Saleha Begum

Saleha Begum

حضرت سیدہ صالحہ بیگم صاحبہؓ

اُمّ داؤد
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

Book Content

Page 1

بسلسلہ صد سالہ خلافت احمدیہ جو بلی حضرت سیدہ صالحہ بیگم صاحبہ ام داؤد لجنہ اماءاللہ

Page 2

حضرت سیدہ صالحہ بیگم صاحبہ ( ام داؤد صاحبه )

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جو ہلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 4

سیرتِ حضرت سیدہ اُم داؤ د صاحبہ پیارے بچو! آج سے قریباً سو سال پہلے قادیان کی پیاری بستی میں، پیارے دار اسیح میں ، 9 سالہ صالحہ بھاگتی ، دوڑتی اور اپنی سہیلی مبارکہ (حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ) کے ساتھ کھیلتی نظر آتی ہے.اس بچی کے متعلق مہدی دوراں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ دونوں نے رویاء میں دیکھا کہ میاں محمد اسحق پسر حضرت میر ناصر نواب صاحب اور صالحہ بیگم بنت صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب کی شادی ہو رہی ہے.قادیان سے جو اخبار نکلتا تھا اُس کا نام تھا البدر.جس طرح آجکل بوہ سے 'الفضل، اخبار نکلتا ہے.ایڈیٹر اخبار البدر نے اس نکاح کے متعلق 5 فروری 1906 ء کے اخبار میں لکھا.(1) - " آج کا دن دو خوشیوں کا دن ہے.ایک عید کی خوشی اور دوسرے ہمارے دو پیاروں کے درمیان مبارک تعلق کی خوشی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رات رؤیا میں دیکھا سو آج ہی یہ پورا ہوا.حضرت مولوی نورالدین صاحب نے ایک خاص جوش کے ساتھ بعد جمعہ نماز ظہر وعصر مسجد اقصیٰ میں جہاں خود

Page 5

حضرت اقدس بھی رونق افروز تھے خطبہ نکاح پڑھا اور جانبین پر خدا تعالیٰ کے فضل خاص کا ذکر کیا.شادی کے موقع پر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک نظم بھی لکھی.جو کلام محمود کی تیسری نظم ہے اور اس کا ایک شعر یوں ہے:.(13) میاں اہلحق کی شادی ہوئی ہے آج اے لوگو ہر اک منہ سے یہی آواز آتی ہے مبارک ہو! حضرت میر محمد الحق صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ”ہمارا نکاح شعائر اللہ میں سے ہے.“ شعائر اللہ کا مطلب ہے اللہ کی نشانیاں.یہ بچی جس کا نام صالحہ جان رکھا گیا 12 جنوری 1897 ءکو دارالمسیح ، میں پیدا ہوئی.یہ وہی بابرکت تاریخ اور مقام ہے جس تاریخ اور جگہ پرٹھیک 8 سال پہلے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی پیدا ہوئے تھے.حضرت سید و صالحہ بیگم کی والدہ کا نام محمدی بیگم اور والد کا نام پیر منظور محمد صاحب تھا جو حضرت صوفی احمد جان صاحب کے بیٹے تھے.حضرت صوفی احمد جان صاحب یعنی حضرت صالحہ بیگم کے دادا لدھیانہ (جو ہندوستان کا ایک شہر ہے ) کے علاقہ کے بہت بڑے ولی تھے، ہزاروں لوگ آپ کے مرید تھے لیکن جب آپ کی ملاقات حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی

Page 6

سے ہوئی ( آپ نے ابھی اپنے مسیح موعود ہونے کا اعلان نہیں کیا تھا) تو آپ نے حضور کو بہت نیک اور پاک سیرت پایا اور اپنی دور اندیٹی کی وجہ سے یہ اندازہ کر لیا کہ آپ ہی اس زمانہ کے مصلح اور مسیح موعود ہوں گے اور اس بات کی تائید میں ایک رسالہ نکالا.اس میں ایک نظم بھی لکھی جس کا ایک شعر یوں ہے.سب مریضوں کی ہے تمہیں پہ نگاہ تم مسیحا بنو خدا کے لئے حضرت صوفی احمد جان صاحب افغان شہزادوں کی اولاد میں سے تھے.یہ خاندان نا معلوم وقت میں افغانستان سے ہجرت کر کے لدھیانہ آکر آباد ہوا.اس خاندان میں دین و دنیا کا علم رکھنے والے بزرگ ہر زمانہ میں موجود رہے اس لئے حضرت صوفی احمد جان صاحب کے بھی بہت سارے مرید تھے اور لوگ آپ کی بیعت کیا کرتے تھے.جب آپ نے اپنے مریدوں کے ساتھ حج کیلئے تشریف لے جانے کا ارادہ کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو ایک دعا لکھ کر دی کہ خانہ کعبہ میں کھڑے ہو کر انہی الفاظ میں میری یہ دعا پڑھیں.چنانچہ آپ نے اپنے مریدوں کو اکٹھا کر کے وہاں دعا پڑھی.حج سے واپسی پر آپ کی وفات ہوگئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب مسیح موعود علیہ اسلام ہونے کا دعوی کیا اور بیعت لینے کی اللہ تعالی کی طرف سے اجازت ہوئی تو آپ نے پہلی بیعت لدھیانہ میں حضرت صوفی احمد جان صاحب

Page 7

کے گھر میں ہی لینے کا فیصلہ کیا.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام حضرت صوفی احمد جان صاحب کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ : ” آپ نہایت خوبصورت ، خوب سیرت ، صاف باطن انسان تھے.آپ مجھ سے بہت محبت اور دوستی کا تعلق رکھتے تھے.دل و جان سے اور مال سے ہر وقت مدد کرنے کو تیار رہتے تھے.آپ کا علم بہت زیادہ تھا.تقریر بھی بہت اچھی کر لیتے تھے.اکثر اُن کے مریدوں نے ان کو سمجھایا کہ آپ تو خود بہت بڑے بزرگ ہیں اگر آپ کسی کی بیعت کرتے ہیں تو یہ آپ کی شان کے خلاف ہے لیکن آپ نے جواب دیا کہ مجھے کسی شان کی ضرورت نہیں.آپ نے جو عہد کیا اُسے آخر تک نبھایا اور اپنی اولاد کو بھی اس کی تلقین کی." جن 313 ساتھیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی ، ان میں حضرت صوفی احمد جان صاحب اور آپ کے دونوں صاحبزادے (حضرت پیر محمد منظور ، حضرت پیر افتخار احمد ) بھی شامل تھے.آپ کی اولاد سے حضور بہت محبت سے پیش آتے اور اُن کا خاص خیال فرمایا کرتے تھے.چنانچہ جب حضرت پیر محمد منظور صاحب لدھیانہ سے ہجرت کر کے قادیان آئے تو حضور نے انہیں دار امسیح میں جگہ عنایت فرمائی اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کے گھر کے ساتھ ہی کمرے دیئے گئے اور یہ خاندان بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت و شفقت سے حصہ پانے لگا.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی بیوی

Page 8

حضرت صغری بیگم صاحبہ حضرت پیر منظور محمد صاحب کی سگی بہن تھیں اس رشتہ سے حضرت خلیفہ مسیح الا ول آپ کے پھوپھا لگے.پیارے بچو! آپ سب نے قاعدہ میسر نا القرآن پڑھ کر ہی تو قرآن مجید کو پڑھنا سیکھا ہے نا! کیا آپ نے میسر نا القرآن کے اوپر اس کے لکھنے والے کا نام کبھی پڑھا ہے؟ اس کو لکھنے والے حضرت پیر منظور محمد صاحب ہی تو تھے جو حضرت صالحہ بیگم کے ابا تھے.آپ نے حضرت سیدہ نواب مہار کہ بیگم صاحبہ اور اپنی بیٹی صالحہ بیگم کو قاعد و پڑھانے کیلئے پہلے باقاعدہ لکڑی کے بلاک بنائے اور اُن کے ذریعے اردو کے حروف کی پہچان کروائی اور ایک نئی طرز کی بنیاد ڈالی.جس کی تعریف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی نظم میں بھی کی ہے.حضرت صالحہ بیگم کی شادی 1911 ء میں ہوئی اور آ.حضرت میر ناصر نواب صاحب کی بہو بن کر دار المسیح میں آگئیں.حضرت صالحہ بیگم صاحبہ کے شوہر حضرت میر محمد اسحق صاحب کا جماعت احمدیہ میں ایک خاص مقام تھا.آپ حضرت اماں جان اوراللہ مرقدہ جا کے سگے بھائی تھے.آپ نے حضرت اماں جان اور اللہ مرقد ما کا دودھ بھی پیا ہوا تھا.اس طرح آپ حضرت اماں جان کے رضاعی بیٹے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے دودھ شریک بھائی تھے.چنانچہ حضرت سیدہ صالحہ بیگم صاحبہ کو مسیح الزماں کی عظیم الشان اہلیہ کی بھا بھی اور بہو ہونے کے دوہرے شرف بھی حاصل ہوئے.آپ

Page 9

آپ کے شوہر حضرت میر محمد الحق صاحب جماعت احمدیہ کے ایک بہت بڑے عالم اور زبردست مقرر بھی تھے.آپ قرآن وحدیث سے بہت محبت رکھتے تھے.حدیث کا درس دیتے ہوئے ایسا منظر بیان فرماتے کہ سننے والوں کو محسوس ہوتا کہ گویا وہ حضرت محمد مصطفی امیہ کی مجلس میں بیٹھے ہیں.قادیان سے باہر کی جماعتیں آپ کو مناظرہ اور بحث کیلئے دعوت دیا کرتی تھیں.آپ احمدیت کے مخالفین کو مباحثات میں زبردست دلائل سے چند منٹوں میں خاموش کروا دیتے.جامعہ احمدیہ کے استاد اور بعد میں پرنسپل بھی ہے.چنانچہ جماعت کے بہت سے بزرگوں نے آپ سے علم حاصل کیا.اور دنیا میں پھیلایا.حضرت سیدہ صالحہ بیگم صاحبہ کو بھی خود ہمیشہ سے علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا.حضرت خلیفہ صبیح الاول نے بھی آپ کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی.گھر کے کاموں کے علاوہ آپ پڑھنے کیلئے وقت نکال لیتی تھیں.خود بھی پڑھتیں اور دوسری عورتوں کو بھی پڑھاتی تھیں.آپ کے مزاج میں یہ بات تھی کہ ہمیشہ کچھ سیکھتی رہتیں.آپ نے شادی کے بعد اپنے شوہر حضرت میر محمد افق صاحب سے قرآن مجید اور حدیث کی کتابیں پڑھنی شروع کیں.آپ کو قرآن مجید سے بہت محبت تھی.قرآن کریم کے درسوں میں باقاعدگی سے شامل ہوتیں.آپ نے اپنے قرآن مجید کے ہر صفحہ کے ساتھ

Page 10

7 سادے سفید کاغذ لگوائے تھے.دوران درس آپ کوئی بھی نئی بات سنتیں، اُس کو نوٹ کر لیتیں.جس بات کا علم نہ ہوتا اس کو پوچھ لینے میں ہرگز عار محسوس نہ کرتیں.جب آپ کے جڑواں بچے پیدا ہوئے جو بعد میں فوت ہو گئے تھے تو آپ اُن دو ننھے منھے بچوں سمیت قرآن مجید کا درس سننے مسجد جایا کرتیں.چنانچہ یہ پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ تا وفات جاری رہا.آپ کے آباء چونکہ افغانستان سے آئے تھے.اس لئے گھر میں فارسی بولی جاتی تھی.عربی زبان بھی آپ اچھی طرح بول اور لکھ لیتی تھیں.1928ء میں آپ نے 'مولوی کا امتحان دیا جبکہ آپ کے پانچ بچے پیدا ہو چکے تھے.یہ ایک دینیات کلاس کا امتحان ہے ، جو یونیورسٹی سے دیا جاتا ہے ) اُس میں آپ فرسٹ آئیں اور جولڑ کا دوم آیا اُس کے نمبر آپ کے نمبروں سے پورے 100 کم تھے.(1) جماعت میں اپنے بڑے بیٹے سید میر داؤد احمد صاحب کے نام سے لوگ آپ کو اُم داؤد کہتے تھے اور خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سب آپ کو چھوٹی ممانی جان کے نام سے پکارتے تھے.کیونکہ آپ کے شوہر حضرت میر محمد اسحق صاحب حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں نوراللہ مرقدھا کے بھائی اور آپ کے بچوں کے ماموں تھے.حضرت اُم داؤد کی وفات پر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب جو ابھی

Page 11

خلیفہ نہ بنے تھے نے ایک مضمون میں لکھا.”آپ کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ بفضلہ تعالیٰ ایک قابل صد رشک مربیہ تھیں اور یہ بات آپ سے تربیت یافتہ لوگوں کے اعلیٰ اخلاق اور دینداری کو دیکھ کر اُن آنکھوں پر بھی روشن ہو جاتی ہے جنہوں نے آپ کو دیکھا نہ تھا.وہ مقدس اور پاکیزہ ماحول جو آپ نے اپنے گھر میں پیدا کر رکھا تھا.خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں اس ماحول میں پلنے کا موقع ملا.تربیت کے ہر پہلو پر آپ کی نظر رہتی تھی.اگر ایک طرف آپ قلوب میں دین کی محبت کے شعلے بھڑ کاتی تھیں تو دوسری طرف آپ دماغوں میں طلب علم کی بھڑ کی لگا دیتی تھیں.اور کیوں نہ ہو آپ خود بھی تو علم کا ایک بحر ذخار تھیں.آپ کا علم بہت گہرا اور بہت ٹھوس اور وسیع اور مستقل اور مفید تھا.“ (12) محترمہ امته اللطیف خورشید صاحبہ جو مدیرہ مصباح رہیں اور آپ کے ساتھ لجنہ اماءاللہ کا کام کیا کہتی ہیں کہ:." آپ کو قرآن اور حدیث کا بہت علم تھا اور لوگ آپ کے پاس اپنے مسئلے لے کر آتے جو اُن کو سمجھ نہیں آتے تھے اور آپ اُن لوگوں کی مدد کیا کرتی تھیں.آپ کی بہت بڑی اور خاص بات یہ تھی کہ آپ قرآن مجید اور دینیات کے علم کے لحاظ سے بھی بہت بلند مقام رکھتی تھیں.جماعت کے دینی علم حاصل کرنے والے نازک دینی مسائل کو سمجھنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا

Page 12

کرتے تھے اور آپ سے پڑھا کرتے تھے.جس طرح مردوں میں آپ کے خاوند حضرت میر محمد الحق صاحب کو بہت بڑا مقام حاصل تھا اسی طرح آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت ام داؤد کو بھی احمدی خواتین میں دینی مسائل کو سمجھنے اور سمجھانے اور علمی لحاظ سے ایک اچھا مقام حاصل تھا.‘(7) جس زمانہ میں آپ دار لانوار قادیان میں رہتی تھیں وہاں یہ پڑھنے پڑھانے کا کام اتنا بڑھ گیا کہ آپ کا گھر سکول بن گیا.اس میں دارالانوار کے علاوہ نزدیک کے دیہات سے بہت سی عورتیں اور بچیاں آکر پڑھنے لگیں.سیدہ ام داؤد صاحبہ خود صبح سے دو پہر تک وہاں مصروف رہتیں.حساب، اردو، انگریزی سب مضمون پڑھائے جانے کا انتظام تھا قرآن مجید آپ خود پڑھایا کرتی تھیں.آپ کے پڑھانے کا طریق یہ تھا کہ چھوٹی چھوٹی کا پیاں بنا کران پر ہر لفظ علیحد و علیحد و اپنی بیٹی محترمہ سید و بشری بیگم صاحبہ سے لکھوائیں اور فرماتی تھیں کہ قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر لفظ کے معنے آتے ہوں.روزانہ آپ خود ہمارا سبق سن کر آگے پڑھا تیں.ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا شوق دلاتیں.چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال کرتے ہوئے لڑکیوں کی تربیت فرماتیں.آپ کی توجہ اور محنت کا یہ نتیجہ نکلا کہ پڑھنے والیوں نے ایک سال میں دو سالوں کا کورس مکمل کر لیا.یہ سکول کئی سال جاری رہا.(1) 1914 ء کا جلسہ سالانہ اس لحاظ سے پہلا جلسہ تھا جس میں عورتوں نے

Page 13

10 بھی جلسہ کے پروگرام میں مردوں سے علیحدہ حصہ لیا، تقریریں کیں اور مضمون سنائے.حضرت صالحہ بیگم صاحبہ نے بھی زنانہ جلسہ میں اپنا لکھا ہوا مضمون پڑھا.آپ کو دینی خدمت کا بے حد شوق تھا.شادی کے بعد ابتدائی زمانہ علم سیکھنے میں گزرا اور پھر لجنہ اماء اللہ کے قائم ہوتے ہی آپ نے لجنہ اماءاللہ کے ہر کام میں حصہ لیا.جو خدمت بھی نظر آتی آپ اس کیلئے سب سے پہلے تیار ہوتیں.پھٹے پرانے ، میلے کمبلوں اور کپڑوں کو قومی ضرورت کی خاطر پیوند لگاتیں.اور جب تک تمام کام ختم نہ ہو جاتا آرام کی نیند نہ سوتیں.آپ کی خواہش تھی کہ احمدی عورتیں حضرت محمد ﷺ کے زمانے کی عورتوں کی طرح ہو جائیں.جو لوگ غریب اور یتیم تھے ان کی مدد کیا کرتی تھیں.جس طرح آپ کے شوہر کیا کرتے.آپ میں یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ جب کام ختم ہو جاتا تو پوچھنے پر یہ کام کس نے کیا ہے بھی نظر یہ طور پر بڑھ بڑھ کر اپنا ذکر نہ کرتیں بلکہ حد درجہ عاجزی سے ہمیشہ اپنی ساتھی عورتوں میں سے کسی کا نام بتا دیتی تھیں.اس سے آپ کا مقصد جھوٹ بولنا نہیں ہوتا تھا بلکہ دوسروں کی حوصلہ افزائی مقصود ہوتی تھی.اور انکساری بھی انتہا درجہ کی تھی.جس کی وجہ سے یہ کیا کرتی تھیں.اور کیوں نہ ایسا ہوتا.آپ نے بقول حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے ان کی خدمت کی اور اپنے کانوں سے ان کی باتوں کو سنا.“ (15)

Page 14

11 حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی تحریر کرتی ہیں." حضرت سیدہ صالحہ بیگم کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ جب سے لجند قائم ہوئی اور عورتوں کی مہمان نوازی کا انتظام لجنہ اماءاللہ کے سپرد ہوا.آپ نے تا وفات یہ فریضہ سرانجام دیا.نہ صرف خود انتہائی محنت اور خلوص سے خدمت کی بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں کارکنان کو آپ لجنہ اماء اللہ کی طرف سے جلسہ سالانہ کے موقع پر ہزاروں کی تعداد میں عورتوں کے قیام وطعام کا انتظام کیا جاتا ہے.یہ سب مرہون منت ہے.حضرت سیدہ ام داؤد کی ابتدائی خدمات کا اور ان کی تربیت کا.بسا اوقات آپ ساری ساری رات جاگی ہیں.ایک ایک سے ملتیں عورتوں کی ضروریات کا پتہ کرتیں، کارکنان کی نگرانی فرماتیں کہ صحیح کام ہو رہا ہے یا نہیں.اور ان کی سعی اور محبت اور انتھک محنت اور نگرانی کے ذریعہ ان سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں خواتین اور بچیوں نے تربیت حاصل کی.اور صحیح رنگ میں کام اور خدمت کرنا سیکھا.جلسہ سالانہ کے دنوں میں آپ کو باوجود کمزور صحت کے نہ غذا کا خیال ہوتا نہ آرام کا.صرف ایک ہی خیال پیش نظر رہتا تھا کہ جلسہ پر آئی ہوئی مہمان مستورات میں سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچی جائے.انتظام میں کوئی نقص نہ رہ جائے.کبھی ایک جگہ نگرانی کرتی نظر آتیں.تھوڑی دیر بعد دوسری جگہ پہنچی ہوتیں.غرض ہر طرف نظر ہوتی.اللھم ارفع درجاتھا.“

Page 15

12 حضرت خلیفة المسیح الرابع اپنے مضمون میں مزید فرماتے ہیں کہ:.جلسہ سالانہ کے دنوں میں دو بار مجھے آپ کے ساتھ کام کرنے کا حسین اتفاق ہوا ہے اور کئی کئی روز ، دن کا اکثر حصہ انتظامات کے سلسلہ میں آپ کے ارشادات کی تعمیل میں گزرا ہے اس لئے میں شاہد ہوں کہ اور بیچ بیچ کہتا ہوں کہ انتظامی قابلیت کے لحاظ سے آپ کے پائے کا انسان ملنا مشکل ہے.اپنے ماتحت ہمراہیوں سے آپ کی درشتی شاز و نادر مگر عین با موقع ، البته محبت کا سلوک اکثر رہتا تھا.آپ دن رات انتھک کام کرنے والی تھیں.اور آپ کے ساتھی تھک تھک کر منزلوں پیچھے رہ جاتے تھے.جلسے کی خنک راتوں میں روزانہ کے کام کے اختتام کی بھی عجب کیفیت ہوتی ہے.دن رات کا کھانا کھلانے کے بعد دن بھر کے تھکے ہارے کارکن ایک ایک کر کے رخصت ہو جاتے تھے ، مردوں میں سے بھی اور عورتوں میں سے بھی.مرد کارکنوں کا خیمہ زنانہ رہائش گاہ کے دفتر سے بالکل ملحق ہوتا ہے اور ہم سنتے تھے کہ شور اور ہنگامے کی آواز دھیمی پڑتی پڑتی آخر خاموشیوں میں ڈوب جاتی تھی.ہاں ! کبھی کبھی ممانی جان کی آواز ان کی موجودگی اور بیداری کا پو دیتی تھی.آپ اپنی چند خاص کارکنات کے ساتھ رات کی آخری گاڑی (Train) اور پھر اس کے آخری مہمان کی راہ دیکھتی ہو ئیں راتوں کا اکثر حصہ دفتر میں ہی گزارتی تھیں.آپ کی صحت کمزور تھی اور جسم نا تواں مگر ہمت بہت بہت بلند تھی.(12)

Page 16

13 دسمبر 1922ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے احمدی مستورات کی ایک عالمگیر تعظیم لجنہ اماءاللہ کی بنیاد رکھی پہلے دن چودہ مہرات اس کی ممبر بنیں جن میں ساتویں نمبر پر حضرت سیدہ ام داؤد کا نام ہے اور پھر ساری زندگی آپ نے لجنہ اماءاللہ کا کام بڑے شوق جذ بہ اور ولولہ سے کیا اور ہمت ، خلوص، محبت اور ذمہ داری سے کام کرنے والی عہد یدار تھیں.(3) حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ مرحومہ اہلیہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو خلیفۃالمسیح لجنہ اماء اللہ کی سب سے پہلی جنرل سیکرٹری ہونے کا اعزاز حاصل ہے آپ کی پرسیده ام داؤد کو کچھ عرصہ تک بطور جنرل سیکرٹری لجنہ اماء اللہ کی خدمات بجالانے کی سعادت حاصل ہوئی.بعد میں نائبہ جنرل سیکرٹری کے طور پر تقرر ہوا.حضرت سیدہ امتہ الئی بیگم صاحبہ کی وفات پر آپ کی یادگار امتہ الھی لائبریری قائم کرنے کی تحریک و تجویز حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ کی طرف سے پیش کی گئی تھی.اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو علم سے کتنی محبت تھی.اس وقت سے اب تک بے شمار عورتوں اور لڑکیوں نے اس لائبریری سے فائدہ وفات اُٹھایا ہوگا اور اُٹھاتی رہیں گی.1946ء میں انڈیا میں الیکشن ہونا تھے.جس میں ہر بالغ پڑھا ہوا فرد ووٹ دینے کا حق رکھتا تھا.ووٹ ڈالنے والوں کی فہرستیں تیار کرنے کا کام 1945ء میں شروع ہوا.یہ الیکشن مسلمانوں کیلئے سیاسی لحاظ سے بہت اہم تھے

Page 17

14 اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خواہش اور ہدایت کے مطابق جماعت نے کوشش کی.پھر قادیان اور اس کے اردگرد کے دیہات میں کوشش کی گئی کہ کوئی بڑی عمر کی عورت ایسی نہ رہ جائے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتی ہو اور ووٹ دینے سے رہ جائے اس اہم اور مشکل کام کی انچارج حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ مقرر ہوئیں.ایسی دیہاتی عورتوں کو پڑھنا لکھنا سکھانا کوئی آسان کام نہ تھا.اس کے لئے آپ نے بہت کوشش کی اور نہایت اچھا پروگرام بنایا، اپنی خاص توجہ سے قادیان کے قریب گاؤں قادر آباد، احمد آباد ، بھینی خورد و کلاں اور دونوں جنگل پر دی.آپ نے بہت ہی توجہ محنت لگن اور جذبہ سے اس کام کو کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں عورتوں کو اردو پڑھنا لکھنا، 100 تک گفتی لکھنا اور اپنے دستخط کرنا سکھا دیئے.سوائے معذوروں کے کوئی بھی عورت ایسی نہ رہی جو ووٹ نہ دے سکتی ہو.1946 ء فروری کے خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفتہ امی الثانی نے اس کام پر خوش ہوکر فرمایا:.”مردوں کے مقابلہ میں عورتوں نے قربانی کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے گو حساب نہ جاننے کی وجہ سے بعض غلطیاں ان سے ہوئیں لیکن ان کا مجھے وقت پر پتہ لگ گیا.اور میں نے ان غلطیوں کو دور کرنے کی ہدایات دے دیں.جن کے مطابق انہوں نے نہایت تندہی اور محنت سے کام کیا.میں سمجھتا

Page 18

15 ہوں جو روح ہماری عورتوں نے دکھائی ہے اگر وہی روح ہمارے مردوں کے اندر کام کرنے کی لگ جائے تو ہمارا غلبہ سوسال پہلے آجائے.اگر مردوں میں بھی وہ دیوانگی اور وہی جنون پیدا ہو جائے.جس کا اس موقع پر عورتوں نے مظاہرہ کیا تو ہماری فتح کا دن بہت ہی قریب آجائے.عورتوں نے اس دیوانگی سے کام کیا ہے کہ بعض کی شکلیں تک نہیں پہچانی جاتیں.انہوں نے کھانے کی پرواہ نہیں کی انہوں نے سونے کی پرواہ نہیں کی انہوں نے آرام کی پرواہ نہیں کی اور ایسی محنت سے کام کیا کہ ان میں سے کسی کا چار سیر اور کسی کا پانچ سیر وزن کم 1947ء میں جب پاکستان بن گیا تو مسلمان ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آنے لگے.ہندوستان سے پاکستان آنے کی داستان بھی بڑی دکھ بھری، تکلیف دہ اور دردناک ہے.قادیان سے بھی احمدی احباب اپنے گھر بار، جانور ، سامان اور چیزوں کو چھوڑ کر خالی ہاتھ چل پڑے اور لاہور آ کر ٹھہرے لاہور آکر کسی کو کہیں جگہ ملی، کسی کو کہیں ، اپنے گھر بار چھوڑنے کا غم اور دکھ ہی کم نہ تھا کہ اکثر رشتہ دار، ملنے والے اور گہرے تعلقات رکھنے والے بھی دور گھروں میں جاہیے.ایسے میں سب کو ملنا اور جماعت اور تنظیموں کا کام کرنا بھی مشکل ہو گیا.لیکن با عزم اور با ہمت لوگوں نے ایسے مشکل حالات میں بھی سر توڑ کوشش کی.ہجرت کر کے آنے والی خواتین لاہور کے رتن باغ میں ٹھہری

Page 19

16 ہوئی تھیں ان کا پندرہ روزہ اجلاس شروع ہو چکا تھا.کبھی کبھی لجنہ اماءاللہ لا ہور اور لجنہ اماء اللہ قادیان کا تربیتی جلسہ اکٹھا بھی ہو جاتا تھا.عام اجلاس الگ الگ ہی ہوتے.قادیان کی مہاجر ممبرات کی صدر حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ تھیں.آپ نے حسب عادت لجنہ اماء اللہ کے کام میں پوری توجہ لگادی اور کچھ اس طرح شوق اور دلچسپی پیدا کی کہ لجنہ اماء اللہ لاہور میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی اور وہ اجتماعی کاموں میں بھی نمایاں حصہ لینے لگیں.لجنہ لاہور کی عہد یداروں اور کارکنات نے ان ایام میں حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ سے بہت کچھ سیکھا اور اپنے کاموں میں اصلاح اور تربیت حاصل کی.1950ء میں پاکستان میں الیکشن ہوئے چونکہ سیدہ ام داؤد صاحبہ نے 1946ء کے الیکشن کا کام بہت احسن طریق پر کیا تھا اس لئے اب بھی یہ کام آپ کے سپرد ہوا.ووٹروں کی لسٹیں تیار کروائی گئیں.پولنگ کے لئے نہ صرف ربوہ ، چنیوٹ، احمد نگر، کھڑکن اور کوٹ امیر شاہ وغیرہ کی عورتوں کو ووٹ کی اہمیت سمجھائی گئی بلکہ ووٹ ڈالنے کا طریق بھی بتایا گیا.ایک دفعہ پھر حضرت ام داؤد صاحبہ نے اس کام کو بہت اچھے طریقے سے ادا کیا.گورنمنٹ کے افسران نے تسلیم کیا کہ نظم وضبط اور محنت سے کام کرنے میں احمدی عورت بھی کسی سے پیچھے نہیں.(7)

Page 20

17 1948ء میں رمضان المبارک میں لجنہ اماء اللہ نے حضور کی اجازت سے عورتوں اور لڑکیوں کی ایک تعلیم القرآن کلاس لگائی.جس میں لاہور میں رہنے والی لڑکیوں کے علاوہ لاہور سے باہر کی لجنات سے بھی لڑکیاں شامل ہوئیں.جو رتن باغ میں آکر ٹھہریں.کھانا لنگر خانہ سے ملتا تھا.لڑکیوں کی دیکھ بھال اور تربیت کے لئے محترمہ شوکت سلطانہ صاحبہ محترمہ امته اللطیف صاحبه بیگمات حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب اور حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ مقرر تھیں.آپ نے بہت محبت سے ان طالبات کی دلچسپیوں تک کا خیال رکھا.لڑکیاں آپ سے گھل مل گئیں اور بہت خوش رہیں.کلاس لگانے کا کام حضرت چھوٹی آیا حرم حضرت خلیفہ ابیع الثانی کی دلچسپی لینے کی وجہ سے جاری رہا.(1) انہیں دنوں جماعت احمدیہ کے نوجوان فرقان فورس کے نام سے پاکستانی فوج کے ساتھ محاذ کشمیر پر مقابلہ کر رہے تھے.ان کی وردیوں اور جرابوں کی مرمت نیز دیگر سامان کی تیاری کا کام لجنہ اماءاللہ کے سپر د ہوا.جس کی نگران حضرت سیدہ ام داؤد صاحب تھیں.آپ نے احمدی عورتوں کو احساس دلایا کہ خدا نے صرف اپنے فضل سے ہمیں ایک موقع دیا ہے کہ ہم ان صحابیات کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں جو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں دشمنوں کے حملوں کے وقت میدان جنگ میں خدمات بجالاتی تھیں.آپ کی ان محبت بھری نصیحتوں سے متاثر ہو کر قادیان اور لاہور کی عورتوں نے تین ماہ تک اس

Page 21

18 خدمت کو سرانجام دیا.ان دنوں میں لجنہ اماء اللہ قادیان کا مرکز رتن باغ و سرانجام دیا.ان وا لاہور میں تھا.حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ رتن باغ میں ہی رہائش رکھتی تھیں.روزانہ صبح نو بجے سے شام چھ بجے تک یہ کام کیا جاتا تھا.آپ ہر کام اپنی نگرانی میں کرواتی تھیں.وردیاں خدام الاحمدیہ مرکز یہ مہیا کرتی تھی.وردیوں کی مرمت ، صفائی، بٹن لگانا، کاج درست کرنا حسب ضرورت پیوند لگانا یہ سب کام عور تیں کرتی تھیں.ہر قمیض پر دو بیج لگانے ہوتے تھے جو خود ہی تیار کئے جاتے تھے.ممبرات لجنہ اماءاللہ لاہور نے خاکی زین (ایک موٹا کپڑا ہوتا ہے ) کے پانچ سو بٹوے تیار کئے تھے.جن میں فوری ضرورت کی چھوٹی چھوٹی چیزیں رکھی جاتیں.جو مجاہدین کے کام آتی تھیں.حضرت سید وام دا ؤ ر صاحبہ کی محبت اور تربیت نے مستورات میں ایک نئی روح پھونک دی.یہ سارا کام بہت بے تکلفی اور پیار کے ساتھ ہوتا تھا اور سب خوش ہو کر اس کام کو کرتے تھے.(1) پاکستان بننے کے بعد جماعت کے تمام لوگ لاہور آکر رتن باغ اور اس کے ساتھ عمارتوں میں رہنے لگے.درویشان قادیان اور مبلغین کے بیوی بچے جو قادیان سے بغیر سامان کے خالی ہاتھ لاہور پہنچے تھے حضور نے ان پر خاص محبت اور شفقت کرتے ہوئے انہیں ان عمارتوں میں ٹھہرایا تھا.یہ لوگ اکتوبر 1947 ء سے اپریل 1950 تک حضرت مصلح موعود کی نگرانی اور سر پرستی کا لطف اٹھاتے ہوئے یہاں رہتے رہے.ان میں کچھ بے سہارا اور معذور

Page 22

19 عورتیں اور بچے بھی تھے.1949 ء کے جلسہ سالانہ (جو اپریل میں ہوا) کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے ان سب کو ربوہ منتقل کرنے کا فیصلہ فرمایا.ریل گاڑی کے ذریعہ حضور نوراللہ مرقدہ نے اپنی خاص نگرانی میں ان لوگوں کو ربوہ پہنچوایا.حضرت سیدہ ام داؤد صاحبه با وجود بیماری کے اور طبیعت خراب ہونے کے ان لوگوں کے ساتھ تشریف لے گئیں.سفر کی تھکاوٹ کے باوجود ربوہ اسٹیشن پر آپ اس وقت تک موجود رہیں جب تک ہر ایک اپنی اپنی جگہ جہاں اس نے ٹھہر نا تھا کے لئے روانہ نہیں ہو گئے.ربوہ آنے کے بعد بھی آپ ان لوگوں کا خاص خیال رکھتی رہیں.جب 20 ستمبر 1948 ء حضرت مصلح موعود ربوہ کی بنیاد رکھنے کیلئے تشریف لائے تو جماعت کے لوگوں کو بہت خوشی ہوئی انہوں نے نعرے لگائے اور اھلا و سهلا و مرحبا کہا.اس موقع پر عورتوں نے بھی حضور کے استقبال کا پروگرام بنایا اور حضرت اُم داؤد نے عورتوں اور بچیوں کو وہ شعر یاد کروائے جو مدینہ کی عورتوں نے حضرت محمد یو کے مدینہ تشریف لانے پر پڑھے:.طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوِدَاع وجب الشكر علينا مَا دَعَا لِلَّهِ دَاع ترجمہ:.آج ہم پر کو و وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کے چاند نے طلوع کیا ہے اس لئے اب ہم پر ہمیشہ کیلئے خدا کا شکر واجب ہو گیا ہے.

Page 23

20 20 جماعت ہر کام پہلے سے بڑھ چڑھ کر کر رہی تھی اب ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ لجنہ اماءاللہ کے دفتر کی ایک اچھی سی عمارت ہو جس میں بیٹھ کر کاموں کو باقاعدہ ترتیب کے ساتھ کیا جاسکے.ریکارڈ رکھا جا سکے اور عورتوں کے لئے ایک مرکزی دفتر ہو جہاں ساری دنیا سے آکر خواتین ہدایات اور راہنمائی حاصل کر سکیں.چنانچہ 25 مئی 1950ء کو صبح ساڑھے چھ بجے حضرت مصلح موعود نے لجنہ اماء اللہ کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا حضور نے دعاؤں کے ساتھ تین اینٹیں اپنے دست مبارک سے لگائیں.پھر حضور کے ارشاد پر مختلف ملکوں اور مختلف قوموں کے ان نو مبائع افراد نے جو وہاں موجود تھے اینٹیں رکھیں.اجتماعی دعا ہوئی دوسرے دن لجنہ اماء اللہ کی ممبرات کا اجتماع ہوا.سب سے پہلے حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ نوراللہ مرقدها پھر حضرت ام ناصر اہلیہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی صدر لجنہ اماء اللہ اور پھر حضرت سیّدہ ام داؤ د صاحبہ نائب صدر نے اینٹیں لگائیں.(4) 1951 ء میں حضرت مصلح موعود کی تحریک پر ربوہ کے ارد گرد عورتوں کو تبلیغ کیلئے بھجوایا.حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ نے باجود کمزوری صحت کے چھنیاں، کھچیاں اور چمن عباس جانے والے وفود کی قیادت کی.جوانی میں ہی آپ کو گلے کی بیماری ہو گئی تھی.اس وجہ سے طبیعت اکثر کمتر در رہتی تھی.لیکن آپ نے کبھی اپنی بیماری کو کام نہ کرنے کا بہانہ نہیں بنایا.

Page 24

21 21 بہت ہمت و بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا دینی کاموں میں کبھی اپنی جان کی پرواہ نہیں کی خلوص کے ساتھ مستورات کی فلاح و بہبود کے لئے اپنے جسم و جان کی تمام تر توانائیوں کے ساتھ کام کرتی رہیں.جماعتی کام انتہائی توجہ، محنت ،لگن، جوش اور جذبہ سے کرتیں کہ دیکھنے والی ہر آنکھ آپ کی بلند ہمتی ، قوت ارادی اور سلسلہ کے ساتھ محبت وخلوص پر حیران رہ جاتی.اس تکلیف سے آپ مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہو ئیں تھیں.کچھ عرصہ کیلئے بیماری میں کمی آجاتی اور کچھ دیر بعد پھر دوبارہ تکلیف بڑھ جاتی.ایک وقت آیا کہ کھانے کی نالی بند ہوگئی.آپریشن کروانا پڑا.اور آٹھ ماہ مسلسل بستر پر گزارے.چونکہ زیادہ باتیں کرنے والی طبیعت نہ تھی.اپنی خدمت کرنے والوں کو پیار بھری نگاہوں سے دیکھتیں اور دعاؤں میں مصروف رہتیں.اور آخر 8 ستمبر 1953 ء کو آپ کی وفات ہو گئی.چونکہ وفات لاہور میں ہوئی تھی جناز و ربوہ لے جایا گیا اور موصیہ ہونے کی وجہ سے آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ میں ہوئی.پیارے بچو! جب کبھی آپ ربوہ کے بہشتی مقبرہ کی چاردیواری میں داخل ہوں تو بالکل دائیں جانب دوسری قبر آپ ہی کی ہے.ی تھی وہ عظیم خاتون جن کی تمام زندگی خدمت دین ، خدمت خلق اور محبت الہی میں گزری اپنی تمام ذمہ داریوں کے باوجود سیر و تفریح اور کھیل کود کیلئے بھی وقت نکالا کرتی تھیں.آپ نے بہت سے شہروں کے سفر کئے سائیکل

Page 25

22 بھی چلا لیتی تھیں.اور کھیلوں میں بیڈمنٹن پسند کرتی تھیں.جلسہ کے بنائے گئے ایک بڑے سامان کے سٹور میں کبھی کبھار ٹینس (Tennis) بھی کھیلا کرتی تھیں.آپ تمام رشتہ داروں میں بہت ہر دلعزیز تھیں خصوصیت سے حضرت اماں جان تو آپ سے بہت محبت کرتیں اور آپ کا خیال رکھتیں.حضرت میر محمد الحق صاحب کی وفات کے بعد خاندان میں کسی کی شادی تھی.حضرت اماں جان ولین کو مہندی لگوا رہی تھیں کہ آپ کی نظر حضرت سیدہ صالحہ بیگم پر پڑی آپ نے انہیں بلوایا اور فرمایا ”صالحہ ! تم بھی مہندی لگاؤ حضرت سیدہ نے نہ جانے کیا سوچ کر عرض کی کہ ”میں کیسے لگاؤں میں تو بیوہ ہوں.“ اس پر حضرت اماں جان نے نہایت محبت سے آپ کو بلایا اور فرمایا ! تم آؤ اور مہندی لگاؤ تم تو سدا سہاگن ہو.تم نے یہ کیوں سوچا کہ تم اکیلی ہو.“ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع " نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے:.”آپ کی بیماری کے دنوں میں کچھ دیر مجھے لا ہور میں ٹھہرنے کا موقع ملا.اپنی چارپائی کے قریب ہی دستر خوان لگواتی تھیں تا کہ بچوں کی باتوں سے دل پہلے.پڑی خاموش سنا کرتی تھیں.جسم بہت نحیف ہو چکا تھا.بولنے کی بھی سکت نہ تھی.مگر جب بھی کوئی علمی تذکرہ ہوتا آپ کبھی کبھی بہت کوشش اور جدو جہد سے اس بحث میں شریک ہو کر ہماری غلطیوں کو درست فرما دیتی تھیں، بس زیادہ نہیں یہی ایک دو کلمات مگر بہت کافی اور بہت جامع ہاں ایک اور

Page 26

23 موقع پر بھی ہوا کرتا تھا جبکہ ایک تکلم پر مجبور ہو جایا کرتی تھیں اس وقت جبکہ آپ مہمانوں کو کچھ اور کھانے کیلئے ارشاد فرماتیں یا جب کسی چیز کے نہ چکھنے کا شکوہ کرتیں.محترمہ بھابی زینب جو ( پیر مظہر الحق صاحب جو حضرت پیر محمد افتخار صاحب کے بیٹے تھے اُن کی بیوی تھیں.گھر میں سب اُن کو بھا بھی کہتے تھے ) آنکھوں سے معذور ہیں ( آخری ایام میں انہوں نے آپ کی بہت خدمت کی ہے.مجرھا اللہ احسن الجزاء ) کھانے کے وقت آپ کو دبا کر چار پائی سے اتر کر قریب ہی اس طرح بیٹھ جاتی تھیں کہ ممانی جان کی طرف ان کی پیٹھ ہوتی تھی مگر ممانی جان وقتاً فوقتاً کوشش سے اُن پر ایک نظر ڈال لیتی تھیں کہ کہیں کسی چیز کی کمی نہ رہ گئی ہو اور بسا اوقات آپ دوسروں کو متوجہ کرتی تھیں کہ بھائی کو فلاں چیز کی ضرورت ہے.مجھے بھی نہایت محبت ، نہایت شفقت سے بُلا کر اپنے سامنے بٹھاتی تھیں.نوازشوں پر اصرار اتنا اور اس رنگ میں ہوتا تھا کہ انکار کی گنجائش نہ رہتی تھی.اللہ تعالیٰ آپ کو بہت ہی بلند درجات عطا فرمائے.آمین“ (12) خلیفہ وقت کا بہت احترام اور اطاعت کرتی تھیں.آپ کی بڑی صاحبزادی سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ جو آپ کو بہت پیاری تھیں.ابھی صرف 17 سال کی تھیں کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ان کے لئے حضرت مرزا عزیز احمد صاحب جن کے پہلے 3 بچے بھی تھے اور عمر میں کافی بڑے تھے کا رشتہ بھیجا، تو آپ نے خوشی سے منظور فرمالیا.

Page 27

24 مکرم عبدالرحیم درد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.اُن کی صاحبزادی محترمہ صالحہ در وصاحبہ جو آپ کی شاگر در میں لکھتی ہیں:.”دار الانوار قادیان میں لجنہ اماء اللہ کا سارا کام سیدہ اُم داؤد کی نگرانی میں ہوا کرتا تھا.بیمار بھی ہوتیں تو لیٹے لیٹے اجلاس میں شامل ہو جاتی تھیں.بہت کم گو اور بہت پُر وقار تھیں.چھوٹی عمر میں مجھے کافی عرصہ آپ کے قریب رہنے کا موقع ملا.آپ نے کبھی سخت الفاظ یا اونچی آواز میں نہیں ڈانٹا." ایک مرتبہ میں گیسٹ ہاؤس دارالانوار میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئی ، شفقت سے مجھے بٹھایا اور کہا میں نماز پڑھ لوں! عصر کی نماز ادا کی چار چار رکعات دو دفعہ.مجھے پیا تھا کہ آپ ہر نماز وقت پر ادا کرتیں اس لئے میں نے عرض کیا ممانی جان! عصر کی نماز میں تو چار فرض ہوتے ہیں.مسکراتے ہوئے فرمایا عصر کے چار فرض سے پہلے چار سنتیں پڑھنے سے ثواب ملتا ہے اس لئے میں ہمیشہ چار سنتیں ادا کرتی ہوں.“ (1) حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ بہت حساس طبیعت کی مالک تھیں کسی کی تکلیف دکھ اور پریشانی کو اس کے چہرہ سے پہچان لیتی تھیں.چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتی تھیں اور پوچھ لیتی تھیں کہ کیا تکلیف ہے.اور تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرتی.ممبرات لجنہ اماء اللہ میں سے جو کوئی ضرورت مند ہوتی خاموشی کے ساتھ اس کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتیں.عہد یداران کو

Page 28

25 ہمیشہ توجہ دلائیں کہ ضرورت مند افراد کا علم ہونا چاہیئے تاکہ ضرورت کے وقت ان کی مدد کی جا سکے.خاموش طبیعت ہونے اور نہایت سنجیدہ ہونے کے باعث آپ کے وجود سے رعب اور وقار جھلکتا تھا.اس کے باوجود اچھے اور پاک مزاح کو پسند کرتی تھیں اور اس سے لطف اٹھاتی تھیں.محترمہ استانی حمیدہ صابرہ صاحبہ نہایت ہی پر مزاح اور شوخ طبیعت کی مالک تھیں.انہیں ایک لمبا عرصہ تک حضرت سیدہ اُم داؤد صاحبہ کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا اکثر کوئی نہ کوئی شرارت والی بات کر دیتی تھیں جس سے سیدہ موصوفہ لطف اٹھا تیں.ایک مرتبہ چنیوٹ میں ایک اجلاس تھا جس میں غیر از جماعت خواتین بھی مدعو تھیں.حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ کے ساتھ چند مستورات وہاں جا کر شامل ہوئیں کارروائی کے بعد صدر صاحبہ نے خاطر تواضع کی دستر خوان پر ایک طرف حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ اور دوسری طرف استانی حمیده صابره صاحبه بیٹھی ہوئی تھیں.کسی نے حمیدہ صاحبہ سے پوچھا کہ آپ کے کتنے بچے ہیں انہوں نے فوراً کہا کہ میں تو خود بچہ ہوں ان کے اس جواب پر سب ہنس پڑے حضرت سیدہ ام داؤ د صاحبہ بھی نہیں اور فرمایا حمیدہ ! میں نے تمہیں کہا ہے کہ میرے پاس بیٹھا کرو.(1) سی طرح استانی حمیده صابرہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ تقریر کرنا سکھانے کیلئے جب کمیٹی بنائی گئی تو حضرت سیدہ ام داؤد نے میری طرف خاص توجہ

Page 29

26 دی.آپ نے ہر رنگ میں حوصلہ دیا کہ تقریر ضرور کرو.انہوں نے عرض کیا کہ میں تو اگر کلاس میں کسی کو ڈانٹنا چاہوں تو ایک آدھ فقرہ کہہ کر سوچتی ہوں کہ آگے کیا کہوں اس پر آپ بننے لگیں.تقریر کی مشق کرنے کے لئے لڑکیوں کو ایک گھر میں جمع کیا باری باری لڑکیوں نے بولنا تھا.محترمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ کہتی ہیں کہ : ” میں کھڑی ہوئی تو دو جملے بول کر ہنسنا شروع کر دیا.میری اس حرکت پر سب خوب ہنسے حضرت سیدہ ام داؤد صاحبہ بھی مسکراتی اور ہنستی رہیں لیکن جب دو چار مرتبہ یہی حرکت کی تو آپ نے فرمایا حمیدہ! اب یہ حرکت چھوڑ و اور سنجیدگی سے بولو.“ آپ انہیں حوصلہ اور ہمت دلاتی رہیں.آپ کی تربیت کی بدولت آپ کی خواہش پر 1951ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر زنانہ جلسہ گاہ میں محترمہ حمیدہ صابرہ صاحبہ نے 'برکات الدعا کے موضوع پر تقریر کی.آپ اس وقت جلسہ گاہ میں موجود نہ تھیں دوسروں سے سن کر حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا حمیدہ ! مجھے بہت خوشی ہوئی سب کہتے ہیں تم اچھا بولی ہو.حضرت میر محمد اسحق صاحب مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر اور دار الشیوخ (جہاں یتیم بچے رہتے تھے ) کے نگران اعلیٰ اور ناظر ضیافت تھے.یتیم بچوں کی خدمت و امداد کا آپ کو خاص خیال رہتا.محترمہ ام داؤد صاحبہ ان کی تعلیم و تربیت کے لئے اپنے قابل احترام شوہر کے ساتھ تعاون کر کے بے حد خوشی

Page 30

27 27 محسوس کرتیں.محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب حضرت مصلح موعود کے بیٹے ، حضرت سیدہ صالحہ بیگم کی وفات پر لکھتے ہیں کہ.”میرے نزدیک جماعت کی مستورات میں سے آپ کو سب سے زیادہ دینی علوم پر عبور حاصل تھا.عربی اچھی طرح بول اور پڑھ لیتی تھیں سلسلہ کی کتب اور مسائل سے خوب واقف تھیں.میں نے خود بخاری شریف (حدیث کی کتاب) کا کچھ حصہ سبقاً ان سے پڑھا ہے.ان بزرگ ہستیوں کے اس جہان سے گزر جانے پر ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کیا جماعت کی نئی پودان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کر رہی ہے؟ اگر کر رہی ہے تو اس میں کس حد تک کامیاب ہے اگر ایسا نہیں تو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے.زندہ قوموں کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ اس کے کسی فرد کی وفات سے جو خلاء پیدا ہوتا ہے اسے پُر کرنے والے دوسرے موجود ہوتے ہیں.اور اسی طرح جماعتی کام کو نقصان نہیں پہنچتا.خدا تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اپنے بزرگوں کے قائمقام بن سکیں اور ان کے ناموں کو روشن کرنے والے ہوں.‘ آمین (8) اسی طرح حضرت خلیفہ امسیح الرابع " آپ کی وفات پر ایک مضمون میں لکھتے ہیں:.اپنی کم علمی کے باوجود جب میں آپ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں

Page 31

28 پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتا ہوں تو بے اختیار سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ اگر اس اعلیٰ نمونہ کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے ہماری ” پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح ہو جائے تو یقیناً خدا کے اس وعدے کے ایفاء کا وقت آجائے جس سے احمدیت کی ترقی کی تقدیر وابستہ ہے.کاش ایسا ہی ہو اور جلد ہو کہ یہ مشعلیں دنیا میں بار بار نہیں آتیں.آخر پر میں اتنا کہے بغیر رہ نہیں سکتا کہ یہ آپ ہی کی تربیت کے طفیل تھا کہ آپ کی بیماری کے ایام میں آپ کی تمام اولاد نے آپ کی ایسی فدایانہ خدمت سر انجام دی ہے کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا کر دیا.انہوں نے راتیں آنکھوں میں کائیں اور دن ہئی (چار پائی کا کنارہ) سے لگ کر اور انتہائی پٹی پٹی مشکلوں اور تفکرات میں سے گذر کر آپ کیلئے ہر آن سکون و طمانیت کے متلاشی رہے.یقیناً خوش بخت ہے وہ ماں جسے ایسی محبت کرنے والی اولاد میسر ہو.مگر کیا ہی خوش نصیب ہے وہ اولاد جسے ایسی اچھی ماں کی خدمت کا موقع مل جائے.“ (12) حضرت سیدہ ائتم داؤد کے سب بچوں کو ہی اللہ کے فضل سے خدمت دین کی توفیق علی الحمد لله على ذالک.ان کے ایک بیٹے حضرت میر داؤ داحمد صاحب جو پرنسپل جامعہ احمدیہ تھے.دو صاحبزادیاں حضرت سید ہ نصیرہ بیگم صاحبہ، بیگم مرزا عزیز احمد صاحب اور سیدہ نصرت بیگم صاحبہ بیگم ملک عمر علی صاحب کھوکھر

Page 32

29 29 ملتان آپ کی تیسری بیٹی سیدہ بشری بیگم صاحبہ بیگم میجر سید سعید احمد صاحب لاہور.لجنہ اماء اللہ لاہور کی صدر رہیں.میر مسعود احمد صاحب مبلغ سلسلہ اور وکیل صد سالہ جو بلی فنڈ تھے.آپ بھی وفات پاچکے ہیں.مکرم میر محمود احمد صاحب ناصر پرنسپل جامعہ احمدیہ ہیں.مکرمہ سیدہ آنسه بیگم صاحبہ بیگم قاضی شوکت محمود مرحوم امریکہ میں ہیں.آپ کے صاحبزادے سید محمود احمد صاحب ناصر اپنی والدہ کے متعلق لکھتے ہیں:.”ہمارے متعلق جو ان کی بلند توقعات تھیں ان کا اظہار امی جان کے ایک خط سے ہوتا ہے جو انہوں نے ابا جان کو قادیان میں بھوانی سے غالباً 1940ء میں لکھا تھا.اس میں تحریر فرماتی ہیں.“ دم افسوس تو یہ ہے کہ جو پڑھا تھا وہ بھی ضائع کر دیا نہ دینی نہ دنیاوی کوئی فائدہ نہ اٹھایا.خدا نے خدمت دین کی توفیق دی تھی.اپنی بدقسمتی سے یونہی وقت ضائع کر دیا اور یہ بھی نفس کا دھوکا ہے.اگر اب بھی صحت کا خیال رکھوں تو کچھ نہ کچھ کیا بلکہ بہت کچھ کر سکتی ہوں.آئندہ کیلئے میری اولاد کو نصیحت ہے کہ نہ تو صحت کو ضائع کریں اور نہ وقت کو ضائع کریں.اگر صحت ہوگی تو خدمت دین بھی کر سکیں گے.ورنہ سر پر ہاتھ رکھ کر پچھتائیں گے.مجھے سے عبرت حاصل کریں.

Page 33

30 ے میری سنو جو گوش نصیحت نیوش ہے ” میرا ارادہ اور میری نیست تو یہ ہے کہ میری اولاد کا ہر لمحہ اور ہر ذرہ اللہ تعالیٰ کیلئے وقف ہو.اور میں نے تو اپنی طرف سے کر دیا.اب انجام تک پہنچنا ان کا کام ہے.اللہ تعالیٰ انہیں تو فیق عطا فرمائے.“ ابا جان اکثر امی جان کے سامنے اظہار فرمایا کرتے تھے کہ میرے بیٹے وہ نہیں جو میں دیکھنا چاہتا ہوں.ابا جان نے ہم تینوں بھائیوں کیلئے بڑے الحاج سے خدا تعالیٰ کے حضور وہ منظوم دعائیں کی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے تینوں بیٹوں کے متعلق مانتی ہیں.ان کی زبان سے یہ مصرع:.یہ تین جو پسر ہیں تیرے غلام در ہیں ابھی پورا دا انہیں ہوتا تھا کہ ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگتے تھے.خدا تعالی ہمیں توفیق دے.کہ ہم ان کی خواہشوں کو پورا کر سکیں.آمین (11) آپ کی بیٹی سیدہ بشری بیگم صاحبہ بتایا کرتی تھیں کہ اُن کی امی جان بے حد صفائی پسند اور سلیقہ مند تھیں.اگر کوئی ملنے والا اچانک بھی ان کے گھر چلا جاتا تو اُس کو یوں لگتا جیسے ابھی ابھی صفائی ہوئی ہو.ہر چیز اپنی جگہ پر موجود ہوتی.پاکستان بننے کے بعد ربوہ کے کچے گھروں میں آپ کے گھر میں فرش پر سفید چادریں چھی ہوتیں جو ہر وقت سفید اور اجلی نظر آتیں.اسی کمرے میں چار پائی کے نیچے اگر آپ چادر اُٹھا کر دیکھیں تو بہت سلیقے سے رکھی ہوئی کتابیں

Page 34

31 گویا ایک لا نہر میری نظر آئے گی.رح حضرت خلیفہ اسیح الرابع اپنے مضمون میں مزید فرماتے ہیں:." حضرت ممانی جان کی وفات سے سلسلہ کو جو عظیم نقصان پہنچا ہے وہ یقیناً نا قابل تلافی ہے خصوصاً لجنہ اماءاللہ میں آپ کے وصال سے جو خلا پیدا ہوا ہے.اس کا پُر ہونا ممکن نظر نہیں آتا.یہ بچی ہے کہ خدا کے کام بھی رک نہیں سکتے اور انہی سلسلے چلتے ہی رہتے ہیں مگر یہ بھی تو یہی ہے کہ کام کی رفتار اور معیار کا اظہار بہت حد تک انسانوں پر ہوتا ہے.کیسے کیسے لوگ تھے جو رخصت ہو گئے ، کتنے ہی بزرگ صحابہ دین کے عشق میں سرشار ، اخلاص کے مجسمے اس دنیا سے کوچ کر گئے ، سلسلہ اب بھی چل رہا ہے اور ہمیشہ چلتا رہے گا.مگر کیا آج بھی ہم ان کی کمی محسوس نہیں کرتے کیا وہ جگہیں آج تک خالی نہیں پڑیں جنہیں وہ خالی چھوڑ گئے؟ حضرت ماموں جان کی طرح آپ گاہے بگاہے مشفقانہ باتوں سے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی ہمت افزائی فرماتی رہتی تھیں.آدھی رات کے وقت آپ کے ہاتھ کی بنی ہوئی ایک چائے کی پیالی دن بھر کی تھکان کو یوں دور کر دیتی تھی جیسے صبح رات کو زائل کر دیتی ہے اور اب میں سوچتا ہوں کہ جیسے حضرت ماموں جان ہر سال بہت سے غمگین دلوں کی زیارت کرتے ہیں اسی طرح اب ایک اور روح کچھ اور دلوں کو نہ پایا کرے گی ، مہمانوں کو بھی اور

Page 35

32 میز بانوں کو بھی.جیسے ماموں جان کی متلاشی کتنی ہی آنکھیں آپ کو جلسہ گاہ نہ پا کر غمناک لوٹ جاتی ہیں اور کتنے دل آپ کے ہجر کی تلفی کو ہر سال ہر بارمحسوس کرتے ہیں.مگر اب تو یہ کڑوے دوہرائے جانے والے گھونٹ کچھ زیادہ ہی ہو گئے.اب تو کچھ اور آنکھیں ایک اور وجود کو بھی تر سا کریں گی ! ! ! اے ازلی اور ابدی جو مہمان نواز کے اجر کو ضائع نہیں کرتا ، جو شاکر کے لئے شکور ہے اس فردوسی جوڑے کو ہمیشہ ہمیش کیلئے اپنی خاص الخاص مہمانیوں سے نوازتا رہ! کہ یہ دونوں ہی تیرے مہمانوں کی میزبانی کیا کرتے تھے.یہ دونوں ہی لا وارث میموں کے ماں اور باپ بن جاتے تھے.ان دونوں نے تیرے فاقہ کش بندوں کو کھانا کھلایا.اے آقا! اور اے مربی! انہوں نے اُن بچوں کی تربیت کی جن کا تیری دنیا کے بندوں میں کوئی مربی نہ تھا.پس تو ان کے رہے ہوئے کاموں کا خود کفیل ہو جا ! فهل جزاء الاحسان الالاحسان‘(12) آپ نے اپنے بچوں میں بھی دین کی خدمت کا شوق پیدا کر دیا تھا.آپ کے تقریباً سب بچوں کو خدمت دین کی توفیق ملی.آپ کی بڑی صاحبزادی سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ اور سیدہ بشری بیگم صاحبہ کو بھی اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ایک لمبے عرصہ تک قیامگاہ مستورات (وہ جگہ جہاں جلسہ کی عورتیں آکر ٹھہرتی تھیں) کے انتظام کو سنبھالنے کی توفیق ملی.سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ نے جنرل سیکرٹری اور نائب صدر

Page 36

33 33 لجنہ اماءاللہ پاکستان کے طور پر بھی خدمت کی.پاکستان بننے سے پہلے 1946 ء کے الیکشن میں عورتوں کے ووٹوں کے سلسلے میں سارا کام اُن کے گھر ہوتا تھا جہاں تمام کارکنات کے کھانے پینے کا بہت خیال رکھتی تھیں.(14) پاکستان بننے کے بعد لجنہ کے کاموں میں دلچسپی سے حصہ لیتی رہیں.قرآن مجید ناظرہ و ترجمہ بیسیوں بچوں نے آپ سے پڑھا.جماعتی ذمہ داریوں کے علاوہ اپنے شوہر حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کی پہلی اولاد کے ساتھ حسنِ سلوک اور محبت بھی آپ کی والدہ کی نیک تربیت تھی.خود سید وصالحہ بیگم صاحبہ کا سلوک بھی ان بچوں کے ساتھ اپنے نواسے نواسیوں سے کم نہیں، بلکہ کچھ بڑھ کر ہی تھا.اسی طرح آپ کی دوسری بیٹی سیدہ نصرت صاحبہ اہلیہ ملک عمر علی صاحب نے شوہر کی دوسری بیویوں کی اولاد سے اس قدر محبت اور شفقت کا سلوک رکھا کہ کوئی دیکھنے والا یہ اندازہ نہیں کر سکتا کہ یہ بچے ان کے بطن سے نہیں ہیں.آپ بھی ہمیشہ لجنہ کی خدمات سرانجام دیتی رہیں.آپ کی تیسری بیٹی سیدہ بشری بیگم صاحبہ کو بھی خدا تعالیٰ نے جماعت کی خدمت کا موقع دیا.اور آپ نے ساری زندگی ، شادی سے پہلے، چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ ، گھر کو احسن طریق پر چلاتے ہوئے، ہمیشہ خدمتِ دین کی.سترہ سال تک آپ لجنہ اماءاللہ لاہور کی صدرر ہیں.اس سے پہلے پشاور میں قیام کے دوران بھی آپ صدر لجنہ اماءاللہ پشاور ر ہیں.

Page 37

34 حضرت سید میر داؤ د احمد صاحب بھی اپنے عظیم والدین کی طرح زندگی وقف تھے.آپ صرف 33 سال کی عمر میں جامعہ احمد یہ ربوہ کے پرنسپل بنے اور تا وفات تقریباً 16 سال پرنسپل رہے.آپ کا اپنے طلباء کے ساتھ بہت پیار کا سلوک تھا، خاموشی سے ان بچوں کی مالی مدد کرتے ، ایسے کہ جو دائیں ہاتھ نے دیا اس کی بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوئی.خدمت درویشاں کا اہم کام بھی آپ کے پاس تھا.اور دو سال تک آپ صدر خدام الاحمدیہ بھی رہے.سب سے اہم ذمہ داری افسر جلسہ سالانہ کی تھی جو سال ہا سال سے آپ کے سپر تھی.جلسہ سالانہ پر آنے والوں کا رات اور دن خیال رکھنا.اُن کے ٹھہر نے ، اُن کے کھانے پینے اور ہر قسم کی ضروریات کا پہلے سے انتظام کرنا سب ان کے ہی سپر د تھا.آپ نے بہت پر سکون طبیعت پائی تھی.کسی قسم کے بھی حالات ہوں، آپ کوئی ہے چیلی، گھبراہٹ یا جلد بازی ظاہر نہیں کرتے تھے.اپنے عظیم باپ کی طرح آپ بھی یتیم وغریب بچوں کی جائے پناہ تھے.اور ان بچوں کی تعلیم و تربیت کا خود انتظام فرماتے تھے.آپ کا خلیفہ وقت سے اطاعت ، وفا اور عشق کا تعلق اس حد تک تھا کہ دیکھنے والے خواہش کرتے تھے کہ کاش وہ بھی اس طرح کے ہوں.اور آپ پر بھی خلیفہ وقت کی خاص محبت کی نظر تھی.حضرت سید میر مسعود احمد صاحب بھی واقف زندگی تھے.یقیناً آپ کے والدین ہی کی نیک تربیت اور دعائیں ہی تھیں جن کی وجہ سے تینوں بیٹے

Page 38

35 واقف زندگی اور جماعت میں ایک مقام رکھنے والے تھے.آپ کا مسکراتا اور بارعب چہرہ ، مگر مزاج نہایت دھیما اور نرم، حافظہ کمال کا کہ سلسلہ احمدیہ کے پرانے بزرگوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقاء کے بارہ میں آپ کو بڑی معلومات تھیں.آپ جامعہ احمد یہ ربوہ میں تخصص کرنے والے مربیان کے نگران تھے.ڈنمارک اور سوئزرلینڈ میں بھی آپ بطور مبلغ رہے.پیارے بچو! حضرت سیدہ صالحہ بیگم صاحبہ کے سب سے چھوٹے اور تیسرے صاحبزادے میر محمود احمد صاحب ناصر جو جامعہ احمد یہ ربوہ کے پرنسپل ہیں اور آپ اُن کو اکثر mta پر درسِ حدیث سناتے ہوئے بھی دیکھتے ہیں.اور اللہ کے فضل سے دینی خدمات میں مصروف ہیں.اسی طرح آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی سیدہ آنسہ شوکت صاحبہ جو آج کل امریکہ میں رہتی ہیں.خدمت دین اور ساری عمر دینی علم حاصل کرنے کا شوق رہا.بچو! یہ تھیں سیدہ صالحہ بیگم صاحبہ جو اپنے بیٹے کی پیدائش کے بعد ام داؤد کے نام سے جانی جاتی تھیں.جنہوں نے اپنی اولاد کی بہترین تربیت کی ، ساری زندگی علم حاصل کرنے میں، خدمت دین اور خدمت خلق میں، گھر کے سارے کاموں کو سلیقے سے چلاتی ہوئی ، عاجزی، انکساری سے گزاری اور ہم سب کے لئے ایک مثال چھوڑ گئیں.اگلی نسل میں آپ کے پوتوں اور نواسوں نے بھی زندگیاں وقف کرنے کی توفیق پائی.

Page 39

36 حوالہ جات اخبار بدر 5 / فروری 1906ء اخبار بدر 5 / فروری 1906ء سیرۃ ام داؤ د مصنفه صالحه در دصاحبہ ناشر لجنہ اماء اللہ لاہور پاکستان ماہنامہ رسالہ خالد اکتوبر 1953ء روز نامہ مصلح کراچی 13 ستمبر 1953ء سیرة ام داؤ د مصنفه صالحه در دصاحبہ ناشر لجنہ اماءاللہ لاہور پاکستان مصباح فروری 1959ء مصباح فروری 1959ء 1 2 3 4 5 6 7 8 9 ماہنامہ رسالہ خالد اکتوبر 1953ء 10 تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اوّل ناشر سیکرٹری اشاء 11 روز نامہ اصح کراچی 13 ستمبر 1953ء روزنامه المصلح 12 سیرة ام داؤ د مصنفه صالحه در دصاحبہ ناشر لجنہ اماءاللہ لاہور پاکستان 13 تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد دوم نا شرسیکرٹری اشاعت 14 ماہنامہ رسالہ خالد اکتوبر 1953ء

Page 40

37 40 15 سیرة ام داؤ د مصنفه صالحه در دصاحبہ ناشر لجنہ اماءاللہ لاہور پاکستان 16 17 18 19 20 21 بیر و ام داؤد مصنفہ صالحہ درد صاحبہ ناشر لجنہ اماءاللہ لاہور پاکستان روز نامه اصلح کراچی 20 ستمبر 1953ء لمصل ماہنامہ رسالہ خالد اکتوبر 1953ء المصلح روز نامہ اصلح کراچی 7 / اکتوبر 1953ء المصلح روز نامہ اصلح کراچی 7 / اکتوبر 1953ء نامرا لمصد روز نامہ اصح کراچی 7 / اکتوبر 1953ء 22 ماہنامہ رسالہ خالد اکتوبر 1953ء

Page 41

we حضرت اُم داؤد (Hadrat Umm-e-Dawood "d) Published in UK in 2007 Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.ISBN: 1 85372 996 5

Page 41