے زمانہ کتاب کا 91

Page 92

معذرت نامہ ہیں.جب میں اس کی گزشتہ تصنیفات کا مختصر جائزہ سلسلہ وار پیش کروں گا تو یہ بات جلد ہی نمایاں اور واضح ہوکر سامنے آجائیگی.گریمس Grimus گریمس ارشدی کا سب سے پہلا ناول تھا جو اس نے 1975ء میں لکھا تھا.کس کو خبر تھی کہ اس کے ان ابتدائی الفاظ کی اشاعت کے ساتھ جن سے اس کی ادبی زندگی کی ابتدا ہوئی ، وہی اس کے کچھ سال کے بعد اس کی شخصیت کا عجیب اور پر اسرار رنگ میں پر تو ثابت ہوں گے.اس ناول کے پہلے باب کے ابتدائی الفاظ پر غور فرمائیں : "مسٹر ورجل جونز ، جس کے کوئی دوست احباب نہ تھے اور جس کی زبان اس کے منہ کے حساب سے بہت لمبی تھی." اس حوالہ کے حساب سے مسٹرور جل جونز بذات خود سلمان رشدی بھی کچھ سالوں بعد ہوسکتا تھا.گریمس ، ناول در اصل فکشن کا ناول تھا جس کو رشدی نے 'الف لیلۃ ولیلۃ' کی طرز پر لکھنے کی کوشش کی ہے.اس میں اس نے صوفیاء کے تصوف کو استعمال کیا تا کہ ناول ذرا " نشاط انگیز ، تصورات سے بھر پور، عجب رنگ کی صداؤں سے لدا ہوا " بن جائے.تصوف نے مغربی قارئین کو ہمیشہ ہی ورطہ حیرت میں ڈالے رکھا ہے اس لئے رشدی نے اپنے کیرئیر کے آغاز میں ان کی توجہ کا مرکز بن کر غیر معمولی طور پر اپنا لوہا منوالیا.کچھ بھی ہو " گریمس " کا لوگوں نے زیادہ نوٹس نہ لیا ، یہ پراگندہ قسم کا ناول تھا جس میں کوئی تسلسل، ربط نہ تھا، اس کا کوئی ادبی طرز تحریر نہ تھا لیکن ایک بات جو کھل کر سامنے آگئی وہ یہ تھی کہ رشدی پر سیکس کا خبط سوار تھا، نیز اس کا نخش ، بازاری سٹائیل جو اس نے اپنی تحریر میں استعمال کیا جس سے مغربی قاری اس کا قائل ہو گیا.مثال کے طور پر : " میں شہر میں ایک دفعہ یوں بھا گا کہ میری سیکس باہر لٹک رہی تھی پھر میں نے جبکہ میری پتلون گری ہوئی تھی عورتوں کے چہروں پر ہوا خارج کی." (239 Grimus, page) گہرے غور و فکر کے بعد انسان کو احساس ہوتا ہے کہ سٹینک ورسز ایک قسم کا گریمس ناول کا شاندار چربہ تھا.دونوں کتابوں میں مشابہت حیران کن ہے.مصنف دونوں کتابوں میں تصوف کا سفر جاری رکھتے ہوئے وقت کی حدود کو حال سے ماضی میں پھلانگ جاتا ہے، یا اس کا الٹا یعنی ماضی 92

Page 93

صلى الله سے حال.گریمس کو کتاب کے دو معین حصوں میں بیان کیا گیا ہے ، یعنی حال کا وقت اور ماضی کا وقت.جبکہ سٹینک ورسز میں وہ وقت کی حدود کو زیادہ تواتر سے پھلانگتا ہے تا کہ قاری کو الجھا سکے.گریمس میں رشدی نے تاریخی ہستیوں کو بڑے شاطرانہ طور پر چھپا لیا ہے خاص طور پر اسلام کی بزرگ ہستیاں.کتاب کے دوسرے حصے Times Past میں K سے مراد لازمی طور کعبہ ہی ہے یا شاید قرآن.ایک آدمی کا بیان جس کو وہ سٹون کا نام دیتا ہے اس سے مراد لا ز ما نبی پاک و ہی ہیں.اس نے مسلمانوں کا اپنے مذہب کی اندھی تقلید پر نیز اس پر کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار آزادانہ طور پر نہیں کر سکتے تمسخر اڑایا ہے.مثلا کتاب کے ٹائیٹل کے اندر کے صفحہ پر لکھا ہے : " تم " کے "K شہر پہنچو گے جہاں ایسے انسان ہیں جن کی آنکھوں پر دبیز پر دے اور جو عجیب قسم کے شہری ہیں ، جو خود کو اندھیرے میں رکھ کر اپنے اور اپنے جزیرے کے بارہ میں نا قابل قبول سچائیوں کو قبول کرتے ہیں." حتی کہ خدا کے تصور کا بھی تمسخر کیا گیا ہے ، امر واقعہ یہ ہے کہ گریمس سے مراد خدا بذات خود ہے بمقابلہ دی گرم ریپر کے (The Grim Reaper ).رشدی نے بڑی ہوشیاری اور عیاری کے ساتھ قرآن پاک کی سورۃ الرحمن کے طرز کی نقل کی ہے جہاں اللہ کی مہربانیوں کے انکار کا ذکر آیا ہے: " یقینا گریمس نے بڑے تحمل سے کہا، میرا تمہیں اپنے عظیم الشان تخلیق کے مطابق مکمل طور پر دوبارہ بنانے سے گویا صرف مٹی بن گئے...کیا تم انکار کرتے ہو کہ تمہیں اپنا مہبط بنا کر میں نے تمہاری آئندہ زندگی کو صورت دی...کیا تم انکار کرتے ہو کہ میں نے تمہیں کا ئنات میں صدیوں تک کیلئے گھومنے پھرنے کی اجازت دینے کی بجائے تمہیں یہاں لا کر میں نے وہ انسان بنایا جو الجھا ہوا، اور گرگٹ کی طرح صورت حال کے مطابق رنگ بدل لیتا ہے...کیا تم انکار کرتے ہو ؟ کیا تم انکار کرتے ہو؟ ( پھر اس نے اپنی آواز دھیمی کرتے ہوئے کہا): اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا تم انکار کرو گے؟ "(صفحہ 294-293) ذرا غور فرمائیں کہ رشدی نے کس طرح قرآن پاک کے طریق بیان کو فرضی خدا، گریمس اور اس کے ایک کردار کے درمیان گفتگو میں استعمال کیا ہے.قرآن پاک کی متعلقہ آیات درج ذیل ہیں : اَلرَّحْمَنُ - عَلَّمَ الْقُرْآنَ - خَلَقَ الْإِنْسَانَ - عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (سورة الرحمن -5-55:2) 93

Page 94

ترجمہ: بے انتہا رحم کر نیوالا ، اور بن مانگے دینے والا ، اس نے قرآن کی تعلیم دی، انسان کو پیدا کیا، اسے بیان سکھایا.فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بْنِ (آیت 14) پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے؟.خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ.( آیت 15 ) اس نے انسان کو مٹی کے پکائے ہوئے برتن کی طرح خشک کھنکتی ہوئی مٹی سے تخلیق کیا.فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِبَنِ ( آیت 17 ) پس تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے؟ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ الرحمن کے نفس مضمون پر یہاں روشنی ڈالی جائے ، جو کہ قرآن پاک کی 55 ویں سورۃ ہے، یہ اس لئے کہ رشدی نے اس کی بعض آیات کو چوری چھپے اپنی تمام کتابوں میں نقل کیا ہے تا کہ وہ مذہب اسلام اور اس کے عقائد کا تمسخر جاری رکھ سکے.سورۃ الرحمن میں اسلام کے بنیادی عقائد پر روشنی ڈالی گئی ہے یعنی خدائی صفات، بالخصوص خدا کی وحدانیت ، روز محشر اور وحی.یہ خدا کے ان انعامات کا اعادہ کرتی ہے جو خدا نے انسان کو عطا کئے ہیں.ہماری زمین اپنی تمام بیش بہا چیزوں کیساتھ ، گہرے سمندر اور اونچے پہاڑ انسان کیلئے ہی تخلیق کئے گئے تھے.لیکن خدا کی اس عظیم الشان تخلیق اور اس کے انعامات کو رشدی نے اپنی کتاب میں بڑی نخوت اور بد باطنی کے ساتھ جھٹک دیا ہے : " اپنے پر پھڑ پھڑانے والا عقاب وہاں موجود تھا جو اس کمرے میں سے ہو کر آیا تھا جہاں اونچی جگہ پر اشیاء پردے کے پیچھے پڑی تھیں، وہ تعجب کر رہا تھا کہ گریمس کے متعلق کیا چیز اچنبھے تھی.اس کو سمجھ آئی کہ یہ نام نہاد عظیم الشان تخلیق در اصل بچگانہ ہے.جو ہر نصف تیار شدہ وہم کا کمال تھا، پھر عجیب و غریب قسم کی رسومات جو اس نے خود کو لطف دینے کیلئے بنائی تھیں جن میں سے ایک ارقص ا تھا." (صفحہ 294) رشدی نے اس موضوع پر بڑی چرب زبانی کے ساتھ اظہار خیال کیا ہے.وہ جنت اور جہنم کے موضوع پر اس سلسلہ کلام کو جاری رکھتا ہے.سورۃ الرحمن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے انسان کو دانش مندانہ اور امتیاز کرنے والی صفات سے نوازا تا وہ غلط اور صحیح امور میں تفریق کر کے نیک راہوں پر گامزن ہو سکے.لیکن یہ سورۃ انسان کو اس امر پر بھی متنبہ کرتی ہے کہ انسان اپنی گستاخی اور خود فریبی کی وجہ سے خدائی قوانین کو نظر انداز کرنا یا توڑ نا چاہتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ اپنے اوپر سز اواجب کر لیتا ہے.94

Page 95

لیکن اس کے بر عکس یہ سورۃ یہ بھی کہتی ہے کہ جس طرح خدائی سزا جو مجرموں اور گنہگاروں کو دی جائیگی وہ بہت خوفناک ہوگی لیکن خدا کے انعامات جو نیک لوگوں پر نازل کئے جائیں گے وہ بھی نا قابل حساب ہوں گے : يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارِهِ وَنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرانِ (آیت 36).ترجمہ تم دونوں پر آگ کے شعلے برسائے جائیں گے اور ایک طرح کا دھواں بھی ، پس تم دونوں بدلہ نہ لے سکو گے.فَإِذَا انْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِ (آیت:38) پس جب آسمان پھٹ جائیگا اور رنگے ہوئے چمڑے کی طرح سرخ ہو جائیگا.وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتن (آیت 47) جو بھی اپنے رب کے مقام سے اترتا ہے اس کیلئے دو جنتیں ہیں.فِيهِنَّ قصِرتُ الطَّرْفِ لا لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَ لَا جَانُ ( آیت 57) ان میں نظریں جھکائے رکھنے والی دوشیزائیں ہیں جنہیں ان سے پہلے جن وانس میں سے کسی نے مس نہیں کیا.فَبِاتِ الْآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بْنِ (آیت 58) پس تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے؟ جس طرح قرآن سزا اور ثواب کے موضوع پر روشنی ڈالتا ہے، اسی طرح رشدی حد سے زیادہ تصوراتی مگر نہایت بے جس طرز تحریر اپنے قاری کو لطف اندوز کرنے کیلئے استعمال میں لاتا ہے.سزا سے متعلق وہ کہتا ہے : " گریمس ، بم سے ملحق بچہ یا پھر خفیہ بموں کا اسلحہ، ستون کے پائے پر " (صفحہ 294) ثواب کی وہ یوں وضاحت کرتا ہے : "رقص کا دوسراحصہ، گریمس نے طعنہ دیتے ہوئے کہا، گھونگھٹ کا رقص ہے جس میں وہ کچھ دکھلایا جاتا ہے جو بہت ہی پر لطف ہے." (صفحہ 294) رشدی اسی موضوع کو اپنی دیگر کتابوں مڈنائٹس چلڈرن Midnight's) Children اور تیم (Shame) میں جاری رکھتا ہے جس پر بحث آگے چل کر کتاب میں کی جائے گی.ایسے اور ملتے جلتے مزید واقعات تلاش کئے جاسکتے ہیں.اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اور اس کے پاک پیغمبر کے خلاف نفرت تمسخر اور تو ہین کے بیج اسکی پہلی کتاب میں بوئے گئے تھے.مگر پہلی کتاب کے شائع ہونے تک سلمان رشدی گمنام تھا اور اس نے ادبی حلقوں میں کوئی نام پیدا نہ کیا تھا.خیر کچھ بھی ہو، ان لوگوں نے جنہوں نے اس کے اندر قابل اعتبار خواص اور اجزائے ترکیبی بھانپ لئے ، وہ اپنے مستقبل کے ساتھی مجرم کا اس وقت تک انتظار کر لینے کو تیار تھے جب تک کہ وہ والہانہ خوبیوں سے لیس نہ ہو جائے.95

Page 96

ٹڈ نائٹس چلڈرن Midnight's Children ٹڈ نائٹس چلڈرن رشدی کا دوسرا ناول تھا جو اس نے 1981ء میں قلم بند کیا.اس کے شائع ہونے پر اس کو متعد دادبی ایوارڈ دئے گئے، بشمول فکشن کیلئے بوکر پرائز Booker) (McConnel Prize.یہ بات شاید کرشمے سے کم نہیں کہ صرف دو مرحلوں میں ایک مصنف جس کی اس سے پہلے کوئی شہرت نہ تھی راتوں رات اچانک بوکر پرائز کا حق دار بن گیا، جبکہ اس نے اس سے پہلے صرف ایک کتاب لکھی تھی.لیکن بلا شبہ یہ ایک کرشمہ ہی تھا، اور شاید یہ چند خفیہ طاقتوں کے طویل المیعاد منصوبے کا حصہ اور عذر تھا کہ وہ اپنے خفیہ ہتھیار کی شہرت کو عروج تک پہنچائیں اور بعد میں اس کو شک نہ کر نیوالی اسلامی دنیا پر اسلحہ کے طور پر استعمال کریں.کتاب کے بیرونی صفحہ کی اندرونی طرف لکھا ہے کہ یہ ناول سلیم سینائی کے متعلق ہے : جو 1001 بچوں میں سے ہے جو آدھی رات کو اس وقت پیدا ہوئے ، ان میں سے ہر ایک کو خاص الخواص قابلیت عطا کی گئی تھی، اور جس کا فائدہ اور ساتھ ہی لعنت یہ تھی کہ وہ اپنے دور کے آقا بھی تھے اور آفت رسیدہ بھی ".کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ یہی بات سلمان رشدی پر لاگو ہو سکتی ہے؟ فکشن کے بارہ میں اس کی 'خاص الخواص قابلیت' نے اس کو اپنے پیشے کا ماہر ہونے کی بناء پر انعامات سے نوازا جن میں سے ایک فکشن کا بو کر پرائز تھا.اس کے بعد کی اس کی کتاب یعنی ادی سٹینک ورسز 'The Stanic Verses اس کے لئے لعنت ثابت ہوئی اور بلاشبہ وہ اپنے دور کا آفت رسیدہ بن گیا.کچھ بھی ہو یہ کہہ دینا بھی ضروری ہے کہ یہ لعنت اس کی کرتوتوں کی بناء پر تھی.وہ اپنی قسمت کا خود مالک تھا.قرآن پاک کی آیت سلمان رشدی کی قسمت پر چسپاں ہوتی ہے: فَأَصَابَهُمْ سَيِّاتُ مَا عَمِلُوْا وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ وْنَ (سورة الحل - 16:35) پس انہیں ان کے اعمال کی برائیاں پہنچیں اور انہیں اس نے گھیر لیا جس کے ساتھ وہ تمسخر کیا کرتے تھے.یہ آیت اس حقیقت کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتی ہے کہ برے فعل کی سزا کچھ اس سے زیادہ نہیں ہوتی بلکہ برے فعل کا لازمی نتیجہ اور اس کے ہم مقدار ہوتی ہے.میہ رب العالمین کی شان ہے کہ وہ ایک انسان کی قسمت بالکل اسی طرح کر دیتا ہے جیسا کہ 96

Page 97

اس نے اپنے زوال میں خود حصہ لیا ہو ، یوں وہ نادانستہ طور پر اپنے لئے سزا کی پیش گوئی کر لیتا ہے.یہی چیز سلمان رشدی کے ساتھ ہوئی جس نے اپنی اول الذکر کتابوں میں بے خبری سے اپنے زوال کی پیش گوئی لفظ بہ لفظ کی تھی.یہ چیز وقت آنے پر قاری پر بخوبی ظاہر ہو جائیگی.Midnight's Children کہنے کو تو بچوں کی فکشن کی کتاب ہے (اسی لئے اسے فکشن کا ادبی ایوارڈ دیا گیا ، لیکن رشدی نے مڈ نائٹس چلڈرن کی کہانی کو ان تاریخی واقعات کے پس منظر میں استعمال کیا ہے جن کا تعلق ہندوستان میں برطانوی سلطنت کے اختتام، نیز تقسیم ہند اور پاکستان کی نئی مملکت کے قیام سے ہے.کتاب میں تاریخی شخصیتوں کے اصل نام استعمال کئے گئے ہیں جیسے گاندھی ، جناح، ماؤنٹ بیٹن، نہرو وغیرہ.رشدی کا نقطہ نظر اور خیالات کتاب میں صاف صاف طور پر بیان کئے گئے ہیں، اس نے انگریزوں کا شکر یہ متعدد بار ادا کیا ہے ( وہ کم از کم اتنا تو کر سکتا تھا کیونکہ آرٹس کونسل آف گریٹ برٹن نے اس کو ادبی وظیفہ اور مالی امداد اس کی تمام کتابوں کیلئے دی تھی ).مثال کے طور پر ایک انگریز William Methwold کہیں سے نمودار ہو جاتا ہے، جو کہ کتاب کا مرکزی کردار ہے اور بڑے تحقیرانہ انداز میں کہتا ہے : " کئی سوسالوں کی فلاحی حکومت ، جو یک لخت ہوا میں تحلیل ہو گئی.تم اس امر سے اتفاق کرو گے کہ ہم لوگ اتنے برے بھی نہیں تھے : ہم نے سڑکیں تعمیر کیں ، سکول بنائے ، ریل گاڑیاں، پارلیمنٹری نظام، تمام کام کی چیزیں.تاج محل بوسیدہ ہو کر زمین بوس ہو رہا تھا تا وقتیکہ ایک انگریز نے اس کی حفاظت کا سوچا.اور پھر اب اچانک آزادی".(صفحات 96-95) کتاب پر عمیق نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رشدی کا بچپن کیسے گزرا، اس پر کن لوگوں نے اثر کیا، اس کی بنیادی تربیت، اس کی ادنی خواہشات اور اس کا مذہب کے بارہ میں تحقیرانہ رویہ.وہ ایک کمزور غذر پیش کرتا ہے کہ اس نے اور اس جیسے افراد نے مغربی طرز معاشرت کے سامنے گھٹنے کیوں ٹیک دئے: "ہندوستان میں ہم لوگ ہمیشہ یوروپین لوگوں سے متاثر رہے ہیں" (صفحہ 182) اس کے بچپن پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب کی توہین کرنا اوائل عمر سے ہی اس کی گھٹی میں پڑ گیا تھا.مذہب کو وہ سر درد اور اس پر عمل کرنا کڑوی دوا کے طور پر پینا سمجھتا تھا: "ہمارے خاندان میں ہم لوگ زیادہ نمازیں ادا نہ کرتے تھے ماسواعید الفطر کے جب میرے والد 97

Page 98

مجھے جامع مسجد عید کا تہوار منانے کیلئے لے جاتے جس کا مقصد سر پر رومال باندھ لینا اور زمین سے اپنا ماتھا ٹیکنا تھا ".(صفحہ 178) نماز جو کہ ایک مسلمان کے ایمان کا بنیادی حصہ ہے، اس کا مذاق اڑایا گیا اور اسے ایک طور سے سزا کہا گیا ہے.رشدی تقسیم ہند پر کفِ افسوس ملتا تھا اسے بھارت چھوڑ کر پاکستان آنا پڑا کیونکہ وہ مسلمان تھا اگر چہ نام کا سہی مگر تھا تو مسلمان." میں اس بات سے انکار نہیں کرتا میں نے کراچی کو بھی معاف نہیں کیا کہ وہ بمبئی نہ تھا".(صفحہ 299) اسے ہندوستان کی آزادی بہت پسند تھی جہاں اس پر کوئی خاصی پابندی نہ تھی کہ وہ اسلامی آداب معاشرت کے مطابق زندگی گزارے.لیکن پاکستان جو کہ مذہب کی بنیاد پر اور اس کے عملی اظہار کیلئے بنایا گیا تھا.یہاں اس پر پریشر بہت زیادہ تھا کہ وہ اسلامی فرائض بجالائے.اسے اس بات پر شروع ہی سے تاسف رہا.اس کی پاکستان اور اسلام کے خلاف گہری نفرت جلد ہی ظاہر ہو جاتی ہے : " پاکستان کے سن بلوغت کے آغاز سے ہی میں نے دنیا کی خوشبوؤں کا اندازہ لگا لیا، شدید مگر بھاری بھر کم جلد ہی غائب ہو جانیوالا عشق، اور گہری مگر دیر پا جگر خراش نفرت ".رشدی استہزاء کے ساتھ کہتا ہے کہ کبھی بھی 'پاک سرزمین اسے اُس کا مزاج نہ مل سکے گا کیونکہ اس پر بمبئی کی مستقل چھاپ لگ چکی تھی ، اس کے دماغ میں اللہ کے مذہب کے سوا دوسرے ہر قسم کے مذاہب تھے اور یہ کہ اس کا جسم پالیدگی کی طرف فطری رغبت رکھتا تھا ، اس کی قسمت میں لکھا جا چکا تھا کہ وہ ناموزوں شخص ہی رہے گا ".(صفحہ 301) جس چیز کا اس کو اس وقت احساس نہ تھا وہ یہ تھا کہ وہ پوری دنیا کے سامنے کچھ ہی سالوں میں نامراد اور ناموزوں شخص بن کر کئی سال تک لوگوں سے چھپتا پھرے گا.رشدی نیکی اور بدی کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے اور مسلمہ طور پر گستاخانہ رنگ میں بدی کو ترجیح دیتا ہے : " مقدس : نقاب والا پردہ، حلال گوشت، مؤذن کیلئے مینار، جائے نماز.غیر مقدس : ویسٹرن ریکارڈ ز سور کا گوشت، شراب.مجھے اب سمجھ آگئی کہ عید الفطر سے ایک رات قبل ملا (مقدس) کیوں جہاز (غیر مقدس) پر سفر کرنے سے ہچکچاتا تھا تاوہ نئے چاند کو ضرور دیکھ سکے، بلکہ ایسی سواریوں پر بھی سوار ہونے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا جن کی خفیہ خوشبو غیر روحانیت کا تو ڑتھی.مجھے اسلام اور سوشلزم میں بد بوؤں کا 98

Page 99

نا موافق ہونا سمجھ آ گیا.لیکن اس سے زیادہ مجھ پر ایک مہیب حقیقت عیاں ہوگئی یعنی مقدس یا اچھائی سے مجھے کوئی دلچسپی نہ تھی."(صفحہ 308) رشدی پر سیکس کا خبط سوار ہو گیا جب اس نے طوائفوں کے یہاں جانا شروع کیا: "میں نے جنسی گندگی اور شہوت کو معلوم کرنا چاہا.(میرے پاس پیسے خرچ کرنے کو تھے، میرا باپ نہ صرف در یادل بلکہ پیار کر نیوالا بن گیا تھا ".(صفحہ 309) لیکن اس ضمن میں سب سے زیادہ چونکا دینے والا بیان وہ مسلمانوں کی مزعومہ منافقت کے خلاف دیتا ہے : " ایسا شہر جو اپنی عورتوں کو مقفل دروازوں کے پیچھے چھپائے رکھتا ہو وہاں طوائفوں کی کمی نہیں ہوتی."(صفحہ 309) اس کا اشاروں میں کہنا کہ اسلام میں پردہ سے متعلق سخت قوانین کے باعث وہاں طوائفوں کی مانگ بہت زیادہ ہوتی ہوگی کیونکہ مردوں کی دبی ہوئی خواہشات کو کسی نہ کسی طریق سے پورا کیا جانا مطلوب ہوتا ہے.شہوت کے پرستار کا یہ بیان کس قدر غیر یقینی اور غیر معتبر ہے.سلمان رشدی نے اسلامی رسومات اور طریقوں میں کئی اور باتوں کو اچھال کر ان پر استہزاء کے رنگ میں کیچڑ اچھالا ہے.اسلام میں شہادت کے نظریہ اور جنت میں اس کے عوض ثواب بھی اس کے زہر یلے قلم کی زد سے بچ نہیں سکا.ایک بار پھر وہ سورۃ الرحمن کا حوالہ دیتا ہے: II شہید، پدما ، ہیروز ، جو خوشبو والی بہشت کیلئے روانہ ہونے والا تھا ، جہاں مردوں کو چار دلگداز حور میں دی جائیں گی ، ان کو جن اور انسان نے چھوا نہ ہوگا ، اور عورتوں کیلئے چار مردانگی طاقت والے مرد." پھر تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا انکار کرو گے "؟ جہاد بھی کیا چیز ہے، جس میں مرد لوگ ایک عظیم قربانی سے اپنے تمام گناہوں کا کفارہ ادا کر سکتے ہیں."(صفحہ 329) اس کی تحریر میں چھتے ہوئے طنز اور مسخرانہ پچھیتی کو غور سے نوٹ کریں.لڑائی میں شہادت کا موضوع اور نیک لوگوں کو جنت میں خوبصورت ساتھیوں کا دیا جانا جن کا وعدہ قرآن پاک میں کیا گیا.یہ مغربی ناقدین کیلئے ہمیشہ طنز اور مذاق ہی بنا رہا ہے.رشدی بھی اس سے مستثنیٰ نہیں کہ وہ ان مسخروں کی ٹیم میں شامل ہو جائے.لیکن رشدی ایک قدم اور آگے بڑھ جاتا ہے جب وہ اپنی طرف سے تخیلاتی کردار شامل کر لیتا ہے.قرآن پاک کی آیات : فِيْهِنَّ خَيْرَاتٌ حِسَانٌ فَبِأَيِّ الْاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبْنِ حُوْرٌ مَّقْصُورت فِى الْخِيَامِ فَبِأَيِّ الْآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بْنِ - لَمْ يَطْمِثْهُنَّ 99

Page 100

إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَآن - (سورة الرحمن - 75-55:71) ترجمہ: ان میں بہت نیک خصال دوشیزائیں ہیں.پس (اے جن وانس ) تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے؟ محلات جیسے مکانوں میں جو اینٹ پتھر کے نہیں ٹھہرائی ہوئی حوریں ہیں.پس (اے جن وانس ) تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے؟ انہیں ان ( جنتیوں ) سے پہلے جن وانس میں سے کس نے مس نہیں کیا ہوگا.رشدی اس نفس مضمون کو نہایت بے غیرتی کے ساتھ استعمال میں لاتے ہوئے کہتا ہے : اور عورتیں ، ان کیلئے چار مردانگی طاقت والے مرد ".اس کا مقصد یقیناً قاری کے اندر نفسانی خواہش کو ابھارنا، نیز نیک لوگوں کی پارسائی اور بزرگی کوٹھیس پہنچاتا ہے جن کو اخروی زندگی میں نیک ساتھیوں کا وعدہ دیا گیا ہے.لیکن اس کے علاوہ سب سے زیادہ خباثت والی زبان آنحضور علی کی ذات مبارک کے خلاف استعمال کی گئی ہے ، بلکہ رشدی اتنا دیدہ دلیر ہے کہ وہ اپنا مقابلہ آپ صلعم سے کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس پر بھی وحی کا نزول ہو چکا ہے جس سے وہ اپنی کتابیں صل الله ضبط تحریر میں لاتا ہے.کتاب کے ایک باب کو پورے طور پر پڑھنا لازمی ہے تا اس کے قلم میں موجود عناد اور زہر کا اندازہ لگایا جا سکے.اس باب میں اس نے وحی کے نظریہ کا حد سے زیادہ مذاق اڑایا ہے.میں یہاں صرف چند سطور کا حوالہ دوں گا تا کہ قاری کو اس کی کمینگی کا اندازہ ہو سکے : " طور سینا پر حضرت موسیٰ نے احکامات سنے، حرا کے پہاڑ پر نبی محمد ( جو Mohammed, the Last But One اور Mahound کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں) نے جبرئیل سے کلام کیا لیکن موسیٰ کی طرح اور حضرت محمد کی طرح، میں نے بھی پہاڑ پر آوازیں سنیں.جبرئیل نے محمد سے کہا: پڑھو، اس کے بعد کتاب شروع ہوئی جس کا عربی میں نام القرآن ہے.یہ حرا کے پہاڑ پر مکہ شریف کے باہر ہوا.دومنزلہ پہاڑی پر جو بر بیچ کینڈی پولز کے سامنے ہے، مجھے بھی آوازوں نے ہدایت دی کہ میں پڑھوں".(صفحات 162-161) جس طرح نبی پاک ﷺ نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ کے پاس پہلی وحی کے نزول کے بعد اپنی کیفیت بیان کی تھی اسی طرح رشدی استہزاء کے ساتھ جھوٹے الہامات کا ذکر اپنے 100

Page 101

والدین سے کرتے ہوئے کہتا ہے: "میری کھوپڑی کے اندر آوازیں مجھ سے باتیں کر رہی تھیں.امی، ابو، واقعی میں سوچتا ہوں میرے خیال میں رئیس الملوک نے میرے ساتھ کلام کرنا شروع کر دیا ہے." (صفحہ 162) تاہم نبی پاک ﷺ کے متعلق ایک حوالہ سے رشدی کے ٹھیک اور خطرناک ارادے ابھر کر سامنے آجاتے ہیں : (صفحہ 161) " محمد ( آپ پر درود اور سلام) یہاں کہتا چلوں میں کسی کو ناراض نہیں کر نا چاہتا." کیا یہ واضح طور پر طنز نہیں کہ رشدی بالکل یہی کرنا چاہتا تھا.وہ ایک خطر ناک کھیل کھیلنا چاہتا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ اپنی فطرت میں ایک عفریت بن گیا جس پر اس کا کوئی کنٹرول نہ تھا.اس نے اپنے لئے کانٹوں کا بستر اپنی ادبی زندگی کے آغاز میں ہی بنالیا تھا اور جلد ہی اس کو اس پر سونا پڑنا تھا.اس کی دھو کے بازی اور گستاخی کی بناء پر ہر کوئی اس کی قسمت کا اندازہ لگا سکتا تھا جو اس کی منتظر تھی.: " ایک شام ، ایک رات اور ایک صبح کیلئے گونگا ہونے پر میں نے یہ جاننے کی کوشش شروع کی کہ مجھے کیا ہو گیا ہے ، آخر کار ذہانت کی چادر کو میں نے اپنے اوپر گرتے دیکھا جو بیل بوٹے والی تتلی کی طرح تھی میرے کندھوں پر عظمت کا لبادہ گر رہا تھا".(صفحہ 161) اپنی ادبی قابلیت کی بناء پر رشدی نے سوچا تھا کہ وہ ہر قسم کے خیالات کا اظہار کرسکتا تھا اور ان کو دوسروں کے سر تھوپ کر اپنی ذات کو محفوظ رکھ سکتا تھا.یہ ایک قسم کی قوت ، اور طاقت کا احساس تھا جو اسے پہلے بھی نہ ہوا تھا.وہ اس میں خوب مزے لوٹ رہا تھا جیسا کہ وہ صاف صاف کہتا ہے: صبح کے ہونے تک، میں نے یہ جان لیا تھا کہ آواز میں کنٹرول کی جاسکتی ہیں، میں ایک قسم کا ریڈیو ریسیور تھا، جس کی آواز میں زیادہ یا کم کر سکتا تھا، میں خاص آوازوں کا انتخاب کر سکتا تھا، بلکہ میں ذراسی کوشش سے نئے دریافت شدہ اندرونی کان کا بٹن بند بھی کر سکتا تھا.یہ بات حیران کن تھی کہ کتنی جلدی خوف دور ہو گیا".(صفحہ 162) تو سلمان رشدی نے سوچا کہ اس نے اپنے اصلی جذبات کے اظہار کیلئے نیا راستہ تلاش کر لیا تھا.نیز فنکشن کے لبادہ میں وہ اپنا پیغام دوسروں تک پہنچا سکتا تھا.لیکن ایسا کرنے سے جو الٹا الزام اس پر لگے وہ خود کو اُن سے قبل از وقت بری الذمہ قرار دے سکتا تھا.اس طریق سے وہ مختلف 101)

Page 102

موضوعات پر جیسے مذہب اور سیاست پر اپنے نظریات کا پر چار کر سکتا تھا یا ان لوگوں کے نظریات کا جو اسے پیسے دے رہے تھے.امڈ نائیٹس چلڈرن' میں رشدی نے رشوت خور پاکستانی حکومت کے خلاف ایک سیاسی جام دینے کی کوشش کی ہے.مغرب کی خوشی کیلئے اس نے ہر اس چیز کو جو پاکستانی سیاست میں بری تھی اسے بے نقاب کرنیکی کوشش ہے.لیکن اس سیاسی پیغام پر مکمل طور پر اظہار خیال اس کے اگلے پیغام ناول شیم (Shame ) میں کیا گیا ہے.جیسا کہ اس کے پہلے ناول پر بحث کرتے ہوئے ذکر کیا گیا اس کی قسمت سر بمہر ہو چکی تھی.اس کی تحریروں میں اس کا زوال مضمر تھا.اسی طرح مڈ نائیٹس چلڈرن میں بھی اس کے نصیب کا مقدر کتاب کے آخری الفاظ میں لکھا جا چکا تھا جو ایک رنگ میں مصنف کی قبر کا مناسب کتبہ بھی ہوسکتا تھا: "ہاں وہ مجھے پاؤں تلے روند دیں گے...مجھے بے آواز مٹی کا مہین ذرہ بنا دیا جائیگا کیونکہ یہ مڈ نائیٹس چلڈرن پر لعنت ہے کہ وہ اپنے دور کے آقا اور آفت رسیدہ بھی ہوں، وہ اپنی پرائیویٹ زندگی کھو دیں، کہ وہ ہجوم کے فنا کر دینے والے گرداب میں پھنس کے رہ جائیں اور امن کے ساتھ نہ تو وہ زندہ رہ سکیں اور نہ ہی مرسکیں." (صفحہ 446) کتنی سر درحمی کے ساتھ یہی حالت سلمان رشدی کی ہوگئی تھی.ایسے لگتا تھا کہ اس نے گویا اپنی قبر خود ہی کھود لی تھی.رشدی کی کتاب کے اس موازنہ سے قاری خود اندازہ کر سکتا ہے کہ کس طرح رشدی کو طویل المیعاد منصوبہ کے تحت زبر دست قابلیت والا مصنف بنا کر پیش کیا گیا.اسے شہرت کے بام پر متعدد لٹریری ایوارڈ دے کر پہنچا دیا گیا بشمول فکشن کے سب سے بڑے ایوارڈ' بوکر پرائز فار لٹریچر ا لیکن جب آپ اس کی کتابوں کا عمیق مطالعہ کرتے ہیں تو انسان حیرانگی کا مجسمہ بن کر پوچھتا ہے کہ یہ کتا بیں کسی طبقہ کیلئے لکھی گئی تھیں؟.یقینا یہ مغربی قاری کے فائدہ کیلئے نہیں لکھی گئی تھیں کیونکہ کتابوں میں ہندی اور اردو الفاظ کی اس قدر بھر مار ہے کہ کوئی بھی ان زبانوں کے علم کے بغیر ان کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکتا.مثلاً اسب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے، گائے والا ، کچھ نہیں اوغیرہ.ہر دوسرا صفحہ ہندی الفاظ کے ساتھ بھرا ہوا ہے، اور اگر قاری کو ان کے معنی جاننے کیلئے ہر دفعہ ڈکشنری کا سہارا لینا پڑے تو ناول بڑی مشکل سے ختم ہو پائیگا.102)

Page 103

یا پھر ممکن ہے کہ یہ کتابیں ایسے یورپین اور ان کے افراد خاندان کیلئے لکھی گئی تھیں جنہوں نے بھارت پر حکومت کی تھی اور جن کو ایشین زبانوں سے شناسائی اوسط درجہ سے زیادہ نہ تھی.کچھ بھی ہو اس کے ناولوں کے پڑھنے والوں کی تعداد بڑی محدود در بنی تھی اور اسے کسی صورت میں بوکر پرائز جیتنے کا حقدار قرار نہیں دیا جا سکتا تھا.ہمیں تو ایسے آثار نظر آتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ رشدی کی شہرت ہر صورت میں بڑھائی گئی اور اسے قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کیا گیا.اسے شاید اس چیز کا علم تھا مگر اسے کسی چیز کی پرواہ نہ تھی جب تک کہ اس کو دنیا کے اعزازات ملتے رہیں اور اسے بیش بہا دولت کے وعدے دئے جائیں.اس سے بھی بدترین چیز ابھی آنے والی تھی.اس امر کی طرف اشارہ رشدی ان الفاظ میں کرتا ہے: " جبرائیل فنا ہونے والے اشخاص سے کلام نہیں کرتا...میری کھوپڑی میں آنیوالی صدائیں ان فرشتوں سے بہت زیادہ تھیں میری صدا میں مقدس ہونے کی بجائے فحش ثابت ہوئیں ، اور اتنی کثیر تعداد میں جتنے مٹی کے ذرے لیکن میں نے صبر کی تلقین کی.ذرا انتظار کرو مجھے اتنی جلدی نظر انداز نہ کر دو.(صفحہ 166) Shame رشدی کا تیسرا ناول جو 1983ء میں منظر عام پر آیا، اس کا عنوان بہت موزوں تھا ، یہ ایک نمایاں صفت کی طرف اشارہ کر رہا تھا جس کی خود اس میں خاصی کمی تھی.جب ہم اس کے اس سے پہلے کے ناولوں کا مطالعہ کرتے ہیں ، خاص طور پر رسوائے زمانہ ادی سٹینک ورسز' کے زوال کے بعد کا ، تو ہم اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس نے کتنی بار غلط کاموں میں ٹانگ اڑائی اور کسطرح اس کی کتابوں کے خلاف رد عمل رونما ہوا.اس کی ایک نمایاں مثال اس ناول کے صفحہ 39 پر ملتی ہے: " چاہے انسان ایک ملک سے کس قدر عزم کے ساتھ انخلاء کرے، انسان اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ سامان لیکر جاتا ہے، اور اس میں کیا شک ہے کہ عمر خیام...جب اس پر شرم محسوس کرنے کی پابندی عائد کر دی گئی...اوائل عمر سے ہی، اس عجیب پابندی کا اثر وہ اپنی زندگی کے آخری سالوں تک محسوس کرتا رہا.103

Page 104

عمر خیام ( جو اس ناول کا مرکزی کردار ہے ) کی تکلیف دہ صورتحال آخر کار خود رشدی پر لاگو ہو گئی.سلمان رشدی ایک ملک سے فرار ہو کر دوسرے ملک ایک خوفزدہ گیدڑ کی طرح چھپتا پھرا.اس کی حالت یہ تھی کہ وہ اپنے کئے پر ذرا بھی پشیمان نہ تھا.اس ناول میں بھی ہر وہ چیز جو اسلامی ہے اس پر اس نے مجرمانہ حملہ کیا ہے.مثلاً اس نے اسلامی طرز عبادت کو نشانہ استہزاء بنایا ہے: " محمد عباداللہ ، جس کے ماتھے کے اوپر گئے یا داغ کا نشان تھا اور جو اس بات کی نشانی تھا کہ وہ کٹر مذہبی انسان ہے، وہ دن میں پانچ مرتبہ جائے نماز پر ماتھا یکتا تھا، اور شاید چھٹی مرتبہ بھی جوفلی تھا ".(صفحہ 42-41) دن میں پانچ مرتبہ نماز ادا کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے اور عام مسلمانوں کیلئے یہ معمول کی بات ہے لیکن رشدی اس عمل کو ایک کٹر مذہبی شخص کی نشانی بتلاتا ہے.اس سے پتہ چلتا ہے کہ رشدی اسلام سے کس قدر برگشتہ ہو چکا ہے اور اس کو اسلام سے کس قد رنفرت ہے.پاکستان کیلئے اس کی نفرت اس وقت نمایاں ہو جاتی ہے جب وہ بڑی مسرت کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ 'Shame' ایک افسانوی ناول ہے مگر وہاں جو کچھ سیاست میں عملاً ہو رہا تھا اور پاکستان کے عمومی طرز زندگی پر اس کو اظہار خیال کر نیکی چنداں ضرورت نہ تھی.وہ احمقانہ طریق سے اپنے ارادوں کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے جو سب پر عیاں ہیں.مثلاً وہ لکھتا ہے (صفحہ 70-69): اگر فرض کر لیا جائے کہ یہ ایک حقائق پر مبنی ناول تھا ، ذرا سوچیں میں اس میں اور کیا کچھ لکھ سکتا تھا، مثلاً ڈیفنس ( کالونی) کے امیر ترین باسیوں کا زمین دوز پانی کے پمپوں کا لگا لینا جو پانی کی مین پائپ سے اپنے ہمسایوں کا پانی چراتے ہیں اور کیا میں نے کراچی کے سندھ کلب کا بھی ذکر کرنا تھا جہاں ایک سائن ابھی تک لگا ہوا ہے کہ عورتوں اور کتوں کا اس سے آگے داخلہ ممنوع ہے؟ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کا پھانسی لگایا جانا یا پھر یہودیوں کے خلاف نفرت...یا پھر سمگلنگ کا کاروبار، ہیروئین کی نشہ آور کی برآمدات کی شدت ، ملٹری ڈکٹیٹرز ، ضمیر فروش شہری، رشوت خور سول سرونٹ ، اور بکاؤ جج حضرات " اور اس کے بعد وہ طنزیہ طور پر بات کو یوں ختم کرتا ہے: "ذرا میری مشکلات کا اندازہ لگائیں ".رشدی نے چکنی چپڑی باتیں کرنے کی کوشش کی ہے اور پاکستان کیلئے دوٹوک نفرت اور....104

Page 105

اس کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان باتوں کا پورا ذ کر یہاں نہیں کر سکتا تھا کیونکہ یہ حقائق پر مبنی ناول نہیں ہے.اس نے پاکستان کے ہر طبقہ میں رشوت خوری کا ذکر کیا ہے اور عورتوں کے مزعومہ تھرڈ کلاس شہری ہونے کا اشارہ یہ کہہ کر کیا ہے کہ سندھ کلب کراچی کے باہر یہ سائن لگا ہوا تھا، عورتیں اور کتے اندر داخل نہیں ہو سکتے.مگر شاید سب سے زیادہ چھتی ہوئی اور تیزابی بات اگلے دو پیراگراف میں کہی گئی ہے جن میں آئندہ ہونے والے واقعات و حالات کی طرف اشارہ ملتا ہے جن سے وہ دو چار ہو نیوالا تھا.یاد رہے کہ یہ ناول 1983ء میں لکھا گیا تھا، یعنی ادی سٹینک ورسز سے پانچ سال قبل.ہر لفظ اور ہر فقرہ کو نوٹ کریں جنہوں نے اس کی زندگی کو درہم برہم کرنے میں بدشگون بننا تھا.اس نے لکھا: " اب تک اگر میں اس قسم کی کتاب لکھ رہا ہوتا ، اس بات سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہونا تھا کہ میں عالمی امور پر لکھ رہا ہوں بجائے صرف پاکستان کے.اس کتاب کو ضبط کر لیا جانا تھا، کتاب کچرے کے ڈبے میں پھینک دی جاتی اور نذرآتش کر دی جاتی.اس تمام کوشش کا ماحصل کچھ بھی نہ ہونا تھا.حقیقت نگاری بعض دفعہ مصنف کا دل توڑ دیتی ہے، خوش قسمتی سے میں تو صرف ایک جدید زمانے کی ایک من گھڑت کی کہانی سنا رہا ہوں، تو پھر ٹھیک ہے، کسی کو ناراض ہونے کی ضرورت نہیں، اور نہ ہی اسے سنجیدہ معاملہ بنانے کی ضرورت ہے.کوئی سخت قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں، اب تو سکھ کا سانس لے سکتا ہوں".(صفحہ 70) چونکہ اس کتاب کو کم شہرت دی گئی تھی رشدی کے خیالات اور مشاہدات سے لوگ ناواقف رہے.لیکن وہ لوگ جنہوں نے دیکھا کہ یہ ادیب ان کے بدار ا دوں کے پورا کرنے میں کام آسکتا ہے وہ خوش ہو رہے تھے کیونکہ ان کو ایسا سنہری موقعہ مل گیا تھا جس کو وہ کھو دینا مناسب نہیں سمجھتے تھے.بدشگونی کے آثار تاہم رشدی کی تحریروں میں پہلے ہی سے موجود تھے.اور زیادہ وقت نہیں گزرا کہ وہ اس نے وہی دلائل جان بچانے کیلئے استعمال کئے.لیکن اس کیلئے اب فرار کا کوئی راستہ نہ تھا.اور نہ ہی کسی نے اس کی دستگیری کرنی تھی.بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہوا.اس کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے.اس کو اس بات کا وہم و گمان بھی نہ تھا کہ وہ تمام دلائل جو اس نے ٹھٹھا کرنے کیلئے استعمال کئے تھے وہی اس کی جان کی خلاصی کریں گے.105

Page 106

عام پاکستانیوں کے ساتھ رشدی کے میل جول پر اس کا تکبر اور شرم کا احساس درج ذیل پیرا گراف میں نظر آتا ہے جب وہ دیہاتیوں کے بارہ میں لکھتا ہے : "اے میرے خدا، یہ جاہل کہاں سے آگیا؟ پسماندہ قسم کے، دیہاتی گنوار، مکمل طور پر کھوٹ والے، اور میں ان کے ساتھ پھنس گیا ہوں ".(صفحہ 74) اسلامی عقائد اور قرآن پاک کی آیات کریمہ پر اس کی پھبتیاں بھی کتاب میں موجود ہیں جب وہ ایک بار پھر سورۃ الرحمن کی ایک آیت کا دوبارہ حوالہ دیتا ہے ( شاید ایک یہی وہ حصہ ہے جس سے وہ واقف ہے ) ؛ کشمیر کے محاذ پر بھارت اور پاکستان میں جنگ کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے : "ناگز برطور پر یہاں موتیں بھی ہوئیں لیکن جنگ کے ناظمین نے ان کا بہت اچھی طرح خیال رکھا، جو جنگ میں گھات ہوئے ان کو فرسٹ کلاس میں سیدھا ہوائی جہاز سے بہشت کے خوشبو والے باغوں میں لیجایا گیا جہاں ان کیلئے دل کش حور میں منتظر تھیں، جن کو کسی انسان نے یا جن نے چھوانہ تھا." تو پھر اپنے رب کی کن کن نعمتوں کا " قرآن سوال کرتا ہے " تم انکار کرو گے؟ (صفحہ 77) یہ اس نفس مضمون کی ہو بہو نقل ہے جس کا استہزاء رشدی نے اپنی گزشتہ کتاب 'Midnight's Children ' میں کیا تھا.جس کی زبان کی پر اسرار مشابہت ان تحریروں سے ہے جو اسلام کے ابتدائی نقادوں نے استعمال کی تھی جیسے Peter The Venerable ( پیٹر دی و بیز یبل ) اور Thomas Aquinas (ٹامس ایکوینس ) جن کا ذکر اس کتاب کے گزشتہ صفحات میں کیا گیا ہے.رشدی نے اپنی تمام کتب میں اور بالخصوص پر اشیم ، میں پاکستان کی عام زندگی کے واقعات کا ذکر کیا ہے اور جان بوجھ کرنا سوروں کو دوسروں کے سامنے رکھا ہے.اسی طرح وہاں پائی جانیوالی رشوت خوری، منافقت، تعصب اور ایسی تمام فتیح باتوں کا ذکر کیا جو اسلامی ریاست پاکستان میں عام ہیں.اس نے سیاستدانوں، نغمے گانیوالوں، فلمی ستاروں، کھلاڑیوں، مذہبی علماء، ذرائع ابلاغ ، بلکہ عام دیہاتیوں کو بھی اس میں شامل کیا ہے.رشدی نے گویا مغرب کا ایک جاسوس بن کر کام کیا ہے تا کہ پاکستان کے اسلامی معاشرہ کے تمام فتیح افعال کو، پوری بے حیائی اور بے شرمی سے بیان کر دے.پاکستانی سیاست پر جب وہ قلم اٹھاتا ہے تو یہ بات جلد ہی ظاہر ہو جاتی ہے کہ وہ ذوالفقار علی 106

Page 107

بھٹو کو زیادہ پسند کرتا ہے کیونکہ بھٹو بذات خود مغرب کی کٹھ پتلی تھا.بھٹو اور اس کی اولا د نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی اور ہر وہ چیز جس کا تعلق مغرب سے تھا ان کو ہر دلعزیز تھی.یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ رشدی کو ضیاء الحق اور اس کے پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے سے کس قدر نفرت تھی.یہ بات نمایاں طور پر ظاہر ہو چکی ہے کہ ہر وہ چیز جو غیر اسلامی ہے رشدی کو بہت اچھی لگتی ہے.اس لئے ضیاء الحق کی اسلامی حکومت اور ضیاء کے عزائم سے اس کی شدید بیزاری فطری تھی.رشدی نے تخیلاتی کرداروں کے ذریعہ ضیاء الحق کے بھٹو کو پھانسی چڑھانے کا ذکر کیا ہے (صفحات 230-231).بلکہ بے نظیر کی قابل رحم حالت کا بھی ذکر ہمدردی کے رنگ میں کیا گیا ہے.اور اس کا کردار بھی تخیلاتی کردار میں چھپا کر پیش کیا گیا.جن تخیلاتی کرداروں کو اس نے استعمال کیا ہے وہ اس اصل سیاسی پیغام کو چھپا نہیں سکتے جو وہ دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے.وہ ضیاء حکومت کے ہر کام کے خلاف تھا اور اس نے پاکستان پیپلز پارٹی کے حق میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کھلم کھلا کیا ہے.اس نے جنرل رضا کا کردار ضیاء کیلئے استعمال کر کے ضیاء کی غیر مہذب چالوں پر جان بوجھ کر روشنی ڈالی ہے تا وہ اسلام کو وحشیانہ اور غلط رنگ میں پیش کر سکے.مثلاً وہ کہتا ہے: "جنرل رضانے پیغمبر اسلام کے یوم ولادت کے موقعہ پر اس چیز کا انتظام کیا کہ ملک کی ہر مسجد میں صبح نو بجے سائرن بجایا جائے اور ہر وہ شخص جو سائرن کی آواز پر عین اس وقت کھڑا نہ ہو جائے یا دعا کیلئے ہاتھ نہ اٹھائے ، اسے جیل روانہ کر دیا جائے...اس نے اعلانیہ کہا کہ خدا اور اشتراکیت آپس میں مطابقت نہیں رکھتے ، اور اسلامک سوشلزم کا وہ نعرہ جس پر پاپولر فرنٹ کی عوام کیلئے کشش تھی وہ خدا کی شان میں بدترین گستاخی تھی.اگر عورتوں کے پیٹ ننگے نظر آتے جب وہ سڑکوں پر جارہی ہوتیں تو مردان پر تھوکتے ، اور رمضان کے مہینہ میں اگر کوئی سگریٹ نوشی کرتا تو گلا گھونٹ کر اسے موت کی نیند سلا یا جا سکتا تھا".(صفحات 248-247) کتاب کا ایک پورا باب جس کا عنوان 'Beauty & the Beast' ہے (صفحات 173-146) اس کا مقصد پاکستان میں عورتوں کے ساتھ سلوک کے متعلق مملکت پاکستان کو ذلیل کرنا ہے.ملک میں عورتوں سے مردوں کی مزعومہ بدسلوکی کو طے شدہ شادیوں کے رواج پر 107)

Page 108

اظہار خیال کرتے ہوئے نہایت ہتک آمیز رنگ میں اچھال کر پیش کیا گیا ہے کہ وہاں عورتیں زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں.اس پر زیادہ سے زیادہ لکھ کر اس بات کی پوری پوری کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان ایک غیر مہذب اور گنواروں کا ملک ہے جو مذہبی عقائد کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے.رشدی لکھتا ہے : " عام طور پر کہا جاتا ہے اور میرے خیال میں پاکستان کے بارہ میں ٹھیک کہا جاتا ہے کہ وہاں کی خواتین مردوں کی نسبت زیادہ جاذب نظر ہیں، لیکن ان کی زنجیریں تخیلاتی نہیں، وہ موجود ہیں اور روز بروز وزنی ہورہی ہیں." (صفحہ 173) اسلامی بنیاد پرستی کے بارہ میں مغربی محققین کے نظریات کو بھی رشدی کی تحریروں میں بیان کیا گیا ہے مگر اتنی ہی اہانت کے ساتھ.وہ پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ ایک 'بدنصیب' مملکت ہے کیونکہ یہاں ان کے مذہب کے متعلق افسانوی خیالات پائے جاتے ہیں، جو رشدی کے نزدیک اس کی شہرت میں کمی کا اصل باعث ہیں.رشدی لکھتا ہے : " بہت کم افسانوی کہانیوں پر عمیق رنگ میں نظر دوڑائی گئی ہے، اور اگر ان کو عوام پر زبردستی ٹھونسا جائے تو وہ بہت غیر مقبول بن جاتی ہیں.ذرا سوچیں اگر کسی انسان کو ایک بڑی مقدار میں ہضم نہ ہونے والے کھانے زبر دستی کھلائے جائیں تو انسان بیمار پڑ جاتا ہے.انسان غذائیت سے محروم ہو جاتا ہے.قاری شاید قے بھی کر دے.یہ مزعومہ اسلامی بنیاد پرستی پاکستان کے عوام کے اندر سے شروع نہیں ہوئی ، بلکہ اس کو ان پر ٹھونسا گیا ہے اسی طرح مذاہب آمر حکام کی پشت پناہی کیا کرتے ہیں ایسے طاقت ور الفاظ کے ذریعہ، جن کا انکار کرنے میں عوام پس و پیش کرتے ہیں.ان کو حقوق سے محروم کیا جاتا ہے اور ان کا استہزاء کیا جاتا ہے.انجام کا رانسان بیمار ہو جاتا ہے اور اپنے ایمان پر اعتقاد کھو بیٹھتا ہے".(صفحہ 251) اس کی گزشتہ کتابوں کی طرح 'Shame' کا اختتام بھی اس کے اپنے الفاظ میں اس انجام کو احاطہ تحریر میں لاتا ہے جو اس کا منتظر تھا.وہ وقت زیادہ دور نہیں جب اس کا ضرب المثل اونچا اڑنے والا غبارہ پھٹ جائیگا : "خون اور گوشت کے بنے جسم کے اندر شیم کے جانور کی طاقت کو زیادہ دیر تک دبایا نہیں جاسکتا کیونکہ یہ نشو و نما پاتا ہے.یہ غذا کھا کر فربہ ہو جاتا ہے حتی کہ شریان پھٹ جاتی ہے".(صفحہ 286) ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اشیم ' ناول کی اشاعت کے بعد سلمان رشدی پھل کی طرح پک کر 108)

Page 109

گرنے کو تیار ہو چکا تھا.وہ اس وقت مکمل سرشاری کی حالت میں تھا، شہرت اور دولت کی فراوانی سے شرم و حیا کی کسی رمق کے بغیر ہر طور سے وہ مخمور ہو چکا تھا.اس میں شیطانی صفات در آئیں تھیں.اس نے مکمل طور پر خود کو فروخت کر دیا تھا اور اپنے آقاؤں کی مٹھی میں کٹھ پتلی بن کر بے دست و پا ہو چکا تھا.اس کے بعد پانچ سال تک خموشی رہی اور پھر سلمان رشدی ادب کی تاریخ کے عالمی منظر پر اپنے رسوائے زمانہ ناول کے ساتھ بے لگام جانور کی طرح چھوڑ دیا گیا.اور شاید اسکی ایک خواہش یوں پوری ہوگئی کہ اس کے نام کا گھر گھر چرچا ہونے لگے مگر غلط اسباب کی بناء پر.دی سٹینک ورسز The Stanic Verses سلمان رشدی اور اس کے حامیوں نے بڑے مدلل طریق سے یہ باور کرانیکی کوشش کی ہے کہ دی سٹینک ورسز ایک تخیلاتی ناول تھا اور کسی کو کوئی اختیار حاصل نہیں کہ اس کے تخیل پر پہرے بٹھائے.ناول کو تفصیل کے ساتھ چھان بین کرنے کے بعد قاری کو بغیر کسی شک وشبہ کے جلد ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ ناول کے تمام کردار تخیل کے سوا سب کچھ ہیں.رشدی اس بات پر مصر ہے کہ جو کہانی اس نے ناول میں پیش کی ہے وہ تمام کی تمام تخیلاتی ہے.اس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے.اگر چہ کہانی کا اصلیت سے کوئی تعلق نہیں لیکن یہ کہانی معروف شخصیتوں کے زندگیوں کو بنیاد بنا رکھی گئی ہے.عام طور پر فکشن کی کتابوں کے شروع میں لکھا ہوتا ہے کہ " اس کتاب کے تمام واقعات اور کردار تخیلاتی ہیں اور ان کا مقصد کسی مردہ یا زندہ شخص یا واقعہ کو بیان کرنا نہیں ہے."حیرانگی یہ ہے کہ رشدی نے ایسا کوئی اعلان ناول کے شروع میں نہیں دیا ہے.مثال کے طور میں یہاں چند اقتباسات اس ناول سے پیش کروں گا تا کہ قاری خود فیصلہ کر سکے کہ مصنف کے دفاع میں دئے جانے والے دلائل کس قدر بودے اور بے بنیاد ہیں.مغربی قاری چونکہ اسلامی تاریخ اور آنحضور ﷺ کے صحابہ کے اسماء گرامی سے ناواقفیت رکھتے ہیں اس لئے چند ایک پیراگراف کے مفہوم اور ان کی تعبیر پر انسان ذرا زیادہ غور نہیں کرتا.چنانچہ وہ اس ناول کو افسانوی مان لیتے ہیں.لیکن دنیا میں پھیلے ہزاروں ہزار مسلمانوں کیلئے ، جو رسول اکرم صلى الله کو سب سے زیادہ عزت دیتے ہیں ، یہ ایک متحدہ اور دیدہ و دانستہ کوشش تھی کہ ان کے 109)

Page 110

جذبات کو بغیر کسی وجہ کے مجروح کیا جائے.میرا مقصد ساری ملحدانہ زبان جو اس ناول میں استعمال کی گئی ہے اس کو بیان کرنا نہیں اور نہ ہی اسلام کی پاکباز ہستیوں کے بارہ میں جو اذیت ناک باتیں کہی گئیں ان کو بیان کرنا ہے کیونکہ ان کو احاطہ زبان میں لانے کیلئے سینکڑوں صفحات درکار ہوں گے.اس کی بجائے میں صرف چند مثالیں پیش کروں گا تا مصنف کے اس بودے دعوئی کہ یہ افسانوی کتاب ہے کی قلعی کھول دی جائے.یوں ایک اور بات واضح ہو کر سامنے آئینگی کہ اس مصنف کو ہر وہ چیز جو اسلامی ہے اس سے کتنی نفرت ہے.قرآن مجید رسول اکرم ﷺ پر حضرت جبرائیل علیہ السلام کی وساطت سے نازل کیا گیا تھا.اردو میں انگریزی لفظ اینجل (Angel) کو فرشتہ کہتے ہیں.ناول کا ایک مرکزی کردار ایسے طور پر پیش کیا گیا ہے جو جبرائیل فرشتہ ہے جس کو پورے ناول کے اندر جنسیات کا بھوکا نیم دیوتا ، نصف انسان ، آوارہ، جو ہر قسم کی برائیوں میں خوشی محسوس کرتا ہے ( جیسے زنا محرمات سے مباشرت کرنا، اور خنزیر کھانا )، ایسا اس لئے کیا گیا ہے تا کہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ خدا اب قادر مطلق نہیں رہا ہے.(صفحات 30-25).کیا ایک افسانوی ناول میں ایک اسلامی پاکباز ہستی کا استعمال کیا جانا بہت ضروری تھا؟ یا کہ مصنف دنیا میں بسے لکھوکھا مسلمانوں کے حساس جذبات سے بالکل نا آشنا تھا؟ مکہ جسے اسلامی دنیا میں سب سے معزز ترین شہر سمجھا جاتا ہے اسکو ناول میں 'جہالت کا شہر' کہا گیا ہے (صفحہ 95).حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حرامی کہا گیا ہے (نعوذ باللہ ) اور آنحضور ﷺ کے صحابہ بھی اس کے زہر یلے قلم سے محفوظ نہیں رہے.سلمان فارسی گو دیگر برے ناموں کے علاوہ کسی قسم کا اوباش کہا گیا ہے.بلال کو سیاہ فام عفریت کہا گیا ہے.ان دونوں معزز ہستیوں اور حضرت خالد کو فضلے کی تثلیث، لچے لفنگے ، آوارہ گرد اور بدمعاش غنڈے مسخرے کہا گیا ہے.نبی پاک کے چا محترم حضرت حمزہ کی بھی تو ہین کی گئی ہے.(صفحہ 104) صل الله کیا یہ محض اتفاق ہے کہ کتاب میں استعمال ہو نیوالے تخیلاتی کردار آنحضور کے صحابہ کرام سے ملتے جلتے ہیں؟ یا کہ اس کا مقصد دنیا کے کونے کونے میں بسے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنا تھا؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اس ناول میں وہ طوائف خانہ جس کا نام 'حجاب' صلى الله رکھا گیا ہے ، اور فرضی طور پر رسول اکرم ﷺ کے زمانہ میں موجود بتایا گیا ہے ، یہ ایسی رنڈیوں 110

Page 111

سے بھرا ہوا تھا جن کے نام وہی تھے جو نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے تھے؟ یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے اور رشدی جیسا عمل نہ کر نیوالا مسلمان بھی اس امر سے واقف ہوگا کہ رسول مقبول ﷺ کی ازواج کا امہات المومنین ا ہو نیکی وجہ سے خاص عزت والا مقام تھا.ان کے جان بوجھ کر یوں ناول میں استعمال نے لازماً مسلمانوں میں غصے کی آگ کو بھڑ کا نا تھا جو اپنے لئے اس بے عزتی کو زیادہ محسوس کرتے بجائے اس کے کہ ان کی ماؤں اور بیویوں کی بے عزتی کی جائے.شاید رشدی نے اپنی سادگی اور حماقت میں یہ جانا کہ افسانے کے روپ میں وہ ہر بات کہنے میں آزاد ہے.اور اس نے اس عذر کو زیادہ ہی طول دینے کی کوشش کی ہے حتی کہ اس کے حمایتی بھی اس کے اس شیطانی منصوبے پر نادم ہوئے ہوں گے.ناول میں رشدی کی اسلام سے نفرت ہر صفحہ پر عیاں ہے.وہ بڑی طعن آمیزی سے ہر اسلامی چیز پر پھبتی کہتا ہے چاہے وہ کتنی ہی ادنی کیوں نہ ہو.مثلاً وہ در پردہ الزام عائد کرتا ہے کہ مسلمان کی زندگی ضرورت سے زیادہ قوانین کے زیر پابند ہے اور یوں اس کا ضمیر آزادنہیں ہے.مومن غیر قانونی طریق سے رہتے تھے لیکن ان سالوں میں ahound.....پر قانون کا خبط سوار ہو گیا.قوانین قوانین قوانین قوانین ہر چیز کے متعلق ، اگر ایک آدمی ہوا خارج کرتا ہے تو چاہئے کہ وہ ہوا کے رخ پر ایسا کرے، ایک قانون یہ کہ انسان اپنی پیٹھ صاف کرتے وقت کون سا ہاتھ استعمال کرے.ایسا لگتا تھا کہ زندگی کا کوئی پہلو بھی قوانین کے بغیر اور آزاد نہ تھا.الہام اور تلاوت میں مومنوں کو بتلایا گیا کہ وہ کس قدر کھانا تناول کریں.کتنی گہری نیند وہ سوئیں.اور مجامعت کے لئے کونسی پوزیشن خدا کے یہاں پسندیدہ ہے".(صفحات 365-364) رشدی نے اسلامی طریق نماز اور وضو کو بھی نشانہ استہزاء بنایا ہے: " وضو، ہر وقت وضو سے رہو، ٹانگیں گھٹنوں تک، بازو کہنیوں تک، اور سرگردن تک.خشک جسم، گیلے اعضاء، اور گیلا سر، یہ لوگ کتنے پاگل نظر آتے ہیں، غسل اور نماز ادا کرتے ، اپنے گھٹنوں پر ، اپنے بازؤں، ٹانگوں اور پر ، اپنے سروں کو ہر جگہ موجود ریت کے اندر دھنستے اور اس کے بعد دوبارہ پانی اور نماز کے دور کو دوبارہ شروع کر دیتے ہیں."(صفحہ 104) یہاں رشدی نے غلیظ زبان استعمال کر کے قوانین شریعت کا مذاق اڑایا ہے جسطرح اس 111

Page 112

نے گزشتہ ناول اٹڈ نائٹس چلڈرن' میں کیا تھا.لیکن اسٹینک ورسز میں اس نے اس موضوع پر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور پوری کتاب میں وہ اسلامی قوانین کے سخت ہونیکی مسلسل شکایت کرتا ہے بمقابلہ اس مادر پدر آزاد ویسٹرن سوسائٹی کے جس کا وہ فخر یہ شہری ہے.اس ناول میں کوئی چیز بھی اس مذہب سے متعلق تخیلاتی نہیں جس کا ذکر وہ مضحکہ خیز رنگ میں کر رہا ہے بلکہ پہلے کی طرح اسلام کے خلاف مضامین اس کی گزشتہ کتابوں کی طرح اس کتاب میں بھی موجود ہیں.کوئی بھی مسلمان رشدی کی کتاب میں پیش کردہ مضامین کے اب تک سرسری جائزے سے ضرور آپے سے باہر ہو گیا ہوگا.لیکن جو کچھ اس نے لکھا جیسے وہ کافی نہ تھا.اس نے مہلک ترین زہر نبی کریم ﷺ کیلئے بچار کھا تھا.اس نے آنحضور ﷺ کی ذات کیلئے ماہونڈ کا نام استعمال کیا جو کہ عہد وسطیٰ میں صلیبی پروپیگنڈہ کے عین مطابق تھا جس میں نبی پاک صلعم کو تاریکی کے شہزادے ما ہونڈا کے روپ میں پیش کیا گیا تھا جو عیسائیت کا سب سے بڑا دشمن تھا.اس نے امڈ نائٹس چلڈرن' میں صاف صاف لکھا ہے کہ " پیغمبر اسلام محمد جن کا نام ماہونڈ بھی تھا".(صفحہ 161) میں نے اس ناول کو بڑی ہی اذیت اور دل پر پتھر رکھ کر پڑھا اور پڑھنے کے دوران دماغ کا توازن برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی.یہ ناول بہتان اور افترا کا ایک پلندہ ہے جس میں افضل الانبیاء پاک محمد مصطفی ﷺ کے خلاف بغض سے بھری گندی زبان استعمال کی گئی ہے.میں کسی اور کو اس کے سرسری مطالعہ کا بھی نہ کہوں گا کیونکہ اگر میں اس میں سے چند مثالیں بھی دینا چاہوں تو پوری کی پوری کتاب کا حوالہ دینا ہوگا.اس موضوع پر بہت سارے مسلمان علماء اظہار خیال کر چکے ہیں.صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ پوری کتاب میں خاتم النبین سرور کائنات ﷺ کے خلاف مغلظات بکی گئی ہیں.اگر چہ آپ کے کردار پر کئے جانے والے حملے گزشتہ مستشرقین کے حملوں سے مشابہت رکھتے ہیں، مگر رشدی نے اسفل سافلین کا ثبوت آپ صلعم کے خلاف نا قابل یقین مخش زبان استعمال کر کے دیا ہے.اس کتاب کے مصنف کو اس قسم کی واہیات کتاب لکھنے پر لٹریری ایوارڈ کا مستحق قرار دے دینا گویا مسلمانوں کی پیٹھ میں پہلے سے گھونپے ہوئے نشتر کو مزید گہرا کرنے اور اذیت دینے کیلئے گھمانے کے مترادف ہے.112)

Page 113

بارہواں باب دی سٹینک ورسز کا افسانہ اب میں اسٹینک ورسزا کے نفس مضمون پر غائرانہ نظر ڈالوں گا یعنی کس طرح قریباً تمام مستشرقین نے اس دعویٰ کا اعادہ کیا ہے کہ رسول کریم الله عام انسانی کمزوریوں سے مبرا نہ تھے.اور یہ کہ بعض مواقع پر آپ کے ذہن میں شیطانی خیالات داخل ہوئے جن کا بعد میں قرآن مجید کی بعض آیات کی صورت میں نزول ہوا.سب سے زیادہ سورۃ النجم کی درج ذیل آیات کو پیش کیا جاتا ہے: اَفَرَءَ يْتُمُ اللتَ وَلْعُزَّى وَمَنوةَ الثَّالِثَةَ الْأخْرى.(سورۃ النجم-21-53:20) ( ترجمہ ) پس کیا تم نے لات اور عزمی کو دیکھا ہے، اور تیسری منات کو بھی جو ( ان کے علاوہ ہے؟ رسول کریم علیہ کے بعض متعصب ناقدین نے عجیب و غریب کہانی گھڑی ہے کہ ایک دفعہ آپ شیطان کے نرغہ میں آگئے تھے.کہا جاتا ہے کہ ایک روز مکہ میں جب آپ نے سورۃ النجم کی مسلمانوں اور کافروں کے رو برو تلاوت فرمائی تو تلاوت کے دوران شیطان نے آپ کی زبان پر یہ زائد الفاظ شامل کرنیکی کوشش کی : ( ترجمہ ) اور یہ بڑی شان والی دیویاں ہیں جن سے شفاعت کی تم امید رکھ سکتے ہو.اس چیز کو وہ محمد کی بھول چوک اور بت پرستی کیساتھ سمجھوتہ قرار دیتے اور اس کا انحصار وہ واقدی کے بیان کردہ واقعہ پر رکھتے ہیں جو پکا مفتری اور واقعات کو گھڑ لینے والا تھا.اس کا انحصار وہ مؤرخ طبری کی روایت پر بھی کرتے ہیں جو قابل اعتبار اور واقعات کو چھان بین کے بعد بیان کرنے والا تسلیم کیا جاتا ہے.ان حضرات کی دیدہ دلیری ملاحظہ کیجئے کہ وہ خدا کی شان میں گستاخی والے ان کلمات کو اس عظیم بت شکن ( آنحضور ﷺ کے نام سے منسوب کرتے ہیں جس کی ساری زندگی بت پرستی کو غلط اور قابل مزمت قرار دینے میں گزری.جس نے اپنے مشن اور 113

Page 114

مقصد حیات میں تن من دھن کی بازی لگادی.جس نے بت پرستی کے ساتھ سمجھوتہ کی تمام پیش کشوں کو نفرت سے ٹھکرا دیا اور ہر قسم کی رشوت چاپلوسی خوشامد اور دھمکیاں اسے اپنے صح نظر سے ایک انچ بھی نہ ہٹا سکیں.بت پرستی کے خلاف جس کے ناقابل شکن عزم پر اللہ تعالیٰ نے خودشہادت دی ہے.(سورۃ الکھف 18:7) مزید یہ کہ اس دعویٰ کی بنیاد ہی غلط ہے.نہ صرف یہ کہ بعد میں آنے والی آیات بلکہ تمام سورۃ بت پرستی کی مذمت اور خدا کی وحدانیت کے دلائل سے لبریز ہے.عجیب بات ہے کہ یہ بین حقیقت رسول کریم ﷺ کے ناقدین اور عیب جوؤں کی نظروں سے اوجھل ہو گئی.رسالت مآب صلى الله کی اس مزعومہ بھول چوک کی تاریخی شہادت بھی کوئی دستیاب نہیں.چراغ ہدایت قرآن کریم کے تمام مفسرین جیسے ابن کثیر اور الرازی نے اس واقعہ کو نا قابل اعتبار قرار دیا ہے.تمام مشہور مسلمان مفکرین جو علم حدیث کے مسلمہ ماہرین میں شمار کئے جاتے ہیں انہوں نے بھی اس کو اختراع قرار دیا ہے.حدیث کی چھ کتابوں صحاح ستہ میں بھی اس واقعہ کا ذکر کہیں نہیں ملتا ہے.امام اسماعیل بخاری کی کتاب صحیح بخاری جس کو سکالرز سب سے زیادہ معتبر کتاب تسلیم کرتے ہیں اور جو خود واقدی (من گھڑت واقعات کے موجد ) کے ہم عصر تھے انہوں نے بھی اس کا ذکر کہیں نہیں کیا.نہ ہی نامور تاریخ دان ابن الحق جس کی پیدائش ان سے چالیس سال قبل ہوئی تھی انہوں نے اس کا ذکر کیا ہے.لیکن شقی القلب ناقدین اور اعداء اسلام کیلئے یہ ایک سنہری موقعہ تھا کہ وہ اپنی دروغ بیانی اور فریب کو حسب دستور کام میں لاتے ہوئے بانی اسلام پر اپنے کینہ پرور حملے جاری رکھ سکیں.یہ ناقدین ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہے ہیں کہ کسی طرح وہ شفیع محشر ﷺ سے غیر ارادہ ہونے والی خطا کو دریافت کر لیں، اور جب انہیں کوئی بھول چوک ڈھونڈے نہ ملتی تو وہ اپنی طرف سے ایک گھڑ کر اسے آپ سے منسوب کر دیتے.اس کی ایک مثال زیر بحث واقعہ ہے.کسی نامعلوم وجہ سے اس واقعہ نے بہت سے مستشرقین کو اپیل کیا اور انہوں نے اس کو اپنی کتابوں میں ہو بہو نقل کیا ہے.اس واقعہ کا بعض مغربی مصنفین کا ذکرنا اور ان سب کا ایک ہی رنگ میں اس کا ذکر کرنا ، نیز رشدی نے شیطانی خیالات رکھنے کا الزام جس رنگ میں رسول اکرم ﷺ پر لگا یا ان جملہ امور کا قاری کے مدنظر رکھنا ضروری ہے.114

Page 115

میکسم روڈنسن (Maxime Rodinson) آئیے اب ذرا دیکھتے ہیں میکسم روڈ نسن نے کس رنگ میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے.روڈنسن اپنی کتاب 'Mohammed' میں اس واقعہ کے بارہ میں لکھتا ہے " یہ ضرور حقیقت پر مبنی ہوگا کیونکہ مسلمان مؤرخین نے اس قسم کے واقعہ کا ہرگز اختراع نہ کرنا تھا جس سے ( محمد پر ہونیوالی ) وحی کو ٹھیس پہنچ سکتی تھی ".(صفحہ 106) وہ طبری کا حوالہ دیتا ہے جو کہ فرضی واقعات بنانے میں مشاق ہے: "جب رسول اللہ نے دیکھا کہ لوگ ان سے دور ہورہے ہیں تو آپ کو اس بات پر سخت دکھ ہوتا کہ اللہ کے کلام اور ان لوگوں میں کتنا بعد ہے جو وہ ان کے لئے لے کر مبعوث ہوئے ہیں.پھر ان کے دل میں خواہش نے جنم لیا کہ ان پر ایسی وحی نازل ہو جس سے لوگ ان کے قریب ہو جا ئیں.تب اللہ نے سورۃ النجم نازل کی " جب آپ اس آیت پر پہنچے: اَفَرَءَ يْتُمُ اللَّـتَ وَالْعُزَّى وَمَنوةَ الثَّالِثَةَ الأخرى '.تو شیطان نے آپ کی زبان پر وہ الفاظ رکھ دئے جو آپ اپنے دل میں کہہ رہے تھے اور جن کو آپ عوام الناس کے پاس پہنچا دینا چاہتے تھے، یعنی : " اور یہ بڑی شان والی دیویاں ہیں جن سے شفاعت کی تم امیدرکھ سکتے ہو".بعد میں جبرائیل نے محمد پر یہ راز فاش کیا کہ شیطان نے آپ کو دھوکہ دیا ہے، اگر چہ جبرائیل نے تسلی دی کہ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کیونکہ اس سے پہلے انبیاء ان ہی مشکلات سے ان ہی وجوہ کی بناء پر دو چار ہوئے تھے.زائد آیات کو خارج کر دیا گیا اور ان کی جگہ دوسری آیات رکھ دی گئیں جو اتین آبی پرندوں کے دین کو مسترد کرتی تھیں.محمد کے تحت الشعور نے ان کو ایسی کیب سے آگاہ کیا جو اتحاد کے عملی راستہ کی طرف راہنمائی کرتا تھا".صفحات 107-106) میکسم روڈ نسن نے گزشتہ مستشرقین کی وضع کردہ حیرت انگیز کہانی کو لفظ بہ لفظ نقل کر کے نبی پاک ﷺ کی عام انسانی کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا ہے جن کو وہ گزشتہ انبیاء کے برابر کی قرار دیتا ہے.1- سورة النجم - 53:20 یعنی کیا تم نے لات اور عزمی کو دیکھا ہے؟ اور تیسری منات کو بھی جو (ان کے علاوہ ہے؟ ( پبلشرز ) 115

Page 116

ڈاکٹر نذیر علی ڈاکٹر نذیر علی جو انگلستان میں پہلا ایشین نژاد بشپ تھا اس نے بھی اپنی کتاب Islam, A Christian Perspective میں لکیر کا فقیر بنتے ہوئے غلط رنگ میں شیطانی خیالات کو نبی پاک ﷺ سے منسوب کیا ہے.ڈاکٹر علی اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ محمد ہ مقامی لوگوں میں اپنا پیغام قابل قبول بنانے کیلئے سمجھوتہ کرنے پر تیار ہو گئے.وہ کہتا ہے: بالآخر انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اگر چہ محمد یہود و نصاری کی روایت کو برقرار رکھنا چاہتا تھا لیکن وہ پرانے روایتی عرب مذہب اور تہذیب کو بھی برقرار رکھنا چاہتا تھا ( شاید یہی وجہ تھی کہ وہ اولاً تین دیویوں لات، منات اور العزیٰ کو اللہ کے ساتھ شفاعت کر نیوالی تسلیم کرنے پر تیار ہو گیا تھا.بعد میں اس نے کہہ دیا کہ یہ آیت شیطان نے اس کے دل میں ڈال دی تھی اس لئے اسے حذف کر دیا)." (صفحات 25-24) منٹگمری واٹ اگر چہ پروفیسر واٹ اس نقطہ نظر کی تردید کرتا ہے کہ محمد ﷺ نے قرآن خود اپنے دماغ سے لکھا تھا لیکن اس کے باوجود وہ بعض آیات کو مشکوک ٹھہراتا ہے.ایسی آیات جن میں اس کے نزد یک بدلتی صورت حال کے پیش نظر ترمیم کر دی گئی تھی.مثال کے طور پر وہ اپنی کتاب Muhammad at Medina میں ان ترمیم شدہ آیات کے بارہ میں لکھتا ہے : " ترمیم سے مراد ، اگر اس فعل کو یہ نام دینا ہی ہو ، الفاظ کا اضافہ یا الفاظ، جملوں اور لمبی عبارتوں کا حذف کیا جانا ہے.محمد نے ممکن ہے یہ بات جان لی ہو کہ ایسی تبدیلیاں شاید خدا کی وحی میں تازہ حالات کے پیش نظر ترمیم کی صورت میں ہوں.راسخ العقیدہ مسلمان ترمیم کو ایک حد تک صحیح جانتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض آیات منسوخ ہو چکی ہیں." (صفحہ 326) منٹگمری واٹ رسول کریم ﷺ کے جملہ ناقدین میں سے ایک پر جوش ناقد گنا جاتا ہے جس کی تحریر کا مشکوک طریق منہ میں کڑواہٹ کا مزہ چھوڑ جاتا ہے.ذرا اس کے طرز تحریر کا شاطرانہ نمونہ ملاحظہ کریں جو وہ قرآن اور تاریخ کے واقعات کو سیاق وسباق سے الگ کر کے رسول اکرم 116

Page 117

کے کردار کا ناقص ہونا اپنی کتاب Islamic Fundamentalism and Modernity میں پیش کرتا ہے : " محمد کا ہر رنگ میں کامل ہونا تسلیم کیا جاتا ہے، نیز یہ کہ وہ کبھی بھی بت پرست نہ تھا با وجود یکه قرآن (93:7) اس کے خطا کار ہونے کا ذکر کرتا ہے ، اور بعض دوسرے ماخذوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے مقامی بتوں کو قربانی بھی دی تھی.محمد کے کامل انسان ہونے کے باعث زمانہ جدید کے مسلمان شیطانی آیات کے واقعہ کی تردید کرتے ہیں اگر چہ ممتاز مؤرخین اور مفسرین قرآن جیسے طبری اس کو تسلیم کرتے اور اس کا ثبوت قرآن کی آیت 22:52 سے بھی ملتا ہے.واقعہ یہ ہے کہ ایک موقعہ پر جب محمد اس امید سے تھا کہ قریش کے وہ لیڈر جو اس کے دشمن تھے ان کے دل جیتنے کیلئے شاید خدا سے وحی نازل ہو جائے ، شیطان نے وحی میں ایسی آیات شامل کر دیں جس سے اس کو اجازت مل گئی کہ وہ تین مقامی دیویوں سے شفاعت کی امید رکھ سکتا ہے.محمد نے جانا کہ یہ آیت اصل وحی کا حصہ ہے چنانچہ جب اس نے ان کا اعلان کر دیا تو مکہ کے لیڈر بھی اس کے ساتھ اسلامی عبادت میں شامل ہو گئے.بعد میں اس کو احساس ہوا کہ اس کو ان آیات کے بارہ میں غلطی لگ گئی تھی ، اس لئے اس نے ان میں ترمیم کر دی جس کے مطابق ان دیویوں کے ذریعہ شفاعت نہیں ہوسکتی تھی.اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مکہ کے سردار اس سے علیحدہ ہو گئے." (Islamic Fundamentalism & Modernity,pages 17-18 ) مسٹرواٹ اس واقعہ کا ذکر مزید تفصیل کے ساتھ اپنی ایک اور کتاب میں کرتے ہوئے کہتا ہے : " ایک موقعہ پر جب محمد مشرک تاجروں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور اس کو پوری امید تھی کہ ان کے دل جیتنے کیلئے اس پر ضر و روحی نازل ہوگی، فوراً اس پر درج ذیل وحی نازل ہونا شروع ہوگئی: أَفَرَءَ يْتُمُ اللَّتَ وَالْعُزَّى وَمَنوةَ الثَّالِثَةَ الْأخْرى - پھر اس کے بعد اس پر دو آیات نازل ہوئیں جس کے مطابق مسلمانوں کو اجازت مل گئی کہ وہ ان دیویوں سے کہیں کہ وہ ان کی جانب سے اللہ سے جوسب سے بڑا بت تھا ان کی شفاعت کریں.بعد میں اس کو احساس ہوا کہ بعد والی آیات کو شیطان نے شامل کر دیا تھا اور وہ اصلی نہ تھیں." (Muslim-Christian Encounters, page 114) اپنے دعوئی کو مزید ٹھوس دار بنانے کیلئے پروفیسر واٹ کہتا ہے : " یہ واقعہ عیب سے منزہ ا.سورۃ النجم - 53:20 ( پبلشرز ) 117

Page 118

اسلامی ماخذوں سے ہمارے تک پہنچا ہے " (صفحہ 114) اور مزید یہ کہ " یہ بات کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ کسی مسلمان نے اس واقعہ کا اختراع کر لیا ہوگا ، یا یہ کہ طبری جو کہ محتاط عالم دین تھا اس نے اس کو مشکوک ذرائع سے قبول کر لیا ہو گا " (صفحہ 115 ).منٹگمری واٹ یہی دلیل اپنی تمام کتابوں صلى الله میں استعمال کرتا ہے گویا آنحضور ﷺ سے ہو نیوالی اخلاقی غلطیوں کو ثابت کرنے کیلئے یہ واقعہ بہت ہی وزنی ہے.یوں وہ آپ کے کردار کو داغدار کر دیتا ہے جس کے متعلق مسلمان شیخیاں بگھارتے ہیں.یہ کوئی اچنبہ کی بات نہیں کہ مغربی مصنفین کی ایک کثیر تعداد اس واقعہ کا بار بار ذکر کرتی ہے اور یہ بھی کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ایک ناول کے عنوان کا انتخاب کرتے ہوئے اس کا نام شیطانی آیات (The Stanic Verses) رکھا گیا تھا.کیرن آرم سٹرانگ کیرن آرم سٹرانگ نے اپنی کتاب 'محمد' میں ایک پورا باب ' دی سٹینک ورسز' کے عنوان پر مخصوص کیا ہے.میری دانست میں اس نے اس واقعہ کی مختلف روایات بیان کر کے غیر جانبدارانہ اور متوازن نقطہ نظر پیش کیا ہے.اس نے اس واقعہ کے بعض ماخذوں پر بھی شک کا اظہار کر کے نے واقعہ کے کا کر قارئین پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ اس قصے کی مکمل تصدیق کے متعلق فیصلہ خود ہی کرلیں.اس قصے پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ کہتی ہے کہ : " یہ کہانی دوسری احادیث بلکہ قرآن سے بھی اختلاف رکھتی ہے." پھر وہ ہمیں یاد دہانی کراتی ہے کہ "طبری جیسا مسلمان مؤرخ تمام روایات جو وہ قلم بند کرتا ہے ان کی وہ تصدیق نہیں کرتا، وہ قاری سے امید رکھتا ہے کہ وہ ان کا موازنہ دوسری روایات کے ساتھ کر کے ان کی صحت کے متعلق خود فیصلہ کرے گا (صفحہ 113).آرم سٹرانگ اس بات کا انکشاف بھی کرتی ہے کہ طبری کے پاس اس واقعہ کی ایک سے زیادہ روایات تھیں " طبری نے تاریخ پر اپنی کتاب میں ایک ایسی روایت بھی قلم بند کی ہے جو اس واقعہ کا بالکل مختلف پہلو بیان کرتی ہے (صفحہ 113).یوں طبری کا ماخذ اور اس کا طرز بیان بالکل نا قابل اعتبار ہو جاتے ہیں.اس باب میں ایک اور جگہ کیرن آرم سٹرانگ اس واقعہ کی تردید میں مسلمانوں کی طرف 118)

Page 119

سے پیش کردہ دلائل پیش کرتی ہے اور بڑے خلوص کے ساتھ ایسے موقعہ کا ذکر کرتی ہے جو اسلام کے مخالفین کو میسر ہو جانا تھا جس سے وہ فائدہ اٹھا سکتے تھے.: " ایک بات ہمیں ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ متعدد مسلمان اس واقعہ کو بالکل غیر مستند سمجھتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں اس کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا.نہ ہی احادیث کے مجموعوں میں جو بخاری اور مسلم نے جمع کئے تھے.مسلمان احادیث صرف اس بناء پر رد نہیں کر دیتے کہ ان کا تجزیہ تنقیدی رنگ میں نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس لئے کہ ان کی اسناد نا کافی ہیں.اسلام کے مغربی معاندین نے اس واقعہ سے محمد کی ظاہر وباہر خود مطلبی بیان کرنے کی کوشش کی ہے : " ایک ایسا شخص جس نے وحی خداوندی کو اپنے مقاصد کیلئے تبدیل کر دیا وہ سچا نبی کیسے ہو سکتا ہے؟ ایک سچا اور مخلص نبی ضرور خدا کی طرف سے ملنے والی وحی اور شیطانی الہام میں فرق کرنے کے قابل ہوگا.کیا ایک اللہ کا بندہ اپنی وحی میں صرف اس لئے تحریف کر دے گا کہ وہ پہلے سے زیادہ پیرو کار حاصل کر سکے؟ (صفحہ 109) اور یہی تو ہماری دلیل ہے یعنی مغربی اعداء اسلام نے یہ الزامات اس لئے تراش لئے تا زیر بحث آیات کریمہ کے مستند ہونے اور رسول اللہ ﷺ کے ایمان کامل اور پاکیزہ کردار کو مشتبہ ثابت کر کے آپ پر بہتان لگا دیا جائے.119)

Page 120

120

Page 121

تیرھواں باب The Stanic Verses رشدی کی نظر میں رشدی نے اپنی رسوائے زمانہ کتاب میں Stanic Verses ”شیطانی آیات کا تذکرہ مسلسل کیا ہے اور اگر چہ اس نے اس موضوع کو نہایت او چھے اور ہرممکن مزاحیہ طریق سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے، مگر اس کے در پردہ ہتک آمیز رویہ اور زہر کو وہ چھپا نہیں سکا.رشدی نے بعض مغربی مصنفین کی اس موضوع پر گھڑی ہوئی کہانیوں کو استعمال میں لا کر ان کو افسانے کا لبادہ پہنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے.: "اس کے قریب پہنچ کر وہ رک گئی اور اپنی تعفن اور جہنمی آواز میں خوش الحانی سے پڑھا : کیا تم نے لات اور منات کا سنا ہے، اور تیسری عزمی کو بھی جو ( ان کے علاوہ ہے؟ وہ بڑی شان والے پرندے ہیں لیکن خالد نے اس کو یہ کہہ کر ٹو کا اعزمی وہ شیطانی آیات ہیں اور تم شیطان کی بیٹی، ایسی مخلوق جس کی عبادت نہ کی جائے ، بلکہ ٹھکرا دی جائے' پھر اس نے تلوار نکالی اور اس کو تہ تیغ کر دیا".(صفحہ 373) صل الله رشدی کا کتاب میں بات کرتے کرتے ماضی سے حال اور حال سے ماضی میں مسلسل آنا جانا ، اس کا مقصد صرف اور صرف قاری کو الجھانا اور شک میں ڈال دینا ہے.وہ پخش زبان اور جدید دور کی برائیوں کو بیان کر کے اشاروں کنایوں میں کہتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں نہ صرف آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ بلکہ آپ میں بھی انسانی کمزوریاں ہوں گی.مثلاً کاتبوں کے قرآن مجید کے لکھنے کے متعلق رشدی اس مفروضہ کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بعض مواقع پر محمد علی کاتبین وحی کی کتابت کی غلطیوں کو نظر انداز کر دیا کرتے تھے.سلمان فارسی کے بارہ میں وہ لکھتا ہے: " جب وہ نبی کے پاؤں میں قانون ، قانون ، قانون قلم بند کر نے کیلئے بیٹھتا تو اس نے چپکے چپکے خفیہ طور پر وحی کو بدلنا شروع کر دیا.پہلے وہ معمولی تبدیلیاں کرتا تھا.اگر ما ہونڈ نے آیت 121)

Page 122

لکھنے کو کہا جس میں خدا کو سمیع علیم کہا گیا تھا، تو میں لکھتا تھا سمیع حکیم.کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ما ہونڈ نے ایسی تبدیلیوں کو محسوس نہ کیا، تو دیکھو میں صحیفہ لکھ رہا تھا یا یوں کہہ لو دوبارہ لکھ کر میں خدا کے الفاظ کی بے حرمتی کر کے اس کو اپنی بے ادب زبان میں قلمبند کر رہا تھا." (صفحہ 367) تمام کتاب میں اسی موضوع کو مدنظر رکھ کر اظہار خیال کیا گیا ہے مگر اس واقعہ کے بیان کرنے میں اس نے جو غلیظ زبان استعمال کی ہے وہ کاری ضرب کی حیثیت رکھتی ہے.اس کے ساتھ اس نے کینہ پروری کا ثبوت دیتے ہوئے نبی پاک ﷺ کی ذات ، آپکی ازواج مطہرات اور صحابہ کرام پر بہتان لگائے ہیں.اس نے تاریخ اسلام کے تمام اصلی واقعات اصلی نام اور اصلی حالات استعمال کئے ہیں.سارے مواد کو اس نے فکشن کے رنگ میں پیش کیا ہے.مثال کے طور پر میں یہاں چند عبارتیں نقل کرتا ہوں: " اس کا نام، اس کا خوابیدہ نام اگر اسے صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کیا جائے تو اس کے معنی ہیں ایسا شخص جس کے لئے تشکر کیا جائے لیکن وہ اس کا جواب یہاں نہیں دیتا ہے.یہاں وہ نہ تو Mahomet ، نہ ہی Moe Hammered ہے.بلکہ اس نے گلے میں وہ پٹہ ڈال لیا ہے جو فرنگی لوگ اپنی گردن کے گرد باندھتے ہیں.پہاڑ پر چڑھنے والا ، نبی بننے کا شوقین خلوت گزیں، عہد وسطیٰ میں بچوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے والا ، شیطان کا مترادف Mahound ہے".(صفحہ 93) " ماہونڈ کی حالت نہایت دردناک ہے.وہ سوال کرتا ہے : کیا یہ ممکن ہے کہ وہ فرشتے ہیں؟ لات، منات ، عزی...کیا میں ان کو فرشتوں کی صفات والے کہہ سکتا ہوں؟ کیا یہ خدا کی بیٹیاں ہیں؟ کیا اللہ اس قدر اکثر باز ہے کہ وہ نوع انسانی کو بچانے کیلئے تین اور کو قبول نہ کرے گا".(صفحہ 111) " وہ (Mahound) تین دیویوں کی مورتیوں کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اور آیات کی تنسیخ کا اعلان کرتا ہے جو شیطان نے اس کے کان میں پھونک دی تھیں.یہ آیات اصل صحیفہ قرآن سے حذف کر دی گئی تھیں.ان کی جگہ نئی آیات شامل کر دی گئی تھیں، کیا اس کیلئے تو بیٹیاں اور تمہارے لئے بیٹے ہوں گے؟ ماہونڈ کہتا ہے یہ بٹوارہ قابل قبول ہوگا.(صفحہ 124) 122)

Page 123

اس نے عائشہ کی طرف رخ کیا، کوئی معبود نہیں ہے اس نے بڑی سختی سے کہا، خدا کے سوا اور کوئی خدا نہیں اور محمد اس کا نبی ہے " خاتون نے جواب دیا.(صفحہ 239) جنگ خندق کا بھی ذکر کیا گیا ہے : " سلمان نے پیغمبر کو قائل کر لیا کہ نخلستان والی آبادی کے ارد گرد خندق کھو دی جائے ایک خندق ، جس کے نیچے تیز دھار چو میں ہوں.جب جاہلین نے ان کو غیر معقول قسم کی سرنگ کھودتے دیکھا تو ان کی بہادری اور بڑائی کے احساس نے ان کو مجبور کیا کہ وہ ایسا طرز عمل دکھا ئیں کہ گویا خندق کھودی نہیں گئی، بلکہ اپنے گھوڑوں کو پورے زور کے ساتھ دوڑاتے چلے جائیں ایک مہاجر سے امید رکھو کہ وہ آپ کا ساتھ دے گا".(صفحہ 365) حضرت سلمان فارسی یہاں یہ بیان کر دینا سودمند ہوگا کہ سلمان فارسی کون تھے کیونکہ اس سے یہ بات واضح ہو جائیگی کہ وہ رشدی کے زہر یلے قلم کا نشانہ کیوں بنے ؟ سلمان کی پیدائش اصفہان کے قریب گاؤں Jayy میں زرتشتی والدین کے یہاں ہوئی.عیسائیت قبول کرنے کے بعد وہ عنفوان شباب میں ہی شام چلے گئے.یہاں وہ ایک نہایت بزرگ بشپ کے رفیق بن گئے جس نے بستر مرگ پر سلمان کو تاکید کی کہ وہ موصل کے بشپ کے پاس جائیں جوا گر چہ ضعیف العمر تھا مگر اس کے نزدیک پارسا انسان تھا.سلمان نے شمالی عراق کی طرف سفر کیا ، ایسا سفر جو عیسائی ولیوں کے ساتھ ان کی دوستی کا باعث بنا.حتی کہ ان ولیوں میں سے آخری ولی نے بستر مرگ پر سلمان کو بتلایا کہ ایک نبی کی بعثت کا وقت آن پہنچا ہے.اس نے کہا: " وہ ابراہیم کے دین کے ساتھ بھیجا جائیگا اور عرب میں مبعوث ہوگا جہاں وہ اپنے آبائی وطن سے ہجرت کر کے دو پہاڑوں کے درمیان واقع کھجوروں کے علاقہ میں آئیگا.اس کے حق میں ہونے والے نشانات ظاہر و باہر ہوں گے : وہ تحفہ والے کھانے میں سے کھا ئیگا مگر صدقہ میں سے نہیں، اور اس کے کندھوں کے درمیان نبوت کی مہر ہوگی." سلمان نے تہیہ کر لیا کہ وہ اس نبی کو ضرور بہ ضرور تلاش کریں گے اور کلب قبیلہ کے تاجروں کی جماعت کو پیسے دے کر کہا کہ وہ ان کو اپنے ہمراہ حجاز لے جائیں.مگر جب وہ بحیرہ احمر کے شمال 123

Page 124

میں خلیج عقبہ کے پاس وادی القریٰ میں پہنچے تو تاجروں نے ان کو ایک یہودی کے پاس بطور غلام فروخت کر دیا.وادی القریٰ میں کھجوروں کے درخت دیکھ کر وہ ورطہ حیرت میں پڑگئے کہ شاید یہ وہی قریہ ہو جس کی تلاش میں وہ سر گرداں ہیں.ان کے یہودی مالک نے ان کو مدینہ کے قبیلہ بنی قریظہ کے یہودی رشتہ دار کے پاس فروخت کر دیا.سلمان کے نئے آقا کا ایک چچا زاد بھائی قبہ میں رہتا تھا جو سرور کائنات ﷺ کی آمد کی خبر سن کر مدینہ کی طرف روانہ ہو گیا.سلمان ایک روز درخت کے بہت اوپر کام میں مصروف تھے جبکہ ان کا مالک درخت کے سائے میں بیٹھا ہوا تھا.جب سلمان نے قبہ سے آئے ہوئے یہودی سے اپنے چا زاد بھائی کو یہ بتلاتے سنا کہ وہاں ایک ایسا شخص وارد ہوا ہے جو نبی ہونے کا دعوی کرتا ہے ، تو سلمان کو یقین ہو گیا کہ ان کی امیدیں بر آنے لگی ہیں.ان پر اس خبر کا اس قدراثر ہوا کہ ان کا سارا جسم کانپنے لگا اور وہ قریب قریب درخت سے گرنے لگے تھے.اس شام وہ اپنے مالک کے گھر سے خموشی سے نکل کر قبہ پہنچ گئے جہاں انہوں نے نبی کریم صلى الله کو اپنے صحابہ کرام کے ساتھ بیٹھے دیکھا.سلمان آپ کے سامنے آئے اور کچھ کھانے کی اشیاء بطور خیرات کہہ کر پیش کیں.نبی کریم ﷺ نے حاضرین کو ارشاد فرمایا کہ کھانے کو تناول کریں مگر خود کچھ نہ کھایا.اگر چہ وہ آپ کی صداقت کے قائل اسی لمحہ ہو گئے تھے جب ان کی آپ پر نظر پڑی تھی مگر جب آپ حضور نے کھانے سے اجتناب کیا تو وہ اور بھی زیادہ قائل ہوگئے.حضور ﷺ سے ان کی دوسری ملاقات حضرت اسد کے جنازہ کے موقعہ پر ہوئی جس کی تفصیل انہوں نے کئی سال بعد اپنے بیٹے عباس کو یوں سنائی تھی: میں رسول اللہ کے پاس گیا جب آپ بقیع الغرقد ( مدینہ کے جنوب مشرق میں واقع قبرستان ) میں تشریف فرما تھے.آپ وہاں اپنے ایک صحابی کے جنازہ کے ہمراہ گئے تھے.تدفین کے بعد جب آپ اپنے چند صحابہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے تو میں نے سلام عرض کیا اور آپ کے گردیوں گھوما کہ کسی طرح مہر نبوت کو دیکھ سکوں.آپ کو معلوم ہو گیا کہ میں کیا چاہتا تھا ، تو آپ نے اپنا چونہ اپنی کمر سے اتار کر پھینک دیا اور میں نے وہ مہر نبوت دیکھ لی جس کا ذکر میرے مرشد نے مجھ سے کیا تھا.میں نے جھک کر مہر نبوت کو بوسہ دیا اور رونے لگا.تب رسول اللہ نے مجھے حکم دیا کہ میں 124

Page 125

آپ کے سامنے آؤں، میں آپ کے سامنے آکر بیٹھ گیا، آپ کو اپنی روئید ادسنائی اور مجھے خوشی ہوئی کہ آپ کے صحابہ بھی اسے سن سکے.اس کے بعد میں حلقہ بگوش اسلام ہو گیا" (Extracts from Mohammad by Martin Lings) حضرت سلمان فارسی کا شرفاء جیسا کردار ان کے عادات واطوار اور صداقت کی پہچان سے صاف نظر آتا تھا مگر ایسی برگزیدہ ہستیوں کی بدگوئی کرنے سے بھی رشدی باز نہیں رہا.امر واقعہ تو یہ ہے کہ سلمان رشدی کی تحریروں میں یہ بات نظر آتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات کا کوئی احترام نہیں کرتا چاہے ان کا تعلق کسی بھی فرقہ سے ہو.اس کی تحریروں میں فکشن کا مصنوعی لبادہ جسے وہ اپنے در پردہ محرکات کو چھپانے کیلئے استعمال کرتا ہے وہ نا قابل یقین حد تک ظاہر و باہر ہے.اگر چہ اس نے ایک پوری کتاب شیم (Shame ) کے نام سے لکھی ہے یہ ایک ایسی صفت ہے جو اس میں بالکل مفقود ہے.جب اس کا دل رسول اللہ کے خلاف دشنام طرازی کر کے نہیں بھرتا تو وہ آپ کے معزز صحابہ کرام کی عزت مٹی میں ملانے کے درپے ہو جاتا ہے جو زخم پر نمک چھڑ کنے سے مترادف ہے.بلکہ وہ صحابہ کرام جن کو تمام اسلامی فرقے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ، وہ صحابہ جن کی زندگیوں کی مثالیں دیکھ کر لوگ مدح اور احترام کے گن گاتے ہیں ان کو بھی اس نے نہیں بخشا.ان اصحاب میں سے ایک بزرگ انسان سلمان فارسی تھے ، جن کی اسلام کے لئے قربانیاں اور ان کی وفاداری کو تمام اسلامی دنیا تسلیم کرتی ہے.آپ کے علم اور اخلاص کا اعتراف تو خود رسول مقبول ہ نے کیا تھا.ایک اور واقعہ اس بیان کی صداقت پر گواہ ہے جو شاید حضرت سلمان فارسی کی تاریخ اسلام میں سب سے مشہور خدمت بھی تھی.اور یہی واقعہ سلمان رشدی نے ادی سٹینک ورسز میں حسب معمول تحقیرانہ انداز میں پیش کیا ہے (صفحہ 366 ).یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں کو مکہ سے میٹر ب جو مکہ کے شمال میں 250 میل کے فاصلہ پر واقعہ تھا، ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا تھا.(بعد میں میثرب مدینہ النبی کے نام سے معروف ہوا، یا صرف مدینہ ).فخر کائنات ﷺ کی ہجرت کے موقعہ پر مدینہ میں کچھ مقامی لوگوں کی ایسی تعداد موجود تھی جو اسلام قبول کر چکے تھے، ان کو انصار کہتے تھے.وہ مسلمان جنہوں نے مدینہ رسول اللہ کے ساتھ ہجرت کی یا ان کے بعد ، ان کا نام 125

Page 126

مہاجرین تھا.یہاں مسلمان کئی سال تک مقیم رہے مگر قریش کے حملے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا تھا جو رفتہ رفتہ دیگر مقامی قبائل پر اپنا سیاسی اثر جمارہے تھے.ایک موقعہ پر قریش نے مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے دس ہزار سپاہی جمع کر لئے تھے تا اسلام کو ہمیشہ ہمیش کیلئے صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے.مسلمان تعداد اور اسلحہ میں بہت قلیل تھے.جب رسول اللہ ﷺ کو قریش کے جلد ہو نیوالے حملہ کا علم ہوا تو آپ نے صحابہ کو مشورہ کیلئے طلب کیا.سلمان فارسی ان میں سے ایک تھے.آپ نے تجویز کیا کہ مسلمان مدینہ کے اس حصہ کے گرد وسیع خندق کھود کر خود کو محفوظ کر سکتے ہیں جو حملہ کی زد میں تھا.رسول اللہ ﷺ کو یہ مشورہ پسند آیا اور آپ نے خندق کھودنے کا ارشاد فرمایا، کھدائی کا یہ کام انصار اور مہاجرین کے درمیان تقسیم کر دیا گیا، مگر سوال پیدا ہوا کہ سلمان فارسی کس گروہ کے ساتھ کام کریں گے؟ یہ سوال نبی کریم ہے سے کیا گیا تو آپ نے چہرہ مبارک پر مسکراہٹ لاتے ہوئے فرمایا: "سلمان نہ تو انصار سے ہے اور نہ مہاجرین میں سے، وہ میرے خاندان میں سے اور ہم میں سے ایک ہے ".اس کے بعد سلمان فارسی کو ہمیشہ اہل بیت میں شمار کیا گیا.اس واقعہ سے سلمان فارسی کی عظمت و رفعت تاریخ اسلام میں واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے مگر اس کے باوجود سلمان رشدی پر اس بات کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ وہ اس قسم کے بیش بہا موتیوں کو غلاظت میں ملانے پر تلا ہوا تھا.سب سے برا سلوک اس نے نبی پاک ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کے ساتھ کیا ہے.اسلامی تعلیمات کو نشانہ تضحیک بنایا ہے اور برگزیدہ ہستیوں کو بری طرح روندا گیا ہے.آزادی تقریر کی جنگ لڑنے کی خاطر اس نے عام رواداری کو بہت دور پھینک دیا ہے، حتی کہ اس کو اپنے ہی جیسے انسانوں کے جذبات کا ذرا بھی احساس نہیں رہتا.صلى الله رسول اللہ علیہ کے خلاف مزید الزامات ہم ایک بار پھر 'The Stanic Verses' کی طرف لوٹتے ہیں جس میں کثرت ازدواج اور رسول کریم ﷺ کی جنسی عیاشی ( معاذ اللہ ) کو ایسے زہریلے قلم میں ڈبو کر کھا گیا ہے جو سم قاتل کی حیثیت رکھتا ہے.رشدی لکھتا ہے : " میثرب کی خندق کے باوجو د مومنین کے بہت سارے سپاہی جاہلیہ کی فوج کے ہاتھوں مارے گئے اور لڑائی کے بعد جبرائیل بچ جانے 126

Page 127

! والے مردوں کو نصیحت کر رہا تھا کہ وہ بیوہ عورتوں سے شادی کریں...سلمان نے رونا شروع کردیا، بلکہ میں کہا گیا کہ گر ہم پہلے شادی شدہ ہیں تو کوئی بات نہیں، ہم چار شادیاں کر سکتے تھے اگر ہم میں استطاعت ہو، تو اندازہ کریں عورتیں اس حکم پر رضامند ہوگئیں.لیکن جن امور پر سلمان اور ماہونڈ میں علیحدگی ہوگئی وہ یہ تھیں : عورتوں کا مسئلہ، اور شیطانی آیات.بات سنو میں کوئی گپی نہیں ہوں ،سلمان نے شراب کے نشے میں کہا، مگر اس کی بیوی کی وفات کے بعد ماہونڈ فرشتہ نہ رہا تھا تم میرا مطلب سمجھتے ہو.وہ عورتیں جنہوں نے اس کے سر کے نصف بال سفید کر دئے...وہ ماؤں اور بیٹیوں کیلئے رضامند ہو گیا ، ذرا پہلی بیوی اور عائشہ کا سوچو، ایک بہت بوڑھی اور دوسری بہت جوان، اس کی دو معشوقیں".(صفحہ 366) " کتنی بیویاں؟ بارہ اور ایک بوڑھی عورت ، جو بہت سال قبل مرگئی تھی.پردے کے پیچھے کتنی داشتا ئیں؟ ایک بار پھر بارہ...جب جاہلیہ کے شہر میں یہ خبر پھیل گئی کہ پردے والی داشتاؤں نے ما ہونڈ کی ہر ایک بیوی کی شناخت اختیار کر لی تھی ، تو شہر کے مردوں کے پوشیدہ جذبات میں شدت آگئی تو پھر پیغمبر کی غیر موجودگی میں جاہلیہ شہر کے لوگ پردہ کی طرف دوڑے آئے جس سے ان کے کاروبار میں تین سو فی صد اضافہ ہو گیا.پیسے دینے والے عوام میں پندرہ سالہ طوائف عائشہ بہت مقبول تھی بالکل جس طرح اس کی ہم نام ما ہونڈ کو ہر دلعزیز بھی." (صفحہ (380/381 رشدی اس بات کا بھی استہزاء کرتا ہے کہ محمد ﷺ کو جب اپنی حاجت کے مطابق وحی کی ضرورت ہوتی تھی تو وہ حالت نوم میں چلے جاتے تھے.کثرت ازدواج کے مسئلہ کو بھی وہ شہوت پرستی کے طور پر پیش کرتا ہے : " اس نے بعل سے ما ہونڈ اور عائشہ کے مابین ہو نیوالے جھگڑے کا تذکرہ کیا اوہ عورت اس بات کو ذرا بھی برداشت نہ کر سکتی تھی کہ اس کا شوہر اتنی مزید عورتیں چاہتا ہے ، اس نے کہا' اس نے ضرورت ، سیاسی اتحاد اور دیگر امور پر باتیں کیں لیکن وہ اس کو بیوقوف نہ بنا سکا.اس کو کون ذمہ دار ٹھہراسکتا ہے؟ بالآخر وہ اس میں چلا گیا.کس میں چلا گیا؟ اپنی حالت نوم میں، اور جبرائیل سے ایک پیغام لیکر واپس آگیا.جبرائیل نے ان آیات کی تلاوت کی جس میں اسکی تائید کی گئی تھی.خدا کی اپنی اجازت کہ وہ جتنی عورتوں سے مرضی چاہے ہم بستری 127)

Page 128

الله کر سکتا ہے؟ کیا تمہیں پتہ ہے اس عورت نے کیا کہا ؟ یہ کہا، جب تمہیں کسی گڑ بڑ والے معاملے کو سنوارنا ہوتا ہے تو تمہارا خدا فوراً آن وارد ہوتا ہے."(صفحہ 386) اس سے اگلے پیراگراف میں رشدی ایک اور واقعہ کو پیش کرتا ہے جو آنحضور ﷺ اور حضرت عائشہ سے تعلق رکھتا ہے.اس واقعہ کے بیان کر نیکا مقصد یہ تھا کہ وہ ہتک آمیز زبان میں اس واقعہ کو گمراہ کن طریق سے پیش کر سکے.یہ وہ واقعہ ہے جس میں بعض شرارت پسندوں نے حضرت عائشہ کے پاکیزہ کردار پر داغ لگانے کی کوشش کی تھی.خدا کی طرف سے آنیوالی وحی سے یہ معاملہ سدھر گیا اور حضرت عائشہ اس الزام سے بری ہو گئیں.رشدی نے اس واقعہ کا انتخاب بھی کسی کے جذبات کا خیال رکھے بغیر ٹھٹھا کرنے کیلئے کیا ہے: "آؤ اس کے علاوہ ایک اور بات بتاتا ہوں، شہر کی گرما گرم خبر ، واہ واہ ، صحرا میں دونو جوان افراد کئی گھنٹوں تک اکیلے تھے اور اس بات کی طرف اشارہ بلند آواز میں لوگ کر رہے تھے کہ صفوان بہت ہی من چلا خوبصورت نوجوان تھا جبکہ پیغمبر اس جوان عورت سے عمر میں کافی بڑا تھا، اور کیا یہ ممکن نہ تھا کہ وہ عورت اپنی عمر کے برابر شخص کے لئے کشش رکھتی تھی ؟ اب ماہونڈ کیا کرے گا ؟ بعل یہ جاننا چاہتا تھا.اس نے پھر کر دکھایا ، سلمان نے جواب دیا، پہلے کی طرح اس نے اپنے پالتو بڑے فرشتے کو دیکھا اور سب سے کہہ دیا کہ جبرائیل نے عائشہ کو بری الذمہ قرار دے دیا ہے.' سلمان نے دست برداری کے رنگ میں اپنے بازو پھیلا دئے.اور اس بار جناب اس خاتون نے عین موقعہ پر نازل ہو نیوالی آیات کے بارہ میں شکایت نہ کی ".( صفحات 386/387) نبی آخر الزماں ﷺ کی وفات کے معاملہ میں بھی رشدی نے کہیں سے تاریخی واقعات تراش لئے ہیں اور اپنی ہوس پرست طرز تحریر جعلی واقعات کے ساتھ اس لئے استعمال کی ہے تا وہ اسٹینک ورسزا کا موضوع پھر الات کے لبادہ میں زیر بحث لا سکے.وہ اس خیال کو تقویت دینا چاہتا ہے کہ سرور کائنات ﷺ اپنی وفات کے وقت تین دیویوں سے متاثر تھے جس بناء پر ان کی رسالت کے آغاز میں اس قدر تنازعات پیدا ہوئے تھے.رسول اللہ کی وفات کا تذکرہ وہ ان الفاظ میں کرتا ہے: ایک گھنٹہ کے اندر یہ خبر لوگوں تک پہنچ گئی کہ پیغمبر یعنی ما ہونڈ ، خطرنات مرض کا شکار ہو گیا 128

Page 129

تھا، یہ کہ وہ عائشہ کے بستر میں دراز تھا اور اس کا سریوں پھٹ رہا تھا گویا اس کے اندر بھوت پریت بھرے ہوئے ہوں.پھر وہ بہت روئی یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کی موت کا ذکر کر رہی تھی ، اس موقعہ پر اس کی آنکھیں اس کو دیکھتے ہوئے گزر گئیں اور کمرے میں موجود ایک اور شخص پر رک گئیں یہاں کون ہے؟ اس نے آواز لگائی.کیا یہ تم ہو عزرائیل ؟ لیکن عائشہ نے ایک مدھر آواز سنی جو عورت کی تھی جس نے جواب میں کہا نہیں اے الات کے رسول، یہ عزرائیل نہیں ہے.پھر قندیل بجھ گئی اور اندھیرے میں ماہونڈ نے استفسار کیا : کیا یہ بیماری اے الات تو نے مجھے دی ہے؟ اس عورت نے جواب میں کہا: یہ میرا انتقام ہے اور میں مطمئن ہوں ، ان کو اونٹ کی ٹانگ کی موٹی رگ کاٹنے دو، اور تمہاری قبر پر رکھنے دو.پھر وہ عورت باہر گئی اور وہ قندیل جو بجھ گئی تھی ایک بار پھر بڑی پر سکون روشنی دینے لگی، اب پیغمبر نے سرگوشی کی : اس کے باوجوداے الات اس تحفے کیلئے میں تیرا ممنون ہوں'.(صفحات 393/394) اس نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ معاذ اللہ نبی کریم ﷺ زندگی کے آخری لمحات میں شیطانی خیالات کا شکار ہو گئے تھے.کیا یہ ایسے شخص کے خیالات ہو سکتے ہیں جس نے ساری زندگی خدا کی وحدانیت کا اس یقین محکم کے ساتھ پر چار کیا جس کی نظیر نہیں ملتی ؟ رشدی ضرور احمقانہ تصوراتی دنیا میں رہ رہا ہوگا کہ وہ اس قسم کے مضحکہ خیز اور جعلی دعوے کرتا ہے.اس نے اس معاملے کو افسانوی کہہ کر پیش کرنے کی جو کوشش کی ہے اس سے وہ کسی کو بیوقوف نہیں بنا سکا.یہ اسلام اور ہر وہ چیز جس کا اسلام سے ذرا بھی تعلق ہے اس پر سوچا سمجھا اور پہلے سے تیار کردہ حملہ ہے.اس کا واحد مقصد یہی تھا کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا جائے.سلمان رشدی ایک تنہا فرد کی حیثیت سے اس منصوبے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور نہ ہی وہ قدامت پسند مسلمانوں کے دبے ہوئے جذبات کو مشتعل کرنی کا خطرہ مول لے سکتا تھا.ہاں اس کے بدلے اگر اس کو اتنی دولت دی جاتی کہ جسے وہ بمشکل سنبھال سکتا اور اتنی شہرت دی جاتی جس سے وہ آسانی سے جی سکتا نیز حالات کے دگرگوں ہونے کی صورت میں اسے مکمل حفاظت کا وعدہ کیا جاتا تو وہ ضرور ایسا کر لیتا.ادی سٹینک ورسز' کی اشاعت کے بعد ہونے والے رد عمل پر ایک نگاہ ڈالنا دلچسپی سے 129)

Page 130

خالی نہ ہوگا.اس کے بعد فتویٰ کا اجراء ، رشدی کی طرف سے ہونے والی تو جیہات اور عذرخواہیاں، اور مغربی ذرائع اطلاعات میں اسلام کے خلاف مہم کا جاری رہنا ، ان سب کا آپس میں گہرا تعلق ہے.لیکن پہلے میں کلمہ تکفیر اور کتابوں کے نذرآتش کئے جانے کے مسئلہ کو زیر بحث لاؤں گا جوا رشدی افیئر ' کی وجہ سے لوگوں کے دماغوں میں ابھرے ہیں.اس سے قاری کو یہ بخوبی علم ہو جائیگا کہ مسلمانوں کے شدید رد عمل کی اصل وجہ کیا تھی.130

Page 131

چودھواں باب ہتک خدا، ارتداد اور الحاد برطانیہ میں بریڈ فورڈ ( یارک شائر ) کے شہر میں ادی سٹینک ورسز' کی چند کا پیوں کو نذر آتش کئے جانے کے واقعہ کو برطانیہ کے بڑے بڑے اخبارات نے جلی سرخیوں کیساتھ شائع کیا.ٹیلی ویژن پر بھی یہ خبر جامع رنگ میں دکھائی گئی.چند غصیلے مسلمانوں کے اس رد عمل کو تمام مسلمانوں کا رد عمل کہہ کر پیش کیا گیا، جس طرح اس واقعہ کو برطانوی ذرائع ابلاغ نے اچھالا اس سے اسلام اور مغرب کے درمیان تفرقات کی خلیج اور بھی بڑھ گئی.سب سے پہلے میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اسلام چند ایک مسلمانوں کے اس فعل کی ہرگز چشم پوشی نہیں کرتا جنہوں نے اپنے غصہ کو رفع کرنے اور رسوائے زمانہ ناول کے مندرجات پر بیزاری کا اظہار کرنے کیلئے کتابوں کو جلایا.اس ہنگامہ خیز واقعہ سے کسی قسم کا جسمانی تشدد وقوع پذیر نہ ہوا لیکن مغربی ذرائع ابلاغ رائی سے پہاڑ بنانے پر تلے ہوئے تھے.تا ہم جو بات مغربی ذرائع ابلاغ نے آسانی سے فراموش کر دینے میں مصلحت جانی وہ یہ ہے کہ عیسائیوں نے خود ازمنہ وسطی سے لے کر اب تک تاریخ میں کتنی کتابیں نذر آتش کی ہیں.چرچ کی شروع ہی سے یہ پالیسی رہی کہ مد مقابل مذاہب ( یہودیت اور اسلام) سے عیسائیوں کو محفوظ کرنے کیلئے ان پر من گھڑت جھوٹے الزامات عائد کر دئے جائیں.......ہانس کنگ (Hans Kung) جو جرمنی کی یو نیورسٹی آف تو بنگن میں پروفیسر ہے وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے : " ازمنہ وسطی میں..یورپین اقوام عرب تہذیب، فلاسفی ، سائنس ، طب، اسلام کی اقتصادی اور فوجی طاقت کو بہ نظر استحسان دیکھتی تھیں.تا ہم نشاۃ ثانیہ کے بعد ہر وہ چیز جو عرب تھی بشمول ان کی زبان کے اس کو حقیر سمجھا جانے لگا.کیونکہ اس وقت عیسائیت کو (1529ء) ترک قوم کی طرف سے فوجی خطرہ لاحق ہو گیا تھا.جب وینس میں ، جو اس وقت ترکوں 131)

Page 132

کی طوائف کا شہر کہلاتا تھا، قرآن کی عربی زبان میں طباعت مکمل ہوئی تو پاپائے اعظم نے اس کو فوراً نذر آتش کر دینے کا فرمان جاری کر دیا.ایڈرین ریلینڈ (Adrian Reland ) کی کتاب De Religion Mohammedica دی ریجن آف محمد.1705ء) جو راس ( Ross) کی کتاب Pansebeia کے بعد اسلام پر سب سے زیادہ حقیقت پسند کتاب تھی ، اس کو ممنوعہ کتابوں کی فہرست رومن انڈیکس میں شامل کر دیا گیا تھا" (Hans Kung, Christianity & the World Religions, page 20) یہودی بھی عیسائیوں کے ظلم و استبداد کا نشانہ بنے کیونکہ یہودیوں کے ہتک خدا و رسول کے جواب میں ان کی کتابوں کا جلا دینا بھی اس سازش کا حصہ تھا.چرچ کے نزدیک یہ معاملہ بہت ہی سنجیدہ تھا اور یہودیوں نے اپنی مقدس کتابوں کی بے حرمتی کے خلاف بہت آہ وفغاں کی.اس موضوع پر پروفیسر لیزر ڈلیوی (Leonard Levy ) نے اپنی کتاب میں مزید روشنی ان الفاظ میں ڈالی ہے: " پوپ گریگوری نہم نے فرمان جاری کیا کہ طالمود کو پوری عیسائی دنیا میں آگ کی نذر کر دیا جائے کیونکہ اس میں عیسی اور مریم کے خلاف ہتک وکفر کے کلمات شامل تھے...لوئیس نہم (Louis IX) کو طالمود نذر آتش کر دینے میں مسرت حاصل ہوتی تھی...پیرس میں 1248ء میں ان کا ایک ڈھیر نذرآتش کیا گیا آراگان میں جہاں طالمود کو جلا یا تو نہ گیا مگر اس کو ضبط کر کے اس میں سے نامناسب حصے حذف کر دئے گئے.کلمات کفر ادا کرنے کی سزا کے طور پر یہودیوں کو حکم تھا کہ وہ اپنی تمام کتابیں سرکار کے حوالے کر دیں حکم عدولی کی سزا موت تھی...1550 ء کی دہائی میں اطالین شہروں میں یہودی کتابیں اور نا در ربانی مسودات کو ہزاروں کی تعداد میں جلایا گیا...ایک اطالین کارڈینل نے 1629ء میں یہ ڈینگ ماری کہ اس نے دس ہزار یہودی کتابیں ضائع کر دینے کیلئے جمع کی تھیں." (Leonard Levy, Treason Against God, page 116/117) ایک اور مصنف ریورنڈ آئی بی پرانے ٹس (RevI.B.Pranaitis) نے بھی اسی قسم کی حکایات کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے جو یہودیوں کی فقہ میں عیسائیوں کے بارہ میں خفیہ تعلیمات کے متعلق ہے: "شہنشاہ جسٹینین (Justinian) نے 553ء میں پوری رومی سلطنت میں طالمودی کتابوں کی ترسیل پر پابندی لگادی.تیرھویں صدی میں دو پاپائے اعظموں یعنی گریگوری نہم 132)

Page 133

اور انو سینٹ چہارم نے طالمود کی کتابوں کو قابل مذمت قرار دیا کیونکہ ان میں عیسائی مذہب کے خلاف ہر قسم کی خباثت اور مذمت دین موجود تھی.انہوں نے ان کے جلا دینے کا حکم صادر کیا کیونکہ یہ سیحی مذہب کیخلاف مکروہ باتوں کا پر چار کرتی تھیں." (The Talmud Unmasked, page 21) ان تاریخی حقائق کے پیش نظر کیا اب مغربی اقوام کیلئے یہ بات سمجھنا آسان ہوگئی ہے کہ مسلمانوں میں سلمان رشدی کے ناول ' دی سٹینک ورسز' میں آنحضور ﷺ کی پیش کردہ تصویر کے خلاف کیوں شدید رد عمل ہوا تھا.کیا اب ان کو یقین آگیا ہے کہ ایک ناول اس قدر نفرت اور عداوت کو کیسے ہوا دے سکتا ہے؟ کیا مغرب کے عوام کے خدشے دور ہو گئے ہیں کہ مسلمان طبقے اپنے شہروں میں بیگانی اقدار کے مطابق نہیں رہتے اور نہ ہی یہ کہ وہ ان اقدار کے دفاع میں اپنی جانیں نچھاور کرنے کو تیار ہیں؟ ان زیرک لوگوں کو جو تاریخی حقائق سے شناسائی رکھتے ہیں، اس دردناک واقعہ نے یورپ کو اپنے ماضی کی یاد دلا کر بے چین کر دیا ہوگا.مزید یہ کہ عوام کو بالکل اندھیرے میں رکھا گیا اس لئے جب انہوں نے بریڈ فورڈ کے مسلمانوں کو اس ناول کو نذرآتش کرتے دیکھا تو وہ اس کتابوں کے ڈھیروں کے آلاؤ سے اس کا ناطہ نہ جوڑ سکے جو صدیوں تک عیسائی یورپ میں بھڑکتا رہا.ہاں انہوں نے اس چیز کو اسلام کی ناقابل علاج غیر رواداری کے ثبوت کے طور پر پیش کیا، ایک ایسی غلط تصویر جو صدیوں سے یہ لوگ پیش کرتے آئے ہیں.عوام الناس خاص طور پر برطانوی بہت ہی انصاف پسند لوگ ہیں.جب ان کے سامنے معقول رنگ میں دلائل پیش کئے جاتے ہیں تو وہ غیر جانبدارانہ رنگ میں انصاف کیسا تھ فیصلہ کرتے ہیں.لیکن اگر حقائق کو تعصب کی عینک لگا کر ، نفرت کے بھیس میں چھپا کر پیش کیا جائے جیسا کہ مغرب کے ذرائع ابلاغ کی اکثریت کی یہ عادت ہے، تو پھر یہ حیرانگی کی بات نہیں کہ عوام الناس کی رائے ان لوگوں کے مطابق ہو جاتی جو اس طاقتور ذریعہ ابلاغ کو کنٹرول کرتے ہیں.133

Page 134

ہتک خد اور سول اور آزادی تقریر ہتک خدا اور سول اور توہین آمیز کتابوں کے نذرآتش کئے جانے میں ایک نا قابل انکار تعلق ہے.رشدی افیئر نے یقیناً ان دونوں باتوں کو بھڑکایا ہے.اس کے نتیجہ میں ایک اور بہت اہم مسئلہ پیدا ہو گیا جو آزادی تقریر سے تعلق رکھتا ہے.اس حصہ میں ہتک خدا و رسول سے پیدا ہونے والے اولین واقعات بمع مثالوں کے پیش کر کے ان پر تبصرہ کیا جائیگا.ان کا تعلق ہمارے دور میں ہونیوالے واقعات سے جوڑا جائیگا.اس مسئلہ پر صحیح اسلامی تعلیمات کیا ہیں وہ پیش کی جائینگی.تاریخی طور پر انگریزی لفظ ' بلا شیمی (Blasphemy ) بطور لقب کے استعمال ہوتا تھا یعنی دین کے مقدس معاملات میں ایسی غلط رائے دینا جو اختلاف کرنے والے کے نزدیک قابل اعتراض ہو.معترض صدق دل سے محسوس کرے کہ اس کے ایمان پر حملہ کیا گیا ہے در آنحالیکہ ہتک صرف اس کے ذہن میں ہی واقع ہوئی ہو نہ کہ قصور وار کے ذہن میں.بائبل کی تعلیمات بائیل صاف اور غیر مبہم الفاظ میں اللہ کی شان میں بے ادبی کرنے کی مذمت کرتی ہے.یہ کلمہ کفر بکنے والوں کیلئے موت کی سزا مقرر کرتی ہے.یہود ونصاری کی تاریخ میں Leviticus 24:16 نے کلمہ کفر کی سزاموت مقرر کر کے آنیوالی نسلوں کیلئے مثال قائم کر دی : اوہ شخص جو اللہ کے نام کی ہتک کرے گا اسے موت دی جائیگی، حاضرین مجلس اس پر سنگساری کریں گے ، عارضی شہری اور مقامی شہری بھی ، جب وہ خدا کے نام کی ہتک کرے گا موت کی گھاٹ اتارا جائیگا.ہتک خدا و رسول کے قوانین کی چرچ کی طرف سے باریک بینی سے پیروی کے نتیجہ میں یہودیوں کو صدیوں تک نشانہ ستم بنایا گیا.تاہم کوئی اس فرمان کی زد سے باہر نہ تھا بشمول خود عیسائیوں کے.اس کی ایک طنزیہ مثال اطالین نشاۃ ثانیہ کے فلاسفر جیور ڈانو برونو Giordano) Bruno کی ہے جو سولہویں صدی میں رہتا تھا.اس کے مقدمہ کی تفصیل سلمان رشدی کی حالت زار کی طرح نہایت دلچسپ ہے.134

Page 135

رشدی سے موازنہ برونو کے مقدمہ کی رشدی کے ساتھ بھیانک طور پر مشابہت پائی جاتی ہے جہاں تک حدود کی قیود کے بغیر ادبی اسلوب بیان کا معاملہ ہے.رشدی اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ اس کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار آزادی سے کرے چاہے وہ کس قدر متنازعہ ہی کیوں نہ ہوں.رشدی برونو کی طرح ہی روپوش ہوا تھا.جیوڈار نو برونو نہ تو سائنسدان تھا اور نہ ہی عالم دین، ہاں اس نے سائنس اور مذہب میں مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی فلاسفی نے دین کے بنیادی اصولوں کو تہ و بالا کر دیا.اس نے اپنے بارہ میں کہا کہ "اُس نے انسانی روح کو اور علم کو بھی آزاد کر دیا ہے.قید خانے کی بند ہوا میں اس کا دم گھٹ رہا تھا، جب اس نے دورستاروں پر نگاہ ڈالی.(Giordano Bruno, Ash Wednesday Supper, 1584) رشدی نے افسانے اور مذہب کو آپس میں ملانے کی کوشش کی اور اس کے فلسفہ نے بھی اسلامی عقائد کو سخ کر دیا.اس نے بھی آزادی تقریر کی پورے جوش سے پشت پناہی کی.برونو مذہبی تعلیمات سے بد کتا تھا کیونکہ اس کو دینی فرائض سے نفرت تھی.جب وہ اٹھارہ سال کی عمر کا تھا تو اس نے تثلیت کے بارہ میں شبہ کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا.اس کو مذہبی نشانات و علامات سے نفرت تھی خاص کر عیسائی بزرگوں کی تصاویر سے.خدا کا تین ہونا اس کے فہم وادراک سے باہر تھا اور نہ ہی وہ خدا کا انسانی روپ میں ظاہر ہونا تسلیم کرتا تھا.جب ڈومینیکن فرقہ والوں نے اس کے خلاف تکفیر کا مقدمہ دائر کر دیا تو وہ وہاں سے فرار ہو کر نیپلز چلا گیا.اس نے اپنا عیسائی راہبوں والا نام تبدیل کر لیا اور مذہبی اطوار کو بھی خیر باد کہ دیا.لیکن وہ خود کو غور و فکر کرنے والی دانشوری کی عادت سے آزاد نہ کر سکا.وہ کہتا تھا کہ مجھے اپنے فلسفہ کا آزادی سے اظہار کرنے کا حق حاصل ہے اور اس نے اس کا استعمال بھی جی بھر کر کیا.رشدی کی داستان بھی برونو سے کس قدر مشابہت رکھتی ہے! اس کا تعلق بھی ایک مسلمان گھرانے سے تھا لیکن بچپن سے ہی وہ محسوس کرنے لگا تھا کہ اسلامی اصول وضوابط اس کی جان پر بھاری بوجھ کی طرح تھے.اس کا ثبوت اس کی اولین کتابوں سے ملتا ہے.اس نے دین کی 135

Page 136

قیود وضوابط پر اظہار خیال کیا اور اس بات کا دعوی کیا کہ اس کو مکمل آزادی کے ساتھ اپنے خیالات بیان کرنے کا حق حاصل ہے.جلا وطنی میں برونو مغربی یورپ کے شہروں میں در بدر پھر تار ہا جہاں وہ کبھی درس و تدریس اور کبھی کتابیں لکھنے میں مشغول رہا.اس نے یکے بعد دیگرے کتابیں تصنیف کیں.اس پر عزت افزائیاں نچھاور کی جانے لگیں.حتی کہ فرانس کے بادشاہ نے اس کو ذاتی طور پر فلاسفی کے لیکچرار کی ملازمت کی پیش کش کی.اس کے بعد وہ لندن، آکسفورڈ، پراگ، زیورک اور فرینکفرٹ میں لیکچر دیتارہا.رشدی کا بھی یہی حال ہے.جلاوطنی کے دوران وہ بھی یورپ میں گھومتا رہا اور ہر کس و ناکس کے پاس ہمدردی لینے کیلئے گیا.وہ ابھی بھی یکے بعد دیگرے کتا ہیں لکھ رہا اور ٹیچر دے رہا ہے.اس کو بھی لٹریری ایوارڈ اس کے خیر خواہوں نے درجنوں میں دئے ہیں.برونو کے نظریات اور اس کے ارسطو ازم پر جارحانہ حملوں نے اس کو چرچ کے مد مقابل لا کھڑا کیا.اس کے متنازع خیالات نے بائبل کو مستر د قرار دیا مگر اس کے باوجود وہ نزاعی کتابیں تصنیف کرنے میں مصروف رہا.بالآخر وہ کیتھولک فرقہ کی مذہبی عدالت ( Inquisition) کے سرکردہ افراد کے متھے (ہاتھ) چڑھ گیا جب 1592ء میں وہ اٹلی واپس لوٹا.اس پر ہتک خداورسول کا الزام عائد کیا گیا.پہلے تو اس نے اپنا دفاع پوری جاں بازی سے کیا اور بہتک خدا ورسول اور الحادی غلطیوں کے الزامات سے خود کو بری قرار دیا.اس نے اپنے فلسفہ کے بارے میں آزادی اظہار خیال کا سہارا لیتے ہوئے فطرت کے قوانین کے مطابق دلائل دینے کی کوشش کی.البتہ اس نے اس امر کا اعتراف کیا کہ اس کی فلاسفی الہامی صداقت سے میل نہ کھاتی ہو لیکن اس کا مقصد ہرگز مذہب کی تردید کرنا نہ تھا.آخر کار اُس کے معاملہ میں تحقیقات کرنے والے افسران نے اس کو مجبور کیا کہ گھٹنوں کے بل جھک کر عدالت سے رحم کی درخواست کرے : " ہولی چرچ کے احکامات اور کیتھولک مذہب کے خلاف میں نے جو فاش غلطیاں کی ہیں میں ان کو قابل مذمت سمجھتا ہوں.میں ہر وہ چیز جس کا کیتھولک چرچ سے تعلق ہے اس کو شک کی نگاہ سے دیکھنے پر تو بہ کرتا ہوں." (Quotations from Boulting, Bruno, pp 276/277) 136

Page 137

اس کی ان التجاؤں کے باوجود کسی کے سر پر جوں تک نہ رینگی اور برونو قید میں ہی رہا.سلمان رشدی کی اذیت ناک داستان بھی اس سے بہت مشابہت رکھتی ہے.اس کے ناول نے اس کو مسلمان علماء کے مد مقابل لا کھڑا کیا.اس پر ہتک خدا و رسول اور کفر کے الزامات عائد کئے گئے.جب لوگوں نے اس کے متنازع ناول کی اشاعت کے بعد اس کا سامنا کیا تو اس نے اپنے قبیح فعل کا پوری قوت کے ساتھ دفاع کیا.اس نے آزادی تقریر کے حق کا سہارا لیا تاہم اس نے یہ بھی کہا کہ اس کا مقصود نہ تو اسلام اور نہ ہی حضور نبی پاک ﷺ کی اہانت کرنا تھا.اس کے بعد رشدی نے تو بہ کا اعلان کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ اسے حلقہ بگوش اسلام سمجھا جائے.لیکن اس کے باوجود جب فتویٰ کا حکم منسوخ نہ کیا گیا تو اس نے ایک بار پھر اپنے ناول کا دفاع شروع کر دیا.بلکہ پہلے سے بڑھ کر ادبیوں کے حقوق کا دفاع کرنے لگا.برونو کو بعد میں وینس سے روم منتقل کر دیا گیا کیونکہ مذہبی عدالت کے افسر اعلیٰ نے کہا کہ برونو کوئی عام سا ملحد نہ تھا.، اس کو ملحدوں کا سرغنہ قرار دیا گیا بلکہ الحادکو شروع کرنے والا.روم کی مذہبی عدالت کی کال کوٹھڑی میں اس کو سات سال تک قید رکھا گیا.اس پر الحاد کے مزید الزامات عائد کئے گئے.جب آخری بار اس سے پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے اعلان کر دیا کہ وہ اپنے گمراہ کن عقائد سے دست بردار ہو جائیگا.اس کو سولی پر چڑھا کر نذر آتش کئے جانیکی سزا سنائی گئی جس پر عملدرآمد 17 فروری 1600ء کو کیا گیا.(Leonard Levy, Treason against God, pp.152/155) رشدی نے بھی ایک بار پھر پبلک کے سامنے کھل کر آنے کی ہمت کی.سات سال کی روپوشی کی زندگی سے جب وہ تنگ آگیا تو ستمبر 1995 ء میں اپنے نئے ناول The Moor's Last Sigh کے افتتاح کیلئے عوام کے سامنے آیا.اپنے گناہ پر نادم ہوئے بغیر اور اس کے باوجود کہ اُس پر لگائے گئے فتویٰ کا خطرہ ابھی تک اُس کے سر پر تھا.بعض لوگوں کے نزدیک یہ رشدی کی جرات مندانہ حرکت تھی اور بعض کے نزدیک حماقت.بہر حال یہ تو آنے والا وقت ہی بتلائے گا.ہتک خدا و رسول کے جرم میں برطانیہ میں آخری بار پھانسی سکائش قانون کے تحت 137)

Page 138

1697ء میں دی گئی تھی.برطانوی پارلیمنٹ نے اگلے سال 1698ء میں ہتک خدا اور سول کے متعلق ایک نیا قانون پاس کیا جس کے تحت سزائیں کم کر دی گئیں.اگلی صدی میں مذہب سے متعلق آزادی تقریر میں ایک نئے عہد کا دور شروع ہوا.اس کے بعد ہتک خداورسول کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے زیادہ تر آزاد خیال، عقلیت پسند، لا ادریے، اور دہریے تھے.اپنے عقائد کے دفاع میں یہ لوگ اب پریس کی آزادی اور آزادی مذہب پر انحصار کرنے لگے تھے.تک خدا و رسول کا قانون بیسویں صدی میں بیسویں صدی اگر چہ مذہب پر اعتقاد کے لحاظ سے اتنی اہم نہ تھی جتنی کہ اس لحاظ سے کہ جادوگر نیوں ، ہتک خدا اور رسول کر نیوالوں، اور ملحدوں کو آگ کی نذر کر دیا جاتا تھا.لیکن اس صدی کے شروع میں ہتک خد اور سول قابل تعزیر تھے اور اس کی سزا قید تھی.عیسائی دنیا میں 1920 ء اور 1930ء کی دہائیوں میں ہتک خدا و رسول کے بہت سارے واقعات وقوع پذیر ہوئے.مثلاً برطانیہ میں ایک ہتک خدا و رسول کر نیوالے منکر دین کو اس لئے جیل میں ڈال دیا گیا کیونکہ اس نے انجیل کے خلاف بدترین مغلظات بکی تھیں.خاص طور پر یسوع مسیح کے بارہ میں اس کا کہنا کہ وہ یروشلم یوں داخل ہور ہا تھا: " جیسے وہ سرکس کا دو گدھوں پر بیٹھا مسخرہ ہو " (Rex v.Gott, 16 Crim.App.Rep.37; 1922) امریکہ کی ریاست مین (Maine) نے ایک انتہا پسند کو اس لئے قید کی سزا دی کیونکہ اس نے دین کا انکار ہتک آمیز رنگ میں کیا تھا.وہ بن باپ پیدائش اور خدا کے (Incarnation) کے عقائد کا منکر تھا.84 State v.Mockus, 12 Maine) (1921.اس طرح میسا چوسٹس (Massachusetts) کی ریاست نے ایک شخص پر اسلئے مقدمہ دائر کر دیا کیونکہ وہ خدا کی ہستی اور یسوع مسیح کی الوہیت کا منکر تھا.اسی ریاست میں ایک مصنف جس نے فری میسن پر کتاب لکھی اس میں اس نے یسوع مسیح کو بد اخلاق لکھا تو اس کو قید خانے کی نظر کر دیا گیا.ایک اور امریکی ریاست ارکن سا (Arkansas ) نے ایک انجمن امریکن ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف ایتھی ازم' American Association) (for The advancement of Atheism کے صدر کو اس لئے ملزم قرار دیا کیونکہ اس 138)

Page 139

نے بائبل کی تخلیق کی کہانی کا استہزاء کیا تھا.(New York Times, February 19, 1926) کینیڈا میں ایک پمفلٹ جس میں رومن کیتھولک چرچ پر کڑی تنقید نیز اس میں ہتک خد اور سول بھی کی گئی تھی اس کو قابل تعزیر سمجھا گیا.اور ایک اور معاملہ میں ایک دہریت کے رسالہ کے ایڈیٹر کو قید کر کے ملک بدر کر دیا گیا کیونکہ اس نے ایک مضمون میں جیہووا Jehovah) (Witness مذہب کے بارہ میں ہنسی مذاق کے رنگ میں نا معقول حوالے دئے تھے.(1927 Canadian Bar Rev; V, May).یہ بات دلچپسی سے نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ کینیڈا کے اجیہو مقدمہ میں ٹرائیل جج نے جیوری کو تاکید کی 'مذہب سے زیادہ ہمارے لئے کوئی اور چیز مقدس نہیں ، اس لئے کسی قسم کی بد زبانی، یا غیر معقول تحریر جو خدا سے ڈرنے والوں کے نزدیک قابل اعتراض ہے وہ ہتک خدا و رسول ہے.برطانیہ کے ملک میں بھی جہاں آزادی تقریر کی اتنی قدر کی جاتی ہے ، عیسائیت ابھی تک ملک کا سرکاری مذہب ہے.تاہم یہاں یہودیت اور غیر نصرانی مذاہب کے بارہ میں کلمہ تکفیر بولا نہیں جاسکتا.1978ء میں کورٹ آف اپیل نے ہتک خدا و رسول کے ایک مقدمہ میں سزا برقرار رکھی.اس مقدمہ میں مجرم کا نام جیمز کر کپ (J.Kirkup) تھا جو ایک غیر معروف ہر دو ہفتہ بعد شائع ہو نیوالے جنسی رسالہ "گے نیوز " (Gay News) کا ایڈیٹر تھا.اس میں اس نے ایک نظم شائع کی ( محبت جس کا نام زبان پر لانے کی جرات نہیں ) The Love That Dares to Speak its Name جو لگتا تھا کسی رومن سو سپاہیوں کے افسر نے صلیب کے سائے میں بیٹھ کر لکھی تھی.نظم میں اس افسر اور یسوع مسیح کو اغلام باز کے طور پر پیش کیا گیا اور دونوں کے درمیان مباشرت کے فعل کو بیان کرنے کیلئے ایسے مخش الفاظ استعمال میں لائے گئے جو ایمان لانے والوں کا دل دکھا دینے والے تھے.حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جیمز کر کپ کو برطانیہ کے ممتاز اہل قلم اور نقادوں نے قابل احترام ادیب قرار دیا.اس کے مقدمہ کا سرکاری وکیل متعصب شخص نہ تھا اور اس نے لارڈ کولرج کے 1883ء کے قانون کو دوبارہ لکھے جانیکی درخواست کی ، جو کچھ یوں ہے : " تم یہ کہ سکتے ہو کہ یسوع 139

Page 140

فراڈ یا دھوکہ باز تھا، یا کہ شاید یسوع اغلام باز تھا، بشرطیکہ یہ بات تم سلیقے سے کہو " ( یہی چیز یقیناً رشدی پر لاگو ہوتی ہے ).سرکاری وکیل نے کہا کہ یہ نظم اس قدر خباثت کا مجموعہ تھی کہ ایک گمراہ کن خیالات رکھنے والا شخص بھی اس سے زیادہ گندی نظم نہیں لکھ سکتا تھا.یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اولڈ بیلی (Old Bailey) میں مقدمہ کے حج نے نظم کے ادبی اوصاف کو بحیثیت شہادت قابل قبول ماننے سے انکار کر دیا ، نہ ہی شاعر کی شہادت مانی اور جیوری نے قصور وار ہونے کی سزا کے علاوہ رسالہ کو ایک ہزار پاؤنڈز کا جرمانہ اور ایڈیٹر کو پانچ سو پاؤنڈز کا جو جرمانہ لگایا تھا اس کو مناسب سمجھا.جج نے ایڈیٹر کو نو مہینے کی قید کی سزا سنائی لیکن اپیل کی صورت میں یہ قید ملتوی کر دی گئی.(The Times, July 4 to July 12, 1977) امید کی جاتی تھی کہ سلمان رشدی کے ناول The Stanic Verses کے خلاف بھی اس قسم کا عدالتی فیصلہ تجویز کیا جائیگا، لیکن اس کے برعکس ادبی دنیا نے خدا کی شان میں گستاخی کر نیوالے ناول پر تحسین کے ڈونگرے برسائے.اس پر متعدد ادبی ایوارڈ نچھاور کئے گئے اور مصنف کواد بی حلقوں میں رجل عظیم کا مقام عطا کیا گیا.برطانیہ میں اسلام کے خلاف گستاخی کرنے والوں کو روکنے کے لئے کوئی قوانین نہیں ہیں اس لئے مصنف کیلئے قید کی سزا شاید کچھ زیادہ ہی ہو لیکن مسئلہ کی نزاکت کے پیش نظر ناول کی اشاعت اور ترسیل پر پابندی لگانا تو ممکن تھا.1976ء کے اولمپک اور ورلڈ آئس سکیٹنگ چمپیئن جان کری (John Curry) کے متعلق شائع ہو نیوالی ایک متنازع سوانح عمری کی مثال لیجئے جس کی وفات 1994ء میں ایڈز سے منسلکہ بیماری سے ہوئی.یہ ایچ آئی وی (HIV) کی بیماری اس کو ہم جنس ساتھی نے دی تھی.کتاب Black Ice, the life and death of John Curry میں اس کی مصنفہ ایلوا اوگلانبی (Elva glanby) دعوی کرتی ہے کہ جان کری ہم جنس رشتہ میں منسلک ہونے کے علاوہ ، ڈرگز اور مائنڈ کنٹرول تھراپی میں بھی مبتلا تھا.جان کری کے خاندان نے کتاب میں دئے گئے اس کی تربیت سے متعلق الزامات کو پورے زور سے للکارا اور اس کے ایک بھائی مائیکل کری نے کہا کہ اس کتاب نے 'ہمارے خاندان کو بڑی ذہنی اذیت سے دو چار کیا ہے'.140

Page 141

کتاب کے پبلشر وکٹر گولانز (Victor Gollancz ) کے ایک ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ ہمارے پاس ایک شکایت آئی تھی جس کے نتیجہ میں ہم نے اس کتاب کی اشاعت التوا میں ڈال دی ہے.(1995) Times 28th March ).پبلشر کی طرف سے مفاہمت کی یہ کتنی عمدہ مثال ہے کہ انہوں نے کتاب کی اشاعت اس لئے التوا میں ڈال دی کیونکہ اس طرح جان کری کے خاندان کے چند افراد کے جذبات مجروح ہوتے تھے.لیکن اس کے برعکس دنیا بھر میں بسنے والے کروڑ ہا مسلمانوں کے جذبات کا کیا کسی کو احساس ہے جو The Stanic' 'Verses کی اشاعت کے بعد برے طور پر مجروح ہونے والے تھے.The Stanic' 'Verses کے پبلشر اور مصنف دونوں کو اس کاری گھاؤ کا خوب علم تھا جو اس ناول نے اسلامی دنیا پر لگا نا تھا اور اس کے نتائج اور ردعمل کا بھی.شاید اب وقت آ گیا ہے کہ ہتک خدا و رسول کے قوانین کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کیا جائے، ایک قانون جو صرف ایک مذہب کی حفاظت کرتا ہے اس کا کوئی مصرف نہیں " محولہ بیان سرکاری وکیل جیفری را برٹ سن کیوسی G.Roberston QC) کا ہے جو لندن کے اخبار The Times میں 25 جولائی 1989 ء کو شائع ہوا تھا.اس نے ایک اور دلچسپ نقطہ بیان کیا کہ ارشدی کی اپنی شہادت عدالت میں قابل قبول نہ ہوگی کیونکہ 1979ء میں ہاؤس آف لارڈز نے 3:2 کے ووٹ سے یہ فیصلہ دیا کہ ہتک خدا و رسول کر نیوالے شخص کی نیت خارج از بحث ہوگی صرف اس سے پیدا ہو نیوالے نتائج اہمیت رکھتے ہیں'.مسٹر رابرٹ سن نے مزید کہا کہ : اہتک عزت کے دعوئی میں ادبی معیار کوئی قابل قبول دفاع نہیں ہوتا'.ہتک خدا و رسول سے متعلق موجودہ قوانین کو وہ ذمہ وار ٹھہراتا ہے: ( قوانین ) اس قدر مبہم ہیں کہ کوئی شخص پہلے سے یہ بات ثابت نہیں کر سکتا کہ آیا کوئی کتاب قابل تعزیر ہوگی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہتک خد اور سول کے قوانین دوسرے قوانین کے مقابلہ میں کمزور ہیں.ذرائع ابلاغ میں فحاشی اور بے حیائی پر عائد پابندیوں کی بھر مار جس کا مقصود مقدس اشیاء کا نخش نگاری کے طور پر اظہار ، پبلک آرڈر قانون کے ماتحت دھمکی دینا، بے عزتی کرنا اور گالی گلوچ کے استعمال، یا ایسی تحریر جس سے امن ٹوٹنے کا خدشہ ہو ، نیز دوسرے کئی ایک قوانین ایسے لوگوں کو سزا کا مستحق قرار دیتے ہیں جو مذہبی عبادات کی 141)

Page 142

خلاف ورزی کرتے ہوں.یوں محسوس ہوتا ہے کہ بالعموم مسلمان اپنے مذہب سے کچھ زیادہ ہی دلی لگاؤ رکھتے ہیں.ایسا مذہب جو تمام انبیاء کرام پر ایمان لانا واجب قرار دیتا ہے.اس لئے لازما وہ انبیاء کے دفاع صلى الله کیلئے جھٹ سے تیار ہو جاتے ہیں چاہے یہ محمد ﷺے ہوں یا حضرت عیسی علیہ السلام.حضرت موسیٰ علیہ السلام یا کوئی اور نبی.اس کی بہترین مثال ایک فلم The Last Temptation of ' Christ کی ریلیز تھی.بعض کا کہنا تھا کہ کسی اور مذہبی گروہ کی نسبت مسلمان اس فلم کے خلاف احتجاج کرنے میں زیادہ جو شیلے تھے.یہ سچ ہی ہوگا مگر ایک اور بات جو دل کو لگتی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے عقائد میں استقامت رکھتے ہیں اور یہ کہ وہ دوسرے ادیان کے رسولوں کا کما حقہ احترام کرتے ہیں.بہت ہی اچھا ہو گا اگر دونوں طرف سے اس قسم کے جذبات کا اظہار ہو.مزید یہ کہ برطانیہ جو کہ ایک عیسائی ملک ہے اس نے اس فلم کے دکھائے جانے کی اجازت دی تھی.اس امر سے عوام الناس کا رجحان مذہب کے بارہ میں واضح ہوتا ہے.یہ کوئی حیرانگی کی بات نہیں کہ ایسے لوگ مذہب سے منسلک معاملات میں مسلمانوں کے غصہ کا اندازہ بالکل نہیں کر سکتے.یہ کہنا مناسب ہوگا کہ دنیا میں عموماً اور برطانیہ میں خاص طور پر اخلاقی تنزل آنے سے لوگ چونکہ مذہب سے متنفر ہو کر دور ہو رہے ہیں اس کے نتیجہ میں ہتک خدا و رسول کے قانون کو لوگ فرسودہ اور ماضی کی یاد قرار دینے لگے ہیں.لیکن وہ ممالک اور ادیان جہاں مذہب ابھی بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے ہتک خدا اور رسول کا مسئلہ سنجیدگی کے ساتھ لیا جاتا ہے.مغربی مبصرین لوگوں کے قوانین اور عقائد کی ہتک پر کیوں تلے ہوئے ہیں چاہے ان کو یہ عقائد کتنے ہی ظالمانہ اور فضول نظر آتے ہوں؟ مثال کے طور پر دو پاکستانی عیسائیوں کے مقدمہ کو لیجئے جن کو ہتک رسول کے قانون کی خلاف ورزی کرنے پر فروری 1995ء میں موت کی سزا سنائی گئی تھی.پوری دنیا میں یہ سنسنی خیز خبر جلی سرخیوں کے ساتھ پھیلائی گئی.اس سے مغربی ذرائع ابلاغ کو ایک اور موقعہ مل گیا کہ وہ اسلام کو بربریت اور غیر انسانیت سے جوڑ دیں.دی ٹائمز اخبار کے رائیٹر برنارڈ لیوین Bernard) Levin نے ایک بہت ہی نقصان دہ مضمون اس واقعہ پر لکھا جس کا عنوان دل فگار تھا: " دیوار پر 142

Page 143

تصویر بنانے پر موت کی سزا.کیا اسلام اتنا کمزور مذہب ہے کہ خیالی کیچڑ اچھالنے پر بچوں کو قتل کر دیا جائے؟" انسان حیرت کی تصویر بن جاتا ہے کہ The Times جیسے مؤقر اخبار نے اپنے ایک صحافی کو ایسا گزند دینے والا اور نقصان دہ مضمون لکھنے کی اجازت دی جس سے مشرق اور مغرب کے مابین تعلقات استوار ہونے میں کوئی فائدہ نہیں ہونا تھا.مثلاً اس کا یہ لکھنا کہ : " میں کسی اور مذہب کے بارہ میں نہیں جانتا جو مقابلہ کے خوف سے گھبراتا ہو.اور یہ بہت طنز آمیز بات ہے کہ ایسا مذہب جو سب سے زیادہ کمزور ہے.وہ سب سے زیادہ ظالمانہ اشتعال انگیز اور جنونی ہے".اس کا مضمون اس نفرت انگیز تنبیہ کے ساتھ ختم ہوتا ہے: " پاکستان کے خلاف تنفر اتنا گہرا اتنا دیر پا اور اتنا فیصلہ کن ہوگا کہ ان کے ملک کا نام تھوکنے کے بغیر بھی سنے میں نہ آئیگا." ( The Times, 17 Feb.1995) برنارڈ لیوین جیسے صحافیوں کا شکریہ کہ یہ نفر پاکستان اور خاص طور پر اسلام کے خلاف ایک جاری رہنے والا چکر ہے.آج کے ناقدین تو جلتی پر تیل پھینک رہے ہیں.تک خدا و رسول کے بارہ میں اسلامی تعلیمات رشدی افیئر نے اخلاقی جرائم جیسے بہتک خدا و رسول، ارتداد اور الحاد کے متعلق بعض بنیادی مسائل کھڑے کر دئے ہیں.مغرب میں اسلام کے بارہ میں آجکل یہ تصور پایا جاتا ہے کہ یہ تنگ نظر، غیر روادار اور بر بریت پر مبنی مذہب ہے جو تلوار کی نوک پر تبدیلی مذہب کا پر چار کرتا اور ہتک خدا اور رسول کی سزا موت قرار دیتا ہے.لیکن جیسا کہ میں ابھی تفصیل سے واضح کرونگا یہ باتیں حقیقت سے کوسوں دور ہیں.آزادی تقریر اور آزادی ضمیر پر قرآن مجید میں ایک بھی ایسی آیت نہیں جو ان پر پابندی عائد کرتی ہو.ذاتی عقائد اور نظریات طریق زندگی اور کسی کے ذاتی عقیدہ کو نظر انداز کرتے ہوئے قرآن پاک ہر انسان کو مکمل بنیادی حقوق عطا کرتا ہے.قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے: لَا إِكْرَاهَ في الدِّينِ (سورة البقرة - 2:257) یعنی، دین کے معاملہ میں کوئی جبر نہیں.اگر چہ بعض لوگوں نے اپنی غیر رواداری اور تنگ نظری کو اسلام سے منسوب کر دیا ہے ، قرآن پاک سے موہوم سی شہادت 143

Page 144

نہیں ملتی جس سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ اسلام ہتک خدا اور رسول کیلئے یا ایسی دیگر واہیات باتوں کیلئے موت کی سزا تجویز کرتا ہے.اس کے برعکس مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ مشرکین کے دیوتاؤں کونشانہ تضحیک نہ بنا ئیں.ارشاد ربانی ہے: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّو اللهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ (سورة الانعام - 6:109) تر جمہ." اور تم ان کو گالیاں نہ دو جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں ورنہ دشمنی کرتے ہوئے بغیر علم کے وہ اللہ کی شان میں گستاخی کریں گے ".اور یہ اس امر کے باوجود ہے کہ بت پرستی سب سے قبیح گناہ ہے جو کوئی شخص کر سکتا ہے.اس لئے مسلمانوں کو اس بات کی اجازت ہی نہیں دی گئی کہ وہ خدا کی نگاہ میں سب سے غضب آلود چیز کو گالیاں دیں.قرآن حکیم جیسی اعلیٰ وارفع تعلیم کی مثال آج کے' مہذب دورا میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ہے.قرآن حکیم تو مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ وہ دوسروں کے مذہب کا احترام کریں جبکہ برطانوی کامن لاء اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ہر کوئی اپنے مذہب کا ہی احترام کرے.اس کے باوجودلوگ اسلام پر ہی الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ پسماندہ ہے.خدا کی شان میں گستاخی سے بڑی کوئی اور گستاخی ہو نہیں سکتی.اس کے باوجود قرآن ہتک خدا کے سنگین جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں کرتا اس لئے ہتک رسول کے لئے کیسے حد مقرر کی جاسکتی ہے.انبیاء کرام محض فانی انسان تھے.محمدمصطفی خاتم النبین ﷺ کی زندگی کا ایک سبق آموز واقعہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ آپ کے نزدیک ہتک رسول کی کیا وقعت تھی.جب نبی پاک ﷺ مدینہ کے فرماں روا تھے تو آپ کی مبارک ذات کے خلاف ہتک کا ایک نہایت بہیمانہ واقعہ رونما ہوا.ایک منافق جس کا نام عبد اللہ ابن ابی ابن سلول تھا.اس کی عزیز ترین خواہش تھی کہ وہ مدینہ کا والی بن جائے مگر آپ کی آمد سے اس کی یہ خواہش ناکام ہوگئی.ایک جنگی مہم کے دوران اُس نے یہ شیخی ماری کہ: لَئِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْاعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ (سورۃ المنافقون 63:9 ) ترجمہ."اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹیں گے تو ضرور وہ جو سب سے زیادہ معزز ہے اسے جو سب سے زیادہ ذلیل ہے اس میں سے نکال باہر کرے گا".ابن ابی کی اس شیخی پر صحابہ کرام رضوان اللہ طیش میں آگئے، بلکہ اس کا بیٹا جو کہ ایک مخلص مسلمان تھا 144

Page 145

وہ تو آپے سے باہر ہو گیا.تلوار میان سے نکال اس نے حضور ﷺ سے التجا کی کہ وہ اسے اپنے باپ کو تہ تیغ کر دینے کی اجازت مرحمت فرمائیں.اس کے علاوہ دیگر مسلمان بھی آپ کے پاس آئے لیکن آپ نے ہر ایک کو اجازت دینے سے انکار کر دیا.بلکہ آپ نے بڑے اصرار سے فرمایا کہ عبداللہ کے خلاف کوئی سرزنش نہیں کی جائینگی.صلى الله یہ قصہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا.کئی سالوں بعد جب عبد اللہ بن ابی بن سلول کی وفات ہوئی تو خاتم المرسلین ﷺے اس کی تجہیز و تکفین میں بنفس نفیس شامل ہوئے.آنحضور ﷺ کی رحمدلی سے ہر کوئی واقف تھا اس کے باوجود آپ کے اس فعل نے آپ کے صحابہ کرام کو بھی حیرت میں ڈال دیا.یہ وہ اصل اسلام ہے جس کی تعلیم قرآن مجید دیتا ہے اور جس کا عملی نمونہ حضور نبی پاک نے نے پیش کیا ہے.آپ کے نیک نمونہ پر عمل پیرا ہونے کی ہر مسلمان کو تاکید کی جاتی ہے.کسی مذہب کا فیصلہ اس کے چند ایک انتہا پسند ماننے والوں کے اعمال اور خیالات سے نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کا فیصلہ مصدقہ ماخذوں سے کیا جانا چاہئے جن پر اس کی بنیاد ہے.کیا شمالی آئر لینڈ میں جو جدید زمانے کی کیتھولک اور پروٹسٹنٹ جنگ ہوئی تھی اس سے عیسائیت کے بارہ میں فیصلہ دیا جا سکتا ہے؟ یہ جنگ جو عیسائیت کے نام پر لڑی گئی تھی یا عہد وسطی کے زمانے میں عیسائیوں کے بہیمانہ مظالم جو سپین کی مذہبی عدالت Spanish Inquisition نے سچائی اگلنے کیلئے وحشیانہ آلات جیسے ریک (Rack) اور آئرن میڈن (Iron Maiden) بے تکلف استعمال کئے.کیا یہ وہ عیسائیت تھی جس کا پر چار حضرت عیسی علیہ السلام نے کیا تھا جو بذات خود نا قابل بیان اور شدید اذیت کا نشانہ بنے تھے؟ جمله ادیان ، اقوام اور برادریوں کے درمیان مفاہمت کیلئے کشادہ دلی سے رواداری، عقل سلیم اور دانشمندی کی ضرورت ہے.لیکن مغربی ذرائع ابلاغ کو رشدی افئیر اور امام خمینی کے فتویٰ جاری کرنے پر اسلام کے خلاف بغض و عناد کی آگ کو ہوا دینے کیلئے کھلی چھٹی مل گئی.یہ بات مختلف اخبارات کے آگے دئے جانے والے تراشوں سے ثابت ہو جائیگی.145

Page 146

146

Page 147

پندرھواں باب رشدی کے خلاف فتویٰ اور مغربی ذرائع ابلاغ رشدی کے خلاف جاری ہو نیوالے فتویٰ کی پوری دنیا میں مذمت کی گئی اور یہ مناسب بھی تھا.ایران کے لیڈر آیت اللہ خمینی نے اس فتویٰ کے جاری کرنے کی اتھارٹی اپنے آپ ہی سے حاصل کی تھی نہ کہ قرآن سے.لیکن ذرائع ابلاغ کا رویہ اس بارہ میں بہت ہی تباہ کن رہا.اس مسئلہ کو اس رنگ میں پیش کیا گیا جس سے سادہ لوح مسلمان یہ تاثر محسوس کرنے لگے کہ مغرب کے تہذیب یافتہ معاشروں کے برعکس اسلام آزادی تقریر کی اجازت نہیں دیتا اور یہ کہ اسلام کے قوانین عہد وسطیٰ کے دور سے تعلق رکھتے اور آج کے دور میں ان کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے.برطانیہ کے اخبار The Independent' کے اور یہ میں فتویٰ کو پرانے زمانے کا اور عہد وسطی کے دور کا حکم قرار دیا گیا ( 15 فروری 1989 ء ).اس مضمون میں یہ بھی تجویز کیا گیا کہ اسلام کے مقابلہ میں عیسائیت ہتک خد اور سول کے قانون کے معاملہ میں وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ روادار ہوگئی ہے اسلام کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے.پھر مضمون یوں ختم ہوتا ہے : " ایک ملٹی کلچرل سوسائٹی ( یعنی کہ برطانیہ) کو ان کے موقوف کر دینے کا سوچنا چاہئے نہ کہ ہتک خدا و رسول کے قوانین کو مزید جاری رکھنے کا ".میرے خیال میں چونکہ عیسائی اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمانوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے.اخبار دی ٹائمز کے مذہبی امور کے ایڈیٹر، کلفر ڈلانگ لی (Clifford Longley ) نے اپنے مضمون 15 فروری 1989 ء میں فتویٰ کے عہد وسطیٰ کے دور سے تعلق رکھنے کے دعوی کو دہرایا : " بیسویں صدی میں اسلام کے نظریات، تیرھویں اور چودھویں صدی کی عیسائیت سے زیادہ مختلف نہیں".اخبارات کی اکثریت نے برطانیہ میں مقیم تشدد پسندوں کے نظریات پر زیادہ توجہ مرکوز کی 147

Page 148

اور اس امر پر کہ یہ لوگ کیوں رشدی کے خون کے پیاسے ہو گئے.جہاں تک مسلمانوں کے جذبات کا تعلق ہے اخبارات نے اس فعل کو طبعی قرار دیا ہے.لیکن جیسا کہ اس سے پہلے واضح کیا گیا کہ یہ قدامت پسند نقطہ نظر ایک بہت چھوٹی اقلیت کا ہے.سچی بات دراصل یہ ہے کہ اخبارات میں جذبات کو ابھارنے والی سرخیاں لگانے سے اور کتابوں کے جلائے جانے کی تصاویر شائع کرنے سے اخبارات دھڑا دھڑ سکتے ہیں.مثلاً برطانیہ کے اخبار 'دی انڈی پینڈنٹ' کی 18 فروری 1989ء کی اشاعت میں ایک پورا صفحہ بریڈ فورڈ کے نوجوان تشدد پسند مسلمانوں کے بیانات سے بھرا ہوا تھا.اس کا عنوان تھا، مجاہد خون ریزی کرنے پر تلے ہوئے ہیں.لیکن ایسے مسلمان جنہوں نے رشدی پر قتل کے فتوی کی حمایت نہ کی تھی ان کے شائستہ اور معقول خیالات کو چھوٹے چھوٹے حروف میں اخبار کے آخر پر شائع کیا گیا.اخبار مذکور کے صحافی انٹونی برجس ( Anthony Burgess ) نے ایرانی فتوی کا موازنہ اسلام کے ابد معاش ٹولوں کی شاطرانہ چالوں سے کیا.اس نے اسلامی قوانین کی مذمت کرنے میں موزوں الفاظ کے انتخاب کا خیال نہ رکھا.ہمارے نزدیک اس کو اپنے خیالات کے اظہار کا یقیناً حق حاصل ہے لیکن اس کے مضمون کے لب ولہجہ سے اسلام کے لئے شدید نفرت کی بو آتی ہے.وہ لکھتا ہے : ان کو (مسلمانوں کو ) رشدی کی کتاب ضائع کر دینے کے بارہ میں بیانات دینے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے.اگر ان کو ہماری غیر مذہبی سوسائٹی پسند نہیں تو ان کو آیت اللہ کی بانہوں میں چلے جانا چاہئے.یا کسی اور خود ساختہ پاکباز کے پاس جو اسلامی اخلاق کا کڑا محافظ ہو." (1989-2-16 ).یوں لگتا ہے جیسے یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ مسلمان کسی دوسرے کرہ سے یہاں آئے ہیں جن کی تعلیمات اور عقائد باقی ماندہ مہذب دنیا سے میل نہیں کھاتے.مذہب اور کلچر لیبر پارٹی کے ایک سابق سیاست دان ، ٹیلی ویژن براڈ کاسٹر، رابرٹ کلرائے سلک (Robert Kilroy-Silk) نے بھی ایسے ہی دکھ پہچانے والے بیانات مسلمانوں کے خلاف دئے.دی ٹائمنر کی 17 فروری 1989ء کی اشاعت میں اس کے شائع ہو نیوالے خیالات سے 148)

Page 149

شاید کوئی یہ خیال کرے کہ اس نے برطانوی لیبر پارٹی کو چھوڑ کر برطانوی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی ہے.مضمون جس کا عنوان انسلی اکثریت کا دفاع ہے وہ آیت اللہ خمینی کی قتل کی سزا کے برطانوی جواب کو بزدلانہ اور پست ہمت قرار دیتا ہے.وہ کہتا ہے کہ برطانوی حکومت برطانیہ کے مقامی آیت الا ؤں سے ہمیشہ مصالحت کرتی چلی آئی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ برطانوی روایات، تہذیب اور قوانین میں ترمیم کرنا پڑی تا ایسے لوگوں کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے جن کا تعلق غیر مہذب ادوار اور مقامات کی اقدار اور اخلاقی قوانین سے ہے.کتاب ادی سٹینک ورسزا کے جلائے جانے کے موضوع پر کلرائے سلک تحقیرانہ رنگ میں اپنی بڑائی بیان کرتے ہوئے نسلی اقلیتوں کے غیر مہذب رتبہ کی بات کرتا ہے.خاص طور پر وہ لوگ جن کا تعلق بر صغیر ہند و پاکستان سے ہے.اس کا نظریہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جود یکھنے میں برطانوی نہیں ضرور غیر تہذیب یافتہ ہے.وہ کہتا ہے : " جوں ہی کوئی نسلی اقلیت شکایت کرتی ہے وہ لوگ ( برطانیہ کی سیاسی اور ثقافتی نوکر شاہی ) اس بات پر رضامند ہو جاتے ہیں کہ انگلش نہ بولنے والے لوگوں کی پسند کے مطابق قوانین بنالئے جائیں چاہے ان لوگوں کو بنگلہ دیش کے افتادہ مقامات سے آئے کچھ ہی عرصہ ہوا ہو " کلرائے مغربی تہذیب کے بارہ میں متکبرانہ رنگ میں کہتا ہے کہ اس " تہذیب نے گزشتہ ایک ہزار سال میں برطانیہ میں نشو ونما پائی ہے".وہ فخریہ انداز میں کہتا ہے کہ " ایک ایسی تہذیب جو پارلیمانی جمہوریت کو پسند کرتی ہو جس میں آزادی، انصاف ، ایمان داری اور رواداری سب سے نمایاں ہیں اُس تہذیب سے ہزار درجہ بہتر ہے جو کتابوں کے جلانے کو کہتی ہو اور جو ایک انسان کو موت کا سزاوار محض اس لئے قرار دیتی ہو کہ اس کے نظریات غیر قدامت پسندانہ ہیں.اسلام پر اس کا حملہ اس وقت پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے جب وہ شریعت کے چند قوانین کے بارہ میں اہانت آمیز فقرے کہتا ہے.بعینہ اسی طرح جس طرح سلمان رشدی نے اپنے ناولوں میں لکھے ہیں." اخلاقی قوانین یا ایسی کوئی بات منطقی نہیں جو یہ کہتی ہو کہ ہمیں اس بات کو مان لینا چاہئے کہ ایک آدمی کیلئے متعدد بیویاں رکھنا جائز ہے یا جانور مذہبی رسوم کے مطابق ذبح کئے جائیں یا لڑکیوں کے ختنے کئے جائیں یا عورتوں سے جانوروں جیسا سلوک کیا جائے.اگر ہم نے ایک بار ایسا کرنا شروع کر دیا تو جلد ہی ہم اس مارکیٹ اسکوائر میں پہنچ جائیں گے جہاں مجرموں کو کوڑے 149)

Page 150

لگائے جاتے ہیں.زنا کاروں کو سنگساری سے ہلاک کیا جاتا ہے.اور چوروں کے ہاتھ کاٹ دئے جاتے ہیں".کلرائے سلک نے سادہ لوحی سے حقائق کو توڑ موڑ کر عمداً اس لئے بیان کیا ہے تا وہ اپنے مضمون کو اثر انگیز بنا سکے.اور یقینا اس نے مذہب اور تہذیب کو آپس میں گڈ مڈ کر دیا ہے.وہ گزشتہ ایک ہزار سال کی برطانوی تہذیب کی بات کرتا ہے جس کی وہ گردن تان کر بات کرتا ہے.بلا شبہ برطانوی کلچر میں قابل تحسین سنگ میل آئے ہیں جن میں سے بعض تو ابھی تک قائم ہیں.لیکن مسٹر کلرائے سلک کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ گزشتہ ایک ہزار سال میں جو کچھ ہو گزرا اس کا تک خداورسول کے معاملات، کتابوں کے نذر آتش کئے جانے سے کوئی تعلق نہیں ہے.یہ عیسائی اقوام ہیں جو گزشتہ ایک ہزار سال میں خاص طور پر ایک سو سال میں ایسے قبیح مسائل میں سب سے آگے رہی ہیں.( اس مسئلہ پر اس کتاب کے ایک باب میں تفصیلی بحث کی جاچکی ہے ).یہ کہنا ٹھیک ہے کہ تمام اقوام اور تہذیبوں میں زیر و بم آتے رہے اور ہر تہذیب میں اچھے اور برے پہلو بھی ہیں.مسلمانوں کی تشدد پسندی کے معاملہ میں مغربی ذرائع ابلاغ کچھ زیادہ ہی حد سے آگے نکل گیا ہے اور اس چیز کو مسلمانوں کے عام نقطہ نظر کے طور پر پیش کیا ہے.کتنا اچھا ہوتا اگر کلر ائے سلک نے اپنے دلائل غور و فکر کے بعد تیار کئے ہوئے بجائے تکبرانہ رویہ کے اظہار کے جس کا مظاہرہ اس نے کیا ہے.یقین جانیں آج کی مغربی تہذیب کی کمزوریاں اگر ہم بیان کرنا شروع کریں تو ان کی تعداد بھی کم نہیں ہے.کلرائے سلک جو کہ ایک اونچے درجہ کی جانی پہچانی شخصیت اور جو ٹیلی ویژن پر تواتر سے دکھائے جانیوالے مباحثہ کے ناظرین میں قبولیت عامہ رکھتا ہے اس کو بذات خود رواداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے جس کی مسلمانوں میں عدم موجودگی کا وہ رونا روتا ہے.اسے چاہئے کہ جب وہ دوسروں کے بارہ میں کوئی رائے دے تو وہ الفاظ کے انتخاب میں احتیاط برتے.کیتھ وارڈ (Keith Ward) کنگز کالج لندن یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ اور مذہب کا پروفیسر ہے ، وہ بھی اکثریت والے راسخ الاعتقاد مسلمانوں کے خیالات سادہ لوحی سے پیش کرنے کے معاملہ میں اسی دام میں پھنس گیا ہے.اس نے کم تر تعداد والے شرارت پسندوں کی آراء کو جلی 150

Page 151

سرخیوں سے جذبات انگیز رنگ میں پیش کیا ہے.اخبارا دی انڈی پینڈنٹ ' کی 18 فروری 1989ء کی اشاعت میں وہ مسلمانوں میں تنزل اور جدید اسلام کے تشدد والے عطیات ' کا ذکر کرتا ہے.کلفرڈ لینگ لی (Clifford Langley ) دی ٹائمنر کی 8 جولائی 1989ء کی اشاعت میں ایک عجیب وغریب مفروضہ پیش کرتا ہے جو منطقی اصولوں کو للکارتا ہے." کتابوں کا نذرآتش کیا جا نالا زمی طور پر دکانوں کے نذر آتش کئے جانے کیطرف آمادہ کرتا ہے.قتل کرنے کی بات چیت واقعی قتل کرواتی ہے ".وہ مسلمانوں کی علیحدگی یعنی اپنے ہی دائرہ ہائے زندگی میں رہنے کے میلان کو ہدف تنقید بناتا ہے اور مزید شوشہ چھوڑتا ہے کہ مسلمان ہمارے معاشرے میں تبھی قابل قبول سمجھے جائیں گے جب وہ اپنے عقائد اور ثقافت کے ساتھ سمجھوتہ کر لیں گے.یہ کہنا مناسب ہوگا کہ بہت سارے مسلمان اس زبردستی کی مصالحت کا نشانہ بن گئے ہیں بعض طوعاً اور بعض کر ہا اپنے احباب کے زیر اثر.وہ لوگ جو اپنے نظریات کا بے تکا اظہار کرتے ہیں ویسٹرن میڈیا ان کی تعریف کے گن گانے لگتا ہے.اس کے بعد ان لوگوں کو اپنے دین کو مختلف ذرائع سے ( جیسے کتابوں ، تھیٹ، ٹیلی ویژن کے ڈرامے اور فلم کے ذریعہ ) نقصان پہنچانے کیلئے غیر ملکی فوج کے سپاہی کے طور استعمال کیا جاتا ہے.اس کی ایک واضح مثال رشدی کے علاوہ حنیف قریشی کی ہے جو برطانوی مسلمان ادیب ہے.قریشی کو بھی اسلام کے عقائد کا اپنی کتابوں میں مذاق کرنے پر مسلمانوں کے غضب کا سامنا کرنا پڑا.اس نے ایک فلم 'مائی بیوٹی فل لانڈریٹ' (My Beautiful Laundrette) کیلئے سکرپٹ لکھا.یہ فلم جس میں لواطت پسندی پر زور دیا گیا ہے لندن کی پاکستانی کمیونٹی کے متعلق ہے.اس فلم پر انگلستان اور امریکہ میں بہت لے دے ہوئی.فلم کا ایک محاورہ 'ہمارا ملک مذہب کی اغلام بازی سے تباہ ہو گیا ہے ، ہی دراصل اس کا مرکزی نقطہ تھا.حنیف قریشی نے ایک دوسری ٹیلی ویژن سیریز کیلئے سکرپٹ لکھا جس کا نام دی بدھا آف سبر بیا (The Buddha of Suburbia ) تھا.اس میں پاکستانی ثقافت اور اسلام کے اصولوں کو نشانہ تضحیک بنایا گیا.اس میں استعمال کی گئی زبان بھی مخش اور قابل مذمت تھی.لیکن 151)

Page 152

یہ سب " علم فن " اور " آزادی تقریر " کے نام پر قابل قبول سمجھا جاتا ہے.یوں لگتا ہے کہ وہ مسلمان ادیب جو اسلامی طرز زندگی پر متنازع نظریات رکھتے ہیں ان کو عوام تک اپنی کتابیں فراہم کرنے کے زیادہ مواقع فراہم کئے جاتے ہیں.ان کو ٹیلی ویژن پر پرائم ٹائم میں نمایاں جگہہ دی جاتی ہے.ان کی کتابوں پر مبسوط تبصرے لکھے جاتے اور ان کو کثیر الاشاعت اخبارات میں بڑے اہتمام سے شائع کیا جاتا ہے.لیکن اسلام کی اصل تصویر پر بننے والے پروگرام اور مباحثے شاذ و نادر ہی دکھائے جاتے ہیں اور جس وقت دکھائے جاتے ہیں اس وقت اکثر لوگ محو خواب ہوتے ہیں.ٹیلی ویژن پر ا دی سٹینک ورسزا پر ہونے والے مباحث کو کئی ایک پروگراموں کے ذریعہ دکھایا گیا.کئی ایک مسلمان جن کو کوئی کبھی خاطر میں نہ لا تا تھا ان کو ٹیلی ویژن پر آ کر اپنے خیالات پیش کرنے کیلئے مدعو کیا گیا.لیکن اس سارے ڈھونگ کا مقصد یہ تھا کہ یہ ثابت کیا جائے کہ لا مذ ہب لوگوں کے نظریات ٹھیک تھے.ایک پروگرام جسکا نام ہائپوٹیٹیکلز (Hypotheticals) تھا وہ آئی ٹی وی پر 30 مئی 1989ء کو نشر کیا گیا.اس پروگرام کے ذریعہ ان کو ایسا جھانسا دیا گیا تا کہ الٹا ان کا ہی مذاق اڑایا جا سکے.ان کو کوئی موقعہ نہ دیا گیا کہ وہ اپنے مقاصد بیان کر سکیں.یہ پروگرام ان سے صرف وہ باتیں حرف بحرف کہلوانا چاہتا تھا جو اس کا ڈائریکٹر چاہتا تھا.لیکن انصاف پسندی یہ تقاضا کرتی ہے کہ یہ کہا جائے کہ چند ایک پروگرام ایسے بھی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو اپنے صحیح نظریات پیش کر نے کا موقعہ دیا.جیسے اسلامک آنسرز (Islamic Answers) جو چینل فور پر 4 مئی 1989ء کو دکھایا گیا تھا.یہ کہنا بھی جائز ہوگا کہ پریس کے بعض حلقوں نے مسلمانوں کی ہمدردانہ تصویر پیش کی جن کے جذبات اس مکروہ اور شرانگیز ناول کی اشاعت سے مجروح ہوئے تھے.تاہم یہ کہنا ضروری ہے کہ ایسے مضامین محدود چند تھے اور مجھے بڑی محنت کے ساتھ انتقامی مضامین کے پلندوں میں سے ان کو بڑی چھان بین کر کے نکالنا پڑا.ذرائع ابلاغ میں ہونیوالے اچھے تبصرے The Times کے امریکن نما ئندہ ، کو نر کروز او برائن Conor Cruise) 152)

Page 153

(O'Brien نے 22 فروری 1989 ء کے اخبار میں ایک متوازن مضمون سپرد قلم کیا جس کا عنوان تھا صحیح اور غلط کی ممانعت (Banning, right and wrong ).اس مضمون میں وہ سلمان رشدی کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے نام ایک خط کا حوالہ دیتا ہے جو اس نے ادی سٹینک ورسز پر بھارتی پابندی لگنے پر بھیجا تھا.رشدی کا یہ خط دی نیو یارک ٹائمز میں شائع ہوا تھا جس میں اس نے احتجاج کیا ایہ کتاب اسلام کے بارہ میں نہیں ہے'.کونر او برائن دلیل دیتا ہے کہ اگر چہ کتاب اسلام پر نہیں ہے لیکن اس کے کثیر حصے صاف طور پر اسلام کے متعلق ہیں بلکہ اس میں قرآن سے حوالے بھی دئے گئے ہیں.رشدی کہتا ہے کہ دی سٹینک ورسز میں دئے گئے پیغمبر کانام محمد نہیں ہے'.کونر او برائن اس دھو کے کو صاف دیکھ سکتا اور اس شرارت کو دودھاری کہتا ہے.وہ مزید وضاحت کرتا ہے کہ محمد کو اس ناول میں ماہونڈ کہا گیا ہے.اگر آپ آکسفورڈ انگلش ڈکشنری میں ما ہونڈ کے معنی تلاش کریں تو درج ہے: " مفتری نبی محمد...ایک جھوٹا دیوتا، ایک بت...ایک عفریت ، ایک بھیانک مخلوق جو شیطان کیلئے بطور نام کے بھی استعمال کیا جاتا ہے".یہ ایسے سخت القابات ہیں جن کا بازاروں میں بلوہ کر نیوالے ہجوم پر سکون بخش اثر ہوگا.او برائن آیت اللہ خمینی اور دوسرے مسلمانوں کے رد عمل کو بھی بخوبی سمجھتا ہے جو اپنے دین کی روایات پر پابند ہو کر عمل پیرا ہیں جس طرح ماضی میں یہودی اور عیسائی ہوا کرتے تھے.وہ کہتا ہے کہ آیت اللہ کی رشدی کیلئے موت کی سزا ہر کسی عیسائی یا یہودی کیلئے نا قابل فہم نہیں ہونی چاہئے.پرانے عہد نامہ میں خدا موسیٰ کو تاکید کرتا ہے : " اور ہر وہ شخص جو خدا کے نام کا استہزاء کرتا ہے، اسے لازماً مار ڈالا جائے گا، اور تمام حاضرین مجلس اس پر سنگساری کریں گے" (Leviticus24:14).او برائن اس آیت کے ساتھ زبر دست موازنہ کرتا ہے : "جب ہم مسلمانوں کی اس بات پر سیر زنش کرتے ہیں کہ ہتک خدا و رسول کی سزا موت ہونی چاہئے یوں لگتا ہے جیسے ہم کہ رہے ہوں تمہیں جرات کیسے ہوئی کہ اپنی بیوی کو زدوکوب کرو جب کہ میں نے اپنی بیوی کو پیٹنا بند کر دیا ہے؟".خمینی کے فتویٰ کے جاری ہونے کے ایک سال بعد The Guardian اخبار کے 153)

Page 154

14 فروری 1990 ء کے اداریہ میں ایک بصیرت افروز اور معقول نقطہ نظر پیش کیا گیا تا نزاعی گروہوں کے مابین کسی قسم کی مصالحت کا سامان پیدا کیا جا سکے.مثلاً اس میں اسلام کو ہمدردانہ رنگ میں پیش کیا گیا : " اسلام ایک جنگ و جدل والا دین نہیں ہے.قرآن میں یہ چیز موجود ہے کہ حضرت محمد نے تاکید کی کہ ایک ہتک خدا و رسول کرنے والے شخص کے ساتھ ہمدردانہ سلوک کیا جائے جس نے آپ کپر پاجی اور کمینہ ہونے کا الزام عائد کیا تھا".مذکورہ اقتباس مسلمانوں کے اس غصہ کے اظہار کی بھی حمایت کرتا ہے : " جو شکایت کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جس طور سے رشدی نے استحقاق کے بغیر ان کے عقائد کا تمسخر کیا ہے جوان کے نزدیک مقدس ہیں.اور انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ صدائے احتجاج بلند کریں اور مصنف کو منہ توڑ جواب دیں." ادار یہ تحریر کر نیوالے نے مسلمانوں کو مد برانہ مشورہ دیا ہے کہ وہ: " ( برٹش اور اسلامی قانون کے تحت) غیر قانونی فتویٰ سے اپنا تعلق توڑ لیں.اس کے ساتھ اس نے بڑی ہوشیاری سے اس بات کی بھی نشاہدہی کی ہے : " صرف تشدد پسند ملاؤں کی تھوڑی سی تعداد نے موت کی سزا کی حمایت کی ہے".اور یہ کہ عوام کو یہ بھیانک اور خطر ناک تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ اکثریت کی نمائندگی کرتے ہیں ".مقام افسوس ہے کہ طاقتور اور بارسوخ اسلام مخالف گروہوں کے آپس میں گٹھ جوڑ کی وجہ سے یہ دیر پا تاثر ابھی تک قائم ہے، یعنی مغربی ذرائع ابلاغ اور پوری دنیا کی مصنفین کی انجمنوں نے رشدی کو ہیرو بنا دیا ہے.154

Page 155

سولہواں باب رشدی کو دیوتا بنا دیا گیا ادبی دنیا نے فتوی کی مذمت اور رشدی کی حمایت میں اتحاد کا نمونہ پیش کیا ہے.لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کیلئے حالات نا قابل برداشت بنانے کیلئے اور ان کے زخموں پر نمک چھڑ کنے کیلئے وہ اس تگ و دو میں لگے ہوئے تھے کہ رشدی کو ہیرو بنا دیا جائے یا اسے ادبی دیوتا کے روپ میں پیش کیا جائے.طرفہ یہ کہ انہوں نے مغرب کا سب سے بڑا ادبی انعام بھی اسے نوازا.اس نے 23 بکر ایوارڈ (Booker Award) جیتنے والوں کو مات کر دیا جب اُس نے 1981ء میں لکھے جانے والے اپنے ناول Midnight's Children پر سب سے پہلا بکر آف بکرز ایوارڈ 20 ستمبر 1993ء کو حاصل کیا.اس ایوراڈ کو حق بجانب ثابت کرنے کیلئے دی ٹائمنز نے 21 ستمبر 1993ء کے اداریہ میں لکھا: " سلمان رشدی کے ناول مڈ نائٹس چلڈرن کو بکر آف بکرز ایوارڈ کا دیا جانا افسانہ نگاری کے اس گراں قدر ناول کا منصفانہ اعتراف ہے.مزید برآں یہ کہ (ایوارڈ ) عقوبت زدہ ناول نگار کو رشدی افئیر اور The Stanic Verses کے منحوس سایہ سے نجات دلا دے گا".یہ انعام اس کو اس لئے دیا گیا کہ اسے بھینٹ کا بکرا بنایا گیا اس نے بنیاد پرستوں کو للکارا اور اپنے نظریات کو شدت سے گلے لگائے رکھا.تاہم حقائق اس کے برعکس ہیں.رشدی نے محسوس کیا کہ بہت سارے لوگوں نے اس کو دھو کہ دیا جنہوں نے اس کو بہت کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا.لیکن ہوا یہ کہ وہ کا سہ گدائی ہاتھ میں لے کر ہر کس و ناکس کے پاس گیا کہ وہ ایران پر دباؤ ڈالیں کہ فتویٰ منسوخ کر دیا جائے.دباؤ کی یہ تحریک امریکہ تک پہنچ گئی.مشہور امریکی را ئیٹر نارمن میلر (Norman Mailer) اور آرتھر ملر (Arthur Miller) نے امریکن صدر بل کلنٹن کو قائل کیا کہ وہ سلمان رشدی سے ملاقات کرے.155

Page 156

آخر کار کلنٹن رشدی سے نومبر 1993ء میں وائٹ ہاؤس میں ملاقات کیلئے تیار ہو گیا.اس ملاقات پر دی ٹائمز کے الیکڈ انڈر چانسلر کی رائے یہ تھی : " ایک ایسی زبر دست اہمیت کی ملاقات جو شاید رشدی پر ابتلاء کے اختتام کا آغاز ثابت ہوا".چانسلر کے خیال میں ایسا اس حقیقت کے باوجود کیا گیا کہ " جس سے اسلامی دنیا مشتعل ہو جائے ".(The Times, December 04, 1993) اور یہی فیصلہ کن دستی نقطہ ہے.رشدی کے حمایتیوں اور مجرم ساتھیوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی کہ انہوں نے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے.اس چیز کو بہت اہمیت دی گئی یعنی ایک شخص کی آزادی تقریر کے حق کو جس نے جان بوجھ کر اور بدطینتی سے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی تھی.ایک ایسا ہی اور کیس بنگلہ دیش کی رائیٹر تسلیمہ نسرین کا ہے جس نے یہ کہہ کر مسلمانوں کے غضب کو مزید بھڑکا دیا کہ "قرآن پر مکمل طور پر نظر ثانی کی ضرورت ہے "."جب بنگلہ دیشی حکومت نے اس کی گرفتاری کا حکم جاری کیا کہ اس نے دینی جذبات کو مجروح کیا ہے اور مسلمان تشدد پسندوں نے اس کو قتل کی دھمکیاں دیں تو وہ 4 جون 1993ء کو روپوش ہوگئی".(The Times, July 14, 1993) شاید وہ جلا وطنوں کے غیر تحریری مجموعہ قوانین کا پابند تھا کہ رشدی کو مجبور کیا گیا کہ وہ تسلیمہ نسرین کیلئے حمایتی اکٹھے کرے.اس نے اپنے لئے دنیا بھر میں حمایتی پیدا کر کے کافی اثر ورسوخ پیدا کر لیا تھا اب اس نے یہ اثر و رسوخ دو مقاصد کیلئے استعمال کیا.اول تو اس نے نسرین کی ناگوار صورت حال کو اچھالا کیونکہ جتنے تعداد میں زیادہ ہوں گے اتنا ہی اچھا ہو گا.دوسرے اس کی یہ نیک کوشش اس کو خود ہتھیاروں سے لیس جوانمرد بنادے گی ضمنی فائدہ یہ کہ ان عیار اوصاف کے ساتھ مسٹر رشدی بحیثیت سیاست دان بھی چمک اٹھے گا.کچھ بھی ہو حقیقت یہی ہے کہ رشدی ایک مطلوبہ مجرم ہے اور بعض نے اس کو تاحیات ادیبوں میں سے مشہور ترین ادیب قرار دیا ہے ( یا شاید بدنام ترین کہنا مناسب ہوگا ).اس کیلئے ہمیں ایرانی فتویٰ کا ممنون ہونا چاہئے جو The Stanic Verses کی اشاعت کے بعد اس پر لاگو ہوا تھا.کیا یہ سب کچھ ارادی طور پر کیا گیا تھا یا کہ ایک منصوبہ بندی کے مطابق تھا جو بری 156

Page 157

طرح ناکام ہو گیا.جو کچھ بھی متنازع اور دین کی مذمت کر نیوالے ناول کے دفاع میں لکھا گیا ہے اس سے قطع نظر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رشدی اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہا تھا اور کس قسم کے جال میں وہ اپنے آپ کو پھنسا رہا تھا.یہ بھی ہر ایک کو معلوم ہے کہ ادبی دنیا کے ممتاز ادیبوں نے اس کو قبل از اشاعت خطرناک نتائج سے آگاہ کر دیا تھا.رشدی کو پہلے سے انتباہ کئی رپورٹیں اس قسم کی موجود تھیں جن سے صریح طور پر معلوم ہوتا تھا کہ رشدی نے اسے دئے جانیوالے عقلمندانہ مشوروں کو نظر انداز کر دیا تھا.ٹام کیلسی (Tom Kelsey) اور ڈیوڈ لسٹر (David Lister ) کی تیارہ کردہ ایک رپورٹ کے مطابق The Stanic Verses کے پبلشرز نے ناول کی اشاعت سے قبل مذہبی ماہرین سے مشورہ طلب کیا.انہیں تنبیہ کی گئی کہ "اس کی اشاعت سے ایسی دہشت گردی شروع ہوگی جس کو کوئی شخص یا ملک کنڑول نہ کر سکے گا.وہ نو یہودی اور عیسائی ادیب جن کو اشاعت سے تین ماہ قبل پبلشرز کی طرف سے ڈرافٹ کاپی موصول ہوئی ان کا متفقہ فیصلہ تھا : " اس کتاب کو افسانہ ہر گز نہ کہا جائے کیونکہ اس میں تاریخی شخصیات کا ذکر کیا گیا ہے جس سے متعدد لوگ آزردہ خاطر ہوں گے.اس کے باوجود پبلشرز نے کتاب شائع کردی".(The Independent, UK.March 06, 1989) پبلشرز کا معاملہ تو سیدھا سادھا ہے.ان کے نزدیک ایک کتاب جتنی نزاعی ہوگی اس کی فروخت اتنی ہی زیادہ ہوگی.یہ تو کسی بھی پبلشر کا سنہرا خواب تھا کہ کوئی کتاب اس قدر نزاعی ہو اور اتنی شہرت حاصل کر لے.لیکن یہ سپنا جلد ہی ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو گیا کم از کم مصنف کیلئے تو ضرور.اس کو شاید اُس سے زیادہ طاقتور قوتوں نے استعمال کیا ہو.اور اسے شاید قربانی کا بکرا بنایا گیا ہو کچھ بھی ہو وہ اتنا بھی معصوم نہ تھا جیسا کہ اس نے بننے کی کوشش کی.ایک تلخ آمیز مشاہدہ رشدی کا اس ناول کے لکھنے کا محرک بلاشبہ مشکوک تھا.ممتاز برطانوی مصنف رولڈ ڈاھل 157)

Page 158

(Roald Dahl ) جو مصنفین کی انجمن کا ممبر اور جو شاید پہلا غیر مسلمان ادیب تھا جس نے رشدی کو بے نقاب کیا.دی ٹائمنر کی 28 فروری 1989 ء کی اشاعت میں اس کے شائع ہو نیوالے خط سے ایک بڑا اہم سوال اٹھا.اس نے لکھا کہ : " رشدی کے معاملہ کے بارہ میں ابھی تک جو کچھ لکھا اور کہا گیا ہے، میں نے ابھی تک ایک بھی غیر مسلم کو مصنف پر تنقید کرتے نہیں دیکھا.اس کے برعکس اسے ایک قسم کا ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا.میرے نزدیک وہ ایک خطر ناک موقعہ پرست ہے.یقیناً اسے مسلمانوں کے مذہب ، اس کے عوام کے بارہ میں کافی معلومات حاصل تھیں.اسے ضرور اس امر کا احساس ہوگا کہ اس کی کتاب سے کس قسم کی گہرے اور متشددانہ جذبات مذہبی مسلمانوں میں بھڑک اٹھیں گے.بالفاظ دیگر جو کچھ وہ کر رہا تھا اسے اس کا خوب علم تھا اس لئے اسے معافی کا طلب گار نہیں ہونا چاہئے".رولڈ ڈاھل اپنے خط کو ایک قابل ذکر مشاہدہ کے ساتھ ختم کرتا ہے جس کو مغربی ذرائع ابلاغ اور رشدی کے حمایتی نظر انداز کر گئے ہیں : " آج کی تہذیب یافتہ دنیا میں ہم سب پر یہ اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ایک حد تک اپنی تحریروں پر خود پابندی لگائیں تا کہ آزادی تقریر کے حق کو مضبوط بنایا جا سکے".The Times (20 فروری 1989ء) نے ایک اور مضمون اس عنوان کے تحت شائع کیا 'Penguin under fire for ignoring expert advice'.اس کے لکھنے والے اینڈریو مارگن (Andrew Morgan) اور پیٹر ڈیون پورٹ (Peter Davenport) تھے.یہ مضمون اس مشورے کو زیر بحث لاتا ہے جو پینگوئین کمپنی نے انڈیا میں اپنے ایڈیٹوریل مشیر مسٹر خشونت سنگھ سے 1988ء میں موسم گرما میں کیا تھا.مسٹر سنگھ نے کہا تھا کہ اس کو پورا یقین ہے کہ ناول کے شائع ہونے سے مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے.ناول میں بہت سارے اہانت آمیز حوالے رسول اللہ اور قرآن کے بارہ میں ہیں اور محمد کو ایک معمولی پاکھنڈ کے طور پر پیش کیا گیا ہے".یہ بات مسٹر سنگھ نے دوبارہ دہرائی کیونکہ وہ اس سے پہلے ناول کے مسودہ کو یہ کہہ کر مسترد کر چکا تھا کہ یہ مہلک ترین ہے.مسٹر سنگھ نے پینگوئین کمپنی کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر سے لندن میں ملاقات کی جو پینگوئین انڈیا کا چیئر مین بھی ہے." وہ کچھ حیران سا تھا اور جھلایا ہوا بھی 158

Page 159

کیونکہ وہ ( رشدی کو ) بھاری پیشگی معاوضہ ادا کر چکے تھے".یہ پیشگی معاوضہ کی رقم ایک ملین ڈالر تھی جس کے بارہ میں سن کر ہر ایک کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں.اس ناول کے متعلق ضرور کچھ دال میں کالا تھا جب انسان یہ سوچے کہ برطانیہ میں سب سے منافع بخش ادبی ایوارڈ David Cohen British Literature Prize' کی رقم محض چونتیس ہزار پاؤنڈ تھی.سارے معاملہ میں ضرور گڑ بڑ تھی.پیشگی معاوضہ میں اتنی بڑی رقم کا دیا جانا اس سے سازش اور مشتبہ لین دین کی بو آتی تھی جس کا تعلق مافیا اور اس قماش کے لوگوں سے ہوتا ہے.اس رقم کا دیا جانا یہ بھی تجویز کرتا تھا کہ مصنف کو یہ رقم اس لئے دی جارہی تھی کیونکہ وہ اپنی زندگی داؤ پر لگا کر موت وحیات کا سب سے بڑا جو اکھیلنے والا تھا.ہمیں اس امر کوملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ اشاعتی کمپنی جس نے پیشگی رقم اسے دی تھی وہ یہودیوں کیلئے ذہنی میلان رکھتی تھی.یہ ادبی حملہ صرف اسلام پر تھا عیسائیت اور یہودیت کے خلاف کچھ نہ کہا گیا تھا.اس سازش کے پیچھے کن کا ہاتھ تھا اس کو سمجھنے کیلئے کسی کا ذہین ہونا ضروری نہیں.رشدی ہی ایسا واحد شخص تھا جس کو آسانی سے معین قیمت پر خریدا جا سکتا تھا.وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ مسلمانوں کو کس طریق سے سب سے زیادہ تکلیف پہنچا سکتا تھا.جیسا کہ اخبار ادی گارڈین' کے جان ایزارڈ (John Ezard) نے لکھا: "سلمان رشدی جس کی پرورش اسلامی گھرانے میں ہوئی بالکل ٹھیک علم رکھتا تھا کہ سوئی کہاں چھوٹی جائے".اپنی قسمت کا مالک (15 فروری 1989ء) ابھی تک جو کچھ لکھا گیا اور جو حوالے پیش کئے گئے ان کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ رشدی ایک رضامند تخریب کا رتھا جس کو مغرب کی عیسائی اقوام نے اس لئے استعمال کیا تا وہ اسلام پر اپنے حملے جاری رکھ سکیں.رشدی نے بے شک اس الزام کی تردید کی لیکن اس کا طور اطوار اور معذرت خواہیاں جو اخبارات میں شائع ہوئیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ خود اپنی قسمت کا مالک تھا.نیو کالج، آکسفورڈ کے پروفیسر مائیکل ڈومیٹ (Michael Dummett) نے رشدی 159)

Page 160

کے نام کھلا خط لکھا جو اخبار The Independent (1) فروری 1989ء) میں شائع ہوا تھا.اس خط میں پروفیسر موصوف نے یہ راز فاش کر دیا کہ کس طرح رشدی سب سے زیادہ پیسے دینے والے کو اپنا مسودہ دینے پر تیار ہو گیا تھا.رشدی کو مخاطب ہوتے ہوئے پروفیسر ڈومیٹ نے لکھا: "The Stanic Verses کی اشاعت سے قبل تم برطانیہ کی نسلی اقلیتوں میں ٹیلی ویژن پر برطانوی نسلی پالیسی کی مذمت کرنے پر ہیرو سمجھے جاتے تھے ان لوگوں کے حلقہ سے باہر جنہوں نے تمہاری کتابوں کا مطالعہ کیا تھا یہ تمہارا ہیرو کا مرتبہ تھا جس سے تمہاری کتاب دھوکہ بازی دکھائی دیتی ہے.تم چاہے کتنا بھی چاہو تم وہ کر دار دوبارہ بھی بھی ادا نہ کر سکو گے.تم سفید فام تعصب کو ملامت کرنے کا حقدار اب کبھی نہیں بن سکتے کیونکہ اب تم ہم میں سے ایک ہو.تم اعزازی سفید آدمی بن گئے ہو، دکھاوے کا اعزازی سفید فام دانشور یہ سب کچھ ٹھیک مگر ہر حال میں تم اعزازی ہی رہو گے." پروفیسر ڈومیٹ رشدی پر درج ذیل الزام عائد کرتا ہے : "اگر تمہیں اس گہری چوٹ کا احساس نہ تھا جو تم مسلمانوں کو لگانے والے تھے، تو پھر تم اس موضوع پر لکھنے کے حقدار نہ تھے جس کا انتخاب تم نے کیا.خیر کچھ بھی ہو کوئی شخص ایک برے فعل کے برے نتائج قبل از وقت دیکھ لینے سے محروم رہنے کی وجہ سے اس کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جا سکتا.لیکن اب تم جانتے ہوئے اس بات پر مصر ہو کہ کتاب کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہو".160

Page 161

سترھواں باب رشدی The Stanic Verses کے دفاع میں فتویٰ کے جاری ہونے کے بعد رشدی ایک نئے دور میں داخل ہوا جب اس نے رسوائے زمانہ ناول کے لکھے جانے کی نا پائیدار تو جیہات پیش کرنا شروع کیں.کبھی تو وہ ناول کا دفاع کرتا تھا اور کبھی وہ جذبات مجروح کرنے پر عذر خواہیاں پیش کرتا تھا.اور پھر کبھی وہ بالکل ہی معذرت خواہ نظر نہ آتا تھا.فتویٰ کے جاری ہونے کے بعد سے لیکر اب تک کے عرصہ نے یہ ثابت کر دیا کہ رشدی کے کردار میں کون سی سیماب نما تبدیلیاں ہوئیں جس سے اس کا اصل کردار ابھر کر سامنے آگیا.اس پر موت کی سزا لا گو ہونے کے فوری بعد جب رشدی کو جان کے لالے پڑ گئے تو اس نے کتاب کا دفاع یہ کہہ کر کیا : " یہ اسلام یا کسی اور مذہب پر حملہ نہ تھا.یہ دراصل عصبیت کو چیلنج کر نیکی اور دنیا کے غیر مذہبی اور مذہبی نظریات میں اختلاف کے پڑتال کرنیکی کوشش تھی".(The Times, February 15, 1989) اب اس کتاب کو کون افسانہ کہہ سکتا ہے؟ رشدی ٹیلی ویژن کے چینل فور کے ایک پروگرام میں آیا جو بنڈونگ فائل (Bandung File) نے 14 فروری 1989ء کونشر کیا تھا.اس پروگرام میں اس نے اپنے نظریات کا دفاع کرنے میں کوئی لچک نہ دکھائی.اس کو مسلمانوں کے رد عمل کی اتنی امید نہ تھی : " میرا خیال تھا کہ ملا لوگ اسے پسند نہ کریں گے.میں نے تو اس کو ملاؤں کیلئے لکھا ہی نہ تھا.میں جانتا ہوں ملاؤں نے گزشتہ گیارہ سالوں میں پاکستان میں جو کچھ کیا ہے میں جو مناسب سمجھوں اسے تحریر میں لانے کا حق رکھتا ہوں".رشدی کو ملاؤں کے بارہ میں کافی کچھ معلوم ہے.اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ملاؤں کا عوام پر خطرناک حد تک اثر ہے لہذا عوام کا رد عمل ویسا ہی ہوگا جیسا کہ ملاؤں کا.اس لئے یہ جانتے ہوئے کہ اس سے مسلمانوں کو کس قسم کی چوٹ لگے گی وہ اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے 161)

Page 162

آزادی تقریر کے نام پر ناول کے لکھنے میں مصروف رہا.پھر وہ یہ فضول شیخی بھی بھگارتا ہے کہ: "اگر تم کوئی کتاب پڑھنا نہیں چاہتے تو پھر کوئی تمہیں پڑھنے پر مجبور نہیں کر سکتا.یہ بہت مشکل ہے کہ کوئی ادی سٹینک ورسز پڑھ کر دلگیر ہو جائے کیونکہ اس کومحو ہو کر پڑہنے کیلئے لمبا عرصہ چاہئے اور یہ ڈھائی لاکھ الفاظ پر مشتمل ہے ".یہ تنگ نظر مفروضہ اتنا ہی بودہ تھا جتنا کہ یہ نا معقول تھا.اس صورت حال کو جس سے وہ دو چار ہے ٹھیک کرنے کیلئے اس کو اس سے بہتر عذر تر اشنا ہو گا.جب اس سے اس بحث کے بارہ میں استفسار کیا گیا جہاں اس نے قرآن کے تاریخی متن کو ڈرامہ کی صورت میں پیش کیا ہے تو وہ بخوشی تسلیم کرتا ہے کہ یہ سارے کا سارا بچے تاریخی واقعات پر مرتب کیا گیا تھا.مثلاً وہ کہتا ہے : " ان ابواب میں سارے کا سارا مواد - خوابوں کا سلسلہ - ان کا آغاز تاریخی یا نیم تاریخی ہے اگر چہ آپ پورے وثوق سے محمد کی زندگی میں ہونیوالے واقعات کے بارہ میں کچھ کہہ نہیں سکتے محمد کے بارہ میں دلچسپ بات یہ ہے کہ مقدس کتاب کے علاوہ بھی اس کی زندگی پر قطعی معلومات موجود ہیں ".پھر رشدی کہتا ہے کہ کتاب لکھنے کا مدعا یہ تھا کہ ایسے موضوعات کو پرکھا جائے جو دوسوالوں کا جواب دیں سکیں : "جب ایک تصور ( اسلام ) دنیا میں ظاہر ہوتا ہے تو یہ دو بڑی آزمائشوں سے دو چار ہوتا ہے : " جب تم کمزور ہو تو سمجھوتہ کر لو.جب تم طاقتور ہو تو کیا تم روادار ہو ؟ " اس سوال کے جواب میں وہ صاف طور پر حضور نبی پاک ﷺ کے بارہ میں گویا ہے : " جہاں تک ہم محمد کی زندگی کے بارہ میں کچھ کہہ سکتے ہیں.اس نے امکانی طور پر وحدانیت کے بارہ میں سمجھوتہ کر نیکی ممکنہ کوشش کی تھی جس کو بڑی عجلت سے مستر د کر دیا گیا".رشدی کی دیدہ دلیری اور بے ہودگی ملاحظہ کیجئے.وہ مصر ہے کہ اس ناول کو افسانہ سمجھا جائے اور ساتھ ہی وہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ محمد ﷺ کے بارہ میں لکھ رہا تھا.نیز یہ کہ 'ماہونڈا سے مراد محمد ( ﷺ ) ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ عمداً مسلمانوں کو اشتعال دلا رہا تھا.اس مضـ مضمون کا ترمیم شدہ حصہ The Guardian میں 15 فروری 1989 ء کو شائع ہوا تھا ).رشدی دلیل دیتا ہے کہ ' ماہونڈا سے مراد محمد ﷺ نہیں بلکہ یہ ناول کے کردار جبرائیل کے خوابیدہ دماغ کا شاخسانہ ہے.رشدی کا دفاع مذہبی بنیادوں کے ہل جانے سے گر جاتا ہے.پروفیسر یعقوب ذکی 162)

Page 163

کہتا ہے کہ : " پیغمبر تمام مخلوق میں سے ایک ایسی مخلوق تھے جس کا روپ اختیار کر نیکی اجازت خدا شیطان کو نہیں دیتا.اس لئے جب خواب میں انسان کو پیغمبر نظر آئیں تو ہمیں یقین ہوتا ہے کہ یہ خواب ضرور بالضرور سچا ہو گا ".پروفیسرز کی رشدی کے ناول کے عنوان کے انتخاب پر ایک اور دلچسپ نقطہ پیش کرتا ہے جس سے رشدی کا فریب فاش ہو جاتا ہے: "رشدی نے اس شیطان کے نام کو استعمال کیا جو دھوکہ بازی کا ذمہ دار تھا.اس کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ پورے کا پورا قرآن من گھڑت ہے اور محمد ایک دغا بازمفتری.یہ صرف دو آیات کا سوال نہیں جو پیش کی گئیں بلکہ تمام کی تمام 6236 آیات کا جن پر قرآن مشتمل ہے.دوسرے لفظوں میں اس کا عنوان ذومعنی تھا " ( یعقوب ذکی جس کا سابقہ نام جیمز ڈ کی (James Dickie ) تھا وہ برطانوی مسلمان، مصنف اور ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر ہے).رشدی بیان دیتا ہے رشدی کے بددلی سے دئے ہوئے بیان سے یہ صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ جو اس کا مقصود تھا اس کے حاصل کرنے میں اس کا حیلہ بہانہ کام کر گیا.اس کے بیان کا کھوکھلا اور منافقانہ لہجہ بھی غور کرنے کے قابل ہے جس کا پورا متن درج ذیل ہے : " دی سٹینک ورسز کے مصنف کی حیثیت سے میں اس بات سے بخوبی واقف ہوں دنیا کے کثیر ممالک میں مسلمان اس ناول کی اشاعت سے دیگیر ہوئے ہیں.میں اسلام کے مخلص ماننے والوں سے صمیم قلب سے معذرت خواہ ہوں جو دل آزاری ان کو اس کتاب کی اشاعت سے ہوئی ہے.یہ دنیا جس میں ہم رہ رہے ہیں جو متعدد مذاہب پر مشتمل ہے یہ تجربہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے.(1989 20 The Times, February ) یہ بیان اس نے کچھ روز بعد دیا تھا جبکہ اس سے چند روز قبل اس نے درج ذیل بیان دیا تھا : " دل لگتی بات یہ ہے کہ کاش میں نے اس سے زیادہ تنقیدی کتاب لکھی ہوتی...ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی بنیاد پرستی اس وقت تھوڑی سی تنقید سہہ سکتی ہے".(The Washington Times, February 15, 1989) 163)

Page 164

رشدی کا الٹے پاؤں پھر جانا دو سال روپوش رہنے کے بعد سلمان رشدی نے اپنا لہجہ بدل لیا.شاید یہ بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے تھا یا شاید اس کے قصور وار ضمیر نے اس کو ملامت کیا یا شاید یہ اس کی کم ہمتی کی وجہ سے تھا.رشدی نے اب ایک بیان جاری کیا جس میں اس نے کہا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے آخری نبی ہیں.دی ٹائمنر اخبار کے مذہبی امور کے رپورٹر روتھ گلیڈ ہل (Ruth Gledhill) نے The Stanic Verses میں موجود رشدی کے بیانات کی تردید میں 27 دسمبر 1990ء کو مضمون سپر دتحریر کیا.رشدی کا تردیدی بیان کرسمس کے موقعہ پر اس کی مصر کے مذہبی امور و اوقاف کے وزیر محمد علی ماغوب، اور دوسرے مسلم اکابرین کے ساتھ ملاقات کے بعد جاری ہوا.علاوہ دیگر باتوں کے اس بیان میں کہا گیا : وہ ناول میں بولنے والے کرداروں کے ادا کئے گئے بیانات سے اتفاق نہیں کرتا جو مذہب اسلام کی توہین کرتے ہیں.اس نے اس بات پر آمادگی کا اظہار کیا کہ " دی سٹینک ورسز " کا پیپر بیک ایڈیشن اور ناول کے مزید تراجم کی وہ اس تنازعہ کے دوران اجازت نہ دے گا".اس بیان سے واضح ہے کہ ناول میں اسلام کے خلاف توہین آمیز مواد موجود تھا اور یہ کہ وہ اس سے بخوبی آگاہ تھا.اس نے تردیدی بیان کو درج ذیل وعدہ کے ساتھ ختم کیا: "میں اسلام کو دنیا میں بہتر طور پر سمجھنے کے لئے کام جاری رکھوں گا جیسا کہ میں نے ماضی میں ہمیشہ ایسا کرنیکی کوشش کی تھی".رشدی نے دی ٹائمنر اخبار میں 28 دسمبر 1990ء کو مضمون لکھا جس میں اس نے گذشتہ تردیدی بیان کی وضاحت درج ذیل عنوان کے تحت کی امیں اسلام کی آغوش میں کیوں آیا ؟.شاید یہ فتویٰ کے خوف کی وجہ سے اس کے سر پر تھو پا گیا تھایا شاید اس نے صمیم قلب سے توبہ کر لی تھی.یہ بھی ممکن ہے کہ وہ برطانوی حکومت کے ایران کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینے کی وجہ سے مایوس ہو گیا تھا یعنی حکومت ایران پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ فتویٰ کو منسوخ کر دے.اس نے محسوس کیا کہ اب کوئی چارہ نہ رہ گیا تھا ماسوا اس کے کہ وہ کھلے بندوں سامنے آجائے اور ذاتی طور پر اسلامی دنیا کے ساتھ سمجھوتہ کی کوشش کرے.اس نے اپنی غیر اسلامی تربیت کے بارہ میں کمزور تو جیہات پیش کرنی 164

Page 165

شروع کر دیں: اگر چہ میرا تعلق مسلمان گھرانے سے ہے لیکن میری پرورش کبھی بھی ایک سچے مسلمان کے طور پر نہ ہوئی تھی.میری پرورش ایسے ماحول میں ہوئی جس کو عمومی طور پر آزاد مذہب انسانیت کہا جاتا ہے".پھر وہ کہتا ہے : " میں یقیناً ایک اچھا مسلمان نہیں ہوں.لیکن اب میں اس موڑ پر ہوں کہ کہہ سکوں کہ میں مسلمان ہوں.بلکہ یہ چیز خوشی کا باعث ہے کہ میں اب حلقہ اسلام میں ہوں.ایسے معاشرہ کا حصہ ہوں جس کی اقدار مجھے ہمیشہ ہر دلعزیز رہی ہیں".پھر وہ اپنے ناول کا بددلی سے دفاع کرنیکی کوشش کرتا ہے: "میں دو سال سے زیادہ عرصہ سے یہ واضح کرنیکی کوشش کر رہا ہوں کہ ا دی سٹینک ورسزا کے لکھنے کا مقصد کسی کی تو ہین نہ تھا.مزید یہ کہ مذہب پر حملے کتاب کے مرکزی کردار کی تباہی کی علامت ہیں نہ کہ مصنف کے نقطہ نظر کی مثال ".مصیبت یہ ہے کہ وہ کتاب میں توہین آمیز مواد ہو نیکا اعتراف کرتا ہے لیکن اس مواد کا اس کے اپنے ذاتی خیالات ہو نیکی تردید کرتا ہے.شاید یہ اس کے ساز باز کر نیوالے آقاؤں کے نقطہ نظر کی مثال ہے جنہوں نے اس کو پیشگی رقم ناول لکھنے کیلئے دی تھی.انسان جتنا زیادہ اس کے بیان کا مطالعہ کرتا ہے اتنا ہی زیادہ اس بات سے آگاہ ہوتا ہے کہ رشدی بڑی نا امیدی سے تنکوں کا سہارا لے رہا ہے.ایک طرف تو وہ بودے بہانے بنا کر اپنے ادبی کام کا اور اس کے تخیلاتی مواد کا دفاع کرتا ہے تا کہ اس کو اسلامی برادری میں ایک بار پھر شامل کر لیا جائے مگر دوسری طرف وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی کتاب کو من وعن قبول کر لیا جائے.یہ مضمون متنازع باتوں کا مجموعہ ہے، بالخصوص دو بیانات جو قریباً ایک دوسرے کے آمنے سامنے شائع ہوئے ہیں.بیان نمبر ایک :" خیر سگالی کی نئی فضا میں حصہ ڈالنے کے طور پر میں اس بات پر رضا مند ہوا ہوں کہ میں ا دی سٹینک ورسز' کے نئے ترجمہ کی اجازت نہ دوں گا، اور نہ اس کا پیپر بیک ایڈیشن شائع ہو گا جب تک کہ مزید تو ہین کا خدشہ باقی رہتا ہے".بیان نمبر دو: "میرے خیال میں کتاب کا مہیا ہونا جاری رہنا چاہئے تا کہ رفتہ رفتہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ ہے کیا.میں Penguin Books ( پینگوئین بکس) سے اس امکان پر بات کروں گا کہ جو مجلد ایڈیشن دستیاب ہیں ان میں اس بیان کا اضافہ کر دیا جائے کہ اس کا مقصد 165

Page 166

اسلام پر حملہ نہیں ہے ".یه چیز کہ رشدی اس بات پر آمادہ ہو گیا کہ اس اوپر والے بیان کا اضافہ کر دیا جائے چاہے یہ عمداً تھا یا نہیں اس بات کا ثبوت ہے کہ ناول میں ایسا مواد تھا جو اسلام پر حملہ ہے.مضمون کا ایک اور حصہ چند تکلیف دہ سوالات اٹھاتا ہے.مضمون کے ایک حصہ کا تعلق اس کا چھ مسلمان علماء سے کرسمس کے موقعہ پر ملنا ہے تا وہ تردیدی بیان جاری کر سکے : " انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ میں نے حقیقہ گزشتہ پندرہ سالوں میں مسلمانوں کا طرفدار ہونے کا ثبوت دیا ہے خواہ یہ کشمیر کا معاملہ ہو، یا باقی ماندہ بھارت کا یا فلسطین یا برطانیہ کا.میں نے ہر قسم کی عصبیت کے خلاف مضامین لکھے اور ٹیلی ویژن پر اس کا اعلان کیا".اگر وہ اپنے آپ کو ایسا شخص تصور کرتا ہے جس نے اسلام کے مقاصد کی بھر پور حمایت کی ہے تو پھر اس نے اسلام کے نام کو نقصان پہنچانے والا ناول شائع کر کے مسلمانوں کے اعتماد کو ٹھیس کیوں پہنچائی جن کیلئے وہ صدائے احتجاج بلند کر رہا تھا ؟.پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کا وہ دعویٰ جو اسلام کے لئے ہمدردانہ جذبات کی طرف اشارہ کرتا ہے وہ بالکل بے بنیاد ہے.اس کی تمام گزشتہ کتابوں میں جو بیس سال کے عرصہ پر محیط ہیں ان میں سے میں نے جو حوالہ جات پیش کئے ہیں وہ قطعی طور پر اسلام کیلئے اس کی نفرت ثابت کرتے ہیں.دوسرے یہ کہ اگر انسان رشدی کوشک کا فائدہ دے اور یہ مان لے کہ وہ واقعی سچا مسلمان ہے اور یہ کہ اس نے بعض دفعہ اسلامی عقائد کے دفاع میں آواز بلند کی ہے تو ہم کیسے یقین کر لیں کہ اس نے ایسی کتاب لکھی جس نے اسلام کے مقدس نام کو اس قدر نقصان پہنچایا جس نے ادبی تاریخ میں سب سے زیادہ بدنامی اور ناگواری پیدا کی.انسان اس بات پر یقینا ورطہ حیرت میں پڑ جاتا اور بے چینی میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے.ہر قسم کے حقائق اس سازش کی طرف رہ نمائی کرتے ہیں جہاں کشمیر، ہندوستان اور پاکستان سے کہیں بڑے سورماؤں" نے مل کر رشدی کی حمایت کی اور اس کے افسانے میں لفظوں کی ہیرا پھیری کے ادبی طریقے کو استعمال کیا تا وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکیں.علاوہ ازیں اس کو اتنی دولت اور اتنی شہرت کے وعدے دئے گئے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ آسکتے تھے.166

Page 167

رشدی بیان کے ایک دوسرے حصہ میں اپنے ساتھی سازشیوں کے نام گنواتا ہے.جب وہ کتاب کو واپس نہ لینے کے ذاتی فیصلے کا دفاع کرتا ہے تو اس کے دل میں اقلیت کا مفاد مد نظر ہے نہ کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت کا مفاد : " دی سٹینک ورسز " ایسا ناول ہے جو بہت سارے قارئین کی نظر میں قابل قدر ہے.میں ان سے دھو کہ نہیں کر سکتا".اس کی شرافت کے کیا کہنے.وہ چند ایک لوگوں کے جذبات کا خیال رکھتا ہے بہ نسبت کروڑوں افراد کی تذلیل کے.رشدی کا باطن ظاہر و باہر ہو گیا ہے.اس نے دشمنانِ اسلام کے ساتھ غیر تحریری معاہدہ کر لیا تھا جن کو وہ دھوکہ نہ دے سکتا بلکہ دھوکہ دینے کی جرات بھی نہیں کر سکتا تھا.رشدی ایسا بھگوڑا ہے جس نے ہاتھ آئے شکار کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا.اس نے ذرا بھی پرواہ نہ کی کہ وہ دنیا کے مسلمانوں کے اعتماد کو ٹھیس لگائے گا جن کیلئے اس نے منافقانہ ہمدردی کا ڈھونگ رچایا تھا.انسان یقیناً سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ جیسے ایک پرانی کہاوت ہے رشدی جیسا جس کا کوئی دوست ہوا سے دشمن کی کیا ضرورت ہے؟ رشدی تمسخرانہ رنگ میں اپنے بیان کو ختم کرتے ہوئے تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس رفع نزاع کے طریق کار میں شامل ہو جائیں جس کی ابتداء ہو چکی ہے : " مجھے جس قد ر ا سلام کے بارہ میں معلوم ہے وہ یہ ہے کہ رواداری ، رحمدلی اور محبت اس کا نقطہ معکوس ہیں ".امر واقعہ یہ ہے کہ اب تک اس کی شائع ہونیوالی کتابوں میں اسلام کا پیغام اس کے نزدیک موجودہ بیان کی ضد رہا ہے.وہ شاید مسلمانوں کو احمق سمجھتا ہے جو اس کی متکبرانہ گذارش کو قبول کر لیں گے.وہ یہ بھی کہتا ہے کہ "دشمنی کی زبان کو محبت کی زبان میں بدل دیا جائیگا.اس کی یہ خواہش کس قد رفضول اور واہیات ہے.جس چیز کو بدلنا ضروری ہے وہ ناول میں استعمال ہو نیوالی گندی اور مخش زبان ہے.جب تک ایسا نہیں ہوتا بہت تھوڑے مسلمان چشم پوشی پر آمادہ ہوں گے تا اس کے ساتھ بامعنی تبادلہ خیال کیا جاسکے.اب یہ معاملہ مسٹر رشدی کے ہاتھوں میں ہے.جوں جوں وقت گذرتا گیا رشدی کا اضطراب بڑھنے لگا کیونکہ فتویٰ کے حکم میں دباؤ کم ہوتا نظر نہ آتا تھا.جلاوطنی میں جو وقت وہ گزار رہا تھا وہ اس کے لئے نا قابل برداشت بن گیا تھا.جو موقع اس کو نصیب ہوا اس نے اپنے نقطہ نظر کو بیان کرنے میں استعمال کیا.جس دوران مغربی 167)

Page 168

ذرائع ابلاغ اس کی پشت پناہی کر رہے تھے اس نے ان مواقع سے پورا پورا استفادہ کیا.اس نے محسوس کیا کہ برطانوی حکومت نے اس کے ساتھ دھو کہ کیا یعنی انہوں نے اس کے کیس کو نظر انداز کر دیا تھا.اس امر کا اظہار اس نے برسر عام کیا تا وہ ہمدردی حاصل کر سکے.اس کو بخوبی علم تھا کہ برطانیہ جیسی طاقتور حکومت کے سایہ عاطفت میں رہ کر ہی وہ ذاتی حفاظت حاصل کر سکے گا.لندن کے سٹیشنر ز ہال (Stationer's Hall ) میں اس کو 14 فروری 1992 ء کو تقریر کر نیکی دعوت دی گئی جو ترمیم کے بعد اگلے روز The Times اخبار میں "مجھے ہرگز فراموش نہ کر دیا جائے " کے عنوان کے تحت شائع ہوئی.یہ مضمون اس کی گویا ذاتی فریاد تھی کہ اس کو لگے ہاتھوں فروخت نہ کر دیا جائے: "میں برطانوی حکومت کے ساتھ حریفانہ تعلق نہیں رکھنا چاہتا کیونکہ اس نے مجھے تحفظ فراہم کیا ہے اور یہی میرے دکھ کے مداوا کی آخری امید ہے.لیکن میری خواہش ہے کہ حکومت میرے لئے یہ ماننا آسان کر دے کہ وہ پورے زور وشور اور عزم کے ساتھ میری طرفداری کرتی ہے".اس کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ وہ مخصوص مطالبات پیش کر کے حکومت پر زور ڈالتا ہے کہ : ایران کے ساتھ کوئی لین دین جس میں رشدی کے کیس کا کھلے عام اور مؤثر سمجھوتہ شامل نہیں کیا جاتا وہ قابل قبول نہ ہوگا".شاید وہ اس قدر جرات کے ساتھ حکومت سے اس لئے تقاضا کر رہا ہے کیونکہ اس کو قبل از وقت وعدہ دیا گیا تھا کہ حالات اس قدر سنگین نہ ہو پائیں گے جتنے کہ اب ہو گئے تھے.ظاہر ہے کہ وہ نام فراہم کرنے سے مجبور ہے.وہ پنجرے میں قید ایک بھرے ہوئے زخمی جانور کی طرح تھا جس کو یہ علم نہ تھا کہ وہ اس دگرگوں حالت میں کیا کرے.اس کی نا تواں کوشش کہ اس کو مسلمان برادری میں دوبارہ شامل کر لیا جائے بری طور پر نا کام ہوگئی تھی.اسکے حلقہ بگوش اسلام ہونے کے پیچھے جو عیاری اور مکر چھپا ہوا تھا وہ سب نے بھانپ لیا تھا.یہ بات وثوق کے ساتھ اس کے ایک نایاب انٹرویو سے ثابت ہوتی جو رشدی نے دی ٹائمنر کی این میک الوائے (Ann McElvoy ) کو دیا تھا اور جو 26 اگست 1995 ء کو منظر عام پر آیا تھا.انٹرویو کر نیوالی خاتون کے الفاظ میں ہی اس انٹرویو کا پیش کرنا باعث دلچسپی ہوگا: 168

Page 169

ایک دفعہ اس نے اپنے دشمنوں کے ساتھ مصالحت کر نیکی کوشش کی.1990ء میں کرسمس کے موقعہ پر اس نے اسلام قبول کر لیا.یہ ایک ایسی چال تھی جس کو وہ اب "میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی " قرار دیتا ہے.اس کی پرورش ایک آزاد گھرانے میں ہوئی.نوجوانی کی عمر میں اس نے اپنے دین کو ترک کر دیا اور وہ اس دین کے ساتھ ایسا ثقافتی تعلق رکھتا ہے جو اگرچہ روحانی نہیں ہے.اُس وقت میں The Stanic Verses کا دفاع ایسے شخص کی کتاب کے طور پر کر رہی تھی جس کو واقعی اسلام کا گہرا علم تھا.لیکن یہ غلط بیانی تھی میں خدا پر ایمان نہیں رکھتی اس لئے مجھے یہ کہنا ہی نہیں چاہئے تھا کہ ایمان رکھتی ہوں".اس نے اپنی نجات کی امیدانہی سازشیوں سے وابستہ کی جو اس کو اس گرداب میں دھکیلنے کے ذمہ دار تھے جس میں اب وہ بری طرح پھنسا ہوا تھا.اس کے ساتھ وہ اپنی کتاب کے دفاع کی طرف بھی رجوع کر رہا تھا: سٹینک ورسز ایک سنجیدہ ناول ہے.ایک اخلاقی ناول یہ نہ تو غلیظ نہ ہی بے عزت کر نیوالا اور نہ ہی مغلظات سے بھر پور ی تورک آف آرٹ (مصوری کی تخلیق ) ہے".میں پوچھتا ہوں کہ ایک تخیلاتی ناول کو سنجیدہ اور اخلاقی کیسے کہا جا سکتا ہے؟ اپنی تقریر میں اس نے ایک اور بیان دیا جو اپنے تابوت میں کیل ٹھونکنے کے مترادف ہے.آزادی تقریر اور آزادی اظہار کا ذکر کرتے ہوئے وہ اپنا موازنہ اسلامی ممالک کے دوسرے ادیبوں سے کرتا ہے: ایک ممتاز سعودی ناول نگار سے اس کی شہریت چھین لی گئی اس کا کیا جرم تھا؟ وہ اسلام کا مخالف تھا.ایک مصری ناول نگار اس کے پبلشر اور پر نٹر کو آٹھ سال کیلئے قید کر دیا گیا.ان پر کیا الزام عائد کیا گیا؟ ایک بار پھر ہتک خدا اور رسول.یہ لوگ بھی اسلام کے مخالف تھے".ان مسلمان ادیبوں کے ساتھ اپنا موازنہ کر کے وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ ابھی انہی کی طرح مصیبت میں پھنسا ہوا ہے.انجانے میں اس نے اپنے آپ پر اسلام کا مخالف ہونے کا الزام عائد کر لیا جس کی وہ شروع ہی سے تردید کرتا آیا تھا.روپوشی میں جو وقت اس نے گزارا وہ اس کوشش میں لگا رہا کہ وہ پوری دنیا سے حمایت حاصل کرے تا بگڑتی ہوئی صورت حال کو بے اثر کر دے جو قابل استہزاء اور خطر ناک ہونے والی 169)

Page 170

تھی.مغرب کی ادبی دنیا سے اس کو بہت حمایت ملی جس کیلئے وہ آزادی تقریر اور آزادی اظہار کی علامت بن چکا تھا.روپوشی کے عرصہ میں اس کو مزید وقت مل گیا کہ مزید کتابیں تصنیف کر سکے جس کیلئے اس کو مدد مانگنے سے پہلے ہی مہیا تھی.جلاوطنی میں جانے کے بعد اس کی پہلی کتاب کا نام Haroun and the sea of stories ہارون اینڈ دی سی آف سٹوریز) تھا جو 1990ء میں منظر عام پر آئی تھی.ہارون اینڈ دی سی آف سٹوریز Haroun and the sea of stories اس کے متعلق خیال یہی کیا جاتا ہے کہ یہ کتاب بچوں کیلئے ہے کیونکہ یہ لائبریری کے اُس حصہ کیلئے مخصوص تھی.کتاب کے پبلشرز ایک بار پھر پینگوئین والے تھے.مجھے یقین ہے کہ انہوں نے رشدی پر یہ شرط ضرور عائد کر دی ہوگی کہ وہ ایک اور سانحہ کیلئے تیار نہیں ہیں جو رشدی کے گذشتہ ناول کی اشاعت کے بعد وقوع پذیر ہوا تھا.مزید یہ کہ وہ یعنی رشدی احتیاط برتے اور کم از کم وقتی طور پر انگلی کتاب اتنی اشتعال انگیز نہ لکھے.سیه ناول اتنا سود مند ثابت نہ ہوا جس کا سبب اقتصادی وجہ کے علاوہ یہ تھا کہ یہ افری ورلڈ کے ادیبوں کیلئے ایک یاد دہانی اور اپیل کے طور پر تھا کہ وہ رشدی کو انصاف ملنے کی مہم کو بدستور جاری رکھیں.عادت سے مجبور رشدی ایک اور جھوٹی بڑک مارتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ اسلامی قانون آزادی فکر اور فرد کی آزادی کو محدود کرتا ہے.وہ اپنے روایتی طرز تحریر کواستعمال میں لاتے ہوئے افسانوی اصطلاحوں میں اپنا اصل مدعا چھپانے کی کوشش کرتا ہے لیکن ان میں مخفی اشارے بڑی آسانی سے سمجھ آ جاتے ہیں.مثلاً یہ کہنے کی کوشش میں کہ مسلمان اپنے حقیقی خیالات اور دلی احساسات بیان کرنے میں آزاد نہیں ہیں اور یہ کہ وہ غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں اسلامی دنیا کی اس حالت کو بیان کرنے کیلئے وہ Chup city' ( خموش شہر ) کی ہندی اصطلاح استعمال کرتا ہے اور اس کے باسیوں ( یعنی مسلمانوں) کیلئے بے زبان' کی اصطلاح استعمال کرتا ہے.در اصل رشدی جس دنیا سے تعلق رکھتا ہے وہ گپ سٹی کے سوا کوئی اور ہرگز نہیں جہاں 170

Page 171

،شپ اور حماقت کا دور دورہ ہے.( رشدی کی ذرہ نوازی کہ اس نے ہندی الفاظ کے معانی بچوں کیلئے لکھی کتاب کے آخر پر دیے ہیں).مزید برآں مجھے کامل یقین ہے کہ جب رشدی ناول کے مرکزی کردار راشد خلیفہ کے بارہ میں کچھ کہتا ہے تو وہ دراصل اپنے بارہ میں کہہ رہا ہوتا ہے جس کو لینڈ آف گپ کا سب سے بڑا اعزاز یعنی the Order of the Open Mouth اس کی غیر معمولی خدمات کے عوض میں دیا گیا".(صفحہ 192) کتاب کے بارھویں باب میں جس کا عنوان ہے ?Was It the Walrus رشدی آزادی تقریر کے حق کو موضوع سخن بنانے کیلئے ایک جعلی مقدمہ کا ذکر کر کے بڑی حسرت کیساتھ اپنی جد و جہد کی کامیابی کا ذکر کرتا ہے.اس نے اپنے لئے اور اپنے ساتھیوں کیلئے خاتمہ بالخیر کی امیدوں اور آرزوؤں کا اظہار بھی دوٹوک الفاظ میں کیا ہے.وہ لکھتا ہے : " تم نے کہا تھا کہ یہ بہت بڑی خواہش ہو سکتی ہے اور یہ ہے بھی.میں ایک افسردہ شہر سے آیا ہوں جو اتنا افسردہ ہے کہ اپنا نام بھی بھول گیا ہے.میری خواہش ہے کہ تم اس کو مسرتوں والا انجام مہیا کرو نہ صرف میری جدوجہد کیلئے بلکہ سارے افسردہ شہر کیلئے بھی".(صفحہ 202) رشدی بار بار اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ وہ تمام اہل قلم کی آزادی تقریر کے حق کیلئے کوشاں ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس کی تمام کوششیں ذاتی وجوہات کی بناء پر ہیں.جولوگ ہیرو ہوتے ہیں ان کے چال چلن کیلئے جو معیار ہوتا ہے وہ ہر گز اس پر چسپاں نہیں ہوتا ہے.اس کی سابقہ بیگم میری این وگنز (Marianne Wiggins) نے رشدی پر اس موقعہ پر اعتراض کیا جب اس نے خطرے سے دو چار غیر معروف ادیبوں کی جدو جہد کی حسب استطاعت حمایت نہ کی اور نہ ہی نسلی برتاؤ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی.میری این نے کہا : " ہم سب کی خواہش تھی کہ کاش یہ انسان اتنا عظیم ہوتا جتنا کہ یہ واقعہ تھا.یہ وہ راز ہے جس کو ہر کوئی چھپانے کی کوشش کر رہا ہے.وہ ہر گز عظیم انسان نہیں ہے".(Anne McElvoy, The Times, August 26,1995 ) میری این یقیناً یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ یہ راز دبیز پردوں میں پوشیدہ رکھا گیا ہے کیونکہ رشدی پر شہرت اور تعریف کے ڈونگرے ہر طرف سے برسائے جارہے تھے.چونکہ اس کی 171)

Page 172

سابقہ کتابوں کی کچھ زیادہ ہی تعریف کی گئی تھی اس لئے ادب کے نقادوں کا متحدہ ٹولہ خود کو گراں بار محسوس کرتے ہوئے ناول کے معیار پر ضرورت سے زیادہ زور دیتا ہے.مثلاً ناول کے شروع میں متعدد حوالے دئے گئے ہیں جن میں رشدی کی قابلیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے.یہ کتاب ادب کا شاہکار ہے (Stephen King).بہ حیثیت قلمکار، باپ اور شہری کے رشدی کا دل موہ لینے والا شیریں کلام (Edward Said, Independent on Sunday).رشدی کی نرغے میں آئی ہوئی جان کی بازگشت کو خراج عقیدت ( ,Anthony Burgess Observer).بچوں کی کلاسک کتاب.اس کا پہلا ایڈیشن سنبھال کر رکھو تا اس کو اپنے پوتوں کے لئے پیچھے چھوڑ جاؤ.(Victoria Glendinning, The Times) لیکن میرے خیال میں ہندوستان کے رسالہ ' انڈیا ٹو ڈے' کے ایک مبصر نے رشدی کی کتاب لکھنے کی اصل غرض یہ کہ کر واضح کی ہے کہ : " یہ اس کے فن کی آزادی کا گن گانے والا دفاع ہے جس میں وقفہ وقفہ کے بعد گستاخانہ رنگ میں مسلمان سپاہیوں نے رکاوٹ پیدا کی ہے".اس نکتہ کو بڑی شد و مد کے ساتھ Sunday Telegraph کے اے این ولسن ).A.N Wilson) نے دوبارہ یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ : " یہ کتاب ایسی دنیا میں جو پہلے سے زیادہ آزادی یا خیالات سے خوفزدہ ہے ایک جگ مگ کرتے چراغ کی طرح چمکتی ہے ".رشدی نے اپنے آرٹسٹ کے لائیسنس کا غنائیہ دفاع کو اپنے اگلے ناول میں جاری رکھا جس کا نام 'ایسٹ ویسٹ (East, West) تھا جو 1994ء میں منظر عام پر آیا تھا.ایسٹ ویسٹ - East, West یہ کتاب بھی بچوں کا ناول تھی.جیسا کہ اس کا عنوان بتلاتا ہے یہ مشرق اور مغرب کی کہانیوں اور حکایات کا مجموعہ ہے.وہ مشرق کے تمام وحشیانہ اور غیر مہذب رسم و رواج کو قلم بند کرتے ہوئے یہ تاثر دیتا کہ یہ وہاں کا عام رواج ہے.ایک حکایت میں جس کا نام " پیغمبر کا بال" (The Prophet's Hair) ہے اس میں اسلامی طریق نماز کا استہزاء کیا گیا ہے جیسے اس نے گزشتہ کتابوں میں کیا تھا.ہاں اس بار اس نے پیغمبر اسلام ﷺ کیلئے ہتک آمیز الفاظ استعمال الله 172)

Page 173

نہیں کئے ہیں.وہ نماز اور قرآن مجید کی تلاوت کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ بچوں کیلئے عقوبت نفس ہے.ایک نو جوان مسلمان بچے کی عمومی زندگی کی غلط تصویر کشی کر کے شاید وہ مغرب میں رہنے والے بچوں کو اسلام کی سچی تعلیمات کو جاننے سے باز رکھنے کی کوشش کر رہا ہے.اس کے برعکس ایک اور حکایت جس کا عنوان Christopher Columbus and the Queen) (Isabella of Spain consummate their Relationship ' کرسٹوفر کولمبس اور کوئین از ابیلا شب عروسی مناتے ہیں، ہے اس میں وہ جنسی قصے کو یوں سحر انگیز رنگ میں پیش کرتا ہے جس سے مصنف کے لا ابالی پن کا پتہ چلتا ہے.یہ کتاب بچوں کیلئے ناول تھا مگر ستم تو یہ ہے کہ اس کی زبان نہایت مکروہ اور اخلاقی لحاظ سے گری ہوئی ہے.مثلاً ایک کہانی جس کا عنوان The Courtier ( دی کورٹیئر ) ہے رشدی نے چند ہی سطور میں ایف...F" کا لفظ کم از کم دس دفعہ استعمال کیا ہے (صفحات 205-204).غالباً ایسا آرٹ کے نام پر کیا گیا تھا!! ایسا لگتا ہے کہ سلمان رشدی نے ہمیشہ یہ یقین کیا تھا اور اب بھی یقین کرتا ہے کہ چونکہ اس کے پاس ایک قلم کار کا اجازت نامہ ہے اس لئے وہ جو چاہے سوکرے.چونکہ اس کو اعزازات سے نوازا جارہا ہے، اس کی بے بہا تعریف کی جارہی ہے اس لئے ہر وہ کتاب جو وہ لکھتا اس کے بعد اس کی انا غرور سے پھول جاتی ہے.173

Page 174

174

Page 175

اٹھارھواں باب رشدی عوام میں آنا شروع کرتا ہے جب ذرائع ابلاغ کیلئے ارشدی افیئر زیادہ اہمیت کا حامل نہ رہا تو سلمان رشدی نے رفتہ رفتہ ایسے مواقع تلاش کر لئے کہ اس نے ٹیلی ویژن پر آنا شروع کر دیا تا وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپیل کر کے ادیبوں کے آزادی تقریر اور آزادی اظہار کے حقوق کیلئے اپنی جنگ جاری رکھ سکے.اس نے مغربی دنیا کے ممالک کے سفر شروع کئے تا کچھ نہ کچھ کامیابی سے ہمکنار ہو سکے.مثلاً ستمبر 1994ء میں اس نے بنگلہ دیش کی فیمنسٹ مصنفہ تسلیمہ نسرین کے ساتھ مل کر ناروے میں ایک سمپوزیم میں شرکت کی جو خود اس کی طرح ناگوار صورت حال سے دو چار تھی.اس کے ایک ماہ بعد اسے جرمنی مدعو کیا گیا تاوہ یوروپین یونین کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کر کے اپنے کیس کو مضبوط بنا سکے ( اس ملاقات کو بھی مسلمانوں کی مخالفت سمجھا گیا تھا)..یکم اکتوبر 1994ء کو رشدی نے بی بی سی ٹو (BBC2) کے ٹیلی ویژن پروگرام Face to Face میں شرکت کی جس میں جیر می آئزہ کس (Jeremy Isaacs) نے اس موضوع پر اس سے گفتگو کی کہ مصنفین کہاں تک کسی کی دل آزاری کرنے میں حق بجانب ہیں خاص طور پر The Stanic Verses کو مدنظر رکھتے ہوئے.باوجود اس کے کہ ایران کی طرف سے اسے قتل کی دھمکی مل چکی تھی رشدی اپنے کئے پر ہرگز نادم نہ تھا.بلکہ اس نے مصنفین کے اس حق کا بڑھ چڑھ کر دفاع کیا کہ ان کو متنازع امور کی چھان پھٹک کا حق حاصل ہے.اس نے کہا کہ " کسی کتاب سے بیزار نہ ہونے کا بہترین طریق یہ ہے کہ اس کو بند کر دیا جائے".یہ خیال کتنا احمقانہ اور غیر معقول ہے.کیا وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ لوگوں کو شہوت پرستی اور بیت الخلاء میں کئے جانے والے کاموں کی کھلے بندوں اجازت ہونی چاہئے اور اگر آپ کو یہ برے لگیں تو اپنی آنکھیں بند کرلیں؟.175

Page 176

رشدی نے کھلے بندوں پبلک میں تواتر کے ساتھ آنا شروع کر دیا لیکن 7 ستمبر 1995ء کو جب وہ عوام کے سامنے آیا تو اس کا اعلان 1989 ء سے اس کی جلا وطنی کے بعد پہلی بار قبل از وقت کر دیا گیا.اس نے ایک مباحثہ میں شرکت کی جس کا نام The Times / Dillons debate - "Writers Aganist the State تھا جو ویسٹ منسٹر سینٹرل ہال لندن میں اس کے ناول The Moor's Last Sigh کی اشاعت کے موقعہ پر منعقد ہوا تھا.اس نے مباحثہ کے دوران کھلم کھلا اس امر کا اعلان کیا کہ قلم کاروں کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر تنازعہ پیدا کریں اور ایسی بات کہیں جو کہی نہیں جاسکتی : "ہم مذہبی راہنماؤں کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمیں حکم دیں کہ کب ہم منہ بند کر دیں.ہمارے فرضِ منصبی کا ایک حصہ یہ ہے کہ ہیجان اور ہلچل برپا کیا جائے کسی بھی سوسائٹی میں ہیجان پیدا کرنا ہی ہمارا حقیقی فرض منصبی ہے.(The Times, September 08, 1995) در حقیقت یہی اس نے اپنے ناول The Moor's Last Sigh میں کیا ہے.جب دنیا اس کو سکھ کا سانس لیتے دیکھنا چاہتی تھی عین اس وقت اس نے ایک اور ہنگامہ برپا کر دیا.اس دفعہ اس نے ہندؤوں کو بھی ناراض کر دیا خاص طور پر شیو سینا کے صدر بال ٹھاکرے کو.شیوسینا بھارت کا سب سے زیادہ تشدد پسند مذہبی گروہ تسلیم کیا جاتا ہے.ناول ایک کارٹونسٹ کے غیر یقینی سیاسی لیڈر بن جانے کا قصہ بیان کرتا ہے.لیڈر کی ٹھا کرے سے مشابہت جو مسلمانوں سے شدید نفرت رکھتا ہے ہر کسی کو معلوم ہے.ناول کو غلطی سے اسلام کا دفاع کر نیوالا بھی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ یہ امر حقیقت سے کوسوں دور ہے.ناول کے نفس مضمون کا تعلق مذہبی غیر رواداری سے ہے اور بنیادی طور پر رشدی کا نقطہ نگاہ بدلا نہیں بلکہ وہ ابھی تک اس سے متنفر ہے.ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پرانا رشدی دوبارہ ظہور پذیر ہو رہا ہے جو پہلے سے زیادہ پر عزم ہے گویا کہ وہ ضائع ہو نیوالے وقت کو واپس لا رہا ہو.وقت گزرنے کے ساتھ لگتا ہے اپنے مدعا کے اظہار کا خوف ایک بار پھر اس آزادی کو دوبارہ لو دیتا ہے جس کی اس نے Midnight's Children میں شیخی بھگاری تھی.مذکورہ ناول کے لکھنے کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ ادب کے اظہار 176

Page 177

کے ذریعہ اس کو کتنی طاقت حاصل ہو گئی تھی جس نے اس کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ : " یہ حیران کن بات تھی کہ خوف کسقد رجلدی مجھ سے دور ہو گیا" (صفحہ 162).پہلے سوچو پھر بولو اور کودنے سے پہلے سوچ لو ایسے محاورے ہیں جو شاید رشدی کی کھوپڑی میں کبھی نہیں آئے.اس کا کتا بیں لکھنے کا نصب العین یہ رہا ہے کہ وہ شہرت کے پروں پراڑ تا رہے.اسکے اپنے الفاظ میں : " میں شاندار نا کامی کو معمولی سی کامیابی پر ترجیح دیتا ہوں " یہ بات اس نے The Observer کی رپورٹر خاتون کیٹ کیلا وے (Kate Kellaway) سے The Autumn 1995) Waterstone Magazine) میں کہی تھی.جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا اس نے کبھی کوئی ایسی بات کہی تھی جس کو کہنے سے قبل اس نے بار بار سوچا؟ اس کا احمقانہ جواب وہ یہ دیتا ہے : اگر میں نے کبھی ایسا محسوس کیا تو میں لکھنا چھوڑ دوں گا.میرے دل میں ناول کے فن کا اس قدر احترام ہے کہ میں کبھی اپنی تحریروں کا نکتہ چیں نہ بنوں گا.اگر میں نے محسوس کیا کہ میں لکھنے سے ہچکچا رہا ہوں تو میں لکھنا بند کر دوں گا کیونکہ اعلیٰ ادب تلوار کی دھار کی طرح ہوتا ہے اور اگر آپ اس کے قریب جانے سے ڈرتے ہیں تو پھر آپ لکھنے کے اہل نہیں"..وہ زندگی میں تحفظ و سلامتی کو پسند کرتا ہے لیکن افسانے میں وہ اس کو نا پسند کرتا ہے: "میں کبھی بھی اس قسم کا مصنف نہیں رہا ہوں جو جان بوجھ کر خود کو غیر محفوظ جگہ پر لے جائے".یہ کس قدرنا قابل یقین اور جھوٹا بیان ہے.ایسے لگتا ہے کہ جلا وطنی میں رہ کر وہ اپنے حواس کھو بیٹھا ہے.تمام حقائق اس بات کی طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ رشدی نے جانتے ہوئے عمد خود کو اس ناگزیر صورت حال میں پھنسا لیا جس میں اس وقت گرفتار ہے.اس نے صرف صورت حال کی نزاکت کو نظر انداز کیا تھا.ایک اور بات جو اس نے کہی : " اگر انسان خطرہ مول نہ لے تو پھر انسان کوئی ہنگامہ خیز کام نہیں کر سکتا".اس اصول کا اطلاق اس کی تمام کتابوں پر ہوتا ہے بشمول The Moor's Last Sigh.بظاہر اس چیز نے اس کو یہ حق دے دیا کہ وہ ہنگامہ کھڑا کرے چاہے اس کا انجام کچھ بھی ہو.رشدی کے ناول سے جس شدید رد عمل کا اظہار ہندوستان میں ہوا ابلا شبہ وہ اس پر بہت خوش ہوگا خاص طور پر جس طرح ناول میں بال ٹھا کرے کو ایک ٹھگ کے روپ میں پیش کر کے اس کی 177)

Page 178

ناراضگی مول لی گئی.ٹھا کرے کے حمایتیوں نے کہا کہ وہ کتاب کا نام ونشان مٹادیں گے اور جو کوئی اس کو فروخت کر نیکی جرات کرے گا اس کو جان کے لالے پڑ جائیں گے.اس ناول سے وہی پرانا فتنہ کھڑا ہو گیا جوادی سٹینک ورسزا کی بازگشت ہے.پشیمانگی کی بات یہ ہے کہ بال ٹھا کرے ہندوستان کا ایسا معروف شخص تھا جس نے رشدی کی ادی سٹینک ورسز' کی اشاعت پر حمایت کی تھی.اس وقت ٹھاکرے نے ہندوستان میں کتاب کے ضبط کئے جانے کی مذمت کی اور کہا تھا: آزادی تقریر کسی مذہبی گروہ کے جذبات سے زیادہ اہم ہے" (The Times, September 03, 1995) آزادی تقریر کے اصول کو انسان کتنی آسانی سے فراموش کر دیتا ہے جب انسان کسی قلم کار کے زہر یلے قلم کا خود نشانہ بن جاتا ہے.یہ امر اور بھی تکلیف دہ ہے جب انسان سوچتا ہے کہ ایک شخص اسی ادیب کا دوسری کتاب لکھنے پر حمایتی تھا جس سے مصنف کی زندگی خطرے میں پڑ گئی تھی.لیکن انسان ایسے مصنف کے دوغلے کردار کا سوچ کر ذرا بھی دنگ نہیں ہوتا جو ہر قسم کے اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف اپنے مفادات کو بچانے کیلئے کوشاں تھا.رشدی کیلئے نوبل پرائز رشدی کو ایک بار پھر سے ہلچل اور ہیجان پیدا کرنے پر ایک اور بوکر پرائز ملنا تھا جس کا وہ ادبی نقادوں کے نزدیک زیادہ اہل تھا.واٹر سٹون میگزین کے اینڈی ملر ( Andy Miller) کے نزدیک " بوکر پرائز اس نے شرطیہ جیت لینا ہے ".لیکن The Times کے گائی والٹرز (Guy Walters) نے اس خدشہ کے پیش نظر کہ اس کو تیسرا بوکر پرائز ملنے والا تھا رشدی کا رتبہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا : " ایک دفعہ بوکر پرائز حاصل کرنا شاید چالا کی سمجھا جائے ، دو بار جیتنا نہایت ذہین ہونا قرار پائے اور تین بار جیتنا دیوتا ہونے کے مساوی ہوگا".(The Times, October 05, 1995) رشدی کو 1994ء میں انٹر نیشنل پارلیمنٹ آف رائٹرز کا صدر چنا گیا.یہ بین الاقوامی اعزاز اس کو کثیر تعداد میں پہلے سے ملنے والے اعزازات و تمغوں میں اضافہ تھا.تیسرے بوکر پرائز ملنے کے بعد اس سے اگلا مرحلہ رشدی کی شہرت کو بام عروج تک پہنچنے میں لٹریری فکشن میں نوبل 178)

Page 179

پرائز کا منارہ گیا تھا.لیکن جوں کو تنبیہ کر دینا ضروری ہے.رشدی شکست کو عالی ظرفی سے قبول نہیں کرتا.The Times کے لٹریر کی ایڈیٹر فلپ ہاورڈ (Philip Howard) نے اس کے ناول 'Shame' کی ناکامی کے بعد ہو نیوالے ہنگامہ کا ذکر کیا جبکہ ہر کوئی پہلے سے کہہ چکا تھا کہ یہ ضرور بوکر پرائز جیتے گا: " اس Shame کے بوکر پرائز جیتنے کے امکانات موجود تھے.جب اس کو انعام نہ دیا گیا تو رشدی کے دل کو سخت ٹھیس پہنچی.وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور آنے جانیوالے لوگوں اور جوں سے بدکلامی شروع کر دی"..(The Times, February 15, 1989) شاید یہ رشدی کا شہرت اور عزت کیلئے شدید ہیجانی خواہش اور شوق تھا جس نے اس کو اسلام کے مخالف یہودی و نصرانی سازشیوں کا منظور نظر بنا دیا تھا.ان لوگوں نے اس کو اپنی سر پرستی میں لے لیا اور رفتہ رفتہ اس کی ایسے رنگ میں پرورش کی تا وہ اسلام کے خلاف خبیثانہ اور سنگدلانہ صلیبی جنگ کا حصہ بن جائے اور اسلام کے نورانی نام کو مزید بد نام کر کے اس کا حلیہ بگاڑ دیا جائے.جب رشدی اپنے ناول 'The Moor's Last Sigh' پر بوکر پرائز نہ جیت سکا تو اس کو سخت مایوسی ہوئی.اس کے باوجود اس کے حواریوں سے اس کو بہت حوصلگی ملی جیسے Auberon Waugh جو The Literary Review' کا ایڈیٹر تھا.اس نے کہا کہ ایک شخص " جس کا تعاقب مذہبی جنونیوں نے زمین کے ایک کونے سے لیکر دوسرے کونے تک کیا ہے اس کو لازماً کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہئے " (1995) The Times, November ).واہ کے اس حقیقت کا اعتراف کہ اس نے رشدی کے ناول کا مطالعہ تک نہ کیا تھا اس سے اس کو ملنے والی پُر جوش حمایت کی بیہودگی کا پتہ چلتا ہے یعنی رشدی کو محض آزادی تقریر کے نام پر انعام دیدیا جائے.رشدی کو اس بات کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے کہ اگر اسے نوبل پرائز مل جائے تو اس کو اسے اپنے سازشی ساتھیوں میں بانٹنا ہوگا کیونکہ انہی کی وجہ سے تو وہ ایک اہم شخصیت بن سکا ہے.شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اس چیز کی امید ایسے شخص سے وابستہ نہیں کرنی چاہئے جس کی زندگی کا واحد مقصد خود کو امیر اور طاقتور بنانا رہا ہے.یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ رشدی 179)

Page 180

اپنی ذات پر لگنے والے الزامات کیلئے دل گردہ نہیں رکھتا جبکہ وہ دنیا کے ہر قلم کار کیلئے آزادی تقریر کا نعرہ بلند کرتا ہے.میں اس اصول میں پائے جانے والے تضاد کی اب وضاحت کروں گا جس کیلئے بڑی تند مزاجی کے ساتھ رشدی معرکہ آرائی کرتا چلا آ رہا ہے.مصنف کو کس نے مارا؟ یہ بات نمایاں طور پر واضح ہے کہ رشدی اور اس کے ادبی دنیا میں حمایتی کسی مصنف کی تحریر کی حدود اور حدود سے باہر آزادی کے موضوع کو کچھ زیادہ ہی طول دے رہے تھے.مثلاً رشدی نے اس موضوع پر خود جو بیان دیاوہ قابل غور ہے : " انسانی حقوق کی فہرست میں آپ کہیں بھی اس حق کا ذکر نہ پائیں گے یعنی جذبات کو ٹھیس نہ لگانے کا حق.اگر ایسا کوئی حق ہوتا تو پھر ہم سب کے ہونٹ سی دئے جاتے.کسی آزاد معاشرہ میں دل آزاری کر نا کبھی بھی پابندی کی وجہ نہیں ہونا چاہئے".(The Times, February 15, 1992) لیکن ایک تخیلاتی ڈرامہ جس میں رشدی کی موت کو فرض کر لیا گیا اس پر رشدی کا شدید رد عمل خود غرضی کی مثال اور اس اصول کے عین متضاد تھا جس کیلئے وہ فتویٰ جاری ہونے کے بعد سے معرکہ آرائی کرتا آرہا تھا.ڈرامہ کے مصنف برائن کلارک (Brian Clark) نے ایک ڈرامہ ? Who Killed the Writer " مصنف کو کس نے مار ڈالا؟") کے عنوان سے لکھا.یہ فتویٰ کے بعد لکھا گیا تھا تا مصنفین ہر قسم کی حمایت کا اظہار کر کے اس واقعہ سے سبق سیکھیں.وہ ایک قاتل اور سیاسی صحافی کے مابین ہو نیوالے جھگڑے کے ذریعہ یہ بتلانا چاہتا تھا کہ " اگر چہ آیت اللہ خمینی کی طرف سے رشدی کی مذمت دنیا کے کسی بھی نظام میں جس کو ہم برداشت کر سکتے ہیں شرانگیز اور نا قابل قبول تھی لیکن ایسا یونہی نہ ہوا تھا.مغربی طاقتوں نے اس عفریت کو خود دودھ پلا یا جواب ہم سب کو زندہ نگل جانے کی دھمکیاں دے رہا ہے".قبل اس کے کہ عوام الناس کو اس ڈرامے کی خبر ملتی برائن کلارک نے جو خط اپنے ڈرامے کی نقل کے ساتھ سلمان رشدی کو بھجوایا تھا یہ اس کے پہلے صفحہ سے اقتباس ہے.اس نے رشدی کو یقین دہانی کرائی کہ : " اگر چہ میں تمہاری رنجیدہ اور ناگوار صورت حال کو استعمال میں لایا ہوں تا ہم میں نے اس کا استحصال نہیں کیا ہے.مجھے ڈرامے سے صرف ایک توقع تھی اور وہ یہ کہ اسلامی 180

Page 181

بنیاد پرستی کی بحث کو وسیع تر کرتے ہوئے میں یہ کوشش کروں کہ دنیا میں موجود تناؤ کو کن ہو تو کم کیا جائے".یہ ایک ہمدم دیر سینہ اور ہم پیشہ مصنف کی طرف سے دلجوئی اور نیک جذبہ کا اظہار تھا لیکن رشدی نے اس کا جو جواب دیا اس سے ایک بار پھر اس کا سرکش اور خود غرضانہ کردار منکشف ہو گیا.برائن کلارک نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا: "مسٹر رشدی نے میرے خط کا جواب یوں دیا کہ اس نے میری فون آنسرنگ مشین پر یہ پیغام چھوڑا کہ اس کو اس بات پر سخت دھچکا لگا ہے کہ میں نے یہ کیسے سوچ لیا کہ ایک ایسا ڈرامہ جس میں اُس کی موت کو فرضی طور پر پیش کیا گیا.وہ اس کو کسی طور سے قابل قبول ہوگا.اور یہ کہ اس ڈرامے کے کئے جانے میں وہ رکا وٹیں پیدا کر لگا".بعد ازاں برائن کلارک ایک دوسرے خط کے ملنے پر انگشت بدنداں رہ گیا جو اس کو رشدی کے ایجنٹ نے بھیجا تھا.اس میں لکھا تھا اگر ہم ڈرامے کی پروڈکشن کر نیکا ارادہ رکھتے ہیں تو ہم اس کو تحریری اطلاع دیں تا وہ سلمان رشدی کے قانونی حقوق کی نگہبانی کر سکے.برائن کلارک نے اس ڈرامے کو شیخ نہ کرنیکا فیصلہ کر لیا مگر اس کے باوجود اس کو رشدی کی طرف سے ایسا کوئی خط نہ آیا جس میں اس نے اس تلطف کا ذکر کیا ہو.برائن کو اس کے بعد احساس ہوا کہ اس کا اپنے ڈرامے پر پابندی لگانے کا فیصلہ غلط تھا.انصاف پسند لوگوں کی اکثریت برائن کلارک کے اس دعوی سے اتفاق کرے گی جب وہ قیاس آرائی کرتا ہے کہ : " رشدی کی ستم ظریفی دیکھیں جب وہ تقاضا کرتا ہے کہ ایک ڈرامے کو محض اس لئے منسوخ کر دیا جائے کیونکہ اس سے وہ دیگر ہوا ہے یہ امرا تناواضح تھا کہ جلد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ وہ سوچنے کی اہلیت سے یکسر معذور ہو چکا ہے".حقیقت تو یہ ہے کہ رشدی اپنے ادبی پیشہ کے شروع ہوتے ہی سوچنے کی اہلیت سے معذور ہو گیا تھا.اس کی بصیرت شہرت اور دولت کے سیاہ بادلوں کے چھا جانے سے دھندلا گئی اور The Stanic Verses کی اشاعت پر یہ اوج کمال کو پہنچ گئی.181)

Page 182

182)

Page 183

اٹھارھواں باب حرف آخر قارئین کرام! یہ کتاب جو آپ کے ہاتھوں میں ہے یہ دس سال قبل 1997ء میں شائع ہوئی تھی.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس کے شائع شدہ حرف آخر پر نظر ثانی کی جائے تا یہ دیکھا جا سکے کہ اس عرصہ میں کیا کچھ رونما ہوا ہے.بلاشبہ جہاں تک اسلام اور مغرب کا تعلق ہے اس عرصہ میں اتنے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ ان کا ذکر سیبوں سے لدی ہوئی گاڑی کو دھکا دینے کے مترادف ہوگا.واقعات اتنے بے شمار ہیں کہ کسی ایک واقعہ یا حادثہ پر توجہ مرکوز کر دینا مشکل معلوم ہوتا ہے.جہاں تک کتاب کے متن کا سلمان رشدی سے تعلق ہے اس کو ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کے خرچہ پر حکومت نے دن رات کے چوبیس گھنٹے حفاظت مہیا کی ہوئی تھی.اس کو اس بات کی بھی اجازت تھی کہ وہ مضامین لکھتا رہے، مزید کتابیں شائع کرتا رہے ، اور پہلے سے بڑھ کر عوام الناس سے مخاطب ہوتا رہے.کچھ ہی عرصہ قبل اس کو مشہور زمانہ ٹیلی ویژن بی بی سی کے پروگرام Question Time میں بطور مہمان آنے کی دعوت دی گئی تھی.اس پروگرام میں اس نے ایک بار پھر اسلام کا مذاق اڑایا اور دعویٰ کیا کہ یہ مذہب ایک بار پھر تعصب کی گہرائیوں میں گرتا جا رہا ہے.اس نے برطانیہ میں مسلمان لیڈروں کو نشانہ تضحیک بناتے ہوئے کہا کہ " ان لیڈروں کی بات کوئی بھی نہیں سنتا.مسلمان کمیونٹی کی نمائندگی کے لئے یہاں کوئی ایک بھی تنظیم نہیں ہے".( ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اس کے اس بیان میں کچھ صداقت ضرور ہے.جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسے تمام مسلمان جو ایک مسیح اور مہدی کے نزول کے انتظار میں امید سے ہیں وہ بالکل گمراہ ہو چکے ہیں.ان کو ایک متحدہ آواز اور ایک لیڈر کی ضرورت ہے جو ان کے جذبات کی نمائندگی کر سکے ).183)

Page 184

جب میری کتاب 'Rushdie: Haunted by his unholy ghosts' منظر عام پر آئی تو اس کے حرف آخر میں راقم الحروف نے رشدی کو یہ مشورہ دیا تھا کہ اس کے لئے یہ مناسب ہوگا کہ اب اس کو ا فراموش شدہ انسان سمجھا جائے.کچھ عرصہ کے لئے وہ واقعی زیرزمین چلا گیا اور اس کے بارہ میں پریس اور ذرائع ابلاغ میں بمشکل ہی کوئی خبر آتی تھی.یہاں تک کہ 1998ء میں اس پر لگے فتویٰ کو بھی اٹھا دیا گیا.مگر کیا اس کی انانیت اس کو شہرت سے دور رہ کر خوش دیکھ سکتی تھی ؟ ہر گز نہیں.ایک ایسا آدمی جس نے شہرت اور پیسے کی تمنا میں اس قدر تگ و دو کی تھی اور جو شہرت اور پیسے کا مزہ لوٹ چکا تھا، یہ ایک ایسی بات تھی کہ اس کے لئے لمبے عرصہ تک اس سے باز رہنا مشکل امر تھا.رشدی نے ایک بار پھر ذرائع ابلاغ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا شروع کی.مگر اس دفعہ اس نے میڈیا میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو مشورہ دینا چاہا کہ اسلام کو کس طرح ماڈرنائز کیا جاسکتا ہے، تا جدید رجحانات کو قبول کیا جا سکے خواہ اس کے عوض اسلام کے بنیادی عقائد اور اصولوں کو قربان کر دیا جائے.اس نے پریس میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی اور مسلمانوں کی خاموش اکثریت کو تشدد پسند لوگوں سے مقابلہ کرنے پر ابھارا تا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی شروع ہو جائے.(The Times, London, August 28, 2005) یہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ مزعومہ بنیاد پرست تحریک کو رشدی افئیر کے بعد لبرل مسلمانوں میں جڑیں پھیلانے کا موقعہ ملا تھا اور یہ کہ اس کے نتیجہ میں ایسے بین الاقوامی حادثات رونما ہوئے جنہوں نے اسلام کے تصور کو بری طرح مسخ کیا تھا.بدنام زمانہ واقعات میں سے 9/11 اور اس کے بعد 7/7 کے جو نیو یارک اور لندن میں واقعات ظہور میں آئے ان کے بعد اسلام اور مغرب کے مابین مصالحت کے جو کچھ امکانات تھے وہ بالکل معدوم ہو گئے.سلمان رشدی نے اس میں اپنا رول پوری طرح ادا کیا تا اس کے آقاؤں کے عزائم و مقاصد کو ہر صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے.اگر چہ اس نے ان مذکورہ سانحوں سے اپنے آپ کو دور رکھا تا ہم اس نے کچھ حیلوں بہانوں 184

Page 185

سے کوشش کی کہ وہ تاریخ کے چند اوراق کو بدلنے میں اپنے آپ کو وابستہ کر سکے.اس کی کتاب The Stanic Verses کی اشاعت کے بعد اسلام اور مغرب کے مابین جو سلگتی ہوئی آگ بھڑک اٹھی تھی اس کے خلاف فتویٰ اٹھا لئے جانے کے بعد وہ مدھم ہونے لگی.تاہم رشدی اس تگ و دو میں لگا رہا کہ دنیا کی توجہ اس پر مرکوز رہے چاہے اس کے عواقب کچھ بھی ہوں.وہ جھتی ہوئی آگ کو پھر سے بھڑکا تا آرہا ہے.مجھے پورا یقین ہے کہ وہ اپنی کہانی کو ان واقعات کا پیش خیمہ سمجھتا ہے جن میں سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں.رشدی نے کہا کہ "جب لوگوں نے اوّل اوّل مجھ میں اور 9/11 میں ناطہ قائم کرنا چاہا تو میں نے اس سانحہ کے اتنا بڑا ہونے کی وجہ سے تردید کی تھی.لیکن اب مجھے احساس ہونے لگا ہے کہ جو کچھ میری کتاب ادی سیٹا نک ورسز' کے ساتھ ہوا وہ گویا پیش آئند واقعہ کا نمونہ تھا اور یہ کہ اب ہم بڑے واقعہ میں آن پڑے ہیں ".اس نے مزید کہا " اس وقت اس واقعہ کو کسی بڑے واقعہ کا چھوٹا نمونہ سمجھنے میں لوگوں کو تذبذب تھا.جو لوگ مجھ پر حملے کر رہے تھے وہ کہنا چاہتے تھے کہ اس واقعہ سے کسی بڑے واقعہ کا سلسلہ نکالنا غلط ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ رشدی نے خاص قسم کا مکر وہ کام کیا تھا اس لئے وہ اس کے ناخوشگوار انجام کا بھی مستحق تھا".اور حتی کہ میرا دفاع کرنے والے لوگ کہنا چاہتے تھے کہ یہ ایک ادیب پر نا خوشگوار حملہ ہے.لیکن میں یہ کہنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ایسا سلوک ادبیوں سے پوری دنیا میں ہورہا ہے.لیکن جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ اب کہانی نہیں ہے، اب کہانی کا رُخ بدل گیا ہے، میرے خیال میں The Stanic Verses کے بارہ میں کوئی بھی توجہ نہیں دیتا".(The Times, September 2005) اگر اس کی کتاب کو کوئی توجہ نہیں دیتا تو پھر اس نے ایڈنبرا انٹرنیشنل ٹیلی ویژن فیسٹیول منعقدہ اگست 2005 ء کے موقعہ پر اعلانیہ طور پر کیوں کہا تھا کہ The Stanic Verses چھوٹے ڈرامہ کی صورت میں ٹیلی ویژن پر دکھائی جائیگی اور یہ کہ ٹیلی ویژن کے حقوق ابھی تک دستیاب ہیں.اس نے اس بات کی بھی تصدیق کی تھی کہ فرانسیسی زبان میں بھی اس کتاب کو فلمائے جانے کا پراجیکٹ زیر غور ہے.185

Page 186

اس فیسٹیول کے موقعہ پر رشدی کی لیبر پارٹی کے ممبر آف پارلیمنٹ جارج گیلا وے (George Gallaway) کے ساتھ 28 اگست 2005 ء کو ٹیلی ویژن پر ایک مباحثہ بعنوان اٹی وی اور مذہب' کے دوران کھٹ پٹ ہوئی تھی.اس نے مباحثہ میں پورے جوش سے دلائل دئے کہ اسے اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ جو چاہے سو کہے.رشدی اس فیسٹیول کے موقعہ پر اپنے نئے ناول کی تشہیر بھی کر رہا تھا.پہلے کی طرح رشدی نے اسلام اور مغرب کے تعلقات کو متاثر کرنے والے حادثات پر غور کرنے کے لئے مزعومہ فرضی ناول لکھا تھا.اس کا تازہ ناول Shalimar the Clown' جدید دور کی دہشت گردی کے متعلق ہے اگر چہ وہ اس کی تردید کرتا ہے.اس نے یہ کہہ کر اپنی بے حیائی کا ثبوت دیا ہے کہ اگر چہ وہ بھی بھی کسی ٹریننگ کیمپ میں نہیں گیا تا ہم چونکہ وہ فتویٰ کی دھمکی کے زیر اثر (1989 سے لے کر 1998 ء ) رہ چکا تھا اس لئے اس کے پاس کافی وقت تھا کہ ایسے لوگوں کی ذہنیت جان سکتا جو وہاں جاچکے ہیں ".واقعی اس کی قابلیت کی کوئی حد نہیں !!.اشالیمار دی کلاؤن' کی کہانی مختلف براعظموں پر محیط اور اس کا زمانہ دوسری جنگ عظیم سے لے کر ماڈرن امریکہ اور جہادی ٹریننگ کیمپ تک ہے.یوں شاطرانہ طریق سے 9/11 اور اس کے عرصہ کو بھی شامل کر لیا گیا ہے.اپنی نئی کتاب پر بحث کرتے ہوئے وہ اپنی تر دید خود کرتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ " در اصل آپ کو کرنا یہ ہے کہ ان لوگوں کے دماغ کے اندر گھنے کے لئے تصوراتی چھلانگ لگانی ہے " ( دی ٹائمز ستمبر 2005ء).اس نے یہی دلیل ادی سیٹنگ ورسز' لکھنے پر پیش کی تھی.وہ ابھی تک اس مغالطے میں ہے کہ اگر آپ کسی چیز کو فرضی کہہ دیں چاہے وہ اصلی لوگوں اور واقعات سے مشابہ ہو تو اس قسم کی کتاب کو ادب کا من گھڑت کام سمجھا جائے گا (اور اسے بوکر پرائز کا بھی حق دار سمجھا جائیگا.رشدی تاریخی واقعات کو بڑے عیارانہ طریق سے اپنے ناول لکھتے وقت استعمال کرتا ہے مثلاً :'Midnight's Children' کا تعلق ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم سے ہے.ادی جیگوئر سمائیل' The Jaguar Smile کا تعلق نکا را گوا کے ڈکٹیٹر سو موزا کے خلاف سیڈ انسٹاس کی حمایت میں ہے.لیکن جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو پھر افسانوی دنیا دھوکے،فریب 186

Page 187

اور کینہ پروری میں بدل جاتی ہے جو کہیں اور استعمال نہیں کی جاتی بلکہ اس کو محض اسلام کے پیروکاروں کے لئے مختص رکھا جاتا ہے.نئی کتاب کا تناظر یہ ہے کہ دنیا کو دہشت گرد کی آنکھوں سے دیکھا جائے اور اس کوشش میں اس نے عمداً اپنے آپ کو اس دہشت گرد کا نشانہ بنانے کی سعی کی ہے.جیسا کہ اس نے The Times اخبار میں لکھا کہ : " اگر تاریخ کے اس دور میں آپ ایک انشا پرداز ہیں تو آپ کو اس سے لڑنا ہے جو سامنے ہے ، اور یہی ہمارے عہد کا موضوع سخن ہے.آپ ہر موڑ پر اس سے ٹکراتے ہیں، اگر یہ پسند نہیں تو پھر کتا بیں مت لکھو" ستمبر 2005ء).دراصل اس کو تنازعہ کا کیٹرالر گیا ہے اور اس نے اپنا کردار اس کا مقصد حیات بنالیا ہے.ادی سٹینک ورسز' لکھنے کی اصل وجہ اپنے اوپر عائد کردہ جلا وطنی سے واپس آنے کے بعد رشدی نے اپنا نگا پن سپیشل برانچ کے ان خاص آدمیوں کے بغیر ضرور محسوس کیا ہوگا جو اس کی روزمرہ زندگی کا اب حصہ نہیں رہے تھے.لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اس نے پھر سے شور و غل بر پا کرنا شروع کر دیا کہیں خدانخواستہ لوگ اس کو بھول تو نہیں گئے.جس طرح قاتل موقعہ واردات کی طرف لا زما لوٹ کر آتا ہے اسی طرح رشدی سے رہا نہ گیا کہ وہ ان وجوہات کا ذکر کرے جن کی بناء پر اس نے بدنام زمانہ کتاب 'دی سٹینک ورسز' لکھی تھی.قاتل کی مثال کی طرح بیچ رفتہ رفتہ باہر آنا شروع ہوا ، رشدی بار بار مداخلت کرتا رہا جیسا کہ اس کے ذرائع ابلاغ کو دئے گئے بیانات سے واضح ہوتا ہے.سچ تو شروع ہی میں ظاہر وباہر ہو گیا تھا جب اس نے پہلا ناول' گریمس' Grimus تحریر کیا تھا جو تجارتی نقطہ نظر سے زبر دست نا کامی تھا.اس نے اپنے نقادوں کو نہ تو معاف ہی کیا اور نہ ہی فراموش.جب اس کے اگلے ناول 'ٹڈ نائٹس چلڈرن'Midnight's Children نے راتوں رات کامیابی کے قدم چومے تو ادیبوں کی برادری نے اس پر داد و دہش کے ڈونگرے برسا دئے یعنی اس کو ابو کر پرائز دیا گیا.رشدی نے انعام قبول کرتے ہوئے اپنی تقریر میں ناول پر تنقید کرنے والوں کی وہ درگت بنائی کہ اس تقریر کو سب سے گھٹیا تقریر قرار دیا گیا.خود غرض، خود بین، بینی باز ، ریا کار چاہے آپ اس کو کچھ بھی کہہ لیں لیکن یہ دراصل " بطور گستاخ ، غیر دلکش انسان 187)

Page 188

کے یہ اس کی شہرت کی عمارت کی بنیادی اینٹ تھی (G.Dougry, The incredible lightness of Salman, The Times, September 2005) وہ ہر گز نہیں چاہتا تھا کہ اس کو کسی بھی صورت میں نشانہ تنقید بنایا جائے.یہ بات یوں ثابت ہوتی ہے جس طرح کی تنقید وہ دوسروں پر کرتا ہے.مثلاً رشدی نے ایک مصنف پال سکاٹ کی کتاب " راج کوارٹٹ " Raj Quartet پر نقادانہ رائے کا اظہار کیا اور یہ کہنا چاہا کہ ہندوستان کے متعلق صرف ایک زاویہ سے لکھا جا سکتا ہے.یعنی اگر مصنف کا نقطہ نظر رشدی کے طے کردہ اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا تو یہ قابل قبول نہیں ہو سکتا.جس طرح کہ ہم سب جانتے ہیں اس کے بعد جس طرح پردہ اخفا اٹھا یہ دی سٹینک ورسز کا مصنف اور اس کے حامی تھے جنہوں نے یہ دلیل پیش کی کہ ایک جمہوری معاشرہ میں آزادی پر رحم و عفو کی طرح کوئی پابندی نہیں ہوسکتی.کسی ادیب کو کسی بھی موضوع پر کسی بھی نقطہ نظر سے اظہار خیال کی اجازت ہونی چاہئے ، خواہ اس سے کسی کا دل دکھے." (G.Dougry, The incredible lightness of Salman, The Times, September 2005) اس کی کتابوں کے ناقدین کے پیش نظر اس کے اعتراض پر ایک اور دلچسپ نکتہ سامنے آتا ہے.یہاں اس کے اعتراض پر پوری توجہ سے غور فرمائیں.جب اس سے اس کی انشا پردازی کے اولین دور میں استفسار کیا گیا تو اسے یاد آیا کہ اس کے غصے کی وجہ اس کے پہلے ناول ' گریمس (Grimus ) کے بارے میں لوگوں کا رد عمل تھا.لوگ کہہ رہے تھے کہ 'جاؤ کوئی اور ذریعہ معاش تلاش کرو..مجھے یہ بات اچھی طرح یاد ہے.اور اب میں گذرے وقت پر غور کرتا ہوں تو کہتا ہوں کہ چوٹ کے بدلے چوٹ لگانے کی کوشش مت کرو کیونکہ تم ہی نقصان اٹھاؤ گے".شاید اتنا وقت گزرنے کے بعد اس کو احساس ہوا ہے کہ وہ مصنفین کی برادری کے سامنے اپنا کیس عمدہ طریق سے پیش نہیں کر سکا.لیکن قسمت میں شاید یہی لکھا تھا اس قسم کی جرات جس کا اس نے اظہار کیا ، اس سے وہ ان طاقتوں کی نگاہ میں آگیا جنہوں نے اس کو آخر کار قربانی کا بکرا بنادیا ( جس کے لئے وہ برضا ورغبت حاضر تھا).اس بارہ میں رشدی خود کہتا ہے : " کچھ قسم کی بے خوفی اس فیصلہ میں مضمر تھی کہ مقابلہ پر ڈٹ جاؤں.پہلی کتاب کی ناکامی کے بعد اور پھر اس کے بعد دو ایک اور بے سود کوششوں یا چیزوں 188)

Page 189

کے جو اشاعت کے مرحلہ تک نہ پہنچ سکیں، مجھے یاد ہے میں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ بہتری اسی میں ہے کہ یا تو ہار مان لوں یا پھر اس سے رجعت پسندانہ یا مڈل آف دی روڈ یا ایسی چیز جس میں خطرہ زیادہ نہ ہو یعنی آپ جانتے ہی ہیں کہ اس سے کم ترین کام کروں.یا پھر اگر ہمت ہے تو اس سے بڑا خطرہ مول لوں.تا کہ اگر کشتی ڈوبنے ہی لگی ہے تو پھر شعلوں کی زد میں بھسم ہو جاؤں.مجھے خوب یاد ہے میں نے فیصلہ کیا کہ میں یہی کروں گا کیونکہ میں اس کے علاوہ اس سے زیادہ کسی خطر ناک چیز کا سوچ نہیں سکتا تھا.اور ہاں اس فیصلہ کے پہنچنے پر مجھے عرصہ لگ گیا".یہی درحقیقت اس کے 'The Stanic Verses ' لکھنے کی اصل وجہ تھی.باقی کا معاملہ جیسا کہ کہتے ہیں تاریخ کا حصہ بن چکا ہے.رشدیوں کی نئی نسل اس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ 'ادی سٹینک ورسز' کے واقعہ نے مزید رشدیوں کی نسل کو جنم دیا جو سیاسی اور فلمی دنیا سے اغلام بازوں اور ہم جنس پسندوں کی طرح پبلک میں آنا شروع ہو گئے.آیا یہ نئے رشدی اصلی رشدی کی حمایت میں آئے تھے یا یہ کہ رشدی کی طرح ان طاقتوں کے زیر اثر سامنے آئے تھے جن کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ تمام کوششیں اس لئے کی گئیں تاکسی ہنگامے کا سامان پیدا کیا جائے تا اسلام اور مغرب کے درمیان خلیج پہلے سے وسیع تر ہو جائے.اسی ذہنیت کے چنداد ییوں کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے.ارشاد مانجی یوگنڈا میں پیدا ہونے والی ایشین ہے جو کینیڈا ہجرت کر گئی.اس نے 216 لکھی جو صفحات پر مشتمل کتاب ( دی ٹربل و د اسلام The Trouble With Islam نبی پاک آنحضور ﷺ کے خلاف بہتانوں کا انبار ہے.مانجی جس نے خود اپنے الیز بین ہونے کا اعتراف کیا ہے وہ پوری دنیا میں اس موضوع پر لیکچر دے رہی ہے کہ اسلام میں کس طرح آزاد پسندی لائی جائے.اس کے سامعین میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، یونائیٹڈ نیشن پریس کارپس نیشنل کمیٹی آن امریکن فارن پالیسی، انٹر نیشنل وویمن فورم، سویڈش ڈیفینس ریسرچ ایجنسی، دی پینٹا گون ، جین جیکسن روسو انسٹی ٹیوٹ، کیمبرج اور نوٹر ڈیم یو نیورسٹیاں شامل ہیں.189

Page 190

امریکہ کی مشہور ترین پروگرام پیش کرنے والی او پراون فری (Oprah Winfrey) نے اس کو اس کی جرات، دلیری اور یقین کامل پر پہلا سالانہ چوتز پا ایوارڈ ( Chutzpah Award) دیا.Ms.Magazine نے ارشاد کو اکیسویں صدی کی فیمینسٹ (عورتوں کے حقوق کے لئے لڑنے والی ) قرار دیا.(میک لینز (McLean's کینیڈا کے نیشنل نیوز میگزین نے اس کا انتخاب بطور دس کینیڈین کے کیا "who can make a difference" یعنی جو تبدیلی لا سکتے ہیں.اس سے یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ ایسے مصنفین جن کا پس منظر اسلامی ہو ، جو اسلام پر کھلے بندوں تنقید کر سکتے ہوں ان کو شہرت پورے زور شور سے دی جاتی ہے تا ان کو بام عروج تک پہنچایا جا سکے تاوہ اکثریت والے مسلمانوں کے پہلے ہی زخم شدہ دلوں پر خوب نمک چھڑک سکیں.دیگر مصنفین جیسے تسلیمہ نسرین جو بنگلہ دیش کی مسلمان اور رشدی کی گہری دوست ہے اور جو شاید اس کا سر پرست بھی تھا وہ اسلام اور اس کے پاک پیغمبر ﷺ کے خلاف جذبات کو انگیخت کرنے والی کتابیں اور مضامین لکھ کر جلا وطنی میں زندگی گزار رہی ہے.تسلیمہ نسرین پر بھی بنگلہ دیش کے رجعت پسند مسلمانوں نے 1993ء میں فتویٰ جاری کیا تھا.ہتک خدا اور رسول کے کورٹ کیس اس کے خلاف بنگلہ دیش کی عدالتوں میں چل رہے ہیں.ایک مقدمہ تو بنگلہ دیش کی حکومت نے خود اس کے خلاف دائر کیا ہوا ہے.اس کے علاوہ دیگر کم شہرت اور اہمیت کے مصنفین بھی سامنے آئے ہیں.جب ان سب کو اکٹھا کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سازش کے پیچھے کوئی بدشگون محرک ہے اور اس محرک کو جاننے کے لئے کسی کا تیز وطر ار ہونا ضروری نہیں ہے.کارٹون کا تنازعہ اب حالیہ تنازعہ ڈیمینش کارٹون کا سامنے آیا ہے جس نے اسلام اور مغرب کے مابین سلگتی آگ کو ایک بار پھر سے ہوا دی ہے.ڈنمارک کے اخبار اجے لینڈ پوسٹن میں آنحضرت علی کے خاکے شائع ہونے پر فروری 2006ء میں پوری دنیا میں مسلمانوں کی طرف سے غیر معمولی 190

Page 191

احتجاج کا طوفان برپا ہوا.دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہی کارٹون ستمبر 2005ء میں ڈنمارک کے اخبار میں جب شائع ہوئے تو اس سے پوری دنیا میں صدائے احتجاج بلند نہ کی گئی جواب دیکھنے میں آئی.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی غلیظ شرارت کارفرما تھی.پہلی بارستمبر 2005 ء میں جب خاکے شائع ہوئے تو شرارت پسند اپنے مذموم مقاصد حاصل نہ کر سکے اس لئے انہوں نے انگریزی ذرائع ابلاغ میں ان کو شائع کر کے مسلمانوں کو زک کرنے کی بھر پور کوشش کی کیونکہ انگلش میڈیا کے پڑھنے والے تعداد میں زیادہ ہیں.مقام افسوس یہ ہے کہ سادہ لوح مسلمانوں کی اقلیت نے غیر اسلامی طریق سے مظاہرے کر کے قومی جھنڈے نذر آتش کر کے اور نہ صرف ڈینش حکومت کو دھمکیاں دے کر بلکہ تمام مغربی حکومتوں کو دھمکیاں دے کر شدید رد عمل کا اظہار کیا.اس واقعہ سے وہ زخم دوبارہ کھل گئے ہیں یا پہلے زخموں کو مزید گہرائی سے کاٹا گیا ہے جو کچھ کچھ مندمل ہونا شروع ہو گئے تھے.اب مغربی سوسائٹی کے مؤثر اور معتبر افراد اور اسلامی دنیا کے مابین دوبارہ بحث و تمحیص شروع ہونی چاہئے تا پتہ لگایا جا سکے کہ آخر اصل معاملہ کیا ہے؟ اور یہ کہ بجائے منفی کے مثبت چیزوں کو سامنے رکھ کر صبر و استقلال سے صورت حال کا سیاق و سباق کے ساتھ جائزہ لیا جائے.منفی اور مثبت چیزیں دونوں اطراف سے آئیں گی.ایک طرف تو مغربی ذرائع ابلاغ کا سلسلہ مدارج ہے جو اب تک جو کچھ ہو چکا ہے اس پر بالکل نادم نہیں.وہ خود کو آزادی اظہار کے نعرے کے پردہ کے پیچھے چھپائے ہوئے ہیں.وہ رشدی جیسوں کو اس بات کی اجازت دے رہے ہیں کہ وہ لوگوں کے جذبات و عقائد کے ساتھ کھیلیں جو مسلمانوں کو بہت محبوب ہیں.دوسری طرف اسلامی دنیا سے مذہب کا دفاع کرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے جنہوں نے اپنے نظریات کے پر چار میں تشدد سے نا قابل قبول حد تک کام لیا ہے.یہاں تک کہ 14 فروری 2006ء کو ایران کی انتہا پسند تنظیم شہداء فاؤنڈیشن نے سلمان رشدی پر لگے فتویٰ کی دوبارہ توثیق کر دی جو اس پر 1989ء میں لگایا گیا تھا اور اس کے سر کی قیمت 2.8$ ملین ڈالر کر دی.191).

Page 192

شہزادہ چارلس کا خطاب مثبت امور میں برطانیہ میں ایسے اخبارات بھی ہیں جنہوں نے خاکے شائع کرنے سے صریحاً انکار کر دیا.شہزادہ چارلس نے اپنی اہلیہ کا میلا (Camilla) کے ساتھ مشرق وسطی کے دورے کے دوران قابل مذمت خاکوں پر کڑی تنقید کی.مصر میں قیام کے دوران پرنس چارلس نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ لوگ " سنتے کم ہیں اور ان امور کا احترام نہیں کرتے جو دوسروں کے نزد یک مقدس اور بیش قیمت ہیں".پرنس نے یہ بات قاہرہ کی سب سے پرانی الا ز ہر یونیورسٹی کے 800 مسلمان سکالرز کے سامنے 'Unity in Faith' کے موضوع پر تقریر کے دوران کہی.شہزادہ نے مختلف مذاہب کے مابین مزید حمل و رواداری کی تلقین کی ، خاص طور پر تین بڑے مذاہب یہودیت ، عیسائیت اور اسلام جن کا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہے." ہمارے مذاہب جن میں ہم سب شریک ہیں اس کی بنیادی جڑ یہ ہے کہ ہم سب ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں، یعنی ابراہیم کا خدا.یہ چیز ہمیں لازوال اقدار مہیا کرتی ہے.ہم میں اتنی جرات ہونی چاہئے کہ ہم ان کا پرچار کریں ، اور ان کا اقرار اس دنیا میں بار بار کریں جو مناقشت و تفرقہ میں گھری ہوئی ہے ".شہزادہ چارلس نے مزید کہا کہ : " ڈینش کارٹونوں پر جس قسم کے غم وغصہ اور تضاد کا مظاہرہ کیا گیا اس سے یہ کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ دوسروں کو نہ سننے کے کیا نقصانات ہیں نیز ان چیزوں کا احترام نہ کرنا جو دوسروں کے نزدیک مقدس ہیں.میرے خیال میں کسی مہذب معاشرے کی پہچان یہ ہے کہ وہ اقلیتوں اور اجنبیوں کا کس قد را حترام کرتا ہے".شہزادہ چارلس نے مذہبی لیڈروں سے اپیل کی کہ وہ تحمل اور رواداری کے پر چار میں اپنا رول پوری طرح ادا کریں."ہم سب کو رحم اور رحمدلی کے خدائی اوصاف کو سینے سے لگائے رکھنے کے علاوہ ان کا پر چار کرنا اور ان پر عمل کرنا ہوگا.اس کے لئے مکمل اطمینان اور مزاحمت سے باز رہنے کی ضرورت ہے.اور اگر مجھے کہنے کی اجازت ہو تو کہوں کہ وہ تمام افراد جو مختلف مذاہب میں کسی اعلیٰ پوزیشن یا اتھارٹی میں ہیں وہ کھل کر تو اتر کے ساتھ خدائی اوصاف کی بے پایاں اقدار کی تشہیر کریں".192)

Page 193

ارشادات امام جماعت احمدیہ اسلامی دنیا کی طرف سے سب سے زیادہ مؤثر اور زور دار جواب حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے دیا جو جماعت احمد یہ عالمگیر کے روحانی سربراہ ہیں.انہوں نے فرمایا کہ یہی وقت ہے کہ جملہ مذاہب کے لیڈروں کو حساس مذہبی معاملات پر حملوں کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے.انہوں نے برطانیہ کے میڈیا کو مبارکباد دی کہ کس طرح انہوں نے اس قابل افسوس تنازعہ میں کوئی بھی کارٹون نہ شائع کر کے نہایت ذمہ داری کا ثبوت دیا.آپ نے فرمایا: ” آج کل ڈنمارک اور مغرب کے بعض ممالک میں آنحضرت ﷺ کے بارہ میں انتہائی غلیظ اور مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرنے والے ، ابھارنے والے، کارٹون اخباروں میں شائع کرنے پر تمام اسلامی دنیا میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ رہی ہے اور ہر مسلمان کی طرف سے اس بارے میں رد عمل کا اظہار ہو رہا ہے.بہر حال قدرتی طور پر اس حرکت پر ردعمل کا اظہار ہونا چاہئے تھا.لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا رد عمل کبھی ہڑتالوں کی صورت میں نہیں ہوتا اور نہ آگئیں لگانے کی صورت میں ہوتا ہے اور نہ ہی ہڑتالیں اور توڑ پھوڑ، جھنڈے جلانا اس کا علاج ہے.“ ”ہمارا رد عمل ہمیشہ ایسا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے جس سے آنحضرت ﷺ کی تعلیم اور اسوہ نکھر کر سامنے آئے.قرآن کریم کی تعلیم نکھر کر سامنے آئے.آنحضرت ﷺ کی ذات پر نا پاک حملے دیکھ کر بجائے تخریبی کاروائیاں کرنے کے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگنے والے ہم بنتے ہیں.“ جیسا کہ میں نے کہا یہ تمبر کی حرکت ہے یا اکتوبر کے شروع کی کہہ لیں.تو ہمارے مبلغ نے اس وقت فوری طور پر ایک تفصیلی مضمون تیار کیا اور جس اخبار میں کارٹون شائع ہوئے تھے ان کو بھجوایا اور ان خاکوں کی اشاعت پر احتجاج کیا.ہم جلوس تو نہیں نکالیں گے لیکن قلم کا جہاد ہے جو ہم تمہارے ساتھ کریں گے.اور خاکوں کی اشاعت پر اظہار افسوس کرتے ہیں.اس کو بتایا کہ ضمیر کی آزادی تو ہوگی لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ دوسروں کی دل آزاری کی جائے.بہر حال اس کا مثبت رد عمل ہوا.ایک مضمون بھی اخبار کو بھیجا گیا تھا جو اخبار نے شائع کر دیا.ڈینیش عوام کی طرف سے بڑا اچھا رد عمل ہوا کیونکہ مشن میں بذریعہ فون اور خطوط بھی انہوں نے ہمارے مضمون کو کافی پسند کیا، پیغام آئے.“ 193

Page 194

آنحضرت ﷺ کی ذات پر جب حملہ ہو تو وقتی جوش کی بجائے، جھنڈے جلانے کی بجائے، توڑ پھوڑ کرنے کی بجائے، ایمبیسیوں پر حملے کرنے کی بجائے اپنے عملوں کو درست کریں کہ غیر کو انگلی اٹھانے کا موقعہ ہی نہ ملے.کیا یہ آ گئیں لگانے سے سمجھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی عزت اور مقام کی نعوذ باللہ صرف اتنی قدر ہے کہ جھنڈے جلانے سے یا کسی سفارتخانے کا سامان جلانے سے بدلہ لیا جائے.نہیں ہم تو اس نبی کے ماننے والے ہیں جو آگ بجھانے آیا تھا، وہ محبت کا سفیر بن کر آیا تھا، وہ امن کا شہزادہ تھا.پس کسی بھی سخت اقدام کی بجائے دنیا کو سمجھا ئیں اور آپ کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں بتائیں یہ پانچ منٹ کی آگ تو بجھ جائیگی ہماری آگ تو ایسی ہونی چاہئے جو ہمیشہ لگی رہنے والی آگ ہو.وہ آگ ہے آنحضرت ﷺ سے عشق و محبت کی آگ جو آپ کے ہر اسوہ کو اپنانے اور دنیا کو دکھانے کی آگ ہو جو آپ کے دلوں اور سینوں میں لگے تو پھر گی رہے.یہ آگ ایسی ہو جو دعاؤں میں بھی ڈھلے اور اس کے شعلے ہر دم آسمان تک پہنچتے رہیں.“ اسی طرح آپ نے فرمایا کہ: مختلف قومیتوں کے درمیان مل جل کر کام کر نے کا یہی طریقہ ہے تا عالمی امن اور مصالحت قائم کی جا سکے.اس سے پہلے بھی رشدی ہو گزرے ہیں اور میں یہ کہنے کی جرات کرتا ہوں کہ مستقبل میں بھی رشدی جیسے پیدا ہوں گے جو مناقشت اور بدامنی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ان کی فطرت ہی گندی ہے.لیکن ہر وہ شیطان رشدی جو اپنا ذلیل و مکروہ سر اٹھانے کی جرات کرے گا اس کے جواب میں ہزاروں ہزار ایسے شریف النفس انسان بھی ہوں گے جوان گستاخیوں کا عقلی طریقے سے باہمی گفتگو کے ذریعہ جواب دیں گے.اور ایسے ملین در ملین افراد بھی ہوں گے جو پیغمبر اسلام نبی پاک ﷺ پر دن رات ہمیشہ درود بھیجتے رہیں گے.مجھے یقین واثق ہے کہ ایک روز پوری دنیالا زما ہمارے پیارے نبی ﷺ کی مبارک بعثت کی صحیح وجہ جان لے گی.اور وہ وجہ یہ تھی کہ پوری نوع انسانی کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا جائے یعنی اسلام کے جھنڈے تلے جس کے معنی ہیں امن و آشتی.آمین (تفصیل کے لئے مطالعہ فرمائیں اسوہ رسول ﷺ اور خاکوں کی حقیقت " از حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 61 85372908 1 :ISBN]) الله 194

Page 195

فروری 1989ء عم رشدی کے بیانات اگر آپ کسی کتاب کا مطالعہ نہیں کرنا چاہتے ، تو آپ کو اس کے مطالعہ پر مجبور نہیں کیا جاسکتا.یہ غیر ممکن ہے کہ کسی کے جذبات دی سٹینک ورسز سے انگیخت ہوں.دی سٹینک ورسز اسلام پر حملہ نہ تھا اور نہ ہی کسی اور مذہب پر.سچی بات تو یہ ہے کہ کاش میں نے اس سے زیادہ تنقیدی کتاب لکھی ہوتی...ایسا لگتا ہے کہ اسلامی بنیاد پرستی کو اس وقت تھوڑی تنقید کی ضرورت ہے.دی سٹینک ورسز کے مصنف کی حیثیت سے مجھے اس بات کا شدید احساس ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں مسلمان میرے ناول کی اشاعت سے دلی طور پر دلگیر ہوئے ہیں.ہم سب کو دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنا چاہئے.اگر چہ میرا تعلق مسلمان گھرانے سے ہے لیکن میری پرورش بحیثیت مسلمان کے نہ ہوئی تھی لیکن اب میں اقرار کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں.میں اسلام کا صحیح چہرہ دنیا میں پیش کرنے کیلئے تندہی سے کام کرتا رہوں گا جیسا کہ میں نے ماضی میں ایسا کرنیکی کوشش کی ہے.فروری 1992ء کسی کی دلآزاری کرنا کبھی بھی کسی آزاد معاشرہ میں پابندی کی وجہ نہیں ہونی چاہئے.کاش که (برطانوی حکومت میرے لئے یہ یقین کرنا آسان بنا دے کہ وہ پورے زور اور عزم کے ساتھ میری پشت پر ہے.195

Page 196

اگست 1995ء ☆ The Stanic Verses ایک سنجیدہ ناول، ایک اخلاقی ناول ہے.یہ نہ تو خش نہ ہی ذلت آمیز اور نہ ہی دشنام طراز ہے.یہ تو ورک آف آرٹ ہے.ستمبر / اکتوبر 1995ء ح ہم مذہبی راہنماؤں کو اس بات کی اجازت نہ دیں گے کہ وہ ہمیں حکم دیں کہ ہم کب اپنا بند کر دیں.ہمارے فرض منصبی کا ایک حصہ یہ ہے کہ پہلچل اور ہیجان برپا کیا جائے.اگر انسان خطرہ مول نہ لے تو پھر انسان کبھی کوئی دلچسپ کام نہیں کر سکتا.......196

Page 197

شرح الفاظ عبداللہ ابن ابی مدینہ کے خزرج قبیلہ کا سردار.رسول اللہ ﷺ کی مدینہ آمد سے قبل اس کا شہر کالیڈر بنا متوقع تھا.منافقوں کا سردار جماعت احمد یہ عالمگیر کارکن احمدی جماعت احمدیہ ایک مسلمان فرقہ جس کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت میرزا غلام احمد (علیہ السلام) مسیح موعود و مہدی معہود ہیں.عال الله انصار آرید حضرت ابوبکر کی دختر نیک اختر ، نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عربی زبان میں خدا کا ذاتی نام ہجرت کے وقت مدینہ کے مسلمان شہری ہندوستان کا ایک تشدد پسند ہند و فرقہ آیت اللہ خمینی ایران کے انقلابی لیڈر جن کا پہلا نام روح اللہ موساوی تھا.عزرائیل بنوقریظہ بلال برقعہ مہاجر عید الفطر فتوى جبرائیل موت کا فرشتہ رسول اللہ ﷺ کی مدینہ آمد سے قبل یہاں کا ایک یہودی قبیلہ ایک غلام جن کو حضرت ابوبکر نے آزاد کروایا.اسلام کے سب سے پہلے مؤذن.لباس جو بعض ممالک میں مسلمان خواتین پردہ کے لئے اور اپنے آپ کو ڈھانپنے کے لئے پہنتی ہیں.مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آنیوالے مسلمان روزوں کے اختتام پر منایا جانیوالا اسلامی تہوار مذہبی حکم یا فرمان اللہ تعالیٰ کا خاص فرشتہ جو رسولوں پر خدا تعالیٰ کی وحی لاتا رہا نیز رسول اللہ ﷺ کے پاس وحی لانیوالا فرشتہ 197)

Page 198

حدیث حلال حمزة حجاب ہندو رسول پاک ﷺ کی بیان کردہ بات اسلامی قانون کے مطابق جس کی اجازت ہو.نبی کریم ﷺ کے چا محترم جنہوں نے اسلام قبول کیا اور جن کی شہادت جنگ احد کے موقعہ پر ہوئی دی سٹینک ورسز میں بیان کردہ رنڈی خانہ جو نعوذ باللہ مکہ میں تھا ہندو مذہب کے پیروکار جو زیادہ تر ہندوستان میں پائے جاتے ہیں قرآن مجید مسلمانوں کی مقدس کتاب جس کا ہر لفظ رسول اللہ پر وحی کے ذریعہ نازل ہوا تھا.جنت میں مومنین کو ملنے والے نازک بدن نیک اور صالح ساتھی تمثیلی بیان ہے.جاہلیہ جہاد خدیجه فخر الا انبیاء ﷺ کی بعثت سے قبل کا دور.اعلیٰ مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرنا.اپنے دفاع میں لڑی جانیوالی جنگ، اس کی ایک قسم جہاد بالنفس ہے.دنیا میں خدائے واحد کی عبادت کیلئے بنایا جانیوالا پہلا گھر جو مکہ میں ہے رسول اللہ ﷺ کی پہلی زوجہ مطہرہ خالد بن ولید اسلام کا بہترین جنگی ہیرو اور جرنیل جن کا لقب سیف اللہ تھا.خلیفہ نبی اللہ یا پیغمبر کا جانشین، گدی نشین، مسلمانوں کی ایک ذات یا خاندانی نام.ایک عرب دیوی جس کا بت طائف کے عبادت خانے میں تھا.محمد (ع) اسلام کے پیغمبر مهدی رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث کے مطابق آخری زمانے میں آنیوالا شخص جو دین کی تجدید کرے گا.ما ہونڈ ایک جھوٹا دیوتا.ایک بت.ایک عفریت.ایک بھیانک مخلوق.شیطان کا نام.مغربی مستشرقین کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو دیا جانیوالا اہانت آمیز نام.اسلام سے قبل کی ایک دیوی جس کا عبادت خانہ بحیرہ احمر کے کنارے قدید شہر میں منات تھا.198

Page 199

مارٹن لوتھر سولہویں صدی میں جرمنی کے ملک میں لوتھرن چرچ کا بانی.سعودی عرب کا شہر جہاں رسول اللہ ﷺ کی ولادت ہوئی.مدینہ سعودی عرب کا شہر جس کا پرانا نام یثرب تھا، مکہ سے 424 کیلومیٹر شمال میں.غار حرا مکہ سے تین میل دور پہاڑی پر واقع غار جہاں رسول اللہ ﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی.صلى الله وہ شخص جو نماز سے پہلے مومنوں کو نماز ادا کرنے کیلئے بلاتا ہے.ہندوستان پر برطانوی حکومت سے قبل مغلیہ سلطنت کے بادشاہ.موذن مغل مسلمان مذہبی لیڈر ملاء پارٹیشن 1947ء کا زمانہ جب برصغیر ہندوستان پاکستان اور بھارت میں تقسیم ہوا تھا اور برطانیہ سے آزادی ملی تھی.مسیح موعود آخری زمانہ میں آنیوالا مجدد اور مسیح جس کی آمد کی پیشگوئی حضرت عیسی علیہ السلام اور رسول اللہ ﷺ نے فرمائی تھی.یہ لقب مرزا غلام احمد قادیانی کیلئے استعمال پرده قریش صفوان ہوتا ہے جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کا ظہوران پیشگوئیوں کے مطابق ہوا.اسلامی ممالک میں مردوں اور عورتوں کا الگ بیٹھنا.یا عورتوں کا کپڑوں کے اوپر حجاب پہننا.عرب کا قبیلہ، یہ لوگ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے تھے.رسول اللہ ﷺ اس قبیلہ سے تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک خادم صحیح بخاری حدیث کی چھ مستند کتابوں میں سے سب سے مستند کتاب جس کو امام اسماعیل بخاری نے تالیف کیا تھا.صلاح الدین 1169ء میں مصر اور شام کا سلطان، فاتح یروشلم.قرآن پاک کا ایک حصہ سورت سلمان فارسی رسول اللہ ﷺ کے صحابی جو فارس سے عرب آئے تھے.199)

Page 200

شیطان ترندی ایسی ہستی جو انسان کو بہکاتی ہے.سب سے بڑے شیطان کا نام ابلیس حدیث کی چھ کتابوں میں سے ایک کتاب محمد بن جریر الطبری مسلمان مؤرخ طالمود علماء عمر عزی یہودیوں کے مذہبی اور عائلی قوانین کا مجموعہ مسلمانوں کے مذہبی سکالرز حضرت عمر بن الخطاب ، رسول اللہ اللہ کے دوسرے خلیفہ.عرب دیوی جس کی قربان گاہ نخلہ ( مکہ کے قریب) کی وادی میں تھی.زید بن حارث رسول اللہ ﷺ کے منہ بولے بیٹے اور آزاد کردہ غلام زینب بنت حارثہؓ زید بن حارث کی طلاق شدہ بیوی جس کی شادی بعد میں رسول اللہ سے قرار پائی تھی.ذوالفقار علی زیڈ اے بھٹو، پاکستان کا صدر 1971 ء تا 1977ء پاکستان کا صدر 1977ء تا1988ء ضیاءالحق زرقانی شرح زرقانی جس کے مصنف مشہور مسلمان مؤرخ محمد ابن عبد الباقي الزرقانی 200

Page 201

مصادر 1.2.3.4.5.6.7.8.9.10.11.12.13.14.15.VICTORY OF ISLAM, Hadhrat Mirza Ghulam Ahmad, 1890 English edition, Tameerr Press, Lahore, Pakistan 1973.MUHAMMAD SEAL OF THE PROPHETS, Muhammad Zafrulla Khan, Routledge & Kegan Paul, London 1980.CHRISTIANITY AND THE WORLD RELIGIONS, Hans Kung, Williams Collins & Co Ltd, London 1987.THE RISE OF CHRISTIAN EUROPE, Hugh Trevor-Roper, Thames and Hudson, London 1965.TREASON AGAINST GOD, Leonard W Levy, Schocken Books, London 1981.MOHAMMED, Maxime Rodinson, 1961, English edn., Allen Lane, The Penguin Press, London 1971.ISLAM: A CHRISTIAN PERSPECTIVE, Michael Nazir-Ali, The Paternoster Press, Exeter 1983.MUSLIM-CHRISTIAN ENCOUNTERS, William Montgomery Watt, Routledge, London 1991.ISLAMIC FUNDAMENTALISM AND MODERNITY, Professor W M Watt, Routledge, London 1988.MUHAMMAD AT MEDINA, W Montgomery Watt, The Clarendon Press, Oxford 1956.ISLAM AND THE WEST, Norman Daniel, The University Press, Edinburgh 1958.MUHAMMAD, A WESTERN ATTEMPT TO UNDERSTAND ISLAM, Karen Armstrong, Victor Gollancz Ltd, London 1991.THE SATANIC VERSES, Salman Rushdie, Viking Penguin 1988.GRIMUS, Salman Rushdie, Victor Gollancz Ltd, London 1975.MIDNIGHT'S CHILDREN, Salman Rushdie, Jonathan Cape Ltd, London 1981.201

Page 202

16.SHAME, Salman Rushdie, Jonathan Cape Ltd, London 1983.17.HAROUN AND THE SEA OF STORIES, Salman Rushdie, 18.19.20.21.22.23.24.25.26.27.28.29.30.31.32.Granta Books, London 1990.EAST, WEST, Salman Rushdie, Jonathan Cape Ltd, London 1994.THE WATERSTONE'S MAGAZINE, a quarterly magazine published by Waterstone's Booksellers, UK.MUHAMMAD, Martin Lings, George Allen & Unwin, London 1983.TRANSFORMING LIGHT, Albert and E Vail, Jasper & Row 1970.WORLD'S HISTORY, Rodney Castleden, Parragon 1994.THE MOORS IN SPAIN, Stanley Lane-Poole, Darf Publishers Ltd, London 1984.STRUCTURE OF SPANISH HISTORY, Americo Castro (p.170) A HISTORY OF THE CRUSADES, Sir Steve Runciman Harmondsworth, Penguin 1965.LA GUERRE ET LE GOUVERNEMENT DE L'ALGERIE, M Baudricourt, Paris 1853.POLEMIQUE BYZANTINE CONTRE L'ISLAM, Adel-Theodore Khoury, Leiden: Brill 1972.LOVE AND LIVING, Thomas Merton, Bantam Books, New York 1980.THE SPIRIT OF ISLAM, Ameer Ali Syed 1873.MODERN TRENDS IN ISLAM, Sir Hamilton Gibb, University of Chicago Press 1947.AN INTERPRETATION OF ISLAM, Professor Laura Veccia Vaglieri.DE RELIGIONE MOHAMMEDICA, Adrian Reland 1705.33.THE TALMUD UNMASKED, Rev I B Pranaitis.34.ASH WEDNESDAY SUPPER, Giordano Bruno 1584, English edition, William Boulting 1914.35.ISLAM AND MODERN HISTORY, Wilfred Cantwell Smith 1956.202)

Page 203

NEWSPAPERS 1.THE TIMES Published in the UK 2.THE SUNDAY TIMES Published in the UK 3.THE TIMES MAGAZINE Published in the UK 4.THE INDEPENDENT Published in the UK 5.THE INDEPENDENT ON SUNDAY Published in the UK 6.THE GUARDIAN Published in the UK 7.THE DAILY TELEGRAPH Published in the UK 8.THE WASHINGTON TIMES Published in the USA 9.THE NEW YORK TIMES Published in the USA BRITISH TELEVISION STATIONS BBC 2 ITV BRITISH BROADCASTING CORPORATION INDEPENDENT TELEVISION CHANNEL 4 PART OF ITV 203)

Page 204

204

Page 205

مصنف کا تعارف محمد ارشد احمدی کینیا ( مشرقی افریقہ ) میں 1952 ء میں پیدا ہوئے.اپنی تعلیم مکمل کرنے کی غرض سے آپ پندرہ سال کی عمر میں برطانیہ تشریف لائے.مشرقی افریقہ میں ایشین لوگوں کے 1960ء کی دہائی کے آخر میں انخلاء کے وقت جب آپ کے والدین بھی برطانیہ ہجرت کر آئے تو پھر آپ نے یہاں مستقل سکونت اختیار کر لی.محمد ارشد احمدی جماعت احمدیہ برطانیہ کے معروف رکن ہیں.آپ نے جماعت احمدیہ کی انتظامیہ میں مختلف عہدوں پر کام کیا ہے اور تادم تحریر آپ نیشنل سیکرٹری اشاعت ہیں.آپ نے بہت سی میراتھن واکس میں بطور منتظم کام کیا ہے.ایک سائیکل میراتھن کے انتظام میں بھی آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس میں برطانیہ کی جملہ چیریٹیز کے لئے ہزاروں پاؤنڈز اکٹھے کئے گئے تھے بشمول امپیر کل کینسر ریسرچ اور گریٹ اور منڈسٹریٹ ہاسپیٹل.ارشد احمدی کو بین المذاہب مطالعہ میں ہمیشہ سے رغبت رہی ہے.مغربی تہذیب میں مسلمانوں کے مدغم ہونے کے موضوع پر آپ نے مختلف مواقع پرلیکچر دئے ہیں.گذشتہ کئی سالوں سے آپ اسلام، نصرانیت اور یہودیت پر ریسرچ کرتے آرہے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے رسوائے زمانہ کتاب The Stanic Verses کا دندان شکن جواب لکھنے میں اپنا وقت صرف کیا ہے.پیشہ کے لحاظ سے آپ فارما سوٹیکل انڈسٹری میں بطور کنسلٹنٹ کام کرتے آ رہے ہیں.آپ کے تین بچے ہیں.آپ زبر دست کھلاڑی ہیں خاص طور پر ہا کی سکواش اور ٹینس کی کھیلوں میں آپ کی دلچپسی زیادہ ہے.205

Page 205