Language: UR
یہ کتاب دراصل حضرت مصلح موعودؓ کی بعض تقاریر کا مجموعہ ہے جو آپؓ نے 1938 سے 1958ء تک مختلف جلسہ ہائے سالانہ کے موقع پر ہزاروں سامعین کے سامنے ارشاد فرمائیں۔ مختلف جلدوں میں مختلف برسوں کی تقاریر کو بہت محنت سے دیدہ زیب انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ مجموعہ جہاں حضرت مصلح موعودؓ کے ’’علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا‘‘ کا بین ثبوت ہے۔ وہاں ان تقاریر سے حضورؓ کی سلطان البیانی کا بھی واضح اظہار ہوتا ہے۔ علاوہ عمیق حقائق و معارف کےبیان کے اس کتاب سے اردو ادب و بیان پر آپؓ کی گہری دسترس، عظیم المرتبت خطابت کا بھی بین اظہار ہوتاہے۔ ان شاہکار اور پُر کیف تقاریر کو پڑھ کر روح وجد میں آجاتی ہے۔
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتِ لِأُولِى الْأَلْبَابِ) میر روحانی مجموعه تقاریر سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی زیر انتشار فضل عمر فاؤنڈیشن
نام کتاب مجموعه تقاریر طبع دوم طبع هذا تعداد مطبع : سیر روحانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة امسیح الثانی زیراہتمام فضل عمر فاؤنڈیشن انڈیا 2005 اکتوبر 2017ء 1000 : فضل عمر پر لیس قادیان نظارت نشر و اشاعت قادیان ضلع گورداسپور ( پنجاب ) انڈیا SAIR E ROOHANI (MAJMOOA TAQAREER) Delivered by: Hadhrat Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad Khalifatul Masih 2nd Second Edition By Fazle Umar Foundation India Present Edition IN India : OCTOBER 2017 Copies: 1000 Printed at Fazl-e-Umar Press Qadian Published by: Nazarat Nashro Ishaat Qadian - 143516 Distt.Gurdaspur (Punjab) INDIA ISBN: 8179120767
عرض ناشر سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی علم و معارف سے لبریز تقاریر کا مجموعہ ”سیر روحانی“ کے نام سے قبل ازیں شائع ہو چکا ہے.اس کی از سرنو کمپوزنگ ، چیکنگ اور حوالہ جات کی تکمیل کر کے سافٹ کاپی میں موصول ہوئی.فجزاھم اللہ احسن الجزاء.انہیں کی ذمہ داری پر نظارت نشر واشاعت قادیان سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے اسے من وعن شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے مبارک اور بابرکت کرے اور اس سلسلہ میں کام کرنے والے جملہ افراد کو دینی و دنیوی ترقیات سے نوازے.آمین حافظ مخدوم شریف ناظر نشر واشاعت قادیان
بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو سید نا حضرت مصلح موعود خلیفہ المسح الثانی کی حقائق و معارف اور قرآنی انوار سے پر تقاریر بعنوان ”سیر روحانی کو یکجائی طور پر احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے.وَمَاتَوْفِيقُنَا إِلَّا بِاللهِ الْعَزِيزِ.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی جناب سے ایک عظیم موعود بیٹے کی پیشگوئی عطا فرمائی جس کی خبر گزشتہ الہی نوشتوں میں بھی موجود تھی.یہ پیش خبری غیر معمولی شان و شوکت کی حامل تھی.اس کی باون علامات میں یہ خبر بھی دی گئی تھی کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا.علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.اور کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر کرنے والا ہوگا.سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی مصلح موعود کی ذہانت و فطانت، آپ کے تبحر علمی اور کلام اللہ کے مرتبہ کا لوگوں پر اظہار کا ایک بین اور روشن ثبوت سیر روحانی“ کے نام سے موسوم سلسلہ تقاریر بھی ہیں.ان تقاریر میں قرآن کریم کے حقائق و معارف اور انوار کھل کر لوگوں کے سامنے آئے ہیں.کیونکہ ان قرآنی جواہر و معارف کی تشریح اُس شخص نے کی ہے جسے خدا تعالیٰ نے خود اپنے نور اور رضا کے عطر سے ممسوح کیا تھا.سیر روحانی اس بات کا زبر دست ثبوت ہے کہ زمینی نظام، آسمانی نظام کے تابع ہے اور دونوں میں فرق یہ ہے کہ آسمانی نظام اعلیٰ وارفع اور اکمل و افضل ہے یا یوں کہئے کہ زمینی نظام آسمانی نظام کی ایک جھلک ہے.سیدنا حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی ۱۹۳۸ء میں ایک رؤیا کی بناء پر
J.قادیان سے حیدر آباد دکن کے سفر پر روانہ ہوئے.سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد ریاست حیدر آباد مسلمانوں کی تہذیب و تمدن اور علم وفن کا سب سے بڑا مرکز تھی وہاں کے حالات و واقعات کا جائزہ لے کر عام مسلمانوں کی بہبود اور جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں میں اضافہ سفر کی غرض وغایت تھی.حضور یکم اکتوبر ۱۹۳۸ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور سندھ سے ہوتے ہوئے کراچی سے بمبئی اور پھر حیدر آباد پہنچے.اسی سفر کے دوران آپ آگرہ اور دہلی بھی تشریف لے گئے اور ۲۹ اکتوبر ۱۹۳۸ء کو قادیان واپس پہنچے.اس سفر کے دوران حضور نے جو مختلف تاریخی مقامات اور نظارے مشاہدہ فرمائے اُن کی تعداد آپ نے ۱۶ بیان فرمائی ہے جو درج ذیل ہیں.قلع، مقابر، مساجد، مینار، نوبت خانے ، باغات، دیوانِ عام، دیوان خاص، لنگر خانے، دفاتر ، کتب خانے، مینا بازار، جنتر منتر سمندر اور آثار قدیمہ.حضرت مصلح موعود نے اس سفر کے دوران جن ۱۶ مادی اشیاء کا مشاہدہ کیا ، ان کے مقابل پر عالم روحانی میں ان کے مشابہ اور مماثل امور کو نہایت وجد آفریں اور اثر انگیز پیرایہ میں بیان کرتے ہوئے جلسہ ہائے سالانہ کے مواقع پر سیر روحانی“ کے نام سے سلسلۂ تقاریر شروع فرمایا.یہ سلسلہ ۱۹۳۸ء سے شروع ہو کر ۱۹۵۸ء تک وقفے وقفے سے جاری رہا.حضور کی یہ پر معارف تقاریر سیر روحانی جلد اول، دوم اور سوم کے نام سے طبع ہو کر اپنوں اور غیروں میں مقبول ہوئیں.پہلی جلد ۱۹۳۸ء، ۱۹۴۰ء اور ۱۹۴۱ء کی تقاریر پر مشتمل تھی.دوسری جلد میں ۱۹۴۸ء ،۱۹۵۰ء اور ۱۹۵۱ء کی تقاریر شامل تھیں جبکہ تیسری جلد ۱۹۵۳ء ۱۹۵۴ء، ۱۹۵۵ء،۱۹۵۶ء ۱۹۵۷ء اور ۱۹۵۸ء کی تقاریر پر مشتمل تھی.یہ سلسلہ تقاریر پیش گوئی مصلح موعود کے اِن الفاظ کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.“ کی عظیم الشان صداقت کا بین ثبوت ہے.ان تقاریر میں حضرت مصلح موعود کی سلطان البیانی کا بھی اظہار ہوتا ہے اور یہ حقائق و معارف کے بیان کے ساتھ ساتھ عظیم المرتبت خطابت کا بھی شاہکار ہیں.ان پر کیف تقاریر کو پڑھ کر روح وجد میں آ جاتی نمونہ کے طور پر صرف ایک اقتباس درج کرنا کافی ہوگا.۲۸ دسمبر ۱۹۵۳ء کی تقریر
ج میں عالم روحانی کے نوبت خانہ کا تفصیلی ذکر کرنے کے بعد جلالی انداز میں فرمایا : - اب خدا کی نوبت جوش میں آئی ہے.اور تم کو ، ہاں تم کو، ہاں تم کو ، خدا تعالیٰ نے پھر اس نوبت خانہ کی ضرب سپرد کی ہے.اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو!!! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اس زور سے بجاؤ کہ دُنیا کے کان پھٹ جائیں.ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو.ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور فرشتے بھی کانپ اُٹھیں تا کہ تمہاری دردناک آوازوں اور تمہارے نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے شہادت توحید کی وجہ سے خدا تعالیٰ زمین پر آجائے اور پھر خدا تعالیٰ کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہو جائے.اسی غرض کے لئے میں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے اور اسی غرض کے لئے میں تمہیں وقف کی تعلیم دیتا ہوں.سیدھے آؤ اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہو جاؤ.محمد رسول اللہ کا تخت آج مسیح نے چھینا ہوا ہے تم نے مسیح سے چھین کر پھر وہ تخنت مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ کو دینا ہے اور مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله نے وہ تخنت خدا کے آگے پیش کرنا ہے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت دُنیا میں قائم ہوتی ہے.پس میری سنو! اور میری بات کے پیچھے چلو کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے.میری آواز نہیں میں خدا کی آواز تم کو پہنچا رہا ہوں.تم میری مانو ! خدا تمہارے ساتھ ہو! خدا تمہارے ساتھ ہو!! خدا تمہارے ساتھ ہو اور تم دُنیا میں بھی عزت پاؤ اور آخرت میں بھی عزت پاؤ" احباب جماعت کی شدید خواہش اور طلب پر حقائق و معارف سے پر اور وجد آفریں تقاریر کے سلسلہ ”سیر روحانی“ کو اب یکجائی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے حضرت
د مصلح موعود نے جلد اول اور دوئم کی اشاعت کے موقع پر جو پیش لفظ اور دیباچہ تحریر فرمایا تھا اُسے بھی اس کتاب کی ابتداء میں شامل اشاعت کیا جا رہا ہے.نیز حضور نے اپنے سفر میں جن مقامات کی سیر کی اور جن کا تذکرہ میں کیا گیا ہے ان مقامات، مساجد، مقابر اور قلعوں کے بارہ میں ہماری موجودہ نسل کی اکثریت ناواقف ہے ان مقامات سے آگاہ کرنے اور تعارف کرانے کے لئے ان کی ۴۰ کے لگ بھگ تصاویر بھی کتاب ھذا میں شامل کی جا رہی ہیں اور ساتھ ساتھ ان کا تفصیلی تعارف بھی پیش کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں عالم روحانی کے حقائق و معارف سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.یہ کتاب یقیناً احباب جماعت کے ازدیاد علم اور ازدیاد ایمان کا باعث بنے گی اور احباب قرآنی حقائق و معارف اور انوار سے روشنی حاصل کر کے اپنی منزل کی تعیین کریں گے.إِنْشَاءَ اللهُ تَعَالَی.کتاب ھذا میں شامل نادر اور نایاب فوٹوز کے حصول کے سلسلہ میں خاکسار کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہے جنہوں نے مختلف ذرائع سے فوٹوز حاصل کرنے کے سلسلہ میں اپنا بہت سا قیمتی وقت صرف کر کے یہ گرانقدر خدمت سرانجام دی ہے.فوٹوز کے تعارف کی تیاری کے سلسلہ میں ابتدائی طور پر متعدد دوستوں کو کام کرنے کا موقع ملا لیکن بالآخر اس کو فائنل شکل میں پیش کرنے کا بنیادی کام ہے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ نے بڑی محنت اور مہارت سے سرانجام دیا اس جلد کی تیاری کے مختلف مراحل کے سلسلہ میں خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہے جنہوں نے مسودات کی ترتیب و صحیح ، نظر ثانی، پروف ریڈنگ، حوالہ جات کی تلاش ، Re checking اور اعراب کی درستگی وغیرہ کے سلسلہ میں بہت ہی محنت اور خلوص سے اس کام کو پایہ تکمیل
تک پہنچایا.فَجَزَا هُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ.کی راہنمائی بھی ہمارے لئے بہت ہی سہولت کا موجب ہوئی.ادارہ ان کا بے حد شکر گزار ہے.بھی ہمارے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں اس جلد کی فائنل پروف ریڈنگ کے سلسلہ میں ان کے مفید مشوروں اور راہنمائی سے ادارہ نے بے حد فائدہ اُٹھایا ہے.فَجَزَاهُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ.ہیں جن کی مخلصانہ کوششوں سے اس جلد کی تعمیل ممکن ہوئی.بھی شکریہ کے مستحق خاکسار ان سب احباب کے تعاون پر ان کا دلی شکر یہ ادا کرتا ہے اور دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب احباب کے علم و فضل میں برکت ڈالے اور اپنی بے پایاں نعماء اور فضلوں سے نوازے.(آمین)
نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب المصلح الموعود خلیفہ اسیح الثانی (1889ء تا 1965ء) MAKHZAN-E- TASAWEER © 2006 سید 0707-K2021
بسم الله الرحمن الرحيم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكريم پیشگوئی مصلح موعود اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا.وہ کلمہ الہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غوری نے اسے کلمہ تمجیدسے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا علم اورعلوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائیگا.اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا اسکے معنی سمجھ میں نہیں آتے ، دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه- فرزند دلبند گرامی ارجمند مظهرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ و العلاء عمان الله نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الهی کے ظہورکا موجب ہوگا.نور تا ہے اور جس کوخدا نے اپنی رضامندی کے طرسے مسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سرپر ہو گا.وہ جلد بلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.وَكَانَ اَمْرًا مَقْضِيَّا داشتهار ۲۰ فروری شاه "
فہرست عناوین نمبر شمار | عناوین ایک اہم تاریخی سفر اس سفر میں میں نے کیا دیکھا آثار قدیمہ دنیا کس طرح پیدا ہوئی صفحہ نمبر شمار عناوین صفحہ تقویم شمسی کی ضرورت اور اس کی اہمیت ۷۹ نظام عالم کی کامیابی کے تین اصل قومی تباہی کے اسباب ایک وسیع اور عظیم الشان سمندر قرآن کریم کا بلند ترین مقام پیدائش انسانی کے متعلق قرآنی نظریہ ۱۷ پیدائش انسانی کے مختلف دور ۱۸ ۲ مساجد آدم اور ابلیس دونوں نسلِ انسانی میں بیت اللہ کی تین اغراض ۸۵ ۸۶ ۸۸ ۹۵ 1+1 ۱۰۳ لا ۱۱۵ ۱۲۰ ۱۲۸ مساجد کے مشابہہ صرف انبیاء کی جماعتیں ہیں جنگوں میں گرفتار ہونے والوں کے ۳۰ ۳۸ سے تھے حضرت آدم کے متعلق ایک اور زبردست انکشاف شجرہ آدم کیا چیز ہے؟ نفس واحدہ سے پیدائش کی حقیقت ۴۰ متعلق اسلامی احکام ۴۹ مساوات کے قیام کیلئے اسلام میں زکوۃ حضرت ہارون کے متعلق قرآنی انکشاف ۵۵ کا حکم جنتر منتر ۶۱ صحابہ کرام کی ظاہری برکات کے بعض قرآنی رصد گاہ میں ستاروں کے ایمان افروز واقعات بداثرات سے بچنے کا علاج منجموں کی خبروں اور الہام الہی میں فرق ۶۲ ۶۶ انتخاب خلافت کے وقت انصار کا عدیم النظیر ایثار اور وسعت حوصلہ حضرت ابراہیم کا ستارہ پرستوں کو درس توحید شراب اور جوئے کی ممانعت ۶۸ عورتوں کے حقوق کی حفاظت ۱۳۳ ۱۳۶ ۱۳۸
نمبر شمار عناوین قیام امن کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم صفحہ نمبر شمار عناوین صفحہ ۱۴۰ مینا بازار ۲۱۷ خلافت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مینابازار میں فروخت ہونے والی اشیاء ۲۱۷ یاد کو قائم رکھتی ہے ۱۵۴ ایک اور روحانی بازار اسلام میں مہمان نوازی پر خاص زور ۱۵۶ دنیوی اور روحانی مینا بازار میں مادی قلعہ کے مقابلہ میں قرآنی قلعہ ۱۶۳ قلعے کیوں بنائے جاتے ہیں؟ اعلیٰ درجہ کے قلعوں کی گیارہ خصوصیات ابرہہ کا بیت اللہ پر حملہ ۱۶۴ ۱۶۶ ۱۷۴ خدائے قادر کا ایک عظیم الشان معجزه ۱۸۰ شیطان کو کان سے پکڑ کر اس کی غاروں سے باہر نکال دو جسمانی مقبرے اور روحانی مقبرے ۱۸۰ ۱۸۵ ہر انسان کو خدا تعالیٰ خود قبر میں ڈالتا ہے ۱۹۳ عظیم الشان فرق غلامی کیوں بُری سمجھی جاتی ہے؟ روحانی مین بازار میں ملنے والی نعماء ۲۱۸ ۲۱۹ ۲۲۲ ۲۲۷ جنتی پھلوں کی دلچسپ خصوصیات ۲۳۹ سیاہ اور بدنما چہرہ کوخوبصورت بنانے کا نسخہ ۲۴۴ خدا تعالی کی سچی غلامی اختیار کرنے والے دنیا میں بھی بادشاہ بنا دیئے گئے ۲۵۵ خدائی حفاظت کا ایک شاندار نمونہ ۲۵۸ مذہبی جنگوں میں مسلمانوں کی کامیابی کا وعدہ ۲۶۲ ہر شخص کا روحانی مقبرہ اس کے اعمال جہاد بالقرآن سب سے بڑا جہاد ہے ۲۶۴ کے مطابق ہوگا ۱۹۸ مغربیت کی کبھی نقل نہ کرو مرنیوالوں کا صحیح مقام روحانی مقبرہ جماعت احمدیہ کے قیام میں ایک سے ہی ظاہر ہوتا ہے ۲۰۵ بہت بڑی حکمت مختلف انبیائے سابقین کے مقبرے قرآنی بشارت ۲۶۶ ۲۶۷ ۲۶۹ سردار انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ ہمارے خدا کا عجیب و غریب مینا بازار ۲۷۰ علیہ وسلم کے تین مقبرے ۲۱۰ اپنی جانیں اور اپنے اموال خدا تعالیٰ جماعت کو نصیحت ۲۱۶ کے حضور جلد تر پیش کرو ۲۷۲
نمبر شمار と عناوین صفحہ نمبر شمار ۲۷۷ عناوین عالم روحانی کا بلند ترین تمام اہم امور کا فیصلہ آسمان پر ہوتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود بھی آسمان سے ہی نازل ہوئے ہیں مینار یا مقام محمدیت مادی میناروں کے مقابلہ میں اسلام کا پیش کردہ مینار ۲۷۹ ۲۸۰ مینار کیوں بنائے جاتے ہیں؟ حضرت مسیح کے مینار پر اترنے کا عقیدہ مسلمانوں میں کس طرح آیا ۲۸۱ قرآن کریم سے ایک عظیم الشان روحانی مینار کی خبر مقام محمدیت احادیث نبویہ میں آخری زمانہ کی خرابیوں کا ذکر ۲۸۷ ۲۸۸ ۲۹۰ الطارق اور النجم الثاقب میں مسیح موعود کی پیشگوئی صداقت معلوم کرنے کا ایک اہم اصول صفحہ ۳۰۳ تاریکی کے ہر دور میں اسلام کے احیاء کی خبر ۳۰۴ آئندہ زمانوں میں پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا فائدہ سابق الہامی کتب کی پیشگوئیاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ۳۰۵ آسمانِ روحانی کے ایک ستارہ کی خبر | ۲۹۰ صداقت کا ثبوت ہیں ہر نبی ایک شہاب ہے مگر محمد رسول اللہ شدید القوی ہستی کی طرف سے ۲۹۳ قرآن کریم کا نزول صلی اللہ علیہ وسلم شہاب مبین ہیں شرارتوں کا قلع قمع کرنے کیلئے آسمانی تدبیر ۲۹۴ اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان نشان عالم روحانی کے کواکب ۲۹۶ اصلاح خلق کیلئے ایک کامل انسان کی پیدائش مادی اور روحانی نظام میں شدید مشابہت ۲۹۶ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا تعالیٰ عالمگیر خرابی واقع ہونے پر خدائی سنت کی طرف صعود پیشگوئیوں میں استعارات کا استعمال ۲۹۸ خدا تعالیٰ کا بنی نوع انسان کی نجات علم تعبیر الرؤیا کے رُو سے ثریا کا مفہوم ۲۹۹ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی کیلئے آسمان سے نزول افاضہ کے نتیجہ میں مسیح موعود کا ظہور مغفرت اور قرب الہی کے ذرائع ۳۱۰ ۳۱۱ ۳۱۲
صفحہ ۳۲۵ ۳۲۷ عناوین صفحہ نمبر شمار روحانی ارتقاء کے غیر معمولی سامان ۳۱۲ عناوین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی خدائی کمان کا محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم میں الہی انوار و برکات کا نزول کی کمان سے اتصال ۳۱۳ حضرت عمرؓ سے قیصر کی درخواست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ اور علوم غیبیہ کا دروازہ کھل گیا ۳۱۴ ۳۱۶ بے لوث حیات آسمانی اور زمینی تیر ایک نشانہ پر صعود ونزول کا پُر کیف نظارہ تین خوبیوں والا کلام ۳۱۷ ۳۱۷ جاسکتا ہے محمدی مینار ہر انسان کو اس کے درجہ افق مبین میں ظاہر ہونے والا ستارہ ۳۱۸ کے مطابق روشنی دیتا ہے الْمَنَارَةُ الْبَيْضَاء سے کیا مراد ہے؟ ۳۱۸ عندیت کے مقام سے معیت کے کی عظمت محمدی مینار تا ابد آپ کے نام کو زندہ رکھنے والا ہے ۳۳۲ محمدی مینار دنیا کے ہر مقام پر کھڑا کیا ۳۳۲ ۳۳۳ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ۳۳۴ مقام تک قادیان کا مینار کیوں بنایا گیا ؟ ۳۱۸ ۳۱۹ نسخہ کیمیا ۳۳۵ مینارہ محمدی کی نقل میں بعض اور جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ اسلام چھوٹے چھوٹے مینار کے جھنڈے کو کبھی نیچا نہ ہونے دے مسجد اقصیٰ کا قرآن کریم میں ذکر پابندی عہد کی ایک شاندار مثال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ۳۲۰ ۳۲۰ روحانی عظمت اور بلندی کے مستحق افراد کی تعیین ۳۲۱ اپنے روحانی باپ کی نقل کرو افراد جماعت کو نصیحت ۳۳۷ ۳۳۸ ۳۳۹ ۳۲۲ اللہ تعالیٰ سے دعا ۳۴۰ ۳۴۳ ۳۴۳ ۳۴۵ عالم روحانی کا دیوان عام کے مضمون کا محرک ۱۶ عجائبات سفر ۳۲۴ ۳۲۵ جماعت احمدیہ کا نیا عہد صحابہ کا نمونہ ہمارے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سراج منیر ہیں نمبر شمار
نمبر شمار | عناوین دیوانِ عام کے قیام کی اغراض قرآنی دیوانِ عام کی خصوصیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تقرر پر قرآنی دیوان عام سے اعلان صفحہ نمبر شمار ۳۵۰ ۳۵۱ ۳۵۱ قرآنی گورنر جنرل کا دائرہ حکومت ۳۵۳ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی حکومت کا اعلان مسلمانوں کے ہزار سالہ دور تنزل کی قرآن کریم میں خبر ۳۵۳ ۳۵۵ عناوین صفحه خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے والی کتاب ۳۶۵ قرآنی تعلیم کے ذریعہ غیر معمولی طاقت کا حصول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال نمونہ مسلمانوں کے تحفظ اور ان کی بقاء کا صحیح طریق آٹھ خوبیوں والا کلام قانونِ الہی کی اتباع کرنے اور نہ ۳۶۹ احیائے اسلام کیلئے مسیح موعود کی بعثت (۳۵۶ کرنے والوں سے سلوک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اسلام کی اشاعت اس کی اعلیٰ درجہ کی کس شان سے پوری ہوئی دربار عام کا ایک اور مقصد قرآنی آئین کا اعلان اور اس کی اہم خصوصیات ایک مکمل قانون قیامت تک قائم رہنے والا لائحہ عمل فطرتِ انسانی سے مطابقت رکھنے والی تعلیم ۳۵۷ ۳۵۸ ۳۵۸ ۳۵۹ ۳۶۲ ۳۶۲ تعلیم کی وجہ سے ہوئی ہے کفر کی مجموعی طاقت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ E ۳۷۵ قرآن کریم کی پیش کردہ توحید کی فتح ۳۷۸ قضاء کے بارہ میں اسلام کی شاندار تعلیم ۳۷۸ اسلامی کانسٹی ٹیوشن ۳۸۰ سابق الہامی کتب کی تمام اعلی تعلیمیر سے سلوک قرآن کریم میں جمع ہیں قرآن کریم کی افضلیت قرآن کریم کا کمال ۳۶۳ ۳۶۴ ۳۶۵ نظام آسمانی میں دخل دینے والوں تمام مخلوق کی جسمانی ضروریات پوری کرنے کا وعدہ دیدار عام کی دعوت ۳۸۴ ۳۸۹ ۳۹۷
صفحه ۵۰۱ ۵۰۱ ۵۰۷ ۵۰۸ ۵۰۹ ۵۱۰ ۵۱۰ ۵۱۱ ۵۱۳ ۵۱۳ ۵۱۴ نمبر شمار عناوین صفحہ نمبر شمار عناوین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت عالم روحانی کا دیوان خاص ۴۰۷ کی چار اغراض دیوان خاص کی اغراض قرآنی در بار خاص کی نرالی شان ۴۰۷ ۴۱۳ امور غیبیہ کے متعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی ابوالبشر آدم کی پیدائش پر در بارِ خاص شریعت خدا تعالیٰ کا بڑا بھاری فضل ہے کا انعقاد ۴۲۱ قرآن کریم کی کامل تعلیم روحانی در بار خاص کی بعض مخصوص کیفیات ۴۲۵ تعلیم حکمت قرآن کریم میں ایک اور در بارِ خاص تزکیه نفوس کا ذکر ۴۲۶ ایک کثیر الخیر روحانی فرزند کے پیدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہونے کی پیشگوئی بعثت عظمی کا در بارِخاص میں اعلان ۴۲۷ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت مسیح موعود کو آدم قرار دینے میں حکمت در بار خاص کی دوسری غرض در بار خاص کی تیسری غرض ۴۲۸ ۴۳۵ ۴۶۳ مقام محمود کی بشارت ہر وصف میں یکتا اور بے نظیر نبی زبانوں پر حمد کے ترانے اسلامی تعلیم کی برتری کا اعتراف قرآنی دیوان خاص کا نرالا طریق ۴۶۴ نرالاطریق دربارِ خاص میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف دشمنوں کے منہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ اخلاق فاضلہ کے لحاظ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند مقام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری ، صبر و استقلال سخاوت ، رحم دلی، عدل وانصاف ۴۸۰ ۴۸۰ ۴۸۴ ۴۹۴ ۴۹۴ علیہ وسلم کی دائمی حکومت کا اعلان دربارِ خاص کی چوتھی غرض تعلقات کی خرابی کی تین وجوہ در بار خاص میں انعامات کا اعلان کوثر کے معنے
نمبر شمار | عناوین صفحہ نمبر شمار عناوین موجودہ زمانہ میں مقامِ محمود کی تجلیات ۵۱۶ مسلمانوں کے غلبہ کی پیشگوئی عظیم الشان در بار عالم روحانی کا نوبت خانہ ۵۱۶ ۵۲۳ دنیا میں خدائی حکومت قائم کئے جانے کا اعلان جوش انتقام میں بھی عدل وانصاف کو ملحوظ رکھنے کی تاکید صفحہ ۵۷۲ ۵۷۹ نئے لوگوں کی واقفیت کیلئے بعض پرانی باتیں نوبت خانوں کی پہلی غرض مدینہ منورہ میں اسلام کی اشاعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ۵۲۵ ۵۲۷ ۵۳۳ اسلام کے لڑائیوں کے بارہ میں تفصیلی احکام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحابی پر شدید ناراضگی سورۃ العادیات کی لطیف تفسیر اسرائیلی انبیاء و اولیاء کی پیشگوئیاں ۵۳۴ قرآنی نوبت خانہ کی ایک اور خبر جو بڑی شان سے پوری ہوئی صلح نامہ حدیبیہ کی بعض شرائط فَتْحًا مُّبِينًا سے مراد صلح حدیبیہ نہیں بلکہ فتح مکہ ہے حضرت اُم حبیبہ کی ایمانی غیرت ۵۴۱ ۵۴۲ ۵۴۴ ۵۵۱ ۵۸۳ ۵۸۸ ۵۹۵ ۵۹۹ دنیوی نوبت خانوں کی تیسری غرض ۶۰۷ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کیلئے کسری کا ظالمانہ حکم خدائی دیدار کی دعوت عام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کر یہہ المنظر صحابی سے پیار مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیٹھ کر ۶۰۹ ۶۱۳ ۶۱۴ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح مکہ تمام دنیا کو فتح کرنے کے عزائم کیلئے تیاری ۵۵۳ Λ ابوسفیان کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عالم روحانی کے دفاتر سے درخواست نوبت خانوں کی دوسری غرض دنیوی نوبت خانوں کے مقابلہ میں اسلام کا شاندار کو بت خانہ ۵۵۹ ۵۶۶ ۵۶۹ ۶۱۶ ۶۲۵ موجودہ زمانہ میں ریکارڈر کی ایجاد ۶۴۰ ملائکہ کی ضرورت کے متعلق ایک الطیف نکته مسئلہ تقدیر اور قسمت ۶۴۶ ۶۴۹
صفحہ ۷۰۲ ۷۰۸ 212 219 ۷۲۲ ۷۲۵ عناوین صفحہ نمبر شمار عناوین حکومتیں روحانی نظام کی اب تک نقل دنیوی اور روحانی نہروں میں بعض بھی نہیں کر سکیں عالم روحانی کا ایک اور خوش کن قانون ۶۵۳ ۶۵۵ نمایاں فرق محمدی نہر کوثر کی شکل میں حضرت معاویہ کی ایک نماز ضائع ۱۰ قرآنی باغات ہونے کا واقعہ دنیوی خلعتوں اور جاگیروں کی نا پائیداری ۶۶۲ ہر چیز کے جوڑا ہونے کے بارہ میں ۶۶۴ قرآن کریم کا بے مثال علمی نکتہ یمن کے گورنر کا بیت اللہ پر حملہ بیت اللہ کی تقدیس اور اس کی عظمت کا موجودہ سائنسدانوں کی تحقیق زمانہ قدیم سے اعتراف ۶۶۷ امت محمدیہ کا بلند مقام مسلمانوں کے فلسطین پر قبضہ کی پیشگوئی ۶۷۰ کشمیر اور فلسطین میں جماعت احمدیہ مسلمانوں کی نگاہوں میں عبادت گاہوں کی اسلامی خدمات وہ درخت جو براہِ راست محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لگائے محمدی باغات کے نمونے ۶۷۰ ۶۷۲ کا احترام یہود کی فلسطین میں دوبارہ واپسی کی پیشگوئی فلسطین پر یہود کا عارضی قبضہ اسلام کی صداقت کا ثبوت ہے فلسطین مستقل طور پر خدا تعالیٰ کے ۶۷۴ صالح بندوں کے ہاتھ میں رہے گا ۶۷۵ عالم روحانی کی نہریں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زبردست بارش سے مشابہت قرآن کریم کے ذریعہ ہزار ہا علمی نہروں کا اجراء ۶۷۷ ۶۷۹ ΛΙ عالم روحانی کے لنگر خانے ۷۳۱ تاریخی شہادت سے قرآنی بیان کی تصدیق ۷۳۵ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْابَتَرُ کی پیشگوئی کا ظہور الکوثر میں مسیح موعود کے علاوہ اُمت محمدیہ ۷۴۱ ۷۴۶ کے تمام مخلص افراد بھی شامل ہیں جماعت احمدیہ کالنگر بھی ہمیشہ جاری رہیگا ۷۵۱ حضرت مسیح موعود پر خدائی انعامات ۷۵۵ نمبر شمار |
نمبر شمار عناوین صفحہ نمبر شمار ۱۲ عناوین مسئلہ ارتقاء اور قرآنی کتب خانہ روحانی عالم کے کتب خانے 24 قرآنی کتب خانہ میں زمین و آسمان قرآن کریم کا دعویٰ کہ اس کے اندر ہر کی پیدائش کا ذکر قسم کے کتب خانے موجود ہیں صفحہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کا اعتراف حقیقت ۷۸۶ زمین و آسمان کی پیدائش چھ دنوں میں قرآن کریم میں تربیت کے اصول ۷۸۹ نہیں بلکہ چھ یوم میں ہوئی ہے پیدائش عالم کے متعلق قرآنی نظریہ ۷۶۹ قرآن کریم میں جمہوریت کے اصول ۷۹۰ قرآن کریم میں تمدن کے اصول ۷۹۳ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء قرآن کریم میں عِلمُ الاخلاق کا ذکر ۷۹۷ کے مثیل اور ان سے افضل تھے 221 قرآن کریم میں عِلْمُ الْإِنْسَان کا ذکر 199 سقراط بھی خدا تعالیٰ کا ایک نبی تھا ۷۷۵ قرآن کریم میں آئندہ زمانہ کی تاریخ ۸۰۰
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ ا برادران السّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ ,, ، میرے لیکچروں کا مجموعہ ہے.یہ لیکچر ۱۹۳۸ء سے شروع ہوئے تھے ابھی مکمل نہیں ہوئے.تفصیل اور محترک ان لیکچروں کا اندر کے صفحات پر بیان ہے اس لئے اس کے متعلق کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں.پہلے ایک جلد میں پہلے سال کا لیکچر شائع ہوا تھا اس کے بعد التواء ہوتا چلا گیا اب ایک جلد میں ۱۹۳۸ء ، ۱۹۴۰ء اور ۱۹۴۱ء تین سالوں کے تین لیکچر اکٹھے شائع کئے جارہے ہیں.پہلی مطبوعہ جلد بھی اسی جلد میں شامل کر دی گئی ہے اور خیال ہے کہ تین جلدوں میں سب لیکھر شائع کر دیے جائیں.اللہ تعالی ان کو نافع الناس بنائے.امین خاکسار مرزا محمود احمد ۲۳.دسمبر ۱۹۵۴ء
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ دیباچہ برادران السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَانَهُ جو میرے کچھ لیکچروں کا مجموعہ ہے جس کی غرض وغایت کتاب میں مذکور ہے جس کی جلد اول کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۵۴ء میں شائع ہو چکا ہے اور جس میں ۱۹۳۸ء ، ۱۹۴۰ء اور ۱۹۴۱ء کے لیکچر اکٹھے کر دیئے گئے ہیں اب اس کی دوسری جلد شائع کی جا رہی ہے اور اس میں ۱۹۴۸ء ۱۹۵۰ء اور ۱۹۵۱ء کے لیکچر شامل کر دیئے گئے ہیں اگلے لیکچروں کے متعلق نہیں کہہ سکتے کہ دو جلدوں میں شائع ہوں گے یا ایک جلد میں، اگر ۱۹۵۶ء کے جلسہ میں یہ مضمون مکمل ہو گیا تو اُس وقت معلوم ہوگا کہ آیا کتاب کے دو حصے کرنے ضروری ہیں یا ایک حصہ کافی ہے، حصہ دوم بھی اور اس کے اگلے حصے بھی ایسے مضامین پر مشتمل ہیں جو قرآن کریم کی خوبیوں کا شاندار نقشہ کھینچتے ہیں اور اسلام سے محبت رکھنے والے ہر شخص کو ان کا مطالعہ کرنا چاہئے ، اللہ تعالیٰ جلد ان کو پایہ تکمیل تک پہنچائے.میں اس کتاب کو مریم صدیقہ کے نام معنون کرتا ہوں ، کیونکہ انہی کو حیدر آباد دکھانے کے لئے یہ سفر اختیار کیا گیا تھا جس میں یہ مضمون خدا تعالیٰ کے فضل سے کھلا ہے گو اس سفر میں میری ہمشیرہ عزیزہ مبارکہ بیگم بھی ساتھ
تھیں اور میری لڑکی عزیزہ امتہ القیوم بیگم بھی ساتھ تھی ، مگر اصل میں یہ سفر مریم صدیقہ کو ہی حیدر آباد دکھانے کے لئے اختیار کیا گیا تھا جہاں ان کے بہت سے رشتہ دار ہیں.چونکہ میں چاہتا ہوں کہ اس کتاب کا ثواب ہمیشہ ان کو پہنچتا رہے زندگی میں بھی اور زندگی کے بعد بھی اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مرنے والے تک صدقہ اور دُعا ہی پہنچتے ہیں اس لئے اس کتاب کا سارا خرچ میں مریم صدیقہ کی طرف سے دونگا تا کہ جو لوگ اس کتاب کو پڑھ کر فائدہ اُٹھا ئیں وہ ان کے لئے دعا کریں اور جتنی جلد میں مفت شائع کی جائیں ان کے صدقہ کا ثواب ان کو تا ابد پہنچے.پس میں شرکت اسلامیہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ چونکہ اس کی طباعت کا سب خرچ میں مریم صدیقہ کی طرف سے ڈونگا، تمام کتب میں سے دوسو کتا ہیں غریب مستحقین کو ۱/۸ قیمت پر دیں اور ایسے لوگوں کو دی جائیں جو اس دیباچہ کے پڑھنے اور پڑھوانے کا اور دُعا کا وعدہ کریں اور پانچ سو کتاب نصف قیمت پر مستحقین کو تقسیم کریں اور باقی کتابوں کی جو قیمت آئے اور جو سب کتابوں کا نفع آئے ، اُس کا نام مریم صدیقہ فنڈ رکھ کر ہمیشہ ہمیش کے لئے اسلامی لٹریچر شائع کرتے جائیں اور اس صدقہ جاریہ کو عملاً جاری رکھا جائے.مرزا محمود احمد خلة أسبح الثاني ۱۷ را پریل ۱۹۵۶ء
اَعُوذُ باللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ (۱) تقریر فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۳۸ء بر موقع جلسه سالانه قادیان) میں نے پا لیا.میں نے پالیا تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا : - وو ایک اہم تاریخی سفر ” میرا آج کا مضمون میرے اُس سفر سے تعلق رکھتا ہے جو اس سال اکتوبر کے مہینہ میں مجھے پیش آیا.میں پہلے کام کے لئے قادیان سے سندھ کی طرف گیا اور وہاں کچھ دن ٹھہر کر سمندر کی ہوا کھانے کے لئے کراچی چلا گیا کیونکہ میرے گلے میں مزمن خراش کی تکلیف ہے جس کی وجہ سے مجھے سالہا سال تک کا سٹک لگوانا پڑتا رہا ہے.کچھ عرصہ ہوا مجھے ڈاکٹروں نے کہا کہ اب آپ کا سٹک لگانا چھوڑ دیں ورنہ گلے کا گوشت پا لکل جل جائے گا.چنانچہ میں نے اُس وقت سے کاسٹک لگوا نا تو ترک کر دیا ہے مگر اور علاج ہمیشہ جاری رکھنے پڑتے ہیں ورنہ گلے اور سر میں درد ہو جاتی ہے.چونکہ ڈاکٹروں کی رائے میں اس مرض کیلئے سمندر کا سفر خاص طور پر مفید ہے اس لئے گزشتہ دو سال میں میں نے کراچی سے بمبئی کا سفر جہاز میں کیا.پہلے سفر میں اوّل تو تکلیف بڑھ گئی مگر بعد میں نمایاں فائدہ ہوا اور روزانہ دوائیں لگانے کی جو ضرورت محسوس ہوتی تھی اُس میں بہت کمی آ گئی اس لئے اس سال میں نے پھر موقع نکالا.اس سفر میں مجھے یہ بھی خیال آیا کہ حیدر آباد دکن کے دوست مجھے ہمیشہ کہتے رہتے ہیں کہ میں کبھی وہاں بھی آؤں سو اس دفعہ حیدر آباد کے دوستوں کی اگر یہ خواہش پوری ہو سکے تو میں اسے بھی پورا کر دوں.چنانچہ میں سندھ سے کراچی گیا ، کراچی سے
بمبئی بمبئی سے حیدر آباد، حیدرآباد سے آگرہ ، آگرہ سے دہلی اور دہلی سے قادیان آ گیا.حیدر آباد کا تاریخی گولکنڈہ کا قلعہ حیدرآباد میں میں نے بعض نہایت اہم تاریخی یادگاریں دیکھیں جن میں سے ایک گولکنڈہ کا قلعہ بھی ہے.یہ قلعہ ایک پہاڑ کی نہایت اونچی چوٹی پر بنا ہوا ہے اور اس کے گر دعالمگیر کی لشکر کشی کے آثار اور اہم قابل دید اشیاء ہیں.یہاں کسی زمانہ میں قطب شاہی حکومت ہو ا کرتی تھی اور اس کا دارالخلافہ گولکنڈہ تھا.یہ قلعہ حیدر آباد سے میل ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے ایک نہایت اونچی چوٹی پر بڑا وسیع قلعہ بنا ہوا ہے.یہ قلعہ اتنی بلند چوٹی پر واقع ہے کہ جب ہم اس کو دیکھنے کے لئے آگے بڑھتے چلے گئے تو حید ر آباد کے وہ دوست جو ہمیں قلعہ دکھانے کے لئے اپنے ہمراہ لائے تھے اور جو گورنمنٹ کی طرف سے ایسے محکموں کے افسر اور ہمارے ایک احمدی بھائی کے عزیز ہیں انہوں نے کہا کہ اب آپ نے اسے کافی دیکھ لیا ہے آگے نہ جائے اگر آپ گئے تو آپ کو تکلیف ہوگی.چنانچہ خود انہوں نے شریفے لئے اور وہیں کھانے بیٹھ گئے مگر ہم اس قلعہ کی کی چوٹی پر پہنچ گئے ، جب میں واپس آیا تو میں نے دریافت کیا کہ مستورات کہاں ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ وہ بھی اوپر گئی ہیں.خیر تھوڑی دیر کے بعد وہ واپس آ گئیں، میں نے اُن سے کہا کہ تم کیوں گئی تھیں؟ وہ کہنے لگیں انہوں نے ہمیں روکا تو تھا اور کہا تھا کہ اوپر مت جاؤ اور حیدر آبادی زبان میں کوئی ایسا لفظ بھی استعمال کیا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اوپر گئے تو بڑی تکلیف ہوگی مگر ہمیں تو کوئی تکلیف نہیں ہوئی شاید حیدر آبادی دوستوں کو تکلیف ہوتی ہو.تو خیر ہم وہاں سے پھر پھرا کر واپس آ گئے.یہ قلعہ نہایت اونچی جگہ پر ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نہایت شاندار اور اسلامی شان وشوکت کا ایک پُر شوکت نشان ہے.اس قلعہ کی چوٹی پر میں نے ایک عجیب بات دیکھی اور وہ یہ کہ وہاں ہزاروں چھوٹی چھوٹی مسجد میں بنی ہوئی ہیں ان میں سے ایک ایک مسجد اس سٹیج کے چوتھے یا پانچویں حصہ کے برابر تھی ، پہلے تو میں سمجھا کہ یہ مقبرے ہیں مگر جب میں نے کسی سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ یہ سب مسجدیں ہیں اور اُس نے کہا کہ جب عالمگیر نے اس جگہ حملہ کیا ہے تو اسے ریاست کو فتح کرنے کے لئے کئی سال لگ گئے اور مسلسل کئی سال تک لشکر کو یہاں قیام کرنا پڑا اس وجہ سے اُس نے نمازیوں کے لئے تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر ہزاروں مسجدیں بنا دیں.مجھے جب یہ معلوم ہوا تو میرا دل بہت ہی متاثر ہوا اور میں نے سوچا کہ اُس وقت کے مسلمان کس قدر با جماعت نماز ادا کرنے کے پابند تھے کہ وہ ایک ریاست پر حملہ کرنے کے لئے کی پر
آتے ہیں مگر جہاں ٹھہرتے ہیں وہاں ہزاروں مسجدیں بنا دیتے ہیں تا کہ نماز با جماعت کی ادائیگی میں کوئی کوتا ہی نہ ہو.اسی طرح آگرہ اسلامی دنیا کے عظیم الشان آثار کا مقام ہے.وہاں کا تاج محل دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک عجوبہ سمجھا جاتا ہے، وہاں کا قلعہ فتح پور سیکری اور سلیم چشتی صاحب جو خواجہ فرید الدین صاحب گنج شکر پاکپٹن کی اولاد میں سے تھے ان کا مقبرہ عالم ماضی کی کیف انگیز یادگاریں ہیں.میں نے ان میں سے ایک ایک چیز دیکھی اور جہاں ہمیں یہ دیکھ کر مسرت ہوئی کہ اسلامی بادشاہ نہایت شوکت اور عظمت کے ساتھ دنیا پر حکومت کرتے رہے ہیں وہاں یہ دیکھ کر رنج اور افسوس بھی ہو ا کہ آج مسلمان ذلیل ہورہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں.فتح پور سیکری کا قلعہ در حقیقت مغلیہ خاندان کے عروج کی ایک حیرت انگیز مثال ہے.چند سال کے اندراندر اکبر کا اِس قدر ز بر دست قلعہ اور شہر تیار کر دینا جس کے آثار کو اب تک امتدادِ زمانہ نہیں مٹا سکا بہت بڑی طاقت اور سامانوں کی فراوانی پر دلالت کرتا ہے.یہ اتنا وسیع قلعہ ہے کہ دُور بین سے ہی اس کی حدوں کو دیکھا جا سکتا ہے خالی نظر سے انسان اس کی حدوں کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا اور اب تک اس کے بعض حصے بڑے محفوظ اور عمدگی سے قائم ہیں.یہ باتیں بتاتی ہیں کہ مسلمانوں کو بہت بڑی طاقت اور سامانوں کی فراوانی حاصل تھی ورنہ چند سالوں کے اندر اندر اکبر اس قدر وسیع شہر اور اتنا وسیع قلعہ ہرگز نہ بنا سکتا.مغلیہ خاندان کے جو قلعے میں نے دیکھے ہیں ان میں سے در حقیقت یہی قلعہ کہلانے کا مستحق ہے ورنہ آگرہ کا قلعہ اور دہلی کا قلعہ صرف محل ہیں قلعہ کا نام انہیں اعزازی طور پر دیا گیا ہے.قلعہ کی اغراض کو دکن کے قلعے زیادہ پورا کرتے ہیں اور یا پھر فتح پور سیکری کے قلعہ میں جنگی ضرورتوں کو مد نظر رکھا گیا ہے.دہلی میں میں نے جامع مسجد دیکھی ، دہلی کا قلعہ دیکھا ، خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کا مقام دیکھا، منصور اور ہمایوں کے مقابر دیکھے، قطب صاحب کی لاٹ دیکھی، حوض خاص دیکھا، پرانا قلعہ دیکھا ، جنتر منتر دیکھا، تغلق آباد اور اوکھلا بند دیکھا.ہم نے ان سب چیزوں کو دیکھا اور عبرت حاصل کی ، اچھے کاموں کی تعریف کی اور لغو کاموں پر افسوس کا اظہار کیا.مسلمانوں کی ترقی کا خیال کر کے دل میں ولولہ پیدا ہوتا تھا اور ان کی تباہی دیکھ کر رنج اور افسوس پیدا ہوتا تھا.جن لوگوں نے ہمت سے کام لیا ان کے لئے دل سے آفرین نکلتی تھی اور جنہوں نے آثار قدیمہ کی تحقیق کی بعض گڑی ہوئی عمارتوں کو کھودا، پرانے سکوں کو نکالا اور جو آثار ملے انہیں محفوظ کر دیا ان کے کاموں کی ہمت
تعریف کرتے تھے.ان میں سے بعض مقامات میرے پہلے بھی دیکھے ہوئے تھے جیسے دہلی اور آگرہ کے تاریخی مقامات ہیں مگر بعض اس دفعہ نئے دیکھے اور ہر ایک مقام سے اپنے اپنے ظرف کے مطابق ہم نے لطف اُٹھایا.میں نے اپنے ظرف کے مطابق ، میرے ساتھیوں نے اپنے ظرف کے مطابق اور مستورات نے اپنے ظرف کے مطابق.عبرتناک نظارہ یوں تو ہر جگہ میری طبیعت ان نشانات کو دیکھ دیکھ کر ماضی میں گم ہو جاتی تھی.میں مسلمانوں کے ماضی کو دیکھتا اور حیران رہ جاتا تھا کہ انہوں نے کتنے بڑے بڑے قلعے بنائے اور وہ کس طرح ان قلعوں پر کھڑے ہو کر دنیا کو چیلنج کیا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو ہمارا مقابلہ کر سکے.مگر آج مسلمانوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.پھر میں ان کے حال کو دیکھتا اور افسردہ ہو جاتا تھا، لیکن تغلق آباد کے قلعہ کو دیکھ کر جو کیفیت میرے قلب کی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے.یہ قلعہ غیاث الدین تغلق کا بنایا ہوا ہے اور اس کے پاس ہی غیاث الدین تغلق کا مقبرہ بھی ہے.یہ قلعہ ایک بلند جگہ پر واقع ہے، خاصا اوپر چڑھ کر اس میں داخل ہونا پڑتا ہے جہاں تک ٹوٹے پھوٹے آثار سے میں سمجھ سکا ہوں اس کی تین فصیلیں ہیں اور ہر فصیل کے بعد زمین اور اُونچی ہو جاتی ہے جب ہم اس پر چڑھے تو میرے ساتھ میری بڑی ہمشیرہ بھی تھیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے کہ نواب مبار کہ بیگم سے ، اسی طرح میری چھوٹی بیوی اور امتہ الحی مرحومہ کے بطن سے جو میری بڑی لڑکی ہے وہ بھی میرے ہمراہ تھیں ہمشیرہ تو تھک کر پیچھے رہ گئیں.مگر میں ، میری ہمرا ہی بیوی اور لڑ کی ہم تینوں اوپر چڑھے اور آخر ایک عمارت کی زمین پر پہنچے جو ایک بلند ٹیکرے پر بنی ہوئی تھی.یہاں سے ساری دہلی نظر آتی تھی.اس کا قطب اس کا پُرانا قلعہ نئی اور پرانی دہلی اور ہزاروں عمارات اور کھنڈر چاروں طرف سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہے تھے اور قلعہ ان کی طرف گھور رہا تھا.میں اس جگہ پہنچ کر کھڑا ہو گیا اور پہلے تو اس عبرتناک نظارہ پر غور کرتا رہا کہ یہ بلند ترین عمارت جو تمام دبلی پر بطور پہرہ دار کھڑی ہے اس کے بنانے والے کہاں چلے گئے ، وہ کس قدر اولوالعزم ، کس قدر با ہمت اور کس قدر طاقت وقوت رکھنے والے بادشاہ تھے جنہوں نے ایسی عظیم الشان یادگاریں قائم کیں، وہ کس شان کے ساتھ ہندوستان میں آئے اور کس شان کے ساتھ یہاں مرے ، مگر آج ان کی اولا دوں کا کیا حال ہے، کوئی ان میں سے بڑھتی ہے، کوئی لوہار ہے، کوئی معمار ہے، کوئی موچی
ہے اور کوئی میراثی ہے.میں انہی خیالات میں تھا کہ میرے خیالات میرے قابو سے باہر نکل گئے اور میں کہیں کا کہیں جا پہنچا ، سب عجائبات جو سفر میں میں نے دیکھے تھے میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے ، دہلی کا یہ وسیع نظارہ جو میری آنکھوں کے سامنے تھا میری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گیا اور آگرہ اور حیدر آباد اور سمندر کے نظارے ایک ایک کر کے سامنے سے گزرنے لگے.آخر وہ سب ایک اور نظارہ کی طرف اشارہ کر کے خود غائب ہو گئے.میں اس محویت کے عالم میں کھڑا رہا ، کھڑا رہا اور کھڑا رہا اور میرے ساتھی حیران تھے کہ اس کو کیا ہو گیا ؟ یہاں تک کہ مجھے اپنے پیچھے سے اپنی لڑکی کی آواز آئی کہ ابا جان ! دیر ہوگئی ہے میں اس آواز کو سن کر پھر واپس اسی مادی دنیا میں آ گیا، مگر میرا دل اُس وقت رقت انگیز جذبات سے پر تھا، نہیں وہ خون ہورہا تھا اور خون کے قطرے اس سے ٹپک رہے تھے مگر اس زخم میں ایک لذت بھی تھی اور وہ غم سرور سے ملا ہو ا تھا.میں نے افسوس سے اس دنیا کو دیکھا اور کہا کہ ”میں نے پالیا.میں نے پالیا.جب میں نے کہا ”میں نے پالیا.میں نے پالیا تو اُس وقت میری وہی کیفیت تھی جس طرح آج سے دو ہزار سال پہلے تکیا کے پاس ایک بانس کے درخت کے نیچے گوتم بدھ کی تھی جب کہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب اور اُس کا وصال حاصل کرنے کے لئے بیٹھا اور وہ بیٹھا رہا اور بیٹھا رہا یہاں تک کہ بدھ مذہب کی روایات میں لکھا ہے کہ بانس کا درخت اُس کے نیچے سے نکلا اور اُس کے سر کے پار ہو گیا، مگر محویت کی وجہ سے اس کو اس کا کچھ پتہ نہ چلا.یہ تو ایک قصہ ہے جو بعد میں لوگوں نے بنالیا.اصل بات یہ ہے کہ بدھ ایک بانس کے درخت کے نیچے بیٹھا اور وہ دنیا کے را ز کو سوچنے لگا یہاں تک کہ خدا نے اُس پر یہ راز کھول دیا.تب گوتم بدھ نے یکدم اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا ”میں نے پالیا.میں نے پالیا.میری کیفیت بھی اُس وقت یہی تھی.جب میں اس مادی دنیا کی طرف واپس لوٹا تو بے اختیار میں نے کہا ”میں نے پالیا.میں نے پالیا.“ اُس وقت میرے پیچھے میری لڑکی امتہ القیوم بیگم چلی آرہی تھی اُس نے کہا ، ابا جان ! آپ نے کیا پا لیا ؟ میں نے کہا، میں نے بہت کچھ پالیا مگر میں اس وقت تم کو نہیں بتا سکتا.اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میں جلسہ سالانہ پر بتاؤں گا کہ میں نے کیا پایا؟ اُس وقت تم بھی سُن لینا.سو آج میں آپ لوگوں کو بتا تا ہوں کہ میں نے وہاں کیا پایا اور وہ کیا تھا جسے میری اندرونی آنکھ نے دیکھا.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ میں نے اُس وقت وہاں دیکھا وہ وہی تھا جو میں آج بیان "
کرونگا اُس وقت میری آنکھوں کے سامنے سے جو نظارے گزرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جور از مجھ پر کھولا گیا گو وہ تفصیل کے لحاظ سے بہت بڑی چیز ہے اور کئی گھنٹوں میں بھی بیان نہیں ہو سکتی مگر چونکہ فکر میں انسان جلدی سفر طے کر لیتا ہے اس لئے اُس وقت تو اس پر چند منٹ شاید دس یا پندرہ ہی خرچ ہوئے تھے پس جو انکشاف اُس وقت ہوا وہ بطور پیج کے تھا اور جو کچھ میں بیان کروں گا وہ اپنے الفاظ میں اُس کی ترجمانی ہوگی اور اُس کی شاخیں اور اُس کے پتے اور اُس کے پھل بھی اپنی اپنی جگہ پر پیش کئے جائیں گے.اس سفر میں میں نے کیا کچھ دیکھا اب میں قدم بقدم آپ کو بھی اپنے اُس وقت کے خیالات کے ساتھ ساتھ لے جانے کی کوشش کرتا ہوں اور آپ کو بھی اپنی اس سیر میں شامل کرتا ہوں.جب میں اُس وسیع نظارہ کو دیکھ رہا تھا اور سلف کے کارنامے میرے سامنے تھے، میرے دل نے کہا میں کیا دیکھتا ہوں اور رکن گزشتہ دیکھی ہوئی چیزوں کی یاد میرے دل میں تازہ ہو رہی ہے کہ نہ صرف وہ نظارے بلکہ ابتدائی حصہ سفر کے نظارے بھی میری آنکھوں کے سامنے آگئے ، اُس وقت مجھ پر ایک ربودگی کی حالت طاری تھی، مجھے کراچی کے نظارے بھی یاد آ رہے تھے، مجھے حیدر آباد کے نظارے بھی یاد آ رہے تھے ، مجھے آگرہ کے نظارے بھی یاد آ رہے تھے اور دہلی کے نظارے بھی میری آنکھوں کے سامنے تھے.یہ تمام نظارے ایک ایک کر کے میری آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگ گئے اور مجھے یوں معلوم ہؤا کہ گویا میں کہر میں کھڑا ہوں اور ہر چیز دھندلی ہو کر میری آنکھوں کے سامنے سے گزر رہی ہے.غرض میرے دل نے کہا کہ میں کیا دیکھتا ہوں اور رکن گزشتہ نظاروں کی یا دمیرے دل میں تازہ ہو رہی ہے جب یہ سوال میرے دل میں پیدا ہوا تو میرے دل نے جواب دیا کہ :- ا.میں نے قلعے دیکھے ہیں جن کے دو اثر میرے دل پر پڑے ہیں.ایک یہ کہ ان قلعوں کے ذریعہ کیسے کیسے حفاظت کے سامان مسلمان بادشاہوں کی طرف سے پیدا کئے گئے تھے دوسرے یہ کہ کس طرح یہ حفاظت کے سامان خود مٹ گئے اور ان کو دوبارہ بنانے والا کوئی نہیں کیونکہ ان حکومتوں کا نام لیوا اب کوئی نہیں.۲.پھر میں نے کہا دوسری چیز جو میں نے دیکھی ہے مُردہ بادشاہوں کے مقابر ہیں ، اُن بادشاہوں کے جو فوت ہو چکے ہیں مگر اُن کے مقبرے اُن کی یاد دلا رہے ہیں اور اُن کی شوکت کو ہماری آنکھوں کے سامنے لا رہے ہیں.
۳.تیسرے میں نے مساجد دیکھی ہیں ، نہایت خوبصورت مساجد، چھوٹی بھی اور بڑی بھی جو ہزاروں آدمیوں کو خدا تعالیٰ کے ذکر کے لئے جمع کرنے کے لئے کہیں سُرخ اور کہیں سفید پتھر سے تیار کی گئی ہیں.۴.چوتھے میں نے ایک وسیع اور بلند مینار دیکھا ہے، آسمان سے باتیں کرتا ہو اجس کی بلندی کو دیکھ کر انسانی نظر مرعوب ہو جاتی ہے.۵.پانچویں میں نے نوبت خانے دیکھے ہیں جہاں موسیقی سے لوگوں کے جذبات کو ابھارا جاتا تھا، جہاں طبل اور نفیریاں بجتیں اور سپاہیوں کے دل اُچھلنے لگتے اور وہ جنگ کو جنگ نہیں بلکہ بچوں کا کھیل سمجھتے ، اُن کے گھوڑے ہنہنانے لگتے اور اُن کا خون گرم ہو کر جسم میں دوڑنے لگتا اور جہاں سے بادشاہ کے اعلان کو گر جتے ہوئے بادلوں کی طرح نو بتوں کے ذریعہ دنیا کو سُنایا جاتا تھا..چھٹے میں نے باغات دیکھے ہیں جو کسی وقت اپنی سرسبزی و شادابی کی وجہ سے جنت نگاہ تھے اور آنکھوں کو سرور اور دلوں کو لذت بخشا کرتے تھے.ے.ساتویں میں نے کہا.میں نے دیوانِ عام دیکھے ہیں جہاں بادشاہ اپنے انصاف اور عدل سے اپنی رعایا کی تکلیفوں کو دُور کیا کرتے تھے اور آتے ہی اعلان کر دیا کرتے تھے کہ جس شخص پر کوئی ظلم ہو ا ہو وہ ہمارے پاس فور آشکایت کرے جس پر امیر وغریب مٹی کہ بھنگی اور چمار بھی آتا اور بادشاہ کے سامنے فریاد کرتا..آٹھویں میں نے دیوان خاص دیکھتے ہیں جہاں بادشاہ اپنے خاص درباریوں سے راز و نیاز کی باتیں کیا کرتے تھے.۹.نویں میں نے نہریں دیکھی ہیں جو ادھر سے اُدھر پانی پہنچایا کرتی تھیں اور پیاسے درختوں کو نئی زندگی بخشتی تھیں اور جن سے سیراب ہو کر درخت لہرا لہرا کر اپنی بہار دکھایا کرتے تھے.۱۰.دسویں میں نے لنگر خانے دیکھے ہیں جن سے بادشاہوں کے ہم مذہبوں اور اُس کے مذہبی مخالفوں کو بھی الگ الگ کھانے تقسیم ہوا کرتے تھے.مسلمانوں کے الگ لنگر خانے ہوا کرتے تھے اور غیر مذاہب والوں کے الگ.مسلمانوں کے لنگر خانوں میں مسلمان تقسیم کرنے والے ہوتے اور غیر مذاہب کے لنگر خانوں میں غیر مسلم تقسیم کرنے پر مقرر ہوتے.۱۱.گیارہویں میں نے دفتر دیکھے ہیں جہاں تمام ریکارڈ رکھے جاتے تھے اور ہر ضروری امر کو محفوظ رکھا جاتا تھا.
۱۲.بارھویں میں نے کتب خانے دیکھے ہیں جہاں پرانی کتب کے تراجم ہوتے تھے اور پرانے علوم کو محفوظ کیا جاتا تھا.۱۳.تیرھویں میں نے بازار دیکھے ہیں جہاں ہر چیز جس کی انسان کو ضرورت ہو فر وخت ہوتی تھی.۱۴.چودھویں میں نے جنتر منتر دیکھا ہے جو ستاروں کی گردشیں معلوم کرتا تھا اور حساب سنین کو بتا تا تھا یا آئندہ کے تغیر پر روشنی ڈالتا تھا.۱۵.پندرھویں میں نے ایک وسیع سمندر بھی دیکھا ہے جس کا کنارہ تو ہے مگر اُس کا اندازہ لگانا انسانی فطرت کی طاقت سے بالا ہے اور جہاز میں بیٹھنے والا اُسے بے کنا ر ہی سمجھتا ہے جس کے راز دریافت کرنے اور اُس سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ہزاروں بڑے بڑے جہاز جو بعض دفعہ ایک ایک گاؤں کے برابر ہوتے ہیں اور دو دو ہزار آدمی اس میں بیک وقت بیٹھ جاتے ہیں ہر وقت اُس میں چلتے رہتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک وسیع شہر میں ایک چیونٹی پھر رہی ہے.۱۶.سولھویں میں نے آثار قدیمہ کے محکموں کے وہ کمرے دیکھے ہیں جہاں قدیم چیزیں انہوں نے جمع کر رکھی ہیں، کہیں زمین کھود کر انہوں نے سکے نکالے، کہیں زمین کھود کر انہوں نے پرانے کاغذات دستیاب کئے اور کہیں زمین کھود کر انہوں نے پرانے برتن نکالے اور اس طرح پرانے زمانہ کے تمدن اور تہذیب کا نقشہ انہوں نے ان چیزوں کے ذریعہ ہمارے سامنے رکھا.یہ تمام چیزیں ایک ترتیب کے ساتھ رکھی تھیں.پس میں نے آثار قدیمہ کی ان محنتوں کو بھی دیکھا اور پرانے آثار کو نکال کر دنیا کے سامنے پیش کرنے پر میرے دل نے ان کے کام پر آفرین کہی.ایک نئی دنیا جو میری آنکھوں کے سامنے آئی یہ امور تفصیلاً یا اجمالاً اُس وقت میرے ذہن میں آئے اور پھر میرے دل نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا یہ تیری زندگی کا بہترین تجربہ ہے، کیا ان سے بڑھ کر ایسی ہی چیزیں تو نے نہیں دیکھیں ، کیا ان سے بڑھ کر مفید کام تو نے نہیں دیکھے اور کیا ان سے بڑھ کر عبرت کے نظارے تو نے نہیں دیکھے ؟ اور اس سوال کے پیدا ہوتے ہی وہ تمام نظارے جو میری آنکھوں کے سامنے تھے غائب ہو گئے اور ایک اور نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا اور ایک نئی دنیا میری آنکھوں کے سامنے آہستہ آہستہ گزرنے لگ گئی.میں اس نئی دنیا کے آثارِ قدیمہ کو ی
دیکھنے میں مشغول ہوا تو میں نے ایسے ایسے عظیم الشان آثار قدیمہ دیکھے جو ان آثار قدیمہ سے بہت زیادہ شاندار تھے جن کے خیال میں میرا دل محو تھا بلکہ ایک فوق العادت کا رنامہ آثار قدیمہ کی دریافت کا میرے سامنے آ گیا، ایک بڑا جنتر منتر جس کا اندازہ لگانا بھی انسانی طاقت سے بالا ہے میری آنکھوں کے سامنے پیدا ہوا، بڑے بڑے غیر معمولی خوبصورتیوں والے باغات، عدیم المثال نہریں، بے کنا رسمندر، عالیشان قصر، ان کے لنگر خانے ، دیوانِ عام ، دیوان خاص، بازار ہنگر خانے ، کتب خانے ، دفتر ، بے انتہاء بلند مینار اور غیر محدود وسعت والی مسجد ، دلوں کو دہلا دینے والے مقبرے اور مسمار شدہ یادگاریں ایک ایک کر کے میری نگاہوں کے آگے پھرنی شروع ہوئیں اور میں نے کہا اُف میں کہاں آ گیا.یہ چیزیں میرے پاس ہی موجود تھیں ، تمام دنیا کے پاس موجود ہیں، لیکن دنیا ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتی اور بچوں کی طرح کھلونوں کے پیچھے بھاگتی پھرتی ہے.میرا دل خون ہو گیا اپنی بے بسی پر کہ میں یہ چیزیں دنیا کو دکھانے سے قاصر ہوں، میرا دل خون ہو گیا دنیا کی بے توجہی پر ، مگر میرا دل مسرور بھی تھا اُس و خزانے کے پانے پر ، اُن امکانات پر کہ ایک دن میں یا خدا کا کوئی اور بندہ یہ خفی خزانے دنیا کو دکھانے میں کامیاب ہو جائے گا اور میں نے جب ان چیزوں کو دیکھا تو بے اختیار یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہوئے کہ میں نے پالیا.میں نے پالیا.ہاں ہاں یہ یقینی بات ہے کہ تغلق کے قلعہ میں میں نے ایک اور دنیا کو پالیا، ایک بالا دنیا ، ایک بالا طاقت کے نشانات اور میں پہلے اس دنیا میں کھویا گیا ، پھر میں نے ایک اور دنیا کو جو اس سے کہیں زیادہ شاندار کہیں زیادہ وسیع ، کہیں زیادہ پائیدار اور پھر ایک لحاظ سے بوسیدہ کھنڈر اور تباہ حال تھی ، اُسے دیکھا اُسے پایا.اس خستہ حالی پر میرا دل رویا اس کی شان اور پائیداری سے میرا دل مسرور ہوا.اب آؤ میں اس کے کچھ حصہ کی آپ کو سیر کراتا ہوں.-۱- آثار قدیمہ پہلے میں آثار قدیمہ کو لیتا ہوں ، مگر چونکہ ہماری جماعت کے بہت سے زمیندار اصحاب آثار قدیمہ کا مفہوم نہیں سمجھتے ہوں گے اس لئے اُن کی واقفیت کے لئے میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ لفظ عربی زبان کا ہے.اثر کے معنے نشان کے ہوتے ہیں ، اُردو میں بھی کہتے ہیں کہ فلاں چیز
کا کوئی اثر باقی نہیں رہا، آثار اس کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں بہت سے نشانات ، قدیمہ کے معنی پُرانے کے ہیں.پس آثار قدیمہ کے معنی ہوئے پُرانی چیزوں کے نشانات ، وہ عمارتیں جو زمین میں دب کر نظروں سے غائب ہو جاتی ہیں یا پُرانے سکوں ، پرانے کپڑوں ، پرانے برتنوں کی اور پُرانے کاغذوں کو مہیا کرنے کے لئے یہ محکمہ گورنمنٹ نے بنایا ہوا ہے اور اس کا کام ہے کہ خواہ اسے زمین میں دبی ہوئی عمارتیں مل جائیں یا کا غذات مل جائیں یا سکتے مل جائیں انہیں محفوظ کر دے.پس یہ محکمہ پرانی یادگاروں کو تلاش کر کے ان سے پرانے تمدن ، پُرانے حالات اور پرانی ترقیات پر روشنی ڈالتا ہے اور ان کو دنیا میں قائم اور زندہ رکھتا ہے.ایسے آثار قدیمہ کے کمروں میں بعض بوسیدہ کپڑے رکھے ہوئے ہوتے ہیں جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں زمانہ کے ہیں اور ان کو دیکھ کر لوگ اندازہ لگاتے ہیں کہ اُس وقت کے لوگ کس قسم کے کپڑے بنا کرتے تھے ، صناعی کیسی تھی ، یا کچھ پرانے سکے رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ پرانے ہتھیار رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ پرانے کاغذات رکھے ہوئے ہوتے ہیں ، کچھ پرانے ٹوٹے ہوئے گھڑے اور برتن رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ ٹوٹی ہوئی چپلیاں ہوتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کپڑا دو ہزار سال پہلے کا ہے، یہ سکہ آج سے تین ہزار سال پہلے استعمال ہوتا تھا.غرض ان سب چیزوں کو اکٹھا کر کے ایک عجائب خانہ بنا دیتے ہیں.امریکہ تک سے لوگ آتے ہیں اور ان چیزوں کو دیکھ دیکھ کر تعریف کرتے ہیں اور جس کسی نے کوئی پرانا چیتھڑا یا کوئی دوئی اٹھتی تلاش کر کے دی ہوتی ہے اس کی بڑی تعریف ہوتی ہے.کہتے ہیں فلاں تو علامہ ہیں ان کا کیا کہنا ہے، انہوں نے آج سے دو ہزار سال پہلے کی استعمال ہونے والی اٹھتنی بڑی تلاش سے دستیاب کی ہے اور فلاں عجائب خانہ میں پڑی ہے.غرض چند ٹوٹی ہوئی عمارتیں جو زمین میں دب کر نظروں سے غائب ہو گئی تھیں ، چند ٹوٹے ہوئے کتبے ، کچھ بوسیدہ کپڑے، کچھ گھسے ہوئے سکتے ہٹی اور پتھر کے برتن ، پھٹے ہوئے بوسیدہ کا غذات اور دستاویزات محکمہ آثار قدیمہ کی کل کائنات ہوتے ہیں ، جن کو جوڑ جاڑ کر زمانہ سلف کے حالات کو یہ محکمہ اخذ کرتا اور دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور عالم و جاہل اس کی محنت کی داد دیتے اور اس کے کارناموں کو عزت سے بیان کرتے ہیں.میں بھی ان سے متاثر ہوا، مگر تغلق کے قلعہ میں جو آثار قدیمہ میں نے دیکھے انہوں نے ان آثار قدیمہ کو میری نگاہ میں بالکل بے حقیقت بنا دیا کیونکہ وہ ان سے بہت پُرانے ، بہت وسیع ، بہت متنوع اور بہت ہی مفید تھے.
" اور اب میں اس آثار قدیمہ کے دفتر میں آپ کو بھی لے جاتا ہوں اور اس کی ایک دریافت اور تحقیق کو کسی قدر بسط سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور بعض کو اختصار سے پیش کرتا ہوں.یہ امر ظاہر ہے کہ انسانی آثار میں سے سب سے پرانے آثار وہی ہیں جو انسان کی ابتدائی پیدائش اور اس کے ابتدائی کاموں سے تعلق رکھتے ہیں اس کے علاوہ کوئی بھی آثار ہوں خواہ وہ ہزاروں سال کے ہوں بہر حال بعد ہی کے ہوں گے اور آثارِ قدیمہ کے نقطہ نگاہ سے گھٹیا قسم کے.پس میں اس محکمہ کی ایسی ہی تحقیقات کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.اس محکمہ آثار قدیمہ کا نام ہے قرآن اور اس کے انچارج کا نام ہے محمد صلی اللہ علیه وسلم.اس محکمہ میں جو آثار قدیمہ میں نے سب سے پہلے زمانے کے دیکھے اور جن کی گرد کو بھی موجودہ آثار قدیمہ نہیں پہنچتے ، ان کی ایک مثال ذیل میں میں پیش کرتا ہوں.دُنیا کس طرح پیدا ہوئی؟ لوگ حیران ہیں کہ دنیا کس طرح پیدا ہوئی ؟ پہلا انسان کون تھا ؟ وہ کس تمدن پر عمل پیرا تھا ؟ وہ کس طرح اس دنیا میں پیدا ہوا؟ اور اس نے کس طرح اس دنیا کو چلایا ؟ میں نے قرآن کریم کا درس دیتے وقت ہمیشہ دیکھا ہے،مشکل سے مشکل آیت کا میں مفہوم بیان کر رہا ہوتا ہوں تو لوگ بڑے مزے سے اُسے سنتے رہتے ہیں ، مگر جہاں آدم اور شیطان کا قصہ آیا سوالات کی مجھ پر یوں بھر مار شروع ہو جاتی ہے کہ میں خیال کرتا ہوں آدم کے بچے مجھے نوچ نوچ کر کھا جائیں گے اور ان کی خواہش یہ ہے کہ جلد سے جلد انہیں ان کے ابا جان کی گود میں بٹھا آؤں تو لوگوں کے دلوں میں آدم والے واقعہ کے متعلق بے انتہاء جستجو پائی جاتی ہے.وہ سوچتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا کیا کھاتے تھے، کیا پہنتے تھے کہاں رہتے تھے؟ اور یہ صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے لوگوں میں جستجو پائی جاتی ہے.ہندوؤں کا نظریہ انسانی پیدائش کے متعلق ہندوؤں کی تو ساری میتھالوجی اور ان کی ساری بحثیں ہی دنیا کی پیدائش پر ہیں.کہیں لکھا ہے کہ بر ہما جی نہانے گئے تو اُن کی جٹا میں سے جو قطرے گرے اُس سے گنگا بہہ نکلی، کہیں دنیا کی پیدائش کا ذکر آتا ہے تو اس رنگ میں کہ فلاں دیوتا کی فلاں سے لڑائی ہوئی ، دوسرا د یو تا جب مارا گیا تو اُس کی ٹانگوں سے زمین اور اُس کے ہاتھوں سے چاند وغیرہ بن گئے، گویا ہر شخص کے دل میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ معلوم کرے یہ دنیا کس طرح پیدا ہوئی ؟
۱۲ پہلا انسان کون تھا ؟ وہ کس طرح اس دنیا میں پیدا ہوا؟ اور کس طرح اس نے اس دنیا کو چلایا ؟ تورات کا نظریہ انسانی پیدائش کے متعلق تو رات نے اس بارے میں جو نظر یہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے ، میں سب.ہے.پہلے وہی آپ لوگوں کو سناتا ہوں اور بتا تا ہوں کہ تو رات دنیا کی پیدائش کس طرح بتاتی ہے.تو رات میں لکھا ہے :- زمین ویران اور سُنسان تھی اور گہراؤ کے اُوپر اندھیرا تھا اور خدا کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی اور خدا نے کہا کہ اُجالا ہو اور اُجالا ہو گیا اور خدا نے اُجالے کو دیکھا کہ اچھا ہے اور خدا نے اُجالے کو اندھیرے سے جُدا کیا اور خدا نے اُجالے کو دن کہا اور اندھیرے کو رات کہا ، سوشام اور صبح پہلا دن ہوا.اور خدا نے کہا کہ پانیوں کے بیچ فضا ہو وے اور پانیوں کو پانیوں سے جُدا کرے.تب خدا نے فضا کو بنایا اور فضا کے نیچے کے پانیوں کو فضا کے اوپر کے پانیوں سے جُدا کیا اور ایسا ہی ہو گیا اور خدا نے فضا کو آسمان کہا سوشام اور صبح دوسرا دن ہوا.اور خدا نے کہا کہ آسمان کے نیچے کے پانی ایک جگہ جمع ہو دیں کہ خشکی نظر آ وے اور ایسا ہی ہو گیا اور خدا نے خشکی کو زمین کہا اور جمع ہوئے پانیوں کو سمندر کہا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے اور خدا نے کہا کہ زمین گھاس اور نباتات کو جو پیج رکھتیں اور میوہ دار درختوں کو جو اپنی اپنی جنس کے موافق پھلتے جو زمین پر اپنے آپ ہی میں بیج رکھتے ہیں اُگا دے اور ایسا ہی ہو گیا.تب زمین نے گھاس اور نباتات کو جو اپنی اپنی جنس کے موافق پیج رکھتیں اور درختوں کو جو پھل لاتے ہیں جن کے بیج اُن کی جنس کے موافق اُن میں ہیں اُگایا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے سوشام اور صبح تیسرا دن ہوا.اور خدا نے کہا کہ آسمان کی فضا میں نیر ہوں کہ دن اور رات میں فرق کریں اور وے نشانوں اور زمانوں اور دنوں اور برسوں کے باعث ہوں اور وے آسمان کی فضا میں انوار کے لئے ہوویں کہ زمین پر روشنی بخشیں اور ایسا ہی ہو گیا ، سوخدا نے دو بڑے نور بنائے ، ایک نیرِ اعظم جو دن پر حکومت کرے اور ایک نیر اصغر جو رات پر حکومت کرے اور ستاروں کو بھی بنایا اور خدا نے ان کو آسمان کی فضا میں رکھا کہ زمین پر روشنی بخشیں اور دن پر اور رات پر حکومت کریں اور اُجالے کو اندھیرے سے جدا کر یں اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے سو
شام اور صبح چوتھا دن ہوا کے (گویا تو رات کے بیان کے مطابق رات دن پہلے بنے ہیں مگر سورج چاند بعد میں بنے ہیں ، اسی طرح گھاس نباتات اور درخت پہلے اُگے ہیں مگر سورج وغیرہ جن کی شعاعوں کی مدد سے یہ چیزیں اُگتی ہیں بعد میں بنائے گئے ہیں ، کیونکہ لکھا ہے کہ جب گھاس اُگ چُکا، میوه دار درخت تیار ہو چکے، نباتات ظاہر ہو گئی رات دن بن گئے تو اس کے بعد خدا نے دو بڑے نور بنائے.ایک نیر اعظم جو دن پر حکومت کرے اور ایک نیر اصغر جورات پر حکومت کرے ) تب خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت اور اپنی مانند بناویں کہ وے سمندر کی مچھلیوں پر اور آسمان کے پرندوں پر اور مویشیوں پر اور تمام زمین پر اور سب کیڑے مکوڑوں پر جو زمین پر رینگتے ہیں سرداری کریں اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا.خدا کی صورت پر اس کو پیدا کیا ،نرو ناری ان کو پیدا کیا اور خدا نے ان کو برکت دی اور خدا نے انہیں کہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور کرو اور اس کو محکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں پر اور آسمان کے پرندوں پر اور سب چرندوں پر جو زمین پر چلتے ہیں سرداری کرو اور خدا وند خدا نے عدن میں پورب کی طرف ایک باغ لگایا اور آدم کو جسے اس نے بنایا تھا وہاں رکھا ہے اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دے کر کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل کھایا کر، لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا کیونکہ جس دن تو اس سے کھائے گا تو ضرور مرے گا اور خداوند خدا نے کہا کہ اچھا نہیں کہ آدم اکیلا رہے میں اس کے لئے ایک ساتھی اس کی مانند بناؤں گا اور خداوند خدا نے میدان کے ہر ایک جانور اور آسمان کے پرندوں کو زمین سے بنا کر آدم کے پاس پہنچایا تا کہ دیکھے کہ وہ ان کے کیا نام رکھے سو جو آدم نے ہر ایک جانور کو کہا وہی اُس کا نام ٹھہرا اور آدم نے سب مویشیوں اور آسمان کے پرندوں اور ہر ایک جنگلی جانور کا نام رکھا.پر آدم کو اس کی مانند کوئی ساتھی نہ ملا اور خداوند خدا نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا اور اُس نے اُس کی پسلیوں میں سے ایک پہلی نکالی اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا اور خداوند خدا نے اُس پسلی سے جو اُس نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کے آدم کے پاس لایا
۱۴ اور آدم نے کہا کہ اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اس سبب سے وہ ناری کہلا دے گی کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی ھے یہ تو رات کا نظریہ ہے جو اس نے پیدائش عالم کے متعلق دنیا کے سامنے پیش کیا.ڈارون کی تھیوری انسانی پیدائش کے متعلق انیسویں صدی عیسوی میں جب اس مسئلہ پر زیادہ غور کیا گیا اور علومِ جدیدہ کی کے ذریعہ نئ نئی تحقیقا تیں ہوئیں تو سب سے پہلے ایک انگریز نے جس کا نام ڈارون تھا انسانی پیدائش کے متعلق ایک نئی تھیوری پیش کی.اُس کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ : - (۱) انسان ارتقائی قانون کے مطابق بنا ہے یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا اور یہ خیال جو بائبل میں پیش کیا گیا ہے کہ یکدم اللہ تعالیٰ نے انسان کی صورت میں ایک شخص کو بنا کر کھڑا کر دیا یہ درست نہیں بلکہ آہستہ آہستہ لاکھوں بلکہ کروڑوں سالوں میں انسان تیار ہوا ہے.(۲) دوسرے اُس نے یہ مسئلہ نکالا کہ انسان نے جو ترقی کی ہے یہ جانوروں سے کی ہے پہلے دنیا میں چھوٹے جانور بنے ، پھر اس سے بڑے جانور بنے ، پھر اس سے بڑے جانور بنے اور پھر ان جانوروں میں سے کسی جانور سے ترقی کر کے انسان بنا.مگر جس جانور سے ترقی کر کے انسان بنا ہے وہ اب نہیں ملتا کیونکہ یہ کڑی غائب ہے ہاں اتنا پتہ چلتا ہے کہ اسی جانور کی ایک اعلی قسم بندر ہے.گویا ڈارون نے دوسرا نظریہ یہ پیش کیا کہ انسان گوارتقائی قانون کے مطابق بنا ہے مگر اس کا یہ ارتقاء بندروں کی قسم کے ایک جانور سے ہوا ہے جس کی آخری کڑی اب مفقود ہے جس میں سے بعض خاص قسم کے بندر اور انسان نکلے.پہلے امر کی دلیل کہ انسان یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا بلکہ ہزاروں لاکھوں سالوں میں تیار ہو ا ہے وہ یہ دیتا ہے کہ مختلف زمانوں کے انسانوں کی جو کھو پڑیاں اور جسم وغیرہ ملے ہیں ان کے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کھوپڑیوں اور جسموں کا آپس میں بہت بڑا فرق ہے پس یہ خیال کرنا کہ آج سے لاکھوں سال پہلے بھی انسان اسی طرح تھا جس طرح آج ہے غلط ہے اگر یہ بات صحیح ہوتی تو جسموں ، ہڈیوں اور کھوپڑیوں وغیرہ میں کوئی فرق نہ ہوتا ، مگر انسانی جسم کی جو بہت پرانی ہڈیاں نکلی ہیں ان ہڈیوں کے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان اور موجودہ انسانی جسم کی ہڈیوں میں بہت بڑا فرق ہے.اسی طرح موجودہ انسانی دماغ اور پرانے انسانی دماغ میں بھی بہت بڑا فرق نظر آتا ہے پس مختلف زمانوں کے انسانوں کی
۱۵ کھوپڑیوں اور جسم کی ہڈیوں کا اختلاف اس امر کا یقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ انسان ارتقائی قانون کے ماتحت بنا ہے یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا.دوسری دلیل اس فلسفہ کے معتقد اس ارتقاء کی یہ دیتے ہیں کہ ماں کے پیٹ میں جب جنین کی ترقی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس جنین کو اپنی ابتدائی حالتوں میں مختلف قسم کے جانوروں سے مشابہت ہوتی ہے.کبھی وہ جنین خر گوش سے مشابہ ہوتا ہے.کبھی مچھلی سے مشابہ ہوتا ہے اور کبھی کسی اور جانور سے.یہ رحم مادر میں بچے کی پیدائش کی مختلف کیفیات در اصل ابتدائے خلق کی ہی کیفیات ہیں.یعنی پچھلے زمانہ میں جن جن جانوروں کی شکل میں سے انسان گزرا ہے ، ان ساری شکلوں میں سے ایک بچے کو رحم مادر میں سے گزرنا پڑتا ہے.تیسری دلیل اس ارتقاء کی یہ دی جاتی ہے کہ انسان اور دوسرے جانوروں میں ایسی کئی مشابہتیں پائی جاتی ہیں جو اس امر کو ثابت کرتی ہیں کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں اور انسان کو جسم اپنی منفردانہ حیثیت میں نہیں ملا بلکہ جانوروں کے جسم سے ترقی کر کے اُسے ایک اور جسم حاصل ہوا ہے.کہا جاتا ہے کہ اس امر کے ثبوت کے لئے گوریلا وغیرہ قسم کے بندروں کو دیکھ لیا جائے اُن کی انسان سے اتنی شدید مشابہت ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ الگ بنے ہیں اور یہ الگ، گویا ارتقاء کی تیسری دلیل وہ مشابہتیں دیتے ہیں جو انسان کو بعض دوسرے جانوروں سے اور دوسرے جانوروں کو آپس میں یا اپنے سے نیچے کے جانوروں سے ہیں.دوسرا دعوئی ڈارون نے یہ کیا تھا کہ انسان اور بندر کا ارتقاء ایک جانور سے ہوا ہے جو اب مفقود ہے.اس کے ثبوت میں وہ یہ امر پیش کرتا ہے کہ بندروں کی بعض اقسام کو انسان سے انتہائی مشابہت ہے مگر وہ کہتا ہے کہ درمیان میں ایک کڑی غائب ہوگئی ہے اور اس مفقودکٹری کا ثبوت وہ فاصلہ ہے جو طبعی طور پر بندروں کی موجودہ قسم اور انسان میں ، اور بندروں اور ان سے ادنیٰ قسم کے جانوروں میں نہ پایا جانا چاہئے تھا مگر چونکہ ہمیں ایک طرف بندروں اور انسان میں انتہائی مشابہت نظر آتی ہے اور دوسری طرف بندروں اور ان سے نچلے درجہ کے جانوروں میں ایک فاصلہ نظر آتا ہے جو طبعی طور پر نہیں پایا جانا چاہیئے تھا اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ درمیان کی میں سے کوئی کڑی غائب ہوگئی ہے جس سے انسان اور بندر نے ترقی کر کے اپنی موجودہ شکل کو اختیار کیا تھی یہ زنجیر مکمل نہیں بنتی.ہیکل کا نظریہ انسانی پیدائش کے متعلق ہیکل کے ایک اور مفکر ہے وہ ڈارون کے اس فلسفہ پر غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا
۱۶ ہے کہ وہ جانور جو ہمیں نہیں ملتا اُس کا نام لیپوٹائیلو (LIPOTYLU) ہے.یہ جانور درمیان میں سے غائب ہو گیا ہے اگر یہ مل جائے تو وہ کڑی جو درمیان سے ٹوٹتی ہے مکمل ہو جائے اور و انسانی ارتقاء کے مسئلہ میں کوئی بات منہم نہ رہے.اس قسم کے اکثر مفکر گوریلا اور چمپنزی (CHIMPANZEE) قسم کے بندروں کے آباء کو انسانی نسل کے آباء قرار دیتے ہیں.جب ڈارون نے انسانی پیدائش کے متعلق یہ فلسفہ پیش کیا تو انگریزوں میں سے ہی بعض کی نے اس فلسفہ پر اعتراض کیا اور کہا کہ انسان اور گوریلا میں اس قدر اختلاف ہے کہ اس کی موجودگی میں کسی صورت میں بھی یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ گوریلا وغیرہ اقسام کے بندروں کے آباء ہی انسانی نسل کے آباء تھے اس پر ہکسلے نے انہی اختلافات کو جو انسان اور گوریلا میں ہیں اور جو پہلے ارتقاء کے خلاف پیش کئے جاتے تھے ارتقاء کے ثبوت میں پیش کر دیا اس طرح کہ اس نے کہا کہ جو اختلاف انسان اور گوریلا میں ہے اس سے بہت زیادہ اختلاف گوریلا اور بعض دوسری قسم کے بندروں میں ہے.اب بتاؤ کہ اس اختلاف کے باوجود تم ان سب کو بندر مانتے ہو یا نہیں؟ جب مانتے ہو تو اگر ارتقاء میں بعض بندر بعض دوسرے بندروں سے اس قدر دُور جا سکتے ہیں تو کیوں انسان گوریلا سے دور نہیں جاسکتا.پس یہ اختلاف ارتقاء کے خلاف نہیں بلکہ اس کا ایک ثبوت ہے.موجودہ زمانہ کی تحقیق موجودہ تحقیق جو قریب زمانہ میں ہوئی ہے اور جس کے مؤید ایک تو پر و فیسر جونز ہیں اور ایک ڈاکٹر آسبرن.وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ گوانسان نے ارتقائی قانون کے ماتحت ہی ترقی کی ہے مگر وہ حیوانات کی نسل سے بہت پہلے سے جُدا ہو چکا تھا اور اُس وقت سے آزادانہ ترقی کر رہا تھا.گویا انسان کی جانوروں سے جدائی اُس بندر سے نہیں ہوئی جس بندر سے جُدائی ڈارون پیش کرتا ہے بلکہ اس سے بہت پہلے ہو چکی تھی مگر بہر حال انسانی ترقی ارتقاء کے ماتحت ہوئی ہے یکدم نہیں ہوئی.انسانی تہذیب کے تین بڑے دور اس کے ساتھ ہی آثار قدیمہ والوں نے یہ دریافت کیا ہے کہ انسانی تہذیب پر تین دور آئے ہیں.(۱) ایک دور تو پتھروں کے استعمال کرنے کا تھا یعنی ابتداء میں جب انسان نے تہذیب و تمدن کے دور میں اپنا پہلا قدم رکھا ہے تو اُس وقت چونکہ یہ جانوروں سے ہی ترقی کر کے انسان کی بنا تھا اور اس کے پنجے نہیں تھے جن سے دوسرے جانور کام لے لیا کرتے ہیں اور نہ ان کی طرح اس کے تیز دانت تھے اس لئے اس نے اپنی حفاظت کیلئے پتھروں کا استعمال شروع کر
دیا.پس پہلا دور انسانی تہذیب پر پتھروں کے استعمال کا آیا ہے.(۲) پھر پیتل کے استعمال کا دور آیا.یعنی جب انسان نے اور زیادہ ترقی کی تو اس نے اپنی حفاظت کے لئے ڈھالیں وغیرہ بنا لیں.(۳) اور تیسرا دور لوہے کے استعمال کرنے کا تھا جب کہ انسان نے اپنی حفاظت کے لئے نیزے اور تلوار میں وغیرہ ایجاد کیں.آثارِ قدیمہ والوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ پُرانی عمارتوں کے کھودنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان قدیم زمانہ سے کسی نہ کسی تہذیب کا حامل ضرور رہا ہے.پیدائش انسانی کے متعلق قرآنی نظریہ اب میں آن آثار قدیمہ کو پیش کرتا ہوں جنہیں قرآن کریم نے انسان کی پیدائش اور اس کی تہذیب کے بارہ میں پیش کیا.پہلا حوالہ اس بارہ میں سورۃ نوح کا ہے جہاں آثارِ قدیمہ کی کچھ مثالیں پیش کی گئی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا - اَلَمْ تَرَوُا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَوَاتٍ طِبَاقًا وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَّ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا - وَاللهُ أنْبَتَكُم مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتاً ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجَاك موجودہ زمانہ میں جو تحقیق انسانی پیدائش کے متعلق کی گئی ہے اس کے مقابلہ میں قرآن کریم کی جو تحقیق ہے اس کا کچھ ذکر ان آیات میں ہے جو ابھی میں نے پڑھی ہیں ، ان آیات میں اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام کی زبان سے یہ کہلواتا ہے کہ اے انسا نو ! تمہیں کیا ہو گیا کہ تم یہ خیال نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ بے حکمت کام نہیں کیا کرتا اور جب بھی وہ کوئی کام کرتا ہے حکمت سے کرتا ہے تم اپنے متعلق تو یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی شخص تمہیں یہ کہے کہ تم نے فلاں کام بیوقوفی کا کیا اور اگر کوئی کہے تو اس پر بُر امناتے ہو مگر تم خدا کے متعلق یہ کہتے رہتے ہو کہ اُس نے انسان کو بغیر کسی غرض کے پیدا کر دیا.تمہیں کیا ہو گیا کہ تم اتنی موٹی بات کو بھی نہیں سمجھتے کہ وَقَدْ خَلَقَكُمْ اَطوَارًا اُس نے تمہیں یکدم پیدا نہیں کیا بلکہ قدم بقدم کئی دوروں میں سے گزارتے ہوئے بنایا ہے.اَلَمْ تَرَوُاكَيْفَ خَلَقَ اللهُ سَبْعَ سَمَوَاتٍ طِبَاقًا وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا ه کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کو ایک دوسرے کی مطابقت کی
۱۸ میں رہنے والا بنایا ہے اسی طرح اُس نے چاند بنایا اُس نے سورج بنایا.وَاللهُ أَنْبَتَكُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا - ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيْهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْوَاجًا اور انہیں دوروں میں سے جن میں خدا تعالیٰ نے تمہیں گزارا، ایک دور یہ بھی تھا کہ خدا نے تمہیں زمین میں سے نکالا اور آہستہ آہستہ تمہیں اپنے موجودہ کمال تک پہنچایا.پیدائش انسانی کے مختلف دور یہ ابتدائی پیدائش کا نقشہ ہے جو قرآن کریم نے کھینچا.اس سے ظاہر ہے کہ ارتقاء کا وہ مسئلہ جسے یورپ والے آج پیش کر رہے ہیں قرآن کریم نے آج سے تیرہ سو سال پہلے ظاہر کر دیا تھا اور بتا دیا تھا کہ یہ صحیح نہیں کہ انسان یکدم پیدا ہو گیا یا خُدا نے یوں کیا ہو کہ مٹی گوندھی اور اُس سے ایک انسانی بُبت بنا کر اُس میں پھونک ماردی اور وہ چلتا پھرتا انسان بن گیا بلکہ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا اُس نے کئی دوروں میں سے گزارتے ہوئے تمہیں یہاں تک پہنچایا ہے.وَاللَّهُ أَنْبَتَكُمْ مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا.اور یہ جو درجہ بدرجہ ترقی ہوئی ہے اس میں انسان کی پیدائش دراصل زمین سے شروع ہوتی ہے.پھر ہم اسے بڑھاتے بڑھاتے کہیں کا کہیں لے گئے ہیں.گویا اسلام نے صاف طور پر آج سے تیرہ سو سال پہلے بتا دیا تھا کہ انسان یکدم نہیں بنا بلکہ وہ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا کے مطابق کئی دوروں میں تیار ہوا ہے اور وَاللهُ أَنْبَتَكُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا کے مطابق سب سے پہلے وہ زمین سے تیار ہوا ہے مگر کیا ہی عجیب بات ہے کہ قرآن کریم نے تو یہ دو باتیں پیش کی تھیں کہ انسان آہستہ آہستہ تیار ہوا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ زمین میں سے پیدا ہوا ہے مگر مسلمانوں نے ان دونوں باتوں کورڈ کر دیا اور ایک طرف تو انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے یکدم بنادیا تھا اور دوسری طرف اس امر کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ یہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے انسان کو زمین میں سے تیار کیا ہے یہ کہنا شروع کر دیا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے پہلے جنت سماوی میں پیدا کیا پھر زمین پر پھینک دیا اور تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک روحوں کی تھیلی ہے وہ جس شخص کو زمین پر بھیجنا چاہتا ہے اُس کی روح چھوڑ دیتا ہے گویا جس طرح بٹیرے پکڑنے والے اپنی تھیلیوں میں سے ایک ایک بٹیرہ نکالتے جاتے ہیں ، اسی طرح خدا پہلے ایک رُوح چھوڑتا ہے پھر دوسری پھر تیسری گویا اس زمانہ کے علماء نے یہ ٹھیکہ لے لیا ہے کہ قرآن کریم میں جو بات لکھی ہوگی اس کے وہ کی ضرور خلاف کریں گے.اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تسلیم کیا ہے کہ انسانی پیدائش آہستگی سے ہوئی
۱۹ ہے اور فرمایا ہے کہ اس میں حکمت تھی.اگر پیدائش اس رنگ میں نہ ہوتی تو بہت سے نقائص رہ جاتے مگر آجکل کے علماء اس بارہ میں جو کچھ عقیدہ رکھتے ہیں اس کا پتہ اس سے لگ جاتا ہے کہ مولوی سید سرور شاہ صاحب سنایا کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کے ایک اُستاد نے لڑکوں کو بتایا کہ دنیا میں جو ہمیں بہت بڑا تفاوت نظر آتا ہے، کوئی خوبصورت ہے کوئی بدصورت اور کوئی درمیانی صورت رکھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کرنا چاہا تو اُس نے کہا کہ آؤ میں انسان بنانے کا کسی کو ٹھیکہ دے دوں.چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں کو ٹھیکہ دے دیا اور اُن سے کہا کہ میں شام تک تم سے اتنے آدمی لے لوں گا.خیر پہلے تو وہ شوق اور محنت سے کام کرتے رہے اور انہوں نے بڑی محنت سے مٹی گوندھی پھر نہایت احتیاط سے لوگوں کے ناک، کان ، آنکھ ، منہ اور دوسرے اعضاء بنائے اور اس طرح دو پہر تک بڑی سرگرمی سے مشغول رہے ، اِس دوران میں جو آدمی ان کے ذریعہ تیار ہو گئے وہ نہایت حسین اور خوبصورت بنے مگر جب دو پہر ہوگئی اور انہوں نے دیکھا کہ ابھی کام بہت رہتا ہے اور وقت تھوڑا رہ گیا ہے تو انہوں نے جلدی جلدی کام شروع کر دیا اور کچھ زیادہ احتیاط اور توجہ سے کام نہ لیا اور اس طرح عصر کی تک کام کرتے رہے اس دوران میں جو لوگ تیار ہوئے وہ درمیانی شکلوں کے تھے مگر جب کو انہوں نے دیکھا کہ عصر ہوگئی ہے اور اب سورج غروب ہی ہونے والا ہے اور ٹھیکہ کے مطابق تعداد تیار نہیں ہوئی تو انہوں نے یوں کرنا شروع کر دیا کہ مٹی کا گولہ اُٹھا ئیں اور اُسے دو تھپکیاں دے کر بُت بنا کر منہ کی جگہ ایک اُنگلی ماردیں اور آنکھوں کی جگہ دو انگلیاں اور اس طرح جلدی جلدی آدمی بناتے جائیں یہ آدمی بدصورت بنے جو بد صورت قوموں کے آباء ہو گئے.اب یہ ہے تو دین سے تمسخر اور استہزاء مگر حقیقت یہ ہے کہ عام طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں میں پیدائش انسانی کے متعلق ایسے ہی خیالات رائج ہو چکے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی طرح بنایا ہے کہ مٹی کو گوندھا اور انسانی بُت بنا کر اس کے سوراخ بنا دیئے اور پھر ایک پھونک ماری اور وہ جیتا جاگتا انسان بن گیا ، مگر اسلام یہ نہیں کہتا.وہ کہتا ہے کہ ہم نے تم کو کئی دوروں سے گزارا ہے اور خاص حکمت کو مد نظر رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ بنایا ہے یہ نہیں کہ تمہیں یکدم بنا دیا ہو.انسانی پیدائش کا دور اول عدم سے شروع ہوا دوسری بات قرآن کریم ہے ، معلوم ہوتی ہے کہ انسانی پیدائش کا
دور اول عدم تھا.یہ اختلاف دنیا میں ہمیشہ سے چلا آیا ہے کہ دنیا کی ابتداء کس طرح ہوئی ؟ آریہ کہتے ہیں کہ مادہ جس سے تمام دنیا کی تخلیق ہوئی یہ ازلی ہے.خدا نے صرف اتنا کیا ہے کہ مادہ اور رُوح کو جوڑ جاڑ دیا اور اس طرح انسان بن گیا ، مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ عقیدہ غلط ہے مادہ از لی نہیں بلکہ اسے خدا نے پیدا کیا ہے اور یہ کہ پہلے کچھ نہ تھا پھر خدا نے انسان کو پیدا کیا.چنانچہ فرماتا ہے.اَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنْسَانُ انَّا خَلَقْهُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا کہ کیا انسان کو یہ بات معلوم نہیں کہ ہم نے جب اُسے پیدا کیا تو وہ اُس وقت کوئی شئے بھی نہیں تھا.آجکل کی پیدائش اور قسم کی ہے آجکل نطفہ سے انسان پیدا ہوتا ہے.اس آیت میں جس خلق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ موجودہ دور سے بہت پہلے کی ہے.گویا ابتدائی حالت انسان کی عدم تھی.پھر خدا اسے عالم وجود میں لایا مگر یہ یا درکھنا چاہئے کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ عدم سے وجود پیدا ہوا بلکہ وہ کہتا ہے کہ پہلے عدم تھا پھر وجود ہوا.یہ دھوکا زیادہ تر سے" کے لفظ سے لگتا ہے کیونکہ ” سے کا لفظ اُردو زبان میں مادہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے.کہتے ہیں لکڑی سے کھلونا بنایا یا لوہے سے زنجیر بنائی.جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ پہلے لکڑی اور لوہا موجود تھا جس سے اور چیزیں بنائی گئیں.اس لئے جب مسلمانوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو عدم سے بنایا تو غیر مذاہب والے اعتراض کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ جب کچھ بھی نہیں تھا تو اس سے خدا نے انسان کو بنا یا کس طرح؟ پس یا د رکھنا چاہئے کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ عدم سے انسان بنا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ پہلے عدم تھا پھر اس کا وجود ہو ا.پس خدا نے عدم سے انسان کو نہیں بنایا بلکہ اپنے حکم کے ماتحت بنایا ہے مگر یہ کہ اُسے کس طرح بنایا ہے اس کا ذکر خدا تعالیٰ نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس کے سمجھنے کی انسان میں قابلیت نہیں.اگر انسان اس کو سمجھ سکتا تو وہ بھی انسان بنانے پر قادر ہوتا.وجو د انسانی کے دور ثانی کی کیفیت انسان کا دورثانی قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ میں انسانی وجود تو تھا مگر بلا دماغ کے.گویا انسانی وجود تو تھا مگر انسان نہ تھا اور نہ اس کی حالت کو سوچنے والا کوئی دماغ تھا ، گویا دماغی ارتقاء سے پہلے کی حالت میں تھا.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اُس وقت جمادی رنگ میں تھا یا نباتی رنگ میں.مگر بہر حال خواہ وہ اُس وقت جمادی رنگ میں ہو خواہ نباتی رنگ میں ، حیوانی رنگ میں نہیں تھا اور اس کا پتہ بھی قرآن کریم سے لگتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنُ شَيْئًا مَّدُ كُورًا " کہ کیا انسان کو یہ معلوم ہے یا نہیں کہ انسان کے
۲۱ پر یقیناً ایک ایسا زمانہ گزر چکا ہے جب کہ وجودِ انسانی تو موجود تھا مگر مذکور نہیں تھا وہ یاد نہیں کیا جاتا تھا.گویا حس شناخت جو انسان میں موجود ہے وہ اُس وقت نہیں تھی.ایک وجود موجود تھا مگر بغیر عقل اور بغیر شعور کے ، ایک دوسرے کے متعلق اسے کوئی واقفیت نہ تھی.اسے کوئی علم نہ تھا کیونکہ یہ باتیں دماغ سے تعلق رکھتی ہیں اور دماغ دورثانی میں نہیں تھا.انسانی پیدائش کا تیسرا دور تیرا دور قرآن کریم سے انسانی پیدائش کے متعلق وہ معلوم ہوتا ہے جب کہ وہ ایسی شکل میں آیا کہ اس کی پیدائش نطفہ سے ہونے لگی یعنی مرد و عورت کے تعلق سے اور اُس وقت سے اس کے مزاج میں تنوع پیدا ہوا.حیوانوں میں سے بھی بعض حیوان نر و مادہ نہیں ہوتے ، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر انسان پر وہ دور آیا جب کہ اُسے نر و مادہ میں تقسیم کر دیا گیا یعنی حیوان بنا اور حیوان سے ترقی کر کے اُس حالت کو پہنچا کہ جب تناسل نطفہ سے شروع ہو جاتی ہے جو بات کہ اعلیٰ درجہ کے حیوانوں میں پائی جاتی ہے اور پھر اس سے ترقی کر کے وہ ایسا حیوان بنا جو نطفہ امشاج سے بنتا ہے یعنی اس کے اندر مختلف قومی پیدا کئے گئے.اللہ تعالیٰ اس امر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ أَمْشَاجِ نَّبْتَلِيْهِ ا کہ ہم نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا جو مرکب تھا اور جس کے اندر بہت سے اجزاء ملائے گئے تھے کیونکہ ہم نے اس سے مرکب قسم کا کام لینا تھا.پس چونکہ ہم نے اس سے مرکب کام لینا تھا اس لئے ہم نے نطفہ میں بھی مرتب کی طاقتیں رکھ دیں یہ تیسرا دور ہے جو انسانی پیدائش پر آیا.ہے.انسانی پیدائش کا چوتھا دور چوتھا دور انسانی پیدائش پر وہ آیا جب کہ انسانی دماغ کامل ہو گیا اور اس میں سمجھ اور ترقی کا مادہ پیدا ہو گیا گویا اب دماغی ارتقاء اور دماغی قوتوں کے ظہور کا زمانہ آ گیا اور وہ سامع اور باصر وجود سے سمیع اور بصیر وجود بنا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا اس دور میں جب کہ انسانی پیدائش نطفہ سے ہونے لگ گئی تھی اور وہ ذَكَر وانثی بن گئے تھے ابھی ان میں انسانیت نہیں آئی تھی بلکہ حیوانیت ہی تھی کیونکہ گونر و مادہ کی تمیز پیدا ہوگئی تھی مگر یہ تمیز حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے اس طرح گو اُس دور میں انسان باصر اور سامع تھا جیسا کہ حیوان بھی باصر اور سامع ہوتا ہے حیوان بھی دوسروں کو دیکھتا اور حیوان بھی آہٹ کو سُن لیتا ہے پس اس دور میں وہ ایک حیوان تھا مگر اس کے بعد دور رابع اس پر وہ آیا جب کہ دماغی اور ذہنی ارتقاء کی وجہ سے تحقیق اور
۲۲ تجسس کا مادہ اس میں پیدا ہو گیا اور وہ بصیر اور سمیع بن گیا.دیکھتا تو ایک جانور بھی ہے مگر وہ باصر ہوتا ہے بصیر نہیں ہوتا.بصیر وہ ہوتا ہے جو عقل سے کام لے اور گرید، تحقیق اور ایجاد کا مادہ اس میں موجود ہو اور یہ انسانی صفات ہی ہیں حیوانی نہیں.پس چوتھا دور انسان پر وہ آیا جب کہ وہ سامع اور باصر وجود سے سمیع و بصیر بنا یعنی گرید، تحقیق ایجاد اور ترقی کا مادہ اس میں پیدا ہو گیا کی اور وہ حیوانی حالت سے ترقی کر کے حیوانِ ناطق بن گیا.یہ سب دوروں کی ابتدائی کڑیاں ہیں، درمیانی زمانوں کا ذکر خدا تعالیٰ نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں وہ ضروری باتوں کا ذکر کر دیتا اور باقی امور کی دریافت کو انسانی عقل پر چھوڑ دیتا ہے پس ان چار دوروں کا یہ مطلب نہیں کہ انسان پر یہی چار دور آئے بلکہ یہ چار دوروں کی ابتدائی کڑیاں ہیں ان کے درمیان اور بھی بہت سی کڑیاں ہیں چنانچہ بعض درمیانی کڑیوں کا حال بھی قرآن کریم کی بعض اور آیات سے معلوم ہوتا ہے مثلاً فرما تا ہے.وَاللهُ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا " پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ وَاللهُ أَنْبَتَكُمْ مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا کہ خدا نے تمہیں زمین میں سے نکالا ہے اور یہاں یہ فرمایا ہے کہ خدا نے تمہیں خشک مٹی میں سے پیدا کیا ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ پھر نطفہ سے پیدا کیا یہاں پھر درمیانی دوروں اور درمیانی دوروں کی مختلف کڑیوں کا ذکر چھوڑ دیا ہے.چنانچہ میں آگے چل کر ثابت کرونگا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واقع میں بعض دور چھوڑ دیئے ہیں.غرض فرماتا ہے پھر ہم نے نطفہ بنایا اور تم نرومادہ سے پیدا ہونے لگ گئے.ثُمَّ جَعَلَكُمْ اَزْوَاجًا پھر ہم نے تم کو انسانِ کامل بنایا ، ایک ایسا انسان جو تمدنی صورت اختیار کر گیا اور با قاعدہ نظام میں منسلک ہو گیا.لفظ ازواج کی تشریح یہاں ازواج کے معنے مرد عورت کے نہیں کیونکہ پہلے نطفے کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا اس نے تم کو ازواج بنایا.اگر ازواج کے معنے مرد عورت کے ہی ہوں تو ان الفاظ کے الگ لانے کی کوئی ضرورت نہ تھی.نطفہ کے ذکر میں ہی یہ بات آ سکتی تھی کیونکہ نطفہ سے اسی وقت پیدائش ہوتی ہے جب مرد عورت دونوں موجود ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے پہلے نطفہ کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ازواج سے مراد مرد و عورت نہیں بلکہ کچھ اور مراد ہے.
۲۳ حقیقت یہ ہے کہ یہاں اَزْوَاجاً سے مراد اقسام ہیں نہ کہ مرد وعورت ، ورنہ نطفہ تو ہوتا ہی زوج کے وقت سے ہے اور اس کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ زوج کے معنے عربی زبان میں صنف کے بھی ہوتے ہیں اور یہی معنے اس جگہ مراد ہیں ، پس اَزْوَاجًا سے مراد اَصْنَافًا ہیں نہ کہ مرد و عورت اور مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری دماغی ترقی ہوئی تو تم میں مختلف قسم کے گروہ پیدا کی ہو گئے اور پارٹیاں بنی شروع ہو گئیں غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ پہلے انسان خرابی حالت میں تھا یعنی جمادی حالت میں پھر اس پر ایک زمانہ آیا ( درمیانی زمانہ کا ذکر اس جگہ چھوڑ دیا ہے ) کہ وہ حیوانی صورت اختیار کر گیا اور مرد و عورت سے اس کی پیدائش ہونے لگی ( پھر درمیانی زمانہ کا ذکر چھوڑ دیا ہے ) پھر وہ زمانہ آیا کہ وہ ترقی کر کے تمدنی صورت اختیار کر گیا اور باقاعدہ ایک نظام میں منسلک ہو گیا.اسی طرح درمیانی کڑیوں میں سے ایک کڑی طینی حالت بھی ہے جب کہ شراب سے پانی ملا، چنا نچہ حیات انسانی کا مادہ پانی ہونے کے متعلق فرماتا ہے وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيَ اَفَلَا يُؤْمِنُونَ ۵ کہ کیا تمہیں معلوم نہیں ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندگی بخشی ہے اگر پانی نہ ہوتا تو حیات انسانی کا مادہ بھی پیدا نہ ہوتا، پھر یہ کڑی کہ پانی مٹی سے ملا اور اس سے پیدائش ہوئی اس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِ نُسَانِ مِنْ طِينِ ) کہ خدا نے انسان کو طین سے پیدا کیا.گویا پانی اور مٹی باہم ملائے گئے اور ان دونوں کے ملانے سے جو حالت پیدا ہوئی اس کے نتیجہ میں زندگی کا ذرہ پیدا ہوا اور ترقی کرتے کرتے انسان اپنے معراج کمال کو پہنچ گیا.اس بات کا ثبوت کہ کڑیاں درمیان سے حذف بھی کر دی جاتی ہیں اس بات سے ملتا ہے کہ اوپر کی آیت میں بتایا ہے کہ انسان کی پیدائش اول طین سے ہوئی اس کے بعد فرماتا ہے.ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِنْ سُللَةٍ مِّنْ مَّاءٍ مَّهِيْنِ که پیدائش ثانی طین سے نہیں بلکہ مَاءٍ مَّهِينٍ یعنی نطفہ سے ہوئی ہے اور ہم نے بجائے مٹی اور پانی کے نسل انسانی کے لئے نطفہ کا سلسلہ جاری کر دیا.جیسا کہ ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلَمْ نَخْلُقُكُمْ مِّنْ مَّاءٍ مَّهِينٍ.فَجَعَلْنَهُ فِي قَرَارٍ مَّكِيْنِ إِلَی قَدَرٍ مَّعْلُومٍ 11 یعنی کیا ہم نے تم کو ایک کمزور اور حقیر پانی کی بوند سے پیدا نہیں کیا اور پھر اس کمزور اور حقیر بوند کو ایک قرار وثبات کی جگہ میں ایک زمانہ تک رکھ کر پیدا نہیں کیا ؟ پس صاف معلوم ہو گیا کہ مٹی کی حالت ایک وقت کی تھی پھر وہ وقت آیا جب کہ مٹی اور پانی
۲۴ ملایا گیا، مگر نسل انسانی جو پیدا ہوئی ہے یہ مٹی سے نہیں بلکہ نطفہ سے ہوئی ہے پس مٹی والا زمانہ اور ہے پانی والا زمانہ اور ہےاور نطفے والا زمانہ اور ہے.پیدائشِ انسانی کے متعلق عام قرآنی اصول پھر عام اصول پیدائش کا قرآن کریم نے یہ بتایا کہ وَاَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنْتَهى.وَأَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى وَأَنَّهُ هُوَاَمَاتَ وَاَحْيى.وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْا نُثَى.نُّطْفَةٍ إِذَا تُمْنى.وَ أَنَّ عَلَيْهِ النَّشَاةَ الأخرى 19 که دیکھو تمہاری ابتداء خدا سے ہوئی اور تمہاری انتہاء بھی خدا تک جاتی ہے تمہاری حالت ایسی ہی ہے جیسے قوس کے درمیان وتر ہوتا ہے جس طرح کمان کو خم دیدیا جائے تو اس کے دونوں اطراف آپس میں مل جاتے ہیں.اسی طرح اگر تم اپنی پیدائش کی طرف چلتے چلے جاؤا اور دیکھو کہ تم کس طرح پیدا ہوئے تو تمہیں ایک خدا اس تمام خلق کے پیچھے نظر آئے گا.اور اگر تم دیکھو کہ مرنے کے بعد انسان کہاں جاتا ہے تو وہاں بھی تمہیں خدا ہی دکھائی دے گا، گویا انسان کی پیدائش بھی خدا تعالیٰ سے شروع ہوتی ہے اور اس کی انتہا بھی خدا تعالیٰ پر ہے اور بار یک در باریک ہوتے ہوئے آخر خدا تعالیٰ پر سبپ اولی ختم ہو جاتا ہے.یہ اوپر کی آیات جو میں نے پڑھی ہیں ان سے یہ نتائج نکلتے ہیں کہ : - (۱) انسان مادہ ازلی نہیں ہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے ہاتھوں سے پیدا کیا گیا ہے.(۲) دوسرے یہ کہ انسان کی پیدائش ارتقاء سے ہوئی ہے یہ نہیں ہوا کہ وہ یکدم پیدا ہو گیا.(۳) تیسرے یہ کہ انسان ، انسان کی حیثیت سے ہی پیدا کیا گیا ہے.یہ خیال صحیح نہیں کہ بندروں کی کسی قسم سے ترقی کر کے انسان بنا جیسا کہ ڈارون کہتا ہے.(۴) چوتھے یہ کہ پہلے وہ جمادی دور سے گزرا ہے یعنی ایسی حالت سے جو جمادات والی حالت تھی.(۵) پانچویں یہ کہ اس کے بعد وہ حیوانی حالت میں آیا جب کہ اس میں زندگی پیدا ہوگئی تھی ، لیکن ابھی اس میں عقل پیدا نہ ہوئی تھی.وہ جانوروں کی طرح چلتا پھرتا اور کھا تا پیتا تھا.(۶) اس کے بعد اس میں عقل پیدا ہوئی اور وہ حیوانِ ناطق ہو گیا مگر ابھی چونکہ اس میں کچھ کسر باقی تھی اس لئے پھر (۷) اُس نے اور زیادہ ترقی کی اور وہ اس حالت سے بڑھ کر متمدن انسان ہو گیا جس کا اشارہ اللہ تعالیٰ نے ثُمَّ جَعَلَكُمُ اَزْوَاجًات میں کیا ہے یعنی انفرادی ترقی کی جگہ نظام
۲۵ اور قانون کی ترقی نے لے لی اور پارٹی سسٹم شروع ہو گیا اور اب بجائے اس کے کہ ہر انسان الگ الگ کام کرتا جیسے بندر اور سو راور گتے وغیرہ کرتے ہیں.انسان نے مل کر کام کرنا شروع کر دیا اور نظام اور قانون کی ترقی شروع ہوئی.یہ چار بڑے بڑے دور ہیں جو قرآن کریم سے معلوم ہوتے ہیں یعنی :- (۱) جمادی دور (۲) حیوانی دور (۳) عقل کا دور اور (۴) متمدن انسان کا دور.ان کے درمیان اور بھی کڑیاں ہیں لیکن وہ حذف کر دی گئی ہیں.اس تمہید کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انسانی دور دراصل وہی کہلا سکتا ہے جب کہ بشر نے عقل حاصل کی.جب تک اسے عقل حاصل نہیں تھی وہ ایک حیوان تھا گو خدا کے مد نظر یہی تھا کہ وہ اسے ایک باشعور اور متمدن انسان بنائے مگر بہر حال جب تک اس میں عقل نہیں تھی وہ انسان نہیں کہلا سکتا تھا اُس وقت اس کی ایسی ہی حالت تھی جیسے ماں کے پیٹ میں بچہ ہوتا ہے.اب ماں کے پیٹ میں جب بچہ ہوتا ہے تو وہ انسانی بچہ ہی ہوتا ہے گتا نہیں ہوتا مگر چونکہ اس میں ابھی بہت کچھ کمزوری ہوتی ہے اس لئے وہ کامل انسان بھی نہیں ہوتا.اسی طرح انہیں انسانی شکل تو حاصل تھی مگر انسانیت کے کمالات انہوں نے حاصل نہیں کئے تھے اور نہ ابھی تک ان میں عقل پیدا ہوئی تھی.انسان کہلانے کا وہ اُسی وقت مستحق تھا جب کہ اس نے عقل حاصل کی لیکن اس دور کی کو بھی حقیقی معنوں میں دور انسانیت نہیں کہا جا سکتا کیونکہ انسان کی کامل خصوصیت عقل نہیں بلکہ نظام اور قانون کے ماتحت زندگی بسر کرنا ہے اور یہی انسانی پیدائش کا مقصود ہے اسی لئے میں اصطلاحا عقل والے دور کو بشری دور اول کہوں گا اور نظام والے دور کو انسانی دور کہوں گا.یعنی پہلے دور میں وہ صرف بشر تھا اور دوسرے دور میں بشر وانسان دونوں اُس کے نام تھے.آدم سب سے پہلا کامل انسان تھا اس وقت تک جو مضمون بیان ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا عقلی دور دوحصوں میں منقسم تھا ایک حصہ تو وہ تھا کہ اس میں عقل تو تھی مگر انفرادی حیثیت رکھتی تھی حمد کی جس نے ترقی نہ کی تھی اور وہ اکیلے اکیلے یا جوڑوں کی صورت میں زندگی بسر کرتا تھا.دوسرا دور وہ آیا جبکہ تمدنی جس ترقی کر گئی تھی اور وہ ایک قانون کے تابع ہونے کا اہل ہو گیا یعنی وہ اس بات کے لئے تیار ہو گیا کہ ایک قانون کے ماتحت رہے جب قانون یہ فیصلہ کر دے کہ کسی پر حملہ نہیں کرنا تو ہر ایک کا فرض ہو کہ کسی پر حملہ نہ کرے، جب قانون یہ فیصلہ کر دے کہ فلاں کو یہ سزا ملنی چاہئے تو اس کا
۲۶ فرض ہو کہ وہ اس سزا کو بخوشی برداشت کرے، جب یہ حس اس میں ترقی کر گئی اور وہ قانون کے تابع ہونے کا اہل ہو گیا تو اُس وقت انسانِ کامل بنا اور قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جب انسانوں کی کے اندر یہ مادہ پیدا ہو گیا کہ وہ نظام اور قانون کی پابندی کریں اور انسانی دماغ اپنی تکمیل کو پہنچ گیا تو اُس وقت سب سے پہلا شخص جس کا دماغ نہایت اعلیٰ طور پر مکمل ہو ا اُس کا نام آدم تھا.گویا آدم جو خلیفہ اللہ بنا وہ نہیں جس کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اسے مٹی.گوندھا اور پھر اس میں پھونک مار کر اُسے یکدم چلتا پھرتا انسان بنا دیا بلکہ جب انسانوں میں حمد نی روح پیدا ہو گئی تو اُس وقت جو شخص سب سے پہلے اس مقام کو پہنچا اور جس کے دماغی قوی کی تکمیل سب سے اعلیٰ اور ارفع طور پر ہوئی اُس کا نام خدا تعالیٰ نے آدم رکھا ، مگر جب دیر سے ایک طریق چلا آ رہا ہو اُس میں تبدیلی لوگ آسانی کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتے اسی لئے جب کامل انسانیت کی ابتداء ہوئی ناقص انسانوں کا بقیہ اس کے ساتھ تعاون کرنے سے قاصر تھا کیونکہ گوان میں عقل تھی مگر مادہ تعاون و تمدن ان میں مکمل نہ تھا.پس یقیناً اُس وقت بہت بڑا فساد ہوا ہو گا جیسے اگر ایک سیدھا ہوا گھوڑا بے سدھے گھوڑے کے ساتھ جوت دیا جائے تو دونوں مل کر کام نہیں کر سکتے.بے سدھا گھوڑا لاتیں مارے گا ، اُچھلے گا ، کو دے گا اور وہ کوشش کرے گا کہ نکل کر بھاگ جائے اسی طرح اُس وقت بعض لوگ متمدن ہو چکے تھے اور بعض کہتے تھے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اکٹھے رہیں اور قانون کی پابندی کریں.لفظ آدم میں حکمت قرآن کریم نے جو پہلے کامل انسان کا نام آدم رکھا تو اس میں بھی ایک حکمت ہے عربی زبان میں آدم کا لفظ دو مادوں سے نکلا ہے ، ایک مادہ اس کا ادیم ہے اور ادیم کے معنے سطح زمین کے ہیں اور دوسرا مادہ اُدمہ ہے اور اذمہ کے معنے گندمی رنگ کے ہیں.پس آدم کے معنے سطح زمین پر رہنے والے یا گندمی رنگ والے کے ہیں اور دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے کیونکہ کھلی ہوا اور زمین پر رہنے کی وجہ سے دھوپ کے اثر سے اس کے رنگ پر اثر پڑا.حقیقت یہ ہے کہ جب آدم کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے تمدن کی بنیاد رکھی تو اُس وقت آدم اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بجائے زمین کی غاروں میں رہنے کے ہمیں سطح زمین کے اوپر رہنا چاہئے اور پندرہ پندرہ بیس ہیں گھروں کا ایک گاؤں بنا کر اس میں آباد ہو جانا چاہئے اس سے پہلے تمام انسان غاروں میں رہتے تھے اور چونکہ سطح زمین پر ا کیلے اکیلے رہنے کی
۲۷ میں خطرہ ہوسکتا تھا کہ کوئی شیر یا چیتا حملہ کرے اور انسانوں کو پھاڑ دے اس لئے وہ آسانی کے ساتھ سطح زمین پر رہنے کو برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ تبھی سطح زمین پر رہنا برداشت کر سکتے تھے جب کہ بہت سے آدمی ایک جگہ اکٹھے ہوں اور وہ متحدہ طاقت سے خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں مگر یہ صورت اُسی وقت ہو سکتی تھی جب انسانوں میں اکٹھا ر ہنے کی عادت ہو اور وہ ایک قانون اور نظام کے پابند ہوں.جب تک وہ ایک نظام کے عادی نہ ہوں ، اُس وقت تک اکٹھے کس طرح رہ سکتے تھے.پس اُس وقت آدم اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم آئندہ غاروں میں نہیں رہیں گے بلکہ کھلے مکانوں میں رہیں گے اور چونکہ انہوں نے با ہر سطح زمین پر رہنے کا فیصلہ کیا اس لئے ان کا نام آدم ہو اچھنے سطح زمین پر رہنے والے.اور کھلی ہوا میں رہنے کا یہ لازمی نتیجہ ہو ا کہ ان کا رنگ گندمی ہو گیا.پس آدم اس کا نام اس لئے رکھا گیا کہ وہ کھلی زمین میں مکان بنا کر رہنے لگا اور کھلی زمین پر رہنے کے سبب سے اس کا جسم گندمی رنگ کا ہو گیا جیسا کہ سورج کی شعائیں پڑنے سے ہو جاتا ہے اور ادیم اور اُڈرمہ جو لفظ آدم کے مادے ہیں ان دونوں کا مفہوم بھی ایک ہی ہے یعنی کھلی ہوا اور زمین پر رہنے کی وجہ سے اس کے رنگ پر اثر پڑا.زمانہ آدم کی تمدنی حالت اس آدم کے زمانہ میں لازم ابشری دور اول کے زمانہ کے بھی کچھ لوگ تھے جو تمدنی قوانین کی برداشت نہیں کر سکتے تھے اور لا ز ما وہ سطح زمین پر سہولت سے نہیں رہ سکتے تھے کیونکہ جو طاقت مجموعی طاقت سے مل سکتی ہے اور جو انسان کو کھلے میدانوں میں رہنے میں مدد دیتی ہے وہ انہیں حاصل نہ تھی پس وہ غاروں میں رہتے تھے جیسا کہ جانور وغیرہ رہتے ہیں اور چونکہ ان میں تمدن نہ تھا ان کے لئے کوئی قانون بھی نہ تھا.حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ لوگ سطح زمین پر رہیں اور غاروں میں رہنا چھوڑ دیں.تو وہ لوگ جو سطح زمین پر نہیں رہنا چاہتے تھے انہوں نے آپ کی مخالفت کی جیسے افریقہ کے حبشی پہلے ننگے رہا کرتے تھے.شروع شروع میں جب انگریزی آئے ہیں تو انہوں نے کوشش کی کہ حبشیوں کو کپڑے پہنائے جائیں.چنانچہ انہوں نے شہر کے دروازوں پر آدمی مقرر کر دیئے اور انہیں کپڑے دے کر حکم دیدیا کہ جب کوئی حبشی شہر کے اندر داخل ہونا چاہے تو اُسے کہا جائے کہ وہ ننگا شہر میں داخل نہ ہو بلکہ تہہ بند باندھ کر اندر جائے.چونکہ وہ ہمیشہ ننگے رہتے چلے آئے تھے اور کپڑے پہنے کی انہیں عادت نہ تھی اس لئے وہ بڑے لڑتے
۲۸ اور کہتے کہ ہم سے یہ بے حیائی برداشت نہیں ہو سکتی.کہ ہم کپڑے پہن کر شہر میں داخل ہوں ، ہمارے بھائی بند اور دوست ہمیں دیکھیں گے تو کیا کہیں گے.مگر انہیں کہا جاتا کہ ننگے جانے کی اجازت نہیں ، کپڑے پہن لو اور چلے جاؤ.چنانچہ مجبوراً وہ کپڑے پہنتے مگر جب شہر میں سے گزرتے تو ادھر اُدھر کنکھیوں سے دیکھتے بھی جاتے کہ کہیں ان کا کوئی دوست انہیں اس بے حیائی کی حالت میں دیکھ تو نہیں رہا، چنانچہ بڑی مشکل سے وہ شہر میں کچھ وقت گزارتے اور جب شہر سے باہر نکلنے لگتے تو ابھی پچاس ساٹھ قدم کے فاصلہ پر ہی ہوتے تو تہہ بندا تا ر کر زور سے پھینک دیتے اور ننگے بھاگتے ہوئے چلے جاتے.تو جس چیز کی انسان کو عادت نہیں ہوتی اُس سے وہ گھبراتا ہے.حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی چونکہ ایسے لوگ تھے جو قانون کی پابندی نہیں کر سکتے تھے اس لئے انہوں نے سطح زمین پر رہنا پسند نہ کیا اور وہ بدستور غاروں میں رہتے رہے.جنس ایک ہی تھی ، لیکن اس کا ایک حصہ تو سطح زمین پر آ گیا دوسرا سطح زمین پر نہ آیا اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ جس طرح انسانِ کامل باہر رہنے کی وجہ سے آدم نام پانے کا مستحق بنا اسی طرح انسان ناقص غاروں میں رہنے کی وجہ سے جن نام پانے کا مستحق ہوا کیونکہ جن کے معنی پوشیدہ رہنے والے کے ہیں.پس اُس وقت نسلِ انسانی کے دو نام ہو گئے ایک وہ جو آ دم کہلاتے تھے اور دوسرے وہ جو جن کہلاتے تھے.آدم کے ساتھ تعلق رکھنے والے جو لوگ تھے اُنہوں نے میدان میں جھونپڑیاں بنا ئیں ، مکانات بنائے اور مل جل کر رہنے لگ گئے.پس سطح زمین پر رہنے اور سورج کی شعاعوں اور کھلی ہوا میں رہنے سے گندم گوں ہو جانے کی وجہ سے وہ آدم کہلائے ، اسی طرح وہ انسان بھی کہلائے کیونکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے اُنس کرتے اور متمدن اور مہذب انسانوں کی طرح زمین پر مل جُل کر رہتے اور ایک دوسرے سے تعاون کرتے.اس کے مقابلہ میں دوسرے لوگ جو گو اسی جنس میں سے تھے مگر چونکہ وہ قربانی کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے اور غاروں میں چھپ کر رہے اس لئے وہ جن کہلاتے تھے.یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں بعد میں بھی بڑے آدمی جو اندر چُھپ کر رہتے ہیں انہیں جن کہا جانے لگا کیونکہ ان کی ڈیوڑھیوں پر دربان ہوتے ہیں اور ہر شخص آسانی سے اندر نہیں جا سکتا.اسی طرح غیر اقوام کے افراد کو بھی ”جن“ کہا جاتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں صاف الفاظ میں غیر قوموں کے افراد کے لئے بھی جن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر چونکہ یہ تفصیل کا وقت نہیں ہے اس لئے میں وہ آیات بیان نہیں کر سکتا ، ورنہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے قرآن کریم سے ایسے قطعی اور یقینی ثبوت
۲۹ نکال لئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں جن کا لفظ انسانوں کے لئے استعمال ہوا ہے.میں نے اُن آدمیوں کا بھی پتہ لے لیا ہے جنہیں قرآن کریم میں جن کہا گیا.اُن شہروں کا بھی پتہ لے لیا ہے جن میں وہ جن رہتے تھے اور تاریخی گواہیاں بھی اس امر کے ثبوت.کے لئے مہیا کر لی ہیں کہ وہ جن انسان ہی تھے کوئی غیر مرئی مخلوق نہ تھی.اب میں آیات قرآنیہ سے اُن مسائل کے دلائل بیان کرتا ہوں جن کا اس وقت میں نے ذکر کیا ہے.آدم پہلا بشر نہیں میرا پہلا دعوئی یہ تھا کہ قرآن کریم سے یہ امر ثابت ہے کہ آدم پہلا بشر نہیں یعنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے یکدم پیدا کر دیا ہو اور پھر اس سے نسلِ انسانی کا آغاز ہوا ہو، بلکہ اس سے پہلے بھی انسان موجود تھے.چنانچہ اس کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہے اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں آدم کے ذکر میں فرماتا ہے کہ اس نے فرشتوں سے کہا.اِنِّی جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ " میں زمین میں ایک شخص کو اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں.اگر آدم پہلا شخص تھاجسے اللہ تعالیٰ ن پیدا کیا تو اے فرشتوں سے یوں کہنا چاہئے تھا کہ میں زمین میں ایک شخص کو پیدا کرنے والا ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ میں پیدا کرنے والا ہوں بلکہ یہ کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اور لوگ پہلے سے زمین میں موجود تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے آدم کو اپنا خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا.پس یہ پہلی آیت ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق آتی ہے اور یہاں پیدائش کا کوئی ذکر ہی نہیں.دوسری آیت جس سے اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ملتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے بھی آدمی موجود تھے سورہ اعراف کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَقَدْ خَلَقْنَكُمْ ثُمَّ صَوَّرُ نَكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَئِكَةِ اسْجُدُو الأدَمَ یعنی ہم نے بہت سے انسانوں کو پیدا کیا، پھر ان کو مکمل کیا پھر ان کے دماغوں کی تعمیل کی اور انہیں عقل والا انسان بنایا اور پھر ہم نے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو.یہ نہیں کہا کہ میں نے آدم کو پیدا کیا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ اسے سجدہ کریں.بلکہ یہ فرماتا ہے کہ اے نسلِ انسانی ! میں نے تم کو پیدا کیا اور صرف پیدا ہی نہیں کیا بلکہ صَوَّرُ نَكُمْ میں نے تمہیں ترقی دی تمہارے دماغی قوی کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اور جب ہر لحاظ سے تمہاری ترقی مکمل ہو گئی تو میں نے ایک آدمی کھڑا کر دیا اور اس کے متعلق حکم دیا کہ اسے سجدہ کرو.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کئی انسان پیدا ہو چکے تھے کیونکہ خَلَقْنكُمُ اور صَوَّرُ نَكُمْ
پہلے ہوا ہے اور آدم کا واقعہ بعد میں ہوا ہے حالانکہ اگر وہی خیال صحیح ہوتا جو لوگوں میں پایا جاتا ہے تو خدا تعالیٰ یوں کہتا کہ میں نے پہلے آدم کو پیدا کیا اور فرشتوں کو اُسے سجدہ کرنے کا حکم دیا.پھر میں نے تم کو اس سے پیدا کیا.مگر خدا تعالیٰ یہ نہیں فرما تا بلکہ وہ یہ فرماتا ہے کہ میں نے پہلے انسانوں کو پیدا کیا ، ان کی صورتوں کی تکمیل کی اور پھر ان میں سے آدم کے متعلق ملائکہ کو حکم دیا کہ اسے سجدہ کریں.پس یہ آیت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ پہلے کئی انسان پیدا ہو چکے تھے.آدم اور ابلیس دونوں نسلِ انسانی میں سے تھے میرا دوسرا دعوئی یہ تھا کہ آدم اور ابلیس در حقیقت نسلِ انسانی میں سے ہی تھے اس بات کا ثبوت بھی قرآن کریم سے ملتا ہے.(1) اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں جہاں اس نے آدم کی پیدائش کا ذکر کیا ہے فرماتا ہے.فَازَلَّهُمَا الشَّيْطَنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَامِمَّا كَانَا فِيهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلى حِينٍ ٢٣ کہ آدم اور اُس کی بیوی دونوں کی کو شیطان نے ورغلا دیا اور دھوکا دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری ناراضگی ہوئی اور ہم نے کہا کہ اهْبِطُوا تم اے شیطان کے لوگو اور اے آدم کے ساتھیو! سارے کے سارے یہاں سے چلے جاؤ.جمع کا صیغہ ہے جو خدا تعالیٰ نے استعمال کیا.اگر اس سے مراد صرف آدم اور حوا ہوتے تو وہ تو دو ہی تھے ان کے لئے جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا جاتا.انہیں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا کہ تم دونوں چلے جاؤ مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا بلکہ فرماتا ہے ساری کی ساری جماعت یہاں سے چلی جائے.آدم حوا اور ان کے ساتھیوں کو بھی یہ حکم دیتا ہے اور ابلیس اور اس کے ساتھیوں کو بھی دیتا ہے اور سب سے کہتا ہے کہ اس علاقہ سے چلے جاؤ کیونکہ اب تمہاری آپس میں عداوت ہو چکی ہے.یہ آیت اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ آدم اور ابلیس دونوں نسلِ انسانی میں سے ہی تھے.ایک شبہ کا ازالہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم میں ایک اور مقام پر اهبِطُوا کی بجائے اھیکا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر وہاں بھی قرآن کریم نے اس مشکل کو آپ ہی حل کر دیا ہے اللہ تعالیٰ سورۃ طہ میں فرماتا ہے.قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ " کہ ہم نے کہا دونوں یہاں سے چلے جاؤ تم دونوں ایک دوسرے کے دشمن رہو گے.اب اگر دونوں سے مراد آدم اور حوا لئے جائیں تو اس آیت کا مطلب یہ بنتا ہے ۲۴.
کہ آدم اور حوا آپس میں دشمن رہیں گے حالانکہ یہ معنے بالبداہت غلط ہیں.حقیقت یہ ہے کہ اس جگہ دونوں سے مراد دونوں گروہ ہیں نہ کہ آدم اور حوا.اور اللہ تعالیٰ نے اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا کہہ کر یہ حکم دیا ہے کہ اے آدم کے گروہ اور اے شیطان کے گروہ ! تم دونوں اِس جگہ سے چلے جاؤ.اب تم دونوں گروہ آپس میں ہمیشہ دشمن رہو گے ، پھر اس بات کا ایک اور ثبوت کہ ان دو سے مراد دو گروہ ہیں نہ کہ آدم اور حوا.یہ بھی ہے کہ اهْبِطَا کے ساتھ جَمِیعًا کا لفظ بھی آتا ہے ، حالانکہ دو کے لئے عربی زبان میں جَمِیعًا کبھی نہیں آ سکتا.پس چونکہ آدم کے بھی کئی ساتھی تھے اور شیطان کے بھی کئی ساتھی تھے اس لئے دونوں کے لئے اهْبِطَامِنُها جَمِيعًا کے الفاظ استعمال کئے گئے.اسی طرح جہاں دشمنی کا ذکر ہے وہاں بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ کے الفاظ ہیں اور کم کے لفظ نے بھی جو تین یا تین سے زیادہ کے لئے بولا جاتا ہے بتا دیا ہے کہ جن کو نکلنے کا حکم دیا ہے وہ ایک جماعت تھی نہ کہ دو شخص.پھر اس آیت سے یہ پتہ بھی لگتا ہے کہ آدم کی نسل اور شیطان کی نسل دونوں نے ایک جگہ اکٹھا رہنا تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ - که اے شیطان کے ساتھیو اور اے آدم کے ساتھیو! تم دونوں نے دنیا میں اکٹھا رہنا ہے پس ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تم دونوں ایک دوسرے کی دشمنی سے بچتے رہنا اور اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرنا.پھر اس سے بھی بڑھ کر ایک اور بات ان آیات سے نکلتی ہے اور وہ یہ کہ یہ دونوں کوئی الگ الگ جنس نہیں تھے بلکہ ایک ہی جنس میں سے تھے چنانچہ سورۃ بقرہ میں ہی اللہ تعالیٰ شیطان کے ساتھیوں اور آدم کے ساتھیوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّى هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ۲۵ کہ اے آدم کے ساتھیو! اوراے ابلیس کے ساتھیو تم سب یہاں سے چلے جاؤ مگر یا درکھو کہ کبھی کبھی تمہارے پاس میرے نبی بھی آیا کریں گے جو لوگ ان انبیاء کو مان لیں گے وہ ہر قسم کے روحانی خطرات سے محفوظ رہیں گے مگر وہ لوگ جو ان کو نہیں مانیں گے وہ میری ناراضگی کے مورد ہونگے.اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ آدم کی اولاد کبھی شیطان کی ساتھی بن جایا کریگی اور کبھی شیطان کی اولاد آدم کی اولاد بن جایا کریگی کیونکہ اس آیت سے یہ امر مستنبط ہوتا ہے کہ ابلیس اور نسلِ ابلیس کے لئے بھی ایمان لانا ممکن تھا اور جب کہ نسل ابلیس کے لئے بھی ایمان لانا ممکن تھا اور یہ بھی امکان تھا کہ کبھی آدم کی اولا دکسی نبی کا انکار کر دے تو صاف معلوم ہوا کہ یہ دونوں نسلیں آپس میں تبادلہ
۳۲ کرتی رہیں گی.کبھی شیطان کی نسل آدم کی نسل ہو جائے گی اور کبھی آدم کی نسل شیطان کی نسل ہو جائے گی کیونکہ ابلیس اور نسل ابلیس کے لئے اس آیت سے ایمان لا ناممکن ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر ان کا ایمان لا ناممکن ہی نہ ہوتا تو ان کی طرف ہدایت کے آنے کے کوئی معنے نہ تھے.پھر سورہ اعراف میں اس مضمون کے بعد یہاں تک بیان فرمایا ہے کہ اے آدم کی نسل اور اے ابلیس کی نسل ! فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَفِيْهَاتَمُوتُونَ وَمِنْهَا تُخْرَجُونَ " تم دونوں اسی زمین کے اندر زندہ رہو گے، یہیں مرو گے اور اسی زمین سے تمہارا حشر ہو گا یعنی بنو آدم کے ساتھ ابلیس اور اس کے ساتھی نہ صرف رہیں گے بلکہ بنو آدم کی طرح زمین پر زندگی بسر کریں گے، انہی کی طرح مریں گے اور زمین میں دفن ہونگے اور پھر انہی کی طرح ان کا قبور سے حشر ہو گا پس معلوم ہو ا کہ یہ جن کسی اور جنس کے لوگ نہیں بلکہ نسلاً یہ لوگ وہی ہیں جو بنو آدم ہیں کیونکہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ صاف بتا دیا ہے کہ جس طرح آدم کی نسل زمین میں زندہ رہے گی اسی طرح ابلیس اور اس کی نسل زمین میں زندہ رہے گی ، جس طرح آدم کی نسل کھائے پئے گی اسی طرح ابلیس کی نسل کھائے بیٹے گی.جس طرح آدم کی نسل مرے گی اور زمین میں دفن ہوگی اسی طرح ابلیس کی نسل مرے گی اور زمین میں دفن ہو گی.اور پھر یہ بھی بتا دیا کہ جب ہمارے انبیاء آئیں گے تو وہ ان دونوں کو مخاطب کرینگے ، پھر جو لوگ انہیں مان لیں گے وہ آدم کی حقیقی اولاد کہلائیں گے اور جو لوگ نہیں مانیں گے وہ ابلیس بن جائیں گے پس معلوم ہو ا کہ آدم کے مقابلہ میں جو لوگ تھے خواہ انہیں ابلیس اور نسل ابلیس کہہ لو اور خواہ جن کہ لو بہر حال جنس کے لحاظ سے وہ بشر ہی تھے.فرق صرف اخلاق ، تمدن ، اور شریعت کا تھا جس کی وجہ سے ان دونوں میں آپس میں امتیاز کر دیا گیا.آدم اور جن کی بجائے انہیں مؤمن اور کافر کیوں نہ کہا گیا اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان ناموں سے انہیں یاد کیوں کیا ؟ کیوں سیدھے سادھے الفاظ میں انہیں کافر اور مؤمن نہیں کہہ دیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ لوگوں کے لئے سیدھا سادہ لفظ کا فر اور مؤمن ہے اور ان کے لئے سیدھا سادہ لفظ آدم اور ابلیس یا انس اور جن تھا.آج انسان کا دماغ اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ وہ شریعت کے باریک دربار یک مسائل کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے ، مگر آدم کے زمانہ میں جو شریعت آئی اس کا تعلق صرف تمدن اور رہائش انسانی کے ساتھ تھا اور اس وقت کے
۳۳ لوگوں کے لئے بار یک مسائل کا سمجھنا بالکل ناممکن تھا وہ اگر سمجھ سکتے تھے تو صرف موٹی موٹی باتیں سمجھ سکتے تھے.پس کافر و مؤمن کی جگہ جن و انس دو نام ان کے رکھے گئے تا کہ اُس وقت کے تمدن اور بنائے اختلاف کو بھی ظاہر کر دیا جائے اور اس وقت کے لوگوں کی سمجھ میں بھی یہ بات آ جائے.آج چونکہ انسانی دماغ بہت ترقی کر چکا ہے اس لئے جب کسی کو مؤمن یا کافر کہا جاتا ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ ان الفاظ کا کیا مفہوم ہے مگر اُس زمانہ میں اگر انہیں کا فر کہا جاتا اور بتایا جا تا کہ تم اس لئے کا فر ہو کہ تم آدم کی بات کو نہیں مانتے تو وہ اس بات کو سمجھ ہی نہ سکتے کہ آدم کی بات کو نہ ماننے کی وجہ سے ہم کا فر کس طرح ہو گئے.پس اُس وقت ان لوگوں کا نام جنہوں نے آدم کو مانا اور تمدن کی زندگی کو قبول کر لیا انس رکھا گیا اور اُن لوگوں کا نام جنہوں نے آدم کی بات کو نہ مانا اور غاروں میں ہی چھپے رہنے کا فیصلہ کر لیا جن رکھا گیا اور یہ ایسی بات تھی جسے وہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ واقع میں ان میں سے کچھ لوگ زمین پر رہتے ہیں اور کچھ زمین کے اندر غاروں میں رہتے ہیں.پس جب انہیں جن کہا جاتا تو وہ کہتے ٹھیک ہے ہم واقع میں غاروں سے نہیں نکلنا چاہتے اور جب دوسروں کو جو سطح زمین پر رہتے ہیں انس کہا جاتا تو یہ بات بھی ان کی سمجھ میں آجاتی اور وہ کہتے کہ واقع میں وہ سطح زمین پر رہتے ہیں اور اس وجہ سے جن نہیں کہلا سکتے.پس جس طرح موجودہ زمانہ میں کافر اور مؤمن دو ناموں سے انسانوں کو یاد کیا جاتا ہے اسی طرح اُس زمانہ میں جن و انس دو ناموں سے انسانوں کو یاد کیا جاتا تھا کیونکہ اُس زمانہ میں اختلاف کی بنیاد تمدن تھی.پس مؤمن و کافر کی جگہ انس وجن دو نام ان کے رکھے گئے تا کہ اُس وقت کے تمدن اور بنائے اختلاف کو بھی ظاہر کر دیا جائے اور بتایا جائے کہ انس وہ تھے جنہوں نے الہی حکم کے مطابق با ہمی اُنس اختیار کر کے متمدن زندگی کی بنیاد رکھی اور جن وہ تھے جنہوں نے اس سے انکار کر کے اطاعت سے باہر رہنے اور تمدنی زندگی اختیار نہ کرنے کا فیصلہ کیا.پس وہ جنہوں نے تمدنی زندگی اختیار کر لی اور سطح زمین پر رہنے لگ گئے وہ انس کہلائے اور جنہوں نے سطح زمین پر رہنے اور تمدنی زندگی اختیار کرنے سے انکار کر دیا اور یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ غاروں میں ہی رہیں گے وہ جن کہلائے.آج یورپ کے ماہرینِ آثار قدیمہ اس بات سے پھولے نہیں سماتے کہ انہوں نے انیسویں صدی میں ہزار تحقیق و تجس کے بعد یہ راز دریافت کر لیا ہے کہ ابتداء میں انسان غاروں میں رہا کرتے تھے مگر ہمارے قرآن نے آج سے تیرہ سو سال پہلے ایسے لوگوں کا نام جن رکھ کر بتا
۳۴ دیا کہ وہ غاروں میں رہا کرتے تھے.آج پُرانے سے پرانے آثارِ قدیمہ کو آثار قدیمہ سے قرآنی نظریہ کی تصدیق زمینوں میں سے کھو دکھود کر اس بات کا اعلان کیا جا رہا ہے کہ ابتدائی انسان غار میں رہا کرتا تھا.پھر بعد میں وہ سطح زمین پر رہنے لگا ، مگر ہمارے قرآن نے آج سے تیرہ سو سال پہلے یہ بتا دیا تھا کہ انسان پہلے جن بنا اور بعد میں انسان بنا.پہلے وہ غاروں میں رہا مگر بعد میں سطح زمین پر آ کر بسا.جب تک وہ غاروں میں رہا وہ جن نام کا مستحق تھا مگر جب وہ سطح زمین پر آکر بسا تو وہ آدم اور انسان کہلانے لگ گیا.لوگ سر دُھنتے ہیں اُن کتابوں کو پڑھ کر جو آج سے صرف سو سال پہلے لکھی گئی ہیں اور وہ نہیں دیکھتے اُس کتاب کو جو آج سے تیرہ سو سال پہلے سے یہ مسئلہ پیش کر رہی ہے پس جن کا لفظ تیرہ سو سال پہلے سے اس ” کیومین“ (Caveman) کی خبر دیتا ہے جسے یورپ نے بارہ سو سال ند دریافت کیا ہے.ہمارے قرآن نے اس کیو مین کا ذکر جن کے نام سے جس کے قریباً لفظی معنے ”کیو مین کے ہی ہیں آج سے صدیوں پہلے کر دیا تھا.پس وہ جس کا نام لوگوں نے ”کیومین“ رکھا ہے اُس کا نام قرآن نے جن رکھا ہے یعنی غاروں کے اندر چُھپ کر رہنے والا.جب اس نے سطح زمین پر رہنا شروع کیا تو اس کا نام آدم ہوا اور آدم کے لفظی معنے یہی ہیں کہ سطح زمین پر رہنے والا.اگر کہا جائے کہ ابلیس تو کہتا ہے کہ اَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِى مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ - میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور آدم کو پانی ملی ہوئی مٹی سے ، تو جب ان کی پیدائش مختلف اشیاء سے ہے تو وہ ایک کس طرح ہوگئے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب قرآن سے یہ بات ثابت ہے کہ دونوں ایک جگہ رہیں گے، ایک ہی جگہ مریں گے ، ایک ہی زمین میں دفن ہو نگے اور دونوں کی طرف خدا تعالیٰ کے انبیاء آئیں گے جن کو قبول کر کے بعض دفعہ شیطان کی اولاد آدم کی اولاد بن جائے گی اور انکار کر کے آدم کی اولا د شیطان کی اولاد بن جائے گی تو پھر وہی معنے اس آیت کے درست ہونگے جو دوسری آیات کے مطابق ہوں.سو ہم دیکھتے ہیں کہ ان معنوں کو ترک کرتے ہوئے جو عام لوگ اس آیت کے سمجھتے ہیں ایک اور معنے بھی بن سکتے ہیں جن سے یہ آیت باقی تمام آیات کے مطابق ہو جاتی ہے اور قرآن کریم کی کسی آیت میں اختلاف نہیں رہتا..۲۷
۳۵ عربی زبان کا ایک محاورہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جو قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے کہ خُلِقَ مِنْهُ اِس سے یہ مراد نہیں ہوتا کہ فلاں شخص فلاں مادہ سے بنا ہے بلکہ اس سے یہ مراد ہوتا ہے کہ یہ امر اس کی طبیعت میں داخل ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں یہ محاورہ سورہ انبیاء میں استعمال ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَأُوْرِيْكُمُ ايَتِى فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ که انسان جلدی سے پیدا کیا گیا.اب جلدی کوئی مادہ نہیں ہے جسے گوٹ کوٹ کر اللہ تعالیٰ نے انسان بنا دیا ہو، بلکہ یہ ایک محاورہ ہے جو استعمال ہوا اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان بہت جلد باز ہے اور اس کی فطرت میں جلد بازی کا مادہ رکھا گیا ہے.جب پیشگوئیاں ہوتی ہیں تو کئی لوگ اس گھبراہٹ میں کہ نہ معلوم یہ پیشگوئیاں پوری ہوں یا نہ ہوں ، مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں اور کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے یہ جھوٹا ہے.اللہ تعالیٰ اسی امر کا اس جگہ ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے سَأُورِيكُمُ ايَتِى فَلَا تَسْتَعْجِلُون تم ہمارے انبیاء کی پیشگوئیاں سنتے ہی اُسے جھوٹا جھوٹا کیوں کہنے لگ جاتے ہو؟ تم جلدی مت کرو ہماری پیشگوئیاں بہر حال پوری ہو کر رہیں گی.اسی طرح قرآن کریم میں ایک اور جگہ بھی یہ محاورہ استعمال کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِقُوَّةٍ ضُعْفَ وَّ شَيْبَةً ٢٩ کہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ضعف سے پیدا کیا.اب بتاؤ کہ کیا ضعف کوئی مادہ ہے؟ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ انسان کی طبیعت میں کمزوری ہوتی ہے چنانچہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے فطری طور پر سخت کمزور ہوتا ہے.پھر ہم بچے کو جوان بنا کر اس کے قومی کو مضبوط کرتے ہیں ، پھر اور بڑھا کر اُسے بڑھا کر دیتے ہیں پس یہاں خَلَقَكُمُ مِنْ ضُعْفٍ سے مراد بچے کے قوی کی کمزوری اور اس کی دماغی طاقتوں کا ضعف ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی طبیعت میں کمزوری ہوتی ہے نہ یہ کہ کمزوری کوئی مادہ ہے جس سے وہ پیدا ہوتا ہے.ان دونوں آیتوں سے خُلِقَ مِنْہ کے معنے بالکل واضح ہو جاتے ہیں اور انہی معنوں میں ابلیس اللہ تعالیٰ کو خطاب کر کے کہتا ہے کہ اَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِى مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينِ " اے اللہ ! تو نے میری طبیعت میں تو آگ کا مادہ رکھا ہے اور اُس میں طین کا.یعنی تو نے میری طبیعت تو ناری بنائی ہے اور آدم کی طینی، یہ تو غلام فطرت ہے اور یہ تو ممکن ہے دوسرے کی بات مان لے لیکن میں جو ناری طبیعت رکھتا ہوں دوسرے کی غلامی کس طرح کر سکتا ہوں.اَنَا خَيْرٌ مِنْهُ کا مطلب یہ ہے میں تو خر
۳۶ ہوں دوسرے کی غلامی نہیں کر سکتا یہی اَنَا خَيْرٌ مِنْهُ کا دعوی ہے جو آجکل انارکسٹ وغیرہ کرتے رہتے اور کہتے ہیں ہم سے دوسرے کی غلامی برداشت نہیں ہو سکتی ہم تو بغاوت کریں گے اور دوسرے کی غلامی کو کبھی برداشت نہیں کریں گے.دنیا پر نگاہ دوڑا کر دیکھ لو آج بھی تمام دنیا میں اَنَا خَيْرٌ مِنْهُ کے نعرے لگ رہے ہیں.انہی معنوں میں ابلیس اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ اے اللہ ! تو نے مجھے ناری طبیعت بنایا ہے اور آدم کی طبیعت طینی ہے.مجھے تو کوئی بات کہے تو آگ لگ جاتی ہے.میں تو آدم کی طرح دوسرے کی بات کبھی مان نہیں سکتا.اُردو میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے کہتے ہیں فلاں شخص تو آگ ہے.اب اس کے بہ معنے تو نہیں ہوتے کہ اس کے اندر کوئی دیا جل رہا ہوتا ہے یا آگ کے شعلے اس کے منہ سے نکل رہے ہوتے ہیں؟ مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کی بات مان نہیں سکتا.اسے کوئی نصیحت کی جائے تو آگ لگ جاتی ہے.انگریزی میں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص’ فائر برینڈ“ (FIREBRAND) ہے مطلب یہ کہ وہ شرارتی آدمی ہے حالانکہ اس کے لفظی معنے یہ ہیں کہ جو چیز جل رہی ہو.مگر مفہوم یہ ہے کہ فلاں شخص ایسا شرارتی ہے کہ ہر جگہ آگ لگا دیتا ہے.یہی معنے اس آیت کے بھی ہیں اور ابلیس کہتا ہے کہ خدایا میری طبیعت اطاعت کو برداشت نہیں کر سکتی.دنیا میں بھی روزانہ ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں.ایک شخص کی دوسرے سے لڑائی ہو جاتی ہے تو بعض لوگ چاہتے ہیں ان کی آپس میں صلح ہو جائے.اب ایک شخص تو صلح کے لئے تیار ہوتا ہے مگر دوسرے کو جب صلح کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے میں اس سے صلح کرنا کسی صورت میں برداشت نہیں کر سکتا.میں تو ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتا.وہ ناری طبیعت ہوتا ہے اور اسی طبیعت کے اقتضاء کے ماتحت اس قسم کے الفاظ اپنی زبان پر لاتا ہے لیکن دوسرا جس کی طینی طبیعت ہوتی ہے وہ کہتا ہے کہ میں تو ہر وقت صلح کے لئے تیار ہوں.گویا جس طرح گیلی مٹی کو جس سانچے میں چاہو ڈھال لو اسی طرح اس سے جو کام چاہو لے سکتے ہو تو خَلَقْتَنِی مِنْ نَّارِ کے یہ معنے ہیں کہ میں کسی کی بات کی ماننے کے لئے تیار نہیں.حقیقت یہ ہے کہ جب انسانی نسل ترقی کرتے کرتے ایک ایسے مقام کی پر پہنچی کہ اس میں مادہ تعاون و تمدن پیدا ہو گیا اور اس میں یہ طاقت پیدا ہو گئی کہ وہ دوسرے کی اطاعت کا جوا اپنی گردن پر اُٹھائے تو خدا تعالیٰ نے ان میں سے ایک بہترین آدمی کا انتخاب کر کے اس پر اپنا الہام نازل کیا اور اُسے کہا کہ اب نظام اور تمدن کی ترقی ہونی چاہئے اور انسانوں کو غاروں میں سے نکل کر سطح زمین پر مل جل کر رہنا چاہئے.
۳۷ آدم کی مخالفت جس وقت آدم کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہو گا کہ غاروں کو چھوڑ و اور باہر نکلو تو ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ اُس وقت کس قدر عظیم الشان شور برپا ہو ا ہو گا.لوگ کہتے ہیں یہ پاگل ہو گیا ہے، سٹھیا گیا ہے ، اس کی عقل جاتی رہی ہے یہ ہمیں غاروں سے نکال کر سطح زمین پر بسانا چاہتا ہے اور اس کا منشاء یہ ہے کہ ہمیں شیر کھا جائیں ، چیتے پھاڑ جائیں اور ہم اپنی زندگی کو تباہ کر لیں اور اپنے جیسے دوسرے آدمیوں کے غلام بن کر رہیں.مگر بہر حال کچھ لوگ آدم کے ساتھ ہو گئے اور کچھ مخالف رہے.جو آدم کے ساتھ ہو گئے وہ طینی طبیعت کے تھے اور جنہوں نے مخالفت کی وہ ناری طبیعت کے تھے.طین کے معنے ہیں جو دوسری شے کے نقش کو قبول کر لے.پس آدم کی طبیعت طین والی ہو گئی تھی یعنی وہ نظام کے ماتحت دوسرے کی بات مان سکتا تھا جو فریق اس اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے تیار نہ تھا اس نے اس کی فرمانبرداری سے انکار کیا اور کہا کہ ہم اعلی ہیں ہم ایسی غلطی نہیں کر سکتے ، یہ تو غلامی کی ایک راہ نکالتا ہے.یہ وہی جھگڑا ہے جو آج تک چلا آ رہا ہے.موجودہ زمانہ کے ناری طبیعت انسان آج دنیا متمدن ہے، آج دنیا مہذب ہے، آج دنیا مل جُل کر رہتی ہے مگر آج بھی ناری طبیعت کے لوگ پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم دوسرے کی کیوں اطاعت کریں.یہی ناری طبیعت والے پیغامی تھے جو حضرت خلیفہ اول کی ہمیشہ مخالفت کرتے رہے اور یہی ناری طبیعت والے پیغامی تھے جنہوں نے کہا کہ ہم ایک بچہ کی بیعت نہیں کر سکتے.کل کا بچہ ہو اور ہم پر حکومت کرے یہ ہم سے کبھی برداشت نہیں ہو سکتا.وہ جنہوں نے مخالفت کی وہ ناری طبیعت کے تھے مگر آپ لوگ طینی طبیعت کے تھے.آپ نے کہا ہم آدم کے زمانہ سے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت دوسروں کی اطاعت کرتے چلے آئے ہیں اب خلیفہ وقت کی اطاعت سے کیوں منہ موڑیں.مصری صاحب نے بھی اسی ناری طبیعت کی وجہ سے میری مخالفت کی اور انہوں نے کہا کہ میں موجودہ خلیفہ کی اطاعت نہیں کر سکتا اسے معزول کر دینا چاہئے.تو آج تک یہ دونوں فطرتیں چل رہی ہیں.ناری مزاج والے ہمیشہ نظام سے بغاوت کرتے ہیں اور اپنے آپ کو خر کہتے ہیں مگر طینی مزاج والے نظام کے ماتحت چلتے اور اپنے آپ کو کامل انسان کہتے ہیں دونوں اصولوں کا جھگڑا آج تک چلا جا رہا ہے.حالانکہ دونوں اسی زمین میں رہتے ، اسی میں مرتے اور اسی میں دفن ہوتے ہیں اور دونوں ہی کی طرف نبی آتے اور ان سے خطاب کرتے ہیں مگر قاعدہ ہے
۳۸ کہ پہلے تو انبیاء کی تعلیم کی مخالفت کی جاتی ہے لیکن آہستہ آہستہ جب وہ تعلیم دنیا کی اور تعلیموں پر غالب آ جاتی ہے تو منکر بھی اسے قبول کر لیتے ہیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ایک خدا کی تعلیم دینی شروع کی تو عیسائی اس تعلیم پر بڑا ہنتے اور کہتے کہ ایک خدا کس طرح ہو گیا ؟ زرتشتی بھی بنتے ، مشرکین مکہ بھی بنتے، مگر آہستہ آہستہ جب اس تعلیم نے دلوں پر قبضہ جمانا شروع کیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ آج کوئی قوم بھی نہیں جو خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی قائل نہ ہو.حتی کہ عیسائی بھی تثلیث کا عقیدہ رکھنے کے باوجود اس بات کے قائل ہیں کہ خدا ایک ہی ہے تو طینی اور ناری مزاج والوں کا جھگڑا آج تک چلا آ رہا ہے اور ہمیشہ سے یہ نظر آتا ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نئی تعلیم آتی ہے تو کچھ لوگ فرمانبرداری کرتے ہیں اور کچھ غصہ سے آگ بگولا ہو جاتے ہیں اور وہ مخالفت کرنی شروع کر دیتے ہیں.قرآن کریم میں یہ آگ کا محاورہ بھی استعمال ہوا ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک چا کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَبَّتُ يَدَآ اَبِيُّ لَهَبٍ وتَبَّ " کہ آگ کے شعلوں کا باپ ہلاک ہو گیا.اب خدا نے اس کا نام ہی آگ کے شعلوں کا باپ رکھ دیا مگر اس کے یہ معنے تو نہیں کہ اس سے آگ نکلتی تھی.بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ شیطانی قسم کے لوگوں کا سردار تھا ( بعض مفسر اس نام کو گنیت بھی قرار دیتے ہیں اور بعض سفید رنگ کی طرف اشارہ مراد لیتے ہیں ) پس خَلَقْتَنِى مِنْ نَّارٍ يا مَارِجٍ مِّنْ نَّارٍات وغیرہ الفاظ سے اشارہ انسان کی اس حالت کی طرف ہے جب کہ وہ ابھی متمدن نہیں ہو ا تھا اور شریعت کا حامل نہیں ہوسکتا تھا.حضرت آدم کے متعلق ایک اور زبردست انکشاف ایک اور زبردست انکشاف قرآن کریم آدمِ انسانیت کی کی نسبت یہ کرتا ہے کہ جنت میں لائے جانے سے پہلے ہی اُس کے پاس اُس کی بیوی تھی ، چنانچہ قرآن کریم میں آدم کی بیوی کی پیدائش کا کوئی ذکر ہی نہیں ، بلکہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ بیوی عام طریق پر اس کے ساتھ تھی جیسے مرد و عورت ہوتے ہیں.چنانچہ : - (1) سورہ بقرہ میں جہاں آدم اور اس کی بیوی کا ذکر آتا ہے وہاں آدم کی بیوی پیدا کرنے کا کوئی ذکر ہی نہیں.محض یہ حکم ہے يَادَمُ اسْكُنُ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ ٣٣ اے آدم ! جا تُو اور تیری بیوی تم دونوں جنت میں رہو.یہ نہیں کہا کہ آدم اکیلا تھا اور اُس کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا بلکہ آیت کا جو اسلوب بیان ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی پہلے
۳۹ سے موجود تھے.اُنہیں صرف یہ حکم دیدیا گیا کہ تم فلاں جگہ رہو.(۲) سورہ اعراف میں بھی صرف یہ ذکر ہے کہ یادمُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ " (۳) تیسری جگہ جہاں آدم کی بیوی کا ذکر ہے وہ سورۃ طہ ہے مگر اس میں بھی صرف یہ ذکر ہے که يَادَمُ إِنَّ هَذَا عَدُ ولَكَ وَلِزَوْجِكَ ۳۵ یہ ذکر نہیں کہ آدم کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی بیوی کو بھی پیدا کیا ہو.ان تینوں جگہوں میں جہاں آدم کی پیدائش کا ذکر کیا گیا ہے اس کی بیوی کا ذکر محض ایک عام بات کے طور پر کیا گیا ہے حالانکہ اگر آدم اکیلا ہوتا اور حوا کو اُس کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہوتا تو اس کی بیوی کا ذکر خاص اہمیت رکھتا تھا اور یہ بتایا جانا چاہئے تھا کہ آدم کی ایک پسلی نکال کر اسے عورت بنا دیا گیا بیشک ایک حدیث میں ایسا ذکر آتا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے مگر اس کا مطلب میرے کسی مضمون میں آگے چل کر بیان ہو گا ہاں سورۃ نساء رکوع ، سورۃ اعراف رکوع ۲۴، سورۃ الزمر رکوع میں ایک بیوی کی پیدائش کا ذکر ہے ایک جگہ لکھا ہے وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا اور دو جگہ لکھا ہے وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا اور ان الفاظ سے یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے مگر ان تینوں جگہ خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ کے الفاظ آتے ہیں آدم کا نام نہیں ہے کہ یہ شبہ کیا جا سکے کہ ان آیات میں آدم اور حوا کی پیدائش کا ذکر ہے چنانچہ ان میں سے ایک حوالہ سورہ نساء کا ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ.يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا ۳ کہ اے انسانو! اپنے اس رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی کو بنایا ان الفاظ میں آدم اور اس کی بیوی کا کوئی ذکر ہی نہیں صرف خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ کے الفاظ آتے ہیں مگر ان کا مفہوم بھی جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا اور ہے، بہر حال آدم اور حوا کا یہاں کوئی ذکر نہیں.یہی حال سورہ اعراف اور سورہ زمر کی آیات کا ہے ان میں بھی خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ کے الفاظ ہیں.آدم کے الفاظ نہیں، مگر ان تینوں آیات میں سے جو ہم معنی ہیں سورۃ اعراف کا حوالہ اس بات کو وضاحت سے ثابت کرتا ہے کہ اس سے مراد عام انسان ہیں نہ کہ آدم ، کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا فَلَمَّا تَغَشْهَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِيفاً فَمَرَّتُ به فَلَمَّا اثْقَلَتْ دَّعَوَا الله رَبَّهُمَا لَئِنُ اتَيْتَنَا صَالِحاً لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّكِرِينَ.فَلَمَّا انْهُمَا صَالِحاً جَعَلَالَهُ
شُرَكَاءَ فِيمَا آتَهُمَا فَتَعَالَى اللَّهُ عَمَّايُشْرِكُونَ ۳ فرماتا ہے.وہ خدا ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اُس سے اُس کی بیوی کو پیدا کیا تا کہ اُس سے تعلق رکھ کر وہ اطمینان اور سکون حاصل کرے، جب اُس نفسِ واحد نے اپنی بیوی سے صحبت کی تو اُسے ہلکا سا حمل ہو گیا مگر جب اس کا پیٹ بھاری ہو گیا اور دونوں کو معلوم ہو گیا کہ حمل قرار پکڑ گیا ہے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی الہی ! اگر تو نے ہمیں تندرست اور خوبصورت بچہ عطا کیا تو ہم تیرے ہمیشہ شکر گزار رہیں گے مگر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اچھا اور تندرست بچہ دیدیا تو وہ اللہ تعالیٰ کو بھول گئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کا بعض اور لوگوں کو شریک بنالیا اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دُور تر چلے گئے.اب بتاؤ کیا ان الفاظ میں آدم اور حوا کا ذکر ہے یا عام انسانوں کا.کیا آدم اور حوا نے پہلے یہ دعا کی تھی کہ ہمیں ایک صالح لڑ کا عطا فرمانا اور جب وہ پیدا ہو گیا تو انہوں نے مشرکانہ خیالات کا اظہار کیا اور وہ بعض ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دینے لگ گئے؟ انہوں نے ہر گز ایسا نہیں کیا اور و آدم جو اللہ تعالیٰ کے نبی تھے ایسا کر ہی نہیں سکتے تھے.پس صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں آدم کا ذکر نہیں بلکہ آدمی کا ذکر ہے اور انسانوں کے متعلق ایک قاعدہ کا ذکر ہے کسی خاص آدمی کا بھی ذکر نہیں اور چونکہ سب آیات کے الفاظ ایک سے ہیں اس لئے معلوم ہوا کہ سب جگہ ایک ہی معنے ہیں.نفس واحدہ سے پیدائش کی حقیقت حقیقت یہ ہے کہ خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ سے مراد صرف یہ ہے کہ ایک ایک انسان سے قبائل و خاندان چلتے ہیں اور بیوی اسی میں سے ہونے کے معنے اسی کی جنس میں سے ہونے کے ہیں اور بتایا ہے کہ ایک ایک آدمی سے بعض دفعہ خاندان کے خاندان چلتے ہیں اگر ماں باپ مشرک ہوں تو قبیلے کے قبیلے گندے ہو جاتے ہیں اور اگر وہ نیک ہوں تو نسلاً بعد نسل ان کے خاندان میں نیکی چلتی جاتی ہے.پس هُوَ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ اے مرد و! جب تم شادی کرو تو احتیاط سے کام کیا کرو، اور جب میاں بیوی آپس میں ملیں تو اُس وقت بھی وہ احتیاط سے کام لیا کریں، اگر وہ خود مشرک اور بدکار ہونگے تو نسلوں کی نسلیں شرک اور بدکاری میں گرفتار ہو جائیں گی اور اگر وہ خود موحد اور نیکی و تقویٰ میں زندگی بسر کرنے والے ہونگے تو نسلوں کی نسلیں نیک اور پارسا بن جائیں گی.
۴۱ ان معنوں کے بعد اگر آدم پر بھی ان آیات کو چسپاں کیا جائے تو بھی یہی معنے ہونگے کہ آدم کی بیوی اسی کی جنس میں سے تھی.یعنی طینی طبیعت کی تھی ناری طبیعت کی نہ تھی اور ممکن ہے اس صورت میں ادھر بھی اشارہ ہو کہ آدم کو حکم تھا کہ صرف مؤمنوں سے شادی کریں غیروں سے نہیں.جب یہ ثابت ہو گیا کہ آدم کے وقت میں اور مرد و عورت بھی تھے اور آدم کی بیوی انہی میں سے تھی یعنی وہ آدم کی ہم مذہب تھی تو وہ سوال کہ آدم کی اولا د شادیاں کس طرح کرتی ہوگی آپ ہی آپ دُور ہو گیا.جب مرد بھی تھے عورتیں بھی تھیں تو شادیوں کی دقت نہیں ہو سکتی تھی ، ہاں اگر اس سے پہلے کا سوال ہو تو آدم سے پہلے بشر تو شریعت کے تابع ہی نہ تھے ، نہ وہ شادی کے پابند تھے نہ کسی اور امر کے.کیونکہ وہ تو نظام سے آزاد تھے اور جب وہ نظام سے آزاد تھے تو ان کے متعلق کوئی بحث کرنی فضول ہے.بحث تو صرف اس شخص کے متعلق ہو سکتی ہے جو شریعت کا حامل ہوا اور عقل مدنی اس میں پیدا ہو چکی ہو اور ایسا پہلا وجود ابوالبشر آدم کا تھا اور ان کے بعد ان کے اتباع کا وجود تھا ان کے لئے اخلاق و شریعت کی پابندی لازمی تھی.ان سے پہلے انسان نیم حیوان تھا اور ہر اعتراض سے بالا اور ہر شریعت سے آزاد.اب میں اُس حدیث کو لیتا ہوں جس عورت کے پسلی سے پیدا ہونے کا مفہوم میں یہ ذکر آتا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے.حدیث کے اصل الفاظ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہیں یہ ہیں کہ خُلِقْنَ مِنْ ضِلع ۳۸ یہ الفاظ نہیں ہیں کہ خُلِقَتْ حَوّاء مِنْ ضِلع جس طرح قرآن کریم کی اُن آیات میں جن میں خَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا کے الفاظ آتے ہیں ہر عورت کا ذکر ہے حوا کا ذکر نہیں.اسی طرح حدیث میں بھی حوا کا کہیں نام نہیں بلکہ تمام عورتوں کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں کہ خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعِ اگر یہ الفاظ ہوتے کہ خُلِقَتْ زَوْجَةُ آدَمَ مِنْ ضِلْعِ تب تو یہ کہا جاسکتا کہ حوا جو آدم کی بیوی تھیں وہ پہلی سے پیدا ہوئیں مگر جب کسی حدیث میں بھی اس قسم کے الفاظ نہیں آتے بلکہ تمام عورتوں کے متعلق یہ ذکر آتا ہے کہ وہ پسلی سے پیدا ہو ئیں تو محض حوا کو پسلی سے پیدا شدہ قرار دینا اور باقی عورتوں کے متعلق تاویل سے کام لینا کس طرح درست ہو سکتا ہے اسی طرح ایک اور حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ اَلنِّسَاءُ خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعِ ۳۹ که ساری عورتیں پسلی سے پیدا ہوئی ہیں.پس جس طرح قرآنی آیات میں تمام عورتوں کا ذکر ہے.اسی طرح احادیث میں بھی تمام عورتوں کا ذکر ہے اور ہر ایک کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ پسلی سے پیدا
۴۲ ہوئی ، اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ پہلی سے پیدا ہونے کے کیا معنے ہیں؟ کیونکہ واقع یہ ہے کہ کوئی عورت پسلی سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ جس طرح مرد پیدا ہوتے ہیں اسی طرح عورتیں پیدا ہوتی ہیں پس جب کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح پیدا ہوتی ہیں ، تو سوال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ عورتیں پسلی سے پیدا ہوئی ہیں، سو یا د رکھنا چاہئے کہ یہ بھی اسی محاورہ کے مطابق ہے جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے اور اس محاورہ سے صرف یہ مراد لی جاتی ہے کہ یہ امر فلاں شخص کی طبیعت میں داخل ہے.پس خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعِ سے صرف یہ مراد ہے کہ عورت کو کسی قدر مرد سے رقابت ہوتی ہے اور وہ اس کے مخالف چلنے کی طبعا خواہشمند ہوتی ہے، چنانچہ علمائے احادیث نے بھی یہ معنے کئے ہیں اور مجمع البحار جلد دوم میں جو لغت حدیث کی نہایت مشہور کتاب ہے ضلع کے ہے.نیچے لکھا ہے.خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعِ اِسْتِعَارَةٌ لِلْمُعَوَّجِ أَى خُلِقْنَ خَلْقاً فِيهَا الْاِعْوِجَاجُ.خُلِقْنَ مِنْ ضِلع " ایک محاورہ ہے جو کبھی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ عورتوں کی طبیعت میں ایک قسم کی بھی ہوتی ہے یہ مطلب نہیں کہ عورتوں میں بے ایمانی ہوتی ہے بلکہ یہ ہے کہ عورت کو خاوند کی بات سے کسی قدرضرور رقابت ہوتی ہے.مرد کہے یوں کرنا چاہئے تو وہ کہے گی یوں نہیں اسی طرح ہونا چاہئے اور خاوند کی بات پر ضر و ر اعتراض کرے گی اور جب وہ کوئی بات مانے گی بھی تو تھوڑی سی بحث کر کے اور یہ اس کی ایک ناز کی حالت ہوتی ہے اور اس میں وہ اپنی حکومت کا راز مستور پاتی ہے.تمدنی ترقی کا ایک عظیم الشان گر غرض خُلِقنَ مِنْ ضلع کے یہی معنے ہیں کہ عورت مرد پر اعتراض ضرور کرتی رہے گی ، ان میں محبت بھی ہوگی، پیار بھی ہوگا ، تعاون بھی ہوگا ، قربانی کی روح بھی ہوگی ، مگر روز مرہ کی زندگی میں ان میں آپس میں نوک جھوک ضرور ہوتی رہے گی اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو اگر سیدھا کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی ، یعنی اگر تم چا ہو کہ وہ تمہاری بات کی تردید نہ کرے تو اُس کا دل ٹوٹ جائیگا ، اُسے اعتراض کرنے دیا کرو کیونکہ عورت کی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ اگر تم بالکل ہی اُس کی زبان بندی کر دو گے تو وہ جانور بن جائے گی اور عقل اور فکر کا مادہ اُس میں سے نکل جائے گا.یہ تمدن کا ایک عظیم الشان نکتہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا.آپ کا اپنا عمل بھی اس کے مطابق تھا ، چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیویوں سے کسی بات پر ناراض ہو کر گھر سے باہر چلے
۴۳ گئے اور آپ نے باہر ہی رہائش اختیار کر لی.حضرت عمر کی لڑکی چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیاہی ہوئی تھیں اس لئے انہیں بھی یہ اطلاع پہنچ گئی.حضرت عمرؓ کا طریق یہ تھا کہ آپ مدینہ میں نہیں رہتے تھے بلکہ مدینہ کے پاس ایک گاؤں تھا وہاں آپ رہتے اور تجارت وغیرہ کرتے رہتے ، اُنہوں نے ایک انصاری سے بھائی چارہ ڈالا ہو ا تھا اور آپس میں انہوں نے یہ طے کیا ہوا تھا کہ وہ انصاری مدینہ میں آجاتا اور مدینہ کی اہم خبریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کی باتیں سُن کر حضرت عمر کو جا کر سُنا دیتا اور کبھی حضرت عمر مدینہ آ جاتے اور وہ انصاری پیچھے رہتا اور آپ اُس کو باتیں بتا دیتے ، غرض جو بھی آتا وہ تمام باتیں معلوم کر کے جاتا اور دوسرے کو بتا تا کہ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ الہام ہوا ہے.آج آپ نے مسلمانوں کو یہ وعظ فرمایا ہے غرض اس طرح ان کی دینی تعلیم بھی مکمل ہو جاتی اور ان کی تجارت بھی چلتی رہتی.ایک دن وہ انصاری مدینہ میں آیا ہو ا تھا اور حضرت عمرؓ پیچھے تھے کہ عشاء کے قریب اُس انصاری نے واپس جا کر زور سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا اور کہا کہ ابن خطاب ہے؟ ابن خطاب ہے ؟ حضرت عمر کہتے ہیں، میں نے جب اُس کی گھبرائی ہوئی آواز سنی اور اُس نے زور سے میرا نام لے کر دروازہ کھٹکھٹایا تو میں نے سمجھا کہ مدینہ میں ضرور کوئی حادثہ ہو گیا ہے.اُن دنوں یہ افواہ زوروں پر تھی کہ ایک عیسائی بادشاہ مدینہ پر حملہ کرنے والا ہے ، حضرت عمر کہتے ہیں میں نے سمجھا اس بادشاہ نے حملہ کر دیا ہے چنانچہ میں فوراً اپنا کپڑا سنبھالتا ہوا باہر نکلا اور میں نے اُس سے پوچھا کیا ہوا؟ وہ کہنے لگا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیویوں کو چھوڑ دیا ہے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں گھبرا کر مدینہ کی طرف چل دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آپ سے عرض کیا یا رَسُولَ اللهِ! آپ اپنے گھر سے باہر آ گئے ہیں آپ نے فرمایا ہاں.میں نے عرض کیا یا رَسُولَ اللهِ ! لوگ کہتے ہیں آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دیدی ہے.آپ نے فرمایا نہیں میں نے کسی کو طلاق نہیں دی.میں نے کہا الْحَمْدُ لِلَّهِ.پھر میں نے عرض کیا يَا رَسُولَ اللہ ! آپ کو میں ایک بات سناؤں؟ آپ نے فرمایا ہاں سناؤ، میں نے کہا، يَا رَسُولَ اللهِ ! ہم لوگ مکہ میں اپنے سامنے عورت کو بات نہیں کرنے دیتے تھے، لیکن جب سے میری بیوی مدینہ میں آئی ہے وہ بات بات میں مجھے مشورہ دینے لگ گئی ہے ایک دفعہ میں نے اُسے ڈانٹا کہ یہ کیا حرکت ہے اگر پھر کبھی تو نے ایسی حرکت کی تو میں مجھے سیدھا کر دونگا تو وہ مجھے کہنے لگی، تو بڑا آدمی بنا پھرتا ہے میں نے تو دیکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویاں
۴۴ آپ کو مشورہ دے لیتی ہیں، پھر کیا تو ان سے بھی بڑا ہے کہ مجھے بولنے نہیں دیتا اور ڈانٹتا ہے.میں نے کہا ہیں ! ایسا ہوتا ہے؟ وہ کہنے لگی ہاں واقع میں ایسا ہوتا ہے.میں نے کہا تب میری بیٹی کی خیر نہیں.یہ بات سُن کر میں اپنی بیٹی کے پاس گیا اور اُسے کہا دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کوئی بات نہیں کرنی.اگر تو نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سوال جواب کیا تو وہ کسی دن مجھے طلاق دیدیں گے.حضرت عائشہ پاس ہی تھیں وہ میری بات سن کر بولیں تو کون ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کے معاملات میں دخل دینے والا ، چلو یہاں سے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بات سُن کر ہنس پڑے اور آپ کا غصہ جاتا رہا ہے اور حضرت عمر کی بھی اس واقعہ کے سنانے سے یہی غرض تھی کہ کسی طرح آپ ہنس پڑیں اور آپ کی ناراضگی جاتی رہے.تو بعض قوموں میں یہ رواج ہے کہ وہ سمجھتی ہیں عورت کا یہ حق نہیں کہ وہ مرد کے مقابلہ میں بولے مگر عورت ہے کہ وہ بولے بغیر رہ نہیں سکتی.اسے کوئی بات کہو وہ اس میں اپنا مشورہ ضرور پیش کر دے گی کہ یوں نہیں یوں کرنا چاہئے ، پھر خواہ تھوڑی دیر کے بعد وہ مرد کی بات ہی مان لے مگر اپنا پہلو کچھ نہ کچھ اونچاہی رکھنا چاہتی ہے اور مرد کے مشورہ پر اپنی طرف سے پالش ضرور کرنا چاہتی ہے.عورتوں کے حقوق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی لئے لوگوں کو نصیحت کی ہے کہ تم عورت کی روح کو کچلنے کی کوشش نہ کیا کرو.اس کے اندر یہ ایک فطرتی مادہ ہے کہ وہ مرد سے کسی قدر رقابت رکھتی اور طبعاً ایک حد تک اس کے مخالف رائے دینے کی خواہشمند ہوتی ہے پس اگر اس کی بحث غلط بھی معلوم ہو ا کرے تو اس کی برداشت کیا کرو کیونکہ اگر تم اسے چُپ کرا دو گے تو یہ اس کی فطرت پر گراں گزرے گا اور وہ بیمار ہو جائے گی.کیسی اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی مگر لوگوں نے اس کی حدیث کے یہ معنی کر لئے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے.پہلے دور انسانی کا نظام قانون قرآنی آثار قدیمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نظام والی ابتدائی حکومت کا قانون کیا تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ پہلا دور انسانی صرف تمدنی ترقی تک محدود تھا.اس طرح کہ :- (۱).لوگوں میں خدا تعالیٰ کا اجمالی ایمان پیدا ہو گیا تھا اور انسان کو الہام ہونا شروع ہو گیا تھا جیسا کہ قُلْنَا يَادَمُ وغیرہ الفاظ سے ظاہر ہے.
۴۵ (۲).انسانوں میں عائلی زندگی پیدا کرنے کا حکم دیا گیا تھا وہ زندگی جو قبیلوں والی زندگی ہوتی ہے اور انہیں کہا گیا تھا کہ ایک مقام پر رہو اور اکٹھے رہو چنانچہ یہ امر أُسْكُنُ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ کے الفاظ سے ظاہر ہے.(۳).آدم پر اور لوگ بھی ایمان لائے اور ایک جماعت تیار ہو گئی تھی جو نظام کے مطابق رہنے کے لئے تیار تھی.اس کا ثبوت سورۃ طہ کی آیت قَالَا اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعاً بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ہے جَمِیعاً کا لفظ بتاتا ہے کہ اس سے مراد دونوں گروہ ہیں نہ کہ آدم اور کی اس کی بیوی اور بَعْضُكُمُ کا لفظ بتا تا ہے کہ وہ ایک جماعت تھی.(۴).الْجَنَّةَ اور كُلاَ مِنْهَا رَغَدًا کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت کی معظم غذا پھل وغیرہ تھے.معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت تک سبزیوں ، ترکاریوں کے اُگائے جانے کا کام ابھی شروع نہیں ہوا تھا.اللہ تعالیٰ نے کہیں میوہ دار درختوں کے جھنڈ پیدا کر دیئے اور انہیں حکم دیا کہ تم وہاں جا کر رہو.شاید بعض لوگ کہیں کہ اتنے بڑے جُھنڈ کہاں ہو سکتے ہیں جس پر سینکڑوں لوگ گزارہ کر سکیں ؟ سوایسے لوگ اگر جنوبی ہند کے بعض علاقے دیکھیں تو ان پر الْجَنَّةَ کے لفظ کی حقیقت واضح ہو جائے.وہاں بعض ہیں ہیں میل تک شریفے کے درخت چلے جاتے ہیں اور وہاں کے لوگ جن دنوں شریفہ پکتا ہے روٹی کھانی پالکل چھوڑ دیتے ہیں اور صبح شام شریفے ہی کھاتے رہتے ہیں.اب تو گورنمنٹ انہیں نیلام کر دیتی ہے پہلے حکومت بھی ان کو نیلام نہ کیا کرتی تھی اور لوگ مفت پھل کھاتے تھے.اسی طرح افریقہ میں آموں کے جنگل کے جنگل پائے جاتے ہیں ، کیلے بھی بڑی کثرت سے ہوتے ہیں، اسی طرح ناریل وغیرہ بھی بہت پایا جاتا ہے ، اسی طرح بعض علاقوں میں سیب ، خوبانی وغیرہ خودر و کثرت سے پائے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کسی ایسے ہی مقام کو حضرت آدم علیہ السلام کے لئے منتخب فرمایا اور انہیں حکم دے دیا کہ وہاں جا کر ڈیرے لگا دو اور خوب کھاؤ پیو.خلاصہ یہ کہ الْجَنَّةَ وغیرہ الفاظ سے جو قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں ، یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت عام طور پر لوگوں کی غذا پھل تھے.(۵).پانچویں بات قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ اُس وقت ابھی کپڑے کی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور اس پر آیت طَفِقَا يَخْصِفْنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ " شاہد ہے وہ چٹائیوں پر کی طرح بھوج پتر وغیرہ لپیٹ لیتے تھے اور رہائش کے لئے انہی کے خیمے بنا لیتے تھے.اس کے
۴۶ آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابھی شکار کرنے کے طریق بھی ایجاد نہ ہوئے تھے اور کھالوں کا استعمال بھی شروع نہ ہوا تھا بلکہ چٹائیاں بطور لباس اور شاید بطور مکان کے استعمال ہوتی تھیں.اگر شکار کرنے کے طریق ایجاد ہو چکے ہوتے تو وہ کھالوں کا لباس پہنتے.(1).اُن میں تمدنی حکومت قائم کی گئی تھی اور تمدنی حکومت کی غرض یہ بتائی گئی تھی کہ ایک دوسرے کی (۱) کھانے کے معاملہ میں مدد کریں (۲) پینے کے معاملہ میں مدد کریں (۳) عُریانی کو دور کرنے کے معاملہ میں مدد کریں اور (۴) رہائش کے معاملہ میں مدد کریں.چنانچہ فرمایا.اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعُرى.وَأَنَّكَ لَا تَطْمَؤُا فِيهَا وَلَا تَضْحى ٢٣ کہ تمہارے لئے اس بات کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ تم جنت میں رہنے کی وجہ سے ٹھو کے نہیں رہو گے ، پیاسے نہیں رہو گے ، نگے نہیں رہو گے اور دُھوپ میں نہیں پھر و گے.گویا کھانا ، پانی ، کپڑا اور مکان یہ چار چیزیں تمہیں اس تعاونی حکومت میں حاصل ہونگی.ان الفاظ سے جیسا کہ بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں یہ مراد نہیں کہ انہیں بھوک ہی نہیں لگتی تھی کیونکہ اگر انہیں بھوک نہیں لگتی تھی تو وَكُلاَ مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُما " کے کیا معنے ہوئے ، جب خدا نے اُن کی بھوک ہی بند کر لی تھی تو اس کے بعد انہیں یہ کہنا کہ اب خوب کھاؤ پیو بالکل بے معنی تھا.پس کُملا کے لفظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بھوک لگتی تھی مگر ساتھ ہی انہیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا بھی حکم دیا گیا تھا.انہیں کہا گیا تھا کہ باغ ساری کمیونٹی کی ملکیت ہے مگر دیکھو قاعدہ کے مطابق کھاؤ پیو.اگر کسی کو زیادہ ضرورت ہے تو وہ زیادہ لے لے اور اگر کسی کو کم ضرورت ہے تو وہ کم لے لے.پس إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعُری اُس نئے نظام کی تفصیل ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ قائم کیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ اگر اس نئے نظام کے ماتحت رہو گے تو تمہیں ؟ سہولتیں حاصل ہونگی.( ۷ ).قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت الہامی طور پر بعض بوٹیوں کے خواص وغیرہ بتائے گئے تھے اور بعض اخلاقی احکام بھی دیئے گئے تھے چنانچہ آیت وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلها ۲۵ اس پر دال ہے مگر یہاں کل کے معنے ضرورت کے مطابق ہیں، جیسا بد بد ملکہ سبا کے متعلق کہتا ہے أُوتِيَتُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ " کہ ملکہ سبا کے پاس سب کچھ موجود ہے حالانکہ جب اُس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس تحفہ بھیجا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُس
وقت کہا تھا کہ میرے پاس تو اس سے بھی بڑھ کر چیزیں ہیں میں ان تحفوں سے کیونکر متاثر ہو سکتا ہوں.پس جب حضرت سلیمان علیہ السلام کہتے ہیں کہ میرے پاس ملکہ سبا سے بڑھ کر مال و دولت اور سامان موجود ہے اور اس کے باوجود ہد ہر کہتا ہے کہ أُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيءٍ ملکہ سبا کو ہر چیز میسر تھی تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ أُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سے یہ مراد نہیں تھی کہ ملکہ سبا کو ہر نعمت میسر تھی بلکہ یہ مراد تھی کہ اس کی مملکت کے لحاظ سے جس قدر چیزوں کی ضرورت ہو سکتی تھی وہ تمام چیزیں اُسے حاصل تھیں اسی طرح عَلَّمَ ادَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا سے یہ مراد ہے کہ اُس وقت جس قدر علوم کی ضرورت تھی وہ تمام آدم کو سکھا دیئے گئے مثلاً یہ بتا دیا گیا کہ فلاں فلاں زہریلی بوٹیاں ہیں ان کو کوئی شخص استعمال نہ کرے، یا فلاں زہریلی چیز اگر کوئی غلطی سے کھالے تو فلاں بوٹی اس کی تریاق ہو سکتی ہے یا ممکن ہے اسی طرح طاقت کی بعض دوائیں الہامی طور پر بتا دی گئی ہوں.اسی طرح بعض اخلاقی احکام بھی حضرت آدم علیہ السلام کو الہا ما بتائے گئے ہوں.(۸).آٹھویں انہیں ایک واجب الاطاعت امیر ماننے کا بھی حکم تھا، جیسا کہ اِنِّی جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً " کے الفاظ سے ظاہر ہے.(۹).یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانہ میں بعض ایسے احکام بھی نازل ہوئے تھے جن میں یہ ذکر تھا کہ تمہیں بعض جرائم کی سزا بھی دینی چاہئے جیسے قتل وغیرہ ہیں.اس امر کا استنباط اَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ کے الفاظ سے ہوتا ہے.یعنی فرشتے اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں کہ اب دنیا میں ایک عجیب سلسلہ شروع ہو جائے گا کہ بعض آدمیوں کو قانونی طور پر یہ اختیار دے دیا جائے گا کہ وہ دوسروں کو مار ڈالیں ، جیسے ہر گورنمنٹ آجکل قاتلوں کو پھانسی دیتی ہے مگر گورنمنٹ کے پھانسی دینے کو بُرا انہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کی تعریف کی جاتی ہے لیکن اگر کوئی اور قتل کر دیتا ہے تو اُسے سخت مجرم سمجھا جاتا ہے.فرشتوں کے لئے یہی بات حیرت کا موجب ہوئی اور انہوں نے کہا ، ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ پہلے تو قتل کو ناجائز سمجھا جاتا تھا مگر اب آدم جب کسی کو قتل کی سزا میں قتل کر دے گا تو اس کا یہ فعل اچھا سمجھا جائے گا.کوئی اور گھر سے نکال دے تو وہ مُجرم سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر آدم کسی کو جلا وطنی کی سزا دے گا تو یہ جائز سمجھا جائے گا.اس زمانہ میں روزانہ ایسا ہی ہوتا ہے گورنمنٹ مجرموں کو پھانسی پر لٹکاتی ہے مگر کوئی اُسے ظالم نہیں کہتا ، وہ لوگوں کو جلا وطنی کی سزا دیتی ہے مگر کوئی نہیں
۴۸ کہتا کہ گورنمنٹ نے بُرا کیا لیکن اُس زمانہ میں یہ ایک نیا قانون تھا اور فرشتوں کے لئے قابل حیرت.پس فرشتے بطور سوال اسے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ پہلے تو قتل کو نا جائز سمجھا جاتا تھا مگر اب قتل کی ایک جائز صورت بھی پیدا کر لی گئی ہے یا پہلے تو دوسروں کو اپنے گھروں سے نکالنا جرم سمجھا جاتا تھا، لیکن اب اس کی ایک جائز صورت بھی نکل آئی ہے اور آدم جب یہی فعل کرے گا تو اس کا فعل جائز اور مستحسن سمجھا جائے گا.اللہ تعالیٰ اگلی آیت میں اُن کے اسی سوال کا جواب دیتا اور فرماتا ہے کہ تمہیں علم نہیں ، دنیا میں نظام کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ مجرموں کو سزائیں دی جائیں اگر ان کو سزائیں نہ دی جائیں تو کارخانہ عالم بالکل درہم برہم ہو جائے تو اَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اُس وقت جرائم کی سزا بھی مقرر ہو چکی تھی.(۱۰).یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت شادی کے احکام بھی نازل ہو چکے تھے کیونکہ آدم کی بیوی کا ذکر کیا گیا ہے، گویا مرد و عورت کے تعلقات کو ایک قانون کے ماتحت کر دیا گیا تھا.پیدائش انسانی کے متعلق قرآنی آثار قدیمہ کا خلاصہ خلاصہ یہ کہ قرآنی آثار قدیمہ نے ابتدائے خلق کا ذکر یوں کیا ہے کہ مخلوق خالق کے حکم سے بنی ہے.پہلے باریک ذرات تیار ہوئے ، پھر پانی نے الگ شکل اختیار کی پھر وہ خشک ذرات سے مرکب ہوا ، اور ایک قوتِ نامیہ پیدا ہوئی.اس سے مختلف تغیرات کے بعد حیوان پیدا ہوا ، حیوان آخر نطفہ سے پیدا ہونے والا وجود بنا یعنی نر ، مادہ کا امتیاز پیدا ہو ا، اس کے بعد ایک خاص حیوان نے ترقی کی اور عقلی حیوان بنا.مگر گو عقل تھی مگر تھا ناری ، تمدن کے قبول کرنے کی طاقت اس میں نہ تھی ، غاروں میں رہتا تھا.اس کے بعد ایسا انسان بنا جو تمدن کا اہل تھا اسے الہام ہونا شروع ہوا اور وہ پہلا تمدن صرف اتنا تھا کہ (۱) نکاح کرو (۲) قتل نہ کرو (۳) فساد نہ کرو (۴) ننگے نہ رہو (۵) ایک دوسرے کی کھانے پینے ، پہننے اور رہائش کے معاملہ میں مدد کرو (1) اللہ تعالیٰ سے دعا کر لیا کرو (۷) ایک شخص کو اپنا حاکم تسلیم کرلو اور اُس کے ہر حکم کی اطاعت کرو اور اگر تم اس کے کسی حکم کو توڑو تو تم سزا برداشت کرنے کے لئے تیار رہو.یہ اُس وقت کی گورنمنٹ تھی اور یہی اس گورنمنٹ کا قانون تھا اور یہ علم جو میں نے تو
۴۹ قرآن کریم سے اخذ کر کے بیان کیا ہے ایسا واضح ہے کہ موجودہ تحقیق اِس سے بڑھ کر کوئی بات بیان نہیں کر سکتی ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آدم کے متعلق کوئی تاریخ ایسا علم مہیا نہیں کرتی جیسا علم کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے.ڈارون تھیوری پر اہل یورپ کو بہت کچھ ناز ہے مگر سچ بات یہ ہے کہ ڈارون تھیوری بھی اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی.وہ نہایت ہی بیوقوفی کی تھیوری ہے جو اہلِ مغرب کی طرف سے پیش کی جاتی ہے.میں ہمیشہ اس تھیوری کے پیش کرنے والوں سے کہا کرتا ہوں کہ اچھا جس چیز سے انسان پہلے بنا تھا اُس چیز سے اب کیوں نہیں بن سکتا ؟ میں نے دیکھا ہے جب بھی میں یہ سوال کروں وہ عجیب انداز میں سر ہلا کر گویا کہ میں اس تھیوری سے بالکل ناواقف ہوں کہہ دیتے ہیں کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ تغیر لاکھوں بلکہ کروڑوں سال میں ہوا ہے ، میں انہیں یہ کہا کرتا ہوں کہ اس زمانہ میں جو جانور موجود ہیں ان پر بھی لاکھوں کروڑوں سال گزرچکے ہیں پھر وہ تغیر کیوں بند ہو گیا ہے اس میں شک نہیں کہ آدم سے لے کر اس وقت تک لاکھوں کروڑوں نہیں ہزاروں سال گزرے ہیں، لیکن حیوانات آدم کے زمانہ سے تو شروع نہیں ہوئے وہ تو لاکھوں کروڑوں سال ہی سے موجود ہیں اور آدم کے بعد کے زمانہ نے اس میں کسی قدر زیادتی ہی کی ہے.پس لاکھوں کروڑوں سالوں کے بعد جو تغیر ہونا ضروری تھا وہ آج بھی اسی طرح ہونا چاہئے جس طرح کہ ہزاروں سال پہلے ہو ا تھا، کیونکہ زمانہ اس کے بعد ممتد ہو رہا ہے سکڑ نہیں رہا.بلکہ حق یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں سال کے بعد جو تغیر حیوانات میں ہو ا تھا وہ کی پہلی دفعہ کے بعد جاری ہی رہنا چاہئے تھا کیونکہ لاکھوں کروڑوں سالوں بعد جن تغیرات سے بشر کا مورث اعلیٰ جانور پیدا ہوا تھا اگلی صدی میں اور اس سے اگلی صدی میں اور بعد کی بیسیوں اور صدیوں میں بقیہ جانوروں پر اس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے جس قدر کہ پہلے تغیر کے وقت گزرا تھا.پس اگر اس قسم کا تغیر ہو ا تھا جس کا ذکر ڈارون کے فلسفہ کے قائل کرتے ہیں تو بعد میں وہ تغیر بند نہیں ہونا چاہئے تھا بلکہ جاری رہنا چاہئے تھا سوائے اس صورت کے کہ سابق کے تغیرات ایک بالا رادہ ہستی نے ایک خاص غرض اور مقصد کے ماتحت پیدا کئے ہوں اور ان اغراض و مقاصد کے پورا ہونے پر اسی سلسلہ کو بند کر دیا ہوا اور یہی ہمارا عقیدہ ہے.شجرہ آدم کیا چیز ہے؟ اب میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ شجرہ آدم کیا چیز ہے میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کو ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ وہ شجرہ کیا چیز تھی جس کے قریب جانے سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو روکا ، مگر میں کہتا ہوں اس
بارے میں سب سے بہتر طریق تو یہ ہے کہ جس بات کو قرآن کریم نے چھپایا ہے اُس کو معلوم کرنے کی کوشش نہ کی جائے.حضرت آدم علیہ السلام سے کوئی غلطی ہوئی مگر خدا نے نہ چاہا کہ اپنے ایک پیارے بندے کی غلطی دنیا پر ظاہر کرے اور اس نے اُس غلطی کو چھپا دیا.اب جبکہ خدا نے خود اسے چھپا دیا ہے تو اور کون ہے جو اس راز کو معلوم کر سکے ، جسے خدا چھپائے اُسے کوئی ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.یہ بالکل ویسی ہی مثال ہے جیسے اللہ تعالیٰ سورہ تحریم میں فرماتا ہے.وَإِذَاسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَ أَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّنَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَذَا قَالَ نَبَّا نِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ یعنی اُس وقت کو یا دکر و جب ہمارے نبی نے مخفی طور پر ایک بات اپنی ایک بیوی سے کہی جب اُس بیوی نے وہ بات کسی اور سے کہہ دی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ خبر دیدی کہ تمہاری بیوی نے وہ بات فلاں شخص سے کہہ دی ہے اس پر ہمارے نبی نے اپنی بیوی کو کچھ بات بتا دی اور کچھ نہ بتائی جب ہمارے نبی نے وہ بات اپنی بیوی سے کہی تو اُس نے کہا کہ آپ کو یہ بات کس نے کہہ دی؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات اُسی نے بتائی ہے جو زمین و آسمان کا خدا ہے اور جو دلوں کے بھیدوں سے واقف اور تمام باتوں کو جاننے والا ہے.اب یہاں اس بات کا ذکر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک بیوی سے کہی تھی محض ضمیروں میں کیا گیا ہے اور صرف یہ کہا گیا ہے کہ ایک بات تھی جو ہمارے نبی نے اپنی ایک بیوی کو بتائی ، وہ بات اُس بیوی نے کسی اور کو بتا دی.اس پر خدا نے الہام نازل کیا اور اپنے رسول کو بتایا کہ وہ بات جو تو نے اپنی بیوی سے کہی تھی وہ اُس نے کسی اور سے کہہ دی ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کا اپنی بیوی سے ذکر کر دیا.بیوی کہنے لگی یہ بات آپ کو کس نے بتائی ؟ آپ نے فرمایا مجھے علیم اور خبیر خدا نے یہ بات بتائی ہے.یہ ساری ضمیر میں ہیں جن میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مگر بات کا کہیں ذکر نہیں لیکن ہمارے مفسرین ہیں کہ وہ اپنی تفسیر وں میں یہ بحث لے بیٹھے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیوی سے کیا بات کہی تھی.پھر کوئی مفسر کوئی بات پیش کرتا ہے اور کوئی مفسر کوئی بات پیش کرتا ہے حالانکہ اس جھگڑے میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی ، جب خدا نے ایک بات کو چھپایا ہے اور یہ پسند نہیں کیا کہ اُسے ظاہر کرے تو کسی مفتر کا کیا حق ہے کہ وہ اس بات کو معلوم کرنے کی کوشش میں لگ جائے اور اگر وہ کوئی بات بیان بھی کر دے تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بات درست ہوگی ، یقیناً جس بات کو خدا چھپائے اُسے کوئی ظاہر
۵۱ 66 نہیں کر سکتا اور اگر کوئی قیاس دوڑائے گا بھی تو وہ کوئی پختہ اور یقینی بات نہیں ہوگی محض ایک ظن ہوتی گا یہی حال شجرہ آدم کا ہے جب خدا نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ شجرہ کیا تھا تو ہم کون ہیں جو اس شجرہ کو معلوم کر سکیں.تم کسی چیز کا نام شجرہ رکھ لو، مختصر طور پر اتنا سمجھ لو کہ خدا نے یہ کہا تھا کہ اُس کے قریب نہ جانا مگر حضرت آدم علیہ السلام کو شیطان نے دھوکا دے دیا اور وہ اُس کے قریب چلے گئے جس پر انہیں بعد میں بہت کچھ تکلیف اٹھانی پڑی بہر حال بہتر یہی ہے کہ جس بات کو خدا نے چھپایا ہے اُس کی جستجو نہ کی جائے اور بلا وجہ یہ نہ کہا جائے کہ شجرہ سے فلاں چیز مراد ہے، لیکن اگر کسی کی اس جواب سے تسلی نہیں ہوتی تو پھر وہ یوں سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا تھا کہ دیکھنا شیطان کے پاس نہ جانا وہ تمہارا سخت دشمن ہے اگر اس کی باتوں میں آگئے تو وہ ضرور کسی وقت تمہیں دھوکا دے دیگا.حضرت آدم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا مگر شیطان نے جب دیکھا کہ یہ میرے داؤ میں نہیں آتے تو اُس نے کہا کہ صلح سے بڑھ کر اور کیا چیز ہوسکتی ہے.بہتر یہی ہے کہ ہم اور تم آپس میں صلح کر لیں اور ان روز روز کے جھگڑوں کو نپٹا دیں جیسا کہ یورپ والے بھی آجکل بظاہر پیس پیس (PEACE PEACE) کا شور مچا رہے ہوتے ہیں اور اندر بڑے زور سے جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں.اٹلی کی جب لڑکی سے لڑائی ہوئی تو اس لڑائی سے تین دن پہلے اٹلی کے وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ ترکوں سے ہماری اتنی صلح ہے اور اس قدر اس سے مضبوط اور اچھے تعلقات ہیں کہ پچھلی صدی میں اس کی کہیں نظیر نہیں مل سکتی ، مگر اس اعلان پر ابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ اٹلی نے لڑکی پر حملہ کر دیا.یہی حال باقی یوروپین اقوام کا ہے وہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ صلح بڑی اچھی چیز ہے، امن سے بڑھ کر اور کوئی قیمتی شے نہیں، مگر اندر ہی اندر سامان جنگ تیار کر رہے ہوتے ہیں.گویا وہ صلح صلح اور امن امن کے نعرے اس لئے نہیں لگاتے کہ انہیں صلح اور امن سے محبت ہوتی ہے بلکہ اس لئے نعرے لگاتے ہیں کہ انہوں نے ابھی پوری طرح جنگ کی تیاری نہیں کی ہوتی اور وہ کی چاہتے ہیں کہ صلح اور امن کا شور مچا کر دوسروں کو جس حد تک غافل رکھا جا سکے اُس حد تک غافل رکھا جائے اور پھر یکدم حملہ کر دیا جائے.یہی حال حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ہوا.خدا تعالیٰ نے آدم کو کہا دیکھنا شجرہ شیطانی کے قریب نہ جانا بلکہ ہمیشہ اس کے خلاف لڑائی جاری رکھنا کیونکہ شیطان کے ساتھ جب بھی صلح ہوگی اس میں مؤمنوں کی شکست اور شیطان کی فتح ہوگی اور کی اس صلح کے نتیجہ میں تمہارے لئے بہت زیادہ مشکلات بڑھ جائینگی.حضرت آدم علیہ السلام نے اس
۵۲ حکم کے نتیجہ میں شیطان سے لڑائی شروع کر دی.جب شیطان نے دیکھا کہ اس طرح کام نہیں بنے گا تو اس نے صلح صلح کا شور مچا دیا اور کہا کہ بھلا لڑائی سے بھی کبھی امن قائم ہو سکتا ہے امن تو صلح سے ہو سکتا ہے پس بہتر ہے کہ ہم آپس میں صلح کر لیں.حضرت آدم علیہ السلام سے غلطی ہوئی اور انہوں نے شیطان سے صلح کر لی.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی اسی جنت کے اندر آ گیا جہاں حضرت آدم علیہ السلام اور آپ کے ساتھی رہتے تھے اور اس طرح اندر رہ کر اس نے قوم میں فتنہ وفساد پیدا کر دیا اور وہ مقصد جس کو باہر رہ کر وہ حاصل نہیں کر سکا تھا وہ اُس نے اندر آ کر حاصل کر لیا اور بہت بڑا فساد پیدا ہو گیا.تب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اب ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ یہاں سے چلے جاؤ اور زمین میں پھیل جاؤ.پس اگر اس کے کوئی معنے ہو سکتے ہیں تو یہی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ خاندانِ ابلیس سے دُور رہو ، ابلیس نے صلح کی دعوت دی اور کہا کہ اس سے بڑی ترقی ہوگی ، حضرت آدم اس دھوکا میں آگئے اور شیطان سے صلح کر کے انہوں نے بہت کچھ تکلیف اُٹھائی نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے کہا کہ تم یہاں سے چلے جاؤ اور زمین میں پھیل جاؤ اور یا درکھو کہ تم دونوں گروہوں میں ہمیشہ جنگ رہے گی یہ معنے بھی ہیں جو ان آیات کے ہو سکتے ہیں ، لیکن بہتر یہی ہے کہ جسے خدا نے چُھپایا ہے اُس کی جستجو میں ہم اپنے وقت کو ضائع نہ کریں اور جس سبق کے سکھانے کے لئے اس واقعہ کو بیان کیا گیا ہے وہ سبق حاصل کر لیں.پیدائش انسانی میں ارتقاء کا ایک اور ثبوت پیدائش انسانی میں ارتقاء کا ایک اور ثبوت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام میں بھی ارتقاء رکھا ہے.کامل اور مکمل شریعت پہلے ہی روز نہیں آ گئی بلکہ آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ الہام میں ترقی ہوئی ہے.چنانچہ جب بھی غیر مذاہب والوں کی طرف سے اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر قرآن میں کامل شریعت تھی تو ابتدائے عالم میں ہی اللہ تعالیٰ نے اسے کیوں نازل نہ کر دیا، تو اس کا جواب ہماری طرف سے یہی دیا جاتا ہے کہ اگر اُس وقت قرآن نازل کر دیا جاتا تو کسی انسان کی سمجھ میں نہ آ سکتا کیونکہ ابھی عقلی ترقی اس حد تک نہیں ہوئی تھی کہ وہ قرآنی شریعت کے اسرار اور غوامض سمجھ سکے تو الہام الہی کا فلسفہ جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اس سے صریح طور پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کی ترقی بھی ارتقاء کے ماتحت ہوئی کی ہے.دیکھ لو پہلے حضرت آدم آئے ، پھر حضرت نوح آئے ، پھر حضرت ابرا ہیم آئے ، پھر حضرت موسی آئے ، پھر حضرت عیسی آئے ، مگر باوجودیکہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ تک
۵۳ ہزاروں برس گزر چکے تھے آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ :- مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روح حق آئیگا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا، ۵۰ اس سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے زمانہ تک بھی ابھی لوگوں کی حالت ایسی نہیں ہوئی تھی کہ وہ کامل شریعت کو سمجھ سکتے اور اس بات کی ضرورت تھی کہ اُن کے لئے نسبتا نامکمل انکشاف ہو.یہ ارتقاء جو الہام اور شریعت میں ہو ا ہے اس بات کا یقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ انسان کی جسمانی ترقی بھی ارتقائی تھی اگر یکدم ترقی کر کے انسان کامل بن گیا ہوتا تو پہلے ہی دن اس کے لئے کامل شریعت کا نزول ہو جاتا.60 یہ عجیب بات ہے کہ آجکل آرین خیالات کے لوگ اسلام پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام ارتقاء کا قائل نہیں اور یہ کہ مسلمانوں نے مسئلہ ارتقاء کارڈ کیا ہے حالانکہ اسلام ہی ہے جو جسمانی اور روحانی دونوں قسم کے ارتقاء کا قائل ہے اس کے مقابلہ میں آرین خیالات الہام کے متعلق قطعاً غیر ارتقائی ہیں.چنانچہ آریہ مذہب کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابتدائے عالم میں ہی ایک مکمل الہامی کتاب بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لئے نازل فرما دی.یہ عقیدہ بتاتا ہے کہ آریہ مذہب نہ صرف رُوحانی ارتقاء کا قائل نہیں بلکہ جسمانی ارتقاء کا بھی قائل نہیں کیونکہ اگر ابتداء میں انسان عقلی لحاظ سے کمزور تھا تو کامل الہامی کتاب کا نزول اس کے لئے بے فائدہ تھا اور اگر پہلے روز وہ اُسی طرح کامل انسان تھا جس طرح آج ہے تو معلوم ہوا کہ آرین عقائد کے رُو سے انسان کی پیدائش جسمانی ارتقاء کے ماتحت نہیں ہوئی.غرض آرین خیالات اس بارہ میں قطعاً غیر ارتقائی ہیں اور وہ اسلام پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے.اس کے مقابلہ میں سمیٹک (SEMITIC) یعنی سامی نسلیں رُوحانی ارتقاء کی قائل ہیں اور یہ عقیدہ رکھتی ہیں کہ پہلے حضرت آدم آئے ، پھر حضرت نوح آئے جنہوں نے کئی روحانی انکشافات کئے پھر حضرت ابراہیم آئے ، پھر حضرت موسی آئے اور ان سب نے کئی روحانی انکشاف کئے.پس سامی نسلیں ہی ہیں جو ارتقاء کو تسلیم کرتی چلی آئی ہیں، مگر عجیب بات یہ ہے کہ سامی نسلوں پر ہی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ ارتقاء کی قائل نہیں اور جو اعتراض کر نیوالے ہیں ان کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے ارتقاء کا انکار کرتے چلے آئے ہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے فرانسیسی درسی کتب میں قصہ لکھتے ہیں کہ ایک فرانسیسی لڑکا اپنے کسی دوست سے ملنے گیا.اس کے پاس ایک لقو تھا اُس نے
۵۴ شوق سے اپنے دوست کو وہ لقو دیکھنے کو دیا جس نے لقو دیکھ کر اپنی جیب میں ڈال لیا اور سلام کہہ کر چل پڑا.جب لو والے لڑکے نے لقو واپس مانگا تو اُس نے کہا کہ لقو تو میرا ہے.یہی ان کا حال ہے ہماری چیز لے کر اس پر اپنا قبضہ جمالیتے ہیں اور پھر بڑے زور سے قہقہہ لگا کر کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو تو کچھ پتہ ہی نہیں.اس جگہ اس امر کا ذکر کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گوسمیٹک نسلیں ارتقائی ترقی کی قائل ہیں لیکن قرآن کریم کے سوا دوسری سمیٹک تعلیم بھی اس بارہ میں ایک دھوکا کھا گئی ہے اور وہ یہ کہ اس نے جسمانی ارتقاء کا انکار کر دیا ہے حالانکہ روحانی ارتقاء بذاتِ خود اس بات پر دال ہے کہ جسمانی ارتقاء بھی ہوا.بہر حال صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس نے اپنے دونوں پہلوؤں کے لحاظ سے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے اور یہ اس کی برتری اور فوقیت کا ایک بڑا ثبوت ہے.اگر کوئی کہے کہ جب آخر میں ایک جگہ آ کر شریعت کو تم نے بھی بند تسلیم کر لیا ہے تو پھر شروع میں ہی ایسا کیوں نہ کیا گیا اور کیوں شروع میں تو ارتقاء کا سلسلہ جاری رہا مگر اب وہ ارتقائی سلسلہ بند ہو گیا.شریعت میں ارتقاء ختم ہو جانے کی وجہ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں بھی روحانی عالم ظاہری عالم کے مشابہ ہے اور شریعت میں ارتقاء آج اُسی طرح ختم ہو چکا ہے جس طرح انسانی جسم میں ارتقاء ختم ہو چکا ہے.آخر انسانی جسم کے جس قدر حصے ہیں اب ان میں کونسا بنیادی فرق ہوتا ہے جس طرح آج ایک شخص پیدا ہوتا ہے، اسی طرح آج سے ہزار سال پہلے پیدا ہوا تھا اور جس طرح آج اس کے ہاتھ ، پاؤں، ناک، کان اور منہ ہوتے ہیں اسی طرح آج سے ہزار سال پہلے اس کے اعضاء ہوتے تھے پس جس طرح دهم انسانی میں بنیادی ارتقاء ختم ہو چکا ہے اسی طرح شریعت میں بھی پہلے جو ارتقاء کا سلسلہ جاری تھا وہ ختم ہو گیا ہے.ہاں ایک بات اور ہے اور وہ یہ کہ اب گوجسمانی ترقی بند ہو چکی ہے مگر دماغی ترقی بدستور جاری ہے اور اب وہ ارتقاء جو پہلے جسم میں ہو ا کرتا تھا دماغ کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور انسان کی دماغی قابلیتوں میں ہر روز نیا سے نیا اضافہ ہوتا ہے.اسی طرح گواب شریعت کا نزول بند ہو چکا ہے مگر اب وہی ارتقاء اس شریعت کے معارف کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور نئے سے نئے قرآنی اسرار دنیا پر منکشف ہوتے جارہے ہیں.پس اس ارتقاء میں بھی روحانی عالم ظاہری عائم کے مشابہ ہے.وہاں بھی پہلے جسمانی بناوٹ میں ارتقاء ہوا پھر خالص دماغی ارتقاء
رہ گیا.اسی طرح شریعت میں بھی پہلے ظاہری و باطنی احکام میں ارتقاء ہو الیکن آخر میں ظاہری شریعت حد کمال کو پہنچ گئی اور اب صرف باطنی ارتقاء باقی ہے جس کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے.پس ہم دونوں طرف سے ارتقاء کے قائل ہیں جسمانی طرف سے بھی اور روحانی طرف سے بھی.اور ہم گو یہ ایمان رکھتے ہیں کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ شریعت اپنی تکمیل کو پہنچ گئی مگر ہم اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے اندر غیر محدود معارف و حقائق کے خزانے ہیں اور قرآن کریم کی کے معارف کا یہ باطنی ارتقاء بند نہیں ہوا بلکہ قیامت تک جاری ہے چنانچہ ہم اس کا نمونہ اپنی ذات میں دیکھ رہے ہیں کہ جو معارف قرآنیہ ہم پر کھلے ہیں وہ پہلے مفتروں پر نہیں گھلے.خلاصہ یہ کہ اسلام نے آدم کے آثار قدیمہ اس رنگ میں ظاہر کئے ہیں کہ ان کی مثال کسی اور جگہ نہیں پائی جاتی.اسی طرح حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے بارہ میں زبردست انکشاف اس نے کئے ہیں.مگر سر دست میں اس مضمون کو چھوڑ کر بعض دیگر انکشافات کی کو لیتا ہوں جو مختلف انبیاء کے بارہ میں قرآن کریم نے کئے ہیں.حضرت ہارون علیہ السلام کے متعلق قرآنی انکشاف میں قرآنی آثارِ قدیمہ کے اُس کمرہ کو دیکھنے کے بعد عالم تحصیل میں الہی آثار قدیمہ کے ایک اور کمرہ میں چلا گیا اور وہاں میں نے ایک اور عجیب نشان دیکھا.مجھے دکھائی دیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ ہے اور آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام کہ وہ خود بھی نبی تھے اپنی قوم کو مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہے ہیں.يَنقَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُم بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِى وَ أَطِيعُوا اَمْرِى ) اے میری قوم! تم ایک ابتلاء میں ڈالے گئے ہو تم میری پیروی کرو اور جو کچھ میں کہتا ہوں اُس کی اطاعت کرو.میں نے سمجھا کہ کوئی فتنہ ہے جو اُس زمانہ میں پیدا ہوا.پھر میں نے اپنے دل میں کہا آؤ میں معلوم تو کروں اُس وقت کیا فتنہ اُٹھا تھا.مگر میں نے فیصلہ کیا کہ پہلے میں اُس کتاب کو دیکھوں جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہا السلام کے زمانہ سے چلی آتی ہے اور اُسے پڑھ کر معلوم کروں کہ اُس میں کیا لکھا ہے.چنانچہ میں نے تو رات اُٹھائی اور اُسے پڑھنا شروع کیا تو اس میں لکھا تھا :- اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ پہاڑ سے اُترنے میں دیری کرتا ہے تو وے ہارون کے پاس جمع ہوئے اور اُسے کہا کہ اُٹھ ہمارے لئے معبود بنا کہ ہمارے آگے چلیں.کیونکہ یہ مرد موسیٰ جو ہمیں مصر کے ملک سے نکال لایا ہم نہیں جانتے کہ اُسے کیا
ہوا ، ہارون نے انہیں کہا کہ زیور سونے کے جو تمہاری جو روؤں اور تمہارے بیٹوں اور تمہاری بیٹیوں کے کانوں میں ہیں تو ڑتوڑ کے مجھ پاس لاؤ ، چنانچہ سب لوگ سونے کے زیور جو اُن کے کانوں میں تھے تو ڑتوڑ کے ہارون کے پاس لائے اور اُس نے اُن کے ہاتھوں سے لیا اور ایک بچھڑا ڈھال کر اُس کی صورت حکاکی کے ہتھیار سے درست کی اور انہوں نے کہا کہ اے اسرائیل ! یہ تمہارا معبود ہے جو تمہیں مصر کے ملک سے نکال لایا ۵۲ گویا تو رات یہ کہتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہاڑ پر جانے کے بعد جب فتنہ پیدا ہو ا تو لوگوں نے حضرت ہارون علیہ السلام پر زور دینا شروع کیا کہ ہمیں ایک بُت بنا دو جس کی ہم پرستش کریں.حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا اپنے اپنے گھر سے زیور لے آؤ.چنانچہ وہ زیور لائے اور انہوں نے اُن زیورات کو ڈھال کر ایک بُت بنا دیا اور کہا کہ یہی وہ تمہارا ہے جو تمہیں مصر کی زمین سے نکال لایا.یہودی کہتے ہیں کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا الہام ہے مگر محققین کہتے ہیں کہ یہ الہام نہیں بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو تین سو سال کے بعد اُس وقت کے حالات ہیں جو مورخین نے لکھے.بہر حال کم سے کم یہ حضرت موسیٰ اور حضرت کی ہارون علیہما السلام کے قریب زمانہ کی لکھی ہوئی تاریخ ہے لیکن حضرت موسیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ساڑھے انیس سو سال کا فاصلہ ہے اور یہ کتاب جس میں حضرت ہارون علیہ السلام پر بُت گری کا الزام لگایا گیا قریباً سترہ اٹھارہ سو سال پہلے کی لکھی ہوئی ہے پس وہ کتاب جو قرآن مجید سے سترہ اٹھارہ سو سال پہلے لکھی گئی ، اس میں تو یہ لکھا ہے کہ حضرت ہارون نے زیورات کو ڈھال کر خود ایک بچھڑا بنایا اور لوگوں سے کہا کہ یہی وہ تمہارا خدا ہے جو تمہیں مصر کے ملک سے نکال لایا ، مگر جب ہم قرآنی آثار قدیمہ کو دیکھتے ہیں تو وہاں یہ لکھا ہوا پاتے ہیں کہ وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ يَقَوْمِ إِنَّمَا فُتِتُم بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَاَطِيْعُوا اَمْرِئ ۵۳ کہ موسیٰ کے جانے کے بعد جب لوگوں نے ایک بچھڑا ڈھال کر اُسے اپنا معبود بنالیا تو ہارون نے اُن سے کہا کہ اے لوگو! بد معاشوں نے تمہیں دھوکا میں ڈال دیا ہے اِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمنُ تمہارا رب تو وہ ہے جو رحمن ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے فَاتَّبِعُونِی پس تم میری اتباع کرو اُن بد معاشوں کی اتباع نہ کرو جنہوں نے تم کو غلط راستہ پر ڈال دیا ہے.یہ وہ چیز ہے جو مجھے قرآنی آثار قدیمہ میں سے ملی.اس کے بعد میں نے بائبل کو کی
۵۷ - بھی دیکھا کہ اس کی چوری کہیں سے پکڑی بھی جاتی ہے یا نہیں.ظاہر ہے کہ اگر حضرت ہارون علیہ السلام سے یہ مشرکانہ فعل سرزد ہو ا ہوتا تو نبوت تو کیا انہیں ایمان سے بھی چھٹی مل جاتی اور کوئی شخص انہیں مومن سمجھنے کے لئے بھی تیار نہ ہوتا کجا یہ کہ انہیں نبی مانتا.مگر جب ہم بائبل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہاڑ سے واپس آ کر جب دیکھا کہ لوگوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی ہے تو انہوں نے لوگوں کو سخت ڈانٹا.بچھڑے کو آگ سے جلا دیا اور قریباً تین ہزار آدمیوں کو قتل کی سزا دی.۵۴.اس فتنہ کوفر و کر نے کے بعد وہ پھر پہاڑ پر گئے اور جب وہاں سے واپس آئے تو حضرت ہارون علیہ السلام کے لئے خدا تعالیٰ کا یہ حکم لائے کہ : - ہارون کو مقدس لباس پہنا اور اس کو چپڑ.اور اُسے مقدس کر تاکہ کا ہن کا کام میری خدمت میں کرے اور اُس کے بیٹوں کو نز دیک لا اور اُن کو گرتے پہنا اور اُن کو چُپڑ.جیسے اُن کے باپ کو چپڑا ہے تا کہ وہ کا ہن کا کام میری خدمت میں کریں اور یہ مساحت اُن کے لئے اور اُن کے قرنوں کیلئے ہمیشہ کی کہانت کا باعث ہو گی اور موسیٰ نے ایسا کیا سب جو خدا وند نے اس کو حکم کیا تھا عمل میں لایا.۵۵ گویا اس مشرکانہ فعل کے بعد جو بروئے بائبل حضرت ہارون علیہ السلام سے سرزد ہو ا تھا خدا تعالیٰ نے حضرت ہارون علیہ السلام پر بجائے کسی ناراضگی کا اظہار کرنے کے فیصلہ یہ کیا کہ ہارون کو مقدس لباس پہنایا جائے اور نہ صرف اس کی عزت افزائی کی جائے بلکہ اس کی تمام اولاد کی عزت کرنا بھی بنی اسرائیل پر فرض قرار دیا جائے اور عبادت گاہوں اور مساجد کی ذمہ داری ان کے سپرد کی جائے.کیا ایک مشرکانہ فعل کا یہی نتیجہ ہوا کرتا ہے؟ اور کیا اگر حضرت ہارون علیہ السلام سے یہ فعل سرزد ہوا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سے یہی سلوک کیا جاتا ؟ بائبل کی یہ اندرونی گواہی صاف طور پر بتا رہی ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے شرک کی تائید نہیں کی تھی بلکہ شرک کی مخالفت کی تھی اور چونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی توحید کی تائید کی اس لئے خدا بھی اُن پر خوش ہو ااور اُس نے کہا کہ چونکہ ہارون نے میری عبادت دنیا میں قائم کی ہے اس لئے آئندہ تمام عبادت گاہوں کا انتظام ہارون اور اس کی اولاد کے سپرد کیا جائے.پس بائبل کی یہ تو اندرونی گواہی اس الزام کی تردید کر رہی ہے جو اُس نے اسی کتاب میں حضرت ہارون علیہ السلام پر لگایا ہے اور قرآن کریم کے بیان کی جو اس کے نزول کے ساڑھے اُنیس سو سال بعد یا اس کی تحریر
کے سترہ اٹھارہ سو برس بعد نازل ہوا ہے تصدیق کرتی ہے.پھر میں نے آثار قدیمہ کا ہر قوم کی طرف خدا تعالیٰ نے رحمت کا ہاتھ بڑھایا ہے پھر ہیں.تیسرا کمرہ دیکھا تو مجھے نظر آیا کہ تمام قوموں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اُن کے سوا صداقت سے کوئی آشنا نہیں.ہر قوم دوسری قوم کے متعلق یہ خیال کرتی ہے کہ اُس میں جھوٹ ، فریب اور دغا بازی کے سوا اور کچھ نہیں.میں نے ہندوؤں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے سب معرفت اور ہدایت ہمارے بزرگوں کی معرفت دنیا کو دیدی ہے، اب اس کے بعد کسی اور الہام کی ضرورت ہی کیا ہے کہ کسی اور قوم میں کوئی ریشی آتا.میں نے زرتشتیوں کی طرف دیکھا تو انہیں بھی یہ کہتے سنا کہ زرتشتیوں کے سوا اور کوئی مذہب سچا نہیں.میں نے یہودیوں کو دیکھا تو انہیں بھی یہ کہتے پایا کہ قریباً تمام انبیاء خدا نے بنی اسرائیل میں ہی بھیجے ہیں، دوسری اقوام کو اللہ تعالیٰ نے اس فضل سے محروم ہی رکھا ہے اور میں نے مسیحیوں کی طرف نگاہ کی تو اُن کا عقیدہ بھی مجھے ایسا ہی نظر آیا.غرض ہر قوم کو میں نے یہ کہتے سنا کہ روحانی تہذیب کا نشان اس کے سوا اور کہیں نظر نہیں آ سکتا ، مگر جب میں نے قرآنی آثار قدیمہ کے محکمہ کو دیکھا تو میں نے اس کے ایک کمرہ میں یہ لکھا ہوا پایا کہ إِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِی ۵ کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کے انبیاء مبعوث نہ ہوئے ہوں ، نہ ہند و بغیر نبی کے رہے نہ ایرانی بغیر نبی کے رہے، نہ یہود بغیر نبی کے رہے اور نہ یورپین لوگ بغیر نبی کے رہے ، غرض قرآن کے آثار قدیمہ کے محکمہ نے بتایا کہ خدا نے ہر جگہ روشنی کے مینار کھڑے کئے تھے.یہ اور بات ہے کہ بعد میں انہوں نے اس روشنی سے فائدہ اُٹھانا چھوڑ دیا مگر بہر حال خدا کی طرف سے انہیں ہدایت سے محروم نہیں کیا گیا.ان میں جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں وہ بعد میں ہوئی ہیں جن کی ذمہ داری خود اُن پر ہے ورنہ خدا نے سب سے یکساں سلوک کیا ہے اور ہر ایک کی طرف اپنی رحمت کا ہاتھ بڑھایا ہے.میں نے جب یہ دیکھا تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ، مگر میں نے کہا آؤ اب میں ان عظیم الشان ہستیوں کے کچھ نشانات بھی دیکھ لوں.بیشک اُنہوں نے عظیم الشان کام کیا اور دنیا میں ایک تغیر عظیم پیدا کر دیا مگر میں دیکھوں تو سہی کہ انہوں نے اپنے پیچھے کیا چھوڑا ہے.میں اس جستجو اور تلاش میں سابقہ کتب کے محکمہ آثار قدیمہ میں داخل ہو گیا مگر یہ دیکھ کر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ ان عظیم الشان ہستیوں کے کپڑوں پر جو اُن کے اتباع کے پاس موجود تھے نہایت گندے اور گھناؤنے داغ تھے کی
۵۹ کسی کے جبہ پر چور لکھا تھا اور کسی کے بجبہ پر بیمار اور کسی کے بجبہ پر ظالم اور دوسروں کا مال کھانے والا اور کسی کے جبہ پر فاسق و فاجر کسی کے جبر پر جھوٹا اور کسی کے جبہ پر غاصب ، یہاں تک کہ بعض کے جنوں پر مشرک کے الفاظ تحریر تھے اور یہ سب اُن کے اتباع کے ہاتھوں میں تھے غیروں کے دست بُرد کا اس میں دخل نہ تھا.میں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اتنے گندے لباس ان عظیم الشان ہستیوں کے ہوں جن کے احسانات کے بارگراں کے نیچے دنیا دبی ہوئی ہے.میں نے اُن کے اس لباس کو دیکھ کر نفرت کا اظہار کیا اور میں نے کہا میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ اُن کے لباس نہیں ہو سکتے اسی حیرت اور استعجاب کے عالم میں قرآنی آثار قدیمہ کے ایک کمرہ میں داخل ہو گیا اور وہاں جو میں نے اُن کا لباس دیکھا، اُس کی چمک اور خوبصورتی دیکھ کر میری آنکھیں خیرہ رہ گئیں، چنانچہ میں نے انعام رکوع ۱۰ میں قرآنی آثار قدیمہ کا ایک کمرہ دیکھا جس میں لکھا تھا.وَ تِلكَ حُجَّتُنَا أَتَيْنَهَا إِبْراهِيمَ عَلَى قَوْمِهِ- نَرْفَعُ دَرَجَتٍ مَّنْ نَّشَاءُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيْمٌ - وَوَهَبْنَالَةَ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ كُلًّا هَدَيْنَا وَنُوحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُدَ وَسُلَيْمَنَ وَأَيُّوبَ وَيُوْسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ وَ كَذَلِكَ نَجْزِى الْمُحْسِنِينَ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَ وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّلِحِينَ وَإِسْمَعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَلَمِينَ وَ مِنْ آبَائِهِمُ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَاِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَيْنَهُمْ وَهَدَيْنَهُمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِى بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَلَوْاَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ - أُولئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَهُمُ الْكِتب وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ فَإِنْ يَّكْفُرُبِهَا هَؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَابِهَا قَوْماً لَّيْسُوابِهَا بِكْفِرِينَ أُولئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهُ قُلْ لا أَسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِنْ هُوَإِلَّا ذِكْرَى لِلْعَلَمِینَ ۵۷ کہ یہ ہمارے دلائل اور نشانات تھے جو ہم نے ابراہیم کو اُس کی قوم کے خلاف بخشے اور ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کر دیتے ہیں.تیرا رب بڑی حکمت سے کام کرنے والا اور تمام باتوں کو بخوبی جاننے والا ہے.ہم نے ابراہیم کو الحق اور یعقوب دیئے اور اُن کو ہدایت دی اسی طرح اس سے قبل نوح کو بھی ہم نے ہدایت دی.پھر ابراہیم کی ذریت میں سے داؤد، سلیمان ، ایوب، یوسف ، موسیٰ اور ہارون ہوئے اور ہم اسی طرح نیک لوگوں کو جزاء دیا کرتے ہیں، اسی طرح زکریا ، بیٹی ، عیسی اور الیاس یہ سارے نیک لوگ تھے اور اسمعیل ، الیسع ، یونس اور لوط" ان سب کو ہم نے دنیا پر عزت
۶۰ اور بزرگی بخشی اور اُن کے باپ دادوں میں سے اُن کی ذریت اور اُن کے بھائیوں میں سے بھی ہم نے کئی لوگوں کو چنا اور انہیں سیدھا راستہ دکھایا.یہ ہدایت ہے اللہ تعالیٰ کی جس کے ذریعہ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے.اگر یہ لوگ مشرک ہوتے یا خراب ہوتے تو یقیناً یہ اپنے مقصد میں ناکام رہتے.یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب دی اور حکم بخشا اور نبوت عطا فرمائی.اگر ان لوگوں کے بعض منکر ہیں تو یقیناً ہم نے ایسے لوگ بھی بنا دیئے ہیں جوان کی قدر و عظمت کو سمجھتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی.پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! جو کچھ یہ لوگ کرتے رہے ہیں تو بیشک وہی کام کر.کیونکہ انہوں نے کوئی کام ہدایت کے خلاف نہیں کیا اور لوگوں سے کہدے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ، یہ قرآن تو دنیا کے لئے نصیحت اور ہدایت کا ذریعہ ہے.اگر لوگ ان باتوں کو مان لیں گے تو اس میں اُن کا اپنا فائدہ ہے اور اگر انکار کریں گے تو اس کا نقصان بھی انہیں ہی برداشت کرنا پڑیگا.اب قرآن تو یہ کہتا ہے کہ یہ سب لوگ نیک اور راستباز تھے ، مگر جب میں نے غیر مذاہب کی تعلیموں کو دیکھا تو مجھے ان میں نظر آیا کہ کوئی کہہ رہا ہے ابراہیم نے جھوٹ بولا میں نے ایک نظر اس الزام پر ڈال کر جب قرآن کو دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ قرآن اس کی تردید کر رہا ہے، اسی طرح پُرانے آثار میں اسحاق اور یعقوب کے متعلق عجیب عجیب قصے پائے جاتے ہیں ، اسحاق کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ اُس نے جھوٹ بولا اور یعقوب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے فریب سے نبوت حاصل کی ، مگر یہاں آ کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ اسحاق اور یعقوب میں کوئی نقص نہ تھا.اسی طرح نوح کے متعلق جب میں نے بائبل کے مطابق اس کے آثار کو دیکھا تو وہاں مجھے یہ نظر آیا کہ نوح شراب پیا کرتا تھا ، داؤد کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ قاتل اور خونریز تھا، مگر قرآنی آثار قدیمہ میں مجھے ان میں سے کوئی بات دکھائی نہ دی، بلکہ اس کے برعکس یہ لکھائی ہوا پایا کہ یہ لوگ معصوم تھے انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا.اسی طرح سلیمان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کفر کیا ، ایوب کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بے صبری دکھائی، یوسف کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ چور تھا.اسی طرح موسی کے متعلق کئی قسم کے اعتراض کئے جاتے ہیں اور ہارون کے متعلق تو کھلے طور پر کہا جاتا ہے کہ اس نے بنی اسرائیل کے سامنے بچھڑا بنا کر رکھ دیا اور انہیں کہا کہ یہی تمہارا خدا ہے یہی حال زکریا ، بیٹی ، عیسی ، الیاس ، اسمعیل ، الیغ ، یونس اور لوط وغیرہ کا ہے اور کرشن ، رامچندر اور زرتشت کے اپنے قومی آثارِ قدیمہ بھی اُن کے متعلق ایسی ہی وی
۶۱ روشنی ڈالتے ہیں جو اُن کو اچھی شکل میں پیش نہیں کرتے اور میں نے دیکھا کہ ان کے لباس جو لوگ بتاتے ہیں وہ نہایت پھٹے پرانے اور میل کچیل سے بھرے ہوئے تھے مگر جب قرآن کریم کے آثارِ قدیمہ کے کمروں کو میں نے دیکھا تو اُن میں ہر نبی کا لباس نہایت صاف ستھرا اور پاکیزہ دکھائی دیا.پھر میں نے اپنی نظر او پر اُٹھائی تو اس کمرہ کے دروازہ پر ایک بورڈ لگا ہوا تھا اور اس پر لکھا تھا.اُولئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللهُ فَبِهُد هُمُ اقْتَدِهُ یہ لوگ بڑے صاف ستھرے اور پاکیزہ تھے.انہوں نے کوئی بات ہمارے حکم کے خلاف نہیں کی.پس جس بات کے متعلق بھی تمہیں یقینی طور پر پتہ لگ جائے کہ وہ ان انبیاء میں سے کسی نے کی ہے اُس پر بغیر کسی خدشہ کے فوراً عمل کر لیا کرو کیونکہ وہ ضرور اچھی ہوگی.(۲) جنتر منتر دوسری سیر میں نے جنتر منتر کی کی.جنتر منتر ایک رصد گاہ کا نام ہے جہاں اجرامِ فلکی کے نقشے بنے ہوئے ہیں.اسی طرح بعض بلند جگہیں بنی ہوئی ہیں جہاں سے ستاروں اور اُن کی گردشوں کا اچھی طرح معائنہ کیا جا سکتا ہے.یہ رصد گا ہیں تین کام دیتی تھیں.اول علم ہیئت اور حساب اوقات کی صحیح معلومات حاصل کرنا.دوم اپنے خیال کے مطابق علم غیب دریافت کرنا.سوم ستاروں کے بداثرات سے بچنے کی کوشش کرنا.یہ نہایت خوشنما جگہ ہے اور لوگ اسے ایک پُرانے زمانہ کی یاد گار سمجھ کر دیکھنے کے لئے آتے رہتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ محمد شاہ بادشاہ کے وقت میں مہا راجہ جے پور نے اسے تعمیر کرایا تھا.میں نے کہا اس چھوٹے سے نقشہ کی تو لوگ قدر کرتے ہیں اور اس کے بنانے والے کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن کبھی بھی وہ اُس حقیقی جنتر منتر کی طرف نگاہ نہیں اُٹھاتے جس کا یہ نقشہ ہے اور نہ اس کے بنانے والے کی صنعت کی عظمت کا اقرار کرتے ہیں.مٹی اور پتھر کی اگر کوئی دوا مینٹیں لگا دے تو کہہ اُٹھتے ہیں واہ واہ ! اُس نے کسقدر عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا تو
۶۲ لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ کتنی عظیم الشان طاقتوں کا مالک خدا ہے جس نے اس جنتر منتر سے کروڑوں درجے بڑا ایک اور جنتر منتر بنایا اور نہ صرف اس نے اتنا بڑا نقشہ بنایا بلکہ اس نقشہ کا دیکھنا بھی ممکن کر دیا کیونکہ قرآن کریم میں اصل نقشہ کی سیر کا بھی امکان پیدا کیا گیا ہے میں نے اس غرض کے لئے سورہ انعام کو دیکھا تو وہاں یہ لکھا ہوا پایا.وَكَذَلِكَ نُرِى إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوْقِنِينَ ٥٨ کہ اسی طرح ہم نے ابراہیم کو زمین و آسمان کے اسرار کھول کر دکھائے تا کہ وہ علم میں ترقی کرے اور ہماری قدرتوں پر یقین لائے.یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ امر کھول کر بیان کر دیا ہے کہ میں نے ابراہیم کو اصل جنتر منتر کی سیر کرا دی اور زمین و آسمان کا نقشہ اسے دکھا دیا.پھر یہیں پر بس نہیں بلکہ قرآن کریم کی امداد کے ذریعہ ان جنتروں منتروں پر انسان كُليةً حاوی ہو جاتا ہے اور کوئی چیز اس کے احاطہ اقتدار سے باہر نہیں رہتی چنانچہ فرماتا ہے دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنی ۵۹ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف اُٹھایا اور سورج چاند ستاروں سب کی سیر کراتا ہوا آپ کو اتنا قریب لے گیا کہ کوئی فاصلہ درمیان میں رہا ہی نہ.پس میں نے دیکھا کہ وہ باتیں جن کی تلاش میں لوگ سالوں سر گردان رہتے ہیں اور پھر بھی ناکام و نامراد رہتے ہیں وہ قرآن کریم کی اتباع میں ایسی آسانی سے حاصل ہو جاتی ہیں کہ نہ صرف اپنی خواہشات کو انسان پورا ہوتا دیکھ لیتا ہے بلکہ اور بھی ہزاروں قسم کے علوم اُسے حاصل ہو جاتے ہیں مگر آہ ! لوگ معمولی اینٹوں کے بنائے ہوئے جنتر منتر کی تو قدر کرتے ہیں مگر وہ اس جنتر منتر کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے جو ان کو ہزاروں فوائد سے متمتع کر سکتا ہے.پھر میں نے کہا قرآنی رصد گاہ میں ستاروں کے بداثرات سے بچنے کا علاج لوگ رصد گاہیں اس لئے بناتے ہیں کہ وہ ستاروں کے بداثرات کا علم حاصل کر کے ان سے بچ سکیں مگر قرآنی رصد گاہ میں بھی ستاروں کے بداثرات سے بچنے کا کوئی علاج ہے یا نہیں.میں نے جب دیکھا تو قرآن میں مجھے اس کا بھی علاج نظر آ گیا ، آخر لوگ ستاروں کے بداثرات سے بچنے کی کیوں کوشش کرتے ہیں اسی لئے کہ کہیں ان پر کوئی تباہی نہ آ جائے.اب آؤ ہم دیکھیں کہ کیا تباہیوں سے بچنے کا قرآن کریم نے بھی کوئی علاج بتایا ہے یا نہیں ؟ اس مقصد کیلئے جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ گر بھی قرآن کریم میں بیان ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا
۶۳ ہے.أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ - لَهُمُ الْبُشْرَى فِى الْحَيوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ.میں نے دہلی میں دیکھا کہ بالکل لغو اور فضول جنتر منتر ہیں جن کا مصائب کے دور کرنے پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا مگر اس کے مقابلہ میں قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ دُکھوں اور تکلیفوں سے بچنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ خدا کے دوست بن جاؤ پھر جس ستارے کا بھی بدا ثر تم پر ہوسکتا ہو اس کو خدا خود دور کر دیگا، تمہیں گھبرانے اور فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے ، تمام جنتر منتر اُس کے قبضہ میں ہے اگر وہ دیکھے گا کہ سورج کے کسی اثر کی وجہ سے تمہیں نقصان پہنچنے والا ہے تو وہ اس کے بداثر سے تمہیں بچالے گا، اگر دیکھے گا کہ چاند کی کسی گردش سے تم پر تبا ہی آنیوالی ہے تو وہ خوداس تباہی سے تمہیں محفوظ رکھے گا، تم ماش اور جو پر پڑھ پڑھ کر کیا پھونکتے ہو؟ تم اللہ تعالیٰ سے دوستی لگا و جب تمہاری اس سے دوستی ہو جائے گی تو مجال ہے کہ اُس کے گئے تمہیں کچھ کہہ سکیں.پس میں نے جب قرآنی رصدگاہ میں سے اس علاج کو دیکھا تو میرے دل نے کہا واقع میں وہ بالکل فضول طریق ہیں جو لوگوں نے ایجاد کر رکھے ہیں کیوں نہ اس رصد گاہ کا جو اصل مالک ہے اور جو زندہ اور طاقتور خدا ہے اس سے دوستی لگائی جائے اگر مریخ کی کسی چال کا ہمیں نقصان پہنچ سکتا ہو گا تو خدا خود اس کا علاج کرے گا.ہم میں ذاتی طور پر یہ کہاں طاقت ہے کہ ہم تمام ستاروں کے بداثرات سے بچ سکیں.اگر بالفرض ایک ستارے کے بداثر سے ہم نکل بھی گئے تو ہمیں کیا پتہ کہ کوئی اور ستارہ ہمیں اپنی گردش میں لے آئے.پس یہ بالکل غلط طریق ہے کہ انسان ایک ایک ستارہ کے بداثر سے بچنے کی کوشش کرے اصل طریق وہی ہے جو قرآن کریم نے بتایا کہ انسان ان ستاروں کے مالک اور خالق سے دوستی لگالے پھر کسی ستارے کی مجال نہیں کہ وہ انسان پر بداثر ڈال سکے.ایک بزرگ کا قصہ قصہ مشہور ہے کہ کوئی بزرگ تھے ان کے پاس ایک دفعہ ایک طالبعلم آیا جو دینی علوم سیکھتا رہا، کچھ عرصہ پڑھنے کے بعد جب وہ اپنے وطن واپس جانے لگا تو وہ بزرگ اس سے کہنے لگے میاں ایک بات بتاتے جاؤ.وہ کہنے لگا دریافت کیجئے میں بتانے کے لئے تیار ہوں.وہ کہنے لگے اچھا یہ تو بتاؤ کہ تمہارے ہاں شیطان بھی ہوتا ہے؟ وہ کہنے لگا حضور شیطان کہاں نہیں ہوتا شیطان تو ہر جگہ ہوتا ہے.انہوں نے کہا اچھا جب تم
۶۴ نے خدا تعالیٰ سے دوستی لگانی چاہی اور شیطان نے تمہیں ورغلا دیا تو تم کیا کرو گے؟ اس نے کہا میں شیطان کا مقابلہ کروں گا.کہنے لگے فرض کرو تم نے شیطان کا مقابلہ کیا اور وہ بھاگ گیا ، لیکن پھر تم نے اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے جدوجہد کی اور پھر تمہیں شیطان نے روک لیا تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا میں پھر مقابلہ کرونگا.وہ کہنے لگے اچھا مان لیا تم نے دوسری دفعہ بھی اُسے بھگا دیا لیکن اگر تیسری دفعہ وہ پھر تم پر حملہ آور ہو گیا اور اس نے تمہیں اللہ تعالیٰ کے قرب کی طرف بڑھنے نہ دیا تو کیا کرو گے؟ وہ کچھ حیران سا ہو گیا مگر کہنے لگا میرے پاس سوائے اس کے کیا علاج ہے کہ میں پھر اُس کا مقابلہ کروں.وہ کہنے لگے اگر ساری عمر تم شیطان سے مقابلہ ہی کرتے رہو گے تو خدا تک کب پہنچو گے.وہ لا جواب ہو کر خاموش ہو گیا ، اس پر اس بزرگ نے کہا کہ اچھا یہ تو بتاؤ اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے جاؤ اور اُس نے ایک کتا بطور پہرہ دار رکھا ہو ا ہو، اور جب تم اس کے دروازہ پر پہنچنے لگو و وہ تمہاری ایڑی پکڑ لے تو تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا گتے کو مارونگا اور کیا کرونگا.وہ کہنے لگے فرض کرو تم نے اسے مارا اور وہ ہٹ گیا، لیکن اگر دوبارہ تم نے اس دوست سے ملنے کیلئے اپنا قدم آگے بڑھایا اور پھر اس نے تمہیں آ پکڑا تو کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا میں پھر ڈنڈا اٹھاؤنگا اور اُسے ماروں گا انہوں نے کہا اچھا تیسری بار پھر وہ تم پر حملہ آور ہو گیا تو تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا اگر وہ کسی طرح باز نہ آیا تو میں اپنے دوست کو آواز دونگا کہ ذرا باہر نکلنا یہ تمہارا گتا مجھے آگے بڑھنے نہیں دیتا اسے سنبھال لو.وہ کہنے لگے بس یہی گر شیطان کے مقابلہ میں بھی اختیار کرنا اور جب تم اس کی تدابیر سے بچ نہ سکو تو خدا سے یہی کہنا کہ وہ اپنے گتے کو رو کے اور تمہیں اپنے قرب میں بڑھنے دے.یہی نسخہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان کیا ہے وہ فرماتا ہے.أَلَا إِنَّ اَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ - اے بڑی بڑی رصد گا ہیں اور جنتر منتر بنانے والو! تم ستاروں کی گردش سے ڈر کر جنتر منتر کی پناہ کیوں ڈھونڈتے ہو، تم اس کا ہاتھ کیوں نہیں پکڑ لیتے جس کے قبضہ قدرت میں یہ تمام چیزیں ہیں.اگر تم اس سے دوستی لگا لو تو تمہیں ان چیزوں کا کوئی خطرہ نہ رہے اور ہر تباہی اور مصیبت سے بچے رہو.یہ علاج ہے جو قرآن کریم نے بتایا ہے.رصد گاہوں اور جنتر منتر کا علاج تو بالکل خطتنی ہے مگر یہ وہ علاج ہے جو قطعی اور یقینی ہے..قرآنی رصد گاہ سے علم غیب کی دریافت دوسری بات جس کی وجہ سے لوگ ستاروں کی طرف توجہ کرتے ہیں علم غیب
کی دریافت ہے سو یہ بات بھی حقیقی طور پر قرآنی رصد گاہ سے ہی حاصل ہوتی ہے باقی سب ڈھکوسلے ہیں، چنانچہ میں نے دیکھا کہ اس رصد گاہ کے قوانین میں لکھا ہو اتھا.قُل لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِى السَّمواتِ وَالْاَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ بَلِ ادْرَكَ عِلْمُهُمُ فِى الْآخِرَةِ بَلْ هُمُ فِي شَكٍّ مِّنْهَا بَلْ هُمْ مِّنْهَا عَمُونَ ال فرماتا ہے زمین و آسمان میں سوائے خدا کے اور کوئی غیب نہیں جانتا.یعنی مصفی علم غیب صرف خدا تعالیٰ کو ہے اور یہ لوگ جو ستاروں کے پرستار ہیں اور انہیں دیکھ کر غیب کی خبریں بتانے کی کے دعویدار ہیں یہ تو اپنی ترقی کا زمانہ بھی نہیں بتا سکتے اور اتنی بات بھی نہیں جانتے کہ ان کی قوم کب ترقی کریگی.یہ برابر تباہ ہوتے جا رہے ہیں مگر نہیں جانتے کہ ان کی تباہی کب دُور ہوگی.اس کے مقابلہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو پہلے اکیلا تھا آج بہتوں کا سردار بنا ہوا ہے اگر انہیں ستاروں سے علم غیب حاصل ہو سکتا ہے تو کیوں یہ اپنی ترقی کا زمانہ نہیں بتا سکتے اور کیوں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترقی کو جو ستاروں سے علم غیب حاصل کرنے کا قائل نہیں روک نہیں دیتے ؟ جب یہ اپنی ترقی کا زمانہ بھی نہیں بتا سکتے تو انہوں نے اور کونسی غیب کی خبر بتانی ہے.پھر فرما یا یہ تو دنیا کی بات ہے بَلِ ادْرَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْآخِرَةِ - بَعْدَ الْمُموت کی حالت کے متعلق یہ علم سے بالکل خالی ہیں اور حق بات تو یہ ہے کہ یہ اندھوں کی طرح تخمینے کرتے ہیں جو کبھی غلطی کرتا اور کبھی ٹھیک راستہ پر چلتا ہے.جس طرح اندھے کے ہاتھ کبھی لکڑی آ جاتی ہے اور کبھی سانپ ، اسی طرح ان کو بھی کبھی کوئی ایک آدھ بات درست معلوم ہو جاتی ہے اور کبھی حق سے دور باتوں کو سچ سمجھ کر یہ پکڑ لیتے ہیں.جب مجھے یہ آیت معلوم ہوئی تو میں نے کہا کہ اگر مصفی علم غیب صرف خدا تعالیٰ کے پاس ہی ہے تو ہمیں اس کا کیا فائدہ ہوا، انکل پیچو والے کوتو پھر بھی کبھی لکڑی مل جاتی ہے مگر ہم تو اس طرح انکل پچھ والے فائدہ سے بھی محروم ہو گئے.اس پر میں نے دیکھا کہ قرآن نے میرے اس محبہ کا بھی جواب دے دیا اور اس نے فرمایا.عَلِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولِ " کہ ہم نے یہ علم غیب صرف اپنے پاس ہی نہیں رکھا بلکہ ہم کبھی اپنے بندوں کو اس غیب سے مطلع بھی کر دیا کرتے ہیں مگر انہی کو جن کو ہم چن لیتے ہیں ، ہر کس و ناکس کو غیب کی خبریں نہیں بتاتے.پھر میں نے کہا کہ غلبہ غیب کا بیشک نبیوں کو ہی حاصل ہو مگر عام انسانوں کو بھی تو کبھی علم غیب
۶۶ کی ضرورت ہوتی ہے کیا ان کے لئے بھی کوئی راہ ہے؟ اس پر مجھے جواب ملا کہ ہاں.اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ اَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ - نَحْنُ اَولِيَؤُكُمْ فِى الْحَياةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ وَلَكُمُ فِيهَا مَاتَشْتَهِي اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَاتَدَّعُونَ - نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر انہوں نے لوگوں کی مخالفت کی پروا نہ کی بلکہ استقامت سے بچے مذہب پر قائم رہے اُن پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ڈرو نہیں اور نہ غم کرو.ہم فرشتے تمہاری حفاظت کیا کریں گے ، تمہاری پچھلی خطائیں معاف ہو چکیں اور آئندہ کے لئے تمہارے ساتھ خدا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ تمہیں جنت میں داخل کریگا ، ہم تمہارے دوست ہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.وہاں جس چیز کے متعلق بھی تمہارا جی چاہے گا وہ تمہیں مل جائیگی اور جو کچھ مانگو گے وہ تمہیں دیا جائے گا، یہ تمہاری مہمان نوازی ہے جو بخشنے والے مہربان رب کی طرف سے ہے.اس نے تمہارا ماضی بھی درست کر دیا اور اس نے تمہارے مستقبل کو بھی ہر قسم کے خطرہ سے آزاد کر دیا.منجموں کی خبروں اور الہام الہی میں فرق اس میں یہ جواب بھی آ گیا کہ ستاروں کی خبریں صرف خبریں ہوتی ہیں اور یہ تقدیر ہوتی ہے یعنی وہ لوگ جو ستاروں کی گردشیں دیکھ کر دوسروں کو خبر میں بتا یا کرتے ہیں وہ صرف خبر بتاتے ہیں مثلاً یہ کہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص مر جائے گا.اب یہ صرف ایک خبر ہے اس میں یہ ذکر نہیں کہ وہ کسی طریق پر عمل کر کے موت سے بچ بھی سکتا ہے لیکن الہامِ الہی میں جہاں انذار ہوتا ہے وہاں تبشیر بھی ہوتی ہے.اگر ایک طرف یہ ذکر ہوتا ہے کہ تمہیں ترقی ملے گی تو دوسری طرف یہ ذکر بھی ہوتا ہے کہ تمہارے دشمن ہلاک کئے جائیں گے اور پھر اُن دشمنوں کو بھی بتایا جاتا ہے کہ اگر ہمارے نبی پر ایمان لے آؤ تو تم ان آنے والی مصیبتوں سے بچ جاؤ گے لیکن اگر مخالفت اور دشمنی پر مصر رہے تو پھر تمہاری ہلاکت یقینی ہے.گویا ایک تقدیر اور قدرت ہے جو الہام الہی میں پائی جاتی ہے مگر کسی رصد گاہ سے جو لوگ کوئی خبر معلوم کرتے ہیں اس میں کوئی قدرت اور جلال کا پہلو نہیں ہوتا.بسا اوقات رصد گاہ والا خود اپنے متعلق جب کوئی بات معلوم کرنا چاہتا ہے تو اُسے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ تیرا بیٹا مر جائے گا اب وہ ہزار کوشش کرے کہ کسی طرح مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ میں کس طرح اس مصیبت سے بچ سکتا ہوں تو اسے کسی طرح یہ بات معلوم نہیں ہو سکتی ،
۶۷ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف جب توجہ کی جائے تو اس قسم کے تمام عقدے حل ہو جاتے ہیں پس وہ خبریں صرف خبریں ہوتی ہیں، لیکن الہام الہی میں قدرت اور جلال کا پہلو پایا جاتا ہے.ستاروں سے حاصل کردہ خبروں کی حقیقت پھر میں نے پو چھا کہ ستاروں سے جو خبریں ملتی ہیں اُن کی حقیقت کیا ہوتی ہے؟ اس کے جواب میں مجھے ایک نہایت ہی لطیف بات سورۃ الصفت سے معلوم ہوئی.اللہ تعالیٰ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَاِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْرَاهِيمَ إِذْجَآءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ إِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ وَقَوْمِهِ مَاذَا تَعْبُدُونَ أَئِفَكًا الِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ فَمَاظَنُّكُمْ بِرَبِّ الْعَلَمِيْنَ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ فَتَوَلَّوْاعَنُهُ مُدْبِرِينَ فَرَاغَ إِلَّى الهَتِهِمْ فَقَالَ اَلَا تَأْكُلُونَ مَالَكُمْ لَا تَنْطِقُونَ فَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ فَاقْبَلُوا إِلَيْهِ يَزِفُّونَ قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ وَاللهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُونَ قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَالْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ فَاَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَهُمُ الْاَسْفَلِينَ وَقَالَ إِنِّى ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ " حضرت ابراہیم علیہ السلام اُس قوم سے تعلق رکھتے تھے جو ستارہ پرست تھی چنانچہ قرآن مجید میں ہی ایک دوسرے مقام پر ذکر آتا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ مخالفوں کو چڑانے اور انہیں سمجھانے کے لئے طنزاً کہا کہ فلاں ستارہ میرا رب ہے مگر جب وہ ڈوب گیا تو کہنے لگے کہ یہ خدا کیسا ہے جو ڈوب گیا.میں تو ایسے خدا کا قائل نہیں ہو سکتا.اس کے بعد اُنہوں نے طنزا چاند کے متعلق کہا کہ وہ میرا رب ہے اور جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے میں تو سخت غلطی میں مبتلاء ہو جا تا اگر میرا خدا میری رہبری نہ کرتا ، بھلا وہ بھی خدا ہو سکتا ہے جو ڈوب جائے.پھر سورج کے متعلق انہوں نے کہا کہ وہ میرا رب ہے مگر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو وہ کہنے لگے کہ میں ان سب مشر کا نہ باتوں سے بیزار ہوں.میرا خدا تو ایک ہی خدا ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے.تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جس قوم میں سے تھے وہ ستارہ پرست تھی اور چونکہ ستاروں کی پرستش نہیں ہوسکتی اس لئے اُنہوں نے مختلف ستاروں کے قائمقام کے طور پر بہت سے بُت بنائے ہوئے تھے اور وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اگر ان بجھوں کی عبادت کی جائے تو جس ستارہ کے یہ قائم مقام ہیں اس کی مدد ہمیں حاصل ہو جائے گی.پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام جس خاندان میں سے تھے وہ بھی پروہتوں کا خاندان تھا چنانچہ ان کے باپ نے ایک بچوں کی دکان کھولی ہوئی تھی جس پر وہ
Чл کبھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی بٹھا دیتا اور کبھی ان کے دوسرے بھائیوں کو.اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اندر بچپن سے ہی سعادت کا مادہ رکھا ہوا تھا، چنانچہ یہودی روایات ( طالمود) میں آتا ہے کہ ایک دن ان کا بھائی انہیں دکان پر بٹھا گیا اور بُھوں کی قیمت وغیرہ بتا کر کہہ گیا کہ اگر کوئی گاہک آئے تو اُسے بُت دیدینا.تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک تو بڑھا شخص اس دکان پر آیا اور کہنے لگا کہ مجھے ایک بُت چاہئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک بُت اٹھایا اور گاہک کے ہاتھ میں دیدیا.وہ اُسے دیکھ کر کہنے لگا کہ اچھا ہے اس کی قیمت بتاؤ.انہوں نے کہا کہ تم پہلے یہ بتاؤ کہ تم اس بُت کو کیا کرو گے.اُس نے کہا اسے گھر میں لے جاؤں گا اور اپنے سامنے رکھ کر اس کے آگے سجدہ کیا کرونگا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سن کر بڑے زور سے ایک قہقہ لگایا اور کہا تجھے اس کے آگے جھکتے ہوئے شرم نہیں آئے گی.توستر اتنی سال کی عمر کا ہو گیا ہے اور یہ بُت وہ ہے جو گل ہی میرے چانے بنوایا ہے بھلا اس بت نے جسے کل سنگ تراش نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے تجھے کیا فائدہ پہنچانا ہے اور کیا تجھے شرم نہیں آئے گی کہ تو اتنا بڑا آدمی ہو کر اس کے آگے جھک جائے.اب وہ گو بُت پرست ہی تھا مگر یہ فقرہ سُن کر اس کے اندر بُت کو گھر لے جانے کی ہمت نہ رہی اور وہ وہیں اسے چھوڑ کر چلا گیا.ان کے بھائیوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے باپ سے شکایت کر دی کہ ابراہیم کو دکان پر نہ بٹھایا جائے ورنہ یہ تمام گاہکوں کو خراب کر دیگا.تو ان لوگوں میں ستاروں کا علم خاص طور پر پایا جا تا تھا اور علم رمل اور علم نجوم آئندہ نسلوں کو سکھایا جاتا تھا.جس طرح ہندوؤں میں پنڈت اس کام میں مشاق ہوتے ہیں اور وہ زائچہ نکالتے اور جنم پتری دیکھتے ہیں اسی طرح ان کو بھی زائچہ نکالنا اور جنم پتری دیکھنا سکھایا جاتا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی چونکہ ایسے ہی خاندان میں سے تھے اس لئے لازماً انہوں نے بھی یہ علم سیکھا، مگر جب بڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو توحید کی تعلیم دینی شروع کر دی تو قوم سے ان کی بحثیں شروع ہوگئیں.حضرت ابراہیم کا ستارہ پرستوں کو درس توحید ایک دن وہ اپنے رشتہ داروں اور قوم کے دوسرے لوگوں سے کہنے لگے کہ تم یہ تو سوچو کہ آخر تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو.تم جھوٹ اور فریب کے ساتھ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر اور معبود بناتے ہو اور پھر یہ جانتے ہوئے کہ تم نے خود اپنے ہاتھ سے ان بچوں کی کو بنایا ہے ان کے پیچھے چل پڑتے ہو اور انہیں خدا کا شریک قرار دیتے ہو.تم جو ستاروں کے
۶۹ 2 ہو پیچھے چل رہے ہو ہمیشہ تم کہتے ہو کہ مریخ نے یہ کر دیا، زحل نے وہ کر دیا.مشتری نے یہ کیا اور عطارد نے وہ کیا.تم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ رب العلمین کیا کر رہا ہے کس قدر ایک وسیع نظام ہے جو ہر چیز میں نظر آتا ہے.کیا یہ تمام نظام ایک بالا قانون کے بغیر ہی ہے ساری چیزیں اس کے اشاروں پر چل رہی ہیں اور ان ستاروں میں بھی جس قدر طاقتیں ہیں وہ خدا تعالیٰ کی ہی عطا کردہ کی ہیں.پس عبادت کا اصل مستحق خدا ہے نہ کہ کوئی اور چیز.یہ تقریر آپ کر ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک لطیف نکتہ سمجھا دیا فَنَظَرَ نَظْرَةً فِى النُّجُومِ آپ نے ستاروں میں دیکھا فَقَالَ إِنِّي سَقِیم اور کہا کہ میں بیمار ہوں آپ کا یہ کہنا تھا کہ لوگ چلے گئے اور مجلس منتشر ہو گئی.یہاں مفسرین کو بڑی مشکل پیش آئی ہے اور وہ حیران ہیں کہ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ فَقَالَ إِنِّی سَقِیم کے کیا معنی کریں بعض کہتے ہیں کہ اس روز آپ واقع میں بیمار تھے جب بحث زیادہ ہوگئی تو انہوں نے کہا اب مجھے آرام کرنے دو میں بحث کر کے تھک گیا ہوں.مگر بعض کہتے ہیں کہ آپ اس روز بیمار تھے ہی نہیں.آپ نے اِنِّی سَقِيمٌ جو کہا تو محض ان سے پیچھا چھڑانے کے لئے کہا ، چونکہ وہ بحث کرتے ہی چلے جاتے تھے اور بس کرنے میں نہیں آتے تھے اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ بول کر کہدیا کہ میں بیمار ہوں چنانچہ وہ چلے گئے.بعض کہتے ہیں کہ آپ نے جھوٹ نہیں بولا تھوڑے بہت آپ ضرور بیمار تھے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ آپ کو اُس دن نزلہ کی شکایت تھی.آپ نے انہیں کہہ دیا کہ بھائی اب معاف کرومیں بیمار ہوں.غرض مفسرین اس موقع پر عجیب طرح گھبرائے ہوئے نظر آتے ہیں اور اُن سے کوئی تاویل بن نہیں پڑتی کبھی کوئی بات کہتے ہیں اور کبھی کوئی ، مگر سوال یہ ہے کہ اِنِّی سَقِيمٌ سے پہلے یہ الفاظ ہیں کہ فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ.انہوں نے ستاروں کو دیکھا.اب سوال یہ ہے کہ ان کے بیمار ہونے کی خبر کا ستاروں سے کیا تعلق ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے ستاروں کو دیکھ کر یہ معلوم کیا تھا کہ اب بحث کرتے کرتے بہت دیر ہو گئی ہے حالانکہ دیر ہو جانے کا ستاروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.آپ ہی انسان سمجھ لیتا ہے کہ اب فلاں کام کرتے کرتے مجھے کافی دیر ہو گئی ہے.ستاروں کی طرف دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہا کرتا کہ اب بہت دیر ہو گئی ہے پھر سوال یہ ہے کہ اگر ستاروں کو دیکھ کر انہوں نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ دیر ہو گئی ہے تو انہیں کہہ دینا چاہئے تھا اب بہت دیر ہو گئی ہے تم چلے جاؤ مگر وہ یہ نہیں کہتے کہ دیر ہو گئی ہے تم چلے جاؤ بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوں.اس پر بعض مفترین لغت کی پناہ ڈھونڈنے لگے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ سقیم کے
ایک معنے بیزار کے بھی ہیں انہوں نے بحث کرتے کرتے ستاروں کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں ان ستاروں سے سخت بیزار ہوں.اس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ یہ قول بھی صحیح نہیں ہو سکتا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان مشرکین سے یہ کہنا چاہئے تھا کہ میں تم سے بیزار ہوں.ستاروں کے متعلق یہ کہنے کا کیا فائدہ تھا کہ میں ان سے بیزار ہوں.حقیقت یہ ہے کہ ان معنوں میں سے کوئی معنے بھی صحیح نہیں.اصل معنے فَنَظَرَ نَظْرَةً فِى النُّجُومِ کے یہ ہیں کہ جب آپ ان لوگوں سے بحث کر رہے تھے تو بحث کرتے کرتے اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ ان زبانی باتوں سے تو ان کا اطمینان نہیں ہو گا تم یوں کرو کہ اسی وقت اپنا زائچہ نکالو چنانچہ جب وہ تقریر کر رہے تھے کہ ستاروں میں کوئی طاقت نہیں کہ وہ کسی کو نقصان پہنچا ئیں ، سب طاقتیں اور قدرتیں خدا تعالیٰ کو ہی ہیں.تو معا آپ نے اپنی تقریر کا رُخ بدلا اور کہا دیکھو تم جو ستاروں کی گردشوں اور اُن کی چالوں کے بہت قائل ہو، میں تم پر اتمام حجت کرنے کے لئے تمہارے سامنے اپنا زائچہ نکالتا ہوں چنانچہ انہوں نے جو زائچہ دیکھا تو اس سے مہورت ۲۵ یہ نکلی کہ ابراہیم کی خیر نہیں وہ ابھی بیمار ہو جائے گا.اس امر کو معلوم کرنے کے لئے چاہے انہوں نے کی اوپر دیکھا ہو اور ممکن ہے کہ اوپر ہی دیکھا ہو کیونکہ فی کا لفظ آیت میں استعمال ہوا ہے اور ممکن ہے کہ انہوں نے نقشہ دیکھا ہو، بہر حال جب انہوں نے ستاروں کی چال کو دیکھا اور مقررہ نقشہ سے اپنا زائچہ نکالا ، تو اُس میں لکھا تھا کہ فلاں ستارہ کی گردش سے ابراہیم اسی گھڑی بیمار ہو جائے گا ( گویا اِنِّی سَقِيمٌ کے یہ معنی نہیں کہ میں بیمار ہوں بلکہ یہ ہیں کہ میں بیمار ہونے والا ہوں ) جب یہ زائچہ نکل آیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اب میری اور تمہاری بحث ختم.اگر میں بیمار ہو گیا تو میں مان لونگا کہ تم سچ کہتے ہو اور اگر میں بیمار نہ ہوا تو تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ستاروں کی گردشوں اور چالوں پر یقین رکھنا اور یہ خیال کرنا کہ ستاروں کا انسانوں پر بھی اثر ہوتا ہے بیہودہ بات ہے.چنانچہ اسی پر بات ختم ہوگئی اور وہ اُٹھ کر چلے گئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں سے فارغ ہوتے ہی بت خانہ میں گئے اور انہوں نے بت توڑنے شروع کر دیئے.جب ان کے بُت ٹوٹے اور لوگوں کو یہ خبر ہوئی تو وہ دوڑے دوڑے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا دکھائی نہیں دیتا کیا کر رہا ہوں ، تمہارے بچوں کو توڑ رہا ہوں تا کہ تمہیں یہ معلوم ہو کہ میں بیمار نہیں ہوں اور تمہارے زائچہ نے جو کچھ بتایا تھا وہ غلط ہے.انہوں نے جب دیکھا کہ ہمیں دُہری ذلت پہنچی ہے
یعنی ایک تو یہ ذلت کہ ستارے کا اثر جو زائچہ سے نکلا تھا وہ غلط ثابت ہوا اور دوسری یہ ذلت کہ ہمارے بُت اُسی گھڑی توڑے گئے ہیں جس گھڑی ابراہیم نے بیمار ہونا تھا تو وہ سخت طیش میں آگئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ ابراہیم کو اُسی وقت آگ میں ڈال کر جلا دیا جائے تا کہ ہم لوگوں سے یہ کہہ سکیں کہ زائچہ میں جو یہ لکھا تھا کہ ابراہیم پر ایک آفت آئے گی وہ یہی آفت تھی کہ ابراہیم آگ میں جل کر مر گیا.مگر جب انہوں نے آگ جلائی اور حضرت ابراہیم کو اس میں ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ بارش ہوگئی اور آگ بجھ گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس میں سے سلامت نکل آئے اور اس طرح جو تد بیر انہوں نے زائچہ کو درست ثابت کرنے کے لئے اختیار کی تھی وہ بھی نا کام گئی.یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کے بعد دوسرے یا تیسرے دن انہوں نے دوبارہ آگ میں نہیں ڈالا کیونکہ اگر دوسرے تیسرے دن پھر آگ میں ڈالتے تو ان کی سچائی ثابت نہ ہوسکتی.ان کے زائچہ کی سچائی اُسی وقت ثابت ہو سکتی تھی جب کہ اُسی گھڑی حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں جل جاتے جس گھڑی آپ پر کسی آفت کا اُترنا زائچہ بتلاتا تھا مگر جب وہ وقت گزر گیا تو چونکہ اس کے بعد اگر آپ کو وہ دوبارہ بھی آگ میں ڈالتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تکذیب نہیں ہو سکتی تھی اس لئے پھر انہوں نے آپ کو آگ میں نہ ڈالا حالانکہ اگر انہوں نے آپ کو توحید کی وجہ سے ہی آگ میں ڈالا تھا تو چاہئے تھا کہ ایک دفعہ جب وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے تھے تو دوسری دفعہ پھر آپ کو جلانے کی کوشش کرتے مگر انہوں نے بعد میں ایسی کوئی کوشش نہیں کی جس سے یہ بات یقینی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے آپ کو آگ میں اسی لئے ڈالا تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کی وہ خبر درست نکلے جو حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے متعلق زائچہ سے نکلی تھی.اب دیکھو یہ کس طرح ایک مکمل دلیل ستارہ پرستوں کے خلاف بن گئی.زائچہ دیکھا گیا اور اس سے سب کے سامنے یہ نتیجہ نکلا کہ ابراہیم پر اسی وقت کوئی شدید آفت آنیوالی ہے جو اسے تباہ کر دیگی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا بس اسی پر میری اور تمہاری بحث ختم.اگر میں تباہ ہو گیا تو تم سچے اور اگر نہ ہوا تو میں سچا.جب وہ چلے گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی تکذیب واضح کرنے کے لئے جُھوں کو توڑنا شروع کر دیا.اگر یہ معنی نہ کئے جائیں تو اُس دن جوں کو خاص طور پر توڑنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہو سکتا.آپ نے اُس دن خاص طور پر اسی لئے بت تو ڑے کہ جس وقت آپ بت توڑ رہے تھے وہی وقت زائچہ کے مطابق آپ کی بیماری کا کی
۷۲ تھا.پس آپ نے اپنے عمل سے انہیں زبر دست شکست دی اور بتایا کہ تم تو کہتے تھے میں فلاں وقت بیمار ہو جاؤں گا مگر میں نے اسی وقت تمہارے بچوں کے ناک کاٹ ڈالے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ جب ان کی قوم کو یہ خطرناک زک پہنچی تو اس کے بعد آپ نے سمجھا کہ اب اس عملی زک کے نتیجہ میں لوگوں کے دلوں میں ایسا بغض بیٹھ گیا ہے کہ میرا یہاں رہنا ٹھیک نہیں چنانچہ وہ اس علاقہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے علاقہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے.پھر میں نے کہا کہ اچھا جو حصہ حساب و تاریخ کا رہ گیا ہے اس کے متعلق مجھے اس رصد گاہ سے کیا اطلاع ملتی ہے جب میرے دل میں یہ سوال پیدا ہوا تو مجھے اس کے متعلق یہ اطلاعات ملیں.سورج، چاند اور ستارے سب انسان اول : سورج اور چاند اور ستارے سب اپنی ذات میں مقصود نہیں بلکہ یہ سب ایک اعلیٰ ہستی کی کی خدمت کیلئے پیدا کئے گئے ہیں کے کام اور فائدہ کے لئے بنائے گئے ہیں اور وہ اعلیٰ ہستی انسان ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ سور نچل میں فرماتا ہے.وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومُ مُسَخَّرات بِأَمْرِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ " کہ اے بیوقوف انسان! تو خواہ مخواہ سورج، چاند اور ستاروں کی طرف دوڑ رہا ہے کیا تجھے معلوم نہیں کہ یہ رات دن سورج ، چاند اور ستارے سب تیری خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں مگر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ جسے ہم نے خادم قرار دیا تھا اس کو تم اپنا مخدوم قرار دے رہے ہو اور جسے ہم نے مخدوم بنا کر بھیجا تھا وہ خادم بن رہا ہے تم ان سے ڈرتے اور گھبراتے کیوں ہو.کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کوئی آقا اپنے نوکر سے ڈر رہا ہو اور اس کے آگے ہاتھ جوڑتا پھرتا ہو، یا کوئی افسر اپنے چپڑاسی کی منتیں کرتا رہتا ہو اور گر تم کسی کو ایسا کرتے دیکھ تو کیا تم نہیں کہو گے کہ وہ پاگل ہو گیا ہے.پھر تمہیں کیوں اتنی موٹی بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ وَسَخَّرَ لَكُمُ ہم نے تو ان تمام چیزوں کو تمہارا غلام بنا کر دنیا میں پیدا کیا ہے اور ان سب کا فرض ہے کہ وہ تمہاری خدمت کریں.بیشک یہ بڑی چیزیں ہیں مگر جس ہستی نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے بھی بڑی ہے.اس نے تو ان چیزوں کو تمہاری خدمت کے لئے پیدا کیا ہے مگر تمہاری عجیب حالت ہے کہ تم اُلٹا انہیں کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ رہے ہو.قرآن کریم نے جو شرک کی اس بیہودگی کی طرف اس زور سے توجہ دلائی ہے.مجھے اس کے متعلق ایک قصہ یاد آ گیا وہ بھی بیان کرتا ہوں
کہ اس سے مشرکوں کی بے وقوفی پر خوب روشنی پڑتی ہے.وہ قصہ یہ ہے کہ فرانس میں دو پادری ایک دفعہ سفر کر رہے تھے کہ سفر کرتے کرتے رات آ گئی اور انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ کہیں رات آرام سے بسر کریں اور صبح پھر اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ہو جائیں.انہوں نے ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے ایک عورت نکلی، انہوں نے کہا ہم مسافر ہیں ، صرف رات کاٹنا چاہتے ہیں اگر تکلیف نہ ہو تو تھوڑی سی جگہ کا ہمارے لئے انتظام کر دیا جائے ، ہم صبح چلے جائیں گے.اس نے کہا جگہ تو کوئی نہیں ، ایک ہی کمرہ ہے جس میں ہم میاں بیوی رہتے ہیں مگر چونکہ تمہیں بھی ضرورت ہے اس لئے ہم اس کمرہ میں ایک پردہ لٹکا لیتے ہیں ایک طرف تم سوتے رہنا ، دوسری طرف ہم رات گزار لیں گے.چنانچہ اس نے پردہ لٹکا دیا اور وہ دونوں اندر آگئے.اتفاق یہ ہے اُن کے پاس کچھ روپے بھی تھے ، اب جب وہ سونے کے لئے لیٹے تو انہیں خیال آیا کہ کہیں یہ گھر والے ہماری نقدی نہ چرا لیں.اس لئے انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ ذرا ہوشیار رہنا اور جاگتے رہنا ، ایسا نہ ہو کہ ہم کوئے جائیں.ادھر میاں جو پیشہ میں قصاب تھا اس خیال سے کہ ہمارے مہمانوں کی نیند خراب نہ ہو بیوی سے آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگا ان پادریوں کے پاس چونکہ روپیہ تھا انہوں نے سوچا کہ کہیں یہ لوگ ہمیں کوٹنے کی تجویز تو نہیں کر رہے اور کان لگا کر باتیں سننے لگے.اُن دونوں میاں بیوی نے دوسو ر پال رکھے تھے جو سور خانے میں تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ان میں سے ایک کو دوسرے دن ذبح کر دیں.اتفاق کی بات ہے کہ ایک سور موٹا تھا اور ایک دبلا تھا.اسی طرح ایک پادری بھی موٹا تھا اور ایک ڈبلا.جب پادریوں نے کان لگا کر سُنا شروع کیا تو اُس وقت میاں بیوی آپس میں یہ گفتگو کر رہے تھے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک کو ذبح کر دیا جائے ، خاوند کہنے لگا کہ میری بھی یہی صلاح ہے کہ ایک کو ذبح کر دیا جائے.پادریوں نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے سمجھا کہ بس اب ہماری خیر نہیں ، ضرور چھر الے کر ہم پر حملہ کر دیں گے اور ہمیں مار کر نقدی اپنے قبضہ میں کر لیں گے مگر انہوں نے کہا ابھی یہ فیصلہ کرنا ٹھیک نہیں ذرا اور باتیں بھی سُن لیں.پھر انہوں نے کان لگائے تو انہوں نے سُنا کہ بیوی کہہ رہی ہے پہلے کس کو ذبح کریں؟ میاں نے کہا پہلے موٹے کو ذبح کرو پتلا جو ہے اُسے چند دن کھلا پلا کر پھر ذبح کر دینگے.یہ بات انہوں نے جو نہی سنی وہ سخت گھبرائے اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب ہمارے قتل کی تجویز پختہ ہو چکی ہے چنانچہ انہوں نے چاہا کہ کسی طرح اس مکان سے بھاگ نکلیں.دروازے چونکہ بند تھے اس لئے دروازوں سے نکلنے کا تو کوئی راستہ نہ
۷۴.تھا.وہ بالا خانہ پر لیٹے ہوئے تھے انہوں نے نظر جو ماری تو دیکھا کہ ایک کھڑ کی کھلی ہے بس انہوں نے جلدی سے اُٹھ کر کھڑکی میں سے چھلانگ لگا دی جو موٹا پادری تھا وہ پہلے گرا اور جو ڈ بلا پادری تھا وہ اس موٹے پادری کے اوپر آپڑا.ڈبلے کو تو کوئی چوٹ نہ لگی ، مگر موٹا جو پہلے گرا تھا اس کے پاؤں میں سخت موچ آ گئی اور وہ چلنے کے ناقابل ہو گیا.یہ دیکھ کر دُبلا پادری فوراً بھاگ کھڑا ہوا اور ساتھی کو کہتا گیا کہ میں علاقہ کے رئیس سے کچھ سپاہی مدد کے لئے لاتا ہوں تم فکر نہ کرو اور اِدھر اُدھر چمٹ کر اپنے آپ کو بچاؤ.اُدھر موٹے پادری کو یہ فکر ہوا کہ کہیں گھر والے چھری لے کر نہ پہنچ جائیں اور مجھے ذبح نہ کر دیں.چنانچہ اُس نے آہستہ آہستہ گھٹنا شروع کیا اور گھسٹتے گھسٹتے وہ اُس سورخانہ کے پاس جا پہنچا جس میں میزبان کے سور بند تھے مگر اسے کچھ پتہ نہ تھا کہ اندر سو ر ہیں یا کیا ہے، اُس نے خیال کیا کہ میں یہاں چُھپ کر بیٹھ جاتا ہوں تا کہ گھر والے میرا تعاقب کرتے ہوئے مجھے دیکھ نہ لیں.جب اُس نے سؤرخانہ کا دروازہ کھولا تو سور ڈر کے مارے نکل بھاگے اور یہ اندر چھپ کر بیٹھ گیا.تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ قصاب چُھری لے کے موٹے سور کو ذبح کرنے کے لئے وہاں پہنچ گیا.پادری نے سمجھا کہ اب میری خیر نہیں یہ ضرور مجھے مار ڈالے گا.چنانچہ وہ اور زیادہ دبک کر کونے میں چھپ گیا قصاب نے ڈنڈا ہلایا اور کہا نکل نکل ، مگر وہ اور زیادہ سمٹ سمٹا کر ایک طرف ہو گیا وہ حیران ہوا کہ سور نکلتا کیوں نہیں مگر خیر اس نے اور زیادہ زور سے ڈنڈا پھیرا اور آواز دے کر سو ر کو باہر نکالنا چاہا تو اور آخر گھسیٹ کر باہر نکال لیا.پادری نے سمجھ لیا کہ اب کوئی چارہ نجات کا نہیں اب میرے ذبح ہونے کا وقت آ گیا ہے اور وہ آخری کوشش کے طور پر قصاب کے آگے ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ میں پادری ہوں میں نے تمہارا کوئی قصور نہیں کیا.خدا کے لئے معاف کرو.ادھر قصاب نے جب دیکھا کہ سور کی بجائے اندر سے ایک آدمی نکل آیا ہے تو وہ سخت حیران ہوا اور اس نے سمجھا کہ یہ کوئی فرشتہ ہے جو میری جان نکالنے کے لئے یہاں آیا ہے چنانچہ وہ ڈر کر دوزانو ہو کر اس کے سامنے بیٹھ گیا اور ہاتھ جوڑ کر درخواست کرنے لگ گیا کہ خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو ابھی میں مرنے کے قابل نہیں مجھے اپنے کام درست کر لینے دو اور اپنے گنا ہوں سے تائب ہو لینے دو.اب یہ عجیب نظارہ تھا کہ ایک طرف پادری ہاتھ جوڑے جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو اور دوسری طرف وہ قصاب ہاتھ جوڑ رہا تھا اور کہہ رہا تھا خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو.تھوڑی دیر تو وہ اسی طرح ایک دوسرے کی منتیں سماجتیں کرتے رہے اور
۷۵ گھبراہٹ میں نہ وہ اس کی سنتا تھا اور نہ یہ اس کی مگر آخر دونوں کے ہوش کچھ بجا ہونے لگے اور انہوں نے دیکھا کہ نہ وہ اس کو ذبح کرتا ہے اور نہ یہ اس کی جان نکال رہا ہے بلکہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہے ہیں یہ دیکھ کر اُن کی عقل کچھ ٹھکانے لگی اور حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور قصاب نے جو غور کیا تو اپنے سامنے رات والا پادری بیٹھا دیکھا اور حیرت سے پوچھا کہ تم یہاں کہاں؟ اس نے کہا کہ رات کو ہم نے تم میاں بیوی کو یہ کہتے ہوئے سن پایا تھا کہ موٹے کو صبح ذبح کر دینگے اور ڈبلے کو کچھ دن کھلا پلا کر.اس لئے ہم کھڑکی سے گود کر بھاگے اور میرا چونکہ پاؤں چوٹ کھا گیا تھا میں اس سو رخانہ میں کر بیٹھ گیا اور میرا ساتھی فوج کی مدد لینے گیا ہے.اس پر قصاب نے بے اختیار ہنسنا شروع کیا اور بتایا کہ ان کے دوسو ر ہیں ایک موٹا اور ایک دُبلا.وہ تو ان سؤروں میں سے موٹے کے ذبح کرنے کی تجویز کر رہے تھے اور آہستہ آہستہ اس لئے بول رہے تھے کہ مہمانوں کی نیند خراب نہ ہو.اتنے میں سرکاری سوار بھی آگئے اور اس حقیقت کو معلوم کر کے سب ہنستے ہنستے لوٹ گئے.یہی حال ستارہ پرستوں کا ہے.اللہ میاں نے ان کو انسانوں کی خدمت کے لئے مقرر کیا ہے اور وہ انسان کی خدمت کر رہے ہیں مگر انسان ہے کہ ان کے آگے ہاتھ جوڑ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ خدا کے لئے ہم پر رحم کرو.گویا ستارے اس کے غلام بن رہے ہیں اور یہ ان کا غلام بن رہا ہے.یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں بیان کی ہے کہ اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ یہ سب انسانوں کے خدمتگذار تو ہیں مگر انہی کے لئے جو ان امور کو دیکھیں اور عقل اور سمجھ سے کام لیں ایسے لوگ کبھی بھی ان کو خدائی صفات والا قرار نہیں دے سکتے.ہاں اگر کوئی اس فرانسسکن (FRANCISCAN) پادری کی طرح بلا وجہ ڈر کر ہاتھ جوڑ نے لگ جائے تو اور بات ہے.سب اجرام فلکی ایک عالمگیر قانون کے تابع ہیں! (۲) دوسری بات مجھے معلوم ہوئی کہ سورج چاند اور ستارے سب ایک عالمگیر قانون کے ماتحت چل رہے ہیں اور اس امر کا ثبوت ہیں کہ ایک زبر دست هستی ان سب پر حاکم ہے.چنانچہ میں نے قرآن کریم کو دیکھا تو وہاں یہ لکھا ہوا تھا کہ اَلَمْ تَرَاَنَّ اللهَ يَسْجُدُلَهُ مَنْ فِى السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِى الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَ الدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ وَكَثِيرٌ حَقَّ
عَلَيْهِ الْعَذَابُ.وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَمَالَهُ مِنْ مُّكْرِمٍ.إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ عَ یعنی اے بیوقوفو! کیا تمہیں معلوم نہیں آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے اور سورج ، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور انسانوں میں سے بھی بہت سے لوگ سب خدا تعالیٰ کی اطاعت میں لگے ہوئے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے لئے عذاب مقرر ہو چکا ہے اور جسے خدا ذلیل کرے اُسے کوئی عزت نہیں دے سکتا، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے.غرض بتایا کہ دنیا میں جس قدر چیزیں ہیں وہ سب ایک قانون کے ماتحت چل رہی ہیں ، سورج کیا اور چاند کیا اور ستارے کیا اور پہاڑ کیا اور درخت کیا سب ایک خاص نظام کے ماتحت حرکت کرتے ہیں اور ہر ایک کے منہ میں لگام پڑی ہوئی ہے پھر تم ان چیزوں کو جن کو خود لگا میں پڑی ہوئی ہیں خدا کس طرح قرار دیتے ہو.یہ چیزیں تو خود تمہارے آگے آگے بطور خدمت گا رچل رہی ہیں مگر تم ایسے احمق ہو کہ تم انہی کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے ہو اور اس طرح اپنے آپ کو ذلیل کر رہے ہو اور یہ اس امر کی سزا ہے کہ تم نے اپنے پیدا کرنے والے خدا کو چھوڑ دیا.پس اُس نے تم کو تمہارے ہی غلاموں کا غلام بنا دیا وَ مَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَمَالَهُ مِنْ مُّكْرِم اور جسے خدا ذلیل کر دے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا.(۳) تیسری بات مجھے یہ معلوم ہوئی کہ سورج کو ضیاء اور چاند کوٹو ر بنایا گیا ہے.سورج اپنی ذات میں روشن ہے اور چاند دوسرے سے روشنی اخذ کرتا ہے چنانچہ میں نے دیکھا کہ قرآن مجید میں لکھا ہوا ہے.هُوَ الَّذِى جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاء وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَ الْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ.يُفَصِّلُ الْآيَتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ^ کہ خدا ہی ہے جس نے سورج کو ضیاء بنایا اور چاند کونور.ضیاء کے معنے ہیں اپنی ذات میں جلنے والی اور روشن چیز.اور نور اُسے کہتے ہیں جو دوسرے کے اثر کے ماتحت روشن ہو.پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بتادیا کہ سورج تو اپنی ذات میں روشن ہے مگر چاند سورج سے اکتساب نور کرتا ہے.پھر اسی مضمون کو میں نے ایک اور لطیف طرز میں بھی قرآن کریم میں موجود پایا چنانچہ میں نے دیکھا کہ قرآن مجید میں لکھا ہے.اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمَوَاتٍ طِبَا قَاً وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا ۲۹
کہ کیا تم نہیں دیکھتے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو کس طرح تہہ بہ تہ بنایا ہے اور چاند کو اُس کی - نے نور اور سورج کو اس نے سراج بنایا ہے، سراج اُس دیے کو کہتے ہیں جس میں بتی روشن ہو.پس سراج کا لفظ استعمال کر کے بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ سورج کے اندر خود ایک آگ ہے جس کی کی وجہ سے اس کی روشنی تمام جہان پر پھیلتی ہے.موجودہ تحقیق نے بھی یہی ثابت کیا ہے کہ سورج میں ریڈیم کے اجزاء کی وجہ سے ایک جلتی ہوئی آگ ہے اور اسی وجہ سے وہ روشن ہے.اب دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے صرف سراج کے لفظ میں ہی آج سے تیرہ سو سال پہلے وہ نکتہ بتا دیا تھا جسے تیرھویں صدی ہجری میں یورپین محققین نے دریافت کیا اور بتا دیا تھا کہ سورج کی روشنی ذاتی ہے اور چاند کی طفیلی.جس طرح دیے کی بتی جلتی ہے اسی طرح سورج میں ایک ایسی آگ ہے جس کی وجہ سے وہ ہر وقت روشن رہتا ہے مگر چاند میں ایسی کوئی روشنی نہیں وہ جو کچھ حاصل کرتا ہے سورج سے حاصل کرتا ہے اسی لئے سورج کو تو سراج کہا مگر چاند کو نور قرار دیا.(۴) چوتھی بات قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورج اور چاند کی بناوٹ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آخر یہ بھی فنا ہو جائیں گے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اللَّهُ الَّذِى رَفَعَ السَّمَواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ.كُلٌّ يَجْرِى لَاَجَلٍ مُّسَمًّى ٤٠ کہ خدا ہی ہے جس نے آسمانوں کو بغیر کسی ستون کے بلند کیا.پھر وہ عرش پر جاگزیں ہو گیا اور اس نے سورج اور چاند کو انسانوں کی خدمت کے لئے مقرر کر دیا ، ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے دائرہ میں حرکت کر رہا ہے مگر یہ تمام حرکات لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ایک وقت مقررہ تک ہیں ، جب مقررہ وقت ختم ہو گیا تو اس کے بعد ان پر تباہی آجائے گی ، آجکل اہل یورپ کی تحقیقات سے بھی یہی ثابت ہوا ہے کہ یہ تمام چیزیں ایک دن تباہ ہو جائیں گی ، پہلے یورپین لوگ قیامت کے منکر ہو ا کرتے تھے اور وہ اسلام کے اس عقیدہ کو تسلیم نہیں کرتے تھے کہ کسی دن تمام کارخانہ عالم درہم برہم ہو جائے گا اور سورج ، چاند اور ستارے سب فنا ہو جائیں گے مگر موجودہ تحقیق سے وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ستاروں، چاند اور سورج کی گردش ایک دن یقیناً ٹوٹ جائے گی اور دنیا پر قیامت آ جائے گی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہی فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو تمہارے لئے مسخر تو کیا ہے مگر ان تمام کی رفتار میں ایک دن ختم ہونے والی ہیں یہ نہیں کہ یہ کوئی دائمی چیز ہیں.
۷۸ سورج اور چاند کا حساب اور تاریخ سے تعلق (۵) پھر میں نے یہ معلوم کر م کرنا چاہا کہ ان رصد گاہوں سے جو حساب وغیرہ نکالتے ہیں.کیا یہ صحیح ہے اور کیا قرآنی رصد گاہ میں اس کو تسلیم کیا گیا ہے، میں نے جب غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ قرآن اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے اور وہ فرماتا ہے کہ سورج اور چاند یہ دونوں حساب اور تاریخ بتانے کے لئے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ الَّذِى جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءَ وَالْقَمَرَ نُورًا وَّ قَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ - کہ ہم نے سورج کو ضیاء اور قمر کو نور بنایا ہے اسی طرح سورج اور چاند کی ہم نے منازل مقرر کر دی ہیں تا کہ تمہیں سالوں کی گنتی اور حساب معلوم ہو ا کر ے گو یا سورج اور چاند دونوں سالوں کی گنتی اور حساب کا ایک ذریعہ ہیں ، اسی طرح فرمایا.فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَناً وَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَاناً ذلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ - ا کہ خدا صبح کو نکالنے والا ہے.اسی نے رات کو سکون کا موجب اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنایا ہے اور یہ فیصلہ ایک غالب اور علم رکھنے والے خدا کا ہے پھر فرمایا الشَّمسُ وَالْقَمَرُ بحُسْبَان ۲ سورج اور چاند دونوں ہم نے حساب کے کام پر لگائے ہوئے ہیں.میں نے جب قرآن کریم میں ان آیات کو دیکھا اور ان پر غور و تدبر کیا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ واقع میں تاریخ اور حساب کے ساتھ سورج اور چاند دونوں کا بہت بڑا تعلق ہے اور یہ علوم کبھی ظاہر نہیں ہو سکتے تھے اگر سورج اور چاند کا وجود نہ ہوتا.حقیقت یہ ہے کہ حساب کی وسعت ستاروں کی رفتار سے ہوئی ہے اور جس قدر باریک حساب ہیں وہ علم ہیئت کی وجہ سے ہی ہیں.اگر علم ہیئت نہ ہوتا اور ستاروں کی گردشیں اور ان کی رفتار میں مقرر نہ ہوتیں تو اربوں کھربوں کے جس قدر حسابات ہیں وہ کبھی صحیح طور پر نہ ہو سکتے.اسی طرح سورج اور چاند اگر نہ ہوتے تو دنوں اور سالوں کا اندازہ نہ ہو سکتا اس لئے کہ اندازہ اور فاصلہ معلوم کرنے کے لئے کسی مستقل چیز کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے جیسے پٹواری جب حساب لگاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ فلاں زمین فلاں کنویں سے اتنے کرم کے فاصلہ پر ہے یا فلاں درخت سے اتنے کرم کے فاصلہ پر ہے پس کسی مستقل چیز کے بغیر فاصلے کا معلوم کرنا ناممکن ہوتا ہے اسی وجہ سے سالوں اور دنوں کا بھی اندازہ نہ ہو سکتا اگر سورج اور چاند نہ ہوتے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر سورج اور چاند نہ ہوتے اور یونہی روشنی ہو
۷۹ جاتی یا تاریکی ہو جاتی تو اس طرح بھی دن رات ہو سکتے تھے مگر سوال یہ ہے کہ اگر یونہی روشنی ہو جاتی تو اس کا مستقل کنارہ کونسا ہوتا اور کیونکر معلوم ہوتا کہ فلاں مستقل کنارے سے فلاں سال شروع ہوا ہے اور فلاں مستقل کنارے سے فلاں سال.تقویم شمسی کی ضرورت اور اس کی اہمیت بہر حال چاند اور سورج دونوں کا سالوں مہینوں اور دنوں کے حساب سے تعلق ہے، لیکن مجھے خیال آیا کہ چاند سے تو ہم پھر بھی کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہجری قمری ہم میں جاری ہے جس سے لوگ بہت کچھ فائدہ اُٹھاتے ہیں مگر سورج سے تو ہم بالکل فائدہ نہیں اُٹھا ر ہے حالانکہ جیسا کہ قرآن کریم بیان کرتا ہے سورج اور چاند دونوں ہی حساب کے لئے مفید ہیں اور دوسری طرف عقلی طور پر بھی اگر دیکھا جائے تو ان دونوں میں فوائد نظر آتے ہیں.چنانچہ وقت اور زمانہ کی تعیین کے لحاظ سے سورج مفید ہے اور عبادتوں کو شرعی طریق پر چلانے کے لئے چاند مفید ہے اس لئے کہ چاند کے لحاظ سے موسم بدلتے رہتے ہیں اور انسان سال کے ہر حصہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا قرار پا سکتا ہے.مثلاً رمضان ہے اب اس کا انحصار چونکہ قمری مہینوں پر ہے اس لئے ۳۶ سال میں ایک دور ختم ہو جاتا ہے اور سال کے بارہ مہینوں میں ہی رمضان کے ایام آ جاتے ہیں کبھی جنوری میں آ جاتا ہے، بھی فروری میں آجا تا ہے کبھی مارچ میں آجاتا ہے، کبھی اپریل میں آجاتا ہے غرض وہ کبھی کسی مہینہ میں آجاتا ہے اور کبھی کسی مہینہ میں اور اس طرح سال کے تین سو ساٹھ دنوں میں ہر دن ایسا ہوتا ہے جس میں انسان نے روزہ رکھا ہوتا ہے لیکن اگر قمری مہینوں کی بجائے شمسی مہینوں پر روزے مقرر ہوتے تو اگر ایک دفعہ جنوری میں روزے آتے تو پھر ہمیشہ جنوری میں ہی روزے رکھنے پڑتے اور اس طرح عبادت کو وسعت حاصل نہ ہوتی.پس عبادت کو زیادہ وسیع کرنے کے لئے اور اس غرض کے لئے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر لحظہ کے متعلق یہ کہہ سکے کہ وہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارا ہے ، عبادت کا انحصار قمری مہینوں پر رکھا گیا ہے، لیکن وقت کی تعیین صحیح کے لئے سورج مفید ہے اور سال کے اختتام یا اس کے شروع ہونے کے لحاظ سے انسانی دماغ سورج سے ہی تسلی پاتا ہے.بہر حال مجھے خیال آیا کہ ہم مسلمانوں نے قمری تاریخوں سے تو فائدہ اُٹھایا ہے لیکن شمسی تاریخوں سے فائدہ نہیں اٹھایا ، حالانکہ قمری شمسی دونوں میں فوائد ہیں اور چونکہ ہر انسان شمسی حساب پر مجبور ہوتا ہے اس لئے مسلمانوں نے بھی مجبور عیسوی سن استعمال کرنا شروع کر دیا حالانکہ اگر ہم ہجری قمری کے کی
۸۰ ساتھ ہجری شمسی بھی بناتے اور ہجری قمری تاریخوں کے بالمقابل ہجری شمسی تاریخیں بھی ہوتیں تو قطعاً کوئی جھگڑا نہ ہوتا.اب اگر کوئی شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ ۶۲۲ ہجری کب تھا اور اُس وقت شمسی کے لحاظ سے کونسا سال تھا تو وہ فوراً معلوم نہیں کر سکتا اور محض ۶۲۲ ہجری کہنے سے اس کی تسلی نہیں ہوتی کیونکہ سال کے لحاظ سے انسانی دماغ سورج ہی سے تسلی پاتا ہے ، اسی وجہ سے لوگ ہجری قمری سالوں کے عیسوی سن معلوم کرتے ہیں اور اس طرح خواہ مخواہ مسلمان بھی عیسوی سن کو اپنے اندر رائج کئے ہوئے ہیں.میرے نزدیک ضروری تھا کہ جس طرح ہجری قمری بنائی گئی تھی اسی طرح ہجری شمسی بھی بنائی جاتی اور ان دونوں سے فائدہ اُٹھایا جاتا ، مگر مجھے یہ بات جنتر منتر کو دیکھ کر سوجھی اور میں نے اسی وقت سے تہیہ کر لیا کہ اس بارہ میں کامل تحقیق کر کے عیسوی شمسی سن کی بجائے ہجری شمسی سن جاری کر دیا جائے گا.جب میں واپس آیا تو اتفاق کی بات ہے کہ مجھے اس بارہ میں اپنی لائبریری سے ایک کتاب بھی مل گئی.میرے ساتھ خدا تعالیٰ کی یہ عجیب سنت ہے کہ مجھے جب بھی کسی چیز کی شدید ضرورت ہو وہ آپ ہی آپ میرے سامنے آ جاتی ہے بعض دفعہ مجھے قرآن کریم کی آیتوں کے حوالوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اُس وقت کوئی حافظ پاس ہوتا نہیں تو میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ایسے وقت میں بسا اوقات جب قرآن کھولتا ہوں تو وہی آیت سامنے آ جاتی ہے جس کی مجھے ضرورت ہوتی ہے.گزشتہ سال میں نے جلسہ سالانہ پر جو تقریر کی ، اُس کے نوٹ لکھنے کی مجھے فرصت نہیں ملتی تھی.ایک دن میں نے اس کا چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب سے ذکر کیا تو وہ ہنس کر کہنے لگے کہ میں نے تو دیکھا ہے جب بھی آپ کو فرصت نہ ملے اُس وقت خدا تعالیٰ کی خاص تائید ہوتی ہے چنانچہ واقع میں ایسا ہی ہو ا جب میں نوٹ لکھنے کے لئے بیٹھا جس کے لئے بہت سے حوالوں کی ضرورت تھی تو وہ حیرت انگیز طور پر جلد جلد نکلتے گئے حتی کہ ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ بعض حوالجات کی مجھے ضرورت پیش آئی مگر میرا ذہن اُس طرف نہ جاتا تھا کہ وہ حوالہ جات کی کس کتاب میں سے ملیں گے.ارادہ تھا کہ بعض اور دوستوں کو بلا کر اُن کے سپر د حوالہ جات نکالنے کا کام کر دوں کہ اتفاقاً کسی اور کتاب کی تلاش کے لئے میں نے کتابوں کی الماری جوی کھولی تو میں نے دیکھا کہ اس میں چند کتا ہیں بے ترتیب طور پر گری ہوئی ہیں میں نے انہیں
ΔΙ ٹھیک کرنے کے لئے اُٹھایا تو ان میں سے مجھے ایک کتاب مل گئی جس کے لائبریری میں ہونے کا مجھے علم نہیں تھا، میں نے اُسے کھولا تو اس میں اکثر وہ حوالے موجود تھے جن کی مجھے اُس وقت ضرورت تھی.اسی طرح میں بعض اور کتابوں کی تلاش کر رہا تھا کہ اتفاقاً ایک کتاب نکل آئی جس کا نام کی ہے تَقْوِيْمُنَا الشَّمُسِی‘ اس میں مصنف نے بحث کرتے ہوئے تاریخی طور پر اس بات کو ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں میں دیر سے یہ خیال چلا آ رہا ہے کہ ہجری قمری کی طرح ہجری شمسی بھی ہونی چاہئے وہ کہتا ہے کہ خلفاء عباسیہ نے بھی ہجری شمسی تقویم بنانے کی کوشش کی مگر اس میں فلاں فلاں روک پیدا ہو گئی اسی طرح وہ لکھتا ہے کہ بعد میں دولت عثمانیہ نے بھی ہجری شمسی بنائی مگر رائج نہ ہوسکی ، غرض اس نے تاریخی طور پر اس کتاب میں یہ بحث کی ہے کہ مسلمانوں میں یہ خیال کب پیدا ہوا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے کیا کیا کوششیں ہوئیں اور کیا کیا نقائص رتے رہے.بہر حال یہ خیال مسلمانوں میں دیر سے پایا جاتا ہے بلکہ اس حد تک یہ خیال مضبوطی سے گڑا ہو ا معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کا مصنف کتاب کا نام محض تقویم شمسی نہیں رکھتا بلکہ تَقْوِيْمُنَا الشَّمْسِی “ رکھتا ہے یعنی ہماری اپنی شمسی ہجری تقویم.میرا رادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو آئندہ عیسوی شمسی سن کی بجائے ہجری شمسی سن جاری کیا جائے اور عیسوی سن کے استعمال کو ترک کر دیا جائے میرا ارادہ ہے کہ ایک دو مہینہ تک اس بارہ میں پوری تحقیق کر کے ہجری شمسی سن جاری کر دیا جائے اور آئندہ کے لئے عیسوی سن کا استعمال چھوڑ دیا جائے ، خواہ مخواہ عیسائیت کا ایک طوق ہماری گردنوں میں کیوں پڑا رہے ی تحقیق میری مقررہ کردہ ایک کمیٹی نے مکمل کر کے تقویم شمسی ہجری تیار کر دی ہے اور دو سال سے اس کا کیلنڈ رشائع ہورہا ہے ) نظام شمسی کا تمدنی ترقی سے تعلق (۱) قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ نظام مسی ایک خاص قانون کے ماتحت ہے اور اس کا قانون ،، انسانی کاموں کے لئے بطور ایک نمونہ کے مقرر کیا گیا ہے اور اس سے انسان کی تمدنی ترقی کے لئے ایک ہدایت اور رہنمائی حاصل ہوتی ہے فرماتا ہے.اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانِ والنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسجُدَانِ وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِيزَانَ اَلَّا تَطْغَوْا فِى الْمِيزَانِ.وَاَقِيْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ.٤٣
۸۲ سورج اور چاند دونوں ایک حساب کے ماتحت کام کر رہے ہیں.یعنی ان کی حرکات قانون سے آزاد نہیں ہیں بلکہ ایک معین اور مقررہ قانون کے مطابق ہیں اور اسی مقررہ قانون کا نتیجہ یہ ہے کہ زمین کی روئیدگی اور سبزہ اس قانون کے ماتحت چلتا ہے اور اس سے متاثر ہوتا ہے، سجدہ کے معنے فرمانبرداری کے بھی ہوتے ہیں اور يَسْجُدَان کے اس جگہ یہی معنے ہیں اور نجم کے معنے جڑی بوٹی کے بھی ہوتے ہیں اور وہی معنے اس جگہ مراد ہیں کیونکہ شجر کے ساتھ جس کے معنے درخت کے ہیں اس کا عطف ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ بغیر تنے والی سبزیاں ہوں یا تنے والے درخت ہوں سب اپنے اُگنے، نشو و نما پانے اور پھل لانے میں سورج اور چاند کے پیچھے چلتے ہیں اور ان سے متاثر ہوتے ہیں.چنانچہ دیکھ لو دنیا کے حصہ شمالی اور حصہ جنوبی میں موسم کا فرق ہوتا ہے جب شمال میں سردی ہوتی ہے جنوب میں گرمی ہوتی ہے اور جب شمالی حصہ میں گرمی ہوتی ہے جنوبی حصہ میں سردی ہوتی ہے اور اس تغیر کی وجہ سے دونوں حصوں کی فصلوں کے موسموں میں بھی فرق پڑ جاتا ہے اور اسی کی طرف وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسُجُدَان میں اشارہ فرمایا ہے کہ سورج اور چاند جس قانون کے تابع ہیں اسی کے تابع سبزیاں، ترکاریاں ، جڑی بوٹیاں اور بڑے درخت ہیں اور وہ ان سے متاثر ہوتے ہیں.پس اس آیت سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ زمین کے اندر جو تغیرات ہوتے ہیں وہ نظام شمسی کا ایک حصہ ہیں اور ان سے متاثر ہوتے ہیں آزاد نہیں ہیں.پھر فرماتا ہے وَالسَّمَاءَ رَفَعَهَا وَوَضَعَ الْمِیزَانَ یعنی اس سورج چاند کے نظام کے اوپر ایک اور نظام ہے یعنی نظام شمسی نظامِ عالم کے ماتحت ہے جس طرح کہ نظام ارضی نظام شمسی کے ماتحت ہے اور نظام عالم بھی ایک معین اور مقررہ قانون کے تابع ہے اور اس کے اجزاء ایک دوسرے سے آزاد نہیں ہیں.اس آیت میں کیسی زبر دست سچائی بیان کی گئی ہے جو قرآن کریم کے وقت میں کسی کو معلوم نہ تھی، بلکہ صرف حال ہی کے زمانہ میں اس کا علم لوگوں کو ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ نظامِ شمسی ہی ایک نظام نہیں بلکہ وہ نظام ایک اور بالا اور وسیع تر نظام کا حصہ ہے جو سَمَاء یعنی عالم محتوی کہلاتا ہے اور رَفَعَهَا کہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ نظام ماقبل کے بیان کردہ نظاموں سے یعنی نظام ارضی اور نظامِ شمسی سے بلند مرتبہ اور وسیع تر ہے اور وَضَعَ الْمِيزَانَ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ وہ بالا اور بلند نظام بھی میزان کے تابع رکھا گیا ہے اور ایک قانون کا پابند کر دیا گیا ہے آزاد نہیں ہے.اس مضمون میں مندرجہ ذیل علوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے :-
۸۳ (۱) نظام ارضی نظام شمسی کے تابع ہے نہ کہ اس پر حاکم یہ وہ نکتہ ہے جسے مشہور مہندس گلیلیو (GALILEO) نے جب دریافت کیا اور اس امر کا اعلان کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے نہ کہ سورج زمین کے گرد، جیسا کہ اُس وقت عام خیال تھا تو اُس پر عیسائی دنیا نے کفر کا فتوی تو لگا دیا اور کہا کہ اگر اس امر کو تسلیم کر لیا جائے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو پھر سورج کو زمین سے افضل ماننا پڑیگا اور اس کے نتیجہ میں انسان کی افضلیت مشتبہ ہو جائے گی اور مذہب باطل ہو جائے گا اور اس دلیل کی بناء پر گلیلیو پر سخت ظلم کئے گئے اُسے قید کیا گیا، پیٹا گیا یہاں تک کہ سالہا سال کے ظلموں کو برداشت نہ کر کے اس غریب کو یہ کہہ کر تو بہ کرنی پڑی کہ جو عیسائیت کہتی ہے وہ ٹھیک ہے شیطان نے مجھے دھوکا دیکر یہ دکھا دیا کہ زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے تب جا کر اُس کی تکلیف کسی قدر دُور ہوئی لیکن قرآن کریم کو دیکھو وہ کس طرح شروع سے ہی فرما رہا ہے کہ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ ہم نے سورج اور چاند کو خاص قانون کے ماتحت بنایا ہے اور وہ اس قانون کی پابندی کر رہے ہیں اور زمین کی روئید گیاں آگے ان کے قانون کے تابع چل رہی ہیں.اگر کوئی کہے کہ سورج کے گر دتو زمین چل رہی ہے لیکن چاند تو زمین کے گرد چکر لگا رہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہی تو قرآن کریم کا منشاء ہے کہ ایک گرہ جس کے تابع زمین ہے اس کو لے لیا گیا ہے اور ایک وہ جو زمین کے تابع ہے اُسے لے لیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ زمین دونوں سے متاثر ہو رہی ہے.اس سے بھی جس کے گرد وہ گھومتی ہے اور اس سے بھی جو اس کے رگر دگھومتا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ادنیٰ بھی اعلیٰ پر اثر انداز ہوتا ہے اور ماتحت بھی حاکم پر اپنا اثر چھوڑتا ہے اس لئے طاقتور کو غرور سے کام نہیں لینا چاہئے اور کمزور سے آنکھیں نہیں بند کر لینی چاہئیں کیونکہ یہ اس سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور ضرور ہے کہ اس کے اثر کو بھی قبول کرے پس اگر اس کی اصلاح نہ کرے گا تو خود بھی تباہ ہو گا اور اگر اسے نہ اُٹھائے گا تو خود بھی گرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہی یہ ہے کہ ہر شے اپنے سے اعلیٰ اور اپنے سے ادنیٰ دونوں سے اثر قبول کرتی ہے اور حاکم اور محکوم دونوں اس پر اثر انداز ہوتے ہیں.خلاصہ یہ ہے کہ اوپر کی آیات میں یہ قانون کی نظام ارضی نظام شمسی کا ایک حصہ ہے د بیان کیا گیا ہے کہ نظامِ ارضی ایک وسیع نظام یعنی نظام شمسی کا ایک حصہ ہے اور یہ نہیں کہ سورج اس زمین کے گرد چکر کھاتا ہے اور اس کے
۸۴ تابع ہے جیسا کہ کچھ عرصہ قبل تک دنیا کا عام خیال تھا.دوسری بات یہ بتائی ہے کہ نظامِ شمسی ایک اور نظام کے تابع ہے جو اس سے بالا اور وسیع تر ہے.یہ وہ نکتہ ہے جو قرآن کریم کے زمانہ تک دنیا کے کسی فلسفی یا مذ ہبی شخص نے بیان نہیں کیا تھا بلکہ وہ سب کے سب نظامِ شمسی ہی کو اہم ترین اور آخری نظام سمجھتے تھے مگر قرآن کریم نے آج سے تیرہ سو سال پہلے بتادیا تھا کہ نظامِ شمسی ایک اور نظام کے تابع ہے جو اس سے بالا اور وسیع تر ہے.فلک کی تشریح اگر کہا جائے کہ پہلے فلاسفروں نے بھی افلاک کے وجود کو تسلیم کیا ہے تو اس کا کی جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نے بھی فلک کا وجود تسلیم کیا ہے مگر وہ شے سماء سے جدا ہے فلک در حقیقت نظام شمسی کے پھیلاؤ کا نام ہے اور ان وسعتوں کو کہتے ہیں جن میں شمسی کے افراد چکر لگاتے ہیں.چنانچہ سورہ انبیاء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَهُوَ الَّذِى نظام خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ " یہی مضمون سوره مینس رکوع ۳ میں بھی آیا ہے.پس فلک یا افلاک کو تسلیم کر کے یونانی فلاسفر اس نظام سماوی کے قائل نہیں کہلا سکتے جس کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے.وہ افلاک کے علاوہ اور شے ہے اور نظامِ شمسی کے اوپر کے نظاموں پر دلالت کرتا ہے اور صرف ایک محیط پر دلالت نہیں کرتا جس میں نظامِ شمسی کے افراد چکر لگاتے ہیں.تیسری بات اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ یہ نظام ہم نے اس لئے بنایا ہے کہ.اَلَّا تَطْغَوا فِي الْمِيزَانِ وَاقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ - تم میزان میں تعدی سے کام نہ لو اور انصاف کے ساتھ وزن کو قائم رکھو اور وزن میں کوئی کمی نہ کرو.یا یہ کہ ہم نے تم کو بیان العلوم اس لئے سکھایا ہے کہ تا میزان میں تعدی سے کام نہ لو وغیرہ وغیرہ.اس میں یہ نکتہ بتایا ہے کہ انسان اُسی وقت ظلم اور زیادتی سے کام لے سکتا ہے جب کہ وہ اپنے آپ کو قانونِ عالم سے آزاد سمجھتا ہو لیکن اگر وہ اپنے آپ کو عالم کی مشین کا ایک پرزہ سمجھتا ہو تو کبھی اپنے مقام کو نہیں بھول سکتا.کیونکہ مشین کا جو پُرزہ اپنی جگہ سے ہل جائے تو وہ تو ٹوٹنے اور کمزور ہو جانے کے خطرہ میں پڑ جاتا ہے یا خود اُس مشین کو توڑ ڈالتا ہے جس کا وہ پرزہ ہوتا ہے.پس فرماتا ہے کہ نظامِ شمسی انسانی ہدایت کا موجب ہے اور اس کی تأثیرات کو دیکھ کر انسان معلوم کر سکتا ہے کہ میں آزاد نہیں بلکہ ایک نظام کا فرد یا ایک مشین کا پُرزہ ہوں.پس اگر میں نے دوسرے کل پرزوں کے کام میں دخل دیا اور اُن کے حق کو چھینا چاہایا اپنے کام میں
۸۵ سستی کی یا دوسروں کے حق ادا کرنے میں کوتاہی کی تو اس کا نقصان مجھے ہی پہنچے گا اور جب میں بظاہر دوسرے پر ظلم کر رہا ہوں گا تو درحقیقت میں اپنی ہی جان پر ظلم کر رہا ہونگا اور جب میں کسی کا حق کسی اور کو دے رہا ہوں گا تو درحقیقت اپنے ہی حق کو ضائع کر رہا ہونگا.چوتھی بات یہ بتائی ہے کہ نظام عالم انسان کے تمدن میں ترقی کے لئے ایک بہت بڑی ہدایت ہے اگر انسان نظام عالم کو اپنا رہنما بنا کر اس کے مطابق نظام انسانی کو ڈھال لے تو وہ ہر قسم کی تکالیف سے بچ سکتا ہے اور نقصانوں سے محفوظ رہ سکتا ہے.اس نظام میں ہر فرد اپنے مفوضہ کام کو بجالا رہا ہے اور دوسرے کے دائرہ میں دخل نہیں دیتا نہ ظلم کے ساتھ نہ تفسیر کے ساتھ یعنی نہ اس سے زیادہ کام لیتا ہے نہ اس کا حق کم کرتا ہے اور نہ دوسرے کے کام میں دخل دیتا ہے.یہی اطاعت ذمہ داری کی ادائیگی کا احساس اور دوسرے کے امور میں دخل اندازی سے اجتناب ہی ایسے قوانین ہیں جن کو نظر انداز کر کے بنی نوع انسان اپنے تمدن کو تباہ اور برباد کر رہے ہیں.نظام عالم کی کامیابی کے تین اصل اس جگہ نظام عالم کے کامل ہونے کے تین اصل بیان فرمائے ہیں.(۱).کوئی فرد اپنے مفوضہ کام سے زیادہ نہیں کر رہا.(۲).ہر فرد اپنے مفوضہ کام کو پوری طرح ادا کر رہا ہے.(۳).کوئی فرد دوسرے فرد کو اس کے فرض کی ادائیگی سے روک نہیں رہا ، یا اس کے ادا کرنے کی قابلیت سے اسے محروم نہیں کر رہا.غور کر کے دیکھ لو نظامِ عالم کی کامیابی کا انحصار ا نہی تین باتوں پر ہے اور انسانی نظام کی خرابی یا بے ثباتی کا سبب بھی ان تینوں یا ان میں سے کسی کا فقدان ہوتا ہے اور انہیں سے محفوظ رہنے کے لئے قرآن کریم نے نظام عالم کو دیکھنے اور اس سے سبق لینے کے لئے اس جگہ اشارہ فرمایا ہے.یہ آیات سورۃ الرحمن کے شروع میں ہیں جہاں کہ قرآن کریم کی آمد کی غرض بیان کی کی گئی ہے.ظاہر ہے کہ خالی ترازو کے تول اور بنوں کے درست رکھنے کا مضمون نہ تو قرآن کریم کے نزول کے اغراض سے خاص تعلق رکھتا ہے اور نہ نظام عالم سے.پس ظاہر ہے کہ اس جگہ گیہوں اور چاولوں کے ماپ اور تول کا ذکر نہیں بلکہ انسانی اعمال کے ماپ اور تول کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان کو اپنی سوسائٹی کے بنیادی اصول نظام عالم کے مطابق رکھنے چاہئیں اور جو
۸۶ قیوداور حد بندیاں اس پر الہی قانون نے لگائی ہیں ان کو توڑنا نہیں چاہئے اور نہ تو یہ کرنا چاہئے کہ کام کا اس قدر جوش ہو کہ دوسروں کے مفوضہ کاموں میں دخل دینے لگ جائے اور نہ یہ غفلت کرے کہ اپنے فرض کو بھی ادا نہ کرے اور نہ یہ ظلم کرے کہ دوسروں کو بھی ان کے کام سے روکے خواہ بالواسطہ یا بلا واسطہ.قومی تباہی کے اسباب اب دیکھ لو کہ نظام انسانی کی تباہی ان تین امور سے ہی وابستہ ہے جب کوئی قوم ہلاک یا تباہ ہوتی ہے تو اس کا یا تو یہ سبب ہوتا ہے کہ ا بعض ذہین اور طباع لوگ اپنے جوش عمل سے گمراہ ہو کر دوسروں کی ذمہ داریاں اپنے اوپر لینی شروع کر دیتے ہیں یا تو غیر قوموں کی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ دنیا پر احسان کر رہے ہیں یا خود اپنے ملکی یا قومی نظام میں اس قدر کام اپنے ذمہ لے لیتے ہیں کہ ان کا پورا کرنا ان سے ناممکن ہوتا ہے اور اس طرح ملکی یا ملتی کام تباہ ہو جاتے ہیں اور قوم یا ملک بجائے ترقی کرنے کے تنزل کی طرف چلا جاتا ہے.بڑے بڑے فاتحین جو شہاب کی طرح چمکے شہاب کی طرح ہی غائب ہو گئے ایسے ہی لوگوں میں سے تھے.انہوں نے خود تو کچھ شہرت اور عزت حاصل کر لی لیکن قومی نظام کو ایک دھکا لگا گئے اور نظامِ ارضی کی مشین میں ان کی قوم کے پرزہ کی جو جگہ تھی اس سے ہلا کر دوسری جگہ کر گئے جس سے قوم کو بھی صدمہ پہنچا اور دنیا کو بھی.اسی طرح وہ جو شیلے قومی کارکن جو ہر مجلس پر چھا جانا چاہتے ہیں اور جوش عمل کی وجہ سے سب عہدے اپنے ہی ہاتھوں میں رکھنا چاہتے ہیں قوم کی تباہی کا موجب ہو جاتے ہیں ، کیونکہ ایک تو وہ سب کام اچھی طرح کر ہی نہیں سکتے اور دوسرے اس وجہ سے قوم میں اچھے دماغ پیدا ہونے کا امکان کم ہو جاتا ہے کیونکہ باقی دماغ سکھتے رہ کر کمزور ہو جاتے ہیں.حال ہی میں ایک وسیع ہندوستانی ادارہ کے بارہ میں ایک معزز ہندوستانی نے مجھ سے کہا کہ میں بارہا اس ادارہ کے کرتا دھرتا کو کہہ چکا ہوں کہ تم اس ادارہ کو منظم کرو، سیکرٹریٹ بناؤ ، انسپکٹر مقرر کرو، تاکہ کام وسیع ہو اور کام کرنے والوں کی جماعت تیار ہو مگر وہ سنتا ہی نہیں.یہ شکایت ان کی بجا تھی اور میں نے دیکھا ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اس ادارہ میں کام کرنے والی کوئی نئی پود تیار نہیں ہو رہی.ڈکٹیٹروں پر ڈیما کریسیز کو اسی وجہ سے فوقیت حاصل ہوتی ہے کہ اس میں کام کرنے والے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ان کے آگے بڑھنے کے لئے راستہ کھلا رہتا ہے پس جو قوم یا ملک اچھا نظام اور پائیدار نظام قائم کرنا چاہے اسے نظامِ عالم سے یہ سبق سیکھ لینا چاہئے کہ
AL ہر فردا اپنا کام ہی کرے دوسروں کے کام سمیٹنے کی کوشش نہ کرے ، ورنہ وہ سب کام نہ کر سکے گا اور دوسروں کے دماغ معطل ہو جائینگے.قومی زندگی پائیدار بنانے کے لئے متواتر لائق افراد کا پیدا ہونا ضروری ہے اور لائق افراد بغیر تجربہ اور عملی کام کے پیدا نہیں ہو سکتے.پس زیادہ کی ذہین اور قابل اشخاص کا فرض ہے کہ وہ کام کو اچھا بنانے کے شوق میں دوسروں کے لئے راستہ بند نہ کریں بلکہ دوسروں کو جو خواہ ان سے کم لائق ہوں کام کرنے کا موقع دیں، تا کہ وہ بھی تجربہ حاصل کر کے اس خلاء کو پُر کرنے کے قابل ہوں جو بڑوں کے مرنے کے بعد ضرور ہو کر رہیگا.دوسری خرابی جو نظام ملکی یا سیاسی کو تباہ کرنے کا موجب ہوتی ہے یہ ہے کہ ہر فرد اپنے فرض کو پوری طرح ادا نہیں کر رہا ہوتا جس طرح زیادہ کام اپنے ہاتھ میں لے لینا نقصان کا موجب ہوتا ہے اسی طرح اپنے مفوضہ کام کو پورا نہ کرنا بھی تباہی کا موجب ہوتا ہے.پس سوسائٹی یا ملک یا قوم اُسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب کہ اس کے تمام افراد میں ذمہ داری کا علم اور اُس کی ادائیگی کا احساس پیدا ہو.اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اول تمام قوم کے اندر علم پیدا کیا جائے اور پھر اس علم کو عمل کی صورت میں بدلنے کی کوشش کی جائے تا کہ قوم کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کو ادا کرے جس طرح کہ نظام عالم کا ہر فر دا پنے فرض کو ادا کر رہا ہے.تیسری خرابی قومی نظام کو تباہ کرنے والی یہ ہے کہ بعض لوگ دوسروں کو پا لواسطہ یا بلا واسطہ کام سے روکنے لگتے ہیں یعنی یا تو ظلماً ایک فرقہ قوم کو کام سے الگ کر دیتے ہیں اور صرف ایک حصہ قوم کو کام کے قابل قرار دیتے ہیں جیسے آرین نسلیں ہیں کہ قومی برتری کے خیال سے وہ صرف اپنی ہی نسل کے لوگوں کو ملک وقوم کا بوجھ اُٹھانے والا قرار دیکر دوسری نسلوں اور قوموں کے لوگوں کو کام سے بے دخل کر دیتی ہیں اور اس طرح قومی تنزل کے سامان پیدا کر دیتی ہیں.اور یہ نہیں سمجھتیں کہ ادنی اقوام کی خرابی بھی اُلٹ کر اعلیٰ قوم پر اثر انداز ہو جاتی ہے اور اسے خراب کر دیتی ہے.اور یہ عقیدہ کہ صرف اعلی ادنی پر اثر انداز ہوتا ہے غلط ہے ، چنانچہ نظام عالم میں سورج جو بڑا ہے وہ بھی زمین پر اثر انداز ہو رہا ہے اور چاند جو چھوٹا ہے وہ بھی زمین پر اثر انداز ہو رہا ہے.پس چھوٹوں کو نظر انداز کرنا بالکل خلاف عقل ہے اور جو افراد یا اقوام بعض افراد یا اقوام کو چھوٹا اور ادنیٰ قرار دے کر نظر انداز کر دیتی ہیں اور قومی مشین کے پرزوں سے ان کو خارج کر دیتی ہیں وہ آخر تباہ ہو جاتی ہیں اور ادنیٰ افراد یا اقوام ان کو بھی قعر مذلت میں گرا دیتے ہیں.اسی طرح پا لواسطہ طور پر کسی کے حق میں کمی کرنا بھی قوم کے حق میں نقصان دہ ہوتا ہے
۸۸ یعنی کمزور اور غریب اور مزدور اقوام کی تعلیم یا تربیت سے غفلت یا اولاد کی تربیت سے اعراض یہ سب بالواسطه اخْسَار فِی الْمِیزَان ہے.یعنی کو عقیدہ انہیں ادنی نہیں سمجھا جاتا ، لیکن عملاً ان سے سلوک وہی ہوتا ہے جو غیر ضروری حصہ سے ہو سکتا ہے، لیکن چونکہ وہ افراد بھی قانونِ قدرت کے مطابق قوم کا ضروری حصہ ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری مشین خراب ہو جاتی ہے اور نظام ملکی یا تو قومی درہم برہم ہو جاتا ہے.دیکھو کس خوبی سے اوّل نظام عالم کی حقیقت بیان کی ہے اور پھر نظام انسانی کو اس پر چسپاں کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے بابلیوں نے اور ان کے بعد یونانیوں نے نظام شمسی پر نظام تمدن کو ڈھالنے کی کوشش کی ہے مگر جس خوبی ، جس اختصار اور جس ہمہ گیری کے ساتھ قرآن کریم نے چند مختصر الفاظ میں ان دونوں نظاموں کی حقیقت اور مماثلت کو بیان کیا ہے اس کی نظیر ان اقوامِ عالم کے فلاسفروں کے کلام میں نہیں پائی جاتی.اور مسائل بھی علم ہیئت کے قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں مگر اجمالاً انہیں امور پر کفایت کی جاتی ہے.(۳) ایک وسیع اور عظیم الشان سمندر تیسری چیز جو میں نے دیکھی تھی سمند ر تھا، میں نے اس وقت اپنے دل میں کہا کہ ایک اور سمندر قرآن نے پیش کیا ہے مگر افسوس کہ لوگ اسے بھول گئے ہیں وہ اس کی طرف سے ہنس کر گزر جاتے بلکہ اُسے حقیر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ سمندر خود ہماری کتاب قرآن کریم ہے.سمند ر کیا ہوتا ہے؟ سمندر کے معنے ایک ایسی وسیع چیز کے ہیں جس کا کنارہ نظر نہیں آتا اور جس میں موتی ہونگا اور اسی قسم کی اور بیسیوں قیمتی چیزیں ہوتی ہیں.میں نے دیکھا کہ اس قسم کی ایک چیز ہمارے پاس بھی ہے مگر افسوس کہ ہم اس کی قدر نہیں کرتے.ہم موتی نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں ، ہم مونگا نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، ہم مچھلیاں نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، ہم مچھلیوں کا تیل نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، ہم سیپیاں نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں ، ہم کوڑیاں نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، مگر ہم نہیں قدر کرتے تو اُس شخص کی جو قرآن کریم کے سمندر میں سے قیمتی موتی نکال کر ہمارے سامنے پیش کرے، حالانکہ یہ وہ سمندر ہے کہ جس
۸۹ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَاناً لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَّ بُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ - ٤٥ یعنی اے رسول ! ہم نے تجھ پر وہ کتاب نازل کی ہے جو تِبْيَاناً لِكُلِّ شَيْءٍ ہے جس میں ہر چیز کا بیان موجود ہے اور جس کا کوئی کنارہ ہی نہیں.اس میں موتی بھی ہیں، اس میں مو نگے بھی ہیں ، اس میں ہمیرے بھی ہیں ، اس میں جواہرات بھی ہیں ، غرض خشکی اور تری کی تمام نعمتیں اس میں جمع ہیں جب بھی تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تم اس سمندر میں غوطہ لگاؤ وہ چیز تمہارے ہاتھ میں آجائے گی.پھر سمندر میں تو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ انسان غرق ہو جائے بعض دفعہ سمندروں میں طوفان آتے اور بڑے بڑے جہاز تباہ ہو جاتے ہیں مگر فر مایا یہ وہ سمندر ہے که هُدًى وَرَحْمَةً اس سمندر میں جو غوطہ لگائے وہ کبھی تباہ نہیں ہو سکتا اور سمندروں میں بڑے بڑے کپتان بھی بعض دفعہ راستہ بھول جاتے ہیں مگر یہ وہ سمندر ہے کہ جہاں کوئی انسان رستہ بُھولنے لگتا ہے وہ کہتا ہے کہ غلط راستے پر نہ جاؤ.صحیح راستہ یہ ہے ادھر آؤ.پھر یہ صرف هُدًى نہیں بلکہ رَحْمَہ بھی ہے.ان سمندروں میں تو لوگ ڈوبتے اور عذاب میں مبتلاء ہوتے ہیں مگر یہ وہ سمندر ہے جو انسان کو زندگی بخشا اور اُسے ہر قسم کی تباہی سے محفوظ رکھتا ہے.پھر اسی حد تک بس نہیں بلکہ بُشْرَى لِلْمُسْلِمِینَ.اس سمندر میں تیر نے والا ہمیشہ خوشی محسوس کرتا ہے اور کبھی کسی خطرہ سے اسے دو چار ہونا نہیں پڑتا.اس کے آگے بھی رحمتیں ہوتی ہیں اس کے پیچھے بھی رحمتیں ہوتی ہیں.جب ایک نعمت اسے مل جاتی ہے تو اُسے کہا جاتا ہے کہ اسی نعمت پر بس نہیں آؤ تمہیں دوسری نعمت بھی دیں.اور جب دوسری نعمت مل جاتی ہے تو تیسری نعمت اس کے سامنے پیش کر دی جاتی ہے وہ ایک مقام پر اپنا قدم روکتا ہے تو اُسے آواز آتی ہے کہ صاحب ٹھہرتے کیوں ہیں ، اگلی منزل پر اس سے بھی زیادہ اچھی نعمتیں ہیں اور جب وہ دوسری منزل پر پہنچتا ہے تو آواز آتی ہے کہ صاحب آگے بڑھیئے ہماری نعمتیں تو ابھی آپ نے دیکھی ہی نہیں سمندر میں تو جب انسان دو چار سو میل آگے جاتا ہے تو جہا ز خطرے میں گھر جاتا ہے مگر یہاں ہر قدم پر یہ آواز آتی ہے کہ گھبرایئے نہیں ، آپ تو امن اور سلامتی کی طرف بڑھتے چلے آ رہے ہیں.قرآنی سمندر کی وسعت پھر سورۃ لقمان رکوع ۳ میں اس سمندر کی وسعت بتائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَوْاَنَّ مَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ والْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ *
یعنی زمین میں جس قدر درخت ہیں اگر اُن تمام کو کاٹ کاٹ کر قلمیں بنا دی جائیں اور جنگلوں اور باغات کا ایک درخت بھی نہ رہنے دیا جائے سب کی قلمیں تیار کر لی جائیں وَالْبَحْرُ يَمُدُّه اور سمندر سیاہی بن جائے اور پھر اور سات سمندروں کا پانی بھی سیاہی بنا دیا جائے اور ان قلموں اور اس سیاہی سے کلام اللہ کے معنے لکھے جائیں تو مَانَفِدَتْ كَلِمْتُ اللَّهِ قلمیں ٹوٹ جائینگی ، سات سمندروں کی سیاہی خشک ہو جائے گی ، مگر قرآن کا سمندر پھر بھی بھرا ہوا ہو گا اور اس کے معارف ختم ہونے میں نہیں آئیں گے.إِنَّ اللَّهَ عَزَيْزٌ حَكِيمٌ کیونکہ اللہ غالب حکمت والا ہے.غالب ہونے کی وجہ سے اس نے وہ وسعت قرآنی معارف کو بخشی ہے کہ اگر تمام درخت قلمیں بن جائیں اور تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور ان سے اس کے معارف لکھے جائیں ، پھر بھی وہ ختم ہونے میں نہ آئیں.مگر وسعت بعض دفعہ لغو بھی ہو جاتی ہے، بڑے بڑے شاعر جس قدر گزرے ہیں ان کے اشعار میں کسی نہ کسی حد تک لغویت ضرور آ گئی ہے.اسی طرح جتنے بڑے نشار گزرے ہیں ان تمام کی نثر کے بعض حصوں میں فضولیات پائی جاتی ہیں.مگر فرمایا یہاں ایسا نہیں، باوجود قرآنی مطالب اس قدر وسیع ہونے کے اس میں کوئی بات لغو اور بے فائدہ نہیں کیونکہ ایک حکیم ہستی کا یہ نازل کردہ کلام ہے اور جو حکیم خدا کی طرف سے نازل شدہ کلام ہو اس میں لغو بات کس طرح ہو سکتی ہے.پس ایک طرف تو قرآنی معارف میں اس قدر وسعت ہے کہ سات سمندروں کی سیاہی ختم ہو جائے مگر اس کے معارف ختم نہ ہوں اور دوسری طرف اس میں ایک بات بھی خلافِ حکمت نہیں بلکہ ایک ایک بات کو دیکھ کر انسان قربان ہو جاتا ہے.پھر سورہ دخان رکوع ایک میں فرماتا ہے.خم.وَالْكِتَبِ الْمُبِينِ إِنَّا أَنزَلْنَهُ فِى لَيْلَةٍ مُّرَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيمٍ اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ - کہ حمید مجید خدا کی طرف سے ایک کتاب آئی ہے جو کھول کھول کر تمام سچائیوں کو بیان کرنے والی ہے اور میں اسی کتاب کو اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں کہ تمہارا خدا بڑا بزرگی والا خدا ہے ہم نے یہ قرآن ایک ایسے تاریک زمانہ میں اُتارا ہے جو رات سے مشابہت رکھتا تھا اور جس میں قسم قسم کی تباہیاں اور قسم قسم کے گندا اور فساد تھے مگر با وجود ان فسادوں کے وہ زمانہ ایک لحاظ سے مبارک بھی تھا کیونکہ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ.اس میں خدا کی طرف سے یہ
۹۱ آواز بلند ہوئی تھی کہ ہوشیار ہو جاؤ.گو تمہارے گھر ڈاکوؤں کا شکار ہو رہے ہیں مگر اب خدا خود تمہاری حفاظت کے لئے آ رہا ہے.پس ہم نے خود اس کتاب کے ذریعہ اپنے بندوں کو ہوشیار اور بیدار کیا.منذر کے عام طور پر نہایت غلط معنے کئے جاتے ہیں ، یعنی اُردو میں اس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ ہم ڈرانے والے ہیں ، حالانکہ عربی زبان میں انذار کے معنے ڈرانا نہیں بلکہ ہوشیار اور بیدار کرنا ہیں.تو فرمایا گو یہ رات تھی اور تاریک رات تھی ، چاروں طرف ڈا کے پڑ رہے تھے اور دین وایمان کہیں نظر نہیں آتا تھا مگر پھر بھی یہ مبارک رات تھی کیونکہ اس میں خدا خود چوکیدار بن کر آیا اور اس نے خود پہرہ دیا اور آوازیں دیں کہ میرے بندو! ہوشیار ہو جاؤ ، بھلا اس سے زیادہ مبارک رات اور کونسی ہو سکتی ہے.فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِيمٍ یہ مبارک رات کیوں نہ ہو، راتوں کے وقت چوروں کی طرف سے مال اٹھایا جاتا ہے مگر اس رات میں لوگوں کو خود ہماری طرف سے مالا مال کیا جا رہا ہے اور انہیں بلا بلا کر کہا جا رہا ہے کہ آؤ اور اپنے گھروں کو برکتوں سے بھر لو.امرا مِنْ عِندِنَا یہ سب کچھ ہمارے حکم کے ماتحت ہو رہا ہے کیونکہ آج ہم اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ لوگوں کو نعماء سے مالا مال کر دیں.پس اس سے زیادہ مبارک رات اور کون سی ہو سکتی ہے کہ بغیر مانگے اور سوال کئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانی ضرورتیں پوری کی جاتی رہی ہیں.اَمْرٍ حَکیم سے مراد وہی معارف اور علوم ہیں جو بغیر کسی انسانی کوششوں کے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کھولتا ہے.اگر کوئی شخص روٹی کھا رہا ہو اور کوئی دوسرا آ کر اُسے کہے کہ تو روٹی کھا رہا ہے تو وہ حکیم نہیں کہلا سکتا ، حکیم وہی کہلائے گا جو ایسی بات بتائے جس کا دوسرے کو علم نہ ہو.پس قرآن صرف کلام ہی نہیں بلکہ اَمْرٍ حَکیم ایسے حقائق اور معارف کا حامل ہے کہ بندے لاکھ سر پٹکتے رہتے وہ ان علوم اور معارف کو اپنی ذاتی جد وجہد سے کبھی حاصل نہ کر سکتے.اسی طرح سورہ یوسف میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے.مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَى وَلَكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ کہ یہ بات جھوٹی نہیں.یہ پہلی کتابوں کی پیشگوئیوں کو پورا کر رہی ہے اور ہر چیز اس میں بیان کر دی گئی ہے اور یہ مؤمنوں کی ہدایت اور رحمت کا موجب ہے.(۵) سوره عنکبوت میں فرماتا ہے.اَوَلَمْ يَكْفِهِمُ اَنَّا اَنْزَ لَنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ
۹۲ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَّ ذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ارے! اب بھی ان کو کسی اور جگہ جانے کی ضرورت ہے جب کہ ہم نے انہیں اتنی بڑی تو چیز دیدی ہے جس کی اور کہیں مثال ہی نہیں ملتی.یعنی ہم نے ایک کتاب اُتار دی ہے اور وہ ایسی کتاب ہے کہ يُتلى عَلَيْهِمْ سمندر کے پاس تو لوگ جاتے ہیں مگر یہ سمندر ایسا ہے کہ آپ تمہارے پاس چل کر آ گیا ہے.پھر دنیا میں تو لوگ استادوں کے پاس جاتے اور ان سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے فلاں بات کس طرح ہے مگر یہاں وہ استاد بھیجا گیا کہ جسے خدا کی طرف سے یہ حکم ہے کہ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ ٥٠ تم خود لوگوں کے پاس جاؤ اور انہیں یہ تمام باتیں پہنچاؤ اور یاد رکھو کہ اگر تم نے ان میں سے ایک بات بھی نہ پہنچائی تو ہم کہیں گے کہ تم نے کچھ بھی نہیں پہنچایا گویا ہمارا اُستاد اور ہمارا آقا خود ہمارے گھروں پر چل کر آ گیا ہے، اِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً اگر تم سوچو تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے اپنے رسول کو جو یہ حکم دیا ہے یہ تم پر ہمارا اتنا عظیم الشان انعام ہے جس کی کوئی حد نہیں گویا پنجابی کی وہی مثال یہاں صادق آ رہی ہے کہ چوپڑیاں تے دو دو یعنی روٹیاں چپڑی ہوئی بھی ہوں اور پھر ملیں بھی دو دو تو اور کیا چاہئے.اللہ تعالیٰ بھی کہتا ہے کہ ہم تمہیں ایک تو چپڑی ہوئی روٹیاں دے رہے ہیں اور پھر دودو دے رہے ہیں ایک تو ہم نے وہ کتاب دی جو ہر طرح کامل و مکمل ہے اور جس کی نظیر کسی اور الہامی کتاب میں نہیں مل سکتی اور پھر اپنے رسول کو یہ حکم دیدیا ہے کہ جاؤ اور ہماری یہ ,, 66 کتاب خود لوگوں کے گھر پہنچ کر انہیں سناؤ اور اس کی تعلیموں سے انہیں آگاہ کرو.وَ ذِکری.ایک نعمت تو یہ تھی کہ اتنی عظیم الشان نعمت گھر بیٹھے مل گئی اور دوسری نعمت ہے ہے کہ جو اس کتاب کو مان لیں گے ، دنیا میں ان کی عزت قائم کر دی جائے گی ، بعض لوگ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں نصیحت کی باتیں ہیں.یہ معنے بھی درست ہیں مگر اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ جو لوگ اس کتاب پر سچے دل سے ایمان لائیں گے ، ان کا ذکر نیک دنیا میں جاری رہے گا اور کہا جائے گا کہ فلاں نے یہ خدمت کی اور فلاں نے وہ خدمت کی گویا یہ کتاب نہ صرف ذاتی کمالات کے لحاظ سے ایک شرف اور عظمت رکھتی ہے بلکہ جو لوگ اس پر صدق دل سے ایمان لائیں گے وہ بھی دنیا میں معزز اور مکرم ہو جائیں گے.پھر فرمایا.وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِى هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ فَا بَي اَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا ل
۹۳ کہ ہم نے قرآن میں ہر قسم کی باتیں بیان کر دی ہیں ، مگر افسوس انسان پر کہ وہ ہر بات کو سنکر کہتا ہے کہ ابھی اور چاہئے اور جو بات اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اس کا انکار کر دیتا ہے، اگر اس کے اندر ایک ذرہ بھی شرافت کا مادہ ہوتا تو یہ ان باتوں کو قبول کرتا جو اس کے سامنے پیش کی گئی تھیں اور اگر دل میں اُن کے بعد بھی پیاس رہتی تو کسی اور چیز کی طلب کرتا ، مگر یہ عمل تو کرتا نہیں اور اور چیزیں مانگے جاتا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کو ہدایت سے کوئی غرض نہیں محض ایک پاگل اور احمق انسان کی طرح ہاتھ پھیلائے کہے جاتا ہے کہ اور دو، اور دو.اور یہ نہیں دیکھتا کہ جو اسے دیا گیا ہے اسے اس نے اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک رکھا ہے اسی طرح فرمایا.وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِى هَذَا الْقُرآنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا ۵۲ ہم نے قرآن میں انسان کے نفع کے لئے ہر چیز رکھدی ہے مگر افسوس کہ وہ پھر بھی اس پاک کتاب کا انکار کئے جاتا ہے.یہی مضمون سورہ روم ع 4 اور سورہ زمرع ۳ میں بھی بیان ہوا ہے.قرآنی سمندر کی گہرائیوں کا پتہ لگانا کسی انسانی معقل کا کام نہیں یہ وہ سمندر ہے جو میں نے دیکھا اور یہ وہ بحر ذخار ہے جس کا میں نے مشاہدہ کیا، اس سمندر کا کوئی کنارہ نہیں، اس سمندر کی کوئی انتہا نہیں.اس سمندر کی گہرائیوں کا پتہ لگا نا کسی انسانی عقل کا کام نہیں اور اس کی وسعتِ بے پایاں کو کوئی انسانی دماغ نہیں سمجھ سکتا.مجھے حیرت ہوتی ہے، مجھے تعجب آتا ہے، مجھے رونا آتا ہے کہ معمولی معمولی خلیجوں کے کنارے ہمارا ایک سیاح یا شاعر کھڑا ہوتا اور فرطِ مسرت میں جھومتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کا کوئی کنارہ نہیں یہ بے کنار خلیج یا بے کنار دریا ہے حالانکہ ایک دن کی منزل یا دو دن کی منزل پر اس کا کنارہ موجود ہوتا ہے.بڑے بڑے سمندروں کا بھی دس پندرہ دن کے سفر کے بعد کنارہ آ جاتا ہے ، مگر وہ اس کنارے والے سمندر کے متعلق کہتا ہے کہ وہ بے کنار ہے پس مجھے حیرت ہوئی اور میرا دل اس غم سے خون ہو گیا کہ وہ عظیم الشان سمندر جسے خدا نے بے کنار کہا، جس کی وسعت کو اس نے خود غیر محدود قرار دیا اور جس کے کنارہ کو کوئی انسانی عقل تلاش نہیں کر سکتی اس کے متعلق مولویوں کو یہ کہتے ہوئے ذرا شرم نہیں آتی کہ اس کی آیات کی طبری کی اور بیضاوی نے جو تفسیر لکھ دی ہے اب اس کے بعد کچھ اور کہنا تفسیر بالرائے ہے.یقیناً وہ جھوٹے ہیں ، کیونکہ خدا کہتا ہے کہ اگر ساری دُنیا کے درختوں کی قلمیں بنائی جائیں اور سات سمندروں کی
۹۴ سیاہی بنالی جائے اور ان قلموں اور سیاہیوں سے خدا تعالیٰ کی اس پاک کتاب کے معارف لکھے جائیں تب بھی قلمیں ٹوٹ جائیں گی ، سیاہیاں خشک ہو جائینگی ، مگر اس کتاب کے معارف ختم نہیں ہوں گے لیکن یہ دو چار سو صفحوں کی چند جلدیں لکھنے کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ اب ان باتوں سے زیادہ کوئی اور بات بیان کرنی حرام ہے.میں کہتا ہوں اور میں کیا خدا کا کلام کہ رہا ہے کہ جس دن تم سارے درختوں کی قلمیں بنا کر اور سارے سمندروں کی سیاہی بنا کر ان سے قرآن کے معارف لکھ لو گے تو اس کے بعد تم بیشک میرے پاس آجانا اور کہنا کہ اب قرآن کی اور تفسیر متن کر ولیکن دنیا نے ابھی تو قرآن کی تفسیر لکھنے میں ایک جنگل کی لکڑی بھی ختم نہیں کی اور سمندر چھوڑ ایک کنویں کے پانی جتنی سیاہی بھی اس پر خرچ نہیں کی.پس ابھی ہمیں اس حق سے کوئی روک نہیں سکتا اور یہ حق ہمارا اُس وقت تک چلتا چلا جائے گا جب تک سمندروں میں پانی کا ایک قطرہ بھی موجود ہے.یا درخت کی ایک شاخ بھی دنیا میں پائی جاتی ہے ہاں تمہارا بے شک یہ حق ہے کہ تم ثابت کرو کہ ہم قرآن کریم کی جو تفسیر کرتے ہیں وہ اسلام کے خلاف ہے، اس بات سے تمہیں کوئی نہیں روکتا مگر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تم قرآن کے نئے معانی کیوں کرتے ہو میں ان سے کہتا ہوں کہ اے نالائقو ! اور اے احمقو! تم تو خشکی میں تڑپ رہے ہوا ور ہم خدا تعالیٰ کے ایک وسیع سمندر میں غوطے لگا رہے ہیں.تم ریت کے تودوں پر کو ٹتے ہو اور طعنے ان لوگوں کو دے رہے ہو جو سمندر کی تہہ سے موتی نکالنے والے ہیں.پس خدا سے ڈرو اور خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے بحر ز خار کو پتوں کی کشتیوں میں پار کرنے کی کوشش نہ کرو اور کو دکر اس کو پھلانگ جانے کے دعووں سے اپنی نادانی ظاہر نہ کرو.میں نے جب ان باتوں کو دیکھا تو میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی اور میں نے کہا، افسوس خزانے موجود ہیں، قلعے موجود ہیں ، رصد گاہیں موجود ہیں، سمندر موجود ہے مگر ان کو دیکھنے والا کوئی نہیں ، آثار قدیمہ کی جن لوگوں کے ہاتھوں میں خدا نے کنجیاں دی تھیں اُنہوں نے کی اُن آثار قدیمہ کو خراب کر دیا ، تباہ کر دیا اور اس قدر ان کی حالت کو مشتبہ کر دیا کہ ان پر کوئی شخص اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا تھا تب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ قرآن کریم کو نازل کیا.یہ آپ کے دل کا خون ہی تھا جو آسمان سے قرآن کو کھینچ لایا.اس قرآن کے آثار قدیمہ کے مختلف کمروں میں آدم اور نوح اور ابراہیم اور موسیٰ اور ہارون اور دیگر تمام انبیاء کی چیزیں ایک قرینہ سے پڑی ہوئی ہیں میل وکچیل سے مبرا داغوں اور دھبوں سے.
۹۵ صاف چھینٹوں اور غلاظت سے پاک ہر چیز اصل اور حقیقی رنگ میں ہمارے پاس ہے.پرانے سے پُرانے آثار اس میں پائے جاتے ہیں اور صحیح سے صحیح حالات اس میں موجود ہیں مگر افسوس ہزار افسوس کہ لوگ اس عظیم الشان خزانہ کی تو قدر نہیں کرتے مگر چند پھٹے ہوئے کاغذ، چند ٹوٹی ہوئی چھریاں، چند پرانے اور بوسیدہ کپڑے اور چند شکستہ برتن جب کوئی زمین سے نکالتا ہے تو اس کی تعریف کے شور سے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور کہتے ہیں.واہ واہ! اس نے کس قدر عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا.وہ خزانہ جو خدا نے اُن کو دیا تھا اس کو وہ بھول گئے ، وہ سمندر جو خدا نے ان کو عطا کیا تھا اس سے انہوں نے منہ موڑ لیا، وہ تمام رصد گا ہیں جو قرآن میں موجود تھیں اُن سے وہ غافل اور لا پرواہ ہو گئے تب خدا نے میرے دل پر اس عظیم الشان راز کا انکشاف کیا اور میرے دل نے کہا ”میں نے پالیا، میں نے پالیا اور جب میں نے کہا.”میں نے پالیا ، میں نے پالیا تو اس کی کے معنے یہ تھے کہ اب یہ نعمتیں دنیا سے زیادہ دیر تک مخفی نہیں رہ سکتیں.میں دنیا کے سامنے ان تمام نعمتوں کو ایک ایک کر کے رکھونگا اور اُسے مجبور کروں گا کہ وہ اس کی طرف توجہ کرے.پس اے دوستو ! میں اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان قرآن کریم کا بلند ترین مقام خزانہ سے تمہیں مطلع کرتا ہوں.دنیا کے علوم اس کے مقابلہ میں بیچ ہیں.دنیا کی تمام تحقیقا تیں اس کے مقابلہ میں بیچ ہیں اور دنیا کی تمام سائنس اس کے مقابلہ میں اتنی حقیقت بھی نہیں رکھتی جتنی سورج کے مقابلہ میں ایک کرم شب تاب حقیقت رکھتا ہے.دنیا کے علوم قرآن کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں ، قرآن ایک زندہ خدا کا زندہ کلام ہے اور وہ غیر محدود معارف و حقائق کا حامل ہے.یہ قرآن جیسے پہلے لوگوں کے لئے کھلا تھا اسی طرح آج ہمارے لئے کھلا ہے ، یہ ابو بکر کے لئے بھی کھلا تھا، یہ عمر کے لئے بھی کھلا تھا، یہ عثمان کے لئے بھی کھلا تھا ، یہ علی کے لئے بھی کھلا تھا یہ بعد میں آنے والے ہزار ہا اولیاء وصلحاء کے لئے بھی کھلا تھا اور آج جب کہ دنیا کے علوم میں ترقی ہو رہی ہے یہ پھر بھی کھلا ہے بلکہ جس طرح دُنیوی علوم میں آجکل زیادتی ہو رہی ہے اسی طرح قرآنی معارف بھی آجکل نئے سے نئے نکل رہے ہیں.یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے اچھا تاجر پہلے اپنا مال مخفی رکھتا ہے ، مگر جب مقابلہ آ پڑتا ہے تو پہلے ایک تھان نکالتا ہے پھر دوسرا تھان نکالتا ہے پھر تیسرا تھان نکالتا ہے اور یکے بعد دیگرے نکالتا ہی جاتا کی ہے یہاں تک کہ تھانوں کا انبار لگ جاتا ہے.اسی طرح جب بھی دنیا ظاہری علوم میں ترقی کر جانے کے گھمنڈ میں قرآن کا مقابلہ کرنا چاہے گی، قرآن اپنے ماننے والوں سے کہے گا میاں !
۹۶ ذرا میرے فلاں کمرہ کو تو کھولنا.اسے کھولا جائے گا تو دنیا کے تمام علوم اس کے مقابلہ میں بیچ ہو کر رہ جائیں گے.پھر ضرورت پر وہ دوسرا کمرہ کھولے گا اور پھر تیسرا اور اس طرح ہمیشہ ہی دنیا کو اس کے مقابل پر زک پہنچے گی اور ہمیشہ ہی قرآن نئے سے نئے علوم پیش کرتا رہے گا.یہی وہ چیز ہے جس کو پیش کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور یہی وہ چیز ہے جس کو پیش کرنا ہماری جماعت کا اولین فرض ہے اور ہم حتی المقدور اپنے اس فرض کو ادا بھی کر رہے ہیں.دنیا ہماری اسی لئے مخالف ہے کہ وہ کہتی ہے کہ تم قرآن کی خوبیاں لوگوں کے سامنے کیوں پیش کرتے ہو، مگر ہم کہتے ہیں ، اسی وجہ سے تو خدا کی غیرت بھڑ کی اور جب اس نے دیکھا کہ تم اس کی کتاب کو صندوقوں اور غلافوں میں بند کر کے بیٹھ گئے ہو تو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور آپ کو حکم دیا کہ جاؤ اور قرآن کے معارف اور علوم سے دنیا کو روشناس کرو.یہی وہ خزائن ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقسیم کئے اور یہی وہ خزائن ہیں جو آج ہم تقسیم کر رہے ہیں.دنیا اگر حملہ کرتی ہے تو پرواہ نہیں ، وہ دشمنی کرتی ہے تو سو بار کرے، وہ عداوت اور عناد کا مظاہرہ کرتی ہے تو لاکھ بار کرے ہم اپنے فرض کی ادائیگی سے غافل ہونے والے نہیں ہم انہیں کہتے ہیں کہ تم بے شک ہمارے سینوں میں خنجر مارے جاؤ اگر ہم مر گئے تو یہ کہتے ہوئے مریں گے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے مارے گئے ہیں اور اگر جیت گئے تو یہ کہتے ہوئے جیتیں گے کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں بلند کر دیا.دوستوں کو نصیحت آخر میں میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارے سُپر دایک عظیم الشان کام ہے ہم نے اسلام کی عظمت اور اس کی برتری دنیا کے تمام مذاہب پر ثابت کرنی ہے پس دوستوں کو چاہئے کہ جہاں تک ان سے ہو سکے وہ اسلام کو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں.دشمن کے اعتراضات کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے وہ تو عداوت اور دشمنی کے جوش میں بیہودہ اعتراضات کرتا ہی رہے گا ، ہاں اپنے نفس کی اصلاح سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے ، اگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہم اس کے دین کے حقیقی خدمت گزار ہوں تو بشریت کی وجہ سے جو غلطیاں ہم سے سرزد ہونگی اللہ تعالیٰ انہیں یقیناً معاف کر دیگا کیونکہ وہ اپنے بندوں کو دنیا کی نگاہ میں کبھی ذلیل نہیں کر سکتا.بشری کمیاں انبیاء میں بھی ہوتی ہیں.پس اگر ایسی غلطیاں خدمت دین کے ساتھ ہوں تو خدا ان پر گرفت نہیں کرتا ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک حبشی کو اپنا وہ بچہ کس قدر ہے
۹۷ خوبصورت نظر آتا ہے جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے، موٹے موٹے ہونٹ ہوتے ہیں ، آنکھوں میں غلاظت بھری ہوتی ہے اور شکل نہایت بھیانک اور ڈراؤنی ہوتی ہے.پھر اگر ایک حبشی اپنے میلے کچیلے اور بدصورت بچہ کی تحقیر نہیں کر سکتا، بلکہ اسے اپنے دل کا ٹکڑا سمجھتا ہے تو کس قدر نادان ہے وہ شخص جو خیال کرتا ہے کہ گو ہم خدا تعالیٰ کے دین کی تائید کے لئے کھڑے ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کے روحانی فرزند بن جائیں وہ پھر بھی ہماری بعض غلطیوں کی وجہ سے ہمیں دھتکار دیگا.وہ ہمیں دھتکارے گا نہیں بلکہ اپنے سینہ سے لگائے گا اور ہماری کمزوریوں اور خطاؤں سے چشم پوشی کریگا، ہاں اپنے طور پر ہر انسان کو یہ کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ وہ کمزوریوں اور خطاؤں پر غالب آئے اگر وہ اپنی طرف سے ان خطاؤں اور کمزوریوں پر غالب آنے کے لئے پوری جد و جہد اور سعی کرتا ہے تو وہ اُس بچے کی طرح ہے جو زمین پر گرتا اور پھر اُٹھنے کی کوشش کرتا ہے.جس طرح ایسے بچہ کو باپ نہایت پیار کے ساتھ اپنے گلے لگا لیتا ہے.اسی طرح خدا بھی اپنے اس بندے کو اپنے قرب میں جگہ دیتا اور خود اسے اٹھا کر اپنے پاس بٹھا لیتا ہے پس کمزوریوں اور خطاؤں پر غالب آنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کرتے رہو کہ وہ ہمارے دلوں میں قرآن کی محبت پیدا کرے، اپنے دین کی محبت پیدا کرے، اپنے رسول کی محبت پیدا کرے اور ہمیں دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم اس کے نام کو دُنیا کے کناروں تک پھیلا سکیں اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی کمزوریوں پر غالب آئیں اور اپنی خطاؤں کو دور کر سکیں لیکن اگر باوجود ہماری کوشش کے پھر بھی ہم میں کوئی عیب یا گناہ رہ جائے تو وہ اپنے فضل سے ہمیں بخش دے اور ہمارے دشمن کو ہم پر غالب آنے کا موقع نہ دے وہ اپنے فضل کی چادر میں ہم سب کو لپیٹ لے اور اپنے محبو بین اور مقربین میں ہمیں شامل فرمائے تا ہم کہ سکیں کہ ہماری زندگی کی ایک ایک حرکت خدا تعالیٰ کے دین کے احیاء کے لئے ہے اور 66 ہمارا خالق اور مالک خدا بھی ہم سے محبت کرتا ہے.“ تذکرہ صفحہ ۳۳۸.ایڈیشن چہارم.۲۰۰۴ء پیدائش باب ۱ آیت ۲ تا ۱۹ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء..پیدائش باب ۱ آیت ۲۶ تا ۲۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ۱۸۷۰ء.پیدائش باب ۲ آیت ۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء.۵ پیدائش باب ۲ آیت ۱۶ تا ۳ ۲ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء.
۹۸ ڈارون (CHARLES DARWIN چارلز رابرٹ ڈارون (۱۸۰۹ء.۱۸۸۲ء) ماہر حیاتیات تھا.ڈارون ۱۲ فروری ۱۸۰۹ء کو شر یوز بری (Shrewsbury) انگلستان میں پیدا ہوا.۱۶ سال کی عمر میں اس نے ایڈنبرا یونیورسٹی میں طب کے شعبے میں داخلہ لیا لیکن اسے یہ کچھ زیادہ پسند نہیں آیا.پھر وہ کیمبرج میں آرٹس اور دینیات کی تعلیم حاصل کرنے گیا.اس کی دلچسپیوں کو دیکھتے ہوئے اسے مطالعاتی بحری جہاز بیگل کے سفر کے لئے منتخب کیا گیا.ڈارون ۱۸۳۱ء میں ۲۲ سال کی عمر میں بیگل پر دنیا کے گرد سفر پر روانہ ہوا.اس لمبے سفر کے دوران ڈارون بہت سے قدیم قبیلوں سے ملا، بہت سارے فوسل (Fossil) دریافت کئے اور بہت زیادہ تعداد میں پودوں اور جانوروں کا مشاہدہ کیا.ان مشاہدات کی بنیاد پر اس نے بے شمار کتابیں لکھیں جن میں سے سب سے مشہور اصل الانواع (Origin of Species) ہے.اس کے انکشافات، مشاہدات اور تحقیقات سے ارتقاء کا وہ نظریہ قائم ہوا جو ڈارونیت (DARWINISM) بھی کہلاتا ہے.وکی پیڈیا آزاد دائرہ معارف زیر لفظ ڈارون ، اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحہ ۶۱۷ مطبوعہ لا ہور۱۹۸۷ء) ہیکل (HAECKEL ERNST HEINRICH)1834ء تا 1919ء.جرمن حیاتیات دان اور فلسفی پاٹسڈم (POTSDAM) برلن اور ویانا میں طب اور حیوانیات کا مطالعہ کیا اور اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں.۱۸۶۵ء میں JENA یو نیورسٹی میں حیوانیات کا پروفیسر ہو گیا اور ۵۰ سال تک نظریہ ارتقاء کی اشاعت کرتا رہا.وہ پہلا سائنسدان تھا جس نے حیوانی زندگی کا شجرہ نسب مرتب کیا.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۸۳ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) مسلے (HUXLEY(THOMAS) (HENRY) انگریز حیاتیات دان.جب وہ جہاز رئیل سینک پر نائب سرجن تھا تو اس نے بحر الکاہل کے رقبوں میں سمندری زندگی کے نمونے اکٹھے کئے.ڈارون کا حامی تھا اور اس نے ارتقاء، تشریح، عضویات اور سائنس کے دوسرے موضوعات پر (اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۵۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) لکھا.نوح : ۱۴ تا ۱۹ ١٣،١٢ الدهر : ٣ السجدة : ٨ 19 النجم : ۴۳ تا ۴۸ ۲۲ الاعراف :١٢ ٢۵ البقرة : ٣٩ ۲۸ الانبياء :٣٨ مریم: ۶۸ فاطر :۱۲ كل السجدة : 9 ۲۰ فاطر :۱۲ ٢٣ البقرة : ٣٧ ٢٦ الاعراف : ۲۶ ۲۹ الروم : ۵۵ الدهر : ٢ ها الانبياء: ٣١ المرسلت : ۲۱ تا ۲۳ ٢١ البقرة : ٣١ ۲۴ طه : ۱۲۴ ص ٧٧ ٣٠ الاعراف:۱۳
۹۹ ا اللهب :٢ ٣٤ الاعراف : ٢٠ ۳۷ الاعراف : ۱۹۱،۱۹۰ ٣٢ الرحمن : ١٦ ۳۵ طه : ۱۱۸ ٣٣ البقرة : ٣٦ ٣٦ النساء :٢ ۳۸ بخاری کتاب النکاح باب الوصاة بالنّساء حديث نمبر ۶ ۵۱۸ صفحه ۹۲۶ مطبوعه ریاض الطبعة الثانية مارچ ۱۹۹۹ء ۳۹ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۹۷ المكتب الاسلامي بيروت ۱۹۷۸ء مجمع البحار جلد ۲ صفحه ۲۹۴ مطبع نولکشور ۱۳۱۴ھ ام بخارى كتاب التفسیر باب تبتغى مرضات ازواجک.حدیث نمبر ۴۹۱۳ صفحه ۸۷۳ مطبوع رياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۲۲ طه : ۱۲۲ ٢۵ البقرة :٣٢ ٢٩ التحريم :٤ ۲۳ طه : ۱۲۰،۱۱۹ ٢٤ البقرة : ٣٦ ۴۷، ۲۸ البقرة : ٣١ ٢٦ النمل : ٢٤ ۵۰ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲ ۱۳۰ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء ۵۱ طه : ۹۱ ۵۲ خروج باب ۳۲ - آیت اتام نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء ۵۳، طه : ۹۱ ۵۴ خروج باب ۳۲ آیت ۲۰ ( مفهوماً) صفحہ ۹۵ پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور ۵۵ خروج باب ۳۲ آیت ۱۹ تا ۲۸ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لا ہو ر ۱۹۲۲ء ( مفہوماً) ۵۶ فاطر : ۲۵ ۵۹ النجم : ١٠٠٩ ١٢ الجن : ۲۸،۲۷ ۵۷ الانعام : ۸۴ تا ۹۱ ۵۸ الانعام : ۷۶ ۲۰ یونس : ۶۳ تا ۶۵ ال النمل : ٦٧،٦٦ ١٣ لحم السجدة : ٣١ تا ۳۳ ۱۴ الصفت : ۸۴ تا ۱۰۰ ۲۵ مهورت کسی کام کیلئے ستاروں کی چال کے مطابق مبارک وقت معلوم کرنا (فیروز اللغات اردو صفحه ۱۳۲۴ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء) ٦٦ النحل :١٣ 12.17: 19 نوح : ١٧،١٦ الحج : ١٩ ۲۸ یونس : ۶ ى الرعد :٣ الى الانعام : ۹۷ ٢ الرحمن : ٦ الرحمن : ۶ تا ۱۰ ك الانبياء :٣٤ ۷۵ النحل : ۹۰ کے لقمان : ۲۸ الدخان :۲ تا ۶ ٤٨ يوسف :١١٢ ٤٩ العنكبوت :۵۲ ٨٠ المائدة : ٦٨ ا بنی اسرائیل: ۹۰ ۵۲ الكهف : ۵۵
1+1 بِسْمِ الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيم (۲) ( تقریر فرموده مورخه ۲۸ دسمبر ۱۹۴۰ء بر موقع جلسه سالانه بمقام قادیان) شہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : - (۴) مساجد میں نے اس سفر میں جو چیزیں دیکھی تھیں ان میں سے کچھ مساجد بھی تھیں جو بڑی خوبصورت اور مختلف امتیازات والی تھیں کسی میں کالے پتھر لگے ہوئے تھے ، کسی میں سفید اور کسی میں سُرخ اور بعض میں اگر سادگی تھی تو وہ سادگی اپنی ذات میں اتنی خوبصورت تھی کہ دل کو لبھا لیتی تھی.اسی طرح بعض مساجد اتنی وسیع تھیں کہ ایک ایک لاکھ آدمی ان میں بیک وقت عبادت کر سکتا تھا اور بعض اتنی بلند تھیں کہ انسان اگر اُن کی چھت کو دیکھنے لگے تو اس کی ٹوپی رگر جائے غرض اپنے اپنے رنگ میں ہم میں سے ہر ایک نے اُن مساجد کو دیکھ کر لطف اُٹھایا اور جہاں موقع مل سکا وہاں ہم نے نفل بھی پڑھے.مساجد کی تعمیر میں نیوں کا تفاوت میں نے جب ان مساجد کو دیکھا تو اپنے دل میں کہا کہ ان خدا کے بندوں نے کیسی کیسی عظیم الشان مساجد بنا کر خدا تعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت کو دنیا میں قائم کرنے کا اہتمام کیا کی تھا مگر ساتھ ہی میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ مساجد گو بڑی شاندار ہیں اور ان کے بنانے والوں نے ان کے بنانے پر بہت سا وقت اور روپیہ خرچ کیا ہے اور بہت بڑی قربانی سے کام لیا ہے تا ہم نہ معلوم انہوں نے ان مسجدوں کو کس کس نیت سے بنایا.کسی نے ان کو اچھی نیت سے بنایا ہوگا اور کسی نے بُری نیت سے کسی نے تو اس خیال سے مسجد تعمیر کی ہوگی کہ لوگ کہیں گے یہ مسجد فلاں بادشاہ نے بنائی تھی.اس ریا کاری کی وجہ سے ممکن ہے وہ اس وقت جہنم میں
۱۰۲ جل رہا ہو اور لوگ مسجد دیکھ کر کہہ رہے ہوں کہ واہ واہ ! فلاں مسلمان نے کتنی بڑی نیکی کا کام کیا حالانکہ اُس نے چونکہ ریاء کی وجہ سے مسجد بنائی تھی اس لئے وہ جہنم میں اپنے اس فعل کی سزا پا رہا ہو گا.پھر کسی نے ایسی نیک نیتی سے مسجد تیار کی ہوگی کہ گو وہ مر گیا اور اُس کی بنائی ہوئی مسجد بھی ویران ہو گئی مگر اُس کو خدا تعالیٰ کے فرشتے ہر روز جنت میں آکر سلام دیتے ہونگے اور کہتے ہونگے کہ تو نے دنیا میں چونکہ خدا کا گھر بنایا تھا اس لئے اب آخرت میں ہم تجھ پر سلامتی بھیجتے ہیں.بیشک اُس کی مسجد میں اب لوگ نہیں آتے اور نہ وہاں آکر سلام کہتے ہیں مگر جنت میں اُسے فرشتے روزانہ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہتے ہوں گے.غرض جب میں اس قلعہ کی چھت پر کھڑا تھا تو اُس وقت میرے خیالات یہ تھے کہ یہ دنیوی چیزیں تھیں جن کو میں نے دیکھا اور جن سے اپنی معلومات میں اضافہ کیا ، مگر ان دنیوی چیزوں کے مقابلہ میں بعض روحانی چیزیں بھی اسی قسم کی ہیں لیکن دنیا ان کی طرف توجہ نہیں کرتی.وہ اپنی شان میں ان دُنیوی چیزوں سے کہیں بڑھ کر ہیں ، وہ اپنی بلندی میں ان سے کہیں اونچی ہیں اور وہ اپنی خوبیوں میں ان سے کہیں اعلیٰ ہیں ، غرض وہ ایسی نادر روزگار چیزیں ہیں کہ دنیا کو اگر سینکڑوں نہیں ہزاروں صدیوں کا سفر کر کے بھی ان کی تلاش میں جانا پڑے تب بھی وہ سفر برکا رنہیں کہلا سکتا ، مگر با وجود اس کے لوگ ان کو دیکھنے کا شوق نہیں رکھتے اور نہ ان کے بنانے والوں کی کوئی قدر کرتے ہیں، لیکن ان دُنیوی چیزوں کی بڑی قدر کرتے ہیں.یہ خیالات تھے جو اُس وقت میرے دل اور دماغ پر مسلط تھے.عالم روحانی کی شاندار مساجد میں بتا چکا ہوں کہ میں نے اس سفر میں بعض پرانی اور شاندار مساجد دیکھیں ، ایسی وسیع اور شاندار مساجد جن میں ہزاروں آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں.تب میں نے غور کیا کہ یہ تو دنیوی مساجد ہیں ، کیا ان سے بھی بڑھ کر روحانی دنیا میں کوئی مسجد میں ہیں یا نہیں؟ اور اگر ہیں تو دنیا ان سے کیا سلوک کر رہی ہے جب میں نے اس امر پر غور کیا تو میں نے دیکھا کہ ان مساجد سے بہت زیادہ شاندار مساجد روحانی دنیا میں موجود ہیں.مٹی کی اینٹوں کی بنی ہوئی نہیں، چونے اور پتھروں سے بنی ہوئی نہیں بلکہ وہ مسجدیں ایمان کی اینٹوں سے تیار ہوئی ہیں اور ان کی شان کو کوئی اور مسجد کبھی نہیں پہنچ سکتی.مساجد کیوں بنائی جاتی ہیں یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ دو چیزوں میں مشابہت کسی نہ کسی وجہ سے ہوتی ہے کبھی مشابہت شکل میں ہوتی ہے اور
۱۰۳ کبھی کام میں مثلاً ایک انسان کی تھوتھنی باہر نکلی ہوئی ہوتی ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ گنتا ہے، کوئی گردن اکڑا کر رکھتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ سو رہے، ایک انسان بڑا بہادر اور دلیر ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ شیر ہے.اب کسی کو شیر یا کتا یا سو ر اس وجہ سے نہیں کہا جاتا کہ اُس کے بھی شیر کی کی طرح پنجے ہوتے ہیں، یا وہ بھی گئے اور سور کی طرح ہوتا ہے بلکہ کبھی روحانی اور اخلاقی مشابہتوں کی وجہ سے ایک کو دوسرے کا نام دیدیا جاتا ہے اور کبھی ظاہری مشابہت کی بناء پر ایک کو دوسرے کا نام دیا جاتا ہے.میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ مسجد کے مشابہ دنیا میں کونسی چیز ہے؟ میں نے اس کے لئے سب سے پہلے اس امر پر غور کیا کہ مسجد کا کام کیا ہوتا ہے اور وہ کس غرض کے لئے بنائی جاتی ہے؟ اس سوال کو حل کرنے کے لئے جب میں نے قرآن کریم پر غور کیا تو مجھے آل عمران رکوع 10 میں یہ آیت نظر آئی کہ اِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بَبَكَّةَ مُبْرَكاً وَّ هُدًى لِلْعَلَمِينَ یہ آیت بیت اللہ کے متعلق ہے جو در حقیقت اول المساجد ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب سے پہلی مسجد اور سب سے اول اور مقدم مسجد وہ ہے جو مکہ میں بنی اور جس کی نقل میں دوسری مساجد تیار ہوتی ہیں.یہاں بیت سے مراد در حقیقت بیت اللہ ہے یعنی اللہ کا گھر اور مسجدیں بھی اللہ کا گھر ہی کہلاتی ہیں، آگے بیان فرماتا ہے کہ اس بیت اللہ کا کام کیا ہے اور اسے دوسرے مقامات پر کیا فوقیت حاصل ہے فرماتا ہے بیت اللہ کے بنانے میں ہماری تین اغراض ہیں.بیت اللہ کی تین اہم اغراض اول وضعَ لِلنَّاسِ.یہ مسجد تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی ہے کسی خاص فرد کے لئے نہیں.وہ زید کے لئے نہیں، بکر کے لئے نہیں ، خالد کے لئے نہیں بلکہ وُضِعَ لِلنَّاسِ وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی ہے.پھر مُبَارَکاً وہ برکت والی ہے.تیسرے هُدًى لِلْعَلَمِینَ سب انسانوں کے لئے ہدایت کا موجب ہے.پس دنیا میں سب سے پہلی مسجد جو بنائی گئی اس کی تین اغراض تھیں.(۱) مساوات کا قیام اول وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی تھی ، مطلب یہ کہ مسجد ایسا گھر ہوتا ہے کہ مساوات پیدا کرتا ہے اس میں غریب اور امیر ، اور مشرقی اور مغربی کا امتیاز بالکل مٹا دیا جاتا ہے.مسجد کے دروازہ کے باہر بیشک ایک بادشاہ بادشاہ ہے اور غلام غلام ، ایک شخص حاکم ہے اور دوسرا محکوم ، ایک افسر ہے اور دوسرا ما تحت مگر ادھر ما مسجد میں قدم رکھا اور اُدھر امیر اور غریب ، حاکم اور محکوم سب برابر ہو گئے.کوئی بادشاہ ایسا کی
۱۰۴ نہیں جو مسجد میں ایک غلام سے بھی یہ کہہ سکے کہ یہاں مت کھڑے ہو تم وہاں جا کر کھڑے ہو بلکہ اسلام میں یہ مساوات اس حد تک تسلیم کی جا چکی ہے کہ بنوامیہ کے زمانہ میں جب بادشاہوں نے ظلم کرنے شروع کر دیئے تو پہلے تو مسجد میں جب بادشاہ آتا تو تعظیم کے طور پر لوگ اس کے لئے جگہ چھوڑ دیتے مگر بعد میں وہ اپنی جگہ پر ہی بیٹھے رہتے اور جب نوکر کہتے کہ جگہ چھوڑ دو تو وہ کہتے کہ تم ہمیں مسجد سے اُٹھانے والے کون ہو مسجد خدا کا گھر ہے اور یہاں امیر اور غریب کا کوئی امتیاز نہیں.آجکل کا زمانہ ہوتا تو بادشاہ نوکروں سے لوگوں کو پٹوانا شروع کر دیتے مگر اُس وقت اسلام کا اس قدر رُعب تھا کہ بنوامیہ نے مسجد کے باہر مُجرے بنائے اور وہاں نماز پڑھنا شروع کر دی مگر یہ جرات نہ ہوئی کہ مسجد میں آ کر لوگوں کو اُٹھا سکیں.تو مسجد وُضِعَ لِلنَّاسِ ہوتی ہے اور اس کے دروازے تمام بنی نوع انسان کے لئے کھلے ہوتے ہیں.کالے اور گورے کی اس میں کوئی تمیز نہیں ہوتی ، چھوٹے اور بڑے کا اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا ، بلکہ ہر ایک کا مسجد میں مساوی حق تسلیم کیا جاتا ہے.غرض مسجد کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ بنی نوع انسان میں مساوات پیدا کرتی ہے.(۲) تقدس اور ذکر الہی کا مرکز دوسری غرض مسجد کی اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے مُبَارَكاً وہ مقامِ مبارک ہوتا ہے.میں مسجد کے مقامِ مبارک ہونے کی اور مثالیں دیدیتا ہوں.(الف) مسجد اس لئے مقامِ مبارک ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ذکر کے لئے مخصوص ہوتی ہیں، باقی گھروں میں تو اور کئی قسم کے دنیوی کام بھی کر لئے جاتے ہیں مگر وہاں دُنیوی کاموں کی اجازت نہیں ہوتی.یا اگر کئے بھی جائیں تو وہ اتنے قلیل ہوتے ہیں کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.جیسے مسجد میں اگر کوئی غریب شخص رہتا ہو تو اُسے اجازت ہے کہ مسجد میں بیٹھ کر کھانا کھالے مگر بہر حال زیادہ تر کام مساجد میں یہی ہوتا ہے کہ وہاں ذکر الہی کیا جاتا ہے.اور درود پڑھا جاتا ہے اور دعائیں کی جاتی ہیں اور اس طرح اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی برکتیں نازل ہوتی ہیں.(ب) پھر مساجد اس لحاظ سے بھی مقامِ مبارک ہوتی ہیں کہ وہ پاکیزگی کا مقام ہوتی ہیں اور یہ اجازت نہیں ہوتی کہ وہاں گند پھینکا جائے ، مثلاً پاخانہ پیشاب کرنے ، تھوکنے یا بلغم پھینکنے کی اجازت نہیں ہوتی.اسی طرح حکم ہے کہ گندگی اور بد بو دار چیزیں کھا کر مسجد میں مت آؤ.نجنبی کا مسجد میں آنا بھی منع ہے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ یہ ہدایت دیا کرتے تھے
۱۰۵ کہ مساجد کو صاف ستھرارکھو اور اس میں خوشبوئیں جلاتے رہوتے مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس ہدایت کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے اور ان کی مسجد میں اتنی گندی ہوتی ہیں کہ وہاں نماز پڑھنے تک کو جی نہیں چاہتا.(۳) بنی نوع انسان کی ہدایت کا ذریعہ تیسری غرض اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ هُدًى لِلْعَلَمِینَ یعنی مسجدیں لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہوتی ہیں.وہ اس طرح کہ وہاں دین کی تعلیم اور تبلیغ کا انتظام مثلاً خطبہ ہوتا ہے جس میں وعظ و نصیحت کی جاتی ہے، دینی اور اخلاقی باتیں بتائی جاتی ہیں اور لوگوں کو قربانیوں پر آمادہ کیا جاتا ہے.اسی طرح تذکیر و تحمید سے کام لیا جاتا ہے، دینی ودنیوی اصلاحات کے متعلق مشورے ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی بہتری اور ان کی ترقی کی باتیں بیان کی جاتی ہیں.اسی طرح مسجدوں میں قرآن کا درس ہوتا ہے ، حدیث کا درس ہوتا ہے، پھر نمازوں میں سے تین نمازیں بالخصوص ایسی ہیں جن میں تلاوت پالنجبر کی جاتی ہے اور تلاوت پالجبر ایک قسم کا وعظ ہوتا ہے، کیونکہ قرآن کریم کی ہر آیت وعظ ہے اور جب بلند آواز سے اُس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو لوگوں کے قلوب صاف ہوتے ہیں اور ان میں اللہ تعالیٰ کی خشیت اور محبت پیدا ہوتی ہے.غرض مسجدیں هُدًى لِلْعَلَمِینَ کا کام دیتی ہیں وہاں لوگوں کی دینی تربیت ہوتی ہے، انہیں اعلیٰ روحانی باتیں بتائی جاتی ہیں اور اسلامی احکام دوسروں تک پہنچائے جاتے ہیں پس مسجد کی یہ تین اغراض اس آیت سے مستنبط ہوتی ہیں.مساجد کی بعض اور اغراض اس کے بعد میں نے اور غور کیا تو مجھے قرآن کریم میں ایک اور آیت بھی نظر آئی جس میں مساجد کے بعض اور مقاصد بیان کئے گئے ہیں اور وہ آیت یہ ہے.وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَ اَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْراهِمَ مُصَلَّى وَ عَهِدْنَا إِلَى إبراهمَ وَإِسْمَعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَ الْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ " فرماتا ہے اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے اس گھر یعنی خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے مَشَابَہ بنایا، یعنی تمام دنیا کے لئے نسل اور قومیت کے امتیاز کے بغیر اور ملک اور زبان کے امتیاز کے بغیر ہر ایک انسان کے لئے اس کے دروازے کھلے ہیں مَشَابَةَ کے لغت میں یہ معنے لکھے ہیں کہ مُجَتَمَعُ النَّاسِ وَ مَاحَوْلَ الْبِثْرِ مِنَ الْحِجَارَةِ يعنى مَثَابَة کے معنے ہیں جمع ہونے کی جگہی
1+7 اسی طرح مَثَابَة اُس منڈیر کو کہتے ہیں جو کنویں کے ارد گرد بنائی جاتی ہے اور جس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ جب زور کی ہوا چلے تو کوڑا کرکٹ اور گوبر اُڑ کر اندر نہ چلا جائے ، یا کوئی اور گندی چیز کنویں کے پانی کو خراب نہ کر دے ، اسی طرح منڈیر سے یہ غرض بھی ہوتی ہے کہ کوئی شخص غلطی سے کنویں میں نہ گر جائے ، غرض منڈیر کا مقصد کنویں کو بُری چیزوں اور لوگوں کو گرنے سے بچانا ہوتا ہے.منڈیر کا کو ہوتا مساجد دینی تربیت کا مرکز ، بُرائیوں سے محفوظ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے اس مسجد کو ایک تو اس غرض کے لئے بنایا رکھنے کا ذریعہ اور قیام امن کا موجب ہوتی ہیں ہے کہ دنیا کے چاروں طرف سے لوگ اس جگہ آئیں اور یہاں آکر دینی تربیت اور اعلی اخلاق حاصل کریں.دوسرے ہم نے مسجد کو اس لئے بنایا ہے تا کہ وہ دنیا کے لئے منڈیر کا کام دے اور ہر قسم کی بُرائیوں اور شر سے لوگوں کو محفوظ رکھے.تیسری غرض یہ بیان فرمائی کہ مسجد امن کے قیام کا ذریعہ ہوتی ہے اس کے بعد فرماتا ہے وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّى ہم نے اس مسجد کو اس لئے بھی قائم کیا ہے تاکہ لوگ مقام ابراہیم پر بیٹھیں اور اسے مصلی بنا ئیں.اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو بڑے زور سے یہ نصیحت کی تھی اَنْ طَهِّرَا بَيْتِی کہ تم میرے اس گھر کو پاک رکھو ( ان الفاظ میں بعض اور اغراض بھی بیان کر دی گئی ہیں ) لِلطَّائِفِينَ مسافروں کے لئے وَالْعَكِفِينَ اور مقیموں کے لئے وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ اور اُن لوگوں کے لئے جو اپنے کاروبار کو چھوڑ کر اس مسجد میں ذکر الہی کرنے کے لئے آ بیٹھے ہیں.اس آیت سے مسجد کی یہ مزید اغراض معلوم ہوتی ہیں.(۴) مساجد لوگوں کو جمع کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں.(۵) مساجد شر سے روکنے کے لئے بنائی جاتی ہیں.(۶) مساجد امن کے قیام کے لئے بنائی جاتی ہیں.(۷) امامت کو ان کے ذریعہ زندہ رکھا جاتا ہے.مسئلہ امامت کا دائمی احیاء چنانچہ دیکھ لورسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و مد ینہ میں ہوتے تھے مگر مسلمان جہاں کہیں ہوتے ایک شخص کو امام بنا کر اُس کی اقتداء میں نمازیں ادا کر نے لگ جاتے اور اب بھی ہر مسجد میں ایک امام ہوتا ہے جس کی اقتداء میں لوگ نمازیں ادا کرتے ہیں.امام در حقیقت قائمقام ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور مقتدی قائمقام ہوتے ہیں صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے.جس طرح صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نمازیں ادا کرتے تھے اسی طرح آج ہر مسجد
میں مسلمان ایک امام کی اقتداء میں نمازیں ادا کرتے ہیں.گویا سابق نیکی کے لیڈروں کو زندہ رکھا جاتا اور مساجد کے ذریعہ امامت کو ہر وقت قوم کی آنکھوں کے سامنے رکھا جاتا ہے اور مساجد لوگوں کو یہ مسئلہ یاد دلاتی رہتی ہیں کہ تم میں ایک امام ہونا چاہئے اور اس امام کی اقتداء میں تمہیں ہر کام کرنا چاہئے.(۸) مساجد مسافروں کے مسافر اور مقیم کے فوائد مساجد سے ہی وابستہ ہیں فائدہ کے لئے بنائی جاتی ہیں.مثلاً مسافر وہاں ٹھہر سکتا ہے اور چند روزہ قیام کے بعد اپنی منزلِ مقصود کو جاسکتا ہے.(1) الْعَكِفِينَ مساجد شہر میں بسنے والوں کے فائدہ کے لئے بنائی جاتی ہیں.مثلاً (الف) گھروں میں تو شور وشغب ہوتا ہے اور انسان سکون کے ساتھ ذکر الہی نہیں کر سکتا مگر وہاں ہر قسم کے شور و شر سے محفوظ ہو کر آرام سے لوگ ذکر الہی کر سکتے ہیں.(ب) وہ وہاں اجتماعی عبادت کا فائدہ اُٹھاتے ہیں اگر مساجد نہ ہوں تو ایک نظام کے ماتحت عبادت نہ ہو سکے.مثلاً جب جمعہ کا دن آتا ہے تو سب مسلمان اپنے اپنے محلوں کی مساجد کی بجائے جامع مسجد میں اکٹھے ہو جاتے اور اجتماعی عبادت بجا لاتے ہیں ، اس طرح مساجد انہیں اجتماعی حیثیت سے کام کرنے کی عادت ڈالتی ہیں.(١٠) وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ اُن میں وہ لوگ رہتے ہیں جو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیتے ہیں.واقفین زندگی اور مساجد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جو لوگ اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے وقف کر دیا کرتے تھے وہ مسجد میں ہی رہتے تھے اور انہیں اَصْحَابُ الصُّفّہ کہا جاتا تھا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں تشریف لاتے تو وہ آپ کی باتیں سُنا کرتے اور بعد میں لوگوں تک پہنچا دیتے.غرض مسجد میں واقفین زندگی کو جمع کرنے کا ایک ذریعہ ہیں.گاؤں والے بعض دفعہ اتنے غریب ہوتے ہیں کہ وہ الگ کسی جگہ مدرسہ نہیں کھول سکتے ایسی حالت میں وہ مسجد سے مدرسہ کا کام بھی لے سکتے ہیں ، کیونکہ ہمارا مدرسہ بھی مسجد ہے اور واقفین زندگی کی جگہ بھی مسجد میں ہے.مساجد کے مشابہ صرف انبیاء کی جماعتیں ہیں اب میں بتاتا ہوں کہ اغراض اور مقاصد آیا کسی اور
۱۰۸ چیز کے بھی ہیں یا نہیں اور مسجد کے مشابہ عالم روحانی میں بھی کوئی چیز دکھائی دیتی ہے یا نہیں ؟ اس کے لئے پہلے میں علم تعبیر الرؤیا کو لیتا ہوں کیونکہ رویا میں تمثیلی زبان استعمال کی جاتی ہے اور خوابوں کی تعبیر سے انسان معلوم کر سکتا ہے کہ ظاہری چیزوں کی مشابہت کن روحانی چیزوں سے ہوتی ہے.اس مقصد کے لئے جب ہم علم تعبیر الرؤیا کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسجد انبیاء کی جماعت کو کہتے ہیں.پس مساجد کے مشابہ عالم روحانی میں اگر کوئی چیزیں ہیں تو انبیاء کی جماعتیں ہیں.اب دیکھنا یہ چاہئے کہ کیا انبیاء کی جماعتوں میں وہ باتیں پائی جاتی ہیں جو مساجد کی اغراض ہیں.اگر پائی جاتی ہیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ واقع میں روحانی دنیا میں بھی مساجد ہیں اور وہ ظاہری مساجد سے بہت زیادہ شاندار ہیں.آج تک دنیا میں خدا تعالیٰ کے بہت سے انبیاء ہوئے ہیں ، حضرت آدم علیہ السلام ہوئے ہیں، حضرت نوح علیہ السلام ہوئے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوئے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں.اسی طرح حضرت داؤد ، حضرت سلیمان ، حضرت بیچی اور حضرت عیسی علیہم السلام ہوئے ہیں اور ہر نبی نے کوئی نہ کوئی جماعت قائم کی ہے.پس اگر ہم غور کریں تو ہر نبی کی جماعت میں ہمیں یہ مشابہتیں نظر آ جائیں گی اور ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان امور کے پورا کرنے کے لئے مختلف روحانی مساجد بنائی گئی تھیں مگر میں تفصیلاً ان کے حالات اس جگہ بیان نہیں کر سکتا کیونکہ (۱) ایک تو مضمون لمبا ہو جاتا ہے (۲) دوسرے سب مساجد کے تفصیلی حالات محفوظ نہیں.اس لئے میں صرف آخری مسجد کو لے لیتا ہوں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں تیار ہوئی اور جس کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَسْجِدِ آخِرُ الْمَسَاجِدِ صحابہ کے متعلق ایک اصولی نکتہ اب میں ایک آ اب میں ایک ایک کر کے مساجد کی اغراض کی نسبت ثابت کرتا ہوں کہ وہ تمام کی تمام اس روحانی مسجد سے پوری ہوئی ہیں.مگر ایک بات میں کہہ دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ بعض واقعات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ اگر ان کے متعلق تاریخی طور پر بحث کی جائے تو وہ بہت لمبی ہو جاتی ہے اس لئے اصولی طور پر ایک نکتہ یاد رکھنا چاہئے اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرانُ " آپ کے اخلاق و عادات اگر ی معلوم کرنا چاہو تو قرآن پڑھ لو جو کچھ اس میں لکھا ہے وہی کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتا تھا.حضرت عائشہ نے یہ بات جس موقع پر بیان فرمائی ، اس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ کی خدمت
1+9 میں بعض لوگ حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ حالات سُنائے جائیں.آپ نے فرمایا كَانَ خُلُقَهُ الْقُرْآنُ مجھ سے حالات کیا پوچھتے ہو ، قرآن پڑھ کر دیکھ لو جتنی نیک اور پاک باتیں اس میں لکھی ہیں وہ سب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود میں پائی جاتی تھیں، مجھے بھی کئی دفعہ خیال آیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و عادات کے متعلق ایک ایسی کتاب لکھی جائے جس میں تاریخ یا حدیث سے مدد نہ کی جائے بلکہ صرف قرآن کریم سے استنباط کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر روشنی ڈالی جائے ( کاش! کوئی شخص اسی اصل کے مطابق ایک مدلل کتاب لکھ کر اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کرے) غرض جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت عائشہ نے یہ فرمایا تھا کہ كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ آپ کے اخلاق عالیہ کا پتہ لگانے کے لئے تاریخی کتب کی ورق گردانی اور زید بکر سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے.قرآن اُٹھاؤ اور اسے پڑھ لو ، جتنی اچھی باتیں ہیں وہ سب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھیں.اسی طرح صحابہ کے متعلق بھی ہمیں ایک اصولی نکتہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ وَ زَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَ كَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَ الْعِصْيَانَ ك فرماتا ہے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی جماعت ! تم وہ ہو کہ تمہارے دلوں میں خدا نے ایمان کی محبت ڈال دی ہے اور تمہاری حالت یہ ہوتی ہے کہ قرآن جو کچھ کہتا ہے تم اس پر فوری طور پر عمل کرنے لگ جاتے ہو اور اس نے ایمان کو تمہاری نظروں میں اتنا خوبصورت بنا دیا ہے کہ تمہیں اس کے بغیر چین ہی نہیں آتا جس طرح خوبصورت چیز کی طرف مُجھکتے ہو اور اُسے ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَ الْعِصْيَانَ اور اُس نے کفر، فستق اور نا فرمانی سے تمہیں اتنا متنفر کر دیا ہے کہ تم اس کی کی طرف رغبت ہی نہیں کرتے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور صحابہ دو مترادف الفاظ ہیں اگر اسلام میں کوئی حکم پایا جاتا ہے تو صحابہ نے اس پر یقینا عمل کیا ہے اور اگر صحابہ نے کسی بات پر عمل کیا ہے تو اسلام میں وہ ضرور پائی جاتی ہے جس طرح حضرت عائشہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا تھا کہ كَانَ خُلُقَهُ الْقُرانُ اسی طرح صحابہ جس بات پر عمل کریں اُس کے متعلق سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اسلام میں پائی جاتی ہے اور اسلام نے جس قدر احکام دیئے ہیں اُن کے متعلق سمجھ لینا چاہئے کہ ان پر صحابہ نے ضرور عمل کیا ہے.اس تمہید کے بعد اب کی ۱
11.میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ مسجد کی اغراض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے کس طرح پوری کیں.صحابہ کے ذریعہ بنی نوع انسان کے حقوق کی حفاظت اوّل.غرض مسجد کی یہ ہے کہ للناس ہوتی ہے یعنی اس کے ذریعہ بنی نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے اور سب انسانوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے.اس بارہ میں قرآن کریم میں آتا ہے.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ یعنی اے مسلمانو! تم سب اُمتوں سے بہتر ہو.اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم کسی ایک قوم کے فائدہ کے لئے کھڑے نہیں ہوئے بلکہ تم کالوں کے لئے بھی ہو اور گوروں کے لئے بھی ہو ، مشرقیوں کے لئے بھی ہو اور مغربیوں کے لئے بھی ہو، تمہارا دروازہ سب کے لئے کھلا ہے اور تمہارا فرض ہے کہ تم سب کو آواز دو اور کہو کہ آ جاؤ مشرق والو، آ جاؤ مغرب والو، آ جاؤ شمال والو، آ جاؤ جنوب والو ، آ جاؤ غریبو، آ جاؤ امیرو، آ جاؤ طاقتورو، آ جاؤ کمزور و.غرض تم سب کو آواز دو کیونکہ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم وہ قوم ہو جو ساری دنیا کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہو.جس کی طرح وہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ وہ پہلا گھر ہے جو لِلنَّاسِ} بنا، اسی طرح انبیاء کی جماعتیں بھی جب کھڑی کی جاتی ہیں تو لِلنَّاسِ کھڑی کی جاتی ہیں.موسیٰ کے زمانہ میں اُمتِ موسوی کا دروازہ گو صرف بنی اسرائیل کے لئے کھلا تھا مگر دائرہ میں وہاں بھی کامل مساوات تھی لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس دائرہ کو ایسا وسیع کر دیا گیا کہ ساری دنیا کو اس کے اندر شامل کر لیا گیا.پس فرماتا ہے اے مسلمانو! تم } لوگوں کے فائدہ کے لئے بنائے گئے ہو.اس کے بعد اس کا ذکر فرماتا ہے کہ مسلمانوں سے لوگوں کو فائدہ کس طرح پہنچے گا فرماتا ہے تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ تم لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتے ہو تمام بنی نوع انسان کو تبلیغ کرتے ہو، انہیں نیک اخلاق سکھاتے ہو، کہتے ہو کہ فلاں فلاں بات پر عمل کرو تا کہ تمہیں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ اور تم بدیوں سے لوگوں کو روکتے ہو، وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ اور تم نڈر ہو کر یہ کام کرتے ہو.یہاں ایمان سے صرف مان لینا مراد نہیں ، کیونکہ آمُر بِالْمَعْرُوفِ اور نَهِی عَنِ الْمُنكَرِ خدا تعالیٰ پر ایمان لائے بغیر نہیں ہوسکتا اور جب ایمان پہلے ہی حاصل تھا تو آخر میں تُؤْمِنُونَ بِاللهِ کہنے کی کیا
III ضرورت تھی.اگر اس ایمان سے مراد محض خدا پر ایمان لانا ہوتا تو آیت یوں ہوتی کہ تُؤْمِنُونَ وَتَامُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ مگر آیت اس کے الٹ ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے معنے صرف مان لینے کے نہیں بلکہ کچھ اور ہیں.اور وہ معنے جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہ ہیں کہ تم لوگوں سے نہیں ڈرتے بلکہ خدا سے ہی ڈرتے ہو اور ان کاموں میں کسی نقصان کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ نڈر ہو کر کام کرتے ہو جیسے فرماتا ہے.فَسَوْفَ يَأْتِى اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةَ اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِيْنَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ أمر بالمعروف اور نہی عن المنکر غرض اس آیت میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ جس طرح مادی مسجد تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہوتی ہے ، اسی طرح یہ روحانی مسجد تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہے اور وہ اس پر عمل مندرجہ ذیل طریق سے کرتی ہے.(الف) تَأمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ سب انسانوں کو حسنِ سلوک کی تعلیم دیتی اور اس طرح لوگوں کے حقوق کو محفوظ کرتی ہے.تَأمُرُونَ کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے نظام کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ مسلمان صرف وعظ ہی نہیں کرتے بلکہ لوگوں سے نیک باتیں منواتے ہیں.اگر صرف تَعِظُونَ النَّاسَ ہوتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ وہ لوگوں کو وعظ ونصیحت کرتے ہیں مگر خدا نے تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ کے الفاظ استعمال کئے ہیں جس میں یہ بتایا ہے کہ وہ لوگوں کو صرف وعظ ونصیحت کی بات کہہ دینا کافی نہیں سمجھتے بلکہ لوگوں سے عمل بھی کراتے ہیں.اگر تعلیم سے عمل ہو تو تعلیم دیتے ہیں، تربیت سے عمل ہو تو تربیت کرتے ہیں، منت سماجت سے کوئی عمل کرنے کے لئے تیار ہو تو اس کی منت سماجت کرتے ہیں اور اگر کوئی نگرانی کا محتاج ہو جیسے نابالغ بچے ہیں تو اسے حکم دیتے ہیں ( یعنی ان امور میں اور ان لوگوں کو جن میں اور جن کو حکم دینے کی اجازت ہے حکم دیتے ہیں ورنہ بالغ اور عاقل سے جبراً کوئی امر منوانا جو اس کے عقیدہ کے خلاف ہو اسلام میں جائز نہیں ) غرض وہ صرف اپنی زبان سے بات نکال کر خوش نہیں ہو جاتے بلکہ جس طرح بھی بن پڑتا ہے لوگوں سے عمل کرانے کی جد وجہد کرتے ہیں اور جب تک لوگوں کی عملی حالت درست نہ ہو جائے خوش نہیں ہوتے.(ب) تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ تمام بنی نوع انسان کو ظلم اور تعدی اور شرارت سے روکتے
١١٢ ہیں.یہاں بھی نہی کا لفظ استعمال فرمایا ہے وعظ کا نہیں.تو کل علی الله (ج) وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ اِس جگہ تُؤْمِنُونَ کو آخر میں رکھنا صاف بتا رہا ہے کہ یہاں عام ایمان مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کاموں میں کسی نقصان سے نہیں ڈرتے اور نڈر ہو کر کام کرتے ہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس مسجد نے اس غرض کو کس طرح پورا کیا اور کس طرح تمام بنی نوع انسان میں اُس نے مساوات کو قائم کیا.مساوات کے قیام کے لئے غلامی کو مٹا دیا گیا! مساوات کے قیام کے لئے اس جماعت نے سب سے پہلے غلامی کو مٹایا اور جس طرح مسجد میں کوئی آقا اور کوئی غلام نہیں رہتا اسی طرح مسلمان ہو کر کوئی آقا اور کوئی غلام نہیں رہتا.غلامی کے متعلق اسلام نے ایک مفصل تعلیم دی ہے میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے سارا زور اس امر پر صرف کر دیا کہ دنیا سے غلامی کو مٹا دیا جائے.چنانچہ اس مسئلہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اصل بیان کیا ہے اور میں اپنی جماعت کے لیکچراروں کو ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ وہ اسے بیان کیا کریں.وہ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَإِمَّا مَنَّا بَعْدُوَ إِمَّا فِدَآءَ کہ جب کوئی غلام پکڑا جائے تو اس کے متعلق شریعت میں صرف دو ہی حکم ہیں یا تو احسان کر کے چھوڑ دو یا مجرم کا جرمانہ وصول کر کے چھوڑ دو، قید کا حکم کہیں نہیں.پس دو ہی حکم ہیں یا تو یہ کہ غلام پر احسان کرو اور اُسے آزاد کرو اور یا یہ حکم ہے کہ کچھ ٹیکس اور جُرمانہ وصول کرو اور اُسے چھوڑ دو.پھر اس مُجرمانہ کے متعلق بھی یہ شرط ہے کہ اگر غلام مکا تبت چاہے تو مکا تبت بھی کر سکتا ہے اور یہ مکاتبت کی شرط اس لئے رکھی گئی ہے کہ فرض کرو ایک شخص کے پاس روپیہ تو نہیں مگر وہ آزاد ہونا چاہتا ہے تو وہ کرے تو کیا کرے.اگر نقد روپیہ دیکر غلام آزاد ہوسکتا تو جس کے پاس روپیہ نہ ہوتا وہ اعتراض کر سکتا تھا کہ میری رہائی کی کوئی صورت اسلام نے نہیں رکھی.مگر اسلام چونکہ کامل مذہب ہے اس لئے اس نے اس روک کو بھی دُور کر دیا اور یہ اصول مقرر کر دیا کہ اگر غلام مکاتبت کا مطالبہ کرے تو اُسے مکاتبت دے دینی چاہئے.مکاتبت کا مطلب یہ ہے کہ غلام کہہ دے میں آزاد ہونا چاہتا ہوں تم میرا جرمانہ مقرر کر دو.میں محنت اور مزدوری کر کے اپنی کمائی میں سے ماہوار قسط تمہیں دیتا چلا جاؤں گا.جب کوئی غلام یہ مطالبہ کرے تو ی
۱۱۳ اسلامی شریعت کے ماتحت قاضی کے پاس مقدمہ جائیگا اور وہ اس کی لیاقت اور قابلیت کو دیکھ کر اور یہ اندازہ لگا کر کہ وہ ماہوار کتنا کما سکتا ہے اس کے ذمہ ایک رقم مقرر کر دیگا اور پھر اس کے ماہوار گزارے کو منہا کر کے مطالبہ کرے گا کہ اتنی رقم ماہوار تم تاوان کے طور پر ادا کرتے چلے جاؤ.اس طرح وہ اقساط کے ذریعہ تاوان ادا کرتا رہے گا مگر مجزوی آزاد وہ اسی دن سے ہو جائے گا جس دن وہ قاضی کے سامنے یہ اقرار کریگا.اگر ادائیگی رقم سے پہلے وہ شخص فوت ہو جائے تو اس کا بقیہ مال اور ترکہ آقا کومل جائے گا اور اگر وہ زندہ رہے گا تو اس فیصلہ کے ماتحت وہ اپنی رقم ادا کرنے پر مجبور ہوگا.غرض اسلامی جنگوں کے ماتحت جب بھی غلام گرفتار ہو کر آئیں گے انہیں یا تو ہمیں خود چھوڑ دینا ہوگا یا ہمیں حکم ہوگا کہ ہم تاوان وصول کریں.اگر اس کے بھائی بند اور رشتہ دار اس وقت آزادی کی قیمت ادا کریں تو وہ اس وقت آزاد ہو جائے گا اور اگر اس کے رشتہ دار غریب ہوں یا وہ فدیہ ادا کرنا پسند نہ کریں تو وہ مکاتبت کا مطالبہ کرنے کا حق دار ہوگا اور مسلمان قاضی کا فرض ہوگا کہ وہ اُس کی حیثیت کے مطابق اس پر فدیہ عائد کرے اور پھر اس کا گزارہ مقرر کر کے مناسب رقم ماہوار بطور فدیہ آزادی ادا کرنے کا اُسے حکم دے.جب یہ عہد و پیمان تحریری طور پر ہو جائے گا تو اس دن سے ہی وہ اپنے اعمال کے لحاظ سے آزاد ہو جائے گا.اب دیکھو اس تعلیم کے ہوتے ہوئے کیا کوئی شخص بھی اپنی مرضی کے خلاف غلام رہ سکتا ہے؟ جب بھی کوئی غلام آئے گا ہم اس بات کے پابند ہونگے کہ یا تو اُسے خود آزاد کر دیں یا وہ فدیہ ادا کر کے آزاد ہو جائے اور اگر اس کی طاقت میں یہ بات نہ ہو تو اس کے بیوی بچے اور رشتہ دار فدیہ ادا کر دیں اور اگر وہ بھی ادا نہ کر سکتے ہوں تو قاضی کے پاس جا کر فدیہ ادا کرنے کا اقرار کرے اور قاضی ادائیگی کی جو صورت تجویز کرے اُس پر عمل کرے، ان تمام صورتوں میں وہ آزاد ہو جائے گا.اور اگر کوئی شخص ان شرائط میں سے کسی شرط سے بھی فائدہ نہیں اُٹھاتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنے آپ کو غلام نہیں سمجھتا بلکہ گھر کا ایک فرد سمجھتا ہے اور عرفِ عام کی رو سے آزاد ہونے کو پسند ہی نہیں کرتا.ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ یہ کیسے ہو سکتا حضرت زید کا اپنی آزادی پر محمد رسول اللہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے گھر کو اپنے صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو ترجیح دینا گھر سے بہتر قرار دے اور کسی شرط پر بھی آزاد ہونا پسند نہ کرے سو اس کے
۱۱۴ لئے میں ایک مثال دید یتا ہوں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایسے حالات بھی پیدا ہو سکتے ہیں کہ کوئی شخص غلامی کو اپنے گھر کی آزادی پر ترجیح دینے کے لئے تیار ہو جائے وہ مثال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جس قدر غلام تھے اُن تمام کو حضرت خدیجہ سے شادی ہوتے ہی آپ نے آزاد کر دیا تھا.اس کے بعد تاریخ سے ثابت نہیں کہ آپ نے اپنے پاس کوئی غلام رکھا ہو ہاں غلام کو آزاد کر کے اسے خادم کے طور پر رکھا ہو تو یہ اور بات ہے.لیکن کی ایک غلام جن کا نام زید تھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہے اور انہوں نے آزاد ہونا پسند نہ کیا.یہ ایک مالدار خاندان میں سے تھے.کسی جنگ میں انہیں یونانی لوگ پکڑ کر لے گئے تھے ، پھر فروخت ہوتے ہوتے یہ مکہ پہنچے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خرید لیا.جب حضرت خدیجہ کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی ہوئی تو و انہوں نے اپنا تمام مال اور غلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہبہ کر دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس ہبہ کے بعد میں پہلا کام یہ کرتا ہوں کہ ان تمام غلاموں کو آزاد کر دیتا ہوں.چنانچہ آپ نے سب کو آزاد کر دیا.ادھر حضرت زیڈ کے باپ اور چچا، زید کو تلاش کرتے ہوئے اور ڈھونڈتے ہوئے مکہ آ نکلے.وہاں انہیں معلوم ہوا کہ زید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے.وہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ ہمارا ایک بچہ آپ کے پاس غلام ہے آپ ہم سے روپیہ لے لیں اور اسے آزاد کر دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو اسے آزاد کر چکا ہوں.انہیں خیال آیا کہ شاید یہ بات انہوں نے یونہی ہمیں خوش کرنے کے لئے کہہ دی ہے ور نہ کیسے ممکن ہے کہ انہوں نے بغیر روپیہ لئے اسے آزاد کر دیا ہو.چنانچہ وہ پھر منت سماجت کی کرنے لگے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو آواز دی اور جب وہ آئے تو آپ نے فرمایا یہ تمہارے باپ اور چچا ہیں اور تمہیں لینے کے لئے آئے ہیں ، میرے ساتھ مسجد میں چلو تا کہ میں اعلان کر دوں کہ تم غلام نہیں بلکہ آزاد ہو چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسجد میں لے گئے اور اعلان کر دیا کہ زید غلام نہیں وہ آزاد ہے اور جہاں جانا چاہے جاسکتا ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کر دیا تو ان کے باپ اور چچا دونوں بہت خوش ہوئے اور زید سے کہا کہ اب ہمارے ساتھ چلو، مگر حضرت زید اُسی وقت مسجد میں کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا اے لوگو! تم اس بات کے گواہ رہو کہ گومحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے
۱۱۵ مجھے آزاد کر دیا ہے مگر میں اُن سے آزاد نہیں ہونا چاہتا اور انہی کے پاس رہنا چاہتا ہوں.باپ اور چچا نے شور مچا دیا کہ تم عجیب بے وقوف ہو کہ اپنے گھر اور اپنے والدین پر اس شخص کی رفاقت کو ترجیح دیتے ہو.انہوں نے کہا مجھے باپ سے بھی محبت ہے اور ماں سے بھی ، اسی طرح کی باقی سب رشتہ داروں سے مجھے اُلفت ہے مگر بخدا! یہ شخص مجھے سب سے زیادہ پیارا ہے اور میں اس سے جُدا ہونا پسند نہیں کرسکتا.یہی وہ موقع ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ زید اب میرا بیٹا ہے." گویا پہلے تو آپ نے زید کو آزاد کیا اور پھر اسے اپنا بیٹا بنا لیا.اب دیکھو زید ایک غلام تھا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کیا مگر اس نے اپنے گھر کی آزادی اور دولت کو پسند نہ کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنا اُسے زیادہ پیارا معلوم ہو ا.جنگوں میں گرفتار ہونے والوں کے متعلق اسلامی احکام اسی طرح جب بھی اسلامی جنگوں کے نتیجہ میں غلام گرفتار ہو کر آئیں اُن کے متعلق شریعت کا یہی حکم ہے کہ مسلمان یا تو احسان کر کے انہیں چھوڑ دیں یا فدیہ وصول کر کے چھوڑ دیں یا مکاتبت کے ذریعہ سے چھوڑ دیں اور اگر اس کے باوجود کوئی شخص آزاد نہیں ہوتا تو یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے.اگر اس کے پاس روپیہ نہیں تو وہ مجسٹریٹ کے پاس جا کر درخواست دے سکتا ہے کہ میرے پاس روپیہ نہیں میری حیثیت کے مطابق مجھ پر جرمانہ لگا دیا جائے ، میں روپیہ کما کر ماہوار اتنی رقم ادا کرتا چلا جاؤں گا.لیکن اگر اس کے باوجود وہ آزادی کے لئے کوشش نہیں کرتا تو اس کے معنے پہ ہونگے کہ مسلمان کا گھر اُسے ایسا اچھا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کُفر کی آزادی کو پائے استحقار سے ٹھکرانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.پس جس طرح مسجد مساوات کو قائم کرتی ہے اسی طرح اسلام نے غلامی کو مٹا کر دُنیا میں مساوات قائم کی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے عملی نمونہ یہ دکھایا کہ اپنی پھوپھی زاد بہن کو اسی زید سے جو آزاد شدہ غلام تھا بیاہ دیا ، حالانکہ عرب لوگ اسے بہت بُرا سمجھتے تھے.اسی طرح اسامہ جو زیڈ کے بیٹے تھے انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایسے لشکر کا سردار مقرر کر دیا جس میں دس ہزار مسلمان تھے اور جس میں ابو بکر اور حضرت عمر تک شامل تھے حالانکہ عربوں
117 میں غلاموں کے بیٹے بھی غلام ہی سمجھے جاتے تھے.اب بتاؤ دنیا کی اور کونسی قوم ہے جس نے لوگوں کو اس قسم کی آزادی عطا کی اور مساوات کا یہ حیرت انگیز ثبوت پیش کیا ہو کہ آزاد شده غلام کے بیٹے کو ایک لشکر جرار کا اس نے سردار مقرر کیا اور اس لشکر میں بڑے بڑے جلیل القدر کی صحابہ بھی شامل ہوں.پھر یہ نہیں کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ نے اسامہ کے ماتحت جنگ کرنے میں کوئی ہتک محسوس کی ہو بلکہ وہ بڑی بشاشت اور خوشی کے ساتھ ان کی ماتحتی میں جنگ پر جانے کے لئے تیار ہو گئے ، بلکہ اس لشکر کو تو تاریخ اسلام میں ایسی عظمت حاصل ہوئی کہ اور کسی لشکر کو ایسی عظمت حاصل ہی نہیں اور وہ اس طرح کہ یہ لشکر ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ نہیں فرمایا تھا کہ آپ وفات پا گئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہو گئے.آپ مجبوراً خلافت کی وجہ سے جنگ پر نہیں جا سکتے تھے ، مگر آپ از خود اس لشکر سے علیحدہ نہیں ہوئے بلکہ اسامہ کو لکھا کہ چونکہ مسلمانوں نے مجھے خلیفہ مقرر کیا ہے اس لئے مجھے اجازت دی کی جائے کہ میں مدینہ میں ہی رہوں چنانچہ انہوں نے اجازت دے دی.پھر حضرت ابوبکر نے لکھ بھیجا کہ حضرت عمرؓ کا بعض ضروری معاملات میں مشورہ دینے کے لئے مدینہ میں رہنا ضروری ہے اس لئے اجازت دیجئے کہ عمر بھی یہیں رہیں چنانچہ انہوں نے حضرت عمرؓ کو بھی مدینہ میں رہنے کی اجازت دے دی.۱۲ پس حضرت ابو بکر نے اپنی خلافت کے ایام میں ایک کی غلام بچہ کو اتنی عظمت دی کہ اس کی سیادت اور حکومت کا حق اپنی خلافت کے وقت میں بھی تسلیم کیا اور ایک آدمی بھی بغیر اجازت لشکر سے پیچھے نہیں رہا.مساوات کے قیام کے لئے مساوات کے قیام کے لئے اسلام کا دوسرا اہم حکم اسلام کا دوسرا عم جس پر تام حکم صحابہ اور تمام مسلمان بھی شدت سے عمل کرتے رہے ہیں یہ ہے کہ اسلام نے مجرم کی سزا میں چھوٹے بڑے کا کوئی فرق نہیں رکھا.اسلام کے نزدیک مجرم خواہ بڑا ہو یا چھوٹا بہر حال وہ تعزیر کا مستحق ہوتا ہے اور اس میں کسی قسم کے امتیاز کوروانہیں رکھا جاتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک عورت نے جو کسی بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی چوری کی اور معاملہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا، ساتھ ہی بعض لوگوں نے سفارش کر دی اور کہا کہ یہ بڑے خاندان کی عورت ہے اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے بلکہ معمولی تنبیہ کر دی جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سُنا تو آپ کے چہرہ پر غضب کے آثار ظاہر ہوئے اور آپ نے کی
فرمایا خدا کی قسم ! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اُس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں.پھر آپ نے فرمایا ، دیکھو پہلی تو میں یعنی یہود اور نصاری اس لئے تباہ ہوئیں کہ جب اُن میں سے کوئی بڑا آدمی مجرم کرتا تو اُسے سزا نہ دیتے ، جب کوئی چھوٹا آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دیتے.مگر اسلام میں اس قسم کا کوئی امتیاز نہیں اور ہر شخص جو مجرم کرے گا اسے سزا دی جائیگی خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا.تمدنی معاملات میں مساوات کی اہمیت پھر اسلام نے مساوات کوتد نی پہلو میں اتنی عظمت دی ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کوئی شخص آپ کے پاس دودھ بطور تحفہ لایا.آپ نے کچھ دودھ پیا اور پھر خیال آیا کہ کچھ دودھ حضرت ابو بکر کو دیدوں کیونکہ وہ بھی اُس وقت مجلس میں موجود تھے کی اور پھر آپ کے رشتہ دار بھی تھے.مگر آپ نے دیکھا کہ وہ دائیں طرف نہیں بیٹھے بلکہ بائیں طرف بیٹھے ہیں اور دائیں طرف ایک نو جوان بیٹھا ہے.اسلام نے چونکہ دائیں طرف والے کا حق مقدم رکھا ہے اس لئے آپ نے اُس لڑکے سے کہا کہ اگر تم اجازت دو تو میں یہ دودھ ابو بکر کو دیدوں اس لڑکے نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ میرا حق ہے یا آپ یونہی مجھ سے پوچھ رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا.بات یہ ہے کہ دائیں طرف بیٹھنے کی وجہ سے اس دودھ پر تمہارا حق ہی ہے مگر میں تم سے اجازت چاہتا ہوں کہ اگر کہو تو ابو بکر کو دودھ دے دوں.اس نے کہا يَارَسُوْلَ اللہ ! جب یہ میرا حق ہے تو پھر آپ کے تبرک کو کوئی کس طرح چھوڑ سکتا ہے اور یہ کہہ کر اس نے دودھ کا پیالہ آپ سے لیکر پینا شروع کر دیا.۱۳ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرض الموت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ایک واقعہ بتاتا ہے کہ کس طرح اسلام میں مساوات کا خیال رکھا جاتا ہے.جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو صحابہ کو آپ نے بار بار خدا تعالیٰ کی وحی سے خبر دی اور بتایا کہ اب میرا زمانہ وفات نزدیک ہے.اُس کی وقت ان پر ایک عجیب رقت طاری تھی اور دلوں میں سوز وگداز پیدا تھا.ایک دن آپ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے صحابہ کو نصیحتیں کرتے ہوئے فرمایا.اے لوگو! اسلامی قانون کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں ، اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہو تو مجھ سے بدلہ لے لو.اور فرمایا کہ اس معاملہ میں اگر دنیا میں مجھے سزا مل جائے تو میں اسے زیادہ پسند کروں گا بہ نسبت اس کی
۱۱۸ کے کہ اس غلطی کے بارہ میں خدا تعالیٰ مجھ سے جواب طلبی کرے.جب آپ نے یہ فرمایا تو ایک صحابی اُٹھے اور انہوں نے کہا یا رَسُولَ اللہ ! میرا ایک حق آپ کے ذمہ ہے آپ نے فرمایا کیا؟ اس نے کہا فلاں موقع پر جبکہ آپ لڑائی میں مسلمانوں کی صفیں درست کر رہے تھے، اگلی صف میں کچھ خرابی تھی آپ صف میں راستہ بنا کر آگے گزرے تو آپ کی گہنی مجھے لگ گئی.آپ نے فرمایا کہاں لگی تھی ؟ اُس نے پیٹھ پر ایک جگہ دکھائی اور کہا اس جگہ لگی تھی ، آپ اُس وقت بیٹھ گئے اور فرمایا میرے بھی اسی جگہ کہنی مارلو.اس صحابی نے کہا یا رَسُولَ اللهِ! اُس وقت میرے تن پر گر تا نہیں تھا، نگا جسم تھا اور ننگے جسم پر آپ کی کہنی لگی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا اور یہ کہ کر آپ نے پیٹھ پر سے کپڑا اٹھایا اور فرمایا اب تم کہنی مارلو.صحابہ کی حالت کا تم اُس وقت اندازہ لگا سکتے ہو، ایک طرف ان کے دلوں میں یہ جذبات موجزن تھے کہ خدا کا رسول عنقریب ہم سے جُدا ہونے والا ہے اور اس وجہ سے اُن کے دل سوز وگداز سے بھرے ہوئے تھے اور دوسری طرف اس صحابی کا یہ مطالبہ ان کے سامنے تھا.اگر ان کا بس چلتا تو وہ یقیناً اس صحابی کی تکہ بوٹی کر دیتے مگر اسلامی شریعت انہیں روک رہی تھی اس لئے وہ خون کے گھونٹ پی پی کر صبر کر گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرتا اُٹھایا اور فرمایا تم نے ٹھیک کیا کہ مجھ سے اب بدلہ لینے لگے ہو اور قیامت پر اُٹھا نہیں رکھا.تو وہ صحابی جنھوں نے مطالبہ کیا تھا پر نم آنکھوں کے ساتھ آپ پر جھکے اور آپ کی پیٹھ پر بوسہ دیتے ہوئے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! بیشک مجھے آپ کی گہنی لگی تھی مگر میں نے یہ سارا بہانہ اس وقت صرف اس لئے بنایا تھا تاکہ میں اس وقت کہ آپ اپنی جُدائی کا ذکر کر رہے ہیں آخری دفعہ آپ کے جسم کو بوسہ دے لوں کا یہ کس قدر زبر دست مساوات ہے جو اسلام نے قائم کی.کیا دنیا اس مساوات کی کوئی بھی نظیر پیش کر سکتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جس طرح مسجد میں امیر اور غریب کا امتیاز اُٹھ جاتا ہے، بادشاہ اور رعایا کا فرق جاتا رہتا ہے، اسی طرح اسلام میں داخل ہونے کے بعد تمامی مساوات کے دائرہ میں آجاتے ہیں اور کسی کو کسی دوسرے پر فضیلت نہیں رہتی.حضرت عمرؓ کے عہد خلافت کا ایک زرین واقعہ پھر یہ عمل آپ تک ہی ختم نہیں ہو گیا بلکہ آپ کی وفات کے بعد بھی برابر جاری رہا، حضرت عمرؓ کا ایک مشہور واقعہ ہے جس کے نتیجہ میں گو آپ کو تکلیف بھی کی اُٹھانی پڑی مگر آپ نے اس تکلیف کی کوئی پرواہ نہ کی اور وہ مساوات قائم کی جو اسلام دنیا میں
119 قائم کرنا چاہتا ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ جبلتہ ابن اسم ایک بہت بڑے عیسائی قبیلے کا سردار تھا جب شام کی طرف مسلمانوں نے حملے شروع کئے تو یہ اپنے قبیلہ سمیت مسلمان ہو گیا اور حج کے لئے چل پڑا.حج میں ایک جگہ بہت بڑا ہجوم تھا ، اتفاقاً کسی مسلمان کا پاؤں اس کے پاؤں پر پڑ گیا.بعض روایتوں میں ہے کہ اُس کا پاؤں اُس کے جُبہ کے دامن پر پڑ گیا.چونکہ وہ اپنے آپ کو ایک بادشاہ سمجھتا تھا اور خیال کرتا تھا کہ میری قوم کے ساٹھ ہزار آدمی میرے تابع فرمان ہیں، بلکہ بعض تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ ساٹھ ہزار محض اس کے سپاہیوں کی تعداد تھی.بہر حال جب ایک ننگ دھڑنگ مسلمان کا پیر اس کے پیر پر آپڑا تو اس نے غصہ میں آکر زور سے اسے تھپڑ مار دیا اور کہا تو میری ہتک کرتا ہے تو جانتا نہیں کہ میں کون ہوں ، تجھے ادب سے پیچھے ہٹنا چاہئے تھا تو نے گستاخانہ طور پر میرے پاؤں پر اپنا پاؤں رکھدیا.وہ مسلمان تو تھپڑ کھا کر خاموش ہو رہا مگر ایک اور مسلمان بول پڑا کہ تجھے پتہ ہے کہ جس مذہب میں تو داخل ہوا ہے وہ اسلام ہے اور اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں.بالخصوص اس گھر میں امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں سمجھا جاتا.اُس نے کہا میں اس کی پروا نہیں کرتا.اس مسلمان نے کہا کہ عمر کے پاس تمہاری شکایت ہو گئی تو وہ اس مسلمان کا بدلہ تم سے لیں گے.جبلہ ابن اسہم نے جب سنا تو آگ بگولا ہو کر کہنے لگا کیا کوئی شخص ہے جو جبلتہ ابن ایم کے منہ پر تھپڑ مارے.اس نے کہا کسی اور کا تو مجھے پتہ نہیں مگر عمر تو ایسے ہی ہیں یہ سنکر اُس نے جلدی سے طواف کیا اور سیدھا حضرت عمرؓ کی مجلس میں پہنچا اور پوچھا کہ اگر کوئی بڑا آدمی کسی چھوٹے آدمی کو تھپڑ مار دے تو ی آپ کیا کیا کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا یہی کرتے ہیں کہ اس کے منہ پر اس چھوٹے شخص سے تھپڑ مرواتے ہیں.وہ کہنے لگا آپ میرا مطلب سمجھے نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بہت بڑا آدمی تھپڑ مار دے تو پھر آپ کیا کیا کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں.پھر آپ نے کہا جبلتہ ! کہیں تم ہی تو یہ غلطی نہیں کر بیٹھے ؟ اس پر اُس نے کی جھوٹ بول دیا اور کہا کہ میں نے تو کسی کو تھپڑ نہیں مارا، میں نے تو صرف ایک بات پوچھی ہے.مگر وہ اُسی وقت مجلس سے اُٹھا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر اپنے ملک کی طرف بھاگ گیا کی اور اپنی قوم سمیت مرتد ہو گیا اور مسلمانوں کے خلاف رومی جنگ میں شامل ہوا.لیکن حضرت عمر نے اس کی پرواہ نہ کی.یہ ہے وہ مساوات جس کی مثال کسی اور قوم میں نہیں ملتی اور یہ ویسی ہی مساوات ہے
۱۲۰ جیسے مسجد مساوات قائم کیا کرتی ہے.جس طرح وہاں امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں ہوتا اسی طرح اسلام میں چھوٹے بڑے میں کوئی فرق نہیں.مساوات کے قیام کے لئے اسلام میں زکوۃ کا حکم پھر مساوات قائم کرنے کا ایک اور ذریعہ اسلام نے اختیار کیا اور جس پر صحابہ بڑی شدت سے عمل کرتے تھے زکوۃ کا مسئلہ ہے.اسلام نے زکوۃ اسی لئے مقرر کی ہے تاکہ لوگوں میں مساوات قائم رہے یہ نہ ہو کہ بعض لوگ بہت امیر ہو جائیں اور بعض لوگ غریب ہو جائیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زکوۃ کے بارہ میں فرماتے ہیں.تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِيَاءِ هِمْ وَ تُرَدُّ عَلى فُقَرَاءِ هِمُ کے کہ وہ امیروں سے لی جائے گی کلا اور غریبوں کو دی جائے گی ، کیونکہ ان کے اموال میں اس قدر حصہ دراصل غرباء کا ہے اور اُن کا حق ہے کہ اُن کا حصہ ان کو واپس دیا جائے.یہ زکوۃ سرمایہ پر اڑھائی فیصدی کے حساب سے وصول کی جاتی ہے اگر سرمایہ پر چھ فیصدی نفع کا اندازہ لگایا جائے تو اڑھائی فیصدی زکوۃ کے معنی یہ بنتے ہیں کہ منافع کا چالیس فیصدی اللہ تعالیٰ غرباء کو دینے کا ارشاد فرماتا ہے گویا شریعت نے ایک بڑا بھاری ٹیکس مسلمانوں پر لگا دیا ہے تا کہ اس روپیہ کو غرباء کی ضروریات پر خرچ کیا جائے اور ان کی ترقی کے سامان مہیا کئے جائیں.فتوحات میں حاصل ہونے والے اسی طرح فی یعنی وہ اموال جو فتوحات میں حاصل ہوں ان کے متعلق شریعت کا حکم ہے اموال کی تقسیم کے متعلق قرآنی ہدایات کہ انہیں علاوہ اور قومی ضرورتوں پر خرچ کرنے کے غرباء میں بھی تقسیم کیا جائے تاکہ امیر اور غریب کا فرق مٹ جائے، اللہ تعالیٰ اس کے متعلق قرآن کریم میں ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے.مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ اَهْلِ الْقُرى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبَى وَ الْيَتمَى وَ الْمَسْكِينِ وَ ابْنِ السَّبِيلِ كَى لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ١٨ کہ وہ اموال جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم کو بغیر کسی محنت کے مل جایا کریں ، ان کے متعلق ہماری یہ ہدایت ہے کہ وہ اموال اللہ تعالیٰ کا حق ہیں شریعت کو جب ہم اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق سے کیا مراد ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق سے مراد یہ ہے کہ وہ مال غرباء اور ضروریات دین اور ضروریاتِ قومی پر خرچ کیا جائے.ضروریات دینی و
۱۲۱ ضروریاتِ قومی تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری ہونے کی وجہ سے اللہ کے لفظ میں شامل ہیں ، غرباء کے متعلق سوال ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کے لفظ میں کس طرح شامل ہیں؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَامِنُ دَآبَّةٍ فِى الْاَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا یعنی ہر چلنے والی چیز جو زمین پر رینگتی یا چلتی ہے اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ اسے رزق پہنچائے.پس جب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہر جاندار کا رزق ہے تو جاندار ایسے ہیں کہ ان کے لئے رزق کمانے کا طریق خدا تعالیٰ نے جاری کیا ہے اگر وہ رزق نہ کما سکیں تو اللہ تعالیٰ کے خزانہ سے انہیں رزق دینا ہوگا اور سب سے مقدم خزانہ اللہ تعالیٰ کا وہی مال ہے جسے خدا کا مال شریعت نے قرار دیا ہو.حدیث میں بھی اس آیت کی تشریح دوسرے الفاظ میں آتی ہے لکھا ہے کہ جب قیامت کے دن لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونگے تو اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض کو فرمائے گا کہ تم کی جنت میں جاؤ کیونکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا، میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا ، میں کی نگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا.تب مؤمن حیران ہو کر کہیں گے کہ اے خدا! تو ہم سے ہنسی کرتا ہے، آپ ننگے کب ہو سکتے تھے ، آپ بھو کے اور پیاسے کب ہو سکتے تھے کہ ہم آپ کو کپڑے پہناتے ، ہم آپ کو کھانا کھلاتے اور ہم آپ کو پانی پلاتے.تب خدا تعالیٰ فرمائیگا کہ تم میری بات کو نہیں سمجھے ، جب دُنیا میں کوئی غریب بندہ بھوکا ہوتا تھا اور تم اسے کھانا کھلاتے تھے تو تم اسے کھانا نہیں کھلاتے تھے بلکہ مجھے کھانا کھلاتے تھے اور جب دُنیا میں کوئی غریب آدمی پیاسا ہوتا تھا اور تم اسے پانی پلاتے تھے تو تم اسے پانی نہیں پلاتے تھے بلکہ مجھے پانی پلاتے تھے اور جب دنیا میں کوئی غریب آدمی نگا ہوتا تھا اور تم اسے کپڑے پہناتے تھے تو تم اسے کپڑے نہیں پہناتے تھے بلکہ مجھے کپڑے پہناتے تھے.۲۰ اس حدیث کا بھی یہی مطلب ہے کہ غریبوں کو دینا اللہ تعالیٰ کو دینا ہے کیونکہ ان کا رزق اللہ تعالیٰ کی ذمہ داریوں میں سے ہے پھر فرماتا ہے.وَلِلرَّسُولِ ان اموال میں ہمارے رسول کا بھی حصہ ہے اور رسول کے حصہ سے مراد بھی غرباء میں اموال تقسیم کرنا ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے کہ آپ اس قسم کے اموال اپنے پاس نہیں رکھا کرتے تھے بلکہ غرباء میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ جو ذمہ داریاں خدا تعالیٰ کی ہیں وہی خلقی طور پر رسول کی ہیں اس لئے ان ذمہ داریوں کی ادائیگی پر جو رقم خرچ ہوگی وہ رسول کو دینا ہی قرار دی جائیگی.پھر فرماتا ہے وَلِذِي الْقُرْبَى.ذِى القربي
۱۲۲ کا بھی اس میں حق ہے شیعہ لوگ اسکے عام طور پر یہ معنے کرتے ہیں کہ اموال فئے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا بھی حق ہے حالانکہ اس قسم کے اموال میں ان کا کبھی بھی حصہ نہیں سمجھا گیا.حقیقت یہ ہے کہ ذِی الْقُرُبی سے مراد وہی لوگ ہیں جن کا وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ کہہ کر ایک آیت میں ذکر کیا گیا ہے یعنی تقرب الہی حاصل کرنے والے لوگ اور وہ درویش جو اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کر دیتے ہیں اور ان کے گزارہ کی کوئی معین صورت نہیں ہوتی.گواسی جماعت میں شامل ہو کر اہلِ بیت ان اموال کے اوّل حقدار قرار دئیے جا سکتے ہیں.پھر فرماتا ہے وَالْيَتمى ان اموال میں یتامیٰ کا بھی حق ہے اور یتامی بھی غریب ہی ہوتے ہیں وَالْمَسَاكِينِ اسی طرح مسکینوں کا حق ہے وَابْنِ السَّبِيلِ اور مسافروں کا بھی حق ہے اور مسافر بعض حالات میں عارضی طور پر ناداروں کی طرح ہو جاتا ہے.آگے فرماتا ہے ہم نے یہ تقسیم اس لئے کی ہے گئ لَا يَكُونَ دُولَةٌ بَيْنَ الْاَغْنِيَاءِ مِنْكُمُ تا کہ مال امیروں کے ہاتھوں میں ہی چکر نہ لگاتا رہے بلکہ غریبوں کے پاس بھی جائے اور وہ بھی اس سے فائدہ اُٹھائیں پس ہم حکم دیتے ہیں کہ یہ اموال غرباء میں تقسیم کئے جائیں تا کہ امراء کے ہاتھوں میں مال چکر نہ کاٹتا رہے.ایک زمیندار دوست کا واقعہ زمیندار بعض دفعہ بات کرتے ہیں تو بڑے پتہ کی کرتے ہیں.ایک زمیندار دوست نے سنایا کہ میں ایک دفعہ گورنر صاحب سے ملا اور میں نے اُن سے کہا کہ حضور ایک بات سمجھ میں نہیں آتی اور وہ یہ کہ سرکار بعض دفعہ رعایا پر خوش ہوتی ہے اور سرکار ڈپٹی کمشنر کو لکھتی ہے کہ ڈیڑھ دو سو مربع غرباء میں تقسیم کر دیا جائے.آپ کے ڈپٹی کمشنر غرباء کو تلاش کرتے ہیں تو انہیں کوئی غریب دکھائی ہی نہیں دیتا ، جس گاؤں کو دیکھتے ہیں انہیں امیر ہی امیر نظر آتے ہیں.آخر بڑی مشکل سے وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں ملک صاحب کو اتنے مربعے دیدئیے جائیں اور فلاں چوہدری صاحب کو اتنے مربعے دیئے جائیں کیونکہ وہ بھوکے مر رہے ہیں.ملک صاحب کے پاس تو صرف کی تمیں ہزار ایکڑ زمین ہے اور چوہدری صاحب کے پاس ہیں ہزار ایکڑ ، اسی طرح کسی کے پاس ۱۵ ہزار ایکڑ زمین ہے اور کسی کے پاس دس ہزار، اگر ان کو مربعے نہ دیئے گئے تو بیچارے بھو کے مر جائیں گے، چنانچہ سب زمینیں ان میں تقسیم کر دی جاتی ہیں.اس کے کچھ عرصہ بعد جب اعلیٰ سرکاری خدمات سرانجام دینے کے بدلے گورنمنٹ کچھ انعامات تقسیم کرنا چاہتی.
۱۲۳.وہ کہتی ہے کہ اب یہ انعامات اعلیٰ خاندانوں میں تقسیم کئے جائیں ، اس پر پھر ڈپٹی کمشنر صاحب کی جب اعلیٰ خاندانوں کی تلاش میں نکلتے ہیں تو وہی لوگ جو پہلی دفعہ انہیں غریب دکھائی دیئے تھے اب انہیں امیر نظر آنے لگ جاتے ہیں اور انہی میں پھر انعامات تقسیم کر دیئے جاتے ہیں.سرکار یہ دیکھ کر ہمیں تو کچھ پتہ نہیں لگتا کہ ہم بڑے ہیں کہ چھوٹے ہیں.پس آجکل اموال کی تقسیم کا طریق یہ ہے کہ بڑے بڑے امراء اور متمول لوگوں کو چُن کر ان میں اموال تقسیم کر دیئے جاتے ہیں، مگر اسلام یہ نہیں کہتا بلکہ وہ کہتا ہے کہ تم غرباء میں اموال تقسیم کرو.گی لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْاَغْنِيَاءِ مِنْكُمُ تا کہ مالداروں کے ہاتھوں میں ہی کی روپیہ جمع نہ رہے بلکہ غرباء کے ہاتھوں میں بھی آتا رہے.اسی لئے اسلام نے کہیں وراثت کا مسئلہ رکھ کر ، کہیں زکوۃ کی تعلیم دے کر اور کہیں سُود سے روک کر امراء کی دولت کو توڑ کر رکھ دیا تو ہے اور اس طرح امراء اور غرباء میں مساوات قائم کرنے کا راستہ کھول دیا ہے.قیام مساوات کے لئے دنیا کے تمام پھر ایک مساوات یہ ہوتی ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان انصاف قائم کیا جائے ، اسلام کی مذاہب کے متعلق ایک پر حکمت اصول اس مساوات کا بھی حکم دیتا ہے، چنانچہ فرماتا ہے.وَلَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسِ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَواتٌ وَّ مَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللهِ كَثِيراً ل کہ اگر دنیا میں ہم مسلمانوں کو کھڑا نہ کرتے اور اس طرح اسلام کے ذریعہ تمام اقوام کے حقوق کی حفاظت نہ کی جاتی تو یہودیوں کی عبادت گاہیں ، عیسائیوں کے گرجے ، ہندوؤں کے مندر اور مسلمانوں کی مسجد میں امن کا ذریعہ نہ ہوتیں بلکہ فتنہ و فساد اور لڑائی جھگڑوں کی آماجگاہ کی ہوتیں.یہ امر ظا ہر ہے کہ مسلمانوں کا مذہب ایسا ہے جس نے اپنی مساجد میں ہر قوم کو عبادت کا حق دیا ہے اور وہ یہی چاہتا ہے کہ ہر قوم کو عبادت کا مساوی حق حاصل ہو.چنانچہ رسول کریمی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس آزادی سے عیسائیوں کو اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی کی اس کی مثال کوئی اور قوم پیش نہیں کر سکتی.پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر ہم مسلمانوں کو اس کام کے لئے کھڑا نہ کرتے اور مسلمان اپنا خون بہا کر اس حق کو قائم نہ کرتے تو دنیا میں ہمیشہ فتنہ وفسا در ہتا اور کبھی بھی صحیح معنوں میں امن قائم نہ ہوسکتا.
۱۲۴ مساجد کی دوسری غرض کا صحابہ کرام کے ذریعہ ظہور (۲) مسجد کی دوسری غرض ایک مقامِ مبارک کا قیام ہے اور وہ دو طرح ہوتا ہے (الف) اس طرح کہ وہ ذکرِ الہی کے لئے مخصوص ہوتی ہے.اس جماعت کے حق میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ذکر الہی کے لئے مخصوص ہے چنانچہ فرماتا ہے.فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَفِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْأَصَالِ.رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَإِقَامِ الصَّلوةِ وَ إِيتَاءِ الرَّكُوةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَ الْاَبْصَارُ ۲۲ یعنی خدا کی رحمتیں اور برکتیں اُن گھروں پر نازل ہونگی اذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ جن کے متعلق خدا نے یہ حکم دے دیا ہے کہ انہیں اونچا کیا جائے وَيُذْكَرَفِيْهَا اسْمُهُ اور اُن میں خدا کا نام لیا جائے گویا وہ ذکر الہی کے لحاظ سے بالکل مسجدوں کی طرح ہو جائیں گے اور اس کا موجب ان گھروں میں رہنے والے ہونگے يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْأَصَالِ.رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ صبح شام ان میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح ایسے لوگ کرتے رہتے ہیں جن کو ہر قسم کی تجارت ملکی ہو یا درآمد برآمد سے تعلق رکھنے والی ہو اسی طرح زمیندارہ، صنعت و حرفت کے کارخانے ذکر الہی سے غافل نہیں کرتے (اس آیت میں دو لفظ ہیں تجارت اور بیچ اور کوئی تجارت بغیر بیج کے نہیں ہو سکتی.پس مراد یہ ہے کہ بعض کا موں میں دونوں جہت یعنی خرید و فروخت سے انسان نفع کماتا ہے وہ تجارت ہے اور بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ کام کرنے والا خرید تا نہیں صرف فروخت کرتا ہے جیسے زمیندار یا صناع ہے کہ جو چیز وہ فروخت کی کرتا ہے وہ اس کی پیداوار ہے پس اس کا کام در حقیقت فروخت کا ہے خرید کا نہیں اسے تجارت سے الگ بیان کر کے تجارتی کاروبار کی سب قسمیں بیان کر دی ہیں ) گویا کوئی بات کی بھی انہیں نہ تو نمازوں کی ادائیگی سے غافل کرتی ہے اور نہ زکوۃ کی ادائیگی سے ان کی توجہ پھراتی ہے.يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْاَبْصَارُ وہ فقط اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن اُن کے دل اور اُن کی آنکھیں پھری ہوئی ہونگی اور وہ گھبرائے ہوئے اِدھر اُدھر دوڑ رہے ہونگے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جوشخص اس جماعت میں شامل ہوتا ہے وہ ذکر الہی کے لئے مخصوص ہو جاتا ہے اور یہی مسجد کا خاص کام ہے پس وہ ایک چلتی پھرتی مسجد بن جاتا ہے..
۱۲۵ عبادت اور ذکر الہی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی خواہش صحابہ ذکر الہی میں ترقی کرنے کی اتنی کوشش کیا کرتے تھے کہ ان کی یہ جدو جہد وارفتگی کی حد تک پہنچی ہوئی تھی ، احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ غرباء رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں، اسی طرح امراء نمازیں پڑھتے ہیں، جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں اسی طرح امراء روزے رکھتے ہیں جس طرح ہم حج کرتے ہیں اسی طرح امراء حج کرتے ہیں مگر يَارَسُولَ اللهِ اہم زکوۃ اور صدقہ و خیرات اور چندے وغیرہ نہیں دے سکتے اس وجہ سے وہ نیکی کے میدان میں ہم سے آگے بڑھے ہوئے ہیں.کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ امراء ہم سے آگے نہ بڑھ سکیں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا، میں تمہیں ایک ایسی ترکیب بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تم پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہو سکتے ہو، انہوں نے عرض کیا کہ وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ترکیب یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے بعد تینتیس دفعہ سُبحَانَ اللہ تینتیس دفعہ الْحَمْدُ لِلہ اور چونتیس دفعہ اللهُ اَكْبَر کہہ لیا کرو، وہ وہاں سے بڑی خوشی سے اُٹھے اور انہوں نے سمجھا کہ ہم نے میدان مار لیا مگر کچھ دنوں کے بعد پھر وہی وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہم پر بڑا ظلم ہوا ہے.آپ نے فرمایا کس طرح؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ نے ہمیں جو بات اُس روز کی بتائی تھی وہ کسی طرح امیروں کو بھی پہنچ گئی اور اب انہوں نے بھی یہ ذکر شروع کر دیا ہے ہم کو اب کیا کریں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر نیکی حاصل کرنے کا اُن کے دلوں میں اس قدر جوش پایا جاتا ہے تو میں انہیں روک کس طرح سکتا ہوں؟ ۲۳ یہ وہ فضیلت تھی جس نے صحابہ کو جیتی جاگتی مسجد بنا دیا تھا.صحابہ کی پاکیزگی اور طہارت پر الہبی شہادت (ب) دوسری صورت مقام مبارک کی یہ ہے کہ وہ پاکیزگی کا مقام ہوتا ہے اسی طرح انبیاء کی جماعت کو پاک رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، چنانچہ اسکے متعلق قرآن کریم میں شہادت موجود ہے کہ صحابہ پاک کئے گئے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَتْلُوا عَلَيْهِمُ اللهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ " کہ یہ رسول صحابہؓ کے سامنے ہمارے نشانات بیان کرتا ہے وَ يُزَكِّيهِمْ اور ان کو پاک کرتا ہے
کہ ۲۵ وَيُعَلّمُهُمُ الكِتب وَ الْحِكْمَةَ اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گویا خدا خود صحابہ کی پاکیزگی کی شہادت دیتا ہے.دوسری جگہ ان کی پاکیزگی کی شہادت ان الفاظ میں دی گئی ہے رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ الله تعالٰی ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے.تیسری جگہ یہ شہادت اس طرح دی گئی ہے کہ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَ مِنْهُم مَّنْ يَنتَظِرُ یعنی یہ خدا کے اتنے نیک بندے ہیں کہ ان میں سے بعض تو اُس عہد کو جو انہوں نے خدا سے کیا تھا پورا کر چکے ہیں اور بعض گودل سے پورا کر چکے ہیں مگر ابھی عملی رنگ میں انہیں عہد کو پورا کر کے دکھانے کا موقع نہیں ملا اور وہ اُس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ انہیں بھی خدا کی طرف سے یہ موقع عطا ہو، حدیثوں میں صحابہ کی اس قربانی کے متعلق ایک مثال بھی بیان ہوئی ہے جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے عہد کو کس طرح پورا کیا.ایک صحابی کی عظیم الشان قربانی جب جنگ بدر کا موقع آیا تو صحابہ کو یہ احساس نہیں تھا کہ کوئی لڑائی ہونے والی ہے بلکہ خیال یہ تھا کہ ایک قافلہ کی شرارتوں کے سدباب کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے ہیں ، اسی لئے کئی صحابہ مدینہ میں بیٹھے رہے تھے اور ساتھ نہیں گئے مگر جب اسی لشکر کے باہر نکلنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ کفار کے لشکر سے بغیر امید کے جنگ ہو گئی اور کئی صحابہ نے قربانی کا بے مثال نمونہ دکھایا تو جو لوگ اس کی جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے ان کے دلوں میں رشک پیدا ہوا.ایسے ہی لوگوں میں سے ایک کی حضرت انس کے چچا تھے، جب کسی مجلس میں جنگ بدر کے کارناموں کا ذکر ہوتا اور شامل ہونے والے صحابہ کہتے کہ ہم نے یہ کیا وہ کیا تو پہلے تو وہ خاموشی سے سنتے رہتے مگر آخر وہ بول ہی پڑتے اور کہتے ، تم نے کیا کیا.اگر میں ہوتا تو تم کو بتاتا کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں.صحابہ اس بات کو سنتے اور ہنس پڑتے مگر آخر خدا تعالیٰ نے اُن کی دعائیں سن لیں اور اُحد کا دن آ گیا.اس جنگ میں مسلمانوں کی غفلت سے ایک وقت ایسا آیا کہ اسلامی لشکر تتر بتر ہو گیا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گر د صرف گیارہ صحابی رہ گئے.مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار تین ہزار تھے.جب دشمن نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صرف چند آدمی رہ گئے ہیں تو اُس نے یکدم حملہ کر دیا اور کفار کے لشکر کا ایسا ریلا آیا کہ اُن گیارہ آدمیوں کے بھی پاؤں اکھڑ گئے.حملہ چونکہ سخت تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخم آئے اور آپ کے خود کا ایک کیل آپ کے سر میں گھس گیا اور دندان مبارک بھی ٹوٹ کر
۱۲۷ گر گئے اور ان زخموں کی تاب نہ لا کر آپ بیہوش ہو کر گڑھے میں گر گئے." اس کے بعد آپ کے جسم اطہر پر بعض اور صحابہ شہید ہو کر گر گئے اور اس طرح آپ کا جسم لوگوں کی نگاہ سے چُھپ گیا.مسلمانوں نے آپ کو ادھر اُدھر تلاش کیا مگر چونکہ آپ نظر نہ آئے اس لئے یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول کریم شہید ہو گئے ہیں بعد میں جب صحابہ کی لاشیں نکالی گئیں تو رسول کریم اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی نظر آگئے آپ اُس وقت صرف بیہوش تھے مگر بہر حال اس افواہ کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لئے مسلمانوں کے حواس جاتے رہے.بعد میں جب انہیں معلوم ہوا کہ آپ زندہ ہیں تو ان کی تکلیف جاتی رہی اور وہ بہت خوش ہو گئے.اس جنگ میں چونکہ ابتداء میں مسلمانوں نے فتح حاصل کر لی تھی اس لئے بعض مسلمان اطمینان سے ادھر ادھر چلے گئے اُنہی میں حضرت انس کے چا بھی تھے.وہ ایک طرف آرام سے کھجور میں کھاتے پھرتے تھے کہ اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ ایک پتھر پر بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں.وہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور کہا کہ عمر کیا یہ رونے کا وقت ہے یا خوشی منانے کا وقت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی ہے اور تم رو ر ہے ہو.انہوں نے کہا تمہیں پتہ نہیں بعد میں کیا ہوا.وہ کہنے لگے مجھے تو کچھ پتہ نہیں.حضرت عمرؓ نے کہا فتح کے بعد دشمن نے پھر حملہ کر دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں.وہ انصاری کھجوریں کھا رہے تھے اور اُس وقت اُن کے ہاتھ میں آخری کھجور تھی ، انہوں نے اُس کھجور کی طرف دیکھا اور کہا میرے اور جنت کے درمیان اس کھجور کے سوا اور ہے ہی کیا.یہ کہتے ہوئے انہوں نے اس کھجور کو پھینک دیا اور پھر حضرت عمرؓ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے واہ عمر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے اور تم رو رہے ہو ، ارے بھائی جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گئے ہیں وہی جگہ ہماری بھی ہے.یہ کہا اور تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے ایک ہاتھ کٹ گیا تو انہوں نے تلوار کو دوسرے ہاتھ میں پکڑ لیا دوسرا ہاتھ کٹ گیا تو لاتوں سے انہوں نے دشمن کو مارنا شروع کر دیا اور جب لاتیں بھی کٹ گئیں تو دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا، غرض آخری سانس تک وہ دشمن سے لڑائی کرتے رہے.بعد میں جب ان کی تلاش کی گئی تو معلوم ہوا کہ دشمن نے ان کے جسم کے سٹر ٹکڑے کر دیئے تھے اور وہ پہچانے تک نہیں جاتے تھے ، حدیثوں میں آتا ہے کہ یہ صحابی انہی لوگوں میں سے تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ یہ وہ برکت والے گھر تھے جس کی وجہ سے خدا نے ان کے متعلق یہ فرمایا کہ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ.
۱۲۸ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمُ کے یہی معنے ہیں کہ انہوں نے خدا کی رضا حاصل کر لی.صحابہ کرام کی ظاہری برکات کے بعض ایمان افروز واقعات پھر ان کی ظاہری برکات کے بھی کئی نمونے موجود ہیں ایک دفعہ صحابہ کسی جگہ گئے تو وہاں کے رہنے والوں میں سے ایک کو سانپ نے کاٹ لیا ، پرانے دستور کے مطابق وہ دم کرنے اور کچھ پڑھ کر پھونک مارنے والے کو بلایا کرتے تھے انہوں نے صحابہ سے دریافت کیا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے؟ ایک صحابی نے کہا میں ہوں.وہ اُسے ساتھ لے گئے اور انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کر دیا اور وہ شخص پالکل اچھا ہو گیا.اس خوشی میں گھر والوں نے انہیں کچھ بکریاں تحفہ کے طور پر دیں جو انہوں نے لے لیں، باقی صحابہ نے اس پر کچھ اعتراض کیا اور جب مدینہ آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس کا ذکر کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کے دل کو خوش کرنے کے لئے فرمایا کہ اس تحفہ میں سے میرا حصہ بھی تو لا و یعنی یہ تحفہ تو اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے تھا.مطلب یہ کہ اس قسم کے جنتر منتر تو اسلام میں نہیں لیکن ان لوگوں کو ایمان دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کو برکت بخشی اور ایک نشان دکھایا.پس جو تحفہ ملا وہ بابرکت ہے ہے اس برکت میں سے مجھے بھی حصہ دو.تو دیکھو صحابہ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کیسی برکت ملی کہ انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک ماری اور مارگزیدہ اچھا ہو گیا.بعض لوگ اس کی نقل میں آجکل بھی سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عادی ہیں مگر ان کے دم میں کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ اگر کوئی غیر مومن سو دفعہ بھی سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک مارے تو کوئی اثر نہیں ہوگا.سورۃ فاتحہ اس شخص کی زبان سے نکلی ہوئی بابرکت ہو سکتی ہے جس کے اندر خود برکت ہو.پھر ایک اور واقعہ اسی قسم کا مولانا روم نے لکھا ہے وہ لکھتے ہیں کہ رومیوں کو جب شکست ہوئی تو کچھ عرصہ کے بعد قیصر روم کو سر درد کا دورہ شروع ہو گیا.ڈاکٹروں نے بہت علاج کیا مگر اسے کوئی فائدہ نہ ہوا.آخر اسے کسی نے کہا کہ تم مسلمانوں کے خلیفہ کو لکھو وہ اپنی کوئی برکت والی چیز تمہیں بھیج دیں جس سے ممکن ہے تمہیں آرام آجائے.قیصر نے حضرت عمر کے پاس اپنا ایلچی بھیجا کہ مجھے اپنی کوئی برکت والی چیز بھیجیں میرے سر درد کو آرام نہیں آتا، ممکن ہے اس سے آرام آ جائے.عرب کے لوگ اپنے بالوں میں خوب تیل لگانے کے عادی تھے ، حضرت عمر نے اپنی ایک پرانی ٹوپی جسے تیل لگا ہوا تھا اور جس پر بالشت بالشت بھر میں جمی ہوئی تھی اُس کے ہاتھ بھیج دی اور
۱۲۹ پیغام دیا کہ اسے اپنے سر پر رکھا کرو.قیصر جو سر پر تاج رکھنے کا عادی تھا اُس نے جو گاڑھے کی میلی کچیلی ٹوپی دیکھی تو وہ سخت گھبرایا مگر ایک روز جب اُسے درد کا شدید دورہ ہو ا تو اس نے مجبوراً ٹوپی اپنے سر پر رکھ لی اور خدا تعالیٰ کی قدرت نے یہ نشان دکھایا، ادھر اس نے اپنے سر پر ٹوپی رکھی اور اُدھر اُ سے آرام آ گیا.پھر تو اُس کا دستور ہی یہی ہو گیا کہ جب وہ دربار میں بیٹھتا تو حضرت عمر کی میلی کچیلی اور پھٹی پرانی ٹوپی اپنے سر پر رکھ لیتا تو اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو برکتیں دیتا ہے اُن کی چیزوں میں بھی برکت پیدا ہو جاتی ہے.ایک دفعہ ایک دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں سل کا مادہ پیدا ہو گیا تھا.ایکسرے کرایا تو بھی یہی نتیجہ نکلا ، آخر وہ کہتے ہیں میں قادیان آگیا کہ اگر مرنا ہے تو قادیان چل کر مروں اور میں نے تمام علاج چھوڑ کر آپ سے دعا کرائی.نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ عرصہ کے بعد مجھے آرام آنا شروع ہو گیا اور آخر با لکل صحت ہوگئی.میں پھر لاہور گیا اور ایکسرے کرایا تو انہیں ڈاکٹروں نے جنھوں نے پہلے میرا ایکسرے کیا تھا، ایک بار ایکسرے کیا پھر دوسری بار ایکسرے کیا اور جب کہیں بھی انہیں سل کا مادہ نظر نہ آیا تو وہ کہنے لگے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہڈی ہی بدل گئی ہے.تو اللہ تعالیٰ اپنے جن بندوں کو برکت دیتا ہے اُن کی باتوں میں ، ان کے کپڑوں میں، اُن کی دعاؤں میں اور اُن کی تمام چیزوں میں برکت رکھ دیتا ہے.غرض جس طرح مسجد ایک برکت والی چیز ہے اسی طرح صحابہ کا گروہ برکت والا تھا اور دنیا نے اس گروہ کی جسمانی اور روحانی برکات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا.مسجد کی تیسری غرض یہ ہوتی صحابہ کرام تمام دنیا کے لئے ہدایت کا موجب تھے ہے کہ وہ هُدًى لِّلْعَلَمِينَ ہوتی ہے یہ بات بھی صحابہ میں پائی جاتی تھی چنانچہ اللہ تعالے سورہ اعراف میں فرماتا ہے.وَ مِمَّنْ خَلَقْنَا أُمَّةٌ يَهُدُونَ بِالْحَقِّ وَ بِهِ يَعْدِلُونَ ٢٨ اس رکوع میں پہلے تو اللہ تعالیٰ نے یہود کی بُرائیاں بیان فرمائی ہیں اور بتایا ہے کہ وہ کیسے نالائق ہیں اس کے بعد فرماتا ہے کہ سارے ہی ایسے نالائق نہیں بلکہ اس رسول کے ذریعہ ہم نے جن لوگوں کو کھڑا کیا تھا وہ ایسے ہیں جو سچائی کو دنیا میں پھیلاتے ہیں اور انصاف سے کام لیتے ہیں.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کی ہدایت کی شہادت دیتے ہوئے فرماتے ہیں.اَصْحَابِي كَالنُّجُومِ فَبِاَتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُم ۲۹ کہ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس طرح تم کسی ستارے کو نشان قرار دیکر چل پڑو تو منزل مقصود پر پہنچ سکتے ہو،
۱۳۰ اسی طرح تم میرے کسی صحابی کے پیچھے چل پڑو وہ تمہیں خدا کے دروازہ پر پہنچا دیگا.چنانچہ سب صحابه هُدًى لِلKANGANAL کا ایک عملی نمونہ تھے اور وہ دوسروں کو نیکی کی تعلیم دینے میں سب سے آگے رہتے تھے.مکی زندگی کا یہی ایک واقعہ صحابہؓ کے اس طریق عمل پر روشنی ڈالنے کے کی لئے کافی ہے.ایک صحابی جن کا نام عثمان بن مظعون تھا تیرہ چودہ سال کی عمر میں مسلمان ہوئے ، اُن کا باپ عرب میں بہت وجاہت رکھتا تھا.جب یہ مسلمان ہو گئے تو مکہ کے ایک بہت بڑے رئیس نے جو اُن کے باپ کا دوست تھا انہیں اپنے پاس بلایا اور کہا آجکل مسلمانوں کی سخت مخالفت ہے، میں تمہیں اپنی پناہ میں لے لیتا ہوں تمہیں کوئی شخص تکلیف نہیں پہنچا سکے گا.انہوں نے اس کی بات مان لی اور اُس رئیس نے خانہ کعبہ میں جا کر اعلان کر دیا کہ عثمان میرے بھائی کا بیٹا ہے اسے کوئی شخص دُکھ نہ دے.عربوں میں یہ طریق تھا کہ جب ان میں سے کوئی رئیس کسی کو اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کر دے تو پھر اسے کوئی تکلیف نہیں دیتا تھا اگر ایسا کرتا تو اسی رئیس اور اُس کے قبیلہ سے لڑائی شروع ہو جاتی تھی.ایک دن حضرت عثمان کسی جگہ سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا ایک مسلمان غلام کو کفار بڑی بیدردی سے مار پیٹ رہے ہیں.ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ بہت بُری بات ہے کہ میں تو مکہ میں امن سے رہوں اور میرے بھائی تکلیف اُٹھاتے رہیں چنانچہ وہ سیدھے اُس رئیس کے پاس پہنچے اور اُسے کہا کہ آپ نے جو مجھے اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کیا تھا میں اس ذمہ داری سے آپ کو سبکدوش کرتا ہوں اور آپ کی پناہ میں نہیں رہنا چاہتا.اس نے کہا تم جانتے نہیں کہ مکہ مسلمانوں کے لئے کیسی خطرناک جگہ ہے اگر میں نے اپنی پناہ واپس لے لی تو لوگ فورا تم کو ایذاء دینے لگ جائیں گے.انہوں نے کہا مجھے اس کی پروا نہیں ، مجھ سے یہ دیکھا نہیں جاتا کہ میں تو آرام سے رہوں اور میرے بھائی تکلیفیں اُٹھاتے رہیں.چنانچہ ان کے اصرار پر اُس نے خانہ کعبہ میں جا کر اعلان کر دیا کہ عثمان بن مظعون اب میری پناہ میں نہیں رہا.اس کی اعلان پر ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ عرب کا ایک مشہور شاعر جس کا قصیدہ سبعہ معلقہ میں شامل ہے مکہ میں آ گیا.اہل عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی مشہور شاعر آتا تو بہت بڑی مجلس کی منعقد کی جاتی اور اس کے کلام سے لوگ محظوظ ہوتے.اس کے آنے پر بھی ایک بہت بڑی مجلس منعقد کی گئی اور تمام مکہ والے اس میں شامل ہوئے.حضرت عثمان بن مظعون بھی اس کا کلام سُننے کے لئے وہاں جا پہنچے اُس نے شعر پڑھتے پڑھتے ایک مصرعہ یہ پڑھا کہ :-
۱۳۱ الا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلٌ سنو سنو ! خدا کے سوا دنیا کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے حضرت عثمان اس مصرعہ پر بہت ہی خوش ہوئے اور انہوں نے بڑے جوش سے کہا ٹھیک ہے ٹھیک ہے.شاعر نے جس کا نام لبید تھا شور مچا دیا کہ اے مکہ کے لوگو! کیا تم میں اب کسی شریف آدمی کی قدر نہیں رہی، میں عرب کا باپ ہوں اور یہ گل کا چھوکرا مجھے داد دے رہا ہے اور کہتا ہے ٹھیک کہا ، ٹھیک کہا.یہ میری عزت نہیں بلکہ ہتک ہے اور میں اسے کبھی برداشت نہیں کر سکتا.لبید کے اس اعتراض پر لوگوں میں ایک جوش پیدا ہو گیا اور وہ عثمان کو مارنے کیلئے اُٹھے لیکن بعض نے کہا نادان بچہ ہے ایک دفعہ تو اس نے ایسی حرکت کر دی ہے اب آئندہ نہیں کریگا.چنا نچہ لوگ خاموش ہو گئے اس کے بعد لبید نے اسی شعر کا دوسرا مصرعہ پڑھا وَكُلُّ نَعِيمٍ لَا مَحَالَةَ زَائِلٌ ہر نعمت آخر ز ائل اور تباہ ہو جائے گی.اس پر حضرت عثمان بن مظعون پھر بول اُٹھے کہ بالکل غلط ہے، جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہونگی.اب تم خود ہی اندازہ لگا سکتے ہو کہ جو شخص ان کی تعریف سے ناراض ہو ا تھا وہ ان کی تردید پر کس قدر جوش سے بھر گیا ہوگا.چنانچہ جب انہوں کی نے سر مجلس کہہ دیا کہ یہ بات غلط ہے تو اُس نے نظم پڑھنی چھوڑ دی اور کہا کہ میری ہتک کی گئی ہے.اس پر بعض نوجوان غصہ سے اُٹھے اور انہوں نے مارنا شروع کر دیا، ایک نے اس زور سے آپ کی آنکھ پر گھونسہ مارا کہ انگوٹھا اندر دھنس گیا اور آنکھ کا ڈیلا پھٹ گیا.وہ رئیس جس نے انہیں اپنی پناہ میں رکھا تھا اُس وقت وہیں موجود تھا اور چونکہ ان کا باپ اس کا دوست تھا اس لئے عثمان کی تکلیف کو دیکھ کر اُس کے دل میں محبت کا جوش پیدا ہو ا.لیکن سارے مکہ کے جوش کے مقابل پر اپنے آپ کو بے بس دیکھ کر کمزوروں کی طرح عثمان بن مظعونؓ پر ہی غصہ نکال کر اپنے دل کو ٹھنڈا کرنا چاہا، چنانچہ غصہ سے انہیں مخاطب کر کے کہا کہ کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میری پناہ میں رہو ، آخر تمہاری ایک آنکھ لوگوں نے نکال دی.حضرت عثمان بن مظعون نے اپنی آنکھ کا خون پونچھتے ہوئے فرمایا، مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ سچ کے بدلے میری ایک آنکھ نکل گئی ہے میری تو دوسری آنکھ بھی اسی قسم کے سلوک کا انتظار کر رہی ہے.دیکھو صحا بہ کس طرح هُدًى لِلْعَلَمِینَ ثابت ہوئے وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے کہ حق کے خلاف کوئی بات سنیں اور اس کی تردید نہ کریں.
۱۳۲ ایک صحابی سے ایک دفعہ کسی نے کہا کہ آجکل بنوامیہ کی حکومت ہے تم کوئی بات نہ کرو، اگر وہ اس حکومت کے ارکان تک پہنچ گئی تو تمہیں نقصان ہوگا.وہ فرمانے لگے مجھے اس کی پر واہ کی نہیں ، میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہو ا ہے کہ اگر کسی کو کوئی سچی بات معلوم ہو اور اُس کی گردن پر تلوار رکھی ہوئی ہو تو اسے چاہئے کہ تلوار چلنے سے پہلے جلدی سے حق بات اپنے منہ سے نکال دے.تو ہدایت کے پہنچانے میں صحابہ نے ایسا کمال دکھایا تھا کہ اس کی نظیر اور کہیں نظر نہیں آتی.مسلمانوں کا اذانیں دینا ، خطبے پڑھانا سب اس کے ماتحت ہے کیونکہ ان ذرائع سے بھی حق کی بات دوسروں تک پہنچتی اور اُن کو ہدایت اور راہنمائی حاصل ہوتی ہے.پھر صحابہ دوسروں کو ہدایت دینے میں جس سرگرمی اور انہماک سے کام کیا کرتے تھے اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی ساری عمر دین سکھانے میں لگا دی.اور اتنی حدیثیں جمع کر دیں کہ آج اگر ان کو جمع کیا جائے تو پختاروں کے پشتا رے لگ جائیں.آجکل تحریر کا زمانہ ہے اور روایات بڑی آسانی سے محفوظ ہو سکتی ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے صحابہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روایات جمع کرنے میں وہ کوشش نہیں کی جو صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کے جمع کرنے میں کی تھی.کئی صحابہ ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کئی واقعات معلوم ہیں مگر ابھی تک وہ ان کے سینوں میں ہی ہیں اور انہوں نے ظاہر نہیں کئے ، اسی طرح کئی تابعین ہیں جنہوں نے کئی صحابہ سے روایات سنی ہوئی ہیں، ان کا بھی فرض تھا کہ وہ ایسی تمام روایات کو ضبط تحریر میں لے آتے مگر مجھے افسوس ہے کہ، اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی حالانکہ چاہئے تھا کہ وہ رات دن ایسی باتیں سناتے رہتے تا کہ وہ دنیا میں محفوظ رہتیں.صحابہ رسول اکرم نے یہ کام کیا اور ایسی عمدگی سے کیا کہ آج حدیثوں کی سو دو سو جلدیں پائی جاتی ہیں، یہ ان کی ہدایتِ عام کی سند اور هُدًى لِلْعَلَمِینَ ہونے کا ایک بین ثبوت ہے.انصار اور مہاجرین کی باہمی مؤاخات (۴) مساجد کا چوتھا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو جمع کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں، یہ کام بھی انبیاء کی جماعتیں کیا کرتی ہیں.جس طرح مسجد کہتی ہے کہ آجاؤ عبادت کی طرف ، یہی حال انبیاء کی جماعتوں کا ہوتا ہے اور وہ سب لوگوں کے لئے اپنے دروازے کھول دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہماری طرف آ جاؤ.چنانچہ قرآن کریم میں صحابہ کے ایک حصہ کے متعلق اللہ تعالیٰ
۱۳۳ فرماتا ہے کہ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمُ وَ لَا يَجِدُونَ فِى صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ٣٢ یعنی انصار اتنے وسیع الحوصلہ ہیں کہ ان کے دلوں میں دُنیوی اموال اور نعمتوں کی کوئی خواہش ہی نہیں اُن کا یہی جی چاہتا ہے کہ دوسرے مسلمان بھائیوں کی مدد کریں خواہ خود انہیں تنگی ہو یا تکلیف ، وہ دوسروں کو آرام پہنچانے کا فکر رکھتے ہیں.جس طرح مسجد کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے ہوتے ہیں اسی طرح انصار نے اپنی جائدادیں بانٹ دیں اور مکان دیدئیے.جب مہاجرین ہجرت کر کے مدینہ گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا اور فرمایا کہ یہ لوگ باہر سے آئے ہیں ، آؤ میں تم دونوں کو آپس میں بھائی بھائی بنا دوں.چنانچہ ایک ایک انصاری اور ایک ایک مہاجر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھائی بھائی بنا دیا.ہمارے ہاں بعض لوگ بچپن کی سے ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں مگر وہ کسی کے لئے کوئی قربانی نہیں کرتے لیکن انصار کا کی یہ حال تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کو ان کا بھائی بنا دیا تو ان میں سے بعض نے اُس وقت گھر جا کر اپنی جائداد میں تقسیم کر دیں اور مہاجرین سے کہا کہ آدھی جائداد ہماری ہے اور آدھی تمہاری.بعض جو تاجر تھے انہوں نے مہاجرین کو اپنی تجارت میں شریک کری لیا.مہاجرین نے بیشک انکار کر دیا اور کہا کہ تم ہمیں اُجرت دیدینا ہم تمہاری خدمت کریں گے مگر اُنہوں نے اپنی طرف سے احسان کرنے میں کوئی کمی نہیں کی.بلکہ ایک صحابی نے تو اس حد تک غلو کیا کہ وہ اپنے مہاجر بھائی کو اپنے گھر لے گئے اُن کی دو بیویاں تھیں اور پردہ کا حکم ابھی نازل نہیں ہو ا تھا، انہوں نے اپنی دونوں بیویاں اُن کے سامنے کر دیں اور کہا کہ ان میں سے جس کو تم پسند کرو میں اُسے طلاق دیدیتا ہوں تم اس سے شادی کر لو.یہ کتنی بڑی قربانی ہے جو انصار نے کی.جس طرح مسجد کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے ہوتے ہیں اسی طرح انہوں نے اپنے دروازے مہاجرین کے لئے کھول دیئے.یہ اتنی اعلیٰ درجہ کی مثال ہے کہ تاریخ میں اس قسم کے وسعت حوصلہ کی مثال اور کہیں نظر نہیں آتی.انتخاب خلافت کے وقت انصار کا پھر سب سے بڑی حوصلہ کی مثال انصار نے اُس وقت قائم کی جب خلافت کے انتخاب کا وقت عدیم النظیر ایثار اور وسعت حوصلہ آیا.مسائل خلافت نبی کے زمانہ میں ہمیشہ مخفی رہتے ہیں، اگر نبی کے زمانہ میں ہی یہ باتیں بیان کی
۱۳۴ کر دی جائیں تو ماننے والوں کی جانیں نکل جائیں کیونکہ ان کو نبی سے ایسی شدید محبت ہوتی ہے کہ وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ وہ تو زندہ رہیں اور نبی فوت ہو جائے اس لئے نبی کے زمانہ میں خلافت کی طرف صرف اشارے کر دئیے جاتے ہیں.یہی حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ کا تھا، وہ یہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فوت ہو جائیں گے اور وہ زندہ رہیں گے.مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو انصار نے خلافت کے متعلق الگ مشورہ شروع کر دیا اور مہاجرین نے الگ.انصار نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم شہر والے ہیں اور مہاجرین باہر کے رہنے والے ہیں ، اس لئے باہر سے آنے والوں کا کوئی حق خلافت میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا، یہ ہمارا ہی حق ہے اور لیڈ ر ہم میں سے ہی ہونا چاہئے.مہاجرین کو جب یہ اطلاع ملی تو ان میں سے بھی بعض وہیں آگئے.حضرت ابوبکر ، حضرت عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت ابو عبیدہ ان میں شامل تھے.یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہ اپنے ذاتی مفاد کے لئے وہاں گئے تھے بلکہ وہ اسلام میں تفرقہ پیدا ہونے کے خوف سے وہاں گئے اور انہوں نے چاہا کہ انصار کوئی ایسا فیصلہ نہ کریں جو مسلمانوں کے لئے مضر ہو.غرض جب یہ وہاں پہنچے تو میٹنگ ہو رہی تھی.مہاجرین نے کہا کہ پہلے ہماری بات سُن لو اور وہ یہ ہے کہ عرب لوگ آپ کی اطاعت کے عادی نہیں، اگر انصار میں سے کوئی خلیفہ ہو ا تو مسلمانوں کو بہت سی مشکلات پیش آنے کا ڈر ہے اس لئے مکہ کے لوگوں میں سے آپ جس کو چاہیں اپنا امیر بنا لیں مگر انصار میں سے کسی کو نہ بنائیں.اس پر کی ایک انصاری نے کہا کہ اگر آپ لوگ ہماری بات نہیں مانتے تو پھر مِنَّا أَمِيرٌ وَ مِنْكُمُ اَمِيرٌ چلو ایک خلیفہ ہمارا ہو جائے اور ایک آپ کا.حضرت ابوبکر نے اس کے نقائص بیان کئے اور آخر میں فرمایا کہ اگر انصار میں سے کوئی خلیفہ ہوا تو عرب کے لوگ اسے نہیں مانیں گے.اس پر بعض انصار جوش میں کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا اس کے معنے یہ ہیں کہ انصار ہمیشہ غلامی ہی کرتے رہیں؟ وہ اس وقت بھی مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ مان لیں اور بعد میں بھی مہاجرین میں خلیفہ بنتے رہیں، انصار میں سے کوئی خلیفہ نہ بنے اور اس طرح وہ ہمیشہ کے لئے غلام اور ماتحت رہیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ سنکر انصار کو بہت سی نصیحتیں کیں اور فرمایا ہم آپ لوگوں کا احسان مانتے ہیں، مگر آپ کو اس وقت یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلام کا فائدہ کس بات میں ہے؟ یہ سنکر ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایک تقریر کی جو اسلامی تاریخ میں ہمیشہ
۱۳۵ سنہری حروف میں لکھی جائے گی.انہوں نے انصار کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا اے لوگو! تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں خدا کی رضا کے لئے بلایا تھا یا خلافت کے حصول کے لئے ؟ اور اگر تم نے اسلام میں داخل ہو کر بڑی بڑی قربانیاں کیں تو اس لئے کی تھیں کہ خدا راضی ہو جائے یا اس لئے کی تھیں کہ خلافت ملے؟ اگر تمام قربانیاں تم نے خدا کی رضا کے حصول کے لئے کی تھیں تو خدا را! اب اپنی قربانیوں کو خلافت کی بحث میں برباد نہ کرو.مہاجرین جو کہتے ہیں سچ کہتے ہیں مناسب یہی ہے کہ تم اس معاملہ کو خدا پر چھوڑ دو اور اپنی تجاویز کو جانے دو.اُس صحابی کا یہ فقرہ کہنا تھا کہ ساری قوم نے شور مچا دیا، بالکل درست ہے بالکل درست ہے.چنانچہ مہاجرین میں سے خلیفہ کا انتخاب کیا گیا اور انصار نے خوشی سے اس کی بیعت میں اپنے آپ کو شامل کر لیا.۳۵ یہ عجیب بات ہے کہ آج تک بھی انصار میں سے کسی کو بادشاہت نہیں ملی ، گو تصوف والے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور فرمایا تھا کہ اب تمہیں دنیا میں کچھ نہیں مل سکتا جو کچھ لینا ہے حوض کوثر پر آ کر لے لینا.مگر سوال یہ ہے کہ کیا قیامت کے دن کسی کو اجر ملنا کوئی کم برکت والی چیز ہے، حقیقت یہ ہے کہ بیشک دنیوی انعامات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہوتے ہیں مگر اصل انعام وہی ہیں جو انسان کو عالم آخرت میں ملیں.پس اگر انہیں قیامت کے دن انعامات مل گئے تو پھر تو انہیں سب کچھ مل گیا.لیکن بہر حال انصار نے دنیا میں کبھی حکومت نہیں کی اور یہ ایسی شاندار قربانی ہے جو بتاتی ہے کہ ان لوگوں نے کس طرح اپنے دل اسلام اور مسلمانوں کے لئے کھول رکھے تھے.صحابہ کرام لوگوں کو شر سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ تھے! پانچویں خصوصیت مساجد کی عَنِ یہ ہے کہ وہ شر اور بدی سے روکنے کے لئے بنائی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ۳ کہ نماز انسان کو بدی اور بے حیائی کی باتوں سے روکتی ہے اس بارہ میں بھی صحابہ نے بے نظیر مثال قائم کی ہے چنانچہ شر سے بچانے کا بہترین ثبوت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد کا ایک واقعہ ہے جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں نے دنیا میں کس طرح انصاف قائم کیا.جب اسلامی لشکر رومیوں کو شکست دیتے دیتے شام تک چلا گیا کی تو ایک وقت ایسا آیا جبکہ رومی بادشاہ اپنا سارا لشکر جمع کر کے مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے
۱۳۶ آمادہ ہو گیا ، اُس وقت اسلامی جرنیلوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کچھ علاقے چھوڑ کر پیچھے ہٹ جانا چاہئے مگر اُن علاقوں کے لوگوں سے چونکہ انہوں نے ٹیکس اور جزیے وصول کئے ہوئے تھے اور اس ٹیکس اور جزیہ کے وصول کرنے کی غرض یہ ہوا کرتی ہے کہ اسی روپیہ کو خرچ کر کے لوگوں کی جان و اموال کی حفاظت کی جائے.اس لئے جبکہ وہ ان علاقوں سے واپس جا رہے تھے انہوں نے سمجھا کہ اگر ہم نے ان کے ٹیکس انہیں واپس نہ کئے تو یہ ظلم ہوگا ، چنانچہ انہوں نے تمام شہر والوں کو ان کا جزیہ واپس دیدیا اور کہا کہ اب ہم واپس جا رہے ہیں اور چونکہ تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے اس لئے ہم تمہارا ٹیکس تمہیں واپس دیتے ہیں.اس واقعہ کا یروشلم کے عیسائیوں پر ایسا اثر ہوا کہ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں عیسائی بادشاہ تھا اور باوجود اس کے کہ وہ اُسے لاکھوں روپیہ بطور نذرانہ دیا کرتے تھے جس وقت صحابہ کا لشکر یروشلم کو چھوڑنے لگا تو عورتیں اور مرد چھینیں مار مار کر روتے تھے اور دعائیں کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو پھر اس جگہ واپس لائے.دنیا کی کسی تاریخ میں اس قسم کی مثال ڈھونڈ نے پر بھی نہیں مل سکتی کہ کوئی قوم اُس وقت جبکہ وہ کسی علاقہ کو خالی کر رہی ہو لوگوں کو اُن کے وصول شدہ ٹیکس واپس دے دے بلکہ آجکل تو ایسی حالت میں لوگوں کو اور زیادہ لوٹ لیا جاتا ہے.اسی طرح شر سے روکنے کی مثالیں تو اور بھی بہت سی ہیں مگر میں وہ مثالیں دینا چاہتا ہوں جن کو سب دنیا مانتی ہے حتیٰ کہ مسلمانوں کے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں.شراب اور جوئے کی ممانعت چنانچہ ایک مثال میں جوئے کی پیش کرتا ہوں اس سے اسلام نے روکا ہے.اسی طرح شراب سے اسلام نے کی بڑی سختی سے روکا ہے کیونکہ شراب بھی بڑی خرابیوں کا موجب ہوتی اور اس سے انسان کی عقل ماری جاتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ان کے شر اور فساد کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے.إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطنُ اَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَعَن الصَّلاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ ٣ فرمایا ہم نے شراب اور جوئے سے تمہیں روکا ہے مگر جانتے ہو ہم نے کیوں روکا ہے؟ اس لئے کہ ان کے ذریعہ فساد پیدا ہوتا ہے اور یہ چیزیں ذکر الہی اور عبادت کی بجا آوری میں روک بنتی ہیں اس طرح آپس میں عداوت اور بغض پیدا ہوتا ہے.آج تمام یورپ اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ شراب بُری چیز ہے اور یوروپین مدبر چاہتے ہیں کہ شراب نوشی روک دیں مگر وہ اپنی کوششوں میں کامیاب
۱۳۷ نہیں ہو سکتے.امریکہ نے شراب کے خلاف بڑا زور مارا مگر اڑھائی پرسنٹ (PER CENT.شراب کی اس نے بھی اجازت دیدی.گویا اس معاملہ میں امریکہ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں ایک کشمیری کہیں بیٹھا ہوا تھا اور اُس نے اپنے اوپر ایک بہت بڑی چادر لپیٹی ہوئی تھی کسی شخص نے اس سے پوچھا کہ تمہارا کوئی بچہ بھی ہے؟ وہ کہنے لگا کوئی نہیں.اس نے کہا نہیں سچ سچ بتاؤ ایک یا دو تو ہوں گے، کہنے لگا سچ کہتا ہوں میرا تو ایک بچہ بھی نہیں.تھوڑی دیر کے بعد وہ کشمیری اُٹھا تو چادر کے نیچے سے چار بچے نکل آئے ، یہ دیکھ کر وہی شخص اسے کہنے لگا کہ تم تو کہتے تھے کہ میرا ایک بچہ بھی نہیں اور یہ تو چار بچے تمہارے ساتھ ہیں.اس پر وہ کشمیری کہنے لگا ، حضرت چار پتر بھی کوئی پتر ہوندی ہے یعنی چار بیٹے بھی کوئی بیٹے ہوتے ہیں ( یہ مثال لوگوں نے اسی امر کے اظہار کے لئے بنائی کہ مَا شَاءَ اللہ کشمیریوں کے اولاد بہت ہوتی ہے ) اسی طرح امریکہ والوں نے کہہ دیا کہ اڑھائی پرسنٹ شراب کوئی شراب نہیں.مگر اس قدر اجازت دینے کے باوجود جب اس نے قانوناً شراب کی ممانعت کر دی تو ملک میں خطر ناک کی فساد برپا ہو گیا.ہزار ہا آدمی سالا نہ محض اس کی وجہ سے مارا جاتا تھا کیونکہ جنہیں شراب پینے کی عادت تھی وہ شراب کے لئے دوسروں کو روپیہ دیتے اور وہ چوری چھپے لے آتے.آخر لفنگوں اور بدمعاشوں کی کمیٹیاں بن گئیں جو لوگوں سے روپیہ وصول کرتیں اور انہیں کسی نہ کسی طرح شراب مہیا کر دیتیں اور چونکہ اس طرح مختلف کمیٹیوں والوں کی آپس میں رقابت ہوگئی اس لئے وہ موقع ملنے پر ایک دوسرے کے آدمیوں کو مروا دیتیں.پھر پولیس کو مقدمات چلانے پڑتے اور درجنوں کو گورنمنٹ پھانسی کی سزا دیتی.غرض ہزاروں مقدمات چلے، لاکھوں آدمی مارے گئے اور لاکھوں اس طرح مرے کہ جب انہیں شراب نہ ملتی تو وہ میتھی لینڈ سپرٹ (METHYLATED SPIRIT ) پی لیتے جو سخت زہریلی چیز ہے اور اس طرح کئی مر جاتے اور کئی اندھے ہو جاتے.غرض امریکہ اڑھائی فیصدی شراب کی اجازت دے کر بھی اپنے کی ملک کو شراب پینے سے نہ روک سکا اور لاکھوں قتل ہوئے، لاکھوں مقدمات ہوئے اور لاکھوں اندھے اور بیکار ہو گئے.یہاں تک کہ آخر میں حکومت کو اپنا سر جھکانا پڑا اور اس نے کہدیا کہ ہم ہارے اور شراب پینے والے جیتے چنانچہ اس نے ممانعت شراب کا قانون منسوخ کر دیا.محمد رسول اللہ کے اعلان پر صحابہ نے شراب کے ملکے توڑ ڈالے محمد حمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
۱۳۸ دیکھو جب یہ آیت اتری کہ شراب حرام ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو مدینہ کی کی گلیوں میں اس کا اعلان کرنے کے لئے مقرر کیا تو احادیث میں آتا ہے ایک جگہ شادی کی مجلسی لگی ہوئی تھی اور گانا گایا جا رہا تھا.اتنے میں باہر سے آواز آئی کہ شراب حرام ہو گئی ہے، لکھا ہے جس وقت یہ اعلان ہوا اُس وقت وہ لوگ شراب کا ایک مٹکا ختم کر چکے تھے اور دو مٹکے ابھی رہتے تھے.نشہ کی حالت ان پر طاری تھی اور وہ شراب کی ترنگ میں گا بجا رہے تھے کہ باہر سے آواز آئی شراب حرام کر دی گئی ہے.یہ سنتے ہی ایک شخص نشہ کی حالت میں بولا کہ کوئی شخص آوازیں دیتا ہے اور کہتا ہے شراب حرام ہو گئی ہے.دروازہ کھول کر پتہ تو لو کہ بات کیا کی ہے؟ اول تو کوئی شرابی نشہ کی حالت میں اس قسم کے الفاظ نہیں کہہ سکتا مگر ان کا دینی جذ بہ اس قدر زبر دست تھا کہ انہوں نے معاً آواز پر اپنا کان دھرا اور ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ دروازہ کھول کر دریافت کرو کہ بات کیا ہے؟ دوسرا شخص جس کو اس نے مخاطب کیا تھا وہ دروازہ کے پاس بیٹھا تھا اور اس نے اپنے ہاتھ میں ایک مضبوط ڈنڈا پکڑا ہو ا تھا اس نے جواب دیا کہ پہلے میں ڈنڈے سے مشکوں کو توڑوں گا اور پھر دریافت کرونگا کہ کیا بات ہے؟ جب ہمارے کان میں یہ آواز آ گئی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام کر دی ہے تو ی اب اس کے بعد ایک لمحہ کا توقف بھی جائز نہیں اس لئے میں پہلے مٹکے توڑوں گا اور پھر دروازہ کھول کر اس سے دریافت کرونگا.چنانچہ اس نے پہلے مٹکے تو ڑے اور پھر منادی والے سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ حمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام کر دی ہے.اس نے کہا الْحَمدُ لِلهِ ہم پہلے ہی مشکوں کو توڑ چکے ہیں.۳۸ اب بتاؤ کہ کونسی مسجد ہے جو اس طرح بدیوں کو مٹا سکتی ہے.قتل اولاد کی ممانعت دیکھو قتل اولاد ایک مانی ہوئی بدی ہے.ساری قو میں اس امر کو کی تسلیم کرتی ہیں کہ قتل اولاد بہت بڑا جرم ہے مگر کسی قوم نے اس کی کے متعلق شرعی حکم نہیں دیا.صرف اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے دنیا کے سامنے سب سے پہلے اس حقیقت کو رکھا اور بتایا کہ اولاد کا مارنا حرام ہے اور اس طرح دنیا کو ایک بہت بڑے شر سے بچایا.عورتوں کے حقوق کی حفاظت اسی طرح عورتوں پر ظلم ہوتے تھے آج ساری دنیا میں یہ شور مچ رہا ہے کہ عورتوں کو ان کے حقوق دینے چاہئیں،
۱۳۹ عورتوں کو ان کے حقوق دینے چاہئیں اور بعض مغرب زدہ نو جوان تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ عورتوں کو حقوق عیسائیت نے ہی دیئے ہیں.حالانکہ ان کو یہ کہتے ہوئے شرم آنی چاہئے کیونکہ عورتوں کے حقوق کے سلسلہ میں اسلام نے جو وسیع تعلیم دی ہے عیسائیت کی تعلیم است کے پاسنگ بھی نہیں.حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو بہت وسیع حقوق دیئے ہیں.عربوں میں رواج تھا کہ ورثہ میں اپنی ماؤں کو بھی تقسیم کر لیتے مگر اسلام نے خود عورت کو وارث قرار دیا، بیوی کو خاوند کا ، بیٹی کو باپ کا اور بعض صورتوں میں بہن کو بھائی کا بھی.پھر فرمایا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ ۳۹ کہ انسانی حقوق کا جہاں تک سوال ہے عورتوں کو بھی ویسا ہی حق حاصل ہے جیسے مردوں کو ، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں.چنانچہ گل ہی میں نے عورتوں میں تقریری کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں اور عورتوں کو یکساں احکام دیئے ہیں اسی طرح انعامات میں بھی انہیں یکساں شریک قرار دیا ہے اور جن نعماء کے مردمستحق ہوں گے اسلامی تعلیم کے ماتحت قیامت کے دن وہی انعام عورتوں کو بھی ملیں گے.بلکہ گل تو مجھے ایک عجیب استدلال سُوجھا.میں نے کہا کہ قرآن اور حدیث نے تمہارا صرف ایک ہی مذہبی حق چھینا ہے اور وہ یہ کہ نبی مرد ہو سکتا ہے ، عورت نہیں ہو سکتی.صرف یہ ایک ایسا مقام ہے جس کے متعلق عورت کہہ سکتی ہے کہ مجھے کم انعام دیا گیا ہے اور مرد کو زیادہ مگر میں نے انہیں بتایا کہ نبوت صرف ایک عہدہ ہے اور اس عہدہ کے ساتھ بہت بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، پس کی اس لئے خدا نے اسے نبی نہیں بنایا.مگر انعامات کے لحاظ سے جو انعام عالم آخرت میں نبی کو ملے گا وہی اس کی بیوی کو بھی ملے گا ، کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جَنَّتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَ الْمَلَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ کہ جو لوگ جنت میں داخل ہو نگے ان کے ساتھ ان کے والدین، ان کی بیویوں اور ان کے بچوں کو بھی رکھا جائے گا.اگر ایک شخص خود تو جنت کے اعلیٰ مقام پر ہوگا مگر اس کی بیوی کسی ادنیٰ مقام پر ہوگی تو اللہ تعالیٰ بیوی کو اسی جگہ رکھے گا جہاں اس کا خاوند ہوگا اور یہ پسند نہیں کرے گا کہ میاں بیوی جداجدا ہوں.پس موسی کی بیوی موسی" کے ساتھ رکھی جائے گی داؤد کی بیوی داؤد کے ساتھ رکھی جائے گی ، سلیمان کی بیوی سلیمان کے ساتھ رکھی جائے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکھی جائیں
۱۴۰ گی.بیشک موسیٰ کی بیوی نبی نہیں مگر نبوت کے انعام میں وہ بھی شریک ہو جائے گی.بیشک داؤد کی بیوی نبی نہیں مگر داؤد کے انعام نبوت میں ان کی بیوی بھی شریک ہو جائے گی.اسی طرح حضرت سلیمان کی بیویاں گو نبی نہیں مگر خدا انہیں وہی انعامات دے گا جو وہ سلیمان کو دیگا.پھر میں نے انہیں کہا کہ تم تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ بیویاں اور تین بیٹیاں تھیں، گویا ایک مرد کے ساتھ چودہ عورتیں انعام میں شریک ہو گئیں یہ کس قدر وسیع فیضان ہے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا اور کس طرح اس نے اپنی رحمت میں عورتوں کو ڈھانپ لیا ہے کہ نہ اس دنیا میں ان کی کوئی حق تلفی کی ہے اور نہ اگلے جہاں میں اُنہیں کسی انعام سے محروم رکھا ہے، حالانکہ عورتوں کی قوم اتنی مظلوم تھی کہ عرب لوگ روپوں کے بدلے اپنی ماؤں اور بیویوں تک کو بیچ دیا کرتے تھے.پس یہ مسجد کنویں کی منڈیر کا کام کرتی ہے یعنی وہ رسوم یا عادات یا اعمال جن سے لوگ تباہ ہوں اُن سے بچاتی اور گندگی کو اندر گرنے سے روکتی ہے.قیام امن کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم (1) مجھے مسجد امن کا موجب ہوتی ہے اور یہ مسجد ایسی ہے کہ جب اس کا نام ہی اسلام ہے اور اس کے ماننے والوں کا نام مسلم اور مسلم کے معنے ہی یہ ہیں کہ وہ ایسا شخص ہے جو دوسروں کو امن دیتا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں.الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ يَدِهِ وَ لِسَانِهِ " که مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان کے شر سے ہر وہ شخص محفوظ ہوتا ہے جو کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا.اب میں تفصیل بتا تا ہوں کہ امن کن چیزوں سے برباد ہوتا ہے سو یا درکھنا چاہئے امن چار چیزوں سے برباد ہوتا ہے.ا.امن برباد ہوتا ہے بدظنی سے.۲.امن بر باد ہوتا ہے ظلم سے.۳.امن بر باد ہوتا ہے غصہ کو اپنے اوپر غالب آنے دینے سے.۴.امن بر باد ہوتا ہے لالچ سے.غرض دنیا میں جس قدر فسادات ہوتے ہیں وہ انہی چار وجوہ سے ہوتے ہیں یعنی یا تو
۱۴۱ بدظنی کی وجہ سے فساد ہوتا ہے یا ظلم کی وجہ سے فساد ہوتا ہے یا غصے کو غالب آنے دینے سے فساد ہوتا ہے یا لالچ کی وجہ سے فساد ہوتا ہے.اس کے مقابلہ میں امن بھی چار چیزوں سے قائم ہوتا ہے.ا.امن قائم ہوتا ہے خیر خواہی سے.۲.امن قائم ہوتا ہے مغفرت سے.مثلاً اگر کوئی گالی دے اور دوسرا معاف کر دے تو لڑائی کی کس طرح ہو سکتی ہے، کہتے ہیں تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے جب فریقین میں سے ایک مغفرت سے کام لے اور عفو و درگزر کا سلوک کرے تو لڑائی بڑھ ہی نہیں سکتی..اسی طرح احسان سے امن قائم ہوتا ہے.۴.پھر امن دین کو دُنیا پر مقدم رکھ کر بھی ہوتا ہے کیونکہ جب کوئی انسان اُخروی حیات پر ایمان رکھتا ہو اور اُس کو دنیا کی زندگی پر ہر لحاظ سے ترجیح دیتا ہو تو وہ امن کے قیام کی خاطر ہر قسم کی قربانی کرسکتا ہے.اب یہ آٹھوں باتیں جو فی اور مثبت سے تعلق رکھتی ہیں ہمیں دیکھنا چاہئے کہ صحابہ میں پائی جاتی تھیں یا نہیں؟ اسلام میں بدظنی کی ممانعت اول بدظنی ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا ۴۲ كَثِيراً مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوا " کہ اے مومنو! تم اکثر گمانوں سے بچا کرو کیونکہ بعض ظن ایسے ہیں جن سے گناہ پیدا ہوتا ہے.وَلَا تَجَسَّسُوا اور تم دوسروں کے عیوب تلاش نہ کیا کرو.اب اگر کوئی شخص دوسرے پر حسن ظنی کرے تو وہ اس کے عیب کو تلاش ہی نہیں کر سکتا.عیب اُسی وقت انسان تلاش کرتا ہے جب دل میں بدظنی کا مادہ موجود ہو.اب ہم صحابہ کے طریق عمل کو دیکھتے ہیں کہ اُن میں حسنِ ظنی کسی حد تک پائی جاتی تھی.تاریخ اسلام میں جب صحابہ کے واقعات دیکھے جاتے ہیں تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اُن میں کس قدر خوبیاں پائی جاتی تھیں.ان میں نیک فنی تھی تو کمال درجہ کی اور دیانت وامانت تھی تو اُس حد تک کہ اس کی اور کہیں مثال ہی نہیں ملتی.ان کی نیک ظنی کی مثال یہ ہے کہ لکھا ہے حضرت عمرؓ کے عہد میں ایک شخص پر قتل کا مقدمہ چلا اور قضاء نے اس کے خلاف فیصلہ دیتے
۱۴۲ ہوئے اس کے قتل کئے جانے کا حکم دیدیا.جب اسے قتل کرنے کے لئے لوگ لے گئے تو اُس نے کہا کہ میرے گھر میں کئی قیموں کی امانتیں پڑی ہوئی ہیں، مجھے اجازت دی جائے کہ میں میں جا کر وہ امانتیں اُن کو واپس دے آؤں ، پھر میں اس جگہ اتنے دنوں میں حاضر ہو جاؤں گا.انہوں نے کہا کہ اپنا کوئی ضامن لاؤ.اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا آخر اس کی نظر ابوذر صحابی پر جا پڑی اور اس نے کہا کہ یہ میرے ضامن ہیں.ابوذر سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کی اس کی ضمانت دینے کے لئے تیار ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں.خیر انہوں نے ضمانت دی اور وہ چلا گیا.جب عین وہ دن آیا جو اُس کی حاضری کے لئے مقرر تھا تو صحابہؓ ادھر اُدھر گھبراہٹ سے پھرنے لگے کیونکہ وہ شخص ابھی تک آیا نہیں تھا جب بہت دیر ہوگئی اور وہ نہ آیا تو صحابہ نے حضرت ابوذر سے پوچھا کہ کچھ آپ کو پتہ بھی ہے وہ کون شخص تھا ؟ انہوں نے کہا مجھے تو علم نہیں.صحابہ کہنے لگے اُس کا جرم قتل تھا اور آپ نے بغیر کسی واقفیت کے اس کی ضمانت دے دی، یہ آپ نے کیا کیا ؟ اگر وہ نہ آیا تو آپ کی جان جائے گی.انہوں نے کہا، بیشک میں اسے جانتا نہیں تھا مگر جب ایک مسلمان نے ضمانت کے لئے میرا نام لیا تو میں کس طرح انکار کر سکتا تھا اور کس طرح یہ بدظنی کر سکتا تھا کہ ممکن ہے وہ حاضر ہی نہ ہو.اب دیکھو اُن میں حُسنِ ظنی کا کس قدر مادہ پایا جاتا تھا کہ ایک شخص جس کی انہیں کچھ بھی واقفیت نہیں اُس کی اُنہوں نے ضمانت دیدی محض اس وجہ سے کہ وہ بدظنی کرنا نہیں چاہتے تھے.جب وقت بالکل ختم : ہونے لگا تو صحابہ کو دُور سے گرد اڑتی دکھائی دی اور انہوں نے دیکھا کہ ایک سوار بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے کو دوڑاتا ہوا آرہا ہے.سب کی نظریں اُس سوار کی طرف لگ گئیں جب وہ قریب پہنچا تو وہ وہی شخص تھا جس کی حضرت ابوذر نے ضمانت دی ہوئی تھی.وہ اپنے گھوڑے سے اُترا اور چونکہ بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے کو دوڑاتا چلا آیا تھا اس لئے اس کے اُترتے ہی گھوڑا گر کر مر گیا.اس نے پاس آکر کہا کہ مجھے معاف کرنا ، بیتائی کی امانتیں تقسیم کرتے ہوئے مجھے کچھ دیر ہو گئی جس کی وجہ سے میں جلدی نہ آسکا اور اب میں گھوڑے کو دوڑاتا ہی آ رہا تھا تا کہ وقت کے اندر پہنچ جاؤں سو خدا کا شکر ہے کہ میں پہنچ گیا ، اب آپ اپنا کام کریں.اس کی اس وفاداری کا اس قدر اثر ہوا کہ جن لوگوں کا جرم تھا انہوں نے فوراً قاضی سے کہدیا کہ ہم نے اپنا جرم اس شخص کو معاف کر دیا.۴۳ یہ وہ نیک طن لوگ تھے جو دوسروں پر بدظنی کرنا جانتے ہی نہیں تھے اور پھر خدا بھی ان کی
۱۴۳ کے نیک ظنوں کو پورا کر دیتا تھا.اسلام میں ہر قسم کے ظلم کی ممانعت پھر فساد ظلم سے پیدا ہوتا ہے اور علم کی کئی قسمیں ہیں مگر اسلام نے اُن سب کو مٹا دیا ہے.- چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُمْ بَعْضاً ؟ وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُمْ بَعْضاً " کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیونکہ یہ بھی ایک قسم کا ظلم ہوتا ہے اور دوسرے کی عزت پر اس سے حملہ ہوتا ہے.دوسری چیز مال ہے جس کی وجہ سے ظلم کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بارہ میں بھی ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے.وَلَا تَأكُلُوا اَمْوَالَكُمُ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِل ۲۵ که جھوٹ اور فریب سے ایک دوسرے کے اموال نہ کھایا کرو.پھر جان ہوتی ہے اس کے متعلق فرمایا وَلَا تَقْتُلُوا اَنْفُسَكُم " کہ اپنے آپ کو قتل مت کرو.اسی طرح تجارت میں بعض دفعہ ظلم کا ارتکاب کر لیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی روکا اور فرمایا وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ - وَإِذَا كَالُو هُمُ اَوْ وَّزَنُوهُمْ يُخْسِرُونَ " کہ لعنت ہے اُن پر ، ہلاکت ہے اُن پر جو لوگوں کے حقوق کو غصب کرتے ہیں اور جب چیزیں لیتے ہیں تو تول میں پوری لیتے ہیں اور جب دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں گویا اسلام نے ظلم کی تمام شقوں سے روک دیا اور اس طرح اُس نے جان کو بھی محفوظ کر دیا، عزت کو بھی محفوظ کر دیا اور صحابہ نے اس پر ایسا عمل کر کے دکھایا کہ جس طرح حرم میں داخل ہو کر انسان امن میں آ جاتا ہے اس طرح وہ لوگوں کی عزتوں اور ان کے مالوں اور ان کی جانوں کے محافظ تھے اور امانتیں تو ان کے پاس اس طرح محفوظ رہتی تھیں کہ آجکل کے بنکوں میں بھی ویسی محفوظ نہیں رہتیں.ایک صحابی ایک دفعہ ایک گھوڑا فروخت کرنے کے لئے لائے اور انہوں نے اس کی دوسو دینار قیمت بتائی.ایک اور صحابی نے کہا کہ میں یہ گھوڑا لینا چاہتا ہوں مگر تم غلط کہتے ہو کہ اس کی دوسو دینار قیمت ہے اس کی تو پانچ سو دینار قیمت ہے وہ کہنے لگے میں صدقہ خور نہیں کہ زیادہ قیمت لے لوں اس کی اصل قیمت دو سو دینا رہی ہے.اب وہ دونوں جھگڑنے لگ گئے.بیچنے والا کہتا تھا کہ میں دو سو دینار لوں گا اور خرید نے والا کہتا تھا کہ میں پانچ سو دینار دونگا.کی اب بتاؤ جہاں اس قسم کے لوگ ہوں وہاں امن کس شان کا ہوگا مگر اب تو جتنا کوئی مالدار ہوتی
۱۴۴ اُتنا ہی دوسروں کو لوٹنے کی کوشش کرتا ہے.میں ایک دفعہ بمبئی میں ایک دُکان پر کپڑا لینے کے لئے گیا میرے ساتھ مستورات بھی تھیں مگر وہاں ہمیں کافی دیر لگ گئی اور دُکاندار ایک اور شخصی سے جھگڑنے میں مصروف رہا.آخر میں نے اس سے کہا کہ بات کیا ہے اور اتنی دیر سے جھگڑ کیوں رہے ہو؟ اس نے کہا کیا بتاؤں آج تو میں مصیبت میں پھنس گیا تھا یہ شخص بمبئی کا سب سے بڑا مشینوں کا مالک ہے.اس نے مجھ سے ہمیں چھپیں کپڑے لئے اور میں نے ان کابل ایک سو آٹھ روپیہ کا بنا کر اس کے سامنے رکھ دیا.اس پر یہ جھگڑنے لگا کہ میں اتنا بڑا آدمی ہوں میری رعایت کیا تم نہ کرو گے میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہماری دُکان پر ایک قیمت ہوتی.وقت ضائع کرنے کے بعد اس کے سیکرٹری نے سو کا نوٹ رکھ دیا اور کہا کہ اب بس کر و باقی رقم کا مطالبہ نہ کرو اور میری یہ حالت کہ میں اسے ناراض بھی نہیں کر سکتا، لیکن دوسری طرف اگر قیمت کم لیتا ہوں تو میری دُکان کا اصول ٹوٹتا ہے اب یہ زور سے کم قیمت دے کر چلا گیا ہے.غرض مسلمان اپنے غلبہ کے وقت میں اتنا سیر چشم تھا کہ اگر کوئی غلطی سے کم قیمت مانگتا تھا تو وہ اصرار کرتا تھا کہ میں اس کی قیمت زیادہ دونگا، مگر آج کے کروڑ پتی بھی سودے میں کچھ معاف کروانے کے لئے خواہ جائز ہو یا نہ ہو گھنٹوں صرف کر دیتے ہیں ، دوسری طرف دکاندار ہے اتنا اور کارخانہ دار قیمت زیادہ وصول کرنے پر مصر ہوتے ہیں.تکتیر کی بُرائی اسی طرح دنیا میں خیالات کی خرابی کی وجہ سے بھی ظلم ہوتا ہے ایک انسان یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ میں بہت بڑا ہوں اور اس طرح وہ تکبر میں آکر دوسروں کی حق تلفی کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس غرور کو بھی توڑا ہے.چنانچہ فرماتا ہے وَلَا تَمُشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحاً إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً اے انسان! تو زمین میں متکبرانہ طور پر نہ چلا کر کیونکہ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ تو زمین میں سے کہیں باہر نہیں نکل سکتا.یہی تیرے غریب بھائی جو تیرے ارد گرد ہیں ان سے تجھے دن رات کام رہتا ہے اور تُو نے ان کے ساتھ مل جل کر کام کرنا ہے.خرق کے معنے پھاڑنے کے بھی ہوتے ہیں اور ملک میں سے گزرنے کے بھی.مطلب یہ ہے کہ تو نے اس زمین میں سے کہیں نکل نہیں جانا بلکہ اس دنیا میں رہنا ہے اور دنیا میں انسان کو آرام اُس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ مل جُل کر نہ رہے.پس اللہ تعالیٰ لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ دیکھو تکبر نہ کرو کیونکہ اگر تم تکبر کرو گے اور اپنے ارد گرد کے لوگوں کو کی
۱۴۵ ذلیل اور حقیر سمجھو گے تو تم اکیلے پھرتے رہو گے اور لوگ تمہیں غیر جنس خیال کرنے لگ جائیں گے اور اس وجہ سے تمہیں امن میسر نہیں آ سکے گا.بھلا کبھی گھوڑوں اور گدھوں میں رہ کر بھی انسان کو امن حاصل ہو سکتا ہے.امن تو اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اپنی جنس کے ساتھ رہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میاں دیکھو تم نے کسی اور جگہ نہیں جانا بلکہ تمہارے ان غریب بھائیوں نے ہی رات دن تمہارے کام آنا ہے اگر تم اپنے آپ کو کوئی غیر جنس سمجھو گے تو دُنیا میں اس طرح رہو گے جس طرح چڑیا گھر میں انسان رہتا ہے.پھر فرماتا ہے وَلَنُ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً اگر تم نے یہ طریق جاری رکھا تو یاد رکھو تم اس صورت میں کبھی بھی قوم کے سرداروں میں شامل نہیں ہو سکو گے.اس لئے کہ جب تم قوم کو ذلیل سمجھو گے تو قوم تمہیں اپنا سردار کس طرح بنائے گی وہ تو تمہاری دشمن ہوگی اور تمہیں اپنی قوم کی نگاہوں میں عزت نہیں بلکہ ذلت حاصل ہوگی.قومی اخلاق کو بگاڑنے کی ممانعت پھر قومی ظلموں میں سے ایک اخلاقی ظلم قوم کے اخلاق کو بگاڑنا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو اس سے بھی روکتا اور فرماتا ہے لَا يُحِبُّ اللهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ " کہ اللہ تعالیٰ یہ پسند نہیں فرماتا کہ کوئی بُری بات اونچی آواز سے کہی جائے.لوگ اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ اگر کوئی مظلوم ہو تو اسے بیشک اجازت ہے کہ وہ بر سر عام جو جی میں آئے کہتا پھرے لیکن کسی اور کو اس کی اجازت نہیں.مگر میرے نزدیک اس آیت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی مظلوم ہو تب بھی یہ پسندیدہ بات نہیں کہ وہ لوگوں میں بُرائیاں بیان کرتا پھرے.گویا اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس طریق سے روکتا اور فرماتا ہے کہ تو جو اپنے ظلم کے خلاف شور مچاتا ہے تجھے یہ تو سمجھنا چاہئے کہ تو اپنے ظلم کے متعلق تو شور مچا رہا ہے اور قوم کے اخلاق کو تباہ کر رہا ہے جیسے اگر کوئی ماں بہن کی گندی گالیاں دینا شروع کر دے اور پاس سے عورتیں گزر رہی ہوں تو ہر شریف آدمی اسے روکتا اور کہتا ہے کہ تجھے شرم نہیں آتی کہ تو لوگوں کے اخلاق خراب کر رہا ہے اسی طرح خدا فرماتا ہے تو شور کس بات پر مچا رہا ہے؟ کیا اس بات پر کہ تجھ پر ظلم ہوا ہے مگر تجھے اتنی سمجھ نہیں کہ تو اپنے ظلم پر شور مچا رہا ہے اور ساری قوم پر ظلم کر رہا ہے.پھر ایک اور ظلم حکومتوں پر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے بين الاقوامی مناقشات کا سدِ باب اس بارہ میں بھی کئی ہدایات دی ہیں اس کے کی
۱۴۶ متعلق تفصیلی بحث میری کتاب "احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں موجود ہے.میں اس جگہ مختصراً چند باتیں بیان کر دیتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنْ طَائِفَتْنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأخْرى فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّى تَفِيءَ إِلَى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ٥٠ اگر دو مومن حکومتیں آپس میں لڑ پڑیں تو باقی تمام حکومتوں کو چاہئے کہ سب مل کر ان سے کہیں کہ آپس میں صلح کر لو.اگر ان میں سے کوئی صلح کی تجویز کو مان کر باغی ہو جائے یا صلح کی تجویز کو قبول ہی نہ کرے اور لڑائی پر آمادہ رہے تو وہ حکومت جس نے بغاوت سے کام لیا ہو اس کے ساتھ سب مل کر لڑو اور مظلوم کو اکیلا نہ رہنے دو حَتَّى تَفِيءَ إِلَى اَمْرِ اللهِ یہاں تک کہ ابتداء کرنے والی حکومت یا قوم خدا تعالیٰ کے فیصلے کو مان لے فَاِنْ فَآءَ ت اگر وہ ظلم سے باز آ جائے کی اور اقرار کر لے کہ اس سے غلطی ہوئی تو پھر اس سے انتقام نہ لو اور اپنے آپ کو فریق مخالف قرار دے کر اس سے بیجا مطالبات نہ کرو، بلکہ ابتدائی مخاصمین کے درمیان صلح کرا دو.وَأَقْسِطُوا اور انصاف سے کام لو ایسا نہ ہو کہ تم غصہ سے کسی کے خلاف کوئی ایسا فیصلہ کر دو جو عدل و انصاف کے منافی ہو اور کہو کہ چونکہ اس نے پہلے ہماری بات کو نہیں مانا تھا اس لئے اب اس پر سختی کرنی چاہئے.تمہیں جنبہ داری اور کینے کے تمام پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے انصاف سے کام لینا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ الله تعالى انصاف کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے.میں اس وقت تفصیلاً اس مسئلہ کو بیان نہیں کر سکتا.تین چار سال ہوئے جب ایسے سینیا پر اٹلی نے حملہ کیا تھا تو اُس وقت جلسہ سالانہ کے موقع پر کی میں نے اس مضمون پر روشنی ڈالی تھی اور بتایا تھا کہ امن کے قیام کے لئے ایسی ہی لیگ آف نیشنز کی کام دے سکتی ہے جس کی بنیاد اسلامی اصول پر ہو.اگر اسلامی اصول پر لیگ آف نیشنز (LEAGUE OF NATIONS) کی بنیاد نہ رکھی جائے تو وہ کبھی امن قائم نہیں کر سکتی.اس وقت یہ دستور ہے کہ جب کوئی قوم مغلوب ہو جاتی ہے تو اسے ہر ممکن طریق سے ذلیل اور رسوا کرنیکی کوشش کی جاتی ہے جیسے گزشتہ جنگ کے اختتام پر جرمنی کو ” معاہدہ وارسائی اے کے ذریعہ کچلنے کی پوری کوشش کی گئی اور انصاف کی حدود کو نظر انداز کر دیا گیا ، حالانکہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جب کوئی قوم ہتھیار ڈال دے تو اس کے بعد جو بھی معاہدہ کیا جائے اس کی بنیاد
۱۴۷ انصاف پر ہونی چاہئے.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ چونکہ ایک فریق مخالفت کر چکا ہے اور ہار چکا ہے اس لئے اس کے خلاف سخت فیصلہ کر کے اسے ذلیل کیا جائے یا اس سے بدلہ لیا جائے.گویا صلح کرانے والوں کو اپنے آپ کو فریق مخالف نہیں بنا لینا چاہئے بلکہ جنگ کے باوجود اپنے آپ کو ثالثوں کی صف میں رکھنا چاہئے.دوسرے آجکل کی لیگ کے قوانین میں یہ شرط نہیں رکھی گئی کہ اگر کسی فریق نے مقابلہ کیا تو اس سے لڑائی کی جائے گی بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم منوانے کی کوشش کریں گے.اب جسے پتہ ہو کہ میرا کام صرف منوانے کی کوشش کرنا ہے وہ لڑائی کے لئے تیاری کیوں کرے گا اور بد اندیشے رکھنے والے لوگ اس لیگ سے ڈریں گے کیوں؟ تیسرے اسلام نے یہ ہدایت دی تھی کہ اگر دو متحارب فریقوں میں سے ایک لڑائی پر آمادہ ہو جائے تو دوسرا قدم یہ اُٹھایا جائے کہ باقی سب اقوام اس کے ساتھ مل کر لڑیں اور چونکہ ایک قوم سب اقوام کا مقابلہ نہیں کر سکے گی اس لئے لازما وہ ہتھیار ڈال دے گی اور صلح پر آمادہ ہو جائے گی مگر لیگ آف نیشنز میں ایسا کوئی قانون نہیں اس لئے اس کے فیصلہ سے کوئی قوم مرعوب نہیں ہوتی اور چونکہ ان نقائص کی وجہ سے بار ہا لیگ آف نیشنز امن کے قائم کرنے میں ناکام رہی ہے اس لئے اب بڑے بڑے مدبر بھی یہ لکھ رہے ہیں کہ لیگ آف نیشنز کے پیچھے کوئی فوج ہونی چاہئے حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ لیگ آف نیشنز کے پاس صرف فوج ہی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس کے علاوہ اس میں وہ باتیں بھی ہونی چاہئیں جو اسلام نے بتائی ہیں ورنہ امن قائم نہیں ہوسکتا.اپنے نفس پر ظلم کرنے کی ممانعت میہ تو ہوتا ہے غیر پر ظلم مگر اک ظلم نفس پر بھی ہوتا ہے جیسے انسان شادی کرنا چھوڑ دے.اب یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شخص شادی نہ کرے مگر جو خواہشات اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل میں پیدا کی گئی ہیں اُن کو وہ کس طرح دبا سکتا ہے.اسی طرح کوئی شخص بھوکا تو رہ سکتا ہے مگر بھوک کی خواہش کو نہیں مٹا سکتا کیونکہ یہ خدا نے پیدا کی ہے.اور کسی انسان کا اپنی جائز خواہشات کو پورا نہ کرنا بھی ایک ظلم ہے جو کسی غیر پر نہیں بلکہ اپنے نفس پر ہے اور اسلام اس ظلم سے بھی روکتا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لَا رَهْبَانِيَةَ فِى الإِسلام اسلام میں رہبانیت نہیں اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رہبانیت جو بعض مذاہب نے شروع کر رکھی ہے اس کا ہم نے انہیں حکم نہیں دیا تھا بلکہ ان کی اپنی ایجاد ہے.اسی
۱۴۸ طرح قرآن کریم میں آتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمُ اَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُـ مَّنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمُ ۵۳ کہ اے مسلمانو! تم اپنی جانوں کی حفاظت کرو.ہم نے بیشک تمہیں حکم دیا ہے کہ تم تبلیغ کرو، ہم نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم تعلیم دو، ہم نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم دوسروں کی تربیت کرو، لیکن اگر کبھی کوئی ایسا موقع آ جائے کہ دوسرے کو ہدایت دیتے دیتے تمہارے اپنے ایمان کے ضائع ہو جانے کا بھی خطرہ ہو تو ایسی حالت میں تم دوسرے کو بیشک ہلاک ہونے دو اور اپنے ایمان کی حفاظت کرو.دیال سنگھ کالج کے بانی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بالکل اسلام کے قریب پہنچ گئے تھے مگر جو شخص انہیں تبلیغ کر رہا تھا اُس نے ایک دفعہ صرف اس آیت پر تھوڑی دیر کے لئے عمل چھوڑ دیا تو نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اسلام سے منحرف ہو گئے.سردار دیال سنگھ صاحب جن کے نام پر لاہور میں کالج بنا ہوا ہے سکھ مذہب سے سخت متنفر تھے کسی مولوی سے انہیں اسلام کا علم ہوا اور جب اسلامی تعلیم پر انہوں نے غور کیا تو وہ بہت ہی متاثر ہوئے اور انہوں نے اپنی مجلس میں اسلام کی خوبیوں کا اظہار کرنا شروع کر دیا اور کہنے لگ گئے کہ میں اب اسلام قبول کرنے والا ہوں.ان کا ایک ہندو دوست تھا جو بڑا چالاک تھا اس نے جب دیکھا کہ یہ مسلمان ہونے لگے ہیں تو اس نے انہیں کہا کہ سردار صاحب ! ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور.یہ تو محض مسلمانوں کی باتیں ہیں کہ اسلام بڑا اچھا مذہب ہے ورنہ عمل کے کی لحاظ سے کوئی مسلمان بھی اسلامی تعلیم پر کار بند نہیں.اگر آپ کو میری اس بات پر اعتبار نہ ہو تو کی جو مولوی آپ کو اسلام کی تبلیغ کرنے کے لئے آتا ہے آپ اس کے سامنے ایک سو روپیہ رکھ دیں اور کہیں کہ ایک دن تو میری خاطر شراب پی لے، پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ شراب پیتا ہے یا نہیں.انہوں نے کہا بہت اچھا.چنانچہ جب دوسرے دن وہی مولوی آیا تو انہوں نے سو روپیہ کی تھیلی اس کے سامنے رکھ دی اور کہا مولوی صاحب اب تو میں نے مسلمان ہو ہی جانا ہے، ایک دن تو آپ بھی میرے ساتھ شراب پی لیں اور دیکھیں میں نے تو آپ کی کتنی باتیں مانی ہیں کیا آپ میری اتنی معمولی سی بات بھی نہیں مان سکتے.اس کے بعد تو میں نے شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگانا، صرف آج شراب پی لیں.اُس نے سو روپیہ کی تھیلی لے لی اور شراب کا گلاس اُٹھا کر پی لیا.سردار دیال سنگھ صاحب پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ وہ بجائے مسلمان ہونے
۱۴۹ کے برہمو سماج سے جاملے اور انہوں نے اپنی ساری جائداد اس کے لئے وقف کر دی.یہ نتیجہ تھا درحقیقت اس آیت کی خلاف ورزی کا حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ لَا يَضُرُّكُم مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمُ اگر روٹی کا سوال ہو تو بیشک خود بھو کے رہو اور دوسرے کو کھانا کی کھلا ؤ لیکن جہاں ہدایت کا سوال آ جائے اور تمہیں محسوس ہو کہ اگر تمہارا قدم ذرا بھی ڈگمگایا تو تم خود بھی ہدایت سے دُور ہو جاؤ گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایسی صورت میں تمہیں مضبوطی سے ہدایت پر قائم رہنا چاہئے اور دوسرے کی گمراہی کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.شرک کی ممانعت تیر اظلم خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اسکے بارہ میں فرماتا ہے وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا " کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس ۵۴ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو.غرض اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے تو حید کو دنیا میں قائم کیا اور اس طرح اس ظلم کا خاتمہ کر دیا جس کا خدا سے تعلق ہے اور مسلمان ہی وہ قوم ہے جس نے کبھی دوسروں پر ظلم نہیں کیا اور مسلمان ہی وہ قوم ہے جس نے کبھی اپنے نفس پر بھی ظلم نہیں کیا اور اس طرح اس نے امن کے برباد کرنے والے تمام اسباب کا خاتمہ کر دیا.بے جا غضب کی ممانعت (۳) امن کو برباد کرنے والا تیسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ انسان غصہ کو اپنے اوپر غالب آنے دیتا ہے.قرآن کریم نے اس بدی کی بھی بیخ کنی کی ہے اور اصولی طور پر ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے وَ كَذلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا ۵۵ کہ ہم نے تمہیں اُمَةً وَسَطًا بنایا ہے یعنی ایسی امت جو ہر کام میں اعتدال کو مد نظر رکھتی ہے پس تمہارا فرض ہے کہ تم نہ تو غصہ میں بہہ جاؤ اور نہ محبت میں بہہ جاؤ بلکہ اگر محبت کرو تو ایک حد تک اور اگر غصہ کرو تو ایک حد تک.پھر فرماتا ہے وَالْكَظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ٥٦ كه مؤمن لوگ اپنے غصہ کو دبا کر رکھتے ہیں.حدیث میں آتا ہے جب کسی کو غصہ آئے تو اگر وہ اُس وقت چل رہا ہو تو کھڑا ہو جائے کی اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور اگر بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور اگر پھر بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہو تو پانی پی لے.میں نے بچپن میں دیکھا ہے کہ جب بعض طالب علموں کی آپس میں لڑائی ہو جاتی تو ایک پانی لیکر دوسرے کے منہ میں ڈالنے لگ جاتا اور اس طرح وہ لڑکا جسے غصہ آیا ہوتا تھا بے اختیار ہنس پڑتا اور غصہ جاتا رہتا.
۱۵۰ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نفس کے دبانے کو اتنی اہمیت دی ہے کہ آپ فرماتے ہیں.لَيْسَ الشَّدِيدُ بالصُّرُعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ ۵۷ کہ بہادر اُس کو نہیں کہتے جو کشتی میں دوسرے کو رگرالے، بہادر وہ ہے جسے غصہ آئے تو وہ اُسے روک لے.پس بہادر غلام محمد پہلوان نہیں ، بڑا بہا در سگر سنگھ پہلوان نہیں بلکہ بڑا بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے جذبات پر قابورکھے اور اُس کو روک لے.اس بارہ میں حضرت علی کی ایک مثال بڑی ایمان افزاء ہے.جنگ خیبر میں ایک بہت بڑے یہودی جرنیل کے مقابلہ کے لئے نکلے اور بڑی دیر تک اس سے لڑتے رہے چونکہ وہ بھی لڑائی کے فن کا ماہر تھا اس کی لئے کافی دیر تک مقابلہ کرتا رہا، آخر حضرت علیؓ نے اُسے گرا لیا اور آپ اس کی چھاتی پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ تلوار سے اُس کی گردن کاٹ دیں.اتنے میں اس یہودی نے آپ کے منہ پر تھوک دیا.اس پر حضرت علی اُسے چھوڑ کر الگ کھڑے ہو گئے.وہ یہودی سخت حیران ہو ا کہ انہوں نے یہ کیا کیا ؟ جب یہ میرے قتل پر قادر ہو چکے تھے تو انہوں نے مجھے چھوڑ کیوں دیا.چنانچہ اس نے حضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ آپ مجھے چھوڑ کر الگ کیوں ہو گئے ؟؟ آپ نے فرمایا کہ میں تم سے خدا کی رضا کے لئے لڑ رہا تھا مگر جب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو مجھے غصہ آگیا اور میں نے سمجھا کہ اب اگر میں تم کوقتل کرونگا تو میرا اقتل کرنا اپنے نفس کے لئے ہوگا ، خدا کے لئے نہیں ہوگا.پس میں نے تمہیں چھوڑ دیا تا کہ میرا غصہ فرو ہو جائے اور میرا تمہیں قتل کرنا اپنے نفس کے لئے نہ رہے.یہ کتنا عظیم الشان کمال ہے کہ عین جنگ کے میدان میں انہوں نے ایک شدید دشمن کو محض اس لئے چھوڑ دیا تا کہ اُن کا قتل کرنا اپنے نفس کے غصہ کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو.لالچ اور حسد کی ممانعت (۴) امن کے بر بادکرنے کا چوتھا سب لانچ ہوتاہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی روکتا اور فرماتا ہے اَمُ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا اتَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ۵۸ کہ یہودی قوم بھی کوئی قوم ہے کہ خدا تو لوگوں پر فضل کرتا ہے اور یہ حسد سے مری جاتی ہے دوسری جگہ فرماتا ہے وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللهُ بِهِ بَعْضَكُم عَلى بَعْضٍ ؟ خدا نے دنیا میں مختلف قوموں پر جو فضل کئے ہیں ان کی وجہ سے ان قوموں سے حسد نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو.
۱۵۱ قیام امن کے ذرائع اب اسکے مقابل پر میں امن کے ذرائع کو لیتا ہوں.خیر خواہی (۱) پہلا ذریعہ قیام امن کا خیر خواہی ہے ہمارے ملک میں یہ جذ بہ اتنا کم ہے کہ جب بھی کوئی افسر بدلتا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا افسر آتا ہے تو وہ پہلے افسر کے کام کے ضرور نقائص نکالتا ہے اگر ڈپٹی کمشنر آتا ہے تو پہلے ڈپٹی کمشنر کا نقص نکالتا ہے ، کمشنر آتا ہے تو وہ پہلے کمشنر کے کام کی خرابیاں بتاتا ہے اور اگر جرنیل آتا ہے تو پہلے جرنیل کی سکیموں میں نقص نکالتا ہے مگر مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے کیسی اعلیٰ تعلیم دی ہے وہ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاءُ وا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرُلَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ * سچا مسلمان وہ ہوتا ہے کہ جب خدا اسے کسی مقام پر کھڑا کرتا ہے تو پہلے لوگ جو فوت ہو چکے ہوں اُنکے متعلق یہ نہیں کہتا کہ فلاں سے یہ غلطی ہوئی اور فلاں سے وہ غلطی ہوئی بلکہ وہ ان کی خوبیوں کا اعتراف کرتا ہے اور اگر بعض سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو ان کے متعلق دعائیں کرتا رہتا ہے کہ اے میرے رب ! مجھے بھی بخش اور میرے اُن بھائیوں کو بھی بخش جو مجھ سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں مؤمنوں کا کوئی کینہ نہ رہنے دیجیو.اے رب ! تو بڑا مہربان ہے تو ان پر بھی رافت اور رحم کر اور ہمارے دل میں ان کے متعلق محبت کے جذبات پیدا فرما تا کہ ہم اپنے پیشروؤں کے نقص نکالنے کی بجائے ان کی خوبیوں کو بیان کرنے کے عادی ہوں.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لا خِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ ال کہ کوئی مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کی نسبت وہ تمام باتیں نہ چاہے جو وہ اپنی نسبت چاہتا ہے.غور کرو کتنی وسیع خیر خواہی ہے جس کی اسلام اپنے ماننے والوں کو تعلیم دیتا ہے.مغفرت (۲) امن کے قیام کا دوسرا ذریعہ مغفرت ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے متقی وہ ہوتے ہیں وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ جو غصے کو دباتے ہیں اور لوگوں کے گناہوں کو معاف کرتے ہیں اسی طرح فرماتا ہے خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرُ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِينَ " کہ عفو کو اپنی عادت بنالو یہ نہیں ہونا چاہئے کہ تم کبھی کبھار کسی کو معاف کردو بلکہ دوسروں کو معاف کرنا تمہاری عادت میں داخل ہونا
۱۵۲ چاہئے اور جو نیک اور پسندیدہ باتیں ہیں ان کا لوگوں کو حکم دو اور اگر کوئی تمہیں غصہ دلائے تو اس کے فریب میں نہ آنا بلکہ ایسے جاہلوں سے اعراض کرنا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ ایک صحابی نے پوچھا يَا رَسُولَ الله ! انسان دن میں کتنی دفعہ مغفرت کرے؟ آپ نے فرمایا: ستر مرتبہ.اب ستر سے مرا دستر ہی نہیں کیونکہ انسان دن بھر میں دو یا چار قصور کرے گا.ستر قصور نہیں کر سکتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ستر دفعہ معاف کرو.دراصل اس ستر سے مراد کثرت ہے کیونکہ ستر یا سات کے معنے عربی زبان میں کثرت کے ہوتے ہیں اسی طرح فرماتا ہے وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا اَلَا تُحِبُّونَ اَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَكُمْ وَ اللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ " مؤمنوں کو چاہئے وہ عفو کریں، درگزر کی عادت ڈالیں اور اس کا فائدہ یہ بتایا کہ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا تعالیٰ تمہارے گناہ بخشے ، جب تم چاہتے ہو کہ خدا تمہارے گنا ہوں کو بخشے تو اے مومنو! تم بھی اپنے بھائیوں کے گناہوں کو بخشو، اگر تم اپنے بھائیوں کے گنا ہوں کو بخشو گے تو خدا تمہارے قصوروں کو معاف کرے گا.(۳) امن کو قائم کرنے کا ایک ذریعہ احسان ہے اسکے متعلق بھی قرآن کریم میں حکم موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ الْكَظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ احسان.وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ - کہ مؤمن وہ ہیں جو غصے کو دباتے ہیں جو لوگوں کو معاف کرتے ہیں اور پھر ان پر احسان بھی کرتے ہیں، اسی طرح فرماتا ہے اِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى " کہ اللہ تعالیٰ عدل، احسان، ایتائے ذی القربیٰ کا حکم دیتا ہے ان تینوں کی مثال میں میں ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان سے سنا اور جسے بعد میں میں نے اور کتابوں میں بھی پڑھا ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ نے اپنے ایک غلام کو کوئی برتن لانے کے لئے کہا.اتفاقاً وہ برتن اُس نے بے احتیاطی سے اُٹھایا اور وہ ٹوٹ گیا ، وہ برتن کوئی اعلیٰ قسم کا تھا حضرت امام حسنؓ کو غصہ آیا.اس پر اس غلام نے یہی کی آیت پڑھ دی اور کہنے لگا وَالكَظِمِينَ الْغَيْظَ کہ مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ وہ اپنے کی غصہ کو دبا لیں.حضرت امام حسنؓ نے فرمایا كَظَمُتُ الْغَيْظَ کہ میں نے اپنے غصہ کو دبا لیا اس و
۱۵۳ پر اُس نے آیت کا اگلہ حصہ پڑھ دیا اور کہنے لگا وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ کہ مؤمنوں کو صرف یہی حکم نہیں کہ وہ اپنے غصہ کو دبا لیں بلکہ یہ بھی حکم ہے کہ وہ دوسروں کو معاف کیا کریں.حضرت امام حسن فرمانے لگے عَفَوتُ عَنكَ جاؤ میں نے تمہیں معاف کر دیا اس پر وہ کہنے لگا واللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ اس سے آگے یہ بھی حکم ہے کہ مؤمن احسان کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت محسنوں کو حاصل ہوتی ہے اس پر حضرت امام حسنؓ نے فرمایا جاؤ میں نے تمہیں آزاد کر دیا.گویا پہلے انہوں نے اپنے غصہ کو دبایا پھر اپنے دل سے اسے معاف کر دیا کی اور پھر احسان یہ کیا کہ اسے آزاد کر دیا.دین کو دنیا پر مقدم رکھنا (۴) چوتھی بات جس کا امن کے قیام کے ساتھ تعلق ہے وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان کو یہ یقین نہ ہو کہ مرنے کے بعد بھی کوئی زندگی ہے اُس وقت تک وہ حقیقی قربانی نہیں کر سکتا ، کیونکہ کچھ قربانیاں تو ایسی ہیں جن کا دنیا میں بدلہ مل جاتا ہے مگر بیسیوں قربانیاں ایسی ہیں جن کی کا دنیا میں کوئی بدلہ نہیں ملتا.پس حقیقی قربانی بغیر اُخروی زندگی پر یقین رکھنے کے نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے بغیر انسان اپنی قربانی کو ضائع سمجھتا ہے اور چونکہ حقیقی قربانی کے بغیر امن نہیں ہوسکتا اس لئے جب تک اُخروی زندگی پر ایمان نہ ہو اُس وقت تک حقیقی امن دنیا کو نصیب نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ اس کے متعلق قرآن کریم میں توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے بَل تُؤثِرُونَ الْحَيوةَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَّاَبْقى کہ مؤمن تو دین کو دنیا پر مقدم کرتا ہے مگر تم وہ ہو جو دنیا کو دین پر مقدم کر رہے ہو.اِنَّ هذا لَفِى الصُّحُفِ الأولى صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَ مُؤسى " پہلے نبیوں کو بھی یہی تعلیم دی گئی کہ وَمُوسَى دین کو دنیا پر مقدم رکھو مگر ان کے اتباع نے اس تعلیم کو بھلا دیا اور دنیا کا امن برباد ہو گیا غرض یہ آٹھوں باتیں جو امن کے قیام کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں مسلمانوں میں پائی جاتی تھیں وہ قیامت کی پر ایمان رکھتے تھے وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے، وہ محسن تھے ، وہ مغفرت سے کام لیتے تھے، وہ خیر خواہ تھے، وہ بدظنی سے بچتے تھے ، وہ ظلم کا ارتکاب نہیں کرتے تھے ، وہ لالچ سے محفوظ رہتے تھے اور وہ غصے کو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دیتے تھے.امامت کے وجود کا ظہور (۷) ساتویں بات یہ ہے کہ مساجد کے ذریعہ قیام امامت کو قوم کے سامنے رکھا جاتا ہے تا کہ یہ سبق بھولے نہیں اور
۱۵۴ امام حقیقی کے وقت کام آئے ، دوسرے سابقون کی نیکیاں قوم میں زندہ رکھنے کا خیال رہے.در حقیقت جس طرح مسجد، خانہ کعبہ کی یاد کو تازہ رکھتی ہے اس طرح امام نبوت کی یاد کو تازہ رکھتا ہے.اب دیکھ لو اس امر کو بھی مسلمانوں نے تازہ کیا اور مقام ابراہیم کو مصلی بنایا یعنی امامت کا وجود ظاہر کیا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر صحابہ نے خلافت کو قائم کیا اور امامت کو زندہ رکھا.پہلے حضرت ابوبکر ، پھر حضرت عمرؓ، پھر حضرت عثمان اور پھر حضرت علی مقام ابراہیم پر کھڑے رہے، گویا با لکل مسجد کا نمونہ تھا جس طرح مسجد میں لوگ ایک شخص کو امام بنا لیتے ہیں اس طرح صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہوتے ہی ایک شخص کو اپنا امام بنالیا.اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا.گجرات کے ایک دوست نے سنایا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کی خبر پھیلی تو ایک مولوی کہنے لگا کہ جماعت احمدیہ انگریزی خوانوں کی جماعت ہے اسے دین کا کچھ پتہ نہیں اب فیصلہ ہو جائیگا کہ مرزا صاحب نبی تھے یا نہیں ؟ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے اور تم میں چونکہ انگریزی خوانوں کا غلبہ ہے وہ ضرور انجمن کے ہاتھ میں کام دیدیں گے اور اس طرح ثابت ہو جائے گا کہ مرزا صاحب نبی نہیں تھے.دوسرے ہی دن یہاں سے تار چلا گیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ ہو گئے ہیں یہ خبر جماعت کے دوستوں نے اس مولوی کو بھی جا کر سنا دی.وہ کہنے لگا مولوی نور الدین دین سے واقف تھا وہ چالا کی کر گیا ہے اس کے مرنے پر دیکھنا کہ کیا بنتا ہے.جب حضرت خلیفہ اوّل فوت ہوئے تو اُس وقت وہ ابھی زندہ تھا اور اُس وقت چونکہ یہ شور پیدا ہو چکا تھا کہ بعض لوگ کہتے ہیں اصل جانشین انجمن ہے اور بعض خلافت کے قائل ہیں اس لئے اُس نے سمجھا کہ اب تو ی جماعت ضرور ٹھوکر کھا جائے گی.چنانچہ اس نے کہنا شروع کر دیا کہ میری بات یا د رکھنا اب ضرور تم نے انجمن کو اپنا مطاع تسلیم کر لینا ہے مگر معاً یہاں سے میری خلافت کی اطلاع چلی گئی.یہ خبر سن کر وہ مولوی کہنے لگا کہ تم لوگ بڑے چالاک ہو.خلافت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کو قائم رکھتی ہے نے جو یہ فرمایا کہ ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے تو اس لئے کہ مسجد سے اس کی مشابہت ثابت ہو جس طرح مسجد بنائی ہی اسی لئے جاتی ہے تا کہ عبادت میں اتحاد قائم رہے اسی طرح نبیوں کی جماعت قائم ہی اسی لئے کی جاتی ہے تاکہ عبودیت میں اتحاد قائم رہے.پس جس
۱۵۵ طرح مسجد خانہ کعبہ کی یاد کو قائم رکھتی ہے اسی طرح خلافت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کو قائم رکھتی ہے یہی وہ حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا تھا کہ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى.ایک خانہ خدا قائم کر دیا گیا ہے اب تم بھی ابراہیمی طریق پر زندگی بسر کرو اور اس کی رُوح کو زندہ رکھو.نام ابراہیمی کو مصلی بنانے کا مفہوم مقام ابراہیم کومصلی بنانے کے یہ معنے نہیں کہ ہر شخص ان کے مصلی پر جا کر کھڑا ہو یہ تو قطعی طور پر ناممکن ہے اگر اس سے یہی مراد ہوتی کہ مقام ابراہیم پر نماز پڑھو تو اول تو یہی جھگڑا رہتا کہ حضرت ابراہیم نے یہاں نماز پڑھی تھی یا وہاں اور اگر بالفرض یہ پتہ یقینی طور پر بھی لگ جاتا کہ انہوں نے کہاں نماز پڑھی تھی تو بھی ساری دنیا کے مسلمان وہاں نماز نہیں پڑھی سکتے تھے.صرف حج میں ایک لاکھ کے قریب حاجی شامل ہوتے ہیں، اگر حنفیوں کی طرح نماز میں مُرغ کی طرح ٹھونگیں ماری جائیں تب بھی ایک شخص کی نماز پر دو منٹ صرف ہونگے اس کے معنے یہ ہوئے کہ ایک گھنٹہ میں تمہیں اور چوبیس گھنٹے میں سات سو میں آدمی وہاں نماز پڑھ سکتے ہیں اب بتاؤ کہ باقی جو ۹۹ ہزار ۲۸۰ رہ جائیں گے وہ کیا کریں گے اور باقی مسلم دنیا کے لئے تو کوئی صورت ہی ناممکن ہوگی.پس اگر اس حکم کو ظاہر پر محمول کیا جائے تو اس پر عمل ہو ہی نہیں سکتا.پھر ایسی صورت میں فسادات کا بھی احتمال رہتا ہے بلکہ ایک دفعہ تو محض اس جھگڑے کی وجہ سے مکہ میں ایک قتل بھی ہو گیا تھا پس اس آیت کے یہ معنے نہیں بلکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اس میں اللہ تعالیٰ نے امامت کی طرف اشارہ کیا ہے اور ہدایت دی ہے کہ تمہارا ایک امام ہو تا کہ اس طرح سنتِ ابراہیمی پوری ہوتی رہے، درحقیقت آیت اِنِّی جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِى قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِى الظَّلِمِينَ وَ إِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَ اَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى میں دو امامتوں کا ذکر کیا گیا ہے پہلے فرمایا کہ اِنِّی جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا میں تجھے امام یعنی نبی بنانے والا ہوں.اس پر حضرت ابراہیم نے عرض کیا وَ مِنْ ذُرِّيَّتِی میری ذریت کو بھی نبی بنا، کیونکہ اگر میں مر گیا تو کام کس طرح چلے گا.خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بات غلط ہے، تمہاری اولاد میں سے تو بعض زمانوں میں ظالم ہی ظالم ہونے والے ہیں، یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ان ظالموں کے سپرد یہ کام کیا جائے.ہاں ہم تمہاری اولاد کو یہ حکم دیتے ہیں کہ
۱۵۶ سنت ابرا نہیمی کو قائم رکھیں جو لوگ ایسا کریں گے ہم ان میں سے امام بناتے جائینگے.اس طرح ابراہیم ان میں زندہ رہے گا اور وہ خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ انعامات سے حصہ لیتے چلے جائیں گے.پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو امامتوں کا ذکر کیا ہے، ایک امامت نبوت جو خدا تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست ملتی ہے اور دوسری امامت خلافت جس میں بندوں کا بھی دخل ہوتا ہے اور جس کی طرف وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّی میں اشارہ کیا گیا ہے یعنی اس میں کسب کا دخل ہے پس تم اس کے لئے کوشش کرتے رہو.غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو یہ ہدایت کی ہے کہ جب امامت نبوت نہ ہو تو امامت خلافت کو قائم کر لیا کرو، ورنہ اگر ظاہری معنے لئے جائیں تو اس حکم پر کوئی عمل نہیں کر سکتا.اسلام میں مہمان نوازی پر خاص زور (۸) آٹھویں بات یہ ہے کہ مساجد مسافروں کے لئے بنائی جاتی ہیں یہ خوبی بھی کی اسلام اور مسلمانوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے.کیونکہ شریعتِ اسلامی میں مسافروں کی مہمان نوازی کا شدید حکم ہے خود قرآن کریم نے ابنُ السَّبِیل کی خدمت کو خاص احکام میں شامل کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی احادیث میں مسلمانوں کو مہمان نوازی کی بار بار تلقین کی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اس حکم پر اس طرح عمل کیا جاتا تھا کہ جو مسافر آتے وہ مسجد میں آ کر ٹھہر جاتے اور روزانہ یہ اعلان کر دیا جاتا کہ آج مسجد میں اس قدر مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں جس جس کو توفیق ہو وہ انہیں اپنے گھروں میں لے جائے اور ان کی مہمانی کرے.ایک دفعہ ایسا ہی واقعہ پیش آیا مسجد میں ایک مہمان آ گیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کی طرف دیکھ کر فرمایا کیا اس مہمان کو اپنے گھر لے جا سکتے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ بہت اچھا.چنانچہ وہ اسے لیکر گھر پہنچا اور بیوی سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سپرد آج ایک مہمان کیا ہے کیا گھر میں کچھ کھانے کے لئے موجود ہے؟ اس نے کہا کہ بس ایک آدمی کا کھانا ہے میری تو یہ خواہش تھی کہ آج میں اور تم دونوں فاقہ کرتے اور کھانا بچوں کو کھلا دیتے مگر اب چونکہ مہمان آ گیا ہے اس لئے اب کھانا مہمان کو کھلا دیتے ہیں اور بچوں کو کسی طرح تھکا کر میں سلا دیتی ہوں.صحابی نے کہا یہ تو ہو جائے گا مگر ایک بڑی مشکل ہے.بیوی نے پوچھا وہ کیا ؟ خاوند کہنے لگا جب یہ کھانا کھانے بیٹھے تو اصرار کرے گا کہ ہم بھی کی اس کے ساتھ کھانا کھا ئیں پھر ہم کیا کریں گے؟ (اُس وقت تک پردہ کا حکم نازل نہیں ہوا تھا )
۱۵۷ بیوی کہنے لگی کہ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے اور وہ یہ کہ جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو میں اور تم دونوں اس کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اُس وقت تم مجھے کہنا کہ روشنی کم ہے فتیلہ ذرا او پر کر دو.اور میں روشنی کو تیز کرنے کے بہانے سے اُٹھوں گی اور چراغ کو بجھا دونگی تا کہ اندھیرا ہو جائے اور وہ دیکھ نہ سکے کہ ہم اس کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں یا نہیں.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.دستر خوان بچھا تو خاوند کہنے لگا روشنی کچھ کم ہے ذرا اونچی کر دو.بیوی اُٹھی اور اُس نے چراغ کو بجھا دیا.جب اندھیرا ہو گیا تو خاوند کہنے لگا آگ سلگاؤ اور چراغ روشن کرو.بیوی نے کہا آگ تو ہے نہیں، اُس نے کہا ہمسایہ سے مانگ لو اس نے کہا اس وقت ہمسائے کو کون جاکر تکلیف دے بہتر ہے کہ اسی طرح کھا لیا جائے.مہمان بھی کہنے لگا اگر اندھیرا ہو گیا ہے تو کیا حرج ہے اسی طرح کھانا کھائیں گے.چنانچہ اندھیرے میں ہی میاں بیوی اس کے قریب بیٹھ گئے اور مہمان نے کھانا کھانا شروع کر دیا ، خاوند اور بیوی دونوں نے چونکہ مشورہ کیا ہو ا تھا اس لئے مہمان تو کھاتا رہا اور وہ دونوں خالی منہ ہلاتے رہے اور یہ ظاہر کرتے رہے کہ گویا وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں.خیر کھانا ختم ہوا اور مہمان چلا گیا.اللہ تعالیٰ کو ان دونوں میاں بیوی کی یہ بات ایسی پسند آئی کہ رات کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دیدی.جب صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا لوگو! کچھ پتہ بھی ہے کہ رات کو کیا ہوا؟ صحابہ نے کہا يَا رَسُولَ اللہ! ہمیں تو معلوم نہیں اس پر آپ نے یہ تمام واقعہ بیان کیا اور فرمایا کہ جب میاں بیوی دونوں اندھیرے میں بیٹھے خالی منہ ہلا رہے تھے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ ان کی اس حرکت پر عرش پر ہنسا ، پھر آپ نے ہنستے ہوئے فرمایا جب اس بات پر اللہ تعالیٰ ہنسا ہے تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کیوں نہ ہے.اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ صحابہ مہمان نوازی کو کس قدر اہم قرار دیتے تھے اور کس طرح مسجدوں کی طرح ان کے گھر کے دروازے مہمانوں کے لئے کھلے رہتے تھے.اسی طرح ایک واقعہ ہم نے بچپن میں اپنے کورس میں پڑھا تھا بعد میں اس کا پڑھنا کسی بڑی کتاب میں یاد نہیں.وہ اس طرح ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی آیا جو بڑا ہی خبیث الفطرت تھا.رات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سونے کے لئے بستر دیا، تو اُس نے دشمنی اور عداوت کی وجہ سے اس بستر میں پاخانہ پھر دیا اور علی الصبح اُٹھ کر چلا گیا مگر جاتے ہوئے وہ اپنی کوئی چیز بھول گیا.جب صبح ہوئی تو کسی خادمہ نے دیکھ لیا اور وہ
۱۵۸ غصہ میں آ کر اُس یہودی کو گالیاں دینے لگ گئی.اتفاقاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اُس کی آواز کو سن لیا اور جب دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ یہودی بستر میں پاخانہ پھر کر چلا گیا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانی لاؤ میں خود دھو دیتا ہوں چنانچہ وہ پانی لائی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بستر کو صاف کرنا شروع کر دیا.اسی دوران میں یہودی اپنی کھولی ہوئی چیز لینے کے لئے آ گیا.جب وہ قریب آیا تو اس نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بستر کو دھو رہے ہیں اور اُس خادمہ سے کہہ رہے ہیں کہ چُپ چُپ گالیاں مت دو.اگر یہ بات پھیل گئی تو وہ شخص شرمندہ ہو گا.اس بات کا اس یہودی کے دل پر اتنا اثر ہو ا کہ اُسی وقت مسلمان ہو گیا.تو ضیافت میں مسلمانوں نے کمال کر دکھایا تھا اور مسلمانوں کے گھر مسجدیں بن گئے تھے جس طرح مسجد میں مہمان آ کر ٹھہرتے ہیں اسی طرح ان کے دروازے ہر وقت مسلمانوں کیلئے کھلے رہتے.اسی بناء پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر قصبہ پر تین دن کی ضیافت فرض ہے اور اگر کسی گاؤں کے رہنے والے اس فرض کو ادا نہ کریں تو اُن سے تین دن تک زبر دستی دعوت لینے کی اجازت ہے 29 بلکہ اس حکم کا مسلمانوں پر اتنا اثر تھا کہ ایک صوفی کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ کماتے نہیں تھے ایک دفعہ کسی دوسرے بزرگ نے انہیں نصیحت کی کہ یہ عادت ٹھیک نہیں.ساری دنیا کماتی ہے آپ کو بھی رزق کے لئے کچھ نہ کچھ جد و جہد کرنی چاہئے.انہوں نے کہا کہ مہمان اگر اپنی روٹی خود پکائے تو اس کی میں میزبان کی ہتک ہوتی ہے.میں خدا کا مہمان ہوں اگر خود کمانے کی کوشش کروں تو اس سے خدا ناراض ہوگا.انہوں نے کہا ٹھیک ہے آپ خدا کے مہمان ہوں گے مگر آپ کو معلوم ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہمانی صرف تین دن ہوتی ہے وہ کہنے لگے یہ تو مجھے معلوم ہے مگر میرے خدا کا ایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے جس دن تین ہزار سال ختم ہو جائیں گے اُس دن میں بھی اس کی مہمانی چھوڑ دونگا.ذکر الہی اور دین کے لئے قربانی کرنے والوں کا جتھا (۹) نویں بات یہ ہے کہ مساجد کا ایک فائدہ شہر یوں کے لئے ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وَالْعَكِفِينَ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے.دوسری جگہ قائِمِینَ کا لفظ آتا ہے اور ان ہر دو کے مفہوم میں شہری ہی داخل ہیں اور شہر یوں کو مسجد سے پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ وہاں ہر قسم کے شور وشغب سے محفوظ ہو کر ذکر الہی کرتے
۱۵۹ اور عبادت الہی بجالاتے ہیں اور یہی کام سب انبیاء کی جماعتیں کرتی ہیں ایک جتھا ذکر الہی کے لئے بن جاتا ہے اور وہ عبادت کے معاملہ میں ایک دوسرے سے تعاون کرتا ہے جو ا کیلے اکیلے انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا.مسلمانوں میں بھی یہی طریق رائج تھا بعض بعض کو پڑھاتے تھے اور بعض دوسروں کو لوگوں کے ظلموں سے بچاتے تھے جیسے حضرت ابو بکر نے بہت سے غلام آزاد کئے اگر وہ لوگ متفرق ہوتے تو یہ فائدہ نہ ہو سکتا.قومی ترقی کیلئے اجتماعی کاموں کی تلقین (ب) مساجد کا شہر یوں کو دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اجتماعی عبادت کا کام دیتی ہیں.یہ کام بھی انبیاء کی جماعت کا ہوتا ہے اور مسلمانوں نے کیا.مثلاً وہ چندے جمع کر کے غرباء کی خدمت کرتے ، اکٹھے ہو کر جہاد کرتے ، اسی طرح قوم کی ترقی کے لئے اقتصادی اور علمی کام سرانجام دیتے.امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینے والا گروہ (1) دسواں کام مساجد کا یہ بتایا کہ ہے وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ یعنی مساجد میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف ہوتے ہیں مسلمانوں نے یہ نمونہ بھی دکھایا چنانچہ قرآن کریم میں حکم وَلْتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَّدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ کہ تم میں ایک ایسی امت ہونی چاہئے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے انہیں نیک باتوں کا حکم دے اور انہیں بُری باتوں سے روکے، یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.اس حکم کے مطابق مسلمانوں میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی تھی جن کا دن رات یہی کام تھا مثلاً حضرت عبد اللہ بن عمرؓ، حضرت عبداللہ بن عمرو، حضرت ابوذر غفاری، حضرت سلمان فارسی، حضرت ابو ہریرہؓ اور حضرت انس بن مالک و غیرہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اس غرض کے لئے وقف کر دی تھیں اور ان لوگوں کا کام صبح و شام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علیم دین سیکھنا اور اسے لوگوں تک پہنچانا تھا.ان کے علاوہ وہ لوگ بھی تھے جو گو کچھ دنیوی کام بھی کرتے تھے مگر اکثر وقت اسی کام میں لگے رہتے تھے ان میں حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی وغیرہ رضوان اللہ علیہم شامل تھے.ان لوگوں نے ایسے کٹھن او
17.صبر آزما حالات میں یہ کام کیا ہے کہ ان کی زندگی کے واقعات پڑھ کر رونا آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ کی دین کیلئے فاقہ کشی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری چھ سالوں میں داخلِ اسلام ہو ا تھا اور چونکہ اسلام پر کئی سال گزر چکے تھے اس لئے میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ اب میں ہر وقت مسجد میں بیٹھا رہوں گا تا کہ جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرما ئیں میں فوراً سن لوں اور اُسے دوسرے لوگوں تک پہنچا دوں.چنانچہ انہوں نے مسجد میں ڈیرہ لگا لیا اور ہر وقت وہیں بیٹھے رہتے.ان کا بھائی انہیں کبھی کبھی کھانا بھجوا دیتا لیکن اکثر انہیں فاقے سے رہنا پڑتا.وہ خود بیان کرتے ہیں کہ بعض دفعہ کئی کئی دن کا فاقہ ہو جاتا اور شدت بھوک کی وجہ سے میں بے ہوش ہو جاتا.لوگ یہ سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے اور وہ میرے سر میں جوتیاں مارنے لگ جاتے کیونکہ عرب میں اُن دنوں مرگی کا علاج یہ سمجھا جاتا تھا کہ آدمی کے سر پر جوتیاں ماری جائیں.غرض میں تو بھوک کے مارے بیہوش ہوتا اور وہ مجھے مرگی زدہ سمجھ کر میرے سر پر تڑا تر جوتے مارتے چلے جاتے.کہتے ہیں اسی طرح ایک دفعہ میں مسجد میں بھو کا بیٹھا تھا اور حیران تھا کہ اب کیا کروں مانگ میں نہیں سکتا تھا کیونکہ مانگتے ہوئے مجھے شرم آتی تھی اور حالت یہ تھی کہ کئی دن سے روٹی کا ایک لقمہ تک کی پیٹ میں نہیں گیا تھا.آخر میں مسجد کے دروازہ پر کھڑا ہو گیا کہ شاید کوئی مسلمان گزرے اور میری حالت کو دیکھ کر اسے خود ہی خیال آ جائے اور وہ کھانا بھجوا دے.اتنے میں میں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر چلے آ رہے ہیں.میں نے اُن کے سامنے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھ دی جس میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کا ذکر آتا ہے اور میں نے کہا کہ اس کے معنے کیا ہیں؟ حضرت ابو بکر نے اُس آیت کی تفسیر بیان کی اور آگے چل پڑے.حضرت ابو ہریرۃ کہتے ہیں مجھے بڑا غصہ آیا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ مجھے کیا تفسیر کم آتی ہے کہ یہ مجھے اس کی تفسیر بتانے لگے ہیں.خیر وہ گئے تو حضرت عمرؓر آ گئے.میں نے اپنے دل میں کہا یہ بڑا زیرک انسان کی ہے یہ ضرور میرے مقصد کو سمجھ لے گا چنانچہ میں نے ان کے سامنے بھی قرآن کی وہی آیت پڑھ دی اور کہا کہ اس کے معنے کیا ہیں؟ انہوں نے بھی اُس آیت کی تفسیر کی اور آگے چل پڑے.مجھے پھر غصہ آیا کہ کیا عمر مجھ سے زیادہ قرآن جانتے ہیں؟ میں نے تو اس لئے معنے پوچھے تھے کہ انہیں میری حالت کا احساس ہو مگر یہ ہیں کہ معنے کر کے آگے چل دیئے.جب
.حضرت عمرؓ بھی چلے گئے تو میں سخت حیران ہوا کہ اب کیا کروں؟ اتنے میں میرے کانوں میں ایک نہایت ہی شیریں آواز آئی کہ ابو ہریرہ کیا بھوک لگی ہے؟ میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے، پھر آپ نے فرمایا ، ادھر آؤ ہمیں بھی آج فاقہ تھا مگر ابھی ایک مسلمان نے دودھ کا پیالہ تحفہ بھیجا ہے پھر آپ نے فرمایا مسجد میں نظر ڈالو، اگر کوئی اور شخص بھی کی بھو کا بیٹھا ہو تو اسے بھی اپنے ساتھ لے آؤ.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں میں مسجد میں گیا تو ایک نہ دو بلکہ اکٹھے چھ آدمی میرے ساتھ نکل آئے.میں نے اپنے دل میں کہا کہ آج شامت آئی.ودھ کا پیالہ تو مجھ اکیلے کیلئے بھی بمشکل کفایت کرتا مگر اب تو کچھ بھی نہیں بچے گا.بھلا جہاں سات آدمی دودھ پینے والے ہوں وہاں کیا بچ سکتا ہے مگر خیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا میں ان کو اپنے ہمراہ لیکر کھڑکی کے پاس پہنچا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دودھ کا پیالہ بجائے مجھے دینے کے اُن میں سے ایک کے ہاتھ میں دیدیا.میں نے کہا بس اب خیر نہیں ، اس نے دودھ چھوڑ نا نہیں اور میں بھوکا رہ جاؤں گا.خیر اس نے کچھ دودھ پیا اور پھر چھوڑ دیا میں نے اپنے دل میں کہا کہ شکر ہے کچھ تو دودھ بچا ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دودھ دینے کی بجائے ایک دوسرے شخص کو پیالہ دیا کہ اب تم پیو.جب وہ بھی سیر ہو کر پی چکا تو میں نے کہا اب تو میری باری آئے گی اور میں اس بات کا منتظر تھا کہ اب پیالہ مجھے دیا جائیگا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پیالہ لے کر ایک اور شخص کو دیدیا اور میں نے سمجھا کہ بس اب خیر نہیں ، اب تو دودھ کا بچنا بہت ہی مشکل ہے مگر اس کے پینے کے بعد بھی دودھ بیچ رہا.اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور کو پیالہ دیدیا پھر اس کے بعد ایک اور کو دیدیا.اسی طرح چھ آدمی جو میرے ساتھ آئے تھے سب کو باری باری دیا اور آخر میں مجھے دیا اور فرمایا ابوہریرہ اب تم دودھ پیو.میں ضمناً یہ ذکر کر دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے معجزات کوئی خیالی باتیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء وصلحاء کو ایسے نشانات بھی دیتا ہے تا کہ ماننے والے اپنے یقین اور ایمان میں ترقی کریں مگر یہ نشانات صرف مؤمنوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں تا کہ ایمان میں غیب کا پہلو قائم رہے ) غرض حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں میں نے پیالہ لیا اور دودھ پینا شروع کر دیا اور اس قدر پیا اس قدر پیا کہ میری طبیعت بالکل سیر ہو گئی اور میں نے پیالہ رکھدیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو ہریرہ ! اور پیو.میں نے پھر کچھ دودھ پیا اور
۱۶۲ اك پیالہ رکھدیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابو ہریرہ ! اور پیو.میں نے اس پر پھر دودھ پینا شروع کر دیا یہاں تک کہ مجھے یوں محسوس ہوا کہ دودھ کی تراوت میرے ناخنوں تک پہنچ گئی ہے، آخر میں نے کہا یا رَسُولَ الله ! اب تو بالکل نہیں پیا جا تا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور آپ نے پیالہ لے کر بقیہ دودھ خود پی لیا.اسکے غرض صحابہ کی قربانی کا یہ حال تھا کہ وہ بعض دفعہ فاقوں پر فاقے کرتے مگر مسجد میں بیٹھے رہتے تا کہ ایسا نہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرما ئیں اور وہ اسے سننے اور لوگوں تک پہنچانے سے محروم رہ جائیں.اس کے یہ معنی نہیں کہ انہیں ہمیشہ فاقے آتے تھے کیونکہ مسلمان انہیں کھلاتے بھی رہتے تھے اور بعض صحابہ کے گھروں سے تو انہیں باری باری کھانا آتا تھا البتہ کبھی کبھی انہیں فاقہ بھی برداشت کرنا پڑتا تھا.ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت ہر جمعرات یا جمعہ کو انہیں چقندر پکا کر بھیجتی تھی اس طرح کسی دن کو ئی صحابی کھانا بھجوا دیتا اور کسی دن کوئی.جب وہ عورت فوت ہو گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم نہ ہوا.چند دن کے بعد آپ نے دریافت فرمایا کہ فلاں عورت کئی دنوں سے دیکھی نہیں.صحابہ نے عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! وہ تو فوت ہو گئی ہے.آپ نے فرمایا تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟ وہ تو اصحاب الصفہ کو چقند ر کھلایا کرتی تھی اگر تم مجھے بتاتے تو میں خود اس کا جنازہ پڑھاتا.۷۲ غرض صحابہ نے وہ سب کام کر کے دکھائے جو مسجد سے مقصود ہوتے ہیں وہ عبادت کے محافظ تھے ، وہ عابدوں کے جمع کرنے والے تھے ، وہ شر سے بچانے والے تھے ، وہ امن کو قائم کرنے والے تھے ، وہ امامت کو زندہ رکھنے والے تھے وہ مسافروں کے لئے ملجاء، وہ متوطنوں کے لئے مالی ، وہ واقفین زندگی کے لئے جائے پناہ تھے.ان کے مقابل پر یہ شاہی مسجد اور مکہ مسجد اور جامع مسجد اور موتی مسجد بھلا کیا حقیقت رکھتی ہیں.اس روحانی مسجد نے ایک گھنٹہ میں جو ذکر الہی کا نمونہ دکھا یا وہ ان مساجد میں صدیوں میں بھی ظاہر نہ ہوا.مگر افسوس کہ لوگ ان پتھر اور اینٹ کی مسجدوں کو دیکھتے اور ان کے بنانے والوں کی ہمت پر واہ واہ کرتے ہیں ، لیکن قرآن، حدیث اور تاریخ کے صفحات پر سے اُس عظیم الشان مسجد کو نہیں دیکھتے جس کا بنانے والا دنیا کا سب سے بڑا انجینئر محمد نامی تھا ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور جس مسجد کی بناء سرخ و سفید پتھروں سے نہیں بلکہ مقدس سینوں میں لٹکے ہوئے پاکیزہ موتیوں سے تھی.یہی وہ مسجد ہے جس کو دیکھ کر ہر عقلمند اور شریف انسان جس کے اندر جذبات شکر اور احسان مندی پائے جاتے ہوں بے اختیار
۱۶۳ کہہ اُٹھتا ہے اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ (۵) مادی قلعے کے مقابلہ میں قرآنی قلعہ ایک بات میں نے یہ بیان کی تھی کہ میں نے اس سفر میں کئی قلعے دیکھے چنانچہ گولکنڈہ کا قلعہ دیکھا ، فتح پور سیکری کا قلعہ دیکھا، اسی طرح دہلی کے کئی قلعے دیکھے اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ :- (۱) ان قلعوں کے ذریعہ سے کیسے کیسے حفاظت کے سامان پیدا کئے گئے ہیں.(۲) اور پھر ساتھ ہی میں نے اپنے دل میں کہا کہ کس طرح یہ حفاظت کے سامان خودمٹ گئے ہیں اور ان کو بنانے والا اب کوئی نہیں کیونکہ ان حکومتوں کا نام لیوا کوئی نہیں رہا، بلکہ اب تو بہت سے قلعوں میں جانور آزادانہ پھرتے ہیں اور گوبر سے ان کے صحن آٹے ہوئے ہیں.بہت سے قلعوں میں گوجروں نے گھر بنارکھے ہیں کیونکہ انہیں شہر کے باہر مکان چاہئیں اور یہ قلعے ان کے کام خوب آتے ہیں.کئی قلعے جو کسی حد تک محفوظ ہیں اب ان حکومتوں کے دشمنوں کے ہاتھوں میں ہیں جنھوں نے وہ قلعے بنائے تھے.ان بادشاہوں کی اولاد کو تو ان قلعوں میں جانے کی اجازت نہیں ، لیکن ان کے دشمن ان میں اکڑتے پھرتے ہیں اور اپنی حکومت کے گھمنڈ میں ان کی گردنیں لقا کبوتروں کی طرح امیٹھی ہوئی ہیں.دتی کا قلعہ جس میں داخل ہوتے ہوئے ہندو راجے بھی سات سات دفعہ جھک کر سلام کرتے تھے اب بقالوں اور بنیوں کے قبضہ میں ہے اس سے پہلے سمندر پار کے انگریزوں کے قبضہ میں تھا اور اس کے بنانے والے مغل بادشاہوں کے کئی شہزادے اس کے سامنے مشکیزوں سے پانی پلا کر پیسے کماتے ہیں اور بے چھنے آٹے کی روٹی سے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے ہیں ان میں اکٹر کر چلنے والے بادشاہوں کی روحیں آج اپنی اولادوں کی اس بیکسی کو دیکھ کر کس طرح بے تاب ہو رہی ہونگی.ان قلعوں کو بنانے والوں نے تو یہ قلعے اس لئے بنائے تھے کہ یہ ہماری حفاظت کریں گے مگر یہ قلعے بھی مٹ گئے اور ان کو بنانے والے بھی کوئی نہ رہے پس میں نے سوچا کہ ان کی قلعوں کو ان بادشاہوں نے کیوں بنا یا تھا؟ اور پھر خود ہی میرے دل نے اس سوال کا یہ جواب
دیا کہ اس لئے کہ دشمن اُن کے ملک پر حملہ نہ کر سکے اور ان کی رعایا دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رہے مگر میں نے دیکھا کہ باوجود ان قلعوں کے دشمن غالب آتا رہا اور ان قلعوں کی دیواروں کو توڑ کر اندر داخل ہوتا رہا.گولکنڈہ کا قلعہ بڑی اعلی جگہ پر ہے آخر اورنگ زیب نے اسے فتح کر ہی لیا.اسی طرح دہلی اور آگرہ کے قلعے مغلوں نے بنائے اور انگریزوں نے ان کو توڑ دیا اور اب وہ ہندوؤں کے ہاتھ میں ہیں.پس میں نے سوچا کہ کیا کوئی ایسا قلعہ بھی ہے جسے عالم روحانی میں قلعہ کا مقام دیا گیا ہو اور جو ان شاندار قلعوں سے زیادہ مضبوط اور پائدار ہونے کا مدعی ہو.قلعہ کیوں بنائے جاتے ہیں؟ مگر میں نے اس تلاش سے پہلے یہ غور کرنا ضروری پر پہنچا کہ تین باتوں کے لئے.سمجھا کہ قلعے کیوں بنائے جاتے ہیں اور میں اس نتیجہ اوّل.قلعے اس لئے بنائے جاتے ہیں تا کہ ملک کے لئے وہ نقطہ مرکزی ہو جائیں اور فوج وہاں جمع ہو کر اپنے نظام کو مضبوط کر سکے اور اطمینان سے ملکی ضرورتوں کے متعلق غور کر سکے.دوم.قلعے اس لئے بنائے جاتے ہیں تا کہ غیر پسندیدہ عناصر اندر نہ آسکیں اور جس کو روکنا چاہیں اس قلعہ کی فصیلیں روک دیں اور اندر امن رہے.سوم.قلعے اس لئے بنائے جاتے ہیں تا کہ اردگرد کے علاقہ کی حفاظت کر کے امن قائم رکھیں چنانچہ قلعوں پر تو ہیں لگا دی جاتی ہیں یا پُرانے زمانہ میں منجنیقیں لگا دی جاتی تھیں اور ان سے صرف قلعہ ہی کی نہیں بلکہ اردگرد کے علاقہ کی بھی حفاظت ہوتی تھی مگر یہ سب تدبیریں یا تو ناقص ثابت ہوتیں یا پھر ایک وقت تک کام دیتی تھیں.اس کے بعد یہ قلعے صرف اپنے بنانے والوں کی یاد تازہ کر کے زائرین کے لئے لاچار آنسو بہانے کا موجب ہوتے تھے.ان قلعوں کو دیکھ کر کہ آیا ان عبرت پیدا کرنے والے قلعوں کے مقابلہ میں کوئی خدائی قلعہ بھی ہے جو ان اغراض کو بھی پورا کرتا ہو جن کے لئے یہ قلعے بنائے جاتے تھے اور پھر امتدادِ زمانہ سے پیدا ہونے والی بلاؤں سے بھی محفوظ ہو؟ غور کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ ایک روحانی قلعہ کا ذکر کی قرآن میں ہے جسے خدا تعالیٰ نے انہی اغراض کے لئے بنایا جن کے لئے قلعے بنائے جاتے تھے اور اسے ایسا مضبوط بنایا کہ کوئی نیم اسے فتح نہیں کر سکتا اور جو سب دوسرے قلعوں پر غالب آجاتا ہے اور قیامت تک اسی طرح کھڑا رہے گا جس طرح کہ وہ ابتداء میں تھا اور کبھی بھی کسی کی دشمن کے ہاتھ میں اس طرح نہیں آئے گا کہ اپنے بنانے والے کی غرض کو پورا نہ کر سکے.
۱۶۵ بیت اللہ کی اہم اغراض قرآن کریم میں اس قلعہ کا ذکر ان الفاظ میں آتا ہے وَاذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْناً وَ اتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّى وَ عَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَ إِسْمَعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ.وَإِذْقَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلُ هذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلاً ثُمَّ اَضْطَرُّةٌ إِلى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ٥ اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بیت اللہ کو مَثَابَہ بنایا.مَثَابَہ کے معنے ہیں مجتمع الناس یعنی لوگوں کے لئے جمع ہونے کا مقام.اسی طرح مَشَابَہ کے ایک معنی لغت میں کنویں کی منڈیر کے بھی آتے ہیں.۷۵ گویا جس طرح قلعہ اس لئے بنایا جاتا ہے تا کہ فوج وہاں جمع ہو کر اپنے نظام کو مضبوط کر سکے اسی طرح خدا نے بیت اللہ کو لوگوں کے جمع ہونے کا مقام بنایا.اور جس طرح قلعہ کی یہ غرض ہوتی ہے کہ ناپسندیدہ عناصر اندر نہ آسکیں اسی طرح بیت اللہ کو خدا نے منڈیر بنایا تا کہ غیر پسندیدہ عناصر اس سے دُور رہیں.پھر قلعہ کی تیسری غرض اردگرد کے علاقہ کی حفاظت کر کے امن قائم رکھنا ہوتی ہے یہ غرض بھی بیت اللہ میں پائی جاتی ہے چنانچہ خدا تعالیٰ نے کی امنا کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ اسے قیامِ امن کے لئے بنایا گیا ہے گویا بیت اللہ کی نظام کے قیام کا مرکز بھی ہے غیر پسندیدہ عناصر کے دُور رکھنے کا ذریعہ بھی ہے اور دنیا کے امن کے قیام کا سبب بھی ہے.پھر میں نے اور غور کیا تو مجھے قرآن کریم میں ایک یہ آیت نظر آئی کہ جَعَلَ اللهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ کہ ہم نے کعبہ کو جو خدا تعالیٰ کا بنایا ہو ا محفوظ گھر ہے قِيَامًا لِلنَّاسِ بنایا ہے.قیام کے معنی نظام یا ستون کے ہوتے ہیں کے اور ان تمام چیزوں کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے جن کے ذریعہ سے کوئی چیز اپنی اصل حالت پر رہے اور قیام کے معنے خبر گیر اور نگران اور انتظام کرنے کے بھی ہوتے ہیں کے پس قِيَامًا لِلنَّاسِ کے معنے ہوئے کہ کعبہ انسانوں کے نظام کو درست رکھنے کے لئے اور ان کی محبت کو قائم رکھنے کے لئے اور ان کی حالت کو درست اور ٹھیک رکھنے کے لئے اور ان کی خبر گیری اور نگرانی کے لئے بنایا گیا ہے.جب میں نے یہ آیت پڑھی تو میں کی نے کہا کہ یہ وہ چیز ہے جو قلعہ کے مشابہ ہے کیونکہ اس کی غرض یہ بتائی گئی ہے کہ :-
۱۶۶ (1) لوگ اس میں جمع ہوں اور تمدنِ انسانی ترقی کرے.(۲) وہ بنی نوع انسان کو بیرونی ناجائز دخل اندازی سے محفوظ رکھے.(۳) دنیا کے امن کا ذریعہ ہو اور اس کی توپوں سے ارد گرد کے علاقوں کی بھی حفاظت کی جائے.(۴) اس کے ذریعہ سے انسانی تمدن کی چھت کو گرنے سے بچایا جائے.(۵) اس کے ذریعہ سے انسانی صحیح نظام کو درست رکھا جائے.(1) اس کے ذریعہ سے انسان کی خبر گیری کی جائے اور مصیبتوں سے اسے بچایا جائے.اعلیٰ درجہ کے قلعوں کی گیارہ خصوصیات پیشتر اس کے کہ میں یہ دیکھتا کہ آیا یہ کام اس قلعہ کے پورے ہوئے ہیں یا نہیں میں نے کہا آؤ میں مقابلہ کروں کہ لوگ قلعے رکن جگہوں پر بناتے ہیں اور کن امور کو اُن کے کی بنانے میں مد نظر رکھتے ہیں تا کہ میں فیصلہ کر سکوں کہ آیا یہ قلعہ ان امور کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا کی ہے اور ظاہری سامانوں کے لحاظ سے قلعہ کی اغراض کو پورا کرنے کی قابلیت رکھتا ہے یا نہیں؟ جب میں نے سوچا اور دنیا کے مشہور قلعوں کی تاریخ پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اچھے قلعوں کی تعمیر میں مندرجہ ذیل امور کا خیال رکھا جاتا ہے.(1) قلعے ایسی جگہ بنائے جاتے ہیں جہاں پانی کا با فراغت انتظام ہو تا کہ اگر کبھی محاصرہ ہو جائے تو لوگ پیاسے نہ مر جائیں.(۲) دوسری بات میں نے یہ دیکھی کہ جہاں نہر ، دریا یا سمندر ہو وہیں قلعے بنائے جاتے ہیں چنانچہ فتح پور سیکری کا قلعہ موسی ندی کے پاس ہے.اسی طرح دتی کا قلعہ جمنا کے کنارے واقعہ ہے پس قلعے بالعموم یا تو سمندر کے کنارے بنائے جاتے ہیں یا دریاؤں اور نہروں کے پاس بنائے جاتے ہیں.اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تو نہانے دھونے کی ضرورت بآسانی پوری ہوسکتی ہے.دوسرے جانوروں کے لئے بھی با فراغت پانی میسر آسکتا ہے.تیرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں محاصرہ مکمل نہیں ہو سکتا کیونکہ کشتیوں کے ذریعہ انسان باہر نکل سکتا ہے اسی طرح رسد وغیرہ قلعہ والوں کو دریا کے رستے پہنچ سکتی ہے.پھر اس کی ذریعہ سے آگ بجھائی جاسکتی ہے.خندقیں پُر کی جاسکتی ہیں اور ذرائع رسل و رسائل کھلے رہ سکتے ہیں.(۳) تیسری بات میں نے یہ دیکھی کہ لوگ قلعہ بناتے وقت اس امر کا خیال رکھتے ہیں کہ
۱۶۷ علاقہ ایسا ہو کہ اُس میں خوراک کے ذخائر کافی ہوں اور کافی مقدار میں غلہ پیدا ہو سکے تا محصور ہونے کی صورت میں فوج خوراک کے ذخائر جمع کر سکے.(۴) چوتھے قلعہ بالعموم ایسی جگہ بنایا جاتا ہے جس کے ارد گر دیا جس کے پاس جنگل ہوں جہاں سے ایندھن کافی جمع ہو سکے اور دشمن پر حملہ کرنے میں سہولت ہو چنانچہ گوریلا وار یا کی جنگ چپاول جنگلوں میں بڑی آسانی سے کی جاسکتی ہے اسی لئے عام طور پر قلعے جنگلوں کے قریب بنائے جاتے ہیں تا کہ تھوڑی فوج بھی بڑے غلیموں کو دِق کر سکے.(۵) پانچویں اگر پہاڑی علاقہ ہو تو قلعہ ہمیشہ اونچی جگہ پر بنایا جاتا ہے تا کہ سب طرف نگاہ پڑ سکے اور دشمن تو حملہ نہ کر سکے مگر خود آسانی سے حملہ کیا جاسکے.- (1) چھٹے قلعہ کی تعمیر نہایت اعلیٰ درجہ کے چونہ اور پتھروں سے کی جاتی ہے تا کہ اگر دشمن اس پر گولے برسائے یا کسی اور طرح حملہ کرے تو اس کی دیواروں کو شعف نہ پہنچے.(۷) ساتویں قلعہ کی تعمیر اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ شہر کی حفاظت کر سکے اور اس کی فصیلیں شہر کے گر د پھیلتی جائیں.(۸) آٹھویں اس کی طرف آنے والے راستے ایسے رکھے جاتے ہیں جن کو ضرورت پر کی آسانی سے بند کیا جاسکتا ہو مثلاً تنگ وادیوں میں سے راستے گزریں تا کہ چند آدمی ہی دشمن کو قلعہ سے دُور رکھ سکیں.(۹) نویں قلعوں میں یہ احتیاط کی جاتی ہے کہ اس کے گر دار گر دکو خوب مضبوط کیا جائے اور جنگی چوکیوں کے ذریعہ سے اس کی حفاظت کی جائے.(۱۰) دسویں قلعہ کے اندر رہنے والوں کو بہادر اور جنگجو بنایا جاتا ہے تا کہ وہ دشمن سے خوب لڑسکیں.(۱۱) گیارھویں اس میں حملہ کرنے ، تو پوں سے بم پھینکنے یا منجنیقوں سے پتھراؤ کرنے کے لئے باہر کی طرف سوراخ ہوتے ہیں اور اس میں باہر کی طرف تو ہیں یا منجنیقیں رکھی ہوئی ہوتی ہیں.یہ وہ گیارہ خصوصیتیں ہیں جو عام طور پر قلعوں کی تعمیر میں بڑے بڑے انجینئر مدنظر رکھا کرتے ہیں.یہ روحانی قلعہ ایسی جگہ پر بنایا گیا جہاں پانی کم یاب تھا اب میں نے کہا آؤا یہ قلعہ جو قرآن نے پیش کیا
۱۶۸ ہے اس پر غور کر کے دیکھیں کہ یہ باتیں اس میں پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ اور میں نے ایک ایک کر کے ان امور کی اس روحانی اصول پر تیار محدہ قلعہ کے متعلق پڑتال کی اور میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ :- (۱) اس قلعہ کے لئے پانی کا کوئی انتظام نہ تھا صرف ایک چشمہ اس کے قریب تھا اور وہ بھی کی کھاری اور پھر اس کا پانی بھی اتنا کم تھا کہ لوگوں کی ضروریات کے لئے کسی صورت میں کافی نہیں تھا.ملکہ زبیدہ نے بعد میں وہاں ایک نہر بنوا دی تھی جسے نہر زبیدہ کہتے ہیں مگر وہ نہر ایسی ہی ہے جیسے کوئی نالا ہوتا ہے.غرباء عام طور پر زمزم کا پانی استعمال کرتے ہیں اور باقی لوگ بارش ہوتی ہے تو تالابوں میں پانی جمع کر لیتے ہیں اور اسے استعمال کرتے رہتے ہیں.غرض وہاں پانی کی اتنی کمی ہے کہ دنیا کا کوئی سمجھ دار انجینئر وہاں قلعہ نہیں بنا سکتا تھا.یہ روحانی قلعہ دریا اور سمندر سے دُور بنایا گیا (۲) دوسری بات میں نے یہ دیکھی کہ آیا وہ کسی نہر یا دریا یا سمندر کے کنارے واقع ہے تو مجھے معلوم ہوا کہ نہ وہاں کوئی دریا ہے نہ سمندر ، گویا اس بارہ میں بھی خانہ خالی تھا اور نہر یا دریا کا نام و نشان منزلوں تک نہ تھا.وہ جسے لوگ نہر زبیدہ کہتے ہیں وہ صرف نالی ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.رہی بندرگاہ سو وہ سو ڈیڑھ سو میل دور تھی اور اب نئی بندرگاہ جدہ بھی پچاس میل کے قریب دُور ہے گویا سمندر بھی دُور ہے اور اندر بھی کوئی نہر نہیں کہ لوگ کثرت سے فوجی ضروریات کے لئے اونٹ اور گھوڑے وغیرہ رکھ سکیں بندرگاہ بے شک موجود تھی مگر اول تو وہ اتنی دور تھی کہ اس سے کوئی فائدہ اُٹھایا نہیں جاسکتا تھا.دوسرے اگر ممکن بھی ہوتا تو وہاں کے باشندوں کی یہ حالت تھی کہ ان کا سمندر کے نام سے دم نکلتا تھا.(۳) تیسری بات یہ دیکھی جاتی ہے کہ یہ یہ روحانی قلعہ ایک بنجر علاقہ میں بنایا گیا (۳) تیسری بات ہے علاقہ زرخیز ہوتا کہ خور و نوش کا سامان وك پیدا کیا جا سکے اور بوقت ضرورت جمع کیا جا سکے.مگر میں نے دیکھا کہ اس قلعہ کو جو بنانے والا ہے وہ خود کہتا ہے کہ بوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ یہ وادی غَيْرِ ذِي زَرْعٍ ہے اور اس میں ایک دانہ تک پیدا نہیں ہوتا نہ گیہوں، نہ باجرا، نہ گندم، نہ چنا.بلکہ ایک شخص نے وہاں باغی لگا نا چاہا تو اس کے لئے وہ دوسرے ملکوں سے مٹی منگواتا رہا اور آخر بڑی مشکل سے اس نے چند درخت لگائے اور وہی چند درخت اب باغ کہلاتے ہیں.میں نے خود اس قلعہ کو جا کر
179 دیکھا ہے قریب سے قریب سبزی طائف میں ہے اور طائف وہاں سے تین منزل کے فاصلہ پر ہے.باقی چاروں طرف بے آب و گیاہ جنگل کے سوا کچھ نہیں ، نہ غلہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ اسے جمع کرنے کے کوئی سامان ہیں.اس قلعہ کے ارد گرد کوئی جنگل نہیں تھا (۴) چوتھے یہ امر مدنظر رکھا جاتا ہے کہ گر دو پیش جنگل ہوتا کہ ایندھن مل سکے اور دشمن پر حملہ میں آسانی ہو مگر میں نے اس قلعہ کو دیکھا کہ میلوں میل تک اس کے پاس جنگل چھوڑ درخت تک بھی کوئی نہیں.یہ روحانی قلعہ اونچے مقام کی بجائے نشیب مقام میں بنایا گیا (۵) پانچویں اگر پہاڑی پاس ہو تو قلعہ اونچی جگہ پر بنایا جاتا ہے مگر یہ قلعہ ایسا ہے کہ اس کے پاس حراء اور قور دو پہاڑیاں ہیں، لیکن یہ قلعہ نشیب میں بنایا گیا ہے اور اس طرح دشمن پہاڑوں پر قبضہ کر کے اسے شدید نقصان پہنچا سکتا ہے.اس قلعہ کی تعمیر میں معمولی گارا اور پتھر استعمال کئے گئے (۲) چھٹے یہ امر مدنظر رکھا جاتا ہے کہ قلعہ کی تعمیر عمدہ مصالحہ سے ہو مگر اس قلعہ کی تعمیر نہایت معمولی مصالحہ اور گارے وغیرہ سے ہے.اس قلعہ کے اردگرد کوئی فصیل نہیں (۷) ساتویں یہ امر مد نظر رکھا جاتا ہے کہ قلعہ کی تعمیر اس طرح ہو کہ شہر کی حفاظت ہو سکے اور فصیلیں دُور تک پھیلی ہوئی ہوں مگر یہ عجیب قلعہ ہے کہ شہر ارد گرد ہے اور قلعہ شہر کے بیچوں بیچ ہے اور فصیل کا نام ونشان نہیں جس کی وجہ سے شہر کی حفاظت میں وہ کوئی مددنہیں دے سکتا.(۸) آٹھویں بات یہ اس قلعہ کے چاروں طرف کھلے راستے پائے جاتے ہیں مدنظر رکھی جاتی ہے کہ اس کی طرف آنیوالے راستے ایسے ہوں کہ حسب ضرورت بند کئے جاسکیں مثلاً تنگ وادیوں میں سے گزریں مگر اس قلعہ کے راستے نہایت کھلے اور بے روک ہیں.قرآن کریم خود فرماتا ہے عَلى كُلِّ ضَامِرٍ يَّأْتِيْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ١٠ کہ اس قلعہ کی طرف لوگ دوڑے چلے آتے ہیں اور انہیں آنے میں کسی قسم کی روک نہیں.
۱۷۰ کھلے راستے اور وہ بھی نا ہموار اس کے چاروں طرف موجود ہیں.اس قلعہ کے گر دکوئی جنگی چوکیاں نہیں (9) نویں بات یہ ہے کہ قلعہ کے گردا گرد کو جنگی چوکیوں سے محفوظ کیا جاتا ہے تا کہ قلعہ سے دور دشمن کے حملہ کو روکا جا سکے مگر یہ قلعہ عجیب ہے کہ اس کے گر دکئی کئی میل کے دائرہ میں اسلحہ لیکر پھرنے سے روکدیا گیا ہے اور حکم دیدیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس کے ارد گرد چار چار پانچ پانچ میل تک کوئی ہتھیار لیکر نہ چلے.اس قلعہ میں رہنے والوں کو شکار تک کی ممانعت (۱۰) دسویں قلعہ کے اندر رہنے والوں کو جنگجو بنایا جاتا ہے مگر اس کے اندر رہنے والوں کو حکم ہے کہ کوئی شکار نہ ماریں سوائے سانپ ، بچھو، چیل اور چوہے کے جن کا مارنا ضرور تا ہوتا ہے نہ کہ جنگجوئی پیدا کرنے کے لئے.دشمن کے حملہ کو روکنے کیلئے تو پوں اور منجنیقوں کی (1) گیارھویں بات میں نے یہ بتائی تھی کہ قلعہ کے اندر حملہ کو روکنے کے لئے باہر کی بجائے نمازوں اور دعاؤں سے کام لینے کا ارشاد طرف منہ کر کے منجنیقیں یا تو پہیں رکھی ہوتی ہیں مگر اس قلعہ میں مَشَابَہ اور امن کا ذریعہ یہ بتایا ہے کہ فَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّی یعنی جب دشمن حملہ کرے تو مَثَابَہ اور امن کے قیام کے لئے دشمن کی طرف پیٹھ کر کے اور کعبہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاؤ.غرض قلعوں کو مضبوط بنانے یا دیر تک محاصروں کی برداشت کر سکنے کے لئے جس قدر سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے نہ صرف یہ کہ اس میں پائے نہیں جاتے بلکہ اکثر امور میں ان کے برعکس حالات پائے جاتے ہیں جو قلعوں کو اُجاڑنے کا موجب ہوتے ہیں مثلاً بے پانی ، بے غذا، نہروں سے دُور ، جنگلوں سے پرے، فصیلوں اور چوکیوں کے بغیر کوئی قلعہ قلعہ نہیں کہلا سکتا مگر یہ قلعہ ایسا تھا کہ اس میں مجھے ان سامانوں میں سے کوئی سامان کی بھی دکھائی نہ دیا.حتی کہ اس قلعہ کے ارد گر د اسلحہ لے کر پھرنے سے بھی روک دیا گیا تھا.یہ قلعہ کب بنایا گیا؟ اب میں نے سوچا کہ یہ قلعہ ہے کب کا ؟ تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے کیونکہ خود حضرت کو کی الہام ہوا کہ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ اس پرانے گھر کا لوگ آ کر طواف کیا کریں
جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قلعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے اسی طرح آتا ہے اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِى بِبَكَّةَ مُبَارَكاً وَهُدًى لِلْعَلَمِينَ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَتْ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۵۲ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے فائدہ اور ان کی حفاظت کے لئے بنایا گیا تھا وہ ہے جو مکہ میں ہے اس میں ہرقسم کی برکتیں جمع کر دی گئی ہیں اور تمام جہانوں کے لوگوں کے لئے اس میں ہدایت کے سامان اکٹھے کر دیئے گئے ہیں اس کے ساتھ بڑے بڑے اور روزِ روشن کی طرح واضح نشان وابستہ کر دیئے گئے ہیں وہ آخری دور میں ابراہیم کا مقام بنایا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ جو اس میں داخل ہوا سے امن دیا جائے گا.حدیث میں آتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ہاجرہ اور اسماعیل کو مکہ کے مقام پر چھوڑ کر واپس کو ٹے تو حضرت ہاجرہ کو شک گزرا کہ ہمیں چھوڑ چلے ہیں اور وہ ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور اس بارہ میں ان سے سوالات کرنے شروع کر دیئے.مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام خاموش رہے اور رقت کے غلبہ کی وجہ سے اُن کے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی.آخر حضرت ہاجرہ نے کہا يَا إِبْرَاهِيمُ اَيْنَ تَذْهَبُ وَ تَتَرُكُنَا فِى هَذَا الْوَادِي الَّذِي لَيْسَ فِيْهِ أَنِيسٌ وَلَا شَيِّ.اے ابراہیم ! آپ کہاں جا رہے ہیں اور ہم کو ایک ایسی وادی میں کی چھوڑ رہے ہیں جس میں نہ آدمی ہے اور نہ کھانے کی کوئی چیز.فَقَالَتْ لَهُ ذَلِكَ مِرَارًا و جَعَلَ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهَا حضرت ہاجرہ نے یہ بات بار بارڈ ہرائی مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام صدمہ کی وجہ سے اس کا جواب نہیں دیتے تھے.جب حضرت ہاجرہ نے دیکھا کہ یہ کسی طرح بولتے ہی نہیں تو انہوں نے کہا اللهُ اَمَرَكَ بِهَذَا ؟ اچھا اتنا تو بتا دو کہ کیا خدا نے آپ کو اس بات کا حکم دیا ہے؟ قَالَ نَعَمُ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ ہاں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ جواب حضرت ہاجرہ نے سُنا تو با وجود اس بات کے جاننے کے کہ یہاں پانی نہیں، یہاں کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں اور یہاں کوئی آدمی نہیں جو ضرورت کے وقت مدد دے سکے، انہوں نے نہایت دلیری سے کہا إِذًا لَّا يُضَيعُنَا اگر یہ بات ہے تو پھر خدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا آپ بے شک جائے ثُمَّ رَجَعَتْ اس کے بعد حضرت ہاجرہ واپس لوٹ آئیں فَانْطَلَقَ إِبْرَاهِيمُ اور حضرت ابراہیم واپس چلے گئے حشی إِذَا كَانَ عِندَ الشَّنِيَّةِ حَيْثُ لَا يَرَوْنَهُ اِسْتَقْبَلَ بِوَجْهِ الْبَيْتِ یہاں تک کہ جب موڑ پر
۱۷۲ پہنچے جہاں سے ان کی بیوی اور بچہ انہیں دیکھ نہ سکتے تھے تو ان کے جذبات قابو سے باہر ہو گئے.انہوں نے اپنا منہ خانہ کعبہ کی طرف کر دیا اور ہاتھ اُٹھا کر یہ دُعا کی : رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ۳ اے میرے رب ! میں اپنی اولا د کو تیرے مقدس گھر کے قریب اس وادی میں چھوڑ کر جا رہا ہوں جس میں کوئی کھیتی نہیں جس میں کوئی چشمہ نہیں، محض اس لئے کہ وہ تیری عبادت کریں.پس تو ہی ان کی حفاظت فرما اور ان کو شرور اور مفاسد سے محفوظ رکھ اس سے معلوم ہوا کہ یہ قلعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بعثت سے بھی پہلے تعمیر ہو چکا تھا.سرولیم میور کی شہادت تاریخ بھی اس کے نہایت قدیم ہونے کی شہادت دیتی ہے چنانچہ سرولیم میور لائف آف محمد میں لکھتے ہیں کہ مکہ کے مذہب کے بڑے اصولوں کو ایک نہایت ہی قدیم زمانہ کی طرف منسوب کرنا پڑتا ہے گو ہیروڈوٹس ۸۴ نے نام لیکر کعبہ کا ذکر نہیں کیا مگر وہ عربوں کے بڑے دیوتاؤں میں سے ایک دیوتا الالات کا ذکر کرتا ہے اور یہ اس کا ثبوت ہے کہ مکہ کا یہ بڑا بت اس قدیم زمانہ میں بھی پوجا جاتا تھا یہ کی ہیروڈوٹس ایک یونانی مؤرخ تھا جو ۴ ۴۸ قبل مسیح سے ۴۲۵ قبل مسیح تک ہؤا، گویا حضرت مسیح کے صلیب کے واقعہ سے مدتوں پہلے لات کی شہرت وغیرہ دُور تک پھیلی ہوئی تھی پھر لکھا ہے کہ ڈایوڈورس سکولس مؤرخ جو مسیحی سنہ سے پچاس سال پہلے گزرا ہے وہ بھی لکھتا ہے کہ عرب کا وہ حصہ جو بحرہ احمر کے کنارے پر ہے اس میں ایک معبد ہے جس کی عرب بڑی عزت کرتے ہیں ۵۶ پھر لکھتا ہے قدیم تاریخوں سے پتہ نہیں چلتا کہ یہ بنا کب ہے یعنی ایسے قدیم زمانہ کا ہے کہ اس کے وجود کا تو ذکر آتا ہے مگر اس کی بناء کا پتہ نہیں چلتا.پھر لکھتا ہے کہ بعض تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ نے اسے دوبارہ بنایا تھا اور کچھ عرصہ تک ان کے پاس رہا اور تورات سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تباہ ہوئے گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے بھی پہلے عمالقہ اس پر قابض رہ چکے ہیں اور وہ اس کے بانی نہ تھے یہ گھر ان سے بھی پہلے کا ہے انہوں نے اس کے تقدس پر ایمان لاتے ہوئے اسے دوبارہ تعمیر کیا تھا خروج باب ۱۲ آیت ۱۶،۸ اور گفتی باب ۲۴ آیت ۲۰ سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تباہ کیا تھا.پس ان سب باتوں سے پتہ لگتا ہے کہ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کا ہے کیونکہ عمالقہ نے اس کو دوبارہ تعمیر کیا تھا -
۱۷۳ اور حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام میں اڑھائی سو سال سے چار سو سال کا فاصلہ ہے.اگر عمالقہ کی سو ڈیڑھ سو سال کی حکومت بھی فرض کر لی جائے تو بھی اُن کا اسے دوبارہ تعمیر کرنا کئی سو سال پہلے کے عرصہ پر دلالت کرتا ہے اور اس وقت بھی اس کی تعمیر ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کی مرمت ثابت ہوتی ہے.اب میں نے سوچا کہ اس قدر قدیم قلعہ جس کی سارا ملک عرب عزت کرتا تھا اگر اس کی طرح تمام معلومہ اصول کے خلاف تیار ہو ا تھا تو اسے یقیناً تباہ ہو جانا چاہئے تھا اور اگر وہ تباہ نہیں ہوا تو پھر یقینا وہ ایسی عجیب قسم کا قلعہ ہے کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی کہ بغیر ظاہری سامانوں کے وہ قائم ہے اور اپنا کام کر رہا ہے.قدیم اقوام کے متواتر حملوں میں اس روحانی قلعہ کی سلامتی تب میں نے غور کیا کہ کیا ان علاقوں کی طرف جہاں یہ قلعہ تھا قدیم زبردست اقوام نے حملے کئے تھے؟ اور میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے نینوا والوں نے ایشیائے کو چک سے نکل کر ادھر حملہ کیا اور شام اور فلسطین کو پامال کرتے ہوئے مصر کی طرف نکل گئے.وہ نینوا سے چلتے ہیں اور جنوب مغرب کی طرف آتے ہیں مگر جس وقت اس قلعہ کی سرحد پر پہنچتے ہیں تو آگے بڑھنے کی جرات نہیں کرتے اُس وقت میں نے سمجھا کہ اس قلعہ کے لئے ضرور کوئی ایسے مخفی سامانِ حفاظت تھے کہ جن کی وجہ سے وہ ادھر رُخ نہ کر سکے اور وہ مرعوب ہو گئے.بابلیوں کی چڑھائی تب میں نے سوچا کہ کیا اس کے بعد بھی کوئی دشمن اُٹھا ہے یا نہیں اور میں نے دیکھا کہ ان کے بعد بابلیوں نے انہی علاقوں پر چڑھائی کی.وہ عراق کی طرف سے بڑھے اور انہوں نے شام فتح کیا ، مصر فتح کیا، مگر وہ بھی اسی راہ پر نکل گئے اور اس قلعہ کی طرف انہوں نے رُخ نہ کیا.کیانیوں کی فتوحات پھر میں نے دیکھا کہ کیا نیوں نے ایران سے نکل کر عراق فتح کیا ، ایشیائے کو چک فتح کیا ، شام فتح کیا، فلسطین ،مصر، یونان ، رومانیہ اور اوکرین کو مغرب کی طرف فتح کیا اور بلخ ، بخارا، سمرقند، افغانستان، بلوچستان اور پنجاب کو مشرق میں فتح کیا ،لیکن اس قلعہ کو درمیان سے وہ بھی چھوڑ گئے.سکندر رومی کی یلغار پھر میں نے سکندر رومی کو بڑھتے ہوئے دیکھا وہ بجلی کی طرح کوندا اور یورپ سے نکل کر ایشیائے کو چک وغیرہ کے علاقوں کو فتح کرتے
۱۷۴ ہوئے ہندوستان تک بڑھ آیا ، لیکن اس قلعہ کو وہ بھی درمیان میں چھوڑ گیا.پھر میں نے رومی حکومت کو مشرق کی طرف آتے رومی حکومت کا مشرق پر اقتدار ہوئے دیکھا اُس نے مصر فتح کیا ، طرابلس فتح کیا ، ایسے سینیا جو مکہ کے مقابل پر ہے اسے فتح کیا، شام اور فلسطین کو فتح کیا ، شمالی عرب سے بعض علاقوں کو فتح کیا اور آخر عراق تک فتح کرتے ہوئے نکل گئے ، لیکن درمیان میں اس قلعہ کی طرف انہوں نے بھی رُخ نہ کیا.ابر ہہ کا بیت اللہ پر حملہ جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے کہا یہ قلعہ واقع میں زمانہ کے عجائبات میں سے ہے کہ مشرق سے آندھی اُٹھتی ہے تو وہ اسے چھوڑ جاتی ہے اور مغرب سے طوفان اٹھتا ہے تو اسے چھوڑ جاتا ہے مگر میں نے کہا کہ ابھی ایک سوال حل طلب ہے اور وہ یہ کہ ممکن ہے اس قلعہ کے جائے وقوع کے لحاظ سے فاتحین کو خیال بھی نہ آیا ہو کہ وہ اسے فتح کریں کیونکہ وہ اس میں کوئی فائدہ نہ دیکھتے تھے.اس خیال کے آنے پر میں نے تاریخ پر نگاہ ڈالی اور میں نے دیکھا کہ چھٹی صدی مسیحی میں ایسے سینیا کی حکومت بہت طاقتور ہو گئی تھی اور اُس نے عرب کے بعض علاقوں کو فتح کر لیا تھا اُس کی طرف کی سے ابرہہ نامی ایک شخص یمن میں گورنر مقرر ہوا اور اس نے عرب میں مسیحیت کی اشاعت کے لئے کوشش شروع کی اور یمن کے دارالحکومت صنعاء میں اس نے ایک بہت بڑا گر جا بنایا اور کی خوف اور لالچ سے لوگوں کو اس گرجا کی طرف مائل کرنا شروع کر دیا، مگر جب کچھ عرصہ کی کوششوں کے بعد اُس نے اپنے ارادہ میں ناکامی دیکھی اور اسے محسوس ہوا کہ عرب اس کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں تو اس نے اپنے درباریوں کو بلایا اور ان سے مشورہ کیا کہ کیوں میری کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ مکہ میں ایک گھر ہے، عرب کے لوگ اسے چھوڑ نہیں سکتے.جب تک وہ گھر موجود ہے صنعاء کا گر جا آباد نہیں ہو گا.پس اگر صنعاء کو آباد کرنا چاہتے ہو تو اُسے جا کر گرا دو.چنانچہ ابر ہہ نے ۵۶۹ ء میں ایک بہت بڑی فوج اور ہاتھی ساتھ لے کر مکہ کا رُخ کیا عرب قبائل نے مقابلہ کیا مگر ایک کے بعد دوسرا شکست کھاتا چلا گیا اور وہ مکہ سے تین دن کے فاصلہ پر مشرق کی طرف طائف تک جا پہنچا اور کی طائف کے لوگوں سے کہا کہ مکہ تک پہنچنے میں میری مدد کرو.طائف والے جو مکہ پر اس لئے حسد کرتے تھے کہ ان کے بُت کی خانہ کعبہ کے آگے کچھ نہ چلتی تھی انہوں نے انعامات کے
۱۷۵ لالچ اور مکہ والوں کے بغض کی وجہ سے ایک راہنما دیا مگر وہ رستہ میں ہی مر گیا.آخر ا بر ہ کا لشکر مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر جا ٹھہرا اور ابرہہ نے ایک وفد بھجوایا اور مکہ والوں کو کہلا بھیجا کہ ہم عیسائی ہیں اور فطر تا رحمدل ہیں اس لئے میں تمہیں ہلاک کرنا نہیں چاہتا اور نہ تم سے مجھے کوئی گلہ ہے.میں صرف کعبہ کے پتھر گرا کر واپس چلا جاؤں گا یا خود ہی کعبہ کو گرا دو تو میں آگے نہیں بڑھوں گا اور واپس چلا جاؤنگا.مکہ اور حجاز کے لوگوں نے اس سے انکار کیا اور کہا کہ ہم تمہاری حکومت ماننے کے لئے تیار ہیں ہم اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہیں کہ تمہیں اپنی آمد کا ایک ٹکٹ ہر سال دیتے رہیں مگر خدا کے لئے کعبہ کو نہ گراؤ.لیکن وہ نہ مانا.آخر سفیروں نے اہل مکہ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ابرہہ کے پاس وفد لے کر جائیں اور اُسے اپنے خیالات سے آگاہ کریں.چنانچہ عبد المطلب اور بعض دوسرے عمائدینِ مکہ ابرہہ کے پاس گئے.ابرہہ، عبدالمطلب کی وجاہت سے بہت متاثر ہوا اور خوش ہو کر کہنے لگا کہ مجھ سے آپ جو بھی خواہش کریں میں اسے ماننے کے لئے تیار ہوں.اس سے پہلے ابرہہ کے سپاہیوں نے چھاپہ مار کر عبدالمطلب کے دوسو اونٹ پکڑ لئے تھے.جب ابرہہ نے کچھ مانگنے کو کہا تو انہوں نے اپنے دوسو اونٹ جو اس کے سپاہیوں نے پکڑ لئے تھے طلب کئے اور کہا کہ وہ مجھے واپس کر دیئے جائیں.اس پر ابرہہ نے کہا کہ میں تو آپ کو بڑا عقلمند سمجھتا تھا مگر آپ کے اس جواب نے میرے دل پر سے ان اثرات کو بالکل دھو دیا ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ نے کس خیال سے ایسا معمولی مطالبہ کیا.اس وقت حالت یہ ہے کہ کعبہ خطرے میں ہے اور آپ مجھ سے بجائے یہ خواہش کرنے کے کہ میں کعبہ پر حملہ کا ارادہ ترک کر دوں یہ کہہ رہے ہیں کہ میں آپ کے دوسو اونٹ آپ کو واپس دلوا دوں.اس سے ظاہر ہے کہ آپ کو اونٹوں کی تو فکر ہے مگر کعبہ کی کوئی فکر نہیں.عبد المطلب کہنے لگے، بات یہ ہے کہ وہ اونٹ میرے ہیں اس لئے مجھے ان کی فکر ہے، لیکن کعبہ خدا کا گھر ہے اس لئے اس کی فکر خدا کو ہوگی مجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے اور یہ کہہ کر واپس آگئے.ابرہہ نے نوٹس دیدیا کہ فلاں دن حملہ ہوگا.انہوں نے واپس آکر مکہ والوں کو اطلاع دیدی.انہوں نے فیصلہ کیا کہ مقابلہ فضول ہے.اس قدیم قلعہ کو خالی کر کے پہاڑوں پر چڑھ جاؤ پاس ہی جبلِ حراء اور جبل ثور ہے، انہوں نے مکہ کو خالی کر دیا اور تمام لوگ پہاڑوں پر چلے گئے.حضرت عبدالمطلب کی عاجزانہ دُعا جب وہ اس قدیم قلعہ کو چھوڑ رہے تھے تو اُس وقت عبدالمطلب نے اُس حکم کو یاد کیا کہ جو
فَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلَّی میں دیا گیا ہے کہ جب کبھی مصیبت کا وقت آئے تم اس توپ خانہ یعنی کعبہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے عاجزی اور زاری سے دعائیں کرو.چنانچہ وہ بیت اللہ کے دروازہ پر آئے اور اُس کی زنجیر کو پکڑ کر کہا اے خدا! ہم میں طاقت نہیں کہ دشمن کا مقابلہ کر سکیں یہ تیرا گھر ہے تو اپنے اس گھر کی آپ حفاظت کر اور صلیب کو کعبہ پر فتح نہ پانے دے.یہ کہا اور سب لوگوں سمیت مکہ کو چھوڑ کر پہاڑوں کو چل دیئے.انسانی آنکھوں سے دکھائی نہ دینے والے سیاہیوں کی گولہ باری اب یہ قلعہ خالی تھا اور اس کی بظا ہر کمزور دیوار میں ابر ہ کو چیلنج کر رہی تھیں کہ دیکھو میں اب انسانوں سے خالی ہوں آ اور مقابلہ کر.پھر کہا کہ سُن تو تو یہاں آ کر حملہ کرے گا میں یہیں سے مجھ پر گولہ باری کرتا ہوں.مانچہ کعبہ کی دیواروں سے نہ نظر آنے والے سپاہیوں نے گولہ باری شروع کر دی ابرہہ کے ہاتھی چھد گئے ، اس کے اونٹ چھد گئے ، اُس کے گھوڑے چھد گئے اس کے سپاہی ان گولیوں کی بے پناہ بوچھاڑ سے زخمی ہو کر گرنے لگ گئے ، لشکر کا نظام ٹوٹ گیا اور اُس میں بھا گڑ پڑ گئی اور ی سر پر پاؤں رکھ کر لشکر واپس لوٹا.ابرہہ بھی یمن پہنچنے سے پہلے پہلے ان گولیوں سے مارا گیا اور سب لشکر تباہ و برباد ہو گیا اور مسیحی حکومت یمن میں ایسی کمزور ہوگئی کہ اس علاقہ پر ایرانی حکومت کی نے قبضہ کر لیا.یہ کعبہ سے چلنے والی گولیاں جب وہاں تک پہنچتی تھیں تو چیچک کی صورت میں اُس کے لشکر کو چمٹ جائیں جس سے دانوں کو کھلا کھجلا کر سپاہی مر جاتے اور پرندے اُن کی بوٹیاں چ نوچ کر اُن کو پتھروں پر مار مار کر کھاتے.اور جس طرح وہ کعبہ کے پتھر توڑنے آیا تھا اسی طرح کعبہ کے گرد کے پتھروں نے ان کی بوٹیوں کو توڑا.یہ سپاہی جو گولیاں چلا رہے تھے خدا تعالیٰ کے فرشتے تھے اور وہ جو ان گولیوں کے نشانہ بنے وہ ابر ہہ اور اُس کے ساتھی تھے چنانچہ قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر آتا ہے وہ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَكَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحبِ الْفِيلِ اَلَمْ يَجْعَلُ كَيْدَ هُمُ فِى تَضْلِيلٍ - وَّ اَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْراً اَبَابِيلَ ة تَرْمِيهِمُ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجّيلٍ له فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاكُول.فرماتا ہے دیکھو ایک شخص تھا جو مکہ پر حملہ کرنے کے لئے آیا اور کہنے لگا کہ میں کعبہ کے پتھروں کو توڑ دونگا.ہم نے اس کی سزا کے لئے پرندوں کو بھیجا اور وہ جو کعبہ کے پتھر توڑنے کے لئے آئے تھے انہی کی بوٹیاں اُن پتھروں پر مار مار کر توڑیں یہ بتانے کے لئے کہ کیا تم نے کعبہ کے کی
122 پتھروں کو تو ڑ لیا؟ عربی زبان میں ب کے معنے علی کے بھی ہوتے ہیں اور کبھی قلب نسبت بھی ہو جاتی ہے جیسے کہتے ہیں پرنالہ چلتا ہے تو تَرْمِيهِمُ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيلٍ کے معنے یہی ہیں کہ وہ ان کی بوٹیاں پتھروں پر مار مار کر کھاتے تھے اور یہی چیلوں وغیرہ کا طریق ہے.وہ بوٹی کو پتھر پر مارتی اور پھر کھاتی ہیں.تو وہ جو کعبہ کے پتھر توڑنے چلا تھا اس کی بوٹیاں جانوروں نے پتھر پر مار مار کر کھا ئیں.مسیحی اس روحانی قلعہ کی طرف نہ بڑھ سکے جب میں نے یہ نظارہ دیکھا تو میں نے کہا کون کہہ سکتا ہے کہ اس قلعہ پر حملہ نہیں ہوا.حملہ ہوا اور اس میں یہ قلعہ مضبوطی سے قائم رہا.اس کے بعد اور زمانہ گزرا.ایک دفعہ مسیحیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور میں نے دیکھا کہ وہ باوجود اس غصہ کے کہ مسلمانوں نے اُن کے معاہد پر قبضہ کیا ہے اس قلعہ کی طرف نہ بڑھ سکے.ہلاکو خاں بھی اس قلعہ کو کوئی گزند نہ پہنچا سکا اور ایک دفعہ ہلاکوخاں نے بغداد اور اسلامی ممالک کو تباہ کیا مگر اس قلعہ کو وہ بھی کوئی گزند نہ پہنچا سکا.پھر جنگِ عظیم کا وقت آیا اور شرک جن کے قبضہ میں یہ قلعہ تھا وہ فاتح اقوام کے خلاف کھڑے ہو گئے.میں نے کہا اب اس قلعہ کے لئے خطرہ ہے مگر تب بھی یہ محفوظ رہا اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خاص سامان پیدا کر دیئے پھر یہ نئی جنگ شروع ہوئی تو کی میں نے دیکھا کہ اب کے پھر دونوں فریق اس کی حفاظت کا اعلان کر رہے تھے.غرض ہزاروں سال کی تاریخ میں اس عجیب و غریب قلعہ کو دنیا کا مقابلہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا اور ہمیشہ مجھے یہ محفوظ و مصئون ہی نظر آیا.یہ نہیں کہ اس کے کبھی مغلوب ہونے کی خبر ہو.بعض احادیث میں آتا ہے کہ ایک وقت یہ مغلوب ہوگا اور کعبہ گرایا جائے گا مگر ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ بات قیامت کی علامت ہوگی.اب اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ عارضی طور پر دشمن اس پر قبضہ کرے گا مگر اس پر قیامت آجائے گی اور وہ فتنہ اور خونریزی ہوگی کہ الامان اور یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ حقیقی قیامت کے وقت جب اس کی کی ضرورت نہ رہے گی ، اس قلعہ کا مالک اسے گرنے دے گا.اس عظیم الشان قلعہ کی حفاظت کیلئے ایک اور چھوٹے قلعہ کی تعمیر اب اس زمانہ میں کہ اس قلعہ
کے گرد یا جوج و ماجوج چکر لگا رہے ہیں جیسا کہ قلعوں کے متعلق قاعدہ ہے کہ جب قلعہ پر حملہ ہو تو لشکر باہر نکل کر چھوٹے چھوٹے قلعے اور چوکیاں بنا کر مدافعت کرتا ہے تا کہ دشمن وہیں حملہ کرتا رہے اور قلعہ کی طرف نہ بڑھ سکے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لئے ایک کی اور قلعہ بنا دیا ہے اور اس کے سپر د اس بڑے قلعہ کی حفاظت کا کام کیا ہے اور چونکہ یہ قلعہ بھی دین کی اسی طرح حفاظت کر رہا ہے اس لئے اسے بھی ارضِ حرم کے نام سے موسوم کیا گیا ہے کی چنانچہ اس قلعہ کی تعمیر میں جس نے حصہ لیا وہ خود کہتا ہے :- خدا کا ہم پر بس لطف و کرم ہے وہ نعمت کونسی باقی جو کم ہے زمین قادیاں اب محترم ہے ہجومِ خلق سے ارضِ حرم ہے ظہور عون و نصرت دمبدم ہے صد سے دشمنوں کی پشت خم ہے سنو! اب وقت توحید اتم ہے ستم اب مائلِ ملک عدم ہے خدا نے روک ظلمت کی اُٹھادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْآعَادِي ۱۹ ساکنین ارضِ حرم کے فرائض یہ قلعہ خدا نے خانہ کعبہ کی حفاظت کے لئے قائم کیا ہے ، یہ قلعہ اس لئے قائم ہوا ہے تا کہ دشمن کے حملوں کو وہ اپنے اوپر لے اور اُسے خانہ کعبہ کی طرف ایک قدم بھی بڑھنے نہ دے اور چونکہ یہ قلعہ خانہ کعبہ کی حفاظت کر رہا ہے اس لئے لازماً یہ بھی ارضِ حرم کا جزو ہے اور جو لوگ اس قلعہ کے سپاہیوں کی میں اپنے آپ کو شامل کر رہے ہیں وہ یقیناً ارضِ حرم کے ساکن ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ دشمن کی گولیاں اپنے سینوں پر کھائیں اور اسے کعبہ کی طرف بڑھنے نہ دیں.پس اے قادیان کے رہنے والو! اور اے دوسرے احمدی مراکز کے رہنے والو! آج خانہ کعبہ کی حفاظت کے لئے گولیاں کھانا تمہارا فرض ہے تم ان لوگوں میں سے ہو جو بڑے قلعوں کی حفاظت کے لئے باہر کی طرف بٹھا دئیے جاتے ہیں تا کہ وہ دشمن کی مدافعت کریں اور گولیوں کو اپنے اوپر لیں.پس تم بہادری کے ساتھ اپنے سینوں کو آگے کرو اور دشمن کے ہر حملہ کا پوری شدت کے ساتھ مقابلہ کرو.طاعون کے طوفانی حملہ میں اس قلعہ کی حفاظت میں تمہیں اس قلعہ کی حفاظت کا بھی ایک واقعہ سنا دیتا ہوں کچھ عرصہ ہوا دنیا پر ایک غنیم نے حملہ کیا وہ قلعہ پر قلعہ توڑتا چلا آیا.آبادیوں پر آبادیاں اُس نے ہلاک کر دیں اور گاؤں کے بعد گاؤں اُس نے ویران کر دیئے.اُس وقت اس قلعہ کی تعمیر کرنے والا
129 ابھی زندہ تھا اُس نے دنیا کو پکار کر کہہ دیا کہ اس حملہ سے میرا قلعہ محفوظ رہے گا.گولہ باری سے تھوڑا صدمہ پہنچے تو پہنچے مگر اس قلعہ کو اس حملہ آور کا حملہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.چنا نچہ ایسا ہی ہوا یہ حملہ آور بڑھا اور قادیان پر حملہ آور ہو ا کئی سال تک اس نے متواتر حملہ پر حملہ کیا مگر ناکام رہا یہ قلعہ محفوظ رہا اور دشمن سے دشمن نے بھی اس قلعہ کی حفاظت کا اقرار کیا.یہ حملہ آور کی مرض طاعون تھا جس کے حملوں سے حفاظت کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلے سے خبر دیدی.احمدی نوجوانوں سے خطاب اب میں احمدی نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ اس قلعہ عظیمہ کی حفاظت کا کام ان کے سپر د ہوا ہے انہیں یہ امرا چھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وہ محض ایک جماعت کے فرد نہیں بلکہ خانہ کعبہ کی حفاظت کے لئے اس کے ارد گرد جو قلعے بنائے گئے ہیں اس کے وہ سپاہی ہیں.پس اے عزیز و! جس طرح قلعہ پر جب دشمن حملہ آور ہو تو فوج کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس کے حملوں کی مدافعت کرے اور اس کی گولیاں اپنے سینوں پر کھائے اسی طرح اے احمدی نوجوانو! تم آگے بڑھو اور دجالی سنگینوں کو اپنے سینوں پر روکتے ہوئے کعبہ کے دشمنوں پر حملہ آور ہو.یا درکھو! خدائے قہار تمہارا کمانڈر ہے اور شیطانی فوجیں حملہ آور ہیں.پس اس قدیم صداقت کے دشمن کو کچلتے اور اپنے پاؤں تلے مسلتے ہوئے آگے بڑھو اور اس کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دو تا کہ پھر کعبہ کے قلعہ کی طرف کوئی بُری نگاہ سے نہ دیکھ سکے اور یہ گڑھی جو اس قلعہ کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے اپنے وجود کی ضرورت کو دنیا سے منوا لے اور لوگ تسلیم کرنے پر مجبور ہوں کہ فی الواقع یہ زمین ارضِ حرم کا ہی حصہ ہے کیونکہ وہ جس نے حرم کی حفاظت کی وہ حرم ہی کا حصہ ہے وہ جس کی رگوں میں ماں کا خون دوڑ رہا ہوتا ہے وہی ماں کی حفاظت کرتا ہے اور جو ماں پر حملہ ہوتے ہوئے خاموش رہتا ہے وہ ہرگز حلال کا بچہ نہیں ہوتا اور نہ اُس کا لڑکا کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے.پس دنیا کے اعتراضوں کی پروا مت کرو.تمہارے سپر د خدا تعالیٰ نے خانہ کعبہ اور اسلام کی حفاظت کا کام کی کیا ہے، پس تم دلیری دکھاؤ اور جرات سے کام لو.خدا تمہارے آگے چل رہا ہے اور اُس کی فوجیں تمہارے دائیں اور بائیں ہیں جس دن تم ہمت کر کے دشمن کے مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہو گے اُس دن خدا تمہارے لئے وہی نشان دکھائی گا جو اُس نے ابرہہ کے لشکر کے لئے دکھایا.
۱۸۰ خدائے قادر کا ایک عظیم الشان معجزہ لوگ کہتے ہیں کہ معجزہ کیا ہوتا ہے مگر یہ کیا کی معمولی معجزہ ہے.تاریخی شہادت موجود ہے کی کہ ایسے حالات میں جبکہ اس کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں تھا ایک لشکر کعبہ کی طرف حملہ کرنے کے لئے بڑھا مگر پیشتر اسکے کہ وہ کعبہ تک پہنچتا خدا نے اُس کو تباہ و برباد کر دیا.غرض جب ڈ نیوی طور پر کعبہ پر حملہ ہو ا تو اس نے چیچک بھیج دی اور جب دینی طور پر اس پر حملہ ہونے لگا تو اس کے مقابلہ کیلئے اُس نے مسیح موعود کو بھیج دیا.پس احمدیوں کو یاد رکھنا چاہئے.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض خانہ کعبہ کی حفاظت ہے یعنی جن اغراض کے لئے خانہ کعبہ کو قائم کیا گیا ہے وہی اغراض کی ہماری جماعت کے قیام کی ہیں.پس ہماری جماعت اس لئے قائم کی گئی ہے تا کہ تمام دنیا میں امن قائم کیا جائے.خدائے واحد کی عبادت کو رائج کیا جائے، شرک اور بدعت کو مٹا دیا جائے.مسافر اور مقیم دونوں کی ترقی کی تدابیر سوچی جائیں اور نظام کو ایسا مکمل کیا جائے کہ لوگوں کا ایک حصہ رات دن بنی نوع انسان کی خیر خواہی کے کاموں میں مصروف رہے جب تک ہم اس کام کو نہیں کریں گے اُس وقت تک ہم اپنی ذمہ داری کو پوری طرح ادا کرنے والے قرار نہیں دیئے جا سکتے.پس صرف چندے دینا کافی نہیں ، صرف جلسہ سالانہ پر مرکز میں آجانا کافی نہیں ، صرف نمازیں ہی پڑھنا کافی نہیں بلکہ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اس دجالی فتنہ کو روکے جو خانہ کعبہ کے خلاف بر پا ہے.اس کے لئے ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو ساری دنیا پر چھا جائیں اور اسی لئے واقفین زندگی کی تحریک شروع کی گئی ہے مگر افسوس ہے کہ جماعت نے اس تحریک کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی.شیطان کو کان سے پکڑ کر اس کی غاروں سے باہر نکال دو یاد رکھو! خدا نے قادیان کو بھی ایک چھوٹا قلعہ بنایا کی ہے اور قلعہ اسی لئے بنایا جاتا ہے تا کہ اس میں سے آسانی سے حملہ کیا جا سکے جو جرنیل یہ سمجھتا ہے کہ اس کے لئے صرف مدافعت کرنا کافی ہے وہ کبھی فتح نہیں پاسکتا.یاد رکھو! تم مدافعت سے کی نہیں بلکہ حملہ سے جیتو گے.اگر تم قادیان میں بیٹھے رہے تو دشمن شکست نہیں کھائے گا بلکہ دشمن اُس وقت شکست کھائے گا جب تم جاپان میں جا کر دشمن سے لڑو گے، چین میں جا کر دشمن سے لڑو گے، افریقہ میں جا کر دشمن سے لڑو گے، انگلستان میں جاکر دشمن سے لڑو گے، امریکہ میں
١٨١ جا کر دشمن سے لڑو گے اور شیطان کو اُس کی غاروں سے کان سے پکڑ کر نکال دو گے.اگر تم ایسا کرو گے تو تم یقیناً کامیاب ہو گے اور یقیناً تمہارا دشمن نا کامی کی موت مرے گا.خلاصہ یہ کہ میں نے قرآن کریم کے ذریعہ سے ایک ایسا قلعہ دیکھا جو تمام قلعوں کے اصول کے خلاف تعمیر ہوا تھا مگر میں نے دیکھا کہ ہزاروں سال کا عرصہ بھی اس قلعہ کو کمزور نہ کر سکا بلکہ اس کی مضبوطی بڑھتی ہی گئی یہاں تک کہ وہ ساری دنیا کا مرجع ہو گیا اور میں نے کہا انسان، بے وقوف انسان قطب شاہیوں کے گولکنڈہ کے قلعہ کو دیکھتا ہے اور اس پر تعجب کرتا ہے اور فتح پور سیکری کے قلعہ کو دیکھتا ہے اور اس پر حیران ہوتا ہے اور دہلی کے تُغلقوں کے قلعہ کو دیکھتا ہے اور اس پر واہ واہ کہتا ہے حالانکہ یہ قلعے سو دو سو سال بھی نہ گزار سکے اور اب ان کی مرمت کرنے والا بھی کوئی نہیں اور لوگ موجود ہیں جنھوں نے ان قلعوں کو فتح کیا مگر وہ اس کی حیرت انگیز قلعہ کے دیکھنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتا اور اس کی تعمیر کی داد نہیں دیتا جو انجینئرنگ کے تمام معلومہ اصول کے خلاف پایا گیا.فنِ حرب کے تمام اصول کے خلاف اس کے لئے مقام چنا گیا.قیادت کے تمام اصولوں کے خلاف اس کی حفاظت کا انتظام کیا گیا ، پھر بھی و کھڑا رہا ، کھڑا ہے کھڑا رہے گا.اِنشَاءَ اللهُ تَعَالَى “ ال عمران : ۹۷ ابوداؤد كتاب الصلوة باب اتخاذ المساجد في الدُّوَر حدیث نمبر ۴۵۵ صفحہ ۷۷ مطبوع الرياض الطبعة الاولى اپریل ۱۹۹۹ء البقرة : ١٢٦ اقرب الموارد الجزء الاول صفحہ ۹۷.مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء مسلم كتاب الحج باب فضل الصلوة بمسجدى مَكَّةَ و المدينة حديث نمبر ۳۳۷۶ صفحه ۵۸۳ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية ابريل ٢٠٠٠ء مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحه ۹۱ مطبوعه ۱۳۱۳ھ مطبع هيمنة مصر ك الحجرات : ٨ نا محمد : ۵ ال عمران : ااا المائدة : ۵۵ اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد ۲ صفحه ۲۲۵.مطبوعہ بیروت ۱۳۷۷ھ تاريخ الامم و الملوک لابی جعفر محمد بن جریر الطبری جلد ۴ صفحه ۴۶ دار الفکر بیروت ۱۹۸۷ء وہ
۱۸۲ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب ذكر أسامة بن زيد حدیث نمبر ۳۷۳۳ صفحه ۶۲۹ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء بخاری كتاب الاشربة باب الايْمَنُ والأَيْمَنُ فِي الشَّرْبِ حدیث نمبر ۵۶۱۹ صفحه ۹۹۶ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۱۵ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحہ ۱۷ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ 14 فتوح البلدان بلاذری صفحہ 142 مطبوعہ مصر 1319ھ كا بخارى كتاب الزكوة باب وجوب الزكوة - حدیث نمبر ۱۳۹۵ صفحه ۲۲۵ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء الحشر : ٨ 19 هود: ۲۰ مسلم كتاب البر والصلة والادب باب فضل عيادة المريض حدیث نمبر ۶۵۵۶ صفحہ ۱۱۲۶ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية اپریل ۲۰۰۰ء الحج :٤١ ۲۲ النور : ۳۸،۳۷ ۲۳ مسلم کتاب المساجد باب استحباب الذكر بعد الصلوة حدیث نمبر ۱۳۴۷ صفحه ۲۴۱ مطبوع الرياض الطبعة الثانية اپریل ۲۰۰۰ء ٢٤ الجمعة : ٣ ۲۵ التوبة : ١٠٠ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۸۴ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ الاعراف :۱۸۲ ٢٦ الاحزاب ۲۴ ٢٩ مشكوة كتاب المناقب باب مناقب الصحابة صفحه ۵۵۴ مطبوعه قدیمی کتب خانہ کراچی ۱۳۶۸ھ ۳۰ ۳۱ ۳۲ اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد ۳ صفحه ۳۸۶،۳۸۵ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ ۳۳ پشتارہ : ڈھیر ، انبار ( فیروز اللغات اردو صفحہ ۲۹۷ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء) ۳۴ الحشر : ١٠ ۳۵ تاریخ طبری اُردو حصہ دوم صفحہ ۳۱ ۳۲ مطبوعہ کراچی جون ۱۹۶۷ء ٣٦ العنكبوت :٤٦ المائدة : ٩٢ ۳۸ بخاری کتاب التفسير.تفسير سورة المائدة باب ليس على الذين آمنوا وعملوا الصلحت...) حدیث نمبر ۲۶۲۰ صفحہ ۷۹۰ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ٣٩ البقرة : ٢٢٩ ٤٠ الرعد : ۲۵،۲۴ ام بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده - حديث نمبر ۱۰
۱۸۳ صفحه ۵ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ٤٢ الحجرات: ١٣ تاریخ اہل عرب مصنفہ سائمن او کلے الحجرات :١٣ ٢٥ البقرة : ١٨٩ المطففين : ۲ تا ۴ ٦ النساء : ٣٠ ۵۰ الحجرات : ١٠ بنی اسراءیل : ۳۸ ۴۹ النساء : ۱۴۹ ا معاہدہ ورسائی: (Treaty of Versailes) جرمنی اور اتحادی قوتوں کے درمیان امن کا معاہدہ جواا نومبر ۱۹۱۹ء کو ہوا جس کے تحت جنگ عظیم اول کا خاتمہ ہوا.اس میں جرمنی کے متعلق بہت سی ظالمانہ شقیں تھیں جس میں ایک یہ بھی تھی کہ جرمنی اور اس کے اتحادی اس جنگ میں ہونے والے ہر قسم کے نقصان کے ذمہ دار ہیں.اس لئے جرمنی مختلف ملکوں کو تاوان جنگ ادا کرے جو ۱۳۲ بلین مارک تھا.۵۲ النهاية لابن الاثير جلد ۲ صفحہ ۱۲۰ مطبوعہ مطبع الخیریه مصر ۱۳۰۶ھ ٥٣ المائدة : ١٠٦ ۵۶ آل عمران: ۱۳۵ (Wikipedia, the free encyclopedia) ۵۴ النساء : ۳۷ ۵۵ البقرة : ۱۴۴ ۵۷ بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب حديث نمبر ۶۱۱۴ صفحہ نمبر ۱۰۶۶ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۵۸ النساء : ۵۵ ۵۹ النساء : ٣٣ ١٠ الحشر : اا ال بخاری کتاب الایمان باب من الايمان ان يحب لاخيه ما يحب لنفسه حديث نمبر ۱۳ صفحه ۵ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء الاعراف : ۲۰۰ ۱۵ الاعلى : ۱۸،۱۷ النور :٢٣ الاعلى : ۲۰،۱۹ ۱۴، النحل: ۹۱ البقرة : ۱۲۶،۱۲۵ ۲۸ بخاری کتاب مناقب الانصار باب قول الله عَزَّ وَ جَلَّ وَ يُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ حدیث نمبر ۳۷۹۸ صفحه ۶۳۷ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۱۹ بخارى كتاب الادب باب إكرام الضيف وخدمته حدیث نمبر ۶۱۳۷ صفحه ۱۰۶۹ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ال عمران : ۱۰۵ اك بخاری کتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبي صلى الله عليه وسلم -
۱۸۴ حدیث نمبر ۶۴۵۲ صفحه ۱۱۲۰ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۲ بخاری کتاب الجنائز باب الصَّلواة عَلَى الْقَبْرِ بَعْدَ مَا يُدْفَنُ ( مفهومًا ) حدیث نمبر ۱۳۳۷ صفحه ۲۱۳ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء البقرة : ١٢٦، ١٢٧ ۷۴ ۷۵ اقرب الموارد الجزء الاول صفحه ۹۷ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء ك المائدة : ٩٨ ، اقرب الموارد الجزء الثاني صفحه ۱۰۵۴ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء ۷۹ ابراهيم :٣٨ ٨٠ الحج : ٢٨ آل عمران: ۹۸،۹۷ الحج : ٣٠ بخاری کتاب احادیث الانبياء باب يزفون ، حدیث نمبر ۳۳۶۴ صفحه ۵۶۱ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۱۴ میروڈوٹس (HERODOTUS) یونانی مؤرخ اور نثرنگار.اس نے عالم شباب میں یونان، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے سفر کئے اور اس دوران مختلف اقوام کی عادات اور مذاہب کا مطالعہ کیا.چار سال میں ایتھنز میں رہنے کے بعد ۴۴۳ ق م میں جنوبی اٹلی میں تھوری (THURII) کے مقام پر رہائش اختیار کی اور پھر وفات تک وہیں مقیم رہا.اس کی تاریخ یونانی اور اہل فارس کی جد وجہد کی وضاحت کے لئے کافی مواد پیش کرتی ہے.اس کے علاوہ بھی اس نے تاریخ کے موضوع پر کتابیں لکھیں.وہ تاریخ عالم کا پہلا مؤرخ ہے جس نے تنقیدی احساس کے ساتھ تاریخ کو قلمبند کیا ہے.اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۸۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) LIFE OF MAHOMET- BY SIR WILLIAM MUIR LONDON 1877 PAGE XIV : ۸۶،۸۵ الفيل : ۲ تا آخر ۸۸ بخاری کتاب الحج باب هَدَم الْكَعْبَة حديث نمبر ۱۵۹۶ صفحه ۲۵۹ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۵۹ در تمین اُردو صفحه ۵۶ ، ۵۷ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ
۱۸۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ (۳) ( تقریر فرموده مورخه ۲۸ دسمبر ۱۹۴۱ء بر موقع جلسه سالانه قادیان ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- (4) جسمانی مقبرے اور روحانی مقبرے چھٹی بات جو میں نے مذکورہ بالا سفر میں دیکھی تھی شاندار مقبرے تھے جو بادشاہوں کے بھی تھے اور وزیروں کے بھی تھے، امیروں کے بھی تھے اور فقیروں کے بھی تھے، اولیاء اللہ کے بھی تھے اور غیر اولیاء اللہ کے بھی تھے، حتی کے کتوں کے بھی مقبرے تھے مگر ان مقبروں میں کوئی پہلوفن کے لحاظ سے صحیح معلوم نہیں ہوتا تھا.یوں عمارتیں بڑی شاندار تھیں اور وقتی طور پر اُن کو دیکھ کر دل پر بڑا اثر ہوتا تھا چنانچہ آگرہ کا تاج محل بڑا پسند یدہ نظر آتا ہے ، ہمایوں کا مقبرہ بڑا دل پسند ہے، اسی طرح منصور اور عماد الدولہ کے مقبرے وہیں ہیں اور جہانگیر کا مقبرہ شاہدرہ لاہور میں سب اچھے معلوم ہوتے ہیں مگر جب ان مقابر کو ہم مجموعی حیثیت سے دیکھتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں نے ان کی تعمیر میں فن کو مد نظر نہیں رکھا.جسمانی مقابر میں تاریخی حقائق اور باہمی توازن کا فقدان چنانچہ دیکھ لو مقبرہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ اُس شخص کی زندگی کا ایک نشان ہو جس کا وہ مقبرہ ہے اور اُس کی تاریخ کو وہ دنیا میں محفوظ رکھے، مگر ہمیں ان بادشاہوں، وزیروں، امیروں اور فقیروں وغیرہ کی زندگی کا نشان ان مقبروں میں کچھ بھی نظر نہیں آتا اور نہ ان مقبروں میں کوئی باہمی توازن دکھائی دیتا ہے.مثلاً بعض ادنی درجہ کے لوگ نہایت اعلیٰ مقبروں میں تھے اور بعض اعلیٰ درجے کے لوگ نہایت ادنیٰ مقبروں میں تھے.اسی طرح جو دُنیوی لوگ ہیں اور جو روحانی لحاظ سے ادنی سمجھے جاتے ہیں ، مجھے نظر آیا
۱۸۶ کہ ان دنیوی لوگوں کے مقبرے تو بڑے اعلیٰ ہیں مگر وہ روحانی لوگ جو سردار تھے بادشا ہوں کے اور سردار تھے وزیروں کے، ان کے مقبرے نہایت ادنی ہیں پھر مجھے حیرت ہوئی کہ نہ صرف ان کے مقبرے دوسروں کے مقابل میں نہایت ادنی ہیں بلکہ جس صورت میں بھی ہیں وہ اس کی شخص کے مذہب اور عقیدہ کے خلاف ہیں جس کی غلامی اختیار کر کے انہوں نے دنیا میں عزت حاصل کی.چنانچہ حضرت نظام الدین صاحب اولیاء اور بعض دوسرے بزرگوں کی قبروں پر فرش ہے اور بعض کے ارد گرد سنگ مرمر کے کٹہرے ہیں اور یہ چیزیں ہماری شریعت میں جائز نہیں.پس مجھے حیرت ہوئی کہ اوّل تو ظاہری لحاظ سے مقبروں میں کوئی نسبت ہی قائم نہیں بعض ادنی لوگوں کے اعلیٰ مقبرے ہیں اور بعض اعلیٰ کے ادنی.اور پھر روحانی لوگوں کے جو مقبرے ہیں اول تو وہ جسمانی بادشاہوں کے مقابر سے ادنی ہیں حالانکہ وہ ان بادشاہوں کے بھی سردار تھے پھر جو کچھ بھی ظاہر میں ہے وہ ان کے اپنے اصول اور دین کے خلاف ہے.گویا ان کے مقبرے ایک طرف اپنے غلاموں سے بھی ادنیٰ تھے اور دوسری طرف ان کے اپنے آقا کے حکم کے خلاف تھے اور اس طرح ان میں کوئی بھی جوڑا اور مناسبت دکھائی نہیں دیتی تھی.پس میں نے اپنے دل میں کہا کہ کوئی انصاف کی تقسیم نہیں.ہمایوں جو مغلیہ خاندان کا ایک مشہور بادشاہ ہندوستان کا فاتح اور اکبر کا باپ تھا اُس کے مقبرہ کا اگر شاہجہان کے مقبرہ سے مقابلہ کیا جائے تو ان دونوں میں کوئی بھی نسبت دکھائی نہیں دیتی.وہ شخص جس نے مغلیہ سلطنت کی بنیادوں کو مضبوط کیا ، جس نے ہندوستان کو فتح کیا اور جس کا بیٹا آگے اکبر جیسا ہوا اُس کا مقبرہ تو بہت ادنی ہے مگر شاہجہان جو اُس کا پڑپوتا ہے اُس کا مقبرہ بہت اعلیٰ ہے.پھر شاہجہان کے مقبرہ کے مقابلہ میں جہانگیر کے مقبرہ کی کوئی حیثیت نہیں اور اور نگ زیب جو ظاہری حکومت کے لحاظ سے بڑا تھا اُس کا مقبرہ ان دونوں کے مقابلہ میں کچھ نہیں.پھر ان کے مقابلہ میں خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کا کی اور خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کے مقبروں کی کوئی حیثیت نہ تھی اور ان دونوں کے مقابلہ میں خواجہ باقی باللہ ، خواجہ میر درد ، شاہ ولی اللہ اور مرزا مظہر جان جاناں کی قبروں کو کوئی نسبت نہ تھی بلکہ کسی نے ان کا مقبرہ بنانے کی کوشش بھی نہیں کی مگر جیسا کہ میں نے کہا ہے جو کچھ تھا اور جن بزرگوں کا مقبرہ بنا ہوا تھا وہ بھی ہماری شریعت کے خلاف تھا.پس مجھے حیرت ہوئی کہ یہ نظارے دنیا میں نظر آتے ہیں کہ اول تو ظاہری لحاظ سے ادنیٰ و اعلیٰ میں کوئی نسبت ہی نہیں اور اگر ہے تو وہ کتوں کے مقبرے
۱۸۷ دین اور دنیا کے سراسر خلاف ہے.پھر جب میں نے بعض جگہ کتوں کے مقبرے بھی دیکھے تو میں اور زیادہ حیران ہوا کیونکہ کتوں کے مقبرے ہندوستان کے اکثر بزرگوں کے مقبروں سے بھی بہت اعلیٰ تھے.میں نے سوچا کہ یہ مقبرے بیشک عبرت کا کام تو دیتے ہیں مگر انصاف اور حقیقت ان سے ظاہر نہیں ہوتی اور انسان ان شخصیتوں کا غلط اندازہ لگانے پر مجبور ہوتا ہے حالانکہ مقبرہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مرنے والے کے حقیقی مقام کی حفاظت کی جائے اور مقبرہ کے ذریعہ اس کے اعمال کے نشان کو قائم رکھا جائے ، اس سے زیادہ مقبرہ کی کوئی غرض نہیں ہوتی.مگر یہ غرض ان مقبروں سے ظاہر نہیں ہوتی اور بجائے اس کے کہ انصاف اور حقیقت ان سے ظاہر ہو وہ انسانی شخصیتوں کا غلط اندازہ پیش کرتے ہیں اور بجائے علم دینے کے دوسروں کو جہالت میں مبتلا ء کرتے ہیں.پس میں نے سمجھا کہ یہ مقبرے زیادہ سے مقبروں کی عمارات سے صرف چارا مور کا علم زیادہ ان باتوں پر دلالت کر سکتے ہیں :- اول : اس وقت عمارت کا فن کیسا ہے یعنی مرنے والوں کو ان مقبروں کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا صرف یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ اُس وقت عمارتیں کیسی بنتی تھیں.دوم: مرنے والے یا اس کے رشتہ دار کے پاس کس قدر مال تھا.یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بادشاہ اچھا تھا یا برا، عالم تھا یا جاہل، البتہ یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کے یا اس کے رشتہ داروں کے پاس کس قدر روپیہ تھا.سوم : مرنے والے یا اس کے پس ماندگان کا تعمیر مقبرہ کے متعلق کیا عقیدہ یا رجحان تھا یعنی ان مقبروں سے صرف اتنا معلوم ہو سکتا ہے کہ مرنیوالے یا اس کے پسماندگان کا عقیدہ کیا تھا آیا اُن کے نزدیک اس قسم کا مقبرہ بنانا جائز تھا یا نہیں.چہارم : ان مقبروں سے ہمیں یہ بھی پتہ لگ سکتا ہے کہ بعد میں آنے والے لوگوں کو ان کے ٹوٹنے سے کس قدر دلچسپی تھی یا یوں کہو کہ ان کے لئے اس میں دلچسپی کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ اسے باقی رہنے دیا جائے.چنانچہ کئی مقبرے ٹوٹے ہوئے نظر آتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ سنگ مرمر بعد میں لوگ ٹوٹ کر لے گئے اور بعض اب تک بڑے شاندار نظر آتے ہیں.پس چوتھی بات ان مقبروں سے یہ معلوم ہو سکتی ہے کہ اس بادشاہ کے مرنے کے بعد کوئی تنزل کا زمانہ آیا ہے یا نہیں.غرض ان مقابر کو اگر دیکھا جائے تو یہی چار باتیں ان
۱۸۸ سے ظاہر ہوتی ہیں.پس میں نے افسوس کیا کہ مقبرہ کی اصل غرض تو یہ ہوتی ہے کہ مرنیوالے کی حقیقی عظمت کا پتہ چلے اور اس کا نشان قائم رہے مگر ان مقبروں سے تو یہ معلوم نہیں ہوتا.ان سے تو شاہجہان اکبر اور اور نگ زیب سے بڑا شمس الدین تغلق، شیر شاہ سوری سے بڑا، اور وزیر منصور اور عماد الدولہ تمام خلجی تغلقوں اور لودھیوں وغیرہ سے بڑے نظر آتے ہیں ، اور پھر یہ سب کے سب روحانی بادشاہوں سے بڑے دکھائی دیتے ہیں.آثار قدیمہ سے مرتب کردہ مضحکہ خیز تاریخ میں نے سوچا کہ اگر دنیا سے تاریخ مٹ جائے اور آثارِ قدیمہ سے تاریخ مرتب کی جائے تو تاریخ لکھنے والے یوں لکھیں گے کہ ہندوستان کا سب سے بڑا بادشاہ شاہجہان تھا اس سے اُتر کر جہانگیر پھر اس سے اُتر کر اکبر بادشاہ تھا.اکبر بادشاہ سے اتر کر عمادالدولہ ( جو محض ایک نواب تھا ) پھر ہمایوں بادشاہ ہوا ان کے بعد منصور بادشاہ ہوئے پھر شمس الدین بادشاہ بنے اس کے بعد بعض گتے ہندوستان کے بادشاہ ہوئے.ان کے علاوہ ہندوستان کے اندر بعض ادنی درجہ کے اُمراء کا بھی پتہ لگتا ہے.جیسے خواجہ قطب الدین صاحب اور خواجہ نظام الدین صاحب.پھر کچھ غلاموں اور امیر نوکروں کے بھی نشان ملتے ہیں جیسے خواجہ باقی باللہ صاحب، شاہ ولی اللہ صاحب ، مرزا مظہر جان جاناں صاحب اور خواجہ میر درد صاحب.اگر کوئی شخص ایسی تاریخ لکھے اور ہندوستان کی اصل تاریخ دنیا سے مٹ جائے تو اس پر بڑے بڑے ریویو لکھے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ اس شخص نے تحقیق میں کمال کر دیا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ مقبروں کے لحاظ سے وہ نہایت سچی تاریخ ہو گی مگر واقعات کے لحاظ سے وہ اوّل درجہ کی جھوٹی اور مفتر یات سے پُر کتاب ہو گی.وہ الف لیلہ کا قصہ تو کہلا سکتی ہے مگر کوئی عقلمند انسان اسے تاریخ کی کتاب نہیں کہہ سکتا، لیکن اگر مقبرے کسی کی شان اور کام کو بتانے کے لئے ہوتے ہیں اور اُن سے غرض یہ ہوتی ہے کہ مرنے والے کی حقیقی عظمت کا پتہ چلے اور اس کا نشان دنیا میں قائم رہے تو پھر ہندوستان میں سب سے زیادہ شاندار مقبرے حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی حضرت خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکی ، حضرت خواجہ فرید الدین صاحب شکر گنج : رح 21 " حضرت شاہ محمد غوث صاحب، حضرت سید علی ہجویری صاحب، حضرت خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ، حضرت خواجہ باقی باللہ صاحب ، حضرت مرزا مظہر جان جاناں صاحہ
۱۸۹ حضرت خواجہ میر درد صاحب اور حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے ہوتے اور ان سے اُتر کر چھوٹے چھوٹے مقبرے اکبر ، ہمایوں، شاہجہان ، جہانگیر اور دوسرے غلاموں ، خلجیوں، تغلقوں، لودھیوں ، مغلوں اور سُوریوں کے ہوتے اور کتوں کی ہڈیاں بجائے مقبروں میں ہونے کے میلے کے ڈھیروں پر پڑی ہوئی ہوتیں.ہم لکھنؤ تو نہیں گئے مگر میں نے سُنا ہے کہ لکھنؤ میں بٹیروں کے بھی مقبرے ہیں.کسی نواب کا بٹیرہ مر جاتا تو لوگ کہنا شروع کر دیتے کہ سُبْحَانَ اللهِ اس بٹیرے کا کیا کہنا ہے وہ تو ہر وقت ذکر الہی میں مشغول رہتا تھا اور نواب صاحب بھی کہتے کہ تم سچ کہتے ہو ولی اللہ جو تھا، آخر اُس کا مقبرہ بنا دیا جاتا.اُن لوگوں کا تصور جن کی قبریں اکھیڑ دی گئیں پھر میں نے سوچا یہ تو مقبرہ والوں سے بے انصافی ہو رہی تھی وہ ہزاروں ہزار یا جنہیں قبریں بھی نصیب نہیں ہوئیں ! لوگ جن کے مقبرے بنے ہی نہیں ان کا حال ہمیں کس طرح معلوم ہو سکتا ہے، آخر ان کا کوئی نشان بھی تو دنیا میں ہونا چاہئے مگر ہمیں دنیا میں ان کا کوئی نشان نظر نہیں آتا.پھر جب میں نے دتی میں پرانی آبادیوں کو گھرتے ہوئے دیکھا اور قبرستانوں میں عمارتوں کو بنتے دیکھا تو میں نے خیال کیا کہ افسوس ان جگہوں کے مکینوں کے لئے مقبرے تو الگ رہے قبریں تک بھی نہیں رہیں.ان کی ہڈیاں نکال کر پھینک دی گئی ہیں اور ان کی قبریں کھود کر وہاں ہے سیمنٹ کی بلند اور عالیشان عمارتیں کھڑی کر دی گئی ہیں.پس میں نے کہا ایک تو وہ ہیں جن کے مقبرے بنے مگر غلط اصول کے مطابق اور ایک یہ ہیں کہ ان کی صرف قبریں بنیں مگر لوگوں نے ان کی قبروں کا رہنا بھی پسند نہ کیا اور انہیں کھود کر ہڈیوں کو پرے پھینک دیا.پھر میں نے خیال کیا کہ گو ان کی قبریں آج اُکھیڑ دی گئی ہیں مگر چلو دو چار سو سال تو انہیں قبروں میں سونے کی کا موقع مل گیا ، لیکن وہ لاکھوں اور کروڑوں ہندو جو مذہبی تعلیم کے ماتحت جلا دیئے جاتے ہیں اُن کو تو یہ قبریں بھی نصیب نہ ہوئیں.پھر مجھے پارسیوں کا خیال آیا کہ وہ لاش پر دہی لگا کر چیلوں کے آگے رکھ دیتے ہیں اور وہ نوچ نوچ کر اُسے کھا جاتی ہیں یا کتوں کے آگے اُسے ڈال دیتے ہیں اور وہ کھا جاتے ہیں.میں نے اپنے دل میں کہا کہ افسوس ! انہیں تو قبر بھی نصیب نہ ہوئی.پھر مجھے ان لوگوں کا خیال آیا جو جل کر مر جاتے ہیں اور جن کی راکھ عمارت کی مٹی سے مل جاتی ہے.مجھے ان لوگوں کا خیال آیا جو ڈوب کر مر جاتے ہیں اور جنہیں مچھلیاں کھا
190 جاتی ہیں.چنانچہ کئی جہاز ڈوب جاتے ہیں اور وہ بڑے بڑے امیر آدمی جنہیں مخمل کے فرش پر بھی نیند نہیں آیا کرتی ، مچھلیوں کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں.پھر مجھے ان لوگوں کا خیال آیا جو کھڈوں میں گر جاتے اور پرندے یا گیدڑ وغیرہ کھا جاتے ہیں.دنیا میں عجیب اندھیر پھر میری توجہ ان لوگوں کی طرف پھری جن کو جنگوں میں شیر اور بھیڑیئے کھا جاتے ہیں اور میں نے کہا کہ دنیا میں عجیب اندھیر ہے کہ :- اول: مقبرے بے انصافی سے بنے.: دوم قبروں کی آرام گاہوں کو عمارتوں میں تبدیل کر دیا گیا.سوم بعض کو خود ان کی قوم نے جلا کر راکھ کر دیا یا پرندوں کو کھلا دیا اور بعض کو حوادث نے خاک میں ، پانی میں ، درندوں کے پیٹوں میں پہنچا دیا.پس میں نے کہا اگر مقبرے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کے ذریعہ مرنے والے کا نشان قائم رکھا جائے تو یہ غرض سب کو حاصل ہونی چاہئے تھی نہ یہ کہ جس کے رشتہ دار امیر ہوتے وہ تو مقبرہ بنا لیتے اور باقی لوگوں کے مقبرے نہ بنتے.پھر جن کے مقبرے بنے تھے یا جو قبروں میں مدفون ہوئے تھے اُن کے مقبرے اور ان کی قبریں محفوظ رہنی چاہئے تھیں مگر نہ تو سب کے مقبرے بنے اور نہ سب کی قبریں محفوظ رہیں.پس میں نے کہا یہ تجویز تو بڑی اچھی ہے اور مقبرہ بنانے کا خیال جس شخص کے دل میں پہلی مرتبہ آیا اسے واقع میں نہایت اچھا خیال کو جھا مگر انسانی عقل دنیا کے مقبروں کو دیکھ کر تسلی نہیں پاتی اس لئے کیا کوئی ایسا مقبرہ بھی ہے جس سے وہ غرض پوری ہوتی ہو جو مقبرہ کا موجب بنی ہے اور جس میں کوئی بے انصافی نہ ہوتی ہو، بلکہ ہر ایک کا نشان اس کے حق کے مطابق قائم رکھا جاتا ہو.ایک اور مقبرہ میں نے دیکھا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اور مقبرہ بھی ہے اور اس میں وہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں جو مقبرہ میں ہونی چاہئیں، چنانچہ اس میں لکھا تھا خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ فرماتا ہے ہم نے انسان کو پیدا کیا فَقَدَّرَهُ پھر ہم نے انسان کے اندر اس کی پیدائش کے وقت ہی جس حد تک اس کا نشو و نما ممکن تھا اس کے مطابق تمام طاقتیں اور قو تیں پیدا کر دیں، اسے دماغ دیا ، دماغ کے اندر سیلز بنائے اور ہر سیل کے اندر بات کو محفوظ رکھنے کی طاقت پیدا کی.اسی طرح ہم نے اسے ذہانت دی اور اس ذہانت کے لئے اس کے دماغ کے کچھ حصے مخصوص کئے.کچھ فہم کے لئے مخصوص کئے، کچھ جرات اور دلیری کے لئے مخصوص کئے ، پھر
۱۹۱ ہاتھوں اور پیروں کو طاقت دی تا کہ وہ اپنا اپنا کام کر سکیں.معدہ کو طاقت دی کہ وہ غذا ہضم کر کے تمام اعضاء کو قوت پہنچائے.ہڈیوں کو طاقت دی ، قوی کو طاقت دی غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کے قوی کا اندازہ مقرر کیا اور ہر عضو کو اس کے مناسب حال طاقت دی تا کہ وہ خاص اندازہ کے مطابق ترقی کر سکے.عام قاعدہ یہ ہے کہ جو چیز بنائی جائے وہ اسی معین حلقہ میں کام کرتی ہے جس معتین حلقہ میں کام کرنے کے لئے اُسے بنایا جاتا ہے مگر فرمایا ہم نے انسان کو ایسا نہیں بنایا جیسے پتھر وغیرہ ہیں کہ وہ اپنی شکل نہ بدل سکے بلکہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی قابلیت اس میں رکھی ہے.ثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهُ جب ہم نے اس میں طاقتیں اور قو تیں رکھیں تو ہم نے محسوس کیا کہ اب ان طاقتوں اور قوتوں سے کام بھی لیا جانا چاہئے اور ایسا رستہ ہونا چاہئے جس پر چل کر انسان ان طاقتوں سے کام لے کر چل سکے.آخر جب خدا نے ہر انسان میں سوچنے کی طاقت رکھی ہے تو لازماً ایسی باتیں ہونی چاہئیں جن پر انسان غور کرے اور اس طرح اپنی اس طاقت سے فائدہ اُٹھائے یا جب خدا نے ہر انسان کے اندر یہ طاقت پیدا کی ہے کہ وہ خدا کے قرب میں بڑھ سکتا ہے تو کوئی ایسا رستہ بھی ہونا چاہئے جس پر چل کر اُسے قُرب حاصل ہو سکے.پھر جب خدا نے انسان کو اندازہ لگانے کی طاقت دیدی ہے تو اس کے نتیجہ میں لازماً وہ بعض کو اچھا قرار دیگا اور بعض کو بُرا.چنانچہ دیکھ لو کچھ کھانے اچھے ہوتے ہیں کچھ بُرے ہوتے ہیں.پھر کام بھی کچھ اچھے ہوتے ہیں اور کچھ بُرے ہوتے ہیں.پھر آپس کے مقابلوں میں سے بھی کچھ مقابلے مشکل ہوتے ہیں اور کچھ آسان ہوتے ہیں اور انسان اپنی ذہانت اور ان طاقتوں سے کام لے کر جو خدا نے ہر انسان کے اندر ودیعت کی ہوئی ہیں فیصلہ کرتا ہے کہ کونسی بات اچھی ہے اور کونسی بُری.اسلام کی مطابق فطرت تعلیم تعلیم پس چونکہ ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے کئی قسم کی طاقتیں پیدا کی تھیں اس لئے کوئی راستہ بھی ہونا چاہئے تھا چنانچہ یہ راستہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی تجویز کر دیا مگر یہ راستہ مشکل نہیں بلکہ فرماتا ہے ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ خدا نے اس راستہ کو آسان بنایا ہے یعنی اسے (۱) الہام اور (۲) مطابق فطرت تعلیم دی ہے.ایسا راستہ نہیں بنایا کہ جس پر انسان چل ہی نہ سکے جیسے انجیل نے کہہ دیا کہ اگر کوئی شخص تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تو اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دے.اب یہ تعلیم بظاہر بڑی خوش کن معلوم ہوتی ہے مگر کوئی شخص اس پر عمل نہیں کر سکتا.
۱۹۲ مصر کا ایک لطیفہ مشہور ہے وہاں چند سال ہوئے ایک عیسائی مبلغ نے تقریریں شروع کر دیں اور لوگوں پر ان کا اثر ہونا شروع ہو گیا.ایک پُرانی طرز کا مسلمان وہاں سے جب بھی گزرتا دیکھتا کہ پادری وعظ کر رہا ہے اور مسلمان خاموشی سے سُن رہے ہیں اس نے سمجھا کہ شاید کوئی مسلمان مولوی اس کی باتوں کا جواب دے گا.مگر وہ اس طرف متوجہ نہ ہوئے اور خود اس کی علمی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ اُس کے اعتراضوں کا جواب دے سکتا اس لئے وہ اندر ہی اندر کڑھتا رہتا.ایک روز خدا تعالیٰ نے اُس کے دل میں جوش پیدا کر دیا اور جب پادری وعظ کرنے لگا تو اُس نے زور سے اُس کے منہ پر تھپڑ دے مارا.پادری نے سمجھا کہ اگر میں نے اس کا مقابلہ نہ کیا تو یہ اور زیادہ دلیر ہو جائے گا چنانچہ اس نے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اُٹھایا.مصری کہنے لگا میں نے تو اپنے مذہب پر عمل کیا ہے تم اپنے مذہب پر عمل کر کے دکھا دو.تمہاری تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گال پر تھپڑ مارے تو اُس کی طرف تمہیں اپنا دوسرا گال بھی پھیر دینا چاہئے.میں تو اس امید میں تھا کہ تم اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق اپنا دوسرا گال بھی میری طرف پھیر دو گے مگر تم تو مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے ہو، اگر تمہاری تعلیم قابل عمل ہی نہیں تو تم وعظ کیا کرتے ہو.پادری اس وقت جوش کی حالت میں تھا اس نے زور سے اُسے گھونسا مار کر کہا اس وقت تو میں تمہارے قرآن پر ہی عمل کروں گا.انجیل پر عمل کروں گا تو تم مجھے اور مارا کرو گے.تو ہماری شریعت میں کوئی بات ایسی نہیں جو ناممکن العمل ہو.وہ کہتا ہے کہ اگر تم سے کوئی شخص بدی کے ساتھ پیش آتا ہے تو تم عفو سے کام لو بشرطیکہ تم سمجھو کہ عفو سے اس کی اصلاح ہو جائے گی لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ عفو سے اس کے اندر نیکی اور تقویٰ پیدا نہیں ہوگا بلکہ وہ اور زیادہ بدی پر دلیر ہو جائے گا تو تم اس سے انتقام بھی لے سکتے ہو.غرض اللہ تعالیٰ نے اسلامی شریعت کو ایسا بنایا ہے کہ ہر شخص ہر حالت میں اس پر عمل کر سکتا ہے اور کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کے متعلق کہا جا سکے کہ انسان کے لئے اس پر عمل کرنا ناممکن ہے، لیکن دوسری شریعتوں کا یہ حال نہیں.انجیل نے ہی تعلیم تو یہ دے دی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گال پر تھپڑ مارے تو ی دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دو، لیکن عملی رنگ میں انگریز اس کے خلاف کرتے ہیں حالانکہ وہ عیسائی ہیں ، جرمن اس کے خلاف کرتے ہیں حالانکہ وہ عیسائی ہیں، فرانسیسی اس کے خلاف کی کرتے ہیں حالانکہ وہ عیسائی ہیں، اور وہ سب آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اس تعلیم پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.
۱۹۳ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَاقْبَرَهُ.پھر ہماری غرض چونکہ اس تعلیم کے بھیجنے سے یہ تھی کہ انسان اس پر عمل کریں اور ہمارے انعامات کے مستحق ٹھہریں اس لئے جب کوئی شخص عمل ختم کر لیتا اور امتحان کا پرچہ ہمیں دے دیتا ہے اور امتحان کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو ہم اسے قبر میں ڈال دیتے ہیں.ہر انسان کو خدا تعالیٰ خود قبر میں ڈالتا ہے اس آیا اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کو خدا تعالیٰ خود قبر میں ڈالتا ہے.یہ مٹی کی قبر جس میں ہم انسان کو دفن کر کے آجاتے ہیں یہ اصل میں مادی جسم کا ایک نشان ہوتا ہے ورنہ اصل قبر وہی ہے جو خدا بناتا ہے.اس مادی قبر میں مُردے کو دفن کرنے ، گڑھا کھودنے ، میت کو غسل دینے اور کفن پہنانے کا تمام کام ہمارے ذمہ ہوتا ہے مگر اصلی قبر میں ڈالنے کا کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہوا ہے.اس مقبرہ کے متعلق مجھے کم سے کم یہ معلوم ہوا کہ اس میں سب انسانوں سے یکساں سلوک ہوتا ہے یعنی سب کا مقبرہ تیار کیا جاتا ہے.یہ نہیں کہ اکبر کا مقبرہ ہو اور ابوالفضل کا نہ ہو بلکہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کا اللہ تعالیٰ نے مقبرہ بنایا ہے اکبر کا بھی اور اکبر کی دایہ کا بھی ، اکبر کے بچہ کی کھلائی کا بھی ، اکبر کے درزی ، اکبر کے دھوبی اور اکبر کے چوہڑے کا بھی کیونکہ انہوں نے بھی کوئی نہ کوئی کام اپنے درجہ اور لیاقت کے مطابق کئے تھے اور اُن کی حفاظت بھی ضروری تھی.پس یہ قبرستان ایسا ہے جس میں کسی سے بے انصافی نہیں کی گئی بلکہ ہر ایک کا مقبرہ موجود ہے.نیز میں نے دیکھا کہ جن کو لوگ جلا دیتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے ، جن کو شیر کھا جاتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے، جو سمندر میں ڈوب جاتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے ، جو مکانوں میں جل جاتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے ، جن کی قبروں کو لوگوں نے اکھیڑ دیا ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے ، وہ اس دنیا کی قبروں کو اُکھاڑ کر پھینک سکے مگر اس مقبرہ کو تو چھو بھی نہیں سکے.غرض کوئی انسان ایسا نہ تھا جس کا مقبرہ یہاں نہ ہو خواہ اُسے جلا دیا گیا ہو ، مٹا دیا گیا ہو، مشینوں سے راکھ کر دیا گیا ہو، چیلوں اور کتوں نے اسے کھا لیا ہو، مچھلیوں کے پیٹ میں چلا گیا ہو، شیروں اور بھیڑیوں نے اُسے لقمہ بنالیا ہو ، کھڈوں میں گر کر مرا ہو اور گیدڑ اور دوسرے جنگلی جانور اُسے کھا گئے ہوں ، ہر شخص کا مقبرہ یہاں موجود تھا ، غرض چھوٹے بڑے، امیر غریب، عالم جاہل سب کو مقبرہ حاصل تھا.میں نے جب اس مقبرہ کو دیکھا تو کہا دنیا نے بہتیری کوشش کی کہ لوگوں
۱۹۴ کی قبروں کو مٹا ڈالے اور حوادث زمانہ نے بھی نشانوں کو محو کرنے میں کوئی کمی نہ کی مگر پھر بھی ایک نہ ایک مقام تو ایسا ہے جس میں تمام انسانوں کے مقبرے موجود ہیں.ثواب عذاب ظاہری قبر میں نہیں جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس آیت میں قبر کا لفظ جو آتا ہے اس سے مراد وہ مقام ہے جس میں بلکہ عالم برزخ کی قبر میں ملتا ہے مرنے کے بعد ا رواح رکھی جاتی ہیں خواہ مؤمن کی رُوح ہو یا کافر کی.سب کی روحیں اس مقام پر رکھی جاتی ہیں اور در حقیقت یہی قبر ہے جس میں ثواب یا عذاب ملتا ہے.وہ جو حدیثوں میں آتا ہے کہ مرنے کے بعد کافروں کو قبر کا عذاب دیا جاتا ہے اس سے مراد یہی قبر ہے ظاہری قبر مراد نہیں.کئی بیوقوفوں کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے بعض منافقین کی قبریں کھولیں یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا قبر میں اُن کے لئے دوزخ کی کھڑکی گھلی ہے یا نہیں ؟ مگر جب انہوں نے قبر کو کھولا تو ہے انہیں کوئی آثار دکھائی نہ دیئے.در حقیقت یہ ان کی غلطی تھی، اگر اسی قبر میں ثواب و عذاب ہو تو وہ ہے پارسی جو اپنے مُردے چیلوں کو کھلا دیتے ہیں، وہ ہندو جو اپنے مُردوں کو جلا دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ڈوب یا جل کر مر جاتے ہیں ان کو تو قبر کا عذاب یا ثواب ملے ہی نہ.کیونکہ ان کی تو قبریں ہی نہیں بنیں صرف مسلمان اسلام پر عمل کر کے گھاٹے میں رہے.مگر یہ بات غلط ہے اور پر حدیث میں تو ظاہری قبر مراد نہیں ، ظاہری قبر میں تو بعض دفعہ یکے بعد دیگرے ہیں ہیں مُردوں کو دفن کر دیا جاتا ہے اور ہر شہر میں یہ نظارہ نظر آتا ہے.ایک قبر بنائی جاتی ہے.مگر پندرہ بیس سال کے بعد اس کا نشان مٹ جاتا ہے اور اس جگہ اور قبر بن جاتی ہے.لاہور کا قبرستان پانچ سو سال سے چلا آ رہا ہے، اس میں ایک ایک قبر میں پندرہ پندرہ بیس ہیں آدمی دفن ہو چکے ہونگے.ایسی حالت میں ان میں سے کوئی تو شدید دوزخی ہوگا اور کوئی ادنیٰ قسم کا دوزخی ہوگا.کوئی اعلیٰ جنتی ہوگا اور کوئی ادنی جنتی ہو گا.اگر دوزخ اور جنت کی کھڑ کی اسی قبر میں کھلتی ہو تو بالکل ممکن ہے کہ پہلے ایک دوزخی اس میں دفن ہو اور پھر کوئی جنتی اس میں دفن ہو جائے.ایسی صورت میں لازماً دوزخ کی آگ جنتی کو لگے گی اور جنت کی ہوا دوزخی کو پہنچے گی اور ثواب و عذاب بالکل مضحکہ خیز صورت اختیار کر لیں گے.پس یہ غلط ہے کہ وہ قبر جس میں ثواب یا عذاب ملتا ہے یہ ظاہری قبر ہی ہے.وہ قبر وہ ہے جس میں خدا تعالیٰ خود انسان کو ڈالتا ہے چنانچہ اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ذلِک بِاَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّهُ
۱۹۵ يُحْيِ الْمَوْتَى وَأَنَّهُ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَّاَنَّ السَّاعَةَ اتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا وَاَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ فرماتا ہے ہم نے جو بات کہی ہے کہ اللہ ہی اصل چیز ہے اور وہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر بات پر قادر ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے جس میں کسی قسم کا شک وشبہ نہیں وَانَّ اللهَ يَبْعَثُ مَنْ فِى الْقُبُورِ.اور یہ کہ قیامت کے دن جو لوگ قبروں میں ہونگے اللہ تعالیٰ اُن کو زندہ کر دیگا.اب اگر قبر سے مراد یہی ظاہری قبر ہو تو اس کے معنے ہونگے کہ قیامت کے دن صرف مسلمان زندہ کئے جائیں گے.ہند و جو اپنے مُردے کو جلا دیتے ہیں ، پارسی جو اپنے مُردے چیلوں کو کھلا دیتے ہیں اور عیسائی کہ وہ بھی اب زیادہ تر مردوں کو جلاتے ہیں زندہ نہیں کئے جائیں گے.عیسائی پہلے تو مُردوں کو دفن کیا کرتے تھے مگر اب بجلی سے جلا کر راکھ کر دیتے ہیں.پس اگر یہی مفہوم ہو تو لازم آئے گا کہ قیامت کے دن مسلمانوں کے سوا اور کوئی زندہ نہ ہو کیونکہ مَنْ فِی الْقُبُورِ کی حالت اب دنیا کے اکثر حصہ میں نہیں پائی جاتی.اس صورت میں مسلمان اور یہودی تو اپنے اعمال کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے مگر باقی سب چھوٹ جائیں گے.پس یہ معنے درست نہیں بلکہ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان قبروں میں سے جو اس کی بنائی ہوئی ہیں سب مردوں کو زندہ کرے گا اور ان خدائی قبروں میں وہ بھی دفن ہوتے ہیں جو مادی قبروں میں دفن ہیں اور وہ بھی جو جلائے جاتے ہیں اور وہ بھی جن کو درندے یا کیڑے مکوڑے کھا جاتے ہیں.پس اَنَّ اللهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ اس سے مراد وہی قبر ہے جس میں خدا رکھتا ہے ہے، وہ قبر نہیں جس میں انسان رکھتا ہے.اور سب مُردوں کو خواہ وہ دریا میں ڈوب جائیں خواہ انہیں پرندے کھا جائیں خواہ وہ جلائے جائیں قبر والا قرار دیا گیا ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قبراصل میں وہ مقام ہے جس میں اللہ تعالیٰ ہر روح کو رکھتا ہے خواہ وہ مٹی کی قبر میں جائے خواہ ڈوب کر مرے اور خواہ جلایا جائے.ایک اعتراض اور اُس کا جواب اس مقام پر کوئی شخص اعتراض کر سکتا ہے کہ تم بیشک مانتے ہو کہ قرآن خدا کا کلام ہے مگر ہم تو اسے درست نہیں سمجھتے ہمارے نزدیک قرآن کے مصنف نَعُوذُ بِاللهِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور انہوں نے اَنَّ اللهَ يَبْعَثُ مَنْ فِى الْقُبُورِ کے الفاظ اس لئے استعمال کئے ہیں کہ انہیں
۱۹۶ اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ بعض لوگ اپنے مُردوں کو جلا بھی دیتے ہیں وہ یہی سمجھتے تھے کہ سب لوگ مُردوں کو دفن کرتے ہیں اس لئے انہوں نے اَنَّ اللهَ يَبْعَثُ مَنْ فِى الْقُبُورِ کے الفاظ استعمال کر دیئے پس آیت کا یہ حصہ ان کی ناواقفی پر دلالت کرتا ہے.اس سے یہ کس طرح ثابت ہو گیا کہ سمندر میں ڈوبنے والا بھی کسی قبر میں جاتا ہے اور درندوں کے پیٹ میں جانے والا بھی کسی قبر میں جاتا ہے اور جسے راکھ بنا کر اُڑا دیا گیا ہو وہ بھی کسی قبر میں جاتا ہے اور پھر ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُٹھائے گا.اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ کو جلانے والوں کا علم نہیں تھا تو آیا ڈوبنے والوں کا علم تھا یا نہیں ، مکہ سے سمندر چالیس میل کے فاصلہ پر ہے اور کشتیاں اُس زمانہ میں بھی چلا کرتی تھیں اور ڈوبنے والے ڈوبتے تھے.پس اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ کچھ لوگ اپنے مُردے جلاتے ہیں تو کم از کم آپ کو یہ تو معلوم تھا کہ بعض لوگ ڈوب جاتے ہیں اور وہ قبر میں دفن نہیں ہو سکتے.پھر اس کو بھی جانے دو کیا مکہ میں کبھی کسی گھر میں آگ لگتی تھی یا نہیں اور کیا آپ نہیں جانتے تھے کہ بعض لوگ جل کر راکھ ہو جاتے ہیں؟ پھر کیا ملکہ کے ارد گرد جو کچھ فاصلہ پر جنگلات ہیں وہاں کے شیر اور بھیڑیئے مشہور نہیں تھے؟ اور کیا آپ کے زمانہ میں یہ جانور کبھی کسی آدمی کو پھاڑ کر کھاتے تھے؟ یا نہیں اور آپ کو علم تھا یا نہیں کہ قبر میں دفن ہونے کے علاوہ ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جنہیں شیر اور بھیڑیئے کھا جائیں ؟ جو آگ میں جل کر مر جائیں اور جوسمندر میں ڈوب مریں ؟ پھر اس کو بھی جانے دو عرب کے ساحل کے ساتھ مجوسی لوگ تھے اور وہ اپنے مُردوں کو دفن نہیں کرتے تھے بلکہ چیلوں اور کتوں کو کھلا دیا کرتے تھے.یہ لوگ بوجہ عرب کے قُرب کے آپ کو ملتے تھے بلکہ ان لوگوں میں سے بعض مسلمان بھی ہوئے آپ ان کے حالات کو خوب جانتے تھے اور یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ آپ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ بعض قو میں اپنے مُردے جلا دیا کرتی ہیں.پھر کیا عجیب بات نہیں کہ جب یہ لوگ قرآن کریم کی جامع و مانع تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجوسیوں اور یہودیوں کی تعلیم سے واقف تھے، آپ نے ان کی اچھی باتیں اپنی کتاب میں درج کر لیں حتی کہ بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ آپ نے فلاں فلاں بات ویدوں سے لی ہے مگر دوسری طرف یہ کہہ دیتے ہیں کہ آپ کو یہ علم تک نہیں تھا کہ بعض لوگ مُردے دفن کرنے کی بجائے جلایا کرتے ہیں حالانکہ جو شخص مجوسیوں اور یہودیوں کی تعلیم سے واقف ہو سکتا ہے جو بقول معترضین کے ژند اوستا ، تو راة ،
۱۹۷ انجیل اور دیدوں سے واقف ہو سکتا تھا کیا وہ اس امر سے نا واقف ہو سکتا تھا کہ بعض لوگ مُر دے دفن نہیں کرتے بلکہ جلا دیتے ہیں یا جانوروں کو کھلا دیتے ہیں.الہی مغفرت کا ایک ایمان افروز واقعہ پھر علاوہ ان دلائل کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو علم تھا کہ بعض لوگ جلائے جاتے ہیں اور گو اس میں صرف ایک شخص کا ذکر آتا ہے مگر مسئلہ ایک کے ذکر سے بھی ثابت ہو جاتا ہے وہ حدیث یہ ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انَّ رَجُلا حَضَرَهُ الْمَوْتُ فَلَمَّا يَئِسَ مِنَ الْحَيَوةِ أَوْصَى أَهْلَهُ إِذَا اَنَامِتُ فَاجْمَعُوالِى حَطَبًا كَثِيرًا وَاَوْقِدُوا فِيهِ نَارًا حَتَّى إِذَا أَكَلَتْ لَحْمِنُ وَخَلَصَتْ إِلَى عِظَامِي فَامْتَحَشَتْ فَخُذُوهَا فَاطْحَنُوهَا ثُمَّ انْظُرُوا يَوْمًا احًا فَاذْرُوهُ فِي الْيَمِّ فَفَعَلُوا فَجَمَعَهُ اللهُ فَقَالَ لَهُ لِمَ فَعَلْتَ ذَلِكَ قَالَ مِنْ خَشْيَتِكَ فَغَفَرَ اللهُ لَهُ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے رشتہ داروں کو جمع کیا اور کہا کہ جب میں مر جاؤں تو لکڑیاں جمع کر کے اُن کو آگ لگانا اور پھر اس آگ میں مجھے ڈال دینا یہاں تک کہ میرا سارا گوشت کھایا جائے اور ہڈیاں گل جائیں پھر جو جلی ہوئی ہڈیاں باقی رہ جائیں ان کو خوب پینا اور جب کسی دن تیز آندھی آئے تو میری ان پسی ہوئی ہڈیوں کو دریا میں بہا دینا.انہوں نے ایسا ہی کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اُس کو پھر زندہ کر دیا اور اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ خدایا! میں سخت گنہگار تھا اور میں ڈرتا تھا کہ اگر میری روح تیرے قابو آئی تو تو مجھے ضرور سزا دے گا.اللہ تعالیٰ نے کہا جب تو مجھ سے اس قدر ڈرتا تھا تو جا میں نے تجھے معاف کر دیا.اب دیکھو اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم تھا کہ بعض لوگ جلائے جاتے ہیں کم سے کم ایک شخص کے متعلق آپ کو یقینی طور پر معلوم تھا کہ اُسے دفن نہیں کیا گیا بلکہ آگ میں جلایا گیا مگر پھر بھی وہ خدا کے قابو چڑھ گیا اور اسے زندہ کر کے اس نے اپنے سامنے کھڑا کر دیا.پس در حقیقت وہ مَنْ فِی الْقُبُورِ میں ہی شامل تھا اور گو ر وہ جلا کر ہوا میں اُڑا دیا گیا مگر پھر بھی قرآنی اصطلاح میں اسے قبر والا ہی قرار دیا گیا ہے.غرض اوّل تو قرآن کریم خدا کا کلام ہے جسے سب کچھ علم ہے، لیکن اگر نَعُوذُ بِاللهِ
۱۹۸ مِنْ ذَالِکَ اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہی سمجھ لیا جائے تب بھی آپ پر یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ بعض لوگ دفن نہیں ہوتے بلکہ جلائے جاتے ہیں.پس با وجودلوگوں کے ڈوبنے ، جلنے اور درندوں اور پرندوں کے پیٹ میں جانے کے پھر بھی قبر کے لفظ کا استعمال بتاتا ہے کہ قبر سے مراد وہی مقام ہے جس میں سب ارواح رکھی جاتی ہیں نہ کہ مادی قبر جو ہر ایک کو نصیب نہیں.غرض قرآن کریم نے وہ مقبرہ پیش کیا ہے کہ رشتہ دارمیت سے خواہ کچھ سلوک کریں وہ اُسے جلا دیں وہ اُس کی ہڈیاں پیس دیں وہ اُسے چیلوں اور کتوں کے آگے ڈال دیں اور اس سے کیسی ہی بے انصافی کریں اللہ تعالیٰ خود اس کے لئے مقبرہ بناتا ہے اور اسے زندگی بخش کر اپنے پاس جگہ دیتا ہے اور اس میں کافر اور مؤمن کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا.مرنے والے کے لواحقین اپنے مذہب کے غلط عقائد کے ماتحت اُسے کتوں کے آگے ڈال دیتے ہیں، وہ اپنے مذہب کے غلط عقائد کے ماتحت اسے چیلوں اور گدھوں کو کھلا دیتے ہیں، مگر خدا کا فر اور مؤمن سب کی ارواح کو قبر میں جگہ دیتا ہے.ہر شخص کا روحانی مقبرہ اس کے اعمال کے مطابق ہو گا اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر ایک کا مقبرہ اس کے اعمال کے مطابق ہو سکتا ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ ہر شخص کا مقبرہ اس کے عمل کے مطابق ہو.دنیا میں بڑے بڑے فریبی اور دغا باز ہوتے ہیں جن کی عمریں فریب اور دعا میں ہی گزر جاتی ہیں مگر ظاہر میں وہ بڑے متقی اور پر ہیز گار دکھائی دیتے ہیں اور ان کے دل میں تو کچھ ہوتا ہے مگر ظاہر کچھ کرتے ہیں.حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب سنایا کرتے تھے کہ ایک انگریز سرحد میں جا کر دس سال تک لوگوں کو نمازیں پڑھاتا رہا اور کسی کو یہ احساس تک نہ ہو ا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ انگریز ہے.اسی طرح برٹن ایک عیسائی تھا جو نام بدل کر حج کے لئے چلا گیا.اب فرض کرو وہ شخص اسی جگہ مرجاتا تو لوگ اس کا مقبرہ بنا دیتے اور اُس پر لکھ دیتے کہ یہ فلاں حاجی صاحب تھے جو حج کرنے کے لئے آئے اور مکہ میں ہی فوت ہو گئے حالانکہ وہ منافق تھا.اسی طرح ہزاروں ایسے آدمی ہوتے ہیں جو دوسرے مذہب میں شامل ہو جاتے ہیں مگر در حقیقت وہ شامل نہیں ہوتے.قرآن کریم میں ہی منافقوں کا ذکر آتا ہے اور منافق وہی ہوتا ہے جو چُھپ کر رہے.اوپر سے تو ظاہر کرے مگر دل
۱۹۹ میں اس کے کچھ اور ہو.اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کا بیشک یہ کہہ کر رڈ کیا ہے کہ وَمَا هُمُ بِمُؤْمِنِينَ.وہ مؤمن نہیں ہیں مگر ان کا نام تو ظاہر نہیں کیا کہ پتہ لگ جاتا فلاں مؤمن نہیں بلکہ منافق ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان منافقوں کا علم دیا گیا تھا اور بعض کے نام آپ نے ظاہر بھی فرمائے مگر کئی ایسے منافق تھے جن پر پردہ پڑا رہا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عام لوگوں کو نہیں بتایا کہ وہ منافق ہیں.حضرت حذیفہ ایک صحابی تھے انہیں اس بات کا بڑا شوق تھا کہ وہ یہ معلوم کریں کہ ہم میں منافق کون کون ہیں چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑے رہتے تھے کہ يَارَسُولَ الله ! مجھے ان کے نام بتا دیجئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے اصرار کو دیکھ کر آخر بتا دیئے.رفتہ رفتہ لوگوں کو پتہ لگ گیا کہ حذیفہ کو منافقین کا علم ہے چنانچہ جس کے جنازہ پر حذیفہ نہیں جاتے تھے اس کے جنازہ پر باقی صحابہ بھی نہیں جاتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ منافق ہی ہو گا تبھی حذیفہ اس کے جنازہ میں شامل نہیں ہوئے.اب دیکھو وہ منافق تو تھے مگر خدا تعالیٰ نے ان پر پردہ ڈال دیا اور لوگوں کے لئے یہ معلوم کرنا مشکل ہو گیا کہ کون کون منافق ہیں.ایسی حالت میں کسی منافق کا بھی مقبرہ بنا دیا جائے اور اس پر اس کی بڑی تعریف لکھ دی جائے تو دنیوی لحاظ سے یہ بالکل صحیح ہو گا مگر واقعات کے لحاظ سے اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں ہو گا.عبداللہ بن ابی بن سلول جو منافقین کا سردار تھا اسے تو خدا تعالیٰ نے ظاہر کر دیا مگر اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اور بھی کئی منافق تھے جو ظاہر نہیں ہوئے قرآن کریم اس پر شاہد ہے ایسی صورت میں یہ ممکن ہے کہ ہم لوگ صحابہ میں ان کا نام دیکھ کر ان کی تعریفیں کرتے ہوں مگر وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد ہوں.آخر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں بتایا کہ کون کون منافق ہے تو ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ مخفی رہے ہوں.بڑے لوگوں میں سے نہیں بلکہ ادنیٰ درجہ کے صحابی جن میں سے بعض کے نام بھی اسلامی کارناموں میں نہیں آتے ممکن ہے کہ ان میں سے بعض منافق ہوں.اب بالکل ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کے مقابر پر کوئی شخص لکھدے که رَضِيَ اللهُ عَنْهُمُ مقربانِ بارگاه صمدی ، مگر واقع یہ ہو کہ وہ راندہ درگاہ ہوں نہ کہ خدا کے مقرب اور اس کی رضا حاصل کرنے والے.اس جگہ کوئی شیعہ صاحب اگر یہ اعتراض کر دیں کہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ صحابہ میں بعض منافق تھے اور وہ پوشیدہ رہتے تھے پھر اگر ہم صحابہ کو منافق کہتے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں منافقوں کو
۲۰۰ منافق کہنے پر اعتراض نہیں بلکہ مؤمنوں مخلصوں اَلسَّابِقُونَ الاَوَّلُونَ کو منافق کہنے پر اعتراض لا ہے قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کے کچھ ساتھی منافق تھے، لیکن وہ صحابہ کی بڑی ہے جماعت کو مخلص اور رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اَلسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ ابتدائی زمانہ اسلام میں تلہ تھے یعنی ایک بڑی جماعت تھے اور عام مؤمن اور مخلص بھی بڑی جماعت تھے ہمیں صرف یہ اعتراض ہے کہ شیعہ صاحبان بڑی جماعت کو منافق اور صرف چند اصحاب کو مؤمن کہہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نا کام اور نامراد قرار دیتے ہیں.نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِکَ.حالانکہ قرآن کریم آپ کی قوتِ قدسیہ کو کامیاب و بامراد فرماتا ہے اور تاریخ اور واقعات بھی اس پر شاہد ہیں اور دشمن بھی اقراری ہیں.وَالْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْاَعْدَاءُ کاموں کی اہمیت کا صحیح اندازہ لگانے میں مشکلات دوسری مشکل ہمیں یہ پیش آتی ہے کہ علاوہ منافقت کے کاموں کی اہمیت کا بھی صحیح اندازہ دنیا میں نہیں لگایا جا سکتا.بعض کام بہت چھوٹے دکھائی دیتے ہیں مگر بعد میں ان سے بڑے بڑے اہم نتائج پیدا ہوتے ہیں.بعض فقرات چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں مگر ان کے اثرات بڑے وسیع ہوتے ہیں.اس کے مقابلہ میں کئی باتیں وقتی طور پر بڑی دکھائی دیتی ہیں مگر نتائج کے اعتبار سے بالکل بے حقیقت ہوتی ہیں پھر کئی کام ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا حالانکہ اُن سے بھی انسان کے اخلاق و عادات پر نہایت گہری روشنی پڑتی ہے پس میں نے سوچا کہ جب تک یہ مشکل حل نہیں ہو گی اُس وقت تک کام نہیں بنے گا.بیشک قرآن سے ایک مقبرے کا تو پتہ لگ گیا مگر جب تک مقبرہ ہر شخص کے اعمال کے مطابق نہ ہو اُس وقت تک مقبرہ کی غرض پوری نہیں ہو سکتی.جب میں نے اس کے متعلق قرآن کریم پر غور کیا روحانی مقبرہ میں انسان کے ہر تو مجھے دکھائی دیا کہ قرآن کریم نے اس مشکل چھوٹے بڑے عمل کو محفوظ رکھا جاتا ہے کا حل کیا ہوا ہے اور وہ بتاتا ہے کہ اس مقبرہ کے متعلق ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ اس میں ہر شخص کا چھوٹا بڑا عمل لکھ کر رکھ دیا جاتا ہے اور اس طرح مقبرہ کی اصل غرض پوری ہو جاتی ہے چنانچہ فرماتا ہے وَوُضِعَ الْكِتَبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّافِيهِ وَيَقُولُونَ يوَيْلَتَنَا مَالِ هذَا الْكِتَبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا احُصْهَا وَوَجَدُوا
۲۰۱ مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًال یہاں چونکہ دوزخیوں کا ذکر ہے اس لئے فرماتا ہے وَوُضِعَ الكتب اور ان کے اعمال نامے ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے اور جب انہیں معلوم ہوگا کہ ان کے سارے اعمال اس میں آگئے ہیں تو تو مجرموں کو دیکھے گا کہ وہ کانپنے لگ جائیں گے اور کہیں گے او ہو ! جو اعمال ہم نے چھپائے تھے وہ تو آج سب ظاہر ہو گئے اور کہیں گے ارے موت ! تو کیسی میٹھی چیز ہے تو کیسی اچھی چیز ہے تو آتا کہ ہم مر جائیں اور اس ذلت اور رسوائی کو نہ دیکھیں مگر وہاں موت کہاں.پھر وہ کہیں گے یہ کیسی کتاب اور کیسا اعمال نامہ ہے کہ کوئی چھوٹا یا بڑاعمل نہیں چھوڑتی خواہ گھر میں کیا جائے خواہ باہر کیا جائے ، خواہ بیوی بچوں کی موجودگی میں کیا جائے اور خواہ ان سے چُھپ کر کیا جائے ، خواہ دوستوں میں کیا جائے خواہ دوستوں کی عدم موجودگی میں کیا جائے ، پھر چاہے وہ عمل کسی غار میں کیا جائے اور چاہے میدان میں اور جو کچھ انہوں نے کیا ہوگا ، سینما کی تصویروں کی طرح ان کے سامنے آ جائے گا اور ان کی کے ہر عمل کی فلم ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگ جائے گی گویا ان کے خلاف ڈبل شہادت ہو گی.ایک طرف تو ان کے اعمال کی فہرست ان کے سامنے پیش ہو گی اور دوسری طرف انہوں نے اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے جو کیا ہو گا اس عمل کی فلم بنا کر ان کے سامنے لائی جائے گی ، اسی مفہوم کو ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں بیان فرمایا ہے کہ ان کے ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے یعنی انسان نے اپنے تھے ہاتھوں اور پاؤں وغیرہ سے جو جو اعمال کئے ہونگے ان کو ظاہر کرنے کے لئے اعمال کے ریکارڈ پر گراموفون کی سوئی لگا دی جائے گی جس سے ان کے اپنے گزشتہ اعمال کی تمام تفصیل ان کے سامنے آ جائے گی وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ اَحَدًا اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا وہ یہ نہیں کر سکتا تھا کہ بغیر حجت کے انہیں سزا دے اسی لئے وہ ایک طرف تو فرشتوں کو بطور گواہ پیش کرے گا جو اعمالنا مہ اس کے سامنے رکھ دیں گے اور دوسری طرف اس کے اعمال کی فلم اس کی آنکھوں کے سامنے لائی جائے گی.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کے عمل چھوٹے ہوں یا بڑے ، اس مقبرہ میں محفوظ رکھے جاتے ہیں تا کہ مقبرہ کی جو اصل غرض ہے کہ انسان کی گزشتہ زندگی کا نشان قائم رہے وہ پورا ہو.
۲۰۲ ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے مطابق سلوک بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ یہ تو معلوم ہو گیا کہ ہر شخص کے عمل محفوظ رکھے جاتے ہیں مگر کیا اس کے مطابق ہر شخص کا مقبرہ بھی بنایا جاتا ہے یا نہیں اس کے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو قرآن کریم سے ہی ہمیں اس کا یہ جواب ملتا ہے وَإِنَّ كُلَّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ رَبُّكَ أَعْمَالَهُمْ إِنَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ خَبِيرٌ کسی شخص کو بھی اس کے اعمال کا اب تک پورا بدلہ نہیں ملا لیکن ایک دن ایسا آئے گا کہ ہر ایک شخص کو اس کے اعمال کا اللہ تعالیٰ پورا پورا بدلہ دیگا کیونکہ وہ تمہارے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے.بعض دفعہ لوگ کسی معمولی ابتلاء پر ہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ شامت اعمال کا نتیجہ ہے اور اس طرح وہ اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ جو سزا انہیں ملنی تھی وہ مل گئی ہے اسی طرح ہے مؤمنوں کو دنیا میں جو ترقی حاصل ہوتی ہے اس کو دیکھ کر بھی خیال کیا جا سکتا ہے کہ شاید مؤمنوں کو جو انعامات ملنے تھے وہ مل گئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمَّا ہر گز نہیں.ابھی تک نہ مؤمنوں کو انعامات ملے ہیں نہ کافروں کو سزا ملی ہے.کما کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اب تک یہ فعل نہیں ہوا.اس آیت میں لَما کا فعل حذف ہے جو يُوَفِّوا اَعْمَالَهُمُ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ابھی تک انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ نہیں ملا مگر ایک دن ضرور تیرا رب انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دے گا.پس وہ تمام کام جو تم راتوں کو کرتے ہو، لوگوں سے چُھپ کر کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ لوگوں پر ظاہر نہ ہوں، اسی طرح وہ تمام کام جو تم لوگوں کے سامنے کرتے ہو، ان تمام اعمال کو اگر تو بہ قبول نہ ہوئی تو خدا تعالیٰ اُس دن ظاہر کر دے گا اور جس رنگ کے اعمال ہوں گے اُسی کے مطابق مقبرہ دیا جائے گا.اسی طرح سورۃ نبائیں فرماتا ہے کہ جَزَاءً مِنْ رَّبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا قیامت کے دن جو بدلہ ملے گا وہ تیرے رب کی طرف سے حساب کے مطابق ہوگا یعنی جس طرح بنیا پیسہ لیتا ہے اور سودا دے دیتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عطاء بھی اُس دن حسابی ہوگی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اعمال کے مطابق بدلہ ہو گا اور جو شخص جس درجہ کا ہوگا اسی درجہ میں رہے گا یہ نہیں کہ اول کو دوم اور دوم کو اوّل کر دیا جائے گا.
۲۰۳ عَطَاءَ حِسَاباً اور يُرْزَقُونَ فِيْهَا اس جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم میں اس بارہ میں دو قسم کی آیات آتی ہیں بِغَيْرِ حِسَابِ میں کوئی اختلاف نہیں ایک قسم کی تو وہ آیات میں جواد پر بیان ہوئی ایک قم ہیں مگر ایک قسم کی وہ آیات ہیں جن میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ مؤمنوں کو بغیر حساب رزق دیا جائے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ وہ لوگ جنت میں داخل کئے جائیں گے اور انہیں بغیر حساب کے رزق دیا جائے گا.اب پہلی آیت میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ وہاں عَطَاءً حِسَابًا پیسے پیسے کا حساب ہوگا مگر یہاں یہ فرمایا کہ انہیں بغیر حساب کے رزق دیا جائے گا.اسی طرح دوزخیوں کے متعلق فرماتا ہے فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَّوْفُوْرًات کافروں کو مَوْفُور یعنی کثرت والا عذاب ملے گا.اب بظاہر یہ اختلاف نظر آتا ہے کیونکہ پہلی آیات میں مؤمنوں کے متعلق بتایا گیا تھا کہ انہیں حساب کے مطابق جزاء ملے گی اور دوسری آیات میں یہ بتایا کہ انہیں بغیر حساب کے رزق ملے گا.اسی طرح دوزخیوں کے متعلق پہلے تو یہ بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر ظلم نہیں کرے گا بلکہ ان کے چھوٹے بڑے اعمال کو مد نظر رکھ کر سزا دے گا مگر اس آیت میں یہ بتایا کہ انہیں کثرت سے سزا دی جائے گی جس کے معنے بظاہر یہ معلوم ہوتے ہیں کہ وہ عذاب ان کے حق سے زائد ہو گا ، مگر در حقیقت ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں.اصل بات یہ ہے کہ مَوْفُور کا منشاء صرف یہ ہے کہ عذاب جو بھی ہو وہ زیادہ ہی معلوم ہوا کرتا ہے خواہ وہ استحقاق سے تھوڑا ہی کیوں نہ ملے پس جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَوْفُوْرًا کے یہ معنے نہیں کہ تمہیں تمہارے حق سے زیادہ عذاب دیا جائے گا بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ تم جو بھی گناہ کرتے ہو اس کا بدلہ تمہاری برداشت سے باہر ہو گا پس زیادتی سے مراد عمل سے زیادہ سزا کی نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ گناہ تو انسان دلیری سے کر لیتا ہے مگر اس کی سزا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ پوری سزا کا تو کیا ذکر ہے آدھی سزا بھی برداشت نہیں کر سکتا.دوسرے مَوفُور کے معنے پورے کے بھی ہوتے ہیں اس لحاظ سے اس آیت پر کوئی اعتراض ہی نہیں ہو سکتا.یہ تو مَوْفُور کی تشریح ہے باقی رہا جنتیوں کا سوال سو وہ بھی پہلے اصل کے خلاف نہیں
۲۰۴ کیونکہ بغیر حساب کسی ایک شخص کے بارہ میں نہیں بلکہ تمام جنتیوں کے بارہ میں ہے پس اگر الف کو بغیر حساب کے ملے گا تو ب کو بھی بغیر حساب کے ملے گا اور ج کو بھی بغیر حساب کے ملے گا اور ظاہر ہے کہ جب سب کو بغیر حساب کے انعام ملے تو یہ کسی کے حق کو زائل نہیں کرتا بلکہ سب کا درجہ بڑھاتا ہے.لیکن جب خدا تعالیٰ نے کہا کہ انعام حساب سے ملے گا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ کسی کا درجہ کم نہ ہوگا بلکہ اسی حساب سے ہر ایک کو زیادہ ملے گا پس اس کے یہ معنے ہوئے کہ جنتیوں کو ان کے اعمال کے مقابلہ میں بغیر حساب زیادہ ملے گا.اور ان کے محدود اعمال کو مد نظر نہیں رکھا جائے گا، لیکن یہ بغیر حساب ایک حساب کے ماتحت بھی ہوگا اور اس امر کا لحاظ رکھا جائے گا کہ نمبر ۲ نمبر اول سے نہ بڑھ جائے اور جب ہر ایک کو بغیر حساب یعنی استحقاق سے بہت زیادہ ملنا ہے تو ظاہر ہے کہ نمبر۲ نمبر ایک سے بڑھ ہی نہیں سکتا کیونکہ اسے بھی بغیر حساب ملے گا.خلاصہ یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے بغیر حساب کہا تو اس کے معنی ہیں اپنے عمل کے مقابل پر.اور جب حساب سے کہا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اپنے سے اوپر والے نمبر کے مقابل پر.یعنی ہر ایک کے درجہ کو قائم رکھا جائے گا اور نمبر اؤل والا دوم نہیں ہوگا اور دوم اول نہیں ہوگا اور ایک کا درجہ دوسرا نہیں لے سکے گا، اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک شخص کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہو دوسرے شخص کے پاس دو کروڑ روپیہ ہو اور تیسرے کے پاس تین کروڑ روپیہ ہو.اب اگر کوئی دوسرا شخص یہ فیصلہ کرے کہ سب کو ایک ایک کروڑ اور روپیہ دید یا جائے تو لازماً سب کا مال بڑھ جائے گا اور جو درجہ ان کا قائم ہو چکا تھا اس میں بھی کوئی نقص واقع نہیں ہوگا درجہ اول والا پھر بھی درجہ اول میں ہی شمار ہوگا اور درجہ دوم اور سوم والے پھر بھی دوم اور سوم درجوں میں ہی شمار ہوں گے.پس جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ مؤمنوں کو حسابی عطا ملے گی وہاں یہ مطلب ہے کہ جنتیوں کے درجے نہیں توڑے جائیں گے اور جہاں یہ فرمایا کہ بغیر حساب کے رزق دیا جائے گا تو وہاں یہ مفہوم ہے کہ عمل کی نسبت جزا ئیں بہت زیادہ ہونگی.پس ہر ایک کا مقام قائم رہے گا اور کسی کا بھی ریکارڈ خراب نہیں ہوگا.یہ نہیں ہوگا کہ مثلاً اگر اکبر کا مقبرہ پہلے درجہ پر ہے اور شاہجہان کا مقبرہ دوسرے درجہ پر ، تو شاہجہان کا مقبرہ اکبر سے بڑھ جائے بلکہ اللہ تعالیٰ اگر شاہجہان کو کبھی زیادہ انعام دے گا تو ساتھ ہی اکبر کو بھی اور دے گا اور فرمائے گا اس کے مقبرہ کو اور اونچا کرو تا کہ تفاوت مراتب قائم رہے.غرض بغیر حساب کے الفاظ بتاتے ہیں کہ عمل کے مقابلہ میں جزاء زیادہ ہوگی اور
۲۰۵ عَطَاءِ حِسَابًا کے الفاظ بتاتے ہیں کہ نمبر تو ڑ کر نچلے درجہ والے کو او پر نہیں لے جایا جائے گا.مرنیوالوں کا صحیح مقام روحانی مقبرہ سے ہی ظاہر ہوتا ہے خلاصہ یہ کہ اس انتظام ہے میں ہر ایک کا مقبرہ ہے اور ہر ایک کا مقبرہ اس کے درجہ کے مطابق ہے اور یہی انتظام مقبروں کی غرض کو پورا کرنے والا ہے اس میں صرف نام یا شہرت ظاہری کے مطابق مقبرہ نہیں بنتا بلکہ خالص عمل اور حقیقی درجہ کے مطابق مقبرہ بنتا ہے اور یہ مقبرے گویا مرنے والوں کے صحیح مقام کو ظاہر کرتے ہیں.دنیا میں بعض دفعہ ایک شخص بڑا نیک ہوتا ہے مگر اس کے گھر کھانے کے لئے سُوکھی روٹی بھی نہیں ہوتی اور دوسرا شخص خدا تعالیٰ کو گالیاں دیتا ہے مگر اس کے گھر میں پلاؤ زردہ پکتا ہے.ایک کی ڈیوڑھی پر دربان بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور کسی کو اندر گھنے نہیں دیتے اور دوسرے کے پاس اپنا سر چھپانے کے لئے جھونپڑی بھی نہیں ہوتی حالانکہ وہ بہت نیک اور خدا رسیدہ ہوتا ہے.اگر عمارتیں نیکی اور تقویٰ کی بناء پر بنائی جائیں اور جو زیادہ نیک ہو اس کی عمارت زیادہ شاندار ہو جو اس سے کم نیک ہو اس کی عمارت اس سے کم شاندار ہو تو شہر میں داخل ہوتے ہی پتہ لگ جائے گا کہ یہاں کے لوگوں کے اعمال کیسے ہیں.مگر دنیا میں ایسا نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے ایسے مقبرے بنائے ہیں کہ جن میں داخل ہوتے ہی ساری دنیا کی تاریخ کھل جائے گی اور ساری ہسٹری (HISTORY) آنکھوں کے سامنے آ جائے گی کیونکہ وہ ہسٹری ان کے مکانوں اور ثوابوں اور عذابوں کی صورت میں لکھی ہوئی ہوگی.اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاک لوگوں پھر جو دنیا کے مقبرے ہیں ان میں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ مقابر پر کتے پاخانہ پھر جاتے ہیں اور کے مقبروں کی حفاظت کا انتظام کوئی انہیں روکنے والا نہیں ہوتا.انگریزوں نے آثار قدیمہ کا ایک محکمہ بنا کر پرانے آثار کو کسی قدر محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے مگر پھر بھی وہ مقبروں کی پوری حفاظت نہیں کر سکے اور حال یہ ہوتا ہے کہ مقبرے پر تو پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ صرف ہو چکا ہوتا ہے مگر وہاں جا کر دیکھا جائے تو ہے معلوم ہوتا ہے کہ گتے آتے اور پاخانہ کر کے چلے جاتے ہیں.مگر وہ مقبرے جو اللہ تعالیٰ بناتا ہے ان کی یہ حالت نہیں ہوتی بلکہ وہاں ہر شخص قابل عزت ہوتا ہے اس کے مقبرہ کی حفاظت کی جاتی ہے اور صرف گندے لوگوں کے مقبروں کی حالت ہی خراب ہوتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ
۲۰۶ فرماتا ہے أُولئِكَ فِى جَنْتِ مُكْرَمُونَ " جو نیک لوگ ہونگے انہیں جنت میں جگہ دی ہے جائے گی اور ان کے اعزاز کو ہمیشہ قائم رکھا جائے گا ، کوئی ان پر الزام نہیں لگا سکے گا.کوئی ان کی بے عزتی نہیں کر سکے گا اور کوئی ان کے درجہ کو گرا نہیں سکے گا.نا پاک لوگ اس مقبرہ میں کوئی بہتر مقام حاصل نہیں کر سکیں گے اس کے مقابلہ مِّنَ میں جو کافر ہیں ان کے متعلق فرماتا ہے اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَلَا اَوْلَادُهُمُ اللَّهِ شَيْئًا وَأُولَئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ " جو کافر ہیں ان کے اموال خدا تعالیٰ کے مقابل پر ان کے کام نہ آئینگے نہ اولاد کام آئے گی اور وہ ضرور آگ کا ایندھن بنیں گے.دنیا کے مقبرے بنانے والے کون ہوتے ہیں وہی ہوتے ہیں جن کے پاس مال ہوتا ہے.ایک انسان گندہ ہوتا ہے فریبی اور مکار ہوتا ہے مگر اُس کے پاس دس لاکھ روپے ہوتے ہیں جب وہ مرتا ہے تو وہی دس لاکھ روپے اُس کی اولاد کے قبضہ میں چلے جاتے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ ہما را باپ خبیث تھا اس نے اپنی زندگی میں ہمیشہ جھوٹ اور فریب سے کام لیا اور کئی قسم کے ظلموں سے لوگوں کے مالوں کو لوٹا مگر محض اس وجہ سے کہ رو پیدان کے پاس بافراط ہوتا ہے وہ اس کا شاندار مقبرہ بنا دیتے ہیں اور اس طرح لوگوں کے سامنے وہ بات پیش کرتے ہیں جو واقعات کے لحاظ سے بالکل غلط ہوتی ہے.چنانچہ کئی بادشاہوں کے مقبرے بھی موجود ہیں.ان کے زمانہ کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یا اللہ ! ان کا بیڑا غرق کر مگر جب مر گئے تو ان کے وارثوں نے اُن کے مقبرے بنا دیئے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارے نظام میں یہ خرابی نہیں.دنیا میں تو غیر مستحق لوگوں کی اولا د یا مالی وسعت ان کے مقبروں کو شاندار بنائے رکھتی ہے اور اس طرح لوگوں کو دھوکا لگتا ہے مگر فرماتا ہے تم ہمارے مقبرہ میں ایسا نہ دیکھو گے إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوالَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمُ جو لوگ کافر ہیں اگر وہ شاہجہان سے بھی زیادہ مال اپنے پاس رکھتے ہیں تو وہ ہمارے مقبرے میں اس روپیہ سے اپنے لئے کوئی بہتر جگہ حاصل نہیں کر سکتے.پھر فرماتا ہے کہ ممکن ہے کہ ان کا یہ خیال ہو کہ ہماری اولاد ہمارا مقبرہ بنا دیگی جیسے جہانگیر مر گیا تو اس کے عزیزوں نے اس کا مقبرہ بنا دیا، مگر فرمایا یہ خیال بھی غلط ہے ان کی اولاد بھی ان کے کام نہیں آ سکتی وَأُولَئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ ان کا مقبرہ تو آگ ہی ہے جس میں وہ ڈالے جائیں گے اور اپنے اعمال کی سزا پائیں گے.
۲۰۷ نوح کا مقبرہ پھر میں نے سوچا کہ کیا ان مقابر کا کوئی نشان اس دنیا میں بھی ہے اور کیا اس کی کوئی علامت یہاں پائی جاتی ہے تا اسے دیکھ کر ہم ان غیر مرئی مقابر کا اندازہ لگا سکیں.یہ ساری باتیں تو اگلے جہان سے تعلق رکھتی ہیں اور بیشک ہم ان باتوں پر ایمان رکھتے ہیں مگر لوگوں کو کس طرح دکھائیں کہ یہ باتیں سچی ہیں اس کی کوئی علامت یہاں بھی ہونی چاہئے جسے دیکھ کر اگلے جہان کے مقابر کا اندازہ لگایا جا سکے.جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ دنیا میں بھی ان مقابر کے نشان قائم کئے گئے ہیں چنانچہ میں نے قرآن کو دیکھا تو مجھے اس میں ایک مقبرہ نوح کا نظر آیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْأَ خِرِينَ - سَلَامٌ عَلَى نُوحٍ فِي الْعَلَمِيْنَ - إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ا فرماتا ہے ہم نے نوح کا دنیا میں روحانی مقبرہ قائم کیا ہے وہ بڑا اچھا آدمی تھا اور اگلے جہان میں ہم نے اسے بڑی عزت سے رکھا ہوا ہے.اور چونکہ جنت کے مقبرے میں سلامتی ہی سلامتی ہوتی ہے اس لئے تم بھی جب نوح کا ذکر آئے تو کہا کرونوح عَلَيْهِ السَّلَامُ اور اس کے مقام کو یا درکھو وہ خدا کی سلامتی کے نیچے ہے اور جب بھی اس کا نام لو اس کے ساتھ عَلَيْهَ السَّلَامُ" کا اضافہ کر لیا کرو.فرماتا ہے اس مقبرہ کے ہم ذمہ دار ہیں اور ہم اعلان کئے دیتے ہیں کہ اس مقبرہ کو کوئی تو ڑ نہیں سکے گا.لوگوں کے مقبرے بنائے اور توڑے جاتے ہیں مگر نوح کا مقبرہ ہم نے ایسا بنایا ہے جسے کوئی شخص تو ڑ نہیں سکتا چنا نچہ دیکھ لو آج اس مقبرہ کا محافظ خدا نے ہمیں مقرر فرمایا ہے یہود ان کو بھول چکے ہیں ، عیسائی ان کو بھول چکے ہیں، مگر آج بھی جب نوح کا ذکر آتا ہے تو سب مسلمان بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں عَلَيْهَ السَّلَامُ.الیاس کا مقبرہ اسی طرح حضرت الیاس کے متعلق فرماتا ہے وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِيْنَ سَلَامٌ عَلَى إِلْيَاسِينَ - إِنَّا كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ " حضرت الیاس بھی ہمارے مقرب بندوں میں سے تھا اور ہم نے مناسب سمجھا کہ اگلے جہان میں اس کا بھی مقبرہ بنے اور اِس جہان میں بھی.تاکہ لوگوں کے لئے ایک نشان ہو اور ان کے دلوں میں بھی یہ تحریص پیدا ہو کہ ہم بھی ایسے ہی بنیں.پھر فرماتا ہے سَلَامٌ عَلَى الْيَاسِینَ ہم نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تینوں الیاسوں پر سلام ہو ا کرے چنانچہ آج بھی جب کوئی حضرت الیاس کا نام لیتا ہے تو کہتا ہے الیاس عَلَيْهِ السَّلَامُ.اس جگہ اِلْيَاسِینَ کے بارے میں لوگوں کو تر ڈر ہوا ہے، لیکن یہ تردد نہیں بلکہ ایک زبر دست پیشگوئی ہے اور وہ یہ کہ الیاسین کا ظہور دُنیا میں تین دفعہ
۲۰۸ مقدر تھا.پہلا خو د الیاس کے وجود میں دوسرا بیٹی کے ذریعہ سے اور تیسرا پھر ایک دفعہ تا الیاس سے الیاسین بولا جا سکے.اس لفظ نے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح کا دوبارہ نزول تمثیلی رنگ میں ہوگا کیونکہ اگر پہلے ہی مسیح نے دوبارہ آنا ہوتا تو اس کا الیاس تو یحیی کے رنگ میں ظاہر ہو چکا تھا پھر آسمان پر سے آنے والے کے لئے کسی راستہ صاف کرنے والے کی ضرورت ہی کیا تھی.پس تیسری دفعہ الیاس کے آنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دوسرا مسیح پہلے مسیح سے علیحدہ وجود ہو گا اور اسی دنیا سے پیدا ہو گا تبھی اس کے لئے ایک اور الیاس پیدا کیا جائے گا.تا کہ اس کے راستہ کو صاف کرے.اس تیسرے الیاس کا سلام گوابھی دنیا میں قائم نہیں ہو امگر خدا تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ اس کا سلام بھی قائم ہوگا اور یہ سلام غیر نبی کے لئے جائز ہوتا ہے پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تیسرا الیاس جب نبی نہیں تو اس کے لئے سلام کا لفظ کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے.غیر نبی کے لئے بھی سلام کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے.چنانچہ حضرت علی کے نام کے ساتھ عَلَيْهِ السَّلَامُ کا لفظ استعمال کرتے ہیں.پس غیر نبی کے نام کے ساتھ بھی عَلَيْهِ السَّلَامُ کہا جا سکتا ہے اور تیسرے الیاس کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کا یہی فیصلہ ہے کہ پہلے دو الیاسوں کی طرح اس کے متعلق بھی عَلَيْهِ السَّلَامُ کہا جائے گا.مریم اور مسیح کا مقبرہ پھر فرماتا ہے ہم نے ایک اور مقبرہ بھی بنایا ہے چنانچہ فرمایا التی أَحْصَنَتْ فَرُجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِنْ رُّوحِنَا وَجَعَلْنَهَا وَابْنَهَا ايَةً لِلْعَلَمِيْنَ ۱۵ اُس عورت کو یاد کرو جس نے اپنے تمام قومی کو خدا کے لئے وقف کر دیا ہم نے اس میں اپنی رُوح پھونکی اور اُسے اور اس کے بیٹے کو ہمیشہ کے لئے یادگار بنا دیا.یہ بھی ایک مقبرہ ہے جو خدا تعالیٰ نے بنایا چنانچہ آج بھی حضرت عیسیٰ عَلَيْهِ السَّلَام اور حضرت مریم صدیقہ عَلَيْهَا السَّلَامُ ہی کہا جاتا ہے.اسی طرح حضرت ابراہیم عَلَيْهَ السَّلَام کے متعلق فرماتا ہے حضرت ابرا ہیم کا مقبرہ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَبَ وَآتَيْنَهُ أَجْرَهُ في الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّلِحِينَ ) ابراہیم بھی ہمارے مخصوص لوگوں میں سے تھا جس کے لئے ہم نے رُوحانی مقبرہ بنایا اور یہ مقبرہ دو طرح ظاہر ہوا.ایک اس طرح کہ جب بھی ابراہیم کا نام لیا جائے گا لوگ عَلَيْهِ السَّلَامُ کہیں گے اور دوسرے اس طرح کہ آئندہ ہم نے نبوت کا اس کی اولاد کے لئے وعدہ کیا ہے
۲۰۹ کہ وہ ہمیشہ کے لئے ان کے ذریعہ سے زندہ رہے گی خواہ وہ ذریت جسمانی ہو خواہ روحانی.اس طرح ہم نے اسے دنیا میں بھی اجر دیدیا اور آخرت میں بھی، کیونکہ وہ ہمارے صالح بندوں میں سے ہے چنانچہ ہمیشہ آپ پر درود بھیجا جاتا ہے اور جب بھی مسلمان کہتے ہیں اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَاصَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ تو حضرت ابراہیم عَلَيْهِ السَّلَامُ کا نام اور آپ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور یہی مقبرے کی غرض ہوتی ہے.مختلف انبیائے سابقین کے مقبرے پھر فرماتا ہے وَتِلْكَ مُحُجَّتُنَا آتَيْنَهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَى قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجَتٍ مَّنْ نَّشَاءُ اِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ - وَوَهَبْنَالَةٌ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحاً هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُدَ وَسُلَيْمَنَ وَأَيُّوبَ وَيُوْسُفَ وَمُوسَى وَهرُونَط وَكَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ - وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَالْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّلِحِيْنَ.وَإِسْمَعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطاً وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَلَمِينَ - وَ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَاِخْوَانِهِمْ وَاجْتَبَيْنَهُمْ وَهَدَيْنَهُمُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ذَلِكَ هُدَى اللهِ يَهْدِى به مَنْ يَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَلَوْ اَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ.أُولَئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ فَإِنْ يَّكْفُرُبِهَا هَؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْماً لَّيْسُوا بِهَا بِكَفِرِينَ - أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللهُ فَبِهُد هُمُ اقْتَدِهُ قُلْ لَا أَسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْعَلَمِينَ كل یہاں خدا تعالیٰ نے وہ سارے نام اکٹھے کر دیئے ہیں جن کی یاد کو اس نے قائم کیا ہے رماتا ہے یہ وہ حجت ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلہ میں عطا کی.ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں.یقیناً تیرا رب حکمت والا اور جاننے والا ہے اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب دیئے اور ان میں سے ہر ایک کو ہدایت دی اور اس سے قبل ہم نے نوح کو بھی ہدایت دی.اسی طرح اس کی اولاد میں سے داود اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون سب کو ہدایت دی اور ہم محسنوں کو اسی طرح جزاء دیا کرتے ہیں.اسی طرح زکریا اور بیچی اور الیاس سب نیک لوگوں میں سے تھے.اور اسماعیل اور الیغ اور
۲۱۰ یونس اور لوط " سب کو ہم نے دنیا پر فضیلت بخشی.اسی طرح ان کے آباء واجداد اور ان کی ذریت اور ان کے بھائیوں میں سے بھی ایسے لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے عزت بخشی اور جنہیں صراط مستقیم کی طرف ہم نے ہدایت دی.یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اگر یہ لوگ مشرک ہوتے تو ان کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے.یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے کتاب دی حکمت دی اور نبوت دی.اگر مشرک لوگ آج کل اس تعلیم کے خلاف چلتے ہیں تو ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہم نے مسلمانوں کی قوم کو کھڑا کر دیا ہے جو ان کی یاد کو تازہ اور ان کے قیام کی حفاظت کرے گی یہ وہ لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی پس اے محمد ! صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کی ہدایت کے پیچھے چل کیونکہ ان کے ذکر کو تازہ رکھنا ضروری ہے.تو کہہ دے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ، یہ قرآن تو سب دنیا کے لئے نصیحت کا موجب ہے اگر تم اس قرآن پر عمل کرو گے تو صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر ہی عمل نہیں کرو گے بلکہ اس طرح وہ تعلیم بھی زندہ ہوگی جو موسیٰ" کو ملی ، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو عیسی کو ملی ، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو نوح کو ملی ، وہ تعلیم بھی زندہ ہوگی جوا براہیم کو لی ، وہ تعلیم بھی زندہ ہوگی جو داود اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور زکریا اور بیچی اور الیاس اور اسماعیل اور الیغ اور دوسرے نبیوں کو ملی (عَلَيْهِمُ السَّلَامُ كُلِهِمُ ) اور اگر مسلمان سارے قرآن پر عمل کرینگے تو اس طرح ان کے مقبرے بھی قائم رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے ناموں کو بھی زندہ رکھے گا.سردار انبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مقبرے اب سب سے آخر سردار انبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو یاد رکھنے کے قابل ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کا مقبرہ کس طرح بنا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ^ فرماتا ہے لوگوں کے دو مقبرے ہوتے ہیں.ایک جنت میں اور ایک اس دنیا میں ، مگر ہمارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مقبرے ہیں.ایک جنت میں ، ایک عرش پر اور ایک اس دنیا میں چنانچہ فرماتا ہے إِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ - عرش پر محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد ہمیشہ تازہ رکھی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے فرشتوں کے
۲۱۱ نام ہمیشہ احکام جاری ہوتے رہتے ہیں کہ اس پر ہماری رحمتیں نازل کرو ہماری رحمتیں نازل کرو اور دوسرا مقبرہ جنت میں، تیسرا مقبرہ دنیا کا ہے چنانچہ فرماتا ہے ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں کہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا.اے مومنو! جب بھی تمہارے سامنے ہمارے رسول کا ذکر ہو تم کہو.صلی اللہ علیہ وسلم - صلی اللہ علیہ وسلم.انبیائے سابقین کے متبعین اور رسول اللہ اب دیکھو یہ بھی ایک مقبرہ ہے جو اللہ تعالٰی نے قائم کیا پھر چونکہ انبیاء علیہم السلام کے صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے مقبرے اتباع میں اتباع میں سے بھی بعض بڑے نیک اور بزرگ تھے اس لئے جہاں پہلے انبیاء کا ذکر کیا وہاں یہ بھی فرمایا وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَاِخْوَانِهِمْ یعنی ان کے باپ دادا، ان کی ذریت اور ان کے بھائی بھی ان انعامات میں شریک ہونگے.اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ساتھی تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے مقبرے بھی قائم کئے اور فرمایا وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَاوَ لِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلُ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ و فرمایا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ساتھی ہیں ان کو ہم نے یہ رتبہ عطا فرمایا ہے کہ آئندہ کے لئے ہم نے یہ شرط قرار دیدی ہے کہ جو لوگ بعد میں آئیں ان میں سے کسی شخص کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ ایمان لانے کے بعد ہمیشہ یہ دعا نہ کرتا رہے کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش اور ان کے بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے گویا ایمان کی تعمیل کے لئے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ روزانہ اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ اپنے سے پہلے مسلمانوں کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرتا رہے.پھر غَفَر کے معنی خالی گناہ کی معافی کے ہی نہیں بلکہ اصلاح حالات کے بھی ہوتے ہیں " اس لحاظ سے اس کے یہ معنے بھی ہونگے کہ اے ہمارے رب! ہمارے حالات کو بہتر سے بہتر بنا تا جا اور اسی طرح ان لوگوں کے حالات کو جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اور تیرے مؤمن تھے.گویا نہ صرف خدا تعالیٰ نے گزشتہ زمانہ کے مؤمنوں کی یاد تازہ کی بلکہ یہ بھی سامان کئے کہ مقبرہ کی مرمت ہوتی رہے اور اس میں زیادتی ہوتی رہے اور اسے ہمیشہ پہلے سے زیادہ شاندار بنانے کی کوشش کی جائے کیونکہ جب مرنے کے بعد بھی اصلاح حالات کا امکان پایا جاتا ہے اور
۲۱۲ پہلوں کے لئے پچھلے یہ دعا کرتے رہتے ہیں تو لازماً مرنے والے اپنے مقام میں بڑھتے جاتے ہیں اور پھر لازماً ان کے شایانِ شان ان کا روحانی مقبرہ بھی زیادہ شاندار ہوتا جاتا ہے.شیعوں کا صحابہ کو بُرا بھلا کہنا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے پھر فرماتا ہے یہ بھی دعا کیا کرو کہ ہمارے دل میں ان کے متعلق کوئی بغض پیدا نہ ہو، اس آیت سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ شیعوں کا یہ کیسا خطرناک عقیدہ ہے کہ وہ صحابہ سے عداوت رکھنے اور ان کو بُرا بھلا کہنے میں ہی اپنی نجات سمجھتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں تب مؤمن سمجھوں گا جب تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے لئے دعائیں کرتے رہو گے اور اُن کا کینہ اور بغض اپنے دلوں میں نہیں رکھو گے، مگر آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ اُن سے کینہ اور بغض رکھنا ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے.اب تھوڑے دنوں تک محترم کا مہینہ آنیوالا ہے ان ایام میں کس طرح تبرا کیا جاتا اور ابوبکر، عمر اور عثمان کو گالیاں دی جاتی ہیں حالانکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ان کے متعلق دل میں کسی قسم کا بغض نہ ہو اور نہ صرف بغض نہ ہو بلکہ انسان محبت اور اخلاص کے ساتھ ان کے لئے ہمیشہ دُعائیں مانگتا رہے.ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک شیعہ بادشاہ کے پاس ایک دفعہ ایک سنی بزرگ گئے اور اس سے امداد کے طالب ہوئے.وہ آدمی نیک تھے مگر چونکہ ان کا گزارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا اس لئے انہیں خیال آیا کہ میں بادشاہ کے پاس جاؤں اور اس سے کچھ مانگ لاؤں وہ گئے تو وہاں اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے جو اپنی حاجات کے لئے آئے ہوئے تھے مگر وہ سب شیعہ تھے اور یہ ستنی.جب بادشاہ مال بانٹنے کے لئے کھڑا ہوا تو وزیر نے بادشاہ کے کان میں کچھ کہا اور اُس نے اس سنی بزرگ کے علاوہ باقی سب کو مال تقسیم کر دیا اور وہ ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے.یہ سنی بزرگ وہیں کھڑے رہے.آخر جب انہیں کھڑے کھڑے بہت دیر ہو گئی تو بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ اسے بھی کچھ دیکر رخصت کر دو.وزیر نے کہا میں دے تو دوں مگر یہ شخص شکل سے سنی معلوم ہوتا ہے بادشاہ نے کہا.تمہیں کس طرح معلوم ہو ا وہ کہنے لگا بس شکل سے میں نے پہچان لیا ہے.بادشاہ نے کہا اچھا تو اس کا امتحان کر لو.چنانچہ وزیر نے حضرت علی کی فضیلت بیان کرنی شروع کر دی ، وہ سنی بزرگ بھی شوق سے سنتے رہے اور کہنے
۲۱۳ لگے حضور ! حضرت علی کی شان میں کیا شبہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور آپ کے داماد تھے خدا تعالیٰ نے انہیں خلافت عطا فرمائی.آپ کی شان سے تو انکار ہو ہی نہیں سکتا.بادشاہ کہنے لگا اب تو ثابت ہو گیا کہ یہ شیعہ ہے، وزیر کہنے لگا ابھی نہیں میں بعض اور باتیں بھی دریافت کرلوں.چنانچہ اُس نے اور کئی باتیں کیں ، مگر وہ بھی ان سب کی تصدیق کرتے چلے گئے بادشاہ نے کہا.بس اب تو تمہیں یقین آ گیا ہو گا کہ یہ سنی نہیں بلکہ شیعہ ہے.وزیر کہنے لگا ابھی نہیں.تبڑا دیکر دیکھیں اگر یہ تبرے میں شامل ہو گیا تو پتہ لگ جائے گا کہ شیعہ ہے اور اگر شامل نہ ہو ا تو معلوم ہو جائے گا کہ سنی ہے.چنانچہ بادشاہ نے کہا بر ہر سہ لعنت.یعنی نَعُوذُ بِاللهِ حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان پر لعنت.وزیر نے بھی کہا ہر ہر سہ لعنت.وہ بزرگ سنی بھی بول اُٹھے کہ بر ہر سہ لعنت.بادشاہ نے کہا اب تو یقینی طور پر ثابت ہو گیا کہ یہ شیعہ ہے.وزیر نے کہا حضور ! میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ یہ شخص منافقت سے کام لے رہا ہے.وہ کہنے لگا اچھا تو پھر اس سے پوچھو کہ تم کون ہو.وزیر نے پوچھا کہ کیا آپ شیعہ ہیں؟ وہ کہنے لگا نہیں میں تو سنیے ہوں.وزیر کہنے لگا کہ مجھے آپ کی اور باتیں تو سمجھ آگئی ہیں کہ جب میں حضرت علیؓ کی تعریف کرتا تھا تو آپ اس لئے اس تعریف میں شامل ہو جاتے تھے کہ حضرت علی آپ کے نزدیک بھی واجب التعظیم ہیں مگر جب ہم نے یہ کہا کہ بر ہر سہ لعنت تو آپ نے بھی بر ہر سہ لعنت کہا، اس کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی.وہ کہنے لگے جب آپ نے کہا تھا ہر ہر سہ لعنت ، تو آپ کی مراد تو یہ تھی کہ ابو بکر، عمر اور عثمان پر لعنت ہو مگر جب میں نے بر ہر سہ لعنت کہا تو میرا مطلب یہ تھا کہ وزیر پر بھی لعنت اور بادشاہ پر بھی اور مجھے پر بھی جو ایسے گندے لوگوں کے گھر میں آ گیا ہوں.غرض شیعوں کا یہ طریق کہ صحابہ کرام کو گالیاں دیتے ہیں اور اکابر صحابہ کو منافق کہتے ہیں نا پسندیدہ اور مذکورہ بالا آیت قرآنی کے خلاف ہے حضرت علی کا درجہ بلند ماننے کے لئے اس کی کیا ضرورت ہے کہ حضرت ابو بکر ، عمر اور عثمان رضوَانُ اللهِ عَلَيْهِمْ کو منافق کہا جائے اس کے بغیر بھی شیعیت قائم رہ سکتی ہے.خلاصہ یہ کہ قرآن کریم نہایت واضح طور پر فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے جو پاک بندے گزر چکے ہیں تمہیں ان کے متعلق دعاؤں سے کام لینا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ خدایا! ہمارے دلوں میں ان کے متعلق بغض پیدا نہ ہو کیونکہ اگر بغض پیدا ہوا تو ایمان ضائع ہو جائے گا گویا ہمیشہ کے لئے خدا نے اُن کے لئے دعاؤں کا سلسلہ جاری کر دیا اور اس طرح دنیا میں بھی ان کا
مقبرہ بنا دیا.۲۱۴ روحانی مقبرہ میں رشتہ داروں کو اکٹھار کھنے کا انتظام پھر میں نے سوچا کہ دنیوی مقابر والوں نے تو یہ انتظام کیا ہوتا ہے کہ ان کے رشتہ دار بھی ان کے ساتھ مقبروں میں دفن ہوں.کیا اس مقبرہ میں بھی کوئی ایسا انتظام ہے تو میں نے دیکھا کہ دنیوی مقبروں میں بیشک بعض قریبیوں کو دفن کیا گیا ہے جیسے شاہجہان کے ساتھ اس کی بیوی دفن ہے مگر سب کے لئے گنجائش نہیں تھی جیسے یہ نہیں ہے ہوا کہ شاہجہان کے بیٹے بھی اُس کے ساتھ دفن کئے جاتے اور نہ با ہمی بغض و عداوت کی وجہ سے وہ اکٹھے دفن کئے جا سکتے ہیں.جیسے شاہجہان کو نور جہاں سے بغض تھا اس وجہ سے اس نے جہانگیر کے پاس اسے دفن نہ کیا بلکہ الگ دفن کیا اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بڑے کی نے ادنی مقبرہ بنایا ہے اور بعد کے کسی چھوٹے درجہ والے نے بڑا مقبرہ بنایا ہے اس وجہ سے بھی بڑا اس کے ساتھ دفن نہ کیا جا سکا جیسے شاہجہان کے مقبرہ میں بابر ، ہمایوں ، اکبر اور جہانگیر کو لا کر دفن نہیں کیا گیا.یہ نہیں ہوا کہ ان کی ہڈیاں کھود کر انہیں شاہجہان کے مقبرہ میں دفن کیا جاتا.پھر بعض حوادث نے ان کو الگ الگ رکھا جیسے اور نگ زیب حیدر آباد میں فوت ہوا اور اورنگ آباد میں اس کا مقبرہ بنا.حیدر آباد چونکہ گرم علاقہ ہے اور وہاں سے لاش لانے میں دقت تھی اس لئے وہ شاہجہان کے ساتھ اسے دفن نہ کر سکے بلکہ اگر چاہتے تب بھی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی تھی اور بعض دفعہ فاصلے کا سوال ایسا اہم ہوتا ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور باوجود خواہش کے ایک جگہ سب قریبی دفن نہیں ہو سکتے غرض کئی وجوہ ایسے ہو سکتے ہیں جن کی بناء پر سب کو اکٹھا دفن نہیں کیا جا سکتا.بعض دفعہ بغض و عناد، بعض دفعہ جگہ کی تنگی ، بعض دفعہ فاصلہ کی زیادتی اور بعض دفعہ اچانک حادثات اس قسم کے ارادوں میں حائل ہو جاتے ہیں.پس میں نے سوچا کہ کیا اس مقبرہ میں بھی کوئی ایسا انتظام ہے کہ سب رشتہ دار ا کٹھے رہیں جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ مقبرہ بیشک ایسا ہے جس میں سب رشتہ داروں کے جمع کرنے کا انتظام ہے.بشرطیکہ ان کی طبائع ملتی ہوں تا کہ جھگڑا فساد نہ ہو چنانچہ میں نے دیکھا کہ اس مقبرہ کے متعلق حکم تھا جنَّتُ عَدْنٍ يَّدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَالْمَلَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ.سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ
۲۱۵ فرمایا وہ جو اگلے جہان کا مقبرہ ہے اس میں ہر شخص اپنے اپنے درجہ کے مطابق خدا تعالیٰ کا انعام پائے گا ، مگر رشتہ داروں کے لحاظ سے ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ جس کے ایسے رشتہ دار ہونگے جن کے ساتھ وہ محبت سے رہ سکتا ہو اور جن کے عقائد اور خیالات سے وہ متفق ہو ایسے سب رشتہ داروں کو اکٹھا کر دیا جائے گا خواہ باپ ہوں ، بیٹے ہوں، بیویاں ہوں.اور فرشتے اُن پر چاروں طرف سے داخل ہوں گے اور کہیں گے السَّلامُ عَلَيْكُمْ ملائکہ کو تمام رشتہ داروں کی عزت کرنے کا حکم امیروں کے گھروں میں اگر ان کے غریب رشتہ دار آ جائیں تو وہ اُن کے ساتھ نہایت حقارت سے پیش آتے ہیں اور وہ رشتہ دار بھی ان کے پاس رہنے میں شرم محسوس کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لطیفہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہندو نے اپنے ایک بیٹے کو نہایت اعلیٰ تعلیم دلائی اور اپنی زمین اور جائداد وغیرہ فروخت کر کے اسے پڑھایا.یہاں تک کہ وہ ڈپٹی بن گیا اس زمانہ میں ڈپٹی بڑا عہدہ تھا.ایک دن وہ امراء ورؤساء کے ساتھ اپنے مکان کے صحن میں بیٹھا تھا کرسیاں بچھی ہوئی تھیں کہ اتفاقاً اُس کا باپ ملنے کے لئے آ گیا.اس نے ایک میلی کچیلی دھوتی پہنچی ہوئی تھی ، وہ آیا اور بے تکلفی سے ایک کرسی پر بیٹھ گیا.اس کے گندے اور غلیظ کپڑے دیکھ کر جوای، اے سی اور دوسرے معززین بیٹھے ہوئے تھے انہیں بڑی تکلیف محسوس ہوئی مگر انہوں نے سمجھا کہ مالک مکان اسے خود ہی اُٹھا دیگا ، ہمیں کہنے کی کیا ضرورت ہے.لیکن مالک مکان نے کچھ نہ کہا آخر انہوں نے ڈپٹی صاحب سے پوچھا کہ ان کی کیا تعریف ہے؟ اس پر وہ لڑکا جسے اُس کے باپ نے فاقے برداشت کر کر کے تعلیم دلائی تھی بولا کہ یہ ہمارے پہلیے ہیں، یعنی ہمارے گھر کے نوکر ہیں.اس ر باپ کو سخت غصہ آیا اور وہ کہنے لگا میں ان کا ٹہلیا تو نہیں ان کی والدہ کا ضرور ہوں.اس فقرہ سے سب لوگ سمجھ گئے کہ یہ شخص ڈپٹی صاحب کا والد ہے اور انہوں نے ان کو سخت ملامت کی کہ آپ بڑے نالائق ہیں کہ اس طرح اپنے باپ کی ہتک کرتے ہیں.تو دنیا میں ہم دیکھتے تھے ہیں کہ غریب رشتہ دار جب اپنے کسی امیر رشتہ دار کے ہاں جاتے ہیں تو ان کی عزت میں فرق آجاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم فرشتوں کو حکم دیں گے کہ دیکھو سَلَامٌ عَلَيْكَ نہ کہنا بلکہ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ کہنا اور ان سب رشتہ داروں کی عزت کرنا جو اس کے پاس جمع کئے گئے ہوں گے پس سَلَامٌ عَلَيْكُمُ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت کو بھی قائم کر دیا.
۲۱۶ جماعت کو نصیحت یہ وہ مقبرے ہیں جو میں نے دیکھے اور خوش قسمت ہے وہ جو ان مقبروں میں اچھی جگہ پائے ، مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت کے بعض دوستوں نے بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھا.میں ایک دن بچوں کے قبرستان میں گیا تو وہاں میں نے دیکھا کہ قریباً ہر قبر پر بڑے بڑے کتبے لگے ہوئے تھے حالانکہ قبریں بالکل سادہ بنانی چاہئیں اور نمود و نمائش پر اپنا روپیہ برباد نہیں کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود عَلَيْهِ السَّلَام کی قبر کو دیکھو وہ کیسی سادہ ہے اسی طرح تمہیں بھی اپنے عزیزوں کی قبروں میں سادگی مد نظر رکھنی چاہئے اور بلا ضرورت اپنے روپیہ کو ضائع نہیں کرنا چاہئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان کے اندر یہ طبعی خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کی قبروں کی حفاظت کرے، لیکن تمہارے مرنے کے بعد ان قبروں کی حفاظت کا کون ذمہ دار ہوسکتا ہے.ممکن ہے کہ بعد میں آنے والے ان قبروں کو اُکھیڑ کر ان میں اپنے مُردے دفن کر دیں اور تمہارے مُردوں کا کسی کو نشان تک بھی نہ ملے.لیکن خدا تعالیٰ کے ہاں جو مقبرہ بنتا ہے اسے کوئی شخص اُکھیڑنے کی طاقت نہیں رکھتا.پس اپنی قبریں اُسی جگہ بناؤ جہاں خدا تعالیٰ تمہاری قبروں کی حفاظت کا خود ذمہ دار ہوگا اور اگر دنیا میں اپنی قبریں کسی اچھی جگہ بنانے کی خواہش رکھتے ہو تو پھر بہشتی مقبرہ میں بناؤ.اور یاد رکھو کہ اگر وصیت کے بعد تم کسی مقام پر قتل کر دیئے جاتے ہو یا کسی چھت کے نیچے دب کر ہلاک ہو جاتے ہو یا آگ میں گر کر جل جاتے ہو یا دریا میں غرق ہو جاتے ہو یا شیر کا شکار بن جاتے ہو اور اس طرح بہشتی مقبرہ میں تمہارا جسم دفن نہیں ہو سکتا تو مت سمجھو کہ تمہارا خدا تمہیں ضائع کر دے گا.جب کوئی شخص شیر کے پیٹ میں جا رہا ہو گا تو اُس شیر کے پیچھے جبریل ہاتھ پھیلائے کھڑا ہوگا کہ کب اس کی روح نکلتی ہے کہ میں اسے اپنی آغوش میں لے لوں.اسی طرح جب کوئی شخص آگ میں جل رہا ہو گا تو گو لوگوں کو یہی نظر آ رہا ہوگا کہ وہ جل کر فنا ہو گیا مگر خدا کے دربار میں وہ اُس کی محبت کی آگ میں جل رہا ہوگا اور خدا کے فرشتے اس کی عزت کر رہے ہو نگے.پس دنیا کے مقبروں پر اپنا روپیہ ضائع مت کرو، بلکہ اپنی قبریں بہشتی مقبرہ میں بناؤ.اور یا پھر اُس بہشتی مقبرہ میں بناؤ جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں، جہاں نوح“ بھی ہیں، جہاں ابراہیم بھی ہیں، جہاں موسیٰ بھی ہیں، جہاں عیسیٰ بھی ہیں اور جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ہیں.اسی طرح تمہارے آباء واجداد بھی وہیں ہیں.پس کوشش کرو کہ
۲۱۷ وہاں تمہیں اچھے مقبرے نصیب ہوں اور تمہیں اُس کے رسولوں کا قرب حاصل ہو.(۷).مینا بازار ساتویں چیز جس کے نشان میں نے اس سفر میں دیکھے اور جن سے میں متاثر ہوا وہ مینا بازار تھے.چنانچہ میں نے ان یادگاروں میں بازاروں کی جگہ بھی دیکھی جہاں شاہی نگرانی میں بازار لگتے تھے اور ہر قسم کی چیزیں وہاں فروخت ہوتی تھیں.یہ بازار شاہانہ کرو فر کا ایک نمونہ ہوتے تھے اور بادشاہ خود ان بازاروں میں آ کر چیزیں خریدا کرتے تھے.آج کل بھی شاہی نگرانی میں بعض دفعہ بازار لگتے ہیں، چنانچہ لا ہور میں کبھی کبھی نمائش ہوتی ہے جس میں تمام قسم کی دکانیں ہوتی ہیں اور انسان کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ اُسے مل جاتی ہے.لنڈن میں بھی ایک دفعہ ویمبلے کی نمائش ہوئی تھی.اسی موقع پر ایک مذہبی کا نفرنس بھی ہوئی جس میں میں نے مضمون پڑھا تھا.اُس وقت میں نے بھی اس بازار کو دیکھا تھا ، مگر جو دُھند لانقش میرے دماغ پر رہ گیا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ میں اس سے کچھ زیادہ متاثر نہ ہوا تھا.پُرانے زمانہ کے بادشاہ بھی اسی قسم کے بازار لگایا کرتے تھے اور وہاں قسم قسم کی چیزیں فروخت ہو ا کرتی تھیں.میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ کیا ہی اچھے بازار ہوتے ہوں گے جہاں بادشاہ اور وزراء خود خریدار بن کر آتے ہوں گے اور اچھی سے اچھی چیزیں پکتی ہوں گی.مینا بازار میں فروخت ہونیوالی اشیاء پھر میں نے اپنے ذہن میں سوچا کہ وہاں کیا کیا چیزیں فروخت ہوتی ہوں گی ؟ اور اس سوال کا میرے دل نے مجھے یہ جواب دیا کہ : - اول: وہاں نہایت اعلیٰ درجہ کے مؤدب اور سیکھے ہوئے غلام فروخت ہوتے ہو نگے.دوم وہاں عمدہ سے عمدہ سواریاں پکتی ہوں گی.سوم: میں نے اپنے دل میں سوچا کہ وہاں پینے کی چیزیں بھی فروخت ہوتی ہوں گی.کوئی کہتا ہوگا برف والا پانی لے لو، کوئی کیوڑہ اور بید مشک کا شربت فروخت کرتا ہوگا ، کوئی تازہ دُودھ فروخت کرتا ہوگا ، کوئی شہد فروخت کرتا ہوگا ، کوئی اُس وقت کے ملک کے رواج کے مطابق شراب فروخت کرتا ہوگا اور کوئی گرم چائے فروخت کرتا ہوگا.چہارم : پھر کھانے کے لئے عمدہ سے عمدہ چیزیں فروخت ہوتی ہوں گی، کہیں پرندوں کے کباب
۲۱۸ فروخت ہوتے ہوں گے، کہیں انگور ، کیلے، انار اور سنگترے وغیرہ فروخت ہوتے ہوں گے.کسی جگہ لباس کی دُکانیں ہوں گی اور اچھے سے اچھے لباس فروخت ہوتے ہونگے.م کہیں زینت کے سامان آئینے ، کنگھیاں ، ربن اور پاؤڈر وغیرہ فروخت ہوتے ہوں گے.ہفتم کسی دُکان پر خوشبوئیں اور عطر وغیرہ فروخت ہوتا ہوگا.ہشتم: بعض ایسی دکانیں ہوں گی، جہاں سے طاقت کی دوائیں ملتی ہوں گی جن سے زندگی کی حفاظت ہو.نہم کسی دُکان پر نہایت اعلیٰ اور نفیس برتن فروخت ہوتے ہوں گے.دھم کسی دکان پر جنگ کے سامان یعنی تلوار میں اور طپنچے وغیرہ فروخت ہوتے ہونگے.یاز دهم : کسی دکان پر گھروں کا سامان قالین ، سیکیے اور تخت وغیرہ فروخت ہوتے ہونگے.ایک اور روحانی بازار میں نے سوچا کہ یہ بازار نہایت دلکش ہوتے ہوں گے اور دیکھنے کے قابل اور بہت اعلیٰ درجہ کی چیزیں یہاں آتی ہوں گی.مگر جب میں اس قلعہ پر تھا تو میں نے سوچا کہ کیا اس سے اچھے بازار بھی کہیں ہو سکتے ہیں ؟ تو میں نے دیکھا ایک اور روحانی بازار کا ذکر قرآن کریم میں ہے جس میں نہ صرف یہ سب چیزیں بلکہ ان سے بھی اعلیٰ درجہ کی چیزیں ملتی ہیں.مگر میں نے اس بازار کا طریق ان بازاروں سے ذرا نرالا دیکھا یعنی اُن بازاروں میں تو یہ ہوتا ہے کہ الگ الگ دکاندار ہوتے ہیں.کوئی شربت فروخت کر رہا ہوتا ہے، کوئی شہد لے کر بیٹھا ہوتا ہے، کسی کے پاس قالین اور تکیے وغیرہ ہوتے ہیں، کسی دُکان پر لباس اور کسی پر پھل وغیرہ فروخت ہوتا ہے اور باہر سے گاہک آتا ہے جیب سے پیسے نکالتا ہے اور چیز خرید لیتا ہے.مگر اس بازار کا میں نے عجیب حساب دیکھا کہ بیچنے والے بہت سے تھے مگر گاہک ایک ہی تھا اور پھر جتنے بیچنے والے تھے وہ سب کے سب صرف دو چیزیں بیچتے تھے اور جو گاہک تھا وہ ان دو چیزوں کے بدلہ میں انہیں بہت کچھ دے دیتا تھا.میں نے کہا یہ عجیب قسم کا مینا بازار ہے اور بازاروں میں تو یہ ہوتا ہے کہ پچاس دُکانیں ہوں تو سو خریدار ہوتا ہے مگر یہاں دُکانیں تو لاکھوں اور کروڑوں تھیں مگر خریدار ایک ہی تھا اور پھر ان دُکانوں کی خوبی یہ تھی کہ ان میں صرف دو ہی چیزیں پکتی تھیں زیادہ نہیں اور وہاں تو خریدار پیسے دیتے تھے مگر یہ عجیب گا ہک تھا کہ فروخت کر نیوالے کو ہر قسم کا سامان بدلہ میں دے دیتا تھا اور یہ بھی کہہ دیتا کہ اپنی ان دو چیزوں کو بھی اپنے پاس ہی رکھو ، چنانچہ اس بازار کا یہ نقشہ میں نے قرآن کریم میں دیکھا.اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمُ
۲۱۹ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقَّافِى التَّوْرَةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآن وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِى بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ۲۳ فرماتا ہے مینا بازار لگ گیا ، شاہی بازار آراستہ و پیراستہ ہو گیا تم سب آ جاؤ مگر خریدار ہو کر نہیں بلکہ اپنا سامان لے کر یہاں بیچنے کیلئے آ جاؤ ، بادشاہ خود خریدار بن کر آیا ہے اور اُس نے تمہارے مال یعنی اموال مادی اور جانیں دونوں تم سے خرید لیں.وہ مال ادنی تھا یا اعلیٰ ، قیمتی تھا یا حقیر، تھوڑا تھا یا بہت، سب ہی خرید لیا اور قیمت تمہاری نیتوں کے مطابق ڈالی اور سب کو اس مال کے بدلہ جنت قیمت میں ادا کی.گویا سارا مینا بازار اُن کو بخش دیا اور سب مال فروشوں کو حقیر مال کے بدلہ میں مالا مال کر دیا.اتنی بڑی قیمت ہم اس لئے ادا کرتے ہیں کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں یادشمن کو مارتے ہیں یا خود مارے جاتے ہیں.پس چونکہ وہ ہماری راہ میں اپنی تھوڑی پونجی سے بخل نہیں برتے، ہم بڑے مالدار ہو کر کیوں نخل سے کام لیں.پھر ہم وعدہ وفا ہیں اور ان فروخت کنندوں سے یہ وعدہ ہمارا آج کا نہیں پرانا ہے.یہ وعدہ ہم نے تورات میں بھی کیا تھا اور پھر انجیل میں بھی کیا تھا اور حال میں اُسی وعدے کو قرآن میں دُہرایا تھا اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ وعدہ وفا کرنے والا کون ہوسکتا ہے.پس اے لوگو! آج جو سودا تم نے کیا ہے اس کے نتائج پر خوش ہو جاؤ اور یقیناً ایسا ہی سو دا بڑی کامیابی کہلا سکتا ہے گویا خریدار ایک ہے فروخت کرنے والے بہت سے ہیں مگر وہ سب دو ہی چیزیں فروخت کرتے ہیں اور اس کے بدلہ میں اُن کو وہ سب چیزیں ملتی ہیں جو مینا بازاروں میں ہوا کرتی تھیں اور اس طرح ایک ہی سو دے میں سب سو دے ہو جاتے ہیں.دنیوی اور روحانی مینا بازار میں عظیم الشان فرق پھر میں نے جب اس بازار کو دیکھا تو میں نے کہا ایک اور فرق بھی اس مینا بازار اور دنیوی مینا بازاروں میں ہے اور وہ یہ کہ مینا بازاروں کی اشیاء کو خریدنے کی طاقت تو کسی انسان میں ہوتی تھی اور کسی میں نہیں ، مثلاً وہاں کہا جاتا تھا کہ یہ چیز دس ہزار روپیہ کی ہے اور خریدار کے دل میں اُس کو خریدنے کی خواہش بھی ہوتی تھی مگر وہ خرید نہیں سکتا تھا، کیونکہ اس کے پاس دس ہزار روپے نہیں ہوتے تھے.اسی طرح کسی کو کوئی اور چیز پسند آئی اور وہ قیمت دریافت کرتا تو اُسے بتایا جاتا کہ
۲۲۰ ایک سو روپیہ ہے ، مگر وہ ایک سو روپیہ دینے کی طاقت نہیں رکھتا تھا اور اس طرح اس کو خرید نے سے محروم رہتا تھا، کیونکہ وہاں قیمتیں مقرر ہوتی تھیں اور ان میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی تھی ، یہ نہیں کہ زید آیا تو اُسے کہدیا اس کی قیمت ہیں ہزار روپیہ ہے اور بکر آیا تو کہہ دیا پانچ ہزار روپیہ ہے اور خالد آیا تو کہہ دیا ایک ہزار روپیہ ہے، عمر و آ گیا تو اُسے وہی چیز سو روپیہ میں دے دی.بدر دین آگیا تو وہی چیز اُسے آٹھ آنے میں دے دی ،شمس الدین پہنچا تو اُسے ایک پیسے میں دیدی اور علاؤ الدین آیا تو اُسے ایک کوڑی میں دے دی.یہ طریقہ دُنیوی مینا بازاروں نظر نہیں آتا، مگر اس مینا بازار میں ہمیں یہی حساب نظر آتا ہے.ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے جنت چاہئے ، اُس سے پوچھا جاتا ہے تیرے پاس کتنا مال ہے؟ وہ کہتا ہے ایک کروڑ روپیہ.اُسے کہا جاتا ہے اچھا لا ؤ اپنی جان اور ایک کروڑ روپیہ اور لے لو جنت.پھر ایک اور شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے بھی جنت چاہئے ، اُس سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پاس کتنا روپیہ ہے؟ وہ کہتا ہے ایک لاکھ روپیہ.اُسے کہا جاتا ہے اچھا لا ؤ اپنی جان اور ایک لاکھ روپیہ اور لے لو جنت.اُسی وقت ایک تیسر اشخص آجاتا ہے اور وہ کہتا ہے میرے پاس صرف سو روپیہ ہے مگر میں بھی جنت لینا چاہتا ہوں اُسے کہا جاتا ہے اچھا تم بھی اپنی جان اور سو روپیہ لاؤ اور جنت لے لو یہ پھر ایک اور شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس سو روپیہ تو کیا ایک پیسہ بھی نہیں ہے سرف مٹھی جو کے دانے ہیں مگر خواہش میری بھی یہی ہے کہ مجھے جنت ملے.اُسے کہا جاتا ہے کہ تمہارا سودا منظور لاؤ جان اور مٹھی بھر دانے اور لے لو جنت.بلکہ اس بازار میں ہمیں ایسے ایسے بھی دکھائی دیئے کہ چشم حیرت کھلی کی کھلی رہ گئی.ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رَسُولَ اللہ ! مجھ سے ایسا ایسا گناہ ہو گیا ہے، آپ نے فرمایا تو پھر اس کا کفارہ ادا کرو اور اتنے روزے رکھو.اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! مجھ میں تو روزے رکھنے کی طاقت نہیں.آپ نے فرمایا اچھا روزے رکھنے کی طاقت نہیں تو غلام آزاد کر دو.وہ کہنے لگا يَا رَسُولَ اللهِ ! میں نے تو کبھی غلام دیکھے بھی نہیں اُن کو آزاد کرنے کے کیا معنی.آپ نے فرمایا اچھا تو اتنے غریبوں کو کھانا کھلا دو، کہنے لگا يَارَسُولَ الله ! خود تو کبھی پیٹ بھر کر کھانا کھانا نصیب نہیں ہوا ، غریبوں کو کہاں سے کھلاؤں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ لاؤ دوٹو کرے کھجوروں کے اور وہ اُسے دیکر فرمایا کہ جاؤ اور غریبوں کو کھلا دو، وہ کہنے لگا يَا رَسُولَ اللهِ ! کیا سارے مدینہ میں مجھ سے بھی زیادہ کوئی غریب ہے؟ آپ ہنس پڑے اور فرمایا اچھا جاؤ ۲۴
۲۲۱ اور تم ہی یہ کھجوریں کھا لو، ۲۵ میں نے کہا یہ عجیب نظارے ہیں جو اس مینا بازار میں نظر آتے ہیں کہ جنت یعنی مینا بازار کا سب سامان صرف اس طرح مل جاتا ہے کہ جو پاس ہے وہ دے دو.جس کے پاس کروڑ روپیہ ہوتا ہے وہ کروڑ روپیہ دے کر سب چیزوں کا مالک ہو جاتا ہے اور جس کے پاس ایک پیسہ ہوتا ہے وہ ایک پیسہ دے کر سب چیزوں کا مالک ہو جاتا ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اُسے خریدار اپنے پاس سے کچھ رقم دے کر کہتا ہے لو اس مال سے تم سودا کر لو تم کو جنت مل جائیگی.روحانی مینا بازار میں گاہک کا تاجروں سے نرالا سلوک پھر میں نے ایک اور فرق دیکھا کہ عام مینا بازاروں میں تو یہ ہوتا ہے کہ گا ہک آئے انہوں نے چیزیں خریدیں اور انہیں اُٹھا کر اپنے گھروں کو چلے گئے اور دکاندار بھی شام کے وقت پیسے سمیٹ کر اپنے اپنے مکانوں کو روانہ ہو گئے.مگر اس مینا بازار میں گاہک چیزیں خریدنے کے بعد وہیں چیزیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے اور اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے جا تا گویا وہی یوسف والا معاملہ ہے کہ غلہ بھی دے دیا اور پیسے بھی بوریوں میں واپس کر دیئے.اسی طرح ایک طرف تو قرآنی گاہک جان اور مال لیتا ہے اور اُدھر چُپ کر کے کھسک جاتا ہے، دکاندار سمجھتا ہے کہ شاید وہ بھول گیا ہے، چنانچہ وہ کہتا ہے آپ اپنی چیزیں لے جائیں ، مگر وہ کہہ کر چلا جاتا ہے کہ ان چیزوں کو اپنے پاس ہی امانتا رکھو اور مناسب طور پر اس میں سے خرچ کرنے کی بھی تم کو اجازت ہے مجھے جب ضرورت ہوئی لے لوں گا.گویا قیمت لے کر وہ پھر قیمت واپس کر دیتا ہے اور کہتا ہے تم اسے اپنے پاس ہی رکھو، جس قدر موقع کے مناسب ہو گا میں تم سے لے لونگا چنانچہ میں نے دیکھا کہ مال اور جان مینا بازار کی سب چیزوں کے مقابل پر لے کر وہ جان اور مال دینے والوں سے کہتا ہے.وَمِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ " وہ ساری جان اور سارا مال گو میرے حوالے کر دیتے ہیں ، مگر میں ساری جان اور سارا مال اُن سے عملاً نہیں لیتا ، بلکہ اُنہی کو دیکر کہتا ہوں کہ اس میں سے کچھ میرے لئے خرچ کرو اور باقی پنے پاس رکھو اور اپنے کام میں لاؤ اور اس سے نہ ڈرو کہ میں نے جو قیمت دی ہے اُس میں کمی ہوگی وہ تم کو پوری ملے گی.جان اور مال کا مطالبہ اب میں نے غور کیا کہ گو یہ نرالا اور عجیب سودا ہے ، لیکن آخر اس میں عجیب سو دے کا مطالبہ بھی تو کیا گیا ہے ، یعنی اپنے آپ
۲۲۲ کو غلام بنا دینے کا.بیشک اس مینا بازار میں اعلیٰ سے اعلیٰ چیز میں ملتی ہیں ، مگر سوال یہ ہے کہ کیا غلام بننا کوئی آسان کام ہے اور کیا جان اور مال دوسرے کو دے دینا معمولی بات ہے.دنیا میں کون شخص ہے جو غلامی کو پسند کرتا ہو پس میں نے اپنے دل میں کہا کہ مجھے غور کر لینا چاہئے کہ کیا یہ سودا مجھے مہنگا تو نہیں پڑے گا اور کیا اعلیٰ سے اعلیٰ چیزوں کے لالچ میں اپنا آپ دوسرے کے حوالے کر دینا موزوں ہے؟ پس میں نے کہا پہلے سوچ لو کہ غلام ہونا اچھا ہے یا یہ چیزیں اچھی ہیں.غلامی کیوں بُری کبھی جاتی ہے؟ جب میں نے اس غلامی پر غور کیا کہ یہ کس قسم کی غلامی ہے اور یہ کہ کیا اس غلامی کو قبول کرنا اس بازار کے سامان کے مقابلہ میں گراں تو نہیں؟ تو میں نے سوچا کہ غلامی کیوں بُری ہوتی ہے اور پھر میرے دل نے ہی جواب دیا اس لئے کہ :- اوّل: اس میں انسان کی آزادی چھن جاتی ہے.روم انسان کا سب کچھ دوسرے کا ہو جاتا ہے.سوم: اس میں انسان کی خواہشات ماری جاتی ہیں.چہارم : اس میں غلام اپنے عزیزوں سے جُدا ہو جاتا ہے.بیوی بچوں سے نہیں مل سکتا بلکہ جہاں آقا کہے وہیں رہنا پڑتا ہے.میں نے کہا یہ چار بُرائیاں ہیں جن کی وجہ سے غلامی کو نا پسند کیا جاتا ہے.پس میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں آزاد ہو کر غلام کس طرح بن جاؤں اور کس طرح اس دھوکا اور فریب میں آجاؤں.میں انہی خیالات میں تھا کہ یکدم میں نے دیکھا کہ قید و بند میں مبتلا انسان اپنی حماقت میں ( اور میں سے مراد اس وقت انسان ہے نہ کہ سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے میرا ذاتی وجود) جو اپنے آپ کو آزاد مجھ رہا تھا.در حقیقت قید وبند میں پڑا ہو ا تھا.میں نے دیکھا کہ میری گردن میں طوق تھا، میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور میرے پاؤں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں، مگر میں یونہی اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا، حالانکہ نہ ہتھکڑیاں مجھے کام کرنے دیتی تھیں، نہ پاؤں کی بیٹریاں مجھے چلنے دیتی تھیں ، نہ گردن کا طوق مجھے گردن اونچی کرنے دیتا تھا.
۲۲۳ یہ طوق اُن گنا ہوں ، غلطیوں اور بیوقوفیوں کا تھا جو مجھے گردن نہیں اُٹھانے دیتی تھیں اور یہ زنجیریں، اُن بد عادات کی تھیں جو مجھے آزادی سے کوئی کام نہیں کرنے دیتی تھیں.بس میں اسی طرح ہاتھ ہلانے پر مجبور تھا جس طرح میری زنجیریں مجھے ہلانے کی اجازت دیتی تھیں اور یہ بیٹریاں اُن غلط تعلیموں کی تھیں جو غلط مذاہب اور غلط قومی رواجوں نے میرے پاؤں میں ڈال رکھی تھیں اور جو مجھے چلنے پھرنے سے روکتی تھیں.تب میں حیران ہو ا کہ انسان اپنے آپ کو کیوں آزاد کہتا ہے حالانکہ وہ بدترین غلامی میں جکڑا ہوا ہے نہ ہاتھوں کی ہتھکڑیاں اُسے کام کرنے دیتی ہیں ، نہ پاؤں کی بیٹریاں اُسے ملنے دیتی ہیں اور نہ گردن کا طوق اُسے سر اٹھانے دیتا ہے.یہ طوق اُن گنا ہوں ،غلطیوں اور بیوقوفیوں کا ہوتا ہے جو اس کی گردن میں ہوتا ہے.مختلف گناہ ، مختلف غلطیاں اور مختلف بیوقوفیاں وہ کر چکا ہوتا ہے اور اس کے نتائج اس کے ارد گرد گھوم رہے ہوتے ہیں.وہ چاہتا ہے کہ ان سے نجات حاصل کرے مگر انہوں نے اُس کو گردن سے پکڑا ہوا ہوتا ہے اور اُسے کوئی بھاگنے کی جگہ نظر نہیں آتی.اسی طرح جو زنجیریں ہوتی ہیں وہ بد عادات کی ہوتی ہیں.درحقیقت بد عادات اور بدعمل میں فرق ہے.بد عمل ایک انفرادی شے ہے کبھی ہوا کبھی نہ ہوا، مگر بد عادت ہمیشہ زنجیر کے طور پر چلتی ہے اور وہ انسان کو آزادی سے کوئی کام نہیں کرنے دیتی وہ چاہتا ہے کہ نماز پڑھے مگر اُسے عادت پڑی ہوئی ہے کہ کسی بُری مجلس میں بیٹھ کر شطر نج یا جوا یا تاش کھیلنے لگ جاتا ہے تو اب باوجود نماز کی خواہش کے وہ نماز پڑھنے نہیں جائے گا بلکہ شطرنج یا تاش کھیلنے چلا جائیگا.اسی طرح بیٹریاں غلط تعلیموں کی ہوتی ہیں جو غلط مذاہب یا غلط قومی رواجوں کے ماتحت اس کے پاؤں میں پڑی ہوئی ہوتی ہیں اور جس طرح درخت زمین نہیں چھوڑ سکتا اسی طرح وہ انسان اپنی قوم سے الگ نہیں ہو سکتا.تب میں حیران ہو ا کہ اوہو! انسان تو اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک خطر ناک قیدی ہے.اس کے پاؤں میں بیٹریاں پڑی ہوئی ہیں، اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہیں اور اس کے گلے میں طوق ہیں.پس یہ تو پہلے ہی غلام ہے اور غلام بھی ایسے ظالم مالک کا جو اسے ہر وقت تباہی کی طرف لئے جاتا ہے.پس میں نے کہا جب انسان پہلے ہی غلام ہے اور غلام بھی ایسے مالک کا جو اسے کچھ نہیں دیتا تو اس دوسری غلامی کے اختیار کر لینے میں اس کا کیا حرج ہے اس کے ساتھ تو ایک جنت کا وعدہ بھی ہے.تب میں نے اُس داروغہ کی طرف داروغہ جنت نے تمام بیٹریاں کاٹ دیں! دیکھا جس کے سپر د مجھے کیا گیا تھا اور
۲۲۴ میں نے یہ کہنا چاہا کہ اب تم مجھے اپنی بیٹریاں اور زنجیریں اور طوق ڈال دو میں پہلے ہی غلام تھا اور اب بھی غلام بنے کو تیار ہوں، مگر میں نے یہ عجیب بات دیکھی کہ بجائے اس کے کہ اُس داروغہ کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ، بیٹیاں اور طوق ہوں اُس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا کلہاڑا تھا اور جب میں نے کہا میں غلام بنے کو تیار ہوں، تو وہ داروغہ محبت سے میری طرف دیکھنے لگا اور بجائے اس کے کہ میرے گلے اور ہاتھوں اور پاؤں میں نئی جہتھکڑیاں ، نئی بیٹریاں اور نئے طوق ڈالتا اُس کی نے مجھے اپنے پاس بٹھا کر اُس کلہاڑے سے میری سب زنجیریں، سب بیٹریاں اور سب طوق کاٹ دیئے اور میں نے پہلی مرتبہ آزادی کا سانس لیا مگر ساتھ ہی میں اس امید میں رہا کہ پہلی زنجیریں ، بیٹریاں اور طوق کاٹنے کے بعد اب یہ نئی زنجیریں ، نئی بیٹریاں اور نئے طوق مجھے ڈالے گا مگر ایسا نہ ہونا تھا نہ ہوا بلکہ آسمان سے ایک نہایت ہی پیاری آواز آئی جو یہ تھی کہ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيِّ الَّذِى يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمُ فِي التَّوْرَةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوابِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِى أُنْزِلَ مَعَةٌ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ۲۷ وہ لوگ جو اتباع کرتے ہیں اُس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ہمارا نبی ہے اور اُمّی ہے اور جس کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی موجود ہے وہ انہیں اچھی باتوں کی تعلیم دیتا ہے اور انہیں بُری باتوں سے روکتا ہے اور ساری حلال چیزوں کی انہیں اجازت دیتا ہے اور ان باتوں سے انہیں روکتا ہے جو مضر ہوتی ہیں اور انہوں نے غلاموں کی طرح اپنے سروں پر جو بوجھ لادے ہوئے تھے انہیں ان کے اوپر سے دُور کر دیتا ہے، اسی طرح لوگوں کے گلوں میں جو طوق پڑے ہوئے تھے انہیں ہمارا یہ رسول کاٹ کر الگ پھینک دیتا ہے.پس وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں آپ کی مدد کرتے اور اس نور کے پیچھے چلتے ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا ہے، اُن کے ہاتھوں اور پاؤں میں کبھی ہتھکڑیاں اور بیٹریاں نہیں رہ سکتیں اور نہ اُن کی گردنوں میں طوق ہو سکتے ہیں بلکہ وہ ہمیشہ کے لئے آزاد ہو جاتے ہیں.میں نے کہا مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ میرے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پاؤں میں بیٹریاں اور گردن میں طوق پڑے ہوئے ہیں، میں اپنے آپ کو آزاد سمجھتا تھا مگر جب مجھے اپنی حقیقت
۲۲۵ کا علم ہوا تو میں اس خیال کے ماتحت اس داروغہ کے سامنے گیا کہ جب میں پہلے غلام ہوں تو ایک نئی مگر پہلے سے اچھی غلامی برداشت کرنے میں کیا حرج ہے مگر یہاں جس کے حوالے کیا گیا اس نے بجائے طوق اور بیٹریاں پہنانے کے پہلے طوق اور بیٹریوں کو کاٹ دیا اور کہا کہ اب ان کے قریب بھی نہ جانا.داروند، غلاماں کا مسرت افزا پیغام میں یہ نظارہ دیکھ کر سخت حیران ہوا اور میں یہ سمجھا کہ آج انسان نے اس داروغہ غلاماں کے ذریعے پہلی دفعہ آزادی کا سانس لیا ہے مگر میں نے سوچا بیٹریاں اور زنجیریں تو کٹ گئیں ، لیکن آخر انسان غلام تو ہو ا.غلامی کی دوسری باتیں تو ہوں گی اور جو کچھ اس کا ہے وہ لازماً اس کے آقا کا ہو جائے گا.چنانچہ میں اب اس انتظار میں رہا کہ مجھ سے کہا جائے گا کہ لا ؤ اپنی سب چیزیں ہمارے حوالے کر دو، تم کون ہو جو یہ چیزیں اپنے پاس رکھو، مگر بجائے اس کے کہ غلاموں کا داروغہ یہ کہتا کہ لاؤ اپنی سب چیزیں میرے حوالے کر و اُس نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اب جو تم میرے آقا کے غلام بنے ہو تو لو سُنو ! اُس نے مجھے یہ پیغام دیا ہے کہ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّلِحِینَ " اگر اچھی طرح غلامی کرو گے تو وہ تمہارا پوری طرح کفیل ہو گا اور تمہاری سب ضرورتوں کو پورا کرے گا ، میں نے کہا یہ اچھی غلامی ہے.دنیا میں غلام تو آقا کو کما کر دیا کرتے ہیں اور یہ آقا کہتا ہے کہ ہم تمہاری سب ضرورتوں کے کفیل ہوتے ہیں.چنانچہ دیکھ لو دنیا میں غلاموں سے مختلف قسم کے کام لئے جاتے ہیں کوئی نجاری کا کام کرتا ہے، کوئی لوہارے کا کام کرتا ہے، کوئی مزدوری کا کام کرتا ہے، کوئی درزی کا کام کرتا ہے، اسی طرح اور کئی قسم کے کام اُن سے لئے جاتے ہیں اور وہ جو کچھ کماتے ہیں اپنے آقا کے سامنے لا کر رکھ دیتے ہیں.مگر یہاں اُلٹی بات ہوتی ہے کہ جب کوئی غلام بنتا ہے تو اسے یہ پیغام دے دیا جاتا ہے کہ چونکہ تم غلام ہو گئے ہو اس لئے تمہاری سب ضرورتوں کے ہم کفیل ہو گئے ہیں.ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ روزی کمانے کے لئے ایک بزرگ کا دلچسپ واقعہ کوئی کام نہیں کرتے تھے اور تو کل پر گزارہ کرتے تھے.اللہ تعالیٰ انہیں جو کچھ بھیج دیتا کھا لیتے.ایک دفعہ اُنہیں ایک اور بزرگ نے سمجھایا کہ یہ آپ ٹھیک نہیں کرتے آپ کو کوئی کام کرنا چاہئے اس طرح لوگوں پر بُرا اثر پڑتا ہے.وہ کہنے لگے بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور مہمان اگر اپنے کھانے کا خود فکر کرے تو اس میں
۲۲۶ میزبان کی ہتک ہوتی ہے، اس لئے میں کوئی کام نہیں کرتا وہ کہنے لگے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تین دن سے زیادہ مہمانی جائز نہیں ۲۹ اور اگر تین دن کوئی شخص مہمان بنتا ہے تو وہ سوال کرتا ہے آپ کے تین دن ہو چکے ہیں اس لئے آپ اب کام کریں.انہوں نے کہا ہے حضرت مجھے بالکل منظور ہے مگر میں جس کے گھر کا مہمان ہوں وہ کہتا ہے اِنَّ يَوماً عِنْدَرَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ.٣٠ تیرے رب کا ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے پس تین ہزار سال تو مجھے کچھ نہ کہیں.جس دن تین ہزار سال گزر گئے میں اپنا انتظام کر لونگا ابھی تو میں خدا تعالیٰ کا مہمان ہوں.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے پاک بندوں کی الگ الگ کی مہمانیاں ہوتی ہیں اور جیسے انسان مختلف ہوتے ہیں اسی طرح اس کا سلوک بھی مختلف قسم کا ہوتا ہے مگر بہر حال اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا غلام بن جائے تو پھر وہ اُس کی ضروریات کا آپ متکفل ہو جاتا ہے.تمام خواہشات کے پورا ہونے کی خوشخبری پھر میں نے سوچا کہ اچھا غلام بن کر ایک بات تو ضرور ہوگی کہ مجھے اپنی خواہشات کو چھوڑنا پڑے گا اور خواہشات کی قربانی بھی بڑی بھاری ہوتی ہے.اس پر مجھے اسی غلاموں کے داروغہ نے کہا، آقا کی طرف سے ایک اور پیغام بھی آیا ہے اور وہ یہ کہ يايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي ال اے میرے بندے! چونکہ اب تو ہمارا غلام بن گیا ہے اس لئے جہاں آقا ہوگا وہیں غلام رہے گا تو جا اور ہماری جنت میں رہ.مگر اس جنت میں آکر یہ خیال نہ کرنا کہ آقا کا مال میں کس طرح استعمال کروں گا.وَلَكُمْ فِيهَا مَاتَشْتَهِ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَاتَدَّعُونَ تمہارے دلوں میں جو بھی خواہش پیدا ہو گی وہ وہاں پوری کر دی جائے گی یعنی ادھر تمہارے دلوں میں خواہش پیدا ہوگی ، اُدھر اس کے مطابق چیز تیار ہو گی اور جو مانگو گے ملے گا.اعزہ واقرباء کی دائمی رفاقت پھر مجھے خیال آیا کہ بہر حال غلامی کی یہ شرط تو باقی رہے گی کہ مجھے اب اپنے عزیز و اقرباء چھوڑ نے پڑیں گے.کیونکہ جب غلام ہوا تو اُن کے ساتھ رہنے پر میرا کیا اختیار لیکن اس بارہ میں بھی داروغہ غلامان نے
۲۲۷ مجھے حیران کر دیا اور کہا کہ دیکھو میاں! آقا نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ جَنْتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ وَالْمَلَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ یعنی بجائے اس کے کہ رشتہ داروں کو الگ الگ رکھا جائے سب کو اکٹھا رکھا جائے گا ، اگر ان میں سے بعض ادنی عمل والے ہوں گے تب بھی اُن کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اعلیٰ مقام والوں کے پاس لے جائے گا اور رشتہ داروں کو جد اجد انہیں رکھے گا.روحانی مینا بازار میں ملنے والی نعماء تب میں نے کہا یہ تو بڑے مزے کی غلامی ہے کہ اس غلامی کو قبول کر کے قید و بند سے نجات ہوئی، ہمیشہ کے لئے آقا نے کفالت لے لی، خواہشات نہ صرف قربان نہ ہوئیں بلکہ ان میں وہ تی وسعت پیدا ہوئی کہ پہلے اس کا خیال بھی نہیں ہو سکتا تھا، پھر رشتہ دار اور عزیز بھی ساتھ کے ساتھ رہے.تب میں نے شوق سے اس بات کو معلوم کرنا چاہا کہ یہ تو اجتماعی انعام ہوا، وہ جو مینا بازار کی چیزوں کا مجھ سے وعدہ تھا اس کی تفصیلات بھی تو دیکھوں کہ کیا ہیں اور کس رنگ میں حاصل ہوں گی.میں نے سوچا کہ اُن مینا بازاروں میں غلام فروخت ہوتے تھے اور میں گو ایک بے عیب غلام لحاظ سے آزاد ہوں مگر بہر حال غلام ہوں اس لئے غلام تو مجھے نہیں مل سکتے.یہ کمی تو ضرور رہے گی، مگر میں نے دیکھا اس جگہ دربار سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ جو اس آقا کے غلام ہو کر جنت میں داخل ہو جائیں گے وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمُ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْفُوراً ٣٣ اُن کی خدمت پر نوجوان غلام مقرر ہوں گے جو ہمیشہ وہاں رہیں گے اور وہ موتیوں کی طرح بے عیب ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے.میں نے کہا دیکھو یہ کیسا فرق ہے اس مینا بازار اور دنیا کے مینا بازاروں میں ، دنیوی مینا بازاروں میں جو غلام خریدے جاتے ہیں اُن کے متعلق پہلا سوال تو یہی کیا جاتا ہے کہ قیمت کتنی ہے؟ اب بالکل ممکن ہے کہ ایک غلام کی قیمت زیادہ ہو اور انسان با وجود خواہش کے اسے خرید نہ سکے ، پھر اگر خرید بھی لے تو ممکن تھا کہ وہ غلام چند دنوں کے بعد بھاگ جاتا ، اگر نہ بھاگتا تو ہو سکتا تھا کہ مرجاتا ، اگر وہ نہ مرتا تو خرید نے والا مر سکتا تھا.غرض کوئی نہ کوئی نقص
۲۲۸ کا پہلو اس میں ضرور تھا ، مگر میں نے کہا یہ عجیب قسم کے غلام ملیں گے جو نہ بھاگیں گے نہ مریں گے بلکہ مُخَلَّدُونَ ہونگے یعنی ہمیشہ ہمیش رہیں گے.پھر دنیوی مینا بازاروں میں تو انسان شاید ایک غلام خرید کر رہ جاتا یا دو غلام خرید لیتا یا تین یا چار خرید لیتا ، مگر اس مینا بازار میں تو بے انتہاء غلام ملیں گے چنانچہ فرماتا ہے اِذَا رَاَيْتَهُمُ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنشُورًا جس طرح سمندر سے سینکڑوں موتی نکلتے ہیں اسی طرح وہ غلام سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ہوں گے.پھر دنیوی غلاموں میں سے تو بعض بدمعاش بھی نکل آتے ہیں ، مگر ان کے متعلق فرمایا وہ لُؤْلُؤًا مَّنثُورًا کی طرح ہونگے ، دیکھو کیا لطیف تشبیہہ بیان کی گئی ہے.دنیا میں موتی کو بے عیب سمجھا جاتا ہے اور کسی کی اعلیٰ درجہ کی خوبی بیان کرنے کے لئے موتی کی ہی مثال پیش کرتے ہیں.پس اس مثال کے لحاظ سے لُؤْلُؤًا مَّنثُورًا کا مفہوم یہ ہوا کہ اُن میں کسی قسم کا جھوٹ ، فریب، دغا ، کینہ اور کپٹ نہیں ہوگا ، مگر موتی میں ایک عیب بھی ہے اور وہ یہ کہ اُسے چور چرا کر لے جاتا ہے، اسی لئے اُسے چُھپا چھپا کر رکھا جاتا ہے مگر فرمایا کہ وہ بیشک اپنی خوبیوں میں موتیوں کی طرح ہونگے مگر وہ اتنے بے عیب ہوں گے کہ تم بیشک انہیں گھلے طور پر پھینک دو اُن پر کوئی خراب اثر نہیں ہوگا.دنیا میں غلام ایک دوسرے کا بداثر قبول کر لیتے ہیں اس لئے انہیں بُری صحبت سے بچانے کی ضرورت ہوتی ہے مگر فرمایا وہ بداثر کو قبول ہی نہیں کرینگے اس لئے ان کو چھپانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی بلکہ تم نے ان کو بے پروائی سے بکھیرا ہوا ہوگا اور تمہیں ان کے متعلق کسی قسم کا خوف اور تر ڈ دنہیں ہوگا.اعلیٰ درجہ کی سواریاں پھر میں نے سوچا کہ اُس مینا بازار میں بڑی عمدہ سواریاں ملتی تھیں کیا یہاں بھی کوئی سواری ملے گی.تو میں نے دیکھا کہ اس جگہ بھی سواری کا انتظام تھا چنانچہ لکھا تھا أُولَئِكَ عَلى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ المُفْلِحُونَ ۳۴ وہ متقی لوگ جو غلام بن چکے ہیں اُن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی سواریاں آئیں گی جن پر سوار ہو کر وہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں پہنچیں گے ، میں نے کہا یہ سواری تو عجیب ہے مینا بازار سے تو بگنے ، موتنے اور گھاس کھانے والا گھوڑا ملتا تھا مگر یہاں ہدایت کی سواری ملے گی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے گی.میں نے سمجھا کہ اگر وہاں گھوڑ ا ملتا ھے تو وہ لید کرتا اور اس کی صفائی میرے ذمہ ہوتی ، وہ گھاس کھاتا اور اس کا لانا میرے ذمہ ہوتا ، پھر شاید کبھی منہ زوری کرتا، میں اُسے مشرق کو لے جانا چاہتا اور وہ مجھے مغرب کو لے جاتا اور شاید مجھے
۲۲۹ گرا بھی دیتا، مگر یہ گھوڑا جو مجھے ملا ہے، یہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ لگتا ہے نہ موتا ہے ، نہ منہ زوری کرتا ہے اور نہ اپنے سوار کو گراتا ہے بلکہ سیدھا اللہ تعالیٰ کے پاس لے جاتا ہے.پھر اُس گھوڑے پر چڑھ کر کوئی خاص عزت نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ ہر شخص جس کے پاس ہوسکتی سو پچاس روپے ہوں ، گھوڑ ا خرید سکتا ہے، مگر یہ گھوڑ ا خلعت کا گھوڑا ہو گا جو زمین و آسمان کے بادشاہ کی طرف سے بطور اعزاز آئے گا.پس معمولی ٹشو پر چڑھنا اور بات ہے اور یہ کہنا کہ بادشاہ کی طرف سے جو گھوڑا آیا ہے اُس پر سوار ہو جائیے یہ اور بات ہے.ٹھنڈے شربت (۳) تیسرے میں نے دیکھا کہ مینا بازار میں ٹھنڈے پانی ملتے تھے میں نے کہا دیکھیں ہمارے مینا بازار میں بھی ٹھنڈے پانی ملتے ہیں یا نہیں؟ تو میں نے دیکھا کہ ان دنیا کے مینا بازاروں میں جو ٹھنڈے پانی ملتے تھے وہ تو بعض دفعہ پینے کے بعد آگ لگا دیتے تھے اور صرف عارضی تسکین دیتے تھے، چنانچہ ہر شخص کا تجربہ ہو گا کہ گرمی میں جتنی زیادہ برف استعمال کی جائے اتنی ہی زیادہ پیاس لگتی ہے.مگر یہ پانی جو آسمانی مینا بازار میں ملتے تھے ان کی یہ کیفیت تھی کہ يَشْرَبُونَ مِنْ كَاسِ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا ۳۵ اس جنت کے مینا بازار میں مؤمنوں کو ایسے بھرے ہوئے پیالے ملیں گے جن کی ملونی اور جن کی خاصیت ٹھنڈی ہوگی ، وہ کا فوری طرز کے ہونگے اور ان کے پینے کے بعد گرمی نہیں لگے گی.یعنی نہ صرف جسمانی ٹھنڈک پیدا ہو گی بلکہ ان کے پینے سے دل کی گرمی بھی دُور ہو جائے گی اور گھبراہٹ جاتی رہے گی اور اطمینان اور سکون پیدا ہو جائے گا.چنانچہ قرآن کریم میں ہی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کا فوری پیالے اُن کو اس لئے ملیں گے کہ اُن کے دلوں پر خدا تعالی کا خوف طاری تھا اور وہ اُس کے جلال سے ڈرتے تھے اس وجہ سے اُن کا خوف دُور کرنے اور اُن کے دلوں کو تسکین عطا کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اُن کو کا فوری مزاج والے پیالے پلائے جاتے.چنانچہ فرماتا ہے فَوَقَهُمُ اللهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَهُمْ نَضْرَةً وَسُرُورًا ٣٦ وہ لوگ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے ڈرا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی ہیبت ان کے دلوں پر طاری تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اُن کی ہیبت دور کرنے کے لئے ان کو کا فوری پیالے پلائے.گرم چائے پھر میں نے سوچا کہ اچھا ٹھنڈے شربت تو ہوئے مگر کبھی گرم چائے کی بھی ضرورت ہوتی ہے تا کہ سردی کے وقت اس سے جسم کو گرمی پہنچائی جائے.
۲۳۰ ایسے وقت میں تو سرد یا سرد مزاج پانی سخت تکلیف دیتا ہے.پس اگر یہ کا فوری پیالے ہی ملے تو ایسے وقت میں وہ کفایت نہ کریں گے ، ایسے وقت میں تو گرم چائے کی ضرورت ہوگی.جب مجھے یہ خیال آیا تو میں نے دیکھا کہ اس آسمانی مینا بازار میں چائے کا بھی انتظام تھا.چنانچہ لکھا ب وَيُسْقَوْنَ فِيْهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيلاً ٣ چونکہ انسان کو کبھی گرمی کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس لئے جنتیوں کو ایسے پیالے بھی ملیں گے جن کے اندر سونٹھ کی طرح گرم خاصیت ہوگی.تو دیکھو دونوں ضرورتوں کو خدا تعالیٰ نے پورا کر دیا ، گرمی دور کرنے کے لئے مؤمنوں کو ایسے پیالے پلانے کا انتظام کر دیا جو کا فوری مزاج والے ہوں گے اور سردی کے اثرات کو دُور کرنے کے لئے ایسے پیالے پلانے کا انتظام فرما دیا جو زنجبیلی مزاج والے ہوں گے.پھر اس کی وجہ بھی بتا دی کہ کافوری پیالوں کی کیوں ضرورت ہوگی اور زنجبیلی پیالوں کی کیوں؟ کافوری پیالوں کی تو اس لئے ضرورت ہوگی کہ مؤمن خدا تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھتے تھے اور اُن کے دل و دماغ میں گھبراہٹ رہتی تھی کہ نہ معلوم وہ اللہ تعالیٰ کی رضاء کے مقام کو حاصل کرتے ہیں یا نہیں، اس لئے اگلے جہاں میں انہیں تسکین کے لئے کا فوری پیالے پلائے جائیں گے اور زنجبیلی پیالے اس لئے پلائے جائیں گے کہ انہوں نے دین کے لئے گرمی دکھائی تھی اور بے تاب ہو کر اللہ تعالیٰ کے راستہ پر چلتے رہے تھے، اس لئے جب اُن کو گرمی کی ضرورت ہو گی انہیں گرمی پیدا کرنے کے سامان دیئے جائیں گے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں لوگوں کو نکما بنا کر نہیں بٹھا دیا جائے گا بلکہ اُن کی ساری لذت ہی کام میں ہوگی اور انہیں زنجبیلی پیالے پلائے جائیں گے تاکہ اُن میں کام کی اور زیادہ قوت پیدا ہو.پس یہ خیال غلط ہے جو بعض مسلمانوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ جنت میں کوئی کام نہیں ہو گا ، اگر ایسا ہی ہو تو ایک ایک منٹ جنتیوں کے لئے مصیبت بن جائے.ہوتو اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے إِنَّ هَذَا كَانَ لَكُمْ جَزَاءً وَكَانَ سَعْيُكُم مَّشْكُورًا ٣ چونکہ تم نے دنیا میں بڑے بڑے نیک اعمال کئے تھے اس لئے تمہارے اُن کا موں کو قائم رکھنے اور تمہاری ہمتوں کو تیز کرنے کے لئے زنجبیلی پیالے پلائے جائیں گے تاکہ تم میں نیکی ، تقویٰ اور قوت عمل اور بھی بڑھے اور تا تم پہلے سے بھی زیادہ ذکر الہی کرو پس جنت نکموں کی جگہ نہیں بلکہ اس دنیا سے زیادہ کام کرنے کی جگہ ہے.
۲۳۱ شیریں چشمے پھر میں نے ایک اور فرق دیکھا کہ دُنیوی مینا بازاروں کا کام تو ختم ہو جاتا تھا گلاس پیا اور ختم.بعض دفعہ کہا جاتا شربت کیوڑہ دو تو جواب ملتا کہ شربت کیوڑہ ختم ہو چکا ہے.بعض دفعہ برف مانگی جاتی تو کہہ دیا جاتا کہ برف ختم ہو گئی ہے.اسی طرح بعض مذہبی آدمی زمزم کا پانی یا گنگا جل بوتلوں میں بھر کر لاتے ہیں وہ بھی ختم ہو جاتا ہے.لیکن یہ آسمانی پانی نرالا تھا جو ختم ہی نہ ہوتا تھا بلکہ اُس کے چشمے پھوڑے گئے تھے چنانچہ فرماتا ہے يُطَافُ عَلَيْهِمُ بِكَأْسٍ مِنْ مَّعِينٍ وہاں ان کو ایسے بھرے ہوئے پیالے پلائے جائیں گے جو ان چشموں سے لائے جائیں گے جو بہتے پانی والے ہوں گے یعنی وہ پانی محدود نہیں ہوگا جاری رہے گا.دُودھ کی نہریں پھر میں نے کہا کہ اُن مینا بازاروں میں دودھ بھی سکتا ہے کیا وہاں دُودھ بھی ملے گا کہ وہ ایک ضروری غذاء ہے.تو میں نے دیکھا کہ ان بازاروں میں تو دودھ بوتلوں اور پاؤنڈوں اور سیروں کے حساب سے بکتا ہے پھر بھی کبھی خراب نکلتا ہے یا خراب ہو جانے کا ڈر ہوتا ہے اور جلدی پینا پڑتا ہے.مگر وہاں کے دُودھ کا یہ حال ہے کہ مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِى وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا أَنْهَرٌ مِّنْ مَّاءٍ غَيْرِ اسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِّنْ لَّبَنِ لَّمْ يَتَغَيَّرُ طَعْمُهُ ٤٠ مؤمنوں سے جن جنتوں کا وعدہ ہے اُن کی کیفیت یہ ہے کہ وہاں پانی کی نہریں ہوں گی جو کبھی سڑے گا نہیں اور دُودھ کی نہریں ہوں گی جس کا مزہ کبھی بدلے گا نہیں بلکہ وہ ہمیشہ قائم رہنے والا ہو گا.دنیا میں آج تک کبھی کسی بھینس نے ایسا دُودھ نہیں دیا جو لَمْ يَتَغَيَّرُ طَعْمُهُ کا مصداق ہو مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے مینا بازار میں ایسا ہی دودھ ملے گا پھر یہاں تو کسی جگہ روپیہ کا آٹھ سیر دودھ ملتا ہے اور کسی جگہ دس سیر اور کسی جگہ روپے سیر مگر وہاں دُودھ کی نہر بہہ رہی ہوگی اور نہر بھی ایسی ہوگی کہ لَم يَتَغَيَّرُ طَعْمُۂ اس کے دودھ کے متعلق یہ نہیں کہا جائے گا کہ اسے جلدی اُبال لو، ایسا نہ ہو خراب ہو جائے یا شام کا دودھ ہے جلدی سے ناشتہ میں ہی استعمال کر لیا جائے دو پہر تک خراب ہو جائے گا ، وہاں کا دُودھ کبھی خراب نہیں ہوگا.اس آیت سے یہ تو معلوم ہو گیا کہ دُودھ کی بڑی کثرت ہو گی مگر سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ کیا اس دُودھ کے استعمال پر کوئی روک تو نہیں ہوگی؟ اس کا ازالہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر کیا ہے فرماتا ہے وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ أَنَّ لَهُمُ جَنَّتِ
۲۳۲ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهرُ تو مؤمنوں کو بشارت دے کہ اُن کو ایسی جنتیں ملیں گی جن کی نہریں اُن باغوں کے متعلق ہونگی یعنی جن کے باغ اُن کی نہریں.یہ نہیں ہو گا کہ جس طرح دنیا میں نہری پانی کے استعمال کی اور اس کی مقدار کی گورنمنٹ سے اجازت لی جاتی ہے اسی طرح وہاں بھی اجازت لینی پڑے بلکہ جب چاہو ان نہروں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہو، خواہ وہ دُودھ کی نہریں ہوں یا شہد کی نہریں ہوں یا پانی کی نہریں ہوں سب باغ والوں کے قبضہ میں ہوں گی.مصفی شہد پھر میں نے کہا کہ دنیا کے مینا بازاروں میں شہد بھی ملتا ہے آیا اُس مینا بازار میں ـ بھی شہر ملتا ہے یا نہیں ؟ جب میرے دل میں یہ خیال آیا تو معاً میں نے یہ لکھا ہوا دیکھا کہ اَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُصَفّى " وہاں خالص شہد کی نہریں بھی بہتی ہونگی دنیا میں عام طور پر اول تو خالص شہد ملتا ہی نہیں.لوگ مصری کا شربت بنا کر اور تھوڑ اسا اس میں شہد ملا کر کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ خالص شہد ہے اور اگر خالص شہد کا کچھ حصہ ہو بھی تو موم ضرور ہوتا ہے اور اگر شہد کا شربت بنا کر پیا جائے تو زبان پر موم لگ جاتا ہے، لیکن اگر کسی جگہ سے خالص شہد مل بھی جائے تو وہ پونڈوں اور ڈبوں کی شکل میں ملتا ہے مگر فرمایا ہمارے ہاں یہ نہیں ہوگا کہ پونڈوں کے وزن کے ڈبے پڑے ہوئے ہوں اور ہم کہیں کہ یہ چنے کا شہر ہے اور یہ آسٹریلیا کا شہد ہے بلکہ شہد کی نہریں بہتی ہوگی اور تمہارا اختیار ہوگا کہ جتنا شہد چا ہو لے لو.پر لذت شراب پھر میں نے سوچا کہ دنیوی مینا بازاروں میں شراب بھی بکتی تھی اور گو شراب ایک بُری چیز ہے اور مسلمانوں کے لئے اس کا استعمال جائز نہیں، ہے مگر قرآن کریم یہ تو مانتا ہے کہ اس میں کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں چنانچہ فرماتا يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا اِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ ٢٣ لوگ تم سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں تم کہہ دو کہ اُن کے استعمال میں بڑا گناہ ہے مگر لوگوں کے لئے ان میں کچھ منافع بھی ہیں.پس میں نے کہا جب قرآن خود یہ مانتا ہے کہ شراب میں کچھ فائدے بھی ہیں تو بہر حال شراب کے نہ ہونے سے ہم ان منافع سے تو محروم ہو گئے جو شراب سے حاصل ہو سکتے تھے، بیشک دُنیوی مینا بازاروں میں جو شراب ملتی تھی ، اُس کے پینے سے انسان گناہوں میں ملوث ہو جاتا تھا ، مگر بہر حال اُسے شراب کے فائدے بھی پہنچتے تھے.اس لئے شراب میں کچھ منافع بھی ہیں تو کیا اس کی خرابیوں سے بچا کر مجھے اس
۲۳۳ کے منافع سے فائدہ نہیں پہنچایا جا سکتا؟ یہ خیال میرے دل میں آیا تو میں نے دیکھا کہ یہ چیز اس مینا بازار میں بھی موجود تھی چنانچہ میں نے ایک بورڈ دیکھا جس پر لکھا تھا وَ اَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لذَّةٍ لِلشَّرِبِينَ " وہاں شراب کی نہریں بہتی ہوں گی جو پینے والوں کے لئے بڑی لذت کا موجب ہوں گی.ایک اعلیٰ درجہ کی سر بمہر شراب میں نے کہا اوہو! دنیا میں شراب تو صرف مٹکوں میں ہوتی ہے مگر یہاں نہروں کی صورت میں ہوگی اور اتنی کثرت سے ہوگی کہ اس کی کوئی حد بندی ہی نہیں ہوگی مگر اس کے ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ مٹکوں کی شراب کو گورنمنٹ اعلیٰ نہیں سمجھتی اور وہ اس کی بجائے ولایتی شراب بوتلوں میں بند کر کے بھیجتی ہے جو اپنے اثر اور ذائقہ میں زیادہ بہتر سمجھی جاتی ہے، میں نے کہا کہ اس مینا بازار میں تو شراب میں فرق کیا جاتا ہے ، کیا اُس مینا بازار میں بھی ایسا فرق ہے؟ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہاں بھی دو قسم کی شراب ہو گی ایک وہ جو نہروں کی صورت میں ہوگی اور گویا مٹکوں والی شراب کی قائم مقام ہوگی اور دوسری شراب وہ ہوگی جو بوتلوں میں بند ہوگی چنانچہ فرماتا ہے يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيْقٍ مَّحْتُومٍ خِتَمُهُ مِسْک ۲۵ اس نہروں والی شراب کے علاوہ ایک اور شراب بھی وہاں ہو گی جو بوتلوں میں بند ہو گی جس پر مہریں لگی ہوئی ہوں گی اور جوایسی اعلیٰ درجہ کی ہوگی کہ اُس کی تلچھٹ سے بھی مُشک کی خوشبو اپنے اندر رکھتی ہو گی ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی شراب میں فرق ہو گا، ایک تو عا م شراب ہو گی جیسے بیئر (BEAR) وغیرہ اور ایک اعلیٰ درجہ کی شراب ہو گی جو آقا کا خاص تحفہ ہوگی اور سر بمہر ہر گی اور اس کی دُرد ، مُشک کی ہوگی.ہو روحانی شراب کی ایک عجیب خصوصیت تب میں نے سوچا کہ دنیوی شراب تو عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے صحت برباد کر دیتی ہے انسان کو خمار ہو جاتا ہے وہ گند بکنے لگ جاتا ہے اور اس کے خیالات ناپاک اور پریشان ہو جاتے ہیں.بیشک شراب میں کچھ فائدے بھی پائے جاتے ہیں لیکن انہی عیوب کی وجہ سے دنیا کی پچاس ساٹھ سالہ زندگی بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ شراب نہ پیو، پھر ہمیشہ کی زندگی میں اس کے استعمال کو جائز کیوں رکھا گیا اور کیا ایسا تو نہیں ہوگا کہ اس شراب کو پی کر میں اپنی عبودیت کو بھول جاؤں؟ اس پر میں نے دیکھا کہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرما رہا
۲۳۴ ہے لَا فِيهَا غَوْلٌ وَّلَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُونَ ^ غول کے معنی عربی میں عقل اور بدن کی صحت کے چلے جانے اور خمار کے پیدا ہو جانے کے ہیں.۲۹ پس لا فِيهَا غَولٌ کے معنے یہ ہوئے کہ اس سے عقل ضائع نہیں ہو گی ، بدن کی صحت پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑے گا اور پینے کے بعد خمار نہیں ہوگا.یہ تین عیب ہیں جو دنیا میں شراب پینے سے پیدا ہوتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے مینا بازار کی جو شراب ملے گی اُس سے نہ عقل خراب ہو گی اور نہ صحت کو کوئی نقصان پہنچے گا.یہاں شراب پینے والوں کو رعشہ ہو جاتا ہے گنٹھیا کی شکایت ہو جاتی ہے اور جب نشہ اترتا ہے تو اُس وقت بھی انہیں خمار سا ہوتا ہے اور اُن کے سر میں درد ہوتا ہے، لیکن اس مینا بازار میں جو شراب ملے گی اُس میں اِن نقائص میں سے کوئی نقص نہیں ہوگا.اسی طرح نزف کے معنے ہوتے ہیں ذَهَبَ عَقْلُهُ اَوْ سُكِّرَ ۵۰ یعنی عقل کا چلے جانا اور بہکی بہکی باتیں کرنا.یہ بات بھی ہر شرابی میں نظر آ سکتی ہے.خود مجھے ایک شرابی کا واقعہ یاد ہے جو میرے ساتھ پیش آیا ، اب تو میں حفاظت کے خیال سے سیکنڈ کلاس میں سفر کیا کرتا ہوں لیکن جس زمانہ کی یہ بات ہے اس زمانہ میں میں تھرڈ کلاس میں سفر کیا کرتا تھا، مگر اتفاق ایسا ہوا کہ اُس دن تھرڈ کلاس میں سخت پھیری تھی میں نے سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ لے لیا مگر سیکنڈ کلاس کا کمرہ بھی ایسا بھرا ہوا تھا کہ بظاہر اس میں کسی اور کے لئے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی تھی.چھوٹا سا کمرہ تھا اور اٹھارہ ہیں آدمی اس میں بیٹھے ہوئے تھے.بہر حال جب میں اس کمرہ میں گھسا تو ایک صاحب جو اندر بیٹھے ہوئے تھے وہ مجھے دیکھتے ہی فوراً کھڑے ہو گئے اور لوگوں سے کہنے لگے تمہیں شرم نہیں آتی کہ خود بیٹھے ہو اور یہ کھڑے ہیں ان کے لئے بھی جگہ بناؤ تا کہ یہ بیٹھیں.میں نے سمجھا کہ گومیں انہیں نہیں جانتا مگر یہ میرے واقف ہوں گے.چنانچہ اُن کے زور دینے پر لوگ اِدھر اُدھر ہو گئے اور میرے بیٹھنے کے لئے جگہ نکل آئی.جب میں بیٹھ گیا تو وہی صاحب کہنے لگے کہ آپ کیا کھا ئیں گے؟ میں نے کہا آپ کی بڑی مہربانی ہے مگر یہ کھانے کا وقت نہیں میں لاہور جا رہا ہوں وہاں میرے عزیز ہیں وہاں سے کھانا کھا لوں گا.کہنے لگے نہیں پھر بھی کیا ہے کھائیں گے؟ میں نے کہا عرض تو کر دیا کہ کچھ نہیں.اس پر وہ اور زیادہ اصرار کرنے لگے اور کہنے لگے اچھا فرمائیے کیا کھائیں گے؟ میں نے کہا بہت بہت شکریہ میں کچھ نہیں کھاؤں گا.کہنے لگے اچھا تو پھر فرمائیے نا کہ آپ کیا کھائیں گے؟ میں اب گھبرایا کہ یہ کیا مصیبت آ گئی
۲۳۵ ہے.اس سے پہلے میں نے کسی شرابی کو نہیں دیکھا تھا اس لئے میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ اپنے ہوش میں نہیں.اتنے میں ایک سکھ صاحب کمرہ میں داخل ہوئے اس پر وہ پھر کھڑے ہو گئے اور لوگوں سے کہنے لگے، تمہیں شرم نہیں آتی کمرہ میں ایک بھلا مانس آیا ہے اور تم اُس کے لئے جگہ نہیں نکالتے.اور یہ بات کچھ ایسے رُعب سے کہی کہ لوگوں نے اس کے لئے بھی جگہ نکال دی.جب وہ سکھ صاحب بیٹھ چکے تو دو منٹ کے بعد وہ اُن سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے سردار صاحب کچھ کھا ئیں گے؟ میں نے اُس وقت سمجھا کہ یہ شخص پاگل ہے اتنے میں ایک اور شخص کمرہ میں داخل ہو گیا.اس پر وہ انہی سردار صاحب کو جن کو چند منٹ پہلے بڑے اعزاز سے بٹھا چکا تھا کہنے لگا تمہیں شرم نہیں آتی کہ خود بیٹھے ہو اور اس کے لئے جگہ نہیں نکالتے.آخر میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو اس نے بتایا کہ انہوں نے شراب پی ہوئی ہے اس پر میں اگلے سٹیشن کے آتے ہی وہاں سے کھسک گیا اور میں نے شکر کیا کہ اُس نے مجھ کو جھاڑ ڈالنے کی کوشش نہیں کی.تو شراب انسانی عقل پر بالکل پردہ ڈال دیتی ہے ، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَاهُمُ اث عَنْهَا يُنْزَفُونَ نہ انہیں نشہ چڑھے گا اور نہ بیہودہ باتیں کریں گے.پاکیزہ مذاق اس طرح فرماتا ہے يَتَنَازَعُونَ فِيْهَا كَأْسًا لَّا لَغُوْ فِيْهَا وَلَا تَأْثِيمٌ مؤمن وہاں آپس میں بڑی صلح صفائی اور محبت پیار سے رہیں گے اور جس ہنسی مذاق میں ایک بھائی دوسرے بھائی سے کوئی چیز چھین کر لے جاتا ہے اسی طرح وہ ایک دوسرے سے چھین چھین کر کھائیں گے.یہ نہیں کہ اُن کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہوگا جس کی وجہ سے انہیں چھینا پڑے گا بلکہ اُن کے پاس ہر چیز کی کثرت ہوگی ، یہاں تک کہ دُودھ اور شہد اور پانی کی نہریں چل رہی ہوں گی مگر پھر بھی وہ محبت اور پیار کے اظہار کے لئے ایک دوسرے سے پیالے چھین چھین کر پیئیں گے.مگر دنیا میں تو اس چھینے کے نتیجہ میں کئی دفعہ لڑائی ہو جاتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں.ایک کہتا ہے تم بڑے خبیث ہو اور دوسرا کہتا ہے تم بڑے خبیث ہو مگر فرمایا لَا لَغُوفِيهَا وَلَا تَأْثِيمٌ وہاں قلوب اتنے صاف ہوں گے کہ انسان کے دل میں اس سے کوئی رنجش پیدا نہیں ہوگی کہ اُس کی کے بھائی نے اس سے پیالہ چھین لیا ہے بلکہ اُن کی آپس کی محبت اور زیادہ ترقی کرے گی اور وہ اور زیادہ نیک اور پاک بن جائیں گے.اس سے معلوم ہؤا کہ نہ صرف وہ شراب پاک
۲۳۶ ہوگی بلکہ جتنا زیادہ اُس شراب کو پیئیں گے اُتنا ہی اُن کا دل پاک ہو گا اس سے صاف ظاہر ہے کہ دنیوی شراب کی بُرائیاں اُس میں نہیں ہوں گی.تزکیہ نفس پیدا کرنے والی شراب مگر پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُس کی خوبیاں کیا ہیں جن کی وجہ سے وہ پلائی جائے گی.تو اس کا جواب میں نے یہ پایا کہ وَ سَقَهُمْ رَبُّهُمْ شَرَاباً طَهُورًا طَهُور کے معنے پاک کے بھی اور پاک کرنے والے کے بھی ہوتے ہیں اور طاہر کے معنے ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں پاک ہو پس سَقَهُمْ رَبُّهُمْ شَرَاباً طَهُورًا کے معنے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو ایسی شراب پلائے گا جو اُن کے دلوں کو بالکل پاک کر دے گی ، معلوم ہوا کہ وہ شراب صرف نام کے لحاظ سے شراب ہے ورنہ اصل میں کوئی ایسی چیز ہوگی جس سے دل پاک ہوں گے پھر طھور کے لفظ سے جس کے معنے پاک کرنے والی شے کے ہوتے ہیں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ شراب چیزوں کو سٹرا کر نہیں بنائی جائے گی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حسن کہنے کے نتیجہ میں پیدا ہوگی.اسی طرح ایک اور لطیف اشارہ اس میں یہ کیا گیا ہے کہ شراب خود گندی ہوتی ہے اور جو چیز آپ گندی اور سڑی ہوئی ہو وہ دوسروں کو بھی گند میں مبتلاء کرتی ہے مگر فرمایا وہ شراب نہ خود سڑی ہوئی ہوگی اور نہ دوسروں کو گند میں مبتلاء کرے گی ، گویا اس کے دونوں طرف پاکیزگی ہو گی.وہ نہ آپ گندی اور سڑی ہوئی ہوگی اور نہ دوسروں کو گندگی میں مبتلاء کرے گی.دو تسنیم واٹر، پھر فرماتا ہے وَمِزَاجُهُ مِنْ تَسْنِهُم اس شراب میں ایک پانی ملا یا ۵۳ جائے گا جو شرف ، بلندی اور کثرت کا ہو گا جیسے انگریز شراب پیتے ہیں تو اُس میں سوڈا واٹر ملا لیتے ہیں.اسی طرح فرمایا ہم اس شراب میں تسنیم واٹر ملائیں گے گویا وہاں بھی سوڈا واٹر ہو گا، مگر اس کا نام ہو گا تسنیم واٹر.اور تسنیم کے معنے بلندی ، شرف اور کثرت کے ہیں، گویا اُس پانی کو پی کر یہ تینوں باتیں انسان کو حاصل ہوں گی.کیونکہ یہ معمولی پانی نہیں ہوگا بلکہ بلندی ، شرف اور کثرت کے چشمہ کا ہو گا جو جنت میں بہتا ہوگا اور عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ ۵ یہ ایک ایسا چشمہ ہو گا جس سے مقرب لوگ پانی پئیں گے ، گویا دو گروہوں کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے.ایک گروہ تو وہ ہوگا جس کی شراب میں ذائقہ کے لئے تسنیم کا پانی ملایا جائے گا اور جب بھی وہ شراب پینا چاہیں گے انہیں اس کے مطابق تسنیم کا پانی شراب میں ملانے کے لئے دیدیا جائے گا ،مگر ایک اور گروہ مقربین کا ہوگا جنہیں معمولی مقدار میں تسنیم
۲۳۷ کا پانی نہیں دیا جائے گا، بلکہ عَيْنًا يَّشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ کے مطابق انہیں اجازت ہوگی کہ وہ جب بھی چاہیں تسنیم کے چشمہ سے پانی لے لیں جو بلندی ،شرف اور کثرت کا چشمہ ہو گا.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جنت میں جس شراب وغیرہ کا ذکر آتا ہے اُس سے مراد رُوحانی چیزیں ہیں ورنہ دُنیا میں کیا کبھی شرف، بلندی اور کثرت کا پانی بھی ہوا کرتا ہے یا کوئی ایسی شراب بھی ہوا کرتی ہے جو سٹرے نہیں ؟ اور پھر وہ شراب ہی کیا ہے جس میں نشہ نہ ہو، بلکہ شراب میں جتنا زیادہ نشہ ہو اتنی ہی وہ اعلیٰ سمجھی جاتی ہے اور اُسی قدر ہمارے شاعر اس کی تعریف کرتے ہیں.ذوق کہتا ہے وہ نشہ نہیں جسے ترشی اُتار دے مگر جنت میں جو شراب دی جائے گی اس میں نہ نشہ ہوگا نہ وہ سڑی ہوئی ہوگی اور نہ صحت اور عقل کو نقصان پہنچائے گی.۵۵ اسی طرح فرماتا ہے اس شراب میں ایک چشمہ کا پانی ملایا جائے گا جس کا نام سَلْسَبِيلا ہوگا سبیل کے معنے راستہ کے ہیں اور سال کے معنے اگر اس کے سالَ يَسِيلُ سے سمجھا جائے تو یہ ہوں گے کہ چل اپنے راستہ پر.یا دوڑ پڑ.یعنی دنیاوی شراب پی کر تو انسان لڑکھڑا جاتے ہے ہیں مگر وہ شراب ایسی ہو گی کہ اُسے پی کر انسان دوڑنے لگے گا اور اُس کو پیتے ہی کہا جائے گا کہ اب سب کمزوری رفع ہو گئی چل اپنے راستہ پر.یہ فرق بھی بتا رہا ہے کہ شراب مادی نہیں ، ورنہ دنیا کی شراب پی کر انسان کے پاؤں لڑکھڑا جاتے ہیں اور وہ کبھی بھی دوڑ نہیں سکتا.مادی شراب کے نشہ کی کیفیت مجھے ایک لطیفہ یاد ہے ، قادیان میں جہاں آج کل صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں اور جہاں سے ایک گلی ہمارے مکانوں کے نیچے سے گزرتی ہے، وہاں ایک دن میں اپنے مکان کے صحن میں ٹہلتا ہوا مضمون لکھ رہا تھا کہ نیچے گلی سے مجھے دو آدمیوں کی آواز آئی.ان میں سے ایک تو گھوڑے پر سوار تھا اور دوسرا پیدل تھا.جو پیدل تھا وہ دوسرے شخص سے کہہ رہا تھا کہ سند رسنگھا! پکوڑے سَالَ يَسِيلُ سے قاعدہ کے ماتحت توسل آنا چاہئے لیکن الفاظ میں دوسرے لفظ کی حرکت کے مناسب پہلے لفظ پر بھی حرکت فتحہ دیدی جاتی ہے.لِكَوْنِهِ أَخَفْ عَلَى النِّسَانِ أَسْهَلُ عَلَى القَارِی.کیونکہ اس سے لفظ کا نقل دور ہو جاتا اور بولنے میں آسانی ہوتی.وَ ہے.
۲۳۸ کھائیں گا؟ میں نے سمجھا کہ آپس میں باتیں ہو رہی ہیں اور ایک شخص دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ تم پکوڑے کھاؤ گے؟ مگر تھوڑی دیر کے بعد مجھے پھر آواز آئی کہ سند رسنگھا پکوڑے کھائیں گا اور وہ شخص جو گھوڑے پر سوار تھا برابر آگے بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ وہ اُس موڑ پر جا پہنچا جو مسجد مبارک کی طرف جاتا ہے مگر وہ برابر یہی کہتا چلا گیا کہ سند رسنگھا! پکوڑے کھا ئیں گا ؟ سندر سنگھا! پکوڑے کھائیں گا ؟ آخر گھوڑے کے قدموں کی آواز غائب ہو گئی اور آدھ گھنٹہ یر گزر گیا مگر میں نے دیکھا وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہیں گلی میں بیٹھا ہوا یہ کہتا چلا جاتا تھا کہ سُندرسنگھا! پکوڑے کھا ئیں گا ؟ سند رسنگھا! پکوڑے کھا ئیں گا ؟ حالانکہ سند رسنگھ اُس وقت گھر میں بیٹھا ہو اپھلکے کھا رہا ہو گا.دراصل وہ شراب کے نشے کی وجہ سے اُس سے چلا نہیں جاتا پر ایسا پردہ پڑا ہوا تھا کہ وہیں دیوار کے ساتھ بیٹھا ہوا وہ سُند رسنگھ کو پکوڑوں کی اس پر تھا اور عقل دعوت دیتا چلا جاتا تھا.تو شراب کی کثرت کی وجہ سے ٹانگوں کی طاقت جاتی رہتی ہے،عقل زائل ہو جاتی ہے قویٰ کو نقصان پہنچتا ہے اور انسان بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ شراب پلا کر ہم کہیں گے.سَلُ سَبِيلا - اب تمہاری سب کمزوری رفع ہوگئی ہے تو اپنے راستہ پر دوڑ پڑو.دوسرے معنے اس کے سَأَلَ يَسْأَلُ کے بھی ہو سکتے ہیں، یعنی سوال کر ، پوچھ ، دریافت کر.اس کا امر بھی مل ہی بنتا ہے.یعنی دنیا میں شراب پینے والا جب بہت سی شراب پی لیتا ہے تو اُس کی عقل ماری جاتی ہے ، مگر وہ شراب ایسی ہوگی کہ جب وہ پلائی جائے گی تو اُسے کہا جائے گا کہ اب تیری عقل تیز ہو گئی ہے تو روحانیت اور معرفت کی ہم سے نئی نئی باتیں پوچھ.گویا اُس شراب سے ایک طرف قوت عملیہ بڑھ جائے گی اور دوسری طرف قوتِ عقلیہ بڑھ جائے گی اور وہ خدا تعالیٰ سے کہے گا کہ خدایا مجھے اور رُوحانی علوم دیئے جائیں اور اس کے بدن میں ایسی طاقت آجائے گی کہ جس طرح دریا اپنی روانی میں بہتا ہے اسی طرح وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں بہنے لگ جائے گا.پھل اور گوشت (۴) چوتھی بات جو ڈ نیوی مینا بازاروں میں پائی جاتی ہے وہ کھانے کی چیزیں ہیں ، میں نے اس جنت میں دیکھا تو اس میں بھی یہ سب سامان ۵۶ موجود تھے چنانچہ فرماتا ہے وَفَاكِهَةٍ مِّمَّا يَتَخَيَّرُونَ - وَلَحْمِ طَيْرٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ ٥٦ کہ جنت میں کھانے کو پھل ملیں گے جو بھی وہ پسند کریں گے ، یہاں ہم بعض دفعہ بعض
۲۳۹ پھلوں کو پسند کرتے ہیں مگر ہمیں ملتے نہیں.ہمارا جی چاہتا ہے ہمیں انگور کھانے کو ملیں مگر جب بازار سے دریافت کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے تمہاری عقل ماری گئی ہے یہ بھی کوئی انگور کا موسم ہے.سنگترے کو جی چاہے تو دُکاندر کہہ دیگا ، آج کل تو سنگترے کا موسم ہی نہیں ، کیلا موجود ہے یہ لے لیں.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہاں یہ سوال نہیں ہو گا کہ انگوروں کا موسم نہیں یا اناروں کا موسم نہیں یا کیلے کا موسم نہیں یا سر دے کا موسم نہیں ، وہاں جو بھی پھل انسان چاہے گا ، اُسے فوراً مل جائے گا.اسی طرح جس پرندے کا گوشت وہ چاہیں گے اُس کا گوشت انہیں دیا جائے گا، پھر فرماتا ہے وَامْدَدْنَهُمْ بِفَا كِهَةٍ وَلَحْمٍ مِّمَّا يَشْتَهُونَ ٥ کہ انہیں کھانے کے لئے پھل ملیں گے اور گوشت بھی جس قسم کا وہ چاہیں گے، یہ شرط نہیں کہ انہیں پرندوں کا ہی گوشت ملے گا بلکہ اگر وہ مچھلی چاہیں گے تو مچھلی ملے گی ، دنبے کا گوشت چاہیں گے تو دُنبے کا گوشت مل جائے گا.جنتی پھلوں کی دلچسپ خصوصیات اسی طرح فرماتا ہے.وَدَانِيَةً عَلَيْهِمْ ظِلَا لُهَا وَذُلِلَتْ قُطُرُ فُهَا تَدْلِيلا ٥٨ که جنت میں مؤمنوں کو جو پھل ملیں گے، اُن کی یہ ایک عجیب خصوصیت ہو گی کہ وہ پھل بہت ہی جھکے ہوئے ہوں گے اور جب اُن کا جی چاہے گا انہیں ہاتھ سے توڑ لیں گے، یہاں پھل اُتارنے کے لئے لوگوں کو درختوں پر چڑھنا پڑتا ہے، مگر فرمایا وہاں ایسا نہیں ہوگا.وہاں پھل اس قدر تُجھکے ہوئے ہونگے کہ جس کا جی چاہے گا ہاتھ سے توڑ لے گا.اسی طرح فرماتا ہے.وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ لَّا مَقْطُوعَةٍ وَّلَا مَمْنُوعَةٍ ۵۹ کہ انہیں وہاں کھانے کے لئے کثرت سے پھل ملیں گے اور وہ پھل ایسے ہوں گے، جو کبھی مقطوعہ نہیں ہوں گے یعنی کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ کہہ دیا جائے آج رنگترے نہیں ملیں گے ، صرف شہتوت ملیں گے.وَلَا مَمْنُوعَةً اور نہ وہ ممنوع ہوں گے.یعنی یہ ایک عجیب خاصیت اُن میں ہوگی کہ کبھی ایسا نہیں ہوگا کہ وہ انسان کو بیمار کر دیں.دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کہہ دیتا ہے تمہارے لئے کیلا کھانا منع ہے یا تم صرف انار کا پانی پی سکتے ہو اور کوئی پھل نہیں کھا سکتے ، مگر جنت میں جو پھل ملیں گے انہیں کوئی بُرا کہنے والا نہیں ہوگا کیونکہ وہ بیماریاں پیدا کرنے والے نہیں ہوں گے بلکہ تندرستی اور صحت پیدا کرنے والے ہونگے پس وَلَا مَمْنُوعَةٍ کے یہ معنے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا کہ ان پھلوں کے کھانے سے بدہضمی ہو خواہ وہ کسی قدر کھا لئے جائیں انسانی
۲۴۰ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی.دنیا میں انسان ذرا بے احتیاطی کرے تو بیمار ہو جاتا ہے مگر وہاں ایسا نہیں ہو گا.لیکچر دیتے وقت میری عادت ہے کہ میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد گرم چائے کا ایک گھونٹ لے لیتا ہوں چنا نچہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد میرے آگے چائے کی پیالیاں رکھی جاتی ہیں اور اُن میں سے اکثر بغیر چکھے کے اُٹھالی جاتی ہیں.کیونکہ میرے سامنے پڑی پڑی ٹھنڈی ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ میں ایک گھونٹ پی بھی لیتا ہوں ، مگر اس تمام عرصہ میں تمہیں چالیس دفعہ پیالیاں میرے سامنے سے گزر جاتی ہیں اور جو نا واقف ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شاید میں ساری پیالیاں پی جاتا ہوں.ایک دفعہ ایک نئے دوست احمدی ہوئے جو بعد میں بہت مخلص ہو گئے ، ڈپٹی آصف زمان صاحب اُن کا نام تھا.وہ پہلے سال جلسہ میں شریک ہوئے تو انہوں نے بعد میں مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب سے کہا کہ خان صاحب! یہ کیا غضب کرتے ہیں.خلیفہ اسیح کو تو لیکچر میں ہوش ہی نہیں رہتی اور آپ لوگ تیں چالیس پیالیاں چائے کی اُن کے آگے رکھ دیتے ہیں.اتنی چائے انہیں سخت نقصان دے گی.تو دنیا میں جب کسی چیز کو بے احتیاطی سے استعمال کیا جائے تو اس کی وجہ سے انسان کو تکلیف ہو جاتی ہے مگر فرمایا: وہ پھل عجیب خاصیت اپنے اندر رکھتے ہوں گے کہ نہ تو کسی موسم میں ختم ہوں گے اور نہ کوئی بداثر جسم پر پڑیگا بلکہ ہر حالت میں انسان اُن کو کھا سکے گا.دنیا کی غذاؤں کو تو روکنا پڑتا ہے مگر روحانی چیزیں چونکہ ایسی نہیں ہوتیں اور اُن کی بڑی غرض یہی ہوتی ہے کہ انسان اپنے علم اور معرفت میں بڑھ جائے اس لئے جنت کی چیزیں انسان رات اور دن کھاتا چلا جائے گا اور اسے کسی وقفہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی.یہ خواص بتاتے ہیں کہ ان پھلوں سے مادی پھل نہیں بلکہ روحانی پھل مراد ہیں.اسی وجہ سے احادیث میں آتا ہے کہ جنت کے رزق کا کوئی پاخانہ نہیں آئے گا اور آئے کس طرح جب کہ وہ رزق مادی ہوگا ہی نہیں بلکہ رُوحانی ہوگا.نعماء کے پہلو بہ پہلو مغفرت کا دور جب میں یہاں پہنچا تو مجھے خیال آیا کہ اُف ! کھانے اور پینے کی جہاں اتنی چیزیں ہوں گی، وہاں تو دن اور رات میں کھانے اور پینے میں ہی مشغول رہوں گا اور میرا آقا مجھ سے ناراض ہو گا کہ یہ کیسا غلام ہے جو رات دن کھاتا پیتا رہتا ہے.پس میرے دل میں خوف پیدا ہوا کہ کہیں میں ان کھانے پینے کی چیزوں کے ذریعہ اپنے آقا کی ناراضگی تو مول نہیں لے لونگا اور کیا وہ مجھے یہ نہیں کہے گا کہ میں نے تم کو اس لئے غلام بنایا تھا کہ تم رات اور دن کھاتے پیتے رہو.؟
۲۴۱ جب میرے دل میں یہ ڈر پیدا ہوا تو میں نے پھر قرآن کریم کی طرف نظر کی کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے اور میں نے وہاں یہ لکھا ہوا دیکھا کہ مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا أَنْهَارٌ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ اسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرُ طَعْمُهُ وَاَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّدَّةٍ لِلشَّرِبِينَ وَانْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفَّى وَلَهُمْ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمُ.اس جنت کی حالت اور کیفیت جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ لوگ اپنے باغوں کو پانی دیتے ہیں تو وہ زمین کے پتوں کے ساتھ مل کر بدبُودار ہو جاتا ہے اور اس کے اندر ایسی سڑاند پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگوں کے لئے وہاں سے گزرنا مشکل ہو جاتا ہے مگر وہاں ایسا پانی ہوگا جو پالکل پاک اور صاف ہو گا جس میں مٹی اور ریت ملی ہوئی نہیں ہوگی اور جب کھیتوں کو پانی دیا جائے گا تب بھی بدبو پیدا نہیں ہوگی.اور وہاں ایسے دودھ کی نہریں ہوں گی جس کا مزہ کبھی خراب نہیں ہو گا اور وہاں شراب کی بھی نہریں ہوں گی جو پینے والوں کے لئے لذت کا موجب ہوں گی اور وہاں خالص شہد کی بھی نہریں ہوں گی اور وہاں اُن کے لئے ہر قسم کے میوے ہوں گے جنہیں وہ خوب کھائے گا.اور جب دیکھے گا کہ اس نے خوب کھا لیا اور خوب پی لیا تو اُسے خیال آئے گا کہ میرا کام تو خدمت کرنا تھا، اب میرا آقا ضرور مجھ سے ناراض ہو گا اور کہے گا نالائق تو کھاؤ پیو بن گیا.چنانچہ وہ ڈر کے مارے کھڑا ہو جائے گا مگر جونہی وہ گھبرا کر کھڑا ہو گا وہ دیکھے گا کہ اُس کا آقا اُس کے سامنے کھڑا ہے اور اُسے کہہ رہا ہے کہ میرے اس بندے کو بخش دو کہ اس نے میرا پانی پیا.میرے اس بندے کو بخش دو کہ اس نے میرا شہد پیا.میرے اس بندے کو معاف کرو کہ اس نے میرے دودھ کو استعمال کیا.اور میرے اس بندے کو معاف کرو کہ اس نے میرے پھلوں کو کھایا.گویا ہر کھانے اور ہر پینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش نازل ہوگی اور مؤمنوں کے درجات میں اور زیادہ ترقی ہو گی.تب میں نے ایک طرف تو یہ سمجھا کہ یہ رُوحانی غذا ئیں ہیں تبھی ان کے نتیجہ میں مغفرت حاصل ہونے کے کوئی معنے نہیں دوسری طرف میں نے یہ بھی سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو خدا خود کھلاتا اور پلاتا ہے اور ان کا کھانا اور پینا بھی عبادت میں شامل ہوتا ہے جیسے حضرت مسیح ناصری کو بھی کھاؤ اور پیو کہا گیا.سید عبدالقادر صاحب جیلانی کے ایک ارشاد کی حقیقت ! اسی طرح اس آیت سے میرے ؟
۲۴۲ لئے سید عبدالقادر صاحب جیلانی" کا یہ واقعہ بھی حل ہو گیا کہ میں نہیں کھاتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبد القادر ! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو ضرور کھا اور میں نہیں پیتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو ضرور پی.اور میں نہیں پہنتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر ! تجھے میری ذات ہی کی قسم تو ضرور پہن.یہاں بھی فرماتا ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ ہر مؤمن سے کہے گا کہ کھاؤ میں تمہارے گناہ بخشوں گا، میری شراب پیو کہ میں تم سے حُسنِ سلوک کروں گا اور میرے پھل کھاؤ کہ میں تم پر اپنی رحمتیں نازل کروں گا.یہ الفاظ کتنی محبت پر دلالت کرتے ہیں اور کس طرح ان الفاظ سے اس شفقت کا اظہار ہوتا ہے جو مومن بندے کے ساتھ خدا تعالیٰ کرے گا.اعلیٰ درجہ کے لباس (۵) پھر میں نے سوچا کہ دنیوی بازاروں میں تو لباس فروخت ہوا کرتے ہیں.آیا ہمارے مینا بازار میں بھی لباس ملتے ہیں یا نہیں.میں نے غور کیا تو اس بارہ میں بھی یہ تشریح موجود تھی وِلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ - وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ ال یعنی اس کے اندر مؤمنوں کو الیسا لباس دیا جائے گا جو ریشمی ہوگا وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ.اور دنیا میں تو لوگ ریشمی لباس پہن کر متکبر ہو جاتے ہیں اور دوسرے سے کہتے ہیں کہ کیا تو میرا مقابلہ کر سکتا ہے؟ مگر وہاں ایسا نہیں ہوگا.ہمارے ملک میں تو ایسی بُری عادت ہے کہ ذرا کسی کی تنخواہ زیادہ ہو جائے اور اس کا غریب بھائی اور رشتہ دار اس سے ملنے کیلئے آئے تو وہ گردن موڑ کر چلا جاتا ہے.اب اُس کی گردن آپ ہی نہیں مڑتی بلکہ اسے جو تنخواہ مل رہی ہوتی ہے وہ اس کی گردن کو موڑ دیتی ہے مگر فرماتا ہے وہ حریر جو جنت میں ملے گا عجیب قسم کا ہوگا کہ وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ادھر انسان وہ حریر پہنے گا اور اُدھر اس میں انکسار پیدا ہو جائے گا اور اس ریشم کے پہنتے ہی اس میں محبت اور پیار اور خلوص کے جذبات پیدا ہو جائیں گے وَهُدُوا إِلَى صِرَاطِ الْحَمِيدِ اور دنیا میں تو لوگ ریشم پہن کر خوب اکٹر اکر کر مال روڈ پر چلتے ہیں.عورتیں ان کو دیکھتی ہیں اور وہ عورتوں کی طرف دیکھتے ہیں اور اس طرح بداخلاقی کے مرتکب ہوتے ہیں مگر وہ حریر اس قسم کا ہو گا کہ اسے پہن کر مؤمن اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑ نے لگ جائیں گے اور اللہ میاں کے دربار میں جانے کی خواہش اُن کے دلوں میں زیادہ زور سے پیدا ہو جائے گی.
۲۴۳ پھر اس لباس کے علاوہ ایک اور لباس کا بھی پتہ چلتا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ۲۲ تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہوتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا یہ تقویٰ کا لباس بھی اس مینا بازار میں ملتا ہے یا نہیں؟ اس کے لئے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں قرآن کریم میں یہ لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَّانْهُمْ تَقُوهُم کہ جو لوگ ہدایت پاتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو ہدایت میں اور زیادہ بڑھاتا ہے یہاں تک کہ اُن کو تقومی عطا کر دیتا ہے.مطلب یہ کہ ہر ایک کو اُس کی ہدایت کے مطابق لباس ملے گا اور جس قدر کسی نے روحانیت میں ترقی کی ہوگی اُسی قدر اس کا لباس زیادہ اعلیٰ ہوگا.زیب وزینت کے سامان (1) چھٹے میں نے دیکھا کہ مینا بازار میں زینت کے سامان یعنی آئینے اور کنگھیاں اور ربن اور پاؤڈر وغیرہ فروخت ہوتے تھے.میں نے سوچا کہ یہ تو پُرانے زمانے کے مینا بازاروں کی بات ہے، آج کل تو انارکلی اور ڈبی بازار میں پوڈروں اور لپ سٹکوں اور رُوج وغیرہ کی وہ کثرت ہے کہ پرانے مینا بازار ان کے آگے ماند پڑ جاتے ہیں اور عورتوں کو ان کے بغیر چین ہی نہیں آتا ، گو آج کل کے مرد بھی کچھ کم نہیں اور وہ بھی اپنے بالوں میں مانگ نکال کر اور یو ڈی کلون اور پوڈر وغیرہ چھڑک کر ضرور خوش ہوتے ہیں مگر عورتیں تو اپنی زینت کے لئے ضروری سمجھتی ہیں کہ منہ پر کریم ملیں ، پھر اس پر پوڈر چھر کیں ، پھر لپ سٹک لگائیں پھر رُوج اور عطر وغیرہ استعمال کریں یہاں تک کہ اپنے بچوں کے منہ پر بھی وہ کئی قسم کی کریمیں اور چکنائیاں ملتی رہتی ہیں.چنانچہ بعض بچوں کو جب پیار کیا جاتا ہے تو ہاتھ پر ضرور کچھ سُرخی ، کچھ چکنائی اور کچھ پوڈر لگ جاتا ہے اور جلد جلد غسلخانہ جانا پڑتا ہے.پس میں نے کہا آؤ میں دیکھوں کہ آیا یہ چیزیں بھی وہاں ملتی ہیں یا نہیں؟ کیونکہ اگر یہ چیزیں وہاں نہ ہوئیں تو اول تو آج کل کے مرد بھی وہاں جانے سے انکار کر دیں گے ورنہ عورتیں تو ضرور اڑ کر بیٹھ جائیں گی اور کہیں گی بتاؤ جنت میں سرخی اور پوڈر ملے گا یا نہیں؟ اگر سرخی ، پوڈر اور کریمیں وغیرہ ملتی ہوں تو ہم جانے کے لئے تیار ہیں ورنہ نہیں.زینت کے لئے سب سے پہلی چیز ذاتی خوبصورتی ہے مگر کئی عورتیں اس کو نظر انداز کر دیتی ہیں اور وہ خیال کرتی ہیں کہ شاید پوڈر مل کر وہ اچھی معلوم ہونے لگیں گی اور بیوقوفی سے زیادہ کی سے زیادہ پوڈر ملنے کو وہ حسن کی ضمانت سمجھتی ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب انہوں نے پوڈر ملا ہوا ہوتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے گویا انہوں نے آٹے کی بوری جھاڑی ہے.انگریزوں کا رنگ چونکہ
۲۴۴ سفید ہے اس لئے اُن کے چہروں پر پوڈر بد زیب معلوم نہیں ہوتا ،مگر ہمارے ملک میں نقل چونکہ عقل کے بغیر کی جاتی ہے، اس لئے اندھا دھند انگریزوں کی اتباع میں پوڈر کے ڈبے صرف کر دیئے جاتے ہیں.اور کئی تو بے چارے اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کر کہ شاید اُن کا رنگ سفید ہو جائے ، صابن کی کئی کئی ٹکیاں خرچ کر دیتے ہیں اور اپنا منہ خوب کل مل کر دھوتے ہیں مگر جو رنگ قدرتی طور پر سیاہ ہو وہ سفید کس طرح ہو جائے.سیاہ اور بدنما چہرہ کو خوبصورت بنانے کا نسخہ ایک دفعہ ایک اینگلوانڈین استانی میرے پاس آئی وہ چاہتی تھی کہ میں اس کی ملازمت کے لئے کہیں سفارش کر دوں.میں نے کہا.غور کروں گا.اس طرح اُسے چند دن ہمارے ہاں ٹھہرنا پڑا.وہ اپنے متعلق کہا کرتی تھی کہ میرا رنگ اتنا سفید نہیں جتنا ہونا چاہئے اور واقع یہ تھا کہ اُس کا رنگ صرف اتنا کالا نہیں تھا جتنا حبشیوں کا ہوتا ہے.میں اُن دنوں تبدیلی آب و ہوا کے لئے دریا پر جا رہا تھا اور اتفاقاً اُن دنوں میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب ( مرحوم جو میرے سالے تھے ) وہ بھی قادیان آئے ہوئے تھے.انہوں نے ایک انگریز عورت سے شادی کی ہوئی ہے ، وہ بھی میرے ساتھ چل پڑے کیونکہ اُن کی ہمشیرہ اُمّم طاہر مرحومہ اس سفر میں میرے ساتھ جا رہی تھیں.اُن کی بیوی نے اُس اُستانی کی بھی سفارش کی کہ میری ہم جولی ہوگی اسے بھی ساتھ لے لو، چنانچہ اُسے بھی ساتھ لے لیا.وہاں پہنچ کر ہم نے دو کشتیاں لیں.ایک میں میں ، اُم طاہر اور میری سالی تھی اور دوسری میں وہ اُستانی ، میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے.کشتیاں پاس پاس چل رہی تھیں.اتنے میں مجھے آوازیں آنی شروع ہوئیں وہ اُستانی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سے باتیں کر رہی تھی کہ فلاں وجہ سے میرا رنگ کالا ہو گیا ہے اور میں فلاں فلاں دوائی رنگ کو گورا کرنے کے لئے استعمال کر چکی ہوں آپ چونکہ تجربہ کار ہیں اس لئے مجھے کوئی ایسی دوا بتا ئیں جس سے میرا رنگ سفید ہو جائے اور ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ فلاں دوائی استعمال کی ہے یا نہیں؟ اُس نے جواب دیا کہ وہ بھی استعمال کر چکی ہوں غرض اسی طرح اُن کی آپس میں باتیں ہو رہی تھیں.مجھے ان کی باتوں سے بڑا لطف آ رہا تھا.وہ ڈاکٹر صاحب سے بار بار کہتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب یہ بیماری ایسی شدید ہے کہ باوجود کئی علاجوں کے آرام نہیں آتا حالانکہ یہ تو کوئی بیماری تھی ہی نہیں.یہ تو اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ رنگ تھا، سید حبیب اللہ شاہ صاحب بچپن میں میرے دوست
۲۴۵ ہوا کرتے تھے اور بعد میں بھی میرے اُن سے گہرے تعلقات رہے.انہیں قرآن مجید پڑھنے کا بہت شوق تھا وہ اُس وقت بھی کشتی میں حسب عادت اونچی آواز میں قرآن کریم پڑھ رہے تھے.میں یہ تماشہ دیکھنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب اُس کا رنگ کس طرح سفید کرتے ہیں.آخر تھوڑی دیر کے بعد سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے قرآن کریم بند کیا اور درمیان میں بول پڑے اور اُسے کہنے لگے ڈاکٹر صاحب تم کو کوئی نسخہ نہیں بتا سکتے.اس دنیا میں تمہارا رنگ کا لا ہی رہے گا البتہ ایک نسخہ میں تمہیں بتاتا ہوں قرآن کریم میں لکھا ہے کہ جو شخص نیک عمل کرے گا اُس کا قیامت کے دن مُنہ سفید ہو گا.پس اس دنیا میں تو تمہارا رنگ سفید نہیں ہوسکتا تم قرآن پر عمل کرو تو قیامت کے دن تمہارا رنگ ضرور سفید ہو جائے گا.زینت کے یہ سامان بھی جو میں بتانے لگا ہوں اسی قسم کے ہیں جس قسم کی طرف سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے اشارہ کیا تھا.سفید رنگ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ " دُنیا میں اگر کوئی کالا ہے تو گورا نہیں ہو سکتا ، بدصورت ہے تو خوبصورت نہیں ہوسکتا ، اندھا ہے تو سو جا کھا نہیں ہوسکتا ، نکٹا ہے تو ناک والا نہیں بن سکتا.کوئی شخص ہزار کوشش کرے صابن کی ٹکیوں سے اپنے منہ کو صبح و شام مل مل کر دھوئے.اگر اس کا رنگ سیاہ ہے تو وہ سفید نہیں ہوگا اور پیدائشی حالت کبھی بدل نہیں سکے گی.کالجوں کے طلباء میں بھی یہ مرض بہت ہوتا ہے اور وہ کئی قسم کی کریمیں ملتے رہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے اُن کی جو شکل بنا دی ہے وہ بدل نہیں سکتی.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تم اپنا رنگ سفید کرنے کے لئے کہیں پیئر ز سوپ ملتے ہو، کہیں ونولیا سوپ خریدتے ہو.کہیں پام آئل (PALM OIL) سوپ استعمال کرتے ہو مگر پھر بھی تمہارا رنگ نہیں بدلتا.آؤ ہم تمہیں بتاتے ہیں يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ ایک دن ایسا آنیوالا ہے جب مؤمنوں کے منہ سفید براق ہو جائیں گے، پھر دنیا میں تو سفید رنگ والے بھی کالے ہو جاتے ہیں.چنانچہ ذرا بیمار ہوں تو اُن کے رنگ کالے ہو جاتے ہیں.بعض لوگ بیماریوں میں اندھے اور کانے ہو جاتے ہیں مگر فرمايا وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتُ وُجُوهُهُمْ فَفِى رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ ١٥ ہمارے مینا بازار میں جن لوگوں کے منہ سفید ہوں گے وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ تلے رہیں گے اور کبھی اُن کا رنگ خراب نہیں ہو گا.بعض لوگ اس موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ قرآن کریم کے اس قسم کے الفاظ ظاہری معنوں میں نہیں لینے چاہئیں، چنانچہ دیکھو قرآن کریم میں ہی آتا ہے.وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمُ
۲۴۶ بِالْأُنثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا ، کہ جب کسی کو لڑکی پیدا ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اُس کا منہ کالا ہو جاتا ہے.اب اس کے یہ معنے تو نہیں کہ اُس کا منہ واقع میں کالا ہو جاتا ہے بلکہ اس کی کا مطلب صرف یہ ہے کہ اُس کے دل پر بوجھ پڑتا ہے اور اُسے سخت صدمہ اور غم پہنچتا ہے.اسی طرح اُن کے نزدیک يَوْمَ تَبْيَضُ وُجُوهٌ کے یہ معنے ہیں کہ اُس دن جنتیوں کی نیکی اور تقویٰ اور عزت کی وجہ سے اُن کے چہروں پر نور برستا معلوم ہو گا اور خدا تعالیٰ کے انوار ان پر نازل ہونگے یہ معنے بھی درست ہیں اور ان کا انکار نہیں ہوسکتا.کریمیں ، پوڈر اور سُرخی اب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں مرد وعورت اپنی زینت کے لئے کیا کیا چیزیں استعمال کرتے ہیں سو : - اول :- وہ ایسی کریمیں ملتے ہیں جن سے جسم نرم اور ڈھیلا ہو جائے ، مسام کھل جائیں، مساموں سے زہر اور میل نکل جائے اور سفیدی پیدا ہو جائے.دوم: وہ ایسی کریمیں ملتے ہیں جن سے وہ پھر پست ہو جائیں ، اُن کے مسام سکڑ جائیں اور اُن کے چہروں پر رونق پیدا ہو جائے ، گویا پہلے تو وہ ایسی چیزیں ملتے ہیں جن سے اُن کے مسام کھل جائیں اور میل وغیرہ نکل جائے اور پھر ایسی چیز میں ملتے ہیں جن سے اضمحلال اور اعضاء کا استرخاء جاتا رہے.اسی طرح پوڈر لگاتے ہیں تا کہ سفیدی ظاہر ہو اور پھر سُر خیاں لگاتے ہیں تا کہ دوسروں کو جسم سے صحت کے آثار نظر آئیں.اب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو وہ فرماتا ہے.وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ * یہاں تم پوڈر اور کریمیں وغیرہ لگاتے ہو اور تم نہیں جانتے کہ قیامت کے دن کچھ منہ ہوں گے جو نَاضِرَہ ہوں گے نَاضِرہ کے معنے عربی میں حُسن اور رونق کے ہیں اور یہ دونوں الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں.حُسن کے معنے تناسب اعضاء کے ہوتے ہیں اور رونق کے معنے صحت کے اُن آثار کے ہوتے ہیں جو چہرے اور قومی سے ظاہر ہوتے ہیں.اگر ایک شخص کا ناک پچکا ہوا ہو، مگر اس کے کلے اور ہونٹ سُرخ ہوں اور اُس کا رنگ سفید ہو تو اس کے چہرے کی رنگت اُسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتی.اسی طرح اگر کسی شخص کی آنکھیں خراب ہیں یا اتنی بڑی بڑی ہیں جیسے مٹکے ہوتے ہیں یا ما تھا ایسا چھوٹا ہوتا ہے کہ سر کے بال بھووں سے ملے ہوئے ہیں.یا کلے اتنے پچکے ہوئے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہو گویا کہ دو تختیاں جوڑ کر رکھدی گئی ہیں تو وہ ہر گز حسین نہیں کہلا سکتا.میں نے غور کر کے دیکھا ہے ، مختلف انسانی چہرے مختلف جانوروں سے مشابہت
۲۴۷ رکھتے ہیں اور اگر ایک پہلو سے انسانی چہروں کو دیکھا جائے تو بعض انسانی چہرے گیدڑ سے مشابہ معلوم ہوتے ہیں ، بعض گتے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں ، بعض سور کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں.بعض بنی اور بعض چوہے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں.کامل اور اچھا چہرہ وہ ہوتا ہے جس کی ان جانوروں سے کم سے کم مشابہت پائی جاتی ہو اور اگر لوگ کوشش کریں تو وہ اس نقص کو دُور کر سکتے ہیں مگر چونکہ میرا یہ مضمون نہیں اس لئے میں اس نقص کو دور کرنے کے طریق نہیں بتا سکتا صرف اجمالاً ذکر کر دیا ہے کہ اکثر انسانی چہرے بعض جانوروں کے مشابہ ہوتے ہیں.وہ زیادہ تر یہی کوشش کرتے ہیں کہ کریمیں مل لیں یا لپ سٹکیں استعمال کر لیں یا روج لگا لیں ، مگر چہرہ کی بناوٹ کو درست کرنے کے جو صحیح طریق ہیں اُن کو اختیار کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کریموں اور غازوں اور لپ سٹکوں سے کیا بنتا ہے؟ اصل چیز تو چہرے کی بناوٹ درست ہونا ہے اور ہمارے مینا بازار میں جانیوالے سب ایسے ہی ہوں گے کہ انہیں کسی فیس پوڈر کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ اُن کے نقش و نگار درست کر کے انہیں وہاں لے جایا جائے گا.اگر کوئی شخص کا نا ہوگا تو اُس کا کانا پن جاتا رہے گا لنگڑا ہو گا تو اُس کا لنگڑا پن جاتا رہے گا ، آنکھیں سانپ کی طرح باریک ہوں گی تو اُن کو موٹا کر دیا جائے گا، کسی کے دانت باہر نکلے ہوئے ہونگے تو اُس کے سب دانت موتیوں کی لڑی کی طرح بنا دیئے جائیں گے.آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کے مقرب ہوں اور پھر عیب دار ہوں ، یقیناً اللہ تعالیٰ اُن کے تمام عیبوں کو دُور کر کے انہیں جنت میں داخل کریگا.ایک لطیفہ حدیثوں میں ایک لطیفہ آتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ وعظ فرما رہے تھے کہ ایک بُڑھیا آئی اور کہنے لگی ، يَارَسُولَ اللَّهِ ! یہ باتیں چھوڑیں اور مجھے یہ بتائیں کہ میں جنت میں جاؤں گی یا نہیں؟ اب اُس کا یہ سوال بے وقوفی کا تھا مگر چونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے بھی بہت دق کیا کرتی تھی اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس وقت مذاق سُوجھا اور آپ نے فرمایا، مائی ! جہاں تک میرا علم ہے کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی.وہ یہ سنتے ہی رونے پیٹنے لگ گئی کہ ہائے ہائے! میں دوزخ میں جاؤنگی، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میں نے کب کہا ہے کہ تم دوزخ میں جاؤ گی.اُس نے کہا کہ آپ نے ابھی تو فرمایا ہے کہ کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی.آپ نے فرما یا روڈ نہیں وہاں سب کو جوان بنا کر جنت میں داخل کیا جائے گا.بوڑھے ہونے کی حالت میں جنت میں
۲۴۸ داخل نہیں کیا جائے گا.اصل بات یہ ہے کہ اگلے جہان کی زندگی جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے مگر میں چونکہ مینا بازار کے مقابلہ کی اشیاء کا ذکر کر رہا ہوں اس لئے جسمانی حصہ پر زیادہ زور دینا پڑتا ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ وہ روحانی دنیا ہے.مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی روح بغیر جسم کے نہیں ہوتی.جیسے خواب میں تمہیں بیٹا ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو یہ خبر بعض دفعہ بیٹے کی شکل میں نہیں بلکہ آم کی شکل میں ہوتی ہے حالانکہ مراد بیٹا ہوتا ہے.اسی طرح بظاہر جنت میں جو شراب ملے گی وہ شراب ہی ہوگی اور یہی نظر آئے گا کہ ایک پیالہ میں شراب پڑی ہوئی ہے، مگر اس کے پینے کے نتیجہ میں عقل تیز ہوگی اور بجائے بکواس کرنے کے انسان علم اور عرفان میں ترقی کرے گا ، بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ جو چیز دنیا میں تم درست نہیں کر سکے اُسے خدا درست کر دے گا نَاضِرہ کے دوسرے معنے رونق کے ہیں.یعنی رنگ نکھرا ہوا ہو.صحت اور تندرستی چہرہ سے ظاہر ہو.دنیا میں تو کئی لوگ چہروں پر کریم ملے ہوئے ہوتے ہیں، مگر اندر سے بیماریوں نے انہیں کھوکھلا کیا ہوا ہوتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہے ہم نہ صرف ظاہری نقش و نگار درست کر دیں گے اور فیس پوڈر اور کریم کی ضرورت ہی نہیں رہے گی بلکہ پیدائش جدیدہ کے وقت ایسی رونق پیدا کر دیں گے جو اُن کے چہروں سے پھوٹ پھوٹ کر ظا ہر ہو رہی ہوگی.اسی طرح فرماتا ہے.وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ- ضَاحِكَةٌ چمکتے ہوئے چہرے مُسْتَبْشِرَةٌ رَةٌ 19 اُس دن جنت میں جانے والوں کے چہرے چمک رہے ہوں گے.دنیا میں لوگ سفید تو ہوتے ہیں مگر مختلف قسم کے.کہتے ہیں فلاں فلاں کا جسم سفید تو ہے مگر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے موم ہے اور ایک سفیدی ایسی ہوتی ہے جس میں موتی کی طرح ہے چمک ہوتی ہے فرماتا ہے جو سفیدی وہاں ہوگی وہ ایسی ہوگی کہ اُس کے اندر سے جھلک پیدا ہوگی جیسے موتیوں کی جھلک ہوتی ہے.پھر فرماتا ہے.ضَاحِكَة دنیا میں جو پوڈر ہوتے ہیں، ان کے لگانے سے دل خوش نہیں ہوتا بلکہ میں نے بعض کتابوں میں پڑھا ہے کہ جب عورتیں پوڈر لگا لیتی ہے ہیں تو پھر وہ زیادہ ہنستی بھی نہیں ، تا ایسا نہ ہو کہ شکن پڑ کر پوڈر گر جائے ، مگر فرمایا، ہمارا پوڈر ایسا ہو گا کہ بیشک جتنا چاہو ہنسو کوئی شگاف پوڈر میں پیدا نہ ہو گا.میں نے سُنا ہے کہ بعض عورتوں نے ایک چھوٹا سا شیشہ اور پوڈر وغیرہ اپنے پاس رکھا ہوا ہوتا ہے اور جب کسی مجمع میں وہ محسوس کرتی
۲۴۹ ہیں کہ پوڈر کچھ اُتر گیا ہے تو علیحدہ جا کر وہ پھر پوڈر لگا لیتی ہیں ، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارا پوڈر عجیب ہے کہ جتنا چاہو ہنسو وہ اُترے گا نہیں اور پھر وہ پوڈر ایسا اعلیٰ ہے کہ جس کے چہرہ پر وہ لگا ہوا ہو گا اُس کا چہرہ نہایت ہی پُر رونق ہو گا.شگفته پیکر اسی طرح فرماتا ہے مُسْتَبْشِرَة ان کی بڑی خوشیاں ہونگی ، یہاں پوڈر لگانے والی عورتیں جب پوڈر لگاتی ہیں تو اُن کے دلوں میں یہ بے اطمینانی ہوتی ہے کہ کہیں اُن کا خاوند کسی اور کا پوڈر دیکھ کر ریجھ نہ جائے اور اس طرح اُن کا گھر نہ اُجڑ جائے ، مگر فرمایا ہمارے ہاں اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور ہر شخص اپنے رب کی نعمتوں پر خوش ہوگا.نرم و نازک اور ریشم کی طرح ملائم چہرے اسی طرح اسی طرح فرماتا ہے وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاعِمَةٌ كے دنیا میں کریمیں اس لئے لگائی جاتی ہیں تا وہ جسم کو نرم کر دیں ، مگر فرمایا وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاعِمَةٌ ہمارے ہاں اس قسم کی کریموں کی ضرورت ہی نہیں ہوگی کیونکہ جنتیوں کے چہروں کی بناوٹ ایسی ہوگی کہ اُن میں کوئی کھردرا پن نہیں ہوگا بلکہ وہ نرم اور ملائم ہوں گے نَاعِمَة کے معنے عربی زبان میں لَيْنَ الْمَلْمَسِ اے کے ہیں ، یعنی اُن کے جسم نرم ہوں گے یہ نہیں ہو گا کہ سردی آئے تو اُن کے جسم میں کھردرا پن پیدا ہو جائے اور اگر گرمی آئے تو ڈھیلا پن پیدا ہو جائے ، بلکہ وہ ہمیشہ ہی نرم اور ملائم رہیں گے گویا ،نرم سفید حسین ، پُر رونق یعنی چمکدار اور خوش رنگ ہوں گے کریم ، پوڈر ، لپ سٹک اور روج کسی کی ضرورت نہیں ہوگی.یہ چیزیں آپ ہی آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے لگی ہوئی آئیں گی.اعلیٰ درجہ کے عطر اور خوشبوئیں (۷) پھر میں نے سوچا کہ مینا بازار میں تو خوشبوئیں بھی ملتی تھیں.آیا اس مینا بازار میں بھی خوشبوئیں ہوں گی یا نہیں؟ جب میں نے اس نقطہ نگاہ سے غور کیا تو قرآن میں یہ لکھا ہوا دیکھا کہ فَأَمَّا إِنْ كَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ فَرَوْحٌ وَّرَيْحَانٌ وَجَنَّتُ نَعِيمٍ ٣ فرماتا ہے اگر یہ ہم سے سودا کرنے والا مقرب ہو گا ، تو اُسے پہلی چیز ہماری طرف سے روح دی جائے گی ، یہاں بھی خدا تعالیٰ نے دنیوی اور اُخروی نعماء میں ایک عظیم الشان فرق کا اظہار کیا ہے.جس طرح یہاں صرف کریمیں ملتی ہیں ، پوڈر ملتے ہیں.لپ سٹکیں ملتی ہیں، لیکن اگر کوئی چاہے کہ مجھے آنکھیں یا ہونٹ یا دانت یا منہ مل جائے تو نہیں مل سکتا.اسی طرح دنیا میں اسی روپے تولہ کا عطر مل جائے گا، لیکن اگر کسی شخص کے ناک میں خوشبو سونگھنے کی جس ہی نہ ہو ، تو
۲۵۰ سے دنیا کی کوئی طاقت اسے نیا ناک نہیں دے سکتی.اور ہم نے اپنی آنکھوں سے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو خوشبو اور بد بو میں اپنے ناک کی خرابی کی وجہ سے تمیز نہیں کر سکتے.حضرت خلیفہ اول نے جب ہمیں طب پڑھائی ، تو آپ نے فرمایا.ایک بیماری ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں ناک کی جس ماری جاتی ہے اور انسان خوشبو اور بد بو میں کوئی فرق نہیں کر سکتا.چنانچہ یہاں ایک شخص تھا آپ نے فرمایا آنکھیں بند کر کے اگر اس کے سامنے پاخانے کا ٹھیکرا اور اعلیٰ درجے کا کیوڑے کا عطر رکھ دیا جائے تو وہ یہ نہیں بتا سکے گا کہ پاخانہ کونسا ہے اور عطر کونسا ؟ ایک لڑکی میری ایک عزیز کے پاس نوکر تھی ، ایک دن انہوں نے اُسے کہا کہ فلاں عطر اُٹھا کر لے آنا وہ کہنے لگی.بی بی ! مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ یہ خوشبو وشبو کیا ہوتی ہے.جب اُسے عطر سُونگھایا گیا تو معلوم ہوا کہ اُس کے ناک میں خوشبو سونگھنے کی جس ہی نہیں.تو جس طرح چہرہ پہلے ٹھیک ہو ، پھر پوڈر - خوبصورت معلوم ہوتا ہے ، اسی طرح ناک ٹھیک ہو تب خوشبو کا لطف آتا ہے اور اگر کسی کی ناک درست نہ ہو اور تم اُسے باغوں میں بھی لے جاؤ تو اُسے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہے.دنیا میں مینا بازار والے عطر دے سکتے ہیں مگر ناک نہیں دے سکتے.لیکن ہم کیا دیتے ہیں.فَرَوح ہم سب سے پہلے خوشبو سونگھنے اور اس کو محسوس کرنے کی طاقت ناک میں پیدا کرتے ہیں روح کے معنے ہیں وِجُدَانُ الرَّائِحَةِ اور بھی معنے ہیں، لیکن ایک معنے یہ بھی ہیں پس فرمایا.دنیا والے تو صرف عطر بیچتے ہیں ، مگر ہم پہلے لوگوں کو ایسا ناک دیتے ہیں جو عطروں اور خوشبوؤں کو محسوس کرے (روح) میرے اپنے ناک کی جس غیر معمولی طور پر تیز ہے، یہاں تک کہ میں دُودھ سے پہچان جاتا ہوں کہ گائے یا بھینس نے کیا چارہ کھایا ہے.اسی لئے اگر میرے قریب ذرا بھی کوئی بدبودار چیز ہو تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے اور جو لوگ میرے واقف کار ہیں وہ مسجد میں داخل ہوتے وقت کھڑکیاں وغیرہ کھول دیتے ہیں کیونکہ اگر بند ہوں تو میرا دم گھٹنے لگتا ہے، میں ہمیشہ کثرت سے عطر لگایا کرتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی کثرت سے عطر لگایا کرتے تھے مگر حضرت خلیفہ اول کو اس طرف کچھ زیادہ توجہ نہیں تھی.میں آپ سے بخاری پڑھا کرتا تھا، ایک دن میں آپ سے بخاری پڑھنے کے لئے جانے لگا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھے فرمانے لگے کہاں چلے ہو؟ میں نے کہا مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے چلا ہوں.فرمانے لگے ، مولوی صاحب سے پوچھنا کیا بخاری میں کوئی ایسی حدیث بھی آتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن غسل فرماتے اور نئے کپڑے بدلا
۲۵۱ کرتے تھے اور خوشبو استعمال فرماتے تھے اصل بات یہ ہے کہ حضرت مولوی صاحب جمعہ کے دن بھی کام میں ہی مشغول رہتے تھے.یہاں تک کہ اذان ہو جاتی اور کئی دفعہ آپ وضو کر کے مسجد کی طرف چل پڑتے.آپ تھے تو میرے اُستاد مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بات کہی تھی اس لئے میں نے اُسی طرح آپ سے جا کر کہہ دیا.آپ ہنس پڑے اور فرمایا، ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی احتیاط کیا کرتے تھے ، ہم تو اور کاموں میں بُھول ہی جاتے ہیں.میں نے تاریخ الخلفاء میں پڑھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا ، اگر میں خلیفہ نہ ہوتا تو عطر کی تجارت کیا کرتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے ناک کی جس بھی تیز تھی اور اس امر میں بھی میری اُن کے ساتھ مشابہت ہے.تو ناک کی جس کا موجود ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی بھاری رحمت ہوتی ہے مگر دُنیا یہ جس کہاں دے سکتی ہے، وہ اپنے مینا بازاروں میں عطر فروخت کر سکتی ہے مگر ناک نہیں دے سکتی.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم پہلے ناک دیں گے اور پھر عطر (رَيْحَان) دیں گے، ناک نہ ملا تو عطر کا کیا فائدہ.مثل مشہور ہے کہ ناک نہ ہوا تو نتھ کیا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، ہم جنتیوں کے ناک کی جس تیز کر دیں گے تا کہ وہ خوشبو کو محسوس کر سکیں اور اس کے بعد ریحان دیں گے ریحان کے معنے ہیں كُلُّ نَبَاتٍ طَيِّبِ الرِّيحِ کے یعنی ہر خوشبو دار چیز اُن کو ملے گی.وَجَنَّتُ نَعِیم اور پھر ساتھ اُن کے نعمتوں والی جنت بھی ہوگی.یعنی یہ نہیں کہ خوشبو باہر سے آئے گی بلکہ جنت خوشبو سے بھری ہوئی ہوگی.جسمانی طاقت کی دوائیں (۸) آٹھویں میں نے مینا بازار میں طاقت کی دوائیں دیکھیں.کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ معدہ کی طاقت کے لئے ہے، کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ دل کی طاقت کے لئے ہے، کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ دماغ کی طاقت کے لئے ہے اور اس طرح تحریص دلائی جاتی تھی کہ ان دواؤں کو کھاؤ پیو اور مضبوط بن کر دنیا کی نعمتوں سے حظ اُٹھاؤ.پس میں نے کہا کہ آیا مجھے وہاں بھی طاقت کی دوائیں ملیں گی یا نہیں ؟ اس خیال کے آنے پر مجھے معلوم ہوا کہ ایک رنگ میں اس بات کا بھی انتظام ہو گا ، چنانچہ فرماتا ہے وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَلِدِينَ ٤٢ فرما یا طاقت کی دوائیں بیشک ہوتی ہیں مگر ہم وہاں نہیں دیں گے اور اس کی وجہ یہ ہے
۲۵۲ کہ طاقت کی دوائیں وہاں دی جاتی ہیں جہاں کمزوری اور بیماری ہو، مگر جہاں بیماری اور کمزوری ہی نہ ہو وہاں طاقت کی دواؤں کی کیا ضرورت ہے ؟ دنیا میں چونکہ انسان کمزور اور بیمار ہو جاتا ہے اس لئے اسے طاقت کی دواؤں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے مگر وہاں ہم اسے بیمار ہی نہیں کریں گے اور ہمیشہ تندرست رکھیں گے، چنانچہ فرمایا سَلَامٌ عَلَيْكُمُ تمہیں ہمیشہ کے لئے تندرستی دے دی جائے گی.طبتم اور تمہاری اندرونی بیماریاں بھی ہر قسم کی دور کر دی جائیگی، گویا ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے تندرستی دیدی جائے گی اور یہی دو ذریعے ہیں جن سے بیماری آتی ہے.یا تو بیماری جرمز (GERMS) کی تھیوری کے ماتحت آتی ہے کہ باہر سے مختلف امراض کے جراثیم آتے اور انسان کو مبتلائے مرض کر دیتے ہیں اور یا پھر افعال الاعضاء میں نقص واقع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بیماری پیدا ہو جاتی ہے.غرض بیماریاں دو ہی طرح پیدا ہوتی ہیں یا تو باہر سے طاعون یا ہیضہ یا ٹائیفائڈ کا کیڑا انسانی جسم میں داخل ہوتا اور اسے بیمار کر دیتا ہے یا افعال الاعضاء میں نقص پیدا ہو جاتا ہے.مثلا معدہ میں تیزا بیت زیادہ ہو جائے یا ایسی ہی کوئی خرابی پیدا ہو جائے ، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، وہاں ہمارے فرشتے ان دونوں باتوں کا علاج کر دیں گے چنانچہ وہ جنتیوں سے کہیں گے کہ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ آج سے طاعون کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا ، ہیضہ کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا ، ٹائیفائیڈ کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا، اسی طرح اور کسی مرض کا کوئی جرم (GERM) تمہارے جسم میں داخل نہیں ہو گا ، پھر ممکن تھا کہ باہر سے تو حفاظت ہو جاتی مگر افعال الاعضاء میں نقص واقع ہو جاتا اس لئے فرمایا طبتم تمہارے اعضاء کو اندر سے بھی درست کر دیا گیا ہے.پھر خیال ہو سکتا تھا کہ شاید کچھ عرصہ کے بعد یہ حفاظت اُٹھالی جائے.اس لئے فرمایا خَلِدِينَ فِيهَا حالت عارضی نہیں بلکہ ہمیشہ رہے گی اور کبھی زائل نہیں ہوگی.نفیس برتن (۹) نویں میں نے مینا بازاروں میں برتن دیکھے جو نہایت نفیس اور اعلیٰ قسم کے تھے، میں نے سوچا کہ کیا اس بازار میں بھی اس قسم کے برتن ملتے ہیں؟ اس پر میری نظر فوراً اس آیت پر پڑی کہ وَيُطَافُ عَلَيْهِمْ بِانِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ وَّاكْوَابٍ كَانَتْ قَوَارِيرَا ٤٥ کہ یہ جو ہمارے غلام بنیں گے اور مینا بازار میں ہم سے سودا کریں گے وَيُطَافُ عَلَيْهِمْ بِانِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ اُن کے پاس چاندی کے برتنوں میں خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ خادم
۲۵۳ چیزیں لائیں گے وَاكْوَابِ كَانَتْ قَوَارِيرَاً اور گوب لائیں گے جو قواریر کی طرز پر ہونگے.قَوَارِيرَا کے معنے شیشہ کے برتن کے ہیں جس میں شراب ڈالی جائے.پس وہ برتن شیشے کی طرح ہوں گے مگر بنے ہوئے چاندی سے ہوں گے یعنی اُن کی رنگت میں وہ سفیدی بھی ہوگی جو چاندی میں ہوتی ہے اور ان میں وہ نزاکت بھی ہو گی جو شیشہ کے برتنوں میں ہوتی ہے گویا ان برتنوں میں ایک طرف تو اتنی صفائی ہو گی کہ جس طرح شیشہ کے برتن میں پڑی ہوئی چیز باہر سے نظر آ جاتی ہے اسی طرح اُن کے اندر کی چیز باہر سے نظر آ جائے گی اور دوسری طرف ان میں اتنی سفیدی ہوگی کہ وہ چاندی کی طرح چمکتی ہوگی.درحقیقت مؤمن کا جنت میں ایک دوسرے سے اسی قسم کا معاملہ ہو گا.وہ ایک دوسرے کے قلب کو اسی طرح پڑھ لیں گے جس طرح شیشہ کے برتن میں سے شربت نظر آ جاتا ہے.یہاں انسان اپنی عزیز ترین بیوی کے متعلق بھی نہیں جانتا کہ اس کے دل میں کیا ہے مگر وہاں یہ حالت نہیں ہوگی اور ایسی چیزیں جو بظاہر شفاف نہیں ہوتیں جیسے چاندی ، وہ بھی وہاں شفاف ہوں گی.فِضة کے معنے عربی زبان میں بے عیب سفیدی کے ہوتے ہیں، پس ان برتنوں کے چاندی سے بنائے جانے کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ ایک طرف تو جنتی بے عیب ہوں گے اور دوسری طرف ان میں کوئی اختفاء نہیں ہوگا ، ہر شخص جانتا ہوگا کہ میرا دوست جو بات کہتا ہے درست کہتا ہے قبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا.ار پائیاں اور گاؤ تکیے (۱۰) پھر میں نے مینا بازار میں گھر کے اسباب فروخت ہوتے چار دیکھے تھے.پس میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں دیکھوں آیا وہاں بھی گھر کا اسباب ملے گا یا نہیں؟ جب میں نے نظر دوڑائی تو وہاں لکھا تھا علی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَةٍ مُّتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقَبِلِينَ كَ مَوْضُونَةٍ کے معنے بنی ہوئی چار پائی کے ہوتے ہیں.پس عَلَى سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ ایسی چارپائیوں پر ہوں گے جو بنی ہوئی ہونگی.عربوں میں دوطرح کا رواج تھا.اکثر تو تخت پر سوتے تھے مگر بعض چار پائی بھی استعمال کر لیا کرتے تھے جب ہم حج کے لئے گئے تو مکہ مکرمہ میں ہم نے اچھا سا مکان لے لیا مگر اس میں کوئی چار پائی نہیں تھی ، بلکہ اس میں سونے کے لئے جیسے شہ نشین ہوتے ہیں اسی قسم کے تخت بنے ہوئے تھے ، لوگ وہاں گڑے بچھا لیتے اور سو جاتے مگر ہمیں چونکہ ان پر سونے کی عادت نہیں تھی اس لئے میں نے
۲۵۴ اپنے لئے ایک ہوٹل سے چار پائی منگوائی تب جا کر سویا لیکن وہ لوگ کثرت سے تختوں پر سوتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَلى سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ وہاں جنت میں بنی ہوئی چار پائیاں ہوں گی ( جو لچکدار ہوتی ہیں ( مُتَّكِثِينَ عَلَيْهَا مُتَقَبِلِینَ.لیکن ایک عجیب بات یہ ہے کہ دنیا میں تو چار پائی سونے کے لئے ہوتی ہے مگر جنت میں سونے کا کہیں ذکر نہیں آتا.کہیں قرآن میں یہ نہیں لکھا کہ جنتی کبھی سوئیں گے بھی.در حقیقت سونا غفلت کی علامت ہے اور چونکہ جنت میں غفلت نہیں ہوگی اس لئے وہاں سونے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی.اس سے بھی ان لوگوں کا رڈ ہوتا ہے جو جنت کو نَعُوذُ بِالله عیاشی کا مقام کہتے ہیں.عیاشی کے لئے سونا ضروری ہوتا ہے غالب کہتا ہے.ایک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے وہ دن کو بھی سونے والی حالت بنانا چاہتا ہے کجا یہ کہ رات کو بھی سونا نصیب نہ ہو.اسی طرح عیاشی میں لوگ افیون کھا کھا کر غفلت پیدا کرتے ہیں ، مگر اللہ تعالیٰ نے جنت میں کہیں بھی سونے کا ذکر نہیں کیا ، ہمیشہ کام کی طرف ہی اشارہ کیا ہے اس لئے یہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ وہ وہاں چار پائیوں پر سو رہے ہوں گے بلکہ فرمایا عَلى سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ مُّتَّكِئِينَ عَلَيْهَا مُتَقبِلِينَ وہ اس پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اور تکیہ لگانا راحت اور استراحت پر دلالت کرتا ہے غفلت پر نہیں ، ہم کتابیں پڑھتے ہیں ، اعلیٰ مضامین پر غور کرتے ہیں تو تکیہ لگائے ہوئے ہوتے ہیں، مگر اُس وقت ہمارے اندر غفلت یا نیند نہیں ہوتی.مگر چونکہ تکیہ عموماً لوگ سوتے وقت لگاتے ہیں اور اس سے قحبہ پڑ سکتا تھا کہ شاید وہ سونے کے لئے تکیہ لگائیں گے اس لئے ساتھ ہی فرما دیا مُتَقبِلِينَ وہ ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہوئے ہوں گے اور سوتے وقت کوئی ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے نہیں بیٹھا کرتا.ایک دوسرے کی طرف منہ کرنے کے معنے یہی ہیں کہ انہیں آرام کرنے کے لئے چار پائیاں ملی ہوئی ہوں گی اور وہ تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے مگر سونے کے لئے نہیں ، غفلت کے لئے نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے خدا تعالیٰ کی معرفت کی باتیں کر رہے ہونگے اور اس کا ذکر کر کے اپنے ایمان اور عرفان کو بڑھاتے رہیں گے.شاہانہ اعزاز و اکرام اسی طرح فرماتا ہے فِيهَا سُرُرٌ مَّرْفُوعَةٌ وَّاكْوَابٌ مَّوْضُوعَةٌ وَّنَمَارِقُ مَصْفُوَفَةٌ وَّزَرَابِيُّ مَبْثُوثَةٌ
۲۵۵ پہلی آیت میں سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ کا ذکر آتا تھا مگر یہاں فرمایا کہ سُرُرٌ مَّرْفُوعَةً ہونگے سریر کا لفظ جب عربی زبان میں بولا جائے اور اس کی وضاحت نہ کی جائے تو اس کے معنے تخت بادشاہی کے ہوتے ہیں چار پائی کے معنے تب ہوتے ہیں جب ساتھ کوئی ایسا لفظ ہو جو چار پائی کی طرف اشارہ کر رہا ہو.جیسے سُرُرٍ مَّوْضُونَةٍ کے الفاظ تھے لیکن اگر خالی سُود کا لفظ آئے تو اس کے معنے تختِ شاہی کے ہوں گے اور جب کوئی اور معنی مراد ہوں تو سُود کے ساتھ تشریح کے لئے ضرور کوئی لفظ ہوگا.یہاں چونکہ خالی سُود کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لئے اس سے مراد تخت شاہی ہی ہے اور پھر تختِ شاہی کی طرف مزید اشارہ کرنے کے لئے مَرْفُوعَةٌ کہہ دیا، کیونکہ تختِ شاہی اونچار کھا جاتا ہے، مطلب یہ کہ جنتی وہاں بادشاہوں کی طرح رہیں گے.دنیا میں تو وہ غلام بنا کر رکھے جاتے تھے مگر جب انہوں نے خدا کے لئے غلامی اختیار کر لی اور اُسے کہہ دیا کہ اے ہمارے رب! ہم تیرے غلام بن گئے ہیں تو خدا نے بھی کہہ دیا کہ اے میرے بندو! چونکہ تم میرے غلام بنے ہو اس لئے میں تمہیں بادشاہ بنادوں گا.خدا تعالی کی کچی غلامی اختیار کرنے دنیا میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ کسی نے سچے دل سے خدا تعالی کی غلامی اختیار کر لی تو والے دنیا میں بھی بادشاہ بنا دیئے گئے خدا نے اسے بادشاہ بنا دیا.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق کسی کو خیال بھی نہیں آتا تھا کہ وہ حکومت کر سکتے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اسی خیال کے تھے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور انصار اور مہاجرین میں خلافت کے بارہ میں کچھ اختلاف ہو گیا اور اس اختلاف کی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع ہوئی تو وہ فوراً اس مجلس میں گئے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ اس مجلس میں بولنے کا میرا حق ہے ابو بکر خلافت کے متعلق کیا دلائل دے سکتے ہیں؟ مگر وہ کہتے ہیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جاتے ہی تقریر شروع کر دی اور ایسی تقریر کی کہ میں نے جس قدر دلیلیں سوچی ہوئی تھیں وہ سب اس میں آگئیں مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر ختم نہ ہوئی اور وہ اور زیادہ دلائل دیتے چلے گئے ، یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ میں ابوبکر کا مقابلہ نہیں کر سکتا.ابوبکر مکہ کے رؤساء کے مقابل پر کوئی خاص اعزاز نہیں رکھتے تھے اس میں کوئی محبہ نہیں کہ وہ ایک معزز خاندان میں سے تھے ، مگر معزز خاندان میں سے ہونا اور بات ہے اور ایسی
۲۵۶ وجاہت رکھنا کہ سارا عرب اُن کی حکومت کو برداشت کر لے بالکل اور بات ہے.جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلافت عطا فرمائی اور مکہ میں یہ خبر پہنچی کہ حضرت ابوبکر خلیفہ ہو گئے ہیں تو ایک مجلس جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے باپ ابوقحافہ بھی بیٹھے ہوئے تھے وہاں بھی کسی نے جا کر یہ خبر سُنا دی ابو قحافہ یہ خبر سن کر کہنے لگے، کونسا ابو بکر ؟ وہ کہنے لگا وہی ابوبکر جو تمہارا بیٹا ہے.کہنے لگے کہ کیا میرے بیٹے کو عرب نے اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا ہے؟ اُس نے کہا ہاں ، ابوقحافہ آخر عمر میں اسلام لائے تھے اور ابھی ایمان میں زیادہ پختہ نہیں تھے مگر جب انہوں نے یہ بات سنی تو بے اختیار کہہ اٹھے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله - محمد رسول اللہ ضرور بچے ہیں جن کی غلامی اختیار کر کے ابو بکر بادشاہ بن گیا اور عرب جیسی قوم نے اس کی بادشاہت کو قبول کر لیا.تو دنیوی لحاظ سے کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ آپ بادشاہ بن جائیں گے مگر خدا نے آپ کو بادشاہ بنا کر دکھا دیا.شاہ ایران کی ایک ذلیل پیشکش جسے ایران میں جب مسلمان گئے تو کسری کے جرنیلوں نے اُس سے کہا کہ مسلمان اپنی طاقت وقوت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں، مانے پائے استحقار سے ٹھکرادیا طاقت وقوت : مسلمانوں..ایسا نہ ہو کہ وہ ایران پر بھی چھا جائیں ، ان کے متعلق کوئی انتظام کرنا چاہئے.کسرای نے کہا تم میرے پاس اُن کے ایک وفد کو لاؤ، میں اُن سے خود باتیں کروں گا.جب مسلمان اس کے دربار میں پہنچے تو کسرای اُن سے کہنے لگا کہ تم لوگ وحشی اور گو ہیں کھا کھا کر زندگی بسر کرنے والے ہو.تمہیں یہ کیا خیال آیا کہ تم ہمارے ملک پر فوج لے کر حملہ آور ہو گئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے جو کچھ کہا بالکل ٹھیک ہے، ہم ایسے ہی تھے بلکہ اس سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل کیا اور اُس نے اپنا نبی بھیج کر ہماری کایا پلٹ دی، اب ہر قسم کی عزت خدا تعالیٰ نے ہمیں بخش دی ہے.کسرای کو یہ جواب سن کر سخت طیش آیا مگر اُس نے کہا میں اب بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو ہم سے کچھ روپے لے لو اور چلے جاؤ.چنانچہ اس نے تجویز کیا کہ فی ھے افسر دو دو اشرفی اور فی سپاہی ایک ایک اشرفی دیدی جائے.گویا وہ مسلمان جو فتح کرتے ہوئے عراق تک پہنچ چکے تھے اور جن کی فوجیں ایران میں داخل ہو چکی تھیں اُن کا اُس نے اپنی ذہنیت کے مطابق یہ نہایت ہی گندہ اندازہ لگایا کہ سپاہیوں کو پندرہ اور افسروں کو تمیں تمہیں روپے دیکر
۲۵۷ خریدا جا سکتا ہے.مگر مسلمان اس ذلیل پیشکش کو کب قبول کر سکتے تھے انہوں نے نفرت اور حقارت کے ساتھ اُسے ٹھکرا دیا.تب کسری کو غصہ آ گیا اور اس نے اپنے مصاحبوں کو اشارہ کیا کہ مٹی کا ایک بورا بھر کر لاؤ.تھوڑی دیر میں مٹی کا بورا آ گیا، بادشاہ نے اپنے نوکروں سے کہا کہ مسلمانوں کا جو شخص نمائندہ ہے یہ بورا اُس کے سر پر رکھ دیا جائے.نوکر نے ایسا ہی کیا.جب بورا اس صحابی کے سر پر رکھا گیا تو بادشاہ نے کہا چونکہ تم نے ہماری بات نہیں مانی تھی اس لئے جاؤ اس مٹی کے بورے کے سوا اب تمہیں کچھ نہیں مل سکتا.اللہ تعالیٰ جن کو بڑا بناتا ہے اُن کی عقل بھی تیز کر دیتا ہے، وہ صحابی فوراً تاڑ گئے کہ یہ ایک مشرک قوم ہے اور مشرک قوم بہت وہمی ہوتی ہے.انہوں نے اس بورے کو اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر رکھا اور اسے ایڑ لگا کر یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل آئے کہ کسری نے اپنا ملک خود ہمارے حوالے کر دیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر ایسا فضل کیا تھا کہ اُن میں سے ہر شخص بادشاہ بن گیا تھا.یہ بھی اُن کی بادشاہی کی علامت ہے کہ ایک مسلمان غلام کا کفار سے معاہدہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک دفعہ مسلمانوں کی عیسائیوں سے جنگ ہو گئی.رفتہ رفتہ عیسائی ایک قلعہ میں محصور ہو گئے اور مسلمانوں نے چاروں طرف سے اُسے گھیر لیا اور کئی دن تک اُس کا محاصرہ کئے رکھا.ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ قلعہ کا دروازہ کھلا ہے اور سب عیسائی اطمینان سے اِدھر اُدھر پھر رہے ہیں مسلمان آگے بڑھے تو انہوں نے کہا ہماری تو تم سے صلح ہو چکی ہے.مسلمانوں نے کہا ہمیں تو اس صلح کا کوئی علم نہیں.انہوں نے کہا علم ہو یا نہ ہو، فلاں آدمی جو تمہارا حبشی غلام ہے اُس کے دستخط اس صلح نامہ پر موجود ہیں.کمانڈر انچیف کو بڑا غصہ آیا کہ ایک غلام کو پھسلا کر دستخط کروالئے گئے ہیں اور اس کا نام صلح نامہ رکھ لیا گیا ہے.غلام سے پوچھا گیا کہ کیا بات ہوئی تھی ؟ اس نے کہا، میں پانی لینے آیا تھا کہ یہ لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر تم لوگ یہ یہ شرطیں مان لو تو اس میں کیا حرج ہے؟ میں نے کہا کوئی حرج نہیں.انہوں نے کہا تو پھر لگاؤ انگوٹھا (یا جو بھی اُس زمانہ میں دستخط کا طریق تھا) اور اس طرح انہوں نے میری تصدیق کرالی آخر اسلامی کمانڈر انچیف نے کہا میں حضرت عمرؓ سے اس بارہ میں دریافت کروں گا اور وہاں سے جو جواب آئے گا اُس کے مطابق عمل کیا جائے گا چنانچہ حضرت عمرؓ کو یہ تمام واقعہ لکھا گیا آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ گو معاہدے کے لحاظ سے یہ طریق بالکل غلط ہے مگر میں نہیں چاہتا کہ لوگ یہ کہیں کہ دنیا
۲۵۸ میں کوئی ایسا مسلمان بھی ہے جس کی بات رڈ کر دی جاتی ہے اسلئے اس دفعہ بات مان لو آئندہ کے لئے اعلان کر دو کہ صلح نامہ صرف جنرل یا اس کے مقرر کردہ نمائندہ کا مصدقہ تسلیم ہو گا.اب گو وہ ایک غلام تھا مگر اس وقت اس کی حیثیت ویسی ہی تسلیم کی گئی جیسے ایک بادشاہ کی ہوتی ہے.سامان جنگ گیارہویں بات میں نے یہ دیکھی تھی کہ مینا بازار میں سامان جنگ ملتا ہے تلواریں ہوتی ہیں ، نیزے ہوتے ہیں ، ڈھالیں ہوتی ہیں اسی طرح کا اور سامانِ جنگ ہوتا ہے پس میں نے کہا میں دیکھوں.آیا یہ چیزیں بھی ہمارے مینا بازار میں ملتی ہیں یا نہیں ؟ روحانی ڈھال جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس مینا بازار میں ڈھالیں بھی ملتی ہیں.چنانچہ لکھا ہے لَهُمْ دَارُ السَّلامِ عِنْدَرَبِّهِمْ وَهُوَ وَلِيُّهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ٤٨ جنت میں ایسا انتظام کر دیا جائے گا کہ کسی جنتی پر کوئی حملہ نہیں ہو سکے گا.جس طرح ڈھال تمام حملوں کو روک دیتی ہے اسی طرح جب کسی شخص کو جنت ملتی ہے تو اس پر کوئی شخص حملہ نہیں کر سکتا.اسی طرح فرماتا ہے وَالْمَلَئِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ کہ ملائکہ اُن کے پاس ہر دروازہ سے آئیں گے اور کہیں گے اے مومنو! تم نے اپنے رب کے لئے بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھا ئیں.اب تم کسی مصیبت میں نہیں ڈالے جاؤ گے، کیونکہ خدا نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم پر کوئی خوف اور کوئی مصیبت نہیں آئے گی.دیکھو! یہ انجام والا گھر کتنا اچھا اور کیسا آرام دہ ہے.خدائی حفاظت کا ایک شاندار نمونہ دنیا میں بھی اس بات کی مثالیں ملی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاک بندے خدا تعالیٰ کی حفاظت میں رہتے ہیں اور دشمن اُن کو لاکھ نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے وہ ناکام و نا مرا درہتا ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی جنگ سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ دو پہر کے وقت آرام کرنے کے لئے ایک درخت کے نیچے سو گئے.باقی لشکر بھی اِدھر اُدھر متفرق ہو گیا.اتنے میں ایک شخص جس کے بعض رشتہ دار مسلمانوں کے ہاتھوں لڑائی میں مارے گئے تھے بلکہ اس کا ایک بھائی بھی مر چکا تھا اور اُس نے قسم کھائی تھی کہ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اس کے بدلہ میں ضرور قتل کرونگا.
۲۵۹ وہ وہاں آپہنچا.درخت سے آپ کی تلوار لٹک رہی تھی.اُس نے تلوار کو اُتار لیا اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جگا کر کہا بولو! اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ سب صحابہ اُس وقت اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اُس وقت کوئی شخص نہیں تھا، مگر ایسی حالت میں بھی آپ کے دل میں کوئی گھبراہٹ پیدا نہ ہوئی.بلکہ آپ کو یقین تھا کہ جس خدا نے میری حفاظت کا وعدہ کیا ہوا ہے وہ آپ میری حفاظت کا سامان فرمائے گا چنانچہ جب اُس نے کہا کہ بولو! بتاؤ! اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُٹھنے کی کوشش نہیں کی اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی حرکت سے کوئی اضطراب ظاہر ہوا.آپ نے لیٹے لیٹے نہایت اطمینان سے فرمایا اللہ میری حفاظت کریگا.یہ سُنا تھا کہ اس کے ہاتھ شل ہو گئے اور تلوار اُس کے ہاتھ سے گر گئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً تلوار اُٹھالی اور فرمایا بتاؤ! اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا آپ بڑے شریف آدمی ہیں آپ ہی مجھ پر رحم کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا کم بخت! تم مجھ سے سُن کر ہی کہہ دیتے کہ اللہ حفاظت کریگا.تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا کون مقابلہ کر سکتا ہے.P ایک رؤیا مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جب پادری مارٹن کلارک نے مقدمہ کیا تو میں نے گھبرا کر دعا کی.رات کو رویا میں دیکھا کہ میں سکول سے آ رہا ہوں اور اس گلی میں سے جو مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکانات کے نیچے ہے اپنے مکان میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہوں.وہاں مجھے بہت سی باور دی پولیس دکھائی دیتی ہے پہلے تو اُن میں سے کسی نے مجھے اندر داخل ہونے سے روکا، مگر پھر کسی نے کہا یہ گھر کا ہی آدمی ہے اسے اندر جانے دینا چاہئے.جب ڈیوڑھی میں داخل ہو کر اندر جانے لگا تو وہاں ایک تہہ خانہ ہو ا کرتا تھا جو ہمارے دادا صاحب مرحوم نے بنایا تھا.ڈیوڑھی کے ساتھ سیڑھیاں تھیں جو اس تہہ خانہ میں اُترقی تھیں.بعد میں یہاں صرف ایندھن اور پیپے پڑے رہتے تھے.جب میں گھر میں داخل ہونے لگا تو میں نے دیکھا کہ پولیس والوں نے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھڑا کیا ہوا ہے اور آپ کے آگے بھی اور پیچھے بھی اوپلوں کا انبار لگا یا ہوا ہے.صرف آپ کی گردن مجھے نظر آ رہی ہے اور میں نے دیکھا کہ وہ سپاہی ان اوپلوں پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں.جب میں نے انہیں آگ لگاتے دیکھا تو میں نے آگے بڑھ کر آگ
۲۶۰ بجھانے کی کوشش کی.اتنے میں دو چار سپاہیوں نے مجھے پکڑ لیا.کسی نے کمر سے اور کسی نے قمیص سے اور میں سخت گھبرایا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ اوپلوں کو آگ لگا دیں اسی دوران میں اچانک میری نظر او پر اُٹھی اور میں نے دیکھا کہ دروازے کے اوپر نہایت موٹے اور خوبصورت حروف میں یہ لکھا ہوا ہے کہ : - ” جو خدا کے پیارے بندے ہوتے ہیں اُن کو کون جلا سکتا ہے " تو اگلے جہان میں ہی نہیں یہاں بھی مؤمنوں کے لئے سلامتی ہوتی ہے.ہم نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ایسے بیسیوں واقعات دیکھے کہ آپ کے پاس گونہ تلوار تھی نہ کوئی اور سامانِ حفاظت مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کے سامان کر دیئے.امام جماعت احمدیہ کے قتل کی نیت ابھی ایک کیس میں ایک ہندوستانی عیسائی کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے.اس کا جرم یہ تھا کہ اس سے آنیوالا ایک ہندوستانی عیسائی نے غصہ میں آ کر اپنی بیوی کوقتل کر دیا.جب مقدمہ ہوا تو مجسٹریٹ کے سامنے اُس نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریریں سُن سُن کر میرے دل میں احمدیوں کے متعلق یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ ہر مذہب کے دشمن ہیں.عیسائیت کے وہ دشمن ہیں ، ہندو مذہب کے وہ دشمن ہیں ، سکھوں کے وہ دشمن ہیں، مسلمانوں کے وہ دشمن ہیں اور میں نے نیت کر لی کہ جماعت احمدیہ کے امام کو قتل کر دونگا.میں اس غرض کے لئے قادیان گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ پھیرو چیچی گئے ہوئے ہیں ، چنانچہ میں وہاں چلا گیا.پستول میں نے فلاں جگہ سے لے لیا تھا اور ارادہ تھا کہ وہاں پہنچ کر اُن پر حملہ کر دوں گا ، چنانچہ پھیر و چیچی پہنچ کر میں اُن سے ملنے کے لئے گیا تو میری نظر ایک شخص پر پڑ گئی جو اُن کے ساتھ تھا اور وہ بندوق صاف کر رہا تھا ( یہ دراصل بیٹی خاں صاحب مرحوم تھے ) اور میں نے سمجھا کہ اس وقت حملہ کرنا ٹھیک نہیں ، کسی اور وقت حملہ کرونگا.پھر میں دوسری جگہ چلا گیا اور وہاں سے خیال آیا کہ گھر ہو آؤں.جب گھر پہنچا تو بیوی کے متعلق بعض باتیں سن کر برداشت نہ کر سکا اور اُسے پستول سے ہلاک کر دیا.پس یہ ایک اتفاقی حادثہ تھا جو ہو گیا ورنہ میرا ارادہ تو کسی اور کو قتل کرنے کا تھا.اب دیکھو کس طرح اس شخص کو ایک ایک قدم پر خدا تعالیٰ روکتا اور اس کی تدبیروں کو
۲۶۱ ناکام بناتا رہا.پہلے وہ قادیان آتا ہے مگر میں قادیان میں نہیں بلکہ پھیر و چیچی ہوں ، وہ پھیرو چیچی پہنچتا ہے تو وہاں بھی میں اُسے نہیں ملتا اور اگر ملتا ہوں تو ایسی حالت میں کہ میرے ساتھ ایک اور شخص ہوتا ہے، جس کے ہاتھ میں اتفاقاً بندوق ہے اور اُس کے دل میں خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ اس وقت حملہ کرنا درست نہیں.پھر وہ وہاں سے چلا جاتا ہے اور ادھر اُدھر پھر کر گھر پہنچتا ہے اور بیوی کو مار کر پھانسی پر لٹک جاتا ہے.فتنہ احرار کے ایام میں ایک نوجوان پٹھان کا ارادہ قتل سے قادیان آنا اسی طرح احرار کے فتنہ کے ایام میں ایک دفعہ ایک پٹھان لڑکا قادیان آیا اور میرا نام لے کر کہنے لگا میں نے اُن سے ملنا ہے.میاں عبدالاحد خاں صاحب افغان اس سے باتیں کرنے لگے.باتیں کرتے کرتے یک دم اُس نے ایک خاص طرز پر اپنی ٹانگ ہلائی اور پٹھان اس طرز پر اُسی وقت اپنی ٹانگ ہلاتے ہیں جب انہوں نے نیچے پھر اچھپایا ہوا ہو.میاں عبد الاحد خاں بھی چونکہ پٹھان ہیں اور وہ پٹھانوں کی اس عادت کو اچھی طرح جانتے تھے، اس لئے جو نہی اُس نے خاص طرز پر ٹانگ ہلائی انہوں نے یکدم ہاتھ ڈالا اور چھری پکڑ لی.بعد میں اس نے اقرار بھی کرلیا کہ میرا ارادہ یہی تھا کہ ملاقات کے بہانے اُن پر حملہ کر دونگا.اب ایک پٹھان کا قادیان آنا اور اس کی باتوں کے وقت ایک احمدی پٹھان کا ہی موجود ہونا اور اس کا پکڑا جانا محض اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ تھا ورنہ اگر کوئی و غیر پٹھان ہوتا تو وہ سمجھ بھی نہ سکتا تھا کہ اُس نے ٹانگ کو اس طرح کیوں حرکت دی ہے.زہر آلود بالائی کھلانے کی کوشش اسی طرح میں ایک دفعہ جلسہ سالانہ میں سٹیج پر تقریر کر رہا تھا کہ کسی نے ایک پرچ میں بالائی رکھ کر دی کہ یہ حضرت صاحب کو پہنچا دی جائے اور دوستوں نے دست بدست اُسے آگے پہنچانا شروع کر دیا.رستہ میں کسی دوست کو خیال آیا کہ یہ کوئی زہریلی چیز نہ ہو، چنانچہ اُس نے چکھنے کے لئے ذراسی بالائی زبان کو لگائی تو اُس کی زبان کٹ گئی ، مگر چونکہ وہ دست بدست پیچھے سے چلی آرہی ہے تھی اس لئے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون شخص تھا جس نے زہر کھلانے کی کوشش کی.تو اس قسم کے کئی واقعات ہوتے رہتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا پتہ چلتا ہے ، مگر پھر بھی جب تک وہ چاہتا ہے حفاظت کا سامان رہتا ہے اور جب وہ چاہتا ہے ان سامانوں کو ہٹا لیتا ہے بہر حال اس جہان کی سلامتی محدود ہے، لیکن اگلے جہان کی سلامتی غیر محدود اور ہمیشہ کے لئے ہے.
۲۶۲ مذہبی جنگوں میں مسلمانوں کی کامیابی کا وعدہ پھر میں نے سوچا کہ اس دنیا میں تو جنگیں بھی ہوتی ہیں اور جنگوں میں حفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ تلوار اور دوسرے ہتھیار سمجھے جاتے ہیں جو مینا بازار سے میتر آ سکتے ہیں کیا اس مینا بازار سے بھی ہمیں کوئی ایسی ہی چیز مل سکتی ہے یا نہیں سو اس کے متعلق میں نے دیکھا تو قرآن میں لکھا تھا اِنَّ اللهَ يُدفِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ بِالَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفَعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَواتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَّنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ كَ فرماتا ہے.یقیناً اللہ تعالیٰ مؤمنوں کی طرف سے دفاع کرنے والا ہے یعنی ہم تلوار تمہارے ہاتھ میں نہیں دیں گے بلکہ اپنے ہاتھ میں رکھیں گے.اگر تمہارے ہاتھ میں تلوار دینگے تو وہ ایسی ہی ہوگی جیسے بچہ سے اس کی ماں کہتی ہے کہ فلاں چیز اُٹھالا اور پھر خود ہی اُس چیز کو اُٹھا کر اُس کا صرف ہاتھ لگوا دیتی ہے اور بچہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے چیز اُٹھائی ہے.پھر فرماتا ہے ، ہم تمہاری کیوں نہ مدد کریں گے جب کہ تم پر حملہ کرنے والے خائن اور کافر ہیں اور تم وہ ہو جو صداقتوں کا اقرار کرتے ہو.یا د رکھو! اس دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کو جن سے لوگ جنگ کرتے ہیں اجازت دی گئی ہے کہ وہ بھی حملہ آوروں کا مقابلہ کریں کیونکہ اُن پر حد سے زیادہ ظلم کیا گیا ہے اور اُن پر نا واجب سختی کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کی مدد پر یقینا قادر ہے.وہ لوگ جو اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر حق کے جن کا صرف اتنا گناہ تھا کہ انہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اگر اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعہ دُور نہ کرے تو دنیا میں عبادت خانے ، راہبوں کے رہنے کی جگہیں ، عیسائیوں کے گرجے ، یہودیوں کی جگہیں اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں خدا تعالیٰ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے سب مٹا دی جائیں.فرماتا ہے ہم نے مذہب کی آزادی کے لئے لڑائی کی اجازت دی ہے مگر چونکہ بچے مخلص تھوڑے ہوتے ہیں اس لئے اس بات سے نہ گھبرانا کہ تم تھوڑے ہو، اللہ تعالیٰ خود اپنے مخلص بندوں کی تائید کے لئے تلوار لے کر کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ انہیں ہر میدان میں مظفر ومنصور کرتا ہے اور خدا بڑا ہی قومی اور عزیز ہے.جس طرف خدا ہو جائے گا اس کی قوت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا
۲۶۳ اور جس کی طرف خدا ہو جائے گا اُس پر کوئی دشمن غلبہ نہیں پاسکے گا.یہ تو دفاعی جنگ دشمنوں پر غالب کرنے والا ایک تیز تر اور کامیاب ہتھیار ہے.میں نے سوچا کہ اس سامانِ جنگ سے تو میں دشمن کے فتنہ سے بچ سکتا ہوں.پس یہ ہتھیار ایک ڈھال کی طرح ہوا اِس میں مجھے دوسرے پر حملہ کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے پھر میں دنیا پر غالب کس طرح آؤں گا؟ کیا اس مینا بازار میں کوئی ایسا ہتھیار بھی ہے جو ڈھال کی طرح نہ ہو بلکہ تلوار کی طرح ہو اور جس کی مدد سے مجھے غلبہ عطا ہو؟ تو میں نے دیکھا کہ ایسا ہتھیار بھی موجود ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَاَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا - وَلَوْشِتُنَا لَبَعَثْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ نَّذِيرًا - فَلا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَ جَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا وَهُوَ الَّذِى مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَذَا عَذَبٌ فُرَاتٌ وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَحًا و حِجْرًا مَّحْجُورًا ۸۰ ان آیات میں پہلے پانی کا ذکر ہے جو کلام الہی سے تشبیہہ دینے کے لئے کیا گیا ہے اور فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اُتارتا ہے اور مراد یہ ہے کہ قرآن بھی اسی طرز کا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس طرح ہم پانی کو لوگوں میں پھیلا دیتے ہیں تا کہ وہ ہمارے نشانوں کی قدر کریں، اسی طرح ہم نے قرآن کو اُن کے سامنے پیش کر دیا ہے، مگر اکثر لوگ کفرانِ نعمت کرتے ہیں.وہ پانی کی نعمت تو قبول کر لیتے ہیں، مگر کلام الہی کی نعمت جو اس سے بہت زیادہ بہتر ہے اُسے رڈ کر دیتے ہیں، گویا وہ اشرفیاں تو نہیں لیتے مگر کوڑیوں پر جان دیتے ہیں، اور یہ بالکل بچوں والی حالت ہے.میں ایک دفعہ بمبئی گیا وہاں ایک تازہ کیس عدالت میں چل رہا تھا.جو اس طرح ہوا کہ کسی جوہری کے ساتھ ہیرے جو کئی ہزار روپیہ کی مالیت کے تھے کہیں گر گئے ، اس نے پولیس میں رپورٹ کر دی، پولیس نے تحقیق کرتے ہوئے ایک آدمی کو پکڑ لیا جس سے کچھ ہیرے بھی برآمد ہو گئے.جب اُس سے پوچھا گیا کہ اس نے یہ ہیرے کہاں سے لئے تھے؟ تو اس نے بتایا کہ میں بازار میں سے گزر رہا تھا کہ چندلر کے ان ہیروں کی سے گولیاں کھیل رہے تھے، میں نے انہیں دو چار روپے دے کر ہیرے لے لئے.بعد میں معلوم ہوا کہ اس جو ہری نے کسی موقع پر اپنی جیب سے رومال نکالا تو یہ ہیرے جو ایک پڑ یہ میں تھے اس کے ساتھ ہی نکل کر زمین پر گر گئے اور بچوں نے یہ سمجھا کہ وہ کھیلنے کی گولیاں ہیں ، حالانکہ وہ
۲۶۴ پچاس ہزار روپے کا مال تھا.یہی حال لوگوں کا ہے کہ اُس پانی کی قدر کریں گے جو سٹر جاتا اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ناکارہ ہو جاتا ہے مگر جو پانی ان کے اور اُن کی آئندہ نسلوں کے کام آنے والا ہے اور جو نہ صرف اس زندگی میں بلکہ اگلے جہان میں بھی کام آتا اور انسان کی کا یا پلٹ دیتا ہے اُس کو ر ڈ کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں لیتے.تو فرماتا ہے اکثر لوگ کُفر ہی کرتے ہیں حالانکہ اگر ہم چاہتے تو ساری دنیا میں ہی نذیر بھیجتے.یعنی اگر ہم لوگوں پر جلدی حجت تمام کرنا چاہتے تو بجائے اس کے کہ ایک رسول بھیجتے اور اس کی تعلیم آہستہ آہستہ پھیلتی ، ہر بستی میں ایک ایک نذیر بھیج دیتے، مگر ہم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اس لئے کہ اگر سب لوگ ایک دم گفر کرتے تو دنیا کی تمام بستیوں پر یکدم عذاب آ جاتا اور سب لوگ ہلاک ہو جاتے مگر اب ایسا نہیں ہوتا بلکہ اب پہلے عرب پر اتمام حجت ہوتی ہے اور اس پر عذاب آتا ہے.پھر کچھ اور عرصہ گزرتا ہے تو ایران پر اتمام حجت کے بعد عذاب آ جاتا ہے.اگر ہر بستی اور ہر گاؤں میں اللہ تعالیٰ کے نبی مبعوث ہوتے ، تو ہر بستی اور ہر گاؤں پر وہ عذاب نازل ہوتا جواب براہ راست ایک حصہ زمین کے مخالفوں پر نازل ہوتا ہے.پس تو اُن کافروں کی باتیں مت مان ، بلکہ قرآن کریم کے ذریعہ سے سب دنیا کے ساتھ وہ جہاد کر جو سب سے بڑا جہاد ہے یعنی تبلیغ کا جہاد.جس کے پاس جانے سے بھی آجکل کے مسلمان کا دم گھٹتا ہے ( وہ اس سے تو اس بہانہ سے بھاگتا ہے کہ اصل جہاد تلوار کا ہے اور تلوار کے جہاد سے اس لئے بھاگتا ہے کہ دشمن طاقتور ہے.مولوی فتوی دیتا ہے کہ اے عام مسلمانو ! بڑھو اور لڑو.اور عام مسلمان کہتے ہیں کہ علماء ! آگے چلو کہ تم ہمارے لیڈر ہو اور پھر دونوں اپنے گھروں کی طرف بھاگتے ہیں ) پس دنیا کے مینا بازار میں تو لوہے کی تلوار میں ملا کرتی تھیں جنہیں کچھ عرصہ کے بعد زنگ لگ جاتا تھا اور جو ہمیشہ لڑائی میں کام نہیں آ سکتی تھیں ، بلکہ بسا اوقات لڑتے لڑتے ٹوٹ جاتی تھیں ، مگر خدا نے ہمیں وہ تلوار دی ہے جسے کبھی زنگ نہیں لگتا اور جو کسی لڑائی میں بھی نہیں ٹوٹ سکتی ، تیرہ سو سال گزر گئے اور دنیا کی سخت سے سخت قوموں نے چاہا کہ وہ اس تلوار کو توڑ دیں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور اسے ہمیشہ کے لئے ناکارہ بنا دیں مگر دُنیا جانتی ہے کہ جو قوم اس کو توڑنے کے لئے آگے بڑھی وہ خود ٹوٹ گئی مگر یہ تلوار اُن سے نہ ٹوٹ سکی.یہ وہ قرآن ہے جو خدا نے ہم کو دیا ہے اور جہاد بالقرآن سب سے بڑا جہاد ہے یہ وہ تلوار ہے جس سے ہم ساری دنیا کو فتح
۲۶۵ کر سکتے ہیں فرماتا ہے جَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا تلوار کا جہاد اور دوسرے اور جہاد چھوٹے ہیں قرآن کا جہاد ہی ہے جو سب سے بڑا اور عظیم الشان جہاد ہے.یہ وہ تلوار ہے کہ جو شخص اس پر پڑے گا اُس کا سر کاٹا جائے گا اور جس پر یہ پڑے گی وہ بھی مارا جائے گا یا مسلمانوں کی غلامی اختیار کرنے پر مجبور ہوگا.اگر تیرہ سو سال میں بھی ساری دنیا میں اسلام نہیں پھیلا تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ تلوار کند تھی بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے اس تلوار سے کام لینا چھوڑ دیا.آج خدا نے پھر احمدیت کو یہ تلوار دیکر کھڑا کیا ہے اور پھر اپنے دین کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کرنے کا ارادہ کیا ہے مگر نادان اور احمق مسلمان احمدیت پر حملہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ احمدی جہاد کے قائل نہیں.اُن کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص غلیلے لے کر قلعہ پر حملہ کر رہا ہو، تو یہ دیکھ کر کہ غلیلوں سے قلعہ کب فتح ہوسکتا ہے کچھ اور لوگ توپ خانہ لے کر آ جائیں، مگر غلیلے چلانے والا بجائے اُن کا شکر گزار ہونے کے اُن پر اعتراض کرنا شروع کر دے کہ یہ لوگ غلے کیوں نہیں چلاتے ؟ وہ نادان بھی اپنی نادانی اور حماقت کی وجہ سے قرآن کی طاقت کے قائل نہیں ، ہوش سنبھالنے سے لیکر بڑھے ہونے تک وہ نحو اور صرف پڑھتے رہتے ہیں اور یہی دو علم پڑھ پڑھ کر ان کے دماغ خالی ہو جاتے ہیں.انہوں نے ساری عمر بھی قرآن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا ہوتا اور نہ اس کے مطالب اور معانی پر غور کیا ہوتا ہے.اب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل پھر یہ تلوار ہمارے ہاتھوں میں دی ہے اور میرا دعویٰ ہے کہ دنیا میں کوئی سچا مسئلہ اور کوئی حقیقی خوبی ایسی نہیں ، نہ زمین میں نہ آسمان میں جو اس کتاب میں موجود نہ ہو.اسی طرح کوئی ایسی بات نہیں جس سے دنیا کے دماغ تسلی پا سکتے ہوں مگر وہ بات قرآن کریم میں نہ پائی جاتی ہو.پھر فرماتا ہے وَهُوَ الَّذِى مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وہ خدا ہی ہے جس نے دوسمندر دُنیا میں ملا دیئے ہیں مرج کے معنے ہوتے ہیں ملا دینے کے پس وَهُوَ الَّذِی مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ خدا ہی ہے جس نے دو سمندر دنیا میں ملا دیئے ہیں هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ ایک سمندر اپنی خاصیت کے لحاظ سے میٹھا ہے اور اس کا پانی انسان کے لئے تسکین بخش ہے.وَهَذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ مگر دوسرا زخم ڈال دینے والا نمکین ہے.اور آگ کی طرح گرم وَ جَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرُ زَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُورًا مگر باجود اس کے کہ دونوں سمندر ملا دیئے گئے ہیں.اس کے درمیان اور اُس کے درمیان ایک فاصلہ پایا جاتا ہے.
۲۶۶ دنیا میں قاعدہ ہے کہ جب میٹھی اور نمکین چیز ملائی جائے تو ایک تیسری چیز پیدا ہو جاتی ہے جو ان دونوں سے مختلف ہوتی ہے.جیسے بعض لوگ میٹھی چائے میں نمک ملا لیا کرتے ہیں، میں ایسی چائے کو منافق چائے“ کہا کرتا ہوں اور مجھے اس سے بڑی نفرت ہے.تھوڑے ہی ہے دن ہوئے ایک شادی ہوئی جس میں لڑکی والوں نے دعا کے لئے مجھے بھی بلایا ، ایسے موقع پر جو چیز بھی سامنے آئے میزبان کی خواہش کے مطابق استعمال کرنی پڑتی ہے، اتفاق ایسا ہوا کہ انہوں نے جو چائے تیار کرائی اُس میں نمک بھی ملا دیا.میرے ساتھ ایک دوست بیٹھے ہوئے تھے وہ آہستہ سے میرے کان میں کہنے لگے ایسی چائے کو کیا کہتے ہیں ،میں نے کہا کہتے تو منافق ہی ہیں مگر اس وقت پئے ہی جائیں.وہ دوست کچھ دیر سے واقع ہوئے ہیں ،میں ڈرا کہ کہیں وہ میزبان کے سامنے ہی نہ کہہ بیٹھیں اور اُن کی دل شکنی نہ ہو، مگر خیر گزری کہ انہوں نے میزبان کے سامنے کچھ نہ کہا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ پانی منافق نہیں ہوں گے باوجود اس کے کہ وہ دونوں ملے ہوئے ہوں گے اور بظاہر جب دو چیزیں مل جائیں تو دونوں کا ذائقہ بدل کر کچھ اور ہو جاتا ہے، مگر ہماری طرف سے یہ اعلان ہو رہا ہوگا کہ حِجْرًا مَّحْجُورًا.اے ملنے والو! تمہارے ملنے.کے یہ معنے نہیں ہیں کہ تم ایک دوسرے میں جذب ہو جاؤ بلکہ باوجود ملنے کے الگ الگ رہو.دیکھ لو یہ وہی پیشگوئی ہے جس کا سورہ رحمن میں بھی ان الفاظ میں ذکر ہے مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِينِ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا يَبْغِينِ ) کہ خدا نے دو سمندر اس زمانہ میں بنائے ہونگے ، ایک میٹھے پانی کا ہوگا اور ایک کڑوے پانی کا ، وہ دونوں آپس میں مل جائینگے مگر باوجود اس کے کہ ہ ملے ہوئے ہونگے ان میں ایسی برزخ حائل ہوگی کہ میٹھا پانی کڑوے میں جذب نہیں ہو گا وہ اور کڑوا پانی میٹھے میں جذب نہیں ہوگا.مغربیت کی کبھی نقل نہ کرو یہ پیشگوئی در حقیقت مغربیت اور دجالیت کے متعلق ہے، چنانچہ دیکھ لو قرآن کریم نے اپنے الفاظ میں ہی اس طرف اشارہ کر دیا ہے فرماتا ہے هذَا مِلْح أجَاج - اور اُجاج سے یا جوج اور ماجوج دونوں قوموں کی طرف اشارہ ہے اس کے مقابلہ میں عَذَبٌ فُرَاتٌ رکھا ہے اور حِجْرًا مَّحْجُورًا میں بتا دیا کہ تمہیں ان قوموں سے مل کر رہنا پڑے گا اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت تمہیں عیسائی حکومت کے ماتحت رکھا جائے گا.ایسی حالت میں تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ تم میٹھے پانی کا سمندر ہو اور وہ
۲۶۷ کڑوے پانی کا سمندر ہیں ، تم مغربیت کی نقل کبھی نہ کرو اور باوجود ان میں ملے ہونے کے ایسے امور کے متعلق صاف طور پر کہہ دیا کرو کہ تم اور ہو اور ہم اور ہیں گویا ایک برزخ تمہارے اور اُن کے درمیان ضرور قائم رہنی چاہئے یہی وہ برزخ ہے جس کو قائم کرنے کے لئے میں تحریک جدید کے ذریعہ جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مغربی اثرات کو قبول نہ کریں جو احمدی میٹھے پانی کا ہے وہ ضرور ان سے الگ رہے گا اور یہ ہو نہیں سکتا کہ کڑوا اور میٹھا پانی ایک دوسرے میں جذب ہو جائے.اسی طرح جو غیر احمدی ہیں وہ خواہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہ مانتے ہوں ، انہیں مغربیت کی نقل نہیں کرنی چاہئے ، کیونکہ یہ مسیح موعود کی تعلیم نہیں یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ اُن کے بھیجنے والے خدا کی تعلیم ہے.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو کھانے پینے ، پہننے اور تمدن ومعاشرت کے دوسرے کئی امور میں مغربیت کی نقل کرتا اور اس نقل میں خوشی اور فخر محسوس کرتا ہے، ایسے لوگ در حقیقت مِلْحٌ اُجاج ہیں ، عَذُبٌ فُرَاتٌ سے تعلق نہیں رکھتے.جماعت احمدیہ کے قیام میں ایک بہت بڑی حکمت ایک دفعہ بعض غیر احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سوال کیا کہ شادی بیاہ اور دوسرے معاملات میں آپ اپنی جماعت کے لوگوں کو کیوں اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہمارے ساتھ تعلقات قائم کریں.آپ نے فرمایا اگر ایک مٹکا دودھ کا بھرا ہوا ہو اور اس میں کھٹی لسی کے تین چار قطرے بھی ڈال دیئے جائیں تو سارا دُودھ خراب ہو جاتا ہے.تو لوگ اس حکمت کو نہیں سمجھتے کہ قوم کی قوت عملیہ کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے دوسروں سے الگ رکھا جائے اور اُن کے بداثرات سے اُسے بچایا جائے.آخر ہم نے دشمنانِ اسلام سے روحانی جنگ لڑنی ہے.اگر اُن سے مغلوب اور ان کی نقل کرنے والے غیر احمدیوں سے ہم مل جل گئے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم بھی یورپ کے نقال ہو جائیں گے اور ہم بھی جہاد قرآنی سے غافل ہو جائیں گے.پس خود اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ کے لئے حکومتی اور سیاسی اور معاشرتی اتحاد کے آگے ہم کو دوسری جماعتوں سے نہیں ملنا چاہئے تاکہ ہم غافل ہو کر اپنا فرض جو تبلیغ اسلام کا ہے بُھول نہ جائیں جس طرح دوسرے مسلمان بھول گئے ہیں.خدا تعالیٰ اُن کو بھی ہدایت دے اور انہیں بھی یہ فرض ادا کرنے کی توفیق بخشے.اسلام میں پہلے ہی سپاہیوں کی کمی ہے اگر تھوڑے بہت سپاہی جو اُسے میسر آئیں
۲۶۸ وہ بھی سست ہو جائیں تو انہوں نے اسلام کی طرف سے مقابلہ کیا کرنا ہے.پس حق یہی ہے کہ یہ میٹھا پانی کڑوے پانی سے الگ رہے گا اور ایک برزخ ان دونوں کو جُدا جُدا رکھے گا ، کاش ! دوسرے مسلمانوں میں بھی یہ جس پیدا ہو.طبیعی اور علمی تقاضوں کے پورا کرنے کا سامان جب میں نے یہ سب کچھ دیکھا تو خیال کیا کہ شاید مینا بازار میں کوئی ایسی چیزیں بھی ہوتی ہوں گی جن کا مجھے اس وقت علم نہیں ، لیکن میرے نفس میں اُن کی طلب اور خواہش بعد میں کسی وقت پیدا ہو جائے.پس میں نے کہا مجھے یہ چیزیں تو مل گئیں ، لیکن ممکن ہے آئندہ کسی چیز کے متعلق میرے دل میں کوئی خواہش پیدا ہو اور وہ ملے یا نہ ملے.جب میرے دل میں یہ خیال آیا ، تو معاً مجھے معلوم ہوا کہ جو غیر معلوم چیزیں ہوتی ہیں وہ عموماً دو قسم کی ہوتی ہیں.(۱) ایک وہ جو طبعی تقاضوں سے تعلق رکھتی ہیں.(۲) دوسری وہ جو علمی تقاضوں سے تعلق رکھتی ہیں.پہلی قسم کی چیزوں کی مثال میں ٹھوک کو پیش کیا جا سکتا ہے جو ایک طبعی تقاضا ہے.انسانی دماغ سوچے یا نہ سوچے وہ خود بخود بھوک اور پیاس محسوس کرتا ہے.اسی طرح نفسانی خواہشات غور اور فکر سے پیدا نہیں ہوتیں بلکہ اگر غور اور فکر سے پیدا ہوں تو وہ جھوٹی خواہشات سمجھی جاتی ہیں.مثلاً اگر اچھے کھانے کو دیکھ کر کھانا کھانے کا خیال پیدا ہو تو یہ جھوٹی خواہش ہو گی ، جائز اور صحیح خواہش وہی ہوتی ہے جو بغیر غور و فکر طبعی طور پر انسان کے اندر پیدا ہو.اسی طرح بعض چیز میں انکار سے تعلق رکھتی ہیں.انسان بعض دفعہ چاہتا ہے کہ اُسے کوئی علمی بات معلوم ہو یا اس کے کسی اعتراض کا ازالہ ہو.یہ ایک علمی تقاضا ہے جو پورا ہونا چاہئے.گویا تقاضے دو قسم کے ہیں ، ایک طبعی اور ایک عقلی.طبعی تقاضا تو یہی ہے کہ مثلاً بھوک کی خواہش پیدا ہو، اب روٹی کی خواہش انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے باہر سے نہیں آتی لیکن نیو یارک دیکھنے کی خواہش طبعی طور پر بھوک پیاس کی طرح اس کے اندر سے پیدا نہیں ہوتی، بلکہ جب وہ کسی کتاب میں نیو یارک کے حالات پڑھتا یا کسی شخص سے وہاں کے حالات سنتا ہے تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں بھی نیو یارک دیکھوں.تو نیو یارک دیکھنے کی خواہش اور قسم کی ہے اور روٹی کھانے کی خواہش اور قسم کی.نیو یارک یا ایسا ہی دنیا کا کوئی اور شہر دیکھنے کی خواہش کبھی اندر سے پیدا نہیں ہوتی لیکن روٹی کھانے
۲۶۹ کی خواہش اندر سے پیدا ہوتی ہے.تو ان دونوں تقاضوں میں فرق ہے.میں نے سوچا کہ اگر میرے طبعی تقاضے پورے نہ ہوئے تب بھی میں کمزور ہو کر مر جاؤں گا اور اگر میری علمی زیادتی نہ ہوئی اور مجھے اپنی ذہنی اور عقلی پیاس کو بجھانے کا موقع نہ ملا تو اس صورت میں بھی میرا دماغ کمزور ہو جائے گا.پس طبعی تقاضوں کا پورا ہونا بھی ضروری ہے تا کہ میرا جسم مکمل ہوا اور عقلی تقاضوں کا پورا ہونا بھی ضروری ہے تا کہ میرا دماغ مکمل ہو.قرآنی بشارت میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ معا میرے کان میں آواز آئی وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ إِلَّا نُفُسُ وَتَلَذُّ الْأَعْيُنُ وَأَنْتُمْ فِيهَا خَلِدُونَ ۵۲ کہ جو جو چیزیں ہم پہلے بتا چکے ہیں وہ بھی جنت میں ملیں گی اور اُن کے علاوہ جو طبعی تقاضے ہیں ، اشتہاء کہ وہ اندر سے پیدا ہوتی ہے اور آنکھوں کی یہ حس کہ اس کے سامنے ایسی چیزیں آئیں جنہیں دیکھ کر وہ لذت اُٹھائے ہم ان تمام تقاضوں کو پورا کریں گے.گویا قرآن کریم نے ان خواہشات کو تسلیم کیا ہے جو اندرونی ضرورتوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اور فرماتا ہے کہ ان خواہشات کو ہم ضرور پورا کریں گے.یہ خواہشات ہر شخص کے اندر پائی جاتی ہیں اور اگر ہم تجزیہ کریں تو بعض دفعہ ایک ایک چیز کی خواہش ہی نہیں ہوتی بلکہ اس چیز کے ایک ایک حصہ کی خواہش انسانی قلب میں پائی جاتی ہے.حاملہ عورتوں میں مٹی کھانے کی خواہش عورتوں کے پیٹ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اُن کی جس اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ بچے کو جس غذاء کی ضرورت ہوتی ہے ، ماں کے دل میں اُسی غذا کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے.غذاء کے بعض اجزاء مٹی میں سے نکلتے ہیں جس کی وجہ سے ایام حمل میں عورتوں کو مٹی کھانے کی عادت ہو جاتی ہے.درحقیقت انسان کو خدا تعالیٰ نے مٹی سے ہی ترقی دیکر بنایا ہے، اس لئے جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو ماں کے دل میں مٹی کھانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ ایسی مٹی ہو جس میں کچھ پانی ملا ہوا ہو، یا چکنی مٹی ہو اور سو میں سے پچاس ایسی عورتیں ہوتی ہیں جو مٹی کھاتی ہیں.وہ یہ نہیں کہتیں کہ ہمیں بھوک لگتی ہے اس لئے ہم مٹی کھاتی ہیں ، بلکہ وہ کہتی ہیں ہمارے دل میں مٹی کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے.اسی طرح بعض دفعہ حاملہ عورتوں کو سیب کھانے کی شدید طور پر خواہش پیدا ہوتی ہے اور یہ خواہش اتنی ہے سخت ہوتی ہے کہ بعض دفعہ اگر سیب نہیں ملتا تو عورتوں کا حمل گر جاتا ہے.اب دنیا کی کوئی
۲۷۰ طب ایسی نہیں جو یہ بتا سکے کہ سیب کے کون سے ایسے اجزاء ہیں جو نہ ملیں تو حمل ضائع ہو جاتا ہے ہے یا مٹی میں کون سے ایسے اجزاء ہیں جن کا حاملہ عورتوں کو دیا جانا ضروری ہوتا ہے مگر واقع یہی ہوتا ہے اور طبیب بھی مانتے ہیں کہ بعض دفعہ ان چیزوں کے نہ ملنے کی وجہ سے حمل گر جاتا ہے.اسی طرح بعض دفعہ اُن کے اندر دُودھ پینے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے.مجھے ایک عجیب مرض ہے، میں دُودھ پی لوں تو مجھے سر درد کا دورہ ہو جاتا ہے مگر کسی کسی دن مجھے اتنا شدید شوق پیدا ہوتا ہے کہ میں برداشت نہیں کر سکتا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے سر درد ہو جائے گی پھر بھی دُودھ پی لیتا ہوں اور اس کے بعد دورہ ہو جاتا ہے.تو کئی قسم کی باریک خواہشات انسان کے اندر پائی جاتی ہیں اور وہ ایسی شدید ہوتی ہیں کہ پوری نہ ہوں تو زندگی بے مزہ معلوم ہونے لگتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَفِيهَا.مَا تَشْتَهِيهِ الْأَنْفُسُ دنیا میں تو بعض دفعہ انسان کا جی چاہتا ہے کہ اُسے سیب کھانے کو ملے مگر اُسے سیب نہیں ملتا.عورت چاہتی ہے کہ مٹی کھائے مگر دوسرے لوگ اُسے کھانے نہیں دیتے ، مگر فرمایا وہاں جو بھی طبعی خواہش پیدا ہوگی اس کو پورا کر دیا جائے گا.دماغی خواہشات کی تکمیل پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کچھ دماغی خواہشیں بھی ہوتی ہیں اور انسان چاہتا ہے کہ ان خواہشوں کے پورا ہونے کا بھی سامان ہو.پس میں نے سوچا کہ اگر کبھی عقلی ضرورت محسوس ہوگی ، گو اس کے ساتھ طبعی خواہش نہ ہوئی تو کیا یہ ضرورت بھی پوری ہو گی یا نہیں؟ اس پر میں نے دیکھا تو اس کا بھی انتظام تھا.چنانچہ لکھا تھا لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ ۵۳ وہاں جنتی جو کچھ چاہیں گے انہیں مل جائے گا.اور یہ امر ظاہر ہے کہ مشیت دل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ، مگر اشتہا ء نفسانی خواہشات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.پس وہاں انسان کی اشتہاء بھی پوری ہو گی اور انسان کی مشیت بھی پوری ہو گی.گویا جن کے اندر طبعی خواہشات پیدا ہوں گی جو اُن کے روحانی جسموں کے مطابق ہوں گی ان کے لئے ان کی طبعی خواہشوں کے پورا کرنے کے سامان کئے جائیں گے اور جنہیں عقلی ضرورت محسوس ہو گی ان کی اس ضرورت کو بھی وہاں پورا کر دیا جائے گا.ہمارے خدا کا عجیب و غریب مینا بازار میں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو کہا سُبْحَانَ اللهِ وہ مینا بازار اور مارکیٹیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی چیزیں یا تو میری طاقت سے باہر ہوتی ہیں اور اگر طاقت کے اندر ہوتی
۲۷۱ ہیں تو ضروری نہیں ہوتا کہ میری اشتہاء یا میری مشیت کو پورا کرنے والی ہوں.اور اگر میری اشتہاء یا میری مشیت کو پورا کرنے والی ہوں تو ضروری نہیں ہوتا کہ میں اُن سے فائدہ اٹھاتی سکوں.مثلاً اگر پینے کے لئے دُودھ مل جاتا ہے لیکن میں بیمار ہو جاتا ہوں تو اس دودھ کا مجھے کیا فائدہ ہوسکتا ہے.اور اگر میں اُن سے فائدہ اُٹھا بھی لوں ، تو ایک دن یا وہ فنا ہو جائیں گی یا میں فنا ہو جاؤں گا.مگر یہ عجیب مینا بازار ہے ہمارے خدا کا کہ اس میں مجھ سے جان اور مال طلب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے بدلہ میں سارے مینا بازار کی چیزیں اور خود مینا بازار کی عمارت تمہارے سپرد کی جاتی ہے.جب اس سے کہا جاتا ہے کہ لاؤ اپنا مال اور لاؤ اپنی جان کہ میں مینا بازار کی سب چیزیں اور خود مینا بازار کی عمارت تمہارے سپرد کر دوں تو بندہ ادھر اُدھر حیران ہو کر دیکھتا ہے کہ میرے پاس تو نہ مال ہے نہ جان میں کہاں سے یہ دونوں چیزیں لاؤں.اتنے میں چُپ چاپ اللہ تعالیٰ خود ہی ایک جان اور کچھ مال اُس کے لئے مہیا کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ لومیں یہ تمہیں جان اور مال دے رہا ہوں تم یہ مال اور جان میرے پاس فروخت کر دو.غالب تھا تو شرابی مگر اس کا یہ شعر کروڑوں روپیہ سے بھی زیادہ قیمتی ہے کہ :- جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے ایسا ہی معاملہ کرتا ہے وہ فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اَنْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ خدا نے مؤمنوں سے اُن کی جانیں اور مال خرید لئے اور ان کے بدلہ میں انہیں جنت دے دی حالانکہ کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ جان اس کی ہے یا کون ہے جو کہہ سکے کہ مال اس کا ہے باوجود اس کے کہ نہ مال اس کے پاس ہوتا ہے نہ جان اس کے پاس ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اس سے سودا کر نے آتا ہے اور کہتا ہے مجھ سے جان لو اور پھر مجھے یہ جان واپس دے کر مجھ سے سودا کر لو.مجھ سے مال لو اور پھر یہ مال مجھے واپس دے کر مجھ سے سودا کر لو.پس عجیب مینا بازار ہے کہ خود ہی ایک جان اور کچھ مال مہیا کیا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے لو اسے ہمارے پاس فروخت کر دو.اور جب میں اس جان اور مال کو اس کے ہاتھ فروخت کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ بے شک مجھے اپنا غلام بنا لو تو یکدم وہ مجھے آزاد کر دیتا ہے اور میرے سارے طوق ، ساری زنجیریں،
۲۷۲ ساری بیٹریاں اور ساری جہتھکڑیاں کاٹ ڈالتا ہے.اور پھر مجھے مینا بازار کی چیزیں ہی نہیں دیتا ہے بلکہ سارا مینا بازار میرے حوالے کر دیا جاتا ہے اور اس کی تمام چیزوں کا مجھے مالک بنا دیا جاتا ہے اور پھر انہی چیزوں کا ہی نہیں بلکہ ساتھ ہی یہ بھی انتظام کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی نئی طبعی خواہش پیدا ہوگی تو وہ بھی پوری کی جائے گی.اور اگر کوئی نئی علمی خواہش پیدا ہو گی تو اُس کو پورا کرنے کے بھی ہم ذمہ دار ہوں گے.اور پھر مجھے کہا جاتا ہے کہ ان چیزوں کے متعلق تسلی رکھنا ، نہ یہ چیزیں ختم ہوں گی اور نہ تم ختم ہو گے گویا ان سب چیزوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے مجھ پر سے بھی اور ان چیزوں پر سے بھی فنا کا اثر مٹا دیا جائے گا.جب میں نے یہ نظارہ دیکھا اور روحانی طور پر مجھے ان الہی اسرار کا علم ہوا تو میں اپنے ناقص علم پر جو مجھے آزادی اور غلامی کے متعلق تھا ، سخت شرمندہ ہوا.اور میں حیران ہو گیا کہ میں کس چیز کو آزادی سمجھتا تھا اور کس چیز کو غلامی قرار دیتا تھا.جس چیز کو میں آزادی سمجھتا تھا وہ ایک خطر ناک غلامی تھی اور جس چیز کو میں غلامی سمجھتا تھا وہ حقیقی آزادی اور حریت تھی.میں شرمندہ ہوا اپنے علم پر، میں حیران ہوا اس عظیم الشان حقیقت پر اور فی الواقع اُس وقت سر سے لے کر پاؤں تک میرا تمام جسم کانپ اُٹھا اور میری روح ننگی اور عریاں ہو کر خدا کے سامنے کھڑی ہو گئی اور بے اختیار میں نے کہا اے میرے آقا ! یہ غلامی جو تو پیش کر رہا ہے، اس پر ہزاروں آزادیاں قربان ہیں.اے آقا! مجھے جلد سے جلد اپنا غلام بنالے، مجھے بھی اور میرے سب عزیزوں اور دوستوں کو بھی.بلکہ اے خدا! تو ساری دنیا کو ہی اپنا غلام بنالے تا کہ ہم سب اس غلامی کے ذریعہ حقیقی آزادی کا مزہ چکھیں اور حقیقی غلامی سے نجات پائیں.پس کان منتظر ہیں اُس دن کے جب یہ آواز ہمارے کان سنیں گے کہ یاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ فِى إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً - فَادْ خُلِى فِي عِبَادِي - وَادْخُلِي جَنَّتِی.اے اپنے رب کے تعلق پر مطمئن ہونے والی جان! آ آ اپنے رب کی طرف آ.تو اُس سے خوش ہے اور وہ تجھ سے خوش ہے.آ اور میرے بندوں میں داخل ہو جا اور آمیری جنت میں داخل ہو جا.اپنی جانیں اور اپنے اموال خدا تعالیٰ کے حضور جلد تر پیش کرو! یہ وہ عظیم الشان نعمت.ہے جو تمہارا خدا تمہیں دینے کے لئے تیار ہے.اب تمہارا فرض ہے کہ تم آگے بڑھو اور اس نعمت کو حاصل کرنے کی
۲۷۳ کوشش کرو.وہ اس زمانہ میں پھر تمہارے پاس ایک گاہک کی صورت میں آیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اُس کی یہ آواز بلند ہوئی ہے کہ اپنی جانیں اور مال مجھے دو اور جنت مجھ سے لے لو.وہ تم سے سودا کرنا چاہتا ہے مگر سودا کرنے کے لئے اُس نے کی خود اپنے پاس سے تم کو جان اور مال دیا ہے.پس جان بھی اُسی کی ہے اور مال بھی اُسی کا.مگر وہ یہ فرض کر کے کہ یہ چیزیں اُس کی نہیں بلکہ تمہاری ہیں تمہارے پاس ایک گاہک کی صورت میں چل کر آیا ہے اور وہ تم سے تمہاری جانوں اور مالوں کا مطالبہ کر رہا ہے.تمہاری خوش قسمتی ہوگی اگر تم اس آواز کو سنتے ہی کھڑے ہو جاؤ اور کہو کہ اے ہمارے آقا ! آپ ہم سے اپنی ہی چیز مانگ کر ہمیں کیوں شرمندہ کر رہے ہیں، ہم اپنی جانیں آپ کے قدموں پر شار کرنے کے لئے تیار ہیں اور اپنے اموال آپ کی راہ میں لگانے کے لئے حاضر ہیں.جب تم اس طرح اپنی جانوں اور اپنے اموال کی قربانی کرنے کے لئے کھڑے ہو جاؤ گے تو تم دیکھو گے کہ تمہاری جان بھی تمہارے پاس ہی رہتی ہے اور تمہارا مال بھی تم سے چھینا نہیں جاتا.مگر اس ارادہ نیک اور عملی پیشکش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا آقا تم سے ہمیشہ کے لئے خوش ہو جائے گا اور وہ تمہیں اُس کی ابدی جنت میں داخل کرے گا جس کی نعمتیں لازوال ہیں اور جس کے مقابلہ میں دُنیوی مینا بازار اتنی بھی حقیقت نہیں رکھتے جتنی ایک سورج کے مقابلہ میں ایک ٹمٹماتی ہوئی شمع کی حقیقت ہوتی ہے.وہ اس اقرار کے نتیجہ میں ہی تمہاری غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر پرے پھینک دے گا.وہ تمہارے سلاسل اور آہنی طوق تمہاری گردنوں سے دُور کر دے گا.تم پھر دنیا میں سر بلند ہو گے، پھر اپنی گردن فخر سے اونچی کر سکو گے.پھر ایک عزت اور وقار کی زندگی بسر کر سکو گے.لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اتنا چھوٹا سا کام بھی اس کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا، پس آؤ ہم اُس کے حضور جھکیں اور اُسی سے یہ التجا کریں کہ اے ہمارے آقا! تو ہمیں اپنی محبت سے حصہ دے، تو اپنے عشق کی آگ ہمارے دلوں میں سلگا ، تو اپنے نور کی چادر میں ہم کو لپیٹ لے اور ہر قسم کی شیطانی راہوں سے بچا کر ہمیں اپنے قرب اور اپنی محبت کے راستوں پر چلا، کیونکہ حقیقی حریت وہی ہے جو تیری غلامی میں حاصل ہوتی ہے اور بدترین غلامی وہی ہے جو تجھ سے دُوری کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.پس آؤ اس جُھوٹی خریت کے خیالات کو جو دنیا میں بدترین غلامی پیدا کرنے کا موجب ہیں اپنے دلوں سے دُور کرو اور جلد سے جلد اُس خدائی آواز پر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ بلند ہوئی ہے اپنی جانیں اور اپنے اموال اُس کے حضور پیش کر دو تا کہ تمہیں حقیقی آزادی
۲۷۴ میٹر ہو اور تمہاری وساطت سے پھر باقی دنیا کو بھی شیطان کی غلامی سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل ہو جائے.“ عبس: ۲۰ تا ۲۲ الحج : ۸،۷ بخاری کتاب احادیث الانبياء باب ماذكر عن بنی اسراءیل حدیث نمبر ۳۴۵۲ صفحه ۵۸۱ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء البقرة : ٩ ک هود : ۱۱۲ ه التوبة : ١٠٠ النباء : ٣٧ الكهف : ۵۰ المؤمن : ۴۱ آل عمران : ١) الصفت : ۱۳۰ تا ۱۳۲ ۱۵ الانبياء : ۹۲ ا بنی اسراءیل : ۶۴ - المعارج: ۳۶ الصفت : ۷۹ تا ۸۱ ۱۴ ١٦ العنكبوت: ۲۸ كا الانعام : ۸۴ تا ۹۱ ۱۸ الاحزاب : ۵۷ 19 الحشر : ١١ ٢٠ اقرب الموارد الجزء الثانى صفحہ ۸۷۹ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء ال الرعد : ۲۵،۲۴ ۲۲ طمنچے : طمنچہ کی جمع.پستول.چھوٹی بندوق.( فیروز اللغات اردوصفحه ۸۸۰ مطبوعہ فیروز سنز لا ہور ۲۰۱۰ء) ٢٣ التوبة : ١١١ بخارى كتاب الزكوة باب اتَّقُوا النَّارَ وَ لَوْ بِشِقِّ تَمُرَةٍ حدیث نمبر ۱۴۱۷ صفحه ۲۲۹ مطبوعہ الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۲۵ بخاری کتاب الصوم باب المجامع فى رمضان حدیث نمبر ۱۹۳۷ صفحه ۳۱۱ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ٢٦ البقرة: ۴ الاعراف: ۱۵۸ ۲۸ الاعراف: ۱۹۷ ۲۹ بخارى كتاب الادب باب إكرام الضيف (الخ) حدیث نمبر ۶۱۳۵ صفحه ۱۰۶۹ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ٣٠ الحج : ۴۸ الفجر : ۲۸ تا ۳۱ ٣٢ حم السجدة : ٣٢ ٣٣ الدهر : ۲۰ ٣٤ البقرة : ٦ ٣٦ الدهر : ۱۲ الدهر : ۱۸ ۳۵ الدهر : ۶ ۳۸ الدهر : ۲۳ ۳۹ ٣٩ الصفت : ۴۶ محمد : ١٦ البقرة : ٢٦
۴۲ محمد : ١٦ ۲۷۵ ٢٣ البقرة : ٢٢٠ ۴۴ محمد : ۱۶ ۲۵ المطففين : ۲۷،۲۶ تلچھٹ : وہ چیز جو نیچے بیٹھ جائے.(فیروز اللغات اردو صفحه ۳۷۲ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء) درد : تلچھٹ ( فیروز اللغات اردو صفحہ ۶۲۱ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء) الصفت : ۴۸ اقرب الموارد الجزء الثاني صفحه ۱۲۹۱ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء ۵۰ اقرب الموارد الجزء الثاني صفحه ۸۹۳ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء اه الطور : ۲۴ ۵۲ الدهر : ۲۲ ۵۴ المطفّفين : ٢٩ ۵۵ الدهر : ۱۹ الطور : ۲۳ ۵۸ الدهر : ۱۵ ۲۰ محمد : ۱۶ ال الحج : ۲۴، ۲۵ ۵۳ المطفّفين : ۲۸ ۵۶ الواقعة : ۲۱، ۲۲ ۵۹ الواقعة : ۳۳، ۳۴ الاعراف: ۲۷ ۱۳ محمد : ۱۸ ۱۴ ال عمران : ۱۰۷ ال عمران : ۱۰۸ ۱۶ النحل : ۵۹ القيامة : ٢٣ ١٨ لسان العرب المجلد الرابع صفحه ۱۷۸ مطبوعہ بیروت لبنان ۱۹۸۸ء ۱۹ عبس : ۴۰،۳۹ ك الغاشية : ٩ اك اقرب الموارد الجزء الثاني صفحه ۱۳۲۱.مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء ك الواقعة : ۹۰،۸۹ ٤٣ لسان العرب المجلد الخامس صفحه ۳۵۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء الزمر : ۷۴ ٤٥ الدهر : ١٦ الواقعة : ١٦، ١٧ ك الغاشية : ۱۴ تا ۱۷ ٤٨ الانعام: ۱۲۸ وى الحج : ۳۹ تا ۴۱ ۸۰ الفرقان : ۵۱ تا ۵۴ ۵۱ الرحمن : ۲۱،۲۰ ٢ الزخرف : ۷۲ ٨٣ النحل :٣٢
۲۷۷ الله بِسْمِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ (۴) ( تقریر فرموده مورخه ۲۸ مارچ ۱۹۴۸ء بمقام لاہور ) عالم روحانی کا بلند ترین مینار یا مقام محمدیت تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- 66 میری آج کی تقریر کا موضوع ” ہے یہ میری اِس مضمون کی تقریروں کا چوتھا نمبر ہے.ان تقریروں کا محرک میرا ایک سفر ہوا تھا جو میں نے ۱۹۳۸ء میں کیا میں اس سال پہلے سندھ گیا وہاں سے کراچی، کراچی سے بمبئی اور بمبئی سے حیدر آباد کا سفر کیا.ہر جگہ کے دوستوں نے مجھے وہاں کی اہم اور قابل دید جگہیں دکھانے پر اصرار کیا اور چونکہ میری ایک بیوی، بیٹی اور ہمشیرہ بھی ساتھ تھیں، اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ یہ قدیم آثار خود بھی دیکھوں اور ان کو بھی دکھاؤں ، خصوصاً حیدر آباد ، آگرہ اور دتی کے پرانے آثار دیکھنے کا ہمیں موقع ملا.جب ہم دتی پہنچے تو ہم غیاث الدین تغلق کا قلعہ دیکھنے کے لئے گئے یہ قلعہ ایک اونچی جگہ پر واقع ہے اور ٹوٹا ہوا ہے ، لیکن سیڑھیاں قائم ہیں میری ایک بیوی اور لڑکی اس قلعہ کے اوپر چڑھ گئیں.میں اُس وقت نیچے ہی تھا اوپر چڑھ کر انہوں نے مجھے کہا کہ یہاں بڑا اچھا نظارہ ہے، ساری دتی اس قلعہ پر سے نظر آ رہی ہے آپ بھی آئیں اور اس نظارہ سے لطف اندوز ہوں.میرا سر چونکہ اونچائی پر چڑھنے سے چکرانے لگتا ہے اس لئے پہلے تو میں نے انکار کیا، لیکن پھر ان کے اصرار پر میں بھی اوپر چڑھ گیا اور میں نے دیکھا کہ واقع میں وہ ایک عجیب نظارہ تھا.ساری دتی نظر آ رہی تھی اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ایک فلم آنکھوں کے سامنے پھر رہی ہو، نہ
۲۷۸ صرف نئی اور پرانی دتی بلکہ اس کے قلعے، مزار ، لائیں اور مسجد میں سب آنکھوں کے سامنے تھیں اور ایک ہی وقت دتی کے یہ پرانے آثار تاریخی شواہد کو میرے سامنے پیش کر رہے تھے.میں نے ان آثار کو دیکھا اور اپنے دل میں کہا کہ ان میں سے ہر چیز ایسی ہے جس کی کسی نہ کسی خاندان سے یا کسی نہ کسی قوم یا مذ ہب سے نسبت ہے.یہ آثار ان قوموں کے لئے فخر کا موجب تھے، لیکن آج وہ قو میں مٹ چکی ہیں اور ان آثار کو بنانے والوں کا نام ونشان بھی نہیں پایا جاتا ، بلکہ بعض جگہوں پر تو اُن کا دشمن قابض ہے اور وہ قومیں جنہوں نے یہ یادگاریں قائم کی تھیں محکومیت اور ذلت کی زندگی بسر کر رہی ہیں.یہ ایک عبرت کی بات تھی جو میرے دل میں پیدا ہوئی اور میں سوچتے سوچتے انہبی خیالات کی رو میں کھویا گیا اور میری توجہ ان یادگاروں پر مرکوز ہو گئی.تھوڑی دیر کے بعد مجھے پیچھے سے آواز آئی کہ اب آجائیں بہت دیر ہو گئی ہے، لیکن میرے خیالات کی رو میرے قابو سے باہر تھی.میں نے اُس وقت سوچا اور غور کیا کہ یہ مادی آثار جو دنیا میں اپنی یادگاریں قائم کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں، کیا ان کے مقابلہ میں ہمارے خدا نے بھی کچھ آثار بنائے ہیں؟ اور اگر بنائے ہیں تو ان خدائی آثار اور یادگاروں کی کیا کیفیت ہے اور یہ مادی آثار ان کے سامنے کیا حقیقت رکھتے ہیں؟ میں نے سوچنا شروع کیا کہ جن لوگوں نے یہ قلعے بنائے اور دنیا کے سامنے اپنی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کیا ، کیا اس کے مقابلہ میں ہمارے خدا نے بھی کوئی قلعہ بنایا ہے.یا جن لوگوں نے دنیا میں بڑے بڑے مینار بنائے ہیں کیا ان کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے بھی کوئی مینا ر قائم کیا ہے.اسی طرح دنیوی مینا بازاروں کے مقابلہ میں کیا خدا تعالیٰ نے بھی کوئی مینا بازار بنایا ہے یا دنیوی دیوان عام اور دُنیوی دیوان خاص جو بادشا ہوں نے بنائے ، کیا ان کے مقابلہ میں روحانی عالم میں بھی کوئی دیوان عام اور دیوان خاص پائے جاتے ہیں.اسی طرح یہ دریا اور سمندر جو قدرتی طور پر دنیا میں بہہ رہے ہیں ، کیا ان کے مقابلہ میں اسلام میں بھی کوئی ایسی یادگاریں پائی جاتی ہیں ؟ آخر سوچنے اور غور کرنے کے نتیجہ میں میرے دل میں قرآن کریم کی کئی آیات آتی چلی گئیں اور مجھے معلوم ہوا کہ یہ دنیا کی یادگاریں انہی یادگاروں کا صرف ایک ظاہری نشان ہیں اور یہ آثار ان روحانی آثار کی طرف توجہ دلانے کے لئے قائم کئے گئے ہیں.ورنہ اصل یادگاریں وہی ہیں جو خدا تعالیٰ نے بنائی ہیں اور جو دنیا کی دست برد سے پاک ہیں.جب میں یہاں تک پہنچا تو بے اختیار میرے منہ سے یہ فقرہ نکلا ، میں نے پالیا.میں نے پالیا میری لڑکی امتہ القیوم بیگم جو میرے پیچھے ہی کھڑی تھی ، اس
۲۷۹ نے کہا ابا جان آپ نے کیا پا لیا؟ میں نے کہا میں نے بہت کچھ پالیا ہے لیکن میں اب تمہیں نہیں بتا سکتا ، میں جلسہ سالانہ پر تقریر کرونگا تو تم بھی سُن لینا کہ میں نے کیا پایا ہے.پر پہلی تقریر چنانچہ میں نے پہلی تقریر ۱۹۳۸ء میں کی جس میں میں نے تین مضامین بیان کئے تھے.وہ آثار قدیمہ جو قرآن کریم نے پیش کئے ہیں.قرآن کریم ایک وسیع سمند ر کو پیش کرتا ہے.قرآن کریم ایک وسیع جنتر منتر کو پیش کرتا ہے.دوسری تقریر ۱۹۴۰ء میں میں نے دوسری تقریر کی جس میں میں نے یہ ذکر کیا کہ قرآن کریم بھی ایک قلعہ پیش کرتا ہے جس کے مقابلہ میں دنیوی قلعے کوئی حقیقت نہیں رکھتے اور قرآن کریم بھی ایک وسیع مسجد پیش کرتا ہے ایسی مسجد جس کے مقابلہ میں مٹی اور اینٹوں کی بنائی ہوئی مسجد میں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں.تیسری تقریر ۱۹۴۱ء میں میں نے یہ بیان کیا کہ دنیا کے مقابر کے مقابلہ میں اسلام نے کونسے مقابر پیش کئے ہیں اور دنیوی مینا بازاروں کے مقابلہ میں اسلام نے کونسا مینا بازار پیش کیا ہے.نو (۹) مضمون ابھی باقی ہیں جن میں میں نے اپنے خیالات کا ابھی تک اظہار نہیں کیا.میں چاہتا ہوں کہ ان نو (۹) مضامین میں سے آج صرف ایک مضمون کو بیان کر دوں.فضائل القرآن پر لیکچر ۱۹۴۱ء کے بعد اس وقت تک مجھے اس مضمون پر بولنے کا موقع نہیں ملا ، کیونکہ درمیان میں بعض اور ضروری مضامین آ گئے تھے جن کے متعلق تقریر کرنا ضروری تھا، اسی طرح ایک اور مضمون بھی نامکمل چلا آ رہا ہے جو فضائل القرآن کا مضمون ہے.پانچ لیکچر میں اس مضمون پر دے چکا ہوں، لیکن ابھی بہت سے لیکچر باقی ہیں.درمیانی عرصہ میں مختلف حالات کی وجہ سے جو مضامین آ جاتے رہے ہیں ان کی وجہ سے یہ دونوں مضمون ابھی نامکمل ہیں، لیکن بہر حال میں آج کے ایک پہلو کو بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں.مادی میناروں کے مقابلہ میں اسلام کا پیش کردہ مینار میں نے بیان کیا تھا کہ میں نے اپنے سفر میں
۲۸۰ بڑے بڑے بلند مینار دیکھے، ایسے مینار جو آسمان سے باتیں کر رہے تھے ، جیسے قطب صاحب کی لاٹ ہے یا تغلق شاہ کی لاٹ ہے.میں نے ان بلند و بالا میناروں کے دیکھنے کے بعد غور کیا کہ کیا قرآن کریم میں بھی کسی بلند تر روحانی مینار کا ذکر پایا جاتا ہے اور یہ کہ اس مینار کے مقابلہ میں دنیوی مینار کیا حقیقت رکھتے ہیں.مینار کیوں بنائے جاتے ہیں؟ جب میں نے یہ سوچا تو پہلا سوال میرے دل میں یہ پیدا ہوا کہ مینار کیوں بنائے جاتے ہیں؟ اور کیا وہی اغراض قرآن کریم کی کسی پیش کردہ چیز سے پوری ہوتی ہیں یا نہیں؟ عالم بالا کے اسرار معلوم کرنے کی جستجو اس نقطہ نگاہ سے جب میں نے میناروں کی تاریخ پر غور کیا ، تو مجھے معلوم ہوا کہ مینار بنانے کا پہلا موجب یہ تھا کہ لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ آسمان کسی محدود فاصلہ پر واقع ہے اور وہ کسی اونچی جگہ پر جا کریا تو آسمان پر چڑھ جائیں گے اور یا اس قابل ہو جائیں گے کہ فرشتوں اور ارواح کے ساتھ باتیں کر سکیں اور آسمانی نظاروں کو دیکھ سکیں.گویا میناروں کی تعمیر کا ایک محرک بنی نوع انسان کا یہ عقیدہ تھا کہ وہ اوپر چڑھ کر آسمان کے قریب ہو جائیں گے اور عالم بالا کے اسرار کو آسمانی ارواح سے معلوم کر سکیں گے.قرآن کریم اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَهَامُنُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَّعَلِى اَبْلُغَ الأَسْبَابَ.أَسْبَابَ السَّمَوَاتِ فَاطَّلِعَ إِلى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا وَكَذَلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ وَصُدَّعَنِ السَّبِيلِ وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبَابٍ.یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون کے سامنے اپنا دعویٰ پیش کیا تو فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بات سن کر کہا کہ اس کا تو دماغ خراب ہو گیا ہے، یہ کہتا ہے کہ مجھ سے خدا اور اس کے فرشتے باتیں کرتے ہیں ، یہ جھوٹ بولتا ہے، میں اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں.اے ہامان! تم میرے لئے ایک اونچا سامینار تیار کرو، میں بھی اس پر چڑھ کر دیکھوں کہ آسمان پر کیا ہوتا ہے اور آسمانی اسباب اور ذرائع سے پتہ لوں کہ کیا موسیٰ سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ.پُرانے زمانے میں سب سے اونچے مینار مصر میں ہی بنا کرتے تھے اور یہ اونچے مینار اسی خیال کے تحت بنائے جاتے تھے کہ مصری سمجھتے تھے کہ ارواح سماویہ آسمان سے اُترتی ہیں تو بلندی پر رہنے کی وجہ سے وہ بلند جگہوں کو پسند کرتی ہیں اسی لئے وہ اپنے بزرگوں اور
۲۸۱ بادشاہوں کی قبریں بلند میناروں کی شکل میں بنایا کرتے تھے مگر چونکہ اُس وقت تک حساب کا علمی ابھی مکمل نہیں ہو ا تھا اس لئے وہ سیدھا اور گول مینار بنانے کی بجائے اس شکل کی عمارات بنایا کرتے تھے A یعنی ان کی چوٹی تو صرف چند مربع گز کی ہوتی تھی ، لیکن بنیاد ہزاروں مربع گز میں ہوتی تھی ، بعد میں جب حساب مکمل ہوا اور بنیادوں اور سدھائی کا علم ہوا تو سیدھے گول میناروں کا رواج ہو گیا.میں جب مصر میں گیا تھا تو میں نے بھی ان میناروں کو دیکھا تھا یہ اتنے بلند مینار ہیں کہ اچھا قوی اور مضبوط آدمی بھی ان پر چڑھتے چڑھتے تھک جاتا ہے.آج بھی انجینئر جب ان میناروں کو دیکھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں کہ اُس زمانہ میں ناقص انجینئر نگ کے باوجود انہوں نے کتنی بلند و بالا عمارتیں کھڑی کر دیں.در حقیقت یہ مینار نہیں بلکہ قبریں ہیں جو بادشاہوں کے لئے بنائی جاتی تھیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان میناروں کے ذریعہ سے آسمانی ارواح ان کے بزرگوں کے نزدیک ہو جاتی ہیں.حضرت مسیح کے مینار پر اترنے کا عرض مصری لوگ یہ مینار آسمانی روحوں کے ساتھ ملنے کے لئے بنایا کرتے تھے، مسلمانوں میں عقیدہ مسلمانوں میں کس طرح آیا حضرت مسیح کے مینار پر سے اترنے کا عقیدہ بھی اسی بناء پر پیدا ہوا ہے.احادیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسیح عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ نازل ہو گا.یعنی وہ سفید مینار کے قریب اُترے گا.اس حدیث کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلمان اس عقیدہ میں مبتلا ہو گئے کہ مسیح مینار پر اُترے گا حالانکہ حدیثوں میں عَلَى الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ کے الفاظ نہیں بلکہ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ کے الفاظ ہیں جو ان کے اس خیال کی تردید کر رہے ہیں کہ مسیح مینار پر اُترے گا بہر حال مسلمانوں میں اس خیال کا پیدا ہو جانا کہ مسیح مینار پر اُترے گا بتاتا ہے کہ انہوں نے پرانی روایات اور احادیث کو محفوظ کر دیا.انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ حدیث میں عِندَ کا لفظ ہے علی کا لفظ نہیں اس کی وجہ در حقیقت یہی تھی کہ جب اسلام مصر میں پھیلا تو کئی مصری عقائد مسلمانوں میں بھی آگئے جن میں سے ایک یہ بھی عقیدہ تھا کہ ارواح مینار پر اُترتی ہیں.پہلے انہوں نے سمجھا کہ مسیح آسمان سے اُترے گا پھر انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ جب روحیں مینار پر اترا کرتی ہیں تو یہاں عِندَ
۲۸۲ کے معنے در حقیقت علی کے ہیں.اسی قسم کے بعض اور بھی عقائد ہیں جو مصریوں سے مسلمانوں نے لئے.مثلاً مصری لوگ تناسخ کے قائل تھے اور یہ عقیدہ بھی مصریوں سے مسلمانوں میں آیا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریبا نو (۹) سال بعد ہی مصر میں ایک شخص عبد اللہ بن سبات نامی پیدا ہو گیا تھا اور اُس نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رُوح دوبارہ دنیا میں آئے گی اور وہ قرآن کریم کی کئی آیتوں سے بھی استدلال کیا کرتا تھا.یہ وہی شخص تھا جس نے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی اور بعد میں اس نے اور اس کے ساتھیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی.دراصل یہ مصری فلسفہ سے متاثر تھا اور مصری فلسفہ یہ تھا کہ روحیں مینار پر اُترتی ہیں.شاید ان کے دلوں میں یہ خیال ہو کہ بزرگوں کی روحوں کے متعلق اگر یہ عقیدہ نہ رکھا گیا تو اس سے ان کی ہتک ہو گی اس لئے انہوں نے چاہا کہ کچھ ہم اپنے آپ کو اونچا کریں اور کچھ وہ نیچے اُتریں تا کہ اُن کا زمین پر نزول ان کے لئے ہتک کا موجب نہ ہو.بہر حال کسی نہ کسی خیال کے ماتحت مصریوں میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ ارواح بلند جگہوں پر اُترا کرتی ہیں اور اسی غرض کے لئے وہ مینار تعمیر کیا کرتے تھے.روشنی کا انتظام (۲) پھر مینار اس لئے بھی بنائے جاتے تھے کہ ان پر روشنی کی جائے اور دُور دُور سے لوگوں کو اس سے راہنمائی حاصل ہو چنانچہ چھاؤنیوں میں عموماً مینار بنائے جاتے ہیں اور ان میں روشنی کا باقاعدہ انتظام رکھا جاتا ہے اس روشنی کو دیکھ کر ڈور سے پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ فلاں جگہ ہے یا فلاں جہت پر سفر کرنا زیادہ مفید ہے.چونکہ پُرانے زمانے میں رات کو قافلے چلا کرتے تھے اس لئے میناروں کی روشنی سے انہیں بہت کچھ سہولت حاصل ہو جاتی تھی.مینار کے معنوں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے چنانچہ عربی زبان میں مینار کے معنے مقامِ نور کے ہیں ہے یعنی جہاں نور کا سامان موجود ہو.پس مینار اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ ان پر روشنی کی جاسکے اور اسی وجہ سے ان کا نام مینار ہؤا.ستاروں کی گردشیں معلوم کرنے کی خواہش (۳) تیرے مینار اس لئے بنائے جاتے تھے کہ اُن کے ذریعہ سے آسمانی گردشوں کا پوری طرح علم ہو اور غیب کی خبریں معلوم کی جاسکیں.واقع یہ ہے کہ زمین پر ہیئت کے سامان اتنی صفائی کے ساتھ ان گردشوں کو نہیں دیکھ سکتے جتنی صفائی کے ساتھ
۲۸۳ اونچی جگہ سے دیکھ سکتے ہیں اسی لئے دُور بینیں ہمیشہ اونچی جگہ پر لگائی جاتی ہیں.پس مینار بنانے کی تیسری وجہ یہ ہو ا کرتی تھی کہ لوگ ان پر آلات ہیئت رکھ کر ستاروں کی گردشوں کا علم حاصل کرتے تھے تا کہ انہیں غیب کی خبر میں معلوم ہوسکیں اور آئندہ کے اسرار اُن پر گھلیں.ابھی پچھلے دنوں لاہور میں ایک رات ہزاروں ہزار لوگ کمروں سے نکل کر باہر میدانوں اور صحنوں میں سوئے کیونکہ کسی منجم نے یہ خبر اُڑا دی کہ اس رات ایک شدید زلزلہ آئے گا.لوگ ڈر گئے اور وہ اپنے مکان چھوڑ کر باہر میدانوں اور باغوں میں نکل گئے حالانکہ یہ سب باتیں اسلامی تعلیم کے خلاف ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ قَالَ رُنَا بِنَوْءٍ كَذَا وَ كَذَا فَذَلِكَ فَهُوَ كَافِرٌ بِي وَ مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ جو شخص یہ کہے کہ فلاں ستارہ کی وجہ سے بارش ہوئی ہے یا فلاں ستارہ کا یہ اثر ہے ، وہ اسلام سے خارج ہے.دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، سب کچھ اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اس کے قانون کے ماتحت ہوتا ہے.یہ خیال کہ ستاروں کی گردش سے انسان آئندہ کے حالات معلوم کر سکتا ہے، قطعی طور پر غلط ہے اور لاہور والوں نے اس کا اندازہ بھی لگالیا ،مگر مشکل یہ ہے کہ وہ لوگ جو دین سے پوری واقفیت نہیں رکھتے اس قسم کی غلط فہمیوں میں عموماً مبتلاء رہتے ہیں اور منجم بھی بڑی آسانی سے کہہ دیتا ہے کہ مینار کے نہ ہونے کی وجہ سے مجھے ستاروں کی گردش معلوم کرنے میں غلطی لگ گئی ہے.یہی حال رمالوں ، جوتشیوں اور پامسٹوں کا ہوتا ہے.ایک احمدی نجومی کا واقعہ میرے پاس ایک دفعہ ایک احمدی نجومی آیا اور اس نے کہا، میں آپ کو کچھ کرتب دکھانا چاہتا ہوں.میں نے کہا، میں اس کو سمجھتا تو لغو ہی ہوں ، مگر تمہاری خواہش ہے تو دکھا دو.اس نے کہا میں نے یہ بات آپ سے اس لئے کہی ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ مجھے یہ فخر حاصل ہو جائے کہ میں نے آپ کے سامنے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے.اس کے بعد اس نے کہا، آپ اپنے دل میں کوئی فارسی شعر رکھیں.میں نے فارسی نہیں پڑھی کیونکہ ہمارے اُستاد یہ سمجھتے تھے کہ فارسی کی تعلیم سے عربی کو نقصان پہنچتا ہے.گومثنوی رومی وغیرہ تو میں نے پڑھی ہیں مگر فارسی کی باقاعدہ تعلیم میں نے حاصل نہیں کی اور ایسے آدمی کو عموماً معروف شعر ہی یاد ہوتے ہیں ، بہر حال میں نے اپنے دل میں سوچا کہ : - بخشائے برحال ما کریما کہ ہستم اسیر کمند ہوا
۲۸۴ اُس نے ایک کاغذ میرے سامنے رکھ دیا جس پر یہی شعر لکھا ہو ا تھا ، اس کے بعد اس نے کہا کہ آپ ایک سے دس تک کوئی ہندسہ اپنے دل میں سوچیں ، میں نے سات کا ہندسہ سوچا اور اس نے ایک کا غذ اٹھا کر مجھے دکھایا جس پر لکھا تھا کہ آپ سات کا ہندسہ سوچیں گے.پھر کہنے لگا کہ آپ اپنی پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھا ئیں آپ کے دائیں طرف ایک منہ ہے میں نے گرتا اُٹھایا تو وہاں منہ بھی موجود تھا.میں نے کہا تمہاری پہلی دو چالاکیاں تو مجھے معلوم ہو گئیں ، تم یہ بتاؤ کہ تم نے یہ کس طرح پتہ لگا لیا کہ میرے جسم کے دائیں طرف ایک منہ ہے.اس نے کہا ہماری راول قوم اس فن میں بہت مشہور ہے اور اُس نے بڑی کثرت سے انسانی جسموں کو دیکھا ہوا ہے.ایک لمبے مشاہدہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ اسی فی صدی لوگوں کی کمر کے دائیں طرف کوئی نہ کوئی منہ ضرور ہوتا ہے، اگر تین چار آدمیوں کو یہ بات بتائی جائے اور تین آدمیوں کے متے نکل آئیں اور چوتھے کے نہ نکلیں تو عام طور پر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم سے کوئی حسابی غلطی ہو گئی ہو گی ، وہ ہمارے علم پر شبہ نہیں کرتے.ان دنوں قادیان میں ایک اہلِ حدیث لیڈر آئے ہوئے تھے وہ مجھے ملنے کے لئے آئے تو اتفاقاً ان سے بھی اس بات کا ذکر آ گیا.کہنے لگے ان لوگوں کو کوئی علم نہیں آتا.محض ارڈ پوپوٹ ہوتے ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس شخص کو دیکھوں ، وہ اب کی دفعہ آئے تو اسے میرے پاس ضرور بھیجوا دیں.وہ قادیان کے قریب ہی ایک گاؤں کا رہنے والا تھا، اتفاق سے دوسرے تیسرے دن پھر آ گیا اور میں نے اسے انہی اہلِ حدیث مولوی صاحب کے پاس بھجوا دیا.گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد وہ میرے پاس دوڑتے ہوئے آئے اور کہنے لگے یہ تو معجزہ ہے معجزہ.اُس نے جتنی باتیں بتائیں وہ ساری کی ساری صحیح تھیں.معلوم ہوتا ہے اسے غیب کا علم آتا ہے آپ اسے کہیں کہ کسی طرح یہ علم مجھے بھی سکھا دے.میں نے ہنس کر کہا تم تو اہلِ حدیث ہو اور جانتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو علم غیب نہیں ، پھر یہ کیسی باتیں کرتے ہو.پھر میں نے انہیں کہا کہ ایک دفعہ تو اس نے باتیں دریافت کر لیں ، اب اسے کہو کہ وہ مجھ سے پھر وہ دو باتیں دریافت کر کے دیکھے میں نے خود بھی اسے کہا، مگر وہ اس کے لئے تیار نہ ہوا.جس چیز کا مجھ پر اثر تھا وہ صرف یہ تھی کہ اسے منے کا کس طرح پتہ لگ گیا ؟ اس کے متعلق اس نے بتایا کہ ہماری قوم کے لوگ ساری جگہ پھرتے رہتے ہیں اور وہ انڈونیشیا اور جاپان تک بھی جاتے ہیں ، انہوں نے انسانی جسموں کو کثرت کے ساتھ دیکھنے کے بعد بعض نتائج قائم کئے
۲۸۵ ہوئے ہیں جو عمو ماستر ، اسی فی صدی صحیح نکلتے ہیں.جیسے انشورنس والوں نے اندازے لگائے ہوئے ہیں کہ اتنے آدمی بیمہ کرائیں تو ان میں سے اتنے مرتے ہیں اور اتنے زندہ رہتے ہیں.چونکہ ستر فی صدی لوگوں کا منہ نکل آتا ہے اس لئے تمیں فی صدی لوگ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ جانتے تو سب کچھ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ حساب میں ان سے کوئی غلطی ہو گئی ہے.میناروں کے ذریعہ اپنے نام کو زندہ رکھنے کی خواہش (۴) مینار بنانے والوں کی ایک غرض یہ بھی ہوا کرتی تھی کہ ان میناروں کے ذریعہ سے بنانے والوں کا نام روشن رہے.بنانے والے بنا جاتے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ فلاں شخص کا تعمیر کر دہ مینار ہے.حصولِ مقاصد میں ناکامی مگر میں نے دیکھا کہ ان میناروں سے یہ چاروں اغراض پوری طرح حاصل نہیں ہوئیں.اول تو آسمانی روحوں کے اترنے کا کوئی ثبوت نہیں ، مصریوں نے مینار بنا دیئے ، کروڑوں کروڑ روپیہ خرچ کر دیا ، مُردوں کے ساتھ زیورات اور سامان بھی دفن کر دیئے مگر اب یورپین قومیں وہی سامان اٹھا کر اپنے ملکوں کو لے گئیں.اور وہ کر دے جو انہوں نے وہاں دفن کئے تھے اُن کو بھی انہوں نے اپنے عجائب گھروں میں رکھا ہوا ہے.کوئی لاش امریکہ کے عجائب گھر میں پڑی ہے اور کوئی فرانس کے عجائب گھر میں، گویا قیمتی سامان بھی ضائع ہوا اور مردوں کی بھی ہتک ہوئی.کسی فرعون کی لاش امریکہ کو دیدی گئی، کسی کی فرانس کو دے دی گئی اور کسی کی برطانیہ کو دے دی گئی اور اس طرح ان مُردوں کی مٹی خراب ہو رہی ہے.دوم قرآن کریم کی ابھی میں نے ایک آیت پڑھی ہے جس میں فرعون نے ہامان سے یہ کہا کہ تم ایک اونچا اور بلند مینار بناؤ تا کہ میں دیکھوں کہ موسیٰ کا خدا کہاں ہے؟ تورات سے پتہ لگتا ہے کہ رمسیس وہ فرعون تھا جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پالا اور منفتاح وہ فرعون تھا جو حضرت موسیٰ کے زمانہ میں تھا اور جو آپ کے مقابلہ میں آ کر تباہ ہو ا.وہ بنی اسرائیل سے اینٹیں پچھوایا کرتا تھا اور اسی طرح ان پر اور بھی بہت سے مظالم کیا کرتا تھا.قرآن کریم بتا تا ہے کہ جب اس نے ہامان سے یہ کہا کہ میرے لئے ایک اونچا سا مینار بناؤ تاکہ میں یہ دیکھوں کہ موسیٰ کا خدا کہاں ہے تو خدا تعالیٰ نے اس کی اس خواہش کو رائیگاں نہیں جانے دیا، اس نے اپنا وجود تو اسے دکھا دیا مگر مینار کی چوٹی پر نہیں بلکہ سمندر کی تہہ میں.قرآن کریم کہتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر مصر چھوڑ
۲۸۶ کر بھاگے اور فرعون نے ان کا تعاقب کیا اور آخر وہ سمندر کی موجوں میں گھر گیا تو جب وہ غرق ہونے لگا اُس وقت اس نے یہ الفاظ کہے کہ آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بَنُوا إِسْرَاءِ يُلَ وَآنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ = به گویا اُسے خدا تو نظر آ گیا مگر وہ فرعون جس نے آسمان پر خدا کو دیکھنا چاہا تھا اسے خدا پاتال میں نظر آیا.پس مینار پر چڑھ کر خدا دیکھنے کا ایک غلط خیال اس کے دل میں موجود تھا جو پورا نہ ہو سکا.روشنی کا فقدان باقی رہا یہ امرکہ مینار روشنی دیتے ہیں یہ بھی ہمیں ان میناروں سے پورا ہوتا نظر نہیں آتا ، دنیا میں سینکڑوں مینار کھڑے ہیں مگر ان پر روشنی کا کوئی سامان نہیں ، در حقیقت مینار بنانا اور بات ہے اور اس پر روشنی کرنا اور بات.جن لوگوں نے وہ مینار بنائے تھے جب ان کی اپنی نسلیں باقی نہ رہیں تو روشنی کون کرتا ؟ یوں کہلانے کو سب ہی مینار کہلاتے ہیں، لیکن روشنی کہیں بھی نہیں ہوتی یا کچھ عرصہ کے بعد مٹ جاتی ہے.قطب صاحب کے مینار کو ہی لے لو آج اس پر کہاں روشنی ہوتی ہے بیشک وہ کچھ عرصہ تک روشنی دیتے رہے مگر پھر تاریک ہو گئے اور اب نہ وہ دن میں کام آتے ہیں اور نہ رات کو کام آتے ہیں ، بنانے والوں کی نسلیں تک باقی نہ رہیں تو روشنی کرنے والے کہاں سے آتے ؟ مینار بنانے والے خود زمانہ کی گردش کا شکار ہو گئے تیسری غرض یہ کبھی جاتی ہے کہ میناروں کے ذریعہ غیبی علوم حاصل ہو ا کرتے ہیں، لیکن یہ غرض بھی ہمیں کہیں پوری نظر نہیں آتی بلکہ مینار بنانے والوں نے آسمانی گردشوں سے غیب کیا معلوم کرنا تھا وہ خود اپنے آپ کو گردشوں سے نہ بچا سکے اور ختم ہو گئے.انبیاء ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں اس جگہ کوئی کہ سکتا ہے کہ آپ لوگ جن کو روحانی سمینار کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ بھی تو ختم ہو گئے.اگر اشو کا ختم ہوا تو آدم بھی ختم ہو گیا.اگر دارا ختم ہوا تو نوح بھی ختم ہو گیا.پھر ان میں اور اُن میں کیا فرق ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک جہاں تک ظاہر میں ختم ہونے کا سوال ہے ہمیں دونوں ہی ختم دکھائی دیتے ہیں لیکن جہاں تک سلسلہ مذھبیہ کا سوال ہے وہ ختم نہیں ہوئے اور کبھی ختم نہیں ہو سکتے چنانچہ دیکھ لو اشوکا کا نام لیوا آج دنیا میں کوئی باقی نہیں.دنیا کے
۲۸۷ مختلف ملکوں اور گوشوں میں پھر کر دیکھ لو، دارا اور اشوکا کو کوئی اگر گالیاں بھی دے تو دنیا کی کوئی قوم اسے مطعون نہیں کر سکتی.کوئی مذہبی یا سیاسی اقتدار ان لوگوں کو حاصل نہیں مگر آج بھی آدم اور موسی" پر ایمان لانے والے یہودی اور عیسائی دنیا میں موجود ہیں.بے شک جہاں تک قابل عمل شریعت کا سوال ہے ان انبیاء کی تعلیم ختم ہو چکی ہے ،لیکن جہاں تک اُن کی عزت اور ان کے مقام کا سوال ہے وہ اب بھی قائم ہے اور اب بھی ان کا نام دنیا میں روشن ہے.اب بھی ہر شخص مجبور ہے کہ ان کا نام عزت اور احترام کے ساتھ لے ، پس وہ ختم نہیں ہوئے بلکہ قیامت تک بھی ختم نہیں ہو سکتے.مینار بنانے والوں کے نام تک محفوظ نہیں پھر میناروں کے ذریعہ نام روشن ہونے کی غرض بھی پوری نہ ہوئی بلکہ کسی کا نام روشن ہونا تو الگ رہا ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ مینار بنائے کس نے تھے؟ ہر مینار کے متعلق یہ بحث کی ہے کہ اسے کس نے بنایا تھا.قطب صاحب کی لاٹ بھی زیر بحث ہے اور تغلق کی لوہے کی لاٹ بھی زیر بحث ہے اور لوگ یہ سوچتے ہیں کہ یہ ہے اصل میں کس کی؟ اشو کا کی کہ تغلق کی؟ کسی ہندو بادشاہ کی یا ایبک کی؟ قطب صاحب کی لاٹ کے متعلق ہی مسلمان کہتے ہیں کہ قطب الدین ایبک نے اسے بنایا تھا اور ہندو کہتا ہے کہ یہ فلاں راجہ کی بنائی ہوئی ہے.فیروز تغلق کی لاٹ کے پاس کھڑے ہو کر ایک مسلمان کہتا ہے یہ فیروز تغلق کی لاٹ ہے اور ایک ہندو کہتا ہے کہ یہ اشوکا کی لاٹ ہے مگر جن روحانی میناروں کا ہم ذکر کرتے ہیں اُن کے ناموں کے متعلق کسی قسم کا اشتباہ نہیں پایا جاتا.غرض دنیوی مینار جن اغراض کے لئے تعمیر کئے جاتے ہیں وہ اغراض ان کے ذریعہ کبھی پوری نہیں ہوئیں.اس طرح جو فوائد ان کے بتائے جاتے ہیں وہ بھی بنی نوع انسان کو بھی حاصل نہیں ہوئے.قرآن کریم سے ایک عظیم الشان روحانی مینار کی خبر لیکن اس کے مقابل پر قرآن کریم نے ایک ایسے مینار کی خبر دی ہے جو روحانی طور پر تعمیر ہوا ، جس پر چڑھ کر آسمان کی سب سے بڑی ہستی کا بھی پتہ چلا اور وہ زمین پر بھی اتری.مصریوں کا تو محض خیال تھا کہ روحیں مینار کے ذریعہ نیچے اترتی ہیں اس کا کوئی عملی ثبوت کے
۲۸۸ ہمیں نہیں ملتا لیکن جس مینار کا میں ذکر کرنے والا ہوں اُس پر آسمان کی سب سے بڑی ہستی کے اُترنے کا زندہ ثبوت نظر آتا ہے.پھر اس مینار پر روشنی بھی ہوتی تھی اور ہوتی ہے اور ہوتی رہے گی.اس پر چڑھ کر آسمانی گردشوں کا بھی علم ہوا اور غیب کی خبر میں معلوم ہوئیں ، اس کے بنانے والے کا نام اس سے اب تک روشن ہے اور ہمیشہ روشن رہے گا اس کے بنانے کا کوئی اور مدعی کبھی پیدا نہیں ہوا اور نہ اس کے بنانے والے کے متعلق کبھی شک ہوا کہ شاید اس کو کسی اور نے بنایا ہو.مقام محمدیت غرض قرآن کریم ایک ایسے مینار کی خبر دیتا ہے جس پر انسان چڑھا جس پر چڑھ کر اُسے آسمان کی سب سے بڑی ہستی کا پتہ چلا اور وہ عظیم الشان ہستی زمین پر بھی اُتری ، جس مینار سے دنیا میں روشنی پھیلی اور پھیلتی چلی جائے گی، جس مینار سے غیب کی خبریں ملیں اور ملتی چلی جائیں گی وہ مینار کیا ہے؟ وہ مینار مقام محمدیت ہے سورۃ نجم میں اللہ تعالیٰ اس مینار کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَالنَّجْمِ إِذَاهَوى مَاضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَواى وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوى- اِنْ هُوَإِلَّا وَحْيٌ يُوحَى عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى ذُوْمِرَّةٍ فَاسْتَوَى وَهُوَ بِالأُفُقِ الْأَعْلَى ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ سَيْنِ اَوْأَدْنَى فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاي اَفَتُمْرُونَهُ عَلَى مَايَرَى وَلَقَدرَاهُ نَزْلَةً أُخْرى - عِندَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهى.عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاوَى اِذْيَغْشَى السّدْرَةَ مَا يَغْشَى مَازَاغَ الْبَصَرُوَمَا طَغَى لَقَدْرَاى مِنْ آيَتِ رَبِّهِ الْكُبُری ۵ فرماتا ہے ہم شہادت کے طور پر ایک ستارہ کو پیش کرتے ہیں خصوصاً ثریا کو ادا ھوای جب وہ نیچے اُتر ا.کس بات کے ثبوت کے طور پر اُسے پیش کرتے ہیں اس بات کے ثبوت کے طور پر کہ مَاضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَاغَوى تمہارا ساتھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ غلطی میں پڑا ہے وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوای اور نہ وہ ہوا و ہوس میں مبتلاء ہو کر اپنی نفسانی خواہشات کو دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے اِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى بلکہ وہ جو کچھ پیش کر رہا ہے اس وحی کا
نتیجہ ہے جو اس پر نازل ہوئی ہے.۲۸۹ کلام چار طریق پر سُنا جاتا ہے ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان چار طرح کلام سن سکتا ہے.اوّل اس کے افکار پراگندہ ہو جائیں.دوم اس کا دل پراگندہ ہو کر شیطان سے اُس کا تعلق قائم ہو جائے.اس کی ہوا وحرص تیز ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں اُس کے دل کے خیالات غالب آجائیں.چهارم کلام الہی نازل ہو.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے کہ یہ جو کچھ کہہ رہا ہے یہ نہ تو ضلالت کا نتیجہ ہے نہ غوائت کا نتیجہ ہے اور نہ ہوا و ہوس کا نتیجہ ہے بلکہ اس وحی کا نتیجہ ہے جو اس پر نازل ہو گئی ہے اور جسے وہ بنی نوع انسان کے سامنے پیش کر رہا ہے.یہ نجم کیا ہے جسے خدا تعالیٰ اس بات کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضلالت میں مبتلاء نہیں ہوئے ، نجم سے کیا مراد ہے افکار کی غلطی میں مبتلاء نہیں ہوئے ، کسی فلسفیانہ غلطی میں مبتلا نہیں ہوئے وَمَا غَوی اور نہ کسی شیطان کے قبضہ میں آئے وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى اور نہ ہوا و ہوس اور لالچ کی وجہ سے ان کے اندر ایسے خیالات پیدا ہوئے کہ وہ ایسی تعلیم پیش کرتے جو دنیا کے لئے گمراہی کا موجب ہوتی.ان دعوؤں کا ثبوت کیا ہے؟ فرماتا ہے ہمارے ان دعووں کا ثبوت ایک ستارہ ہے جو اوپر سے نیچے گرا، یہ اوپر سے نیچے گرنے والا ستارہ کیا ہے؟ اور ستارہ بھی ایسا جو تین زاویوں سے نیچے جُھکا اور اس نے تین خیالات کا قلع قمع کیا.دنیا میں بعض فلسفی لوگ تھے جو یہ خیال کرتے تھے کہ فلسفیانہ باتیں پڑھ پڑھ کر اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے، بعض لوگ یہ فقرہ چست کر کے تسلی پالیتے تھے کہ کیسا بُرا آدمی ہے شیطان نے اس پر قبضہ کر لیا ہے اور اب یہ شیطانی با تیں لوگوں کو سناتا چلا جاتا ہے، کچھ اور لوگ تھے جو یہ کہ کر مطمئن ہو جاتے تھے کہ اس کے نفس میں ہوا و ہوس پیدا ہو گئی اور اس نے چاہا کہ میں بھی بڑا آدمی بن جاؤں اس لئے یہ ایسی باتیں کہہ رہا ہے.ان کی تین خیالات کا ایک ہی رڈ ان آیات میں کیا گیا ہے فرماتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ضلالت پر نہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ایک ستارہ اوپر سے نیچے آیا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غوائت پر نہ ہو نیکا ثبوت یہ ہے کہ ایک ستارہ اوپر سے نیچے آیا ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوا و ہوس میں مبتلاء نہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ایک ستارہ اوپر سے نیچے آیا.وہ
۲۹۰ کون سا ستارہ ہے جو اوپر سے نیچے آیا، اور وہ کونسا ستارہ ہے جس کے نیچے آنے کی وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضال نہیں ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غاوی نہیں ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نَاطِقِ عَنِ الْهَوَىی نہیں جب تک ہم وہ ستارہ پیش نہ کریں ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کم از کم اس اعتراض سے جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے بچا نہیں سکتے.احادیث نبویہ میں آخری زمانہ کی خرابیوں کا ذکر اس نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم احادیث کو دیکھتے ہیں تو ہمیں وہاں سے اس امر کے متعلق بعض معلومات میسر آتی ہیں چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ میری اُمت پر ایسا آنے والا ہے جب اسلام مٹ جائے گا اور اس کی ایسی حالت ہو جائیگی کہ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسُمُهُ اور قرآن کریم کی صرف تحریر باقی رہ جائیگی.اس کا مضمون لوگوں کے دلوں سے محو ہو جائے گا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی تو صحابہ کرام گھبرائے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! اس کا علاج کیا ہے اُس وقت سلمان فارسی آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے ان پر ہاتھ رکھا اور فرمایا لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ القُرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِنْ هَؤُلَاءِ که اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تب بھی ان فارسی الاصل لوگوں میں سے ایک شخص ایسا پیدا ہو گا جو پھر آسمان سے ایمان اور قرآن کو واپس لے آئے گا.آسمان روحانی کے ایک ستارہ کی خبر اس پیشگوئی میں آسمان روحانی کے ایک ستارہ کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس سے مراد وہ انسان ہے جو ثریا سے ایمان کو واپس لائے گا.قرآن کریم نے تو صرف اتنا بتا یا تھا کہ آسمان سے ستارہ آئے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا کہ جب دنیا ظلمت اور تاریکی میں مبتلاء ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ ایک ایسے انسان کو مبعوث فرمائے گا جو ثریا سے ایمان کو واپس لے آئے گا، گویا ان معنوں کی رو سے إِذَا هَوای تقلیب نسبت کا رنگ رکھے گا جیسے ہماری زبان میں عام طور پر یہ کہتے ہیں کہ پر نالہ چلتا ہے، لیکن کیا کبھی
۲۹۱ پر نالہ چلتے کسی نے دیکھا ہے، پر نالہ نہیں چلتا پانی چلتا ہے.یا لوگ کہتے ہیں ناک بہتا.آنکھیں بہتی ہیں؟ کان بہتا ہے تو کیا واقع میں کان بہا کرتا ہے یا ناک بہتا ہے یا آنکھیں بہتی ہیں ، آنکھوں میں سے پانی بہتا ہے، ناک میں سے پانی بہتا ہے، کان میں سے پانی بہتا ہے مگر کہا یہ جاتا ہے کہ آنکھ بہتی ہے یا ناک بہتا ہے یا کان بہتا ہے.یہ تقلیب نسبت ہوتی ہے یعنی ایک چیز کی جگہ بعض دفعہ دوسری چیز کا نام لے لیتے ہیں یا کہتے ہیں یہ چیز خدا نے میرے قریب کر دی اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں اُس چیز کے قریب ہو گیا.اس نقطہ نگاہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس انسان کا ذکر کرتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِّنْ هَؤُلَاءِ کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو وہ شخص اسے واپس لے آئے گا ، قرآن کریم نے تقلیب نسبت کے طو پر اُس کا ان الفاظ میں ذکر کر دیا ہے کہ ایک ستارہ اوپر سے نیچے آئے گا جیسے کان میں سوزش ہوتی ہے اور اُس کی وجہ سے رطوبت بہتی ہے تو ہم کہتے ہیں ہمارے کان بہتے ہیں حالانکہ کان نہیں بہہ رہے ہوتے ، کانوں سے رطوبت بہہ رہی ہوتی ہے اسی طرح قرآن کریم نے تو یہ فرمایا کہ وَالنَّجْمِ إِذَا هَوای آسمان سے ایک ستارہ آئے گا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ تشریح فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرستادہ آئے گا جو ایمان کو ثریا سے واپس لے آئے گا اور پھر قلوب کو نو را ایمان سے بھر دیگا.ایک شبہ کا ازالہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہم قرآن کریم کے لفظوں کو کیوں نہ ترجیح دیں اور کیوں نہ یہ سمجھیں کہ کوئی ستارہ ہی آسمان سے گرے گا کسی خاص آدمی کی تخصیص کیوں کی جاتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جب احادیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تشریح کر دی تو ہمارا فرض ہے کہ ہم قرآن کریم کے ان الفاظ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ روشنی میں دیکھیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک ایسا انسان آئے گا جو ثریا سے ایمان واپس لائے گا اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ وَالنَّجْمِ اذاهوای پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معین رنگ میں ایک تشریح فرما دی تو اب ہمارا یہ حق نہیں کہ ہم اس تشریح کو نظر انداز کر دیں ، ایسا کرنا ہمارے لئے کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا.مگر اس حدیث کے ایک اور معنے بھی ہو سکتے ہیں اور وہ یہ کہ قرآن کریم تو نجم کی نسبت ھوی کا لفظ استعمال فرماتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ مسیح ثریا کو زمین
۲۹۲ یر کھینچ لائے گا جو دشمنوں کے لئے ہلاکت اور دوستوں کے لئے ایمان لانے کا موجب ہوگا.شیاطین پر ہمیشہ شہاب مبین گرا کرتا ہے قرآن کریم میں یہ مضمون مختلف مقامات پر تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے.سورۃ حجر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَّزَيَّتْهَا لِلنَّظِرِينَ وَحَفِظْنَهَا مِنْ كُلِّ شَيْطنٍ رَّحِيمٍ إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُّبِينٌ یعنی ہم نے اس دنیا میں ایک دینی نظام بھی قائم کیا ہوا ہے جس طرح مادی آسمان میں تمہیں مختلف ستارے دکھائی دیتے ہیں اسی طرح اس دینی نظام میں بھی ہم نے ستارے بنائے ہیں اور اسے ہر قسم کے شیطانوں کی دست برد سے بچایا ہے إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُّبِينٌ مگر جب کبھی بے دین کی کوئی روح غالب آنے لگے تو آسمان سے ایک حقیقت ظاہر کرنے والا روشن ستارہ گرتا ہے جو جھوٹ کا پول کھول دیتا ہے اِسْتَرَقَ السَّمْعَ کے معنے عام طور پر یہ کئے جاتے ہیں کہ جو آسمان کی باتیں سنتا ہے حالانکہ آسمان کی باتیں سننے کا تو حکم ہے اور پھر وہ ہوتی ہی سنانے کے لئے ہیں، اس لئے اس کے یہ معنے نہیں ہو سکتے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کبھی دنیا میں خدا تعالیٰ کی باتوں کو بگاڑ کر پیش کیا جاتا ہے اور دنیا میں فساد واقع ہو جاتا ہے اُس وقت آسمان سے ایک ستارہ گر ا کرتا ہے جو پھر صداقت کو دنیا میں قائم کر دیتا ہے اور بگڑی ہوئی مخلوق کو درست کر دیتا ہے.مجددین کی بعثت کی خبر اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کونسا ستارہ ہے جو اس موقع پر گرا کرتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کیا تشریح کی ہے؟ اس غرض کے لئے جب ہم احادیث کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اُن میں یہ ارشاد نظر آتا ہے کہ اِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأسِ كُلّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِيْنَهَا " یعنی میری امت کے لئے اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر ایک ایسا شخص مبعوث فرما یا کرے گا جو امت کی خرابیوں کو دور کرے گا اور دین کا از سر نو احیاء کرے گا گویا جس چیز کو قرآن کریم نے شہاب مبین قرار دیا ہے ، اُس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روحانی انسان قرار دیا ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ جب کبھی دنیا میں خرابی پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی باتوں کو بگاڑ کر پیش کیا جاتا ہے اُس وقت آسمان سے ایک ستارہ گرا کرتا ہے جو مبین ہوتا ہے، یعنی
۲۹۳ چاروں طرف اس کے ظہور سے روشنی ہو جاتی ہے اور لوگوں پر دین کی حقیقت واضح ہو جاتی کی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہر صدی کے سر پر اللہ تعالیٰ ایک ایسا آدمی میری امت میں مبعوث کیا کرے گا جو يُجَدِّدُلَهَا دِينَهَا دین کی خرابیوں کو دُور کرے گا اور اسلام کی تجدید کرے گا گویا وہی چیز جس کا نام قرآن کریم نے شہاب مبین رکھا تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کا نام مجد درکھا.ہر نبی ایک شہاب ہے مگر محمد رسول اللہ اس تشریح کے ماتحت ہم کہہ سکتے ہیں کہ نشہاب مبین سے مراد ہمیشہ وقت کا نبی اور مجد د ہوتا ہے جو صلی اللہ علیہ وسلم شہاب مبین ہیں شیطان کی ہلاکت کا موجب ہوتا ہے اور دین کو ہر قسم کی رخنہ اندازیوں سے پاک کر دیتا ہے، لیکن اس نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کا ہر نبی ایک شہاب ہے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ شہاب مبین بھی ہے کیونکہ وہ لوگ جو دین میں رخنہ اندازی کرتے ہیں ان کی ہلاکت اور بربادی کا وہ اس وقت موجب نہیں ہیں، یہ کام صرف وقت کا نبی یا مجد د کر سکتا ہے اور یا پھر وہ نبی کر سکتا ہے جس کی نبوت قیامت تک زندہ ہو اور جس کی شریعت ہر زمانہ میں قابل عمل ہو.اس لحاظ سے گو ہر مجد د اور ہر نبی ایک شہاب ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہاب مبین ہیں، کیونکہ آپ صرف نبی ہی نہیں بلکہ خاتم النبین بھی ہیں اور آپ کی نبوت قیامت تک زندہ ہے.اب جو شخص بھی دین کے احیاء کے لئے مبعوث ہو گا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہو گا ، آپ سے الگ ہو کر اور آپ کی غلامی سے انکار کرتے ہوئے کوئی شخص اس منصب پر فائز نہیں ہوسکتا.آسمانی باتیں سننے کے معنے اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے تو یہ فرمایا ہے کہ جب کوئی میری باتیں سنتا ہے یا آسمان کی باتیں سنتا ہے تو اس پر ایک شہاب گرتا ہے جو اُسے تباہ کر دیتا ہے، حالانکہ قرآن کریم نے ہی آسمانی باتوں کے سننے کا ہم کو حکم دیا ہے پھر یہ کہنا کہ جو آسمانی باتیں سنتا ہے اس پر ستارہ گرتا ہے ایک بے معنی سی بات ہو جاتی ہے.اس سوال کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ یہاں خالی آسمان کی باتیں سننے کا ذکر نہیں بلکہ اِسْتَرَقَ السَّمعَ کا ذکر ہے اِسْتَرَقَ ، سَرَق سے نکلا ہے جس کے معنے چوری کے ہوتے ہیں اور اِسْتَرَق السَّمْعَ کے معنے چوری چھپے سننے کے ہیں.
۲۹۴ پس اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ وہ شخص جو الہی جماعت میں داخل ہو کر اس کے کلام کو کھلے بندوں سنتا ہے ، جماعت حقہ میں اپنے آپ کو شامل کر لیتا ہے اور اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ دین کی اشاعت کرے اور بھولے بھٹکوں کو راہِ راست پر لائے وہ اللہ تعالیٰ کی تائید سے حصہ لیتا ہے لیکن وہ لوگ جن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی باتوں کو سننے کے بعد انہیں بگاڑ کر پیش کریں اور لوگوں کو دھوکا اور فریب میں مبتلاء کریں یا وہ منافق جو اس لئے کسی سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں کہ اُس مشن کو نقصان پہنچا ئیں اور آسمانی کلام کے اُلٹ پلٹ معنے کر کے لوگوں میں بے ایمانی پیدا کریں، ان کے لئے آسمان سے ہمیشہ ایک شہاب گرا کرتا ہے، ایسے لوگ ج بھی کسی فتنہ کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور ان کا فتنہ ایسا رنگ اختیار کر لیتا ہے جو دین کے لئے ضعف کا موجب ہو تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کسی مامور یا مصلح یا مجد دوقت کو ان کی بیخ کنی کے لئے کھڑا کر دیتا ہے جو شہاب بن کر ان پر گرتا ہے اور منافقت کفر وارتداد کے خیالات کا قلع قمع کر دیتا ہے.شرارتوں کا قلع قمع کرنے کے لئے آسمانی تدبیر اس حقیقت کو اللہ تعالٰی نے سورۃ جن میں بھی بیان فرمایا ہے وہ فرماتا ہے.وَاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدُلَهُ شِهَابًا رَّصَدًا ١٣ یعنی اس سے پہلے تو ہم آسمان سے سننے کی جگہوں پر بیٹھا کرتے تھے مگر اب تو جو شخص بھی آسمان کی باتیں سننے کے لئے جاتا ہے اس پر آسمان سے ایک ستارہ گرتا ہے.یہاں بھی وہی مضمون بیان کیا گیا ہے جو اس سے پہلی آیات میں بیان کیا جا چکا ہے یعنی جب شرارت کرنے والے دین کی باتیں بگاڑ کر پیش کرتے ہیں اور لوگوں کو غلط فہمیوں میں مبتلاء کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی شرارتوں کے انسداد کے لئے آسمان سے ایک نور نازل کرتا ہے مسلمانوں نے غلطی سے ان آیات کا یہ مفہوم سمجھ لیا ہے کہ شیطان آسمان پر جاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی باتیں سُن لیتا ہے، حالانکہ قرآن کریم نے متعدد مقامات میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ شیطان آسمان کی باتیں سُن نہیں سکتا اس نے یہاں تک کہا ہے کہ اِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْرُولُونَ " شیطان آسمانی کلام کے سننے کی طاقت ہی نہیں رکھتے کیونکہ خدا تعالیٰ نے انہیں ان
۲۹۵ باتوں کے سننے سے محروم کیا ہوا ہے، اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَمُ لَهُمْ سُلَّمْ يَسْتَمِعُونَ فِيهِ فَلْيَاتِ مُسْتَمِعُهُمْ بِسُلْطَنٍ مُّبِينٍ ها کیا ان کے پاس کوئی ایسی سیڑھی ہے جس کے ذریعہ سے وہ آسمان پر جا کر خدا تعالیٰ کی باتیں سُن سکتے ہیں ، اگر ان میں کوئی اس امر کا مدعی ہے کہ وہ آسمان پر گیا اور اس نے خدا تعالیٰ کی باتیں سنیں تو وہ اپنے دعوی کا ثبوت پیش کرے.کفار اور منافقین کی عادت ان آیات سے ظاہر ہے کہ آسمان پر جا کر باتیں سننا تو الگ رہا وہاں تک کسی کے جانے کی اہلیت بھی قرآن کریم نے تسلیم نہیں کی.پس در حقیقت اس جگہ آسمانی باتیں سننے کے معنے یہ ہیں کہ کفار اور منافقین کی عادت یہ ہے کہ وہ سچے دین کی باتوں کو اس نقطہ نگاہ سے سنتے ہیں اور اس لئے ان کو سیکھتے ہیں کہ وہ ان سے نئے نئے اعتراض پیدا کریں گے اور ان میں اپنی طرف سے جھوٹ ملا کر لوگوں کو برانگیختہ کریں گے.یہ معنے نہیں کہ وہ عرش پر جا کر اللہ تعالیٰ کی باتوں کو سُن لیتے ہیں ، خدا تو خدا کی ہے اس دنیا کے معمولی معمولی بادشاہوں کے پاس پھٹکنے کی بھی لوگوں میں طاقت نہیں ہوتی اور وہ کی ان کے قرب میں جانے سے گھبراتے اور لرزتے ہیں، مگر عجیب بات یہ ہے کہ مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ شیطان آسمان پر جاتا ہے اور وہ ملا اعلیٰ اور جبرائیل اور عرش کی باتوں کو سُن کر زمین پر آ جاتا ہے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ - شیطان کی طاقت ہی کہاں ہے کہ وہ آسمان کی کوئی بات سُن سکے ، ہاں وہ لوگ جو شیطان کے مثیل ہوتے ہیں جنہوں نے ابلیسی جامہ زیب تن کیا ہو ا ہوتا ہے وہ بے شک آسمان کی باتیں سنتے ہیں اور انہیں ایسے رنگ میں بگاڑ کر پیش کرتے ہیں کہ دنیا میں ایک فتنہ برپا ہو جاتا ہے.چنانچہ دیکھ لو اس زمانہ کا پادری و ہیری قرآن کریم پڑھتا ہے وہ ایک مولوی کو ملازم رکھتا ہے، اس سے قرآنی تعلیم حاصل کرتا ہے اور پھر لدھیانہ میں ہیں سال تک کام کرتا ہے اور اس عرصہ میں قرآن کریم کی ایک تفسیر شائع کرتا ہے ، وہ اس کا نام تفسیر قرآن رکھتا ہے مگر اُسے پڑھا جائے تو وہ اسلام کے خلاف ہر قسم کے اعتراضات سے بھری ہوئی ہے.قرآن کریم ایک آسمانی کتاب ہے زمینی نہیں ، قرآن کریم سننے کے لئے انسان کو آسمان کی طرف کان رکھنا پڑتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس لئے آسمان کی طرف کان رکھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آواز کو سنیں اور اُس پر عمل کریں.اور شیطان اس لئے کان رکھتے ہیں کہ آسمانی باتوں کو سنیں اور ان پر اعتراض کریں.فرماتا ہے جب بھی ایسے لوگ دنیا
۲۹۶ میں پیدا ہو جائیں گے جو دین پر اعتراض کرنے والے ہوں اور ان کی وجہ سے مذہب میں کئی خرابیاں واقع ہو جائیں اور دلوں میں گندے خیالات ڈیرا جمالیں تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ آسمان سے ایک ستارہ بھیجے گا جو ظلمت کو دور کر دے گا اور پھر لوگوں کے دلوں میں ایمان اور اخلاص پیدا کرے گا.عالم روحانی کے کواکب اسی طرح سورہ الصفت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّازَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةِ بِالْكَوَاكِبِ وَحِفْظاً مِّنْ كُلِّ شَيْطَنٍ مَّارِدٍ لَا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلِدِ الْأَعْلَى وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلّ جَانِبِ - دُحُورًا وَّلَهُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَاتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ فرماتا ہے ہم نے دنیوی آسمان کو ستاروں سے مزین کیا ہے تا کہ ہر شیطان جس کو اللہ تعالیٰ روکنا چاہتا ہے ، اس کے حملہ سے محفوظ رکھے وہ ملاء اعلیٰ کی بات نہیں سن سکتے ، ان پر ہر طرف سے پتھراؤ ہوتا ہے اور اس کے علاوہ انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم رہنے والا عذاب ملے گا.اس کے بعد فرماتا ہے وہ آسمان کی کوئی بات سُن تو نہیں سکتے لیکن اگر کوئی بات اُچک کر لے جائیں تو ان کے پیچھے ایک چمکتا ہو اشہاب جاتا ہے اور انہیں تباہ کر دیتا ہے.یہ امر یا د رکھنا چاہئے کہ اس جگہ کو ا کب سے مادی اور روحانی نظام میں شدید مشابہت ظاہری ستارے اور سورج وغیرہ مراد نہیں بلکہ عالم رُوحانی کے کواکب مراد ہیں جن سے دینی نظام کو مزین کیا گیا ہے.قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں دو نظام پائے جاتے ہیں ایک روحانی نظام ہے اور ایک مادی.اور ان دونوں نظاموں میں ایک شدید مشابہت پائی جاتی ہے جس طرح زمین کے رہنے والوں کو اپنے سروں پر ایک آسمان نظر آتا ہے اور اس میں ستاروں کا ایک نظام موجود ہے جو اپنے اپنے دائرہ میں کام کر رہے ہیں اور اس نظام کو بدلنے کی کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا اسی طرح روحانی نظام بھی اللہ تعالیٰ نے نہایت مضبوط بنیادوں پر قائم کیا ہوا ہے اور جسمانی نظام کی طرح وہ بھی کئی طبقوں میں منقسم ہے اوپر کے طبقے تو محفوظ ہی ہیں السَّمَاءَ الدُّنْیا جس میں شرارت کا امکان ہوسکتا تھا، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسے بھی ہم نے ستاروں سے مزین کیا ہے اور اس کے ذریعہ اس آسمان کی حفاظت کی ہے.ستارے اور چاند جو اس مادی دنیا میں ہمیں دکھائی دیتے ہیں یہ نہ تو گرتے ہیں اور نہ ان کے ذریعہ ایسی کوئی تباہی آتی ہے جو شیاطین
۲۹۷ کے لئے ہلاکت کا موجب ہوتی ہو.اس جگہ جن ستاروں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے خدا تعالیٰ کے نبی مجد داور نیک بندے مراد ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن سے روحانی آسمان کی زینت ہے.یہ لوگ اس لئے کھڑے کئے جاتے ہیں کہ جب شیاطین اس روحانی نظام میں رخنہ ڈالیں تو وہ ان کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہو جائیں اور انہیں اپنی کوششوں میں نا کام کر دیں.آدم سے لے کر اب تک کبھی بھی ظلمت کا کوئی دور ایسا نہیں آیا جس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے رُشد اور ہدایت کے لئے کوئی مأمور نہ آیا ہو.ایک معزز وکیل سے گفتگو ابھی گزشتہ دنوں میں سندھ میں تھا کہ وہاں ایک وکیل مجھ سے ملنے کے لئے آئے ، وہ پُرانے شاہی خاندان میں سے تھے.باتوں باتوں میں میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں نوے فیصدی خاکسار ہوں.میں نے کہا نوے فیصدی کس طرح ؟ انہوں نے کہا اس لئے کہ خاکساروں کی باتیں تو میں ٹھیک سمجھتا ہوں لیکن لیڈر پر مجھے بدظنی ہے اس لئے دس فیصدی کی گنجائش میں نے رکھ لی ہے.پھر میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ آدم سے لے کر اب تک دنیا میں جب کبھی خرابی پیدا ہوتی رہی ہے کیا اس کا ازالہ کبھی کسی دنیوی لیڈر نے کیا ہے؟ میں نے کہا آج ہر جگہ مسلمانوں کی حالت خراب ہے آپ ایک مثال ہی مجھے بتا دیں کہ دنیا میں کبھی ایسی خرابی پیدا ہوئی ہو اور اس کے دُور کرنے کے لئے کوئی انجمن قائم کی گئی ہو اور وہ کامیاب رہی ہو یا کسی خود ساختہ لیڈر نے اس کو دور کر دیا ہو.آخر ہزاروں سال کی تاریخ ہمارے سامنے ہے، آپ بتائیں کہ مثلاً نوح کے زمانہ میں خرابی پیدا ہوئی اور اُس وقت فلاں مجلس کی طرف سے فلاں لیڈر کھڑا کیا گیا اور اس نے اس خرابی کو دور کر دیا ، موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں خرابی پیدا ہوئی اور اسے فلاں فلاں دنیوی لیڈر نے مٹا دیا.قرآن کریم جہاں بھی مثال دیتا ہے مامور کی دیتا ہے وہ یہی کہتا ہے کہ ہم نے اپنی طرف سے ایک مامور بھیجا اور اُس نے دنیا کی اصلاح کی.اگر اس کے خلاف کوئی مثال ہو تو آپ پیش کریں.کہنے لگے مثال تو کوئی نہیں ، میں نے کہا لوگ خواہ کتنی ٹکریں ماریں جب بھی عالمگیر خرابی پیدا ہوگی اس کا مداوا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوگا.دنیا کی تدبیروں سے دنیا ٹھیک ہو سکتی ہے، حکومتیں بن سکتی ہیں، تعلیمی ترقی حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن مذہب کی طرف منسوب کئے ہوئے غلط خیالات تبھی دُور ہو سکتے ہیں جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ما مور مبعوث ہو.
۲۹۸ ہے، وہ علماء یہ کام نہیں کر سکتے وہ لوگوں کے مقابلہ سے ڈرتے ہیں ان میں یہ جرات ہی نہیں ہوتی کہ وہ کسی ایک مسئلہ ہی کو منوا سکیں، کُجا یہ کہ سر سے لے کر پیر تک خرابی واقع ہو چکی اور پھر یہ خیال کیا جائے کہ کوئی عالم یا صوفی یا گدی نشین اس خرابی کو دور کر دے گا.اب تک خدا تعالیٰ کا یہی طریق نظر آتا ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنی طرف سے کسی کو مبعوث کیا اور وہ دنیا کی راہنمائی اور ہدایت کا موجب بنا.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ایسی عالمگیر خرابی کے زمانہ میں خدا ہر شخص کے کان میں آ کر کہے کہ تیرے اندر یہ یہ شخص پایا جاتا ہے.اس کا طریق یہی ہے کہ وہ ایک مامور مبعوث فرماتا.ينقص : اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچاتا ہے.کچھ لوگ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور پھر ان کی تبلیغ کے ذریعہ سے آہستہ آہستہ اور آدمی اس سلسلہ میں داخل ہوتے چلے جاتے ہیں.عمارت کا کوئی ایک حصہ خراب ہو تو اس کی مرمت کی جا سکتی ہے، لیکن جب چھت میں بھی نقص پیدا کر دیا جائے دیواروں میں بھی نقص پیدا کر دیا جائے ، فرش میں بھی نقص پیدا کر دیا جائے ، الماریوں میں بھی نقص پیدا کر دیا جائے ، دروازوں میں بھی نقص پیدا کر دیا جائے تو اُس وقت اس کی اصلاح کسی ایسے شخص کے ذریعہ ہی کی جاسکتی ہے جو پورا انجینئر ہو.عالمگیر خرابی واقع ہونے پر خدائی سنت غرض قرآن کریم بار بار اس مضمون کو بیان فرماتا ہے کہ جب کبھی دنیا میں خرابی واقع ہوتی ہے آسمان سے ایک ستارہ گرتا ہے فرماتا ہے وَالنَّجْمِ إِذَاهَوى مَاضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَاغَوى ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ثبوت میں ایک ستارہ کو پیش کرتے ہیں جب وہ ستارہ گرے گا دنیا پر ثابت ہو جائے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ضالّ ہیں نہ عَماوِی اور نہ نَاطِقُ عَنِ الْهَوای ہیں بلکہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہہ رہے ہیں.پیشگوئیوں میں استعارات کا استعمال قرآن کریم ایک الہامی کتاب ہے اور الہامی زبان میں نازل ہوئی ہے مگر مسلمانوں کو یہ ایک عجیب غلطی لگی ہوئی ہے کہ وہ الہامی باتوں کا ترجمہ اپنی زبانوں میں کرتے ہیں حالانکہ وہ باتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں یا موسیٰ علیہ السلام کہیں یا عیسی علیہ السلام کہیں بہر حال جب بھی وہ آئندہ کے متعلق کوئی بات کہیں گے پیشگوئی ہی ہو گی اور پیشگوئی تمثیلی رنگ میں ہوا کرتی ہے دکھایا اور شکل میں جاتا ہے اور ظاہر اور شکل میں ہوتا ہے.
۲۹۹ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رویا میں انگوروں کا ایک خوشہ دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ ابو جہل کے لئے ہے.آپ نے یہ رویا دیکھی تو گھبرا کر آپ کی آنکھ کھل گئی کہ ابو جہل کے لئے جنت سے انگوروں کا خوشہ آنے کے کیا معنے ہیں؟ مگر بعد میں جب اس کا بیٹا عکرمہ مسلمان ہو گیا تب اس خواب کی حقیقت آپ پر ظاہر ہوئی اور آپ نے فرمایا ابوجہل کے لئے جنت کے انگوروں کا خوشہ بھجوانے کی تعبیر یہ تھی کہ اس کا بیٹا مسلمان ہو جائے گا.آپ کو دکھایا گیا کہ آپ ایک مقام کی طرف ہجرت کریں گے جہاں کثرت سے کھجوروں کے درخت ہوں گے آپ کا ذہن نخلہ مقام کی طرف گیا کہ غالباً وہاں ہجرت مقدر ہے اسی لئے آپ طائف بھی تشریف لے گئے تھے مگر وہاں کے لوگوں نے آپ کی شدید مخالفت کی پتھروں سے آپ زخمی ہوئے اور کوئی شخص آپ کے دعوئی پر غور کرنے کے لئے تیار نہ ہوا.یا مثلاً ایک صحابی کے ہاتھ میں آپ نے کسری شاہ ایران کے کنگن دیکھے جس کی تعبیر یہ تھی کہ کسریٰ کی حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونے والی ہے مگر دکھا یا یہ گیا کہ کسری کے کنگن ایک شخص نے پہنے ہوئے ہیں.اسی طرح آپ نے دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں خزائن الأرض کی چابیاں دی گئی ہیں ، مگر یہ چابیاں آپ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں آئیں.پھر آپ کو بتایا گیا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی بیویوں میں سے سب سے پہلے لمبے ہاتھوں والی بیوی فوت ہوگی.آپ کی بیویوں نے یہ بات سنی تو انہوں نے فوراً اپنے ہاتھ ناپنے شروع کر دیئے کہ دیکھیں سب سے لمبے ہاتھ کس کے ہیں ؟ انہیں معلوم ہو ا کہ سب سے لمبے ہاتھ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے ہیں مگر جب وفات ہوئی تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی ہوئی تب معلوم ہوا کہ لمبے ہاتھوں سے مراد ظاہری ہاتھوں کی لمبائی نہیں تھی بلکہ یہ سخاوت کی طرف اشارہ تھا.عربی محاورہ کے مطابق جب کسی کو لمبے ہاتھ والا کہا جائے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ بہت بڑا سخی ہے.حضرت زینب رضی اللہ عنہا چونکہ تمام بیویوں میں سے سب سے زیادہ سخی تھیں اس لئے پیشگوئی کے مطابق سب سے پہلے انہی کا انتقال ہوا.علم تعبیر الرؤیا کے رو سے ثریا کا مفہوم اسی طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِندَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِّنْ هَؤُلَاءِ تو ایمان کسی تفصیلی کا نام نہیں تھا جو ثریا سے لٹکی ہوئی ہو یا ثریا کوئی بنگ کی والٹ (VAULT)
نہیں تھا جس میں ایمان کو محفوظ رکھا جانا تھا.بہر حال یہ ایک تمثیلی کلام تھا اور اس لفظ کا استعمال استعارہ کے رنگ میں ہو ا تھا پس ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ اگر خواب میں کوئی ثریا دیکھے تو اس کی کیا تعبیر ہوا کرتی ہے.اس غرض کے لئے جب ہم تعطیر الا نام کو دیکھتے ہیں جو الشیخ عبد الغنی النابلسی رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ہے اور علم تعبیر الرؤیا کی نہایت معتبر اسلامی کتاب ہے تو اس میں ہمیں یہ لکھا ہوا نظر آتا ہے کہ هِيَ فِي الْمَنَامِ رَجُلٌ حَازِمٌ فِي الْأُمُورِ یعنی ثریا سے مراد ایسا آدمی ہوتا ہے جو اپنے تمام کام نہایت خوش اسلوبی اور کامیابی کے ساتھ سرانجام دینے والا ہو.اسی طرح ابن سیرین جو مشہور تابعی گزرے ہیں اپنی کتاب منتخب الکلام فی تفسیر الاحلام میں لکھتے ہیں کہ هُوَرَجُلٌ حَازِمُ الرَّأْيِ يَرَى الْأُمُورَ فِي الْمُسْتَقْبِلِ ^ یعنی ثریا سے مراد ایسا انسان ہوتا ہے جو نہایت پختہ اور صحیح رائے رکھنے والا ہو، اور آئندہ زمانہ میں رونما ہونے والے واقعات کو بھی اپنی روحانی بصیرت سے دیکھ لیتا ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی ان معنوں کے لحاظ سے ثریا سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے اُن تمام افاضہ کے نتیجہ میں مسیح موعود کا ظہور فرائض کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے سپر د کئے گئے تھے انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دیا اور ہمیشہ کامیابیوں اور کامرانیوں نے آپ کے قدم چومے.لیکن چونکہ آپ نے ہمیشہ زندہ نہیں رہنا تھا اور زمانہ نبوت سے بُعد کی وجہ سے لوگوں نے کئی قسم کی خرابیوں میں مبتلاء ہو جانا تھا جن کو دُور کرنے کے لئے کسی آسمانی راہنما کی ضرورت تھی اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی فرمائی کہ اگر کسی وقت ایمان سمٹ کر ثریا تک بھی چلا گیا یعنی دنیا میں گمراہی پھیل گئی اور ایمان صرف آپ کی ذات تک محدود رہ گیا تو اُس وقت پھر اللہ تعالیٰ آپ کے روحانی افاضہ کے نتیجہ میں ایک ایسا انسان مبعوث فرمائے گا جو آپ سے فیض اور برکت پا کر ایمان دنیا میں قائم کر دے گا اور کفر کی تاریکیوں کو پھاڑ دے گا یہی وجہ ہے کہ مسیح موعود کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل شاگرد ہونے کی وجہ سے ثریا قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس نے بھی ظلمت کو دور کرنا تھا اور اسلام کا نور دنیا میں پھیلانا تھا چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کو النجم کہا ہے جس کے معنے ثریا کے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرماتے ہیں کہ اصحابی کالنجوم و میرے سب صحابہ نجوم کی مانند ہیں، پس اس حدیث نے اس طرف اشارہ کر دیا کہ مسیح موعود بھی
صحابہ میں سے ہو گا اور وہ بھی آپ کے شاگردوں اور غلاموں میں شامل ہوگا.اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے تمام اہم امور کا فیصلہ آسمان پر ہوتا ہے مطابق تمام بڑے اور اہم کام آسمان سے ہی ظاہر ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ جب بھی کوئی بڑا تغیر رونما ہونے والا ہوتا ہے تو اس کے متعلق پہلا فیصلہ آسمان پر ہوتا ہے اور اس کے بعد اس کا زمین پر ظہور ہوتا ہے.حدیثوں میں صاف طور پر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب کوئی بڑا کام کرنا ہوتا ہے تو پہلے وہ اپنے مقرب فرشتوں کو بتاتا ہے کہ میرا یہ ارادہ ہے.وہ فرشتے اپنے سے نچلے طبقہ کے فرشتوں کو اطلاع دیتے ہیں وہ اپنے سے نچلے طبقہ کے فرشتوں کو اطلاع دیتے ہیں یہاں تک کہ ہوتے ہوتے اُس کا دنیا میں ظہور شروع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے جس بندہ کے متعلق چاہتا ہے اُس کی مقبولیت کو دنیا میں پھیلا دیتا ہے.غرض جتنے بڑے کام ہوتے ہیں سب آسمان پر ہوتے ہیں زمین پر نہیں ہوتے.صرف زمین پر تغیرات ہونے کا عقیدہ ان لوگوں کا ہے جو د ہر یہ ہیں ورنہ خدا تعالیٰ کے ماننے والے تو جانتے ہیں کہ ہر بات کا فیصلہ پہلے آسمان پر ہوتا ہے اور پھر اس کا زمین پر ظہور ہوتا ہے گویا اگر ہم تمثیلی زبان اختیار کریں اور دنیا کو ایک تھیٹر کا ہال سمجھ لیں تو ڈرامہ آسمان پر لکھا جاتا ہے اور کھیل دنیا کے پردہ پر کھیلا جاتا ہے جب تک آسمان پر کوئی ڈرامہ نہیں لکھا جا تا زمین پر وہ کھیل نہیں کھیلی جاتی.میں سمجھتا ہوں اس محمد رسول اللہ اور مسیح موعود بھی آسمان سے ہی نازل ہوئے ہیں بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلمانوں کو غلطی لگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آنے والا مسیح آسمان سے اُترے گا اور قرآن کریم نے فرمایا تھا کہ وَالنَّجْمِ اِذَاهَوای ایک ستارہ آسمان سے اُترے گا اور ظلمت کا قلع قمع کر دے گا.اور یہ بالکل سچی بات ہے ہم بھی اپنی زبان میں کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس زمانہ میں جو اعتراضات ہوئے اُن کو دُور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے آسمان سے مسیح موعود کو بھیجا، کیونکہ وہ شخص جو دنیا میں اپنے ماں باپ کے گھر پیدا ہو اوہ مرزا غلام احمد قادیانی تھا مسیح موعود نہیں تھا جب وہ چالیس سال کی عمر کو پہنچا تو خدا تعالیٰ نے اسے مسیح موعود بنا دیا اور تب وہ گویا آسمان سے نازل ہوا.اسی طرح عرب کی سرزمین میں آمنہ کے گھر میں پیدا ہونے والا محمد تھا لیکن محمد رسول اللہ آسمان سے ہی آیا چنانچہ
قرآن کریم اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ قَدْ اَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمُ ذِكْرًا رَّسُولًا يَتْلُوا عَلَيْكُمُ ايتِ اللهِ مُبَيِّنَتٍ لِيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّور یہ آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کرتی اور آپ کے آسمان سے نازل ہونے کو ظاہر کرتی ہے اگر مسیح پیدا ہوتا تو ضروری تھا کہ اس کے ماں باپ بھی اپنے اندر سیحی صفات رکھتے.اور اگر آمنہ کے گھر میں خاتم النبین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوتا تو ضروری تھا کہ منصب رسالت سے تعلق رکھنے والے علوم آمنہ میں بھی پائے جاتے ، انہوں نے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا اور خدا تعالیٰ نے چالیس سال کے بعد اسی محمدؐ کو ایک دوسرا روحانی جُبہ پہنا کر رسول اللہ اور خاتم النبین بنا دیا اور اس طرح گویا اُن کو آسمان سے نازل فرمایا.حقیقت یہ ہے کہ مرزا غلام احمد جو قادیان کے رہنے والے تھے اُن کی یہ حیثیت ہی نہیں تھی کہ وہ دنیا میں کوئی روحانی انقلاب پیدا کر سکتے.نہ مکہ یا از ہر کا کوئی عالم اتنے بڑے بگاڑ کے وقت یہ کام کر سکتا تھا یہ کام محض آسمان سے اُترنے والے کیا کرتے ہیں اور مسیح موعود زمین پر نہیں بنا بلکہ آسمان سے اُترا.ماں باپ نے آپ کا نام غلام احمد رکھا لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کا نام مسیح اور مہدی رکھا اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آسمان سے مسیح موعود نازل ہوا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آسمان سے مہدی معہود اترا.الطَّارِق اور النَّجْمُ النَّاقِب میں مسیح موعود کی پیشگوئی اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ بھی بیان فرمایا ہے وہ فرماتا ہے وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ وَمَا أَدْراكَ مَا الطَّارِقُ - النَّجْمُ الطَّاقِبُ ٢٣ یعنی ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں رات کے آنے والے کو اور تمہیں کیا پتہ کہ وہ رات کو آنیوالا کون ہے؟ وہ ایک چمکنے والا ستارہ ہے نجم کے معنے عام ستارہ کے بھی ہیں اور ثریا کے بھی ہیں پس اس آیت میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ایک ظلمت اور تاریکی کا زمانہ اسلام پر آنے والا ہے.اُس وقت ایک رات کو آنے والا آئے گا اور لوگوں کے دروازہ پر دستک دے گا کہ میں تمہیں بچانے کے لئے آ گیا ہوں.اب دیکھو یہ دستک دینے والا کوئی آدمی ہی ہو گا ورنہ آسمانی ستارہ کو ہم طارق نہیں کہہ سکتے.پس النَّجْمُ الثَّاقِبُ میں مہدی معہود کی خبر دی گئی ہے جس کا نور مومنوں کے لئے
٣٠٣ برکت اور زندگی کا موجب ہوگا اور اس کی چوٹ دشمنوں کے لئے مہلک ہو گی.اس سے پتہ لگتا ہے کہ نجم ثاقب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہوگا گویا یہ الزام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر لگایا جاتا ہے کہ آپ نَعُوذُ بِاللَّهِ ضَالَّ ہیں ، غَاوِی ہیں نَاطِقُ عَنِ الْهَوَى ہیں اس کو دُور کرنے کے لئے ایک ستارہ اُترے گا اور اس کا اُتر نا ثبوت ہوگا اس بات کا کہ آپ ضالّ نہیں غَاوِی نہیں ، نَاطِقُ عَنِ الْهَوای نہیں.صداقت معلوم کرنے کا ایک اہم اصول یہ ثبوت کیونکر ہوگا ، اس کے لئے ایک موٹی بات جو ہر شخص سمجھ سکتا ہے یہ ہے کہ کوئی جھوٹا آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جو تعلیم میں پیش کر رہا ہوں اس میں جب کبھی رخنہ واقع ہو گا اُس وقت کوئی اور آدمی پیدا ہو جائے گا جو میرے کام کو سنبھال لے گا.یہ اتنی نمایاں بات ہے کہ عیسائی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی سختی سے اعتراضات کرنے کے عادی ہیں وہ بھی اس بات پر قائم ہیں کہ کسی نبی کی صداقت کی علامت ہی یہ ہوتی ہے کہ اس کی کسی اور نبی نے خبر دی ہو اور اس نے اپنے بعد کسی اور نبی کے ظہور کی پیشگوئی کی ہو.عیسائیوں کی دو غلطیاں اب جہاں تک اس اصول کا تعلق ہے ان کی یہ بات تو سچی ہے مگر وہ اس بات کو پیش کرتے وقت دو غلطیاں کرتے ہیں.اول تو یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی آسمانی وجود کی خبر نہیں دی اور اس طرح یہ بات ان کی صداقت کو رڈ کر دیتی ہے حالانکہ قرآن کریم نے متواتر اس مضمون کو بیان کیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ثبوت ہی یہ ہے کہ جب بھی ان کے دین پر حملہ ہو گا آسمان سے ایک ستارہ گرے گا جو حملہ آور کو مٹا کر یہ ثابت کر دیگا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضَالَ، غَاوِی اور نَاطِقُ عَنِ الْهَوَى نہیں.دوسرے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پہلی کتب میں کوئی پیشگوئی نہیں پائی جاتی وہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تو مسیح علیہ السلام سے دس گنا پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں لیکن میں کہتا ہوں اگر انہی کی بات مان لی جائے کہ وہی شخص سچا ہوتا ہے جس کے ظہور کی پہلے کسی نے خبر دی ہو تو ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ بتاؤ حضرت عیسی علیہ السلام کو تم کیوں سچا سمجھتے ہو؟ وہ کہیں گے اس لئے کہ ملا کی نبی نے اس کے متعلق پیشگوئی کی.ہم کہیں گے ملا کی کو تم کیوں سچا سمجھتے ہو؟ وہ کہیں گے اس لئے کہ مثلاً حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کے
۳۰۴ متعلق پیشگوئی کی ہے.ہم کہیں گے داؤد علیہ السلام کو تم کیوں سچا سمجھتے ہوں؟ وہ کہیں گے اس لئے کہ حضرت موسی نے اس کے متعلق پیشگوئی کی تھی.ہم کہیں گے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تم کیوں بچے سمجھتے ہو؟ وہ کہیں گے اس لئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے متعلق پیشگوئی - کی تھی.ہم کہیں گے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تم کیوں سچا سمجھتے ہو؟ وہ کہیں گے اس لئے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اس کے متعلق پیشگوئی کی تھی.ہم کہیں گے کہ نوح علیہ السلام کو تم کیوں سچا سمجھتے ہو؟ وہ کہیں گے اس لئے کہ آدم علیہ السلام نے اس کے متعلق پیشگوئی کی تھی.ہم کہیں گے کہ آدم کو تم کیوں سچا سمجھتے ہو؟ آدم کی تو کسی نے پیشگوئی نہیں کی اور جب اس اصول کے مطابق آدم جھوٹا ہو گیا تو نَعُوذُ بِالله نوح بھی جھوٹا ہو گیا ، ابراہیم بھی جھوٹا ہو گیا ، موسیٰ بھی جھوٹا ہو گیا ، داؤ دبھی جھوٹا ہو گیا ، ملا کی بھی جھوٹا ہو گیا اور عیسی بھی جھوٹا ہو گیا.غرض او پر چلوتب بھی عیسائیوں کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق وہ جھوٹے ثابت ہوتے ہیں اور نیچے اُترو تب بھی عیسائیوں کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق وہ جھوٹے ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک مسیح آخری منجی تھا جس نے اپنے بعد کسی اور کے ظہور کی خبر نہیں دی.غرض غلطی سے انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی مجدد دین اور مامور کی خبر نہیں دی.لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی بات درست ہے سوائے اس کے کہ جس سے سلسلہ نبوت کا آغاز ہو اس کی کوئی خبر دے ہی نہیں سکتا اور جو قیامت کے قریب آئے گا وہ کسی بعد میں آنے والے کی خبر نہیں دے سکتا.لیکن بہر حال جب بھی کوئی مامور آئے گا یہ یقینی بات ہے کہ وہ اپنے زمانہ کی خرابی کو دور کرے گا اس کے بعد اگر کسی اور زمانہ میں نئی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو پھر دنیا کو ایک نئے مامور کی ضرورت محسوس ہوگی اور یہ سلسلہ آدم سے لے کر اس وقت تک جاری رہا.تاریکی کے ہر دور میں اسلام کے احیاء کی خبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ خبر دی کہ جب بھی اسلام پر تاریکی کا کوئی دور آئے گا اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا آدمی کھڑا کیا جائے گا جو دوبارہ اسلام کو اپنی بنیادوں پر قائم کرے گا اور یہ ثبوت ہو گا اس بات کا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صال نہیں کیونکہ کوئی ضالّ ہزار بارہ سو سال کے بعد اپنے لئے ہمدرد پیدا نہیں کر سکتا اور کوئی شخص یہ طاقت نہیں رکھتا کہ وہ کہہ سکے کہ جب بھی میرے مشن کو نقصان پہنچے گا خواہ کسی زمانہ میں پہنچے اور خواہ دنیا کے کسی علاقہ میں پہنچے اس ا
۳۰۵ وقت آسمان سے ایک ایسا آدمی بھیجا جائے گا جو اس فتنہ کو دُور کر دیگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ :- موت کے بعد میں پھر تجھے حیات بخشوں گا ، ۲۴ یعنی جب کبھی آپ کے مشن کو کوئی نقصان پہنچنے والا ہو گا خدا تعالیٰ اُس کی زندگی کے پھر سامان پیدا کر دے گا.آئندہ زمانوں میں پیشگوئیوں کے پورا ہونے کا فائدہ بعض لوگ یہ کہا کرتے ہیں کہ اگر یہ پیشگوئی اتنے عرصے کے بعد پوری بھی ہوئی تو اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا ملا؟ میں ایسے نادانوں سے کہتا ہوں کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف مکہ کے لئے تھے؟ کیا اس زمانہ کے لوگ آپ کی امت میں شامل نہیں تھے؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ نبی ہیں اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے ہیں اس لئے ضروری تھا کہ آپ کی پیشگوئیاں ہر زمانہ میں پوری ہوتیں تا کہ ہر زمانہ کے لوگ اپنے ایمانوں کو تازہ کر سکتے اور انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر ایک زندہ اور تازہ ایمان میسر آتا.پس یہ کہنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پیشگوئی کے پورا ہونے سے کیا ملا.محض نادانی ہے اس پیشگوئی نے پورا ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو روشن کر دیا اب اگر کوئی یہودی اور عیسائی آپ پر اعتراض کرتا ہے تو ہم ان پیشگوئیوں کو اس کے سامنے رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو! یہ وہ پیشگوئیاں تھیں جن کے مطابق اس زمانہ میں ایک شخص مبعوث ہوا اور اُس نے کہا کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خدمت اور اس کی اشاعت کے لئے مبعوث ہوا ہوں اب اگر کوئی اسلام کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو وہ میرے سامنے آئے.کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک شخص کا عین وقت پر اسلام کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو منجدھار سے نکالنے کے لئے آجانا اس بات کا ثبوت نہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے برگزیدہ رسول تھے، یقینا کوئی جھوٹا آدمی اس قسم کا دعویٰ نہیں کر سکتا.سابق الہامی کتب کی پیشگوئیاں محمد رسول اللہ قرآن کریم نے بھی اس دلیل کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ثبوت ہیں تو موسیٰ کے وقت میں تھا کہ تو نے
۳۰۶ جھوٹے طور پر اپنے متعلق تو رات میں بشارت لکھوا دی.یا تو عیسی کے وقت میں تھا کہ تو نے ان سے کہہ کر اپنے متعلق انجیل میں پیشگوئیاں درج کروالیں.ان پیشگوئیوں کا پہلی الہامی کتب میں پایا جانا اور پھر ان پیشگوئیوں کے عین مطابق ایک شخص کا دنیا میں ظاہر ہونا بتا تا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول ہیں اور ابراہیم ، موسی عیسی اور دوسرے تمام انبیاء آپ کے مُصَدِّق تھے کیونکہ انہوں نے اپنی کتب میں آپ کے متعلق پیشگوئیاں کی تھیں.شدید القوی ہستی کی طرف سے قرآن کریم کا نزول دوسری بات جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی ایک واضح اور روشن دلیل ہے وہ یہ ہے کہ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوای یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو قرآن ملا ہے وہ ایک زبردست طاقتوں والے خدا کی طرف سے ملا ہے یہ سیدھی بات ہے کہ پیغام کی اہمیت کا تعلق پیغام بھجوانے والے کے ساتھ ہوتا ہے اگر پیغام بھجوانے والا کمزور ہو تو وہ اپنے پیغامبر کی حفاظت نہیں کر سکے گا اور اگر پیغام بھجوانے والا طاقتور ہو تو اس کے پیغامبر کو کوئی شخص چھیڑنے کی طاقت نہیں رکھے گا.عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوای میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس ہستی نے قرآن کریم دے کر بھیجا ہے وہ ایک طاقتور ہستی ہے جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی.ایک روسی بادشاہ کا واقعہ ٹالسٹائے روس کا ایک مشہور مصنف گزرا ہے جو لینن اور مارکس وغیرہ کے بعد ان چوٹی کے لوگوں میں سے تھا جنہوں نے بالشویزم کی اشاعت میں سب سے بڑا حصہ لیا ہے.اب بھی دنیا کی اکثر زبانوں میں اس کی تصانیف کے تراجم پائے جاتے ہیں اس شخص کا ایک دادا سات آٹھ پشت پہلے پیٹر بادشاہ کے زمانہ میں اس کا دربان ہو ا کرتا تھا ایک دن بادشاہ کو کوئی ضروری کام تھا اور وہ اپنی قوم کی بہتری کے لئے کوئی سکیم سوچ رہا تھا.اس نے ٹالسٹائے کو حکم دیا کہ آج کسی شخص کو اندر آنے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ اگر کوئی شخص اندر آئے گا تو میرا دماغ مشوش ۲۵ ہو جائے گا اور میں سکیم کو پوری طرح تیار نہیں کر سکوں گا.وہ ٹالسٹائے کو تاکید کر کے اپنے کمرہ میں آگیا مگر بد قسمتی سے اُسی وقت ایک شہزادہ آیا اور اس نے اندر داخل ہونا چاہا.ٹالسٹائے نے اپنے ہاتھ اس کے دروازہ کے آگے پھیلا دیئے اور کہا آپ اندر نہیں جا سکتے بادشاہ کا حکم ہے کہ کسی شخص
کو اندر نہ آنے دیا جائے.اُس وقت تک روس کا قانون ابھی منظم نہیں ہوا تھا اور لارڈوں ، نوابوں اور شاہی خاندان والوں کے بڑے حقوق سمجھے جاتے تھے اس دستور کے مطابق شہزادہ کو قلعہ کے اندر داخل ہونے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا بلکہ اُن سے اُتر کر بعض اور لوگوں کے لئے بھی یہی دستور تھا.جب دربان نے شہزادہ کو روکا تو وہ کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ میں کون ہوں؟ اس نے کہا میں خوب جانتا ہوں آپ فلاں گرینڈ ڈیوک ہیں.اس نے کہا کیا تم کو معلوم نہیں کہ مجھ کو ہر وقت اندر جانے کی اجازت ہے؟ دربان نے جواب دیا میں خوب جانتا ہوں.یہ سن کر وہ پھر آگے بڑھا اور اندر داخل ہونے لگا.دربان نے پھر اُسے روکا اور کہا حضور بادشاہ سلامت کا حکم ہے کہ آج کسی شخص کو اندر نہ آنے دیا جائے.اُسے سخت غصہ آیا اس نے کوڑا اُٹھایا اور دربان کو مارنا شروع کیا کچھ دیر مارنے کے بعد اس نے سمجھا کہ اب اسے ہوش آ گیا ہوگا وہ پھر اندر داخل ہونے لگا مگر ٹالسٹائے پھر راستہ روک کر کھڑا ہو گیا اور اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا حضور بادشاہ کا حکم ہے کہ کوئی شخص اندر داخل نہ ہو.شہزادہ نے پھر اسے مارنا شروع کر دیا وہ سر جھکا کر مار کھاتا رہا مگر جب تیسری دفعہ شہزادہ اندر داخل ہونے لگا تو پھر اس نے ہاتھ پھیلا دیئے اور کہا اندر جانے کی اجازت نہیں بادشاہ نے منع کیا ہوا ہے.شہزادہ نے پھر اسے مارنا شروع کر دیا اتفاق کی بات ہے کہ جب پہلی دفعہ شہزادہ نے دربان کو مارا تو شور کی آواز بادشاہ کے کان تک پہنچ گئی اور اُس نے بالاخانہ کی کھڑکی سے یہ نظارہ دیکھنا شروع کر دیا.جب تیسری دفعہ شہزادہ اُسے مار رہا تھا تو بادشاہ نے اُسے آواز دی کہ ٹالسٹائے ادھر آؤ.ٹالسٹائے اندر گیا اور اُس کے ساتھ شہزادہ بھی بڑے غصے کی حالت میں بادشاہ کے پاس پہنچا اور اُس نے کہا آج دربان نے میری سخت ہتک کی ہے.بادشاہ نے پوچھا کیا ہوا؟ شہزادہ نے کہا میں اندر آنا چاہتا تھا مگر ٹالسٹائے مجھے اندر نہیں آنے دیتا تھا.بادشاہ نے ایسی شکل بنا کر کہ گویا اس واقعہ کا اسے کوئی علم نہیں کہا ٹالسٹائے تم نے شہزادے کو اندر داخل ہونے سے کیوں روکا؟ اس نے کہا حضور آپ کا حکم تھا کہ آج کسی شخص کو اندر داخل نہ ہونے دیا جائے.بادشاہ نے شہزادے کی طرف دیکھا اور کہا کیا اس نے تم کو بتایا تھا کہ میں نے یہ حکم دیا ہے کہ کسی شخص کو اندر نہ آنے دیا جائے؟ اس نے کہا بتایا تو تھا مگر شہزادہ کو کوئی دربان روک نہیں سکتا.بادشاہ نے کہا میں جانتا ہوں کہ شہزادہ کو کوئی روک نہیں سکتا مگر بادشاہ روک سکتا ہے.تم نے شہزادہ ہو کر قانون کی بے حرمتی کی ہے اور اس نے دربان ہو کر قانون کی عظمت کو سمجھا ہے.
اور پھر باوجود اس کے کہ اس نے تمہیں بتا دیا تھا کہ یہ میرا حکم ہے پھر بھی تم نے اسے مارا اب اس کی سزا یہ ہے کہ تم اس دربان کے ہاتھوں اسی طرح مار کھاؤ جس طرح تم نے اسے مارا ہے.اس کے بعد اُس نے ٹالسٹائے کو کہا ٹالسٹائے اُٹھو اور اس شہزادے کو مارو.روسی قانون کے مطابق کسی فوجی کو کوئی غیر فوجی نہیں مار سکتا.شہزادہ نے کہا میں فوجی ہوں اور یہ ٹالسٹائے سویلین ہے یہ مجھے مار نہیں سکتا.بادشاہ نے کہا کیپٹن ٹالسٹائے میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم شہزادہ کو مارو.اُس نے مارنے کے لئے کوڑا اُٹھایا تو شہزادہ نے کہا میں زار روس کا جرنیل ہوں اور جرنیل کو کوئی غیر جرنیل نہیں مار سکتا.بادشاہ نے کہا جنرل ٹالسٹائے ! میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تم شہزادہ کو مارو.اس پر شہزادہ نے پھر روسی کانسٹی ٹیوشن کا حوالہ دے کر کہا کہ کسی نواب کو کوئی غیر نواب نہیں مارسکتا.بادشاہ نے کہا اچھا کا ؤنٹ ٹالسٹائے! اٹھو اور شہزادہ کو مارو.گویا دربان سے اُسی وقت اُس نے اُس کو کاؤنٹ بنا دیا اور شہزادہ کو اس کے ہاتھوں سے سزا دلوائی.نقار کو انتباہ اس طرح فرماتا ہے عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زبر دست طاقتیں رکھنے والے خدا نے مبعوث فرمایا ہے.تم سمجھتے ہو کہ یہ ایک غریب انسان ہے ، تم سمجھتے ہو کہ یہ ایک بیوہ کا بیٹا ہے ، اگر تم نے اس کے پیغام پر کان نہ دھرا تو کیا ہوگا.جس کا خط لے کر یہ تمہاری طرف آیا ہے، جس کے پیغام کا حامل بنا کر یہ تمہاری کی طرف مبعوث کیا گیا ہے وہ شَدِيدُ الْقُوای ہے تم نے اسے ہاتھ لگایا تو تم شدید سزا پاؤ گے چنا نچہ دیکھ لو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھیڑ نے والوں کو کیسا عذاب ملا اور وہ کتنی عبرت ناک حالت کو پہنچے.یہودی مسلمانوں کے ہمیشہ ہی ممنونِ احسان کسری شاہ ایران کا عبرت ناک انجام رہے ہیں مگر وہ مسلمانوں کے ممنونِ احسان بھی رہے اور پھر دشمنی بھی کرتے رہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر بڑے بڑے احسانات کئے تھے مگر انہوں نے ہمیشہ آپ کی مخالفت کی اور بیرونی حکومتوں کو آپ کے خلاف اُکسانے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی.جب ان کے تاجر ایران جاتے تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہمیشہ کسری کے کان بھرتے.اسی طرح خطوں میں بھی اسے لکھتے رہتے کہ عرب میں ایک ایسا ایسا آدمی طاقت پکڑتا جاتا ہے اگر اس کی حکومت قائم ہوگئی تو وہ ایران پر حملہ کر دے گا.بادشاہ کم عقل تھا وہ یہودیوں کے اس فریب میں آ گیا اور اس نے یمن کے
گورنر کو خط لکھا کہ عرب میں جو نیا مدعی نبوت پیدا ہوا ہے تم اُسے گرفتار کر کے میرے پاس بھیج دو.یمن کے گورنر نے دو آدمی بھیجوائے.اُس وقت ایران کی طاقت ویسی ہی تھی جیسے اس وقت امریکہ اور روس کی ہے اور عرب والوں کی حالت ایسی تھی جیسے سرحدی قبائل کی ہے.گورنر یمن نے اپنے سپاہیوں کو بھیجتے ہوئے ان کے ذریعہ آپ کو یہ پیغام بھجوایا کہ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ آپ کا قصور کیا ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ آپ چلے آئیں میں آپ کی سفارش کر کے شاہ ایران کے پاس بھجوا دونگا کہ اگر اس شخص کا کوئی قصور بھی ہے تو اسے معاف کر دیا جائے.وہ دونوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں گورنر یمن نے آپ کو اپنے ساتھ لانے کے لئے بھیجا ہے اور یہ یہ پیغام بھی دیا ہے.اگر آپ نے انکار کیا تو بادشاہ کی فوجیں عرب پر دھاوا بول دیں گی اور تمام ملک ایک مصیبت میں مبتلاء ہو جائے گا اس لئے مناسب یہی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ تشریف لے چلیں ، گورنر یمن نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آپ کی سفارش کر دیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اس کا جواب تمہیں پھر دونگا.آپ نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرنی شروع کی کہ وہ اس معاملہ میں آپ کی مدد فرمائے دوسرے دن جب وہ ملے تو آپ نے فرمایا کہ ایک دن اور ٹھہر جاؤ.جب تیسرا دن ہوا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے کہا آج ہمیں آئے ہوئے تین دن ہو گئے ہیں آپ ساتھ چلئے ایسا نہ ہو کہ یہ معاملہ بگڑ جائے اور تمام عرب پر مصیبت آ جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو! اپنے گورنر سے جا کر کہد و کہ میرے خدا نے آج رات تمہارے خدا وند کو مار دیا ہے.ایرانی لوگ اپنے بادشاہ کو خداوند کہا کرتے تھے انہوں نے کہا آپ یہ کیا فرماتے ہیں؟ اپنے آپ پر اور اپنی قوم پر رحم کیجئے اور ہمارے ساتھ چلئے.آپ نے فرمایا میں نے تمہیں جواب تو دے دیا ہے جاؤ اور گورنر یمن کو یہی بات کہہ دو.وہ واپس آگئے اور انہوں نے یمن کے گورنر سے یہ بات کہہ دی.اُس نے سن کر کہا کہ یا تو یہ شخص پاگل ہے اور یا واقع میں خدا تعالیٰ کا نبی ہے ہم چند دن انتظار کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آیا اس کی بات سچی ثابت ہوتی ہے یا نہیں.اللہ تعالی کا عظیم الشان نشان تھوڑے دنوں کے بعد یمن کی بندرگاہ پر ایران کا ایک جہاز لنگر انداز ہوا اور اس میں سے ایک سفیر اترا جو یمن کے گورنر کے نام ایک شاہی خط لایا.یمن کے گورنر نے اسے دیکھا تو اس پر ایک نئے بادشاہ کی
۳۱۰ مُہر تھی اُس نے خط اپنے ہاتھ میں لیتے ہی درباریوں سے کہا وہ بات ٹھیک معلوم ہوتی ہے جو اس عرب نے کہی تھی.اس نے خط کھولا تو وہ کسری کے بیٹے کا تھا اور اس میں یہ لکھا تھا کہ ہمارا باپ نہایت ظالم اور سفاک انسان تھا اور اس نے تمام ملک میں ایک تباہی مچا رکھی تھی ہم نے فلاں رات اسے مار دیا ہے اور اب ہم خود اس کی جگہ تخت پر بیٹھ گئے ہیں اب تمہارا فرض ہے کہ تم اپنی مملکت کے لوگوں سے ہماری اطاعت کا اقرار لو، اور ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ انہی سفاکیوں میں سے جو ہمارے باپ نے کیں ایک یہ بھی سفا کی تھی کہ اس نے عرب کے ایک شخص کے متعلق لکھا تھا کہ اسے گرفتار کر کے ہمارے پاس بھجوا دیا جائے ہم اس حکم کو منسوخ کرتے ہیں.یہی حقیقت عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوی میں بیان کی گئی ہے کہ ایک طاقتور ہستی اس کی نگران ہوگی اور اس کو چھیڑ نا کوئی آسان کام نہیں ہو گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہت سے مواقع ایسے آئے ہیں جنہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آپ کو چھیڑ نا خدا تعالیٰ کو چھیڑ نا تھا.اصلاح خلق کے لئے ایک کامل انسان کی پیدائش پھر فرماتا ہے ذُو مِرَّةٍ وہ طاقتور ہی نہیں بلکہ مِرَّة والا ہے ذُو مِرَّةٍ کے اصل معنے پیدائش کی طاقت بلکہ بہت بڑی طاقت رکھنے والے کے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ بار بار پیدائش کی طاقت کا ظہور اس سے ہوتا رہتا ہے گویا بتا یا کہ وہ شَدِيدُ الْقُوی ہی نہیں بلکہ اس میں اعلیٰ درجہ کی کامل پیدائش کی طاقت بھی موجود ہے فَاسْتَوی پھر اس طاقتور خدا اور اعلیٰ سے اعلیٰ مخلوق پیدا کرنے والے خدا نے ارادہ کیا کہ میں دنیا میں اپنی مخلوق پر ظاہر ہوں وَهُوَ بِالا فُقِ الأغلى اور وہ خدا بہت اونچا تھا اور بنی نوع انسان زمین پر رینگ رہے تھے اور ہرقسم کی کمزوریاں اور گناہ ان میں پائے جاتے تھے بائبل میں بھی لکھا ہے.اور خداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اس کے دل کے تصور اور خیال سدا بُرے ہی ہوتے ہیں تب خداوند زمین پر انسان کو پیدا کرنے سے ملول ہوا اور دل میں غم کیا اور خداوند نے کہا کہ میں انسان کو جسے میں نے پیدا کیا روئے زمین پر سے مٹا ڈالوں گا انسان سے لے کر حیوان اور رینگنے والے جاندار اور ہوا کے پرندوں تک کیونکہ میں ان کے بنانے سے ملول ہوں“.۲۶ غرض خدا آسمان پر بیٹھا ہوا تھا اس نے جب بنی نوع انسان کی خرابی دیکھی تو چاہا کہ میں ایک نئی مخلوق پیدا کروں کیونکہ وہ ذُو مِرہ تھا وہ چاہتا تھا کہ ایک کامل اور اکمل انسان کو
۳۱۱ پیدا کرے جو لوگوں کو گمراہی سے بچا کر نور و ہدایت کی طرف لائے یہاں آ کر خدا تعالیٰ نے درمیان میں سے اس مضمون کو حذف کر دیا ہے کہ اس ارادہ کے مطابق اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا.پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چنا اور چن کر کہا کہ یہ وہ شخص ہے جو اس قابل ہے کہ میں اسے برکت دوں اور اسے دنیا کے لئے ایک نمونہ بناؤں.محمد رسول اللہ کا خدا تعالیٰ کی طرف صعود اس کے بعد فرماتا ہے دَنَا جب خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چنا اور انہیں آواز دی کہ اے محمد رسول اللہ ! تو میرے پاس آ کہ میں نے تجھے دنیا کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے چن لیا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونچا ہونا شروع کیا.یہاں مینار کا لفظ استعمال نہیں ہوا اگر تمثیلی زبان میں ایک مینار کا ہی ذکر کیا گیا ہے کیونکہ پہلے یہ بتایا گیا ہے کہ وَهُوَ بِالَا فُقِ الأغلى خدا تعالیٰ او پر بیٹھا ہوا ہے اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ کرتا ہے اور انہیں اپنی طرف بلاتا ہے.اس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی طرف صعود شروع کیا دنی کے معنی یہی ہیں کہ وہ قریب ہوتے گئے یعنی خدا سے ملنے کے لئے اوپر ہوتے گئے گویا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام محمدی سے اوپر چڑھنے شروع ہوئے اور آخر آپ عرش تک جا پہنچے ( چنانچہ معراج میں ایسا ہی ہوا ).خدا تعالیٰ کا بنی نوع انسان کی نجات کے لئے آسمان سے نزول مگر سوال یہ ہے کہ ان میں تو طاقت تھی کہ وہ خدا تعالیٰ تک پہنچ جائیں ہر شخص تو اتنا اونچا نہیں جا سکتا.بے شک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اخلاص اور محبت اور فدائیت کے لحاظ سے اپنے اندر یہ استعداد رکھتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کر سکیں لیکن وہ لوگ جن کی اصلاح کے لئے آپ مقرر ہوئے تھے ان میں سے ہر شخص میں تو یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ اتنا اونچا جا سکتا ان لوگوں کے لئے ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ نیچے کی طرف نزول کرتا.چنانچہ فرماتا ہے فَتَدَلَّى.تَدَلَّی کے معنے ہیں اوپر کی چیز نیچے آ گئی یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اوپر چڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ چڑھتے چڑھتے آپ نے اپنے مقصود کو پالیا مگر جب آپ نے اوپر چڑھنا شروع کیا تو خدا تعالیٰ نے کہا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو آگئے باقی لوگ نہیں آ سکتے تب خدا تعالیٰ کچھ نیچے آیا تا کہ کمزور مخلوق کی نجات کی بھی صورت بنے اور اُس نے ایک زاویہ بنا دیا جہاں ہر انسان
۳۱۲ بشرطیکہ وہ اپنی استعدادوں سے کام لے پہنچ سکتا اور خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کر سکتا ہے.مغفرت اور قُرب الہی کے ذرائع یہ مضمون ایک لمبی تشریح کا حامل ہے مگر اس وقت میں صرف ایک دو باتیں اور بیان کر دیتا تو ہوں جن سے پتہ لگ سکتا ہے کہ کس طرح بنی نوع انسان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ جو أَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ ہے ان سے ملنے کے لئے نیچے آیا اور اُس نے اپنے قُرب کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے.واقعہ معراج کے متعلق جو احادیث پائی جاتی ہیں ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے پچاس نمازیں بنی نوع انسان کے لئے مقرر فرمائی تھیں لیکن پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی درخواست پر اللہ تعالیٰ نے ان کو کم کرتے کرتے امت محمدیہ کے لئے صرف پانچ نمازیں مقرر فرما ئیں مگر ساتھ ہی فرمایا کہ گو نمازیں پانچ ہی ہونگی مگر ان کو شمار پچاس کیا جائے گا یعنی ایک شخص پڑھے گا تو پانچ نمازیں مگر خدا تعالیٰ کے دربار میں اس کی پچاس نمازیں لکھی جائیں گی.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر ایک نیکی کے بدلہ میں انسان کو دس گنا اجر دیا جاتا ہے اور بدی یا تو معاف کر دی جاتی ہے اور یا اس کے اعمال نامہ میں صرف ایک بدی ہی لکھی جاتی ہے.یہ طریق ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے اوپر چڑھنے کے لئے مقرر فرمایا ہے بندہ ایک نیکی کرتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کی دس نیکیاں لکھتا ہے اور پھر قیامت کے دن اُن دسوں کو ایک ایک سمجھ کر پھر دس دس بنا دیتا ہے اور بندہ ایک بدی کرتا ہے اور خدا تعالیٰ صرف ایک ہی بدی لکھتا ہے اور بعض دفعہ تو ایک بھی نہیں لکھتا تو بہ پر اُس کو معاف فرما دیتا ہے.روحانی ارتقاء کے غیر معمولی سامان غرض دَنَا فَتَدَلَّی میں وہ طریق بیان کیا گیا ہے جس کے ذریعہ انسانی ارواح نے ارتقاء کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنا تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو بغیر اس گر کے بھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتے تھے بغیر اس کے کہ آپ کی ایک نیکی کو دس گنا شمار کیا جا تا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ قابلیت موجود تھی کہ آپ خدا تعالیٰ تک پہنچ جاتے اور اس کے قُرب کو حاصل کر لیتے مگر تمام لوگوں میں یہ قابلیت موجود نہیں تھی ان کے لئے خدا تعالیٰ نے عرش سے نیچے اُتر نا گوارا کیا اور اس نے ان کی چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو بڑھانا شروع کیا تو تا کہ اس ذریعہ سے ان کی کمی پوری ہو جائے اور وہ روحانی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں اور یہ
فضیلت صرف اسلام ہی کو حاصل ہے جس میں روحانی ارتقاء کے لئے ہر قسم کی سہولتیں رکھی گئی ہیں اور ترقیات کا دروازہ تمام بنی نوع انسان کے لئے یکساں کھولا گیا ہے.خدائی کمان کا محمد رسول اللہ کی کمان سے اتصال فرماتا ہے فَكَانَ قَابَ قَوِسَيْنِ او ادنی جب یہ حالت ہوئی اور خدا تعالیٰ نیچے آیا تو نتیجہ یہ ہوا کہ دو قوسیں آپس میں متوازی ہو گئیں اور اونچائی نیچائی کے لحاظ سے بھی اور نشانہ کی سیدھ کے لحاظ سے بھی کہ جدھر ایک تیر چلتا تھا اُسی طرف دوسرا تیر پڑتا تھا.یا یوں سمجھ لو کہ ایک کمان زمین سے اوپر جانی شروع ہوئی اور ایک کمان اوپر سے نیچے آنی شروع ہوئی.خدا تعالیٰ کی کمان اوپر سے نیچے اُتری اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمان نیچے سے او پر گئی چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں جو انقلاب پیدا کیا جانا مقدر تھا وہ ایسا تھا جس میں شیطان کا شکست کھانا یقینی تھا اس لئے لازمی تھا کہ آپ کے ظہور پر شیطان کا لشکر اپنی پوری قوت کے ساتھ حملہ آور ہوتا.اللہ تعالیٰ اسی حملہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم اپنی کمان لے کر اوپر آؤ ہم اپنی کمان لے کر نیچے اترتے ہیں.یہ ایک روحانی استعارہ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ئیں اوپر چڑھنی شروع ہوئیں اور خدا تعالیٰ کی قبولیت نیچے اترنی شروع ہوئی فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنی اور ایسی بن گئیں جیسے دو کمانوں کو ساتھ ساتھ ملا دیا جائے یا دو کمانیں آپس میں جوڑ دی جائیں تو جو کیفیت ان کی ہوتی ہے وہی کیفیت اس اتحاد کی تھی او اذنی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ دو کما نہیں رہی ہی نہیں ایک بن گئیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمان کا خدا تعالیٰ کی کمان کے ساتھ ایسا اتحاد ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کمان کوئی الگ نہیں رہی وہ وہی تھی جو خدا تعالیٰ کی تھی گویا آسمان اور زمین کا مقصد ایک ہو گیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے اتباع نے اپنے ارادے چھوڑ کر خدا کے ارادے قبول کر لئے اور خدا نے اپنے ارادے چھوڑ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اتباع کے ارادے قبول کر لئے.تمہارے ارادے خدا تعالیٰ کے اس نکتہ کو اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ یوں بیان فرماتا ہے کہ وَمَا تَشَاءُ وُنَ إِلَّا انْ يَّشَاءَ اللَّهُ ارادوں کے تابع ہونے چاہیں إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا لا یعنی اے مسلمانو! آج سے تم یہ عہد کر لو کہ تمہارے کو
۳۱۴ دل میں کوئی خواہش پیدا نہ ہو جب تک کہ تمہیں یہ معلوم نہ ہو کہ خدا تعالیٰ کی بھی وہی خواہش ہے.گویا تمہارا ارادہ خدا تعالیٰ کے ارادہ سے اور تمہاری خواہش خدا تعالیٰ کی خواہش سے مل جائے اور کسی امر میں بھی تمہاری نفسانیت کا کوئی دخل نہ رہے.چنانچہ دیکھ لو ہجرت کے موقع پر صحابہ نے بڑا زور لگایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکہ سے مدینہ تشریف لے چلیں مگر باوجود اُس کے کہ اس وقت سب سے زیادہ خطرناک مقام مکہ تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابھی ہجرت کا حکم نہیں ہوا گویا جو کچھ خدا تعالیٰ کی مشیت تھی اُس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے چلے گئے.پس جو کچھ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْأَدْنى میں مضمون بیان کیا گیا ہے وہی مضمون وَمَا تَشَاءُ وُنَ إِلَّا اَنْ يَّشَاءَ اللهُ میں بیان کیا گیا ہے خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے دیا کہ تم اپنی کمان پھینک دو اور میری کمان لے لومیں بھی اپنی کمان پھینکتا ہوں اور تمہاری کمان اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہوں.محمد رسول اللہ کے دشمن آسمانی تیروں کی زد میں ایک اور جگہ بھی قرآن کریم میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَارَمَيْتَ اِذْرَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَمَى ٢٨ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جب تو نے اپنی کمان سے تیر چھوڑا تو ہم سچ کہتے ہیں کہ وہ تیر تیری کمان نے نہیں چھوڑا بلکہ وہ تیر ہماری کمان نے چھوڑا مَا رَمَيْتَ تُو نے تیر نہیں چلا یا اذُ رَمَيْتَ جب تُو نے تیر چلایا وَلَكِنَّ اللهَ رَمی بلکہ وہ تیر خدا تعالیٰ نے چلایا گویا اگر ہم غور کریں تو نقشہ یوں بن گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد خدا تعالیٰ نے اپنی کمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپر د کر دی اور فرمایا اب جو بھی تیرے سامنے آئے گا اس پر زمینی تیر ہی نہیں چلے گا بلکہ آسمانی تیر بھی چلے گا.عملی طور پر بھی دیکھ لو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ اور بے لوث حیات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیس سالہ زندگی میں آپ کے ایک دو نہیں بلکہ لاکھوں دشمن تھے حکومتیں آپ کے خلاف تھیں، عرب کے آزاد قبائل آپ سے برسر پیکار تھے ، قیصر و کسریٰ کی حکومتیں بھی آپ سے نبرد آزمای تھیں یہودی الگ فتنہ برپا کئے ہوئے تھے اور منافقین اسلام کو مٹانے کے لئے علیحدہ سازش میں مصروف تھے مگر اتنی شدید مخالفتوں کے باوجود ایک مثال بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
۳۱۵ زندگی میں ایسی نہیں ملتی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایسے شخص پر تیر چلایا ہو جس پر خدا تعالیٰ نے تیر نہ چلایا ہو.اسی طرح آپ کی زندگی کا گہرا مطالعہ اس حقیقت کو روشن کرتا ہے کہ آپ نے کبھی کسی ایسے شخص پر تیر نہیں چلایا جو مُجرم نہ ہو.حکومتیں کئی بے قصوروں کو مار ڈالتی ہیں ، کئی ایسے لوگوں کو بھی ان کے ہاتھوں نقصان پہنچ جاتا ہے جو بے گناہ ہوتے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جو ایک کھلی کتاب کے طور پر تھی اس میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نظر نہیں آتی کہ آپ کا تیر ایسے طور پر چلا ہو کہ کوئی بے گناہ اس کا شکار ہوا ہو.صحابہ کرام سے بعض دفعہ ایسی غلطیاں ہوئی ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی اس کا علم ہوا ہوا آپ نے ان پر شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا.ย حضرت اسامہ پر ناراضگی حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ آپ کو نہایت عزیز تھے ان کے باپ کو آپ نے اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا ایک غزوہ میں حضرت اسامہ شریک تھے کہ ایک مخالف کے تعاقب میں انہوں نے اپنا گھوڑا ڈال دیا جب اُس نے دیکھا کہ اب میں قابو آ گیا ہوں تو اس نے کہا لا الہ الا اللہ جس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں مگر حضرت اسامہ نے اُس کی کوئی پرواہ نہ کی اور اُسے قتل کر دیا بعد میں کسی شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع دے دی ، آپ حضرت اسامہ پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تو نے کیوں مارا جب کہ وہ اسلام کا اقرار کر چکا تھا.حضرت اسامہ نے کہا وہ جھوٹا اور دھو کے باز تھا وہ دل سے ایمان نہیں لایا صرف ڈر کے مارے اُس نے اسلام کا اقرار کیا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی کے لہجہ میں فرمایا کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھ لیا تھا کہ وہ سچے دل سے اسلام کا اظہار نہیں کر رہا تھا یعنی جب وہ کہہ رہا تھا کہ میں اسلام قبول کرتا ہوں تو تمہارا کوئی حق نہیں تھا کہ تم یہ کہتے کہ تم مسلمان نہیں.اسامہ بن زید نے اپنی بات پر پھر اصرار کیا اور کہا یا رسول اللہ ! وہ تو یونہی باتیں بنا رہا تھا اور نہ اسلام اس کے دل میں کہاں داخل ہوا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسامہ تم قیامت کے دن کیا جواب دو گے جب اس کا لَا اِلهَ إِلَّا الله تمہارے سامنے پیش کیا جائے گا اور تمہارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہو گا.اسامہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ناراضگی کو ی دیکھ کر اس دن میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش! میں اس سے پہلے کافر ہی ہوتا اور آج مجھے اسلام قبول کرنے کی توفیق ملتی تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے فعل کی وجہ
سے اتنا دکھ نہ پہنچتا.۲۹ ۳۱۶ حضرت خالد بن ولید کے ایک فعل سے اظہار براءت اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد حضرت خالد بن ولید کو بنو جذیمہ کی طرف بھیجا اس زمانہ میں کفار عام طور پر مسلمانوں کو کی صابی کہا کرتے تھے جیسے آجکل ہمیں مرزائی یا قادیانی کہا جاتا ہے یہ دراصل جہلاء کی ایک غلطی ہے جس میں بعض لکھے پڑھے بھی شریک ہو جاتے ہیں.اگر کسی شخص کا نام اس کے ماں باپ نے عبدالرحمن رکھا ہے تو اسے عبدالشیطان کہنے سے نہ وہ عبدالشیطان بن جائے گا اور نہ عبدالشیطان کہنا کوئی شرافت ہو گی.اسی طرح صحیح طریقہ تو یہی ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو حنفی کہتا ہے تو اُسے حنفی کہو، شیعہ کہتا ہے تو شیعہ کہو، سنی کہتا ہے تو سنی کہو ، مگر جس طرح لوگ ہمیں مرزائی یا قادیانی کہتے ہیں یا مشرقی پنجاب میں سکھ ہماری جماعت کے ہر شخص کو مولوی کہتے تھے گو وہ ایک لفظ بھی عربی کا نہ جانتا ہو اسی طرح اُس زمانہ میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو صابی کہا جاتا تھا اور چونکہ عوام الناس میں یہی نام رائج تھا اس لئے جب خالد بن ولید نے انہیں دعوت اسلام دی تو انہوں نے بجائے یہ کہنے کے کہ ہم اسلام قبول کرتے ہیں کہہ دیا کہ صبانا، صبانا ہم صابی ہوتے ہیں ہم صابی ہوتے ہیں.حضرت خالد بن ولید نے ان الفاظ کی کوئی پرواہ نہ کی اور اُن میں سے بعض کو قتل کر دیا اور بعض کو قیدی بنا لیا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیئے اور فرمایا : اللَّهُمَّ إِنِّى أَبْرَهُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ اے خدا میں اُس فعل سے اپنی نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جس کا ارتکاب خالد نے کیا ہے اور آپ نے یہ فقرہ دو دفعہ دہرایا.۳۰ ان مثالوں سے پتہ لگتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آسمانی اور زمینی تیر ایک نشانہ پر نے کبھی کسی غیر مُجرم پر تیر نہیں چلایا جہاں خدا تعالیٰ کا تیر چلا وہیں آپ کا بھی تیر چلا اور جہاں آپ کا تیر چلا وہیں خدا تعالیٰ نے بھی تیر چلایا، اسی طرح آپ کی زندگی میں کوئی ایک بھی مثال ایسی نظر نہیں آتی ، جہاں آپ نے تیر چلانا مناسب سمجھا ہوا اور خدا تعالیٰ نے تیر نہ چلایا ہو، جہاں آپ کی ساری زندگی میں ایک مثال بھی ایسی نہیں پائی جاتی کہ خدا تعالیٰ نے تیر نہ چلایا ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چلا دیا ہو، وہاں ایسی بھی کوئی مثال نظر نہیں آتی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر چلانا مناسب
۳۱۷ سمجھا ہو اور خدا تعالیٰ نے نہ چلایا ہو.یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے فَكَانَ قَابَ قَوسَيْنِ أَوْ أَدنى میں بیان فرمایا ہے کہ دونوں کی کمانیں ایک ہو گئیں اور دونوں کے تیر ایک ہی نشانہ پر پڑنے لگے غرض مَا تَشَاءُ وُنَ إِلَّا اَنْ يَّشَاءَ اللهُ اور مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمی کے ماتحت دونوں ایک مینار پر جمع ہو گئے انسانیت بھی بلند مینار پر جا کھڑی ہوئی اور اُلوہیت بھی انسان کی ملاقات کے لئے بے تاب ہو کر آسمان سے اتر آئی.صعود ونزول کا پُر کیف نظارہ بے شک فرعون نے بھی ایک مینار بنایا تھا مگر اسے اس مینار پر خدا تعالیٰ نظر نہ آیا کیونکہ وہ جھوٹا تھا اُسے نظر آیا تو سمندر کی پاتال میں.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچے اور راستباز انسان تھے آپ کے دل میں اپنے خدا کا سچا عشق تھا اور خدا تعالیٰ کے دل میں مقام محمدیت کی بے انتہاء محبت تھی پس وہ دونوں بے قرار ہو کر ایک دوسرے کی طرف دوڑے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے :- وصل کا مزہ تب ہے کہ دونوں ہوں بے قرار دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خدا نے ملنے کے لئے اوپر کی طرف صعود کیا اور خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے لئے نیچے کی طرف نزول کیا اور اس کے نتیجہ میں دونوں کی قوسیں ایک بن گئیں اور دونوں کے تیر ایک نشانہ پر پڑنے لگے.فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى مَا كَذَبَ الفُؤَادُ مَارَاى تب تین خوبیوں والا کلام اللہ تعالیٰ کا کلام اس مینار پر نازل ہو اجس میں یہ تین خوبیاں تھیں.اول اُس نے الفاظ میں کلام کیا آنکھوں سے نظارہ دیکھا سوم دل سے اُسے قبول کیا اور اس پر ایمان لایا.مخالفین اسلام کے شکوک کا ازالہ پھر فرماتا ہے اَفَتُمْرُونَهُ عَلَى مَايَرَى.وَلَقَدْرَاهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنتَهى کیا تم نے اس کی بات پر شک کرتے ہو کہ : - (1) شاید فلسفیانہ خیالات کی رو میں بہہ گیا ہے.(۲) شاید شیطان نے اس پر کلام نازل کیا ہے.
۳۱۸ (۳) شاید ہوا و حرص کے جذبات پھیپھڑے بن کر اسے نظر آ رہے ہیں.مگر تم اس کا کیا جواب دو گے کہ اُس نے یہ مینار پر نزول ایک دفعہ نہیں دیکھا بلکہ دو دفعہ دیکھا ہے اور پھر اس نزول کو سِدْرَةُ الْمُنتَھی کے نزدیک دیکھا ہے یعنی پیشگوئیوں کے مطابق دیکھا ہے ان کے بغیر نہیں.کیا کسی جھوٹے کے لئے یہ ممکن ہے کہ جب جب اس کی قوم کی مصیبت میں مبتلاء ہو ایک آسمانی وحی کا مدعی اس کی تائید کے لئے کھڑا ہو جائے اور وہ کھڑا بھی اس جھوٹے کے دعوئی کے مطابق ہو اور پھر دنیا میں کامیاب بھی ہو جائے.افق مُبین میں ظاہر ہونے والا ستارہ یہ پیشگوئیاں کیا تھیں ، جن کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے.سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ پیشگوئیاں یہ تھیں.اوّل وہ النجم ہو گا ، یعنی دشمنان محمد کو تباہ کریگا.وَلَقَدْرَاهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِینِ سے وہ مشرق سے ظاہر ہوگا ، حدیثوں میں بھی آتا ہے کہ وہ شَرْقِيَّ دِمَشْق ۳ نازل ہوگا.سوم وه عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ نازل ہوگا.۳۳ الْمَنَارَةُ الْبَيْضَاءُ سے کیا مراد ہے؟ اس جگہ الْمَنَارَةُ الْبَيْضَاءُ سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے اور عِندَ کے معنے قریب کے ہیں پس عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ کے معنے یہ ہیں کہ وہ مقامِ محمد یت سے غایت درجہ کا قرب رکھنے والا ہوگا.غرض وَ النَّجْمِ إِذَا هَولی میں مسیح موعود کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں جب ظلمت کا دور دورہ ہوگا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں اللہ تعالیٰ کی کی طرف سے ایک شخص مبعوث ہو گا جو عِندَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ نازل ہوگا، یعنی وہ مقامِ محمد یت سے انتہائی قرب رکھنے والا ہو گا.اس جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عِندِیت کے مقام سے معیت کے مقام تک مسیح موعود کی ابتداء کو عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ سے تعبیر کیا ہے لیکن آپ نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس کی انتہاء اس سے بھی زیادہ مبارک ہو گی اور وہ میری قبر میں میرے ساتھ دفن ہو گا چنانچہ آپ فرماتے ہیں يُدْفَنُ مَعِي فِي قَبُرِئ " ۳۴
۳۱۹ وہ میرے ساتھ میری قبر میں دفن ہو گا ، جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے نزول کا ایک استعارہ کے رنگ میں ذکر فرمایا ہے اسی طرح اس کی وفات کے لئے بھی آپ نے استعارہ استعمال کیا ہے اور بتایا ہے کہ آنے والے مسیح کا میری ذات کے ساتھ ایسا اتحاد ہو گا کہ یہ نہیں کہا جا سکے گا کہ میسیج کسی اور قبر میں دفن ہؤا ہے بلکہ وہ میری قبر میں میرے ساتھ دفن کیا جائے گا گویا عِندِیت کے مقام سے وہ ارتقاء شروع کرے گا اور معیت کے مقام کو جا پہنچے گا.غرض الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے جن سے غایت قرب رکھنے والے ایک عظیم الشان مصلح کی قرآن کریم نے وَالنَّجْمِ إِذَاهَوى میں خبر دی ہے.قادیان کا مینار کیوں بنایا گیا؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے قادیان میں ایک منارہ بیضاء بنایا جو در حقیقت تصویری زبان میں یہ معنے رکھتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں نے اپنے گھروں کی سے نکال دیا ہے مگر ہم ان کو لا کر اپنی مسجد یعنی جماعت کے اندر رکھتے ہیں یہی اس منارہ بیضاء کی اصل غرض تھی ورنہ اگر یہ سمجھا جائے کہ یہ مینار اس لئے بنایا گیا تھا کہ آنے والے مسیح نے اس کے پاس اُترنا تھا تو یہ ایک پاگل پن کی بات بن جاتی ہے کیونکہ مرزا صاحب تو خود اس بات کے مدعی تھے کہ میں مسیح موعود ہوں پھر کسی نئے اُترنے والے کے ذکر کے کیا معنے تھے؟ پس اس منار کے بنانے کے صرف یہی معنی ہو سکتے تھے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لا کر اپنے گھروں میں جگہ دی ہے اور یہی اس مینار کی اصل غرض ہے.اس مینار کے بنانے کی یہ غرض نہیں تھی کہ اس مسجد میں جس میں یہ مینار کھڑا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یا مسیح موعود نے اُترنا تھا بلکہ جیسے اَلْمَنَارَةُ الْبَيْضَاءُ کے الفاظ استعارہ استعمال کئے گئے تھے اسی طرح یہ بھی ایک تصویری نشان ہے جس کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ الْمَنَارَةُ الْبَيْضَاءُ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور منارہ المسیح تصویری زبان میں لوگوں سے یہ کہہ رہا ہے کہ آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احمد یہ جماعت اپنے گھر لے آئی ہے پس تم اپنی مسجد میں منارہ بیضاء بنا کر اس امر کا اقرار کرتے ہو کہ آج سے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر میں پناہ دے رہے ہیں آج سے ہم اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم ان کی خاطر ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہیں گے.
۳۲۰ جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ وہ اسلام مسجد اقصیٰ کا مینار ظاہر میں اینٹوں اور چونا سے بنی ہوئی ایک عمارت ہے لیکن تصویری زبان میں کے جھنڈے کو کبھی نیچا نہ ہونے دے اس مینار کے ذریعہ ہم میں سے ہر شخص نے یہ اقرار کیا ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر میں لائے ہیں دنیا خواہ آپ کو چھوڑ دے مگر ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے اور ہم آپ کے دین کی اشاعت کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے یہ وہ عہد ہے جو اس منارہ بیضاء کے ذریعہ ہم میں سے ہر شخص نے کیا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم مرتے دم تک اس عہد کو اپنے سامنے رکھیں اور اسلام کا جھنڈا کبھی نیچا نہ ہونے دیں.مسجد اقصیٰ کا قرآن کریم میں ذکر حقیقت یہ ہے کہ مسجد اقصی میں منارہ بیضاء بنانے کی خبر بھی قرآن کریم میں موجود تھی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے سُبُحْنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَا الَّذِى بَرَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ ايْتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ٣٥ یعنی پاک ہے وہ خدا جو راتوں رات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے ماحول کو بھی ہم نے برکت دیدی.اقصیٰ کے معنی دُور کی مسجد کے ہیں اور رات کی تاریکی سے زمانہ کی ظلمت مراد ہے جو فیج اعوج میں پھیلی اور جس نے مسلمانوں کی بنیا دوں کو ہلا دیا.اسی پیشگوئی کو ظاہر میں پورا کرنے کے لئے مسجد اقصیٰ میں ایک مینار بنایا گیا وہ مینا رظاہر میں مٹی اور چونے کی ایک عمارت ہے مگر در حقیقت وہ اس اقرار کا ایک نشان ہے جو اس زمانہ میں ہر احمدی نے اپنی زبانِ حال سے کیا ہے.اس مینار کے ذریعہ ہر احمدی نے اقرار کیا ہے کہ میں اس تاریکی اور ظلمت کے زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر میں پناہ دے رہا ہوں ، آج سے میں اسلام کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں اور ایک لمحہ بھی میری زندگی پر ایسا نہیں آئے گا جب میں اس فرض کو نظر انداز کر دوں.پس منارۃ المسیح محمدیت کے ساتھ تعلق کی علامت ہے جس طرح قرآن نے کہا تھا کہ رات کے وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ چلے گئے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی الہام ہوا.
۳۲۱ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزیں ہوئے قلعہ ہند میں ۳۶ اور پناہ ہمیشہ ظلمات کے وقت یعنی رات کو ہی لی جاتی ہے پس جس طرح سورہ نجم سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مینار ہونا ثابت ہوتا ہے مسجد اقصیٰ میں منارہ بنانے کے یہ معنے ہیں کہ جماعت احمدیہ نے پھر دوسری دفعہ مدینہ کے انصار کی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اندر پناہ دی ہے اور ہر احمدی نے آپ کی حفاظت کا اور آپ کے اردگرد اپنی جانیں لڑا دینے کا اقرار کیا ہے جس اقرار کو پورا کرنا آج ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے.پابندی عہد کی ایک شاندار مثال عرب لوگ تو اپنے اقرار کے اتنے پابند تھے کہ تاریخوں میں لکھا ہے کہ سپین کا ایک رئیس تھا جس کا " ایک ہی بیٹا تھا.ایک دن اُس کے پاس ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا کہ پولیس میرے تعاقب میں آ رہی ہے مجھے خدا کے لئے پناہ دو.اُس نے اپنے مکان میں اُسے چھپا دیا.تھوڑی دیر کے بعد پولیس ایک نوجوان کی لاش اٹھا کر لائی.یہ اس کے بیٹے کی لاش تھی.پولیس والوں نے اُسے کہا ہمیں افسوس ہے کہ کسی بدبخت نے آج آپ کے بیٹے کو مار ڈالا ہے قاتل بھاگ کر اسی طرف آیا تھا کیا آپ نے اُسے دیکھا نہیں؟ اُس نے کہا مجھے تو معلوم نہیں.یہ سن کر پولیس والے چلے گئے.اُس نے اپنے بیٹے کی لاش کو کمرے میں بند کیا اور قاتل کی طرف گیا اور اسے اشارہ سے اپنے پاس بُلا کر کہا کہ یہ شخص جس کو تم نے قتل کیا ہے میرا بیٹا تھا لیکن چونکہ میں تمہیں پناہ دے چکا ہوں اس لئے میں اب تمہیں کچھ نہیں کہتا اس کے بعد اُس نے اسے اپنی جیب میں سے کچھ روپے نکال کر دیئے اور کہا یہ روپے لو اور کسی اور جگہ چلے جاؤ اگر تم سپین میں ہی رہے تو ممکن ہے میرا نفس کبھی مجھے اشتعال دلائے کہ یہ میرے بیٹے کا قاتل ہے اور میں تجھے مار ڈالوں اس لئے روپے لو اور چین سے کہیں باہر چلے جاؤ.چنانچہ اس نے روپے دیئے اور اپنے اکلوتے بیٹے کے قاتل کو اپنے مکان کے پچھواڑے سے باہر نکال دیا.اب دیکھو یہ ایک سچے مسلمان کی حالت تھی کہ نہ صرف وہ اپنے اکلوتے بیٹے کے قاتل کی جان بچاتا ہے بلکہ اُسے بھاگنے کے لئے روپے بھی دیتا ہے اس لئے کہ اس نے اُسے پناہ دی تھی پھر کتنی بڑی ذمہ داری ہے اُس مسلمان پر جو اپنے بیٹے کے قاتل کو نہیں بلکہ اپنی جان بچانے والے کو ، اپنے بیٹوں کی جان بچانے والے کو، اپنی بیوی اور بچوں کی جان بچانے والے کو اپنے گھر میں پناہ دیتا ہے اور پھر اس سے غداری کرتا ہے.
۳۲۲ محمد رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم سے جماعت احمدیہ کا ایک نیا عہد ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نیا عہد کیا ہے ہم نے یہ اقرار کیا ہے کہ دنیا کا ہر انسان خواہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دے ہم آپ کو مرتے دم تک نہیں چھوڑیں گے.ہم نے اس عہد کے نشان کے طور پر اپنے گھروں میں مینار کھڑا کیا اور ہم نے اقرار کیا کہ ہم صرف منہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا اظہار نہیں کرتے بلکہ ہم اس فتنہ عظیمہ کے زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھروں میں بچے طور پر پناہ دیں گے اور اپنی ہر چیز آپ کے لئے قربان کر دیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق انصار کا معاہدہ صحابہ کرام صحابہ کرام نے بھی آج سے تیرہ سو سال پہلے آپ کو اپنے گھروں میں پناہ دی تھی.دعوی نبوت کے تیرھویں سال حج کے موقع پر جب اوس اور خزرج کے کئی سو آدمی مکہ آئے تو ان میں سے ستر لوگ ایسے بھی شامل تھے جو یا تو مسلمان تھے اور یا مسلمان ہونا چاہتے تھے.ایک رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی ایک گھائی میں ان کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے.حضرت عباس رضی اللہ عنہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے اور جو آپ سے صرف ایک سال بڑے تھے وہ بھی آپ کے ساتھ تھے آدھی رات کے قریب مکہ کی ایک وادی میں جب دشمن، اسلام کے خلاف ہر قسم کے منصوبے کر رہا تھا یہ ستر آدمی جمع ہوئے اور آپس میں بحث شروع ہوئی کہ اگر مکہ کے لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آرام سے نہیں رہنے دیتے تو مدینہ کے لوگ اس خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں.حضرت عباس نے کہا وعدے کرنے بڑے آسان ہوتے ہیں لیکن انہیں پورا کرنا مشکل ہوتا ہے.انہوں نے کہا ہم جو کچھ وعدہ کر رہے ہیں سوچ سمجھ کر کر رہے ہیں اور ہم اس اقرار پر بیعت کرنے کے لئے تیار ہیں.حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا اگر میرا یہ بھتیجا مدینہ چلا گیا تو تمام عرب قبائل تمہارے خلاف ہو جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ مدینہ پر بھی حملہ کر دیں اس لئے تم یہ اقرار کرو کہ اگر کسی نے مدینہ پر حملہ کیا تو تم اپنی جان، مال، عزت اور آبرو کو قربان کر کے اس کی حفاظت کرو گے.انہوں نے کہا ہاں ہم اس غرض کے لئے تیار ہیں اور جوش میں جیسے ہمارے ملک کے لوگ نعرے لگاتے ہیں انہوں نے بھی نعرہ تکبیر بلند کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
۳۲۳ فرمایا خاموش رہو اس وقت دشمن چاروں طرف پھیلا ہوا ہے.اگر اسے ہمارے اس اجتماع کی خبر ہو گئی تو ممکن ہے کہ وہ ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرے مگر اب ان کے دلوں میں ایمان کی چنگاری سلگ اٹھی تھی خدا کا نور اُن کے دلوں میں پیدا ہو چکا تھا انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! بے شک ہم بے وطن ہیں مگر ہم آپ کی وجہ سے چُپ ہیں ورنہ آپ اجازت دیں تو ہم ابھی مکہ والوں کو اُن کی شرارت کا مزہ چکھا دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نہیں نہیں مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اجازت نہیں اس کے بعد انہوں نے یہ معاہدہ کیا کہ اگر کوئی دشمن مدینہ پر حملہ آور ہو گا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان بچانے کے لئے ہم اپنی جان، مال اور عزت سب کچھ قربان کر دیں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر لڑائی ہوئی تو ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے.حضرت عباس کا بھی یہی مشورہ تھا چنانچہ آخر یہی معاہدہ ہوا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر کے چلے گئے.جنگ بدر کے موقع پر انصار کا جوش اخلاص جب بدر کے موقع پر مدینہ سے باہر جنگ نہون ہونے لگی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا اے لوگو! مجھے مشورہ دو کیونکہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہماری قافلہ سے مڈبھیڑ نہیں ہوگی بلکہ مکہ کے لشکر سے ہمارا مقابلہ ہو گا.اس پر یکے بعد دیگرے مہاجرین کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! آپ بے شک جنگ کیجئے ہم آپ کے ساتھ ہیں مگر ہر دفعہ جب اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے بعد کوئی مہاجر بیٹھ جاتا تو آپ فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو.آپ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ مہاجرین تو مشورہ دے ہی رہے ہیں اصل سوال انصار کا ہے اور انصار اس لئے چُپ تھے کہ لڑنے والے مکہ کے لوگ تھے وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے یہ کہا کہ ہم مکہ والوں سے لڑنے کے لئے تیار ہیں تو شاید ہماری یہ بات مہاجرین کو بُری لگے اور وہ یہ سمجھیں کہ یہ لوگ ہمارے بھائی بندوں کا گلا کاٹنے کے لئے آگے بڑھ بڑھ کر باتیں کر رہے ہیں مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ اے لوگو ! مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! مشورہ تو آپ کو مل رہا ہے ایک کے بعد دوسرا مہاجر اُٹھتا ہے اور وہ کہتا ہے يَا رَسُولَ اللهِ ! لڑیئے مگر آپ بار بار یہی فرما رہے ہیں کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو اس سے میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی مراد غالباًا ہم انصار سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے.اس نے کہا يَا رَسُولَ اللَّهِ ! ہم تو اس لئے چُپ تھے
۳۲۴ کہ ہم ڈرتے تھے کہ ہمارے مہاجر بھائیوں کا دل نہ دُکھے اگر ہم نے کہا ہم لڑنے کے لئے تیار ہیں تو ان کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ یہ ہمارے بھائیوں اور رشتہ داروں کو مارنے کا مشورہ دے رہے ہیں.پھر اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! شاید آپ کا اشارہ اس بیعت عقبہ کی طرف ہے جس میں ہم نے یہ اقرار کیا تھا کہ اگر مدینہ پر کوئی دشمن حملہ آور ہو ا تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر جا کر لڑنا پڑا تو ہم پر کوئی پابندی نہیں ہوگی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں.اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! جس وقت ہم نے وہ معاہدہ کیا تھا اُس وقت ہمیں معلوم نہیں تھا کہ آپ کی کیا شان ہے يَا رَسُولَ اللهِ ! اب تو آپ کی صداقت ہم پر کھل چکی ہے اور آپ کا مقام ہم پر واضح ہو گیا ہے اب کسی معاہدہ کا کیا سوال ہے.سامنے سمندر ہے آپ حکم دیجئے تو ہم اس میں اپنے گھوڑے ڈالنے کے لئے تیار ہیں اور اگر لڑائی ہوئی تو خدا کی قسم ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.۳۷ صحابہ کا نمونہ ہمارے لئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے یہ وہ وفاداری تھی جو صحابہ کرام نے دکھائی یہ وہ اقرار تھا جس کو انہوں نے پورا کیا.نمونہ سامنے نہ ہو تو انسان کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے غلطی ہوئی لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو صحابہ نے اقرار کیا اس کو پورا کرنے کا نمونہ تمہارے سامنے موجود ہے.ایک قوم تھی جس نے یہ اقرار کیا اور تاریخ کے صفحات اس بات پر شاہد ہیں کہ انہوں نے اپنے اقرار کو پورا کر دیا.پس ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں پتہ نہیں کہ عہد کی کیا قیمت ہوتی ہے، ہمیں پتہ نہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کس طرح حفاظت کی جاتی ہے.ہم کو پتہ لگ چکا ہے اور انصار اور صحابہ کرام نے اپنے عمل اور اپنی قربانی اور اپنے ایثار سے اس کی ایک ایک شق کھول دی ہے ، ایک ایک شرط واضح کر دی ہے پس ہم خدا تعالیٰ کے سامنے یہ جواب نہیں دے سکتے کہ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ اس اقرار کی کیا قیمت ہے.اس جواب سے سوائے مجرم بننے کی کے ہم کچھ اور فائدہ حاصل نہیں کر سکتے ہمیں یا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دین کے لئے اپنی جانیں دینی ہوگی اور یا ہمیں ذلت اور رسوائی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے سامنے ایک مجرم کی حیثیت میں کھڑا ہونا پڑے گا.بہر حال یہ مینار ہر وقت ہمارے فرض کی طرف ہمیں توجہ دلاتا ہے جس طرح مدینہ کے لوگ خود بلا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لے گئے تھے ہم نے بھی یہ مینارا اپنی کی
۳۲۵ مرضی سے بنایا ہے اور اس امر کا اقرار کیا ہے کہ آئندہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے دین کی حفاظت کا ہم ذمہ لیتے ہیں.مینار کی چوٹی بھی اپنا وعدہ یاد دلاتی رہتی ہے اور اس کی روشنی بھی ہمیں بیدار رہنے کی تعلیم دیتی ہے پس جو کچھ انصار نے کیا ہمیں ان سے بڑھ کر نمونہ دکھانے کی کوشش کرنی چاہئے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سراج منیر ہیں (۲) پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو مینارہ بیضاء کہا گیا ہے اس کی مناسبت سے ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں آپ کو سِرَاجًا مُنِيرًا بھی کہا گیا ہے ان الفاظ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دوسرے لوگ مینار بناتے ہیں تو اول مینار خود تاریک ہوتا ہے.دوم انہیں محنت کر کے اس پر روشنی کرنی پڑتی ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سراج کی طرح تھے یعنی ان کی روشنی ذاتی تھی اور پھر وہ روشنی مستقل اور دائی تھی.چاند کی روشنی سورج سے حاصل کر دہ ہوتی ہے لیکن سورج میں ذاتی روشنی ہوتی ہے پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.وہ مینار نہیں جس پر کوئی اور روشنی رکھے تو وہ روشن ہو.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات میں ایک چمکنے والے مینار ہیں لوگوں کو دُنیوی میناروں کے لئے بہت کچھ محنت اور تگ و دو کرنی پڑتی ہے.ان کے لئے بجلی کے قمقموں یا تیل بنتی اور دیا سلائی وغیرہ کا انتظام کرنا پڑتا ہے.پھر دوسرے مینار دن کے وقت کام نہیں آتے صرف رات کے وقت ان کی روشنی سے استفادہ کیا جاتا ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اللہ تعالیٰ نے سِرَاجًا مُّبِيرًا رکھا ہے جس میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ وہ روشن چراغ ہے جو دن کو بھی روشنی دیتا ہے اور رات کو بھی روشنی دیتا ہے.پھر اس کے لئے نہ تیل کی ضرورت ہے نہ بتی کی ضرورت ہے اور نہ کسی جلانے والے کی ضرورت ہے آپ ہی آپ سورج کی طرح ہر وقت روشن اور ضیا پاش رہتا ہے.محمد رسول اللہ کی غلامی میں الہی انوار و برکات کا نزول پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے جولوگ مینار بناتے تھے وہ اس لئے بناتے تھے کہ ان کے ذریعہ وہ خدا تعالیٰ تک پہنچ جائیں مگر وہ ہمیشہ اس سے محروم رہتے تھے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ بھی خدا سے ملے اور جنہوں نے آپ کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کو ملنا چاہا وہ بھی خدا سے ملے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اسی حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي
يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ٣٩ یعنی اے لوگو! اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو اور اس سے ملنے کے خواہشمند ہو تو اس کا ذریعہ یہ ہے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل پڑو وہ تمہیں مل جائے گا.غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے مینار ہیں جن کے ذریعہ انسان خدا تعالیٰ تک پہنچ جاتا ہے ہزاروں ہزار مثالیں اُمتِ محمدیہ میں ایسی پائی جاتی ہیں کہ لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور آپ کی متابعت میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا اور اس کے سے مشرف ہوئے اور اس کے نشانات ان کے لئے ظاہر ہوئے بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر دوسری تمام قوموں کے فاسقوں اور فاجروں کو نکال دیا جائے اور صرف ان کے نیک اور پاک بندوں کا شمار کیا جائے تب بھی ان میں خدا رسیدہ لوگوں کی اتنی مثالیں نہیں مل سکتیں جتنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں میں ہر زمانہ میں نظر آتی ہیں.ہزاروں ہزار لوگ ہر زمانہ میں سے ایسے نظر آتے ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کیا اور ان کی برکات سے دوسرے لوگ بھی متمتع ہوئے.حضرت عمرؓ سے قیصر کی درخواست حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک دفعہ قیصر کے سر میں شدید درد ہوا اور باوجود ہر قسم کے علاجوں کے اُسے آرام نہ آیا.کسی نے اسے کہا کہ حضرت عمر کو اپنے حالات لکھ کر بھجوا دو اور ان سے تبرک کے طور پر کوئی چیز منگواؤ وہ تمہارے لئے دُعا بھی کریں گے اور تبرک بھی بھجوا دیں گے ان کی دعا سے تمہیں ضرور شفا حاصل ہو جائے گی.اُس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا سفیر بھیجا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ یہ متکبر لوگ ہیں میرے پاس اس نے کہاں آنا تھا اب یہ دُکھ میں مبتلاء ہوا ہے تو اس نے اپنا سفیر میرے پاس بھیج دیا ہے اگر میں نے اسے کوئی اور تبرک بھیجا تو ممکن ہے وہ اسے حقیر سمجھ کر استعمال نہ کرے اس لئے مجھے کوئی ایسی چیز بھجوانی چاہئے جو تبرک کا بھی کام دے اور اس کے تکبر کو بھی توڑ دے.چنانچہ انہوں کی نے اپنی ایک پرانی ٹوپی جس پر جگہ جگہ داغ لگے ہوئے تھے اور جو میل کی وجہ سے کالی ہو چکی تھی اُسے تبرک کے طور پر بھجوا دی.اُس نے جب یہ ٹوپی دیکھی تو اُسے بہت بُرا لگا تو اُس نے ٹوپی نہ پہنی مگر خدا تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ تمہیں برکت اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتی ہے.اسے اتنا شدید دردِ سر ہؤا کہ اس نے اپنے نوکروں سے کہا وہی ٹوپی لاؤ
۳۲۷ جو عمر نے بھجوائی تھی تا کہ میں اُسے اپنے سر پر رکھوں چنانچہ اُس نے ٹوپی پہنی اور اُس کا درد جاتا رہا.چونکہ اُس کو ہر آٹھویں دسویں دن سر درد ہو جایا کرتا تھا، اس لئے پھر تو اس کا یہی معمول ہو گیا کہ وہ دربار میں بیٹھتا تو وہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی میلی کچیلی ٹوپی اس نے اپنے کی سر پر رکھی ہوئی ہوتی.ایک صحابی کی قیصر کے مظالم سے نجات یہ نشان جو خدا تعالیٰ نے اسے دکھایا اس میں ایک اور بات بھی مخفی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی قیصر کے پاس قید تھے اور اُس نے حکم دے دیا تھا کہ انہیں سور کا گوشت کھلایا جائے وہ فاقے برداشت کرتے تھے مگر سور کے قریب نہیں جاتے تھے اور گوا سلام نے یہ کہا ہے کہ اضطرار کی حالت میں سور کا گوشت کھا لینا جائز ہے مگر وہ کہتے تھے کہ میں صحابی ہوں میں ایسا نہیں کر سکتا.جب کئی کئی دن کے فاقوں کے بعد وہ مرنے لگتے تو قیصر انہیں روٹی کی دے دیتا جب پھر انہیں کچھ طاقت آ جاتی تو وہ پھر کہتا کہ انہیں سو ر کھلایا جائے اس طرح نہ وہ انہیں مرنے دیتا نہ جینے.کسی نے اُسے کہا کہ تجھے یہ سر درد اس لئے ہے کہ تو نے اس مسلمان کو قید رکھا ہوا ہے اور اب اس کا علاج یہی ہے کہ تم عمر سے اپنے لئے دُعا کر اؤ اور ان سے کوئی تبرک منگوا ؤ.جب حضرت عمر رضی اللہ نے اُسے ٹوپی بھیجی اور اُس کے درد میں افاقہ ہو گیا تو وہ اس سے اتنا متاثر ہو ا کہ اُس نے اِس صحابی کو بھی چھوڑ دیا.اب دیکھو کہاں قیصر ایک صحابی کو تکلیف دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی سزا کے طور اس کے سر میں درد پیدا کر دیتا ہے.کوئی اور شخص اسے مشورہ دیتا ہے کہ عمرؓ سے تبرک منگواؤ اور ان سے دُعا کراؤ وہ تبرک بھیجتے ہیں اور قیصر کا درد جاتا رہتا ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ اس صحابی کی نجات کے بھی سامان پیدا کر دیتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اس پر ظاہر کر دیتا ہے.علوم غیبیہ کا دروازہ کھل گیا (۳) مینار بنانے کی تیسری غرض اجرام فلکی سے علوم غیبیہ کا معلوم کرنا ہوتی ہے لیکن یہ غرض بھی ان میناروں سے کبھی پوری نہیں ہوئی.لوگ مینار بناتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ارواحِ سماویہ سے غیبی علوم ان کو حاصل ہو جائیں مگر کسی مینار سے بھی ان کو غیب کا علم حاصل نہیں ہوتا ، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنے علوم غیبیہ عطا ہوئے کہ جن کی مثال دنیا کے کسی نبی میں نظر نہیں آ سکتی بلکہ آپ تو الگ رہے آپ کے اتباع میں بھی ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے
۳۲۸ غیب کی خبریں دی ہیں اور ان پر اپنے آسمانی اسرار کھولے ہیں.میں نے خود اللہ تعالیٰ کے فضل سے محض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کے فیوض کی وجہ سے علوم غیبیہ سے جو حصہ پایا ہے اس کی مثال موجودہ زمانہ میں اور کہیں نظر نہیں آتی.سینکڑوں غیب کی خبریں جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ظاہر فرما ئیں اور ان میں سے کئی ایسی ہیں جو دنیا میں ایک تہلکہ مچانے کا موجب ہوئیں.لیبر پارٹی کی کامیابی کے متعلق رویا مثلا لیبر پارٹی کی کامیابی کے متعلق جومیں نے رویا دیکھا وہ خدا تعالیٰ کے علم غیب کا ایک زبر دست ثبوت ہے.مسٹر ایٹلی (ATTLEE) جو لیبر پارٹی کے لیڈر اور برطانیہ کے وزیر اعظم تھے خود انہیں اس امر کی کوئی امید نہیں تھی کہ وہ انتخابات میں اکثریت بھی حاصل کر لیں گے یا نہیں.پچیس جولائی ۱۹۴۵ء کی شام تک انگلستان کے اخبارات یہی لکھتے رہے کہ کنزرویٹو پارٹی میدان جیت جائے گی.مسٹر چرچل اپنی کامیابی کے متعلق انتہائی پر امید تھے وہ سمجھتے تھے کہ لوگوں کے دلوں پر میری جنگی خدمات کا اثر ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ لیبر پارٹی برسر اقتدار آ سکے مگر چند ہی گھنٹوں کے بعد جو نتائج برآمد ہوئے انہوں نے تمام اخبارات اور کنزرویٹو پارٹی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور دُنیا دیکھ کر حیران رہ گئی کہ لیبر پارٹی کامیاب ہو گئی ہے.میں نے قبل از وقت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو یہ رویا سنا دیا تھا اور انہوں نے انگلستان جا کر تمام بڑے بڑے لیڈروں کو یہ بات بتا دی تھی اور آخر وہی ہوا جو اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا تھا.لیبیا کے محاذ پر انگریزی اور اطالوی فوجوں کی جنگ اسی طرح جنگ عظیم کے متعلق بہت سے واقعات ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے مجھے اطلاع دی اور جو اپنے وقت پر حیرت انگیز رنگ میں پورے ہوئے.دنیا کا کوئی شخص ان واقعات کا جو مجھے بتائے گئے قبل از وقت قیاس بھی نہیں کر سکتا تھا.مثلاً ۱۹۴۰ء میں مجھے بتایا گیا کہ لیبیا کے محاذ پر دشمن کی فوجوں اور انگریزی فوجوں کے درمیان شدید جنگ ہو گی مگر پھر وہ آگے بڑھیں گے اور فتح حاصل کریں گے.اس کے بعد پھر انگریزوں کو پیچھے ہٹنا پڑے گا اور دشمن کا دباؤ بڑھ جائے گا لیکن دوبارہ پھر انگریز انہیں دھکیل کر پیچھے لے جائیں گے غرض اسی طرح دو تین بار ہو گا مگر آخر انگریزی فوج اپنے دشمن کو دباتی ہوئی سے شکست دے دیگی.جن دنوں میں نے یہ رویا دیکھا میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے اسے
۳۲۹ مکان پر شملہ میں ٹھہرا ہو ا تھا میں نے چوہدری صاحب سے اس خواب کا ذکر کیا.وہ اُس وقت وائسرائے کی کونسل کے اجلاس میں شامل ہونے کے لئے جا رہے تھے جب واپس آئے تو انہوں نے کہا کہ میں نے اس رؤیا کا اور لوگوں کے علاوہ ہز ایکسی لینسی وائسرائے کے پرائیوٹ سیکرٹری سرلیتھویٹ سے بھی ذکر کیا تھا اور انہوں نے اس رویا کو بہت تعجب سے سنا.دوسرے دن وہ چوہدری صاحب کے ہاں چائے پر آئے تو انہوں نے مجھ سے خواہش کی کہ میں خود آپ کی زبان سے یہ رویا سننا چاہتا ہوں.چنانچہ میں نے انہیں دوبارہ رؤیا سُنا یا.اس رؤیا کے بعد بعینہ اسی طرح واقعات رونما ہوئے جس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے دکھائے تھے.۱۹۴۰ء میں اطالوی فوجیں آگے بڑھیں اور انہوں نے انگریزی فوجوں کو پیچھے ہٹا دیا.۱۹۴۰ء کے آخر میں پھر انگریزی فوجیں آگے بڑھیں اور اطالوی فوجیں شکست کھا کر پیچھے ہٹ گئیں.۱۹۴۱ء میں دشمن پھر آگے بڑھا اور انگریزی فوجوں کو دھکیلتا ہوا مصر کی سرحد پر لے آیا.۱۹۴۱ء کے آخر میں انگریز پھر آگے بڑھے اور دشمن کی فوجوں کو شکست دیتے ہوئے اسے کئی سو میل تک لے گئے.جون ۱۹۴۲ء میں پھر دشمن کی فوجیں انگریزی فوجوں کو دھکیل کر مصر کی سرحد پر لے آئیں اور ۱۹۴۲ء کے آخر میں پھر انگریزوں نے بڑھنا شروع کر دیا اس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رؤیا مجھے دکھایا گیا تھا وہ متواتر پورا ہوا اور لفظاً لفظاً پورا ہوا.۲۸ سو ہوائی جہاز بھجوائے جانے کے متعلق رؤیا اسی طرح جن دنوں فرانس، جرمنی کے مقابلہ میں شکست کھا چکا تھا اور انگریز سخت خطرہ میں گھرے ہوئے تھے میں نے رویا میں دیکھا کہ میں انگلستان گیا ہوں اور انگریزوں نے انگلستان کی حفاظت کا کام میرے سُپر د کیا ہے.میں نے کہا میں پہلے فوجی مقامات کو دیکھنا چاہتا ہوں تا کہ یہ اندازہ لگاؤں کہ ہمارے پاس کسی چیز کی کمی تو نہیں اور اگر ہے تو اسے کس طرح پورا کیا جا سکتا ہے.چنانچہ میں نے تمام فوجی ہیڈ کوارٹرز اور سرکاری دفاتر دیکھے اور میں نے وزارت کو رپورٹ کی کہ انگلستان کے پاس صرف ہوائی جہازوں کی کمی ہے اگر مجھے ہوائی جہاز مل جائیں ، تو میں انگلستان کی حفاظت کا کام بخوبی کر سکتا ہوں.اتنے میں رویا میں ہی ایک شخص میرے پاس آیا اور اُس نے مجھے ایک تار دی جس کے الفاظ یہ تھے کہ :- The British Representative from America Wires, that the American Government has delivered
2800 Aeroplanes to the British Government.یعنی برطانوی نمائندہ امریکہ سے تار دیتا ہے کہ دو ہزار آٹھ سو ہوائی جہاز امریکن گورنمنٹ نے برطانوی گورنمنٹ کو دیئے ہیں.میں نے تار پڑھ کر کہا کہ اب کام ہو گیا ہے اب ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں رہی.میں نے یہ رویا انہی دنوں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو سُنا دیا اور انہوں نے کئی برطانوی نمائندوں اور گورنمنٹ کے دوسرے ہندوستانی معزز افسروں میں اس کا ذکر کر دیا.یہ رویا جون ۱۹۴۰ء میں میں نے دیکھا تھا.جولائی کے مہینہ میں میں ایک دن مسجد مبارک میں بیٹھا ہو ا تھا کہ ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اُس نے کہا کہ آپ کے نام ایک ضروری فون آیا ہے.میں گیا تو مجھے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی آواز آئی مگر میں نے محسوس کیا کہ ان کی آواز کانپ رہی ہے.وہ اچھے حوصلے والے آدمی ہیں مگر اس وقت ان کی آواز میں ارتعاش تھا انہوں نے کہا کہ آپ نے آج کی تازہ خبریں پڑھ لی ہیں؟ میں نے کہا پڑھ تو لی ہیں مگر مجھے تو ان میں کوئی خاص بات نظر نہیں آئی.انہوں نے کہا مبارک ہو آپ کی خواب پوری ہو گئی ابھی تار آئی ہے جس میں لکھا ہے :- The British Representative from America Wires, that the American Government has delivered 2800 Aeroplanes to the British Government.گویا وہی الفاظ جو رویا میں مجھے دکھائے گئے تھے ایک مہینہ کے اندر اندر پورے ہو گئے اور برطانوی نمائندے نے امریکہ سے حکومت انگلستان کو اطلاع دی ہے کہ امریکی گورنمنٹ، گورنمنٹ برطانیہ کو ۲۸۰۰ ہوائی جہاز دے رہی ہے.رکلوبر اتمام حجت پھر انہوں نے کہا جن لوگوں کو میں نے یہ خبر سنائی تھی ان میں سے ایک سرکلو بھی تھے ( جو اُس وقت ریلوے بورڈ کے ممبر تھے اور بعد میں آسام کے گورنر مقرر ہوئے ) چونکہ خدا تعالیٰ نے اس رویا کی صداقت کو ان پر ظاہر کرنا تھا اس لئے انہوں نے تارایسی طرز پر پڑھی کہ ان کا خیال اس طرف چلا گیا کہ جو بات رؤیا میں بتائی گئی تھی وہ صحیح طور پر پوری نہیں ہوئی.چنانچہ چوہدری صاحب نے بتایا کہ میں نے سرکلو کو فون کیا کہ سر کو تم کو یاد ہے میں نے تمہیں امام جماعت احمدیہ کی ایک رؤیا سنائی تھی جس میں یہ بتایا گیا
۳۳۱ تھا کہ امریکن گورنمنٹ برطانوی گورنمنٹ کو ۲۸۰۰ ہوائی جہاز دے گی اور آج یہ رویا پوری ہوگئی ہے کیونکہ ابھی تار آئی ہے کہ امریکن گورنمنٹ نے ۲۸۰۰ ہوائی جہاز برطانوی گورنمنٹ کو دے دیئے ہیں انہوں نے کہا بات تو ٹھیک ہے کہ آپ نے مجھے امام جماعت احمدیہ کی خواب سنائی تھی کی مگر وہ ساری پوری نہیں ہوئی آپ نے تو مجھے ۲۸۰۰ ہوائی جہاز بتائے تھے اور تار میں یہ لکھا ہے کہ امریکن گورنمنٹ نے ۲۵۰۰ ( پچیس سو ) ہوائی جہاز دیئے ہیں.میں نے کہا سرکو تارکو دوبارہ پڑھو.اُس نے دوبارہ پڑھا تو کہنے لگا اوہو! یہ تو وہی الفاظ نکل آئے جو آپ نے مجھے بتائے تھے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس خبر کو ایسے رنگ میں پورا کیا کہ سرکلو پر بھی حُجت تمام ہوگئی اور انہوں نے اقرار کیا کہ واقع میں جو بات بتائی گئی تھی وہ پوری ہوگئی ہے.قادیان سے ہجرت کی خبر اس طرح ۱۹۴۱ء میں مجھے قادیان سے نکلنے کی خبر دی گئی اور مجھے دکھایا گیا کہ لڑائی ہو رہی ہے گولیاں چل رہی ہیں اور ہم ایک نئے مرکز کی تلاش میں کسی دوسری جگہ گئے ہیں حالانکہ ۱۹۴۱ء میں کسی کے وہم میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی کہ ہمیں قادیان سے ہجرت کرنی پڑے گی اور ایک نیا مرکز ہمیں بنانا پڑے گا.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہزار ہا غیبی خبریں ملیں اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق پیدا کر کے خود مسلمانوں کے لئے بھی علوم غیبیہ کا منبع کُھل گیا.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے متعلق ایک رؤیا ! ابھی مجھے ایک تازہ رویا ہوا ہے.میں گزشتہ دنوں ناصر آبادسندھ میں تھا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں اپنے مکان کے برآمدہ میں ایک پیڑھی پر بیٹھا ہوں کہ اتنے میں اخبار آیا اور میں نے اُسے کھولا تو اُس میں یہ خبر درج تھی کہ رات نیو یارک ریڈیو سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب شہید کر دیئے گئے ہیں.اس خواب کے اچھے معنے بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ شہادت ایک بڑا رتبہ ہے پس اس سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ انہیں کوئی بڑی کامیابی حاصل ہو گی لیکن ظاہری تعبیر کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ خواب منذ ر بھی ہو سکتی ہے اور اس کے یہ معنے بھی کئے جا سکتے ہیں کہ ان کے کام میں مشکلات پیدا ہو جائیں گی اور دشمن انہیں نا کام کرنے کی کوشش کریگا.چنانچہ اس رویا کے بعد جب میں کراچی پہنچا تو تیرہ مارچ (۱۹۴۸ء) کو میں نے انہیں تار دیا کہ میں نے ایسا رویا دیکھا ہے
۳۳۲ اور میں نے لکھا کہ گو خواب میں قتل سے مراد کوئی بڑی کامیابی بھی ہو سکتی ہے لیکن ظاہری تعبیر کے لحاظ سے چونکہ یہ رویا منذر ہے اس لئے انہیں احتیاط رکھنی چاہئے.اس کے جواب میں مجھے ان کی طرف سے تار بھی ملا اور پھر تفصیلی خط بھی آ گیا جس میں ذکر تھا کہ بعض حکومتیں اپنی ذاتی اغراض کے لئے مخالفت کر رہی ہیں اور کام میں مشکلات پیدا ہوتی جا رہی ہیں.چوہدری صاحب کی بیوی مجھ سے ملنے کے لئے آئیں تو میں نے ان سے بھی اس رؤیا کا ذکر کر دیا.انہوں نے بتایا کہ میں نے بھی چوہدری صاحب کے متعلق ایک منذر رویا دیکھا ہے جس میں کسی حملہ کی طرف اشارہ ہے اور آپ کی خواب بھی یہی بتا رہی ہے.میں نے کہا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ واقع میں کوئی دشمن غصہ میں آکر ان پر حملہ کر دے مگر اصل تعبیر یہی معلوم ہوتی ہے کہ جو کام وہ کر رہے ہیں اس میں دشمن انہیں نا کام کرنے کی کوشش کرے گا.محمدی مینار تا ابد آپ کے نام کو قائم رکھنے والا ہے (۴) پھر مینار بنانے کی.چوتھی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ چاہتے ہیں کہ ان میناروں کے ذریعہ ان کا نام دنیا میں قائم رہے اور لوگ انہیں عزت کے ساتھ یاد کریں مگر ہمیں دکھائی یہ دیتا ہے کہ خود بنانے والوں کے ناموں میں ہی اختلاف پیدا ہو جاتا ہے.ایک کہتا ہے یہ قطب الدین ایبک کی لاٹ ہے اور دوسرا کہتا ہے یہ فلاں راجہ کی لاٹ ہے ایک کہتا ہے یہ فلاں بادشاہ کا مینار ہے اور دوسرا کہتا ہے یہ فلاں راجہ کا مینار ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مینار تا ابد آپ کے نام کو قائم کرنے والا ہے اور پھر اس کے بنانے والے کے متعلق کسی کو شبہ نہیں.ہر شخص دوست اور دشمن مانتا ہے کہ یہ منارہ محمد کی ہے دنیا میں اس کا کبھی کوئی اور مدعی ہو ہی نہیں سکتا اور یہ جامعہ کسی اور کے بدن پر زیب ہی نہیں دے سکتا.پھر دنیوی میناروں اور اس محمدی مینار دنیا کے ہر مقام پر کھڑا کیا جا سکتا ہے مینار میں ایک اور فرق یہ ہے کہ ان میناروں کو خواہ کتنی ضرورت ہو اپنی جگہ سے ہلایا نہیں جا سکتا.دتی سے مسلمان چلے گئے مگر فیروز شاہ کی لاٹ وہیں کھڑی رہی.دلی سے مسلمان چلے گئے مگر قطب الدین کی لاٹ وہ اپنے ساتھ نہیں لے گئے لیکن دنیا کے کسی خطہ میں تم چلے جاؤ اور جہاں بھی چاہور ہو تم اس مقام پر محمدی مینار کھڑا کر سکتے ہو یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی تبلیغ اور اشاعت کر
۳۳۳ سکتے ہو.ہندوستان کے مسلمانوں کو آجکل یہ نکتہ یاد رکھنا چاہئے اب ہندوستان میں محمدی مینار کھڑا کرنا ان کے ذمہ ہے خصوصاً احمدی جماعت کے ، ان کو تو ایک منٹ کے لئے بھی یہ بات نہیں بھولنی چاہئے اور ہندوؤں اور سکھوں میں تبلیغ جاری رکھنی چاہئے مایوس ہونے والی بات نہیں جس خدا نے اسلام کو دنیا میں اتنا پھیلایا ہے وہ پھر بھی اُن کی زبانوں میں تاثیر پیدا کر سکتا ہے اور لوگوں کے دلوں کو صاف کر سکتا ہے.بہر حال یہ محمدی مینار اپنے اندر یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ تم جہاں چاہو اس کو کھڑا کر سکتے ہو اور جس جگہ بھی تم اس مینار کو کھڑا کرو گے وہیں خدا تعالیٰ کے انوار اترنے لگ جائیں گے اور ہر جگہ تم اس مینار سے روشنی حاصل کر سکو گے.قطب الدین کی لاٹ پر اگر بڑے سے بڑا روشن چراغ بھی جلاؤ تو وہ زیادہ سے زیادہ پندرہ میں میل تک روشنی پہنچا سکتا ہے.سمندر کی تاریکیوں میں جب کہ بڑی بڑی چٹانوں سے جہاز ٹکرا کر پاش پاش ہو رہے ہوتے ہیں ان میناروں کی روشنی سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا اور ہزار دو ہزار میل تک تو دنیا کا کوئی مینار بھی روشنی نہیں پہنچا سکتا لیکن اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت ہو تو خواہ انسان طوفانوں میں گھر جائے ، حوادث اور مصائب کے بادل اس پر امڈ آئیں ، اگر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دے کر خدا تعالیٰ سے دعا کریگا تو وہیں مینارِ محمدی کھڑا ہو جائے گا اس کے لئے کوئی جگہ مخصوص نہیں، اس کے لئے کوئی وقت معین نہیں ، سمندروں پر یہ مینار کھڑا کیا جا سکتا ہے، پہاڑوں پر یہ مینار کھڑا کیا جا سکتا ہے، غاروں میں یہ مینار لے جایا سکتا ہے ، غرض ہر مقام اور ہر جگہ پر اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے اور یہ وہ خوبی ہے جو دنیا کے کسی اور مینار میں نہیں پائی جاتی.پھر اس مینار میں محمدی مینار ہر انسان کو اس کے درجہ کے مطابق روشنی دیتا ہے ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس سے ہر شخص اپنے درجہ کے مطابق روشنی حاصل کر سکتا ہے.اگر قطب الدین کی لاٹ پر دس ہزار وولٹ کی روشنی ہے اور تمہیں اس سے کم روشنی کی ضرورت ہے تو وہ اتنی ہی روشنی دے گا یا زیادہ روشنی کی ضرورت ہو تب بھی وہ دس ہزار وولٹ سے زیادہ روشنی نہیں دے گا اور اگر اس پر پندرہ ہزار وولٹ کی روشنی ہے تو وہ پندرہ ہزار وولٹ کی روشنی ہی ہر شخص کو دے گا لیکن مینارہ محمد کی میں یہ خوبی ہے کہ انسان خواہ کتنی ترقی کر جائے یہ مینار اس کے درجہ کے مطابق اسے روشنی دیتا چلا جاتا ہے.اگر تمہیں دس ہزار وولٹ کی روشنی چاہئے تو وہ تمہیں دس
۳۳۴ ہزار وولٹ روشنی مہیا کرے گا ، اگر تمہیں پچاس ہزار وولٹ کی ضرورت ہے تو وہ تمہیں پچاس ہزار وولٹ روشنی دے گا ، اگر تمہیں ایک لاکھ وولٹ کی ضرورت ہے تو وہ تمہیں ایک لاکھ وولٹ روشنی مہیا کرے گا.غرض روحانی ارتقاء کے راستہ میں کوئی مقام ایسا نہیں آ سکتا جہاں یہ کی کہا جا سکے کہ اب مینارہ محمدی سے روشنی حاصل نہیں کی جاسکتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے قرب کے وراء الورای مقامات پر بھی اگر انسان پہنچ جائے تب بھی وہ محمد سی مینار کی روشنی کا محتاج ہے.یہی وہ نکتہ تھا جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ: - ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے تھوڑے ہی دن ہوئے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی عظمت ایک مسلمان اخبار میں میں نے پڑھا کہ مرزا صاحب نے حضرت مسیح ناصری کی کتنی بڑی ہتک کی ہے کہ وہ کہتے ہیں :- ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے حالانکہ واقع یہ ہے کہ جب تک وہ لوگ جو اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج روحانیہ کے حامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے بلند ترین مقامات کو طے کر چکے ہیں یہ نہ کہیں کہ ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں حاصل کیا ہے اور یہ کہ اس قدر ترقی کرنے کے باوجود ہم اب بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور آپ کے خاک پا ہیں اس وقت تک مقام محمدی کی فضیلت کسی طرح ثابت نہیں ہو سکتی اور نہ ختم نبوت کی حقیقت روشن ہو سکتی ہے.کوئی عیسی کا مرید اگر اس پر بُرا مناتا ہے تو بیشک بُرا منائے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سچا غلام بڑے سے بڑا مقام حاصل کر سکتا ہے اور جتنا بھی وہ بڑھتا چلا جائے گا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار سے ہی استفادہ کریگا اور ہمیشہ آپ کے غلاموں اور چاکروں میں ہی اس کا شمار ہوگا.ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس دعوی کے نتیجہ میں ہم مارے جائیں یا قتل کئے جائیں یا اپنے وطنوں سے نکال دیئے جائیں ہم فخر سمجھیں گے کہ ہم نے ماریں کھا کر اور گالیاں سن کر اور وطنوں سے بے وطن ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کیا اور آپ کی عظمت کو دنیا میں روشن کیا.
۳۳۵ وو نسخہ کیمیا پھر اس مینار کی ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ ہر شخص کو اس کی استعداد روحانیہ کے مطابق روشنی دیتا ہے اور دوسری طرف اس پُرانی مثل کے مطابق جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ جب کوئی شخص سم سم گھل جا کہتا تھا تو خزانے کا دروازہ خود بخود کھل جاتا تھا یہاں بھی ایک ایسا ہی سم سم کا نسخہ موجود ہے جس کو استعمال کرنے سے منارہ محمدی کی روشنی فوراً زیادہ ہو جاتی ہے گو اس وقت اس کا ساتھی کم روشنی حاصل کر رہا ہو یہ روشنی بڑھانے والا نسخہ یہ ہے اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَاصَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ یہ ایک کنجی ہے جو اس مینار سے روشنی حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے تمہارے سپرد کی ہے تم خدا تعالیٰ سے یہ کہتے ہو کہ اے خدا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور بڑھا جس طرح تو نے حضرت ابراہیم اور آل ابرہیم کا نور بڑھا یا جب کوئی بندہ اس نسخہ کو استعمال کرتا ہے تو خدا تعالیٰ کہتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور بڑھانے کا وعدہ تو میں نے کیا ہو ا ہی ہے اس بندہ نے جو مجھے وعدہ یاد دلایا ہے تو میں اس کے بدلہ میں اس بندے کا بھی نور بڑھاؤں گا اور اسے بھی ایک چھوٹا محمد بناؤں گا.پس اس نسخہ کو استعمال کر کے اس مینار محمدی کی نقل میں اور بھی کئی چھوٹے چھوٹے مینار تیار ہونے لگ جاتے ہیں.یہ مینار ہمیشہ تیار ہوتے رہے اور ہوتے چلے جائیں گے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی اُمت میں ایسے لوگ پیدا نہیں ہو سکتے جو خدا کے مقرب ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہوں وہ جھوٹا ہے.وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتا ہے وہ آپ کے فیضان کو بند کرتا ہے ہم جانتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت بھی زندہ تھے جب آپ جید عصری کے ساتھ اس دنیا میں موجود تھے اور اس وقت بھی زندہ ہیں جب آپ دنیا سے جاچکے ہیں.دنیا پیدا ہو گی اور فنا ہوگی لوگ آئیں گے اور مریں گے انسانی نسل دنیا میں پیدا ہوگی اور مٹے گی مگر میرا رسول
۳۳۶ ہمیشہ کے لئے زندہ ہے جو شخص اس کے خلاف کہتا ہے وہ جھوٹا ہے اور اگر اس پر کوئی مجھے پھانسی بھی دینا چاہے تو میں پھانسی کے تختہ پر بھی چڑھنے کے لئے تیار ہوں.مینارہ محمدی کی نقل میں بعض اور چھوٹے چھوٹے مینار پھر اس منارہ محمدی کی نقل میں بعض اور چھوٹے چھوٹے الله منارے بھی تیار ہوئے ہیں جس طرح کہ ایک بڑا مینارہ تیار ہوا ہے جس کے متعلق خود الْمَنَارَة الْبَيْضَاء نے خبر دی تھی اور قرآن کریم نے بھی کہا تھا کہ وَلَقَدْرَاهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَھی اور ان مناروں کی خبر قرآن کریم میں یوں دی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبْرَ رَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى يَهْدِى اللّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَّشَاءُ وَيَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَالْأَصَالِ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلوةِ وَإِيتَاءِ الزَّكُوةِ يَخَافُونَ يَوْماً تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْاَبْصَارُ لِيَجْزِيَهُمُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُم مِّنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ " یعنی اللہ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكُوةٍ فِيْهَا مِصْبَاحٌ اس کے نور کی کیفیت یہ ہے کہ جیسے ایک طاقچہ ہو اور اُس طاقچہ میں ایک چراغ ہو.اَلْمِصْبَاحُ فِی زُجَاجَةٍ اُس طاقچے کے پیچھے ایک REFLECTOR لگا ہوا ہو الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ اور وہ REFLECTOR اتنا صاف اور عمدہ ہو جیسے ایک چمکتا ہوا ستارہ ہوتا ہے يُوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبْرَكَةٍ زَيْتُونَةٍ اور وہ چراغ ایک مبارک درخت سے جو زیتون کی قسم میں سے ہے جلایا جاتا ہو لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرُبِيَّةِ نہ وہ شرقی ہے نہ غربی يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْلَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ قریب ہے کہ اس کا تیل آپ ہی آپ جل اُٹھے خواہ اسے آگ نہ دکھائی جائے مگر چونکہ اسے آگ بھی دکھائی گئی ہے اس لئے نُورٌ عَلى نُورِ نور پر نور نازل ہونا شروع ہو گیا ہے يَهْدِى اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ اِس نور کے لئے جس کو چاہتا ہے وہ ہدایت دیتا ہے وَيَضْرِبُ اللهُ الأمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللهُ بِكُلّ شَيْءٍ عَلِيمٌ اور اللہ تعالیٰ لوگوں
۳۳۷ کے لئے اپنے دین کی تفاصیل بیان کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر بات کو جاننے والا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس مضمون کو بیان فرماتا ہے کہ خدا کا یہ نور کس مینار پر رکھا جاتا ہے فرماتا ہے فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللهُ اَن تُرْفَعَ یہ نور ان گھروں میں رکھا جائے گا جن کے متعلق خدا تعالیٰ کی نے حکم دیا ہے کہ وہ دنیا میں میناروں کی طرح بلند کئے جائیں.وَيُذْكَرَفِيْهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَابَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلوةِ وَايْتَاءِ الزَّكَوةِ اور جن میں رات اور دن خدا کا ذکر کیا جاتا ہے اور صبح وشام اس کی تسبیح کی جاتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کو تجارت اور خرید وفروخت خدا کے ذکر اور نمازوں کے قیام کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتی.يَخَافُونَ يَوْماً تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالاَ بُصَارُ اور وہ اُس دن سے ڈرتے ہیں جس دن انسانوں کے دل دھڑ کنے لگ جائیں گے اور ان کی آنکھیں جھک جائیں گی.لِيَجْزِ يَهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ تا که اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کے اعلیٰ حصے کا اُن کو بدلہ دے اور اپنے فضل سے ان کے انعامات میں اور بھی زیادتی کرے.وَاللَّهُ يَرُزِقُ مَنْ يَّشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابِ اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا کرتا ہے.روحانی عظمت اور بلندی کے مستحق افراد کی تعیین ! ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ روحانی طور پر بعض گھروں کو اونچا کر دیتا ہے یعنی دنیا میں انہیں ایک مینار کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے مگر فرماتا ہے کہ یہ کون سے گھر ہیں یہ وہی گھر ہیں يُسَبِّحُ لَهُ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَالَّا صَالِ - رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلوةِ وَإِيتَاءِ الزَّكُوةِ ي وہ گھر ہیں جن کے اندر صبح و شام خدا تعالیٰ کا نام لیا جاتا ہے اور صرف منہ سے ہی نام نہیں لیا جا تا بلکہ عملاً بھی وہ اس کے لئے ہر قسم کی قربانی کرتے ہیں وہ تجارتیں بھی کرتے ہیں وہ سو دا بھی کی بیچتے ہیں وہ روپیہ بھی کماتے ہیں لیکن باجود اس کے ان کا روپیہ انہیں خدا تعالیٰ سے غافل نہیں کر دیتا.ان کی تجارت انہیں حقوق اللہ سے اور حقوق العباد کی ادائیگی سے روک نہیں دیتی وہ بندوں کا حق ادا کرتے ہیں ، وہ غریبوں کی بھی ہمدردی کرتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کو بھی نہیں بھلاتے.جماعت احمد یہ ہمیشہ اس نکتہ کو یا د رکھے کیونکہ اسی میں اس کی فلاح ہے.ایک قابل غور نکتہ دین کے لئے روپیہ کمانا بھی اس کا فرض ہے لیکن روپیہ کماتے وقت دین
۳۳۸ کی محبت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اپنے دل میں رکھنا بھی اس کا فرض ہے بلکہ میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی اور شخص بھی اس نکتہ پر عمل کرے گا تو خواہ وہ کسی فرقہ کا ہو وہ یقیناً ہدایت پائے گا اور خدا تعالیٰ کی نصرت حاصل کرے گا کیونکہ جو شخص نیکی کی طرف ایک قدم اُٹھاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور قدم اُٹھانے کی بھی توفیق مل جاتی ہے.اپنے دائرہ میں ہر مسلمان کو ایک بہر حال یہ آیات بتاتی ہیں کہ حمد رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آپ کی اُمت کے ہر فرد کے چھوٹا سا محمد بنے کی کوشش کرنی چاہئے لئے دنیا کا روحانی مینا ربننے کا سامان مہیا کیا گیا ہے.وہ صرف دنیا کما کر کبھی اونچے نہیں ہو سکتے انہیں اصل اونچائی اُس وقت حاصل ہوگی جب وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جزو بن جائیں گے، جب وہ خدا تعالیٰ کا ذکر دنیا میں قائم کریں گئے، جب وہ نمازوں پر التزام رکھیں گے، جب وہ زکوۃ کے ادا کرنے والے ہوں گے اور کسی قسم کے ظلم اور فتنہ میں حصہ نہیں لیں گے، یہ وہ نسخہ ہے جس کو استعمال کر کے دنیا کا ہر مسلمان روحانی دنیا کا ایک چھوٹا مینار بن سکتا ہے مگر افسوس ہے کہ آج مسلمان اس نسخہ کو بُھول چکے ہیں وہ دنیا کی تمام بلندیوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ یہ تو چاہتے ہیں کہ ترقی کرتے کرتے ایک چھوٹے شیکسپیئر بن جائیں ، وہ یہ تو چاہتے ہیں کہ وہ ایک چھوٹے ہیگل بن جائیں، وہ یہ تو چاہتے ہیں کہ وہ ایک چھوٹے فلسفی بن جائیں، وہ یہ تو چاہتے ہیں کہ اگر سائیکالوجی کا کوئی بہت بڑا ماہر گزرا ہے تو وہ اس کی نقل میں ایک چھوٹے سائیکالوجسٹ بن جائیں، وہ یہ تو چاہتے ہیں کہ ایک چھوٹے جیمز یا ایک چھوٹے فرائڈ بن جائیں مگر آج مشرق سے لے کر مغرب تک کسی مسلمان کے دل میں یہ خواہش نہیں پائی جاتی کہ وہ ایک چھوٹا محمد بن جائے حالانکہ ہمارے دل میں سوائے اس کے اور کوئی خواہش نہیں ہونی چاہئے کہ خواہ کچھ بھی ہو اور خواہ ہمیں اِس کے لئے کوئی بھی قربانی کرنی پڑے ہم ایک چھوٹے محمد بن جائیں.اپنے روحانی باپ کی نقل کرو بچوں کودیکھ لو دنیامیں ہر بچہ اپنے ماں باپ کی محبت کی وجہ سے ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے.جن کی مائیں اپنے بچوں سے تو تلی زبان میں باتیں کرنے کی عادی ہوتی ہیں ان کے بچے بھی اسی رنگ میں بات کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں اور جن کے باپ باتیں کرتے وقت ہکلاتے ہیں اُن کے بچے کی
۳۳۹ بھی رُک رُک کر باتیں کرتے ہیں بلکہ میں نے تو دیکھا ہے کہ اگر باپ کی آنکھ یا ناک یا ہاتھ میں بات کرتے وقت کوئی معمولی سی حرکت بھی ہوتی ہے تو ویسی ہی حرکت بچے کی آنکھ یا ناک یا ہاتھ میں بھی پائی جاتی ہے یا اگر ماں اپنی آنکھ کو ذرا جھپک کر بات کرنے کی عادت ہو تو اس کی بیٹی میں بھی آنکھ کی ویسی ہی جھپک آ جاتی ہے.غرض بچے اپنے اخلاق اور اپنی عادات اور اپنی زبان اور اپنے لب ولہجہ میں اپنے ماں باپ کی نقل کرتے ہیں اور یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو ماں باپ سے بچوں میں آجاتی ہیں مگر یہ کتنے بڑے افسوس کا مقام ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کامل باپ موجود ہے مگر مسلمان اس کی نقل کرنے میں کوتاہی کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے باپ کو چھوڑ کر دوسرے باپوں کے پیچھے بھاگے پھرتے ہیں.کوئی بچہ نادان سے نادان اور پاگل سے پاگل بھی ایسا نہیں ہو سکتا جو اپنے باپ اور اپنی ماں کو چھوڑ کر دوسروں کے پیچھے بھا گا پھرے.انسان کے بچہ کو جانے دو گتے بھی ایسا نہیں کرتے.ایک گتے کو بھی اگر چند دن روٹی کھلاؤ تو وہ اپنے مالک کے گھر کا دروازہ نہیں چھوڑتا لیکن آج مسلمانوں کے دلوں میں اپنے عظیم الشان روحانی باپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل کرنے کی خواہش پیدا نہیں ہوتی وہ منہ سے تو کہتے ہیں کہ اسلامی حکومت قائم ہونی چاہئے مگر یہ حکومت وہ دوسروں سے منوانا چاہتے ہیں خود اس حکومت کا جوا اُٹھانے کے لئے تیار نہیں حالانکہ ہزاروں ہزار احکام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے ہیں کہ نہ ان کے لئے کسی قانون کی ضرورت ہے نہ آئین کی ضرورت ہے نہ جتھے کی ضرورت ہے.اللہ اکبر کہا اور نماز شروع کر دی.کیا اس کے لئے کسی قانون کی ضرورت ہے یا رمضان آیا اور روزے رکھنے شروع کر دیئے کیا اس کے لئے کسی آئین کی ضرورت ہے؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا کے چپہ چپہ پر بغیر کسی قانون اور آئین کے قائم کی جاسکتی ہے مگر مسلمان اس کے لئے تیار نہیں.وہ نعرے لگانا جانتے ہیں وہ تو منہ کی پھونکوں سے گفر مٹانا چاہتے ہیں لیکن عملی رنگ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین و کے لئے کچھ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.افراد جماعت کو نصیحت میں اپنی جماعت سے کہتا ہوں میں نے پہلے بھی کئی دفعہ نصیحت کی ہے اور اب پھر کہتا ہوں کہ تمہارا سب سے بڑا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ خواہ کتنا ہی چھوٹا سہی مگر بہر حال تم اپنے دائرہ میں چھوٹے محمد بن جاؤ.جس دن تم میں سے ہر شخص اپنے آپ کو ایک چھوٹا محمد بنانے کی کوشش کرے گا ، جس
۳۴۰ دن تم اُٹھتے بیٹھتے اور چلتے پھرتے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر بن جاؤ گے اور جس دن تمہاری زندگی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کی جھلک پیدا ہو جائے گی دنیا سمجھ لے گی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور تمہارے اعمال اور اخلاق اور کردار کو دیکھ کر اس کے دل میں تمہاری محبت بڑھتی چلی جائے گی.تم ایک زندہ اور مجسم نمونہ ہو گے تم چلتی پھرتی تبلیغ ہو گے، تم دنیا کے راہنما اور راہبر ہو گے تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آستانہ کی طرف دنیا کو کھینچ کر لانے والے ہو گے اور وہ لوگ بھی آخر تمہارے نمونہ کو دیکھ کر بے تاب ہو جائیں گے اور کہیں گے کہ جب تک ہم سب سے بڑے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھ لیں ہم صبر نہیں کر سکتے تب دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہو جائے گی اور تمام بنی نوع انسانی آپ کی غلامی میں شامل ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ سے دُعا اب میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ لوگوں کو بھی اور ہمارے بیوی بچوں کو بھی اور ہمارے دوستوں کو بھی اور ہمارے ملنے والوں کو بھی اور ہمارے ہم قوموں کو بھی اور ہمارے ہم مذہبوں کو بھی اور ہمارے ساتھ نام میں اشتراک رکھنے والے مسلمانوں کو بھی بلکہ ہمارے ساتھ انسانیت میں اشتراک رکھنے والے تمام غیر مسلموں کو بھی میرے آقا کی محبت بخش دے اور ساری دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں شامل ہو جائے.پس آؤ ! ہم خدا تعالیٰ سے التجا کریں کہ اے خدا! ہم کمزور ہیں ، ہم نحیف اور ناتواں ہیں ، ہمارے دل تاریک ہیں ، ہماری زبانیں زنگ آلود ہیں تو اپنے بندوں پر رحم فرما اور ہماری زاری کو قبول کرتے ہوئے پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کر دے، پھر قرآن کی حکومت دنیا میں قائم کر دے، پھر تیرا نور دنیا کو روشنی دینے والا بنے ، پھر دنیا کی ساری ظلمتیں اور تاریکیاں مٹ جائیں 66 اور دنیا میں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی نور باقی رہے.امِيْنَ اللَّهُمَّ (مِینَ.“ المؤمن : ۳۸،۳۷ مسلم كتاب الفتن باب ذکر الدجال - حدیث نمبر ۷۳۷۳ صفحه ۱۲۸۱ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية ابريل ۲۰۰۰ء
۳۴۱ عبد اللہ بن سبا: یہ صنعا کا یہودی اور سبائی تحریک کا بانی تھا.بعض روایات کے مطابق شیعہ مسلک کا بانی تھا.اس نے حضرت عثمان کے زمانہ میں مسلمانوں میں نفاق پھیلایا.بقول اس کے حضرت علیؓ حضور کے وصی ہیں نیز خدا کے اوتار تھے.حضرت علیؓ نے اسے سزائے موت دی.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۹۷۳.مطبوعہ لا ہور ۱۹۸۸ء) المنجد عربی اُردو صفحہ ۱۰۵۸.مطبوعہ کراچی ۱۹۹۴ء.مسلم کتاب الايمان باب بيان كفر مَنْ قَال مطرنا بالنوء.حدیث نمبر ۲۳۱ صفحه ۴۹ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية اپریل ۲۰۰۰ء ارڈ پوپو : نجومی.ضدی.احمق ( یہ پنجابی لفظ ہے ) ( تنویر اللغات صفحہ ۶ ۵ مطبوعہ لاہور ) ك يونس : ۹۱ النجم : ۲ تا ۱۹ كنز العمال جلد ۱۱ صفحه ۱۸۱ مطبوعہ حلب ۱۹۷۴ء.بخارى كتاب التفسير تفسير سورة الجمعة باب قوله و اخرينَ مِنْهُم (الخ) حدیث نمبر ۴۸۹۷۷ صفحہ ۸۶۹ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ال الحجر : ۱۷ تا ۱۹ ١٢ ابوداؤد كتاب الملاحم باب مَايُذكَرُ فى قرن المائة - حدیث نمبر ۴۲۹۱ صفحه ۶۰۲ مطبوعه الرياض الطبعة الاولیٰ اپریل ۱۹۹۹ء الجن : ١٠ الصفت : ۷ تا ۱۱ الشعراء : ۲۱۳ ها الطور :٣٩ لى تعطير الانام صفحه ۱۰۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۸ء.منتخب الكلام فى تفسير الاحلام مؤلفه ابن سیرین بر حاشیه تعطير الانام الجزء الاول صفحه ۱۵۶ مطبوعہ مصر ۱۳۲۰ھ 19 مشكوة باب مناقب الصحابة صفحه ۵۵۴ مطبوعه قدیمی کتب خانہ کراچی ۱۳۶۸ھ ۲۰ بخاری کتاب الادب باب المقة مِنَ الله تعالى حدیث نمبر ۶۰۴۰ صفحه ۱۰۵۵ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ال بخارى كتاب الانبياء باب نزول عيسى ابن مريم عَلَيْهِمَا السَّلام - حدیث نمبر ۳۴۴۸ صفحه ۵۸۱ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء
۳۴۲ ۲۲ الطلاق : ۱۲،۱۱ ۲۳ الطارق : ۲ تا ۴ ۲۴ تذکرہ صفحہ ۱۳۷.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء ۲۵ مشوش: پریشان.مضطرب.حیران.(فیروز اللغات اردو صفحه ۱۲۵۳ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء) ۲۲ پیدائش باب ۶ آیت ۵ تا ۷ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور مطبوعہ ۱۹۴۳ء الدهر : ٣١ ۲۸ الانفال : ١٨ ۲۹ بخاری کتاب الديات باب مَنْ اَحْيَاهَا - حدیث نمبر ۶۸۷۲ صفحه ۱۱۸۴ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ٣٠ بخارى كتاب المغازی باب بعث النبي صلى الله عليه وسلم خالد بن وليد الى بني جذيمة.حديث نمبر ۴۳۳۹ صفحه ۷۳۴ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ٣١ التكوير : ۲۴ ٣٣،٣٢ مسلم كتاب الفتن باب ذكر الدجال - حدیث نمبر ۷۳۷۳ صفحه ۱۲۸۱ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية اپریل ۲۰۰۰ء ۳۴ مشكوة كتاب الفتن باب نُزُول عِيسَى عَلَيْهِ الصلوة والسلام - صفحه ۴۸۰ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱۳۶۸ھ ۳۵ بنی اسراءیل : ۲ ۳۶ تذکرہ صفحه ۴۰۴.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ء ۳۷ سیرت ابن هشام الجزء الثانی صفحه ۱۲، ۱۳ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۳۸ الاحزاب : ۴۷ ۱۳۹ل عمران :۳۲: ٤٠ النور : ۳۶ تا ۳۹
۳۴۳ بِسْمِ الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ (۵) ( تقریر فرموده مورخه ۲۸ دسمبر ۱۹۵۰ء بر موقع جلسه سالانه ) عالم روحانی کا دیوان عام تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا : - کے مضمون کا محرک ”جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے ۱۹۳۸ء میں میں اپنے بعض کاموں کے سلسلہ میں سندھ گیا اور پھر وہاں سے کراچی چلا گیا میرا گلا ان دنوں بہت خراب تھا اور ڈاکٹر بتاتے تھے کہ گلے کی خرابی کے لئے سمندر کی ہوا بہت مفید ہوتی ہے اور تجربہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے چنانچہ جب سمندر کی سیر کا موقع ملا تو اس کے بعد ایک لمبے عرصہ تک مجھے گلے کی تکلیف نہیں ہوئی اسی نقطہ نگاہ کے ماتحت میں کراچی گیا اور ارادہ کیا کہ ہم جہاز میں سوار ہو کر بمبئی جائیں اور پھر حیدر آباد دکن کی جماعت سے بھی مل آئیں کیونکہ حیدر آباد کی جماعت دیر سے یہ اصرار کرتی چلی آرہی تھی کہ کبھی موقع ملے تو میں وہاں ضرور آؤں.چنانچہ میں کراچی سے بمبئی اور بمبئی سے حیدر آباد گیا.اس سفر میں میں نے بہت سی چیزیں دیکھیں.مغلیہ زمانہ کی بھی اور اس سے پہلے پٹھانوں کے زمانہ کی بھی.اسی طرح گولکنڈہ کا قلعہ دیکھا، پھر آگرہ میں آئے تو ہم نے آگرہ کا تاج محل اور فتح پور سیکری وغیرہ دیکھا.اس کے بعد دتی آئے اور وہاں کے تاریخی مقامات دیکھے.اسی تسلسل میں جب ہم دتی پہنچے اور ہم نے وہاں غیاث الدین تغلق کا قلعہ دیکھا تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا جو میرے اس مضمون کا محرک ہوا.میں نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی پہلی تقریر میں بیان کیا ہے میں اُس جگہ پر پہنچ کر
۳۴۴ کھڑا ہو گیا اور پہلے تو اس عبرت ناک نظارہ پر غور کرتا رہا کہ یہ بلند ترین عمارت جو دہلی پر بطور پہرہ دار کھڑی ہے اس کے بنانے والے کہاں چلے گئے.وہ کس قدر اولوالعزم، کس قدر با ہمت اور کس قدر طاقت وقوت رکھنے والے بادشاہ تھے جنہوں نے ایسی یادگاریں قائم کیں.وہ کس شان کے ساتھ ہندوستان میں آئے اور کس شان کے ساتھ مرے مگر آج ان کی اولادوں کا کیا حال ہے.کوئی ان میں سے بڑھتی ہے، کوئی لوہار ہے، کوئی معمار ہے کوئی موچی ہے اور کوئی میراثی ہے.میں انہی خیالات میں تھا کہ میرے خیالات میرے قابو سے باہر نکل گئے اور میں کہیں کا کہیں جا پہنچا.سب عجائبات سفر جو سفر میں میں نے دیکھے تھے میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے.دہلی کا یہ وسیع نظارہ جو میری آنکھوں کے سامنے تھا میری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گیا اور آگرہ اور حیدر آباد اور سمندر کے نظارے ایک ایک کر کے سامنے سے گزرنے لگے آخر وہ سب ایک اور نظارہ کی طرف اشارہ کر کے خود غائب ہو گئے.میں اسی محویت کے عالم میں کھڑا رہا اور کھڑا رہا اور میرے ساتھی حیران تھے کہ اس کو کیا ہو گیا یہاں تک کہ مجھے اپنے پیچھے سے اپنی لڑکی کی آواز آئی کہ ابا جان دیر ہو گئی ہے.میں اس آواز کو سنکر پھر واپس اسی مادی دنیا میں آ گیا مگر میرا دل اُس وقت رقت انگیز جذبات سے پر تھا.نہیں وہ خون ہو رہا تھا اور خون کے قطرے اس سے ٹپک رہے تھے مگر اس زخم میں ایک لذت بھی تھی اور وہ غم سرور سے ملا ہو ا تھا.میں نے افسوس سے اس دنیا کو دیکھا اور کہا کہ ”میں نے پالیا میں نے پا لیا.جب میں نے کہا ” میں نے پالیا میں نے پالیا تو اُس وقت میری وہی کیفیت تھی جس طرح آج سے دو ہزار سال پہلے گیا کے پاس ایک بانس کے درخت کے نیچے گوتم بدھ کی تھی جبکہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب اور اس کا وصال حاصل کرنے کے لئے بیٹھا اور بیٹھا رہا اور بیٹھا رہا یہاں تک کہ بدھ مذہب کی روایات میں لکھا ہے کہ بانس کا درخت اس کے نیچے سے نکلا اور اُس کے سر کے پار ہو گیا مگر محویت کی وجہ سے اس کو کچھ پتہ نہ چلا.یہ تو ایک قصہ ہے جو بعد میں لوگوں نے بنالیا اصل بات یہ ہے کہ بدھ ایک بانس کے درخت کے نیچے بیٹھا اور وہ دنیا کے راز کو سوچنے لگا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے یہ راز اُس پر کھول دیا تب گوتم بدھ نے یکدم اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا ” میں نے پالیا میں نے پالیا.میری کیفیت بھی اُس وقت یہی تھی جب میں اس مادی دنیا کی طرف واپس لوٹا تو بے اختیار میں نے کہا ” میں نے پالیا میں نے پالیا.اُس وقت میرے پیچھے میری لڑکی امتہ القیوم بیگم کھڑی تھی اُس نے کہا ابا جان ! آپ نے کیا پالیا میں
۳۴۵ نے کہا میں نے بہت کچھ پا لیا مگر میں اس وقت تم کو نہیں بتا سکتا اگر اللہ نے چاہا تو میں جلسہ سالانہ پر بتاؤں گا کہ میں نے کیا پایا اس وقت تم بھی سن لینا.سولہ عجائبات سفر میں نے جو چیز میں وہاں دیکھیں اور جو اپنے لیکچر میں میں نے گنی بھی ہیں وہ سولہ بڑی بڑی چیزیں تھیں.اول قلع، دوم بادشاہوں کے مقابر ، سوم مساجد، چوتھے ایک وسیع اور بلند تر مینار، پانچویں نوبت خانے ، چھٹے باغات، ساتویں دیوانِ عام ، آٹھویں دیوانِ خاص ، نویں نہریں، دسویں لنگر خانے ، گیارہویں دفاتر ، بارہویں کتب خانے، تیرھویں مینا بازار، چودھویں جنتر منتر ، پندرھویں سمندر، سولہویں آثار قدیمہ.عبرت کا مقام یہ سولہ چیزیں تھیں جن کا میری طبیعت پر خاص اثر ہوا میں نے جب ان کے متعلق غور کیا تو میں نے دیکھا کہ سمندر کے علاوہ کہ وہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ چیز ہے اور سب کی سب تباہ و برباد ہو گئیں.نہریں سوکھ گئیں ، مینار ٹوٹ پھوٹ گئے اور مسجدیں بہت سی بر باد اور بہت سی غیر آباد ہو گئیں ، کتب خانوں کی خبر گیری کرنے والے کوئی نہ رہے، جنتر منتر تماشا بن کر رہ گئے غرض تمام یادگاریں جو اپنے زمانہ میں دنیا کو محو حیرت بنا دیتی تھیں آج ویران ہو چکی تھیں، برباد ہو چکی تھیں ، تباہ وخستہ حال ہو چکی تھیں اور اپنے بنانے والوں کے انجام پر رورہی تھیں.جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے اپنے دل میں کہا یہ دنیا کیسی عبرت کی جگہ ہے کہ انسان جتنا اونچا ہوتا ہے اتنا ہی گرتا ہے.ایک چوڑھے کا بچہ آج سے ہزار سال پہلے بھی چوڑھا تھا اور اب بھی وہ چوڑھا ہے آج اُس کا چوڑھا ہونا اُس پر گراں نہیں گزرتا کیونکہ وہ جیسا پہلے تھا ویسا ہی آج بھی ہے.مگر یہاں یہ کیفیت ہے کہ آج سے پانچ یا چھ پشت پہلے ایک شخص ہندوستان کا بادشاہ ہے اور آج وہ پانی بھرتا یا سڑکوں کی صفائی کرتا ہے.اگر وہ نسلاً بعد نسل سے کا کام کر رہا ہوتا تو اس پر کوئی گراں نہ گزرتا مگر وہ ایک ایک قدم پر آہیں بھرتا ہے ، وہ ایک ایک سانس پر حسرت اور اندوہ کے جذبات میں بہہ جاتا ہے، وہ حیران ہوتا ہے اپنے ماضی پر اور افسوس کرتا ہے اپنے حال پر.میں نے خود اپنی آنکھ سے دلی میں بعض شاہی گھرانوں کے شہزادوں کو مشکیں اُٹھائے لوگوں کو پانی پلاتے دیکھا ہے.میں چھوٹا تھا کہ ا یکدفعہ میں دتی گیا میرا ایک عزیز مجھے کہنے لگا چلو تم کو ایک تماشا دکھاؤں.وہ مجھے جامع مسجد کے پاس لے گیا وہاں سے مشکیں اُٹھائے آنے جانے والوں کو پانی پلا رہے تھے.وہ مجھے ایک
۳۴۶ ستے کے پاس لے گیا جو کٹورا ہاتھ میں لئے اسی طرح پانی تقسیم کر رہا تھا.میرے ساتھی نے اُس سے کہا کہ ہمیں پانی پلاؤ اُس نے کٹورا بھر کر دیا اور جب ہم پانی پی چکے تو وہ خاموشی کے ساتھ سیدھا کھڑا ہو گیا اور تھوڑے توقف کے بعد چلا گیا.میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ کیا تماشا ہوا ؟ اُس نے کہا ، باقی سقوں کو دیکھو سے پانی پلانے کے بعد اپنا ہاتھ بڑھا دیتے ہیں کہ لاؤ ہمیں کچھ معاوضہ دو اور پانی پینے والے انہیں پیسہ دو پیسے یا دھیلہ دے دیتے ہیں اور یہ کچھ نہیں کرتا، پانی پلاتا ہے اور پھر اکڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کچھ دیر توقف کے بعد منہ پھیر کر چلا جاتا ہے مانگتا کچھ نہیں کیونکہ یہ شہزادہ ہے اور گو یہ اب لوگوں کو پانی پلاتا ہے مگر اس کی آن اب بھی قائم ہے اگر کوئی دیدے تو لے لیتا ہے اور نہ دے تو چُپ کر کے واپس چلا جاتا ہے.چنانچہ بعد میں ہم نے اسے کچھ دیا بھی مگر یہ نظارہ بتاتا ہے کہ ان شہزادوں کی کیا سے کیا حالت ہو چکی ہے.یہ ساری کیفیت میری آنکھوں کے سامنے آگئی.مسلمانوں کے شاندار عہدِ ماضی کی یاد آخر سات سو سال تک مسلمانوں نے حکومت کی.راس کماری سے ہمالیہ کی چوٹیوں تک اور پشاور سے لیکر مشرقی پاکستان کے کناروں تک مسلمان حاکم تھا.مسلمان قوتِ فعال تھا، مسلمان ہی کے پاس فوج تھی ، مسلمان کے پاس تجارت تھی ، مسلمان ہی کے پاس زراعت تھی ، مسلمان ہی کے پاس علم تھا، مسلمان ہی کے پاس یونیورسٹیاں تھیں، مسلمان ہی کے پاس ہسپتال اور شفا خانے تھے اور مسلمان ہی کے پاس حکومت تھی مگر جس وقت میں تغلق کے قلعہ کی چوٹی پر کھڑا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا میں نے دیکھا کہ اب انگریز حاکم تھا، ہند و تمام محکموں پر قابض، تجارت پارسیوں اور میواڑیوں کے ہاتھ میں تھی ، یونیورسٹیاں ہندوؤں اور انگریزوں کے ہاتھ میں تھیں اور مسلمان ہر جگہ دستر خوان کے گرے ہوئے ٹکڑوں کا محتاج تھا.اگر کسی نے کچھ ڈال دیا تو ڈال دیا ورنہ اُس کا کسی چیز میں حق نہیں تھا.گھروں میں بیٹھے ہوئے بھی یہ گزشتہ تاریخ انسان کے دل کو کپکپا دیتی ہے مگر تغلق کے قلعہ پر جو ایسی جگہ بنا ہوا تھا جہاں ساری دتی پر نگاہ دوڑائی جا سکتی تھی ، یہ تاریخ تجسم کا رنگ اختیار کر کے میری آنکھوں کے سامنے آ گئی.میں نے سوچا اور غور کیا کہ جہاں قدم قدم پر اسلام کی شان بلند ہوتی تھی ، جہاں قدم قدم پر نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے جاتے تھے ، جہاں قدم قدم پر مسلمانوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے زمین روندی جاتی تھی اور بڑی بڑی طاقتیں ان سے ٹکر کھانے سے گھبراتی تھیں آج
۳۴۷ مسلمان کس ذلت میں ہے، کس مصیبت اور کسمپرسی کی حالت میں ہے؟ یہ زخم تھا جو تغلق کے قلعہ پر مجھے لگا اور میں نے سوچا کہ کیا کوئی مرہم ایسا بھی ہے جو میں اپنے دل پر لگا سکوں اور جس سے یہ دردناک تکلیف دور ہو سکے چنانچہ میں اس چیز میں کھویا گیا اور کھویا گیا اور کھویا گیا کہ ہماری کیا حالت تھی اور اب ہم کسی حالت کو پہنچ گئے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا تب معامیری توجہ اس بات کی طرف پھری کہ اے بندہ خدا اللہ تعالیٰ نے اصل مقصد مسلمانوں نے فراموش کر دیا مسلمانوں کو جس عظیم الشان نعمت سرفراز کر کے بھیجا تھا اُس کو وہ بھول گئے اور یہ چیزیں جو اُن کی شوکت کا محض عارضی نشان تھیں ان کی طرف متوجہ ہو گئے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے نہیں آئے تھے کہ بڑے بڑے قلعے بناتے.اگر وہ اس لئے آتے تو مدینہ منورہ میں کوئی بڑا قلعہ بھی ہوتا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے نہیں آئے تھے کہ نہریں بنا ئیں اگر وہ اس لئے آتے تو مدینہ منورہ میں نہریں بھی ہوتیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے نہیں آئے تھے کہ بڑے بڑے مقبرے بنا ئیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو پکی قبر بنانے سے بھی منع فرمایا، اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بھول بھلیاں بنانے کے لئے آئے تھے نہ مینا بازار بنانے کیلئے آئے تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ پیغام لے کر آئے تھے کہ آؤ میں تمہیں خدا تعالیٰ سے ملا دوں.بیشک باقی چیزیں بھی مسلمانوں کو ملیں مگر وہ تابع تھیں اصل مقصود اور مطلوب نہیں تھیں.بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی ذات میں مقصود ہوتی ہیں اور بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو توابع کے طور پر ملتی ہیں اور تابع چیزوں کو اپنے مدنظر رکھنا اور اُن کو اپنا مقصود قرار دے لینا نہایت شرمناک ہوتا ہے.ہم اپنے دوست کے گھر جاتے ہیں تو ہماری اصل خواہش یہی ہوتی ہے کہ ہم اپنے دوست سے ملیں مگر ہمارا دوست ہمارے لئے پلاؤ بھی پکاتا ہے، مرغ بھی پکاتا ہے، کوفتے بھی پکاتا ہے، چائے بھی رکھتا ہے اگر ہم اپنے دوست سے اس لئے ملنے جائیں کہ وہاں ہمیں پلاؤ ملے گا ، چائے ملے گی یا کوفتے ملیں گے تو ہم کتنے کمینے ہوں گے.اگر آپ لوگ اپنی ماں سے اس لئے ملنے جائیں کہ وہ آپ کی خاطر تواضع کرے گی تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ بڑے کمینے ہیں.اگر آپ اپنے باپ سے اس لئے ملنے جائیں کہ وہ آپ کو اچھے اچھے کھانے کھلائے گا تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ بڑے کمینے
۳۴۸ ہیں.اگر آپ اپنے دوست سے اس لئے ملنے جاتے ہیں کہ وہ آپ کو پلا ؤ کھلائے گا یا مرغ آپ کے لئے ذبح کریگا تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ بڑے کمینے ہیں لیکن اگر آپ اپنی ماں سے ملنے کے لئے جائیں گے تو وہ آپ کے لئے چائے ضرور پکائے گی ، آپ کے لئے پراٹھے ضرور تیار کرے گی.اگر آپ اپنے باپ کو ملنے جائیں گے تو وہ کچھ نہ کچھ کھانا ضرور پکائے گا.اگر آپ اپنے دوست کو ملنے جائیں گے تو وہ آپ کی کچھ نہ کچھ تواضع ضرور کریگا.تو دیکھو بات وہی بن جاتی ہے لیکن طریق مختلف ہو جاتا ہے.ایک صورت میں پلاؤ بھی ملے گا اور کمینے بھی بن جاؤ گے.لیکن اگر تم اپنے دوست کے پاس محض اس سے ملنے کے لئے جاؤ تو پلاؤ پھر بھی ملے گا مگر تم نہایت شریف الطبع اور با اخلاق انسان کہلاؤ گے.تو اسلام وہ طریق بتاتا ہے جس پر چلنے سے دُنیوی حکومتیں اور اُس کی نعمتیں خود بخو د آ جاتی ہیں.اسلام کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو تو یہ چیزیں تمہیں خود بخو دمل جائیں گی مگر وہ ان چیزوں کو مقصود قرار نہیں دیتا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو وہ نعمتیں ملیں کہ دنیا حیران رہ گئی.شہنشاہ ایران کا رومال حضرت ابوہریرہ کے قبضہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ہی دیکھ لو وہ آخری زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین سال پہلے ایمان لائے تھے.انہوں نے جب دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اب بڑی عمر ہو چکی ہے اور آپ کی زندگی کے دن اب بظا ہر تھوڑے رہ گئے ہیں تو انہوں نے قسم کھائی کہ اب میں آپ سے جدا نہیں ہوں گا چنانچہ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ انہیں صرف تین سال ملے سب سے زیادہ حدیثیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہیں.چونکہ یہ غریب آدمی تھے اور سارا دن مسجد میں بیٹھے رہتے تھے اس لئے بعض دفعہ سات سات وقت کا انہیں فاقہ ہو جاتا تھا اور شدت بھوک کی وجہ سے وہ بیہوش ہو کر گر پڑتے تھے.جب اسلام کی فتوحات کا دور آیا اور قیصر و کسری کے خزانے اسلامی تصرف میں آئے تو کسری شہنشاہ ایران کا ایک خاص ریشمی رومال جو تخت پر بیٹھنے کے وقت وہ اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا مال غنیمت میں تقسیم ہو کر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ آیا.ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو نزلہ کی شکایت تھی کہ بیٹھے بیٹھے انہیں کھانسی آ گئی اور انہوں نے شہنشاہ ایران کے اس رومال میں تھوک دیا اور پھر کہا بیچ بیچ
۳۴۹ ابو ہریرہ یعنی واہ واہ ! تیری بھی کیا شان ہے کبھی تو سر میں جوتیاں پڑا کرتی تھیں اور آج یہ حالت ہے کہ تو کسری شہنشاہ ایران کے رومال میں تھوکتا ہے.لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کہا؟ اس پر انہوں نے یہ واقعہ سنایا کہ میں آخری زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور میں نے قسم کھالی کہ اب میں رات اور دن آپ کے پاس رہوں گا اور آپ کی باتیں سنوں گا اور چونکہ میں ہر وقت وہیں بیٹھا رہتا تھا، اسلئے بعض دفعہ سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا تھا اور میں بیہوش ہو کر گر جاتا تھا.لوگ سمجھتے تھے کہ مجھے مرگی ہو گئی ہے اور عربوں میں رواج تھا کہ جب کسی کو مرگی کا دورہ ہوتا تو اس کے سر پر جوتیاں مارا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ مرگی کا علاج ہے.انہوں نے کہا ادھر میں فاقہ سے مر رہا ہوتا تھا اور اُدھر میرے سر پر جوتیاں پڑنے لگ جاتیں حالانکہ اُس وقت مجھے اندر سے ہوش ہوتا تھا مگر میری زبان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی تھی کہ میں انہیں منع کر سکوں پس یا تو میرا وہ حال تھا اور یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کا یہ نتیجہ ہے کہ اب میں اُس رومال میں جسے بادشاہ اپنی شان دکھانے کے لئے تخت پر بیٹھتے وقت اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا تھوک رہا ہوں.تو یہ چیزیں ملتی ہیں اور اسلام بھی ہمیں وہ چیزیں دیتا ہے جو دنیا کے پیچھے چلنے سے حاصل ہوتی ہیں مگر اسلام زیادہ شاندار طور پر یہ چیزیں دیتا ہے اور وہ لوگ ذلّت کے طور پر ان چیزوں کو حاصل کرتے ہیں.لوگ کہتے ہیں کہ تم اپنے باپ کے پاس جاؤ مگر اس لئے کہ تمہیں حلوہ کھانے کو مل جائے ، ماں کے پاس جاؤ مگر اس لئے کہ تمہیں پر اٹھے کھانے کو ملیں.جب ہم اس نیت اور اس ارادہ سے جاتے ہیں تو گو یہ چیزیں ہمیں مل جاتی ہیں مگر ہم ذلیل اور کمینے بھی قرار پاتے ہیں.اسلام کہتا ہے تم ماں کے پاس جاؤ مگر ماں کے پیار کے لئے ، دوست کے پاس جاؤ مگر دوست کی محبت کے لئے حلوہ تمہیں پھر بھی ملے گا ، پر اٹھے تمہیں پھر بھی ملیں گے ، پلاؤ پھر بھی تمہیں ملے گا مگر تم شریف اور با اخلاق کہلاؤ گے.یہ فرق ہے جو اسلامی تعلیم پر عمل کرنے اور دنیوی طریقوں کو اختیار کرنے میں ہے اور اسی کی طرف میرا آج کا مضمون اشارہ کرتا ہے.اسلامی نظام حکومت کا ایک اجمالی نقشہ میرا یہ مضمون در حقیقت اسلامی طریق حکومت کی ایک تصویر ہے یا اسلام دنیا میں جو اصلاح پیدا کرنا چاہتا ہے اُس کا ایک اجمالی نقشہ اس مضمون میں کھینچا گیا ہے.آجکل پاکستان میں اس بات پر بڑا زور دیا جاتا ہے کہ اسلامی نظام حکومت قائم ہونا چاہئے مگر عملی طور
۳۵۰ پر وہ اس کو قائم کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اسلام جو کچھ بتا تا ہے اُس پر عمل کرنے کے لئے وہ لوگ تیار نہیں ہوتے.میں آج کے مضمون کے ذریعہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ہے وہ اسلامی حکومت جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں قائم کی اور یہ ہے وہ نظام جس کے متعلق قرآن کریم ہماری راہنمائی فرماتا ہے.اسلام نے نہریں بھی بنائی ہیں ، قلعے بھی بنائے ہیں ، مساجد بھی بنائی ہیں ، مینار بھی بنائے ہیں ، باغات بھی بنائے ہیں، بازار بھی بنائے ہیں.دیوانِ عام بھی بنائے ہیں اور دیوان خاص بھی بنائے ہیں مگر ان کے طریق اور رکھے ہیں.آج میں انہی میں سے ایک چیز کو اس موقع پر بیان کرنا چاہتا ہوں.دیوانِ عام کے قیام کی اغراض میں نے بتایا تھا کہ میں نے اپنے سفر میں دیوانِ عام بھی دیکھے جن میں بادشاہ اپنا در بار لگا یا کرتے تھے اور عوام الناس آتے اور اپنی شکایات وغیرہ پیش کرتے.میں نے سوچا کہ یہ دیوانِ عام کیوں بنایا گیا تھا اور اس کی اغراض اور مقاصد کیا تھیں؟ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ :- ا.دیوان عام کے قیام کی پہلی غرض یہ ہوا کرتی تھی کہ اس دیوان میں بادشاہ کے خاص قوانین کا اعلان کیا جائے جب بادشاہوں نے اپنی رعایا کے سامنے بڑے بڑے اعلان کرنے ہوتے تھے تو ہمیشہ دیوانِ عام میں ہی کیا کرتے تھے پس دیوانِ عام کی پہلی غرض بادشاہ کے خاص قوانین کا اعلان کرنا ہوتی تھی.۲.اس کی دوسری غرض یہ ہوا کرتی تھی کہ بادشاہ لوگوں کے سامنے آئے اور انہیں اپنا دیدار کرنے کا موقع دے اور ان کے متعلق انعام واکرام کا اعلان کرے.دیوانِ عام کی تیسری غرض یہ ہو ا کرتی تھی کہ عوام کو فریاد پیش کرنے کا موقع دیا جائے اور ان کے مظالم کا انسداد کیا جائے.۴.دیوان عام کی چوتھی غرض یہ ہوا کرتی تھی کہ عوام کو اپنے مطالبات پیش کرنے کا موقع دیا جائے اور بادشاہ ان کی ضرورتیں پوری کرے.طریق یہ ہوتا تھا کہ بادشاہ دربار عام میں بیٹھتا تھا اور وزیر اعظم اُس کے اعلان سناتا تھا.د نینوی دیوانِ عام اغیار کے قبضہ میں میں نے دیکھا کہ وہ دیوانِ عام جو بادشا ہوں کا بنایا ہو ا تھا وہ اب ویران اور برباد ہے اس کی عمارت موجود تھی مگر انگریزوں کے قبضہ میں تھی.خود ان بادشاہوں کی اولا د موجود تھی مگر اسے ٹکٹ
۳۵۱ حاصل کئے بغیر دیوان عام کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہ تھی وہ مارے مارے پھر رہے تھے اور کوئی انہیں پوچھتا تک نہیں تھا.اب بھی بعض شہزادے ایسے ہیں جو نہایت تکلیف کے ساتھ اپنی زندگی کے دن بسر کر رہے ہیں حکومت موجود ہے مگر وہ ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتی.قرآنی دیوانِ عام کی خصوصیت پس میں نے سوچا کہ آیا اس کے مقابلہ میں قرآن کریم نے بھی کوئی دیوان عام پیش کیا ہے یا نہیں اور اگر کیا ہے تو وہ کیا ہے؟ جب اس نقطہ نگاہ سے میں نے قرآن کریم پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے خدا نے بھی ایک دیوانِ عام بنایا ہے جس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کوئی دشمن اس پر قبضہ نہیں کر سکتا وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ہے اور اسی کے قبضہ اور تصرف میں ہے.پہلے بادشاہوں کے دیوانِ عام ان کے ہاتھوں سے چھینے گئے ، غیر قومیں آئیں اور ان پر قابض ہو گئیں پہلے یہ دیوان عام انگریزوں کے پاس گئے اور اب ہند و حکومت قائم ہوئی تو اس کے پاس چلے گئے.گویا جن مزدوروں نے یہ دیوانِ عام بنایا تھا وہ اب حاکم ہیں اور حاکم مزدور.لیکن قرآن کریم جس دیوان عام کو پیش کرتا ہے اس میں نہ کوئی تبدیلی کر سکتا ہے اور نہ اس پر کوئی مخالفانہ قبضہ کر سکتا ہے.محمد رسول اللہ کے تقرر پر قرآنی دیوان عام سے اعلان پھر میں نے دیکھا کہ مغل بادشاہ اور پٹھان بادشاہ اور دوسرے بادشاہ جب دیوانِ عام میں بیٹھتے تو وہ مثلاً یہ اعلان کرتے کہ ہم فلاں کو وزیر مقر ر کرتے ہیں، فلاں کو گورنر مقرر کرتے ہیں، فلاں کو اپنا نائب مقرر کرتے ہیں اور پھر ساتھ ہی یہ کہتے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ وفاداری سے حکومت کی خدمت بجالائے گا اور ہماری حکومت کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لئے اپنا تمام زور صرف کر دیگا لیکن میں نے دیکھا کہ قرآن کریم جس دیوان عام کو پیش کرتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی گورنر یا خلیفہ اللہ کے تقرر کا اعلان ہوتا ہے تو بجائے یہ کہنے کے کہ ہم امید کرتے ہیں تم ہماری حکومت کو مستحکم کرو گے اور ہماری طاقت بڑھانے میں حصہ لو گے بادشاہ یہ کہتا ہے کہ ہم تمہیں طاقت دیں گے، ہم تمہیں مستحکم کریں گے ، ہم تمہارے رعب کو قائم کریں گے.چنانچہ میں نے دیکھا کہ پُرانے زمانہ کے بادشاہوں کے مقابلہ میں قرآن کریم میں بھی ایک دیوانِ عام لگایا گیا اور تمام پبلک کو مخاطب کر کے کہا گیا إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا
۳۵۲ اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًاo فَعَصَى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَاخَذْنَهُ اَخُذًا وَّ بِيلًا ه فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ كَفَرْتُمُ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبَا نِ السَّمَاءُ مُنْفَطِرٌ بِه كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا LO اعلان ہوتا ہے کہ ہم اس دنیا میں ایک خلیفہ مقرر کر رہے ہیں اور اعلان ان الفاظ میں ہوتا ہے که اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا ہم تمہاری طرف ایک رسول بنا کر بھیج رہے ہیں شَاهِدًا عَلَيْكُمْ جو تم پر نگران رہے گا اور دیکھے گا کہ تم ہماری مرضی کے مطابق چلتے ہو یا نہیں كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا اور یاد رکھو کہ ہمارا اس کو گورنر بنا کر بھیجنا کوئی نئی چیز نہیں بلکہ پہلے بھی ہم اپنے گورنر بھیجتے رہے ہیں اور لوگ غلطی سے ان کا انکار کرتے رہے ہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی وہی غلطی کرو اور اُس انجام کو دیکھو جو پہلے لوگوں نے دیکھا فَعَصَى فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ اُس وقت کے حاکم اور بادشاہ فرعون نے تکبر کیا اور موسی کے ماننے سے اُس نے انکار کیا.فَاخَذْنَهُ أَخُذَا وَّ بِلا اِس پر ہم نے اُس کو پکڑ کر تباہ و برباد کر دیا پس جس طرح ہم نے فرعون کو تباہ کیا ہے اگر تم ہمارے گورنر جنرل کی مخالفت کرو گے اور اس کے مقابلہ پر فرعون والا طریق اختیار کرو گے تو تم بھی تباہ کر دیئے جاؤ گے.فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبَانِ السَّمَاءُ مُنْفَطِرٌ بِه اگر تم نے بھی انکار کیا جس طرح فرعون نے موسیٰ کا انکار کیا تھا تو تم کس طرح یہ خیال کر سکتے ہو کہ تم ہمارے عذاب سے بچ جاؤ گے تم اُس دن سے ڈرو جو جوانوں کو بوڑھا کر دے گا.وہ دُنیوی بادشاہوں کی طرح یہ نہیں کہتا کہ ہم اپنے گورنر سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری بادشاہت کو مضبوط کرے گا بلکہ فرماتا ہے کہ ہم اس کی بادشاہت کو خود قائم کریں گے اگر تم اس کی مخالفت کرو گے تو ہم تم پر عذاب نازل کریں گے کہ جس سے آسمان بھی پھٹنا شروع ہو جائے گا.كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا دُنیوی بادشاہ ڈرتے ہیں کہ اگر ہماری مخالفت ہوئی تو ہم کیا کریں گے مگر یہاں فرماتا ہے کہ یہ وہ وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کو بدل نہیں سکتی.زمین و آسمان کا فرق کتنا زمین و آسمان کا فرق اُس دیوان عام اور اس دیوان عام میں ہے وہاں بادشاہ یہ کہتے ہیں کہ ہم فلاں کو اپنا نائب مقرر کرتے ہیں اس لئے کہ وہ ہماری حکومت کو مستحکم کرے، اس لئے کہ وہ ہماری طاقت کو مضبوط کرے، اس لئے کہ وہ ہماری جڑیں لگائے مگر یہاں دیوانِ عام میں یہ اعلان ہوتا ہے کہ اے لوگو سنو!
۳۵۳ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا گورنر مقرر کر کے بھجواتے ہیں اگر تم اس کی فرمانبرداری نہیں کرو گے تو ہم خود اس کو طاقت بخشیں گے اور خود اس کو قوت بخشیں گے اور اگر اس کا مقابلہ کرو گے تو ہم تمہیں ایسی سزا دیں گے کہ زمین تو زمین آسمان کا کلیجہ بھی شق ہو جائے گا ( السَّمَاءُ مُنْفَطِرٌ بِه) اور کوئی طاقت نہیں جو ہمارا مقابلہ کر سکے.قرآنی گورنر جنرل کا دائرہ حکومت اس کے ساتھ ہی یہ اعلان ہوتا ہے کہ یہ گورنر ہے کس جگہ کے لئے ؟ دنیوی گورنر مقرر ہوتے ہیں تو ایک آدھ ملک کے لئے مگر فرماتا ہے کہ یہ گورنر سب دنیا کے لئے ہے گویا یہ گورنر نہیں بلکہ گورنر جزلوں کے بھی اوپر گورنر جنرل ہے.چنانچہ دربار عام میں اعلان ہوتا ہے قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمُ جَمِيعًا ! اے یہودی مذہب کے مانے والو سنو! یہ شخص جس کو ہم نے بھجوایا ہے موسیٰ کی طرح صرف مصر کے لوگوں کے لئے نہیں.اے اسرائیلی انبیاء کے ماننے والو! یہ شخص صرف بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح کسی ایک قوم کی طرف نہیں.اے مسیح کے ماننے والو سنو! مسیح کی طرح فلسطین کی طرف نہیں.اے کرشن اور رامچندر کے ماننے والو! یہ اس طرح نہیں آیا جس طرح رامچندر اور کرشن ہندوستان کی طرف آئے تھے.اے زرتشت کے ماننے والوسنو! یہ اس طرح نہیں آیا جس طرح زرتشت ایران کی طرف آیا تھا.اے تمام دوسری اقوام اور مملکتوں اور بر اعظموں میں رہنے والو سنو! یہ اس طرح نہیں بھیجا گیا جس طرح انبیاء ایک ایک قوم اور ایک ایک بستی کی طرف بھیجے جاتے تھے بلکہ يايُّهَا النَّاسُ اے تمام انسانو! خواہ تم روئے زمین کے کسی علاقہ میں رہتے ہو، اے برطانیہ کے رہنے والو! اے فرانس کے رہنے والو! اے جرمنی کے رہنے والو! اے امریکہ کے رہنے والو! اے یورپ کے رہنے والو! اے جزائر کے رہنے والو! اے افریقہ کے رہنے والو! اے دنیا کے کسی گوشے اور خطہ میں رہنے والو! اسے تم پر افسر بنا کر بھیجا گیا ہے یہ ہمارا گورنر جنرل ہے جس کی حکومت سے کوئی شخص باہر نہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی حکومت کا اعلان (۲) پھر یہ تو اپنے زمانہ کی گورنری کے متعلق اعلانِ عام تھا اور گو اس میں سارے ملکوں کو شامل کر لیا گیا تھا مگر یہ مشبہ باقی رہتا تھا کہ ہے یہ سب دنیا کے لئے تو ہو لیکن سب زمانوں کے لئے نہ ہو.دنیا میں گورنر اور و ممکن
۳۵۴ وائسرائے مقرر ہو کر آتے ہیں تو پانچ سال کے بعد بدل جاتے ہیں اور پھر وہ انہی گلیوں میں عام لوگوں کی طرح پھرتے نظر آتے ہیں جن گلیوں میں شاہانہ شوکت کے ساتھ پھرا کرتے تھے.پس چونکہ یہ شبہ پیدا ہو سکتا تھا اس لئے پہلے اعلان کے ساتھ ہی خدائی دربار عام میں یہ اعلان بھی کر دیا گیا کہ یہ گورنر جنرل قیامت تک کے لئے ہے.یہ پانچ سال کے لئے یا دس سال کے لئے یا سو سال کے لئے یا دو سو سال کے لئے یا ہزار سال کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے ہے جب تک انسان تباہ نہیں ہو جاتا ، جب تک ایک انسان بھی اس دنیا میں زندہ ہے اُس وقت تک یہی گورنر جنرل رہے گا فرماتا ہے وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَّ نَذِيرًا وَّ لَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ - وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنتُمْ صَدِقِينَ - قُلْ لَكُمْ مِّيْعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَاْ خِرُوْنَ عَنْهُ سَاعَةً وَّ لَا تَسْتَقْدِمُونَ فرماتا ہے اے بنی نوع انسان ! سن رکھو اس رسول کو ہم نے کہہ دیا ہے کہ وہ صرف اس زمانہ کے لئے نہیں بلکہ انسان کی تعریف کے نیچے جتنے انسان آتے ہیں ان سب کو یہ جمع کر نیوالا ہے خواہ وہ اس صدی کے ہوں یا اگلی صدیوں کے، قیامت تک اس کا راج قائم ہے اور کوئی شخص اس کی حکومت سے باہر نہیں نکل سکتا بَشِيرًا وَّ نَذِيرًا دنیا میں اصول یہ ہے کہ جب بادشاہت بدلتی ہے تو آنے والی حکومت کسی کو گرا دیتی ہے اور کسی کو اونچا کر دیتی ہے بَشِيرًا وَّ نَذِيرًا کا بھی یہی مفہوم ہے کہ جو لوگ اس کے قانون کی پابندی کرنے والے ہوں گے اُن کو یہ بلند کریگا اور جو لوگ اس کے قانون کی نافرمانی کرنے والے ہوں گے اُن کو یہ گرا دے گا.گویا فرمایا کہ اے ہمارے رسول ! دونوں طاقتیں تجھ کو دی جاتی ہیں، تیرے ہی ذریعہ سے لوگوں کو بلند کیا جائے گا اور تیرے ہی ذریعہ سے لوگوں کو گرایا جائے گا، تیرے ہی ذریعہ سے ملزم سزا پائیں گے اور تیرے ہی ذریعہ سے متبعین انعام حاصل کریں گے.وَ لَكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ لیکن اس زمانہ کے اکثر لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا.کیونکہ اس سے پہلے جس قدر انبیاء گزرے ہیں ان میں سے کسی نبی کی نبوت سو سال کے بعد ختم ہو گئی تھی اور کسی کی دو سو سال کے بعد.ان کے لئے یہ سمجھنا بڑا مشکل ہے کہ کوئی ایسا نبی بھی آسکتا ہے جس کی نبوت قیامت تک چلتی چلی جائے اور کبھی ختم ہونے میں نہ ئے چنانچہ فرمایا وَ يَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنتُمْ صَدِقِينَ وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ یہ ہمیشہ ہمیش کے لئے نبی ہے اس کا ثبوت کیا ہے اس طرح تو ایک جھوٹا نبی بھی کہہ سکتا ہے کہ میری نبوت کبھی ختم نہیں ہوگی بہر حال کوئی نہ کوئی ایسی دلیل ہونی چاہئے جس سے ہم یہ
۳۵۵ اندازہ لگا سکیں کہ ہمارے سامنے جو دعویٰ پیش کیا جا رہا ہے اس میں سچائی پائی جاتی ہے اور یہ ہمیشہ کے لئے ہے.فرماتا ہے قُلْ لَّكُمْ مِّيْعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَاً خِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَّلَا تَسْتَقْدِمُونَ فرمایا اس کا پتہ تم کو ایک ہزار سال میں لگے گا.بڑی سے بڑی نبوت جو آج تک چلی ہے وہ ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہی.آدم علیہ السلام کا زمانہ لے لو، نوح علیہ السلام کا زمانہ لے لو، موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ لے لو، کوئی زمانہ بھی ہزار سال سے زیادہ لمبا نہیں رہا.موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ بظاہر دو ہزار سال کا نظر آتا ہے لیکن وہاں تیرہ سو سال کے بعد جو نبی آیا اُس نے آتے ہی یہ کہہ دیا کہ اب موسیٰ علیہ السلام کی نبوت ختم ہونے والی ہے اور وہ نبی دنیا میں ظاہر ہونے والا ہے جس کے متعلق تمام انبیاء اپنے اپنے زمانہ میں پیشگوئیاں کرتے چلے آئے ہیں.گویا مسیح علیہ السلام نے آمد کے ساتھ سلسلہ موسویہ کے امتداد کی خبر نہیں دی بلکہ ایک نئے دور کے آغاز کی خبر دیدی اور بتایا کہ پہلا سلسلہ ختم ہونے والا ہے.مسلمانوں کے ہزار سالہ دور تنزل کی قرآن کریم میں خبر فرض ہزار سال وہ میعاد ہوتی ہے جس میں کسی قوم کو یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ اب پرانی نبوت ختم ہو گئی ہے اور نئی نبوت کا دور شروع ہونے والا ہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے.یہاں دن سے مراد ہزار سالہ زمانہ ہے چنانچہ قرآن کریم خود اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے - يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُةٌ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ! فرمایا ہم اس دنیا میں ایک نیا نظام قائم کرینگے اور آسمان سے زمین پر اپنے انوار کی بارش برسائیں گے مگر پھر آہستہ آہستہ وہ نظام کمزور ہوتا چلا جائے گا اور دنیا یہ سمجھے گی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت اب ختم ہوگئی ہے.دنیا یہ سمجھے گی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت اب ختم ہوگئی ہے اور یہ دور تنزل تمہاری گنتی کے لحاظ سے ایک ہزار سال تک چلتا چلا جائے گا.بہائیوں کا ایک غلط استدلال بہائی لوگ قرآن کریم کی اس آیت سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر کہتے ہیں کہ گویا ہزار سال کے بعد نَعُوذُ بِاللهِ شریعت اسلام منسوخ ہو جائے گی حالانکہ شریعتِ اسلام تو تب منسوخ ہو سکتی تھی جب کہ یکدم قرآن خراب ہو جاتا اور وہ دنیا کے لئے ناقابل عمل ہو جاتا ، لیکن اس آیت میں یہ نہیں بتایا گیا
۳۵۶ کہ یکدم قرآن خراب ہو جائے گا بلکہ اس میں یہ بتایا گیا کہ آہستہ آہستہ ایک ہزار سال میں ایمان اوپر چڑھ جائے گا.پس اس کے معنے سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ اسلام اور قرآن کا اثر آہستہ آہستہ لوگوں کے دلوں سے کم ہونا شروع ہوگا اور اس پر ایک ہزار سال کا عرصہ صرف ہوگا.اگر کتاب نے منسوخ ہونا ہوتا تو کتاب کی منسوخی تو یکدم ہوتی ہے ہزار سال میں آہستہ آہستہ نہیں ہوتی.پس ہزار سال میں آہستہ آہستہ اسلام کے اُٹھ جانے کے یہی معنی تھے کہ اُس کا اثر لوگوں پر سے کم ہو جائے گا اور جب اثر کم ہو جائے تو اُس وقت کتاب منسوخ نہیں بلکہ ایک نیا معلم بھیجا جاتا ہے جو اُس کتاب کی تعلیم کو دنیا میں پھر قائم کر دیتا ہے.پس بہائیت اس آیت سے بالکل ناجائز فائدہ اُٹھاتی اور لوگوں کو دھوکا میں مبتلاء کرتی ہے.بہر حال اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہزار سال میں ایمان دنیا سے اُٹھ جائے گا اور چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کے تین سو سال کو مبارک زمانہ قرار دیا ہے جس میں اسلام کے متعلق یہ مقدر تھا کہ وہ دنیا میں ترقی کرتا جائے گا اور دور تنزل قرآن کریم نے ہزار سال بتایا ہے اس لئے ہزار سال میں پہلے تین سو سال جمع کئے جائیں تو یہ تیرہ سو سال کا عرصہ بن جاتا ہے پس قُلْ لَّكُمْ مِّيْعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَأْ خِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَّ لَا تَسْتَقْدِمُونَ کے یہ معنے ہوئے کہ تم اسلام کے دور تنزل کو دیکھ کر اس واہمہ میں مبتلاء ہو سکتے ہو کہ شاید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ختم ہوگئی ،لیکن تیرہ سو سال کے بعد تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ اس کی حکومت ختم نہیں ہوئی بلکہ قیامت تک کے لئے ہے.احیائے اسلام کے لئے مسیح موعود کی بعثت چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عین تیرہ سو سال کے ختم ہونے پر امت محمدیہ میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ میں مسیح موعود ہوں اور مجھے خدا تعالیٰ نے ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے بھیجا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے تیرہ سو سال پہلے فرمائی تھیں.میں اس لئے نہیں آیا کہ کوئی نیا مذہب قائم کروں ، میں اس لئے نہیں آیا کہ موسوی مذہب کو قائم کروں، میں اس لئے نہیں آیا کہ عیسوی مذہب کو قائم کروں بلکہ میں اس لئے آیا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کو دوبارہ دنیا میں قائم کروں.گویا تیرہ سو سال کے بعد جو تغیر ہو ا وہ یہی تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قیامت تک ہے اور اس میں کوئی وقفہ نہیں دُنیا کی تمام تاریخیں بتاتی ہیں کہ تیرہ سو سال کے بعد کوئی نبوت
۳۵۷ نہیں چلی موسیٰ علیہ السلام کے تیرہ سو سال بعد حضرت عیسی علیہ السلام آئے مگر انہوں نے نہیں کہا کہ اب موسوی سلسلہ ہی قیامت تک قائم رہے گا بلکہ انہوں نے کہا تو یہ کہ : - ”دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے تم مجھے پھر ہرگز نہ دیکھو گے جب تک نہ کہو گے کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے.۵.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیرہ سو سال کے بعد جو شخص آیا اُس نے کہا میں اس لئے آیا ہوں تا قیامت تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گورنر جنرل ہونے کا اعلان کروں.دنیاوی حکومتوں کی ناپائیداری دنیا میں بادشاہ اپنی حکومت کا اعلان کرتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ ان کی حکومت ایک لمبے عرصہ تک قائم رہے گی لیکن چند سال کے بعد ہی ایک نیا انقلاب پیدا ہو جاتا ہے اور اُن کی جگہ کوئی اور حکومت ملک پر قابض ہو جاتی ہے.دیکھو ۱۹۱۱ ء میں جارج پنجم نے دلّی میں ایک بہت بڑا دربار منعقد کیا اور اس بات پر بڑی خوشی کا اظہار کیا گیا کہ اب انگریزی حکومت ہندوستان میں مستحکم ہو گئی ہے لیکن اس اعلان پر ابھی چھتیں سال گزرے تھے کہ ۱۹۴۷ ء میں انگریز اپنا بوریا بستر باندھ کر یہاں سے چلے گئے.یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو چند سال میں ہی رونما ہو گیا.لیکن یہاں تیرہ سو سال پہلے اعلان ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قیامت تک قائم رہے گی اور تیرہ سو سال کے بعد کوئی سید نہیں ، قریش نہیں بلکہ اُس قوم کا ایک فرد جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کافر تھی جو اسلام کو جانتی تک نہ تھی اور اُس نے بعد میں اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لئے خون کی ندیاں تک بہا دیں اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس لئے بھیجا گیا ہے کہ میں اسلام کو دنیا کے تمام دوسرے ادیان پر غالب کروں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کا جھنڈا دنیا میں گاڑ دوں.خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آنے والے موعود کی خبر دیتے ہوئے سلمان فارسی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو اس کی قوم میں سے ایک فارسی الاصل شخص اُٹھے گا جو ایمان کو پھر لوگوں کے قلوب میں زندہ کر دیگا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
۳۵۸ نے اسلام کے دوبارہ عروج کی یہ بشارت دی اُس وقت وہ قوم جس میں سے اس عظیم الشان انسان نے کھڑا ہونا تھا کا فرتھی، وہ بے دین اور لامذہب تھی وہ جانتی تک نہ تھی کہ اسلام کس چیز کا نام ہے مگر صدیوں بعد چین اور تبت اور ترکستان کے پہاڑوں سے یہ قوم اُٹھتی ہے اور دیوانہ وار تمام پہاڑوں اور دریاؤں اور صحراؤں کو عبور کرتے ہوئے اسلامی حکومت کو تباہ کر دیتی ہے.بغداد جو اسلام کا ایک عظیم الشان مرکز تھا اسپر یہ قوم حملہ آور ہوتی ہے اور اٹھارہ لاکھ مسلمانوں کو نہایت بیدردی کے ساتھ قتل کر دیتی ہے.مگر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ وہی ہلا کو جس نے بغداد میں مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا اس کی نسل میں سے ایک مغل شہزادہ مسلمان ہو جاتا ہے اور وہی قوم جس کی تلوار نے مسلمانوں کو مٹایا تھا خود اسلام کی تلوار کا شکار بن کر رہ جاتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق تیرہ سو سال بعد ایک مغل اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے اور میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کر کے رہونگا.یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے اور کتنے عظیم الشان طریق پر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدے کا ایفاء کیا جو اُس نے اپنے دربار میں کیا تھا کیا دنیا کا کوئی دیوانِ عام اس کی مثال پیش کر سکتا ہے.دربار عام کا ایک اور مقصد دربار عام کا ایک مقصد جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے بادشاہ کے خاص قوانین کا اعلان کرنا ہوتا ہے.دلی میں شاہی دربار منعقد ہوا تو اس کی غرض یہ تھی کہ بادشاہ بنگال کی تقسیم کی منسوخی کا اعلان کرے مگر یہ غرض کتنی چھوٹی اور کتنی حقیر تھی اور پھر کتنی عجیب بات ہے کہ وہی تقسیم جو 191 ء میں منسوخ کی گئی تھی چھتیں سال کے بعد دوبارہ ظہور میں آگئی.اگر اُس وقت جارج پنجم کو یہ پتہ لگ جاتا کہ چھتیس سال کے بعد بنگال کی پھر تقسیم ہو جائے گی اور اس وقت دو صوبے ہی نہیں بلکہ دو الگ الگ حکومتیں بن جائیں گی تو شاید اُسے یہ اعلان کرتے ہوئے ہنسی آ جاتی اور وہ سوچتا کہ میں کیا حماقت کر رہا ہوں.قرآنی آئین کا اعلان اور اس کی اہم خصوصیات یہاں بھی ایک قانون کا اعلان ہوتا ہے مگر وہ قانون کس قسم کا ہے فرماتا ہے اللهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ذَلِكَ هُدَى اللهِ يَهْدِى بِهِ مَنْ يَّشَاءُ وَ مَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَالَهُ مِنْ هَادٍ ك
۳۵۹ فرماتا ہے ہم ایک نیا آئین جاری کرتے ہیں (جیسے انگریز آئے تو انہوں نے تعزیرات ہند کا نفاذ کیا ) ہم ایک نیا گورنر جنرل قیامت تک کے لئے مقرر کرتے ہیں اور اس کے ساتھ دنیا کی ہدایت اور اس کی راہنمائی کے لئے ایک قانون بھی نازل کرتے ہیں مگر تمہارے قانونوں اور اس قانون میں بہت بڑا فرق ہے.تمہارے قانون کی فرمانبرداری لوگ ڈر سے کرتے ہیں وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے بغاوت کی تو پولیس انہیں گرفتار کر لے گی ورنہ ان قوانین کی تائید کرنے والے بھی بعض دفعہ اپنے دلوں میں سمجھتے ہیں کہ یہ قوانین غلط ہیں اور جب انہیں اختیار ملتا ہے تو وہ ان کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہمارا قانون اپنی ذات میں ایسی خوبیاں رکھتا ہے کہ جس سے کوئی سوچنے والا انسان انکار نہیں کرسکتا.احسن الحديث نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيثِ ہم ایک قانون جاری کر رہے ہیں مگر وہ کوئی جبری قانون نہیں وہ محض اپنی بادشاہت منوانے کے لئے نہیں بلکہ بہتر سے بہتر بات جو کہی جاسکتی ہے خواہ دینی رنگ میں یا دنیوی رنگ میں ، خواہ عقل سے خواہ نقل سے، خواہ روایت سے خواہ درایت سے ، خواہ چھوٹوں کے لئے خواہ بڑوں کے لئے ، خواہ مردوں کے لئے ، خواہ عورتوں کے لئے ، ان تمام بہترین باتوں کو اِس قانون میں جمع کر دیا گیا ہے اور اب قیامت تک یہ قانون منسوخ نہیں ہو سکتا.دُنیوی حکومتیں بعض دفعہ بڑی سوچ بچار کے بعد قانون بناتی ہیں مگر تھوڑے عرصہ کے بعد ہی انہیں اپنا قانون اپنے ہاتھوں سے منسوخ کرنا پڑتا ہے.امریکہ نے بڑا زور لگایا کہ وہ کسی طرح شراب کے استعمال کو روک دے اور اُس نے اِس پر قانونی پابندیاں بھی لگائیں مگر تھوڑے عرصہ کے بعد ہی امریکہ کو پھر شراب نوشی کی اجازت دینی پڑی اور شراب کی ممانعت کا قانون اسے منسوخ کرنا پڑا.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم جس قانون کے نفاذ کا اعلان کر رہے ہیں وہ اَحْسَنَ الْحَدِيث پر مشتمل ہے ہر بہتر سے بہتر بات اس میں موجود ہے اور وہ انتہائی طور پر پاک اور بے لوث قانون ہے جس میں بنی نوع انسان کی تمام ضرورتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے.وہ ایسا قانون نہیں جو آج سے سو یا ہزار سال کے بعد منسوخ ہو سکے یا جس میں رد و بدل کی گنجائش نکل سکے.ایک مکمل قانون اس کے بعد وہ اور زیادہ تشریح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ قانون کیا ہے؟ فرماتا ہے کتابا وہ قانون ایک مکمل کتاب ہے.جب بادشاہ نے دتی میں اعلان کے لئے دربار منعقد کیا تو اس نے تعزیرات ہند کا اعلان نہیں کیا ، اس نے اپنے تمام قوانین
کو پیش نہیں کیا ، بلکہ صرف تقسیم بنگال کے منسوخ کرنے کا اعلان کیا.مگر قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرماتا ہے کہ ہم تمہارے سامنے ایک ٹکڑا پیش نہیں کرتے بلکہ کامل شریعت پیش کرتے ہیں.ایک ٹکڑا بعض دفعہ انسان بھی اچھے سے اچھا بنا سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ہزار یا دو ہزار سال تک قائم رہے.سوال سارے قانون کا ہے کہ وہ شروع سے لیکر آخر تک مکمل ہو اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ ہو سکتی ہو.یہ کمال کسی اور کلام کو حاصل نہیں.پس فرماتا ہے کہ ہم جس قانون کو پیش کرتے ہیں :- اوّل وہ اَحْسَنَ الْحَدِيث ہے یعنی اس میں بہتر سے بہتر اور پختہ سے پختہ باتیں بیان کی گئی ہیں اور وہ ایک خوبصورت اور بے عیب قانون ہے.دوم وہ کوئی ایک ٹکڑ انہیں بلکہ تمام قسم کے قانونوں پر حاوی ہے.انگلستان میں چند بہائی عورتوں سے گفتگو میں جب انگلستان گیا تو وہاں ایک دن کچھ بہائی عورتیں مجھ سے ملنے کے لئے آئیں.بہائی لوگ بہاء اللہ کو خدا سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کو منسوخ قرار دیتے ہیں مگر مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ ہماری دشمنی کی وجہ سے بہائیوں کو تو اچھا سمجھتے ہیں اور ہمارے سلسلہ کے خلاف شور مچاتے رہتے ہیں.کراچی کے بعض اخبارات میں صفحوں کے صفحے بہاء اللہ کی تعریف میں شائع کئے جاتے ہیں حالانکہ وہ خدائی کا دعویدار تھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس کا یہ عقیدہ تھا کہ آپ کی حکومت ختم ہو چکی ہے اور اب نئی شریعت کی دنیا کو ضرورت ہے.بہر حال وہ عورتیں مجھ سے ملنے کے لئے آئیں ان عورتوں میں سے ایک تو شنگھائی بنک کے مینیجنگ ڈائر یکٹر کی بیوی تھی دوسری امریکہ کی رہنے والی تھی اور تیسری ایک احمدی بیرسٹر کی بیوی تھی جو ایرانی اور بہائی تھی.ان کے ساتھ عبداللہ کو کم تھے جو انگلستان کے سب سے پہلے نو مسلم تھے اور جنہیں لڑکی نے شیخ الاسلام کا خطاب دیا تھا.ان عورتوں نے آتے ہی مجھ سے سوال کیا کہ آپ بہاء اللہ کو کیوں نہیں مانتے ؟ میں نے کہا اس لئے نہیں مانتا کہ میں قرآن کریم کو مانتا ہوں.وہ کہنے لگیں آپ قرآن کو کیوں مانتے ہیں کیا یہ کتاب منسوخ نہیں ہو سکتی ؟ میں نے کہا یہ تو بحث ہی نہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے یا نہیں کئی چیزیں ہو سکتی ہیں مگر ہوتی نہیں.میں نے کہا تم مرسکتی ہو یا نہیں ؟ اگر مر سکتی ہو تو کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ تم مر چکی ہو تم نے یقیناً ایک دن مرنا ہے مگر اس وقت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تم مرچکی ہو.پس یہ سوال جانے دو کہ کوئی کتاب منسوخ ہو سکتی ہے یا نہیں سوال یہ ہے کہ کیا اس
۳۶۱ وقت قرآن کریم منسوخ ہے یا نہیں؟ تم مجھے کوئی ایک بات بتادو جو قابلِ عمل ہو مگر قرآن کریم میں نہ ہو یا بہاء اللہ کی کوئی ایک بات ہی مجھے بتا دو جو سب سے اچھی ہو اور وہ قرآن کریم میں بیان نہ ہوئی ہو.وہ کہنے لگی کہ بہاء اللہ نے علم سیکھنے کا حکم دیا ہے یہ کتنی اچھی بات ہے.میں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس حکم پر اتنا زور دیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں جس شخص کی دولڑکیاں ہوں اور وہ ان کو اچھی تعلیم دلائے اور نیک تربیت کرے تو اُس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے.اس پر وہ کہنے لگی بہاء اللہ نے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا حرام قرار دیا ہے لیکن قرآن اس کی تعلیم دیتا ہے.امریکہ اور انگلستان اور یورپ اسلام کی اس تعلیم کو نہیں مان سکتا اور دنیا اس ظلم کو کبھی برداشت نہیں کر سکتی.میں نے کہا میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ دنیا اس ظلم کو برداشت کر سکتی ہے یا نہیں تم پہلے مجھے یقینی طور پر بتا دو کہ بہاء اللہ نے ایک سے زیادہ شادیاں منع کی ہیں ؟ اُس نے کہا ہاں بالکل منع ہے وہ ایرانی عورت جو ان کے ساتھ تھی وہ عبد البہاء کے پاس چھ ماہ رہ کر آئی تھی اور اُس نے ان سے خاص تعلیم پائی تھی.میں نے کہا اس سے پوچھو کہ آیا بہاء اللہ کی اپنی دو بیویاں تھیں یا نہیں کہتی ہو کہ ایک سے زیادہ شادیاں منع ہیں اور بہاء اللہ نے آپ دوشادیاں کی ہیں.کہنے لگی آپ بالکل الزام لگا رہے ہیں بہاء اللہ نے ہر گز دو شادیاں نہیں کیں.میں نے کہا اس ایرانی عورت سے پوچھو.اُس سے پوچھا تو وہ کہنے لگی اجی مجھے اس جھگڑے میں کیوں گھسیٹتے ہیں آپ آپس میں بات کیجئے اور مجھے رہنے دیجئے.میں نے کہا اس میں گواہی کا سوال ہے آپ کچی گواہی کیوں چھپاتی ہیں جو واقعہ ہو وہ آپ بتا دیں.کہنے لگی کہ بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ دوشادیاں دعوی سے پہلے کی تھیں.اس پر پہلی عورت نے شور مچا دیا کہ بس جواب ہو گیا یہ دعویٰ سے پہلے کی شادیاں تھیں.میں نے کہا تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ امام اپنی پیدائش کے وقت سے علم غیب رکھتا ہے جب اسے پتہ تھا کہ ایک سے زیادہ شادیاں رڈ کی جائیں گی تو پھر اُس نے خود کیوں ایک.زیادہ شادیاں کیں.یا تو یہ کہو کہ وہ علم غیب نہیں رکھتا تھا اور یا یہ کہو کہ اس نے خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف فعل کیا اور اگر وہ علم غیب نہیں رکھتا تھا تب بھی اس کی خدائی باطل ہے اور اگر خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف اس نے فعل کیا تب بھی وہ قابلِ اعتراض ٹھہرتا ہے اور پھر سوال یہ ہے کہ اگر یہ حکم بعد میں نازل ہوا تھا تو اس نے دوسری بیوی رکھی کیوں؟ اسے اس نے طلاق کیوں نہ دیدی.اس پر وہ کہنے لگی کہ ایک کو اس نے اپنی بہن قرار دیدیا تھا.میں نے کہا کہ اس پر اول تو پھر وہی اعتراض ہے کہ جب وہ عالم الغیب تھا اور جانتا تھا کہ مجھے اسے بہن قرار دینا پڑے گا تو اس نے
۳۶۲ پہلے اسے بیوی کیوں بنایا؟ لیکن اس کو بھی جانے دو سوال یہ ہے کہ آیا بہن سے شادی تمہارے نزدیک جائز ہے؟ وہ کہنے لگی آپ تو گالیاں دیتے ہیں.میں نے کہا اسی ایرانی بہن سے پوچھو اس نے پہلے تو بڑا زور لگایا کہ کسی طرح وہ اس بحث میں نہ پڑے اور بار بار کہے کہ میرا اس سے کیا تعلق ہے میں تو یونہی آگئی تھی لیکن آخر میرے اصرار پر اسے ماننا ہی پڑا کہ واقع میں بہاء اللہ کے ہاں اس سے اولا د بھی ہوئی ہے.قیامت تک قائم رہنے والا لائحہ عمل غرض کہنے کو تو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم کس طرح مانیں کہ قرآن کریم منسوخ نہیں ہو سکتا جب کہ پہلی کتا بیں ہمیشہ سے منسوخ ہوتی چلی آئی ہیں لیکن وہ کوئی ایسی بات بھی نہیں بتا سکتے جو دنیا کے لئے قابل عمل ہو اور قرآن کریم میں موجود نہ ہو یا قرآن کریم نے کوئی حکم دیا ہو اور اس پر عمل نہ ہو سکتا ہو.تیرہ سو سال ہو چکے دُنیا اس کے کسی حکم کو قابل تبدیل قرار نہیں دے سکی اور آئندہ کے متعلق بھی ہم اسی پر قیاس کر کے کہہ سکتے ہیں کہ وہ قیامت تک کے لئے ایک زندہ اور قائم رہنے والا لائحہ عمل ہے کیونکہ تیرہ سو سال کے گزرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ماً مور آیا اُس نے دنیا میں پھر یہ اعلان کر دیا کہ یہ کتاب قیامت تک قائم رہنے والی ہے اور اس کا قانون ایک اہل صداقت ہے دنیا ہزاروں تغیرات میں سے گزرتی چلی جائے اس کا کوئی قانون بدل نہیں سکتا ، اس کی کو ئی تعلیم تبدیل نہیں کی جاسکتی.فطرت انسانی سے مطابقت رکھنے والی تعلیم پھر فرماتا ہے مُتَشَابِهَا اِس کامل کتاب کی ایک یہ بھی خوبی ہے کہ یہ متشابہ ہے.متشابہ کے دو معنے ہیں جن میں سے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ فطرت کے متشابہ ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ قرآن کریم جو تمہارے ہاتھوں میں ہے یہ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ ایک کتاب مکنون میں ہے یعنی اس کا ایک ورق تو یہ لکھی ہوئی کتاب ہے اور اس کا دوسرا ورق ہر انسان کی فطرت پر لکھا ہوا ہے.گویا دو قرآن ہیں ایک قرآن فطرت انسانی میں ہے اور ایک قرآن اس کتاب میں ہے.کوئی شخص ایسی چیز نہیں پیش کر سکتا جو قرآن کریم میں تو ہو مگر اس کا فطرتِ صحیحہ انکار کرتی ہو اور کوئی بات فطرت صحیحہ میں ایسی نہیں ہو سکتی جو قرآن کریم میں موجود نہ ہو.یہ دلیل ہے اس بات کی کہ قرآن کریم قیامت تک قائم رہنے والی کتاب ہے کیونکہ جب یہ فطرت کے مطابق ہے تو جس طرح فطرت نہیں بدل سکتی اسی طرح قرآن کریم
۳۶۳ بھی بدل نہیں سکتا.وہ لوگ جو قرآن کریم کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں ہمارا ان سے یہ سوال ہے کہ کیا انسانی فطرت کبھی بدل سکتی ہے؟ اگر بدل نہیں سکتی تو پھر قرآن کریم بھی بدل نہیں سکتا.گویا صرف یہی نہیں کہ یہ کتاب اب تک نہیں بدلی بلکہ متشابہ کہہ کر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ کتاب کبھی بدل ہی نہیں سکتی کیونکہ یہ فطرت کے مطابق ہے اور فطرت اس کے مطابق.جب تک انسان کی فطرت صحیحہ قائم رہے گی یہ قرآن بھی قائم رہے گا.سابق الہامی کتب کی تمام اعلیٰ دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ پہلی الہامی کتابوں کی اعلیٰ تعلیم کو پیش کرتا ہے گویا یہ متشابہ ہے موسیٰ حلیمیں قرآن کریم میں جمع ہیں کی کتاب سے اور یہ متشابہ ہے زرتشت کی کتاب سے اور یہ متشابہ ہے رام اور کرشن کی کتاب سے.اَحْسَنَ الْحَدِیث میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ قرآن کریم میں اچھی سے اچھی اور بہتر سے بہتر باتیں بیان کی گئی ہیں اور متشابہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کریم سے پہلے جو الہامی کتب نازل ہو چکی ہیں ان تمام کتابوں کی اچھی سے اچھی اور بہتر سے بہتر باتیں اس میں موجود ہیں، تو رات کی اچھی باتیں اس میں موجود ہیں.وید کی اچھی باتیں اس میں موجود ہیں ، ژند اوستا کی اچھی باتیں اس میں موجود ہیں.جب ساری اچھی باتیں اس میں موجود ہیں تو ہمیں اس بات کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ ہم دوسری کتابوں کی طرف رجوع کریں.عیسائیوں کا ایک اعتراض عیسائی اعتراض کیا کرتے ہیں اور انہوں نے ینابیع الاسلام وغیرہ بعض کتابیں بھی اس موضوع پر لکھی ہیں کہ قرآن کریم نے فلاں بات فلاں جگہ سے نقل کی ہے اور فلاں فلاں جگہ سے حالانکہ قرآن کریم تو آپ کہتا ہے کہ میں نے ان باتوں کو نقل کیا ہے مگر قرآن کریم یہ بھی کہتا ہے کہ میں نے ان کی رڈی باتیں چھوڑ دی ہیں.اگر اس میں ساری اچھی باتیں نہیں آئیں تو پھر جو قرآن کریم نے اچھی باتیں چھوڑ دی ہیں تم ان کی نقل کر دو اور کہو کہ یہ باتیں قرآن کریم سے رہ گئی ہیں لیکن اگر باقی صرف پھوگ ہی رہ گیا ہے تو ہم نے اس پھوگ کو کیا کرنا ہے.گائے بھینس چارہ کھاتی ہے اور دودھ دیتی ہے تو اس دودھ کو دیکھ کر کہہ سکتے ہو کہ یہ وہی چارہ ہے جو ہم نے کھلایا تھا مگر پیتے دودھ ہی ہو چارہ نہیں کھاتے.قرآن کریم نے بھی بعض باتوں کی نقل ہی کی ہے مگر انہیں نقل کر کے اس نے دودھ بنا دیا ہے جسے ہم پی رہے ہیں.بائبل صرف ایک گھاس کے مشابہ ہے ، زرتشتی کتابیں صرف ایک گھاس کے مشابہ
۳۶۴ ہیں، وید صرف گھاس کے مشابہ ہے لیکن قرآن کریم انہی باتوں کو نقل کر کے جس طرح گائے اور بھینس گھاس کھا کر دودھ دیتی ہیں ان کو گھاس سے دودھ کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.پس بیشک قرآن کریم میں بعض باتیں ایسی ہیں جو انجیل کے مطابق ہیں بعض باتیں ایسی ہیں جو تو رات کے مطابق ہیں اور بعض باتیں ایسی ہیں جو دوسری کتب کے مطابق ہیں ، مگر اس نے ان تعلیموں کو نہایت ادنیٰ حالت سے لیکر اعلیٰ حالت تک پہنچا دیا ہے.ہمارے مخالفوں کو گھاس کھانا ہی اچھا لگتا ہے تو وہ بے شک گھاس کھا ئیں ہم تو دودھ ہی پئیں گے.قرآن کریم کی افضلیت پھر فرماتا ہے کہ یہ قرآن مَثَانِی ہے.مَشَانِی کے متعلق ہم عربی لغت میں دیکھتے ہیں کہ اس کے کیا معنی ہیں.وہاں مَشَانِی کے کئی معنے لکھے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مَا بَعْدَ الْاَوَّلِ مِنْ اَوْتَارًا لعُودِث یعنی مزامیر اور سرنگی کی تاروں میں سے پہلی تار کے بعد جو دوسری تاریں آتی ہیں ان کو مَشَانِی کہتے ہیں.پس قرآن کریم کو مَشَانِی قرار دینے کے یہ معنے ہوئے کہ یہ پہلی تاروں کے بعد دوسری تار ہے.قرآن کریم یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں دنیا میں پہلی الہامی کتاب ہوں جیسے ویدوں کا دعوی ہے بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں ان کتابوں کے پیچھے آیا ہوں اور پھر اوپر کی چوٹی پر ہوں تا کہ کوئی اعتراض نہ کرے کہ قرآن کریم پہلی کتابوں سے اُتر کر دوسرے درجہ کی کتاب ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ میں ہوں تو دوسری کتاب مگر پہلی کتابوں سے زیادہ شاندار ہوں.اگر ایک ڈاکٹر اپنے فن میں بڑا مشہور ہو اور اس کے بعد کوئی دوسرا ڈاکٹر آ کر اپنے آپ کو اس سے بڑھا کر دکھاوے تو وہ چھوٹا سمجھا جاتا ہے یا بڑا سمجھا جاتا ہے.اگر ایک بیرسٹر بڑی کامیاب پریکٹس کرتا ہو اور اس کے بعد ایک دوسرا بیرسٹر آ جائے جو اپنے کام میں اتنا شہر ہ حاصل کر لے کہ تمام لوگ پہلے بیرسٹر کو چھوڑ دیں اور اُس کے پاس آجائیں تو کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ دوسرا بیرسٹر ہے اس کو پہلے بیرسٹر پر کیا فضیلت حاصل ہے؟ پہلے کی موجودگی میں اپنے درجہ کو قائم کر لینا اور اپنی دھاک بٹھا لینا ایک فخر کی بات ہوتی ہے ورنہ جہاں عالم نہیں ہوتے وہاں بعض دفعہ جاہل بھی آکر عالم بن جاتے ہیں اور وہ جو کچھ اوٹ پٹانگ کہہ دیں، لوگ سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ کہنے لگ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ بڑے عالم ہیں.لطیفہ اسی قسم کے مسخرے کا ایک لطیفہ ہے.لوگ اس سے مسئلے پوچھنے آتے تو کبھی وہ عقل کی بات کہہ دیتا اور کبھی بے وقوفی کی.ایک دفعہ عیسائی آئے اور انہوں
۳۶۵ نے کہا بتا ؤ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر گئے تھے تو رکس سیڑھی سے گئے تھے؟ اس نے کہا حضرت عیسی علیہ السلام جب آسمان پر گئے تھے تو لوگ سیڑھی اُٹھانی بُھول گئے تھے اس پر چڑھ کر چلے گئے تھے.یہ تو معقول بات کہہ دی چاہے مذاق کی تھی ، مگر اس کے بعد ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا کہ جب چاند نکلتا ہے تو پہلے وہ نہایت باریک ہوتا ہے اور پھر ذرا موٹا ہوتا ہے پھر اور بڑا ہوتا ہے یہاں تک کہ ہوتے ہوتے پورا چاند بن جاتا ہے اور پھر تھوڑے دنوں کے بعد ہی غائب ہو جاتا ہے وہ چاند جاتا کہاں ہے؟ کہنے لگا اس کو کاٹ کر ستارے بنا لئے جاتے ہیں چونکہ قوم میں کوئی اور عالم نہیں تھا اس لئے لوگ اُسی کو بڑا عالم سمجھتے تھے.قرآن کریم کا کمال تو پہلے پہل اگر کوئی شخص آ جائے جس کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی دوسرا ڈاکٹر یا مقتن یا انجینئر نہ ہو تو ایک معمولی آدمی بھی لوگوں پر اپنی حکومت جما لیتا ہے لیکن پہلوں کے مقابل پر آکر کامیاب ہونا بہت بڑی ہمت چاہتا ہے.قرآن کریم اسی مضمون کی طرف لوگوں کو توجہ دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہم پہلوں کی موجودگی میں آکر کامیاب ہوئے ہیں.تم اپنی طرح یہ نہ سمجھ لو کہ ملک میں کوئی حکومت نہ تھی ، کوئی قانون نہ تھا کہ موسیٰ علیہ السلام نے آکر ایک تعلیم دی اور لوگوں نے اسے مان لیا ، ایران میں کوئی قانون نہ تھا زرتشت آئے اور انہوں نے اپنا اقتدار قائم کر لیا، اکیلے اکیلے میدان مار لینا اور بات ہے اور مقابلہ میں آکر میدان جیتنا اور بات ہے.ہم بعد میں آئے اور پھر ان کی چھاتیوں پر مونگ دل رہے ہیں، عیسائیوں کی کتابیں موجود ہیں ، یہودیوں کی کتابیں موجود ہیں، زرتشتیوں کی کتابیں موجود ہیں، ہندوؤں کی کتابیں موجود ہیں مگر پھر ہم ان سب کے سامنے آ کر میدان مار رہے ہیں.خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے والی کتاب مَثَانِی کے دوسرے معنے مَعْطِفُ الْوَادِیا کے ہیں چلتے چلتے جب وادی ایک طرف مڑتی ہے تو اُس کے موڑ کو بھی مَشَانِی کہتے ہیں.پس قرآن کریم کی دوسری خوبی اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ بنی نوع انسان کو موڑ کر ان کا رُخ ایک دوسری طرف پھیرنے والی کتاب ہے.حقیقت یہ ہے کہ بنی نوع انسان جب علوم میں ترقی کرتے ہیں تو ان کا نقطہ نگاہ صرف دنیا کا حصول ہوتا ہے وہ جغرافیہ میں یا سائنس یا تاریخ میں جب دسترس پیدا کرتے ہیں تو ان کا نقطۂ نظر صرف مادی ہوتا ہے اور وہ اُسی مادی راستے پر چلتے چلے جاتے ہیں.قرآن کریم نے
۳۶۶ ان راستوں سے بنی نوع انسان کو روکا نہیں.وہ حساب کی بھی تصدیق کرتا ہے جغرافیہ کی بھی تصدیق کرتا ہے ، وہ سائنس کی بھی تصدیق کرتا ہے، وہ تاریخ کی بھی تصدیق کرتا ہے مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ایک اور طرف بھی ہے جس طرف تمہیں توجہ پھیرنے کی ضرورت ہے اور وہ موڑ وہ ہے جس کے پیچھے خدا تعالیٰ بیٹھا ہے.بے شک سائنس بھی اپنی ذات میں ایک مفید چیز ہے، جغرافیہ، حساب اور تاریخ بھی اپنی ذات میں مفید علوم ہیں مگر ان علوم کی وادی چلتے چلتے ایک طرف خم کھاتی ہے اور اس کے موڑ کے پیچھے خدا تعالیٰ کا وجود رونما ہوتا ہے.تم بے شک ان علوم میں ترقی کرو مگر یہ بھی دیکھو کہ اس مادی دنیا کے علاوہ خدا تعالیٰ کی بھی ایک ذات ہے جس کا حصول تمہارا سب سے بڑا مقصد ہونا چاہئے پس قرآن کریم انسانی عقلوں کو موڑ کر انہیں خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے والی کتاب ہے اور یہی بات مثانی میں بیان کی گئی ہے.قرآنی تعلیم کے ذریعہ غیر معمولی طاقت کا حصول مثانی کے تیسرے معنے قُوَّةُ الشَّيْء وَ طَاقَتُه لے کے ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کی قوت اور اس کی طاقت.فرماتا ہے قرآن کریم کی آیتیں اور قرآن کریم کی تعلیم تمہاری قوت اور طاقت کا موجب ہیں یعنی قرآن کریم پر عمل کرنے والے ہمیشہ دُنیا پر غالب رہیں گے اور کسی جگہ نیچا نہیں دیکھیں گے.قرآن کریم کہتا ہے کہ سچ بولو.دنیا میں کبھی سچ بولنے والے ذلیل نہیں ہو سکتے.قرآن کریم کہتا ہے کہ علم سیکھو دنیا میں کبھی علم سیکھنے والا ذلیل نہیں ہو سکتا.قرآن کریم کہتا ہے کہ دھو کا مت دو.دھوکا اور فریب سے بچنے والا دنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہوسکتا.قرآن کریم کہتا ہے کہ تم علوم طبیعیات پر غور کرو اور قدرت کے رازوں کی جستجو کرو.علوم طبیعیات پر غور کرنے والا اور قدرت کے رازوں کی جستجو کرنے والا دنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہو سکتا.غرض جو کچھ قرآن کریم کہتا ہے وہ انسان کی طاقت کا موجب ہوتا ہے اُس کی کمزوری کا موجب نہیں ہوتا.یہی وہ چیز ہے جس کا قرآن کریم ایک اور جگہ ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ ! کہ کا فر بھی بعض دفعہ کہہ اُٹھتا ہے کہ کاش ! مجھے اسلام کا نام نہ ملتا تو اس کی تعلیم ہی مل جاتی.یہود کا اعتراف عجز ایک دفعہ بعض یہودی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا آپ کے قرآن میں ایک ایسی آیت موجود ہے کہ اگر وہ ہماری کتاب میں ہوتی تو ہم اس آیت کے نازل ہونے والے دن کو عید مناتے.آپ نے
پوچھا وہ کونسی آیت ہے ؟ انہوں نے کہا الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ١٣ یہ آیت اگر ہماری بائبل میں ہوتی تو ہم اس خوشی میں عید مناتے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، تم کیا جانو جس دن یہ آیت اتری ہے اُس دن ہمارے لئے دوعید میں جمع تھیں، یہ حج کے دن نازل ہوئی ہے اور حج کے دن پہلے سے عید چلی آرہی ہے اور پھر وہ جمعہ کا دن تھا اور جمعہ بھی ہمارے لئے عید کا دن ہے.۱۴ تعدد ازواج پر بعض انگریزوں سے گفتگو حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی تعلیم ایسی نہیں ہے جس پر چل کر انسان ذلیل ہو سکے.وہ چیزیں جن پر دنیا اعتراض کرتی ہے وہ بھی ایسی ہیں کہ اگر ان کو لوگ صحیح طور پر سمجھ جائیں تو ان کے اعتراضات بند ہو جائیں.میں جب ولایت گیا تو ایک دفعہ بعض انگریز مجھے سے ملنے کے لئے آئے.چونکہ انگریزوں میں عام طور پر یہ مشہور ہے کہ اسلام میں عورتوں پر بہت ظلم کیا جاتا ہے اور اس کی ایک وجہ وہ تعدد ازواج کو بھی قرار دیتے ہیں اس لئے انہوں نے اس موضوع پر مجھ سے گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ اسلام میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی گئی ہے جو بڑی خطرناک بات ہے اور کوئی فطرت اسے برداشت نہیں کر سکتی.میں نے کہا کیا یہ بہت بُری تعلیم ہے ؟ انہوں نے کہا بہت بُری تعلیم ہے.میں نے کہا میری اس وقت تین بیویاں ہیں (اُس وقت میری تین بیویاں تھیں) کہنے لگے آپ کی تین بیویاں ہیں؟ آپ تو بڑے روشن خیال آدمی ہیں آپ نے یہ کیا کیا ؟ میں نے کہا جب آپ مجھے روشن خیال تسلیم کرتے ہیں تو پھر آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ میں نے کوئی ظلم نہیں کیا.پھر میں نے انہیں بتایا کہ اسلام نے بے شک بعض حالات میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے مگر اسلام نے اس کے ساتھ کئی قسم کی پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں جن کی موجودگی میں کوئی شخص محض عیاشی کے لئے ایک سے زیادہ شادیاں نہیں کر سکتا.اسلام کہتا ہے اگر تم ایک سے زیادہ شادیاں کرو تو ہر ایک کو برابر کی باری دو، اسلام کہتا ہے کہ جتنا خرچ تم ایک بیوی کو دو اتنا ہی خرچ دوسری بیوی کو دو، اسلام کہتا ہے کہ جس طرح تم ایک بیوی کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہو اسی طرح تم دوسری بیوی کی ضرورتوں کو بھی پورا کرو.ان احکام کی موجودگی میں اگر کوئی شخص دو شادیاں کرتا ہے یا چار کرتا ہے تو آخر وہ کیوں کرتا ہے؟ بڑی وجہ اس کی یہی ا
۳۶۸ سمجھی جا سکتی ہے کہ اسے اپنی پہلی بیوی سے محبت نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اسے اپنی پہلی بیوی سے محبت نہیں تو کتنا جبر ہے جو شریعت اس پر کرتی ہے.وہ چوبیس گھنٹے اپنی اس بیوی کے پاس گزارتا ہے جس سے اسے محبت ہے تو شریعت کہتی ہے اُٹھاؤ اپنا بستر اور جاؤ دوسری بیوی کے پاس اور اس کے پاس بھی اسی طرح چوبیس گھنٹے گزارو.وہ اپنی نئی بیوی کے لئے جس سے اسے محبت ہوتی ہے کوئی زیور یا کپڑا تیار کر کے لاتا ہے تو شریعت کہتی ہے اب جاؤ اور اسی قسم کا کپڑا اور اسی قسم کا زیور اپنی دوسری بیوی کو دے آؤ.غرض قدم قدم پر شریعت اس کے جذبات پر ایسا جبر کرتی ہے کہ اس کے بعد یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ دوسری شادی کرنے والا عیاشی کا ارتکاب کرتا ہے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی ایک بیوی جنہیں ہم بچپن میں مولویانی کہا کرتے تھے وہ ایک دفعہ ہمارے ہاں آئیں.میں اُن دنوں شدید بیمار تھا اور مجھ سے اُٹھا بھی نہیں جاتا تھا، پھر بھی میں سہارا لے کر دوسری بیوی کے گھر گیا.وہ مجھے دیکھ کر کہنے لگیں یہ کیسی قابل رحم حالت ہے کہ اُٹھا جاتا نہیں مگر دوسری بیوی کے گھر جا رہے ہیں.اب بتاؤ اس میں عیاشی کی کونسی بات ہے ، عیاشی تو تب ہو جب وہ صرف ایک بیوی سے تعلق رکھے اور دوسری کو نظر انداز کر دے.میری یہ بات سنکر وہ کہنے لگے کہ آپ کی اور بات ہے.میں نے کہا اگر میرے جیسا بن جانے سے یہ بات قابلِ اعتراض نہیں رہتی تو آپ بھی اچھے آدمی بن جائیں بُرے کیوں بنے ہوئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیوں میں حکمت پھر میں نے انہیں کہا جب ہم ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں تو اس کی وجوہات ہوتی ہیں.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی شادیاں کیں مگر اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ کے سپر د تمام عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کام تھا اور یہ اتنا بڑا کام تھا کہ آپ اکیلے اسے سنبھال نہیں سکتے تھے اس لئے ضروری تھا کہ آپ زیادہ شادیاں کرتے تا زیادہ سے زیادہ تعداد میں ایسی عورتیں تیار ہو سکتیں جو اسلام میں داخل ہونے والی مستورات کی نگرانی کرتیں اور ان کی تعلیم و تربیت کا کام سرانجام دیتیں.میں بھی ایک قوم کا لیڈر ہوں میرے پاس سینکڑوں عورتیں آتی ہیں اور وہ اپنی مصیبتیں اور مشکلات بیان کرتی ہیں ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا ، ان کی تعلیم کا انتظام کرنا اور ان کی تنظیم کو مکمل کرنا یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو کوئی غیر عورت نہیں کرسکتی.یہ کام اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ میں اپنی بیویوں کو تعلیم دوں اور وہ ان
۳۶۹ دوسری عورتوں کو تعلیم دیں اور ان کی تنظیم کا کام سرانجام دیں.اس پر انہیں خاموش ہونا پڑا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال نمونہ غرض اسلام کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے ہر ضرورت کے متعلق احکام نازل کئے ہیں اگر اسلام نے اس قسم کے احکام نہ دیئے ہوتے تو ہمیں دشمن کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا مگر اب ہمارا سر اونچارہتا ہے اور دشمن کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ جب بیمار ہوئے تو با وجود سخت کمزوی کے ایک ہاتھ علی رضی اللہ عنہ کے کندھے پر اور دوسرا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے کندھے پر رکھ کر ایک گھر سے دوسرے گھر میں جاتے اور بعض دفعہ تو ایسی صورت ہوتی تھی کہ آپ کے پاؤں شدت کمزوری کی وجہ سے زمین کے ساتھ گھسٹتے چلے جاتے تھے.بیویوں نے جب یہ حالت دیکھی تو اُن سب نے مشورہ کیا کہ ایسی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک گھر سے دوسرے گھر میں جانا مناسب نہیں.آپ کو کسی ایک ہی بیوی کے گھر میں ٹھہرنا چاہئے چنانچہ سب نے متفقہ طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست کی کہ يَا رَسُولَ اللہ ! جب تک آپ اچھے نہیں ہو جاتے آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ٹھہریں وہ آپ کی سب سے زیادہ خدمت کر سکتی ہیں چنانچہ آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہے اور وہیں آپ نے وفات پائی.مسلمانوں کے تحفظ اور ان کی بقاء کا صحیح طریق غرض اسلام کے احکام پر عمل کرنا ایک بہت بڑا مجاہدہ ہے.اسلام یہ نہیں کہتا کہ تم بغیر کسی حقیقی ضرورت کے ایک سے زیادہ شادیاں کرو.وہ ضرورتِ حقہ کے ساتھ اس کی اجازت کو مشروط قرار دیتا ہے اور جب ضرورت حقہ پیدا ہو جائے تو پھر ایک سے زیادہ شادیوں پر اعتراض کرنا درست نہیں.جب بہار میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا تو وہاں کے کچھ لوگ قادیان آئے اور انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ اب ہمارے بچاؤ کا کیا طریق ہے؟ میں نے کہا قرآن کریم نے دو علاج بتائے تھے مگر وہ دونوں تم نے چھوڑ دیئے ہیں.قرآن کریم نے کہا تھا کہ تبلیغ کر و مگر تم نے تبلیغ ترک کر دی اگر سارے مسلمان تبلیغ پر زور دیتے تو آج انہیں ایک ہندو بھی ہندوستان میں نظر نہ آتا.دوسرا علاج اسلام نے یہ بتایا تھا کہ تم چار چار شادیاں کرو تم ایک ہی نسل میں آٹھ گنا ہو جاؤ گے دوسری نسل میں سولہ گنا ہو
۳۷۰ جاؤ گے اور تیسری نسل میں بتیس گنا ہو جاؤ گے.میں نے کہا اس وقت کئی اچھوت اقوام موجود ہیں اگر تم ان کی بیٹیاں لینی شروع کر دو تو وہ شوق سے اپنی لڑکیاں تمہارے ساتھ بیاہ دیں گے اور ہر عورت کم سے کم چار بچے جنے گی نتیجہ یہ ہوگا کہ پچاس سال کے بعد تم آٹھ سے بتیس کروڑ ہو جاؤ گے.غرض خدا تعالیٰ نے علاج تو بتایا ہے لیکن اگر تم عمل نہ کرو تو کیا کیا جائے.گزشتہ جنگ کے بعد کئی یورپین قوموں میں یہ تحریک پیدا ہوئی ہے کہ اگر وہ اپنی تعداد کو بڑھانا چاہتی ہیں تو انہیں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہونی چاہئے.اقلیت کے لئے طاقت حاصل کرنی کا نسخہ غرض ایک سے زیادہ شادیاں اقلیت کے لئے طاقت حاصل کرنے کا ایک زبر دست ذریعہ ہے.دو نسلیں اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال لیں تو مسلمانوں کی تمام مشکلات دُور ہو سکتی ہیں اور وہ مغلوب ہونے کی بجائے ایک غالب قوم کی شکل اختیار کر سکتے ہیں.لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہماری اولاد ہوئی تو وہ کھائے گی کہاں سے؟ حالانکہ یہی تو وہ حکمت ہے جس کو وہ نہیں سمجھتے ، تم بچے پیدا کرو اور کرتے چلے جاؤ، وہ بے شک بھو کے رہیں گے، وہ بیشک پیا سے رہیں گے ، وہ بے شک ننگے رہیں گے ، لیکن جس وقت بتیس کروڑ بھو کے اور پیاسے اور ننگے اُٹھے، وہ بم کی طرح پھٹیں گے اور سارے ملک پر قبضہ کر لیں گے.کھاتے پیتے لوگ تو عیاشیاں کیا کرتے ہیں یہ بھوکے مرنے والے لوگ ہی ہیں جو قوموں کو تخت و تاج کا وارث بنایا کرتے ہیں.مسلمانوں کے اندر حرکت اور بیداری پیدا کر نیکا ذریعہ مَثَانِی کے چوتھے معنے مفاصل یا جوڑ کے ہیں گا.جوڑ سے حرکت پیدا ہوتی ہے، کمر کا جوڑ بند ہو جائے تو تم چل نہیں سکتے ، گھٹنے کا جوڑ بند ہو جائے تو تم حرکت نہیں کر سکتے ہاتھ کا جوڑ بند ہو جائے تو تم کسی چیز کو ایک جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ پر نہیں رکھ سکتے ، گویا جوڑ حرکت کا ایک ذریعہ ہوتا ہے قرآن کریم کہتا ہے کہ اس کی آیتیں مسلمانوں کے لئے مفاصل ثابت ہونگی ان کے اندر ایک حرکت اور بیداری پیدا کر دیں گی او انہیں آنا فانا کہیں سے کہیں پہنچا دیں گی.
۳۷۱ یہ آٹھ خوبیاں اُس قانون کی بتائی گئی ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ آٹھ خو بیوں والا کلام علیہ وسلم کو دیا گیا اور جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے دربار عام میں اعلان کیا.دُنیوی حکومتوں کی تعزیرات میں تو سزائیں ہی سزائیں ہوتی ہیں مگر یہ قانون بشارات پر بھی مشتمل ہے اور انذار پر بھی مشتمل ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تمہارے سامنے ایک ایسی چیز پیش کر رہے ہیں جو آٹھ خوبیاں اپنے اندر رکھنے والی ہے وہ اَحْسَنَ الْحَدِيث ہے وہ کتاب ہے وہ مُتَشَابِہ ہے یعنی فطرت کے مطابق ہے اور نیز پہلی کتابوں کی تعلیم کے مقابلہ میں برتر تعلیم دیتی ہے اور پھر وہ مَثَانِی ہے اور مَثَانِی کے چار معنے بتائے جاچکے ہیں گویا یہ آٹھ خوبیوں والا قانون ہے جس کے نفاذ کا ہم اپنے دیوانِ عام میں اعلان کرتے ہیں.الہی عظمت اور محبت کا پُر کیف نظارہ پھر فرماتا ہے تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ و قُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللهِ.یہ ایسی عجیب تعلیم ہے کہ جس وقت انسان اسے پڑھتا ہے تو پہلے اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ کانپنے لگ جاتا ہے مگر پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کے پیار کا مشاہدہ کرتا ہے تو اُسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی سزائیں بھی محبت اور پیار کا رنگ رکھتی ہیں.وہ سزا دیتا ہے تب بھی پیار کے طور پر اور اگر ڈانٹتا ہے تب بھی پیار کے طور پر.جب مؤمن اس بات کو سوچتے ہیں تو تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ان کی جلد میں نرم ہو جاتی ہیں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح کھچے چلے جاتے ہیں کہ وہ سیدھے خدا تعالیٰ کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں اے ہمارے ربّ! تیری مار بھی پیاری ہے اور تیرا پیار بھی پیارا ہے.یہ کتنا عظیم الشان اعلان ہے جو اسلام کے دیوانِ عام سے کیا گیا ہے کیا دنیا کی کوئی حکومت اس اعلان کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ قانونِ الہی کی اتباع کرنے اور نہ کرنے والوں سے سلوک پھر وہ بتاتا ہے کہ جو لوگ ہمارے اس قانون پر عمل کریں گے اُن سے ہمارا کیا سلوک ہوگا فرماتا ہے قُل اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ) ڈ نیوی گورنمنٹیں دربار عام سے اعلان کرتی ہیں تو کہتی ہیں کہ دیکھو تم ہمارے قانون کی پابندی کرو گے تو جیل خانوں سے بچ جاؤ گے، تمہیں بڑے بڑے خطاب دیئے جائیں گے،
تمہیں زمین اور مال ملے گا اور ہم تمہاری حفاظت کریں گے.مگر یہاں ایک عجیب منظر دیکھنے میں آتا ہے کہ خدائی دیوانِ عام میں بادشاہ یہ اعلان کرتا نظر آتا ہے کہ اے لوگو اگر تم ہمارے قانون کی پابندی نہیں کرو گے تب بھی تم حکومت کے منافع سے محروم نہیں کئے جاؤ گے فرماتا ب كُلًّا تُمِد هَؤُلاءِ وَ هَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَ مَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ ہے مَحْظُورًا كا یعنی تم اگر کا فر بھی ہو گئے تب بھی ہم تمہیں اپنے رزق سے محروم نہیں کریں گے اور تمہاری کوششوں کے نتائج پیدا کرتے چلے جائیں گے.یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے جو دُنیوی حکومتوں اور الہی حکومت میں نظر آتا ہے.دُنیوی حکومتیں اپنے قانون کی خلاف ورزی کرنیوالوں کو سزائیں دیتی ہیں اور انہیں جیل خانوں میں بند کر دیتی ہیں مگر خدائی گورنمنٹ یہ اعلان کرتی ہے کہ اگر تم ہمارے قانون کے ماننے سے انکار بھی کرو گے تب بھی ہم تمہیں رزق دیتے چلے جائیں گے اور تمہیں ان فوائد سے محروم نہیں کریں گے جو ہماری حکومت سے سب لوگوں کو حاصل ہوتے ہیں.اور اگر تم ہمارے قوانین کو تسلیم کرو گے تو تم بادشاہ کے محبوب بن جاؤ گے فرماتا ہے قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ اے ہمارے رسول تو لوگوں میں یہ اعلان کر دے کہ میں تو اس قرآن پر عمل کر کے اور اس کی تعلیم کو مان کر خدا تعالیٰ کا پیارا بن گیا ہوں اگر تم بھی چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے محبوب بنو تو تم میرے نقشِ قدم پر چل پڑو خدا تعالیٰ تم سے بھی محبت کرنے لگ جائے گا اور تمہیں بھی اپنا محبوب بنالے گا.دنیوی بادشاہوں کا طریق عمل دنیوی بادشاہ جب کسی قانون کا اعلان کرتے ہیں تو اس قانون کی فرمانبرداری کرنے والوں کو کبھی کوئی انعام نہیں ملتا کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کسی شخص کو اس لئے انعام ملا ہو کہ اُس نے چوری نہیں کی ، یا کسی شخص کو اس بات پر انعام ملا ہو کہ وہ سڑک کے بائیں طرف اپنی موٹر چلایا کرتا تھا ، ہاں یہ نظارہ دیکھنے میں ضرور آتا ہے کہ کسی کو ذیلدار بنا دیا گیا محض اس لئے کہ جب ڈپٹی صاحب دورے پر آتے ہیں تو وہ لوگوں کی مُرغیاں پھر اچھرا کر انہیں کھلاتا ہے.پھر جو خطاب ملتے ہیں اُن کا حقیقت کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا خطاب ملتا ہے خان بہادر اور خان بہادر صاحب کی اپنی یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر چوہا بھی چیں کرے تو اُن کی جان نکل جاتی ہے.گو یا خطاب ملتے ہیں تو جھوٹے اور خطاب ملتے ہیں تو انصاف کے خلاف.نہ خطاب کا حقیقت کے ساتھ
کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ انصاف کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا ہے.جتنے خطاب لینے والے ہوتے ہیں اگر ان کے حالات پر غور کر کے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہیں خطاب محض اس وجہ سے دیئے گئے ہیں کہ وہ افسروں کو شکار کھلاتے رہے ہیں یا مُرغابیاں مار مار کر ان کے لئے لاتے رہے ہیں.ایک ذیلدار کا واقعہ مجھے یاد ہے ہمارے ہاں ایک ڈپٹی کمشنر آیا وہ کچھ پاگل سا تھا مگر اُسے شکار کا بہت شوق تھا.ذیلدار صاحب اسے اپنے ساتھ شکار کے لئے لے گئے.چلتے چلتے اسے دور سے کچھ بطخیں نظر آ ئیں جو تالاب میں پھر رہی تھیں اس نے سمجھا کہ مرغابیاں ہیں ذیلدار سے کہنے لگا کہ دیکھو! وہ کیسی اچھی مرغا بیاں ہیں، ذیلدار کو معلوم تھا کہ یہ مرغا بیاں نہیں بطخیں ہیں مگر ڈپٹی کمشنر کے کہنے پر اُس نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ بڑی اچھی مرغابیاں ہیں اُس نے فائر کیا جس سے ایک بلخ مرگئی.اب وہ شخص جس کی بطخ ماری گئی تھی وہ بھی ساتھ تھا مگر ڈر کے مارے وہ بھی اس کی تعریف کرتا چلا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ صاحب! ایسی مرغابی تو بہت کم آتی ہے.کچھ دیر کے بعد وہ خود بھی سمجھ گیا کہ یہ مُرغابی نہیں بطخ تھی اور اُس نے پانچ روپے نکال کر بطخ والے کو دیئے کہ یہ لے لو مگر وہ بار بار یہی کہتا چلا جاتا تھا کہ آپ پانچ روپے کیوں دیتے ہیں یہ مرغابی ہی تھی.یہ تو خطاب لینے والوں کا حال تھا کہ اول تو جو انہیں خطاب ملتے تھے وہ انصاف کے خلاف ہوتے تھے یعنی محض خوشامد یا افسروں کی تعریفیں کرنے پر انہیں خطاب مل جاتے تھے اور پھر خطاب جھوٹے ہوتے تھے ان کا حقیقت کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں ہوتا تھا اسی طرح اگر زمین ملتی تھی تو وہ عارضی ہوتی تھی اور اگر مال ملتا تھا تو وہ کھویا جانے والا ہوتا تھا مگر یہاں یہ اعلان ہوتا ہے کہ اگر تم اس گورنر کی اطاعت کرو گے تو بادشاہ کے محبوب بن جاؤ گے فرماتا ہے قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله اگر تم خدا تعالیٰ کے محبوب بننا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو اور میری اتباع کے یہ معنے ہیں کہ جس شخص کی اتباع کرنی ہے وہ اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ کا مصداق ہے.تمام الشان اخلاق اور تمام اعلیٰ قسم کی خوبیاں اور کیریکٹر اس میں موجود ہیں.پس فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله کے یہ معنے ہوئے کہ تم بھی تمام اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور خوبیاں اپنے اندر پیدا کرو ، تب خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا.بغاوت کرنے والوں کے متعلق اعلان (۵) پھر دنیوی بادشاہ یہ بھی اعلان کیا کرتے ہیں کہ جو لوگ بغاوت کریں گے اور حکومت
۳۷۴ کے احکام کی خلاف ورزی کریں گے اُن کو یہ یہ سزائیں دی جائیں گی.ہم دیکھتے ہیں کہ آیا اس روحانی دربار عام میں بھی کوئی ایسا اعلان کیا گیا ہے یا نہیں ؟ اس نقطہ نگاہ سے جب ہم اس دربار عام پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں باغیوں کے بارہ میں یہ اعلان سنائی دیتا ہے کہ لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِى الْبِلادِ - مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمِهَادُ وا فرماتا ہے ہمارے دشمن دنیوی طور پر بڑی بڑی طاقتیں رکھتے ہیں اور ہم نے ان کی طاقتیں چھینی بھی نہیں کیونکہ ہم نے کہدیا ہے کہ كُلًّا نُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَ هَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَ مَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا.یعنی ہمارا قانون یہ ہے کہ ہم اس مادی دنیا میں مؤمنوں کی بھی مدد کیا کرتے ہیں اور کافروں کی بھی مدد کیا کرتے ہیں لیکن باوجود اس کے ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ ہم نے ان بغاوت کرنے والوں کو تباہ و برباد کر دینا ہے وہ ہماری مخالفت میں لوگوں کو بیشک اُکسائیں، بیشک ان کو اشتعال دلائیں ، بیشک ان کے خیالات کو بگاڑنے کی کوشش کریں نتیجہ یہی ہوگا کہ یہ مخالفت کر نیوالے مٹ جائیں گے اور دُنیا پر ہماری تعلیم غالب ہو کر رہے گی.مخالف تدابیر کر نیوالے ہلاک کئے جائیں گے اسی طرح فرماتا ہے وَأَقْسَمُوا باللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنُ جَاءَ هُمُ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَى مِنْ إِحدَى الْأُمَمِ فَلَمَّا جَاءَ هُمْ نَذِيرٌ مَّازَادَ هُمْ إِلَّا نُفُورًا - نِ اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَ مَكْرَ السَّيِّئَ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئَءُ إِلَّا بِأَهْلِهِ فَهَلْ يَنْظُرُوْنَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا - وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا.یہ بڑے بڑے دشمن جو ہماری حکومت کے مخالف ہیں قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس خدا تعالیٰ کا کوئی رسول آجائے تو وہ پہلی قوموں یعنی موسوی اور عیسوی سلسلہ سے بھی بہتر ہو جائیں گے فَلَمَّا جَاءَ هُمْ نَذِيرٌ مَّا زَادَهُمُ إِلَّا نُفُورًا مگر جب خدا تعالیٰ کا ایک نذیران کے پاس آ گیا تو اب یہ اس کی مخالفت پر آمادہ ہو گئے اور اس کی حکومت کا جوا اُٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوتے کیونکہ انہوں نے نمبر داریاں سنبھالی ہوئی تھیں اور اعلیٰ اور بلند اخلاق کے عادی نہیں تھے.وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئَءُ إِلَّا بِأَهْلِهِ مَگر ہمیں اس بارہ میں کسی دوسرے کی مدد کی ضرورت نہیں بدی خود اُس کے سر پر پڑا کرتی ہے جو اس میں مبتلاء
۳۷۵ ہوتا ہے ہماری طاقت اس میں ہے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ باتیں بتائی ہیں جو نہایت اعلیٰ درجہ کی ہیں اور جنہیں ہر فطرت صحیحہ قبول کرتی ہے ان کے لئے نہ کسی فوج کی ضرورت ہے نہ دشمن سے لڑائی کی ضرورت ہے یہ لوگ آپ ہی تباہ و برباد ہو جائیں گے.اسلام کی اشاعت اس کی اعلیٰ چنانچہ دیکھ لو اسلام نے تلوار کے زور سے فتح نہیں پائی بلکہ اسلام نے اس اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ فتح پائی تھی درجہ کی تعلیم کی وجہ سے ہوئی ہے ہے جو دلوں میں اتر جانی کی اور اخلاق میں ایک.اعلیٰ درجہ کا تغیر پیدا کر دیتی تھی.ایک صحابی کہتے ہیں میرے مسلمان ہونے کی وجہ محض یہ ہوئی کہ میں اس قوم میں مہمان ٹھہرا ہو ا تھا جس نے غداری کرتے ہوئے مسلمانوں کے ستر قاری شہید کر دیئے تھے جب انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو کچھ تو اونچے ٹیلے پر چڑھ گئے اور کچھ ان کے مقابلہ میں کھڑے رہے.چونکہ دشمن بہت بڑی تعداد میں تھا اور مسلمان بہت تھوڑے تھے اور وہ بھی نہتے اور بے سروسامان اس لئے انہوں نے ایک ایک کر کے تمام مسلمانوں کو شہید کر دیا.آخر میں صرف ایک صحابی رہ گئے جو ہجرت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے ان کا نام عامر بن فہیر کا تھا.بہت سے لوگوں نے مل کر ان کو پکڑ لیا اور ایک شخص نے زور سے نیزہ ان کے سینہ میں مارا.نیزے کا لگنا تھا کہ اُن کی زبان سے بے اختیار یہ فقرہ نکلا کہ فُوتْ وَ رَبِّ الْكَعْبَۃ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا.جب میں نے ان کی زبان سے یہ فقرہ سنا تو میں حیران ہوا اور میں نے کہا یہ شخص اپنے رشتہ داروں سے ڈور، اپنے بیوی بچوں سے دور، اتنی بڑی مصیبت میں مبتلاء ہوا اور نیزہ اِس کے سینہ میں مارا گیا مگر اس نے مرتے ہوئے اگر کچھ کہا تو صرف یہ کہ کعبہ کے رب کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا.کیا یہ شخص پاگل تو نہیں.چنانچہ میں نے بعض اور لوگوں سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے اور اس کے منہ سے ایسا فقرہ کیوں نکلا ؟ انہوں نے کہا تم نہیں جانتے یہ مسلمان لوگ واقع میں پاگل ہیں جب یہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور انہوں نے کامیابی حاصل کر لی.میری طبیعت پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں ان لوگوں کا مرکز جا کر دیکھوں گا اور خود ان لوگوں کے مذہب کا مطالعہ کروں گا.چنانچہ میں مدینہ پہنچا اور مسلمان ہو گیا.صحابہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کا کہ ایک شخص کے سینہ میں نیزہ مارا جاتا ہے اور وہ وطن
سے کوسوں دُور ہے، اُس کا کوئی عزیز اور رشتہ دار اس کے پاس نہیں اور اس کی زبان سے یہ نکلتا ہے کہ فُرْتُ وَ رَبِّ الْكَعْبَۃ اس کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ جب وہ یہ واقعہ سنایا کرتا اور فُزُتُ وَ رَبِّ الْكَعْبَة کے الفاظ پر پہنچتا تو اس واقعہ کی ہیبت کی وجہ سے یکدم اس کا جسم کانپنے لگ جاتا اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے لے تو اسلام اپنی خوبیوں کی وجہ سے پھیلا ہے زور سے نہیں.مسلمانوں کی تمام جنگیں مدافعانہ تھیں اللہ تعالیٰ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ آسمان سے لشکر اُتریگا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو کامیاب کریگا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمانوں کو لڑائیاں بھی لڑنی پڑیں مگر جتنی بھی لڑائیاں ہوئی ہیں ان میں ابتداء کفار کی طرف سے ہوئی ہے.کفار نے آپ حملہ کیا اور مسلمانوں کو ان کے دفاع کے لئے میدان جنگ میں اُترنا پڑا.پس سوال یہ نہیں کہ مسلمانوں نے جنگیں کی ہیں یا نہیں سوال یہ ہے کہ کیا اسلام نے یہ کہا تھا کہ اگر کفار کی طرف سے حملہ ہوا تب تم جیتو گے ورنہ نہیں اسلام نے تو یہ کہا تھا کہ میں خود جیتوں گا اور وہ اسی طرح جیتا کہ جو لوگ اسلامی تعلیم کا مطالعہ کرتے یا مسلمانوں کی قربانی کا نظارہ دیکھتے اُن کے دل مرعوب ہو جاتے اور وہ اسلامی تعلیم کے حُسن اور اس کی صداقت کا اقرار کرنے پر مجبور ہو جاتے.افسوس کہ آج کے کامیابی توپوں کے ساتھ نہیں بلکہ قرآن کے ساتھ وابستہ ہے مسلمان توپ و تفنگ کی طرف دیکھ رہے ہیں بجائے اس کے کہ وہ اسلامی احکام پر عمل کریں ، اخلاق فاضلہ پر زور دیں ، دعا، نماز اور ذکر الہی کی طرف توجہ کریں وہ یورپ کی طرف آنکھ اُٹھائے اِس اُمید میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ کب یہ لوگ انہیں تو ہیں اور تلواریں دیتے ہیں جن کے زور سے وہ دنیا کو فتح کریں.وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی طرف نہیں دیکھتے وہ کافر کی تو پ اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے ہیں حالانکہ کامیابی تو پوں کے ساتھ نہیں بلکہ اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کے ساتھ وابستہ ہے.کفر کی مجموعی طاقت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ (1) اب میں یہ بتاتا ہوں کہ طاقت مخالفانہ کے بارہ میں اس نے کیا حکم دیا ہے؟ طاقت مخالفانہ اور انفرادی مخالفت یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں.
۳۷۷ مخالفوں اور باغیوں کے متعلق اُس نے جو حکم دیا ہے اس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے اب کفر کی مجموعی طاقت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ فرمایا ہے اُس کا ذکر کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ۲۲ یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ قرآن آ گیا اب گفر اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا.یہ کتنا عظیم الشان دعوی ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے کیا دنیا کی کوئی طاقت ایسی مثال پیش کر سکتی ہے؟ امریکہ اور انگلستان نے سائنس میں کتنی عظیم الشان ترقی کر لی ہے مگر کیا کوئی امریکن سائنسدان یا انگلستان کا مقین یہ کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے ایسا مکمل اور در جامع قانون تیار کر لیا ہے کہ ساری حکومتیں اس کی اتباع پر مجبور ہونگی.باوجود ایک بے مثال ترقی کر لینے کے امریکہ اور انگلستان ایسا دعویٰ نہیں کر سکتے ، لیکن قرآن کریم تمام دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کرتا ہے کہ میرا قانون ایسا مکمل اور اتنا جامع ہے کہ قیامت تک یہ اپنی موجودہ شکل میں ہی قائم رہیگا.یہ ایسا دعویٰ ہے کہ اس کی مثال دنیا کی کسی حکومت میں نہیں مل سکتی قرآن کریم کہتا ہے جَاءَ الْحَقُّ حق آ گیا جس کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے ایسی حکومت بھیج دی ہے جس کے مقابلہ میں کوئی اور حکومت ٹھہر ہی نہیں سکتی.ایک شبہ کا ازالہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس دعوی کو کیا کریں؟ قرآن کریم کے مقابلہ میں اور کئی حکومتیں ٹھہری ہوئی ہیں ، ہند و موجود ہیں ، عیسائی موجود ہیں، زرتشتی موجود ہیں اور ان کی کتابیں بھی موجود ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں آج اسلام پر عمل کیا جاتا ہے یا ہندو اور عیسائی اور زرتشتی مذہب پر عمل کیا جاتا ہے؟ کیا اسلام کے سوا دنیا میں کوئی ایک مذہب بھی ایسا ہے جس کے پیرو اپنے مذہب پر عمل کر رہے ہوں ؟ وہ کہتے یہی ہیں کہ ہم عیسائیت پر عمل کرتے ہیں یا ہندو مذہب پر عمل کرتے ہیں یا زرتشتی مذہب پر عمل کرتے ہیں لیکن شروع سے لے کر آخر تک وہ اسلامی تعلیم کو اپنا رہے ہیں.ان کا عمل انجیل پر نہیں ان کا عمل زند اوستا پر نہیں ، ان کا عمل وید پر نہیں ان کا عمل اسلام پر ہے.چنانچہ دیکھ لو عیسائیت کی تعلیم کی رو سے شراب پینا جائز ہے خود حضرت مسیح ناصری نے بھی انجیل کے مطابق ( گو ہم مسلمان اس کے قائل نہیں ) شراب کا معجزہ دکھایا مگر آج سارے یورپ میں ایسی سوسائیٹیاں بنی ہوئی ہیں جو اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ شراب پینی بند کر دی جائے اور سارے یورپ کے ڈاکٹر شور مچا رہے ہیں کہ شراب ایک زہر ہے جس کا پینا انسانی جسم کے لئے مہلک ہے اس تمام
جد و جہد میں کس مذہب کی فتح ہے؟ عیسائیت کی یا اسلام کی؟ اسلام نے کہا جَاءَ الْحَقُّ حق آ گیا اب باطل اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا قرآن کریم نے شراب کو حرام قرار دیا تھا اب دنیا مجبور ہو رہی ہے کہ شراب کو نا جائز قرار دے.قرآن کریم کی پیش کردہ توحید کی فتح پھر جب قرآن کریم آیا اُس وقت دنیا کے چپے چپے پر لوگوں نے بُت بٹھائے ہوئے تھے مگر آج دنیا کا تعلیم یافتہ انسان بُت کے آگے سر جھکانے کے لئے تیار نہیں.دنیا کے چپے چپے پر سے بُت اُٹھ گئے اور وہی تو حید دنیا میں قائم ہو گئی جو قرآن کریم نے پیش کی تھی اسی طرح اور ہزاروں امور میں تعلیمات اسلامیہ کے فائق ہونے کو پیش کیا جاسکتا ہے لوگوں نے ابھی ان حقائق کو نہیں مانا کیونکہ كَافَّةً لِلنَّاسِ کا اسلامی تعلیم پر برتری کو تسلیم کرنا مسیح موعود کے زمانہ کے ساتھ وابستہ تھا اور اب یہ کام اللہ تعالیٰ کی طرف سے شروع ہو چکا ہے لیکن اس حقیقت سے کوئی سمجھدار انسان انکار نہیں کر سکتا کہ اسلام نے ہر معاملہ میں جو تعلیم پیش کی ہے اس کا مقابلہ دنیا کا کوئی اور مذہب نہیں کر سکتا.قضاء کے بارہ میں اسلام کی شاندار تعلیم انصاف اور قضاء کو ہی لے لو.بادشاہ قاضی مقرر کرتے ہیں تو ان قاضیوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی خواہش اور منشاء کے مطابق فیصلے کئے جائیں.آج بھی پاکستان میں یہ بحث شروع ہے کہ گورنر جنرل کسی قانون کے ماتحت آ سکتا ہے یا نہیں آ سکتا ؟ پاکستان کی دستور ساز کمیٹی نے جو رپورٹ تیار کی ہے اور جسے رائے عامہ کے لئے مشتہر کیا گیا ہے اس میں ایک شق یہ رکھی گئی ہے کہ : - وو ' جب تک صد ر حکومت یا صدرصو بہ اپنے عہدہ پر فائز رہیں ، ان کے خلاف کسی قسم کی فوجداری نالش کسی عدالت میں دائر نہ ہونی چاہئے اور 66 نہ جاری رہنی چاہئے.“ حالانکہ اسلامی تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر نالش ہوئی.اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ پر نائش ہوئی اور وہ عدالت میں پیش ہوئے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان جن کو ہم معصوم سمجھتے ہیں بلکہ میرا یہ کہنا کہ ہم ان کو معصوم سمجھتے ہیں ایک بے وقوفی کا فقرہ ہے وہ معصوم تھا اور یقیناً تھا میرے سمجھنے یا نہ سمجھنے کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.وہ انسان
۳۷۹ جس کو خدا تعالیٰ نے اپنا گورنر جنرل مقرر کر کے بھیجا، وہ انسان جسے اس نے اس دنیا میں خلیفہ اللہ بنا کر بھیجا اور ایسا خلیفہ اللہ بنا کر بھیجا ہے جس پر اُس نے وہ کامل قانون نازل کیا جس کے متعلق وہ خود کہتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس قانون کی مثال تیار کرنے پر قادر نہیں ہو سکتی اور ایسا آئین نازل کیا جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، اتنے بلند ترین مقام کا انسان اپنی وفات کے قریب صحابہ سے کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے دنیا میں انصاف قائم کرنے کے لئے بھیجا تھا میں نے اس دنیا میں اُس کی رضا اور خوشنودی کے لئے اُس کے احکام کو جاری کیا ہے با ہے لیکن ممکن ہے اس جدو جہد میں مجھ سے کبھی کوئی غلطی ہو گئی ہو اور میں نے دوسرے کا حق مارلیا ہو اے میرے صحابہ ! تمہاری وفاداری یہ ہوگی کہ اگر میں نے غلطی سے کسی کا حق مارلیا ہے تو وہ اپنا بدلہ آج مجھ سے لے لے تا قیامت کے دن خدا تعالیٰ مجھ سے اس غلطی کا بدلہ نہ لے.کیا دنیا کا کوئی گورنر جنرل ایسا ہے؟ کیا دنیا میں کوئی ماں کا بیٹا ایسا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑایا آپ کے برابر ہی ہو؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہو سکتا ہے مجھ سے کبھی کوئی غلطی ہوگئی ہو اور اگر ایسا ہو گیا ہو تو مجھ سے بدلہ لے سکتے ہو..دردناک منظر تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ عشاق، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فریفتہ اور شیدائی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کی خاک بھی اپنے لئے اکسیر سمجھتے تھے اُن کا اِس فقرہ کو سنکر کیا حال ہوا ہوگا اور اُن کے دل پر اُس وقت کیا گزری ہوگی.تم اپنی حیثیت پر قیاس کرتے ہوئے اندازہ لگا سکتے ہو کہ ان کے دل پھٹ گئے ہوں گے، ان کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا ہوگا کہ ہمارا وہ آقا جو گند تلوار سے بھی اگر ہماری گردنیں کاٹ ڈالے تو ہم یہ سمجھیں گے کہ اس سے زیادہ ہم پر کوئی احسان نہیں وہ کہتا ہے کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہو تو آج مجھ سے بدلہ لے لو.مجمع پر خاموشی طاری تھی کہ ایک صحابی اُٹھے اور انہوں نے کہايَا رَسُولَ اللہ ! مجھے آپ سے ایک تکلیف پہنچی ہے فلاں لڑائی کے موقع پر جب آپ صفیں ٹھیک کر رہے تھے ایک صف کو چیر کر آپ آگے آئے تو اس وقت آپ کی گہنی میری پیٹھ پر لگی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مجھے گہنی مار کر اس کا بدلہ لے لو.تم سمجھ سکتے ہو کہ اُس وقت صحابہ کرام کا کیا حال ہوا ہوگا.یقیناً اُن کی تلواریں میانوں سے نکل رہی ہوں گی یقیناً وہ اُس کی تکہ بوٹی کر دینے کے لئے تیار ہوں گے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رُعب انہیں کچھ کرنے نہیں دیتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آؤ اور مجھے کہنی مارلو.اس
نے کہا ، يَا رَسُولَ اللهِ ! جب آپ کی گہنی مجھے لگی تھی تو اُس وقت میرے جسم پر پورا کپڑا نہیں تھا اور میری پیٹھ نگی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ میری پیٹھ پر سے کپڑا اٹھا دو تا کہ میری تنگی پیٹھ پر یہ شخص کہنی مار کر مجھ سے بدلہ لے لے.صحابہ کرام کا دل تو اُس وقت یہی چاہتا ہوگا کہ اس شخص کی زبان کاٹ ڈالیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے نتیجہ میں وہ مجبور تھے.انہوں نے آپ کی پیٹھ نگی کی اور اُسے کہا کہ وہ آئے اور گھنی مارے.وہ شخص آگے بڑھا اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور اُس نے ادب کے ساتھ اپنا سر جُھکاتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ کو چوم لیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیا؟ اس نے کہا یا رَسُولَ اللهِ! کس کم بخت کے دل میں یہ خیال بھی آسکتا تھا کہ وہ آپکو کہنی مارے ، يَا رَسُولَ اللهِ ! جب آپ نے ذکر فرمایا کہ میری موت اب قریب ہے تو میرے دل میں خیال آیا کہ میں اس بہانے سے آپ کو پیار تو کرلوں.۲۳ اسلامی کانسٹی ٹیوشن یہ ہے اسلامی کانسٹی ٹیوشن.بے شک اسلامی قانون کے ماتحت خلیفہ یا امام پر اپنے قانون کے نفاذ میں کوئی مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا چنانچہ تاریخ میں اس امر کی کوئی مثال نہیں ملے گی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اس لئے کوئی مقدمہ دائر کیا گیا ہو کہ فلاں گورنر کیوں بنایا گیا ؟ یا فلاں سکیم کیوں بنائی گئی ؟ لیکن ذاتی معاملات میں امام یا خلیفہ پر نالش کی جاسکتی ہے اور اس کے بغیر دنیا میں کہیں انصاف قائم نہیں ہوسکتا.اسی طرح اسلام اِس امر پر بھی زور دیتا ہے کہ دلیل دے کر کسی شخص کو مجرم بنایا جائے یہ اسلامی کانسٹی ٹیوشن کی ہی خوبی ہے کہ وہ دوسرے کو دلیل کی بناء پر مجرم بنانے کا فیصلہ کرتا ہے قرآن کریم فرماتا ہے لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَّ يَحْيَ مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ وَ إِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ ۲۴ یعنی ہم نے قرآن کریم نازل کر دیا ہے اب دنیا میں ہما را قانون یہ ہوگا کہ وہی شخص زندہ رکھا جائیگا جس کو دلیل زندہ رکھے گی اور وہی شخص تباہ ہوگا جس کو دلیل تباہ کرے گی گویا غلبہ بھی دلیل کے ساتھ ہوگا اور شکست بھی دلیل کے ساتھ ہوگی.دلائل کے زور سے کفر کی شکست غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا هم
۳۸۱ تلوار کے وار سے نہیں بلکہ دلیل کے زور سے کفر کو مٹائیں گے اور کفر اس لئے شکست کھائے گا کہ صداقت روشن ہو جائے گی اور جب صداقت روشن ہو جائے تو کفر اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا جیسے دنیا میں جب سورج چڑھتا ہے تو ڈنڈے مار مار کر ظلمت کو دُور نہیں کیا جاتا بلکہ سورج کی دُعا میں ظلمت کو آپ ہی آپ دور کر دیتی ہیں.قیدیوں کی آزادی کے اعلانات (۷) پھر دُنیوی گورنمنٹوں کی طرف سے بعض دفعہ اعلانات کئے جاتے ہیں کہ بادشاہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے اس خوشی میں اتنے قیدی رہا کئے جاتے ہیں یا فلاں شہزادہ کی شادی ہوئی ہے اس خوشی میں اتنے مجرموں کو رہا کیا جاتا ہے یا فلاں جشنِ مسرت منایا جا رہا ہے ، اس خوشی میں اتنے قیدی آزاد کئے جاتے ہیں.میں نے سوچا کہ کیا ہمارے دربار میں بھی کوئی قیدی آزاد کئے جاتے ہیں یا نہیں؟ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ دُنیوی گورنمنوں کی طرف سے تو صرف بعض قیدی چھوڑے جاتے ہیں لیکن اِس دربار عام میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا گورنر جنرل مقرر کرتے ہیں اور اسے اختیار دیتے ہیں کہ وہ ہماری طرف سے تمام گنہگاروں اور قیدیوں کی آزادی کا اعلان کر دے وہ فرماتا ہے قُلْ يَعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَاَنِيَبُوا إِلى رَبِّكُمْ وَ أَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ اَنْ يَّأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ۲۵ یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے تم کو اس دنیا کا گورنر جنرل مقرر فرمایا ہے تم جاؤ اور ہماری طرف سے یہ اعلان کر دو کہ اے میرے بندو! الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى انفُسِهِم جنہوں نے گنا ہوں کو کمال تک پہنچا دیا یعنی کوئی گناہ نہیں جو انہوں نے چھوڑ ا ہو لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ الله تمہارا بادشاہ حقیقی جس نے مجھے گورنر جنرل مقرر کر کے بھیجا ہے اُس کی رحمت بہت وسیع ہے پس تمہارے لئے اُس کی رحمت سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعاً گورنمنٹیں تو یہ اعلان کرتی ہیں کہ دو مہینے یا چھ مہینے یا سال تک کی جن لوگوں کو سزا دی گئی ہے اُن کی قید معاف کی جاتی ہے یا وہ مُجرم جو اخلاقی ہیں اُن کو معاف کیا جاتا ہے یا بعض پولٹیکل مجرموں کو معاف کیا جاتا ہے مگر ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ
۳۸۲ تمہارا خدا تمام قسم کے گناہوں کو چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے لیکر بڑے سے بڑے گناہ تک خواہ وہ اخلاقی ہوں، یا مذہبی ہوں یا سیاسی ہوں سب کو معاف کر سکتا ہے پس تمہارے لئے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں.یہ کتنا عظیم الشان اعلان ہے جو اسلام نے دنیا کے سامنے کیا ہے.کیا تو بہ سے گناہ بڑھتے ہیں یا کم ہوتے ہیں؟ عیسائی کہتے ہیں کہ اسلام نے گناہ بڑھا دیا ہے کیونکہ اسلام اس تعلیم کا حامل ہے کہ تو بہ سے انسان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں.حالانکہ عیسائیت خود کہتی ہے کہ خدا محبت ہے اور عیسائیت خود کہتی ہے کہ محبت سے دل صاف ہوتے ہیں.جب محبت اور پیار سے دل صاف ہوتا ہے تو تو بہ سے گناہ کس طرح بڑھ سکتا ہے؟ احادیث میں آتا ہے قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے ایک مجرم پیش ہوگا اُس سے کچھ سوالات کئے جائیں گے جن کا وہ جواب نہیں دے سکے گا مگر آخر اُس کے دل کی کسی مخفی نیکی کی وجہ سے خدا تعالیٰ اسے معاف کر دیگا اور اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ دیکھو! میرے اس بندے نے فلاں گناہ کیا تھا اُس کے بدلہ میں اسے یہ انعام ملے.اس سے فلاں قصور سرزد ہوا تھا، اس کے بدلہ میں اسے یہ انعام دیا جائے.مگر اللہ تعالیٰ اس کے بڑے بڑے گناہوں کا ذکر نہیں کرے گا صرف چھوٹے چھوٹے گناہوں کے ذکر پر ہی اکتفا کرے گا.جب اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ دیکھو! اس نے فلاں موقع پر پتھر مارا تھا اس کے بدلہ میں اسے یہ انعام دو.اس نے فلاں گالی دی تھی اس کے بدلہ میں یہ انعام دو.اور اللہ تعالیٰ اس کے بعد خاموش ہو جائیگا تو وہ شخص ادب کے ساتھ کہے گا کہ حضور میری ایک عرض ہے میرے سارے گناہ ابھی آپ نے بیان نہیں کئے صرف چھوٹے چھوٹے گناہوں کا آپ نے ذکر فرمایا ہے بڑے بڑے گناہ تو ابھی رہتے ہیں.۲۶ غور کرو ہما را خدا کتنی محبت کرنے والا ہے اور اس کی درگاہ کتنی پیاری ہے وہ تو دل کی صفائی چاہتا ہے اُسے مارنے اور سزا دینے سے کوئی دلچسپی نہیں.تم اپنے دل کو صاف کر لو تو تمہارے تمام گناہ اللہ تعالیٰ معاف کر دیگا اور اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کریگا کہ وہ گناہ کتنے ہیبت ناک تھے.مصیبت زدوں کی امداد کے اعلانات پھر کئی مصیبت زدہ ہوتے ہیں ان کے لئے بھی دربار عام میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم تمہیں اِس اِس رنگ میں مدد دیں گے مثلاً گزشتہ دنوں سیلاب آیا تو گورنمنٹ نے یہ اعلان کیا
۳۸۳ کہ ہم زمینداروں کو بیچ مہیا کر کے دیں گے لیکن ساتھ ہی اس نے یہ کہہ دیا کہ یہ بطور تقاوی ہو گا اور اس پر تمہیں اتنا سود دینا پڑے گا.غرض گورنمنٹیں نا گہانی مصائب اور آفات کے مواقع پر مصیبت زدوں کی ہمیشہ مدد کرتی ہیں مگر قسم قسم کی تدابیر سے بجائے کچھ دینے کے خود فائدہ اُٹھا لیتی ہیں.پھر اگر انہیں یہ پتہ لگ جائے کہ فلاں شخص جو امداد کے لئے آیا ہے وہ مثلاً باغی ہے یا باغی رہ چکا ہے تو وہ اُس کی امداد کے لئے اُس وقت تک تیار نہیں ہوتیں جب تک وہ اُن سے معافی نہ مانگے اور اس بات کا اقرار نہ کرے کہ آئندہ وہ ہر قسم کی بغاوت سے مجتنب رہے گا.اخباروں والے ہی جب گورنمنٹ کے خلاف کوئی مضمون لکھتے ہیں اور وہ پکڑے جاتے ہیں تو پریس والوں کو یہ لکھ کر دینا پڑتا ہے کہ آئندہ وہ احتیاط سے کام لینگے.سیاسی مجرم پکڑے جاتے ہیں تو وہ بھی جب تک گورنمنٹ کو یہ لکھ کر نہ دیں کہ ہم آئندہ محتاط رہیں گے اور گورنمنٹ کے خلاف کسی کا رروائی میں حصہ نہیں لیں گے اُس وقت تک انہیں رہا نہیں کیا جاتا.الہی دربار عام سے ایک عجیب اعلان لیکن اس دربار عام سے میں نے ایک عجیب اعلان ہوتے دیکھا ، میں نے سنا کہ اس دربار عام میں یہ اعلان کیا جاتا ہے قُلْ مَنْ يُنَجِّيُكُم مِّنْ ظُلُمَتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَهُ تَضَرُّعاً وَّ خُفْيَةً لَئِنْ اَنْجَنَا مِنْ هذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّكِرِينَ - قُلِ اللهُ ـحِيْكُمْ مِنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبِ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِكُونَ - فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو دنیا میں اعلان کر اور لوگوں سے کہہ کہ تمہارا خدا ہر مصیبت میں تمہاری مدد کرنے کے لئے تیار ہے.فرماتا ہے کون ہے جو تمہیں سمندر کی مصیبتوں اور خشکی کی مصیبتوں سے نجات دلاتا ہے؟ جب مصیبتیں آتی ہیں تَدْعُونَهُ تَضَرُّعاً وخُفْيَةً تم روتے ہوئے دعائیں کرتے ہو کہ وہ مصیبتیں تم سے ٹل جائیں مگر چونکہ تم اپنی قوم کو نہیں چھوڑ سکتے اس لئے تم دعا ئیں چوری چوری کرتے ہو ا ونچی آواز سے نہیں کرتے تا ایسا نہ ہو کہ تمہاری قوم یہ سمجھ لے کہ اب تم بتوں کو چھوڑنے لگے ہو اور تم بار بار یہ کہتے ہو کہ حضور! اب ہم کو چھوڑ دیجئے تو ہم تو حید پر ایسا عمل کریں گے اور آپ کی ایسی فرمانبرداری اور اطاعت کریں گے کہ آپ بھی ہم پر لٹو ہو جائیں گے.فرماتا ہے قُلِ اللهُ يُنَحِيكُم مِّنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرُبِ تو کہہ دے کہ خدا تعالیٰ تم کو اس مصیبت سے بھی بچائے گا اور آئندہ آنے والی مصیبتوں سے بھی بچائے گا مگر تم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ آج تو تم یہ کہہ رہے ہو کہ ہم تو حید پر
۳۸۴ ایمان رکھیں گے مگر گل اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کے بعد تم پھر شرک میں مبتلاء ہو جاؤ گے.لوگ بعض دفعہ بچے دل سے تو بہ کرتے ہیں مگر پھر اپنے نفس کی کمزوری کی وجہ سے گنا ہوں میں ملوث ہو جاتے ہیں مگر یہاں اُن کی اس کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ ہم آج تو تو بہ کرتے ہیں مگر گل جھوٹ بولنا شروع کر دیں گے.آج تو ہم تو بہ کر رہے ہیں مگر کل پھر شرک میں ملوث ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ بھی اُن کی اِس حالت کو جانتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ لوگ منافقت سے کام لے رہے ہیں، مگر اُس کا رحم بے انتہاء وسیع ہے وہ کہتا ہے اگر کل یہ شرک کریں گے تو دیکھا جائے گا اس وقت تو یہ تو بہ کر رہے ہیں چلو ان کو معاف کر دو.کیا دنیا کی کوئی تو ایسی حکومت ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے مُجرموں کو اس طرح معاف کر دے؟ نظامِ آسمانی میں دخل دینے والوں سے سلوک (۸) پھر نظامِ سماوی میں دخل دینے والے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةِ بِالْكَوَاكِبِ وَ حِفْظاً مِّنْ كُلّ شَيْطنٍ مَّارِدٍ - لَا يَسْمَعُونَ إِلَى الْمَلَا الْأَعْلَى وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبِ دُحُورًا وَّ لَهُمْ عَذَابٌ وَّاصِبْ - إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ ۲۸ فرماتا ہے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قانون شکنی کی کوشش کرتے ہیں وہ قانون کو بگاڑ کر اس کی اصل شکل کو مسخ کر دیتے ہیں اور اس طرح قانون کی غرض کو ضائع کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے اس قانون کے خلاف بھی لوگ کوششیں کریں گے اور اس کو بگاڑنے کے لئے ہر قسم کی تدابیر سے کام لیں گے مگر ہم تمہیں پہلے سے بتا دیتے ہیں کہ ہمارے قانون کو کوئی بگاڑ نہیں سکتا کیونکہ ہم نے اپنے روحانی آسمان کو کواکب کے ساتھ مزین کیا ہے.اس جگہ روحانی آسمان سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کواکب سے مراد صحابہ کرام کی جماعت ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی ایسے رنگ میں حفاظت کی کہ جس کی مثال دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں مل سکتی.سماء روحانی کی کواکب سے حفاظت اسی حقیقت کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس حدیث میں اشارہ فرمایا.أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِآتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمُ ٣٩ میرے سب صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ، تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے
۳۸۵ ہدایت پا جاؤ گے.پس ستارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةِ الْكَوَاكِب یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو سماء دنیا ہے اس کی حفاظت کے لئے ہم نے کو اکب مقرر کر دیئے ہیں.اگر کوئی شخص اس کے لائے ہوئے قانون کو بگاڑنے کی کوشش کرے گا تو یہ ستارے اس پر ٹوٹ پڑیں گے اور اس کے ہاتھوں کوشل کر دیں گے.چنانچہ دیکھ لو قرآن کریم کے خلاف دشمنانِ اسلام نے کس قدر منصوبے کئے اور کس طرح اسلام کو مٹانے کے لئے انہوں نے اپنی کوششیں صرف کیں مگر پھر کس طرح صحابہ کرام نے اس دین کی حفاظت کی اور اپنی جانیں قربان کر کے دنیا میں اس کو قائم کیا.مگر فرماتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئیگا جب مسلمانوں میں غفلت اور سستی پیدا ہو جائے گی اور لوگ پھر اس دین کو بگاڑنے کی کوشش کریں گے.جب دنیا میں وہ وقت آئے گا کہ مسلمان سو جائے گا ، صحابہ کرام فوت ہو جائیں گے اور اسلام کو مٹانے والے لوگ پیدا ہو جائیں گے فَاتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِب تو اُس وقت خدا تعالیٰ ایک شہاب پیدا کر دیگا جو آسمان سے گرے گا اور ایسے لوگوں کو کچل کر رکھ دے گا یعنی مسیح موعود (علیہ الصلوۃ والسلام ) کا ظہور ہوگا اور اسلام کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا.شی حکومتوں کی طرف سے تعلیم کا انتظام (19)پھر دنیا میں جوحکومتیں قائم ہوتی ہیں وہ اس بات کی کوشش کیا کرتی ہیں کہ مدر سے جاری کریں، سکول اور کالج کھولیں اور رعایا کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام کریں.اور تو اور معمولی معمولی ریاستوں میں بھی لوگوں کی تعلیم کا خیال رکھا جاتا ہے اور بعض دفعہ ان کی طرف سے ایسا اعلان سننے میں آجاتا ہے کہ ہم اپنی رعایا کے بڑے خیر خواہ ہیں ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ریاست میں ایک مڈل سکول جاری کیا جائے مگر اسلام جس حکومت کو قائم کرتا ہے اس کا رنگ بالکل اور ہے اور اس کی تعلیم کا دستور بالکل نرالا ہے.سکول میں آخر وہی جائے گا جو فیس دے سکتا ہے، جو کتابیں خرید سکتا ہے، جو تعلیمی اخراجات کو برداشت کر سکتا ہے، جو مضبوط قومی اور اچھا دماغ رکھتا ہے مگر اس دربار عام سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم علوم روحانیہ کی جو یو نیورسٹی قائم کر رہے ہیں اس کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے تمہیں گھر سے نکلنے کی بھی ضرورت نہیں ،تمہیں چار پائی سے بھی اُٹھنے کی ضرورت نہیں، تمہیں ہاتھ ہلانے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ٣٠
۳۸۶ اور وہ لوگ جو اپنے دل میں ہمارا عشق رکھیں گے، جو ہماری طرف محبت اور پیار کے ساتھ رجوع کریں گے ہم اپنے علم کے دروازے اُن پر کھول دیں گے، نہ اس میں کتابیں خریدنے کی ضرورت ہے نہ قلم اور دوات کی ضرورت ہے، نہ کاغذ کی ضرورت ہے ، نہ مدرسوں کی ضرورت ہے، نہ محنت و خوشامد کی ضرورت ہے، نہ فیس دینے کی ضرورت ہے، نہ گھر سے باہر جانے کی ضرورت ہے.ہر دل میں ایک یونیورسٹی بنا دی گئی ہے ، ہر قلب میں علوم کے چشمے پھوڑ دیئے گئے ہیں.تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ تم ہماری طرف متوجہ ہو کر یہ کہو کہ الہی ! مجھے فلاں فلاں چیز کی ضرورت ہے اور ہم وہ چیزیں تمہیں دے دیں گے.ایک بزرگ کا واقعہ ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ ان کی طرف سرکاری سمن آیا جس میں یہ لکھا تھا کہ آپ پر بعض لوگوں کی طرف سے ایک الزام لگایا گیا ہے اس کی جواب دہی کے لئے آپ فوراً حکومت کے سامنے حاضر ہوں.وہ یہ کہ به سنکر حیران رہ گئے کیونکہ وہ ہمیشہ ذکر الہی میں مشغول رہتے تھے مگر چونکہ سرکاری سمن تھا وہ چل پڑے.دس بیس میں گئے ہوں گے کہ آندھی آئی ، اندھیرا چھا گیا ، آسمان پر بادل امڈ آئے اور بارش شروع ہو گئی ، وہ اُس وقت ایک جنگل میں سے گزر رہے تھے جس میں دُور دُور تک آبادی کا کوئی نشان تک نہ تھا.صرف چند جھونپڑیاں اُس جنگل میں نظر آئیں وہ ایک جھونپڑی کے قریب پہنچے اور آواز دی کہ اگر اجازت ہو تو اندر آ جاؤں.اندر سے آواز آئی کہ آجائیے.انہوں نے گھوڑا باہر باندھا اور اندر چلے گئے.دیکھا تو ایک اپاہج شخص چار پائی پر پڑا ہے اُس نے محبت اور پیار کے ساتھ انہیں اپنے پاس بٹھا لیا اور پوچھا کہ آپ کا کیا نام ہے اور آپ کس ނ جگہ سے تشریف لا رہے ہیں؟ انہوں نے اپنا نام بتایا اور ساتھ ہی کہا کہ بادشاہ کی طرف مجھے ایک سمن پہنچا ہے جس کی تعمیل کے لئے میں جا رہا ہوں اور میں حیران ہوں کہ مجھے یہ سمن کیوں آیا کیونکہ میں نے کبھی دنیوی جھگڑوں میں دخل نہیں دیا.وہ یہ واقعہ سنکر کہنے لگا کہ آپ گھبرائیں نہیں ، یہ سامان اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے پاس پہنچانے کے لئے کیا ہے.میں اپانجو ہوں، رات دن چار پائی پر پڑا رہتا ہوں، مجھ میں چلنے کی طاقت نہیں لیکن میں نے اپنے دوستوں سے آپ کا کئی بار ذکر سنا اور آپ کی بزرگی کی شہرت میرے کانوں تک پہنچی.میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں کیا کرتا تھا کہ یا اللہ ! قسمت والے تو وہاں چلے جاتے ہیں میں غریب مسکین اور عاجز انسان اس بزرگ کے قدموں تک کس طرح پہنچ سکتا ہوں تو اپنے فضل
۳۸۷ سے ایسے سامان پیدا فرما کہ میری ان سے ملاقات ہو جائے.میں سمجھتا ہوں کہ اس سمن کے بہانے اللہ تعالیٰ آپ کو محض میرے لئے یہاں لایا ہے.ابھی وہ یہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ باہر سے آواز آئی، بارش ہو رہی ہے اگر اجازت ہو تو اندر آ جاؤں.انہوں نے دروازہ کھولا اور ایک شخص اندر آیا.یہ سرکاری پیادہ تھا.انہوں نے اس سے پوچھا کہ آپ اس وقت کہاں جارہے ہیں وہ کہنے لگا بادشاہ کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے کہ فلاں بزرگ کے پاس جاؤں اور اُن سے کہوں کہ آپ کو بلانے میں غلطی ہو گئی ہے دراصل وہ کسی اور کے نام سمن جاری ہونا چاہئے تھا مگر نام کی مشابہت کی وجہ سے وہ آپ کے نام جاری ہو گیا اس لئے آپ کے آنے کی ضرورت نہیں.یہ بات سنکر وہ اپاہج مسکرایا اور اُس نے کہا دیکھا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ محض میرے لئے یہاں لایا ہے سمن محض ایک ذریعہ تھا جس کی وجہ سے آپ میرے پاس پہنچے یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا جو لوگ ہم میں ہو کر اور ہم سے مدد مانگتے ہوئے اپنے مقاصد کے لئے جد و جہد کرتے ہیں ہم اس مقصد کے حصول کے لئے ان پر دروازے کھول دیتے ہیں.رویا و کشوف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں اور اب آپ کے اور ہمارے درمیان چودہ سو سال کا لمبا عرصہ حائل ہو چکا ہے.صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ فضیلت حاصل تھی کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ کی باتوں کو اپنے کانوں سے سُنا لیکن عشق ہمارے دلوں میں بھی گدگدیاں پیدا کرتا ہے.ہم زمانہ کے لحاظ سے پیچھے ہیں لیکن عشق کے لحاظ سے پیچھے نہیں چنانچہ با وجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ پر صدیاں گزر چکی ہیں پھر بھی خدا تعالیٰ ہمیں خوابوں اور کشوف کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار تک پہنچا دیتا ہے اور ہم بھی اس کیف اور سرور سے اپنے عشق کے مطابق حصہ پالیتے ہیں جس کیف اور سرور سے صحابہ کرام نے حصہ پایا.خود میں نے متعدد بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور کئی دفعہ تو آپ ایسی محبت سے آئے ہیں کہ اسے دیکھ کر تمام جسمانی کوفت دُور ہو جاتی رہی ہے.جن دنوں مصری فتنہ زوروں پر تھا میں ایک رات سخت بے قراری کی حالت میں اپنی چار پائی پر کوٹتا تھا اور مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں اس کا کیا علاج کروں.میں اسی حالت میں تھا
۳۸۸ کہ یکدم جاگتے جاگتے میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ بچوں کی طرح دوڑتا ہوا آیا اور وہ میر کندھے ہلا کر کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں یہ سنکر میرے دل میں عجیب کیفیت ہوگئی کہ میرے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی یہ حالت ہے کہ آپ میری تکلیف کا حال سُن کر برداشت نہیں کر سکے اور آپ خود میری دلجوئی کے لئے تشریف لائے ہیں.تب میں نے کہا یہ فتنہ لغو ہے اور میں آرام سے سو گیا.غرض اللہ تعالیٰ کے دروازے ہر شخص کے لئے گھلے ہیں اور جو بھی چاہے وہ ان دروازوں سے گزر کر اپنے مقصد کو حاصل کر سکتا ہے.روحانی اور مادی علوم کے متلاشیوں کو خوشخبری یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو دیدار الہی کے رستوں کا ذکر ہے ظاہری اور باطنی علوم کے عطا کئے جانے کا اللہ تعالیٰ نے کہاں وعدہ کیا ہے.سو یا د رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف روحانی علوم کے متلاشیوں کو ہی سیر نہیں کیا بلکہ وہ علوم جسمانی اور روحانی دونوں کے متلاشیوں کو خوشخبری دیتا ہے کہ میرے دربار میں آؤ اور اپنے دامن کو گوہر مقصود سے بھر لو وہ فرماتا ہے وَهَدَيْنَهُ النَّجْدَينِ ال ہم نے انسان کے لئے دونوں علوم کے راستے کھول دیئے ہیں.ہم نے خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا رستہ بھی اس کے لئے کھول رکھا ہے اور ہم نے علوم جسمانی میں کمال حاصل کرنے کا رستہ بھی اس کے لئے کھول رکھا ہے.یہ الگ سوال ہے کہ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو اس راستہ پر چل کر علوم حاصل کرتے ہیں.اصل چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے راستہ کھول دیا ہے اور ہر انسان کے لئے ان علوم کے حاصل کرنے کا موقع موجود ہے اگر وہ حاصل نہیں کرتے تو اس میں ان کا اپنا قصور ہے.دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ سب لوگ کتابیں ایک جیسی پڑھتے ہیں یہ نہیں ہوتا کہ سکولوں اور کالجوں میں بعض لڑکوں کو اور کتابیں پڑھائی جاتی ہوں اور بعض کو اور مگر ایک تو سائنس میں ترقی کرتے کرتے انتہائی کمال حاصل کر لیتا ہے اور دوسرا ابھی سائنس کے دروازے پر ہی بیٹھا ہوتا ہے.ایک اپنی زندگی میں سینکڑوں مفید ایجادات کر لیتا ہے اور دنیا میں چاروں طرف شور مچ جاتا ہے کہ ایڈیسن بڑا موجد ہے مگر دوسرا کوئی ایک چیز بھی ایجاد نہیں کرتا.اللہ تعالٰی نے هَدَيْنَهُ النَّجْدَيْنِ میں جس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے قابلیتیں تمام انسانوں میں پیدا کر دی گئی ہیں اگر وہ ان قابلیتوں سے کام لیں تو وہ علومِ ظاہری اور باطنی دونوں میں کمال
۳۸۹ حاصل کر سکتے ہیں.لیکن اگر کوئی اپنی قابلیت سے کام نہ لے تو اس میں خدا تعالیٰ کا قصور نہیں جیسے یو نیورسٹی ہر طالب علم کے لئے اپنے دروازے کھول دیتی ہے لیکن یونیورسٹی کا ہر آدمی آئن سٹائین نہیں بنتا، یونیورسٹی کا ہر آدمی نیوٹن نہیں بنتا.آئن سٹائین اور نیوٹن وہی بنتا ہے جو اپنی دماغی قابلیتوں کو کام میں لاتا ہے.اسی طرح یہ روحانی یو نیورسٹی سکھاتی تو ہر شخص کو ہے مگر سیکھتا وہی ہے جو اپنی استعدادوں کو کام میں لاتا ہے اور ان سے فائدہ اُٹھاتا ہے.تمام مخلوق کی جسمانی ضروریات پوری کرنے کا وعدہ (۱۰) پھر تمام مخلوق کی جسمانی ضروریات کے متعلق اعلان فرماتا ہے وَمَا مِنْ دَا بَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا وَ يَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَا كُلٌّ فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ ٣٢ دنیا کی حکومتیں فوڈ ڈیپارٹمنٹ (FOOD DEPARTMENT) قائم کرتی ہیں جس کے سپر د ملک کی غذائی حالت کی نگرانی ہوتی ہے اسی طرح جب کسی دوسرے ملک میں قحط پڑتا ہے یا نا گہانی حوادث سے اُس کی غذائی حالت خراب ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں بھی یہی ڈیپارٹمنٹ اس ضرورت کو پورا کرنے کا کام سرانجام دیتا ہے مگر دنیوی حکومتوں کے فوڈ ڈیپارٹمنٹ کیا کرتے ہیں وہ ایک طرف سے بہت ہی سستے داموں پر ایک چیز خریدتے ہیں اور دوسری طرف بہت بڑے نفع کے ساتھ اسے فروخت کر دیتے ہیں.مثلاً ہمارے ملک میں ہی چھ روپے من گندم مل رہی ہے لیکن چھ روپے من گندم لے کر ہمارا فوڈ ڈیپارٹمنٹ سولہ روپے میں ہندوستان کو دے رہا ہے.اسی طرح انگریزی زمانہ میں اڑھائی اڑھائی تین تین کروڑ روپیہ سالانہ حکومت اس ذریعہ سے کماتی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی کہتی چلی جاتی تھی کہ ہم بنی نوع انسان کی کتنی خدمت کر رہے ہیں.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آسمانی حکومت کا بھی یہی طریق ہے یا اس میں کوئی اور طریق رائج ہے.اس بارہ میں جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس حکومت میں دنیوی حکومتوں کے برعکس یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہر جاندار کو کھانا کھلانا ہمارے ذمہ ہے وہ فرماتا ہے وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِى الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا کوئی حرکت کرنے والی زندہ اور جاندار چیز ایسی نہیں جس کے رزق کی ذمہ داری خدا تعالیٰ کی ذات پر نہ ہو اور کیوں نہ ہو، جب ہم نے ایک مخلوق کو پیدا کیا ہے تو اس مخلوق کو کھانا کھلانا بھی ہمارا ہی فرض ہے کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے اور کس طرح یہ مانا جا سکتا ہے کہ ہر جاندار کو
۳۹۰.خدا تعالیٰ خود رزق دیتا ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ بندے کا دینا اور طرح کا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا دینا اور طرح کا ہے.تم اپنے ہاتھ سے کپڑے بنتے ہو مگر روئی خدا تعالیٰ پیدا کرتا ہے، روٹی تم اپنے ہاتھ سے پکاتے ہو مگر گندم خدا تعالیٰ پیدا کرتا ہے، اسی طرح خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو رزق دینے کی جو تراکیب رکھی ہیں وہ اتنی عجیب ہیں کہ اُن کو دیکھ کر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے محض اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت ہو رہا ہے.زمیندار جانتے ہیں کہ وہ گندم ہوتے ہیں اور انہیں اس کے لئے بہت بڑی محنت کرنی پڑتی ہے ، وہ زمین میں ہل چلاتے ہیں ، پیج ڈالتے ہیں، پانی دیتے ہیں اور مہینوں اس فصل کی دیکھ بھال اور نگرانی کرتے ہیں.راتوں کی نیند اور دن کا آرام انہیں اس غرض کے لئے قربان کرنا پڑتا ہے وہ خود بھی تکلیف اُٹھاتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی اس قربانی میں اپنے ساتھ شریک کرتے ہیں.اتنی بڑی محنت کے بعد اگر گندم ہی گندم انہیں مل جاتی جس کے ساتھ بھوسے کا کوئی حصہ نہ ہوتا تو کیا وہ دیانتداری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی گندم میں سے بیل کو ایک دانہ دینے کے لئے بھی تیار ہوتے ، وہ ساری کی ساری فصل اُٹھا کر اپنے گھر لے آتے اور بیل بُھوکے مرجاتے مگر چونکہ بیلوں کا رزق خدا تعالیٰ کے ذمہ ہے اس لئے وہ دانے تھوڑے پیدا کرتا ہے اور کھوسہ زیادہ پیدا کرتا ہے، دانے تم اُٹھا کر اپنے گھر لے آتے ہو اور بھوسہ اپنے جانوروں کے لئے رکھ لیتے ہو.یہ خدائی فعل ہے جو بتا رہا ہے کہ کس طرح اُس نے اپنی مخلوق کے رزق کا انتظام کیا ہے.تم صرف دانے کھا سکتے ہو کھوسہ نہیں کھا سکتے اس لئے تم مجبور ہو کہ تم بھوسہ جانوروں کو دو.اگر تمہارے اختیار میں ہوتا تو یا تو تمہارے جانور مرجاتے اور یا پھر تم انہیں دوسروں کی فصل میں چھوڑ دیتے.سندھی مزارعین کی کیفیت میں ایک دفعہ سندھ گیا وہاں سلسلہ کی زمینیں ہیں اور کچھ میری بھی زمینیں ہیں.ہم نے ان زمینوں پر مینیجر وغیرہ مقرر کئے ہوئے ہیں مگر مزارع اکثر سندھی ہیں.وہاں کے عملہ نے میرے پاس شکایت کی کہ سندھی مزارع کھیتوں میں اپنے جانور چھوڑ دیتے ہیں اور فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے.آپ انہیں نصیحت کیجئے کہ وہ ایسا نہ کریں.چنانچہ میں نے ان کو بلوایا اور انہیں نصیحت کی کہ یہ جتنی جائیداد ہے سب انجمن کی ہے اور اس میں سے جتنی بھی آمد ہوتی ہے اس میں ایک پیسہ بھی کسی کو نفع کے طور پر نہیں ملتا بلکہ سب کا سب خدا تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کیا جاتا ہے اس لئے اگر آپ لوگ بھی دیانتداری سے کام لیں اور اپنے جانوروں کو فصلیں کھانے نہ دیں تو اس ثواب میں برابر کے
۳۹۱ شریک ہو سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی رضا آپ کو حاصل ہو سکتی ہے.میں نے اس موضوع پر ان کے سامنے پندرہ بیس منٹ تقریر کی اور میں نے دیکھا کہ ان سندھیوں کا لیڈر جو چانڈیہ قوم کے ساتھ تعلق رکھتا تھا سر ہلاتا چلا جاتا تھا جس سے میں نے یہ سمجھا کہ اس پر خوب اثر ہو رہا ہے مگر پندرہ نہیں منٹ کے بعد جب میں تقریر ختم کر چکا تو ان سندھیوں کا سردار کہنے لگا سائیں! جے ڈھور ڈنگر نے کھیتی نہیں کھانی تے پھر بنی پوکھنی ہی کیوں ہے؟ یعنی اگر جانوروں نے فصل نہیں کھانی تو پھر ہمیں فصل بونے کی ضرورت ہی کیا ہے.تو اللہ تعالیٰ اگر ان کی روزی انسان پر چھوڑ دیتا تو انہوں نے تو مر جانا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا رزق اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.اس نے دیکھا کہ جانور کی محنت زیادہ ہے اور تمہاری کم ہے، ان کا پیٹ بڑا ہے اور تمہارا پیٹ چھوٹا ہے اس لئے اس نے تمہارے لئے تو دانے بنائے اور ان کے لئے بھوسہ بنا دیا.دانے اس نے کم بنائے اور بھوسہ اس نے زیادہ بنایا کیونکہ عَلَی اللَّهِ رِزْقُهَا ان جانوروں کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ تھا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر قسم کے رزق کی فراوانی پھر بنی نوع انسان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَّ السَّمَاءَ بِنَاءً وَّ صَوَّرَ كُمْ فَاحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبَتِ ذلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ فَتَبَرَكَ اللهُ رَبُّ الْعَلَمِينَ ٣٣ یعنی تمہارا خدا وہ ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو تمہارے لئے چھت کے طور پر بنایا ہے پھر اس نے تم کو کام کرنے کی قابلیت عطا فرمائی ہے فَاحْسَنَ صُوَرَ كُمُ اور قابلیت بھی بہت اعلیٰ درجہ کی پیدا کی ہے.اس جگہ صورت کے معنی ناک، کان ، منہ اور آنکھیں وغیرہ نہیں کیونکہ جب خدا تعالیٰ نے انسان کو بنایا، تو تمام اعضاء اُس نے اُسی وقت بنا دیئے تھے.اس جگہ صورت سے مراد وہ قوتیں اور قابلیتیں ہیں جو بنی نوع انسان میں رکھی گئیں اور جن سے وہ دنیا میں بہت بڑی ترقیات حاصل کرتا ہے.وَ رَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَتِ پھر اُس نے نہایت اعلیٰ درجہ کی چیزیں جو تمہارے جسم کے مناسب حال ہیں تمہارے لئے پیدا کیں.مثلاً زبان خواہش رکھتی ہے کہ وہ میٹھا کھائے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے میٹھا پیدا کر دیا یا زبان چاہتی ہے کہ اسے نمک مرچ اور کباب ملیں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے نمک مرچ اور کباب پیدا کر دیئے.یا مثلاً زبان چاہتی ہے کہ اسے کھانے کے لئے چاول ملیں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے
۳۹۲ چاول پیدا کر دیئے.غرض جو بھی خواہشیں اور قوتیں انسان کے اندر پیدا کی گئی ہیں ویسی ہی چیزیں اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں پیدا کر دی ہیں اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے کیونکہ انسان میں جو طاقتیں رکھی گئی ہیں ویسی ہی چیزیں دنیا میں بنا دی گئی ہیں.ان چیزوں کی پیدائش کو ہم اتفاقی نہیں کہہ سکتے یہ اتفاقی معاملہ تب ہوتا جب بنی نوع انسان کی کوئی ایسی طاقت ہوتی جس کا جواب قانونِ قدرت میں نہ ہوتا مگر ہم تو دیکھتے ہیں کہ ہر طاقت اور ہر قابلیت کا جواب خدا تعالیٰ کے قانون میں موجود ہے.اگر تمہارا منہ نرم نرم اور پہلی سی چیز کو چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے چاول بنا دیئے ہیں.اگر تمہارے دانت سخت چیز کے چبانے کی طاقت رکھتے ہیں تو اس نے ہڈیاں اور دانے وغیرہ بنا دیئے ہیں.اگر تمہارا معدہ لذیذ اور شیریں چیزوں کا محتاج ہے تو اس نے تمہارے لئے شکر پیدا کر دی ہے.بچپن میں دانت نہیں ہوتے تو ماں کی چھاتیوں میں دودھ پیدا کر دیتا ہے غرض تمام چیزیں جن کی عمر بھر کسی وقت بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے ان سب کا کائناتِ عالم میں موجود ہونا دلالت کرتا ہے کہ ایک ایسی ہستی موجود ہے جس نے پالا رادہ اور حکمت کے ماتحت اس دنیا کو پیدا کیا ہے.بنی نوع انسان پر عظیم الشان احسان پر فرماتا ہے هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ٣٢ فرماتا ہے وہ خدا ہی ہے جو (۱) پیدا کرتا ہے (۲) پھر وہ تراشتا ہے یعنی نقائص کو دور کرتا ہے (۳) پھر وہ تصویر دیتا ہے یعنی کام کے مناسب حال قو تیں بخشتا ہے (۴) لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسُنی اِس کے علاوہ وہ اور بھی بہت سے نیک تغیرات پیدا کرتا ہے.مثلاً طاقتوں کے مطابق با ہر سامان پیدا کرتا ہے جس کی طرف اس کی صفتِ رحمن اشارہ کرتی ہے اور پھر کام کرنے پر اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کرنے کے سامان مہیا کرتا ہے جس کی طرف اس کی صفتِ رحیم اشارہ کرتی ہے.مثلاً ہر کام دنیا میں ایک اچھا یا بُرا اثر چھوڑتا ہے وہ وہیں ختم نہیں ہو جاتا.تم ہاتھ ہلاتے ہو تو ہاتھ ہلانے سے تمہارا کام ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس سے دوسری دفعہ تمہارے اندر ہاتھ ہلانے کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے یا مثلاً بچہ کو دیکھ لو وہ اپنے ہاتھ پاؤں ہلا تا ہے اور آخر کچھ عرصہ کے بعد اُس کے پاؤں میں کھڑا ہونے کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے.اُس کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا کسی ایک حرکت کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی پہلی تمام حرکتوں کا ایک مجموعی نتیجہ ہوتا ہے.ا
۳۹۳ انسانی دماغ کی حیرت انگیز وسعت یہی حال حافظہ کی قوت کا ہے ہم ایک بچہ کو بتاتے ہیں کہ یہ چیز جو تم کھا رہے ہوا سے روٹی کہتے ہیں.اب اگر دس سال کے بعد بھی اس سے پوچھو کہ اس چیز کا کیا نام ہے تو وہ فوراً کہہ دیگا کہ روٹی.یہ چیز اس کے دماغ میں کس نے محفوظ رکھی ہے صرف اللہ تعالیٰ نے اور پھر یہ دماغ کے اندر کتنی بڑی لائبریری ہے جس میں لاکھوں لاکھ الفاظ سالہا سال سے محفوظ چلے آتے ہیں اور جب بھی کسی لفظ کی ہمیں ضرورت محسوس ہوتی ہے ، ہمارے دماغ کا لائبریرین فوراً اس لفظ کو نکال کر ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ برٹش میوزیم (BRITISH MUSEUM ) میں تین لاکھ کتابیں محفوظ ہیں اور وہ اس میوزیم کی تعریف کرتے نہیں تھکتے لیکن اللہ تعالیٰ کے انعامات کی طرف دیکھو کہ ایک ادنیٰ سے ادنی اور جاہل سے جاہل انسان کے دماغ میں بھی اُس نے پچاس لاکھ سوراخ بنا رکھے ہیں جن میں ہر فقرہ اور ہر لفظ اور ہر زبر اور ہر زیر کو محفوظ رکھنے کی الگ الگ الماری ہے اور جب بھی کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے فوراً بلا کسی توقف اور تاخیر کے وہ چیز ہمارے سامنے لا کر پیش کر دیتا ہے.دنیا کی لائبریریوں میں تو ایک ایک الماری میں سینکڑوں کتا بہیں ہوتی ہیں مگر یہاں ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ کے لئے ایک ایک سیل موجود ہے.وہ جب بھی کوئی لفظ سیکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے فوراً اُٹھا کر دماغ کی کوٹھڑی میں محفوظ کر دیتا ہے.پھر باہر تو لائبریریوں میں جو کام کرنے والے رکھے جاتے ہیں ان کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی ہیں مگر یہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کئے ہوئے نوکر موجود ہیں جو تم سے کوئی تنخواہ طلب نہیں کرتے.تمہارے سامنے روٹی آتی ہے تو جھٹ لائبریرین تمہارے دماغ کے سوراخ میں سے روٹی کا لفظ نکال کر تمہارے سامنے رکھ دیتا ہے.پانی آتا ہے تو پانی کا لفظ تمہارے سامنے آ جاتا ہے اسی طرح ایک ایک فقرہ اور ایک ایک لفظ جو تمہاری زبان پر جاری ہوتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ فرشتے رات اور دن مسلسل کام کر رہے ہیں.گویا ساری حکومت امریکہ کا اتنا انتظام نہیں جتنا ایک جاہل سے جاہل آدمی کے دماغ میں خدا تعالیٰ نے انتظام قائم کیا ہوا ہے.دنیوی حکومتوں کی احسان فراموشی پھر دنیوی حکومتیں وقت پر خدمت لے لیتی ہیں لیکن بعد میں بھول جاتی ہیں اور انہیں خیال بھی نہیں
۳۹۴ رہتا کہ فلاں شخص نے مصیبت اور تکلیف میں ہماری خدمت سرانجام دی تھی.ہمارے ایک دوست ہیں مجھے ہمیشہ ان پر جنسی آیا کرتی ہے لیکن ان کے استقلال کو دیکھ کر تعجب بھی آتا ہے.انہوں نے گزشتہ جنگ میں کچھ رنگروٹ دیئے تھے افسروں نے انہیں خوب شاباش دی اور انہیں یہ امید پیدا ہوگئی کہ جنگ کے خاتمہ پر میری اس خدمت کے بدلہ مجھے انعام کے طور پر کوئی زمین دیدی جائے گی جب جنگ ختم ہو گئی اور وہ کسی افسر سے ملنے کے لئے جاتے تو بعض دفعہ پیغام آجاتا کہ ہمیں ملنے کی فرصت نہیں اور بعض دفعہ یہ کہدیا جاتا کہ صاحب بہادر اندر نہیں ہیں.مگر آدمی ہمت والے تھے انہوں نے چٹھیاں لکھتے لکھتے وائسرائے تک معاملہ پہنچا دیا.وائسرائے نے اُن کی درخواست پر لکھا ڈیفنس سیکرٹری فوراً کارروائی کرے.ڈیفنس سیکرٹری نے وہ درخواست گورنر کو بھجوا دی.گورنر نے کمشنر کے پاس بھیجوا دی کمشنر نے ڈپٹی کمشنر کے پاس پہنچا دی.ڈپٹی کمشنر نے ریوینیو آفیسر کے پاس پہنچا دی اور معاملہ پھر وہیں کا وہیں رہا.انہوں نے پھر اپنی درخواستیں نیچے سے اوپر پہنچانی شروع کیں اور افسروں نے پھر اسی طرح ان کی درخواستیں اوپر سے نیچے بھجوائی شروع کر دیں.غرض اسی تگ و دو میں ان کے کئی سال گزر گئے مگر انہیں مربع آج تک نہیں ملا بلکہ سیب کا مرتبہ بھی نہیں ملا.مگر اس گورنمنٹ کو دیکھو کہ یہ بھولتی نہیں بچپن میں ایک لفظ سیکھا جاتا ہے اور بڑے ہو کر برابر وہ سیکھا ہو ایا د رہتا ہے یہ کبھی نہیں ہوا کہ کوئی چیز سیکھی ہوئی ہو اور پھر وہ دماغ کے کسی گوشے میں محفوظ نہ رہے بلکہ اس حفاظت کا یہ حال ہے کہ فرانس میں ایک دفعہ ایک لڑکی کو دورے پڑنے شروع ہوئے جب اُسے دورہ پڑتا تو وہ جرمن زبان میں بعض مذہبی دعائیں پڑھنا شروع کر دیتی.وہ فرانسیسی لڑکی تھی اور جرمن زبان کا ایک حرف بھی نہیں جانتی تھی.جب دورے میں اس نے جرمن زبان میں باتیں شروع کیں تو ڈاکٹروں نے شور مچا دیا کہ اب تو جن ثابت ہو گئے.یہ لڑکی تو جرمن زبان نہیں جانتی یہ جو جرمن زبان بول رہی ہے تو ضرور اس کے سر پر جن سوار ہے.آخر ایک ڈاکٹر نے اس کے متعلق تحقیقات شروع کی وہ حافظہ کا بہت بڑا ماہر تھا.جب اُس نے تحقیق کی تو اسے معلوم ہوا کہ جب یہ لڑ کی دو اڑھائی سال کی تھی تو اُس وقت اس کی ماں ایک جرمن پادری کے پاس ملازم تھی.جب وہ پادری جرمن زبان میں سرمن پڑھتا تھا تو یہ لڑ کی اُس وقت پنگھوڑے میں پڑی ہوتی تھی.جب اُسے یہ بات معلوم ہوئی تو وہ اس جرمن پادری کی تلاش میں نکلا اسے معلوم ہوا کہ وہ جرمن پادری اس وقت پین میں ہے.پین پہنچنے پر اسے معلوم ہوا کہ وہ پادری
۳۹۵ ریٹائر ہوکر جرمن چلا گیا ہے اس کی تلاش میں جرمن پہنچا، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ پادری مر گیا ہے.مگر اس نے اپنی کوشش نہ چھوڑی اور اس نے گھر والوں سے کہا کہ اگر اس پادری کے کوئی پُرانے کاغذات ہوں تو وہ مجھے دکھائے جائیں.گھر والوں نے تلاش کر کے اسے بعض کاغذات دیئے اور جب اس نے ان کا غذات کو دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ دعائیں جو بیہوشی کی حالت میں وہ لڑکی پڑھا کرتی تھی وہ وہی اس پادری کی سرمن تھی.اب دیکھو! دو اڑھائی سال کی عمر میں ایک پادری نے اس کے سامنے بعض باتیں کیں جو اس کے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے محفوظ کر دیں.کے کان میں اذان اور اقامت کہنے کی حکمت یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ بچہ علایم کے علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی مسلمان کے گھر میں بچہ پیدا ہو تو فوراً اُس کے ایک کان میں اذان اور دوسرے کان میں اقامت کہو.یورپ کے مدبرین نے تو آج یہ معلوم کیا ہے کہ انسانی دماغ میں سالہا سال کی پرانی چیزیں محفوظ رہتی ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی تم اس کے کان میں اذان کہو کیونکہ اب وہ دنیا میں آ گیا ہے اور اس کا دماغ اس قابل ہے کہ وہ تمہاری باتوں کو محفوظ رکھے.دنیا کا ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے پھر فرماتا ہے يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَواتِ وَ الْأَرْضِ دنیا کا ذرہ ذرہ گواہی دیتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.بے شک بادی النظر میں بعض چیزیں قابلِ اعتراض نظر آئیں گی لیکن جب بھی غور کیا جائے گا انسان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام بے عیب اور پر حکمت ہے.لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی ملا دماغ کا آدمی ایک دفعہ باغ میں گیا اور اس نے دیکھا کہ آم کے درخت پر تو چھوٹے چھوٹے پھل لگے ہوئے ہیں اور ایک معمولی سی بیل کے ساتھ بڑا سا حلوہ کڈ و لگا ہوا ہے.وہ دیکھ کر یہ کہنے لگا کہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بڑا حکیم ہے مگر مجھے تو اس میں کوئی حکمت نظر نہیں آتی کہ اتنے بڑے درخت کے ساتھ تو چھوٹے چھوٹے پھل لگے ہوئے ہوں اور اتنی نازک سی بیل کے ساتھ اتنا بڑا حلوہ کڈ و لگا ہوا ہو.اس کے بعد وہ آرام کرنے کے لئے اسی آم کے درخت کے نیچے سو گیا.سویا ہوا تھا کہ اچانک ایک آم ٹوٹا اور زور
۳۹۶ سے اُس کے سر پر آلگا.وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھا اور کہنے لگا خدایا! مجھے معاف فرما اب تیری حکمت میری سمجھ میں آگئی ہے اگر اتنی دور سے حلوہ کدو میرے سر پر پڑتا تو میں تو مر ہی جاتا.غرض اس عالم کا ذرہ ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے.دنیا میں ہزاروں نہیں لاکھوں قسم کے جراثیم پائے جاتے ہیں اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کیڑوں کو بلا وجہ پیدا کر دیا ہے مگر سائنس کی ترقی پر ثابت ہوا ہے کہ دنیا کا ہر کیٹر ا کسی اور کیڑے کے زہر کو مارنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور کوئی کیڑا بھی ایسا نہیں جو مفید کام نہ کر رہا ہو.کئی لاکھ کیڑوں کے متعلق یہ تحقیق کی جاچکی ہے اور علم حیوانات والوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہر کیڑا کوئی نہ کوئی مفید کام کر رہا ہے اور کسی نہ کسی زہریلے مادے کو تباہ کر نے میں اس کا دخل ہے.پھر فرماتا ہے وَهُوَا لَعَزِيزُ الْحَكِيمُ وہ خدا غالب ہے اس کے فیصلہ کو کوئی رد نہیں کر سکتا.دنیوی بادشاہتیں بدل جاتی ہیں تو ساتھ ہی ان کے فیصلے بھی بدل جاتے ہیں اور لوگوں کی گزشتہ خدمات پر پانی پھر جاتا ہے.انگریزوں نے اپنی حکومت کے دوران میں لوگوں کو مربعے دیئے تھے مگر اب ایجیٹیشن (AGITATION ) شروع ہے کہ بڑی بڑی زمینیں اور جاگیریں واپس لے لینی چاہئیں.اُس وقت لوگ سمجھتے تھے کہ شاید قیامت تک یہ سلسلہ اسی طرح قائم رہے گا مگر حکومت بدلی تو ساتھ ہی اس کے فیصلے بھی بدل گئے وہاں جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا هُوَ كَائِنٌ ۳۵ کا قانون ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے کہہ دیا سو کہہ دیا وہ قیامت تک بدل نہیں سکتا.پھر وہ حکیم ہے اور اُس کے ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت کام کر رہی ہے کوئی امر چٹی کا موجب نہیں جیسا کہ دُنیوی حکومتوں میں ہوتا ہے.پھر فرماتا ہے وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ آسمانی علوم تقویٰ کے ساتھ وابستہ ہیں وَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ٣٦ دنیا میں تو کہا جاتا ہے کہ نوکری ملنے کے لئے بی.اے ہونا ضروری ہے یا بی.ایس سی ہونا ضروری ہے یا ایم.اے ہو تب ہم اسے ملازم رکھ سکتے ہیں، یا ایم.ایس سی کی ڈگری ضروری ہے مگر یہاں یہ بات نہیں، فرماتا ہے تم تقویٰ اختیار کرو ہم اُسی وقت تمہیں اپنے پاس سے علوم سکھانے شروع کر دیں گے.دنیا کے ملازموں کو تو علم سیکھ کر نوکری ملتی ہے بی.ایس سی کی ڈگری حاصل کرنا پہلے ضروری ہے اور اس کے بعد ملازمت ملتی ہے وہ بھی اپنے اندر محدود ترقی رکھتی ہے مگر یہ الہی گورنمنٹ ساتھ ہی ساتھ ہر ترقی پر مزید علم بخشتی ہے اور جب بھی کوئی شخص
۳۹۷ تقویٰ میں آگے قدم بڑھاتا ہے اللہ تعالیٰ کے انعامات بھی اُس پر پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ نازل ہونے شروع ہو جاتے ہیں گویا اس علم کے لئے بی.ایس سی ہونا ضروری نہیں صرف تقویٰ میں ترقی کرنا ضروری ہے.جوں جوں کو ئی شخص تقوی میں ترقی کرتا جاتا ہے اُس کا علم بڑھتا چلا جاتا ہے اور اُسے پہلے سے زیادہ ڈگریاں ملنی شروع ہو جاتی ہیں.الم روحانی میں سب سے بڑی ڈگری چنانچہ دیکھ لو اس عالم روحانی میں سب سے ނ بڑی ڈگری اس شخص کو ملی جس کے متعلق خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی خدا تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ وہ امی اور ان پڑھ ہے.۳۷ دنیوی حکومتوں میں ایک امی کا کوئی مقام نہیں مگر خدا تعالیٰ کا دربار دیکھو کہ اُس نے دنیا کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے ایک اُمی کا ہی انتخاب کیا اور فرمایا کہ ہم اس کو وہ علم سکھائیں گے کہ دنیا کے بڑے بڑے آدمی بھی اس کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوں گے.دیدار عام کی دعوت دیوانِ عام کی دوسری غرض لوگوں کو بادشاہ کا دیدار عام دینا ہوتی ہے.بادشاہ دربار میں آکر بیٹھتے ہیں اور لوگ ان کے دیدار سے لطف اندوز ہوتے ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ ان کو بادشاہ کے دیکھنے سے کیا مل جاتا ہے؟ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا وہ دیکھتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں.مگر اس دربار عام میں جو دیدار عام کرایا جاتا ہے اس میں یہ خوبی ہے کہ ادھر انسان کو دیدار حاصل ہوا اور ادھر اس پر چودہ طبق گھل گئے اور پھر یہ دیدار وہ ہے جس سے ہر شخص حصہ لے سکتا ہے اللہ تعالیٰ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے.لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَ هُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ٣٨ فرماتا ہے ہم یہ جانتے ہیں کہ تمہارے دلوں میں ہمارے دیدار کی ایک نہ مٹنے والی خواہش پائی جاتی ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تم میں یہ طاقت نہیں کہ اپنی کوشش اور جدو جہد سے ہمارے دیدار سے فیضیاب ہو سکو اس لئے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے خودتم پر جلوہ گر ہوتے ہیں تاکہ تم میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہ رہے جو ہمارا دیدار نہ کر سکے.دنیوی درباروں کے ناقص انتظامات دنیا میں تو جب دیوانِ عام منعقد کیا جاتا ہے تو اول تو سب لوگوں کو اس دربار میں بیٹھنے
۳۹۸ کے لئے جگہ ہی نہیں ملتی صرف چند سو آدمی اندر بیٹھ سکتے ہیں مثلاً دہلی میں دربار عام منعقد ہوا تو دہلی کے رہنے والے لاکھوں کی تعداد میں تھے مگر دربار کے اندر بیٹھنے والے چار پانچ سو زیادہ نہ تھے.ނ دوسرا طریق بادشاہوں نے یہ مقرر کیا ہوا ہوتا ہے کہ وہ جھروکے میں بیٹھ جاتے ہیں اور لوگ ارد گرد کے میدانوں میں جمع ہو کر ان کا دیدار کرتے ہیں مگر اس طرح بھی زیادہ سے زیادہ چالیس پچاس ہزار آدمی دیدار کر سکتے ہیں اور چالیس پچاس ہزار آدمی جو ان کو دیکھنے کے لئے جمع ہوتا تھا وہ بھی ایسا ہوتا تھا جو اچھا تندرست اور مضبوط ہو ورنہ اس دیدار عام کے باوجود بیمار وہاں نہیں جا سکتا تھا.لولا لنگڑ اوہاں نہیں پہنچ سکتا تھا پولیس والا جو کسی چوراہے پر آن ڈیوٹی ہوتا تھا وہ وہاں نہیں جا سکتا تھا اور پھر اگر شہر والے وہاں چلے بھی جاتے تو دو دو چار چار سو میل کے علاقہ میں رہنے والے لوگ وہاں نہیں پہنچ سکتے تھے.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تمہاری اس خواہش کو دیکھا اور ہم نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم تمہاری اس خواہش کو ضرور پورا کریں گے چنانچہ گوتمہاری آنکھیں خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتیں مگر خدا خود چل کر تمہاری آنکھوں کے سامنے آئے گا اور وہ کیوں ایسا کرے گا اس لئے کہ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ لطیف کے ایک معنی باریک اور پوشیدہ ہونے کے اور الْبَرُّ بِعِبَادِهِ الْمُحْسِنُ إِلى فُلْقِهِ ۳۹ کے بھی ہیں یعنی اپنے بندوں سے بہت نیکی کرنے والا اور ان کی ضرورتوں کے مطابق سامان مہیا کرنے والا.فرماتا ہے ہم کیوں تمہارے پاس چل کر آئیں گے؟ اس لئے آئیں گے کہ ہم بادشاہ ہیں اور ہم اپنے بندوں کے ساتھ نیکی کرنے والے ہیں اور اس لئے ہماری صفت یہ ہے کہ ہم اپنے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں اور ان پر اپنے احسانات کی بارش نازل کرتے ہیں اور پھر اس لئے ہم خود چل کر تمہارے پاس آئیں گے کہ ہم خَبِيرٌ ہیں یعنی ہم اس بات سے واقف ہیں کہ تم خود اس مقام کو حاصل نہیں کر سکتے.یہ وہ دیدار ہے، جس کے مقابلہ میں دُنیوی بادشاہوں کے دیدار کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتے.صفات الہیہ پر بحث پھر عملا صفات الہیہ کو جس طرح قرآن کریم نے ظاہر کیا ہے دنیا کی کسی اور کتاب نے ظاہر نہیں کیا، اس نے صفات الہیہ پر ایسی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ کو اس نے انسان کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا ہے.مسئلہ تو حید کو ہی لے لو اس سبق کو اس نے اس طرح ننگا کر کے رکھ دیا ہے کہ آج ساری دنیا اس
۳۹۹ بات پر مجبور ہے کہ خواہ وہ عملاً شرک ہی کا ارتکاب کر رہی ہو پھر بھی زبان سے وہ یہی کہے کہ خدا ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.خدا اور اُس کے بندے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں دیوان عام کی تیسری غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ اپنی فریاد بادشاہ تک براہِ راست پہنچا سکیں.اس نقطۂ نگاہ سے بھی جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے دیوانِ عام کی اس غرض کو پورا کیا.تمام مذاہب کہتے ہیں کہ خدا اور اس کے بندے میں کوئی نہ کوئی واسطہ ہونا چاہئے مگر اسلام کہتا ہے کہ خدا اور اس کے بندے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں.نبی کتنی بڑی شان رکھنے والا وجود ہوتا ہے مگر خواہ کوئی بڑے سے بڑا نبی ہو پھر بھی وہ خدا اور بندوں کے درمیان واسطہ نہیں بن سکتا.احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا کہ يَارَسُولَ اللہ ! احسان کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا ہے احسان یہ ہے تو نماز اس یقین اور وثوق کے ساتھ پڑھے کہ گویا تو خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور اگر یہ مقام تمہیں حاصل نہیں تو تمہیں کم سے کم یہ یقین رکھنا چاہئے کہ خدا تم کو دیکھ رہا ہے ؟ اور جب کسی بندے کو خدا دیکھ رہا ہو تو اس کی فریاد کے پہنچنے میں کوئی روک ہی کیا ہو سکتی ہے.غرض تمام مذاہب ایک واسطہ کے قائل ہیں مگر اسلام اس چیز کا قائل نہیں.چنانچہ دیکھ لو وہ ایک طرف تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس قدر تعریف کرتا ہے کہ فرماتا ہے یہ قیامت تک کے لئے گورنر جنرل مقرر کئے گئے ہیں مگر دوسری طرف جہاں واسطے کا سوال آتا ہے وہاں فرماتا ہے قُلْ إِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُم یعنی تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تو تمہاری طرح ایک انسان ہوں.بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.پس اسلام کے نزدیک کسی کو خدا اور بندہ کے درمیان کھڑے ہونے کا حق حاصل نہیں.الہی دربار میں مظلوموں کی فریاد سننے کا طریق اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس نے فریاد سننے کا طریق کیا مقرر کیا ہوا ہے وہ فرماتا ہے اَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ یعنی ان سے پوچھو کہ کیا کوئی ہمارے جیسا در بار منعقد کرنے والا دنیا میں کوئی بادشاہ ہے؟ حکومتیں دربار عام منعقد کرتی ہیں تو بادشاہ اعلان کرتے ہیں کہ جس شخص پر کوئی ظلم ہوا ہو
۴۰۰ وہ آئے اور ہمارے دربار میں فریاد کرے مگر دنیا میں لوگ اگر فریاد کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے افسران سے کہتے ہیں کہ اگر تم نے ہمارے خلاف شکایت کی تو ہم تمہاری زبان گُڈی سے کھینچ لینگے.وہ ڈرتا ہے کہ اگر میں نے فریاد کی تو بعد میں وہی افسر مجھے اور رنگ میں مصیبتوں میں مبتلاء کر دیں گے.مگر یہاں یہ حالت ہے کہ رات کی تاریکی سایہ ڈالے ہوئے ہے، مصیبت زدہ بندہ اپنے لحاف میں پڑا آہیں بھر رہا ہے، دنیا کا کوئی فرد نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہا ہے یا کیا کہہ رہا ہے.کوئی افسر اسے دھمکا نہیں سکتا، کوئی افسر ا سے فریاد سے روک نہیں سکتا وہ لحاف میں لیٹے لیٹے خدا تعالیٰ کے دربار میں اپنی آواز بلند کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے خدا! فلاں نے مجھ پر ظلم کیا ہے تو میری طرف سے آپ اس کا بدلہ لے.ظالم نہیں جانتا کہ اس کے خلاف با دشاہ تک شکایت پہنچ چکی ہے، وہ نہ سنتا ہے، نہ دیکھتا نہ اس کے دل پر کوئی خیال گزرتا ہے مگر مظلوم کی فریاد خدا تعالیٰ کے عرش کو ہلا دیتی ہے.وہ فرماتا ہے اَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ جب وہ اکیلے خدا تعالیٰ کے حضور مضطر ہو کر فریاد کرتا ہے.جب کوئی اس کے پاس نہیں ہوتا ، اس وقت کون اس کی مدد کے لئے آتا ہے.دنیا غافل ہوتی ہے مگر خدا اپنے بندے کی مدد سے غافل نہیں ہوتا وہ خود آتا ہے اور کہتا ہے اے میرے بندے! میں تیری مدد کو آ گیا ہوں اور پھر اس سے ایسی محبت اور پیار کا سلوک کرتا ہے کہ اُس کا ہر دکھ دُور ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی عطاء کا بیمثال نمونہ دیوانِ عام کی چوتھی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ بادشاہ کے سامنے اپنے مطالبات پیش کریں مگر ظاہر ہے کہ ہر شخص نہ دربار عام میں پہنچ سکتا ہے اور نہ بادشاہ اتنا وقت دے سکتا ہے.دس بیس کروڑ رعایا ہو تو بادشاہ کے پاس اتنا وقت کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ ہر ایک کے مطالبہ کو سُنے اور اس کے بارہ میں ضروری کارروائی کرے.پھر اگر مطالبات پیش کرنے کا موقع بھی ملے تو جو کچھ دل میں ہوتا ہے وہ سب کچھ انسان مانگ نہیں سکتا.اول تو وہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں افسر خفا نہ ہو جائے اور پھر انہیں یہ بھی ڈر ہوتا ہے کہ اگر ہم نے اپنے دل کی بات کہہ دی تو نہ معلوم بادشاہ اس کو مانے یا نہ مانے مگر اس الہی دربار کی عجیب شان ہے اس دربار عام کے بارہ میں فرماتا ہے يَسْئَلُهُ مَنْ فِى السَّمَوَاتِ وَ الْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ۲۳
۴۰۱ فرماتا ہے آسمان کا رہنے والا ہو یا زمین کا رہنے والا، ہر ایک اپنی ضرورت خدا تعالیٰ سے مانگتا ہے.یہاں سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ کیا آدمی کی ہر ضرورت پوری ہو جاتی ہے ؟ اس کے متعلق فرماتا ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنِ نہ صرف ہر مانگنے والے کی ضرورت کو پورا کرتا ہے بلکہ ہر روز وہ نئی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ایک نئی شان میں جلوہ گر ہوتا ہے.پہلے بندہ کہتا ہے خدایا مجھے فلاں چیز چاہئے اور خدا تعالیٰ اسے وہ چیز دے دیتا ہے.پھر وہ اور چیز مانگتا ہے اور خدا تعالیٰ اسے وہ چیز بھی دے دیتا ہے اس طرح وہ مانگتا چلا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اسے دیتا چلا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی ہر روز ایک نئی شان سے جلوہ گری آخر مانگتے مانگتے اسے خیال آتا ہے کہ اب میں کیا مانگوں؟ میں نے تو اس سے بہت کچھ مانگ لیا ہے اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتا ہے اور فرماتا ہے آج تو ہم ایک نئی شان میں تمہارے سامنے جلوہ گر ہوئے ہیں پچھلی ضرورتوں کا خیال جانے دواب ہم سے اور مانگو ہم تمہیں دینے کے لئے تیار ہیں.پہلے تم نے اس شان کو دیکھا تھا جو گزر چکی اب تم ہماری اس نئی شان کا مشاہدہ کرو اور جو کچھ مانگنا چاہتے ہو مجھ سے مانگو.غرض یہ دربار عام وہ ہے جس میں سب مانگتے ہیں ہر روز ما نگتے ہیں اور ہر روز انہیں نئے انعام ملتے ہیں دُنیوی اور اُخروی ترقیات کا ایک تسلسل جاری ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا.علوم قرآنیہ کے انکشاف کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوسکتا کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہر روز ایک نئی شان میں دنیا کے سامنے آتا ہے اور ہر روز وہ نیا احسان دنیا پر کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے مگر آج وہی مسلمان جن کی کتاب میں یہ تعلیم موجود تھی جو دنیا کی کسی اور کتاب میں موجود نہیں اِس قرآن کو ماننے والا مولوی یہ کہتا ہے کہ رازگی کے بعد اب کوئی نئی تفسیر نہیں ہو سکتی ، ابن حیان جو مضمون بیان کر چکا اس پر اب اور کوئی مضمون بڑھایا نہیں جا سکتا ، جس کے معنی یہ ہیں کہ ان بزرگوں کی وفات کے بعد اب نَعُوذُ بِالله خدا تعالیٰ کا خزانہ خالی ہو چکا ہے جو معارف اور علوم وہ دے چکا سو دے چکا اب معرفت کی کوئی نئی بات بنی نوع انسان پر نہیں کھل سکتی ، روحانیت کا کوئی نیا راز بنی نوع انسان پر منکشف نہیں ہو سکتا.گویا وہ دروازہ جسے خدا تعالیٰ نے گھلا قرار دیا تھا اُسے اِن مولویوں نے بند سمجھ لیا اور وہ روحانی انعامات جن کے متواتر نزول کی اُس نے بشارت دی تھی ان
۴۰۲ کے متعلق انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ ختم ہو چکے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ہم تو ہر روز ایک نئے روپ میں آتے ہیں اور نئی شان کے ساتھ نئے انعامات بنی نوع پر نازل کرتے ہیں.یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ جس قرآن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے اسی قرآن کے ماننے والے یہ کہتے ہیں کہ جو شخص قرآن کریم کی کوئی نئی تفسیر کرتا ہے وہ کفر اور الحاد کا ارتکاب کرتا ہے حالانکہ یہ کفر نہیں بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی کتاب کو ایک زندہ کتاب ثابت کرنے والی خوبی ہے، یہ اس دعویٰ کا ایک عملی ثبوت ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا کہ ہم ہر روز ایک نئی شان میں دنیا پر جلوہ گر ہوتے ہیں.قرآن ایک زندہ کتاب ہے حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جبکہ دنیوی انعامات بہت بڑھ چکے ہیں ضرورت تھی کہ اسی طرح روحانی انعامات کی بھی بارش ہوتی تاکہ دنیا کی طرف راغب لوگ دین داروں کو شرمندہ نہ کر سکتے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ انہی وعدوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں پھر ہمارے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور ہم دنیا میں یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے.ہماری کتاب ایک زندہ کتاب ہے اور وہ اب بھی اپنے روحانی انعامات جس کو چاہے دے سکتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ اُس سے مانگیں.دینے والا نہیں تھکا تو مانگنے والے اس سے کیوں مایوس ہوں.اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ مجھے بھی اور آپ لوگوں کو بھی بارگاہ رب العزت میں پکار اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ وہ نور جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم نے پایا ہے وہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلے اور ہم اپنی زندگیوں میں اسلام کی فتح کا دن دیکھ کر اس بات پر فخر کر سکیں کہ ہم نے شیطان کی حکومت مٹا کر دنیا میں خدا اور اُس کے رسول کی حکومت قائم کر دی ہے.اسی مقصد کو پورا کرنے کے لئے ہماری جماعت کے بیسیوں مبلغین اس وقت غیر ممالک میں کام کر رہے ہیں اور وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ اُن کی کامیابی کے لئے دُعائیں کی جائیں.نہ صرف اس لئے کہ وہ اسلام کی اشاعت کا فرض ادا کر رہے ہیں بلکہ اس لئے بھی کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جو اسلامی ملک کہلاتا ہے.ہم سے لوگ خواہ کتنے بھی اختلاف رکھتے ہوں وہ منہ سے یہی کہتے ہیں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ اور منہ سے یہی کہتے ہیں کہ اسلامی احکام پر ہی عمل کرنا چاہئے.لیکن ان مبلغین کے ارد گر د وہ لوگ بستے ہیں جو لا إِلهَ إِلَّا اللهُ
۴۰۳ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کے قائل نہیں ، ساری طرف سے انہیں یہی آوازیں آتی ہیں کہ نَعُوذُ بِالله قرآن جھوٹا ہے ، اسلام جھوٹا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے ہیں پس ذہنی لحاظ سے جو اطمینان کی کیفیت آپ لوگوں کو میٹر ہے وہ ان مبلغوں کو میتر نہیں.پس اُن کا حق ہے کہ آپ لوگ انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں میں ان کی غفلتوں کا انکار نہیں کرتا، لیکن اُن کی قربانیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.بعض دفعہ ان کے جانے کے بعد اُن کے گھروں میں بچے پیدا ہوئے ہیں اور وہ بڑے ہو کر اپنی ماؤں سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے ابا کی شکل کیسی ہے؟ اتنی بڑی قربانی کے بعد آپ لوگ خود ہی غور کریں کہ اُنکا ہم پر کتنا بڑا حق ہے پس چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں کہ وہ ہر جگہ اسلام کی اشاعت کے راستے کھولے اور اپنے مقصد میں کامیاب فرمائے.اس طرح ہماری جماعت کے باقی افراد کے قلوب کو بھی اس کام کی اہمیت سمجھنے کیلئے کھول دے اور تبلیغ کے متعلق اُن کے اندر ایک نئی زندگی اور بیداری پیدا فرمائے.اب دنیا پر ایسا وقت آچکا ہے کہ ہماری جماعت کے ایک ایک فرد کو بیدار ہو جانا چاہئے اور ایسی کوشش کرنی چاہئے کہ لاکھوں لاکھ لوگ اسلام میں داخل ہونے شروع ہو جائیں اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے دوستوں کو تبلیغ کا ایسا جوش عطا فرمائے جو کبھی میٹنے والا نہ ہو اور ایسا جنون بخشے جو کبھی دینے والا نہ ہو اور انہیں جس کے نتیجہ میں فوج در فوج لوگ اسلام اور احمدیت میں داخل ہونے شروع ہو جائیں.دُعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں اپنا قرب نصیب کرے اسی طرح ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اپنا قرب نصیب فرمائے کیونکہ یہی ایک غرض ہے جس کے لئے ہم جد و جہد کر رہے ہیں اگر ہمیں ذاتی طور پر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں تو ہمیں اس سے کیا کہ اس زمانہ میں اُس نے اپنے قُرب کے دروازے کھول دیئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے خواہ کتنا بڑا مسیح اور مہدی ہمارے لئے بھیج دیا ہو، خواہ کتنے بڑے مدارج کے دروازے اُس نے ہمارے لئے کھول دیئے ہوں اگر ہم خود ان دروازوں کے اندر داخل نہیں ہوئے تو ہماری کیا زندگی ہے.اگر واقع میں اُس نے اپنے قرب کے دروازے کھول دیئے ہیں اور اپنی برکتیں نازل کر دی ہیں تو ہماری اِس سے زیادہ اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ دروازے تو گھلے ہوں مگر ہم اس کے قرب سے محروم رہیں.پس دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کا عشق ہمارے دلوں میں اتنا پیدا ہو کہ
۴۰۴ دنیا کی کوئی چیز اسکو چھپا نہ سکے.ہم خدا کے ہو جائیں اور خدا ہما را ہو جائے.ہم خدا میں ہو جائیں اور خدا ہم میں ہو جائے.ہم خدا کو دیکھیں اور دنیا ہم میں خدا کو دیکھے.یہی چیزیں ہیں جو نبیوں کی جماعتوں کو حاصل ہوا کرتی ہیں اگر یہ چیز نہیں تو پھر ہماری زندگی زندگی نہیں بلکہ ہم وَمَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى " کے مصداق ہیں پس آؤان باتوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں ، اپنی کمزوریوں کے دُور ہونے کے لئے اسلام کے غلبہ اور اس کے احیاء کے لئے اور دشمنوں کی ہدایت اور ان کی راہنمائی کے لئے اور یہ کہ اگر ہمارا اس کی راہ میں مرنا ہی ضروری ہے تو وہ اپنے فضل سے ہمارے دلوں کو وہ طاقت بخشے کہ دنیا کی ساری مصیبتیں اور تکلیفیں خدا تعالیٰ کے راستہ میں ہمیں ایسی ہی خوبصورت نظر آئیں جیسے گلاب کا پھول، ہماری زندگیاں بدل جائیں ہم میں جوشِ عمل پیدا ہو جائے اور ہمارا رسمی ایمان حقیقی ایمان کی شکل اختیار کر لے.خدا تعالیٰ ہمارے ایمان کو مضبوط کرے اور ہمیں وہ قوت عمل عطا کرے جس سے دنیا کا نقشہ بدل جائے.وہ آپ آسمان سے اُتر آئے اور ہمیں اپنی گود میں اٹھا لے اور ہمیں اپنی رحمت اور شفقت کے دامن میں چھپالے اور ہمیں اپنی رضا کا وارث کرے.دُعائیں کرو کہ تثلیث کا بُت ہمارے اسی طرح قادیان اور ہندوستان کے احمدیوں کے لئے بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہاتھوں سے پاش پاش ہو جائے ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور ہما را خدا اُن کا آپ حافظ و ناصر ہو اور اُن کو ایسی ترقی عطا فرمائے کہ وہ لاکھوں لاکھ اور کروڑوں کروڑ ہو جائیں.گویا ادھر ہم ترقی کر رہے ہوں اور اُدھر وہ ترقی کر رہے ہوں اور جیسے نوح کے زمانہ میں ہوا کہ آسمان سے بھی پانی برسا اور زمین سے بھی چشمے پھوٹ پڑے اور پھر دونوں پانی آپس میں مل گئے اور کفر و شیطنت کی دنیا ان پانیوں سے تباہ ہو گئی اس طرح خدا ادھر ہمیں ترقی عطا فرمائے اور اُدھر اُن کو ترقی دیتا چلا جائے اور پھر یہ ترقیات ساری دنیا پر اس طرح چھا جائیں کہ اسلام اور احمدیت کو غلبہ میتر آ جائے.عیسائیت نے بہت لمبی عمر پائی ہے اب ہمیں خدا سے دُعا کرنی چاہئے کہ وہ اس ضلالت کو ہمارے ہاتھوں سے تباہ کرے اور یہ بت ہمارے ہاتھوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے جس طرح سومنات کا بت محمود غزنوی کے ہاتھ سے توڑا گیا تھا اسی طرح خدا اب تثلیث کا بُت
۴۰۵ میرے ہاتھوں سے پاش پاش کرے اور وہ دنیا میں دوبارہ کبھی غلبہ اور عروج حاصل نہ کرے.اللهُمَّ آمِينَ.“ ل المزمل : ۱۶ تا ۱۹ السجدة : الاعراف :۱۵۹ ۳ سبا : ۲۹ تا ۳۱ لوقا باب ۱۳ آیت ۳۵ صفحه ۱۰۰۵ مطبوعہ پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور بخارى كتاب التفسير تفسير سورة الجمعة باب قوله وَ اخَرِينَ حدیث نمبر ۴۸۹۷ صفحه ۸۶۹ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ك الزمر : ٢٤ الواقعة : ٧٩ اقرب الموارد الجزء الاول صفحہ ۹۶ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء الخ مثاني : الوادى مُعَاطِفُهُ لسان العرب جلد اصفحہ ۷۰۸ مطبوعہ قاہرہ ۲۰۱۳ء) المثاني الشيء : قَوَاهُ وَ طَاقَاتُهُ اقرب الموراد جلد اصفحه ۱۳ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء) الحجر :٣ المائده : ۴ بخاری کتاب التفسير تفسير سورة المائده باب قولِه اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ.حدیث نمبر ۴۶۰۶ صفحہ ۷۸۷ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ١٥ لسان العرب جلد ا صفحه ۷۱۴ مطبوعہ قاہر ۲۰۱۳۵ء ١٦ آل عمران :٣٢ کا بنی اسرائیل: ۲۱ 19 ال عمران : ۱۹۸،۱۹۷ القلم : ۵ ۲۰ فاطر : ۴۴،۴۳ ا بخارى كتاب الجهاد والسير باب مَنْ يَّنْكُبُ اَوْيُطْعَنُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حدیث نمبر ۲۸۰۱ صفحه ۴۶۴ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ۱۹۹۹ ء سيرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۲۷ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ ۲۲ بنی اسرائیل : ۸۲ ۲۳ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحہ ۱۷ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۲۴ الانفال : ۴۳ ۲۵ الزمر :۵۵،۵۴ ۲۶ مسلم كتاب الايمان باب ادنى اهلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةٌ فِيْهَا حديث نمبر ۴۶۷
۴۰۶ صفحہ ۹۹ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية ابريل ۲۰۰۰ء الانعام: ۶۵،۶۴ ۲۸ الصفت : ۷ تا ۱۱ ۲۹ مشكوة كتاب المناقب باب مناقب الصحابة صفحه ۵۵۴ مطبوعه قدیمی کتب خانہ کراچی ۱۳۶۸ھ ٣٠ العنكبوت :٧٠ ا البلد : اا ۳۳ المؤمن : ۶۵ ۳۲ هود : ۷ ۳۴ الحشر : ۲۵ ۳۵ المعجم الكبير جلدا اصفحه ۲۲۳ مطبوعہ بغداد ۱۹۸۰ء ٣٦ البقره : ۲۸۳ ۳۷ الاعراف: ۱۵۸ ۳۸ الانعام: ۱۰۴ ۳۹ اقرب الموارد جلد ۲ صفحه ۱۱۴۴ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء ٤٠ بخاری کتاب الایمان باب سُؤال جبريل النبي صلى الله عليه وسلم حدیث نمبر ۳۰ صفحه ۱۲ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية مارچ ۱۹۹۹ء ام الكهف : 111 ٢٢ النمل : ٦٣ بنی اسرائیل : ۷۳ الرحمن : ٣١،٣٠
۴۰۷ بِسْمِ اللهِ الرَّحْم الرَّحْمَنِ الرَّ.نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ (۶) ( تقریر فرموده مورخه ۲۸ دسمبر ۱۹۵۱ء بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ) عالم روحانی کا دیوانِ خاص تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا : - میں نے گزشتہ سال اسلام کے دیوانِ عام کے متعلق تقریر کی تھی اور بتایا تھا کہ دتی کی سیر میں ہم نے دیوانِ عام دیکھے جو آج اُجڑے ہوئے نظر آتے تھے.جہاں انگریزوں کے چپڑاسی تو بڑی شان سے پھرتے تھے اور مغلوں کی نسلیں چھپتی پھرتی اور نظریں بچاتی پھر تی تھیں اور میں نے بیان کیا تھا کہ قرآن کریم میں ایک دیوان عام کا ذکر آتا ہے جو کبھی غیر آباد نہیں ہوتا ، جو کبھی دشمن کے قبضہ میں نہیں جاتا اور جس کو دیکھ کر مؤمنوں کے دلوں میں کبھی بھی حسرت پیدا نہیں ہوتی.آج میں اس مضمون کے تسلسل میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام نے دیوان عام ہی نہیں بلکہ ایک دیوان خاص بھی پیش کیا ہے اور اسلام کے دیوان خاص کے مقابلہ میں ان بادشاہوں کے بنائے ہوئے دیوان خاص اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتے جتنی ایک زندہ ہاتھی کے مقابلہ میں اُن مٹی کے بنے ہوئے ہاتھیوں کی حیثیت ہوتی ہے جنہیں کھلونوں کے طور پر خانہ بدوش عورتیں بیچتی پھرتی ہیں.دیوان خاص کی اغراض دیوان خاص کیا چیز تھی؟ دیوان خاص شاہی قلعوں میں ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی عمارت یا وسیع ہال ہو اکرتا تھا جو گویا خاص ملاقات کا کمرہ ہوتا تھا اس میں بادشاہ بیٹھتے تھے ، شہزادے بیٹھتے تھے اور وہ وزراء، امراء جن سے امور مملکت کے متعلق مشورے لئے جاتے تھے بیٹھتے تھے عام لوگوں کو وہاں آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی.اسی طرح بادشاہ اگر کسی کو گورنر مقرر کرتے یا کمانڈر انچیف مقرر کرتے یا اور کسی بڑے عہدہ پر مقرر کرتے تو ان کو وہاں بلوایا جاتا تھا اور بادشاہ کی طرف سے
۴۰۸ وزراء اور امراء کے سامنے اعلان کیا جاتا تھا کہ ہم فلاں شخص کو گورنر مقرر کرتے ہیں یا کمانڈر انچیف مقرر کرتے ہیں یا جرنیل مقرر کرتے ہیں یا فلاں بڑے عہدہ پر مقرر کرتے ہیں.یا اگر کوئی خادمِ قوم یا خادم ملک کوئی بڑی بھاری خدمت بجالا تا تو اس کو بلایا جا تا اور ان سب وزراء اور امراء کے سامنے اس کا اعزاز واکرام کیا جاتا اور کہا جاتا کہ اس کو یہ خلعت دی جاتی ہے یا اس کی عزت افزائی میں اسے یہ انعام دیا جاتا ہے.یا اہم ملکی مسائل پیش ہوتے اور بادشاہ ضروری سمجھتا کہ وزراء سے مشورہ لینا چاہئے تو اس مجلس میں جو لوگ مقررہ اوقات پر جمع ہوتے تھے اُن کے سامنے ان امور کو پیش کیا جاتا اور درباری اپنی اپنی رائے اور مشورہ دیتے یا جس جس سے پوچھا جاتا وہ رائے دیتا اور اس کے بعد بادشاہ کی طرف سے ایک فیصلہ صادر ہو جاتا.گویا’ دیوان خاص کے قیام کی چاراہم اغراض ہو ا کرتی تھیں.اول بادشاہ کا اپنے وزراء کو اپنے قُرب میں جگہ دینا اور ان کا اعزاز کرنا یا مختلف مناصب پر اُن کا تقرر کرنا یا انہیں برطرف کرنا.دوم بادشاہ کا ان سے خاص امور کے بارہ میں مشورہ لینا اور خاص امور کے بارہ میں مشورہ دینا جن سے وہ اپنے فرائض کو عمدگی سے ادا کر سکیں.سوم اپنی مشکلات میں ان سے مدد لینا اور اُن کی مشکلات میں اُن کو مدد دینے کے وعدے کرنا.چہارم ان کے اچھے کاموں پر انعام واکرام دینا اور بُرے کاموں پر سرزنش کرنا.یہ وہ چار اغراض ہیں جن کے ماتحت ”دیوان خاص‘ قائم کئے جاتے ہیں.ڈ نیوی بادشاہوں میں حقیقی محبت کا فقدان مگر میں نے دیکھا کہ بادشاہ جب اپنے درباریوں کو کوئی اعزاز دیتے تھے تو ان کا اعزاز محض قانونی ہوتا تھا.چنانچہ پہلی بات تو یہی ہے کہ بادشاہ اپنی محبت کا اور اپنے تعلقات کا اور اپنے اخلاص کا تو اظہار کرتا تھا لیکن بادشاہ کو ان لوگوں سے حقیقی محبت نہیں ہوتی تھی اس کی اصل محبت اپنے بیوی بچوں سے ہوتی تھی.یہ کبھی بھی نہیں ہوتا تھا کہ کسی شخص نے بڑی قربانی کی ہو اور اس نے اپنا تخت اُس کے سپرد کر دیا ہو یا اپنے اختیارات جو نیابت کے ہیں اُس کے سپرد کر دیئے ہوں.اس کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی تھی کہ میں اپنی اولاد کی طاقت کو مضبوط کروں اور اُن کے لئے راستہ صاف کروں گویا یہ خدمت کرنے والے لوگ ایک قسم کے اجیر ہوتے تھے.
۴۰۹ مائشی انعامات اور خطابات (۲) پھر بسا اوقات جو انعام ملتے تھے محض نمائشی ہوتے تھے اور خدمت کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی تھی.مثلاً اپنے زمانہ کو ہی لے لو.ابھی انگریزوں کی یاد تازہ ہے وہ کہتے تھے ہے کہ فلاں کو خطاب دیا جاتا ہے اب وہ خان صاحب ہو گئے ہیں اور فلاں ” خان بہادر ہو گئے ہیں اور حقیقت یہ ہوتی تھی کہ بسا اوقات خان بہادر صاحب کی چار پائی کے نیچے چوہا بھی ہلے تو اُن کی جان نکل جاتی تھی لیکن وہ خان بھی تھے اور بہادر بھی تھے.گویا بادشاہ ان کو ” خان بہادر تو بنا دیتا تھا لیکن حقیقتا نہ وہ خان بنتے تھے اور نہ بہادر ہوتے تھے.یا مثلاً آجکل پٹھان بھی خان کہلاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے زمانہ حکومت میں انہوں نے بڑے بڑے کام کئے تھے جن سے دنیا میں اُن کا شہرہ ہوا اور اُنہیں خطاب عزت کے طور پر خان صاحب کا نام دے دیا گیا.چنانچہ اُس زمانہ میں جو بادشاہ ہوتے تھے یا نواب اور امراء ہوتے تھے اُن کی عظمت کی وجہ سے انہیں خان ہی کہا جاتا تھا.مغل بھی اپنے ابتدائی زمانہ میں خان کہلاتے تھے بلکہ بچپن میں جب میں اپنے شجرہ نسب کو سُنتا تو میں حیران ہوتا تھا کہ پہلے کہا جاتا فلاں خان ، فلاں خان ، فلاں خان اور پھر شروع ہو جاتا ہے فلاں بیگ ، فلاں بیگ ، فلاں بیگ.میں حیران ہوتا تھا کہ یہ خان کہاں سے آ گیا.بعد میں معلوم ہو ا کہ خان ایک اعزاز کا لفظ تھا مگر آہستہ آہستہ اتنی کثرت سے قوم میں بڑے لوگ پیدا ہوئے کہ اُن کی کثرت کی وجہ سے ساری قوم ہی خان کہلانے لگ گئی اور اب تک کہلاتی ہے.ہر پٹھان جب تمہیں نظر آئے گا تم کہو گے خان صاحب بیٹھئے ، خان صاحب تشریف لائیے ، خان صاحب آپ کس طرح تشریف لائے ہیں ؟ غرض وہ خان کہلاتا ہے مگر وہ تو محض ایک تسلسل کے طور پر خان بن گیا ہے در حقیقت خود اُس نے کوئی بڑا کام نہیں کیا ، نہ اُس نے ذاتی طور پر کوئی ایسی قابلیت حاصل کی ہے جس کی وجہ سے اُسے کوئی خاص مقام عزت حاصل ہوتا لیکن انگریز کا بنایا ہو ا خان صاحب“ بسا اوقات کسی جولا ہے کی بیٹی مانگتا تو وہ کہتا تھا نہیں ، ہم کذاتوں کو نہیں دے سکتے.انگریز اُسے خان صاحب کہتا تھا اور ہمارے ملک کا جو لاہا اسے کذات کہتا تھا.یا اگر کوئی خان صاحب سید یا مغل یا پٹھان ہوتے تو وہ خان صاحب یا خان بہادر سمجھ کر اسے عزت نہیں دیتا تھا بلکہ سید یا مغل یا پٹھان ہونے کی وجہ سے عزت دیتا تھا.گو یا لوگ اس نسل کی وجہ سے یا اس رشتہ داری کی وجہ سے تو عزت کرتے تھے جو اسے اپنے باپ دادا کی وجہ سے حاصل ہوتی تھی لیکن اس عزت کی
۴۱۰ وجہ سے جو اسے گورنر جنرل کی طرف سے ملتی تھی اسے اپنے خاندان کا حصہ بنانے کے لئے تیار نہیں تھے.انگریزی ریزی خطابات حاصل کرنے والوں کی کیفیت پھر بعض کو اُس زمانہ میں ”سر“ کا خطاب دیا جاتا تھا اب ”س“ کے معنے جناب کے ہیں لیکن حقیقتا بعض ”سٹر ایسے ذلیل ہوتے تھے اور ایسی پاجیانہ حرکتیں کرتے تھے کہ لوگ انہیں گالیاں دیتے تھے.پھر انگریز کے زمانہ میں خطاب ہوتے تھے سٹار آف انڈیا (Star of India) یا گرینڈ کر اس آف انڈین ایمپائر (Grand Cross of Indian Empire) یعنی بڑی صلیب دیدی گئی لیکن بڑی صلیب لینے والے جو لوگ تھے ان میں سے کئی صلیب کے شدید دشمن ہوتے تھے.کئی مسلمان جن کے دلوں میں غیرت ہوتی تھی اُن کا جی چاہتا تھا کہ موقع ملے تو صلیب کو توڑ ڈالیں.کہلاتے تھے وہ بڑی صلیب کے حامل لیکن ان کے دل میں یہ ہوتا تھا کہ ہم چھوٹی صلیب کے بھی حامل نہیں.یہ خطاب کیا ہوا کہ جس کو خطاب دیا جاتا ہے وہ اس کو ذلیل سمجھتا ہے، وہ اس کو حقیر سمجھتا ہے ، وہ اس کو نا قابلِ اعتناء سمجھتا ہے، وہ اس کو قابل ہلاکت سمجھتا ہے.مغلوں کے زمانہ میں اعتماد الدولہ اور نظام الملک کے خطاب ملتے تھے لیکن وہی اعتماد الدولہ اور نظام الملک دوسرے دن فوج لے کر بادشاہ کے خلاف لڑنے کے لئے آ جاتے تھے نہ دولت کا ان پر کوئی اعتماد ہوتا تھا، نہ ملک کے نظام کے ساتھ ان کی کوئی وابستگی ہوتی تھی.دیکھ لو نظام حیدر آباد کو نظام الملک کا خطاب حاصل تھا لیکن اور نگ زیب کے بعد اس نے ملک کی آزادی کا اعلان کر دیا اور بعد میں انگریزوں کے ساتھ مل گیا.اب بھی موجودہ نظام نے شروع میں ہندوؤں سے لڑنے کے لئے اپنی قوم کو اُبھارا اور اُکسایا جب قوم لڑنے کے لئے کھڑی ہوگئی تو اُس نے حکومت کو چٹھی لکھ دی کہ بندہ تو حضور کا غلام ہے یہ لوگ باغی ہو کر لڑائی کر رہے ہیں جس طرح ارشاد ہو کیا جائے گا.شہزادوں کی غداری اسی طرح ان بادشاہوں کی اولاد بسا اوقات خود اپنے باپ کی وفات کی متمنی ہوتی تھی.باپ صاحب بیٹھے ہوئے اپنے وزیروں سے کہتے تھے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ لوگ ہمارے خاندان کے وفادار ثابت ہوں گے اور ہماری اور ہماری نسل کی بہی خواہی کریں گے.اور بیٹا پاس بیٹھا ہوا اس امید میں ہوتا تھا کہ رات کو موقع ملے تو کسی کی معرفت یا خود اسے قتل کر کے تخت پر بیٹھ جائے.درباریوں کی سازشیں پھر ای دربار میں جہاں بادشاہ کی طرف سے اعزاز مل رہا ہوتا تھا بسا اوقات جس کو اعزاز مل رہا ہوتا تھا وہ کسی بیگم یا شہزادہ یا
۴۱۱ شہزادی سے مل کر بادشاہ کے خلاف منصوبہ کر رہا ہوتا تھا.ادھر اعزا ز مل رہا ہوتا تھا اور اُدھر ساز باز جاری ہوتی تھی کہ اس کو مٹا دیا جائے.ایک ہند و اخبار تھا اُس کا یہ طریق تھا کہ وہ بڑے بڑے لوگوں کے راز معلوم کر کے پھر کہانی کے طور پر ان کو شائع کیا کرتا تھا اور اس سلسلہ کا نام اس نے چوں چوں کا مربہ رکھا ہو ا تھا.یہ سلسلہ مضامین اخبار عام میں بھی چھپتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس یہ اخبار آیا کرتا تھا.اس میں ایک ریاست کا واقعہ لکھا تھا اُس وقت تو مجھے معلوم نہیں تھا بعد میں پتہ چلا کہ یہ کپورتھلہ کی ریاست کا واقعہ تھا.کپورتھلہ کا راجہ جو پارٹیشن کے وقت تک زندہ تھا اب سُنا ہے فوت ہو چکا ہے کہا جاتا ہے کہ وہ راجہ کی اولاد میں سے نہیں تھا بلکہ اُس کا باپ ایک حج تھا جس کو میں نے بھی دیکھا ہے ( اصل راز کو اللہ بہتر جانتا ہے ).میں ایک دفعہ کپورتھلہ گیا تو دوستوں نے مجھے دکھایا تھا وہ اُس وقت کسی کام کیلئے پیلیس میں آیا ہو ا تھا دوستوں نے بتایا کہ یہ شخص جو پھر رہا ہے راجہ کا باپ ہے.میں نے پوچھا کہ باپ جب دربار میں آتا ہے تو راجہ کی کیا حالت ہوتی ہے؟ کہنے لگے وہ ہمیشہ کتراتا ہے اور جب بھی کوئی ایسا موقع آئے وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا لیتا ہے اور ملنے میں شرم اور ذلت محسوس کرتا ہے.بہر حال اس اخبار میں یہ واقعہ لکھا تھا کہ پہلے زمانہ میں کپورتھلہ کے راجہ کی دورانیاں تھیں اور دونوں کے اولاد نہیں تھی.وہ دونوں ایک دوسری سے رقابت رکھتی تھیں کچھ درباری ایک طرف تھے اور کچھ دوسری طرف.جس نے ایک کی غیبت کرنی ہو وہ دوسری کے پاس چلا جاتا اور جس نے دوسری کی غیبت کرنی ہو وہ اس کے پاس آ جاتا.یہ جھگڑے بڑھ گئے تو آخر ایک پارٹی کے لوگوں نے سوچا کہ کب تک راجہ اور کب تک را نیاں ، یہ مرا تو خبر نہیں انگریز کس کو لا کر بٹھا دیں، اس لئے کوئی ایسی تدبیر کرنی چاہئے کہ مستقل طور پر ہمارا دبدبہ قائم رہے.یہ سوچ کر انہوں نے ایک رانی کو اپنے ساتھ ملایا اور اُسے سکھایا کہ وہ مشہور کر دے کہ مجھے حمل ہے.چنانچہ وہ اس بات پر راضی ہو گئی اور تجویز یہ ہوئی کہ نویں مہینہ مشہور کر دیا جائے گا کہ بچہ پیدا ہو گیا ہے ادھر دو تین جگہ سے جن کے ہاں انہی دنوں میں بچے پیدا ہونے والے تھے وعدے لے لئے گئے کہ جس کے ہاں لڑکا پیدا ہو ا وہ اپنا لڑکا دے دیگا.انہوں نے انتظام یہ کیا ہو ا تھا کہ جس دن بچہ پیدا ہو رانی فوراً بیمار بن کر بیٹھ جائے گی اور اس کی گود میں بچہ ڈال
۴۱۲ کر سب کو دکھا دیا جائے گا کہ رانی کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے.اتفاقاً اُس شخص کا جو اُس وقت سرشتہ دار تھا اور بعد میں ہائی کورٹ کا حج بن گیا بچہ پیدا ہو ا جو راجہ کا بیٹا قرار دیدیا گیا.انہوں نے یہ منصوبہ کر کے تمام شہر میں مشہور کر دیا کہ رانی حاملہ ہے راجہ محسوس کرتا تھا کہ یہ بات غلط ہے اس کی بڑی عمر ہو چکی تھی اور وہ سمجھتا تھا کہ میرے ہاں اولاد نہیں ہوسکتی.اس کے دل میں محبہ پیدا ہوا اور اُس نے ناراضگی کا اظہار شروع کر دیا کہ یہ بڑی غیر معقول بات ہے یہ دھوکا اور فریب ہے جو مجھ سے کیا جا رہا ہے.اس سے دوسری رانی کو موقع مل گیا اور اس نے کہا یہ دھو کا فلاں فلاں وزیر کر رہا ہے.راجہ نے ان کے خلاف باتیں کرنی شروع کر دیں اور ادھر گورنمنٹ کو لکھ دیا کہ کہا جاتا ہے کہ رانی حاملہ ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے ، رانی ہرگز حاملہ نہیں.مگر جہاں حکومت کا ایک بڑا حصہ سازش میں شریک ہو وہاں کسی لیڈی ڈاکٹر کا خرید لینا کونسی مشکل بات تھی.چنانچہ معائنہ کرایا گیا اور لیڈی ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ رانی حاملہ ہے.جب یہ جھگڑا بڑھا تو گورنمنٹ کے پاس رپورٹ کی گئی.اُس وقت راجے وائسرائے کے ماتحت نہیں ہوتے تھے بلکہ پنجاب کے، پنجاب کے گورنر کے ماتحت اور یو، پی کے یو، پی کے گورنر کے ماتحت ہوتے تھے اور پھر آگے ان کا براہِ راست تعلق کمشنر کے ساتھ ہوتا تھا.جب رپورٹ کی گئی تو پنجاب کے لیفٹینٹ گورنر نے کمشنر کو لکھا کہ تحقیقات کر کے فیصلہ کرو جھگڑا لمبا ہو رہا ہے.ادھر سے اُس پارٹی کے افراد نے رپورٹ کرنی شروع کر دی کہ راجہ پاگل ہو گیا ہے تا کہ راجہ کی باتوں کا ازالہ ہو آخر دونوں طرف کی رپورٹوں پر کمشنر ایک دن سول سرجن کو ساتھ لے کر چلا.چونکہ دوسرے فریق نے خود اس بات کو مشہور کیا تھا اس لئے اسے بھی خیال تھا کہ کمشنر آ جائے گا.انہوں نے پہلے سے ایسا انتظام کیا ہوا تھا کہ دفتر سے پتہ لگ جائے کہ کمشنر کب چلا ہے.چنانچہ انہیں پتہ لگ گیا کہ کمشنر فلاں دن آ رہا ہے انہوں نے آدمی مقرر کر دیئے کہ جب اس کی سواری قریب پہنچے تو اشارہ کر دیا جائے کہ کمشنر آ رہا ہے اور پھر اندر بھی انہوں نے انتظام کیا ہوا تھا.راجہ تخت پر بیٹھا ہوا اپنے دبدبہ اور شان کا اظہار کر رہا تھا کہ میں تم لوگوں کو سیدھا کروں گا اور تمیں یوں سزا دوں گا.اور اُدھر انہوں نے اُس چپڑاسی کو جو چوری لے جھل رہا تھا اپنے ساتھ ملایا ہو ا تھا اور اس کو سکھایا ہوا تھا کہ جونہی ہم اشارہ کریں تو کان میں جھک کر راجہ کو ایک بڑی گندی گالی دے دینا.بس ادھر انہوں نے اشارہ کیا کہ کمشنر صاحب آ رہے ہیں اور ادھر اُس چوری بردار نے جھک کر ایک بڑی گندی گالی
۴۱۳ راجہ کے کان میں دے دی.تم سمجھ لو کہ ایک چپڑاسی چوری بردار ایسی حرکت کرے تو راجہ کی کیا حالت ہوگی وہ واقع میں پاگل ہو جائے گا چنانچہ وہ بے تحاشا اُٹھا اور اُس نے ہاتھ اور پاؤں سے اُسے مارنا شروع کر دیا.دوسرے لوگ تو چاہتے تھے کہ اس نظارہ کو وسیع کریں چنانچہ دوسری پارٹی میں جو لوگ شامل تھے وہ آگے بڑھے اور انہوں نے کہا حضور ! اس کا کوئی قصور نہیں ، حضور! اس پر ایسی سختی نہیں کرنی چاہئے.اسے اور غصہ آیا اور اُس نے اُن کو بھی مارنا شروع کر دیا.اتنے میں کمشنر اور سول سرجن اندر داخل ہوئے اور سارے درباری ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے کہ حضور ! روز ہمارے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے، چنانچہ رپورٹ ہو گئی کہ راجہ پاگل ہو گیا ہے اور اس کا بیٹا قبول کر لیا گیا جو بڑا ہو کر ریاست کا حکمران بنا غرض یہ یہ کارروائیاں دربارِ خاص میں ہوتی تھیں.بیگمات کے جوڑ توڑ پھر دنیوی بادشاہوں کے دربارِ خاص میں جوڑ توڑ کے جو نتائج پیدا ہوتے تھے وہ زیادہ تر شہزادوں اور بیگمات کی وجہ سے پیدا ہوتے.تھے کیونکہ اُس زمانہ کے لحاظ سے شہزادے اور بیگمات حکومت کے حق دار سمجھے جاتے تھے بلکہ سے ملکوں میں تو بیگمات کو اب بھی حکومت میں حصہ دار سمجھا جاتا ہے.آج تک انگلستان میں ملکہ تخت نشینی کے وقت بادشاہ کے ساتھ بیٹھتی ہے اور اُس کو ملک کا حصہ دار سمجھا جاتا ہے اور شہزادوں میں سے ہر شہزادہ خود بادشاہت حاصل کرنے کا خواہشمند ہوتا تھا.ایک کہتا تھا کہ میرا بڑا بھائی جو اتفاقاً مجھ سے بارہ مہینے پہلے پیدا ہوا ہے بادشاہ بن جائے گا.اگر بارہ مہینے پہلے میں پیدا ہوتا تو میں بادشاہ بن جاتا ، چنانچہ وہ کہتا ہے اس کو مارو میں بادشاہ ہو جاتا ہوں.اگلا کہتا ہے اس کو مارو میں ہو جاتا ہوں.شاہجہان کے زمانہ میں اس کی زندگی میں ہی بیٹوں نے کہا کہ یہ تو نہ معلوم کب مرے پہلے اپنے لئے میدان تیار کرو.چنانچہ دارا اور مراد اور شجاع اور اورنگ زیب نے لڑ لڑا کر اپنے باپ کی حکومت کو ختم کر دیا بادشاہ کی تخت نشینی کی جو ساری مدت بتائی جاتی ہے اس میں سے پچاس فی صدی زمانہ ایسا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بادشاہ سلامت اتنا عرصہ قید رہے.قرآنی دربارِ خاص کی نرالی شان ان دنیوی بادشاہوں کے دربارِ خاص کے مقابلہ میں میں نے قرآنی دربارِ خاص کو دیکھا تو مجھے اس کی شان ہی اور نظر آئی.میں نے دیکھا کہ یہ بادشاہ جو قرآنی در بار خاص کا مالک تھا اولاد
۴۱۴ اور بیویوں سے بالکل آزاد تھا اس لئے یہاں اس قسم کے جوڑ توڑ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.نہ اس بات کا کوئی سوال تھا کہ درباریوں کی محبت اور درباریوں کے اخلاص کو بانٹنے والے لوگ دنیا میں موجود ہیں اور نہ اس بات کا کوئی سوال تھا کہ وہ بیٹھا ہو ا مخاطب ہم سے ہے اور غرض یہ ہے کہ ہم سے کام لے کر اپنے بیٹے کی عزت بڑھائے.اس دربار میں وہ جو بھی عزت دیتا تھا وہ ہمارے لئے ہی ہوتی تھی کوئی اور اس کو نہیں چھین سکتا تھا، چنانچہ قرآن کریم اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی لَم يَتَّخِذُوَلَدًا وَّلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَكَبِّرُهُ تَكْبِيرًا ل خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور حمد کا گہرا تعلق دیکھو شرک ایک بڑی اہم چیز ہے اور تمام اسلام کی بنیاد اس کے رڈ پر ہے،.تمام مذاہب کی بنیاد اس کے رڈ پر ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ شرک کی تردید کے ساتھ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کا کیا تعلق ہے؟ الْحَمدُ لِلهِ تو انسان اسی صورت میں کہہ سکتا ہے جب اس کا نتیجہ ہمارے ساتھ تعلق رکھتا ہو.اگر ایک خدا ہونے سے ہمیں کوئی خاص فائدہ پہنچتا ہے تو پھر بے شک ہم کہیں گے الْحَمْدُ لِلهِ خدا ایک ہے ورنہ جہاں تک خدا کے ایک ہونے کا سوال ہے یہ ایک صداقت ہے جسے ماننا پڑتا ہے مثلاً سورج ایک ہے کہنا پڑتا ہے کہ ایک ہے.سامنے پہاڑ ہو ماننا پڑے گا کہ پہاڑ ہے مگر یہ تو نہیں کہیں گے کہ الْحَمْدُ لِلہ یہ پہاڑ ہے کیونکہ ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن اگر ہمیں گرمی لگ رہی ہو اور اُس وقت ٹھنڈی ہوا چل پڑے تو ہم کہیں گے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ ہم خالی ہوا کے چلنے پر اَلْحَمْدُ لِلهِ کہہ رہے ہیں بلکہ ہم ہوا کے اُس اثر پر اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کہتے ہیں جو ہم پر پڑتا ہے اسی طرح یہاں فرماتا ہے.وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى لَمْ يَتَّخِذُ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ شکر ہے خدا کا جس کا نہ کوئی بیٹا ہے نہ بیوی نہیں تو ہمارے دربارِ خاص کا بھی وہی حال ہوتا جو ڈ نیوی درباروں کا ہوتا ہے کہ قربانیاں ہم کرتے اور بادشاہ کہتا کہ بیٹے صاحب کو تخت دے دیا جائے یا بیوی صاحبہ کی خوشامد کرنی پڑتی جیسے کسی شاعر نے کہا ہے.تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
۴۱۵ بادشاہوں کے لئے اپنی جانیں در بایوں کو ہر وقت یہی مصیبت رہتی تھی کہ ادھر بیویوں کو خوش کرو اور اُدھر شہزادوں کو خوش کرو قربان کر نیوالوں کا حسرتناک انجام گویا قربانیاں کرنے والے اور، مرنے والے اور ، جہاد کرنے والے اور، اپنے مال اور ہے جائدادیں لگانے والے اور ، اور بادشاہت کرنے والے شہزادے اور بیگمات.تو فرماتا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى لَمْ يَتَّخِذُوَلَدًا وَّلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فِی الْمُلْكِ دنیا میں قاعدہ یہ ہے کہ جو بادشاہ ہوتے ہیں ان کی اولادیں اور ان کی بیویاں سارا حق لے جاتی ہیں اور قربانیاں کرنے والے ہمیشہ وفادار غلام کہلاتے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو کہہ دے میں اس بادشاہ کا غلام ہوں کہ لَمْ يَتَّخِذُوَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِیک فِی الْمُلک جس کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ اس کا کوئی بیٹا ہے؟ اس لئے نہ تو اس کی محبت مجھ میں اور ان میں تقسیم ہے، نہ مجھے دو مالکوں کے خوش کرنے کی ضرورت ہے ایک ہی خدا ہے جس سے میرا واسطہ ہے اور اس کی محبت کسی اور کے ساتھ بٹی ہوئی نہیں خالص میرے لئے ہے.وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِ پھر درباریوں میں سے بعض لوگ بڑی بڑی عزتیں پا جاتے ہیں اور وہ دربار میں خاص عزت پا جانے کی وجہ سے بادشاہ پر ایسے حاوی ہو جاتے ہیں کہ بادشاہ سمجھتا ہے کہ بغیر ان کی مدد کے میرا کام نہیں چل سکتا لیکن ہمارا بادشاہ اس قسم کا نہیں اس کے دربار میں کوئی شخص ایسا نہیں کہ ہمارا خدا اس بات کی احتیاج رکھتا ہو کہ وہ اس کی مدد کرے اسی لئے فرماتا ہے وَكَبَرُهُ تَكْبِيرًا اب تو نڈر ہو کر خدائے واحد کی تکبیر کر کیونکہ اور کوئی شریک نہیں جو تجھ سے مطالبہ کرے کہ تھوڑی سی تکبیر میری بھی کر لیا کر.اس کا نہ کوئی بیٹا ہے نہ بیٹی اور نہ کوئی شریک ہے.وہاں تو ڈرتے ہیں کہ بادشاہ کی تعریف کی تو ولیعہد ناراض ہو جائے گا ولیعہد کی تعریف کی تو چھوٹا شہزادہ ناراض ہو جائے گا یہ ایک ہی دربار ہے جوان سارے جھگڑوں سے آزاد ہے.خوشامد، جھوٹ اور مداہنت کے اڈے حقیقت یہ ہے کہ دنیوی بادشاہوں کے دیوانِ خاص میں یہ تین لہریں ہی پس پردہ چلتی ہیں ، بیٹے اپنا رسوخ چاہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ بلا استحقاق حکومت ان کی ہو اور قربانی دوسروں کی ، بیویاں علاوہ اپنے نفوذ کے اپنی اپنی اولاد کی تائید میں امراء کو کرنا
۴۱۶ چاہتی ہیں.ایک کہتی ہے امراء میرے بیٹے کی طرف ہو جائیں اور دوسری کہتی ہے کہ میرے بیٹے کی طرف ہو جائیں.غدر کا سارا جھگڑا اسی وجہ سے ہوا کہ بعض بیگمات کہتی تھیں ہمارا بیٹا تخت نشین ہو جائے اور دوسری کہتی تھیں ہمارا ہو جائے.ظاہر میں بادشاہ کی خدمت کا دعویٰ ہوتا تھا لیکن باطن میں کسی خاص شہزادہ یا ملکہ کی امداد کا دم بھر رہے ہوتے تھے اور پھر ایک دوسرے کے خلاف بادشاہ کے کان بھرتے تھے.قربانی اور اخلاص کی قدر نہیں ہوتی تھی خوشامد اور جھوٹ کی قدر ہوتی تھی یا بعض دفعہ کوئی جابر امیر بادشاہ پر حاوی ہو جاتا تھا اور درباریوں کو اسے خوش کرنے کی فکر رہتی لیکن قرآن کے دربار خاص میں یہ باتیں نہیں وہاں نہ کوئی بیٹا ہے نہ بیوی ، نہ کوئی جابر حاکم ہے بلکہ خالص خدا ہے جس کی نہ چُغلی کی جاسکتی ہے نہ غیبت کی جاسکتی ہے نہ کسی اور کو خوش کرنے کے لئے اس سے مداہنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والا بادشاہ پھر دنیوی بادشاہوں کی اولاد ان کی موت کی متمنی ہوتی تھی اور چاہتی تھی کہ یہ مریں تو ہم بادشاہ ہو جائیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بادشاہ ایک شخص کو کوئی عہدہ دیتا تھا لیکن دوسرے دن بادشاہ فوت ہو جاتا.اس کے بعد اس کا بیٹا تخت نشین ہوتا اور وہ اسے ذلیل کر دیتا لیکن ہمارے در بار خاص میں بیٹھنے والا بادشاہ فرماتا ہے.الله لا إله إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ٣ تمہارا بادشاہ وہ ہے جو زندہ ہے کبھی مرنے والا نہیں اس لئے تم کو ڈرنا نہیں چاہئے اس کی طرف سے جوڑ تبہ تمہیں ملے گا اُسے کوئی چھینے گا نہیں.دنیوی خطابات کا انجام دیکھو انگریزوں نے لوگوں کو خطابات دیئے تھے مگر اب ہندوستان اور پاکستان میں روزانہ اعلان ہوتے ہیں کہ ہم ان خطابات کو چھوڑتے ہیں.صرف چند ڈھیٹ ابھی تک ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی ایسے ہیں جو ان خطابوں سے چھٹے بیٹھے ہیں ورنہ باقی سب اپنی اپنی قوم کو خوش کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں کہ میں نے ” خان بہادر کا خطاب چھوڑا، میں نے فلاں خطاب چھوڑا، میں نے جی سی.آئی.ای“ کا خطاب چھوڑا میں نے فلاں خطاب چھوڑا یہ سب لعنتی ہیں.پہلے انہی خطابوں کے لئے خوشامدیں کرتے پھرتے تھے اور اب لعنتی چیزیں بن گئیں کیونکہ بادشاہت بدل گئی یا بادشاہ کی جگہ اس کا بیٹا آ گیا تو پھر بیٹے کی پارٹی برسر اقتدار آ جاتی ہے اور چیزیں
۴۱۷ باپ کی پارٹی رہ جاتی ہے.لیکن اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ کہنے والا فرماتا ہے تمہیں گھبراہٹ کیوں ہو ، تمہیں خطرہ کیوں گزرے، تمہارا دل کیوں دھڑ کے، تمہارا جس بادشاہ سے تعلق ہے وہ جو خطاب بھی تمہیں دے گا وہ چلتا چلا جائے گا اس کو کوئی دوسرا بادشاہ بدلنے والا نہیں کیونکہ کوئی نئی حکومت نہیں آئے گی.پھر درباروں میں سازشوں کی وجہ بادشاہوں کے خلاف دربارِ خاص میں منصوبے سے یہ بھی ہوتا تھا کہ لوگ چوری چھپے باتیں کرتے رہتے تھے یعنی بادشاہ کے سامنے تو قصیدے پڑھے جا رہے ہوتے تھے اور گھروں میں یا مجلسوں میں یہ کہا جاتا تھا کہ دیکھو! بادشاہ نے فلاں بات کی ہے اور ہمارے حقوق اس نے تلف کر دیتے ہیں اب اس اس طرح ہم کو فریب کرنا چاہئے ، یہ یہ چالاکیاں کرنی چاہئیں یہ دُنیوی بادشاہوں کے دربارِ خاص کے نقائص ہو ا کرتے تھے اس در بارِ خاص کو میں نے دیکھا تو اس کے متعلق لکھا تھا لَا يَعُزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَواتِ وَلَا فِي الَا رُضِ وَلَا أَصْغَرُ مِنْ ذَلِكَ وَلَا اكْبَرُ الَّا فِي كِتَبٍ مُّبِينٍ ! فرماتا ہے اس قرآنی در بارِ خاص کا بادشاہ عالم الغیب ہے اس کا دیا ہوا انعام راستہ میں کہیں غائب نہیں ہوسکتا.یہاں تو یہ تھا کہ بادشاہ نے خلعت پہنایا اور گھر پہنچنے سے پہلے پہلے راستہ میں کسی نے خنجر مار دیا گویا انعام تو ملا مگر انعام سے وہ فائدہ نہ اٹھا سکا مگر یہ وہ بادشاہ ہے کہ چونکہ یہ عالم الغیب ہے اس لئے جس شخص کو یہ انعام دیتا ہے اس کی نگرانی بھی کرتا ہے کہ انعام اس کو پہنچ جائے اور خواہ کوئی کتنا زور لگالے، کتنی ہی طاقت خرچ کر لے وہ اس خطاب سے محروم نہیں ہو سکتا وہ خدا کی دی ہوئی چیز ہے اس کو کون لے سکتا ہے مگر ڈ نیوی بادشاہوں کی دی ہوئی چیز تو بسا اوقات ضائع ہو جاتی ہے بلکہ بعض دفعہ وہ آپ بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسروں کو ذلیل کر دیتے ہیں.ایک مشہور تاریخی واقعہ ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے شبلی ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں یہ امیر گھرانے کے تھے اور بغداد کے بادشاہ کے گورنر تھے.وہ کسی کام کے متعلق بادشاہ سے مشورہ کرنے کے لئے اپنے صوبہ سے دار الحکومت میں آئے.اُنہی دنوں ایک کمانڈر انچیف ایران کی طرف سے ایک ایسے دشمن کے مقابلہ میں بھیجا گیا تھا جس سے کئی فوجیں پہلے شکست کھا چکی تھیں اُس نے دشمن کو شکست دی اور ملک کو دوبارہ مملکت
۴۱۸ میں شامل کیا.جب وہ واپس آیا تو بغداد میں اس کا بڑا بھاری استقبال کیا گیا اور بادشاہ نے بھی ایک دربارِ خاص منعقد کیا تا کہ اُسے انعام دیا جائے اور اُس کے لئے ایک خلعت تجویز کیا جو اُس کے کارناموں کے بدلہ میں اسے دیا جانا تھا مگر بدقسمتی سے سفر سے آتے ہوئے اُسے نزلہ ہو گیا دوسری بد قسمتی یہ ہوئی کہ گھر سے آتے ہوئے وہ رومال لا نا بھول گیا.جب اُس کو خلعت دیا گیا تو دستور کے مطابق اس کے بعد اُس نے تقریر کرنی تھی کہ میں آپ کا بڑا ممنون ہوں آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے اور میری تو اولاد در اولاد اس چار گز کپڑے کے بدلے میں آپ کی غلام رہے گی.مگر جب وہ تقریر کے لئے آمادہ ہو رہا تھا تو یکدم اُسے چھینک آئی اور ناک سے بلغم ٹپک پڑا.بلغم کے ساتھ اگر وہ تقریر کرتا تو شاید قتل ہی کر دیا جاتا اُس نے گھبراہٹ میں ادھر اُدھر ہاتھ مارا جب دیکھا کہ رومال نہیں ملا تو نظر بچا کر اسی جبہ سے اُس نے ناک پونچھ لی.بادشاہ نے اسے دیکھ لیا وہ کہنے لگا اُتار لو اس خبیث کا خلعت.یہ ہماری خلعت کی ہتک کرتا ہے اور ہمارے دیئے ہوئے تحفہ سے ناک پونچھتا ہے.اس نے یہ کہا اور شبلی نے اپنی کرسی پر چیخ ماری اور رونا شروع کر دیا چونکہ دل میں نیکی تھی اور تقویٰ تھا، خدا نے اُن کی ہدایت کے لئے ایک موقع رکھا ہوا تھا انہوں نے چیخ ماری تو بادشاہ نے کہا خفا ہم اس پر ہوئے ہیں تم کیوں روتے ہو.وہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا بادشاہ میں اپنا استعفاء پیش کرتا ہوں.بادشاہ نے کہا یہ کیا بے وقت کی راگنی ہے کیا ہو ا تم کو اور کیوں تم استعفاء پیش کرتے ہو؟ انہوں نے کہا بادشاہ میں یہ کام نہیں کر سکتا اس نے کہا آخر ہوا کیا ؟ انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ یہ شخص آج سے دو سال پہلے اس جگہ سے نکلا تھا اور ایک ایسی مہم پر بھیجا گیا تھا جس میں ملک کے بڑے بڑے بہادر جرنیل شکست کھا کر آئے تھے اور ایک ایسے علاقہ کی طرف بھیجا گیا تھا جس کا دوبارہ فتح کرنا بالکل ناممکن سمجھا جاتا تھا یہ دو سال باہر رہا یہ جنگلوں میں گیا ، یہ پہاڑوں میں گیا اور اس نے دشمن سے متواتر لڑائیاں کیں، یہ ہر روز مرتا تھا، ہر صبح مرتا تھا، اور ہر شام مرتا تھا ہر شام اس کی بیوی سوچتی تھی کہ صبح میں بیوہ ہو کر اُٹھوں گی اور ہر صبح جب وہ اُٹھتی تھی تو خیال کرتی تھی کہ شام مجھ پر بیوگی کی حالت میں آئے گی ، ہر شام اس کے بچے سوتے تھے تو سمجھتے تھے کہ صبح ہم یتیم ہوں گے اور ہر صبح اس کے بچے اُٹھتے تھے تو وہ خیال کرتے تھے کہ شام کو ہم یتیم ہوں گے، ایک متواتر قربانی کے بعد اس نے اتنا بڑا ملک فتح کیا اور آپ کی مملکت میں لا کر شامل کیا اس کے بدلہ میں آپ نے اس کو چند گز کپڑا دیا جس کی حیثیت ہی کیا تھی مگر محض اس لئے کہ اس.
۴۱۹ نے مجبوراً اس خلعت سے ناک پونچھ لیا آپ اس پر اتنا خفا ہوئے.پھر میں کیا جواب دوں گا اُس خدا کے سامنے جس نے مجھے یہ جسم ایسا دیا ہے جس کو کوئی بادشاہ بھی نہیں بنا سکتا ، جس نے مجھے یہ خلعت دی ہے اور میں اس کو تیری خاطر گندہ کر رہا ہوں میں اس کے متعلق اپنے خدا کو کیا جواب دونگا ؟ یہ کہہ کر وہ دربار سے نکل گئے مگر وہ اتنے ظالم اور جابر تھے کہ جب مسجد میں گئے اور انہوں نے کہا کہ میں تو بہ کرنا چاہتا ہوں تو ہر ایک نے یہی کہا کہ کم بخت ! کیا شیطانوں کی تو یہ بھی کہیں قبول ہو سکتی ہے نکل جا یہاں سے.توبہ کی قبولیت انہوں نے ہر جگہ پھرنا شروع کیا مگرکسی کو یہ جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ان کی تو به قبول کرے.آخر وہ جنید بغدادی کے پاس پہنچے کہ اس اِس طرح مجھے سے قصور ہوئے ہیں اور اب میں تو بہ کرنا چاہتا ہوں کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں قبول ہو سکتی ہے مگر ایک شرط پر.پہلے اسے مانو.شبلی نے کہا مجھے وہ شرط بتا ئیں میں ہر شرط ماننے کے لئے تیار ہوں.انہوں نے کہا اُس شہر میں جاؤ جہاں تم گورنر رہے ہو اور ہر گھر پر دستک دے کر کہو کہ میں تم سے معافی مانگتا ہوں اور جو جو ظلم تم نے کئے تھے ان کی لوگوں سے معافی لو.انہوں نے کہا منظور ہے چنانچہ وہ گئے اور انہوں نے ہر دروازہ پر دستک دینی شروع کر دی جب لوگ نکلتے وہ کہتے کہ میں شبلی ہوں جو یہاں کا گورنر تھا میں قصور کرتا رہا ہوں، خطائیں کرتا رہا ہوں اور تم لوگوں پر ظلم کرتا رہا ہوں اب میں اس کی معافی طلب کرتا ہوں.لوگ کہہ دیتے کہ اچھا ہم نے معاف کر دیا لیکن نیکی کا بیج ہمیشہ بڑھتا اور رنگ لاتا ہے دس ہیں گھروں سے گزرے تو سارے شہر میں آگ کی طرح یہ بات پھیل گئی کہ وہ گورنر جو کل تک اتنا ہی ظالم مشہور تھا وہ آج ہر دروازہ پر جا جا کر معافیاں مانگ رہا ہے اور لوگوں کے دلوں میں روحانیت کا چشمہ پھوٹا اور انہوں نے کہا ہمارا خدا کتنا زبردست ہے کہ ایسے ایسے ظالموں کو بھی نیکی اور توبہ کی توفیق عطا فرما دیتا ہے.چنانچہ پھر تو یہ ہوا کہ شبلی جنیڈ کے کہنے کے ماتحت ننگے پاؤں ہر دروازہ پر جا کر دستک دیتے تھے لیکن بجائے اس کے کہ دروازہ کھل کر شکوہ اور شکایت کا دروازہ گھلتا اندر سے روتے ہوئے لوگ نکلتے اور کہتے تھے کہ آپ ہمیں شرمندہ نہ کریں آپ تو ہمارے لئے قابل قدر وجود ہیں اور ہمارے روحانی بزرگ ہیں آپ ہمیں اس طرح شرمندہ نہ کریں.غرض سارے شہر سے انہوں نے معافی لی اور پھر وہ جنید کے پاس آئے اور انہوں نے تو بہ قبول کی اور انہیں اپنے شاگردوں میں شامل کیا اور اب وہ
۴۲۰ مسلمانوں کے بڑے بڑے اولیاء میں سے مجھے جاتے ہیں.خدا تعالی کے عطیہ کی بے حُرمتی تو دیکھو! شبلی کو کس بات سے ہدایت ملی؟ اس بات سے کہ خدا نے ہم کو کیا کچھ دیا ہے جس کو ہم گندہ اور نا پاک کر رہے ہیں مگر بادشاہ اس دربارِ خاص میں چند گز ریشم کا ٹکڑا چند سنہری تاگے لگے ہوئے یا چند موتی اور ہیرے جڑے ہوئے دیتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ لوگ خود چاہیں تو اس سے بہتر خلعت بنا سکتے ہیں مگر اس لئے کہ ان کی ہتک ہو گئی وہ انہیں ذلیل کر دیتا ہے.غرض ان خدمات کے بدلہ میں جو کچھ ملتا تھا وہ اتنا حقیر ہوتا تھا کہ اس کا خیال کر کے بھی انسانی حیران ہو جاتا ہے کہ کیا انسان اتنا بھی ذلیل ہو جاتا ہے کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کے پیچھے دوڑتا پھرے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انعامات ملتے ہیں ان میں یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ کبھی واپس نہیں ہو سکتے اور جس کو انعام ملتا ہے اس کی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اس کی ہتک کرے بلکہ وہ ہمیشہ اس کی عزت کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کے غیر متبدل انعامات دنیا میں کوئی ایک لاکھ بیس ہزار نبی جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے گزرا ہے ہے اور معلوم نہیں کتنی دنیا ئیں ہیں اور کتنے اور نبی ہوں گے.درجنوں پیغمبروں کے حالات تو ہمیں بھی معلوم ہیں مگر کیا تم نے کبھی سُنا کہ فلاں وقت میں فلاں پیغمبر صاحب کے مستعفی ہونے کا وقت آ گیا اور انہیں کہا گیا کہ آپ اب استعفاء دیدیں یا کبھی تم نے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی پر خفا ہو کر کہا کہ اُتار لو اس کا خلعت پیغمبری اور اُس نے اسے چھوڑ دیا ہو.اس دربار میں سے جس کو ملتا ہے ہمیشہ کے لئے ملتا ہے اور جس کو ملتا ہے اس کے دل میں اپنے اس عہدہ کی اتنی عظمت ہوتی ہے اور اتنی قدر ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس کی قدر کرنے میں اس کی اس طرح مدد کرتا ہے کہ وہ اس عہدہ کو کبھی نہیں چھوڑتا اور نہ اس کی ہتک کرتا ہے.الہی دربار میں کسی چھوٹے سے چھوٹے پھر میں نے دیکھا کہ دنیوی بادشاہوں کے دیوان خاص میں جو درباری کی ہتک بھی برداشت نہیں کی جاسکتی امراء ہوتے ہیں ان میں باہم رقابتیں اور بغض اور کینے پائے جاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس الہی دربار میں اگر کوئی
۴۲۱ بڑا ہے تو بڑے نے چھوٹے پر کیا حسد کرنا ہے وہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کسی چھوٹے کی ہتک ہو جائے یا اس کی کسی رنگ میں تنقیص کی جائے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان جن کے مقابلہ میں موسیٰ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے تھے ، جن کے مقابلہ میں ابراہیم کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے تھے، جن کے مقابلہ میں نوح کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے ، ان موسی" اور ابراہیم اور نوح سے کم درجہ رکھنے والوں اور موسیٰ کے ماتحت نبیوں میں سے ایک یونس نبی ہیں کوئی یہودی کسی جھگڑے میں کہہ دیتا ہے کہ یونس بڑا آدمی تھا مسلمان آگے سے کہہ دیتا ہے محمد رسول اللہ کے مقابلہ میں یونس کی کیا حقیقت ہے.اب بجائے اس کے کہ دربارِ خاص کا آدمی خوش ہو کہ میری عزت کی گئی ہے جب اس کو خبر پہنچتی ہے تو اس کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور وہ کہتا ہے.لَا تُفَضِّلُونِي عَلَى يُونُسَ ابْنِ مَتَى ! یونس ابن منشی پر مجھے فضیلت نہ دیا کرو حالانکہ فضیلت ہے لیکن کسی در باری کی وہ ہتک برداشت نہیں کرتا وہ کہتا ہے چاہے وہ چھوٹا ہی سہی پر تم نے کیوں اس کو چھوٹا کہا ؟ تمہارا کام یہی ہے کہ اس کی عزت کرو کیونکہ وہ خدا کے درباریوں میں سے ہے.ابوالبشر آدم کی پیدائش پر دربار خاص کا انعقاد اب میں ایک در بار خاص کا ذکر کرتا ہوں جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَعَلَّمَ ادَمَ الْاَسْمَاءَ كُلَّهَاثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَئِكَةِ فَقَالَ اَنْبِتُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنتُم صّدِقِيْنَ.قَالُوا سُبُحْنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ط اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ.قَالَ يَادَمُ اَنْبِتُهُمُ بِأَسْمَائِهِمْ ، فَلَمَّا أَنْبَا هُمْ بِا سُمَائِهِمْ قَالَ اَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّى أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُون.فرمایا در بارشاہی لگا اور ملائکہ جمع ہوئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقام ایک شخص کو عطا کیا تھا جس کی توثیق کی جانی تھی اور جس کے متعلق اس دربار میں آخری اعلان کرنا تھا.وہ مقام ابوالبشر آدم کے لئے تجویز کیا گیا تھا جسے عالم انسانی میں جلوہ الہی کی ایک نئی تجلی کے ظاہر کرنے کے لئے مقرر کیا گیا تھا.ملائکہ نے اس بات کی ابتدائی خبر سن کر کہا کہ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اس انسان کی ضرورت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم تمہیں اس کی ضرورت عملی طور پر دکھا دینگے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وہ تمام تجلیات جن کو وہ نئی شکل میں دکھانا چاہتا تھا آدم کے اندر ودیعت کر دیں اور پھر آدم کو ان کے سامنے بلایا اور وہ تجلیات اس میں سے ظاہر ہوئیں جس طرح
۴۲۲ فلم چلتی اور اس میں سے تصویر میں نکلتی ہیں اسی طرح آدم کے وجود سے ان تجلیات کا ظہور شروع ہوا.اس پر اللہ تعالیٰ نے ملائکہ سے فرمایا کہ اگر تمہارا دعویٰ صحیح تھا تو تم مجھے بتاؤ کہ کیا تم ان تجلیات کی پوری کیفیت بیان کر سکتے ہو؟ انہوں نے کہا اے خدا! تو پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی آتا ہے جتنا تو نے ہمارے اندر رکھا ہے تو سب کچھ جانتا ہے اور تیرے سارے کام حکمت پر مبنی ہیں جس کے سپر د تو کوئی کام کرتا ہے اُس کی طاقتیں بھی اس کے اندر ودیعت کر دیتا ہے.پھر فرمایا اے آدم! ہم نے جو علم تیرے اندر رکھے ہیں اور جو تجلیات تم سے ظاہر ہونے والی ہیں اُن کو ظاہر کرو.چنانچہ آدم نے ان تجلیات مخفیہ کو اور ان صفات انسانیہ کو جو اس کے لئے مخصوص تھیں ظاہر کیا پھر فرمایا الم اَقُل لَّكُمْ اِنّى اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ.میں نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ مجھے زمین و آسمان کی وہ باریک باتیں معلوم ہیں جو تم معلوم نہیں کر سکتے اور ایک ایسے نئے وجود کی ضرورت ہے جو میرے ان علوم کو ظاہر کر سکے جو تم پر ظاہر نہیں ہو سکتے.آدم کی اہلیت کا اعلان یہ ایک دربار ہے جو اللہ تعالیٰ نے لگایا اس دربار کی غرض آدم کو مقام انسانیت پر فائز کرنا یعنی اسے ابوالبشر بنانا تھا گویا یہ نہایت ہی اعلیٰ درباروں میں سے ایک دربار ہے گورنر کا تقرر ہو رہا ہے، بادشاہ بیٹھا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ اس پر یہ یہ ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں اور پھر بتایا جا رہا ہے کہ یہ ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے کے قابل ہے.دنیا کے درباروں میں تو جب کوئی کمانڈ رمقرر کیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہمیں تمہاری وفاداری سے امید ہے کہ تم ہماری خواہشوں کو پورا کرو گے لیکن یہاں کہا جاتا ہے ہم ا نے اس کو مقرر کیا ہے اور ہم نے اس کا انتخاب غلط نہیں کیا جو کام ہم نے اس کے سپرد کیا ہے اس کا یہ اہل ہے اور یہ اسے کر کے دکھا دیگا.ظرف صحیح کے انتخاب کی اہمیت گویا خلاصہ اس در بار کا یہ ھا کہ ایک نیا گورنر مقر ہو رہا تھا دوسرے درباری اس انتخاب کی وجہ سمجھنا چاہتے تھے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سب علم ہماری طرف سے آتا ہے مگر اسے حاصل ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق کرتا ہے اور اگر ایک چوکونہ برتن ہوگا تو اس کے اندر جو پانی ہوگا وہ چو کو نہ ہوگا ، اگر ایک گول برتن ہوگا تو اس کے اندر پڑا ہوا پانی بھی گول ہو جائے گا ، اگر ہم پانی کو چوکونہ شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں تو گول شکلوں والے کتنے بھی برتن ہمارے
۴۲۳ پاس لائے جائیں ہم کہیں گے یہ اس قابل نہیں کیونکہ ہم نے اس کو چوکونہ شکل دینی ہے.یا اگر فرض کرو کسی ایسی شکل میں ہم اس کو دیکھنا چاہتے ہیں جیسے تکون ہوتی ہے تو بے شک چار گوشیہ برتن لائے جائیں اور کہا جائے کہ ان میں پانی پڑ سکتا ہے ہم کہیں گے پڑ سکتا ہے مگر ہم نے اس کو دیکھنا سہ گوشہ ہے.یا اگر ہماری غرض یہ ہے کہ جیسے ایک سینگ ہوتا ہے اسی طرح سینگ کی شکل میں پانی کو دیکھیں تو اس غرض کے لئے ہم اسی قسم کے برتن کو پسند کریں گے جو سینگ کی شکل کا ہوگا یا اگر تکلفی جمانی ہو تو اب قلفی کی شکل چاہے قلفی کی ہو چاہے جوتی کی ، مزہ ایک جیسا ہی رہے گا مگر ہمارے ملک میں قلفی کی شکل کا رواج ہے اب اگر قلفی بنانی ہوا اور کوئی کہے کہ ٹفن کیرئیر میں قلفی جما لو تو دوسرا شخص کبھی نہیں بنائے گا وہ کہے گا قلفی لاؤ.میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ اس کی کیا حکمت ہے؟ بہر حال جس نے کام کرنا ہو وہ جس شکل کو پسند کرتا ہے اس قسم کا ظرف لیتا ہے.اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ یہاں سوال ظرف کا ہے ہم جن صفات کو دُنیا میں ظاہر کرنا چاہتے ہیں وہ ظرف فرشتوں کا نہیں بلکہ آدم کا ہے.پھر انسان چیز بھی اپنے ظرف کے مطابق حاصل کرتا ہے اگر دوسیر والا ظرف ہوگا تو دو سیر چیز آئے گی ، اگر چھ چھٹانک والا ظرف ہوگا تو چھ چھٹانک آئے گی ، اگر ایک تولہ والا ظرف ہوگا تو ایک تولہ آئے گی.اس نقطہ نگاہ سے بھی فرمایا کہ جس علم اور قانون کی اس وقت ضرورت ہے اس کا ظرف صحیح یہی آدم ہے چنانچہ دیکھو! اس شخص کو ہم نے سکھایا اور سیکھ گیا یہی ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ شخص قابل تھا اور فرشتے اس جواب کو سن کر فوراً سرتسلیم خم کر دیتے ہیں اور سب کی تسلی ہو جاتی ہے.پھر انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ اب گورنر کے احکامات کو رائج کرو چنانچہ فَسَجَدُوا کے سارے کے سارے عمیل حکم میں لگ گئے اور سب نے اس حکم پر لبیک کہا اور فرمانبرداری اور امداد شروع کر دی.ایک اعتراض کا جواب بعض لوگ فرشتوں کے ہمدرد بن کر اس آیت پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آدم کو سکھایا تو وہ سیکھ گیا فرشتوں کو نہ سکھایا وہ نہ سیکھے اس میں فرشتوں کا قصور کیا ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل سوال یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی مختلف تجلیات کے لئے مختلف آئینوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک تجلی کا آئینہ آدم ہے.فرشتے معلوم کرنا چاہتے تھے کہ وہ نئی تجلی کیا ہوگی جو کہ آدم کے ذریعہ ہی ظاہر ہوسکتی ہے؟ خدا تعالیٰ نے وہ تجلی آدم پر ڈالی اور اس نے اسے صحیح طور پر اخذ کر لیا اور پھر اس کو اپنے
۴۲۴ جسم سے ظاہر کر دیا فرشتے خاموش ہو گئے اور کہا کہ ہم سمجھ گئے.اصل مضمون نہیں بلکہ یہ سمجھ گئے ہیں کہ اس تجلی کا حامل آدم ہی ہوسکتا تھا ہم نہیں ہو سکتے تھے.آدم کا کام اور ہے اور فرشتوں کا کام اور اصل حقیقت تو وہ اب بھی نہیں سمجھے جس دن اصل حقیقت سمجھنے لگ جائیں گے اس دن وہ آدمی بن جائینگے آج بھی فرشتہ اصل حقیقت کو نہیں سمجھا مگر فرشتہ اتنا سمجھ گیا ہے کہ آدم کا کام اور ہے اور میرا کام اور.اگر فرشتے اسے نئی تجلی نہ سمجھتے تھے اور اگر وہ یہی سمجھتے تھے کہ آدم کو سکھایا تو وہ سیکھ گیا تو میں ان داناؤں سے جو فرشتوں کے وکیل بنتے ہیں پوچھتا ہوں کہ ان کی عقل کیوں ماری گئی.اگر سوال یہی تھا کہ اس کو سکھایا وہ سیکھ گیا تو فرشتے کیوں نہ بولے وہ چُپ کیوں ہو گئے ؟ ان کو کہنا چاہئے تھا کہ اس کو سکھایا یہ سیکھ گیا ہمیں سکھاتے تو ہم سیکھ جاتے مگر ان کی تو تسلی ہو گئی اور اس معترض کی ابھی تک تسلی نہیں ہوئی اور پچاس ساٹھ ہزار سال سے جو اسے شبہ پیدا ہوا ہے وہ ابھی دُور نہیں ہوا.آدم سے مختلف تجلیات کا ظہور اصل سوال کرنے والوں کا بیان ہے کہ ان کے لئے یہ سوال حل ہو گیا کیونکہ وہ آگے سے نہیں بولے اور اسی لئے نہیں بولے کہ در حقیقت وہ احمق ہے جو سمجھتا ہے کہ یہاں انسانیت کے سمجھنے کا سوال تھا.انسانیت کے سمجھنے کا سوال نہیں تھا بلکہ فرشتوں کا سوال یہ تھا کہ وہ تحتی جو آپ ظاہر کرنا چاہتے ہیں آیا ہم اس کے حامل نہیں ہو سکتے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرما یا نہیں ہم تمہیں عملا تجلی کر کے دکھا دیتے ہیں اس تجلّی کے بعد تم خود فیصلہ کر لینا کہ تم اسے ظاہر کر سکتے ہو یا نہیں.چنانچہ آدم سے مختلف تجلیات کا ظہور ہوا مثلاً ایک تجلی تو یہی ظاہر ہوئی کہ انسان دوزخ میں ڈالا گیا فرشتہ دوزخ میں جا ہی نہیں سکتا.آخر ابو جہل وغیرہ دوزخ میں گئے ہیں یا نہیں فرشتہ اس تجلی کو برداشت ہی نہیں کر سکتا یہ قہری تجلتی تھی جس کو برداشت کرنے کی صرف آدم میں طاقت رکھی گئی فرشتہ اس تجلی کا حامل ہو ہی نہیں سکتا تھا.ملائکہ سے تعلق رکھنے والی تجلیات اور رنگ کی ہیں ان تجلیات کو ہم نہیں اُٹھا سکتے وہ فرشتوں کے لئے مخصوص ہیں اور ہمارے لئے انسان کی تجلیات مخصوص ہیں.پس فرشتوں کا یہ سوال ہی نہیں تھا کہ وہ کونسی تحجتی ہے جس کے اظہار کے لئے آدم پیدا کیا گیا ہے بلکہ ان کا سوال یہ تھا کہ ایسی کونسی تحجتی ہے جو آدم ہی اُٹھا سکتا ہے ہم نہیں اُٹھا سکتے ؟ جب
۴۲۵ آدم نے مختلف قسم کے افعال کا ارتکاب شروع کیا کسی نے خدا کو گالیاں دینی شروع کیں، کسی نے اس سے کھیل اور تمسخر شروع کیا، کسی نے نماز کا انکار کیا، کسی نے روزہ کا انکار کیا، کسی نے حج کا انکار کیا، کسی نے زکوۃ کا انکار کیا، کسی نے چوری کی کسی نے ڈاکہ ڈالا تو فرشتوں نے کانوں پر ہاتھ رکھے اور کہا کہ اس کے لئے یہ آدم ہی موزوں ہے ہم اس کے اہل نہیں اسی لئے قرآن کریم میں انسان کے متعلق ہی ظَلُومًا جَهُولًا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، فرشتوں نے کہا ہم ظَلُومًا جَهُولًا نہیں بن سکتے یہ آدمی ہی کی ہمت ہے وہ بیشک ظَلُومًا جَهُولًا بنتا پھرے.پس سوال یہ نہیں تھا کہ وہ نئی تجلی کیا ہے جس کا آدم کے ساتھ تعلق ہے بلکہ سوال یہ تھا کہ آیا انسان ہی اس تجلی کا حامل ہو سکتا ہے؟ فرشتے نہیں ہو سکتے ؟ خدا تعالیٰ نے عملا تحتمی ظاہر کر کے دکھا دی اور فرشتوں نے مان لیا کہ ہم میں اس کی اہلیت نہیں لیکن آج ہزاروں سال کے بعد ایک انسان اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ فرشتے بیوقوف تھے اُن بیوقوفوں کو سوال کرنا آیا تھا جو اب سمجھنا نہیں آیا حالانکہ فرشتوں کا چُپ ہو جانا بتاتا ہے کہ فرشتوں کا یہ سوال تھا ہی نہیں کہ آپ ہمیں سکھاتے تو ی ہم بھی سیکھ جاتے بلکہ فرشتوں کا سوال یہ تھا کہ وہ کونسی تجلتی ہے جس کا حامل انسان ہو سکتا تھا ہم نہیں ہو سکتے تھے.خدا کے بتانے یا نہ بتانے کا ذکر نہیں تھا بلکہ اس تجلی کے قابل وجود کا ذکر تھا.روحانی در بارِ خاص کی بعض مخصوص کیفیات اب میں اس دربار کی بعض مخصوص کیفیات کا ذکر کرتا ہوں.اوّل اس دربار میں بھی بادشاہ کے گر د کچھ درباری یعنی ملائکہ نظر آتے ہیں.دوم وہ درباری گلی طور پر بادشاہ کے کمال علم کے قائل ہیں دُنیوی دربارِ خاص میں تو بسا اوقات کمانڈر سمجھتا ہے کہ بادشاہ اگر چھوٹی سے چھوٹی لڑائی کے لئے بھی جائے گا تو ہار جائیگا مگر اس دربار میں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ بادشاہ جانتا ہے وہ میں نہیں جانتا.سوم وہ اس سے زیادتی علم کے لئے بھی سوال کرتے رہتے ہیں گویا وہ صرف یہی نہیں جانتے کہ یہ ہر بات جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے بلکہ ان کے دل میں تڑپ ہوتی ہے کہ وہ کی زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرتے جائیں اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق اپنے آپ کو مقام تکمیل تک پہنچا ئیں.فرشتہ اپنی ملکیت کے لحاظ سے کامل ہونا چاہتا ہے اور انسان اپنی انسانیت کے لحاظ سے کامل ہونا چاہتا ہے مگر ترقی بہر حال موجود ہے کیونکہ استاد موجود ہے جب تک استاد موجود رہے گا شاگرد اس سے نئی نئی چیزیں سیکھتا رہے گا.
۴۲۶ چہارم بادشاہ ڈنڈے سے ان کو سیدھا نہیں کرتا جیسے دنیا میں کیا جاتا ہے بلکہ ان پر حقیقت کو واضح کرتا ہے اور ان کے سینوں کو روشنی بخشتا ہے.جب کسی نئے کام پر کسی کو مقرر کیا جاتا ہے تو تمام سامان اسے مہیا کر کے دیئے جاتے ہیں.دنیا میں تو یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بادشاہ کی طرف سے کسی کو مقرر کیا جاتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ اب فوج بھرتی کر دیا لڑائی کے لئے سامان مہیا کرو مگر وہاں ساری چیزیں وہ خود مہیا کر کے دیتا ہے.ششم اس دربار کے درباری ایسے ہیں کہ بجائے رقابت میں مبتلاء ہونے کے وہ افسر مقررہ کی پوری طرح اعانت کرتے ہیں اور اس سے مخلصانہ تعاون کرتے ہیں چنانچہ فرشتوں کے متعلق فرماتا ہے کہ فَسَجَدُوا جب انہیں تعاون کے لئے کہا گیا تو انہوں نے تعاون کرنا شروع کر دیا اور جس نے تعاون نہ کیا اُس کو خود بادشاہ نے سزا دی اور اُس کی شرارت کو بے ضرر کر دیا.قرآن کریم میں ایک اور در بارِ خاص کا ذکر اب میں ایک اور روحانی دربارِ خاص کا ذکرکرتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قُلْ إِنَّمَا أَنَا مُنذِرٌ وَمَا مِنُ إِله إِلَّا اللهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ - رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَابَينَهُمَا الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ - قُلْ هُوَ نَبَوْاعَظِيمَ - أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ - مَا كَانَ لِيَ مِنْ عِلْمٍ بالْمَلا الأعْلَى اِذْيَخْتَصِمُونَ - إِنْ يُوحَى إِلَيَّ إِلَّا أَنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ - اِذْقَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَئِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِيْنِ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُّوحِي فَقَعُوالَهُ سجِدِينَ - فَسَجَدَ الْمَلَئِكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُونَ إِلَّا إِبْلِيسَ اِسْتَكْبَرَوَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ - قَالَ يَابْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ اَسْتَكْبَرُتَ اَمْ كُنتَ مِنَ الْعَالِينَ - قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِى مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ - قَالَ فَاخْرُجُ مِنْهَا فَانَّكَ رَجِيْمٌ - وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِى إِلَى يَوْمِ الدِّينِ قَالَ رَبِّ فَانْظِرْنِى إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ - قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ إِلَى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ - إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ - قَالَ فَالْحَقُّ وَالْحَقَّ أَقُولُ - لَا مُلَتَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَمِمَّنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ - قُلْ مَا اسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ - اِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَلَمِينَ - وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَاهُ بَعْدَ حِينٍ - ا
۴۲۷ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جگہ پھر ایک آدم کی پیدائش کا ذکر کیا گیا ہے مگر جیسا کہ سیاق وسباق سے ظاہر ہے یہ بعثت عظمی کا دربارِ خاص میں اعلان آیات قطعی طور پر ثابت کرتی ہیں کہ یہاں وہ آدم مراد نہیں جس سے نسل بشر کا آغاز ہوا بلکہ اس جگہ آدم سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے چنانچہ دیکھو ان آیات کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ قَلْ إِنَّمَا أَنَا مُندِ رُوَّمَا مِنْ إِلَهِ إِلَّا اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ تو ان سے کہہ دے کہ میں خدا کی طرف سے ایک تنبیہہ کرنے والے کی حیثیت سے آیا ہوں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ واحد اور قہار ہے.اس کے بعد فرماتا ہے وہ آسمان اور زمین کا رب ہے اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان کا بھی رب ہے اور وہ بڑا غالب اور بخشنے والا ہے.تو کہہ دے کہ یہ ایک عظیم الشان چیز ہے جس سے تم اعراض کر رہے ہو اور مجھے کیا خبر ہے کہ فرشتے آسمان پر کس کے تقرر کے بارہ میں بخشیں کر رہے تھے.مجھے آسمان سے وحی آ گئی اور پتہ لگ گیا کہ میں خدا کی طرف سے نذیر ہوں.دیکھو! جب خدا نے فرشتوں کو بلا یا اور ان سے کہا کہ میں ایک بہت بڑے انسان کو مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں جب میں اس کو پیدا کرلوں اور وہ اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ جائے اور کلام الہی اس پر نازل ہو جائے تو تم فوراً اس کی مدد کرنے لگ جاؤ.اب دیکھو یہاں کسی پہلے آدم کا یا پیدائش عام کا ذکر نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور ان کی بعثت کا ذکر ہے اور پھر جہاں یہ ذکر ختم ہوتا ہے وہاں بھی ان باتوں کو بیان کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قُلْ مَا اسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَّمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ یعنی خدا نے کہا اور میں مقرر ہو گیا.میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں.اگر ابو البشر آدم کا یہاں ذکر ہوتا تو آدم کو کہنا چاہئے تھا کہ خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے مگر بنایا آدم کو اور کہہ رہے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ان دونوں کا آپس میں جوڑ کیا ہوا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آدم سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.در حقیقت قرآن کریم میں آدم کا جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ خالی ایک نام نہیں بلکہ آدم ایک عہدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کیا جاتا ہے.اس عہدہ کے لحاظ سے جو آدمی بھی اس پر مقرر ہو جائے وہ آدم کہلاتا ہے اور قرآن کریم کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عہدہ اس شخص کو دیا جاتا ہے جس سے قرآنی اصطلاح میں آدم سے مراد
۴۲۸ کسی چیز کی ابتداء ہو.جب کوئی ایسا سلسلہ قائم کیا جائے کہ جس نے قیامت تک جاری رہنا ہو اور اس سے متواتر تنوع پیدا ہونا ہو اور نئی نسلیں پیدا ہونی ہوں تو اُس کا نام آدم رکھا جاتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدم اول دور بشری کا آدم تھا جس سے نسل انسانی چلی اور کروڑوں کروڑ آدمی اس دنیا میں پھیل گئے.بھی ایک عظیم الشان آدم ہیں اس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک آدم تھے جن سے ایک روحانی نسل کا آغاز ہوا.جس طرح آدم کے پیدا ہونے کے بعد جن اور کھوت وغیرہ سب غائب ہو گئے اور انسانی نسل چل پڑی اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے کے بعد پہلے سارے نبیوں کی نسلیں ختم ہو گئیں اور وہ بے اولاد ہو گئے گویا بعینہ اسی طرح ہو ا جس طرح وہاں ہؤا تھا.جس طرح وہاں صرف آدم کی نسل چلی اسی طرح یہاں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی نسل چلی اور باقی نسلیں منقطع ہو گئیں.ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ کس طرح درست ہو سکتا ہے آدمی تو دنیا میں کروڑوں کروڑ پھرتے ہیں ، ان کی نسلیں منقطع کس طرح ہوئیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آدمی وہ ہوتے ہیں جو زندہ ہوں جن کے اندر روحانیت نہیں ، جن کے اندر خدا کا خوف نہیں ، جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ، جن کو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں حالانکہ یہی باتیں انسان کی پیدائش کا مقصد ہیں وہ آدمی کہاں ہیں؟ اب آدمی وہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہے کیونکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ہے ، باقی صرف جانوروں کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ خدا سے دُور ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی جو آدم کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام دیا گیا ہے وہ بھی اسی لئے ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی کو آدم قرار دینے میں حکمت طرف سے خائم الخلفاء قرار دیا گیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اب جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنا چاہے اس کے لئے آپ کی غلامی اختیار کرنا ضروری ہے.جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص خدا تک پہنچنا چاہے تو وہ نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے کیونکہ اب وہی نسل سمجھی جاتی ہے باقیوں کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ وہ ہیں ہی نہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد وہی محمد رسول اللہ
۴۲۹ کے بچے متبع سمجھے جائیں گے جو مسیح موعود کو مانتے ہیں اسی لئے آپ کا نام بھی آدم رکھا گیا.بہر حال ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں اور میرے ساتھ بہت بڑے واقعات وابستہ ہیں.میں عالم روحانی کی مکمل سکیم کے ماتحت پیدا کیا گیا ہوں اور جب دربارِ خاص میں فرشتے بحث کر رہے تھے تو میں اُس وقت موجود نہ تھا.اس دربار میں مجھے چنا گیا اور آسمانی بادشاہت کے دشمنوں کے خلاف مجھے نذیر یعنی کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا.ملا اعلی کے فرائض ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ سعید روحوں کے اثرات آسمان پر جمع ہونے شروع ہوتے ہیں اور الہی احکام کے نازل ہونے سے پہلے ملائکہ بھی فطرتا ایک معتین وجود کی طرف مائل ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے دعا کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہمارے ہدایت کے کام کو آسان کرنے کے لئے اس وجود کو مقرر فرما.گویا ملائکہ کے جہاں اور کام ہیں وہاں جیسے فون میں تم نے دیکھا ہوگا کہ جب کسی کو فون کیا جاتا ہے تو درمیان میں کنٹیکٹ (CONTACT) کرنے والے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اور وہ کنکشن کو فون کرنے والے کے ریسیور (RECEIVER) سے ملا دیتے ہیں جس سے دونوں کا آپس میں تعلق قائم ہو جاتا ہے اسی طرح قرآن کریم کی ان آیتوں سے پتہ لگتا ہے کہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک واسطہ ہے اور اس کنکشن بورڈ (CONNECTION BOARD) کا نام ملا اعلیٰ ہے.خدا تعالیٰ جب کوئی بات بندوں تک پہنچانا چاہتا ہے تو بخاری میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ پہلے وہ بات جبرائیل کو بتاتا ہے پھر وہ نچلے فرشتوں کو بتاتا ہے ، پھر وہ اس سے نچلے فرشتوں کو بتاتے ہیں یہاں تک کہ وہ زمین تک پہنچ جاتی ہے گویا خدا جب کوئی بات دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے تو پہلے وہ ملا اعلیٰ کو بتاتا ہے.اسی طرح زمین سے آسمان پر جب کوئی بات جاتی ہے تو پہلے وہ ملا اعلیٰ میں جاتی ہے اور پھر وہ خدا کے سامنے پیش ہو کر آخری فیصلہ ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کا انتخاب ہمیشہ اسی نکتہ سے ہم کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ جو لوگ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ یونہی اندھا دھند نبی بنا دیتا ہے یہ قابلیت کی بناء پر ہوتا ہے بات غلط ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نَعُوذُ بِاللهِ خدا عاشق ہو گیا تھا.پنجابی شعر پڑھو تو ان میں یہی مضمون ہوتا ہے کہ او کملی والیا تیرے تے رب عاشق ہو گیا.حالانکہ قرآن یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں جب خرابی پیدا ہوتی ہے تو فرشتے انسانی روحوں کے ساتھ چھونا شروع
۴۳۰ کرتے ہیں اور چُھو کر محسوس کرتے ہیں کہ کس روح میں کیا قابلیت ہے؟ پھر وہ مختلف اثرات لے کر ریکارڈ روم میں جمع ہوتے ہیں اور اس میں ان کی توجہ ایک روح کی طرف مرکوز ہوتی چلی جاتی ہے اور آخر تمام روحوں میں سے جو مکمل روح انہیں نظر آتی ہے اس کے بچنے جانے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور ایک وجود پر ان کا اتحاد ہو جاتا ہے کہ یہ روح ہے جس سے ہماری روحیں ملتی جلتی ہیں.جب وہ یہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُس شخص کو خدمت کے لئے مقرر کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہے اسے ضرورت نہیں کہ وہ ایسا کرے لیکن چونکہ اُس نے فرشتوں سے خدمت لینی ہوتی ہے اس لئے ان کے اندر بشاشت پیدا کرنے اور محبت پیدا کرنے اور ہمدردی پیدا کرنے کے لئے اُس نے یہ طریق رکھا ہے کہ وہ پہلے فرشتوں کو غور کرنے کا موقع دیتا ہے تا کہ وہ سمجھیں کہ ان کا بھی انتخاب میں حصہ ہے اس کے بعد حکم نازل ہوتا ہے اور وہ چونکہ ان کے منشاء کے ماتحت ہوتا ہے اس لئے ان کی تسلی ہو جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقُبُولُ فِي الْأَرْضِ !! پھر ایسے انسان کی قبولیت دنیا میں پھیلا دی جاتی ہے اور لوگ اس کو ماننے لگ جاتے ہیں.اس سے پتہ لگ گیا کہ درحقیقت وہ قابلیت کی بناء پر ہی نبی ہوتا ہے اگر قابلیت کی بناء پر نہ ہوتا تو ملا اعلیٰ کے دنیا سے معلومات حاصل کرنے کے کیا معنے ؟ پھر تو خدا آسمان پر بیٹھا ہوا کہہ دیتا فلاں نبی بن جائے اور وہ بن جاتا.بہر حال ان آیات سے ظاہر ہے کہ یہ واقعہ پیدائش انسانی کے بعد کا تھا اور سلسلہ نبوت کے جاری ہونے کے بعد کا تھا کیونکہ اس آیت میں فرشتوں کا جو سوال تھا اس کا ذکر ہی نہیں کیا گیا.جہاں آدم اول کی پیدائش کا ذکر ہے وہاں اس سوال کا بھی ذکر ہے کہ آپ کیوں پیدا کرنا چاہتے ہیں مگر یہاں یہ وہ سوال نہیں کرتے کیونکہ وہ سوال ایک دفعہ ہو چکا اور حل ہو چکا اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے موقع پر کوئی وجہ نہیں تھی کہ پھر دوبارہ وہی سوال کیا جاتا کیونکہ ملائکہ کا رُجحان خود وجودمحمدمی کی طرف آپ کی بعثت سے پہلے ہو چکا تھا.اب خدا نے بتا دیا کہ ہم اس شخص کو نبی بنانے لگے ہیں جب ہم نبی بنا ئیں اور یہ اُس عمر کو پہنچ جائے کہ خدا کی وحی اس پر نازل ہونے لگے تو فوراً اس کے کام میں مدد دینے کے لئے کھڑے ہو جانا اور وہ کہتے ہیں امَنَّا وَصَدَّقْنَا.یہاں یہ سوال رہ جاتا ہے کہ فرشتوں کے متعلق ملائکہ کا شیطانی عصر سے اختصام يَخْتَصِمُونَ کا لفظ کیوں آتا ہے.کوئی کہہ سکتا ہے
۴۳۱ کہ وہ کیا جھگڑا کرتے تھے؟ صوفیاء نے اس پر بحث کی ہے کہ اختصام کیا تھا مگر وہ اس مضمون کو اس طرح بیان نہیں کرتے جس طرح میں نے بیان کیا ہے ورنہ شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی اس مضمون کو لیا ہے اور پرانے صوفیاء نے بھی.وہ کہتے ہیں کہ فرشتوں میں یہ سوال اُٹھتا ہے تو وہ یہ بحثیں کرتے ہیں کہ کون مستحق ہے اور کون نہیں ؟ مگر میرے نزدیک یہ غلط ہے جھگڑا تب ہوتا جب اختلاف ہوتا یا ووٹنگ والا سسٹم ہوتا مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں فرشتے تاثرات کو قبول کرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کی توجہ ایک روح پر مرکوز ہو جاتی ہے اور چونکہ الہی منشاء بھی وہی ہوتا ہے اس لئے الہی حکم صادر ہو جاتا ہے اور وہ دنیا میں نافذ ہو جاتا ہے مگر پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ يَخْتَصِمُونَ کا لفظ کیوں آیا ہے؟ سویا درکھنا چاہئے کہ میرے نزدیک یہاں يَخْتَصِمُونَ کا ذکر اس رسول کے متعلق نہیں یعنی یہ نہیں کہ فرشتے اس رسول کے متعلق جھگڑ رہے تھے کہ یہ رسول بنے یا وہ بنے بلکہ وہ اس شیطانی عنصر کے ساتھ جھگڑ رہے تھے جس نے اس رسول کی مخالفت کرنی تھی گویا فرشتوں نے جب وجود محمدی میں نورالہی دیکھنا شروع کیا تو فوراً شیطانی طاقتیں جو راستہ میں حائل ہونے کے لئے جمع ہو رہی تھیں ان سے انہوں نے جھگڑنا شروع کر دیا پس يَخْتَصِمُونَ کا لفظ رسالت کے متعلق نہیں بلکہ یہ اختصام شیطانوں کے متعلق ہے اور انہی کے ساتھ ان کا سارا جھگڑا ہے.پس يَخْتَصِمُونَ کے معنے یہ ہیں کہ جُوں جُوں اُنہیں پتہ لگتا چلا جاتا ہے کہ فلاں شخص اس عہدہ کے قابل ہے شیطانی طاقتیں جو مقابل میں کھڑی ہوتی ہیں ان سے لڑائی شروع کر دیتی ہیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آخری جنگ میں شیطانی طاقتیں شکست کھائی جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم ہو جاتی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب ہم اس دربار خاص کا ذکر کرتے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز کے لئے کا الہی دربار میں شاندار اعزاز منعقد ہوا اور جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے انتہائی قرب کے مقام کو ظاہر کیا اور بتایا کہ آپ کو دوسرے درباریوں پر کیا فضیلت حاصل ہے.پہلے اُس در بار کا ذکر کیا گیا تھا جس میں آپ کا انتخاب عمل میں لایا جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ہم آپ کو اس منصب پر مقرر کر رہے ہیں اب اسی دربار کے دوسرے حصہ میں یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کا
۴۳۲ کتنا بڑا اعزاز کیا گیا.محبت اور اتحاد کا کمال اللہ تعالیٰ سورہ نجم میں فرماتا ہے وَهُوَ بِالْاُ فُقِ الْأَعْلَى ثُمَّ دَنَا فَتَدَ لَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْأَدْنَى لا یعنی بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا اور پھر وہ درباری اس کے قریب ہو ا جس کے بعد بادشاہ اپنے عرش سے اُتر کر اُس کے پاس آ گیا اور اتنا اُس کے قریب ہو گیا کہ یوں نظر آتا تھا جیسے دو قوسیں آپس میں ملا کر کھڑی کر دی گئی ہیں.گویا در بار لگا بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا اور اُس نے اپنے اس درباری کو بلایا جس کے لئے دربارِ خاص منعقد کیا گیا تھا اورحکم بھیجا کہ ہمارے دربار میں حاضر ہو جاؤ ہم تمہارا اعزاز کرنا چاہتے ہیں.یہاں تک تو باقی بادشاہوں سے بات ملتی ہے لیکن دنیا کے درباروں میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کو کسی عہدے پر مقرر کیا جاتا ہے وہ کھسک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس کا اہل نہیں.لیکن اس دربار کے متعلق فرماتا ہے کہ خدائی حکم کے ملتے ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے قریب ہو گئے اور دوسرے درباروں کے خلاف جن میں بادشاہ اپنی جگہ سے کھسکتا نہیں خدا تعالیٰ عرش عظیم سے اُتر کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گیا اور اتنا قریب ہوا کہ یوں نظر آتا تھا گویا دو قومیں آپس میں ملا کر کھڑی کر دی گئی ہیں.دوسری جگہ عام انسانوں کے متعلق بھی خدا تعالیٰ کا یہ فعل موجود ہے چنانچہ فرماتا ہے لَا تُدْرِكُهُ الأبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ ٣ ابصار خدا تک نہیں پہنچتیں کیونکہ وہ ناکام رہ جاتی ہیں مگر خدا خود لوگوں کی آنکھوں تک پہنچ جاتا ہے.قَابَ قَوْسَینِ کا نظارہ غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا گیا اور آپ اس کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے چلے مگر جب چلے تو اللہ تعالیٰ اپنی محبت کے جذبہ میں اپنی جگہ پر نہ ٹھہرا بلکہ آپ نیچے اتر آیا.فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى اور اُس نے اُتر کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم تجھے اپنا گورنر بنانا چاہتے مگر ہماری گورنری ایسی نہیں ہوتی جیسی دنیا کی گورنریاں ہوتی ہیں ہم تجھے گورنر بھی بنانا چاہتے ہیں اور اپنا دوست بھی بنانا چاہتے ہیں.اب ہم دونوں کی قوسیں ایک ہوگئی ہیں.اے محمد ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ تیرے بھی دشمن ہوں گے اور کچھ میرے بھی دشمن ہونگے ہیں
۴۳۳ آخر ہر ایک کے دشمن ہوتے ہیں کچھ میرے بھی دشمن ہیں یعنی توحید کے منکر اور کچھ تیرے بھی دشمن ہیں یعنی انسانیت اور اخلاق اور شرافت کے دشمن.تجھے بھی ضرورت ہے ان پر تیر چلانے کی اور مجھے بھی ضرورت ہے اپنے دشمنوں پر تیر چلانے کی.پس آ! ہم دوست بنتے ہیں اب ہم دونوں اپنی کما نہیں جوڑ لیتے ہیں اور ان دونوں کمانوں کا ایک ہی وتر ہوگا یعنی وہ تار جو کمان میں ہوتی ہے ایک ہوگی اور پھر تیرا تیر بھی اور میرا تیر بھی اکٹھا ایک ہی طرف چلے گا، یہ کتنی دوستی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اظہار فرمایا.مقام محمد یت کی بلندی پھر فرماتا ہے، فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْأَدْنی.اوعربی زبان میں یا کے معنے بھی دیتا ہے اور ترقی کے معنی بھی دیتا ہے گویا پہلے تو تیرا تیر بھی اور میرا تیر بھی ایک طرف چلتا تھا مگر پھر اس سے بھی ترقی ہوئی اور وہ ترقی یہ ہے کہ پہلے تو دو قوسیں تھیں اور دشمن بھی دو ہی تھے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن اور خدا کا ثمن.بیشک تیرا کٹھا چلتا تھا مگر دشمن دو تھے پھر وہ دونوں ایک ہو گئے یعنی قوسیں بھی ایک بن گئیں اور ہاتھ بھی ایک بن گیا تیر بھی ایک بن گیا اور دشمن بھی ایک بن گیا.اسی کی طرف دوسری جگہ قرآن کریم میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ مَا رَمَيْتَ اذْرَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى ۱۴ یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم اور تو دونوں اس طرح اکٹھے ہو چکے ہیں کہ تو نے جو بدر کی جنگ میں پتھر پھینکے تھے وہ تو نے نہیں پھینکے بلکہ ہمارا ہاتھ تھا جو ان کو پھینک رہا تھا.گویا پہلا اتحاد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا کے درمیان یہ ہوا کہ دو قوسوں سے ایک تیر چلنا شروع ہوا اور پھر آخری اتحاد قوسوں کا آپس میں مدغم ہو جانا اور پھر ہاتھوں کا بھی آپس میں مدغم ہو جانا تھا گو یا ہاتھ بھی ایک ہو گئے ، قوس بھی ایک ہو گئی ، دشمن بھی ایک ہو گیا اور تیر بھی ایک ہو گیا.یہ کیسا عجیب دربار ہے کہ ابھی کام شروع بھی نہیں کیا اور پہلے ہی دوستانہ تعلق اور پیار ہو گیا.کیوں؟ اس لئے کہ دُنیوی بادشاہ جب کسی کو جرنیل مقرر کرتے ہیں تو کہتے ہیں معلوم نہیں وہ شکست کھا کر آتا ہے یا فتح حاصل کر کے؟ پہلے پتہ تو کر لینے دو.مگر یہ دربار ایسا ہے جس میں بادشاہ کو پہلے ہی پتہ ہوتا ہے کہ میرا جرنیل جیت کر آئے گا اس لئے اگر اسے پہلے سے ہی انعام دے دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، بہر حال اسی نے جیتنا ہے.عجیب دربار
۴۳۴ بادشاہوں کے خلاف پھر ہم دنیوی بادشاہوں کے دربار میں جا کر دیکھتے ہیں تو وہاں بعض دفعہ عجیب تماشہ نظر آتا ہے.بادشاہ بیٹھا ہوا ہوتا درباریوں کی سرگوشیاں ہے اور دُور کناروں پر لوگ آپس میں گھسر پھسر کر ر.ہوتے ہیں کہ فلاں جس کو بادشاہ نے منہ چڑھایا ہوا ہے بڑا خبیث آدمی ہے.دیکھنا کسی دن بادشاہ سے دھوکا کر کے رہے گا.یہ فلاں شہزادہ کا دشمن ہے، فلاں بیوی پر اس کو بدظنی ہے خبر نہیں کیا کرے گا غرض اِ دھر دربار لگا ہوا ہوتا ہے اور اُدھر سر گوشیاں ہو رہی ہوتی ہیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دربار لگا ہوا ہے بادشاہ آیا اور اُس نے کسی کو خلعت دیا جب اسے خلعت دے کر رخصت کیا تو کسی درباری نے کہا حضور ! اگر یہ طاقت پکڑ گیا تو آپ کے خلاف کھڑا ہو جائے گا اور آپ کو نقصان کی پہنچائے گا.بادشاہ جواب دیتا ہے میں خوب جانتا ہوں لیکن موقع دیکھ رہا ہوں موقع پر گردن پکڑ لونگا.آسمانی دربار کی ایک سیر ہم اس آسانی در بارک بھی جا کر دیکھتے ہیں کہ کیا یہاں بھی وہی کچھ ہے کہ ادھر گورنری دی جا رہی ہے اور اُدھر سازشیں اور شکائتیں ہو رہی ہیں اور گورنروں کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں.سو قرآن کریم کی اجازت سے میں تم کو اس دربارِ خاص میں لے جاتا ہوں ورنہ اس دربار میں ہر ایک کو جانے کی اجازت نہیں.ہم اس دربار میں جاتے ہیں دروازہ کھولتے ہیں اور اندر سر ڈال کر دیکھتے ہیں کہ کیا باتیں ہو رہی ہیں؟ کیا گورنروں کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں ، ان پر جرح وقدح ہو رہی ہے یا ان کے نقائص بیان کئے جا رہے ہیں یا تعریفیں ہو رہی ہیں.ہم جب اندر سر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے تو ہمارے سر ڈالتے ہی ہمارے کان میں ایک آواز آتی ہے کہ آ جاؤ بے شک آؤ کوئی حرج نہیں ہم جو کام کر رہے ہیں وہ تم کو بھی بتاتے ہیں تم بھی وہی کام کرو.اِنَّ اللهَ وَمَلّئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبي ياأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا ها اس دربار میں بجائے گورنر کی شکائتیں ہونے کے بجائے اس پر الزام قائم کرنے کے، بجائے اس کے متعلق شبہات پیدا کرنے کے ہم جو دیکھتے ہیں تو بادشاہ بھی اُس پر برکات نازل کرنے میں لگا ہوا ہے اور درباری بھی اس کے لئے دعائیں کر رہے ہیں اور ہم جو چوری چھپے
۴۳۵ یکھنے جاتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ تم بھی درود پڑھوا اور سلام بھیجو.اخلاص اور محبت کے نظارے کیا اخلاص اور کیسی کچی محبت اور کیسے بچے تعلق کا در بار ہے کہ جس پر ہر شخص اعتبار کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ یہاں نہ میرے ساتھ غداری کی جائے گی ، نہ میرے دوستوں کے ساتھ غداری کی جائے گی ، نہ میرے ساتھیوں کے ساتھ غداری کی جائے گی ، اس دربار میں خالص سکہ ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی محبت کام کر رہی ہے.دوسرا حصہ درباریوں کی برطرفی کا ہوتا ہے وہ میں بتا چکا ہوں کہ برطرفی اس دربار میں ہوتی ہی نہیں.درباری ختم بھی ہو گیا مر گیا نوح کسی زمانہ میں پیدا ہوا اور ختم ہو گیا ، اس کی نسل کا بھی پتہ نہیں ، اس کی حکومت کوئی نہیں ، مذہب کوئی نہیں ، تعلیم کوئی نہیں لیکن مجال ہے جو نوح کو کوئی گالی دے سکے، جھٹ خدا کے فرشتے اُس کی گردن پکڑ لیتے ہیں کہ خدا کے گورنر کو گالی دی جا رہی ہے.دربارِ خاص کی دوسری غرض دوسری غرض در بار خاص کی یہ ہوتی ہے کہ بادشاہ اپنے وزراء اور امراء کو خاص امور کے بارہ میں مشورہ دے اور بتائے کہ انہوں نے ان ان ہدایتوں کے ماتحت کام کرنا ہے تا کہ وہ اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کر سکیں.چنانچہ اب اس دربار کا ذکر کیا جاتا ہے جس میں عہدہ رسالت کی تفویض کے احکام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے اور بتایا گیا کہ آپ نے دنیا میں کیا کرنا ہے اور کس طرح اپنے فرائض کو سرانجام دینا ہے.دنیوی بادشاہوں کے مشوروں کی حقیقت ہم دیکھتے ہیں کہ دنیوی درباروں میں اوّل تو بادشاہ خود مشورہ کا محتاج ہوتا ہے اور پھر جو وہ مشورے دیتا ہے بالعموم غلط بھی ہوتے ہیں اور بعض اوقات اُن مشوروں سے وزراء کو اتفاق نہیں ہوتا اور بعض دفعہ وہ اُن پر عمل ہی نہیں کر سکتے اور سب کام خراب ہو جاتا ہے مگر یہ ایسا دربار ہے جس کا بادشاہ کسی کے مشورہ کا محتاج نہیں.کامیابی کے متعلق تذبذب کی کیفیت پھر دنیوی دربارِ خاص میں بادشاہ ایک افسر کو بلاتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ ہم تمہاری وفا داری پر یقین کر کے تم کو فلاں عہدہ پر مقرر کرتے ہیں امید ہے تم ہمارے اعتبار کے اہل ثابت ہو گے تم فلاں فلاں کام دیانتداری سے کرو اور اگر تم اس میں کامیاب ہو جاؤ گے تو
۴۳۶ ہم تم سے بہت خوش ہونگے.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ وہ خوشی کتنی حقیر ہوتی ہے مگر بہر حال یہی سہی لیکن ان کلمات میں بھی کتنی کمزوری پائی جاتی ہے.اول بادشاہ کہتا ہے ہم تم کو چنتے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ تم کامیاب ہو گے گویا بادشاہ اس کو ایک تخمین ( یعنی اندازہ) سے چنتا ہے اور پھر اس شک میں رہتا ہے کہ معلوم نہیں وہ کامیاب بھی ہوگا یا نہیں.لیکن اس الہی دربار میں کوئی شک نہیں ہر شخص کو یقین کے ساتھ چنا جاتا ہے اور یقین کیا جاتا ہے کہ وہ کامیاب ہوگا اور یقین کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ وہ کیوں کامیاب نہیں ہو گا.جب کہ ہم اس کے ساتھ ہیں.بڑے بڑے جرنیلوں کی ناکامی دنیا میں بسا اوقات بڑے بڑے جرنیل بڑے سکتے ثابت ہوتے ہیں چنانچہ دیکھ لو پچھلی جنگ عظیم میں کس طرح جرنیل بدلے گئے.پہلی جنگ عظیم میں تین جرنیل یکے بعد دیگرے بدلے گئے تھے دوسری جنگ عظیم میں بھی ایسا ہی ہوا.ابھی تازہ واقعہ دیکھ لو میکارتھر نے کوریا کی جنگ میں کتنا بڑا ٹھہر ہ حاصل کیا تھا لیکن ٹرومین سے اس کا اختلاف ہو گیا اور لوگوں نے اس کے کان بھر نے شروع کر دیئے کہ اگلی پریذیڈنٹی کے لئے یہ کھڑا ہونا چاہتا ہے اور آپ کا مد مقابل بننا چاہتا ہے چنانچہ جھٹ فساد کی تاریں چھوٹنی شروع ہوئیں اور اسے نکال کر باہر پھینک دیا اب اسے کوئی پوچھتا بھی نہیں.دوسرے، دنیا میں جب کسی جرنیل پر بھروسہ کیا جاتا ہے تو وہ بھروسہ خیالی اور شکی ہوتا ہے جو آگے چل کر غلط ہو جاتا ہے اور بعض جگہ وہ شکست کھا جاتا ہے یا بعض جگہ وہ کامیاب ہو جاتا ہے لیکن اتنا نتیجہ نہیں نکلتا جتنے نتیجہ کی امید کی جاتی ہے اور بعض دفعہ وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو خود بادشاہ کے خلاف لڑنا شروع کر دیتا ہے.دوسری قوموں کو جانے دو مسٹر چرچل کو ہی دیکھ لو.اس نے گزشتہ جنگ میں کتنی بڑی قربانی کی.مگر چند مہینوں کے اندر اندر اس کے ملک نے اسے ایسی خطرناک شکست دی کہ پارلیمنٹ میں اس کی اور اس کے ساتھیوں کی پارٹی نہایت ہی قلیل رہ گئی.پھر ہندوستان میں گاندھی جی نے کہا کہ مجھے اندر سے آواز آتی ہے اور لگے نبیوں کے سے دعوے کر نے آخر انہی کے ایک چیلے نے اُٹھ کر انہیں پستول مار دیا.قرآنی در بار خاص میں گورنر جنرل کی ہدایات لیکن اب قرآنی دربار کی سُن لو یہاں ایک بڑے بھاری جرنیل کا تقرر ہوتا
۴۳۷ ہے اسے دربارِ خاص میں بلایا جاتا ہے اور اعلان پڑھا جاتا ہے کہ ہم نے آپ کو مقرر کیا اب ہم آپ کو ہدائتیں دیتے ہیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے کس طرح کرنا ہے اور کس کس طریق سے اس کام کو سرانجام دیتا ہے چنانچہ فرماتا ہے یا يُّهَا الْمُدَّثِرُ.قُمْ فَانْذِرُ.وَرَبَّكَ فَكَبِّرُ.وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ.وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ.وَلَا تَمُنُنُ تَسْتَكْثِرُ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرُ ] میلادالنبی کے وعظ یہ آیات تو قرآن کریم میں تیرہ سو سال سے موجود ہیں اور علماء نے ان آیات کی تفسیر میں بھی لکھی ہیں لیکن آج کل کے مولویوں کے وعظ خصوصاً میلادالنبی کے تم نے سنے ہی ہوں گے ، جب وہ ان آیات کی تفسیر شروع کرتے ہیں تو کہتے ہیں.او کملی والیا! اے زُلفاں والیا ! اے کملی والیا! ایک ہندو وکیل سے گفتگو میں ایک دفعہ فیروز پور گیا وہاں ایک ہندو وکیل جو اچھا ہوشیار اور آریہ سماج کا سیکرٹری تھا مجھ سے ملنے کے لئے آیا اور کہنے لگا آپ کہتے ہیں ہندو مسلمان لڑتے رہتے ہیں مگر کیا آپ نے کبھی بتایا بھی کہ اسلام کیا چیز ہے؟ میں نے کہا تمہیں کیا بتا ئیں؟ کہنے لگے، میلاد النبی کا جلسہ ہوتا ہے تو ہم بھی جاتے ہیں کہ وہاں چل کر پتہ لگائیں گے کہ اسلام کیا ہوتا ہے مگر وہاں ہمیں یہ سنایا جاتا ہے کہ اے کملی والیا! اے زلفاں والیا! کہنے لگا ہم زُلفیں دیکھنا نہیں چاہتے ہم کملی دیکھنا نہیں چاہتے ہم تو تعلیم سنا چاہتے ہیں مگر بجائے یہ بتانے کے کہ رسول اللہ کی تعلیم کیا تھی آپ کے کیا کام تھے اور آپ کی کیا خدمات تھیں ہمیں بتایا یہ جاتا ہے کہ آپ کی زلفیں ایسی تھیں اور آپ کی کملی ایسی تھی ہم عشق مجازی تو نہیں کرنا چاہتے کہ ہمیں یہ باتیں بتائی جاتی ہیں.شرمندگی تو بہت ہوئی مگر خیر میں نے کہا لوگ غلطی کرتے ہیں ہمارا نقطہ نگاہ بھی آپ کبھی سن لیں.کہنے لگا میں نے آپ کی ایک تقریر سنی ہے اور اس سے میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا طرز اور ہے مگر میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے اس کے بعد یہ خواہش کرنا کہ ہم مسلمان ہو جائیں اور ہم سے اس کی امید رکھنا کس طرح درست ہوسکتا ہے کیا کملی دیکھ کر کوئی مسلمان ہو سکتا ہے یا زُلفیں دیکھ کر کوئی مسلمان ہو سکتا ہے؟ دربارِ خاص کا نقشہ دوسرے مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے پس غیر احمدی بھی اس دربار کا نقشہ کھینچتے ہیں لیکن.
۴۳۸.ان کا نقشہ میں پہلے سُنا دیتا ہوں کہ کیا ہوتا ہے.وہ کہتے ہیں دربارِ خاص لگا ہوا ہے ، با دشا و خلق وکون کی آمد آمد ہے، چھوٹے چھوٹے درباروں کے اہلکار تو ایسے موقع پر ہمہ تن مصروف عمل ہوتے ہیں ، بھاگ دوڑ ہو رہی ہوتی ہے، افسر قرینہ سے کھڑے ہوتے ہیں اور منتظر ہوتے ہیں کہ بادشاہ آئے تو فوراً اس کا استقبال کریں اور اس کا اعزاز کریں اور اس کی تعریف کریں.لیکن ہمارے بادشاہ کے دربار کا یہ حال بتایا جاتا ہے کہ بادشاہ سلامت تشریف لاتے ہیں تمام دربار میں خاموشی طاری ہو جاتی ہے اور جس کی خاطر در بارِ خاص لگایا گیا تھا وہ ایک کمبل اوڑھ کر ایک گوشے میں سو پا پڑا ہے اب بادشاہ اس کے پاس پہنچتا ہے ، اُس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، گھٹنے گھٹنے تک اس کے جسم پر میل چڑھی ہوئی ہے، بادشاہ سلامت آکر اُسے جگاتے ہیں کہ اُٹھ میاں! یہ سونے کا وقت ہے تجھے کام پر بھیجنا تھا تیری خاطر دربار خاص لگایا تھا اور تو کمبل لے کر سو رہا ہے، اُٹھ ! اُٹھ کے کمبل اُتار ، کپڑے دھو، غسل کر ،شرک چھوڑ دے، سُودخوری نہ کر اور مصیبتیں برداشت کر.یہ دربار ہے جس کا نقشہ ہمارے سامنے کھینچا جاتا ہے.بھلا جو معمولی معمولی ریاستیں ہیں مثلاً شملہ کی ریاستیں جو پانچ پانچ سات سات ہزار آبادی کی ہیں کیا تم نے کبھی وہاں بھی ایسا در بار دیکھا کہ راجہ نے کسی کو بُلا یا ہو اور جس کے اعزاز میں دربار منعقد کیا گیا ہو اُس کی یہ حالت ہو کہ وہ کمبل میں سو رہا ہے اور اتنی میل چڑھی ہوئی ہے کہ حد نہیں.کپڑوں سے بدبو آ رہی ہے، پاجامے سے بدبُو آ رہی ہے، راجہ آکر جگاتا ہے اور جگانے کے بعد کچھ ملامت کرتا ہے اور ملامت کر کے کہتا ہے تیرے سپر د فلاں کام کیا جاتا ہے مگر ایسے گند میں باہر جانا بھی ٹھیک نہیں پہلے کپڑے دھولے، غسل کرلے اور پھر جا کر یہ کام کر.یہ دربار ہے جو غیر احمدی پیش کرتے ہیں.حقیقی دربار کی جھلک اب میں وہ دربار پیش کرتا ہوں جو حقیقتا قرآن کا در بار ہے اور جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم سے ہمیں سمجھایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَأَيُّهَا الْمُدَّثِرُ وِثَار کے ایک معنی عربی زبان میں اس کپڑے کے ہوتے ہیں جو سوتے وقت اوپر لیا جاتا ہے کہ مثلاً کمبل ، لوئی یا لحاف وغیرہ اور لوگوں نے یہاں یہی معنے مراد لئے ہیں.مگر جب مدثر کہا جائے گا تو لغت کے لحاظ سے اس کے یہ معنی ہونگے کہ وہ کمبل یا لوئی اوڑھ کر بھی سو رہا ہے.کئی لوگ لوئیاں لے کر تو یہاں بھی بیٹھے ہیں مگر وہ جاگ رہے ہیں.مدقر تب کہا جائیگا جب کوئی لوئی لے کر سو رہا ہو.لیکن آجکل کے مولوی کی یہ حالت ہے
۴۳۹ کہ رادھر تو ہمیں کفر کا فتویٰ دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے اور اُدھر قرآن میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی لفظ استعمال ہو تو یہ ہمیشہ اس کے بُرے معنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لیتا ہے اور عیسی کی نسبت وہی لفظ آ جائے تو خیر.معلوم نہیں عیسی اس کا کیا لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس کے اچھے معنے کرتا ہے اور پھر بھی وہ مولوی کہلاتا ہے.مد قمر کے معنی یہ درست ہے کہ مدثر کے ایک معنی کمبل اوڑھ کر سونے والے کے بھی ہیں مگر مدقر کے ایک اور معنی بھی ہیں جو اچھے ہیں اور اس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وہ نہیں سوجھتے اور وہ معنے ہیں :.کپڑے پہن کر تیار ہو جانے والا اور گھوڑے کے پاس کھڑا ہونے والا کہ حکم ملتے ہی فوراً چھلانگ مار کر اس پر سوار ہو جائے.یہ بھی لغت میں لکھے ہوئے ہیں.چنانچہ بہار کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے معنے ہیں اَلثَّوْبُ الَّذِي فَوقَ الشَّعَارِ یعنی دیار اس کپڑے کو کہتے ہیں جو گرتا وغیرہ کے اوپر پہنا جائے.جب انسان نے باہر جانا ہوتا ہے تو وہ خالی گرتا نہیں پہنتا بلکہ کوٹ پہنتا ہے.یا فوج والے لڑنے کے لئے جاتے ہیں تو وردی پہن لیتے ہیں، پس اس کے معنے یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ نے وردی پہنی ہوئی ہے.ان مفسرین کو یہ تو نظر آتا ہے کہ مدقر کے معنے کمبل اوڑھ کر سونے والے کے ہیں مگر یہ نظر نہیں آتا کہ اس کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ اے وردی پہن کر کھڑے ہونے والے انسان ! اسی طرح اس کے دوسرے معنے گھوڑے پر چھلانگ لگا کر چڑھنے والے کے ہیں تے گویا وہ اس بات کے انتظار میں کھڑا ہے کہ حکم ملے تو گھوڑے پر چھلانگ لگا کر سوار ہو جاؤں اور کام کے لئے دوڑ پڑوں.اب ان معنوں کو دیکھو اور کمبل اوڑھ کر سور ہنے والے معنوں کو دیکھو کیا ان دونوں میں کوئی بھی نسبت ہے؟ کیا وہ دربار معلوم ہوتا ہے اور در بار بھی وہ جو محمد رسول اللہ کے تقرر کے لئے منعقد ہوا.پیچھے مایوسی ہو جائے تو اور بات ہے لیکن یہاں تو ابتداء میں ہی نَعُوذُ بِاللهِ گالیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ : - اوسونے والے! تیری کام کی طرف توجہ ہی نہیں ، میل سے بھرا ہوا ہے اُٹھ اور تیار ہو اور اپنے کام کی طرف جا اور ہر قسم کے سستی اور شرک وغیرہ کو چھوڑ.
۴۴۰ قُمُ فَانْذِرُ کی تشریح آگے آتا ہے قُمْ فَانْذِرُ اس کے معنے وہ یہ کرتے ہیں کہ کھڑا ہو جا اور انذار کر حالانکہ جوکمبل لے کر سویا پڑا ہے اس کے سپر دکوئی عقلمند کام ہی کیوں کرے گا.وہ تو کہے گا کہ اگر وہ سویا ہوا ہے تو سویا ہی رہے قُمْ فَانُذِرُ کے الفاظ تو بتا رہے ہیں کہ جس کے سپر د کام کیا جاتا ہے وہ اپنے اندر کوئی شان رکھتا ہے، وہ اپنے اندر کوئی عزم رکھتا ہے، وہ اپنے اندر کوئی پختہ ارادہ رکھتا ہے.وہ قسم کا لفظ لے لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کے معنے کھڑے ہو جانے کے ہیں حالانکہ جس طرح مدقر کے دو معنے ہیں اسی طرح عربی زبان میں قسم کے بھی دو معنے ہیں قسم کے معنے کھڑے ہونے کے بھی ہیں اور قسم کے معنے کسی بات پر ہمیشہ کے لئے قائم ہو جانے کے بھی ہیں.انہوں نے پہلے کمبل کے معنے کئے پھر کہا اوسونے والے ! کھڑا ہو جا.ہم نے یہ معنے کئے ہیں کہ اے وہ شخص جو عہد ہ کے مطابق وردی پہنے تیار کھڑا ہے کہ حکم ملتے ہی گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے کام پر چلا جاؤں قم ہمیشہ کے لئے اپنے کام پر لگ جا اور کبھی بھی اپنے کام میں سستی مت دکھا ئیو اور ا بھی اپنے کام سے غفلت مت کیجیو فَانذِرُ اب ہمیشہ ہمیش کے لئے انذار کا مقام اور نبوت کا کام تیرے سپرد کر دیا گیا ہے اب کوئی پینشن نہیں ، کوئی چھٹی نہیں ، ساری عمر کے لئے یہ کام تیرے سپر د کر دیا گیا ہے.ربَّكَ فَكَبّر کا پہلی آیات سے تعلق تیسری آیت ہے وَرَبَّكَ فَكَبَر اور اپنے رب کی بڑائی کا دنیا میں ڈھنڈورا پیٹ.اب اس آیت کو ذرا پہلی آیت سے ملاؤ کہ ارے سوئے ہوئے ! ارے کمبل اوڑھ کر لیٹے ہوئے ! ارے نیند کے ماتے اُٹھ ! ڈھنڈورا پیٹ.بھلا نیند والے نے کیا ڈھنڈورا پیٹنا ہے محض بے جوڑ معنے ہیں جن کا پہلی آیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.لیکن میں نے جو معنے کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ اے وردی پہن کر کھڑے ہونے والے! اے حکم ملتے ہی گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر دنیا میں دوڑ جانیوالے ! اب ہمیشہ ہمیش کے لئے خدا کا پیغام پہنچانا تیرے سپر د کیا گیا ہے تو دنیا کو بتا کہ اگر مانو گے تو بچو گے نہیں مانو گے تو تباہ ہو جاؤ گے.ثِيَا بَكَ فَطَهِّرُ کی مضحکہ خیز تفسیر چوٹی آیت ہے وَثِيَا بَكَ فَطَهَرُ مولوی اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ اپنے کپڑے پاک کر.وہ کہتے ہیں نماز جو پڑھنی تھی کپڑے پاک کرنا ضروری تھا گویا صرف نماز کے لئے
۴۴۱ کپڑے صاف کئے جاتے ہیں.انگریزوں نے کبھی کپڑے پاک نہیں رکھے، امریکنوں نے کبھی کپڑے پاک نہیں رکھے جب سے نماز شروع ہوئی ہے اُس وقت سے کپڑے پاک رکھے جانے شروع ہوئے ہیں.دوسرے الفاظ میں اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ ان کے نزدیک پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صفائی کی طرف کوئی رغبت نہیں تھی نماز کا حکم آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کپڑے صاف رکھو.پھر سوچو کہ ان آیات کا آپس میں جوڑ کیا ہوا ؟ پہلے معنے کئے اوسونے والے اُٹھ ! پھر کہا اُٹھ اور دنیا میں جا کر انذار کر.پھر ساتھ ہی کہہ دیا جا اور کپڑے دھو.اب وہ کپڑے دھوئے کہ انذار کرے دونوں میں جوڑ کیا ہو !؟ اب یہ مولوی فیصلہ کر لیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے ؟ کپڑے دھونے لگتے تھے یا باہر جا کر تبلیغ کرتے تھے.غرض ایسی بے جوڑ باتیں کرتے ہیں اور اس قسم کی ہتک آمیز باتیں کرتے ہیں کہ در حقیقت اگر وہ غور کریں تو ان کو معلوم ہو کہ اسلام کے ساتھ ان باتوں کا کوئی تعلق ہی نہیں.ایسی ایسی غیر معقول باتیں کرتے ہیں کہ ہر بُری بات محمد رسول اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں.بھلا کوئی سمجھائے کہ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ کا اس جگہ جوڑ کیا بنتا ہے.اگر پہلی آیت کے یہ معنے ہیں کہ اے کمبل لے کر سونے والے! تو یہ اگلے معنے نہیں لگتے کہ اُٹھ اور دنیا میں شور مچا دے.کمبل لے کر سونے والے نے شور کیا مچانا ہے وہ تو پھر سو جائے گا مگر تھوڑی دیر کے لئے یہ بھی مان لیا کہ اسے ہلایا پانی کے چھینٹے دیئے اور وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا مگر جب وہ تبلیغ کرنے کے لئے نکلا تو ہم نے کہا ٹھہر جا ٹھہر جا کپڑے دھو لے تیرے کپڑے بہت میلے ہیں.لَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ تبلیغ بھی رہ گئی گویا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا پاکیزہ نفس انسان جن کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ کا وجود ایسا ہے کہ اگر اس پر خدائی نور نہ بھی گرتا تب بھی یہ روشن نظر آ تا یعنی محمد رسول اللہ قرآن کے بغیر بھی پاکیزہ تھے اس مقدس انسان کے متعلق یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جیسے کوئی پہاڑی گڈریا ہوتا ہے کہ مہینوں اُس کو کپڑے دھونے کی توفیق نہیں ملتی.محمد رسول اللہ کی شکل بھی نَعُوذُ بِاللهِ ویسی ہی تھی.پہلے تبلیغ کا حکم دیا پھر خیال آیا کہ بڑی شرمندگی ہوگی لوگوں کو خیال آئے گا کہ کیسے آدمی کو بھیج دیا اس لئے کہہ دیا کہ
کپڑے دھوئے.۴۴۲ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رشتہ داروں اب ہم بتاتے ہیں کہ اس کے کیا معنے ہیں؟ لیکن میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا اور دوستوں کو تبلیغ کرنے کا ارشاد ہوں کہ یہ خالص میرے معنے نہیں بلکہ بعض پہلے صوفیاء نے بھی اس حصہ کے یہ معنے لکھے ہیں پہلے نہیں لکھے لیکن یہ معنے لکھے ہیں ثِيَاب عربی زبان میں لغةً تو کپڑوں اور دل کو کہتے ہیں." لیکن محاورہ میں شیاب اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی کہتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ سے انسان کی حفاظت ہوتی ہے اس کے عیب چھپتے ہیں اور وہ اس کے گرد لیٹے ہوئے ہوتے ہیں جیسے کپڑا لپٹتا ہے.پس استعارہ اور مجاز کے طور پر جیسے لوگ کہتے ہیں فلاں سکندر ہے، حاتم ہے مجازاً اور استعارة ثیاب کے معنے دوست رشتہ دار اور قریبی لوگوں کے ہوتے ہیں اور لغنا اس کے معنے کپڑے اور دل کے ہیں.دل کے معنے میں اس جگہ نہیں لگاتا لیکن میں کہتا ہوں کہ جو معنے بھی لگا و سیاق وسباق کو مد نظر رکھو، میرے نزدیک سیاق و سباق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے جو معنے بنتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اے محمد رسول اللہ ! تو پہلے اپنے بیوی بچوں اور رشتہ داروں کو سمجھا پھر اپنے قریبی دوستوں کو سمجھا پھر اپنی قوم والوں کو سمجھا اور ان کو دینِ اسلام کی تعلیم کی طرف لا.اب دیکھو یہ معنے یہاں چسپاں ہو جاتے ہیں اور آیات کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اے تقر ر گورنری کی خبر سنتے ہی وردی پہن کر کھڑے ہونے والے! اور اس بات کی امید رکھنے والے کہ حکم ملتے ہی میں گھوڑے پر چڑھ جاؤں تیار ہو اور ہمیشہ کے لئے اس کام میں مشغول ہو جا جو ہم نے تیرے سپرد کیا ہے اور سب سے پہلے یہ انذار اپنے گھر سے ، اپنی بیوی سے اور اپنے رشتہ داروں اور بچوں سے شروع کر.اب دیکھ لو یہاں کپڑے دھونے اور انذار کرنے میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ یہ کپڑے دھونا انذار کی تشریح ہے اور ثِيَابَكَ فَطَهِّرُ سے اندار ختم نہیں ہوتا بلکہ جاری رہتا ہے صابن کے گھت گھت کرنے سے تو انذار ختم ہو جاتا ہے لیکن اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو تبلیغ کرنے سے انذار ہوتا ہے ختم نہیں ہوتا.پس یہ تضاد نہیں بلکہ عین وہی چیز ہے.
۴۴۳ قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ.تو اُٹھ اور جا کر اپنی قوم کو سمجھا اپنے رشتہ داروں کو کے عمل سے تیاب کے معنوں کی تصدیق سمجھا، اپنے دوستوں اور عزیزوں کو سمجھا، چنانچہ ہم قرآن کریم میں اس کی تصدیق دیکھتے ہیں مثلاً بیویوں کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے.هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمُ ۲۲ عورتیں تمہارا لباس ہیں.اب دیکھ لو ان کو ثِيَاب بتایا گیا ہے پھر اسی آیت میں طَهَرُ کا لفظ آتا ہے اور قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے متعلق یہی لفظ استعمال کرتا ہے، فرماتا ہے اِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمُ تَطْهِيرًا ۲۳۵ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے نبوت سے کہہ دیا تھا کہ جا اور اپنے خاندان کو پاک کر.اب ہم تجھ کو کہتے ہیں کہ وہ جو ہم نے حکم دیا تھا اس کا ہم بھی پکا ارادہ کر چکے ہیں اور تیرے اہل وعیال کو پاکیزگی کے اعلیٰ مقام پر پہنچا کر چھوڑیں گے گویا وہ خبر اس جگہ آ کر بیان ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ ہم نے کہا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا لیکن ہم اسے خود پورا کرینگے کیونکہ ہم نبی کو جو کچھ کہا کرتے ہیں اس کی ذمہ داری ہم پر ہوتی ہے اسی طرح سورہ شعراء میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا گیا کہ.وَاَنْذِرُ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ۲۴ یعنی اے محمد رسول اللہ ! تو اپنے قبیلہ میں سے قریبی رشتہ داروں کو جا کر ہوشیار کر.پس ثیاب سے مراد اس جگہ وہی لوگ ہیں جو کپڑوں کی طرح ساتھ لیٹے ہوئے ہوتے ہیں اور سورۃ شعراء میں اسی لفظ کو دوسرے رنگ میں ادا کر کے اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کے مجازاً ہونے کی تشریح کر دی اور بتا دیا کہ ہماری اس سے یہی مراد ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو انذار قرآن پہنچا دے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پر غور کرنے سے بھی انہی معنوں کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ بخاری کو نکال لو دوسری حدیثوں کو نکال لو ، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلا الہام نازل ہوا تو سب سے پہلے آپ اپنے گھر گئے اور حضرت خدیجہ کو خبر دی کیونکہ ثِيَابَكَ فَطَهِّرُ کا حکم تھا کہ پہلے اسلام کی تعلیم اپنی بیوی اور رشتہ داروں کو دو پھر حضرت علی کو بتایا.چنانچہ تاریخ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے -
۴۴۴ آپ پر ایمان لانے والی اور سب سے پہلے طہارت کو قبول کرنے والی عورتوں میں سے حضرت خدیجہ تھیں.نابالغ جوانوں میں سے حضرت علی تھے اور بالغ جوانوں میں سے حضرت زیدہ تھے وہ بھی لوگوں میں آپ کے بیٹے کے طور پر مشہور تھے اسی طرح بڑی عمر کے لوگوں میں سے ابو بکر تھے جو آپ کے جانی اور جوانی کی عمر کے دوست تھے گویا جس طرح ثِيَابَكَ فَطَهِّرُ کہا گیا تھا عملاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل اُسی طرح کیا.لیکن کوئی حدیث نکال کر دکھا دو، ضعیف سے ضعیف نکال کر دکھا دو، منافقوں کی بیان کردہ حدیث نکال کر دکھا دو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس الہام کے بعد فوراً بازار گئے ہوں اور ریٹھے خریدنے شروع کر دیئے ہوں اور پھر کپڑوں کو ریٹھے اور صابن مل مل کر کوٹنے لگ گئے ہوں لیکن ہمارے پاس ثبوت موجود ہے ، حدیث موجود ہے جو بتاتی ہے کہ آپ نے پہلے حضرت خدیجہ کو خدا تعالیٰ کی بات بتائی ، پھر زیڈ کو بتائی ، پھر علی کو بتائی ، پھر ابو بکر کو بتائی غرض جس طرح آپ نے عمل کیا وہ حدیثوں میں موجود ہے.پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریٹھے لے کر اور پھٹے لے کر کپڑے کوٹنے شروع کر دیئے تھے یا خدیجہ اور علی اور زیڈ اور ابو بکر کو مسلمان بنانے لگ گئے تھے؟ اور اگر آپ اپنے قریبیوں کو مسلمان بنانے لگ گئے تھے تو یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ کے یہی معنے ہیں کہ تو اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کو قرآن کی تعلیم دے اور ان کو اسلام کی طرف لا.وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ کی غلط تفسیر کپڑوں کی گندگی تو خیر کچھ برداشت بھی ہو جاتی ہے آگے آتا ہے وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ اس کے مولوی یہ معنے کرتے ہیں کہ تو گندگی جسمانی کو دور کر.گویا کپڑے ہی غلیظ نہیں تھے بلکہ آپ خود بھی ( نَعُوذُ بِاللهِ ) میلے تھے اب یہ اور بھی لمبا کام ہو گیا.انذار بیچارہ تو انتظار ہی کرتا رہے گا پہلے کپڑے دھوئے جائیں گے ، حمام میں غسل کئے جائیں گے، میلیں اُتاری جائیں گی اور خبر نہیں کتنی دیر میں یہ کام پورا ہو انذار تو ختم ہو گیا لیکن ہم جو معنے کرتے ہیں اس کے لحاظ سے کوئی دقت ہی پیش نہیں آتی کیونکہ رُجُز کے ایک معنے نہیں بلکہ کئی ہیں اور فَاهُ جُو کے بھی ایک معنے نہیں بلکہ کئی ہیں ہمیں سارے معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ پچھلی آیتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کونسے معنے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے لحاظ سے
۴۴۵ تسلیم کئے جا سکتے ہیں.یہاں آپ کو گورنری پر مقرر کیا جا رہا ہے کوئی قیدی مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں ہو رہا جس کو جھاڑ پلائی جا رہی ہو بلکہ اعلیٰ درجہ کے عہدہ اور خاتم النبیین کے منصب پر شخص مقرر ہو رہا ہے اور بات اس طرح شروع کی جاتی ہے جس طرح کوئی تھرڈ کلاس ایک مجسٹریٹ مجرم کو جھاڑ رہا ہے.رجز اور ھجو کے متعدد معانی بیشک رُجز کے معنے عربی زبان میں غلاظت اور میل کچیل کے بھی ہیں ۲۵ لیکن اس کے ایک معنے الْعَذَابُ کے ہیں ۲۶ اور ایک معنی عِبَادَةُ الاوثان ۲ے یعنی جُنوں کی پرستش کے ہیں.اسی طرح میجر کے بھی کئی معنی ہیں ھجو کے ایک معنی ہیں چھوڑ دینا اور اعراض کرنا ، دوسرے معنی ہیں کسی چیز کو پوری طرح کاٹ دینا ۲۹ اور تیسرے معنی ہیں اونٹ کے پیر میں رتی باندھ کر وہی رہتی اس کی گردن سے باندھ دینا تا کہ پھندا پڑ جائے اور وہ نکلنا بھی چاہے تو نکل نہ سکے اور اس کی حرکت زیادہ سے زیادہ محدود رہ جائے.سے پس وہ تو یہ معنی کرتے ہیں کہ اپنے جسم کی گندگی دور کر یعنی کپڑے بھی دھوا اور جسم کی گندگی بھی دُور کر ، لیکن ہم کہتے ہیں کہ ان معنوں کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.ایک شبہ کا ازالہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کے متعلق یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ بعض دفعہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا جاتا ہے اور مراد امت ہوتی ہے.اس طرح ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچاؤ کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ گندگی اور غلاظت دُور کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد آپ کی اُمت ہے لیکن اس جگہ یہ معنے نہیں ہو سکتے اس لئے کہ یہ تو گورنر کے تقرر کا اعلان ہے جب اس کی امت کو ئی تھی ہی نہیں ، جب امت تھی ہی نہیں اور آپ کو خاتم النبیین کے عہدہ پر قائم کیا جا رہا تھا تو اُس وقت اس کا کیا ذکر تھا کہ تیرے مرید کپڑے بھی دھوئیں اور جسم کی غلاظت بھی دور کریں اُس وقت بہر حال کلام مخصوص تھا محمد رسول اللہ سے.اُس وقت میں دوسرے لوگوں کی شرکت کا کوئی سوال نہیں تھا پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان معنوں کا سیاق وسباق سے بھی کوئی جوڑ نہیں.پہلے کہا جاتا ہے ساری دنیا کو تبلیغ کر.پھر کہتا ہے ٹھہر جا پہلے کپڑے دھولے.پھر کہتا ہے کپڑے بھی ابھی رہنے دے پہلے نہالے.غرض بالکل غیر متعلق باتیں ہیں اور کسی اعلیٰ درجہ کے کلام میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہو سکتی.
۴۴۶ اب میں بتاتا ہوں کہ اس آیت کے اصل معنے کیا ہیں اور ہر معنی کے لحاظ سے اس آیت سے کتنے بڑے معارف نکلتے ہیں.میں نے بتایا کہ رُجُز کے تین معنے ہیں گندگی ، عذاب اور شرک.اور ھجر کے معنے چھوڑنے کے بھی ہیں کاٹنے کے بھی ہیں اور گلے اور پیر میں رستہ باندھ کر حرکت کو محدود کرنے کے ہیں.ان معنوں کے لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق جو معنے بنتے ہیں وہ یہ ہیں.دنیا میں غلاظت اور گندگی مٹادینے کا حکم اول ، اے رسول! گندگی کو مٹا دے ، گندگی کو چھوڑ دے نہیں ! چھوڑنے کے یہ معنے ہیں کہ گندہ ہے اور مٹانے کے یہ معنے ہیں کہ لوگ گندے ہیں تو ان کی گندگی کو دُور کر.اور ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے جب ھجر کے معنے کاٹ دینے کے بھی پائے کو جاتے ہیں، جب ھجر کے معنے مٹا دینے کے بھی پائے جاتے ہیں، جب ھجر کے معنے توڑ دینے کے بھی پائے جاتے ہیں تو تم محمد رسول اللہ کو غلاظت میں کیوں پھنسانا چاہتے ہو.حقیقت تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے عیبوں پر پردہ ڈالتے ہیں ، لوگ کہتے ہیں یہ ہمارا دوست ہے یہ ہمارے عیبوں کو چھپاتا ہے مگر یہ مولوی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بنے پھرتے ہیں اور پھر جھوٹے عیب آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں.جب ھجو کے معنے کاٹ دینے کے بھی ہیں تو وہ کیوں ایسے معنے نہیں لیتے جو محمد رسول اللہ کی شان کے مطابق ہیں کہ اے محمد رسول اللہ ! تو گندگی کو کاٹ ڈال یعنی دنیا سے اس کا نام ونشان مٹا دے اور یہ بالکل ٹھیک ہے ساری دنیا گندی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ اس گندگی کو مٹا دے اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کس طرح عمل کیا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے تاریخ میں یہ کہیں ذکر نہیں آتا کہ آپ نے حضرت خدیجہ سے یہ کہا ہو کہ صابن لایا جائے اور آپ نے صابن مل مل کر میل اُتارنی شروع کر دی ہو اور پھر حدیثوں میں اس کی تفصیل آتی ہو مگر جو کچھ میں کہتا ہوں وہ کتب اسلام میں لفظاً لفظاً موجود ہے.رجز کے معنے ہوتے ہیں گندگی.لیکن گندگی سے مراد صرف میل نہیں بلکہ د جز کے معنے ہیں اشیاء ماحول کی گندگی ، جسم کی گندگی ، دماغ کی گندگی ، دل کی گندگی ، خیالات کی گندگی ، زبان کی گندگی ، یہ ساری باتیں رجز کے اندر شامل ہیں اب یہ کتنا شاندار کام ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا گیا ہے اگر محمد رسول اللہ کی نسبت یہ ثابت ہو
۴۴۷ جائے کہ انہوں نے یہ کام کیا ہے تو آپ کی کتنی شان بلند ہو جاتی ہے، کوئی نبی ہے ہی نہیں جس نے یہ کام کیا ہو، انجیل لاؤ، توریت لاؤ، مُحفِ انبیاء لاؤ، آپ کے مقابلہ میں کوئی نبی ٹھہر ہی نہیں سکتا.اسلام سے پہلے گندگی کو بزرگی کی علامت سمجھا جاتا تھا اسلام سے پہلے دین کے یہ معنے سمجھے جاتے تھے کہ گندے رہو.عیسائی تاریخوں کو نکال کر دیکھ لو میں نے پڑھا ہے بعض پادری بڑے بزرگ سمجھے جاتے تھے اور ان کی بزرگی کی علامت یہ سمجھی جاتی تھی کہ چالیس سال سے انہوں نے غسل نہیں کیا اور ناخن اتنے بڑھے کہ کئی کئی انچ لمبے ناخن ہو گئے ، گویا ان کے ہاں بزرگوں کی کا نشان یہی سمجھا جاتا تھا.مسلمانوں نے بھی کچھ کمی نہیں کی ، انہوں نے ایک زیارت گاہ بنائی کی ہوئی ہے کہتے ہیں کہ ایک بزرگ وہاں بیٹھے تھے چالیس سال تک انہوں نے سر نہیں اُٹھایا اور دیوار میں بیٹھے بیٹھے گڑھا پڑ گیا گویا پیشاب اور پاخانہ بھی پاجامہ میں ہی کرتے رہے.اس میں عزت کیا ہے، آخر سوچنا چاہئے کہ جو شخص بیٹھا رہا اور ہلا نہیں اور وہیں اس کے جسم کا نشان پڑ گیا اس کے معنے یہ ہیں کہ اس نے نہ نماز پڑھی، نہ روزہ رکھا، نہ دین کا کوئی کام کیا ، نہ کھانا کھایا، نہ نہایا ، نہ پیشاب کیا ، نہ پاخانہ کیا ، مگر وہ تو ضروری ہے پھر یہی صورت ہو سکتی ہے کہ وہ پیشاب، پاخانہ پاجامہ میں ہی کر ڈالتے ہونگے اور ان کا نام انہوں نے زیارت گاہ رکھا ہوا ہے.ہندوؤں میں دیکھ لو ان میں بھی بزرگی کے یہی معنے سمجھے جاتے ہیں کہ فلاں شخص ایسا بزرگ ہے کہ کوئی اس کو پرواہ ہی نہیں.جب سے پیدا ہوا ہے نہایا نہیں ، بدھ جی کے متعلق بتاتے ہیں کہ وہ اتنے بزرگ تھے کہ انہوں نے دیوار کے پاس بیٹھ کر عبادت کرنی شروع کی نیچے سے بانس کا درخت نکلا اور ان کے پیٹ میں سے ہوتے ہوئے سر میں سے پار نکل گیا مگر وہ پہلے ہی نہیں.غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت دنیا میں آئے جب کہ ساری دنیا غلاظت کا پوٹلا بنی ہوئی تھی جب کہ مذہب اور روحانیت کے معنے یہ سمجھے جاتے تھے کہ انسان غلیظ اور گندہ ہو.اس دنیا میں محمد رسول اللہ کا وجود پیدا ہوتا ہے اور ایسے خلاف ماحول میں اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم ملتا ہے کہ اے محمد رسول اللہ ! یہ جو تجھے اردگرد نظر آتا ہے کہ گندگی کا نام مذہب اور غلاظت کا نام نیکی رکھا جا رہا ہے یہ سب جھوٹ ہے ان خیالات کو دنیا سے نیست و نابود کر دے.
۴۴۸ جسم کی صفائی کے متعلق رسول کریم چنا نچہ حمد رسل اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جمعہ کو آؤ تو غسل کر کے آؤ ، مسجد میں آؤ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات تو پیاز کھا کر یا لہسن کھا کر نہ آؤ، تا کہ تمہارے منہ سے بدبو نہ آئے.عطر لگا کر آؤ.پھر انسان کے ساتھ شہوت لگی ہوئی ہے اسلام نے حکم دیا ہے کہ اس کے بعد غسل کیا جائے لوگ پوچھتے ہیں کہ غسل جنابت کا فائدہ کیا ہے؟ وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ غسل جنابت ہی ہے جو تمہیں پاکیزہ رکھتا ہے.اب تم مجبور ہو جاتے ہو کہ غسل کرو اور اگر غسل جنابت نہیں کرتے تو بے دین سمجھے جاتے ہو.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر دنیا کی کایا پلٹ دی، مذہب کا نام غلاظت سمجھا جاتا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہب کا نام صفائی رکھ دیا.اسی طرح لباس کی صفائی کے متعلق آپ نے احکام دیئے کہ جمعہ کے دن نئے کپڑے یا ڈھلے ہوئے کپڑے پہن کر آؤ ، عیدوں پر تمہارے کپڑے دُھلے ہوئے ہوں ، غرض جسمانی صفائی پر آپ نے اتنا زور دیا کہ دنیا میں روحانیت کا جو نقشہ تھا اس کو بالکل بدل دیا.پہلے گندے اور غلیظ آدمی کے متعلق کہتے تھے کہ یہ نیک ہے اب صاف اور پاکیزہ آدمی کو نیک کہتے ہیں کتنا بڑا تغیر ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا.حضرت خلیفہ اول کا ایک واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو چونکہ سر میں چکر آنے کی مرض تھی آپ بادام روغن اور مشک کا استعمال فرمایا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول سناتے تھے کہ ایک دفعہ میں درس دے کر واپس آ رہا تھا کہ ایک ہندو جس کے مکانات میں بعد میں صدر انجمن احمدیہ کے دفتر بن گئے ( کیونکہ ہم نے وہ مکان خرید لیا تھا ) اور جو ریٹائر ڈ ڈپٹی تھا اپنے صحن میں بیٹھا ہو ا تھا مجھے دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا حکیم صاحب! ایک بات پوچھنی ہے آپ خفا تو نہیں ہونگے ؟ سنا؟ ہے کہ مرزا صاحب پلاؤ اور بادام روغن کھا لیتے ہیں، میں نے کہا ٹھیک ہے کھا لیتے ہیں حیران ہو کر کہنے لگا کیا یہ ٹھیک بات ہے؟ میں نے کہا ڈپٹی صاحب ہمارے مذہب میں پلاؤ اور بادام روغن جائز ہے.کہنے لگا کیا فقراء کے لئے بھی جائز ہے؟ میں نے کہا ہاں ہمارے مذہب میں فقراء کو ی بھی پاک چیزیں کھانے کا حکم ہے.اس پر وہ اچھا! کہہ کر واپس چلا گیا گویا جو طیب
۴۴۹ چیزیں کھائے وہ ان کی نگاہ میں بزرگ نہیں ہو سکتا تھا.یہ تو حضرت خلیفہ اول کا واقعہ ہے جو تہذیب سے بات کرتے تھے ہمارے ایک اور دوست تیز زبان تھے اور مذاقیہ طبیعت کے تھے امرتسر کے رہنے والے تھے ان کے جواب ہمیشہ اسی طرز کے ہوا کرتے تھے.ان کو کوئی ہندو مجسٹریٹ مل گیا اور کہنے لگا کیا ہے تمہارا مرزا تم کہتے ہو وہ خدا کاماً مور ہے اور یہ ہے اور وہ ہے ہم نے سنا ہے کہ وہ بادام اور پستہ اور مُرغ سب چیزیں کھا لیتا ہے.وہ کہنے لگے آپ مرزا صاحب کو چڑانے کے لئے پاخانہ کھایا کریں مجھے اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.غرض اس نے اپنے رنگ میں جیسے اس کا اپنا مذاق اور علم تھا جواب دید یا تو بات یہ ہے کہ دنیا میں بزرگی کا نقشہ یہی کچھ رہ گیا تھا کہ انسان غلیظ اور گندہ ہو.مکان کی صفائی کے متعلق ارشادات اسی طرح مکان کی صفائی بھی کوئی ضروری نہیں ی جاتی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکان کی صفائی کا بھی حکم دیا اسے چنانچہ آپ نے مسجد کی صفائی کے متعلق کئی احکام دیئے (اصل مکان جو آپ کے قبضہ میں تھا وہ وہی تھا آپ نے فرمایا مسجد کو صاف رکھو اس میں جھاڑو دیا کرو، اس میں خوشبوئیں جلایا کرو تا کہ وہ صاف رہے.۳۲ راستوں کی صفائی کا حکم اسی طرح راستوں کی صفائی کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا آپ نے فرمایا اس شخص کو ثواب ملتا ہے جو راستہ میں سے پتھر وغیرہ اٹھا دے.کے پاخانہ کے متعلق فرمایا کہ جوشخص راستہ میں پاخانہ پھرتا ہے اس پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہے ، اسے جو شخص کھڑے پانی میں پیشاب کرتا ہے اس پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہے.جو شخص راستہ سے پتھر یا کانٹوں کو ہٹا دیتا ہے یا گندی چیزوں کو ہٹا دیتا ہے اسے ثواب ملتا ہے.اگر کوئی مسجد میں تھوک بیٹھے تو فرمایا وہ اسے وہاں سے اُٹھا کر مٹی میں دفن کر دے.۳۵ غرض اتنے احکام ہیں صفائی کے کہ اس تہذیب یافتہ زمانہ میں بھی ہمارا ملک کم سے کم ان پر عمل نہیں کر رہا.یہ طہارت اور نظافت کے احکام ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں قائم ہوئے.افکار کی صفائی کے متعلق ہدایات پھر آپ نے کہا کہ افکار کی صفائی بھی ضروری ہے گویا آپ نے ہر ایک چیز کی صفائی کا حکم دیا ہے صرف جسم کومل مل کر دھونے کا حکم نہیں مثلاً فکر ہے اس کی صفائی کا بھی آپ نے حکم دیا فرمایا
۴۵۰ بدظنی نہیں کرنی ، ۳۶ بغض اور کینہ دل میں نہیں رکھنا ہے سے گویا دماغ اور خیالات کی پاکیزگی بھی آپ نے قائم کی اور حکم دیا کہ کسی قسم کے بد خیالات اور بدارا دے تم نے نہیں رکھنے.قلب کی صفائی کا حکم پھر قلب کی صفائی کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ نے محبت خالص کا حکم دیا ، نفاق سے روکا، سچے تعلقات اور وفاداری پر زور دیا.۳۸ زبان کی صفائی کا حکم پھر زبان کی صفائی کا حکم دیا فرما یا گالی گلوچ نہیں کرنی ، سخت الفاظ نہیں بولنے ، دوسرے سے محبت کے ساتھ پیش آنا ہے.۳۹ منہ کی صفائی کا حکم پھر منہ کی صفائی ہے منہ کی صفائی کے لئے مسواک کا حکم دیا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ فرشتے نے منہ کی صفائی کے متعلق اتنا زور دیا کہ میں نے سمجھا شاید فرض ہو جائے.پھر فرمایا میں ہر نماز کے لئے مسواک اس لئے ضروری قرار نہیں دیتا کہ کہیں میرے حکم کے بعد خدا اس کو فرض قرار نہ دیدے.۴۰ عظیم الشان تغییر یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی دنیا دیکھو، پہلی تاریخیں پڑھو، ہندوؤں کی تاریخیں پڑھو، عیسائیوں کی تاریخیں پڑھو، یہودیوں کی تاریخیں پڑھو وہ غلاظت کا ٹوکرا معلوم ہوتی ہیں.اس کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کو دیکھو یہاں بڑا بزرگ تو الگ رہا جو چھوٹے سے چھوٹا بزرگ تھا وہ بھی پاکیزہ اور صاف ستھرا اور نہایا دھویا ہؤ انظر آتا ہے.گندگی اور غلاظت کے ساتھ خدانہیں ملتا اب ان معنوں کے لحاظ سے وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ کے یہ معنے بنتے ہیں کہ اے ہمارے گورنر ! جو یہ پتہ لگتے ہی کہ ہم اس کو ایک اہم کام سپرد کرنے لگے ہیں وردی پہن کر گھوڑے کے پاس تیار کھڑا ہو گیا ہے کہ چھلانگ لگا کر سوار ہو جاؤں دائمی طور پر اپنے کام میں لگ جا اور دنیا کو ہوشیار کر اور پہلے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی اصلاح کر ، پھر باقی دنیا کی اصلاح کا فرض سرانجام دے اور ہر قسم کی صفائی دنیا میں قائم کر اور لوگوں کو بتا کہ گندگی اور غلاظت کے ساتھ خدا نہیں ملتا بلکہ انسان کا ذہن گند ہو جاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے دُور ہو جاتا ہے.رجز کے دوسرے معنوں کے لحاظ سے آیت کی تشریح اب ہم اس آیت کو دوسرے معنوں کے لحاظ
۴۵۱ لیتے ہیں.دوسرے معنے رجز کے عذاب کے تھے اس کے لحاظ سے آیت کے یہ معنے بن جائیں گے کہ تو عذاب کو دنیا سے مٹا دے ان معنوں کے رو سے مندرجہ ذیل مطالب اس آیت کے نکلتے ہیں.تعذیب نفس کی ممانعت نفس کی ممانعت اول اسلام اول اسلام سے پہلے مختلف ادیان میں تعذیب نفس کو روحانیت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا مثلاً کہتے تھے کہ بیٹے کی قربانی خدا کے قریب کر دیتی ہے.یہ سمجھا جاتا تھا کہ شادی نہ کرنا، رہبانیت اختیار کرنا اور اپنے نفس کا بریکار کر دینا یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی چیز ہے.ہتھیار کے ساتھ اپنے آپ کو ہیجڑا بنا لینا یہ بڑی نیکی ہے.اپنے آپ کو الٹا لٹکائے رکھنا یعنی سر نیچے اور ٹانگیں اوپر کر لینا، یہ بڑی نیکی ہے.ٹھنڈے موسم میں دریا میں بیٹھے رہنا یہ بڑی نیکی ہے، گرمی کے موسم میں دھوپ میں بیٹھ رہنا یہ بڑی نیکی ہے، جسم پر کوڑے لگانا یہ بڑی نیکی ہے.اچھی اور پاکیزہ چیزیں نہ کھانا یہ بڑی نیکی ہے.پس فرماتا ہے ہم نے ان تمام باتوں کی تیرے ذریعہ سے اصلاح کر دی ہے اور ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ وہ تمام احکام جن کو دین کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، جن کو روحانیت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، جن میں انسان کے دل کو یا جسم کو یا دماغ کو عذاب دیا جاتا تھا وہ ساری کی ساری چیزیں منسوخ کی جاتی ہیں.خدا سے ملنے کے لئے اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ کسی کا ناک کاٹا جائے یا کسی کو الٹا لٹکایا جائے.خدا کے ملنے کے لئے روحانی ذرائع ہیں یہ غلط طریق تھے جو دنیا نے جاری کئے ہوئے تھے.اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جا اور ان کو منسوخ کر اور دنیا کو بتا دے کہ یہ غلط طریق تھے جو اس نے اختیار کر لئے تھے.عورتوں کو کالمُعَلَّقَہ چھوڑنے اور اسی طرح عورتوں کو مُعَلَّقہ چھوڑا جاتا تھا یہ بھی تعذیب تھی ، آگ کا عذاب دیا جاتا تھا آگ کا عذاب دینے کی ممانعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کسی کو آگ کا عذاب دینے کی اجازت نہیں یہ خدا کا حق ہے کہ وہ جہنم میں ڈالتا ہے تمہیں حق نہیں کہ ایسا کرو.غلامی کی ممانعت اسی طرح دنیا میں غلامی کا رواج تھا انسان کی آزادی کو چھین لیا جا تا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ یہ عذاب بند کیا جاتا ہے اب کوئی غلامی نہیں.اسے
۴۵۲ جانوروں کو دُکھ دینے کی ممانعت جانوروں کے منہ پر لوگ ٹھنے لگاتے تھے اور اس طرح جانوروں کی مختلف قسمیں بناتے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح جانور کو تکلیف ہوتی ہے اگر تم نے نشان ہی لگانا ہو تو جانوروں کی پیٹھ پر لگاؤ تا کہ انہیں کم سے کم تکلیف ہو.۴۲ جانوروں کے متعلق لوگ سمجھتے تھے کہ وہ حقیر اور ذلیل چیز ہیں اور ان کے احساسات کا خیال رکھنے کی ضرورت نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک عورت کو محض اس لئے عذاب دیا گیا کہ اس نے ملی کو باندھ رکھا اور اسے کھانے پینے کو کچھ نہ دیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مرگئی پس اسے دوزخ میں داخل کیا گیا.اور فرمایا ایک عورت کو اس لئے جنت میں داخل کیا گیا کہ اس نے ایک کتے کو جو پیاسا تھا وہ اپنا جوتا لے کر کنویں میں اُتری اور اس میں پانی بھر کر اُسے پلایا اس وجہ سے خدا نے اسے جنت میں داخل کر دیا.۴۴ ہر حصہ زندگی سے تعذیب کا اخراج یہ تعلیم بتا رہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا سے کس طرح عذاب کو مٹایا گیا اور عذاب دینے کو بُرا اور ناپسند قرار دیا گیا حالانکہ اس سے پہلے یہ باتیں ضروری سمجھی جاتی تھیں.وہاں روحانیت کی ترقی کے لئے لوگ اپنے جسم پر کوڑے مارتے تھے اور یہاں ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر آئے تو آپ نے دیکھا کہ ایک رستی لٹکی ہوئی ہے آپ نے اپنی بیوی سے پوچھا یہ رستی کس لئے لٹکائی ہے؟ اس نے کہا یا رَسُول اللہ ! جب میں عبادت کرتے کرتے تھک جاتی ہوں تو رسی پکڑ لیتی ہوں تا کہ مجھے نیند نہ آئے.آپ نے فرمایا خدا کو تمہارے نفس کو تکلیف میں ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں جب تک تمہارا نفس برداشت کر سکتا ہو عبادت کرو اور جب نہ کرے نہ کرو ۴۵ تو دیکھو تعذیب کو کس طرح ہر حصہ زندگی سے مٹا دیا گیا ہے.پس فرماتا ہے وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! دنیا میں روحانیت کی ترقی کے لئے غلط معیار قائم ہو گئے ہیں لوگ کہتے ہیں روحانیت کی ترقی اور نفوس کی اصلاح کے لئے ہیجڑے بن جاؤ ، پلاؤ کے اندر مٹی ملاؤ یا اس میں تیل ملاؤ یا سردیوں میں اُلٹے لٹک جاؤ ، گرمیوں میں آگ کے سامنے بیٹھو یہ سب لغو باتیں ہیں ہم ان کو منسوخ کرتے ہیں خدا کو ان غلاظتوں اور تکلیفوں سے کوئی تعلق نہیں خدا تو تم کو آرام پہنچانا چاہتا ہے.خدا تم کو عذاب میں نہیں ڈالنا چاہتا خدا نے اپنے تک پہنچنے کے راستے اور قسم کے بنائے
۴۵۳ ہیں جن سے بغیر نفس کی ذلت کے ، بغیر کسی نفس کو توڑ دینے کے ، بغیر جذبات کو مار دینے کے خدا تک انسان پہنچ سکتا ہے خدا کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ ان باتوں کو رائج کرے..رجز کے تیسرے معنے تیسرے معنے الرجز کے شرک کے ہیں گے اس لحاظ سے وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ کے یہ معنے ہوں گے کہ تو شرک مٹا دے دیکھو شرک کو چھوڑ دے اور شرک کو مٹا دے میں فرق ہے.مولویوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ تو شرک چھوڑ دے حالانکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک پہلے ہی چھوڑ اہو ا تھا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی شرک نہیں کیا..پس یہ معنے کرنا کہ ” شرک چھوڑ دے محمد رسول اللہ کی ہتک ہے اور یہ معنے کرنا کہ شرک کو مٹا دے“ یہ رسول اللہ کا اصل کام ہے.خدا فرماتا ہے تو شرک کو توڑ دے کیونکہ ھجو کے معنے تو ڑ دینے اور مٹا دینے کے بھی ہیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی اتنی اعلیٰ تعلیم دی کہ شرک کی جڑ اُکھیڑ کر رکھ دی.انسانیت کی تذلیل کا ایک بھیانک نظارہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مبعوث ہوئے تھے بھلا سوچو تو سہی کہ اُس وقت کیسا بھیانک نظارہ نظر آتا تھا کہ ابو جہل جیسا انسان جو باتیں کرتا تھا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کے بڑے بڑے عقلمندوں میں سے ہے.ابوسفیان جس کا اسلام لانے کے بعد بھی عرب پر سکہ جما ہوا تھا اور لوگ اُس کی عزت کرتے تھے اُن کی یہ حالت تھی کہ اپنے سامنے مٹی کا بنا ہو ابت رکھتے ہیں اور اُس کے آگے گر جاتے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی ذلت تک انسانی دماغ پہنچا ہو ا تھا.بتوں کی بے بسی ایک صحابی کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعلیم دینی شروع کی تو میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کیونکہ ماں باپ سے سُنا ہو ا تھا کہ بتوں میں طاقت ہوتی ہے ہماری عادت تھی کہ جب ہم باہر کسی کام کے لئے جاتے تو ایک چھوٹا سا پتھر کا بنا ہو ابت اپنے ساتھ لے جاتے تا کہ اس کی برکت سے ہم مصیبتوں سے بچے رہیں.وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں سفر پر گیا اور بُت کو اپنے ساتھ لے لیا ایک جگہ پہنچ کر مجھے ایک ضروری کام پیش آیا میں نے اسباب رکھا اور بُت کو پاس بٹھا کر کہا حضور والا! آپ ذرا میرے اسباب کا خیال رکھیئے میں ایک ضروری کام کے لئے جا رہا ہوں
۴۵۴ یہ کہہ کر میں چلا گیا.وہ کہنے لگے کام کر کے جب میں واپس آ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ گیدڑ نے اس کے سر پر پیر رکھا ہوا ہے اور پیشاب کر رہا ہے.گیدڑ اور گتے کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ٹانگ اُٹھا کر اور کوئی سہارا ہو تو اُس پر رکھ کر پیشاب کرتا ہے.میں نے آتے ہی اُسے اُٹھا کر پرے پھینک دیا اور میں نے کہا اپنے آپ کو تو پیشاب سے بچا نہیں سکتا میرے سامان کو تُو نے کیا بچانا ہے اور میں آکر مسلمان ہو گیا ، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تعلیم شرک کے خلاف پیش کی وہ ایسی نفسوں میں گڑ گئی کہ جو بھی سنتا تھا وہ اس پر فریفتہ ہو جاتا تھا اس سے باہر نکلنے کی اس میں جرات ہی نہیں تھی.ہندہ کا اعتراف توحید ہندہ کا واقعہ مشہور ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو مسلمانوں کو جولوگ دُکھ دینے والے تھے، جنہوں نے.مسلمانوں پر بعض دفعہ انسانیت سوز مظالم کئے تھے یعنی ان کے ناک کان وغیرہ کاٹے تھے ان میں ہندہ بھی تھی.ایسے لوگوں کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ ان کو معافی نہیں ہو گی بلکہ ان کو پکڑ کر سزا دی جائے گی ہندہ کے متعلق بھی یہی احکام تھے مگر ہندہ بڑی ہوشیار عورت تھی چُھپ گئی اُسے تلاش کیا گیا مگر نہ ملی مسلمانوں نے سمجھا کہ کہیں بھاگ گئی ہے.درمیانی طرز کے لوگ جو غور کر رہے تھے اور اس لڑائی کا انجام دیکھنا چاہتے تھے جب مکہ فتح ہو گیا تو انہوں نے سمجھا کہ اسلام سچا ہے ان کے لئے آپ نے بیعت کا اعلان کر دیا.عورتوں کے لئے بھی اعلان ہو اچنانچہ سینکڑوں عورتیں بیعت کے لئے آئیں اور ان میں ہندہ بھی چُھپ کر آ گئی.بیعت کے وقت جو الفاظ دُہرائے جاتے تھے ان میں یہ الفاظ بھی آتے تھے کہ ہم شرک نہیں کریں گی ، باقی الفاظ تو وہ دُہراتی چلی گئی جب آپ ان الفاظ پر پہنچے کہ کہو ہم شرک نہیں کریں گی تو چونکہ ہندہ کی طبیعت بڑی تیز تھی فوراً مجلس میں بول اُٹھی کہ کیا اب بھی ہم شرک کریں گی ؟ تم اکیلے تھے اور ہم سارے تم کو مارنے کے لئے اکٹھے ہوئے ، تم کمزور تھے اور ہم طاقتور تھے، ہم نے ساری قوم کا زور صرف کیا مگر تمہارا خدا جیتا اور ہم ہارے کیا اب بھی ہم شرک کریں گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہندہ ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ تمہارے لئے تو سزا تجویز ہے، اس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! اب آپ کو مجھ پر کوئی اختیار نہیں ، اب میں مسلمان ہو چکی ہوں.۳۹ تو دیکھو یہ توحید کی تعلیم تھی جس نے دلوں کو اس طرح صاف کر دیا کہ دیکھنے والا سمجھتا تھا کہ سب لغو اور عبث باتیں ہیں بھلا شرک کوئی مان سکتا ہے.
۴۵۵ مشرکانہ عقائد کے پیرو بھی آج تو حید کو ہی درست سمجھتے ہیں پھر جوں جوں پھیلی شرک میتا گیا.یورپ میں اب بھی ایسے گرجے موجود ہیں جن میں حضرت مریم اور حضرت عیسی کی تصویر لیکی ہوئی ہوتی ہے اور جن کے آگے وہ سجدے کیا کرتے تھے ، ہندوؤں میں بھی لاکھوں دیوتا تسلیم کئے جاتے تھے مگر اب دیکھو ہندوؤں میں جتنے نئے فرقے نکلے ہیں سب تو حید پیش کرتے ہیں آخر ہزاروں لاکھوں بُت جو ایجاد ہوئے ہیں تو ہر زمانہ میں ایجاد ہوتے رہے ہیں مگر اب کوئی نئی موومنٹ بتا دو جس میں کوئی نیابت ایجاد کیا گیا ہو.اب آریہ سماجی نکلے، بنگال کی بر ہمو سماج نکلی ، اسی طرح بنگال کی دیویکا نند کی سوسائٹی ہے.ٹیگورا تھا، غرض جتنے نکلے سب نے تو حید پیش کی اور کہا کہ ہمارے مذہب میں بہت ہیں ہی نہیں.یہ سب باتیں ہیں.یہ تو نتیجہ تھا اسلام کی تعلیم کا.ادھر عیسائیت جو مسیح اور مریم کی خدائی کو پیش کیا کرتی تھی اب جس عیسائی سے پوچھو وہ کہتا ہے یہ تو ظہور ہیں.ایک ظہور کا نام باپ رکھ دیا، ایک ظہور کا نام بیٹا رکھ دیا، ایک ظہور کا نام روح القدس رکھ دیا، ورنہ خدا تو ایک ہی ہے اس سے کون انکار کر سکتا ہے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جا اور شرک کو دنیا سے اُکھیڑ کر پھینک دے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کر دکھایا.کہاں ہیں بہبل اور لات اور غز لی ؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھوڑے سے اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.دلوں سے شرک کو نکال پھینکا اور وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ کے حکم کو ایسے طور پر پورا کیا کہ آج کسی شریف آدمی کو مجلس میں یہ کہنے کی جرات نہیں کہ خدا کے سوا کوئی اور بھی اُس کا شریک ہے.یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا اور جس کی مثال دنیا کے کسی نبی کی زندگی میں بھی نہیں ملتی.پس مبارک ہے وہ جس نے اپنے گورنر جنرل کے لئے یہ پروگرام تجویز کیا اور مبارک ہے خدا تعالیٰ کا یہ گورنر جنرل جس نے اس پروگرام کو اس طرح پورا کیا کہ جس طرح اسے پورا کرنے کا حق تھا.چوتھے معنے اس کے یہ بنتے ہیں کہ تو شرک کو باندھ دے شرک کو باندھ رکھنے کا حکم یعنی با وجود اس کے کہ تو تو حید کی تعلیم دے گا لوگ مسلمان ہونگے اور شرک چھوڑتے چلے جائیں گے پھر بھی شرک دنیا میں قائم رہے گا کیونکہ شرک نفس کو عیاشی پر قائم رکھنے کی درمیانی سٹیج ہے.جب تک انسانی نفس کے اندر کمزوری رہے گی وہ
۴۵۶ جھوٹے یا سچے طور پر شرک کا قائل رہے گا.مسلمان یوں تو اللہ اللہ نفس گنہگار کی تسلی کے لئے شرک ایک ضروری چیز ہے کرتے ہیں لیکن جب ان کا دل چاہتا ہے کہ اسلامی احکام کو توڑ دیں تو توڑ دیتے ہیں مگر ساتھ ہی اُن کا دل پھر یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ جنت میں بھی جائیں اس لئے کہتے ہیں فلاں بزرگ کی قبر پر چڑھاوا چڑھا دیا تو جنت میں چلے گئے ، فلاں کی بیعت کر لی تو چلو جنت مل گئی.پس شرک نفس گنہگار کو تسلی دینے کا ایک ذریعہ لوگوں نے بنایا ہوا ہے جب تک نفس گنہ گار باقی رہے گا شرک کسی نہ کسی شکل میں باقی رہے گا حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ہماری ایک بہن تھیں جو کسی پیر صاحب کی مرید تھیں ایک دفعہ قادیان مجھے ملنے کے لئے آئیں تو میں نے کہا بہن! تم احمدی نہیں ہوتیں اس کی وجہ کیا ہے؟ کہنے لگیں ہم نے پیر پکڑ لیا ہے اور پیر صاحب کی بیعت کر لی ہے اب ہمیں کسی اور کی ضرورت نہیں.میں نے کہا پیر صاحب کی بیعت نے تمہیں فائدہ کیا دیا ہے کہنے لگی فائدہ یہ دیا ہے کہ وہ کہتے ہیں اب تم نے ہماری بیعت کر لی ہے اس لئے اب تمہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں جو تمہاری مرضی ہو کر و تمہارے گناہ ہم نے اُٹھا لئے ہیں اور اب تمہارے سب گناہوں کے ہم جوابدہ ہیں.میں نے کہا اچھا بہن اب جاؤ گی تو اُن سے پوچھنا کہ ایک ایک گناہ کے بدلہ میں جو لوگوں کو اتنی جوتیاں قیامت کے دن پڑنی ہیں جن کی حد نہیں تو جب آپ نے ہم سب کے گناہ اُٹھا لئے ہیں تو آپ کو کتنی جوتیاں پڑیں گی؟ چنانچہ وہ گئی اور پھر واپس آئی تو میں نے کہا پوچھا تھا؟ کہنے لگی ہاں پوچھا تھا مگر وہ سوال تو پیر صاحب نے حل کر دیا.میں نے کہا کس طرح؟ کہنے لگی پیر صاحب نے کہا دیکھو جب تم پل صراط پر جاؤ گی اور فرشتے پوچھیں گے کہ تمہارے یہ یہ گناہ ہیں تو تم کہہ دینا ہمیں کچھ پتہ نہیں یہ پیر صاحب کھڑے ہیں ان سے پوچھو.جیسے ریلوے سفر میں ایک ایک کے پاس ٹکٹ ہوتے ہیں اور ریل والے پوچھتے ہیں کہ ٹکٹ کہاں ہے تو ان سے کہا جاتا ہے کہ فلاں سے لے لو اسی طرح وہاں ہوگا.کہنے لگی اچھا پیر صاحب ! جب وہ آپ سے پوچھیں گے تو آپ کیا کہیں گے؟ کہنے لگے جب فرشتوں نے ہم سے پوچھا تو ہم آنکھیں سرخ کر کے کہیں گے شرم نہیں آتی کربلا میں ہمارے دادا نے جو قربانی دی تھی کیا اس کے بعد ہم سے پوچھنے کی کوئی ضرورت رہ گئی ہے اور فرشتے شرمندہ ہو کر ایک طرف ہو جائیں گے اور ہم دگڑ دگر کر کے جنت میں پہلے جائیں گے.
۴۵۷ تو درحقیقت شرک جہاں ایک گندی چیز ہے، شرک جہاں ایک نا پاک چیز ہے وہاں وہ نفس گنہگار کے لئے ایک ضروری چیز بھی ہے جس کے بغیر اس کا گزارہ نہیں ہو سکتا.جس طرح مسلمان گنہگار کا شفاعت کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا ، اسی طرح غیر مسلمان کا شرک کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا ، مسلمان بھی یہی کہتا ہے.مستحق شفاعت گنہگار انم چلو چھٹی ہو گئی.شفاعت کے ہوتے ہوئے اب کسی عمل کی کیا ضرورت ہے؟ پس اس قسم کی شفاعت اور اس قسم کا کفارہ دنیا سے مٹے گا نہیں ، تھوڑا بہت قیامت تک ضرور رہے گاور نہ گنہگار کا ہارٹ نہ فیل ہو جائے.اس کے دل کو تسلی دلانے اور اُس کی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے یہ لازمی چیز ہے کہ کوئی نہ کوئی سہارا ہو.جس طرح انسان بیہوش ہونے لگے تو پتھر پر سہارا لے لیتا ہے اسی طرح مسلمان شفاعت کے پتھر پر ہاتھ رکھ کر سہارا لے لیتا ہے اور عیسائی کفارہ کے پتھر پر سہارا لے لیتا ہے.شرک کی مضرتوں سے دنیا کو محفوظ رکھنے کا حکم پس چوتھے معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تو شرک کو مٹائے گا اور وہ بہت کچھ مٹے گا لیکن پھر بھی کسی نہ کسی شکل میں وہ دنیا میں قائم رہے گا کیونکہ شرک ایک لازمی چیز ہے پھر اس کے لئے کیا کرنا چاہئے.اس کے لئے فرماتا ہے تو شرک کو باندھ دے یعنی جب ایک ضرر نے موجود رہنا ہے اور خدا تعالیٰ نے دنیا کو ایسی شکل میں پیدا کیا ہے کہ گنہگار کے ساتھ شرک نے قائم رہنا ہے تو پھر مؤمنوں کو اُس کے ضرر سے کس طرح بچایا جائے.اس کا طریق یہی ہے کہ جس چیز نے قائم رہنا ہو اس کے ضرر کو کم کر دیا جاتا ہے مثلاً بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن کے متعلق ڈاکٹر کہتے ہیں انہوں نے ہٹنا نہیں.ایسی بیماریوں کا علاج یہ ہوتا ہے کہ انہیں کسی دوا سے دبا دیا جاتا ہے مثلاً کھانسی آتی ہے تو اوپیم دے دی بلغم دبا رہا.شرک کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شرک بیشک مٹے گا مگر جو باقی رہے گا اسے اس طرح باندھ دو کہ وہ دوڑ کو دکر دنیا میں پھیل نہ سکے اور اس کی مضرت باقی نہ رہے.ایک داعی الی الخیر جماعت اس کا طریق یہ بتایا کہ مؤمنوں کی جماعت اسلام میں قائم رہے جو شرک کے خلاف لوگوں کو کہتی رہے اور دلائل دیتی رہے تا کہ لوگ جب شرک کی طرف مائل ہونے لگیں تو انذار وتخویف اور حقیقت کے
۴۵۸ بیان کے ساتھ اور وعظ اور نصیحت کے ساتھ نیک طبیعتیں رُک جائیں جس طرح جانور کے پیر کو گردن سے باندھتے ہیں تو وہ دوڑ نہیں سکتا اسی طرح شرک دوڑنے کے قابل نہ رہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلْتَكُنُ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ۵۲ یعنی چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو نیکی اور تقویٰ اور اسلام کی طرف لوگوں کو بلائے اور انہیں نیک باتوں کا حکم دے اور بُری باتوں سے روکے وَاُولِیک هُمُ الْمُفْلِحُونَ اور جس قوم میں یہ بات پائی جاتی ہے وہ ضرور کامیاب ہوتی ہے کیونکہ وہ شرارت کو دبائے رکھتی ہے بڑھنے نہیں دیتی.جیسے جنگل میں کہیں گندہ بیج پڑ جائے تو وہ مٹتا نہیں بلکہ پھیل جاتا ہے لیکن اگر کوئی اعلیٰ درجہ کی کھیتی ہو تو زمیندار جانتا ہے کہ اس میں بھی بعض دفعہ دب گھاس نکل آئے گی ، بعض دفعہ تھوہر میں نکل آئیں گی ، بعض دفعہ بکولیاں پیدا ہو جائیں گی ، بعض دفعہ آگ نکل آئے گا اُس وقت ضرر سے بچنے کا کیا طریق ہوتا ہے یہی ہوتا ہے کہ زمیندار ہل چلاتے ہیں بیشک وہ پھر بھی نکلتی ہیں لیکن کمزور ہو جاتی ہیں اور کھیت کو نقصان نہیں پہنچا سکتیں.پس تم ایسے مبلغ مقرر کرتے رہو اور مسلمانوں میں سے ایک ایسی جماعت کو مخصوص کرو جو دین کی خدمت میں لگی رہے جس کی وجہ سے اس قسم کے شرر آمیز اور نقصان دہ مادوں کا مک کے ساتھ قلع قمع ہوتا رہے بیشک شتر کا بیج پھر بھی موجود رہے گا ، لیکن وہ کمزور ہو جائے گا اور اصل فصل کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا.مسلمانوں کا تبلیغ اسلام سے تغافل مسلمانوں نے اس پر ایک زمانہ میں عمل کیا لیکن افسوس ہے کہ بعد میں مسلمان اپنے اس کی فرض کو بُھول گئے اب صرف احمدی جماعت ہی ہے جو ہل چلا چلا کر دب، گھاسوں اور جڑی بوٹیوں کو دور کر رہی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے فائدہ کے لئے یہ کام ہو رہا ہے وہ اسی کا نام انکارِ جہا د ر کھتے ہیں ، اصل جہاد احمدی کر رہے ہیں اور مولوی کہتا ہے کہ چھوڑ دو یہ ہل چلانے ، آک نکلنے دو، تھوہر میں نکلنے دو، بکولیاں پیدا ہونے دو، کھیتوں کو برباد ہونے دو، مسلمانوں کو بھوکا مرنے دو، تم تو بے ایمان ہو گئے ہو جو مسلمانوں کے لئے روٹی مہیا کر رہے ہو.
۴۵۹ وَلَا تَمُنُنُ تَسْتَكْثِرُ کی تشریح آگے فرماتا ہے وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ غیر احمدی مولوی اس کے یہ معنے کرتا ہے کہ لوگوں پر اس نیت سے احسان نہ کر کہ تجھے اس کے بدلہ میں کچھ زیادہ ملے اسی کا ترجمہ میں نے پہلے یہ کر دیا تھا کہ سودخوری نہ کر.لوگوں کو اس لئے پیسے نہ دیا کر کہ اس کے بدلے میں تجھے زیادہ ملے لیکن دوسری شکل ہمارے ملک میں ایک اور بھی ہوتی ہے جسے ڈھویا دینا کہتے ہیں اور اُردو میں ڈالی دینا کہتے ہیں بعض باغبان گلدستے بنالیتے ہیں کچھ پھول لے لئے ، کچھ تریں لے لیں، کچھ تر کاری لے لی اور کسی امیر آدمی کے گھر لے گئے کہ میں ڈالی لایا ہوں آگے اس کی طرف سے جو بدلہ ملتا تھا وہ قیمت میں نہیں ہوتا تھا.مثلاً یہ نہیں ہوتا تھا کہ دو آنے کی چیز ہوئی تو اس نے دو آنے ہی دے دیئے بلکہ کبھی دس کبھی میں کبھی پچاس اور کبھی سو روپے دے دیتا تھا.عربوں میں اس کا بڑا رواج تھا خصوصاً بنو امیہ کے بنو امیہ کے ایک بادشاہ کا لطیفہ خلفاء کے پاس بڑے بڑے تحفے آتے تھے.لطیفہ مشہور ہے کہ بنو امیہ کا ایک بادشاہ ایک دفعہ شکار کے لئے گیا اور جنگل میں اکیلا رہ گیا اُسے ایک شخص ملا جو گدھا ہانک رہا تھا اور اُس پر اُس نے کھیرے رکھے ہوئے تھے.بادشاہ نے کہا میاں! کہاں جا رہے ہو؟ اس نے کہا دمشق جا رہا ہوں کہنے لگا کہ کس لئے اس نے اسی بادشاہ کا نام لیا کہ اس کے حضور میں پیش کرنے کے لئے یہ لے چلا ہوں کہنے لگا کیوں؟ اس نے کہا اس لئے کہ وہ مجھے انعام دیگا.اس نے کہا ان چیزوں کا بھلا کیا انعام ہو سکتا ہے یہ تو بہت معمولی چیزیں ہیں اچھا تم کیا امید رکھتے ہو؟ اس نے کہا میں تو امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے تین سو اشرفی انعام دیگا.اُس نے کہا تین سو اشرفی ! یہ تو ایک اشرفی کی بھی چیز نہیں تمہیں تین سو اشرفی کون دیگا ؟ کہنے لگا تین سو نہ سہی اڑھائی سولے لونگا.اُس نے کہا اڑھائی سو بھی بہت زیادہ ہے، کہنے لگا تو پھر دوسو سہی.اس نے کہا دو سو بھی بہت زیادہ ہے.کہنے لگا نہ مانے گا تو ڈیڑھ سو سہی اس نے ڈیڑھ سو کو زیادہ بتایا تو کہنے لگا سو سہی.اُس نے کہا کون بے وقوف ہے جو تمہیں سو اشرفی دے دیگا.وہ بیچا را مایوس ہو کر اسی طرح قیمت گراتا چلا گیا اور آخر کہنے لگا کہ میں دس اشرفی تو ضرور لوں گا.اُس نے کہا یہ تو دس اشرفی کی بھی چیز نہیں.کہنے لگا اگر اس نے دس سے بھی کم دیں تو میں گدھا اس کی ڈیوڑھی میں باندھ دونگا اور آپ چلا آؤنگا اُس نے کہا اچھا ! اس گفتگو کے بعد وہ گھوڑے پر سوار ہو کر واپس آ گیا اور اُس نے سپاہیوں کو حکم دیدیا
کہ اگر اس اس طرح کا کوئی آدمی آئے تو خیال رکھنا اور اسے میرے پاس بھیج دینا.اس نے پتہ نہ لگنے دیا کہ میں بادشاہ ہوں.جب وہ آیا تو سپاہیوں نے اسے اندر بھجوا دیا.وہاں بادشاہی جلال تھا اور تمام درباری ادب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.اس کی شکل پہچانی نہیں جاتی تھی کیونکہ جنگل میں وہ سادہ لباس میں گھوڑے پرا کیلا سوار تھا اُس جنگلی کو دیکھ کر بادشاہ کہنے لگا کس طرح آنا ہوا؟ اُس نے کہا حضور ! آپ کے لئے ایک نیا تحفہ لایا ہوں کہنے لگا کیا چیز ہے؟ اس نے کہا تریں اور کھیرے ہیں کہنے لگا کیا بے قیمت چیز ہے ، اس نے کہا حضور نئی چیز ہے کسی نے اب تک کھائی نہیں اس نے پوچھا اچھا تو پھر تم مجھ سے کیا امید رکھتے ہو؟ کہنے لگا تین سو اشرفی.اس نے کہا کیا تم مجھے پاگل سمجھتے ہو کہ ان کھیروں اور تروں کے بدلہ میں تمہیں تین سو اشرفی دیدوں گا.اس نے کہا تین سو نہیں تو اڑھائی سو دے دیجئے.کہنے لگا اڑھائی سو بھی کون دے سکتا ہے اس نے کہا اڑھائی سو نہیں تو دوسو دے دیجئے.کہنے لگا دوسو بھی زیادہ ہے.اس نے کہا تو پھر سو اشرفی لائیے وہ کہنے لگا سو بھی بہت زیادہ ہے غرض اسی طرح وہ قیمت گھٹاتا چلا گیا جب دس پر پہنچا تو بادشاہ نے کہا دس اشرفی بھی بہت زیادہ ہے.اس پر وہ بے اختیار کہنے لگا وہ کم بخت منحوس جو مجھے راستہ میں ملا تھا جس طرح اُس نے کہا تھا ویسا ہی ہوا ہے اور یہ کہہ کر وہ کوٹا بادشاہ ہنس پڑا اور اس نے اسے واپس بلا یا اور کہا گھبراؤ نہیں اور پھر اس نے حکم دیا کہ جتنی رقمیں ہوئی ہیں وہ سب جمع کر کے اسے دیدی جائیں یعنی ۳۰۰ + ۲۵۰ + ۲۰۰ + ۱۵۰ + ۱۰۰ + ۹۰ اس طرح کئی سو روپے بن گئے جو اسے دے کر اس نے رخصت کیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک یہ ڈھوئے اور ڈالی کا طریق ہوا کرتا تھا چونکہ یہ سُو دخوری سے کم ہے اس لئے وہ اس کے معنے یہ کرتے ہیں کہ اے محمد رسول اللہ ! تو ڈھوئے لے کر لوگوں کے پاس نہ جایا کراے محمد رَسُول اللہ ! تو ڈالیاں لے لیکر ڈپٹی کمشنر کے پاس نہ جایا کرلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ.خدا کا گورنر جنرل اور اُس کا جرنیل آیا ہے اس کو ڈھوئے اور ڈالیوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ خدا تو اس سے یہ کہتا ہے کہ ہم تجھے اپنے پاس سے رزق دینگے اور بے حساب دینگے خدا تو اسے یہ کہتا ہے کہ لولاک لَمَا خَلَقْتُ الْاَ فَلَاكَ ۵۳ اے محمد رسول اللہ ! اگر تو دنیا میں نہ آیا ہوتا تو یہ سونے اور چاندیاں اور لو ہے اور پیتل
۴۶۱ اور زمرد اور ہیرے اور دریا اور پہاڑ غرض کچھ بھی نہ ہوتا یہ سب کچھ تیری خاطر پیدا کئے گئے ہیں.وہ شخص جس کی جوتیوں کی خاک ہیں یہ چیزیں بلکہ جس کی جوتیوں کی خاک سے ادنی ہیں اس کے متعلق مولوی یہ کہتے ہیں کہ وہ زیادہ لینے کے لئے لوگوں کو ڈھوئے دیتا پھرتا تھا کہ میں دس روپے کی چیز دیتا ہوں وہ مجھے پندرہ دے دے.نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ یہ بھی اسی طرح ان کی غلطی ہے جس طرح کہ پہلی غلطیاں تھیں اور یہاں بھی وہی نادانی کام کر رہی ہے کہ ہر بُرے معنے محمد رسول اللہ کی طرف اور ہر اچھے معنے اپنے عیسٹی کی طرف منسوب کئے جائیں.لغت کے لحاظ سے وَلَا تَمُنُنُ تَسْتَكْثِرُ کے صحیح معنے اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیت ۵۴ کے صحیح معنے کیا ہیں؟ اس غرض کے لئے ہم پھر لغت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ من کبھی صلہ کے ساتھ آتا ہے اور کبھی بغیر صلہ کے.جب یہ صلہ کے ساتھ آئے تو اس کا صلہ علیٰ ہوتا ہے چنانچہ مَنَّ عَلَيْهِ کے معنے ہوتے ہیں اس پر احسان کیا یا اس پر احسان جتایا ہے اور بغیر صلہ کے من آئے تو اس کے معنے ہوتے ہیں کسی کو روکنا یا کاٹنا ۵۵، اور اِسْتَكْثَر کے معنے ہوتے ہیں زیادہ لینا.۵۶ اس میں روپیہ کی شرط نہیں جو چیز بھی ہم زیادہ لیں اس کے معنے اِستِكْثَار کے ہو جا ئیں گے.پہلے دو معنوں کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں اور آپ کی شان کے بالکل خلاف ہیں اور پھر سیاق وسباق کے ساتھ بھی ان کا کوئی جوڑ نہیں.ذکر ہو رہا ہے.انذار کا اور کہا جا رہا ہے کپڑے دھو، ریٹھے لا ، صابن خرید ، حمام میں جا اور پھر سُود خوری نہ کر.ان گندے معنوں کے ساتھ بھی اس کا کوئی جوڑ نہیں بنتا لیکن ہم جو معنے بتاتے ہیں وہ سارے کے سارے ان آیتوں پر چسپاں ہو جاتے ہیں.مشرکوں کو قتل کرنے یا ان کی آزادی اب ہمارے نقطہ نگاہ سے اس کے یہ معنے بن جائیں گے کہ اے محمد رسول اللہ ! ہم نے تجھے پر پابندیاں عائد کرنے کی ممانعت شرک کے مٹانے کا حکم دیا ہے پہلے حکم آپکا ہے کہ وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ شرک کو مٹا دے پس ہم نے شرک کے مٹانے کا حکم دیا ہے لیکن اس سے ایک غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے ہم اس غلط فہمی کی تشریح کر دیتے ہیں کہ کہیں تم یا تمہارے مُرید اس حکم کے یہ معنے نہ کرلو کہ مشرکوں کو مارو اور ان کی آزادی پر پابندی عائد کرو اور اس طرح اسلام کو ترقی دو.کیونکہ مٹانے کے یہ معنے
۴۶۲ بھی ہو سکتے ہیں کہ جس طرح وہ کہتے ہیں کہ جو مسلمان ہیں ان کو خوب مارو، ان پر خوب سختی کرو، انہیں خوب ذلیل کرو اسی طرح جو لوگ تم سے اختلاف عقیدہ رکھتے ہیں تم بھی ان سے یہی سلوک کرنے لگ جاؤ.خدا تعالیٰ نے سمجھایا کہ مسلمانوں کے دماغ بھی کبھی خراب ہو سکتے ہیں اور ایسا ہو سکتا ہے کہ مسلمان بھی غیر مسلموں پر سختی کرنے لگ جائیں اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہم نے یہ حکم دیا ہے کہ شرک کو مٹا دے تو ہمارا یہ مطلب نہیں کہ تم مشرکوں پر پابندیاں عائد کر و یا مشرکوں کو قتل کرو یہ اسلام میں منع ہے پس اس جگہ من کے معنے روکنے اور کاٹنے کے ہیں فَلَا تَمُنُنُ پس مت کاٹ.وہ شرک جس کے متعلق کی ہم نے کہا ہے کہ اسے مٹادے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تو مشرکوں کو مارنے لگ جائے اور اس طرح تَسْتَكْثِرُ مسلمانوں کی جمعیت اور ان کی شوکت کو بڑھا دے.پس اس جگہ آدمی بڑھانے کا ذکر ہے روپیہ بڑھانے کا ذکر نہیں یعنی مشرکوں کو مت کاٹ ، مشرکوں پر قیو دمت لگا اس طرح سے کہ مسلمانوں کی طاقت بڑھے اور مسلمان زیادہ ہو جائیں.ہم نے اسلام کی ترقی کا ذریعہ تبلیغ رکھی ہے، ہم نے اسلام کی ترقی کا ذریعہ روحانی تعلیمات رکھی ہیں، ہم نے اسلام کی ترقی کا ذریعہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق رکھے ہیں ان ذرائع سے اسلام کو بڑھا ؤ، مشرکوں پر پابندیاں لگا کر یا ان کو مار کر یا ان پر قیدیں لگا لگا کر اسلام بڑھانے کا حکم نہیں دیا.اب دیکھو یہ معنے کتنے اعلیٰ اور اسلام کی خوبی ثابت کرنے والے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام صبر کی عظمت پھر فرماتا ہے ولو تک فاصبر فَاصْبِرُ یعنی اگر مشکلات آئیں تو ان پر صبر کیجیؤ مگر وَلِرَتِکَ.صبر دو طرح کا ہوتا ہے ایک ہوتا ہے صبر مجبوری.، بڑے آدمی کا بیٹا ہوتا ہے وہ کسی کو مارتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ کیا کریں بول نہیں سکتے.ہم نے کئی دفعہ دیکھا ہے بڑا آدمی ظلم کر رہا ہو تو غریب آدمی کی ماں اُلٹا اپنے بچے کو مارتی ہے.یا اگر اس نے کسی عورت کے خاوند کو مارا ہو تو وہ الگ بیٹھ کر روتے ہیں سامنے رو بھی نہیں سکتے.یہ بیچارگی کا صبر ہے مگر فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ ! ہم تیرے جیسے بزرگ شان والے انسان سے یہ امید نہیں کر تے کہ تو بزدلی والا صبر کریگا بلکہ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرُ تُو وہاں صبر کر جہاں تجھے نظر آتا ہو کہ میرا یہاں صبر کرنا خدا تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب ہوگا یہ نہیں کہ اس لئے صبر کرو کہ اگر میں نے صبر نہ کیا تو ظالم ظلم میں بڑھ جائے گا یا میں اس کا مقابلہ کس طرح کر سکتا ہوں وہ طاقتور ہے اور میں
۴۶۳ کمزور ہوں تو صبر کریگا ہماری خوشنودی کے لئے اور ہمیں راضی کرنے کے لئے.دوسرے معنے صبر کے ایک کام پر لگ جانے کے ہیں ھے پس اس کے معنے یہ ہو نگے کہ آج سے دوسرے سب کام چھوڑ کر تو صرف اپنے رب کی خدمت میں لگ جا.اب دیکھو یہ دربار کیسا شاندار ہے گورنر جنرل کے تقرر پر در بارِ خاص لگتا ہے، گورنر جنرل پیش ہوتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے ہم خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ تقرر عہدہ کے وقت سے (جو سورۃ اقراء میں ہے ) تم وردی پہن کر اور گھوڑالے کر کھڑے ہو کہ حکم ملتے ہی تم کام کے لئے نکل کھڑے ہو گے.اب ہم ہمیشہ کے لئے یہ عہدہ تمہارے سُپر د کر تے ہیں ، کوئی ماں کا بچہ ایسا نہیں جو تم کو اس عہدہ سے الگ کر سکے، ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ عہدہ تمہارے سپرد کیا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانا تمہارا فرض ہو گا.کمزور کو بیدار کرنا تمہارے ذمہ ہوگا اور اپنے رب کی سچی شان کو قائم کرنا تمہارا کام ہو گا اور سب سے پہلے یہ کام اپنے اہل وعیال اور اپنے دوستوں اور اپنی قوم کے لوگوں سے شروع کر.پھر دائرہ وسیع کرتا چلا جا اور لباس اور جسم اور دماغ اور دل اور مکان اور ملک کی صفائی کو قائم کر اور ہر قسم کے گند کو مٹا دے اور آئندہ کے لئے تعذیب نفس اور تعذیب انسان اور تعذیب افکار کو دنیا سے ختم کر دے کہ خدا تعالیٰ کو اپنا قرب دینے کے لئے ان طریقوں کی ضرورت نہیں اور شرک کا قلع قمع کر دے اور ایسے سامان کر کہ مشرک شرک کو دنیا میں پھیلا نہ سکیں، موحدین دنیا میں غالب ہو جا ئیں مگر یہ غلبہ مشرکوں پر پابندیاں لگا کر یا انہیں قتل کر کے حاصل نہ کیا جائے بلکہ تبلیغ اور قربانی اور ایثار سے ایسا کیا جائے اور آفات و مصائب میں برداشت کے ذریعہ سے یہ بات حاصل کی جائے مگر بُزدلانہ صبر نہیں بلکہ دلیرانہ صبر کہ جس میں باوجود طاقت کے برداشت اور عفو سے کام لیا جائے اور صرف خدا کو خوش کرنے کے لئے یہ کام کیا جائے اور اپنے اعلان کے آخر میں ہم پھر کہتے ہیں کہ یہ کام تیرے سپر د چند دن کے لئے نہیں کیا جاتا ، چند سال کے لئے نہیں کیا جاتا اب تو ہی ہمارا ہو کر رہے گا اور ہمیشہ کیلئے اس عہدہ پر قائم رکھا جائے گا.دیوان خاص کی تیسری غرض (۳) دیوان خاص کی تیسری غرض یہ ہوتی ہے کہ با دشاہ اپنے درباریوں کے کام میں سہولت پیدا کرنے کے
۴۶۴ مددد.لئے مختلف قسم کی تدابیر اختیار کرتا اور اُن کی مشکلات کے بارہ میں علاج تجویز کرتا ہے اور پھر انہیں ینے کے وعدے کرتا ہے جس سے ان کے اندر کام کرنے کی ایک نئی روح پیدا ہو جاتی ہے.دنیوی بادشاہوں کا طریق کار میں نے دیکھا کہ دُنیوی بادشاہ ایسا کرتے ہیں مگر اول تو وہ ہمیشہ ہی صحیح علاج بتانے میں کامیاب نہیں ہوتے.دوسرے کئی دفعہ بادشاہ علاج بتانے کی جگہ خود اپنے درباریوں سے علاج پوچھتے ہیں اور اُن کی مشکلات میں مدد دینا تو الگ رہا خود اپنی مشکلات میں اُن سے مدد لینے کے محتاج ہوتے ہیں اور پھر جو وعدے کرتے ہیں ان کو بھی بسا اوقات وہ پورا نہیں کرتے.قرآنی دیوان خاص کا نرالا طریق مگر اس دیوانِ خاص میں میں نے اس بارہ میں بھی نرالا طریق دیکھا.میں نے دیکھا کہ بادشاہ خود ہی سب علاج بتا تا ہے اور خود ہی سب کچھ مہیا کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور پھر ہر وعدہ کو وہ پورا بھی کرتا ہے.چنانچہ میں نے قرآنی دربارِ خاص کا مطالعہ کیا تو مجھے عجیب حسن نظر آیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت خاص کا وعدہ میں نے دیکھا کہ بادشاہ جب وزراء اور افسر مقرر کرتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ وہ بادشاہ اور اس کے خاندان کی حفاظت کرینگے مگر میں نے اس در بار خاص کا یہ طریق دیکھا کہ جب اس دربار میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گورنر جنرل مقرر کیا گیا تو ساتھ ہی کہدیا گیا کہ یاَيُّهَا الرَّسُولُ بَلَغُ مَا اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَلَتَهُ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ ۵۸۰ یعنی اے ہمارے رسول ! ہم نے تیری طرف جو کچھ نازل کیا ہے تو اسے لوگوں تک پہنچا دے اور اگر تو ایسا نہیں کریگا تو تیری رسالت کا کام نا تمام رہے گا بیشک اس کام میں تجھے مشکلات پیش آئیں گی ، اپنے اور بیگا نے تیری مخالفت میں کھڑے ہو جا ئینگے اور وہ کوشش کرینگے کہ تجھے کچل کر رکھ دیں اور تیرے نام کو صفحہ ہستی سے معدوم کر دیں مگر خدا اُن کو نا کام کریگا اور وہ تجھے لوگوں کے تمام حملوں سے محفوظ رکھے گا.یہ کیسا دیوان خاص ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات الگ بھی کی جاتی ہے اور پھر دیوانِ عام میں سُنانے کا حکم دیا جاتا ہے اور پھر ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس اعلان کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچے تو ہم ذمہ دار ہیں.66
دشمنوں کی عبرت ناک نا کامی کا مرقع دنیا نے اس اعلان کو سنا تو وہ حقارت کے ساتھ ہنسی.اور اُس نے سمجھا کہ وہ اپنی کوششوں سے اس گورنر جنرل کے غلبہ اور اقتدار کو روک سکے گی اور اسے تباہ و برباد کر دے گی مگر واقعات بتاتے ہیں کہ دشمنوں کی ہر تدبیر نا کام ہوئی اور خدا تعالیٰ کی حفاظت ہمیشہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شامل حال رہی.حضرت عمرؓ کا ارادہ قتل چنا نچہ دیکھ لو جب مکہ میں اسلام نے ترقی کرنی شروع کی اور کفار کی تمام تدابیر کے باوجود مسلمانوں کی تعداد میں زیا دتی ہوتی چلی گئی تو حضرت عمرؓ جو ا بھی اسلام نہیں لائے تھے انہوں نے جوش میں آکر ایک دن تلوار ہاتھ میں لی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور جاتے ہوئے کہہ گئے کہ اچھا میں خود ہی اس روز روز کے جھگڑے کو ختم کئے دیتا ہوں.ابھی وہ گھر سے تھوڑی دُور ہی گئے تھے کہ انہیں راستہ میں اپنا ایک دوست ملا اُس نے پوچھا عمر اتنے جوش میں تلوار ننگی لٹکائے کہاں جا رہے ہو؟ عمر نے کہا آج میں نے ارادہ کیا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا سرلے کر ہی واپس لوٹوں گا تا کہ یہ روز روز کے جھگڑے ختم ہو جائیں.اُس دوست نے کہا عمر! تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مارنے جا رہے ہو پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو.عمر نے کہا میرے گھر میں کیا ہوا ہے؟ دوست نے کہا تمہاری بہن اور تمہارا بہنوئی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دین میں داخل ہو چکے ہیں.یہ سُن کر حضرت عمر نے بڑے غصہ میں اپنی بہن کے گھر کا راستہ لیا جب گھر کے قریب پہنچے تو انہیں قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سنائی دی.قرآن کریم پڑھنے کی آواز سُن کر انہیں اور بھی جوش آیا اور جھٹ دروازہ کے اندر داخل ہو گئے.ان کی آہٹ پا کر حضرت خباب جو ایک حبشی غلام تھے اور وہی اس وقت عمر کی بہن اور بہنوئی کو قرآن پڑھا رہے تھے کہیں چُھپ گئے اور اُن کی بہن نے قرآن کریم کے اوراق ادھر اُدھر چھپا دیئے.حضرت عمر نے اندر آتے ہی نہایت جوش اور غصہ کے ساتھ کہا میں نے بہنوئی پر حملہ سُنا ہے تم دونوں اپنے دین سے پھر گئے ہو اور تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی اختیار کرلی ہے.یہ کہتے ہی وہ اپنے بہنوئی پر جھپٹ پڑے اور انہیں مارنا شروع کر دیا.یہ دیکھ کر اُن کی بہن اپنے خاوند کو بچانے کے لئے آگے بڑھی مگر حضرت عمرؓ کا ہاتھ جو اُٹھ چکا تھا اُسے روکنا مشکل تھا چنانچہ ایک مکہ ان کی بہن کو بھی جالگا اور اُن کے جسم میں سے خون بہنے لگا.
۴۶۶ بہن کو زخمی دیکھ کر حضرت عمرؓ کی ندامت و شرمندگی ہوں تو عرب لوگ اپنی بیویوں کو مارنا کوئی عیب نہ سمجھتے تھے مگر کسی دوسری عورت پر ہاتھ اُٹھانا وہ اپنی مردانگی کے خلاف خیال کرتے تھے حضرت عمررؓ کا اپنی بہن کو زخمی کرنا پالا رادہ نہ تھا چونکہ وہ اپنا ہاتھ اُٹھا چکے تھے اس لئے اب اُس کا رُکنا مشکل ہو گیا تھا جب انہوں نے اپنی بہن کو زخمی اور خون میں تر بتر دیکھا تو اُن کے دل میں ندامت اور شرمندگی پیدا ہوئی اور انہیں گھبراہٹ کے عالم میں اور کچھ نہ سُوجھا اپنی بہن سے کہنے لگے اچھا ان باتوں کو جانے دو یہ بتاؤ کہ تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے ؟ یہ سُن کر بہن کو بھی سخت غصہ آیا ، کہنے لگی میں تمہیں ہرگز وہ اوراق نہیں دکھاؤنگی کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ تم اُن کو ضائع کر دو گے.حضرت عمرؓ نے کہا میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایسا نہیں کرونگا بلکہ دیکھ کر تمہیں واپس دید ونگا.بہن نے کہا تم جب تک غسل نہ کر لو تم ان اوراق کو ہاتھ نہیں لگا سکتے چنانچہ حضرت عمرؓ غسل کرنے کے لئے چلے گئے جب غسل سے فارغ ہوئے تو بہن نے قرآن کریم کے وہ اوراق نکال کر ان کے سامنے رکھ دیئے.حضرت عمرؓ پر قرآن کریم کا معجزانہ اثر حضرت عمر کے دل میں بہن کے زخمی کرنے سے اتنی ندامت پیدا ہو چکی تھی کہ ضد اور تعصب اور عداوت کا وہ پردہ جس کی وجہ سے وہ قرآن کریم کو سننا تک گوارا نہ کر سکتے تھے اب ہٹ چکا تھا.جب بہن نے قرآن کریم کے اوراق ان کے سامنے رکھے تو انہوں نے انہیں پڑھنا شروع کیا وہ آیات سورہ طہ کی تھیں جوں جوں وہ ان آیات کو پڑھتے جاتے ایک ایک لفظ ان کے سینے میں نقش ہوتا چلا جاتا.پڑھتے پڑھتے حضرت عمر کی حالت پالکل بدل گئی ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور قرآن کریم کی آیات نے اُن کی فطری سعادت کو بیدار کری دیا قرآن کریم کا ایک ایک لفظ ان کے سینے کی گہرائیوں میں جاگزیں ہو گیا.اب عمر وہ عمر نہیں رہا تھا جو مسلمانوں کو ان کے اسلام کی وجہ سے دُکھ دیا کرتا تھا، اب عمر وہ عمر نہیں رہا تھا جو اپنی لونڈی کو اسلام لانے کی وجہ سے ہمیشہ زدو کوب کیا کرتا تھا، اب عمر وہ عمر نہیں رہا تھا جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ عہد کر کے نکلا تھا کہ آج میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے ہی واپس کو ٹو نگا ، اب عمر اپنی اس اصل حالت پر آچکا تھا جو اُس کے لئے ازل سے مقد رتھی ، اب عمر اس رنگ میں رنگین ہو چکا تھا جس میں خدا تعالیٰ اُسے رنگنا چاہتا تھا ، اب عمر کی سنگدلی کی جگہ
۴۶۷ ایمانِ کامل نے لے لی تھی حضرت عمر نے جب یہ آیت پڑھی.اِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُ نِي وَاَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكُرِى - إِنَّ السَّاعَةَ اتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيْهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى ۵۹ تو وہ بے اختیار ہو کر بولے یہ کیسا عجیب اور پاک کلام ہے.یہ سنکر حضرت خباب جو ان سے ڈر کر چھپے بیٹھے تھے باہر نکل آئے.حضرت عمرہ کی دار ارقم کو روانگی حضرت عمر نے جنہیں اب ایمان نے بیقرار کر دیا تھا بیتابی کے ساتھ خباب سے پوچھا مجھے جلد بتاؤ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کہاں ہیں ؟ میں اُن سے ملنا چاہتا ہوں.خباب نے بتا دیا کہ محمد رسول اللہ فلاں جگہ ہیں مگر چونکہ حضرت عمرؓ نے ابھی تک اپنی تلوار اسی طرح کھینچ رکھی تھی جس سے یہ خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ ان کے ارادے نیک نہیں اس لئے ان کی بہن اس خیال سے کہ خدانخواستہ ان کی نیت خراب ہی نہ ہو آگے بڑھی اور ان کے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہنے لگی خدا کی قسم ! میں تمہیں ہر گز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں جانے دوں گی جب تک تم مجھ سے اقرار نہ کرو کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی دُکھ نہیں پہنچاؤ گے.حضرت عمر نے کہا نہیں نہیں بہن ! ایسا نہیں ہو سکتا مجھ پر اسلام کا گہرا اثر ہو چکا ہے.یہ سنکر بہن نے انہیں چھوڑ دیا اور حضرت عمر دار ارقم کی طرف روانہ ہو گئے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن دنوں مقیم تھے.حضرت عمر کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہونا حضرت عمر نے دروازے پر پہنچ کر دستک دی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت صحابہ کو قرآن کریم کی تعلیم دے رہے تھے.صحابہ نے جب دروازے کی دراڑ میں سے دیکھا کہ عمر ننگی تلوار لئے دروازے میں کھڑے ہیں تو انہوں نے سمجھا آج عمر کے ارادے نیک نہیں ہیں اس لئے انہوں نے دروازہ کھولنے میں تامل کیا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دروازہ کھول دو.حضرت حمزہ جو ابھی نئے ایمان لائے تھے جوش کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے دروازہ کھول دواگر تو عمر کسی نیک ارادہ کے ساتھ آیا ہے تو بہتر ورنہ کیا عمر کو تلوار چلانی آتی ہے ہمیں تلوار چلانی نہیں آتی.صحابہ نے دروازہ کھولا اور حضرت عمرؓ اسی طرح نگی تلوار لئے اندر داخل ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھتے ہی فرما یا عمر ! تم کس ارادے سے
۴۶۸ آئے ہو؟ حضرت عمر نے عرض کیا یا رَسُولَ اللہ! میں تو آپ کے خادموں میں داخل ہونے کے لئے حاضر ہو ا ہوں.نعرہ ہائے تکبیر یہ سنگر آپ نے خوشی کے جوش میں اللهُ أَكْبَرُ کہا اور ساتھ ہی صحابہؓ نے بھی گونج اُٹھیں.10 بڑے زور کے ساتھ اللہ اکبر کا نعرہ لگایا یہاں تک کہ مکہ کی پہاڑیاں خدائی حفاظت کا غیر معمولی نشان اب دیکھو عمر تو اس ارادہ کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے تھے کہ آج میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ).کو مار کر ہی واپس لوٹوں گا اُس وقت جبکہ عمر اپنی تلوار سونت کر گھر سے نکلے ہو نگے مکہ والے کتنے خوش ہو نگے کہ آج عمر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کئے بغیر واپس نہ آئیگا ، مکہ کے لوگ بیتابی کے ساتھ انتظار کر رہے ہو نگے کہ کب انہیں خوشخبری ملتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیا گیا ہے ، وہ لوگ ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر حضرت عمر کی راہ تک رہے ہو نگے کہ کب وہ پہنچ کر اپنی کامیابی کی اطلاع دیتے ہیں، وہ لوگ خوش ہونگے کہ آج عمر اس جھگڑے کو ختم کر کے ہی واپس آئے گا ، عمر اپنی جگہ خوش تھے اور گھر سے تلوار سونت کر نکلتے وقت کہہ رہے ہو نگے کہ میرے جیسا بہا در بھلا فیصلہ کئے بغیر کوٹ سکتا ہے؟ غرض حضرت عمرؓ اپنی جگہ خوش تھے اور مکہ والے اپنی جگہ پر خوش تھے اس بات پر کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج ضرور قتل ہو جائینگے مگر خدا تعالی عرش پر بیٹھا ہوا اُن کی نادانی پر ہنس رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا ہم نے تجھ سے یہ نہیں کہا کہ وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ال خدا تعالیٰ تجھے خودلوگوں کے حملہ سے بچائے گا چنانچہ اُس نے حضرت عمرؓ کو اس طرح پکڑا کہ کوئی انسان اس طرح پکڑ نہیں سکتا.انسان کی گرفت زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتی تھی کہ کوئی مسلمان حضرت عمرؓ کے مقابلہ میں کھڑا ہو جاتا اور اُن کو مار دیتا ، انسان کی گرفت زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتی تھی کہ حضرت عمر کی بہن یا ان کا بہنوئی اور ان کا حبشی غلام انہیں راستہ میں پکڑ لیتے اور انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ جانے دیتے، انسان کی گرفت یہ ہو سکتی تھی کہ حضرت حمزہ یا کوئی اور صحابی حضرت عمرؓ کے مقابلہ پر کھڑے ہو جاتے اور انہیں قتل کر دیتے مگر خدا تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کو اس طرح پکڑا کہ وہی عمر جو آپ کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلا تھا آپ کے پاس پہنچ کر خود قتل ہو گیا.جسم کی موت بھلا کیا حقیقت رکھتی ہے اصل موت تو وہ ہوتی ہے جب کوئی
۴۶۹ شخص کسی کی غلامی میں داخل ہو جاتا ہے.حضرت عمرؓ گئے تو اس نیت کے ساتھ تھے کہ وہ آپ کو مار دینگے لیکن اسی عمر کو خدا نے ایسا مارا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر تلوار لے کر کھڑا ہو گیا اور اُس نے کہا کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ محمد رسول اللہ فوت ہو گئے ہیں تو میں اس کی گردن کاٹ دونگا.۱۲ واقعہ ہجرت پھر واقعہ ہجرت پر غور کرو اور دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیسی معجزانہ رنگ میں حفاظت فرمائی.مکہ کے صنادید آپس میں مشورہ کر کے فیصلہ کرتے ہیں کہ مختلف قبائل کے مسلح نوجوان رات کو آپ کے مکان کے ارد گر دگھیرا ڈال لیں اور جب آپ باہر تشریف لائیں تو سب مل کر آپ کو قتل کریں تا کہ یہ خون قریش کے متفرق قبائل پر تقسیم ہو جائے اور بنو ہاشم انتقام لینے کی جرأت نہ کر سکیں.ادھر انہوں نے یہ فیصلہ کیا اور اُدھر اُسی خدا نے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہوا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے اس بد ارادہ کی اطلاع دے دی اور آپ کو مکہ سے ہجرت کا حکم دے دیا یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اپنے گھر سے ایسی حالت میں نکلتے ہیں جب قریش کے مسلح نو جوان آپ کے قتل کے ارادہ سے آپ کے مکان کے ارد گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں مگر آپ کے دل میں کوئی گھبراہٹ پیدا نہیں ، آپ کے بدن میں کوئی ارتعاش پیدا نہیں ہوتا ، آپ کے جسم پر کپکپی طاری نہیں ہوتی ، آپ کے حواس پراگندہ نہیں ہوتے ، آپ بڑے اطمینان کے ساتھ اُن سفاک اور خونخوار بھیڑیوں کے درمیان سے خراماں خراماں نکل جاتے ہیں اور کوئی آنکھ آپ کو بد اِرادہ سے نہیں دیکھ سکتی ، کوئی ہاتھ آپ پر وار کی کرنے کے لئے نہیں اُٹھ سکتا، کوئی تلوار اپنی میان سے باہر نہیں آسکتی ، زمین و آسمان کے خدا نے اُن کی آنکھوں کو اندھا کر دیا، اُن کے ہاتھوں کوشل کر دیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحفاظت وہاں سے نکال لیا کیونکہ خدا نے یہ فرمایا تھا کہ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.غار ثور تک پہنچ کر بھی دشمن رسول کریم صلی اللہ جب دشمن نے دیکھا کہ اس کا یہ تیر بھی خالی چلا گیا تو اپنی ندامت علیہ وسلم کی گرفتاری میں کامیاب نہ ہو سکا اور شرمت کی منانے کے لئے اس نے مکہ کے ہوشیار اور فنکار کھوجیوں کی مدد سے آپ کے پاؤں کے نشانات دیکھتے ہوئے غار ثور تک آپ کا تعاقب کیا اور دشمن
۴۷۰ اس قدر قریب پہنچ گیا کہ حضرت ابوبکر جو اس ہجرت میں آپ کے ساتھ شامل تھے گھبرا اُٹھے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! دشمن اس قدر قریب پہنچ چکا ہے کہ اگر وہ ذرا آگے بڑھ کر غار کے اندر جھانکے تو ہمیں پکڑنے میں کامیاب ہو سکتا ہے.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اطمینان سے فرماتے ہیں کہ اے ابو بکر ! گھبراتے کیوں ہو خدا ہمارے ساتھ ہے.یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ ہمیں پکڑنے میں کامیاب ہو سکیں.چنانچہ مکہ کے صنادید جس طرح رات کی تاریکی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنے میں ناکام و نا مرا د ر ہے ہیں اسی طرح وہ دن کی روشنی میں بھی آپ کی گرفتاری میں کامیاب نہ ہو سکے اور خدا نے بتا دیا کہ میں رات اور دن اس انسان کے ساتھ ہوں.ممکن ہے اُن مکہ کے نوجوانوں میں بعض یہ کی خیال کرتے ہوں کہ چونکہ رات تھی اس لئے محمد رسول اللہ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ، خدا اُن کو دن کے وقت غار ثور کے منہ پر لایا اور پھر اُن کی آنکھوں میں نا بینائی پیدا کر کے بتادیا کہ اس کا اصل باعث یہ نہیں کہ محمد رسول اللہ رات کی تاریکی میں نکل آئے تھے بلکہ اس کا اصل باعث یہ ہے کہ میں اس کا محافظ ہوں ورنہ دن کی روشنی میں اپنے کھوجیوں کی نشان دہی کے باوجود تم اسے پکڑنے میں کیوں کامیاب نہ ہو سکے.سراقہ کا تعاقب پھر جب آپ مدینہ جا رہے تھے ایک دشمن آپ کے سر پر پہنچ گیا مگر الهی تصرف کے ماتحت اُس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا.وہ پھر آگے بڑھا تو دوبارہ اس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ پیٹ تک زمین میں پھنس گیا.اس پر وہ گھبرا اُٹھا اور اُس نے سمجھا کہ یہ بلا وجہ نہیں ہوسکتا چنا نچہ یا تو وہ آپ کی گرفتاری کے ارادہ سے باہر نکلا تھا یا بجز اور انکسار کے ساتھ وہ آپ سے معافی کا طالب ہوا اور اُس نے کہا کہ آپ خدا تعالیٰ کے سچے نبی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ ایک دن ضرور غالب آکر رہیں گے.۲۴ اس واقعہ پر غور کرو اور دیکھو کہ کس طرح قدم قدم پر خدا تعالیٰ نے آپ کی معجزانہ رنگ میں حفاظت فرمائی اور دشمن کو اپنے ناپاک عزائم میں نا کام رکھا.الہی تصرف کے ماتحت دشمن کے ہاتھ سے تلوار گر جاتا اسی طرح غزوہ مطلقان سے واپسی کے موقع پر جبکہ آپ ایک درخت کے نیچے سو رہے تھے ایک دشمن آپ کو قتل کرنے کے ارادہ سے آپ کے
۴۷۱ پاس جا پہنچا اور اُس نے آپ کی ہی تلوار سونت کر آپ کو جگایا اور پوچھا کہ اب آپ کو کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے لیٹے لیٹے نہایت اطمینان کے ساتھ فرمایا کہ اللہ ان الفاظ کا اس پر ایسا ہیبت ناک اثر ہوا کہ اس کے ہاتھ کانپ گئے اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً وہ تلوار اپنے ہاتھ میں پکڑی اور اُس سے پوچھا کہ بتا اب تجھے مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ اُس نے کہا آپ ہی رحم کریں تو کریں ورنہ میری نجات کا اور کوئی ذریعہ نہیں.۲۵ جنگِ اُحد میں خدائی تصرف پھر جنگ اُحد میں ایک وقت ایسا آیا جب بعض صحابہ کی غلطی کی وجہ سے اسلامی لشکر تتر بتر ہو گیا اور آپ کے ارد گرد کی صرف چند صحابہ رہ گئے اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ آپ اکیلے نرغہ ء اعداء میں گھر گئے.ایسے خطر ناک موقع پر اگر خدا کی حفاظت آپ کے شامل حال نہ ہوتی تو دشمن کے لئے آپ کو جانی نقصان پہنچانا کوئی بڑی بات نہ تھی.ہزاروں مسلح سپاہیوں کے سامنے کسی ایک شخص کی کیا حیثیت ہوتی ہے مگر ان نازک گھڑیوں میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کے سامنے میدان جنگ میں ڈٹے رہے اور ایک لمحہ کے لئے بھی وہاں سے ہٹ جانے یا خود حفاظتی کے لئے کسی پتھر کے پیچھے چھپ جانے کا خیال بھی آپ کے دل میں پیدا نہیں ہوا.دشمن آگے بڑھا اور اُس نے آپ پر شدید حملہ کر دیا یہاں تک کہ آپ کے دندانِ مبارک بھی شہید ہو گئے اور آپ بیہوش ہو کر گڑھے میں گر گئے.دشمن نے سمجھا کہ وہ آپ کو مارنے میں کامیاب ہو گیا ہے مگر جب جنگ کے بادل پھٹے انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ میں سورج کی طرح دسکتے دیکھا اور یہ خبر اُن پر بجلی بن کر گری کہ آج بھی وہ ہزاروں کا لشکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا اور کیوں ایسا نہ ہوتا جبکہ اس گورنر جنرل کے متعلق دربارِ خاص میں یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! خدا تجھے لوگوں کے حملوں سے بچائے گا.جنگ حنین میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ اسی طرح حسنین کی جنگ میں جب صرف بارہ آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسلم کا دشمن کی طرف بڑھتے چلے جانا ارد گرد رہ گئے تھے اور دشمن کے چار ہزار تیر انداز تیروں کی بارش برسا رہے تھے بعض صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگے بڑھنے سے روکنا چاہا اور کہا کہ يَارَسُولَ اللہ! اس کی
۴۷۲ وقت آگے بڑھنا ہلاکت کے منہ میں جانا ہے مگر آپ نے بڑے جوش سے فرمایا میرے گھوڑے کی باگ چھوڑ دو میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا اور خود دشمن کی طرف یہ کہتے ہوئے آپ نے بڑھنا شروع کر دیا کہ :.أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ میں خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہوں اس کی طرف جھوٹی بات منسوب نہیں کر رہا لیکن میری اس کی وقت کی کیفیت کو دیکھ کر تم یہ خیال نہ کر لینا کہ میرے اندر کوئی خدائی طاقت پائی جاتی ہے میں ایک انسان ہوں اور عبدالمطلب کا بیٹا ہوں.غرض اُن نازک گھڑیوں میں بھی جب اسلام کے جانباز سپاہی جو سارے عرب کو شکست دے چکے تھے بارہ ہزار کی تعداد میں ہوتے ہوئے ایک غیر متوقع حملہ کی تاب نہ لا کر اپنے پائے ثبات میں جنبش محسوس کر رہے تھے اور اُن کی سواریاں میدانِ جنگ سے بھاگ رہی تھیں، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گر دصرف چند آدمی رہ گئے تھے جب ہر طرف سے دشمن بارش کی طرح تیر برسا رہے تھے ، آپ آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے کیونکہ آپ کو یقین تھا میرا خدا میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے خود دشمن کے حملہ سے بچائے گا.ایک حیرت انگیز واقعہ پھر اسی جنگ کا ایک اور حیرت انگیز واقعہ یہ ہے کہ مکہ کا ایک شخص جس کا نام شیبہ تھا اس جنگ میں صرف اس نیت اور ارادہ کے ساتھ شامل ہوا کہ موقع ملنے پر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دونگا.جب لڑائی تیز ہوئی تو وہ خود کہتا ہے کہ میں نے تلوار سونت لی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادہ سے میں نے آپ کے قریب ہونا شروع کیا.اُس وقت مجھے یوں معلوم ہوا کہ میرے اور آپ کے درمیان آگ کا ایک شعلہ اُٹھ رہا ہے جو قریب ہے کہ مجھے جلا کر بھسم کر دے مگر پھر بھی میں آگے بڑھتا چلا گیا اُس وقت اچانک مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی دی کہ شیبہ! میرے پاس آؤ جب میں آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے میرے سینہ پر اپنا ہاتھ پھیرا اور فرمایا اے خدا ! شیبہ کو شیطانی خیالات سے نجات دے.شیبہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا تھا کہ یکدم میری تمام دشمنی دُور ہوگئی اور میرا دل آپ کی محبت اور پیار کے جذبات سے اس قدر لبریز ہو گیا کہ اُس وقت میرے دل میں سوائے اس کے اور کوئی خواہش نہ رہی کہ
۴۷۳ میں اپنی جان آپ کے لئے قربان کر دوں.۱۸ شاہ ایران کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کا حکم دینا پھر کسری شاه ایران جو آدھی دنیا کا مالک تھا اُس نے یہود کے اشتعال دلانے پر اپنے گورنر یمن کو لکھا کہ عرب کے اس مدعی نبوت کو گرفتار کر کے میرے پاس بھجوا دیا جائے یہ شخص اپنے دعووں میں بہت بڑھتا چلا جا رہا ہے.گورنر یمن نے اس حکم کے ملتے ہی ایک فوجی افسر کو اس ڈیوٹی پر مقرر کیا اور وہ ایک سپاہی کو اپنے ساتھ لیکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے مدینہ منورہ میں پہنچا اور اُس نے آپ سے کہا کہ کسری نے گورنر یمن کو حکم بھجوایا ہے کہ آپ کو گرفتار کر کے اُس کی خدمت میں حاضر کیا جائے اور ہم اس غرض کے لئے یہاں آئے ہیں آپ ہمارے ساتھ چلیں ورنہ کسری کو زیادہ غصہ آیا تو وہ آپ کو بھی ہلاک کر دیگا اور آپ کی قوم اور ملک کو بھی برباد کر دے گا.شاہ ایران کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم آج رات ٹھہر وکل میں تمہیں اس کا جواب دونگا.رات کو آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تو خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بتایا گیا کہ کسریٰ کی اس گستاخی کی سزا میں آج رات ہم نے اس کے بیٹے کو اس پر مسلط کر دیا ہے اور اُس نے اپنے باپ کو قتل کر دیا ہے.جب صبح ہوئی اور گورنر یمن کے ایچی دوبارہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا جاؤ اور اپنے گورنر سے جا کر کہہ دو کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خداوند کو مار دیا ہے.گورنر یمن کا استعجاب جب گورنر یمن کو یہ اطلاع پہنچی تو اس نے کہا اگر یہ شخص واقع میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ایسا ہی ہوا ہوگا لیکن اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تو پھر کسری اسے بھی تباہ کر دیگا اور اس کے ملک کو بھی برباد کر دے گا بہر حال اُس نے حیرت اور استعجاب کے ساتھ اس خبر کو سُنا اور اُس نے ایران سے آنے والی اطلاعات کا انتظار کرنا شروع کیا.گورنر یمن کا اقرار کہ مدینہ کے نبی نے سچ کہا تھا تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ یمن کی بندرگاہ پر ایران کا ایک جہازلنگر انداز ہوا اور اس میں ایک شاہی ایچی نے گورنر یمن کو بادشاہ کا ایک خط دیا
۴۷۴ اس پر چونکہ ایک نئے بادشاہ کی مہر تھی اس لئے خط کو دیکھتے ہی گورنر یمن کہہ اُٹھا کہ مدینہ کے نبی نے سچ کہا تھا.پھر اس نے خط کھولا تو اس میں کسری کے بیٹے ( شیرویہ ) نے لکھا ہوا تھا کہ میں نے اپنے باپ کو اس کے مظالم کی وجہ سے قتل کر دیا ہے اور اب میں اُس کی جگہ تخت حکومت پر متمکن ہوں تم تمام افسروں سے میری اطاعت کا اقرار لو اور یہ بھی یا درکھو کہ میرے باپ نے عرب کے ایک نبی کی گرفتاری کا جو حکم بھیجا تھا اُس کو میں منسوخ کرتا ہوں کیونکہ وہ نہایت ظالمانہ حکم تھا.گورنر یمن اس خط کو پڑھ کر اس قدر متاثر ہوا کہ وہ اور اس کے کئی ساتھی اُسی وقت اسلام میں داخل ہو گئے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اسلام میں داخل ہونے کی اطلاع بھجوادی.۲۹ اس واقعہ پر غور کرو اور دیکھو کہ کس طرح قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائید اور اُس کی نصرت آپ کے شامل حال رہی.دشمن نے آپ کو قتل کرنے کے لئے کئی منصوبے کئے مگر اللہ تعالیٰ نے ہر دفعہ اس کو اپنے منصوبوں میں نا کام رکھا.یہود کی متواتر نا کامی مدینہ منورہ میں اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہود تھے جو مخالفت کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے.ایک دفعہ انہی کے ایک قبیلہ بنونضیر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض امور پر گفتگو کرنے کے لئے بلوایا.لیکن در پردہ سازش کی کہ ایک شخص چپکے سے چھت پر چڑھ کر ایک بڑا وزنی پتھر آپ پر گرا دے جس سے آپ ہلاک ہو جائیں اور بعد میں یہ مشہور کر دیا جائے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ ہو گیا ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت اس کی خبر دیدی اور آپ وہاں سے اُٹھ کر واپس آگئے.کے اسی طرح غزوہ خیبر میں ایک یہودی عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملا دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا لقمہ ہی اُٹھایا تھا کہ آپ کو اس کا علم ہو گیا کہ کھانے میں زہر ملایا گیا ہے اور آپ اسے چھوڑ کر کھڑے ہو گئے.اکے غرض اس دربار میں خدائی گورنر جنرل کے متعلق جو کچھ کہا گیا تھا تاریخی واقعات اِس بات پر گواہ ہیں کہ وہ وعدہ بڑی شان کے ساتھ پوار ہوا.اچھے ہتھیاروں اور اچھے معاونوں کی ضرورت پھر ایک افسر سبھی کا میاب ہوتا ہے جب اسے اچھے ہتھیار اور اچھے معاون
۴۷۵ ملیں.دنیوی بادشاہ افسر مقرر کر کے یہ چاہتے ہیں کہ اب وہ اچھے ہتھیا ر اور اچھے معاون خود تلاش کریں مگر اس دربار میں میں نے یہ عجیب بات معلوم کی کہ گورنر جنرل کے مقرر ہوتے ہی یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اسے بہترین ہتھیار اور بہترین معاون ہم خود دینگے اسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی چنانچہ اس خدائی گورنر جنرل کے متعلق یہ اعلان کیا گیا کہ كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ - فِي صُحُفِ مُكَرَّ مَةٍ - مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ - بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَ رَةٍ ٢ قرآنی اسلحہ اے لوگو سنو! ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کا روحانی حاکم مقررفرما دیا ہے اور اسے ایک ایسے ہتھیار کے ساتھ صلح کیا ہے جس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جسموں کو نہیں بلکہ دلوں اور دماغوں کو فتح کرتا ہے پھر یہ ہتھیا را ایسا نہیں جس کی چوٹ کھا کر لوگ زخموں سے تڑپنے اور تلملا نے لگ جائیں بلکہ فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ لوگ اس ہتھیار کی چوٹ کھانے اور اس کا شکار ہونے میں ایک لذت اور سرور محسوس کرتے ہیں.یہ روحانی ہتھیار صُحُفِ مُكَرَّمَةٍ میں ہے یعنی پہلی الہامی کتب کی تمام اعلیٰ درجہ کی اخلاقی اور روحانی تعلیموں کو اس میں جمع کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے لوگ اسے اپنے سروں پر اُٹھائے پھر میں گے اور کوئی نقص اس میں نہیں پائیں گے.حاملین قرآن کی عظمت یہ ہتھیار بِايْدِی سَفَرَةِ ہوگا یعنی ایسے سپاہیوں کے ہاتھوں میں دیا جائیگا جو مسافر بھی ہونگے اور لکھنے والے بھی ہونگے یعنی ایک طرف وہ اپنے زمانہ کے لوگوں کے دلوں کو فتح کرنے کے لئے دُور دُور کا سفر کرینگے جیسے صحابہ قرآن کریم کو اپنے ہاتھ میں لے کر ہندوستان، ایران، عراق، مصر، بربر اور روم وغیرہ تک چلے گئے اور دوسری طرف آئندہ زمانہ کے لوگوں کے دل فتح کرنے کے لئے وہ اس کتاب کو لکھ لکھ کر پھیلا دینگے تا کہ ہر زمانہ کے لوگ اِس سے فائدہ اُٹھا ئیں.وہ دنیا کو اس ہتھیار سے فتح کرنے کی وجہ سے کرام ہو جائیں گے لیکن معزز ہونے کی وجہ سے وہ مغرور نہ ہونگے بلکہ بَرَدَة ہوں گے یعنی دوسروں پر احسان کرنے والے اور اُن کے غمخوار اور اپنی ترقی کو ذاتی بڑائی کا موجب نہیں بنائیں گے بلکہ اُسے محتاجوں کی تکلیفیں اور غرباء کی مشکلات دور کرنے کا موجب بنائیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی غرباء پروری نانا نچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور
آپ کے صحابہ کی زندگی کے حالات پر نگاہ ڈالی جائے تو ہر شخص کو یہ اقرار کرنے پر مجبور ہونا پڑیگا کہ ان میں یہ خوبی نہایت نمایاں طور پر پائی جاتی تھی.اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو بڑی شان عطا فرمائی مگر ہر قسم کی طاقت اور شوکت رکھنے کے باوجود انہوں نے غرباء اور مساکین کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھا اور اُنکی تکالیف کو دُور کرنے کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا.حلف الفضول میں شمولیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مبعوث نہیں ہوئے تھے کہ مکہ کے بعض شرفاء نے ایک سوسائٹی بنائی جس کا کام یہ تھا کہ جو لوگ مظلوم ہوں اُن کی امداد کی جائے اس سوسائٹی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہوئے اور چونکہ اس کے بانیوں میں سے اکثر کے نام میں فضل آتا تھا اس لئے اس کا نام حلف الفضول رکھا گیا.اس واقعہ پر سالہا سال گزرنے کے بعد ایک دفعہ صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ يَا رَسُولَ اللہ یہ کیسی سوسائٹی تھی جس میں آپ بھی شریک ہوئے تھے؟ غالباً صحابہ کا منشاء یہ تھا کہ آپ تو نبی ہونے والے تھے آپ ایک انجمن کے ممبر کس طرح ہو گئے جس میں دوسروں کے ماتحت ہو کر کام کرنا پڑتا تھا.آپ نے فرمایا یہ تحریک مجھے ایسی پیاری تھی کہ اگر آج بھی مجھے کوئی اس کی طرف بلائے تو میں اس میں شامل ہونے کے لئے تیار ہوں.۳ سے گویا غرباء کی امداد کے لئے آپکو دوسروں کی ماتحتی میں بھی کوئی عار نہیں تھی.پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک ثبوت بھی انہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مظلوم دنوں بہم پہنچا دیا.مکہ کے قریب کا ایک شخص کے متعلق ابو جہل سے مطالبہ شخص تھا جس کا ابو جہل کے ذمہ کچھ قرض تھا اُس نے ابو جہل سے اپنے روپے کا مطالبہ شروع کر دیا مگر ابو جہل اس کی ادائیگی میں لیت و لعل کرتا رہا.آخر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ابو جہل نے میرا اتنا روپیہ مارا ہوا ہے آپ مجھے میرا حق دلا دیں.یہ وہ زمانہ تھا جب ابو جہل آپ کے قتل کا فتوی دے چکا تھا اور ملکہ کا ہر شخص آپ کا جانی دشمن تھا.جب آپ باہر نکلتے تو لوگ آپ پر پتھر اور مٹی پھینکتے ، بیہودہ آوازے کستے اور ہنی اور تمسخر کرتے مگر آپ نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور فوراً اُس آدمی کو ساتھ لے کر ابو جہل کے مکان پر پہنچے اور دروازہ پر دستک دی.ابو جہل نے دروازہ کھولا تو وہ یہ دیکھ کر
۴۷۷ حیران رہ گیا کہ وہ شخص جس کا میں اس قدر دشمن ہوں آج میرے مکان پر چل کر آ گیا ہے.اُس نے پوچھا آپ کس طرح آئے ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اس شخص کا کوئی روپیہ دینا ہے؟ اس نے کہا ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر دے دو.ابو جہل خاموشی سے اندر گیا اور روپیہ لا کر اس کے حوالے کر دیا.۴ے قدرت کا ایک عجیب نشان جب یہ خبر ملکہ میں مشہور ہوئی تو لوگوں نے ابو جہل کا مذاق اُڑانا شروع کر دیا کہ تم تو کہتے تھے کہ محمد ( صلے اللہ علیہ وسلم ) کو جتنا دُ کھ دیا جائے اتنا ہی اچھا ہے اور خود اُن سے اتنا ڈر گئے کہ اُن کے کہتے ہی چُپ کر کے روپیہ لا کر دیدیا.ابو جہل کہنے لگا تم نہیں جانتے جب میں نے دروازہ کھولا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے دائیں اور بائیں دو دیوانے اونٹ کھڑے ہیں اور اگر میں نے ذرا بھی انکار کیا تو وہ مجھے نوچ کر کھا جائینگے.۵ کے غرض ایک غریب کا حق دلوانے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا اور اس طرح اپنے عمل سے بتا دیا کہ انسان کے اندر غرباء کی امداد کا کس قدر احساس ہونا چاہئے.صدقہ کا ایک دینا ر تقسیم نہ ہونے اسی طرح ایک دفعہ صدقات کا کچھ روپیہ آیا تو اُن کو تقسیم کرتے ہوئے ایک دینار کسی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ کونے میں گر گیا اورآپ کو اٹھانے کا خیال نہ رہا.نماز پڑھانے کے بعد آپ کو یاد آیا تو لوگوں کے اوپر سے پھاندتے ہوئے آپ جلدی سے اندر تشریف لے گئے.صحابہ حیران ہوئے کہ آج کیا بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی گھبراہٹ میں گھر تشریف لے گئے ہیں.جب آپ واپس آئے تو آپ نے فرما یا صدقہ کا ایک دینا ر گھر میں رہ گیا تھا میں نے چاہا کہ جس قدر جلدی ممکن ہو اسے غرباء میں تقسیم کر دوں.۶ کے حضرت عائشہ کی سخاوت اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گو خود نہیں کماتی تھیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کے تعلق کی وجہ سے صحابہ آپ کی خدمت میں اکثر ھدایا بھجواتے رہتے تھے لیکن وہ بھی اپنا اکثر روپیہ غرباء اور مساکین میں تقسیم فرما دیا کرتی تھیں.تاریخ سے ثابت ہے کہ بعض دفعہ ایک ایک دن میں ہزار ہا روپیہ آپ کے پاس آیا مگر آپ نے وہ سب کا سب شام تک تقسیم کر دیا
۴۷۸ اور ایک پائی بھی اپنے پاس نہ رکھی.اس پر ایک سہیلی نے کہا آپ روزہ سے تھیں افطاری کے لئے چار آنے تو رکھ لیتیں آپ نے فرمایا تم نے پہلے کیوں نہ یاد دلایا.کے حضرت عائشہ کی اپنے بھانجے سے ناراضگی ان کی عادت کو دیکھ کر ایک دفعہ ان کے بھانجے نے جس نے اُن کے مال کا وارث ہو نا تھا کہیں کہہ دیا کہ حضرت عائشہ تو اپنا سارا مال لگا دیتی ہیں.یہ خبر جب حضرت عائشہ کو پہنچی تو آپ نے اپنے گھر میں اُس کا آنا جانا بند کر دیا اور قسم کھائی کہ اگر میں نے اسے اپنے گھر میں آنے کی اجازت دی تو میں اس کا کفارہ ادا کروں گی.کچھ عرصہ کے بعد صحابہ نے درخواست کی کہ آپ اس کا قصور معاف فرما دیں.چنانچہ اُن کے زور دینے پر حضرت عائشہ نے اسے معاف کر دیا مگر فرمایا کہ چونکہ میں نے یہ عہد کیا تھا کہ اگر میں اسے معاف کروں گی تو کفارہ ادا کروں گی اس لئے میں اس کا کفارہ یہ قرار دیتی ہوں کہ آئندہ میرے پاس جو دولت بھی آئیگی وہ میں سب کی سب غرباء اور یتامیٰ ومساکین کی بہبودی کے لئے تقسیم کر دیا کرونگی.۷۸ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی اسی طرح صحابہ میں سے حضرت عبد الرحمن بن عوف لاکھوں روپیہ کی جائداد کے مالک تھے کثرتِ مال کے باوجود انتہائی سادہ زندگی چنانچہ جب آپ فوت ہوئے تو اڑھائی لاکھ دینا ر اُن کے گھر سے نکلا 9 کے مگر اتنی دولت رکھنے کے باوجود تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے اموال کا اکثر حصہ غرباء کی ترقی کے لئے خرچ کر دیا کرتے تھے.۵۰ غرض صحابہ نے مال و دولت کو کبھی ذاتی بڑائی کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ اُسے بنی نوع انسان کی بہبودی کے لئے خرچ کیا ہے.ایک صحابی کا اپنے تمام قرض معاف کر دینا یہ خوبی صحابہ میں اس قدر نمایاں پائی جاتی تھی کہ اسلامی تاریخ میں ایک مشہور صحابی حضرت قیس کے متعلق جنہیں فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی لشکر کا کمانڈر مقرر فرمایا تھا روایت آتی ہے کہ جب وہ مرض الموت میں مبتلاء ہوئے تو ایک دن انہوں نے اپنے بعض دوستوں سے پوچھا کہ میری بیماری کی خبر تو سب لوگوں میں
۴۷۹ مشہور ہو چکی ہے مگر میری عیادت کو بہت کم لوگ آئے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا بات دراصل یہ ہے کہ آپ بڑے مخیر آدمی ہیں آپ نے سینکڑوں لوگوں کو قرض دیا ہؤا ہے اب وہ آپ کے پاس آتے ہوئے شرماتے ہیں کہ مبادا آپ روپیہ کا تقاضا نہ کر دیں.آپ نے فرمایا! اوہو میرے دوستوں کو بڑی تکلیف ہوئی جاؤ اور سارے شہر میں منادی کردو کہ ہر شخص جس کے ذمہ قیس کا کوئی قرض ہے وہ اُسے معاف کر دیا گیا ہے.کہتے ہیں کہ اس اعلان پر اس قدر لوگ ان کی عیادت کے لئے آئے کہ ان کی سیڑھیاں ٹوٹ گئیں.یہ وہ بَرَدَة تھے جو محمد رسول اللہ علیہ وسلم کے فیض صحبت سے تیار ہوئے جنہوں نے اپنی جانوں اور اپنے اموال کو ایک حقیر چیز کی طرح محض اس لئے لٹا دیا کہ بنی نوع انسان کو ترقی حاصل ہو.تمام مشکلات کو دور کرنے کا وعدہ پھر دنیا میں حکومتوں پر جب مشکلات کے اوقات آتے ہیں تو بادشاہ اُن کا حوالہ دیکر کہتے ہیں کہ ہم امید کرتے ہیں کہ تم ثابت قدم رہو گے اور ہماری حکومت کے ہوا خواہ ثابت ہو گے اور ہمارے درجہ کی بلندی کا موجب ثابت ہو گے مگر اس دربار میں میں نے یہ عجیب بات دیکھی کہ تمام مشکلات کے حل کرنے کا بادشاہ خود وعدہ کرتا ہے.ترک وطن کے صدمہ پر مکہ میں واپسی کی بشارت مثلا سب سے بڑا صدمہ اس روحانی گورنر جنرل کو اپنے آبائی وطن کے چھوڑنے کا پیش آنے والا تھا سو اس کی اُس نے پہلے خبر دے دی کہ عارضی طور پر ہماری مصلحت کے ماتحت تمہارے دشمن تم پر غالب آئیں گے اور تم کو اپنا وطن چھوڑنا پڑیگا لیکن ہم تجھے پھر اپنے وطن میں واپس لائیں گے چنانچہ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ ۸۲ ہم جس نے تجھ پر قرآن کی حکومت قائم کی ہے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جب دشمن تجھے تیرے وطن سے نکال دیگا جس کی طرف دنیا حج اور عمرہ کے لئے بار بار آتی ہے تو ہم پھر تجھے واپس تیرے وطن میں لے آئیں گے.غور کرو اور دیکھو کہ کتنی بڑی تشفی ہے.اول مصیبت کے آنے کی خبر دی، ا دوم اس مصیبت کے وقت میں پیشگوئی پورا ہونے کی خوشی پہنچائی،
۴۸۰ سوم واپس آنے کی خوشخبری دی اور ، چہارم عملاً واپس لا کر دل کو تیسری خوشی پہنچائی، کیا دنیا کا کوئی در بارِ خاص اس روحانی در بار کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ دربار خاص میں محمد رسول اللہ صلی اللہ پھر سب حکومتیں ایک عرصہ کے بعد کمزور ہو کر مٹ جاتی ہیں کوئی حکومت دائمی نہیں ہوتی.علیہ وسلم کی دائمی حکومت کا اعلان انگریزوں ہی کو دیکھ لو ان کی حکومت اب ہندوستان میں کہاں ہے؟ سیلون میں کہاں کی ہے؟ برما میں کہاں ہے؟ پرانی زبر دست حکومتیں کہاں ہیں؟ نہ بادشاہ باقی رہے نہ اُن کے اُمراء اور وزراء باقی رہے، نہ مشکلات میں مشورے دینے والے کام آئے ، نہ دوسروں کی مشکلات میں مدد دینے کا وعدہ کر نیوالے اپنے وعدوں کا ایفاء کر سکے مگر میں نے اس دربارِ خاص میں دیکھا کہ گورنر جنرل کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ تم کو ہمیشہ کی حکومت دنیا پر دی جاتی ہے چنا نچہ فرمایا.وَمَا اَرْسَلْنكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَّنَذِيرًا ٣ اے ہمارے رسول ! ہم نے تجھے کسی ایک قوم یا ایک ملک کی طرف نہیں بھیجا، کسی ایک صدی یا ایک زمانہ کے لوگوں کی طرف مبعوث نہیں کیا بلکہ دنیا کی ہر قوم اور قیامت تک آنے والا ہر زمانہ تیرا مخاطب ہے اور ہر فرد کے لئے تیری غلامی لا زمی ہے گویا تیری حکومت دنیوی بادشاہوں کی طرح عارضی اور فانی نہیں بلکہ دائمی حکومت تجھے عطا کی جاتی ہے اور ہمیشہ کی سرفرازی تجھ کو بخشی جاتی ہے اب کوئی ماں ایسا بچہ نہیں بن سکتی جو تیرے مقابل میں کھڑا ہو سکے.یہ کیسا شاندار مقام ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا اور کیسا عظیم الشان دربار ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز کے لئے منعقد ہوا.دیوان خاص کی چوتھی غرض (۴) چوتھی غرض دیوانِ خاص کی یہ ہوتی ہے کہ بادشاہ اپنے درباریوں کو اُن کے اچھے کاموں پر خطاب دیتا اور انعام بخشتا ہے مگر دنیا کے درباروں میں میں نے دیکھا کہ خطاب ہے تو بے معنی اور انعام ہے تو فانی ، حکومتیں خان بہادر اور خان صاحب کا خطاب دیتی ہیں مگر حقیقتا نہ وہ خان ہوتے ہیں نہ بہادر.پھر انعام دیتی ہیں تو بسا اوقات وہ انعام عارضی ثابت ہوتے ہیں اور دوسری حکومت چھین لیتی ہے.کبھی انعام ملنے سے پہلے ہی وہ صاحب ختم ہو جاتے اور کبھی اُن سے فائدہ اُٹھانے کی
۴۸۱ توفیق ہی نہیں ملتی.کھانا ملتا ہے تو معدہ خراب ہو جاتا ہے، کپڑا ملتا ہے تو جسم پر خارش یا کوڑھ ہو جاتا ہے اور انسان نہ اس کھانے سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے نہ کپڑے سے.کبھی انعام لینے والے خود حکومت کے دشمن ہو جاتے ہیں جیسے بعض انگریز کے خوشامدی اور اس سے انعام و اکرام لینے والے آج ہم سے اس لئے نا خوش ہیں کہ یہ انگریز کی اطاعت کرتے تھے اُس وقت ان کی تعریف سے ان کے لب خشک ہوتے تھے اور بڑی بڑی کوششوں اور التجاؤں کے بعد انعام لیتے تھے اور اب ہم پر جنھوں نے کبھی کچھ نہیں لیا آنکھیں نکالتے ہیں کہ تم نے اُن کے اچھے کاموں کی تعریف کیوں کی.غرض دنیوی درباروں کا نہ خطاب حقیقت کے مطابق ہوتا ہے نہ انعام مستقل اور پائدار ہوتا ہے اور نہ انعام لینے والے حکومت کے سچے وفادار ہوتے ہیں.مگر میں نے دیکھا کہ صحابہ کرام کو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوَاعَتُهُ كا خطاب اس بار ا خطاب بالكل کا کا سچا اور انعام ہمیشہ کے لئے رہنے والا ہے چنانچہ دیکھ لو صحابہ کو اللہ تعالیٰ خطاب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَالسَّبِقُونَ الاَوَّلُونَ من الْمُهَجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمُ بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۵۴ یعنی مہا جرین اور انصار میں سے وہ لوگ جو سابق بالایمان ہیں اور اسی طرح وہ لوگ جنھوں نے نیکی اور تقویٰ میں ان کے نمونہ کی اتباع کی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اُس سے راضی ہو گئے یہ وہ عظیم الشان خطاب ہے جو صحابہ کرام کو ملا اور عَلَى رَؤُوسِ الْاَشْهَادِ اس کا اعلان کیا گیا.دنیا میں ہزاروں انقلابات آئے ، حکومتیں بدلیں ، حوادث رونما ہوئے مگر اس الہی دربار سے رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کا جو خطاب صحابہ کرام کو ملا تھا وہ بدل نہ سکا آج بھی جب صحابہ کا کوئی ذکر کرتا ہے تو ایک مخلص کا دل محبت اور پیار کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے اور وہ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُم وَرَضُوا عَنه کے بغیر نہیں رہتا اور قیامت تک ایسا ہی ہوتا چلا جائے گا.یہ کوئی معمولی بات نہیں دنیا میں لوگ نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں اور پھر اُن قربانیوں کے بعد جو بدلہ انہیں ملتا ہے وہ نہایت ہی ذلیل اور ادنیٰ قسم کا ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے انعامات اتنے اہم ہوتے ہیں اور اُن کا دائرہ اتنا وسیع ہوتا ہے کہ اُن کے مقابلہ میں دنیا کی بادشاہتیں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتیں مثلاً یہی بات دیکھ لو تیرہ سو سال ย رض
۴۸۲ عنهم کا زمانہ گزر نے کے باوجود آج بھی صحابہ کا ذکر آئے تو ہم رَضِيَ الله ضُوا عَنْهُ کہے بغیر نہیں رہ سکتے.اب یہ بھی ایک خطاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ایسا ہی جیسے خاں صاحب یا خاں بہا دریا سر یا ڈیوک یا ما رکوٹس یا ارل وغیرہ ہیں مگر سوچو تو سہی کتنے خان بہادر یا سر یا ڈیوک یا مار کوٹس یا ارک ہیں جن کا نام دنیا جانتی ہے یا کتنے بادشاہ ہیں جن کا نام دنیا خطاب سمیت لیتی ہے؟ بڑے بڑے بادشاہ دنیا میں گزرے ہیں مگر آج لوگ اُن کا نام نہایت بے پروائی سے لیتے ہیں.سکندر، دارا اور تیمور کا انجام کند و سیناری سکندر کتنا بڑا بادشاہ تھا یونان سے وہ چلتا ہے اور ہندوستان تک فتح کرتا چلا آتا ہے اور بڑی بڑی زبر دست حکومتوں کو راستہ میں شکست دیتا ہے مگر آج ایک غریب اور معمولی مزدور بھی سکندر کا نام نہایت بے پروائی سے لیتا ہے.بچے بھی سکندر سکندر کہتے پھرتے ہیں اور کوئی ادب کا لفظ اس کے لئے استعمال نہیں کرتا.دارا بھی ایک عظیم الشان بادشاہ تھا اور گوا سے سکندر کے مقابلہ میں شکست ہوئی مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ بھی زبر دست سلطنت کا مالک تھا اور چین تک اس کی حکومت پھیلی ہوئی تھی مگر آج لوگ اسے دارا دارا کہتے پھرتے ہیں بادشاہ کا لفظ بھی اُس کے متعلق استعمال نہیں کرتے.تیمور جو ایک زمانہ میں دنیا کے لئے قیامت بن گیا تھا آج اسے ساری دنیا تیمور لنگ یعنی لنگڑا تیمور کہتی ہے حالانکہ اپنے زمانہ میں اُس کی اتنی ہیبت تھی کہ جب وہ حملہ کرتا تو کشتوں کے پشتے لگا دیتا اور بعض جگہ تو لوگوں کو مار مار کر ان کی لاشوں کو جمع کرتا اور مینار کھڑا کر دیتا.بعض مؤرخ کہتے ہیں کہ اُس نے کئی لاکھ آدمی قتل کیا ہے مگر اب ایک ذلیل سے ذلیل انسان بھی جب تیمور کا ذکر کرتا ہے تو کہتا ہے لنگڑا تیمور حا لانکہ اُس کے زمانہ میں کسی کو یہ جرات نہیں تھی کہ وہ اسے لنگڑا تیمور کہے وہ شہنشاہ کہلاتا تھا اور بڑے بڑے حکمران اس کے خوف سے کانپتے تھے.صحابہ کی بے مثال عظمت غرض وہ بادشاہ جن کی اپنے زمانہ میں بڑی ہیبت تھی جن کا نام سنکر ہزاروں میل پر لوگ کانپ اُٹھتے اُن کا نام آج انتہائی لا پروائی کے ساتھ ایک معمولی اور بے حیثیت آدمی بھی لے لیتا ہے اور کئی تو ایسے ہیں جن کا نام بھی آج کوئی نہیں جانتا مگر وہ غریب بکریاں اور اونٹ چرانے والے صحابہ جنہوں
۴۸۳ نے غربت میں اپنی عمر میں گزار دیں آج ان کا نام آتا ہے تو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمُ وَرَضُوا عَنْه کہے بغیر ایک مسلمان کا دل مطمئن ہی نہیں ہوتا.حضرت ابو ہریرہ کی فاقہ کشی حضرت ابو ہریرہ کو ہی دیکھ لو وہ اپنے متعلق کہتے ہیں کہ مجھے سات سات وقت کا فاقہ ہو جا تا تھا اور جب میں شدت ضعف سے بیہوش ہو جاتا تھا تو لوگ میرے سر پر جوتے مارتے اور سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے پھر حضرت ابو ہریرہ کسی اعلیٰ خاندان میں سے نہ تھے کوئی نامور لیڈ ریا مشہور ادیب نہ تھے، کوئی فوجی ماہر یا سیاسی نفوذ رکھنے والے انسان نہ تھے مگر آج بھی ہماری کو یہ کیفیت ہے کہ ابو ہریرہ کا نام آتا ہے تو رَضِيَ اللهُ عَنْهُ کہے بغیر دل کو چین ہی نہیں آتا.حضرت ابوبکر رَضِيَ اللهُ عَنْهُ کا بلند مقام اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جو حالت تھی وہ خودان کے باپ کی شہادت سے ظاہر ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے باپ کا نام ابو قحافہ تھا جب حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے تو اُس وقت ابو قحافہ مکہ میں تھے کسی شخص نے وہاں جا کر ذکر کیا کہ ابو بکر عرب کا بادشاہ ہو گیا ہے.ابو قحافہ مجلس میں بیٹھے تھے کہنے لگے کونسا ابو بکر ؟ اُس نے کہا وہی ابو بکر قریشی.کہنے لگے کونسا قریشی ؟ اُس نے کہا وہی جو تمہارا بیٹا ہے اور کون.وہ کہنے لگے واہ! ابو قحافہ کے بیٹے کو عرب اپنا بادشاہ مان لیں یہ کیسے ہو سکتا ہے تو بھی عجیب باتیں کرتا ہے.غرض ابو قحافہ کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے متعلق یہ مان ہی نہیں سکتے تھے کہ سارا عرب انہیں بادشاہ تسلیم کر لے گا مگر اسلام کی خدمت اور دین کے لئے قربانیاں کرنے کی وجہ سے آج حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو عظمت حاصل ہے وہ دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل نہیں آج دنیا کے بادشاہوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جسے اتنی عظمت حاصل ہو جتنی حضرت ابو بکر کو حاصل ہے بلکہ حضرت ابو بکر تو الگ رہے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو اتنی عظمت حاصل نہیں جتنی مسلمانوں کے نزدیک ابو بکر کے نوکروں کو حاصل ہے اس لئے کہ اُس نے ہمارے رب کے دروازہ پر سجدہ کیا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے در کا غلام ہو گیا اب یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص اس عظمت کو ہمارے دلوں سے محو کر سکے اور اُس خطاب کو چھین سکے جو اس نے اپنے دربار میں صحابہ کرام کو دیا.آج صحابہ کے زمانہ پر تیرہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر آج بھی وہ خطاب جو خدا نے اُن کو دیا تھا قائم ہے اور رہتی دنیا تک قائم رہیگا.
۴۸۴ رقابت اور عناد سے پاک دربار پھر دُنیوی بادشاہوں کے دیوان خاص میں باریاب ہونے والوں کو خطابات ملتے ہیں تو باہم رقابت اور دشمنی اور لڑائی شروع ہو جاتی ہے لیکن اس دیوان خاص میں شریک ہونے والوں کے دلوں میں کوئی رقابت کوئی دشمنی اور کوئی لڑائی نہیں ہوتی بلکہ ان کے دل ایک دوسرے کی محبت اور پیار کے جذبات سے لبریز ہوتے ہیں فرماتا ہے.وَالَّذِيْنِ جَآءُ وُا مِنْ بَعْدِهُمُ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلُ فِي قُلُو بِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُ وُفٌ رَّحِيمٌ ۸۵ یعنی بعد میں آنے والے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ئیں کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! تو ہمیں بھی بخش اور ہمارے اُن بھائیوں کو بھی بخش جو ہم سے ایمان لانے میں سبقت اختیار کر چکے ہیں اور ہمارے دلوں کو اُن کے متعلق ہر قسم کے کینہ اور بغض سے صاف کر دے.اے ہمارے رب! تو بڑا مہربان اور بڑا رحم کر نیوالا ہے.تعلقات کی خرابی کی تین وجوہ دنیا میں تعلقات کی تمام تر خرابی حسد، رقابت اور آئندہ کے خطرات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.حسد پہلوں سے ہوتا ہے رقابت ہمعصروں سے ہوئی ہے اور خطرہ بعد میں آنے والوں سے ہوتا ہے لِلَّذِينَ آمَنُوا کہہ کر ایک سچا مؤمن اِن تینوں نقائص سے اپنا دل صاف رکھنے کی خواہش کرتا ہے گویا اس کا دل ایسا پاکیزہ ہوتا ہے کہ اس میں نہ پہلوں کا حسد ہوتا ہے نہ ہمعصروں کی رقابت ہوتی ہے اور نہ بعد میں آنے والوں کے متعلق کوئی بدظنی ہوتی ہے.وه ہر قسم کے بغض اور کینہ سے مبرا وجود اسی طرح اللہ تعالی اس دیوان خاص“ والے درباریوں کی نسبت فرما تا ہے کہ اِنَّ الْمُتَّقِينَ فِى جَتْتٍ وَعُيُون اُدْخُلُوهَا بِسَلم امِنِيْنَ وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلّ اِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُتَقَبِلِينَ ٥٦٠ یعنی متقی لوگ باغات اور چشموں والے مقامات میں ہو نگے اور انہیں کہا جائیگا کہ تم سلامتی کے ساتھ ان میں داخل ہو جاؤ اور ان کے سینوں کو ہر قسم کے بغض اور کینہ اور حسد سے پاک کر دیا جائیگا اور وہ بھائی بھائی بن کر جنت میں رہیں گے.
۴۸۵ الہی خطابات کو چھینے کی کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا غرض اس دربار میں خطابات تقسیم ہوتے ہیں تو باہم چپقلش اور رقابت شروع نہیں ہو جاتی اور پھر خطابات ملتے ہیں تو وہ نہ صرف حقیقت کے مطابق ہوتے ہیں بلکہ دنیا لاکھ کوشش کرے وہ اُن کو چھینے کی طاقت نہیں رکھتی.اس دربار سے اگر کسی کو نبی کا خطاب دیا گیا تو وہ نبی فوت ہو چکا اور ہزار ہا برس اس کی وفات پر گزر گئے مگر نبی کا خطاب موجود ہے اور اگر اس سے کوئی منکر ہوتا ہے تو فوراً با غیوں میں شریک ہو جاتا ہے حکومت بدل گئی ، گورنر کے بعد گورنر تبدیل ہوئے مگر مجال ہے کہ پُرانے گورنر کی کوئی ہتک کر سکے اور اُس کے درجہ کو کم کر سکے! غرض یہ وہ دربار ہے جس میں درباری کو جو خطاب دیا جاتا ہے اُس کے چھینے کی کسی میں طاقت نہیں ہوتی اور پھر جو خطاب دیا جاتا ہے وہ بالکل سچا اور حقیقت کے مطابق ہوتا ہے.اگر کسی کو بہا در کہتا ہے تو وہ بہادر ہی ہوتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ حکومت اسے ” خان بہادر کہے اور وہ ایک چھو ہے سے بھی ڈرتا رہے.رض محمد رسول اللہ اور صحابہ کرام کو ایک اور عظیم الشان خطاب پھر ہم نے دیکھا کہ اور اور اسی قسم کا ایک اور اعلان بھی اس دربار سے ہو رہا تھا اور دربارِ خاص کا مالک اپنے گورنر جنرل کے متعلق کہہ رہا تھا کہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةٌ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ تَراهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيمَا هُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۸۷ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اور وہ لوگ جو اُن پر ایمان لاکر ان کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں کفار کے لئے بڑے سخت واقع ہوئے ہیں مگر ان کا آپس میں سلوک انتہائی رحم اور شفقت پر مبنی ہے تو انہیں دیکھے گا کہ وہ رات اور دن خدا تعالیٰ کے حضور رکوع وسجود میں بسر کرتے اور اس کا فضل تلاش کرتے ہیں اور اس کی رضا کے حصول کے لئے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں اور اُنکی اس پاکیزہ زندگی کا نشان خود ان کے چہروں سے عیاں ہو گیا ہے.ات مؤثرہ اور قوت متاثرہ کے کرشمے حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسا بنا یا ہے کہ وہ ایک طرف تو اپنے
۴۸۶ گر دو پیش کے اثرات کو قبول کرنے کے لئے بڑی شدت سے مائل رہتا ہے اور دوسری طرف اس میں یہ بھی طاقت ہے کہ اگر چاہے تو وہ ایسے اثرات کو قبول کرنے سے انکا ر کر دے.گویا ایک طرف تو وہ ایک مضبوط چٹان ہے کہ جس سے سمندر کی تیز لہریں ٹکرا کر واپس لوٹ جاتی ہیں اور اُس پر ذرا بھی نشان پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتیں اور دوسری طرف وہ ایک اسفنجی کے ٹکڑے کی طرح یا نرم موم کی طرح ہے کہ اُس پر ہاتھ ڈالتے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس و میں طاقت مقابلہ ہے ہی نہیں اور یہی دونوں چیزیں انسان کے تمام اعمال کی جڑ ہیں یعنی کسی جگہ پر اثر قبول کرنا اور کسی جگہ پر اُس کو رڈ کر دینا.اچھے اثرات کو قبول کرنے اور بُرے اثرات کو رڈ کرنے کی خوبی اس جگہ محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کے متعلق یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ اور رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ ہیں یعنی یہ نہیں کہ وہ ہر اثر کو قبول کرنے والے ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو کی وہ شیطان کا اثر بھی قبول کر لیتے اور یہ بھی نہیں کہ کسی کا اثر قبول نہ کریں کیونکہ اس صورت میں وہ فرشتوں کے اثر کو بھی رڈ کر دیتے بلکہ اُن کے اندر یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں.ان میں یہ بھی طاقت ہے کہ خواہ کتنے ہی تکلیف دہ نتائج ہوں پھر بھی وہ کسی غلط اثر کو قبول نہیں کرتے اور یہ بھی طاقت ہے کہ خواہ حالات کتنے مخالف ہوں وہ اچھی چیز کے اثر کو رڈ نہیں کرتے.جب کسی ایسی چیز کا سوال ہو جو مذہب اور دین کے خلاف ہو تو وہ ایک ایسے پہاڑ کی مانند بن جاتے ہیں جس پر کوئی چیز اثر نہیں کر سکتی لیکن جہاں تقویٰ اور باہمی اخوت اور برادرانہ تعلقات کا سوال ہو وہاں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ تصویر لینے کا ایک شیشہ ہیں اور فوراً اس کے عکس کو قبول کر لیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا نمونہ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی زندگی میں یہ دونوں باتیں نہایت نمایاں طور پر پائی جاتی تھیں یعنی ایک طرف تو غیرت میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ دین کے خلاف کوئی بات سننا تک برداشت نہیں کر سکتے تھے اور دوسری طرف وہ محبت میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ اپنے بھائیوں کا کوئی ا قصور انہیں نظر ہی نہیں آتا تھا.چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دشمنوں
۴۸۷ نے کئی مواقع پر چاہا کہ آپ ان کے بارہ میں نرمی سے کام لیں اور اُن کے بتوں کی تنقیص نہ کریں مگر آپ نے کسی مرحلہ پر بھی اُن کے آگے سر نہیں جھکا یا حالانکہ آپ جانتے تھے کہ اس انکار کے نتیجہ میں ان لوگوں کی آتشِ غضب اور بھی بھڑک اُٹھے گی اور یہ پہلے سے زیادہ جوش کی اور انتقامی قوت کے ساتھ اسلام کو مٹانے کے لئے کمر بستہ ہو جا ئینگے مگر آپ نے اپنی یا اپنے عزیزوں اور ساتھیوں کی مشکلات کی کوئی پرواہ نہ کی اور ہمیشہ انہیں یہی کہا کہ خدا نے جس پیغام کے پہنچانے کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی ہے میں اس کے پہنچانے میں اپنے آخری سانس تک کوشش کرتا چلا جاؤں گا اور کبھی اس میں غفلت اور کوتا ہی سے کام نہ لونگا.عمائد قریش کے آنے پر رسول کریم جب مکہ میں اسلام نے پھیلنا شروع کیا اور قریش کو نظر آنے لگا کہ ان کی کوششیں صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے چا کو جواب ناکامی کا رنگ اختیار کرتی جا رہی ہیں تو انہوں نے اپنا ایک وفد ابو طالب کے پاس بھیجا جس میں ابو جہل ، ابوسفیان اور عتبہ وغیرہ قریش کے بڑے بڑے رؤساء شامل تھے.انہوں نے ابوطالب کے پاس آکر کہا کہ آپ ہماری قوم میں معزز ہیں اس لئے ہم آپ سے یہ درخواست کرنے آئے ہیں کہ اب بات حد سے بڑھ چکی ہے ہم نے آج تک بہت صبر کیا ہے مگر اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے آپ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں کہ وہ ہمارے بتوں کو بُرا بھلا کہنا چھوڑ دے اور اگر وہ نہ مانے تو اس کی حمایت سے دست بردار ہو جائیں ہم خود اس سے نپٹ لینگے.اور اگر آپ اپنے بھتیجے کو بھی نہ سمجھا ئیں اور اس کی حمایت سے بھی دست بردار نہ ہوں تو ہم آپ کا بھی مقابلہ کرینگے اور آپ کو اپنی لیڈری سے الگ کر دینگے.ابوطالب کے لئے یہ ایک نہایت ہی نازک موقع تھا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا یا اور کہا اے میرے بھتیجے! آج تیری قوم کے معززین کا ایک وفد میرے پاس آیا تھا وہ تیری باتوں سے سخت مشتعل ہو چکے ہیں اور قریب ہے کہ وہ لوگ کوئی سخت قدم اُٹھا ئیں اور مجھے بھی تکلیف پہنچا ئیں.میں محض تیری خیر خواہی کے لئے کہتا ہوں کہ ان باتوں کو چھوڑ دے ورنہ میں اکیلا ساری قوم کا مقابلہ نہیں کر سکتا.میں سمجھتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی افسردگی کی گھڑیوں میں سے یہ سخت ترین گھڑی تھی ایک طرف وہ شخص تھا جس نے نہایت محبت سے آپ کو پالا تھا اور جس کے پاؤں میں کانٹا چبھنا بھی آپ گوارہ نہ کر سکتے تھے اُسے ساری قوم دُکھ دینے
۴۸۸ اور نقصان پہنچانے کی دھمکی دے رہی تھی اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی صداقت کا اظہا رتھا.آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ نے کہا.اے میرے چچا! آپ بیشک میرا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنی قوم کے ساتھ مل جائیں.خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر کھڑا کر دیں تب بھی میں خدائے واحد کی توحید کے اعلان سے نہیں رک سکتا ۸۸ کیونکہ یہی وہ کام ہے جس کے لئے میں اس دنیا میں بھیجا گیا ہوں.آپ کا انتہائی مشکلات اور مصائب کے اوقات میں جبکہ ابو طالب کے قدم بھی لڑکھڑا گئے تھے یہ دلیرانہ جواب اس لئے تھا کہ آپ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ کی صفت کے حامل تھے اور دین کے لئے اتنی غیرت رکھتے تھے کہ کفر کی ہر طاقت کے مقابلہ میں ایک مضبوط چٹان کی طرح ڈٹ جاتے تھے اور کسی بڑی سے بڑی مصیبت کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے.اسی طرح ایک دفعہ مسیلمہ کذاب آپ کے پاس مسیلمہ کذاب کی نا کام واپسی آیا اور اُس نے کہا اگر آپ مجھے اپنے بعد خلیفہ مقرر کر دیں تو میری ساری قوم آپ پر ایمان لانے کے لئے تیار ہے اُس وقت اس کی قوم کا ایک لاکھ سپاہی اس کی پشت پر تھا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اتنا چاہتا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد اسے حکومت دیدی جائے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں خدا نے أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ کی صفت کا حامل بنایا تھا انہوں نے جب اس بات کو سُنا تو آپ نے کھجور کی شاخ کے ایک تنکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو اُس وقت آپ کے ہاتھ میں تھی فرمایا تم تو خلافت کہتے ہو میں تو تمہیں یہ تنکا بھی دینے کے لئے تیار نہیں.یہ جواب ایسا تھا جس پر وہ غصہ اور ناراضگی کی حالت میں واپس چلا گیا ۱۹، اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو وہ اپنے ایک لاکھ سپاہیوں کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہوا اور اُس نے ایسا شدید حملہ کیا جس کی مثال کسی پہلے حملہ میں نہیں ملتی مگر باوجود اس کے کہ مسیلمہ اور اس کی قوم کی طرف سے حقیقی خطرہ کا امکان تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مطالبہ کو رڈکر دیا اور اس بات کی ذرہ بھی پرواہ نہ کی کہ اس کے نتیجہ میں کیا مشکلات آسکتی ہیں.ایک صحابی کی درخواست پر رسول کریم صلی اللہ مگر جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے مقابلہ میں ایک ایسے علیہ وسلم کا اسے اپنی چادر دے دینا پہاڑ کی حیثیت رکھتے تھے جس سے ٹکرا کر انسان کا سر پاش پاش ہو جاتا ہے
۴۸۹ مگر پہاڑ اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا وہاں اپنے ماننے والوں کے متعلق آپ کے دل میں اس قدر محبت اور پیار کے جذبات پائے جاتے تھے کہ احادیث میں لکھا ہے ایک دفعہ ایک مخلص عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خوبصورت چادر پیش کی جو اس نے اپنے ہاتھ سے بنی تھی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ اسے اپنی ذات کے لئے استعمال فرمائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ چادر پہن کر باہر تشریف لائے تو ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے کہا یا رَسُولَ اللهِ ! یہ چادر مجھے دے دیجئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس چادر کی خود ضرورت تھی مگر آپ نے اس کے سوال کو رڈ کرنا مناسب نہ سمجھا اور فوراً واپس آکر اُسے چادر بھجوا دی.لوگوں نے اسے ملامت کی کہ تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چادر کیوں مانگ لی؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس کی خود ضرورت تھی.اُس نے کہا میں نے یہ چادر اپنے کفن کے لئے لی ہے چنانچہ راوی کہتا ہے کہ بعد میں وہی چادر اس کا کفن بنی.۹۰ غرباء کی دلداری اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں تشریف لے جا رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک غریب صحابی جو اتفاقی طور پر بدصورت بھی تھے سخت گرمی کے موسم میں اسباب اُٹھا رہے ہیں اور اُن کا تمام جسم پسینہ اور گردوغبار سے آٹا ہوا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے ان کے پیچھے چلے گئے اور جس طرح بچے کھیل میں چوری چھپے دوسرے کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ وہ اندازہ سے بتائے کہ کس نے اُس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا ہے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی سے اُس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے.اُس نے آپ کے ملائم ہاتھوں کو ٹول کر سمجھ لیا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو محبت کے جوش میں اس نے اپنا پسینہ سے بھرا ہوا جسم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کے ساتھ ملنا شروع کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے اور آخر آپ نے فرمایا میرے پاس ایک غلام ہے کیا اس کا کوئی خریدار ہے اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! میرا اخریدار دنیا میں کون ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ایسا مت کہو خدا کے حضور تمہاری بڑی قیمت ہے.21 عورتوں کی تکلیف کا احساس ایک دفعہ آپ نے فرمایا جب میں نماز پڑھا تا ہوں تو بعض دفعہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں نماز کو لمبا کروں مگر اچانک میرے کانوں میں کسی بچہ کے رونے کی آواز آجاتی ہے اس پر میں جلدی جلدی نماز
۴۹۰ پڑھا دیتا ہوں تا کہ اس کی ماں کو تکلیف نہ ہو.۹۲، غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہمیں دونوں قسم کے نظارے نظر آتے ہیں وہ نظارے بھی جن میں آپ دشمن کے سامنے ایک سگی تلوار کی طرح کھڑے ہو گئے اور نہ اس کی دھمکیوں سے مرعوب ہوئے نہ اس کی خوشامد سے متاثر ہوئے.اور وہ نظارے بھی جن میں آپ نے اپنے ماننے والوں سے ایسی شفقت اور محبت کا سلوک کیا کہ کوئی ماں بھی اپنے بچوں سے اس شفقت کا اظہار نہیں کرتی.جنگ بدر میں صحابہ کا دشمن کیلئے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے متبعین میں بھی یہ دونوں اوصاف پیدا فرما دیے تھے اور پیغام موت بن کر ظاہر ہونا وہ بھی اگر ایک طرف أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ کی صفت کے حامل تھے تو دوسری طرف ماننے والوں کے لئے مجسمہ ء رحم و الفت تھے.چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بدر کی جنگ ہوئی تو اس جنگ میں صرف تین سو تیرہ آدمی مسلمانوں کی طرف سے شریک ہوئے اور وہ بھی بالکل بے سروسامان اور ناتجربہ کار تھے لیکن دشمن کا ایک ہزار سپاہی تھا اور پھر وہ سارے کا سارا تجربہ کا رآدمیوں پر مشتمل تھا اور اسلحہ کی بھی بڑی بھاری مقدار اُن کے پاس موجود تھی ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی کہ ابو جہل نے ایک عرب سردار سے کہا کہ تم جاؤ اور یہ اندازہ کر کے آؤ کہ مسلمانوں کی کتنی تعداد ہے؟ جب وہ اسلامی لشکر کا جائزہ لینے کے بعد واپس گیا تو اُس نے کہا میرا اندازہ یہ ہے کہ مسلمان تین سو او رسوا تین سو کے درمیان ہیں.ابو جہل اس پر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہم نے میدان مار لیا.اس نے کہا اے میری قوم! بیشک مسلمان تھوڑے ہیں لیکن میرا مشورہ یہی ہے کہ مسلمانوں سے لڑائی نہ کرو.انہوں نے کہا تو بڑا بزدل ہے آج ہی یہ لوگ قابو آئے ہیں اور آج ہی تو ہمیں ایسا بزدلانہ مشورہ دے رہا ہے.اُس نے کہا یہ درست ہے مگر پھر بھی میں تمہیں یہی مشورہ دونگا کہ جنگ نہ کرو کیونکہ اے میری قوم! میں نے اونٹوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں ۹۳ یعنی میں نے جس شخص کو بھی دیکھا اُس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ اس نیت اور ارادہ کے ساتھ میدان جنگ میں آیا ہے کہ آج مر جانا ہے یا مار دینا ہے اس کے سوا اور کوئی جذبہ اُن کے دلوں میں نہیں پایا جاتا تھا.یہ فدائیت کا بے مثال جذبہ مسلمانوں میں اسی لئے پیدا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ کی صفت کا حامل بنایا تھا اور وہ تھوڑی تعداد میں ہوتے
۴۹۱ ہوئے بھی بڑے بھاری تجربہ کاراور مسلح لشکر کے مقابلہ میں پیغام موت بن کر نمودار ہوتے تھے.اہل عرب کے ارتداد پر حضرت ابو بکر کی حیرت انگیز جرات اس طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے تو سارا عرب مرتد ہو گیا اور حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ جیسے بہادر انسان بھی اس فتنہ کو دیکھ کر گھبرا گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے قریب ایک لشکر رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا اور حضرت اسامہ کو اس کا افسر مقرر کیا یہ لشکر ابھی روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور آپ کی وفات پر جب عرب مرتد ہو گیا تو صحابہ نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہ کا لشکر ابھی رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دیا گیا تو پیچھے صرف بوڑھے مرد اور بچے اور عورتیں رہ جائیں گی اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں رہے گا چنانچہ انہوں نے تجویز کی کہ اکابر صحابہ کا ایک وفد حضرت ابو بکر کی خدمت میں جائے اور اُن سے درخواست کرے کہ وہ اس لشکر کو بغاوت کے فرو ہونے تک روک لیں.چنانچہ حضرت عمرؓ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے یہ درخواست پیش کی.حضرت ابو بکر نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے نہایت غصہ سے اس وفد کو یہ جواب دیا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوقحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کا حکم دیا تھا اُسے روک لے؟ پھر آپ نے فرما یا خدا کی قسم ! اگر دشمن کی فوجیں مدینہ میں گھس آئیں اور کتے مسلمان عورتوں کی لاشیں گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا ؟ یہ جرات اور دلیری حضرت ابو بکر میں اسی وجہ سے پیدا ہوئی کہ خدا نے یہ فرمایا کہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ.جس طرح بجلی کے ساتھ معمولی تار بھی مل جائے تو اس میں عظیم الشان طاقت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کے نتیجہ میں آپ کے ماننے والے بھی أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ کے مصداق بن گئے.حضرت ابو بکر کی اسلام کیلئے غیرت اور جذ بہ فدائیت اسی طرح ایک دفعہ باتوں باتوں میں حضرت ابوبکر
۴۹۲ کے ایک بیٹے نے جو بعد میں مسلمان ہوئے تھے کہا ابا جان! فلاں جنگ میں جب آپ مقام سے گزرے تھے تو اُس وقت میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا ہوا تھا میں اگر چاہتا تو آپ کو قتل کر سکتا تھا مگر میں نے کہا باپ کو مارنا درست نہیں.حضرت ابو بکر نے جواب دیا خدا نے تجھے ایمان نصیب کرنا تھا اس لئے تو بچ گیا ورنہ خدا کی قسم ! اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو ضرور مار ڈالتا.۹۵ عبد اللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے کا اخلاص ایک جنگ کے موقع پر انصار اور مهاجرین میں جھگڑا پیدا ہو گیا.اُس وقت عبد اللہ بن ابی بن سلول جو ایک دیرینہ منافق تھا اُس نے سمجھا کہ یہ انصار کو بھڑ کانے کا اچھا موقع ہے وہ آگے بڑھا اور اُس نے کہا اے انصار ! یہ تمہاری غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ تم نے مہاجرین کو سر چڑھا لیا اب مجھے مدینہ پہنچ لینے دو پھر دیکھو گے کہ مدینہ کا سب سے زیادہ معزز شخص یعنی نَعُوذُ باللهِ وہ خود مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی یعنی نَعُوذُ باللهِ محمد رسول الله اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے نکال دیگا.عبد اللہ کا بیٹا ایک سچا مسلمان تھا جب اُس نے اپنے باپ کی یہ بات سنی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! میرے باپ نے جو بات کہی ہے اس کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں ہو سکتی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ اسے یہی سزا دینگے لیکن اگر آپ نے کسی اور مسلمان کو کہا اور اس نے میرے باپ کو قتل کر دیا تو ممکن ہے اُس کو دیکھ کر میرے دل میں کبھی خیال آ جائے کہ یہ میرے باپ کا قاتل ہے اور میں جوش میں آکر اُس پر حملہ کر بیٹھوں اس لئے يَا رَسُولَ اللهِ ! آپ مجھے حکم دیجئے کہ میں اپنے باپ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کروں تا کہ کسی مسلمان کا بغض میرے دل میں پیدا نہ ہو.24 یہ واقعہ کس طرح ان دونوں اوصاف کو ظاہر کر رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام میں ودیعت کر دیئے تھے یعنی ایک طرف وہ کفر کے لئے ایک ننگی تلوار تھے اور دوسری طرف اپنے بھائیوں کے جذبات کا انہیں اتنا احساس تھا کہ عبداللہ کے بیٹے نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر درخواست کی کہ يَا رَسُولَ اللهِ! اگر آپ میرے باپ کے متعلق قتل کا حکم صادر فرما ئیں تو پھر یہ کام میرے سُپر د کیا جائے تاکہ کسی اور مسلمان کا بغض میرے دل میں پیدا نہ ہو.
۴۹۳ ایک معمولی شکر رنجی کے موقع پر اسی طرح ایک دفعہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر میں کسی بات پر شکر رنجی ہو گئی.غلطی حضرت عمرؓ حضرت ابوبکر کے پاکیزہ جذبات کی تھی مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمرؓ پر ناراض ہونے لگے تو حضرت ابو بکر آگے بڑھے اور کہنے لگے یا رَسُولَ اللہ امیر ا قصور تھا عمر کا کوئی قصور نہیں تھا.2 گویا جس طرح ایک ماں اپنے بچے کے متعلق اُستاد سے شکایت کرتی ہے لیکن جب وہ ڈانتا ہے تو سب سے زیادہ دُکھ بھی ماں کو ہی ہوتا ہے یہی حال صحابہ کا تھا اُن کے دلوں میں اپنے بھائیوں کی اتنی محبت پائی جاتی تھی کہ وہ ان کی معمولی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے.حضرت عمررؓ کا ایک بدوی عورت کے بچوں کے فاقہ پر تلملا اٹھنا حضرت عمر کو دیکھ لو اُن کے رُعب اور د بد بہ سے ایک طرف دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ کا نپتے تھے ، قیصر و کسریٰ کی حکومتیں تک لرزہ براندام رہتی تھیں مگر دوسری طرف اندھیری رات میں ایک بدوی عورت کے بچوں کو بھوکا دیکھ کر عمر جیسا عظیم المرتبت انسان تلملا اٹھا اور وہ اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری لا دکر اور گھی کا ڈبہ اپنے ہاتھ میں اُٹھا کر اُن کے پاس پہنچا اور اُس وقت تک واپس نہیں لوٹا جب تک کہ اُس نے اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر اُن بچوں کو نہ کھلا لیا اور وہ اطمینان سے سو نہ گئے.۹۸ عبادت الہی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استغراق پھراللہ تعلی نے بتایا تھا کہ محمد رسول اللہ اور آپ کے ساتھی صرف أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ اور رُحْمَاءُ بَيْنَهُمْ ہی نہیں بلکہ رُكَّعاً سُجَّدًا کے بھی مصداق ہیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ خوبی بھی اُن میں نمایاں طور پر پائی جاتی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث سے ثابت ہے کہ آپ رات کو اللہ تعالیٰ کے حضور اتنی اتنی دیر عبادت میں کھڑے رہتے تھے کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے.29 ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ يَا رَسُولَ الله ! آپ اس قدر عبادت کیوں کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مغفرت کا وعدہ فرمایا ہوا ہے.فرمایا اے عائشہ ! کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ ۱۰۰
۴۹۴ میدانِ جنگ میں بھی نمازوں کی بالالتزام ادائیگی اپنی طرح صحابہ کی یہ حالت تھی کہ میدانِ جنگ میں بھی وہ نمازوں کی ادائیگی کا التزام رکھتے تھے اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور رہتے اور دعاؤں اور ذکر الہی میں اپنا وقت گزارتے.سربسجود غرض دنیوی درباروں میں بادشاہوں کی طرف سے جو خطابات دیئے جاتے ہیں وہ بسا اوقات حقیقت کے برعکس ہوتے ہیں مگر یہ عجیب دربار ہے کہ اس میں بادشاہ کی طرف سے جو خطاب دیا جاتا ہے وہ حقیقت کے عین مطابق ہوتا ہے اور پھر وہ خطاب چلتا چلا جاتا ہے دنیا لاکھ کوشش کرے، زمانہ میں ہزاروں انقلاب آئیں اس خطاب کو کوئی طاقت بدل نہیں سکتی.دربارِ خاص میں انعامات کا اعلان اب میں ان بعض انعامات کا ذکر کرتا ہوں جو اس الہی دربار میں خدا تعالیٰ نے اپنے گورنر جنرل کو عطا کئے اور جن کی نظیر دنیا کے درباروں میں اور کہیں نظر نہیں آسکتی.اللہ تعالیٰ نے اپنے دربارِ خاص میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا اور اُن کے لئے اپنے خاص انعامات کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ اِنَّا اَعْطَيْنكَ الْكَوْثَرَ فَصَلَّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الُا بْتَرُال یعنی اے ہمارے گورنر جنرل ! ہم نے تجھے کوثر عطا کیا ہے پس تو اس نعمت عظیمہ کی شکر گزاری کے طور پر اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہو جا اور قربانیوں پر زور دے یقیناً تیرا دشمن ہی ابتر رہے گا.کوثر کے معنے کوثر کے معنے عربی زبان میں ہر قسم کی خیر اور برکت اور بھلائی کی کثرت کے ہوتے ہیں ۱۰۲ گویا کوئی خیر نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل نہیں ہوئی اور کوئی برکت نہیں جو آپ کو نہیں ملے گی اور پھر وہ خیر اور برکت اتنی کثرت کے ساتھ ملے گی کہ اس کثرت میں بھی دنیا کا کوئی انسان آپ کا مقابلہ نہیں کر سکے گا.سورۃ کوثر کے نزول کے وقت رسول اللہ جس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس انعام کا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی حالت اعلان کیا گیا آپ کی اور آپ کے ساتھیوں کی یہ حالت تھی کہ باہر نکل
۴۹۵ کر نماز بھی ادا نہیں کر سکتے تھے اور آپ کے پیغام کو ماننے والے صرف چند افراد تھے جو اُنگلیوں پر گنے جا سکتے تھے.تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو اُس وقت تک مکہ کے گل بیاسی آدمی آپ پر ایمان لائے تھے ۱۰۳ مگر یہ تو آخری دنوں کی بات ہے اس سے پہلے یہ حالت تھی کہ صرف چند آدمی جن کی تعداد دس پندرہ سے زیادہ نہیں تھی آپ پر ایمان لائے.مکہ کی آبادی اُس وقت آٹھ دس ہزار کی تھی اور آٹھ دس ہزار کی آبادی میں سے ایک دودرجن کے قریب آدمیوں کا ساتھ ہونا اور سارے شہر کے لوگوں کا مخالف ہونا اور ایسا مخالف ہونا کہ ہر وقت ان کا مسلمانوں کی جان لینے کی فکر میں رہنا بتاتا ہے کہ مسلمانوں کی اُس وقت کیسی نازک حالت تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا گھونٹنے کی کوشش خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ گوآر کو خانہ کعبہ میں جا کر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں تھی مگر کبھی کبھی آپ محبت الہی کے جوش میں وہاں چلے جاتے اور نماز ادا فرماتے.ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ شہر کے غنڈے اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے آپ کو پیٹنا شروع کر دیا اور پھر آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اُسے گھونٹنے لگے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ دوڑے دوڑے وہاں آئے اور انہیں ہٹانا شروع کیا اُس وقت وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خون پو نچھتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ اے میری قوم! تم کو کیا ہو گیا کہ تم ایک ایسے شخص کو مارتے ہو جس کا قصور سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے.اسی طرح آپ پر ایمان لانے والوں کو طرح طرح کے دُکھ دیئے جاتے.اولد حضرت عثمان بن مظعون کا واقعہ حضرت عثمان بن مظعون ایک بہت بڑے رئیس کی اولاد میں سے تھے.ہجرت اولیٰ کے مسلمان.وقت وہ ایسے سینیا کی طرف چلے گئے تھے مگر بعد میں کفار نے یہ خبر اُڑا دی کہ مکہ کے تمام لوگ ہو گئے ہیں.اس پر بعض لوگ حبشہ سے واپس آگئے جن میں حضرت عثمان بن مظعون بھی شامل تھے.جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی تھی تو انہوں نے دوبارہ ایسے سینیا جانے کا ارادہ کیا اس پر ملکہ کا ایک رئیس جو اُن کے باپ کا گہرا دوست تھا اُن سے ملا اور اُس نے کہا تم واپس نہ جاؤ میں تمہیں اپنی پناہ میں لے لیتا ہوں.چنانچہ مروجہ دستور کے مطابق وہ انہیں
۴۹۶ خانہ کعبہ میں لے گیا اور وہاں اُس نے اعلان کر دیا کہ عثمان بن مظعون میری حفاظت میں ہے اب کوئی شخص اسے تکلیف نہ پہنچائے.اس اعلان کے نتیجہ میں عثمان بن مظعون گھلے بندوں مکہ میں پھر نے لگے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ دوسرے مسلمانوں کو مارتے پیٹتے ہیں تو اُن کی غیرت جوش میں آئی اور وہ اُس رئیس کے پاس آکر کہنے لگے کہ میں آپ کی پناہ میں نہیں رہنا چاہتا کیونکہ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو سکتا کہ میں تو آرام سے پھروں اور دوسرے مسلمان تکلیفیں اُٹھا ئیں.اُس نے بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانے اور آخر اُس نے اپنی پناہ کے واپس لینے کا اعلان کر دیا ایک دن عرب کے مشہور شاعر لبید جو بعد میں اسلام بھی لے آئے تھے مکہ میں آئے اور انہوں نے رؤساء کی محفل میں اپنے اشعار سنانے شروع کر دئیے.سناتے سناتے انہوں نے یہ مصرعہ پڑھا کہ: الا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ اے لوگو سنو کہ خدا کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے.حضرت عثمان بن مظعون یہ مصرعہ سنتے ہی بول اُٹھے کہ خوب کہا تم نے بڑی سچی بات کہی ہے.اب گوانہوں نے لبید کے مصرعہ کی داد دی تھی مگر لبید ایک نوجوان کی تعریف بھی برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے اسے تعریض سمجھتے ہوئے شعر پڑھنے بند کر دیئے اور کہا اے مکہ والو! کیا تم میں اب کوئی شریف آدمی نہیں رہا کہ یہ کل کا بچہ مجھے داد دیتا ہے.اس پر لوگوں نے معذرت کی اور حضرت عثمان بن مظعون کو ڈانٹا کہ خاموش رہو اس کے بعد لبید نے دوسرا مصرعہ پڑھا جو یہ تھا کہ: وَكُلُّ نَعِيمٍ لَا مُحَالَةَ زَائِلُ یعنی ہر نعمت آخر تباہ ہونے والی ہے.حضرت عثمان پھر بول اُٹھے کہ یہ بالکل غلط ہے جنت کی نعمتیں کبھی تباہ نہیں ہونگی.ان کا یہ کہنا تھا کہ لبید غصہ میں آ گیا اور انہوں نے کہا میری ہتک کی گئی ہے اب میں اپنا کلام نہیں سناؤ نگا.یہ دیکھ کر ایک شخص اُٹھا اور اُس نے اس زور سے اُن کی آنکھ پر مکہ مارا کہ ان کا ایک ڈیلا با ہر نکل آیا.یہ دیکھ کر مکہ کا وہی رئیس جس نے انہیں پناہ دی تھی حسرت کے ساتھ آگے بڑھا اور کہنے لگا کیا میں نہیں کہتا تھا کہ میری پناہ نہ چھوڑ ؟ وہ کہنے لگے تم تو یہ کہتے ؟ خدا کی قسم! میری تو دوسری آنکھ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں نکلنے کے لئے تیار ہے.۱۰۵ ہو بینہ اولاد نہ ہونے پر دشمن کی طعنہ زنی غرض یہ وہ حالت تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ پر گزر رہی
۴۹۷ تھی اور چونکہ آپ کے ہاں کوئی نرینہ اولا د بھی نہیں تھی اس لئے دشمن اپنی نا بینائی کی وجہ سے کہتا کہ یہ نَعُوذُ بِاللهِ اونتر انکھترا ( پنجابی ) یعنی بے نسل ہے نہ روحانی لحاظ سے اس کی کوئی جمعیت ہے اور نہ جسمانی لحاظ سے اس کی کوئی نرینہ اولاد ہے.ایسے حالات میں خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اور اُس نے کہا اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تجھے خیر کثیر عطا کرنے والے ہیں اور تیرے ان مخالفوں کو جو آج تجھے مٹانے پر کمر بستہ ہیں ابتر بنانے والے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چنا نچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کلام پر جوں جوں دن گزرتے چلے گئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ سے زیادہ خیر کثیر ملتی چلی گئی کو زیادہ سے زیادہ خیر اور برکت مالتی چلی گئی اور آپ کے مخالفوں کے حصہ میں زیادہ سے زیادہ نا کامی اور نا مرادی آتی گئی اور آخر وہ دن آیا کہ وہی شخص جسے اندھیری رات میں مکہ سے نکل جانے پر مجبور کر دیا گیا تھا ، جس کے قتل کے منصوبے کئے گئے تھے ، جس کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیا تھا، دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوا اور اُس نے تمام مکہ کے لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر کے پوچھا کہ بتاؤ اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ انہوں نے کہا ہم آپ سے اسی سلوک کی امید رکھتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا.آپ نے فرمایا جاؤ میں نے تم سب کو معاف کر دیا.4 ابوسفیان کا اقرار کہ محمد رسول اللہ دنیا مکہ کے لوگ مجھتے تھے کہ یہ اکیلا شخص کب تک اپنے مشن کو قائم رکھ سکتا ہے یہ آج نہیں تو کل تباہ کا سب سے بڑا بادشاہ ہو گیا ہے ہوجائیگا مگر خدا اسے کوثر دینے کا وعدہ فرما چکا تھا.اُس نے آپ کے ماننے والوں میں اتنی کثرت پیدا کی کہ ابوسفیان نے جب فتح مکہ کے موقع پر اسلامی لشکر کو دیکھا تو بے اختیار وہ حضرت عباس سے مخاطب ہو کر کہنے لگا عباس! تمہارے بھائی کا بیٹا آج دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ ہو گیا ہے.1 کفار کے بیٹے محمد رسول اللہ صلی اللہ پھر ان لوگوں کو اپنے بیٹوں پر بڑا نا ز تھا، مگر خدائی نشان دیکھ کر وہی عاص بن وائل جو بڑے علیہ وسلم کی غلامی میں آگئے تکبر سے اپنا نہ بند ٹکائے پھرتا اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتر کہا کرتا تھا اُس کا اپنا بیٹا
۴۹۸ مسلمان ہو گیا ، وہی ولید جو رات اور دن اسلام کے مٹانے پر کمر بستہ رہتا تھا اُس کا اپنا بیٹا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہو گیا ، وہی ابو جہل جو تمام کفار کا لیڈر تھا اور جس کی زندگی کی ایک ایک گھڑی اسلام کی مخالفت میں گزری اس کا اپنا بیٹا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد میں شامل ہو گیا.یہ ایک خطرناک قسم کی آگ تھی جو خدا نے اُن کے دلوں میں پیدا کر دی اور جس کے شعلے انہیں ہر وقت جلا کر خاکستر بناتے رہتے تھے اور انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اس آگ کے بجھانے کا کیا انتظام کریں.وہ خود اسلام کے دشمن تھے مگر اُن کی اولادوں نے اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈالنا شروع کر دیا اور وہ اپنے باپوں اور بھائیوں کے خلاف تلواریں چلانے لگ گئے.یہ ایک بہت بڑا عذاب تھا جس میں وہ رات اور دن مبتلاء رہتے تھے کہ جس مذہب کو مٹانے کے لئے انہوں نے اپنی عمریں صرف کر دیں وہی مذہب اُن کے گھروں میں داخل ہو گیا اور اس نے انہی کے بیٹوں کو اُس کا شکار بنالیا.کون ابنتر ثابت ہوا جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار قد وسیوں کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے تو اُس وقت گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان انہیں کچھ نہیں کہہ رہی تھی مگر مکہ کی گلیوں کی وہ زمین جس پر اُن قدوسیوں کے قدم پڑ رہے تھے اُن دشمنوں کو مخاطب کر کے کہہ رہی تھی کہ اے ابو جہل ! عتبہ، شیبہ اور ولید کہاں ہے؟ وہ تمہاری اولا د جس پر تم فخر کرتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتر کہا کرتے تھے.وہ ابتر ہے یا آج تم ابتر ثابت ہو رہے ہو؟ تمہاری اولادوں نے جن پر تمہیں ناز تھا تمہیں چھوڑ دیا اور وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں چلی گئیں.محمد رسول اللہ کی آج بھی دنیا میں روحانی اولا د موجود ہے اسی طرح آن تیرہ سو برس گزر گئے مگر دنیا میں کوئی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ میں ابو جہل کا بیٹا ہوں یا عتبہ اور شیبہ کا بیٹا ہوں مگر آج لاکھوں مسلمان یہ کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں کیونکہ خدا نے یہ کہا تھا کہ اے محمد رسول اللہ! ہم تجھے کوثر عطا کریں گے اور تیرے دشمن کو ابتر رکھیں گے.
۴۹۹ تمام الہامی کتب سے افضل پھر آپ کو اللہ تعالٰی نے اس رنگ میں بھی کوثر عطا کیا کہ آپ کو وہ کتاب ملی جس کی خیر اور الہامی کتاب محمد رسول اللہ کو دی گئی برکت کا مقابلہ دنیا کی کوئی کتاب نہیں کرسکتی وہ تمام الہامی کتابوں میں سے ایک زندہ الہامی کتاب ہے وہ علوم اور معارف میں ایک نا پیدا کنا رسمندر ہے، وہ دنیا کی تمام اخلاقی اور روحانی ضرورتوں کو پورا کرنے والی کتاب ہے ، دنیا کے علوم خواہ کتنے بھی ترقی کر جائیں، زمانہ خواہ کتنی کروٹیں بدل لے، یہ کتاب قیامت تک اُن کے لئے ایک کامل راہنما کا کام دیتی چلی جائے گی.محمد رسول اللہ کا مقام خاتم النبیین اور آپ کی عالمگیر بعثت پھر آپ کو درجہ ملا تو خاتم النبیین کا جس میں کوئی نبی بھی آپ کا شریک نہیں.پھر سب انبیاء ایک ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتے رہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِینَ بنا کر بھیجا گیا اور آپ کی برکات کا دائرہ اتنا وسیع کر دیا گیا کہ دنیا کی کوئی قوم آپ کی غلامی سے باہر نہ رہی.کرشن اور رام چندر کی تعلیم صرف ہندوستان کے لئے تھی، زرتشت کی تعلیم صرف ایران کے لئے تھی ، حضرت موسی سے لے کر حضرت مسیح تک تمام انبیاء کی تعلیم بنی اسرائیل کے لئے تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے ہر أسود وأحْمَر کی طرف مبعوث فرمایا اور آپ نے یہ اعلان کیا کہ بُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً الْاَحْمَرَ وَالْاَسْوَدَ - ١٠٨ وَمَا اَرْسَلُنكَ إِلَّا كَا فَةٌ لِلنَّاسِ.یعنی خدا تعالیٰ نے مجھے تمام عالم انسانی کی طرف مبعوث فرمایا اور ہر أسود وأحمر میرا مخاطب ہے.اب خواہ ایشیا کے رہنے والے ہوں یا افریقہ کے، یورپ کے رہنے والے ہوں یا جزائر کے، پہاڑوں میں رہنے والے ہوں یا میدانوں میں، گاؤں میں رہنے والے ہوں یا شہروں میں، سب پر آپ کی اطاعت فرض ہے اور کوئی شخص بھی آپ کی غلامی کا جوا اُٹھائے بغیر روحانی عمارت کی اینٹ نہیں بن سکتا.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لحاظ سے بھی خیر کثیر عطا ہر قسم کے خدام کا عطا کیا جانا کیا کہ اس نے ہر قسم کے انسان آپ کو عطا کئے.اگر جرنیلوں کی ضرورت تھی تو اس نے آپ کو ایسے جرنیل عطا کئے جن کے تدبر کا آج یورپ تک ہی
معترف ہے، اگر مبلغوں کی ضرورت تھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے مبلغ عطا فرمائے جو قرآن ہاتھ میں لے کر ساری دنیا میں نکل گئے اور انہوں نے ہزاروں لوگوں کو اسلام میں داخل کیا ، اگر جاں نثار اور فدا کا رغلاموں کی ضرورت تھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے مخلص جاں ثار عطا فرمائے جنہوں نے بھیڑ بکریوں کی طرح خدا تعالے کی راہ میں اپنے سر کٹا دیئے، اگر کسی جگہ عورتوں کی فدائیت کی ضرورت پیش آئی تو عورتیں آگے آگئیں ، اگر کسی جگہ نو جوانوں کا خون کی قوم کو درکار تھا تو نوجوان آگے نکل آئے ، اگر قوم کی ترقی کے لئے عابد و زاہد لوگوں کی ضرورت تھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑے بڑے شب بیدار اور عابد وزاہد نفوس عطا فرمائے غرض کونسی ضرورت تھی جو خدا تعالے نے پوری نہ کی.اخلاص اور فدائیت میں صحابہ کی امتیازی شان پھر اخلاص اور فدائیت کولو تو اس میں بھی جو برکت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو ملی وہ کسی اور نبی کے متبعین کو نہیں ملی.موسیٰ کے ساتھیوں نے ایک نہایت ہی نازک موقع پر یہ کہہ دیا کہ فَاذْهَبُ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَهُنَا قَاعِدُونَ 9 اے موسیٰ تو اور تیرا رب جا کر لڑتے پھر وہم تو یہیں بیٹھے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ جاں نثار عطا فرمائے جنہوں نے بڑی دلیری سے کہا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روند تا ہوا نہ گزرے.غرض اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر خیر اور برکت کی کثرت عطا کی.اُس نے روحانی لحاظ سے ایک طرف سے آپ کو وہ شریعت عطا فرمائی جو قیامت تک منسوخ نہیں ہو سکتی اور دوسری طرف آپ کو وہ بلند مقام بخشا کہ اب قیامت تک کوئی شخص خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں شامل نہ ہوا اور جسمانی لحاظ سے اُس نے آپ کو خدام کی اتنی کثرت بخشی کہ سارا مکہ آپ کی زندگی میں آپ کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گیا.مال و دولت اور رُعب و دبدبہ اسی طرح مال و دولت کے لحاظ سے اس قدر کثرت بخشی کہ قیصر و کسری کے خزائن مسلمانوں میں تقسیم ہوئے ،
۵۰۱ رُعب اور دبدبہ اس قدر عطا فر مایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سنکر گھر بیٹھے دشمن کا دل لرز جاتا اور اُس کا کلیجہ منہ کو آنے لگتا تھا.غرض ہر خیر اور برکت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی اور اس کثرت کے ساتھ دی گئی کہ اس کی مثال نہ موسٹی کی زندگی میں مل سکتی ہے نہ عیسی کی زندگی میں مل سکتی ہے نہ داؤد اور سلیمان کی زندگی میں مل سکتی ہے اور نہ کسی اور نبی کی زندگی میں مل سکتی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی چار اغراض پر تفصیلی طور پر دیکھا جائے تو پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی چار اغراض بتلائی گئی تھیں تلاوت آیات تعلیم کتاب تعلیم حکمت اور تزکیۂ نفوس چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَ إِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِينِ الله یعنی اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر یہ بڑا بھاری احسان کیا کہ اُس نے اُن میں ایک ایسا رسول مبعوث فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی آیات سے انہیں روشناس کرتا ہے اُن کا تزکیہ نفس کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور یقیناً وہ اس سے پہلے ایک کھلی گمراہی میں مبتلا تھے.ہر کمال میں محمد رسول اللہ کا منفرد ہونا اس آیت میں محمدرسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے چار کام بتلائے گئے ہیں اور درحقیقت ہر نبی انہی چاروں امور کی سرانجام دہی کے لئے آیا کرتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپ نے دنیا کے ہر نبی سے تلاوت آیات بھی زیادہ کی تعلیم کتاب بھی زیادہ دی تعلیم حکمت بھی زیادہ پیش کی اور تزکیہ نفوس بھی زیادہ کیا.گویا ہر کمال میں آپ کو کوثر عطا کیا گیا اور ہر خوبی میں آپ کو منفرد رکھا گیا.امور غیبیہ کے متعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی عربی زبان میں آية کے جہاں اور بہت سے معنی ہیں وہاں اس کے ایک معنی اس چیز کے بھی ہوتے ہیں جو کسی دوسری چیز کی طرف راہنمائی کرے چنانچہ قرآن کریم میں نازل شدہ فقرات کو بھی اسی لئے آیات کہا جاتا ہے کہ اس کا ہر فقرہ دوسرے فقرہ کے معانی کے لئے بطور دلیل ہوتا ہے جس کو مد نظر رکھنے کے
۵۰۲ بغیر اس کا مفہوم پوری طرح واضح نہیں ہوتا.پس يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان کی ایسے امور کی طرف راہنمائی کرتے ہیں جن کو وہ خود اپنی عقل کے زور سے معلوم کرنے سے قاصر تھے اور چونکہ امور غیبیہ ہی ایک ایسی چیز ہیں جن کو کوئی انسان اپنی عقل اور فکر کے ساتھ معلوم نہیں کر سکتا اس لئے تلاوت آیات کا کام اسی صورت میں مکمل ہوسکتا تھا جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو ایسی باتیں بتاتے جو اُن کے لئے امور غیبیہ پر ایمان لانے کی محرک ہوتیں اور انہیں آپ کی راہنمائی میں وہ روحانی دولت ملتی جو اس سے پہلے ان کے پاس نہیں تھی.ہستی باری تعالیٰ اس نقطۂ نگاہ سے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ امور غیبیہ میں سب سے پہلی اور اہم خبر خدا تعالیٰ کا وجود ہے کیونکہ وہ وراء الورای ہستی ہے اور کوئی انسان اپنے علم اور ادراک کے زور سے اُس تک نہیں پہنچ سکتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے وجود کو بنی نوع انسان کے سامنے اس طرح پیش کیا کہ اس وراء الوری ہستی کی عظمت اور اس کی جبروت کا تصور بھی قائم رہا اور بنی نوع انسان کے قلوب میں یہ یقین بھی پیدا ہو گیا کہ ہمارا خدا اپنی مخلوق کو اعلیٰ درجہ کے مقامات پر پہنچانے کی خواہش رکھتا ہے اور وہ انہیں ہر وقت اپنے قرب میں جگہ دینے کے لئے تیار ہے.اس غرض کے لئے سب سے پہلی اور اہم خبر صفات الہیہ ہیں کیونکہ غیر محدود ہونے کی وجہ سے وہ صرف اپنی صفات کے ذریعہ ہی پہچانا جا سکتا ہے، بیشک صفات الہیہ پر اور مذاہب نے بھی روشنی ڈالی ہے مگر اوّل تو جس تفصیل کے ساتھ اسلام نے ان صفات کو بیان کیا ہے اس تفصیل کے ساتھ دنیا کے اور کسی مذہب نے صفات الہیہ پر روشنی نہیں ڈالی یہاں تک کہ یہودیت بھی جو اسلام سے پہلے آنے والے مذاہب میں سے ایک بہت بڑا مذہب تھا اور جسے تو رات جیسی کتاب دی گئی تھی اُس میں بھی بہت کم صفات الہیہ کا بیان ہوا ہے.بائبل میں خدا تعالیٰ کی صفات کی تنقیص اور پھر ان مذاہب نے خدا تعالیٰ کی طرف کئی ایسے نقائص اور عیوب بھی منسوب کر رکھے ہیں جن کی وجہ سے اُس کی صفات کی تنقیص ہوتی ہے مثلاً بائبل میں ہی لکھا ہے چھ دن میں خداوند نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ساتویں
۵۰۳ دن آرام کیا اور تازہ دم ہوا.۱۱۲ گویا خدا تعالیٰ چھ دن کام کرنے کی وجہ سے نَعُوذُ بِاللہ تھک گیا اور اُسے ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ آرام کرے اور تازہ دم ہو جائے ، مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ خدا تعالیٰ کے متعلق یہ تصور بالکل غلط ہے اس لئے کہ وہ کوئی مادی وجود نہیں جو کام کا بوجھ برداشت نہ کر سکے اور تھکان اور کوفت محسوس کرے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبِ.یعنی زمین و آسمان کی پیدائش سے ہمیں کوئی تھکان محسوس نہیں ہوئی.پس یہ بات بالکل غلط ہے کہ خدا تعالیٰ زمین و آسمان کی پیدائش سے تھک گیا اور ساتویں دن اُس نے آرام کی احتیاج محسوس کی.اسی طرح مسیحیت نے خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر حملہ کیا اور مسیح اور روح القدس کو بھی اُس کی الوہیت میں شریک قرار دے دیا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کو تمام مادی قیدوں اور ظہوروں سے پاک قرار دیا اور پھر آپ نے اس امر پر بھی زور دیا کہ انسان اگر خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرے تو وہ خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کر سکتا اور اس کے قرب میں بڑھ سکتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا نقش اپنے دل پر پیدا کریں.۱۱۴ اسی طرح وہ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے.اے انسانو! اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تم کو اس دنیا میں اپنا نمائندہ بنا کر کھڑا کیا ہے اگر تم میں سے کوئی شخص اس مقام کا انکار کرے گا تو اُس کا نتیجہ اُس کو بھگتنا پڑے گا ۱۱۵ یعنی اس عزت کے مقام کو چھوڑ کر وہ خود ہی نقصان اُٹھائے گا خدا تعالیٰ کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.اسی طرح ایک اور جگہ اس نے فرمایا ہے.کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم یقیناً انہیں اپنی بارگاہ تک پہنچنے کے راستے بتا دیتے ہیں.۱۱۲ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جاہ وجلال کو بھی قائم کیا اور بنی نوع انسان کو بھی اس امر کا یقین دلایا کہ وہ خدا تعالیٰ کے مقرب بن سکتے ہیں.ملائكة اللہ اسی طرح ملائکہ بھی ایک مخفی وجود ہیں جن کی حقیقت کا علم بغیر کسی ایسے انسان کی راہنمائی کے حاصل نہیں ہو سکتا جسے خدا خود اپنے غیب سے حصہ دے اور بتائے کہ ملائکہ کی کیا حقیقت ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد چونکہ اللہ تعالیٰ
۵۰۴ نے تلاوت آیات کا کام کیا تھا اس لئے آپ نے اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم کے ماتحت ان کے متعلق بھی بنی نوع انسان کی صحیح راہنمائی فرمائی اور بتایا کہ ملائکہ نظامِ عالم کے روحانی اور جسمانی سلسلہ کی اُسی طرح ایک اہم کڑی ہیں جس طرح دوسرے نظر آنے والے اسباب مادی دنیا میں مختلف کاموں کی کڑیاں ہیں.وہ صرف خدائی دربار کی رونق کا سامان نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے تکوینی احکام کی پہلی کڑی ہیں اور ان کے بغیر اس کا ئنات کا وجود ادھورا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ اسی حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرماتا ہے.کہ کچھ تو وہ ملائکہ ہیں جو عرش کو اُٹھائے ہوئے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو عرش کے ارد گرد رہتے ہیں لا یعنی ایک تو وہ فرشتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرنے والے ہیں اور جن کے ذریعہ دنیا میں احکام الہیہ کا اجراء ہوتا ہے اور ایک وہ ہیں جو اُن احکام کو نچلے طبقہ تک لے جانے والے ہیں ، پس ملائکہ کا وجود اس عالم کا ایک اہم ضروری حصہ ہے.رسالت اور کلام الہی کی ضرورت آپ نے رسالت اور کلام الہی کی ضرورت کو بھی واضح کیا اور بتایا کہ جس طرح مادی دنیا میں خدا تعالیٰ نے صرف آنکھ پیدا نہیں کی بلکہ لاکھوں میل کے فاصلہ پر ایک سورج بھی پیدا کر دیا ہے تا کہ آنکھ اس کی روشنی سے فائدہ اُٹھائے اسی طرح روحانی عالم میں بھی خدا تعالیٰ نے سورج اور چاند اور ستارے بنائے ہیں.جو شخص روحانی دنیا کے سورج یا روحانی دنیا کے چاند یا روحانی دنیا کے ستاروں کی ضرورت کا انکار کرتا ہے وہ قانونِ قدرت سے اپنی آنکھیں بند کرتا اور حقائق سے روگردانی اختیار کرتا ہے چنانچہ اسلام نے اسی حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے.کہ ہم تمہارے سامنے اس آسمان کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو مختلف بروج والا ہے ۱۱۸ یعنی جس طرح تمہیں اس مادی دنیا کے آسمان میں سورج اور چاند اور ستارے دکھائی دیتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ نے روحانی عالم میں بھی ظلمتوں کو دور کرنے کے لئے سورج اور چاند اور ستارے بنائے ہیں جو لوگوں کو اپنے نور سے منور کرتے رہتے ہیں.بعث بعد الموت آپ نے اس سلسلہ میں بعث بعد الموت پر بھی روشنی ڈالی کیونکہ اس کے متعلق بھی کوئی انسان اپنی ذاتی کد و کاوش سے معلومات حاصل نہیں کر سکتا تھا آپ نے ایک طرف تو جزاء وسزا کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور دوسری طرف یہ بتایا کہ اس جزاء کا مخفی رکھا جانا بھی ضروری ہے ورنہ انسانی اعمال غیر اختیاری ہو جائیں اور جزاء
ایک بے معنی لفظ بن کر رہ جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص نہیں جانتا کہ اُس کے لئے عالم آخرت میں آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان مخفی رکھا گیا ہے کیونکہ یہ انعام تمہارے اعمال کی جزاء میں ملنے والا ہے 19 اگر اس کو ظاہر کر دیا جائے تو حقیقت کے منکشف ہونے پر ایمان لانا کوئی خوبی نہ رہے اور انسان کسی جزاء کا مستحق نہ ہو.آپ نے اس امر کی تصریح فرمائی کہ عالم آخرت در حقیقت اسی دنیا کا ایک تسلسل ہے جس میں اپنے اپنے اعمال کے مطابق مادیت کے بوجھ سے آزاد ہو کر انسانی روح اس راستہ پر گامزن ہو جاتی ہے جو اس نے خود اپنی دُنیوی زندگی میں اختیا ر کیا ہوتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے.کہ جو شخص اس دنیا میں روحانی لحاظ سے نا بینائی رکھتا ہو گا وہ عالم آخرت میں بھی اس نابینائی کو لے کر اٹھے گا اور خدائی قرب کے دروازے اُس پر نہیں کھلیں گے.۱۲۰ غرض ہر وہ مخفی مسئلہ جس پر مذہب اور روحانیت کی بنیاد تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کھول کر بیان کیا کہ انسانی عقول تستی پاگئیں اور ان کا رسمی ایمان مشاہدہ اور بصیرت کا رنگ اختیار کر گیا.شریعت لعنت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا بڑا بھاری فضل ہے آپ کا دوسرا اہم کام تعلیم کتاب تھا اس کام کو بھی آپ نے ایسے رنگ میں پورا کیا کہ اس کی مثال اور کسی وجود میں نہیں ملتی ، آپ کی بعثت سے پہلے دنیا میں بعض ایسے مذاہب تھے جو اپنی نادانی سے شریعت کو لعنت قرار دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ ایک ایسا بوجھ ہے جو انسان کی کمر کو توڑ دینے والا ہے آپ نے بتایا کہ یہ نظریہ میچ نہیں، شریعت اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا بھاری فضل ہے کیونکہ انسان جب اس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے تو وہ اپنی عقل سے خدا تعالیٰ کی مرضی کو کس طرح معلوم کر سکتا ہے.یہ مرحلہ تو اسی صورت میں طے ہو سکتا ہے جب خدا تعالیٰ خود بتائے کہ میری رضا کس امر میں ہے اور شریعت اس چیز کا نام ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی کی راہوں کو خدا تعالیٰ کی زبان سے ہی معلوم کیا جائے.پس شریعت خدا تعالیٰ کی ایک بڑی بھاری رحمت ہے اس وجہ سے قرآن کریم کو مختلف مقامات میں رحمت قرار دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ قرآن بنی نوع انسان کو تکلیف میں ڈالنے کے لئے نہیں بلکہ آسانیاں پیدا کرنے کے لئے آیا ہے.۱۲۱ شریعت کا فائدہ پھر آپ نے اس امر کی بھی وضاحت فرمائی کہ شریعت اس لئے نازل نہیں ہوتی کہ اُس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی شان بڑھتی ہے الله
بلکہ اس لئے نازل کی جاتی ہے کہ بنی نوع انسان اُس کے احکام پر عمل کر کے ترقی کریں کیونکہ اس کا ہر حکم انفرادی اور قومی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، خدا تعالیٰ کو اُن احکام پر عمل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو اسی نکتہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم میں سے جو شخص نیکی کرے گا وہ اپنے نفس کے لئے کریگا اور جو شخص بدی کا ارتکاب کرے گا اُس کا وبال بھی اس کی جان پر پڑے گا ، خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر کوئی ظلم نہیں کرتا.۱۲۲ قرآن کریم کی کامل تعلیم پھر تعلیم کتاب کے لحاظ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تعلیم پیش کی جو اپنے ہر پہلو کے لحاظ سے کامل ہے آپ نے بتایا کہ انسان پر اُس کے ماں باپ کے کیا حقوق ہیں؟ بھائی بہنوں کے کیا حقوق ہیں ؟ بیوی کے خاوند پر اور خاوند کے بیوی پر کیا حقوق ہیں؟ ہمسائیوں کے کیا حقوق ہیں؟ یتامی و مساکین کے کیا حقوق ہیں ؟ بیواؤں کے کیا حقوق ہیں؟ دوستوں کے کیا حقوق ہیں ؟ اسی طرح آپ نے سیاست ملکی پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ سرحدوں کی حفاظت کیا کرو، لڑائیوں کے متعلق متعدد احکام دیئے، معاہدات کی پابندی کی تلقین کی ، اقوام عالم کے جھگڑوں کے تصفیہ کے قواعد بیان کئے غرض انفرادی مسائل یا قومی زندگی میں جن مشکلات کا سامنا ہوسکتا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر روشنی ڈالی اور ان کا کامیاب حل بتا یا.پھر اس کیساتھ ہی آپ نے اس امر کی صراحت فرما دی کہ گو اس کتاب میں وہ تمام ضروری امور بیان کر دیئے گئے ہیں جن کا مذہبی یا روحانی یا اخلاقی ترقی کیساتھ تعلق ہے مگر انسانی دماغ کی ترقی کے لئے اجتہاد اور غور اور فکر کا بھی سلسلہ جاری رکھا گیا ہے تا کہ انسانی دماغ گند ہو کر نہ رہ جائے اور وہ اندھی تقلید کا شکار نہ ہو جائے.تعلیم حکمت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیسر اعظیم الشان کام تعلیم حکمت تھا اس لحاظ سے آپ نے ایک بے مثال معلم کے فرائض سرانجام دیئے.پہلی تمام کتب کو دیکھ لو وہ صرف اتنا کہتی ہیں کہ ایسا کرو اور ایسا نہ کرو، مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا کہ ایسا کیوں کرو اور کیوں نہ کرو.وہ شراب اور جوئے سے روکتا ہے تو اس کی حکمت بھی بتا تا ہے اور کہتا ہے کہ ان چیزوں کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں.وہ نماز اور روزے کا حکم دیتا ہے تو ان کے فوائد بھی بیان کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ نماز تمام مخش اور نا پسندیدہ کاموں سے انسان کو بچاتی ہے ۱۲۴ اور روزوں کا حکم اس لئے دیا گیا ہے.کہ تم
۵۰۷ میں تقویٰ پیدا ہو.۱۲۵ غرض اسلام احکام کے ساتھ حکمتیں بھی بیان کرتا ہے اور یہ اسلام کی اتنی بڑی فضیلت ہے جس کا مقابلہ دنیا کا اور کوئی مذہب نہیں کر سکتا، آپ نے بتایا کہ خدا تعالیٰ حکیم بھی ہے وہ کوئی حکم بغیر کسی حکمت کے نہیں دیتا پس خدائی تعلیم کے یہ معنے نہیں کہ اُس کے احکام حکمتوں سے خالی ہوں اور محض جبر کے طور پر کچھ باتیں منوانے کی کوشش کی گئی ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف کسی بات کا منسوب ہونا تقاضا کرتا ہے کہ وہ بات لازمی طور پر مختلف قسم کی حکمتوں سے پر ہو، تاکہ انسانی دل انقباض محسوس نہ کرے بلکہ وہ خوش ہو کہ جس حکم پر میں عمل کر رہا ہوں اُس میں میرا بھی فائدہ ہے اور دوسرے بنی نوع انسان کا بھی فائدہ ہے.تزکیہ نفوس چوتھا اور اہم کام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا گیا تھا وہ تزکیۂ نفوس ہے یعنی لوگوں کے دلوں میں ایسی پاکیزگی پیدا کرنا کہ وہ خدا تعالیٰ کے قریب ہو جائیں اور اُس کی قدرتوں کا جلوہ گاہ بن جائیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کو بھی ایسے احسن طریق سے پورا کیا ہے کہ دوست ہی نہیں دشمن بھی اس بات کے معترف ہیں کہ آپ نے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا.آپ جس زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں اس زمانہ میں مذہب ہی نہیں انسانیت بھی مر چکی تھی اور شرافت دنیا سے مفقود ہو چکی تھی.ہر قسم کا فسق و فجو رلوگوں میں پایا جاتا تھا اور ہر قسم کی نیکی عنقا تھی یہاں تک کہ بدی کا احساس بھی لوگوں کے قلوب سے مٹ چکا تھا اور وہ ندامت اور شرمندگی محسوس کرنے کی بجائے بدیوں کے ارتکاب پر فخر محسوس کرتے تھے.ایسے خطر ناک زمانہ میں آپ نے تزکیہ نفوس کا کام شروع کیا اور ہر قسم کی روکوں اور انتہائی مظالم کے باوجود اس کام کو جاری رکھا یہاں تک کہ وہ دن آگیا کہ صدیوں کے مُردوں نے اپنے اندر زندگی کی روح محسوس کی ، قبروں میں دبے پڑے لوگ باہر نکل آئے ، اندھوں نے بینائی حاصل کی ، لولے اور لنگڑے چلنے لگے ، کمزوروں نے اپنے اندر طاقت کی ایک لہر دوڑتی ہوئی پائی ، بیماروں نے صحت کے آثار محسوس کئے اور جہالت کی جگہ علم نے ، جمود کی جگہ سعی عمل کی نے ، شیطنت کی جگہ روحانیت نے اور بدی کی جگہ نیکی نے لے لی.برسوں کے مسخ شدہ انسان آپ کے فیض صحبت سے ایسے پاک ہوئے کہ اُن کی کایا پلٹ گئی ، وہ خدائے واحد کے آستانہ کی طرف کھینچے گئے اور دنیا کی ہدایت کے لئے ایک ایسا مینار بن گئے کہ آج بھی اُن کی روشنی
۵۰۸ نیند کے ماتوں کو بیدار کرنے اور انہیں چاق و چوبند بنانے کے کام آرہی ہے.غرض اس روحانی گورنر جنرل کو خدائے واحد کی طرف سے جس انعام کا وعدہ دیا گیا تھا تو وہ وعدہ بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا.آپ کو اللہ تعالیٰ نے گوثَر عطا کیا اور ہر رنگ میں اتنی برکات اور انعامات کے ساتھ نوازا کہ انسان کے لئے اُن کا شمار کرنا بھی مشکل ہے.ایک کثیر الخیر روحانی فرزند کے پیدا ہونے کی پیشگوئی پھر گوٹر کے ایک معنے الرَّجلُ كَثِيرُ الْعَطَاءِ وَالْخَيْرِ ۱۲۶ کے بھی ہیں یعنی ایسا انسان جو بڑا سخی ہو اور دنیا میں کثرت سے کی نیکی پھیلانے والا ہو.اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں یہ بیان فرمایا تھا کہ اے محمد رسول اللہ ! ہم اب بھی تجھے ہر قسم کی نعمتوں کی کثرت دینگے اور آئندہ زمانہ میں بھی تجھے ایک بہت بڑا روحانی فرزند عطا کریں گے جو کثیر الخیر ہو گا اور کثرت سے قرآن کریم کے علوم اور اس کے معارف دنیا میں پھیلائے گا خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مفہوم میں یہ پیشگوئی فرمائی کہ يُفِيْضُ الْمَالَ ، یعنی آنے والا مسیح کثرت کے ساتھ لوگوں میں روحانی دولت تقسیم کریگا مگر اس کے ساتھ ہی قرآن کریم نے اِنَّا اَعْطَيْنكَ الْكَوْثَرَ میں اس طرف بھی اشارہ فرما دیا ہے کہ آنے والا مسیح اُمتِ محمدیہ کا ایک فرد ہوگا کیونکہ اِنَّا اَعْطَینک میں.بتایا گیا ہے کہ یہ مسیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جائے گا اور اس کا وجود ثابت کر دیگا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابتر نہیں ، پس وہ آپ کا ہی روحانی بیٹا ہوگا ، باہر کا کوئی آدمی نہیں ہو گا.تمام مخالف اقوام ابتر ہو کر رہ گئیں اس جگہ پہلے معنوں کے لحاظ سے دشمنوں سے مراد ابو جہل، عتبہ اور شیبہ وغیرہ ہیں ، مگر دوسرے معنوں کے لحاظ سے شا نِک سے وہ تمام قومیں مراد ہیں جو آج اسلام پر حملہ کر رہی ہیں چنانچہ دیکھ لو جب اسلام ضعیف ہو گیا، مسلمانوں کی طاقتیں کمزور ہوگئیں اور عیسائی مصنفوں نے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ اب اسلام ترقی نہیں کر سکتا اور خود مسلمان مصنفین نے بھی دشمن کے مقابلہ میں معذرتیں شروع کر دیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپ نے دنیا کو چیلنج کیا کہ میں محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی بیٹا ہوں اور میں اس بات کا ایک زندہ ثبوت ہوں کہ آج محمدی چشمہ کے سوا باقی تمام چشمے سوکھ گئے ہیں اور میں اس چشمہ کا پانی پی کر زندہ ہوا ہوں.اگر تم سمجھتے ہو کہ تم بھی کسی زندہ مذہب کے پیرو ہو تو تم میرے سامنے وہ
۵۰۹ زندہ شخص پیش کرو جس پر خدا تعالیٰ کا تازہ کلام اُترتا ہو.مگر واقعات بتا رہے ہیں کہ اس چیلنج کے مقابلہ میں دنیا کی ساری قو میں ابتر ہو کر رہ گئیں اور وہ اسلام کے پہلوان کے مقابلہ میں اپنا کوئی پہلوان پیش نہ کر سکیں.ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر نہ ہندو کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں نہ عیسائی کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں نہ یہودی کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں ، نہ بدھ یا کنفیوشس مذہب کے پیرو کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں ، نہ یورپ کا فلسفہ کوئی بیٹا پیش کر سکا ہے.ساٹھ سال سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی بیٹے کا چیلنج موجود ہے کہ اگر تمہارے اندر کوئی نور اور صداقت ہے تو تم میرے مقابلہ میں وہ شخص پیش کر و جس نے تمہارے مذہب پر چل کر خدا تعالیٰ کے مکالمات کا شرف حاصل کیا ہو اور اس کی تازہ وحی اور نشانات کا مورد ہوا ہو مگر کوئی مذہب اپنا روحانی بیٹا پیش نہیں کر سکا.پس جس طرح آج سے تیرہ سو سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس انعام کو پورا کیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کی نعماء سے حصہ عطا فر مایا اسی طرح اُس نے تیرہ سو سال کے بعد ایک بار پھر دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی صاحب اولاد ہیں اور آپ کے دشمن ہی ابتر ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود کی بشارت پھر اسی در بار خاص میں ایک اور عظیم الشان انعام بھی اس خدائی گورنر جنرل کو عطا کیا گیا اور کہا گیا کہ عَسَى أَنْ يُبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا ۱۲۸ یعنی اے محمد رسول اللہ ! عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ ہر دوست اور دشمن تیری تعریف میں رطب اللسان ہوگا اور ہر مقام پر تیرے بلند اخلاق اور اعلیٰ درجہ کے کردار کا چرچا ہو گا.اس انعام کا اعلان بھی ایسی حالت میں کیا گیا جب دنیا اپنی نابینائی کی وجہ سے اس خدائی گورنر جنرل کا حسن دیکھنے سے عاری تھی اور وہ اپنی مخالفت کے جوش میں اسے محمد کہنے کی بجائے مذقم کہہ کر پکارا کرتی تھی مگر ابھی ایسی مخالفت پر کچھ زیادہ عرصہ گزرنے نہیں پایا تھا کہ اُس کا روحانی حسن ظاہر ہونا شروع ہوا اور لوگوں کو محسوس ہوا کہ انہوں نے سونے کو پیتل اور ہیرے کو کوئلہ قرار دیکر ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے.ہر وصف میں یکتا اور بے نظیر نبی انہوں نے تعصب کی پٹی اپنی آنکھوں سے اُتار کر اس کے اخلاق فاضلہ کو دیکھا تو انہیں بے مثال پایا
۵۱۰ اور اس کے زندگی بخش کلام کو سُنا تو اُسے تمام کلاموں سے افضل پایا، اس کے علم کو دیکھا تو دنیا کے بڑے بڑے عالموں کو اس کے سامنے جاہل پایا، اس کی معرفت کو دیکھا تو بڑے بڑے عارفین کو اُس کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرتے دیکھا ، اس کی محبت اور تعلق باللہ کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کا ویسا عاشق اور سچا عبادت گزار انہیں ساری دنیا میں نظر نہ آیا ، انہوں نے اس کے دلائل و بینات کا جائزہ لیا تو اُنکا رڈ کرنے کی دُنیا کے کسی مذہب میں طاقت نہ پائی ، اس کی دعاؤں کی قبولیت کو دیکھا تو انہیں بے نظیر پایا، اس کے فیوض و برکات اور اس کی تعلیمات کا مشاہدہ کیا تو دنیا میں اُن کا کوئی ثانی نہ دیکھا ، اس کی پیشگوئیوں پر انہوں نے نظر دوڑائی تو انہیں آپ کی صداقت اور راستبازی کا ایک بڑا نشان دیکھا.غرض جس پہلو سے بھی انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ، اُسے مجسمہ حسن واحسان پایا اور وہ آپ کے ایسے والہ وشیدا ہوئے کہ تمام دنیوی علائق کو توڑ کر وہ آپ سے ایسے وابستہ ہو گئے اور اس عہدِ وفا کو کو انہوں نے مرتے دم تک اس خوبی سے نباہا کہ پہلی امتیں اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں.زبانوں پر حمد کے ترانے یہی وہ چیز تھی جس کی خدا تعالی کی طرف سے ان الفاظ میں خبر دی گئی تھی کہ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَا مَّا مَّحْمُودًا.یعنی اے محمد رسول اللہ ! آج لوگ تیرا حسن دیکھنے سے قاصر ہیں وہ تجھے ایسی گٹھلی سمجھتے ہیں جو پاؤں تلے روندی جائیگی ، ایک ایسا بیج خیال کرتے ہیں جسے پرندے اُچک کر لے جائیں گے مگر ہم نے تیرے اندر ایسی خوبیاں ودیعت کر دی ہیں کہ جوں جوں ان خوبیوں کا ظہور ہوتا جائے گا تیری حمد کے ترانے لوگوں کی زبانوں پر جاری ہوتے جائیں گے اور مذمم کہنے والے تجھ پر درود اور سلام بھیجیں گے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے وہ تمام مسائل جن پر یورپ کے مدبرین اور بڑے بڑے فلاسفر بھی اعتراض کیا کرتے تھے آج دنیا اُن کی معقولیت کی قائل ہو رہی ہے اور وہ تسلیم کرتی ہے کہ دنیا کی مشکلات کا صحیح حل صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کر دہ تعلیم میں ہی ہے.اسلامی تعلیم کی برتری کا اعتراف ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب تو حید کے اعلان پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو انتہائی مصائب کا نشانہ بنایا گیا مگر آج ساری دنیا خدائے واحد کے آستانہ پر سر جُھکائے ہوئے ہے بلکہ وہ لوگ جو مذہبا تثلیث کے قائل ہیں یا مذ ہبا سینکڑوں دیوتاؤں کو تسلیم
۵۱۱ کرتے ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ خدا تو ایک ہی ہے باقی سب اُس کے ظہور ہیں.پھر شراب کو اچھا سمجھا جاتا تھا، اسلام کے مسئلہ طلاق پر اعتراض کیا جاتا تھا، تعدد ازدواج کو عورتوں کے لئے شدید ظلم قرار دیا جاتا تھا ، سود کو تجارت کا ایک لازمی جزو سمجھتے ہوئے بڑا مفید خیال کیا جاتا تھا، پردہ کو بُرا قرار دیا جاتا تھا، ورثہ کے مسائل کو درست نہیں سمجھا جاتا تھا مگر آج دنیا ٹھوکریں کھا کر اس تعلیم کی طرف آرہی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی کیونکہ خدا نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ وہ آپ کو مقام محمود عطا کر یگا اور دنیا آپ کے اخلاق اور آپ کی تعلیم کی برتری کی وجہ سے اپنے دل کی گہرائیوں سے آپ کی تعریف کریگی.دشمنوں کے منہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف حقیقت یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام فضائلِ حسنہ سے اس طرح متصف کر کے مبعوث فرمایا ہے کہ کوئی خوبی نہیں جو آپ میں نہ پائی جاتی ہو اور کوئی کمال نہیں جو آپ کے اندر نہ دکھائی دیتا ہوا اور پھر ہر کمال اپنے اپنے دائرہ میں ایسی امتیازی شان کے ساتھ آپ کے اندر پایا جاتا ہے که دوست تو الگ رہے، دشمن بھی آپ کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں اور وہ آپ کے اخلاق کی بلندی اور آپ کے کردار کی پاکیزگی کے معترف ہیں.سرولیم میور کا اقرار کہ محمد رسول اللہ نے ایک نئی دنیا پیدا کی ہے سرولیم میور اسلام.کا ایک شدید ترین دشمن ہے مگر اس نے بھی جب اُس انقلاب پر نگاہ دوڑائی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کی سرزمین میں پیدا کیا تو وہ بھی یہ الفاظ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ :.یہ کہنا کہ اسلام کی صورت عرب کے حالات کا ایک لازمی نتیجہ تھی ایسا ہی ہے جیسا کہ یہ کہنا کہ ریشم کے باریک تاگوں میں سے آپ ہی ایک عالیشان کپڑا تیار ہو گیا ہے یا یہ کہنا کہ جنگل کی بے تراشی لکڑیوں سے ایک شاندار جہاز تیار ہو گیا ہے یا پھر یہ کہنا کہ گھر دری چٹان کے پتھروں میں سے ایک خوبصورت محل تیار ہو گیا ہے اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ابتدائی عقائد پر پختہ رہتے ہوئے عیسائیت اور یہودیت کی سچائی کی راہنمائی کو قبول کرتے چلے جاتے اور اپنے متبعین کو ان دونوں مذاہب کی
۵۱۲ سادہ تعلیم پر کاربند رہنے کا حکم دیتے تو دنیا میں شاید ایک ولی محمدی ممکن ہے کہ ایک شہید محمد پیدا ہو جاتا جو عرب کے گرجا کی بنیا د رکھنے والا قرار پاتا، لیکن جہاں تک انسانی عقل کام دیتی ہے کہا جا سکتا ہے کہ اس صورت میں آپ کی تعلیم عرب کے دل کی گہرائیوں میں تلاطم پیدا نہ کر سکتی اور سارا عرب تو الگ رہا اس کا کوئی معقول حصہ بھی آپ کے دین میں داخل نہ ہوتا ، لیکن باوجود ان تمام باتوں کے آپ نے اپنے انتہائی کمال کے ساتھ ایک ایسی گل ایجاد کی کہ جسکی موقع کے منا سب ڈھل جانیوالی قوت کے ساتھ آپ نے آہستہ آہستہ عرب قوم کی پراگندہ اور شکستہ چٹانوں کو ایک متناسب محل کی شکل میں بدل دیا اور ایک ایسی قوم بنا دیا جس کے خون میں زندگی اور طاقت کی لہریں دوڑ رہی تھیں.ایک عیسائی کو وہ عیسائی نظر آتے تھے ، ایک یہودی کی نگاہ میں وہ ایک یہودی تھے ، ایک مکہ کے بُت پرست کی آنکھ میں وہ کعبہ کے اصلاح یافتہ عبادت گزار تھے اور اس طرح ایک لاثانی ہنر اور ایک بے مثال دماغی قابلیت کے ساتھ انہوں نے سارے عرب کو خواہ کوئی بت پرست تھا، یہودی تھا کہ عیسائی تھا مجبور کر دیا کہ وہ ان کے قدموں کے پیچھے ایک سچے مطیع کے طور پر جس کے دل سے ہر قسم کی مخالفت کا خیال نکل چکا ہو چل پڑے.یہ فعل اُس صناع کا ہوتا ہے جو اپنا مصالح آپ تیار کرتا ہے اور یہاں اس مصالح کی مثال چسپاں نہیں ہوتی جو کہ آپ ہی آپ بن جاتا ہے اور اس مصالح کے ساتھ تو اس کو بالکل ہی کوئی مشابہت نہیں جو اپنے صناع کو خود تیار کرتا ہے یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات تھی جس نے اسلام بنایا یہ اسلام نہیں تھا اور نہ کوئی اور پہلے سے موجود اسلامی روح تھی جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بنایا.۱۳۹۴ سرولیم میور چونکہ اسلام کا شدید مخالف تھا اس لئے گو اُس نے یہ کہا کہ اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تیار کردہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس صداقت کا بھی اُس نے کھلے بندوں اقرار کیا کہ دنیا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہیں کیا بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نئی دنیا پیدا کی ہے اور یہ کام یقیناً خدا تعالیٰ کے فرستادوں کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا.
۵۱۳ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے وہ مقام محمود عطا کیا کہ آپ کا حسن کبھی دشمن کی آنکھوں میں بھی عرفان کی ایک جھلک پیدا کر دیتا ہے اور وہ بھی آپ کی ستائش کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.پھر اخلاق فاضلہ کو لو تو اخلاق فاضلہ کے لحاظ سے محمد رسول اللہ کا بلند مقام کوئی خُلق نہیں جس میں آپ نے دنیا کے لئے ایک بے مثال نمونہ نہ چھوڑا ہو اور ہر شخص آپ کے ان اخلاق کو دیکھ کر آپ کی تعریف کرنے پر مجبور نہ ہو مثال کے طور پر بہادری کو لے لو، استقلال کو لے لو، سخاوت کو لے لو، حیا کو لے لو، انصاف کو لے لو، رحم کو لے لو، دوستوں اور دشمنوں سے آپ کے معاملات کو دیکھ لو، جنگ میں آپ کی ہوشیاری کو دیکھ لو، عورتوں اور بچوں سے معاملات کو لے لو، آپ کے تنظیمی کارناموں پر نظر ڈالو، آپ کی جرنیلی شان کو ملاحظہ کرو تمہیں دکھائی دیگا کہ ہر پہلو کے لحاظ سے آپ کو مقام محمود حاصل ہے اور ہر معاملہ میں دنیا آپ کی اقتداء کرنے پر مجبور ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری آپ کی بہادری کی یہ کیفیت تھی کہ مدینہ میں ایک دفعہ باہر جنگل کی طرف سے شور کی آواز آئی ، ان دنوں یہ خبریں مشہور ہو رہی تھیں کہ روما کی حکومت مدینہ پر حملہ کر نیوالی ہے، اس شور کی آواز پر تمام مسلمانوں میں گھبراہٹ پیدا ہو گئی اور وہ اس ارادہ کے ساتھ مسجد میں جمع ہوئے کہ مشورہ کے بعد کچھ لوگوں کو باہر بھجوا دیا جائے جو دیکھیں کہ یہ کیسا شور ہے مگر ابھی وہ جمع ہی ہو رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھے ہوئے باہر سے تشریف لا رہے ہیں، آپ نے آتے ہی فرمایا میں شور کی آواز سنکر فوراً باہر چلا گیا تھا اور میں نے چکر لگا کر دیکھ لیا ہے خطرہ کی کوئی بات نہیں ، اطمینان سے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ.۱۳۰ صبر و استقلال صبر و استقلال آپ کے اندر اس قدر پا یا جا تا تھا کہ مکی زندگی میں کفار کی طرف سے آپ کو سخت سے سخت تکالیف دی گئیں ، آپ کو بُرا بھلا کہا گیا ، آپ کو شعب ابی طالب میں ایک لمبے عرصہ تک محصور رکھا گیا، آپ کا مقاطعہ کیا گیا ، آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر اسقدر گھونٹا گیا کہ آپ کی آنکھیں باہر نکل آئیں ، آپ پر پتھروں کی اسقدر بوچھاڑ کی گئی کہ طائف سے آتے وقت آپ سر سے پاؤں تک لہولہان ہو گئے ۳۱ مگر ان تمام
۵۱۴ تکالیف کے باوجود آپ جس پیغام کو لیکر کھڑے ہوئے تھے اُسے اُٹھتے بیٹھتے، سوتے اور جاگتے آپ نے لوگوں تک پہنچایا اور ایک لمحہ کے لئے بھی آپ کے پائے ثبات میں جنبش نہیں آئی.سخاوت آپ کے اندر اس قدر پائی جاتی تھی کہ اگر آپ سے کوئی چیز مانگی جاتی اور سخاوت وہ آپ کے پاس موجود ہوتی تو آپ اس کے دینے میں کبھی دریغ نہ فرماتے اور یہ سخاوت عمر بھر آپ کا معمول رہی مگر صحابہ کہتے ہیں کہ رمضان المبارک کے ایام آتے تو اُن دنوں آپ کی سخاوت کا دائرہ غیر معمولی طور پر وسعت اختیار کر لیتا ، ۱۳۲ اسی سخاوت کا یہ نتیجہ تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو آپ کے گھر میں کوئی درہم اور دینار موجود نہیں تھا حالانکہ آپ اُس وقت عرب کے بادشاہ بن چکے تھے.رحم دلی حیا آپ کے اندر اسقدر پایا جاتا تھا کہ صحابہ کہتے ہیں آپ ایک کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے.۱۳۳ رحم آپ کے اندر اس قدر پایا جاتا تھا کہ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اُس پر رحم نہیں کیا جا تا ۱۳۴ آپ کا ایک نواسہ ایک دفعہ بیمار ہوا اور اُس کی حالت نازک ہو گئی.آپ کی بیٹی نے آپ کی طرف پیغام بھیجا، آپ تشریف لائے اور بچے کو دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے ، ایک صحابی کہنے لگے یا رَسُولَ اللہ ! آپ بھی روتے ہیں آپ نے فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے سخت دل نہیں بنایا.۱۳۵ عدل و انصاف انصاف آپ کے اندر اس قدر پا یا جا تا تھا کہ ایک دفعہ کسی بڑے خاندان کی عورت نے چوری کی اور وہ پکڑی گئی اس پر بعض لوگوں نے چاہا کہ اسکے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست کی جائے کہ اسے کوئی سزا نہ دی جائے کیونکہ یہ بڑے خاندان کی عورت ہے اس غرض کے لئے انہوں نے حضرت اسامہ کو تیا ر کیا.اسامہ نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کے متعلق سفارش کی تو آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا خدا کی قسم ! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس قسم کا جرم کرے تو میں اُسکے بھی ہاتھ کاٹ دوں.۱۳۶ بدر کی جنگ میں جن کفار کو مسلمانوں نے قید کر لیا تھا اُن میں حضرت عباس بھی شامل تھے اور چونکہ وہ ناز و نعمت میں پلے ہوئے تھے اس لئے جب انہیں رسیوں سے جکڑا گیا تو انہوں نے شدّت تکلیف کی وجہ سے کراہنا شروع کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے
۵۱۵ کانوں میں ان کے کراہنے کی آواز پہنچتی تو آپ بے چینی میں بار بار کروٹیں بدلتے مگر زبان سے کچھ نہیں فرماتے تھے.صحابہ نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت دیکھی تو وہ کی سمجھ گئے کہ اس کی وجہ حضرت عباس کا کراہنا ہے وہ چپکے سے اُٹھے اور انہوں نے حضرت عباس کی رسیاں ڈھیلی کر دیں اور اُن کے کراہنے کی آواز بند ہو گئی.تھوڑی دیر کے بعد جب آپ کو کے کانوں میں حضرت عباس کے کراہنے کی آواز نہ آئی تو آپ نے صحابہ سے فرمایا عباس کے کراہنے کی آواز کیوں نہیں آ رہی؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم نے آپ کی تکلیف کے خیال سے اُن کی رسیاں ڈھیلی کر دی ہیں آپ نے فرمایا یہ انصاف کے خلاف ہے کہ باقی قیدیوں کو سختی سے جکڑا جائے اور عباس کی رسیاں ڈھیلی کر دی جائیں.جاؤ اور یا تو عباس کی رسیاں بھی گس دو اور یا پھر باقی قیدیوں کی رسیاں بھی ڈھیلی کر دو.۱۳۷ قیصر روما کے دربار میں ابوسفیان کا اقرار غرض جس پہلو کے لحاظ سے بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جائے آپ تعریف ہی تعریف کے قابل دکھائی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب قیصر روما نے ابوسفیان سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مختلف سوالات کئے تو ہر سوال کے جواب میں اُسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبی اور آپ کے کمال کا اعتراف کرنا پڑا.جب اس نے پوچھا کہ اس شخص کا خاندان کیسا ہے تو ابوسفیان نے کہا کہ وہ ایک نہایت معزز خاندان میں سے ہے، جب اُس نے پوچھا کہ کیا دعوی سے پہلے تم نے کبھی اسے کسی بُرائی میں مبتلاء دیکھا تو اُس نے کہا ہر گز نہیں ، جب اُس نے پوچھا کہ اس کی عقل اور اصابت رائے کا کیا حال ہے تو ابوسفیان کو یہی کہنا پڑا کہ ہم نے اُس کی عقل اور رائے میں کبھی کوئی عیب نہیں دیکھا ، جب اُس نے پوچھا کہ کیا اُس نے کبھی بد عہدی بھی کی ہے تو ابوسفیان نے کہا کہ اس نے آج تک کوئی بدعہدی نہیں کی ، جب اُس نے پوچھا کہ وہ تمہیں کن باتوں کی تعلیم دیتا ہے تو ابوسفیان نے کہا کہ ہمیں یہی کہتا ہے کہ ہم سچ بولا کریں ، خدائے واحد کی عبادت کیا کریں ، وفائے عہد سے کام لیں، امانت اور دیانت کا مادہ اپنے اندر پیدا کریں اور ہر قسم کے ناپاک اور گندے کاموں بچیں.۱۳۸ غرض باوجود مخالفت کے اُسے ہر سوال کے جواب میں آپ کی طہارت اور پاگیزگی کا اقرار کرنا پڑا اور قیصر روما کے بھرے دربار میں اُسے آپ کے مناقب کا ترانہ گانا پڑا کیونکہ خدا نے کہا تھا کہ ہم تجھے مقام محمود عطا کرنے والے ہیں.آج مکہ والے تجھے
۵۱۶ بیشک مذقم کہہ لیں ، بیشک ہر قسم کا جھوٹ بول کر تجھے بُرا بھلا کہتے پھریں مگر ہم یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ تیری تعریف قائم کی جائے اور زبانوں اور دلوں پر تیری حمد جاری کی جائے چنانچہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ابوسفیان کو قیصر روما کے دربار میں کھینچ کر لے گئی اور شاہی دربار میں اُسے اقرار کرنا پڑا کہ مکہ کے لوگ جھوٹ بولتے ہیں محمد رسول اللہ حقیقتا تعریف کے قابل ہیں اور کوئی عیب اُن میں نہیں پایا جا تا.موجودہ زمانہ میں مقام محمود کی تجلیات پھر اللہ تعالی نے اسی مقام محمود کی تجلیات کو اور زیادہ روشن اور نمایاں کرنے کے لئے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اور آپ کے بعد مجھے پیدا کیا اور ہم سے اُس نے آپ کے حُسن کی وہ تعریف کروائی کہ آج اپنے تو الگ رہے بیگانے بھی آپ کی تعریف کر رہے ہیں اور یورپ اور امریکہ میں بھی ایسے لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجتے ہیں مگر یہ تغیر کیوں ہوا؟ اسی لئے کہ اس روحانی در بار خاص کا بادشاہ جس انعام کا اعلان کرتا ہے وہ انعام چلتا چلا جاتا ہے اور کوئی انسان اس کو چھینے کی طاقت نہیں رکھتا.جب اُس نے اپنے دربار میں یہ اعلان کیا کہ اے ہمارے گورنر جنرل ! ہم تجھے ایسے مقام پر پہنچانے والے ہیں کہ دنیا تیری تعریف کرنے پر مجبور ہوگی تو کون شخص تھا جو خدا تعالیٰ کے اس پروگرام میں حائل ہو سکتا.اس نے محمدی انوار کی تجلیات کو روشن کرنا شروع کیا اور اُس کے حُسن کو اتنا بڑھایا کہ دنیا کی تمام خوبصورتیاں اس حسین چہرہ کے سامنے ماند پڑ گئیں اور دوست اور دشمن سب کے سب یک زبان ہو کر پکار اٹھے کہ محمد حقیقتاً محمد اور قابلِ تعریف ہے صلی اللہ علیہ وسلم..عظیم الشان دربار غرض یہ کیسا عظیم دربار ہے کہ اس میں بادشاہ کی طرف سے اپنے درباری کو جو انعام دیا گیا وہ دنیا کی شدید مخالفت کے باوجود قائم رہا، قائم ہے اور قائم رہے گا.حکومتیں اس روحانی گورنر جنرل کے مقابلہ میں کھڑی ہوئیں تو وہ مٹادی گئیں ،سلطنتوں نے اس کو ترچھی نگاہ سے دیکھا تو وہ تہہ و بالا کر دی گئیں ، بڑے بڑے جابر بادشاہوں نے اس کا مقابلہ کیا تو وہ مچھر کی طرح مسل دیئے گئے کیونکہ اس دربارِ خاص کا بادشاہ یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اُس کے مقرر کردہ گورنر جنرل کی کوئی ہتک کرے یا اس کے پہنائے ہوئے جبہ کو کوئی اُتارنے کی کوشش کرے.وہ اپنے درباریوں کے لئے بڑا غیور ہے اور سب
۵۱۷ سے بڑھ کر وہ اس درباری کے لئے غیرت مند ہے جس کا مبارک نام محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہے خدا تعالیٰ کی اس پر لاکھوں برکتیں اور کروڑوں سلام ہوں.امِينَ يَارَبَّ الْعَلَمِینَ.“ البقرة: ۲۵۶ سبا : ۴ ا چوری مور چھل یعنی مور کے پروں سے بنا ہوا پنکھا ( تنویر اللغات صفحه ۸۳۲،۴۴۹ مطبوعہ لاہور ) بنی اسرائیل: ۱۱۲ مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۲۶۶.المكتبه الاسلامي بيروت الطبعة الثانية١٩٧٨ء ل الشفا القاضي ابي الفضل عياض الجزء الاول صفحہ ے سے مطبوعہ ملتان ك البقرة : ۳۲ تا ۳۴ اص: ۶۶ تا ۷۹ الاعراف: ۱۲ الاحزاب : ۷۳ مسلم كتاب البر والصلة باب اذا احب الله عبدا احبه لعباده حدیث نمبر ۶۷۰۵ صفحه ۱۴۸ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية ابريل ٢٠٠٠ء النجم: ۸ تا ۱۰ ۱۵ الاحزاب : ۵۷ الانعام: ۱۰۴ المدثر : ۲تا۸ كل المنجد عربی اردو صفحه ۳۱۱ مطبوعہ کراچی ۱۹۷۵ء الانفال: ۱۸ ۱۸ تا ۲۰ اقرب الموارد الجزء الاول صفحه ۳۱۹ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء ا تاج العروس الجزء الاول صفحه ۱۸۲ مطبوعہ مصر ۱۲۸۵ھ ٢٢ البقرة: ۱۸۸ ۲۳ الاحزاب : ۳۴ ۲۴ الشعراء: ۲۱۵ ۲۵ تا ۲۷ لسان العرب المجلد الخامس صفحہ ۱۴۶ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء ۲۸ تا ۳۰ لسان العرب جلد ۱۵.صفحه ۳۱ تا ۳۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء ۳۱ ترمذی ابواب الادب باب ماجاء فى النظافة حديث نمبر ۲۷۹۹ صفحه ۶۳۰ ، ۶۳۱ مطبوعه الرياض الطبعة الاولى اپریل ۱۹۹۹ء ۳۲ ابوداؤد كتاب الصلوة باب اتخاذ المساجد في الدور حدیث نمبر ۴۵۶ صفحہ ۷۷ مطبوع الرياض الطبعة الثانية ابريل ١٩٩٩ء بخارى كتاب الطهارة باب فَضْل التّهجير إلى الظهر حدیث نمبر ۶۵۲ صفحه ۱۰۸ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۳۴ مسلم كتاب الطهارة باب النهي عن التخلى فى الطريق حدیث نمبر ۶۱۸ صفحه ۱۲۷ مطبوع الرياض الطبعة الثانية ابريل ٢٠٠٠ء
۵۱۸ ۳۵ بخاری کتاب الصلوة باب كفَّارَة البزاق فى المسجد حدیث نمبر ۴۱۵ صفحه ۷۲ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۳۷،۳۶ بخاری کتاب الادب باب مَايُنهى عَنِ التَّحَاسُد حدیث نمبر ۶۰۶۴ صفحه ۱۰۵۹ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۳۸ بخاری کتاب الادب باب رحمة الناس والبهائم حدیث نمبر ۱ ۶۰۱ صفحه ۱۰۵۱ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۳۹ بخاری کتاب الادب باب لا يسبّ الرجُلُ وَالدَيْهِ حدیث نمبر ۵۹۷۳ صفحه ۱۰۴۶ بخاری کتاب الادب باب ماينهى من السباب واللعن حدیث نمبر ۶۰۴۴ صفحه ۱۰۵۶،۱۰۵۵ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ٢٠ بخارى كتاب الجمعة باب السّوَاك يوم الجمعة حدیث نمبر ۸۸۷ صفحه ۱۴۳ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ا بخاری کتاب العتق باب فی العتق وفضله حدیث نمبر ۲۵۱۷ صفحہ ۴۰۷ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ٤٢ مسلم كتاب اللباس والزينة باب النهى عَنْ ضَرْب الْحَيْوَانِ فِي وَجْهِهِ وَوَسمِهِ حدیث نمبر ۵۵۵۳ مطبوعه الریاض ۲۰۰۰ء ۴۳ بخاری كتاب المساقاة.باب فضل سقى الماء حدیث نمبر ۲۳۶۵ صفحه ۳۸۰ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۴ بخاری کتاب الانبياء باب حديث الغار حدیث نمبر ۳۴۶۷ صفحه ۵۸۴ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۲۵ بخاری کتاب الايمان باب اَحَبُّ الدِّينِ إِلى الله أدومه حدیث نمبر ۴۳ صفحه ۱۰ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ٤٦ لسان العرب جلد ۵ صفحه ۱۴۶.مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء السيرة الحلبية جلد اصفحہ ۱۴۶ - ۱۴۷ - مطبوعه مطبع از هریه مصر ۱۹۳۲ء السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۳۷۷.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ٤٩ تفسير كبير فخر الدین رازی جلد ۲۹ صفحه ۳۰۷ مطبوعه طهران ۱۳۲۸ھ ۵۰ دیویکانند ویویکانند اوائل عمر میں برہمو سماج کا رُکن بنا.وہ ہمالیہ میں کئی برس تک ریاضت کرنے کے بعد جدید دنیا میں پہلا ہند و مبلغ بننے کے لئے روانہ ہوا.ویویکا نند نے
۵۱۹ طویل سفر کئے اور ویدانت ہندومت کے فضائل پر لیکچر دیئے.اس نے ۱۸۹۳ء میں بمقام شکا گو.مذاہب کی پارلیمنٹ میں ہندومت کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک زبر دست تأثر قائم کیا.خدا کی وحدانیت کا یہ ترجمان جہاں بھی گیا سامعین کے ذہن پر چھا گیا اور اپنے پیروکار بنائے.( مذاہب عالم کا انسائیکلو پیڈیا صفحہ ۱۹۹ لیوس مور مطبوعہ لاہور ۲۰۰۲ء) ا ٹیگور : اس کا پورا نام ریوندر ناتھ ٹیگور تھا.ٹیگور نے ۱۸۴۲ء میں برہمو سماج میں شامل ہو کر ہندو ازم کی تجدید کی اور جماعت کی قیادت سنبھالی.انہوں نے اس تحریک کی خدمت کے لئے ایک مطبع اور رسالہ جاری کیا اس کی پرورش فرقہ وارانہ ماحول میں نہیں ہوئی اس لئے یہ تنگ نظر نہیں تھا.( مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ مؤلفہ غلام رسول مہر صفحہ ۲۱۴.مطبوعہ لاہور ۱۹۷۶ء ) ۵۲ ال عمران : ۱۰۵ ۵۳ موضوعات ملاعلی قاری صفحه ۵۹ مطبع مجتبائی دهلی ۱۳۴۶ھ ۵۵۵۴ لسان العرب جلد ۳ صفحہ ۱۹۷.بیروت ۱۹۸۸ء ۵۶ اقرب الموارد جلد ۲ صفحه ۱۰۶۸ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء ۵۷ لسان العرب جلد ۵ صفحه ۲۶۷ مطبوعہ قاہرہ ۲۰۱۳ء ۵۸ المائدة: ۶۸ ۵۹ طه : ۱۶۰۱۵ ٢٠ السيرة الحلبية.الجزء الاول صفحہ ۳۶۸.مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء ال المائدة: ٦٨ ۱۲، اسد الغابه جلد ۳ صفحه ۲۲۱ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ ۱۳ بخاری کتاب فضائل اصحاب النّبيّ صلى الله عليه وسلم باب مناقب المهاجرين و فضلهم حدیث نمبر ۳۶۵۲ صفحه ۶۱۳ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۱۴ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحه ۱۳۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۲۵ بخاری کتاب المغازى باب غزوة ذات الرقاع حدیث نمبر ۴۱۳۵ صفحه ۷۰۰ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء، شرح مواهب اللدنية جلد ۲ صفحه ۵۳۰ دار الكتب العلمية بيروت ١٩٩٦ء ۱۶ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۸۴ مطبوعه ۱۲۹۵ ھ مصر مسلم كتاب الجهاد و السير باب غزوة حنين حدیث نمبر ۴۶۱۵ صفحه ۷۹۰ مطبوعہ الرياض الطبعة الثانية ابريل ٢٠٠٠ء ۱۸ تاریخ طبری جلد دوم حصه اول ارد و صفحه ۴ ۳۵ ناشر دار الاشاعت کراچی ۲۰۰۳ء 19 تاريخ طبرى الجزء الثالث صفحه ۲۴۷ تا ۲۴۹.دارالفکر بیروت ۱۹۸۷ء
۵۲۰ ٤٠ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۲۹،۱۲۸ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ اک سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۸۹ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ عبس : ۲ ۱ تا ۱ سیرت ابن هشام جلد ا صفحه ۴۶.مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۷۵،۷۴ سیرت ابن هشام الجزء الاول صفحه ۱۳۶،۱۳۵.مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ ٤٦ بخارى كتاب الزكوة باب من احب تعجيل الصدقة من يومها حديث نمبر ۱۴۳۰ صفحه ۲۳۱ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء مستدرک حاکم جلد ۴ صفحه ۱۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء ٤٨ بخاری کتاب المناقب باب مناقب قريش حدیث نمبر ۳۵۰۵ صفحه ۵۸۹ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۸۰-۷۹ اسد الغابة جلد ۳ صفحه ۳۱۳ تا ۳۱۷ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ ال السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحه ۱۸۲ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء ۸۲ القصص : ۸۶ ۸۵ الحشر: ۱۱ ۸۳ سبا : ۲۹ الحجر : ۴۶ تا ۴۸ التوبة : ١٠٠ الفتح : ٣٠ ۸۸ سیرت ابن هشام الجزء الاول صفحه ۴ ۲۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۸۹ بخاری کتاب المغازی باب قصّة الاسود العنسی حدیث نمبر ۴۳۷۸ صفحه ۷۴۲ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۹۰ بخارى كتاب الجنائز باب من استعد الكفن في زمن النبي صلى الله عليه وسلم حدیث نمبر ۱۲۷۷ صفحه ۲۰۴ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ا شمائل الترمذى باب ماجاء فى صفة مزاح رسول الله صلى الله عليه وسلم صفحه ۲۰،۱۹ مطبوعه قرآن محل ، محمد سعید اینڈ سنز ، کراچی بخاری کتاب الاذان باب انتظار الناس.قيام الامام العالم حدیث نمبر ۸۶۸ صفحه ۱۴۰ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۹۳ سیرت ابن هشام الجزء الثاني صفحه ۱۶ مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ ۹۴ تاريخ الخلفاء للسيوطى صفحه ۵۱ - مطبوعه لاهور ۱۸۹۲ء ۹۵ مستدرک حاکم جلد ۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء سیرت ابن هشام الجزء الثاني صفحه ۶۹ ۱ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۹۷ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب قول النبي
۵۲۱ صلى الله عليه وسلم لَو كُنت مُتَّخِذَا خَلِيَّلا حديث نمبر ۳۶۶۱ صفحه ۶۱۴ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء کنز العمال جلد ۱۲ صفحه ۶۴۸ - ۶۴۹ مطبوعه حلب ۱۹۷۴ء ۹۹ ۱۰۰ بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الفتح باب قوله لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبكَ حدیث نمبر ۴۸۳۷ صفحه ۸۵۶ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ٠١ الكوثر : ۲ تا ۴ ١٠٢ لسان العرب جلد ۲ صفحہ ۳۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء ۱۰۳ ۱۰۴ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم باب قول النبي صلى الله عليه وسلّم لو كنت متخذا خليلا حديث نمبر ۳۶۷۸ صفحه ۶۱۸ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۱۰۵ اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد ۳ صفحه ۳۸۶،۳۸۵ مطبوعہ بیروت ۱۲۸۶ھ ۱۰۶ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۲۱۹ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۲۱۵ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ ۲ ۱۸ مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۳۰۴ بیروت ۱۹۲۸ء ۱۰۹ المائدة : ۲۵ 10 بخاری کتاب المغازى باب قصة غزوة بدر حدیث نمبر ۳۹۵۲ صفحه ۶۶۸ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء الله ال عمران: ۱۶۵ ۱۱۲ خروج باب ۳۱ آیت ۱۷ صفحه ۹۴ مطبوعہ پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور ۱۱۳ ق : ۳۹ ١١٢ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالانْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون (الذريت: ۵۷) ۱۱۵ هُوَ الَّذِى جَعَلَكُمُ خَلَّيْفَ فِي الْأَرْضِ فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهُ (فاطر:۴۰) وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت:۷۰) ١١٦ لى الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ (المؤمن : ۸) ١١٨ وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوج (البروج : ۲) 119 فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (السجدة: ۱۸) ١٢٠ وَمَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَاَضَلَّ سَبِيلًا (بنی اسرائیل :۷۳) ا مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقى.إِلَّا تَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشَى (طه: ۴،۳) ۲۲ مَنْ عَمِلَ صَالِحًافَلِنَفْسِهِ وَمَنْ اَسَاءَ فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (حم السجدة:۴۷)
۵۲۲ ١٢٣ إِثْمُهُمَا اكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا (البقرة: ۲۲۰) إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ (العنكبوت : ۴۶) ۱۲۵ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة : ۱۸۴) ١٣٦ لسان العرب جلد ۲ صفحہ ۳۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۲۸ء ۱۲۷ بخاری کتاب احادیث الانبياء باب نزول عيسى ابن مریم حدیث نمبر ۳۴۴۸ صفحه ۵۸۱ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۱۲۸ بنی اسرائیل: ۸۰ ۱۳۹ (۹۸)The Life of Muhammad Page xvii ایڈیشن ۱۹۲۳ء ۳۰ بخارى كتاب الجهاد باب السرعة والركض فى الفزع حدیث نمبر ۲۹۶۹ صفحه ۴۹۱ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء السيرة الحلبية.الجزء الاول صفحه ۳۹۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء ۳۲ بخاری کتاب الصوم باب أَجْوَدُ مَا كان النَّبيُّ صلى الله عليه وسلم يَكُونَ فِي رمضان حدیث نمبر ۱۹۰۲ صفحه ۳۰۶ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۱۳۳ بخاری کتاب الادب باب الحياء حدیث نمبر ۶۱۱۹ صفحہ ۱۰۶۷ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۱۳۴ بخاری کتاب الادب باب رحمة الولدو تقبيله ومعانقته حدیث نمبر ۵۹۹۷ صفحه ۱۰۴۹ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۱۳۵ بخاری کتاب الجنائز باب قول النبى صلى الله عليه وسلم يُعَذِّبُ الميت ببعض بكاء اهله حدیث نمبر ۱۲۸۴ صفحه ۲۰۵ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ١٣٦ بخاری کتاب الحدود باب كراهية الشفاعة فى الحد حدیث نمبر ۶۷۸۸ صفحه ۱۷۰ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۱۳۷ اسد الغابة جلد ۳ صفحه ۱۰۹ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ ۱۳۸ بخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حدیث نمبرے صفحہ ۲ ،۳ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء
اللهِ الرَّحْمَنِ ۵۲۳ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ (۷) تقریر فرموده مورخه ۲۸ دسمبر ۱۹۵۳ء بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ) عالم روحانی کا نوبت خانہ تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا : - اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ ایسے الفاظ میں اُتاری ہے کہ محسر ہو یا یسر ہو مؤمن کے لئے یہ سورۃ ہمیشہ ہی ایک مستقل صداقت ، ایک نہ مٹنے والی حقیقت اور ایک محبت کا گہرا راز بنی رہتی ہے.انسانوں پر تو کل کرنے والے اور ظاہری طاقت وشان کو دیکھنے والے لوگ کبھی کبھی با وجود بڑی بڑی تیاریوں کے ، باوجود بڑے بڑے ارادوں کے ، باوجود بڑی بڑی امدادوں کے ، با وجود بڑے بڑے سامانوں کے ناکامی اور نامرادی کا منہ دیکھ لیتے ہیں.ہٹکر اپنی تمام شان کے باوجود مشرقی جرمنی کی جنگ میں ہار جاتا ہے.نپولین اپنے عظیم الشان تجربہ اور عزم کے باوجود واٹر لو میں شکست کھا جاتا ہے.لیکن خدا کے بندے اور خدا کے پرستار اور خدا کے موعود صبح بھی اور شام بھی اور رات بھی اور دن بھی سچے دل سے بغیر منافقت کے، بغیر جھوٹ کے خدا کے حضور یہ کہتے ہیں الْحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ.اُن کی ناکامیاں عارضی ہوتی ہیں ، اُن کی تکلیفیں محض چند لمحات کی اور اُن کی مشکلات بالکل بے حقیقت ہوتی ہیں جن کے ساتھ خدا کھڑا ہوتا ہے اُن کو کسی دوسری چیز کا ڈر ہی کیا ہوسکتا ہے.میں نے ذکر کیا تھا کہ کل انشاء اللہ تعالیٰ میں حسب طریق سابق ایک چند تمہیدی امور مضمون کے متعلق کچھ خیالات ظاہر کرونگا.اس دفعہ میں نے اس مضمون کے لئے پھر ” کو چنا ہے ”“ کی تقریر ۱۹۳۸ء سے شروع ہوئی
۵۲۴ تھی اور اب ۱۹۵۳ء آ گیا ہے اور ابھی تک وہ سارا مضمون ختم نہیں ہوا.سولہ چیزیں تھیں جو میں نے منتخب کی تھیں اور جن کے متعلق میں متشابہ قرآنی دعوے اور قرآنی تعلیم پیش کرنا چاہتا تھا ان میں سے اس وقت تک دس کے متعلق تقریریں ہو چکی ہیں.۱۹۳۸ء میں جنتر منتر ، وسیع سمندر اور آثار قدیمہ کے متعلق تقریر ہوئی تھی.۱۹۴۰ء میں مساجد اور قلعوں کے متعلق تقریر ہوئی تھی.۱۹۴۱ء میں مُردہ بادشاہوں کے مقابر اور مینا بازار کے متعلق تقریر ہوئی تھی.پھر اس تی کے بعد ۱۹۴۲ء ،۱۹۴۳ء ،۱۹۴۴ء، ۱۹۴۵ء ، ۱۹۴۶ء اور ۱۹۴۷ء میں اس موضوع پر کوئی تقریر نہیں ہوئی.۱۹۴۸ء میں ایک وسیع اور بلند مینار کے متعلق تقریر ہوئی تھی.پھر ۱۹۵۰ء کے جلسہ میں دیوانِ عام کے متعلق تقریر ہوئی تھی اور ۱۹۵۱ء کے جلسہ میں دیوانِ خاص کے متعلق تقریر ہوئی.اس طرح گویا دس مضامین اِن میں سے ہو گئے چونکہ اس مضمون کے بیان ہونے میں لمبا فاصلہ ہو گیا ہے اس لئے میر انشاء تھا کہ میں مختصر کر کے باقی چھ مضامین اکٹھے بیان کر دوں اور کتاب مکمل ہو جائے لیکن جیسا کہ میں گل بتا چکا ہوں چند مہینوں سے جو مجھے گلے کی تکلیف شروع ہوئی تو اس کی وجہ سے میں نے محسوس کیا کہ میں لمبا مضمون بیان نہیں کر سکوں گا اور چھ مضامین بیان کرنے کے لئے غالباً پانچ چھ گھنٹے لگ جائیں گے اس لئے اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے میں رات کے وقت لیمپ سے کام نہیں کر سکتا اور بجلی ابھی یہاں آئی نہیں محکمہ دو سال سے ہم سے وعدے کر رہا ہے مگر اب تک اُسے ایفائے عہد کی توفیق نصیب نہیں ہوئی.جب وہ آ جائے تو مجھے امید ہے کہ بیماری میں بھی کچھ نہ کچھ کام میں رات کو کر سکوں گا لیکن روشنی اگر کافی نہ ہو تو اب میری نظر رات کو زیادہ کام نہیں کر سکتی.دوسرے تیل کی بُو کی وجہ سے مجھے نزلہ بھی جلدی ہو جاتا ہے اور تیل کے لیمپ سے کام کرنا میرے لئے مشکل ہو جاتا ہے اس لئے میں زیادہ وقت نوٹ لکھنے پر بھی نہیں لگا سکتا تھا اور کچھ میری بیماری کی وجہ سے لاہور کے ڈاکٹروں نے جو شخے تجویز کئے وہ ایسے مضعف تھے کہ در حقیقت یہ پچھلا سارا مہینہ ایسا گزرا ہے کہ اکثر حصہ مجھے چار پائی پر لیٹ کر گزارنا پڑتا تھا اور بیٹھنا بھی میرے لئے مشکل ہوتا تھا اور دوائی بھی ایسی تھی جو کہ خواب آور تھی اسلئے اکثر وقت مجھے اونگھ ہی آتی رہتی تھی اور میں کام نہیں کر سکتا تھا.پس ان مجبوریوں کی وجہ سے میں نے صرف ایک مضمون پر ہی اکتفاء کیا اور آج اُسی مضمون کے متعلق میں کچھ باتیں کہوں گا.بعض دفعہ الہی تصرف ایسا ہوتا ہے کہ چھوٹی سی باتوں کو اللہ تعالیٰ لمبا کر دیتا ہے.اور بعض دفعہ طبیعت پر ایسا بوجھ پڑتا ہے
۵۲۵ کہ لمبی لمبی باتیں بھی مختصر ہو جاتی ہیں اس لئے میں ابھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ نوٹ جو درحقیقت ایک ہی مضمون کے متعلق ہیں اور اپنے خیال میں میں نے انہیں مختصر کیا ہے آیا تقریر کے وقت بھی وہ لمبے ہو جاتے ہیں یا چھوٹے ہو جاتے ہیں.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کے فعل پر منحصر ہے مجھے بھی نہیں معلوم اور آپ کو بھی نہیں معلوم.نئے لوگوں کی واقفیت کیلئے بعض پرانی باتیں جی لوک بعض لوگ جو نئے آئے ہیں اُن کی اطلاع کے لئے میں یہ بتاتا ہوں کہ ۱۹۳۸ء میں میں نے ایک سفر کیا تھا.اُس سفر میں مختلف جگہوں پر جب میں نے مختلف چیزیں پُرانے آثار کی یا نیچر کی دیکھیں تو اُن کا میری طبیعت پر ایک گہرا اثر پڑا.انسانی مصنوعات اور انسانی شان و شوکت کو دیکھ کر اور اسلام کے نشانوں کو مٹا ہوا دیکھ کر اور اُس کی جگہ کفر اور ضلالت کو غالب دیکھ کر میری طبیعت سخت غمزدہ ہوئی اور مجھے بہت رنج پہنچا.اس سفر میں ہم پہلے بمبئی گئے تھے ، بمبئی سے حیدر آباد گئے ، حیدرآباد سے پھر آگرہ آئے ، آگرے سے دتی آئے اور دتی میں ایک دن سیر کرتے ہوئے ہم غیاث الدین تغلق کے قلعہ پر چڑھے وہاں سے ہمیں دتی کے تمام مناظر نظر آ رہے تھے.دتی کا پرانا شہر بھی نظر آتا تھا، نیا شہر بھی نظر آتا تھا، قطب صاحب کی لاٹ بھی نظر آتی تھی ، نظام الدین صاحب اولیاء کا مقبرہ بھی نظر آتا تھا ، لو ہے کی لاٹ بھی نظر آتی تھی اور لودھیوں کے قلعے بھی نظر آتے تھے ،سوریوں کے قلعے بھی نظر آ رہے تھے ، مغلوں کے قلعے بھی نظر آتے تھے ، باغات بھی نظر آتے تھے ، غرض عجیب قسم کا وہ نظارہ تھا جو نظر آرہا تھا.ایک طرف وہ شان و شوکت ایک ایک کر کے سامنے آرہی تھی کہ رکس طرح مسلمان یہاں آئے ، کس طرح اُنکو غلبہ حاصل ہوا ، کتنی کتنی بڑی انہوں نے عمارتیں بنائیں اور اس کے بعد وہ خاندان تباہ ہوا، پھر دوسرا آیا تو وہ تباہ ہوا، پھر تیسرا آیا اور وہ تباہ ہوا اور اب آخر میں یہ نشانات انگریزوں کی سیر گاہیں بنی ہوئی ہیں.اس نظارہ کو دیکھ کر میری طبیعت پر ایک غیر معمولی اثر پیدا ہوا اور میں نے کہا.کیا ہے یہ دنیا جس میں اتنی شاندار ترقی کے بعد بھی انسان اتنا گر جاتا اور تباہ ہو جاتا ہے.میرے ساتھ میری بڑی ہمشیرہ بھی تھیں یعنی ہمشیروں میں سے بڑی ورنہ یوں وہ مجھ سے چھوٹی ہیں.اسی طرح میری لڑکی امتہ القیوم بیگم بھی تھی اور میری بیوی اُمِ متین بھی تھیں ، میں وہاں کھڑا ہو گیا اور میں اس نظارہ میں محو ہو گیا.ایک ایک چیز کو میں دیکھتا تھا اور میرے دل میں خنجر چھتا تھا کہ کسی وقت اسلام کی یہ شان تھی مگر آج مسلمانان
۵۲۶ انگریز کا ٹکٹ لئے بغیر ان عمارتوں کے اندر جا بھی نہیں سکتے.یہ عمارتیں جو مسلمانوں نے بنائی تھیں آج یہاں سرکاری دفتر بنے ہوئے ہیں اور اس کو سیر گاہ بنا دیا گیا ہے.جن خاندانوں کے یہ مکان تھے اُن کی نسلیں چپڑاسی بنی ہوئی ہیں ، کلرک بنی ہوئی ہیں ، ادنی ادنی کام کر رہی ہیں اور یوروپین لوگوں کے ٹھڈے کھا رہی ہیں.غرض میں اس بات سے اتنا متاثر ہوا کہ میں کھڑے ہوئے انہی خیالات میں محو ہو گیا اور انہوں نے مجھے آوازیں دینی شروع کر دیں کہ بہت دیر ہو گئی ہے.مگر میں چوٹی پر کھڑا اس کو سوچ رہا تھا اور دنیا وَمَافِیھا سے غافل تھا.سوچتے سوچتے یکدم اللہ تعالیٰ نے میرے دل پر القاء کیا کہ ہم نے جو اسلام کو قائم کیا تھا تو قرآن کریم کے لئے قائم کیا تھا ان عمارتوں کے لئے قائم نہیں کیا تھا.ہم نے جو تم سے وعدے کئے تھے وہ قرآن کریم میں بیان ہیں، وہ یہ وعدے نہیں تھے جو تُغلقوں اور سُوریوں نے سمجھے تھے بلکہ وہ وعدے وہ ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے گئے تھے اور یہ چیزیں جو تم دیکھ رہے ہو اُن کی مثالیں بھی قرآن کریم میں موجود ہیں اور ان سے بہت زیادہ اعلیٰ اور شاندار ہیں اور قیامت تک موجود رہیں گی تم ان کو دیکھ کر کیا غم کرتے ہو جبکہ ان سے زیادہ شاندار چیزیں تمہارے پاس موجود ہیں.جس وقت تم چاہو قرآن اُٹھا ؤ اُس میں سے تمہیں یہ ساری چیزیں نظر آجائیں گی.غرض بجلی کی طرح یہ مضمون میرے نفس میں گو ندا اور میں نے وہاں سے حرکت کی اور نیچے کی طرف اُترنا شروع کیا اور میں نے کہا.میں نے پالیا.میں نے پالیا جس طرح بدھ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ خدا کے متعلق غور کر رہا تھا کہ سالہا سال غور کرنے کے بعد یہ انکشاف اُس پر ہوا اور بے اختیار ہو کر اُس نے اپنی آنکھیں کھو لیں اور کہا : میں نے پالیا.میں نے پالیا اِس طرح اُس وقت بے اختیار میری زبان پر بھی یہ الفاظ جاری ہو گئے کہ : میں نے پالیا.میں نے پالیا میری بیٹی امتہ القیوم بیگم نے مجھ سے کہا." ابا جان! آپ نے کیا پا لیا؟ میں اُس وقت اس دنیا میں واپس آچکا تھا.میں نے اُسے کہا.بیٹی ! میں نے پا تو لیا ہے لیکن اب میں وہ تم کو نہیں بتا سکتا بلکہ ساری جماعت کو اکٹھا بتاؤں گا.چنانچہ اس پر میں نے تقریر شروع کی جو
۵۲۷ ابھی تک جاری ہے اور جس کا ایک حصہ میں آج بیان کرنے والا ہوں.نوبت خانوں کی پہلی غرض جو چیزیں میں نے وہاں دیکھی تھیں اور جنہوں نے میرے قلب پر خاص اثر کیا تھا اُن میں سے ایک چیز یہ تھی کہ میں نے وہاں نوبت خانے دیکھے.یعنی ایسی عمارتیں دیکھیں جن میں وہ جگہیں بنی ہوئی تھیں جن میں بڑی بڑی نوبتیں رکھی جاتی تھیں اور وہ خاص خاص مواقع پر بجائی جاتی تھیں.میں نے تحقیقات کی کہ یہ نوبت خانے کیوں بنوائے گئے تھے اور ان کی کیا غرض تھی ؟ اس پر مجھے معلوم ہوا کہ کچھ نو بتیں تو اس طرح رکھی گئی تھیں کہ وہ سرحدوں سے چلتی تھیں اور دتی تک آتی تھیں.مثلاً جنوبی ہندوستان میں چند حکومتیں ایسی تھیں جو شروع زمانہ میں مغلوں کے ماتحت نہیں کی آئیں وہ ہمیشہ مغل بادشاہوں سے لڑتی رہتی تھیں اور جب بھی موقع پاتیں مغلیہ چھاؤنیوں پر حملہ کر دیتی تھیں.اس غرض کے لئے انہوں نے تین تین چار چار میل پر جہاں سے وہ سمجھتے تھے کہ اُن کی آواز جا سکتی ہے نوبت خانے بنائے ہوئے تھے جو چلتے ہوئے دلی تک آتے تھے.جس وقت سرحدات پر حملہ ہوتا تھا تو نوبت خانہ پر جو افسر مقرر ہوتے تھے وہ زور سے نوبت بجاتے تھے اُن کی آواز سُن کر اگلا نوبت خانہ نوبت بجانا شروع کر دیتا تھا، اُس کی آواز تیسرے نوبت خانہ تک پہنچتی تو وہ نوبت بجانا شروع کر دیتا اس طرح دکن سے دتی تک چند گھنٹوں میں خبر پہنچ جاتی تھی.گویا یہ ایک تار کا طریق نکالا گیا تھا اور اس سے معلوم ہو جاتا تھا کہ ملک پر حملہ ہو گیا ہے تو جس جہت سے نوبت خانوں کی آواز آتی تھی اُس جہت کا بھی پتہ لگ جاتا تھا.بادشاہ فور الام بندی کے کا حکم دے دیتا تھا اور کسی جرنیل کو مقابلہ کے لئے مقرر کر دیتا تھا اور گھوڑ سوار فورا چلے جاتے تھے جو جا کر خبر دیتے تھے کہ تم مقابلہ کرو.اگر بھاگنا پڑے تو فلاں جگہ تک آجاؤ پھر ہماری اور فوج آجائے گی.چنانچہ پھر فوج پہنچ جاتی تھی اور دشمن کا مقابلہ شروع ہو جا تا تھا.یہ نوبت خانے ادھر بنگال سے چلتے تھے اور دتی تک جاتے تھے اور اُدھر پشاور سے چلتے تھے اور دتی تک آتے تھے.جب کوئی حملہ آور ایران کی طرف سے آتا تھا تو پشاور کے پاس سے نوبت خانے بجنے شروع ہو جاتے تھے اور چند گھنٹوں میں دتی میں خبر پہنچ جاتی تھی کہ ا دھر سے حملہ ہو گیا ہے.اُن دنوں ملتان میں بڑی چھاؤنی تھی ، پھر لاہور میں بڑی چھاؤنی تھی اور دتی تو خود مرکز حکومت تھا.ان بڑی بڑی فوجی چھاؤنیوں کو حکم پہنچ جاتا تھا کہ اپنی فوجیں پشاور کی طرف بڑھانی شروع کر دو اور پھر دتی سے دوسرے جرنیل بھی پہنچ جاتے تھے.
۵۲۸ غرض نوبت خانوں کی غرض ایک تو یہ ہوا کرتی تھی کہ مرکز میں یہ خبر پہنچ جائے کہ دشمن حملہ آور ہوا ہے.یہ ظاہر ہے کہ جس زمانہ میں ابھی تار نہیں نکلی تھی یہ طریق بڑا مفید تھا جو حکومت کی ہوشیاری اور اپنے فرض کے ادا کرنے پر تیار ہونے کی ایک علامت تھی.گجا حیدر آباد دکن کا علاقہ جو ہزار میل یا اُس سے بھی زیادہ فاصلہ پر ہے اور کجا یہ کہ چند گھنٹوں میں خبریں پہنچ جاتی تھیں.اسی طرح پشاور سے دتی تک خبریں پہنچ جاتی تھیں اور بنگال سے دتی تک خبریں پہنچ جاتیں.نوبت خانوں کی دوسری غرض یہ ہوا کرتی تھی کہ نوبت خانوں کی دوسری غرض جب بادشاہ کسی علاقہ پر حملہ کرنے کیلئے اپنے لشکر کو لیکر مرکز سے روانہ ہو تو اُس جہت میں رہنے والی تمام رعایا کو علم ہو جائے کہ شاہی لشکر آ رہا ہے اور وہ بھی دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جائے.چنانچہ جب بادشاہ کسی طرف حملہ کرتا تھا تو اُس طرف اُلٹی نوبت بجنی شروع ہو جاتی تھی.مثلاً دتی سے بادشاہی لشکر نے روانہ ہونا ہے اور فرض کرو کہ حملہ اتنی وسیع جگہ پر ہو گیا ہے اور اتنا بڑا ہے کہ بادشاہی فوجوں کا وہاں فوری طور پر پہنچنا ضروری ہے تو دلی میں نوبت پڑتی تھی اور پھر جس طرف آگے جانا ہوتا تھا اُس طرف کے نوبت خانے بجنے شروع ہو جاتے تھے.غرض جس لائن پر نوبت خانے بجتے چلے جاتے تھے لوگوں کو معلوم ہو جاتا تھا کہ اِس لائن پر لشکر نے جانا ہے.اگر حیدر آباد کی طرف بادشاہ کا لشکر جا رہا ہے تو پہلے ایک پڑاؤ پر نوبت بجے گی ، پھر دوسرے پر بجے گی ، پھر تیسرے پر بجے گی اور پھر بجھتی چلی جائے گی اور جہاں تک نوبت بجے گی لوگوں کو پتہ لگ جائے گا کہ بادشاہ نے کہاں تک آنا ہے.اگر بنگال کی طرف شاہی لشکر نے جانا ہے تو پہلے مرکز میں نوبت پڑے گی اور پھر آگے نوبت پڑے گی اور پھر آگے نوبت پڑے گی ، پھر پڑتے پڑتے بنگال والوں کو اطلاع ہو جائے گی کہ وتی سے بادشاہ کا لشکر چل پڑا ہے.پشاور کی طرف حملہ ہوا ہو تو اُدھر خبر پہنچ جائے گی کہ دتی سے بادشاہ فوج لے کر چل پڑا ہے.یہ ظاہر ہے کہ جیسے تاریں آجاتی ہیں کہ ہوائی جہازوں پر ایک دستہ آرہا ہے اتنی فوج چل پڑی ہے اور فلاں جرنیل مقرر کیا گیا ہے تو اس سے فوج کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں اور اگر ایک فوج اپنے آپ کو کمزور بھی سمجھتی ہے اور وہ خیال کرتی ہے کہ وہ دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتی تو جب اُسے یہ خبر پہنچ جائے کہ دو تین دن تک ہماری تازہ دم فوج اُس کی مدد کے لئے پہنچ جائے گی تو اُس کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں اور وہ لڑ کر مرنے کیلئے تیار ہو جاتی ہے اور سمجھتی ہے کہ ہم
۵۲۹ نے یہاں سے ہلنا نہیں.دو تین دن میں ہماری اور فوج آپہنچے گی ڈرنے کی کوئی بات نہیں لیکن اگر یہ پتہ نہ ہو کہ ہماری فوجیں کب آئیں گی تو وہ کہتی ہیں یونبی جان کیوں ضائع کرنی ہے چلو لوٹ جائیں اس طرح ان نوبت خانوں کی وجہ سے فوج بڑی مضبوط رہتی ہے.تیسری غرض نوبت خانوں کی یہ ہوا کرتی تھی کہ وبت خانوں کی تیسری غرض بادشاہ کبھی کبھی لوگوں کو اپنا چہرہ دکھانے کے لئے اور اپنی باتیں سُنانے کے لئے جھروکوں میں بیٹھتے تھے اور اعلان کر دیا جاتا تھا کہ بادشاہ سلامت تشریف لے آئے ہیں جس نے آنا ہے آجائے یہ دربار عام ہوتا تھا.اُس وقت بھی نوبت بجائی جاتی تھی اور نوبت کے بجنے سے لوگ سمجھ جاتے تھے کہ آج بادشاہ نے باہر آنا ہے.جو قریب ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں بات کرنے کا موقع مل جائے گا ، جو اُن سے بعید ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں دیکھنے کا موقع مل جائے گا، جو اُن سے بھی بعید ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں ایک جھلک دیکھنے کا موقع مل جائے گا اور جو اور بھی بعید ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہم کوشش تو کریں گے نظر آ گیا تو آ گیا ور نہ ہجوم ہی دیکھ لیں گے اس طرح ہزاروں لوگ جمع ہو جاتے تھے.دتی کے بادشاہوں نے اپنے عہد حکومت میں ایسا طریق رکھا ہوا تھا کہ علاوہ جھروکوں کے وہ بعض دفعہ ایسی جگہ بیٹھتے تھے کہ دریا پار کے لوگ بھی جمع ہو جاتے تھے.بیچ میں جمنا آتی تھی اور جمنا کے کنارے پر لوگ آکر جمع ہو جاتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اتنی دُور سے بھی اگر ہم نے بادشاہ کو دیکھ لیا تو یہ بھی ہماری عزت افزائی ہے.1911ء میں جب جارج پنجم دتی میں آئے اور دربار لگا تو میلوں میل تک لوگ کھڑے ہوتے تھے اور سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر وہ کھڑے کیوں ہیں.بعض دفعہ آدھ آدھ میل پر بادشاہ کی سواری گزرتی تھی مگر لوگ کھڑے ہوتے تھے صرف اتنا دیکھنے کے لئے کہ تالیاں پٹی ہیں اور بادشاہ وہاں سے گزرا ہے.بس اتنی اطلاع آئی تو خوش خوش وہاں سے آگئے کہ ہم بادشاہ کا جلوس دیکھنے کیلئے گئے تھے.غرض یہ تین اغراض ان نوبت خانوں کی ہوا کرتی تھیں.اول سرحدات کی طرف سے مرکز کو اطلاع دینا کہ دشمن حملہ آور ہے.دوم مرکز کی طرف سے علاقہ کو اطلاع پہنچانا کہ بادشاہ یا اس کا ولیعہد بہ نفس نفیس اپنی فوج کے ساتھ کناروں کی فوجوں کی مدد کے لئے چل پڑا ہے.تیسرے یہ اطلاع دینا کہ بادشاہ سلامت آج دربار عام منعقد کر رہے ہیں اور عام اجازت
۵۳۰ ہے کہ لوگ آئیں اور بادشاہ کی زیارت کر لیں اور اگر قریب پہنچ جائیں تو اپنی عرضیاں بھی پیش کر لیں بلکہ بعض جگہوں پر انہوں نے بکس لگائے ہوئے تھے جن میں لوگ عرضیاں ڈال دیتے تھے اور بعض جگہ چھینکے لٹکا دیتے تھے جن میں لوگ عرضیاں ڈال دیتے تھے اور پھر بادشاہ انہیں پڑھ لیتا تھا.گویا یہ تین باتیں تھیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے نوبت خانے بنائے جاتے تھے.اور واقع میں اس نظارہ کا خیال کر کے خصوصاً انگریزوں کی کا رونیشن (CORONATION) دیکھ کر دیکھنے والوں کو خیال آتا تھا کہ کس طرح ہمارے مسلمان بادشاہ نکلتے ہونگے اور جس طرح ہمارے ہندوستانی دُور دُور دھکے کھاتے پھرتے ہیں اسی طرح اُس وقت انگریز سیاح آتے ہونگے تو دو دو میل پر بادشاہ کو دیکھنے کے لئے کھڑے ہوتے ہونگے اور کہتے ہونگے ہم نے بھی بادشاہ کو دیکھنا ہے.مگر آج یہ حالت ہے کہ انگریز تخت پر بیٹھتا ہے اور اُن پٹھان یا مغل بادشاہوں کی اولادیں دُور دُور تک دھکے کھاتی پھرتی ہیں بلکہ ہم نے دہلی میں دیکھا ہے کہ شہزادے پانی پلاتے پھرتے تھے اس طرح دل کو ایک شدید صدمہ ہو تا تھا.قرآنی نوبت خانہ کا کمال لیکن جب خدا تعالیٰ نے مجھے توجہ دلائی کہ ان چیزوں کو تم کیا دیکھ رہے ہو ہم تم کو اس سے بھی ایک بڑا نوبت خانہ دکھاتے ہیں جو قرآن کریم میں موجود ہے اور وہ اِس سے زیادہ شاندار ہے.تب میں نے سوچا کہ یہ جو نو بت خانہ بجا کرتا تھا اور جس سے وہ کناروں کو اطلاع دیا کرتے تھے کہ دشمن داخل ہو گیا ہے اس کے مقابلہ میں قرآن کا نوبت خانہ کیا کہتا ہے.اس پر میں نے ان کو بت خانوں کے متعلق تو یہ دیکھا کہ جب دشمن کی فوجیں ملکی سرحدوں میں گھس آتی تھیں یا کم سے کم سرحدات تک آپہنچتی تھیں تو اُس وقت نو بتیوں کو پتہ لگتا تھا کہ اب دشمن آ رہا ہے اور وہ نو بتیں بجانی شروع کر دیتے تھے.مگر اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ دشمن احتیاط سے اور اپنی فوجوں کو چھپا کر لاتا تو بعض دفعہ وہ سو سو میل اندر گھس آتا تھا پھر کہیں پتہ لگتا تھا کہ حملہ آور دشمن اندر گھس آیا ہے اور پھر اطلاع ہونی شروع ہوتی تھی.اس طرح عام طور پر حملہ آور کچھ نہ کچھ حصے پر قابض ہو جاتا تھا اور پتہ نہیں لگتا تھا کہ وہ کس وقت آیا ہے.داخل ہونے کے بعد معلوم ہوتا تھا کہ دشمن اندر گھس آیا ہے مگر اس نوبت خانہ کو میں نے دیکھا کہ اسلامی حکومت کا ایک نا ئب اور خدا کا خلیفہ مکّہ مکرمہ میں پھر رہا ہے معمولی سادہ لباس ہے ، اُس کے ساتھی نہایت غریب اور بے کس لوگ ہیں ،
۵۳۱ حکومت کا کوئی واہمہ بھی اُن کے ذہن میں نہیں ہے، ماریں کھاتے ہیں ، پیٹتے ہیں، بائیکاٹ ہوتا ہے، فاقے رہتے ہیں جائیدادیں اور مکان چھینے جا رہے ہیں ، غلاموں کو پکڑ کر زمین پر لٹایا جاتا ہے اور اُن کے سینوں پر لوگ چڑھتے ہیں ، کیلوں والے بُوٹ پہن کر اُن کی چھاتی پر گو دتے ہیں اور نہ مکہ والوں کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ یہ کبھی بادشاہ ہو جائیں گے ، نہ اُن کے ذہن میں کبھی خیال آتا ہے کہ ہم کبھی بادشاہ ہو جائیں گے.غرض ابھی بادشاہت کے قیام کا کوئی واہمہ بھی نہیں لیکن بادشاہت کے بننے سے بھی پہلے دشمن کے آنے کی خبر دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے تمہارے ملک پر حملہ ہونے والا ہے.فرماتا ہے وَلَقَدْ جَاءَ الَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ.كَذَّبُوا بِايْتِنَا كُلَّهَا فَاخَذْنَهُمْ أَخْذَعَزِيزِ مُقْتَدِرٍ.اَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِّنْ أُولئِكُمْ أَمْ لَكُمْ بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ.أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ مُنتَصِرٌ سَيُهُزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ.بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُ هُمُ وَالسَّاعَةُ اَدْ هَى وَاَمَرُّ ہم نے موسی کے ذریعہ سے فرعون کو جو کہ مصر کا بادشاہ تھا اور بنی اسرائیل پر ظلم کیا کرتا تھا ڈرایا کہ دیکھو تم ہمارے بندے کے رُوحانی لشکر سے مقابلہ مت کرو ورنہ تمہیں نقصان پہنچے گا لیکن اُس نے رسول کی پرواہ نہ کی.نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کی بے اعتنائی اور اُسکے انکار اور تکذیب کی وجہ سے ہم نے اُس کو پکڑ لیا اور معمولی طور پر نہیں پکڑا بلکہ ایک غالب اور قادر کی حیثیت سے اُسکو پکڑا یعنی بعض گرفتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان بہانے بنا کر اُس سے نکل جاتا ہے مگر ہماری گرفت ایسی تھی کہ ایک تو اُس گرفت سے کوئی نکل نہیں سکتا تھا دوسرے سزا ایسی تھی کہ اُس سے وہ بچ نہیں سکتا تھا.گورنمنٹیں بھی سزائیں دیتی ہیں لیکن بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ پھانسی کی سزائیں دیتی ہیں تو لوگ جیل والوں سے مل جاتے ہیں ادھر رشتہ داروں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور وقت سے پہلے پہلے وہ زہر کھا کر مر جاتے ہیں اور گورنمنٹ کے ججوں نے جو پھانسی کا حکم دیا ہوتا ہے وہ یونہی رہ جاتا ہے.گزشتہ جنگ عظیم میں جو جرمن لیڈر پکڑے گئے تھے اُن میں سے گوئرنگ کے لئے امریکنوں نے بڑی تیاریاں کیں کہ اُس کو پھانسی پر لٹکا ئیں گے جس کا لوگوں پر بڑا اثر ہوگا کہ دیکھو گوئرنگ جیسے آدمیوں کو امریکنوں نے سزا دی ہے اور جرمن بڑے ذلیل ہوتے ہیں لیکن جس وقت پھانسی دینے کیلئے وہ اُس کے کمرہ میں گئے تو دیکھا کہ وہ مرا پڑا تھا.معلوم ہوا کہ کسی نہ کسی طرح جرمنوں نے اندر زہر پہنچا دیا اور وہ کھا کر مر گیا.اب انہوں نے پکڑا تو سہی لیکن جو سزا دینے کا ارادہ تھا اس میں وہ کامیاب نہ
۵۳۲ ہوئے.گویا اَخَذَ عَزِيزِ تو تھا مگر اَخَذَ عَزِيزِ مُقْتَدِرِ نہیں تھا یعنی پکڑ تو لیا وہ نکلا نہیں مگر جو چاہتے تھے کہ سزا دیں اُس میں وہ کامیاب نہ ہوئے.پھر بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مجرم ان کی سزا سے بھی پہلے نکل جاتا ہے جیسے کئی مجرم جیل خانوں سے بھاگ جاتے ہیں کئی مقدموں سے پہلے بھاگ جاتے ہیں ،کئی پولیس کی ہتھکڑیوں سے نکل جاتے ہیں، بعض دفعہ اطلاع ملنے سے پہلے ہی بھاگ جاتے ہیں اور پھر ساری عمر نہیں پکڑے جاتے ہیں، بعض دفعہ پولیس اُن کے پیچھے تمیں تمہیں سال تک ماری ماری پھرتی ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دُنیوی حکومتوں میں تو یہ دو باتیں ہوا کرتی ہیں یعنی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مجرم بھاگ جاتا ہے لیکن ہم ایسا پکڑیں گے کہ وہ بھاگ نہیں سکے گا.پھر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکومت پکڑ تو لیتی ہے مگر جو سزا اُس کے لئے تجویز کرتی ہے وہ اُس کو نہیں دے سکتی.پھانسی دینا چاہتی ہے تو اتفاقیہ طور پر مجرم مر جاتا ہے ، ہارٹ فیل ہو کر مر جاتا ہے ، زہر کھا کر مر جاتا ہے، کسی نہ کسی طرح اُن کے قبضہ سے نکل جاتا ہے مگر ہم اَخَذَ عَزِيزِ مُقْتَدِرِ کی طرح انہیں پکڑیں گے ہم اس طرح پکڑیں گے کہ وہ بھاگ بھی نہیں سکیں گے اور پھر جو سزا تجویز کریں گے وہی اُن کو ملے گی.پھر فرماتا ہے اَكُفَّارُكُمْ خَيْرٌ مِنْ أُولَئِكُمْ أَمْ لَكُمْ بَرَاءَةٌ فِي الزُّبُرِ اے مکہ والو! تم بتاؤ تو سہی کہ وہ جو موسی کے منکر تھے کیا تم اُن سے بہتر ہو.اگر موسی کے منکروں کو یہ سزائیں ملی تھیں تو تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو.آیا یہ کہ تمہیں وہ سزا ئیں نہیں مل سکتیں یا نہیں دی جا سکتیں جو مونٹی کی قوم کو دی گئیں یا خدا تعالیٰ کی کتابوں میں تمہارے لئے کوئی ضمانت آئی ہوئی ہے کہ ہم نے مکہ والوں کو کچھ نہیں کہنا.مکہ والے کہتے تھے کہ خانہ کعبہ ہماری حفاظت کا سامان ہے.فرماتا ہے وہ تو خانہ کعبہ کی حفاظت کا وعدہ تھا تمھارے لئے تو کوئی وعدہ نہ تھا.خدا نے یہ تو وعدہ کیا کہ وہ خانہ کعبہ کی حفاظت کرے گا مگر یہ تو وعدہ نہیں کہ تم کو بھی سزا نہیں دے گا.اَمُ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ مُنتَصِرٌ - کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک بڑا جتھہ رکھتے ہیں اور ہم ان مسلمانوں سے سخت بدلہ لینے والے ہیں ہم انکو تباہ کر کے چھوڑیں گے.سَيْهُزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّونَ الدُّبُرَ- فرمایا ٹھیک ہے یہ حملے کریں گے اور قوموں کی قومیں اکٹھی ہو جائیں گی ، سارا ملک جمع ہو جائے گا اور جمع ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ملک پر حملہ کریں گے لیکن سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ - اُن کے لشکر جو ا کٹھے ہونگے
۵۳۳ اُنکو شکست دے دی جائے گی اور وہ پیٹھ دکھاتے ہوئے بھاگ جائیں گے.گویا ابھی کوئی حملہ نہیں ہوا ، کوئی حکومت نہیں دشمن کے حملہ کی بارہ سال پہلے خبر بنی ، کوئی فوج نہیں آئی اور بارہ سال پہلے.خبر دے دی جاتی ہے کہ یہ لوگ حملہ کے لئے آئیں گے لیکن جب اِدھر سے یہ جمع ہو رہے ہونگے اُدھر سے خدا اپنے گورنر کی مدد کے لئے دوڑا چلا آ رہا ہو گا اور اُسے دیکھ کر دشمن کی فوج حواس باختہ ہو جائے گی اور اُسے بھاگنا پڑے گا.یہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ انسان خدا کا بن جائے.جب وہ خدا کا بن جاتا ہے تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ کسی جگہ پر ہو اور خدا وہاں نہ ہو.جب بھی دنیا میں لوگ ایسے شخص کے پاس پہنچیں گے اُسے اکیلا نہیں پائیں گے بلکہ خدا کو اُس کے پاس کھڑا پائیں گے اور انسان کا لوگ مقابلہ کر سکتے ہیں خدا کا نہیں کر سکتے.بَلِ السَّاعَةُ اَدھی وَاَمرُّ.فرماتا ہے وہ جو گھڑی ہوگی وہ فرعون کی گھڑی سے بھی زیادہ خطر ناک ہو گی.بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ فرعون کی گھڑی زیادہ سخت تھی اس لئے کہ وہ ڈوب کر مر گیا اور اُس کی فوج تباہ ہوگئی لیکن واقع میں دیکھیں تو کفار کو جو سزا ملی وہ فرعون کی سزا سے زیادہ سخت تھی.فرعون کا لشکر تباہ ہو الیکن موسیٰ کو مصر کا قبضہ نہیں ملا.موسی آگے چلے گئے اور کنعان پر جا کر قابض ہوئے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل میں جو دشمن آیا اُس کو صرف شکست ہی نہیں ہوئی بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُس کے ملک پر بھی قبضہ ہو گیا.یہ بَلِ السَّاعَةُ آدھی وَاَمَر ہی تھا کہ موسی کے دشمن فرعون کو جو سزا ملی اُس سے ان کی سزا زیادہ سخت تھی کیونکہ یہ قومی طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت آگئے.مدینہ منورہ میں اسلام کی اشاعت آب جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ خبر ایسے وقت میں دی گئی تھی جبکہ اسلامی حکومت ابھی بنی بھی نہیں تھی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکلنا پڑا.پہلے تو یہ ہوا کہ مدینہ کے کچھ لوگ مسلمان ہونے شروع ہو گئے.کسی کو کیا خبر ہو سکتی تھی کہ مدینہ کے لوگوں میں اسلام پھیل جائے گا.وہ تین چار سو میل کے فاصلہ پر ایک جگہ تھی جن کے مکہ والوں کے ساتھ کوئی ایسے تعلقات بھی نہیں تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ چونکہ مدینہ والوں کی نواسی تھیں اس لئے صرف اتنا تعلق تھا اس سے زیادہ نہیں تھا لیکن حج
۵۳۴ کے موقع پر مدینہ سے کچھ لوگ آئے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لئے بھی آگئے.آپ نے فرمایا.اگر آپ لوگ مجھے اجازت دیں تو میں آپ لوگوں کو کچھ نصیحت کرنا چاہتا ہوں.مکہ کے لوگ آگے سے مارنے پیٹنے اور گالیاں دینے لگ جاتے تھے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ پیچھے نہیں پڑتے تھے بلکہ پہلے آپ ان لوگوں سے اجازت مانگتے تھے اسی طریق کے مطابق آپ نے فرمایا کہ اگر اجازت ہو تو میں تمہیں کچھ کہنا چاہتا ہوں.چونکہ مدینہ کے لوگوں کو معلوم تھا کہ آپ ہمارے نواسے ہیں اس لئے انہوں نے کہا تم تو ہمارے نوا سے ہو جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو مگر تمہاری قوم کے لوگ تو کہتے ہیں کہ تم پاگل ہو گئے ہو.آپ نے فرمایا تم میری باتیں سُن لو اور پھر بیٹھ کر انہیں اسلام کی تعلیم دی.انہوں نے کہا یہ باتیں تو بڑی معقول ہیں مگر تمہاری قوم کے لوگ تو یہی کہتے تھے کہ تم پاگل ہو لیکن بات یہ ہے کہ ہماری قوم میں بڑی جتھہ بندی ہوتی ہے اس لئے اگر آپ اجازت دیں تو ہم اس وقت کوئی فیصلہ نہ کریں ہم واپس جا کر اپنی قوم کے لوگوں کو یہ باتیں سُنائیں گے اگر قوم کو توجہ پیدا ہوئی تو ہم پھر دوبارہ آئیں گے چنانچہ وہ واپس گئے او رانہوں نے مدینہ میں اسلام کی تعلیم پھیلانی شروع کی.لوگوں نے سُنا تو اُن میں سے درجنوں آدمی آپ کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور انہوں نے کہا یہ باتیں سچی ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک بڑا ذریعہ ان کے لئے یہ بن گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی سے پہلے یہودی لوگ اپنے بزرگوں کی پیشگوئیاں اسرائیلی انبیاء واولیاء کی پیشگوئیاں سُنا یا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ عرب میں ایک نبی پیدا ہو گا اور ہمیں یقین ہے کہ چونکہ نبی ہم میں سے ہی ہوسکتا ہے اس لئے وہ ہماری قوم میں سے ہو گا بلکہ مدینہ کے جو یہودی تھے وہ اسی لئے ہجرت کر کے وہاں آبسے تھے کہ کسی نے کتابوں میں سے اُن کو یہ پیشگوئیاں سُنا ئیں تو انہوں نے کہا وہ نبی ہم میں سے آ جائے اس لئے ہم عرب میں چلے جاتے ہیں.غرض اُن میں یہ پیشگوئیاں تھیں کہ آنے والا نبی عرب میں ظاہر ہو گا اس لئے انہوں نے خیال کیا کہ وہ نبی ان یہودیوں میں سے ہو گا جو مدینہ جا کر رہیں گے اسی وجہ سے وہ ہجرت کر کے مدینہ آگئے.انہوں نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے آپس میں کہا کہ وہ جو یہودی کہا کرتے تھے کہ نبی ہم میں سے آئے گا وہ تو جھوٹی بات ہے.
۵۳۵ نبی ہم میں سے آنا تھا جو آ گیا اس لئے بہتر ہے کہ ہم پہلے اس کو قبول کر لیں.وہ ڈرے کہ ایسا نہ ہو یہودی پہلے اس کو قبول کر لیں.یہ تو انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہودی اس کی مخالفت کریں گے.چنانچہ انہوں نے ایک بڑا وفد بنایا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور رات کو آپ سے ملے اور آپ کی باتیں سنیں اور کہا ہم اسلام قبول کرتے ہیں.پھر انہوں نے کہا سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ تشریف لانے کی دعوت پھر انہوں يَارَسُولَ اللهِ ! ہم تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ ہجرت کر کے ہمارے پاس آجائیں کیونکہ آپ کے شہر کے لوگ آپ سے اچھا سلوک نہیں کرتے.حضرت عباس آپ کے ساتھ تھے، انہوں نے یہ باتیں سنیں تو اُن سے ایک عہد لیا.انہوں نے کہا اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آجائیں تو تمہارے لئے کچھ شرطیں ہوں گی.اُن میں سے ایک شرط یہ بھی ہو گی کہ اگر مدینہ پر دشمن حملہ کرے تو تم لوگ اپنی جان اور مال کو قربان کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرو گے ہاں اگر مدینہ سے باہر جا کر لڑائی کرنی پڑے تو پھر مدینہ والوں کی ذمہ واری نہیں ہوگی سے چنانچہ یہ عہد ہو گیا.اس کے کچھ عرصہ بعد حکم بھی ہو گیا کہ ہجرت کر جاؤ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے.مدینہ پہنچتے ہی کوئی ایسی رو چلی کہ وہاں عرب کے جو قبائل تھے وہ سب کے سب مسلمان ہو گئے اور وہاں یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کر کے اسلامی حکومت قائم ہوگئی.قبائل عرب کی برافروختگی جب یہ خبرمشہور ہوئی تو عربوں نے یہ دیکھ کر کہ اب تو ان کے پاؤں جمنے لگے ہیں اُن قبائل پر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کرنا چاہتے تھے اور دوستی رکھنا چاہتے تھے مکہ سے حملے کرنے شروع کر دیئے.اور وہ مسلمان جو اِکا دُکا سفر کر رہے ہوتے تھے اُن کو لوٹنا اور مارنا شروع کر دیا.اس کے بعد پھر بدر کے موقع پر ایک باقاعدہ حملہ کر دیا اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ شروع کر دی مگر اس واقعہ کی ہجرت سے چار سال قبل آپ کو خبر دی جا رہی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ تمہیں حکومت ملے گی ، تمہارے شہر میں لشکر داخل ہو گا اور سارے عرب کی فوجیں اکٹھی ہو کر آئیں گی مگر با وجود اس کے کہ وہ اکٹھے ہو نگے تمہارا مقابلہ اُن سے ہو گا اور وہ شکست کھا ئیں گے.اب دیکھو احزاب
۵۳۶ کی جنگ تو کہیں تو دس سال بعد ہوئی مگر ٹو دس سال پہلے بلکہ حکومت بننے سے بھی چار سال پہلے خبر دی گئی کہ اسطرح دشمن داخل ہو گا.آب گجا یہ نوبت خانہ اور گجا وہ نوبت خانه که دشمن اندر داخل ہو جائے تو بادشاہ کو خبر ہوتی تھی اور اتنی دیر میں وہ سو دو سو میل تک ملک پر قابض بھی ہو جاتا تھا.کتنا بڑا زمین و آسمان کا فرق ہے جو ان دونوں نوبت خانوں میں پایا جاتا ہے.چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ احزاب کے موقع پر جب سارا عرب اکٹھا ہو گیا اور اُس نے مدینہ پر حملہ کیا تو بجائے اس کے کہ مسلمانوں کے دلوں میں تکلیف اور گھبراہٹ پیدا ہوتی یا ڈر پیدا ہوتا اُن کے ایمان بڑھنے شروع ہوئے کہ خدا تعالیٰ نے تو یہ خبر پہلے سے دی ہوئی تھی.جب خدا نے پہلے سے خبر دی ہوئی ہے تو ان کے داخل ہونے سے ہمیں کیا ڈر ہے.خدا نے کہا تھا کہ لوگ اکٹھے ہو کر حملہ کے لئے آئیں گے اور ہمیں اُمید بھی تھی کہ آئیں گے اور جب وہ بات پوری ہو گئی تو اگلی کیوں نہ پوری ہوگی یہ ایک بڑا بھاری نشان ہوتا ہے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ میں مسلمانوں کی تباہی اور اُن کی خرابیوں کے متعلق خبریں دیں اور پھر بتایا کہ اس کے بعد خدا تعالیٰ ایک ایسا زمانہ پیدا کرے گا کہ مسلمانوں کی تباہی دُور ہو جائے گی اور مسلمان پھر ترقی کرنا شروع کر دیں گے.چنانچہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سُنایا ہے ایک دوست کی بیعت کا دلچسپ واقعہ کہ میں دتی میں تھا ، اس سفر میں نہیں بلکہ اس سے پہلے ایک سفر میں ہم قلعہ میں گئے تو وہاں جو شاہی مسجد ہے اُس کو دیکھنے کے لئے چلے گئے میرے ساتھ سارہ بیگم مرحومہ اور میری لڑکی ناصرہ بیگم تھیں.میں نے کہا اس مسجد میں کوئی نماز نہیں پڑھتا چلونماز پڑھ چلیں کبھی نہ کبھی کوئی نماز پڑھنے والا یہاں بھی آجانا چاہئے.چنانچہ میں نے اُنکو ساتھ لیا اور وہاں نماز پڑھنی شروع کی.چنانچہ ہماری نماز اور غیر احمدیوں کی نماز میں فرق ہوتا ہے وہ تو جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے جس طرح مُرغا دانے چنتا ہے اسی طرح وہ کرتے ہیں اور ہمیں یہ حکم ہے کہ خشوع اور خضوع کے ساتھ نماز پڑھو.غرض ہم جو نماز پڑھنے لگے تو ہم نے نصف یا پون گھنٹہ نمازوں میں لگا دیا.میں ابھی نماز سے فارغ نہیں ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ جیسے کوئی جلدی جلدی جاتا ہے اس طرح میری بیوی اور میری دونوں جلدی جلدی مجھے چھوڑ کے پیچھے ہٹ گئیں.میں نے نماز سے سلام پھیرا اور باہر آیا تو سارہ بیگم مرحومہ سے میں نے کہا کہ تم کیوں آگئی تھیں ؟ انہوں نے کہا یہاں کوئی اور مسافر عورتیں
۵۳۷ آئی ہوئی ہیں اور انہوں نے ہمیں اشارہ کر کے بلایا تھا جس پر ہم چلی گئیں.پھر انہوں نے بتایا کہ ایک انجینئر ہیں ، وہ اپنی بیوی اور بیٹی کو لے کر ولایت جا رہے ہیں اور یہ جو بیٹی ہے یہ ایک احمدی سے بیاہی جانے والی ہے.منگنی اِس کی ہو چکی ہے اور لڑکا احمدی ہے ماں نے کہا کہ میری یہ بیٹی احمدیوں میں بیا ہی جانے والی ہے اور ان کے امام یہاں آئے ہوئے ہیں اگر ان سے میرا خاوند مل لے تو ذرا تعلق پیدا ہو جائے گا کیونکہ آئندہ احمدیوں کے گھروں میں ہم نے جانا ہے اس لئے انہوں نے بلا یا تھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو وہ آپ سے بات کر لیں.میں نے کہا آجائیں اس کے بعد ہم ذرا آگے کوئی جگہ دیکھنے کے لئے چل پڑے تو پھر چلتے چلتے یکدم میں نے دیکھا کہ میری بیوی اور بیٹی دونوں غائب ہیں.میں نے مُڑ کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ پھر وہ عورتیں انہیں اشارہ کر کے لے گئی ہیں اور دو مرد کچھ قدم آگے آگئے.میں نے سمجھا کہ یہ وہی ہیں جنہوں نے ملنا ہے.پاس پہنچے تو انہوں نے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہا میں نے وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ کہا.اور پوچھا کہ فرمائیے کیا بات ہے؟ اُن میں سے ایک نے کہا کہ اس اس طرح میری بیوی کو پتہ لگا تو اُس نے ہمیں اطلاع دی.میری لڑکی میرے بھائی کے بیٹے سے بیا ہی جانے والی ہے اور میرا بھائی احمدی ہے تو چونکہ لڑکی احمد یوں میں جانی ہے اور میرا بھائی بھی احمدی ہے اس لئے میں نے خواہش کی کہ میں آپ سے مل لوں.میں نے کہا بڑی اچھی بات ہے.پھر میں نے کہا آپ کا کونسا بھائی احمدی ہے.انہوں نے نام بتایا میں نے کہا وہ تو ہماری جماعت کے وہاں امیر ہیں.کہنے لگا جی ہاں.ایک میرا وہ بھائی ہے وہ تو بیچارے بعد میں فوت ہو گئے لیکن دوسرے بھائی موجود ہیں غلام سرور اُن کا نام ہے اور چار سدہ کے رہنے والے ہیں تو کہنے لگے غلام سرور جو میرا بھائی ہے وہ احمدی ہے اور میں اور میرا یہ بھائی دونوں غیر احمدی ہیں.میں نے کہا آپ کیوں نہیں احمدی ہوئے کیا آپ نے ہما را لٹریچر نہیں پڑھا؟ کہنے لگے نہیں میں نے نہیں پڑھا پھر کہنے لگے دیکھیئے ہم نے تو انصاف کر دیا ہے آپ کا اور ان کا جھگڑا ہے.ہم نے دو بھائی آپ کو دے دیئے ہیں اور دو بھائی ان کو دے دیئے ہیں اس طرح ان کو تقسیم کر دیا ہے گویا اٹھتی آپ کو دے دی ہے اور اٹھنی اُن کو دے دی ہے.انہوں نے مذاق کے رنگ میں یہ بات کہی.میں نے بھی آگے مذاق کے رنگ میں کہا کہ آپ کو ہما را پتہ نہیں ہم اس معاملہ میں بڑے حریص ہیں اور ہم سارا روپیہ لے کر راضی ہوا کرتے ہیں اٹھتی لے کر راضی نہیں ہوا کرتے.کہنے لگے لے لیجیے.میں نے کہا دیکھیں گے.پھر میں نے کہا آ.
۵۳۸ نے کبھی لٹریچر نہیں پڑھا.کہنے لگے میں نے کبھی نہیں پڑھا اور نہ مجھے فرصت ہے.اب جو میں ولایت جانے کے لئے چلنے لگا تو میرے بھائی نے جن سے مجھے بہت محبت ہے اور وہ مجھ سے بڑے بھی ہیں جب میں کپڑے وغیرہ بھر رہا تھا تو میری بیوی کو مجبور کر کے کچھ کتابیں لا کے ٹرنک میں ڈال دیں اور کہنے لگے یہ پڑھنا.میں نے کہا بھائی ! پڑھنے کی کس کو فرصت ہے.کہنے لگے.جہاز پر اُن کو فرصت کے موقع پر پڑھتے رہنا.میں نے انہیں کہا کہ مجھے آپ کا لحاظ ہے اس لئے رکھ دیں ورنہ میں نے کہاں پڑھنی ہیں.تو بس اتنی بات ہے ورنہ میں نے پڑھا پڑھایا کچھ نہیں.میں نے کہا اچھا اٹھنی پر تو ہم راضی نہیں ہوا کرتے ہم تو پورا روپیہ ہی لیا کرتے ہیں.اس کے بعد وہ چلے گئے.تین چار مہینے ہوئے مجھے لنڈن سے ایک خط مل.اس خط کا مضمون ان الفاظ سے شروع ہوتا تھا کہ میں وہ شخص ہوں جو دہلی کے قلعہ میں آپ سے ملا تھا اور میں نے آپ سے مذاقاً کہا تھا کہ ہم نے احمدیوں اور غیر احمدیوں میں پورا انصاف کر دیا ہے.ٹھنی ہم نے آپ کو دیدی ہے اور اٹھنی ہم نے انکو دے دی ہے اور آپ نے اُس وقت یہ کہا تھا کہ ہم تو اٹھنی پر راضی نہیں ہوا کرتے ہم تو پورا روپیہ لے کر راضی ہوا کرتے ہیں.آپ حیران ہو نگے کہ میں لنڈن سے ایک چونی آپ کو بھیج رہا ہوں ،ایک چونی باقی رہ گئی ہے اور میری بیعت کا یہ خط ہے.آگے انہوں نے تفصیل لکھی اور اُس میں انہوں نے لکھا کہ میں جس وقت یہاں آیا تو آپ جانتے ہیں ہم پٹھان لوگ ہیں اور ہمیشہ نعروں پر ہماری زندگی ہوتی ہے.کہ انگریز ہم کو یوں قتل کریں گے انگریز ہم کو یوں ماریں گے، یہ ہوتے کون ہیں ہم پستول یا رائفل سے ڈر کریں گے اور وہ بھاگ نکلیں گے.یہ تو کبھی سوچا نہیں تھا کہ ہمارے پاس کیا سامان ہیں اور ان کے پاس کیا سامان ہیں.صرف اتنا ہم جانتے تھے کہ ہم اپنی جانیں دے دیں گے اور اِن کو مار ڈالیں گے.یہی خیالات میرے بھی تھے اور میرا خیال تھا کہ ان کی دُنیوی ترقی اور کالج وغیرہ دیکھونگا.مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ ان کے سامانِ جنگ ایسے ہیں کہ ہم اِن کا مقابلہ نہیں کر سکتے.جب میں یورپ میں آیا تو میں اٹلی میں گیا ، فرانس میں گیا ، جرمنی میں گیا ، انگلینڈ میں آیا اور میں نے ان کی فوجیں دیکھیں.توپ خانے دیکھے ، ہوائی جہاز دیکھے ، ان کے گولہ بارود کے کارخانے دیکھے تو میں نے کہا یہ تو ایسی بات ہے جیسے چڑیا کہے کہ میں باز کو مارلونگی ہمارے اندر اس کے لئے کوئی طاقت ہی نہیں اور اس کو دیکھ کر میں بالکل مایوس ہو گیا.پہلے تو ہم خیال کرتے تھے کہ ہم اتفاقا انگریز کے ماتحت آگئے
۵۳۹ ہیں جس دن پٹھان نے رائفل سنبھالی سارے یورپ کو ختم کر دے گا مگر اب تو یہاں آکر معلوم ہوا کہ یوروپین لوگوں کو ختم کر نیکا کوئی سوال ہی نہیں یہ تو قیامت تک باقی رہیں گے ہم انہیں دُنیا شی ہے.سے نہیں مٹا سکتے.پھر میرے دل میں اسلام کے متعلق شبہات پیدا ہونے شروع ہو گئے کہ جب کو اسلام کا یہ انجام ہونا تھا اور عیسائیت نے اسے چل کر رکھ دینا تھا تو پھر عیسائیت ٹھیک درمیان میں بے شک اسلام آیا اور اُس کو کچھ غلبہ ملا مگر اب پھر عیسائیت غالب آگئی ہے.غرض اسقدر میرے دل میں مایوسی اور شبہات پیدا ہونے شروع ہوئے کہ آج شام کو میں نے کہا میرے بھائی نے ٹرنک میں کچھ کتابیں رکھی تھیں انہیں میں سے کوئی کتاب لاؤ تاکہ میں اُسے پڑھوں.شاید اُس میں کوئی بات بتائی گئی ہو.کہنے لگے میں نے آپ کی کتاب ”دَعْوَةُ الْآمِيُر“ نکالی اُس کتاب میں یہی مضمون ہے کہ اسلام کی تباہی کی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ خبریں دی ہیں اور بتایا ہے کہ مسلمان اس طرح ذلیل ہو جائیں گے ، تجارتیں جاتی رہیں گی اور سب قسم کی ترقیاں مٹ جائیں گی.بھلا آج سے تیرہ سو سال پہلے کون کہ سکتا تھا کہ مسلمان کی یہ حالت ہو گی اُس وقت تو یہ حالت تھی کہ سات سو مسلمان ہو گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا مردم شماری کرو.مسلمانوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ! آپ نے مردم شماری کرائی ہے اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں.کیا آپ ڈرتے ہیں کہ اب ہم تباہ ہو جائیں گے؟ اب ہمیں کون مارسکتا ہے.اب یا تو اُن کی یہ شان تھی اور یا یہ کہ چالیس کروڑ یا ساٹھ کروڑ مسلمان ہیں اور اُن کی با نہیں لرز رہی ہیں.تو یہ حالت آج سے تیرہ سو سال پہلے کون شخص بتا سکتا تھا نا ممکن تھا کہ کوئی شخص کہے کہ مسلمان ایسا کمزور ہو جائے گا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بتایا تھا وہ بات پوری ہو گئی.پس اے مسلمانو ! جب تم نے یہ دیکھ لیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ناممکن خبر پوری ہو گئی ہے تو تم کیوں یہ یقین نہیں کرتے کہ وہ دوسری خبر جواب میں بتا تا ہوں وہ پوری ہو گی.پھر میں نے وہ پیشگوئیاں لکھی ہیں جو اسلام کی ترقی کے متعلق تھیں.اور میں نے کہا ان کو دیکھ لو اور سمجھ لو کہ اسلام پھر ترقی کرے گا.کہنے لگے.جب میں نے یہ پڑھا تو میرے دل کو تسلی ہو گئی کہ واقع میں میں نے جو کچھ دیکھا تھا وہ وہی تھا جو آپ نے بتایا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پہلے سے خبر دی ہوئی ہے اور جب یہ بات پوری ہوگئی جس کا خیال بھی نہیں آ سکتا تھا کہ یہ پوری ہوگی تو آپ کی یہ دوسری بات بھی ضرور پوری ہوگی اور میں نے سمجھا کہ جس شخص نے دنیا میں آکر ہماری یہ راہنمائی کی ہے اُس سے علیحدہ رہنا بالکل غلط ہے
۵۴۰ چنانچہ انہوں نے بیعت کی اور احمدیت میں داخل ہو گئے.مسلمانوں کی کمزوری پر منافقین کی طعنہ زنی غرض جب یہ باتیں پوری ہو ئیں تو منافقوں کیلئے یہ بڑی تباہ کن چیز تھی.انہوں نے خیال کیا اب تو مارے گئے.ادھر سے یہودی چلے آرہے ہیں اُدھر سے عرب قبائل چلے آ رہے ہیں ، ادھر مکہ کے لشکر چلے آ رہے ہیں.غرض دس بارہ ہزار کا لشکر آرہا ہے اور مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ اُن کے مقابلہ میں اتنا سپاہی تو کجا ، ان کے پاس اس سے نصف بھی سپاہی نہیں.وہ مقابلہ کہاں کریں گے اور یہ حالت پہنچ گئی کہ وَاِذْ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ يَاهُلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوات منافق جو ڈر کے مارے مسلمانوں کی ہاں میں ہاں ملایا کرتے تھے کہ ہم بھی مسلمان ہیں اُن کو بھی اتنی دلیری پیدا ہو گئی کہ انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ارے میاں ! اب بھی یہ بات کی تمہاری سمجھ میں نہیں آئی اب تو سارا عرب اکٹھا ہو کر تمہارے خلاف جمع ہو گیا ہے اسلئے اب چھوڑ ومحمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کو یہ آپ بھکتا پھرے گا اور جاؤ اپنے گھروں میں اب اس لڑائی میں مقابلہ کا کوئی فائدہ نہیں.مخالف لشکروں کو دیکھ کر صحابہ کے ایمان اور بھی بڑھ گئے لیکن مسلمانوں نے اُسوقت وہی دیکھا جو خان فقیر محمد صاحب چارسدہ والوں نے دیکھا تھا کہ خدا کی یہ بات پوری ہوگئی ہے اور وہ بات بھی پوری ہو گی.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَلَمَّا رَأَ الْمُؤْمِنُونَ الْاَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ | وَمَا زَادَهُمُ إِلَّا إِيْمَانًا وَّتَسْلِيما یعنی جب مؤمنوں نے دیکھا کہ اُدھر سے شمالی عرب کے لشکر چلے آرہے ہیں ادھر سے جنوبی عرب کے لشکر چلے آرہے ہیں ، اُدھر سے مشرقی عرب کے لشکر چلے آرہے ہیں ادھر سے مغربی عرب کے لشکر چلے آرہے ہیں، اُدھر سے مکہ کا لشکر چلا آرہا ہے ادھر سے یہودی قبائل ارد گرد سے جمع ہو کر چلے آرہے ہیں ، ادھر سے اندر کے یہودی مقابلہ کے لئے کھڑے ہو گئے ہیں اور ادھر منافقوں کی بات بھی سنی کہ اب تو تمہارا کچھ نہیں بن سکتا چھوڑ و اس دین کو ، تو مسلمانوں نے کہا تم تو کہتے ہو ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیں.ارے مکہ میں
۵۴۱ کون کہہ سکتا تھا کہ یہ لشکر جمع ہونگے ،محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی کیا طاقت تھی کہ اس کیلئے دس آدمی بھی جمع ہوتے.ایک ابو جہل کافی تھا جو کہتا تھا میں اسے مار دونگا یہ اتنے بڑے لشکر اکٹھے ہو کر اس لئے آگئے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان اب اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ سارا عرب ان کو مل کر ہی مار سکتا ہے اور یہ خبر جو دس سال پہلے دی گئی تھی کہ مسلمان اتنے طاقتور ہو جائیں گے کہ سارا عرب جمع ہو کر اُن کے مقابلہ کے لئے آئے گا یہ بڑا بھاری نشان ہے یا نہیں؟ تو هذَا مَا وَعَدَنَا الله.دیکھو یہ وعدہ قرآن میں پہلے سے موجود تھا کہ عرب اکٹھے ہو کر آئیں گے.ہمارے تو ایمان تازہ ہو گئے کہ جس وقت یہ خبر دی گئی تھی کہ عرب اکٹھے ہو کر آئیں گے کی اُس وقت کوئی امکان ہی نہیں تھا ، خیال بھی نہیں آسکتا تھا، وہم بھی نہیں ہوسکتا تھا مگر آج آگئے تو سُبْحَانَ الله ! یہ تو وہی بات ہوئی جو خدا تعالیٰ نے کہی تھی اور خدا اور اس کا رسول بیچے ثابت ہو گئے.پس ہمیں کیا ڈر ہے اب تو ہم ان کے ساتھ چمٹیں گے.وَمَا زَادَهُمُ إِلَّا إِيْمَاناً وَّ تَسْلِيماً.اور اس آواز کے آنے سے اُن کے ایمان اور بھی بڑھ گئے اور انہوں نے کہا کہ کتنی بڑی پیشگوئی تھی جو پوری ہو گئی.انہوں نے تو کہا تھا کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دو وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيْمَاناً وَّ تَسْلِيماً.مگر مسلمانوں نے کہا کہ اب تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہی ہمیں اپنی نجات نظر آتی ہے.جس شخص کی یہ خبر سچی ہوگئی ہے اُس کے ساتھ مل کر ہم نے کام نہیں کرنا تو اور کس کے ساتھ کرنا ہے.پس وہ اپنے عمل اور قربانی میں اور بھی زیادہ ترقی کر گئے.غرض یہ وہ جنگ تھی جو کہ پانچویں سال ہجرت میں ہوئی لیکن چار سال کے قریب ہجرت سے بھی پہلے مکہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو بتا دیا تھا کہ اس طرح تمام لشکر اکٹھے ہو کر آئیں گے اور حملہ کریں گے تم اُن کا مقابلہ کرو گے اور اُن کو شکست ہو جائے گی اور خدا تعالیٰ تمہاری مدد کیلئے آئے گا.قرآنی نوبت خانہ کی ایک اور خبر جو بڑی شان سے پوری ہوئی اس طرح دوسری خبر جو اس نوبت خانہ سے دی گئی وہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ مکہ گئے ہیں اور وہاں عمرہ کر رہے ہیں.آپ نے صحابہ کو دیکھا کہ کسی نے سر منڈایا ہوا ہے اور کسی نے بال تراشے ہوئے ہیں اور عمرہ ہو رہا ہے.آپ نے صحابہ سے کہا کہ چونکہ
۵۴۲ خواب آئی ہے ، چلو ہم عمرہ کر آئیں.جب آپ حدیبیہ مقام پر پہنچے تو مکہ والوں کو پتہ لگ گیا وہ لشکر لے کر آگئے اور انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ تم کو یہاں آنے کی رکس نے اجازت دی ہے؟ انہوں نے کہا ہم لڑنے کیلئے تو نہیں آئے صرف اس لئے آئے ہیں کہ عمرہ کر لیں یہ مقام تمہارے نزدیک بھی برکت والا ہے اور ہمارے نزدیک بھی.ہم اس کی زیارت کے لئے آئے ہیں لڑائی کے لئے نہیں آئے.انہوں نے کہا طواف کا سوال نہیں.ہماری تمہاری لڑائی ہے اگر تم مکہ آئے اور طواف کر گئے تو تمام عرب میں ہماری ناک کٹ جائے گی کہ تمہارا دشمن آکر تمہارے گھر میں طواف کر گیا ہے.ہم ساری دُنیائے عرب کو اجازت دے سکتے ہیں مگر تم کو نہیں دے سکتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد بھیجے ، روسائے عرب کی طرف توجہ کی ، اُن کو سمجھایا مگر وہ سارے متفق ہو گئے کہ ہم عمرہ کی اجازت نہیں دے سکتے آخر یہ فیصلہ ہوا کہ صلح نامہ لکھا جائے.اس معاہدہ میں انہوں نے کہا کہ اب کے تم واپس چلے صلح نامہ حدیبیہ کی بعض شرائط جاؤ تا سارے عرب کو پتہ لگ جائے کہ تم پوچھے بغیر آئے تھے اس لئے ہم نے تم کو طواف نہیں کرنے دیا.پھر اگلے سال آجانا تو ہم تمہیں تین دن کے لئے طواف کرنے کی اجازت دے دیں گے.معاہدہ کرتے وقت جو بڑے بڑے سردار ان لڑائیوں کو نا پسند کرتے تھے وہ کہنے لگے کہ پھر آپس میں کچھ صلح کی شرطیں بھی ہو جائیں.تا کہ لڑائیاں ختم ہو جائیں آپ نے منظور فرما لیا.چنانچہ شرطیں یہ طے ہوئیں کہ اگلے سال مسلمان آکر طواف کر جائیں اور یہ معاہدہ ہو جائے کہ آئندہ دس سال کے لئے لڑائی بند کر دی جائے اِس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کوئی نشان ظاہر کر دے تو وہ جس کی تائید کرے گا اُس کو فائدہ پہنچ جائے گا ور نہ ملک میں امن پیدا ہو جائے گا.پھر ایک شرط یہ بھی کی گئی کہ عرب قبائل میں سے جو چاہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کر لے اور جو چاہے مکہ والوں سے معاہدہ کرلے.اردگرد کے جو قبائل تھے اُن کو یہ آفر (OFFER) کیا گیا کہ تم جس سے چاہو معاہدہ کر لو چنانچہ بنو خزاعہ نے کہا ہم تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کریں گے اُن کی مکہ والوں سے لڑائیاں تھیں اور بنو بکر جو ایک بڑا قبیلہ تھا اور مکہ والوں کا دوست تھا اُس نے کہا کہ ہم مکہ والوں سے معاہدہ کریں گے.غرض قبائل عرب بھی تقسیم ہو گئے.اُن میں سے بنوخزاعہ مسلمانوں کے حق میں ہو گئے اور بنو بکر مکہ والوں کے حق میں ہو گئے اور فیصلہ یہ ہوا کہ آپس میں لڑنا نہیں سوائے
۵۴۳ اس کے کہ کوئی معاہدہ توڑے.اگر کوئی معاہدہ تو ڑ کر اپنے مد مقابل سے یا اُس کے حلیف سے مقابلہ کرے تو پھر اُس سے لڑائی کی اجازت ہو گی اسی طرح کچھ اور شرطیں طے ہوئیں.اے دشمن کی معاہدہ شکنی کی خبر جب یہ شرطیں طے ہو گئیں تو اب گو یا آئندہ دس سال کیلئے جنگ بند ہوگئی.اب جنگ کی صرف ایک ہی صورت باقی تھی اور وہ یہ کہ مکہ والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے حلیفوں پر حملہ کر دیں کیونکہ مسلمان کو تو حکم ہے کہ بہر حال تم نے اپنا عہد پورا کرنا ہے.اس معاہدہ کے بعد نا ممکن تھا کہ مسلمان لڑائی کر سکیں.صرف ایک ہی صورت باقی تھی کہ مکہ والے محمد رسول اللہ پر حملہ کر دیں یا آپ کے حلیفوں پر حملہ کر دیں اسکے بغیر لڑائی نہیں ہو سکتی تھی.گویا اب لڑائی کا اختیار دشمن کے ہاتھ میں چلا گیا مؤمنوں کے ہاتھ میں نہ رہا.ایسی صورت میں جب لڑائی کا اختیار دشمن کے ہاتھ میں تھا جب یہ پتہ لگنے کی کوئی صورت ہی نہیں تھی کہ دشمن کی فوجیں اسلامی نظام کے دائرہ میں داخل ہو جائیں گی کیونکہ فیصلہ تو اُس نے کرنا تھا مسلمانوں نے نہیں کرنا تھا اُس وقت جب صلح حدیبیہ کر کے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم واپس آ رہے تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو خبر دی گئی کہ دشمن معاہدہ توڑے گا اور ہم تم کو اُن پر قبضہ دیں گے.گویا پھر قریباً ڈیڑھ سال پہلے خبر مل گئی کہ دشمن کی فوجیں تمہارے ملک میں داخل ہو جا ئینگی چنا نچہ آپ کو الہام ہوا ! إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيناً - لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَ نُبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا وَّ يَنْصُرَكَ اللَّهُ نَصْرًا عَزِيزًا " یعنی اے محمد رسول اللہ! ہم تجھ کو ایک عظیم الشان فتح کی خبر دے رہے ہیں.وہ ایک ایسی فتح ہوگی جو اپنی ذات میں اس بات کی گواہ ہو گی کہ تو سچا ہے اور پھر وہ فتح مبین ہو گی.بعض نشانات تو ہوتے ہیں مگر اُن سے نتیجہ نکالنا اور استنباط کرنا پڑتا ہے لیکن وہ فتح ایسی ہوگی کہ استنباط کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ وہ خود اپنی ذات میں تیری صداقت کا ایک زندہ ثبوت ہوگی.لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ اور یہ فتح ہم تجھے اس لئے دیں گے تاکہ تیری جنگ جوعربوں سے چلی آرہی ہے اُس میں بعض باتیں کرنے والی تھیں جو تو نے نہیں کیں اور بعض غلطیاں تم سے ایسی ہو ئیں جو نہیں ہونی چاہئے تھیں اور تم نے کر لیں.مثلاً بعض جگہ عفو نہیں کرنا چاہئے تھا مگر عفو کر دیا.بعض جگہ معاف کرنا چاہئے تھا مگر صحابہ کو خیال نہیں آیا اور انہوں نے معاف نہیں کیا مثلاً محرم الحرام میں جا کر مسلمان لڑپڑے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خفا ہوئے
۵۴۴ کہ اس مہینہ میں تو لڑنا جائز ہی نہیں.وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِ يَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا اور وہ تجھ پر اپنی نعمت پوری کرے اور تجھے وہ راستہ دکھائے جس کے ذریعہ سے تجھے کامیابی نصیب ہو جائے.وَيَنْصُرَكَ اللهُ نَصْرًا عَزِيزًا اور اللہ تعالیٰ تیری مدد کرے گا اور مدد بھی معمولی نہیں بلکہ بڑی غالب مدد.اس میں اِس طرف اشارہ کیا گیا کہ چونکہ مسلمان حملہ نہیں کر سکتے اس لئے تیرے ہاتھ سے تو لڑائی نکل گئی اب ہم ایسا طریق اختیار کریں گے جس سے لڑائی جائز ہو جائے اور وہ طریق یہی ہو سکتا تھا کہ کفا رحملہ کر دیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم خود ایسے سامان کریں گے کہ کفار تجھ پر حملہ کر دیں گے اور پھر اس کے نتیجہ میں وہ تباہ ہو جائیں گے.يُتِمَّ نِعْمَتَهُ سے بھی یہی مراد ہے کہ عرب شکست کھا جائیں گے اور اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی.کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوكًا " یعنی موسی نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے تم میں اپنے انبیاء مبعوث فرمائے اور اُس نے تمہیں دنیوی بادشاہت کی نعمت سے بھی نوازا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نعمت کی تعریف بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ نعمت الہی اور اس کا اتمام الہی جماعتوں سے دو طرح ہوتا ہے.اگر ان کا سیاسی مقابلہ ہو تو حصول ملوکیت سے اور اگر خالص مذہبی ہو تو تکمیل نبوت سے.یعنی دنیا میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی آتا ہے تو اگر اس سے صرف سیاسی لڑائی ہو تو اللہ تعالیٰ اُسے بادشاہ بنا دیتا ہے اور اگر مذہبی لڑائی ہو تو اس کے دین کو غالب کر دیتا ہے اور اگر سیاسی اور مذہبی دونوں قسم کا مقابلہ ہو تو دونوں قسم کے انعام عطا کئے جاتے ہیں.یعنی نبوت بھی قائم کی جاتی ہے اور بادشاہت بھی عطا کی جاتی ہے پس یہاں ہم يُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْکَ سے یہی مراد لیں گے کہ اس حملہ کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عرب کی حکومت ٹوٹ جائے گی اور مسلمانوں کی حکومت قائم کر دی جائے گی اور يَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيماً میں بتایا کہ تم کو غداری نہیں کرنی پڑے گی.اللہ تعالیٰ خود ایسا راستہ نکالے گا جس کے نتیجہ میں لڑائی کرنا تمہارے لئے جائز ہو جائے گا اور ہر شخص تمہارے حملہ کو جائز اور معقول قرار دے گا.اس آیت کے متعلق مفسرین فَتْحًا مُّبِينًا سے مُراد صلح حدیبیہ نہیں بلکہ فتح مکہ ہے میں اختلاف پایا جاتا ہے
۵۴۵ بعض کہتے ہیں کہ فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے لیکن کچھ اور مفسرین اور صحابہؓ کہتے ہیں کہ اس سے مراد فتح مکہ ہے اور اُن کے اِس خیال کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ ابن مردویہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتی ہیں میں نے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا کہ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيناً میں جس فتح کا ذکر ہے اُس سے مراد فتح مکہ ہے.گویا خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فیصلہ ہے کہ اس جگہ فتح سے مراد فتح مکہ ہے لیکن اگر صلح حدیبیہ لو تب بھی فتح مکہ صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں ہی ہوئی اگر صلح حدیبیہ نہ ہوتی تو فتح مکہ بھی نہ ہوتی.۱۳ خدائی نوبت خانہ کی ایک اور خبر اب یہ جواطلاع ملی تھی کہ یمن آئے گا اورحملہ کرے گا اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگی اس کے واقعات کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح ہوئے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تو قریباً ڈیڑھ سال پہلے نوبت خانہ نے اطلاع دی کہ دشمن آئے گا، اس کے بعد جب یہ وقت قریب آ گیا تو خدائی نوبت خانہ نے پھر دشمن کے حملہ کی خبر دی.چنانچہ جب دشمن کے آنے کا وقت قریب آ گیا تو حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میری باری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں سو رہے تھے.جب آپ تہجد کے لئے اٹھے تو آپ وضو فرماتے ہوئے بولے اور مجھے آواز آئی کہ آپ فرما رہے 09.ہیں.لبیک لبیک لبیک.اس کے بعد آپ نے فرمایا.نُصِرْتَ.نُصِرُتَ.نُصِرْتَ.کہتی ہیں.جب آپ باہر تشریف لائے تو میں نے کہا.يَا رَسُولَ اللهِ ! کیا کوئی آدمی آیا تھا اور آپ اس سے باتیں کر رہے تھے ؟ آپ نے فرمایا.ہاں ! میرے سامنے کشفی طور پر خزاعہ کا ایک وفد پیش ہوا اور وہ شور مچاتے چلے آرہے تھے کہ ہم محمد کو اس کے خدا کی قسم دے کر کہتے ہیں کہ تیرے ساتھ اور تیرے باپ دادوں کے ساتھ ہم نے معاہدے کئے تھے اور ہم تیری مدد کرتے چلے آئے ہیں مگر قریش نے ہمارے ساتھ بد عہدی کی اور رات کے وقت ہم پر حملہ کر کے جبکہ ہم میں سے کوئی سجدہ میں تھا اور کوئی رکوع میں ہم کو قتل کر دیا اب ہم تیری مدد حاصل کرنے کیلئے آئے ہیں.غرض میں نے دیکھا کہ خزاعہ کا آدمی کھڑا ہے.جب مستشفی طور پر وہ آدمی مجھے نظر آیا تو میں نے کہا.لَبَّیک لَبَّيْكَ.لَبَّیک میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں، میں تمہاری مدد کیلئے حاضر ہوں، پھر میں نے کہا.نُصِرْتَ.نُصِرْتَ نُصرت " تجھے مدد دی جائے گی ، تجھے مدد دی جائے گی ، تجھے مدددی جائے گی.پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اُسی دن صبح کے وقت رسول کریم
۵۴۶ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور آپ نے فرمایا.خزاعہ کے ساتھ ایک خطرناک واقعہ پیش آیا ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سمجھ لیا کہ خزاعہ کے ساتھ خطرناک واقعہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ مکہ کی سرحد پر ہیں اور مکہ والے جن کا خزاعہ کے ساتھ معاہدہ ہے وہ خزاعہ پر حملہ کر دیں.میں نے کہا.يَارَسُولَ اللهِ ! کیا یہ ممکن ہے کہ اتنی قسموں کے بعد قریش معاہدہ توڑ دیں اور وہ خزاعہ پر حملہ کر دیں؟ آپ نے فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت کے ماتحت وہ اس معاہدہ کو توڑ رہے ہیں اور وہ حکمت یہی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حملہ کی اجازت نہیں تھی.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے کہا يَارَسُولَ اللَّهِ ! کیا اس کا نتیجہ اچھا نکلے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! نتیجہ اچھا ہی نکلے گا.ھا غرض اُس دن پھر نوبت خانہ بجتا ہے.اور اُدھر وہ واقعہ ہوتا ہے جو میں ابھی بیان کرونگا اور ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اطلاع مل جاتی ہے.بنوخزاعہ اور بنو بکر کی لڑائی اب واقعہ یوں ہوا کہ خزاعہ اور بنو بکر میں آپس میں لڑائی تھی اور بنو بکر ہمیشہ مکہ والوں کی مدد کرتے تھے.خزاعہ نے عملی طور پر مسلمانوں کی کبھی مدد نہیں کی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادوں پڑدادوں سے اُن کے معاہدے تھے ، اُن کی مدد کیا کرتے تھے.یوں مسلمانوں کو یہ ہمدردی تھی کہ اُن کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادوں پڑدادوں سے تعلقات تھے.جب یہ معاہدہ ہوا تو یوں تو وہ لڑائی کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے لیکن معاہدہ کے بعد بنو بکر نے سمجھا کہ اب تو یہ غافل رہیں گے اب موقع ہے ان کو مارنے کا.چنانچہ وہ مکہ کے لوگوں کے پاس گئے اور اُن سے کہا کہ یہ بڑا اچھا موقع ہے معاہدہ ہو گیا ہے، ان کو تو خیال بھی نہیں ہوسکتا کہ ہم ان کو ماریں گے اگر اس وقت آپ ہماری مدد کریں تو ہم ان کو تباہ کر سکتے ہیں.مکہ والوں نے کہا بڑی اچھی بات ہے تم ہمیشہ ہماری مدد کرتے رہے ہو ہم تمہاری مدد کریں گے چنانچہ باہمی مشورہ کے بعد ایک اندھیری رات انہوں نے تجویز کی اور فیصلہ کیا کہ رات کے وقت حملہ کریں گے.مکہ کے لشکر ہمارے ساتھ آجائیں کسی نے کیا پہچانتا ہے کہ مکہ والے بیچ میں موجود ہیں یہی کہیں گے کہ بنوبکر کے لوگ ہیں اور پھر چوری چوری اُن کو مار کر آجائیں گے اُن کو وہم بھی نہیں ہوگا.چنانچہ رات جو مقررتھی اس رات وقتِ مقررہ پر بنو بکر کا لشکر اور قریش کا لشکر مل کر وہاں گیا اور انہوں نے خزاعہ پر حملہ کر دیا.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ہم سجدے کر رہے
۵۴۷ تھے اور رکوع میں گئے ہوئے تھے حالانکہ وہ سب مسلمان نہیں تھے صرف کچھ لوگ مسلمان تھے انہوں نے مبالغہ سے کہا کہ ہم کو سجدے اور رکوع کرتے ہوئے مار دیا ہے.وہ تو اس امید میں بیٹھے تھے کہ آپس میں دس سال کا معاہدہ ہو چکا ہے اب ہمیں حملہ کا کوئی خطرہ نہیں کوئی کسی کو نہیں چھیڑے گا مگر اچانک قریش اور بنو بکر مل کر اُن پر ٹوٹ پڑے اور انہوں نے خزاعہ کو مارنا شروع کر دیا جو بھاگ سکے بھاگ گئے اور باقی جو اپنے ڈیروں پر رہے وہ مارے گئے لیکن رات کے وقت کسی کی آواز تو نکل جاتی ہے بعض لوگوں کے منہ سے آوازیں نکلیں تو بنو خزاعہ کو پتہ لگ گیا کہ قریش اُن کے ساتھ شامل ہیں.چنانچہ انہوں نے صبح شور مچا دیا کہ قریش نے بنو بکر سے مل کر ہم پر حملہ کیا ہے.صرف بنو بکر نے نہیں کیا اور ارد گرد کے لوگوں کو بھی یقین ہو گیا کہ بنو بکر کبھی جرات نہیں کر سکتے تھے جب تک قریش کی مددان کو حاصل نہ ہوتی اس لئے ضرور قریش حملہ میں شامل ہیں.اس طرح سارے علاقہ میں باتیں شروع ہو گئیں کہ قریش نے معاہدہ توڑ دیا ہے.چنانچہ مکہ کے رؤساء اکٹھے ہوئے اور انہوں نے کہا یہ تو بڑے فکر کی بات ہے معاہدہ ٹوٹ گیا ہے اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موقع مل گیا ہے کہ وہ ہم پر حملہ کر دیں اس کو کسی طرح سنبھالنا چاہئے.ادھر بنو خزاعہ نے بنو خزاعہ کا وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں فوراً چالیس آدمیوں کا ایک وفد تیار کیا انہیں اونٹوں پر سوار کیا اور انہیں کہا کہ رات دن منزلیں طے کرتے ہوئے جاؤ اور مدینہ جا کر خبر دو.چنانچہ وہ تین دن میں مارا مار کر کے مدینہ پہنچے اور جس طرح آپ کو الہا ماً بتایا گیا تھا اُسی طرح فریاد کرتے ہوئے داخل ہوئے کہ ہم رسول اللہ کو اُس کے خدا کی قسم دلاتے ہیں اور اُسی کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ ہم نے تمہارے ساتھ اور تمہارے باپ دادوں کے ساتھ ہمیشہ معاہدے کئے اور تمہارے ساتھ وفاداری کی لیکن قریش نے تمہاری دوستی کی وجہ سے رات کو حملہ کر کے ہمارے آدمیوں کو مارا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُسوقت مسجد میں بیٹھے تھے اور تین دن پہلے الہامی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اس کی خبر بھی مل چکی تھی.جب آپ نے سُنا تو عمرو بن سالم جو اُن کا لیڈر تھا ، آپ نے اُسے فرما یا گھبراؤ نہیں تمہاری مدد کی جائے گی.پھر آپ نے فرمایا: ”اگر میں تمہاری مدد نہ کروں تو خدا میری کبھی مدد نہ کرے.“ پھر آپ نے فرمایا : -
۵۴۸ ,, جس طرح میں اپنی جان اور اپنے بیوی بچوں کی جانوں کی حفاظت کرتا ہوں.اسی طرح تمہاری جانوں اور تمہارے بیوی بچوں کی جانوں کی بھی حفاظت کرونگا.‘۱۶ پھر آپ نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ مکہ والوں کو پتہ لگے گا اور وہ تمہاری تلاش میں ہونگے تم جاؤ لیکن چالیس آدمیوں کا قافلہ چونکہ آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے اس لئے تم واپس جاتے وقت دو دو تین آدمی مل کر جاؤ.قافلہ کی صورت میں اکٹھے نہ جاؤ تا پتہ نہ لگے کہ تم میرے پاس پہنچے ہو.چنانچہ انہوں نے قافلہ کو دو دو، تین تین، چار چار کی پارٹیوں میں تقسیم کر دیا اور واپس چلے گئے.کا ادھر مکہ والوں کو جب فکر ہوئی کہ ابوسفیان کا معاہدہ کی تجدید کیلئے مدینہ پہنچنا ہم نے معاہدہ توڑ دیا ہے اور اب مسلمانوں کے لئے راستہ کھل گیا ہے ہم الزام نہیں لگا سکتے اور وہ حملہ کر سکتے ہیں اور ادھر دیکھا کہ مکہ میں جو معاہدہ کیا جائے لوگ اُس کی بڑی عزت کرتے تھے حرم میں کئے ہوئے معاہدہ کی وجہ سے سارے لوگ کہیں گے کہ یہ بڑے بے ایمان ہیں اور وہ ہم سے نفرت کریں گے اور کہیں گے کہ انہوں نے مقدس مقام کی ہتک کی ہے ادھر انہوں نے معاہدہ کیا اور اُدھر اُسے توڑ ڈالا.پس جب انہوں نے دیکھا کہ ہم سے غلطی بھی ہوئی ہے اور ارد گرد کے قبائل میں بھی ہماری بدنامی ہوتی ہے اور اب اس کے نتیجہ میں بالکل ممکن ہے کہ مسلمان ہم پر حملہ کر دیں تو انہوں نے چاہا کہ کسی طرح اس لڑائی کو ٹلا دیا جائے.جس وقت حدیبیہ کی صلح ہوئی ہے اُس وقت ابوسفیان جو اُن کا لیڈر تھا مکہ میں موجود نہیں تھا وہ باہر تھا مگر اس واقعہ کے وقت ابوسفیان موجو دتھا.مکہ کے رؤساء آخر پریشان ہو کر ابوسفیان کے پاس آئے اور اُس سے کہا کہ اِس اِس طرح واقعہ ہو گیا ہے.وہ کہنے لگا واقعہ کیا ہے؟ میں نے تو سُنا ہے کہ تم خود وہاں گئے تھے اور خزاعہ پر تم نے حملہ کیا.وہ کہنے لگے جو ہو گیا سو ہو گیا تم لیڈر ہو تمہارا کام ہے کہ اس کو سنبھالو.تم مدینہ جاؤ اور وہاں جا کر دوبارہ معاہدہ کرو اور یہ بہانہ بنالو کہ دس سال تھوڑی مدت ہے ہم پندرہ سال تک معاہدہ کرنا چاہتے ہیں اُن کو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ ہم کیوں کر رہے ہیں.نیا معاہدہ ہو جائے گا اور ہم کہیں گے کہ اب پچھلی غلطی پر کوئی لڑائی نہیں ہو سکتی.ابوسفیان نے کہا بہت اچھا چنا نچہ وہ چل پڑا.
۵۴۹ ابوسفیان کی بہانہ سازی جب وہ مدینہ پہنچا تو اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا آپ جانتے ہیں میں ملکہ کا سردار ہوں.فرمایا ٹھیک ہے.اُس نے کہا آپ کو معلوم ہے جب صلح حدیبیہ ہوئی تھی میں مکہ میں موجود نہیں تھا اُسوقت معاہدہ ہو گیا.آپ میری پناہ دیئے بغیر کسی کو کیوں پناہ دے سکتے ہیں.میں معاہدہ کروں تو معاہدہ مکہ کی طرف سے ہو سکتا ہے میں نہ کروں تو کیسے ہو سکتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی بات سُن کر خاموش رہے.پھر اُس نے کہا میری تجویز یہ ہے کہ معاہدہ نئے سرے سے کیا جائے اور میں اُس پر دستخط کروں اور دوسرے دس سال تھوڑے ہیں قوم لڑتے لڑتے تھک گئی ہے میرا خیال ہے اس مدت کو پندرہ یا بیس سال کر دیا جائے.اس طرح اُس نے بہا نہ بنایا کہ گویا ایک معقول وجہ بھی موجود ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابوسفیان کیا کوئی معاہدہ توڑ بیٹھا ہے؟ وہ کہنے لگا مَعَاذَ اللَّهِ مَعَاذَ الله یہ کس طرح ہو سکتا ہے معاہدہ ہم نے خدا سے کیا ہے اُسے کوئی توڑ سکتا ہے.ہم اپنے معاہدہ پر قائم ہیں ہم اُسے نہیں توڑ سکتے.آپ نے فرمایا اگر تم معاہدہ توڑنے والے نہیں تو ہم بھی توڑنے والے نہیں کسی نئے معاہدہ کی کیا ضرورت ہے.اب گھبرا گیا کیونکہ بات تو بنی نہیں تھی.وہ کہنے لگا زیادہ مناسب یہی ہے کہ میں بڑا آدمی ہوں معاہدہ پر میرے دستخط نہیں اگر میرے دستخط ہو جائیں تو معاہدہ محفوظ ہو جائیگا اس سے زیادہ کوئی بات نہیں.آپ نے فرمایا کوئی ضرورت نہیں.اب ابو سفیان کو فکر پڑی تو وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور جا کر کہنے لگا ابو بکر ! تم جانتے ہو میری کتنی بڑی پوزیشن ہے میرے دستخط معاہدہ پر نہ ہوں تو مکہ والوں پر وہ کیسے حجت ہو سکتا ہے میرے دستخط ہونے چاہئیں اور میں پھر کہتا ہوں کہ مدت بھی بڑھا دی جائے.تم محمد رسول اللہ سے کہو وہ تمہاری بات بڑی مانتے ہیں تم اُن سے کہو کہ معاہدہ پھر سے ہو جائے اور اُس پر میرے دستخط بھی ہو جائیں.آپ نے فرمایا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا؟ اُس نے کہا.ہاں میں نے کہا تو تھا مگر انہوں نے فرمایا کہ جب معاہدہ ہو چکا ہے تو پھر نئے معاہدہ کی کیا ضرورت ہے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے.ابوسفیان ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں میری پنا ہ بھی شامل ہے اس لئے کسی نئی پناہ کی ضرورت نہیں.اس کے بعد وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور اُن سے بھی یہی کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں کہ وہ ہمارے ساتھ نیا معاہدہ کریں.حضرت عمرؓ نے کہا.میں تو تمہارا سر پھوڑنے کے لئے بیٹھا ہوں کسی نئے معاہدہ
کا سوال ہی کیا ہے.پھر وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ میاں کیا بیوقوفی کی باتیں کرتے ہو تمہارے ہو نگے دو دو آدمی ہمارا تو ایک ہی آدمی ہے جسے اُس نے پناہ دی اُسے ہم نے بھی پناہ دی اور جس سے وہ لڑ پڑے اُس سے ہم بھی لڑ پڑے ہمارا بیچ میں کیا دخل ہے.پھر وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا.انہوں نے بھی یہی جواب دیا.پھر وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور جا کر کہا مرد تو سمجھتے نہیں یہ لڑا کے ہوتے ہیں ان کو شکار کا شوق ہوتا ہے، عورتیں بڑی رقیق القلب ہوتی ہیں میں تمہارے پاس اِس لئے آیا ہوں کہ قوم کے خون ہو جائیں گے، فساد ہو جائے گا اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا.تم جانتی ہو.میں سردا ر ہوں جب میرے دستخط نہیں ہوئے تو دوسرے اس کو کیسے مان لیں گے؟ میں تکلیف اُٹھا کے آیا ہوں کہ کسی طرح معاہدہ ہو جائے اور میرے دستخط ہو جائیں.تم ذرا اپنے ابا سے چل کے کہو کہ میں نے انہیں پناہ دے دی ہے.تمہارے ساتھ ان کو پیار ہے بات ہو جائے گی حضرت فاطمہ کہنے لگیں ہمارے ہاں عورتیں ایسے معاملات میں دخل نہیں دیا کرتیں میرا اس معاملہ سے کیا تعلق ہے مردوں سے جا کر کہو.کہنے لگا اچھا ! عورتیں دخل نہیں دیتیں تو حسن اور حسین کو بھیجد و انکو سکھا دو کہ وہ جا کر یہ بات کہہ دیں کہ نانا ! ہم نے پناہ دے دی ہے.حضرت فاطمہ نے کہا ہمارے ہاں دنیا کے تمام کاموں میں بلوغت کی شرط ہوتی ہے.یہ بچے ہیں ان کو کیا پتہ کہ پناہ کیا ہوتی ہے.پھر وہ مہاجرین کے پاس گیا انصار کے پاس گیا اور اس میں اس کے دو تین دن لگ گئے آخر اُسے گھبراہٹ پیدا ہونی شروع ہوگئی کہ ہوگا کیا ؟ ابوسفیان کا مسجد نبوی میں اعلان آخر وہ سوچ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس دوبارہ گیا اور حضرت علی کو جا کر کہنے لگا میں ساری جگہوں پر گیا ہوں مگر میری کوئی نہیں سنتا.محمد رسول اللہ سے بات کی وہ کوئی جواب نہیں دیتے.اب تم مجھے بتاؤ کوئی ترکیب نکل سکتی ہے یا نہیں ؟ قوم کا درد تمہارے اندر بھی ہونا چاہئے.حضرت علی کہنے لگے یہی تجویز میری سمجھ میں آتی ہے کہ تم مسجد میں کھڑے ہو کر اعلان کر دو کہ ނ میں چونکہ اپنی قوم کا سردار ہوں اور میں نے دستخط نہیں کئے ہوئے اسلئے میں اپنی طرف.اُسے اس رنگ میں پختہ کرنے آیا ہوں کہ آج نئے سرے سے معاہدہ کیا جاتا ہے اور اس کی اتنی مدت بھی بڑھاتا ہوں.اُس نے کہا.اِس کا کوئی فائدہ ہوگا ؟ حضرت علیؓ نے کہا.بظاہر تو
۵۵۱ نظر نہیں آتا مگر آخر تم کہتے ہو کہ مجھے کوئی تجویز بتاؤ میں نے تمہیں بتائی ہے تم کر کے دیکھ لو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے تھے کہ ابو سفیان وہاں پہنچا اور کھڑے ہو کر کہنے لگا کہ اے مدینہ کے لوگو! سنو! معاہدہ تم نے ان لوگوں سے کر لیا جن کی ذمہ داری نہیں ہے ذمہ داری میری ہے اور میں اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا چاہتا ہوں.جو کچھ میں نے سُنا ہے وہ اچھی بات ہے مگر میں چاہتا ہوں معاہدہ کی مدت بھی بڑھ جائے اور میرے دستخط بھی ہو جائیں.میں اعلان کرتا ہوں کہ معاہدہ آج سے شروع ہوتا ہے اور میری اس پر تصدیق ہے اور اتنے سال بڑھا دیئے گئے ہیں.یہ ایسی احمقانہ بات تھی کہ سارے صحابہ سُن کر ہنس پڑے اور اُس کو سخت ذلت محسوس ہوئی کہ اتنے لوگوں میں میں اُلو بن گیا ہوں کیونکہ معاہدہ دونوں فریق سے ہوتا ہے ایک فریق سے کیا ہوتا ہے.بڑے غصہ سے کہنے لگا اے ابنائے ہاشم ! تم لوگ ہمیشہ ہمارے دشمن رہے.پھر حضرت علی کو مخاطب کر کے کہنے لگا تم نے مجھے جان کے ذلیل کروایا ہے تم ہمیشہ ہماری دشمنی کرتے ہو اور یہ کہ کر غصہ میں واپس آ گیا.حضرت ام حبیبہ کی ایمانی غیرت اسی دورا اسی دوران میں اُس کو ایک اور بھی زک اللہ تعالیٰ نے پہنچائی.اُس کی بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں یعنی اُم المؤمنین حضرت اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا.جب وہ مدینہ آیا تو اُس نے کہا میں بیٹی کو مل آؤں.جب بیٹی کے پاس گیا تو اُن کے پاس ایک فراش ۱۸ پڑا ہوا تھا انہوں نے جلدی سے اس کو لپیٹ کر رکھ لیا.اُس کی یہ حرکت اس کو عجیب معلوم ہوئی کہنے لگا بیٹی ! یہ فراش تم نے کس لئے تہہ کیا ہے؟ کیا اس لئے کیا ہے کہ یہ فراش میرے لائق نہیں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا اے باپ! بات اصل میں یہ ہے کہ یہ وہ فراش ہے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھتے ہیں اور تو مشرک نجس اور ناپاک ہے.میں کس طرح برداشت کر سکتی ہوں کہ خدا کے نبی کے فراش کو تو ہاتھ لگائے اس لئے میں نے اس کو تہہ کیا ہے.اُس کو حیرت ہوئی کہ میری بیٹی نے یہ کیا کہا ہے.کہنے لگا.بیٹی ! معلوم ہوتا ہے جب سے تو مجھ سے جُدا ہوئی ہے تیری طبیعت میں کچھ فرق پڑ گیا ہے.میرا ادب تیرے اندر اس قدر کم تو نہیں ہوا کرتا تھا.اُس نے کہا.باپ یہ فرق پڑ گیا ہے کہ جب میں تجھ سے جُدا ہوئی تھی میں کا فر تھی اب مجھے خدا نے اسلام دیا ہے، اب مجھے پتہ ہے کہ رسول اللہ کی کیا حیثیت ہے اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ تو عرب کا سردار بنا پھرتا ہے اور پتھروں کے آگے ناک رگڑتا پھرتا ہے تیری کیا حیثیت ہے اور اُس شخص کی کیا حیثیت ہے جو خدا کا
۵۵۲ رسول ہے.غرض وہ مایوس ہو کر وہاں سے آیا.جب مسجد میں بھی اُس کو ذلت پہنچی تو وہ قافلہ کو لے کے ابوسفیان کی ناکام واپسی واپس چلا آیا.اُس کو راستہ میں خزاعہ کے بھی دو تین آدمی جاتے ہوئے مل گئے تھے.اُس نے سمجھا ادھر سے آئے ہیں تو ضرور یہ رسول اللہ سے مل کے آئے ہیں.کہنے لگا سُنا ؤ مدینہ کا کیا حال ہے؟ یہ نہ پوچھا کہ تم خبر دینے گئے تھے بلکہ پوچھا سناؤ مدینہ کا کیا حال ہے؟ وہ مسلمان تو تھے ہی نہیں نہ انکو دین اسلام سے کوئی واقفیت تھی اُنکو جھوٹ بولنے سے کیا پر ہیز تھا.کہنے لگے مدینہ کیسا.ہم کیا جانتے ہیں مدینہ کو.ہماری تو قوم کے بعض آدمیوں میں یہاں لڑائی ہو گئی تھی ہم صلح کرانے آئے تھے.لیکن ابوسفیان بڑا ہوشیار تھا.اُس نے سمجھا کہ یہ میرے ساتھ چالا کی کر رہے ہیں اپنے ساتھیوں کو کہنے لگا جس وقت یہ آگے جائیں ذرا اونٹوں کی لید دیکھو.مدینہ میں اونٹوں کو کھجور کی گٹھلیاں کھلا یا کرتے ہیں اگر لید میں گٹھلیاں نکلیں تو جھوٹ بول رہے ہیں یہ مدینہ سے آئے ہیں.اگر لید سے گٹھلیاں نہ نکلیں تو یہ کہیں اور سے آرہے ہیں.جب وہ قافلہ گیا اور انہوں نے لید دیکھی تو گٹھلیاں نکلیں.کہنے لگے یہ وہاں ہو آئے ہیں.خیراب یہ وہاں سے واپس مکہ پہنچے.مکہ پہنچنے پر سارے مکہ والے آئے اور پوچھا.سُناؤ کچھ کر آئے ہو؟ کہنے لگا صرف اتنا کیا ہے کہ میں نے مسجد میں کھڑے ہوکر اعلان کر دیا تھا کہ میرے بغیر معاہدہ نہیں ہو سکتا.اب میں نیا معاہدہ کرتا ہوں اور اس کی تصدیق کرتا ہوں اور اس کی مدت بھی بڑھا تا ہوں.کہنے لگے تم ہمارے سردار ہو پھر تم نے ایسی احمقانہ بات کیوں کی؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ نہ مانیں اور تم اعلان کر دو.پھر معاہدہ کیسے ہوا! کہنے لگا.کہتے تو وہ بھی یہی تھے.کہنے لگے پھر تم نے کیا کیا ؟ کہنے لگا پھر اور میں کیا کرتا.تم ہی کوئی ترکیب بتاؤ.میں نے رسول اللہ کو بار بار کہا، صحابہ کے آگے ناک رگڑے کسی نے میری نہیں سنی پھر میں اور کیا کر سکتا تھا.کہنے لگے بھلا اس کا کوئی فائدہ بھی تھا ذلیل ہونے کی کیا ضرورت تھی.اُس نے کہا.میں تو بس یہی کر کے آیا ہوں.خیر ساری طرف سے اُس کی ملامت شروع ہوئی.19 لوگوں نے اُس کے متعلق کہا مکہ والوں کی طرف سے ابوسفیان پر غداری کا الزام کہ یہ مسلمانوں سے مل گیا ہے.عربوں میں یہ دستور تھا کہ جب کسی پر ایسا الزام لگے تو جا کر خانہ کعبہ کے سامنے قربانی کرتا تھا اور اُس قربانی کا خون اپنے ماتھے پر ملتا تھا اور پھر قوم کے آگے اعلان کرتا تھا کہ میں
۵۵۳ نے کوئی غداری نہیں کی.وہ اُس کے متعلق سمجھتے تھے کہ اب یہ جھوٹ نہیں بول سکتا اور وہ اس کو بڑا عذاب سمجھتے تھے.اسی دستور کے مطابق اس نے بھی خانہ کعبہ کے آگے قربانی کی اُس کا خون لے کر اپنے ماتھے کو ملا اور پھر قوم کے آگے جا کر کہا کہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ مجھ سے جو کچھ ہو سکا کیا ہے.میں نے اُن کے ساتھ اور کوئی معاہدہ نہیں کیا.تے چنانچہ اِسپر لوگوں کو تسلی ہو گئی.مگر اب اُن میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ اگر مسلمانوں کی طرف سے حملہ ہو جائے تو کیا بنے گا ؟ رؤسائے مکہ میں گھبراہٹ کچھ دنوں تک مدینہ سے خبریں نہ پہنچیں.جب کوئی خبر نہ پہنچی تو اُن کی گھبراہٹ اور بھی زیادہ بڑھتی چلی گئی کہ اگر خزاعہ والے وہاں گئے ہیں تو محمد رسول اللہ نے کچھ نہ کچھ تو ضرور کہا ہوگا.یا تو یہ کہا ہوگا کہ ہم نہیں کر سکتے یا یہ کہا ہو گا ہم کرتے ہیں.کچھ تو پتہ لگتا یہ خاموشی کیسی ہے ؟ تین چار روز کے بعد انہوں نے ابوسفیان سے کہا کہ تم روز جایا کرو اور جا کے چکر لگا کر دیکھا کرو کہ مسلمانوں کا کوئی لشکر تو نہیں آ رہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح مکہ کیلئے تیاری بہر حال ادھر ابو سفیان مکہ کی طرف روانہ ہوا اُدھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی سے کہا کہ میرا سامانِ سفر باندھنا شروع کرو.انہوں نے رختِ سفر باندھنا شروع کیا اور حضرت عائشہ سے کہا.میرے لئے ستو وغیرہ یا دانے وغیرہ بُھون کر تیار کرو.اسی قسم کی غذا ئیں اُن دنوں میں ہوتی تھیں.چنانچہ انہوں نے مٹی وغیرہ پھٹک کے دانوں سے نکالنی شروع کی.حضرت ابو بکر گھر میں بیٹی کے پاس آئے اور انہوں نے یہ تیاری دیکھی تو پوچھا عائشہ ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا رسول اللہ کے کسی سفر کی تیاری ہے؟ کہنے لگیں سفر کی تیاری ہی معلوم ہوتی ہے آپ نے سفر کی تیاری کیلئے کہا ہے.کہنے لگے کوئی لڑائی کا ارادہ ہے.انہوں نے کہا.کچھ پتہ نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرا سامانِ سفر تیار کرو اور ہم ایسا کر رہے ہیں.دو تین دن کے بعد آپ نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمرہ کو بلایا اور کہا دیکھو! تمہیں پتہ ہے خزاعہ کے آدمی اس طرح آئے تھے اور پھر بتایا کہ یہ واقعہ ہوا ہے اور مجھے خدا نے اس واقعہ کی پہلے سے خبر دے دی تھی کہ انہوں نے غداری کی ہے اور ہم نے اُن سے معاہدہ کیا ہوا ہے اب یہ ایمان کے خلاف ہے کہ ہم ڈر جائیں اور مکہ والوں کی
۵۵۴ بہادری اور طاقت دیکھ کر اُن کے مقابلہ کے لئے تیار نہ ہو جائیں.تو ہم نے وہاں جانا ہے تمہاری کیا رائے ہے ؟ حضرت ابو بکر نے کہا.يَا رَسُولَ اللهِ! آپ نے تو اُن سے معاہدہ کیا ہوا ہے اور پھر وہ آپ کی اپنی قوم ہے.مطلب یہ تھا کہ کیا آپ اپنی قوم کو ماریں گے؟ فرمایا.ہم اپنی قوم کو نہیں ماریں گے معاہدہ شکنوں کو ماریں گے پھر حضرت عمر سے پوچھا.تو انہوں نے کہا.بِسمِ اللهِ ! میں تو روز دُعائیں کرتا تھا کہ یہ دن نصیب ہو اور ہم رسول اللہ کی حفاظت میں کفار سے لڑیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابوبکر بڑا نرم طبیعت کا ہے مگر قول صادق عمر کی زبان سے زیادہ جاری ہوتا ہے.فرمایا کرو تیاری - ۲۱ پھر آپ نے ارد گرد کے قبائل کو اعلان بھجوایا کہ ہر شخص جو اللہ اور رسول پر ایمان رکھتا ہے وہ رمضان کے ابتدائی دنوں میں مدینہ میں جمع ہو جائے.چنانچہ لشکر جمع ہونے شروع ہوئے اور کئی ہزار آدمیوں کا لشکر تیار ہو گیا اور آپ لڑنے کے لئے تشریف لے گئے.اب دیکھو یہ خدائی نوبت خانہ اور کفار کے نوبت خانہ میں ایک بہت بڑا فرق نوبت خانہ کتنا زبردست ہے کہ اُسوقت جب معاہدہ یہ ہوتا ہے کہ لڑائی نہیں ہو گی ، جب قسم کھا کھا کے کہا جاتا ہے کہ ہم اپنے دل سے یہ عہد کرتے ہیں اور خدا کی لعنتیں ہم پر ہوں اگر ہم اس عہد کو توڑیں.وہاں ابھی ایک رات ہی گزرتی ہے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ لڑائی ہو گی.گویا نو بت خانہ بج جاتا ہے اور خبر آتی ہے کہ لڑائی ہونے والی ہے.اُدھر کفار کے نو بت خانہ کا یہ حال ہے کہ ابوسفیان تین دن مدینہ میں رہ کر آتا ہے اور اُس کو پتہ نہیں لگتا کہ لڑائی ہو گی.واپس جا کر قوم کو کہتا ہے کہ میں یہ کر آیا ہوں.انہوں نے کہا لڑائی تو نہیں ہوگی ؟ اُس نے کہا لڑائی نہیں ہو گی.مگر ادھر وہ مکہ میں پہنچتا ہے اور اُدھر دس ہزار کا لشکر تیار ہوتا ہے.احزاب کی تاریخ کے سوا اتنا بڑا لشکر عرب کی تاریخ میں تیار نہیں ہوا.احزاب میں دس بارہ ہزار آدمی تھا.گویا عرب کی تاریخ میں اتنے بڑے لشکر کی یہ دوسری مثال تھی.لیکن مدینہ سے اتنا بڑ الشکر نکلتا ہے اور کسی کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی اور پھر اللہ تعالیٰ معجزانہ طور پر یہ دکھاتا ہے کہ میں اس نوبت خانہ کو بجاتا ہوں جو میرا ہے اور اُس نوبت خانہ کو تو ڑ رہا ہوں جو اُن کا ہے.چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو آپ نے فرمایا.اے میرے خدا! میں تجھ سے دُعا کرتا ہوں کہ تو مکہ والوں کے کانوں کو بہرہ کر دے اور اُن کے جاسوسوں کو اندھا کر دے.نہ وہ ہمیں دیکھیں اور نہ اُن کے کانوں تک
۵۵۵ ہماری کوئی بات پہنچے." چنانچہ آپ نکلے.مدینہ میں سینکڑوں منافق موجود تھا لیکن دس ہزار کا لشکر مدینہ سے نکلتا ہے اور کوئی اطلاع مکہ میں نہیں پہنچتی.صرف ایک کمزور صحابی ایک صحابی کا کفارِ مکہ کی طرف خط اور اُس کا پکڑا جانا نے مکہ والوں کو خط لکھ دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر نکلے ہیں.مجھے معلوم نہیں آپ کہاں جا رہے ہیں لیکن میں قیاس کرتا ہوں کہ غالبا وہ مکہ کی طرف آ رہے ہیں.میرے مکہ میں بعض عزیز اور رشتہ دار ہیں میں امید کرتا ہوں کہ تم اس مشکل گھڑی میں اُن کی مدد کرو گے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنے دو گے.یہ خط ابھی ملکہ نہیں پہنچا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت حضرت علی کو بلایا اور فرمایا تم فلاں جگہ جاؤ.اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ وہاں ایک عورت اونٹنی پر سوار تم کو ملے گی اُس کے پاس ایک خط ہو گا جو وہ مکہ والوں کی طرف لے جا رہی ہے تم وہ خط اُس عورت سے لے لینا اور فوراً میرے پاس آجانا.جب وہ جانے لگے تو آپ نے فرمایا.دیکھنا وہ عورت ہے اُس پر سختی نہ کرنا، اصرار کرنا اور زور دینا کہ تمہارے پاس خط ہے لیکن اگر پھر بھی وہ نہ مانے اور منتیں سما جتیں بھی کام نہ آئیں تو پھر تم سختی بھی کر سکتے ہو اور اگر اُسے قتل کرنا پڑے تو قتل بھی کر سکتے ہو لیکن خط نہیں جانے دینا.حضرت علی وہاں پہنچ گئے.عورت موجود تھی وہ رونے لگ گئی اور قسمیں کھانے لگ گئی کہ کیا میں غذار ہوں ، دھو کے باز ہوں ، آخر کیا ہے تم تلاشی لے لو چنا نچہ انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا اُس کی جیبیں ٹولیں ، سامان دیکھا مگر خط نہ ملا.صحابہ کہنے لگے معلوم ہوتا ہے خط اس کے پاس نہیں.حضرت علیؓ کو جوش آ گیا آپ نے کہا تم چُپ رہو اور بڑے جوش سے کہا کہ خدا کی قسم ! رسول کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا.چنانچہ انہوں نے اُس عورت سے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ تیرے پاس خط ہے اور خدا کی قسم ! میں جھوٹ نہیں بول رہا.پھر آپ نے تلوار نکالی اور کہا.یا تو سیدھی طرح خط نکال کر دیدے ورنہ یا درکھ اگر تجھے نگا کر کے بھی تلاشی لینی پڑی تو میں تجھے نگا کرونگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ بولا ہے اور تُو جھوٹ بول رہی ہے.چنانچہ وہ ڈر گئی اور جب اُسے ننگا کرنے کی دھمکی دی گئی تو اُس نے جھٹ اپنی مینڈھیاں کھولیں اُن مینڈھیوں میں اُس نے خط رکھا ہوا تھا جو اُس نے نکال کر دے دیا.یہ ایک صحابی حاطب کا خط تھا اور اُس میں لکھا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
۵۵۶ دس ہزار کا لشکر لے کر آرہے ہیں پتہ نہیں چلتا کہ کدھر جا رہے ہیں لیکن اتنا بڑ الشکر مکہ کے سوا اور کہیں جا تا معلوم نہیں ہوتا اس لئے میں تم کو خبر دے رہا ہوں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خط پہنچا تو آپ نے حاطب کو بلوایا اور فرمایا.یہ خط تمہارا ہے ؟ انہوں نے کہا.ہاں میرا ہے.آپ نے فرمایا.تم نے یہ خط کیوں لکھا تھا.انہوں نے کہا.يَا رَسُولَ اللهِ ! بات اصل میں یہ ہے کہ سارے مہاجر جو آپ کے ساتھ ہیں، یہ مکہ کے رہنے والے ہیں.میں مکہ میں باہر سے آکے بسا ہوں.میرا کوئی رشتہ دار نہیں ، میرا بیٹا وہاں ہے، میری بیوی وہاں ہے، جس وقت اُن پر حملہ ہوا انہوں نے ہمارے جتنے رشتہ دار ہیں اُن کو مارڈالنا ہے.سوائے اُن کے جن کے بچانے والے موجود ہو نگے.پس چونکہ میرے بیوی بچوں کو کوئی بچانے والا نہیں اس لئے میں نے یہ خط لکھدیا.میں جانتا ہوں کہ خدا نے آپ کی مدد کرنی ہے.جب انہوں نے تباہ ہو جانا ہے اور خدا کہتا ہے کہ ہو جانا ہے تو وہ تباہ ہی ہو جائیں گے چاہے میں انکو ہزار خط لکھوں مگر اس طرح میرے بیوی بچے بچ جاتے تھے اور آپ کو کوئی نقصان نہیں ہو تا تھا ورنہ میں بے ایمان نہیں.حضرت عمر کھڑے ہوئے تھے انہوں نے تلوار نکال لی کہ کمبخت ! رات دن ہم چھپاتے چلے آرہے ہیں کہ بات کسی طرح نکلے نہیں اور تو اُن کو خط لکھتا ہے.يَارَسُولَ اللهِ! مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کی گردن اُڑا دوں.آپ نے فرمایا کہ جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے یہ مؤمن ہے اس نے صرف ڈر کے مارے یہ بات کی ہے.بہر حال یہ رپورٹ کسی کو نہیں پہنچتی.نوبت خانہ بجتا بھی ہے تو اُس کی آواز وہیں روک دی جاتی ہے.ادھر سے نوبت خانہ ڈیڑھ سال پہلے بجتا ہے کہ دشمن آ گیا دشمن آ گیا.ابوسفیان کی سراسیمگی اب جس وقت وہاں مسلمان پہنچے تو جب تک مسلمان حرم میں نہیں پہنچ گئے مکہ والوں کو خبر نہیں پہنچی.جب وہاں پہنچے تو ابوسفیان اور اُس کے ساتھیوں کا مکہ والوں کی طرف سے پہرہ مقرر تھا.گویا اب یہ صورت ہو گئی کہ جب وہاں پہنچے تو اُن کو خبر ہوگئی کہ اسلامی لشکر آ گیا ہے مگر اب اللہ تعالیٰ اس کا بھی علاج کر لیتا ہے.آپ نے وہاں جا کر فرمایا کہ اب ہمیں ان پر ظاہر کر دینا چاہئے کہ ہم آگئے ہیں.چنانچہ آپ نے حکم دیا کہ ہر سپاہی روٹی کے لئے علیحدہ آگ جلائے تا کہ دس ہزار روشنی ہو جائے.چنانچہ سب خیموں کے آگے دس ہزار روشنی دکھائی دینے لگی.ابوسفیان اور اُس کے ساتھیوں نے آگ کو روشن دیکھا تو وہ گھبرا گئے.اتنا بڑ الشکر اُن کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا.اسی گھبراہٹ میں
۵۵۷ ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا.کیا تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ یہ کس کا لشکر ہے؟ پہلے تو اُن کا خزاعہ کی طرف خیال گیا اور انہوں نے کہا کہ شاید خزاعہ والے ہونگے جو اپنا بدلہ لینے آئے ہیں.ابوسفیان نے کہا خُدا کا خوف کرو خزاعہ تو اس کا دسواں حصہ بھی نہیں یہ اتنی بڑی روشنی ہے اور اتنا بڑا لشکر ہے کہ خزاعہ کی اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں.عام طور پر فی خیمہ ایک روشنی ہوا کرتی ہے.اس لحاظ سے دس ہزار خیمہ بن گیا مگر خزاعہ کی ساری تعداد دو چار سو ہے.پس وہ کس طرح ہو سکتا ہے اُنکی تعداد تو اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.انہوں نے کہا فلاں قبیلہ ہو گا کہنے لگا آخر وہ کیوں آئے اور پھر یہ کہ اُن کی تعداد بھی اتنی نہیں.غرض اسی کی طرح پانچ سات قبائل کے نام لیتے گئے کہ فلاں ہو گا ، فلاں ہوگا اور ہر بار ابوسفیان نے کہا کہ یہ غلط ہے.آخر انہوں نے کہا.یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا لشکر ہو گا اور کس کا ہو گا.کہنے لگا بالکل جھوٹ.میں تو انہیں مدینہ میں سوتا چھوڑ کر آیا ہوں اُن کو پتہ بھی نہیں وہ بڑے آرام سے بیٹھے تھے.یہ باتیں ابھی ہو ابوسفیان اور اُس کے ساتھی اسلامی پہرہ داروں کے نرغہ میں ہی کی ہی تھیں کہ ہی رہی اسلامی لشکر کے چند سپاہی جو پہرہ پر متعین تھے وہ پہرہ دیتے ہوئے قریب پہنچ گئے اور ابوسفیان کی آواز انہوں نے سُنی اُن میں حضرت عباس بھی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور ابوسفیان کے بڑے گہرے دوست تھے.اُس وقت وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر پر سوار تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سفر میں خچر دی تھی کہ وہ اس کو استعمال کریں.انہوں نے آواز سنی تو کہنے لگے.ابوسفیان ! ابوسفیان نے کہا.عباس ! تم کہاں؟ حضرت عباس نے کہا او کمبخت ! تیرا بیڑا غرق ہو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر آگئے ہیں.اب شہر کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی.اب تو چل اور چڑھ جا میرے پیچھے اور خدا کے نام پر اُن کی منتیں کر اور اپنی قوم کی معافی کے لئے درخواست کر ورنہ تباہی آجائے گی.چڑھ جا میرے پیچھے.انہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور خچر کے پیچھے بٹھا لیا اور دوڑائی خچر.اب لشکر میں جگہ جگہ پہرے ہوتے ہیں.جہاں بھی یہ پہنچے پہریدار فوراً آگے آکر روکنے لگے.جب انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ کی خچر ہے اور آگے حضرت عباس بیٹھے ہیں تو کہنے لگے چلو چھوڑو.خیر وہ پہروں میں سے نکل کر چلے گئے یہاں تک کہ حضرت عمرؓ کے خیمہ کے پاس پہنچے.
۵۵۸ حضرت عمرؓ نے دیکھا تو تلوار نکال کر حضرت عباس کی ابوسفیان کو بچانے کی کوشش بھاگے اور کہنے لگے خدا کا کتنا شکر ہے کہ بغیر عہد شکنی کئے مجھے آج اس کی جان نکالنے کی توفیق ملی اور آپ ہی آپ خدا نے دشمن میرے ہاتھ میں دے دیا ہے.حضرت عباس نے دیکھا تو وہ آگے بھاگے.حضرت عمرؓ پیچھے پیچھے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کے پاس پہنچے تو حضرت عباس نے ابوسفیان کو دھکا دیکر نیچے پھینکا اور کہا.اُتر.پھر آپ کو دے اور گود کر اُس کا ہاتھ پکڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ میں پہنچے اور کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! ابوسفیان مسلمان ہونے کے لئے آیا ہے.اب ابوسفیان حیران کہ یہ کیا بن گیا.یا تو میں پہرہ دے رہا تھا اور یا اب مجھے مسلمان ہونے کیلئے کہا جا رہا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے کیونکہ اس کی شکل سے پتہ لگتا تھا کہ یہ مسلمان ہونے نہیں آیا.اتنے میں حضرت عمر بھی داخل ہوئے اور کہا.يَا رَسُولَ اللهِ ! یہ خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس خبیث اور بے ایمان دشمنِ خدا اور رسول کو اُس نے بغیر اس کے کہ میں عہد شکنی کروں اور معاہدہ تو ڑوں آپ میرے حوالے کر دیا ہے.آپ مجھے اجازت دیکھیئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے لیکن حضرت عباس کو غصہ آگیا کیونکہ وہ ان کا بہت دوست تھا.انہوں نے عمرؓ سے کہا.عمر" ! دیکھو یہ میرے خاندان کا آدمی ہے اس لئے تم اس کو مارنا چاہتے ہو.اگر تمہارے خاندان کا آدمی ہوتا تو تم کبھی اس کے مارنے کی خواہش نہ کرتے.حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہنے لگے.عباس ! تم نے مجھ پر بڑی زیادتی کی ہے.خدا کی قسم! جب تم مسلمان ہوئے تھے تو مجھے اتنی خوشی ہوئی تھی کہ اگر میرا باپ بھی مسلمان ہوتا تو مجھے کبھی اتنی خوشی نہ ہوتی.اور اس کی صرف یہ وجہ تھی کہ میں سمجھتا تھا کہ تمہارے مسلمان ہونے سے رسول اللہ کو جو خوشی پہنچ سکتی ہے وہ میرے باپ کے اسلام لانے سے نہیں پہنچ سکتی تھی.یعنی ہم نے تو اپنے باپ دادوں کو بھی چھوڑ دیا اب رشتہ داری کا کیا سوال ہے.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے.تھوڑی دیر کے بعد آپ نے فرمایا.عباس ! ابوسفیان کو اپنے خیمہ میں لے جاؤ اور رات کو اپنے پاس رکھو.صبح اسے میرے سامنے پیش کرو.حضرت عباس لے گئے اور رات اپنے پاس رکھا.مسلمانوں کی اجتماعی عبادت کا ابوسفیان پر گہرا اثر اب دیکھو یہ سفیان پیرو دے رہے تھے اور انہوں نے واپس
جا کر خبر دینی تھی لیکن وہ خود پکڑے گئے.اُدھر باقی مسلمان سپاہی دوسرے آدمیوں کو بھی پکڑ لائے.یہ چار پانچ رئیس تھے.پکڑے ہوئے وہاں پہنچے اور رات وہاں رہے.صبح نماز کے وقت حضرت عباس ابوسفیان کو پکڑ کر لے گئے.جب اذان ہوئی اور نماز کے لئے لوگ کھڑے ہوئے تو اُسے ایک عجیب نظارہ نظر آیا.یہیں جلسہ سالانہ پر دیکھ لو کہ جب ہمارے تمیں چالیس ہزار آدمی نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو کیا شاندار نظارہ ہوتا ہے.وہاں بھی صفوں پر صفیں بنی شروع ہو گئیں اور ہر ایک آدمی نماز کے لئے کھڑا ہو گیا.ہمارے ہاں تو پھر کچھ آدمی نماز کے وقت پکوڑے کھا رہے ہوتے ہیں مگر وہ لوگ پکے نمازی تھے.بہر حال ابوسفیان نے جو ان کو دیکھا تو لرز گیا.ابوسفیان بادشاہوں کے دربار میں آیا جایا کرتا تھا اور اُس کو پتہ تھا کہ جب بڑے آدمیوں کو مروا نا ہوتا تھا تو فوجیں کھڑی کی جاتی تھیں اور اُن کے سامنے اُس کی گردن کاٹی جاتی است خیال کے ماتحت اُس نے پوچھا کہ عباس ! کیا رات کو میرے متعلق کوئی نیا حکم جاری ہوا ہے؟ حضرت عباس نے کہا.تمہارے متعلق تو کوئی نیا حکم جاری نہیں ہوا.وہ کہنے لگا پھر یہ اتنے آدمی کھڑے کیوں ہیں؟ حضرت عباس نے کہا یہ عبادت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اور ہمارے ہاں عبادت کا یہی طریق ہے.تھوڑی دیر کے بعد وہ رکوع میں گئے.کہنے لگا.یہ چھکے کیوں ہیں؟ عباس نے کہا.یہ عبادت ہے.پھر سجدہ میں گئے تو کہنے لگا اب یہ کیا ہوا کہ سارے کے سارے زمین پر گر گئے ہیں ؟ انہوں نے کہا دیکھتے نہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کر رہے ہیں.بس جو کچھ وہ کرتے ہیں وہی کچھ مسلمان کرتے ہیں.کہنے لگا عجیب طریق ہے محمد رسول اللہ مجھکتے ہیں تو وہ جھک جاتے ہیں کھڑے ہوتے ہیں تو وہ کھڑے ہو جاتے ہیں.وہ کہنے لگے مسلمان اسی طرح کرتے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حرکت کی نقل کیا کرتے ہیں.ابوسفیان کہنے لگا میں تو قیصر کے پاس بھی گیا اور اور بادشاہوں کے پاس بھی گیا ہوں اُن کو تو میں نے اس طرح عبادت کرتے نہیں دیکھا.انہوں نے کہا قیصر کیا چیز ہے اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ روٹی کو ہاتھ نہیں لگا نا ، پانی کو ہاتھ نہیں لگانا تو وہ بھو کے مر جائیں گے، پیا سے مر جائیں گے مگر روٹی نہیں کھائیں گے اور پانی نہیں پیئیں گے.ابوسفیان کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست جب نماز ختم ہو چکی تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ ابوسفیان کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ابوسفیان کو دیکھا اور فرمایا.تیرا بُرا حال ہو کیا تجھے ابھی یقین نہیں آیا کہ خدا ایک ہے.ابوسفیان نے کہا یقین کیوں نہیں آیا.اگر کوئی دوسرا خدا ہوتا تو ہماری مدد نہ مدد نہ کرتا ؟ آپ نے فرمایا.تیرا بُرا حال ہو کیا تجھے ابھی یقین نہیں آیا کہ محمد اللہ کا رسول ہے.کہنے لگا.ابھی اس کے متعلق یقین نہیں ہوا.حضرت عباس نے کہا.کمبخت ! کر لو بیعت.اس وقت تیری اور تیری قوم کی جان بچتی ہے.کہنے لگا اچھا! کر لیتا ہوں.وہاں تو اُس نے یونہی بیعت کر لی لیکن بعد میں جا کر سچا مسلمان ہو گیا.خیر بیعت کر لی تو عباس کہنے لگے اب مانگ اپنی قوم کے لئے ورنہ تیری قوم ہمیشہ کیلئے تباہ ہو جائے گی.مہاجرین کا دل اُس وقت ڈر رہا تھا.وہ تو مکہ کے رہنے والے تھے اور سمجھتے تھے کہ ایک دفعہ مکہ کی عزت ختم ہوئی تو پھر مکہ کی عزت باقی نہیں رہے گی.وہ با وجود اس کی کے کہ انہوں نے بڑے بڑے مظالم برداشت کئے تھے پھر بھی وہ دُعائیں کرتے تھے کہ کسی طرح صلح ہو جائے.لیکن انصار اُن کے مقابلہ میں بڑے جوش میں تھے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا.مانگو.کہنے لگا.يَا رَسُولَ اللهِ ! کیا آپ اپنی قوم پر رحم نہیں کریں گے.آپ تو بڑے رحیم کریم ہیں اور پھر میں آپکا رشتہ دار ہوں ، بھائی ہوں، میرا بھی کوئی اعزاز ہونا چاہئے میں مسلمان ہوا ہوں.آپ نے فرمایا.اچھا جاؤ اور مکہ میں اعلان کر دو کہ جو شخص ابوسفیان کے گھر میں گھسے گا اُسے پناہ دی جائیگی.کہنے لگا يَا رَسُولَ اللہ ! میرا گھر ہے کتنا اور اُس میں کتنے آدمی آسکتے ہیں.اتنا بڑا شہر ہے اس کا میرے گھر میں کہاں ٹھکا نہ ہوسکتا ہے.آپ نے فرمایا.اچھا جو شخص خانہ کعبہ میں چلا جائے گا اُسے امان دی جائے گی.ابوسفیان نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! پھر بھی لوگ بچ رہیں گے آپ نے فرمایا.اچھا جو ہتھیار پھینک دے گا اُسے بھی کچھ نہیں کہا جائے گا.کہنے لگا يَا رَسُولَ اللهِ ! پھر بھی لوگ رہ جائیں گے.آپ نے فرمایا.اچھا جو اپنے گھر کے دروازے بند کر لے گا.اُسے بھی پناہ دی جائے گی.اُس نے کہا.يَا رَسُولَ اللهِ ! گلیوں والے تو ہیں وہ تو بیچارے مارے جائیں گے.آپ نے فرمایا.بہت اچھا لا ؤ ایک جھنڈا بلال کا تیار کرو.ابی رویہ ایک صحابی تھے.آپ نے جب مدینہ میں مہاجرین اور انصار کو آپس میں بھائی بھائی بنایا تھا تو ابی رویحہ کو بلال کا بھائی بنایا تھا.شاید اُس وقت بلال تھے نہیں یا کوئی کی اور مصلحت تھی بہر حال آپ نے بلال کا جھنڈا بنایا اور ابی رویحہ کو دیا اور فرمایا.یہ بلال کا جھنڈا ہے یہ اسے لیکر چوک میں کھڑا ہو جائے اور اعلان کر دے کہ جو شخص بلال کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا اُس کو نجات دی جائے گی.ابو سفیان کہنے لگا.بس اب کافی ہو گیا آب مکہ بچ جائے
۵۶۱ گا.کہنے لگا اب مجھے اجازت دیجیئے کہ میں جاؤں.آپ نے فرمایا جا.۲۵ اب تو سردار خود ہی ہتھیار پھینک چکا تھا.خبر پہنچنے یا نہ پہنچنے ابوسفیان کا مکہ میں اعلان کا سوال ہی نہیں تھا.گھبرایا ہوا مکہ میں داخل ہوا اور یہ دو.کہتا جاتا تھا لوگو! اپنے اپنے گھروں کے دروازے بند کر لو.لوگو! اپنے اپنے ہتھیار پھینکو لوگو! خانہ کعبہ میں چلے جاؤ.بلال کا جھنڈا کھڑا ہوا ہے اُس کے نیچے کھڑے ہو جانا.اتنے میں لوگوں نے دروازے بند کرنے شروع کر دیئے اور بعض نے خانہ کعبہ میں گھسنا شروع کیا.لوگوں نے ہتھیار باہر لالا کر پھینکنے شروع کئے.اتنے میں اسلامی لشکر شہر میں داخل ہوا اور لوگو بلال کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے.۲۲ اس واقعہ میں جو سب سے زیادہ حضرت بلال کا جھنڈا کھڑا کرنے میں حکمت عظیم الشان بات ہے وہ بلال کا جھنڈا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلال کا جھنڈا بناتے ہیں اور فرماتے ہیں جو شخص بلال کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو جائے گا اُس کو پناہ دی جائے گی حالانکہ سردار تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا ، آپ کے بعد قربانی کرنے والے ابوبکر تھے مگر ابو بکر کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا، اُن کے بعد مسلمان ہونے والے رئیس عمرہ تھے مگر عمر کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا، اُن کے بعد عثمان بن مقبول تھے اور آپ کی کے داماد تھے مگر عثمان کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا ، اُن کے بعد علی تھے جو آپ کے بھائی بھی تھے اور آپ کے داماد بھی تھے مگر علی کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا ، پھر عبد الرحمن بن عوف وہ شخص تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آپ وہ شخص ہیں کہ جب تک آپ زندہ ہیں مسلمان قوم میں اختلاف نہیں ہو گا لیکن عبد الرحمن کا کوئی جھنڈا نہیں بنایا جاتا ، پھر عباس آپ کے چچا تھے اور بعض دفعہ وہ گستاخی بھی کر لیتے تو آپ خفا نہ ہوتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا بھی کوئی جھنڈا نہیں بنایا، پھر سارے رؤساء اور چوٹی کے آدمی موجود تھے ، خالد بن ولید جو ایک سردار کا بیٹا خود بڑا نامور انسان تھا موجود تھا، عمر و بن عاص ایک سردار کا بیٹا تھا اسی طرح اور بڑے بڑے سرداروں کے بیٹے تھے مگر ان میں سے کسی ایک کا بھی جھنڈا نہیں بنایا جاتا.جھنڈا بنایا جاتا ہے تو بلال کا بنایا جاتا ہے کیوں؟ اسکی کیا وجہ تھی ؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ خانہ کعبہ پر جب حملہ ہونے لگا تھا ابو بکر دیکھ رہا تھا کہ جن کو
۵۶۲ مارا جانے والا ہے وہ اُس کے بھائی بند ہیں اور اُس نے خود بھی کہہ دیا تھا کہ يَا رَسُولَ اللهِ! کیا اپنے بھائیوں کو ماریں گے.وہ ظلموں کو بھول چکا تھا اور جانتا تھا کہ یہ میرے بھائی ہیں.عمر بھی کہتے تو یہی تھے کہ يَا رَسُولَ اللهِ! اِن کافروں کو ماریئے مگر پھر بھی جب آپ اُن کو معاف کرنے پر آئے تو وہ اپنے دل میں یہی کہتے ہونگے کہ اچھا ہوا ہمارے بھائی بخشے گئے ، عثمان اور علی بھی کہتے ہونگے کہ ہمارے بھائی بخشے گئے انہوں نے ہمارے ساتھ سختیاں کر لیں تو کیا ہوا.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُن کو معاف کرتے وقت یہی سمجھتے ہو نگے کہ اُن میں میرے چا بھی تھے بھائی بھی تھے ، ان میں میرے داماد ، عزیز اورشتہ دار بھی تھے اگر میں نے ان کو معاف کر دیا تو اچھا ہی ہوا میرے اپنے رشتہ دار بچ گئے.صرف ایک شخص تھا جس کی مکہ میں کوئی رشتہ داری نہیں تھی ، جس کی مکہ میں کوئی طاقت نہ تھی ، جس کا مکہ میں کوئی ساتھی نہ تھا اور اُس کی بیکسی کی حالت میں اُس پر وہ ظلم کیا جاتا جو نہ ابو بکر" پر ہوا، نہ علی پر ہوا ، نہ عثمان پر ہوا، نہ عمرہ پر ہوا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی نہیں ہوا.جلتی اور تپتی ہوئی ریت پر بلال نگا لٹا دیا جاتا تھا.تم دیکھو ! ننگے پاؤں بھی مئی اور جون میں نہیں چل سکتے.اُس کو ننگا کر کے تپتی ریت پر لٹا دیا جا تا تھا، پھر کیلوں والے جوتے پہن کر نو جوان اُس کے سینے پر ناچتے تھے اور کہتے تھے کہو خدا کے سوا اور معبود ہیں، کہو محمد رسول اللہ جھوٹا ہے اور بلال آگے سے اپنی حبشی زبان میں جب وہ بہت مارتے تھے کہتے اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا الله.وه شخص آگے سے یہی جواب دیتا تھا کہ تم مجھ پر کتنا بھی ظلم کرومیں نے جب دیکھ لیا ہے کہ خدا ایک ہے تو دو کس طرح کہہ دوں.اور جب مجھے پتہ ہے کہ محمد رسول اللہ خدا کے سچے رسول ہیں تو میں انہیں جھوٹا رکس طرح کہہ دوں.اس پر وہ اور مارنا شروع کر دیتے تھے.مہینوں گرمیوں کے موسم میں اُس کے ساتھ یہی حال ہوتا تھا.اسی طرح سردیوں میں وہ یہ کرتے تھے کہ اُن کے پیروں میں رسی ڈال کر انہیں مکہ کی پتھروں والی گلیوں میں گھسیٹتے تھے.چمڑا اُن کا زخمی ہو جاتا تھا.وہ گھسیٹتے تھے اور کہتے تھے کہو جھوٹا ہے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہو خدا کے سوا اور معبود ہیں.تو وہ کہتے اَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلهَ إِلَّا الله.اب جب کہ اسلامی لشکر دس ہزار کی تعداد میں داخل ہونے کیلئے آیا.بلال کے دل میں خیال آیا ہو گا کہ آج اُن بوٹوں کا بدلہ لیا جائے گا.آج اُن ماروں کا معاوضہ مجھے ملے گا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو گیا وہ معاف ، جو
۵۶۳ خانہ کعبہ میں داخل ہو گیا وہ معاف ، جس نے اپنے ہتھیار پھینک دیئے وہ معاف ، جس نے اپنے گھر کے دروازے بند کر لئے وہ معاف تو بلال کے دل میں خیال آتا ہو گا کہ یہ تو اپنے سارے بھائیوں کو معاف کر رہے ہیں اور اچھا کر رہے ہیں لیکن میرا بدلہ تو رہ گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آج صرف ایک شخص ہے جس کو میرے معاف کرنے سے تکلیف پہنچ سکتی ہے اور وہ بلال ہے کہ جن کو میں معاف کر رہا ہوں وہ اُس کے بھائی نہیں.جو اُس کو دکھ دیا گیا ہے وہ اور کسی کو نہیں دیا گیا.آپ نے فرمایا میں اس کا بدلہ لونگا اور اس طرح لونگا کہ میری نبوت کی بھی شان باقی رہے اور بلال کا دل بھی خوش ہو جائے.آپ نے فرمایا بلال کا جھنڈا کھڑا کرو اور اُن مکہ کے سرداروں کو جو جوتیاں لے کر اُس کے سینہ پر نا چا کرتے تھے، جو اُس کے پاؤں میں رسی ڈال کر گھسیٹا کرتے تھے ، جو اُسے تپتی ریتوں پر لٹایا کرتے تھے کہدو کہ اگر اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جان بچانی ہے تو بلال کے جھنڈے کے نیچے آجاؤ.میں سمجھتا ہوں جب سے دُنیا پیدا ہوئی ہے، جب سے انسان کو طاقت حاصل ہوئی ہے اور جب سے کوئی انسان دوسرے انسان سے اپنے خون کا بدلہ لینے پر تیار ہوا ہے اور اُس کو طاقت ملی ہے اس قسم کا عظیم الشان بدلہ کسی انسان نے نہیں لیا.جب بلال کا جھنڈا خانہ کعبہ کے سامنے میدان میں گاڑا گیا ہو گا ، جب عرب کے وہ رؤساء جو اُسکو پیروں سے مسلا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے بولتا ہے کہ نہیں کہ محمد رسول اللہ جھوٹا ہے جب وہ دوڑ دوڑ کر اور اپنے بیوی بچوں کے ہاتھ پکڑ پکڑ کر اور لالا کے بلال کے جھنڈے کے نیچے لاتے ہونگے کہ ہماری جان بچ جائے تو اُس وقت بلال کا دل اور اُس کی جان کس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نچھاور ہو رہی ہوگی.وہ کہتا ہو گا میں نے تو خبر نہیں ان کفار سے بدلہ لینا تھا یا نہیں یا لے سکتا تھا کہ نہیں اب وہ بدلہ لیا گیا ہے کہ ہر شخص جس کی جوتیاں میرے سینہ پر پڑتی تھیں اُس کے سر کو میری جوتی پر مجھکا دیا گیا ہے.یہ وہ بدلہ تھا جو یوسف کے حضرت یوسف کے بدلہ سے زیادہ شاندار بدلہ بدلہ سے بھی زیادہ شاندار تھا اس لئے کہ یوسف نے اپنے باپ کی خاطر اپنے بھائیوں کو معاف کیا تھا.جس کی خاطر کیا وہ اُس کا باپ تھا اور جن کو کیا وہ اُس کے بھائی تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چوں اور بھائیوں کو ایک غلام کی جوتیوں کے طفیل معاف کیا.بھلا یوسف کا بدلہ اس کے مقابلہ
۵۶۴ میں کیا حیثیت رکھتا ہے.غرض یہ دوسری خبر تھی نوبت خانہ کی اور پھر کیسی عظیم الشان خبر دی کہ دو سال پہلے بتا دیا جاتا ہے کہ یہ یہ حالات پیدا ہونے والے ہیں.کفار کی طرف سے معاہدہ شکنی ہوگی.تم حملہ کیلئے جاؤ گے اور انہیں تباہ کر کے اسلامی حکومت کو قائم کر دو گے.قرآنی نوبت خانہ کی تیسری خبر اب تیسری خبر میں مثال کے طور پر پیش کرتا ہوں.عرب کا ملک ایسا ویران تھا اور ایسا بنجر اور ناقص تھا کہ اُس کی طرف کوئی نظر اُٹھا کے نہیں دیکھتا تھا.مؤرخین نے بحث کی ہے کہ سکندر نے ساری دنیا فتح کی لیکن عرب فتح نہیں کیا اس کی کیا وجہ تھی ؟ وہ کہتے ہیں اُس نے اسکو اس لئے نہیں چھوڑا کہ عرب کوئی طاقتور ملک تھا بلکہ اِس لئے چھوڑا تھا کہ یہ ہڈی کتنے کے قابل تھی سکندر کے قابل نہیں تھی.اس میں کوئی چیز ہی نہیں تھی پھر سکندر نے وہاں کیوں جانا تھا، یہ ہڈی اُس کے کھانے کے قابل ہی نہیں تھی.پھر قیصر و کسریٰ اِدھر بھی لڑتے تھے اُدھر بھی لڑتے تھے مگر عرب کو چھوڑ دیتے تھے.یمن کو لے لیتے تھے کیونکہ وہ ذرا آباد ملک تھا مگر عرب کو چھوڑ دیتے تھے اور کہتے تھے ہم نے اس صحراء کو لے کر کیا کرنا ہے.غرض ہزاروں سال سے عرب کے قبائل آزاد چلے آتے تھے اِس لئے نہیں کہ اُن میں دم خم تھا بلکہ اس لئے آزاد چلے آتے تھے کہ عرب کے اندر کچھ رکھا ہی نہیں تھا کہ کوئی وہاں جائے اور اُسے فتح کرے.ایسے زمانہ میں جبکہ عرب دنیا میں نہایت ذلیل ترین سمجھا جا رہا تھا ، الہی نوبت خانہ میں نوبت بجتی ہے اور وہاں سے آواز آتی ہے قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوُنَ إِلى قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ وَأُخْرَى لَمْ تَقْدِرُوا عَلَيْهَا قَدْ أَحَاطَ اللَّهُ بِهَا.قیصر وکسرای کی لڑائیوں میں غلبہ اور اُس وقت جبکہ مسلمان ناکام ہو کر آتے ہیں، جب مکہ والے عمرہ کی بھی اجازت نہیں دیتے کامیابی حاصل کرنے کی پیشگوئی اُسوقت جبکہ وہ ایسا معاہدہ کر کے آتے ہیں کہ حضرت عمررؓ بھی سمجھتے ہیں کہ ہماری ناک کٹ گئی اور کہتے ہیں يَا رَسُولَ اللہ ! ہم تو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے اُسوقت اللہ تعالیٰ ایک تو یہ خبر دیتا ہے کہ یہ معاہدہ توڑیں گے اور تم انہیں فتح کرو گے.پھر یہ خبر دیتا ہے کہ دیکھو! کچھ لوگ آج ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوئے اُن کو بتا دو کہ اب عرب کی جنگ تو ختم ہوئی ، یہ ملک تو
۵۶۵ ہم نے فتح کر لیا مگر اس کے بعد باہر سے اور قومیں آئینگی جو ان سے بھی زیادہ لڑنے والی ہیں اُن سے تمہارا مقابلہ ہو گا اور اُن کے مقابلہ میں بھی یہ نتیجہ نکلے گا کہ جب تم لڑو گے تو اُس وقت تک تمہاری لڑائی جاری رہے گی جب تک کہ وہ ہتھیار پھینکنے پر مجبور نہ ہو جائیں.یہ قیصر اور کسری کی جنگوں کی خبر دی گئی ہے اور تمام صحابہ اور مسلمان مفسرین اس پر متفق ہیں کہ یہ خبر اس بات کے متعلق تھی کہ آئندہ ان سے لڑائی ہونے والی ہے.اب اِن ملکوں کو اُسوقت تک عرب کا کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا وہ تو سمجھتے تھے کہ اس قابل ہی نہیں کہ ہم اس کو فتح کریں.اردگرد کے تمام سرسبز و شاداب علاقے پہلے سے اُن کے قبضہ میں تھے اور بیچ کا صحراء اُن کے لئے کوئی قیمت نہیں رکھتا تھا مگر فرماتا ہے ہم تم سے اُن کی جنگ کروائیں گے اور وہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونگے.اسی طرح اس میں یہ بھی خبر دی گئی تھی کہ عرب مالی طور پر اتنا تر قی کر جائے گا کہ جو تو میں پہلے اُسے ذلیل سمجھتی تھیں وہ اُس کی اہمیت کو محسوس کرنے لگ جائیں گی.اب یہ عجیب خبر دیکھ لو کہ آٹھ سالہ جنگوں کے نتیجہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانہ میں قیصر نے حملہ کرنا شروع کیا اور حضرت ابو بکر کے زمانہ میں کسری نے حملہ کرنا شروع کیا اس کے بعد جنگیں اتنی بڑھیں کہ قیصر بھی تباہ ہو گیا اور کسری بھی تباہ ہو گیا اور وہ خبر پوری ہو گئی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے آگے بیان فرمائی تھی کہ قَدْ اَحَاطَ اللَّهُ بِهَا یعنی اللہ تعالٰی نے انہیں تباہ کرنے کی پہلے سے خبر دے رکھی ہے.یہ عجیب بات ہے کہ اسلامی اسلامی نوبت خانہ کی ایک امتیازی خصوصیت نوبت خانہ کا کمال اتنا بڑھا ہوا تھا کہ آٹھ سالہ جنگوں میں چھ سات جنگوں میں کفار نے مکہ سے حملہ کیا اور بڑی بڑی احتیاطوں کے ساتھ حملہ کیا لیکن ایک بھی ایسا حملہ ثابت نہیں جس کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر نہ مل چکی تھی اور ہیں تمہیں حملے محمد رسول اللہ نے اُن کے علاقہ پر کئے اور اُن میں سے ایک بھی حملہ ایسا نہیں جسکی خبر انہیں پہلے سے ملی ہو.یہ کتنا بڑا شاندار نشان ہے.اِن کا نوبت خانہ کتنا شاندار ہے کہ فور اخبر پہنچا دیتا ہے اور اُن کا نوبت خانہ کس طرح تباہ کر دیا جاتا ہے اور کمزور کر دیا جاتا ہے کہ ایک لڑائی کی خبر بھی تو مکہ والوں کو پہلے نہیں ملتی کہ حملہ ہو جائے گا.بلکہ اسلامی لشکر اُن کے سروں پر جا پہنچتا تھا اور بعض دفعہ وہ گھروں میں اِدھر اُدھر پھر رہے ہوتے تھے کہ پتہ لگتا اسلامی لشکر پہنچ گیا ہے پہلے پتہ ہی نہیں لگتا تھا.
نوبت خانوں کی دوسری غرض دوسرا کام کو بت خانہ سے یہ لیا جاتا تھا کہ خبر دی جاتی تھی کہ شاہی فوج آ رہی ہے.نوبت خانے اس لئے بجائے جاتے تھے کہ والٹیر اکٹھے ہو جائیں اور دوسرے نوبت خانے اسلئے بجائے جاتے تھے کہ دھم دھم کی آواز جوش پیدا کرتی ہے اور گھوڑے بھی ہنہنانے لگ جاتے ہیں.جیسے انگریزی فوجوں میں نوبت خانوں کی بجائے بینڈ بجایا جاتا ہے اور اُس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کے اندر جوش پیدا ہو اور وہ قربانی کے لئے تیار ہو جا ئیں.بعض جگہ باجے بھی ہوتے ہیں یا نفیریاں ۲۹ بھی ہوتی ہیں اور پرانے زمانہ میں تو ڈھول استعمال ہوتے تھے یا نفیریاں استعمال ہوتی تھیں اور اب بینڈ استعمال ہوتا ہے.میں نے دیکھا کہ واقع میں یہ ایک بڑی شاندار کیفیت ہوتی ہوگی جب دتی کا لشکر حیدر آباد کی طرف چلتا ہو گا تو جب وہ بڑی بڑی دفیں بجتی ہونگی اور آواز پہنچتی ہوگی تو تمام ملک میں ایک شور مچ جاتا ہوگا اور ہر شخص دیکھتا ہو گا کہ اُن کے گھوڑے پیر مارتے ہوئے اور آگ نکالتے ہوئے سڑکوں پر سے چلے آرہے ہیں اور انتظار کرتا ہوگا رہے ہیں اور انتظار کرتا ہو گا کہ اکبر یا شاہ جہان یا چنگیز کی فوجیں روانہ ہوتی ہوں گی اور پھر ہزاروں ہزار کا ریلا چلتا ہوگا.لیکن جب میں نے غور کر کے دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ نوبت خانوں کی یہ بات بڑی مصنوعی چیز تھی.ایک تو میں نے دیکھا کہ لڑائی میں انسانوں کا خون بہنا معمولی چیز نہیں اِس کے لئے انسان کوئی حکمت بتا تا ہے ،غرض بتا تا ہے، اس کے فوائد بتاتا ہے، اسکے جواز کی دلیلیں بتا تا ہے لیکن یہاں محض ڈھول پیٹ کر خونریزی کو جائز قرار دیا جاتا تھا حالانکہ محض ڈھول پیٹنے سے اور دھم دھم دھم سے کیا بنتا ہے.پھر میں نے دیکھا کہ بعض دفعہ بڑے بینڈ بجتے تھے اور فوجیں بازاروں میں پریڈ کرتی تھیں اور لوگ نعرے لگاتے تھے کہ سپاہیو ! شاباش ! ملک کی حفاظت کے لئے مر جاؤ.اور یہ سارا دھوکا ہوتا تھا کیونکہ جس کو مارنے کیلئے وہ جا رہے ہوتے تھے وہ ایک معمولی سی حکومت ہوتی تھی اور ظاہر یہ کیا جاتا تھا کہ ہماری فوج نکلے گی اور قتل عام کرتی چلی جائے گی اور اُسے فتح کرے گی اور یوں اپنی بہادری اور دلیری کا سکہ بٹھا دے گی.مثلاً جرمنی میں اعلان ہو رہا ہے کہ اے جرمن والو ! تم نے اپنے ملک کی حفاظت کرنی ہے اور لڑنے چلے ہیں پولینڈ سے جو ایک تھپڑ کی مار ہے.انگلستان میں اعلان ہو رہا ہے کہ آجاؤ انگلستان والو! تم بڑے ظالمانه خونریزی غلط پروپیگنڈہ
۵۶۷ بہادر ہو ، تمہاری روایتیں بڑی مشہور ہیں اور جا رہے ہیں شیر شاہ سے لڑنے کے لئے اور کہا جا رہا ہے کہ شاباش انگریز و ! تم اتنے بہادر ہو حالانکہ مقابل میں چند ہزار آدمی ہیں اور جا رہا ہے اتنے بڑے ملک کا لشکر.پھر اُس کے پاس ایک گولی ہوتی تھی تو ان کے پاس سو گولی ہوتی تھی لیکن ظاہر یہ کرتے تھے کہ ہماری قوم اور ملک خطرہ میں ہیں پس اے بہادر و! اپنے ملک کی عزت کو بچاؤ حالانکہ عزت بچانے کا تو کوئی سوال ہی نہیں.جائیں گے تو یونہی ختم کر دیں گے.جیسے میں نے بتایا ہے انگریزوں نے ٹرانسوال پر حملہ کیا یا جرمنوں نے زیکو سکوا کیا اور پولینڈ پر حملہ کیا اور ظاہر یہ کیا کہ ہماری عزت خطرہ میں ہے ہماری عزت برباد ہو گئی ہے حکومتیں ہمارے خلاف بڑے منصوبے کر رہی ہیں.یا روس نے فن لینڈ پر حملہ کیا نقشہ پر بھی دیکھو تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے باز کے منہ میں پڑی.مگر فن لینڈ پر حملہ کیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ فلاں جرنیل کو مارشل بنایا جاتا ہے اور وہ فن لینڈ کی لڑائی کے لئے جا رہا ہے.فلاں جرنیل کو بھیجا جا رہا ہے اور وہ اتنا مشہور ہے.لاکھوں کی فوج بھجوائی جارہی ہے حالانکہ فن لینڈ بیچارے کے سارے سپاہی دس ہزار سے زیادہ نہیں اور دس لاکھ کا لشکر بھجوایا جا رہا ہے اور سارے ملک میں اعلان ہو رہا ہے کہ اُٹھو ! اٹھو! ما روا ما رو! وہ ہمیں مار چلا ہے اور ہم مجبور ہیں کہ اُس کا مقابلہ کریں.غرض اس قسم کے اعلانات میں کوئی عقل نظر نہیں آتی تھی.پس یہ نوبت خانہ کیا ہے یہ لوگوں سے ایک تمسخر ہے اور محض ایک کھیل بنائی گئی ہے یا ایک دھوکا ہے جو دیا جا رہا ہے.نا جائز حملے اور بعض دفعہ میں نے دیکھا کہ ظالمانہ حملے ہوتے تھے.لوگوں کا کوئی قصور ہی نہیں ہوتا تھا یو نہی حملہ کر دیا جاتا تھا لیکن کہا یہ جاتا تھا کہ ہم مظلوم ہیں اور ہوتا تھا دوسرا مظلوم.مثلاً انگریزوں نے ٹیپو سلطان پر حملہ کر دیا حالانکہ ٹیپو نے اُن کا کچھ بھی نہیں بگاڑا تھا انہوں نے میسور کو ہضم کرنا چاہا.گویا اُن کی بھیڑیا اور بکری والی مثال تھی.کہتے ہیں ایک نہر سے بکری اور بھڑ یا پانی پی رہے تھے بکری نیچے کی طرف پی رہی تھی اور بھڑیا اوپر کی طرف پی رہا اور پی تھا.اُس کا جو بکری کھانے کو دل چاہا تو بکری سے کہنے لگا دیکھو! میرا پانی گدلا کرتی ہو شرم نہیں آتی اس قدر گستاخی کرتی ہو.بکری نے کہا جناب ! میں پانی گدلا کیسے کر سکتی ہوں آپ او پر پانی پی رہے ہیں اور میں نیچے پی رہی ہوں آپ کا پیا ہوا میری طرف آرہا ہے میرا پیا ہوا آپ کی طرف نہیں جا رہا.اس پر جھٹ اُسے پنجہ مار کر کہنے لگا گستاخ ! بے ادب ! آگے سے جواب دیتی ہے
۵۶۸ اور پھاڑ کر کھا لیا.وہی حالت یہاں تھی.انگریزوں نے بھی بہانہ بنا کر ٹیپو سلطان پر حملہ کر دیا.یا بنگال کا بادشاہ سراج الدولہ تھا اُس کا کوئی قصور نہیں تھا.انگریزی تاریخیں خود بھی مانتی ہیں کہ ایک ہندو سے جھوٹے خط لکھوائے گئے اور اُن خطوں کی بناء پر سراج الدولہ پر حملہ کر دیا گیا.نہ بیچارے کے پاس کوئی طاقت تھی نہ حکومت تھی.انگریزوں کے پاس ہر قسم کے سامان تھے تو ہیں بھی تھیں ، گولہ بارود بھی تھا، منظم فوج بھی تھی یونہی بہانہ بنا کے لے لیا.پھر غدر کی لڑائی کو دیکھ لو.مسلمان بادشاہ کی تو قلعہ سے باہر حکومت ہی نہیں اور یہ سارے ہندوستان کے بادشاہ اُس پر چڑھ کر گئے.بھلا اُس کے پاس کونسی حکومت تھی لیکن غدر کا حال پڑھو تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ انگلستان روس کی لڑائی ہو رہی ہے اور اس کو اتنا شاندار دکھایا جاتا ہے کہ وہ مصائب انگریزوں پر پڑے اور ایسی ایسی مشکلات پیش آئیں اور انگریزوں نے وہ وہ قربانیاں کیں حالانکہ وہ بیچارہ ایک شطرنج کا بادشاہ تھا ، دو چار دن اُس کا محاصرہ رکھا اور پھر اُسے پکڑ کر لے گئے اور اس کے بچوں کو پھانسیاں دے دیں.تو میں نے دیکھا کہ بہت کچھ اس میں مبالغہ آرائی کی جاتی تھی.پھر میں نے دیکھا کہ باوجود اس کے کہ مد مقابل چھوٹا ہوتا تھا خلاف امید شکست مظلوم ہوتا تھا پھر بھی بعض دفعہ نتائج اُن کے خلاف نکل آتے تھے.جیسے پولینڈ پر جرمن نے حملہ کیا اور اُن کی مدد کے لئے انگریز اور فرانس آگئے ، آخر جرمن تباہ ہو گیا.فن لینڈ پر روس نے حملہ کیا اور انگلستان اور فرانس نے اس کو مدد دینی شروع کر دی چنانچہ باوجود اس کے کہ فوج اُس کے پاس تھوڑی تھی اُس کو اتنا سامانِ جنگ مل گیا کہ روس نے اُس سے صلح کر لی.تو کئی دفعہ میں نے دیکھا کہ نوبت خانوں کے نتائج کچھ اور نکلتے ہیں.ظاہر تو وہ یہ کرتے ہیں کہ ہم یوں کر دیں گے اور ڈوں کر دیں گے لیکن جب جاتے ہیں تو درمیان میں کوئی روک پیدا ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں باوجود اس کے پڑی ہونے کے وہ بھی اُس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے.غرض ان حملوں میں : (۱) بسا اوقات ظلم کا پہلو ہوتا تھا.(۲) بعض اوقات محض نمائش ہوتی تھی ، بالمقابل کوئی طاقت ہوتی ہی نہیں تھی.ایک کمزور سی ہستی کو چُن کر دنیا پر رعب ڈالنے کے لئے ظاہر کیا جاتا تھا کہ گویا ایک بہت بڑے دشمن کی سرکوبی کے لئے تیاری کی گئی ہے.(۳) لیکن پھر بھی نتیجہ قطعی نہ ہوتا تھا.بعض دفعہ باوجود اس کے کہ دوسرا فریق چھوٹا اور کمزور
۵۶۹ ہوتا تھا اس وجہ سے کہ وہ مظلوم ہوتا تھا دوسری زبر دست طاقتیں کمزور کی مدد کو آ جاتیں اور ساری نمائش دھری کی دھری رہ جاتی.نوبت خانوں کی بعض اور خامیاں (۴) چوتھی بات میں نے یہ دیکھی کہ یہ نوبت خانے صرف دنیوی شمکس کیلئے بجائے جاتے تھے اخلاقی اور روحانی قدروں کے بچانے کی اُس میں کوئی صورت نہیں ہوتی تھی.لڑائیاں محض ڈ نیوی فوائد اور ڈ نیوی اغراض کے لئے ہوتی تھیں.(۵) میں نے دیکھا کہ یہ نوبت خانے جو بجتے تھے ذاتی اغراض کے لئے بجائے جاتے تھے.دوسری اقوام اور دوسرے مذاہب کے حقوق کا بالکل لحاظ نہ ہوتا تھا اور نفسانیت کے علاوہ بنی نوع انسان کی ہمدردی کا اس سے کوئی تعلق نہ ہوتا تھا.(۶) میں نے دیکھا کہ اگر واقع میں کوئی خرابی بھی ان حملوں کا باعث ہوتی تھی یعنی واقع میں اُس قوم نے کوئی ظلم کیا ہوتا تھا تو فتح کے بعد اس ظلم کی اصلاح نہیں ہوتی تھی صرف اُس کا رنگ بدل جاتا تھا.فرض کرو ہندوستان کی کسی ریاست نے انگریزوں پر ظلم بھی کیا ہوتا تھا اور اس جنگ کے بعد یہ نہیں ہوتا تھا کہ ظلم مٹ گیا بلکہ یہ ہوتا تھا کہ پہلے انگریزوں پر ظلم ہوتا تھا پھر ہندوستانیوں پر ظلم شروع ہو جا تا تھا.ظلم بہر حال قائم رہتا تھا.( ۷ ) ان نوبت خانوں سے بعض دفعہ اپنے لوگوں کو ہمت دلانے کیلئے یہ بھی اعلان کئے جاتے تھے کہ مثلاً فرانس لڑائی کا اعلان کرتا تو کہتا انگریز بھی میری مدد کے لئے آ رہا ہے فلاں ملک بھی میری مدد کے لئے آرہا ہے.ایران اعلان کرتا تو کہتا چین کی فوجیں بھی میری مدد کے لئے آ رہی ہیں.ہندوستان کی فوجیں بھی میری مدد کے لئے آ رہی ہیں.افغانستان کی فوجیں بھی میری مدد کے لئے آ رہی ہیں.غرض دنیوی مدد اور تائید پر بڑا بھروسہ ظاہر کیا جاتا گویا اقرار کیا جاتا تھا کہ بغیر ان دُنیا کی تائیدوں کے ہم فتح نہیں پاسکتے.دنیوی نوبت خانوں کے مقابلہ اب میں نے دیکھا کہ کیا اسلام نے بھی اسکے مقابلہ میں کوئی نوبت خانہ بجایا ہے جس نے بتایا ہو کہ اب اسلامی لشکر آگے بڑھتا ہے اپنے آدمیوں کو کہو کہ تیار میں اسلام کا شاندار نوبت خانہ ہو جاؤ.تو میں نے دیکھا کہ قرآن میں یہ نوبت خانہ بج رہا ہے اُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللهَ عَلى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ :
۵۷۰ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدٍ مَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَواتٌ وَّ مَسْجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَ لَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزُهِ الَّذِينَ إِنْ مَّكَّنْهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَآتَوُا الزَّكَوةَ وَاَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِه یہ نوبت خانہ ڈھم ڈھم ڈھم سے نہیں بجایا جاتا یہ ایسے الفاظ کے ساتھ بجایا گیا ہے جن میں حقائق بیان کئے گئے ہیں.اسلام کا اعلانِ جنگ اور اُس کی اہم اغراض اس میں بتایا گیا ہے کہ :- اول یہ اعلان جنگ جو کیا جا رہا ہے جارحانہ نہیں ہے بلکہ مدافعانہ ہے.ہم کسی قوم پر خود حملہ کرنا جائز نہیں سمجھتے ہمیں جب مجبور کیا جائے اور ہم پر حملہ کیا جائے تو ہم اپنی جان اور مال اور عزت اور دین کے بچانے کے لئے اُس سے لڑنا جائز سمجھتے ہیں اس لئے وہ لوگ جن پر حملہ کیا گیا، جن کو دُکھ دیئے گئے ، اُن کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ نکلیں اور دشمن کا مقابلہ کریں.دوم اس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ دشمن زبر دست ہے اُس نے ان لوگوں کو جن کے لئے طبل جنگ بجایا گیا ہے گھروں سے نکال کر ملک بدر کر دیا تھا اور یہ لوگ اُن کے خلاف ایک انگلی تک نہیں ہلا سکتے تھے چنانچہ ان کی کمزوری کی مثال دیکھ لو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مکہ میں مسلمانوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے تو آپ نے صحابہ کو بلایا اور فرمایا تم لوگ یہ تکلیفیں برداشت نہیں کر سکتے مجھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کی اجازت نہیں تم ہجرت کر جاؤ.صحابہ نے کہا.يَا رَسُولَ اللهِ ! ہمیں کون ملک پناہ دے گا ؟ آپ نے فرمایا سمندر پار حبشہ کا ایک ملک ہے اُس میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا بادشاہ مقرر کیا ہے جو انصاف پسند ہے اُس میں چلے جاؤ.چنا نچہ بعض صحابہ نے فیصلہ کر لیا کہ اس ملک میں ہجرت کر کے چلے جائیں.اُن میں ایک صحابی اور اُن کی بیوی بھی تھیں.وہ جانتے تھے کہ انہوں نے ہمیں ہجرت بھی نہیں کرنے دینی جیسے پارٹمیشن کے موقع پر ہوا تھا کہ جو لوگ ہجرت کر کے آنا چاہتے تھے اُن کو بھی ہندو اور سکھ نہیں آنے دیتے تھے.اسی طرح وہ لوگ جانتے تھے کہ مکہ والوں نے ہمیں ہجرت کر کے نہیں جانے دینا اس لئے رات کے وقت وہاں سے بھاگتے تھے تا کہ کسی طرح بچ کے نکل جائیں.ایک دن ایک مسلمان اور ان کی بیوی نے فیصلہ کیا کہ ہم ہجرت کر جائیں اور فیصلہ کیا کہ رات
۵۷۱ کے وقت ہم دونوں اونٹ پر سوار ہو کر چلے جائیں گے.حضرت عمرؓ اُس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے.وہ چونکہ حفاظت مکہ پر مقرر تھے وہ رات کو مکہ کا پہرہ دیا کرتے تھے کہ دیکھیں کیا حالت ہے شہر میں کوئی مخالفانہ رویہ تو نہیں.وہ گشت لگاتے لگاتے پہنچے تو یہ لوگ اونٹ پر اسباب لاد رہے تھے حضرت عمرؓ اُس وقت تک اسلام کے سخت مخالف تھے انہیں شبہ ہوا کہ یہ بھا گنا چاہتے ہیں.چنانچہ اُس عورت کو مخاطب کر کے کہنے لگے کیوں بی بی ! کیا منتیں ہیں اور کدھر کے ارادے ہیں ؟ خاوند نے ٹلا کر کچھ اور بات کہنی چاہی مگر عورت کے دل کو زیادہ چوٹ لگی.وہ آگے سے غصہ سے کہنے لگی عمر! یہ بھی کوئی انصاف ہے کہ ہم تمہارے شہر میں تمہارا کچھ بگاڑتے نہیں ، کوئی شرارت نہیں کرتے ، تمہارے ساتھ لڑائی نہیں کرتے ، دنگا نہیں کرتے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہتے ہیں اور تم وہ بھی نہیں کرنے دیتے اور ہم یہاں سے جانا چاہتے ہیں تو تم ہمیں جانے بھی نہیں دیتے، ظلم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے.آدھی رات کو ایک عورت کو اونٹ پر سامان لا دتے دیکھ کر حضرت عمرؓ کے دل کو چوٹ لگی آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور منہ پھیر لیا.پھر پیٹھ پھیر کر اُن کا نام لیا اور کہنے لگے بی بی! اللہ تمہارے ساتھ ہو جاؤ اسے گویا یہ حالت تھی اُن لوگوں کی کہ اُن کو نکلنے بھی نہیں دیا جاتا تھا اور اُن کے لئے ملک چھوڑنے کے لئے بھی کوئی آزادی نہیں تھی اور جب وہ اپنا ملک چھوڑ کر غیر ملکوں میں چلے گئے تو وہاں بھی حملہ کیا.حبشہ گئے تو وہاں اُن کو لینے کے لئے آدمی پہنچے.مدینہ گئے تو وہاں حملہ شروع کر دیا.سوم ان لوگوں کو جو گھر سے نکالا گیا تھا تو اُن کے کسی جرم کی وجہ سے نہیں بلکہ بلا سبب مگر پھر بھی یہ لوگ اُف نہیں کر سکے اور پھر اُن کو نکال کر بس نہیں کی گئی بلکہ جس غیر ملک میں انہوں نے پناہ لی وہاں بھی جا کر حملہ کر دیا گیا.چہارم یہ اعلان کیا گیا کہ ان پر جو ظلم کئے جا رہے ہیں یہ کسی سیاسی وجہ سے نہیں کئے جا رہے کسی ملک یا علاقہ کا یہ لوگ مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ صرف اس لئے ان پر ظلم کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم اور حکومت کو کہ دیا ہے کہ ہم سیاسی آدمی نہیں ہیں.آپ جو کچھ ہمیں حکم دیں گے ہم آپ کی مانیں گے مگر جن امور کا تعلق مَا بَعْدَ الْمَوت سے ہے اُنکی تیاری کے لئے ہم کو آزاد چھوڑ دیا جائے کیونکہ جسموں کی بادشاہت حکومت کے پاس ہے مگر رُوح کی حکومت خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہے اس لئے حکومت ہمارے جسموں پر تو حکومت کرے مگر ہماری روحوں کو آزاد چھوڑ دے کہ ہم اپنے اللہ سے صلح کر لیں.مگر حکومت نے کہا نہیں ہم تمہارے جسموں پر
۵۷۲ بھی حکومت کریں گے اور تمہارے عقیدہ اور مذہب پر بھی حکومت کریں گے.پنجم اس اعلانِ جنگ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ جنگ ہم صرف ضمیر کی آزادی کیلئے نہیں کر رہے ،صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان کلمہ پڑھ سکے، صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان نماز پڑھ سکے، صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان روزے رکھ سکے،صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان حج کر سکے، صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان زکوۃ دے سکے بلکہ ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ عیسائی، یہودی اور مجوسی سب کو ان کے مذہب کی آزادی حاصل ہو جائے کیونکہ حریت ضمیر سب کا حق ہے صرف مسلمانوں کا حق نہیں.کسی قوم کا حق نہیں کہ ضمیر کو وہ اپنے لئے مخصوص کرلے اور باقیوں کو خریت دینے سے انکار کر دے.ششم اس اعلانِ جنگ میں یہ پہلے سے بتا دیا گیا تھا کہ گودشمن طاقتور ہے اور مسلمان کمزور ہیں لیکن فتح مسلمانوں کو ہی نصیب ہوگی اور دشمن کو شکست ہوگی.مسلمانوں کے غلبہ کی پیشگوئی اس سلسلہ میں اور اعلان بھی کئے گئے اور کہا گیا کہ الااِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ " چلو تم لوگ خدا کی خاطر مرنے کیلئے تیار ہو گئے ہو اور خدا تعالیٰ اپنی خاطر مرنے والوں کو خالی نہیں چھوڑے گا بلکہ وہ اُن کو مدد دے گا اور کامیاب کرے گا.پھر فرمایا فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغَلِبُونَ ٣٣ یقیناً خدا کا گروہ جو خدا کی خاطر لڑنے والا ہے وہی غالب آئے گا.مگر چونکہ اس طرح آپ نے اعلان کیا تھا کہ ہم کمزور ہیں.آپ نے اعلان کیا تھا کہ ان میں کوئی طاقت نہیں اور آپ نے اعلان کیا تھا کہ ان کو ملکوں سے نکال دیا گیا ہے پھر بھی یہ نہیں بول سکے گویا ان کی ہمت گرا دی گئی تھی کہ تم ہو تو بالکل ہی گھٹیا طرز کے غریب اور بے سامان لیکن ہم تم کو لڑائی کا حکم دیتے ہیں اسلئے اُن کے دلوں میں ایک مایوسی سی پیدا ہو سکتی تھی ہم تھوڑے بھی ہیں اور سامان بھی نہیں تو کیا بنے گا اس لئے فرمایا کہ بے شک جو باتیں ہم نے بتائی ہیں وہ تمہارے ظاہری حالات ہیں لیکن كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللهِ " یاد رکھو! بہت سی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں جو بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں.مگر کب ؟ جب اللہ تعالیٰ کا اُن کو حکم ہوتا ہے.گویا أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ کہ کر اس طرف اشارہ کیا کہ تم یہ سمجھو کہ تم اپنی طرف سے لڑنے نہیں جا رہے بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم سے لڑنے جا رہے ہو اور جب خدا کسی لڑائی کا حکم دیتا ہے تو چھوٹی جماعت ہمیشہ بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہے.اب میں اس آیت کے ٹکڑے ٹکڑے لے
۵۷۳ کر بتا تا ہوں کہ اس میں کیا مضمون بتایا گیا ہے.پہلے بتایا گیا ہے کہا اُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ ظلِمُوا.وہ لوگ جن سے لوگ بلا وجہ لڑائی کرتے ہیں اُن کو حکم دیا جاتا ہے کہ چونکہ اُن پر حملہ کیا گیا ہے اس لئے وہ لڑائی کے لئے نکلیں.وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ اور ہم اُن کو بتا دیتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ اُن میں لڑائی کی طاقت نہیں ہے مگر خدا میں طاقت ہے اور وہ اُن کی مدد کر سکتا ہے.الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِ هِمُ بِغَيْرِ حَقٍ وہ لوگ جو اپنے گھروں سے بغیر کسی قصور کے نکالے گئے اِلَّا اَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ.ہاں ان کا ایک ہی قصور تھا کہ وہ کہتے تھے اللہ ہمارا رب ہے وہ اپنے زمانہ کے مامور کی بات کو مانتے تھے اور خدا کی بات کہتے تھے.صرف اس بات پر لوگ کہتے تھے ان کو مارو.وَلَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمُ بِبَعْضٍ لَّهُدِ مَتْ صَوَامِعُ اور اس لئے اُن کو اجازت دی جاتی ہے کہ یہ صرف اپنے خدا کو راضی کرنا چاہتے ہیں اور اس زمانہ کی حکومت اور لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا کو راضی نہیں کرنے دیں گے تم ہم کو راضی کرو.دوسرے اِس لئے کہ اگر یہ طریق ظلم جاری ہو جائے تو پھر قوموں میں ہمیشہ ہی لڑائی رہے گی.عیسائی یہودی پر حملہ کرے گا اور کہے گا میں نہیں تم کو عبادت کرنے دیتا اور یہودی عیسائی کو کہے گا میں نہیں تم کو عبادت کرنے دیتا مسلمان کا فر کو کہے گا میں نہیں تم کو تیری عبادت کرنے دیتا کا فرمسلمان کو کہے گا میں نہیں تم کو تیری عبادت کرنے دیتا پھر خدا کا نام دنیا میں کوئی بھی نہ لے گا اور خدا کا خانہ خالی ہو جائے گا.آخر خدا کا نام مختلف قوموں نے لینا ہے مسلمان نے اپنے طور پر لینا ہے، یہودی نے اپنے طور پر لینا ہے ، مجوسی نے اپنے طور پر لینا ہے ، ہندو نے اپنے طور پر لینا ہے اور اگر دوسرے کو خدا کا نام نہیں لینے دیں گے تو بات ختم ہوئی ، کوئی بھی اُسکا نام نہیں لے گا.تو فرماتا ہے اگر ہم یہ طریق اختیار نہ کریں کہ ایسے موقع پر لڑائی کی اجازت دے دیں تو لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ صَوَامِعُ ان جگہوں کو کہتے ہیں جہاں لوگ عبادت کے لئے بیٹھتے ہیں جیسے ہمارے ہاں تکیے ہوتے ہیں.بیع بیع نصاری کی عبادت گاہوں کو کہتے ہیں.وَصَلَوات صلوۃ یہودیوں کی عبادت گاہ کو کہتے ہیں.عبرانی میں اُسے صلوٰۃ کہتے ہیں.اور مسلمانوں کی مساجد جن میں خدا کا نام لیا جاتا ہے یہ سب توڑی جاتیں.وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَّنْصُرُهُ اور جو لوگ خدا کا نام لینے والے ہیں وہ گویا خدا کے نام کو دنیا میں زندہ رکھ رہے ہیں اور جو خدا کے نام کو زندہ رکھے گا اُس کی خدا بھی مدد کریگا.اِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ اور یقیناً خدا بڑا زبردست اور غالب ہے.یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ان کو
۵۷۴ دنیا میں حکومت دی جائے تو یہ نمازیں قائم کریں گے اور ز کو تیں دیں گے اور امر بالمعروف کریں گے اور بُری باتوں سے لوگوں کو روکیں گے.وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ اور چونکہ یہ دنیا میں پھر خدا کی حکومت قائم کریں گے اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کولڑائی کی اجازت دے دی جائے.اسلام آزادی ضمیر کو چلنے کی اجازت نہیں دیتا یہ قرآن کریم نے نہیں آئندہ کے لئے سبق دیا ہے صرف اُس زمانہ ج کی بات نہیں بلکہ قرآن شریف نے پیشگوئی بیان کی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہ بتایا ہے کہ اگر مسلمان بچے طور پر مسلمان بنیں اور اس تعلیم پر عمل کریں جو خدا تعالیٰ نے بیان کی ہے اگر لوگوں کے ظلم برداشت کریں اور آپ ظالم نہ بنیں ، حریت ضمیر دیں حریت ضمیر چھینیں نہیں ، مسجدوں کو گرائیں نہیں ، معبدوں کو بند نہ کریں بلکہ ہر ایک کو مذہب کی آزادی دیں دُنیا میں انصاف اور امن کو قائم رکھیں اور ہر ایک کو اس کا حق دیں تو كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةٌ باذن الله ایسی قوم کو اللہ تعالیٰ تھوڑے ہونے اور بے سامان ہونے کے باوجود زیادہ تعداد والوں اور سامان والوں پر غلبہ دے دیا کرتا ہے.گویا اگر پاکستانی اس قسم کے مسلمان بن جائیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ اِنْ يَّكُنُ مِنْكُمُ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ، وَاِنْ يَّكُنُ مِنْكُمُ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمُ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ ٣٥ یعنی اگر تم میں سے ہیں صابر ہوں تو وہ دو سو آدمی پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے ایک سو ایسا ہو تو وہ ایک ہزار پر غالب آ جائے کیونکہ وہ سمجھتے نہیں تم سمجھتے ہو ( میں آگے چل کر بتاؤ نگا کہ سمجھنے اور نہ سمجھنے کا مطلب کیا ہے ) اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ایک عام قانون بتا دیا ہے.کہ دس گنا طاقت پر مسلمان غالب آ سکتے ہیں.اب پاکستان کی آبادی کہتے ہیں سات کروڑ ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اگر پاکستانی ایسے مسلمان بن جائیں تو ۷۰ کروڑ کے ملک پر یہ غالب آ سکتے ہیں اور دنیا میں ۷۰ کروڑ کا کوئی ملک نہیں.بڑے سے بڑا ملک چین ہے اُسکی بھی پچاس کروڑ کی آبادی ہے.دوسرے نمبر پر ہندوستان ہے اُس کی تہیں کروڑ کی آبادی ہے لیکن قرآن کریم کے حکم کے ماتحت اگر پاکستان کے مسلمان اس قسم کے مسلمان بن جائیں جیسے قرآن کہتا ہے کہ بن جاؤ یعنی نہ وہ لوگوں پر ظلم کریں ، نہ حریت ضمیر میں دخل دیں، نہ وہ غیر مذاہب کو اپنے مذہب پر جبر آلانے کی کوشش کریں اور نہ
کسی کا حق ماریں بلکہ لوگوں کو اچھی باتوں کی تعلیم دیں ، بُری باتوں سے روکیں اور لوگوں پر اس طرح روپیہ خرچ کریں کہ ملک ترقی کرے.زکوۃ کے معنے ترقی کے بھی ہوتے ہیں پس زکوۃ دینے کے یہ معنے ہیں کہ ملکی ترقی کے لئے کوشش کریں اور خدا تعالیٰ کیلئے اپنے آپکو بنا دیں تو فرماتا ہے تمہارے دس، سو پر غالب آ سکتے ہیں گویا سات کروڑ پاکستانی مسلمان ۷۰ کروڑ پر غالب آسکتے ہیں اورہ سے کروڑ کی حکومت دنیا میں کوئی نہیں.بڑی سے بڑی حکومت پچاس کروڑ کی ہے تو گویا اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر صرف پاکستان کے مسلمان ہی ایسے بن جائیں تو وہ دنیا کی بڑی سے بڑی حکومت کو شکست دے سکتے ہیں اور ساری دنیا کے مسلمان، عیسائی کہتے ہیں کہ چالیس کروڑ ہیں اور مسلمان کہتے ہیں ساٹھ کروڑ ہیں.اس حساب سے اگر چالیس کروڑ بھی تسلیم کریں تو چار ارب پر یہ مسلمان غالب آ سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اُس قسم کے مسلمان بن جائیں جس قسم کے مسلمان بننے کے لئے قرآن کہتا ہے.اور اگر وہ ساٹھ کروڑ ہوں جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں تو اس صورت میں چھ ارب پر غالب آ سکتے ہیں لیکن دنیا کی ساری آبادی سوا دو ارب ہے.گویا اگر مسلمان ساری دنیا سے بھی لڑیں تو قرآنی وعدہ کے مطابق دنیا کی آبادی اگر دگنی بھی ہو جائے تب بھی وہ اُن پر غالب آ سکتے ہیں.یہ کتنی عظیم الشان بات ہے لیکن اس کے باوجود مسلمان کیوں کمزور ہیں؟ اِس لئے کہ وہ اُن شرطوں کو پورا نہیں کرتے.ان شرطوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہماری مدد تمہیں تب حاصل ہو گی جبکہ تم میرے لئے لوگوں کی دشمنی سہیڑ و، میرے نام کو روکنے کے لئے لوگوں کی دشمنی نہ کرو بلکہ میری خاطر لوگوں کی دشمنی سہیڑ و.لوگوں کے ظلم سہو اور دنیا میں جو لوگ میرا نام لینے والے ہیں چاہے وہ عیسائی ہو کے میرا نام لیں، چاہے وہ یہودی ہو کے میرا نام لیں یا مجوسی ہو کر میرا نام لیں جب بھی کوئی میرا نام لے تو کہو ہاں یہ تو ہمارے خدا کا نام لے رہا ہے.گویا نمایاں چیز بتا دی ہے کہ کونسے اخلاق کے بعد خدا کی مدد آتی ہے اور فرماتا ہے تم اس لئے غالب آؤ گے کہ وہ نہیں سمجھتے یعنی جو تعلیم تمہیں دی گئی ہے اس کے خلاف وہ غیر اسلامی تعلیم پر عامل ہیں.اسلام کہتا ہے کہ تم کسی پر ظلم نہ کرو لیکن غیر اسلام کہتا ہے کہ سب پر ظلم کرو اس میں تمہارا فائدہ ہے، اسلام کہتا ہے کہ تم کسی کی حُریت ضمیر میں دخل نہ دو اور غیر مذاہب یہ کہتے ہیں کہ بے شک حریت ضمیر میں دخل دو، اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کا نام لیتا ہے تو چاہے وہ ہندو ہو ، عیسائی ہو ، یہودی ہوکسی قوم کا ہوا سکو موقع دو اور کہو کہ تو بے شک نام لے لیکن غیر اسلامی کہتے ہیں کہ اگر ہمارے گرجے میں خدا کا نام لیتا ہے تو ٹھیک
۵۷۶ ہے، اگر ہمارے صلوٰۃ میں نام لیتا ہے تو ٹھیک ہے ، اگر ہمارے مندر میں نام لیتا ہے تو ٹھیک ہے ور نہ ہم نہیں لینے دیں گے.آج مسلمان بھی یہی کہتا ہے چنانچہ دیکھ لو کیا ان میں سے کوئی بات بھی ہے جو مسلمان نہیں کر رہا؟ کیا آج کا مسلمان یہ نہیں کہہ رہا کہ یا تو ہماری طرح کی نماز پڑھو ور نہ ہم نہیں پڑھنے دیں گے، یا تو ہماری طرح فتوے دو ورنہ تمہیں فتویٰ نہیں دینے دیں گے ، یا تو ہماری طرح کام کرو ورنہ ہم تمہیں سزا دیں گے.کیا آج ہماری فقہ میں نہیں لکھا ہوا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو نئے معبد بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی یا گرجے بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن یہ کہتا ہے کہ ہم اس لئے لڑتے ہیں تا کہ اگر جوں کو بچائیں.قرآن کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ کولڑنے کی اجازت اس لئے دی گئی ہے کہ یہودیوں کے عبادت خانوں کو گر نے سے بچایا جائے ، قرآن کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑنے کی اس لئے اجازت دی گئی ہے کہ مانک (MONK) یا راہب وغیرہ جو بیٹھے عبادت کر رہے ہیں اُن کو نقصان نہ پہنچے لیکن اب ہر ایک بات کے خلاف کرنے کے لئے مسلمان یہ کہتا ہے کہ دوسروں کے معبد تو ڑنے جائز ہیں ، لوگوں سے لڑائی بھی جائز ہے، لوگوں کے مذاہب میں دخل دینا بھی جائز ہے، لوگوں سے جبراً اپنی مرضی منوانا بھی جائز ہے لیکن قرآن کہتا ہے کہ تمہیں اس طرح فتح نصیب نہیں ہو گی.تمہیں فتح تب نصیب ہو گی جبکہ تم لوگوں کو آزادی دو گے، جبکہ تم لوگوں کو خریت ضمیر دو گے، جبکہ تم لوگوں کے مذہب میں دخل نہیں دو گے اور کہو گے کہ بیشک یہ مذہب رکھو یہ خدا کا معاملہ ہے.اب یہ سیدھی بات ہے کہ دنیا کی رائے ہی آخر جیت کا موجب بنتی ہے.ہٹلر نے لڑائی کی اور بڑی منظم لڑائی لڑا مگر آخر وہ ہارا اسلئے کہ دنیا کی جو آزاد رائے تھی وہ ساری کی ساری امریکہ اور انگلستان کے ساتھ تھی.روس اور جاپان لڑے، روس کتنی بڑی طاقت ہے مگر وہ ہارا اس لئے کہ دنیا کی ساری کی ساری آزاد رائے جاپان کی ہمدردتھی اس ہمدردی کی وجہ سے جہاں بھی کسی کا بس چلتا تھا وہ جاپان کی تائید میں تھوڑا بہت کام کرتا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ روس ہار گیا.تو جب کوئی قوم ایسا طریق اختیار کرتی ہے کہ ہر مذہب وملت کے لئے وہ انصاف کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے تو خود دوسروں کے گھروں میں اُن کے جاسوس پیدا ہو جاتے ہیں اور ہر جگہ اُسے مددملنی شروع ہو جاتی ہے اور وہ جیتنے شروع ہو جاتے ہیں یہ جب میر و مسلم پر مسلمان گئے یروشلم کے عیسائیوں پر اسلامی حکومت کا غیر معمولی اثر و مہیا کی نظر حملہ آور 14 تو عیسائی لشکر ہوا
۵۷۷ اُس وقت مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ ہم مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے ہم پیچھے ہٹیں گے.جب پیچھے ہٹنے لگے تو یروشلم کے لوگ بلکہ پادری بھی روتے ہوئے آتے تھے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے کہ خدا تم کو ہمارے ملک میں پھر لائے کیونکہ ہم نے امن تمہارے ذریعہ سے ہی دیکھا ہے.حالانکہ اُن کی اپنی عیسائی حکومت تھی اور قیصر کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ وہ گویا پوپ کا قائم مقام ہے اور بادشاہ ہونے کے علاوہ وہ مذہبی طور پر بھی لیڈ ر ہے مگر وہ اُس کی حکومت کو توڑنے والی حکومت کے لئے باہر نکلے تھے.اگر مسلمان مذہبی معاملات میں دخل دیتے ، اگر وہ اُن کے گر جوں میں دخل دیتے اور اگر وہ اُن پر سختیاں کرتے جو ہماری فقہ کی کتابوں میں لکھی ہیں تو اُن کی عقل ماری ہوئی تھی کہ وہ روتے ہوئے نکلتے کہ تم ہمارے گھروں میں آؤ ، ہمارے گر جے گرا ؤ اور ہمارے مذہب میں دخل دو وہ لازماً اُنکی مخالفت کرتے اور رومن ایمپائر کی مدد کرتے لیکن حالت یہ تھی کہ وہ روتے تھے.پس جب مسلمان پیچھے ہٹ آئے تو وہ جانتے تھے کہ یروشلم سے اسلامی لشکر کو تو نکال لائے ہیں لیکن یروشلم میں ہیں ہزار جاسوس چھوڑ آئے ہیں جو ہمیں رومیوں کی خبریں دیں گے اور اُن کے ذریعہ ہم پھر واپس آجائیں گے.تو یروشلم کا ہر عیسائی مسلمانوں کا جاسوس بن گیا تھا اور اُن کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہو چکا تھا.اگر یہی سلوک مسلمان قو میں دوسروں کے ساتھ کرنا شروع کر دیں تو دیکھو فوراً صورت شروع ہو جائے گی کہ غیر ملکوں میں ہمارے ہمدرد پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے اور ا وہ ہماری مدد کرنی شروع کر دیں گے.نہ یہاں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کے لئے صابر ہونے کی شرط لگائی ہے اور صابر کے معنے (۱) مصیبت کو برداشت کرنے (۲) استقلال سے نیک کاموں میں لگے رہنے اور اختلافات کو نظر انداز کر دینے کے ہوتے ہیں.پس اگر مسلمان باہمی اختلاف چھوڑ کر موت یا نقصانِ مال اور نقصان آرام کا ڈر دُور کر دیں.حصول مدعا کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اُن کے لئے استقلال کے ساتھ بغیر وقفہ اور سستی اور تزلزل کے لگ جائیں تو دنیا کی ہر طاقت پر وہ غالب آسکتے ہیں بشرطیکہ وہ مظلوم ہوں ، کسی کے حق پر دست اندازی نہ کریں اور حریت ضمیر کو قائم کرنے کے ذمہ دار ہوں نہ کہ ڈنڈے سے اپنا مذہب منوانے پر تل جائیں جس سے منافقت بڑھتی ہے اور صفوں میں خلا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن کے ایجنٹ اُن ممالک میں پیدا ہو جاتے ہیں.ہفتم.دوسری حکومتوں کے نوبت خانوں سے تو یہ اعلان کئے جاتے ہیں کہ فلاں حکومت کی فوجیں
۵۷۸.ہمارے ساتھ ہیں لیکن اس نوبت خانہ سے تو یہ اطلاع دی جاتی تھی کہ سب دنیا کی حکومتیں ہمارے خلاف ہیں اور کسی کی حمایت ہم کو حاصل نہیں.چنانچہ فرمایا الَّذِيْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَرُهُمْ ٣٢ مسلمانوں کے پاس لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ اب تو ساری دنیا تمہارے خلاف اکٹھی ہو گئی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا گیا کہ گوساری دنیا تمہارے خلاف ہو گی مگر چونکہ تم مظلومیت میں ہو اور مظلومیت کی وجہ سے تم اپنے دفاع کے لئے جنگ کرتے ہو اور چونکہ تم اخلاق اور حریت ضمیر کے لئے جنگ کرنے لگے ہو اس لئے گوتمام زمینی حکومتوں نے تمہارے خلاف اجتماع کر لیا ہے لیکن آسمانی حکومت نے تمہاری تائید کا فیصلہ کر دیا ہے.وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ اور خدا اُس کی تائید کرے گا جو اُس کی مدد کرے گا.جو لوگ اس لئے جنگ کرتے ہیں کہ دین کے معاملہ میں انسان جبر نہ کریں بلکہ دین کا معاملہ صرف خدا اور بندے پر چھوڑ دیا جائے وہ در حقیقت خدا تعالیٰ کے لئے جنگ کرتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ ہو کر جنگ کرے گا.پھر فرمایا اِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ اَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلَثَةِ آلَافٍ مِّنَ الْمَلَئِكَةِ مُنْزَلِينَه بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَ يَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ الاف مِّنَ الْمَلَئِكَةِ مُسَوِّمِينَ مؤمنوں کو کہد و کہ تم تھوڑے بھی ہو دشمن کے پاس سامان بھی زیادہ ہے لیکن کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ خدا تمہاری مدد کے لئے تین ہزار فرشتے اُتار دے.بلکہ اگر تم صبر کرو اور تقویٰ سے کام لو اور دشمن تم پر فوری حملہ بھی کر دے تو خدا تم سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ پانچ ہزار فرشتے بھیجے گا جو مُسَوّم ہونگے.یعنی نڈر ہو کر اپنے گھوڑے دشمن کی صفوں میں پھینک دیں گے اور اُسے غارت کر دیں گے.اس فقرہ میں تو دراصل الہی مدد کا ذکر تھا مگر کچھ لوگ رسمی مؤمن ہوتے ہیں وہ ہر چیز کے لئے جسمانی نسخہ تلاش کرتے ہیں پس ڈر ہو سکتا تھا کہ کچھ بیوقوف ایسے بھی ہوں کہ جو سچ سچ فرشتوں کو لائیں اور سچ سچ اُن کو دوڑائیں اور لڑائیاں کروائیں اس لئے فرمایا وَمَا جَعَلَهُ اللهُ إِلَّا بُشْرى لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُمْ بِهِ طَ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللهِ الْعَزِيزِ الْحَکیم T یعنی ہم نے جو کہا ہے کہ فرشتے اُتارنے ہیں تو اس کے یہ معنے نہیں کہ فرشتے آدمی بن کر آئیں گے اور تلواریں لے کر لڑیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ وہ تمہارے دلوں کو مضبوط کریں گے اور دشمنوں کے دلوں ۳۷
۵۷۹ میں تمہارا رعب پیدا کر دیں گے اور اصل مدد خدا کی طرف سے آتی ہے فرشتے انسانی جسم میں نہیں آیا کرتے.ہشتم.دوسری حکومتیں جب دنیا میں خدائی حکومت قائم کئے جانے کا اعلان حملہ کرتی ہیں تو بڑے زور سے اعلان کرتی ہیں کہ ہم آزادی دینے کے لئے آئے ہیں جیسے انگریزوں نے عربوں سے کیا.پچھلی جنگ میں انہوں نے عربوں سے کہا کہ ہم تمہیں آزاد کرنے آئے ہیں اور کیا کیا ؟ کیا یہ کہ شام اور لبنان فرانس کو دیدیا عراق پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا ، اسی طرح اُردن بھی لے ہے لیا، فلسطین پر بھی آپ قبضہ کر لیا اور اس طرح ملک کو بانٹ لیا.لیکن لڑائی ہوئی تو کہا.اُٹھو! اُٹھو!! شاباش ! ہم تمہاری آزادی کے لئے آئے ہیں.یا جرمنی نے ہالینڈ اور بیلجیئم میں اپنی فوج داخل کر دی بغیر اس کے کہ وہ لڑائی میں شامل ہوتے اور اعلان کر دیا کہ چونکہ ہالینڈ اور بیلجیئم کی آزادی انگریزوں اور فرانسیسیوں کی وجہ سے خطرہ میں ہے اور وہ ان ملکوں پر قبضہ کر لیں گے اس لئے ہم انہیں بچانے کے لئے آرہے ہیں.اسی طرح ڈنمارک پر قبضہ کر لیا اور کہا کہ ہم ڈنمارک کو بچانے کے لئے آئے ہیں.اب پیچھے ہندوستان نے حیدر آباد پر حملہ کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ پولیس ایکشن ہے اِن لوگوں میں امن قائم کرنے کے لئے ہماری فوجیں داخل ہوئی ہیں.یا روس نے لیتھونیا اور استھو نیا اور لٹویا پر حملہ کر دیا اور کہا ہم ان تینوں ملکوں کو آزاد کروانے کے لئے آئے ہیں.اس آزادی کے بعد یہ تینوں ممالک ضلع بن کر رہ گئے اور روس کے اندر شامل ہیں.صرف فرق یہ ہوتا تھا کہ فساد کا دھارا بدل جاتا تھا یعنی پہلے فساد اِس طرف ہوتا تھا پھر اس کا رُخ اُس طرف ہو جاتا تھا لیکن اسلامی نوبت خانہ میں جو وعدہ کیا گیا ہے وہاں یہ فرماتا ہے کہ ہم نے انکو فتح ہی اس شرط سے دینی ہے کہ الَّذِيْنَ اِنْ مَّكَنْهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتَوُ الزَّكوةَ وَاَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوُا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ یہ نہیں ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایسا کریں گے بلکہ فرماتا ہے جب ہم ان کو حکومت بخشیں گے تو : - (۱) وہ عبادت الہی کریں گے اور عبادت الہی کی آزادی دیں گے.(۲) جب ہم ان کو حکومت دیں گے تو وہ غرباء کی مدد کریں گے اور گرے ہوؤں کو اُٹھا ئیں گے.(۳) جب ہم ان کو حکومت دیں گے تو وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو حسنِ سلوک اور اخلاق اور
۵۸۰ انصاف کی نصیحت کریں گے.(۴) یہ کہ وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو تمام نا پسندیدہ امور سے خواہ دُنیوی ہوں یا دینی، اخلاقی ہوں یا معاشی یا اقتصادی یا علمی روکیں گے.(۵) اور اُن کا رویہ ایسا منصفانہ ہو گا کہ یہ معلوم نہیں ہوگا کہ انسان حکومت کر رہا ہے بلکہ یوں معلوم ہوگا کہ خدا تعالیٰ زمین پر اتر آیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورٍ.اُس وقت یوں معلوم ہوگا کہ خدا آسمان سے اُترا ہے.اب دیکھو جن لوگوں کے ساتھ یہ وعدہ تھا وہ ایسے ہی ثابت ہوئے کیونکہ ان کے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ ہم تمہیں اس لئے حکومت دے رہے ہیں کہ تم نے یہ یہ کام کرنا ہے.مساواتِ اسلامی کی ایک شاندار مثال چنا نچہ دیکھ لو.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا واقعہ ہے آپ مکہ مکرمہ میں حج کے لئے گئے.اُن دنوں عرب کا ایک عیسائی بادشاہ بھی مسلمان ہو چکا تھا وہ بھی مکہ میں حج کے لئے آیا تو کسی مجلس میں بیٹھا ہوا باتیں کر رہا تھا کہ ایک غریب آدمی جو بے چارہ کوئی مزدور تھا پاس سے گزرا اور اتفاقاً اُس کا پیر اُس کے کپڑے پر پڑ گیا.وہ تو اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا تھا اور بادشاہ بھی وہ کہ کب برداشت کر سکتا تھا کہ کوئی شخص اتنی بے احتیاطی سے چلے کہ پاؤں اُس کے کوٹ پر پڑ جائے.اُس نے زور سے اُسے تھپڑ مارا اور کہا بے شرم ! تیری کیا حیثیت ہے کہ تو اس طرح بے احتیاطی سے چلے کہ تیرا پیر میرے کوٹ پر پڑ جائے وہ بیچارہ صبر کر کے چلا گیا.اُسی مجلس میں کوئی صحابی بیٹھا تھا اُس نے کہا تم نے بڑی غلطی کی ہے.اُس نے کہا کیوں؟ میں بادشاہ نہیں ہوں ؟ وہ کہنے لگا اسلام میں بادشاہت وغیرہ کچھ نہیں ہوتی تم کو تھپڑ مارنے کا کیا حق تھا.اگر اُس نے کوئی قصور کیا تھا تو تم قضاء میں جاتے اور اُس پر دعوی کرتے ، تمہارا اُس کو مارنے کا کوئی حق نہیں تھا.کہنے لگا تو کیا اسلام میں بادشاہ اور غیر بادشاہ کا کوئی فرق نہیں کیا جاتا ؟ انہوں نے کہا کوئی فرق نہیں کیا جاتا.وہ کہنے لگا اچھا میں عمر کے پاس جاتا ہوں.اُٹھ کے عمر کے پاس گیا دربار لگا ہوا تھا سارے لوگ بیٹھے ہوئے تھے جا کر حضرت عمر سے کہنے لگا کہ کیوں جی! کیا اسلام میں بد تہذیبی ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بادشاہ یا بڑے آدمی کی ہتک کر بیٹھے تو وہ اُس کو مار نہیں سکتا.حضرت عمر نے اُس کی طرف دیکھا اور کہا.( جبکہ اُس کا نام تھا جبکہ ! تم کسی مسلمان کو مار بیٹھے ہو؟ خدا کی قسم ! اگر مجھے پتہ لگا تو میں تمہیں اُسی طرح
۵۸۱ مرواؤں گا.اُس نے اُس وقت تو بہا نہ بنایا اور کہا.نہیں نہیں ! میں نے تو کچھ نہیں کیا.مگر کہہ کر واپس گیا اور اُسی وقت گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے ملک کو واپس چلا گیا اور وہاں جا کر مرتد ہو گیا.۳۹ے غور کرو! کتنی بڑی طاقت تھی ایک مزدور کے لئے.ایک بادشاہ جاتا ہے اور کہتا ہے اس نے میری ہتک کی ہے تو حضرت عمر کہتے ہیں کہ تم نے اسے مارا ہے تو میں ضرور سزا دونگا.خلافت راشدہ کے عہد میں راشن سسٹم کا اجراء یہ وہ چیز تھی جو مسلمانوں نے اپنی حکومت میں کی.راشن اور کپڑے کا سسٹم جاری ہوا ، امیر اور غریب سب کے لئے حکم ہوا کہ اُن کو کپڑے ملا کریں گے اور کھا نا ملا کرے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا کہ جو راشن اور کپڑا ملا کرے گا اس میں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہ کیا جائے ہر مذہب وملت کے آدمی کو اُس کا راشن دیا جائے.ایک بادشاہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمان ہوا تو اُس نے کہلا بھیجا کہ میرے پاس ایسے لوگ ہیں جو غیر مذاہب کے ہیں میں اُن کے ساتھ کیا سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا اُن کے ساتھ انصاف کا سلوک کرو پیار کا سلوک کرو اور اگر تمہارے پاس ایسے لوگ ہوں چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم کہ اُن کے پاس کافی زمین وغیرہ نہ ہو اور کافی غلہ نہ پیدا کر سکتے ہوں تو پھر سرکاری خزانہ سے انہیں غلہ مہیا کرو.۴۰ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک ایک غلام کے معاہدہ کا احترام شمن فوج گھر گئی اور اس نے سمجھ لیا کہ آب ہماری نجات نہیں ہے اسلامی کمانڈر دباؤ سے ہمارا قلعہ فتح کر رہا ہے اگر اُس نے فتح کر لیا تو ہم سے مفتوح ملک والا معاملہ کیا جائے گا.ہر مسلمان مفتوح ہونے اور صلح کرنے میں فرق سمجھتا تھا.مفتوح کے لئے تو عام اسلامی قانون جاری ہوتا تھا اور صلح میں جو بھی وہ لوگ شرط کر لیں یا جتنے زائد حقوق لے لیں لے سکتے تھے.انہوں نے سوچا کہ کوئی ایسا طریق اختیار کرنا چاہئے جس سے نرم شرائط پر صلح ہو جائے.چنانچہ ایک دن ایک حبشی مسلمان پانی بھر رہا تھا اُس کے پاس جا کر انہوں نے کہا کیوں بھئی ! اگر صلح ہو جائے تو وہ لڑائی سے اچھی ہے یا نہیں ؟ اُس نے کہا ہاں ! اچھی ہے.وہ حبشی غیر تعلیم یافتہ تھا.انہوں نے کہا کہ پھر کیوں نہ اس شرط پر صلح ہو جائے کہ ہم اپنے ملک میں آزادی سے رہیں اور ہمیں کچھ نہ کہا جائے ہمارے مال ہمارے پاس رہیں اور
۵۸۲ تمہارے مال تمہارے پاس رہیں.وہ کہنے لگا بالکل ٹھیک ہے.انہوں نے قلعہ کے دروازے کھول دیئے.اب اسلامی لشکر آیا تو انہوں نے کہا ہمارا تو تم سے معاہدہ ہو گیا ہے.وہ کہنے لگے معاہدہ کہاں ہوتا ہے اور کس افسر نے کیا ہے؟ انہوں نے کہا ہم نہیں جانتے ہمیں کیا پتہ ہے کہ تمہارے کون افسر ہیں اور کون نہیں.ایک آدمی یہاں پانی بھر رہا تھا اُس سے ہم نے یہ بات کی اور اُس نے ہمیں یہ کہہ دیا تھا.مسلمانوں نے کہا دیکھو ایک غلام نکلا تھا اُس سے پوچھو کیا ہوا ؟ اُس نے کہا ہاں! مجھ سے یہ بات ہوئی ہے.انہوں نے کہا وہ تو غلام تھا اُسے کس نے فیصلہ کرنے کا اختیار دیا تھا انہوں نے کہا ہمیں کیا پتہ ہے کہ یہ تمہارا افسر ہے یا نہیں.ہم اجنبی کی لوگ ہیں ، ہم نے سمجھا یہی تمہارا جرنیل ہے.اُس افسر نے کہا میں تو نہیں مان سکتا لیکن میں یہ واقعہ حضرت عمررؓ کو لکھتا ہوں.حضرت عمرؓ کو جب یہ خط ملا تو آپ نے فرمایا کہ آئندہ کے لئے یہ اعلان کر دو کہ کمانڈر انچیف کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں کر سکتا لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک مسلمان زبان دے بیٹھے تو میں اُس کو جھوٹا کر دوں اب وہ حبشی جو معاہدہ کر چکا ہے وہ تمہیں ماننا پڑے گا.ہاں آئندہ کے لئے اعلان کر دو کہ سوائے کمانڈر انچیف کے اور کوئی کسی قوم سے معاہدہ نہیں کر سکتا.اسے پھر غیر مذاہب کے جذبات کا لحاظ اس حد تک کیا کہ غیر مسلموں کے جذبات کا پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی نے آکر شکایت کی کہ مجھے ابو بکر نے مارا ہے.آپ نے حضرت ابو بکر کو بلایا اور فرمایا تم نے اس کو مارا ہے؟ کہنے لگے ہاں ! يَا رَسُولَ اللهِ! اِس نے بڑی گستاخی کی تھی.آپ نے فرمایا کیا گستاخی کی تھی؟ انہوں نے کہا اس نے کہا تھا مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس نے موسی کو سارے رسولوں سے افضل بنایا ہے.تو اس نے آپ کی ہتک کی اور حضرت موسی کو سب رسولوں سے افضل قرار دیا.مجھے غصہ آگیا اور رمیں نے تھپڑ مارا.آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا.لَا تُفَضِّلُونِي عَلَى مُوسى - " تمہارا کیا حق ہے کہ لوگوں کے جذبات کو مجروح کرو.تم مجھے یہودیوں کے سامنے موسی پر فضیلت نہ دیا کرو.کتنا انصاف ہے.کیا دُنیا کا کوئی اور انسان ہے جس نے باوجود اس کے کہ وہ خود دعویدار ہو کہ میں بڑا ہوں کہا ہو کہ دوسروں کے سامنے تم نے مجھ کو موسی پر کیوں فضیلت دی اِس کا یہی حق ہے کہ وہ کہے موسی مجھے سے بڑا ہے.پھر فرمایا.وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُون اللهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوّاً
۵۸۳ بِغَيْرِ عِلْمٍ " دیکھو جن ججوں کی لوگ پوجا کرتے ہیں یا جن انسانوں کی لوگ پوجا کرتے ہیں ، اُن کے متعلق کبھی کوئی بُر الفظ نہیں بولنا ورنہ پھر اُن کا بھی حق ہو جائے گا کہ وہ مقابل میں تمہارے خدا کو بھی گالیاں دیں اس طرح تم اپنے خدا کو گالیاں دینے کا موجب بنو گے.گویا قرآن اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ مسلمان اور عیسائی جذبات کے لحاظ سے برابر ہیں، سچے مذہب والا اور جھوٹے مذہب والا دونوں برابر ہیں اگر اس کو حق ہے کہ اُسکے جذبات کو تلف کرے تو اُس کا بھی حق ہے کہ وہ ایسا کرے.اگر یہ چاہتا ہے کہ اسکے جذبات کی ہتک نہ کی جائے تو پھر اُس کا فرض ہے کہ وہ دوسرے کے جذبات کی بھی ہتک نہ کرے.جوش انتقام میں بھی عدل و انصاف کو ملحوظ رکھنے کی تاکید پھر جوش اور غضب میں انتقام کی طرف منتقل نہ ہونے کے لئے فرمایا يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرٍ مَنْكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُواء اِعْدِلُوا هُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوى وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ " یعنی اے مومنو! تم اللہ تعالیٰ کے لئے کھڑے ہو جاؤ.یعنی صرف خدا کی خاطر ہر کام کرو اور خدا تعالیٰ کے لئے تم گواہی دو کہ وہ منصف ہے.یعنی اپنے عمل سے ثابت کرو کہ اگر تم منصف ہو تو پتہ لگ جائے کہ خدا نے تم کو انصاف کی تعلیم دی ہے اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم کسی سے بے انصافی کر بیٹھو.دشمن بھی ہو تو پھر بھی انصاف کرو یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے.اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو جانتا ہے.تقویٰ اختیار نہ کرو گے تو سزا ملے گی گویا اس میں یہ نصیحت کی کہ :- اول ہر کام اللہ تعالیٰ کے لئے کرو کسی اور غرض کے لئے نہیں کہ اُس غرض کو پورا نہ ہوتے دیکھ کر راستہ بدل لو.دوم خدا تعالیٰ نے جو معیار انصاف مقرر کیا ہے اُس کا نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کرو اگر وہ نمونہ پیش نہ کرو گے تو لوگ کہیں گے ان کو خدا کی یہ تعلیم نہیں ہے جو یہ کہتے ہیں بلکہ اور تعلیم ہے.ایک ہندو سے محسن سلوک کا شاندار نمونہ سوم اگر کوئی ظلم بھی کرے تو جوش میں آ کر ظلم نہیں کرنا بلکہ عدل کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑ نا.مجھے اس پر اپنا ایک واقعہ یاد آ گیا.رتن باغ ( لاہور ) میں ہم رہتے تھے
۵۸۴ اُس کا مالک چونکہ ایک بارسوخ شخص تھا اور اُس کا بھائی ڈپٹی کمشنر تھا وہ گورنمنٹ کی چٹھی لکھوا کے لا یا کہ اُن کا سامان اُن کو دے دیا جائے.یہاں کے افسر اُسوقت بہت زیادہ لحاظ کرتے تھے انہوں نے فوراً لکھدیا کہ ان کو یہ سامان دے دو.ہم جب گئے ہیں تو اُس وقت تک وہ لوٹا جا چکا تھا دروازے توڑے ہوئے تھے اور بہت سا سامان غائب تھا اور پولیس اُس زمانہ میں ایک لسٹ بنا لیا کرتی تھی کہ یہ یہ اس مکان میں پایا گیا ہے اور چونکہ اُن دنوں ایک دوسرے پر ظلم ہو رہے تھے وہ بہت رعایت کرتے تھے.لسٹیں عام طور پر ناقص بناتے تھے مثلاً اگر پچاس چیزیں ہوئیں تو چالیس لکھ لیں اور دس رہنے دیں اور کہہ دیا تم لے لو یہ طریق یہاں عام تھا.جب ہم وہاں گئے تو میں نے حکم دیا کہ جتنی چیزیں لسٹ سے زائد ہیں وہ جمع کر کے ایک طرف رکھ دو.چنانچہ وہ سب چیزیں رکھ دی گئیں.جب وہ حکم لا یا تو وہ چیزیں جو لکھی ہوئی تھیں وہ دے دی گئیں.پاس سرکاری افسر بھی تھے اور پولیس بھی تھی.اس کے بعد میں نے اپنے لڑکوں کو بلا کر کہا کہ جو چیزیں میں نے الگ رکھوائی تھیں وہ بھی اس کو دیدو.وہ مسلمان تھانیدار جو اُن کے ساتھ آیا تھا وہ یہ دیکھ کر میرے ایک لڑکے سے لڑ پڑا اور کہنے لگا آپ لوگ یہ کیا غضب کر رہے ہیں ان لوگوں نے ہم پر کیا کیا ظلم کئے ہیں اور آپ ان کی ایک ایک چیز ان کو واپس کر رہے ہیں یہ تو بہت بُری بات ہے مگر اس کے روکنے کے باوجود ہم نے تمام چیزیں نکال کر اس کے سامنے رکھ دیں.اُنہی چیزوں میں کچھ زیورات بھی تھے وہ میں نے رومال میں باندھ کر ایک الماری میں رکھ چھوڑے جب میں نے دیکھا کہ یہ لوگ اُسے چیزیں دینے میں روک بنتے ہیں تو میں نے سمجھا کہ زیورات ان لوگوں کے سامنے دینا درست نہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اُس سے زیور چھین لیں.یہ لسٹوں میں تو ہیں نہیں چنانچہ میں نے وہ رومال رکھ لیا اور اُسے کہلا بھیجا کہ جاتی دفعہ مجھ سے ملاقات کرتا جائے.میری غرض یہ تھی کہ جب وہ آئے گا تو میں علیحدگی میں اُس کے زیورات اُس کے حوالے کر دونگا.چنانچہ جب وہ آیا تو میں نے رومال نکالا اور کہا یہ تمہارے زیورات تھے جو اِس مکان سے ہمیں ملے اب میں یہ زیورات تم کو واپس دیتا ہوں اور میں نے بلا یا ہی اسی غرض کیلئے تھا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ اگر میں نے لوگوں کے سامنے زیورات واپس کئے تو ممکن ہے سپاہی اور تھانیدار وغیرہ تم سے زیور چھین لیں.وہ حیران ہو گیا اور کہنے لگا کہ جو ہماری اپنی لسٹیں ہیں اُن میں بھی ان زیوروں کا کہیں ذکر نہیں.میں نے کہا ہے نہیں ہو گا مگر یہ زیور ہمیں تمہارے مکان سے ہی ملے ہیں اس لئے خواہ لسٹوں میں ان
۵۸۵ کا ذکر نہ ہو بہر حال یہ تمہارے ہی ہیں.اُس پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ اُس نے وہاں جا کر اخباروں میں اعلان کرایا کہ ہماری لسٹوں سے بھی زائد سامان ہمیں دیا گیا ہے.حکومت کی جو یسٹیں تھیں اس سے ہی زائد سامان نہیں دیا گیا بلکہ جو ہماری لسٹیں تھیں اُن سے بھی زائد سامان دیا گیا.دوسرے دن وہی تھانیدار جو علاقہ کا تھا پھر آیا اور کہنے لگا میں نے ملنا ہے.میں نے اُسے بلوالیا اور پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگا مجھے تو رات نیند نہیں آئی، میرا خون کھولتا رہا ہے.میں نے کہا.کیوں ؟ کہنے لگا آپ کے آدمیوں نے بڑا بھاری ظلم کیا ہے.ان کم بختوں نے ہمیں لوٹ کر تباہ کر دیا ہے اور آپ ان سے یہ سلوک کر رہے ہیں.کہنے لگا میں بھی گورداسپور کا ہی ہوں.ہمارے گھر انہوں نے لوٹ لئے ، تباہ کر دیے وہ تو خیر سرکاری ظلم تھا کہ اس کو یسٹوں کے مطابق مال دے رہے تھے آخر ساروں کو کب مل رہا ہے.مگر ان لوگوں نے تو جو مال لسٹوں میں نہیں لکھا وہ بھی انہیں لا کر دیا گیا ہے.میں نے کہا میں آپ کو ایک نئی بات کی بتاؤں ان لوگوں کا کچھ زیور میرے پاس پڑا تھا وہ بھی میں نے ان کو دیدیا ہے وہ اُن کی لسٹ میں بھی نہیں تھا.کہنے لگا یہ تو بڑا ظلم ہے.اتنے ظلم کے بعد آپ کا اِن سے یہ معاملہ میری عقل میں نہیں آتا.میں نے کہا آپ یہ تو فرمایئے آخر میں نے اِن کا مال کیوں رکھ لینا تھا ؟ کہنے لگا انہوں نے ہمارا مال وہاں رکھا ہے.میں نے کہا اگر تم ثابت کر دو کہ میری کوٹھی کا مال اس نے رکھا ہے تو مجھے بڑا افسوس ہوگا کہ میں نے اُس کو اُس کا مال واپس دے دیا ہے.لیکن اگر اُس نے نہیں رکھا کسی اور نے رکھا ہے تو یہ تو بتاؤ کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی ، مارے کوئی اور سزا کسی کو دی جائے.میں نے کہا تم عدالت میں یہی کیا کرتے ہو.وہ کہنے لگا ہم اس طرح توت نہیں کیا کرتے لیکن یہ تو بُری بات ہے کہ یہ اپنا مال لے جائیں.میں نے کہا لے جائیں.یہ تو خدائی مصیبتیں ہیں جو آتی رہتی ہیں.انسان گر کے بھی مرجاتا ہے اور زلزلے آتے ہیں تو بھی تباہ ہو جاتے ہیں کسی انسان پر الزام نہیں آتا.بہر حال اس نے میرا مال نہیں لیا.جس نے لیا ہے اُس کا مال میرے پاس لاؤ پھر میں سوچوں گا کہ رکھ لینا چاہئے یا نہیں چونکہ اس نے ہما را مال نہیں رکھا ا سلئے ہم نے بھی اس کا مال نہیں رکھا.ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے ایک مجسٹریٹ مجھ سے ملنے کیلئے آیا.اُس نے کہا میرے دل میں سخت جلن تھی اور مجھے مسلمانوں کے افعال دیکھ کر سخت تکلیف محسوس ہوتی تھی.مگر میں نے لاہور میں آکر آپ کی تقریر سنی آپ نے یہ بات بتائی تھی کہ ان لوگوں پر ظلم نہیں کرنا
۵۸۶ چاہئے انہوں نے کیا قصور کیا ہے.اُس دن سے میرے دل کو تسلی ہو گئی.میں نے کہا.خیر کوئی معقول اور شرعی آدمی بھی میرے اس خیال کی تصدیق کر رہا ہے.غرض اسلام جو ہمیں تعلیم دیتا ہے وہ ایسی ہے کہ اس کے ذریعہ سے دشمن سے دشمن انسان کی گردن بھی شرم سے جھک جاتی ہے لیکن ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ تم اس تعلیم پر عمل کرو کہ جس سے دوست بھی دوست کو ذلیل سمجھنے لگ جائے.ہاں اسلام میں یہ بات جائز ہے کہ اگر کوئی جرم قبیلہ یا علاقہ میں ایسا ہو رہا ہو کہ ثابت ہو جائے کہ علاقہ کے لوگ اُس پر پردہ ڈال رہے ہیں تو سارے علاقہ پر مجرمانہ کر دیا جائے.ظلم انسان کو اُخروی سزا کا بھی مستحق بناتا چہارم.یہ حکم گو ڈینوی اور سیاسی معلوم ہوتا ہے مگر فرماتا ہے یا درکھو کہ تمام اعمال اخلاقی پہلو سے رُوح پر اثر ڈالتے ہیں.پس اگر غلطی کرو گے تو تقویٰ کو اور دین کو نقصان پہنچے گا.پس دشمن کی خاطر نہیں بلکہ اپنے دین کے بچانے کے لئے احتیاط بر تو اور کسی پر ظلم نہ کرو.اور چونکہ یہ امر تقویٰ پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اس لئے فرمایا کہ اس غلطی کی سزا سیاسی نہیں بلکہ دینی بھی ملے گی اور خدا تعالیٰ اُخروی زندگی میں ان غلطیوں کو نظر انداز نہیں کرے گا.تم اگر کسی ہندو پر ظلم کرتے ہو یا کسی عیسائی پر ظلم کرتے ہو یا کسی اپنے عقیدہ سے اختلاف کرنے والے پر ظلم کرتے ہو تو تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے اس دنیا میں ظلم کیا ہے مجھے اسی جگہ کوئی سزا مل جائے گی قیامت کے دن خدا نہیں کہے گا کہ تم ظلم کرنے والے مسلمان ہو اور جس پر ظلم کیا جاتا ہے وہ تمہارے نزدیک مسلمان نہیں وہ ہندو کہلاتا ہے یا عیسائی کہلاتا ہے بلکہ خدا کہے گا کہ چونکہ تم نے ضمیر کی حریت کو ٹچلا اس لئے میں تمہیں سزا دونگا.ہر اخلاقی کمزوری مذہب اور روحانیت پر اثر انداز ہوتی ہے میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنے اعمال کو اکثر اخلاق سے جدا کر کے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں ایک اچھا نمازی تجارت میں دھو کا کر لیتا ہے.بڑا نمازی ہوتا ہے خوب وظیفے کرتا ہے لیکن تجارت میں آکر پھٹا ہو ا تھان اور تھانوں میں ملا کر دے دے گا کپڑا نا پے گا تو چندر گرہ کم دے گا اور اُسکا ضمیر اُسے بالکل ملامت نہیں کرے گا.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ڈپٹی صاحب تھے جو تہجد بڑی باقاعدگی کے
۵۸۷ ساتھ پڑھا کرتے تھے اور رشوت کے لئے انہوں نے نوکروں کو کہا ہوا تھا کہ اگر کوئی رشوت لایا کرے تو تہجد کے وقت اُس کو لانے کے لئے کہا کرو دن کو لوگوں کو پتہ لگ جاتا ہے.غرض انہوں نے تہجد با قاعدہ پڑھنی اور نوکر نے بھی اُس کو باقاعدہ لا کر بٹھا دینا.جب انہوں نے سلام پھیرنا تو اُس نے کہنا جناب میرا فلاں مقدمہ ہے.وہ بڑے غصے سے کہتے او خبیث بے ایمان ! تو میرا ایمان خراب کرتا ہے.تجھے پتہ نہیں کہ یہ رشوت ہے جو حرام ہے اور اسلام میں منع ہے.وہ کہتا حضور! آپ ہی میرے ماں باپ ہیں اگر میرے بچوں کو اور بھائی کو نہیں بچائیں گے تو اور کون بچائے گا.اس پر وہ کہتے تو بڑا بے ایمان ہے تو لوگوں کے ایمان خراب کرتا ہے.وہ کہتا جی میں آپ کے سوا کس کے پاس گیا ہوں.وہ کہتے او خبیث ! رکھ مصلی کے نیچے اور جا دُور ہو جا میرے آگے سے.پس مصلی کے نیچے رشوت رکھ لینی اور سمجھ لینا کہ اب مصلی کی برکت سے یہ مال پاک ہو گیا ہے اور پھر اُٹھا کے رکھ لینا.تو اکثر لوگ اخلاق اور مذہب کو الگ الگ سمجھتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اخلاقی کمزوریاں ہوں تو اس سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں.اگر نماز ہم نے پڑھ لی تو اس کے بعد اگر کسی کو تھپڑ مار لیا یا کسی کا روپیہ ٹوٹ لیا یا کسی سے رشوت لے لی یا کسی پر ظلم کر لیا، کسی پر سختی کر لی تو کیا ہے ہم نے نماز تو پڑھ لی ہے.اللہ تعالیٰ کو کافی رشوت دے دی ہے اللہ میاں اور ہم سے کیا چاہتا ہے.مگر اسلام اس پر زور دیتا ہے کہ خواہ سیاسی امور ہوں خواہ اقتصادی اپنے محرکات کے لحاظ سے سب کے سب دین کا ہی حصہ ہوتے ہیں اور دین کو بڑھاتے یا کم کرتے ہیں عبادت کو اچھا یا خراب بناتے ہیں اور قومی کام بھی اسی طرح اخلاق کی حکومت کے نیچے ہیں جس طرح انفرادی احکام.اخلاق کا دائرہ صرف افراد تک محدود نہیں یہ ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا اصل ہے جس میں اسلام دوسری قوموں سے بالکل ممتاز ہے اور اسی امر پر عمل کرنے سے دُنیا بلکہ قومیں اور حکومتیں بھی اس میں شامل ہیں! میں صلح اور امان پیدا ہوتی ہے.باوجود اس کے کہ یورپ انفرادی لحاظ سے انصاف اور آزادی میں ہمارے ملکوں سے بہت بڑھا ہوا ہے.انگلستان میں جو سلوک ایک چور سے کیا جاتا ہے، جو نیک سلوک ایک بدمعاش سے کیا جاتا ہے، جو نیک سلوک ایک ڈاکو سے کیا جاتا ہے، ہم ایک راستباز اور نیک آدمی سے بھی حکومت میں نہیں کرتے.غرض انفرادی طور پر وہ لوگ امن اور چین دینے میں بہت بڑھے ہوئے ہیں لیکن
۵۸۸ جب حکومت کا معاملہ آتا ہے تو وہ کہ دیتے ہیں یہ تو ڈپلومیسی تھی اس سے جھوٹ کا کیا تعلق ہے یہ تو اپنے ملک کی خاطر ایسا کیا گیا ہے.اُنکی تاریخوں میں صفحے کے صفحے ایسے نکلیں گے جن میں یہ ذکر ہو گا کہ میں نے فلاں وقت یہ جھوٹ بولا ہمیں نے فلاں وقت یہ جھوٹ بولا اور اس پر فخر کریں گے.غرض وہ سمجھتے ہیں کہ اخلاق صرف افراد کیلئے ہیں حکومت کیلئے نہیں لیکن قرآن کہتا ہے کہ قوموں کے لئے بھی اخلاق ہیں، حکومت کیلئے بھی اخلاق ہیں اور افراد کیلئے بھی اخلاق ہیں.اگر افراد چاہتے ہیں کہ اُنکے اخلاق درست رہیں، اگر قوم چاہتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول ہو تو اُسے قومی اور سیاسی طور پر بھی سچ بولنا پڑے گا.اُسے قومی اور سیاسی طور پر بھی انصاف کرنا پڑے گا، اُسے قومی اور سیاسی طور پر بھی قوموں کے ساتھ حسن سلوک کرنا پڑے گا.اور اگر افراد چاہتے ہیں کہ اُن کے ملک محفوظ رہیں اور اُن کی عزت قائم رہے تو انہیں انفرادی حقوق کے علاوہ قومی طور پر بھی حقوق ادا کرنے پڑیں گے.تو یہ نمایاں فرق ہے اسلام میں اور دوسرے مذاہب میں.دوسرے مذاہب میں یہ بات نہیں.ابھی حال میں ایک سیاسی لیڈر نے کسی جگہ پر بیان دیا ہے کہ یہ عجیب بات ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ سیاسی لیڈروں کو جھوٹ بولنے کا حق ہے اور جب یہ کہا جاتا ہے تو علماء کو بھی یہ حق کیوں نہیں دیا جاتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے لڑائیوں کے بارہ میں تفصیلی احکام اس عظیم کی جو ترین فرمائی ہے دو ۴۵ اُن احکام سے ظاہر ہے جو آپ اُسوقت دیتے تھے جب آپ کسی کو کمانڈر بنا کر جنگ پر بھجواتے.حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو جنگ پر بھیجتے تھے تو آپ اُسے نصیحت فرماتے تھے کہ تقویٰ اللہ اختیار کرو اور مسلمانوں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور فرماتے ت اغْرُوا بِاسْمِ اللَّهِ وَفِي سَبِيلِ وفِي سَبِيلِ الله الله کا نام لیکر اللہ کی خاطر جنگ کیلئے جاؤ قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللهِ " جو شخص اللہ کا کفر کرتا ہے اُس سے لڑو.اس کے یہ معنے نہیں جس طرح بعض علماء غلط طور پر لیتے ہیں کہ تم کافروں سے لڑو بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے تم سے لڑائی کی ہے اگر وہ مسلمان ہو جائے تو اُس سے لڑائی جائز نہیں.لڑائی کیلئے تو حکم ہے کہ أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ یعنی جنگ کے لئے نکلنے کی تب اجازت دی گئی ہے جب تم.لڑائی کی جائے.اس لئے كَفَرَ بِاللہ اس کے بعد جا کر لگے گا.اگر کسی شخص نے لڑائی شروع کر دی مگر جب تمہارا لشکر پہنچا تو اس نے اسلام کا اعلان کر دیا تو وہ ظلم ختم ہو گیا اب تم کو
۵۸۹ اُس سے لڑنے کی اجازت نہیں.یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ کا فر ہے اور اُس نے لڑائی نہیں کی تو اُس سے جا کر لڑ پڑو.وَلَا تَغْلُوا اور قطعی طور پر مال غنیمت میں خیانت یا سرقہ سے کام نہ لو.وَلَا تَغْدِرُوا اور بد عہدی نہ کرو، کسی کو دھو کا مت دو.اوّل تو مال غنیمت میں کسی قسم کی ناجائز دست اندازی نہ کرو اور پھر جو سزا دو یا اُن سے وعدے کر و اُن کو کسی بہانے سے توڑنا نہیں.انگریزی حکومت سب جگہ اسی طرح پھیلی ہے.پہلے چھوٹا سا معاہدہ کر لینا کہ چھاؤنی رہے گی اور ایک افسر رہے گا.پھر کہا کہ ہمارے فلاں سپاہی کو تمہارے آدمیوں نے چھیڑا ہے اس لئے ارد گرد بھی سات آٹھ گاؤں پر ہم اپنا قبضہ رکھیں گے تا تمہارے لوگ ہمارے آدمیوں کو کچھ کہیں نہیں.پھر اس کے بعد یہ کہہ دیا کہ ہمارے آدمی جو ارد گر در کھے گئے تھے اُنکے ساتھ تمہارے آدمی لڑ پڑے ہیں اس لئے ہم مجبور ہیں کہ دارالخلافہ پر اپنا قبضہ رکھیں تا فساد نہ ہو.پھر کہہ دیا تم نے فلاں حکم دیدیا ہے اس سے ملک میں بغاوت پیدا ہوتی ہے اور بغاوت کا ہم پر بھی بُرا اثر پڑتا ہے اس لئے آئندہ جو حکم دیا کریں ہم سے پوچھ کر دیا کریں.وَلَا تَمْشِلُوا ٢٩ اور مُثلہ کے معنے ہوتے ہیں مرے ہوئے کے ناک کان کاٹ ڈالنا.فرماتا ہے کفار اپنی رسم کے مطابق اگر مسلمان مقتولین کے ناک کان بھی کاٹ دیں تو تم اُنکے مُردوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا کرو.وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيْداً.۵۰ اور کسی نا بالغ بچے کو مت مارا کرو.یعنی صرف جنگی اور سیاسی سپاہی کو مارو جولڑنے کے قابل نہیں ابھی نابالغ ہے اُسے نہیں مارنا کیونکہ وہ پالبداہت جنگ میں شامل نہیں ہوا اور اسلامی تعلیم کے مطابق صرف اُسی کے ساتھ لڑائی کی جاسکتی ہے جو لڑائی میں شامل ہوا ہو.اب اس کے مقابل پر جو کچھ پارٹیشن میں ہوا وہ کیا ہوا کس طرح سینکڑوں بلکہ ہزاروں بچہ مارا گیا.یہ ایک انتہاء درجہ کا ظلم تھا جو کیا گیا.اس طرف کم اور اُدھر زیادہ مگر ہؤا دونوں طرف.مجھے یاد ہے لاہور میں ایک رات کو آواز میں آئیں میں نے اپنے دفتر کا ایک آدمی بُلوایا اور کہا جاؤ پتہ کر و معلوم ہوتا ہے کسی پر ظلم ہو رہا ہے.وہ دوڑ کر گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا کہنے لگا ایک ہندو تھا جسے مسلمانوں نے گھیر لیا تھا اور اُس کو مارنے لگے تھے.میں نے
۵۹۰ کہا پھر تم نے اُس کو بچایا کیوں نہیں؟ اُس نے کہا میں آپ کو خبر دینے آیا ہوں میں نے کہا وہ تو اب تک اُسے مار چکے ہونگے جاؤ جلدی.چنانچہ جب وہ واپس گیا تو اُس نے کہا کہ وہ سڑک پر مرا ہوا پڑا تھا مگر اُس طرف اِس سے کئی گنا زیادہ ظلم ہوا ہے.ہم جس زمانہ میں اُدھر تھے اور یہ لڑائیاں ہو رہی تھیں تو ہمیں پتہ لگتا رہتا تھا کہ کس طرح سے مسلمان مارے جا رہے ہیں، لڑ کے مارے جاتے تھے ، عورتیں ماری جاتی تھیں اور قسم قسم کے مظالم کئے جاتے تھے.چنانچہ جب پارٹیشن ہوئی تو میں جو پہلے اس طرف پنڈت نہرو سے ملاقات کا واقعہ آیا ہوں تو اسی غرض سے آیا تھا کہ پنڈت نہرو صاحب یہاں آئے ہوئے تھے.میں نے سمجھا کہ اُس سے جا کر بات کروں کہ یہ کیا ظلم ہو رہا ہے.سردار شوکت حیات صاحب کے ہاں وہ ٹھہرے تھے میں نے انہیں ملنے کے لئے لکھا تو انہوں نے وقت دے دیا.میں نے اُن سے کہا ہم قادیان میں ہیں گاندھی جی اور قائد اعظم کے درمیان یہ سمجھوتا ہوا ہے کہ جو ہندو ادھر رہے گا وہ پاکستانی ہے اور جو مسلمان اُدھر رہ جائے وہ ہندوستانی ہے اور اپنی اپنی حکومت اپنے اپنے افراد کو بچائے اور وہ لوگ حکومت کے وفادار رہیں.قائد اعظم اور گاندھی جی کے اس فیصلہ کے مطابق ہم چونکہ ہندوستان میں آ رہے ہیں اس لئے ہم آپ کے ساتھ وفاداری کرنے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ آپ ہمیں ہندوستانی بنا ئیں اور رکھیں.وہ کہنے لگے ہم تو رکھ رہے ہیں.میں نے کہا کہ آپ کیا رکھ رہے ہیں فسادات رہے ہیں، لوگ ماررہے ہیں قادیان کے ارد گرد جمع ہورہے ہیں مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے.کہنے لگے آپ نہیں دیکھتے ادھر کیا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا ادھر جو ہو رہا ہے وہ تو میں نہیں دیکھ رہا میں تو اُدھر سے آیا ہوں.لیکن فرض کیجیئے ادھر جو کچھ ہو رہا ہے ویسا ہی ہو رہا ہے تب بھی میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہاں کا جو ہندو ہے وہ تو پاکستانی ہے اور اُس کی ہمدردی پاکستان گورنمنٹ کو کرنی چاہئے ہم ہیں ہندوستانی ، آپ کو ہماری ہمدردی کرنی چاہئے اِس کا کیا مطلب کہ یہاں کے ہندوؤں پر سختی ہو رہی ہے تو آپ وہاں کے مسلمانوں پر سختی کریں گے ؟؟ کہنے لگے آپ جانتے نہیں لوگوں میں کتنا جوش پھیلا ہوا ہے.میں نے کہا آپ کا کام ہے کہ آپ اس جوش کو دبائیں.بہر حال اگر آپ مسلمانوں کو رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اُنکی حفاظت کرنی پڑیگی.وہ کہنے لگے ہم کیا کر سکتے ہیں.لوگوں کو جوش اس لئے آتا ہے کہ آپ کے پاس ہتھیار ہیں آپ انہیں کہیں کہ جو ہتھیار نا جائز ہیں وہ چھوڑ دیں.میں نے کہا آپ یہ تو فرمائیے
۵۹۱ میں اُن کا لیڈر ہوں اور میں انہیں کہتا رہتا ہوں کہ جرم نہ کرو، شرارتیں نہ کرو، فساد نہ کرو، اگر کسی نے ناجائز ہتھیار رکھا ہوا ہے تو کیا وہ مجھے بتا کر رکھے گا.میں تو انہیں کہتا ہوں جرم نہ کرو پس وہ تو مجھ سے چھپائے گا اور جب اُس نے اپنا ہتھیار مجھ سے چھپایا ہوا ہے تو میں اُسے کیسے کہوں کہ ہتھیار نہ رکھے.کہنے لگے آپ اعلان کر دیں کہ کوئی احمدی اپنے پاس ہتھیار نہ رکھے.میں نے کہا اگر میں ایسا کہوں تو میری جماعت تو مجھے لیڈر اسی لئے مانتی ہے کہ میں معقول آدمی ہوں.وہ مجھے کہیں گے صاحب ! ہم نے آپ کو معقول آدمی سمجھ کے اپنا لیڈر بنایا تھا یہ کیا بیوقوفی کر رہے ہیں کہ چاروں طرف سے ہندو اور سکھ حملہ کر رہے ہیں اور مار رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ تم اپنے پاس کوئی ہتھیار نہ رکھو آپ یہ بتائیں کہ ہم جان کیسے بچا ئیں گے؟ کہنے لگے.کہیئے ہم بچائیں گے ، حکومت بچائے گی.جب انہوں نے کہا حکومت بچائے گی تو میں نے کہا بہت اچھا.میں اُسوقت اپنے ساتھ تمام علاقہ کا نقشہ لے کر گیا تھا.میں نے کہا قادیان کے گر د ۸۰ گاؤں پر حملہ ہو چکا ہے جو ہندؤوں اور سکھوں نے جلا دیئے ہیں اور لوگ مار دیئے ہیں.میں یہ نقشہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جب میں اُن سے کہوں گا کہ دیکھو! اپنے پاس ہتھیار نہ رکھو کیونکہ حکومت تمہیں بچائے گی تو وہ کہیں گے کہ سب سے آخری گاؤں جو حد پر تھا جس پر حملہ ہوا تو کیا گورنمنٹ نے اُسے بچایا.میں کہوں گا ارے گورنمنٹ خدا تھوڑی ہی ہے.اُسے آخر آہستہ آہستہ پتہ لگتا ہے کچھ عقل کرو دو چار دن میں گورنمنٹ آ جائے گی.پھر وہ اگلے گاؤں پر ہاتھ رکھیں گے تین دن ہوئے یہ گاؤں جلا تھا کیا گورنمنٹ نے مسلمانوں کو کوئی امداد دی؟ میں کہوں گا خیر کچھ دیر تو لگ جاتی ہے تو وہ اگلے گاؤں پر ہاتھ رکھیں گے اچھا ہم مان لیتے ہیں کہ کچھ دیر لگنا ضروری ہے مگر اس گاؤں پر حملہ کے وقت حکومت نے حفاظت کا انتظام کیوں نہ کیا.میں نے کہا یہ ۸ گاؤں ہیں.۸۰ گاؤں پر پہنچ کر وہ مجھے فاتر العقل سمجھنے لگ جائیں گے یا نہیں کہ جتنے گاؤں ہم پیش کر رہے ہیں اُن میں سے کسی پر بھی حملہ ہوا تو حکومت نہیں آئی.شرمندہ ہو گئے اور کہنے لگے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ امن قائم رکھوں گا.میں نے کہا کتنی دیر میں ؟ کہنے لگے پندرہ دن میں.پندرہ دن میں ریلیں بھی چلا دیں گے تاریں بھی گھل جائیں گی ، ڈاکخانے بھی گھل جائیں گے اور ٹیلیفون بھی جاری ہو جائے گا.آپ چند دن صبر کریں.میں نے کہا.بہت اچھا ہم صبر کر لیتے ہیں لیکن جب پندرہ دن ختم ہوئے تو آخری حملہ قادیان پر ہوا.جس میں سب لوگوں کو نکال دیا گیا.پھر ان
۵۹۲ حملوں میں بچے مارے گئے اور ایسے ایسے ظالمانہ طور پر قتل کئے گئے کہ بچوں کے پیٹوں میں نیزے مار مار کے انہیں قتل کیا گیا.ہم نے اُسوقت تصویر میں لی تھیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ بچوں کے ناک کاٹے ہوئے ہیں کان چرے ہوئے ہیں پیٹ چرا ہوا ہے انتڑیاں باہر نکلی ہوئی ہیں اور وہ تڑپ رہے ہیں.چھوٹے چھوٹے بچے چھ چھ مہینہ کے اور سال سال کے تھے جن پر یہ ظلم کیا گیا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَا تَقْتُلُوا وَلِيْدًا اِن لوگوں نے تمہارے بچوں کو مارا ہے اِن لوگوں نے تمہاری عورتوں کو مارا ہے، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ایک مسلمان عورت کا ایک پیر ایک اونٹ سے باندھ دیا اور دوسرا پاؤں دوسرے سے باندھ دیا اور پھر دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف چلا دیا تھا اور پھر چیر کے مار ڈالا تھا، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے مسلمان عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر اُن کو مارا تھا، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی پر جب کہ وہ مدینہ جانے لگیں اور وہ حاملہ تھی حملہ کیا اور اونٹ کی رسی کاٹ دی جس سے وہ زمین پر گر گئیں اور ان کا حمل ساقط ہو گیا اور پھر وہ مدینہ میں فوت ہو گئیں، یہ وہ لوگ تھے جن سے بدلہ لینے کے لئے مسلمان نکلے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بیشک انہوں نے بچوں کو مارا تھا لیکن تم نے نہیں مارنا ، انہوں نے غیر لڑنے والوں کو مارا تھا لیکن تم نے نہیں مارنا.سیرۃ حلبیہ میں اس کے علاوہ یہ نصیحت بھی درج ہے کہ آپ نے فرمایا.لَا تَقْتُلُوا امراة ال عورت کو بھی نہیں مارنا.پھر فرما یا ولا كبيرا فانسیا ۵۲ کسی بڑھے کو نہیں مارنا.پھر فرما يا وَلَا مُعْتَزِلاً بِصَوْمَعَةٍ ۵۳ کوئی عبادت گزار ہو مسجدوں یا تکیوں میں بیٹھا ہوا ہو اس کو بھی نہیں مارنا.اب دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان کو نہ مارنے کا حکم دیا ہے مگر یہاں گیانی چن چن کر مارے گئے اور وہاں مولوی چن چن کر مارے گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان کو نہیں چھیڑ نا یہ تو خدا کا نام لے رہے ہیں.کیا تم خدا کا نام مٹانا چاہتے ہو؟ چاہے کسی طرح لیتے ہیں لیکن لیتے تو خدا کا نام ہیں اسلئے ان کو نہیں چھیڑنا.پھر فرماتے ہیں.وَلَا تَقْرَبُوا نَخْلاً - ۵۴ کھجور کے درخت کے قریب بھی نہ جاؤ.یعنی اُنکو نہ کاٹ دینا کہ کسی طرح دشمن کو تباہ کریں کیونکہ تم اُن کو تباہ کرنے نہیں جا رہے صرف اُن کے ضرر کو دور کرنے کے لئے جا رہے ہو تمہارا یہ کام نہیں کہ اُن کی روزی بند کر دو.پھر فرمایا وَلَا تَقْطَعُوا شَجَرًا ۵۵ بلکہ کوئی درخت بھی نہ کاٹو.کیونکہ مسافر بیچارہ اس کے نیچے
۵۹۳ پناہ لیتا ہے، غریب بے چارے اُس کے سایہ میں بیٹھتے ہیں اور تم لوگ لڑنے والوں سے لڑنے کے لئے جار ہے ہو.اس لئے نہیں جار ہے کہ وہ قوم سایہ سے بھی محروم ہو جائے اِس لئے اُن کو نہیں کا ٹنا.پھر فرمایا.وَلَا تَهْدِمُوا بِنَاءً " کوئی عمارت نہ گرانا کیونکہ ان کے گرانے سے لوگ بے گھر ہو جائیں گے اور ان کو تکلیف ہوگی.۵۶ اب دیکھو پچھلے فسادات میں کتنے مکان جلائے گئے.لاہور میں ہزاروں مکان جلائے گئے ، امرتسر میں ہزاروں مکان مسلمانوں کے جلائے گئے ، بلکہ کوئی شہر بھی ایسا نہیں جس میں مسلمانوں کے مکانات دس ہیں یا تمیں فیصدی نہ جلائے گئے ہوں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.لَا تَهْدِمُوا بِنَاء.ایک مکان بھی تم کو گرانے کی اجازت نہیں کیونکہ تم اس لئے نہیں جا ر ہے کہ لوگوں کو بے گھر کر دو بلکہ اسلئے جا رہے ہو کہ ظلم کا ازالہ کرو اس سے آگے تم نے کوئی قدم نہیں اُٹھا نا.اسی طرح آپ کی دوسری ہدایات میں ہے کہ ملک میں ڈر اور خوف پیدا نہ کرنا.فوجیں جاتی ہیں تو اُن کی یہی غرض ہوتی ہے کہ لوگوں کو وہ اتنا ڈرائیں کہ اُن کی جان نکل جائے.چنانچہ ۲۰- ۱۹۱۹ء میں امرتسر میں ایک جگہ جنرل ڈائر کے ہندوستانیوں پر مظالم کی عیسائی عورت کوکسی ہندوستانی نے پر ذرا سا مذاق کر دیا.اُس وقت انگریزی حکومت نے جنرل ڈائر کو مقرر کیا اور اُس نے حکم دیا کہ ہر شریف سے شریف اور بڑے سے بڑا آدمی یہاں سے گزرے تو گھسٹتا ہوا جائے.بڑے بڑے لیڈروں کو سپاہی پکڑ کر گرا دیتے تھے اور اُسے کہتے تھے کہ یہاں سے گھٹتا ہوا چل.پھر مُجرم پیش ہوتے تھے تو انہیں بغیر کسی تحقیق کے بڑی بڑی سزائیں دی جاتیں تا لوگوں میں خوف پیدا ہو.ہمارے ساتھ ایک عجیب واقعہ گزرا.ایک شخص نے ایک انگریز مجسٹریٹ کا واقعہ انگریز آفیسر سے لڑائی کی تھی.مسٹر مانٹیگو جو پہلے وزیر ہند تھے انہوں نے خود ذکر کیا کہ یہاں ایک انگریز افسر تھا وہ کسی سے ذرا ئرش کلامی سے بولا تھا تو ہم نے اُسے پہلی سزادی تھی.اس سے پہلے کسی افسر کو سزا نہیں دی تھی.وہی اُن دنوں بدل کے وزیر آباد میں لگا تھا.حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی شہر میں اچھا رسوخ رکھتے تھے اور لوگوں کے ساتھ اُن کا حُسنِ سلوک تھا.مسلمانوں میں سے اکثر اُن کے شاگرد تھے اور ہندو
۵۹۴ بھی اُن کا بڑا ادب کرتے تھے.وہ گلی میں سے گزر رہے تھے اور اُس دن رولٹ ایکٹ کے خلاف جلسہ ہو رہا تھا.ہندو مسلمان اکٹھے ہو کر کہہ رہے تھے کہ بائیکاٹ کرو، ہڑتالیں کرو، یہ کر و وہ کرو.پاس سے یہ گزرے تو لوگوں نے کہا.آئیے آئیے مولوی صاحب ! آپ نے نہیں تقریر کرنی.انہوں نے کہا میں نے تو تمہارے خلاف تقریر کرنی ہے اگر تم نے وہ تقریر سُن لینی ہے تو چلو.انہوں نے کہا.ہمیں یہ بھی منظور ہے آپ خدا کے لئے ضرور تشریف لے چلیں.وہاں کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہا.تم ہڑتال کا وعظ کر رہے ہو لیکن تم نے سال سال کا غلہ گھر میں رکھا ہوا ہے، ہڑتال کر کے تمہارا کیا نقصان ؟ روٹی تمہارے گھر میں موجود ہے، ایندھن تمہارے گھر میں موجود ہے بھینسیں تمہارے گھروں میں ہیں ، گھی تمہارے گھر میں موجود ہے، مصالحہ تمہارے گھروں میں ہے، دالیں تمہارے پاس موجود ہیں تین دن بھی ہڑتال ہوئی تو تمہیں پتہ نہیں لگے گا.لیکن وہ بیوہ عورت جو چکی پیس کر شام کو کھانا کھاتی ہے اُس کا کیا بنے گا تمہاری اس ہڑتال سے وہ مرے گی تمہارا تو نقصان نہیں.یہ کہہ کے بیٹھ گئے.انہوں نے اس کو برداشت کر لیا اور کہا اچھی بات ہے ہم ہڑتال نہیں کریں گے.جب رولٹ ایکٹ کے بعد ہر جگہ مجسٹریٹ مقرر کئے گئے اور مُجرم پکڑے گئے تو اُن کا نام بھی پولیس نے ڈائریوں میں بھیجا کہ انہوں نے تقریر کی تھی لیکن آگے لکھا کہ انہوں نے تقریر یہ کی کہ ہڑتال نہیں کرنی چاہئے اِس سے ملک کو نقصان پہنچے گا.حافظ صاحب بھی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوئے.اُس نے کہا.آپ نے تقریر کی.وہ سمجھتے تھے کہ ہم تو حکومت کی تائید میں ہیں حافظ صاحب نے کہا.میں نے تقریر کی تھی مگر....اس نے کہا ہم مگر وگر نہیں جانتے چھ مہینے قید.انہوں نے کہا.میں کہنے لگا.میں میں کوئی نہیں.تم نے تقریر کی چھ مہینے قید.مجھے پتہ لگا تو میں نے گورنر کے پاس اپنا آدمی بھجوایا اور میں نے کہا.ایسے احمق تم لوگ ہو کہ وہ تو یہ تقریر کرتے ہیں کہ ہڑتال نہ کرو اور لوگوں کو سمجھاتا ہے اور تم اُس کو بجائے انعام دینے کے سزا دیتے ہو.خیر یہ ایسی حیرت انگیز بات تھی کہ آدمی نے مجھے بتایا کہ چیف سیکرٹری نے اُسی وقت تار کے ذریعہ پولیس کی ڈائری منگوائی.مسل میں دیکھا تو لکھا تھا کہ تقریر یہ کی کہ تم کیوں ہڑتالیں کرتے ہو اس سے بیوائیں اور غریب مارے جاتے ہیں.اِس پر اُس نے تار کے ذریعہ احکام دیئے کہ مولوی صاحب کو چھوڑ دیا جائے اور سمتھ کو اُس نے ڈسمس کر دیا کہ تم انگلینڈ واپس چلے جاؤ.تو یہ حال تھا کہ یہ پوچھنا بھی پسند نہ کیا تقریر کی کیا ؟ بس تقریر کرنا کافی ہے چھ مہینے قید.لیکن
۵۹۵ اسلام کہتا ہے کہ ڈرا نا نہیں.ہی نظر آتی ہے.ہماری نانی اماں سنایا ای ایام غدر میں انگریز افسروں کی بربریت غدر کے واقعات دیکھ لو وہاں بھی تخویف کرتی تھیں کہ غدر کے وقت میں چھوٹی تھی.میرے والد بیمار ہو گئے فوج میں ملازم تھے لیکن اُن دنوں بیمار تھے اور ڈیڑھ ماہ سے چار پائی سے نہیں اُٹھے تھے میری پانچ چھ سال کی عمر تھی ، ہلدی کی طرح اُن کی شکل ہو گئی تھی چار پائی پر پڑے تھے.جب انگریز فوج آئی یکدم سپاہی اور انگریز افسر اندر آئے اور وہ اسی طرح گھروں میں گھتے تھے ساتھ کچھ ہندوستانی جاسوس لئے ہوئے تھے افسر نے کہا یہاں کوئی ہے؟ انہوں نے میرے باپ کی طرف اُنگلی اُٹھائی کہ یہ کی بھی لڑائی میں شامل تھا.انہوں نے کہا میں تو بیمار پڑا ہوں کہیں گیا ہی نہیں اس پر افسر نے پستول نکالا اور اُسی وقت انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحابی پر شدید ناراضگی لیکن وہاں یہ حکم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عزیز اور آپ کا ایک مقرب صحابی ایک جنگ پر جاتا ہے اور جب وہ ایک شخص کو مارنے لگتا ہے تو وہ کہتا ہے صَبَوت میں صابی ہو گیا ہوں.وہ لوگ اسلام کا نام نہیں جانتے تھے اور مسلمانوں کو صابی کہتے تھے.صبوت کا یہ مطلب تھا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں.غرض وہ اسلام سے اتنا نا واقف تھا کہ نام بھی نہیں جانتا تھا.کہنے لگا صَبَوت.مگر انہوں نے اُس کو مار ڈالا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ خبر پہنچی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور فرمایا.تم نے اُسے کیوں مارا.انہوں نے کہا.يَا رَسُولَ اللهِ ! اُسے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اسلام کیا ہوتا ہے.اُس نے تو صرف اتنا کہا تھا کہ صَبَوُتُ.آپ نے فرمایا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا اسکو نہیں پتہ تھا کہ اسلام کا نام کیا ہے لیکن اس کا مطلب تو یہی تھا کہ میں اسلام میں داخل ہوتا ہوں.تم نے اس کو کیوں مارا؟ انہوں نے کہا.يَا رَسُولَ اللهِ! میں نے مارا اس لئے کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا.آپ نے فرمایا.نہیں.پھر آپ نے فرمایا تو قیامت کے دن کیا کرے گا جب خدا تجھ سے کہے گا کہ اس شخص نے یہ کہا اور پھر بھی تو نے اُسے قتل کر دیا.اسامہ آپ کے نہایت ہی محبوب تھے.وہ کہتے ہیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نا راضگی کو دیکھ کر اپنے دل میں کہا.اے کاش ! میں اس سے پہلے کا فر ہوتا اور آج میں
۵۹۶ نے اسلام قبول کیا ہوتا تا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا مورد نہ بنتا.۵۷ اب گجا یہ احتیاط کا حکم اور کجا یہ کہ یونہی مارے چلے جاتے ہیں تا کہ سارے ملک میں خوف اور ڈر پیدا کر دیا جائے.اسلام کی طرف سے مفتوحہ ممالک کیلئے سہولتیں مہیا کرنے کا حکم اس طرح فرماتے ہیں کہ جب مفتوحہ ممالک میں جاؤ تو ایسے احکام جاری کرو جن سے لوگوں کو آسانی ہو تکلیف نہ ہو.اور فرمایا جب لشکر سڑکوں پر چلے تو اس طرح چلے کہ عام مسافروں کا راستہ نہ رُکے.ایک صحابی کہتے ہیں ایک دفعہ لشکر اِس طرح نکلا کہ لوگوں کے لئے گھروں سے نکلنا اور راستہ پر چلنا مشکل ہو گیا.اس پر آپ نے منادی کروائی کہ جس نے مکانوں کو بند کیا یا راستہ کو روکا اُس کا جہاد جہاد ہی نہیں ہوا.۵۸ دنیوی نوبت خانوں کے ذریعہ سپاہیوں دنیا کے نوبت خانے جنونِ جنگ پیدا کرنے کیلئے اور سپاہ میں جوش پیدا کرنے کے لئے ہوتے میں جنونِ جنگ پیدا کرنے کی کوشش ہیں.اس لئے کبھی دشمن کے مظالم سنائے جاتے ہیں کبھی یہ بتایا جاتا ہے کہ گویا اس سے ملک کو سخت خطرہ لاحق ہو گیا ہے.کہیں اپنی سپاہ کی تعریف کے پل باندھے جاتے ہیں کہ وہ یوں ملک کے ملک تسخیر کرے گی.کبھی فتح کے وقت سپاہیوں کولوٹ مار کی تلقین کی جاتی ہے تا کہ اُن کے حو صلے بڑھیں.کبھی اُن کے ظلم پر پردہ ڈالا جاتا ہے غرض ایک دیوانگی پیدا کی جاتی ہے.مگر اسلامی نو بت خانہ جیسا کہ میں نے اسلام جنون اور وحشت کو دُور کرتا ہے بتایا ہے وہ ایسے اعلان کرتا ہے کہ جس سے جون کم ہو اور وحشت دُور ہو.مگر باوجود اس کے وہ ایسے اخلاقی معیاروں پر انہیں لے جاتا ہے کہ اُن کے حوصلے شیروں اور بازوں سے بڑھ جاتے تھے.چنانچہ اسلام کہتا ہے تم کو مکان روکنے کی اجازت نہیں ، تم کو سڑکیں روکنے کی اجازت نہیں ، تم کو سختی کی اجازت نہیں، تم کو عورتوں کے مارنے کی اجازت نہیں، تم کو بچوں کے مارنے کی اجازت نہیں، تم کو بڑھوں کے مارنے کی اجازت نہیں ، تم کو عام شہریوں کو مارنے کی اجازت نہیں، تم کو بدعہدی کرنے کی اجازت نہیں ، تم کو پادریوں اور پنڈتوں اور گیانیوں کو مارنے کی اجازت نہیں تم کو درخت کاٹنے کی اجازت
۵۹۷ نہیں.گویا اُس کو ہیجڑا بنا کے رکھ دیتا ہے اور پھر اُمید رکھتا ہے کہ جا اور دشمن کو فتح کر اور پھر اُسکا نقشہ کھینچتا ہے کہ چونکہ ہم نے اُس کو جن باتوں سے روکا ہے وہ سب غیر اخلاقی ہیں اور اُس کی ذہنیت ہم نے اخلاقی بنا دی ہے اس لئے باوجود اسے غیر اخلاقی باتوں سے روکنے کے اُسکی ۵۹ بہادری میں فرق نہیں پڑا.چنانچہ فرماتا ہے.فَمِنْهُم مَّنْ قَضى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّنْ يَنْتَظِرُ اُن میں سے وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے شہید ہو کر اپنے گوہر مقصود کو پالیا اور وہ لوگ بھی ہیں جو ابھی اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب انہیں خدا تعالیٰ کے راستہ میں قربان ہونے کی سعادت حاصل ہوتی ہے.دیکھو ! تم کہتے ہو کہ شرابیں ہم اس لئے پلاتے ہیں تا ہمارا سپاہی پاگل ہو جائے.تم کہتے ہو ہم اُسے ٹوٹنے کی اس لئے اجازت دیتے ہیں کہ اُس کے اندر جوشِ جنون پیدا ہو اور رغبت پیدا ہو ہم اس لئے جھوٹی خبریں مشہور کرتے ہیں تا دشمن بدنام ہو.مثلاً انگلستان میں مشہور کیا گیا کہ جرمن میں جو صابن جنگ عظیم میں جرمنوں کے خلاف استعمال ہوتا ہے وہ سب انگریز مُردوں کی چربی سے تیار کیا گیا ہے.بعد میں میں نے انگریزوں کی کتابیں انگریزوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ پڑھیں تو اُن میں لکھا تھا کہ یہ جھوٹ ہم نے اِس لئے بولا کہ تا لوگوں میں جوش پیدا ہو.اسی طرح کہا گیا کہ جرمن والے جو جہاز ڈبوتے ہیں اُن میں ڈوبنے والے سپاہیوں پر بڑی سختیاں کرتے ہیں اور انہیں مارتے ہیں اور اس خبر کو بھی خوب پھیلا یا گیا.جب جنگ ختم ہوگئی تو انگریزی نیوی نے ایک ڈھال تحفہ کے طور پر جرمن آبدوز کشتیوں کے افسر کو بھجوائی اور لکھا کہ ہم اس یادگار میں یہ تحفہ تم کو بھجواتے ہیں کہ جنگ کے دنوں میں تم نے ہم سے نہایت شریفانہ سلوک کیا.تو یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے بعد میں انہوں نے خود مانا کہ ہم نے یہ جھوٹ اس لئے بولا تھا کہ قوم میں جرمنی کے خلاف غم و غصہ پیدا ہو.مگر اسلام سچائی کی تعلیم دیتا ہے.وہ فرماتا ہے لَا يَجْرِ مَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِ لُوْا اِعْدِ لُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوى.کوئی قوم کتنی ہی دشمنی کرے تم نے اُس پر جھوٹ نہیں بولنا، تم نے اُس پر افتراء نہیں کرنا ، تم نے اُس پر الزام نہیں لگانا بلکہ سچ بولنا ہے.ہاں زیادہ سے زیادہ تم اتنا کر سکتے ہو کہ جتنا انہوں نے کیا ہے اتنا تم بھی کر لو ، اس سے زیادہ نہیں لیکن اس صورت میں بھی اگر وہ مثلاً تمہارے ناک کان کاٹتے ہیں تمہاری عزت پر حرف لاتے ہیں تو تم مارنے کے تو جنگ میں مجاز ہو لیکن تمہیں یہ اجازت نہیں کہ مُردہ ناک کان کاٹو کیونکہ مُردہ کی زندگی
۵۹۸ اب ختم ہو چکی ہے.تم زندہ سے اپنا بدلہ لے سکتے ہو مُردہ سے بدلہ لینے کی تم کو اجازت نہیں.حضرت مالک کی غیر معمولی شجاعت اور اُن کا واقعہ شہادت پھر فرماتا ہے چونکہ ہم نے اخلاقی بنیادوں پر مسلمانوں کو قائم کر دیا ہے اسلئے مسلمان سپاہی ایسا ہے کہ فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يُنْتَظِرُ کوئی تو ایسا ہے کہ اُس نے اپنے وعدے پورے کر دیئے ہیں اور کوئی ابھی انتظار میں ہے کہ جب بھی موقع ملے گا میں اپنا سب کچھ قربان کر کے پھینک دونگا.چنانچہ مشہور واقعہ ہے کہ بدر کی جنگ کے بعد جب صحابہ نے آکر بیان کیا کہ لڑائی ہوئی تو ہم یوں لڑے اور ہم نے یوں بہادری دکھائی تو ایک صحابی جن کا نام مالک تھا وہ اتفا قالڑائی میں نہیں گئے تھے کیونکہ بدر کی جنگ میں جانے کا سب کو حکم نہیں تھا.جب وہ یہ باتیں سنتے تھے تو انہیں غصہ آجاتا تھا اور وہ مجلس میں ٹہلنے لگ جاتے تھے اور کہتے تھے کیا ہے یہ لڑائی جس پر تم فخر کرتے پھرتے ہو موقع ملا تو ہم دکھا ئیں گے کہ کیطرح لڑا جاتا ہے.اب بظاہر غرور کرنے والا آدمی بُز دل ہوا کرتا ہے مگر وہ اخلاص سے کہتے تھے.جب اُحد کا موقع آیا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کو بھی لڑنے کا موقع دے دیا جب فتح ہو گئی تو چونکہ وہ بھو کے تھے کھانا انہوں نے نہیں کھایا تھا چند کھجور میں اُن کے پاس تھیں جنگ کے میدان سے پیچھے آکر انہوں نے ٹہلتے ٹہلتے کھجوریں کھانی شروع کیں.اتنے میں پیچھے سے خالد نے آکر حملہ کیا اور اسلامی لشکر اس اچانک حملہ سے تتر بتر ہو گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خبر مشہور ہو گئی کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.حضرت عمر پیچھے آکے ایک پتھر پر بیٹھ کر رونے لگ گئے.مالک ٹہلتے ٹہلتے جو وہاں پہنچے تو کہنے لگے عمر! تمہاری عقل ماری گئی ہے خدا نے اسلام کو فتح دی ، دشمنوں کو شکست دی اور آپ ابھی رو رہے ہیں.عمر کہنے لگے مالک تمہیں پتہ نہیں بعد میں کیا ہوا ؟ انہوں نے کہا کیا ہوا ؟ کہنے لگے پہاڑ کے پیچھے سے یکدم دشمن نے حملہ کیا ، مسلمان پالکل غافل تھے حملہ میں لشکر بالکل تتر بتر ہو گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے.چند کھجور میں جو اُن کے پاس تھیں اُن میں سے ایک اُن کے ہاتھ میں باقی تھی وہ کھجور انہوں نے اُٹھائی اور اُٹھا کر زمین پر ماری اور مار کے کہنے لگے.میرے اور جنت کے درمیان اس کھجور کے سوا اور کیا روک ہے.غرض وہ کھجور انہوں نے پھینک دی اور پھر کہنے لگے عمرؓ! اگر یہ بات ہے تو پھر بھی اس میں رونے کی کونسی بات ہے جدھر ہمارا محبوب گیا اُدھر ہی ہم بھی جائیں گے.یہ کہا اور تلوار کھینچ کر دشمن پر
۵۹۹ حملہ کر دیا اور اس بے جگری سے لڑے جب ایک ہاتھ کاٹا گیا تو دوسرے ہاتھ سے تلوار پکڑ لی، دوسرا ہاتھ کاٹا گیا تو منہ میں تلوار پکڑ کر جنگ کرنی شروع کی.جب انہوں نے منہ بھی زخمی کر کے خود وغیرہ کاٹ دی تو لاتیں ہی مارنی شروع کر دیں، آخر انہوں نے ٹانگیں بھی کاٹ دیں.جنگ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کی بہن سے پتہ لگا کہ وہ رہ گئے ہیں تو آپ نے فرمایا اُن کی تلاش کرو.صحابہ تلاش کرنے گئے تو انہوں نے کہا ہم نے کہیں اُن کی لاش نہیں دیکھی.بہن نے کہا وہ وہاں گئے ہیں اور اس نیت سے گئے ہیں کہ میں وہاں شہادت حاصل کرونگا اور کہیں وہ نہیں دیکھے گئے ضرور وہیں ہو نگے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے ضرور ہونگے تم جاؤ اور تلاش کرو.چنانچہ وہ پھر گئے اور سب جگہ تلاش کرتے رہے کہنے لگے.يَا رَسُولَ اللهِ ! اور تو کہیں پتہ نہیں لگتا ایک لاش کے ستر ٹکڑے ہم کو ملے ہیں وہ اگر ہو تو ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی بہن کو کہا کہ جاؤ اور دیکھو.اُن کی ایک اُنگلی پر نشان تھا.بہن نے اُسے پہچان کر کہا ہاں! یہ میرے بھائی کی لاش ہے.یہ کتنا عظیم الشان بہادری کا مقام ہے اور کتنی بڑی قربانی ہے.کیا دنیا کی کوئی تاریخ اس قسم کی مثال پیش کر سکتی ہے.لشکر شکست کھاتے ہیں تو بھاگتے ہوئے سانس بھی نہیں لیتے پھر ہارتے ہیں تو دل کی ٹوٹ جاتا ہے مگر عمر جیسا بہادر روتا ہے تو وہ کہتا ہے یہ کیا بیہودہ بات ہے.کیا تم اس لئے روتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو ہم نے اس دنیا میں رہ کر کیا لینا ہے.سورۃ العدیت کی لطیف تفسیر پھر نوبت بجا کر سوار تو سوار گھوڑوں میں بھی جوش پیدا کیا جاتا تھا.اسی طرح اس نوبت خانہ سے بھی کام لیا گیا ہے.ہے.فرماتا ہے وَالعَدِيتِ ضَبْحَاهُ فَالْمُؤرِيتِ قَدْ حا ل فَالْمُغِيرَاتِ صُبْحَاةٌ فَاثَرْنَ بِهِ نَقُعًا لا فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا ال ان آیات میں اللہ تعالیٰ اسلامی لشکر کے متعلق یہ بیان فرماتا ہے کہ وہ کس شکل اور شان سے مخالفین کے مقابل پر نکلے گا.فرماتا ہے.وَالْعدِیتِ ضَبُحًا.عادی کے معنے ہوتے ہیں دوڑنے والا اور صبح گھوڑے کی دوڑوں میں سے ایک خاص دوڑ کا نام ہے جس میں گھوڑا سرپٹ دوڑ پڑتا ہے پس وَ الْعَدِیتِ ضَبُحًا کے یہ معنے ہوئے کہ ہم اُن گھوڑوں کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو دوڑتے وقت صبح چال اختیار کرتے ہیں.یعنی شدت جوش سے سر پر
۶۰۰ کے دوڑ پڑتے ہیں اور یہ طریق ہمیشہ فخر اور اظہارِ بہادری کے لئے اختیار کیا جاتا ہے.صبح دوسرے معنے گھوڑے کا اگلے پاؤں لمبے کر کے مارنا ہوتا ہے جس سے اُس کے بازوؤں اور بغلوں میں فاصلہ ہو جائے.پس دوسرے معنے اس کے یہ ہونگے کہ ہم اُن گھوڑوں کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو اگلے پاؤں لمبے کر کے مارتے اور اُچھل کر دوڑتے ہیں جس کے نتیجہ میں اُن کو کی بغلوں اور بازوؤں میں لمبا فاصلہ ہو جاتا ہے.یہ چیز شدت شوق پر دلالت کرتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ گھوڑے کے اندر تو کوئی شدت شوق نہیں ہوتی گھوڑے میں شدت شوق اپنے سوار کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.وہ جب دیکھتا ہے کہ میرے سوار کے اندر جوش پایا جاتا ہے تو گھوڑا بھی اس کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے.مقبلا نہ پر تیسرے معنے دوڑتے وقت گھوڑے کے سینہ سے آواز نکلنے کے ہیں جو عزم دلالت کرتی ہے.جب نہ سوار کو موت سے دریغ ہوتا ہے نہ گھوڑا اپنی جان کی پرواہ کرتا ہے.گو بظاہر اس جگہ گھوڑوں کا ذکر کیا گیا ہے لیکن مُراد سواروں کی حالت کا بتانا ہے کیونکہ گھوڑا اپنے سوار کی قلبی حالت سے متاثر ہوتا ہے اور یہ اُسی وقت ہوتا ہے جبکہ سوار کی دلی حالت اُس کے تمام جوارح سے ظاہر ہونے لگے.مثلاً دوڑتے ہوئے سوار شوق کی شدت کی وجہ سے ایک ہی وقت میں ایڑیاں مارنے لگے مُنہ سے سیٹی بجانے لگے یا اُسے شاباش کہنے لگے.اسی طرح باگ کو کھینچ کھینچ کر چھوڑے آگے کو جھک جائے تو گھوڑا سمجھ جاتا ہے کہ میرے سوار کی حالت والہا نہ ہو رہی ہے اور مجھے بھی ویسا ہی بننا چاہئے تب وہ خود بھی اُس کے دل کی کیفیت کے مطابق دوڑنا شروع کر دیتا ہے.پس اس آیت میں مسلمان سواروں کے دل کی کیفیت کی شدت گھوڑوں کی حالت سے بتائی ہے کہ ان کے جذبات اس قدر بھڑک رہے ہونگے کہ اُس کا اثر خود گھوڑوں پر بھی جا پڑے گا اور وہ اپنے سوار کی قلبی کیفیت کے مطابق قابو سے باہر ہو جائیں گے اور گودمیں گے اورلڑائی میں جاتے ہوئے گلے سے اُن کی آوازیں نکلیں گی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے لڑائی کے میدان میں اس طرح جائیں گے کہ گویا کسی بڑی شادی میں شامل ہونے کے لئے جا رہے ہیں.جس کے یہ معنے ہیں کہ مسلمان مجاہد کثیر التعداد دشمن سے ڈرے گا نہیں بلکہ جنگ کو ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھے گا اور یقین رکھے گا کہ اگر میں مارا گیا تو جنت میں جاؤنگا اور اگر زندہ رہا تو فتح حاصل کرونگا کیونکہ ان دو کے سوا اور کوئی تیسری صورت مسلمان کے لئے نہیں.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار سے کہو کہ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا
۶۰۱ إحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ " یعنی تم جو ہم سے دشمنی کرتے ہو اور ہم پر حملے کرتے ہو تو یہ بتاؤ کہ تمہیں ہمارے متعلق کیا امید ہے؟ دو ہی چیزیں ہماری ہیں تیسری تو ہو نہیں سکتی.یا تو یہ کہ ہم زندہ رہیں تو جیت جائیں اور یا ہم مارے جائیں اور جنت میں چلے جائیں.ان دونوں میں سے کونسی چیز ہمارے لئے نقصان دہ ہے.آیا ہما را جیت جانا ہمارے لئے نقصان دہ ہے یا ہمارا جنت میں چلے جانا ، دونوں ہمارے لئے برابر ہیں.ہم زندہ رہے تو فتح حاصل کریں گے اور اگر مر گئے تو جنت میں جائیں گے.پس تم تو جو بھی ہمارے متعلق خواہش رکھتے ہو وہ ہمارے لئے اچھی ہے.تم کہتے ہو مر جاؤ حالانکہ اگر ہم مر گئے تو ہم جنت میں چلے جائیں گے.چنانچہ ایک صحابی کے متعلق آتا ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک صحابی کا بیان کہ اُسے اسلام میں آخر میں مسلمان ہوا تھا اور میرے مسلمان قبول کرنے کی کیسے تحریک ہوئی؟ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ میں ایک جگہ ایک قبیلہ میں مہمان تھا.انہوں نے کہا ہم نے کچھ مسلمان گھیرے ہیں چلو تم بھی لڑائی میں شامل ہو جاؤ.مجھے اُس وقت مسلمانوں کا کچھ پتہ نہیں تھا.میں اپنے دوستوں کی خاطر چلا گیا.وہاں انہوں نے ایک صحابی کو نیچے اُتارا اور اُس کے سینہ میں نیزہ مارا.جب نیزہ مارا گیا تو اُس نے کہا فُزُتْ وَرَبِّ الْكَعْبَة " مجھے کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا.کہنے لگا میں سخت حیران ہوا.مجھے مسلمانوں کے متعلق کچھ پتہ نہیں تھا.میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ کوئی پاگل تھا کہ تم نے اس کو نیزہ مارا اور یہ گھر سے دُور بے وطنی میں اور اپنے رشتہ داروں سے الگ بجائے اس کے کہ روتا چلاتا یہ کہتا ہے کہ میں کامیاب ہو گیا.کامیابی اس نے کونسی دیکھی ہے؟ انہوں نے کہا مسلمان پاگل ہی ہوتے ہیں.یہ سمجھتے ہیں کہ موت میں بڑی خوبی ہے.جب انہیں مارا جائے تو کہتے ہیں ہم کا میاب ہو گئے.وہ کہتا ہے میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ایسی قوم کو تو دیکھنا چاہئے چنانچہ میں چوری چوری نکلا اور مدینہ گیا.وہاں دو تین دن رہنے کے بعد اسلام کی صداقت ثابت ہوگئی اور میں مسلمان ہو گیا.پھر انہوں نے گرتہ اُٹھایا اور کہنے لگا دیکھو! میرے بال کھڑے ہیں میں جب بھی یہ واقعہ یاد کرتا ہوں تو بال کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ ایسا نظارہ تھا کہ جنگل میں ایک شخص اپنے وطن سے دُور فریب اور دھوکا بازی سے مارا گیا مگر بجائے اس کے کہ وہ غم کرتا روتا اور اپنے بیوی بچوں کو یاد کرتا ا وطن کو یاد کرتا وہ کہتا ہے فُزُتْ وَرَبِّ الْكَعْبَة.کعبہ کے رب کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا.
۶۰۲ وہ اس کے مقابلہ میں کا فر کو کیا اُمید ہو سکتی ہے اُس کے لئے بھا گنا تو مجرم ہے ہی نہیں.ہمارے ہاں تو یہ ہے کہ بھا گو گے تو جہنم میں جاؤ گے اس لئے مسلمان تو بھاگ سکتا ہی نہیں آخر وقت تک کھڑا رہے گا.اس کے لئے صرف دو ہی صورتیں ہیں تیسری کوئی صورت نہیں.یا تو وہ مر جائے گا اور یا جیت جائے گا اور دونوں اُس کے لئے اچھی باتیں ہیں.جیتے گا تو جیت گیا اور مرے گا تو جنت میں جائے گا.اور کافر یا تو مر گیا اور دوزخ جائے گا اور یا بھاگے گا اور شکست کھائے گا.اور جسے ایک طرف اپنی شکست کا خطرہ ہو اور دوسری طرف موت کا اُس سے بہادری کب ظاہر ہوسکتی ہے.تین چار سال کی بات ہے میں کو ئٹہ گیا تو وہاں کوئٹہ میں ایک فوجی افسر سے ملاقات مجھے کچھ فوجی افسر ملنے آئے.اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اِسی دوران میں کشمیر کا بھی ذکر آ گیا میں نے کہا کشمیر مسلمانوں کو ضرور ملنا چاہئے ورنہ اس کے بغیر پاکستان محفوظ نہیں رہ سکتا.دوسرے دن میرے پرائیویٹ سیکرٹری نے مجھے لکھا کہ فلاں کرنیل صاحب آپ سے ملنے کے لئے آئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ میں نے الگ بات کرنی ہے.میں نے اُن کو لکھا کہ آپ کو کوئی غلطی تو نہیں لگی یہ تو گل مجھے مل کر گئے ہیں.انہوں نے کہا یہ بات تو درست ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک پرائیویٹ بات کرنی ہے.میں نے کہا لے آؤ چنا نچہ وہ آگئے.میں نے کہا فرمائیے آپ نے کوئی الگ بات کرنی تھی.کہنے لگے جی ہاں.میں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگے آپ نے کہا تھا کہ ہمیں کشمیر لینا چاہئے اور اس کے لئے ہمیں قربانی کرنی چاہئے یہ بات آپ نے کس بناء پر کہی تھی؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہندوستان کے پاس فوج زیادہ ہے؟ میں نے کہا میں خوب جانتا ہوں کہ اُس کے پاس فوج زیادہ ہے.کہنے لگے تو کیا آپ یہ نہیں جانتے کہ جو بندوقیں ہمارے پاس ہیں وہی اُن کے پاس ہیں؟ میں نے کہا ٹھیک ہے.کہنے لگے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اُن کے پاس ڈم ڈم کی فیکٹری ہے جو ہزاروں ہزار بندوق اُن کو ہر مہینے تیار کر کے دے دیتی ہے؟ میں نے کہا.ٹھیک ہے.کہنے لگے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اُن کے پاس اتنا گولہ بارود ہے اور آٹھ کروڑ کا گولہ بارود جو ہمارا حصہ تھا وہ بھی انہوں نے ہم کو نہیں دیا.میں نے کہا ٹھیک ہے.کہنے لگے آپ کو معلوم نہیں کہ اُن کے ہاں ہوائی جہازوں کے چھ سکوارڈن ہیں اور ہمارے ہاں صرف دو ہیں.میں نے کہا ٹھیک ہے.کہنے لگے اُن کی اتنی آمد ہے اور ہماری اتنی آمد ہے.میں نے کہا یہ
۶۰۳ بھی ٹھیک ہے.کہنے لگے جن کا لجوں میں وہ پڑھے ہیں انہی کالجوں میں ہم بھی پڑھتے ہیں ہمیں اُن یر علمی رنگ میں کوئی برتری حاصل نہیں.میں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے.کہنے لگے پھر جب ہماری فوج کم ہے اور اُنکی زیادہ ہے، گولہ بارود اُن کے پاس زیادہ ہے، تو ہیں اُن کے پاس زیادہ ہیں، ہوائی جہاز اُن کے پاس زیادہ ہیں، آمد ان کی زیادہ ہے اور ہم بھی انہی کالجوں میں پڑھے ہوئے ہیں جن میں وہ پڑھے ہیں، ہمارے اندر کوئی خاص لیاقت نہیں تو پھر آپ نے کس بناء پر ہمیں کہا تھا کہ ہمیں کشمیر لینا چاہئے؟ میں نے کہا دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كَمُ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةً بِاِذْنِ اللهِ کہ کئی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ بات اسی لئے بیان فرمائی ہے کہ تم تھوڑے اور کمزور ہو کر ڈرا نہ کرو.خدا تعالیٰ طاقت رکھتا ہے کہ تمہیں بڑوں پر غلبہ دے دے اسلئے آپ گھبراتے کیوں ہیں؟ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیئے.بے شک آپ تھوڑے ہیں لیکن خدا تعالیٰ آپ کو طاقت دیگا.پھر میں نے کہا.میں تم کو ایک موٹی بات بتا تا ہوں تم مسلمان ہو کیا تمہیں معلوم ہے یا نہیں قرآن نے یہ کہا ہے کہ اگر تم مارے گئے تو جنت میں جاؤ گئے.کہنے لگا.جی ہاں! میں نے کہا اب دو ہی صورتیں ہیں کہ اگر تم میدان میں کھڑے رہو گے اور زندہ رہو گے تو جیت جاؤ گے اور اگر مارے جاؤ گے تو جنت میں چلے جاؤ گے اب بتاؤ کیا تمہارے اندر مرنے کا کوئی ڈر ہو سکتا ہے؟ کیونکہ تم سمجھتے ہو کہ اگر میں لڑائی کے میدان میں کھڑا رہا اور لڑتا رہا تو دو ہی صورتیں ہیں یا جیت جاؤں گا یا جنت میں چلا جاؤنگا.پس تمہاری بہادری کا ہندو کس طرح مقابلہ کر سکتا ہے وہ تو یہ جانتا ہے کہ اگر میں مر گیا تو بندر بن جاؤنگا یا سور بن جاؤنگا یا کتا بن جاؤنگا.یہ اُس کا تناسخ ہے.تم تو یہ جانتے ہو کہ مر کے جنت میں چلے جائیں گے اور وہ یہ جانتا ہے کہ مرکے گتا بن جاؤ نگا ، سور بن جاؤنگا ، بندر بن جاؤ نگا.تو مسلمان اور ہندو کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہو سکتا.اُسے تو کتا یا سور بننے کا ڈر لگا ہوا ہے اور تم میں جنت جانے کا شوق ہے تمہارا اور اُس کا مقابلہ کیسے ہو سکتا ہے.تو حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کیلئے دلیری کے اتنے مواقع پیدا کر دیئے گئے ہیں کہ اُسکو کوئی گزند آ ہی نہیں سکتی.اس کے بعد فرماتا ہے.فَالْمُورِيتِ قَدْحًا مُورِی کے معنے آگ نکالنے کے ہوتے ہیں اور قَدْحًا کے معنے ہوتے ہیں مارکر.پس فَالْمُورِيتِ قَدْحًا کے یہ معنے ہوئے کہ وہ ایک چیز کو دوسری سے مار کر آگ جلاتے ہیں.جیسا کہ پہلے زمانہ میں لوگ چقماق سے آگ جلایا
۶۰۴ کرتے تھے.اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ گھوڑوں کے سموں سے تیز دوڑنے کی وجہ سے جو آگ پیدا ہو.لیکن اس جگہ پر سموں کے معنے اس لئے نہیں کئے جا سکتے کہ وَالْعَدِيتِ صَبْحًا میں اس کا ذکر آچکا ہے اور بتایا جا چکا ہے کہ گھوڑے دوڑتے ہیں اور انہیں سانس چڑھ جاتا ہے اور جس کو سانس چڑھے گا اُس کے سموں سے آپ ہی آگ نکلے گی.پس یہاں آگ جلانے کا ذکر ہے اور حدیثوں سے بھی پتہ لگتا ہے کہ اس جگہ مراد یہ ہے کہ وہ لوگ اُترتے ہیں اور کھانے وغیرہ پکاتے ہیں اور آگ جلاتے ہیں.اس میں سواروں کی بہادری اور اطمینان کی طرف اشارہ ہے کہ وہ دشمنوں سے ڈریں گے نہیں ، کھلے کیمپ لگائیں گے اور آگ روشن کریں گے.دشمن سے ڈر کر روشنیاں بجھا ئیں گے نہیں.جیسے فتح مکہ کے وقت ابوسفیان کا روشنیوں سے پریشان ہو جانا اسکی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے.جب لشکر اپنے دشمن سے ڈرتا ہے تو شبخون سے بچنے کے لئے اپنے پڑاؤ کا نشان نہیں دیتا.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسلمان خوب روشنی کر کے پڑاؤ کریں گے اور دشمن سے ڈریں گے نہیں کیونکہ کہیں گے کہ اُس نے ہمیں مارنا ہی ہے نا تو مرکز جنت میں چلے جائیں گے ہمیں ڈرکس بات کا ہو.حضرت ضرار کا واقعہ تاریخ میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک عیسائی جرنیل نے بہت سے سپاہی مار دیئے اسلامی کمانڈر انچیف نے ضرار بن ازور کو بلایا اور کہا.تم جاؤ تم بڑے بہادر آدمی ہو اور اُس سے جا کر لڑو.بہت سے مسلمان مارے گئے ہیں اور بد دلی پھیل رہی ہے.وہ لڑنے کے لئے گئے جب اُس کے سامنے کھڑے ہوئے تو یکدم واپس بھاگے.مسلمانوں میں بددلی پیدا ہوئی اور انہوں نے بہت تعجب کیا کہ ایک صحابی ہے اور وہ اِس طرح بھاگا ہے.کمانڈر نے ایک شخص سے کہا تم اس کے پیچھے پیچھے جاؤ اور دیکھو کیا بات ہے؟ جب وہ پہنچا تو ضرار اپنے خیمہ سے نکل رہے تھے.انہوں نے کہا ضرار ! آج تم نے بڑی بد نامی کرائی ہے.تمہارے دوست افسوس کر رہے ہیں کہ تم نے اس طرح اسلام کو ذلیل کیا ، تم کیوں بھاگے تھے ؟ انہوں نے کہا میں بھا گا نہیں.اصل بات یہ ہے کہ میں نے صبح اتفاقاً زِرہ پہنی تھی جب میں اس کے سامنے گیا تو میرے دل میں خیال آیا کہ اتنا بڑا بہادر ہے کہ اس نے کئی آدمی مارے ہیں میں نے زرہ پہنی ہوئی ہے.فرض کرو اگر اُس نے مجھے مار لیا تو اللہ مجھ سے پوچھے گا کہ ضرار کیا تم میرے ملنے سے اتنا گھبراتے تھے کہ زرہیں پہن پہن کر جاتے تھے.تو میں نے خیال کیا کہ اگر میں مر گیا تو ایمان پر نہیں مروں گا.چنانچہ میں بھا گا ہوا اندر گیا اور
میں نے وہ زرہ اُتار دی.چنانچہ دیکھ لو اب میں صرف گر نہ پہن کر اس کے مقابلہ کیلئے جا رہا ہوں.تو اسقدر اُن کے اندر مرنے کا شوق ہوتا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنا ایک بہت بڑی سعادت اور نعمت ہے.پھر فرماتا ہے فَالْمُغِيرَاتِ صُبحا.یہ سپاہی باوجود دیوانگی سے کلی طور پر روکے جانے کے اور شراب کے حرام ہونے کے اور لوٹ مار اور قتل و غارت سے روکے جانے کے اتنے دلیر ہونگے کہ دشمن کے پاس پہنچ کر ڈیرے ڈال دیں گے اور رات کو حملہ نہیں کریں گے بلکہ صبح ہونے پر حملہ کریں گے تا کہ بے خبر اور سوتے ہوئے دشمن پر حملہ نہ ہو اور اُسے لڑنے کا موقع ملے.گویا چونکہ شہادت کے دلدادہ ہو نگے ، دشمن کو مقابلہ کا موقع دیں گے.دوسرے براءت اور توبہ کا موقع دیں گے کہ اگر وہ چاہے تو اسلام کا اظہار کرے.تیسرے غلط فہمی سے بچیں گے کہ غلطی سے کسی اور پر حملہ نہ ہو جائے.فَاثَرْنَ بِهِ نَفْعًا.اس میں یہ بتایا ہے کہ رات کو ڈیرے اس لئے نہیں ڈالیں گے کہ دشمن کے قریب آکر جوش ٹھنڈا ہو گیا ہے بلکہ مردانگی اور بہادری کے اظہار کے لئے ایسا کریں گے ور نہ صبح ہونے پر جب دشمن ہوشیار ہو جائے گا اُن کی روشنیوں کو رات کو دیکھے گا صبح اُنکی اذانیں سُنے گا اور لڑنے کے لئے آمادہ ہو جائے گا اور پھر یہ والہا نہ طور پر اُس کی طرف گھوڑے دوڑائیں گے حتی کہ صبح کے وقت جب شبنم کی وجہ سے غبار دبا ہوا ہوتا ہے اُن کے تیز دوڑنے کی وجہ سے اُس صبح کے وقت بھی زمین سے گرد وغبار اُٹھے گا.پھر فرماتا ہے فَوَسَطنَ بِهِ جَمْعًا.جس وقت وہ دوڑتے ہوئے اور گرد اڑاتے ہوئے پہنچیں گے بغیر تھے دشمن کی صفوں میں گھس جائیں گے.بہ میں صبح کی طرف بھی ضمیر پھیری جاسکتی ہے.اگر صبح کی طرف ضمیر پھیریں تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ وہ بہادر ہرات کے اندھیرے میں نہیں بلکہ صبح کی روشنی میں دشمن کی آنکھوں کے سامنے اس کی صفوں میں گھس جائیں گے.اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ دشمن کے پراگندہ ہونے کی حالت میں خواہ دن ہو یا رات حملہ نہیں کریں گے بلکہ جب وہ صف آرا ہو جائے تب اس پر حملہ کریں گے.اس آیت میں اُن کی بہادری کی طرف دو اشارے ہیں.ایک تو یہ کہ وہ سامنے کھڑے ہوکر پہلو بچاتے ہوئے حملہ نہیں کریں گے بلکہ جوش کی فراوانی میں دشمن کی صفوں کے اندر گھس ئیں گے حالانکہ جب خطرہ بڑھ جاتا ہے دشمن نرغہ میں لینے کے قابل ہو جاتا ہے.
۶۰۶ دوسرا اشارہ یہ ہے کہ وہ صبح ہی صبح دشمن کی صفوں کو چیر دیں گے.یعنی اُن کا حملہ اتنا شدید ہو گا کہ سورج نکلنے کے بعد حملہ کرنے کے باوجود دھوپ نہیں آنے پائے گی کہ دو پہر.پہلے پہلے وہ دشمن کو کاٹ کر رکھ دیں گے اور اُس کے اوپر غالب آجائیں گے.ނ فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا کے نظارے صحابہ میں نہایت دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے دو شاندار ملتے ہیں.بدر کی جنگ میں حضرت نوجوان لڑکوں کا ابو جہل کو مار گرانا عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں کھڑا تھا اور ابو جہل ہم سے تین گنا لشکر لے کر کھڑا تھا ، پھر اُن کے پاس زر ہیں اور سامانِ جنگ بھی زیادہ تھا اور وہ خود پہنے ہوئے تھے.دل میں خیال پیدا ہوا کہ آج میں اچھی طرح لڑوں گا مگر پھر میں نے اپنے اِدھر اُدھر جو دیکھا تو میں نے دیکھا کہ میرے دائیں بائیں دو انصاری لڑکے کھڑے ہیں جن کی پندرہ پندرہ سال کی عمر تھی.دل میں خیال آیا کہ آج تو بڑی بڑی ہوئی آج تو لڑنے کا موقع تھا اور ارد گر دلڑ کے کھڑے ہیں انہوں نے کیا کرنا ہے؟ دل میں یہ خیال آرہا تھا کہ ایک لڑکے نے مجھے کہنی ماری.میں نے اُس کی طرف دیکھا تو کہنے لگا.چچا نیچے ہو کر میری بات سنو.میں نے اپنا کان اس کی طرف کیا تو اُس نے کہا چا! میں نے سُنا ہے کہ ابو جہل خبیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تکلیفیں دیا کرتا ہے میرے دل میں اُس کے متعلق غصہ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اُسے ماروں وہ کون ہے؟ وہ کہتے ہیں میں حیرت زدہ ہو گیا کیونکہ باوجود اتنا تجربہ کار جرنیل ہونے کے میرے اندر بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ میں ابو جہل کو مار سکتا ہوں کیونکہ سامنے دشمن کی ساری صفیں کھڑی تھیں ، دو تجربہ کار جرنیل اُس کے سامنے پہرہ دے رہے تھے اور وہ بیچ میں گھرا ہوا تھا.لیکن میری حیرت ابھی دُور نہیں ہوئی تھی کہ دوسری طرف سے مجھے کہنی لگی.میں اُس طرف متوجہ ہوا تو دوسرا نو جوان مجھے کہنے لگا چا! ذرا کان نیچے کر کے میری بات سنیں تا دوسرا نہ سُنے کیونکہ رقابت تھی.کہنے لگے میں نے کان نیچے کیا تو اُس نے بھی یہی کہا کہ چا! میں نے سُنا ہے ابو جہل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑا دکھ دیا کرتا ہے ، میرا دل چاہتا ہے کہ میں اُس کو ماروں مجھے بتاؤ وہ کون ہے؟ وہ کہتے ہیں تب تو میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی.میں نے سمجھا بچے ہیں جوش میں کہہ رہے ہیں.میں نے اُنگلی اُٹھائی اور کہا یہ دیکھو دشمن کی صفیں کھڑی ہیں ان کے پیچھے وہ شخص جس کے آگے دو آدمی نگی تلوار میں لئے کھڑے ہیں وہ ابو جہل.
۶۰۷ وہ کہتے ہیں میری اُنگلی ابھی نیچے نہیں ہوئی تھی کہ وہ لڑ کے باز کی طرح گودے اور صفوں کو چیرتے ہوئے اُس تک جا پہنچے.جاتے ہی ایک پر ابو جہل کے بیٹے عکرمہ نے وار کیا اور اُس کا ہاتھ کاٹ دیا لیکن اُس کا دوسرا ساتھی پہنچ گیا.جس کا ہاتھ کا نا گیا تھا اُس نے جلدی سے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ پر پاؤں رکھا اور زور سے جھٹک کر اُسے جسم سے الگ کر دیا اور پھر دوسرے کے ساتھ شریک ہو کر ابو جہل پر حملہ کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے ابو جہل کو زخمی کر کے گرا دیا.غرض لڑائی ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے ابو جہل کو جا کر ختم کر دیا.یہ تھا مسلمانوں کا جوش کہ چھوٹے بچے بھی جانتے تھے اور وہ اپنے سے تین گنا لشکر کی صفوں میں گھس جاتے تھے اور اپنی جانوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے تھے اور منٹوں میں لڑائی ختم ہو جاتی تھی.یہ عجیب بات ہے کہ صحابہ نے جتنی جنگیں کی ہیں وہ صرف چند گھنٹوں میں ہی ختم ہو گئیں.بدر چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی ، اُحد چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی اور حسنین چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی ، مکہ کی لڑائی چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی.غرض ایک دو گھنٹہ کے اندر دشمن بھاگ جا تا تھا.سوائے تین لڑائیوں کے اور وہ تینوں قلعہ بند لڑائیاں تھیں.مثلاً احزاب کی لڑائی تھی اس میں صرف دفاع کا حکم تھا اور بیچ میں خندق بنائی ہوئی تھی اس میں دیر لگی یا بنوقریظہ کا محاصرہ ہوا تو قلعہ میں تھے اور قلعہ توڑنے میں دیر لگی یا خیبر پر جب حملہ ہوا تو اُس میں دیر لگی.کیونکہ خیبر میں بھی وہ قلعہ میں تھے لیکن ان کے علاوہ جب بھی کوئی لڑائی ہوئی چند گھنٹوں کے اندر ختم ہو گئی اور چند گھنٹوں میں دشمن تباہ ہو گیا.غرض ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ دُنیا میں جوش دلانے کے لئے جو تدابیر اختیار کی جاتی ہیں کبھی شراب پلائی جاتی ہے، کبھی لوٹ مار کی اجازت دی جاتی ہے، کبھی شبخون مارنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ان سب کو منع کرنے کے باوجود اسلامی جنگ کے لئے جب نوبت بجے گی تو اسلام کے سپاہی دیوانہ وار آگے بڑھیں گے اور گھنٹوں میں دشمن کی صفوں کو توڑ دیں گے اور قطعی طور پر اُن کو موت کا کوئی خوف نہیں ہوگا.دنیوی نوبت خانوں کی تیسری غرض تیرتی غرض نوبت خانہ کی یہ ہوا کرتی ہے کہ خوشی کی تقریبات کے موقع پر مثلاً بادشاہ دربار کرے یا اُس کا جلوس نکلے تو نوبتیں بجا کرتی تھیں اور اسی طرح بادشاہ کی آمد یا کسی بڑی تقریب کی خبر لوگوں کو دی جاتی اور بادشاہی اعلان سے لوگوں کو واقف کیا جاتا تھا.
۶۰۸ اسلامی نوبت خانہ رات دن میں پانچ دفعہ بجتا ہے میں نے دیکھا کہ اسلام نے یہ بھی نوبت خانہ پیش کیا ہے اور اس کیلئے بھی ایک اسلامی نوبت مقرر کی ہے مگر اسلامی نوبت خانہ اور دنیوی نوبت خانوں میں ایک عظیم الشان فرق ہے.دوسری حکومتیں اور بادشاہ جہاں نو بتیں بجاتے تھے اُن کی نوبت کبھی ساتویں دن بجتی تھی اور بادشاہ کا دیدار ہوتا تھا، کسی کی مہینہ میں بجتی تھی اور بادشاہ کا دیدار ہوتا تھا، کوئی اپنی تخت نشینی کے دنوں میں دو تین دن دربار لگایا کرتا تھا اور پھر جب اُن کی نوبت بجھتی تھی تو لوگوں کو اپنے گھروں سے نکل کر بادشاہی قلعوں میں جانا پڑتا تھا یا بہت دُور دُور سینکڑوں میل سے چل کر وہاں جانا پڑتا تھا.لیکن اسلامی نوبت خانہ جو ہمارے بادشاہ کا دیدار کرانے کے لئے بجتا ہے وہ ہر شہر اور ہر گاؤں میں دن رات میں پانچ وقت بجتا ہے.پانچ دفعہ کو بت بجتی ہے کہ آؤ اور اپنے بادشاہ کی زیارت کر لو ، آؤ اور خدا کا دیدار کرو.ابھی ملکہ الزبتھ کی تاجپوشی ہوئی ہے پاکستان تک سے لوگ وہاں دیکھنے کے لئے گئے حالانکہ ملکہ الزبتھ کیا، انگلستان آج ایک سیکنڈ گریڈ پاور بنا ہوا ނ ہے.لیکن ملکہ الزبتھ کے دیکھنے کے لئے ہندوستان سے آدمی گئے ، امریکہ سے گئے ، جرمنی.گئے ، انڈونیشیا سے گئے ، چین سے گئے اور ہمارے بادشاہ کی زیارت کے لئے کہ جس کے سامنے آنکھ اُٹھانے کی بھی ملکہ الزبتھ کو طاقت نہیں روزانہ پانچ وقت بلایا جاتا ہے کہ آؤ کرلو زیارت مگر لوگ ہیں کہ نہیں آتے.دو گھر کا گاؤں ہو تو وہاں بھی وہ بادشاہ پانچ وقت آتا ہے، پانچ گھر کا گاؤں ہو تو وہاں بھی بادشاہ لوگوں کو اپنی زیارت کرانے کے لئے پانچ وقت آتا ہے، اگر سو گھر کا گاؤں ہو تو وہاں بھی وہ زیارت کرانے کے لئے آتا ہے، اگر لاکھ گھر کا شہر ہو تو ہر محلہ میں وہ آ جاتا ہے کہ آؤ اور زیارت کر لو اور اگر دس لاکھ گھر کا شہر ہو تو اُس میں وہ دس ہزار جگہوں میں آجاتا ہے اور پانچ وقت آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ آؤ اور میری زیارت کر لو.یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے دُنیوی نوبت خانوں اور اسلامی نوبت خانہ میں کہ پانچ وقت زیارت ہوتی ہے اور جہاں بیٹھیں وہیں ہو جاتی ہے اور بادشاہ آپ ہمارے گھروں میں آجاتا ہے.اب ذرا اس نو بت خانہ کا اعلان بھی سُن لو.اسلامی نوبت خانہ کا پُر ہیبت اعلان وہاں تو یہ ہوتا ہے کہ دھم وھم وھم وھم ہو رہا ت ہے یا پیں پیں ہو رہا ہے اور جب پوچھا جاتا ہے کہ یہ دھم وھم وھم اور ہیں ہیں ہیں کیا ہے؟ تو کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ آرہا ہے حالانکہ وھم دھم وھم اور ہیں ہیں ہیں سے
۶۰۹ بادشاہ کا کیا تعلق ہے.تم بندر کا تماشہ کرو تو اُس کے لئے بھی ہیں ہیں کر سکتے ہو.کتے کا کھیل کھیلو تو اُس کے لئے بھی ہیں ہیں کر سکتے ہو ، بادشاہ اور دھم وھم اور ہیں ہیں کا کیا جوڑ ہے.مگر یہاں جو نوبت خانہ بجتا ہے اُس میں بادشاہ کے دیدار کی بشارت دیتے ہوئے اُس کی حیثیت بھی پیش کی جاتی ہے اور ایک عجیب شاندار پیغام دنیا کو پہنچایا جاتا ہے.مؤمنوں کو الگ اور منکروں کو الگ.پھر اس نو بت خانہ کی چوٹ مُردہ چمڑہ پر نہیں پڑتی زندہ گوشت کے پردوں پر پڑتی ہے.اور پانچ وقت اِس نوبت خانہ میں نوبت بجتی ہے کہ آجاؤ اپنے بادشاہ یعنی خدا کی زیارت کے لئے اور اعلان کرنے والا کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے.اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ.اے لوگو! اپنے بادشاہ کی زیارت کے لئے آجاؤ.ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ دُنیا میں لوگ اپنے بادشاہوں اور حاکموں کی زیارت کے لئے جاتے ہیں مگر اُن میں سے کوئی پچاس گاؤں کا مالک ہوتا ہے، کوئی سو گاؤں کا مالک ہوتا ہے، کوئی ہزار گاؤں کا مالک ہوتا ہے، کوئی ایک صوبہ کا مالک ہوتا ہے، کوئی ایک ملک کا مالک ہوتا ہے، کوئی پانچ ملک کا مالک ہوتا ہے، کوئی دس ملک کا مالک ہوتا ہے، پھر اُن میں سے کوئی ایسا ہوتا ہے کہ بڑے ملک کا مالک ہوتا ہے لیکن چھوٹے ملک کے بادشاہ اُس پر فاتح ہو جاتے ہیں.جیسے سکندر یونان کا مالک تھا مگر کسری کو آ کے اُس نے شکست دیدی.نادر شاہ ایک معمولی قبیلے کا بادشاہ تھا مگر اُس نے ہندوستان کی بادشاہت کو شکست دیدی.تو اول تو اُس کی حکومتیں بہت چھوٹی ہوتی ہیں اور پھر حکومتوں کے مطابق اس کی طاقت بھی نہیں ہوتی.اُن کی زیارت عمر میں کبھی ایک دفعہ نصیب ہوتی ہے مثلاً تاجپوشی ہوتی ہے اور وہ باہر نکلتے ہیں تو لوگ اُن کی زیارت کرتے ہیں.مگر ہم تمہیں جس بادشاہ کی زیارت کے لئے بلاتے ہیں وہ سب سے بڑا ہے اور بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اُس کے مقابل میں بالکل بیچ ہو جاتا ہے کسی کی طاقت نہیں کہ اُس کے آگے بول سکے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں اُس زمانہ میں دنیا کی حکومت دوحصوں میں تقسیم تھی گرفتاری کیلئے کسری کا ظالمانہ حکم آدھی حکومت قیصر کے پاس تھی اور آدھی حکومت کسری کے پاس تھی.مغرب پر قیصر حاکم تھا اور مشرق پر کسرای حاکم تھا.یہودیوں نے ایک دفعہ کسری کے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
۶۱۰ کی شکایت کی کہ عرب میں ایک نبی پیدا ہوا ہے اور وہ طاقت پکڑ رہا ہے کسی وقت وہ تمہارے خلاف جنگ کرے گا.وہ کچھ پاگل سا تھا.یمن اُس وقت کسری کے ماتحت تھا اُس نے یمن کے گورنر کو حکم بھیجا کہ اس طرح عرب میں ایک مدعی پیدا ہوا ہے تم اُسے گرفتار کر کے میرے پاس بھجوا دو.چونکہ یمن کا گورنر عرب کے لوگوں سے واقف تھا اُس نے خیال کیا کہ ان لوگوں نے کیا بغاوت کرنی ہے بادشاہ کو دھوکا لگا ہے.اُس نے بادشاہ کے دوسفیروں کو بھیجا اور ساتھ وصیت کی کہ تم کوئی سختی نہ کرنا.بادشاہ کو کوئی دھوکا لگا ہے ورنہ عربوں میں کیا طاقت ہے کہ انہوں نے کسری کا مقابلہ کرنا ہے.تم جانا اور سمجھانا اور میری طرف سے پیغام دینا کہ آپ مقابلہ نہ کریں آجائیں.میں سفارش کرونگا تو کسری انہیں کچھ نہیں کہے گا.چنانچہ یہ لوگ مدینہ پہنچے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے فرما یا کس طرح آنا ہوا ؟ انہوں نے کہا ہمیں بادشاہ نے بھجوایا ہے.اُس کے پاس کچھ شکائیتیں آئی ہیں جن کی بناء پر اُس نے کہا ہے کہ آپ کو اُس کے سامنے پیش کیا جائے اور ہم یمن کی طرف سے آئے ہیں کیونکہ وہ یہاں کے حالات کا واقف ہے.اُس نے ہم کو نصیحت کی تھی کہ ہم آپ کو تسلی دلائیں کہ کسی نے بادشاہ کے پاس غلط رپورٹ کی ہے ورنہ ہمیں تسلی ہے کہ آپ نے کوئی شرارت نہیں کی.میں بادشاہ کی طرف ساتھ چٹھی لکھدونگا کہ یہ غلط رپورٹ ہے اس کو کچھ نہ کہا جائے اور واپس کر دیا جائے اِس لئے آپ ہمارے ساتھ چلیں وہاں سے آپ کو گورنر یمن کی سفارش مل جائیگی اور اُمید ہے کہ وہ درگزر سے کام لے گا.آپ نے فرمایا اچھا دو تین دن ٹھہرو پھر میں جواب دونگا.انہوں نے کہا یہ ٹھیک نہیں ہے.گورنر نے کہا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ غلط فہمی میں رہیں اور جواب نہ دیں جس سے بادشاہ چڑ جائے اگر ایسا ہوا تو عرب کی خیر نہیں ، وہ اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا آپ چلے چلیئے.آپ نے فرمایا کوئی بات نہیں تم دو تین دن ٹھہر و.پھر وہ دوسرے دن آئے.تیسرے دن آئے.لیکن آپ یہی کہتے رہے کہ ابھی ٹھہرو.ابھی ٹھہر و.تیسرے دن انہوں نے کہا کہ اب ہماری میعاد ختم ہو رہی ہے، بادشاہ ہم سے بھی خفا ہو گا آپ ہمارے ساتھ چلیں.آپ نے فرمایا سُنو! آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار ڈالا ہے جاؤ یہاں سے چلے جاؤ اور گورنر کو اطلاع دے دو.اُن کو تو خدائی کلام کا کچھ پتہ ہی نہیں تھا.انہوں نے سمجھا کہ شاید یہ گپ ماری ہے.انہوں نے سمجھا نا شروع کیا کہ یہ نہ کریں.دیکھیں آپ گورنر کی سفارش سے چُھوٹ کر آجائیں گے ورنہ عرب تباہ ہو جائے گا
۶۱۱ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا.میں نے تمہیں بتا دیا ہے جاؤ اور اسکو جواب دیدو.خیر وہ یمن میں آئے اور انہوں نے گورنر سے کہا کہ انہوں نے تو ہمیں ایسا جواب دیا ہے.یمن کا گورنر سمجھدار تھا.اُس نے کہا اگر اس شخص نے ایران کے بادشاہ کو یہ جواب دیا ہے تو کوئی بات ہو گی.اسلئے تم انتظار کرو چنانچہ وہ انتظار کرتے رہے.کسرای قتل کر دیا گیا دس بارہ دن گزرے تھے کہ ایک جہاز وہاں پہنچا.اُس نے آدمی مقرر کئے ہوئے تھے کہ اگر کوئی خبر آئے تو جلدی اطلاع دو.انہوں نے اطلاع دی کہ ایک جہاز آیا ہے اور اُس پر جو جھنڈا ہے وہ نئے بادشاہ کا ہے.اُس نے کہا جلدی اُن سفیروں کو لے کر آؤ.جب وہ گورنر کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا ہمیں بادشاہ نے ایک خط آپ کو پہنچانے کے لئے دیا ہے.اُس نے خط دیکھا تو اس پر مہر ایک اور بادشاہ کی تھی.اُس نے اپنے دستور کے مطابق خط کو سر پر رکھا، آنکھوں پر رکھا اور اُسے چوما اور پھر اُسکو کھولا تو وہ بادشاہ کی پیٹھی تھی جس میں لکھا تھا کہ پہلے بادشاہ کے ظلم اور سختیوں کو دیکھ کر ہم نے سمجھا کہ ملک تباہ ہو رہا ہے اس لئے فلاں رات ہم نے اُس کو قتل کر دیا ہے اور ہم اُس کی جگہ تخت پر بیٹھ گئے ہیں.اور یہ وہی رات تھی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آج میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار دیا ہے.اس کے بعد اس نے لکھا کہ تم ہماری اطاعت کا سب سے وعدہ لو.اور یہ بھی یا د رکھو کہ اُس نے عرب کے ایک آدمی کو پکڑنے کیلئے جو حکم بھیجا تھا تم اُس کو منسوخ کر دو.۶۵ یہ وہ چیز تھی کہ جس کو دیکھ کر یمن کا گورنر اُس دن سے دل سے مسلمان ہو گیا اور بعد میں دوسرے لوگ بھی اسلام میں داخل ہو گئے.غرض اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ اَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تم کس کے پیچھے چل رہے ہو.جن کو تم بڑے سے بڑا سمجھتے ہو حکومت امریکہ کو سمجھ لو، حکومت روس کو سمجھ لو خدا کے مقابلہ میں اُن کی کیا حیثیت ہے.جو خدا کا بندہ ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ تم میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتے ، کچھ کرلو خدا میرا محافظ ہے تم کیا کر لو گے.حکومتیں کچھ نہیں کر سکتیں ، بادشاہتیں کچھ نہیں کر سکتیں، وہ اپنے رعب جتائیں ، ڈرائیں جو کچھ مرضی ہے کر لیں ، وہ خدا ہی کا بندہ ہے اور وہی جیتے گا.آخر جو سب سے بڑا بادشاہ ہے اُس کے ساتھ جو لگے گا اُس کو بڑائی ہی ملے گی چھوٹائی نہیں ملے گی.خدا کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایک دفعہ شرارتاً مقدمہ کر دیا گیا.مقدمہ کے
۶۱۲ دوران میں خواجہ کمال الدین صاحب کو اطلاع ملی کہ آریوں نے مجسٹریٹ پر زور دیا ہے کہ انکو ضرور سزا دے دو.گو مہینہ قید کر ومگر ایک دفعہ ذلیل کر دو تا کہ انہیں پتہ لگ جائے.مجسٹریٹ نے بھی اُن سے وعدہ کر لیا.خواجہ صاحب کو پتہ لگا تو گھبرائے ہوئے آئے مولوی محمد علی صاحب کو ساتھ لیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لیے ہوئے تھے.کہنے لگے حضور ! بڑی بڑی خبر لائے ہیں.اِس اِس طرح مجھے یقینی طور پر پتہ لگا ہے کہ آریہ سماج کا اجلاس ہوا ہے اور چونکہ وہ مجسٹریٹ آریہ ہے اُس سے انہوں نے وعدہ لیا ہے کہ وہ تھوڑی بہت سزا ضرور دے دے، پیچھے دیکھا جائے گا انہوں نے کہا ہے کہ اول تو چھوٹی بڑی سزا پر کوئی پکڑتا کیا ہے اور پھر ا گر گرفت ہو گی بھی تو کیا ہے تم نے قوم کی خاطر یہ کام کرنا ہے اسلئے کوئی تدبیر اسکی ہونی چاہئے اور پھر کہا کہ آپ کسی طرح قادیان چلے جائیں اور ایسی تجویز کی جائے کہ مجسٹریٹ کا تبادلہ ہو جائے.حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے آپ یہ سنتے ہی اُٹھے اور فرمایا خواجہ صاحب! آپ کیا باتیں کرتے ہیں.کیا خدا کے شیر پر بھی کوئی ہاتھ ڈال سکتا ہے تو اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ.اللهُ أَكْبَرُ.کہنا بڑا بھاری دعوی ہے.آج امریکہ کی کتنی بڑی طاقت ہے پھر بھی روس سے ڈر رہی ہے.روس کتنا طاقتور ہے پھر بھی امریکہ سے ڈر رہا ہے.یہ کتنی بڑی طاقت ہے کہ اس نوبت خانہ میں پانچ وقت ہر گاؤں ، ہر شہر، ہر قصبہ، ہر پہاڑی اور ہر میدان سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہما را با دشاہ سب سے بڑا ہے.گویا اس پیغام میں کافروں کو بھی اور مومنوں کو بھی مخاص کیا گیا ہے.کفار کو کہا گیا ہے کہ تمہارے سرداروں ، تمہارے بادشا ہوں اور تمہارے افسروں کی کیا حیثیت ہے سب سے بڑھ کر اسلام کے خدا کا وجود ہے.تم اپنے غرور اور اپنے جتھے کے فخر میں یہ سمجھتے ہو کہ ہم حق کی آواز کو دبا دیں گے مگر ایسا نہیں ہو گا.ہمارے نام لیوا غریب اور بے کس ہیں مگر ہم اُن کے ساتھ ہیں اور ہم سب سے بڑے ہیں.پھر وہ مسلمانوں سے مخاطب ہوتا ہے اور فرماتا ہے اے مومنو! انتظام کے لئے ہم نے تمہارے لئے بادشاہ مقرر کئے ہیں.حاکم مقرر کئے ہیں مگر تمہا را اصل بادشاہ اللہ ہے.تم نے کسی انسان کے آگے گردن نہیں جُھکانی.تمہارے دلوں پر رُعب اور حکومت صرف خدا کی ہونی چاہئے." اسلامی نوبت خانہ کی دوسری آواز پھر اس نوبت خانہ سے دوسری آواز اُٹھتی ہے اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اَشْهَدُ أن لا إلهَ إِلَّا الله.
میں منادی کرنے والا اعلان کرتا ہوں اور کسی سے چھپاتا نہیں کہ میں صرف اللہ کی عبادت کرتا ہوں اور اُس کے سوا کسی کے آگے سر جُھکانے کے لئے تیار نہیں خواہ وہ دُنیا کا بادشاہ ہو یا دُنیا کا بڑا حاکم ہو، خواہ دنیا کا بڑا پیر ہو خواہ دنیا کا کوئی بڑا عالم ہو میرے لئے وہ سارے کے سارے خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں بیچ ہیں اور اُن کی کوئی ہستی میرے نزدیک نہیں ہے.میں تو صرف ایک ہی ہے جس کے آگے سر جھکانا جائز سمجھتا ہوں اور وہ خدا کی ذات ہے.پھر کہتا ہے اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی زبان ہیں وَسُوْلُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ.اور سعو! کہ میں یہ بھی عَلَی الاعلان کہتا ہوں کہ محمد کے سوا آج خدا تعالیٰ کے احکام دُنیا کو کوئی نہیں سنا سکتا.وہ خدا کی زبان ہے، وہ خدا کی نفیری ہے.میں اُس کی زبان پر کان دھرتا ہوں.میں اُس کی نفیری کی آواز پر رقص کرتا ہوں.تم خواہ کسی کے پیچھے چلو میں اللہ کے سوا کسی کے پیچھے نہیں چل سکتا اور اُس کے پیچھے چلنے کا رستہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی بتا سکتے ہیں.پھر کہتا ہے حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ.حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ آوَ ! آ وَ ! خدائی دیدار کی دعوت عام خدا کے سامنے جھکنے میں میرے شریک بنو.آؤ ہم سب میل کر خدائے واحد کی عبادت کریں اور اپنے جسم کے ہر ذرہ کو اس کی اطاعت میں لگا دیں.دُنیا کے لوگ نوبت خانے بجاتے ہیں اور بجا کے کہتے ہیں آؤ اور بادشاہ کی زیارت کر کے چلے جاؤ.جو انعام پانے والے ہوتے ہیں وہ تو چند ہی ہوتے ہیں.باقی تو صرف مٹی اور خبار کھا کے چلے جاتے ہیں.یہاں جو بادشاہ کی تاجپوشی ہوئی تھی یا لنڈن میں تاجپوشی کی رسم ہوئی ہے تو بادشاہ کے پاس جانیوالے یا اُس سے کوئی بات کرنے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سو یا ہزار ہونگے.حالانکہ یہ بھی کوئی خاص انعام نہیں ہے مگر جمع وہاں تمہیں لاکھ ہوئے تھے.باقی تیں لاکھ صرف گرد ہی کھا کے آگئے اور کیا ہوا.پھر کچھ ایسے تھے جن کو سواری بھی نظر نہیں آئی اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے دُور سے سواری دیکھی اور شکل نہیں پہچانی اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے دُور سے تیز گاڑی کو چلتے ہوئے دیکھا.مگر یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ.حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ.دَوڑ کے آؤ.دیکھو خدا کے سامنے تمہاری حاضری کرائی جائے گی.یہ در بار وہ نہیں کہ جہاں سے دُور دُور سے جھانک کر جانا پڑے گا.یہ دربار وہ نہیں جہاں تم آؤ
۶۱۴ گے تو بعض دفعہ تم کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جائے گا.یہاں تم کو سپاہی دھتکاریں گے نہیں.یہاں تم مسجد کے قریب آؤ گے تو فرشتے تم کو پکڑ کے خدا کے سامنے پیش کریں گے اور خدا کو تم زندہ دیکھ لو گے.اس سے زیادہ اچھا موقع تمہیں اور کہاں مل سکتا ہے.فلاح اور کامیابی کی بشارت پھر فرماتا ہے حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ آو! آو! کامیابی کی طرف آؤ! دوڑ کر کامیابی کی طرف آؤ کہ کامیابی تمہیں ملنے کے لئے تیار بیٹھی ہے.دیر نہ کرو وہ تڑپ رہی ہے تمہاری جیبوں میں پڑنے کے لئے.دنیا کے بادشاہوں کے حضور میں لوگ نذرانے گزار نے جاتے ہیں اور اعلان ہوتا ہے سو اشرفیاں پیش کی گئی ہیں.بیشک پُرانے زمانہ میں بادشاہ کہہ دیتے تھے کہ ان کو بھی دو لیکن بادشاہ کو بہر حال دینا پڑتا تھا.نظام حیدر آباد تو اس کو لے کے جیب میں ڈال لیتے تھے.انگلستان وغیرہ کے بادشاہوں کے سامنے بھی نذرانے پیش کئے جاتے ہیں اور جن کے ہاں نذرانوں کا رواج نہیں اُن کے ہاں دعوتیں اُڑائی جاتی ہیں مثلاً پریذیڈنٹ کہیں جائے گا تو بڑی دعوت کی جائے گی بڑے بڑے آدمیوں کو بلا یا جائے گا اور لاکھوں روپیہ خرچ کیا جائے گا.مگر یہاں وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اے لوگو! تمہیں صرف زیارت ہی نہیں ہو گی بلکہ تم میں سے ہر فرد واحد امیر ہو یا غریب، کنگال ہو یا حیثیت والا سب کے سب کی گودیاں بھر دی جائیں گی اور یہاں سے تمہیں انعام دے کر واپس کیا جائے گا.حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ غرض اس دربار میں جانے والا چاہے وہ کتنا ذلیل اور کنگال ہو کہ اُس کی شکل دیکھ کر لوگوں کو گھن آتی ہو جب اُس دربار میں چلا جاتا ہے تو وہاں وہ ایسا مقبول ہو جاتا ہے کہ بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اُس کے آگے سر جھکانے پر مجبور ہو جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تھے بہت بدصورت، نہایت کر یہہ اور جسم پر بڑے بڑے بال جیسے بکری کے ہوتے ہیں اور آنکھیں بھی خراب.غرض اُن ایک کر یہ المنظر صحابی سے پیار سے جسم کی حالت ایسی تھی جسے دیکھ کر بھن تی تھی اور لوگ انہیں مزدوری پر لگانے سے بھی گھن کیا کرتے تھے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں سے گزرے اور اُسکو دیکھا.کسی نے اُن کو گندم کے ڈھیر کے پاس کھڑا کر دیا تھا کہ تم ذرا
۶۱۵ حساب کرو.اسے بیچنا ہے اور وہ کھڑے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ کسی نے گندم لینی ہو تو لے لے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو دیکھا.اُسوقت اُن کی حالت ایسی تھی کہ پسینہ آنا کو آ رہا تھا ، دھوپ میں کھڑے تھے ، مزدوری بھی شاید اُن کو بہت تھوڑی ملنی تھی ، غرض تکلیف کی بہت سی علامات تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں دیکھ کر احساس ہوا کہ دیکھو ان کو سخت تکلیف ہو رہی ہے.آپ پیچھے پیچھے آہستہ قدم چلتے گئے اور اُن کی آنکھوں پر جیسے بچے کھیلتے ہیں ہاتھ رکھ دیئے.اُس نے اِدھر اُدھر ہاتھ مار کر دیکھا اور خیال کیا کہ میرے جیسے آدمی سے پیار کون کر سکتا ہے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں، گھن کھاتے ہیں لیکن یہ کون میرا دوست اور خیر خواہ آ گیا جو مجھے پیار کرنے لگا ہے.اِدھر اُدھر ہاتھ مارنے شروع کئے ، آخر اُن کے ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کلائی پر پڑے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم میں یہ خوبی تھی کہ آپ کے بال بہت کم تھے اور مشہور تھا کہ آپ کا جسم بہت ملائم ہے.اُس نے ہاتھ ملے تو سمجھ گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پیار کر رہے ہیں تو میں بھی نخرے کروں.اُس کے جسم پر مٹی لگی ہوئی تھی ، پسینہ آیا ہوا تھا اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب میل ملنی شروع کر دی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ پہچان گیا ہے.آپ نے فرمایا لوگو! میں ایک غلام بیچتا ہوں کسی نے خریدنا ہے؟ جب آپ نے یہ فرمایا تو اس کو اپنی حالت پھر یا د آ گئی اور اُس نے بڑی ہی افسردگی سے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! میرا خریدار دنیا میں کون ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ایسا نہ کہو تمہارا خریدار تو خود خدا ہے.14 تو دیکھو! وہ شخص جس کو دیکھ کر اُس کے دوست اور رشتہ دار بھی گھن کھاتے تھے.اُس کے متعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ یہ خدا کا پیارا ہے.یہی بات حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ میں بیان کی گئی ہے کہ دنیا کی ساری کامیابی تمہیں یہاں آنے سے ہی حاصل ہوگی.تم سب جگہ دھتکارے جا سکتے ہو، تم سب جگہ حقیر سمجھے جا سکتے ہو مگر میرے رب کی عبادت اور غلامی ہر مقصد و مدعا میں انسان کو کامیاب بنا دیتی ہے.جو اُس کے ہو جاتے ہیں اُن پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا.جو اُس کے غلاموں پر ہاتھ ڈالے خواہ ساری دُنیا کا بادشاہ کیوں نہ ہو اُس کے ہاتھ شل کر دیئے جاتے ہیں، اُس کی رگِ جان کاٹ دی جاتی ہے، اُسے ذلیل اور رُسوا کر دیا جاتا ہے کیونکہ خدا کے غلام دنیا کے بادشاہوں سے زیادہ معزز ہیں اور اُن کے محافظ فرشتے ہوتے ہیں جو دنیوی سپاہیوں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں.ہے ا
۶۱۶ اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور اُسکی وحدانیت کا ایک بار پھر اقرار یہاں بھی کروہ اوقی ایک بار پھر کہتا ہے اللهُ اَكْبَرُ اللهُ اَكْبَرُ یعنی اب تک جو کچھ میں نے کہا تھا وہ صرف میرے عقیدہ کا اظہار تھا مگر اب جب کہ میری گودی بھر گئی ہے اور مجھے وہ چیزیں ملی ہیں جو دنیا میں بڑے بڑے بادشاہوں کے پاس بھی نہیں ہیں اور میرا خیال حقیقت اور میرا عقیدہ واقعہ بن چکا ہے میں دوبارہ اس امر کا اظہار کرتا ہوں کہ اللہ واقع میں سب سے بڑا ہے کیونکہ میں نے بیکس اور بے بس ہونے کے با وجود فلاح پالی ، میرا عقیدہ ٹھیک نکلا اور میرا ایمان حقیقت بن گیا اس لئے اب میں یقین اور تجربہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ اللہ سب سے بڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے.پھر وہ آخر میں کہتا ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا الله کہ خدا کی بڑائی کے اظہار سے تو صرف یہ ثابت ہوتا تھا کہ کئی طاقتوں میں سے خدا کی طاقت سب سے بڑی ہے مگر اُسکے نشان دیکھ کر اب تو میں یہ کہتا ہوں کہ دنیا میں خدا کی حکومت کے سوا کسی کی حکومت ہی باقی نہیں رہے گی صرف وہی پو جا جائے گا اور اس کا حکم دنیا میں چلے گا.! مسجد نبوی میں بیٹھ کر تمام دنیا کو فتح کرنے کے عزائم دیکھو امسلمانوں نے سچے دل سے یہ نوبت بجائی تھی پھر کس طرح وہ مدینہ سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل گئے.دُنیا میں اُس وقت دو ہی حقیقی حکومتیں تھیں ایک قیصر کی حکومت تھی جو مغرب پر حاکم تھی اور ایک کسری کی حکومت تھی جو مشرق کی مالک تھی.مگر اس نوبت خانہ میں جو بظاہر اتنا حقیر تھا کہ کھجور کی ٹہنیوں سے اُس کی چھت بنائی گئی تھی ، پانی برستا تھا تو زمین گیلی ہو جاتی تھی اور اُس کے نوبت بجانے والے جب اُس میں جا کر اپنے آقا کے سامنے جھکتے تھے تو اُن کے گھٹے کیچڑ سے بھر جاتے تھے اور اُن کے ماتھے مٹی سے بھر جاتے تھے.یہ لوگ تھے جو قیصر اور کسریٰ کی حکومت کو تباہ کرنے کے لئے آئے تھے.یورپ کا ایک مصنف اپنے انصاف اور قلبی عدل کی وجہ سے لکھتا ہے کہ میں اسلام کو نہیں مانتا، ہمیں عیسائی پادریوں کی باتوں سے سمجھتا ہوں کہ جس طرح وہ کہتے ہیں اسلام جھوٹا ہی ہوگا لیکن میں جب تاریخ پڑھتا ہوں تو تیرہ سو سال کا زمانہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ایک کچا مکان ہے، اُس کے اوپر کھجور کی ٹہنیوں کی چھت پڑی ہوئی ہے، بارش ہوتی ہے تو اُس میں پانی آجاتا ہے ( حدیثوں میں یہ واقعات آئے ہیں کہ بارش ہوتی تو
۶۱۷ پانی ٹپکنے لگ جاتا ) اور جب وہ نمازوں کے لئے کھڑے ہوتے تو گھٹنوں تک کیچڑ لگا ہوتا تھا اور کوئی خشک جگہ اُن کو بیٹھنے کے لئے نہیں ملتی ، جب عبادت کر کے پھر وہ اکٹھے ہو کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں تو میں عالم خیال میں قریب سے اُن کی باتیں سنتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اُن کے پھٹے ہوئے کپڑے ہیں، کسی کے پاس گر تہ ہے تو تہہ بند نہیں ہے، کسی کے پاس تہہ بند ہے تو گر تہ نہیں ہے ، کسی کے سر پر ٹوپی ہے تو جوتی نہیں ہے، کسی کے پاس پھٹی ہوئی جوتی ہے تو ٹوپی نہیں اور وہ سر گوشیاں کر رہے ہیں اور میں قریب ہو کر اُن کی باتیں سُنتا ہوں کہ وہ کیا کہہ رہے تھے.جب میں قریب پہنچتا ہوں تو وہ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں دنیا کی کی بادشاہت عطا کر دی ہے.ہم مشرق پر بھی قابض ہو جائیں گے اور ہم مغرب پر بھی قابض ہو جائیں گے، ہم شمال پر بھی قابض ہو جائیں گے اور ہم جنوب پر بھی قابض ہو جائیں گے.اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ ایسا ہی ہو جاتا ہے.اب بتاؤ کہ میں اسلام کو کسی طرح جھوٹا کہوں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ایسی تھی کہ بعض غریب گاؤں کے لوگ جب میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے مسجد بنانی ہے تو میں کہتا ہوں کہ ایسی ہی بنالو.وہ کہتے ہیں نہیں جی ! کچھ تو اچھی ہو.تو کسی گاؤں کے پانچ آدمی بھی اس مسجد کی طرح مسجد بنانے کو تیار نہیں ہوتے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی لیکن ان مسجدوں میں جو نماز پڑھنے والے ہوتے ہیں وہ اپنے ہمسائیوں سے ڈر رہے ہوتے ہیں مگر اُس کھجور کی ٹہنیوں کی چھت والی مسجد جس میں پانی ٹپکتا رہتا تھا نماز پڑھنے والے یوں بیٹھے ہوتے تھے کہ گویا انہوں نے دُنیا کو فتح کرنا ہے اور وہ واقع میں دنیا کو فتح کر لیتے ہیں.ایک ایک گوشہ اُن کے قدموں کے نیچے آتا ہے اور اُن کے گھوڑوں کی ٹاپوں کے نیچے بڑے بڑے بادشاہوں کی کھوپڑیاں تڑپتی جاتی ہیں.اسلام کے ذریعہ دنیا میں ایک بہت بڑا انقلاب رونما ہو گیا غرض اس لو بت خانہ میں اس اعلان کی دیر تھی کہ لَا إِلهَ إِلَّا الله دنیا میں آب خدا کی بادشاہت کے سوا ہم کسی کو نہیں چھوڑیں گے کہ ایک بہت بڑا انقلاب رونما ہو گیا.خدا کی بادشاہت آسمان سے زمین پر آگئی اور ظلم اور جور کی دُنیا عدل اور انصاف سے بھر گئی.اس سے چھ سو سال پہلے ایک اور شخص جو برگزیدہ تھا، ایک اور شخص جس کو خدا کا بیٹا کہا جاتا ہے، ایک اور شخص جس کی اطاعت کا آج دُنیا کی اکثریت اقرار
۶۱۸ کر رہی ہے ، ایک اور شخص جس کی حکومت میں انگلستان کی حکومت، فرانس کی حکومت ، سپین کی حکومت ، جرمنی کی حکومت، پولینڈ کی حکومت، فلپائن کی حکومت ، امریکہ کی ساری حکومتیں اور ریاستیں اُس کی خدائی کی اقراری ہیں اور اُس کے آگے سر جُھکاتی ہیں.وہ بھی کہتا ہے کہ :- ”اے خدا ! جس طرح آسمان پر تیری بادشاہت ہے اُسی طرح زمین پر بھی ہو.‘۶۸۰ مگر آج اُنیس سو سال گزر گئے اُس کے ذریعہ سے خدا کی بادشاہت جو آسمان پر ہے زمین پر قائم نہیں ہوئی لیکن یہ شخص جو ایک ایسے کچے مکان میں رہ کے اور اس نوبت خانہ میں آکے خدا تعالیٰ کا پیغام سُنا تا ہے ، وہ ابھی مرنے نہیں پاتا کہ خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم ہو جاتی ہے.اور اُس کی وفات کے نو سال کے اندر اندر سارے عرب پر بادشاہت قائم ہو جاتی ہے.وہ کھڑا ہوتا ہے اور ایسے وقت میں جب دشمن کی فوجیں اُسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے کھڑی ہیں ، مدینہ سے باہر نکل کر پا خانہ کوئی پھر نہیں سکتا ، خندق کھودی جاتی ہے تا دشمن کے حملہ سے بچائے.ایک پتھر نہیں ٹو تھا.صحابہ کہتے ہیں يَا رَسُولَ اللهِ! پتھر نہیں ٹوٹتا.فرماتے ہیں لاؤ ہتھوڑا مجھے دو میں تو ڑتا ہوں.آخرہ تھر پر ہتھوڑا مارتے ہیں.وہ پتھر بڑا سخت ہے.اُس پر ہتھوڑا مارتے ہیں تو اُس میں سے شعلہ نکلتا ہے.پھر مارتے ہیں پھر شعلہ نکلتا ہے.آپ ہر دفعہ کہتے ہیں اللهُ أَكْبَرُ اللَّهُ اَكْبَرُ.پھر تیسری دفعہ مارتے ہیں.جب شعلہ نکلتا ہے پھر اللهُ اَكْبَرُ کہتے ہیں.صحابہ بھی اللہ اکبر کہتے ہیں.آپ نے فرمایا تم نے کیوں اللهُ أَكْبَرُ کہا ؟ انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! آپ نے کیوں کہا ؟ آپ نے فرمایا.میں نے پہلی دفعہ پتھر پر ہتھوڑا مارا تو اُس میں سے فعلہ نکلا اور اُس فعلہ میں سے خدا تعالیٰ نے مجھے دکھایا کہ قیصر کی حکومت توڑ دی گئی.اور میں نے کہا اللهُ اَكْبَرُ.جب میں نے دوسرا ہتھوڑا مارا تو پھر اُس میں سے دوسرا شعلہ نکلا اور مجھے یہ نظارہ دیکھایا گیا کہ کسری کی حکومت توڑ دی گئی پھر میں نے اللهُ أَكْبَرُ کہا.جب میں نے تیسرا ہتھوڑا مارا ، مجھے دکھایا گیا کہ حمیر کی حکومت توڑ دی گئی.اس پر پھر میں نے اللهُ اَكْبَرُ کا نعرہ مارا.صحابہ نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! ہمارے بھی نعرے اِسی طرح سمجھ لیجیئے.19 قیصر وکسرای کی حکومتوں کی جگہ خدائے واحد کی حکومت قائم کر دی گئی پھر آپ کردی نے فرمایا
۶۱۹ إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلاَ كِسْرى بَعْدَهُ وَ إِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ.خدا قیصر کو میرے سپاہیوں کے مقابلہ میں شکست دے گا اور ایسی شکست دے گا کہ اس کے بعد دنیا میں کوئی قیصر نہیں ہو گا اور خدا تعالیٰ میرے آدمیوں کے ذریعہ سے کسری کو شکست دے گا اور ایسی شکست دے گا کہ دنیا میں اس کے بعد کوئی کسرای نہیں کہلائے گا.جس وقت اِس نوبت خانہ سے نوبت بجی اُس وقت کہا گیا کہ دُنیا میں خدا کی حکومت قائم کی جائے گی.دیکھ لینا کہ إِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلا قَيْصَرَ بَعْدَهُ - دنیا میں ایک طرف مغرب میں قیصر حاکم ہے لیکن قیصر ہلاک کیا جائے گا اور اس کے بعد کوئی قیصر نہیں کھڑا ہوگا بس خدا کی حکومت وہاں ہو گی.دوسری طرف مشرق میں کسرای کی حکومت ہے کسرای کو تباہ کیا جائے گا اور اُس کے بعد کوئی کسری نہیں کھڑا ہوگا اُس کی جگہ بھی خُدا کی بادشاہت قائم ہوگی.اور مشرق ومغرب میں میرے ماننے والوں ، میرے مریدوں اور میرے شاگردوں کے ذریعہ سے آسمانی بادشاہت زمین پر آکر قائم ہوگی.غرض اس نوبت خانہ سے جو یہ نوبت بجی ، یہ کیا شاندار نوبت ہے.پھر کیسی معقول نوبت ہے.وہاں ایک طرف بینڈ بج رہے ہیں.ٹوں، ٹوں، ٹوں ٹیں ٹیں ٹیں.اور یہ کہتا ہے اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ.اَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ.حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ.حَيَّ عَلَى الْفَلاح.کیا معقول باتیں ہیں.کیسی سمجھدار آدمیوں کی باتیں ہیں.بچہ بھی سنے تو وجد کرنے لگ جائے اور ان کے متعلق کوئی بڑا آدمی سوچے تو شرمانے لگ جائے بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ ٹوں ٹوں ٹوں ٹیں ٹیں ٹیں.مگر افسوس ! کہ اس نوبت خانہ کو آخر مسلمانوں نے خاموش کر دیا.یہ نوبت خانہ حکومت کی آواز کی جگہ چند مرثیہ خوانوں کی آواز بن کر رہ گیا اور اس نوبت کے بجنے پر جو سپاہی جمع ہوا کرتے تھے وہ کروڑوں سے دسیوں پر آگئے اور اُن میں سے بھی ننانوے فیصدی صرف رسماً اُٹھک بیٹھک کر کے چلے جاتے ہیں.تب اس نوبت خانہ کی آواز کا رعب جاتا رہا، اسلام کا سایہ کھنچنے لگ گیا، خدا کی حکومت پھر آسمان پر چلی گئی اور دُنیا پھر شیطان کے قبضہ میں آگئی.اب خدا کی نوبت جوش میں آئی ہے اور تم کو ! ہاں تم کو ! ہاں تم کو! خدا تعالیٰ نے پھر اس نوبت خانہ کی ضرب سپرد کی ہے.اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے
۶۲۰ آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اس زور سے بجاؤ کہ دُنیا کے کان پھٹ جائیں.ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو.ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور فرشتے بھی کانپ اُٹھیں تاکہ تمہاری درد ناک آوازوں اور تمہارے نعر ہائے تکبیر اور نعرہائے شہادتِ توحید کی وجہ سے خدا تعالیٰ زمین پر آجائے اور پھر خدا تعالیٰ کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہو جائے.اسی غرض کیلئے میں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے اور اسی غرض کیلئے میں تمہیں وقف کی تعلیم دیتا ہوں.سید ھے آؤ اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہو جاؤ.محمد رسول اللہ کا تخت آج مسیح نے چھینا ہوا ہے.تم نے مسیح سے چھین کر پھر وہ تخت محمد رسول اللہ کو دینا ہے اور محمد رسول اللہ نے وہ تحت خدا کے آگے پیش کرنا ہے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہوئی ہے.پس میری سنو اور میری بات کے پیچھے چلو کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے.میری آواز نہیں ہے، میں خدا کی آواز تم کو پہنچا رہا ہوں.تم میری مانو! خدا تمہارے ساتھ ہو، خدا تمہارے ساتھ ہو، خدا تمہارے ساتھ ہو اور تم دُنیا میں بھی عزت پاؤ اور آخرت میں بھی عزت پاؤ.اللہ تعالیٰ سے دُعا کہ دنیا میں خدا اور اس کے بعد میں جلسہ کو دُعا کے بعد ختم کرتا ہوں اور پھر آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ مبلغین کی جو باہر اُس کے رسول کی بادشاہت قائم ہو سے تاریں آئی ہیں اُن کیلئے بھی دُعا کرو، اپنے لئے بھی دُعا کرو، اپنے گھر والوں کیلئے بھی دُعا کرو جو احمدی پیچھے رہ گئے ہیں اُن کے لئے بھی اللہ سے دُعا کرو اور سب سے زیادہ تو یہ دُعا مانگو کہ ہم میں سے ہر ایک کو خدا تعالیٰ سچا عبد اور اپنے دین کی خدمت کرنے والا بنائے اور ہم سے کوئی ایسی کمزوری ظاہر نہ ہو جس کی وجہ سے اسلام کو ، قرآن کو ، رسول اللہ کے دین کو نقصان پہنچے بلکہ اللہ تعالٰی ہم کو دین کی خدمت کی ایسی توفیق دے کہ ہمارے ذریعہ سے اسلام پھر طاقت پکڑے اور قوت پکڑے اور ہم اپنی آنکھوں سے خدا اور اُس کے رسول کی بادشاہت اس دُنیا میں دیکھ لیں.اور جس طرح ہماری پیدائشیں ایک افسردہ دنیا میں ہوتی ہیں ہماری موتیں خوش دنیا میں ہوں.اور ہم اپنے پیچھے اُس دنیا کو چھوڑ کر جائیں جس پر ہمارے خدائے واحد کا قبضہ ہو اور شیطان اُس میں سے نکال دیا گیا ہو.
۶۲۱ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے بولنے کی توفیق دے دی ورنہ جس قسم کی بیماریوں میں سے میں گزرا تھا اور اب تک بھی میں کمزوری محسوس کرتا تھا اُس کو دیکھتے ہوئے اب کی دفعہ مجھے پہلی دفعہ یہ احساس ہوا تھا کہ شاید آپ لوگوں میں یہ میرا آخری جلسہ ہو گا.کیونکہ اب میرا جسم میری طاقت کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتا.مجھے اُمید بھی نہیں تھی کہ خدا تعالیٰ مجھے اتنی دیر بولنے کی توفیق دے دے گا مگر اُس نے توفیق دے دی ہے.خدا تعالیٰ میں بڑی طاقتیں ہیں.جہاں اُس نے مجھے بولنے کی توفیق دی ہے وہاں وہ ہم سب کو عمل کرنے کی بھی توفیق دے دے اور ہمیں اسلام کو اُس کی اصلی شان وشوکت میں لانے کی توفیق بخشے.اللَّهُمَّ آمِينَ.اللَّهُمَّ مِينَ.اللَّهُمَّ مِينَ.“ الفاتحة : ٢ مُضعف : کمزور کرنے والا.( فیروز اللغات اردو صفحہ ۱۲۵۷ مطبوعہ فیروز سنز لا ہور ۲۰۱۰ء) لام بندی : لام باندھنا.چاروں طرف سے لشکر جمع کرنا.( فیروز اللغات اردو صفحہ ۱۱۴۴ مطبوعہ فیروز سنز لا ہور ۲۰۱۰ء) چھینکے : وہ جالی یا لٹکن جو کھانا وغیرہ رکھنے کیلئے چھت میں لٹکا دیتے ہیں.( فیروز اللغات اردو صفحه ۵۵۷ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء) القمر : ۴۲ تا ۴۷ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحه ۱۴۷ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ کے سیرت ابن ہشام جلد ا صفحه ۱۵۵ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ الاحزاب : ۱۴ 2 الاحزاب : ۲۳ ۱۰ سیرت ابن ہشام جلد ا صفحه ۱۸۰ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ الفتح : ۲ تا ۴ المائدة : ٢١ تفسیر در منثور للسيوطى جلد ۶ صفحه ۶۹ مطبوعہ بیروت ۱۳۱۴ھ السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحه ۸۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ها السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحه ۸۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحه ۸۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۶۲۲ كل السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحه ۸۴ مطبوعه مصر ۱۹۳۵ء ۱۸ فراش : بچھونا.( فیروز اللغات اردو صفحہ ۹۲۶ مطبوعہ فیروز سنز لا ہور ۲۰۱۰ء) 19 سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحه ۲۱۱ تا ۲۱۲ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ ٢٠ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۷۳ - ۷۴ مطبوعہ بیروت ۱۳۲۰ھ ٢١ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۴ ۷ مطبوعہ بیروت ۱۳۲۰ھ ۲۲ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحه ۲۱۲ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ ۲۳ ۲۴ سیرت ابن ہشام جلد ۲ صفحه ۲۱۳ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۲۶،۲۵ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۹۳ ۹۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء الفتح:۱۷ ٢٨ الفتح : ٢٢ ۲۹ نفیریاں : شہنائیاں.( فیروز اللغات اردو صفحہ ۱۳۶۹ مطبوعہ فیروز سنز لا ہور ۲۰۱۰ء) ۳۰ الحج : ۴۰ تا ۴۲ المجادلة : ٢٣ ۳۳ المائدة : ۵۷ ۳۴ البقرة : ۲۵۰ ۳۵ الانفال : ۶۶ ۳۶ ال عمران : ۱۷۴ ۳۸ ال عمران : ۱۲۷ ٣٩ فتوح البلدان صفحه ۱۴۲ مطبوعه مصر ۱۳۱۹ھ ۴۰ تاریخ طبری جلد ۵ صفحه ۷۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء ا تاریخ طبری جلد ۳ صفحه ۲ ۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء ال عمران : ۱۲۶،۱۲۵ ۲۲ مسلم كتاب الفضائل باب من فَضَائِل مُوسى حدیث نمبر ۶۱۵۳ صفحه ۱۰۴۴ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية ابريل ۲۰۰۰ء الانعام : ١٠٩ المائدة : ٩ ۴۵ تا ۵۰ ابوداؤد کتاب الجهاد باب في دُعَاءِ الْمُشْرِكِيْن حدیث نمبر ۲۶۱۳ صفحه ۳۷۷ مطبوعہ الرياض الطبعة الاولى اپریل ۱۹۹۹ء - السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحه ۱۷۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء اه السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحه ۱۷۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء (مفہوما ) ۵۲ السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحه ۱۷۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۱۵۷ مطبوعہ بیروت ۲۰۱۲ء
۶۲۳ ۵۴ مؤطا امام مالک كتاب الجهاد باب النَّهى عن قَتْلِ النِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ فِي الغَزُرِ میں اس سے مشابہ الفاظ حضرت ابوبکر کی طرف منسوب ہیں.صفحه ۲۸۵، ۲۸۶ مطبوعہ بیروت لبنان الطبعة الاولى ١٩٩٧ء ۵۵ مؤطا امام مالک کتاب الجهاد باب النهي عن قَتْلِ النِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ فِی الغَزُوِ میں اس سے مشابہ الفاظ حضرت ابو بکر کی طرف منسوب ہیں.صفحه ۵ ۲۸۶،۲۸ مطبوعہ بیروت لبنان الطبعة الاولى ١٩٩٧ء ۵۶ مؤطا امام مالک کتاب الجهاد باب النَّهَى عَن قَتْلِ النِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ فِي الغَزُو میں اس سے مشابہ الفاظ حضرت ابو بکر کی طرف منسوب ہیں صفحه ۲۸۵، ۲۸۶ مطبوعہ بیروت لبنان الطبعة الأولى ١٩٩٧ء ۵۷ مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۲۰۷ ۵۸ ابو داؤد کتاب الجهاد باب مَا يُؤمر مِنْ انضمام الْعَسْكَر وَسَعَتِه حدیث نمبر ۲۶۲۹ صفحہ ۳۷۹ مطبوعہ الریاض الطبعۃ الا ولی اپریل ۱۹۹۹ء ۵۹ الاحزاب : ۲۴ ۶۰ سیرت ابن هشام جلد ا صفحه ۸۵ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ ال العديت : ۲ تا ۶ ڈگ بھرنا: لمبے قدم اُٹھانا.تیز چلنا.فیروز اللغات اردوصفحه ۶۸۰ مطبوعہ فیروز سنز لاہور۲۰۱۰ء) ١٣ التوبة : ۵۲ ۶۴ بخاری کتاب الجهاد والسير باب مَنْ يَنْكُبُ أَوْ يُطْعن فِي سَبِيلِ الله - حدیث نمبر ۱ ۲۸۰ صفحه ۴۶۴ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۱۵ تاریخ طبری الجزء الثالث صفحه ۲۴۷ تا ۲۴۹ بیروت ۱۹۸۷ء ۱۶ الانعام : ۵۸۰۵۷ شمائل الترمذى باب ماجاء في صفة مزاح رسول الله صلى الله عليه وسلم.صفحه ۲۰،۱۹ مطبوعہ قرآن محل ، محمد سعید اینڈ سنز کراچی ۲۸ متی باب ۶ آیت ۹ ، ۱۰ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء (مفہوماً) ١٩ السيرة الحلبية الجزء الثاني صفحه ۳۳۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء بخارى كتاب المناقب باب علامات النّبوَّة في الاسلام حدیث نمبر ۳۶۱۸ صفحہ ۶۰۷ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء
۶۲۵ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ (۸) تقریر فرموده مورخه ۲۸ دسمبر ۱۹۵۴ء بر موقع جلسه سالانه منعقده ربوه) عالم روحانی کے دفاتر تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا : - ۱۹۳۸ء کے سفر حیدر آباد اور دہلی میں میں نے جو تاریخی مقامات دیکھے اُن میں مسلمان بادشاہوں کے دفاتر بھی شامل تھے مجھے بعض عمارتیں دکھائی گئیں اور کہا گیا کہ یہ قلعہ کے شاہی دفاتر ہیں.ان دفاتر پر ایک سیکرٹری اور دنیوی دفاتر کا نظام اور اُس کی غرض وغایت وزیر مقرر ہوتا تھا.باہر کے تمام صو بیدار اور ان کے ماتحت افسر اور قاضی وغیرہ بادشاہ کے پاس اپنی رپورٹیں بھجواتے تھے اور اس دفتر میں اُن کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا.چنانچہ بادشاہ کو جب ضرورت پیش آتی تھی وہ ریکارڈ اُس کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور وہ اُن سے فائدہ اُٹھا کر اپنے احکام جاری کرتا تھا.مثلاً جس قدر بڑے بڑے چور، ڈاکو اور فریبی تھے اُن کے متعلق ڈائریاں جاتی تھیں کہ فلاں شخص مشہور چور ہے، فلاں شخص مشہور ڈاکو ہے، فلاں شخص مشہور مفسد ہے، فلاں شخص بڑا خائن ہے، فلاں شخص بڑا جعلساز ہے، اور جب اُن کو پکڑا جاتا تھا تو اُن ڈائریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بادشاہ اُن کے متعلق کوئی فیصلہ کرتا تھا اور وہ ڈائریاں وہاں ریکارڈ کے طور پر رکھی جاتی تھیں.اسی طرح جب وہاں سے نیچے احکام جاری ہوتے تھے کہ مثلا فلاں ڈاکو کی مزید نگرانی کرو اور اُس کے متعلق مزید ثبوت بہم پہنچاؤ یا اُس کو فلاں سزا دے دو یا کسی کے اچھے کام کی ڈائری آئی تو حکم گیا کہ اس کی حوصلہ افزائی کرو یا اس کو فلاں انعام دے دو تو یہ ریکارڈ بھی وہاں رکھے جاتے
۶۲۶ تھے اور ان میں یہ درج کیا جا تا تھا کہ فلاں فلاں کے نام یہ حکم نافذ کیا گیا ہے.غرض ان دفاتر میں لوگوں رعایا کی سزاؤں اور ترقیات کے احکام کا اندراج کے اعمالنامے ہوتے تھے ان اعمالناموں پر بادشاہ جو کارروائی کرتا تھا وہ ریکارڈ ہوتی تھی، جو سزائیں دیتا تھا اُن کے احکام درج ہوتے تھے.اسی طرح جو سزاؤں کی تجویز نچلے افسر کرتے تھے وہ درج ہوتی تھی اور جو انعامات کی سفارشیں نیچے سے آتی تھیں وہ ریکارڈ ہوتی تھیں.پھر اُن سفارشات کے مطابق بادشاہ کے جو احکام جاری ہوتے تھے کہ مثلاً اس کو میں ایکٹر زمین دے دو، اس کو ایک گاؤں دے دو، اس کو دس گاؤں دے دو، یہ سارے احکام اس میں درج ہوتے تھے.اسی طرح جو ترقیات کے احکام جاتے تھے یا خطابوں کے احکام جاتے تھے کہ اس کو فلاں خطاب دیا جاتا ہے ، اُس کو فلاں خطاب دیا جاتا ہے وہ ان دفاتر میں لکھے جاتے تھے.غرض مجرموں کی ڈائریاں اور مخلصوں کے کارنامے یہ سارے کے سارے وہاں جمع ہوتے تھے اور جب کسی شخص کو سزا دینے کا سوال پیدا ہوتا تھا تو اس کے پچھلے اعمالنامے دیکھ لئے جاتے تھے کہ یہ کس سزا کا مستحق ہے.بعض دفعہ فعل ایک ہی ہوتا ہے لیکن ایک شخص اس کام کا عادی ہوتا ہے اور دوسرے شخص سے اتفاقی طور پر وہ فعل سرزد ہو جاتا ہے جس سے اتفاقی حادثہ ہو جاتا ہے اس کو تو تھوڑی سزا دی جاتی ہے اور جو عادی مجرم ہوتا ہے اُس کو اس کے پچھلے جرائم کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ سزا دی جاتی ہے.مگر میں نے دیکھا دنیوی حکومتوں میں مجرموں کے لئے گریز کی متعدد راہیں کہ یہ دفاتر جو بادشاہوں نے بنائے تھے اِن میں گریز کی بھی بڑی بڑی راہیں تھیں.اوّل تو یہ لوگ چوری چھپے کام کرتے تھے مثلاً ایک شخص قتل کرتا تھا یا چوری کرتا تھا اور ظاہر میں وہ بڑا شریف آدمی نظر آتا تھا.اب جو ڈائری نولیس تھا اُس کو اِس کے حالات معلوم ہونے بڑے مشکل تھے پس اخفاء سے کام لینے کی وجہ سے وہ اپنے جرائم پر پردہ ڈال دیتا تھا.اسی طرح میں نے دیکھا کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ بات تو اُن کی ظاہر ہو گئی لیکن مبالغہ کے ساتھ ظاہر ہوئی.انہوں نے مکھی ماری اور بن گیا کہ ہاتھی مارا ہے اور پھر وہی رپورٹ او پر چلی گئی کہ فلاں شخص سے یہ یہ جرائم ہوئے ہیں اور بعض لوگوں کو میں نے دیکھا کہ وہ رشوتیں دے کر اچھے اچھے کام لکھوا دیتے تھے کہ ہم نے
۶۲۷ فلاں کام کیا ہے، فلاں کام کیا ہے لیکن اُن کے اِن کاموں کی کوئی خاص قدر نہیں ہوتی تھی.سوائے اِس کے کہ بادشاہ کے دربار میں بڑی شہرت ہوتی تھی کہ اس نے فلاں کام کیا ہے.عالم روحانی کے ڈائری نولیس اور ان کا اعلیٰ درجہ کا نظام اس کے مقابل پر میں نے قرآنی دفتر دیکھا تو اس میں میں نے یہ پایا کہ تھا تو وہ بھی اسی شکل میں منظم لیکن وہ ایسی صورت میں تھا کہ اُس میں کسی قسم کی بناوٹ یا کسی قسم کی غلط فہمی یا کسی قسم کا دھوکا یا کسی قسم کی سازش نہیں ہو سکتی تھی.چنانچہ قرآنی دفتر میں بھی میں نے دیکھا کہ وہاں ڈائریوں کا انتظام ہے.مگر ساتھ ہی یہ بھی تھا کہ وہاں جھوٹ کی آلائش بالکل نہیں تھی.چنانچہ میں نے دیکھا کہ قرآن کریم میں لکھا ہو ا تھا وَ إِنَّ عَلَيْكُمْ لَحْفِظِينَ كِرَامًا كَاتِبِينَ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ یعنی تم پر ہماری طرف سے ڈائری نویس مقرر ہیں لیکن وہ ڈائری نویس حافظ ہیں.یعنی ان کا یہی کام نہیں کہ تمہارے جرائم لکھیں بلکہ یہ کام بھی سپرد کیا گیا ہے کہ تمہیں جرائم کرنے سے روکیں.اُن کا یہی کام نہیں کہ تمہارے اچھے کاموں کا ریکارڈ کریں بلکہ یہ بھی کام ہے کہ تمہیں اچھے کاموں میں زیادہ کامیاب ہونے میں مدد دیں.كِرَامًا اور پھر یہ ڈائری نویس جو ہم نے مقرر کئے ہیں بڑے اعلیٰ درجہ کے اور اعلیٰ پایہ کے لوگ ہیں جو ہر قسم کی رشوت خوری سے بالا ہیں، سازش سے بالا ہیں ، جھوٹ سے بالا ہیں ، كَاتِبِينَ اور بڑے محتاط ہیں.وہ یہ نہیں کرتے کہ اپنے حافظہ میں بات رکھیں بلکہ جیسے آجکل سٹینو ہوتا ہے وہ سٹینو کی طرح ساتھ ساتھ لکھتے چلے جاتے ہیں اور اس لکھنے کی وجہ سے اُن کی بات میں غلطی کا امکان نہیں ہوتا.يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ.اور جو کچھ تم کرتے ہو اس کو وہ جانتے بھی ہیں.غرض قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہمارے دنیوی اور روحانی ڈائری نویسوں میں امتیاز سلسلۂ روحانیہ میں بھی ڈائری نولیس ہیں لیکن وہ عام ڈائری نویسوں کی طرح جیسا کہ دنیوی حکومتوں میں ہوتا ہے غریب نہیں ہوتے ، چھوٹی تنخواہوں والے نہیں ہوتے کہ اُن کو رشوت خوری کی ضرورت ہو بلکہ اعلیٰ پایہ کے لوگ ہوتے ہیں وہ اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوتے ہیں.ان کو نہ کوئی خوشامد سے منا سکتا ہے، نہ رشوت دے سکتا ہے، نہ کسی کی کوئی دشمنی اس بات کی موجب ہو سکتی ہے کہ وہ غلط رپورٹ کریں بلکہ اُن کی ہر ایک رپورٹ اور ہر ایک کام سچ کے ساتھ ہوتا ہے اور باوجود اس کے کہ وہ بڑے دیانتدار
۶۲۸ ہیں ، بڑے نیچے ہیں ، بڑے راستباز ہیں، وہ اتنے محتاط ہیں کہ صرف اپنے حافظہ پر بات نہیں رکھتے جو بڑا مکمل حافظہ ہے بلکہ وہ ساتھ ساتھ لکھتے بھی چلے جاتے ہیں گویا اس احتیاط کو وہ دوگنی کر لیتے ہیں.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیوی ڈائری نویس کئی قسم دنیا میں ڈائریاں لکھنے کا غلط طریق کی غلطیاں کر جاتے ہیں کیونکہ وہ ہر وقت ساتھ نہیں رہتے.مثلا تمام گورنمنٹیں پولیس مقرر کرتی ہیں مگر جتنی بڑی سے بڑی منظم گورنمنٹیں ہیں وہ اتنے ڈائری نویس مقرر نہیں کر سکتیں کہ ہر آدمی کے ساتھ ساتھ ڈائری نویس پھرے.اگر ملک کے سپاہیوں کی تعداد دیکھی جائے اور ادھر آدمیوں کی تعداد دیکھی جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ اگر ایک کروڑ آدمی ہے تو شاید پولیس تین چار ہزار ہو اور وہ تین چار ہزار بھی سارے ڈائری نویس ہی نہیں ہونگے بلکہ اُن میں سے اکثر وہ ہونگے جن کا کوئی اور کام مقرر ہوگا.مثلاً یہ کہ رستوں کی حفاظت کرنی ہے یا انہیں کسی جگہ پر ریزرور کھا ہوا ہو گا کوئی جھگڑا یا فساد ہوا تو وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں.سٹینو اور ڈائریاں لکھنے والے میرے خیال میں سارے صوبہ میں جس کی دو تین کروڑ آبادی ہو دو تین سو ہی نکلیں گے.اب اگر دو تین کروڑ آبادی میں ایک کروڑ پر سو آدمی ہے یا فرض کر لو ایک کروڑ پر ہزار بھی آدمی ہے تب بھی دس ہزار آدمیوں پر ایک ہوا اور دس ہزار آدمی پر جو ایک شخص مقرر ہے وہ ہر ایک کا نامہ اعمال نہیں لکھ سکتا نہ وہ ہر ایک آدمی کے عمل کی تحقیقات کر سکتا ہے.لازمی بات ہے کہ کچھ لوگ تو یونہی ان کی نظروں سے چُھپ جائیں گے اور جو لوگ اُن کی نظروں کے نیچے آ ئیں گے اُن سب کے متعلق بھی وہ صحیح تحقیقات نہیں کر سکتے.کچھ کے متعلق تو وہ صحیح تحقیقات کریں گے اور کچھ کے متعلق وہ سنی سنائی باتوں پر ہی کفایت کر لیں گے.اعتبار ہوگا کہ فلاں آدمی بڑا سچا ہے ، اُس نے کہا ہے تو ٹھیک ہی بات ہوگی اس لئے وہ مجبور ہوتے ہیں کہ جو بات اُن تک پہنچے اُس پر اعتبار کر لیں.مختلف حکومتوں کا طریق کار دنیا کی تمام گورنمنٹوں میں امریکہ میں بھی ، انگلینڈ میں بھی ، یورپ میں بھی، ایشیا میں بھی غرض سارے ملکوں میں دیکھا جاتا ہے اُن کی کتابوں کو ہم پڑھتے ہیں تو اُن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا عام قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ کسی گاؤں میں گئے اور پوچھا کہ یہاں کون کون آدمی رہتے ہیں؟ کوئی نمبر دار مل گیا تو اُس سے پوچھا کہ یہاں کونسا اچھا آدمی ہے کونسا بُرا ہے اور اُس کی کیا شہرت ہے.اب ممکن کی
۶۲۹ ہے وہ شخص چند آدمیوں کا دشمن ہو اور ممکن ہے کہ چند آدمیوں کا دوست ہو.ہم نے دیکھا ہے ایک آدمی سے پوچھو تو وہ کچھ آدمیوں کی تعریف کر دیتا ہے اور دوسرے آدمیوں سے پوچھو تو وہ اُن کی مذمت کر دیتے ہیں.غرض اس طرح کی باتیں سُن کر لازماً وہ مجبور ہوتا ہے کہ اُن باتوں کو لے اور دوسروں کو پہنچا دے.اسی طرح ہم نے دیکھا ہے بعض دفعہ عورتوں سے پوچھ لیتے ہیں.ملازموں سے پوچھ لیتے ہیں، ہمسایوں سے پوچھ لیتے ہیں اور اس طرح اپنی ڈائری مکمل کر لیتے ہیں.اس میں بہت سی باتیں بچی بھی ہوتی ہیں اور بہت سی باتیں غلط بھی ہوتی ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ روحانی ڈائری نویس يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ کا مصداق ہوتے ہیں! فرماتا ہے يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ ہم نے جو یہ ڈائری نویس مقرر کئے ہیں یہ کسی سے پوچھ کر نہیں لکھتے بلکہ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ جو کچھ تم کرتے ہو وہاں تک اُن کو اپروچ (APPROACH) حاصل ہے اُن کو پہنچ حاصل ہے اور تم جو بھی کام کرتے ہو اُن کی نظر کے نیچے ہوتا ہے پس وہ اپنی دیکھی ہوئی بات لکھتے ہیں کسی سے پوچھ کر نہیں لکھتے اس لئے نہ تو لالچ کی وجہ سے کوئی نوکر جُھوٹ بول سکتا ہے، نہ بیوقوفی کی وجہ سے کوئی بچہ غلط خبر دے سکتا ہے نہ دشمنی کی وجہ سے کوئی ہمسایہ فریب کر سکتا ہے اُن کی اپنی دیکھی ہوئی بات ہوتی ہے جو صحیح ہوتی ہے.ایک عرائض نویس کا لطیفہ ہم نے دیکھا ہے دنیوی ڈائریوں میں بعض دفعہ ایسی ایسی غلطی ہو جاتی ہے کہ لطیفے بن جاتے ہیں.مجھے یاد ہے گورداسپور میں ایک صاحب عرائض نویس ہوا کرتے تھے میں بھی اُن سے ملا ہوں.اُن کے اندر یہ عادت تھی کہ جب کوئی شخص اُن سے ملتا اور اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہہ کر مصافحہ کرتا تو وہ اُس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور بجائے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہنے کے ایڑی پر کھڑے ہو کر اللهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ کہنا شروع کر دیتے ، یوں آدمی نمازی اور دیندار تھے.ان کے متعلق یہ لطیفہ مشہور ہوا کہ ایک دفعہ اتفاقا ڈ پٹی کمشنر کے دفتر سے کچھ مسلیں غائب ہو گئیں.کوئی صاحب غرض ہوگا یا کوئی شرارتی ہوگا یا کسی نے افسر کو دُکھ پہنچانا ہوگا اب تحقیقات کے لئے پولیس کو مقرر کیا گیا کہ پتہ لو مسلیں کہاں گئیں؟ انہوں نے تحقیقات کر کے خبر دی کہ ہم نے پتہ لے لیا ہے اگر گورنمنٹ اجازت دے تو ہم اس پر کارروائی کریں.چنانچہ ڈپٹی کمشنر نے یا جو بھی مجسٹریٹ مقرر تھا اُس نے اجازت دے دی اور وہی شخص جو مصافحہ کرتے ہوئے اللهُ اَكْبَرُ ، اللهُ أَكْبَرُ کہا کرتا تھا پولیس نے اُس کے
۶۳۰ " - گھر پر چھاپا مارا اور بہت سے کاغذات اُٹھا کر لے گئی اور سمجھا کہ مسلیں پکڑی گئیں.چنانچہ انہوں نے فوراً وہ مسلیں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں پہنچا دیں کیونکہ انہیں فوری کام کرنے کا حکم تھا اُن کو دیکھنے کا بھی موقع نہیں ملا کہ ان کا غذات میں ہے کیا، سیدھے ڈپٹی کمشنر کے دفتر پہنچے.اب جو اُس نے مسلیں اٹھا ئیں تو ایک کے اوپر لکھا تھا ”نمک کی مسل“ ایک کے اوپر لکھا ہوا تھا مرچ کی مسل“ ایک پر لکھا ہو ا تھا ہلدی کی مسل“.ایک پر لکھا ہوا تھا آٹے کی مسل“.ایک پر لکھا ہو ا تھا ” شکر کی مسل“.اب سب حیران کہ شکر اور آٹے کی مسلوں سے کیا مطلب ہے؟ آخر کھول کر دیکھا تو پتہ لگا کہ وہ بیچارہ خبطی تو تھا ہی، روز جب عدالت میں کام کرتا تھا تو دیکھتا تھا کہ مجسٹریٹ بیٹھا ہوا ہے اور کہتا ہے :.اہلمند ! مسل پیش کرے اور پھر ایک مسل آجاتی.اس کو بھی شوق آتا مگر وہ حیثیت تو تھی نہیں ، دل میں خواہش ہوتی کہ کاش! میں ڈپٹی کمشنر ہوتا اور میرے سامنے مسلیں پیش ہوتیں.یا میں ای.اے سی ہوتا تو میرے سامنے مسلیں پیش ہوتیں.آخر انہوں نے گھر جا کر اپنی بیوی کو حکم دیا کہ آئندہ میں گھر کا خرچ نہیں دونگا جب تک ہر ایک چیز کی مسل نہ بناؤ اور پھر وہ مسل میرے سامنے پیش کیا کرو.اب نمک خرچ ہو چکا ہے، بیوی کہتی ہے کہ نمک چاہئے اور وہ کہتے ہیں؟ نہیں، پہلے مسل پیش کرو اس کے لئے رات کا وقت مقرر تھا.چنانچہ نو بجے تک جب انہوں نے سمجھنا کہ ہمسائے سو گئے ہیں تو انہوں نے بیٹھ جانا اور بیوی کو کہنا کہ اچھا اہلمد ہ! نمک کی مسل پیش کرو.اب اس نے نمک کی مسل پیش کرنی اور انہوں نے اس میں لکھنا کہ دو آنے کا نمک آیا تھا جو فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک چلا ہے.اس کے بعد حضور والا مدار! اور منظوری دیں.اور پھر اُس نے لکھنا کہ نمک کے لئے دو آنے کی اور منظوری دی جاتی ہے.غرض وہ سارے کا سارا اُس بیچارے کے گھر کا بہی کھا نہ تھا جو درحقیقت اُس کا ایک تمسخر تھا.اب بات کیا ہوئی ؟ بات یہ ہوئی کہ پولیس آخر انسان ہے اس کو غیب کا علم تو ہے نہیں وہ یہی کرتے ہیں کہ ادھر اُدھر سے کنسوئیاں سے لیتے ہیں کہ کسی طرح بات کا پتہ چلے.وہ سارے شہر میں جو پھرے تو ہمسایوں نے کہا کہ اس کے گھر سے رات کو مسل مسل کی آواز آیا کرتی ہے.چنانچہ انہوں نے اُس کو پکڑ لیا.پہلے ایک ہمسایہ نے گواہی دی، پھر دوسرے نے دی ، پھر تیسرے نے دی.غرض کئی گواہ مل گئے جنہوں نے تصدیق کی کہ روزانہ آدھی رات ہوتی ہے یا دس گیارہ بجتے ہیں تو یہاں سے آواز آنی شروع ہوتی ہے کہ مسل مسل ، پس مسلیں اسی کے گھر میں ہیں.چنانچہ چھاپہ مارا گیا اور اندر سے نمک اور مرچ اور ہلدی کی مسلیں نکل 66
۶۳۱ آئیں تو اس طرح غلطیاں لگ سکتی ہیں.بہر حال انہوں نے تدبیر اور کوشش سے بات دریافت کرنی ہوتی ہے ان کو غیب کا علم نہیں ہوتا لیکن قرآن کریم کے جو ڈائری نویس ہیں اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ وہ اِرد گرد کنسوئیاں لے کر پتہ نہیں لگاتے بلکہ ہر واقعہ کے اوپر کھڑے ہوتے ہیں اور ان کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ بات یوں ہوئی ہے.اسی طرح میرے ساتھ ایک سابق گورنر پنجاب کا وائسرائے کے نام خط ایک عجیب واقعہ پیش آیا.جب میں ۱۹۲۴ء میں انگلستان گیا تو وہاں سے واپسی پر بمبئی گورنمنٹ کے ایک افسر نے ایک چٹھی کی نقل مجھے بھیجی.وہ چٹھی گورنر پنجاب کی تھی اور تھی وائسرائے کے نام اُس کو مختلف صوبوں میں سرکلیٹ کیا گیا تھا کیونکہ بڑے بڑے اہم معاملات کو سرکلیٹ کیا جاتا ہے.وہ چٹھی اُس نے میرے پاس بھیجی کہ یہ آپ کی دلچسپی کا موجب ہوگی اسے آپ بھی پڑھ لیں.اُس چٹھی کو میں نے پڑھا تو حیران رہ گیا.اُس چٹھی میں گورنر پنجاب سر میلکم ہیلی ( جو بعد میں لارڈ بن گئے ) وائسرائے کو لکھ رہے تھے کہ مجھے آپ کی طرف سے چٹھی پہنچی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ امام جماعت احمدیہ جو انگلینڈ گئے تھے تو وہاں اُن کے تعلقات سوویٹ یونین کے بڑے بڑے افسروں سے تھے اور وہ اُن سے مل کر مشورے کرتے تھے اس لئے اُن کی نگرانی کی جائے اور دیکھا جائے کہ اُن کو سوویٹ یونین کے لوگوں سے کیا دلچسپی ہے اور سوویٹ یونین کا اُن کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اگر میں امام جماعت احمدیہ کا ذاتی واقف نہ ہوتا تو انگلستان کی سی آئی ڈی کی رپورٹ پر میں یقیناً اعتبار کرتا اور میں اس کو بڑی اہمیت دیتا لیکن میں ان کا ذاتی طور پر واقف ہوں وہ ایک مذہبی آدمی ہیں اور امن پسند آدمی ہیں.وہ سوویٹ یونین یا اس کے منصوبوں کے ساتھ دُور کا بھی تعلق نہیں رکھتے اس لئے اپنے ذاتی علم کی بناء پر میں آپ کو لکھتا ہوں کہ اس میں کسی کارروائی کی ضرورت نہیں یہ غلط رپورٹ ہے اور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے.آگے انہوں نے خود لکھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن کو بغیر علم کے بعض سوویٹ یونین کے بڑے بڑے آدمی ملے ہیں.ہمارے آدمیوں کو چونکہ پتہ تھا کہ وہ سوویٹ یونین کے آدمی ہیں اس لئے انہوں نے سمجھا کہ اس میں کوئی بات ہوگی اور ان کو پتہ نہیں تھا.ان کو ملنے والے آکر ملے تو انہوں نے ملاقات کر لی اور اس لئے کہ باقی لوگ بھی غلطی میں مبتلاء نہ رہیں وائسرائے نے وہ پٹھی گورنر بمبئی کو بھیجی.شاید اوروں کو بھی بھیجی ہوگی بہر حال ان کے ایک افسر نے مجھے اس کی نقل بھجوائی کہ
۶۳۲ چونکہ اس سے آپ کی بریت ہوتی ہے میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں.سفر انگلستان سے واپسی پر جہاز کے چیف انجینئر سے ملاقات اب میں نے سوچا کہ کیا واقعہ ہے تو مجھے یاد آیا کہ جب ہم جہاز سے واپس آ رہے تھے تو جہاز کا جو چیف انجینئر تھا اُس کی طرف سے مجھے پیغام ملا کہ میں آپ کو جہاز کا انجن وغیرہ دکھانا چاہتا ہوں اور یہ کہ جہاز کس طرح چلائے جاتے ہیں؟ ( بڑے بڑے جہازوں کے جو انجینئر ہوتے ہیں وہ بڑے رینک کے ہوتے ہیں بلکہ اُن کے کپتان بھی کرنیل رینک کے ہوتے ہیں.یہ پیغام جو مجھے ملا جہاز کے چیف انجینئر کی طرف سے تھا) میں نے اُس کو کہلا بھیجا کہ میں تو ایک مذہبی آدمی ہوں ، میرا ان باتوں سے کیا واسطہ ہے؟ میں نے سمجھا کہ شاید یہ مجھے کوئی راجہ مہاراجہ سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ یہ کبھی میرے کام آئیں گے تو خواہ مخواہ جو یہ تکلیف اُٹھائیگا تو اس کا کیا فائدہ ہوگا بعد میں اس کو مایوسی ہوگی پس میں کیوں اس کو مایوس کروں.چنانچہ میں نے کہا میں تو ایک فقیر آدمی ہوں، مذہبی امام ہوں مجھے ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے آپ کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں؟ اُس نے پھر یہی کہا کہ ٹھیک ہے آپ مذہبی آدمی ہیں لیکن میری یہ خواہش ہے آپ مجھے ممنون کریں اور ضرور جہاز دیکھیں.چنانچہ میں گیا اُس نے بڑا انتظام کیا ہو ا تھا اور سارے انجینئر جو اُس کے ماتحت تھے اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے تھے ایک ایک پرزہ اُس نے دکھایا اور بتایا کہ یوں جہاز چلتا ہے.اس اس طرح پاور پیدا ہوتی ہے اور اس طرح وہ اُسے آگے کھینچتی ہے غرض سارا جہاز اُس نے دکھایا.خیر ہم نے جہاز دیکھ لیا.میرے ساتھ بعض اور ساتھی بھی تھے جب ہم باہر نکلے تو میرے ساتھیوں میں سے ایک دوست نے مجھے کہا کہ انجینئر صاحب نے الگ ہو کر مجھے کہا ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ پرائیویٹ طور پر میرے کمرہ میں چل کر ذرا دو پیالی چائے میرے ساتھ پی لیں.میں نے پھر انکار کیا اور کہا ان کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے خواہ مخواہ کیوں ان کی مہمانی قبول کروں؟ مگر انہوں نے کہا بہت اصرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھ پر بڑا احسان ہوگا آپ چائے پی لیں خیر وہ اکیلا ہی مجھے لے گیا اور باقی ساتھیوں کو ہم نے باہر چھوڑ دیا ہم کمرہ میں بیٹھے اور اُس نے چائے پلائی.چیف انجینئر کی غلط فہمی چائے پلانے کے بعد کہنے لگا میری ایک عرض بھی ہے.میں نے کہا فرمائیے.میں سمجھ گیا کہ اس کو کوئی کام ہی تھا.کہنے لگا
۶۳۳ میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ انگلینڈ کیوں گئے تھے؟ میں نے کہا میں انگلینڈ یہ دیکھنے کے لئے گیا تھا کہ اسلام کی ترقی کے لئے وہاں کیا کیا مواقع ہیں اور ہمارا مشن تبلیغ میں کس حد تک کامیاب اور کن اسباب کے ساتھ کامیاب ہو سکتا ہے؟ ہنس کر کہنے لگا یہ تو ہوئیں لوگوں سے کر نیوالی باتیں اصل وجہ مجھے بتائیے.میں نے کہا لوگوں سے اور تمہارے ساتھ باتیں کرنے میں کیا فرق ہے.تم بھی لوگ ہو اور لوگ بھی لوگ ہیں اس میں میرے لئے فرق کرنے کی کیا وجہ ہے.کہنے لگا نہیں نہیں.آپ مجھ پر اعتبار کریں میں کسی کو نہیں بتا تا.میں نے کہا میری بات ہی ایسی کوئی نہیں جو کسی کو بتانے والی نہ ہو تم نے بتا نا کیا ہے؟ اس پر اُس نے پھر اصرار کیا کہ سچی بات مجھے بتا دیں.اس کے مقابل پر جب پھر میں نے اصرار کیا اور کہا کہ سوائے اس بات کے اور کچھ بھی نہیں کہ میں تبلیغی میدان کے لئے راستہ کھولنے کے لئے گیا تھا اور یہ دیکھنے کے لئے گیا تھا کہ اسلام کی تبلیغ ان ملکوں میں کس طرح ہو سکتی ہے تو پھر اُس نے بڑے افسوس سے کہا کہ میں کس طرح آپ کو یقین دلاؤں کہ میں کون آدمی ہوں.پھر کہنے لگا ، آپ نے میکسیمیلین سے اپنے رشتہ داری تعلقات کا اظہار میکسیمیلین (MAXIMILLION) کا نام سنا ہوا ہے؟ میں نے کہا ہاں میں نے سنا ہوا ہے وہ آسٹریلیا کا ایک شہزادہ تھا.میکسیکو میں فساد ہونے پر یورپ کی حکومتوں نے تجویز کی کہ اس ملک میں اگر ہم کسی کو بادشاہ مقرر کر دیں تو اس ملک کے فسادات دُور ہو جائیں گے.چنانچہ انہوں نے میکسیمیلین کے متعلق جو آسٹریلیا کے شاہی خاندان کا ایک شہزادہ تھا اور بڑا سمجھدار اور عقلمند سمجھا جاتا تھا تجویز کیا کہ اس کو میکسیکو کا بادشاہ بنا دیا جائے.یہ جا کر انتظام کر لے گا.اُس وقت میکسیکو میں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا تھا.اُس نے جاتے وقت اپنے اُن درباریوں میں سے جو شاہی درباری تھے ایک بڑا ہی قابلِ اعتبار آدمی ساتھ لے جانے کے لئے چُنا اور کہا کہ یہ میرا نا ئب ہوگا اور میری مدد کرے گا.غرض وہ میکسیکو میں گیا اور امریکہ، انگلینڈ اور فرانس وغیرہ کے دباؤ ڈالنے سے وہاں اس کی کی بادشاہت قائم کر دی گئی اور اُس نے کام شروع کر دیا لیکن امریکہ کے لوگ بادشاہوں کے عادی نہیں تھے.تھوڑے ہی دنوں میں وہاں بغاوت شروع ہوگئی اور بڑوں اور چھوٹوں سب نے مل کر کہا کہ ہم تو اس بادشاہ کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور وہ سارے کے سارے مقابل پر اُٹھ کھڑے ہوئے آخر اُس کو ملک سے بھاگنا پڑا.جب وہ وہاں سے بھاگا تو سارے اُس کا
۶۳۴ ساتھ چھوڑ گئے.سوائے اُس درباری کے جس کو اُس نے اپنے ساتھ رکھا تھا.تاریخ گواہی دیتی ہے کہ اُس نے ایسے ایسے مصائب چھیلے اور ایسی ایسی مصیبتیں اُٹھا ئیں کہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن بڑی بڑی سخت تکلیفوں اور جان جوکھوں میں بھی اُس نے اُس کا ساتھ نہ چھوڑا.کہنے لگا آپ نے اُس کا حال پڑھا ہے؟ میں نے کہا میں نام تو نہیں جانتا پر یہ میں نے پڑھا ہے کہ اُس کا ایک ساتھی اُس کے ساتھ گیا تھا اور وہ بڑا وفادار تھا.کہنے لگا میں اُس کا پوتا ہوں.اب آپ سمجھ لیجئے کہ آپ مجھ پر کتنا اعتبار کر سکتے ہیں.میں نے کہا اعتبار تو جتنا چاہوکرالو پر بات ہی کوئی نہیں میں کیا کروں.چیف انجینئر کی مضحکہ خیز پیشکش کہنے لگا خیر پھر آپ نہیں کرتے تو میں تو کم از کم اپنی طرف سے پیشکش کر دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ گئے تو تھے انگریزوں کے خلاف منصو بہ کرنے کے لئے لیکن مشکل آپ کو یہ پیش آئینگی کہ آپ اپنے مبلغوں کو ہدایات کس طرح بھیجیں کیونکہ خط تو سنسر ہو جاتے ہیں اور اگر وہ پکڑے جائیں تو آپ کی ساری سکیم فیل ہو جاتی ہے اس لئے میں آپ کو یہ تجویز بتا تا ہوں کہ جب آپ نے ہدایتیں لکھ کر اپنے مبلغ کو بھیجنی ہوں تو میرا جہاز ہمیشہ فرانس جاتا رہتا ہے.میرے ذریعہ آپ اُسے ہدایت بھیجیں اُدھر اپنے مبلغ کو لکھ دیں کہ جہاز پر آ کر مجھ سے وہ لفافہ لے جائے اسی طرح اُس نے آپ کو جو مخفی پیغام بھیجنا ہو وہ مجھے دے دے میں آپ کو پہنچا دیا کروں گا.پھر کہنے لگا آپ کو یہ خیال پیدا ہو گا کہ وہ مجھ تک کس طرح پہنچے اور میں اُس کو کس طرح دوں اس پر کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ اس کے لئے میں آپ کو ایک تجویز بتا تا ہوں.چنانچہ اُس نے اپنا ایک کارڈ نکالا.یہ وزٹنگ کارڈ کہلاتے ہیں جو یوروپین لوگ ملتے وقت ایک دوسرے کو دکھاتے ہیں.اس پر اُس شخص کا نام لکھا ہوا ہوتا ہے اور اُس کا عہدہ وغیرہ درج ہوتا ہے جب کسی کو ملنا ہوتا ہے تو وہ کارڈ اندر بھجوا دیتے ہیں کہ فلاں افسر ملنے آیا ہے.غرض اُس نے اپنا وزٹنگ کارڈ نکالا اور اُس کو بیچ میں سے پکڑ کر دو ٹکڑے کر دیا.جب کارڈ کو دو ٹکڑے کیا جائے تو ہر کا رڈ الگ شکل اختیار کر لیتا ہے کوئی ! انچ ادھر سے پھٹتا ہے کوئی انچ اُدھر سے پھٹتا ہے.کوئی ذرا ادھر سے نیچا ہو جاتا ہے کوئی اُدھر سے نیچا ہو جاتا ہے اس طرح تھوڑا بہت فرق ضرور ہو جاتا ہے اور دونوں حصوں کو ملانے سے فوراً پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ کارڈ اسی کا حصہ ہے کسی دوسرے کارڈ کے ساتھ وہ نہیں لگ سکتا.غرض اس کا رڈ کو پھاڑ کر وہ کہنے لگا.میں آپ
۶۳۵ کو اطلاع دونگا کہ میں فلاں تاریخ کو بمبئی پہنچ جاؤں گا آپ کا آدمی آئیگا اور وہ میرا نام لے کر کہے گا کہ فلاں چیف انجینئر صاحب ہیں؟ میں کہوں گا ہاں میں ہوں.پھر وہ میرے پاس آئے گا اور آ کر مجھے کہے گا.آپ کو امام جماعت احمدیہ نے خط بھیجا ہے.میں کہوں گا.میں امام جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں وہ کون ہیں میں تو بالکل اُن کا واقف نہیں.وہ کہے گا نہیں آپ اُن کے واقف ہیں.چنانچہ ایک کارڈ جو آپ نے براہ راست میرے پاس بھیجا ہوگا اس کا دوسرا ٹکڑا وہ اپنی جیب سے نکال کر کہے گا.یہ لیجئے میں اپنی جیب میں سے کارڈ نکال کر ملا ؤ نگا جب وہ مل جائیں گے تو میں کہوں گا.ہاں ہاں میں جانتا ہوں کیا لائے ہو میرے لئے ؟ پھر وہ لفافہ مجھے دے دیگا.ادھر آپ ایک دوسرا کارڈ کاٹ کر میرے پاس بھیجد یں گے اور ایک اپنے انگلستان کے مبلغ کو بھیجدیں گے.جب میں فرانس یا اٹلی پہنچوں گا تو اس کو خبر دونگا کہ ہمارا جہاز پہنچ گیا ہے یا فلاں تاریخ کو پہنچ جائے گا.اور اُس کو آپ کی طرف سے ہدایت ہوگی کہ فلاں جہاز پر پہنچ جانا.وہ وہاں آئیگا اور آ کر کہے گا کہ اس جہاز کا جو چیف انجینئر ہے وہ ہے؟ لوگ بتائیں گے کہ ہے.اس کے بعد میں جاؤنگا اور پوچھوں گا کون صاحب ہیں.وہ کہیں گے میں جماعت احمدیہ کا مبلغ ہوں اور انگلینڈ سے آیا ہوں.میں کہوں گا.میں جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں نہ کسی مبلغ کو جانتا ہوں.تم میرے پاس کیوں آئے ہو.وہ کہے گا مجھے امام جماعت احمد یہ نے بھیجا ہے میں کہوں گا.میں امام جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں.اس کے بعد وہ اپنی جیب میں سے کارڈ نکالے گا اور کہے گا کہ یہ کارڈ لیں.میں اپنی جیب سے کارڈ نکالوں گا اور دونوں کو ملاؤ نگا.اگر وہ مل گئے تو میں کہوں گا.ہاں ہاں یہ لفافہ تمہارے لئے ہے.اس طرح آپ کی خط و کتابت بڑی آسانی سے ہو جائے گی.میں نے کہا میں آپ کی اس پیشکش کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کی اس خیر خواہی کا ممنون ہوں.مگر افسوس ہے کہ میں یہ کام ہی نہیں کرتا تو اس سے کس طرح فائدہ اُٹھاؤں.کہنے لگا پھر سوچ لیجیئے.جب آپ کو ضرورت ہو میں حاضر ہوں.اس واقعہ سے مجھے خیال آیا کہ شاید وہی سوویٹ یونین پولیس والوں کی قیاسی رپورٹیں کا نمائندہ ہو اور انہوں نے سمجھا ہو کہ شاید یہ جماعت بھی اس قسم کے کام کرتی ہے ہم اسے اپنے ساتھ ملا لیں.بہر حال یہ ایک چٹھی تھی جو آئی.اس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ ڈائری نویں اپنی ڈائریاں کس طرح مرتب کیا کرتے ہیں.یہ لکھنے والے بددیانت نہیں تھے جھوٹے نہیں تھے ہمارے ساتھ ان کی کوئی دشمنی نہیں تھی.بھلا انگلستان
۶۳۶ کے لوگوں کو یا فرانس کے لوگوں کو ہمارے ساتھ کیا دشمنی ہو سکتی ہے.انہوں نے محض قیاس کیا اور ایک شخص جس کے متعلق وہ جانتے تھے کہ وہ سوویٹ یونین کا بڑا آدمی ہے لیکن ہمیں پتہ نہیں تھا وہ ہمیں ملنے آیا ہم نے سمجھا کہ ایک عام آدمی ہم سے مل رہا ہے اور انہوں نے فوراً نوٹ کیا کہ سوویٹ یونین کا کوئی نمائندہ ان سے ملا ہے اور اس کے اوپر انہوں نے قیاس کر لیا کہ اُن کے ساتھ ان کے تعلقات قائم ہیں.اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ ڈائریوں میں کس طرح غلط فہمیاں ہو جاتی ہیں.لیکن قرآنی دفتر کے ڈائری نویس کسی سے سن کر ڈائری نہیں لکھتے بلکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے اُس کی حقیقت سے آپ واقف ہو کر لکھتے ہیں.پھر ڈائری نویسوں میں سے بعض ایجنٹ پروو کیٹیئر ڈائری نویسوں کی دھوکا دہی (AGENT PROVOCATEUR) ہوتے ہیں یعنی اُن کو خدمت کا اور اپنی حکومت میں مشہور ہونے کا اور صلہ پانے کا شوق ہوتا ہے اور وہ جان بوجھ کر ایسی باتیں کرتے ہیں تا کہ اگلے کے منہ سے کچھ نکل جائے اور وہ اسے بالا افسروں تک پہنچا سکیں.مثلاً مجلس لگی ہوئی ہے اور لوگ بالکل نا تجربہ کار اور سیدھے سادے بیٹھے ہیں.ایک آدمی نے درمیان میں جان بوجھ کر بات شروع کر دی کہ گورنمنٹ بڑے ظلم کر رہی ہے.اب ایک نا واقف شخص نے بھی کسی پر سختی کا ذکر سُنا ہو ا تھا تو اُس نے بھی کہہ دیا کہ ہاں جی میں نے بھی فلاں واقعہ سنا ہے.اُس نے جھٹ ڈائری لکھ لی کہ فلاں شخص کہ رہا تھا کہ گورنمنٹ بڑا ظلم کر رہی ہے حالانکہ اس کا محرک وہ آپ بنا تھا.ایسے لوگوں کو انگریزی میں ایجنٹ پروو کیٹیئر (AGENT PROVOCATEUR) کہتے ہیں.یعنی دوسروں کو اکسا کر وہ ان کے منہ سے ایسی باتیں نکلوا دیتے ہیں جو قابل گرفت ہوتی ہیں.جب میر ٹھ کیس ہو ا جس میں وائسرائے کے مارنے کی تجویز کی گئی تھی تو اس میں ایک پولیس افسر نے سارا کیس بنایا کہ فلاں کانگرسی کی سازش تھی ، فلاں کا نگرسی کی سازش تھی لیکن اتفاقاً جب ساری مسل بالکل تیار ہوگئی تو کسی اور جُرم میں ایک آدمی پکڑا گیا اور اُس نے اقرار کر لیا.اُس وقت پتہ لگا کہ وہ سارے ہی اور لوگ تھے اور یہ سب کی سب جھوٹی کہانی بنائی گئی تھی.تب جا کر یہ حقیقت کھلی اور پھر اُس شخص کو سزا بھی ملی.میں جب ۱۹۱۲ ء میں حج کے لئے گیا تو وہاں بھی ہمارے ساتھ سفر حج کا ایک واقعہ ایسا ہی واقعہ پیش آیا.میرے ساتھ پانچ آدمی اور بھی ہم سفر تھے.
۶۳۷ ان میں سے تین بڑی عمر کے تھے اور وہ تینوں ہی بیرسٹری کر رہے تھے.ان میں سے ایک ہندو تھا جو اب ہندوستان چلا گیا ہے دو مسلمان تھے جن میں سے ایک فوت ہو چکا ہے اور ایک ملتان میں بیرسٹری کر رہا ہے.یہ تینوں روزانہ میرے ساتھ مذہبی اور سیاسی گفتگو کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کانگرس کے ساتھ ملنا چاہئے مسلمانوں کی بہتری اور بھلائی اسی میں ہے.غرض خوب بخشیں ہوتی رہتی تھیں.جب ہمارا جہاز عدن پہنچا تو ہم اُتر کے عدن کی سیر کیلئے چلے گئے.میں بھی تھا اور وہ تینوں بیرسٹر بھی تھے اور وہ دولڑ کے بھی تھے جن میں سے ایک اِس وقت ایجوکیشن کا ڈائریکٹر ہے اُس وقت وہ بچہ تھا.بہر حال ہم سارے وہاں گئے جس وقت ہم شہر میں داخل ہونے لگے تو ایک آدمی بالکل سادہ لباس میں ہمارے پاس آیا.اُس وقت ہم پنجابی میں باتیں کر رہے تھے اُس نے دیکھ لیا کہ پنجابی ہیں.چنانچہ آتے ہی کہنے لگا آ گئے ساڈے لالہ لاجپت رائے جی دے وطن دے خوش قسمت لوگ آگئے ، اُس نے اتنا فقرہ ہی کہا تھا کہ انہوں نے اُس کو نہایت غلیظ گالیاں دینی شروع کر دیں.مجھے بڑی بد تہذیبی معلوم ہوئی کہ اس بیچارے نے کہا ہے کہ تم وہاں سے آئے ہو اور انہوں نے گالیاں دینی شروع کر دی ہیں.خیر اُس وقت تو میں چُپ رہا جب ہم واپس آئے تو میں نے کہا کہ آپ لوگوں نے کوئی اچھے اخلاق نہیں دکھائے.کوئی مسافر آدمی تھا، پنجابی دیکھ کر اُسے شوق آیا کہ وہ بھی پنجابی میں باتیں کرے اور اُس نے آپ کو کہہ دیا کہ لالہ لاجپت رائے کے وطن کے لوگ آئے ہیں تو اس میں حرج کیا ہوا؟ وہ کہنے لگے آپ نہیں جانتے یہ پولیس میں تھا اور اُس کی غرض یہ تھی کہ ہم لالہ لاجپت رائے کی کچھ تعریف کریں اور یہ ہمارے خلاف ڈائری دے.اب پتہ نہیں یہ سچ تھا یا جھوٹ یا ان کے دل پر ایک وہم سوار تھا اور اس کی وجہ سے انہوں نے یہ کہا.بہر حال دنیا میں یہ کارروائیاں ہوتی ہیں.پھر میں نے دیانتدار ڈائری نویسوں کو اپنی ڈائری کی تصدیق میں مشکلات یہ بھی سوچا کہ ان بادشاہوں کے دربار میں کچی ڈائریاں بھی جاتی تھیں.آخر سارے پولیس مین تو جھوٹے نہیں ہوتے.بیچ میں جھوٹے بھی ہوتے ہیں اور بچے بھی ہوتے ہیں.بلکہ دنیا کی ہر قوم میں جھوٹے اور بچے ہوتے ہیں تو بعض بیچارے بڑی دیانت داری سے ڈائری لکھتے تھے لیکن ان کی تصدیق مشکل ہو جاتی تھی.مثلاً وہ کہتا تھا کہ میں نے فلاں جگہ پر کان رکھ کے سنا تو اندر سے فلاں فلاں آدمی یہ باتیں کر رہے تھے.یا میں ریل کے ڈبہ میں بیٹھا تھا تو فلاں فلاں یہ باتیں
۶۳۸ کر رہے تھے.اب ہم کس طرح یقین لائیں کہ اس نے سچ لکھا ہے.چاہے ایک ایک لفظ اُس نے سچ لکھا ہو.عام طور پر ڈائری نولیس کو یہ رعایت ہوتی ہے کہ کہتے ہیں یہ آفیشل ورشن ہے.آفیشل ورشن غلط نہیں ہو سکتا.مگر یہ دھینگا مشتی ہے پبلک ہر آفیشل ورشن کو غلط کہتی ہے.جب تنقید بڑھ جاتی ہے اور حکومت کے خلاف اعتراضات ملک میں زیادہ ہو جاتے ہیں تو پھر حکومت قرآن ہاتھ میں لے کر بھی کوئی بات کرے تو ملک والے کہتے ہیں ہم نہیں مانیں گے یہ غلط اور جھوٹ ہے.بیچارہ پولیس والا وضو کر کے اور نماز پڑھ کے ڈائری لکھے اور خدا کی قسم کھائے کہ ایک لفظ بھی میں جھوٹ نہیں بولوں گا تو پھر بھی جب لوگ اس ڈائری کو پڑھیں گے تو کہیں گے جھوٹ ہے اور ملک میں اس کے خلاف زبردست پرو پیگنڈا شروع ہو جاتا ہے اور پھر جمہوری حکومتوں میں چونکہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں پولیس بیچاری یہ بھی ڈرتی ہے کہ گل کو یہی آگے آگئے تو ہمارے لئے مصیبت ہو جائے گی.مگر فرماتا ہے کہ یہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ڈائری نولیس مقرر ہوتے ہیں ان کے لئے یہ خطرہ نہیں ہوتا.مجرموں کے انکار پر پولیس کا جھوٹے گواہ تیار کرنا سیدھی بات ہے کہ ڈائری عام طور پر مُجرموں کی لکھی جاتی ہے اور مجرم جو مجرم کرتا ہے وہ لوگوں کو دکھا کر تو کرتا نہیں ، چوری چھپے کرتا ہے اور چوری میں اتفاقاً ہی کوئی شخص دیکھ سکتا ہے، یہ تو نہیں کہ سارا ملک دیکھے گا یا سارا گاؤں دیکھے گا.اب فرض کرو اتفاقاً کوئی پولیس مین وہاں آ گیا اور اُس نے وہ بات دیکھ لی اور اُس نے رپورٹ کی کہ ایسا واقعہ ہوا ہے تو اب لازماً جب وہ شخص پکڑا جائے گا تو کہے گا بالکل جھوٹ ہے اس کو تو میرے ساتھ فلاں دشمنی تھی اس لئے میرے ساتھ اس نے یہ سلوک کیا ہے میں نے تو یہ کام کیا ہی نہیں.اب اس کے لئے سوائے اس کے کہ کوئی اور ایسے گواہ پیش کر دیے جائیں یا بنالئے جائیں جن سے یہ واقعہ ثابت ہو اور کوئی صورت ہی نہیں.چنانچہ دنیا میں یہی ہوتا ہے واقعہ سچا ہوتا ہے اور اس کے لئے گواہ جھوٹے بنائے جاتے ہیں تا کہ اس واقعہ کو ثابت کیا جائے.اتفاقاً ایسے بھی واقعات ہوتے ہیں جن میں گواہ بھی بچے مل جاتے ہیں اور واقعات بھی سچے مل جاتے ہیں اور ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں کہ واقعہ بھی جھوٹا ہوتا ہے اور گواہ بھی جھوٹے ہوتے ہیں بہر حال دونوں قسم کے کیس ہوتے رہتے ہیں.کبھی گواہ بھی جھوٹے اور واقعہ بھی جھوٹا، کبھی واقعہ سچا اور گواہ جھوٹے ، کبھی واقعہ بھی سچا اور گواہ بھی ہے مگر الہی سلسلہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ہمارے
۶۳۹ جو ڈائری نویس ہیں ان میں یہ بات بالکل نہیں پائی جاتی.عالم روحانی میں مجرم کیلئے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی یہ درست ہے کہ جس وقت اس کے سامنے گواہ پیش کئے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ انہوں نے تمہارا واقعہ لکھا ہے تو مُجرم لازماًیہ کہے گا کہ صاحب ! یہ غلط ہے.جیسے اس دنیا میں مجسٹریٹ کے سامنے جب پولیس ایک کیس پیش کرتی ہے تو مجرم کہتا ہے حضور یہ بالکل غلط ہے، پولیس والے میرے دشمن ہیں اور انہوں نے خواہ مخواہ مجھ پر کیس چلا دیا ہے میں نے تو کوئی فعل کیا ہی نہیں.اس کے نتیجہ میں حج بھی شبہ میں پڑ جاتا ہے اور وہ بھی یہ دیکھتا ہے کہ آیا پولیس بچی ہے یا یہ سچا ہے اور ادھر پبلک بھی شبہ میں پڑ جاتی ہے بلکہ پبلک کو عام ہمدردی لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے، پولیس کے ساتھ نہیں ہوتی.چنانچہ پبلک بھی اور اخبار والے بھی طنز شروع کر دیتے ہیں کہ یونہی آدمی کو دھر گھسیٹا ہے ، نہ اس نے مجرم کیا نہ کچھ کیا یونہی اس کو دھر لیا گیا ہے.فرماتا ہے یہ امکان ہمارے ڈائری نویسوں کے خلاف بھی ہے.چنانچہ فرماتا ہے يَوْمَ نَحْشُرُ هُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ اشْرَكُوا اَيْنَ شُرَكَاؤُ كُمُ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ ، ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا وَ اللَّهِ رَبَّنَا مَا كُنَّا مُشْرِکین جب قیامت کے دن ہمارے سامنے وہ لوگ پیش ہونگے تو ہم مشرکوں سے کہیں گے کہ وہ کہاں ہیں جن کو تم میرا شریک قرار دیا کرتے تھے.تو فرماتا ہے وہ ایک ہی جواب دیں گے، جیسے ہمیشہ مجرم جواب دیتے آئے ہیں کہ وَ اللهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ اے ہمارے رب! تیرے سامنے ہم نے جھوٹ بولنا ہے؟ تو ہمارا خدا ہم تیرے بندے، تیرے سامنے تو ہم جھوٹ نہیں بول سکتے.مجرم ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے ہیں کہ حضور کے سامنے جھوٹ بولنا ہے؟ آپ کے سامنے تو ہم نے جھوٹ نہیں بولنا.سچی بات یہ ہے کہ ہم کبھی شرک کے قریب بھی نہیں گئے ہم نے کبھی شرک کیا ہی نہیں، یہ سب جھوٹ ہے اور یہ ڈائریاں یونہی جھوٹی لکھتے رہے ہیں.اب یہ سمجھ لو کہ جس طرح یہاں پولیس کچی ڈائری دے اور مجسٹریٹ کے سامنے یہ سوال آجائے کہ پولیس جھوٹی ہے تو وہ بیچارے گھبرا جاتے ہیں کہ اب ہم کس طرح ثابت کریں.اسی طرح وہ ڈائری نویس بھی لازماً گھبرائیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے تو اتنی محنت کر کے بچے بچے واقعات لکھے تھے اب انہوں نے اللہ میاں کے سامنے آکر کہہ دیا کہ صاحب! ہم نے آپ کے سامنے تو جھوٹ نہیں بولنا واقعہ یہ ہے کہ ہم نے کوئی شرک نہیں کیا اور ملزم یہ سمجھ لے گا کہ بس میرے اس حربہ کے
۶۴۰ ساتھ شکار ہو گیا.یا تو اللہ تعالیٰ اِس عذر کو قبول کر لے گا اور اگر سزا دیگا تو باقی سارے لوگ یہی کہیں گے کہ اس بے چارے کو یونہی جھوٹی سزا صرف ڈائری نویسوں کے کہنے پر مل گئی ہے ورنہ یہ مجرم کوئی نہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارے ہاں کیا انتظام ہے.مجرموں کے خلاف ان کے کانوں، آنکھوں اور جلد کی شہادت ہمارے ہاں یہ انتظام ہے کہ حَتَّى إِذَا مَا جَاءُ وُهَا شَهِدَ عَلَيْهِمُ سَمُعُهُمْ وَ اَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ " دنیا میں آج سے پہلے ڈائری نویس کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نہیں تھا.ڈائری نویس ڈائری لکھتا تھا اور مجرم جا کر کہہ دیتے تھے کہ جھوٹی ہے.اب اس زمانہ میں ہزاروں سال یا جیالوجی موجودہ زمانہ میں ریکارڈر کی ایجاد (GEOLOGY) والوں کے بیان کے مطابق کروڑوں اربوں سال کے بعد وہ آلہ ایجاد ہوا ہے جس کو ریکارڈر کہتے ہیں.طریق یہ ہے کہ اس کو کمرے میں چُھپا کر کہیں رکھ دیا جاتا ہے اور پولیس کا کوئی نمائندہ یا پولیس کا افسر بھیس بدلے ہوئے اُس مُجرم سے باتیں شروع کر دیتا ہے اور وہ اس ریکارڈر میں سب لکھی جاتی ہیں.مثلاً اُس گفتگو میں وہ اُس کا ساتھی بن جاتا ہے اور کہتا ہے ارے میاں! تم چوری کرتے ہو تو مجھے بھی کچھ دو.میں بھی غریب آدمی ہوں میرا بھی کوئی حصہ رکھو اور مجھے بھی کچھ دلاؤ.اس پر وہ فخر کرنا شروع کرتا ہے کہ ہاں ہاں میں نے فلاں جگہ چوری کی اور اس میں یہ مال لیا.فلاں جگہ چوری کی اور اس میں یہ مال لیا.آؤ تم ہماری پارٹی میں شامل ہو جاؤ بڑی دولت آتی ہے اور خوب آسانی سے مال کمائے جاتے ہیں.اب ہمارا ارادہ فلاں جگہ ڈا کہ مارنے کا ہے وہاں سے ہمیں اُمید ہے کہ دس لاکھ پونڈ ملے گا، تمہیں بھی دو چار سو پونڈ حصہ مل جائے گا.اب یہ ساری باتیں وہاں ریکارڈ ہو جاتی ہیں اس کے بعد انہوں نے جا کر رپورٹ کی اور وہ پکڑے گئے.جب عدالت میں پہنچے تو اُس نے حسب عادت یہ کہہ دیا کہ صاحب ! یہ جھوٹ ہے اس کے ساتھ میری دشمنی ہے.یہ مجھ سے دس پونڈ رشوت مانگ رہا تھا میں نے نہیں دی اس لئے اس نے میرے خلاف یہ جھوٹی رپورٹ کر دی.مجسٹریٹ نے کہا لاؤ ثبوت.اُس نے کہا یہ ریکارڈر ہے.چنانچہ ریکارڈر پیش کیا گیا اس میں مجرم کی آواز بند ہے، اُس کا لہجہ پہچانا جاتا ہے، اُس کی آواز پہچانی جاتی ہے، اُس میں یہ سارا ذکر آتا ہے کہ میں نے فلاں جگہ چوری کی، میں نے فلاں جگہ چوری کی ، اب فلاں جگہ چوری
۶۴۱ کرونگا.غرض جو اس نے ڈائری لکھی تھی وہ ساری کی ساری اس میں ریکارڈ ہوتی ہے.ریکارڈر کے استعمال میں کئی قسم کی دقتیں لیکن یہ ریکارڈر بہت شاذ استعمال ہوتا ہے کیونکہ ایک تو اس کے لئے جگہ تلاش کرنی پڑتی ہے اور اسے دوسروں سے چُھپانا پڑتا ہے.پھر اس جگہ پر جانے کے لئے ملزم کو راضی کرنا پڑتا ہے.جو چور واقف کار ہوتے ہیں وہ جانے سے انکار کر دیتے ہیں.کہتے ہیں کہ ہم تو ہوٹل کے کمرہ میں جا کر نہیں بیٹھتے جو بات کرنی ہے میدان میں کرو اور میدان میں ریکارڈر رکھا نہیں جا سکتا.پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ جو زیادہ واقف ہوتے ہیں وہ ایسی مفلڈ وائس (MUFFLED VOICE) سے یعنی آواز کو اس طرح دبا کر بولتے ہیں کہ ریکارڈ ہی نہ ہو.وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ شخص کمرہ میں ریکارڈر لایا ہے اس لئے وہ آہستگی سے اس طرح باتیں کریں گے کہ ریکارڈ نہ ہوں اور پھر جیسا کہ ان کی تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ کبھی وہ ایسا کرتے ہیں کہ جس کمرہ میں وہ ملاقات مقرر کرتے ہیں اس میں وہ پہلے اپنا ساتھی بھیج دیتے ہیں کہ ذرا تلاشی لے آنا اس میں کہیں ریکارڈر تو نہیں رکھا ہوا.اگر ریکارڈر ہوتا ہے تو عین موقع پر وہ بہانہ بنا کر کھسک جاتے ہیں کہہ دیا کہ اوہو! مجھے ضروری کام پیش آ گیا ہے پھر بات کریں گے اور ان کی ساری محنت برباد ہو جاتی ہے.خدائی ڈکٹوفون پس اول تو ہر جگہ ریکارڈر رکھا نہیں جا سکتا پھر ریکارڈر رکھا بھی جائے تو اس سے بچنے کی صورت ہو جاتی ہے مگر یہاں فرماتا ہے کہ تمہارا ڈکٹوفون (DICTAPHONE) تو دنیا میں کئی لاکھ سال کے بعد کہیں ایجاد ہوگا اور ہمارا شروع سے ہی ڈکٹو فون موجود ہے.چنانچہ جس وقت فرشتے ڈائری پیش کریں گے اللہ تعالیٰ مجرم سے کہے گا دیکھو! تم نے یہ یہ گناہ کیا ہے وہ کہے گا.حضور! بالکل جھوٹ.یہ ڈائری نویس تو بڑے کذاب ہوتے ہیں انہوں نے سارا جھوٹ لکھا ہے.نہ میں نے کبھی چوری کی نہ میں نے کبھی جھوٹ بولا ، حضور ساری عمر سچ بولتے گزر گئی، ساری عمر لوگوں کا مال ان کو پہنچاتے ہوئے گزر گئی ، شرک کے قریب نہیں گئے ، میں تو لعنت ڈالتا ہوں سارے بتوں پر، میں نے کب شرک کیا یہ تو جھوٹ بولتے ہیں.اللہ تعالیٰ کہے گا اچھا لاؤ ریکارڈر.ہم نے اپنے پاس ریکارڈر بھی کفار پر اتمام حجت رکھا ہوا ہے.چنانچہ فرماتا ہے حَتَّى إِذَا مَا جَاءُ وُهَا شَهِدَ.
۶۴۲ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ.فرمائے گا، ٹھہرو! دوزخ میں داخل کرنے سے پہلے ہم اتمام حجت کر دیں.اے کا نو! بتاؤ تم کیا گواہی دیتے ہو؟ اس پر فرشتوں نے الزام لگایا ہے کہ اس نے غیبت سنی تھی ، تم کیا کہتے ہو.کانوں کی گواہی اس پر یکدم وہ الہی روحانی سُوئی کان کے پردوں پر رکھی گئی اور کان میں سے آواز آنی شروع ہوئی کہ فلاں دن فلاں شخص کی اس نے غیبت کی تھی اور کہا تھا کہ وہ بڑا بے ایمان ہے، بدمعاش ہے، جھوٹا ہے ، فریبی ہے.فلاں وقت فلاں گھڑی ، فلاں دن اور فلاں سال اس کے سامنے فلاں شخص نے آ کر یہ کہا تھا کہ خدا ایک نہیں ہے خدا کے شریک بھی ہیں اور اس نے کہا تھا کہ آپ ٹھیک فرماتے ہیں اور یہ بات ہم نے سنی.اسی طرح یہ ساری باتیں کہ فلاں کو گالیاں دی گئیں اور اس نے سنہیں ، فلاں کی چغلی کی گئی اور اس نے سنی، فلاں پر جھوٹا اتہام لگایا گیا اور اس نے سنا، فلاں شرک کیا گیا اور اس نے سنا.نبیوں کو گالی دی گئی اور اس نے سنی.غرض جتنا ریکارڈ روزانہ کا تھا وہ سارے کا سارا اس کے کان سنا دیں گے.آنکھوں کی گواہی پھر فرمایا ، وَاَبْصَارُهُمْ.پھر ہم اُن کی آنکھوں پر ریکارڈ کی سوئی رکھ دیں گے اور کہیں گے.بولو.وہ کہیں گی حضور! فلاں دن فلاں عورت جا رہی تھی اس نے اُس کو تا کا، فلاں دن فلاں شخص کو اس نے بڑے غصے سے دیکھا اور کہا میں اس کو مار کے چھوڑوں گا.فلاں دن فلاں کام اِس نے کیا.غرض تمام کا تمام آنکھوں کا ریکارڈ پیش ہونا شروع ہو جائے گا.جلد کی گواہی پھر فرمایا اچھا بعض اور بھی لذت کے ذرائع ہیں.وَجُلُودُهُمُ ذرا اس کے چھڑے سے گواہی مانگو.چنانچہ چمڑے پر ریکارڈر رکھا گیا.اب چمڑا بولا کہ فلاں دن فلاں اچھی اور خوبصورت چیز تھی یا ملائم جسم والی عورت تھی اس نے اُس کو چُھوا.فلاں دن فلاں کا ایک بڑا نرم کوٹ تھا اس نے اُسے چھوا اور کہا میں یہ چراؤ نگا.غرض چھونے کے ساتھ جتنے جرائم وابستہ تھے وہ سارے کے سارے اُس نے گنانے شروع کر دیئے اور بتایا کہ اس اس طرح اس نے کیا ہے.غرض وہ سارے نظارے جو نا جائز تھے تصویروں کی عمر بر کا کچا چٹھا سامنے آجائے گا صورت میں سامنے آنے لگ گئے.وہ ساری باتیں جو نا جائز تھیں بیان کر دی گئیں کہ اس نے سنی تھیں اور وہ لذت لمس جس کا حاصل کرنا اس کے
۶۴۳ لئے ناجائز تھا وہ بھی اس کے سامنے بیان کر دیا گیا.غرض عمر بھر کا کچا چٹھا سامنے آ گیا.اسی طرح فرماتا ہے يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمُ الْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ اُس دن ہم کچھ اور بھی گواہیاں لیں گے.زبانوں کی گواہی يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمُ الْسِنَتُهُمُ.اُس دن ان کی زبانیں بھی گواہی دیں گی زبان پر ریکارڈ کی سوئی رکھ دی جائیگی اور زبان بولنا شروع کرے گی کہ فلاں دن اس نے خدا کو گالی دی، فلاں دن نبیوں کو گالی دی، فلاں دن اپنے ہمسائے کو گالی دی.فلاں دن بیوی کو گالی دی ، فلاں دن بیٹے کو گالی دی، فلاں دن فلاں کو گالی دی.فلاں دن حرام کا مال چکھا اور فلاں دن اس نے فلاں کام کیا یہ سارے کا سارا ریکارڈ زبان بیان کرنا شروع کر دیگی.ہاتھوں کی گواہی وَاَيْدِيهِم.پھر ہاتھوں پر سوئی رکھی جائیگی اور ہاتھ بولنا شروع کریں گے کہ فلاں دن فلاں کو مارا، فلاں دن فلاں کو مارا.فلاں دن اُن کا یوں مال اُٹھایا غرض یہ سارے کام ہاتھ بیان کریں گے.یاؤں کی گواہی وَاَرْجُلُهُمْ.پھر پیر بیان کرنے شروع کر دیں گے کہ فلاں دن رات کے وقت فلاں کے گھر سیندھ لگانے کے لئے یا فلاں مال اُٹھانے کے لئے یا اُس کو قتل کرنے کے لئے یا اور کوئی نقصان پہنچانے کے لئے گیا.غرض کا نوں آنکھوں اور چڑوں کے علاوہ زبانیں اور ہاتھ اور پاؤں بھی اپنے اپنے حصہ کے ریکارڈ سنائیں گے.ظاہر ہے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کہتے ہیں ” گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے جب اپنے ہاتھ گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ یہ کچھ کیا تھا، اپنے پیر گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ یہ کچھ کیا تھا، اپنی آنکھیں گواہی دے رہی ہیں کہ ہم نے یہ کچھ کیا تھا، اپنے کان گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ کچھ سنا تھا، اپنی زبان گواہی دے رہی ہے کہ ہم نے یہ کچھ کہا تھا اور یہ کچھ چکھا تھا تو اب وہ بیچارے پولیس مین کو کس طرح کہیں گے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے.جو کچھ پولیس مین نے کہا تھا جب آنکھوں نے بھی اُس کے ساتھ گواہی دی، جب کانوں اور ہاتھوں وغیرہ نے بھی اس کے ساتھ گواہی دی تو ڈائری نولیس کی جان میں جان آگئی اور اُس نے کہا کہ کروڑوں آدمیوں کے سامنے مجھے جھوٹا بنایا گیا تھا اب میری براءت ہو گئی کہ
۶۴۴ اپنے ہاتھوں اور اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں نے بھی اس کی گواہی دے دی اور میں شرمندہ اور ذلیل ہونے سے بچ گیا.دیکھو یہ ڈائری کتنی مکمل ڈائری ہے اس کے مقابل میں دنیا کی ڈائری کے جو انتظامات ہیں وہ کتنے ناقص ہیں.قرآن کی ڈائری سُبْحَانَ اللهِ ! ایسی ڈائری پر تو کوئی شبہ کیا ہی نہیں جا سکتا.گواہی میں دماغ کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ یہاں کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ دماغ کو کیوں شامل نہیں کیا گیا حالانکہ بہت سے گناہ تو دماغ سے ہوتے ہیں، ہاتھ پاؤں وغیرہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اور پھر بسا اوقات دماغی گناہ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے کرنے کا ہاتھ پاؤں کو موقع نہیں ملتا.تو اس کے متعلق یہ امر یا د رکھنا چاہئے کہ اسلامی حکومت میں یہ قانون ہے کہ جو چیز دماغ میں آتی ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاتا وہ بدی نہیں گئی جاتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی بدی کا خیال کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تو اس کے نامہ اعمال میں وہ ایک نیکی کی صورت میں لکھی جاتی ہے کے پس دماغ کو اس لئے شامل نہیں کیا کہ اگر تو ہاتھ دماغ کے مطابق عمل کر چکے ہیں تو ہاتھ کی بات بیان ہو چکی ، اگر زبان دماغ کے مطابق عمل کر چکی ہے تو زبان کی بات بیان ہو چکی ، اگر دماغ نے یہ کہا تھا کہ بدی کی بات سنو تو کان بیان کر چکے کہ اس نے فلاں بات سنی تھی ، اگر دماغ نے کہا تھا کہ چوری کرو تو پیروں نے بتا دیا کہ وہ فلاں کے گھر میں چوری کے لئے گئے تھے لیکن اگر دماغ میں ایک بات آئی اور ہاتھ پاؤں سے اُس نے عمل نہیں کروایا تو پھر اسلامی اصول کے ماتحت اس کے نام ایک نیکی لکھی جائے گی کہ اس کے دل میں بُرا خیال بھی آیا لیکن پھر بھی اس نے اُس پر عمل نہیں کیا تو چونکہ وہ ایک نیکی لکھی گئی اس لئے اس کو اس کی شرمندگی والی باتوں میں بیان نہیں کیا جائے گا کیونکہ ایک طرف خدا کا اس کو نیکی قرار دینا اور دوسری طرف اس کو باعث فضیحت بنانا یہ خدا کے انصاف کے خلاف ہے.اگر تو وہ اس کو بدی قرار دیتا تو پھر بیشک اس کو فضیحت کی جگہ پر استعمال کر سکتا تھا لیکن اس نے تو خود فیصلہ کر دیا کہ دماغ کے خیال کو نیکی تصور کیا جائے گا اور جب نیکی تصور ہوگی تو اب اُس کو فضیحت کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا تھا.پس معلوم ہوا کہ ہماری روحانی ڈائری میں بڑے سے بڑے مجرم کو بھی کچھ پردہ پوشی کا حق دے کر اُس کی عزت کی حفاظت کی جائیگی.
۶۴۵ ریکارڈ کی غرض محض مُجرموں پر اتمام حجت کیہ دفتر کتنا عمل اور کتنا شاندار مکمل کی غرض پر اتمام ہے مگر اسی پر بس نہیں.اس طرح تمام قسم کی حجت پوری کرنے کے ہوگی ورنہ عالم الغیب خدا سب کچھ جانتا ہے بعد فرمایا کہ دیکھو میاں یہ خیال نہ کر لینا کہ ڈائری نویس کی ڈائری کے مطابق تمہیں مجرم بنا دیا جاتا ہے، یہ نہ سمجھ لینا کہ اس ریکارڈ کے مطابق تمہیں مجرم قرار دیا جاتا ہے، ہم تو تمہیں مذہب کے ذریعہ یہ کہا کرتے تھے کہ ہم عَالِمُ الغیب ہیں پھر ہم کو عَالِمُ الغیب ہونے کے لحاظ سے اس ڈائری کی کیا ضرورت تھی اور اس ریکارڈ کی کیا حاجت تھی ہم تو سب کچھ جانتے تھے.اس کی ضرورت محض اس لئے تھی کہ تم پر حجت ہو جائے ورنہ ہمیں فرشتوں کو ڈائری لکھنے پر مقرر کر نیکی ضرورت نہیں تھی ، ہمیں کسی ریکارڈ کی ضرورت نہیں تھی.ہمیں یہ ضرورت تھی کہ یہ تمہارے سامنے پیش ہوں اور تمہیں پتہ لگ جائے کہ ہم بلا وجہ سزا نہیں دیتے بلکہ پوری طرح حجت قائم کر کے دیتے ہیں چنانچہ فرماتا ہے.إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَ مَا يَخْفى الله تعالیٰ تمام باتیں جو ظا ہر ہیں اور مخفی ہیں ان کو جانتا ہے اس کو نہ کسی فرشتہ کے ریکارڈ کی ضرورت ہے نہ كِرَامًا كَاتِبِینَ کی ضرورت ہے نہ ہاتھ پاؤں کی گواہی کی ضرورت ہے اس کے علم میں ساری باتیں ہیں.스 پھر فرماتا ہے الا إِنَّهُمْ يَقْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ وَ لَا حِيْنَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَ مَا يُعْلِنُونَ اے لوگو! سُن لو کہ مشرک اور اللہ تعالیٰ کے مخالف لوگ اپنے سینوں کو مروڑتے ہیں تاکہ اُس سے مخفی ہو جائیں.یہاں محاورہ کے طور پر سینہ مروڑ نا استعمال ہوا ہے.کیونکہ جب کسی چیز کو چکر دیتے ہیں تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کے پیچھے کچھ چُھپ جائے.لیکن جو دل کی بات ہو اس کے لئے ظاہری سینہ نہیں مروڑا جاتا.پس اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن کے نتیجہ میں اُن کے دلوں کے راز ظاہر نہ ہو جائیں.اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَ مَا يُعْلِنُونَ سنو! جب یہ اپنے اوپر کپڑا اوڑھتے ہیں (عربی زبان میں اِسْتَغْشَى ثَوْبَهُ يَا اسْتَغْشَى بِثَوْبِهِ دونوں استعمال ہوتے ہیں.اور اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ایسی طرز پر کپڑا لیا جس سے آواز دب جائے.یہ لفظ عام کپڑا اوڑھنے کے لئے نہیں بولا جاتا بلکہ آواز کے دبانے کے لئے بولا جاتا ہے.پس يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمُ کے معنے یہ ہیں کہ جس وقت وہ اپنے کپڑے اس.
۶۴۶ طرح اوڑھتے ہیں کہ آواز دب کے باہر نہ نکلے ) تو وہ جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے.اس محاورہ کی وجہ سے مفسرین کو غلطی لگی ہے اور انہوں نے اس مفتروں کی ایک غلط فہمی آیت کے ماتحت بعض ایسی روایتیں درج کر دی ہیں جنہیں پڑھ کر ہنسی آ جاتی ہے.بیشک منافق بڑا گندہ ہوتا ہے اور منافق بے وقوف بھی ہوتا ہے لیکن وہ حرکت جو مفسرین ان کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ تو بہت ہی چھوٹے بچوں والی ہے.کہتے ہیں منافق لوگ اللہ تعالیٰ سے چُھپانے کے لئے لحاف اوڑھ کر اس کے اندر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف باتیں کیا کرتے تھے.حالانکہ اگر اس کے یہ معنے کئے جائیں تو یہ بچوں کا کھیل بن جاتا ہے.درحقیقت یہ محاورہ ہے اور کپڑے اوڑھتے ہیں“ کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسی تدبیریں کرتے ہیں کہ کسی طرح ان کے دل کی بے ایمانی لوگوں پر ظاہر نہ ہو جائے.مجرم اپنے اعمال بُھول جائیں گے مگر بہر حال فرماتا ہے کہ نہیں کسی ڈائری نویس کی ضرورت نہیں ، کسی ریکارڈ کی ضرورت نہیں ہم تو خدا تعالیٰ کے علم میں سب کچھ ہوگا آپ سب کچھ جانتے ہیں.چنانچہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس دلیل کو بھی لے گا.فرماتا ہے يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا اَحْضَهُ اللَّهُ وَ نَسُوهُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ جب قیامت کے دن ان سب کو اکٹھا کیا جائے گا تو اللہ تعالٰی علاوہ ان ڈائریوں کے اور علاوہ اس ریکارڈ کے يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا فرمائے گا ہمیں آپ بھی پتہ تھا ، لو اب سُن لو ہم تمہیں سناتے ہیں.چنانچہ وہ اُن کے سارے اعمالنا مے انہیں سنانے شروع کر دیگا.اَحْصهُ اللهُ وَ نَسُوهُ اور جب وہ بیان کرے گا تو پتہ لگے گا کہ اُن کے اعمال خدا کو تو یاد تھے مگر وہ آپ بُھول گئے تھے کہ ہمارے یہ یہ اعمال ہیں.گویا سب کچھ کرنے کے باوجود اُن کو پتہ نہیں تھا کہ ہم نے کیا کام کئے ہیں.جب خدا نے سُنائے تو انہیں پتہ لگ گیا کہ تفصیل کیا ہے.وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ اور اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کا نگران اور گواہ ہے.فرشتوں کی اس کو ضرورت نہیں صرف لوگوں پر حجت قائم کرنے کے لئے اُن کی ضرورت ہے.اس جگہ اس سوال کا جواب بھی آ گیا ملائکہ کی ضرورت کے متعلق ایک لطیف نکتہ جو بعض لوگ کیا کرتے ہیں کہ جب
۶۴۷ خدا عَالِمُ الْغَیب ہے تو فرشتوں کی کیا ضرورت ہے؟ فرماتا ہے فرشتوں کی تمہارے لئے ضرورت ہے اس کے لئے ضرورت نہیں.چنانچہ جب وہ قاضی القضاۃ ان مجرموں کو کچا چٹھا سنانا شروع کرے گا تو ان پر یہ راز کھلے گا کہ وہ اپنے ہزاروں اعمال بُھول گئے تھے اب اس ا بیان سے بُھولی ہوئی باتیں انہیں پھر یاد آنی شروع ہونگی.اس کے بعد فرماتا ہے کہ اُن ڈائریوں کے علاوہ خدا تعالیٰ کے علم از لی کی شہادت جو فرشتوں نے لکھ رکھی ہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہم نے جو کچھ تم کو بتایا ہے اس کے علاوہ بھی ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ ہمارا کیسا علم ہے.اب تک تو ہم نے یہ بتایا ہے کہ تم نے جب کام کئے تھے تو ہم دیکھ رہے تھے اور ہم کو سب کچھ پتہ تھا فرشتوں کی ہمیں ضرورت نہیں تھی.مگر اب ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ جب تم نے یہ کام کئے بھی نہیں تھے تب بھی ہم نے ازل سے ہی تمہارے یہ کام لکھے ہوئے تھے اس لئے ہمیں تمہارے فعل کی بھی ضرورت نہیں تھی.ہمارا علم از لی بتا رہا تھا کہ تم نے گل کو یہ فعل کرنا ہے.چنانچہ فرماتا ہے وَ وُضِعَ الْكِتَبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا فِيهِ وَ يَقُولُونَ يَوَيْلَتَنَا مَالِ هذَا الْكِتَبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَّ لَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصَهَا ۚ وَ وَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا اور جس دن خدا کے ازلی علم کی کتاب پیش کی جائیگی اور کہا جائے گا کہ دیکھو! تم تو اب پیدا ہوئے اور تم سے اب عمل سرزد ہوئے اور خدا کے علم میں آئے لیکن خدا کو از لی طور پر بھی ہمیشہ سے اس کا علم تھا.اور اس نے پہلے سے تمہارا یہ حساب لکھا ہو ا تھا کہ فلاں پیدا ہوگا ، فلاں چوری کرے گا اور فلاں نیک ہوگا.یہ علم ازلی خدا ان کے سامنے رکھے گا اور اُن سے کہے گا کہ دیکھ لو یہ ہمارا آج کا علم نہیں بلکہ ہمیں ہمیشہ سے یہ علم تھا پس ہمیں کسی فرشتہ کی ضرورت نہیں.فرشتے نے تو اُس دن معلوم کیا جس دن تم نے وہ فعل کیا اور ہمارے حاضر علم میں یہ اُس دن بات آئی جس دن تم نے وہ فعل کیا مگر ہمارے ازلی علم میں بیدار بوں ارب سال پہلے سے موجود تھی اور ہمیں پتہ تھا کہ تم نے یہ کام کرنا ہے.اُس وقت مجرم اُس کو دیکھ کر ڈر رہے ہونگے اور وہ کہیں گے يُوَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَبِ.ارے ! ہم تو مر گئے.يَوَيْلَتَنَا ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں.میری ماں مرے.ہماری زبان کے اس محاورہ کے مقابلہ میں عربی زبان کا محاورہ ہے يويلتنا.ارے ہلاکت میرے اوپر آ کر پڑ گئی مَالِ هَذَا الْكِتَبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً و
۶۴۸ لَا كَبِيرَةً إِلَّا أَخطهَا.یہ قسمت اور اعمالنامہ کی کیسی کتاب ہے کہ نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتی ہے نہ بڑی چھوڑتی ہے.ساری کی ساری اس میں موجود ہیں.وَ وَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا.اور جس طرح وہ قدیم سے موجود تھا اسی طرح وہ حال میں بھی اُسے دیکھیں گے.وہ خدا کے سامنے لاکھوں سال کے بعد یا سینکڑوں اور ہزاروں سال کے بعد پیش ہونگے مگر وہ دیکھیں گے کہ اُس میں سب کچھ پہلے سے لکھا ہوا موجود ہے.وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا اور خدا تعالیٰ اپنے پاس سے کوئی سزا نہیں دیگا بلکہ اُن کے مُجرموں کے مطابق انہیں سزا دیگا.عالم روحانی میں ہر مجرم کے لئے دس گواہ پیش کئے جائیں گے گویا اس دفتر میں چار گواہیاں ہوگئیں.ایک تو فرشتوں کی ڈائری پیش کی گئی.ایک ہاتھ ، پاؤں ، آنکھ ، کان ، زبان اور جلد کا ریکارڈ پیش ہوا.تیسرے خدا نے کہا میں خود بھی دیکھ رہا تھا مجھے فرشتوں کی کوئی ضرورت نہیں تھی.چوتھے پرانا ازل کا چٹھا پیش ہوا اور انہیں کہا گیا کہ یہ تو ہمیشہ سے علم الہی میں موجود تھا چنانچہ دیکھ لو یہ لکھا ہوا ہے.ہماری شریعت نے اس دنیا میں بڑے سے بڑے گناہ کی چار گواہیاں مقرر کی ہیں مثلاً زنا ہے اس کے لئے لکھا ہے کہ چار گواہ ہوں.باقی گواہیوں میں سے بعض دو دو سے ہو جاتی ہیں اور بعض جگہ ایک گواہ سے بھی گواہی ہو جاتی ہے.مگر خدا کے سامنے اتنا انصاف کیا جائے گا کہ وہ چار گواہ ایسے پیش کئے جائیں گے جو نہایت معتبر ہونگے.اوّل فرشتوں کی گواہی جو ایک نہیں بلکہ دو ہو نگے گویا اس ایک گواہی میں دو گواہیاں آگئیں، پھر ریکار ڈ آ گیا اس ریکارڈ میں بھی چھ گواہ ہیں آنکھ ، کان ، زبان، جلد، ہاتھ اور پاؤں یہ چھ گواہ ہو نگے جن کی گواہی ہوگی.گویا آٹھ گواہ ہو گئے.پھر خدا نواں گواہ اور دسواں علیم از لی.غرض دس گواہوں کے ساتھ وہاں چھوٹے سے چھوٹے جُرم کی سزا دی جائیگی حالانکہ اس دنیا میں دو دو گواہ اور وہ بھی جو آٹھ آٹھ آنے لے کر قرآن اُٹھا لیتے ہیں، اُن کی گواہیوں پر فیصلہ ہو جاتا ہے.ہمارے بڑے بھائی مرزا دُنیا میں آٹھ آنہ کے گواہوں پر مقدمات کا فیصلہ سلطان احمد صاحب جو بعد میں احمدی ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو اُن کا نوکری کرنا پسند نہیں تھا لیکن ان کو نوکری کا شوق تھا.چنانچہ وہ نوکر ہوئے اور آخر ڈپٹی کمشنر ہو کر ریٹائر ہوئے.اُن دِنوں
۶۴۹ نارتھ ویسٹرن پراونس اور پنجاب یہ دونوں صوبے اکٹھے ہوتے تھے.اور وہ کیمبل پور یا میانوالی کے علاقہ میں یا شاید ڈیرہ غازیخان میں ای.اے سی تھے.وہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص جو میرا دوست اور مجھ سے بہت ملنے والا تھا اُس کا میرے پاس کوئی مقدمہ تھا.میں نے اُس کی دورے میں پیشی رکھی اور جہاں ہم تھے اُس سے وہ جگہ کوئی پچاس ساٹھ میل پر جا کے آئی.چونکہ وہ میرا بے تکلف دوست تھا میرے پاس آیا اور کہنے لگا مرزا صاحب! مجھے آپ پر بڑا اعتبار تھا کیونکہ آپ دوست تھے لیکن خیر یوں تو آپ نے انصاف ہی کرنا ہے مگر کم سے کم میں آپ سے یہ تو امید کرتا تھا کہ آپ مجھے خراب تو نہ کریں گے.اب آپ نے پچاس میل پر جا کے گواہی رکھی ہے میں یہاں سے گواہ کس طرح لے کے جاؤنگا.میرا خرچ الگ ہوگا اور پھر ممکن ہے گواہ انکار کر دیں اور کہیں کہ ہم نہیں جاتے پھر میرے پاس کیا چارہ ہے؟ کہنے لگے میں نے اُس کو کہا کہ میں تو تمہیں عقلمند سمجھ کے تمہارے ساتھ دوستی کرتا تھا تم تو بڑے بیوقوف نکلے.کہنے لگا کیوں؟ میں نے کہا تم بھی مسلمان اور گواہ بھی مسلمان.تم کو پتہ نہیں کہ آٹھ آٹھ آنے میں گواہ مل سکتا ہے.پھر یہاں سے گواہ لے جانے کا کیا سوال ہے؟ خیر وہ اُٹھ کر چلا گیا.کہنے لگے جب ہم وہاں پہنچے تو پچاس میل پر جہاں کوئی شخص نہ اُس کی شکل جاننے والا اور نہ اس واقعہ کا علم رکھنے والا تھا وہاں گواہ آگئے جنہوں نے قرآن اُٹھایا ہوا تھا اور انہوں نے آ کر کہا.خدا کی قسم! ہمارے ہاتھ میں قرآن ہے اور ہم سچ بولتے ہیں کہ یہ واقعہ ہوا ہے.کہنے لگے واقعہ کے متعلق تو مجھے پتہ ہی تھا کہ سچا ہے پر یہ بھی پتہ تھا کہ یہ گواہ سارے کے سارے جھوٹے ہیں بہر حال میں نے اُس کے حق میں ڈگری دے دی اور پھر میں نے اُس کو کہا کہ میاں ! اس میں تجھ کو گھبراہٹ کس بات کی تھی.آٹھ آٹھ آنے لے کر تو مسلمان گواہی دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں تو دیکھو اسلامی سزا کتنی کامل تحقیقات کے بعد ہوتی ہے کہ جس میں کوئی شائبہ بھی کسی قسم کے شبہ کا پیدا نہیں ہوتا.مسئلہ تقدیر اور قسمت شاید کسی کے دل میں خیال آئے کہ میں نے جو کتاب ازلی کا ذکر کیا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ تقدیر اور قسمت کا مسئلہ اُسی شکل میں ٹھیک ہے جس طرح عوام الناس سمجھتے ہیں مگر یہ غلط ہے.قرآن تقدیر اور قسمت کا مسئلہ اُس طرح بیان نہیں کرتا جس طرح کہ عام مسلمان اپنی ناواقفیت سے سمجھتے ہیں بلکہ قرآن کریم کے نزدیک تقدیر اور قسمت کے محض یہ معنے ہیں کہ ہر انسان کے لئے ایک قانون مقرر کر دیا گیا ہے کہ اگر وہ
ایسا کام کرے گا تو اس کا یہ نتیجہ نکلے گا.مثلاً اگر مرچیں کھائے گا تو زبان جلے گی ، اگر ترشی کھائے گا تو نزلہ ہو جائے گا اور گلا خراب ہو جائے گا، اگر کوئی سخت چیز کھا لے گا تو پیٹ میں درد ہو جائے گا یہ تقدیر اور قسمت ہے.یہ تقدیر اور قسمت نہیں کہ فلاں شخص ضرور ایک دن سخت چیز کھائے گا اور پیٹ میں درد ہو جائے گا یہ جھوٹ ہے.خدا ایسا نہیں کرتا.قرآن اس سے بھرا پڑا ہے کہ یہ باتیں غلط ہیں.پس یہ جو ہمیشہ سے لکھا ہوا ہوتا ہے اس کا تقدیر اور قسمت سے کوئی تعلق نہیں اس لئے کہ تقدیر اور قسمت تب بنتی ہے جب خدا کے لکھے ہوئے کے ماتحت انسان کام کرے.اگر یہ ضروری ہو کہ جو کچھ خدا نے لکھا ہے اُسی کے مطابق اس کو کام کرنا چاہئے تو پھر یہ جبر ہو گیا اور تقدیر اور قسمت ٹھیک ہو گئی لیکن جو قرآن سے تقدیر ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا اس بات میں بندے کے تابع ہوتا ہے اور جو اس بندے نے کام کرنا ہوتا ہے خدا اُسے لکھ لیتا ہے.تقدیر اور قسمت تو تب ہوتی جب خدا مجبور کرتا اور یہ بندہ خدا کے جبر سے وہ کام کرتا لیکن واقعہ یہ ہے کہ بندہ وہ کام کرتا ہے اور خدا اس کے جبر کے ماتحت وہی بات لکھتا ہے جو اُس نے کرنی ہے اس لئے یہ تو تم کہہ سکتے ہو کہ لکھنے کے بارہ میں خدا پر وہ تقدیر حاوی ہے جو انسانوں پر قیاس کی جاتی ہے.یہ تم نہیں کہہ سکتے کہ بندوں کی قسمت میں خدا نے جبر کر کے کوئی اعمال لکھے ہوئے ہیں.پھر اس دنیا میں قاعدہ ہے کہ لوگ عالم روحانی میں مجرموں کے فیصلہ کی نقول رکگار کی کاپی ، لکھتے ہیں.انہیں خیال مانگتے ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو دکھا ئیں گے اور غور کریں گے کہ یہ سزا ٹھیک ملی ہے یا نہیں ؟ اس غرض کے لئے لوگ ریکارڈ اور فیصلہ کی کاپی مانگتے ہیں اور اس کے بڑے فائدے ہوتے ہیں مگر اس دنیا کی گورنمنٹوں نے یہ طریق رکھا ہوا ہے کہ وہ پیسے لے کر ریکارڈ دیتی ہیں.جب کوئی نقل لینے آتا ہے تو کہتے ہیں پیسے داخل کراؤ مثلاً پندرہ روپے یا ہمیں روپے یا پچیس روپے.نقل نویسوں نے حرف گئے اور کہہ دیا کہ اتنے روپے داخل کرو تو ریکارڈ مل جائے گا.پھر کہا کہ اگر جلدی نقل لینی ہے تو ڈبل یا تین گنا فیس دو.میں نے دیکھا کہ آیا وہاں بھی کوئی نقل ملتی ہے یا نہیں ؟ اور آیا اُن کی تسلی ہوگی کہ گھر جا کر آرام سے بیٹھ کر دیکھیں گے کہ سزا ٹھیک ملی ہے ؟ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہاں بھی نقلیں ملیں گی چنانچہ فرماتا ہے وَ أَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتْبَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يَدَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَبِيَهُ ، وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِيَهْ يَلَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ "
۶۵۱ یعنی یہاں تو کچھ دنوں کے بعد نقل ملتی ہے یا اگر جلدی لینی ہو تو وہ بھی تین چار دن میں ملتی ہے اور اس کے لئے کئی گنے زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے مگر وہاں اِدھر فیصلہ ہوگا اور اُدھر اگر وہ مُجرم ہے تو اُس کے بائیں ہاتھ میں مفت نقل پکڑا دی جائے گی اور کہا جائے گا کہ یہ تمہارے اعمالنامہ اور فیصلہ کی نقل ہے اور یہ نقل مفت ملے گی کوئی پیسہ نہیں دینا پڑے گا.یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ریکارڈ کی نقل دینے کا فیصلہ کی نقل دینے کا فائدہ زائد فائدہ کیا ہے؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ سزا ملنے پر انسان کم سے کم اپنی کانشنس کو تسلی دیتا ہے کہ میر الجرم اتنا نہیں جتنا مجھے مجرم بنایا گیا ہے لیکن جب وہ ریکارڈ پڑھے گا تو اُسے معلوم ہوگا کہ جرم سے کم ہی سزا ملی ہے زیادہ نہیں اُس وقت وہ کہے گا.لَيْتَنِي لَمُ اُوتَ كِتَبِيَة - کاش ! یہ کتاب مجھے نہ دی جاتی تاکہ کم سے کم میری کانشنس تو تسلی پاتی کہ شاید میرے گناہ کچھ زیادہ سمجھ لئے گئے ہیں ورنہ میں اتنا مجرم نہیں مگر اس سے تو پتہ لگتا ہے کہ گناہ زیادہ ہیں اور سزا کم ہے.وَ لَمُ اَدْرِ مَا حِسَابِيَّهُ اور مجھے یہ نہ پتہ لگتا کہ میرا حساب کیا ہے کیونکہ حساب زیادہ بنتا ہے.حساب بنتا ہے دوسو سال کی قید اور سزا دی ہے ایک سو پچاس کی.میری کانشنس (CONSCIENCE) اُلٹا مجھے مجرم بناتی ہے کہ میں نے مُجرم بھی کئے ، غداریاں بھی کیں ، فریب بھی کئے پھر بھی سزا مجھے کم ملی.مجھے پتہ نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے تو میری کانشنس کو کچھ تسلی رہتی.نیک لوگوں کو بھی فیصلہ کی نقلیں دی جائیں گی اسی طرح فرماتا ہے کہ جو نیک کام کرنے والے ہیں اُن کو بھی ڈائریوں اور اُن کے فیصلہ کی نقل دی جائے گی چنانچہ فرماتا ہے فَلَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتْبَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتبِيَهُ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلْقِ حِسَابِيَهُ یعنی جو نیک لوگ ہونگے اُن کو بھی فوراً کاپی دیدی جائیگی لیکن اُن کے دائیں ہاتھوں میں کا پی دی جائے گی اور جب وہ اُس کو پڑھیں گے تو اُس میں اُن کے اعمالنامہ کو ایسا خوبصورت کر کے دکھایا ہوگا اور وہ ایسے اچھے ٹائپ پر لکھا ہوگا کہ کہیں گے هَاؤُمُ اقْرَءُ وُا كِتَبِيَهُ - ارے بھائی ! ادھر آنا ذرا پڑھو تو سہی یہ کیا لکھا ہوا ہے.جب کسی شخص کو کوئی انعام ملتا ہے تو وہ لازمی طور پر دوسرے لوگوں کو بھی اُس میں شامل کرنا چاہتا ہے.پس هَاؤُمُ اقْرَءُ وُا كِتَبِيَهُ میں نقشہ کھینچ دیا گیا ہے کہ وہ فخر کر کے لوگوں کو بلائے گا اور کہے گا آؤ میاں! آؤ! ذرا دیکھو
۶۵۲ میرے اعمال کیا ہیں.اِنِّی ظَنَنتُ أَنِّي مُلَقٍ حِسَابِيَہ.مجھے تو پہلے سے ہی یہ امید تھی کہ اللہ تعالیٰ کسی کا حق نہیں مارتا.میں نے جو نیک کام کئے ہیں مجھے ان کا ضرور بدلہ ملے گا، سو اُمیدوں سے بڑھ کر ملا.دنیوی حکومتوں کے نظام میں مختلف نقائص دیکھو دفاتر اور ڈائریوں کا ایسا مکمل اور بے اعتراض نظام دنیا کی مہذب سے مہذب حکومت میں بھی نہیں ہوتا.دُنیوی حکومتوں نے تو حال میں یہ ڈائری نویسی کے انتظام شروع کئے ہیں.چنانچہ ڈائری نویسی کے انتظام کا کوئی ہزار پندرہ سو سال سے پتہ لگتا ہے اس سے پہلے نہیں بلکہ صرف ہزار سال کے قریب ہی عرصہ ہوا ہے لیکن قرآنی حکومت نے تیرہ سو سال پہلے اس کا مکمل نقشہ کھینچا ہے کہ ڈائری ہونی چاہئے ، ڈائری نولیس کی صداقت کا ثبوت ہونا چاہئے اور مجسٹریٹ کو پتہ ہونا چاہئے کہ سچائی کیا ہے؟ یہ تین چیزیں جمع ہوں تب سزا کے متعلق یہ تسلی ہو سکتی ہے کہ سزا ٹھیک ہے.ہمارے ہاں اول تو ڈائری نویس جھوٹا بھی ہوتا ہے اور سچا بھی ہوتا ہے.پھر اس کی تصدیق کرنے والے کوئی نہیں ہوتے بلکہ بنائے جاتے ہیں.تیسرے مجسٹریٹ بیچارے کو کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا.حضرت امام ابو حنیفہ حضرت امام ابو حنیفہ کا قاضی القضاۃ بننے سے انکار رحمۃ اللہ علیہ کو بادشاہ نے قاضی القضاۃ مقرر کیا تو انہوں نے اس عہدہ کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا میں قاضی القضاۃ نہیں بنتا.بادشاہ خفا ہو گیا اور اس نے کہا میں اس کو سزا دونگا کیونکہ انہوں نے ہتک کی ہے.مگر چونکہ لوگوں میں خبر مشہور ہو چکی تھی اس لئے ان کے دوست دُور دُور سے انہیں مبارک باد دینے کے لئے پہنچے کہ آپ قاضی القضاۃ مقرر ہو گئے ہیں.لیکن جب شہر میں پہنچے تو بتہ لگا کہ آپ نے تو انکار کر دیا ہے.بہر حال وہ آپ کے پاس آئے اور کہا ہم تو مبارکباد دینے کے لئے آئے تھے.انہوں نے کہا تم کس بات کی مبارک باد دینے کے لئے آئے تھے.وہ کہنے لگے اتنی بڑی حکومت کا آپ کو قاضی القضاۃ مقرر کیا گیا ہے کیا ہم مبارکباد نہ دیں.انہوں نے کہا تم بڑے بیوقوف ہو، میں کیا کرونگا؟ میں عدالت میں جاکر بیٹھوں گا اور دو آدمی میرے سامنے پیش ہو نگے ایک کہے گا اس نے میرا سو روپیہ دینا ہے دوسرا کہے گا میں نے کوئی نہیں دینا.اب وہ دونوں آپس میں جھگڑ رہے ہونگے ، یہ کہے گا دینا ہے وہ کہے گا نہیں دینا اور میں بیچ
۶۵۳ میں بیٹھا ہونگا کیونکہ مجھے حکومت نے مقرر کیا ہے کہ فیصلہ کرو اس نے دینا ہے یا نہیں دینا.وہ جو کہتا ہے اس نے سو روپیہ دینا ہے.اُس کو پتہ ہے کہ اُس نے دینا ہے یا نہیں دینا اور جو کہتا ہے میں نے نہیں دینا اُس کو بھی پتہ ہے کہ میں نے دینا ہے یا نہیں دینا اور میں جو جج بن کر بیٹھا ہونگا مجھے پتہ ہی نہیں ہوگا کہ اس نے دینا ہے یا نہیں دینا.پس سب سے زیادہ قابل رحم حالت تو میری ہوگی کہ مدعی کو بھی سچائی کا پتہ ہے اور مدعا علیہ کو بھی سچائی کا پتہ ہے اور میں جو قاضی بن کے بیٹھا ہوں جس کے سپر د سب سے اہم کام ہے اُس کو نہیں پتہ کہ حقیقت کیا ہے؟ تو میں کس طرح یہ بوجھ اُٹھا سکتا ہوں.تو یہ بھی ایک بڑا مشکل سوال ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی قضاء میں دیکھو کتنا ز بر دست نظام رکھا گیا ہے کہ ہم ڈائری بھی پیش کریں گے، لکھنے والے عینی گواہ بھی لائیں گے اور پھر عینی گواہوں کے علاوہ اپنی زبان اور اپنے کانوں اور اپنے ہاتھ پاؤں کا ریکارڈ لائیں گے تاکہ وہ انکار نہ کر سکیں اور اس کے بعد ہم جو فیصلہ کرنے والے ہیں انہیں بتا ئیں گے کہ ہم بھی وہاں بیٹھے دیکھ رہے تھے اس لئے اس فیصلہ کو کوئی غلط نہیں کہہ سکتا.مگر بڑے حکومتیں روحانی نظام کی اب تک نقل بھی نہیں کر سکیں کراتے ہوے زبر دست نظام کو دیکھ کر بھی حکومتیں اسکی نقل نہیں کر سکیں.حکومتوں نے ڈائریاں بھی بنائی ہیں، اب ریکارڈر بھی نکال لئے ہیں مگر وہ ریکارڈر کروڑوں مقدموں میں سے کسی ایک میں استعمال ہوتا ہے ہر جگہ نہیں ہو سکتا.غرض اتنے نظام کو دیکھنے کے بعد بھی دنیا ایسا نظام نہیں بنا سکی اور ابھی دنیا کہہ رہی ہے کہ قرآن کی ہم کو ضرورت نہیں ہے.تیرہ سو سال سے یہ اعلیٰ درجہ کا نظام حکومت قرآن بیان کرتا ہے اور تیرہ سو سال سے اس کو تفصیل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، تیرہ سو سال سے مہذب دنیا کی حکومتیں اس کو دیکھتی ہیں اور اس کی نقل کرنیکی کوشش کرتی ہیں مگر تیرہ سو سال کے عرصہ میں اس کی مکمل نقل نہیں کر سکیں.اگر وہ ڈائریاں لکھنی شروع کرتی ہیں تو ان کو سچے ڈائری نولیس نہیں ملتے.اگر ڈائری نویس کی تصدیق کا ثبوت ملتا ہے تو پہلے تو ان کو اس کا پتہ ہی نہیں تھا اب ریکارڈر نکالا تو وہ ریکارڈر کو ہر جگہ استعمال نہیں کر سکتے اور اگر ریکارڈر ہو بھی تو پھر بھی حج کو صحیح پتہ نہیں لگ سکتا اور کوئی ایسا حج اُن کو نہیں مل سکتا جس کو پتہ ہو کہ واقعہ کیا ہے.وہ محض قیاسی باتیں کرتا ہے چنانچہ ہزاروں دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جج نے ایک فیصلہ کیا ہے اور بعد میں معلوم ہوا ہے کہ وہ فیصلہ غلط تھا.ہم نے انگلستان کے بعض فیصلے پڑھے ہیں جن میں یہ ذکر آتا.
۶۵۴ ہے کہ بعض حج پاگل ہو گئے کیونکہ پندرہ میں سال کے بعد ان کو بعض ایسے واقعات معلوم ہوئے کہ جس شخص کو انہوں نے پھانسی دی تھی وہ بالکل مجرم نہیں تھا اور وہ اس صدمہ کے مارے کہ ہم نے اتنا ظلم کیا ہے پاگل ہو گئے.لیکن قرآن کا حج دیکھو اس کے پاس ڈائریوں کا کتنا بڑا نظام اتنا ہے اور پھر کس یقین کے ساتھ وہ کہتا ہے کہ نہیں اصل حقیقت یہ ہے.خلص اور پارسا اور توبتہ النصوح کرنے والوں کو ایک خدشہ ایک اور بات بھی یہاں قابل غور ہے اور وہ یہ کہ اس نظام کا ذکر سُن کر (جیسے تم میں سے بھی جو ہوشیار آدمی ہونگے اُن کے دل میں بھی خیال آیا ہوگا ) مخلص اور پارسا اور توبۃ النصوح کرنے والوں کے دل بھی ڈر جائیں گے اور وہ کہیں گے کہ آٹے کے ساتھ کھن بھی پسنے لگا ہے.مجرم تو خیر مجرم تھے ہی لیکن میں جو تو بہ کرنے والا ہوں یا میں جس نے ساری عمر کوشش کر کے نیکیاں کی ہیں میرے اعمال کا بھی تو کوئی نہ کوئی حصہ ایسا ہے جس کے متعلق میں نہیں چاہتا کہ لوگوں کے سامنے ظاہر ہو.اگر یہی ذلت اور فضیحت ہونی ہے تو میں تو صاف مر گیا.ابو جہل تو ڈوبے گا ساتھ اس کے کئی صحابہ کے اعمال جو چُھپانے والے ہونگے وہ بھی ظاہر ہو جائیں گے.اس طرح دوسرے نیک لوگوں کے بھی ظاہر ہو جائیں گے.ہمارے ہاں مشہور ہے کہ سید عبد القادر صاحب جیلانی کا قریب ترین جو شاگرد تھا وہ پہلے ڈاکو اور چور ہوتا تھا.اب وہ بزرگ صاحب پیش ہوئے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور اسلام کی خدمت کرنے والے ہیں اور ریکارڈ شروع ہوا کہ انہوں نے فلاں جگہ چوری کی ، فلاں جگہ ڈاکہ مارا تو ذلت تو ہوگی.اب ایسا شخص ملنا سوائے چند افراد کے بہت مشکل ہے کہ جس کی زندگی کا کوئی حصہ بھی ایسا نہ ہو جس کو ریکارڈ پر نہ لایا جا سکے.اگر اس دفتر میں ایک ایک عمل اور ایک ایک خیال چار چار ریکارڈروں میں موجود ہے تو کافر تو ذلیل ہو نگے ہی مؤمن کو بھی جنت ہزار رُسوائی کے بعد ہی ملے گی.پھر اس کا مزہ کیا آئیگا ، تا ئب کہے گا کہ تو بہ تو منظور ہوگئی.اَلْحَمْدُ لِله مگر کلنک کا ٹیکا تو ماتھے کو لگ ہی گیا.ریکارڈر آپ ہی نہیں بجتا بلکہ مگر اس دفتر ریکارڈ میں جب ہم نے قاعدے دیکھے اور غور کیا کہ اچھا اس کے لئے کیا سامان موجود ہے؟ تو معلوم ہو ا کہ اُس نے اس خدشہ کا بھی علاج کیا ہے مالک جب بجاتا ہے تب بجتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ایسی کوئی بات پیش ہی نہ ہو کیونکہ ہم
نے جب ریکارڈ دیکھا تو قانون یہ نکلا کہ وَقَالُوا لِجُلُودِ هِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَيْنَا قَالُوا ۱۴ اَنْطَقَنَا اللهُ الَّذِى اَنْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ " جب اُن کے ہاتھوں نے اور پیروں نے گواہیاں دینی شروع کیں تو انہوں نے کہا ارے کمبختو ! تم تو ہمارا حصہ تھے.اے کان تو میرا تھا ، اے آنکھ تو میری تھی ، اے زبان تو میری تھی ، اے جلد تو میری تھی ، اے ہاتھ تم میرے تھے ، اے پاؤں تم میرے تھے کمبختو! تمہی نے میرا بیڑا غرق کرنا تھا کہ یہ باتیں کرنی شروع کر دیں.اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ان اعضاء کے صرف ایک صرف جلد کا انتخاب اُس کے نمائندہ نمائندہ یعنی جلد کو لے لیا ہے کیونکہ جلد ان سب چیزوں کو ڈھانپتی ہے.جلد کان پر بھی ہوتی ہے، ہونے کی حیثیت سے کیا گیا ہے ہوں اور جلد زبان پر بھی ہوتی ہے ، جلد آنکھوں پر بھی ہوتی ہے، جلد پیروں پر بھی ہوتی ہے، جلد ہاتھوں پر بھی ہوتی ہے.پس چونکہ جلد نمائندہ ہے تمام اعضاء کا اس لئے یہاں صرف جلد کا لفظ رکھا گیا ہے.بہر حال جب وہ یہ کہیں گے تو ان اعضاء کا نمائندہ آگے سے یہ جواب دیا کہ بھئی! ہم کوئی اپنے اختیار سے بولے ہیں یہ ریکارڈر آپ ہی نہیں بجا کرتے بلکہ مالک جب سوئی رکھتا ہے اور اس کو بجانا چاہتا ہے تب بجتے ہیں.اُس نے جب سوئی رکھ دی تو ہم کیا کریں پھر تو ہم نے بجنا تھا.اس سے ایک شخص کے دل کو کم از کم اتنی تسلی عالم روحانی کا ایک اور خوشکن قانون ہوگئی کہ ریکارڈر نے آپ ہی نہیں بجنا ، بجانے والا بھجوائے گا تو بجے گا.اب دیکھیئے بجوانے والا بجواتا ہے یا نہیں اور کوئی عزت رہ جاتی ہے کہ نہیں.سو اس کے متعلق قاعدہ دیکھا تو یہ قاعدہ نکلا کہ يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ذَلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ وَ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيَعْمَلُ صَالِحًا يُكَفِّرُ عَنْهُ سَيَاتِهِ وَ ها يُدْخِلْهُ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ جس دن ہم ان سب لوگوں کو جمع کریں گے اور وہ دن ایسا ہوگا جب ایک دوسرے پر اُس کی غلطیوں کا الزام لگایا جائے گا (تغابن کے معنے ہیں وہ کہے گا اس نے فساد کئے ہیں یہ کہے گا اُس نے کئے ہیں) تو اُس دن اچھی طرح جانچ پڑتال ہوگی.پھر کیا ہوگا.وَ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ يَعْمَلُ صَالِحًا جوایمان لانیوالا ہوگا اور عمل نیک کرنے والا ہوگا اُس نے کچھ بدیاں تو کی
ہونگی ، کچھ غلطیاں اُس سے بھی صادر ہوئی ہونگی، کچھ کمزوریاں اُس سے بھی ہوئی ہونگی مگر يُكَفِّرُ عَنْهُ سَيَاتِهِ ہم کہیں گے اُس تمام جگہ پر جہاں بُرے کام درج ہیں چیپیاں لگا دو تا کہ انہیں کوئی نہ دیکھے.لغت میں لکھا ہے کہ التَّكْفِيرُ سَتَرَهُ وَ تُغَطِيْهِ حَتَّى يَصِيرَ بِمَنْزِلَةِ مَالَمْ يَعْمَل که تکفیر کے معنے ہوتے ہیں ڈھانپ دینا اور اُس پر پردہ ڈال دینا ایسی صورت میں کہ یہ پتہ لگانا ناممکن ہو جائے کہ اس نے فلاں کام کیا تھا تو يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيَاتِهِ اللہ تعالیٰ فوراً حکم دیگا کہ یہاں چیپیاں لگا دی جائیں تا کہ یہ یہ جگہ سامنے آئے تو پتہ ہی نہ لگے کہ اس نے یہ کام کیا تھا.اس طرح بتایا گیا کہ صرف امکان ہی نہیں ہے بلکہ وقوعہ بھی یہی ہوگا کہ مؤمن اور نیک عمل کرنے والے اور تائب کی غلطیوں پر چیپیاں لگا کر انہیں چھپا دیا جائے گا اور کسی کو پتہ نہیں لگے گا کہ اس نے کوئی گناہ کیا ہے.اگر چیپیاں نہ لگی ہوتیں تو مؤمن کیوں کہتا اگر مؤمن کی غلطیوں پر پردہ نہ ڈالا جاتا کہ هَاؤُمُ اقْرَءُ وُا كِتَبِيَهُ آؤ ذرا میرا تو وہ اپنے اعمالنامہ پر فخر کس طرح کر سکتا الانامہ پڑھو.اگر پڑھاتا تو ساتھ ہوراں بھی نکل آتیں اور اگر اعمالنامہ میں بدیاں بھی لکھی ہوئی ہو تیں تو چاہے اُسے جنت ہی ملی ہوتی وہ اُسے اپنی بغل میں دبا لیتا اور کہتا مجھے جنت ملی ہے مجھے انعام ملا ہے.اگر کوئی کہتا ذرا کتاب دکھانا تو جواب دیتا نہیں نہیں ! میں پھر دکھاؤنگا.کیونکہ وہ ڈرتا کہ دیکھے گا تو بیچ میں بدیاں بھی نکل آئیں گی.مگر چونکہ بدیوں پر چیپیاں لگی ہوئی ہونگی اس لئے وہ کہے گا هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتبيَة ارے میاں ! آؤ اور میری کتاب دیکھو میرے اندر کوئی عیب نہیں ہے.اعلیٰ درجہ کے مومنوں کی بدیاں بھی اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کچھ لوگوں کی غلطیوں کو چھپا دیا جائے گا.وہاں کچھ نیکیوں میں بدل دی جائیں گی ایسے بھی اعلی درجہ کے لوگ ہو تھے کہ ان کی صحبت اور قربانی اور تو بہ کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ صرف اُن کی بدیوں کو چھپائے گا ہی نہیں بلکہ اُنکی بدی کی جگہ نیکی لکھ دیگا.چنانچہ فرماتا ہے يُبَدِّلُ اللهُ سَيَاتِهِمْ حَسَنَتٍ كل كام کچھ ایسے مؤمن ہونگے کہ اُن کے اعلیٰ درجہ کو دیکھ کر ، اُن کے تقویٰ کو دیکھ کر ، اُن کی تو بہ
۶۵۷ کو دیکھ کر ، اُن کی دیانت کو دیکھ کر گو غلطیاں بھی انہوں نے کیں، گناہ بھی اُن سے سرزد ہوئے، کمزوریاں بھی اُن سے ہوئیں مگر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہے گا یہ میرا بندہ ہے ہم نے اس کی سزا معاف کر دی ہے اور اس کو معاف کر کے اس کے قرب کا فیصلہ کیا ہے اس لئے یہاں نیکی لکھ دو.چنانچہ جب وہ کتاب پڑھے گا تو جو ادنی درجہ کا مؤمن ہوگا اس کے اعمالنامہ پر تو چیپیاں لگی ہوئی ہونگی اور اُس کے گناہ کو چھپایا ہوا ہوگا اور جو اعلیٰ درجہ کا مؤمن ہوگا اُس کے اعمالنامہ میں وہاں اُس کا کوئی کارنامہ لکھا ہوا ہو گا.مثلاً وہی کام جو پہلا تھا اُس کو بڑھا کر اپنے انعام کے ساتھ اس میں شامل کیا ہوگا.گویا اس کا اعمال نامہ ایک نئی شکل میں ہوگا.اس کی مثال سمجھنے کے لئے یاد رکھنا چاہئے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا جھوٹ کے ساتھ کام لیا جائے گا لیکن یہ جھوٹ نہیں ہوگا.میں اس کی ایک مثال دے دیتا ہوں جس سے معلوم ہوگا کہ کس طرز پر کام لیا جائے گا.حضرت معاویہ کی ایک نماز ضائع ہونے کا واقعہ آثار میں پُرانے زمانہ کا ایک واقعہ لکھا ہے آجکل تو یہ ہوتا ہے کہ کوئی بڑا آدمی مسجد میں نماز پڑھنے چلا جائے تو سارے شہر میں دھوم پڑ جاتی ہے کہ آج فلاں صاحب جمعہ کی نماز کے لئے آئے تھے لیکن پرانے زمانہ میں اس کے اُلٹ ہوتا تھا.پرانے زمانہ میں امراء خود نماز پڑھاتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے تھے.آپ کے بعد آپ کے خلفاء پڑھاتے تھے اور اس کے بعد جو دنیوی خلفاء آئے وہ بھی خود نماز پڑھاتے تھے.حضرت معاویہؓ کے زمانہ میں خود حضرت معاویہ مسجد میں جا کر نماز پڑھاتے تھے.ایک دن ایسا ہو ا کہ کوئی کام کرتے کرتے زیادہ دیر ہو گئی یا کچھ طبیعت خراب تھی نماز کے وقت آواز دینے والے نے آواز دی کہ نماز کھڑی ہوگئی ہے ( یہ پرانی سنت ہے کہ امام کو گھر پر جا کے مؤذن اطلاع دیتا ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے ) مگر اُن کی آنکھ نہ کھلی.نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ وقت جا رہا ہے نماز پڑھا دی.جب اُن کی آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ نماز ہوچکی ہے.اس پر اُن کو اتنا صدمہ ہوا کہ سارا دن روتے رہے اور استغفار کرتے رہے اور دعائیں کرتے رہے کہ یا اللہ! میں نے کیا خطا کی تھی اور کیا گناہ کیا تھا کہ اس کے نتیجہ میں آج نماز با جماعت رہ گئی اور میں مسلمانوں کی امامت نہیں کر اسکا.دوسرے دن انہوں نے صبح کے قریب ایک کشفی نظارہ دیکھا کہ گویا شیطان آیا ہے اور وہ آ کر اُن کو ہلاتا ہے کہ میاں ! اُٹھ نماز پڑھ، میاں! اُٹھ نماز پڑھ.وہ پہلے تو گھبرائے اور سمجھا کہ کوئی کمرہ کے اندر آ گیا ہے
کیونکہ خواب میں بھی انسان ایسی چیزوں سے گھبراتا ہے جن سے اُسے گھبرانے کی عادت ہوتی ہے مگر جب انہوں نے پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ میں شیطان ہوں.انہوں نے کہا تم شیطان ہو اور مجھے نماز کے لئے جگا رہے ہو؟ کہنے لگا ہاں! میں نماز کے لئے جگا رہا ہوں.کل میں نے تمہاری نماز ضائع کرا دی تھی اور ایسے حالات پیدا کر دیے تھے کہ تم سوتے رہو اور آنکھ نہ کھلے مگر اس پر تم اتنا روئے اور تم نے اتنی تو بہ کی کہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ اس کی نماز جو رہ گئی ہے اس کے بدلہ میں دس نیکیوں کا ثواب لکھ دو کیونکہ یہ بہت رویا ہے.میں نے کہا میں تو ایک نیکی سے محروم کر رہا تھا اور اس کو دس نیکیاں مل گئیں آج اِسے جگا دو کہ نو (۹) نیکیاں تو بچیں یہ طریقہ ہے بدیوں کی جگہ نیکیاں لکھنے کا.یعنی انسان کے دل میں جو ندامت اور تو بہ اور انابت پیدا ہوتی ہے اُس کا ثواب اتنا مقرر کر دیا جاتا ہے کہ وہ ان بدیوں کی جگہ کو ڈھانپ لیتا ہے اور اس کی جگہ نیکی بن جاتا ہے.اسی طرح ایک دوسری مثال حدیث بدیوں کو نیکیوں میں بدلنے کی ایک اور مثال میں آتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ لوگوں سے معاملہ کر یگا تو ایک وقت ایک مجرم کو نکالا جائے گا.اُس کے بڑے جُرم ہونگے مگر اس کے دل میں کوئی ایسی نیکی ہوگی کہ جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ کہے گا کہ میں نے اس کو ضرور بخشنا ہے.چنانچہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا وہ ڈر رہا ہوگا کہ مجھے سزا ملے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے دل میں فیصلہ کر چکا ہوگا کہ اس کی فلاں نیکی کی وجہ سے میں نے اسے بخشا ہے مثلاً ممکن ہے اُس کے دل میں محبت رسول بڑی ہو یا اللہ تعالیٰ کی بڑی محبت ہو لیکن اعمال میں کمزور ہو یا غریبوں کی اُس نے بڑی خبر گیری کی ہو یا اور کوئی ایسی نیکی ہو جو اتنی نمایاں ہو گئی ہو کہ اللہ تعالیٰ سمجھتا ہو چاہے اس نے کتنے گناہ کئے ہوں میں نے اس کو بخش دینا ہے.تو جب وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوگا اللہ تعالیٰ کہے گا دیکھو میاں ! تم نے فلاں بدی کی.وہ کہے گا ہاں حضور مجھ سے ایسا ہو گیا.فرمائے گا اچھا فرشتو! اس کے بدلہ میں اس کے دس ثواب لکھ دو.پھر پوچھے گا تم نے فلاں بدی کی تھی؟ وہ کہے گا جی حضور کی تھی.فرمائے گا اچھا اس کے دس ثواب لکھ دو تو چونکہ اُس کے لئے بخشش کسی ایسی نیکی کی وجہ سے جو اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی مقدر تھی خدا تعالیٰ اُس کے گناہ گنانے شروع کر دیگا اور فرمائے گا کہ ان کے بدلہ میں نیکیاں لکھتے چلے جاؤ لیکن اس کے بڑے بڑے گناہ نہیں گنائے گا تا کہ وہ شرمندہ نہ ہو.جب
۶۵۹ ۱۸ اللہ تعالیٰ ختم کر بیٹھے گا تو وہ اپنے دل میں سوچے گا کہ میرے فلاں فلاں گناہ بھی موجود تھے اگر چھوٹے چھوٹے گناہوں کی دس دس نیکیاں ملی ہیں تو ان کی تو سو سو ملنی چاہئیں.اللہ تعالیٰ تو اس کی پردہ پوشی کے لئے ایسا کریگا لیکن جب وہ خاموش ہوگا تو بندہ کہے گا حضور ! آپ بھول ہی گئے میں نے فلاں گناہ بھی کیا تھا اور فلاں میں نے قتل کیا تھا اُس کو تو آپ نے بیان ہی نہیں کیا.اسی طرح فلاں ڈا کہ آپ نے بیان نہیں کیا یہ تو چھوٹی چھوٹی باتیں بیان کی ہیں.اللہ تعالیٰ ہنس پڑے گا کہ دیکھو میرا بندہ میرے عفو پر اتنا دلیر ہو گیا ہے کہ اب یہ اپنے گناہ آپ گناتا ہے 1 تو جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ يُبَدِّلُ اللهُ سَيَاتِهِمْ حَسَنت اس کے معنے اسی طرز کے ہیں کہ کوئی نہ کوئی نیکی اس کے دل میں ہوتی ہے اور وہ اتنے مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ اُس نیکی کے مقام کی وجہ سے بدی کو نیکی کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے.یہی اس کے معنے ہیں اور اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کی اعلیٰ تو بہ کی وجہ سے اُن کی دلداری کے لئے اور ان کے دلوں کو تسکین دینے کے لئے اُن کے گناہوں کو بھی نیکی کے ثواب میں بدل دیتا ہے.روحانی انعامات کو کوئی شخص چھینے کی طاقت نہیں رکھتا پھر اس سے اوپر میں نے دیکھا کہ اس دفتر میں جن لوگوں کے لئے انعام مقرر ہوئے تھے انہیں کوئی چھین نہیں سکتا تھا.برخلاف دُنیوی انعاموں کے کہ یہاں ایک بادشاہ دیتا ہے اور دوسرا چھین لیتا ہے بلکہ بعض دفعہ وہ بادشاہ آپ ہی چھین لیتا ہے.ایک جرنیل کی معزولی دیکھ کر حضرت شبلی تاریخ میں قصہ آتا ہے کہ حضرت شبلی علیہ الرحمۃ جو حضرت جنید بغدادیؒ کے شاگرد تھے پہلے کا رونا اور اپنے گناہوں سے تو بہ کرنا وہ بڑے ظالم ہوتے تھے امیر آدمی تھے اور ایک صوبہ کے گورنر تھے انہوں نے اپنی گورنری کے زمانہ میں بڑے بڑے ظلم کئے تھے.اُس زمانہ میں عباسی بادشاہ کے خلاف ایران میں کوئی بغاوت ہوئی کئی جرنیل بھجوائے گئے مگر انہوں نے شکست کھائی اور وہ دشمن کو مغلوب نہ کر سکے.آخر بادشاہ نے ایک جرنیل کو چنا جو بہت دلیر تھا اور اُس کو کہا کہ تم جاؤ اور جا کر دشمن کو شکست دو یہ کام تم سے ہوگا.وہ گیا اور چھ مہینے سال اُس نے بڑی بڑی مصیبتیں اُٹھا ئیں، تکلیفیں چھیلیں اور آخر ہمت کر کے اُس نے دشمن کو شکست دی اور وہ علاقہ بادشاہ کے لئے فتح کیا.واپس آیا تو
۶۶۰ بادشاہ نے ایک بڑا در بار اس کے اعزاز میں منعقد کیا اور کہا کہ اس کو خلعت دیا جائے.چنانچہ وہ دربار میں آیا اور اُس کو خلعت پہنایا گیا.پُرانے زمانہ میں یہی طریق رائج تھا جیسے آجکل خطاب وغیرہ دیتے ہیں تو دربار لگتے ہیں اسی طرح دربار لگایا گیا.اتفاقاً شبلی بھی اُن دنوں کی اپنے کام کی کوئی رپورٹ دینے آئے ہوئے تھے چنانچہ وہ بھی دربار میں بُلائے گئے.سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور اوپر وہ جرنیل بیٹھا ہوا تھا کہ بادشاہ نے پہلے اُس کی تعریف میں کچھ کلمات کہے، اس کے بعد کہا کہ اس کو خلعت پہنایا جائے.چنانچہ اسے ایک طرف کمرہ میں لے گئے اور اس کو خلعت پہنایا گیا.بدقسمتی سے وہ اُسی دن سفر سے آیا تھا کہیں سفر میں اُسے ہؤ ا لگی یا کچھ اور ہو ا جس کی وجہ سے اُس کو شدید نزلہ ہو گیا اور گھر سے چلتے وقت وہ رومال لا نا بھول گیا.جب بادشاہ کے سامنے آیا تو یکدم اُسے چھینک آئی اور چھینک سے رینٹھ نکل کے ہونٹوں پر آگئی.اب اگر وہ رینٹھ کے ساتھ بادشاہ کے سامنے کھڑا رہتا ہے تو بادشاہ خفا ہوتا ہے اور اگر پونچھتا ہے تو رو مال نہیں.اُس نے اِدھر اُدھر نظر بچا کے اُسی خلعت کا ایک پہلولیا اور ناک پونچھ لیا.بادشاہ نے دیکھ لیا اُسے سخت غصہ چڑھا اور کہنے لگا.ہم نے تمہارا اتنا اعزاز کیا.تمہیں خلعت دی اور تمہیں اتنا نوازا اور تم نے اتنی تحقیر کی ہے کہ اس کے ساتھ ناک پو نچھتے ہو.فوراً یہ خلعت اُتار لیا جائے اور اس کو جرنیلی سے موقوف کیا جائے.خیر وہ بیچارہ تو کیا کر سکتا تھا خلعت اُتارنے لگے تو شبلی نے دربار میں چینیں مارنی شروع کر دیں کہ ہائے میں مر گیا.بادشاہ حیران ہوا کہ یہ خواہ مخواہ کیوں شور مچا رہا ہے.چنانچہ بادشاہ نے کہا تم کو کیا ہو ا ہم اس پر خفا ہوئے ہیں تم کیوں خواہ مخواہ رو رہے ہو؟ اُس نے کہا بادشاہ سلامت ! میں نہیں روؤ نگا تو کون روئے گا اس شخص نے سال بھر ہر صبح سے شام تک اپنی بیوی کو بیوہ کیا، سال بھر میں ہر صبح سے شام تک اس نے اپنے بچوں کو یتیم کیا، محض آپ کی خوشنودی کے لئے اور بارہ مہینے اس نے اپنے آپ کو قتل و غارت اور خون کے آگے ہدف بنایا صرف اس لئے کہ آپ کی رضاء حاصل ہو جائے اور جب اتنی قربانی کے بعد یہ آیا اور آپ نے اس کو دس ہزار یا بیس ہزار کا خلعت بھی دے دیا اور اس قربانی کے مقابلہ میں بلکہ اس کی ایک دن کی قربانی کے مقابلہ میں بھی تو یہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا مگر آپ نے اس پر اتنے غصے کا اظہار کیا کہ اس نے میرے خلعت کی ہتک کی ہے اور اس سے ناک پونچھ لیا ہے اور اس قدر ناراض ہو گئے کہ کہا اس کو نکال دو، یہ بڑا خبیث اور بے ایمان ہے.تو حضور یہ کان، ناک، آنکھ یہ جسم کی خلعت جو خدا نے مجھے پہنائی ہے میں روز آپ کی
۶۶۱ خاطر اسے گندہ اور ناپاک کرتا ہوں.مجھے قیامت کے دن خدا کیا کہے گا کہ کمبخت! تو نے یہ خلعت کیوں گندہ کیا تھا.پس میں نہ روؤں تو اور کون روئے ؟ وہ اُسی وقت اُٹھے استعفے پیش کیا اور چلے گئے 19 پھر انہوں نے علماء کی مجلس میں جانا شروع کیا اور بیعت کے لئے حضرت جنید کی شرط کہا کہ میرے لئے دُعا کریں کہ مجھے تو بہ نصیب ہو.اُن کے ظلم بڑے مشہور تھے اور بڑی غارت اور تباہی انہوں نے مچائی ہوئی تھی جس عالم کے پاس بھی جائیں وہ کہے میاں ! تمہاری توبہ قبول نہیں ہو سکتی.تمہاری تو بہ بھلا خدا کب قبول کر سکتا ہے تم نے تو اتنے ظلم کئے ہیں کہ جنگی کوئی حد ہی نہیں.وہ مایوس ہوتے ہوئے بیسیوں علماء کے پاس گئے مگر ہر ایک نے یہی جواب دیا.آخر کسی نے کہا کہ جنید بغدادی بڑے صوفی ہیں اور بڑے خدا پرست اور بڑے رحمدل ہیں اُن کے پاس جاؤ تو شاید وہ تمہاری توبہ قبول کر لیں.چنا نچہ وہ اُن کے پاس گئے اور جا کر کہا کہ میں شبلی ہوں.میں اس طرح علماء کے پاس گیا تھا مگر سب نے انکار کیا.اب میں آپ کے پاس آیا ہوں آپ میرے لئے دُعا کریں اور توبہ قبول کریں.حضرت جنید نے کہا کہ ہاں خدا تعالیٰ سب کے گناہوں کو معاف کرتا ہے پر کچھ تمہیں بھی اپنی تو بہ کے آثار دکھانے چاہئیں.انہوں نے کہا میں دکھانے کے لئے تیار ہوں.آپ جو حکم دینا چاہیں دیں.فرمایا جاؤ اُس صوبہ میں جہاں تم گورنر مقرر تھے اور پھر جس شہر میں تم مقرر تھے اور جہاں روز تم سزائیں دیا کرتے تھے ، کوڑے لگوایا کرتے تھے ، نالشیں کیا کرتے تھے ، گھروں پر قبضہ کیا کرتے تھے ، مردوں کو قید کیا کرتے تھے ، عورتوں کو بے عزت کیا کرتے تھے ، اُس شہر میں جاؤ اور ہر گھر پر دستک دو اور ہر گھر کے آدمیوں کو باہر بلا کے کہو کہ میں مجرم کی حیثیت میں تمہارے سامنے پیش ہوں جو چاہو مجھے سزا دے دو مگر خدا کے لئے مجھے معاف کر دو.ایک ایک گھر میں جاؤ اور معافی لو جب تم سارا شہر پھر لو گے تو پھر میرے پاس آنا میں تمہاری بیعت لے لونگا.شبلی نے کہا مجھے منظور ہے.شبلی کا گھر گھر جا کر لوگوں سے معافی حاصل کرنا چنانچہ وہ وہاں گئے اور ایک سرے سے لے کر دستک دینی شروع کی.لوگوں نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے کہا میں شبلی ہوں.پہلے تو وہ سمجھیں کہ کوئی فقیر ہوگا یونہی بات کرتا ہے مگر باہر نکل کے دیکھنا تو انہیں معلوم ہونا کہ گورنر صاحب کھڑے ہیں.
۶۶۲ انہوں نے فوراً کہنا کہ حضور ! کس طرح تشریف لائے ہیں؟ وہ کہتے حضور حضور کچھ نہیں میں معافی مانگنے آیا ہوں.میں نے تم لوگوں پر بڑے ظلم کئے ہیں مجھے خدا کے لئے معاف کر دو.پہلے تو لوگوں نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ مذاق ہو رہا ہے.چنانچہ انہوں نے کہنا نہیں صاحب! آپ تو ہمارے بڑے آدمی ہیں.وہ کہتے بڑے کوئی نہیں میں نے استعفیٰ دے دیا ہے اب میں معافی مانگنے آیا ہوں کیونکہ میری نجات تمہاری معافی کے بغیر نہیں ہوسکتی.بڑے اصرار کے بعد آخر لوگوں کو یقین آ جانا کہ یہ بات ٹھیک ہے اور انہوں نے کہہ دینا اچھا ہم نے معاف کر دیا.لیکن انسانی دل کو خدا تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ جب اس کو یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ اب نیکی آچکی ہے تو پھر وہ برداشت نہیں کر سکتا.ابھی پانچ سات گھر ہی شبلی گزرے تھے کہ شہر میں خبر مشہور ہوگئی کہ گورنر آج اس طرح پھر رہا ہے.اب بجائے اس کے کہ شبلی جا کے دستک دیتے ادھر وہ گھر پر پہنچتے اور اُدھر گھر والے روتے ہوئے باہر آجاتے اور کہتے ہمیں آپ شرمندہ نہ کریں ہم نے معاف کیا اور ہم نے اپنے دل سے بات بالکل نکال دی.شام تک سارے شہر میں معافیاں ہو گئیں اور بجائے اس کے کہ وہ مجرم کے طور پر جاتے اُن کا اعزاز ہونا شروع ہو گیا.اس کے بعد واپس گئے حضرت جنید نے اُن کی بیعت لی اُن کی توبہ قبول کی اور پھر وہ خود بھی ایک بڑے بزرگ بن گئے." تو دیکھو خلعت ہوتے ہیں لیکن دنیوی خلعتوں اور جاگیروں کی نا پائیداری دنیوی بادشاہوں کے خلعت کبھی آپ ہی چھن جاتے ہیں اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ اولادوں سے چھن جاتے ہیں.مثلاً پٹھانوں کے وقت کی جاگیریں مغلوں نے چھین لیں.مغلوں کے وقت کی جاگیریں جن کے پاس تھیں اُس وقت وہ بڑے اکڑ اکڑ کر پھرتے تھے مگر انگریز آئے تو انگریزوں نے چھین لیں.پھر انگریزوں نے جاگیریں دیں تو اب پاکستان اور ہندوستان والے چھین رہے ہیں.تو کچھ مدت کے لئے وہ انعام رہتے ہیں اور اس کے بعد وہ جاگیر چھن جاتی ہے.مگر یہ وہ حکومت تھی اور یہ وہ دفتر تھے کہ میں نے دیکھا کہ اس میں جو جاگیریں ملتی تھیں اُن کے ساتھ بتا دیا جاتا تھا کہ یہ کتنے عرصہ کے لئے جاگیر ہے، کسی کو کہا جاتا تھا کہ یہ ہمیشہ کے لئے ہے پر یہ یہ وقفے پڑ جائیں گے، کسی کو کہا جاتا تھا کہ عارضی ہے جب تک ٹھیک رہو گے ملے گی.گویا یہ خدمت کی جاگیر ہے جب تک خدمت کرو گے ملے گی جب خدمت نہ کرو گے چھین لی جائے گی.
۶۶۳ روحانی جاگیرداروں کے متعلق عالم روحانی کا قانون چنانچہ میں نے دیکھا کہ اس میں ل جاگیرداروں کے متعلق یہ قانون تھا کہ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ ممنون ہم جو جا گیر دینگے اگر تو وہ شخص جس کو جاگیر دی گئی ہو گی اپنی زندگی بھر وفاداری کو قائم رکھے گا تو وہ جا گیر ابد الآباد تک اُس کے نام لکھی جائیگی اور اُس سے چھینی نہیں جائیگی.مسلمانوں کو خدا تعالیٰ کی عطا کردہ ایک مقدس جاگیر یہ تو اُخروی انعام ہے.اس دنیا کے انعام میں بھی میں نے یہی قانون دیکھا.اُخروی انعام کے متعلق تو مجھے غیر مسلم لوگ کہیں گے کہ میاں ! یہ تو منہ کی باتیں ہیں اگلا جہاں کس نے دیکھا ہے.تم یہ بتاؤ اور اس بات کا ثبوت دو کہ یہاں بھی مل جاتی ہے؟ تم اپنے دربار کی یہاں کوئی ایسی جائداد بتاؤ جو مستقل طور پر مل گئی ہو اور پھر کسی نے چھینی نہ ہو تو میں نے دیکھا کہ اس بارہ میں قرآن کریم سے یہ ثبوت نکلا کہ إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكاً وَّ هُدًى لِلْعَلَمِينَ ، فِيهِ ايتٌ بَيِّنَتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَ مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَ مَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ " فرماتا ہے ایک جاگیر اس جاگیر کے ساتھ تعلق رکھنے والی سات اور جاگیریں ہم نے دنیا کے کچھ لوگوں کو بخشی اور ہم نے کہا ہمارے نام پر ایک گھر بناؤ اس کے ساتھ ہم تم کو جا گیر دینگے.تو سب سے پہلے جو گھر خدا تعالیٰ کے نام پر لوگوں کے فائدہ کے لئے بنایا گیا وہ مکہ میں بنا.مُبَارَكًا ہم نے کہا اس گھر کو ہمیشہ برکت دی جائے گی وَ هُدًى لِلْعَلَمِینَ اور یہ گھر ہمیشہ ہی دنیا کے لئے دین اور تقویٰ اور طہارت میں راہنمائی کا موجب رہیگا.یہ دو جاگیریں ہو گئیں فِيهِ ایتُ بَيِّنت تیسری جاگیر یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے نشانات الہیہ ظاہر ہوتے رہیں گے.مَقَامُ اِبرَاهِيمَ چوتھی جاگیر یہ ہے کہ جو لوگ اس جگہ آئیں گے وہ ابراہیمی در جے پاتے رہیں گے.وَ مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا اور پانچویں جا گیر یہ ہوگی کہ اس کے اندر امن لکھ دیا جائے گا یعنی جو شخص اس جاگیر میں آئے گا اُس کو امن مل جائیگا.وَ لِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ چھٹی جاگیر یہ ہوگی کہ لوگوں کے دلوں میں ہم تحریک کرتے رہیں گے کہ وہ اس کا ادب کریں اور آکر اس کی
۶۶۴ زیارت کرتے رہیں.وَ مَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِینَ اور ساتویں جا گیر یہ ہوگی کہ جو شخص اس سے منہ موڑے گا ہم اس سے تعلق نہیں رکھیں گے.دیکھو! یہ سات جاگیریں ملتی ہیں کہ (۱) اُس مقام کو ہمیشہ کے لئے برکت والا بنایا جاتا ہے.(۲) یہ مقام دین اور تقویٰ میں لوگوں کی راہنمائی کا موجب ہوگا.(۳) اس مقام سے نشانات الہیہ ظاہر ہوتے رہیں گے.(۴) جو لوگ اس سے تعلق رکھیں گے وہ ابراہیمی در جے حاصل کریں گے.(۵) جو شخص اس کے اندر داخل ہو گا اُسے امن حاصل ہو جائے گا.(۶) اور پھر یہ کہ اس کی طرف لوگوں کو ڈور ڈور سے کھینچ کر لایا جائے گا تا کہ وہ اس کی زیارت کریں.(۷) اور جو اس سے منہ موڑے گا خدا تعالیٰ اُس سے منہ موڑ لے گا.یعنی اس کے مخالف بھی ہمیشہ رہیں گے لیکن اُن کا تعلق اللہ تعالیٰ سے نہیں ہوگا.ہر زمانہ میں یہ مقدس جاگیر دشمن کے حملہ سے محفوظ رہی اب دیکھو کس طرح ہر زمانہ میں یہ نشان پورا ہوتا رہا.دنیا کی جاگیروں کے لینے والے تو بڑے بڑے جتھے رکھتے تھے مگر پھر بھی وہ ناکام رہے اور ان کی جاگیریں ضبط ہو گئیں لیکن یہاں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں تھا معمولی حیثیت تھی کوئی طاقت نہیں ، کوئی قوت نہیں ، کوئی سامان نہیں صرف یہ اعلان ہے کہ یہ شاہی جاگیر ہے لیکن پھر بھی وہ جا گیر محفوظ رہی.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے چودہ سو سال پہلے یمن کے گورنر کا بیت اللہ پر حملہ یمن میں ایک گورنر تھا.اُس نے ایک گر جا بنایا اور کہا کہ میں اس کو عرب کے سارے لوگوں کے لئے عزت کی جگہ بناؤں گا مگر وہ آباد نہ ہوا.آخر اُس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ گر جا آباد کیوں نہیں ہوتا ؟ انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ عرب میں ایک پرانا مکان ہے بیت اللہ یا خانہ کعبہ اُس کو کہتے ہیں اُس کی سارے عرب عزت کرتے ہیں جب تک وہ نہیں ٹوٹے گا لوگوں نے اس کی طرف توجہ نہیں کرنی پہلے اُس کو تو ڑ لو پھر کوئی تجویز ہو گی.اُس نے کہا بہت اچھا.چنانچہ اُس نے لشکر لیا اور چل پڑا.چلتے چلتے طائف کے مقام پر پہنچے.وہاں کے لوگوں کی مکہ والوں سے مخالفت تھی کیونکہ وہ مکہ کے مقابلہ
میں طائف کا جو بڑا بت تھا اُس کے متعلق سمجھتے تھے کہ اس کو زیادہ عزت دینی چاہئے.اُس نے اُن کو رشوت وغیرہ دی اور اس طرح اُن کے دلوں میں جو اپنی قوم کا ڈر تھا وہ اُتارا اور انہیں کہا کہ ہم کو مکہ پہنچاؤ وہ تیار ہو گئے جب لشکر مکہ کے قریب پہنچا تو جیسا کہ پرانے زمانہ میں قاعدہ تھا ایک منزل پر پہنچ کر وہاں سے انہوں نے مکہ والوں کو نوٹس دیا کہ ہتھیار پھینک دو ورنہ تم پر حملہ کر دیا جائے گا.اُس وقت جو مہذب حکومتیں تھیں وہ اسی طرح کیا کرتی تھیں.چنانچہ اسلام میں بھی یہی طریق رائج ہے.جب یہ حکم پہنچا تو مکہ کے لوگ گھبرا گئے.انہوں نے کہا اتنا بڑا لشکر آیا ہے جو دس یا میں یا پچاس ہزار کا ہے اور مکہ میں سپاہی پانچ سات سو ہیں ان کا ہم کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں.پھر ان کے ساتھ ہاتھی اور دوسری قسم کے سامان تھے ، اسی طرح منجنیقیں وغیرہ تھیں.انہوں نے بہت منتیں سماجتیں کیں.بادشاہ کے آگے ہاتھ جوڑے مگر اُس نے کہا میں نہیں مانتا تم اپنا کوئی وفد بھیجو.میں یہ تو فیصلہ کر چکا ہوں کہ اس گھر کو گرا دونگا لیکن تمہارے لئے کوئی گزارہ مقرر کر دونگا کیونکہ تمہیں اس کے چڑھاووں سے آمدن ہوتی تھی یا اس کی زیارت کرنے کے لئے جو لوگ آتے تھے اُن سے آمدن ہوتی تھی.پس میں تمہارے لئے کوئی جائداد مقرر کر دونگا اور تمہارا اس پر گزارہ ہو جائے گا مگر میں یہ نہیں مان سکتا کہ اس گھر کو نہ گراؤں یہ گھر تو میں نے گرا کر رہنا ہے.چنانچہ وہ واپس گئے اور انہوں نے جاکے کہا کہ بادشاہ تو اس بات پر مُصر ہے کہ اس گھر کو میں ضرور گراؤں گا اب کوئی وفد بھیجا جائے.چنانچہ انہوں نے ایک وفد بھیجا جس کا سردار حضرت عبدالمطلب کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے چنا گیا.لوگوں نے اُن سے کہا کہ آپ جائیے اور کوشش کیجیئے کہ کسی طرح یہ گھر بچ جائے.حضرت عبدالمطلب اور ابرہہ کی ملاقات یہ وہاں پہنچے تو بادشاہ نے ان کو بلایا اور ان سے پہلے اِدھر اُدھر کی باتیں کیں.ملک کی سیاست کے متعلق باتیں کیں ، ملک کی اقتصادی حالت کے متعلق باتیں کیں ، قومیت کے متعلق باتیں کیں.حضرت عبدالمطلب بڑے سمجھدار اور دانا تھے انہوں نے جو جواب دیئے بادشاہ اُن سے بہت متاثر ہوا اور اُس نے کہا یہ تو بڑا سمجھدار آدمی ہے.خوش ہو کے اُس نے کہا کہ میں تو آپ سے مل کر بہت ہی خوش ہو ا ہوں مجھے توقع نہیں تھی کہ مکہ میں ایسے عقلمند بھی موجود ہیں آپ کوئی انعام مجھ سے مانگیں میں دینے کے لئے تیار ہوں.انہوں نے کہا میرے دوسو اونٹ آپ کے سپاہی پکڑ لائے ہیں وہ مجھے واپس کر دیں.بادشاہ کو غصہ چڑھ گیا اور اُس
۶۶۶ نے کہا دوسو اونٹ کی حیثیت کیا ہے میں تمہارا مذہبی مکان گرانے کے لئے آیا ہوں میں مانتا یا نہ مانتا تمہاری عقل سے میں یہ امید کرتا تھا کہ تم کہو گے یہ میرا مذ ہبی مقدس مقام ہے اس کو چھوڑ دو مگر بجائے اس کے کہ تم مکہ کی سفارش کرتے ، خانہ کعبہ کی سفارش کرتے کہ اس کو چھوڑ دو تم نے اپنے دوسو اونٹوں کو یا د رکھا، میرے دل میں سے تو تمہاری ساری عزت جاتی رہی ہے.حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا کہ بادشاہ تم جو چاہو نتیجہ نکال لو.باقی میں تو سمجھتا ہوں اور یہی میں نے آپ کو بتایا ہے کہ دوسو اونٹ میرے ہیں بھلا کیا حیثیت ہے دوسو اونٹ کی مگر مجھے ان کی فکر ہے کہ کسی طرح مجھے مل جائیں اور میں اُن کی حفاظت چاہتا ہوں.تو اگر یہ اللہ کا گھر ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو اس کی اتنی فکر نہیں ہوگی جتنی مجھے دوسو اونٹ کی ہے؟ اس جواب سے وہ ایسا متاثر ہو ا کہ اُس نے اُن کے اونٹوں کی واپسی کا حکم دے دیا مگر بیت اللہ پر حملہ کرنے کا ارادہ اُس نے ترک نہ کیا.خیر وہ واپس آگئے اور انہوں نے ساری قوم کو کہدیا کہ پہاڑ پر چڑھ جاؤ اور مکہ کو خالی کر دو.لوگوں نے کہا.مکہ ہمارا مقدس مقام ہے.کیا اس مقدس مقام کو ہم خالی کر دیں ؟ انہوں نے کہا میاں ! تمہارا مکان نہیں خدا کا مکان ہے.تمہیں اس کا درد ہے تو خدا کو اس کا درد کیوں نہیں ہوگا جس کا یہ گھر ہے وہ آپ اس کی حفاظت کریگا.تم چھوڑو اس کو اور باہر چلواللہ تعالیٰ اس کی آپ حفاظت کریگا.اگر ہماری طاقت ہوتی تو ہم لڑتے لیکن ہم میں طاقت نہیں ہے.اب یہ خدا کی ہی طاقت ہے کہ وہ اس حملہ کو روکے چنانچہ انہوں نے سب کو شہر سے نکالا اور پہاڑ پر چڑھ گئے.۲۳ ابر ہہ کے لشکر کی تباہی مگر وہاں ایک دن انتظار کیا، دو دن انتظار کیا ، تین دن انتظار کیا جو اُس نے نوٹس دیا تھا کہ تین دن کے اندر میں حملہ کرونگا وہ تین دن گزر گئے اور کوئی بھی نہ آیا.پھر چوتھا دن گزرا، پانچواں دن گزرا حیران ہو گئے کہ کیا بات ہے.آیا اُس نے معاف کر دیا ہے یا کوئی اور بات ہوئی ہے آخر آدمی بھیجے گئے وہاں جو گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ میدانوں میں لاشیں ہی لاشیں پڑی ہوئی ہیں اور کوئی لشکر نظر نہیں آتا.پتہ لیا تو طائف والوں نے بتایا کہ اُن میں بے تحاشا چیچک پھیلی.وہ حبشی فوجیں تھیں اور حبشیوں میں چیچک پھیلتی ہے تو بالکل سیلاب کی طرح آتی ہے.خصوصاً اُس زمانہ میں تو بیماریوں کے علاج ہی کوئی نہیں ہوتے تھے.دیکھا کہ تمام میدان لاشوں سے اٹا پڑا ہے.انہوں نے کہا کہ بادشاہ کو بھی چیچک ہوئی اور لوگ اس کو ڈولی میں ڈال کر یمن کی طرف لے
۶۶۷ گئے غرض اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی حفاظت کی اور وہ جائداد پھر محفوظ کی محفوظ رہ گئی.اس مقدس جاگیر کو چھینے کی کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا یہ وہ جائداد ہے جسکے مقابلہ میں دنیا کی کوئی اور جائداد پیش نہیں کی جا سکتی.وہ حکومتیں بدل گئیں جن کے سپر د جائداد کی گئی تھی ، ابراہیم چلا گیا ، اسمعیل چلا گیا ، وہ جن کو یہ جائداد دی گئی تھی ختم ہو گئے نئی حکومتیں اور نئی بادشاہتیں آگئیں.یمن کا عیسائی بادشاہ اس ملک پر قابض ہو کے آ گیا لیکن اس جائداد کے متعلق اُس نے فرمایا کہ خبردار! اگر اس کو چھیڑا تو ہم فوراً سیدھا کر دیں گے اور جب وہ باز نہ آیا تو اُس کو سیدھا کر دیا.چنانچہ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحِبِ الْفِيلِ.اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَ هُمْ فِي تَضْلِيلٍ " پتہ ہے اُن لوگوں کے ساتھ ہم نے کیا کیا ؟ اُن کے بڑے بڑے بُرے ارادے تھے پر میں نے اُن کے ارادوں کو کچل کر رکھ دیا اور اپنی جاگیر کو محفوظ رکھا کیونکہ ہم نے کہا میں خدا اس جاگیر کا دینے والا ہوں کوئی انسان اس کو چھین نہیں سکتا.گزشتہ جنگ عظیم میں اٹلی کا ناپاک ارادہ اور اُس کی ناکامی پھر اس کے بعد اسلام کی حکومت رہی.خانہ کعبہ کی حفاظت کرنے والے لوگ موجود رہے لیکن جب پچھلی جنگ آئی تو پھر ایسی حکومتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے یہ بدارادہ کیا کہ ترکوں کو اُس وقت تک شکست نہیں دی جاسکتی جب تک کہ مکہ کو نہ لیا جائے.چنانچہ اٹلی نے یہ ارادہ ظاہر کیا مگر انگریزوں اور دوسری قوموں نے اُس کو کہا کہ اس کی ہم ہر گز اجازت نہیں دینگے کیونکہ اگر تم نے ایسا کیا تو ساری اسلامی دنیا ہمارے خلاف ہو جائیگی اور یہ جنگ جیتنی ہمارے لئے مشکل ہو جائیگی چنانچہ خدا تعالیٰ نے پھر ایسے سامان کر دیئے کہ مکہ محفوظ کا محفوظ رہا.یہ جاگیر بیت اللہ کی تقدیس اور اُس کی عظمت کا زمانہ قدیم سے اعتراف آنتی براتی ہے کہ یونان کے مؤرخ حضرت مسیح کی پیدائش سے پہلے لکھتے ہیں کہ تاریخ کا جب سے پتہ لگتا ہے یہ مقام عرب میں مقدس چلا آ رہا ہے اور لوگ اس کی زیارت کو جاتے ہیں.تاریخ کہیں نہیں بتاتی کہ یہ کب سے بنا ہے؟ اتنی پرانی جاگیر تو دنیا میں الگ رہی اس کا سواں حصہ بھی
۶۶۸ پرانی جاگیر دنیا میں کوئی نہیں جو محفوظ ہو.ساری کی ساری جائدادیں ضبط کر لی گئیں ، تباہ ہو گئیں مگر یہ جا گیر اُسی طرح کھڑی ہے.پھر اسی دفتر سے ایک اور روحانی جاگیر جو خدا تعالیٰ کے نیک بندوں کو دی گئی ایک جاگیر جاری ہوئی.فرماتا ہے وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّلِحُونَ ۲۵ ہم نے زبور میں اپنا کلام اور اپنی حکمتیں اور اپنی نصائح لکھنے کے بعد یہ لکھا کہ فلسطین کی زمین کے ہمیشہ میرے نیک بندے وارث ہوتے رہیں گے.یہ کتنا شاندار وعدہ تھا اور کس شان سے پورا ہو ا.اس وعدے کی تفصیل یہ ہے.سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُولِى بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِللَ الدِّيَارِ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًاه ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَ أَمْدَدْنَكُمْ بِأَمْوَالٍ وَّ بَنِينَ وَ جَعَلْنَكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا - ٢٦ پھر تھوڑی دیر کے بعد فرماتا ہے فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوءًا ا وُجُوهَكُمْ وَ لِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبّرُوا مَا عَلَوُا تَثْبِيرًا عَسَى ۲۶ رَبِّكُمُ أَنْ يُرْحَمَكُمْ وَإِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَفِرِينَ حَصِيرًاo ٢٦ ارض مقدس کے متعلق بعض شرائط اور قیود کا ذکر فرمایا ہم نے ایک اور بھی جا گیر دی تھی اور اُس کے ساتھ کچھ شرطیں لگائی تھیں اور وہ یہ کہ فلسطین خدا کے نیک بندوں کو ملے گا.چونکہ پہلے یہود کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا، اس لئے ان کو یہ جاگیر ملے گی لیکن یہ شرطیں ہیں کہ : - ا.کچھ عرصہ کے بعد ہم یہ جا گیر تم سے چھین لیں گے.فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُوْلَهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَنَا أُولِى بَأْسٍ شَدِيدٍ ہم اپنے حکم کے ساتھ ایک قوم کو مقرر کریں گے جو بڑی فوجی طاقت رکھتی ہوگی فَجَاسُوا خِللَ الدِّيَارِ وہ فلسطین کے تمام شہروں میں گھس جائیگی اور تمہاری حکومت توڑ دیگی.گویا یہ جاگیر تمہارے پاس سے کچھ دنوں کے لئے ہم چھین لیں گے پس یہ شرطی بات ہے.ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمُ مگر کچھ مدت کے بعد ہم پھر یہ جا گیر تم کو واپس دے دینگے اور تمہاری طاقت اور قوت قائم کر دینگے وَ اَمْدَدْنَكُمْ بِأَمْوَالٍ وَّ بَنِينَ وَ جَعَلْنَكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا اور ہم تم کو
۶۶۹ مال دینگے اور بیٹے دینگے اور تمہیں بہت زیادہ تعداد میں بڑھا دینگے اور طاقتور بنا دینگے اور پھر یہ جائداد تمہارے پاس واپس آ جائے گی.فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوءُ ا وُجُوهَكُمْ وَ لِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَ لِيُتَبّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِیرًا لیکن پھر ایک وقت کے بعد ہم دوبارہ یہ جاگیر تم سے چھین لیں گے.جب وہ دوسرا وعدہ آئے گا یعنی و عدالآخرۃ آئے گا لِيَسُوا وُجُوهَكُمْ تا کہ وہ لوگ جن کو عارضی طور پر ہم یہ جاگیر دینے والے ہیں وہ تمہارے منہ خوب کالے کریں وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ پہلی دفعہ بھی جب ہم نے جا گیر تم سے چھینی تھی تو اُس وقت بھی تمہاری عبادت گاہ کو اور تمہارے خانہ کعبہ کو دشمن نے برباد کیا تھا اس دفعہ بھی یہ دشمن گھسے گا اور تمہارے خانہ کعبہ کو برباد کریگا.وَ لِيَتَبِرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِيرًا اور جس جس علاقہ میں جائے گا اُسے تباہ کرتا چلا جائے گا گویا دوبارہ ہم پھر یہ جا گیر لے لیں گے.عَسَى رَبِّكُمُ اَنْ يَّرُ حَمَكُم مگر پھر ہم یہ فیصلہ کریں گے کہ یہ جاگیر واپس آئے.یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری طرف آئے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم کرے گا یعنی اس بد نامی کو دور کر دیگا ، یہ نہیں کہ پھر وہ یہودیوں کے ہاتھ میں آجائے.وَإِنْ عُذْتُمْ عُدْنَا اور اگر تم اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو پھر ہم یہ جائداد تم سے چھین لینگے اور یہ پھر ایک اور قوم کے پاس جائے گی وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَفِرِينَ حَصِيرًا اور جہنم کو ہم تمہارے لئے قید خانہ بنا دیں گے یعنی پھر تم اس ملک میں واپس نہیں آؤ گے.اب دیکھو اس جگہ اتنے وعدے کئے گئے ہیں.بابلیوں کا فلسطین پر قبضہ اول میرم اوّل یہ جاگیر کچھ عرصہ تمہارے پاس رہے گی مگر اس کے بعد بابلیوں کی معرفت یہ جاگیر چھینی جائے گی.چنانچہ بابلی فوجیں آئیں اور انہوں نے عبادت گاہیں بھی تباہ کیں، شہر بھی تباہ کئے اور ملک پر قبضہ کیا اور قریباً ایک سو سال حکومت کی.اس کے بعد وہ حکومت بدل گئی اور پھر یہودی اپنے ملک پر قابض ہو گئے.پھر مسیح کے بعد رومی لوگوں نے پھر اس ملک پر حملہ کیا اور رومیوں کا فلسطین پر قبضہ اس کو تاہ اور برباد کیا.اسی طرح مسجد کوتباہ کیا اور اس کے اندر سور کی قربانی کی اور اس پر ان کا قبضہ رہا لیکن آخر رومی بادشاہ عیسائی ہو گیا اس لئے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ یہودیوں کو یہ جاگیر واپس کی جائیگی پہلی جگہ تو فرمایا ہے کہ واپس کی جائیگی یعنی وہاں سے واپس ہو کر یہودیوں کو ملے گی مگر دوسری جگہ یہ نہیں فرمایا کہ واپس کی جائیگی بلکہ یہ فرمایا ہے کہ پھر ہم تم پر رحم کریں گے یعنی تمہاری وہ بے عزتی دُور ہو جائے گی.چنانچہ جب رومی بادشاہ
۶۷۰ عیسائی ہو گیا تو پھر وہ موسیٰ" کو بھی ماننے لگ گیا، داؤد کو بھی ماننے لگ گیا ، اسی طرح باقی انبیاء کی جس قدر تھے اُن کو بھی ماننے لگ گیا.تھا وہ عیسی کو ماننے والا.لیکن حضرت عیسی علیہ السلام بھی چونکہ موسوی سلسلہ میں سے تھے ، عیسائی بادشاہت یہودی نبیوں کا بھی ادب کرتی تھی تو رات کا بھی ادب کرتی تھی بلکہ تو رات کو اپنی مقدس کتاب سمجھتی تھی گویا خدا کا رحم ہو گیا گو یہودیوں کے ہاتھ میں حکومت نہیں آئی بلکہ عیسائیوں کے ہاتھ میں چلی گئی.مسلمانوں کے فلسطین پر قبضہ کی پیشگوئی مگر فرماتا ہے کہ اس کے بعد اِنُ عَدْتُم عُدْنَا اگر تم لوگ پھر بگڑے تو ہم تمہارے ہاتھ سے یہ بادشاہت نکال لیں گے.اب تم میں عیسائی بھی شامل ہو گئے کیونکہ وہ بھی یہودیوں کا ایک گروہ تھے اور بتایا کہ اگر تم نے پھر کوئی شرارت کی تو پھر ہم تمہارے ہاتھ سے یہ بادشاہت نکال لیں گے.پھر مسلمان آجائیں گے اور اُن کے قبضہ میں یہ جاگیر چلی جائیگی اور وه عِبَادِيَ الصَّلِحُونَ بنیں گے اور تمہارے لئے پھر جہنم بن جائے گا یعنی تم ہمیشہ گڑھتے ہی رہنا غرض اس جاگیر کے ساتھ یہ شرطیں لگائی گئیں کہ :- (۱).یہ جاگیر چھین کر ایک اور قوم کو دے دی جائینگی (۲).کچھ عرصہ کے بعد پھر یہ جا گیر تم کو واپس مل جائیگی.(۳).کچھ عرصہ کے بعد پھر تم سے چھین لی جائیگی.(۴).پھر یہ جاگیر تمہاری قوم کے پاس واپس آ جائیگی مگر تمہارے اپنے ہاتھ میں نہیں آئے گی.موسوی سلسلہ کے ماننے والوں یعنی عیسائیوں کے ہاتھ میں آجائیگی.(۵).مگر تم پھر شرارت کرو گے تو پھر اُن سے بھی چھین لی جائیگی اور ایک اور قوم کو دے دی جائے گی یعنی مسلمانوں کو.مگر اس جگہ یہ نہیں فرمایا کہ وہ مسجد میں مسلمانوں کی نگاہ میں عبادت گاہوں کا احترام داخل ہو کر اُس کی ہتک کریں گے.دیکھو! پہلے دو مقامات پر فرمایا کہ وہ مسجد میں جا کر اُس کی ہتک کریں گے مگر یہ تیسری دفعہ جو عذاب آنا ہے اور جس میں اُن کے ہاتھ سے یہ جاگیر لی جانی ہے اس کے متعلق یہ نہیں فرماتا کہ وہ مسجد کی ہتک کریں گے اس لئے کہ مسلمانوں کے نزدیک بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کے تمام ماتحت انبیاء مقدس تھے ان کی جگہیں بھی مقدس تھیں اس لئے مسلمان اُن کی مسجدوں میں
۶۷۱ بھی وہ خرابی نہیں کر سکتے تھے جو بابلیوں اور رومیوں نے کی.یہ عجیب لطیفہ اور قوموں کی ناشکری کی یوروپین مؤرخین کی تعصب آلود ذہنیت مثال ہے کہ بابلیوں نے یہودیوں کے ملک کو تباہ کیا اور ان کی مسجد کو ذلیل کیا.یوروپین مصنف کتابیں لکھتے ہیں تو بابلیوں کو کوئی گالی نہیں دیتا، کوئی ان کو بُر انہیں کہتا، کوئی ان پر الزام نہیں لگاتا.رومیوں نے اس ملک کو لیا اور اس مسجد میں خنزیر کی قربانیاں کیں.عیسائی رومی تاریخ پر کتابیں لکھتے ہیں.مثلاً گہن نے ”دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر (The Decline and Fall of the Roman Empire) لکھی ہے مگر جتنی کتابوں کو دیکھ لو وہ کہتے ہیں رومن ایمپائر جیسی اچھی ایمپائر کوئی نہیں حالانکہ انہوں نے اُن کی مسجد کو گندہ کیا مگر وہ قوم جس نے اُن کی مسجد کو گندہ نہیں کیا اُس کو گالیاں دی جاتی ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عمررؓ کے روادارانہ سلوک کا ایک ایمان افروز نمونہ کے زمانہ میں فلسطین فتح ہوا اور جس وقت آپ یروشلم گئے تو یروشلم کے پادریوں نے باہر نکل کر شہر کی کنجیاں آپ کے حوالے کیں اور کہا کہ آپ اب ہمارے بادشاہ ہیں آپ مسجد میں آ کے دو نفل پڑھ لیں تا کہ آپ کو تسلی ہو جائے کہ آپ نے ہماری مقدس جگہ میں جو آپ کی بھی مقدس جگہ ہے نماز پڑھ لی ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہاری مسجد میں داخل ہو کر اس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ میں ان کا خلیفہ ہوں گل کو یہ مسلمان اس مسجد کو چھین لیں گے اور کہیں گے یہ ہماری مقدس جگہ ہے.اس لئے میں باہر ہی نماز پڑھوں گا تاکہ تمہاری مسجد نہ چھینی جائے ۲۸ پس ایک تو وہ تھے جنہوں نے وہاں خنزیر کی قربانی کی اور یورپ کا منہ ان کی تعریفیں کرتے ہوئے خشک ہوتا ہے اور ایک وہ تھا جس نے مسجد میں دو نفل پڑھنے سے بھی انکار کیا کہ کہیں مسلمان کسی وقت یہ مسجد نہ چھین لیں اور اس کو رات دن گالیاں دی جاتی ہیں.کتنی ناشکر گزار اور بے حیا قوم ہے.اب مسلمانوں کے پاس یہودیوں کی بجائے مسلمانوں کو فلسطین کیوں دیا گیا؟ فلسطین آجانے کے بعد سوال ہوسکتا ہے کہ وہ یہودیوں کے پاس تو نہ رہا، موسوی سلسلہ کے پاس بھی نہ رہا، یہ کیا معمہ ہے؟ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ اعتراض اصل میں نہیں پڑتا اس لئے کہ بعض دفعہ جھگڑا ہوتا ہے وارث آ جاتے ہیں تو بچے وارث کہتے ہیں ہم ان کے وارث ہیں.یہی صورت اس جگہ واقع ہوئی کی
۶۷۲ ہے.اصل بات یہ ہے کہ خدا جا گیر دینے والا تھا.خدا تعالیٰ کے سامنے مقدمہ پیش ہوا کہ موسیٰ اور داؤد کے وارث یہ مسلمان ہیں یا موسیٰ اور داؤد کے وارث یہودی اور عیسائی ہیں؟ تو کورٹ نے ڈگری دی کہ اب موسیٰ اور داؤد کے وارث مسلمان ہیں چنانچہ ڈگری سے ان کو ورثہ مل گیا.جا گیر قائم ہے مگر جو اس کے وارث قرار دیئے گئے تھے ان کو مل گئی.پھر آگے چل کر فرماتا ہے فَإِذَا جَاءَ یہود کی فلسطین میں دوبارہ واپسی کی پیشگوئی وَعْدُ الآخِرَةِ جِتْنَا بِكُمْ لَفِيفًا ه پھر اس کے بعد ایک اور وقت آئیگا کہ یہودیوں کو دنیا سے اکٹھا کر کے فلسطین میں لا کر بسا دیا جائیگا ، وہ اب وقت آیا ہے جبکہ یہودی اس جگہ پر آئے ہوئے ہیں.لوگ ڈرتے ہیں اور مسلمان بھی اعتراض کرتے ہیں، چنانچہ کراچی اور لاہور میں مختلف جگہوں پر مجھ پر مسلمانوں نے اعتراض کیا کہ یہ تو وعدہ تھا کہ یہ سرزمین مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے گی.میں نے کہا کہاں وعدہ تھا ؟ قرآن میں تو لکھا ہے کہ پھر یہودی بسائے جائیں گے.کہنے لگے اچھا جی! یہ تو ہم نے کبھی نہیں سنا.میں نے کہا تمہیں قرآن پڑھانے والا کوئی ہے ہی نہیں تم نے سنا کہاں سے ہے.میری تفسیر پڑھو اُس میں لکھا ہوا موجود ہے.تو یہ جو وعدہ تھا کہ پھر یہودی آجائیں گے قرآن میں لکھا ہوا موجود ہے.سورۃ بنی اسرائیل میں یہ موجود ہے کہ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا.جب آخری زمانہ کا وعدہ آئیگا تو پھر ہم تم کو اکٹھا کر کے اس جگہ پر لے آئیں گے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہود کے آنے کی وجہ سے اسلام منسوخ ہو بہائیوں کا لغو اعتراض گیا.گویا اُن کے نزدیک اسلام کے منسوخ ہونے کی یہ علامت ہے کیونکہ عِبَادِيَ الصَّلِحُونَ نے اس پر قبضہ کرنا تھا.جب مسلمان وہاں سے نکال دیئے گئے تو معلوم ہو ا کہ مسلمان عِبَادِيَ الصَّلِحُونَ نہیں رہے.یہ اعتراض زیادہ تر بہائی قوم کرتی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہی پیشگوئی تو رات میں موجود ہے، یہی پیشگوئی قرآن میں موجود ہے اور اسی پیشگوئی کے ہوتے ہوئے اس جاگیر کو بابلیوں نے سو سال رکھا تو اس وقت یہودی مذہب بہائیوں کے نزدیک منسوخ نہیں ہوا.ٹائیٹس کے زمانہ سے لیکرسو دوسو سال تک بلکہ تین سو سال تک فلسطین روم کے مشرکوں کے ماتحت رہا.وہ عیسائیوں کے قبضہ میں نہیں تھا ، یہودیوں کے قبضہ میں نہیں تھا، مسجد میں سور کی قربانی کی جاتی تھی تب بھی وہ پیشگوئی غلط نہیں ہوئی لیکن یہودیوں کے آنے پر پانچ سال کے اندر اسلام منسوخ ہو گیا کیسی پاگل پن والی اور دشمنی کی بات ہے.
۶۷۳ اگر واقع میں کسی یہودیت اور عیسائیت کو بہائی کیوں منسوخ قرار نہیں دیتے ؟ غیر قوم کے اندر آجانے سے کوئی پیشگوئی غلط ہو جاتی ہے اور عارضی قبضہ بھی مستقل قبضہ کہلاتا ہے تو تم نے سو سال پیچھے ایک دفعہ قبضہ دیکھا ہے.تین سو سال دوسری دفعہ کا فروں کا قبضہ دیکھا ہے ، اُس وقت کی یہودیت کو تم منسوخ نہیں کہتے اُس وقت کی عیسائیت کو تم منسوخ نہیں کہتے لیکن اسلام کے ساتھ تمہاری عداوت اتنی ہے کہ پانچ سال کے بعد ہی تم اس کو اسلام کی منسوخی کی علامت قرار دیتے ہو.جب اتنا قبضہ ہو جائے جتنا کہ عیسائیت کے زمانہ میں یہ اُن کے ہاتھ سے نکلی رہی تھی اور فلسطین غیر عیسائیوں کے قبضہ میں رہا تھا یا غیر یہودیوں کے قبضہ میں رہا تھا تب تو کسی کا حق بھی ہوسکتا ہے کہ کہے لوجی! اسلام کے ہاتھ سے یہ جا گیر نکل گئی لیکن جب تک اتنا قبضہ چھوڑ اس کا سواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہوا، ساٹھواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہوا، پچاسواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہوا تو اس پر یہ اعتراض کرنا محض عداوت نہیں تو اور کیا ظاہر کرتا ہے.بہائیوں کی اپنی لا مرکزیت پھر عجیب بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے بہائی ہیں جن کا اپنا وہی حال ہے جیسے ہمارے ہاں مثل مشہور ہے کہ نہ آگا نہ پیچھا.وہ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ مکہ اس کے پاس ہے مدینہ اس کے پاس ہے.ہم ان سے کہتے ہیں ، چھاج بولے تو بولے چھلنی کیا بولے جس میں سو سوراخ “.تمہارا کیا حق ہے کہ تم اسلام پر اعتراض کرو.تمہارے پاس تو ایک چپہ زمین بھی نہیں جس کو تم اپنا مرکز قرار دے سکو اسلام کا تو مکہ بھی موجود ہے اور مدینہ بھی موجود ہے.وہ تو ایک زائد جا گیر تھی ، وہ جاگیر اگر عارضی طور پر چلی گئی تو پھر کیا ہوا.اس کے مقابلہ میں ۱۸۷۰ء سے بہائیت کا آغاز ہوا اور اب ۱۹۵۴ء ہو گیا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ اُن کے مذہب کو قائم ہوئے چوراسی سال ہو گئے اور چوراسی سال میں ایک گاؤں بھی تو انہوں نے مقدس نہیں بنایا.وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں حکومت حاصل نہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس بھی تو حکومت نہیں ، ہم نے تو چند سال میں بوہ بنالیا.پہلے قادیان بنا ہو ا تھا اب ربوہ بنا ہوا ہے.یہاں ہم آتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں اکٹھے رہتے ہیں، یہ بھی تو بتا ئیں کہ دنیا میں ان کا کوئی مرکز ہے.یا دنیا میں کسی جگہ پر وہ اکٹھے ہوتے ہیں؟ لیکن اسلام پر صرف پانچ سال کے قبضہ کی وجہ سے اُن کے بغض نکلتے ہیں اور کہتے ہیں اسلام ختم ہو گیا اور اپنی یہ حالت ہے کہ ملکہ کو مرکز قرار دیا ہوا ہے اور کہتے ہیں کہ حدیثوں
۶۷۴ میں بھی پیشگوئیاں تھیں کہ عکہ اُن کے پاس ہوگا اور تورات میں بھی پیشگوئیاں تھیں مگر اب عکہ میں بہائیوں کا نام ونشان بھی نہیں ہے ، پھر اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں.اور کئی بیوقوف ہیں جو ان کے اعتراضوں سے مرعوب ہو جاتے ہیں مگر اس کا موقع کسی دوسرے لیکچر میں آئیگا ، آج میں اس کو بیان نہیں کر سکتا.غرض بابلیوں فلسطین پر یہود کا عارضی قبضہ اسلام کی صداقت کا ثبوت ہے کے آنے اور رومیوں کے عارضی طور پر وہاں آ جانے سے جس کا عرصہ ایک دفعہ ایک سو سال اور دوسری دفعہ قریباً تین سو سال کا تھا اگر اس کو موسیٰ اور داؤد کے پیغام کے منسوخ ہونے کی علامت قرار نہیں دیا گیا تو اس وقت یہود کا عارضی طور پر قبضہ جس پر صرف پانچ سال گزرے ہیں اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ یہ تو اس کے صادق ہونے کی علامت ہے.کیونکہ جب اس نے خود یہ پیشگوئی کی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ مسلمانوں کو نکالا جائے گا اور یہودی واپس آئیں گے تو یہودیوں کا واپس آنا اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت نہیں اسلام کے سچا ہونے کی علامت ہے.کیونکہ جو کچھ قرآن نے کہا تھا وہ پورا ہو گیا.باقی رہا یہ کہ پھر عِبَادِيَ الصَّلِحُونَ کے ہاتھ میں کس طرح رہا؟ یہود فلسطین سے نکالے جائیں گے سواس کا جواب یہ ہے کہ عارضی طور پر قبضہ پہلے بھی دو دفعہ نکل چکا ہے اور عارضی طور پر اب بھی نکلا ہے.اور جب ہم کہتے ہیں عارضی طور پر تو لازماً اسکے معنے یہ ہیں کہ پھر مسلمان فلسطین میں جائیں گے اور بادشاہ ہونگے.لازماً اس کے یہ معنے ہیں کہ پھر یہودی وہاں سے نکالے جائیں گے اور لازماً اس کے یہ معنے ہیں کہ یہ سارا نظام جس کو یو.این.او کی مدد سے اور امریکہ کی مدد سے قائم کیا جا رہا ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دے گا کہ وہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجادیں اور پھر اس جگہ پر لا کر مسلمانوں کو بسائیں.احادیث میں یہود کی تباہی کی پیشگوئی دیکھو حدیثوں میں بھی یہ پیشگوئی آتی ہے، حدیثوں میں یہ ذکر ہے کہ فلسطین کے علاقہ میں اسلامی لشکر آئیگا اور یہودی اس سے بھاگ کر پتھروں کے پیچھے چھپ جائیں گے.اور جب ایک مسلمان سپاہی پتھر کے پاس سے گزرے گا تو وہ پتھر کہے گا اے مسلمان خدا کے سپاہی!
۶۷۵ میرے پیچھے ایک یہودی کا فر چھپا ہوا ہے اس کو مار کے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تھی اُس وقت کسی یہودی کا فلسطین میں نام ونشان بھی نہیں تھا.پس اس حدیث سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ میں یہودی اس ملک پر قابض ہو نگے مگر پھر خدا مسلمانوں کو غلبہ دیگا اور اسلامی لشکر اس ملک میں داخل ہونگے اور یہودیوں کو چن چن کر چٹانوں کے پیچھے ماریں گے.فلسطین مستقل طور پر خدا تعالیٰ کے پی عارضی میں اس لئے کہتا ہوں کہ آئی الأرض پس يَرثُهَا عِبَادِيَ الصَّلِحُونَ کا حکم موجود ہے.مستقل طور پر تو فلسطین عِبَادِيَ الصَّلِحُونَ کے ہاتھ صالح بندوں کے ہاتھ میں رہے گا میں رہنی ہے.سو خدا تعالیٰ کے عِبَادِيَ الصَّلِحُونَ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ لازماً اس ملک میں جائیں گے نہ امریکہ کے ایٹم بم کچھ کر سکتے ہیں ، نہ ایچ ہم کچھ کر سکتے ہیں، نہ روس کی مدد کچھ کر سکتی ہے.یہ خدا کی تقدیر ہے یہ تو ہو کر رہنی ہے چاہے دنیا کتنا زور لگا لے.اس جگہ پر ایک اعتراض کیا وَعْدُ الآخِرَةِ کے متعلق ایک اعتراض کا جواب جا سکتا ہے اور وہ اعتراض یہ ہے کہ یہاں وَعْدُ الْآخِرَةِ فرمایا ہے اور تم یہ کہتے ہو کہ وَعْدُ الْآخِرَة سے مراد آخری زمانہ ہے مگر سورۃ بنی اسرائیل کی وہ پہلی آیتیں جو تم نے پڑھی تھیں وہاں بھی تو ایک وَعُدُ الآخِرَةِ کا ذکر ہے جس میں رومیوں کے حملہ کا ذکر ہے تو کیوں نہ یہ سمجھا جائے کہ یہ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا رومیوں کے حملہ کے متعلق ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وہ وَعُدُ الآخِرَةِ نہیں ہو سکتا اس لئے کہ اس صورت میں وَعْدُ الْآخِرَةِ کو عذاب کا قائم مقام قرار دیا ہے اور اس صورت میں وَعْدُ الْآخِرَةِ کو انعام کا قائم مقام قرار دیا ہے یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ عذاب کی پیشگوئی کو انعام سمجھ لیا جائے.اُس جگہ تو فرمایا ہے کہ جب آخرت کا وہ وعدہ آئیگا تو تم کو تباہ کر دیا جائے گا اور اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو پھر تم کو اس ملک میں لا کر بسا دیا جائے گا.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ وَعُدُ الآخِرَةِ اور ہے اور وہ وَعُدُ الآخِرَةِ اور ہے.وہاں وَعْدُ الآخِرَةِ سے مراد ہے موسوی سلسلہ کی پیشگوئی کی آخری کڑی اور یہاں وَعُدُ الآخِرَةِ سے مراد ہے آخری زمانہ یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی پیشگوئی.پس یہ الفاظ گو
ملتے ہیں لیکن دونوں کی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ یہ اور وعدہ ہے اور وہ اور وعدہ ہے.وہ وعدہ عذاب کا ہے اور یہ وعدہ انعام کا ہے اور انعام کا قائم مقام عذاب کا وعدہ نہیں ہو سکتا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ تمہاری موت آئیگی اور دوسری دفعہ کہے ” تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہوگا تو اب کوئی شخص یہ کہے کہ تمہاری موت آئیگی کے یہی معنے ہیں کہ بیٹا پیدا ہو گا تو یہ حماقت کی بات ہوگی کیونکہ اس میں انعام کا وعدہ کیا ہے اور وہاں عذاب کا وعدہ ہے.الانفطار : ۱۱ تا ۱۳ کنسوئیاں چھپ کر کسی کی باتیں سننا.اردو لغت تاریخی اصول پر جلد ۵ صفحه ۲۵۵ مطبوعہ کراچی جون ۱۹۹۳ء الانعام: ۲۴،۲۳ حم السجدة : ٢١ کچا چٹھا بھی صحیح حال.فیروز اللغات اردوصفحہ ۹۹۵ مطبوعہ فیروز سنز لا ہور ۲۰۱۰ء النور : ۲۵ ك بخاری کتاب الرقاق باب مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ اَوْ بِسَيِّئَةٍ حدیث نمبر ۶۴۹۱ صفحه ۴ ۱۱۲۵ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء الاعلى : ٨ و هود : ۶ المجادلة : الكهف : ۵۰ الحاقة : ۲۶ تا ۲۸ ۱۳ الحاقة : ۲۱،۲۰ حم السجدة :۲۲ ۱۵ التغابن :۱۰ المفردات فی غریب القرآن امام راغب اصفہانی صفحه ۴ ۴۵ مطبوعہ بیروت ۲۰۰۲ء كل الفرقان :اے مسلم کتاب الایمان باب ادنى اهل الجنة منزلةً فِيها حديث نمبر ۴۶۷ صفحه ۹۹ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية ابريل ۲۰۰۰ء ۱۹ ۲۰ تذکرۃ الاولیاء صفحه ۳۴۳ تا ۳۴۵- از فرید الدین عطار.مطبوعہ ۱۹۹۰ء لاہور ال حم السجدة : ٩ ۲۲ ال عمران : ۹۸،۹۷ ۲۳ سیرت ابن هشام جلد اصفحه ۸۱ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ء ٢٤ الفيل :٣٢ بنی اسراءیل : ۹۰۸ ۲۵ الانبياء : ١٠٦ بنی اسراءیل : ۷،۶ ۲۸ تاریخ ابن خلدون الجزء الثاني صفحه ۲۲۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۹ء ۲۹ بنی اسراءیل : ۱۰۵ ۳۰ مسلم کتاب الفتن باب لا تقوم السَّاعَةُ حَتَّى يمر الرجل بِقَبُرِ الرَّجل (الخ) حدیث نمبر ۷۳۳۹ صفحه ۱۲۶۴ مطبوعہ الریاض الطبعة الثانية اپریل ۲۰۰۰ء
۶۷۷ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ (۹) تقریر فرموده مورخه ۲۸ دسمبر ۱۹۵۵ء بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ ) عالم روحانی کی نہریں تشہد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- آج میں دوستوں کے سامنے اُسی مضمون کی ایک کڑی بیان کرنا چاہتا ہوں جو ۱۹۳۸ء سے جاری ہے اور جس کا تعلق میرے حیدر آباد اور دہلی کے سفر کے ساتھ ہے.میں بتا چکا ہوں کہ اس سفر میں میں نے سولہ چیزیں دیکھی تھیں جن کا میری طبیعت پر گہرا اثر ہوا.آج میں انہی میں سے ایک اور چیز کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.میں نے اس سفر میں جو نظارے دیکھے اور جن عجائبات نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا اُن میں بڑے بڑے بادشاہوں کے تیار کردہ قلعوں اور مسجدوں اور میناروں وغیرہ کے علا وہ کچھ نہریں بھی تھیں جو ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں پانی پہنچاتی تھیں اور جو پیاسی فصلوں اور درختوں کے لئے ایک نئی زندگی کا موجب ہوتی تھیں.بیاسی دنیا کی سیرابی کا انتظام میں نے ان نہروں کو دیکھا اور غور کیا کہ کیا ان دُنیوی نہروں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے عالم روحانی میں بھی پیاسی دنیا کی سیرابی کے لئے کوئی نہریں بنائی ہیں یا نہیں اور اگر بنائی ہیں تو وہ دنیا کو کس طرح سیراب کر رہی ہیں.دنیوی نہروں کے فوائد اس نقطہ نگاہ کے مطابق جب میں نے سوچا تو میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ نہروں کا کیا کام ہوتا ہے؟ اور پھر میرے دل نے خود ہی اس سوال کا یہ جواب دیا کہ نہروں کا کام لوگوں کے لئے پانی مہیا کرنا ہوتا ہے جس
۶۷۸ سے کھیتوں کو بھی پانی ملتا ہے پینے کے لئے بھی پانی مہیا ہوتا ہے اور پھر پانی کا ذخیرہ بھی جمع رہتا ہے اور یہی فوائد روحانی دنیا میں دینی علوم اور معارف سے حاصل ہو تے ہیں اسی وجہ سے قرآن کریم میں دینی علوم اور معارف کا نام بھی نہریں رکھا گیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں فرماتا ہے ثُمَّ قَسَتْ قُلُو بُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهرُ یعنی مخالفین اسلام کے دل پتھر بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے ہیں کیونکہ پتھروں میں سے تو بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اُن کے نیچے سے پانی بھی نکل آتا ہے لیکن ان کے دلوں میں سے کوئی ایمان کا قطرہ نہیں نکلتا.اس آیت کے یہ معنے نہیں کہ پانی ان پتھروں میں سے نکلتا ہے بلکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اُن کے پیچھے پانی ہوتا ہے جو اُن پتھروں کو پھاڑ دیتا ہے اور پھر اُن میں سے نہر بہنے لگ جاتی ہے مگر یہ کفارا ایسے سخت دل ہیں کہ ان کے دلوں کے پیچھے جو روحانی پانی ہے وہ اُن میں سے بہنے کا کوئی راستہ نہیں پاتا.جسمانی اور روحانی علوم بھی نہروں سے مشابہت رکھتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دلوں کے پیچھے بھی پانی ہوتا ہے اور سخت دل انسان بھی بعض دفعہ اُس کا مقابلہ نہ کر کے اُس کے آگے جھک جاتے ہیں اور اُن میں سے پانی نکلنے لگ جاتا ہے.پس پانی کے معنے گویا روحانی اور جسمانی علوم کے ہیں.ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ اسی حقیقت کا اِن الفاظ میں ذکر فرماتا ہے کہ إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيوةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ اَنْزَلْنَهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالانْعَامُ، حَتَّى إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَ ظَنَّ اَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَدِرُونَ عَلَيْهَا أَتْهَا أَمُرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَهَا حَصِيدًا كَاَنْ لَّمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ یعنی دنیا کی زندگی کی مثال ایک پانی کی طرح ہے کہ ہم آسمان سے اُتارتے ہیں پھر اُس سے زمین کا سبزہ مل جاتا ہے جس کو لوگ بھی کھاتے ہیں اور جانور بھی کھاتے ہیں اور زمین بڑی سرسبز ہو جاتی ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اب وہ اُس کھیتی پر قبضہ کر لیں گے مگر اچانک دن کو یا رات کو خدا تعالیٰ کا کوئی عذاب نازل ہو جاتا ہے اور وہ اِس طرح تباہ ہو جاتی ہے کہ ط
۶۷۹ گویا گل یہاں کچھ تھا ہی نہیں اور جو لوگ غور و فکر سے کام لیتے ہیں اُن کے لئے ہم اسی طرح اپنی آیات کھول کر بیان کرتے ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ دینی یا دنیوی علوم تو پانی کی طرح صاف ہوتے ہیں لیکن لوگوں کے وہ بد خیالات جو زمین کی نباتات کی طرح ہوتے ہیں اور جو ان کے دماغوں میں اُٹھتے رہتے ہیں جو دین یا دنیا کو تباہ کر دیتے ہیں اور وہ علوم بجائے فائدہ بخش ہونے کے لوگوں کے لئے حسرت کا موجب ہو جاتے ہیں.اِسی طرح فرماتا ہے هُوَ الَّذِى خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَّ كَانَ عَرُ شُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً.وہ خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ اوقات میں پیدا کیا ہے اور خدا تعالیٰ کا عرش یعنی اُس کی حکومت اس سے پہلے پانی پر تھی.اگر اس آیت کے دُنیوی معنے لوتو اس کے معنے وہی ہیں جو وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيّ " میں بیان کئے گئے ہیں.یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت خالقیت پانی کے ذریعہ سے ظاہر کی ہے اور اگر دینی معنے لوتو ماء کے معنے وحی الہی کے ہیں اور اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان پر حکومت اپنی وحی کے ذریعہ سے ظاہر کی ہے لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً تا کہ وہ تمہاری آزمائش کرے اور یہ ظاہر کر دے کہ تم میں سے کون زیادہ اچھے کام کرتا ہے.پس پانی سے مراد علوم ہوتے ہیں دینی اور دنیوی بھی.رسول کریم صلی اللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زبردست بارش سے مشابہت علیہ وسلم بھی اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ مَثَلُ مَا بَعَثَنِيَ اللهُ بهِ مِنَ الْهُدَى وَالْعِلْمِ كَمَثَلِ الْغَيْثِ الْكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضاً فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةً قَبِلَتِ الْمَاءَ فَا نُبَتَتِ الْكَلَا وَالْعُشْبَ الْكَثِيرِ وَ كَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبَ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ فَنَفَعَ اللهُ بِهَا النَّاسَ فَشَرِ بُوا وَسَقَوا.یعنی اللہ تعالیٰ نے جو مجھے ہدایت اور علم دیکر بھیجا ہے اُس کی مثال ایک بادل کی طرح ہے جس سے بڑی بارش ہوتی ہے مگر جب وہ کسی زمین پر پڑتی ہے تو کچھ تو اچھی زمین ہوتی ہے وہ پانی کو قبول کر لیتی ہے اور بڑا سبزہ نکالتی ہے اور کچھ ایسی زمینیں ہوتی ہیں کہ وہ پانی تو لے لیتی ہیں لیکن ان کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ اس پانی کو جمع رکھتی ہیں.چنانچہ لوگ اس ذخیرہ سے پانی پیتے اور آگے کھیتوں کو بھی پانی دیتے ہیں.
۶۸۰ انجیل میں روحانی خوراک اور روحانی پانی کے محاورہ کا استعمال پھر یہ محاورہ صرف قرآن کریم میں ہی نہیں بلکہ انجیل میں بھی بیان ہوا ہے.انجیل میں لکھا ہے کہ : 66 دوسھوں نے ایک ہی روحانی خوراک کھائی اور سکھوں نے ایک ہی روحانی پانی پیا کیونکہ انہوں نے اُس روحانی چٹان میں سے جو اُن کے ساتھ چلی پانی پیا اور وہ چٹان مسیح تھی.1 ان آیات قرآنیہ اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور انجیل کے حوالہ سے بات ثابت ہے کہ روحانی کتابوں میں پانی سے مراد علم روحانی ہوتا ہے اور اس کی مشابہت میں کبھی دنیوی علوم بھی مراد ہوتے ہیں.مگر دیکھو کہ قرآن کریم کے علم اور مسیح کے حواریوں کے علم میں کتنا عظیم الشان فرق ہے.قرآن تو کہتا ہے کہ چٹان کے پیچھے پانی ہوتا ہے جو چٹان کو پھاڑ کر نکل آتا ہے اور مسیح کے حواری کہتے ہیں کہ : - دد سبھوں نے ایک ہی روحانی پانی پیا کیونکہ انہوں نے اُس روحانی چٹان میں سے جو اُن کے ساتھ چلی پانی پیا.“ یہ ایک خیالی مثال ہے جس کی کوئی تصدیق نہیں ملتی لیکن چٹانوں کے پیچھے سے پانی کے چشمے نکلنے کی تو ہر پہاڑ پر مثالیں موجود ہیں پس یہ ایک کچی اور طبعی مثال ہے مگر انجیل کی مثال نہایت مضحکہ خیز ہے.انجیل کہتی ہے کہ انہوں نے اُس روحانی چٹان میں سے جو ان کے ساتھ چلی پانی پیا.“ اب بتاؤ وہ کونسی چٹان ہے جو ساتھ ساتھ چلتی ہے اور لوگ اُس سے پانی پیتے ہیں کوئی بھی نہیں لیکن جن چٹانوں کا قرآن کریم ذکر کرتا ہے ایسی ہزاروں چٹانیں موجود ہیں اور ہر شخص جانتا ہے کہ وہ چٹا نہیں پھٹتی ہیں تو اُن کے پیچھے سے پانی نکل پڑتا ہے." پھر مسیحیوں نے بڑا زور مارا تو کہا کہ وہ چٹان مسیح تھی.“ جو اُن کے ساتھ ساتھ چلی اور جس کے پیچھے سے انہوں نے پانی پیا.مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ ہر مؤمن خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ایک چٹان ہوتا ہے جس کے پیچھے پانی ہوتا ہے اور جس سے لوگ فائدہ حاصل کرتے ہیں.گویا قرآن کریم اس پانی کو ہر انسان کے دل تک پہنچاتا ہے اور انجیل والے اس کو صرف مسیح پر پہنچ کر ختم کر دیتے ہیں.
۶۸۱ قرآن کریم کے ذریعہ ہزارہا علمی نہروں کا اجراء عمر جیسا کہ میں نے بتایا پہ نہریں کبھی خالص روحانی ہوتی ہیں اور کبھی دُنیوی علوم پر مشتمل ہوتی ہیں.چنانچہ جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ علاوہ دینی علوم بخشنے کے قرآن کریم نے سابق علوم کو بھی زندہ رکھنے کا سامان کیا ہے اور وہ علمی نہریں چلا دی ہیں جو پہلے کسی زمانہ میں چلتی تھیں یا کبھی بھی نہیں چلتی تھیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے وہ کچھ سکھایا ہے جو پہلوں کو نہیں ملا تھا.پس قرآن کریم کے ذریعہ جو عظیم الشان نہریں جاری ہوئی ہیں اُن کی مثال سابق مذاہب میں بھی نہیں دکھائی دیتی.علم کائنات کی شہر چنا نچہ پہلی دنیوی نہر جو اس نے چلائی وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے قانونِ قدرت کی طرف توجہ دلائی اور اس سے ایک علم کی نہر بہہ نکلی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَا فِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لايتِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ.یعنی آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عقلمندوں کے لئے بہت بڑے نشان ہیں.یعنی اگر وہ پیدائش سماوی اور ارضی پر غور کریں تو انہیں اس کو سے ایک بہت بڑا علم میسر آ سکتا ہے.وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ اسی طرح رات دن کے با قاعدہ آگے پیچھے آنے میں بھی انہیں کئی نشان ملیں گے کیونکہ اگر کوئی قانون نہیں تو کیا وجہ ہے کہ روزانہ سورج ایک وقت میں چڑھتا ہے اور ایک وقت میں ڈوبتا ہے اور ہر موسم کے مطابق اُسکے طلوع و غروب کا وقت بدلتا چلا جاتا ہے یہ چیز بتاتی ہے کہ کوئی قانونِ قدرت موجود ہے جس کے ماتحت یہ سلسلہ جاری ہے.پھر فرماتا ہے وَ سَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَا وَ وَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنَّجُومُ و مُسَخَّرَاتٌ يَا مُرِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَا يَتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ.یعنی اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کو تمہارے فائدے کے لئے لگایا ہوا ہے اور سورج اور چاند کو بھی اُس نے تمہاری خدمت پر مقرر کیا ہوا ہے.اگر تم ان امور پر غور کرو تو تم اس سے بڑا علم حاصل کر سکتے ہو.غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ دُنیوی علوم بھی پھیلائے ہیں.یعنی
۶۸۲ بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ فلاں فلاں علم ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.مثلاً پہلے تو اُس نے قانونِ قدرت کی طرف توجہ دلائی.اس ایک علم کی طرف توجہ دلانے سے ہی اُس نے تمام جادؤوں اور ٹونے ٹوٹکوں کو باطل کر کے رکھ دیا کیونکہ اگر ان فِي خَلْقِ السَّمواتِ وَ الْاَرْضِ والی آیت ٹھیک ہے تو جتنے جادو ٹونے اور ٹوٹکے ہیں تو یہ سب باطل ہو جاتے ہیں.کیونکہ جادو اور ٹونے ٹوٹکے کے معنے یہ ہیں کہ قانون کوئی نہیں چھومنتر کیا اور بات ہوگئی حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک قانون ہے تم اس کی تلاش کرو اور اس سے فائدہ اُٹھاؤ.جغرافیہ کی نہر اسی طرح قرآن کریم نے جن علوم کی طرف توجہ دلائی ہے.اُن میں سے ایک علم جغرافیہ بھی ہے.اللہ تعالیٰ قوم لوط کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.اِنَّ فِی ذَلِكَ لَآيَتٍ لِلْمُتَوَ سَمِيْنَ وَ إِنَّهَا لَبِسَبِيلٍ مُّقِيمٍ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ کہ ان بستیوں میں سمجھداروں اور عظمندوں کیلئے بڑے نشانات ہیں.پھر فرماتا ہے کہ یہ بستیاں جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں عرب میں سے گزرنے والے ایک ایسے راستہ پر ہیں جو ہمیشہ جاری رہتا ہے.چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اگر انطاکیہ کی طرف قافلے جائیں تو قوم لوط کی بستیاں اُن کے راستہ پر آتی ہیں اور پھر وہ راستہ ایسا ہے جو ہمیشہ آباد رہتا ہے.بعض رستے ایسے ہوتے ہیں جو کچھ وقتوں میں متروک ہو جاتے ہیں لیکن وہ ایک ایسا راستہ ہے جو ہمیشہ آباد رہتا ہے.گویا اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جغرافیہ کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ تمام شہروں اور وادیوں پر نشان لگاؤ اور پتہ لگاؤ کہ وہ کہاں کہاں واقع ہیں.اسی طرح فرماتا ہے وَ عَادًا وَّ ثَمُودَاً وَقَدْ تَّبَيَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسْكِيهِمْ - ا یعنی عاد اور ثمود میں بھی بڑے بھاری نشانات ہیں.انہوں نے جو شہر بسائے تھے ان کا تمہیں علم ہے لیکن ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَرُ يَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَاءَ فَتِلْكَ مَسْكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنُ مِنْ بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِيلاً وَكُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِينَ " یعنی کتنی ہی بستیاں ہیں جو اپنی معیشت پر اترا رہی تھیں مگر ہم نے انکو ہلاک کر دیا سو یہ اُن کے ویران مکانات پڑے ہیں جو اُن کے بعد آباد ہی نہیں ہوئے اور اُن کے بعد ہم ہی اُن کے وارث ہوئے.
۶۸۳ گویا دونوں قسم کے نشانات موجود ہیں.کچھ بستیاں اور قلعے ایسے ہیں جو شہری آبادیوں کے درمیان ہیں تم ان کو تلاش کرو لیکن کچھ ایسی بھی بستیاں نکلیں گی جو بالکل ویران جگہوں پر ہیں.عاد اور ثمود کے متعلق قرآنی معلومات کا ایک عیسائی محقق کو اعتراف یہ عجیب بات ہے کہ عاد اور ثمود کے متعلق قرآن کریم میں جو ذکر آتا ہے اُس کے متعلق بعض متعصب عیسائی تک تسلیم کرتے ہیں کہ اس سے زیادہ ہمیں اُنکی کوئی حقیقت معلوم نہیں.چنانچہ جرجی زیدان جیسے سخت متعصب عیسائی نے جغرافیہ عرب پر ایک کتاب لکھی ہے اُس میں وہ لکھتا ہے کہ عاد اور ثمود کے متعلق یونانیوں نے بھی کتابیں لکھی ہیں اور رومیوں نے بھی ان کا بعض جگہ پر ذکر کیا ہے اسی طرح جغرافیہ کے دوسرے ماہرین کا کچھ لڑ پچر بھی موجود ہے مگر سارے لٹریچر پڑھنے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عاد اور ثمود کے متعلق جو کچھ قرآن کریم میں لکھا ہے اُس سے ایک لفظ بھی زیادہ ہمیں معلوم نہیں باقی جو کچھ لکھا گیا ہے سب جھوٹ ہے.عاد اور ثمود کی صحیح تاریخ صرف قرآن کریم سے ملتی ہے.ان آیات میں صراحتاً جغرافیہ کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ عاد کی بستیاں بعض ایسی جگہوں پر پائی جاتی ہیں جو ویران ہو چکی ہیں اور بعض ایسی جگہوں پر پائی جاتی ہیں جہاں ابھی ویرانی نہیں آئی.علیم جہاز رانی کی نہر پھر عالم جہاز رانی کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے.سَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِى فِي الْبَحْرِ بِا مُرِهِ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهرَ.یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کشتیاں مسخر کی ہیں تاکہ وہ خدا کے حکم سے سمندروں میں چلیں اسی طرح اُس نے نہریں مسخر کی ہیں یعنی یہ بھی ایک علم ہے جو تمہارے لئے فائدہ بخش ہے.تم نہروں کے متعلق دیکھو کہ وہ کس طرح چکر کھاتے ہوئے گزرتی ہیں اور پھر کوئی نہر کسی ایسے سمندر میں جا کر گرتی ہے جہاں سے منزل مقصود بہت دُور ہو جاتی ہے اور کوئی ایسی جگہ سے گزرتی ہے جو منزل کے قریب ہوتی ہے.مثلاً یورپ میں بعض نہریں ایسی ہیں جو بحیرہ روم میں آکر گر جاتی ہیں اور بعض بحر شمالی میں جاگرتی ہیں.اگر کوئی بے وقوفی کرے تو اُس نے جہاں جانا ہے اُس سے ہزاروں میل پرے چلا جائیگا.پس فرماتا ہے اُس کی رفتار اور رخ وغیرہ کو یاد رکھنا
۶۸۴ چاہئے اور دیکھتے رہنا چاہئے کہ نہر جاتی کدھر ہے کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ وہ نہر تمہیں کہیں کا کہیں پہنچا دے.اسی طرح سمندروں کو دیکھو کہ سمندر تمہارے کام آنے والی چیز ہیں لیکن اُن پر بھی ایک قانون حاوی ہے اور خاص ہوائیں چلتی رہتی ہیں.اگر ان ہواؤں کو مہِ نظر نہ رکھو گے تو وہی سمند ر تمہارے لئے تباہی کا موجب ہو جائیں گے یا مثلاً اس کے اندر چٹانیں بھی ہیں اگر کو ان چٹانوں کو مد نظر نہ رکھو گے تو تمہارے جہاز تباہ ہو جائیں گے چنانچہ فرماتا ہے.وَ مِنْ ايَتِهِ الْجَوَارِ فِى الْبَحْرِ كَا لَا غَلَامِ.اِنْ يَّشَأْ يُسْكِنِ الرِّيحَ فَيَظْلَكُنَ رَوَاكِدَ عَلَى ظَهْرِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَايَتِ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ " یعنی سمندر میں ہم ہوائیں چلاتے ہیں اگر وہ چلتی رہیں تو جہاز چلتے رہیں گے لیکن اگر ہوائیں ٹھہر جائیں تو پھر جہا نہیں چل سکتے.تم کو یا د رکھنا چاہئے کہ اگر تم نے سمندروں میں کامیاب ہونا ہے تو تمہیں ہمیشہ یہ معلومات حاصل کرتے رہنا چاہئے کہ ہوائیں کس کس وقت چلتی ہیں اور کس کس رُخ چلتی ہیں.اگر تم یہ علم ایجاد کر لو گے تو تمہارے جہاز ٹھیک چلیں گے اور اگر اس علم سے واقفیت پیدا نہیں کرو گے تو تمہارے جہا ز یا تو تم کو منزل مقصود تک نہیں پہنچائیں گے یا دیر سے پہنچائیں گے.طب کی نہر چوتھا علم طب ہے جس کی طرف قرآن کریم میں توجہ دلائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَا نُهُ فِيهِ علم ۱۵ شِفَآءٌ لِلنَّاسِ، إِنَّ فِي ذَلِكَ لَا يَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ها یعنی شہد کی مکھیوں کے پیٹ میں سے مختلف قسم کے شہر نکلتے ہیں اور اُن کے کئی رنگ ہوتے ہیں اور ہر قسم کا شہر کسی خاص بیماری کے لئے مفید ہوتا ہے.مگر فر ما یا اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ یہ نہیں فرمایا کہ جو ہماری اس بات کو مان کر کسی کو شہد پلا دے اُس کو فائدہ پہنچ جاتا ہے بلکہ فرمایا کہ ہم نے صرف ایک اشارہ کیا ہے آگے تمہیں خود غور کرنا پڑے گا.چنانچہ اب اس کی تحقیقات ہوئی ہے اور پتہ لگا ہے کہ شہد کی مکھی جس قسم کے درختوں سے شہد لیتی ہے اسی قسم کا فائدہ اس شہد سے پہنچتا ہے.مثلاً بعض جگہ شہد کی مکھی ایسے درختوں سے شہد لیتی ہے جن میں جلاب کا مادہ ہوتا ہے وہ شہد کھاؤ تو جلاب لگ جاتے ہیں.بعض ایسی بوٹیوں سے لیتی ہیں جو ملیریا کو دُور کرنے والی ہوتی ہیں وہ شہد کھاؤ تو ملیریا کو فائدہ پہنچتا ہے.غرض مختلف قسم کے شہد مختلف قسم کی بیماریوں کا علاج ہیں.اسی لئے قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا
۶۸۵ کہ شہد میں فائدہ ہے بلکہ فرمایا ہے اِنَّ فِي ذَلِكَ لَا يَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُون ہم نے تو اشارہ کر دیا ہے اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم تحقیقات میں لگو.اگر تم غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ مختلف رنگ کے شہد مختلف امراض کا علاج ہیں.چنانچہ جب میں علاج کے سلسلہ میں لنڈن گیا تو ایک بڑے خاندان کی ایک اُستانی تھیں لارڈارون جو ہندوستان کے وائسرائے رہ چکے ہیں اُن کی ماں سے اُس کی ماں کی بڑی دوستی تھی.کہتی تھی کہ اُس کے کئی خط میرے پاس اب تک پڑے ہیں.ایک دن وہ شہد لے کر آئی جو خاص بوٹیوں میں سے نکلا ہوا تھا اور کہنے لگی یہ شہد آپ استعمال کریں یہ آپ کے لئے بہت مفید ہے.میں نے کہا.مجھے تو شہد موافق نہیں.کہنے لگی آسٹریلین شہر تو معلوم نہیں کس کس چیز کا ہوتا ہے مگر یہ تو ہمارے ہاں بعض لوگ خاص طور پر اُن بُوٹیوں سے بناتے ہیں جو امراض کے علاج میں خاص طور پر مفید ہیں.اسی طرح ہمارے پرانے اطباء لکھتے ہیں کہ آم اور پھر خاص قسم کے آموں کا شہد لیا جائے تو وہ دل کی تقویت کا موجب ہوتا ہے اسی طرح بعض اور امراض میں بھی مفید ہوتا ہے.تو شہد بے شک مفید ہے لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ شہد کے فوائد کا صرف اُسی کو پتہ لگے گا جو تفکر کر نیوالا ہے.مطلب یہ ہے کہ مختلف شہر مختلف بیماریوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں.یہ علم طب کا کتنا عظیم الشان باب ہے جو قرآن کریم کی ایک چھوٹی سی آیت کے ذریعہ کھول دیا گیا ہے.علم ہندسہ کی نہر پھر علم ہندسہ کو بھی قرآن کریم نے بیان کیا ہے چنا نچہ فرماتا ہے هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَّالْقَمَرَ نُوراً وَّ قَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ.یعنی خدا تعالیٰ نے سورج کو ذاتی روشنی والا اور قمر کو نو ر والا بنایا ہے اور اُن کی کئی منازل مقرر کی ہیں.وہ اپنے اپنے منازل میں چلتے ہیں تا کہ تم کو سالوں اور حساب کا علم ہو.گویا اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے علم حساب کی طرف بھی توجہ دلائی ہے پھر فرماتا الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَان وَ النَّجْمُ وَ الشَّجَرُ يَسْجُدَن.كل یعنی سورج اور چاند ایک مقررہ قاعدہ اور قانون اور حساب کے ماتحت چل رہے ہیں اور جڑی بوٹیاں اور درخت بھی خدا تعالیٰ کے آگے سرنگوں ہیں.علیم ادب کی نہر اسی طرح علم ادب کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے.فرماتا ہے وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمُ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِي ط
۶۸۶ يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَ هَذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ یعنی ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ کفار کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا انسان ہے جسے کسی اور شخص نے سکھایا ہے قرآن اس کا اپنا نہیں.فرماتا ہے جس شخص کی طرف وہ یہ بات منسوب کرتے ہیں وہ تو عجمی ہے وَ هذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِین اور یہ کلام عربی زبان میں ہے اور اس میں جو بات بھی کہی گئی ہے اس کی دلیل دی گئی ہے.اگر یہ جھوٹ ہے تو جھوٹ کی تائید میں تو دلیل نہیں ہوا کرتی.اور اگر کہو کہ عجمی نے سکھایا ہے تو محمد رسول اللہ تو عربی کے سوا کچھ جانتا نہیں.اور اگر کہو کہ عربی نے سکھایا ہے تو قرآن کریم کی صرف عربی معجزہ نہیں بلکہ قرآن کا عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ ہونے میں معجزہ ہے یعنی اس کی زبان ایسی ہے کہ اس کے اندر دلائل بھی بیان کئے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ ہم کیوں حکم دیتے ہیں ، خدا کو کیوں منواتے ہیں ، فرشتوں کو کیوں منواتے ہیں، رسولوں کو کیوں منواتے ہیں ، جھوٹ سے کیوں منع کرتے ہیں ، سچ کی کیوں تائید کرتے ہیں، ظلم سے کیوں روکتے ہیں، انصاف کی کیوں تائید کرتے ہیں، غرض یہ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ میں ہے اور اپنے احکام کی دلیلیں بھی دیتا ہے جھوٹا آدمی دلیلیں کہاں سے لے آئے گا.پس تمہاری دونوں باتیں غلط ہیں.تم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اسے کسی عجمی نے سکھایا ہے کیونکہ محمد رسول اللہ تو عجمی نہیں یہ تو عربی ہے اس کو تو کسی اور زبان کا پتہ ہی نہیں اور تم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اسے کسی عربی نے سکھایا ہو کیونکہ اگر کسی عربی نے سکھایا ہو تو بہر حال قرآن جھوٹ تو ہوا اور اگر قرآن جھوٹا ہو گا تو اس میں دلیلیں کہاں سے آجائیں گی حالانکہ تم جانتے ہو کہ یہ کلام مین ہے.مُبِينٌ کے معنے ہوتے ہیں ظاہر کرنے والی یعنی جو بات بھی کہتی ہے اُسکو کھول کر رکھ دیتی ہے اور اُس کی معقولیت کے دلائل دیتی ہے.معانی کی نہر پھر عظیم معانی کی طرف بھی اُس نے توجہ دلائی ہے.معانی کے معنے ہوتے ہیں موقع کے مطابق کلام بیان کرنا.جو کتاب موقع کے مطابق ہر بات بیان کرے اور کسی مرحلہ پر بھی کسی بے موقع بات کا اُس میں ذکر نہ ہو اُس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ علم معانی کے مطابق ہے.قرآن کریم بھی کہتا ہے کہ اس کتاب میں علم معانی موجود ہے چنانچہ فرماتا ہے کہ وَ اِنْ كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّ لَنَا عَلَى عَبْدِنَا اگر تم کو ہماری اس تعلیم پر جو ہم نے قرآن میں نازل کی ہے کچھ شبہ ہے تو فَأْتُوا بَسُورَةٍ مِّنْ مِثْلِهِ " تم اس قسم کی کوئی اور سورۃ پیش کرو.وَادْعُوا شُهَدَاءَ كُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنتُمْ صَدِقِينَ.
YAZ اور اپنے غیر اللہ مددگاروں کو بھی اپنی مدد کے لئے بُلا لو اگر تم سچے ہو.مگر وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتے اسلئے کہ وہ جو بات بھی کریں گے چونکہ جھوٹ کی تائید میں ہوگی اس لئے کبھی موقع کے مطابق نہیں ہو گی محض اوٹ پٹانگ بات کریں گے مگر قرآن جو بات بھی کرے گا موقع کے مطابق ہوگی.علم بیان کی نہر اسی طرح قرآن نے علیم بیان کا بھی ذکر کیا ہے فرماتا ہے.وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَاناً لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَّ بُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ - یعنی ہم نے تجھ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمام ضروری مطالب اور مضامین بیان کر دیئے گئے ہیں.بیان کے معنے ہوتے ہیں ایک مطلب کو مختلف رنگوں میں بیان کرنا اور قرآن کریم یہی فرماتا ہے کہ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَهُ تَفْصِيلا یعنی ہم نے اس کتاب میں تمام باتوں کو اس طرح کھول کھول کر اور مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے کہ ہر بات دل میں گڑ جاتی ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ جو دلیل چاہئے تھی وہ ٹھیک طور پر بیان کر دی گئی ہے.علم النفس کی نہر پھر قرآن کریم میں علم النفس کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنُ حِسَابُهُمُ إِلَّا عَلَى رَبِّي لَوْ تَشْعُرُونَ - ۲۴ کہ اگر تم اپنے دلی جذبات کو سمجھو تو تمہیں معلوم ہو کہ ان کا حساب لینا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے علم النفس کے معنے ہوتے ہیں دلی جذبات کو سمجھنا اور شعور بھی اسی جذبہ کو کہتے ہیں جو اندر سے پیدا ہوتا ہے.گویا قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ اگر انسان اپنے دلی جذبات کو سمجھے تو پھر اُسے قرآن کا علم سمجھ میں آتا ہے اور اس طرح بنی نوع انسان کو نصیحت کی ہے کہ اگر تم نے قرآنی باتوں کو سمجھنا ہو تو تمہیں اپنے دل کے جذبات پر غور کرنا چاہئے تمہیں سمجھ آ جائے گی کہ قرآن کریم کی تمام باتیں سچی ہیں.ورنہ اگر تم اپنے نفس پر غور نہیں کرو گے تو قرآن بھی سمجھ نہیں آئے گا.پھر قرآن کریم میں علم کیمیا کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے فرماتا ہے مَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَا لَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ وَ نُبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مَا نَةُ حَبَّةٍ، وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَّشَاءُ ، وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ۲۵ یعنی جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرتے ہیں اُن کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک دانہ ہو جس میں سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو سو دانہ ہو اور خدا چاہے تو علم کیمیا کی نہر
۶۸۸ وہ اس سے بھی بڑھا دے.اس آیت میں اُن کیمیا وی تغییرات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دانے پر اثر انداز ہوتے ہیں.زمیندار تو اتنا ہی سمجھتا ہے کہ میں نے دانہ بویا تھا جو اُگ آیا مگر سائنس دان سمجھتا ہے کہ خالی دانہ نہیں اُگا بلکہ دانہ کے اُگانے کے لئے اگر وہ کیمیاوی اجزاء زمین میں موجود ہیں جن سے دانہ اُگتا ہے تب تو وہ اُگے گا ورنہ نہیں.آخر وجہ کیا ہے کہ کسی زمین میں تیل اُگتا ہے اور کسی میں نہیں اُگتا، کسی میں گنا اُگتا ہے اور کسی میں نہیں اُگتا، کسی میں کپاس اچھی اُگتی ہے اور کسی میں نہیں اُگتی ، کسی میں گندم اچھی اُگتی ہے اور کسی میں نہیں اُگتی ، اس کی وجہ یہی ہے کہ گندم بعض خاص کیمیاوی چیزوں سے بنتی ہے اگر وہ کیمیاوی چیزیں زمین میں موجود ہوں تب تو گندم اُگے گی ورنہ نہیں.اسی طرح کپاس بعض خاص چیزوں سے بنتی ہے اگر وہ کیمیاوی اجزاء زمین میں موجود ہو نگے تب تو اچھی کپاس نکلے گی ورنہ نہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک دانہ سے سات سو دانہ تک پیدا ہوسکتا.ہے.پنجاب یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سے ملاقات پنجاب یو نیورسٹی کا ایک پروفیسر تھا جس کا نام مسٹر پوری تھا وہ ایک دفعہ قادیان آیا.وہ گورنمنٹ کی طرف سے اسی تحقیقات پر مقرر کیا گیا تھا کہ اپنے ملک کے زمینی اجزاء دیکھ کر معلوم کرے کہ اُن میں کیمیاوی اجزاء کتنے ہیں اور وہ کس حد تک گندم یا دوسری چیزیں پیدا کر سکتے ہیں.وہ مجھے ملا اور کہنے لگا کہ میر اعلم اسبارہ میں بڑا وسیع ہے اور آپ کو مجھ جیسا کوئی اور آدمی نہیں ملا ہو گا.مجھے گورنمنٹ نے خاص طور پر اس کام کے لئے مقرر کیا ہے اور میری تحقیقات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اڑھائی سو من تک فی ایکڑ گندم پیدا ہو سکتی ہے اور مجھے اپنی اس تحقیق پر بڑا ناز ہے.اُس نے لاہور کے پاس ایک بہت بڑی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بنائی تھی وہی جگہ بعد میں ہمیں بھی الاٹ ہوئی تھی اور کچھ عرصہ تک ہماری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی وہیں رہی.جب اُس نے یہ بات کہی تو میں نے کہا اڑھائی سومن؟ قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ سات سو من تک پیداوار ہوسکتی ہے وہ یہ سُن کر بالکل گھبرا گیا اور کہنے لگا قرآن کریم میں یہ لکھا ہے ؟ میں نے کہا ہاں ! قرآن میں ذکر ہے.کہنے لگا پھر مجھے وہ آیت لکھوا دیں.چنانچہ میں نے اپنے سیکرٹری کو بلا کر کہا کہ یہ آیت اسے لکھ کر دیدیں.وہ کہنے لگا مجھے اس کا بالکل علم نہیں تھا یہ تو بالکل نیا علم ہے اور ابھی ہندوستان میں شروع بھی نہیں ہوا میں پہلا آدمی ہوں جس نے اس کی تحقیقات شروع کی ہے اور یورپ کی سٹڈی (STUDY)
۶۸۹ کر کے مجھے اس کام پر مقرر کیا گیا ہے.میں نے کہا.سات سو من ہی نہیں قرآن کریم کہتا ہے کہ وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَّشَاءُ اللہ تعالیٰ چاہے تو سات سو سے بھی بڑھا دے.کہنے لگا میری تحقیقات اسوقت تک صرف اتنی ہی ہے کہ ہمارے ملک میں اتنے کیمیا وی اجزاء موجود ہیں کہ فی ایکڑ اڑ ہائی سو من تک گندم پیدا ہو سکتی ہے مگر جو باہر کی کتابیں میں نے پڑھی ہیں اُن سے چار سو من تک پتہ چلتا ہے.میں نے کہا.پھر ان کتابوں سے بھی بڑھ کر قرآن کریم میں علم موجود ہے قرآن کہتا ہے کہ فی ایکڑ سات سو من تک گندم ہو سکتی ہے.اب دیکھو اس میں علم کیمیا کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ہم زمین کو دیکھیں کہ وہ اجزاء جن سے گندم پیدا ہوتی ہے یا کپاس پیدا ہوتی ہے زمین میں کسقد رموجود ہیں اور گندم کا دانہ یا کپاس کا بیج اُن اجزاء سے آگے کتنے زیادہ بیج پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے.اسی طرح فرمایا وَقَالُوا وَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًا وَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدَاهِ قُلْ كُونُوا حِجَارَةً اَوْ حَدِيدًا اَوْ خَلْقاً مِّمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ فَسَيَقُولُونَ } مَنْ يُعِيْدُنَا قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ.یعنی کفار کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈیاں ہو جا ئینگے اور چورا ہو جا ئینگے تو کیا پھر ہم کو ایک نئی پیدائش میں اُٹھایا جائے گا.تو اُن کو کہہ دے کہ ہڈیاں اور چورا ہونا تو الگ بات ہے اگر ۲۶ پتھر بھی بن جاؤ یا لوہا بھی بن جاؤ تب بھی خدا تعالیٰ تمہیں پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے.مرور زمانہ سے انسانی جسم کا پتھر بن جانا اب بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ نَعُوذُ بِاللهِ ایک ڈھکوسلا ہے کہ پتھر بن جاؤ یا لوہا بن جاؤ پھر بھی خدا تعالیٰ تمہیں زندہ کرے گا.ایک کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ آدمی نے پتھر کس طرح بننا ہے یونہی قرآن نے ایک ڈھکوسلا مار دیا ہے.لیکن ابھی کوئی دو ہفتے ہوئے روس کی ایک خبر اخبارات میں چھپی ہے کہ روس میں آدمیوں کے بعض پرانے ڈھانچے ملے ہیں جو کہتے ہیں کہ کئی لاکھ سال کے ہیں اور اُن کی ہڈیاں پتھر بن چکی ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے لئے مرورِ زمانہ سے پتھر بنا ممکن تھا.یوں تو پہلے کہتے تھے کہ پتھر کا کوئلہ بھی در حقیقت درختوں سے ہی بنا ہے مگر انسانوں کے متعلق اس وقت تک کوئی تحقیق نہیں ہوئی تھی.اب یہ تازہ علم نکلا ہے کہ انسانوں کے بعض پرانے ڈھانچے ملے ہیں جن کی ہڈیاں پتھر بن چکی ہیں اور یہ بھی قرآن کہتا ہے کہ ارے میاں! اس میں تعجب کی کیا بات ہے ہڈیاں تو الگ رہیں
۶۹۰ وہ تو اسی انسانی جسم کا حصہ ہیں تم پھر بھی بن جاؤ تب بھی خدا تمہیں پیدا کر سکتا ہے.پھر علم فلسفہ ہے.فلسفہ کے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کی حکمت بیان کرنا.علم فلسفہ کی نہر اللہ تعالیٰ علیم فلسفہ کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے اور فرماتا ہے وَاَنْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ الْكِتبَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللهِ عَلَيْكَ عَظِيْماً.اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تجھے وہ کچھ علم سکھایا ہے جو پہلے تو نہیں جانتا تھا.اس میں بتایا گیا ہے کہ ہر چیز کی حکمت ہوا کرتی ہے وہ حکمت سیکھنے کی کوشش کرو.اسی حکمت کو فلسفہ کہتے ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہے.مثلاً تاریخ تو یہ ہے کہ اورنگ زیب کوئی بادشاہ تھا، اکبر کوئی بادشاہ تھا اور یہ بحث کہ اکبر ترک تھا یا مغل ؟ وہ ہندوستان میں کیوں آیا اس کے ملک میں کیا حالات پیدا ہوئے تھے جن کی وجہ سے وہ اپنا ملک چھوڑ کر ہندوستان آیا اور کونسے حالات پیدا ہوئے کہ جن کی وجہ سے اُس نے تھوڑی سی فوج سے جو صرف چند ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی چالیس کروڑ کے ملک کو فتح کر لیا ( گو اُسوقت تو چالیس کروڑ نہیں تھے صرف دو کروڑ کی آبادی تھی) یہ چیز ہے جو فلسفہ کہلاتی ہے.اسی طرح یہ مواد کہ اُن کے ملک میں اچھی غذا نہیں ہوتی تھی ، اچھی زمینیں نہیں تھیں اور ادھر ہندوستان میں لڑائیاں تھیں، فساد تھے، جھگڑے تھے جنکی وجہ سے اُس کی فوج تھوڑی دیر میں ہی غالب آگئی یہ فلسفہ ہے.غرض فلسفہ تاریخ اور چیز ہے اور تاریخ اور چیز ہے.دیباچہ ابن خلدون جو ایک مشہور کتاب ہے اُس میں فلسفہ تاریخ پر ہی بحث ہے.ایک انگریز پروفیسر ایک دفعہ مجھے قادیان میں ملنے آیا تو میں نے اُس سے کہا کہ فلسفہ تاریخ پر اگر کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ کتاب تم کو معلوم ہے تو بتاؤ.وہ کہنے لگا کہ دیباچہ ابن خلدون سے بڑھ کر یورپ اور امریکہ میں کوئی کتاب نہیں.جو کچھ فلسفہ اس نے بیان کیا ہے اس سے بڑھ کر ہم بیان نہیں کر سکتے وہ سب سے اعلیٰ کتاب ہے.مگر ابن خلدون نے فلسفہ تاریخ کو کیوں بیان کیا ؟ اسی لئے کہ قرآن کریم میں اس نے پڑھا تھا کہ ہر چیز کا فلسفہ معلوم کر وجب تم معلوم کرو گے تو تمہیں اصل راز کا پتہ لگ جائے گا.اُس نے سوچا کہ اسلامی حکومتیں کیوں تباہ ہوئیں دوسرے ملک کیوں تباہ ہوئے اور اس نے فلسفئہ سیاست پر غور کیا تو یہ دیباچہ لکھا مگر اُسے اس علم کا قرآن کریم سے ہی پتہ لگا کیونکہ قرآن کریم نے ہی اس علم کی طرف توجہ دلائی ہے.علم منطق کی نہر پھر علم منطق کو لو وہ بھی قرآن کریم بیان کرتا ہے.فرما تا ہے وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا اَنْزَلَ اللهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا الْفَيْنَا عَلَيْهِ
۶۹۱ ابَا عَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُ هُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَّ لَا يَهْتَدُونَ ^ یعنی جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اُس کی فرماں برداری کرو.تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہم تو اس کی فرماں برداری کرینگے جس پر ہمارے باپ دادا چلتے تھے.فرماتا ہے تمہارے باپ دادا چا ہے بیوقوف ہی ہوں تب بھی اُن کے پیچھے چلو گے؟ یہ تو تم کہہ سکتے ہو کہ ہمارے باپ داداعظمند تھے اس لئے ہم اُن کی بات مانیں گے مگر یہ کہنا کہ چاہے وہ بیوقوف تھے یا عقلمند ہم نے چلنا اُن کے پیچھے ہے یہ عقل کے خلاف بات ہے اور منطق اسی کو کہتے ہیں کہ دلیل کے ساتھ ثابت کیا جائے کہ کونسی بات زیادہ معقول ہے اور کونسی غیر معقول.یہاں منطقی دلیل سے قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے کہ جو بات معقول ہو اُس کو ماننا چاہئے اور جو غیر معقول بات ہو اس کو نہیں ماننا چاہئے.موازنہ مذاہب کی نہر اسی طرح علم موازنہ و مذاہب کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے.فرماتا ہے یا هُلَ الْكِتَبِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَةُ وَالْإِنْجِيلُ إِلَّا مِنْ بَعْدِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ۲۹ یعنی بعض لوگ اپنے آباء کی عزت کرنے کے لئے یہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہوئے کب ہیں محض جوش میں آکر کہہ دیتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے مذہب پر تھے.مثلاً کہہ دیتے ہیں کہ ابراہیم بھی یہودی تھا یا ابراہیم بھی عیسائی تھا.فرماتا ہے تم اتنا نہیں سوچتے کہ تو رات اور انجیل تو بعد میں آئی ہیں پھر وہ یہودی یا عیسائی رکس طرح ہو گیا.ایک عیسائی پادری سے گفتگو میں بچہ تھا کہ ایک دفعہ ایک عیسائی پادری سے میری بحث ہوئی.میں نے کہا تم جو کہتے ہو کہ مسیح کے کفارہ پر ایمان لائے بغیر کسی کی نجات نہیں تو ابراہیم کی نجات کس طرح ہوئی.کہنے لگا ابراہیم بھی کفارہ پر ایمان رکھتا تھا.میں نے کہا مسیحی کفارہ تو اس کے دو ہزار سال بعد ہوا وہ پہلے کس طرح ایمان لے آیا تھا مگر اس کا وہ کوئی جواب نہ دے سکا.بس ایک گپ ہانک دی کہ ابراہیم کفارہ پر ایمان رکھتا تھا.ایک مخلص نوجوان کا لطیفہ ایک مخلص نو جوان جو سید تھا اور علی گڑھ میں پڑھا کرتا تھا بچپن میں میرا دوست تھا.اب تو وہ فوت ہو چکا ہے.بہت سیدھا سادہ آدمی تھا.ایک دفعہ وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا آپ سے ایک بات پوچھنی ہے ایک شبہ ہے جو میرے دل میں پیدا ہوا ہے.میں نے کہا کیا؟ کہنے لگا شیعہ سنی کا بڑا جھگڑا ہے یہ تو
۶۹۲ فرمائیے حضرت ابو بکر اور عمر شیعہ تھے کہ سُنی.میں نے کہا اُن کے شیعہ سنی ہونے کا کیا سوال ہے شیعیت اور سنیت تو بعد میں پیدا ہوئی ہیں.اصل بحث تو یہ ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ خلیفہ تھے یا نہیں؟ کیونکہ اسی کی وجہ سے شیعیت اور سُنیت پیدا ہوئی ہیں.کہنے لگا اچھا! مجھے یہ خیال نہیں آیا تھا تو وہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کو بھی جو پہلے گزر چکے تھے شیعہ سنی بنانا چاہتا تھا.علم نباتات کی نہر پھر علم نباتات کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے.فرماتا ہے وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ - ٣٠ یعنی زمین میں جسقدر نباتات ہیں اُن میں جوڑا جوڑا ہوتا ہے.کچھ نر ہوتے ہیں اور کچھ مادہ ہوتے ہیں.جب نر اور مادہ کو ٹھیک طرح ملایا جائے تو فصل بڑی اعلیٰ ہوتی ہے اسی لئے ماہرین زراعت نے کہا ہے کہ باغوں میں شہد کی مکھیاں رکھنی چاہیں وہ نر درخت پر بیٹھ کر اور اُس نر درخت کا نطفہ لے کر مادہ درخت پر رکھ دیتی ہیں تو پھل زیادہ لگتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک واقعہ عرب لوگ ہمیشہ ز اور مادہ درختوں کو آپس میں ملایا کرتے تھے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گزر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھجوروں کے نروں کو کھجور کے مادہ سے ملا رہے ہیں.آپ کو اس کا علم نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام نباتات کو جوڑا جوڑا بنایا ہے.یہ بھی قرآن کریم کی سچائی کا ایک ثبوت ہے.اگر آپ کے علم میں یہ بات ہوتی تو مخالف کہتے کہ قرآن کریم میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے خود یہ بات لکھ دی ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا کوئی علم نہیں تھا.جب آپ نے انہیں نر اور مادہ کو آپس میں ملاتے دیکھا تو فرمایا کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا يَارَسُولَ اللہ ! ہم نر کو مادہ پر ڈالتے ہیں تا کہ فصل اچھی رہے.آپ نے فرمایا یہ لغو بات ہے جو پھل پیدا ہونا ہے اُس نے تو پیدا ہونا ہی ہے اس سے کیا بنتا ہے؟ انہوں نے چھوڑ دیا.اگلے سال وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے يَا رَسُولَ اللہ! ہماری تو فصل ماری گئی ہے اب کے کھجور اچھی نہیں ہوئی.آپ نے فرمایا کیوں ؟ انہوں نے کہا آپ نے جو منع فرمایا تھا کہ نر کا مادہ مادینہ کھجور پر نہ ڈالو.آپ نے فرمایا میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں یہ علم تم جانتے ہو میں نہیں جانتا تمہیں میری بات نہیں ماننی چاہئے تھی اسے تو دیکھو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارہ میں کوئی ذاتی علم نہیں تھا مگر قرآن کریم فرماتا ہے.وَمِنْ كُلِّ شَيْ ءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُون.
۶۹۳ یعنی نر مادہ صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ ہر چیز میں ہیں.نباتات میں بھی ہیں بلکہ جمادات میں بھی ہیں.کچھ مدت ہوئی میں نے پڑھا کہ ٹین سے کے متعلق تحقیقات ہوئی ہے کہ ٹین کی بعض قسمیں نہ ہیں اور بعض مادہ ہیں.غرض علم نباتات کی طرف بھی قرآن نے توجہ دلائی ہے.علم توافق بین المخلوقات کی نہر اس طرح علم توافق بین الخلوقات کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے.یعنی مختلف مخلوقات کی مختلف ضرورتیں ہوتی ہیں فرماتا ہے وَالْأَرْضَ مَدَدْ نَهَا وَالْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيْهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَّوْ زُونٍ ۳۳ یعنی ہم نے زمین کو پھیلایا ہے اور اُس میں پہاڑ بنائے ہیں اور اس میں مختلف چیزیں اُگائی ہیں جو ضرورت کے مطابق ہیں.یعنی انسان کی ضرورت بھی اُن سے پوری ہو جاتی ہے اور جانوروں کی ضرورت بھی اُن سے پوری ہو جاتی ہے.کئی چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق لوگ کہا کرتے تھے کہ بے غرض پیدا ہوگئی ہیں.اگر کوئی خدا ہوتا تو بے ضرورت چیزیں کیوں پیدا کرتا لیکن اب تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بعض قسم کے کیڑے جو بعض وبائی کیٹروں کو مارتے ہیں وہ ان غذاؤں کو کھاتے ہیں.تو كُلَّ شَيْ ءٍ مَّرُزُون میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اُس نے ہر ایسی چیز پیدا کر دی ہے جس کی کسی انسان یا جانور کو ضرورت ہے.اُن میں سے بعض کی ایسے خوردبینی کیٹروں کو ضرورت ہوتی ہے جو آنکھوں سے بھی نظر نہیں آتے.اگر وہ چیز نہ ہوتی جس کو ہم لغو سمجھتے ہیں تو وہ کیڑے بھی پیدا نہ ہوتے اور اگر وہ کپڑے نہ پیدا ہوتے تو وہ وبائیں بھی نہ جاتیں جو ان کیڑوں کی وجہ سے دُور ہوتی ہیں.علم حیوانات کی نہر پھر عالم حیوانات کی طرف بھی اس نے توجہ دلائی ہے.فرماتا ہے.وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِنْ دَآبَّةٍ ايْتُ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ " یعنی تمہاری پیدائش میں بھی اور خدا تعالیٰ نے جو اور جانور زمین میں پھیلائے ہیں اُن میں بھی ایک یقین رکھنے والی قوم کے لئے بڑے نشان ہیں.پھر فرماتا ہے وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَيْرٍ يَطِيرُ بِجَنَا حَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ.۳۵ یعنی یہ جو زمین میں چلتے پھرتے جانور تمہیں نظر آتے ہیں اور ہواؤں میں اُڑتے ہوئے پرندے دکھائی دیتے ہیں یہ بھی تمہاری طرح کے گروہ ہیں.اُمَم سے یہ مراد نہیں کہ نبیوں کی اُمت کو
۶۹۴ ہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ اُن کے اندر بھی کوئی قانون جاری ہے.چنانچہ ایسے ایسے قانون اُن کے اندر جاری ہیں کہ حیرت آجاتی ہے.دیکھو! مگھ اور مرغابی وغیرہ ایک خاص موسم میں ایک خاص ملک سے جو کئی ہزار میل پر ہے اُڑتی ہے اور یہاں آکر بیٹھ جاتی ہے.اور پھر ایک خاص وقت میں جبکہ ابھی موسمیات کے ماہروں کو بھی پتہ نہیں لگتا مرغابی اُڑنے لگ جاتی ہے اور اُس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ اب فلاں قسم کی ہوائیں چلیں گی یا بارشیں ہونگی.تو فرماتا ہے تمہاری طرح ان میں بھی کچھ قوانین چل رہے ہیں تم سمجھتے ہو کہ یہ بے عقل پرندے ہیں حالانکہ اگر تم ان پرندوں پر غور کرو تو اس سے بھی بڑے بڑے علوم نکل آئیں گے اور تم کو پتہ لگے گا کہ خدا تعالیٰ نے ان کے اندر کتنی حکمتیں رکھی ہیں.مثلاً میں نے چیونٹیوں اور مکھیوں کے متعلق چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں میں نظام کتابیں پڑھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شہد کی مکھیوں اور چیونٹیوں میں اتنا نظام ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں.امریکہ کے ایک رسالہ میں میں نے پڑھا کہ اور بلاؤ کے جو ایک جانور ہے اور پانی میں رہتا ہے اور دریا کے کنارے پر مٹی کے گھر بناتا ہے، اتفاقاً ایک جگہ پر اس کے کچھ بچے بہہ کر آگئے.اُن کو چونکہ گھر بنانے کا علم نہیں تھا اس لئے وہاں سے ایک بچہ بہہ کر اس جگہ گیا جہاں پر انے اور بلا ؤ رہتے تھے اور وہاں سے اُس نے ایک بڑھے اور بلا ؤ کو بلایا اور اُس اور بلا ؤ نے آکر ان کو مکان بنانے سکھائے اور پھر وہ واپس چلا گیا.اسی طرح یہ ثابت ہوا کہ بعض جانو ر ایسے ہیں جن کے گھونسلے پہلے اور شکل کے ہوتے تھے مگر اب اور شکلیں بنے لگ گئی ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی طرح وہ بھی ترقی کر رہے ہیں.ایک عجیب تجربہ میرا اپنا ایک عجیب تجربہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام جس سفر میں لاہور میں فوت ہوئے ہیں، اس سفر میں میرے پاس ایک ہوائی بندوق تھی.میں نے اس سے ایک فاختہ ماری جب میں نے اسے ذبح کرنے کے لئے اُٹھایا تو میں نے دیکھا کہ اس کے پیٹ کے پاس درخت کی ایک شاخ سے گرہ بندھی ہوئی تھی.میں نے وہ گرہ کھولی تو معلوم ہوا کہ اُس کو کبھی زخم لگا تھا جسے اُس نے ڈاکٹر کی طرح سیا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے اپنی چونچ سے یا کسی دوسری فاختہ کی چونچ سے وہ زخم سلوایا.جب میں نے اس کا شکار کیا تو وہ زخم بالکل مندمل ہو چکا تھا.چنانچہ جب میں نے گرہ کھولی تو میں نے دیکھا کہ وہ زخم بالکل ٹھیک
۶۹۵ ہو چکا تھا اور نیچے سے خشک چمڑا نکل آیا تھا.اسی طرح علم حیوانات کے متعلق فرماتا ہے اَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَاماً فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ وَذَ لَّلُنهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوُ بُهُمْ وَمِنْهَا يَا كُلُوْنَه وَلَهُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ أَفَلَا يَشْكُرُونَ ۳۷ یعنی کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ہم نے جو چیزیں پیدا کی ہیں وہ کئی قسم کی ہیں.بعض پر وہ سواریاں کرتے ہیں ، بعض کو وہ کھاتے ہیں اور بعض سے وہ اور فوائد حاصل کرتے ہیں.مثلاً ان کے چمڑے وغیرہ کئی کام آتے ہیں اور بعض جانوروں کے دودھ پیتے ہیں.کیا وہ ان نعمتوں پر خدا کا شکر ادا نہیں کرتے ؟ یعنی جانور کو بھی صرف دیکھنا نہیں چاہئے بلکہ غور کرنا چاہئے کہ اس کے گوشت میں کوئی زہر تو نہیں ہے.بچپن کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے بچپن میں مجھے ہوائی بندوق کے شکار کا شوق ہوا کرتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی شکار پسند تھا کیونکہ یہ طاقت قائم رکھتا ہے.میں آپ کے لئے فاختائیں مار کر لا یا کرتا تھا.ایک دفعہ فاختہ نہ ملی تو طوطا مار کر لے آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھ تو لیا مگر تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز دی کہ محمود ! ادھر آؤ.میں گیا تو آپ نے طوطا اُٹھایا اور فرمایا دیکھو محمود ! اللہ تعالیٰ نے سارے جانور کھانے کے لئے نہیں بنائے ، کچھ دیکھنے کے لئے بھی بنائے ہیں.طوطا ایک خوبصورت جانور ہے یہ خدا نے دیکھنے کے لئے بنایا ہے.تم نے سمجھا کہ ہر ایک جانور کھانے کے لئے ہے.یہی قرآن کریم فرماتا ہے کہ جانوروں پر بھی غور کرو.اُن کی خاصیتیں الگ الگ ہیں.کچھ کھانے کے لئے اچھے ہیں، کچھ دیکھنے کے لئے اچھے ہیں، کچھ بولنے کے لحاظ سے اچھے ہیں جیسے مینا اور طوطا بولتے ہیں یا پیتے ہیں وہ بھی بولتے ہیں تو مختلف قسم کے فائدے ہیں جو اُن سے پہنچتے ہیں.اسی طرح کوئی سواری کے کام آتا ہے، کسی کا چڑا اچھا ہوتا ہے، کوئی کھانے کے کام آتا ہے، کسی سے پوستینیں ، جوتے اور بُوٹ بنتے ہیں.علم معیشت کی نہر پھر عالم معیشت کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ حج کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّكُمْ.۳۹ یعنی تمہارے لئے یہ کوئی گناہ کی بات نہیں کہ تم حج کے ایام میں تجارت کے ذریعہ اپنے ۳۸
۶۹۶ رب سے اس کا کوئی اور فضل بھی مانگ لو.اسی طرح فرماتا ہے.فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَا نُتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ.جب جمعہ کی نماز پڑھ لو تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تمہارا سارا وقت حج اور نماز کے لئے نہیں ہوتا بلکہ تمہیں علم معیشت بھی سیکھنا چاہئے اور اپنے اوقات کو اس طرح تقسیم کرنا چاہئے کہ کچھ وقت نمازوں میں لگاؤ اور کچھ دنیا کے کاموں میں لگاؤ تاکہ تمہارے خاندان اور تمہارے ملک کی حالت اچھی ہو جائے.علم الاقتصاد کی نہر پھر علم الاقتصاد کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے فرماتا ہے وَلَا تَجْعَلُ يَدَكَ مَغْلُو لَةً إِلى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطُهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْماً مَّحْسُورًا کہ تو اپنے ہاتھ کو بالکل روک نہ لے اور گردن کے ساتھ نہ باندھ لے اور نہ اتنا پھیلا کہ سارا مال ضائع ہو جائے.گویا نہ تو بخل سے کام لے اور نہ اسراف سے کام لے.کیونکہ کئی مواقع انسان پر ایسے بھی آتے ہیں جب اس کو پھر مال کی ضرورت پیش آجاتی ہے.اگر کوئی شخص جوانی میں کمائی کرتا اور اُسے عیاشی میں اُڑا دیتا ہے تو بعد میں اگر وہ خود بیمار ہوتا ہے یا اس کے بیوی بچے بیمار ہوتے ہیں تو اُسے علاج کے لئے کوئی پیسہ نہیں ملتا.پس فرمایا کہ اپنے اموال کو ہمیشہ اس طرح تقسیم کرنا چاہئے کہ کچھ بچاؤ اور کچھ خرچ کرو.اِسی طرح فرماتا ہے يَسْتَلُونَكَ مَا ذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ...لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں؟ حالانکہ خود حکم دیتا ہے کہ خرچ کرو.مگر فرماتا ہے تم وہ خرچ کرو جو ضرورت سے زیادہ ہو.جس کی تمہیں گل کو ضرورت پیش آنی ہے اُسے خرچ نہ کرو.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے وصیت کرنی چاہی اور کہا کہ میں اپنا سارا مال غریبوں کو دیتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سارا مال غریبوں کو دے دینا اچھا نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تیرے بچے تیرے بعد لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں کچھ ان کے لئے بھی رکھو اور کچھ
۶۹۷ اپنے وارثوں کے لئے بھی رکھو تا کہ وہ بھی عزت سے گزارہ کریں.۴۳ علم شہریت کی شہر پھر علم شہریت کی طرف بھی قرآن کریم میں توجہ دلائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَرَكْنَا فِيهَا قُرّى ظَاهِرَةً وَّ قَدَّرُ نَا فِيهَا السَّيْرَ " یعنی ہم نے قوم سبا کی بستیوں اور بنی اسرائیل کی بستیوں کے درمیان بڑے بڑے شہر بسائے تھے جس کی وجہ سے لوگ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر آبادیوں میں چلے جاتے تھے اور انہیں کھانا پینا مل جاتا تھا.گویا بتایا کہ مدنیت یعنی شہر بسا نا ملک کی ترقی کا موجب ہوتا ہے کیونکہ اس سے ملک کے لوگوں کے باہمی تعلقات بڑے آسان ہو جاتے ہیں.اگر کسی ملک میں صرف گاؤں ہوں تو ان کے تعلقات وسیع نہیں ہوتے اور انکی تعلیم اور تجارت وغیرہ بھی کمزور ہو جاتی ہے.علم تاریخ کی نہر پھر عظیم تاریخ کی طرف بھی قرآن کریم توجہ دلاتا ہے.فرما تا ہے ذلیک مِنْ أَنْبَاءِ الْقُرَى نَقُصُّهُ عَلَيْكَ مِنْهَا قَائِمٌ وَ حَصِيدٌ ۲۵ یعنی ہم نے اس قرآن میں تیرے پاس پچھلی قوموں کے جو حالات بیان کئے ہیں اُن میں سے بعض کے نشانات اب تک موجود ہیں اور بعض کے نشانات بالکل مٹ چکے ہیں.علمائے تاریخ نے لکھا ہے کہ تاریخیں دو قسم کی ہیں.ایک تاریخ ہسٹارک (HISTORIC) کہلاتی ہے اور ایک پری ہسٹارک (PRE-HISTORIC) یعنی زمانہ تاریخ سے قبل کے حالات.یہی بات قرآن کریم نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ پچھلی قوموں کے جو حالات بیان کئے گئے ہیں.اُن میں سے بعض کے نشانات تو اب تک موجود ہیں.یعنی وہ ہسٹارک ہیں اور بعض پری ہسٹارک ہیں.اُن کے نشانات مٹ چکے ہیں اور کوئی تاریخ اُن پر روشنی نہیں ڈالتی.علیم بدء عالم کی نہر پھر علیم بدء عالم بھی قرآن کریم بیان فرماتا ہے.جسے اصطلاحاً ایتھنالوجی (ETHNOLOGY) کہتے ہیں.یعنی زمین کس طرح بنی ہے آسمان کس طرح بنے ہیں.اور پیدائش عالم کس طرح ہوئی ہے فرماتا ہے.قُلْ سِيرُوا ى الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ بَدَا الْخَلْقَ - " یعنی تم زمین میں ذرا پھر کر تو دیکھو.پھر تمہیں پتہ لگے گا کہ پیدائش عالم کس طرح ہوئی تھی.اسی کو ایتھنا لوجی کہتے ہیں یعنی مختلف قوموں کے جو آثار ہیں اُن سے نتیجہ نکال کر تاریخ کا پتہ لگانا.فرماتا ہے اگر تم نے دنیا کی تاریخ کا پتہ لگانا ہے تو یہ تمہیں کسی ایک ملک سے نہیں لگے گا، مختلف ملکوں میں مختلف تہذیبیں
۶۹۸ مختلف قوموں نے اختیار کی ہیں.پس اگر تم پچھلی قوموں کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے ہو تو ساری دنیا میں پھر وہ کسی ایک ملک سے تمہیں دنیا کی تاریخ کا پتہ نہیں لگے گا.بلکہ مختلف ملکوں میں جا کر تمہیں پتہ لگے گا کہ کسی صدی میں ہندوستان میں تہذیب پھیلی کسی صدی میں ایرانی میں پھیلی ، کسی صدی میں رُوم میں پھیلی ، کسی صدی میں عرب میں پھیلی ، کسی صدی میں شام میں پھیلی ، کسی صدی میں مصر میں پھیلی کسی صدی میں کسی اور ملک میں پھیلی.تو ایتھنا لوجی کے علم کے لئے ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں کی سیر کرو.اسی طرح بدء عالم یعنی ساری دنیا کی پیدائش کے متعلق فرماتا ہے.اَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا اَنَّ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنهُمَاء وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيْء أَفَلَا يُؤْمِنُونَ." یعنی کیا کا فر یہ نہیں دیکھتے کہ آسمان اور زمین پہلے ایک گچھا سا بنے ہوئے تھے.پھر ہم نے ان کو کھولا.مولوی نذیر احمد صاحب دہلوی نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ : - کیا جو لوگ منکر ہیں انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ آسمان اور زمین دونوں کا ایک بھنڈ ا سا تھا تو ہم نے ( اُسکو توڑ کر ) زمین و آسمان کو الگ الگ کیا.۴۸۰ یعنی جیسے ایک گول سا ڈھیر یا خشک ڈلا ہوتا ہے اسی طرح وہ بنے ہوئے تھے پھر ہم نے اس کو کھولا.چنانچہ علم ہیئت سے یہی پتہ لگتا ہے کہ دنیا میں پہلے ذرات پیدا ہوتے ہیں پھر وہ ذرات سمٹنے شروع ہوتے ہیں اور مرکز میں ذرات کا ایک ہجوم جمع ہو جاتا ہے.پھر وہ چکر کھانے لگتا ہے اور اس چکر سے جو ارد گرد کے ذرّات ہوتے ہیں اُن کو دھکا لگتا ہے اور وہ دُور جا پڑتے ہیں اور ہوا میں دُور جانے کی وجہ سے اُن میں گرمی پیدا ہوتی ہے اور ابخرے پیدا ہوتے ہیں.پھر بارش آتی ہے جو اُن کو ٹھنڈا کرتی ہے اور اس طرح ایک کرہ بن جاتا ہے.و ہی نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ اگر تم نے بدء عالم کا پتہ لگانا ہے تو اس بات پر غور کرو جو ہم تمہارے سامنے بیان کر رہے ہیں.علم موسمیات کی نہر پھر علم موسمیاتکو دیکھو تو وہ بھی قرآن کریم نے بیان کیا ہے چنانچہ فرماتا ہے.وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُع هُ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ ٥ إِنَّهُ لَقَوْلٌ فَصَلِّةٌ وَّمَا هُوَ با لُهَزُل ٢٩
۶۹۹ یعنی تم بادل کو دیکھو جو بار بار برستا ہے اور زمین کو دیکھو جو پھٹتی ہے تو اس میں سے پھل وغیرہ نکلتا ہے اگر تم ان باتوں پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ہر چیز کے لئے خدا نے ایک موسم مقرر کیا ہے.کسی میں پانی اترتا ہے کسی میں کوئی خاص تر کاری اُگتی ہے اگر تم اس طرح غور کرو گے تو تمہیں اس سے بھی بڑے بڑے علوم حاصل ہو جائیں گے.غرض قرآن کریم نے ان تمام علوم کی طرف جو دنیا میں جاری ہیں اشارہ کیا ہے اور اُن کے سیکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور اُن کا منبع بتایا ہے کہ فلاں فلاں جگہ سے تم ان علوم کو نکال سکتے ہو.پس جس قدر ڈ نیوی علوم ہیں اُن کا ماخذ قرآن کریم ہے اور ان کی طرف اس نے بار بار توجہ دلائی ہے.علومِ دینیہ کی نہر مگر اس کے علاوہ اُس نے دینی علوم کی نہریں بھی جاری کی ہیں اور در حقیقت یہی نہریں روحانی نقطہ نگاہ سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں کیونکہ قرآن کریم کا زیادہ تر دین سے ہی تعلق ہے.عالم روحانی کے سب سے بڑے سمندر تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر اُن سے آگے دنیا میں کئی قسم کی روحانی نہریں جاری ہوئیں.چنانچہ دیکھ لو ایک نہر شریعت کی چلی.پھر اُسی نہر میں سے ایک حنفی نہر نکلی ، ایک شافعی نہر نکلی ، ایک مالکی نہر نکلی ، ایک جنبلی نہر نکلی.یہ مختلف قسم کی نہریں ہیں جو شریعت کی نہر میں سے جاری ہوئیں.پھر ایک شیعوں کی نہر جاری ہوئی ،ایک سنیوں کی نہر جاری ہوئی ، ایک خارجیوں کی نہر جاری ہوئی اور ان کے ذریعہ سے شریعت کے مختلف پہلو زیر بحث آتے رہے.پھر ایک تصوّف کی نہر چلی، ایک فلسفہء شریعت کی نہر چلی جس کے بہت بڑے بانی ہمارے شاہ ولی اللہ صاحب اور امام ابن تیمیہ تھے.اور آخر میں سب سے زیادہ اہم کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا.پھر سیاست کی ایک نہر چلی جو حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ سے شروع ہوئی اور پھر وہ آگے نکلتی چلی گئی.اور اس طرح یہ روحانی سلسلہ جو سیاست مذہبی اور فلسفہ، مذہبی اور احکام شریعت کی حکمتوں اور ان کی ضرورتوں کے ساتھ تعلق رکھتا تھا دُنیا میں وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا.پھر اخلاق فاضلہ کی ایک نہر جاری ہوئی جسے امام غزالی نے اور بھی لمبا کیا اور اس سے زمین کو سیراب کیا.اسی طرح تصوف میں جنید - شبلی.حضرت معین الدین صاحب چشتی.بہاؤ الدین صاحب نقشبندی.شہاب الدین صاحب سہر وردی وغیرہ جیسے عظیم الشان لوگ گزرے اور پھر یہ ساری نہریں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں آکر مدغم ہو گئیں اور پھر ایک نئی نہر دُنیا میں چل پڑی
اور آپ کے ذریعہ سے پرانی روحانی نہریں بھی جاری رہیں.پرانے زمانہ کے بادشا ہوں نے جتنی نہریں بنائی تھیں وہ سب کی سب ختم ہو گئیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہر اب تک چلی جا رہی ہے.دنیوی اور روحانی شہروں میں بعض نمایاں فرق اب دیکھو دنیا کی شیریں تو خشک ہو جاتی ہیں مگر یہ نہریں وہ ہیں جو خشک نہیں ہوتیں.دُنیوی نہروں سے جسمانی غلہ پکتا ہے مگر ان سے تقویٰ کا دانہ پکتا ہے.دنیوی نہروں کا تیار کردہ غلہ ایک وقت کام آتا ہے اور پھر سڑ جاتا ہے مگر یہ وہ نہر ہے جس کا غلہ ابدالآباد تک کام آتا ہے.فرماتا ہے اَلْمَالُ وَالْبَنُونَ زِ يُنَةُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَالْبَقِيتُ الصَّلِحْتُ خَيْرٌ عِندَرَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَيْرٌ أَمَلًاه ۵۰ یعنی دنیا کی نہروں کے مال اور اس سے پیدا کئے ہوئے غلے اور نسلِ انسانی کے افراد صرف دنیا میں کام آتے ہیں آخرت میں کام نہیں آتے.مگر جو قرآنی نہر سے پکا ہو اغلہ ہے وہ قیامت تک کام آتا چلا جائیگا.حضرت مسیح ناصری نے بھی کہا ہے کہ اس دنیا کے خزانہ کو کیڑا کھا جاتا ہے مگر آسمان کا خزانہ محفوظ ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں.۵۱۷ غرض وہ مال جو اس پانی سے پیدا ہوتا ہے اور وہ بیٹے جو اس مال کو کھا کر بڑھتے ہیں اسی دُنیا میں ختم ہو جاتے ہیں لیکن وہ چیزیں (الْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ ) جو قرآنی نہر سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چلائی ہوئی نہر سے پلتے ہیں وہ قیامت تک زندہ رہتے ہیں اور ابدی زندگی پاتے ہیں.کیونکہ مؤمن رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی نہر کا پھل ہے اور مؤمن کو ابدی زندگی کا وعدہ ہے.اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہر کا پیدا کیا ہوا پھل قیامت تک چلے گا اور وہ کبھی خراب نہیں ہوگا.دیکھو ابو جہل کے مال نے جو مادی پانی سے حاصل ہوا تھا جو کچھ پیدا کیا وہ ختم ہو گیا مگر جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے پانی سے پیدا ہو ا وہ ابدی زندگی پا گیا.
2 +1 عمر کا واقعہ دیکھو.کیسی سنگلاخ زمین تھی مگر پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیر سے اُس میں سے کیسی نہر چلی بلکہ اُس سے پہلے ابوبکری نہر چلی ، پھر عمر کی نہر چلی ، پھر عثمانی نہر چلی، پھر علوی نہر چلی.پھر اُس سے آگے قادری ، چشتی ، نقشبندی اور سہروردی نہریں جاری ہو ئیں.سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی ، مولانا روم ، ابراہیم ادھم ، امام غزالی، حضرت معین الدین صاحب چشتی ، حضرت داتا گنج بخش ، حضرت بختیار کا کئی، حضرت فرید الدین صاحب شکر گنج " حضرت نظام الدین صاحب اولیاء ، حضرت خواجہ سلیم چشتی ، حضرت سید احمد صاحب سر ہندیؒ، حضرت ولی اللہ شاہ صاحب ، حضرت خواجہ میر درد صاحب ، حضرت سید احمد صاحب بریلوی اور آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نہر بھی اسی نہر میں سے نکلی ہوئی نہریں تھیں.بتاؤ وہ اور کونسی نہر ہے جو اتنے زمانہ تک اور اتنے ملکوں میں پھیلی ہو.کوئی نہر دوسو میل چلتی ہے، کوئی چار سو ، کوئی سو سال چلتی ہے، کوئی ڈیڑھ سو سال مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی نہر عرب سے نکلی اور شمال میں بڑھتے ہوئے قسطنطنیہ سے ہوتے ہوئے پولینڈ تک چلی گئی.دوسری طرف یورپ میں سے ہوتے ہوئے سستی تک جا پہنچی.مغرب میں مصر سے ہوتے ہوئے ٹیونس، مراکش، الجیریا اور سپین تک چلی گئی.پھر سیرالیون ، گولڈ کوسٹ اور نائیجیر یا تک چلی گئی.مشرق میں ایران ، بخارا، چین، ہندوستان اور برما تک چلی گئی.جنوب میں انڈونیشیا اور فلپائن تک چلی گئی.دوسری نہریں خشکی تک چلتی ہیں اور آگے بند ہو جاتی ہیں سمندر آیا اور نہر ختم.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہر سمندر بھی پار کر گئی اور پھر انگلی خشکی میں جاری ہوگئی.یہ نہر عرب سے آئی مگر عرب پر ختم نہیں ہو گئی بلکہ بحیرہ عرب کو بھی گود کر گزرگئی اور ہندوستان میں آگئی ، ہندوستان سے چلی اور ہمالیہ پہاڑ پر جا کر ختم نہیں ہو گئی جیسا کہ دُنیوی نہریں پہاڑ سے کی سے نکلتی ہیں اور خشکی میں جا کر ختم ہو جاتی ہیں.مگر یہ نہر آئی اور ہمالیہ پہاڑ کو بھی پھاند کر پرے چلی گئی اور اوپر جا کر سنکیا نگ وغیرہ کے علاقوں تک میں اسلام کو پھیلا دیا.ایک سوال کا جواب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسیحیت نہیں پھیلی ؟ اسکا جواب یہ ہے کہ نہیں ، کیونکہ نہر سے سبزی پیدا ہوتی ہے اور مسیحیت سے سبزی پیدا نہیں ہوئی بلکہ اُجاڑ پیدا ہوا اور مسیحیت نے سارے ملکوں کو تباہ کر دیا.مادی اور روحانی نہروں میں بعض اور فرق پھر مادی نہروں میں کشتیاں ڈوبتی ہیں مگر یہ نہر کشتیاں تیراتی ہے.مادی نہریں
۷۰۲ ۵۲ سڑنے والی مچھلیاں کھلاتی ہیں مگر یہ نہر کبد حوت کے جنتی کباب کھلاتی ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ اَوَّلُ طَعَام يَا كُلُهُ اَهْلُ الْجَنَّةِ زِيَادَةُ كَبِدِ حُوتٍ یعنی پہلا کھانا جو جنتیوں کو ملے گا وہ مچھلی کے جگر کا زائد حصہ ہوگا جو نہایت اعلیٰ حصہ ہوتا ہے.روحانی نہریں کبھی کا فوری اور کبھی زنجبیلی پھر دوسری نہریں اس دنیا میں ختم ہو جاتی ہیں مگر یہ نہر سمندر پار ہی نہیں جاتی بلکہ کبھی دودھ اور کبھی شہد کی شکل میں موت پار بھی جاتی ہے اور کبھی کا فوری شکل میں ظاہر ہوتی ہے جیسا کہ فرماتا ہے.يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَا جُهَا كَا فُورًا ۵۳ خدا تعالیٰ کے نیک بندے ایسے پیالے پئیں گے جن میں کا فور کی ملونی ہوگی.اور کبھی زنجبیلی شکل میں ظاہر ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا وَيُسْقَوْنَ فِيْهَا كَا سَا كَانَ مِزَاجُهَا زَنُجَبِيلاً ۵۴ مؤمنوں کو جنتوں میں ایسے گلاسوں سے پانی پلایا جائے گا جن میں زنجبیل ملی ہوئی ہوگی.پھر کبھی دودھ کی شکل میں یہ نہر چل پڑتی ہے جیسا کہ فرماتا ہے مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا أَنْهَرٌ مِنْ مَّا غَيْرِ اسِنٍ وَ اَنْهَرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرُ طَعْمُهُ، ۵۵ یعنی یہ جو قرآنی تعلیم کی نہر ہے یہ ایک دن جنت میں نہروں کی شکل میں ظاہر ہو گی.مگر وہاں کئی نہریں ہونگی کسی میں پانی ہو گا مگر وہ پانی سڑنے والا نہیں ہوگا اور کچھ نہروں میں دودھ ہو گا مگر دودھ کا مزہ تو بگڑ جاتا ہے اُن کا مزہ کبھی خراب نہیں ہوگا.پھر کبھی یہ نہر شہد کی شکل میں چل پڑتی ہے.جیسے فرمایا.وَاَنْهَرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُصَفًّى - ۵۶ یعنی وہاں خالص اور مصفی شہد کی بھی نہریں ہونگی.محمدی نہر کوثر کی شکل میں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کبھی محمد کی نہر قیامت میں کوثر کی شکل میں ظاہر ہو جاتی ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.اِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَه فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُهِ إِنَّ شَانِشَكَ هُوَ الْاَ بْتَرُ اے محمد رسول اللہ ! یقیناً ہم نے تجھے کوثر عطا کیا ہے سو تو اس کے شکریہ میں اپنے رب کی کثرت کے ساتھ عبادت کر اور اُسی کی خاطر قربانیاں کر اور یقین رکھ کہ تیرا مخالف ہی نرینہ اولاد سے محروم ثابت ہو گا.
۷۰۳ حدیث میں بھی آتا ہے.سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكَوْثَرِ فَقَالَ هُوَ نَهِرٌ أَعْطَانِيهِ اللَّهُ فِي الْجَنَّةِ - ۵۸ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوثر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا.وہ ایک نہر ہے جو خدا نے مجھے جنت میں بخشی ہے.غرض دیکھو یہ نہر کیا کیا شکلیں بدلتی چلی جاتی ہے.کبھی یہ کا فوری نہر کہلاتی ہے ، کبھی زنجبیلی نہر کہلاتی ہے، کبھی دودھ کی نہر ہوتی ہے، کبھی شہد کی نہر ہوتی ہے، کبھی کوثر کی نہر ہوتی ہے، پھر کبھی وہ اس دنیا میں چلتی ہے ، کبھی اگلے جہان میں چلتی ہے، کبھی عرب میں چلتی ہے ، کبھی سمندر گود کے ہندوستان میں آجاتی ہے، پھر ہندوستان کے پہاڑ کودتی ہے اور چین وغیرہ ملکوں میں چلی جاتی ہے اسی طرح پہاڑی علاقوں میں چلی جاتی ہے.غرض دنیا کی ہر خشکی اور ہر تری پر سے گودتی پھاندتی چلی جاتی ہے اس دنیا کو گودتی ہے موت کو گودتی ہے ، کہیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی.اب بتاؤ! اس نہر اور دنیا کی نہروں کا کیا مقابلہ ہے.پس کہاں دُنیوی بادشا ہوں کی بنائی ہوئی نہریں اور کہاں قرآن کی نہر.اسلام اور کفر کی نہریں متوازی چلتی چلی جائینگی یہ نہریں جوش میں آکر ایک دوسرے کو کاٹ دیتی ہیں اور اگر ایک کا پانی ۵۹ گندہ ہو تو وہ دوسرے کے پانی کو بھی گندہ کر دیتی ہے.مگر قرآنی نہر کا یہ حال ہے کہ اس پر ایک زمانہ تو وہ آتا ہے کہ دوسری نہریں خواہ کتنا زور لگا ئیں اُس کے ساتھ نہیں مل سکتیں.جیسا کہ فرماتا ہے.بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِينِ - - ہم نے دوسری نہروں اور اس نہر کے درمیان ایک روک بنا دی ہے.وہ اس کے اندر داخل ہو کر اس کے پانی کو گندہ نہیں کر سکتی.یعنی دوسرے مذاہب کوشش کرینگے کہ اسلام کو خراب کریں مگر آخر اسلام ہی جیتے گا.اور اللہ تعالیٰ ایسے مجد دمبعوث فرمائے گا جو اسلام کی تعلیم کو پاک کر کے پھر اسلام کے پانی کو صاف کر دینگے.اور باقی دنیا کے مذاہب سارا زور لگانے کے باوجود اسلام کو خراب نہیں کر سکیں گے.کفر اور ایمان کی آخری عمر میں آخر اسلام ہی دنیا پر غالب آئیگا غرض اِدھر اسلام کی نہر ہوگی اور اُدھر کفر کی نہر اور دونوں ایک وقت تک متوازی چلتی چلی جائیں گی.اور ایک دوسرے میں داخل
۷۰۴ نہیں ہونگی مگر آخر ایک وقت آئے گا کہ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِينِ.ہ دونوں سمندر یعنی اسلامی سمند را اور کفر کا سمندر آپس میں مل جائیں گے یعنی یہ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں گے اور اسلام اور کفر کی آخری ٹکر ہو جائیگی.لیکن اس آخری ٹکر میں بھی کفر کی نہر اسلام کی نہر کو گندہ نہ کر سکے گی بلکہ آخر یہ نتیجہ نکلے گا کہ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تكذبن - ال یعنی آخر اسلام کی نہر ہی جیتے گی.پس اے مسلمانو! بتاؤ یہ ہما را کتنا بڑا احسان ہے کہ آخری فتح تمہاری ہو گی.آخری فتح عیسائیت کی نہیں ہوگی بلکہ آخری فتح اسلام کی ہو گی.پس اے کا لی اور گوری نسلوں کے لوگو! اسلام کی نہر آخر غالب آجائے گی اور کفر کی نہر اُس میں مدغم ہو کر اپنا نام کھو بیٹھے گی.اب بولو کہ تم خدا تعالیٰ کی کس کس نعمت کا انکا ر کرو گے.فَسُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ وَ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيم - البقره : ۷۵ الانبياء : ٣١ یونس : ۲۵ هود : ۸ ه بخارى كتاب العلم باب فَضْل مَنْ عَلِمَ وَ عَلَّمَ حديث نمبر ۷۹ صفحه ۱۹ مطبوعہ الرياض الطبعة الثانية ما رچ ١٩٩٩ء 1 کرنتھیوں باب ۱۰ آیت ۳ ۴.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء ک ال عمران: ۱۹۱ النحل : ١٣ ما العنكبوت : ٣٩ ال القصص : ۵۹ الحجر : ۷۶ تا ۷۸ العرب قبل الاسلام مؤلفه جرجی زیدان صفحہ نمبر ۷ ۱ مطبوعہ دار الهلال الشورى: ۳۴،۳۳ ها النحل : ۷۰ ابراهيم:۳۳ يونس : ٦ كا الرحمن: ٧،٦ ١٨ النحل : ١٠٤ ۲۳ بنی اسرائیل : ۱۳ ١٩ تا ٢١ البقره: ۲۴ ٢٢ النحل : ٩٠ ۲۴ الشعراء: ۱۱۴ ٢۵ البقره : ۲۶۲ النساء : ۱۱۴ ۳۰ الذريت: ۵۰ بنی اسرائیل: ۵۰ تا ۵۲ ٢٨ البقره: ۱۷۱ ۲۹ آل عمران : ۶۶ مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ماقاله شرعا حدیث نمبر ۶۱۲۸ صفحه ۱۰۳۹ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية ابريل ۲۰۰۰ء
۷۰۵ ۳۲ ٹین (TIN) ایک سفید نرم دھات فیروز اللغات ارد و صفحه ۴۳۵ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء ٣٣ الحجر : ٢٠ ۳۴ الجاثیه : ۵ ۳۵ الانعام: ۳۹ اور بلاؤ : پانی کا ایک جانور جو مچھلیاں کھاتا ہے (علمی اردو لغت صفحہ ۱۴۷ مطبوعہ علمی کتب خانہ ، لاہور ) یہ نیولے کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے.سوائے آسٹریلیا کے تمام براعظموں میں پایا جاتا ہے.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اصفحه ۱۵۴ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء) ۳۷ یاس : ۷۲ تا ۷۴ پتے : مفرد بیا: چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ.اس کا گھر بنانا بڑا مشہور ہے.فیروز اللغات اردو صفحه ۲۵۰ مطبوعہ فیروز سنز لا ہور ۲۰۱۰ء ٣٩ البقرة : ١٩٩ ٢٠ الجمعة: ا بنی اسرائیل: ۳۰ ٢٢ البقرة : ٢٢٠ ۴۳ بخاری کتاب الفرائض باب ميراث البنات حديث نمبر ۶۷۳۳ صفحه ۱۱۶۳،۱۱۶۲ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۴۴ سبا : ۱۹ ۲۵ هود : ۱۰۱ ٤٦ العنكبوت : ٢١ الانبياء: ٣١ ۴۸ ترجمه قرآن مولوی نذیر احمد صفحه ۳۹۱ مطبوعہ کراچی ۱۹۶۱ء الطارق : ۱۲ تا ۱۵ ۵۰ الكهف : ۴۷ ا۵ متی باب ۶ آیت ۱۹ ،۲۰ پاکستان بائبل سوسائٹی مطبوعہ ۱۹۹۴ ء لا ہور.۵۲ بخاری کتاب الرقاق باب صفة الجنّة و النار صفحه ۱۱۳۳ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۵۳ الدهر : ۶ ۵۴ الدهر : ۱۸ ۵۶،۵۵ محمد: ۱۶ ۵۷ الكوثر : ۲ تا ۴ ۵۸ ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب وَ مِنْ سُوْرَة الكوثر حدیث نمبر ۳۳۵۹ صفحہ ۷۶۷ الطبعة الاولى ابريل ١٩٩٩ء ۵۹ الرحمن: ۲۱ ٢٠ الرحمن : ٢٠ ال الرحمن : ٢٢
بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ (۱۰) ( تقریر فرموده مورخه ۲۸ دسمبر ۱۹۵۶ء بر موقع جلسه سالانه ربوہ ) قرآنی باغات تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- پیشتر اس کے کہ میں اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کروں اور اُن باغات کے مقابلہ میں جو میں نے اپنے سفر حیدر آباد میں دیکھے تھے اُن روحانی باغات کا ذکر کروں جو قرآن کریم نے پیش کئے ہیں میں تمہیدی طور پر بعض امور کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کا میرے اس مضمون کے ساتھ تعلق ہے.یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کی بنیا د توحید خالص پر اسلام کی توحید خالص پر بنیاد ہے اور سورۃ اخلاص اس تو حید کا معیار ہے.قرآن کریم اس بات پر زور دیتا ہے کہ سوائے خدا تعالیٰ کے سب چیزیں جوڑا جوڑا ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ خدا تعالی خالق ہے اور باقی چیزیں مخلوق ہیں کیونکہ احد وہی ہوسکتا ہے جو جوڑا نہ ہو.جو جوڑا ہو اس کا مخلوق ہونا ضروری ہے.چنانچہ سورہ ذاریات میں آتا ہے.وَ مِنْ كُلِّ شَيْ : خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ یعنی جتنی چیزیں ہم نے پیدا کی ہیں ان سب کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے تا کہ تم اس سے نصیحت حاصل کرو.یعنی دُنیوی چیزوں کو جوڑا جوڑا پیدا کرنے سے یہ غرض ہے کہ تم سوچو کہ جب ہر چیز جوڑا ہے تو معلوم ہوا کہ ہر چیز مخلوق ہے اور اس کا کوئی خالق ہے.اور جب خدا جوڑا نہیں تو معلوم ہوا کہ اللہ احمد ہے، اللہ صمد ہے.وہ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ ہے.جو شخص کسی کا بیٹا ہوتا ہے وہ جوڑا ہوتا ہے اور اس کا ایک باپ اور ایک ماں ہوتی ہے.اور جس
۷۰۸ کے ہاں کوئی بیٹا ہو اُس کی ایک بیوی بھی ہوتی ہے غرض جو بیٹا جنے یا کسی کا بیٹا ہو وہ احد نہیں ہو سکتا.عیسائیت جو حضرت مسیح کے ابن اللہ ہونے پر ناز کرتی ہے درحقیقت وہ دوسرے لفظوں میں مسیح کو ابن اللہ ہونے سے جواب دیتی ہے.کیونکہ اگر وہ ابن اللہ ہے تو وہ جوڑا ہے خالق نہیں.وہ منفرد نہیں ، وہ محتاج ہے ایک باپ کا جو اس کو وجود میں لایا ہے.وہ محتاج ہے ایک ماں کا جو اس کو وجود میں لائی ہے.اور جب وہ مخلوق ہوا تو وہ محتاج ہے بیوی کا بھی تا کہ وہ اولاد پیدا کرے اور اگر وہ بیوی کا محتاج نہیں تو مخنث ہے جو ذلیل ہوا کرتا ہے.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے تا کہ تم اس سے نصیحت حاصل کرو.ایک نصیحت تو یہ حاصل کرو کہ جب ساری مخلوق کو دیکھو کہ وہ جوڑا جوڑا ہے تو سمجھ جاؤ کہ وہ مخلوق ہے اور خدا نے پیدا کی ہے.دوسرے تم سمجھ لو کہ جو جوڑا نہیں وہ خالق ہے اور وہ ایک ہی ہے اور وہی سچا احمد ہے اور کوئی احمد نہیں ہو سکتا اس لئے وہ مخلوق بھی نہیں ہو سکتا اور اس طرح توحید کامل پر قائم ہو جاؤ.مخلوق کے بارے ہر چیز کے جوڑا ہونے کے بارہ میں قرآن کریم کا بے مثال علمی نکتہ میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے سب کو جوڑا جوڑا بنایا ہے.یہ علم بھی قرآن کریم سے پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا.سارا وید پڑھ جاؤ، ساری بائبل پڑھ جاؤ، ساری انجیل پڑھ جاؤ ، ساری ژند اوستا پڑھ جاؤ ، یونان کے فلاسفروں کی کتابیں پڑھ جاؤ ، ہندوستان کے فلاسفروں کی کتابیں پڑھ جاؤ، چین کے کنفیوشس نبی کی کتابیں پڑھ جاؤ ، شنٹو ازم جو جاپان کا مذہب ہے اُس کی کتا میں پڑھ جاؤ غرض بدھوں کی کتابیں پڑھو، یہودیوں کی پڑھو، عیسائیوں کی پڑھو، ہندوؤں کی پڑھو، یونانیوں کی پڑھو، کسی مذہب کی کتاب پڑھو، یہ نکتہ تمہیں کہیں نظر نہیں آئے گا کہ ہر چیز کا جوڑا ہے.صرف قرآن کریم ایک کتاب ہے جو کہتی ہے کہ ہم نے ہر چیز کو جوڑا پیدا کیا ہے.اور یہ جوڑے اس کی لئے پیدا کئے ہیں تا کہ ان کی حکمت سے تمہیں خدا کی توحید کی طرف توجہ ہو.یہ علم جو قرآن کریم سے پہلے کسی کو نہیں تھا حتی کہ الہامی کتابوں میں بھی نہیں تھا.نہ ویدوں میں تھا، نہ بدھ کی پستکوں سے میں تھا، نہ یونانیوں کی کتابوں میں تھا، نہ ایرانیوں کی کتابوں میں تھا، نہ یہودیوں کی کتابوں میں تھا، نہ عیسائیوں کی کتابوں میں تھا.اسبارہ میں بہت ہی محدود علم عربوں کو حاصل تھا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ محدود علم بھی حاصل نہیں تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کریم خدا کی
2.9 کتاب ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ ہر چیز کا جوڑا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بعض درختوں کے بھی جوڑے ہیں.اگر قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لکھا ہوا ہوتا تو اس میں تو جوڑے کا ذکر ہی نہیں ہونا چاہئے تھا.اور اگر ہوتا تو یہ ہوتا کہ یہ سب فضول باتیں ہیں کوئی چیز جوڑا جوڑا نہیں.مگر قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ ہر چیز کو خدا تعالیٰ نے جوڑے کی شکل میں پیدا کیا ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسا کہ میں آگے ثابت کرونگا اس کا کوئی علم نہیں تھا.اب اگر یہ ثابت ہو جائے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہیں تھا کہ ہر چیز کا جوڑا جوڑا ہے تو پھر آیت رکس نے لکھ دی.صاف ثابت ہے کہ یہ عالم الغیب خدا نے لکھی ہے جس سے محمد رسول اللہ بھی سیکھتے تھے اور ہم بھی سیکھتے ہیں.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھی ہوئی ہوتی تو اُنکو بھی علم ہوتا.اور اگر اُنکو علم ہوتا تو وہ بات نہ ہوتی جو میں آگے بیان کرنے لگا ہوں.حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز علیہ وسلم مدینہ میں ایک کھجوروں کے باغ کے پاس سے گزرے.آپ نے دیکھا کہ باغ والے کر کھجور کے جوڑا ہو نیکا کوئی علم نہیں تھا.سے کچھ چیز لے کر مادہ کھجور سے ملا رہے ہیں.آپ نے فرمایا ایسا کیوں کرتے ہو.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! اس کے بغیر پھل اچھا نہیں آتا.یعنی کھجور میں بھی نر اور مادہ ہے اور اگر ان کو آپس میں نہ ملایا جائے تو جیسے کر مادہ سے نہ ملے تو بچہ پیدا نہیں ہوتا اسی طرح اگر نر کھجور کو مادہ کھجور سے نہ ملایا جائے تو اس کا پھل بھی پیدا نہیں ہوتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی بات سنکر یہ نہیں فرمایا کہ ٹھیک ہے قرآن میں بھی یہی آتا ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھل تو خدا تعالیٰ پیدا کرتا ہے اُس نے جو پیدا کرنا ہے وہ تو کرے گا ہی جو نہیں پیدا کرے گا وہ کس طرح ہو جائے گا.چونکہ وہ بڑے اطاعت گزار لوگ تھے انہوں نے آپ کی بات سنکر یہ کام کرنا چھوڑ دیا.جب پھل کا موسم آیا تو کھجوروں کو پھل نہ لگا یا بہت کم لگا اُن لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللهِ! آپ کی نصیحت پر عمل کر کے ہم تو مارے گئے.آپ نے تلقیح سے یعنی نر درخت کو مادہ درخت سے ملانے سے منع کیا تھا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا پھل بہت ہی کم آیا.آپ نے فرمایا کہ اس فن کے تم ماہر ہو میں ماہر نہیں ہوں، مجھے اس حقیقت کا کیا علم
تھا، تم کو چاہئے تھا کہ میری بات نہ مانتے ہے اس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو جو قرآن کریم میں قاعدہ کے طور پر بیان کی گئی تھی اپنے کسی علم کے ذریعہ سے نہیں جانتے تھے یہ محض الہامی علم تھا.پس اس واقعہ سے ہر عقلمند خواہ کسی ملک کا رہنے والا ہو، کسی مذہب کا ماننے والا ہو سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا انہیں تھا.ورنہ وہ بات جو وہ جانتے نہیں تھے اس میں لکھتے کس طرح؟ قرآن کریم عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَة خدا كا اُتارا ہوا تھا اس لئے اُس میں علاوہ روحانی علوم کے مادی علوم بھی ایسے بیان کئے گئے جن کو محمد رسول اللہ تو بالکل نہیں جانتے تھے مگر دنیا بھی نہایت محدود رنگ میں اُن سے واقف تھی.جیسے عربوں میں یہ علم تھا کہ کھجور میں نر و مادہ ہوتا ہے مگر باوجود اس کے گزشتہ تیرہ سو سال میں مسلمانوں نے ڈ نیوی علوم میں بڑی ترقی کی ہے اور باوجود اس کے کہ قرآن کریم میں یہ آیت موجود تھی انہوں نے اس مسئلہ میں کوئی ترقی نہیں کی کیونکہ خدا تعالیٰ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ تیرہ سو سال بعد سائنس نے جو دریافت کی ہے وہ قرآن کریم میں پہلے موجود تھی.موجودہ سائنسدانوں کی تحقیق اب سائنس دان کہتے ہیں کہ صرف کھجور میں ہی نر و مادہ نہیں بلکہ اور درختوں میں بھی ہیں.مثلاً پیتا میں بھی ہیں.پپیتا کے درخت میں بھی ایک نر پیتا ہوتا ہے اور ایک مادہ پپیتا.میرے سندھ کے باغ میں بہت سے پپیتے لگے ہوئے ہیں.کیونکہ وہاں پہنتے بہت ہوتے ہیں اور ہم بھی لگواتے ہیں.ایک دفعہ میں نے دیکھا تو درختوں پر پھل نہیں تھا.میں نے کہا پھل کیوں نہیں؟ وہ کہنے لگے غلطی سے سب مادہ درخت لگ گئے ہیں نر کوئی نہیں لگا اس لئے ہوا نر درخت میں سے نطفہ لا کر مادہ پر نہیں گراتی اور اسوجہ سے پھل نہیں لگتا.اب ہم نے درخت لگا ئیں گے تو پھر پھل لگے گا.غرض آب سائنٹیفک تحقیق سے بھی ثابت ہو گیا ہے کہ پیپتا میں بھی نرومادہ ہے بلکہ بہت سی سبزیوں اور ترکاریوں میں بھی وہ نر و مادہ کے قائل ہو گئے ہیں بلکہ بعض سائنسدان تو تحقیق میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ دھاتوں میں بھی نر و مادہ کے قائل ہو گئے ہیں.ایک سائنسدان کی کتاب میں نے پڑھی ، اُس میں لکھا تھا کہ ٹین سے بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک ٹین کر ہوتا ہے ، اور ایک مادہ ہوتا ہے اور یہ بھی ایک دوسرے پر اثر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے اثر کو قبول کر کے ایک نئی شکل بدل لیتے ہیں.مگر سائنسدان تو یہ کہتے ہیں کہ نباتات میں نر و مادہ ہوتا
ہے اور دھاتوں میں بھی نرومادہ ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ اس سے بھی اوپر جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ ہم نے ہر چیز میں جوڑا بنایا ہے اور ہر چیز کے لفظ کے نیچے سب نباتات بھی آجاتی ہے، جمادات بھی آجاتی ہے، حیوانات بھی آجاتے ہیں.بلکہ اس سے بڑھ کر ذرات عالم اور مجموعہء ذرات عالم بھی آجاتے ہیں.دنیا کی زندگی بھی ایک جوڑا ہے چنانچہ دیکھ لو جہاں بہت سے مذاہب اور فلسفیوں نے صرف اس دنیا کی زندگی کو ایک حقیقت قرار دیا ہے اسلام نے مذکورہ بالا اصل کے مطابق دو جہان قرار دیئے ہیں یعنی جہانوں میں بھی جوڑا بتایا ہے.ایک یہ دنیا ہے اور ایک اگلا جہان ہے، یہ بھی جوڑا ہے.ساری بائبل پڑھ کے دیکھ جاؤ صرف کہیں کہیں اشارے نظر آئیں گے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی ہے لیکن واضح طور پر حيات بَعْدَ الْمَوت کا بائبل میں کوئی ذکر نہیں.حضرت مسیح نے بھی ایک مُردہ سا اشارہ بائبل کی.سے نکالا کہ اس میں مرنے کے بعد کی زندگی کا ذکر ہے.مگر قرآن کو پڑھ جاؤ ہر جگہ اگلے جہان کا ذکر نظر آئے گا.میں نے کئی یورپین لوگوں کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ قرآن پڑھ کر تسلی ہونے لگ جاتی ہے، ہر جگہ اگلے جہان کا ہی ذکر ہے.حالانکہ اگلے جہان کا ذکر قرآن اس لئے کرتا ہے کہ قرآن دعویدار ہے کہ ہم نے ہر چیز کو جوڑا پیدا کیا ہے.اگر قرآن اگلے جہان پر زور نہ دیتا تو لوگ کہتے یہ جہان تو ایک ہو گیا.آپ جو کہتے ہیں کہ ہر چیز کا جوڑا ہے تو پھر اس کا جوڑا کونسا ہے؟ قرآن نے پیش کر دیا کہ اس کا جوڑا اگلا جہان ہے.چنانچہ قرآن کریم میں صاف طور پر آتا ہے کہ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتْنِ ! جو شخص اپنے رب کی شان سے ڈرتا ہے اُس کو دو جنتیں ملیں گی.ایک اس دنیا میں ایک اگلے جہان میں.سو دو زندگیوں کا اس آیت میں بھی ذکر آ گیا.یوں دونوں زندگیوں کا الگ بھی ذکر آتا ہے مگر اس آیت سے بھی نکلتا ہے کہ دو زندگیاں ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو دُعا سکھائی ہے کہ جنت اور دوزخ بھی جوڑا ہیں وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً اے خدا! ہم ہر چیز کے جوڑے کے قائل ہیں.ہم جانتے ہیں کہ ایک یہ دنیا ہے اور ایک اگلا جہان ہے.تو ہم کو اس دنیا میں بھی آرام بخشیو اور سکھ دیجیو اور اگلے جہان میں بھی
۷۱۲ سکھ دیجیو.اور اگلے جہان میں ہم کو پتہ ہے کہ پھر جوڑا ہے، ایک دوزخ ہے اور ایک جنت ہے.گو یا جوڑا وہاں بھی ختم نہیں ہوتا تو ہم کو اس جوڑے میں سے جو دوزخ والا حصہ ہے اُس سے بچائیو اور اس جوڑے میں سے جو جنت والا حصہ ہے وہ عطا کیجیو.بلکہ پھر آگے چل کر اس دنیا کو بھی جوڑا بتایا ہے اور اگلے جہان کو بھی جوڑا بتایا ہے.اس دُنیا کے متعلق فرماتا ہے کہ ایک عسر کی دُنیا ہے اور ایک ٹیسر کی دُنیا ہے.ایک ٹور کی دنیا ہے ایک ظلمت کی دُنیا ہے.یعنی ایک زندگی اس دُنیا میں ایسی ہے جو تکلیف اور دُکھ کی زندگی ہے اور ایک زندگی راحت کی زندگی ہے.اسی طرح ایک زندگی نور کی ہے اور ایک تاریکی کی.یہ دونوں اس دنیا کی زندگی کے جوڑے ہیں چنانچہ فرماتا ہے.فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا A یعنی یا درکھتنگی کے ساتھ ایک بڑی کامیابی مقدر ہے.ہاں یقینا اس تنگی کے ساتھ ایک بڑی کامیابی مقدر ہے.اسی طرح فرماتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَتِ وَالنُّورَث یعنی سب تعریف اللہ کی ہے جس نے ایک ظلماتی دنیا پیدا کی ہے اور ایک نوری دُنیا پیدا کی ہے.خکلماتی دنیا ظاہری لحاظ سے رات ہوتی ہے کیونکہ رات کا کام بھی نرالا ہے اور دن کا کام بھی نرالا ہے.اور نورانی دنیا دن ہوتا ہے اور رُوحانی طور پر ظلماتی دنیا کفر کی دنیا ہوتی ہے اور نورانی دنیا ایمان اور اسلام کی دنیا ہوتی ہے.پھر اگلے جہان کے متعلق بھی ایک نار اور ایک جنت کی زندگی بتا تا ہے.فرماتا ہے.مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَّاَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَئِكَ أَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ.وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ أُولَئِكَ أَصْحَبُ الْجَنَّةِ : هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ " یعنی وہ لوگ جو برائیوں میں ملوث ہوں گے اور اُن کے گنا ہ اُن کا چاروں طرف سے احاطہ کر لیں گے وہ دوزخ میں جائیں گے اور وہ اس میں رہتے چلے جائیں گے.لیکن جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے مناسب حال اعمال کئے وہ جنت میں جائیں گے اور وہ اُس میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے.غرض قرآن کریم نے خدائی مخلوق میں ہر جگہ جوڑا جوڑ استسلیم پھلوں میں بھی جوڑے ہیں کیا ہے بلکہ قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ صرف درختوں میں
۷۱۳ ہی جوڑا نہیں بلکہ پھلوں میں بھی جوڑا ہوتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَ جَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَانْهَرَاء وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيْهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ یعنی خدا ہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا ہے اور اُس میں پہاڑ بنائے ہیں اور نہریں بنائی ہیں اور ہر قسم کے میوے لگائے ہیں مگر وہ تمام قسم کے میوے بھی جوڑا جوڑا ہیں.گویا صرف کھجور کا درخت ہی جوڑا نہیں بلکہ کھجور کو جو پھل لگتا ہے وہ بھی جوڑا جوڑا ہے اور اس میں بھی نر اور مادہ ہوتا ہے.آجکل کے سائنس دانوں کے مقابلہ میں یہ زراعت کا کتنا وسیع علم ہے جو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے آج کے سائنس دان اس کے ہزارویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے.پھر فرماتا ہے: يُغْشِى الَّيْلَ النَّهَارَ دیکھو ہم نے دن اور رات کا بھی جوڑا بنایا ہے رات دن پر اور دن رات پر سوار ہوتا چلا جاتا ہے.زمین اور آسمان کا جوڑا یہ بھی یا د رکھنا چاہیئے اس آیت میں زمین کا تو ذکر کیا گیا ہے مگر آسمان کا نہیں.یہ تو کہا ہے کہ ہم نے زمین کو پھیلایا ہے مگر آسمان جو زمین کا جوڑا ہے اُس کا ذکر چھوڑ دیا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ دو متقابل چیزوں میں سے ایک کا ذکر کر دیا جائے تو دوسری کو چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ ہر عقل اس کا آپ ہی قیاس کر لیتی ہے.عرب کہتے ہیں کہ اگر دو متقابل چیزیں ہوں اور ایک چیز کا ذکر کر کے دوسری کو چھوڑ دیا جائے تو عقل انسانی اُسکو آپ ہی نکال لیتی ہے.یہ قاعدہ میں اپنے پاس سے بیان نہیں کر رہا بلکہ لغت کے امام ثعالبی نے اپنی کتاب فقه اللغۃ میں اسے بیان کیا ہے.ثعالبی وہ شخص ہیں جو ابنِ جتنی کے شاگرد تھے اور ابن جنّتی اِمَامُ اللغة سمجھے جاتے تھے.وہ زبان کے بہت بڑے ماہر تھے.اُن کی کتاب ایسی بے نظیر ہے کہ جس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی.اس کتاب میں انہوں نے اشتقاق وغیرہ پر بحث کی ہے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مدن الرحمن لکھی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ عربی زبان اُم الالسنہ ہے.گو انہوں نے اس کا اپنی کتاب میں ایک ناقص نقشہ کھینچا ہے مگر بہر حال کچھ نہ کچھ نقشہ تو کھینچا ہے.پس اس جگہ پر زمین و آسمان کو جوڑا بتایا گیا ہے اور پھلوں کو بھی جوڑا جوڑا بتایا گیا ہے.پھلوں کے جوڑے میں صرف دنیا وی جوڑوں کی طرف اشارہ نہیں بلکہ اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ روحانی سلسلوں میں جو پھل پیدا ہوتے ہیں یعنی نبی کی روحانی اولا د چلتی ہے وہ بھی جوڑا جوڑا ہوتی ہے.
۷۱۴ اب میں اپنے اصل مضمون یعنی باغات کو لیتا قرآنی باغات بھی سب جوڑا جوڑا ہیں ہوں.جتنے باغات میں نے اپنے سفر حیدر آباد میں دیکھے تھے وہ سب ایک ایک تھے مگر قرآن کریم نے جن باغات کو پیش کیا ہے وہ جوڑا ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں جنت کا ایک نام نہیں بلکہ چار نام آئے ہیں.جنتِ عَدْنَ ، جنتِ مأوى جنَّتِ نَعِیم اور جنتِ فِردَوس.گویا جنتوں کو صرف جوڑا ہی نہیں بتایا بلکہ دو جوڑے (یعنی چار ) بتایا ہے.اور اس طرح اُس چیز کو جس کو غیر فانی قرار دیا گیا تھا تو حید کے راستہ سے ہٹا کر توحید کی دلیل بنا دیا ہے.کیونکہ جنت کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ عدن ہے اور خُلد ہے یعنی دائمی طور پر رہنے والی ہے.اور چونکہ غیر فانی چیز میں خدائی پائی جاتی ہے اس لئے شبہ ہوسکتا تھا کہ شاید جنت میں بھی خدائی پائی جاتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بتایا کہ نہیں وہ بھی جوڑا ہے اور چونکہ وہ جوڑا ہے اس لئے اُسے بھی خدا تعالیٰ کے مقابل میں کھڑا نہیں کیا جاسکتا اور اس کے اندر کوئی خدائی نہیں پائی جاتی.اسی طرح وہ چیز جو خدا تعالیٰ کی احدیت میں شبہ پیدا کر سکتی تھی اُس کو بھی جوڑا بنا کر خدا تعالیٰ کی احدیت کو پھر قائم کر دیا اور وہی چیز جو توحید میں شبہ ڈال سکتی تھی اُس کو تو حید کی دلیل بنا دیا ہے.پھر اگلی دنیا میں جن جنتوں کا ذکر کیا ہے اُن میں سے ہر ایک جنت کو پھر جوڑا قرار دیا گیا ہے گویا اس طرح چار جنتوں کو آٹھ جنتیں بنا دیا ہے.چنانچہ سورۃ رحمن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَجَنَا الْجَنَّتَيْنِ دَان.یعنی اگلے جہان کی ہر جنت جنتِ نَعِیم ہو یا جنتِ مأوى ، جنتِ فِردَوس ہو یا جنتِ عَدْنٍ اس کے بھی دو دو حصے ہونگے اور اس کے ہر حصہ کا پھل جھکا ہوا ہو گا.اول تو جت نعیم اکیلی نہیں.جنتِ نَعِیم کے ساتھ جنتِ عَدْنٍ بھی ہے.اور پھر جنت ماوی بھی ہے او ر جنت فردوس بھی ہے گویا چار جنتیں ہیں.مگر وہ چاروں جنتیں آگے پھر دو دو جنتیں ہیں اور ان کے ہر حصہ کا پھل جھکا ہوا ہوگا اور مؤمن کو آسانی سے مل جائے گا.پھر اس دنیا کی جنتوں کا جہاں ذکر فرماتا ہے وہاں بھی قوم عاد کے دو باغات کا ذکر اُس کو جوڑا کی شکل میں ظاہر کرتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں جہاں ایک قوم کے باغوں کا ذکر آتا ہے وہاں بھی اُسکو دو باغ قرار دیا ہے فرماتا ہے وَبَدَّلْنَهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَى أَكُل خَمْطٍ وَّ اَثْلٍ وَشَيْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِيل كا یعنی عاد کی قوم کے پاس بھی دو جنتیں تھیں.ہم نے ان جنتوں کو تباہ کر دیا اور اُس کی جگہ نہایت
۷۱۵ بُرے پھل والے درخت لگا دیئے جو بد مزہ تھے، کڑوے تھے اور کھٹے تھے.خمط کے معنے ایسی چیز کے ہوتے ہیں جو کھٹی اور کڑوی ہو.یعنی وہ ایسے پھل دینے لگے جو کڑوے بھی تھے اور کھٹے بھی.یہاں بھی درحقیقت روحانی پھل مراد ہیں کیونکہ عاد اور ثمود کی تباہی کے بعد جن کے پھل سخت کڑوے اور بدمزہ ہو چکے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تھے.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اِن لوگوں کی جنتوں کو تباہ کر دیا اور اس کی جگہ نہایت بُرے پھل والے دو باغ ان کو دیئے یعنی اچھے پھل والے باغ ابرا ہیم کو مل گئے اور بُرے پھل والے باغ عاد کو مل گئے.سورہ کہف میں اللہ تعالی موسوی قوم کے متعلق بھی موسوی قوم کے دو باغات کا ذکر فرماتا ہے.وَاضْرِبُ لَهُم مَّثَلاً رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لَا حَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَّ حَفَفْنَهُمَا بِنَخْلٍ وَّ جَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرُعاً.كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ أَتَتْ أكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمُ مِّنْهُ شَيْئًا وَّ فَجَّرُنَا خِلَا لَهُمَا نَهَرًا یعنی تو اُنکے سامنے اُن دو شخصوں کی حالت بیان کر جن میں سے ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ دیئے تھے اور انہیں ہم نے کھجور کے درختوں سے ہر طرف سے گھیر رکھا تھا اور ہم نے ان دونوں کے درمیان کچھ کھیتی بھی پیدا کی تھی.ان دونوں باغوں نے اپنا اپنا پھل خوب دیا اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کیا اور اُن کے درمیان ہم نے ایک نہر بھی جاری کی ہوئی تھی.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دو جنتیں عطا فرما ئیں اور ان دونوں جنتوں میں فاصلہ رکھا اور چونکہ یہ باغ کنارہ کی طرف جاتے جاتے کمزور پڑ گئے.اس لئے ایک باغ اور دوسرے باغ کے درمیان کھیتیاں بنا دی گئیں.چنانچہ موسوی باغ اور عیسوی باغ کے درمیان داؤد کے اتباع کا زمانہ آیا.اسی کی طرف اس میں اشارہ ہے کہ موسٹی کا باغ چلے گا اور جاتے جاتے داوڑ کے زمانہ کے بعد اس میں تنزل شروع ہو جائے گا اور وہ کھیتیاں بن جائے گا.چنانچہ فرماتا ہے وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرُعًا.ہم نے ان دونوں باغوں کے درمیان کچھ کھیتی بھی پیدا کی تھی.یعنی ایک طرف عیسوی باغ تھا اور ایک طرف موسوی باغ اور ان کے درمیان ہم نے کھیتی پیدا کر دی.یعنی داؤد کی نسل پر وہ زمانہ آیا جب کہ بخت نصر نے یہودیوں کو تباہ کر دیا.اُن کے معبد گرا دیئے اور انہیں قید کر کے لے گیا.پس اُن اتباع کا جو زمانہ تھا یا حزقی ایل اور دانی ایل کا زمانہ تھا وہ کھیتیوں کا زمانہ تھا یعنی اُنکی مثال ایک کھیتی کی سی تھی نہ
کہ باغ کی جو کہ غَسَمُ الْقَوْم کے چر جانے کے خطرہ میں ہوتی ہے.یعنی جب قوم کمزور پڑ جاتی ہے تو دشمن قو میں اس کو لوٹ سکتی ہیں.اسی کو قرآن کریم میں دوسری جگہ بیان کیا گیا ہے که نَفَشَتُ فِيْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ و پاس کی ہمسایہ قوموں کے جو جانور تھے اور بھیڑیں وغیرہ تھیں وہ اس کھیتی میں چر گئیں.یعنی ارد گرد جو بخت نصر کا علاقہ یا رومی علاقہ تھا انہوں نے آکر موسوی کھیتی کو اپنے آگے رکھ لیا.لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ درمیان میں نہر ہو گی.یعنی آخری زمانہ اور موسوی زمانہ کے درمیان حضرت عیسی علیہ السلام کو پیدا کیا جائے گا.چنانچہ موسوی قوم کی دو ترقیوں کے درمیان حضرت عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے اور انہوں نے موسوی باغ کے لئے نہر کا کام دیا.یہی سلسلہ دُہرانے کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وعدہ فرمایا گیا ہے چنانچہ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً شَاهِدًا بھی دو باغ عطا کئے جانے کا وعدہ عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا.٢٠ اے مکہ والو! ہم نے تمہاری طرف بھی ایک رسول تمہارا نگران بنا کر بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف موسی کو رسول بنا کر بھیجا تھا.یعنی محمد رسول اللہ مثیل موسی ہیں اور موسی“ کی قوم کے حالات ایک رنگ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پیش آئیں گے.یعنی ان کو بھی دو باغ ملیں گے اور موسی کی طرح اُنکے زمانہ نبوت میں بھی ایک باغ تو وہ ہوگا جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت بغیر کسی اور مامور کی مدد کے چلے گی.لیکن آخر میں اسلام کے تنزل کا دور آجائے گا اور وہ کھیتیوں کی طرح رہ جائے گا.تب اللہ تعالیٰ موسوی سلسلہ کی طرح ایک مسیح محمدمی بھیجے گا جس کی اُمت دوسرے باغ کی حیثیت رکھے گی لیکن ہوگی وہ بھی محمد رسول اللہ کی اُمت اور اس کا باغ بھی محمد رسول اللہ کا باغ ہی کہلائے گا لیکن اس فرق سے کہ چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موسی سے افضل ہیں موسوی سلسلہ کے دوسرے حصہ کی بنیاد جس مسیح سے پڑی تھی وہ مستقل نبی تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے باغ کی بنیاد جس مسیح سے پڑے گی وہ امتی نبی ہوگا.یعنی وہ خود بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں ہوگا اور اُس کے ماننے والے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہی ہونگے.پس اس کی کوئی جدا امت نہیں ہوگی بلکہ اس کے ماننے والے اُس کے مرید کہلائیں گے.جیسا کہ جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی
212 مرید کہلاتی ہے لیکن امت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہلاتی ہے.چنا نچہ اس کا ثبوت کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں امت محمدیہ کا بلند مقام سے امتی نبی آتے رہیں گے سورۃ نساء رکوع ۹ آیت ۷۰ سے ملتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّنَ وَالصِّدِيقِيْنِ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا یعنی اے لوگو! یا د رکھو ہمارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا درجہ ہے کہ جو کوئی اللہ کی اطاعت کرے وَالرَّسُول اور اس رسول یعنی محمد رسول اللہ کی اطاعت کرے ، فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمُ وہ اُن لوگوں میں شامل ہو جائے گا جن پر خدا تعالیٰ نے انعام کیا.وہ کون لوگ ہیں.النَّبِيِّنَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَ الصَّلِحِينَ وہ نبی اور صدیق اور شہداء اور صالحین ہیں.یعنی آپ کی اُمت میں داخل ہونے والے آپ کے فیض سے مستفیض ہو کر اور آپ کے نور سے منور ہو کر اور آپ کی روشنی کو حاصل کر کے اور آپ کے درس سے سبق سیکھ کر نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین کے مقام کو پہنچیں گے.لیکن فرماتا ہے یہ در جے صرف محمد رسول اللہ کی اُمت میں مل سکتے ہیں کسی غیر کو حاصل نہیں ہو سکتے کیونکہ الرَّسُولَ كى اطاعت یعنی محمد رسول اللہ کی اطاعت سے ہی نبی اور صدیق وغیرہ بن سکتے ہیں.قرآن کریم کی دوسری آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے نبیوں کی اطاعت کر کے انسان صدیق.شہید اور صالح بن سکتا ہے مگر نبی نہیں بن سکتا.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کر کے نبی.صدیق.شہید اور صالح سب در جے حاصل کر سکتا ہے.فلسطین اور کشمیر کے متعلق خدائی وعدہ پس محمدرسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو دو باغ مل گئے.ایک باغ مسیح موعود کے ظہور سے پہلے زمانہ میں اور ایک باغ مسیح موعود کے ظہور کے بعد کے زمانہ میں.چنانچہ پہلے زمانہ میں ڈ نیوی لحاظ سے وہی باغ آپ کو ملا جو موسی کی اُمت کو دنیوی لحاظ سے ملا تھا یعنی فلسطین اور کشمیر کا علاقہ.فلسطین میں بھی بڑے باغات ہیں.میں نے ۱۹۲۴ء میں جب سفر کیا تو فلسطین بھی گیا تھا.میں ریل میں دمشق سے بیروت آیا جب بیروت کے قریب پہنچے تو میں نے دیکھا کہ ریل شہر کے اندر داخل ہو رہی ہے اور ہر گھر میں باغیچے لگے ہوئے ہیں.اور دمشق میں میں نے دیکھا کہ گھر گھر میں نہریں جاری تھیں اور ہر گھر میں باغ لگا ہوا تھا.اسی طرح کشمیر کا حال ہے کہ وہاں
ZIA چنتے چنتے پر باغ ہے کچھ خود رو اور کچھ مغل بادشاہوں کے لگائے ہوئے.پس قرآن کہتا ہے کہ دنیوی لحاظ سے محمد رسول اللہ کو وہی باغ ملے گا جو موسی کی اُمت کو ملا.جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلسطین کا اپنے نیک بندوں کو وارث بنائے گا یعنی مسلمانوں کو.پھر اللہ تعالیٰ یہودیوں کو فلسطین سے نکال کر کشمیر میں لایا اور اُس نے کشمیر کے لوگوں کو مسلمان بنا یا چنانچہ شیخ ہمدان ایران سے آئے اور اُن کے ذریعہ سے سارا کشمیر مسلمان ہو گیا.محمد رسول اللہ کو موسوی باغ ملنے کی انجیل میں پیشگوئی یہ خبر کہ رسول للہصلی اللہ علیہ وسلم کو موسوی باغ مل جائے گا اس کا ذکر انجیل میں حضرت مسیح نے بھی کیا ہے.انجیل میں آتا ہے:.پھر وہ انہی تمثیلوں میں کہنے لگا کہ ایک شخص نے انگور کا باغ لگایا.اور اُس کی چاروں طرف کھیرا اور کولھو کی جگہ کھودی اور ایک بُرج بنایا اور اسے باغبانوں کو سپرد کر کے پردیس گیا.پھر موسم میں اُس نے ایک نوکر کو باغبانوں کے پاس بھیجا تا کہ وہ باغبانوں سے انگور کے باغ کے پھل میں سے کچھ لے.انہوں نے اُسے پکڑ کے مارا اور خالی ہاتھ بھیجا ( چونکہ یہ مثال ایک روحانی سلسلہ کی ہے اس لئے باغ کے مالک سے مراد خدا تعالیٰ ہے ) اُس نے دوبارہ ایک اور نوکر کو اُن کے پاس بھیجا.انہوں نے اُس پر پتھر پھینکے اُس کا سر پھوڑا اور بے حُرمت کر کے پھیر بھیجا.پھر اُس نے ایک اور کو بھیجا.انہوں نے اُسے قتل کیا.پھر اور بہتیروں کو.اُن میں سے بعض کو پیٹا اور بعض کو مار ڈالا.اب اُس کا ایک ہی بیٹا تھا (یعنی خود مسیح) جو اُس کا پیارا تھا آخر کو اُس نے اُسے بھی اُن کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے دیں گے.لیکن ان باغبانوں نے آپس میں کہا.یہ وارث ہے آؤ ہم اسے مار ڈالیں تو میراث ہماری ہو جائے گی.اور انہوں نے اسے پکڑ کے قتل کیا (اس میں مسیح کے صلیب پر لٹکائے جانے کی پیشگوئی تھی ) اور انگور کے باغ کے پرے پھینک دیا ( یعنی فلسطین سے نکالا اور نصیبین بھیج دیا جہاں سے وہ کشمیر چلا گیا ) پس باغ کا مالک کیا کہے گا.وہ آوے گا اور اُن باغبانوں کو ہلاک کر کے انگوروں کا باغ اوروں کو دے گا (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں
واء گے اور اُن باغبانوں کو یعنی یہودیوں کو وہاں سے نکال دینگے اور اپنی اُمت کو دے دینگے ) ۲۲ اس جگہ خود مسیح نے محمد رسول اللہ کے رُوحانی بادشاہ ہونے کا اعلان کیا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا مظہر اور موسی کو محض ایک کارندہ ثابت کیا ہے.اس پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ فلسطین اور امتِ موسویہ کا باغ محمد رسول اللہ کے حوالے کر دے گا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو باغ مل جائیں گے.دو مادی اور دو روحانی.مادی فلسطین اور کشمیر اور روحانی مسیح موسوی کی اُمت اور مسیح محمدی کے متبع.اب دونوں مادی باغوں کشمیر اور فلسطین میں جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کو دیکھ لو.کشمیر میں بھی خدا کے فضل سے جو لوگ اس عزم کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں کہ ہم نے سارا ملک ہی مسلمان بنانا ہے وہ احمدی ہیں اور فلسطین میں بھی ایک ہی جماعت بیٹھی ہے اور وہ احمدی ہیں.یہ چیز بتاتی ہے ہے کہ یہ پیشگوئی جو محمد رسول اللہ کے ہاتھ میں فلسطین اور کشمیر لانے والی ہے احمدیوں کے ہاتھ سے ہی پوری ہوگی.پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے متعلق فرمایا تھا کہ اگر میرے زمانہ میں دس یہودی بھی مسلمان ہو جا ئیں تو سارے یہودی مسلمان ہو جائیں گے.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صرف ایک یہودی عالم مسلمان ہوا دو بھی نہیں ہوئے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی مبلغ جو یہودی فلسطین کو اسلامی فلسطین بنانے کے لئے وہاں موجود ہیں ان کے ذریعہ سے اسوقت تک تین یہودی مسلمان ہو چکے ہیں.اُن میں سے ایک بڑا مستشرق پروفیسر ہے، ایک ڈاکٹر ہے اور ایک تاجر پیشہ ہے اور ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ یہودی قوم کو پھر مسلمان بنائے گا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوش ہو جائیں گے اور بجائے اس کے کہ مسلمانوں کو تو ہیں اور بندوقیں لیکر فلسطین پر حملہ کرنا پڑے یہودی آگے بڑھ کر اپنے دروازے کھولیں گے اور کہیں گے کہ اے مسلمانو! ہم بھی تمہارے مسلمان بھائی ہیں آجاؤ.غرض اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے کام لے کر تم لوگ جو کہ نہایت غریب سمجھے جاتے ہو اور جن کے کپڑوں کو دیکھ کر بعض شہری امراء تو حقارت کی نگاہ سے اپنے منہ پرے پھیر لیتے ہیں تمہارے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ مقدر ہے کہ مسیح موعود کے ذریعہ سے تم موسوی باغ
۷۲۰ پر قبضہ کرو اور اُسے محمد رسول اللہ کے حوالے کرو.محمد رسول اللہ کا مادی باغ کشمیر اسوقت ہندوؤں کے قبضہ میں ہے اور فلسطین یہودیوں کے قبضہ میں ہے مگر خدا تعالیٰ احمدیوں کے ذریعہ سے یہ دونوں باغ پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس دلائے گا.اسی طرح دونوں روحانی باغ بھی محمد رسول اللہ کومل جائیں گے یعنی مسیح موسوی کی اُمت بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیروؤں کے ذریعہ سے دوبارہ فتح کی جائے گی اور اسلام لائے گی اور پھر محمد رسول اللہ کا باغ بن جائے گی اور مسیح محمدی کے متبع جو ہیں وہ تو ہیں ہی شروع سے محمد رسول اللہ کے.کہتے ہیں..کس دی گولی تے رکس دے گہنے ، ہم تو ہیں ہی محمد رسول اللہ کے غلام اور آپ کے باغ کے بُوٹے.ہم تو ہر وقت آپ ہی کی ملکیت ہیں.کبھی آپ کے حلقہء اطاعت سے باہر گئے ہی نہیں.موسوی سلسلہ کے لوگ یعنی یہودی وغیرہ بے شک نکلے اور باہر گئے مگر انکو بھی ہم محمد رسول اللہ کے دروازہ پر لائیں گے اور ہم تو ہیں ہی آپ کے دروازہ پر بیٹھے ہوئے.اس دروازہ کو ہم نے کبھی نہیں چھوڑا نہ چھوڑیں گے اِن شاء الله تعالی بلکہ مسیح ناصری کی اُمت جو عیسائی ہے اور حضرت موسیٰ کی براہِ راست اُمت جو یہودی ہے ان دونوں کے باغوں میں سے بھی روحانی پودے نکال نکال کر ہم محمد رسول اللہ کے باغ میں لگاتے رہیں گے یہاں تک کہ محمد رسول اللہ کا باغ آباد ہو جائے گا اور موسی کا باغ بھی محمد رسول اللہ کے باغ میں شامل ہو جائے گا.محاورہ زبان میں بھی محمد رسول اللہ کا باغ دُنیا کے چپہ چپہ پر پھیل جائے گا جسمانی یا روحانی اولاد یا درخت کہلاتی ہے.چنانچہ پنجابی والے تو خوب جانتے ہیں کہ جب کسی عورت کا بچہ مر جاتا ہے اور وہ ٹین ڈالتی ہے تو کہتی ہے "ہائے میرا باغ اُجڑ گیا ، ہائے میرا بوٹا کس نے پٹ لیا.‘ تو ہمارے ملک میں بچے اور اولاد کو بھی بُوٹا اور باغ ہی کہتے ہیں.مگر لطیفہ یہ ہے کہ لوگ باغ لگاتے رہے اور باغ محمد رسول اللہ کو مل گئے.موسی علیہ السلام نے کوشش کر کے یہودی بنائے اور اُن کو فلسطین میں قائم کیا.خدا نے محمد رسول اللہ کو بنا بنایا فلسطین دے دیا.موسی کی قوم ہجرت کر کے کشمیر آئی اور کشمیر بنا بنایا خدا نے محمد رسول اللہ کو دے دیا اور اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لگایا ہوا باغ بھی محمد رسول اللہ کو ہی مل گیا.دنیا کے کناروں تک احمدی مبلغ تبلیغ کرتے ہیں اور لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ پڑھوا کر لوگوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں یعنی جو درخت بھی اُن کو ملتا ہے وہ لا کر محمد رسول اللہ کے چمن میں لگا دیتے ہیں.موٹی کے باغ میں تو صرف
۷۲۱ ایک بڑا درخت پیدا ہوا تھا جس کا نام داؤد تھا.مگر محمد رسول اللہ کے چمن کا ایک درخت یعنی مسیح موعود دعوی کرتا ہے کہ میں ہی محمد رسول اللہ کے چمن کا داؤد نامی درخت نہیں بلکہ مجھ سے اور بیج بھی نکلنے والے ہیں جن سے بہت سے داؤد پیدا ہونگے اور محمد رسول اللہ کے چمن میں ہزاروں داؤدی شجر پیدا ہو جائیں گے چنانچہ آپ فرماتے ہیں.66 اک شجر ہوں جس کو داؤ دی صفت کے پھل لگے.“ یعنی میں محمد رسول اللہ کے باغ کا ایک درخت ہوں جو خود ہی داؤد نہیں بلکہ میرے اندر جو پھل لگ رہے ہیں وہ بھی داؤد ہیں.یعنی میں ہی داؤد نہیں بلکہ میرے ماننے والے مریدوں میں سے بھی ہزاروں داؤد پیدا ہو نگے اور پھر فرماتے ہیں :- میں کبھی آدم کبھی موسی کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار ۲۳ اگر موسی اور عیسی کو بنی اسرائیل کی تعداد پر فخر ہے تو میرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شمار نسلیں دے گا.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باغ دنیا میں چپہ چپہ پر پھیل جائے گا.زمین کا کوئی گوشہ نہیں ہوگا جس میں محمد رسول اللہ کا باغ نہ لگا ہوا ہو اور دنیا کا کوئی انسان نہیں ہو گا جس کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی گلی نہ کھلی ہوئی ہو.ابوجہل کے باغ کا درخت عکرمہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی یہی نمونہ اللہ تعالیٰ نے دکھایا اور لوگوں کے لگائے محمد رسول اللہ کے باغ میں لگایا گیا ہوئے درخت آپ کے چمن میں لا کر لگا دیئے.چنانچہ ابو جہل کے باغ کا انگور کا درخت عکرمہ وہاں سے اُکھیڑ کر آپ کے باغ میں لا کر لگا دیا گیا.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی خیال کا اظہار فرماتے ہیں.آپ نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ جنت سے انگور کا ایک خوشہ لایا.جب میں نے اُس سے پوچھا کہ یہ خوشہ کس کے لئے ہے؟ تو اس نے کہا ابو جہل کے لئے.اِس پر میں گھبرا گیا کہ کیا خدا کا رسول اور اُسکا دشمن دونوں جنت میں ہونگے ؟ عکرمہ ابو جہل کا بیٹا مسلمان ہوا تو میں نے سمجھا کہ یہ اس خواب کی تعبیر ہے ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کے انگور کا خوشہ تو ابو جہل کے گھر میں آنا تھا مگر اُسوقت آنا تھا جب اُس کے
۷۲۲ باغ میں سے عکرمہ کے انگور کا درخت اُکھیڑ کر محمد رسول اللہ کے باغ میں لگایا جانا تھا.خالد بھی ولید کے چمن سے اُکھیڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے مشہور دشمن ولید اور عاص بن وائل تھے.ولید کا بیٹا خالد تھا.وہ ولید کے چمن سے اُکھیڑ کر محمد رسول اللہ محمد رسول اللہ کے چمن میں لگایا گیا کی کے چمن میں لگا دیا گیا اور آج عالم اسلام خالد بن ولید جیسے بہادر جرنیل کے کارناموں پر فخر کرتا ہے.وہ بوٹا تھا محمد رسول اللہ کے ایک شدید دشمن کا لیکن اُس نے پھل تب دینے شروع کئے جب اُسے محمد رسول اللہ کے باغ میں آکر لگایا گیا اس سے پہلے وہ مکہ کے ایک نمبر دار کا بیٹا تھا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ میں لگنے کے بعد روم اور کسری کے بادشاہ اُس کے سائے میں بیٹھنے لگ گئے.اسی طرح اور بھی بہت سی مثالیں اُس زمانہ کے لوگوں کی ملتی ہیں.وہ درخت جو براہ راست محمد رسول اللہ نے لگائے اس کے علاوہ آپ کے باغ کے کچھ درخت وہ تھے جو براہ راست آپ نے لگائے تھے جیسے ابو بکر عمر عثمان اور علی.ابوبکر کے خاندان کی ایسی اونی حالت تھی کہ اُن کے خلیفہ ہونے پر کوئی شخص دوڑا دوڑا گیا اور جا کر اُس نے آپ کے باپ کو اطلاع دی.ابو قحافہ اُن کا نام تھا ، وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے.اُن کو کہنے لگا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں لوگ بڑے گھبرائے اور انہوں نے کہا اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کیا بنے گا ؟ وہ کہنے لگا اُن کے بعد ایک خلیفہ مقرر ہو گیا ہے.لوگوں نے کہا کون خلیفہ ہوا ہے؟ اُس نے کہا ابوبکر ! ابو بکر کا باپ اپنے آپکو اتنا ادنی سمجھتا تھا کہ ابو قحافہ کہنے ا لگا کون ابو بکر ! اُس نے کہا.ابو بکر تمہارا بیٹا.وہ کہنے لگا ہیں ! میرے بیٹے کو عربوں نے سردار مان لیا ہے؟ کیا مکہ کے قریش اور بنو ہاشم اور بنو عبد شمس نے میرے بیٹے کی بیعت کر لی ہے یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ ابھی تک اُس کا ایمان کمزور تھا.اُس نے کہا سب نے کر لی ہے.ہراک نے آگے آگے بڑھ کر بیعت کی.عمر خطاب نے بھی کی ، عثمان نے بھی کی اور باقی صحابہ نے بھی کی اور مہاجرین نے بھی کی اور انصار نے بھی کی.جب اُس نے یہ سُنا تو اُس پر اتنا اثر ہوا کہ اُس کے دل کی جو کمزوری ایمان تھی وہ دُور ہوگئی.اور کہنے لگا.لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللَّهِ.اگر محمد رسول اللہ کے بعد لوگوں نے میرے بیٹے کی بیعت کر لی ہے اور محمد رسول اللہ کا اتنا اثر ہے
۷۲۳ اور اتنی برکت ہے تو پھر اُن کے خدا کا رسول ہونے میں کوئی شبہ نہیں.۲۵ لیکن ادھر تو یہ حالت تھی کہ باپ اس بات کو حضرت ابوبکر کا قیصر وکسریٰ پر رعب ماننے کے لئے تیار نہیں تھا کہ میرا بیٹا خلیفہ ہو سکتا ہے اور اُدھر یہ حالت تھی کہ ابو بکر آرام سے ایک کچی کوٹھڑی میں مدینہ میں بیٹھے ہوئے تھے لیکن قیصر اپنے محل میں اُن کے نام سے کانپ رہا تھا اور کسری اپنے محل میں ایران میں بیٹھا ہوا ہزار میل پر کانپ رہا تھا.ابو بکرا بو قحافہ کا بیٹا جس کو مکہ میں بھی کوئی عظمت حاصل نہیں تھی وہ مدینہ کی کچی کوٹھڑی میں بیٹھا تھا لیکن قیصر قسطنطنیہ میں ایک بڑے پکے محل میں بیٹھا ہوا تھا اور کسری ایران میں ایک بڑے پکے محل میں بیٹھا ہوا تھا لیکن ابو بکر کا نام آتا تھا تو کانپ جاتے تھے.یہی حال عمر کا تھا ، یہی حال عثمان رضی اللہ عنہ کا تھا ، یہی حال حضرت علی رضی اللہ عنہ کا تھا.شاہ روم کا حضرت عمرؓ سے تبرک منگوانا حضرت عمر کا سایہ تو اتنا بڑھا کہ لکھا ہے ایک دفعہ روم کے بادشاہ کے سر میں سخت درد ہوئی کسی علاج سے فائدہ نہ ہوتا تھا.رومی بادشاہ کو کسی نے کہا کہ آپ نے علاج تو بہت کر دیکھے اب ذرا عمر سے کچھ تبرک منگوائیے.سُنا ہے اُس کی چیزوں میں بڑی برکت ہے.شاید اس تبرک کی برکت سے آپ کی درد ہٹ جائے.وہ تھا تو مخالف اور اُس کی فوجیں عمر کی فوجوں کے ساتھ لڑ رہی تھیں مگر مرتا کیا نہ کرتا.سر درد کی برداشت نہ ہوئی آخر حضرت عمرؓ کے پاس سفیر بھیجا کہ اپنا کوئی تبرک بھیجیں.حضرت عمرؓ نے بھی سمجھا کہ میرا کیا تبرک ہے یہ تو محمد رسول اللہ کا تبرک ہے اور خدا اس کو محمد رسول اللہ کی قوم سے لڑنے کی وجہ سے ذلیل کرنا چاہتا ہے.انہوں نے اپنی پُرانی ٹوپی جس پر دو دو انگل میل چڑھی ہوئی تھی وہ دے دی کہ جاؤ اور یہ ٹوپی اُس کو دے دو.جو تبرک لینے آیا تھا وہ سفیر اسکو لے گیا.با دشاہ کو بڑی بُری لگی اور اُس نے اُسے حقیر سمجھا.وہ ریشمی ٹوپیاں اور سونے کے تاج پہنے والا بادشاہ بھلا حضرت عمر کی دود و انگل میل والی چکنی چپٹی ٹوپی سر پر رکھنے سے کتنا گھبراتا ہوگا.اُس نے کہا پھینکو اس کو میں نہیں پہن سکتا.مگر تھوڑی دیر بعد جو درد کا دورہ ہوا تو کہنے لگا لے آنا ٹوپی.وہ ٹوپی رکھی تو سر کا درد دور ہو گیا اور خدا نے فضل کر دیا.جب درد کو ایک دن آرام رہا تو پھر دل میں کچھ خیال آیا کہ میرے جیسا بادشاہ ایسی غلیظ ٹوپی پہنے.کہنے لگا پھینکو پرے اس کمبخت کو.انہوں نے پھر پھینک دی مگر پھر درد ہو گئی.پھر اپنے درباریوں سے مشیں کرنے لگا
۷۲۴ کہ خدا کے واسطے وہ ٹوپی لانا میں مرا جا رہا ہوں.پھر سر پر ٹوپی رکھی تو آرام آ گیا.بہر حال کی وہ ٹوپی لینے پر مجبور ہوا اور اس کو سر پر رکھتا رہا.۲۶ اب دیکھو حضرت عمرؓ کا درخت جو محمد رسول اللہ نے لگایا تھا اُس کا کیسا لمبا سا یہ تھا.عمر مدینہ میں بیٹھا ہوا تھا اور رُوم کے بادشاہ پر اُس کا سایہ تھا.چنانچہ بادشاہ روم کو بھی اُسکے نیچے بیٹھنے سے آرام آیا.عمر کیا تھے ! محمد رسول اللہ کے باغ کا ایک درخت ہی تھے.اور روم کا بادشاہ کیا تھا ؟ مسیح اور موٹی کے باغ کا ایک درخت تھا.عام درختوں کے اندر تو یہ بات پائی جاتی ہے کہ بڑے درختوں کے نیچے اگر اُن کو لگا یا جائے تو وہ سُوکھنے لگ جاتے ہیں مگر محمد رسول اللہ کے باغ کا درخت عمر ایسا با برکت تھا کہ مسیح اور موسی کے باغ کا درخت جب اس کے نیچے لگا یا گیا یعنی روم کے بادشاہ کے سر پر اُس کی ٹوپی رکھی گئی تو بجائے سُوکھنے کے سرسبز و شاداب ہونے لگ گیا.وہ برکتوں والا زمانہ تو گزر گیا مگر پھر بھی محمد کی باغ میں ایسے ایسے درخت لگے کہ دنیا کی آنکھیں خیر ہ ہو گئیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ معاویہ بن یزید کا ایک ایمان افروز واقعہ میں ایک گندہ پودہ پیدا ہوا جس کا نام یزید ہے.یزید یزید ہی تھا مگر محمد رسول اللہ کے باغ کا پودہ کہلاتا تھا.اُس کے گھر میں ایک بیٹا پیدا ہوا تو اُس نے اُس کا نام بھی اپنے باپ کے نام پر معاویہ رکھا.مگر ایسے گندے باپ کا بیٹا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کی وجہ سے اور اُن کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ایسا پھلا پھولا کہ اس کے واقعہ کو پڑھ کر لطف محسوس ہوتا ہے.تاریخ میں لکھا ہے کہ یزید کی موت کا وقت آیا تو اُس نے اپنے بیٹے معاویہ کو خلیفہ مقرر کیا.لوگوں سے بیعت لینے کے بعد اپنے گھر چلا گیا اور چالیس دن تک باہر نہیں نکلا.پھر ایک دن وہ باہر آیا اور منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہنے لگا کہ میں نے تم سے بیعت تو لے لی ہے مگر اس لئے نہیں کہ میں اپنے آپ کو تم سے بیعت کا زیادہ اہل سمجھتا ہوں بلکہ اس لئے کہ میں چاہتا تھا کہ تم میں تفرقہ پیدا نہ ہو اور اُس وقت سے لیکر اب تک میں گھر میں یہی سوچتا رہا کہ اگر تم میں کوئی شخص لوگوں سے بیعت لینے کا اہل ہو تو میں یہ امارت اُس کے سپر د کر دوں اور خود بری الذمہ ہو جاؤں.مگر باوجود بہت غور کرنے کے مجھے تم میں کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آیا اس لئے اے لوگو! یہ اچھی طرح سُن لو کہ میں اس منصب کے اہل نہیں ہوں اور یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا باپ
۷۲۵ اور میرا دادا بھی اس منصب کے قابل نہیں تھے.میرا باپ یزید حسین سے درجہ میں بہت کم تھا اور کم اُس کا باپ یعنی معاویہ حسن حسین کے باپ یعنی حضرت علیؓ سے کم درجے والا تھا اور اس کے بعد بہ نسبت میرے دادا اور باپ کے حسن اور حسین خلافت کے زیادہ حقدار تھے اس لئے میں اس امارت سے سبکدوش ہوتا ہوں.اب یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے کہ جس کی چاہو بیعت کرلو.اُس کی ماں اُسوقت پردہ کے پیچھے اُس کی تقریر سُن رہی تھی.جب اُس نے بیٹے کے یہ الفاظ سنے تو کہا کمبخت! تو نے اپنے خاندان کی ناک کاٹ دی ہے اور اُس کی تمام عزت خاک میں ملا دی ہے.وہ سنکر کہنے لگا کہ جو سچی بات تھی وہ میں نے کہہ دی ہے.اب آپ کی جو مرضی ہو مجھے کہیں.چنانچہ اس کے بعد وہ اپنے گھر میں بیٹھ گیا اور تھوڑے دن گزرنے کے بعد وفات پا گیا.تعجب ہے کہ یہ تاریخ شیعوں کی لکھی ہوئی ہے مگر باوجود اس کے افسوس ہے کہ شیعہ اصحاب نے اُس مُر دار جھاڑی یعنی یزید کو تو یا د رکھا جو یزید بن معاویہ کہلاتی ہے مگر محمد رسول اللہ کے اُس خوشنما پودے کو یا د نہ رکھا جو معاویہ ابن یزید کہلاتا ہے.حالانکہ لوگ اپنے باپ کے باغ کی تعریفیں کیا کرتے ہیں مگر اس میں جو اتفاقاً ایک بُرا پودا یزید کا نکل آیا تھا اُس کو تو شیعہ یاد رکھتے ہیں مگر یزید کے گھر میں جو بیٹا معاویہ پیدا ہوا اور جس نے اتنے فخر سے اور عَلَی الْإِغلان کہا کہ حسن و حسین میرے باپ سے اچھے تھے اور میرے دادا سے بھی اچھے تھے اور علی میرے دادا سے اچھے تھے اور وہ خلافت کے زیادہ مستحق تھے اُس بیچارے کا نام بھی کوئی نہیں لیتا.حالانکہ چاہتے تھا کہ محرم کے موقع پر بجائے یزید کے معاویہ کا ذکر کیا جاتا کیونکہ یزید کے ذریعہ سے تو صرف اتنا ہی پتہ لگتا ہے کہ ایک گندی جھاڑی محمد رسول اللہ کے باغ میں تھی مگر معاویہ بن یزید کے ذریعہ سے یہ پتہ لگتا ہے کہ محمد رسول اللہ کے باغ میں ایک گندی جھاڑی نکلی تھی مگر اس کے بیجوں سے پھر خدا نے ایک شاندار درخت پیدا کر دیا.محمدی باغات کے نمونے بے شک ایسی مثالیں شاذ و نادر ہوتی ہیں مگر پھر بھی محمد رسول اللہ کے باغ میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں.چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد عمر بن عبدالعزیز بھی ایک ایسا ہی پودا آپ کے باغ میں پیدا ہوا اور پھر مادی باغوں سے علیحدہ ہو کر رُوحانی باغوں نے اپنی نشو ونما شروع کر دی.محمدی باغوں میں ایک پودا حسن بصری کا لگا، ایک جنید بغدادی کا لگا، ایک سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا
لگا، ایک خیلی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک ابراہیم ادھم رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک محی الدین صاحب ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک بہاؤ الدین صاحب نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک معین الدین صاحب چشتی رحمتہ اللہ کا لگا ، ایک سلیم چشتی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک قطب الدین صاحب بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک فرید الدین صاحب شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک نظام الدین صاحب اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک حضرت باقی باللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کا لگا ، ایک مجدد صاحب سرہندی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک خواجہ میر ناصر رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک سید احمد صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا اور سب سے آخر میں باغ محمد مکی کی حفاظت کرنے والے درخت مسیح موعود کا پودا لگا جس کو خود مسلمانوں نے بدقسمتی سے کاٹ کر چاہا کہ محمد کی باغ میں لوگ گھس جائیں، بکریاں اور بھیڑیں گھس جائیں اور محمد کی باغ کو تباہ کر دیں.مگر وہ پودا اس شان کا تھا کہ اُس نے کہا:- اے آنکہ سوئے من بدویدی بصد تبر از باغبان بترس که من شارخ مشمرم و شخص ! جو کہ سو کلہاڑے لیکر میرے کاٹنے کے لئے دوڑا آ رہا ہے میرے باغبان خدا سے یا محمد رسول اللہ سے ڈر کہ میں وہ شاخ ہوں جس کو پھل لگے ہوئے ہیں اگر تو مجھے کالے گا تو محمد رسول اللہ کا پھل کٹ جائے گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ محمد رسول اللہ کا باغ ہے شمر رہ جائے گا.پس تو مجھے نہیں کاٹ رہا تو محمد رسول اللہ کے باغ کو اُجاڑ رہا ہے اور خدا بھی برداشت نہیں کرے گا کہ محمد رسول اللہ کا باغ اُجڑے وہ ضرور اُس کی حفاظت کرے گا.چنانچہ آسمان محمد رسول اللہ کے باغ کی حفاظت کے لئے خدا تعالیٰ کی تجلیات سے اللہ تعالیٰ مسیح موعود کی حفاظت کے لئے اُترا اور با وجود مولوی عبدالجبار ، مولوی عبدالحق، مولوی احمد بن عبداللہ غزنوی، مولوی عبد الواحد بن عبد اللہ غزنوی، مولوی محمد حسین بٹالوی ، مولوی ثناء اللہ امرتسری اور اور سینکڑوں ہزاروں مولویوں اور مولوی نذیر حسین دہلوی کے فتووں اور دیو بندیوں کے جوش کے اور جمعیتہ العلماء کی تمام طاقتوں کے اور ۱۹۵۳ء کا فساد پیدا کرنے والے علماء کی
۷۲۷ کوششوں کے، باوجود اس کے کہ سب نے اکٹھا ہو کر حملہ کیا اللہ تعالی سینہ سپر ہو کر کھڑا ہو گیا کہ میں محمد رسول اللہ کے باغ کو نہیں اُجڑ نے دونگا.یہ تو باڑ ہے محمد رسول اللہ کے باغ کی.مسیح موعود کو تم ایک انسان سمجھتے ہو مگر فرمایا میں جانتا ہوں کہ یہ محمد رسول اللہ کے باغ کی باڑ ہے اس کے کٹنے سے محمد رسول اللہ کا باغ اُجڑتا ہے اور محمد رسول اللہ میرا محبوب ہے.میں اپنے محبوب کی وفات کے بعد اُس کے باغ کو دشمنوں کو اُجاڑ نے نہیں دونگا.تم مولوی ہو یا عالم ہو یا لیڈر ہو میں تمہاری کیا پرواہ کرتا ہوں.میں محمد رسول اللہ کی جوتیوں کے برابر بھی تم کو نہیں سمجھتا.محمد رسول اللہ کے باغ یعنی اُس کی امت کی حفاظت کے لئے میں اسکو زندہ رکھونگا اور یہ ایک اور جماعت کھڑی کرے گا جس طرح کیلے کے ساتھ اور کیلے پیدا ہو جاتے ہیں اسی طرح تم تو کہتے ہو کہ اس کے جو مرید ہیں وہ شیطان ہیں اور ابلیس کے فرزند ہیں مگر میں بتاؤں گا کہ یہ ملائکہ ہیں جو محمد رسول اللہ کے باغ کی حفاظت کے لئے آئے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی تدبیر سے مسیح موعود اور پھر اُن کی جماعت کے ذریعہ سے محمد رسول اللہ کے باغ کی باڑ کاٹے جانے سے بچ گئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ اس اُمت کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے جس کے اول میں ہوں اور آخر میں مسیح موعود - ۲۸ یعنی میرے باغ کے ایک طرف باڑ میں ہوں اور ایک طرف مسیح موعود.نہ خدا مجھے کٹنے دے گا کہ میرا باغ اُجڑے ، نہ خدا مسیح موعود کو کٹنے دے گا کہ میرا باغ اُجڑے.ہم دونوں کے کاٹے جانے سے باغ محمد کی اُجڑتا ہے اور یہ باغ خدا کا لگایا ہوا ہے خدا اپنے لگائے ہوئے باغ کو اُجڑنے نہیں دے گا.میں بھی باڑ ہوں اس باغ محمدی کی اور مسیح موعود بھی باڑ ہے اس باغ محمدی کی نہ وہ مجھے کٹنے دے گا اور نہ وہ مسیح موعود کو کتنے دے گا وہ باغ محمدی کو آباد رکھنے کے لئے اُس کی باڑ کو سلامت رکھے گا اور قیامت تک وہ باغ چلے گا اور اس کو کوئی نہیں کاٹ سکے گا.آب دیکھو باغ محمدی کے مقابلہ میں دنیوی بادشاہوں کے بے حقیقت باغات ایک طرف ڈ نیوی بادشاہوں کے باغ ہیں، وہ کتنے چھوٹے ہیں اور کتنی کم عمر کے ہیں دوسری طرف قرآنی محمدی باغ ہیں.پھر ایک باغ دو باغ ہیں اور ان کی عمر اتنی لمبی ہے کہ محمد رسول اللہ سے لے کر قیامت تک ممتد ہے.پس کجا وہ دنیوی بادشاہوں کے باغ جو میں نے ۱۹۳۸ء میں دیکھے
۷۲۸ تھے اور کجا یہ محمد رسول اللہ کا باغ جس کا ذکر میں آج ۱۹۵۶ء میں کر رہا ہوں.ان دونوں کا مقابلہ کر کے بے اختیار مُنہ سے نکلتا ہے.اَللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.بڑی برکت والا ہے ہمارا خدا جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان بھیجا جس نے قیامت تک کے لئے دنیا کی ہدایت کا بیڑا اُٹھا لیا.پھر بڑی برکت والا ہے وہ خدا جس نے مسیح موعود جیسا غلام محمد رسول اللہ کو دیا جس نے محمد رسول اللہ کا باغ جب اُجڑ کے کھیتی بنے لگا تھا پھر اس کو باغ کی شکل میں تبدیل کر دیا.اور اُس کے پودوں کو دنیا کے کناروں تک پھیلا دیا تا کہ وہ ہر ملک میں جائیں ، ہر قوم میں جائیں، ہر جگہ پر جا کے وہاں کے عیسی کے باغ کے پودوں کو نکال نکال کر محمد رسول اللہ کے باغ میں لگائیں اور موسی کے باغ کے پودوں کو اُکھیڑ اکھیڑ کر محمد رسول اللہ کے باغ میں لگائیں، یہاں تک کہ دنیا کے چپے چپے میں محمد رسول اللہ کا باغ لگ جائے اور نہ عیسی کا باغ رہے نہ موسٰی کا باغ رہے ، وہ ساری اُجاڑ بستیاں بن جائیں.آباد بستی اور ہرا باغ صرف محمد رسول اللہ کا ہو جو قیامت تک چلتا چلا جائے.الذاريات :۵۰ الاخلاص : ۴ سے پتکوں : - پتک - کتاب - صحیفہ - فیروز اللغات اردوصفحه ۶۹۶ مطبوعہ فیروز سنز لا ہور ۲۰۱۰ء مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال مَا قَالَهُ شرعًا حدیث نمبر ۶۱۲۶ صفحه ١٠٣٩ مطبوع الرياض الطبعة الثانية ابريل ۲۰۰۰ء ٹین (TIN) ایک سفید نرم دھات.فیروز اللغات اردوصفحه ۴۳۵ مطبوعہ فیروز سنز لا ہور ۲۰۱۰ء الرحمن : ۴۷ ك البقرة :٢٠٢ الم نشرح : ٧،٦ الانعام :٢ ١٠ البقرة :٨٣،٨٢ لل الرعد : ١٢ التوبة :٧٢ الحج :٢٠ يونس : ١٠ ها الكهف : ١٠٨ الرحمن : ۵۵ كل سبا :١٧ الكهف :۳۴،۳۳ 19 الانبياء :٧٩
۷۲۹ ٢٠ المزمل : ١٦ ال النساء :٧٠ ۲۲ مرقس باب ۱۲.آیت ۱ تا ۹.نارتھ انڈیا بائیبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء ۲۳ در مشین اُردو صفحه ۱۲۳.شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ ۲۴ السيرة الحلبيه جلد ۳ صفحه ۱۰۶ ، ۱۰۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۲۵ اسد الغابة الجزء الثالث صفحه ۱۲۶ مطبوعہ بیروت ۲۰۰۶ء ۲۶ فتوح الشام ذکر فتح اعزاز جلد اصفحه ۳۰۱ مطبوعہ ۱۹۹۷ء تاريخ الخميس جلد ۳ صفحه ۳۶۲ مطبوعہ بیروت الطبعة الاولى ٢٠٠٠٩ء ۲۸ کنز العمال جلد ۴ صفحہ ۲۶۹.مطبوعہ حلب ۱۹۷۵ء
۷۳۱ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ (11) ( تقریر فرموده مورخه ۲۸ دسمبر ۱۹۵۷ء بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ ) عالم روحانی کے لنگر خانے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - دنیوی لنگر خانوں کے نقائص پندرھویں چیز جو ۱۹۳۸ء کے سفر دکن میں میں نے دیکھی اور جس نے میرے دل کو متاثر کیا وہ شاہی لنگر خانے تھے جو غرباء کیلئے جاری کئے گئے تھے.میں نے دیکھا کہ بادشاہوں کے محلات کے ساتھ ہی غریبوں کے لئے لنگر بنائے گئے تھے تا کہ وہ بھو کے نہ رہیں اور صبح وشام وہاں سے کھانا حاصل کر کے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکیں.میرے لئے یہ بات بڑی خوشی کا موجب ہوئی اور مجھے اُن کے انتظام کی تعریف کرنی پڑی لیکن جب میں نے سوچا اور غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ بادشاہوں نے یہ لنگر تو جاری کر دیئے تھے لیکن غریب اُن سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے تھے.اکثر امراء یا اوسط درجہ کے لوگ اُن کو دھکے دیکر پیچھے ہٹا دیتے تھے اور خوراک خود استعمال کر لیتے تھے.دوسرے میں نے دیکھا کہ ان لنگر خانوں میں جو لانگری مقرر ہوتے تھے بعض دفعہ وہ جنس خود اُڑا لیتے تھے اور بادشاہ کی لنگر جاری کرنے کی خواہش خاک میں مل جاتی تھی.لیکن اس کے مقابلہ قرآنی لنگر کی خوبی اور اُس میں انواع واقسام کے کھانے میں میں نے دیکھا کہ قرآنی لنگر ان تمام نقائص سے پاک تھا اور پھر قرآنی لنگر میں اتنی انواع کے کھانے تھے کہ
۷۳۲ شاہی لنگر اُس کے مقابلہ میں بالکل بیچ نظر آتے تھے مگر ظاہر ہے کہ قرآنی لنگر میں روٹیاں نہیں ملتیں بلکہ قرآن کے ذریعہ رُوحانی تعلیم دنیا کو بانٹی جاتی ہے.پس قرآن کریم کے رُوحانی لنگر کے اندر انواع واقسام کے کھانوں کی موجودگی کے صرف اتنے ہی معنے ہیں کہ قرآن کریم نے ایسی کامل تعلیم پیش کی ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کا کوئی رُوحانی لنگر پیش نہیں کیا جا سکتا اور یہ دعوئی ایسا ہے جو خود قرآن کریم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.چنانچہ قرآن کریم کے رُوحانی لنگر کے اندر انواع واقسام کے کھانوں کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَهُ تَفْصِيلًا - یعنی ہم نے قرآن کریم میں ہر روحانی امر کو جس کی دنیا کو ضرورت تھی اچھی طرح کھول کر بیان کر دیا ہے گویا قرآن کے روحانی لنگر میں انواع واقسام کے کھانے بٹ رہے ہیں جن کی مثال بادشاہوں کے لنگر خانوں میں تو کیا پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی نہیں پائی جاتی.اسی طرح قرآن میں مختلف انواع و اقسام کی روحانی تعلیم کے پائے جانے کا ذکر دوسری جگہ اس طرح کیا گیا ہے کہ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَالَمُ يَعْلَمُ ہے یعنی اس قرآن کے ذریعہ سے انسان کو وہ کچھ سکھایا گیا ہے جو پہلی کتب سماویہ میں نہیں سکھایا گیا تھا.گویا قرآن شریف کو نہ صرف دنیوی لنگروں پر فضیلت ہے بلکہ سب آسمانی لنگروں پر بھی فضیلت ہے چنانچہ اس کی مثال کے طور پر میں فرعون کے واقعہ کو پیش کرتا ہوں.فرعون موسی کے متعلق قرآنی انکشاف قرآن قرآن کریم جو موسی اور فرعون کے قریب بائیس سو سال بعد آیا ہے اُس میں یہ لکھا ہے کہ فرعون کا جسم فرعونیوں کے سمندر میں غرق ہونے کے وقت بچالیا گیا تھا صرف اُس کی روح لے لی گئی تھی تا کہ وہ آئندہ عذاب اُٹھائے مگر بائبل جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اُس زمانہ میں اُتری تھی جس زمانہ میں فرعون ڈوبا تھا اُس میں یہ سچائی کہیں بیان نہیں کی گئی.اب غور کرو کہ بائیس سو سال کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ایک اُمی اور ان پڑھ تھے وہ تو اِس مضمون کو بیان کرتے ہیں کہ آج سے بائیس سو سال پہلے جب موٹی مصر سے بھاگے تھے اور فرعون نے اُن کا تعاقب کیا تھا تو خدا نے فرعون کو سمندر میں تو غرق کر دیا تھا لیکن اُس کی لاش کو محفوظ رکھا گیا تھا تا کہ وہ آئندہ آنے والے لوگوں کے لئے عبرت اور نصیحت کا موجب بنے مگر بائبل اس بات کو بیان نہیں کرتی حالانکہ وہ اسی زمانہ کی کتاب ہے جس زمانہ میں فرعون غرق ہوا.اب تاریخ کو دیکھو تو وہ اسی بات کی تائید کرتی ہے جو قرآن کریم نے بیان کی ہے.چنانچہ
۷۳۳ وہ جو پرانی ممیاں نکلی ہیں اُن میں فرعونِ موسی کی میں بھی نکلی ہے.مصریوں کو ایسی دوائیں معلوم تھیں کہ جب وہ میت کے اندر وہ دوائیں ٹیکہ کے ذریعہ پہنچا دیتے تو لاشیں کئی کئی سو سال تک محفوظ رہتی تھیں.اب انگریزوں نے بھی ایسی دوائیں نکال لی ہیں لیکن تجربہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یورپ نے جو دوائیں ایجاد کی ہیں اُن کی وجہ سے لاشیں صرف تمیں چالیس سال تک محفوظ رہتی ہیں اس کے بعد خراب ہونا شروع ہو جاتی ہیں مگر مصریوں کی کئی کئی ہزار سال کی ممیاں مل گئی ہیں.اُن کو کئی ایسے نسخے معلوم تھے کہ جن کی وجہ سے کئی کئی ہزار سال تک لاشیں محفوظ رہتی تھیں.فرعون موسی کی ممی پر ہی ۳۵ سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور وہ ممیاں جو فرعونِ موسی سے بھی کئی کئی ہزار سال پہلے کی ملی ہیں ان کو لے لیا جائے تو پھر پانچ چھ ہزار سال سے وہ لاشیں محفوظ چلی آ رہی ہیں مگر یورپین لوگوں نے ابھی تک صرف تیں چالیس سال تک کے لئے لاش کو محفوظ رکھنے کا علاج نکالا ہے اس سے زیادہ نہیں.بہر حال ہمیں تو صرف اُس فرعون کی ممی سے غرض ہے جو فرعون موسی کہلاتا ہے اور اُس کے متعلق موسی کے بائیس سو سال بعد قرآن نے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی لاش کو محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا تھا.اصل بات یہ ہے کہ جب و ڈوبنے لگا تو اُس کو خیال آیا کہ معلوم ہوتا ہے موسی سچا ہی تھا اور میں اس کی مخالفت کر کے غلطی کرتا رہا.چنانچہ اُس نے ڈوبتے وقت کہا کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ سوائے اُس خدا کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور کوئی خدا نہیں.اُسوقت اللہ تعالیٰ نے فرعون سے کہا کہ اب ایمان لاتے ہو جب کہ تم مرنے لگے ہو.اب تو صرف یہی ہے کہ نُنَجِيكَ بِبَدَ نِكَ سہم تیرے جسم کو نجات دیں گے تا کہ تو آنے والے لوگوں کے لئے نشان ہو.چنانچہ اُس کی لاش محفوظ رہی مگر وہ لاش تو اس زمانہ میں ملی ہے جبکہ قرآن کے نزول پر بھی چودہ سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن قرآن کریم نے آج سے چودہ سو سال پہلے خبر دے دی تھی کہ فرعونِ موسی کی لاش محفوظ ہے اور اگر اس میں بائیس سو سال کا پہلا عرصہ بھی شامل کر لیا جائے تو ۳۵ سو سال سے یہ پیشگوئی پوری ہوتی چلی آ رہی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس تھی کے نام کے متعلق اختلاف ہے لیکن یہ اختلاف صرف اتنا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس فرعون کے زمانہ میں حضرت موسی علیہ السلام پیدا ہوئے اُس کا نام رعمسیس تھا اور جس فرعون کے زمانہ میں حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر لائے اُس کا نام منفتاح تھا مگر لاشیں دونوں کی مل گئی ہیں.ایک کے متعلق کہتے
۷۳۴ ہیں کہ یہ رمسیس کی لاش ہے اور ایک کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ منفتاح کی لاش ہے.اب خواہ رعمسیں کی لاش کو فرعونِ موسی کی لاش سمجھ لو یا منفتاح کی لاش کو زمانہ ء موسی کے فرعون کی لاش کہو بات تو وہی رہی جو قرآن نے کہی تھی اور پتہ لگ گیا کہ جو کچھ قرآن نے کہا تھا وہ سچ تھا.فرعون موسٹی کی لاش محفوظ رہی اور وہ اب تک محفوظ چلی آ رہی ہے.حضرت سلیمان علیہ السلام پر بائیبل کے الزامات دوسری مثال کے طور پر میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ پیش کرتا ہوں.حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ کے کا فر بھی اُن کو کافر کہتے تھے.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ وَ لكِنَّ الشَّيطِينَ كَفَرُوا على یعنی سلیمان نے ہر گز کفر نہیں کیا بلکہ اس کے دشمن جو خدا سے دُور تھے وہ سلیمان کو کافر کہہ کے خود کا فر ہو گئے تھے.اس آیت میں تمہارے لئے بھی ایک بڑا بھاری نکتہ ہے اور وہ یہ کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف شریعت والے نبی کا انکار کفر ہوتا ہے دوسرے نبیوں کا انکار کفر نہیں ہوتا حضرت سلیمان کو نہ یہودی صاحب شریعت مانتے ہیں اور نہ مسلمان صاحب شریعت مانتے کہتے ہیں کہ وہ غیر شرعی نبی تھے مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ وَلَكِنَّ الشَّيطِينَ كَفَرُوا جو لوگ اُس کے دشمن تھے اور کہتے تھے کہ اس نے کفر کیا ہے وہ خود کافر تھے.اس سے معلوم ہوا کہ غیر شرعی انبیاء کا انکار بھی کفر ہی ہوتا ہے پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منکرین بھی اگر کہیں کہ مرزا صاحب تو شریعت لانے والے نبی نہیں تھے پھر اُن کے منکر کا فرکس طرح ہو گئے تو وہ اس بہانہ سے بچ نہیں سکتے.مولوی محمد علی صاحب ہمیشہ زور دیا کرتے تھے کہ شریعت والے نبی کا انکار ہی کفر ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ اس آیت میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ وَ لكِنَّ الشَّيطِيْنَ كَفَرُوا سلیمان نے کفر نہیں کیا تھا بلکہ اس کے دشمنوں نے اُس کو کا فرکہہ کے خود کفر کیا.پس جو شخص کسی بچے فرستادہ یا اُس کے ماننے والوں کو کا فرکہتا ہے وہ قرآن کریم کی رُو سے خود کا فر ہو جاتا ہے بلکہ اگر اِن الفاظ پر زیادہ وسیع نظر سے غور کیا جائے تو درحقیقت اس کے یہ معنے بنتے ہیں کہ کوئی کافر کہے یا نہ کہے پھر بھی صرف انکار سے وہ کافر ہو جاتا ہے.اب میں بتاتا ہوں کہ قرآن کریم نے تو یہ کہا ہے کہ سلیمان نبی تھا کا فرنہیں تھا مگر بائبل جو سلیمان کے وقت کی لکھی ہوئی ہے وہ کیا کہتی ہے؟ بائبل کی کتاب ” سلاطین میں لکھا ہے :-
۷۳۵ وو ” جب سلیمان بڑھا ہو گیا تو اُس کی بیویوں نے اُس کے دل کو غیر معبودوں کی ،، طرف مائل کر لیا اور اُس کا دل خداوند اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا.گویا قرآن کریم تو بائیس سو سال بعد میں آنے کے باوجود کہتا ہے کہ سلیمان نے کوئی کفر نہیں کیا لیکن بائبل اُس زمانہ کی کتاب ہو کر کہتی ہے کہ سلیمان بڑھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اُس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کر لیا اور اُس کا اپنے خدا سے کامل تعلق نہ رہا.اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کا رُوحانی کھانا کتنا مزیدار ہے اور بائبل کا کھانا کتنا خراب اور بدمزہ ہے.وہ اپنے زمانہ کے متعلق لوگوں کو ایک خبر دیتی ہے اور جیسا کہ میں آگے چل کر ثابت کرونگا حضرت سلیمان پر یہ جھوٹا اتہام لگاتی ہے کہ اُس کی مشرک بیویوں نے اس کا دل خدا تعالیٰ کی طرف سے پھیر دیا اور وہ غیر معبودوں کی عبادت کرنے لگا.پھر لکھا ہے :- ” خداوند سلیمان سے ناراض ہوا.گویا سلیمان نے صرف کفر ہی نہیں کیا بلکہ اس حد تک کفر کیا کہ اللہ تعالیٰ اس کا مخالف ہو گیا اور وہ سلیمان سے ناراض ہوا.کیونکہ اُس کا دل خداوند اسرائیل کے خدا سے پھر گیا تھا کے،، اور باوجود اس عظیم الشان نشان کے پھر گیا تھا کہ اُس نے دوبارہ دکھائی دے کر اس کو اسبات کا حکم کیا تھا کہ وہ غیر معبودوں کی پیروی نہ کرے پر اُس نے وہ بات نہ مانی جس کا حکم خداوند نے دیا تھا ہے،، قرآن تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے.عام مسلمان جس پر قرآن نازل نہیں ہوا وہ بھی اگر قرآن کی تعمیل نہ کرے تو کا فر ہو جاتا ہے.مگر سلیمان نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذالک اتنا لج راہ اور اتنا خطرناک کافر تھا کہ دو دفعہ خدا اس پر ظاہر ہوا اور دو دفعہ خدا نے ظاہر ہو کر اُسے کہا کہ غیر معبودوں کی پرستش نہ کرنا مگر پھر بھی وہ اپنی بیویوں کے حُسن اور اُن کی زیبائش کو دیکھ کر خدا تعالیٰ سے اتنا پھرا کہ غیر معبودوں کے لئے اُس نے مسجدیں بنائیں اور اُن کے آگے سجدہ کرنے لگ گیا.مگر تاریخی شہادتوں سے پتہ لگتا ہے کہ تاریخی شہادت سے قرآنی بیان کی تصدیق ہو قرآن نے بات بھی تھی وہی ٹھیک ہے اور جو بائبل نے کہی تھی وہ غلط ہے.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ خود عیسائی محققین نے اس بات
تسلیم کر لیا ہے کہ بائبل میں حضرت سلیمان پر جھوٹا الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے غیر معبودوں کی پرستش کی اور خدائے واحد کو چھوڑ دیا.چنانچہ انسائیکلو پیڈیا بلی کا جو بڑے بڑے پادریوں اور یہودی علماء نے لکھی ہے اور جس میں نہ صرف پرانی تاریخی کتب کا نچوڑ آ گیا ہے بلکہ نئی علمی تحقیقات بھی اُس میں شامل ہیں اُس میں لکھا ہے کہ :- یہ بات تو صحیح ہے کہ حضرت سلیمان کی بہت سی بیویاں تھیں کچھ اسرائیلی اور کچھ غیر اسرائیلی لیکن نہ تو انہوں نے اُن سب کے لئے قربان گاہیں بنائی تھیں اور نہ انہوں نے اپنی بیویوں کے دیوتاؤں کی عبادت کو کبھی خدا تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ملایا تھا.آپ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کے انکار کا کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے.گویا تاریخ نے خود تسلیم کر لیا کہ بیشک حضرت سلیمان کی کئی بیویاں تھیں کچھ یہودی اور کچھ غیر یہودی مگر یہ غلط ہے کہ انہوں نے سب کے لئے بُت خانے بنائے اور پھر یہ بھی جھوٹ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی بُت کو سجدہ کیا ہو.اب دیکھو بائبل تو یہ کہتی ہے کہ انہوں نے بتوں کو سجدے کئے اور قرآن کہتا ہے کہ نہیں کئے.اور آج کا محقق یہودی اور آج کا محقق عیسائی کہتا ہے کہ بائبل جھوٹ کہتی ہے.ہمارے ملک کی ایک مثل ہے.کہتے ہیں.’ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے.اگر صرف قرآن یہ بات کہتا ہے تو عیسائی اور یہودی کہتے کہ ہم کو جھٹلانے کے لئے ایسا کہا گیا ہے مگر خدا نے خود عیسائی اور یہودی علماء کی زبان سے یہ بات کہلوا دی.پس اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ محقق تو تمہارے اپنے بزرگ ہیں.اگر ان بزرگوں نے اپنے بزرگوں کو جھوٹا قرار دیا ہے تو تم اس کے ذمہ دار ہو ہم ذمہ دار نہیں.نہ ان یہودی پادریوں کو ہم نے پڑھایا تھا اور نہ عیسائی پادریوں کو ہم نے پڑھایا ، تمہارے اپنے باپ دادوں نے اِن کو پڑھایا تھا.پس اگر جھوٹے ہیں تو تمہارے اپنے باپ دادا جھوٹے ہیں، تمہاری کلیسیا جھوٹی ہے یا یہودیوں کی مذہبی انجمن جھوٹی ہے.ہمارا قرآن تمہارے علماء کے اقرار کے ساتھ سچا ثابت ہو گیا اور ظاہر ہو گیا کہ سلیمان نے کبھی غیر معبودوں کی پرستش نہیں کی تھی.پھر اُسی ” سلاطین میں جس میں حضرت سلیمان پر کفر کا الزام لگا یا گیا ہے لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو الہاماً کہا کہ میں نے ایک عاقل اور سمجھنے والا دل تجھ کو بخشا.
۷۳۷ اب کیا عاقل اور سمجھنے والا دل شرک کیا کرتا ہے؟ پھر لکھا ہے کہ : - ایسا کہ تیری مانند نہ تو کوئی تجھ سے پہلے ہوا اور نہ کوئی تیرے بعد تجھ سا بر پا ہو گا.گویا بائبل حضرت سلیمان کو اتنی عظمت دیتی اور اُسے ایسا بے نظیر آدمی قرار دیتی ہے کہ نہ تو ہزاروں سال پہلے اس جیسا کوئی آدمی ہوا اور نہ ہزاروں سال بعد اُس جیسا کوئی اور پیدا ہوگا.لیکن ساتھ ہی اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ کا فر تھا.کیا ایسی کتاب کو ہم مذہبی کتاب کہہ سکتے ہیں ؟ اس کتاب کے مصنفوں کو تو پاگل خانہ میں داخل کرنا چاہئے تھا جنہوں نے ایسی متضاد باتیں لکھ دیں.اسی طرح لکھا ہے :- چلتا تھا.“ ۱۲ سلیمان خداوند سے محبت رکھتا اور اپنے باپ داؤد کے آئین پر اگر سلیمان خدا تعالیٰ سے محبت رکھتا تھا اور اپنے باپ داؤد کے طریق پر چلتا تھا تو پھر اُس کو مُشرک کہنا اور بتوں کی فرمانبرداری کرنے والا قرار دینا کونسی معقول بات ہے.کتاب وہی ہے اور اُس میں یہ باتیں لکھی ہیں.ان حوالجات سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ بائبل کا الزام جھوٹا ہے اور بیچ وہی ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور جس کی رو سے حضرت سلیمان شروع سے لیکر آخر تک نہایت اعلیٰ درجہ کے مؤمن اور نبی قرار پاتے ہیں.غرض قرآن کریم نے ایسی باتیں بیان کی ہیں جن سے پہلی کتب گلیہ خالی ہیں اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ قرآن کریم ایسی سچائیوں سے پُر ہے جن میں کوئی الہامی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور قرآن کریم کے ذریعہ جو انواع و اقسام کی رُوحانی غذا ئیں دی گئی ہیں وہ اتنی اعلیٰ ہیں کہ اُن کی نظیر دنیا کی کسی الہامی کتاب سے پیش نہیں کی جاسکتی.روحانی کھانوں کے مقابلہ میں دنیوی کھانے ایک بے حقیقت چیز ہیں حقیقت یہ ہے کہ ڈ نیوی کھانے خواہ وہ کتنے ہی اعلیٰ درجہ کے ہوں اور دنیوی نعماء خواہ وہ کتنی ہی بلند پایہ ہوں رُوحانی کھانوں اور روحانی نعمتوں کے مقابلہ میں ایک بالکل ادنی اور بے حقیقت چیز ہوتی ہیں اور دنیا کے سمجھدار اور نیک فطرت لوگوں نے بھی اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ جسمانی کھانا ایک
۷۳۸ ادنی چیز ہے اصل چیز روحانی کھانا ہی ہے یعنی دین کی باتیں سننا اور اُس پر عمل پیرا ہونا.میں اس کی مثال کے طور پر ایک واقعہ بیان کرتا ہوں.۱۹۰۸ء میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور میں ٹھہرے ہوئے تھے لاہور کے بڑے بڑے احمدیوں نے وہاں کے با اثر لوگوں کی ایک دعوت کی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی شامل ہوئے اور آپ نے اُن معززین کے سامنے ایک تقریر فرمائی لیکن اتفاقاً تقریر کچھ لمبی ہوگئی.خلیفہ رجب دین صاحب مرحوم جو خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کے خُسر تھے اور دعوتوں کا انتظام کرنے میں بڑی مشق رکھتے تھے انہوں نے پیچھے سے آکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کہنا شروع کیا کہ حضور بڑی دیر ہوگئی ہے کھانا ٹھنڈا ہورہا ہے اور بڑے بڑے معززین آئے ہوئے ہیں.اس پر میاں فضل حسین صاحب مرحوم کہ وہ بھی مدعوئین میں سے تھے کھڑے ہوگئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کر کے کہا کہ حضور ! دنیا وی کھانے تو ہم روز ہی کھاتے ہیں ہم تو یہاں آپ کے ہاتھ سے رُوحانی کھانا کھانے آئے ہیں سو آپ تقریر جاری رکھیں اور ہمیں اس سے محروم نہ کریں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقریر جاری رکھی اور تمام غیر احمدی احباب بیٹھے سنتے رہے.میاں فضل حسین صاحب بڑے عقلمند اور سمجھدار آدمی تھے مسلمانوں کے لیڈر تھے اور ابھی اُن کی جوانی کا وقت تھا جس میں بُھوک زیادہ لگتی ہے مگر مجھے یاد ہے وہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے بڑے جوش سے کہا کہ آپ تقریر جاری رکھیں یہ روحانی کھانا ہمیں کب نصیب ہوتا ہے.جسمانی کھانا تو ہم اپنے گھروں میں کھا ہی لیتے ہیں ہم جو آپ کے پاس آئے تھے تو روحانی کھانا کھانے آئے تھے اس سے معلوم ہوا کہ دین کی باتیں نظمندوں کے نزدیک رُوحانی کھانا ہوتی ہیں.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے ساتھ دل کو ایمانی تقویت حاصل ہوتی ہے.حضرت مسیح ناصری بھی فرماتے ہیں کہ :- انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ خدا کے کلام سے جیتا ہے.‘۱۳ پس یہ بات کہ رُوحانی غذاء ہی اصل غذا ہوتی ہے اور جسمانی غذاء اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی اس کی حضرت مسیح کے کلام سے بھی تصدیق ہوگئی اور میاں فضل حسین صاحب کے واقعہ سے بھی تصدیق ہو گئی.میاں فضل حسین ایک دُنیوی لیڈر تھے اور حضرت مسیح دینی لیڈر تھے دونوں نے بتا دیا کہ رُوحانی کھا نا ہی اصل کھانا ہوتا ہے.
۷۳۹ قرآنی لنگر کی کوئی چیز چرائی نہیں جاسکتی اس نقطۂ نگاہ سے جب میں نے قرآنی لنگر کا بادشاہی لنگروں سے مقابلہ کیا تو ۱۴ میں نے دیکھا کہ قرآنی لنگر کا کھانا نہ تو لوگ ناجائز استعمال کر سکتے تھے اور نہ لانگری اُس کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکتا تھا.جبکہ بادشاہی لنگروں کی یہ کیفیت تھی کہ وہ جاری تو غرباء کے لئے کئے جاتے تھے مگر کھانا آسودہ حال لوگ آ کے کھا جاتے تھے اور کچھ لانگری کھا جاتا تھا اور غریب بھو کے مرتے تھے.چنانچہ مجھے نظر آیا کہ قرآنی لنگر کی حفاظت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایک خاص ارشاد فرمایا ہے جس میں کھلے طور پر یہ بتا دیا گیا ہے کہ قرآنی لنگر میں کوئی چوری نہیں ہو سکتی.اور اگر کوئی چوری کرنے کی کوشش کرے تو وہ فوراً پکڑا جاتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْاعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ.یعنی وہ آنکھ کے اشارے کو بھی سمجھتا ہے اور دلوں کے مخفی خیالات کو بھی سمجھتا ہے.پس جو لوگ قرآنی لنگر سے چوری کرنا چاہتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوتے بلکہ پکڑے جاتے ہیں.عام طور پر قاعدہ ہے کہ چور یہ دیکھ کر کہ کوئی دیکھتا نہیں ایک دوسرے کو آنکھ مارتے ہیں کہ چیز اُٹھا لو، کوئی خطرے کی بات نہیں لیکن قرآن فرماتا ہے کہ ہمارے لنگر میں اگر کوئی کسی کو آنکھ مارے تو اُسے وہیں پکڑ لیتے ہیں اور اُسے وہ چیز اُٹھانے نہیں دیتے بلکہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دل کی مخفی باتوں کو بھی جانتا ہے.یعنی اگر کوئی شخص اپنے دل میں یہ خیال مخفی رکھ کر آئے کہ میں قرآنی لنگر سے کوئی چیز چراؤ نگا تو وہ بھی پکڑا جائیگا کیونکہ اللہ تعالیٰ اُس کے دل کی حالت کو جانتا ہے اور مالک اپنے خزانہ کو کبھی چور کے ہاتھ میں نہیں جانے دیتا.خدا تعالیٰ نے اپنے لنگر خانہ کو جن لوگوں کے لئے مخصوص کیا ہے وہی اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں دوسرا قریب بھی نہیں جاسکتا.پس جیسے بادشا ہی لنگر کو لانگری کھا جاتے ہیں ویسا قرآنی لنگر میں نہیں ہوسکتا.جب کوئی قرآنی لنگر میں چوری کرنے لگے تو فوراً خدا تعالیٰ کے فرشتے اُس کو روکنے کیلئے آگے بڑھتے ہیں اور اُسے پکڑ لیتے ہیں.قرآن کریم میں اسی مضمون کے متعلق ایک اور آیت بھی ہے جس میں عجیب پیرا یہ میں اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَسْمَعُونَ إِلَى الْمَلَا الْأَعْلَى وَيُقْدَ فُوْنَ مِنْ كُلِ جَانِبِ دُحُورًا وَّلَهُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ لا إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَاتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ ها یعنی قرآنی لنگر جوڑ و حانی باتوں پر مشتمل ہے اُس کے متعلق بعض دفعہ دشمنانِ اسلام
۷۴۰ چاہتے ہیں کہ اُس کی کچھ باتیں پہلے سے سُن لیں اور پھر اُن کو بگاڑ کر مسلمانوں کو شرمندہ کریں مگر فرماتا ہے لَا يَسْمَعُونَ إِلَى الْمَلا الا على ایسے شیطان جو دشمنانِ اسلام ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کوئی بات اُن کو معلوم ہو جائے چاہے نجوم کے ذریعہ سے یا قرآن کریم پر غور کر کے وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے بلکہ جب بھی وہ ایسا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَيُقْدَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبِ فوراً خدائی فرشتے آ جاتے ہیں اور چاروں طرف سے انکو مار پڑتی ہے.دُحُورًا اور پھر مار بھی ایسی پڑتی ہے کہ وہ مار کھا کر وہاں کھڑے نہیں رہ سکتے بلکہ دُور چلے جاتے ہیں گویا مار اُن کو دُور لے جانے کے لئے پڑتی ہے اور اسلئے پڑتی ہے کہ انہیں بھگا کر زمین کے کناروں تک لے جایا جائے کیونکہ اگر وہ پاس ہوں تو پھر بھی امکان ہوتا ہے کہ شاید کچھ بھنبھناہٹ سُن لیں اور یہ پھر لوگوں کو جا کر دھوکا دیں.وَلَهُمْ عَذَابٌ وَّاصِبٌ اور پھر اُن کو پرے ہی نہیں کیا جاتا بلکہ طرح طرح کے عذاب اُن پر نازل کئے جاتے ہیں جو ہمیشہ اُن کے ساتھ لگے رہتے ہیں.یعنی اتنے خطرناک عذاب نازل ہوتے ہیں کہ دشمن سے دشمن بھی اور اُن کا گہرا دوست بھی مان لیتا ہے کہ ان پر خدا کا عذاب نازل ہو رہا ہے.اِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص بندر کی طرح جھپٹا مار کر کوئی حقیر سی غذا اُٹھا کر لے جائے.پس اگر بندر کی طرح وہ ایک آدھ لقمہ اُٹھا کر لے جائے تو یہ ہوسکتا ہے مگر خدا تعالیٰ اُس کا بھی ازالہ کر دیتا ہے اور اُس سے اُسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ ایک چھوٹا سا لقمہ جس سے پیٹ بھی نہ بھرتا ہو اُس سے کسی قوم نے کیا فائدہ اُٹھانا ہے.پس اگر وہ قرآنی تعلیم میں سے کوئی بات اُڑا بھی لیں تو وہ بہت ہی حقیر ہو گی ایسی حقیر کہ قرآن کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکے گی اور بہر حال قرآن ہی اس پر غالب آئے گا.جسمانی اور رُوحانی لنگر کا مقابلہ قرآنی لنگر کے ہمیشہ جاری رہنے کی پیشگوئی کرتے ہوئے میں نے یہ بھی دیکھا کہ جسمانی لنگر تو کب کے خاموش ہو چکے ہیں لیکن قرآنی لنگر کے ہمیشہ زندہ رہنے کی پیشگوئی قرآن کریم میں مذکور ہے.چنانچہ اُس نے فرمایا اِنَّا اَعْطَيُنكَ الْكَوْثَرَهِ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُه إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُه اے محمد رسول اللہ ! ہم تجھے ایک ایسے روحانی بیٹے کی بشارت دیتے ہیں جو بڑا ہی سخی ہوگا.پس چاہئے کہ تو اُس کے پیدا ہونے کی خوشی میں اپنے رب کے فضل کی وجہ سے اُس آنے والے
۷۴۱ روحانی بچہ کے لئے بہت دُعائیں کرتا رہ اور کثرت سے اُس کی پیدائش کی خوشی میں قربانیاں کر تا کہ ایک وسیع لنگر جاری ہو جائے اور لاکھوں کروڑوں آدمی اُس سے فائدہ اُٹھائیں اور یقین رکھ کہ تیرا دشمن ہمیشہ نرینہ اولاد سے محروم رہے گا.عربوں میں رواج تھا کہ وہ بچہ کی پیدائش پر بہت قربانیاں کرتے تھے.لڑکی کو تو وہ زندہ دفن کر دیتے تھے اُس پر قربانیاں کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ، صرف نرینہ اولاد پر وہ قربانیاں کیا کرتے تھے.پس فرمایا کہ تیرے ہاں ایک زمانہ میں ایک ایسا بیٹا پیدا ہو گا جو امتی نبی ہوگا اور نر ہو گا کیونکہ عورت نبی نہیں ہوتی.اس کی خوشی میں تو قربانیاں کر یعنی دنیوی لنگر بھی جاری کر اور اُسکی تسبیح وتحمید بھی کر.یعنی روحانی لنگر بھی جاری کر اور یقین رکھ کہ تیرا دشمن ہمیشہ اس دنیا میں بے اولا د ر ہے گا.حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت پر مرد کو یہ فضیلت ہے کہ مردوں میں سے تو کامل مومن ہو سکتے ہیں جو دوسروں پر حکومت کرنے کے اہل ہوں لیکن عورتوں میں سے کوئی ایسی عورت نہیں ہو سکتی جو تمام مردوں پر حکومت کرنے کی قابلیت رکھتی ہو.آجکل مساوات پر بڑا زور دیا جاتا ہے لیکن یہ دعویٰ کبھی کسی عیسائی پادری نے نہیں کیا کہ عورت تمام مردوں پر حکومت کر سکتی ہے.مثلاً ملکہ کو ہی لے لو، اُس کو گھر میں خاوند کے ماتحت چلنا پڑتا ہے اور چاہے اُسے تخت پر ہی لا کر بٹھا ئیں گھر میں وہ خاوند کے ماتحت ہوتی ہے.بے شک بعض عورتیں ایسی بھی ہوئی ہیں جنہوں نے شادی نہیں کی لیکن شادی نہ کرنے سے اُن کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی.اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈرتی تھیں کہ مرد آ گیا تو ہم پر حکومت کریگا مثلاً رضیہ سلطانہ نے جو غلام خاندان میں سے تھی ابتداء میں شادی نہیں کی مگر آخر وہ بے شادی کے نہ رہ سکی.اسی طرح یورپ میں بعض حکومتیں ہیں جن کی شہزادیوں نے شادی نہیں کی مگر اُن کا شادی نہ کرنا صاف بتاتا ہے کہ وہ ڈرتی تھیں کہ اگر شادی کی تو مرد کے تابع رہنا پڑیگا.ملکہ وکٹوریہ کی شادی البرٹ وکٹر سے ہوئی تھی.اور میں نے ملکہ کی ہسٹری میں پڑھا کہ وہ روٹھ جاتا تھا تو وہ دروازے بند کر لیتا تھا اور ملکہ معظمہ ساری دنیا کی بادشاہ ہو کر اسکی منتیں کیا کرتی تھی کہ دروازہ کھول دو تم جو کچھ کہومیں وہی کرونگی.إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْابْتَر کی پیشگوئی کا ظہور فرض یہ جو پیشگوئی تھی کہ محمد رسول اللہ کا دشمن ہمیشہ ابتر یعنی بے اولا در ہے گا اس کے پورا ہونے کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
۷۴۲ کا سب سے بڑا دشمن ابو جہل تھا اور ابو جہل کا بیٹا مکر مہ تھا.ابوجہل کمبخت وہ تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی نبوت کیا تو ایک دفعہ آپ صفا پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اُس نے زور سے آپ کے منہ پر تھپڑ مارا.امیر حمزہ جو آپ کے چا تھے اُس وقت باہر شکار کے لئے گئے ہوئے تھے جب وہ شکار سے واپس آئے تو اُن کے گھر کی ایک لونڈی جس نے پردہ کے پیچھے سے یہ تمام نظارہ دیکھا تھا بڑے غصہ سے اُن کو دیکھ کر کہنے لگی ، تجھ کو شرم نہیں آتی کہ تو تیر کمان لٹکائے فوجی بنا پھرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ بڑا بہادر ہے ، میں نے دیکھا کہ آج تیرے بھتیجا کے منہ پر ابو جہل نے بڑے زور سے تھپڑ مارا اور وہ سر ڈالے بیٹھا تھا.خدا کی قسم ! اُس نے ابو جہل کو کوئی لفظ نہیں کہا تھا اور اُس کا کوئی قصور نہیں تھا وہ سر جھکائے چُپ کر کے بیٹھا تھا اور اپنے خیالات میں مگن تھا کہ وہ آیا اور اُس نے تھپڑ مارا اور پھر بعد میں بھی محمد نے کچھ نہیں کہا.وہ دایہ تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتی تھی اُس نے کہا کہ محمد نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے چلا گیا اگر تم میں غیرت اور شرم ہے تو جاؤ اور جا کر بدلہ لو.حضرت حمزہ یہ سنتے ہی سیدھے خانہ کعبہ میں گئے کیونکہ اُن لوگوں میں رواج تھا کہ شام کے وقت سارے رؤساء وہاں اکٹھے ہو جاتے تھے انہوں نے دیکھا کہ ابو جہل جو سردارانِ مکہ میں سے سمجھا جا تا تھا وہ پر بیٹھا ہوا ہے اور اُس کے ارد گرد مکہ کے تمام رؤساء بیٹھے ہوئے ہیں.حضرت حمزہ جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کمان اُٹھا کر زور سے اُس کے منہ پر ماری اور کہا کہ مجھے پتہ لگا ہے کہ تو نے آج محمد کے منہ پر تھپڑ مارا ہے اور اُس نے نہ پہلے کچھ کہا تھا اور نہ بعد میں کچھ کہا اب اگر تم میں کچھ ہمت ہے اور کوئی بہادری تم میں پائی جاتی ہے تو آ اور میرے ساتھ لڑ کر دکھا پھر تجھے پتہ لگے گا.محمد جو کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھاتا تیری ساری بہادری اُسی پر چلتی ہے جو مقابلہ کرنے والے اور سپاہی لوگ ہیں اُن سے تو لڑ کے دکھا پھر ہم مانیں گے کہ تو بہادر ہے.اس پر سارے رؤساء کھڑے ہو گئے اور انہوں نے حضرت حمزہ کو پکڑ لیا اور مارنے لگے کہ اُس نے ہمارے لیڈر کو مارا ہے مگر اُس وقت خدا تعالیٰ نے ابو جہل کے دل پر ایسا رعب ڈالا کہ وہ اُن سے کہنے لگا.نہیں نہیں ! اسے کچھ نہ کہو اصل میں آج مجھ سے ہی کچھ زیادتی ہو گئی تھی اور غلطی میری ہی تھی.میں نے محمد پر بلا وجہ ظلم کر دیا، اُس نے مجھے کچھ نہیں کہا تھا نہ پہلے نہ بعد میں اس لئے حمزہ اپنے بھتیجے کی تائید میں جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے اسے مت مارو.کلا چنانچہ وہ لوگ رُک گئے.تو ابو جہل اپنی قوم کا سردار تھا اور ہمیشہ لوگوں سے کہتا رہتا تھا کہ محمد رسول اللہ اگر
۷۴۳ کوئی بات کہا کریں تو کبھی نہ مانا کرو.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم دعوی نبوت سے پہلے ایک دفعہ حلف الفضول میں شامل ہو گئے تھے.مظلوم اور تم رسیدہ انسان سے حسن سلوک یہ ایک مجلس تھی جو فضل نامی تین چار آدمیوں نے قائم کی اور انہوں نے ایک دوسرے سے قسمیں لی تھیں کہ جب کوئی مظلوم مکہ میں آئے اور وہ ہم سے مدد مانگے تو ہم اُس کی ضرور مدد کرینگے.جب یہ مجلس قائم ہوئی تو انہوں نے آپ کو بھی اُس میں شامل ہونے کی دعوت دی ، آپ بڑے شوق سے شامل ہو گئے.اس کے بعد دعوی نبوت کے زمانہ میں ایک شخص باہر سے آیا اور کہنے لگا ابو جہل نے مجھ سے مدت ہوئی قرض لیا تھا مگر اب وہ دیتا نہیں.آپ حلف الفضول میں شامل رہ چکے ہیں آپ مجھ کو میرا قرض واپس دلائیں.آپ نے فرمایا اچھا میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں.چنانچہ آپ گئے ، ابو جہل کا دروازہ بند تھا، آپ نے دستک دی.ابو جہل آیا اور اُس نے دروازہ کھولا اور آپ کو دیکھ کر ذرا پیچھے ہٹ گیا اس خیال سے کہ میں اس کا اتنا بڑا دشمن ہوں اسکو میرے دروازہ پر آنے کی جرات کس طرح ہوئی؟ آپ نے فرمایا تم نے اِس کا کچھ قرض دینا ہے؟ وہ انکار نہ کر سکا اور کہنے لگا ہاں میں نے اس سے قرض لیا ہوا ہے مگر اب تک مجھے اُس کے ادا کرنے کا موقع نہیں ملا.آپ نے فرمایا کہ موقع کا سوال نہیں تم مالدار آدمی ہو فوراً اس کا قرض ادا کر دو.وہ اندر گیا اور جتنا روپیہ قرضہ تھا اُتنا ہی رو پیدا سے لا کر دے دیا.^1 ابو جہل کیلئے ایک خدائی نشان جب وہ اپنے معمول کے مطابق کعبہ میں آیا تو سب مکہ کے لوگوں نے اُسے کہا کہ تم بڑے ذلیل آدمی ہو.ہمیں تو یہ کہا کرتے تھے کہ اسکی بات نہ مانو اور آج کسی غیر جگہ نہیں بلکہ اپنے گھر پر جب اُس نے تم کو کہا کہ اس کا قرض ادا کر دو تو تم نے فوراً اس کا قرض ادا کر دیا اور ڈر گئے اِس سے پتہ لگتا ہے کہ تم ہم کو غلط راستہ پر چلاتے ہو ورنہ خود تم میں کوئی ہمت نہیں.اُس نے کہا.خدا کی قسم ! اگر تم میری جگہ ہوتے تو تم بھی اسی طرح قرضہ ادا کر دیتے.انہوں نے پوچھا کیا ہو ا تھا ؟ وہ کہنے لگا جب میں نے دروازہ کھولا اور مجھے پتہ لگا کہ محمد ( رسول اللہ ) ہیں تو میں نے دیکھا کہ ایک وحشی اونٹ آپ کے دائیں بازو پر کھڑا ہے اور ایک وحشی اونٹ آپ کے بائیں بازو پر کھڑا ہے اور دونوں نے اپنے سر آگے کئے ہوئے ہیں اور وہ مجھے کاٹنا چاہتے ہیں.میں اُن وحشی اونٹوں
۷۴۴ کو دیکھ کر اتنا ڈرا کہ اُسی وقت روپیہ لا کر اُس کے حوالے کر دیا.19 اب یہ ایک خدائی معجزہ تھا مگر اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ ابو جہل کتنا خبیث دشمن تھا.ایسے دشمن کے گھر میں عکرمہ پیدا ہوا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں باوجود یہ کہنے کے کہ تو ابتر نہیں تیرا دشمن ابتر ہے اُس زمانہ تک کوئی لڑکا پیدا نہیں ہو ا بعد میں ایک لڑکا پیدا ہوا جو فوت بھی ہو گیا مگر جب یہ بات ہو رہی تھی آپ کے ہاں بیٹا نہیں تھا.فتح مکہ پر عکرمہ کا فرار جب عکرمہ بڑا ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو عکرمہ بھاگ کے سمندر کے اُس کنارہ کی طرف چلا گیا جہاں سے کشتیاں حبشہ کو جاتی تھیں.اُس کی بیوی تین چار مہینے انتظار کرتی رہی کہ وہ آ جائے تو میں کوشش کر کے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی لے دوں کیونکہ وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو مسلمانوں پر سخت ظلم کیا کرتے تھے اور اُن کو مروایا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایسے لوگ خواہ بیت اللہ میں بھی پناہ لیں ان کو نہ بخشا جائے.عکرمہ بھی ڈر کے بھاگ گیا تھا کہ شاید مجھے بھی قتل کیا جائے گا.عکرمہ کی بیوی کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی حاصل کرنا جب تین چار مہینے ہو گئے اور وہ واپس نہ آیا تو اُس کی بیوی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی.آخر خاوند کی محبت ہوتی ہے اور آکر عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللهِ! کیا یہ اچھا ہے کہ آپ کا رشتہ دار بھائی آپ کے ماتحت آپ کے اپنے ملک میں زندگی گزارے یا یہ اچھا ہے کہ آپ کا رشتہ دار بھائی بھاگ کر کسی غیر ملک میں چلا جائے اور غیر ملکیوں کی پناہ میں اپنی عمر گزارے.آپ نے فرمایا نہیں اگر ہمارا بھائی ہے تو پھر ہماری پناہ میں وہ اپنی عمر گزارے تو یہ زیادہ اچھا ہے.وہ کہنے لگی.کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں جا کر اُسے لے آؤں.آپ نے فرمایا جاؤ.وہ کہنے لگی میں جاتی تو ہوں مگر آپ جانتے ہیں عکرمہ بڑا غیرت مند ہے اگر اُسے یہ پتہ لگا کہ آپ اُس کا دین بدلوائیں گے تو پھر اُس نے نہیں آنا.یہ بھی وعدہ کیجیئے کہ وہ بُت پرست رہ کر آپ کے پاس آئیگا اور یہاں مکہ میں رہے گا اور پھر اُسے مارنا نہیں اور دوسرے اُسے مجبور نہیں کرنا کہ وہ بُت پرستی چھوڑ دے.آپ نے فرمایا مجھے منظور ہے.چنانچہ وہ عکرمہ کو واپس بلانے کے لئے چلی گئی.عکرمہ اپنی بیوی کو دیکھ کر کہنے لگا تم کہاں؟ وہ کہنے لگی تو جو آ گیا تھا میں کیا کرتی.وہ کہنے لگا تو
۷۴۵ جانتی نہیں میں آنے پر مجبور تھا اگر میں وہاں رہتا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مروا دینا تھا.عربوں میں رواج تھا کہ عورتیں اپنے خاوند کو چا کا بیٹا کہا کرتی تھیں.اس دستور کے مطابق اُس نے کہا.اے میرے چچا کے بیٹے ! تجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سمجھنے میں غلطی لگی ہے محمد رسول اللہ بڑی شان کا آدمی ہے تیرے بھا گنے کے بعد میں اُنکے پاس گئی تھی اور میں نے اُن سے پوچھا تھا کہ مکرمہ اگر واپس آ جائے اور آپ اُسے چھوڑ دیں تو یہ زیادہ اچھا ہے یا یہ اچھا ہے کہ وہ کسی غیر ملک میں جا کر دوسروں کی پناہ میں رہے.اس پر محمد رسول اللہ نے مجھے کہا کہ نہیں اگر وہ میرے پاس آکر رہے تو زیادہ اچھا ہے میں اُس کے ساتھ حسنِ سلوک کرونگا.عکرمہ کہنے لگا خدا کی قسم ! اپنے باپ دادا کے مذہب کو کبھی نہیں چھوڑوں گا.اُس نے کہا میں یہ بات بھی پوچھ چکی ہوں.میں نے خود کہا تھا کہ وہ بڑا غیرت مند ہے اپنے باپ دادا کے مذہب کو کبھی نہیں چھوڑے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ وہ بے شک بُت پرستی پر قائم رہے میں اُسے کچھ نہیں کہوں گا.کہنے لگا.یہ اتنی بڑی بات ہے کہ مجھے اس پر یقین نہیں آ سکتا.میں تیرے کہنے پر مکہ میں تو واپس چلا جاتا ہوں مگر میں خود اس بارہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں گا اگر انہوں نے تصدیق کی تو پھر میں کہوں گا کہ بات ٹھیک ہے.چنانچہ وہ مکہ میں واپس آیا عکرمہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اور اپنی بیوی کو ساتھ لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا.آپ کو اطلاع ہوئی تو آپ نے اُسے بُلا لیا جب وہ پہنچا تو کہنے لگا اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں نے اپنی بیوی سے سُنا ہے کہ آپ نے یہ کہا تھا کہ اگر عکرمہ واپس آ جائے تو اُسے کوئی سزا نہیں دی جائیگی.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے.کہنے لگا جناب میں نے اپنی بیوی سے یہ بھی سُنا ہے کہ اگر میں اپنے دین پر قائم رہنا چاہتا ہوں اور آپ کو نہ مانوں تو پھر بھی مجھے کچھ نہیں کہا جائے گا.آپ نے فرمایا اُس نے ٹھیک کہا ہے یہ بھی میں نے کہا تھا.یہ بات سنتے ہی اُسکی آنکھیں گھل گئیں اور کہنے لگا.اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.عکرمہ ! تُو نے تو میرے بڑے بڑے معجزات دیکھے تھے مگر پھر بھی تو ایمان نہ لایا آج تُو نے کیا دیکھا ہے جس کی وجہ سے تو نے کلمہ شہادت پڑھ لیا ہے اور کفر چھوڑ دیا ہے.وہ کہنے لگا.اتنی بڑی مہربانی جو آپ نے مجھ پر کی ہے یہ نبی کے سوا اور
کوئی کر ہی نہیں کر سکتا پس اس مہربانی اور امن کے بعد یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ میں آپ کو جھوٹا کہتا اور اپنے باپ دادا کے دین پر قائم رہتا اس لئے میں آپ پر ایمان لے آیا ہوں.اب دیکھو کر مر ابو جہل کا بیٹا تھا اور اُس کی نرینہ اولاد تھی بلکہ کہتے ہیں کہ اُس کی پیدائش پر کئی سو اونٹ ذبح کئے گئے تھے اور وہ اپنے وجود سے ظاہر کرتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے ہیں اور میرا باپ سچا ہے کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی اور ابو جہل کے تھی لیکن آخر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا اور جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا تو قرآن کریم کی یہ پیشگوئی پوری ہوگئی کہ اِنَّا اَعْطَيْنكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ یعنی اے محمد رسول اللہ ! ہم نے تجھے خیر کثیر بخشی ہے یعنی بڑی اُمت بھی بخشی ہے جو ہمیشہ تیری اطاعت گزار اور فرمانبردار رہے گی اور تیری روحانی اولاد میں سے ایک ایسا انسان بھی کھڑا کیا جائیگا جو اپنے اندر خیر کثیر رکھتا ہوگا.الکوثر میں مسیح موعود کے علاوہ اُمت محمدیہ دراصل کوثر کے معنے خیر کثیر کے ہیں اور جہاں اس میں مسیح موعود کی پیشگوئی کی گئی ہے وہاں کے تمام مخلص افراد بھی شامل ہیں تمام امت مسلمہ کو بھی آپ کے بیٹوں میں شمار کیا گیا ہے.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ سَلْمَانُ مِنَّا اَهْلَ الْبَيْتِ کہ سلمان بھی میرے اہل بیت میں سے ہیں اور سلمان آپ کے اہل بیت میں شامل ہو سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ جو شخص آج خاص طور پر نیکی کرے وہ آپ کی اولاد میں شامل نہ سمجھا جائے.وہ بھی شامل ہے.ہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ ایک خاص فضیلت حاصل ہے کہ آپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ موعود بیٹے ہیں جنکی پیشگوئی پہلے نبیوں نے بھی کی ہوئی ہے ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں جتنے مسلمان ہیں اگر وہ اخلاص کے ساتھ کام کریں تو وہ بھی آپ کے بیٹے ہیں.غرض عکرمہ کے بیعت کر لینے کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو صاحب اولاد نرینہ ہو گئے مگر ابو جہل بے اولا درہ گیا.اسی قسم کی اور بھی بہت سی مثالیں حضرت عمرو بن العاص کی اسلامی خدمات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
۷۴۷ ا زندگی میں پائی جاتی ہیں.مثلاً عمرو بن العاص بن وائل نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی حالانکہ عاص بھی بڑا دشمن تھا اور وائل بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا دشمن تھا مگر باوجود اس کے کہ باپ اور دادا دونوں مخالف تھے عمر و بن العاص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور پھر اتنے دشمن گھرانے میں سے ہوتے ہوئے عمرو نے اسلام کے لئے مصر فتح کیا اور پھر مصر پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ اسلامی حکومت کو مدینہ سے نکال کر افریقہ تک پہنچا دیا.عمرو بن العاص کی زندگی میں ہی اسلامی مبلغ سپین کی سرحدوں تک پہنچ گئے تھے.گویا انہوں نے اسلام کو مدینہ سے نکالا اور یورپ کی سرحدوں تک جا پہنچا یا.آج ہم فخر کرتے ہیں کہ ہمارے مبلغ باہر گئے ہوئے ہیں لیکن ہمارے مبلغ اس زمانہ میں گئے ہیں جب ہوائی جہاز چل رہے ہیں اور عمرو بن العاص نے اُس زمانہ میں اسلام کو مدینہ سے ہسپانیہ تک پہنچا دیا تھا جبکہ اونٹوں کا سفر ہوتا تھا اور راستہ میں پانی بھی نہیں ملتا تھا.تیسری مثال خالد بن ولیڈ کی ہے.ان کے باپ دادا حضرت خالد بن ولید کی فدائیت بھی اسلام کے سخت مخالف تھے.لیکن انہوں نے اسلام قبول کیا اور سارے عرب اور ایران وفلسطین اور شام میں اسلام کو پھیلا یا اور اس طرح اپنے وجود سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب اولاد نرینہ بنادیا.لیکن اپنے باپ دادوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے اولاد نرینہ سے محروم کر دیا کیونکہ وہ اُنکے مسلک سے باہر ہو گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلک کے تابع ہو گئے.غرض ایسی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں جن کے ذریعہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں روحانی اولاد چلتی جاتی ہے اور معنوی طور پر اُن کے عقیقے ہوتے رہتے ہیں یعنی اسلام خوشیاں مناتا ہے اور قرآنی لنگر سے دنیا فائدہ اٹھاتی رہتی ہے.اس کی ایک رؤسائے مکہ کے بیٹوں پر حضرت عمرؓ کا غلام صحابہ کو ترجیح دینا اور شاندار مثال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک حج کا واقعہ ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ ہو گئے اور آپ حج کے لئے تشریف لے گئے تو آپ کو حج کی مبارکباد دینے کیلئے بعد میں کچھ لوگ آئے جن میں مکہ کے رؤساء کے لڑکے بھی شامل تھے.حضرت عمرؓ نے ان کا مناسب اعزاز کیا اور ان کو اپنے خیمہ میں جگہ دی اور اپنے قرب میں بٹھایا.مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی ایک غلام صحابی
۷۴۸ آپ کی ملاقات کے لئے آ گیا.آپ نے اُن رؤساء کے لڑکوں سے فرمایا کہ ذرا پیچھے ہو جاؤ اور غلام صحابی سے کہا کہ آگے آکر بیٹھ جاؤ.اس کے بعد دوسرا غلام صحابی آ گیا تو آپ نے اُن سے پھر کہا کہ اور پرے ہٹ جاؤ اور اس غلام کو آگے بٹھا لیا.پھر ایک اور غلام آ گیا تو پھر آپ نے اُن سے کہا کہ پیچھے ہٹ جاؤ اور اُس غلام کو کہا کہ آگے آجاؤ.انہوں نے یہ نظارہ دیکھا تو وہ وہاں سے اُٹھے اور باہر چلے گئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ دیکھ لیا تم نے آج عمر نے ہماری کیسی ذلت کی ہے.اُن میں سے ایک بڑا سنجیدہ اور سمجھدار نو جوان تھا اُس نے کہا عمر نے ہماری ہتک نہیں کی ، ہمارے باپ دادوں نے ہماری ہتک کی ہے.جس وقت ہمارے باپ دادا تلواریں لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خون بہانے کے لئے آگے بڑھ رہے تھے اُس وقت ان غلاموں نے اپنے سینے اُن تلواروں کے آگے کر دئیے اور اپنی جانیں قربان کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچالیا.آج عمر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہے اگر وہ اس طرح نہ کرتا تو پھر وہ اس کا خلیفہ بھی نہ رہتا.پس جو کچھ اُس نے کیا ہے وہ عین وفاشعاری اور وفاداری کا طریق تھا.آ پس دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ نے کس طرح قرآنی لنگر کو روحانی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی ظاہر کیا.آخر انہوں نے کہا کہ اس ذلت کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں اُس نے کہا کہ اس کا علاج عمر ہی بتا سکتے ہیں ، چلو عمر کے پاس چلیں اور اُن سے پوچھیں کہ جو ہو گیا سو ہو گیا.ہمارے باپ دادوں نے شرارتیں کیں اور وہ ختم ہو گئیں ، اب ہم ان کو بدل نہیں سکتے مگر آپ ہمیں بتائیں کہ ہم سے اس ذلت کا داغ رکس طرح دُور ہوسکتا ہے.چنانچہ وہ واپس گئے حضرت عمرؓ اُن کو دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ وہ کیوں آئے ہیں.آپ نے فرمایا اے بچو ! میں تمہارے باپ دادا کو جانتا ہوں وہ مکہ کے رئیس تھے اور مکہ اُن کے قدموں کے پیچھے چلتا تھا.مجھے پتہ ہے کہ جو کچھ آج میں نے تمہارے ساتھ سلوک کیا ہے اس سے تمہارے دلوں کو زخم پہنچا ہو گا مگر میں مجبور تھا میرا آقا بھی ان غلاموں کو دوسروں پر فضیلت دیا کرتا تھا اور ان کو آگے بٹھاتا تھا اس لئے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہو کر اس کی خلاف ورزی کس طرح کر سکتا تھا.انہوں نے کہا کہ یہ سب باتیں درست ہیں ہم تو صرف یہ دریافت کرنے آئے ہیں کہ آخر اس ذلت کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں؟ ان کا سوال سنگر حضرت عمر کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے شام کی طرف ہاتھ اُٹھا دیا جس میں اس طرف اشارہ تھا کہ شام چلے جاؤ اور اُس جہاد میں شامل ہو جا ؤ جو روم کے بادشاہ کے خلاف
۷۴۹ مسلمان کر رہے ہیں.اِس پر وہ لڑ کے فوراً اُٹھ کر باہر آ گئے اور گھوڑوں پر سوار ہو کر شام کی طرف چلے گئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سب کے سب اسلام کی تائید میں لڑتے ہوئے وہیں مارے گئے اور اُن میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہ آیا ہے اب دیکھو قرآن کریم کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے دشمنوں کے بیٹے چھین کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے اور آپ کا لنگر جاری کر دیا.جس وقت یہ لوگ عیسائیوں کو مارتے ہونگے تو ہر عیسائی کے مرنے پر جہاں اُنکو فتح نصیب ہوتی تھی وہاں محمد رسول اللہ کا لنگر بھی جاری ہوتا تھا اور آپ کی برکات ساری دنیا پر پھیلتی جاتی تھیں.قرآنی لنگر کا ایک اور شاندار منظر پھر قرآنی لنگر کی ایک اور مثال سورہ ذاریات سے ملتی ہے اللہ تعالیٰ اُس میں کامل مومنوں یعنی أتباع محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے کہ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ ۲۴ وَالْمَحْرُوم - یعنی ان کے مالوں میں ایسے لوگوں کا بھی حق ہے جو مانگ سکتے ہیں اور اُن کا بھی حق ہے جو نہیں مانگ سکتے.یعنی یا تو وہ گونگے ہیں یا ان کو مانگتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ہمارا اس سے غریب ہو نا ظاہر ہوتا ہے اور یا جانور ہیں کہ وہ مانگنے اور بولنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے.گویا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لنگر اتنا وسیع ہے کہ سائل اور غیر سائل سب اس سے فیضیاب ہو رہے ہیں.بادشاہوں کے لنگر تو ایسے تھے کہ لوگ اُن لنگروں میں جا کر روٹی مانگتے تھے تو پھر انہیں روٹی ملتی تھی اور اگر کوئی پرے کھڑا ہو جاتا تو اس کو کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا.مگر یہاں محمد رسول اللہ کے لنگر کے متعلق فرماتا ہے کہ آپ کے متبعین کے ذریعہ سے جو لنگر جاری کیا گیا ہے اُس میں اُن لوگوں کا بھی حق رکھا گیا ہے جو کہ بول سکتے ہیں اور ان لوگوں کا بھی حق رکھا گیا ہے جو بول نہیں سکتے.یعنی بولنے سے بالکل محروم ہیں یا شرم کے مارے نہیں بولتے کہ ہماری کمزوری اور غربت لوگوں پر ظاہر ہوگی.اور جانوروں کا بھی حق رکھا گیا ہے.اب دیکھو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لنگر کتنا وسیع ہے اور بادشاہوں کا لنگر کتنا محدود ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور آپ کے تمام اتباع کے اموال میں خدا تعالیٰ نے سائل اور محروم سب کا حق رکھا ہے.یہ الگ بات ہے کہ مسلمان آجکل اپنی عملی کمزوری کی وجہ سے اس آیت پر عمل نہ کریں مگر قرآن نے اس کی ہدایت دیدی ہے اور جو سچا مسلمان ہوگا وہ
۷۵۰ ضرور اسپر عمل کریگا.جھوٹے کا تو سوال ہی نہیں، جھوٹا تو خود ہی اپنی عاقبت خراب کرتا ہے.منشی اروڑے خاں صاحب کے اخلاص کی ایک درد انگیز مثال مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد ایک دن میاں اروڑے خان صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت ہی مقرب صحابی تھے اور نائب تحصیلدار تھے قادیان آئے.اُس زمانہ میں آپ کپورتھلہ میں تھے اور تنخواہیں بہت کم ملا کرتی تھیں.شروع میں نائب تحصیلدار کی پندرہ روپے تنخواہ ہوتی تھی مگر اس کے باوجود وہ ہمیشہ ہر اتوار کو قادیان آتے اور روپیہ دو روپے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نذرانہ دیتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جب وہ آئے تو اُسوقت وہ تحصیلدار ہو چکے تھے اور تنخواہیں بھی زیادہ ہوگئی تھیں.میں نے دیکھا کہ تین یا چار اشرفیاں انہوں نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھیں.انہوں نے وہ اشرفیاں میرے ہاتھ پر رکھیں اور پھر چیچنیں مار کر رونے لگ گئے.میں حیران ہوا کہ یہ روتے کیوں ہیں.مگر جب روتے روتے ذرا ہوش آئی تو کہنے لگے کہ ساری عمر خواہش رہی کہ میں اونہاں دے ہتھ وچ سوناں رکھاں پر کدی توفیق نہ ملی.جدوں کچھ پیسے جمع ہوندے سن.میں پیدل چل کے کپورتھلہ تو اونہاں نوں دیکھن آجاندا ساں یاں ریل و چہ آندا ساں تاں کرایہ لگداسی.پر جدوں سونا ملیا ہے تے اوہ بہن نہیں...اُن کا یہ فقرہ ایسا دردناک تھا کہ مجھ پر بھی رقت آگئی.میں نے اُنکو چُپ کرانے کیلئے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی مگر اُن کی جو مذبوح حرکت تھی اُس کو دیکھتے ہوئے در حقیقت میری کوشش بالکل بے کار اور بے سُود تھی.یہ فِی اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ کا ایک نظارہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُن لوگوں میں سے تھے جو لوگوں سے مانگتے نہیں تھے اور ایسے لوگ بھی محروم ہی ہوتے ہیں.مگر انہیں ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں نذرانہ پیش کریں اور خواہش بھی یہ تھی کہ سونا دیں مگر کہنے لگے.” جدوں جیندے سن تے سونا نہیں ہتھ آیا.سونا ہتھ آیا تے اوہ ہن نہیں.بہن میں کی کراں.“ یعنی جب آپ زندہ تھے تو مجھے سونا میسر نہ آیا اور جب سونا ملا تو آپ فوت ہو چکے
۷۵۱ ہیں.اب میں کروں تو کیا کروں.پھر میں نے بتایا ہے کہ یہ لنگر انسانوں سے اسلام میں جانوروں کے حقوق کا تحفظ لے کر جانوروں تک کے کام آتا ہے.بادشاہی لنگر تو بمشکل انسانوں کو کھانا دے سکتے ہیں.مگر یہ لنگر انسانوں اور پرندوں سب کو نفع پہنچا رہا ہے اور قیامت تک نفع پہنچائے گا.قیامت تک نفع پہنچانے کی ایک مثال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ دیکھا کہ کسی صحابی نے فاختہ کا ایک بچہ پکڑ لیا ہے اور وہ فاختہ بیقراری سے ادھر اُدھر اُڑ رہی ہے.آپ نے اُسے فرمایا یا درکھو! کبھی کسی جانور کو اُس کے بچہ کے ذریعہ سے دُکھ نہ دو.جس طرح انسان کی ماں کو دُکھ پہنچتا ہے اُسی طرح جانور کی ماں کو بھی دُکھ پہنچتا ہے.پس کسی جانور کو اُس کے بچے کی وجہ سے دُکھ نہ دو.۲۵ تو دیکھو وہ جو حق لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ فرمایا تھا خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تصدیق کر دی اور قیامت تک کے لئے حکم دے دیا کہ جانوروں سے بھی حسن سلوک کرو.اب جو اس کی خلاف ورزی کریگا وہ محمد رسول اللہ کا مخالف ہو کر کریگا.ورنہ محمد رسول اللہ کا کامل متبع کبھی ایسا نہیں کریگا کہ کسی فاختہ یا کبوتر کا انڈہ لے کر چلا جائے اور وہ پرندہ تڑپتا پھرے کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی بچے کے ذریعہ سے اُسکی ماں کو دُکھ نہ پہنچا ؤ ، اب یہ قیامت تک کیلئے احسان ہے.کیونکہ محمد رسول اللہ کی اُمت کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وہ قیامت تک زندہ رہے گی اور جب وہ قیامت تک زندہ رہے گی تو جانوروں پر احسان یا شرم وحیا کی وجہ سے سوال نہ کرنے والوں پر جو احسان کرنے کا حکم ہے یہ بھی قیامت تک چلے گا.غرض دنیا کے بادشاہوں کے لنگر تو ختم ہو گئے کوئی دوسو سال تک رہا ، کوئی سو سال رہا، کوئی پچاس سال رہا، کوئی میں سال رہا مگر محمد رسول اللہ کا لنگر ساڑھے تیرہ سو سال سے چل رہا ہے اور قرآن کہتا ہے کہ قیامت تک چلے گا پس اس لنگر کی مثال دُنیا میں اور کہیں نہیں مل سکتی.اسی طرح سورہ کوثر میں جس لنگر کی خبر دی جماعت احمدیہ کالنگر بھی ہمیشہ جاری رہے گا گئی تھی اُس میں کوثر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل متبع مسیح موعود مراد تھا.چنانچہ اس کا لنگر دیکھ لو آج تک جاری ہے.اس جلسہ پر آنے والے بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور سارا سال بھی لنگر جاری رہتا ہے.پس مبارک ہو کہ آپ سب لوگوں کو اس موعود لنگر سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملا ہے.مجھے یاد ہے
۷۵۲ ނ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں جب پرانے صحابی آیا کرتے تھے تو لنگر سے روٹیاں لے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ان میں بڑی برکت ہے ہم تو سارا سال کوئی بیماری ہو اپنے بچوں اور بیویوں کو یہی روٹیاں پانی میں گھول کر پلا دیتے ہیں اور وہ بیماریاں دُور ہو جاتی ہیں.اگر احمدی اپنے ایمان پر قائم رہے تو یہ لنگر بھی ہمیشہ قائم رہے گا اور کبھی نہیں مٹے گا کیونکہ اس کی بنیاد خدا کے مسیح موعود نے قائم کی ہے جس کو خدا تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ تین سو سال کے اندر تیری جماعت ساری دنیا پر غالب آجائیگی اور تین سو سال میں یہ لنگر ربوہ میں نہیں رہے گا بلکہ تین سو سال کے بعد ایک لنگر امریکہ میں بھی ہوگا ، ایک انڈیا میں بھی ہوگا ، ایک جرمنی میں بھی ہوگا ، ایک روس میں بھی ہوگا ، ایک چین میں بھی ہوگا ، ایک انڈونیشیا میں بھی ہوگا ، ایک سیلون میں بھی ہوگا ، ایک برما میں بھی ہو گا ، ایک شام میں بھی ہوگا ، ایک لبنان میں بھی ہو گا ، ایک ہالینڈ میں بھی ہو گا ، غرض دنیا کے ہر بڑے ملک میں یہ لنگر ہوگا.قرآنی لنگر کی ایک اور مثال محمد رسول اللہ کی برکت سے عربوں اور سیدوں کا اعزاز پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے سامنے ہر سال آتی رہتی ہے اور وہ اس طرح کہ عرب جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وطن تھا وہاں سے سینکڑوں لوگ پاکستان یا ہندوستان آئے ہیں اور مسلمان صرف اُنکے عرب ہونے کی وجہ سے اُن کی خوب خاطرمیں کرتے اور کھانے کھلاتے ہیں.یہ بھی محمد می لنگر ہے جو آج تک آپ کی قوم کے لئے جاری چلا آ رہا ہے اور سارا سال گھلا رہتا ہے.بیشک یہ لنگر لوگوں کے گھروں میں کھلتا ہے مگر کھلتا محمد رسول اللہ کی وجہ سے ہے.آخر عربوں کو جو لوگ عزت دیتے ہیں کیوں دیتے ہیں؟ ہمیں تو یاد ہے کہ پرانے زمانہ میں عرب اور سید یہ دونوں اپنے عرب او رسید ہونے پر بڑا فخر کیا کرتے تھے.مجھے یاد ہے ایک دن حضرت اماں جان چار پائی پر بیٹھی تھیں کہ ایک سیدانی مانگنے کو آ گئی کہنے لگی میں سیدانی ہوں میری مدد کر و.پھر کہنے لگی مجھے پیاس لگی ہے کسی کو کہو کہ مجھے پانی پلا دے.آپ نے کسی خادمہ کو کہا کہ اسے پانی پلا دو اُس نے کٹورہ لیا اور کھنگال کے پانی بھر کے دے دیا.وہ بڑے غصہ سے کٹورہ پھینک کر کہنے لگی.تینوں نہیں پتہ میں سیدانی ہوں.سیدانی نوں امتی دے کٹورے وچہ پانی پلانی ایں.خیر اس نوکرانی نے ہنس کر کہا کہ.ا یہ امتی نہیں ایہہ بھی سیدانی ہیں.اب یہ سید کی عزت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ہی تھی ورنہ انہیں کون پوچھتا تھا.یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نگر تھا کہ جس نے آپ سے تعلق 66
۷۵۳ قائم کیا وہ معزز ہو گیا.دیکھ لو.حضرت امام حسن اور حسین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے.حضرت امام حسین کوفہ کے پاس جنگ میں مارے گئے تو زیاد نے حکم دیا کہ ان کا سرکاٹ کر یزید کے پاس بھیجا جائے اُس نے سمجھا کہ مجھے انعام ملے گا.جب یزید کے دربار میں اُن کا سر گیا تو یزید کے دل میں جیسا کہ اُس کی بعض باتوں سے پتہ لگتا ہے اہلِ بیت کا کچھ نہ کچھ ادب تھا مگر اُسوقت اپنی فاتحانہ شان کو دیکھ کر کہ میری فوجیں فاتح ہوئی ہیں، اُس نے سوٹی لمبی کی اور اُن کے دانتوں پر دو تین دفعہ ماری.مرنے کے بعد عام طور پر انسان کے ہونٹ کھنچ جاتے ہیں.اُس وقت ایک صحابی بھی اُس مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے وہ غصہ سے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے.ا و بے شرم ! ہٹالے اپنی سوٹی.میں نے محمد رسول اللہ کو ان ہونٹوں پر بوسہ دیتے دیکھا ہے اور جن ہونٹوں کو محمد رسول اللہ نے بوسہ دیا تھا تیرے جیسے خبیث کی کیا حیثیت ہے کہ اس کو سوٹی مارے.پھر دیکھ لو خدا تعالیٰ نے اسکار کسطرح انتقام لیا.یزید کے مرنے کے بعد اُس کا معاویہ بن یزید کی خلافت سے دست برداری بیٹا معاویہ بن یزید تخت پر بیٹھا.جسے اُس نے نامزد کر دیا تھا کہ میرے بعد یہ خلیفہ ہو.جب وہ تخت پر بٹھا دیا گیا تو وہ گھر گیا اور دروازے بند کر کے بیٹھ گیا اس کے بعد اُس نے باہر کہلا بھیجا کہ یہ خلافت مسلمانوں کی امانت ہے میرے باپ کا کوئی حق نہیں تھا کہ وہ خلیفہ بناتا.یہ تمہاری امانت ہے تم جس کو چاہو خلیفہ بنالو.پھر اُس نے سب مسلمانوں کو جمع کر کے ایک تقریر کی اور کہا کہ خلافت پر میرا کوئی حق نہیں.تم کہتے ہو کہ میں خلیفہ ہوں کیونکہ میرے باپ نے مجھے خلیفہ بنایا ہے حالانکہ میرے باپ سے وہ شخص بہتر تھا جس کو میرے باپ نے مارا اور میرے دادا سے وہ شخص بہتر تھا جس سے اُس نے جنگ کی اور مجھ سے بیسیوں اور لوگ تم میں بہتر موجود ہیں ان لوگوں کے ہوتے ہوئے میں کیسے خلیفہ بن سکتا ہوں ؟ تمہیں اختیار ہے جس کو چاہو خلیفہ بنا لو.جب وہ تقریر کے بعد واپس آیا تو اُس کی ماں اُسے کہنے لگی کہ اے معاویہ! تُو نے اپنے خاندان کو بٹہ لگا دیا ہے.معاویہ نے کہا.اماں ! میں نے بعد نہیں لگایا.میں نے اپنے خاندان کی عزت کو قائم کر دیا ہے.اب دیکھو وہ اس صحابی کا نمونہ تھا اور یہ خود یزید کے خاندان کا نمونہ ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمک خواری کا اُن پر کتنا اثر تھا.یزید کے اپنے بیٹے نے باپ کی ذلت کی اور اُس کی خلافت پر لعنت ڈالی اور کہا کہ یہ خلافت خاندان نبوی کا حق ہے میں اسے نہیں لے سکتا.۲۷
۷۵۴ قرآنی لنگر قرآنی لنگرکی ایک اور مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود میں کی ایک مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بھی پائی جاتی ہے.گو آپ چھ گاؤں کے مالک تھے مگر طبیعت میں فروتنی تھی اور آپ نے اپنی ساری جائداد اپنے بڑے بھائی کی بیوہ کے سپرد کی ہوئی تھی تا کہ اُس کے دل سے بیوگی کا صدمہ کم ہو جائے.وہ اگر چہ بعد میں احمدی ہو گئیں مگر شروع میں اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑا بغض تھا کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ یہ کوئی بڑا کام نہیں کر رہا بلکہ مسجد کا ملاں بن گیا ہے اور ایک رئیس خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے اُن کو یہ بُرا لگتا تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ مسجد کے مُلاں نہیں بنے تھے بلکہ آپ قرآنی لنگر سے استفادہ کرنے کے لئے دنیا سے علیحدہ ہو گئے تھے.مگر ظاہری حالت یہ تھی کہ اپنی بڑی بھاوج کے بغض کی وجہ سے جب کبھی کوئی مہمان دین سیکھنے کے لئے آپ کے پاس آتا تو بھاوج کا خست ۲۸ سے بھیجا ہو ا تھوڑا سا کھانا بھی آپ مہمان کو کھلا دیتے تھے اور خود ایک پیسہ کے چنے بھنوا کر کھا لیتے تھے.مجھے یاد ہے اُس وقت ہماری سیڑھیاں اُن کے گھر کے حضرت تائی صاحبہ کی کیفیت پاس سے گزرا کرتی تھیں.ایک دن میں اُن سیڑھیوں پر پر چڑھ رہا تھا کہ انہوں نے مجھے آواز دی کہ محمود! ٹھہر جا.میں اُن کی آواز سنکر بھاگا کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ یہ ہماری دشمن ہیں اور بھاگ کر کوٹھے پر چڑھ گیا.اس پر وہ کہنے لگیں.” جیہو جیہا کاں او ہو جیہی کوکو.یعنی جیسا ان کا باپ خراب ہے ویسا ہی بیٹا خراب ہے.اتنا بغض تھا ان کے دل میں.مگر پھر اُن کی یہ حالت ہوئی کہ یا تو وہ کہا کرتی تھیں.جیہو جیہا کاں او ہو جیہی کوکو اور یا پھر عین اُن کی موت کے وقت میں اُن کی خبر لینے کیلئے گھر پہنچا.کہنے لگیں اُن کو بلا دو.میری جان نہیں نکلے گی جب تک وہ آ نہ جائیں.میں گیا تو چارپائی پر انہیں لٹا یا ہوا تھا.میں زمین پر ہی بیٹھ گیا میرے زمین پر بیٹھنے پر جھٹ اپنے پیر انہوں نے نیچے کرنے شروع کر دئیے اور کہا کہ زمین یہ نہ بیٹھو میں چار پائی پر نہیں لیٹ سکتی.اب یا تو وہ وقت تھا کہ ” جیہو جیہا کاں اوہو جیہی کوکو.“ کہتی تھیں اور یا پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو اُن کے ظلم سہتے ہوئے گزر گئے اور کوکو کا ادب شروع ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیٹ کی بیماری سے فوت ہوئے تھے اور اسہال کی آپ کو شکایت تھی.آپ کی وفات کے بعد مجھے خیال آیا کہ ممکن ہے متواتر 66
۷۵۵ چنے کھانے کی وجہ سے آپ کی صحت خراب ہو گئی ہو.اب تو وہ زمانہ گزر گیا لیکن اگر ہم اُس زمانہ میں ہوتے تو اپنی جانیں قربان کر کے بھی آپ کے لئے کھانا مہیا کرتے اور چنے نہ کھانے دیتے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں ماش کی دال کھا رہا تھا کہ مجھے دال کھاتے ہوئے حضرت خلیفہ اول نے دیکھ لیا اور فرمانے لگے.میاں ! دال بھی کوئی کھانے کی چیز ہوتی ہے.خبردار! پھر کبھی دال نہ کھانا.مگر اُدھر خدا کا مسیح (علیہ الصلوۃ والسلام ) ایسا تھا کہ اٹھائیں تمہیں سال اس کی زندگی کے ایسے گزرے ہیں جن میں وہ روزانہ پیسے کے چنے بھنوا کر کھا لیتا تھا اور اپنا کھانا لوگوں کو کھلا دیتا جو دین سیکھنے کے لئے آتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر خدائی انعامات جب بعد میں اللہ تعالی کے فضل آپ پر نازل ہونے شروع ہوئے اور قرآنی لنگر نے آپ کے لئے اپنے دروازے کھول دیئے تو آپ نے فرمایا.لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أُكُلِي وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الَا هَالِى ۲۹ کہ اے لوگو! میری حالت پر غور کرو.کبھی تو ایسا تھا کہ میری بھاوج گھر کے بچے ہوئے ٹکڑے مجھے بھیجا کرتی تھی لیکن قرآنی لنگر کی برکتوں کی وجہ سے آج بہت سے خاندان میرے ذریعہ سے پل رہے ہیں.اس میں اشارہ ہے اُن مہاجرین کی طرف جو اپنا وطن چھوڑ کر قادیان آگئے تھے.یا جو آج اپنا وطن چھوڑ کر سینکڑوں مہاجروں کی صورت میں یہاں بس رہے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم کردہ لنگر اُن کو پال رہا ہے.غرض آج بھی وہی قرآنی لنگر جاری ہے اور آپ لوگ سارا سال بھی اور جلسہ کے دنوں میں بھی اس قرآنی لنگر سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے جاری ہوا تھا فائدہ اُٹھا رہے ہیں.وہ مسیح موعود جو ہزاروں ایکڑ زمین اور چھ گاؤں کا واحد مالک ہونے کے باوجود آپ لوگوں کی خاطر غریب بن گیا تھا تا کہ قرآنی لنگر کی کوئی روٹی آپ کے لئے بھی لے آوے آپ کے لئے بڑا بھاری نمونہ ہے.اگر آپ اس زندگی پر غور کریں تو یقینا آپ نہایت آسانی کے ساتھ ولی اللہ بن سکتے ہیں.گفار کو بھی اپنا لنگر جاری کرنیکی ہدایت پھر قرآن کریم نے اس نظر کو اتنا وسع کر دیا ہے لنگر کہ کفار کو بھی دعوت دی ہے کہ اس لنگر کو جاری رکھیں ورنہ انہیں سزا سے ڈرایا ہے.چنانچہ سورہ ماعون میں آتا ہے اَرَعَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ
۷۵۶ فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُ الْيَتِيمَ لا وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ ) لا الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلاتِهِمْ سَاهُونَ لا الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُ وُنَ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ یعنی کیا تجھے اس شخص کا حال معلوم نہیں جو دین اسلام کے احکام کو جھٹلاتا ہے.یہی وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دے کر اپنے گھر سے نکال دیتا ہے.یعنی ڈرتا ہے کہ کہیں یتیم کو کھانے میں سے کچھ حصہ نہ دینا پڑے اور اُسے لنگر سے محروم رکھنا چاہتا ہے اور نہ صرف آپ قیموں کو کھانے سے محروم رکھتا ہے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی غریب کو کھانا کھلانے کی تحریص نہیں دلاتا.پس یا درکھ کہ ایسا آدمی کبھی کچی عبادت نہیں کر سکتا بلکہ اُس کی عبادت دکھا وے کی ہوتی ہے اور ایسا شخص یہی نہیں کہ عالیشان دعوتوں سے غریبوں کو محروم رکھتا ہے بلکہ چھوٹی چھوٹی چیز میں اُدھار دینے سے بھی روکتا رہتا ہے اور اس طرح خدائی لنگر کو ہمیشہ کے لئے بند کرنا چاہتا ہے سو اس کے لئے ایک بہت بڑا عذاب مقد رہے.ایک مثال قرآن کے لنگر کی اس آیت میں غرباء ومساکین کو کھانا کھلانے اور بیان کی گئی ہے کہ لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوا اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کا حکم وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَئِكَةِ وَالْكِتَبِ وَالنَّبِيِّنَ وَاتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَعْمَى وَالْمَسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَ السَّائِلِينَ وَ فِي الرِّقَابِ.استجگہ ہر کا لفظ آیا ہے جس کے معنے بہت بڑی نیکی کے ہوتے ہیں مگر چونکہ یہ مصدر ہے اور عربی زبان میں مصدر بمعنی فاعل بھی آجاتا ہے اور بمعنی مفعول بھی ، اس لئے اس آیت کے یہ معنی ہونگے کہ بڑا نیکی کرنے والا وہ نہیں ہے جو صرف مشرق اور مغرب کی طرف منہ پھیر کر ظاہری نماز پڑھ لیتا ہے بلکہ بڑا نیکی کرنے والا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل متبع وہ ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور ملائکہ پر اور کتب سماویہ پر اور سارے نبیوں پر ایمان لاتا ہے اور اپنے مال کو باوجود گی کے اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے غریبوں میں تقسیم کرتا رہتا ہے یعنی قرآنی لنگر کی یاد میں دُنیاوی لنگر کو قائم رکھتا ہے.پس جس کو خدا تعالیٰ توفیق دے اُسے اس لنگر کو ہمیشہ جاری رکھنا چاہئے ورنہ یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قیامت کے دن اُسے سخت عذاب دیا جائیگا.لوگ یوں تو دُعائیں مانگتے رہتے ہیں کہ یا اللہ ! عذاب قبر سے بچائیو.یا اللہ ! دوزخ
۷۵۷ کے عذاب سے بچائیو لیکن کام وہ کرتے ہیں جو دوزخ کے عذاب کو لانے والے ہوتے ہیں.یعنی غریبوں کو کھانا نہیں کھلاتے اور لوگوں کو یہ نہیں کہتے کہ جب کبھی غرباء کو کوئی ضرورت ہو تو اُن کی ضرورت کو پورا کر دیا کرو.اسی طرح گھر میں سے کبھی ہنڈیا، کبھی کڑ چھا، کبھی چمٹا ، کبھی پھکنی ایسی ہی عام استعمال میں آنے والی چیزیں انہیں دیتے رہا کرو تا کہ غریبوں کو سہارا ہو.مسیح امراء کو چاہئے کہ شادی بیاہ کے موقع پر وہ حضرت کا موعود علیہ الصلوة والسلام حضرت اماں جان سے یہاں تک فرمایا کرتے تھے کہ تمہارے پاس جو زیور عارضی طور پر غرباء کو اپنے زیورات دے دیا کریں ہیں وہ غریبوں کو بھی پہننے کے لئے دیتی ۳۲ رہا کرو کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو زیور استعمال ہوتا رہے اس پر زکوۃ نہیں.یعنی زکوۃ کی اصل غرض تو یہ ہے کہ صدقہ ہو.جب وہ پہننے کی وجہ سے گھسے گا اور غریبوں کو فائدہ پہنچے گا تو اصل غرض پوری ہو جائیگی پس ہمیشہ آپ یہ تحریک فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی غریب گھرانے میں شادی ہو تو اپنے زیور اُن کو دے دیا کرو تا کہ وہ اپنی بہو یا بیٹی کو پہنا دیں اور اس ذریعہ سے کچھ مدت تک وہ اپنی عزت اور شہرت کو قائم رکھ سکیں.اب یہ ایک نہایت ہی آسان راستہ ہے کیونکہ زیور کا کچھ دنوں کے لئے کسی کو دے دینا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ ایسی چھوٹی بات ہے کہ آسانی سے ہر عورت اس پر عمل کر سکتی ہے.مگر عمل کرنا مشکل ہے عام طور پر عورتیں اتنا کام بھی نہیں کر سکتیں اگر وہ اتنا کام ہی کر لیا کریں تو اُن کے ہاتھ دوزخ کی آگ سے بچ جائیں.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ چندے کی تحریک کی اور فرمایا عورتو ! تم بھی چندے دو.ایک عورت نے اپنا ایک کنگن اُتار کر پھینک دیا اور کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ میری طرف سے چندہ ہے.آپ نے فرمایا.اے عورت! تیرا دوسرا ہاتھ کہتا ہے کہ مجھے بھی دوزخ سے بچا.اُس نے فوراً اپنا دوسرا کنگن بھی اُتار کر آپ کی طرف پھینک دیا او رکہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ بھی لے لیں غرض ان لوگوں میں اس حد تک اخلاص پایا جا تا تھا.ہماری عورتوں نے ایک موقع پر جب برلن مسجد بنی تھی احمدی خواتین کا ایک شاندار نمونہ ایک مہینے کے اندر اندر ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ جمع کر دیا تھا.پھر بعد میں اُس کو بیچا گیا کیونکہ حکومت کی طرف سے ایسی شرطیں لگا دی گئی تھیں کہ جن کو ہم پورا نہیں کر سکتے تھے.مثلاً کہا گیا کہ جو مسجد بنے وہ تین منزلہ بنے اور اتنا روپیہ اس
۷۵۸ پر خرچ ہو.مولوی مبارک علی صاحب جو اُسوقت ہمارے وہاں مبلغ تھے انہوں نے لکھا کہ شرائط ہم پوری نہیں کر سکتے.میں نے کہا اچھا زمین بیچ دوچنانچہ جو روپیہ آیا اُس سے ہم نے لندن میں مسجد بنائی.آب میں دعا کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کا حافظ و ناصر ہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا خیریت سے آپ لوگ جائیں اور اللہ تعالیٰ کی برکات آپ کے ساتھ ہوں اور کسی قسم کے شر کی خبر آپ گھر جا کر نہ سنہیں بلکہ برکت اور رحمت کی خبریں سنیں.اور نہ وہاں جا کر آپ کو کوئی تکلیف ہو اور ہر قسم کی راحت اور امن آپ کو حاصل ہو.اور ہر قسم کا رحم اور فضل آپ لوگوں پر نازل ہوتا رہے اور اللہ تعالیٰ آپکو اگلے سال پھر خوشی اور خُرمی ۳۳ کے ساتھ جلسه سالانہ پر آنے کی توفیق عطا فرمائے.اس دفعہ بارشوں کی کمی کی وجہ سے زمینداروں کو بہت نقصان پہنچا ہے اور اس وجہ سے اُن کے یہاں آنے میں بہت سی مشکلات حائل تھیں.اللہ تعالی آئندہ انکو تو فیق عطا فرمائے کہ وہ اس سال سے بہت بڑھ چڑھ کر آئیں اور اُن پر بہت بڑی برکتیں نازل ہوں اور دشمن کا منہ کالا ہو اور اُسے پتہ لگے کہ احمد یہ جماعت ہر سال آگے سے ترقی کر رہی ہے.پھر باہر کے مبلغین کے لئے بھی اور جنہوں نے دعاؤں کے لئے تاریں دی ہیں اُن کے لئے بھی اور باہر کے ملکوں میں جو ہماری جماعتیں قائم ہیں اُن کے لئے بھی دُعائیں کروا اسی طرح عورتوں کیلئے بھی اور مردوں کیلئے اور نئی اولاد کے لئے بھی دُعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن سب کو مومن بنائے اور مؤمن بنا کر اپنی رحمت کے سایہ میں اُن کو رکھے اور خود ان کا معلم بنے ہماری تعلیم پر ان کو نہ چھوڑے بلکہ وہ آپ ان کو تعلیم دے کر اس قابل بنائے کہ وہ احمدیت کی خدمت کریں اور ہمیشہ اسلام کا جھنڈا اونچا رکھیں.“ لا بنی اسرائیل : ۱۳ البقرة : ١٠٣ العلق : ٦ " يونس :٩٣ ۵ سلاطین ۱ باب ۱۱ آیت ۴ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء سلاطین | باب ۱۱ آیت ۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء کے سلاطین باب ۱۱ آیت ۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء سلاطین باب ۱۱ آیت ۱۰ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لا ہور ۱۹۴۳ء
۷۵۹ ۹ انسائیکلو پیڈیا ببلی کا جلد ۳ زیر لفظ سلیمان (Solomon) صفحه ۴۶۸۹ مطبوعہ نیو یارک امریکہ ۱۹۰۷ء سلاطین باب ۳ آیت ۱۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء ا سلاطین باب ۳ آیت ۱۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء ۱۲ سلاطین ۱ باب ۳ آیت ۳ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء ۱۳ متنی باب ۶ آیت ۴ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء ( مفہوماً ) المؤمن : ۲۰ ها 119 الصفت : ۹ تا ۱۱ ١٦ الكوثر : ۲ تا ۴ كا سيرت ابن هشام الجزء الاول صفحه ۹۹٬۹۸ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ رت ابن هشام جلد ا صفحه ۱۳۵، ۱۳۶ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ ١٨ سيرد 19 سیرت ابن هشام جلد ا صفحه ۱۳۶،۱۳۵ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ت الحلبيه الجزء الثالث صفحه ۱۰۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۲۰ سیر ل کنز العمال جلدا اصفحہ ۳۱۶ كتاب الفضائل باب ذكر الصحابة حديث ٣٣٣٣٦ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۸ء ۲۲ اسد الغابة الجزء الثاني صفحه ۳۷۲.مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ ۲۳ اسد الغابة جلد ۲ صفحه ۳۶۴ مطبوعہ بیروت الطبعة الاولی ۲۰۰۶ء ۲۴ الذريت : ٢٠ ۲۵ ابوداؤد كتاب الجهاد باب كراهية حرق العدو بالنَّارِ حدیث نمبر ۱۵۶۳ صفحہ نمبر ۲۳۰ مطبوعه الرياض الطبعة الاولى ابريل ١٩٩٩ء ۲۶ تاریخ ابن اثیر جلد ۴ صفحه ۵ ۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء تاریخ الخمیس جلد ۲ صفحہ ۲۱۷ مطبوعہ بیروت ۱۲۸۳ھ ۲۸ خست: بخل، کنجوسی کمینگی.فیروز اللغات اردو صفحہ ۵۹۰ مطبوعہ فیروز سنز لا ہور ۲۰۱۰ء ۲۹ آئینہ کمالات اسلام - روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۹۶ ایڈیشن ۲۰۰۸ء ۳۰ الماعون : ۲ تا آخر اس البقرة: ۱۷۸ ۳۲ ابو داؤد كتاب الزكواة باب الكنز ما هو و زكواة الحلى ( مفهومًا ) حديث نمبر ۱۵۶۳ صفحه نمبر ۲۳۰ مطبوعہ الریاض الطبعۃ الاولی اپریل ۱۹۹۹ء خُرَّمِی : خوش ، شادمانی، فرحت.فیروز اللغات اردو صفحہ ۵۸۹ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء
۷۶۱ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ (۱۲) ( تقریر فرموده مورخه ۲۸ دسمبر ۱۹۵۸ء بر موقع جلسہ سالانہ منعقده ربوه) روحانی عالم کے کتب خانے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : - ۱۹۳۸ء سے میں نے سیر رُوحانی کے موضوع پر اپنی تقاریر کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور اس کا آخری حصہ باقی ہے اس تقریر کے ۱۶ اہم عنوانات تھے جن کے متعلق میں نے اپنے خیالات کے اظہار کا وعدہ کیا تھا.چنانچہ پندرہ عنوانات پر میں اپنے خیالات کا اظہار کر چکا ہوں اور آج اس کے آخری حصہ کے متعلق اپنے خیالات کو ظاہر کرنا چاہتا ہوں.حیدر آباد دکن کا اسلام کے عروج اور اسکے زوال میں حصہ اس تقریر کی تحریک مجھے اسی ملک سے شروع ہوئی ہے جس ملک کی وجہ سے ہندوستان میں اسلام کا وقار بڑھا تھا اور جس ملک کی وجہ سے ہندوستان میں اسلام کا وقار کم ہو ا یعنی حیدر آباد دکن.جب تک اور نگ زیب نے حیدر آباد دکن فتح نہیں کیا تھا اُس وقت تک ہندوستان میں مغلوں کی حکومت صرف الہ آباد تک تھی اور باقی ہندوستان مغلیہ سلطنت سے باہر تھا مگر اور نگ زیب نے بڑی جانفشانی کے ساتھ اور لمبا عرصہ دارالخلافہ سے باہر رہ کر اس ملک کو اسلام کے لئے فتح کیا اور اس طرح اسلام کی بنیاد جنوبی ہندوستان میں رکھی اور سارا ہندوستان اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو گیا مگر افسوس ہے کہ پھر یہیں سے تباہی آئی کیونکہ مرہٹے بھی اسی علاقہ کے قریب سے نکلے ہیں.پھر وہی حیدر آباد جس کے فتح کرنے کے بعد اسلام کو ایک بہت بڑی طاقت حاصل ہوئی تھی اسی ملک نے انگریزوں سے مل کر میسور کے مسلم بادشاہ سلطان حیدر علی ٹیپو پر حملہ کیا اور ان کو شکست دلائی.
اُن کی شہادت کے بعد اسلام کی طاقت بالکل کمزور ہوگئی.وہ حقیقت میں اسلام کا آخری تاجدار تھا اور اپنے دل میں اسلام کی ایسی سچی محبت رکھتا تھا کہ جس کی نظیر نہیں پائی جاتی.اُس زمانہ میں جب دنیا کی خبریں پہنچنی مشکل تھیں اُس کو پتہ لگا کہ نپولین بہت طاقتور ہو گیا ہے.اس پر اُس نے نپولین کو لکھا کہ آپ ہندوستان آئیں تو میں اپنی فوجیں لے کر آپ کی مدد کیلئے نکلوں گا تا کہ ہم یہاں پھر اسلام کو قائم کریں مگر نپولین ترکوں کے علاقہ سے گزرسکتا تھا اور ٹرکوں نے اُسے راستہ دینے سے انکار کر دیا اس لئے وہ یہاں آنے سے رہ گیا اور انگریزوں نے اُس پر فتح حاصل کر لی.اس طرح فرانسیسی جو اُس کے ساتھ تھے ہار گئے.وہ شخص ایسا بہادر تھا کہ جب انگریز قلعہ کی دیواروں کے اندر داخل ہو گئے تو اُس کا ایک وزیر دوڑتا ہوا اُس کے پاس آیا اور اُس نے کہا فلاں دروازہ سے آپ باہر نکل جائیے ، دشمن قلعے کے اندر داخل ہو گیا ہے لیکن بجائے اس کے کہ وہ اپنی جگہ چھوڑتا اور اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا اُس نے کہا.میں اُن لوگوں میں سے نہیں جو بھاگ کر اپنی جان بچانا چاہتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ گیدڑ کی ایک سو سال کی زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی زیادہ اچھی ہے.میں گیدڑ کی طرح بھا گنا نہیں چاہتا بلکہ میں شیر کی طرح مقابلہ کرونگا.چنانچہ وہ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گیا.گویا مسلمانوں کو آخری شکست بھی وہیں ہوئی جس کی وجہ سے اسلام کا نام ہندوستان سے مٹ گیا.اُس کے مرنے کے بعد مرہٹے بہت طاقت پکڑ گئے اور انہوں نے سارے ملک کو تاخت و تاراج لے کر دیا.بعد میں احمد شاہ ابدالی نے ایک دفعہ پھر انہیں شکست دی اور اس طرح اسلام کا بجھتا ہو ا چراغ ایک دفعہ پھر ٹمٹما اُٹھا.مسلمانوں کی تباہ حالی کا شدید صدمہ جیسا کہ میں کئی دفعہ بتا چکا ہوں میں نے اس ملک کا سفر کیا تھا، میرے ساتھ میری ایک بیٹی امتہ القیوم تھیں، ایک میری بیوی مریم صدیقہ تھیں اور ایک میری بہن مبارکہ بیگم تھیں.ہم کراچی سے بمبئی اور بمبئی سے حیدر آباد گئے اور وہاں ہم نے بہت سے آثار قدیمہ دیکھے.قلعے بھی دیکھے، لائبریریاں بھی دیکھیں ، مقابر بھی دیکھے، دیوان خاص اور دیوانِ عام بھی دیکھے ، غرض بہت سے آثار قدیمہ ہمارے دیکھنے میں آئے.جب ہم واپس آئے تو دہلی میں ہم نے باقی آثار دیکھے.وہاں لال قلعہ بھی دیکھا ، قطب صاحب کا مینار بھی دیکھا، شیر شاہ کی لاٹ بھی دیکھی ، جنتر منتر بھی دیکھا.ان چیزوں کو دیکھ کر میری طبیعت پر بڑا اثر ہوا کہ
۷۶۳ مسلمان کسی وقت کتنے طاقتور تھے اور اسوقت وہ کتنے کمزور اور ناتواں ہیں.یہ ۱۹۳۸ء کی بات ہے جبکہ ابھی انگریز حاکم تھے ، بھارت کی حکومت ابھی قائم نہیں ہوئی تھی ، مگر انگریزوں نے غدر کے واقعات سے دھوکا کھا کر مسلمانوں کو ذلیل کرنا شروع کر دیا تھا اور عملی طور پر ہندوستان کے بادشاہ ہندو تھے.میرے دل پر اس کا بڑا اثر تھا میں ایک دن سیر کرنے کے لئے نکلا تو غیاث الدین تغلق کے مقبرہ کے سامنے ایک ٹیلہ تھا، میں اپنی بیوی، بہن اور لڑکی کولے کر اُس ٹیلہ پر چڑھ گیا.وہاں سے لال قلعہ بھی نظر آتا تھا، فیروزشاہ کی لاٹ بھی نظر آتی تھی ، قطب صاحب کا مینار بھی سامنے تھا اور پیچھے تغلق بادشاہوں کی قبریں تھیں جو کسی وقت ہندوستان پر حکمران رہ چکے تھے ان کو دیکھ کر میرے دل پر یہ اثر ہوا کہ گجا وہ حالت تھی کہ مسلمانوں کی شان وشوکت حیدر آباد تک پھیلتی چلی گئی تھی اور میں سارے علاقہ میں اُن کی شوکت کے آثار دیکھتا چلا آ رہا ہوں اور گجا یہ حالت ہے کہ مسلمانوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.لاہور کے ایک انگریز ڈپٹی کمشنر کا واقعہ بیشک اس میں مسلمانوں کا اپنا بھی قصورتھا مگر پھر بھی یہ ایک نہایت دردناک حالت تھی چنانچہ ۱۹۲۷ء میں لاہور کا ایک انگریز ڈپٹی کمشنر جو کسی زمانہ میں گورداسپور بھی رہ آیا تھا اور ہماری جماعت کی بہت تعریف کیا کرتا تھا اُس کے پاس ایک فساد کے موقع پر جبکہ سکھوں نے لاہور کے کچھ مسلمانوں کو جو مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہے تھے مار دیا تھا، میں نے خانصاحب ذوالفقار علی خانصاحب کو بھیجا اور کہا کہ آپ تو مسلمانوں کے بڑے خیر خواہ تھے لیکن اس فساد میں ہندوؤں نے مسلمانوں پر ظلم کیا ہے اور آپ نے اُلٹا مسلمانوں کو پکڑ لیا ہے.وہ کہنے لگا میں آپ کو کیا بتاؤں کہ مسلمان کتنے بیوقوف ہیں.میں واقع میں مسلمانوں کا خیر خواہ تھا مگر جو کچھ میرے ساتھ گزرا وہ آپ کو معلوم نہیں.میں گورداسپور سے ملتان جا کر لگا، وہاں میں نے مسلمان لیڈروں کو بلوایا اور کہا کہ میں نے جو پُرانے فائل دیکھے ہیں، اُن سے پتہ لگتا ہے کہ ہندوؤں نے مسلمانوں پر بڑے بڑے ظلم کئے ہیں مگر میں بحیثیت ڈپٹی کمشنر گورنمنٹ کا ملازم ہوں اور کسی کو یہ پتہ نہیں لگنا چاہئے کہ میں نے یہ بات تمہیں بتائی ہے اگر تم کسی کو نہ بتاؤ تو میں تمہیں بتا تا ہوں کہ تم اس اس قسم کے میمورنڈم (MEMORANDUM) بھجواؤ میں وہ میمورنڈم گورنمنٹ کے پاس بھیجوا دونگا اور انہیں لکھونگا کہ مسلمانوں پر اِس اِس قسم کے ظلم ہو رہے ہیں ان کی مدد کرنی چاہئے.اُس ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ وہ لیڈر بڑا پختہ وعدہ کر کے گئے لیکن شام ہوئی تو انہوں نے ہندوؤں کو ی
۷۶۴ بتا دیا کہ ہمیں ڈپٹی کمشنر صاحب نے یہ یہ باتیں بتائی ہیں.چنانچہ دوسرے دن ہندوؤں کا ایک وفد میرے پاس آیا اور اُس نے شکایت کی کہ صاحب! ہم تو آپ کو اپنا مائی باپ کہتے ہیں آپ مائی باپ ہوکر مسلمانوں کو ہمارے خلاف کرنے لگے ہیں.اسپر میں اتنا شرمندہ ہوا کہ اس کی حد نہیں اس کے بعد جب میں لاہور آیا تو یہاں یہ حالت تھی کہ اس فساد کی وجہ سے ایک بڑے لیڈر کومسلمانوں نے میرے پاس بھجوایا کہ تم جا کر ڈپٹی کمشنر کو بتاؤ کہ مسلمانوں پر سختی ہو رہی ہے مجھے پتہ لگ گیا کہ مسلمان فلاں شخص کو میرے پاس بھیج رہے ہیں لیکن جب وہ میرے پاس آئے تو کہنے لگا.میں نے فلاں رشتہ دار کی سفارش آپ کے پاس کی تھی وہ کام ابھی ہوا ہے یا نہیں ہوا اور اُدھر میلا رام کے بیٹے رام سرن داس نے اپنی مِل کے متعلق مجھ سے وقت لیا ہوا تھا وہ ملنے آیا تو میں نے کہا.سُنائیے رائے صاحب آپ کی میل کا کیا حال ہے؟ تو اُس نے پگڑی اُتار کر میرے پاؤں پر رکھ دی اور رونے لگ گیا اور کہنے لگا.میری قوم تباہ ہورہی ہے اور آپ میری مل کا حال پوچھ رہے ہیں.اب دیکھو! مسلمانوں نے اس فساد کے سلسلہ میں اپنے لیڈر کو میرے پاس بھیجا تو بجائے اپنا اصل مقصد بیان کرنے کے وہ مجھ سے کہنے لگا میں نے ایک شخص کی آپ کے پاس سفارش کی تھی اُس کا کیا بنا؟ اور اِدھر وہ ہند و جس نے فساد سے پہلے کا وقت مقرر کیا ہوا تھا وہ آیا اور میں نے دریافت کیا کہ رائے صاحب! آپکی مل کا کیا حال ہے تو اُس نے پگڑی اُتار کر میرے پاؤں پر رکھدی اور رو کر کہنے لگا کہ میری قوم تباہ ہورہی ہے اور آپ میری مل کا حال پوچھ رہے ہیں.مل کیا چیز ہے اسپر قوم مقدم ہے.تو اُس ڈپٹی کمشنر نے خانصاحب ذوالفقار علی خان صاحب سے کہا کہ جب یہ حال ہے تو میں کیا کروں.میں نے مجبوراً ہندوؤں کی مدد کی ہے کیونکہ ہمیں یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ ہمارا بچاؤ ہو.وہ ڈپٹی کمشنر ہم سے بعد میں بھی تعلق رکھتا رہا چنانچہ ۱۹۳۴ء میں احرار کے فتنہ کے وقت جب مجھے نوٹس دیا گیا کہ تم نے باہر سے احمدیوں کو نہیں بلوانا تو چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے مجھے سُنایا کہ وہ اپنی کوٹھی سے آ رہا تھا کہ اُس نے مجھے دیکھ کر ٹھہرا لیا اور کہنے لگا سُناؤ قادیان کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا.ہمیں سخت افسوس ہے ہم نے اگر کچھ کیا ہوتا اور پھر ہمارے امام کو گورنمنٹ نوٹس دیتی تو کوئی بات تھی لیکن ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا ، ہمارے امام کو کیوں نوٹس دیا گیا ہے؟ اس پر وہ غصہ میں آگیا اور کہنے لگا میں نہیں جانتا جس جماعت نے چالیس سال گورنمنٹ کی خدمت کی ہے اُس نے اگر کچھ کیا بھی ہوتا تب بھی یہ نوٹس نہیں دینا چاہئے تھا، یہ گورنمنٹ کی غلطی ہے.بعد میں وہ وائسرائے
کے ملٹری سیکرٹری ہو کر چلے گئے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے.غرض اُس زمانہ میں عملی طور پر ہندوؤں کی ہی حکومت تھی.جب کشمیر میں فسادات ہوئے تو اُسوقت لارڈ ولنگڈن وائسرائے تھے.میں کشمیر کمیٹی بنانے کے بعد اُن سے ملا تو میں نے اُن سے کہا آپ کشمیر میں دخل کیوں نہیں دیتے ؟ وہ کہنے لگے دخل کیوں دیں آپ نہیں جانتے اگر ہم نے دخل دیا تو کشمیر کا راجہ کتنا ناراض ہو گا.اُس وقت حیدر آباد میں انگریز افسر مقرر تھے میں نے کہا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہندوؤں کے خیر خواہ ہیں.حیدر آباد میں جہاں ایک مسلمان حکمران ہے آپ نے انگریز افسر بھجوائے ہوئے ہیں مگر کشمیر میں جہاں ایک ہندو راجہ ہے آپ نے کوئی انگریز افسر نہیں بھجوایا.اس پر وہ اور باتیں کرنے لگ گئے.بہر حال گو بھارت کی حکومت حال ہی میں قائم ہوئی ہے لیکن انگریزوں کے زمانہ میں بھی اصل حاکم بھارت ہی تھا اور وہ ہر جگہ قابض تھا.خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نورانی کرن کا ظہور غرض اس سفر میں ایک طرف تو مسلمانوں کی گزشتہ شان و شوکت کے تمام آثار میری آنکھوں کے سامنے تھے اور دوسری طرف مجھے مسلمانوں کی موجودہ بے کسی اور انتہائی بے بسی دکھائی دے رہی تھی.میں اِن حالات پر خاموشی سے غور کرنے لگا اور سوچتا رہا اور کافی دیر خاموش کھڑا رہا.میری ہمشیرہ مبارکہ بیگم نے مجھے آواز بھی دی کہ اب دھوپ تیز ہوگئی ہے واپس آجائیں مگر میں اپنے خیالات میں ہی محور ہا.آخر میں نے کہا.میں نے پا لیا.میں نے پالیا.“ میری لڑکی امتہ القیوم بیگم کہنے لگیں.ابا جان! آپ نے کیا پا لیا ؟ میں نے کہا.میں نے جو پانا تھا وہ پالیا.اُس وقت خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ یہ تمام آثار قرآن کریم میں زیادہ شان کے ساتھ موجود ہیں.تمہیں ان آثار قدیمہ پر افسوس کرنے کی ضرورت نہیں قرآن کریم میں جو آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں اُن کے سامنے ان آثار قدیمہ کی کچھ بھی وقعت نہیں.میری لڑکی نے کہا.آپ مجھے بھی بتائیں کہ آپ نے کیا پا لیا مگر میں نے کہا.میں اسوقت تمہیں نہیں بتاؤں گا جلسہ سالانہ کے موقع پر میں ساری جماعت کو بتاؤں گا وہاں تم بھی سُن لینا.چنانچہ ۱۹۳۸ء کے جلسہ پر میں نے ”“ کے موضوع پر پہلا لیکچر دیا تھا اور اب یہ اس سلسلہ کی آخری تقریر ہے.جب میں نے اس سلسلہ تقاریر کو شروع کیا تو اُس وقت میں
جوان تھا اور میری صحت مضبوط تھی.مگر اب میں کمزور ہوں اور زیادہ دیر تک بول نہیں سکتا مگر بہر حال خدا تعالیٰ نے مجھے جس قدر توفیق دی میں اس مضمون کو مکمل کرنے کی کوشش کرونگا.آج کی تقریر میں میں اُن کتب خانوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں کیونکہ اس سفر میں میں نے بادشاہوں کے کتب خانے بھی دیکھے تھے اور میں ان سے بہت متاثر ہو ا تھا.سب سے پہلے قرآن کریم کا دعوی کہ اس کے اندر ہر قسم کے کتب خانے موجود ہیں میں اس بات کو بیان کرتا ہوں کہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ میرے اندر ہر قسم کے کتب خانے موجود ہیں.چنانچہ قرآن کریم کی سورۃ التینہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ اَهْلِ الْكِتَبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ.رَسُولٌ مِّنَ اللهِ يَتْلُوا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ : یعنی اہل کتاب اور مکہ کے مشرک کبھی بھی اپنی شرارتوں سے باز نہیں آ سکتے تھے جب تک اِن کے پاس کوئی بڑی دلیل آتی ہے لیکن دلیل کئی قسم کی ہوتی ہے.ایک دلیل وہ ہوتی ہے جو خارجی ہوتی ہے اور ایک دلیل اندرونی ہوتی ہے.یہ لوگ باہر کی دلیل کو کبھی قبول نہیں کر سکتے تھے اس لئے اُن کے اندر ایک رسول آنا چاہئے تھا اور رسول بھی ایسا آنا چاہئے تھا جو ریفارمر (REFORMER ) ہی نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ شریعت بھی ہو.يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةً اور اُن کو وہ تمام کتب پڑھ کر سُنائے جو اُن کے باپ دادوں کے زمانہ میں نازل ہوئی تھیں مگر اُن میں جو حشو و زوائد پائے جاتے تھے وہ اُن میں سے نکال دے.فِيهَا كُتُب قَيِّمة.اور ایسی کتاب پڑھ کر سنائے جس میں تمام سابقہ کتب کی قائم رہنے والی تعلیمیں موجود ہوں اور پہلی کتابوں میں سے جو باتیں منسوخ ہو گئی ہوں وہ اس میں موجود نہ ہوں تب جا کر اُن کی اصلاح ہو سکتی ہے.غرض قرآن کریم وہ کتاب ہے جس میں وہ تمام تعلیمیں موجود ہیں جو منسوخ نہیں ہوئیں.کوئی قائم رہنے والی چیز چاہے وہ وید میں ہو ، ژنداوستا میں ہو، تو رات میں ہوا یسی نہیں کہ وہ قرآن کریم میں موجود نہ ہو.اور کوئی کچی یا قائم رہنے والی تعلیم ایسی نہیں جو وید، ژند اوستا، تو رات یا اناجیل میں موجود ہو اور اس میں حشوت مل گیا ہو اور اُس کا ازالہ
قرآن کریم نے نہ کیا ہو.یہاں یہ امر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم حجم کے لحاظ سے بہت چھوٹی سی کتاب ہے جو وید اور تورات سے ہی چھوٹی نہیں بلکہ انا جیل سے بھی چھوٹی ہے.ایسی کتاب کا دعوی کرنا کہ میرے اندر تمام پہلی کتب موجود ہیں اور اُن کے حشو وز وائد کو میں نے دُور کر دیا ہے بتاتا ہے کہ اس کے اندر تمام پہلی کتب با تفصیل موجود نہیں بلکہ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ اس کے اندر تمام اصولوں کو بیان کر دیا گیا ہے کیونکہ اگر ساری سابقہ کتب سماوی اور تمام علوم اس کتاب میں بالتفصیل بیان ہوتے تو قرآن اتنی بڑی کتاب ہو جاتی کہ آسمان کی فضا کو بھی بھر دیتی مگر یہ تو جیب میں آجاتی ہے بلکہ آج ایک دوست نے مجھے تحفہ بھیجا ہے وہ ایک ٹھپہ ہے جس پر کسی کا ریگر نے ایک ہی طرف سارا قرآن کریم لکھ دیا ہے.لیکن اگر بڑے حجم والے قرآن کریم بھی دیکھے جائیں تو وہ چھ سات سو صفحات میں ختم ہو جاتے ہیں لیکن بائبل اور انا جیل اس سے بہت بڑی ہیں.بہر حال قرآن کریم نے جو کچھ کہا ہے کہ اس میں تمام سماوی اور الہا می کُتب موجود ہیں دین کو قائم رکھنے والی تمام تعلیمیں موجود ہیں، اسی طرح تمام ضروری علوم موجود ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام کتب اور علوم اپنی پوری تفصیل کے ساتھ قرآن کریم میں موجود ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم میں اُن تمام سچائیوں کے اصول بیان کر دیئے گئے ہیں اور اُن میں جو غلطیاں اور زوائد تھے اُن کی اصلاح کر دی گئی ہے.زمین و آسمان کی پیدائش چھ دنوں میں نہیں بلکہ چھ یوم میں ہوئی ہے مثال کے طور پر میں اس بات کو لیتا ہوں کہ بائبل میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے اور ساتویں دن آرام کیا حالانکہ تمام سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ زمین و آسمان چھ دنوں میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ وہ اس عرصہ کو چھ یوم سے بھی آگے لے جاتے ہیں.قرآن کریم میں اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے ”یوم“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور عربی زبان میں ”یوم“ کے معنے دن“ کے نہیں ہوتے بلکہ وقت کے ہوتے ہیں.پس قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ زمین و آسمان چھ وقتوں یا چھ درجوں میں پیدا کئے گئے ہیں گویا قرآن کریم میں زمین و آسمان کی پیدائش کے دن بیان نہیں کئے گئے بلکہ چھ درجے بیان کئے گئے ہیں.دنوں کے لحاظ سے بعض لوگوں نے اُن کو شمار جمعہ سے کیا ہے اور بعض لوگوں نے ہفتہ سے اُن کا شمار کیا ہے اور بعض نے اس کے بعد اتوار
۷۶۸ وو وو سے شمار کیا ہے.یہودی لوگ ہفتہ کو ”سبت مانتے ہیں اور مسلمان جمعہ کو سبت شمار کرتے ہیں جو آرام کا دن ہے اور عیسائی اور ہندوؤں میں ” سبت اتوار کا دن ہے.سبت“ در حقیقت ہفتہ کا ہی دن تھا مگر جب رومی بادشاہ عیسائیت میں داخل ہوا تو اُس نے پادریوں کی ایک کونسل بٹھائی اور اُس کے سامنے یہ مسئلہ رکھا کہ رومی لوگ نہ تو ایک خدا کو مانیں گے کیونکہ وہ تثلیث کے قائل ہیں اور نہ وہ ”سبت ہفتہ کو مانیں گے اس لئے یہاں عیسائیت کا پھیلنا ہے.اس پر پادریوں نے کہا کہ ہمیں تو عیسائیت کی اشاعت سے غرض ہے ہم تین خدا مان لیتے ہیں.مسیح، روح القدس اور خدا اور آپ بے شک ہفتہ کی بجائے اتوار کی تعطیل کا اعلان کر دیں.چنانچہ عیسائیوں میں اتوار کی تعطیل ہونے لگ گئی.مسلمانوں میں جمعہ کی تعطیل ہوتی رہی کیونکہ قرآن کریم میں جمعہ کے دن کو ترجیح دی گئی ہے اور یہودیوں میں ہفتہ کے دن کو آرام کا دن قرار دیا گیا ہے اور تورات میں اس کا وضاحت سے ذکر ہے.چنانچہ اُس میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا اور ساتویں دن اُس نے آرام کیا ہے بعض اردو کے نسخوں میں مترجموں نے لوگوں کے اعتراض کے ڈر سے آرام کیا کی جگہ فراغت پائی یا فارغ ہو" کے الفاظ لکھ دیئے ہیں لیکن دوسرے نسخوں میں آرام کیا “ کے الفاظ ہی موجود ہیں.اور اسی بناء پر ہفتہ کے دن کو یہود میں مقدس قرار دیا گیا ہے.بائیل کی اصلاح لیکن قرآ لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ زمین و آسمان کو چھ وقتوں یا درجوں میں پیدا کیا گیا ہے مگر یہ بات غلط ہے کہ ساتویں دن وو خدا تعالیٰ کو آرام کی ضرورت محسوس ہوئی.چنانچہ خدا تعالیٰ سورۃ ق میں فرماتا ہے کہ وَلَقَدُ خَلَقْنَا السَّمَوَاتِ وَالَا رُضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَّ مَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ.یعنی ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے چھ وقتوں میں پیدا کیا ہے.اور ہمیں کوئی تھکان محسوس نہیں ہوئی.یعنی بائبل کا یہ بیان تو درست ہے کہ زمین و آسمان کو چھ وقتوں میں پیدا کیا گیا لیکن یہ بات درست نہیں کہ اس کے بعد ہم تھک گئے ہم نہ تھکے اور نہ ہمیں آرام کی ضرورت پیش آئی.کیونکہ ہمارا پیدائش کا طریق ایسا ہے کہ ہم تھک ہی نہیں سکتے ایک دوسری جگہ اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اللهُ لَا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأخُذُهُ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِى السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِى يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۚ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ
مِّنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمواتِ وَالْاَرْضَ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ فرماتا ہے.اللہ وہ ذات ہے جس کے سوا پرستش کا اور کوئی مستحق نہیں.وہ اپنی ذات میں کامل حیات والا ہے اور دوسروں کو حیات عطا کرنے والا ہے اور اپنی ذات میں قائم اور ہر ایک چیز کو قائم رکھنے والا ہے.نہ اُسے اونگھ آتی ہے اور نہ وہ نیند کا محتاج ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اُسی کا ہے.کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کرے.جو کچھ اُن کے سامنے ہے یعنی ان کا مستقبل اور جو کچھ اُن کے پیچھے ہے یعنی ان کی نظروں سے غائب ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اور وہ اس کی مرضی کے ہوا اس کے علم کے کسی حصہ کو بھی نہیں پاسکتے.اُس کا علم تمام زمیں و آسمان پر حاوی ہے.اور زمین و آسمان کی حفاظت اُس پر کوئی بوجھ نہیں بلکہ وہ نہایت آسانی کے ساتھ ان دونوں کا انتظام چلا رہا ہے.اور وہ بڑی بلندشان رکھنے والا اور بڑی عظمت اور جبروت کا مالک ہے.اب جس ہستی نے گن“ کہہ کر ساری دنیا کو پیدا کیا ہو اور اُس پر نہ اونگھ آئے نہ نیند، نہ زمین و آسمان کی حفاظت کا کام اُس کیلئے بوجھ ہو اُس کے لئے کسی تھکان کا سوال ہی کیا پیدا ہو سکتا ہے.پیدائش عالم کے متعلق قرآنی نظریہ ایک دوسری جگہ اللہ تعالی پیدائش عالم کے متعلق فرماتا ہے إِنَّمَا أَمْرُةٌ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ یعنی اللہ تعالیٰ کا پیدائش عالم کے معاملہ میں یہ طریق ہے کہ جب وہ کسی چیز کے متعلق چاہتا ہے کہ ہو جائے تو وہ صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے اور ہوتی چلی جاتی ہے.یہاں يَكُونُ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جو اپنے اندر استمرار کے معنے رکھتا ہے.پس اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ کمن “ کہتا ہے اور چیز تیار ہو جاتی ہے بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ ہوتی چلی جاتی ہے.یعنی انسان کا طریق یہ ہے کہ جس چیز کو پیدا کرتا ہے محنت سے کرتا ہے اور اس میں یہ طاقت نہیں ہوتی کہ وہ جس چیز کو چاہے پیدا کر دے بلکہ یا تو وہ نمونہ دیکھ کر اُس جیسی چیز بناتا ہے اور یا بڑی محنت سے کوئی چیز ایجاد کرتا ہے.پھر وہ جس چیز کو بناتا ہے وہ صرف ایک ہی ہوتی ہے.اُس میں تناسل کا سلسلہ نہیں ہوتا.لیکن خدا تعالیٰ بغیر نمونہ کے پیدا کرتا ہے اور پھر پیدا کرتا چلا جاتا ہے.مثلاً موٹر انسان کی پیدا کی ہوئی ہے مگر ابھی تک کسی نے نہیں سُنا کہ موٹر
نے کبھی بچہ دیا ہو.اسی طرح ریل ہے یہ انسان کی ایجاد ہے مگر کسی نے نہیں سُنا ہو گا کہ ریل نے بچہ دیا ہے اور اب ایک کی بجائے دس ریلیں بن گئی ہیں مگر خدا تعالیٰ کی پیدائش دیکھ لو وہ ہوتی چلی جاتی ہے.اُس نے صرف ایک آدم پیدا کیا تھا مگر اب اربوں آدمی موجود ہیں گویا اُس کی نسل پیدا ہوتی چلی جاتی ہے.اسی طرح ایک مسیح اس نے پیدا کیا مگر اب اور مسیح پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں اور قیامت تک ہوتے چلے جائیں گے.اسی طرح ایک ابراہیم اس نے پیدا کیا تھا مگر اس کے بعد ابراہیم پر ابراہیم پیدا ہوتے چلے گئے اسی لئے قرآن شریف میں کو اللہ تعالیٰ کا ایک نام فَاطِر “ بھی آتا ہے.فاطر کے معنے فاطر کے معنے ہیں بغیر نمونہ کے پیدا کرنے والا.چنانچہ حضرت ابنِ عباس سے روایت ہے کہ كُنْتُ لَا اَدْرِى مَا فَاطِرُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ 66 حَتَّى أَتَانِي أَعْرَابِيَّانِ يَخْتَصِمَانِ فِى بِشُرٍ فَقَالَ اَحَدُهُمَا أَنَا فَطَرُ تُهَا أَى ابْتَدَأَتُهَا یعنی میں قرآن کریم میں فاطر کا لفظ پڑھا کرتا تھا لیکن مجھے پتہ نہیں چلتا تھا کہ فاطر کیا ہوتا ہے یعنی جب خالق کہہ دیا تو پھر فاطر کیا ہوا.یہاں تک کہ ایک دن میرے پاس دو اعرابی آئے جو ایک کنویں کے بارے میں جھگڑ رہے تھے.ایک کہہ رہا تھا میرا کنواں ہے اور دوسرا کہہ رہا تھا یہ میرا کنواں ہے.اُن میں سے ایک نے کہا میں نے اسے فطر کیا تھا.اور اس سے مراد یہ تھی کہ میں نے اسے پہلے کھودا تھا بعد میں اس نے قبضہ کر لیا.اُس دن مجھے فاطر کے حقیقی معنوں کا علم ہوا.اور میں سمجھ گیا کہ فاطر اس کو کہتے ہیں جو نئے سرے سے ایجاد کرے اور بغیر نمونہ کے ایجاد کرے.اور اعرابی کا یہ کہنا کہ آنَا فَطَرْتُهَا “ اس کے معنے یہ تھے کہ پہلے اس علاقہ میں کوئی کنواں نہیں تھا.پہلے پہل میں نے ہی کنواں کھودا تھا.حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس اعرابی کے استعمال کی وجہ سے مجھے ” فاطر “ کے معنے سمجھ آئے اور مجھے معلوم ہو ا کہ اس کے معنے ابتداء کرنے کے ہیں پس كُنْ فَيَكُونُ “ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جن چیزوں کو پیدا کرتا ہے اُن میں تناسل کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اس قسم کی اور چیزیں پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ ختم نہیں ہو جاتیں.مثلاً اُس نے سورج اور چاند پیدا کئے ہیں اور اب نئے نئے سورج اور چاند پیدا ہو رہے ہیں جیسا کہ علم ہیئت سے ثابت ہے.اُس نے صرف ایک پہاڑ اور صرف ایک دریا ہی پیدا نہیں کیا بلکہ اُس کے بنائے ہوئے پہاڑوں اور دریاؤں سے نئے نئے پہاڑ اور دریا نکلتے جا رہے ہیں.اُس نے صرف ایک
انسان پیدا نہیں کیا تھا بلکہ اُس کی نسل سے کروڑوں اور اربوں انسان پیدا ہو گئے ہیں.اُس نے ایک ابراہیم ہی پیدا نہیں کیا بلکہ پہلے ابراہیم کی مثال میں ہزاروں ابراہیم پیدا ہور ہے ہیں.اُس نے ایک نوح ہی پیدا نہیں کیا بلکہ حضرت نوح علیہ السلام کی مثال میں ہزاروں اور نوع پیدا ہور ہے ہیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سارے انبیاء کا نمونہ تھے.اور اُن کے وجود میں سارے انبیاء زندہ ہو گئے تھے بلکہ آپ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں مہدی آخر الزمان کے زمانہ میں سارے انبیاء زندہ ہو جائیں گے.مہدی آخر الزمان کے متعلق حضرت امام باقر ” کے ارشادات چنانچہ شیعوں 22 کے امام باقر بحار الانوار میں فرماتے ہیں کہ امام مہدی کہے گا اے لوگو! اگر تم میں سے کوئی ابراہیم اور اسماعیل کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ سُن لے کہ میں ہی ابراہیم اور اسماعیل ہوں' آجکل تو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا ہے.میں کبھی آدم کبھی موٹی کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار لیکن امام باقر فرماتے ہیں کہ آخری زمانہ میں مہدی کہے گا کہ اے لوگو! تم میں سے جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کو دیکھنا چاہتا ہو وہ سُن لے کہ میں ہی ابرا ہیم اور اسماعیل ہوں.اور اگر تم میں سے کوئی حضرت موسی اور حضرت یوشع کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ سُن لے کہ میں ہی موٹی اور یوشع ہوں اور اگر تم میں سے کوئی عیسی اور شمعون کو دیکھنا چاہتا ہے تو سُن لے کہ میں ہی عیسی اور شمعون ہوں اور اگر تم میں سے کوئی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علیؓ کو دیکھنا چاہتا ہے تو سُن لے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی میں ہی ہوں.لا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وضاحت سے فرماتا ہے کہ کے مثیل اور اُن سے افضل تھے آپ حضرت موسی کے مظہر ہیں فرمایا إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًاه " یعنی اے لوگو! ہم نے تمہاری طرف اسی طرح ایک رسول تمہا را نگران بنا کر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا.اسی طرح سورۃ یوسف کے آخر میں بھی یہ اشارہ
۷۷۲ کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت یوسف کے مثیل ہیں.چنانچہ جب آپ نے مکہ فتح کیا اور آپ کے سامنے وہ تمام مجرم پیش ہوئے جنہوں نے آپ کو مکہ سے نکال دیا تھا اور وہ تیرہ سال تک آپ پر اور آپ کے صحابہ پر بے انتہاء ظلم کرتے رہے تھے تو آپ نے اُن سے پوچھا کہ بتاؤ اب تم سے کیا سلوک کیا جائے ؟ تو وہ لوگ گو آپ کے منکر تھے لیکن قرآن کریم سُن سُن کر اُن کو اتنا پتہ لگ گیا تھا کہ آپ مثیل یوسف بھی ہیں.چنانچہ انہوں نے کہا.آپ ہم سے وہی سلوک کریں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا اور چونکہ آپ مثیل یوسف تھے اس لئے جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے فرمایا تھا کہ جاؤ میں تم سب کو معاف کرتا ہوں ، اسی طرح آپ نے بھی مشرکین مکہ سے فرمایا کہ لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ا آج تم پر کسی قسم کی گرفت نہیں.گویا آپ نے عملاً وہی مثال پیش کی جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے معاملہ میں پیش کی تھی.حالانکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی تو اُن کے باپ کی نسل میں سے تھے لیکن مکہ والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ کی نسل میں سے نہیں تھے اور نہ ہی اُن سے آپ کا دودھ کا کوئی تعلق تھا.جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صرف حضرت یوسف علیہ السلام کے مثیل ہی نہیں تھے بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر تھے.صرف مثال کے طور پر چند مثالیں پیش کی گئی ہیں ورنہ حقیقتا آپ سب انبیاء کے مثیل تھے.آپ مثیل آدم بھی تھے کیونکہ آپ کے ذریعہ ایک نئی نسل چلی.حضرت آدم علیہ السلام کو صرف اتنی فضیلت حاصل ہے کہ اُن کے ذریعہ سے اور بشر پیدا ہوئے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے آدم ہوئے کہ آپ کے ذریعہ سے ایک ایسی نسل چلی جو تمام انسانوں سے ممتاز تھی جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد تمام جانوروں سے ممتاز تھی.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ دین تھا جو دین فطرت تھا اور آپ کو ایسی تعلیم ملی تھی جس میں ساری دنیا کے ساتھ حسن سلوک کا حکم تھا.اسی طرح آپ مثیلِ نوح بھی تھے کیونکہ آپ کی قوم پر بھی ایسا طوفان آیا جیسے نوح علیہ السلام کی قوم پر آیا تھا اور اس سے وہی بچے جو آپ کی کشتی میں بیٹھے تھے.تاریخی نقطۂ نگاہ سے قرآنی کتب خانہ پر نظر اب میں کتب خانوں کی مناسبت سے سب سے پہلے تاریخ کو لیتا ہوں
اور بتا تا ہوں کہ باوجود اس کے کہ دنیا میں بہت سی تاریخ کی کتابیں موجود ہیں پھر بھی قرآن کریم نے جو تاریخ پیش کی ہے اس کی مثال دنیا کی کوئی تاریخی کتاب پیش نہیں کر سکتی.تاریخ وحی و رسالت اس بارہ میں میں سب سے پہلے تاریخ وحی و رسالت کو لیتا ہوں.قرآن کریم نے اصولی طور پر یہ بات بیان کی ہے کہ اِنْ مِنْ أُمَّةٍ } إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ." یعنی دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہدایت دینے والا نہ آیا ہو.اِسی طرح فرماتا ہے وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ.۱۵ ہر ایک قوم میں کوئی نہ کوئی ہادی گزرا ہے.نذیر کے معنے نبی کے بھی ہوتے ہیں اے مگر نذیر کے لغوی معنے ڈرانے والے کے ہوتے ہیں.یعنی جب قوم سوئی ہوتی ہے تو وہ انہیں آ کر ہوشیار کرتا ہے.اس کے معنے زیادہ تر ریفارمر (REFORMER ) کے بھی سمجھے جا سکتے ہیں.مگر ہادی کے معنوں میں نبوت زیادہ واضح ہے اور یوں قرآنی محاورہ کے مطابق بھی اور لغت کے لحاظ سے بھی نذیر کے معنے نبی کے بھی ہوتے ہیں.غرض قرآن کریم نے بتایا ہے کہ دنیا کی ہر قوم میں کوئی نہ کوئی نبی یا کم از کم کوئی ریفارمر ضرور آیا ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں حضرت کرشن اور رام چندر جی کو نبیوں کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے اور ان کا نام اوتار رکھا جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ كَانَ فِي الْهِنْدِ نَبِيًّا أَسْوَدُ اللَّوْنِ اِسْمُهُ كَاهِناً علے یعنی ہندوستان میں ایک سیاہ فام نبی گزرے ہیں جن کا نام کنہیا یعنی کرشن تھا.اب دیکھو کہ ہندو کہتے ہیں کہ مسلمان ہمارے دشمن ہیں لیکن قرآن کہتا ہے وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ہندوستان میں بھی ہمارے بعض بزرگ بندے گزرے ہیں.اور جب ہندوستان میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بھائی گزرا ہے تو اُس کی اولاد کے ہم دشمن کیسے ہو سکتے ہیں.مسلمان ہرگز ہندوؤں کے دشمن نہیں کیونکہ ہند و حضرت کرشن اور رام چندر جی کی اولاد ہیں.یا کم سے کم اُن کی اُمت ہیں اور اُن کے ماننے والے ہیں اور ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تمام انبیاء آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں.۱۸ پس کرشن اور رام چندر جی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھتیجوں کے ہم دشمن کیسے ہو سکتے ہیں.جو لوگ ہمارے آقا کے بھیجے ہونگے نہ ہمارا آقا اُن کا دشمن ہوگا اور نہ ہم اُن کے دشمن ہو نگے.یہ محض غلط فہمی اور ضد ہے ورنہ مسلمان جو قرآن کریم سمجھتا ہے وہ نہ کسی ہندو کا دشمن ہوسکتا ہے اور نہ
۷۷۴ اس کی عداوت اس کے اندر پیدا ہوسکتی ہے.دتی کے ایک بزرگ کا کشف پُرانے زمانہ میں دتی کے ایک بزرگ گزرے ہیں اُن کے ایک مرید نے ایک دفعہ کہا کہ ہمارا یہ خیال غلط ہے کہ کرشن جی اور رام چندر جی ہندوستان کے نبی تھے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک آگ جل رہی ہے اور کرشن جی تو اُس کے اندر جل رہے ہیں اور رام چندرجی اُس کے کنارے کھڑے ہیں وہ بزرگ کہنے لگے تم نے اس خواب کی تعبیر غلط سمجھی ہے.آگ کے معنے محبت الہی کی آگ کے ہیں اور اس خواب میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ بتایا ہے کہ حضرت کرشن خدا تعالیٰ کی محبت میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور رام چندر جی اُن سے کم درجہ رکھتے تھے.اب دیکھو پُرانے زمانہ کے اولیاء بھی یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں حضرت کرشن اور حضرت رام چندر خدا تعالیٰ کے نبی گزرے ہیں اور محبت الہی کی آگ نے اُن کا احاطہ کیا ہو ا تھا.اسی طرح چین میں کنفیوشس کو پیش کیا جاتا ہے گوچینی زبان میں آپ کا نام نبی کی بجائے کچھ او ر رکھا گیا ہے اور آپ کو زیادہ تر اُستاد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے مگر اسی کو عربی زبان میں نذیر “ اور ”ہادی“ کہتے ہیں.اسی طرح برما اور سیلون میں حضرت بدھ علیہ السلام کو پیش کیا جاتا ہے کہ وہ خدا رسیدہ انسان تھے اور خدا کا کلام اُن پر نازل ہوتا تھا.گو بدھ علیہ السلام بہار میں پیدا ہوئے ہیں مگر بہر حال جن قوموں نے انہیں مانا وہ اُن کے لئے ہادی ہی تھے.ہندوستان نے بھی ایک دفعہ اُنکو مان لیا تھا لیکن بعد میں آپ کے ماننے والوں کو اُس نے ملک سے نکال دیا.چنانچہ اُن میں سے بعض تبت چلے گئے ، بعض برما چلے گئے ، کچھ سیلون یا جاپان چلے گئے.غرض قرآن کریم نے اس ایک آیت میں ہی تمام مذہبی تاریخ عالم بیان کر دی اور سب تاریخوں پر روشنی ڈال دی.اب اگر ایک عیسائی یا ہند و چین جا تا ہے اور وہاں کنفیوشس کا ذکر سنتا ہے تو وہ اپنی کتاب کے بچاؤ کی فکر میں پڑ جاتا ہے کیونکہ اس نے انجیل اور وید میں پڑھا ہوتا ہے کہ خدا صرف عیسائیوں اور ہندوؤں کا خدا ہے باقی قوموں کا خدا نہیں لیکن اگر کوئی مسلمان غیر قوموں میں جا تا ہے اور وہاں اُن کے ہادیوں کا ذکر سُنتا ہے تو بجائے کوئی فکر کرنے کے الْحَمْدُ لِلَّهِ کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میری کتاب کی سچائی ظاہر ہوگئی.مجھے تاریخ عالم میں تلاش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی خود ان قوموں نے میرے سامنے اپنے ہادی پیش کر دئیے اور میری کتاب کی سچائی ظاہر کر دی.چین والے کنفیوشس کو پیش کرتے ہیں، برما اور سیلون والے
۷۷۵ بدھ علیہ السلام کو پیش کرتے ہیں تو ہندو کو فکر پڑ جاتی ہے ، عیسائی کو فکر پڑ جاتی ہے، یہودی کو فکر پڑ جاتی ہے کہ یہ کیا ہوا ہمیں تو بڑی مشکل پیش آ گئی.لیکن ایک مسلمان جہاں کہیں جاتا ہے اُسے کوئی فکر نہیں ہوتی.اُس کے سامنے کنفیوشس کا نام پیش کیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ.اُس کے سامنے زرتشت کا نام پیش کیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ.کرشن کا نام آتا ہے تو کہتا ہے الْحَمْدُ لِلهِ.رام چندر جی کا نام آتا ہے تو کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ.بدھ کا نام آتا ہے تو کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلهِ.کیونکہ وہ سمجھتا ہے میری کتاب میں یہی لکھا ہے کہ ہر قوم میں ہادی آئے ہیں مجھے کوئی تلاش نہیں کرنی پڑی.ہندوؤں نے آپ ہی پیش کر دیا ہے کہ ہمارے اندر کرشن اور رامچند رجی وغیرہ آئے ہیں، بدھوں نے آپ ہی پیش کر دیا ہے کہ ہمارے اندر بدھ گزرے ہیں ، عیسائیوں نے آپ ہی پیش کر دیا ہے کہ ہمارے اندر حضرت عیسی علیہ السلام گزرے ہیں ، یہودیوں نے آپ ہی پیش کر دیا ہے کہ ہمارے اندر موسی علیہ السلام گزرے ہیں ، یونانیوں نے آپ ہی پیش کر دیا ہے کہ ہمارے اندر سقراط گزرا ہے.سقراط بھی خدا تعالیٰ کا ایک نبی تھا عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یونان میں کوئی نبی نہیں گزرا اور گو یہ ہمارا کام نہیں کہ ہم وہاں کے کسی نبی کو تلاش کرتے پھریں مگر چونکہ قرآن کریم نے اصولی طور پر کہہ دیا ہے کہ ہر قوم میں کوئی نہ کوئی نبی گزرا ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یونان میں بھی نبی آیا ہے اور سقراط کے متعلق تاریخ کہتی ہے کہ وہ کہا کرتا تھا مجھ پر فرشتے اُترتے ہیں اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں.اُس وقت کی حکومت نے جو بت پرست تھی اُس کے قتل کی تاریخ مقرر کر دی اُس کے ایک شاگرد نے یہ پیشکش کی کہ آپ یہاں سے بھاگ جائیں تو سقراط نے جواب دیا کہ مجھے تو فرشتوں نے بتایا ہے کہ تیری موت اِس طرح واقع ہوگی.میں اس موت سے کس طرح بھاگ سکتا ہوں.19 پھر مذہبی مذہبی تاریخ کے سلسلہ میں قرآن کریم کا ایک عظیم الشان انکشاف تاریخ کے ضمن میں قرآن کریم نے یہ عظیم الشان انکشاف کیا کہ سمندر میں ڈوبتے وقت فرعون نے تو بہ کر لی تھی اور وہ حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام کے رب پر ایمان لے آیا تھا اور یہ کہ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ کہا تھا کہ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً.یعنی تو بہت آخری وقت میں ایمان لایا ہے اگر تو پہلے ایمان لاتا تو ہم تیرے جسم اور روح
22Y دونوں کو بچالیتے مگر تو چونکہ ڈوبتے وقت ایمان لایا ہے اسلئے ہم اس وقت تجھ پر یہ احسان تو نہیں کر سکتے کہ ہم تیری رُوح کو بچائیں کیونکہ موت کے وقت تیرا ایمان لانا کافی نہیں اب ہم تجھ سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ تیرے جسم کو بچالیا جائے گا تا تیرا نشان قائم رہے اور خدا تعالیٰ کی قدرت کو ظاہر کرتا رہے.چنانچہ اب انیسویں صدی میں آثار قدیمہ کی تحقیق کرنے والوں کو فرعون کی لاش مل گئی ہے اور اُسے مصر کے عجائب گھر میں میں نے خود دیکھا ہے.بعد میں اس لاش کولنڈن لے جایا گیا تھا لیکن اب سُنا ہے کہ پھر مصر آ گئی ہے.پس یہ زبر دست ثبوت اس بات کا ہے کہ قرآن کریم میں جو تاریخ عالم پائی جاتی ہے دنیا کی کوئی تاریخ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.بائبل کا دعوی ہے کہ وہ حضرت موسی علیہ السلام کے وقت کی تاریخ بیان کرتی ہے لیکن وہ فرعون کے جسم کے بچائے جانے کے متعلق بالکل خاموش ہے مگر قرآن کریم جو موسیٰ علیہ السلام کے دو ہزار سال بعد آیا ان واقعات کو بیان کرتا ہے جو بائبل میں مذکور نہیں اور تاریخ ان واقعات کی تصدیق کرتی ہے یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ قرآن کریم کو نازل کرنے والا وہ خدا ہے جس سے زمین و آسمان کی کوئی بات پوشیدہ نہیں.قرآن کریم میں بعض قدیم اقوام کی تاریخ کا ذکر پھر قرآن کریم میں انبیاء کی تاریخ کے علاوہ قوموں کی تاریخ بھی بیان ہوئی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ عاد قوم کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ : إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ الَّتِى لَمْ يُخْلَقُ مِثْلُهَا فِي الْبَلَادِ.کیا تجھے معلوم ہے کہ تیرے رب نے عاد سے کیا معاملہ کیا تھا یعنی عادارم سے جو بڑی بڑی عمارتوں والے تھے اور جن کی مانند کوئی قوم ان ملکوں میں پیدا ہی نہیں کی گئی تھی.اس آیت میں قوم عاد کی اس خصوصیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ بڑے بڑے محلات بناتی تھی جن کو ستونوں پر کھڑا کیا جاتا تھا.چنانچہ لعل انہی لوگوں کا دیوتا تھا اور بعلبک انہی لوگوں کا بسایا ہوا شہر تھا جو لبنان کی سرحد پر واقع ہے.میں ۱۹۵۵ء میں جب بیمار ہوا اور لنڈن گیا تو چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے ساتھ بعلبک بھی گیا تھا.جرجی زیدان جو بڑا سخت عیسائی مؤرخ ہے وہ بھی اپنی کتاب العرب قبل الاسلام میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ عاد قوم کے متعلق تاریخ کی سینکڑوں صفحات کی کتابیں اس سے زیادہ معلومات بیان نہیں کر سکیں جتنی معلومات قرآن کریم نے چند الفاظ میں بیان کر دی ہیں.میں نے خود عاد قوم کا
222 بعلبک میں محل دیکھا جو ایک سو پچاس ستونوں پر بنا ہوا ہے اور ان ستونوں پر کئی بڑے بڑے کمرے اور برآمدے بنے ہوئے ہیں.اور قرآن کریم نے بھی یہی بتایا تھا کہ وہ ستونوں پر اپنی عمارتیں کھڑا کیا کرتے تھے.معلوم ہوتا ہے اُن دنوں فنِ تعمیر اپنے عروج پر تھا.گویا قرآن کریم میں علم تاریخ کے علاوہ علم تعمیر بھی آگیا.اسی طرح قوم ثمود کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے انةٌ أَهْلَكَ عَادَا إِلَّا وَلَىٰ ۚ وَثَمُودَأَ فَمَا أَبْقَى " ج یعنی اُس خدا نے پہلی عاد قوم کو ہلاک کیا تھا اور پھر ان کے بعد ثمود کو بھی اُس نے ہلاک کیا اور عذاب نے ان کا کچھ بھی نہ چھوڑا.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ خمود، عاد قوم میں سے نکلے تھے.چنانچہ نئے آثار جو اب اردن میں پائے گئے ہیں وہ خمود کے ہی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ وہ آثار کسی متمدن قوم کے ہی ہیں.پس تاریخ عالم کو بھی قرآن کریم نے اپنے اندر خلاصہ بیان کر دیا ہے.نیچرل ہسٹری پر قرآن کریم کی روشنی اسی طرح دنیا میں ایک علم نیچرل ہسٹری (NATURAL HISTORY) کا پایا جاتا ہے.جس کے ماتحت شہد کی مکھیوں اور چیونٹیوں وغیرہ کے متعلق بڑی وسیع تحقیق کی گئی ہے.اس علم پر قرآن کریم نے بھی روشنی ڈالی ہے.اور شہد کی مکھی کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ ہم نے خود اس کے ظرف کے مطابق اس کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں یا درختوں یا عرشوں پر اپنا گھر بنا اور پھر ہر قسم کے پھلوں میں سے تھوڑا تھوڑا لے کر کھا اور لوگوں کے لئے شہد تیا ر کر.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ شہد کی مکھیاں بھی مختلف قسم کی ہیں.اُن میں سے بعض پہاڑوں میں چھتے بناتی ہیں، بعض درختوں پر چھتے بناتی ہیں اور بعض عرشوں پر جو انگوروں وغیرہ کے لئے تیار کئے جاتے ہیں چھتے بناتی ہیں.۲۳ اور پھر مکھی اُس استعداد باطنی سے کام لے کر جو خدا تعالیٰ نے اس کے اندر پیدا کی ہے مختلف پھلوں اور پھولوں وغیرہ سے غذاء حاصل کرتی اور شہد تیار کرتی ہے جو مختلف رنگوں اور مختلف اقسام کا ہوتا ہے مگر باوجود مختلف اقسام ہونے کے ان سب میں یہ بات مشترک طور پائی جاتی ہے کہ شہد لوگوں کے لئے شفاء کا موجب ہوتا ہے اور مختلف قسم کے امراض کو دور کرنے کے کام آتا ہے.۲۴ علم نباتات کے متعلق قرآن کریم کا ایک اہم انکشاف اسی طرح علم نباتات بھی ایک علم ہے جس پر
22λ ہزاروں کتا ہیں لکھی گئی ہیں.قرآن کریم نے اس علم کے متعلق سب سے پہلے یہ انکشاف فرمایا کہ تمام نباتات میں نرومادہ کا وجود پایا جاتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَانْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيج.1 ہم نے زمین میں ہر قسم کے خوبصورت جوڑے اُگائے ہیں.جب یہ آیت نازل ہوئی ہے تو عربوں میں صرف اتنا علم پایا جاتا تھا کہ کھجور میں نر و مادہ ہوتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن پر قرآن نازل ہوا انہیں اتنا علم بھی نہیں تھا.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں سے گزرے تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھیتوں میں کام کر رہے ہیں اور وہ ایک جگہ سے کوئی چیز لاتے ہیں اور دوسری پر لگا دیتے ہیں.آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا ، يَا رَسُولَ اللهِ! ہم نر کھجور کا مادہ کھجور سے پیوند کرتے ہیں.آپ نے فرمایا اس کا کیا فائدہ جو پھل لگتا ہے وہ تو آپ ہی لگ جائے گا.انہوں نے یہ بات سُن کر نر اور مادہ درختوں کو آپس میں ملا نا ترک کر دیا.دوسرے سال وہ لوگ آپ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا.يَارَسُولَ اللَّهِ! ہماری فصل تو بہت کم ہوئی ہے کیونکہ ہم آپ کے کہنے پر پیوند لگانے سے رُک گئے تھے.آپ نے فرمایا تم کیوں رُک گئے تھے؟ میں تو ایک انسان ہوں اور مجھے علم غیب حاصل نہیں.اگر تمہارے تجربہ سے یہ بات ثابت تھی تو تم نے میری بات نہیں مانی تھی.۲ پھر قرآن کریم نے صرف نباتات کے نرومادہ ہونے کا ہی ذکر نہیں کیا بلکہ فرمایا.وَمِنُ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.ہم نے ہر چیز کے نرومادہ بنائے ہیں تا کہ تم نصیحت حاصل کرو.اب انسان کے نرومادہ کا تو سب کو علم ہے، جانوروں کے نرومادہ کا بھی علم ہے، زراعت کے متعلق بھی اب بہت حد تک پتہ لگ گیا ہے کہ درختوں اور نباتات میں نرومادہ کا وجود پایا جاتا ہے.چنانچہ عام طور پر سیہ قانون بتایا جاتا ہے کہ باغوں میں شہد کی مکھیاں پالنی چاہیں اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ شہد کی لکھی نر کا پھول لے کر مادہ کے پھول سے ملادیتی ہے.اور اس کے نتیجہ میں پھل زیادہ ہوتا ہے.ہمارے علاقہ میں تو اس کا رواج کم ہے لیکن پشاور کی طرف چلے جاؤ تو بڑے بڑے خاندانوں نے اپنے باغات میں شہد کی مکھیاں پالی ہوئی ہیں یہی وجہ ہے کہ وہاں باغ زیادہ لگائے جاتے ہیں اور اُن میں پھل زیادہ آتا ہے بلکہ تازہ سائنٹیفک تحقیقات سے تو یہاں تک ثابت ہے کہ جمادات میں بھی بعض قسمیں ایسی ہیں جن میں نر و مادہ کا وجود پایا جاتا ہے.
چنانچہ بعض سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ ٹین ۲۸ میں بھی نر و مادہ پایا جاتا ہے.مسئلہ ارتقاء اور قرآنی کتب خانہ پھر نیچرل ہسٹری والے بیان کرتے ہیں کہ انسان بندر سے بنا ہے.چنانچہ ڈارون نے اس تھیوری کو پیش کیا کہ پہلے دنیا میں چھوٹے جانور بنے.پھر اُس سے بڑے جانور بنے اور پھر اُن جانوروں میں سے کسی جانور سے ترقی کر کے انسان بنا مگر وہ جانور جس سے انسان بنا اب ملتا نہیں ، ہاں اتنا پتہ چلتا ہے کہ اس جانور کی اعلیٰ قسم بندر ہے.گویا اس کے نزدیک انسانی ارتقاء بندروں کی قسم کے ایک جانور سے ہوا ہے مگر بعض دوسرے محققین کہتے ہیں کہ گوانسان نے ارتقائی قانون کے ماتحت ہی ترقی کی ہے مگر وہ حیوانات کی نسل سے بہت پہلے سے جدا ہو چکا تھا اور اُسی وقت سے آزادانہ ترقی کر رہا ہے.چونکہ دنیا اس بارہ میں صحیح علم کی سخت محتاج تھی اس لئے قرآنی کتب خانہ نے اس اہم موضوع کے متعلق بھی روشنی ڈالی اور فرمایا کہ مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا هِ وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا ۲۹ یعنی اے لوگو! تمہیں کیا ہو گیا کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق وقار کا خیال نہیں رکھتے.وقار کے معنے عام طور پر سنجیدگی کے سمجھے جاتے ہیں حالانکہ وقار کے معنے ہوتے ہیں حکمت کے ساتھ کام کرنا پس مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا کے یہ معنے ہیں کہ تمہیں کیا ہو گیا کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ خیال کرتے ہو کہ وہ یونہی بغیر حکمت کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ ہر کام حکمت کے ساتھ کرتا ہے وَقَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اُس نے تم کو درجہ بدرجہ مختلف تبدیلیوں میں سے گزارتے ہوئے پیدا کیا ہے تاکہ تمہاری پیدائش میں کوئی نقص نہ رہے اگر وہ بغیر کسی حکمت کے کام کرتا تو مختلف دوروں میں سے وہ انسان کو کیوں گزارتا.وہ اُسے یکدم پیدا کر دیتا مگر اُس نے انسان کو یکدم پیدا نہیں کیا بلکہ قدم بقدم کئی دوروں میں سے گزارتے ہوئے پیدا کیا ہے.کبھی اُس پر عدم کا دور تھا، کبھی وہ ایک وجود تو تھا مگر بغیر دماغ کے، کبھی نطفہ سے اُس کی پیدائش ہونے لگی اور پھر آخر میں اُس پر وہ دور آیا جبکہ اُس کا دماغ کامل ہو گیا اور وہ صحیح معنوں میں انسان کہلانے لگ گیا.قرآنی کتب خانہ میں زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر پھر قرآن کریم زمین و آسمان کی پیدائش کے متعلق فرماتا ہے اَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَواتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا وَ جَعَلْنَا
۷۸۰ مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيْ.٣٠.یعنی کیا کفار نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے پھر ہم نے اُن کو کھول دیا اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا.یہ آیت بتاتی ہے کہ اب جو سورج چاند اور زمین الگ الگ ہے پہلے ایک وجود کی شکل میں الگ الگ نجڑے ہوئے تھے، پھر علیحدہ علیحدہ کر دیئے گئے اور سورج چاند اور زمین بن گئے اور یہی حقیقت آجکل کے سائنسدان پیش کرتے ہیں.قرآنی کتب خانہ میں نظام ہائے شمسی کا ذکر اسی طرح پہلے عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ صرف ایک نظام شمسی کام کر رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتایا کہ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ وَّ مِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ.ا یعنی اللہ تعالیٰ وہی ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے ہیں اور زمینیں بھی آسمانوں کے عدد کے مطابق پیدا کی ہیں.عربی میں سبع کا لفظ مبالغہ کے لئے استعمال ہوتا ہے.پس اس لفظ کے ذریعہ سے یہ بتایا گیا ہے کہ بہت سے آسمان اور زمینیں پیدا کی گئیں ضروری نہیں کہ وہ سات ہی ہوں.تاریخ انبیاء اور قرآن کریم آب میں یہ بتا تا ہوں کہ قرآن کریم میں تاریخ انبیاء اور بھی بیان کی گئی ہے اور تمام انبیاء کو ان الزامات سے پاک قرار دیا گیا ہے جو مختلف قوموں نے اُن پر عائد کئے.حضرت لوط علیہ السلام پر بائبل کا گندا الزام ملا پانی میں حضرت لوط علیہ السلام بائبل کے متعلق آتا ہے :- اور لوط ضغر سے اپنی دونوں بیٹیوں سمیت نکل کر پہاڑ پر جا رہا کیونکہ مغر میں رہنے سے اُسے دہشت ہوئی.اور وہ اور اُس کی دونوں بیٹیاں ایک غار میں رہنے لگیں.تب پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ ہمارا باپ بوڑھا ہے اور زمین پر کوئی مرد نہیں جو تمام جہان کے دستور کے موافق ہمارے پاس اندر آئے.آؤ ہم اپنے باپ کوئے پلائیں اور اُس سے ہم بستر ہوں تا کہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں.سوانہوں نے اُسی رات اپنے باپ کوئے پلائی اور پلوٹھی اندر گئی اور اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی.پر اُس نے اُس کے لیٹتے اور اُٹھتے وقت اُسے نہ پہچانا.اور دوسرے روز ایسا ہوا کہ پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا
کہ دیکھ کل رات کو میں اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی آؤ آج رات بھی اُسکو ئے پلائیں اور تو بھی جا کے اُس سے ہم بستر ہو کہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں.سو اُس رات کو بھی انہوں نے اپنے باپ کوئے پلائی اور چھوٹی اُٹھ کے اس سے ہم بستر ہوئی اور اُس نے اُس کے لیٹتے اور اُٹھتے وقت اُسے نہ پہچانا.سولو ط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں اور بڑی ایک بیٹا جنی اور اُس کا نام موآب رکھا وہ موابیوں کا جواب تک ہیں باپ ہوا اور چھوٹی بھی ایک بیٹا جئنی اور اس کا نام بنی کمی رکھا.‘۳۲ قرآن کریم کا اعلان برتیت یہ وہ گندی تاریخ ہے جو دُنیا کے کتب خانوں نے پیش کی اور جسے پڑھ کر شریف انسان کا دل لرزنے لگ جاتا ہے مگر جب قرآنی کتب خانہ کو دیکھا جائے تو ہمیں اس میں یہ لکھا ہوا نظر آتا ہے وَلُوطاً آتَيْنَهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا وَّ نَجَّيْنَهُ مِنَ الْقَرْيَةِ الَّتِى كَانَتْ تَعْمَلُ الْخَبَثِتَ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَسِقِينَه وَاَدْخَلْنَهُ فِي رَحْمَتِنَا إِنَّهُ مِنَ الصَّلِحِينَ.٣٣ یعنی ہم نے لوط کو حکم دیا اور علم بھی اور ہم نے اُس کو ایسی بستی سے نجات دی جو نہایت ہی گندے کام کرتی تھی گویا بائبل تو کہتی ہے کہ اپنی بستی سے نکل کر خود لوط علیہ السلام نے ہی گندے کام کرنے شروع کر دیے تھے اور قرآن کریم کہتا ہے کہ لوظ کی قوم فسق و فجور میں مبتلاء تھی ٹوٹ کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا تھا اور وہ ہمارے نیک بندوں میں سے تھا.اس طرح قرآن کریم نے تاریخ انبیاء بھی بیان کر دی اور بائبل میں جو جھوٹی باتیں داخل ہوگئی تھیں اُن کا بھی رڈ کر دیا.ہاں قرآن کریم نے حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کے متعلق یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ عذاب کا شکار ہو گئی تھی چنانچہ فرماتا ہے فَنَجَّيْنَهُ وَأَهْلَةٌ أَجْمَعِينَ إِلَّا عَجُوزًا فِي الْغَبِرِينَ ٣٢ یعنی ہم نے لوظ کو اور اُس کے تمام اہل کو بچا لیا تھا سوائے ایک بوڑھی عورت کے جو غابرین سے تھی.غیر کے معنی عربی زبان میں حقد یعنی کینہ کے ہوتے ہیں.۳۵ پس یہ لفظ استعمال کر کے قرآن کریم نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی میں بڑھیا ہونے کے باوجود ناجائز شر باقی تھا اور وہ آپ کے متعلق کینہ اور بغض رکھتی تھی.اس کا تعلق اُن لوگوں کے ساتھ تھا جو حضرت لوط علیہ السلام کے مخالف تھے اس لئے وہ عذاب سے نہ بچائی گئی.۳۴
۷۸۲ اب دیکھو! حضرت لوط علیہ السلام بنی اسرائیل کے نبی ہیں لیکن قرآن کریم اُن کی براءت کرتا ہے.گویا دادا تو وہ کسی اور قوم کا ہے لیکن اُس کی طرف سے لڑائی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے ہیں.حضرت لوط حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے اور عرب اپنے آپ کو حضرت اسماعیل کی نسل قرار دیتے تھے.حضرت لوط سے اُن کا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن یہودی قوم کا حضرت لوط علیہ السلام سے قریبی رشتہ ہے مگر انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام پر الزام لگا دیا اور کہا وہ بد کا رتھا لیکن قرآن کریم نے کہا کہ حضرت لوط علیہ السلام ایک بزرگ اور خدا رسیدہ انسان تھے اور اُن پر یہ محض جھوٹا الزام لگایا گیا ہے.حضرت داؤد علیہ السلام کی عزت کی حفاظت پھر قرآن کریم نے حضرت داؤد علیہ السلام کی عزت کی بھی حفاظت کی تھی.آپ پر بھی بائبل یہ نہایت گندہ الزام لگاتی ہے کہ آپ نے (نعوذ باللہ ) اور یاہ کی بیوی کے ساتھ زنا کیا اور اور یاہ کو جنگ میں بھجوا کر مروا دیا اور پھر اس سے شادی کر لی چنانچہ اس میں لکھا ہے : - ایک دن شام کو ایسا ہوا کہ داؤد اپنے بچھونے پر سے اُٹھا اور بادشاہی محل کی چھت پر ٹہلنے لگا اور وہاں سے اُس نے ایک عورت کو دیکھا جو نہا رہی تھی اور وہ عورت نہایت خوبصورت تھی تب داؤد نے اس عورت کا حال دریافت کرنے کو آدمی بھیجے.انہوں نے کہا.کیا وہ العام کی بیٹی بنت سبع.حتی اور یاہ کی جورو نہیں ؟ اور داؤد نے لوگ بھیج کے اس عورت کو بلا لیا چنانچہ وہ اس کے پاس آئی اور وہ اُس سے ہم بستر ہوا.۳۶ لیکن قرآن کریم نے بائبل کے اس الزام کی تردید کی ہے اور حضرت داؤد علیہ السلام کو نیک اور خدا تعالیٰ کا پاک بندہ قرار دیا ہے چنا نچہ فرماتا ہے وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُدَ ذَا الْاَيْدِ : إِنَّةٌ أَوَّابٌ وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَى وَحُسْنَ مَابٍ ۳۸ یعنی ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو.جو بڑی طاقت کا مالک تھا.اور خدا تعالیٰ کی طرف بار بار جھکتا تھا.وہ ہمارا مقرب تھا اور اُسے ہمارے پاس بڑا اچھا ٹھکانہ ملے گا.ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیارا بندہ ایسے ظالمانہ افعال کا مرتکب نہیں ہو سکتا جو بائبل بیان کرتی ہے.عجیب بات یہ ہے کہ بائبل جس طرح یہودیوں کے ہاتھ میں ہے اسی طرح
۷۸۳ عیسائیوں کے ہاتھ میں ہے اور انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام حضرت عیسی کے دادا تھے گویا جس کو وہ خدا مانتے ہیں اُس کے دادا کو وہ زانی کہتے ہیں لیکن قرآن کریم جو حضرت مسیح علیہ السلام کی خدائی کا منکر ہے اور جس کے متعلق عیسائی کہتے ہیں کہ یہ ہمارا دشمن ہے وہ کہتا ہے کہ داؤد کے متعلق ایسے الزامات مت لگاؤ وہ تو خدا تعالیٰ کا ایک نیک اور مقترب بندہ تھا.حضرت سلیمان علیہ السلام پر بائبل کے الزامات اس طرح بائبل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے کہ : - ” جب سلیمان بوڑھا ہوا تو اُس کی جوروں نے اُس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کیا اور اُس کا دل خداوند اپنے خدا کی طرف کامل نہ تھا جیسا اس کے باپ داؤد کا دل تھا.۳۹.پھر لکھا ہے کہ : - اُس کا دل خداوند اسرائیل کے خدا سے جو اُسے دوبار دکھائی دیا برگشتہ ہوا.اسلئے خداوند سلیمان پر غضبناک ہوا کہ اس نے اسے حکم دیا تھا کہ وہ اجنبی معبودوں کی پیروی نہ کرے پر اُس نے خداوند کے حکم کو یاد نہ رکھا.۴۰۰ گویا بائبل حضرت سلیمان علیہ السلام پر یہ الزام لگاتی ہے کہ وہ اپنے خدا سے برگشتہ و گئے تھے اور اس طرح انہوں نے کفر کیا تھا.قرآن کریم کی تردید لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب ملکہ سبا حضرت سلیمان علیہ السلام کے بُلانے پر اُن کے پاس آئی تو حضرت سلیمان نے اُسے غیر معبودوں کی عبادت کرنے سے روکا اسے گویا قرآن تو یہ کہتا ہے کہ ملکہ سبا جو اُن کی آخری بیوی تھی اُسے بھی انہوں نے غیر معبودوں کی عبادت کرنے سے روکا لیکن بائبل کہتی ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے کہنے پر خدا وند تعالیٰ سے برگشتہ ہو گئے تھے یہ کتنا بڑا فرق ہے جو بائبل اور قرآن میں پایا جاتا ہے.اسی طرح قرآن کریم حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ وَلَكِنَّ الشَّيْطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ.یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بت پرستی کی تھی اور وہ کافر
۷۸۴ ہو گئے تھے وہ غلط کہتے ہیں بلکہ در حقیقت ایسا الزام لگانے والے خود کا فر ہیں کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے نبی پر اتنا بڑا اتہام لگاتے ہیں.پس قرآن کریم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی صحیح تاریخ بیان کر دی ہے حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا نہیں تھے بلکہ حضرت داؤد کے بیٹے ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح علیہ السلام کے دادا تھے.یا بائبل میں اُنکا صحیفہ شامل ہونے کی وجہ سے وہ بنی اسرائیل کے بزرگ تھے اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے تھے لیکن قرآن کریم اُن کی عزت کی حفاظت کرتا ہے اور خود اُن کے اپنے پوتے پڑپوتے انہیں خدا تعالیٰ سے برگشتہ اور بُت پرست قرار دیتے ہیں.حضرت ہارون علیہ السلام پر بائبل کے الزامات پھر قرآن کریم نے حضرت ہارون علیہ السلام کی عزت کی بھی حفاظت کی.بائبل میں لکھا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام طور پہاڑ پر تشریف لے گئے اور اُن کے بعد اُن کی قوم نے بچھڑا بنا لیا تو حضرت ہارون علیہ السلام بھی اُن کے اِس فعل میں اُن کے ساتھ شریک ہو گئے تھے چنانچہ لکھا ہے :- اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اترنے میں دیر لگائی تو وہ ہارون کے پاس جمع ہو کر اُس سے کہنے لگے کہ اُٹھ ہمارے لئے دیوتا بنا دے جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس مردِ موسیٰ کو جو ہم کو ملک مصر سے نکال کر لایا، کیا ہو گیا.ہارون نے اُن سے کہا.تمہاری بیویوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں اُن کو اُتار کر میرے پاس لے آؤ.چنا نچہ سب لوگ اُن کے کانوں سے سونے کی بالیاں اُتارا تار کر اُن کو ہارون کے پاس لے آئے اور اُس نے اُن کو ان کے ہاتھوں سے لے کر ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی.تب وہ کہنے لگے.اے اسرائیل! یہی تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کر لایا.۴۳ غرض بائبل کہتی ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہاڑ سے آنے میں دیر ہو گئی تو اُنکی قوم حضرت ہارون کے پاس گئی اور کہا کہ موسی ہمیں خدا کی باتیں سنا یا کرتا تھا لیکن پتہ نہیں وہ کہاں چلا گیا ہے اب ہم خدا کے بغیر رہ گئے ہیں.تو اُٹھ اور ہمارے لئے خدا بنا جو
۷۸۵ ہمارے آگے آگے چلے.یہودیوں کی ایک قدیم رسم ہندوؤں کی طرح اُن میں بھی ایک رواج تھا کہ جب وہ کہیں جاتے تو بت سامنے رکھ لیتے.میں نے خود دیکھا ہے میرے ماموں میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم کی شادی تھی اُنکے خُسر سکندر راؤ میں رہتے تھے، ہمیں بھی شادی میں اُن کے ساتھ گیا تھا.وہاں ہندوؤں کا کوئی جلوس نکل رہا تھا میں نے دیکھا کہ ہندوؤں نے ایک رتھ میں بُت رکھا ہوا ہے اور سب لوگ اُس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں.یہودی بھی چونکہ بُت پرست قوم سے نکل کر آئے تھے اس لئے اُن میں بھی غالباً یہی دستور تھا کہ وہ بُت کو چلتے وقت آگے آگے رکھتے تھے اور اس طرح خیال کرتے تھے کہ اُن پر عذاب نازل نہیں ہوگا.چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیر ہوئی تو بائبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل حضرت ہارون علیہ السلام کے پاس گئے اور انہوں نے سونے کا ایک بچھڑ اڈھال کر بنایا اور کہا.اے بنی اسرائیل ! یہی تمہارا خدا ہے جو تمہیں مصر سے نکال کر لایا تھا.نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِکَ.حالانکہ حضرت ہارون علیہ السلام خدا تعالیٰ کے نبی تھے اور وہ اتنا بڑا شرک کر ہی نہیں سکتے تھے.پھر وہ اس بات کو بھی جانتے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر لائے تھے تو آپ نے فرعون سے بحث کی تھی کہ میں اپنی قوم کو بتوں کی پرستش سے ہٹا کر خدائے واحد کی عبادت کی طرف لانا چاہتا ہوں.اتنے بڑے واقعہ کی موجودگی میں وہ یہ کہہ بھی رکس طرح سکتے تھے کہ یہی وہ تمہارا خدا ہے جو تمہیں ملک مصر سے نکال کر لایا تھا.بچھڑے کیلئے قربان گاہ بنانا پھر لکھا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے بچھڑے کے لئے ایک قربان گاہ بنائی اور انہیں کہا کہ یہ بچھڑا ہی تمہارا خدا ہے.بائبل کے الفاظ اس بارہ میں یہ ہیں :- یہ دیکھ کر ہارون نے اُس کے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور اُس نے اعلان کر دیا کہ کل خداوند کے لئے عید ہوگی.اور دوسرے دن صبح سویرے اُٹھ کر انہوں نے قربانیاں چڑھائیں اور سلامتی کی قربانیاں گزرا نیں پھر اُن لوگوں نے بیٹھ کر کھایا پیا اور اُٹھ کر کھیل کود میں لگ گئے.۲۴ قرآن کریم کا اعلان کہ بچھڑ ا سامری نے بنایا تھا گویا انہوں نے خدا تعالیٰ کے دوبارہ مل جانے پر بڑی
ZAY خوشی منائی لیکن قرآن کریم کہتا ہے یہ بات بالکل غلط ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے بچھڑا بنایا تھا.وہ ہارون نے نہیں بلکہ سامرکی نے بنایا تھا اور نہ ہارون علیہ السلام نے تو بڑے زور سے اپنی قوم کو شرک سے روکا تھا اور توحید پر قائم رہنے کی تلقین کی تھی.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے.وَلَقَدْ قَالَ لَهُمُ هَرُونُ مِنْ قَبْلُ يقَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمُ بِهِ ، وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَاَطِيْعُوا أَمْرِی ۲۵ یعنی حضرت ہارون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی سے قبل اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم ! بچھڑے کے ذریعہ تمہیں آزمائش میں ڈالا گیا ہے.اگر حضرت ہارون علیہ السلام نے خود بچھڑا بنایا ہوتا تو ایسا کیوں کہتے ؟ انہوں نے کہا إِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِى تمہارا رب رحمن ہے.اس بچھڑے نے تمہاری کیا مدد کرنی ہے وہ تو پیدائش سے پہلے بھی تمہاری مدد کرتا رہا ہے.چنانچہ دیکھ لو انسان بعد میں پیدا ہوا ہے اور پانی پہلے پیدا ہو چکا تھا.اسی طرح اور ہزاروں اشیاء ہیں جو پیدائش سے پہلے صفت رحمانیت کے ماتحت پیدا ہو چکی تھیں پس تم میری اتباع کرو میرے حکم کے پیچھے چلو، شرک مت کرو.انسائیکلو پیڈیا برٹنی کا کا اعتراف حقیقت قرآن کریم میں یہ بیان کردہ حقیقت اتنی واضح ہے کہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جس کو انگلستان کے بڑے بڑے عالموں نے مل کر لکھا ہے اُس میں بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ہارون علیہ السلام کے شرک کرنے کا واقعہ غلط ہے اور اس سے مضمون نگا ر استدلال کرتا ہے کہ بائبل میں دوسرے لوگوں نے اور بھی کئی باتیں ملادی ہیں اور کئی واقعات اُن کی طرف سے بڑھا دیئے گئے ہیں.اب دیکھو یہ کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن کریم ایک تاریخ بیان کرتا ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کے باپ کو بری قرار دیتا ہے حالانکہ وہ عیسائی اور یہودی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( نَعُوذُ باللهِ ) کذاب کہتے ہیں.غرض قرآن کریم ایک گالی دینے والے کے باپ کی براءت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ مشرک نہیں تھا مشرک ایک اور شخص تھا جس کا نام سامری تھا.حضرت مسیح علیہ السلام کی تاریخ پھر حضرت مسیح علیہ السلام کی تاریخ بھی قرآن کریم نے بیان کی ہے.انجیل میں تو صرف اتنا آتا ہے کہ:- و مسیح اُن کے دیکھتے ہوئے اوپر اُٹھایا گیا اور بدلی نے اُسے اُن کی
ZAZ نظروں سے چُھپا لیا.‘۴۷ ۴۸ مگر کیا بدلی کے پیچھے چلے جانے سے مراد آسمان پر چلے جانا ہوتا ہے؟ ہزاروں آدمی روزانہ پہاڑوں پر بدلی کے پیچھے جاتے اور پھر واپس آ جاتے ہیں اور کوئی شخص اُن کے متعلق نہیں کہتا کہ وہ آسمان پر چلے گئے ہیں.غرض یہ ایک نہایت ہی غیر معقول بات ہے جو انجیل نے بیان کی ہے مگر قرآن کریم اس سارے واقعہ کو ایک علمی اور تاریخی رنگ دیتا ہے اور اُن کے بدلی میں نظروں سے غائب ہونے کے بعد کی تاریخ بھی بیان کرتا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَاوَيُنْهُمَا إلَى رَبُوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍو مَعِينٍ ^ یعنی واقعہ صلیب کے بعد ہم نے حضرت مسیح اور اُس کی ماں کو ایک اونچی جگہ یعنی پلیٹو ( PLATEAU) پر پناہ دی.ربوہ سے مراد پہاڑی نہیں بلکہ اونچی جگہ ہے.ہم نے ربوہ کا نام بھی جو احمدیت کا موجودہ مرکز اور ضلع جھنگ میں واقع ہے اسی لئے ربوہ رکھا ہے کہ یہ اونچی جگہ ہے.غرض قرآن کریم بتاتا ہے کہ ہم نے مسیح اور اُس کی ماں کو ایک ایسی جگہ پناہ دی جو اونچی تھی اور بہتے ہوئے پانیوں والی تھی اور ٹھہر نے کے قابل تھی یعنی وہ جگہ سطح زمین سے بلند تھی اور وہاں چشمے بھی بہتے تھے.چنانچہ قدیم ہندوؤں اور بدھوں کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شہزادہ یوز آسف جو خدا تعالیٰ کا نبی تھا مغرب سے آیا اور کشمیر کی پہاڑیوں میں رہا اور اُس کو کے ہاتھوں اور پیروں پر زخم تھے.واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا تو آپ کے ہاتھوں اور پاؤں پر میخیں لگانے کی وجہ سے زخم ہو گئے تھے جن کو مندمل کرنے کے لئے ایک مرہم ایجاد کی گئی.جس کا نام طب کی مختلف کتابوں میں مرہم رسل یا مرہم حوار بین بیان کیا گیا ہے.پھر کہیں جا کر وہ زخم درست ہوئے اس کے بعد آپ کشمیر کی طرف آگئے.چنانچہ افغانستان کے بارڈر پر جو قبائل بستے ہیں وہ اب تک یہی کہتے ہیں کہ ہم بنی اسرائیل ہیں گویا مسیح کے حواری.متی نے انجیل میں ایک نامکمل بات بیان کر دی.لیکن قرآن کریم نے اُن حالات کو مکمل کر دیا اور بتا دیا کہ صرف اتنی بات نہیں کہ وہ واقعہ صلیب کے بعد بدلیوں میں چُھپ کر غا ئب ہو گئے تھے بلکہ صلیب سے بچنے کے بعد وہ کشمیر میں آگئے تھے اور اسرائیلی قبائل کو ایک لمبے عرصہ تک تبلیغ کرتے رہے.تاریخ ملل قدیمہ پھر دنیا میں تاریخ ملل قدیمہ پر بھی بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں بہت کچھ رطب و یابس بھرا پڑا ہے مگر قرآن کریم اس تاریخ کو
۷۸۸ بھی صحیح رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.چنانچہ اس کی مثال کے طور پر وہ یہ بیان کرتا ہے کہ فرعون نے ایک دفعہ ہامان سے کہا کہ فَاَوْ قِدْلِی يَهَا مَنُ عَلَى الطَّيِّنِ فَاجْعَلُ لِي صَرْحًا لَّعَلَّى اَطَّلِعُ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَذِبِينَ ٢٩ یعنی اے ہامان! تو اپنے پتھیروں کو لگا دے تا کہ وہ اینٹیں تیار کریں ، پھر اُن اینٹوں کو پکوا کر اونچا محل تیار کرو شاید میں اُس محل پر کھڑے ہو کر موسی کے خدا کو دیکھ سکوں اور میں تو اُسے جھوٹا ہی سمجھتا ہوں.اس آیت میں مصریوں کے ایک قومی عقیدہ کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ مرنے کے بعد رُوحیں آسمان پر چلی جاتی ہیں اور پھر اونچی جگہ پر اُترتی ہیں.اس اثر کے ماتحت فرعون نے خیال کیا کہ خدا تو ہے ہی نہیں.موسی جو کہتا ہے کہ خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ روحوں سے باتیں کرتا ہے.میں بھی ایک اونچا محل تیار کر کے اُن روحوں تک جاؤں تا حقیقت کا پتہ لگ سکے.چنانچہ اُس نے ہامان کو حکم دیا کہ وہ ایک اونچا محل تیار کرائے تا کہ وہ اُس کی چوٹی پر چڑھ کر موسی کے خدا کی حقیقت معلوم کر سکے.غرض اس آیت میں مصریوں کے ایک قدیم عقیدہ کا ذکر کیا گیا ہے جس کو بڑی مشکل سے اب کہیں آثار قدیمہ والوں نے معلوم کیا ہے.مصری اپنی ان روایات کی وجہ سے اونچی اونچی عمارتیں بناتے تھے جیسے اہرام مصر ہیں اور جن میں سے ایک ابوالہول شیر کی شکل کا ہے.آخر ان بلند عمارتوں کے بنانے کی کوئی وجہ ہونی چاہئے.وہ وجہ یہی تھی کہ وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ مُردوں کی رُوحیں آسمان پر چلی جاتی ہیں اور بعد میں اونچی جگہوں پر اُترتی ہیں اور چونکہ نیچی جگہوں میں اُترنے میں دیر لگتی ہے اس لئے وہ لوگ اپنی عمارتوں کو اونچا رکھتے تھے اور اس طرح چاہتے تھے کہ اُن کے اسلاف کی روحیں دُنیا میں اُن کے پاس آتی رہیں.پھر وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ رُوحیں کھاتی پیتی ہیں.چنانچہ جب وہ مُردوں کو دفن کرتے تھے تو اُن کی قبروں کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی رکھتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ جب روحیں زمین پر آتی ہیں تو انہیں یہاں آرام بھی کرنا چاہئے اور سونا بھی چاہئے اور یہ روایت اب تک اُن میں چلی آتی ہے.چنانچہ پاکستان کا ایک ایمبیسیڈر (AMBASSADOR ) وہاں گیا تھا.اُس نے ہمارے ایک دوست سے بیان کیا کہ مصر میں ہماری ایمبیسی (EMBASSY ) کا ایک آدمی مر گیا.ہم نے مصری حکومت کو لکھا کہ ہمیں ایک قبر کی جگہ دیدیں تو مصری حکومت نے
۷۸۹ کہا ہم ذرا انتظام کر لیں.چنانچہ انہوں نے ایک بڑا کمرہ بنایا اُس میں کھانے پینے کا سامان رکھا اور ایک ریڈیو رکھا اور پھر کہا اب آپ اپنے آدمی کی نعش کو دفن کرنے کے لئے آئیں.وہ ایمبیسیڈرہنس کر کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے ابھی تک مصریوں پر رُوحوں کا قبضہ ہے.قرآن کریم میں تربیت کے اصول پھر تربیت کا مضمون ایسا ہے جس پر بڑے بڑے علماء اور فلاسفروں نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں کیونکہ تربیت کے بغیر دنیا میں نہ اولا د ترقی کر سکتی ہے اور نہ قوم ترقی کر سکتی ہے.قرآن کریم نے بھی تربیت کے اصول نہایت عمدگی سے بیان کئے ہیں.چنانچہ سب سے پہلے اولاد کی تربیت کا سوال آتا ہے اولاد کی تربیت کے متعلق قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے کا واقعہ آتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں.اس پر انہوں نے اپنے بیٹے کو حکم نہیں دیا کہ میں نے خواب میں یوں دیکھا ہے اس لئے تم ذبح ہونے کے لئے تیار ہو جاؤ بلکہ آپ نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا اے میرے بیٹے ! میں نے رات کو خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں.فَانْظُرُ مَا ذَا تَرَى اَب تُو سوچ کر مجھے اپنی رائے دے.یہ نہیں کہا کہ مجھے خواب آئی ہے تو لیٹ جا.تا کہ میں تجھے ذبح کروں بلکہ فرمایا کہ تو مجھے اپنی رائے دے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کے اندر خود داری کی رُوح پیدا کرنا قرآنی اصول ہے.جو لوگ اپنی اولاد کے اندر خودداری کی رُوح پیدا نہیں کرتے وہ اپنی اولاد کو ہی نہیں بلکہ قوم کو بھی ترقی سے روک دیتے ہیں کیونکہ قوم کی آئندہ ترقی اولاد کے اندر خودداری کی رُوح قائم رکھنے پر منحصر ہے.ڈسپلن (DISCIPLINE) پیدا کرنا اور چیز ہے لیکن خود داری کی رُوح بالکل اور چیز ہے.خودداری کے نہ ہونے کے یہ معنے ہیں کہ فطرت کو ماردیا گیا ہے.اور ڈسپلن کے معنی یہ ہیں کہ خودداری کو منظم کیا جائے.اور اسلام ڈسپلن کے خلاف نہیں وہ یہ چاہتا ہے کہ ڈسپلن قائم کیا جائے مگر وہ اس بات کے خلاف ہے کہ خودداری کی رُوح کو کچل دیا جائے.اگر خود داری کی رُوح کو کچل دیا جائے تو قوم تباہ ہو جاتی ہے.چنانچہ اس مضمون پر ( قادیان میں) میں نے ایک لیکچر دیا تھا.بعض لوگ باتوں کو بڑی عمدگی سے یادرکھتے ہیں.اگلا جلسہ آیا تو ایک شخص اپنا بیٹا ساتھ لایا اور اُس کے متعلق کہنے لگا کہ آپ نے یہ بات پیش کی ہے.میں نے کہا.آپ اس بچے کو آپ کہہ رہے ہیں.اُس نے کہا آپ نے ہی تو ایسا کرنے کی تلقین کی تھی.آپ نے کہا تھا کہ بچوں کے ساتھ ادب سے بات
290 کرنی چاہئے کیونکہ بچے ماں باپ کی نقل کرتے ہیں.چنانچہ آپ نے انگریزوں کی مثال بھی دی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو مدر (MOTHER) کہتے ہیں تا کہ بچہ بھی مدر کہنے لگ جائے.اُن کا نقطہ نگاہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو وائف (WIFE) کہیں گے تو چونکہ بچہ ماں باپ کی نقل کرتا ہے اس لئے وہ بھی اپنی ماں کو وائف کہے گا.پس وہ اپنی بیوی کو مدر (MOTHER) کہتے ہیں تا کہ بچے کے دل میں بھی اپنے ماں باپ کے متعلق ادب کا جذبہ پیدا ہو.قرآن کریم میں جمہوریت کے اصول پھر جمہوریت ایک ایسا علم ہے جس پر ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں کیونکہ اس زمانہ میں جب بادشاہت ختم ہونے لگی تو جمہوریت پر زور دینا شروع کر دیا گیا.قرآن کریم نے بھی اس کا ذکر فرمایا ہے.جمہوریت کا بڑا اصل ، مشورہ ہے.دیکھو ہر نبی اپنی امت کا افسر ہوتا ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کے سردار ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ اگر موسی اور عیسی بھی میرے زمانہ میں زندہ ہوتے تو اُن کو بھی میری اتباع کرنی پڑتی.اللہ اب دیکھو جس نبی کی اتباع کی ضرورت دوسرے انبیاء کو بھی ہے اُس کو مشورہ کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے.مگر خدا تعالیٰ قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے کہ شَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ - ۵۲ یعنی اہم معاملات میں اپنی جماعت سے مشورہ کرلیا کر اِسی طرح مؤمنوں کی ایک صفت قرآن کریم میں یہ بیان کی گئی ہے کہ آمُرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ ۵۳ وہ جب کبھی کوئی کام کرتے ہیں تو مشورہ سے کرتے ہیں.لیکن بعض لوگوں نے فتنہ پیدا کرنے کے لئے اس سے بھی ناجائز فائدہ اُٹھایا ہے.چنانچہ خارجیوں نے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغاوت کی تو انہوں نے اس آیت کو ایک چیلنج کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا.انہوں نے کہا ہمیں کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں.اَلْحُكْمُ لِلَّهِ وَالَا مُرُ شُورَى بَيْنَنَا ۵۲ حکم تو خدا تعالیٰ کا چلے گا اور ہم آپس میں مشورہ کر کے حکومت کریں گے.حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا تو آپ نے فرمایا.كَلِمَةُ حَقِّ اُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ ۵۵ یعنی بات تو بڑی سچی ہے لیکن اسے بڑی نیت سے استعمال کیا جا رہا ہے.غرض مؤمنوں کا یہ طریق ہے کہ وہ ہر اہم معاملہ کو با ہمی مشورہ سے طے کرتے ہیں اور ڈکٹیٹر شپ سے کام نہیں لیتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ سے مشورہ لینا رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کا اپنا طریق عمل یہ تھا کہ آپ
۷۹۱ ہر اہم معاملہ میں صحابہ سے مشورہ کیا کرتے تھے.جنگ بدر کے موقع پر آپ نے مشورہ لیا تو صحابہ میں سے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا يَارَسُولَ اللہ ! ہمیں موسی کی جماعت کی طرح نہ سمجھیں.جنہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ فَاذْهَبُ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّاهَهُنَا قَاعِدُونَ.۵۶.جاتو اور تیرا رب دونوں لڑتے پھرو.ہم تو یہیں بیٹھیں گے بلکہ يَا رَسُولَ اللهِ ! اگر جنگ ہوئی تو ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے.اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہو انہیں آتا آپ تک نہیں پہنچ سکے گا.۵۷ پھر عرب پانی سے بہت ڈرتے تھے مگر حضرت مقداد نے کہا اگر آپ ہماری قوم کو حکم دیں کہ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دو تو يَارَسُولَ اللهِ ! ہم فورا اپنے گھوڑے سمندر میں ڈال دیں گے اور اس بات کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کرینگے کہ ہم بچتے ہیں یا نہیں بچتے.۵۸ پھر جنگِ اُحد کے موقع پر بھی آپ نے صحابہ کو اکٹھا کیا اور اپنی خواب کا ذکر کیا کہ آپ نے گائیں ذبح ہوتی دیکھی ہیں جس کی تعبیر یہ ہے کہ کوئی ابتلا ء پیش آئے گا.مگر باوجود اس خواب کے آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا.آپ کا خیال تھا کہ اگر مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کی گئی تو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہے.لیکن صحابہ کے مشورہ پر آپ مدینہ سے باہر نکل پڑے اور لڑائی ہوئی اور نقصان بھی ہوا اور اس طرح آپ کی خواب پوری ہو گئی.۵۹ ملکہ سبا کا ذکر اس طرح قرآن کریم میں ملکہ سبا کا ذکر آتا ہے.ملکہ سبا گومشرکہ تھی لیکن اُس کے واقعہ کا ذکر کر کے مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ کوئی کام نہیں کرتی تھی جب تک کہ ملک کے سرداروں کے ساتھ مشورہ نہیں کر لیتی تھی چنانچہ جب اُس کے پاس حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط پہنچا تو اُس نے کہا.یا يُّهَا الْمَلَوُا افْتُونِي فِي أَمْرِى مَا كُنتُ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتَّى تَشْهَدُون.یعنی اے میری قوم کے سردارو! میری اس پیش آمدہ مصیبت میں مشورہ دو کیونکہ میں کوئی کام نہیں کرتی جب تک تم میرے پاس حاضر ہو کر مشورہ نہ دو.ان آیات میں مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ جب ایک کا فرعورت بھی حکومتی معاملات میں احتیاط سے کام لیتی تھی تو تم تو مسلمان ہو اور تمہارے لئے قرآن کریم میں حکم بھی ہے کہ مشورہ کیا کرو.پس تمہیں بھی ہر معاملہ میں باہم مشورہ کرنا چاہئے.
۷۹۲ فرعون کا عمائد قوم سے مشورہ طلب کرنا اسی طرح قرآن کریم فرعون کا ذکر کرتا ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ ایک جابر بادشاہ تھا مگر اُس کی حکومت میں بھی کوئی نہ کوئی رنگ جمہوریت کا پایا جاتا تھا.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فیصلہ کرنے کے لئے اُس نے اپنے سرداروں کو جمع کیا اور انہیں کہا فَمَاذَا تَأْمُرُونَ لا تم موسی اور ہارون کے بارہ میں کیا مشورہ دیتے ہو؟ یعنی ایک جابر بادشاہ جو تلوار لے کر لوگوں کی گردنیں اڑا دیتا تھا وہ بھی کہتا ہے کہ اے میری قوم کے لوگو! مجھے مشورہ دو کہ میں موسیٰ کے ساتھ کیا معاملہ کروں.چنانچہ درباریوں نے کہا.اَرْجِهُ وَأَخَاهُ وَابْعَثْ فِي الْمَدَائِنِ حَشِرِينَ " موسی اور ہارون کو کچھ مدت تک ڈھیل دو.اور اس مدت میں شہروں کی طرف آدمی بھجوا ؤ جو قابل آدمیوں کو مقابلہ کے لئے جمع کریں.غرض قرآن کریم نے فرعون جیسے جابر بادشاہ کا ذکر کر کے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ حکومت بغیر مشورہ کے نہیں ہونی چاہئے.جب کا فرحکومتیں بھی اپنے معاملات میں مشورہ لیتی ہیں تو مسلمانوں کو تو بدرجہ اولیٰ اِس کا پابند ہونا چاہئے.جب وہ لوگ جنہیں مشورہ کا حکم نہیں دیا گیا مشورہ لیتے ہیں تو جن لوگوں کو مشورہ کا حکم دیا گیا ہے وہ مشورہ کیوں نہ لیں.قرآن کریم میں سیاست کے اصول پھر سیاست کے متعلق بھی کئی کتا میں لکھی گئی ہیں اور قرآن کریم نے بھی اس کا ذکر کیا ہے.سیاست یہی ہوتی ہے کہ مناسب موقع پر مناسب کام کیا جائے اور موقع کے مطابق لوگوں سلوک کیا جائے.تاریخ میں لکھا ہے کہ جنگ حنین کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں میں انعامات تقسیم کئے تو ایک شخص نے اعتراض کیا کہ هَذِهِ الْقِسْمَةُ مَاعُدِلَ فِيْهَا وَمَا أُرِيدَ بِهَا وَجُهُ اللهِ ، یعنی یہ ایسی تقسیم ہوئی ہے کہ اس میں انصاف سے کام نہیں لیا گیا اور نہ اس میں خدا تعالیٰ کی رضاء کو مد نظر رکھا گیا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ بڑے غیور تھے.وہ یہ اعتراض سنکر فوڑا تلوار سونت کر کھڑے ہو گئے اور عرض کیا.يَا رَسُولَ اللهِ! مجھے اجازت دیکھیئے کہ میں اِس منافق کی گردن اُڑا دوں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنْ أَقْتُلَ أَصْحَابِي - یعنی میں اس بات سے خدا تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ لوگ میرے متعلق آپس میں یہ باتیں ۶۴
۷۹۳ کرتے پھریں کہ یہ اپنے ساتھیوں کو مارتا پھرتا ہے.یعنی کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے غیر قوموں میں یہ چر چا شروع ہو جائے کہ یہ لوگ ظلم کر رہے ہیں.صحابہ تو حقیقت جانتے تھے لیکن مصر اور قسطنطنیہ کے لوگوں کو اس کا کیا علم تھا، وہ تو یہ باتیں کر سکتے تھے کہ یہ لوگ ظلم کر رہے ہیں اس لئے آپ نے فرمایا کہ کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے غلط قسم کا چرچا شروع ہو جائے.بیشک مسلمان اس کے متعلق کوئی بات نہ کریں لیکن اگر رومی یا ایرانی ایسی باتیں کریں تو وہ بھی بُری بات ہے.اس سے انسان کی بدنامی ہو جاتی ہے.پس آپ نے اُس شخص سے درگزر کیا اور اُسے معاف فرما دیا.قرآن کریم میں تمدن کے اصول پھر قرآن کریم میں تمدن کے اصولوں کو بھی بیان کیا گیا ہے.چنانچہ تمدن کے بڑے اصولوں میں سے ایک اصل یہ ہے کہ اگر کوئی مجلس ہو رہی ہو تو کوئی انسان اس سے بلا اجازت نہ جائے.قرآن کریم اس بارہ میں ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ إِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ - ۲۵ یعنی وہی لوگ مؤمن کہلا سکتے ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور جب کسی قومی کام کے لئے رسول کے پاس بیٹھے ہوں تو وہ نہیں جاتے جب تک اُس سے اجازت نہ لے لیں اس لئے میں نے حکم دیا ہوا ہے کہ مجلس مشاورت کے اجلاس سے کوئی نمائندہ حوائج ضروریہ وغیرہ کے لئے جانا چاہے تو وہ اجازت لیکر جائے.انگریزوں کا طریق یہ ہے کہ اگر کوئی شخص پارلیمنٹ سے جائے تو وہ ایک اور آدمی کو ساتھ لے کر جائے مگر یہ غلط طریق ہے.صحیح طریق یہی ہے کہ اگر کوئی باہر جانا چاہے تو سپیکر سے اجازت لے لے.یا اگر وہ دیکھے کہ میری غیر حاضری کی وجہ سے میری پارٹی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو وہ باہر ہی نہ جائے.قرآن کریم میں تاریخ تمدن کا ذکر اسی طرح کتابوں کا ایک اور سلسلہ بھی ہے اور وہ تاریخ تمدن کا سلسلہ ہے.قرآن کریم میں اس تاریخ کا بھی ذکر آیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ تمدن کن دوروں میں سے گزرا ہے.اور کس طرح اس کا ارتقاء عمل میں آیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَحَمَلْنَهُ عَلَى ذَاتِ पुष الْوَاحِ وَّ دُسُرٍ یعنی ہم نے نوح کو تختوں اور کیلوں سے بنی ہوئی کشتی پر سوار کیا.اس آیت میں قرآن کریم
۷۹۴ نے کشتیوں کی ایک لمبی تاریخ کی طرف اشارہ کیا ہے.چنانچہ کشتیوں کی تاریخ بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ پہلے زمانہ میں لوگ کشتیاں بنانا نہیں جانتے تھے وہ ایک بڑا سا درخت لیکر اُس کو درمیان سے کھود لیتے تھے اور اس گڑھے میں بیٹھ کر درخت کو پانی میں ڈال دیتے تھے.اب تک بغداد میں ایسی کشتیاں پائی جاتی ہیں.چنانچہ پاکستان بننے سے قبل ایک ہندوستانی وہاں گیا تھا اُس نے اُس کشتی پر بہت مذاق اُڑایا اور کہا کہ چونکہ وہ کشتی نیچے سے گول ہوتی ہے اس لئے جب میں اُس پر بیٹھا تو ایک طرف حرکت کرنے سے دوسری طرف سے کشتی اُٹھ جاتی تھی اور چکر کھانے لگتی تھی اس پر میں نے اُس آدمی سے جو میرے ساتھ تھا کہا.اے شیخ! میری کشتی تو چکر کھا رہی ہے.اُس نے سمجھا کہ یہ کہتا ہے اور چکر دو.چنانچہ اُس نے کشتی کو اور چکر دینا شروع کر دیا اور جب کشتی کنارہ پر لگی تو میں بیہوش ہو کر گر پڑا.ہوش آنے پر میں نے کہا تو نے تو بڑی حماقت کی ہے.اُس نے کہا آپ نے تو خود ہی کہا تھا کہ کشتی کو اور چکر دو اس میں میرا کیا قصور ہے تو وہ کشتیاں اب بھی پائی جاتی ہیں.پھر آہستہ آہستہ جو ترقی ہوئی تو تختوں والی کشتیاں بن گئیں.اُس وقت سریش وغیرہ کے ساتھ تختوں کو جوڑا جاتا تھا.لیکن وہ تختے بعض دفعہ کھل بھی جاتے تھے.پھر کیل نکلے تو اُن کے ساتھ کشتیاں جوڑی جانے لگیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ تک تمدن اتنا ترقی کر چکا تھا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی جماعت کو ایسی کشتی میں سوار کیا جو ذَاتِ الْوَاحِ وَّ دُسُرٍ ، تھی.کھدا ہوا درخت نہیں تھا بلکہ وہ کشتی با قاعدہ بنی ہوئی تھی اور اُس میں میخیں بھی لگی ہوئی تھیں.غرض اس آیت میں قرآن کریم نے کشتیوں کی ایک لمبی تاریخ کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ حضرت نوح یہ السلام کے زمانہ میں کیلوں والی کشتیاں بننے لگی تھیں.بیچ میں ایک ایسا زمانہ بھی آیا کہ گیلیوں ۷ کو باندھ کر چلایا کرتے تھے.مجھے یاد ہے کہ اس قسم کی کشتیاں دریائے بیاس میں بھی چلا کرتی تھیں مگر اُن میں یہ نقص ہوتا تھا کہ چھوٹی جگہوں میں آ کر وہ پھنس جاتی تھیں.قیدیوں کیلئے خوراک کا انتظام اسی طرح اس کی ایک اور مثال سورۃ یوسف سے بھی ملتی ہے.حضرت یوسف علیہ السلام جب قید میں تھے تو آپ کے دو ساتھی آپ سے خوابوں کی تعبیر دریافت کرنے کے لئے آئے.آپ نے انکو وعظ کرتے ہوئے فرمایا لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَنِةٍ إِلَّا نَبَّاً تُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَنْ يَّاتِيَكُمَا.١٨ یعنی اس وقت کا کھانا ابھی نہیں آئے گا کہ میں تمہیں اس کے آنے سے پہلے اس خواب
۷۹۵ کی حقیقت بتا دونگا.اس سے ظاہر ہے کہ فراعنہ مصر کے زمانہ میں خصوصیت سے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں قیدیوں کو قید خانہ میں کھانا دیا جاتا تھا.جو لوگ پھانسی کے مستحق ہوتے تھے انہیں بھی کھانا دیا جاتا تھا.اسلامی خلفاء کے زمانہ میں بھی یہی طریق رائج رہا.لیکن افسوس کہ درمیانی عرصہ میں مسلمان اسے بھول گئے اور اسلامی ممالک میں یہ رواج ہو گیا کہ قیدیوں کو جیل خانہ سے باہر بھیک مانگنے کے لئے بھیجدیا جاتا تھا.مجھے ایک احمدی افسر نے بتایا کہ وہ ایسے ہی ملک میں قید ہو گئے تھے کہ ظہر کے بعد ہمیں قید خانہ سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور کہا جاتا کہ بھیک مانگ لاؤ.جب ہم بھیک مانگ لاتے تو اچھا اچھا کھانا جیلر نکال لیتا اور خراب کھانا ہمیں دے دیتا.بہر حال تمدن کے لحاظ سے ضروری ہے کہ قیدیوں کو بھی کھانا دیا جائے بلکہ اب تو لوگوں کی یہ رائے ہو گئی ہے کہ اگر زمیندار چاہیں کہ قیدی اُن کے کھیت میں کام کریں تو انہیں چھوڑ دینا چاہئے.قید خانہ میں بند رہنے کی وجہ سے رشتہ داروں کی محبت کم ہو جاتی ہے اور اخلاق کمزور ہو جاتے ہیں.لوگ اسلام پر غلامی کا اعتراض کرتے ہیں لیکن اسلام کا یہ قانون ہے کہ جنگی قیدی کو کسی کے سپرد کر دو کہ وہ اُس سے کام لے اور باہر رہنے کی وجہ سے اُس قیدی کے رشتہ دار اُ سے ملتے رہیں اور اُسے یہ محسوس نہ ہو کہ وہ دنیا سے بالکل الگ ہو گیا ہے.قرآن کریم میں دہریت کا رڈ اب میں بتاتا ہوں کہ قرآن کریم میں دہریت کا رڈ بھی موجود ہے.دہریت کے متعلق قریب زمانہ میں امریکہ اور یورپ کے ممالک میں بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں لیکن قرآن کریم نے اس کا رڈ فرمایا ہے.اور بتایا ہے کہ یہ خیال کرنا کہ اس دُنیا کا کوئی خالق نہیں بالکل غلط بات ہے چنانچہ فرمایا تَبَارَكَ الَّذِي بيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ هُ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُة الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفْوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ : هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورِه ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّ تَيْنِ يَنْقَلِبُ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ ١٩ ط یعنی بہت برکت والا ہے وہ خدا جس کے ہاتھ میں بادشاہت ہے اور جو ہر چیز پر قادر ہے اُس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے تا کہ دیکھے کہ تم میں سے کون اچھا عمل کرتا ہے اور وہ غالب اور بخشنے والا ہے.اُس نے ساتوں آسمان بھی پیدا کئے ہیں اور اُن میں موافقت اور
۷۹۶ مطابقت بھی پیدا کی ہے.اے مخاطب ! تو کوئی اختلاف اللہ تعالیٰ کی پیدائش میں نہیں دیکھے گا.پس تو اپنی آنکھ کو لوٹا ، کیا تجھے کوئی رخنہ یا کمی نظر آتی ہے.پھر دوبارہ اپنی نظر کوکو ٹا کر دیکھ تیری نظر تھکی ہوئی اور ماندہ ہو کر کوٹے گی اور خدا تعالیٰ کی پیدائش میں تجھے نقص نظر نہیں آئے گا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تمام کائنات اتفاقاً پیدا ہوگئی ہے اور اتفاقی طور پر مادہ کے ملنے سے یہ سب کچھ بن گیا ہے اور پھر وہ سائنس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے.دنیا آپ ہی آپ پیدا ہو گئی ہے اس کی کل چلانے والا کوئی نہیں.انکا جواب اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں دیا ہے کہ اتفاقی طور پر جڑنے والی چیزوں میں کبھی ایک سلسلہ اور نظام نہیں ہوگا بلکہ بے جوڑ پن ہوتا ہے.مختلف رنگوں سے تصویر بنتی ہے لیکن کیا اگر مختلف رنگ ایک کاغذ پھینک دیں تو اُس سے تصویر بن جائیگی؟ اینٹوں سے مکان بنتا ہے لیکن کیا اینٹیں ایک دوسری پھینک دی جائیں تو مکان بن جائیگا ؟ بفرض محال اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بعض کام اتفاقاً ہو جاتے ہیں تو بھی نظام عالم کو دیکھ کر کوئی آدمی یہ نہیں کہ سکتا کہ یہ سب کچھ آپ ہی آپ ہو گیا ہے.مانا کہ خود مادہ پیدا ہو گیا اور مانا کہ مادہ سے خود بخود زمین پیدا ہو گئی.مانا کہ انسان بھی خود بخود پیدا ہو گیا لیکن انسان کی پیدائش پر غور تو کرو کہ کیا ایسی کامل پیدائش خود بخود ہوسکتی ہے؟ دنیا میں عام طور پر کسی صنعت کی خوبی سے اس کے صناع کا پتہ لگتا ہے.ایک عمدہ تصویر دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کسی اچھے مصور نے یہ تصویر بنائی ہے.ایک عمدہ تحریر دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریر کسی اچھے کا تب نے لکھی ہے.اور جس قدر ربط بڑھتا جائے بنانے والے کی خوبی ظاہر ہوتی ہے پھر کس طرح تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایسی منظم دنیا خود بخود پیدا ہوگئی ہے؟ قرآن کریم میں زرتشتی مذہب کے اصول کا ذکر اور اُن کا رڈ قرآن کریم میں زرتشتی مذہب کے اصولوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے.زرتشتیوں کے نزدیک ایک نور کا خدا ہوتا ہے اور ایک تاریکی کا خدا ہوتا ہے اور ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا.تاریکی کا خدا نور پیدا نہیں کر سکتا اور ٹور کا خدا تاریکی پیدا نہیں کر سکتا.اگر ٹور کا خدا تاریکی پیدا کرے اور تاریکی کا خدا نور پیدا کر دے تو اس کا مطلب ہے کہ دنیا تباہ ہو جائے.ان کے مقابلہ میں عیسائی تین خداؤں کو مانتے ہیں اور ہند و ہزاروں دیوتاؤں کو مانتے ہیں.قرآن کریم نے زرتشتی مذہب کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور اس کے غلط اصولوں کی تردید کی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلْحَمْدُ لِلهِ
۷۹۷ الَّذِي خَلَقَ السَّمَواتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمتِ وَ النُّوْرَ.ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ یعنی سب تعریفوں کا مستحق خدا تعالیٰ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا ہے اور پھر اُس نے اندھیروں اور نور کو پیدا کیا ہے لیکن اس کے باوجود کا فرلوگ اُس کے ساتھ شریک بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ٹور کا خدا اور ہے اور تاریکی کا خدا اور ہے.چنانچہ زرتشتیوں کا بھی یہی خیال تھا کہ اہر من ظلمت کا خدا ہے اور یزدان نور کا خدا ہے.اسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ عقیدہ اس لئے غلط ہے کہ دنیا میں بعض چیزیں نور کے ماتحت پائی جاتی ہیں اور بعض چیزیں ظلمت کے ماتحت پائی جاتی ہیں.نور اور ظلمت علیحدہ علیحدہ چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی زنجیر کی دو کڑیاں ہیں اور دونوں چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ خدا ایک ہے.اگر ظلمت یہ ثابت کرتی کہ خدا تعالیٰ میں کوئی نقص ہے تو بے شک ایک اور خدا یزدان کی ضرورت ہوتی لیکن یہاں یہ صورت نہیں.یہاں تو ظلمت بھی خدا تعالیٰ کی تعریف کرتی ہے اور ٹور بھی خدا تعالیٰ کی تعریف کرتا ہے.چنانچہ دوسری جگہ آتا ہے قُلْ اَرَءَ يُتُمُ اِنْ جَعَلَ اللهُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ سَرْمَدًا إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ مَنْ إِلَهُ غَيْرُ اللهِ يَا تِيْكُمُ بِضِيَاءٍ - أَفَلَا تَسْمَعُونَ قُلْ اَرَءَ يُتُمُ اِن جَعَلَ اللهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرُمَدًا إِلى يَوْمِ الْقِيمَةِ مَنْ إِلَةٍ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيَكُمُ بِلَيْلِ تَسْكُنُونَ فِيهِ ، أَفَلَا تُبْصِرُونَ " ط فرماتا ہے.ظلمت اور نور دونوں کا وجود انسان کے لئے ضروری ہے.نہ نور کے بغیر وہ زندہ رہ سکتا ہے اور نہ ظلمت کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے.انسان دن کو کام کر کے تھک جاتا ہے اور رات کو نیند کے ذریعہ آرام حاصل کر کے پھر تر و تازہ ہو جاتا ہے.اس لئے اگر خدا تعالیٰ رات کو لمبا کر دیتا تو کوئی انسان کام نہ کر سکتا.اسی طرح اگر وہ دن کو لمبا کر دیتا تو کوئی شخص آرام نہ کر سکتا.پس نور اور ظلمت دونوں چیزیں انسانی بقا کے لئے ضروری ہیں اور اُن کو دو خداؤں کی پیدائش کہنا غلط ہے.قرآن کریم میں عِلمُ الاخلاق کا ذکر پھر علم الاخلاق بھی ایک اہم علم ہے اور اس پر کئی کتا ہیں لکھی گئی ہیں قرآن کریم نے اس علم کی طرف اشارہ کیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْم ٣
۷۹۸ یعنی تم اُن معبودوں کو جن کو کفار خدا تعالیٰ کے سوا پکارتے ہیں گالیاں نہ دو ورنہ وہ جہالت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جائیں گے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ کسی قوم کے قابل عزت بزرگوں کے حق میں کوئی بُری بات نہیں کہنی چاہئے ورنہ اُن کے دل دُکھیں گے اور چونکہ وہ اخلاق سے عاری ہیں اس لئے وہ جواب میں اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جائیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ أَنْ يُلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ قِيْلَ يَا رَسُولَ اللهِ وَ كَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ قَالَ يَسُبُّ الرَّجُلُ أَبا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ اَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ - ٤٢ یعنی کسی شخص کو نہیں چاہئے کہ وہ اپنے ماں باپ کو گالیاں دے.صحابہ نے عرض کیا يَارَسُولَ اللہ ! اپنے ماں باپ کو کون گالیاں دیتا ہے.آپ نے فرمایا جو شخص دوسرے کے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہے.وہ گویا اپنے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہے کیونکہ دوسرا شخص جوش میں آکر اس کے ماں باپ کو گالیاں دینے لگ جائیگا.غرض اللہ تعالیٰ نے عِلمُ الاخلاق کا بھی ذکر فرما دیا ہے.عیسائی بڑا ناز کرتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ تم دوسرے کیلئے بھی وہی بات پسند کرو جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو.حالانکہ قرآن کریم بھی کہتا ہے کہ دوسروں کے بتوں وغیرہ کو گالیاں نہ دو.ورنہ اگر تم اُنکے معبودوں کو گالیاں دو گے تو وہ جوابا تمہارے خدا کو گالیاں دیں گے اور پھر تمہیں اس پر چڑنے یا بُرا منانے کا کوئی حق نہیں ہو گا کیونکہ ابتداء تمہاری طرف سے ہوئی ہوگی.لیکن اگر ابتداء دوسروں کی طرف سے ہوئی ہو اور وہ تمہارے معبود کو گالیاں دیں تو پھر بیشک وہ ظالم ہو نگے لیکن اگر پہل تمہاری طرف سے ہو اور تم کسی کے معبود کو گالیاں دو اور وہ جواباً تمہارے خدا کو بھی گالیاں دینے لگ جائے تو تمہیں اس پر چڑنے کا کوئی حق نہیں ہوگا کیونکہ اسے جواب دینے والا سمجھا جائے گا ظلم کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا.چنانچہ احادیث میں آتا ہے ایک دفعہ ایک صحابی نے ایک یہودی کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے طور پر ذکر کیا کہ آپ کی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت ثابت ہوتی تھی.اس سے بہرحال اس یہودی کو تکلیف ہوئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرما يا لَا تُخَيَّرُونِی علی موسی ۷۵ مجھے حضرت موسیٰ علیہ اسلام پر اس طرح فضیلت نہ دیا کرو کہ اس سے کوئی جھگڑا پیدا ہو جائے.
۷۹۹ قرآن کریم میں عِلْمُ الْإِنْسَان کا ذکر عِلمُ الإِنسان بھی ایک نہایت ضروری علم ہے جس کو انگریزی میں ANTHROPOLOGY کہتے ہیں اور لوگوں نے اس علم پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں.قرآن کریم نے بھی اس پر بحث کی ہے اور اس نے ابوالبشر کا نام آدم رکھا ہے.یعنی وہ پہلا انسان تھا جس نے سطح زمین پر رہنا شروع کیا.تاریخ بتاتی ہے کہ آدم سے پہلے جو لوگ تھے وہ غاروں میں چُھپ کر رہتے تھے تا کہ کہیں شیر اور بھیڑیے اُسے کھا نہ جائیں.پھر جب تمدن نے ترقی کی اور حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ لوگوں نے ایک دوسرے کی مدد کرنی شروع کر دی تو لوگ غاروں سے باہر نکل آئے اور انہوں نے سطح زمین پر رہنا شروع کر دیا.اور سب سے پہلا انسان آدم تھا جس نے زمین کی سطح پر رہنا شروع کیا.گویا پہلا کیومین (CAVEMAN) جو زمین پر رہنا شروع ہوا آدم تھا بلکہ قرآن کریم نے اس کا نام آدم رکھ کر ہی یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ CAVE یعنی غار کو چھوڑ کر باہر نکل آیا تھا اور اُس نے سطح زمین پر مل جُل کر رہنا شروع کر دیا تھا.چنانچہ ادِيمُ الْأَرْضِ کے معنے عربی زبان میں سطح زمین کے ہوتے ہیں.کے گویا آدم کے معنے ہوئے غاروں سے نکل کر سطح زمین پر رہنے والا شخص.اسی طرح آدیم کے معنے اوّلیت کے بھی ہیں کے گویا آدم کے لفظ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ موجودہ نسل کا پہلا انسان آدم تھا.اسی طرح آدم کے معنے ہوتے ہیں صَارَ لَهُمُ اُسْوَةٌ ^ وہ اُن کے لئے نمونہ ہو گیا.یعنی آدم علیہ السلام لوگوں کے لئے ایک نمونہ تھے اور انہوں نے آپ کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا تھا.عیسائیوں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ چونکہ حضرت آدم علیہ السلام نے گناہ کیا تھا اس لئے انسان کی فطرت میں گناہ کا مادہ پایا جاتا ہے لیکن یہ بات غلط ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے کوئی گناہ کیا تھا.اُن سے صرف ایک اجتہادی لغزش ہوئی تھی اور پھر اس لغزش پر بھی انہوں نے تو بہ کی.اگر عیسائیوں کا کلیہ صحیح تسلیم کر لیا جائے تو انسان کی فطرت میں تو بہ کا مادہ ہونا چاہئے تھا نہ کہ گناہ کا کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام لوگوں کے لئے نمونہ تھے اور وہ انہیں کے نقش قدم پر چلتے تھے.گناہ تو حوا نے کیا تھا اور حوا نے ہی بائبل کی رُو سے حضرت آدم کو پھسلایا تھا.پھر آدم سے سلسلہ گناہ کس طرح چل پڑا جبکہ آدم نے ایک اجتہادی غلطی پر تو بہ بھی کی تھی.اِسی طرح آدَمَ کے ایک معنے اَلَّفَ وَوَفَّقَ کے ہیں.۹ے یعنی اُس نے فساد دُور کیا اور باہم موافقت پیدا کی.ان معنوں میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام
نے ہی تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی تھی اور انہوں نے ہی تمدن کو صحیح معنوں میں دنیا میں قائم کیا تھا.اس میں فرشتوں کے اِس سوال کا جواب بھی آجاتا ہے جو انہوں نے کیا تھا کہ اَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ - ٥٠ یعنی کیا تو اس میں ایسا شخص پیدا کر یگا جو اُس میں فساد کرے گا اور لوگوں کا خون بہائیگا ؟ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ہم نے تو آدم کو پیدا ہی اِس لئے کیا ہے کہ وہ دنیا سے فساد دُور کرے خلیفہ ہونا تو الگ چیز ہے اس کی پیدائش ہی فساد کو دُور کرنے والی تھی.دوسری مثال اس کی حضرت نوح علیہ السلام کی ہے.بائبل سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے باپ بڑے نیک آدمی تھے انہوں نے الہام الہی سے نوح کا نام رکھا تھا جس کے معنے ہیں نوحہ کرنے والا.اس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ دنیا میں اُن کے زمانہ میں ایک عالمگیر عذاب آئے گا جس سے وہ خود تو بچ جائیں گے مگر اُن کی قوم تباہ ہو جائے گی اور وہ اپنی قوم کے تباہ ہونے پر نوحہ کریں گے.قرآن کریم نے بھی اس کی تصدیق کی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کے نام کا ذکر کر کے اس توجیہہ کی طرف اشارہ کیا ہے.قرآن کریم میں آئندہ زمانہ کی تاریخ قرآن کریم میں آئندہ زمانہ کی تاریخ بھی بیان کی گئی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَى قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ال دوسری کتابیں تو صرف پچھلا حال بیان کرتی ہیں لیکن قرآن کریم ایسی کتاب ہے جو آئندہ زمانہ کا حال بھی بیان کرتی ہے.چنانچہ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اے مسلمانو! آئندہ زمانہ میں رومیوں اور ایرانیوں کے ساتھ تمہاری جنگیں ہونگی اور وہ عرب جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سستی دکھائی تھی وہ اپنے دھتے دھوسکیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا یا تو وہ وقت تھا کہ رومی اور ایرانی مسلمانوں کو بڑا حقیر سمجھتے تھے اور قابل التفات ہی نہیں سمجھتے تھے اور یا پھر وہ زمانہ آیا کہ ایران اور روم دونوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا اور اس بات سے خائف ہو گئے کہ مسلمان اُن کے ملک میں نہ گھس آئیں لیکن اس آیت کے مطابق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مسلمانوں نے ان دونوں ملکوں پر فتح حاصل کی اور وہ عرب جو پہلے کمزوریاں دکھا رہے تھے انہوں نے بھی بڑی بڑی قربانیاں کیں اور ان
۸۰۱ دونوں ملکوں کو انہوں نے تباہ کر کے رکھ دیا اور اس طرح قرآن کریم میں جو آئندہ زمانہ کی تاریخ بیان کی گئی تھی وہ حقیقت بن کر ظاہر ہو گئی.یا جوج ماجوج کے متعلق پیشگوئی اس کی مثال میں ایک اور پیشگوئی بھی بیان کی جاسکتی ہے اور وہ یا جوج ماجوج کے متعلق ہے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ آخری زمانہ میں یا جوج اور ماجوج غالب آجائینگے اور ساری دنیا پر چھا جائیں گے.جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ظاہر ہوئے اُس وقت یورپ بالکل وحشی تھا اور اس کے باشندے کھا لیں پہنا کرتے تھے لیکن آج دیکھو ان کی حکومت کس قدر بڑھ گئی ہے اور وہ رکس طرح ساری دنیا پر غالب آگئے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس کے متعلق پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتا ہے وَحَرَامٌ عَلى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ ۵۲ یعنی ہر ایک بستی جسے ہم نے ہلاک کیا ہے اُس کے لئے فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ اُس کے بسنے والے کوٹ کر اس دنیا میں نہیں آئیں گے یہاں تک کہ جب یا جوج اور ماجوج کے لئے دروازہ کھول دیا جائیگا اور وہ ہر پہاڑی اور ہر سمندر کی لہر پر سے پھلانگتے ہوئے ساری دنیا میں پھیل جائیں گے تو اُس وقت مُردہ قوموں میں بھی بیداری پیدا ہو جائے گی اور اُن میں بھی زندگی کی حرکت پیدا ہونے لگ جائے گی.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں یا جوج اور ماجوج جس سے مراد روس اور انگلستان ہیں ، ساری دنیا پر چھا جائیں گے اور یہ دونوں قومیں سمندر کی لہروں پر سے ہوتے ہوئے اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے پھاندتے ہوئے ساری دنیا میں پھیل جائیں گی.قرآن کریم نے حدب کا لفظ استعمال کیا ہے اور عربی زبان میں حدب کے معنے اونچے ٹیلوں کے بھی ہیں اور موج کے بھی ہیں.۵۳ گویا اس آیت میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ قو میں سمندر میں سے ہوتے ہوئے بھی ساری دنیا میں پھیل جائیں گی اور پہاڑوں سے بھی آئیں گی اور دنیا میں پھیل جائیں گی.چنانچہ روس پہاڑوں پر سے ہو کر چین پر قابض ہو گیا اور انگریز اور امریکہ سمندر سے آ رہے ہیں اور اس تاریخ کو جو قرآن کریم نے آئندہ زمانہ کی بیان کی تھی پورا کر رہے ہیں.فلسطین پر یہود کے قبضہ کی پیشگوئی اسی طرح قرآن کریم نے بنی اسرائیل کے متعلق واقعات بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ
۸۰۲ تو رات میں ان کے متعلق پیشگوئی تھی کہ ان پر دو دفعہ تباہی آئے گی اور وہ بیت المقدس سے نکالے جائینگے چنانچہ اُن کی پہلی تباہی نبو کد نضر بادشاہ کے حملہ سے ہوئی اور دوسری تباہی ٹائیٹس رومی کے ذریعہ سے ہوئی جو مسیح کے صلیب کے واقعہ کے ستر سال بعد یہودیوں پر حملہ آور ہوا تھا ان واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَقُلْنَا مِنْ بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَاءِ يُلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ حِمْنَا بِكُمْ لَفِيفًا ۵۴ یعنی فرعون کے سمندر میں ڈوب مرنے کے بعد ہم نے بنی سرا ئیل کو کہہ دیا تھا کہ تم فلسطین میں جا کر آباد ہو جاؤ لیکن ایک وقت کے بعد تم کو فلسطین سے نکلنا پڑے گا اور پھر خدا تعالیٰ تم کو واپس لائے گا.پھر تم نافرمانی کرو گے اور تم پر دوسری دفعہ عذاب آئے گا.پھر تم جلا وطن رہو گے یہاں تک کہ تمہاری مثیل قوم یعنی مسلمانوں کی تباہی کے متعلق جو دوسری خبر ہے اُس کا وقت آ جائے گا اُس وقت پھر تم کو مختلف ملکوں سے جمع کر کے ارض مقدس میں اکٹھا کر دیا جائے گا.پس اس آیت میں بنی اسرائیل کے فلسطین پر قابض ہونے کی پیشگوئی تھی جو اب پوری ہو چکی ہے.میں نے جب پہلی تفسیر کبیر جو سورۃ یونس سے لے کر سورۃ کہف تک کی تفسیر پر مشتمل ہے لکھی تھی تو میں نے اُس میں استدلال کیا تھا کہ ان آیات میں بنی اسرائیل کے فلسطین پر قابض ہونے کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے.ایک دفعہ میں شملہ گیا اور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے ہاں مہمان ٹھہرا.اُنکے ہاں اُسوقت خان علی قلی خاں بھی بطور مہمان ٹھہرے ہوئے تھے ( جو لفٹینٹ جنرل حبیب اللہ خاں صاحب کے والد تھے ) انہوں نے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب سے تفسیر کبیر مطالعہ کے لئے مانگی.پارٹیشن کے بعد انہوں نے مجھے لکھا کہ جب میں نے آپ کی تفسیر میں یہ پڑھا کہ بنی اسرائیل ایک وقت میں پھر فلسطین پر قابض ہو جا ئیں گے تو مجھے بوجہ پٹھان ہونے کے سخت غصہ آیا کیونکہ ہم تو بنی اسرائیل کے دشمن ہیں اور آپ نے لکھا تھا کہ بنی اسرائیل فلسطین پر قابض ہو جائیں گے لیکن جب امریکہ اور انگریزوں کی مدد سے بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہو گئے تو مجھے بڑی خوشی ہوئی اور میں نے کہا کہ قرآن کریم سچا ثابت ہوگیا کیونکہ یہ واقعہ قرآن کریم کی اس آیت کی عملی تفسیر ہے.قرآن کریم میں جغرافیہ کا ذکر پھر قرآن کریم میں جغرافیہ کا علم بھی بیان کیا گیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قوم سبا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اُن کا ملک بہت بڑا تھا اور اُن کے ملک سے فلسطین تک بستیاں ہی بستیاں چلی جاتی تھیں
٨٠٣ لیکن اس ملک کے رہنے والوں نے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا اور انہوں نے کہا رَبَّنَا بَعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْنَهُمْ أَحَادِيْكَ وَمَنَّ قُنْهُمْ كُلَّ مُمَزَّق.۸۵ یعنی اے ہمارے رب! ہمارے سفروں کو لمبا کر دے اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا پس ہم نے اُن کا نام مٹا دیا اور اُن کو قدیم زمانہ کے افسانے بنا دیا اور انہیں تباہ کر کے ذرہ ذرہ کر دیا.گویا سبا قوم کی ناشکری کے باعث اُن پر تباہی آگئی اور اُن کا سارا ملک تباہ ہو کر ویران ہو گیا.قرآن کریم کے اس بیان کی تصدیق اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ایک بہت بڑے لشکر کو لے کر یمن آئے اور وہ بآسانی وہاں پہنچ گئے اور اُن کو کوئی تکلیف نہ ہوئی.لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے قبل ابرہہ نے یمن کے لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ کیا تو واپسی پر اس کا لشکر راستہ کھو جانے کی وجہ سے بالکل تبا ہ ہو گیا.معلوم ہوتا ہے کہ اُسوقت تک وہ سب بستیاں تباہ ہو چکی تھیں.اِن دونوں واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں قوم سبا کا جو جغرافیہ بیان کیا گیا ہے کہ اُن کے علاقہ سے فلسطین تک بستیاں ہی بستیاں چلی جاتی تھیں وہ بالکل درست ہے.اس طرح اُس نے سبا کی تباہی کے متعلق جو کچھ ذکر کیا ہے وہ بھی ٹھیک ہے.غرض قرآن کریم کے اندر جو عظیم الشان کتب خانے موجود ہیں اُن کی مثال دنیا کے کسی کتب خانہ میں نہیں پائی جاتی.پھر دُنیوی کتب خانے تباہ بھی ہو جاتے ہیں لیکن قرآنی کتب خانہ وہ ہے جسکی دائمی حفاظت کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہوا ہے.پس گجا دُنیوی بادشاہوں کے کتب خانے اور گجا یہ روحانی کتب خانہ جو زمانہ کی ہر دست برد سے کلّی طور پر محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ سے دُعا آب میں دُعا کر دیتا ہوں کہ ہمارے دوست جو یہاں آئے ہیں خیر و عافیت سے واپس جائیں.اُن کے گھروں میں بھی امن قائم رہے اور یہاں بھی امن رہے اور راستہ میں بھی کوئی تکلیف نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اُن کی آئندہ عمر میں ، اُن کے مالوں اور اولاد میں برکت ڈالے اور اُن کو ترقیات عطا فرمائے اور اسلام کا خادم بنائے اور اُن کے ذریعہ سے ساری دُنیا پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگ جائے.اللہ تعالیٰ آپ کا اور آپ کے خاندانوں کا قیامت تک حافظ و ناصر ہو اور اسلام آب
۸۰۴ کے ذریعہ سے اور آپ کی اولادوں کے ذریعہ سے قیامت تک بڑھتا رہے اور دُنیا سے شرک اور بدعت مٹ جائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت پھر دنیا میں قائم ہو جائے اور ایسی مضبوطی سے قائم ہو کہ اُسے کوئی مٹانے کی جرات نہ کر سکے.لا تاخت و تاراج کرنا برباد کرنا.تباہ کرنا فیروز اللغات اردو صفحه ۳۳۴ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء البينة : ۲ تا ۴ حشو : زائد کلام.فضولیات.کوڑا کرکٹ.اردو لغت تاریخی اصول پر صفحہ ۱۷۱ جلد ۸ مطبوعه کراچی جون ۱۹۹۳ء ۵،۴ خروج باب ۲۰ آیت ۱۱.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء ق:٣٩ ك البقره: ۲۵۶ ياس :٨٣ 1 تفسیر کبیر فخر الدین رازی جلد ۶ صفحه ۳۷۲ مطبوعہ قاہر ۲۰۱۲۰ء 10- بحار الانوار جلد ۵۳ صفحه ۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۳ء المزمل: ١٦ ١٣ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۸۹ مطبوعه مصر ۱۹۳۵ ء سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۲۱۹ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ فاطر : ۲۵ ها الرعد: ۸ اقرب الموارد جلد ۲ صفحه ۱۲۸۸ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء تاریخ همدان دیلمی از ابو شجاع شیرویه دیلمی همدانی باب الکاف بخاری کتاب الانبياء باب قول الله تعالى وَاذْكُرُ في الكتاب مريم (الخ) حدیث نمبر ۳۴۴۳ صفحه ۵۸۰ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۱۹ لسان العرب جلد ۵ صفحه ۱۲۸ مطبوعہ دارالحدیث القاهره ۲۰۱۳ء ٢٠ يونس : ۹۳ ال الفجر : ۷ تا ۹ ۲۲ النجم: ۵۲،۵۱ ۲۳ ۲۴، وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِى مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا يَعْرِشُونَ.ثُمَّ كُلِى مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلا يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ إِنَّ فِى ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (النحل: ۷۰،۶۹) ۸ : ۲۵
۸۰۵ ٢٦ مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ماقاله شرعًا (الخ) حدیث نمبر ۶۱۲۶ صفحه ۱۰۳۹،۱۰۳۸ مطبوع الرياض الطبعة الثانية ابريل ٢٠٠٠ء الذاريات: ۵۰ ۲۸ ٹین : ایک سفید نرم دھات.فیروز اللغات اردو صفحه ۴۳۵ فیروز سنز لا ہور ۲۰۱۰ء ۲۹ نوح:۱۵،۱۴ ٣٠ الانبياء: ٣١ ا الطلاق : ۱۳ ۳۲ پیدائش باب ۱۹ آیت ۳۰ تا ۳۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء الانبياء: ۷۶،۷۵ الشعراء: ۱۷۲،۱۷۱ ۳۵ اقرب الموارد جلد ۲ صفحه ۸۵۸ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء ۳۶ ۲ سموئیل باب ۱۱ آیت ۲ تا ۴.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء ۳۷ ص : ۱۸ ۳۸ ص : ۲۶ ۳۹ سلاطین باب ۱۱ آیت ۴.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء ۴۰ سلاطین باب ۱۱ آیت ۹ ۱۰.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء ا وَصَدَّهَا مَا كَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كَفِرِينَ.(النمل :۴۴) ٢٢ البقره: ١٠٣ خروج باب ۳۲ آیت ۱ تا ۴، برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء ۲۴ خروج باب ۳۲ آیت ۵ ، ۶ ، برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء ۲۵ طه: ۹۱ ٤٦ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد۴ زیر لفظ گولڈن کاف (Calf) صفحه ۱۰۰۴ و جلد ۱۸ صفحه ۸۹۵ مطبوعہ نیویارک ۱۹۱۰ ء ،۱۹۱۱ء Eleventh Edition ۴۷ اعمال باب ۱ آیت ۹ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء ۲۸ المؤمنون : ۵۱ ۲۹ القصص : ۳۹ و ۵۰ الصفت : ١٠٣ اه اليواقيت والجواهر جزء الثانی صفحه ۳۴۲ مطبوعہ بیروت.لبنان ۱۹۹۷ء ۵۲ آل عمران: ۱۶۰ ۵۳ الشورى: ۳۹ ۵۴ تاریخ ابن اثیر جلد ۳ صفحه ۶۶ ۱ و۱۷۰ مطبوعہ بیروت ۲۰۰۹ء ۵۵ تاریخ کامل لابن اثیر جلد ۳ صفحه ۳۳۴، ۳۳۵ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۵۶ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۳،۱۲ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۵۷ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۳،۱۲ مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ
۸۰۶ ۵۸ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۲ ،۱۳ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۵۹ السيرة الحلبيه جلد ۲ صفحه ۲۳۹ مطبوعہ المكتبة الاسلامیۃ بیروت، لبنان ١٠ النمل : ٣٣ ال الشعراء: ٣٦ ١٢ الشعراء: ۳۷ ٤٤٦٣ السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحه ۱۳۹، ۱۴۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۹ء ۲۵ النور : ۶۳ ١٦ القمر : ١٤ گیلیوں : گیلی تنے کی کائی ہوئی گول لکڑی جس سے شہتیر نکلتے ہیں.فیروز اللغات اردو صفحه ۱۱۳۸ مطبوعہ فیروز سنز لاہور ۲۰۱۰ء ۶۸، يوسف : ۳۸ ۶۹ الملک : ۲ تا ۵ • ک الانعام:۲ ای دبستان مذاهب صفحه ۱۲۶ مطبوعہ کان پور القصص : ۷۳۷۲ ۷۳ الانعام: ۱۰۹ ۴ کے بخاری کتاب الادب باب لا يسب الرجل والديه حدیث نمبر ۵۹۷۳ صفحه ١٠٤٦ مطبوع الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ۷۵ بخاری کتاب احاديث الانبياء باب وفاة موسى (الخ ) حدیث نمبر ۵۹۷۳ صفحه ۱۰۴۶ مطبوعه الرياض الطبعة الثانية مارچ ١٩٩٩ء ٤٦ لسان العرب جلد ا صفحہ ۹۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء اقرب الموارد جلد ا صفحہ کے مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء اقرب الموارد جلد ا صفحه ۶ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء و اقرب الموارد جلد ا صفحہ ۷ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء ١٠ البقرة:٣١ ال الفتح:۱۷ الانبياء: ۹۷،۹۶ اقرب الموارد جلد ا صفحه ۱۶۹ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء ۸۴ بنی اسرائیل: ۱۰۵ ۸۵ سبا : ۲۰
تصاویر
قلعہ گولکنڈا ( حیدر آباد دکن) قطب شاہی گولکنڈا ( حیدر آباد دکن)
قلعہ گولکنڈ ا کا ایک منظر (حیدر آباد دکن ) قلعہ گولکنڈا کا ایک اور منظر (حیدر آباد دکن)
قلعه آگرہ قلعہ (آگرہ) کا ایک منظر
سکندرہ (آگرہ) میں اکبر کا مقبرہ جهانگیری محل ( آگره قلعه ) C=
تاج محل (آگرہ) تاج محل (آگرہ) کا ایک خوبصورت منظر
KOKOROKO مزار سلیم چشتی ( فتح پور سیکری) S مزار سلیم چشتی کا ایک منظر (فتح پور سیکری)
جامعه مسجد فتح پور سیکری جامعہ مسجد ( فتح پور سیکری) کا ایک منتظر
بلند دروازه ( فتح پور سیکری) دیوان خاص ( فتح پور سیکری)
CA CH مہارانی جودھا بائی المعروف مریم الزمانی کا محل ( فتح پور سیکری) ترکش سلطانہ کا گھر (فتح پور سیکری)
بیربل کا گھر (فتح پور سیکری) پنج محل ( فتح پور سیکری)
جامعہ مسجد (دہلی) مزار فیروز شاہ تغلق (دہلی)
مسجد قوت الاسلام ( دہلی ) کے آثار مزار غیاث الدین تغلق (دہلی) 健
قطب مینار (دہلی)
مزار حضرت نظام الدین اولیاء (دہلی ) مزار حضرت نظام الدین اولیاء ( دہلی ) کا اندرونی منظر
پرانا قلعہ (دہلی) پرانا قلعہ (دہلی)
لال قلعہ (دہلی) لال قلعہ کا ایک خوبصورت منظر ( دہلی )
مقبرہ ہمایوں (دہلی) مقبرہ ہمایوں کا ایک منظر (دہلی) งา
صفدر جنگ منصور کا مقبرہ (دہلی ) سلطان شمس الدین التمش کا مقبرہ (دہلی )
(-,)-2 جنتر منتر کا ایک اور منظر (دہلی)
aduua حوض خاص (دہلی) حوض خاص کا بیرونی منظر (دہلی )
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ تعارف تاریخی مقامات قلعہ گولکنڈہ (حیدرآباد.دکن) حیدرآباد سے تقریبا کلو میٹر مغرب میں واقع یہ قلعہ ہندوستان کے عظیم قلعوں میں ایک اہم مقام کا حامل ہے.قطب شاہی سلاطین کے دور میں سولہویں اور سترھویں صدی میں اس کی تعمیر عمل میں آئی.صوبہ دار قطب الملک نے خود مختار ہو کر اسے قطب شاہی سلطنت کا پائے تخت بنایا (۱۵۱۲۵۹۱۸ء) پھر نہایت وسیع ڈہری، تہری فصیلیں اور بڑے بڑے بُرج تعمیر کئے.محلات کی خوشنما پندرہ پندرہ گز بلند دیواروں کے کھنڈر ابھی تک سلامت اور عظمت رفتہ کا تصور تازہ کرتے ہیں.سب سے اوپر چوٹی پر وسیع شاہی دیوان خانہ ابھی تک موجود ہے.عظیم الشان عمارتوں، محلوں، بازاروں کے کھنڈروں میں وہ پختہ بڑا تالاب ابھی تک موجود ہے جس میں شاہی غسل کے لئے کثرت سے عرق گلاب بھرا جاتا تھا.بلند و بالا پہاڑی کے دونوں پہلوؤں پر واقع یہ قلعہ نیم صحرائی زمین کے ایک وسیع علاقے میں پھیلا ہوا ہے.بلند و بالا میناروں اور مساجد کے اس عظیم شہر کے کھنڈرات کے ارد گرد اب بھی ایک ہنستا بستا شہر آباد ہے.قطب شاہی عمارات گولکنڈہ حیدر آباد کی قطب شاہی عمارات میں سے دو اصل حالت میں محفوظ ہیں.چار مینار وسیع ، چکور، مسقف، شاندار محرا ہیں ہر طرف گھلا ہوا، گوشوں پر چھوٹے مینار، چاروں طرف سیدھی سڑکیں ، فوجی جائزے تقریبات دیکھنے یا عام اعلانات کرنے کے کام لائی جاتی رہی ہیں.دوسری مشہور عمارت’ مکہ مسجد، بلند و بالا اتنی وسیع کے اندر دو ہزار نمازی آسکتے ہیں.کھلے صحن میں آصف جاہی عہد کے مقابر ہیں.پانچویں سلطان محمد قلی نے حیدرآباد شہر سولہویں صدی عیسوی کے آخر میں تعمیر کروایا.گولکنڈہ کی فتح اور ابوالحسن کی گرفتاری ۱۶۸۷ء پر قطب شاہی کا خاتمہ ہوا اور ملک مغلیہ صوبہ ہو گیا.
قلعہ آگرہ یہاں پہلے سکندر لودھی کا قلعہ موجود تھا جس کی تعمیر اینٹ پتھر سے ہوئی تھی.اکبر نے آگرے کو مستقل پائے تخت بنالیا تو ۱۵۶۳۵۹۷۲ء میں پرانا قلعہ مسمار کر کے سنگِ سُرخ سے نیا قلعہ بنانے کا حکم دیا جو شہر کے مشرقی جانب دریائے جمنا کے کنارے نصف دائرے کی شکل میں ایک نہایت مضبوط، خوبصورت اور عظیم الشان عمارت ہے.اس کی فصیل بہت چوڑی اور بلند رکھی گئی کیونکہ شاہی خاندان کی سکونت کے علاوہ دفاعی مقاصد بھی پیش نظر تھے.قلعے کا دور تین ہزار گز کے قریب ہے.اندر اکبر نے حسب ضرورت بے شمار عمارتیں بنوالی تھیں.فصیل میں ہیں بُرج، چار دروازے اور دو کھڑکیاں تھیں.شاہ جہاں کے عہد حکومت میں قلعے کی اندرونی عمارتوں میں بہت رد و بدل ہوا اور پرانی عمارتوں کی جگہ نئی عمارتیں نہایت خوش وضع ، خوبصورت اور زیادہ تر سنگِ مرمر سے بنوائی گئیں.اب صرف دو دروازے کھلے ہیں، باقی کھڑکیاں اور دروازے بند کر دیئے گئے.دیوان عام اور دیوانِ خاص بھی شاہ جہاں ہی کے عہد میں بنے.عالمگیر نے پہلی فصیل کے باہر دس گز کا فاصلہ چھوڑ کر ایک اور فصیل بنوادی جو اندرونی فصیل سے بلندی میں کم ہے.چونکہ مغلوں کے زیادہ تر محفوظ خزانے اسی قلعے میں تھے ، غالباً اسی کی حفاظت کے لیے نئی فصیل ضروری سمجھی گئی.بند ہونے والے دروازوں میں سے ایک ہتھیا پول“ نام دروازہ بھی تھا.اس کی جگہ پتھر کے دو ہاتھی آمنے سامنے کھڑے کر کے ان کی سونڈوں سے محراب کی شکل بنائی گئی تھی.کھلے دروازوں میں سے ایک کا نام دہلی دروازہ ہے جس کا رُخ دہلی کی طرف ہے.دوسرے کا نام امرسنگھ کا دروازہ ہے یہ نام غالبا اس لیے مشہور ہو گیا کہ اس کے سامنے امرسنگھ راٹھور کا کو محلہ تھا.لوگ پہلے دہلی دروازے سے اندر جاتے تھے ، اب امرسنگھ کے دروازے سے جاتے ہیں." اندر کی خاص عمارتیں یہ ہیں: دیوان عام ، دیوانِ خاص ، شیش محل ، خاص محل، حمام، موتی مسجد، نگینه مسجد ، جهانگیری محل، کتب خانه محل جودھا بائی ہشمن برج جس میں شاہ جہاں کا دور نظر بندی گزرا، مچھلی بھون اور تہہ خانے میں پتھر کے دو نہایت خوب صورت تخت بھی ہیں.شاہ جہاں معزولی (۱۶۵۸ء) کے بعد سے وفات (۱۶۶۶ء) تک اسی قلعے میں رہا.تاج محل (آگرہ) بھارت کی ریاست اتر پردیش کے شہر آگرہ میں دریائے جمنا کے کنارے یہ مقبرہ دنیا کی حسین ترین عمارت سمجھا جاتا ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کے متاثر عمارتی طرز کا پُر تکلف طور پر آراستہ اور عظیم ترین نمونہ ہے.مغل بادشاہ شاہجہان نے اپنی محبوب ملکہ ممتاز محل (۱۶۲۹ء) کے لیے ۱۶۳۰ء میں اس کی تعمیر کا حکم صادر کیا.اور یہ کام جن معماروں اور
مزدوروں نے غالباً ۱۶۴۸ء میں ختم کیا، ان کی تعداد بیس ہزار تھی.موت کے بعد خود شاہجہان کو بھی اسی مقبرے میں دفن کیا گیا.تاج محل چاردیواری کے اندر ایک باغ میں ہے جو فواروں اور سنگِ مرمر کی روشوں سے مزین ہے.عمارت کا عکس ایک مستطیل حوض میں پڑتا ہے اور اس کے تین طرف گھنے سرو کھڑے ہیں.عمارت ۳۱۳ مربع فٹ رقبے کے چبوترے پر قائم ہے جس کے ہر کونے پر ایک مینار ہے.اس مربع عمارت کے کونے کٹے ہوئے ہیں اور ہر طرف ایک بلند دروازہ ہے.سفید سنگ مرمر کی دیواروں کی بیرونی سطح میں قیمتی پتھر جڑے ہیں جن سے قرآنی کتے ، بیل بوٹے اور عربی طرز کے نقوش بنائے گئے ہیں اور اندرونی حسن کو عمیق یمانی ، پیشب اور رنگدار سنگِ مرمر کے استعمال سے دوبالا کیا گیا ہے.گنبدی چھت اندر سے ۸۰ فٹ بلند اور ۵۰ فٹ قطر میں ہے.باہر سے یہ گنبد پیازی شکل کا ہے جس پر ایک کلس، اور کس کے اوپر ایک ہلال ہے.حجرہ مدفن جس میں دو تعویز ہیں عمارت کے مرکز میں ہشت پہلو کمرہ ہے.ملکہ اور بادشاہ فرش کے نیچے تہہ خانے میں مدفون ہیں.اس مجرے میں ہلکی ہلکی روشنی پڑتی ہے جو سنگِ مرمر کی نہایت نازک دُہری جالیوں سے چھن کر آتی ہے.تاج محل کا نقشہ بنانے والے مہندسوں کے متعلق مختلف دعوے ہیں.یورپین لوگ اسے کسی اطالوی انجینیئر کا کارنامہ سمجھتے ہیں.بعض اور لوگوں کے نزدیک یہ ایک لاہوری مہندس کا کام ہے.استاد عیسی شیرازی کا نام بھی اس ضمن میں خاص اہمیت رکھتا ہے.فتح پور سیکری اتر پردیش (بھارت) کے شہر آگرہ سے ۲۲ میل کے فاصلے پر سیکری“ کے نام کا ایک گاؤں آباد ہے.یہاں بابر نے ۱۵۲۷ء میں ایک فیصلہ کن معرکے کے بعد رانا سانگا کوشکست دیکر مغلیہ حکومت کی بنیاد مستحکم کی تھی.اسے اکبر نے سیکری کے تاریخی قصبے کے قریب ایک پہاڑی پر آباد کیا تھا جہاں اُس زمانہ میں سلسلہ چشتیہ کے ایک بزرگ شیخ سلیم فروکش تھے.۱۵۶۹ء میں ان کی دعا سے اکبر کی راجپوت مہارانی جودھا بائی المعروف مریم الزمانی کے بطن سے جہانگیر ان ہی کی خانقاہ میں پیدا ہوا.شیخ موصوف کے نام پر اس کا نام سلیم رکھا گیا.اکبر نے شیخ کی خانقاہ سے متصل ایک عالی شان مسجد بنوائی اور عہد کیا کہ وہ اس جگہ ایک شہر آباد کرے گا.چنانچہ آئندہ سال اُس نے ضروری احکام صادر کر دیئے.شہر کا کل رقبہ پونے دو مربع میل اور فصیل کا کل طول پونے چار میل تھا یہ فصیل اب تک موجود ہے ۱۵۷۴ء میں جب اکبر گجرات کے باغیوں کی سازش فرو کر کے واپس لوٹا تو شہر کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی جس کا نام اُس نے
فتح پور رکھا اور اسے اپنا دارالسلطنت قرار دیا.۱۵۸۶ء میں اُس نے یہاں کی سکونت ترک کر دی جس کی وجہ غالبا یہ تھی کہ یہاں پانی کھاری تھا.اس سے شہر کی رونق جاتی رہی اور اکبر کی وفات کے بعد تو یہ شہر اُجڑ گیا.بہر کیف اس کی بہت سی عمارات آج بھی بہت اچھی حالت میں محفوظ ہیں جن میں سے چند ایک کا تعارف درج ذیل ہے.مقبره شیخ سلیم چشتی (۵۸۸۳ تا ۵۹۷۹ شیخ بہاء الدین کے فرزند، سلسلہ نسب شیخ فرید الدین گنج شکر سے ملتا ہے.آپ نے بمطابق ۱۴۷۸/ ۶ تا ۱۵۷۱ء) زہد و تقویٰ اور رُشد و ہدایت کی زندگی اختیار کی.سیکری میں ایک ٹیلے پر قیام گاہ تھی، متعدد مرتبہ سفر حج اختیار کیا.ہر بار حج کے بعد خاصی مدت حرمین میں گزارتے.آخری حج ۹۱۷ھ / ۱۵۶۳ء میں کیا.اکبر بادشاہ کی اولاد نرینہ زندہ نہیں رہتی تھی.اُس نے شیخ سے دعا کرائی اور جب بیگم حاملہ ہوئیں تو شیخ کے قرب وجوار میں ایک محل بنوا کر انہیں باقی مدت کے لیے وہیں بھیج دیا.شہزادہ پیدا ہوا تو اکبر نے حصولِ برکت کے لیے اُس کا نام سلطان سلیم رکھا.دوسرے سال شہزادہ مراد بھی وہیں پیدا ہوا.اکبر نے وہاں فتح پور کے نام سے ایک شہر آباد کر دیا.ایک عظیم الشان شاہی محل اور ایک بہت بڑی خوبصورت مسجد بھی تعمیر کرائی.یہ شہر ایک عرصے تک اکبر کا دارالحکومت رہا.فتح پور سیکری کی شاہی مسجد میں سلیم چشتی کا مقبرہ ہے جو سنگِ مرمر سے تعمیر ہوا ہے اور مرضع کاری کا نہایت نادر اور خوبصورت نمونہ ہے.جامع مسجد اسے بہترین مغل عمارات میں شمار کیا جاسکتا ہے.اس کے وسطی صحن میں شیخ سلیم چشتی کا خوبصورت مقبرہ ہے اس کے ساتھ نواب اسلام خان کا مقبرہ ہے جو آپ کے پوتے تھے اور ایک اور قابلِ ذکر عمارت عبادت خانے کی ہے جہاں عہد اکبری میں مختلف مذاہب کے علماء جمع ہو کر بحث و مباحثہ کرتے تھے.بلند دروازہ فتح پورسیکٹری کی جامع مسجد کا جنوبی دروازه ( بلند دروازہ) فتح دکن کی یادگار کے طور پر ۱۶۰۹ء میں بنایا گیا تھا ایسا شاندار دروازہ برصغیر پاک و ہند تو کیا دُنیا بھر کی کسی مسجد میں نظر نہیں آتا.پنج محل طرز تعمیر کے اعتبار سے ایک انوکھی عمارت ہے.اس کی پانچ منزلیں ہیں اور ہر منزل اپنی زیریں منزل سے چھوٹی ہوتی چلی گئی ہے اس میں دیوانِ خاص کے ایوان کا
وسطی ستون اور غلام گردش خاص طور پر فنی لحاظ سے قابلِ دید ہیں.ترکش سلطانہ کا محل اپنی کندہ کاری کے لحاظ سے قابلِ توجہ ہے.عمارت کے اندر چارفٹ بلند گوٹ بندی کی ہوئی ہے.اور ان پر جنگل اور باغ کے مناظر نہایت خوبصورتی سے کندہ کئے گئے ہیں.مہارانی جودھا بائی کے محل (مریم محل ) اس میں مینا کاری کے بڑے خوبصورت نمونے ملتے ہیں.بیربل کا محل ایک دو منزلہ عمارت جس میں کندہ کاری سے کئی مناظر کی عکاسی کی گئی ہے ان میں جزئیات پر بڑاز وردیا گیا ہے.جامع مسجد (دہلی) من (دہلی) یہ مسجد دہلی شہر کے وسط میں واقع ہے اس کا شمار دنیا کی عظیم ترین مساجد میں ہوتا ہے.مغل شہنشاہ شاہجہان نے اسے دس لاکھ روپے کے خرچ سے ۱۴ سال (۱۶۴۴ء.۱۶۵۸ء) کے عرصہ میں پایہ تکمیل تک پہنچایا.یہ سنگِ مرمر اور سنگ سُرخ کی بنی ہوئی ہے.اس کا طول ۲۰۰ فٹ اور عرض ۲۰ فٹ ہے.مسجد کا صحن بھی بڑا وسیع وعریض ہے اور اس میں بیک وقت کئی ہزار افراد نماز ادا کر سکتے ہیں.صحن میں ایک سنگِ سُرخ اور سنگِ مرمر کا صاف شفاف پانی کا حوض ہے جس کے ایک طرف سنگ مرمر کی خوبصورت کرسی ہے.اس کے میناروں کی بلندی ۳۰ افٹ ہے.چھت تک پہنچنے کے لیے ۳۷۹ سیڑھیاں ہیں.مسجد کے تینوں دروازوں کے سامنے تین بڑی سڑکیں ہیں.اسے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سیاح دیکھنے کی غرض سے آتے ہیں.۱۸۵۷ء تا ۱۸۶۲ء یہ مسجد بند رہی.بالآخر انگریزوں نے اسے۱۸۶۲ء میں مسلمانوں کے حوالے کر دیا.قلعہ تغلق آباد (دہلی ) کناٹ پیلس سے ۵ کلومیٹر اور قطب مینارسے کلومیٹر اور جماعت احمدیہ کی بیت الذکر اور مشن ہاؤس سے ۳ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع دہلی کی کا تیسرا شہر تغلق آباد دغیاث الدین نے ۱۳۲۱ء اور ۱۳۲۵ء کے درمیان آباد کیا تھا.اور اسی کے خاندان کے نام سے موسوم کیا گیا.تغلق آباد کے قلعہ کو ۰ ۱ سے ۱۵ میٹر تک اونچی فصیلوں نے گھیرا ہوا ہے جن میں ۱۳ دروازے ہیں 47 میٹر چوڑی دیوار نہایت عمدگی سے تعمیر شدہ اور بے حد مضبوط اور محفوظ ہے یہ قلعہ پندرہ سال کے اندر اندر ہی پانی کی شدید قلت کی وجہ سے متروک کر دیا گیا.اُنیسویں صدی کے شروع میں یہاں گجر آبسے.بادشاہ نے اسے را جا بلب گڑھ کی عملداری میں کو دے دیا.۱۸۵۷ء میں را جانے پھانسی پائی اور تخلیق آباد انگریزی حکومت کی ملکیت ہو گیا.
تغلق آباد آج اپنی تمام تر بربادیوں کے باوجود دہلی کا سب سے عظیم ترین اور پُر ہیبت قلعہ گردانا جاتا ہے اس کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی فصیلوں اور دو منزلہ بُر جوں اور عظیم الشان میناروں کے درمیان عظیم محلات اور شاندار مسجد میں اور بڑے بڑے عظیم ہال واقع تھے.غیاث الدین تغلق ( وفات ۱۳۵۲ء) علاؤ الدین خلجی کے بھائی کے ہاں پیادوں میں ملازم ہؤا.قابلیت اور حسن خدمات کی بناء پر بڑا امیر بن گیا.تاتاریوں کے خلاف اُنتیس جنگیں کیں اور سب میں کامیاب ہوا.اسی وجہ سے غازی ملک“ کا خطاب پایا.خسرو خان کے قتل کے بعد غیاث الدین کے لقب سے بادشاہی سنبھال لی.دکن اور بنگال میں امن قائم کیا اور فتوحات کیں.بنگال سے واپسی پر ولی عہد نے دہلی کے باہر بادشاہ کے استقبال کے لئے لکڑی کا ایک خوبصورت سائبان بنوایا وہاں رات گزاری.صبح کو جلوس کے ساتھ شہر میں داخلے کی تیاریاں ہورہی تھیں کہ اچانک سائبان گرا اور غیاث الدین اس میں دب کر مر گیا.میانہ رو، با تد بیر اور علم پرور بادشاہ تھا.مقبرہ غیاث الدین تغلق (دہلی ) آج تخلق آباد کو بدروحوں کا شہر قرار دیا جاتا ہے اور یہاں خانہ بدوش ڈیرہ لگائے رہتے ہیں.سیاح بڑی کثرت سے غیاث الدین کے نہایت عمدہ اور خوبصورت طور پر تعمیر شدہ یادگاری مقبرہ کی زیارت کرنے آتے ہیں.یہ مقبرہ تعلق آباد سے جانب جنوب اس کے بیٹے محمد تغلق نے بنوایا تھا.مقبرے کے بُرج کی چار دیواری اندر باہر سے سنگِ سُرخ کی نہایت خوبصورت اور مضبوط ہے.اس کے اندر تین قبریں ہیں.ایک غیاث الدین کی ، دوسری اس کی بیوی مخدومہ جہاں کی اور تیسری محمد تغلق کی.محمد تغلق کا انتقال تو سندھ میں ہوا انگر فیروز تغلق نے اس کی میت دہلی لے جا کر دفن کی.یہ مقبرہ قلعہ کے بیرونی دروازہ کے ساتھ ہی ایک مصنوعی جھیل کے درمیان تعمیر شدہ ہے.اس کو قلعہ کے ساتھ ایک کی سُرنگ کے ذریعہ ملایا گیا ہے.مقبرہ شمس الدین التمش (دہلی ) یہ ایک ٹرک امیر کا چہیتا فرزند تھا.بھائیوں نے حسد سے اسے غلام بنا کر بیچ ڈالا.نہایت عمدہ تربیت پائی.بعد میں قطب الدین ایبک نے خرید لیا.ہونہار دیکھ کر بیٹی سے شادی کر دی اور بدایون کا حاکم بنا دیا.بدایون اُس زمانہ میں اسلامی سلطنت کا نہایت اہم مرکز تھا.ایک کی وفات پر اس کا بیٹا آرام شاہ
تخت نشین ہوا مگر وہ ملک کا انتظام نہ سنبھال سکا.امراء نے ۱۲۱۱ء میں شمس الدین التمش کو بلا کر بادشاہ بنا دیا.ناصر الدین قباچہ اور تاج الدین یلدوز کے مخالفانہ ہنگاموں نے اتمش کے لئے پریشانی پیدا کی پھر جلال الدین خوارزم شاہ بھی ہندوستان آ گیا.التمش نے بڑے تدبر سے خوارزم شاہ کو روکا اس کے بعد قباچہ اور بلدوز دونوں کو شکست دیکر بنگال پر دہلی کا اقتدار قائم کیا.وسط ہند میں فتوحات کیں ۱۲۲۹ء میں خلیفہ بغداد سے خلعتِ سلطانی حاصل کی.بڑا بیدار مغز، با تدبیر، عادل اور حق شناس حکمران تھا ان ہزاروں مسلمانوں کو فراخ دلی سے پناہ دی جو تاتاریوں کی یورش میں بے خانماں ہو کر ہندوستان آئے تھے.سلطان شمس الدین التمش (۱۲۳۶/۵۶۳۳ء) کا مقبرہ (جس نے مسجد قوت الاسلام اور قطب مینار بنوایا ) مسجد قوت الاسلام کے قریب ہے.باہر سنگِ خارا، اندرسنگِ سُرخ اور کہیں کہیں سنگ مرمر لگا ہوا ہے.دیواروں پر خط کوفی میں آیات قرآنی کندہ ہیں اس پر گنبد بھی تھا جودیکھ بھال نہ ہو سکنے کے باعث مسمار ہو گیا.خواجہ نظام الدین اولیاء (دہلی) ۶۳۲ھ.۱۸اریج الآخر ۷۲۵ھ (۱۹ اکتوبر ۱۲۳۷ء.۲ مارچ ۱۳۲۴ء) ممتاز صوفی بزرگ اسم مبارک سید محمد بن سید احمد بن سید دانیال ، غرف نظام الدین، لقب نظام الاولیاء، محبوب الہی تھا.سلسلۂ نسب حضرت امام حسین تک پہنچتا ہے ان کے داد اعلی بخاری اور نا نا خواجہ عرب بخارا سے ہجرت کر کے بدایوں میں مقیم ہوئے.والد کا انتقال ان کے پچپن ہی میں ہو گیا والدہ نے تربیت کی.پھر ا جو دھن (پاکپٹن ) جا کر شیخ فرید الدین گنج شکر کے مرید ہوئے.دہلی آکر محلہ غیاث پور میں مستقل سکونت اختیار کی.اللہ تعالیٰ نے انہیں کمال جذب و فیض عطا فرمایا تھا.آپ کے خلفاء نے اطراف ہند میں جا بجا فیوض روحانی وعلمی کے مرکز قائم کر دیئے.حضرت امیر خسرو اُن کے خلیفہ اجل تھے.فوائد الفواد فصل الفؤاد، راحتُ المُحِبين اور سیر الاولیاء اُن کی اہم تصانیف ہیں.بچپن میں مسجد محلہ سوتہ ( بدایون) میں بیٹھ کر مطالعہ فرمایا کرتے تھے.چنانچہ اس مسجد میں ایک طاقچہ بطور آپ کی یاد گار محفوظ ہے، مزار مبارک بستی نظام الدین اولیاء میں ہے.پرانا قلعہ (دہلی) پرانا قلعہ نئی دہلی کی حدود میں ایک پتھریلی پہاڑی پر واقع ہے اور وسطی دور کے عسکری فن تعمیر کا عمدہ نمونہ ہے.ہمایوں نے اسے تعمیر کرایا تھا اور پھر شیر شاہ سوری نے اس میں کچھ ترامیم کرائیں.یہ ایک مضبوط لیکن سادہ تعمیر ہے اور اس کا ہر ایک حصہ اپنی ذات میں ایک مضبوط حصار ہے.بعد میں تعمیر ہونے والے خوبصورت محلات پر مشتمل مغلیہ قلعوں سے یہ بہت مختلف ہے کیونکہ اس میں کوئی محل اور تفریحی اور انتظامی تعمیرات پر مشتمل بلڈنگ نہیں بنائی گئی
جیسا کہ بعد میں تعمیر ہونے والے قلعوں میں بنائی جاتی تھیں.اس برباد شدہ قلعے کی تعمیر کا اصل مقصد سجاوٹ اور خوبصورتی سے زیادہ اس کی عسکری افادیت تھا.ہمایوں نے اسے ” قلعہ دین پناہ کا نام دیا تھا.اس کی فصیل اور دروازے فن تعمیر کا مثالی نمونہ ہیں.اس کے اندر شیر منڈل اور شیر شاہی مسجد دو قدیم عمارتیں ہیں.۱۵۵۵ء میں ہندوستان دوبارہ فتح کرنے کے بعد ہمایوں نے اسے اپنا کتب خانہ بنایا اور رصد گاہ قائم کی.اسی شیر منڈل کی چھت سے اترتے وقت شیر شاہی مسجد سے مغرب کی اذان سنی تو تعظیماً بیٹھ گیا.اذان کے بعد اُٹھا تو عصا پھسلا اور وہ سیڑھیوں سے گر کر شدید زخمی ہوا اور چند یوم بعد انتقال کر گیا.۱۹۴۷ء کے بعد فسادات میں یہاں مسلمانوں کا حفاظتی کیمپ بنا تھا اب قلعے کے اندر وسیع میدان میں کئی عمارتیں بن گئی ہیں.لال قلعہ (دہلی ) یہ بے مثال شاہی محل جسے شاہ جہاں نے بنوایا، بظاہر قلعہ نما ہے.لال قلعہ اس لئے مشہور ہوا کہ اس کی بیرونی دیواریں سر تا پا اعلی درجے کے سنگ سُرخ کی ہیں.نشیمن شاہی ہونے کے باعث اسے قلعہ مبارک بھی کہتے ہیں اور قلعہ شاہ جہاں بھی.بیرونی دیوار یا فصیل کا پورا دور ڈیڑھ میل سے کم نہ ہوگا.تین طرف خندق ہے جو پچہتر فٹ عریض اور تمیں فٹ عمیق ہے.شاہی زمانے میں اس کے اندر پانی بھرا رہتا تھا.انگریزوں کا دور شروع ہوا تو خندق بالکل خشک ہوگئی.اس میں بڑے دروازے دو ہیں.ایک لاہوری دروازہ جو مغربی فصیل کے وسط میں ہے اور اس کا رُخ چاندنی چوک کی جانب ہے.دوسرا دہلی دروازہ جو جنوبی دیوار میں پرانی دہلی کے رُخ ہے.قلعے کی مشرقی دیوار عین جمنا کے کنارے ہے مگر یہاں دریا اور دیوار کے درمیان ریت کا ایسائیلہ ہے جس پر دریا کا پانی چڑھتا ہی نہیں.نیز سامنے ریتلا میدان ہے جہاں بادشاہ ہاتھیوں کی لڑائی دیکھا کرتے تھے.۹ محرم ۱۰۴۹ھ /۲ مئی ۱۶۳۹ء کو جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب میں اس نادر روزگار عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا گیا اور تعمیر شروع ہوئی.۲۴ ربیع الاول ۱۰۵۸ھ/ ۸.اپریل ۱۹۴۸ء کو شاہ جہاں نے اس میں قدم رکھا.۴ استمبر ۱۸۷۵ء کو انگریزی فوج شہر میں داخل ہوئی اور غالباً اُسی روز بہادر شاہ ثانی لال قلعہ چھوڑ کر مقبرہ ہمایوں میں چلا گیا.۲۲ ستمبر کو اسے بطور اسیر قلعے میں لائے.یہیں دیوانِ خاص میں اس پر مقدمہ چلا اور سزائے موت سنائی گئی جسے جلا وطنی میں تبدیل کر دیا گیا.گویا نشیب وفراز کے مختلف واقعات کے باوصف لال قلعہ ۸.اپریل ۱۹۴۸ء سے ۴ ستمبر ۱۸۵۷ء تک دوسو نو سال، چھ مہینے اور چھ دن نشیمن شاہی رہا.قلعے کی دلفریب اور دیدہ زیب عمارتوں میں دیوانِ خاص، مثمن بُرج، رنگ محل، حمام ،موتی مسجد ہیں.
۹ دیوانِ عام کا نظارہ کبھی انتہائی عظیم الشان ہوا کرتا تھا جبکہ اس کو سنہری پردوں اور بیش قیمت قالینوں.سے سجایا جاتا تھا.اس دیوانِ عام میں تمام وزراء، راجے مہاراجے اور سفراء در بارشاہی میں شہنشاہ کے سامنے انتہائی مرعوب انداز میں کھڑے ہوا کرتے تھے.اس کے پیچھے عظیم الشان رنگ محلی اور ممتاز محل جیسے محلات پر مشتمل زنان خانہ ہوا کرتا تھا ان میں سے رنگ محل کے عین وسط میں سنگِ مرمر کے ایک بہت بڑے واحد ٹکڑے مشتمل بنا ہوا کنول کے پھول سے مشابہ ایک فوارہ ہے جو ایک عدیم المثال خوبصورتی کا شاہکار ہے سفید سنگ مرمر کی بنی ہوئی بارہ دری جس کو دیوان خاص کہا جاتا تھا اب اپنی عظمت کا اکثر حصہ کھو چکی ہے اس کی چاندی کی بنی ہوئی چھت کے نیچے دنیا کا مشہور ترین تخت طاؤس رکھا ہوتا تھا جس میں مغلیہ سلطنت کے قیمتی ہیرے جواہرات جڑے ہوئے تھے جن کی قیمت کا اندازہ آجکل کے حساب سے سوا کروڑ پاؤنڈ سٹرلنگ سے بھی زیادہ لگایا جاتا ہے.چھت کے نیچے یہ الفاظ کندہ کئے گئے ہیں.اگر فردوس بر روئے زمین است ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است نادرشاہ اور احمد شاہ ابدالی ، غلام قادر ، مرہٹوں اور آخر میں انگریزوں نے جی بھر کے ان مغلیہ خزانوں کولوٹا اور بے شمار تعمیرات کو جو خوبصورتی اور عظمت کا شاہکار تھیں ہر طرح سے بر بادکیا.تاہم سنگ مرمر کی بارہ دریاں ابھی تک ان تمام بربادیوں کے باوجود قائم ہیں.یہ واحد قلعہ ہے جس میں موجود بعض شاہی تعمیرات مغلیہ سلطنت کی کھوئی ہوئی شان وشوکت کی ایک حد تک جھلک دکھاتی ہیں.لال قلعہ دہلی میں تعمیر ہونے والا آخری قلعہ تھا.قطب مینار (دہلی) اسے قطب صاحب کی لاٹ بھی کہتے ہیں اور اس کا شمار دنیا کے عجائبات میں ہوتا ہے دراصل یہ مسجد قوت الاسلام ( پرانی دہلی ) کا ایک مینار تھا جس کے سات درجے تھے اب صرف پانچ درجے ہیں.چھٹا درجہ اُتار کر نیچے رکھ دیا گیا ساتویں کا کوئی پتہ نہیں.پورا مینا ر سنگِ سُرخ کا بنا ہوا ہے ہر درجے میں قرآنی آیات بیلوں کی شکل میں کندہ کی گئی ہیں اس کی خوبصورتی ، بلندی، داستان بیان میں نہیں سما سکتی.پانچوں درجوں کی بلندی دوسو اڑتیں فٹ ہے اور چھٹا درجہ جو نیچے رکھا ہوا ہے.اس کی بلندی سترہ فٹ ہے مینار کا گھیر انیچے سے ڈیڑھ سوفٹ اور پانچویں درجے کے اوپر سے تھیں فٹ ہے.قطب الدین ایبک نے اسے دہلی کی اسلامی فتح کی یادگار کے طور پر نیز دن میں پانچ وقت اذان
کی منادی کرنے کے لیے تعمیر کرایا تاہم وہ صرف ایک ہی منزل تعمیر کر اسکا تھا کہ اس کا انتقال ہو گیا بقیہ منزلیں اس کے جانشین شمس الدین التمش (۶۲۶ ۱۲۲۸/۵ء) نے تعمیر کروائیں.فیروز الدین تغلق کے عہد میں آسمانی بجلی گرنے سے اسے نقصان پہنچا ۱۳۶۸/۵۷۷۰ء میں اس کی مرمت کرادی گئی.سکندر لودھی کے عہد میں دوبارہ مرمت ہوئی (۹۰۹ ھ /۱۵۱۳ء).مغلوں کے آخری دور میں تیسری مرتبہ خستہ ہو گیا اس کی مرمتوں میں اس کی ہیئت کسی قدر بدل گئی.پہلے ہر درجہ کے اوپر کنگورے سے بنے ہوئے تھے بعد ازاں کٹہرے بنادیئے گئے.مینار کی تین سو اٹھہتر سیڑھیاں ہیں.مقبرہ ہمایوں (دہلی) دہلی کی بید ایک نہایت عالی شان عمارت ہے جور میلوے سٹیشن سے تقریباً پانچ میل کے فاصلے پر بستی نظام الدین کے قریب واقع ہے کہتے ہیں کہ ہمایوں نے خود مقبرے کی جگہ تجویز کر دی تھی اس کی بیگم حمیدہ بانو عرف حاجی بیگم ( والدہ اکبر ) نے ۱۵۵۶ء میں اس کی تعمیر شروع کرائی اور ۱۵۶۵ء میں مقبرہ تیار ہوا.اصل مقبرہ ایک وسیع باغ کے اندر تھا جس کے ارد گرد بلند فصیل تھی اور اس میں دو دروازے تھے ایک مغربی جانب دوسرا جنوبی جانب.دونوں سنگِ سُرخ کے بنے ہوئے تھے ان میں سنگ مرمر کی پٹیاں لگی ہوئی تھیں.اصل مقبرہ دوہرے چبوترے پر ہے اور نہایت عمدہ سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے.عین وسط کے کمرے میں ہمایوں کی قبر ہے خود حمیدہ بانو بھی اسی میں دفن ہوئی پھر تیموری خاندان کے متعدد بادشاہ اور شہزادے اس میں دفن ہوتے رہے مثلاً جہاندار شاہ ، فرخ سیر، عالمگیر ثانی، دارا شکوہ، یہ مقبرہ مغلوں کے فن تعمیر کا پہلا نمونہ ہے اور اس میں بُرج پہلی مرتبہ بنائے گئے اس مقبرے کا آخری قابلِ ذکر واقعہ ہے کہ بہادر شاہ ثانی لال قلعہ سے نکل کر اسی میں جا بیٹھا تھا اور یہیں سے اسے گرفتار کر کے قیدی کی حیثیت میں لال قلعے لے گئے تھے یہیں سے شہزادے گرفتار ہوئے.مقبرہ صفدر جنگ منصور (دہلی ) ابوالمنصور خاں صفدر جنگ ابن مرزا جعفر بیگ ایرانی.نواب شجاع الدولہ اسی کا بیٹا تھا ۳۹ ۱۷ء سے آخر تک دربار دہلی کی تمام سرگرمیوں میں برابر شریک رہا.سرہند میں عساکر دہلی کا مقابلہ احمد شاہ ابدالی سے ہو ا.صفدر جنگ اس میں شریک تھا.ابدالی کی شکست صفدر جنگ اور معین الملک کی کوششوں کا نتیجہ تھی پھر صفدر جنگ کو نواب وزیر کا عہدہ مل گیا.غرض یہ بارہ تیرہ سال تک ملک میں بڑی قوت بنا رہا پھر اپنے صوبے کی طرف متوجہ ہو ا جس کا انتظام نائیوں کے ہاتھ میں تھا.پاپڑ گھاٹ (لکھنو سے تین میل پر پہنچا
تو اچانک وفات پائی تابوت پہلے امانا فیض آباد میں دفن کیا گیا پھر دہلی میں مقبرہ تیار ہو گیا تو وہاں منتقل کیا گیا.صفدر جنگ کا مقبرہ دہلی سے قطب صاحب کو جانے والی سڑک پر واقع ہے سنگِ سُرخ کا یہ مقبرہ بڑا پُر شکوہ اور وسیع ہے جا بجا سنگ مرمر کی دھاریاں اور چوکے ہیں.گنبد پورا سنگِ مرمر کا ہے ارد گرد چار دیواری ہے.چاروں طرف چار نفیس نہریں بنائی گئی ہیں.باغ میں تین طرف خوبصورت مکان بنے ہوئے ہیں جنوبی جانب کے مکان کا نام ”موتی محل مغربی جانب کے مکان کا نام ” جنگلی محل“ اور شمالی جانب کے مکان کا نام ”بادشاہ پسند ہے مشرقی جانب دروازہ ہے جس کے اوپر خوبصورت بارہ دری بنی ہوئی ہے.جنتر منتر (دہلی) دہلی کے اجمیری دروازے سے قطب صاحب کی طرف جائیں تو تیسرے میل پر عجیب و غریب اور مختلف وضع کی دیواریں سی بنی ہوئی ہیں جنہیں جنتر منتر کہتے ہیں.اس کو مہا راجہ آف جے پور سوائے جے سنگھ ثانی نے ۱۷۲۴ء میں محمد شاہ کے کہنے پر بنوایا تھا.دراصل یہ ایک رصد گاہ تھی جس کے ذریعہ سورج ، چاند اور ستاروں اور سیاروں کی محوری اور خلائی گردشوں کا علم حاصل کیا جاتا تھا.جے سنگھ نے ایسے ہی جنتر منتر، متھرا ، بنارس ، اوجین اور جے پور میں بھی بنوائے تھے.کہا جاتا ہے کہ تانبے کے آلات کی بجائے ان تعمیرات کے ذریعہ زیادہ صحیح زائچے تیار کئے جاسکتے تھے.راجا جے سنگھ کوعلم ہیئت ونجوم میں مہارت تامہ حاصل تھی.مدت سے دیکھ بھال نہ ہو سکنے کے باعث اب یہ عمارت کارآمد نہیں رہی.قلعہ کوٹلہ فیروز شاہ (حوض خاص) شاہ جہاں آباد سے قطب صاحب جاتے ہوئے آخری مقام سے تھوڑے فاصلے پر دہلی گیٹ کے جنوب کی طرف ایک جگہ سری سٹی کے نام سے معروف ہے جو آجکل حوض خاص کہلاتا ہے جسے علاؤالدین خلجی نے ۱۲۹۵ء میں بنوایا تھا فیروز شاہ تغلق (۸۸-۱۳۸۱ء) نے اسے پانچویں شہر کے طور پر آباد کیا اور اپنے نام کی مناسبت سے اس کا نام تبدیل کر کے فیروز آباد رکھ دیا.یہاں قلعہ فیروز شاہ کوٹلہ بھی تعمیر کیا گیا.مزید کشش پیدا کرنے کے لیے تیسری صدی ق م کے دور کا ایک ۱۳ میٹر اونچا بھر بھرے پتھر کاستون بھی انبالہ سے جمنا کے راستے یہاں لا کر نصب کر دیا گیا.فیروز شاہ نے یہاں ایک شاہی حوض نہایت عظیم الشان قسم کا بنوایا تھا.فیروز شاہ تغلق غیاث الدین کی وفات (۱۳۸۸) پر مندنشین ہوا.جنگجو نہ تھا مگرکوٹ ( کانگڑہ) کیا.سندھ خود مختار ہو چلا تھا اسے سلطنت میں شامل کیا.بنگال پر حملہ کیا
۱۲ مگر اسے فتح کئے بغیر واپس چلا گیا.رعایا کی بہتری اور خوشحالی ہی کے کاموں میں مصروف رہا.جو ضابطے شریعت کے خلاف تھے موقوف کر دیئے.کھیتی باڑی کو ترقی دی.بنجر زمینوں کے لئے پانی کا انتظام کیا.بے شمار گاؤں آباد کئے بہت سے اور شہر بسائے مثلاً حصار فیروزه (جواب صرف حصار کہلاتا ہے ) ” جون پور جو جو نا خاں کے نام پر بسایا گیا.فیروز شاہ تغلق کی آباد کردہ دہلی فیروز آباد کا پھیلا و لمبائی میں چھ میل اور چوڑائی میں دو میل ہے.نہریں ، ٹپل اور تالاب جا بجا بنوائے.مقبرہ فیروز شاہ تغلق حوش خاص کے کنارے فیروز شاہ کا مقبرہ ایک بہت بڑے مدرسہ کے وسط میں موجود ہے جو اسی نے قائم کیا تھا.رضیہ سلطانہ کا مقبرہ بھی یہیں موجود ہے.تیمور لنگ نے محمد شاہ کو ۱۳۹۸ء میں یہیں شکست دی تھی اور دہلی پر قبضہ کر لیا تھا.تیمور نے اس کی خوبصورتی اور فن تعمیر کی بنا پر اس کی بے حد تعریف کی اور اس کے نمونہ پر اپنے وطن سمر قند میں ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کرائی.
الله ۲۲ ۲۴ ۳۵ ۳۹ انڈیکس مرتبہ: مکرم فضل احمد صاحب شاہد کلید مضامین آیات قرآنید احادیث اسماء مقامات کتابیات
1 آسمانی علوم آسمانی علوم تقوی کے ساتھ کلید مضامین اسلام میں بدظنی کی ممانعت ۱۳۱ اعمال اسلام کے احکام پر گھمل کرنا بڑا مجاہدہ ہے تمام اعمال اخلاقی پہلو سے اسلام احکام کے ساتھ حکمتیں ۳۶۹ روح پر اثر ڈالتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی رکھتا ہے ۵۰۷ احمدی احمدی خواتین کا شاندار نمونہ ۷۵۷ کی اغراض اسلام کا اعلان جنگ اور اس Par اسلام آزادی ضمیر کو نہیں چلتا ۵۷۲۲۵۷۰ ۵۷۴ اسلام کے احکام لڑائیوں کے قومی اخلاق کو بگاڑنے کی بارہ میں ۵۹۳٬۵۹۲،۵۸۹،۵۸۸ ۱۴۵ اسلام جنون اور وحشت کو دور وابستہ ہیں ایک احمدی نجومی کا واقعہ اخلاق ممانعت اخلاقی کمزوری کرتا ہے اخلاقی کمزوری مذہب اور اسلام دنیا پر غالب آئے گا ۵۹۶ روحانیت پر اثر انداز ہوتی اسلام کی بنیاد توحید خالص پر.۷۰۷ ہے ارتقاء ۵۸۶ اسلام میں جانوروں کے حقوق ۷۵۱ اللہ تعالیٰ جن کو بڑا بناتا ہے اُن کی عقل بھی تیز کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ کے پاک بندے خدا کی حفاظت میں رہتے ہیں DAY ۲۵۷ ۲۵۸ اللہ تعالیٰ کی صفت رزاقیت ۳۹۱۷۳۹۰ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق کی فراوانی اللہ تعالیٰ کا احسان بنی نوع انسان پر.اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے احیائے اسلام کیلئے مسیح موعود دماغ میں پچاس لاکھ سوراخ ۳۵۶ بنائے اسلامی تعلیم کی برتری اللہ تعالیٰ کا ہر کام بے عیب اور کااعتراف ۵۱۱،۵۱۰ پر حکمت ہے ارتقاء اور قرآن ۷۷۹ کی بعثت اسلام اسلام کی تعلیم.قیامِ امن کے اللہ تعالیٰ کی تسبیح.ذرہ ذرہ کر متعلق اسلام میں ظلم کی ممانعت ۱۳۳ ایک اعتراض کا جواب ۲۶۷ رہا ہے IM.IM اعتراض ۳۹۱ ۳۹۲ ۳۹۳ ۳۹۵ ۳۹۵
اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں ۳۹۹ امن برباد کرنے والی چار بچہ کے کان میں اذان اور اللہ تعالی کی عطا کا بے مثال چیزیں نمونه اللہ تعالیٰ کی ہر روز ایک نئی چیزیں ۱۴۰ اقامت کہنے کی حکمت IM بدظنی ۳۹۵ امن قائم کرنے والی چار شان سے جلوہ گری قیام امن کے ذرائع ۱۵۱ تا ۱۵۳ اسلام میں بدظنی کی ممانعت اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حمد کا بزرگ انبياء بزرگوں کے واقعات ۲۱۲۶۴،۶۳ گہرا تعلق ۴۱۴ انبیاء ہمیشہ کیلئے زندہ ہیں اللہ تعالیٰ کے غیر متبدل FATH انسان انعامات ۴۲۰ انسان ابتداء میں غار میں رہتا مسم بنو اميه ایک بزرگ کا کشف بنو امیہ کے ایک بادشاہ کا وام سے کئے اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہمیشہ قابلیت کی بناء پر ہوتا ہے ۴۲۹ انسان میں خدا نے آگے ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے ۴۰۲ بڑھنے کی قابلیت رکھی ہے انگریز عالم الغیب خدا سب کچھ جانتا ہے الہام ۶۴۵ ایک انگریز دس سال تک مسلمانوں کو نماز پڑھاتا رہا اللہ تعالیٰ نے الہام میں بھی انگریز افسروں کی بربریت ارتقاء رکھا ہے الہام اور منجموں کی خبروں میں فرق الہام الہی میں قدرت اور ۵۳ انگریز ڈپٹی کمشنر کا واقعہ اولاد قتل اولاد کی ممانعت ١٩١ لطيفه ۱۹۸ ۵۹۵ ۱۳۸ بہائی بہائیوں کا لغو اعتراض بہائیوں کی لا مرکزیت بیت الله بیت اللہ اول المساجد ہے ۴۶۰۴۵۹ بیت اللہ کی اغراض ۱۶۵،۱۰۳ بیت اللہ پر گورنر یمن کا حملہ ۶۶۴ بیت اللہ کی عظمت کا اعتراف ایک ثبت پر گیدڑ کا پیشاب امت محمدیہ کا بلند مقام ۷۱۷ کرنا ۴۵۴۴۵۳ ایک دوست کی بیعت کا واقعہ ۵۳۶ تا ۵۳۸ جلال کا پہلو پایا جاتا ہے اُمتِ محمدیہ 12
پابندی عہد پیدائش انسانی کے متعلق قرآنی آثار قدیمہ کا خلاصہ پیدائش انسانی میں ارتقاء کا پابندی عہد کی ایک حیرت انگیز ایک ثبوت مثال پھل جنتی پھلوں کی خصوصیات پیدائش انسانی پیدائش انسانی کے متعلق ۳۲۱ ۲۳۹ پیشگوئی پیشگوئیوں میں استعارات کا استعمال یا جوج ماجوج کے متعلق پیشگوئی ۴۸ توبہ سے گناہ معاف ہو جاتے ۵۴۲۵۲ توکل ۲۹۸ ۸۰۱ ایک بزرگ کے تو تحل کا واقعہ で جماعت احمدیہ فلسطین پر یہود کے قبضہ کی جماعت احمدیہ کے قیام کی PAY ہندوؤں کا نظریہ ا پیدائش انسانی کے متعلق پیشگوئی ۸۰۱ اغراض تورات کا نظریہ جماعت احمدیہ کے قیام میں پیدائش انسانی کے متعلق ترقی ایک حکمت ڈارون کی تھیوری تمدنی ترقی کا ایک عظیم الشان جماعت احمدیہ کا فرض پیدائش انسانی کے متعلق ہیکل جماعت احمدیہ کا ایک عہد ۴۲ کا نظریہ پیدائش انسانی کے بارہ میں تقویم شمسی موجودہ زمانہ کی تحقیق تقویم شمسی کی ضرورت پیدائش انسانی اور قرآنی نظریہ 12 تکبر کے نقصانات پیدائش انسانی کے مختلف دور ۱۸ تا۲۲ پیدائش انسانی کا دور اول عدم تعد وازواج سے شروع ہوا ۱۹ تعدد زواج اقلیت کیلئے طاقت پیدائش انسانی کے متعلق عام حاصل کرنے کا ذریعہ ہے قرآنی اصول ۲۴ تعلقات ۱۴۵ ۱۴۴ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات جماعت احمدیہ کالنگر ہمیشہ جاری رہے گا جمہوریت جمہوریت کا بڑا اصل مشورہ ہے ۲۶۷ ۳۲۰ ۳۲۲ وان ۷۵۲۷۵۱ ۴۸۴ جن کے معنی پوشیدہ رہنے والا پیدائش انسانی نفس واحدہ سے ۴۰ تعلقات کی خرابی کی تین وجوہ 69.۲۸
۱۰۸ ۲۳ ۷۵۲ ۲۳۵ ។ جن کا لفظ غیر قوموں کے افراد کیلئے بولا گیا جنت PA آسمانی دربار کی ایک سیر جنت کے رزق کا کوئی پاخانہ وعا نہ ہوگا جنگ بدر دربار و رویا میں تمثیلی زبان استعمال ہوتی ہے زوج ایک اپانچ کی دعا کی قبولیت ۳۸۶، ۳۸۷ زوج کے معنی زینت ز لام سهم الاتهام جنگ بدر کے موقع پر انصار کا جوش اخلاص جنگ عظیم ڈائری نویس ایک ڈائری نویس کا لطیفہ ۶۳۰،۶۲۹ جنگ عظیم میں جرمنوں کے ڈائری نویسوں کی دھوکا دہی زینت کیلئے پہلی چیز ذاتی خوبصورتی ہے س ۶۳۶ خلاف انگریزوں کا جھوٹا پرو پیگنڈہ جنگ عظیم میں اٹلی کا ناپاک اراده جہاد جہاد بالقرآن سب سے بڑا جہاد ہے خلافت خ ۵۹۷ رسالت ۶۶۷ رسالت کی ضرورت روح مصری فلسفہ تھا کہ روحیں مینار پر اُترتی ہیں روحانی انعامات روحانی انعامات کو کوئی شخص چھیننے کی طاقت نہیں رکھتا خلافت حضرت محمد رسول اللہ روحانی نظام صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کو قائم رکھتی ہے خلافت راشدہ کے عہد میں راشن سسٹم کا اجراء ۱۵۴ ۵۸۱ روحانی اور مادی نظام میں مشابہت رؤيا ۵۰۴ ۶۵۹ ۲۹۶ ستارے ستاروں سے حاصل کردہ خبروں کی حقیقت سفر گلے کے درد کیلئے سمندر کا سفر مفید ہے ایک میدانی کا حضرت اماں جان سے سوال ش شراب انسانی عقل پر بالکل پردہ ڈال دیتی ہے
شراب کی کثرت سے ٹانگوں صحابہ کے ذریعہ بنی نوع صحابہ کا شراب کی حرمت کے ۲۳۸ | انسان کے حقوق کی حفاظت کی طاقت جاتی رہتی ہے شرک شرک کی مضرتوں سے دنیا کو محفوظ رکھنے کا حکم شریعت ۱۱۰ اعلان پر مٹکے تو ڑنا حضور کی وفات سے صحابہ کی صحابہ کا لین دین میں صفائی حالت ۱۷ کا واقعہ ۴۵۷ صحابہ کی عبادت اور ذکر الہی ایک غریب صحابی کا عجیب میں بڑھنے کی خواہش شریعت میں ارتقاء ختم ہو صحابہ کی پاکیزگی اور طہارت پر الہی شہادت جانے کی وجہ شریعت لعنت نہیں خدا کا فضل ہے شریعت کا فائدہ شہاب ہر نبی ایک شہاب ہے ۵۰۵ ۵۰۵ ۲۹۳ ۱۲۵ واقعه ۱۳۸،۱۳۷ ۲۲۰ صحابہ کی فراست کا واقعہ ۲۵۶، ۲۵۷ ۱۳۵ صحابہ کا نمونہ ہمارے لئے ایک صحابی کی عظیم الشان قربانی ۱۲۷،۱۲۶ مشعل راہ ہے صحابہ کرام کی ظاہری برکات ایک صحابی کو قیصر روم کا قید کرنا کے ایمان افروز واقعات ۱۳۸ اور رہائی ایک صحابی کا فاتحہ پڑھ کر دم کرنا ۱۲۸ | ایک صحابی کے مسلمان ہونے صحابہ کرام تمام دنیا کیلئے کا واقعہ ہدایت کا موجب تھے ۳۳۵ ،۳۲۴۷ ۳۲۷ ۶۰۱۳۷۵ ۱۳۹ ایک صحابی کا عشق رسول ۳۸۰،۳۷۹ صحابہ کا بے شمار احادیث جمع صحابه ورَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَ شہر مختلف بیماریوں کو فائدہ کرنا ۶۸۵ MAI ۱۳۲ رَضُواعَنُهُ کا خطاب صحابہ نے ساری عمر دین صحابہ کی بے مثال عظمت ۴۸۳٬۳۸۲ پہنچاتا ہے شیعہ سیکھانے میں لگادی ۱۳۲ صحابہ کو ایک عظیم خطاب شیعوں کا صحابہ کو بُرا کہنا صحابہ کا جذبہ قربانی ۴۸۵ ۱۳۳ صحابہ کی حالت سورۃ کوثر کے اسلامی تعلیم کے خلاف ہے ۲۱۲ صحابہ کا نمونہ انتخاب خلافت نزول کے وقت ۴۹۵:۴۹۴ کے وقت ۱۳۳ ۱۳۴ صحابہ کی امتیاز کی شان ۵۰۰ ص صابر رکھنے کا ذریعہ تھے 360 صابر کے معنی صحابہ کرام لوگوں کو شر سے محفوظ مخالف لشکروں کو دیکھ کر صحابہ ۵۷۷ صحابہ سے عیسائیوں کا متاثر صحابہ نے جتنی جنگیں کیں وہ ہوتا ۱۳۵ کے ایمان بڑھ گئے ۵۴۰ ۱۳۶ چند چند گھنٹوں میں ختم ہو گئیں
۶۹۱ ۶۹۲ ۶۹۳ ۶۹۳ ۶۹۵ ۲۹۷ ۶۹۸ M A ایک صحابی کی غیرت ایمانی صلح حدیبیه ۷۵۳ عالم روحانی کے سب سے بڑے علیم مواز نہ مذاہب کی نہر سمندر حضرت محمد رسول اللہ صلح حدیبیہ کی بعض شرائط ۵۴۳٬۵۴۲ صلی اللہ علیہ وسلم میں ظ ظلم اپنے نفس پر ظلم کرنے کی ممانعت ۱۴۷ عدل ۶۹۹ علم نباتات کی نہر علم توافق بین المخلوقات کی نہر علم حیوانات کی شہر جوش انتقام میں بھی عدل و علم معیشت کی نہر انصاف کی تلقین عطر جائز خواہشات کو پورا نہ کرنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام OAF علم الاقتصاد کی نہر علم شہریت کی نہر ۱۴۷ اور حضرت مصلح موعود کا عطر علیم تاریخ کی نہر لگانا ۲۵۰ علیم بدی عالم کی نہر علم عالم موسمیات کی نہر علم کائنات کی شہر علوم دینیہ کی شہر علم جغرافیہ کی نہر ۶۸۲ عورت علیم جہاز رانی کی نہر ۶۸۳ عورت کے پہلی سے پیدا ۱۳۹،۱۳۸،۴۴ ۱۳۹ ۲۶۹ علم طب کی نہر ۶۸۴ ہونے کا مفہوم علم ادب کی شہر ۶۸۵ عورتوں کے حقوق ۱۰۲ ۲۹۶ ۶۲۷ بھی ایک ظلم ہے عالم روحانی عالم روحانی کی شاندار مساجد عالم روحانی کے کواکب عالم روحانی کے ڈائری نویس عالم روحانی میں مجرم کیلئے علم ہندسہ کی نہر انکار کی گنجائش نہ ہوگی ۶۳۹ علم معانی کی نہر علیم بیان کی نہر حاکم روحانی میں مجرموں کے 10+ ۱۸۵ عورت انعامات کے لحاظ سے YAZ ۶۸۷ آخرت میں نبی کی شریک ہوگی عورتوں کو ایام حمل میں مٹی کھانے کی عادت ہوتی ہے علم کیمیا کی شہر فیصلے کی نقول علم النفس کی نہر ۶۸۷ عالم روحانی کا قانون روحانی عالم فلسفہ کی نہر غ ۶۹۰ جاگیرداروں کے متعلق ۶۶۳ علم منطق کی تعمیر ١٩٠ غلام
۴۷۵ ۵۰۶ TAI ۶۸۳ ۶۹۹ ۷۰۸ 9 ایک مسلمان غلام کا کفار معاہدہ فاتحہ سورۃ فاتحہ اُس شخص کی زبان قرآن کے اندر غیر محدود حاملین قرآن کی عظمت ۲۵۷ معارف و حقائق کے خزانے قرآن کی کامل تعلیم ہیں ۵۵ قرآن کے ذریعہ ہزارہا قرآنی معارف کبھی ختم نہ علمی مہروں کا اجراء ہونگے ۹۰ قرآنی معلومات کا ایک عیسائی قرآن کریم کا بلند ترین مقام سے نکلی ہوئی بابرکت ہوسکتی ہے جس کے اندر خود برکت ہو فلک فلک نظام شمسی کے پھیلاؤ کا قرآن نے فلک کے وجود کو نام ہے تسلیم کیا ہے IPA قرآن کریم کی ہر آیت وعظ ہے ۹۵ محقق کو اعتراف قرآن نے تمام علوم کی طرف ۱۰۵ اشارہ کیا قرآن کریم ایک آسمانی از روئے قرآن ہر چیز کے کتاب ہے ۲۹۵ جوڑے ہیں | قرآن الہامی زبان میں نازل قرآن کا بے مثال نکتہ ہوا ۸۴ قرآن کریم کی افضلیت قرآن خدا کی طرف متوجہ ۲۹۸ قرآن میں ہر قسم کے سوم سر کتب خانے ہیں ق کرنے والی کتاب ہے ۳۶۵ قاتل قرآنی تعلیم کے ذریعہ قرآن اور نیچرل ہسٹری قرآن اور علم نباتات قرآن میں تربیت کے اصول LLL ۷۸۹ عہد عمر کے ایک قاتل کا غیر معمولی طاقت کا حصول ایمان افروز واقعه قبر ہے قرآن نے صفات الہیہ پر قرآن میں سیاست کے ۳۹۸ اصول قرآن میں جمہوریت کے قرآن کا قانون مکمل اور جامع اصول 29.تفصیلی روشنی ڈالی اصل قبر وہی ہے جو خدا بناتا ١٩٣ ۷۹۲ علوم قرآنیہ کے انکشافات کا قرآن میں تاریخ تمدن کا ذکر ۷۹۳ دروازہ کبھی بند نہیں ہوسکتا ۴۰۱ قرآن میں تمدن کے اصول ثواب، عذاب عالم برزخ کی قرآن ایک زندہ کتاب ہے ۴۰۲ قرآن میں دہریت کا رو قبر میں ملتا ہے قرآن ۱۹۴ قرآن میں ایک دربار خاص کا قرآن میں زرتشتی مذہب کے ۴۲۶ اصول کا ذکر ۷۹۳ ۷۹۵
1+0 |+1 ۱۰۷ ۱۰۷ ۱۵۶ قرآن میں علم الاخلاق کا ذکر ۷۹۷ قرآن میں علم الانسان کا ذکر گندگی قرآن میں آئندہ زمانہ کی تاریخ قرآن میں جغرافیہ کا ذکر A+r قرب الهی قرب الہی کے ذرائع قرمانی ۳۱۲ اسلام سے پہلے گندگی کو بزرگی کی علامت سمجھا جاتا ایک گنہگار کا واقعہ ل لنگر حقیقی قربانی اخروی زندگی کے تصور کے بغیر ممکن نہیں ۱۵۳ قرآنی لنگر کے ہمیشہ جاری قلعے قلعہ کیوں بنائے جاتے ہیں ۱۶۴ لیگ آف نیشنز امن قائم قلعوں کی گیارہ خصوصیات ۱۶۶ ۱۹۷ کرنے میں ناکام رہی رہنے کی پیشگوئی م مبلغین ۳۸۲ ۴۰ کے ۱۴۷ مساجد پاکیزگی کا مقام ہوتی ہیں مساجد بنی نوع انسان کی ہدایت کا ذریعہ ہیں مسجد امن کے قیام کا ذریعہ ہوتی ہے مساجد سے مسافر اور مقیم کے فوائد وابستہ ہوتے ہیں مساجد واقفین زندگی جمع کرنے کا ذریعہ ہیں مسافر شریعت میں مسافروں کی مہمان نوازی کا ذکر مساوات مساوات کی اہمیت قومی تباہی قومی تباہی کے اسباب قومی زندگی AY مبلغین کیلئے دعا کی تحریک ۴۰۳٬۴۰۲ مساوات کے متعلق ایک مبلغین کی قربانیوں کو کبھی قومی زندگی پائیدار بنانے کیلئے متواتر لائق افراد کا پیدا ہونا ضروری ہے ک کیڑا ہر کیٹر ا کوئی نہ کوئی مفید کام کر رہا ہے AL اصول نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۴۰۳ مساوات اسلامی کی شاندار متقی متقی غصہ کو دباتے ہیں مساجد کی اغراض مساجد ۱۵۱ ۱۰۹۲۱۰۳ مثال مسلمان مسلمانوں کی بقاء کے دوطریق (1 تبلیغ II تعدد ازواج) ۱۱۷ ۱۳۳ ۵۸۱،۵۸۰ مسلمانوں کی تمام جنگیں مسجد بنی نوع انسان میں ۳۹۶ مساوات پیدا کرتی ہے مدافعانہ تھیں
۶۹۴ ۶۵۲ ۸۳ Al ۸۴ ۸۵ ۸۵ ۴۹۴ ۶۵۷ مسلمانوں کے غلبہ کی پیشگوئی ۵۷۲ منارة اصبح محمدیت کے ساتھ چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں میں مسلمانوں کی ایک مقدس تعلق کی علامت ہے ۳۲۰ جا گیر مسلمانوں کی نگاہ میں عبادت گاہوں کا احترام مظلوم مظلوم کی فریاد خدا کے عرش کو ہلا دیتی ہے مغربیت مغربیت کی نقل نہ کرو مغفرت مغفرت الہی کا ایک واقعہ مقام محمود مقام محمود کی تجلیات موجودہ زمانہ میں مقبرہ ہم شخص کا روحانی مقبرہ اس کے اعمال کے مطابق ہوگا ملائکہ ۶۶۳ ۶۷۰ 192 ۵۱۶ ۱۹۸ مومن اعلیٰ درجہ کے مومنوں کی بدیاں نظام نیوی حکومتوں کے نظام میں انقائص نیکیوں میں بدل جائیں گی ۶۵۷،۶۵۶ نظام ارضی مهمان نوازی ایک صحابی کی مہمان نوازی ۱۵۶ ۱۵۷ ن نجم کے معنی جڑی بوٹی نصائح جامع نصائح اپنے نفس کی اصلاح سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں Ar ۳۴۰،۳۳۹ نظام ارضی نظام شمسی کا ایک ہ ہے نظام شمسی نظامِ شمسی کا تمدنی ترقی تعلق ا نظام شمسی انسانی ہدایت کا موجب ہے نظام عالم نظام عالم انسان کے تمدن میں ترقی کیلئے ہدایت ہے ۹۶ نظام عالم کی کامیابی کے تین اصل ۴۰۴۰۴۰۳ نماز اپنا قرب نصیب کرے دعائیں کرو کہ تثلیث کا بُت نمازوں کی میدانِ جنگ میں ہمارے ہاتھوں سے پاش پاش ادائیگی ہو جائے ۴۰۴ حضور اکرم.آپ کے قادیان اور ہندوستان کے خلفاء- دنیوی خلفاء خود احمدیوں کیلئے دعائیں کرو ۴۰۴ نمازیں پڑھاتے نظام نوبت خانے ۲۱۵ ۵۰۳ ملائکہ کو تمام رشتہ داروں کی عزت کرنے کا حکم ملائکہ ایک مخفی وجود ہیں Eine
۱۲ نوبت خانوں کی اغراض ۵۲۷ تا ۵۳۰ اسلام اور کفر کی متوازی نہریں اسلامی نوبت خانہ کی ایک چلتی رہیں گی امتیازی خصوصیت اسلام کا شاندار نوبت خانہ نوبت خانوں کی خامیاں نہریں نہروں کے فوائد نہروں سے جسمانی اور ۵۶۵ ۵۶۹ ۵۶۹ 122 ۴۴۹ یہود کا حضور پر پتھر گرانے کا اراده غزوہ خیبر میں یہودی عورت کا ۴۷۴ حضور کے کھانے میں زہر ملانا مام کے سام یہود کی فلسطین میں دوبارہ واپسی کی پیشگوئی یہود کا فلسطین پر دوبارہ قبضہ اسلام کی صداقت کا ثبوت ہے ۶۷۲ ۶۷۴ ہندو ایک احمدی کا ہند و مجسٹریٹ کو لاجواب کرنا ی روحانی علوم کی مشابہت ۶۷۹،۶۷۸ یہود گے ۶۷۴ دنیوی اور روحانی نہروں ایک یہودی وفد کا قرآنی یہود کی تباہی کی پیشگوئی ۶۷۵،۶۷۴ میں فرق ۷۰۰ تا ۷۰۲ | آیت سے اثر لیتا ۳۶۶ یہود کی قدیم رسم ZAQ یہودفلسطین سے نکالے جائیں
الفاتحة ۱۳ آیات قرآنیہ انی جاعلک للناس اماما الله لا اله الاهو الحمد لله رب العلمين (۲) البقرة مما رزقنهم ينفقون (۴) (۱۳۵) ۵۲۳ واذ جعلنا البيت (۱۲۶) ۲۲۱ اولئک على هدى من ربهم واذ قال ابراهيم ربّ (1) وماهم بمؤمنين (۹) ان کنتم في ريب (۲۴) ۲۲۸ (ltz) 199 ۶۸۶ ۱۵۵ ۱۶۵،۱۵۵،۱۰۵ کذلک جعلنكم امة وسطا وبشر الذين امنوا (۲۶) ۲۳۲۲۳۱ (۱۴۴) 170 (۲۵۶) ۷۶۹ ،۷۶۸ ،۴۱۶ واتقوا الله ويعلمكم الله 1 (۲۸۳) آل عمران ان الذين كفروا (1) قل إن كنتم تحبون الله (۳۲) ۱۳۹ ۳۹۶ ۳۷۱،۳۲۵،۲۲۶ ياهل الكتاب لم تحاجون واذا قيل لهم اتبعوا (۱۷۱) ۶۹۰ (۶۶) اني جاعل في الأرض خليفة (۳۱) علم ادم الاسماء (۳۲) ۴۲۱,۴۶ (۱۷۸) ۲۵۶ ۶۹۱ ۱۷۱،۱۰۳ ۲۹، ۸۰۰،۴۷ ليس البر ان تولوا وجوهكم ان اول بیت (۹۷) فيه ايت بينت (۹۸) قالوا سبحنك لا علم لنا هن لباس لكم (۱۸۸) سلام تمام مواسم (۱۰۵) (۳۴۳۳) لا تاكلوا اموالكم بينكم فسجدوا (۳۵) یادم اسکن انت (۳۶) ۴۶،۳۸ (۱۸۹) ۴۲۳ ولتكن منكم امة يدعون.يوم تبيض وجوه (۱۰۷) ۴۵۸،۱۵۹ واما الذين ابيضت وجوههم ليس عليكم جناح (۱۹۹) ۶۹۵ (۱۰۸) ۲۴۵ فازلهما الشيطن (۳۷) ربنا اتنا في الدنيا (۲۰۲) قلنا اهبطوا منها (۳۹) كنتم خير امة اخرجت (1) ۱۱۰ اسم يسئلونك عن الخمر ثم قست قلوبكم (۷۵) (۲۲۰) ۲۷۸ ۶۹۲،۲۳۲ بلى من كسب سيئة (۸۳۸۲) التقول للمومنین (۱۲۶،۱۲۵) ۵۷۸ ولهن مثل الذي عليهن وما جعله الله (۱۲۷) QLA (۲۴۹) ۱۳ ١٣٩ والكظمين الغيظ (۱۳۵) ۱۴۹ وما كفر سليمن (۱۰۳) ۷۳۴ كم من فئة قليلة (۲۵۰) ۵۷۲ | شاورهم في الأمر (۱۶۰) 69.
۱۴ لقد من الله على المؤمنين فاذهب انت وربك فقاتلا (۱۶۵) (۲۵) ۵۰۱ الذين قال لهم الناس (۵۷۸۱۷۴ فسوف ياتي الله يقوم ان في خلق السموت (۱۹۱) ۶۸۱ (۵۵) (92) ۷۹۱٬۵۰۰ لاتدركه الابصار و هویدرک لا یغرنک تقلب الذين كفروا فان حزب الله هم الغالبون (۱۰۴) لا تسبوا الذين يدعون (109) ۷۹۷،۵۸۳،۵۸۲ لهم دارالسلام عندربهم ۵۷۲ (۱۲۸) ۴۶۸ ،۴۶۴۰۹۲ الاعراف (۵۷) ۳۷۴ (۱۹۸،۱۹۷) النساء بلغ ما انزل الیک يايها الناس اتقوا ربكم (۲) ۳۹ (۲۸) ولا تقتلوا انفسكم (۳۰) ۱۴۳ | انما يريد الشيطن (۹۲) لا تتمنواما فضل الله (۳۳) ۱۵۰ جعل الله الكعبة (۹۸) ولقد خلقنكم ثم صورنكم واعبدوالله ولا تشركوا به يايها الذين امنوا عليكم (۳۷) ام يحسدون الناس (۵۵) (104) 119 (۱۰۶) ۱۵۰ الانعام ۱۶۵ ۱۴۸ ومن يطع الله والرسول.الحمد لله الذي خلق السموت (<•) کے اکے (r) وانزل الله علیک الکتاب يوم نحشرهم جميعا (۱۱۴) (۲۴ ۲۳) ۶۹۰ لا يحب الله الجهر بالسوء وما من دابة (۳۹) (۱۴۹) المائدة ۱۴۵ اقل من ينجيكم من ظلمت (40.4M) اليوم اكملت لكم دينكم و کذلک نری ابراهیم (J) (24) 196 (۱۲) یادم اسکن انت (۲۰) فيها تحيون وفيها تموتون (۲۶) و لباس التقوى ذلك خير (۲۷) الذين يتبعون الرسول النبي ۶۳۹ (۱۵۸) ۶۹۳ قل يايها الناس انی رسول الله (109) PAF ممن خلقنا امة يهدون.(۱۸۲) ۶۲ ۲۹ ۳۹ ۳۲ ۲۲۴ ۳۵۳ ۱۲۹ هو الذي خلقكم من نفس واحدة ۳۹ ۲۲۵ (191.19+) وهو يتولى الصلحين (۱۹۷) تلک حجتنا ا اهيم ۲۰۹،۵۹ (۹۱۲۸۴) پايها الذين امنوا كونوا (۹) اذقال موسى لقومه (۲۱) ۵۴۴ فالق الاصباح وجعل الليل
خذ العفو وامر بالعرف (۲۰۰) الانفال مارميت اذ رمیت.(۱۸) 101 هود الا انهم يثنون صدورهم (Y) و ما من دابة في الأرض........(<) ۴۳۳۳۱۴ لیهلک من هلک (۴۳) ۳۸۰ هو الذي خلق السموت ان يكن منكم عشرون (۲۶) التوبة هل تربصون بنا الا ۶۴۵ ۳۸۹،۱۲۱ IZRNA (۳۸) الحجر ربما يود الذين كفروا (۳) ٣٦٦ ولقد جعلنا في السماء (۱۷تا ۱۹) والارض مددنها (۲۰) ۲۷۹ ان المتقين في جنت والارض (۸) ۵۷۴ (۱۰۱) ذلك من انباء القرى (matry) ۹۷ | ان فی ذلک لایت وان كلا لما ليوفينهم (MAEZY) ونم 197 MAM MAN (۱۱۲) ۶۰۱۶۰۰ ۴۸۱،۲۰۰،۱۲۶ يوسف لا ياتيكما طعام (٣٨) ۲۰۲ النحل وسخر لكم الليل والنهار (۱۳) ۷۹۴ ما كان حديثا يفترى (۱۱۲) ا لهم فيها ما يشاء ون (۳۲) ۲۷۰ ۲۴۶۰۲۴۵ ۶۸۴ ۶۸۷،۸۹ ۱۵۲ الرعد و اذا بشر احدهم بالانثى الله الذي رفع السموت (09) (۳) يخرج من بطونها شراب هو الذى مد الارض (2.) (۴) ونزلنا عليك الكتاب ۱۳ (۹۰) ۶۸۶۶۸۵ ۳۲۰ إن الله يأمر بالعدل (۹۱) ولقد نعلم انهم يقولون (۱۰۴) بنی اسرائیل ۲۱۴ ۱۳۹ (۵۲) والسبقون الاولون (1+0) ان الله اشترى من المؤمنين ۲۱۹،۲۱۸ (1) يونس هو الذي جعل الشمس ضياء ۶۸۵،۷۶ (Y) لا يعزب عنه مثقال ذرة (۶۲) ولكل قوم هاد (۸) الا ان اولياء الله لاخوف..جنت عدن يدخلونها (۶۳ تا ۶۵) (ro.rm) ۶۳ امنت انه لا اله الا (۹۱) ۲۸۲ ایر ابراهيم فاليوم ننجیک بیدنک وسخر لكم الفلک (۳۳) ۲۸۳ - سبحن الذي أسرى بعبده (۹۳) ۷۳۳ ۷۷۵ ربنا اني اسكنت من ذریتی (۲)
217 ۲۰۸ TYA 190.197 ۷۵ 199 j 12+ 14 فاذا جاء وعد أولهما (2,4) و كل شيئ فصلنه (الله) ووضع الكتاب فترى.(۵۰) ۲۲۸ ولوطا اتينه حكما وعلما (۷۶۰۷۵) ۶۴۷ ،۲۰۱،۲۰۰ ولقد صرفنا في هذا القران نفشت فيه غنم القوم (۵۵) ۷۳۲۶۸۷ کلا نمد هؤلاء (۲۱) ۳۷۲ قل انما انا بشر مثلكم (29) Ar والتي احصنت فرجها (۹۲) ۳۹۹ وحرام على قرية اهلكنها (۹۷ ،۹۶) ولقد كتبنا في الزبور ۲۰ (11) ۶۹۶ مريم اولايذكر الانسان انا خلقنه.(۶۸) ۱۳۴ لا تجعل يدك مغلولة (۳۰) ولا تمش في الارض مرحا (۳۸) وقالواء اذا كنا عظاما ورفاتا (۵۲۲۵۰) ۶۸۹ فان جهنم جزاؤكم (۶۴) ۲۰۳ و من كان في هذه اعمى (۷۳) عسی ان یبعثک ربک (1+1) اننى انا الله لا اله الا انا.الحج (17.10) م ذلك بان الله هو الحق يقوم انما فتنتم به (۹۱) ۷۸۶،۷۵۵ (۸۷) يادم ان هذا (۱۱۸) ٣٩ الم تر ان الله يسجد له (14) (۸۰) 0+9 (۱۲۰ ۱۱۹) ان لك الا تجوع فيها.على كل ضامر يأتين (۲۸) الاسلام قل جاء الحق وزهق الباطل (ar) ۳۷۷ طفقا يخصفن (۱۳۲) ۴۵ وليطوفوا بالبيت (۳۰) ان الله يدفع عن الذين.....۵۷۰،۵۶۹،۱۲۳ (۴۱۳۳۹) ۳۰ اذن للذين يقتلون (۴۲۲۴۰) ان يوما عندربك كالف سنة (۴۸) ولقد صرفنا للناس (٩٠) ۹۲ | قال اهبطا منها جميعا وقلنا من بعده (۱۰۵) (۱۲۴) ۸۰۲۶۷۲ قل الحمد لله الذي (۱۱۲) الانبياء الكهف اولم يرى الذين كفروا ۷۸۰۰۷۷۹ ،۱۹۸،۶۷۹،۲۳ (۳۱) واضرب لهم مثلا.(۳۴,۳۳) المال والبنون زينة الحيوة دات ۱۵ وهو الذي خلق الليل (۳۴) ۸۴ المومنون خلق الانسان من عجل (1) (FA) | 6** ۳۵ | واوينهما الى ربوة (۵۱) ۷۸۷
۳۵۵ ۲۳ ۵۴۰ ۵۴۰ 16 النور وليعفوا وليصفحوا (٢٣) تشهد عليهم السنتهم (۲۵) قل لا يعلم من في السموت (42.44) ۱۵۲ القصص (۶) ۷۵ الذي أحسن كل شيء (A) ۶۴۳ فاو قدلي بها من (۳۹) ۷۸۸ ثم جعل نسله (۹) الله نور السموت والارض ركم اهلكنا من قرية (۵۹) ۷۸۲ | الاحزاب (۳۹۲۳۶) ۳۳۶،۱۲۴ قل ارء يتم ان جعل الله.وإذ قالت طائفة منهم انما المؤمنون الذين (۶۳) ۷۹۳ (۷۳۷۲) الفرقان ولقد صرفتاه بينهم (۵۴۳۵۱) (IM)292 ان الذي فرض علیک القرآن ولما رأ المؤمنون الاحزاب (AY) العنكبوت ۲۶۳ (۲۳) ۴۷۹ فمنهم من قضى نحبه الشعراء قل سيروا في الارض (۲۱) ۱۹۷ (۲۴) ۵۹۷،۱۲۶ فماذا تامرون (٣٦) ۷۹۲ جعلنا في ذريته النبوة (۲۸) ۲۰۸ انما يريد الله ليذهب عنكم ارجه و اخاه (۳۷) ان حسابهم الا على ربي فنجينه واهله اجمعين (۱۱۴) (۱۷۲۱۷۱) ۷۹۲ YAZ وعادا وثمود (۳۹) ان الصلوة تنهى عن الفحشاء والمنكر (۴۶) (۳۴۳) MAN ان الله وملئكته يصلون (۵۷) ۱۳۵ او لم يكفهم انا انزلنا (۵۲) ۹۲۹۱ ظلوما جهولا (۷۳) ۴۴۳ ۴۳۴۰۲۱۰ ۴۲۵ ZAI والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبا (20) ۲۹۴ ۳۸۵ وبدلتهم (۱۷) وجعلنا بينهم وبين القرى (19) الروم الله الذي خلقكم من ضعف أنهم عن السمع لمعزولون (۲۱۳) انذر عشیرتک الاقربین (۲۱۵) ۴۴۳ (00) النمل لقمان ۳۵ ربنا باعد بین اسفار نا (۲۰) ۸۰۳ وما ارسلنک الاكافة للناس اوتيت من كل شيء (۲۴) ۴۶ (۳۰،۲۹) ۴۸۰،۳۵۴ يايها الملؤا افتوني (۳۳) 291 ولو ان ما في الارض (۲۸) السجدة ۸۹ فاطر امن يجيب المضطر اذا دعاه (۶۳) ۳۹۹ | يدبر الامر من السماء والله خلقكم من تراب
۲۶۹ IA ( ۱۳ ) ان من أمة الا خلافيها نذير (۲۵) ۲۳:۲۲ قل انما انا منذر ومامن ۷۷۳۵۸ (۸۹۳۶۶) الزمر امرهم شورى بينهم (۳۹) ۴۲۶،۳۴ الزخرف واقسموا بالله جهد ايمانهم الله نزل احسن الحديث وفيها ما تشتهيه الانفس (۷۲) ۳۵۸ الدخان حم والكتب المبين (۶۲) ۹۰ الجاثية 197 ۱۱۲ وفي خلقكم وما يبث (۵) محمد فأما منا بعد واما فداء (۵) مثل الجنة التي وعد ۳۸۱ ۲۵۱ ۲۸۰ (۲۴) ۳۷۴ (۴۴۴۳) يس قل يعبادي الذين اسرفوا اولم يروا (۷۴۷۲) (۵۵،۵۴) ۶۹۵ انما امره اذا اراد (۸۳) ۷۶۹ | قال لهم خزنتها (۷۴) الصفت المؤمن انا زينا السماء الدنيا يعلم خائنة الأعين (۲۰) (1152) ۷۳۹،۳۸۴،۲۹۶ وقال فرعون يهامن (۳۸،۳۷) ۲۳۱ فاولئك يدخلون الجنة (۱۲) (۴۱) ۲۳۴ ٢٠٣ والذين اهتدوا زادهم هدی الله الذي جعل لكم الارطى (IA) (۶۵) ۲۰۷ ۳۹۱ ٣٩١ الفتح يطاف عليهم بكاس من معين (۴۶) لا فيها غول (٤٨) تركنا عليه في الاخرين (۸۱۳۷۹) انا فتحنا لک فتحا مبينا ان من شيعته لابرهيم حم السجدة (۴۴۲) ۵۴۳ (۱۰۰۳۸۴) ረ ان الذين امنوا وعملوا (۹) ۶۶۳ قل للمخلفين من الاعراب فانظر ماذا تری (۱۰۳) ۷۸۹ حتى اذا ماجاء وها (۲۱) تركنا عليه في الآخرين وقالوا لجلودهم (۲۲) ۶۴۰ (۱۷) ۲۵۵ (۱۳۲۲۱۳۰) ۲۰۷ ان الذين قالوا ربنا الله.واخرى لم تقدروا (۲۲) (۳۳۲۳۱) الشورى محمد رسول الله (۳۰) الحجرات ۸۰۰، ۵۶۴ ۵۶۴ ۴۸۵ 1+9 و من ايته الجوار في البحر ولكن الله حبب اليكم Zar (۳۴۰۳۳) ۷۸۲ (A) YAM واذكر عبدنا داؤد (۱۸) و ان له عندنا (۲۶)
۶۴۶ المجادله يوم الله جميعا (۷) ۵۳۱ 19 ولقد جاء ال فرعون (۴۷۳۴۲) ۱۴۶ وان طائفتن من المؤمنين (1+) يايها الذين امنوا اجتنبوا (۱۳) ۱۴۱ | الرحمن ق انبتنا فيها (۸) الشمس والقمر (1) ۷۷۸ ولقد خلقنا السموت والارض والنجم والشجر (۳۹) الذريت فى اموالهم حق للسائل.(۲۰) (۷) ۷۶۸٬۵۰۳ والسماء رفعها.(۱۰۸) ۷۴۹ مارج من نار (۱۶) ومن كل شيى خلقنا زوجين مرج البحرين (۲۰) ۶۸۵،۸۱،۷۸ الا ان حزب الله هم المفلحون (۲۳) الحشر ۵۷۲ ۲۸۵،۸۱ | ما افاء الله على رسوله (۸) ۱۲۰ يحبون من هاجر اليهم (١٠) ١٣٣ والذين جاء وا من بعدهم (11) MA ۴۸۴،۲۱۱۱۵۱ والله الخالق الباری (۲۵) ۳۹۲ ۷۰ هوا ۱۲۵ ۶۹۶ ۶۵۵ ۷۸۰ الجمعة ۷۰۳ بينهما برزخ (۲۱) ۷۷۸،۷۷ ،۶۹۲ (۵۰) الطور وامددنهم بفاكهة (٢٣) يتنازعون فيها كاسا (۲۴) يسئله من في السموت والارض يتلوا عليهم ايته ويزكيهم ام لهم سلم (۳۹) النجم والنجم اذاهوى ۲۳۹ (۳۱،۳۰) ۲۳۵ ۲۹۵ ۴۰۰ (۳) ولمن خاف مقام ربه (۴۷) ۷۱۱ جنا الجنتين (۵۵) الواقعه ۷۱۴ فاذا قضيت الصلوة (۱۱) التغابن يوم يجمعكم ليوم الجمع على سرر موضونة(۱۶، ۱۷) ۲۵۳ (۱۹۵۲) ۴۳۲،۲۸۸۰۶۲ (1.) وفاكهة مما يتخيرون (۲۲،۲۱) وان الی ربک المنتهی (HJAW) سمسم وفاكهة كثيرة (۳۳تا۳۴) ۲۳۹ قد انزل الله اليكم ذكرا انه اهلک عادا (۵۲۵۱) ۷۷۷ ۲۳۸ | الطلاق (۱۲۱۱) ۳۶۲ الله الذي خلق سبع سموت (۱۳) ۲۴۹ في كتاب مكنون (۷۹) القمر فاما ان كان من المقربين حملنه على ذات الواح ودسر (۹۰،۸۹) ۹۳ (۱۴)
التحريم المزمل واذ اسر النبي......(۴) ۵۰ انا ارسلنا اليكم.الملک تبارک الذی بیده الملک (۱۲) فقضى فرعون الرسول........المرسلات الم تخلقكم من ماء مهين.(۲۳۲۲۱) ۷۱۶،۳۵۱ النبأ (۱۷ تا ۱۹) ۳۵۱ جزاء من ربك عطاء حسابا (۵۴۲) ۷۹۵ المدثر (۳۷) القلم يايها المدثر......(۲) عبس انک لعلی خلق عظیم (۵) ۳۷۳ القيامة كلا انها تذكرة...الحاقة فاما من اوتى كتبه........(۲۱،۲۰ ) و اما من اوتى كتبه (۲۸۲۲۶) المعارج ۶۵۱ وجوه يومئذ ناضرة (۲۳) ۲۴۶ (۱۲ تا ۱۷) الدهر خلقه فقدره (۲۰).هل اتي على الانسان حين (۲) ۲۰ وجوه يومئذ......(۴۰,۳۹) انا خلقنا الانسان من نطفة ۶۵۰ (۳) ۲۱ ۲۰۲ 19- ۲۴۸ التكوير ولقد راه بالافق المبین (۲۴) ۳۱۸ الانفطار يشربون من كاس (٦) ۷۰۲۲۲۹ اولئک فی جنت مکرمون (۳۶) ان عليكم لحفظين (۱۱تا۱۳) ۶۲۷ فوقهم الله شر ذلك اليوم نوح مالكم لا ترجون الله.(۱۴تا۱۹) الم تروا كيف خلق الله (12.14) الجن انا كنا نقعد منها (١٠) 22982 ۲۹۴ (۱۲) ٢٢٩ | المطففين دانية عليهم (۱۵) ۲۳۹ ويل للمطففين (۴۳۲) ۱۴۳۳ يطاف عليهم بانية (١٦) ۲۵۲ | يسقون من رحيق (۲۶، ۲۷) ۲۳۳ ويسقون فيها كاسا ( ۱۸ ) ۷۰۲۲۳۰ مزاجه من تسنیم (۲۸) ويطوف عليهم ولدان (۲۰) ۲۲۷ عينا يشرب بها (۲۹) وسقهم ربهم (۲۲) ان هذا كان لكم جزاء (۲۳) ۲۳۰ و ما تشاء ون الا ان يشاء الله علم الغيب فلا يظهر على غيبه (PA.KZ) (۳۱) 10 الطارق والسماء والطارق (۴۲) والسماء ذات الرجع (۱۳ تا ۱۵) ۲۳۶ ۲۳۶
۲۱ الاعلى هدينه النجدين (۱) ٣٨٨ الم يجعل كيدهم (۶۳) ۱۷۶ انه يعلم الجهر (۸) ۷۳۵ الم نشرح ان هذالفي الصحف الأولى الماعون فان مع العسر يسرا (۷۲) ۷۱۲ | ارأيت الذي يكذب ۷۵۶،۷۵۵ ٣٨ (ro,19) ۱۵۳ العلق (۲ت آخر) الغاشية وجوه يومئذنا عمة (۹) علم الانسان (۲) ۷۳۲ ٣٢ الكوثر ۲۴۹ البيئة انا اعطینک الکوثر فيها سور مرفوعة (۱۷۲۱۴) ۲۵۴ لم يكن الذين (۴۴۲) (۴۴۲) الفجر العديت الم تركيف ربک (۹۷) ۷۷۲ بايتها النفس المطمئنة اللهب (۲۸) ٣٢٦ الفيل البلد والعديت ضبحا (۶۳۲) ۵۹۹ تبت يد ابي لهب (۲) الم تر كيف فعل (٣٣) ٢٦٧،١٧٢ لم يلد ولم يولد (۴) الاخلاص
۲۹۰ ٢٩٠ ۱۵۰ ۶۷۹ ۱۰۸ PAT ۳۱۸ ۲۲ احادیث س سئل رسول الله ۷۰۳ AMY لا يبقى من الاسلام لو كان الايمان عند الثريا لولاک لما خلقت الافلاک ليس الشديد بالصرعة مثل ما بعثني الله مسجدى اخر المساجد ۵۸۸ اذا هلک کسری فلا کسری بعده اصحابی کالنجوم ۶۱۹ سلمان منا اهل البيت ق ۳۰۰ م م قاتلوا من كفر بالله اغزوا باسم الله QAA ک المسلم من سلم المسلمون ۱۳۰ ۱ | كان في الهند نبي النساء خلقن من ضلع ل من قال مطرنا بنوء ی لا تخيروني على موسى ۷۹۸ لا تغدروا ۵۸۹ | يدفن معي في قبري لا تغلوا ۴۷۲ ۲۹۲ ۱۹۷ 69A انا النبي لا كذب ان الله يبعث ان رجلا ان من اكبر الكبائر اول طعام ياكله ۷۰۲ ۵۸۹ | يفيض المال ۵۰۸ لا تفضلوني على يونس بن يوضع له القبول في الارض ٤٣٠ متي بعثت الى الناس كافة ۴۹۹ | لا تقتلوا امراة لا تقتلوا وليدا لا تقربوا نخلا تؤخذ من اغنياء هم ج ۱۲۰ لا تقطعوا شجرا لا تمثلوا ٣٩۶ | لا تهدموا بناء جف القلم بماهو كائن خ لا رهبانية في الاسلام لا يؤمن احدكم ۵۸۲۴۲۱ ۵۹۲ ۵۸۹ حدیث بالمعنى (ترتیب بلحاظ صفحات) ۵۹۲ مرنے والے تک صدقہ اور دعا ۵۹۲ پہنچتے ہیں (دیا چہ ) ۵۸۹ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ۵۹۳ ۱۴۷ ۱۵۱ مساجد کو صاف ستھرا رکھو میں کھو کا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا ۳۹ ۴۴۹،۱۰۵ ۱۲۱ ۴۱ خلقن من ضلع
٢٣ جب کسی کو غصہ آئے تو.۱۴۹ عیدوں پر تمہارے کپڑے دُھلے ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے ہوں ساتھ ہے ۴۷۰ ۴۴۸ صدقہ کا ایک دینار گھر رہ گیا تھا ۴۷۷ ۱۵۴ مسجد میں پیاز کھا کر نہ آؤ ۴۴۸ خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ سورج کو ہر قصبہ پر تین دن کی ضیافت جو شخص راستہ میں پاخانہ پھرتا میرے دائیں..فرض ہے ایک وقت کعبہ گرایا جائے گا مہمانی تین دن سے زیادہ جائز نہیں ہے.۱۵۸ *7.|144 ۴۴۹ میں جب نماز پڑھاتا ہوں.جو شخص کھڑے پانی میں پیشاب جو شخص رحم نہیں کرتا..کرتا ہے.۴۴۹ اگر میری بیٹی فاطمه ۲۲۶ اگر کوئی مسجد میں تھوک دے..۴۴۹ اللہ نے مجھے سخت دل نہیں ح عِندَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاء نازل جو شخص راستہ سے پتھر ہٹاتا ہوگا PAI اگر کسی وقت ایمان سمٹ کر.....بدظنی نہیں کرنی بنایا جب لشکر مٹرکوں پر چلے تو.۳۵۰ جب مفتوحہ علاقوں میں جاؤ تو مسیح آسمان سے اترے گا ۲۰۱ گالی گلوچ نہیں کرنی ۴۵۰ اگر کوئی شخص کسی بدی کا خیال جب بھی کوئی بڑا تغیر ہوتا ہے...۳۰۱ فرشتے نے منہ کی صفائی کا کرتا ہے ۴۵۰ ایک وقت ایک مجرم کو نکالا مجھے ہجرت کا حکم نہیں ۳۱۴ انتاژ ور دیا...مسیح مشرق سے ظاہر ہو گا ۳۱۸ بغض اور کینہ دل میں نہیں رکھنا ۴۵۰ جائے گا اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو....۳۵۷ میں ہر نماز کیلئے مسواک...۴۵۰ فلسطین کے علاقہ میں اسلامی.جس کسی کی دولڑ کیاں ہوں وہ کسی کو آگ کا عذاب دینے کی ان کو اچھی تعلیم دلائے ۳۶۱ اجازت نہیں جب کسی مسلمان کے گھر بچے ایک عورت کو محض اس لئے پیدا ہو شکر آئے گا ۴۵۱ سارا مال غریبوں کو دے دینا اچھا نہیں ۴۸۹ ۵۱۴ ۵۱۴ ۵۱۴ 097 ۵۹۶ ۶۵۹،۶۵۸ ۶۷۵،۶۷۴ ۴۵۲ اس فن کے تم ماہر ہو...۳۹۵ عذاب دیا گیا کہ...احسان یہ ہے کہ تو نماز اس یقین اگر تم نے نشان لگا نا ہو تو.۴۵۲ اس اُمت کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے سے پڑھے..۶۹۶ جس کے اول میں میں ہوں.۷۲۷ ۳۹۹ ایک عورت کو اس لئے جنت ۴۵۲ جو زیور استعمال ہوتا رہے اس پرز کو نہیں جمعہ کو آؤ تو غسل کر کے آؤ ۴۴۸ میں داخل کیا گیا.عطر لگا کر مسجد میں آؤ ۴۴۸ میں نے کبھی شرک نہیں کیا ۴۵۳ جمعہ کے دن صاف کپڑے پہنو ۴۴۸ گھبراتے کیوں ہو خدا ہمارے اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے ۷۹۰
٢٣ جب کسی کو غصہ آئے تو.۱۴۹ عیدوں پر تمہارے کپڑے دُھلے ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے ہوں ساتھ ہے ۴۷۰ ۴۴۸ صدقہ کا ایک دینار گھر رہ گیا تھا ۴۷۷ ۱۵۴ مسجد میں پیاز کھا کر نہ آؤ ۴۴۸ خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ سورج کو ہر قصبہ پر تین دن کی ضیافت جو شخص راستہ میں پاخانہ پھرتا میرے دائیں..فرض ہے ایک وقت کعبہ گرایا جائے گا مہمانی تین دن سے زیادہ جائز نہیں ہے.۱۵۸ *7.|144 ۴۴۹ میں جب نماز پڑھاتا ہوں.جو شخص کھڑے پانی میں پیشاب جو شخص رحم نہیں کرتا..کرتا ہے.۴۴۹ اگر میری بیٹی فاطمه ۲۲۶ اگر کوئی مسجد میں تھوک دے..۴۴۹ اللہ نے مجھے سخت دل نہیں ح عِندَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاء نازل جو شخص راستہ سے پتھر ہٹاتا ہوگا PAI اگر کسی وقت ایمان سمٹ کر.....بدظنی نہیں کرنی بنایا جب لشکر مٹرکوں پر چلے تو.۳۵۰ جب مفتوحہ علاقوں میں جاؤ تو مسیح آسمان سے اترے گا ۲۰۱ گالی گلوچ نہیں کرنی ۴۵۰ اگر کوئی شخص کسی بدی کا خیال جب بھی کوئی بڑا تغیر ہوتا ہے...۳۰۱ فرشتے نے منہ کی صفائی کا کرتا ہے ۴۵۰ ایک وقت ایک مجرم کو نکالا مجھے ہجرت کا حکم نہیں ۳۱۴ انتاژ ور دیا...مسیح مشرق سے ظاہر ہو گا ۳۱۸ بغض اور کینہ دل میں نہیں رکھنا ۴۵۰ جائے گا اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو....۳۵۷ میں ہر نماز کیلئے مسواک...۴۵۰ فلسطین کے علاقہ میں اسلامی.جس کسی کی دولڑ کیاں ہوں وہ کسی کو آگ کا عذاب دینے کی ان کو اچھی تعلیم دلائے ۳۶۱ اجازت نہیں جب کسی مسلمان کے گھر بچے ایک عورت کو محض اس لئے پیدا ہو شکر آئے گا ۴۵۱ سارا مال غریبوں کو دے دینا اچھا نہیں ۴۸۹ ۵۱۴ ۵۱۴ ۵۱۴ 097 ۵۹۶ ۶۵۹،۶۵۸ ۶۷۵،۶۷۴ ۴۵۲ اس فن کے تم ماہر ہو...۳۹۵ عذاب دیا گیا کہ...احسان یہ ہے کہ تو نماز اس یقین اگر تم نے نشان لگا نا ہو تو.۴۵۲ اس اُمت کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے سے پڑھے..۶۹۶ جس کے اول میں میں ہوں.۷۲۷ ۳۹۹ ایک عورت کو اس لئے جنت ۴۵۲ جو زیور استعمال ہوتا رہے اس پرز کو نہیں جمعہ کو آؤ تو غسل کر کے آؤ ۴۴۸ میں داخل کیا گیا.عطر لگا کر مسجد میں آؤ ۴۴۸ میں نے کبھی شرک نہیں کیا ۴۵۳ جمعہ کے دن صاف کپڑے پہنو ۴۴۸ گھبراتے کیوں ہو خدا ہمارے اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے ۷۹۰
۲۴ آئن سٹائن ، اسماء آدم سے مختلف تجلیات ۳۸۹ کا ظہور آدم علیہ السلام حضرت ۱۱ ،۱۴:۱۳ آسبرن ڈاکٹر ۳۱تا۴۱۵۳۹،۳۶،۳۴ ۴۵۰ تا ۴۹،۴۷ آصف زمان ڈپٹی ۵۳۳۵۱، ۹۴،۵۵، ۲۸۶،۱۰۸، ۲۸۷ آمنہ.حضرت ۴۲۴ Y اس کا بیت اللہ پر حملہ ۱۷۵۰۱۷۴ اس کے لشکر کی تباہی ۶۶۴ تا ۶۶۷ ۲۴۰ ابن تیمیه ابن جنی ۶۹۹ حضرت آدم سب سے پہلے کامل انسان تھے ۳۲۵،۴۲۳،۴۲۱،۳۵۵،۳۰۴، ۴۲۷ (والدہ ماجده رسول اکرم ) ۳۰۲٬۳۰۱ ابن حیان ۴۳۰،۴۲۸ ۷۲۱ ۷۷۰ تا ۷۷۲ ابراہیم علیہ السلام حضرت ۵۳٬۵۲ ابن سیرین ۵۹ ۶۰ ۶۲، ۱۵۵،۱۰۸،۱۰۷،۹۴۶۷ | ابن قیم حضرت ۲۵ ۱۷۳۳۱۷۰،۱۵۶، ۲۰۸ تا ۲۱۰ ۲۱۶ ابن عباس حضرت ۶۹۱۰۶۶۷ ،۴۲۱ ،۳۳۵،۳۰۶۰۳۰۴ ابو الفضل 7 2 ۷۲۶ ۱۹۳ لفظ آدم میں حکمت ۲۶ ۷۷۰۷۱۵، ۷۸۲،۷۷۱ ابو بکر حضرت خلیفہ اول زمانہ آدم کی تمدنی حالت Patrz آپ کے اندر بچپن سے ہی حضرت آدم پہلے بشر نہیں سعادت کا مادہ تھا حضرت آدم اور الیس نسل انسانی آپ کا بتوں کی مذمت کا واقعہ ۲۸ میں سے تھے ستارہ پرستوں کو درس توحید ۶۸ تا ۷۲ ۱۱۵،۹۵ ۲۱۳،۲۱۲۱۶۰ ۱۵۹،۱۵۴،۱۳۴۱۱۷ YA ۴۹۵،۳۷۰،۴۴۴،۳۸۰،۳۷۵،۲۵۵ ۵۶۲۵۶۱٬۵۵۴۵۵۳،۵۴۹ ۸۰۰۷۲۲،۶۹۹۰۶۹۲۵۸۲٬۵۶۵ حضرت آدم کی مخالفت ۳۷ حضرت آدم کے متعلق آپ کا بت توڑنا آپ کا حضرت اسامہ کو غیر معمولی ایک زبردست انکشاف آپ کو آگ میں ڈالنا عظمت دینا ۳۸ حضرت آدم سے پہلے آپ کی ہجرت ۷۲ آپ کا بلند مقام بشر شادی کے پابند نہ تھے ۴۱ حضرت ہاجرہ کو مکہ چھوڑنا ۱۷۱ ۱۷۲ - آپ کی جرات Mr ۴۹۱ شجرہ آدم کیا چیز ہے؟ ۵۲۲۴۹ آپ کی خواب ۷۸۹ اسلام کیلئے غیرت اور فدائیت ۴۹۲٬۴۹۱ حضرت آدم کی اہمیت ابراهیم ادهم آپ کے پاکیزہ جذبات ۴۹۳ کا اعلان ۴۴۲ ابره ۸۰۳۶۶۵ آپ کا قیصر و کسری پر رعب ٤٢٣
۲۵ ۶۵۴،۵۴۱ ۷۰۰۰، ۲۱ ۷۴۶،۷ ابوہریر کا حضرت اس کا دو بچوں کے ہاتھوں ابو جہل ۳۵۳،۴۲۴۲۹۹ حضرت ابو بکر کے خلیفہ بننے ( حرم حضرت مصلح موعود ) ۴۷۶ ، ۴۷، ۴۸ ۴۹۰ ، ۴۹۸، ۵۰۸ پر حیرت ۲۵۶ ۲۸۳ ۷۲۲ امتہ القیوم بیگم صاحبزادی ۱۵۹ ( بنت حضرت مصلح موعود ) ۴ ۵۰۱ ان کی دین کیلئے فاقہ کشی ۱۶۰ تا۳۸۳/۱۶۲ ۳۴۳٬۲۷۸، ۷۶۵،۷۷۲،۵۲۶،۵۲۵ مارے جانا ۲۰۷،۲۰۶ شاہ ایران کا رومال ان کے ام حبیبہ حضرت اس کیلئے ایک خدائی نشان ۷۴۴٬۷۴۳ قبضہ میں ۳۴۸ ، ۳۴۹ ان کی غیرت ایمانی ۵۵۱ اس کا حضور کے چہرے پر احمد بن عبد اللہ غزنوی مولوی ۷۲۶ امیر طاہر حضرت سیدہ تھپڑ مارنا ۷۴۲ احمد شاہ ابدالی ۲۴۴ ابوحنیفہ حضرت امام ۲۵۳ اروژه خان حضرت منشی ۷۶۲ ( حرم حضرت مصلح موعود ) انس حضرت ابوذر غفاری حضرت ۱۴۲، ۱۵۹ ان کے اخلاص کا واقعہ اور نگ زیب عالمگیر ابوسفیان حضرت ۴۵۳ ،۴۸۷ ارون لارڈ ۷۵۰ ۲۸۵ ۱۵۹،۱۲۶ ۱۸۸،۱۸۶ ۵۵۸۰۵۵۶،۵۵۳۳۵۴۹ | اسامہ بن زید حضرت ۴۹۱،۱۱۲ اور نگ زیب کا قلعہ میں مسجد بنانا ۵۶۲۳۵۶۰ ۵۹۵،۵۱۴ | اور یاہ فتح مکہ کے موقع پر ابو سفیان کا ان کا سپہ سالار بننا حضور سے غیر معمولی متاثر ہونا ۴۹۷ ان کا ایک شخص کو قتل کرنا ۳۱۵ ایڈیسن قیصر روم کے دربار میں حضور ۱۱۵ ایٹلی (Attlee) اسحاق علیہ السلام حضرت ۵۹، ۶۰، ۲۰۹ ایوب علیہ السلام حضرت کی عظمت کا اعتراف ۵۱۵ اسماعیل علیہ السلام حضرت ۲۰۵۹ ان کا حدیبیہ کے معاہدہ کی تجدید کیلئے مدینہ آتا ۵۴۸ تا ۵۵۳ اکبر مغل بادشاه ۱۸۸،۱۸۶،۳ بابر اسلامی پہرہ داروں کے نرغہ میں ۵۵۷ ۲۱۴،۲۰۴،۱۹۳،۱۸۹، ۶۹۰۷۵۶۶ بافر حضرت امام ابوسفیان پر عبادت کا اثر ۵۵۹،۵۵۸ الزبتھ ان کی حضور سے درخواست ۵۶۰٬۵۵۹ الیاس علیہ السلام حضرت ۴۸۷ ابو طالب حضرت ابوعبیده حضرت ١٣٤ | اليسع لعة الحئی حضرت ابو قحافہ - حضرت ۷۲۳ ،۴۹۱ ۶۰۸ ۲۰۵۹ LAT ۳۲۸ ۳۸۸ ۲۰،۵۹ ۲۱۰،۲۰۹ ۲۱۴ 661 باقی باللہ حضرت خواجہ ۱۸۶، ۱۸۸ ۲۰۷ تا ۲۱۰ بخت نصر بختیار کا کئی حضرت ۲۱۰،۲۰۹،۶۰۵۹ برشن ( ایک عیسائی جو نام بدل 21.210 2+1
۲۶ کر حج کر گیا ) بلال حضرت HA ۵۶۳۲۵۶۰ جنید بغدادی حضرت ۶۵۹،۴۱۹ حمزہ.حضرت ان کا جھنڈا کھڑا کرنے میں حکمت ۵۶۱ جونز پروفیسر بنت سبع بنی عمی ۷۸۲ ZAI ۲۹۹۰۶۶۲۰۶۶۱، ۷۲۵ ان کی حضور کیلئے غیرت جهانگیر ( مغل بادشاه ) بہاء الدین نقشبندی حضرت ۷۲۲۰۷۹۹ | جیمز بہاء اللہ اس کا عقیدہ ۳۶۲۳۶۱ ٣٦٠ چرچل ۱۶ | حوا.حضرت IALIAO خ ۳۱۴،۲۰۶،۱۸۹،۱۸۸ خالد بن ولید حضرت ۳۳۸ ان کی فدائیت ۴۳۶٬۳۲۸ خان علی قلی خان ۴۱۲۳۸،۳۱ ۵۶۱۳۱۶ ۷۲۲۵۹۸ ے کے A+r ۴۶۷۴۶۵ پوری ( پروفیسر پنجاب یونیورسٹی ) ۶۸۸ ریم ۵۷۶ خباب - حضرت حاطب حضرت ایک صحابی جنہوں نے فتح مکہ سے سلم مهم بوم بوم سهم سهم ۶۰ ۳۴۷ تیمور Mar ٹائیٹس ٹالسٹائے ۳۰۶ تا ۳۰۸ | حبیب اللہ شاہ حضرت قبل کفار مکہ کو خفیہ خط لکھا ۵۵۶٬۵۵۵ دارا ۸۰۲ حبیب الله خان لیفٹیننٹ جنرل ۸۰۲ دانی ایل.حضرت ۴۸۲,۴۱۳ داء داؤد علیہ السلام حضرت ۱۰۸،۷۰،۵۹ ٹرومین ٹیپوسلطان ان کی بہادری ۴۳۶ ان کے اوصاف ۵۲۸،۵۷۷ حذیفہ - حضرت ۲۴۵ ۲۴۴ 199 7418241 حز قیل حضرت داء ۷۸۴،۷۳۷ ثعالبی حسن.حضرت امام ۷۵۳۷۲۵،۵۵۰ ان کی عزت کی حفاظت ۷۸۳۷۸۲ ۷۱۳ ان کی ایک خادم سے ثناء اللہ مولوی امرتسری ۷۲۶،۲۶۰ ج ایک عیسائی قبیلے کا سردار ) جرجی زیدان ۵۸۰،۱۱۹ تفقت حسن بصری ۱۵۳ ۱۵۲ ۲۵ دیال سنگھ سردار ڈائر حسین.حضرت امام ۵۵۰ اس کے ہندوستان پر مظالم ۷۵۳۷۲۵ ڈارون ۷۷۶۶۸۳ حشمت اللہ (حضرت ڈاکٹر ) ۲۴۴ اس کی تھیوری ۱۴۸ ۵۹۳ ۱۶۳۱۴
۲۷ ز سراج الدولہ ( شاہ بنگال) ۵۶۸ ان کا ایک تاریخی واقعہ ذوالفقار علی خان سراقہ.اس کا تعاقب 14• حضرت مولوی ۷۶۳۲۳۰ سران داس ۷۶۴ شجاع شاه سرور شاہ.حضرت سید 19 رازمی.حضرت امام ان کے بیان کردہ واقعات 146.19 شمس الدین تغلق شمعون ۴۲۰۳۴۱۷ ۶۶۴۴۶۵۹ MF IAA رام چندر علیہ السلام حضرت سقراط حضرت.وہ بھی خدا کا ایک شوکت حیات.سردار ۴۹۹،۳۵۳، ۷۳ ۷ تا ۷۷۵ نبی تھا رجب دین خلیفه رضیہ سلطانہ عمسيس روم.حضرت مولانا ز زایر روس ۷۳۸ سکندر رومی ۴۳۴۷۳۳۲۸۵ 2+LIMA ۳۰۸ NA ۶۰ ز بیده ملکه زرتشت علیہ السلام - حضرت زکریا علیہ السلام - حضرت ۶۰۵۹ ۷۷۵،۴۹۹،۳۶۵۷۳۶۳۳۵۳ ۲۱۰،۲۰۹ ۵۹۰ ۷۷۵ شہاب الدین سہروردی حضرت ۶۹۹ ۱۷۳ سکندر اعظم یونانی ۲۰۹٬۵۶۴۴۸۲ شعبه سلطان احمد.حضرت مرزا ۲۵۹ شیر شاہ سوری ان کا بیان کردہ واقعہ سلیم چشتی حضرت خواجہ ۷۲۶،۷۰ سلیمان علیہ السلام - حضرت ۴۶ ۴۷ شیرویه ۱۰۸،۶۰،۵۹ ۱۳۹ ۲۲۰،۲۰۹،۱۴۰ ضرار - حضرت ۷۳۶۰۷۳۵۵۰۱ ، ۸۰۳۷۹۱۷۷۳۵ این کا ایک واقعہ ان پر بائبل کے الزامات ۷۸۳۷۳۴ سلمان فارسی - حضرت ۱۵۹ ۳۵۷ عائشہ حضرت ย سودہ.حضرت ۲۹۹ ۵۰۸ ،۴۹۸،۴۷۲ ۵۶۷۰۱۸۸ ع ۳۳۸ ۲۰۵،۶۰۴ سلام سلام ۵۵۳۵۴۶۰۵۴۵،۳۶۹ زید.حضرت ان کا غلام رہنے کو پسند کرنا الله ۱۸۹ آپ کا قول.كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ ۱۰۸ سید احمد بریلوی.حضرت ۲۶،۷۰۱ ۷ آپ کی سخاوت زینب - حضرت ( أم المؤمنين ) ۲۹۹ سید احمد سرہندی.حضرت 201 اپنے بھانجے سے ناراضگی MZA س ساره بیگم.حضرت سیدہ ( حرم حضرت مصلح موعود ) سامری ش عاص بن وائل ۷۲۲۴۹۷، ۷۴۷ شاہ جہان بادشاہ ۱۸۸،۱۸۶ عامر بن فہیر : ۳۷۵ ۲۰۴۰۱۸۹، ۵۶۶،۴۱۳۰۲۱۴۴۰۹.عباس - حضر ZAY شمالی - حضرت ۴۹۷۳۶۹۳۳ ۵۶۱،۵۵۹۲۵۵۷٬۵۳۵۰۵۱۵۰۵۱۴
٢٨ آپ کی ابوسفیان کو بچانے کی کوشش آپ کا ابوسفیان کو تبلیغ کرنا عبد الاحد افغان عبد البهاء ۵۵۸ ۵۲۰ حضرت ۵۰۸،۳۹۸۳۸۷ ۵۴۹،۴۹۳۴۹۱،۳۸۰۰۳۸۳۶۷ ۰۵۶۲۵۶۱ ۵۵۸۲۵۵۶ ۵۵۴۵۵۳۹۵ ۷۰۱۶۹۹،۶۹۲۵۹۸۰۵۷۱،۵۶۴ ۵۵۰،۳۸۰،۲۸۲،۲۱۳،۲۱۲۱۵۹۰۱۵۴ ۷۲۳۷۲۲۶۹۹۵۶۲۵۶۱ ۳۶۱ عثمان بن مظعون آپ کا حضور سے ایک مکالمہ ۴۴۳۳ عبد الجبار غزنوی مولوی ۲۶ ان کا راہ خدا میں مصائب جھیلنا ۱۳۰ آپ کے عہد خلافت کا ایک عبد الحق مولوی ۷۲۶ ۴۹۶،۴۹۵،۱۳۱ زرین واقعه عبد الرحمن بن عوف حضرت ۵۶۱ عکرمہ حضرت ۲۹۹، ۶۰۷ ان کا اُحد کے دن رونا Y+C+Y+Y آپ کی سادہ زندگی ۴، ۷۸ فتح مکہ پر ان کا فرار ۷۲۱ ۷۲۲ قیصر روم کا تو قیصر روم کا آپ کی ٹوپی منگوانا ۷۴۴ ۱۱۹ ۱۱۸ ۱۲۷ ۱۳۸ ۷۲۴ ۳۳ ۳۲۷ ،۳۲۶،۱۲۹ عبد الغني النابلسي مع ۳۰۰ ان کی بیوی کا حضور سے معافی آپ کی ناک کی جس تیز تھی عبد القادر جیلانی حضرت سید ۲۵۴ مانگنا ۷۳۴، ۷۴۵ آپ کی فراست کا واقعہ ۷۰۱، ۷۲۵ ان کا قبول اسلام ۴۶،۷۴۵ ۷ حضور کو قتل کرنے کا ارادہ ۲۵۱ ۲۵۷ ۴۶۵ عبد الکریم سیالکوٹی.حضرت مولا نا ۳۶۸ | علی.حضرت ۹۵ ان پر قرآن کا اثر عبد اللہ بن ابی بن سلول 199 ۲۰۸،۱۵۹۰۱۵۴ ۲۱۲ ۲۱۳ ۲۸۲ ، ۳۶۹ ان کی ندامت و شرمندگی ۴۹۲,۲۰۰ ۰۹۱۲۳۴۴۴۳۳۷۸ ۵۵۱۷۵۰۰ ان کا قبول اسلام ان کے بیٹے کی غیرت ایمانی ۵۶۲۵۶۱، ۲۹۹ ۲۲۰ ۷۲۳۷ ۷۱ ۷۹۰۰۷ ایک بدوی عورت کے فاقہ پر آپ کا ایک دشمن کو معاف کرنا ۱۵۰ ان کی پریشانی عبد اللہ بن سبا اس کا عقیدہ تھا کہ حضور کی روح آپ نے حاطب کا خفیہ خط دوبارہ دنیا میں آئے گی ۲۸۲ کپڑا آپ کا غلاموں سے ۵۵۵ حسن سلوک عبد اللہ بن عمرؓ حضرت ۱۵۹ علی ہجویری.حضرت سید ۱۸۸ | اپنے ایک غلام کے معاہدہ کا عبداللہ کو مکم ۳۶۰ | عماد الدوله عبد المطلب.حضرت ۱۷۵ عمر حضرت 770/167 ۱۸۵، ۱۸۸ احترام کیا ۴۳ آپ کے روادارانہ سلوک ۱۳۴،۱۱۶۰۱۱۵،۹۵، ۱۵۹،۱۵۳،۱۴۱ کا ایک نمونہ ۴۶۶ ۴۹۸۰۴۶۷ ۴۹۳ ۵۸۱،۵۸۰ عبد الواحد بن عبد الله غزه نوی ۷۲۶ ۱۲۰ ۱۶۱ ۲۱۲ ،۳۶۶،۲۹۹:۲۵۵،۳۱۳ آپ کا رؤسائے مکہ کے بیٹوں ۵۸۲،۵۸۱ 761
۲۹ پر غلاموں کو ترجیح دینا ۷۴۷، ۷۳۸ آپ کا بیان فرمودہ واقعہ ۲۱۵ حضرت خواجه ۷۲۶،۷۰۱،۱۸۸،۳ عمر بن عبد العزیز حضرت ۷۲۵ ۷۲۵ آپ کی قبر سادہ ہے ۲۱۲ فرعون ۲۸۶،۲۸۵،۲۸۰، ۳۵۲،۳۱۷ عمرو بن عاص.حضرت ۵۶۱ آپ بھی آسمان سے نازل ہوئے ۳۰۱ آپ کی اسلامی خدمات ۷۴۶، ۷۴۷ آپ کے الہامات عیسی علیہ السلام - حضرت ۵۳٬۵۲ آپ نے قادیان میں ستارہ علیہ.۳۲۱۳۰۵۰۴ ۷۳۴۴۷۳۲۷۱۶۵۳۳۵۳۱ ای ۷۸۵۷، ۸۰۲۷۹۲،۷۸۸ فرعون کی توبہ ۳۱۹ فضل حسین میاں ۶۰۰۵۹، ۲۴۱۰۲۱۶،۲۱۰،۲۰۸،۱۰۸ بنایا ۳۳۴۳۰۹،۳۰۴۳۰۳۲۹۸،۲۸۱ آپ کو آدم قرار دینے میں حکمت ۴۲۸ ان کے متعلق تعریفی ریمارکس ۳۶۵،۳۵۷،۳۵۵،۳۵۳، ۳۷۷ آپ یا دام روغن ، مشک استعمال فیروز شاہ تغلق ۵۰۳۵۰۱،۴۹۹،۴۶۱،۴۵۵،۴۳۹ کرتے ق ¥9?¥À+12+¥¥9<446<¥P• تو کل علی اللہ کا واقعہ ۱۱۱ ۶۱۲ قطب الدین ایبک YAL ۷۳۸ قطب الدین بختیار کا کی ۷۱۹۷۱۸،۷۱۲۷۱،۷۸،۷۰۰ | آپ کا قیام لاہور (۱۹۰۸ء ) ۲۱ ۷۲۳۷، ۷۲۸، ۷۷۰۷۳۸ آپ کی تنگدستی ۸۰۲۷۹۸،۷۸۴۷۸۳۷۷۵ آپ کا ارشاد حرم محترمہ کو غلام رسول حضرت ۷۸۲ ۷۷ غلام آپ کی تاریخ غ حافظ وزیر آبادی غالب.ان کے شعر ۲۷۱،۲۵۴ وہ شہر میں اچھا رسوخ رکھتے غزائی.حضرت امام ۷۲۶،۷۰۱،۶۹۹ تھے غلام احمد قادیانی حضرت مرزا غلام سرور مسیح موعود علیہ السلام ۱۳۲۹۶،۴ ۲۵۹،۲۵۱،۲۱۶،۱۸۰،۱۷۹،۱۵۴۱۵۲ ۷۵۴ حضرت خواجہ 406 ۵۹۳ ۵۹۳ ۵۳۷ ۲۷۷ ،۱۰۹۰۴ ۷۶۳،۵۲۵،۳۴۳ غیاث الدین تغلق ف قین حضرت EPIJAAJAY ان کا لوگوں کے قرض معاف کرنا ک کرشن علیہ السلام - حضرت ۶۰ ۷۷۳۴۹۹،۳۶۳۳۵۳ تا ۷۷۵ کمال الدین خواجه س علیہ السلام - حضرت ۷۰۸ ۶۹۴٬۵۳۶،۵۱۶،۴۱۱،۳۷۸، ۷۹۵ فاطمہ حضرت ۶۹۹، ۱۳۷۰، اے، ۷۱۹،۷۱۷ حضور کی صاحبزادی ۷۲۰، ۲۱ ۷ ۷۲ تا ۷۴۶،۷۳۴،۷۲۸ فرائڈ ۷۵۵،۷۵۲۷۵۰، اے کے ۵۵۰،۵۱۴ ۳۳۸ گ گاندھی مہاتما مين.AM گلیلیو.اس پر کفر کا فتویٰ فرید الدین گنج شکر
داتا گنج بخش حضرت داتا ۷۲۶۰۷۰۱ ۱۰۸۳۱۰۶۰۱۰۴۹۶۹۴ ،۱۱۰ ۱۱۳ ۱۱۴ ۷۰۸ تا ۲۰ ، ۱۷ ، ۱۹ کے ۲۲ کے ۲۴۴ کے گوتم بدھ علیہ السلام ۱۱۵ ۱۳۵۲۱۳۳۲۱۲۹۴۱۲۵،۱۲۲۳۱۲۰ ۷۲۷، ۷۳۵۰۷۳۲۷۲۸ ۴۰۰ کے ۷۴۲۳ حضرت ۴۴۷ ،۳۴۴۵۰ ۱۴۰۲۱۳۷ ۱۳۷۰ ۱۵۲۳۱۵۰۰ ۱۵۴ ۷۴۸۷۴۶۰۷۴۵ ۴۹ کے ۵۲ ہے ۵۳ ۷۸۲،۷۷۸ ،۷۷۳۷۷۱،۷۵۶ ۲۱۳۳۲۱۰۰۲۰۰۲۱۹۵،۱۹۰۰۱۵۹،۱۵۶ ۷۷۵ ، ۷۴،۵۲۶ ل لاجیت رائے لالہ لبید.انکے شعر ۲۸۳٬۲۸۲،۲۸۱، ۲۹۲۴۲۸۸، ۲۹۵ آپ کا ازواج مطہرات سے ۲۹۸، ۳۰۱ ۳۱۴۳۳۱۲۳۰۶۳ ناراض ہوتا لوط علیہ السلام.حضرت ۲۰۰۶۰،۵۹ ۳۳۵:۳۳۳۳۲۲۲۳۱۸، ۳۳۰۲۳۳۸ - آپ کے اخلاق ان پر بائبل کا الزام قرآن کریم کا ان کیلئے اعلان براءت لیفن مارکس مالک.حضرت ان کی غیر معمولی شجاعت اور شہادت مانٹیگو.وزیر بند مبارک علی مولوی ZAKZA ٣٠٦ ۵۹۹،۵۹۸ ۵۹۳ ۷۵۸ ۳۵۸۳۳۵۵،۳۵۳۳۵۰۳۳۴۸ كَانَ خُلُقَهُ الْقُرآن اسلام ما مهم بوم ۱۰۹ ۱۰۸ ۳۶۹،۳۶۵،۳۶۱،۳۶۰، ۳۷۱ حضرت خدیجہ سے شادی کے بعد ۳۸۵۵۳۸۳/۳۸۱۴۳۷۸،۳۷۶،۳۷۵ آپ نے تمام غلام آزاد کر دیئے ۳۹۵، ۴۰۲۳۹۹،۳۹۷ ۳۱۵،۴۰۳۰ حضور کی مساوات ۴۲۳۲،۴۳۰،۴۲۹،۴۲۱،۴۲۰ ۴۳۳ عیسائی وفد کو مسجد میں نماز ۴۳۹،۴۳۵ ۴۴۱۰ ۴۴۳ تا ۴۴۷ کی اجازت ۲۵۱۰۳۵۰،۴۴۹ ۲۵۳ ۴۵۵۲ ۴۶۰ آپ کا انصار اور مہاجرین کو ۴۷۸،۴۷۵۰۴۶۸۰۴۹۷۴۶۱ بھائی بتانا MACIY ۴۹۳۴۹۱،۴۹۰،۲۸۶،۴۸۵،۲۸۳ آپ کی مہمان نوازی سے یہودی ۴۹۶،۴۹۴۳، ۵۰۳۲۵۰۱،۵۰۰،۴۹۸ کا مسلمان ہونا ۵۳۹٬۵۳۶،۵۳۳،۵۲۶،۵۰۶ دودھ کے پیالے میں برکت ۱۲۳ ۱۳۳ ۱۵۸،۱۵۷ M ۲۴۷ ۲۵۹،۲۵۸ ۲۹۳ مبار که بیگم حضرت سیدہ نواب ۵۴۶،۵۴۳۸۵۴۲۰۵۴۰، ۵۴۷ ایک غریب عورت سے شفقت مجد دسر ہندی حضرت شیخ محمد رسول الله الله حضرت خاتم الانبیاء ۷۶۵۰۷۶۲ ۵۶۵،۵۶۳۲۵۵۳٬۵۵۱۲۵۴۹ آپ کا ایک بڑھیا سے مذاق ۵۹۲۵۸۸،۵۸۱،۵۷۶،۵۷۰ دشمن کا آپ پر تلوار سونتا ۲۰۶،۵۹۹،۵۹۶، ۶۱۷ ۶۲۰ ۶۴۴۰ آپ شہاب مبین ہیں ۶۵۴۶۴۶، ۶۸۰،۶۷۵،۶۶۵،۶۵۷ آپ کے رویا و کشوف ۵۴۱،۲۹۹ ۷۲۱۰۶۱۸۰۵۴۵ ۶۵۶۲۶۰۰۵۶،۵۰،۴۱،۳۸
۳۱ ردیا ء و کشوف کے ذریعہ حضور شاہ ایران کا حضور کی گرفتاری آپ کے روحانی افاضہ سے مسیح موعود کا ظہور کی زیارت ہوسکتی ہے ۳۸۷ کا حکم ۶۱۱۳۶۰۹:۴۷۳ آپ ایک زندہ نبی ہیں ۳۰۵ عالم روحانی میں سب سے بڑی حلف الفضول میں شمولیت ڈگری آپ کو ملی ۳۹۷ ابو جہل سے ایک مظلوم کا آپ کی دعا سے کسری کی بلاکت ۳۰۸ تا ۳۱۰ آپ کی بعثت عظمی کا دربار حق دلانا آپ کا خدا کی طرف صعود ۳۱۱ خاص میں اعلان صدقہ کا ایک دینار تقسیم نہ ہونے آپ کی پاکیزہ اور بے لوث آپ بھی ایک عظیم الشان پر گھبراہٹ حیات ۳۱۴ تا ۳۱۷ | آدم ہیں ۴۲۸ حضور کی دائمی حکومت کا اعلان ۴۸۰ حضرت اسامہ پر آپ کی ناراضگی ۳۱۵ آپ کا الہی دربار میں شاندار عمائد قریش کو آپ کا جواب ۴۸۷، ۴۸۸ ۴۳۱ مسیلمہ کی پیشکش کو ٹھکرانا اعزاز حضرت خالد بن ولید کے ایک فعل سے براءت کا اظہار ۳۱ حضور کو اپنے رشتہ داروں اور ایک صحابی کو چادر دینا آپ کے دل میں خدا کا سچا دوستوں کو تبلیغ کا حکم ۴۴۲ عورتوں کی تکلیف کا احساس ۳۱۷ آپ کی جسمانی صفائی کے بارہ غریب صحابی کی دلداری عشق تھا آپ کے ساتھ انصار کا معاہدہ جنگ بدر میں مشورہ مانگنا آپ سراج منیر ہیں ۳۲۳:۳۲۲ ۳۲۵ میں تعلیم ۴۴۸ عبادت میں استغراق ۴۸۸ CA9.CAA ۴۶۲ آپ کا گلا گھونٹنے کی کوشش آپ کے مقام صبر کی اہمیت آپ کی حفاظت خاص کا آپ کو خیر کثیر ملتی چلی جائے گی وعه ۴۶۴ آپ کا دس ہزار قد وسیوں کے ۴۸۹ ۴۹۳ ۴۹۵ ۴۹۷ ۴۹۹ ٤٩٩ ۵۰۱ آپ کی غلامی میں نزول برکات ۳۲۵ حضرت عمر کا آپ کو قتل کرنے ساتھ مکہ میں داخلہ ۴۶۶،۴۶۵ آج بھی آپ کی روحانی آپ ایسے مینار ہیں جن سے کا ارادہ انسان خدا تک پہنچ جاتا ہے آپ کی معجزانہ حفاظت ۴۶۹ تا ۴۷۴ اولا د موجود ہے آپ کے مقام کی عظمت ۳۳۴ آپ کا تو گل ۴۷۱،۴۷۰ آپ کی کتاب تمام الہامی آپ کی بعثت کا اصل مقصد ۳۴۷ جنگ اُحد میں تکلیف ۴۷۱ کتب سے افضل - حضور کی شجاعت ۵۱۳،۴۷۲۴۷۱ ۵۱۳،۴۷۲،۴۷۱ آپ کا مقام خاتم النبین آپ کی دائی حکومت کا اعلان ۳۵۳ ہے آپ کی شادیوں میں حکمت آپ کی دعا سے کسری کی آپ کی بعثت کی چار اغراض آپ کا بیویوں سے حسن سلوک - ۳۶۹ ہلاکت ۴۷۳ | امور غیبیہ کے متعلق آپ کی
راہنمائی ۵۰۱ آپ کی زبردست بارش سے محمد اسماعیل.حضرت میر ZAQ ہر کمال میں منفر د ہونا ۵۰۹،۵۰۱ مشابہت ۲۷۹ محمد حسین بٹالوی مولوی آپ کے ذریعہ تزکیہ نفوس ۵۰۷ آپ کی زندگی کا ایک واقعہ ۲۹۲ محمد شاہ.بادشاہ آپ کو مقام محمود کی بشارت ۵۰۹ آپ کا طاقت سے زیادہ مالی محمد ظفر اللہ خان حضرت چوہدری ۸۰ حضور کی تعریف دشمنوں کی زبان سے قربانی سے روکنا ۵۱۲۵۱۱ آپ کو دو باغ دیئے جانے محمد علی.مولوی آپ کا صبر و استقلال ۵۱۳ کاوعده (امیر غیر مبائعین ) اخلاق فاضلہ کے لحاظ سے آپ کو موسوی باغ ملنے محمد علی جناح ( قائد اعظم ) حضور گیا بلند مقام ۵۱۳ کی پیشگوئی ۷۱۸ محمد غوث.حضرت شاہ ۵۹۰ IAA آپ کی رحمدلی ۵۱۴ آپ کا باغ دنیا کے چپہ چپہ محمود احمد.حضرت مرزا بشیر الدین آپ کا عدل و انصاف ۵۱۴ پر پھیلے گا ۷۲۰ مصلح موعود آپ کی سخاوت ۵۱۴ آپ کے باغ کی حفاظت آپ کے ساتھ خدا کا سلوک ALA⚫ آپ کے متعلق انبیاء اور اولیاء کیلئے خدا کی تجلیات ۷۲۷،۷۲۶ سیرت پر ایک کتاب لکھنے کی پیشگوئیاں ۵۳۴ آپ کا ایک مظلوم اور ستم رسیدہ کی خواہش 149 آپ کو مدینہ تشریف لانے انسان سے سلوک ۷۴۳ مقام محمود بزبان محمود کی دعوت ۵۳۵ آپ کا جانوروں سے سلوک ۷۵۱ میں ہمیشہ کثرت سے عطر آپ کی فتح مکہ کیلئے تیاری ۵۵۳ آپ کی برکت سے عربوں اور لگایا کرتا ہوں ۲۵۰ اہل مکہ سے غیر معمولی سیدوں کا اعزاز ۷۵۳۷۵۲ میرے ناک کی جس غیر معمولی حسن سلوک ۵۲۰ آپ کا ایک عورت سے کنگن تیز ہے ۲۵۰ یہودیوں کے جذبات کا اتروانا ۷۵۷ میں نے حضور کی محبت سے احساس ایک صحابی پر شدید ناراضگی ۵۹۵ آپ کا ایک بدصورت ۵۸۳٬۵۸۲ | آپ تمام انبیاء کے مثیل آپ خدا کی زبان ہیں ۱۳ آپ سب نبیوں کے سردار ہیں ۷۹۰ زیارت کی صحابی سے پیار ۶۱۴ ۶۱۵۰ آپ سے تقسیم اموال پر اعتراض ۷۹۲ کے متعلق کتابیں پڑھی ہیں علوم غیبیہ سے حصہ پایا ہے ۳۲۸ ا ۷ ۷۷۲ میں نے کئی بار حضور کی ۳۸۷ آپ کا صحابہ سے مشورہ ۷۹۱،۷۹۰ میں نے چیونٹیوں اور مکھیوں ۶۹۴
٣٣ ۹ ۲۵ ۲۶۰ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر ملا کی (نبی).حضرت ۳۳۲۲۳۲۸، ۳۸۸۰۳۸۷ سے ملاقات ۲۸۹،۶۸۸ | منصور - بادشاہ عیسائی پادری سے گفتگو ۱۹۱ منفتاح آپ کے رویا آپ کی دعا ئیں ۴۰۲۳۴۰ مارٹن کلارک کے مقدمہ پر آپ کی دعا ۲۵۹ آپ کا سفر فلسطین ۸۰۲٫۸۰۳۷۵۸ آپ کا ایک تجربہ ۶۹۴ موآب ۳۰۴۳۰۳ IAA ۷۳۴۷۳۳،۲۸۵ بچپن کے واقعات ۷۵۴۶۹۵ موسیٰ علیہ السلام - حضرت.دوران لیکچر چائے کی عادت ۲۴۰ مسلمانوں کی تباہ حالی آپ کا حضرت خلیفہ اول سے بخاری پڑھنا آپ کی حفاظت کے واقعات آپ کی معزز وکلاء سے گفتگو ۲۵۰ کا صدمه محمود غزنوی محی الدین ابن عربی.حضرت ۷۲۶ ۲۶۰ ، ۲۶۱ مریم علیہا السلام - حضرت ۲۰۸، ۴۵۵ ۴۳۷ ،۲۹۷ مریم صدیقہ.حضرت سیدہ r ۵۲ ۵۵۰۵۳ تا ۹۴۶۰،۵۹۰۵۷ ۲۰۹۱۷۳۱۷۲،۱۴۰،۱۳۹:۱۱۰،۱۰۸ ۲۹۸،۲۹۷۲۸۷ ،۲۸۵،۲۸۰،۲۱۰ ۳۵۵،۳۵۳٬۳۵۳۳۰۶۳۳۰۴ ۵۰۰،۴۹۹،۴۲۱ ۳۶۵،۳۶۳۳۵۷ ۵۸۲٬۵۴۴۵۳۳۲۵۳۱،۵۰۱ ۷۶۲۵۲۵ GAM:LAYĘZAMELY:LLO MAA 697.69 ۱۸۸،۱۸۶ انگلستان میں بہائی عورتوں مسیلمہ کذاب سے گفتگو ۳۶۰ تا ۳۶۲ | مظہر جان جاناں.حضرت ۱۸۶، ۱۸۸ تعدد ازواج پر انگریزوں معاویہ.حضرت ۳۶۷ ان کی نماز ضائع ہونے میر درد.حضرت خواجہ ۳۶۸ کا واقعہ ۶۵۷، ۶۵۸ | میکارتھ معاویہ بن یزید میکسیمیلین ے گفتگو بیویوں سے مساوات ایک ہندو مجسٹریٹ کا آپ کی تقریر سے متاثر ہونا ۵۸۶،۵۸۵ ان کی خلافت سے ۵۹۱،۵۹۰ ۷۵۳۷۲۵ ،۷۲۳ میلارام میلکم ہیلی سر معین الدین چشتی اجمیری میمونہ - حضرت ایک ہندو سے ہمدردی ۵۸۹ دستبرداری پنڈت نہرو سے ملاقات کوئٹہ میں فوجی افسر سے ملاقات سفر حج کا واقعہ حضرت خواجه ۷۲۶۷۰۱،۶۹۹،۱۸۸ ۶۰۳۶۰۲ مقداد بن اسود.حضرت ن نا در شاه ۷۹۱ | ناصر میر.حضرت خواجہ ۶۳۶، ۶۳۷ ان کی جنگ بدر میں تقریر بدر ۷۶۴ ۵۴۵ ۷۲۶
۲۵۸۰۱۷۷ ۱۸۶۰۱۸۵ ۲۱۴۰۱۸۹۰۱۸۸ ZIA rom 2 ۱۵ ۱۷۲ مهم تر ناصرہ بیگم.حضرت صاحبزادی ( بنت حضرت مصلح موعود ) وائل نبوکد نضر ۸۰۲ وکٹوریہ ملکہ نپولین ۷۶۲٬۵۲۳ ولنگڈن لارڈ نذیر حسین دہلوی مولوی ۷۲۶،۶۹۸ ولی اللہ شاہ - حضرت 210 ہلاکو خان ہمایوں ہمدان.شیخ نظام الدین اولیاء.حضرت خواجہ - محدث دہلوی.حضرت ۱۸۸،۱۸۶ ہندہ.ان کا اعتراف توحید ۷۲۶۷۰۱۵۲۵،۱۸۸،۱۸۶ نوح علیہ السلام - حضرت ۵۳٬۵۲۱۷ ولید ۹۴۶۰۵۹، ۱۰۸ ، ۲۱۰،۲۰۷ ۲۱۶ ولیم میور سر ۱۹۹،۴۳۱ ، ۷۲۶،۷۰۱ ہیکل ۲۸۶، ۴۰۳۳۵۵۰۳۰۴۲۹۷ ۴۲۱ اس کا عظمت رسول کا اعتراف ۷۲۲٬۴۹۸ ہیگل ۵۱۱ ہیروڈوٹس ی ۴۳۵، ۷۷۱ ۷۲ ۸۰۰۰۷۹۴۰۷۹۳۷ و بیری (پادری) ۲۹۵ یکی علیہ السلام.حضرت نور الدین.مولانا حضرت خلیفہ اول ۲۵۰،۱۵۳،۳۷ ہاجرہ.حضرت ہارون علیہ السلام حضرت ۵۷۰۵۶ آپ کے بیان کردہ واقعات ۴۴۸ ۵۸۷،۵۸۶،۴۵۶ ۶۰،۵۹ ۲۱۰۳۲۰۸،۱۰۸ ۷۵۳۵۲۵ ا یزید یعقوب علیہ السلام.حضرت یوز آسف - حضرت یوسف علیہ السلام.حضرت ۷۹۲،۷۷۵،۲۰۹ ،۹۴،۲۰۰۵۹ آپ کی حضرت مصلح موعود آپ کے متعلق قرآنی انکشاف ۵۵ سے محبت نور جہاں ۷۵۵ آپ پر بائبل کے التزامات نہرو.پنڈت ۵۹۰ مامان نیوٹن ۳۸۹ ہٹلر ۷۸۶۳۷۸۴۶۰ ۷۸۸،۲۸۵،۲۸۰ ۵۷۶۵۲۳ یونس علیہ السلام - حضرت ۵۹ ZAZ ۵۹ ۷۹۵۰۷۹۴ ۵۹ ۴۲۱،۲۱۰ ،۶۰
۳۵ مقامات انڈونیشیا ۲۸۴، ۶۰۸ بغداد ۱۷۷، ۳۵۸، ۴۱۷، ۷۹۴۴۱۸ بلخ ۱۷۳ آسٹریلیا آگرہ آگرہ اسلامی دنیا کے عظیم الشان انطاکیہ انگلستان (برطانیہ) ۲۸۵،۱۸۰ ۳۷۷ ،۳۶۱,۳۶۰،۳۵۳،۳۳۳۲۸ ۱۵۸۷،۵۷۶۰۵۶۸۰۵۶۶۰۵۳۸۴۱۳ ۶۲۸۰۶۱۸،۶۱۴۶۰۸۰۵۹۷۰۵۹۴ ۸۰۱۰۷۸۶،۶۵۳۶۳۵،۶۳۳۶۳۱ ۵۲۵،۳۴۴۳۴۳۲۷۷ ،۱۸۵،۱۹۴ بلوچستان بنگال ۲۷۷ ،۲۶۳،۱۴۴۲ ۷۶۲۶۳۵،۶۳۱۰۵۲۵،۳۴۳ ۴۵۵،۳۶۰،۳۵۸ ۵۶۸۰۵۲۷ ۷۷۴۳۶۹ ۵۷۹ اورنگ آباد ایران ۲۱۴ ۲۵۶،۱۷۳ بہار ۴۹۹،۴۷۵۰۴۷۳۰۴۱۷ ،۳۶۵،۳۵۳ بیروت ۷۱۸ ،۷۰۱۰۶۹۸۰۵۶۹،۶۵۹،۵۲۷ ۷۴۷،۷۲۳ بیلجیئم ۳۷۸ ،۳۴۹،۳۴۶ پاکستان ۲۰۸،۶۰۲۵۹۰،۵۷۵ ،۵۷۴،۴۱۶ ۷۹۴۷۸۸ ،۷۵۲۶۶۲ ۵۲۸ ،۵۲۷ ،۳۴ ۵۶۸۲۵۶۶ ۷۰۱۶۱۸ پشاور پنچا.پولینڈ پهیروچیچی ۳۱۰۳۳۰۸ ۱۲۸ ،۴۹۹ ۱۷۳ ۴۷۵ ۷۵۷ کسرای شاه ایران کا عبرتناک انجام ایشیا ایشیائے کوچک ۱۴۶۰۵۱ ۶۶۷ ،۶۳۵۰۵۳۸ ۳۰۲ ۴۵۳ ۷۴۷ ،۴۹۹،۳۵۳،۱۸۰ ۷۸۷،۵۶۹،۱۷۳ آثار کا مقام ہے اٹلی أردن ازار افریقہ افغانستان الجيريا اللہ آباد امرتسر امریکہ ۵۹۳۴۴۹ ۱۸۰،۱۳۷،۱ بخارا ۳۵۹،۳۵۳,۳۳۰،۳۰۹،۲۸۵ تا ۳۶۱، ۵۷۶،۵۱۶،۳۹۳،۳۷۷ پر پر ۶۰ ۶۱ ۶۱۲، ۶۱۸، ۶۳۳۶۲۸ برلن برما ،۷۵۲،۶۹۴۶۹۰۰۶۷۵،۶۷۴ ۸۰۲۸۰۱۷۹۵
۶۱۲۶۱۱،۵۷۹ ،۵۷۶،۵۶۸ ۸۰۱۷۵۲ 071 Wy حجاز ترکی تغلق آباد ٹرانسوال تونس N77 حد بند ۳۶۰،۵۱ حیدرآباد fr |+7 710 ۵۴۹،۵۴۸۰۵۴۲ ۵،۲ ایک روسی بادشاہ کا واقعہ ۳۰۸۲۳۰۶ ۲۱۴۶، ۲۷۷ ۳۴۴،۳۴۳۰، ۵۲۵ روم ۶۷۷۶۲۵۰۶۱۴۵۷۹،۵۶۶۰۵۲۸ ۱۴۷۷، ۷۶۵،۷۶۳۲۷۶ رومانیه ۶۹۸،۲۷۵ kr ۵۶۷ VIL'1+7'7J7 ۱۹۸ |+7 ۷۸۵ ۱۷۳ زیکوسلواکیہ چین ۷۳۱۰۵۲۷ 1011717 ver دمشق دہلی AKKWKPKKPIVP77ĽV7A ۳۵۷،۳۴۶،۳۴۵،۳۳۳۳۳۲ ۳۹۸،۳۵۹۲، ۴۰۷ ، ۵۲۵ سرحد ۵۶۶،۵۳۸،۵۳۶،۵۳۰۳۵۲۷ سلی ۶۲۵، ۷۷۴۷۶۲۰۶۷۷ سکندر راؤ سمر قند ۵۷۹ سندھ ۶۴۹ سنکیانگ سیرالیون 771 ۳۹۰۳۳۳۳۳۱،۲۹۷ ۱۰ کے 1+7 ۴۷۵۲۴۸۰ له الله سیلون شام ش } ۶۷۳۲۲۵۰۵۲۳ ۴۲۰ ۵۷۶،۲۸۴،۱۸۰ کے نام کے کے جاپان جرمنی ۵۲۳،۳۹۵،۳۵۳،۳۲۹ ۵۹۷۰۵۷۹،۵۶۸،۵۶۶۰۵۳۸ ۷۵۲۶۱۸ ،۲۰ جے پور چ چارسده ۵۳۷ ڈنمارک چین ۴۸۲٬۱۸۰ ڈیرہ غازیخان 7V7 77k*7+7}\£7°07'|17| ۵۶۷ ،۳۰۹ ۷۰۳۷۰ ،۶۰۸۰۵۷۴،۵۶۹ ۷۵۲۷۰۸ ہم کے ۸۰۱۷ ربوه 2 ۱۷۴۱۴۶ ربوہ کی وجہ تسمیہ جثہ ( ایسے سینیا) ۵۷۱،۵۷۰،۴۹۵ روس
karland Parkland Pe bunk747k ۴۵۶ Y+MY+P 7174•×7°017'747 ۵۳۳ Y** لباء ۷۵۳ ۶۴۹ ۱۵۴ بلا ستعان ۲۸۵،۷۳ ۳۷ ۵۲۸٬۵۳۸،۳۹۴۳۵۳,۳۲۹ ۶۳۶۳۶۳۳۶۱۸۰۵۷۹ 4727177 ۶۹۸۰۵۷۹،۱۷۴، ۷۴۷ تا ۷۵۲،۷۴۹ فرانس محمد A+KITA فلپائن ۶۷۲۶۷۱،۶۶۸،۵۷۹،۳۵۳٬۲۸۵ 471°071°7[7]u????| ۸۰۳۸۰۲ کوریا فلسطین پر رومیوں کا قبضہ ۲۷۹ کوفه فلسطین پر بابلیوں کا قبضہ کیمبل پور گجرات گورداسپور 014.016 لية فن لینڈ فیروز پور ق ۱۷۴ ۵۱۳۲۹۹۰۱۷۴۱۶۹ Jkkakkh ۱۷۴ الله ۱۷۴۱۷۳ ۵۷۹،۴۷۵،۲۵۲ ۱۳۴۱۳۰ قادیان ۱۷۸،۱۳۹ تا ۲۲۴۲۲۳۷،۱۸۵،۱۸۰ گولڈ کوسٹ ۳۹۹،۳۳۱،۳۰۲۲۸۳،۲۶۱،۲۶۰ ۶۷۳۶۱۴۰۵۹۱۵۹۰،۴۵۶،۴۰۴ گولکنڈہ ۷۶۳ ۶۲۹،۵۸۵ ۳۳۳۱۸۱،۱۹۴۱۶۳ ۶۸۸ ۶۹۰۰ ۶۴،۷۵۵،۷۵۰۰ ۷۸۹۰۷ گولکنڈہ کا قلعہ پہاڑ کی اونچی چوٹی پر بنا ہے یه قلعه اسلامی شان و شوکت کا نشان ہے 114 قادیان کا مینار کیوں بنایا (+7}}{47%b7 ۷۵۰،۴۱۱ 17771 گیا کپورتھلہ ک کراچی صنعا طائف طرابلس عدن ع عراق ۳۱۴۰۳۱۰۲۳۰۸۰۲۵۶ ،۱۹۶ ،۱۷۴،۱۶۰ ۳۹۶،۳۸۳،۴۷۴۴۷۳۴۶۶،۴۵۳ ۵۴۲۲۵۴۰،۵۳۶۲۵۳۴۵۱۲۵۱۱ ۵۸۰۵۶۵۲۵۶۳۵۵۳۵۵۱۵۴۴ {•7>j•7°7j7%07 ۶۹۱ علی گڑھ فتح پور سیکری ف ۳۴۳۱۸۱،۱۶۶،۳
۲۱۷ ٣٨ ۱۳۰،۱۱۴۱۰۳:۴۳ ویمبلے ۱۳۹، ۱۹۴۱۸۵،۱۳۸ تکه ہالینڈ ۷۵۲،۵۷۹ ہندوستان ۴۰ ۱۸۶۰۱۷ تا ۱۸۸ 197.16981ZMIZRIZINE ۳۱۶،۳۱۴۰۳۰۵۳۰۲۲۵۶۰۱۹۸ ۲۷۰،۴۶۹,۴۶۸۰۴۵۴،۳۲۳،۳۲۲ ۲۴۹۵،۳۸۷ ،۴۸۳،۴۷۶۰۴۷۲ لاہور ۵۲۷۰۵۲۴ ۲۸۳ ۲۷۷ ،۲۳۴۲۱۷ ۶۷۲،۵۹۳۵۸۹،۵۸۵،۵۸۳ لبنان ۳۵۷ ،۳۵۳،۳۴۵۰۳۴۴۳۳۳ ۵۷۴۵۶۹،۵۶۸،۵۲۷ ،۴۹۹،۱۳۸۳ ۶۳۷،۶۰۹،۶۰۸ ،۲۰۲۵۹۰،۵۷۹ ۵۱۶،۵۱۵،۵۱۲،۵۰۰،۳۹۸ 670407'177 ۵۴۹۲۵۴۵،۵۴۳،۵۴۰،۵۳۵۲۵۳۰ | ۵۷۹ ۵۷۰،۵۶۵۳۵۶۰۰۵۵۶۲۵۵۲ ۲۹۵ {70%¥Ø¹7+k?kk47kk247k ۴۲۷۲۳،۷۲۲۷۱۶ ۷ تا ۷۴۵، ۴۸ سے لٹویا لدحيانه لكهنو ۱۸۹ لکھنو میں بٹیروں کے بھی ۱۸۹ ملتان مقبرے ہیں لنڈن لیتھونیا ۲۱۷، ۶۸۵،۶۱۳،۵۳۸ | میانوالی ۷۷۶،۷۵۸ میسور ۵۷۹ میکسیکو ۱۱۶،۱۰۶،۴۳ ۳۱۴،۲۲۰،۱۳۸،۱۳۵،۱۳۳،۱۲۸،۱۳۶ ۴۷۰،۳۷۵ ،۳۴۷ ،۳۲۴۳۳۳۲ نائیجیریا 1174774670 ۷۶۳۶۳۷،۵۲۷ ۷۶۳۳۷۶۱۰۷۵۲۰۷۰۸۰۷۰۳ ۴۳۹ مرد علم 07477 ی ۱۵۶ ۷۶۱۰۵۲۷ یروشلم کے عیسائیوں پر ۵۷۶،۱۳۶ ۶۳۳ | اسلامی حکومت کا اثر |+7 یمین 770 ۳۰۸۰۱۷ ۲۰۱۷ ۶۶۴۶۱۱۶۱۰۰۵۶۴،۴۷۳۳۰۹ لدال 64°10'77'6414A7P7LA یو.پی ۳۹۵،۳۷۷ ،۳۷۶۰۳۶۱،۳۵۳ ۵۳۸،۵۱۶،۵۱۰٬۵۰۹٬۴۹۹،۴۵۵ ۶۷۱،۶۳۳۶۲۸ ،۵۸۷،۵۳۹ ۱۰۱۷۹۵،۷۴۷ ۳۳۱ ۲۹۹ V17 ۱۷۳ ۳۳۱،۲۶۸ ۵۲۳ ایک یورپی مصنف کا بیان ۱۱۷،۶۱۶ یونان V+7*07* ۵۹۳ ۴،۴۷۳ ۴۹۲،۴۹۱۷۴۷، ۵۱۳:۴۹۵ | ناصر آباد ۵۵۵۲۵۵۱۰۵۴۹،۵۴۸،۵۳۶۰۵۳۵ ۶۱۶۶۰۱۰۵۹۴۵۷۱،۵۶۰،۵۵۷ مخله 77777 20 نینوا ۱۷۳،۵۶،۵۵ ۱۹۲۱۷۴ نیویارک واٹرلو وزیر آباد مراکش ۴۷۵،۳۵۳،۳۲۹،۲۸۵،۲۸۲۳۲۸۰ ۷۷۷۳۷ ۷۳۲،۶۹۸،۵۳۳،۵۳۱ ۷۹۵،۷۹۳،۷۸۸،۷۸۵،۷۸۳
۵۹۲ ۱۷۲ TAT ۴۲ واء b ۳۹ کتابیات تفسیر کبیر تقويمنا الشمسي احمدیت یعنی حقیقی اسلام ۱۴۶ اخبار عام العرب قبل الاسلام انا جیل 696 انجیل ۱۹۲،۱۹۱، ۳۰۶۰۲۲۴،۲۱۹،۱۹۷ تورات ٨٠٢ سيرة حلبيه AL ۱۷۲۵۶،۵۵،۱۴۱۲ ۳۶۴,۳۶۳۳۰۶۰۲۸۵،۲۲۴۱۹۶ A+MZYA طبری لائف آف محمد مثنوی رومی ۵۳۹ دعوة الامير ۷۸۷ ،۸۶،۷۸۳۷۷۴۷۱۸ دیباچه ابن خلدون ٢٩٠ | مجمع البحار دی ڈیکلائن اینڈ فال آف منتخب الكلام دی رومن ایمپائر ۲۱ في تفسير الاحلام Roman Empire | منن الرحمن 761 The Dicline and Fall of the GAY 7+06.07.0 انسائیکلو پیڈیا ہیلی کا انسائیکلو پیڈیا برٹین کا بائل ۷۱۱،۷۰۸،۵۰۲۳۶۷،۳۶۳۳۱۰ ۶۶۸ ۳۷۷،۳۶۴۳۶۳ ينابيع الاسلام ی ۱۳۰ ز زیور و ژند اوستا معلقہ ۷۳۲ ۷۴ تا ۷۶۸،۷۶۷۰۷۳۷ بحار الانوار ۷۷ ۷۸۱ تا ۷۸۶ ۸۰۰۰ 661 ۴۲۹،۲۵۰ ۹۳ ۲۵۱ بخاری بیضاوی تاريخ الخلفاء تعطير الانام