Language: UR
سیلات محبت امت الباری ناصر یہ کہانی سبق آموز ہے اور نو واردان بساط خدمت کے لئے قابل تقلید نمونہ بھی.ہر مرحلہ رہبر اور ہر موڑ راہنما ہے.کام دشوار اور کٹھن تھا تو خدا تعالی نے اپنے خاص فضل سے آپ کے عزم جوان اور ارادے بلند فرما دیئے.ناواقفیت اور نا تجربہ کاری در پیش ہوئی تو حضور کی تو جہات کریمانہ اور تلطفات رحیمانہ دستگیر ہوئیں اور ہر مرحلہ پر شفیق آقا نے آپ کی رہنمائی کی اور دعاؤں سے نوازا.وسائل کا فقدان سد راہ ہوا تو خدا نے کشائش کی راہیں نکال دیں.کام میں ترقی ہوئی اور کام کرنے والوں کی ضرورت سامنے آئی تو نصرت الہی جلوہ گر ہوئی اور مخلص محنتی اور ایثار پیشہ رفقائے کار میسر ہو گئے جنہوں نے پوری دلسوزی اور عرق ریزی سے معاونت کا حق ادا کیا.بیرونی رابطوں کی احتیاج واقع ہوئی تو افراد اور ادارے شرح صدر کے ساتھ معاون و مددگار ہوئے.غرضیکہ یہ سلسلہ بڑا طویل اور دور دراز ہے.گویا ہمہ وقت خدا تعالیٰ سے فضلوں اور رحمتوں کی موسلا دھار بارش برستی رہی اور سیلاب رحمت کی صورت جلوہ گر ہوئی اور آپ کی تصنیف کی ہر سطر اس سیلاب رحمت کی طرف مشار الیہ ہے.گودا نہ از انبارے کے حکم میں ہے مگر پڑھنے والے اس سے با آسانی اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ جماعت کے کاموں میں رختِ سفر اور زادراہ تقوی ہی ہے.باقی مولا لبس خدا خود می شود ناصر اگر ہمت شود پیدا خالد مسعود نظارت اشاعت ، ربوه
یلا رحمہ مصنفه متہ الباری ناصر
سیلاب رحمت امتہ الباری ناصر 1000 : $2019 : : Dr.Mansoor Ahmad Qureshi 3540 Rolling Hills CT Ypsilanti MI, 48198 - USA Ph: 734-668-1306 Sailab-e-Rehmat by: Amatul Bari Nasir نام کتاب مصنفہ تعداد سن اشاعت رابطہ
انتساب ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم (البقرہ: 128) حقیر کاوش کا سارا حاصل کیا خلافت کے نام میں نے اس کے سائے میں لمحہ لمحہ سکون پایا مدام میں نے 3
بسم الله الرحمن الرحيم السلام نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود الله فہرست مضامین مضمون صفہ نمبر نمبر شمار انتساب 3 3 4 شمار فضل اور رحمت نہیں ہے پیش لفظ - از محترمه امتہ الحفیظ محمود بھٹی صاحبہ (مرحومہ) سابق صدر لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی عنایات الہی ہوں مبارک - از محترم منیر احم جاوید صاحب پرائیویٹ سیکریٹری سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مکتوب از محترم خالد مسعود صاحب ناظر اشاعت ربوہ ابتدائیه از محترم امتة النور طیب صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار لجنہ کراچی کی اشاعتی خدمات اور خلفائے کرام اور بزرگانِ سلسلہ کی نظر شفقت،حوصلہ افزائی اور دعائیں ہم آپ کو بہت یادرکھیں گے ایم ٹی اے کے لئے درمین کا پروگرام اور حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی حوصلہ افزائی 5 وہ خواب جو بیداری میں دیکھا تھا 6 00 8 10 31 35 37 46 183 الله 190 196 4
219 265 279 289 303 344 405 410 7 8 9 اک خاک کے ذرے پر عنایات کا عالم دیکھ کر تم کو چمن بس کہ نموکرتا ہے تعمیل ارشاد قلب طاہر کا درد اور دردمندی-کلام طاہر کی روشنی میں 10 اک عنبر بار تصور نے یادوں کا چمن مہکایا ہے 11 الہام کلام اس کا.کلام طاہر کی نظر ثانی کے دوران حضرت خلیفہ المسیح رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور رہنمائی 12 حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی المناک رحلت 13 حرف دعا از محترمہ صفیہ بشیر سامی صاحبه 5
سیلاب رحمت شمار فضل اور رحمت نہیں ہے میں امتہ الباری ناصر کو خط کیوں لکھتا ہوں..! (خاکسار کے بھتیجے عزیز مکرم آصف محمود باسط صاحب کے نام حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے دست مبارک سے تحریر شدہ مکتوب سے ایک صفحہ ) اجْعَلُ مِنَ الآنَاءَ سُلَقْنَا نَصِيرًا الحانات مالين بي الله الرحمية الري.د حمل الى رسوله الكري والا خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.سابیر انی خوارد 27.10.91 پیارے عزیزم آصف محمود اسلام علیکم و رحمته الله وبركاته تمہاری پھوپھی امتہ الباری ناصر کو جو کبھی ایک آدھا خط لکھ دیتا ہوں تو اس لئے نہیں کہ وہ مطالبے کرتی ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ یہ خط اپنی خدا داد صلا حیتوں کی وجہ سے کھاتی ہیں.ایک مجھے غیرہ سے جس دھن ار نکن امر ثابت قدمی سے وہ نجنہ کراچی میں قابل تحسین خدمات سر انجام دے رہی ہے وہ انہیں جگر اند اس مہینہ ان کے منجھے ہوئے کلام کی جذب داشته نینه ایسی باتیں ہیں جو خود ہی مجھ سے تقاضہ کرتی ہیں کہ کبھی کبھی ان کی حوصلہ افزائی کروں جو انکی تشکیت کا موجب ہے.آپ بھی ویسی ہی باتیں اپنے اندر پیدا کریں جو مجھے مجید رکر رہا کریں کہ یکی کبھی فرصت نہ ہوتے ئے بھی دو صرف اپنے ہاتھ سے ڈانے پر الفرار بيت اعر سہر ار مجبور ہو جایا کروں.الٹر ہم کو اکیا میں بنائے اور آپکی صفات جستہ کو جلد بجتے اور نور باطن کر روشن تر کردے 6
تمہاری پھوپھی امتہ الباری ناصر کو جو کبھی ایک آدھ خط لکھ دیتا ہوں تو اس لئے نہیں کہ وہ مطالبے کرتی ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ یہ خط اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے کماتی ہیں.ایک لمبے عرصے سے جس دھن اور لگن اور ثابت قدمی سے وہ لجنہ کراچی میں قابل تحسین خدمات سرانجام دے رہی ہیں وہ اپنی جگہ اور اس پر مستزاد ان کے منجھے ہوئے کلام کی انفرادیت اور جذب واثر جو خود ہی مجھ سے تقاضا کرتے ہیں کہ کبھی کبھی اُن کی حوصلہ افزائی کروں جو اُن کی سکینت کا موجب بنے.آپ بھی ویسی ہی باتیں اپنے اندر پیدا کریں جو مجھے مجبور کر دیا کریں کہ کبھی کبھی فرصت نہ ہوتے ہوئے بھی دو حرف اپنے ہاتھ سے ڈالنے پر مجبور ہو جایا کروں.اللہ آپ کو ایسا ہی بنائے اور آپ کی صفاتِ حسنہ کو جلا بخشے اور 66 نور باطن کو روشن تر کر دے.“ 7
پیش لفظ خدمت دین کو اک فضل الہی جانو اس کے بدلے میں کبھی طالب انعام نہ ہو اللہ جل شانہ کے فضل و احسان سے زیر نظر کتاب لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کی صد سالہ جشن تشکر کے سلسلے کی کتاب نمبر 101 ہے.الحمدللہ علی ذالک.ہم نے صد سالہ جشن تشکر کی نسبت سے سو کتب کی اشاعت کا وعدہ کیا تھا جو بفضلہ تعالیٰ پورا ہوا.یہ ایک سو ایک ویں کتاب دراصل ان نعماء کی تحدیث نعمت ہے جو ہمیں خدمت کے اس سفر میں میسر آئیں.صد ہزار شکر کا مقام ہے کہ ہمیں حضرت سلطان القلم علیہ السلام کی برکات سے فیضیاب ہونے کی توفیق نصیب ہوئی.قلم وہ خاص ہتھیار ہے جو تائید ایزدی نے آپ علیہ السلام کو تھمایا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت نعمت اللہ ولی کا یہ شعر: ید بیضا که با او تابنده درج فرما کے تحریر فرمایا : باز با ذوالفقار می بینم یعنی اس کا وہ روشن ہاتھ جو اتمام حجت کی رُو سے تلوار کی طرح چمکتا ہے.پھر میں اس کو ذوالفقار کے ساتھ دیکھتا ہوں یعنی ایک زمانہ ذوالفقار کا تو وہ گزر گیا کہ جب ذوالفقار علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ میں 8
رحمت تھی.مگر خدا تعالی پھر ذوالفقار اس امام کو دے دے گا.اس طرح پر کہ اس کا چمکنے والا ہاتھ وہ کام کرے گا جو پہلے زمانے میں ذوالفقار کرتی تھی سو وہ ہاتھ ایسا ہوگا کہ گویا وہ ذوالفقار علی کرم اللہ وجہہ ہے جو پھر سے ظاہر ہو گئی ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ امام سلطان القلم ہوگا اور اس کی قلم ذوالفقار کا کام دے گی.“ ( نشان آسمانی - روحانی خزائن.جلد 4 صفحہ 399 ) کتب کی اشاعت کا سفر کئی لحاظ سے مشکل اور صبر آزما تھا جو خلفائے کرام کی دعاؤں اور حوصلہ افزائی سے ممکن ہوا.ہم نے قدم قدم پر خلافت کی برکات کے معجزے دیکھے.اسی طرح محترم بزرگان سلسلہ نے بھی ہمیں دعاؤں اور داد سے نوازا.عزیزہ امتہ الباری ناصر نے سب عنایات خسروانہ یکجا کر کے ایک تاریخ مرتب کر دی ہے.ہم سب قلم سے جہاد کرنے والوں کے لئے دعا گو ہیں اور انہیں جزائے خیر کی دعا دیتے ہیں.خدمت دین بجائے خود ایک انعام ہے.اللہ تعالی سب کا حامی و ناصر ہو اور خود ان کی جزا بن جائے.آمین الھم آمین.خاکسار امة الحفیظ محمود بھٹی جنوری 2018ء صدر لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی 9
عنایات الہی ہوں مبارک ( از محترم منیر احمد جاوید صاحب) محترمہ امۃ الباری صاحبہ نے مجھ سے خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میں ان کی کتاب کے لئے کچھ لکھوں.میں نے بہت سوچا کہ اس کے لئے انہوں نے مجھے ہی کیوں کہا.میں تو ان کی طرح شاعر ہوں نہ ادیب، تو پھر کس طرح ان کی کتاب کے لئے ایک پیش لفظ لکھنے کا حق ادا کر سکتا ہوں.مزید غور وفکر کے بعد عقدہ یوں کھلا کہ مجھ سے ان کی یا ان سے میری جان پہچان کا واحد سبب چونکہ صرف اور صرف حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی ذات تھی کیونکہ ان کی شاعری پر حضور رحمہ اللہ جو برجستہ اور بے لاگ تبصرے فرماتے اور ان کے پرخلوص خطوں کے جو بڑے وجد آفریں جواب لکھواتے وہ اکثر مجھ سے ہی لکھوا کر انہیں بھجواتے تھے اس لئے شاید انہوں نے مجھ سے کچھ لکھنے کا مطالبہ کر دیا ہے اور یہ اگر چہ میرے بس کی بات تو نہیں لیکن میں نے سوچا کہ اگر انہیں کی کتاب کے مختلف ابواب اور ان کی مختلف تحریرات کو سامنے رکھ کر میں کچھ لکھ کر ان کی خواہش پوری کر دوں تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں کہ اس طرح مجھے بھی حضور رحمہ اللہ کی محبتوں اور شفقتوں اور احسانات و عنایات کو یاد کرنے کا موقع مل جائے گا.چنانچہ ایک ایک کر کے وہ سارا زمانہ نظر کے سامنے پھرنے لگا اور یادوں کے جھرو کے کھلتے چلے گئے.یہ بھی یاد آیا کہ ان کے خطوط کا حضور رحمہ اللہ ہمیشہ بڑے پیار اور توجہ سے جواب لکھوایا کرتے تھے اور کئی دفعہ ان کے خطوط پر، پڑھتے ہوئے ہی بے اختیار 10
سیلاب رحمت لمبے لمبے نوٹ رقم فرما دیا کرتے تھے اور پھر یہ بھی یاد آیا کہ کس طرح حضور رحمہ اللہ نے انہیں اپنے کلام طاہر پر یہ کہتے ہوئے طبع آزمائی اور تبصرہ کرنے اور مشورہ دینے کی اجازت عطا فرمائی کہ: تومشق نازکر، خونِ دو عالم مری گردن پر اور پھر انہوں نے بھی خوب دل کھول کر حضور رحمہ اللہ کے مختلف اشعار پر اپنے مشورے دیئے اور جنہیں بعض اوقات حضور نے قبول فرمایا اور اکثر دفعہ ان کے مشورہ کے نتیجہ میں حضور کے شعر کے مفہوم میں جو تبدیلی آرہی ہوتی ، حضور رحمہ اللہ اس کو پوری شرح و بسط سے دلیل کے ساتھ انہیں سمجھا کر اپنے دل کی بات بیان فرما دیتے کہ میرے نزدیک تو اس شعر کا مطلب یہ ہے اور آپ کے مشورہ کو ماننے سے میرا یہ منشاء اور مدعا پورا نہیں ہوتا.اس لئے آپ کی تجویز قبول نہیں کر سکتا.بہر حال محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ اس ساری مشق کے دوران حضور کی تحریر کے وہ ادب پارے حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوگئیں جو اگر یہ ہمت نہ کرتیں تو شاید جماعت کے ادبی حلقوں تک وہ کبھی بھی نہ پہنچ پاتے.اس لحاظ سے تو یہ ہماری دعاؤں کی بھی مستحق ہیں.فجز اھا اللہ احسن الجزاء.بہر حال اب میں ان کی زیر نظر کتاب کے مختلف موضوعات کی طرف آتا ہوں لیکن اس سے پہلے یہ بھی عرض کر دوں کہ حضرت اصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ : وہی قوم ترقی کرسکتی ہے جس کی ساری عورتوں کا دینی معیار بلند ہو.وہ جواں ہمت اور حوصلہ مند ہوں.وہ مصائب و مشکلات کی پرواہ کرنے والی نہ ہوں.وہ دین کے لئے ہر قسم کی قربانی پر تیار رہنے والی ہوں.وہ جرات اور بہادری کی پیکر ہوں اور وہ اپنے اخلاص 11
66 اور اپنے جوش اور اپنی محبت میں مردوں سے پیچھے نہ ہوں.“ ( تفسیر کبیر جلد 8 ص54) ایک ایسی ہی جواں ہمت حوصلہ مند، جرأت و بہادری کی پیکر، اپنے اخلاص اور اپنے جوش اور محنت اور خدا داد صلاحیتوں سے مردوں سے بھی آگے بڑھ جانے والی وہ خاتون محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ ہیں جن کا شمار ان انتہائی خوش قسمت احمدی شعراء میں ہوتا ہے جنہیں همیشه در بارِ خلافت سے پذیرائی بھی ملتی رہی اور قبولیت و پسندیدگی کی سند بھی عطا ہوتی رہی.اور یہی وہ سعادت و اعزاز ہے کہ جو اس با کمال ادیبہ وشاعرہ کے ماتھے کا جھومر اور اردوادب کی اس ماہتاب کا ہالہ ہے.زیر نظر کتاب ” سیلاب رحمت ان کے اس مقام و کمال کی ایک جھلک ہے.اس کتاب کے ابتداء میں حضرت خلیفہ اسیح کی محبت سے چور اور خلافت کی محبت سے مخمور کراچی کی لجنہ کی انتھک محنت اور اشاعتی کارناموں کا ایک ریکارڈ ہے.100 بہترین کتابوں کی بہترین اشاعت کے منفرد اعزاز اور ریکارڈ کی ایک تفصیل ہے جو جماعت اور با.اور بالخصوص جماعت احمد یہ کراچی کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے.حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے لجنہ کراچی کو شہد کی لکھیاں قرار دیا تھا.شہد کی انہیں مکھیوں کا احمدیہ لٹریچر کے گل وگلشن کے پھول پھول سے جو شہد کی صورت ایک سو کتابوں کا یہ ایسا تحفہ ہے کہ جو اخلاقی و روحانی شفاء کے سامان لئے ہوئے ہے.اس کتاب کی ایک اہم خوبی اور قابل ذکر و قابل رشک صفت یہ ہے کہ محترمہ امتہ الباری صاحبہ نے جو بھی کارنامہ سرانجام دیا، جو بھی نمایاں مقام حاصل کیا وہ انہیں خلافت کے قدموں میں عجز و انکسار کے ساتھ مزید جھکا تا چلا گیا اور اپنے عمل سے، اپنے قول سے اور فعل سے یہی 12
گنگناتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ ے وو گھر سے تو کچھ نہ لائے“ محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ ایک بہترین شاعرہ ہیں.بھلا جس کی شاعری کی داد، خلیفہ اسی کی طرف سے ملی ہو اس کے لئے اس سے بڑھ کر کیا سند اور اعزاز چاہیے.ایک بار حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے اس با کمال شاعرہ کو یہ فرما کر کمال کی منزل پر فائز فرما دیا: آپ خوب لکھتی ہیں.مجھے خیال نہیں تھا کہ آپ کو فصاحت اور بلاغت میں اتنا کمال حاصل ہے.“ ایک بار در بار خلافت سے اپنی ایک نظم کی بدولت دعاؤں کا خزانہ یوں انعام پایا جس میں آپ نے فرمایا: کچھ دن پہلے مصباح میں آپ کی ایک نظم پڑھی جو نظروں کے راستے دل میں اُترتی چلی گئی اور میں آپ کے لئے دعا کرتا رہا.ابھی الفضل میں آپ کی نظم اسیران راہ مولا پڑھی تو جو بدلی غم کی اٹھی دل پہ تھوڑی برسادی.ساری نظم ہی بڑی پراثر ہے اور فصیح و بلیغ مگر بعض اشعار اور بعض مصرعے تو شوخی تحریر کے فریادی بنے ہوئے ہیں.میں نے سوچا کہ پہلے اس سے کہ میری آنکھیں خشک ہو جائیں میں آپ کو بتا دوں کہ نظم پڑھ کر اسیرانِ راہ مولا کے ساتھ ساتھ میرے دل نے آپ کو بھی دعائیں دیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء في الدنيا والآخرة.محترمہ امہ الباری صاحب کو منفر دشاعرہ قرار دیتے ہوئے حضرت خلیفہ المسح الرابع " نے 13
سیلاب رحمت اس منفر د حسن کو ہمیشہ فروغ پانے کی یوں دعا دی.آپ نے فرمایا: آپ کی نظموں کو اللہ تعالیٰ نے ایک انفرادیت بخشی ہے.اللہ یہ امتیاز ہمیشہ ہمیشہ قائم رکھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کے اشعار کو سچائی کا حسن عطا فرمایا ہے.اللہ اس حسن کو ہمیشہ فروغ بخشتا ر ہے.“ اور سلطنت شعر کی اس تاجور کو روحانیت کے شہنشاہ کی طرف سے کبھی یہ تاج پہنایا جاتا ہے: ماشاء اللہ آپ کے کلام میں رفتہ رفتہ ایک نئی جلا پیدا ہوتی جارہی ہے.شاذ کے طور پر کہیں کہیں خیال پیدا ہوتا تھا کہ اصلاح کی گنجائش موجود ہے لیکن کوئی نظم یا غزل بھی بے اثر نہیں دیکھی.بعض اشعار تو یوں اُٹھتے اور بلند ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ نگاہوں کے قدم روک لیتے ہیں.زبان حال سے یہ کہتے ہوئے ہمیں سرسری نظر سے دیکھ کرا اپنی قدر شناسی کو پامال کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے.احمدی شعراء کو اللہ تعالیٰ نے سچائی کی تاجوری بخشی ہے اور سچائی ہی ان کے کلام کو ایک امتیازی حسن بخشتی ہے.آپ کا کلام بھی اس منبع حسن سے بہرہ ور ہے.اس کے علاوہ بھی آپ کے کلام میں کچھ خوبیاں ہیں جواسے انفرادی رفعت عطا کرتی ہیں.قافیہ کے استعمال میں اچانک ایسا نوع جو یکسانیت کو اس طرح تو ڑتا ہے کہ موسیقی پیدا ہوتی ہے.“ امۃ الباری صاحبہ ایک خاتون شاعرہ ہیں اور ایک عورت ہونے کے ناتے بجائے اس کے کہ یہ مردوں سے پیچھے نظر آتیں، انہوں نے اپنے شعروں کے ذریعہ وہ مقام و امتیاز پایا کہ 14
سیلاب رحمت عورت ہونا ایک اعزاز بن گیا.ایک عارفہ عورت کے اس جو ہر آبدار پر جوہری کی جو ہر شناسی.حضرت خلیفہ امسیح الرابع ان کو ایک ایسی ہی نظم پر تحریر فرماتے ہیں: " آپ کا کلام بالعموم کسی نہ کسی پہلو سے جاذبیت رکھتا ہے لیکن بعض نظمیں بعض دوسری نظموں پر فوقیت لے جاتی ہیں.ان میں سے ایک وہ ہے جو 18 جون 1990 ء کے الفضل میں شائع ہوئی.مطلع میں اگر چہ ایک ایسی سچائی بیان ہوئی ہے جو ہر صاحب نظر کو معلوم ہی ہوگی لیکن جس رنگ میں آپ نے ڈرامائی انداز میں اس مضمون کو پیش کیا ہے وہ غیر معمولی اثر کرنے والا ہے.غلط ہے آسماں سوکھا پڑا ہے زمیں کی کوکھ بنجر ہو گئی ہے اسی طرح دوسرا اور تیسرا شعر بھی خاص ادا کے مالک ہیں.پہلی غزل کی طرح اس غزل میں بھی آپ نے ایک ایسا شعر ایسے خاص انداز میں کہا ہے جو کوئی مرد شاعر نہیں کہہ سکتا خواہ کیسا ہی قادر الکلام کیوں نہ ہو.یہ ایک ایسی خاتون کا کلام ہے جو گھر کے روز مرہ کاموں میں بھی عارفانہ نکتے سوچتی رہتی ہو.وہ شعر یہ ہے.نہیں ہے ان تلوں میں تیل باقی مجھے پہچان چھو کر ہو گئی ہے یہ چھو کر پہچان ایک ایسا خیال ہے جو ایک مرد شاعر کی رسائی سے باہر معلوم ہوتا ہے.“ 15
کو لکھا: اور امتہ الباری صاحبہ کا بات کہے بغیر کہہ جانے کا کمال تو ایسا ہے کہ اس کی سندیوں ملی : آپ کو خدا نے اظہار بیان پر خوب مقدرت بخشی ہے اور آپ کو بات کہے بغیر کہہ جانے کا سلیقہ آتا ہے.اللهم زدوبارك ان کا ایک جاندار شعر ملاحظہ فرمائیں کہ جو امام وقت سے داد پا تا رہا.آپ نے ان ایک شعر جو ساری غزلوں کا جان و مال ہے اس کی داد دئے بغیر نہیں رہ سکتا.واقعی یہ بہت جاندار شعر ہے: وقت کا ٹوٹتا بدن شام کی سرمئی تھکن آنکھوں میں جاگتی لگن دل کا عجیب حال ہے“ محترمہ امتہ الباری صاحبہ کو اپنی اس خوش قسمتی کا ادراک بھی تھا اور بجاطور پر ناز بھی تھا.وہ اس کتاب میں ایک جگہ خود لکھتی ہیں کہ : ایک خوش قسمت غزل جسے حضور انور سے دودفعہ داد ملی حضور نے تحریر فرمایا: اسے پڑھ کر بہت لطف آیا.ویسے تو ساری نظم ہی بڑی اچھی ہے اور تازہ بتازہ ہے لیکن یہ اشعار بہت بلند پایہ ہیں : آتا ہے نظر تاروں میں مہتاب علیحدہ ہر پہلو سے ہے وہ در نایاب علیحدہ ترتیب سے رکھتی نہیں یادیں کبھی لیکن باندھا ہے ترے نام کا اک عليحده باب 16
سیلاب رحمت حرفوں کے بدن ٹوٹے ہیں اس شب کی دُکھن سے جو یاد میں گزری شب مہتاب علیحدہ اب چارہ گری کوشش ناکام رہے گی اس مرتبہ ہیں درد کے اسباب علیحدہ (ص262) امۃ الباری ناصر صاحبہ ایسی باکمال شاعرہ ہیں کہ جن کی نثر ان کی نظم سے بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے اور شاعری میں اگر ایک ایک شعر پر داد پائی اور امام وقت سے تعریف و توصیف کے تمغے پائے تو نثر میں بھی ایک ایک فقرے پر خوب داد پائی.ایک خط کے جواب میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع ” تحریر فرماتے ہیں: وو " آپ نے صحن میں لگے پودوں اور درختوں کے ذکر کے ساتھ اپنے گھر کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں تو کمال ہی کر دیا ہے.آپ کی نثر بعض دفعہ آپ کے شعروں پر غالب آجاتی ہے.نثر میں خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسا ملکہ اور عبور بخشا ہے کہ آپ فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتی چلی جاتی ہیں.چنانچہ آپ کے صحن اور باغ کا نقشہ پڑھ کر تو یوں لگتا ہے جیسے میں نے آپ کا گھر صرف دیکھا ہی نہیں بلکہ اس کے صحن میں بیٹھ کر کچھ وقت گزار آیا ہوں.اللہ آپ کے قلم میں مزید روانی اور جاذبیت پیدا فرمائے.اردو کلاس کے حوالے سے آپ کا تبصرہ پڑھ کر بہت محظوظ ہوا ہوں کہ زبان رکھتی تو کتنی نازاں ہوتی.بہت عمدہ فقرہ لکھا ہے اس سے تو 17
رحمت لگتا ہے کہ ماشاء اللہ اردوزبان سے آپ خوب واقف ہیں.اور نہ صرف اس کا استعمال جانتی ہیں بلکہ زبان بھی رکھتی ہیں.“ ان کا لکھا ہوا ایک مضمون حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے پڑھا.جس پر حضور کے تاثرات کی ایک جھلک اس مضمون کے حسن و لطافت کو چار چاند لگائے رکھے گی.آپ نے رقم فرمایا: یہ مضمون پڑھتے ہوئے وہ سب یاد میں ہجوم در ہجوم امڈ آئیں.جوں جوں پڑھتا گیا دل گداز ہوتا چلا گیا اور پانی برستا رہا.کس نے اتنا اچھا مضمون لکھا ہے! اتنا سلجھاہوا،اتنا متوازن، اتناشستہ،مسکراہٹوں کے ریشم میں درد لیٹے ہوئے.سنجیدہ باتوں کے ہمراہ ان کی انگلیاں پکڑے ہوئے ہلکی پھلکی لا ابالی باتیں بھی کمسن بچیوں کی طرح ساتھ ساتھ چلتی دوڑتی دکھائی دیتی تھیں.“ ایک بار آپ نے ان کے ایک خط کے جواب میں تحریر فرمایا: آپ کا خط ملا.نثر میں ایسے لطیف اور اعلیٰ پائے کے شعر بہت کم پڑھنے میں آتے ہیں جیسے آپ کا یہ خط ہے.بعض چھوٹے چھوٹے لطیف اشاروں کے ساتھ بعض مضامین پر ایسے عمدہ تبصرے آپ نے کتے ہیں جیسے کسی خوبصورت سیر گاہ میں جاتے ہوئے انسان کبھی دائیں کبھی بائیں قابل دید مقامات کی طرف اشارہ کرتا ہے.ماشاء اللہ آپ کو یہ خوب فن عطا ہوا ہے.اللہ آپ کی ذہنی قلبی صلاحیتوں کو اور بھی چمکائے اور روشن تر فرمائے.“ محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ کی اس کتاب میں جہاں جماعت کی تاریخ کے بہت سے 18
سیلاب رحمت ابواب خزانے کی شکل میں جمع کر دئے گئے ہیں وہاں حضرت خلیفہ المسح الرابع" کی سیرت اور سوانح کا ایک ایسا قیمتی خزانہ ہے کہ جو اسی کتاب کا خاصہ ہے کہ اور کہیں سے یہ سوغات ملنے کی نہیں.اس حساس اور خلافت کے عشق میں ڈوبی ہوئی شاعرہ اور ادیبہ نے بڑے قریب سے اس سراپا محبت وجود کودیکھا، اس کو محسوس کیا اور اپنی نظم ونثر میں اس کو بیان کیا.اس کتاب کے صفحات 289 تا 302 پر مشتمل ایک باب باندھا جس کا عنوان ہے: " قلب طاہر کا درد اور دردمندی.کلام طاہر کی روشنی میں اس میں انہوں نے بہت ہی خوبصورتی سے حضرت خلیفۃ امسیح الرابع” کے کلام کا انتخاب پیش کیا ہے.جس سے ہر پڑھنے والا شعروں کے جھروکے سے اس دعا دعا چہرے اور سراپا محبت وجود کو جھانک کر دیکھ سکتا ہے اور محسوس کر سکتا ہے کہ خلیفہ مسیح کا اپنی جماعت کے ایک ایک فرد سے کتنا پیار تھا اور کس قدر جماعت کا غم اور دردتھا، جس کا سینہ جواں مرگ امنگوں کا مزار تھا جو ایک زیارت گاو صد قافلہ ہائے غم وحزن تھا.جس کو اپنی والدہ سے اتنی محبت تھی کہ میٹرک کا امتحان دیتے ہوئے جو صدمہ گزرا تھا وہ ساری عمر ساتھ رہا.نہ جانے کتنی بار اور اپنی عمر کے کس کس حصہ میں وہ اپنی والدہ کی تصویر کے سامنے کھڑے ہو کر یہ کہتا رہا تیرے لئے ہے آنکھ کوئی اشکبار دیکھ نظریں اٹھا خدا کے لئے ایک بار دیکھ اب جبکہ اپنی زندگی کی شام گہری ہونے لگی لیکن اپنی ماں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ اسی طرح آفتاب نیمروز کی طرح سینے میں موجزن تھی جس کا اظہار مریم شادی فنڈ کی تحریک سے ہوتا ہے جو آپ نے اپنی وفات سے کچھ ہی عرصہ قبل کی تھی.19
رحمت ماں کی جدائی کے صدمہ کے بعد قادیان سے ہجرت کا ایک اور صدمہ آپ کو سہنا پڑا کہ جس کی یاد ہمیشہ آپ کو تڑپاتی رہی.چوالیس سال کی جدائی کے بعد 1991 ء میں جب قادیان کی بستی کے گلے لگے تو اپنے جذبات کا اظہار اس نظم میں کیا جو : ”اپنے دیس میں اپنی ایک سند رسی بستی تھی.اس میں اپنا ایک سند رسا گھر تھا.میں ملکوں ملکوں پھر ا مگر اس کی یادیں ساتھ لئے پھرا.کبھی میرا تن من دھن اس کے اندر تھا اب وہ میرے من میں بستی ہے.اس کے رہنے والے سادہ اور غریب تو تھے لیکن نیک نصیب تھے.ہر بندہ دوسرے کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا تھا.وہ بڑے سچے لوگ تھے، وہ بڑی سچی بستی تھی.وہاں جو جتنا بڑا تھا اتنا ہی خاکسار تھا.اس دھرتی میں وہ موعود مسیحا پیدا ہوا جسکا صدیوں سے انتظار تھا.اس نے آکر دین حق کا احیاء کیا.پوری دنیا سے حق آشنا یہاں جمع ہوتے.اس قدر پھل پڑا کہ زندہ درخت میووں سے لد گئے.اس مسیح موعود کی صورت میں جو نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق تھا، میں نے بھی اس سے فیض پایا ہے.یہ اسی کا اثر ہے کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی محبت ملی گویا خود خدا تعالیٰ مل گیا.کیٹڑی سے کمتر کے گھر نارائن آ گیا.اس کے سارے کام سنوار دئے.برہا کے مارے اپنے گھر آئے ، اپنے مینارے دیکھے.ساری بستی پر انورالہی کی بارش برستی دیکھی.آنے والوں کے ساتھ فرشتے پر پھیلائے آئے.سب کے سروں پر رحمت کا سایہ ہے.سب کے چہروں پر لورالہی ہے.سب کی آنکھوں میں پیار دیکھا.اس منظر میں ایک کمی رہی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور 20
سیلاب رحمت دوسرے عشاق جواب دنیا میں نہیں رہے، زندگی کی آخری سانس تک صبر و رضا سے اس آس میں رہے کہ کاش خدا قادیان لے جائے.یہ بستی سدا سہاگن رہے.اس میں وہ ہستی پیدا ہوئی جونوروں کا ایک سمندر تھی.جس سے نوروں کے سوتے پھوٹے.ایک اللہ کا نام باقی رہے گا.اسے جس بھی نام سے پکار لو.وا ہے گرو، ایشور، اللہ اکبر ( ص 292-293) لیکن اپنے دردوغم کی گٹھڑی اٹھائے نگر نگر پھرنے والے اس مسافر کو ہجر وفراق کے سلوک کی ابھی کچھ اور منزلیں طے کرنا باقی تھیں: ہر روز نئے فکر ہیں، ہر شب ہیں نئے غم یا رب یہ مرا دل ہے کہ مہمان سرا ہے اب اسے اس بستی سے جدائی کا غم تھا جہاں اس نے اپنی مقدس اور پاکیزہ جوانی کا بھر پور زمانہ گزارا.جہاں شادی ہوئی ، اولاد کی نعمت سے مالا مال ہوئے اور جہاں ردائے خلافت زیب تن کی.لیکن پھر اچانک یہ درودیوار، پاکیزہ اور روح پرور ماحول بہشتی مقبرہ اور مقدس مزاروں کی بستی بھی خدا کی خاطر چھوڑنی پڑی.اس بھرے گھر سے ایسے گئے کہ پھر مڑ کر نہ دیکھا.دروازوں پر تالے پڑے رہے کہ کھولنے والا واپس نہ آیا.اس پر بہار باغ سے جدا ہو کر نہ مالی کو چین آیا اور نہ باغ کو قرار آیا.طائر اڑ گیا نشیمن اُداس رہ گیا.اس نشیمن سے اُداسی کے پیغام جاتے تو آپ بے چین ہو جاتے : بس نامه بر، اب اتنا تو جی نہ دُکھا کہ آج پہلے ہی دل کی ایک اک دھڑکن اُداس ہے 21
رحمت آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بن باسیوں کی یاد میں صرف گھر اداس ہیں.بن باسیوں کے من کی اُداسی مجھ سے زیادہ تو نہیں.میری غم نصیب آنکھوں میں بسنے والو! در دیجوری سے تڑپنے والو! ادھر بھی یہی حال ہے : آنکھوں سے جو لگی ہے جھڑی، تھم نہیں رہی آ کر ٹھہر گیا ہے جو ساون، اُداس ہے بس یاد دوست اور نہ کر فرشِ دل پر رقص سن! کتنی تیرے پاؤں کی جھانجن اُداس ہے (ص296) محبت کا یہ عالم تھا کہ ربوہ اور ربوہ کے باسیوں کے ذکر پر آپ کی آواز اکثر بھرا جاتی.گلا رندھ جاتا.اس درد آشنا دل میں درد کے کچھ دروازے ہومیو پیتھی کی پریکٹس سے بھی کھلے.ایک برآمدہ ، دیواروں سے لگی الماریوں میں چھوٹی چھوٹی شیشیاں اور میاں طاری.اور وہ سینکڑوں مجبور، بیمار، بے بس، غریب دکھیارے اپنے اپنے روگ اور رنج والم لے کر آتے اور میاں طاری کے آگے ڈھیر کر دیتے.ان کو تو وہ میٹھی سفید گولیوں میں دوا کے چند قطرے ڈال کر دے دیتے لیکن اپنا دل درد سے بھر جاتا.بے چارگی کی ساری تصویریں آپ نے دیکھیں.درد کے سارے رُخ آپ کی نظروں سے گزرے.یہ برآمدہ کیا تھا ایک میخانہ غم تھا جو آپ کے دم سے آباد تھا.یہ سب کچھ اس کتاب ”سیلاب رحمت“ میں ہے.کتاب کیا ہے..ایک سمندر ہے جو سیرت طاہر اور برکات خلافت کے مختلف پہلوؤں سے موجزن ہے.محترمہ امتہ الباری صاحبہ نے حضرت خلیفہ اسیح کی خدمت میں بھیجے جانے والے 22
سیلاب (رحمت) خطوط کو ایک نظر دیکھا تو اس کو کس نظر سے دیکھا.یہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے.اپنی اسی کتاب میں وہ بیان کرتی ہیں: حضور کی ڈاک کا نظام بھی روئے زمین پر منفرد ہے.پچھلے زمانے کے منصف مزاج بادشاہوں کے متعلق پڑھتے تھے کہ راتوں کو بھیس بدل کرگلیوں میں گھوم پھر کر عوام کے مسائل بچشم خود دیکھا کرتے تھے.پوری دنیا میں پھیلی جماعتوں کے منصف امام نے خطوں کے ذریعہ ہر گلی محلے میں بسنے والوں سے رابطہ رکھا ہوا ہے.خط میں جس طرح دل کھول کر رکھ دیا جاتا ہے زبانی بھی ممکن نہیں.مجھے علم ہے جہاں کوئی پریشانی کوئی جھگڑا کوئی دلآزاری ، بیماری ، دکھ کا واقعہ کوئی اندوہناک وفات ہو، سب اپنے دل کا سارا دکھڑا حضور پر نور کے شفیق دل میں انڈیل دیتے ہیں اور پھر پر اسرار دھندلکوں میں سموئے ہوئے غم ، فضاؤں میں سسکتے ہوئے احساس الم ان کی روح پر جذ بہ مہم بن کر چھا جاتے ہیں.آنکھیں اشکوں کی رہگزار بن جاتی ہیں اور دل مہمان سرائے غم وحزن.آپ کے سینے میں جواں مرگ امنگوں کے اتنے مزار ہیں کہ وہ غم وحزن کے سینکڑوں قافلوں کی زیارت گاہ بن سکتا ہے.کسی کے دھیان کی جو گن سارے رنج و آزار کے ساتھ خود ہی پہلو میں آجاتی ہے اور رات بھر احساس کے دکھتے ہوئے تار چھیڑتی ہے.ایک ایک تار سے غم وحزن کی صدا اٹھتی ہے.دل ایسے جلتا ہے جیسے دور بیابانوں میں کسی راہب کا چراغ ٹمٹمارہا ہو.درد کے قافلے ویرانوں میں لرزتی ہوئی لوکو دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ یہی ہماری منزل ہے ، دو گھڑی 23
سیلاب رحمت قلب کے غم خانے میں ستا کے تیرگی یاس کی اوٹ سے نکل کر اُمید کی کرن دیکھ کر چلے جائیں گے.کسی اور کا کہاں حوصلہ ہوسکتا ہے کہ ان میں جھانکے.خطوں کے ذریعے انسانیت کی اتنی بڑی خدمت ہو رہی ہے جس کا اندازہ 66 کرنا مشکل ہے.“ (ص207-208) پ ایک واقف حال کے طور پر قارئین کے ازدیاد علم و ایمان کے لئے یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ حضرت خلیفہ مسیح کی ڈاک کا یہ سلسلہ اللہ کے فضل سے دن بدن بڑھتا جا رہا ہے.محض اردو یا انگریزی میں خطوط کے علاوہ عربی ،انڈونیشین ، رشین، فارسی، فرنچ، جرمن، سواحیلی ، ڈچ، سویڈش، نارو جنین، ڈینش سپینش، اٹالین ،ٹرکش، بنگلہ،سندھی ، پشتو کے علاوہ ہندوستان اور افریقہ کی کی لوکل زبانوں میں بھی بکثرت خطوط آنے لگے ہیں جو ان قوموں کے مخلص اور فدائی احمدیوں کی حضرت خلیفہ اُسیح سے محبت وعقیدت اور اخلاص کی نہایت ایمان افروز اور جانفزاء دلکش قلبی جذبات پر مشتمل ہوتے ہیں اور اس طرح روزانہ حضور کی خدمت میں پیش ہونے والی ڈاک کی تعداد ایک ہزار خطوط سے تجاوز کر جاتی ہے اور بدھ، جمعرات کے دن جب مختلف خطوط کے خلاصے تیار ہو کر آتے ہیں تو یہ تعداد آٹھ نو ہزار تک جا پہنچتی ہے لیکن جس خندہ پیشانی اور وفور محبت اور دعاؤں کی کیفیت میں ڈوب کر ہمارے پیارے امام ان کا مطالعہ کرتے ہیں اس کا لفظی اظہار میرے لئے ناممکن ہے.خط لکھنے والے یہ سارے اپنے امام کی محفل دل کے ایسے خاص مہمان بنتے ہیں کہ جن پریمیوں کیلئے قلب و نظر کا سکون نثار، حضرت خلیفہ امسیح الرابع " کا یہ شعر اس کی سچی عکاسی اور غمازی کرتا ہے: ان کو شکوہ ہے کہ ہجر میں کیوں تڑپایا ساری رات جن کی خاطر رات لٹادی، چین نہ پایا ساری رات 24
سیلاب رحمت خوب سجی یادوں کی محفل، مہمانوں نے تاپے ہاتھ ہم نے اپنا کوئلہ کوئلہ، دل دہکایا ساری رات روتے روتے سینے پر سر رکھ کر سوگئی ان کی یاد کون پیا تھا؟ کون پریمی؟ بھید نہ پایا ساری رات ان کا امام اپنے ان فدائی مخلصین کی یادوں کا ایک ایسا گلشن ہے کہ جس کی عنبر بار خوشبو سے وہ اپنے من کو مہکائے رکھتا ہے اور اخلاص و وفا کے ان ساتھیوں کی محبت کا ذکر یوں کرتا ہے: گل بوٹوں، کلیوں پتوں سے، کانٹوں سے خوشبو آنے لگی اک عنبر بار تصور نے یادوں کا چمن مہکایا ہے کوئی احمدیوں کے امام سے بڑھ کر کیا دنیا میں غنی ہوگا ہیں سچے دل اس کی دولت، اخلاص اس کا سرمایہ ہے اور دنیا بھر میں بسنے والے ان عاشقوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے: تمہاری خوشیاں جھلک رہی ہیں مرے مقدر کے زائچے میں تمہارے خونِ جگر کی ئے سے ہی میرا بھرتا ہے جام کہنا الگ نہیں کوئی ذات میری، تمہی تو ہو کائنات میری تمہاری یادوں سے ہی معنون ہے زیست کا انصرام کہنا اے میرے سانسوں میں بسنے والو! بھلا جدا کب ہوئے تھے مجھے سے خدا نے باندھا ہے جو تعلق رہے گا قائم مدام کہنا تمہاری خاطر ہیں میرے نغمے، مری دعائیں تمہاری دولت سے تر ہیں مرے سجود و قیام کہنا تمہارے درد و الم 25
سیلاب رحمت الحمد للہ اس سیلاب رحمت کا بہاؤ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی رحلت کے بعد بھی بڑی تیزی سے حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں ،شفقتوں اور دعاؤں کی صورت میں پوری آب و تاب سے جاری ہے.چنانچہ 2003ء میں جب محترمہ امتہ الباری صاحبہ کے حصے میں یہ سعادت آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے پہلے شہید صاحبزادہ مرزا غلام قادر احمد پر کتاب پیش کریں تو حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے کتاب موصول ہونے پر انہیں اس نہایت خوبصورت مکتوب سے نوازا کہ: آپ کے شعبہ اشاعت کی طرف سے شائع ہونے والی نئی تصنیف 'مرزا غلام قادر احمد موصول ہوئی.جزاکم اللہ احسن الجزاء.ماشاء اللہ بڑی اچھی ترتیب دی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے صاحبزادہ عبد اللطیف شہید کی شہادت پر فکر کا اظہار کیا تھا اور اس اُمید کا بھی کہ اس معیار قربانی پر شاید کچھ اور لوگ بھی قائم ہو جائیں.اللہ تعالیٰ نے تقریباً 5 سال بعد آپ کی نسل میں سے ہی ، آپ کے خون میں سے ہی وہ اعلیٰ معیار قربانی کرنے والا پیدا کر دیا جس نے اپنی جان کو تو قربان کر دیا لیکن جماعت کو ایک بہت بڑے فتنے سے بچا لیا.اے قادر تجھ پر ہزاروں سلام.جماعت میں تیری یہ قربانی ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھی جائے گی.قادر سے میرا ایک ذاتی تعلق بھی تھا.آپ کی کتاب دیکھ کر تمام پرانی یادیں ذہن میں آنا شروع ہو گئیں.اس کا مسکراتا چہرہ اکثر نظروں کے سامنے آجاتا ہے.وہ خوب 26
سیلاب رحمت صورت بھی تھا خوب سیرت بھی تھا.جب حضور رحمہ اللہ نے مجھے ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی مقرر فرمایا تو میں نے اپنے لئے اس کی نظروں میں اخلاص اور اطاعت کا وہ جذبہ دیکھا جس کو صرف میں محسوس کر سکتا ہوں.یہ صرف اس لئے کہ خلیفہ وقت کی اطاعت کا اعلیٰ معیار اس وقت قائم ہو سکتا ہے جب اس کے بنائے ہوئے امام کی بھی کامل اطاعت کی جائے.بہر حال آپ کی کتاب دیکھ کر بہت دور چلا گیا ہوں.اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند تر کرتا رہے.اس کے بچوں کی حفاظت کرے.اللہ کرے یہ کتاب نوجوانوں میں جذبہ اخلاص اور قربانی کو بڑھانے کا ذریعہ ثابت ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء دے.آمین.والسلام مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ( مکتوب 8 جون 2004ء) پھر ان کی طرف سے مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل اور بیت بازی ملنے پر حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح انہیں داد اور دعائیں دیں که: آپ کا بیت بازی والا خیال بھی بہت عمدہ ہے.جزاکم اللہ احسن الجزاء.یہ فقرہ ذہن میں آنے کے بعد جب میں نے دیکھا تو 27
سیلاب رحمت حضور رحمہ اللہ نے بھی تبصرے میں یہی فقرہ استعمال کیا ہوا تھا.اللہ تعالیٰ آپ کی تمام کاوشوں کو بے انتہا برکتوں سے نوازے.خدا تعالیٰ آپ کے لئے آسانیاں پیدا کرے اور آپ کو اپنے فضل و کرم سے نوازتا رہے.آمین.“ دونمی کا عکس“ پر دُعا (مکتوب 12 جولائی 2004ء) " آپ کا مجموعہ کلام 'نمی کا عکس، موصول ہوا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.میں نے جستہ جستہ پڑھا ہے.ماشاء اللہ اچھا کلام ہے.اُمید ہے کہ ادبی ذوق رکھنے والوں کو آپ کا یہ مجموعہ پسند آئے گا.اللہ تعالیٰ آپ کے سخن و فہم میں مزید برکت دے اور ہر آن آپ پر اپنے پیار کی نگاہیں ڈالتا رہے.آمین.( مکتوب 12 اپریل 2014ء) لجنہ کراچی کو جب حضور انور ایدہ اللہ نے فارسی در ثمین مع ترجمہ و فرہنگ تیار کرنے کا ارشاد فرما کر ایک بہت بڑی سعادت سے نوازا تو دوران تیاری حضور انور انہیں ہدایات اور دعاؤں سے بھی سرفراز فرماتے رہے جو بجائے خود ان کے لئے ایک بہت بڑا انعام تھا.اس کام کے دوران حضور انور ایدہ اللہ نے ایک دفعہ انہیں حضرت سلطان القلم علیہ السلام کے فیضان سے برکتیں پاتے رہنے کی دعائیں دیتے ہوئے تحریر فرمایا کہ: در ثمین فارسی“ کی طباعت اور اشاعت کا کام خوش اسلوبی سے مکمل ہو.آمین.اللہ کرے آپ لوگ ان ذمہ داریوں کو احسن رنگ 28
میں سرانجام دیتے رہیں اور ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور حفاظت اور رحمت آپ کے شامل حال رہے اور کام کرنے والوں اور خدمت کرنے والیوں پر خدائے رحمن ہمیشہ رجوع برحمت ہو.آمین.دعاؤں پر زور دیں.اللہ ساتھ ہو اور ”سلطان القلم‘ کے فیضان سے آپ کا قلم برکت پذیر رہے.آمین.فی امان اللہ.والسلام مرزا مسرور احمد اور پھر جب یہ کام مکمل ہوا تو حضور نے ان کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے انہیں لکھا کہ : آپ نے درثمین فارسی پہ ماشاء اللہ بڑی محنت کی ہے.اور اس کا اچھا ترجمہ کیا ہے.نظارت اشاعت نے دیکھ بھی لیا ہے.اللہ تعالیٰ لجنہ کراچی کو توفیق دے کہ آئندہ بھی جماعت کی علمی میدان میں خدمت کرتی رہیں اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام ہمیشہ دنیا کو ملتا رہے.اللہ آپ کی نیک مساعی قبول فرمائے.ان میں برکتیں ڈالے اور سب خدمت کرنے والوں کو اس کی دائمی جزاء عطا فرمائے.آمین 66 یہ خوبصورت درثمین 2018ء میں شائع ہوئی اور اس کے ساتھ لجنہ کراچی کی 100 کتب مکمل ہوئیں.یہ ایک لمبا جہاد تھا جو مولا کریم کے فضل سے مکمل ہوا.حضور انور ایدہ اللہ کی ان مستجاب اور مقبول دعاؤں کے بعد اللہ کے فضل سے آپ کے اور آپ کی نسلوں کے بخت تو سب ہمیشہ ہمیش کے لیے سنور چکے اور اللہ سے کیا چاہیئے.اللہ 29
رحمت تعالیٰ کرے کہ اللہ والوں کے پیار کا یہ سلوک ہمیشہ آپ کے ساتھ جاری رہے.آپ نے بہت خوب اور سچ کہا کہ : اس کی تحریروں میں یوں ڈوب کے رہ جاتی ہوں مجھ میں رچ بس گئی اس ماہ لقا کی خوشبو آفتاب خلافت کو اس ایک نظر نے ایک نظر دیکھا اور بیان کیا اور کیا خوب بیان کیا اور کتاب کے آخر پر اس تاجدار خلافت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جو بیان کیا وہ بھی کیا ہی سچا بیان ہے: جھولی بھرنے میں تھا وہ حاتم وقت جس نے جب بھی کبھی سوال کیا شعر فہمی اُسے ودیعت تھی میں نے شعروں میں عرض حال کیا ناز کرتی ہوں عجز سے بے حد اس نے میرا بڑا خیال کیا والسلام خاکسار منیر احمد جاوید ( پرائیویٹ سیکرٹری سید نا حضرت اقدس خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ) 30
سم الله الرحمن الرحيم السلام نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود الله مکرمہ محترمہ امۃ الباری ناصر صاحبہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خیرم و خیر می خواهم و خواستگار دعا ام - آنمکرمہ کی تازہ تصنیف کا مسودہ محترمہ صدر صاحبہ لجنہ اماءاللہ کے توسط سے موصول ہوا.اس تحریر دل پذیر کو بصد شوق پڑھا اور لفظ لفظا پڑھا.دل نے حفظ اور سرور پایا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے مکتوبات گرامی عظیم الشان اور گراں قدر سر مایہ نیز ہر جہت اور پہلو سے شاہکار ہیں.آپ نے جس خوبی ، نفاست اور عمدگی کے ساتھ ان موتیوں کی یہ مالا پروئی ہے وہ آپ کا ہی کمال ہے.حسن ترتیب بولتی ہے کہ کتنے پیار ومحبت، عقیدت و احترام اور احتیاط سے کام لیا گیا ہے.ہر خط کے شان نزول اور اس ماحول اور جذبات و کیفیات کو ضبوط تحریر میں لا کر ایسا سماں باندھا ہے جو واقعی کیفیت انگیز ہو جاتا ہے اور دل و دماغ پر وجد کی حالت کا استیلا کر دیتا ہے.اس سبد خوشنما کے گلہائے رنگا رنگ لطیف، سندر، تر و تازہ اور خوشبودار ہیں جن سے دل و دماغ نہایت معطر ہو جاتا ہے اور ایک عجب عالم مستی کا پیدا کرتے ہیں.آپ کا طرز نگارش ادبی محاسن کا مرقع ہے.سہل اور سجل عبارات ، الفاظ کا چناؤ، تراکیب اور بندشوں کا تقبل غرضیکہ ذوق لطیف کی لذت یابی کا سامان وافر ہے.اس گنجینۂ علم ومعانی کو منظر عام پر لانا آپ کی عظیم الشان خدمت اور جماعت پر احسان ہے.حضرت خلیفہ امسیح م الرابع رحمہ اللہ کے مکتوبات اپنی شان ،عظمت اور رفعت میں لاثانی ہیں.31
سیلاب رحمت آفریں بر کلک نقاشے کہ دارد بکر معنی را چنان حسن جمیل ہر رقیمہ معانی کا خزینہ ہے.جس کی جاذبیت اور دل آویزی مسحور کر دیتی ہے.آفرین ہے اس مرد خدا پر کہ جس جولاں گاہ میں بھی اس نے قدم رکھا اس کے اوضاع واطوار کو زینت بخشی اور اس کے معیاروں کو بلند کیا اور ایسے نقوشِ قدم چھوڑے جو آنے والوں کے لئے نشانِ منزل قرار پائے.صد لالہ رخے بود بصد حسن شگفتہ نازاں ہمہ راز یر قدم کرد عجب کرد منصب خلافت کی عظیم الشان اور بے کراں ذمہ داریاں جن کا احاطہ کرنا بھی مشکل تر ہے اور یہ ذمہ داری ایسا بوجھ ہے جو پیٹھ توڑ دینے والی ہے، خدائے مہربان سے اس کے حق ادا کرنے کی توفیق موفق پائی.اس فریضہ کی ادائیگی میں کسی اور کام کی ہمت ہی کب رہتی ہے مگر آپ اس کے ساتھ ساتھ جس میدان میں بھی اترے کمال کر دکھایا.آپ شعر و نثر میں طبع آزما ہوئے تو اساتذہ کا رنگ پیدا کیا اور ایسے شاہکار اور شاہ پارے تخلیق کئے کہ جو یادگار ہیں.یہ پیار اور شفقت کے نامے جو آپ کے نام آئے ، زہے نصیب.یہ آپ کا اوج قسمت ہے اور قابل صدر شک ہے.یہ کتو بات ہی اس کتاب کی روح اور معراج ہیں.ہر خط کو پڑھا، ٹھہر ٹھہر کر بنظر غائر دیکھا.دل سے بے اختیار یہ صد ابلند ہوتی رہی کہ نکلا ہوں لفظ لفظ سے میں ڈوب ڈوب کر یہ تیرا خط ہے یا کوئی دریا چڑھا ہوا آپ نے اس تصنیف منیف کا نام بھی خوب تر تجویز فرمایا.اسم بامسٹمی ہے.اس کے 32
رحمت محتویات و مشتملات سیلاب رحمت ہیں.پہلی نظر پڑی تو یہ سیلاب رحمت کی ترکیب کچھ اجنبی لگی مگر کتاب پڑھ کر یہ باور آیا کہ سیلاب رحمت کے علاوہ اور کوئی نام اس کے شایانِ شان نہیں.اس سیلاب میں استغراق اور محویت ہی اس کا تقاضا ہے اور چاہئے بھی.جماعتی اشاعتی خدمت کے سفر کی کہانی آپ نے بڑے خوبصورت انداز اور اعلیٰ پیرایہ میں بیان کی ہے.انداز تحریر نرالا اور اس میں شان دلربائی ہے.الفاظ کے رچاؤ، فقروں کے بہاؤ اور لہجہ کے سبھاؤ نے سماں باندھ دیا ہے.فن لطیف وہ ہے جو دل سے نکلتا ہے اور ان اعلیٰ جذبات پر مشتمل ہوتا ہے جس کو دماغ قبول کر لیتا ہے اور ہاتھ اس کی تخلیق کرتا ہے.تکرار سے بسا اوقات دل اوب جاتا ہے.مگر آپ ہیں کہ آپ نے کتابوں کی تیاری واشاعت کا ذکر کیا جو ماشاء اللہ سومرتبہ دہرایا گیا مگر کیا مجال کہ نظریں سواد کتاب سے جدا ہونے کو تیار ہوں بلکہ ہر سطر دوسری سطر کی تشویق دلاتی ہے اور مطالعہ کے دوران کوئی دیگر مصروفیت وارد حال ہوئی تو صدمہ کی کیفیت پیدا کر گئی.دلجمعی اور لذت مطالعہ کی کشش غالب رہتی ہے.ماشاء اللہ یہ مطالعہ نہایت دلچسپ رہا کہ ہر اشاعت کا ذکر ایک دلچسپ کہانی کی صورت میں جلوہ گر ہے.اشاعت کے کام کے بیان میں کئی گوشے اوجھل ہی رہتے ہیں اور بہتیرے کارکنان پردہ غیب میں نہاں ہو جاتے ہیں مگر آپ نے تو کمال کر دکھایا کہ ہر پہلو اجاگر کیا اور ہر خدمت گزار کا مذکور ہے.اور جس پیار اور محبت سے آپ نے ہر ایک کا ذکر کیا اور ان کی جس طور پر خدمت کو سراہا اور خراج تحسین پیش کیا وہ اپنی مثال آپ ہے.یہ کہانی سبق آموز ہے اور نو واردان بساط خدمت کے لئے قابل تقلید نمونہ بھی.ہر مرحلہ رہبر اور ہرموڑ راہ نما ہے.کام دشوار اور کٹھن تھا تو خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے آپ کے عزائم جوان اور ارادے بلند فرما دیئے.ناواقفیت اور ناتجربہ کاری در پیش ہوئی تو حضور کی 33
سیلاب رحمت تو جہات کریمانہ اور تلطفات رحیمانہ دستگیر ہوئیں اور ہر مرحلہ پر شفیق آقا نے آپ کی رہنمائی کی اور دعاؤں سے نوازا.وسائل کا فقدان سیدِ راہ ہوا تو خدا نے کشائش کی راہیں نکال دیں.کام میں ترقی ہوئی اور کام کرنے والوں کی ضرورت سامنے آئی تو نصرت الہی جلوہ گر ہوئی اور مخلص محنتی اور ایثار پیشہ رفقائے کار میسر ہو گئے جنہوں نے پوری دلسوزی اور عرق ریزی سے معاونت کا حق ادا کیا.بیرونی رابطوں کی احتیاج واقعی ہوئی تو افراد اور ادارے شرح صدر کے ساتھ معاون و مددگار ہوئے.غرضیکہ یہ سلسلہ بڑا طویل اور دور دراز ہے.گویا ہمہ وقت خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کی موسلا دھار بارش برستی رہی اور سیلاب رحمت کی صورت جلوہ گر ہوئی اور آپ کی تصنیف کی ہر سطر اس سیلاب رحمت کی طرف مشار الیہ ہے.گودانہ از انبارے کے حکم میں ہے مگر پڑھنے والے اس سے بآسانی اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ جماعت کے کاموں میں رختِ سفر اور زادِ راہ تقویٰ ہی ہے.باقی مولا بس خدا خود می شود ناصر اگر ہمت شود پیدا میرا دل ممنونیت اور احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہے.جذبات کی لطافت کو قائم رکھتے ہوئے اظہار کا ملکہ آپ ایسے قادر الکلام لوگوں کا نصیبہ ہے.میں اس کوشش میں جذبات کی لطافت و نزاکت کا حرج کرنے کی جسارت نہیں کرتا اور اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے دعا کی عاجزانہ درخواست کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ اس ضرورت اور احتیاج سے محروم نہیں کیا جاؤں گا.والسلام خالد مسعود نظارت اشاعت، ربوہ 34
ابتدائیہ مکرمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ کی نئی کتاب ” سیلاب رحمت“ پڑھی.ماشاء اللہ یادوں کا ایک انمول ذخیرہ ہے.ہر بات کا بیان اسقدر خوبصورتی سے کیا گیا ہے کہ بات سیدھی دل میں اتر جاتی ہے اور گہرا اثر چھوڑتی ہے.اس کتاب میں شعبہ لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کی انتھک محنت کو قلم بند کیا گیا ہے جو آنے والی نسلوں کیلئے بھی ایک سرمایہ ہے.کتاب کے حسن کو خلفاء احمدیت کے خطوط نے چار چاند لگا دیئے ہیں.الحمد للہ ، خدا تعالیٰ نے خلیفہ کے وجود میں کیسا محبت کرنے والا سا یہ عطا فرمایا ہے جو ہر راستے پر ہماری راہنمائی اور حوصلہ افزائی فرماتا ہے.کتاب پڑھ کر شدید خواہش ہوئی کہ کاش خاکسار بھی نثر نگار یا شاعرہ ہوتی تو شاید پیارے امام کی محبتیں اور داد سمیٹتی.دل خدا تعالیٰ کے آگے سجدہ ریز ہے کہ خدا تعالیٰ نے لجنہ کراچی کو ایسی ممبر عطا کی جنہوں نے نہایت اخلاص اور عاجزی سے خلافت کے سائے اور اس کی راہنمائی میں شعبہ اشاعت ضلع کراچی کو دنیا بھر کی تمام جماعتوں میں ممتاز حیثیت دلوائی.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.ان کی کوششوں کو قبول فرمائے اور ایسے سلطان نصیر جماعت کو ہمیشہ عطا فرما تار ہے.آمین.35
میری خوش بختی ہے کہ میں بھی اس جماعت کی ایک ادنیٰ رکن ہوں.خدا تعالیٰ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی دعا سے لجنہ کراچی کو ہمیشہ شہد کی مکھیوں کی طرح اکٹھا رکھے اور امام وقت کا منظور نظر بنائے رکھے.آمین ثم آمین.اور حضرت مصلح موعودؓ کی دعا کہ: ” جماعت کراچی کو اللہ نظر بد سے بچائے ہمیشہ ہم پر سایہ کئے رہے.آمین.والسلام امتہ النور طيب بنت معین صدر لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی 36
بھیج دروداُس محسن پر تو دن میں سوسو بار ل محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی یا ستم کے طبقہ ءاناث پر احسانات کا اندازہ زمانہ جاہلیت میں عورت کی ناقدری کی نسبت سے ہوتا ہے.اس کا وجود دھرتی پر بوجھ تصور ہوتا ، زندہ گاڑ دی جاتی ، ترکے میں بانٹی جاتی ، غلاموں اور قیدیوں سے بدتر سلوک ہوتا.اس محسن اعظم نے اس کے حقوق قائم فرمائے ، عزت و وقار کا مقام دیا.خودحسنِ سلوک سے بہترین نمونہ دکھلایا، اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا.اس سے حوصلہ پاکر خواتین نے معاشرہ میں اہم کردار ادا کیا.تاریخ میں اسلام کے دور اول کی خواتین کے محفوظ کار ہائے نمایاں آج بھی روشن مثالوں کی طرح جگمگاتے ہیں.مگر پھر وقت گزرنے کے ساتھ اسلام کی حقیقی تعلیم فراموش ہوتی گئی.عورت پہلے سے بڑھ کر دور جاہلیت جیسے اندھیروں میں چلی گئی.دور آخرین میں اسلام کا احیائے نو مقدر تھا.چنانچہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کی تشریف آوری سے اس طبقے کا وقار بحال ہوا.اس کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوا.ترقی کے مواقع ملنے کی وجہ سے اپنی خدا داد ذہانت سے وہ خدمت دین میں تیز 37
ب رحمت تیز قدموں سے آگے بڑھنے لگی.حضرت ام المؤمنین سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تربیت میں خواتین نے احیائے دین کے کاموں میں بھر پور حصہ لیا.پھر قدرت ثانیہ کے دور میں خلفائے کرام نے خواتین میں جہادِ دین کی روح کو زندہ تر کیا.1922ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لجنہ اماءاللہ قائم فرمائی، جس کے مقاصد اعلی ترین ترقی کے حصول کے لئے خواتین کو بیدار کرنا ، تربیت دینا اور مل کر جد و جہد کرنا تھے.آپ نے جلسہ سالانہ 1922ء کے موقع پر اپنے خطاب میں ارشاد فرمایا: کوئی دین ترقی نہیں کر سکتا جب تک عورتیں ترقی نہ کریں.پس اسلام کی ترقی کیلئے ضروری ہے کہ تم بھی ترقی کرو.عورتیں کمرے کی چار دیواری میں سے دو دیوار میں ہیں، گر جائیں تو کیا اس کمرے کی چھت 66 قائم رہ سکتی ہے؟ نہیں ہرگز نہیں.“ الاز ہار لذوات الخمار - صفحہ ۵۸،۵۷) کمرے کی دیواروں کو مضبوط کر کے عمارت کو مستحکم بنانے کیلئے آپ نے ذاتی طور پر تعلیم کو کومستحکم و تدریس میں حصہ لیا.پھر آپ کے بعد حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت خليفة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو جاری رکھا.اور اب بفضل الہی حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بڑی شان سے اس جھنڈے کو اُٹھا کر ترقی کی جانب گامزن ہیں.الا زہار لذوات الخمار کی جلدیں ہمارے خلفاء کرام کی ان کاوشوں کی شاہد ہیں.حضرت مصلح موعود بیانہ کا احدی خواتین کی ترقی کا خواب کس طرح شرمندہ تعبیر ہورہا ہے ایک اقتباس دیکھئے.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحم اللہ تعالی فرماتے ہیں: دُنیا بھر کی تمام خواتین سے مقابلہ کر کے دیکھیں کہ کسی قوم میں 38
سیلاب رحمت) خواتین کی اتنی بھاری تعداد اتنے مثبت اور مفید کارآمد کاموں میں مصروف دکھائی نہیں دیں گی جیسے کہ احمدی خواتین دکھائی دیتی ہیں...آج میں احمدی خواتین کو اپنے دائیں بھی لڑتے دیکھ رہا ہوں اور بائیں بھی اور آگے بھی اور پیچھے بھی.آج احمدی خواتین بیدار ہو کر اُٹھ کھڑی ہوئی ہیں.احمدی خواتین نے ہر میدان میں میرا ساتھ دیا ہے.بگڑے ہوئے معاشرہ کا بہترین جواب احمدی خواتین ہیں.“ لجنہ کی گود میں (الفضل ربوہ 30 جولائی 1999ء) خاکسار ذرہ ناچیز نے بفضل الہی سلسلہ احمدیہ کی تنظیم لجنہ اماءاللہ سے بڑا فیض حاصل کیا.مختصر تعارف کے بعد کچھ روداد بیان کروں گی.وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم.ہمارے خاندان میں احمدیت دادا جان حضرت میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والے کی 1895ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت سے آئی.دادی جان حضرت برکت بی بی صاحبہ نے بھی دادا جان کے ساتھ بیعت کا شرف حاصل کیا.میرے نانا جان حضرت حکیم اللہ بخش صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی سے پہلے کے دوست تھے.میرے والد محترم میاں عبد الرحیم صاحب دیانت اور والدہ محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ قادیان میں محلہ دارالفضل میں رہتے تھے.بعد میں دار الفتوح میں ریتی چھلہ کے سامنے رہائش رہی.اسی گھر میں خاکسار کی پیدائش ہوئی ابا جان کی دکان مسجد مبارک کے سامنے تھی.میں ابھی چھوٹی تھی کہ تقسیم برصغیر کا واقعہ پیش آیا.اباجان قادیان میں درویش ہو گئے اور سارا خاندان حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے سائے میں پہلے لاہور اور پھر ربوہ آکر 39
آباد ہوا.قادیان کا زمانہ تو کم سنی کی وجہ سے زیادہ یاد نہیں البتہ ربوہ کے ابتدائی دنوں میں بچپن کے شب و روز خوب یاد ہیں.امی جان اور بڑی بہنیں ناصرات اور لجنہ کے کاموں میں سرگرم تھیں اوڑھنا بچھونا لجنہ تھا.گھروں کے صحنوں میں قرآن پاک پڑھنے والے بچوں کی قطاریں ، رمضان المبارک میں حلقہ باندھ کر قرآن پاک کے درس اور دور، مسجد کے راستوں پر گہما گہمی ، درس اور تراویح کے لئے دوڑیں.رات صحن میں چھڑکاؤ کے بعد بستر لگ جاتے اور امی سکول شروع ہو جاتا.صبح بچوں کے خوش الحانی سے درود و سلام پڑھنے کی آوازیں بہت بھلی لگتیں.ہر مسجد سے اذان کی آوازیں آتیں.غرضیکہ ایک روح پرور ماحول تھا جس میں غیر محسوس طور پر دینی تعلیمات رگ وپے کا حصہ بن جاتیں.ناصرات کے اجلاسوں سے چھوٹی چھوٹی تقاریر سیکھیں.اجتماع کے لئے جھنڈے تیار ہوتے اور رنگ برنگے دوپٹے رنگے جاتے اور پھر ترانہ گاتے ہوئے لجنہ ہال کی طرف جانا عجیب سماں تھا.میٹرک تک ناصرات میں شمار ہوتا اور کالج میں داخل ہو کر لجنہ میں شامل ہو جاتے.بڑی بہن مکرمہ امتہ اللطیف صاحبہ لجنہ مرکز یہ میں عہد یدار تھیں.اپنے ساتھ دفتر لے جاتیں اور کسی نہ کسی کام میں لگائے رکھتیں.اس طرح لجنہ کے ہر سطح کے عہدے داروں سے تعارف ہو گیا.اجتماعات اور جلسوں کی تیاری کی مشق بھی ہوگئی.تعلیم القرآن کلاسز میں حصہ لیا.قرآن پاک با ترجمہ سکول میں مکرمہ اُستانی میمونہ صوفیہ صاحبہ سے پڑھا.حضرت اصلح موعود رضی اللہ عنہ کے درس قرآن قصر خلافت کے صحن میں سننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی.جامعہ نصرت سے بی اے اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا.کالج میں پڑھنے اور پڑھانے کے زمانہ میں لجنہ کی خدمات برائے نام ہیں.1956ء کی گرمیوں میں تعلیم القرآن 40
سیلاب رحمت کلاس میں حصہ لیا اور امتحان میں اول پوزیشن لی.( تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد دوم صفحہ 429)1957ء میں لجنہ اماءاللہ کے اجتماع میں رپورٹنگ کی ڈیوٹی ملی جس کے لئے سٹیج پر بیٹھنے کی جگہ لی.اس اجتماع میں حضرت مصلح موعودؓ نے خطاب فرمایا.1959ء میں دینی معلومات کے امتحان میں پوزیشن لی.اسی سال مضمون نگاری کے مقابلہ میں اول پوزیشن لی.تاریخ لجنہ اماءاللہ.جلد سوم صفحہ 23) 1960ء میں جلسہ سالانہ میں نائبہ نگران شعبہ انتظامات کے فرائض ادا کرنے کی توفیق ملی.1960ء تا 1962ء نائبہ سیکرٹری ناصرات الاحمدیہ مرکز یہ رہی.1962 تا1963ء مجلس عاملہ مرکز یہ میں سیکرٹری تعلیم کا کام کیا.1962ء میں تعلیم القرآن کلاسز کو پڑھانے کیلئے راولپنڈی اور فیصل آباد بھیجا گیا.1962ء ہی میں جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.اور قیام گاہ مستورات میں رپورٹر کے فرائض سرانجام دیئے.1962ء سے 1964 ء تک مرکزی عاملہ میں سیکرٹری ناصرات الاحمد یہ رہی.استفاده از تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد سوم صفحہ 202 تا238) ربوہ میں قیام اور لجنہ سے وابستگی کی برکتیں کئی صورتوں میں شامل حال رہیں.یہی وہ عرصہ تھا جس میں خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین مبارکہ کا دیدار، ان کی نصائح سننے کے مواقع اور ذاتی تعلق کی نعمتیں ملیں.لجنہ کے اجتماعات اور جامعہ نصرت کی تقریبات خاص طور پر مشاعروں اور جلسہ ہائے سالانہ پر ملاقاتوں کے خوب مزے رہتے.خاکسار پر سب سے زیادہ احسانات حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ غفر لھا کے ہیں.خاکسار نے محترمہ فرخندہ شاہ صاحبہ پر نسپل جامعہ نصرت سے بھی بہت فیض پایا.خاکساران کے ساتھ جامعہ نصرت کے اپنے سب اساتذہ کی بھی شکر گزار ہے جنہوں نے تعلیم و تربیت کی 41
سیلاب رحمت پوری کوشش کی.یہ حسین نقش عمر بھر ساتھ رہے.فجز اھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.شادی کے بعد 1964 ء میں کراچی آئی.اس وقت رہائش جامع کلاتھ مارکیٹ کے بالمقابل عید گاہ میدان کے عقب میں تھی جو حلقہ سعید منزل کہلاتا تھا.احمد یہ ہال قریب تھا.اکثر جانا رہتا.کراچی لجنہ نے کھلی بانہوں سے استقبال کیا.اس وقت تک میں مرکزی عاملہ میں شامل تھی.یہی میرا تعارف بنا.احمد یہ ہال میں ایک استقبالیہ تقریب ہوئی جس میں بہت سی مقتدر ہستیوں سے ملاقات ہوئی.مکرمہ سرور عبد المالک صاحبہ، مکرمہ مجیدہ شاہنواز صاحبہ مکرمه جمیله عرفانی صاحبہ، مکرمہ شوکت گوھر صاحبہ خاص طور پر محبت سے پیش آئیں.یہ خلوص صرف لجنہ کے کام سے حاصل ہوا ، ورنہ میں کس کھیت کی مولی تھی؟ پہلی عید پر بہت سی جان پہچان کی خواتین سے ملاقات ہوئی.اس زمانے کی عید میں بہت یاد آتی ہیں.کراچی کے وسطی علاقے گاندھی گارڈن کے چڑیا گھر میں ایک میدان میں جماعت کو جگہ ملتی جس میں بہت صبح عید پڑھ کر میدان خالی کرنا ہوتا.ہم منہ اندھیرے عید گاہ پہنچتے.یہاں بہت سی خواتین سے غائبانہ تعارف اس طرح تھا کہ ناصرات کا کام کرتے ہوئے کراچی سے آنے والے پرچوں کی چیکنگ میں بچوں اور ناصرات کی سیکرٹریان کے نام نظر سے گزرتے اور خط و کتابت بھی ہوتی رہی تھی.اسی طرح اجتماعات پر آنے والے گروپ شناسا ہو گئے تھے.کچھ واقفیت مصباح میں لکھنے والوں سے تھی.اس طرح کراچی لجنہ میں آکر کوئی اجنبیت محسوس نہ ہوئی.1964ء سے 1980ء تک ناصر صاحب کی لاہور اسلام آباد اور کراچی میں ٹرانسفرز کی وجہ سے ایک جگہ مستقل رہنا ممکن نہ ہو سکا.پھر اس اثنا میں ماشاء اللہ پانچ بچوں کی پیدائش اور پرورش کے مرحلے رہے.گھریلو ذمہ داریوں نے اس طرح پکڑے رکھا کہ لجنہ سے تعلق 42
تو ر ہا مگر کوئی کام با قاعدہ نہ کر سکی.1980ء میں کراچی تبادلہ ہوا اور پھر 2010ء تک مستقل کراچی میں رہائش رہی.سرکاری مکان علاقہ صدر میں جناح ہسپتال کے قریب ملا.احمد یہ ہال وہاں سے قریب تھا جس میں لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کے مرکزی دفاتر تھے.اس تسلسل سے آنا جانا رہتا کہ احمدیہ ہال ہمارا دوسرا گھر ہو گیا.لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کی خدمت میں لجنہ کی خدمت کا آغاز مکر مہ آپا اقبال صاحبہ مرحومہ نگران قیادت نمبر 5 کی تحریک سے ہوا.(اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا رہے) ہمارے گھر تشریف لائیں ان کے پاس ایک رجسٹر اور تحریک جدید کے چندے کے وعدوں کی فہرستیں تھیں.مجھے رجسٹر میں اندراج کا طریق بتایا.اس کے ساتھ کراچی میں قیادتوں کی تقسیم اور طریق کار کے متعلق تفصیل.بتایا.میں نے بھی اولین ترجیح کے ساتھ خوبصورتی سے رجسٹر تیار کر دیا.بہت خوش ہو ئیں اور آنے والے اجتماع کی میزبانی کا کام سونپ دیا.احمد یہ ہال میں اس پہلے اجتماع میں بہت سی خواتین سے باہمی تعارف ہوا.مکرمہ بشری داؤ د صاحبہ اور مکرمہ محمودہ امتہ السمیع صاحبہ کے کام کے جنون نے متاثر کیا.اور اسی جنون نے ہمیں قریب کر دیا.عاقل کا یہاں پر کام نہیں ، وہ لاکھوں بھی بے فائدہ ہیں مقصود مرا پورا ہو الر ، مل جا ئیں مجھے دیوانے دو 30 / اگست 1981 ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مارٹن روڈ کی احمدیہ مسجد میں خواتین سے خطاب فرمایا جس میں لجنہ کراچی کو مرکزی تنظیم سے الگ کر کے اپنی 43
سیلاب رحمت نگرانی میں لے لیا.مروجہ صدارتی نظام معطل کر کے ایک پانچ رکنی کمیٹی مقرر فرمائی.اس وقت یہ محسوس ہوا تھا کہ یہ تبدیلی لجنہ کی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر بطور سزا کی گئی ہے.مگر یہ کیسی سزا تھی جو رحمتوں کی بارش میں بدل گئی.تیرے اے میرے مربی کیا عجائب کام ہیں گرچہ بھا گیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار کمیٹی اپنی کارکردگی کی رپورٹیں حضور رحمہ اللہ کو بھیجیں.دعاؤں اور حوصلہ افزائی کے خطوط آتے.الہی تقدیر کے مطابق جون 1982ء میں ہمارا محسن آقا داغ مفارقت دے گیا.جانے والے کی مقدس روح کیلئے دعائیں کرتے ہوئے قدرت ثانیہ کے چوتھے مظہر کا استقبال کیا.اب ہماری رپورٹیں حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی خدمت میں جانے لگیں.فروری 1983ء کو حضور انور خلافت کی قبا پہننے کے بعد پہلی دفعہ کراچی تشریف لائے تو کراچی کی بہاریں دیدنی تھیں.گیسٹ ہاؤس میں ہر وقت جشن کا سماں رہتا.وسیع سبزہ زار پر اجتماعی ملاقاتوں میں علم و عرفان کی بارش ہوتی.انفرادی ملاقاتوں میں حضور انور کے ارشاد پر یہ طریق اختیار کیا گیا کہ ایک کمرے میں بہت سی خواتین جمع ہو جاتیں تو حضور انور تشریف لے آتے.خواتین باری باری اپنا تعارف کرواتیں ، دعا کی درخواست کرتیں.خاکسار بھی کمرے میں بیٹھی سوچ رہی تھی کہ حضور سے اپنا تعارف کیسے کراؤں گی.ہمارے بزرگوں سے تو حضور خوب واقف تھے مگر خاکسار ایک بے حیثیت ذرہ تھی.سوچ رہی تھی کہ ابا جان کا نام لوں یا بھائیجان کا.اتنے میں میری باری آگئی : حضور ! میں امتہ الباری ناصر ہوں...66 ابھی میرا جملہ پورا نہیں ہوا تھا کہ حضور نے فرمایا: 44
سیلاب رحمت ہاں ! ہو گیا وہ آپ کے میاں کی ٹرانسفر کا کام...66 میں ہکا بکا رہ گئی.چند دن پہلے میں نے دعا کا خط لکھا تھا.اللہ تعالیٰ کی شان کہ نام بتاتے ہی حضور کو عاجزہ کا خط یاد آ گیا.خط کا مضمون بھی یاد تھا.حضور نے مجھے پہچان لیا تھا یہ بہت خوشی کی بات تھی.یہ پہلا تعارف تھا.اس کے بعد اگست 1983ء اور فروری 1984ء میں بھی حضور گراچی تشریف لائے.ان پر بہارموسموں کی روداد الگ عنوان سے تحریر کی ہے.کراچی لجنہ 1981ء سے 1986 ء تک براہ راست حضور انور کی نگرانی میں پانچ رکنی کمیٹی کے تحت کام کرتی رہی.پھر آپ نے مرکزی لجنہ کے ساتھ حسب سابق الحاق کر دیا.یہ عرصہ جوقریبا پانچ سال بنتا ہے.عجیب رحمتوں اور برکتوں سے بھر پور تھا.پیارے حضور کی رہنمائی میں کام کے جذبے اور جنون نے بشری داؤد اور خاکسار کو بہت قریب کر دیا.اُس کے اندر کوئی خاص قوت رواں دواں تھی.مجھے پتہ نہیں اس کے پاگل پن کو کیا نام دوں.ایک متحرک فدائی تھی.ہم ہر وقت جیسے حالت جنگ میں رہتے.کراچی لجنہ میں نئی توانائی آگئی تھی.کہیں اصلاح معاشرہ کمیٹی بن رہی ہے، کہیں کیسٹ لائبریریاں ترتیب دی جارہی ہیں.کوئی جامعہ احمدیہ کی طرز پر خواتین کا کالج کھولنے کا سوچ رہا ہے، کہیں تعلیمی و تربیتی نصاب لکھے جارہے ہیں.جلسہ ہائے سیرۃ النبی صلی یا تم میں غیر از جماعت مہمانوں کو شامل کرنے کی دوڑ ہے.کہیں دیوانہ وار دعوت الی اللہ ہو رہی ہے، طبی کیمپ لگ رہے ہیں، سمعی بصری پروگرام اور اصلاح معاشرہ کمیٹیاں بن رہی ہیں اور ایسے کئی سلسلے الہی توفیق سے آگے بڑھتے رہے اور ہماری رپورٹیں خلیفہ وقت سے دعا ئیں لوٹتی رہیں.اس سرگرم لجنہ کا حصہ بن کر مجھے لگتا کہ لجنہ کراچی میں ہوں اور میں لجنہ کراچی ہوں.45
لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کی اشاعتی خدمات اور خلفائے کرام اور بزرگانِ سلسلہ کی نظر شفقت،حوصلہ افزائی اور دعائیں یاد رکھو کہ ہماری حرب ان کے ہم رنگ ہو جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ آئے ہیں اسی قسم کے ہتھیار ہم کو لے کر نکلنا چاہئے اور وہ ہتھیار ہے قلم.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم رکھا اور میرے قلم کو ذوالفقار علی فرمایا.“ الحکم جلد ۵ نمبر ۲۲ مورخہ ۱۷ جون ۱۹۰۱ صفحه ۲ کالم ۲) اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو قلم کا سلطان بنایا.قلم سے جہاد کے لئے اس سلطان کو اکیلا نہیں رکھا بلکہ اس کی مملکت کے قیام ، استحکام ، وسعت اور دفاع کے لئے قلم کے ہتھیار سے لیس افواج بھی عطا فرمائیں.ان افواج میں شامل سپاہی بظاہر خاک نشین، خاک بسر، سادہ اور کمزور عام سے انسان ہوتے ہیں مگر قادر و مقتدر خدا تعالیٰ 46
سیلاب رحمت ان کو اپنی تائید و نصرت سے جہاد کے لئے غیر معمولی قوت عطا فرما دیتا ہے.ہماری جماعت تحقیق ،تحریر، تصنیف اور اشاعت کے میدان میں علم و معرفت سے مزین نابغہ روز گار قلم کاروں سے مالا مال ہے.اللہ تبارک تعالی کے فضل و احسان سے لجنہ کراچی کو اصحاب کہف والرقیم جیسے زمانے میں اس فوج میں ادنیٰ سپاہی کی جگہ ملی.ہم لجنہ کے وہ تیر ہیں جو امام وقت کو الہی احسان کے طور پر عطا ہوئے.ہم نے فضلِ خداوندی سے نئی صدی کے استقبال کے لئے کم از کم سو کتب شائع کرنے کا منصوبہ بنایا جس میں ہمیں قدم قدم غیر معمولی کامیابی نصیب ہوئی ہے.کسی بڑی تعداد میں کتابیں چھاپ لینا قابل ذکر واقعہ نہیں.مگر وقت کے خلفائے کرام کی توجہ ، شفقت، رہنمائی اور دعا ئیں حاصل کرنا بہت بڑا واقعہ ہے.اس تحریر کا مقصد بھی یہ ہے کہ آئندہ نسلیں یہ عنایات دیکھ کر سبق حاصل کریں کہ خلیفہ وقت کی چھاؤں میں ہی راحت و آرام اور عزت و وقار ہے.اس غیر معمولی افضال و برکات کی بارش میں لجنہ کراچی کی شعبہ اشاعت سے منسلک خدمت گزار خواتین حمد وشکر اور مسرت و انبساط کی جس فضا میں سانس لے رہی ہیں.محسوسات و جذبات کے معاملات ہیں جن کا مکمل اظہار دنیا کی کسی زبان میں ممکن نہیں.آستانہ الوہیت پر جھکے جھکے پچھلے ہوئے دل کے ساتھ شعبہ تصنیف واشاعت کی کچھ روداد قلم بند کر رہی ہوں.اللہ تعالیٰ موضوع سے انصاف کی توفیق عطا فرمائے.آمین.کتب کی اشاعت کا منصوبہ لجنہ کراچی خدا تعالی کے فضل سے بیدار اور مستعد لجنات میں شمار ہوتی رہی ہے.کارکردگی کے لحاظ سے پوزیشنوں میں اولیت کا ریکارڈ بہت اچھا ہے.اشاعت کی طرف 47
ب رحمت توجہ حضرت خلیفۃ اسبع الثالث کے بچے احمدی کی ماں.زندہ باد کے نعرو سے ہوئی جس نے یہ پُر جوش ولولہ پیدا کیا کہ احمدی خواتین کی تربیت خاص انداز سے ہونی چاہیے.جس کے لئے علیم دین بڑھانا بہت ضروری ہے.پھر حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی فروری 1982 ء ، اگست 1983ء اور فروری 1984ء میں کراچی تشریف آوری اور گیسٹ ہاؤس کے حسین سبزہ زار پر احمدی و غیر احمدی خواتین سے طویل مجالس عرفان نے علم و آگہی کی نئی روح پھونک کر خدمت دین کا جذ بہ بیدار ย کیا.محترمہ حور جہاں بشری داؤ د صاحبہ (غفرلھا) نے جامعہ احمدیہ کی طرز پر خواتین کے لئے داعیان الی اللہ کلاسز شروع کیں جس کا افتتاح یکم مارچ 1984ء کو حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے فرمایا مگر یہ کلاسز زیادہ عرصہ نہ چل سکیں.اپریل میں حالات نے ایسا درد ناک پلٹا کھایا کہ بھی سجائی بساط الٹ گئی.ایسی پابندیاں لگ گئیں کہ کام جاری رکھنا مشکل ہو گیا.حضرت خلیفة امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کو ہجرت کرنی پڑی.حالات بہت کٹھن تھے مگر زندہ جماعت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھی.طبع پر بند باندھے گئے تو اور رواں ہوگئی.بشری داؤد نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی طرز پر کورسز تیار کرنے کا منصوبہ بنالیا تا کہ اگر حالات خدانخواستہ اس حد تک نامساعد ہو جائیں کہ مساجد اور نماز سینٹر ز تک پہنچنا مشکل ہو جائے تو احمدی خواتین اور بچوں کی تربیت کے لئے بذریعہ ڈاک اُنہیں کورسز گھروں میں پہنچائے جائیں.بشری نے اس مقصد کے لئے مجاہد ماؤں مجاہد عورتوں اور مجاہد بچوں کے لئے کورسز ترتیب دیئے.حضرت صاحب نے ایک خطبے میں ارشاد فرمایا تھا: ہم حالت جنگ میں ہیں.“ بشری اور خاکسار یہ جملہ کئی دفعہ دہراتے.یہ ہمارے لئے مہمیز بن گیا.وہ نصاب کی 48
رحمت تیاری میں مصروف رہی اور خاکسار مختلف موضوعات پر مضامین لکھ کر مربی صاحب کو دیتی رہی کہ وہ جس طرح، جہاں اور جس نام سے چاہیں انہیں چھپوا دیں.چند عنوانات درج ذیل ہیں: مساجد کا احترام.دشمنانِ اسلام سے جنگ کا قرآنی طریق.قادیانیوں کا تعاقب کس طرح کیا جائے.یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے.عشق ہو جائے کسی سے کوئی چارا تو نہیں صرف مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں مجاہد کورسز تیار کرنے میں مجھے کیسے حصہ ملا ؟ یہ بشری کا احسان تھا.وہ اب اس دنیا میں نہیں مگر اُس کی ہر بات مجھے اس طرح یاد ہے جیسے کل کی بات ہو.ایک دن گہری شام کے وقت وہ ہمارے گھر آئی.چہرے پر عزم کی سرخی ، تیز گامی سے بے ترتیب سانس، روشن آنکھوں میں بڑے بڑے آنسو..آتے ہی بغیر کسی تمہید کے بھاری پلندہ میرے آگے ڈال دیا اور جرنیلوں کے سے گھن گرج سے بولی : قوموں کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا ہے اگر آج ہم نے احمدی خواتین کی تربیت میں غفلت کی تو یہ وقت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا.میرے منصوبے پر اس تیزی سے عمل نہیں ہو رہا جیسے میں چاہتی ہوں.مجھے اس منصوبے میں آپ کی ضرورت ہے.“ 49
سیلاب رحمت میں اس وقت جنرل سیکرٹری قیادت نمبر ایک کا کام کر رہی تھی جو بہت وقت طلب کام تھا مگر اُس کے خلوص سے متاثر ہوکر میں نے بغیر کسی تر ڈو کے ساتھ دینے کی حامی بھر لی تعلیمی منصوبے پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، ہر پہلو کا جائزہ لیا.ہم دونوں کا ہر بات میں اتفاق رائے بڑا با برکت ثابت ہوا.دو دیوانے مل بیٹھے اور خوب گزری.اسی نشست میں بچوں کے لئے ان کی عمر کے حساب سے پانچ مراحل میں نصاب تیار کرنے کا منصوبہ بنا.ہم نے ابواب کے عنوانات تجویز کر کے کام بانٹ لیا.بشری کو ان سلسلہ وار کتابوں کے لئے میرے تجویز کردہ نام: کونپل غنچہ گل - گلدستہ اور گلشن احمد پسند آئے اور ہم کام میں جت گئے.ہماری حقیر کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہونے لگیں.ہماری صدر صاحبہ آپا سلیمہ میر نے حوصلہ افزائی کی ، ہر قسم کی مدد دینے کا وعدہ کیا اور دعاؤں سے تقویت دی.آپ بہت شفیق اور معاملہ فہم خاتون ہیں.اگر چہ اپنے صدارتی فرائض کے تحت کبھی نامہربانوں کی طرح مہربانی کرتیں.دراصل وہ ہماری دیوانگی اور تیز رفتاری سے خائف ہو کر ہمیں حدود میں رکھنے کی کوشش کرتیں.ہم ہر کام کے لئے حضور انور کو دعا کے لئے لکھتے.آپ نے کراچی کے دوروں کے دوران لجنہ کی کارکنات کی باہمی یک جہتی اور ٹیم ورک دیکھا تھا.آپ خطوط میں بہت حوصلہ افزائی فرماتے.آپ نے ایک خط میں کارکنات کو شہد کی مکھیوں کا خطاب عطا فرمایا.مکتوب ملا حظہ ہو : 50
مکتوب مبارک حضرت اقدس مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ مسیح الرابع رحمہ الل واجْعَلْ لنا من لديه سلطنا نميمة.انا فتحنا لک فتحا مبينا نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ امام جماعت احمد لندن 14/4188 السلام عليكم ورحمة العد و راحت ہے.لجنہ امان اللہ ضلع کو اچھا کی طرف سے تعزیتی قرار داد موصول ہوئی.جزاکم اللہ اللہ تعالی سپه سب کے اخلاص نہیں برکت ڈالے اور حسنات دارین سے نواز سے اور سب کو کا میاب داعیان الی اللہ بنائے.سب کچہ کراچی کو یہ بھی ہیل والسلام سلام پہنچا رہیں.دنیا بھر خاک کی نجات میں جو چند پیا محبات صف اول کی والله ہیں ان میں بعد کراچی خیلی ایسی علاج نمایاں ہے - میم ما کہ Z اور نیک کاموں میں استقلال اور نظم و ضبط اس محنہ کی قاضی خوبیاں اپنی جو مجھے عطر وقاص پسند ہیں ، خداوہ وقت جلد لائے کہ 51
حسب سابق میں آپ کے مشوروں اللہ مجاہلی سوال وجواب میں شریک بری - جماعت کراہی کیا جو چند دن ہوئی گزارنے کا موقع ملتا تھا شہید مصروفیت کے ناموجود بڑے ہی طمانیت نحش دل ہوتے تھے.اب جمب مصروفیات چند لمحوں کے لئے ہاروں کی کتل جانے کی فرصت دیتی ہیں تو بالخصوص دیده - لاہور - اسلام آبا دا دی اور کراچی کی جماعتوں کی یاد مجھے جذباتی کر دیتی ہے.پھر آپ سب کے لئے میری دعاؤں میں کچھ پالیساسی زنگ آجاتا ہے جیسے بچیوں کے لئے مائوں کی دعائیں - پھر یعین اوقات جذبات الفاظ میں ڈھلنے کی مقدرت بھی نہیں رکھتے اور بذات خود رہنماء بھی جاتے ہیں سلیم پیر اللہ مجھے ہمیشہ آپ سب کی طرف سے خوشیاں رکھا ہے.اللہ کی نظر کے سامنے پھر میں پھیلیں اور پروان چڑ ھیں.خالد کے جو ہے محفوظ واتین جب وہ قید کریں.اللہ اپنی دونیا صدر نجبه الی اللہ ضلع بھی فتات کی بارشیں آپ پر برساتا رہے کلوری آپ کی اچھی اچھی خبریں مجھے ملتی رہیں.میری آنکھیں خدا حافظ ہوں میرا دل بڑھے.میرا نارا وجود شکر نہیں ڈھل جائے.52
وو سیلاب رحمت سب لجنہ کراچی کو میرا محبت بھرا سلام پہنچا دیں.دنیا بھر کی لجنات میں جو چند لجنات صفِ اوّل کی ہیں اُن میں لجنہ کراچی نمایاں ہے.ٹیم ورک اور نیک کاموں میں استقلال اور نظم وضبط اس لجنہ کی خاص خوبیاں ہیں جو مجھے بطور خاص پسند ہیں.خدا وہ وقت جلد لائے کہ حسب سابق میں آپ کے مشوروں اور مجالس سوال جواب میں شریک ہوں.جماعت کراچی میں چند دن گزارنے کا موقع ملتا تھا.شدید مصروفیت کے باوجود بڑے ہی طمانیت بخش دن ہوتے تھے.اب جب مصروفیت چند لمحوں کے لئے یادوں کی محفل جمانے کی فرصت دیتی ہے تو بالخصوص ربوہ ، اسلام آباد/ پنڈی اور کراچی کی جماعتوں کی یاد مجھے جذباتی کر دیتی ہے.پھر آپ سب کے لئے میری دعاؤں میں کچھ ایسا ہی رنگ آجاتا ہے جیسے بچوں کے لئے ماؤں کی دعائیں ہوں.پھر بعض اوقات جذبات الفاظ میں ڈھلنے کی مقدرت بھی نہیں رکھتے اور بذاتِ خود دعا بن جاتے ہیں.اللہ مجھے ہمیشہ آپ کی طرف سے خوشیاں دکھائے.اللہ کی نظر کے سامنے پھولیں پھلیں اور پروان چڑھیں.حاسد کے حسد سے محفوظ رہیں جب وہ حسد کریں.اللہ دین و دنیا کی حسنات کی بارشیں آپ پر برساتا رہے.آپ کی اچھی اچھی خبریں مجھے ملتی رہیں.میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں.میرا دل بڑھے.میرا سارا وجود شکر میں ڈھل جائے.خدا ( مكتوب 88-04-14 ) حافظ 53
سیلاب رحمت اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ، خلیفہ وقت کی دعائیں ، پر حکمت صدارت ، پر ولولہ مخلص ساتھی یہ اصل زر تھا جس سے کام کا آغاز ہوا.ورنہ ہم تو لاشئی محض ہیں.علم و تجربے کے لحاظ سے بالکل صفر تصنیف و اشاعت کا کام جس علم محنت اور سرمائے کا متقاضی ہے اُس سے بھی ناواقف.دراصل ہم خود بھی نہیں جانتے تھے کہ ہم کتنے مشکل کام کی طرف بڑھ رہے ہیں.سب کچھ مولا کریم کروارہا تھا.ہمیں تو کچھ پتہ نہیں تھا کہ کام کیا رُخ اختیار کرے گا.یہ محض اللہ تعالی کی عطا ہے.ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں دعا کرتے : ترجمہ: ” اور سوائے اللہ کے فضل کے مجھے کوئی توفیق نہیں.اے ہمارے رب ہمیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرما اور اپنے حضور سے ہمیں راستے کا فہم عطا فرما اور اپنے پاس سے ہمیں خاص علم سمجھا.“ (حقیقۃ الوحی- روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 7) 1988ء میں ربوہ میں سالانہ اجتماع کے موقع پر جشن صد ساله تشکر شایان شان طریق سے منانے کے لئے لجنات سے تجاویز اور منصوبے مانگے گئے تو کراچی کی بلند ہمت ، بلند ، نظر بشری داؤد (سیکرٹری اصلاح وارشاد ) نے کم از کم سوکتب شائع کرنے کا منصوبہ پیش کر دیا جو منظور کر لیا گیا.اس طرح ہم کتب کی اشاعت کے جس کام کا ضلع کی سطح پر آغاز کر چکے تھے با قاعدہ صد سالہ جشن تشکر کے تحت ہو گیا.54
حصہ اوّل خلافت رابعہ میں اشاعتی خدمات ۱۹۸۸ء میں کام کا آغاز حضرت خلیفہ مسیح الرابع حمہ اللہ کے ۲۵ مارچ ۱۹۸۸ء کے مسیح اللہ خطبہ جمعہ کی اشاعت سے ہوا.پھر مکرمہ بشری داؤد صاحبہ کی سیرت نبوی کے سلسلے کی پہلی کتاب مقدس ورثہ شائع ہوئی.پہلی دفعہ ٹائٹل پر ایک پٹی لگی : یکے از مطبوعات شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی بسلسلہ صد سالہ جشنِ تشکر تیسرے نمبر پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سبز اشتہار.لیکچر سیالکوٹ بطرز سوال جواب پیش کی گئیں.چوتھی کتاب بچوں کے لئے نصاب کے سلسلے کی پہلی کتاب کونیل تھی جو بہت مقبول ہوئی.بعد میں اس کے بارہ تیرہ ایڈیشن آئے اور تراجم بھی ہوئے.کئی ملکوں میں شائع ہو رہی ہے.اس کے بعد بشری داؤد کی سیرت نبوی کے سلسلے کی دوسری کتاب چشمہ زم زم شائع ہوئی اس کے بھی کئی ایڈیشن آئے اور تراجم ہوئے جو مسلسل شائع ہورہے ہیں.بچوں کے نصاب کی دوسری کتاب غنچہ میں وضو اور نماز کا طریق خاکوں کی صورت میں سمجھایا گیا تھا.بفضلہ تعالیٰ اس کتاب کی بھی بہت پذیرائی ہوئی.کراچی سے اس کے سات ایڈیشن اور دوسرے ملکوں میں تراجم شائع ہوئے.دل چاہتا ہے اس وقت ابتدائی حالت کی ایک جھلک دکھا دوں پھر قارئین سمجھ سکیں گے کہ ہم چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر اس قدر خوش کیوں ہوتے تھے.اس وقت شعبہ اشاعت کے لئے کوئی فنڈ مخصوص نہ تھا.کتابیں لکھ کر جب کتابت کا مرحلہ آیا تو علم ہوا کہ کا تب صاحب تو ایک صفحہ لکھنے کے بہت پیسے لیتے ہیں جو ہماری 55
رحمت استطاعت سے باہر تھا.سوچا کسی اچھی لکھائی والی خاتون سے لکھا لیتے ہیں.محترمہ طلعت منصور صاحبہ کی لکھائی سب کو پسند آئی ہماری درخواست پر طلعت نے کو نیل اور غنچہ ہمیں ہاتھ سے بڑی صفائی سے لکھ دی اس کی فوٹوسٹیٹ کا پیاں کروائیں تا کہ سب کو تقسیم کر سکیں.اب یہ مسئلہ آیا کہ ہمارے پاس کاغذوں کو Staple کرنے کے لئے Stapler نہیں تھا.گیسٹ ہاؤس میں Stapler تھا مگر اُسے گھر لانے کی اجازت نہ تھی.کاغذات لے کر گیسٹ ہاؤس جاتے اور کتابوں کی صورت میں Staple کر کے لے آتے ( بعد میں امیر صاحب نے Stapler گھر لانے کی اجازت دے دی تو ہم بہت خوش ہوئے ) بشری کی مقدس ورثہ کے لئے ہمیں دو ہزار روپے ملے تھے.جہاں تک مجھے یاد ہے یہی وہ سرمایہ تھا جو اس شعبہ کو لجنہ کراچی سے ملا اس کے بعد کتب کی فروخت سے اگلی کتب کا خرچ مل جاتا اور عطیات بھی ملتے رہے.کتب کی تیاری تک بشری اور خاکسار ساتھ ساتھ کام کرتے مگر طباعت کے مرحلے میں بشری اور داؤد صاحب دونوں میاں بیوی دن رات کام کرتے.دونوں نے Book Marks ڈیزائن کر کے چھپوائے صد سالہ جشنِ تشکر کے لئے Greeting Cards وقت پر چھپوا کر تقسیم کروائے.بشری کا گھر کسی چھاپے خانے کا منظر پیش کرتا.کوشش ہوتی کہ کم سے کم خرچ میں کام ہو اس کے لئے محنت زیادہ کرنی پڑتی تھی.ہماری کتب کا لجنہ کی گیلری میں ایک میز پر سٹال لگتا.اس سٹال کے ذکر سے مکرمہ عقیلہ صادق صاحبہ اور مکرمہ مسز انور شریف وڑائچ صاحبہ یاد آتی ہیں.مسجد میں بک سٹور کے ناظم مکرم شاد صاحب ڈیڑھ اینٹ کے تھڑے پر کتابیں سجاتے تو ہم اوپر سے دیکھ کر خوش ہوتے.آہستہ آہستہ نھی ننھی کتابیں مقبول ہونے لگیں.مسز برکت ناصر صاحبہ اجتماعات پر 56
سیلاب رحمت ربوہ لے جاتیں اور بیچ کر خوش خوش آتیں.ہم نے جب یہ کتابیں پیارے حضور کی خدمت میں ارسال کیں تو ہمیں بہت پیارا جواب موصول ہوا: بچوں کے لئے کتب کا پروگرام بہت اچھا ہے.بڑا پسند آیا ہے.اور دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی ہے.اللہ تعالیٰ ان مساعی کا اجر دے اور مثبت نتائج برآمد ہوں سب لکھنے اور کام کرنے والیوں کو خاص طور پر میری طرف سے محبت بھر اسلام دیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.66 اس وقت ہمیں اس خط سے بہت حوصلہ ملا.کام تیز تر ہو گیا.بچہ پاؤں پاؤں چلنے لگا.ساتویں نمبر پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ضرورت الامام‘ اور یچر لدھیانہ بطرز سوال جواب پیش کی گئیں.آٹھویں نمبر پر کرم محمود امت اسمی صاحب کی دنیا پور ضلع ملتان میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی اردو میں مجلس عرفان کا انگلش میں ترجمہ "The Nazarene Kashmiri Christ" شائع ہوئی.یہ بڑی بابرکت ثابت ہوئی جب مکرمہ محمودہ امتہ السمیع صاحبہ نے حضور انور سے ترجمے کی اجازت مانگی تو آپ کا دست مبارک سے تحریر کردہ طویل مکتوب موصول ہوا جو تر جمہ کرنے والوں کے لئے مشعل راہ ہے.افادہ عام کے لئے پیش کیا جاتا ہے: " آپ کا وہ خط خاص طور پر میرے پیش نظر تھا جس میں آپ نے یہ ذکر کیا تھا کہ آپ سوال جواب کی کیسٹس کا ترجمہ کرانے کا ارادہ رکھتی ہیں اور ایسا کرنے کی اجازت چاہی تھی.یہ تو نیکی اور پوچھ پوچھ والی 57
رحمت بات ہو گئی.یہ تو بہت مبارک خیال ہے.بلکہ ایسا خیال ہے جو خود میرے ہی دل کی آواز ہے.شوق سے ایسا کریں.اللہ تعالیٰ آپ کی رہنمائی اور نصرت فرمائے.اور کام کی ہمت بھی بخشے اور اس نیکی کی بہترین جزا بھی عطا فرمائے.میں نے جب یہ پڑھا تو بے اختیار میرے دل سے یہ مناجات اُٹھی کہ اے اللہ تو کتنا پیارا اور کتنا محسن ہے کہ میرے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے اور تو اُسے دوسرے دل میں ارادے بنا کر اُتار دیتا ہے.خدمت دین کے لئے خود ہی مجھے مددگار مہیا فرماتا ہے.اور پھر خود ہی خدمت کی توفیق بخشتا ہے اور سارے کام خود ہی بناتا چلا جاتا ہے.پس آپ ضرور ایسا کریں.اللہ کی نصرت آپ کے ساتھ ہو اور بہترین خدمت کی توفیق نصیب ہو.یہ امر ضرور پیش نظر رہے کہ یہ کام بہت لمبا محنت طلب اور صبر آزما ہے.اور اس میں مندرجہ ذیل مراحل کو پیش نظر رکھنا ہوگا: 1 مختلف کیسٹوں میں بیان کردہ مضامین کو مضمون وارا الگ کر کے یکجا کرنا.اس بارہ میں مرکز میں پہلے ہی کام ہو رہا ہے اور بعید نہیں کہ آپ کے پاس جو کیٹیں ہوں وہ پہلے ہی مضمون وار مرتب کی جاچکی ہوں.2- ایک غیر جانبدار سامع کے طور پر ان کیسٹس کو بار بار اطمینان 58
سیلاب رحمت سے سننا اور اپنی یادداشت میں یہ امر محفوظ کرنا کہ ٹیپس (Tapes) کے کون کون سے حصے گہرا اثر رکھنے والے ہیں اور کون کون سے غیر مؤثریا غیر واضح ہیں جنہیں نکال دیا جائے تو نقصان کی بجائے فائدہ ہوگا.اور کیسٹ پہلے کی نسبت زیادہ دلچسپ ہو جائے گی.3.یہ معلوم کرنا کہ کون سی بات بے وجہ دہرائی گئی ہے اور لا حاصل تکرار ہے جسے نکال دینا بہتر ہے.لیکن خیال رہے کہ سمجھانے کی غرض سے جو زاویے بدل بدل کر بات کی جاتی ہے اُسے تکرار نہیں کہتے.تکرار اس بات کو کہتے ہیں جو مضمون واضح ہو جانے کے باوجود بے وجہ دہرائی جارہی ہو اور طبیعت پر بوجھ ڈالے.4 - یہ فیصلہ کرنے کے بعد مضمون کے کون سے حصے اخذ کرنے ہیں اور ذہنی طور پر انہیں ترتیب دینے کے بعد سوال جواب کی صورت میں ان کا ترجمہ کر لیا جائے اور وہاب صاحب یا کسی اور اچھے انگریزی دان کو دکھا کر مضمون کو مزید صیقل کر لیا جائے اور زور دار بنا دیا جائے.زبان بہت سجی ہوئی اور گل کار یوں والی نہ ہو لیکن ہو نہایت فصیح و بلیغ اور موقع محل کے مطابق قوت اور شوکت والی زبان جو خواہ مخواہ دل میں اُتر جائے.5- یہ سوال جواب تیار کر کے ایک مجلس منعقد کریں جس میں اپنی طرح کی اور اچھے تلفظ والی خواتین کے ذمہ کچھ سوال کر دیں اور آپ جواب دینے لگیں.فضا ایسی ہو جیسے مجلس سوال و جواب اردو میں ہوتی ہے.لیکن شروع میں تمہید میں یہ بات کھول دیں کہ اصل مجالس سوال 59
سیلاب رحمت جواب اردو میں تھیں آپ کی طرف سے انہیں انگریزی میں ڈھال کر اس کوشش کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے کہ اصل مجالس کی فضا اور روح قائم رہے.6.ٹیپ کے شروع میں پانچ منٹ چھوڑ دئے جائیں تا کہ اچھی آواز میں مضمون کی مناسبت کے لحاظ سے تلاوت ریکارڈ کی جاسکے.-7.آخر پر بھی چند منٹ چھوڑ دئے جائیں تا کہ اس میں قرآن و حدیث یا دیگر کتب کا جہاں جہاں ذکر ہو اس کے حوالہ جات ٹیپ کے آخر پر ریکارڈ کر دیے جائیں.امید ہے اس سے انشاء اللہ انگریزی دان طبقے کو بہت فائدہ پہنچے گا اور تمام دنیا میں ان کو پھیلا کر ایک بڑی ضرورت کو پورا کیا جاسکے گا.میرا خیال ہے آپ کو دو تین مہینے تو ضرور اس کام میں لگ جائیں گے.کیا ہمت ہے؟ والسلام خاکسار دستخط مرزا طاہر احمد حضور انور کی دعاؤں سے ہمت ہوئی اور مکرمہ محمودہ امتہ السمیع صاحبہ نے بڑی تندہی سے کام مکمل کر کے حضور کو بھجوایا اور دعائیں لوٹیں.جو تر جمہ آپ نے پیش کیا ہے اور اس سے پہلے نہایت موزوں الفاظ میں تعارف کروایا ہے.بہت عمدہ اور قابل قبول ہے.آپ نے بہت نیکی کا کام کیا کہ ہر شخص جس نے اس میں آپ کا ہاتھ بٹایا اس کا نام 60
سیلاب رحمت لکھ دیا بلکہ تفصیل سے اس کے کام کی نوعیت پر روشنی ڈالی.“ نویں نمبر پر بھی انہی کی مرتب کردہ کتاب قواریر.قوامون بتھی.موصوفہ شعبہ اصلاح معاشرہ کی سیکرٹری تھیں بڑی محنت سے میاں بیوی کے حقوق وفرائض کے بارے میں قرآن پاک اور احادیث مبارکہ سے مواد جمع کیا.بے حد مفید یہ کتاب 1989 ء میں منظر عام پر آئی.اس کتاب کے ذکر سے پروف ریڈنگ کی کانٹوں بھری راہیں ذہن میں آگئیں.کتاب کا نام قواریر.قوامون رکھا تھا اور بہت خوش تھی کہ اللہ پاک نے کیا پیارا نام سجھایا ہے.کتاب کی پروف ریڈنگ احتیاط سے کی تھی، ٹائٹل بھی چیک کیا تھا مگر چھپ کر آئی تو قواریر کی واؤ پر شد اور زبر لگی ہوئی تھی.میں سر پیٹ کر رہ گئی.لگتا ہے آخری وقت میں کسی کو خیال آیا ہو گا کہ شاید قوامون پر شد لکھنا مجھے یا د رہا اور قواریر پر بھول گئی.یہ کمی از راہ شفقت پوری کر دی گئی.میں نے ایک ہزار کتابوں پر سے شد اور زبرمٹوائی.اسی طرح انگریزی کی ایک کتاب میں Ismail Son of Ibrahim میں ابراہیم کے سپیلنگ غلط تھے.کاٹ کر لکھ دیا Sp...عام سی بات ہے کہ سپیلنگ ٹھیک کر دیجئے.ٹھیک ہو کر آیا Ismail Son of SP.اس طرح کی بے شمار غلطیاں کبھی رلاتیں کبھی ہنسا تھیں.پہلے دوسری کتابوں میں پروف ریڈنگ کی غلطیاں دیکھ کر انہیں پروف پڑھنے والوں کی کو تا ہی سمجھتی تھی لیکن جب خود اس سے گزری تو اندازہ ہوا کہ چوک ہو جاتی ہے.کتنی بھی محنت کر لیں کہیں نہ کہیں نظر بچا کے غلطی رہ جاتی ہے.یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا.اصل مضمون تو حضور کی شفقتوں کے گرد گھومتا ہے.حضور انور نے یہ ابتدائی چھوٹی چھوٹی کتب ملاحظہ فرما کر حوصلہ افزائی فرمائی: جن مشکلات میں اور جس تھوڑے عرصے میں آپ نے بڑا دفتر 61
سیلاب رحمت لٹریچر کا تیار کیا ہے حیرت انگیز ہے.خدا تعالیٰ نے خاص توفیق بخشی ہے یہاں مرکزی طور پر تیاری لٹریچر میں اس کو زیر نظر رکھتے ہیں اور استفادہ کرتے ہیں اپنی تمام ساتھیوں کو بھی میری طرف سے شکریہ ادا کریں اور میری نیک تمنائیں پہنچا ئیں.اللہ تعالیٰ سب کو احسن رنگ میں کام کرنے کی توفیق بخشے.“ (28-12-1989) بچوں کے نصاب کی تیسری کتاب گل، 1990ء میں طبع ہوئی.رنگین سرورق کے ساتھ یہ کتاب بہت مقبول ہوئی.اسی سال خاکسار کی ایک بابرکت انسان کی سرگزشت شائع ہوئی جس میں اختلافی مسائل کو چھیڑے بغیر حضرت عیسی علیہ السلام کی کہانی پیش کی.بارہویں کتاب مکرمہ امتہ الشکور امجد صاحبہ کی افاضات ملفوظات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملفوظات کی جلدوں سے خواتین کے روز مرہ مسائل کا حل حضرت اقدس کے بابرکت الفاظ میں جمع کیا.یہ گویا دریا کو کوزے میں بند کیا گیا ہے.بہت مفید معلومات ایک کتاب میں یکجا دستیاب تھیں.اس کے بعد بشری داؤد کی سیرت نبوی کے سلسلے کی اصحاب فیل، بہت آسان الفاظ میں دلچسپ کتاب ہے.مکرمہ نزہت آراء حفیظ صاحبہ کی مرتبہ بیت بازی حضرت خلیفہ امسیح الرابع " کا خطبہ پانچ بنیادی اخلاق اور حضرت اقدس مسیح موعود کی کتب تذکرۃ الشہادتین اور پیغام صلح بطر ز سوال جواب طبع ہوئیں.حضرت رسول کریم صلی ی ی یتیم اور بچے ہماری ستارھویں نمبر کی کتاب مکرمہ امتہ الہادی رشیدالدین صاحبہ نے وسیع مطالعہ کے بعد بڑی محبت سے لکھی.اس کے عنوانات سے اس کی افادیت کا اندازہ ہوگا.حضرت رسول کریم صلی سیستم دو جہانوں کے لئے رحمت و شفقت.62
سیلاب رحمت حضرت رسول کریم صلی شما ای یتیم کے زمانے کے مسلمان بچوں کے سنہری کارنامے.حضرت رسول کریم سالی یا ستم کی بچیوں پر خصوصی شفقت.والدین کی تربیت و اصلاح اور بچے کی پیدائش اور ابتدائی تربیت پر زریں نصائح.والدین پر بچوں کے حقوق اور بچوں پر والدین کے حقوق.نوزائیدہ کے کان میں اذان واقامت کہنے کی فلاسفی.اس کتاب کے کئی ایڈیشن آچکے ہیں.حسب دستور پیارے آقا کی خدمت میں نئی کتب بھجوا ئیں.پیارے آقا کا مکتوب بہت بڑی خوشی لے کر آتا.صرف شعبہ اشاعت والے ہی نہیں لجنہ کے دفتر میں سب مل کر خوش ہوتے.آپ نے فرمایا: لجنہ کراچی کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتب اصحاب فیل اور بیت بازی موصول ہوئیں جزاکم اللہ احسن الجزاء.بیت بازی والا آئیڈیا تو بہت اچھا ہے.اللہ تعالیٰ ان کتب کی اشاعت کو احمدی بچوں کی تربیت اور ان میں اعلیٰ اخلاق کی ترویج کے لئے بہت ہی مفید بنائے اور آپ کی مساعی ہر لحاظ سے بابرکت نتائج کی حامل ثابت ہوں.ان کتب کی تیاری میں شریک ہونے والی بہنوں کو میری طرف سے محبت بھرا سلام اور دعائیہ پیغام پہنچا دیں.اللہ ان سب سے ہمیشہ راضی رہے.اللہ آپ کے ساتھ ہو.“ یہ احساس کہ رؤوف و رحیم خدا تعالیٰ کا نمائندہ ہمیں پیار سے دیکھ رہا ہے ہمارا کام اُن کی نظروں میں ہے، بڑی تقویت دیتا تھا.اسی طرح کسی بزرگ سے داد اور دعا ملتی تو دل حمد وشکر سے بھر جاتے.لاہور کی معروف صاحب قلم خاتون مکرمہ سیدہ نیم سعید صاحبہ کا مکتوب ملا : 63
سیلاب رحمت ” میرے سامنے اس وقت لجنہ کراچی کی کتب کا سیٹ رکھا ہے جن کو پڑھ کر دل آپ کے لئے دعا سے بھر گیا.خوب صورت انداز ، آسان الفاظ اور ننھے قارئین کے قلب و ذہن میں اترنے والے سادہ سے دلائل سے مشکل باتیں حل کر ڈالیں اور ماؤں کے لئے آسانیاں کر دیں.ہر عمر کے بچے کی ضرورت کے مطابق دینی اور اخلاقی معلومات مہیا کیں.یہی باتیں ہم اپنے بچپن سے بزرگوں سے سنتے رہے.“ صدسالہ تاریخ احمدیت بطر زسوال جواب اس کے بعد صد سالہ تاریخ احمدیت بطرز سوال جواب شائع ہوئی.اس کی تیاری کے لئے سب قیادتوں میں سو سال کی تاریخ کا دس دس سال کا عرصہ سوال جواب بنانے کے لئے بانٹ دیا گیا.مکرمہ امتۃ الرفیق پاشا صاحبہ مکرمہ امتہ الشکور امجد صاحبہ.مکرمہ شاہانہ وقار صاحبہ مکرمہ فرحت سمیع صاحبہ مکرمہ ناصرہ ہارون صاحبہ.مکرمہ طاہرہ جبیں صاحبہ.مکرمہ بیگم مقبول سلیم صاحبہ مکرمہ انیسہ محمود صاحبہ مکرمہ نزہت آرا حفیظ صاحبہ - مکرمہ فوزیہ منان صاحبہ.مکرمہ امینہ علوی صاحبہ مکرمہ سلیم مبارک بٹ صاحبہ مکرمہ بشری حمید صاحبہ.مکرمہ مبارکه حمید صاحبہ اور خاکسار نے سوال جواب مرتب کئے.جب سب سوال بن گئے تو مكرمه امتة الشکور امجد صاحبہ اور خاکسار نے ضروری سوالات کے انتخاب، انداز میں یک رنگی اور حوالوں کی صحت وغیرہ کا جائزہ لے کر آخری شکل دی اور مکرمہ ڈاکٹر ناہید منصور صاحبہ نے مسودہ خوش خط لکھا اور کتابت کے بعد پروف ریڈنگ میں مدد کی.پروف ریڈنگ میں مکرم قریشی محمد احمد صاحب اور طباعت میں قریشی داؤ داحمد صاحب کا تعاون حاصل رہا.فجزاھم 64
اللہ تعالی احسن الجزا.مکرم دوست محمد شاہد صاحب مورخ احمدیت نے ایک ایک باب پڑھ کر لفظ لفظ چیک کیا.آپ نے تحریر کیا: مسودہ تاریخ کی ترتیب و تدوین میں ممبرات لجنہ کراچی نے جو غیر معمولی عرق ریزی اور کاوش کی ہے اس سے میں بہت متاثر ہوا ہوں.نظارت اشاعت نے بھی اسے مفید اور قابل اشاعت قرار دے کر اس کی افادیت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے.میرے نزدیک اس کی ایک بھاری خصوصیت یہ ہے کہ اس سے حضرت مصلح موعودؓ کے ایک نہایت اہم ارشاد مبارک کی تعمیل ہوئی ہے حضور انور نے جلسہ سالانہ 1937ء کے موقع پر فرمایا: ہر علم کے متعلق کتابیں لکھی جائیں تا لوگ ان سے فائدہ اُٹھا سکیں بلکہ بعض کتابیں سوال جواب کے رنگ میں لکھی جائیں تا جماعت کا ہر شخص ان کو اچھی طرح ذہن نشین کرے اس کے بعد جماعت کا فرض ہے کہ وہ ان باتوں پر عمل کرے.( انقلاب حقیقی صفحہ ۱۱۶) خاکسار کی یہ خواہش رہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ خواتین ہمارے ساتھ لکھنے پڑھنے کے کام میں شریک ہوں.اس کتاب میں بہنوں نے خوب شوق سے حصہ لیا جس سے بہت خوشی ہوئی.صرف یہی نہیں خاکسار اس بات کے لئے بھی تہہ دل سے شکر گزار ہے کہ جب بھی جس سے بھی اشاعت کے کسی کام میں تعاون مانگا، کبھی انکار نہیں سننا پڑا.کسی سے مسودہ صاف لکھنے کی کسی سے حوالہ ڈھونڈنے کی درخواست کرتی.کسی سے کتاب مانگتی ، کسی سے پروف 65
سیلاب رحمت ریڈنگ کروالیتی.سب سے بڑھ کر مسافروں سے کتب اٹھوانے کا کام ہوتا.مثلاً ربوہ ، لاہور یاراولپنڈی جانے والی کسی خاتون کا پتہ لگتا تو ان سے کہتے کہ وہاں سے کتابوں کا آرڈر آیا ہوا ہے، ایک بنڈل لے جائیں بڑی مہربانی ہوگی.بالعموم یہ بات خوشی سے مان لی جاتی.دراصل یہ کام ہم میں سے کسی کی ذات کے لئے نہیں ہوتے بلکہ جماعت کی خدمت کا جذبہ ہے جو یہ تعاون علی البر کرواتا ہے.فجز اھم اللہ تعالی.دُعاؤں کے سہارے ہماری گاڑی آگے بڑھنے لگی.بزرگوں کی دعائیں حوصلہ دیتیں.مکرم شیخ مبارک احمد صاحب ( مربی و انچارج احمد یہ مشن امریکہ ) کا دل خوش کن مکتوب ملا : آپ کی طرف سے کتب کا تحفہ موصول ہوا.پہلی نظر میں ان کے سرورق کو دیکھتے ہی ایک خوشی کی لہر دل میں پیدا ہوئی.ظاہری کشش بھی ضروری ہوتی ہے اور سب سے پہلے تو ظاہری حسن و کشش ہی دلکشی کا باعث بنتی ہے.لیکن جب ان کا اندرونی حسن دیکھا تو ماشاء اللہ ظاہری و باطنی حسن دل آویز سے یہ کتب میری للچائی ہوئی نظروں کا شکار بن گئیں.مقدس ورثہ.چشمہ زم زم کو نیل غنچہ گل ایسی دیدہ زیب اور تحریر ایسی پر اثر کہ پڑھتے پڑھتے آنسو بھی شامل ہو گئے اور دل کی گہرائیوں سے ایسی پاکیزہ اور موثر لکھنے والی بہنوں کے لئے دعائے خیر نکلی بے حد ایمان افروز اور مفید.اللہ تعالی آپ سب کو جزائے خیر دے.صد سالہ تاریخ احمدیت زیادہ فکر مندی اور توجہ سے شروع سے آخر تک دو تین بیٹھکوں میں پڑھ گیا.لاریب اچھی کوشش ہے.بے شمار کتب کا پڑھنا مشکل.آجکل مصروف دنیا میں تعلیم کتب کا مطالعہ کوئی آسان کام 66
رحمت نہیں.آپ نے سوال جواب کے انداز میں اور مختصر طور پر تاریخ احمدیت کو اجاگر کرنے کی بابرکت سعی کی ہے.دلی مبارک باد قبول ہو.“ الحمد لله ثم الحمد لله..مکرمہ امۃ الشافی سیال صاحبہ نے ہماری فرمائش پر حضرت اقدس مسیح موعود کی انذاری پیشگوئیوں پر ایک کتاب فتوحات کے نام سے لکھی.اس کے بعد ” بے پردگی کے خلاف جہاد“ جلسہ سالانہ 1982ء خواتین سے سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الرابع " کا خطاب شائع ہوا.ہماری اکیسویں کتاب جو 1991 ء میں شائع ہوئی ، مکرمہ امۃ الرفیق ظفر صاحبہ کی آداب حیات تھی جس میں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں اسلامی آداب تحریر کئے گئے تھے.مثلاً قرآن مجید کی تلاوت، انبیا کرام علیهم السلام، اکرام والدین، نماز جمعه، مساجد، راستوں ، گفتگو، سونے جاگنے ، لباس، ملاقات ،سلام،کھانے پینے ، دعوتوں ، عیادت کے تعزیت اور سفر کے آداب شامل ہیں.پہلے ایڈیشن کے بعد حضور پر نور کا ارشاد موصول ہوا کہ مفید کتاب ہے.اس کا ترجمہ کروانا مقصود ہے.مگر حوالے درج کرنے کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے.مکرم امیر صاحب ضلع کراچی کے توسط سے مکرم مولانا سلطان محمود انور صاحب کی زیر نگرانی مربیان کی ایک ٹیم نے نہایت عرق ریزی سے سارے حوالے درست گئے.مکرمہ امتہ الشکور امجد بیگ صاحبہ نے پروف ریڈنگ میں مدد کی.کتاب کا دوسرا ایڈیشن بہت بہتر شائع ہوا.اس کے بعد کئی ایڈیشن شائع ہوئے.کینیڈا میں انگریزی میں ترجمہ ہوا اور لجنہ کے نصاب میں شامل ہوئی.مکرمہ آیا طاہرہ صدیقہ صاحبہ حرم حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے ہماری حوصلہ افزائی فرمائی تحریر کیا: 67
سیلاب رحمت شعبہ اشاعت لجنہ کراچی نے ساری ہی کتابیں بہت اچھی اور مفید شائع کی ہیں لیکن دو کتب کا بطورِ خاص دل و دماغ پر نقش رہ گیا ہے.مکرمہ امتہ الشکور امجد بیگ کی ترتیب و تدوین افاضات ملفوظات اور مکر مہ امتۃ الرفیق ظفر صاحبہ کی آداب حیات دونوں کتب ہی بہت پیاری اور دلچسپ ہیں.اللہ تعالی آپ سب کو جزائے خیر دے جنہوں نے اپنے اپنے رنگ میں محنت اور کوشش کر کے ان کتب کو شائع کرنے کا اہتمام فرمایا.(94-5-15 ) مجالس عرفان حضرت خلیفة المسیح الرابع " کی کراچی لجنہ سے سوال جواب کو ترتیب دے کر تیار کی.اس میں خاکسار کی مدد مکرمہ منصورہ انجم صاحبہ اور مکر مہ امۃ الشکور امجد صاحبہ نے کی.مکرم بادی علی چودھری صاحب نے نظر ثانی کے بعد لکھا: کتاب افادیت اور حیثیت کے اعتبار سے بلا شبہ بے مثال ہے کیونکہ تربیتی پہلوؤں پر بہت مدلل اور بصیرت افروز مواد اس میں موجود ہے اس لئے خصوصاً پاکستانی معاشرہ میں اس کی از حد ضرورت ہے.اللہ تعالی اس کے فیض کو عام فرمائے اور بہتوں کی ہدایت کا موجب بنائے.جہاں تک لجنہ اماءاللہ کراچی کے شعبہ اشاعت کی محنت کاوش اور اس دور میں گراں قدر دلیرانہ قلمی خدمات کا تعلق ہے قابل رشک اور قابل تقلید ہے.اللہ تعالی آپ سب کو بہترین جزا دے اور اس علمی سرمایہ سے ہر ایک کو فیضیاب ہونے کی توفیق دے یہ سارا علمی سرمایہ ہر گھر کی ضرورت ہے.“ 68
واقفین ٹو کے والدین کی رہنمائی کے لئے محترمہ خورشید عطا صاحبہ کے ایم اے نفسیات ہونے کا ثمر ہے.اس کتاب پر تحریک وقفِ نو کے محرک حضور انور نے اظہارِ خوشنودی کا پیغام بھجوایا.نیز فرمایا: ضلع کراچی سے اجازت لے کر اس کو سب واقفین کے لئے چھپوایا جائے اور یورپ اور دیگر ممالک میں تقسیم کیا جائے.“ ایسے پیغام جو زندگی بخش دیں اللہ تعالی کی خاص دین تھی.ہمارا مقصد تو تعلیم عام کرنا تھا ہم سے جب بھی کسی نے کسی کتاب کا ترجمہ کرنے یا شائع کرنے کی اجازت مانگی خوشی سے بلکہ شکریہ کے ساتھ دے دی.اور سچ تو یہ ہے اسے اپنے لئے اعزاز سمجھا کہ ہم جیسے نو آموز طالب علموں کی مساعی بھی کسی گنتی شمار میں آنے لگیں.ہم نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب' برکات الدعا اور مسیح ہندوستان میں بطر زسوال جواب پیش کیں.ہماری پچیسویں کتاب بدرگاہ ذی شان سی ایس ایم احمدی شعرا کی نعتوں کا مجموعہ ہے جو مکرمه برکت ناصر ملک صاحبہ کی محنت کا ثمر ہے.جب خاکسار نے ان سے نعتیں جمع کرنے کی درخواست کی تو بڑی عاجزی سے کہا کہ میں تو صرف نو (9) جماعت پاس ہوں، کتابیں بنانا میرے بس کا کام نہیں ہے.مگر ہر کام میں سردینے کا جذ بہ کام آیا.اللہ تعالی کے فضل وکرم سے اس کو جماعت پاس نے تین کتب مرتب کیں اور خوب کیں.69 69
المحراب - صد سالہ احمدیہ جشنِ تشکر نمبر 1989-1889ء 1989ء جماعت احمدیہ کی تاریخ میں صد سالہ جشن تشکر کی وجہ سے بے حد اہم تھا.اس موقع پر ایک یاد گارسو نئیر تیار کرنے کی تجویز ہوئی.حسنِ اتفاق سے یہ سال لجنہ کراچی کی تاریخ کا پچاسواں سال بھی تھا.اس رعایت سے اس میں لجنہ کراچی کی تاریخ بھی شامل کی گئی.یہ پہلا موقع تھا کہ لجنہ کراچی سو یٹر تیار کر رہی تھی.جماعت کراچی کئی مواقع پر سووینئر شائع کرتی رہی ہے.سود نیئر کی تیاری اور طباعت مشکل کام ہے، خاص طور پر ہم جیسے ناتجربہ کاروں کے لئے ، اس پر کراچی کے مخصوص حالات کے تناظر میں مشکلات میں کئی گنا اضافہ کر لیجئے.کئی دفعہ جب ہمت کمزور پڑنے لگتی.ہم حضور ” کو دعا کے لئے لکھتے.دعاؤں کے ساتھ آپ نے اس مجلہ کے لئے ازراہ شفقت اپنی تصویر دستخط کے ساتھ ایک پیغام ایک قطعہ اور غیر مطبوعہ نظم بھیجوا کر ہمیں مالا مال کر دیا.تحریر فرمایا: " آپ نے لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی کی طرف سے صد سالہ جشنِ تشکر کے آغاز پر شائع ہونے والے سوونیئر کے لئے غیر مطبوعہ نظم بھجوانے کی درخواست کی تھی.آپ کی خواہش پر ایک نظم اور قطعہ ارسال کر رہا ہوں.تمام بہنوں اور بچیوں کو میری طرف سے اس موقع پر مبارک باد اور محبت بھر اسلام پہنچا دیں.“ 70
قطعه ہر طرف آپ کی یادوں پہ لگا کر پہرے جی کڑا کر کے میں بیٹھا تھا کہ مت یاد آئے ناگہاں اور کسی جی ایسا دکھا بات نظم کا مطلع ہے: میں بہت رویا مجھے آپ بہت یاد آئے تو مرے دل کی شش جہات بنے اک نئی میری کائنات بنے حضور انور نے خاص طور پر المحراب کے لئے دستخط فرما کر اپنی تصویر بھیجی جس پر تحریر تھا: المحراب لجنہ اماءاللہ کراچی کے لئے.پر خلوص دعاؤں کے ساتھ والسلام مرزا طاہر احمد لنڈن یکم دسمبر ۱۹۹۱ء 66 71
ข آپ کے خصوصی پیغام سے ایک اقتباس حاضر ہے: وو احمدی خواتین پر آئندہ نسلوں کی زندگی کا انحصار ہے اور خاندانوں کی تحسین کا تحفظ ہے.اگر یہ نہ ہوا تو بگڑتے ہوئے معاشرہ کے بہاؤ میں خدانخواستہ بعض احمدی عورتیں بھی بہہ جائیں گی اور ان کی تمام نیک صفات اس تہذیب کو کے سیلاب میں غرق ہو جا ئیں گی.پس توازن قائم رکھتے ہوئے ، انکسار و محبت اور دعاؤں سے نہ کہ طعن آمیزی کرتے ہوئے اس مہم کو ہمیشہ جاری رکھیں اور جب بدیوں کو واپس آتا دیکھیں تو ہرگز مایوس نہ ہوں کبھی اپنے گھر میں بھی آپ نے ایسا کیا ہے کہ گند کو دوبارہ پیدا ہوتے دیکھ کر صفائی سے ہاتھ کھینچ لیا ہو.اللہ تعالی لجنہ کراچی کو دنیا و آخرت ، ہر لحاظ سے سنوارے رکھے اور دونوں جہان کی نعمتوں سے نوازے.آمین اللھم آمین.“ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ رحمہا اللہ ( چھوٹی آپا ) صدر لجنہ اماءاللہ پاکستان نے اپنے پیغام میں تحریر فرمایا: لجنہ اماءاللہ کراچی صد سالہ جشنِ تشکر کے موقع پر ایک مجلہ شائع کر رہی ہے جس کا نام المحراب رکھا گیا ہے.عربی میں محراب گھر کے بہترین حصے کو کہتے ہیں.محراب کے نام سے مجلہ شائع کرنے کا مطلب ہے کہ آپ بہترین دور میں داخل ہو رہی ہیں.اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان اور فضل ہے کہ اس نے ہمیں یہ مبارک دن دکھایا کہ جماعت پہلی صدی ختم کر کے دوسری صدی جوانشاءاللہ غلبہ کی صدی ہوگی، میں داخل ہو چکی ہے.“ 72
73 المحراب مجنہ اماء الله کروچی کے لئے پر خلوص دعاؤں کے ساتھ دسام ساکالا لندن یکم دسمبر 1991
حضرت مسیح موعود نے فرمایا : سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اسی تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے لیکن ابھی ایسا نہیں ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہوجائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھودیں.اور اعزاز اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کر لیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی، مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے.“ ( فتح اسلام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۰) وہی قوم زندہ رہتی ہے جس کی اگلی نسل پہلی نسل کے کام کے تسلسل کو جاری رکھ سکے.پس ہمارے قدم رکیں نہیں چلتے جائیں بڑھتے جائیں اور اپنے ساتھ اگلی نسل کو بھی لے کر چلیں ان کے دلوں میں دین کے لئے غیرت اللہ تعالی سے پیار اور آنحضرت صلی ایتم سے عشق پیدا کریں.دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا جذبہ پیدا کریں.“ حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ نے تحریر فرمایا: اس مبارک صد سالہ تقریب پر آپ کو اپنا مجلہ الحراب ہر جہت 74
رحمت سے باعث برکت اور حقیقی معنوں میں مثمر بثمراتِ حسنہ بنائے.یہ ایک ایسی روشن مشعل ہو جو گمراہوں کو صراطِ مستقیم دکھائے جو بھٹکے ہوؤں کی رہنمائی کرے جو روحانی جسمانی دکھ درد کا مداوا بن جائے.المحراب اپنے اندروہ روحانی طاقت رکھے کہ ان عظمندوں کو جو خدا تعالی کی ذاتِ باری پر بھی ایمان نہیں لاتے ان سے زندہ خدا اور پھر خدا تعالی کی عظمت کا اعتراف ببانگ دہل کروائے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالی کرے آپ کی یہ تخلیق سب سے بلا امتیاز اپنا لوہا منوائے اور ہماری لجنہ کی ہر ممبر اپنی پیدائش کی غرض و غایت اور اس راہ کی جدوجہد کو اپنا شعار بنائے ہوئے رات دن اپنے مقصد اعلی کے حصول کی فکر میں کوشاں رہے.آمین.“ مکرم چودھری احمد مختار صاحب، امیر جماعت احمدیہ کراچی نے پیغام دیا: اس زندگی میں بقائے اقدار انسانی کے لئے بڑی ذمہ داری مشیت الہیہ نے عورت پر ڈالی ہے جو تقوی کی راہوں پر چل کر اپنی اولاد کو ملائکۃ اللہ بنادیتی ہے اور ان کے گردو پیش ایک جنت بنا کر دکھا دیتی ہے.جب ہی تو محسنِ اعظم سنی ہی ہم نے فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے.بہت بڑی ذمہ داری ہے اپنے ماحول کو جنت نما بنانے کی لیکن جب تک اولا د اس جنت کو دیکھ نہیں پائے گی اپنی ماں کے قدم بوس نہیں ہوگی.اے پیاری بہنو! آؤ ہم اپنے آقا حضرت محمد مصطفی سلی لا الہ تم سے عہد وفا کی تجدید کریں اس عزم کے ساتھ کہ ہمیں اس ماحول میں اس 75
سیلاب رحمت جنت کو پیدا کرنا ہے جس سے انسانیت پھر کبھی باہر نہ نکالی جائے اور اس کے قیام سے ہم نے اخروی حیات کی جنت کا انعام پانا ہے.اللہ تعالی کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ.این است کام دل اگر آید میسرم مکرم مرز اعبد الرحیم بیگ صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے دعادی: کراچی لجنہ کی ممبرات نئی تاریخ لکھ رہی ہیں.نامساعد حالات اور محدود وسائل کے باوجود مستقل مزاجی حوصلہ اور عزم و ہمت کے ساتھ اپنے مشن کو منزل مقصود بناتے ہوئے جو انقلابی کام شروع کر رکھے ہیں وہ بلا شبہ قابل مبارکباد ہیں.یہ مثالیں آنے والی نسلوں کو قرون اولیٰ کی باہمت خواتین کی یاد دلاتی رہیں گی.اللہ تعالی ان کی کوششوں کو ثمر بار کرے.آمین یا رب العالمین.“ راس سوونیئر میں میری درخواست پر لکھوایا ہوا حضرت سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفة امسیح الرابع کا ایک مختصر سا انشائیہ ہے جس میں حضور کے شب و روز کا بڑا پیارا عکس محفوظ ہو گیا ہے.اس میں مقتدر رفقائے حضرت مسیح موعود کے دستخط ہیں.اس مجلے کے لئے محترمہ نگار علیم صاحبہ نے لجنہ کراچی کی تاریخ ۱۹۳۷ء سے ۱۹۸۹ ء تک مرتب کی اور خاکسار نے ۱۹۸۱ء سے ۱۹۸۶ ء تک کی تاریخ قسمت کے شمار کے نام سے مرتب کی.صدور لجنہ کراچی کا سال وار ذکر کیا.یادرفتگاں کے عنوان سے دنیا سے رخصت ہو جانے والی کارکنات کو یاد کیا.محسنات کے عنوان سے لجنہ کراچی کی نمایاں خدمت کرنے والی ممبرات کے نام محفوظ کئے گئے.مکرمہ طاہرہ بیگم اشرف ناصر صاحب نے حضرت اماں جان نصرت جہاں 76
سیلاب رحمت بیگم ، مکر مہ امتۃ الرفیق ظفر صاحبہ نے حضرت نواب امتہ الحفیظ صاحبہ مکرمہ امتہ الشافی سیال صاحبہ نے لجنہ کی ابتدائی ۱۴ کارکنات کے حالات اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنادیا کے نام سے پیش کئے.خاکسار نے حضرت خلیفہ امسیح الرابع " کے کراچی کے دوروں کی حسین یادوں کو خوشا نصیب کہ ہم میزبان تھے ان کے کے نام سے قلمبند کیا.مکرمہ بشری داؤد صاحبہ نے نئی صدی نئی ذمہ داریاں' کے نام سے فکر انگیز مضمون لکھا.ناصرات الاحمدیہ کی تاریخ مکرمہ ناصرہ ہارون صاحبہ نے مرتب کی.اس مجلے میں لجنہ اور ناصرات کی عہدیداروں کا سال وار چارٹ بھی شامل تھا.تصاویر مہیا کرنے اور ٹرانسپیرنسی تیار کرنے میں مکرم سلیمان احمد طاہر صاحب کا تعاون حاصل ہوا.اشتہار مکرم سلطان احمد طاہر صاحب اور مکرم حبیب اللہ بٹ صاحب کی محنت سے حاصل ہوئے.رہنمائی اور مشورے مکرم مرزا عبد الرحیم بیگ صاحب اور مکرم عبید اللہ علیم صاحب اور مکرمہ امتۃ الرفیق پاشا صاحبہ سے حاصل کئے.پرنٹنگ کے کٹھن کام میں مکرم داؤ د احمد قریشی صاحب اور مکرم طارق محمود بدر صاحب نے اپنی انتہائی کاوشیں شامل کر دیں اور خوب دعائیں لیں.خاکسار نے اداریہ میں لکھا: الہی سلسلوں کی تقویم روز وشب ، قوت کار، رفتار ترقی اور پھیلاؤ کے دائرے مروج حسابی قاعدوں سے مختلف ہوا کرتے ہیں.انہیں نا پنا یا سمیٹنا انسانی قومی سے بالا تر ہوتا ہے.اس حقیقت کو سامنے رکھ کر ہمارے کام کی نوعیت کا اندازہ کرناممکن ہوگا.جماعت کی بھر پور زندگی کے سو سال اور لجنہ کراچی کے پچاس سال کی تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالنا کار دارد تھا.اس کی تدوین کے پیچھے کتنی مشقت اور عرق ریزی ہے 77
سیلاب رحمت اس کو تصور میں لاتے ہوئے اس کی کمزوریوں سے صرف نظر کرنے کی درخواست ہے.حسن تو بہر حال آپ کا حسن نظر ہے.“ خوب صورت و خوب سیرت المحراب چھپ کر آیا تو حسب دستور پہل مجلہ پیارے کی خدمت میں بھیجا.حضور نے بڑے پیارے انداز میں تعریف فرمائی: 11-11-90 ” آپ نے ماشاء اللہ بہت خوبصورت رسالہ نکالا ہے نظمیں بھی بہت اچھی ہیں اور معیار بھی بلند ہے.اللہ آپ کو اور آپ کی رفقائے کار کو اس میدان میں اعلیٰ خدمت کی توفیق دے اور اللہ کی نگاہ میں مقبول ٹھہریں.سب کو محبت بھر اسلام دیں.“ ایک اور مکتوب میں تحریر فرمایا: 21-11-90 " آپ کا خط مع مجلہ الحراب موصول ہوا بہت بہت مبارک ہو ماشاء اللہ بہت خوبصورت ہے.طباعت بھی عمدہ ہے.پروف ریڈنگ بھی احتیاط سے کی گئی ہے.سارا تو نہیں پڑھا تا ہم کہیں کہیں ٹھہر کر دیکھا ہے.بہت اچھا اور دیدہ زیب ہے چشم بد دور.اللہ مبارک کرے.تمام کارکنات مجلہ تک میری طرف سے مبارک باد اور سلام پہنچا دیں.خدا حافظ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ رحمہا اللہ صدر لجنہ اماء اللہ پاکستان نے بھی ہماری حوصلہ افزائی فرمائی.ایک مکتوب سے اقتباس ملاحظہ کیجئے : 78
ب رحمت کتب کی رپورٹ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی.جو کام اشاعت کا مرکزی شعبہ اشاعت کو کرنا چاہئے وہ آپ لوگ کر رہے ہیں.اللہ تعالی اس کام میں برکت ڈالے.بچوں کے لئے تو لٹریچر کی بہت ضرورت ہے.ناصرات معیار اول کی قابلیت کے لئے کتب لکھیں.زیادہ لٹریچر آپ کا چھوٹے بچوں کے لئے ہے.المحراب، شائع کرنے کی مبارک باد وصول کریں.بہت اچھا اور متنوع رسالہ شائع کیا ہے.سب سے بڑی بات یہ کہ حضور کا پیغام اور نظم اس میں شامل ہے.المحراب میں لجنہ کراچی کے حالات بھی آگئے ہیں.“ مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے نے قادیان سے تحریر کیا: جوبلی نمبر المحراب ملا.جزاکم اللہ تعالی.لجنہ کراچی نے اس میں بہت سی نادر باتیں جمع کر دی ہیں جو کسی اور سویٹر میں نہیں ہیں.اس کام میں حصہ لینے والی سب کا رکن بہنوں کو اللہ تعالی اپنی برکات سے نوازے اور بڑھ چڑھ کر خدمات سلسلہ کی توفیق عطا فرمائے.آمین.“ کولمبس نے امریکہ دریافت کیا (30-03-91) مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمدیت نے بہت خوب صورت الفاظ میں تعریف فرمائی: آج سلسلے کے ایک ریسرچ ورک کے دوران مجلہ المحراب کا 79
سیلاب رحمت صد سالہ جشنِ تشکر کے سلسلے میں لجنہ کراچی نمبر دیکھنے کا موقع ملا.اوّلین مطالعہ سے دل باغ باغ ہو گیا اور آپ سب کے لئے بہت دعا ئیں نکلیں مگر ساتھ ہی سخت حیرت و افسوس ہوا کہ ہم اس قیمتی علمی یادگار سے نہ صرف ناواقف بلکہ محروم ہیں.ایسا لگا گویا کولمبس نے امریکہ دریافت کیا ہے.لجنہ کراچی نے بارہ برس میں جو محیر العقول خدمات سرانجام دی ہیں خدائے ذوالعرش آئندہ اس سے بھی بڑھ کر شاندار کامیابیوں سے نوازے.خدا تعالی سب کو اپنی رضا کے تاج سے مزین فرمائے اور قلوب کو نورِ ایمان سے معمور رکھے اور ہاتھوں کو عملی قوتوں کی بجلیوں سے بھر دے.واشرقت الارض بنور ربها مکرم سلطان محمود انور صاحب ( ناظر اصلاح وارشادر بوہ ) نے تحریر فرمایا: المحراب اپنی ظاہری و باطنی خوبیوں، خوب صورتی ، دلکشی ، ٹھوس علمی حقائق ، مرکزی صدارت لجنہ کا مستند تعارف اور حضور ایدہ اللہ تعالی کی لجنہ اماءاللہ کراچی کے ساتھ سوال جواب کی مجالس کی یاد اپنے اندر سموئے ہوئے موصول ہوا.لجنہ اماءاللہ کراچی کو اللہ تعالی نے محض اپنے فضل وکرم سے انتہائی قابل مخلص ، فدائی اور علمی وجود عطا کئے ہیں.الحمد للہ علی ذالک.لجنہ اماء اللہ کراچی نے 'المحراب شائع کر کے واقعی تاریخی اور یادگاری کارنامہ سرانجام دیا ہے اس سے لجنہ اماء اللہ کراچی کے علمی وادبی 80
ذوق، احساس لطیف، تنظیمی کام کی قابلیت و اہلیت کا پتہ چلتا ہے اور تعاونوا على البر والتقوی کی روح اجاگر ہوتی ہے.اللھم زد وبارك مکرم محبوب عالم خالد صاحب ناظر بیت المال ربوہ نے بھی حوصلہ افزائی فرمائی: المحراب بہت عمدہ ہے بہت محنت سے تیار کیا گیا ہے.بڑی جد توں کا حامل ہے.اس وقت تک جتنے سووینئر شائع ہوئے ہیں خاکسار کے نزدیک ان سب سے بڑھ کر ہے.اللہ مبارک کرے اور آئندہ اس سے کہیں بڑھ کے خدمتِ دین کی توفیق عطا فرمائے.آمین.“ لاہور سے مکرم سید محمد سعید احمد صاحب نے بہت انوکھی دعادی: 66 ا چھوتے عنوانات، تصویروں کے انتخاب میں عرق ریزی، مضامین کی جامعیت اور اختصار کا حسین مرقع ، آرٹ کے نادر نمونے ، لجنہ اور جماعت احمدیہ کی تاریخ کے ہر سنگ میل اور اہم واقعات کی انوکھے انداز میں پیش کش کارکنات اور عہدے داران کا شکر گزاری کے ساتھ ذکر نظم و نثر کا خوب صورت توازن انگریزی اور اردو زبانوں میں حصہ رسدی پیش کش ، غرض ایک سے بڑھ کر ایک حسین پہلو ہے.خدا کرے کہ احمدیت کی دوسری صدی کے اختتام پر لجنہ اماءاللہ جو مجله جشن تشکر دوصد سالہ پر شائع کریں وہ اس مجلہ پر محنت کرنے والوں کا حق محنت ادا کریں.یہ مجلہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں دائی حیثیت کا حامل ہے.“ 81
المحراب سوواں جلسہ سالانہ نمبر 1991-1891ء ۱۹۹۱ء جماعت کی تاریخ میں جلسہ ہائے سالانہ کے عنوان سے اہم سنگ میل تھا.اس با برکت روایت کو سو سال پورے ہو رہے تھے.اللہ تعالی نے یہ خیال سمجھایا کہ اس تاریخی موقع پر جلسوں کی تاریخ پر ہر جہت سے مکمل سیر حاصل مواد جمع کر دیا جائے.حضرت خلیفہ المسیح الرابع " سے اجازت چاہی تو آپ نے اس خیال کو پسند فرمایا جس سے بہت تقویت ملی تحریر فرمایا: " آپ کا خط ملا جس میں آپ نے آئندہ جلسہ سالانہ کے موقع پر المحراب سوواں جلسہ سالانہ نمبر نکالنے کے ارادہ کا اظہار کیا ہے.یہ بہت اچھوتا خیال ہے.ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی آپ کو ایسا نیک خیال سمجھائی دیا ہے.اللہ مبارک کرے اور ہر طرح نصرت فرمائے اور تو قعات سے بڑھ کر مفید اور نتیجہ خیز معلومات پر مبنی مجلہ شائع کرنے کی توفیق دے.کان اللہ معکم.(24-04-91) میں نے حوصلہ پا کر جھٹ نئی تصویر نظم اور قطعہ وغیرہ کی فرمائش کر دی.آپ کا جواب بہت پیارا تھا: آپ نے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر المحراب کا جونمبر شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے.بہت مبارک ہے.اللہ تعالی اس کے تمام مراحل آسان فرمادے.انشاء اللہ آپ کی خواہش پوری کرنے کی کوشش 82
سیلاب رحمت کروں گا.نئی تصویر بھجوانا تو بہت حد تک اختیار کی بات ہے لیکن نئی نظم اور نیا قطعہ تو ایسی کیفیات کا محتاج ہے جو بے ساختہ شعروں میں ڈھلنے پر زور ماریں.خدا تعالی کو جب بھی منظور ہوا آپ کے لئے ایک نظم اور قطعہ محفوظ رکھوں گا.“ (22-06-91) آپ نے وعدہ پورا فرما یا اور ہمارے لئے نئی نظم از راہ شفقت ارسال فرمائی : گھٹا کرم کی ہجوم بلا سے اٹھی ہے کرامت اک دل درد آشنا سے اٹھی ہے اس مجلے کے لئے حضرت سیدہ ام امتہ المتین مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ پاکستان نے اپنا ایمان افروز پیغام بھجوایا.جس میں جلسہ سالانہ کی برکات کے اہم نکات تحریر فرمائے.محترم دوست محمد شاہد صاحب نے عناوین کے بارے میں قیمتی مشوروں سے نوازا اور اس مجلے کے لئے اپنا معرکتہ الآرا مضمون ' جلسہ سالانہ کی ارتقائی منزل جدید اقوام متحدہ کی تعمیر عنایت کیا.مکرم ثاقب زیروی صاحب نے ہماری فرمائش پر ذکر جلسہ سالانہ میں پڑھی جانے والی نظموں کا' کے عنوان سے دلچسپ اور معلومات سے مزین مضمون بھیجا.ذیل میں عنوانات دیکھ کر اندازہ ہوسکتا ہے کہ ہم نے جلسہ سالانہ کے موضوع کو کتنی وسعت سے پیش اطلاع جلسہ سالانہ کے لئے اشتہار تحریر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جلسہ سالانہ کی غرض و غایت.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جلسہ سالانہ کی صورت میں پیش ہونے والی پیشگوئیاں 83
سیلاب رحمت جلسہ سالانہ کے شرکاء کے لئے دعائیں از تحریرات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام قادیان دارالامان ربوه - دارالہجرت گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار کراچی لجنہ کے نام حضرت خلیفہ امسیح الرابع ” کے خطوط رو داد جلسه سالانه ۱۸۹۱ء تا ۱۹۹۱ء جلسہ سالانہ کے مستقل خدوخال جلسہ سالانہ میں پہلی بار جدید اقوام متحدہ کی تعمیر - از مکرم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد مورخ احمدیت جلسہ سالانہ کے ثمرات لنگر خانہ حضرت مسیح موعود مختصر تاریخ جلسہ ہائے سالانہ چارٹ کی صورت میں جلسہ سالانہ کی قیام گاہیں انتظامات جلسہ سالانہ لوائے احمدیت اور جلسہ سالانہ ذکر جلسہ سالانہ میں پڑھی جانے والی نظموں کا از مکرم ثاقب زیروی صاحب مدیر لاہور روداد جلسہ ہائے سالانہ قادیان ۱۹۴۷ء کے بعد 84
رو داد جلسہ ہائے سالانہ برطانیہ دیگر ممالک میں جلسہ ہائے سالانہ جستہ جستہ جلسوں کے تعلق میں واقعات حضرت مصلح موعودؓ کا انداز خطابت از مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب نائب امیر کراچی افسران جلسہ ہائے سالانہ جلسہ ہائے سالانہ میں صدارت کرنے والے خواتین و حضرات Announcment O Ahmad God Has Put His Blessings in You Qadian Darul Aman The Creation of Modern United Nations A Chart of Jalsa Salana History 1891 to 1991 اس مجلہ کی تیاری میں جلسوں کی تاریخ کی تحقیق کے لئے تاریخ احمدیت کی جلدوں کو دیکھا تو وہ ابھی سو سال تک نہیں پہنچی تھیں.الفضل کا ریکارڈ بھی ہمارے پاس موجود نہیں تھا کچھ عرصہ الفضل بند بھی رہا تھا.اس کے لئے یہ حل نکالا کہ لجنہ کی ممبرات سے درخواست کی کہ جس کے گھر میں الفضل محفوظ ہیں وہ احمد یہ بال لے آئیں.گھر گھر سے ڈبے، بکس، گٹھڑیاں آنے لگیں.اب ہم تھے اور پرانے رکھے ہوئے اخباروں کے ڈھیر.چھانٹ چھانٹ کے تاریخ وارا الگ الگ سالوں کے اعتبار سے فائلز بنائیں.یہ ایک انتہائی محنت طلب کام تھا جو اللہ تعالی نے کروایا.ان کی مدد سے معلومات ترتیب دیتے رہے.اور سو سالوں کے جلسوں کی روداد مکمل کی جو تشنگی رہ گئی تھی وہ خلافت لائبریری سے پوری کی گئی.اس ضمن میں مکرمہ امتہ الشکور امجد صاحبہ کی محنت شاقہ قابل تحسین ہے.ان 85
رحمت کے علاوہ مکرمہ بشری داؤد صاحبه مکرمه خورشید عطا صاحبه، مکرمه محموده امته السمیع صاحبه مکرمه ثریا حمزہ صاحبہ، مکرم عبدالباسط شاہد صاحب، مکرم منصور احمد عمر صاحب اور مکرم لیفٹیننٹ کمانڈر ریٹائر ڈ عبدالمومن صاحب نے تحریر کے میدان میں مدد کی.مکرم سلطان احمد طاہر صاحب، مکرم و بیگم محمود احمد بھٹی صاحب اور مکرم قریشی داؤد احمد صاحب نے اشتہارات جمع کئے.مکرم شاہد احمد راجپوت صاحب نے خوب صورت ٹائٹل بنایا.مکرم خالد محمود اعوان صاحب کی منفرد کتابت میسر رہی.طباعت کا اہتمام مکرم طارق محمود بدر صاحب اور ان کے ساتھیوں کی مہارت اور محنت کا ثمر ہے.تصاویر کے حصول اور ٹرانسپیرینسی میں مکرم سلیمان احمد طاہر صاحب کا تعاون حاصل ہوا.مشاورت اور رہنمائی مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب نائب امیر جماعت کراچی، مکرمہ سلیمہ میر صاحبہ اور مکرمہ امتہ الحفیظ بھٹی صاحبہ کی حاصل رہی.فجز اھم اللہ تعالی احسن الجزا.یہ کام اتنا وسیع تھا کہ ایک سال میں مکمل ہونا بغیر تائید ہی کے ممکن نہیں تھا اور یہ نصرت ہمیں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع" کی دعاؤں سے ملی.خاکسار بار بار دعا کے لئے درخواست کرتی اور آپ براہ کرم دعاؤں سے نوازتے.اللہ تبارک تعالی کی مدد سے ایک سال میں یہ مجلہ تیار ہوا.محرم طارق محمود بدر صاحب قادیان لے کر گئے اور جلسہ سالانہ ۱۹۹۱ ء کے موقع پر حضرت خلیفتہ اسی کی خدمت میں پیش کیا.آپ کے ہاتھ میں المحراب پہنچ جانے سے ایسے محسوس ہوا جیسے سال بھر کی محنت ٹھکانے لگی.اس مجلے کی تیاری میں مکرم دوست محمد شاہد صاحب نے پر خلوص رہنمائی کی تھی.ہمیں معلوم ہوا کہ موصوف جماعت کراچی کے تیسرے سالانہ جلسے کے لئے کراچی تشریف لا رہے 86
سیلاب رحمت ہیں.ہم نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجلہ کی رونمائی کے لئے تھیں اپریل ۱۹۹۲ء کو گیسٹ ہاؤس کراچی میں ایک تقریب کا انعقاد کیا.جس کے مہمانِ خصوصی مولانا موصوف تھے.ہماری صدر صاحبہ کے مختصر سے تعارف کے بعد مولانا صاحب نے پر حکمت خطاب فرمایا.ہم نے یہ خطاب آڈیو کیسٹ پر محفوظ کر لیا.اسی سے فائدہ اٹھا کر آپ کے پرمغز خطاب کی ایک جھلک پیش کرتی ہوں: خطاب مکرم مولا نا دوست محمد شاہد صاحب یہ ایک نہایت مبارک مقدس اور یادگار تقریب ہے.حضرت مصلح موعود جب پہلی دفعہ سفر یورپ سے واپس تشریف لائے اس سفر کے دوران حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے ان کے فراق میں اپنی سب سے پہلی نظم کہی تھی.حضرت مصلح موعودؓ نے نہایت والہانہ انداز میں جہاں سفر کی اور برکات کا ذکر فر ما یا وہاں فرمایا کہ یہ بھی ایک عظیم برکت ہوئی ہے کہ ہماری بہن کو اللہ تعالی نے جو عظیم الشان قو تیں اور استعداد میں شعر وسخن کی بخشی تھیں ان کا انکشاف اس سفر کے دوران ہوا ہے.ان کی زندگی میں میرے سفر کے دوران جو طوفان اٹھا اس سے ان کی زندگی میں نئے باب کا آغاز ہوا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع” کے سفر ہجرت کے نتیجے میں پوری دنیائے احمدیت کے قلوب پر ایک حیرت انگیز اثر ہوا ہے.ہر ملک ہر جماعت اور ہر گوشہ، ہر دل اس سے متاثر ہوا ہے.کراچی لجنہ ، جماعتِ کراچی کے امیر اور جماعت کراچی کو اللہ تعالی نے جو عظیم الشان خدمات کی توفیق بخشی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے.87
سیلاب رحمت انہیں کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زبان میری ہے بات ان کی حضرت خلیفہ المسیح الرابع" نے خود اپنی زبانِ مبارک سے جس کا تذکرہ کیا ہو وہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ عرش کا خدا بھی ان خدمات پر خراج تحسین پیش کر رہا ہے اس واسطے کہ امام کی آواز دراصل خدا کی آواز ہوتی ہے.گفتہ او گفتہ اللہ بود.یہی امامت کا منصب ہے.یہ ایک عظیم الشان چیز ہے.یہ اللہ کے فضلوں میں سے ایک بڑا فضل ہے.میں اس تقریب کو ایک اور زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہوں اور وہ زاویہ نگاہ محمد عربی صلی یکی یمن کے خدا نے خود قرآن میں پیش فرمایا ہے.آخری سورتوں کی تفسیر میں خود مصلح موعود نے یہ ثابت کیا ہے کہ آخری زمانہ میں جب آنحضور صلی ایتم کی دوبارہ بعثت ہوگی تو خواتین بھی دین محمد الیا یتیم کی کامیابی اور سرفرازی کے لئے قربانیاں دیں گی.یہ عظیم الشان پیشگوئی آج تمام دنیا میں پوری ہورہی ہے.اور مبارک باد کے لائق ہے لجنہ کراچی کہ خدا نے اس کو بھی اس میں شامل ہونے کی سعادت بخشی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود کی تذکرۃ الشہادتین میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ میں تو ایک بیج ہوں جو بویا گیا وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور پھیلے گا اور پھلے گا.بیج کے لفظ سے ظاہر ہے کہ جس قدر بھی جماعتی تنظیمیں ہیں عنقریب دنیا کی بڑی تنظیموں کی جگہ لینے والی ہیں.جلسہ سالانہ اس دن کے لئے ایک بیج ہے.جب نوجوانان احمدیت اور خواتین احمدیت خانہ کعبہ کے گرد جمع ہونے والے عشاق رسول صلیش ایستم کی خدمت کی توفیق پائیں گے.نوجوانوں کی تنظیمیں انٹر نیشنل تنظیموں کی جگہ لیں گی بین الاقوامی جگہ پر آج خواتین کی کوئی تنظیم موجود ہی نہیں.لجنہ اماء اللہ کی شکل میں ایک بین 88
سیلاب رحمت الاقوامی تنظیم ہے.جو خدا تعالی نے دنیا میں پیدا کر دی ہے.ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالی کے فضل سے جس خلوص و محبت سے خلیفہ وقت کی دعائیں شامل ہیں لجنہ کی ٹیم کا قافلہ ہر میدان میں کامیاب و کامران ہو گا اور ہر آنے والا دن پہلے سے زیادہ اس کی خدمات کو نمایاں کرنے والا ہو گا.اللہ کرے لجنہ کراچی کو اس رنگ میں خدمت کی توفیق ملے کہ آئندہ نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہو.بڑھیں اور ساتھ دنیا کو بڑھائیں پڑھیں اور سارے عالم کو پڑھائیں یہ قصر احمدی کے پاسباں ہوں یہ ہر میداں کے یارب پہلواں ہوں آمین اللهم آمین.“ پیاری مخلوق، بچوں کے لئے سیرت نبوی پر بشری داؤد کی ایک تحقیقی کاوش ہے جس میں اس نے دینی تعلیم اور ایم ایس سی باٹنی (Botany) کی تعلیم کے امتزاج سے آنحضور مایا کہ تم کا خیرالبشر ہونا ثابت کیا ہے.مکرم مبشر احمد خالد صاحب کی دعوت الی اللہ 1992ء میں شائع ہوئی.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے دعوت الی اللہ کا جوش پیدا کیا ہوا تھا یہ چھوٹی سی کتاب بہت کام آئی.تیسویں کتاب Sayyedena Bilal مکر مہ محمودہ امتہ السمیع صاحبہ نے انگلش میں لکھی.بچوں کے لٹریچر میں اچھا اضافہ ہے.89
رحمت ہم نے حضرت خلیفہ المسیح الرابع " کا خطبہ فرمودہ ۲۳مارچ ۱۹۹۰ خطبہ القا' کے نام سے چھاپ کر افادہ عام کے لئے پیش کیا.حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ.ہماری بتیسویں قابل فخر اور قابل تشکر پیش کش ہے.کیونکہ اس کی اشاعت کا ارشاد خود خلیفہ امسیح الرابع کی طرف سے موصول ہوا.اپنے خطا بات آپ نے ارسال فرمائے ہدایات بھی دیں.مزیدار بات یہ ہوئی کہ مکرم پرائیویٹ سیکر یٹری صاحب نے فون پر بتایا کہ حضور کی خواہش ہے کہ اس کے شروع میں اس مفہوم کا شعر درج کیا جائے کہ حضرت حوا پر جنت سے نکالنے کا الزام لگایا جاتا ہے.اب ان کی بیٹیوں نے دوبارہ جنت حاصل کر کے اس الزام کو دھو دیا ہے.خاکسار نے اس مفہوم کا شعر بنا کر بھیجا جو حضور انور نے پسند فرمایا اور کتاب کے پہلے صفحے پر شائع کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی شعر درج ہے: آج حوا کی بریت کے ہوئے ہیں ساماں بیٹیاں جنتِ گم گشتہ کو لے آئی ہیں اس کتاب کی اشاعت میں خطابات کے خلاصے بنانے میں مکرم طارق محمود بدر صاحب نے تعاون کیا.اس کے کئی ایڈیشن آئے.امریکہ لجنہ نے انگریزی میں ترجمہ کیا اور لجنہ کے نصاب میں شامل کیا.الحمد للہ.'میرے بچپن کے دن کے نام سے مکرمہ صفیہ سیال صاحبہ نے حضرت مولوی شیر علی صاحب کے حالات قلمبند کئے ہیں.بہت دلچسپ کتاب ہے.90
سیلاب رحمت دری الانبیاء ( انبیاء کی خوشبو) میں مکرمہ امتہ الرفیق ظفر صاحبہ نے انبیائے کرام حضرت آدم ، حضرت شیث، حضرت اور لیں، حضرت نوع ، حضرت ہوں، حضرت صالح ، حضرت لوط اور حضرت ابراہیم کے حالات قرآن وحدیث کے مستند حوالوں سے پیش کئے.یہ بطر ز سوال جواب لکھی گئی ہے.اس کتاب پر بکثرت یہ تبصرہ ملا کہ انبیاء علیهم السلام کی کہانیاں سنانے کے لئے یہ کتاب بہت کام آتی ہے.عہدے داران کے لئے نصائح، یہ چھوٹی سی کتاب حضور انور کے ۳۱ / اگست ۱۹۹۱ء کے خطاب پر مشتمل ہے.گلدستہ.تیرہ سال تک کے بچوں کا تعلیمی و تربیتی نصاب بشری داؤد اور خاکسار نے مل کر لکھا.ٹیم ورک کی صورت میں کام کرتے ہوئے تیز رفتاری سے یہ کارواں رواں دواں تھا کہ لجنہ کراچی ایک المناک صدمے سے دو چار ہوئی.ہماری پیاری بہت پیاری حور جہاں بشریٰ داؤ دھوری 20 جولائی 1993ء کو اچانک ہمارا ساتھ چھوڑ کر اپنے رفیق اعلیٰ کے حضور حاضر ہوگئی.انا للہ واناالیہ راجعون.شعبہ اشاعت کی بانی ممبر ، خاکسار کی رفیق کار، ہم جنوں ، بہت بڑا خلا چھوڑ گئی.اس نے اپنی بے لوث خدمات سے ایسا مقام بنایا ہوا تھا کہ حضور انور رحمہ اللہ نے بھی بہت صدمہ محسوس فرمایا.23 جولائی کو جمعہ کی نماز سے پہلے آپ نے خاکسار کے نام لکھوائے ہوئے خط پر دستخط فرماتے ہوئے اپنے دستِ مبارک سے تحریر فرمایا: 91
واجْعَلْ إِن مِن ذلك سلما نصيراً انا فتحنا لک فتحا مبينا لد نصركم الله يندر وانتها امام جماعت احمدی منون له الله اليد العلم نحْمَدُه وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ 17-7-93 85274 پیاری عزیزہ امتہ الباری ناصر صاحبہ آپ کا خط محرره ام علیکم و رحمت الید و بیر کا تشد پر و با موصول ہوا جزاکم الواحسن الجزاء سارا خط ہی ما شاء الر بہت دلچسپ ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ چشم بد دور.آپ کے شعر خصوصاً دوسرا شعر بہت مزیدار ہے لیکن آرام سے اٹھنا مجھے تو بھلا نہیں.لگتا چاھتے آرام سے اٹھنا ہو یا مشکل ہے.الا فضل فرمائے اور پوری صحت کے ساتھ رکھے.اتو آپ سیکو جزا دے جنہوں نے چھوٹی آیا کی خدمت کی طبہ کراچی ہمیشہ کی طرح اب بھی خدمت کے میدان میں آگے آگے ہے اللہ یہ اعزاز برقرار رکھتے کی تو فیق دیتا رہے.تمام کارکنات کو محبت ہو اسلام.و اسلام خاکار عزیزہ بشری دارد خوری کے ا في الراج دردناک سانحہ ارتحال نے متعلق آپکا خط ملا تھا.اس با کسی از فرائی حسین داحسان کی مرقع بیٹی کی نماز جنازہ نام کا فیصلہ تو جر ملتے ہیں کر لیا تھا.آج بعد از ج 92 الله نماز جنازہ غائب ہوئی.اقربا جماعت کراچی اور سینہ کراچی سے تعزیت کا امیر عظیمہ کے آخری کرد نگار
سیلاب رحمت عزیزہ بشری داؤ د حوری کے درد ناک سانحہ ارتحال سے متعلق آپ کا خط ملا تھا.اس پاکباز ، فدائی حسن و احسان کی مرقع بیٹی کی نماز جنازہ غائب کا فیصلہ تو خبر ملتے ہی کر لیا تھا.آج بعد نماز جمعہ انشاء اللہ نماز جنازہ ہوگی.اقربا، جماعت کراچی اور لجنہ کراچی سے تعزیت کا اظہار خطبہ کے آخر پر کروں گا.“ 23 جولائی 1993 ء خطبہ جمعہ کے آخر میں حضور پر نور نے بشری داؤد کا قابل رشک الفاظ میں ذکر فرمایا: آج نماز جمعہ کے بعد دو پاکباز خواتین کی نماز جنازہ پڑھائی جائے گی جو خدمت دین میں پیش پیش تھیں یا دعاؤں میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور عبادات میں اور لوگوں کی نیک تربیت کرنے میں انہوں نے زندگی صرف کی.ان میں سے ایک ہماری بشری داؤد حوری ہیں جو مکرم و محترم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب نائب امیر کراچی کی صاحبزادی ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اکثر پہلوؤں سے انہوں نے اپنے باپ کے سب گن پوری طرح اپنے وجود میں زندہ رکھنے کی کوشش کی اور بے لوث خدمت جس کے ساتھ دکھاوے کا کوئی عنصر نہیں اور انتھک خدمت جو مسلسل سالہا سال تک رواں دواں رہتی ہے.یہ وہ دو خصوصیات ہیں جن میں مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب ایک نمایاں حیثیت رکھتے ہیں.یہ دو 93
سیلاب رحمت خصوصیات پوری شان کے ساتھ عزیزہ حوری میں موجود تھیں اور حسنِ بیان کے ملکہ سے خدا نے ایسا نوازا تھا کہ اپنے ہوں یا غیر ہوں جو بھی ان کی تقریریں سنتا تھا وہ ہمیشہ ان سے گہرا اثر لیتا تھا اور ان کی تعریف میں رطب اللسان رہتا تھا.میں نے کبھی کراچی کی یا باہر سے آنے والی کسی خاتون سے کبھی ایک لفظ بھی ان کے کردار کے خلاف نہیں سنا.محبت کے ساتھ لجنہ کے فرائض سر انجام دینے والی لیکن خدا نے حسنِ بیان کا جو ملکہ بخشا تھاوہ خصوصیت سے سیرت کے مضمون پر ایسے جلوے دکھا تا کہ ان کی شہرت دور ونزدیک پھیلی ہوئی تھی اور جب بھی سیرت کے مضمون پر زبان کھولتی تھیں تو بعض ایسی متعصب خواتین بھی جو احمدیت سے دشمنی رکھتی تھیں اگر وہ اس جلسہ پر لوگوں کے کہنے کہلانے پر حاضر ہوگئیں تو ایک ہی تقریرسن کر ان کی کایا پلٹ جایا کرتی تھی.وہ کہا کرتی تھیں کہ اس کے بعد ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم جماعت احمدیہ پر الزام لگائیں کہ ان کو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں.تحریر کا ملکہ بھی خدا نے عطا فرمایا تھا.کئی چھوٹی چھوٹی کتابیں سیرت کے مضمون پر انہوں نے لکھیں.ان کا آپریشن ہوا تھا جس کے بعد گھر واپس آرہی تھیں کہ دل کے دورے سے وفات ہو گئی.اللہ غریق 94
رحمت فرمائے.ساری جماعت کراچی سے میں تعزیت کرتا ہوں.مکرم مرز اعبدالرحیم بیگ صاحب اور خاندان اور ان کے میاں داؤد اور بچوں سے تو ہے ہی ضرور لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ساری جماعت کراچی تعزیت کی محتاج ہے اور لجنہ اماء اللہ کراچی خصوصیت سے تعزیت کا حق رکھتی ہے.سب دنیا کی عالمگیر جماعتوں کی طرف سے میں تعزیت کا پیغام اُن تک پہنچاتا ہوں.اللہ غریق رحمت فرمائے اور جس سیرت کے بیان پر انہوں نے اپنی زندگی صرف کی، خدا اس سیرت کے فیض سے ان کے بچوں کو صبر محمدی عطا کرے ان کے خاوند کو صبر محمدی عطا کرے ان کے والد کو اور دوسرے عزیزوں کو ( مجھے علم نہیں کہ والدہ زندہ ہیں کہ نہیں خدا کرے زندہ ہوں) سب کو خدا صبر محمدی عطا فرمائے اور سیرت کا یہ فیض ان کے خاندان کو خصوصیت سے پہنچے.“ خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 566 ) خاکسار پر بشری کے بعد صدمے کا اثر تھا.پیارے آقا کو اس کے لیے دعا کا خط لکھا تو بند ٹوٹ گئے.کیفیت آپ سے چھپی نہ رہی.آپ نے جواب میں جس انداز سے تعزیت فرمائی وہ نہ صرف مرحومہ کے لیے ایک اعزاز ہے بلکہ ادب کا شہ پارہ بھی ہے.حضور انور نے دست مبارک سے تحریر فرمایا: 95
واجعل لي من لدنك ساخناً نصيراً انا فتحنا لك فتحامين الله بند وانت ولقد نصركم.بسم الله البحر العلم نحْمَدُه وَنُصَلِّ عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ امام میں اخت المدونة AHMADIYYA MUSLIMS 29.8.93 کاش حور کی بھی آپ کا یہ خط پڑھ سکتی.آپ نے تصور کی پریاں روشن ہے سکتی ہے تو اللہ اس کی روح کو یہ توفیق کی ہے ؟.اگر روحوں کے دلوں میں کیا دعاء نے کے جو لگے E 3.9.93 عزیزہ مکرمہ استرالیادی ناصر السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکات ہے عزیزه خوری فقر بہا کے وصال پر آپکا سکتا بلکتا ہوا اظہاز درد موصول ہوا جو اس مضمون پر حرف آخر ہے.اس اظہار درد میں کہے ہوئے غموں کے پیچھے ان کے غم بھی قطار در قطار کھڑے دکھائی دے رہے ہیں.اس میں وہ خود میں بھی ہیں جو تعظیم تعبیر تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹوٹ کر بکھر گئیں.اور کچھ تغیر کی حسرتیں بھی ہیں.جیسے کسیلان ختم ہونے سے پہلے باط اٹھادی جائے تو کیفیتیں ہے کی نیوی اور بے چین جھنجھنا ہٹوں میں تبدیل ہو جاتی ہے.کچھ دلیا ہی منظر حروف کی چلمن میں سے دکھائی دے رہا ہے ! دل نا صبور کی رگ رگ پھڑکتی ہوئی.وہ چنچیں جو دل کے پرانے پھاڑ کر باہر نہ آسکیں کہے.یہ امجاز دکھا گئیں کہ لگتا ہے جیسے فضاؤں کے لیے چیر دینے ہوں.صبر و رضا کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی.بے بس اور بے اختیار یہ چینجیں جو ساتھ والے ے میں بھی سنائی نہ دیں کیسے بات سمندر پار سنائی دینے scanned with CamSca - جي دوام پر پیچ و تاب کھاتی ہوئی.بیرتی تڑپتی 96
سر پٹکتی ہوئی دل کی آگ سے کیسے آپ نے اپنے عزم تسلیم ورضا کو بچا لیا کہ آنچ تک نہ آنے دی.کیسے آپکی آنکھوں کے سامنے ہر شعلہ فغان سیکیوں میں ڈھیلی ڈھل کر خون دل میں کنگنا کتنا بجھتا رہا پاک بہتی رہیں محبت ہو تو ایسی ہو.لیکن ایک آپ ہی تو نہیں جو خور شمائل خوری کی رفعتہ دشکن جدائی سے ایسا نٹ کی ہیں.شہر کراچی میں آپ جیسی ہزاروں ہونگی لیکن نہ انہیں شعر کہنے کا ملکہ نصیب نہ نظر میں اظہار درد کا سلیقہ - وہ تو فی الخصام بھی غیر مُبير ہیں.اُن کو بھی تو آپ ہی نے زبان دینی ہے.اُن کی داستان غم بھی تو آپ ہی کو رقم کرتی ہے.جب دست قدرت گزرتے ہوے وقت کی مرہم لگا کر آپکے جلائے کر آپکے جلائے ہوئے صبر کو ذرا احراز دے اور یہ متلاطم پانی ذرا ٹھہر جائے تو پوری کی پاکیزہ یاد کو انیا دگر از خراج تحسین پیش کریں کہ ہر پڑھنے والے کا دل پگھلی پکھل کر آستانہ الوہیت کی جانب دعائیں علماء چلے نہیں جا ہیں.اللہ سب پس ماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے اور صبر جمیل کا لامتناہی اجر بھی.ایرانی تاکی تی ہیں اوررات بھر احساس کے رکھتے ہوئے تار چھیڑتی شیشے میں دھونی زما کر بیٹھا رہتے ہیں.اور کفن دھیان کی جو گئیں ہی نہیں بلکہ بحقن خطوں کی afr بن بن کر کئے گئے.جانے والی کا خیال تو بہت دیر اُن کو ستاتا رہے گا جواس کے ساتھ رہیں مجھے تو پیچھے رہنے والوں کا غم لگ گیا بچوں کا غم جن کی بعض پیاری ہے.داؤد ام آن معصوم؟ ہاتوں کا ذکر میری زبان اٹھتا تھا.مرزا عبد الرحیم.دل میں اُن کہا ہے جیسے سنی بھی اجنبیت ہیں.N نتی تھیں تو خوری کا دل کھلکھلا بیک صاحب کا غم تو الیسا اپنے گھر میں آ بیٹھا ہو.ایک ادی آپ نے ٹھیک نہی یاد دلایا ہے کہ یہ فقیہوں کے سے غم میرے محسن ہیں جو دل کو ایک شرف عطار کر جاتے ہیں.لیکن بعض عم یہ شرف 97
29-8-93 لنڈن عزیزه مکرمه امتہ الباری ناصر عزیزہ حوری غفر لھا کے وصال پر آپ کا سسکتا بلکتا ہوا اظہار در دموصول ہوا جو اس مضمون پر حرف آخر ہے.اس اظہار درد میں کہے ہوئے غموں کے پیچھے ان کے غم بھی قطار در قطار کھڑے دکھائی دے رہے ہیں.اس میں وہ خواہیں بھی ہیں جو نقطہ تعبیر تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹوٹ کر بکھر گئیں اور کچھ تعبیر کی حسرتیں بھی ہیں جیسے کھیل ختم ہو جانے سے پہلے بساط اُٹھا دی جائے تو کیفیتیں بے کیفیوں اور بے چین جھنجھناہٹوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں کچھ ویسا ہی منظر حروف کی چلمن میں سے دکھائی دے رہا ہے.دل ناصبور کی رگ رگ پھڑکتی ہوئی وہ چیچنیں جو دل کے پردے پھاڑ کر باہر نہ آسکیں کیسے یہ اعجاز دکھا گئیں کہ لگتا ہے جیسے فضاؤں کے سینے چیر دیئے ہوں صبر ورضا کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی بے بس اور بے اختیار یہ چیچنیں جو ساتھ والے کمرے میں بھی سنائی نہ دیں کیسے سات سمندر پار سنائی دینے لگیں.حبس دوام پر پیچ و تاب کھاتی ہوئی پھرتی ، تڑپتی ہر پکتی ہوئی دل کی آگ سے کیسے آپ نے اپنے عزم تسلیم ورضا کو بچالیا کہ آنچ تک نہ آنے دی.کیسے آپ کی آنکھوں کے سامنے ہر شعلہ فغاں سسکیوں میں ڈھل ڈھل کر خون دل میں سنسنا سنسنا کر بجھتا رہا.پاک للہی محبت ہو تو ایسی ہو.لیکن ایک آپ ہی تو نہیں جو حور شمائل 98
سیلاب رحمت حوری کی دفعہ دل شکن جدائی سے ایسا تڑپی ہیں.شہر کراچی میں آپ جیسی ہزاروں ہوں گی لیکن نہ انہیں شعر کہنے کا ملکہ نصیب ، نہ نثر میں اظہار درد کا سلیقہ.وہ تو فی الخصام بھی غیر مبین ہیں.اُن کو بھی تو آپ ہی نے زبان دینی ہے اُن کی داستانِ غم بھی تو آپ ہی نے رقم کرنی ہے.جب دستِ قدرت، گزرتے ہوئے وقت کی مرہم لگا کر ، آپ کے جھلائے ہوئے صبر کو ذرا قرار بخش دے اور یہ متلاطم پانی ذرا ٹھہر جائے تو عوری کی پاکیزہ یاد کو ایسا دل گداز خراج تحسین پیش کریں کہ ہر پڑھنے والے کا دل پگھل پگھل کر آستانہ الوہیت کی جانب دعائیں بن بن کر بہنے لگے.جانے والی کا خیال تو بہت دیر اُن کو ستاتا رہے گا جو اس کے ساتھ رہیں مجھے تو پیچھے رہنے والوں کا غم لگ گیا ہے.داؤ داور ان معصوم بچوں کاغم جن کی بعض باتوں کا ذکر میری زبان سے سنتی تھیں تو حوری کا دل کھلکھلا اُٹھتا تھا.مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب کا غم تو ایسا دل میں آن بسا ہے جیسے اپنے گھر میں آبیٹھا ہو.ایک ادنی سی بھی اجنبیت نہیں.آپ نے ٹھیک یاد دلایا ہے کہ یہ فقیروں کے سے غم میرے محسن ہیں جو دل کو ایک شرف عطا کر جاتے ہیں لیکن بعض غم یہ شرف عطا کر کے چلے نہیں جاتے بلکہ وہیں ایک گوشے میں دھونی رما کر بیٹھ رہتے ہیں اور محض دھیان کی جو گنیں ہی نہیں بلکہ بعض خطوں کی جو گنیں بھی راگنی بن کر آتی ہیں اور رات بھر احساس کے دُکھتے ہوئے تار چھیڑتی ہیں.اللہ 99
سیلاب رحمت سب پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور صبر جمیل کا لامتناہی اجر بھی.آپ نے تصور کی پریاں روشنائی کے شیشے میں اُتاردی ہیں.کاش حوری بھی آپ کا یہ خط پڑھ سکتی ہر فقرے کے جھونکے سے اُس کی روح اہتنر از کرتی.پتہ ہے میں نے کیا دعا کی ہے؟ اگر روحوں کو دلوں میں جھانکنے کی توفیق مل سکتی ہے تو اللہ اس کی روح کو یہ توفیق بخشے کہ اپنے سب پیاروں کے دلوں میں جھانکا کرے.3-9-93 والسلام مرزا طاہر احمد خاکسار نے اُس کے چاہنے والوں کی مدد سے اُس کی یاد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے مصباح کا ایک خاص نمبر تیار کیا.اس خاص نمبر کے متعلق جو تاثرات ملے وہ حضور پر نور کی دعا کے عین مطابق تھے یعنی پڑھنے والوں کا دل پگھل پگھل کر آستانہ الوہیت پر دعا بن بن کر بہنے لگا.بشری ! ہم تمہیں نہیں بھولے.تمہارے سلسلوں کو حتی الوسع محنت سے جاری رکھا.اللہ پاک ہم سب کی دعائیں تمہارے حق میں قبول فرمائے.آمین.وہ واپس آ نہیں سکتی مگر یہ مان لوں کیسے کہ جب ہوگا کہیں سیرت کا جلسہ وہ نہیں ہوگی ستاروں کی طرح چمکے گی وہ تاریخ عالم میں رہے گا خوبیوں کا اُس کی چر چا وہ نہیں ہوگی 100
حقیقت میں بقا تو وجہ ربّ لم یزل کو ہے ہے كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَان سچا، وہ نہیں ہوگی چلیں گے کام سب لجنہ کے پہلے سے بھی کچھ بہتر بنیاد میں جس کا لہو تھا وہ نہیں ہوگی ابھی تکمیل کی راہوں میں تھے کتنے ہی منصوبے خدا خود کھول دے گا کوئی رستہ وہ نہیں ہوگی ہماری طرح کم ہوگا کوئی یک جان و دو قالب بھری دنیا میں رہنا ہوگا تنہا وہ نہیں ہوگی سیرت و سوانح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بطرز سوال جواب ایک بے حد بابرکت کتاب محترمہ امتہ الرشید جمیل صاحبہ نے بڑی محنت اور لگن سے مرتب کی جماعت کی تاریخ میں پہلی دفعہ مکمل سیرت بطر ز سوال جواب پیش کی گئی.ایک دن ان کا ایک بک سٹال سے فون آیا.آواز میں بے حد خوشی تھی کہ انہیں وہ کتاب مل گئی ہے جس کی چند سوالوں کے جوابات کے لئے ضرورت تھی.مجھے بھی بہت خوشی ہوئی کہ مولا کریم نے کیسی کیسی محنتی پاکباز خواتین کا ساتھ عنایت فرمایا ہے.ان کی محنت کا ایک انعام حضور انور کا مکتوب ہے.آپ نے تحریر فرمایا: 25-02-92 " آپ کا پُر خلوص خط ملا.بہت خوشی ہے.آپ اور آپ کی ٹیم بہت اچھا کام کر رہی ہے.دل کی گہرائی سے آپ سب کے لئے دعا نکلتی 101
ب رحمت ہے.اللہ تعالیٰ قدم قدم پر مدد فرمائے.علمی وادبی و جماعتی خدمات کی توفیق دے.خدا کرے یہ سیرت النبی کی کتاب خدا کے حضور اور اس کے بندوں میں مقبول ہو.مبارک ہو.اپنی ٹیم کو بہت بہت سلام پہنچا ئیں.“ اڑتیسویں کتاب دعائے مستجاب ہے جو محترم مولانا عبدالباسط شاہد صاحب نے مرتب کی ہے.مولانا موصوف کا کراچی لجنہ کے اشاعتی منصوبے میں علمی و عملی تعاون بڑا قابل قدر ہے ہماری خوش بختی ہے کہ ہمیں دینی علوم سے بہرہ ورفن تحریر سے آشنا مر بی صاحب کا تعاون حاصل رہا.ہماری کچھ کتب کی کتابت ربوہ میں ہوئی اُن کی پروف ریڈنگ میں بھی بہت مدد دی.فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.آپ کی کتاب خوب مقبول ہوئی.پیارے حضور نے تحریر فرمایا: 13-07-95 وو " جزاکم اللہ احسن الجزاء.دعا پر حضرت مصلح موعودؓ کے فرمودات کے علاوہ دیگر بہت سا مواد بھی یکجائی صورت میں جمع ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ مؤلف کو بھی جزائے خیر دے اور شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ کراچی کو بھی بہترین جزا دے.“ ہماری کہانی - از مکرمہ رفیعه محمد صاحبہ ایک بالکل مختلف نوعیت کی ہے.اس میں کلکتہ کے مکرم حاجی عبدالستار صاحب کے قبول احمدیت اور اس کے بعد کی مشکلات کا ایمان افروز بیان ہے.ان کے تبلیغی خطوط ہیں.اولا د کو جماعت سے وابستہ رکھنے کی کاوشیں ہیں.یہ 102
رحمت کتاب ایسے لکھی گئی کہ میری فرمائش پر آپا رفیعہ صاحبہ جو جہاں سے ان کو یاد آ تا لکھ کر لے آتیں ، خاکسارا سے ترتیب دیتی.اللہ تعالیٰ ہماری آپا رفیعہ صاحبہ کو جزائے خیر عطا فرمائے.آمین.کلام طاہر مع فرہنگ ہمارے شمار میں چالیسویں نمبر پر کلام طاہر مع فرہنگ ہے.اس کام کا خیال آنے کی روداد خاکسار نے کتاب کے عرضِ حال میں اس طرح لکھی ہے : ”خدا تعالیٰ کا احسان ہے کہ لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کو نظر ثانی شدہ کلام طاہر حتی المقدور حسن صورت کے ساتھ شائع کرنے کی سعادت نصیب ہورہی ہے.قبل ازیں شائع شدہ کلام طاہر دیکھ کر خیال آتا، یہ مئے عرفان اور یہ جام ! کچھ تو شایانِ شان ہونا چاہئے.اپنی بے بضاعتی کے احساس پر کچھ قابو پاکر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں اشاعت کی اجازت مرحمت فرمانے کی درخواست کر دی.اب فقط اتنا یاد ہے کہ کھل جاسم سم میں نے کہا تھا پھر چکا چوند خزانوں کی بھیڑ میں ایسا کھوئی کہ اب واپس آنے کا ہوش ہے نہ ارادہ.حضور پر نور نے نظر ثانی کی ضرورت کا ذکر فرمایا اور پھر خاکسار کی درخواستوں پر وقت نکال کر از راه شفقت نظر ثانی فرمائی.خاکسار کی خوش قسمتی کہ اس سلسلے میں آپ جیسے بلند پایہ یخن شناس سے کچھ قلمی گفتگو رہی.تنقید کی ضخیم کتب پر بھاری ایک ایک جملہ، الفاظ کی تراش اور انتخاب کے اسلوب سمجھاتا 103
سیلاب رحمت ہوا مفاہیم کا سمندر سموئے ایک ایک شعر، آپ کی نکتہ پروری ،فن پر گرفت اور عارفانہ نظر کی ماورائیت تائید غیبی ہے.خیرات ہو مجھ کو بھی اک جلوہ عام اس کا پھر یوں ہو کہ ہو دل پر الہام کلام اس کا آپ کے کلام کی تہ تک انتر نا، وسعتوں کو پانا، اور رفعتوں تک نگاہ کر ناصرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ کوئی وہ تمام سفر آپ کے دل و نظر کے ساتھ طے کرے جو آپ نے اللہ پاک کی انگلی پکڑ کر کیا ہے.اس لئے تحسین کا حق ادا کر نا حد امکان سے باہر ہے.اس کے آگے قلم کے 66 قدم نہیں اُٹھتے.“ کلام طاہر پر کام کا عرصہ چار پانچ سال پر محیط ہے.پہلے کبھی اتنا بڑا علمی کام نہیں کیا تھا.جہالت نے جنون سے مل کر وہ جراتیں اور حماقتیں کروائیں جن کی حضور پر نور کو اصلاح کرنی پڑی اور اس طرح وہ زر و جواہر ہاتھ لگے جو ایک مضمون الہام کلام اُس کا میں سجا دئے ہیں.یہ مضمون کتابی صورت میں چھپ چکا ہے اور حضور کے ارشاد پر کلام طاہر میں شامل ہو گیا ہے، (اس کتاب میں بھی شامل ہے ).مجھ میں تو شکر کرنے کا سلیقہ اور طاقت بھی نہیں.ہر قدم پر احسانات کی بارش ہے.بلا شک اس کی تیاری اور خاص طور پر پروف ریڈنگ میں بے شمار محنت کرنی پڑی مگر مزا بہت آیا.کتاب کی تیاری میں مکرم عبید اللہ علیم صاحب اور مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب کے مفید مشورے ملتے رہے.مکرمہ مسز ناصر صاحبہ نے کام کے ہر مرحلہ میں بہت ساتھ دیا.گلوسری کی اصلاح حضور نے اپنی نگرانی میں لڑکیوں کی ایک ٹیم سے کروائی.مکرم خالد اعوان صاحب نے 104
سیلاب رحمت عمدہ کتابت کی.مکرم شیخ اور میں صاحب نے خوبصورت ڈیزائننگ اور طباعت کی.جزاھم اللہ تعالی.سب کے تعاون سے تیار ہونے والی حسین کتاب حضور کی خدمت میں بھیجی.پیارے حضور نے ہمارے کام کو پسند فرما یا مکر مہ آپا سلیمہ میر صاحبہ کے نام مکتوب میں لکھا: " آپ کی سر پرستی میں کلام طاہر پر جو کام ہوا ہے وہ بہت ہی اعلیٰ ہے.ماشاء اللہ بہت خوبصورت پیش کش ہے.جن کے نام آپ نے لکھے ہیں، ان سب کا شکریہ اور میری طرف سے انہیں محبت بھر اسلام.اللہ تعالیٰ ان کے اموال نفوس اور اخلاص میں برکت دے اور اپنی رحمتوں سے نوازے.“ خاکسار کے نام مکتوب میں اس طرح شاباش ملی : کلام طاہر کی خوب صورت دیدہ زیب طباعت پر بے حد شکریہ.آپ نے اس پر بہت محنت کی ہے.جزاکم اللہ احسن الجزا.اللہ آپ سب کو علمی ، ادبی، تعلیمی، تربیتی اور دینی خدمات سرانجام دینے کی توفیق دے اور سب بچوں کی طرف سے آنکھوں کی راحت عطا فرمائے.سب کو محبت بھر اسلام.“ الفضل ربوہ نے تبصرہ کیا: احمد یہ جماعت میں سب سے زیادہ خوب صورت کتاب کاغذ، پرنٹ ، جلد اور فلیپ کی خوبصورتی کو مدنظر رکھتے ہوئے چھپنے والی کتاب کا اعزاز شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ کراچی کے حصے میں آیا ہے.“ (16-10-91) 105
سیلار شعبہ اشاعت کی خادمات کی خوشی دلمانیت کے سامان کئی طرح سے ہوتے.ایک دن ایم ٹی اے پر ملاقات پروگرام میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بچوں کے پروگرام بنانے کے لئے ہدایات دے رہے تھے.آپ کے پاس چند کتب تھیں جن میں سے ایک ایک اُٹھا کر آپ ہدایات دیتے رہے.ان میں لجنہ کراچی کی کتاب 'حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ تھی.آپ نے فرمایا: حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ “ یہ احمدی خواتین کے لئے میری بعض تقاریر ہیں جو لجنہ میں ہوئی ہیں.اُن کے خلاصے ہیں یا مکمل ہیں.ابھی دیکھ نہیں سکا.“ دوسری کتاب ” مجالس عرفان اُٹھا کر آپ نے ٹائٹل دکھاتے ہوئے فرمایا: مکرم امیر صاحب کراچی چودھری احمد مختار صاحب کی ہدایت پر (غالباً) لجنہ اماءاللہ کے اہتمام میں میری مجالس عرفان (جس کو میں مجلس سوال وجواب کہتا ہوں ) شائع کی گئی ہیں اور امیر صاحب میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں.“ اس کے بعد حضور انور نے ”بدرگاہ ذی شان “ دکھاتے ہوئے فرمایا: پھر بدرگاہ ذی شان خیر الانام ہے اس میں مختلف احمدی شاعروں کا نعتیہ کلام ہے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں ، اس کو بھی بچوں کو سکھا کر نغموں اور ترانوں کی صورت میں اُن کے پروگراموں میں داخل کیا جاسکتا ہے.“ اس کے بعد آپ نے پیاری مخلوق دکھاتے ہوئے فرمایا: 106
وو سیلاب رحمت پیاری مخلوق ، یہ شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ کی طرف سے بشریٰ داؤد مرحومہ کی لکھی ہوئی کتاب ہے.بہت اچھے رنگ میں بچوں کو کائنات کے متعلق زمین و آسمان زندگی کے متعلق باتیں سمجھائی گئی ہیں.66 اکتوبر 1995 سے ستمبر 1996 تک شائع ہونے والی کتابوں میں بشری داؤد کی وفات 661 کے بعد چھپنے والی اُس کی سیرت کے سلسلے کی کتاب انبیاء کا موعود “ “ ہے.اس میں اس نے گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی آنحضور کے بارے میں پیشگوئیاں جمع کی ہیں.حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ نے حضرت مرزا ناصر احمد ، تحریر فرمائی.یہ ایک دلچسپ خوب صورت الفاظ میں لکھی ہوئی سوانح ہے.گھریلو ماحول کے چھوٹے چھوٹے واقعات ، جن کو پڑھ کر عائلی سکون حاصل کرنے کے گر پتہ چلتے ہیں.مکرمہ امتہ القدوس صاحبہ بیگم حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب صدر لجنہ اماءاللہ قادیان نے با مقصد تبصرہ تحریر فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ کو اشاعت کی بہت بڑی خدمت سے نواز رہا 671 ہے.خدا کرے یہ خدمات اور بڑھیں.حضرت مرزا ناصر احمد کتاب تو پہلے انہوں نے اور پھر میں نے ایک دو دن میں ختم کر لی.بڑا ہی لطف آیا پڑھ کر.میں تو کہتی ہوں مردوں کو پڑھوانے والی کتاب ہے تا کہ گھروں میں حسنِ سلوک شروع ہو.اور ہمارے پیارے آقا کو جو لوگوں کے خطوط پڑھنے سے تکلیف ہوتی ہے وہ دور ہو بہت دلچسپ کتاب ہے.“ (1-9-96) 107
اس کتاب کے بعد شہناز نعیم صاحبہ نے ایک مفید کتاب ” گھریلو استعمال کی چیزیں بنانے کی ترکیبیں لکھی.شہناز دعوت الی اللہ میں ممتاز مقام رکھتی ہیں.آپا سلیمہ صاحبہ کے نام ایک مکتوب میں حضور پر نور نے تحریر فرمایا: لجنہ کراچی نے جو تین نئی کتابیں شائع کی ہیں وہ بھی ہمیشہ کی طرح ایک نہایت مقبول کوشش ہے.امید ہے بہتوں کو اس سے فائدہ پہنچے گا.MTA پر بھی ہم ان سے استفادہ کریں گے.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ آپ کی سب ساتھنوں کو ان نیک علمی کاموں کی ایسی دائمی جزا دے جو اس دنیا میں بھی ان کے شامل حال ہو اور اُخروی زندگی میں بھی فیض کا موجب بنے.عزیزہ شہناز نعیم کو خاص طور پر بہت بہت محبت بھر اسلام.“ (17-8-96) مکرمہ صوفی ا کرم چٹھہ صاحبہ (سیکرٹری تعلیم مضلع کراچی ) نے قندیلیں نام سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک تحریرات سے دلچسپ سبق آموز واقعات جمع کئے.صوفیہ نے کتاب کا انتساب بہت عمدہ لکھا: میں اس کتاب کو اپنی عظیم ماں حیات بی بی اہلیہ چودھری رحمت خاں صاحب کے نام منسوب کرتی ہوں جس کی بعض خواہشیں باوجود ایک متمول خاندان کی فرد ہونے کے اپنی دوہری یتیمی کی وجہ سے حسرتیں ہی رہیں.لیکن مضبوط ارادے کی مالک ماں نے اپنی اس تشنگی کو یتامی کی پرورش اور اپنی اولاد کی تربیت سے دور کیا.یہ ادائیں آپ نے 108
.رحمت اپنے محبوب رسول حضرت محمد مصطفی صالنا ہی تم سے سیکھی تھیں.وہ امت کے لئے ہر خوبی و خیر اپنانے کے لئے حریص اور میری ماں اولاد کے لئے ہر دینی اور دنیاوی کاموں میں ان کے آگے بڑھنے کے لئے حریص.قارئین سے ان کی مغفرت و بلندی درجات کے لئے دعا کی درخواست کرتی ہوں.“ پینتالیسویں کتاب جماعت احمدیہ کا تعارف مکرم مبشر احمد خالد صاحب مربی سلسلہ نے تحریر کی.نئے احمدی ہونے والوں اور تبلیغ کے لئے کارآمد کتاب ہے.ولادت سے نبوت تک سیرت نبوی بطرز سوال جواب کا پہلا حصہ بشری داؤد نے مرتب کیا.لجنہ کراچی کا ایک منفرد اعزاز 1997 ء کے جلسہ سالانہ یو کے میں خواتین سے خطاب میں پیارے حضور نے پہلے دور اول کی خواتین کی قربانیوں کا دل نشین انداز میں ذکر فرمایا اور پھر دور آخر کی خواتین کی مساعی کو خراج تحسین پیش فرمایا.آپ کی ذرہ نوازی، ہماری خوش نصیبی کہ اس میں لجنہ کراچی کا نام بھی شامل تھا.آپ کے مبارک الفاظ تھے : اب میں کراچی کی بات کرتا ہوں.کراچی خدا کے فضل سے غیر معمولی خراج تحسین کی مستحق ہے.آپا سلیمہ اُن کی صدر ہیں اور بہت نیک دل ، دل موہ لینے والی صدر ہیں اور انتظام کے لحاظ سے خدا تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی صلاحیت عطا فرمائی ہے.ان کی بیشتر جو مددگار ہیں 109
سیلاب رحمت بچیاں ان میں ایک فوت ہو چکی ہیں.حوری بانو ( حور جہاں بشری.ناقل ) اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے وہ بھی ان کی بہت مدد کیا کرتی تھیں ، مگر اس وقت امتہ الباری ناصر اور مسٹر ناصر ملک یہ ان کے بازو ہیں اور اپنے اپنے دائرے میں غیر معمولی خدمات سر انجام دے رہی ہیں.ان بچیوں کو خصوصاً اشاعت کتب میں بہت مہارت حاصل ہے اور امتہ الباری ناصر کے تحت کثرت سے چھوٹے چھوٹے رسائل جو مختلف موضوعات پر اور بہت اچھے رسائل ہیں وہ شائع ہو چکے ہیں اور ہر سال نئے سے نئے شائع ہوتے رہتے ہیں.“ الاز ہار لذوات الخمار جلد دوم حصہ اول صفحہ 518-519) نماز اور اس کے آداب و مسائل، رنگین، با تصویر، آرٹ پیپر پر انتہائی خوبصورت کتاب مکرمہ محموده امتہ السمیع صاحبہ نے تیار کی.اس کتاب کے ساتھ سی ڈی بھی تیار کی گئی جس سے اس کی افادیت میں بہت اضافہ ہوا.دگلشن احمد چودہ پندرہ سال کے بچوں کے لئے نصاب پر مشتمل ہے.یہ بچوں کے نصاب کے سلسلے کی آخری کتاب ہے.یہ وہ سلسلہ تھا جو کام کے آغاز میں بشری کے ساتھ شروع ہوا تھا مگر تکمیل وہ نہ دیکھ سکی.مولا کریم اس کا سارا ثواب اس کو پہنچا دے اور بڑھا کر دیتا رہے.آمین.عاجزانہ راہیں، مکرمہ امۃ الرفیق ظفر صاحبہ کا نتیجہ فکر ہے صاحب علم خاتون ہیں اور اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتی ہیں ان کا مسودہ اس قدرستھرا لکھا ہوا آتا تھا کہ مجھے بہت کم محنت کرنی پڑتی.110
سیلاب رحمت) دقواریر.قوامون کے نام سے اصلاح معاشرہ کمیٹی کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی ۲۸ دسمبر ۱۹۳۰ کی تقریر سے کچھ حصہ شائع کیا گیا.اچھی کہانیاں ہماری فرمائش پر مکرمہ بشریٰ قریشی صاحبہ نے لکھی.مقبول ہوئی ،کئی ایڈیشن آئے.دلچسپ سبق آموز واقعات.ہماری باون ویں پیش کش ہے جو مکرم عبدالباسط صاحب شاہد نے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی کتب سے مشہور زمانہ دلچسپ واقعات جمع کر کے مرتب کی ہے.واقعات پڑھتے ہوئے آپ کا مخصوص لہجہ ذہن میں آنے لگتا ہے جو بہت لطف دیتا ہے.نبوت سے ہجرت تک مکرمہ بشری داؤد صاحبہ کے بچوں کے لئے سلسلہ وار لکھے ہوئے مضمون کو قدرے درست اور مکمل کر کے 1997ء میں شائع کیا گیا.یچے احمدی کی ماں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا خطبہ جمعہ ہے.دکتاب تعلیم کا خیال حضرت اقدس مسیح موعود کی ایک خواہش پڑھ کر آیا.ملفوظات جلد اوّل صفحہ 260 پر تحریر ہے: میں چاہتا ہوں کہ ایک کتاب تعلیم کی لکھوں...اس کتاب کے تین حصے ہوں گے.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہمارے کیا فرائض ہیں اور دوسرے یہ کہ اپنے نفس کے کیا حقوق ہم پر ہیں اور تیسرے یہ کہ بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں.“ اپنی رفیق کار برکت ناصر صاحبہ کو اس پر کام کرنے کی درخواست کے جواب میں حسبِ معمول ان کا مخصوص جملہ تُسیں حکم کرد‘ سن کر خوشی ہوئی.بڑی محنت سے 111
اقتباس جمع کئے اور کہا کہ کتاب تو چھپتی چھپے گی.مجھے بڑا فائدہ ہوا ہے.یقیناً ہمیں تیاری میں بہت فائدہ ہوا اور چھپنے کے بعد تو اس کا فیض عام ہو گیا.الحمد للہ.مکرم ناظر صاحب اشاعت ربوہ نے اس کی اشاعت کی اجازت دیتے ہوئے تحریر کیا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خواہش کی اشاعت کی اجازت ہے.ماشاء اللہ بہت اچھا مسودہ ہے اور اس کی اشاعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کی تکمیل کا باعث ہے.جزاکم اللہ احسن الجزا تجلیات الہیہ کا مظہر محمد مصطفی سیستم از امۃ الرفیق ظفر صاحبہ کی 496 صفحات پر مشتمل کتاب کا ایک ایک لفظ ان کی رسول اللہ صلی ای یتیم سے انتہائی محبت کا اظہار ہے.قرآنِ پاک میں درج اسمائے محمد سلیم کو عنوان بنا کر سیرت و سوانح سے مثالیں دے کر سیر حاصل تفصیل بیان کی ہے.کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کثیر مطالعہ کا نچوڑ ہے.حیرت انگیز خوشکن نتائج اور چار چاند لگنے کی دعائیں احمدیت کا فضائی دوڑ کراچی لجنہ کی ستاون ویں پیش کش ہے جو ایڈیٹر الفضل ربوہ مکرم عبدالسمیع خان صاحب نے تحریر کی.ایم ٹی اے کے اجراء پر یہ پہلی تاریخی تحقیقی کتاب ہے.پیارے حضور نے پسند فرمائی اور سب خدمت گزاروں کو دعا ئیں عطا فرمائیں.لجنہ کراچی کی ستاون ویں پیش کش انتہائی قابل قدر ہے ماشاء اللہ.جزاکم اللہ احسن الجزا.اس پر میں آپ اور آپ کی معاونات کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب پر اپنی پیار 112
فرمایا: سیلاب رحمت کی نظر رکھے اور ہمت و توفیق بڑھائے اور دین کے کاموں کی جو چاٹ لگ گئی ہے اس میں مزید جلا بخشے اور بیش از پیش خدمات کی توفیق عطا فرمائے اور کام کے نتائج حیرت انگیز طور پر خوشکن ہوں.عزیزه برکت ناصر صاحبہ، رفیعه محمد صاحبہ طیبہ بشیر صاحبه، طیبه طاہر اور امتہ الکریم صاحبہ اور جن کے نام آپ سے رہ گئے ہیں لیکن خلوص سے کام کرتی ہیں ان سب کو میری طرف سے شاباش اور محبت 66 بھر اسلام اور ڈھیروں دعا ئیں.خدا حامی و ناصر ہو.“ (1999-7-1) مکرم مولا نا دوست محمد شاہد صاحب نے یہ کتاب دیکھ کر بہت پیاری دعادی: خدا کرے سو کا ٹارگٹ جلد تکمیل پا جائے اور کوثر وتسنیم کی یہعلمی نہریں بار بار اشاعت کی صورت میں قیامت تک جاری رہیں.“ ( مكتوب: 1999-5-4) اس سال کے اختتام پر ہمیں مساعی کو چار چاند لگنے کی دعاملی.حضور پرنور نے تحریر آپ اور آپ کی معاونات ماشاء اللہ بہت اخلاص اور سلیقہ سے کام کر رہی ہیں میں آپ سب کے لئے خدا کے حضور دعا گو ہوں آپ کی مساعی 66 کو چار چاندلگیں اور لوگ فیضیاب ہوں میری طرف سے سب کو سلام.“ (3-12-1999) اٹھاون ویں نمبر پر بشری داؤ د صاحبہ کی امن کا گہوارہ.مکہ مکرمہ خوبصورت تحقیق کتاب رنگین ٹائٹل کے ساتھ شائع ہوئی.اس طرح مرحومہ کے ایک اور ادھورے کام کو مکمل کرنے کی 113
توفیق ملی.سیلاب رحمت اس کے بعد مکرم صفدر نذیر گولیکی صاحب کی کتاب نبیعت عقبہ اولیٰ تا عالمی بیعت جو گہرے مطالعہ اور تحقیق کا نچوڑ تھی شائع ہوئی.اسی سال منظر عام پر آنے والی کتابوں میں سیرت نبوی کے سلسلے کی بشری داؤ د صاحبہ کی تیسری کتاب ہجرت سے وصال تک اور انسانی جواہرات کا خزینہ.خاکسار کی حضرت محمد مصطفی سلیم کا بچپن اور حضرت محمد مصطفی سال یا یتیم کے مشاغل تجارت اور شادی بھی شامل تھیں.حسب معمول یہ کتب حضرت صاحب کو بھیجیں اور دعائیں لوٹیں.تحریر فرمایا: آپ کی رپورٹ بابت کتب مع نئی کتب ملی، ما شاء الله چشم بد دور الھم زد و بارک.جزاکم اللہ احسن الجزاء.سب کام کرنے والیوں کو میری طرف سے بہت بہت سلام.اللہ ان سب کو جزا عطا فرمائے اور بیش از پیش خدمات کی توفیق عطا فرمائے.آمین.(2000-9-30 ) مکرم مولا نا دوست محمد شاہد صاحب نے دعاؤں سے نوازا: صد سالہ جشنِ تشکر کے سلسلہ میں لجنہ کراچی کی طرف سے گراں قدر تالیفات کی اشاعت پر مبارک صد مبارک ان سے لٹریچر میں نہایت مفید اضافہ ہوا ہے.لجنہ کراچی اور آپ کی سب کارکنات کے لئے اس عظیم اور جلیل القدر خدمت پر دل سے دعائیں نکلتی ہیں.یہ ایک مثالی کارنامہ ہے جس کی سعادت لجنہ کراچی کے حصے میں آ رہی ہے.انھم زد و بارک.دوبارہ مبارک باد چونسٹھویں کتاب مکرم عبدالسمیع صاحب ایڈیٹر الفضل کا والدین کے احترام پر نتیجہ فکر 114
وو جنت کا دروازہ تھی.پھر خاکسار کی ” حضرت محمد مصطفی سنی اسلام کا آغاز رسالت، شائع ہوئی.کونپل کا سندھی زبان میں ترجمہ کروایا گیا تا کہ چھوٹے بچوں کو ان کی زبان میں آسانی سے دینی باتیں سکھائی جاسکیں.خلافت لائبریری میں تیار کردہ ایک کتاب 'ربوہ منظوم کلام کراچی سے چھپی.یہ ایک منفرد کتاب ہے جس میں ربوہ دارالہجرت کے بارے میں احمدی شعرا کا منظوم کلام جمع ہے.مکرم مولا نا دوست محمد شاہد صاحب کو یہ پیشکش بھی پسند آئی.رقم طراز ہیں: لجنہ کراچی کی ۶۷ ویں شاندار اور بہار آفریں کتاب ربوہ پر دل کی گہرائیوں سے اور جذبات تشکر کے ساتھ مبارک باد پیش کرتا ہوں.رب جلیل لجنہ کراچی کو پہلے سے بڑھ کر خدمات جلیلہ کی توفیق عطا فرمائے اور ہر احمدی خاتون اور ناصرات کا دل اسی طرح علم و معرفت سے لبریز کر دے جس طرح بحیرہ عرب سمندر کے قطروں سے پر ہے.مجھے یقیں ہے کہ قادیاں سے محمد ” کا غلغلہ اٹھے گا جہاں جہاں ہم فنا ہوئے ہیں وہاں وہاں قافلہ اٹھے گا ہماری مٹی نئے زمانوں کے معبدوں میں اذان دے گی ہمارے جسموں پہ ہے جو بیتی وہ خاک ربوہ نشان دے گی خاکسار کی ” حضرت محمد مصطفی سنای ایتم کی دعوت الی اللہ اور ہجرت حبشہ کو اڑسٹھواں نمبر ملا.کتاب دیکھ کر مکرم مولا نا دوست محمد شاہد صاحب نے حوصلہ افزائی کی: جزاکم اللہ دعوت الی اللہ اور ہجرت حبشہ کی شاندار پیش کش پر شکریہ اور دلی مبارک باد.یہ ماشاء اللہ اس سال کی ابتدائی مجاہدانہ قلمی 115
خدمات کا مرقع ہے.رب العرش اپنے دربار عام میں سند قبولیت سے نوازے اور ہرلحہ نمبرات لجنہ کراچی کو روح القدس سے معمور رکھے تا یہ خطہ جلد اسلام کے نور سے جگمگا اُٹھے بطحا کی وادیوں سے جو نکلا تھا آفتاب بڑھتا رہے وہ نور نبوت خدا کرے قائم ہو پھر سے حکیم محمد جہان میں ایک با برکت کام ضائع نہ ہو تمہاری یہ محنت خدا کرے“ اللہ تعالیٰ نے شعبہ اشاعت کو مالی لحاظ سے اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا.کچھ بچت ہوئی تو ایک بہت بابرکت کام میں حصہ لینے کی توفیق ملی.حضور نے 2001ء میں لندن میں مسجد کی تعمیر کے لئے چندے کا اعلان کیا.ہم نے اس فنڈ میں شعبہ اشاعت کی طرف سے ایک ہزار پونڈ پیش کئے اور اس کے ساتھ دعا کی غرض سے اس شعبے کی ایک ایک خدمت گزار کا نام بھی تحریر کیا.ہمارے حضور نے یہ تحفہ قبول فرمایا اور ہمیں بہت دعاؤں سے نوازا.آپ کا رپورٹ نما خط محرره 2001-04-17 ملا جزاکم اللہ احسن الجزاء.آپ کے شعبہ اشاعت والوں کی طرف سے ایک ہزار پونڈ کی مالی اعانت برائے مسجد قابل قدر ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کے اموال اور نفوس میں برکت ڈالے اور بیش از پیش خدمات کی توفیق دے آمین.میری طرف سے تمام معاونات کو بہت بہت محبت بھرا 116
(1-5-01) 66 سلام اور دعا.ہماری حقیر مساعی پر تحسین کے الفاظ ہمیں خوش رکھتے.مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب وکیل الاشاعت ربوہ نے تحریر فرمایا: بسلسلہ جشن تشکر لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی کے زیر اہتمام مطبوعات کا جو سلسلہ جاری کیا گیا ہے وہ ماشاء اللہ بہت مفید اور بابرکت 66 ہے اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے.“ مکرم عطاءالمجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن نے تحریر فرمایا: لجنہ اماءاللہ کراچی نے صد سالہ جو بلی کی مناسبت سے بہت سی مفید کتابیں دیدہ زیب رنگ میں شائع کی ہیں اور یوں کہا جاسکتا ہے کہ اشاعت کتب کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے.اس کامیابی پر جو ایک عظیم اور پائدار رنگ رکھتی ہے آپ کی خدمت میں صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے ساتھ کام کرنے والے سب احباب اور خواتین کو بہترین جزا عطا فرمائے.جزا کا یہ پہلو آپ کو نصیب ہو کہ اس میدان میں مزید خدمات کی سعادت ملے.آمین عجب محسن ہے تو بحر الا یادی فسبحن الذي اخزى الاعادي کتب کی اشاعت کا کام جس تیز رفتاری سے جاری تھا، جس طرح ہر کام کے لئے 117
سیلاب رحمت سلطان نصیر مل رہے تھے اور جس طرح آسمان سے مقبولیت کی ہوائیں چل رہی تھیں اس سے ہمارے دل ہمہ وقت شکر گزاری میں سجدہ ریز رہتے.مجھے بشریٰ کی ایک بات یاد آتی ہے اکثر کہتی ابھی ہر چیز سنبھال کر رکھتی جائیں اور کام کرتی جائیں کبھی فرصت میں ماضی پر نظر ڈالیں گے تو خوش ہوں گے اور خوشی میں اللہ تعالیٰ کو لپٹ جائیں گے.وہ تو بہت جلد جا کر اللہ تعالی کو لپٹ گئی اور خاکسار سنبھال کر رکھی ہوئی چیزوں کو دیکھنے کی فرصت کی تلاش میں رہی.ہر دن ہمہ جہتی ذمہ داریوں کے ساتھ طلوع ہوتا ہے.بشری کے بعد اللہ تعالی نے مسز ناصر ملک صاحبہ کو ایک مضبوط سہارا بنا دیا.ہمارے کام چلتے رہے.یہاں اشاعت کے معمول کے کاموں کی ایک جھلک دکھا دوں تاکہ زیادہ دعائیں شاملِ حال ہوں.(اس میں گھر کے معمول کے کام شامل نہیں ہیں ) کسی تعلیم یافتہ خاتون کو آمادہ کرنا کہ وہ کسی موضوع پر تحقیق کر کے کتاب لکھیں انہیں موضوع کے انتخاب میں مشورہ دینا اور بتانا کہ کہاں کہاں سے مواد ملے گا.مصنفین اور مرتبین کے تیار کئے ہوئے مسودات پہلے خود چیک کرنا اور ضروری ترتیب و اصلاح کے بعد مکرم ناظر صاحب اشاعت کو منظوری کے لئے بھیجنا.ناظر صاحب کی طرف سے منظور ہو کر آنے والے مسودات کی ان کی ہدایات کے مطابق اصلاح کرنا.کتابت یا کمپوز شدہ کاغذات کی پروف ریڈنگ کئی کئی مرتبہ کرنا.کا تب صاحب کو مسلسل اگلا کام دینے کے لئے تیار رکھنا.پبلشر سے کام کی رفتار کے بارے میں استفسار کرنا.اصلاح کے باوجود غلطی نظر آنے پہ رونا.اپنی تخلیقی کاوشوں کو جاری رکھنا.خاص طور پر فرہنگ کی تیاری بہت عرقریزی کا کام ہے.صدر صاحبہ سے اخراجات کے بلوں کی ادائیگی کی منظوری لینا.سیلز سیکشن کے کاموں کا جائزہ لینا.خطوط لکھنا اور ڈاک کا جواب دینا.ہر کام کا اپ ٹو ڈیٹ حساب رکھنا.رپورٹ لکھنا.وغیرہ 118
وغیرہ وغیرہ.ہمیں خدمت کا ایک موقع یوں بھی ملا کہ کینیڈا اسے مکرم شیخ خورشید احمد صاحب نے لجنہ کراچی کو اپنی کتب کی اشاعت کا اختیار دے دیا.ہم نے خوشی سے یہ ذمہ داری قبول کی.جوئے شیریں میں کلام طاہر سے نظمیں شامل کر کے کتابت درست کرا کے رنگین سرورق کے ساتھ شائع کر دی.اس کے بعد ۷۰ نمبر پر خاکسار کی ' حضرت محمد مصطفی صلی ا یہ تم.شعب ابی طالب اور سفر طائف منظر عام پر آئی.مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب نے بہت حوصلہ افزائی فرمائی: شعب ابی طالب وسفر طائف، جیسی نہایت نفیس اور سادہ و سلیس زبان سے مزین اور بیش قیمت تاریخی معلومات پر مشتمل کتاب علی ضلع کراچی کی مطبوعات کا سلسلہ ۷۰ تک پہنچ گیا ہے اللھم زد و بارک.امتہ الباری ناصر صاحبہ کی خدمت میں بھی صمیم قلب سے ہدیہ تبریک.رب کریم ان کے علم و قلم اور ایمان و عرفان میں مزید بے پناہ برکت بخشے.وذالك فضل الله يؤتيه من يشاء ( مكتوب:02-03-16) مسفر آخرت - آداب و مسائل، خاکسار کی فرمائش پر مکر مہ امتۃ الرشید ارسلہ صاحبہ نے بہت شوق اور محنت سے وفات کے وقت کے مسائل جمع کیے.ان کا شوق ان سے بہت زیادہ محنت کروا دیتا.دوصفحات لکھنے ہوتے تو ہمیں لکھ دیتیں.مجھے پھر بیس کے دو صفحے بنانے پڑتے.مگر ان کا خلوص قابلِ قدر تھا.119
نئی در ثمین اردو مع فرہنگ اشاعت کا کام با قاعدہ شروع ہونے سے بہت پہلے کی بات ہے.درثمین سے انتہائی محبت اور دلی وابستگی کی وجہ سے پڑھنے والوں کا غلط تلفظ شن کر کوفت ہوتی.خیال آیا کہ ڈرثمین کے مشکل الفاظ اعراب اور معانی کے ساتھ ایک چھوٹی سی کتاب کی صورت میں مرتب کئے جائیں تو بہت فائدہ ہو.مشکل اور طویل محنت طلب کام تھا.ہر لفظ 'شاعر کا مقام و مرتبہ اور شعر کا مزاج ذہن میں رکھ کر سوچنا تھا.بہر صورت دعا کرتے کرتے کام کیا.کام مکمل کر کے حضور پر نور کو بھیجا تو آپ کا ارشاد موصول ہوا : در ثمین کے مشکل الفاظ کے معانی پر مشتمل مسودہ میں نے دیکھا ہے.ماشاء اللہ آپ نے خوب محنت کی ہے.اللہ تعالیٰ مبارک کرے اور ہر لحاظ سے مفید بنائے بہتر ہو کہ نئی در ثمین شائع کریں جس میں ہر مشکل اور اہم لفظ کا تلفظ بیان ہوا اور زیر زبر ڈال کر اس کی حرکات کو نمایاں کیا جائے اردو تر جمہ کے ساتھ انگریزی بھی دیں...پس بہتر ہو کہ اس ہدایت کی روشنی میں نئی در ثمین شائع کریں.“.( 16 جنوری 1983 ) کلام کی نئے سرے سے کتابت کرانے کا ارشاد موصول ہونے پر پہلے کتابت کی غلطیاں وغیرہ ٹھیک کرنے کے لئے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ کتابت در کتابت کی وجہ سے بہت جگہ اصلاح کی ضرورت ہے.ایک ایک نظم کی تحقیق کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے پہلے ایڈیشن سے لفظ بلفظ ملا کر مسودہ درست کر کے کتابت کروائی اور ہر 120
سیلاب رحمت صفحے کی ان گنت دفعہ پروف ریڈنگ کی تا کہ غلطی کا حتی الوسع امکان نہ رہے.بہت سے مقامات ایسے تھے جن کے متعلق حضور انور سے دریافت کر کے فیصلہ لیا.ان سب مراحل میں بے حد بار یک نظری سے کام کرنے کی وجہ سے کئی سال لگ گئے.حضرت اقدس کے کلام میں وبے رہنے کا موقع ملا جس کا اپنا ہی لطف ہے.دعاؤں کی نعمتیں مستزاد : آپ کی رپورٹ محررہ 90-11-13 ملی جزاکم اللہ احسن الجزاء آپ ماشاء اللہ بہت اہم کام کر رہی ہیں اور بہت بڑی خدمت ہے آپ خدا کے فضل سے اس کی اہل بھی ہیں.نئی نسلوں کے تلفظ میں تو اتنی غلطیاں ہیں کہ سُن کر دل کڑھتا ہے اور اچھی آوازوں والے بھی غلط تلفظ کی وجہ سے مزاکر کرا کر دیتے ہیں.اللہ آپ کی محنت کو پھل لگائے اور لوگ فائدہ اُٹھا ئیں.“ ( مكتوب:24.11.90) اس ضمن میں ایک بے بہا نعمت میسر آئی جس کو ریکارڈ میں لانا ہمارے لئے باعث سعادت ہے.خاکسار نے مکرم مولا نا دوست محمد شاہد صاحب سے استفسار کیا کہ در ثمین کا پہلا ایڈیشن کب منظر عام پر آیا؟ آپ نے اس کے جواب میں ایک مبسوط مضمون رقم فرمایا.عنوان تھا: در ثمین کا پہلا ایڈیشن اور اس کی سوسالہ اشاعتوں پر ایک طائرانہ نظر یہ طائرانہ نظر کسی زاغ و زغن کی نہ تھی ایک عقاب کی تھی جس کی دور رس نگاہوں میں تاریخ کا ہر پہلو ستحضر رہتا ہے.( یہ مضمون شائع ہو چکا ہے ) اس مضمون کے ساتھ ہمیں سب سے پہلے شائع ہونے والی در ثمین کے ٹائٹل کا عکس بھی عنایت کیا جو ہماری کتاب میں شامل 121
سیلاب رحمت ہے.اس کے ساتھ آپ نے جو دعائیں دیں، ہمیں نہال کر گئیں.تحریر بھی خوبصورت ہے: ” خدائے ذوالعرش ہم سب کو بے شمار حقائق و معارف سے لبریز اس آسمانی خزانہ کی عظمتوں کو پہچاننے کے لئے چشم بصیرت عطا فرمائے اور اسے دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کی توفیق بخشے آمین.بلا شبہ تینوں میں سے ہر ایک درثمین حضرت مسیح موعود کی تمام کتب، مکتوبات، اشتہارات اور ملفوظات کا جامع خلاصہ بھی ہے اور زندہ ء جاوید اور حیرت انگیز علمی نشان بھی.“ گلوسری کی ابتدائی محنت کی توفیق خاکسار کو ملی مگر خوب سے خوب تر کرنے میں مکرم نورالدین منیر صاحب، مکرم منصور احمد قریشی صاحب، مکرمہ نصری حمزه صاحبه، مکرمه محموده امته السمیع صاحبہ کا تعاون حاصل رہا.فجز اھم اللہ تعالیٰ احسن الجزا.مسلسل جدوجہد میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے من حيث لا يحتسب درواز - کھلتے رہے تیاری کا کام مکمل ہوا.اشاعت کے منصوبے بن رہے تھے کہ ایک امتحان بھی آیا.14-3-96 کا تحریر کردہ حضرت صاحب کا ارشاد موصول ہوا جس کا مضمون یوں تھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب صرف مرکزی ادارے ہی شائع کر سکتے ہیں کسی ذیلی تنظیم یا فرد کو اجازت نہیں.آپ سارا کام ناظر صاحب اشاعت ربوہ کے حوالے کر دیں.اس ارشاد پر عمل بہت مشکل تھا تا ہم مولیٰ کریم نے حوصلہ دیا.اطاعت میں برکت کی تربیت کام آئی اور ہمت کر کے سارا کام نظارت اشاعت کے حوالے کر دیا اور دوسری کتابوں میں مصروف ہو گئی.آپا سلیمہ میر صاحبہ امریکہ سے واپس آئیں تو پوچھا درثمین کا کام کہاں تک پہنچا ہے.میں نے صبر و ضبط کے ساتھ ساری روداد سنادی.پوچھا تم نے اپیل کی.میں نے جواب دیا نہیں.122
سیلاب رحمت اللہ تعالیٰ اور اُس کا پیارا خلیفہ سب جانتے ہیں اس لئے اس خیال سے کہ اسی میں بہتری ہوگی کوئی اپیل نہیں کی.مگر شاید میری آنکھوں نے کچھ کہ دیا.مجھے بتائے بغیر آپا سلیمہ صاحبہ نے حضور پر نور کو خط لکھ دیا.کچھ ہی عرصے کے بعد پیارے حضور کا خط موصول ہوا: آپ کو در ثمین اردو مع فرہنگ کی اشاعت کی استثنائی صورت دو میں اجازت ہے.66 میں کیوں کر گن سکوں تیری عنایات ترے فضلوں سے پر ہیں مرے دن رات 1998ء میں خاکسار کولندن جانے کی توفیق ملی.دلی تمنا بر آئی اپنے ہاتھ سے درثمین کی ڈمی حضور کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت پائی.اجازت ملنے پر اشاعت کے مراحل شروع ہوئے.کئی دشوار گزار راہوں سے گزر کر جولائی 2003ء میں کتاب چھپ کر آئی تو پیارے حضور اس دنیا میں نہیں تھے.سب سے پیارے نے اپنے اور ہمارے پیارے کو اپنے پاس بلا لیا تھا.ہمیں قدم قدم پر پل پل حضرت صاحب کی شفقتوں کی عادت ہوگئی تھی بہت بڑا دھکا لگا ایسا خلا جو کبھی پر نہیں ہو سکتا.یہ سب رو داد جو میں لکھ رہی ہوں اس کا مقصد بھی خلیفہ وقت کی مہربانیوں کی وسعتوں کا ذکر کرنا ہے.ساری کائنات میں ایک ملک ، ایک ملک میں ایک شہر، ایک شہر میں ایک تنظیم، ایک تنظیم کا ایک شعبہ...ایک ذرہ ناچیز اور اس پر لطف و کرم کی بارش.الحمد لله رب العلمين ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم 123
حصہ دوم خلافت خامسہ میں شعبہ اشاعت لجنہ کراچی کی اشاعتی خدمات اللہ تعالی کے فضل و کرم سے جون 2003 ء میں انتہائی خوبصورت در ثمین زیور طبع سے آراستہ ہوئی.کتاب کے استقبال کے لئے ہم شعبہ اشاعت والے محترمہ آپا سلیمہ میر صاحبہ کے گھر جمع تھے.کتاب دیکھ کر دل حمد و شکر اور آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں.دراصل حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی یاد نے بے قابو کیا ہوا تھا.آپا میری کیفیت سمجھ رہی تھیں.انتہائی گرم جوشی سے خاکسار کو لپٹا کر مبارکباد دی.قیمتی خوشبو کا تحفہ دیا اور اس سے بھی قیمتی ایک نصیحت کی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں خوشی دی ہے.اس کے شکرانے میں خود کو سنبھالو.اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا، ہر حال میں اللہ کے آگے جھکو.اتنے پیار اور مان سے کی ہوئی نصیحت سیدھی دل میں اتری.مجھے محسوں اور ایک دم روشنی تیز ہوگئی ہے.اللہ تعالی ہماری مہربان آپا کو سلامت رکھے.ہم نے سب سے پہلے کتاب پر حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مبارک نام لکھا اور خدمت گزاروں کے لئے دعا کی درخواست کے ساتھ تحفہ بھیجا.بفضل الہی حضور انور نے اس پیشکش کو پسند فرمایا اور خدمت گزاروں کو دعاؤں سے نوازا تحریر فرمایا: ور ثمین کا نیا نسخہ مل گیا ہے.ماشاء اللہ آپ لوگوں نے اس پر خوب محنت کی ہے.طباعت بھی عمدہ اور دیدہ زیب ہے.جزاکم اللہ 124
احسن الجزا کتنابڑا انعام کتنا بڑا خزانہ.الحمد للہ ثم الحمد للہ.الفضل ربوہ نے بہت خوبصورت تبصرہ لکھا: ( مکتوب ۱۵ مئی ۲۰۰۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کے ساتھ عشق کا یہ بھی تقاضا ہے کہ اس کے معانی بھی سمجھ میں آجا ئیں اور اس کے تلفظ کا بھی خیال رکھتے ہوئے درست ادائیگی کے ساتھ اس پاک اور شیریں کلام کو یاد کیا جائے اور اس سے لذت حاصل کی جائے.مشکل الفاظ کے معنی اور الفاظ کی درست ادائیگی کے لئے اعراب کا استعمال لجنہ اماءاللہ کراچی کی طرف سے شائع ہونے والی درثمین کے جدید ایڈیشن میں کیا گیا ہے.یہ خوبصورت ٹائٹل اور اعلی کا غذ پر چھپنے والی در ثمین فرهنگ ( Glossary ) کے ساتھ شائع کی گئی ہے.مشکل الفاظ پر زیر ز بر ڈال کر اس کی درست ادائیگی کے لئے رہنمائی کر دی ہے اور ہر نظم کے مشکل الفاظ کے معانی رومن الفاظ اور انگریزی ترجمے کے ساتھ فرہنگ میں دئے گئے ہیں.منظوم کلام 202 صفحات پر مشتمل ہے اور فرہنگ جس میں اردو الفاظ، انگریزی میں تلفظ ، اردو معانی اور انگریزی میں معانی شامل ہیں.یہ 79 صفحات الگ دئے گئے ہیں.درثمین میں جو حواشی دئے گئے ہیں ان کا انگریزی ترجمہ بھی علیحدہ ضمیمہ کی صورت میں دیا گیا ہے.125
حضرت مسیح موعود پر مقدمہ قتل کی تفصیل اور در شمین میں مذکور بعض افراد کا انگریزی میں تعارف ضمیمہ نمبر ۲ اور نمبر ۳ میں دیا گیا ہے.در ثمین کا خوبصورت ٹائٹل اور بعض خطاطی کے نمونے مکرم ہادی علی صاحب نے بنائے ہیں.خوبصورت طباعت اور اعلی رنگین صفحات کے ساتھ شائع ہونے والی در ثمین مع فرہنگ کلام الامام کو نئی نسل اور انگریزی ماحول میں پلنے والے طبقے میں متعارف اور روشناس کروانے کے لئے خاص طور پر مفید رہے گی.اس علمی کاوش پر لجنہ اماء اللہ کراچی تحسین کی مستحق ہے.اللہ تعالی مرتبہ اور جملہ انتظامیہ کو اس کی جزا عطا کرے.اس کتاب کے مسودے کی تیاری میں سیدنا حضرت خلیفہ مسیح کی راہنمائی اور دعائیں شامل حال رہی ہیں.اللہ تعالی ہمیں اس کتاب کے شیریں ثمرات سے متمتع فرمائے.آمین.(الفضل ربوه ۲۲ ستمبر ۲۰۰۳) اس موقع پر محترم شیخ ادریس صاحب کی مہارت محترم خالد محمود اعوان صاحب کی دلفریب کیلیگرافی اور محترم ہادی علی صاحب کے فن کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں.الحمد للہ یہ کتاب اب مستقل قادیان سے شائع ہو رہی ہے اور دنیا بھر میں دستیاب ہے.ہماری تہتر ویں کتاب ہجرت مکرم عبد الستارخان صاحب اور مکرم صفدر نذیر گولیکی صاحب مربیان سلسلہ کی اس موضوع پر گہری تحقیق پر مشتمل ہے.یہ ۲۰۰۳ء میں شائع ہوئی.الفضل نے سیر حاصل تبصرہ لکھا:.” ہر مامور من اللہ کی آمد ہجرت کی متقاضی ہے کیوں کہ وہ ایک نئی 126
رحمت زمین اور نیا آسمان آباد کرتا ہے جس کی طرف وہ بنی نوع انسان کو بلاتا ہے اور لوگوں کو اللہ کی طرف فرار اور ہجرت اختیار کرنے کی دعوت کرتا ہے.معاصی کی دنیا سے ہجرت کر کے مومنین عافیت کے حصار میں چلے آتے ہیں.اس ہجرت کے نتیجہ میں اللہ تعالی اپنی بے شمار رحمتیں اور برکتیں مہاجرین پر نازل فرماتا ہے.یہ تو ایک روحانی ہجرت کا مضمون ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ظاہری ہجرت کا مضمون بھی ابتدا سے جاری ہے.آنحضرت سیلی تم نے اپنے صحابہ کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت فرمائی اور پھر خود بھی منشائے الہی کے موافق اپنے وطن مالوف مکہ کو چھوڑ کر مدینہ ہجرت کی جس کے بعد عظیم فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا.آپ نے دینی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا کہ اصل مہاجر وہ ہے جوان تمام اقوال و افعال کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جان نثار رفقاء نے آپ کی خاطر اپنے وطن چھوڑ دئے اور اپنے دیار محبوب قادیان میں مستقل طور پر آباد ہو گئے.داغ ہجرت کا الہام بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہو تقسیم برصغیر کے بعد جماعت احمدیہ نے قادیان سے پاکستان ہجرت کی اور ربوہ کا عظیم شہر بسایا جہاں سے توحید کی صدا دنیا بھر میں بلند کی گئی اور ۱۹۸۴ ء کے پر آشوب دور میں حضور انور ہجرت کر کے دیار مغرب تشریف لے گئے اور پھر جماعت احمدیہ کی عالمگیر اور عظیم الشان 127
سیلاب رحمت ترقیات کے دور کا آغاز ہوا.ہجرت کے روحانی اور ظاہری مفہوم اس کی عظیم برکات، اس کے بارے میں دینی تعلیم ،انبیاء علیہم السلام کی ہجرت ، آنحضرت مال یتیم اور آپ کے صحابہ میھم السلام کی ہجرت اور اس کی برکات ، حضرت مسیح موعود کے رفقاء کی ہجرت ، ہجرت قادیان اور اس کی برکات، حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی ہجرت کے نتیجے میں نازل آسمانی افضال کا تذکرہ اس کتاب میں کیا گیا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کتاب کے دونوں مرتبین مربی صاحبان کو جزا عطا روزنامه الفضل ربوه ۱۲۸ پریل ۲۰۰۳) فرمائے.“ چوہترویں کتاب ہجرت مدینہ اور مدینہ میں آمد ہماری سیرت نبوی کے سلسلے کی کتاب ہے.یہ بھی ۲۰۰۳ء میں منظر عام پر آئی.سیرت نبوی پر آسان زبان میں سلسلہ وار کتابوں میں یہ آخری کتاب ہے.کراچی لجنہ کے حصے میں یہ سعادت بھی آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے پہلے شہید صاحبزادہ مرزا غلام قادر احمد صاحب پر کتاب پیش کی.یہ ہماری پچھتر ویں کتاب ہے جو 2003 ء میں شائع ہوئی.اس کی تیاری کے لئے صاحبزادہ صاحب کی والدہ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ اور بیگم مگر مہ امتہ الناصر نصرت صاحبہ نے بہت تعاون کیا.تصاویر بھی دیں.خلافت لائبریری کے مکرم شہزاد عاصم صاحب نے مواد کا بڑا حصہ مہیا کیا.مکرمہ برکت ناصر احب تو ہر کام میں سلطان نصیر ہیں.فجر اہم اللہ تعالی.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے کتاب موصول ہونے پر ایک خوبصورت مکتوب سے نوازا: 128
سیلاب رحمت آپ کے شعبہ اشاعت کی طرف سے شائع ہونے والی نئی تصنیف 'مرزا غلام قادر احمد موصول ہوئی.جزاکم اللہ احسن الجزاء.ماشاء اللہ بڑی اچھی ترتیب دی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے صاحبزادہ عبداللطیف شہید کی شہادت پر فکر کا اظہار کیا تھا اور اس امید کا بھی کہ اس معیار قربانی پر شاید کچھ اور لوگ بھی قائم ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے تقریباً 95 سال بعد آپ کی نسل میں سے ہی ، آپ کے خون میں سے ہی وہ اعلی معیار قربانی کرنے والا پیدا کر دیا جس نے اپنی جان کو تو قربان کر دیا لیکن جماعت کو ایک بہت بڑے فتنے سے بچالیا.اے قادر تجھ پر ہزاروں سلام! جماعت میں تیری یہ قربانی ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھی جائے گی.قادر سے میرا ایک ذاتی تعلق بھی تھا.آپ کی کتاب دیکھ کر تمام پرانی یادیں ذہن میں آنا شروع ہوگئیں.اس کا مسکراتا چہرہ اکثر نظروں کے سامنے آ جاتا ہے.وہ خوب صورت بھی تھا.خوب سیرت بھی تھا.جب حضور رحمہ اللہ نے مجھے ناظر اعلیٰ اور امیر مقامی مقرر فرمایا تو میں نے اپنے لئے اس کی نظروں میں اخلاص اور اطاعت کا وہ جذبہ دیکھا جس کو صرف میں محسوس کر سکتا ہوں.یہ صرف اس لئے کہ خلیفہ وقت کی اطاعت کا اعلیٰ معیار اس وقت قائم ہوسکتا ہے جب اس کے بنائے ہوئے امیر کی بھی کامل اطاعت کی جائے.بہر حال آپ کی کتاب دیکھ کر بہت دور چلا گیا ہوں.اللہ تعالیٰ 129
سیلاب رحمت اس کے درجات بلند تر کرتا رہے.اس کے بچوں کی حفاظت کرے.اللہ کرے یہ کتاب نوجوانوں میں جذبہ اخلاص اور قربانی کو بڑھانے کا ذریعہ ثابت ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو جزاء دے.آمین.“ والسلام مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس الفضل انٹرنیشنل نے لکھا: زیر نظر کتاب صاحبزادہ مرزا غلام قادر احمد کی شخصیت کے ہر پہلو کا احاطہ کر کے قاری کو بتاتی ہے کہ آپ لاکھوں میں ایک کیوں کر تھے.دنیا میں کروڑ ہا لوگوں کی سوانح لکھی جاتی ہیں جنہیں پڑھ چکنے کے بعد آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ اس شخصیت کو گو یا ذاتی طور پر جانتے ہیں کامیاب سوانح عمری وہی ہوتی ہے جس کو پڑھتے ہوئے آپ اس کے مرکزی کردار کی نشست و برخاست، عادات واطوار، چشم تصور سے دیکھنے لگیں محسوس کرنے لگیں.قادر شہید پر لجنہ اماءاللہ کراچی کی اس کتاب کو پڑھتے ہوئے قاری کو شہید اپنے آس پاس محسوس ہوتے ہیں.کتاب کا آغاز حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کے اس خطبہ سے ہوتا ہے جس میں حضور رحمہ اللہ نے صاحبزادہ مرزا غلام قادر احمد کو خراج تحسین پیش کیا.پھر قادر شہید کا تعارف.اگر چہے 'خود آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے 130
سیلاب رحمت مگر تعارف کی خوبصورتی یہ ہے کہ پڑھ کر قاری کو معلوم ہوتا ہے کہ قادر شہید کا سلسلہ نسب ، ننھیال ددھیال ہر دو طرف سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کس طرح جاملتا ہے.ایسی بلند پایہ شخصیت پر یہ کتاب تحریر اور تالیف کر کے شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ کراچی نے ایک عظیم خدمت سر انجام دی ہے.اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبول فرمائے.“ 66 الفضل انٹر نیشنل ۹ جنوری (۲۰۰۴) الفضل ربوہ کے تبصرے سے اقتباس درج ہے: محنت و کاوش سے تیار کی گئی اس کتاب کے کل اٹھارہ ابواب ہیں جن میں شہادت کے دلگداز واقعات کے ساتھ ساتھ شہید مرحوم کے خاندانی پس منظر، بچپن، اعلی تعلیمی کیریر ، دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد، خدمات دینیہ کے علاوہ آپ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر آپ کے رفقائے کار کی تحریرات شامل ہیں.شعرائے کرام نے جو خراج تحسین آپ کو پیش کیا ہے ان کی منظومات کو بھی اس میں شامل اشاعت کیا گیا ہے.جماعتی ہلکی وغیر ملکی اخبارات ورسائل میں آپ کی شہادت پر جو خبریں اور تبصرے شائع ہیں وہ بھی کتاب کا حصہ ہیں.کتاب خوب صورت ٹائٹل کے ساتھ شائع ہوئی ہے.سرورق پر شہید مرحوم کی تصویر جبکہ پس ورق پر مرحوم کے بچوں کا گروپ فوٹو ہے.کتاب میں شہید کے بچپن سے وفات تک کی تصویری جھلکیاں بھی شامل اشاعت ہیں.131
سیلاب رحمت آسمانِ احمدیت کے اس درخشندہ ستارے کی سیرت و سوانح یقیناً ہمارے لئے اور ہماری نسلوں کے لئے روشنی کا مینار ثابت ہوگی کیوں کہ یہ رہ وفا کے مسافر کا روشن تذکرہ ہے.“ ہماری چھہترویں کتاب شہر انبیاء.یروشلم ہے.یہ تحقیقی کتاب ہماری فرمائش پر مکرم مظفر احمد چودھری صاحب مربی سلسلہ آرکیالوجسٹ پروفیسر جامعہ احمد یہ ربوہ نے تحریر کی.اس کی اہمیت کا اندازہ الفضل کے درج ذیل تعارف سے ہوتا ہے: لجنہ اماءاللہ کراچی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے گزشتہ ایک عرصے سے مختلف موضوعات پر کتب کی اشاعت کا مفید سلسلہ شروع کئے ہوئے ہے.ان کی مطبوعات معلومات میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں.یہ کتب بڑوں اور بچوں دونوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تالیف ہو رہی ہیں.زیر نظر کتا بچہ شہر انبیاء یروشلم کے بارے میں مفید معلومات پر مشتمل ہے.یروشلم تاریخی مقدس شہر ہے.جس کے ساتھ یہود، نصاری اور مسلمان تینوں مذاہب کی روحانی وابستگی ہے.اسے شہر ہے.اسے انبیاء بھی کہا جاتا ہے اور یہ ارضِ مقدس فلسطین میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے.یروشلم میں بہت سے ایسے مقامات ہیں جو کسی نہ کسی حوالے سے یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے مقدس ہیں.قبلہ اوّل بھی اسی شہر میں ہے.یہود کی دیوار گریہ مسجد اقصیٰ اور عیسائیوں کا مقدس مقام قبر مسیح اور قبۃ الصخرہ اسی شہر میں ہیں.مختلف ادوار میں اس شہر پر مختلف حکومتوں کا قبضہ رہا ہے.حضرت داؤد اور حضرت سلیمان نے اسی 132
سیلاب رحمت شہر کو دارالحکومت بنایا.حضرت عیسی کے وقت یہاں رومیوں کی حکومت تھی.حضرت عمر نے یہاں مسجد تعمیر کرائی.یہ مختصر کتاب یروشلم کی تاریخ، اس کے مقام اور موجودہ صورتِ حال کے بارہ میں ٹھوس معلومات فراہم کر رہی ہے.“ (الفضل ربوہ 26 دسمبر 2003ء) ہم شعبہ اشاعت کے خدمت گزاروں کے لئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دعاؤں سے معطر خطوط سب سے بڑا انعام ہیں.مکتوب ملاحظہ ہو: آپ کی طرف سے بھجوائی گئی دونئی مطبوعات ملیں.ماشاء اللہ دونوں بڑی محنت سے تیار کی گئی ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اللہ تعالیٰ انہیں جماعت کے لئے مفید اور بابرکت بنائے.اللہ آپ کے ساتھ کام کرنے والی تمام مہرات کا بھی نگہبان ہو اور انہیں اپنے فضلوں کا وارث بنائے.خدا تعالیٰ آپ کو دین و دنیا کی بہترین برکات وحسنات کا وارث بنائے اور ہر آن آپ کی نصرت فرماتا چلا جائے.اللہ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنے فضل ورحم سے نوازتار ہے.آمین.اللہ کرے کراچی جماعت کو آپ جیسی ادب سے دلچسپی رکھنے والی اور قربانی کرنے والی خواتین ہمیشہ ملتی رہیں.آمین.والسلام مرزا مسرور احمد ( مکتوب 24 جنوری 2004ء ) سترویں اور اٹھتر ویں نمبر پر دو جلدوں میں مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ہیں.یہ 2004ء میں شائع ہوئی.پہلی جلد 720 اور دوسری 558 صفحات پر مشتمل 133
سیلاب رحمت ہے.یہ کتابیں ہمارے شعبہ کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہیں.اس خدمت کی سعادت ہمیں مکرمہ آیا طیبہ صدیقہ صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کے توسط سے ملی.آپ نے مکرم حبیب الرحمن زیروی صاحب کے تعاون سے الفضل کے فائلوں سے حوالے جمع کئے ہوئے تھے.ہماری صدر آپا سلیمہ میر صاحبہ سے ان مضامین کی اشاعت کی خواہش کا اظہار کیا.آپ نے حامی بھری اور یہ کام خاکسار کے سپر د کر دیا.مکرمہ برکت ناصر صاحبہ نے مضامین خلافت لائبریری سے فوٹوسٹیٹ کروائے.ایک نعیم بھاری بھر کم خزانہ تھا جسے ترتیب دینا تھا.اللہ تعالی سے دعا کر کے کام کا آغاز کیا.کام شدید محنت طلب تھا مگر پر لطف بھی تھا.علوم کا ایک خزانہ ہاتھ لگا تھا.مضامین اتنے متنوع تھے کہ صرف انڈیکس ترتیب دینے میں مہینہ بھر تو گا ہوگا.پھر کتاب کے آغاز میں حضرت میر صاحب کی سیرت و سوانح بھی شامل کی.یہ کام بھی ایک الگ مستقل کتاب ہے.اس کا محرک حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک ارشاد بنا.حضور نے ۳ جنوری ۱۹۹۹ء کی اردو کلاس میں فرمایا تھا: " حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل بہت قابل انسان تھے.ان کی سیرت پر پوری کتاب شائع ہونی چاہئے.لطیفہ گو بھی تھے بہترین سرجن اور قرآن کا گہر اعلم رکھنے والے تھے بہت قابل انسان تھے.“ محنت کا ذکر اس لئے آجاتا ہے کہ محنت ہوئی تھی مگر تھکن یا اکتاہٹ کبھی نہیں ہوئی.ہمیں ساتھ کے ساتھ دعا ئیں ملتیں جس سے نئی توانائی آجاتی.جب بھی کوئی نئی کتاب آتی ہم حضور انور کی خدمت میں کتاب اس کے مصنف اور سب معاونین و معاونات کے لئے دعا کی درخواست بھیجتے.حضور کی دعاؤں سے ہماری عید ہو جاتی.کسی دوسرے کو ہماری خوشی کا اندازہ نہیں ہوسکتا.اس کتاب کی وصول یابی پر حضور انور ایدہ اللہ نے تحریر فرمایا: 134
سیلار آپ اور آپ کی پوری ٹیم ماشاء اللہ بڑا قابل قدر کام کر رہی ہے اور معیاری خدمت کی سعادت پارہی ہے الحمد للہ.الھم زد و بارک اللہ لکم.دعاؤں پر زور دیں.اللہ تمام معاونین اور معاونات کو اپنے دائمی فضلوں کا مورد بناوے اور زندگی کی خوشیاں ہی خوشیاں دے.“ ایک دوسرے مکتوب میں حضور نے تحریر فرمایا: وو (۸) جون ۲۰۰۴) شعبہ اشاعت کراچی کی طرف سے مرسلہ کتاب 'مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل ، مل گئی ہے.ماشاء اللہ آپ کی یہ ستتر ویں پیش کش بہت عمدہ ہے.جزاکم اللہ احسن الجزا.آپ کا بیت بازی والا خیال بھی بہت عمدہ ہے.جزاکم اللہ احسن الجزاء.یہ فقرہ ذہن میں آنے کے بعد جب میں نے دیکھا تو حضور رحمہ اللہ نے بھی تبصرے میں یہی فقرہ استعمال کیا ہوا تھا.اللہ تعالیٰ آپ کی تمام کا وشوں کو بے انتہا برکتوں سے نوازے.خدا تعالیٰ آپ کے لئے آسانیاں پیدا کرے اور آپ کو 66 اپنے فضل وکرم سے نوازتار ہے.آمین.“ الفضل انٹرنیشنل نے اس کتاب پر بہت خوب تبصرہ کیا : (۱۲ جولائی ۲۰۰۴) " حضرت مسیح موعود " کے نسبتی بھائی، حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم کے بھائی ، حضرت مصلح موعود کے ماموں اور خسر ،حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے بھائی، حضرت ام متین مریم صدیقہ صاحبہ حرم 135
ย سیلاب رحم حضرت مصلح موعود کے والد ، ایک حاذق طبیب ، ڈاکٹر ، دینی علوم کے عارف و ماہر.ایسے عظیم المرتبت انسان کے رشحات قلم الفضل کی فائلوں میں بکھرے پڑے تھے.یہ جواہر ریزے عام انسان کی پہنچ سے دور تھے.خدا تعالیٰ بہترین جزا عطا فرمائے امتہ الباری ناصر اور ہر اس شخص کو جس کی توجہ اس خزانے کو جمع کر کے عام افادہ کے لئے پیش کرنے کی طرف مبذول ہوئی.“ الفضل انٹر نیشنل اگست ۲۷ تا ۲ ستمبر ۲۰۰۴) ہماری کاوش کی پذیرائی الفضل ربوہ کے تبصرہ نگار کے قلم سے دیکھئے :..حضرت ڈاکٹر صاحب موصوف کے الفضل میں شائع ہونے والے قیمتی مضامین کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے علاوہ اس کتاب میں آپ کے بارے میں حضرت مسیح موعود ، حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ” کے پر معارف ارشادات اور آپ کی سیرت و سوانح کی جھلکیاں بھی شامل کی گئی ہیں جس سے اس کتاب کو چار چاند لگ گئے ہیں.گویا آپ کے مضامین کے مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے حالات زندگی پڑھ کر معلومات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل حضرت امام حسین کی ۴۴ ویں اور خواجہ میر درد کی پانچویں پشت سے تھے...آپ کے مضامین کی ان دونوں جلدوں میں موضوع کے لحاظ سے گیارہ ابواب بنائے گئے ہیں.باب اول میں آپ کی سیرت و سوانح - باب دوم میں بزرگانِ سلسلہ کے 136
رحمت آپ کے بارے میں تاثرات اور خراج محبت اور تیسرے باب سے ان موضوعات کے مطابق مضامین کو ترتیب دیا گیا ہے: توحید.قرآن مجید.حضرت محمد مصطفی صلی یا یہ ہیں.حضرت مسیح موعود اور خاندان.حضرت خلیفہ المسیح الثانی.متفرق مضامین.دوسری جلد باب نہم سے شروع ہوتی ہے.اس جلد میں مندرجہ ذیل موضوعات کے مطابق مضامین کو درج کیا گیا ہے.بعض مضامین کے متعلق قرآن مجید سے استدلال ، بعض سوالات کے جواب اور بعض بزرگان کے شجرہ نسب وغیرہ.حضرت مسیح موعود کے یہ عظیم رفیق جن کو خدا تعالیٰ نے زبان و بیان اور قلم کے استعمال پر دسترس عطافرمائی تھی ، ان کے یہ مضامین مطالعہ کر کے اس بات کا بخوبی ثبوت مل جاتا ہے.بلا شبہ لجنہ کراچی کی یہ ایک قابل قدر کاوش ہے.آج کی نسل کے لئے دو جلدوں پر مشتمل یہ کتاب ایک قیمتی سرمایہ ہے جس کو پڑھ کر اپنی زندگیوں میں انقلاب لایا جاسکتا ہے اور اپنے اظہارِ خیال اور قلم کا رخ بھی متعین کیا جاسکتا ہے.“ (الفضل ربوہ ۲۸ جولائی ۲۰۰۴) مؤرخ احمدیت مکرم دوست محمد شاہد صاحب نے اپنے مکتوب محرره ۴ جولائی ۲۰۰۴ میں تحریر فرمایا: مضامیں حضرت میر محمد اسمعیل ، تصوف و اخلاق کا مرقع گویا انسائیکلو پیڈیا کی دو جلدوں میں زیور طبع سے آراستہ ہوا ہے.اس 137
مت شاندار پیشکش پر مسیح الزماں علیہ السلام کے الہامی الفاظ میں سومبارک جشن تشکر کے سلسلہ میں لجنہ کراچی نے دنیا بھر میں حسین، معلومات آفریں اور بیش قیمت لٹریچر شائع کرنے کا ریکارڈ قائم کر دکھایا ہے جو حیرت انگیز بات ہے.رب کریم اپنی آسمانی افواج کے ذریعے 66 روح القدس سے تائید خاص فرمائے.آمین.“ آئمکرم نے الفضل ربوہ میں اپنے مضامین کے سلسلہ عالم روحانی کے لعل و جواہر نمبر 402 میں بھی ہماری کاوش کو سراہا.جوہری کی قدرشناسی ملاحظہ ہو: حضرت میر محمد اسمعیل صاحب اسسٹنٹ سرجن کے عارفانہ قلم سے کتاب اللہ کی غیر محدود کائنات اور وسیع جہان کے چند بصیرت افروز نمونے ہدیہ ناظرین کئے جاتے ہیں جو آپ نے قرآن مجید کے گہرے مطالعہ کے بعد الفضل قادیان کے مختلف شماروں میں چھپوائے اور عالمگیر جماعت احمدیہ کے علم و عرفان میں بیش بہا اضافہ کا موجب بنے.خدا تعالی جزائے عظیم بخشے محترمہ امتہ الباری صاحبہ کراچی کو جنہوں نے بے پناہ دیدہ ریزی ، کمال عرق ریزی، شبانہ روز تشخص اور محنت شاقہ سے حضرت میر صاحب کے اس گنج گراں مایہ کو دو جلدوں بعنوان مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل میں محفوظ کر دیا ہے.اور دونوں کی اشاعت لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کی رہین منت ہے.علوم قرآن کی رسائی پانے کے لئے یہ ایک بہتر تحفہ ہے.138
سیلاب رحمت یاد رکھ لیک کہ غلبہ نہ ملے گا جب تک دل میں ایمان نہ ہو ہاتھ میں قرآن نہ ہو لمصلح موعود ) مکرم حنیف احمد محمود صاحب مربی سلسلہ نے اس طرح حوصلہ افزائی فرمائی: لجنہ اماءاللہ کراچی کی گراں قدر کتب نظر سے گزرتی رہتی ہیں اور داد کے ساتھ دعا بھی لیتی ہیں.دوجلد پر مشتمل مضامین حضرت ڈاکٹر میر اسمعیل صاحب بلجنہ اماءاللہ کراچی کا سنہری کارنامہ ہے اور جماعت کے لٹریچر میں گراں قدر اضافہ ہے.70-80 سال قبل لکھے گئے پر معارف مضامین جو اخبارات میں شائع ہوئے اور ان میں سے بعض نکات پہلی دفعہ جماعتی لٹریچر میں آئے ، اب دب کر رہ گئے تھے.اس خزینہ کو دوبارہ منظرِ عام پر لانے کی سعادت لجنہ اماءاللہ کراچی کے حصے میں آئی.فجز اھا اللہ تعالیٰ.66 اناسی ویں کتاب مختصر تاریخ احمدیت ہے جو ۲۰۰۴ ء میں شائع ہوئی.یہ مکرم شیخ خورشید احمد صاحب اسٹنٹ ایڈیٹر الفضل ربوہ نے مرتب کی تھی.کینیڈ انتقل ہونے کے بعد اس کی اشاعت کے حقوق لجنہ کراچی کو دے دئے.ہم نے اس میں بعض جگہ سہو کتابت وغیرہ کی اصلاح اور خلافت خامسہ کے ۲۰۰۳ ء تک کے اضافوں کے ساتھ شائع کروائی.ہمیں حضور انور سے دعائیں ملیں : " آپ کا خط ملا ما شاء اللہ اچھا ٹیم ورک کا مظاہرہ ہے.اللہ برکت دے اور لوگوں کو ان سے فائدہ اٹھانے اور عمل کی توفیق دیوے اور اپنے 139
سیلاب رحمت فضلوں اور رحمتوں سے حصہ دیتا رہے.اھم آمین.جزاک اللہ خیرا.اللہ بے لوث مخلصین کی تعداد میں مزید اضافہ کرے اور ہر ایک کا حافظ و 66 ناصر ہو.(۲۸ ستمبر ۲۰۰۴) کتاب کا موضوع تاریخ تھا.ہمیں مؤرخ احمدیت مکرم مولا نا دوست محمد شاہد صاحب سے سند اور دعائیں ملیں.صد سالہ جشن جو بلی کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ جیسی جامع اور مستند معلومات پر مشتمل پیشکش پر سو مبارک باد.یہ دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا کہ اس نئے ایڈیشن میں خلافت خامسہ کے انقلاب آفریں عہد کے ۲۰۰۳ ء تک کے روح پرور واقعات بھی زیب اشاعت ہیں.جملہ کارکنات ادارہ اشاعت کی خدمت میں ہدیہ سلام و تبریک.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عہدِ حاضر میں دین کی نصرت یعنی لسانی اور قلمی جہاد کرنے والے خوش نصیبوں کی شان و عظمت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا ہے: اگر امروز فکر عزت دیں در شما جوشد شمارا نزدِ الله رتبت و عزت شود پیدا پھر جناب الہی میں دعا کی : کریما صد کرم کن بر کسے کو ناصر دین است بلائے او بگردان گر گہے آفت شود پیدا الحمد للہ یہ دعا عالی بارگاہ میں لجنہ اماءاللہ کراچی کی نسبت بھی مقبول 140
سیلاب رحمت دکھلائی دے رہی ہے.اسی لئے خدا کی دی ہوئی توفیق کی شاہراہ پر کراچی کی خواتین احمدیت برق رفتاری سے مردانہ وار آگے بڑھ رہی ہیں.۲۰۰۴ء میں ہماری آٹھویں نمبر پر چھپنے والی کتاب The Nazarene Kashmiri Christ کا تیسر انظر ثانی شدہ ایڈیشن شائع ہوا.ہمیں خوشی ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الی مس ایدہ اللہ تعالی نے پسند فرمائی.آپ کا پیارا مکتوب ملا: ”آپ کی طرف سے بھجوائی گئی کتاب The Nazarene Kashmiri Christ موصول ہوئی.ماشاء اللہ اچھی کاوش ہے.اللہ تعالیٰ مکرمہ محمودہ امتہ السمیع وہاب صاحبہ کو بھی بہترین جزا عطا فرمائے.جنہوں نے اس کوشش میں آپ کی بھر پور معاونت فرمائی.اللہ تعالیٰ آپ تمام ممبرات کو مقبول خدمت کی توفیق عطا فرمائے.“ (200315) اسی ویں کتاب غیبت ایک بدترین گناہ 2004ء میں شائع ہوئی.مکرمہ امۃ الرشید ارسلہ صاحبہ نے محنت اور شوق سے مرتب کی.الفضل ربوہ نے تعارف میں لکھا: لجنہ اماء اللہ کراچی صد سالہ جشن تشکر کی خوشی میں گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف علمی و تربیتی عنوانات پر کتب کی اشاعت کی توفیق پارہی ہے.زیر تبصرہ کتاب اس سلسلے کی 80 ویں کڑی ہے.زیر تبصرہ کتاب میں قرآن وحدیث اور سلسلے کے لٹریچر سے مذکورہ بالا بیماری سے بچنے کے بارہ میں ارشادات جمع کر دئے گئے ہیں.اللہ تعالی ہمیں اس 141
سیلاب رحمت برائی سے محفوظ رکھے اور خوب صورت معاشرہ کے قیام میں اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق دے.آمین.تم دیکھ کر بھی بد کو بچو بد گمان سے ڈرتے رہو عتاب خدائے جہان سے (الفضل ربوه ۴ مئی ۲۰۰۵) اکاسی ویں کتاب محسنات، مکرمہ بشریٰ بشیر صاحبہ سابق پرنسپل جامعہ نصرت ربوہ نے مرتب کی جو ۲۰۰۵ ء میں شائع ہوئی.۲۸۴ صفحات کی اس کتاب کے رنگین ٹائٹل کا بنیادی خیال ہم نے حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کے ایک مکتوب سے لیا تھا.جس میں حضور نے لجنہ کراچی کو شہد کی مکھیاں قرار دیا تھا.ہم نے اس کتاب پر شہد کی مکھیوں کے چھتے کی تصویر ڈال کر بڑا لطف لیا.محسنات میں احمدی خواتین کے تعلق باللہ ، عشق رسول صلی ایتم ، قرآن سے محبت ، زہدو تقوی، صبر و رضا، اکرام ضیف، توکل علی اللہ، دعوت الی اللہ، مال، جان عزت و وقت کی قربانیوں کی داستانیں اور جرات و بہادری کے ایمان افروز واقعات جمع کر دئے گئے ہیں.اس کتاب کی صورت میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر عمل کی ایک صورت بنی آپ نے یکم اگست 1992ء کے خطاب میں فرمایا: ”ہماری خواتین کی قربانیاں پس پردہ ہیں اس میں دکھاوے کا کوئی بھی دخل نہیں اور خدا کے حضور وہ قربانیاں پیش کرتی چلی جاتی ہیں.یہاں تک کہ کبھی کسی امام وقت کی نظر پڑ جائے تو وہ چند نمونے دانہ دانہ چن کر تاریخ کے واقعات میں محفوظ کر دیتا ہے...آپ کی اگلی نسلوں کی 142
سیلاب رحمت حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ ان کے علم میں ہو کہ ان کی مائیں کیا تھیں ، ان کی بہنیں کیا تھیں، ان کی نانیاں، دادیاں کیا چیز تھیں.کس طرح انہوں نے احمدیت کی راہ میں اپنے خون کے قطرے بہائے اور 66 اس کی کھیتی کو اپنے خون سے سیراب کیا.“ الفضل ربوہ نے لکھا: الاز ہارلذوات الخمار جلد دوم حصہ اول صفحه ۲۶۷) اس کتاب کا مطالعہ نہ صرف احمدی خواتین کے ازدیاد ایمان کا باعث ہوگا بلکہ ان کے گھروں کو بھی جنت نظیر بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا.اس میں جن قابلِ رشک خواتین کے پاکیزہ اخلاق اور سچے واقعات کو پیش کیا گیا ہے.اس سے روشنی حاصل کر کے نہ صرف وہ اپنے قلوب کو منور کر سکیں گی بلکہ اس کونسل درنسل اکناف عالم میں پھیلاتی چلی جائیں گی.(الفضل ربوہ ۷ جنوری ۲۰۰۶) حمد و مناجات لجنہ اماء اللہ کراچی کی بیاسی ویں پیش کش ہے.۲۰۰۵ء میں شائع ہونے والی اس کتاب میں احمدی شعراء کا حمد و مناجات کے موضوع پر منظوم کلام یکجا کیا گیا.یہ انتہائی با برکت خدمت مکرمہ برکت ناصر صاحبہ کے حصے میں آئی.حضرت اقدس مسیح موعود نے زندہ خدا سے والہانہ پیار کی جو مے جماعت کو پلائی تھی اس کا خمار احمدی شعرا کے بیان حمد و ثنا میں منعکس ہے جو زبان و بیان کو ایک نرالا حسن عطا کرتا ہے.سو شعراء کا حمدیہ کلام جمع کرنا شدید محبت اور محنت کا متقاضی ہے.یہ فرض مسز ناصر صاحبہ نے خوب ادا کیا ہے.ان کے لئے اور ان کی معاونات کے لئے جزائے خیر کی دعا ہے.143
سیلاب رحمت حمد و ثنا اسی کو جو ذات جاودانی ہمسر نہیں ہے اس کا کوئی، نہ کوئی ثانی ۲۰۰۶ ء میں ہمیں ایک اور سعادت نصیب ہوئی.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کا مجموعہ کلام بخار دل جو قریباً نایاب ہو چکا تھا اسے دوبارہ خوبصورتی سے لکھوا کر شائع کیا گیا.یہ لجنہ کراچی کی تراسی ویں کتاب ۳۰۴ صفحات پر مشتمل ہے.مکرم ہادی علی صاحب کے تیار کردہ رنگین ٹائٹل کے ساتھ یہ کتاب حسین تر ہو گئی ہے.الفضل کا تبصرہ بہترین تعارف ہے: خانزادہ میر درد کی شعری روایات کے پاسدار اور حضرت میر ناصر نواب کے صاحبزادے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کا وجد آفریں کلام خوبصورت انداز میں شائع کرنے کی سعادت لجنہ کراچی کے حصے میں آئی ہے.اللہ تعالی کے فضل سے لجنہ کراچی صد سالہ جشن تشکر کے سلسلے میں کتب شائع کرنے کے منصوبے پر ثابت قدمی سے عمل کر رہی ہے.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کا شعری مجموعہ بخار دل اس سلسلہ کی تر اسی ویں کتاب ہے.قبل ازیں بارہ سوصفحات پر مشتمل مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی ترتیب و تدوین اور اشاعت کا طویل کام بھی لجنہ کراچی کے حصے میں آیا اور حضرت میر صاحب کے رشحات قلم کو سمیٹ کر اپنی بساط کے مطابق خوب صورتی سے پیش کرنے کی سعی بجائے خود بہت بڑی خوش نصیبی ہے...زیر تبصرہ کتاب میں محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ نے ان نظموں کو اوقات رض 144
سیلاب رحمت اشاعت کے مطابق ترتیب دیا ہے.علاوہ ازیں قطعات و رباعیات حصہ اول، حصہ دوم اور وفات کے بعد ملنے والے کلام سے لے کر یکجا کر دئے گئے ہیں.اسی طرح حضرت میر صاحب کی روایتی خوش طبعی اور مزاح کا رنگ لئے ہوئے نظمیں بھی ایک جگہ کر دی گئی ہیں.کتابت کی بعض اغلاط کو درست کر کے مشکل الفاظ پر اعراب لگا کر کھلا کھلا لکھوایا گیا ہے.لجنہ کراچی نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ بخار دل حسین تر ہو کر منظر عام پر آئے اور اس کا ظاہری حسن اس کے معنوی حسن تک رسائی میں مددگار ہو." کلام محمود مع فرہنگ (الفضل ۵ اکتوبر ۲۰۰۶) ۲۰۰۶ ء ہی میں ہمیں چوراسی ویں کتاب کلام محمود مع فرہنگ پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.درثمین اردو مع فرہنگ ۲۰۰۳ء میں شائع ہوئی تو ہماری صدر صاحبہ نے کلام محمود مع فرہنگ کی فرمائش کر دی.حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے اجازت اور دعا کی درخواست کے لئے خط لکھا تو آپ کی طرف سے جواب ملا : کلام محمود پر کام ضرور کریں.“ اللہ تعالی کا نام لے کر کلام محمود پر تحقیق شروع کی.حضرت مصلح موعود کی حیات میں سب سے آخر میں چھپنے والی کلام محمود کے مطابق کلام پر اعراب لگائے الفاظ کھلے کھلے 145
سیلاب رحمت لکھوائے محترم خالد اعوان صاحب کی خوب صورت کتابت نے کلام طاہر اور در ثمین والی مانوس تحریر کو برقرار رکھا.اس کتاب میں پہلی دفعہ حضرت مصلح موعودؓ کے اپنی نظموں کے متعلق لکھے ہوئے نوٹ شامل کئے.گلوسری میں مکرمہ نصری حمزہ کا پر خلوص تعاون حاصل رہا.مکرم بادی علی صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ نے طغرے تیار کئے.مکرم شیخ داؤد احمد صاحب کی گرا فک اور ٹائٹل ڈیزائننگ نے طباعت کو خوب صورت بنایا.مکرمہ برکت ناصر صاحبہ، مكرمه امتة الحفیظ بھٹی صاحبہ اور مکر مہ آپا سلیمہ میر صاحبہ نے ہر مرحلہ پر مدد کی.فجز اھم اللہ تعالی احسن الجزاء.پیارے حضور کی دعائیں شامل حال رہیں.کام خوب صورت ہوا: " آپ کا پر خلوص خط ملا جس میں آپ نے کلام محمود اور بخار دل پر ہونے والے کام اور دیگر مساعی کے بارے میں آگاہ کیا ہے.جزاک اللہ احسن الجزا.اللہ آپ کی کوششوں کو اپنی جناب میں قبول 66 فرمائے اور یہ ادبی کام ہر لحاظ سے معیاری ہو.الھم آمین.“ مورخ احمدیت مکرم دوست محمد شاہد صاحب نے اپنے مکتوب محررہ ۱۲ ستمبر ۲۰۰۶ء میں تحریر فرمایا: کلام محمود اور بخار دل کے لازوال اور لاثانی شعری، علمی، ادبی اور روحانی خزانے ملے.فجزاکم اللہ ثم جزاکم اللہ.دونوں عارفانہ مجموعہ ہائے کلام ظاہری و معنوی کمالات کا شاہکار ہیں جو شب و روز کی محنت شاقہ سے منظرِ عام پر آئے ہیں.خصوصاً کلام محمود جس کے آخر میں فرہنگ Glossary نے اس شاہی ایڈیشن کو چار چاند لگا دئے ہیں.خدا تعالی آپ سب کو اس قلمی جہاد میں ہر قدم پر اور ہر لحظہ روح القدس 146
سیلاب رحمت اور آسمانی افواج ملائک کے ساتھ نصرت خاص فرمائے.حضرت مسیح موعود کے الہامی و آسمانی الفاظ میں.مبارک سومبارک حضرت امام عالی مقام مهدی الزمان مسیح دوران نے ۱۸ / اکتوبر ۱۹۰۶ یعنی ایک صدی پیشتر در بار عام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ایک آدمی جس کے دل میں یہ بات ہو کہ خدا کے واسطے کام کرے وہ کروڑوں آدمی سے بہتر ہے.“ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۶۵) مبارک ہو لجنہ اماءاللہ کراچی ہر رکن خدا کے مرسل و مسیح کی اس بھاری بشارت کی مصداق نظر آ رہی ہے.ہم تہی دست ترے در پہ چلے آئے ہیں لطف سے اپنے عطا کر ید بیضا ہم کو کتاب کا تعارف الفضل ربوہ کی زبان میں : وو رض سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی پاکیزہ دینی شاعری کے چمکتے ہوئے ستارے ہیں آپ کی شاعری میں زندہ خدا، زندہ رسول صلی کی ستم اور زندہ کتاب، دعائیں، احباب جماعت کے لئے ہدایات و نصائح ، دعوت الی اللہ، فوز و فلاح ، روحانی عظمت کے مینار اور آسمانی حسن کی روحانی فضائیں شامل ہیں.یہ تمام الوہی موضوعات دراصل دہلی کی نکھری صاف ستھری اور سادہ اردو کے شہ پارے ہیں...زیر تبصرہ کتاب طباعت کا ایک نمونہ ہے.اس مجموعہ کلام کی کتابت مکرم خالد محمود اعوان صاحب نے کی ہے.یہ کتاب مضبوط جلد، 147
سیلاب رحمت جلد کے اوپر خوبصورت فلیپ اور آرٹ پیپر پر طبع کی گئی ہے.ہر نظم کو نئے صفحے سے شروع کیا گیا ہے.اس کتاب میں پہلی دفعہ حضرت مصلح موعودؓ کے اپنی نظموں کے بارے میں تحریر فرمائے ہوئے نوٹس بھی شامل کئے گئے ہیں.حضور کی ۲۱۱ نظموں کے علاوہ الہامی قطعات واشعار اور دیگر قطعات شامل ہیں.جو تحقیقی اور علمی کام اس کتاب کو دیگر سے ممتاز کرتا ہے وہ فرہنگ کو شامل کرنا ہے.۱۲۹ صفحات پر مشتمل اس فرہنگ میں اردو الفاظ ، ان کا انگریزی میں تلفظ اردو معانی اور انگریزی کے تفصیلی ترجمہ پر مشتمل ہے.ہر نظم کے الفاظ اور ان کے معانی الگ الگ لکھے گئے ہیں تا کہ ان کو تلاش کرنے میں آسانی ہو..لجنہ اماءاللہ کراچی کی یہ کاوش قابل قدر ہے ان کی طرف سے شائع ہونے والی دیگر کتب کی طرح یہ کتاب بھی جماعتی لٹریچر میں گراں قدر اضافہ ہے.(الفضل ربوه ۲۷ ستمبر ۲۰۰۶) ورثہ میں لڑکیوں کا حصہ ۲۰۰۶ ء میں شائع ہوئی.یہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا ایک معرکۃ الآرا مضمون ہے جسے دوبارہ بڑی تعداد میں طبع کرا کے افادۂ عام کے لئے پیش کیا گیا.ورثہ میں لڑکیوں کا حصہ پر مؤرخ احمدیت مکرم دوست محمد شاہد صاحب نے ۲۲ نومبر ۲۰۰۵ تحریر فرمایا: ”مبارک ہو قلمی جہاد کی پچاسی ویں منزل پر لجنہ کراچی پوری آب 148
سیلاب رحمت و تاب کے ساتھ پہنچ گئی ہے.جو خدا کے فضل اور خلفاء کی دعاؤں کا زندہ و تابندہ نشان ہے: بر کسے چو مہربانی می کنی از زمینی آسمانی می کنی چھیاسی ویں کتاب آپ بیتی از حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب مطبوعہ 2006ء کا تعارف الفضل ربوہ سے پڑھئے : ย لجنہ اماءاللہ کراچی کو خدا تعالیٰ کے فضل سے عرصہ دراز سے سلسلہ کی کتب طبع کروانے کی توفیق مل رہی ہے جس کی وجہ سے جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں بہت سے مفید اضافے ہوئے ہیں.بعض قدیم اور نایاب کتب بھی دوبارہ زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آئی ہیں جن میں سے ایک اہم کتاب حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کے نہایت ہی دلچسپ اور بے حد پر لطف سچے فسانوں پر مشتمل آپ بیتی شائع کی ہے.جس کو اگر پڑھنا شروع کیا جائے تو مکمل پڑھ کر ہی اطمینان ملتا ہے.اس سے پہلے حضرت ڈاکٹر میر صاحب کے رشحات قلم کو سمیٹتے ہوئے ان کے مضامین اور منظوم کلام بخار دل بھی لجنہ کراچی نے خوب صورتی سے طبع کروایا ہے.اس طرح انمول اور نایاب کتب کے خزانے میں عمدہ اضافے سامنے آئے ہیں.اس کتاب کا پہلا ایڈیشن حضرت محمد اسمعیل پانی پتی کی کاوشوں سے طبع ہوا تھا دوسرے ایڈیشن کی مرتبہ مکرمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ 149
فرمایا: عرض حال میں لکھتی ہیں : سیلاب رحم سلسلہ کے لٹریچر میں یہ منفرد خدا نما، سبق آموز من موہنی کتاب جو اپنی نایابی کے باعث گوی ثریا پر جا بیٹھی تھی اب آپ کے ہاتھوں میں ہے ہم نے کوشش کی ہے کہ اسے ہرممکن خوب صورتی سے مزین کیا جائے.سہو کتابت کی اصلاح کی ہے.الفاظ کھلے کھلے لکھوائے ہیں.پہلی دفعہ انڈیکس ترتیب دیا ہے.پہلے اس میں مزاحیہ نظمیں شامل تھیں مگر اب سب نظمیں بخار دل میں یکجا کر دی گئی ہیں.اس لئے اس نثری مجموعہ میں نظمیں شامل نہیں ہیں..لجنہ کراچی نے بڑی محنت اور لگن سے اس کتاب کو طبع کیا ہے...ہماری دعا ہے کی اللہ تعالیٰ وہ اغراض و مقاصد پورے فرمائے جن کو مدنظر رکھ کر حضرت ڈاکٹر صاحب نے اپنی زندگی کے تجربات مشاہدات و حوادث کو تحریر فرمایا ہے نیز اللہ تعالی لجنہ کراچی کی کاوشوں کو قبول فرمائے.“ الفضل ربوه ۲۷ مارچ ۲۰۰۸) حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی دعائیں ہمارا انعام ہیں.حضور نے تحریر " آپ کی مرسلہ کتابیں موصول ہوئیں جزاکم اللہ اللہ تعالیٰ اس اشاعت کو قبول فرمائے اور نافع الناس بنائے.الھم آمین.اللہ کرے لجنہ کراچی تقوی میں ترقی کرے اور اس جماعت میں قلم کا جہاد کرنے والیاں ہمیشہ پیدا ہوتی رہیں.الھم آمین.اللہ آپ کو اور آپ کی ٹیم کو 150
رحمت خدمت کی توفیق دیتا رہے اور ہمیشہ ہر شر سے بچائے اور اپنی رضا کی 66 راہوں پر چلائے آمین.فی امان اللہ “ (مکتوب ۲۶ جنوری ۲۰۰۶) مکرم مولا نا دوست محمد صاحب شاہد نے اس کوشش کو پسند فرمایا: آپ بیتی کا دلکش اور بیش بہا تحفہ ملا اور دل سے جملہ کارکنات کے لئے بہت دعائیں نکلیں.آپ سب مردانہ وار اشاعت کے جہاد میں پرچم لہراتے ہوئے نہایت برق رفتاری سے بڑھتی جارہی ہیں اور اب سنگ میل 84 تک پہنچ گئی ہیں.ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء (15 دسمبر 2007ء) ہماری گیارھویں کتاب ایک بابرکت انسان کی سرگزشت کا دوسرا نظر ثانی شدہ ایڈیشن 2007 ء میں شائع ہوا تو ہمیں مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب سے بہت خوب صورت داد ملی: جزاکم اللہ.ایک بابرکت انسان کی سرگذشت جیسی تازہ، گراں قدر اور محققانہ تالیف دیکھ کر دل باغ باغ اور روح تازہ ہوگئی.بالخصوص اس لئے کہ عنوان اور مضمون دونوں نے ایک جدید پیرایہ میں ضیافت طبع کا دلکش سامان پیدا کر دیا ہے.جو نفسیاتی اعتبار سے بہت مفید ہے.“ ( یکم نومبر 2007) ہماری ستاسی ویں کتاب کر نہ کر بھی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی تحریر کردہ ہے.جسے خوب صورتی سے نمبر لگا کر ترتیب سے صفائی سے لکھوا کر شائع کرنے پر مکرم دوست 151
محمد صاحب شاہد سے بہت شاباش ملی.اپنے 10 مئی 2008 ء کے مکتوب میں لکھتے ہیں : حضرت میر صاحب کا وہ شاندار رسالہ جو بیسویں صدی کے وسط میں خاکسار نے پہلی دفعہ پڑھا تھا.آپ کے طفیل ایک نئی شان سے طبع ہو کر ابھی ملا.جشن جو بلی اور اس مبارک کتاب کی.سو مبارک لجنہ کراچی کی سب ہی معزز ممبرات کی خدمت میں صمیم قلب سے ہدیہ تبریک.اگر غانا کی لجنہ نے بظاہر ضیافت مہمانانِ مسیح موعود میں ریکارڈ قائم کیا ہے تو ممبرات کراچی نے طویل عرصہ پر پھیلے ہوئے علمی مائدہ سے پوری جماعت میں حقائق و معارف پہنچانے کی توفیق پائی ہے.یہ رسول اللہ صلی اینم کا خزانہ ہے جس کی تقسیم مسیح الزماں کے ہاتھوں مقدر تھی.شہ لولاک یہ نعمت نہ پاتے تو اس دنیا سے ہم اندھے ہی جاتے رسائی کب تھی ہم کو آسماں تک جو اڑتے بھی تو ہم اُڑتے کہاں تک“ تواریخ مسجد فضل لنڈن از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل یہ کتاب پہلے ۱۹۲۷ء میں شائع ہوئی تھی اور نایاب ہو چکی تھی.لجنہ کراچی نے یہ کتاب نئے سرے سے کمپوز کروا کے مع نایاب تصاویر شائع کی یہ ہماری اٹھاسی ویں کتاب ہے.اس سے قبل حضرت میر صاحب کے مضامین دو جلدوں میں ۱۲۸۰ صفحات، بخار دل ۳۰۴ 152
رحمت صفحات ، آپ بیتی ۲۲۰ صفحات ، کر نہ کر ۷۸ صفحات پر مشتمل شائع کر چکے تھے.اس کتاب کے ساتھ یہ سیٹ مکمل ہوا.حضرت میر صاحب کو ایسی مسجد کی تاریخ مرتب کرنے کی توفیق ملی جو آئندہ جماعت احمدیہ میں ایک مرکزی حیثیت اختیار کرنے والی تھی.اس مسجد نے چار خلفاء کرام کوسر بسجود ہوتے دیکھا.حضرت میر صاحب نے مسجد کے آغاز سے افتتاح تک سب شواہد جمع کر دئے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ۱۹۲۴ ء میں یورپ کے دورے پر تشریف لے گئے تھے.اسی دورے میں آپ نے ۱۹ / اکتوبر ۱۹۲۴ کو مسجد فضل کا سنگ بنیا درکھا.آپ کے دورے کی رپورٹیں قادیان آتیں ، حضرت میر صاحب نے ان رپورٹوں کو ترتیب دے کر بہت خوب صورتی اور لگن سے آغاز سے افتتاح تک کی تاریخ مرتب فرمائی جو ہر لحاظ سے ایک قیمتی دستاویز ہے.اس وقت کے اخباری تراشوں سے واضح ہوتا ہے کہ مسجد کے افتتاح کو غیر معمولی اہمیت ملی.الفضل ربوہ نے اس خدمت کو سراہا : زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں حضرت مسیح موعود اور جماعت احمدیہ کا مختصر تعارف بیرونی ممالک میں دعوت الی اللہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا مبارک دور جیسے مضامین شامل کئے گئے ہیں.ان وقیع مضامین کے بعد تحریک مسجد فضل لندن، مذہبی کا نفرنس لندن اور احمد یہ سفارت سلسلہ کی مساعی کے انگلستان میں ظاہری شمرات مسجد فضل لندن کے متعلق پیش گوئیاں ، تقریب سنگ بنیاد کا احوال، پریس میں کوریج، افتتاح کا پروگرم ، افتتاحی پروگرام میں شریک ہونے والے عمائدین کے تاثرات و پیغامات جیسے اہم عناوین کے تحت تفصیلات درج ہیں اور 153
اس کے ساتھ ساتھ بعض نایاب بلیک اینڈ وائٹ تصاویر شامل کی گئی ہیں.منفرد اور تاریخی معلومات پر مشتمل یہ کتاب تاریخ احمدیت انگلستان میں ایک بہت اہم دستاویز ہے.لجنہ اماءاللہ کراچی نے اس کو دوبارہ شائع کیا ہے اس کے مطالعہ سے آج کی نوجوان نسل کے علم میں احمدیت کی ترقی کے حوالے سے بہت سے گوشے وا ہوں گے.“ (الفضل ربوه ۲۴ جنوری ۲۰۱۲) ہماری نواسی ویں کتاب رفقاء احمد کی قبولیت دعا کے واقعات از مکرم عطاء الوحید باجوہ صاحب مربی سلسلہ نے تحریر کی اور ہم نے ۲۰۱۱ء میں شائع کی.مکرم مولا نا دوست محمد شاہد صاحب نے لکھا: سال نو کی صد مبارک اور ایمان افروز کتاب رفقاء احمد کی قبولیت دعا کے واقعات کے دو نسخے عطا کرنے پر بے حد شکریہ.فجز اکم اللہ.لجنہ اماءاللہ کراچی کے مسلسل قلمی جہاد کی اس نئی پیش کش کو بھی عرش پرسند قبولیت کا شرف عطا ہو اور بندگانِ الہی کے لئے دعاؤں کی تحریک کا مؤثر اور کارگر ذریعہ بنادے تا وہ زندہ ایمان کی اس چٹان پر کھڑے ہو جا ئیں کہ غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے اے ، مرے فلسفیو زور دعا دیکھو تو جنوری ۲۰۰۹) نوے ویں کتاب شادی بیاہ کے موقع پر بیٹی کو نصائح ہے.۲۰۱۰ ء کی مجلس مشاورت 154
ب رحمت ربوہ کی اصلاحی سفارشات کی روشنی میں عائلی مسائل کے حل کی ایک کوشش ہے جو مکرمہ امتہ المومن مودود خان صاحبہ (نائب صدر اول) نے مجلس گلشنِ جامی کی ممبرات کے تعاون سے تیار کی.قرآن پاک اور احادیث مبارکہ سے استفادہ کے علاوہ بزرگان کی اپنے بچوں کو نصائح جمع کی گئی ہیں.یہ کتاب بہت مقبول ہوئی.جب بھی لجنہ کی طرف سے کسی کو شادی کا تحفہ دیتے ہیں اس میں یہ کتاب شامل کی جاتی ہے.ایک چھوٹا سا اقتباس برکت کے لئے درج ہے جو کشتی نوح صفحہ ۱۹ سے لیا گیا ہے: ” جو شخص اپنی اہلیہ اور اس کے اقارب سے نرمی اور احسان کے ساتھ معاشرت نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.“ لجنہ کراچی کو بعض مربیان کرام نے اپنی کتب اشاعت کے لئے دیں.ان میں سمندر پار سے مکرم عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لنڈن کی کتاب بھی شامل ہے.آپ کی کتاب علم و عمل، ہم نے بڑی خوشی سے بڑے خوبصورت رنگین سرورق کے ساتھ ۲۰۱۰ء میں شائع کی جو ہماری اکانوے ویں پیش کش ہے.كتاب الصلوة مخ العبادة، مكرمه امۃ النور طیب صاحبہ ( بنت معین ) نے اپنے والد محترم پیر معین الدین صاحب مرحوم کی خواہش اور معاونت سے مرتب کی.فجز اھم اللہ تعالیٰ احسن الجزا.الفضل ربوہ نے تبصرہ کیا: لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی نے صد سالہ جشن تشکر کے سلسلہ میں کم از کم سو کتب کی اشاعت کی ذمہ داری لی تھی.اس حوالہ سے زیر تبصرہ 155
كتاب الصلوة مخ العبادۃ اس سلسلہ کی 92 ویں کڑی ہے.مشتمل ہے.پہلا حصہ نماز کے حوالے سے یہ کتاب دو حصوں پر ترتیب دئے گئے مختلف عناوین مشتمل ہے جنہیں ابواب میں باندھا گیا ہے.جبکہ دوسرا حصہ فقہی مسائل پر مشتمل ہے.اس کتاب کے تمام مضامین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں نہایت خوبی سے پیش کئے گئے ہیں.اس کے علاوہ راہنمائی کیلئے کتاب کے شروع میں انڈیکس بھی دیا گیا ہے.مادیت کے اس دور میں اس موضوع پر یہ کتاب ایک مفید اضافہ ہے.دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں جس میں عبادت نہ ہو.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جن وانس کو میں نے محض عبادت کیلئے پیدا کیا ہے اور عبادات میں اقم الصلوة کا تاکیدی حکم قرآن کریم میں بار بار آیا ہے.یعنی نماز کو قائم کرو.زیر تبصرہ کتاب نماز کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات پر مشتمل ہے جس کا ٹائٹل آنحضرت صلی ایتم کی ایک حدیث الصلوة مخ العبادة ہے.یعنی نماز عبادت کا مغز ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے عبادت گزار بندوں میں شامل ہونے کی توفیق اور ہمت دے.آمین.“ 66 2010ء میں ہی ایک چھوٹی سی کتاب اچھی مائیں.تربیت اولاد کے دس سنہری گراز حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد شائع کی گئی.اسی سال مکرمہ سلیمہ شاہنواز صاحبہ کی بڑے شوق اور لگن سے مرتب کردہ قرآن مجید میں آنے والی ' انبیا علیہم السلام کی دعائیں، شائع 156
سیلاب رحمت ہوئی.62 صفحات کی اس مختصر کتاب میں ہر دعا کا پس منظر بھی بیان کیا گیا ہے جس سے دعاؤں کا مفہوم سمجھنا آسان ہو گیا ہے.الفضل ربوہ نے اس کاوش کو بایں الفاظ سراہا: کتاب کے آغاز میں قرآن کریم احادیث نبویہ اور ارشادات حضرت مسیح موعود علیہ السلام شامل کر کے خوب صورتی میں اضافہ کیا گیا ہے.ان کے علاوہ قبولیت دعا کے اصول، شرائط اور اوقات تحریر کئے گئے ہیں.بعدہ انبیا کی دعا ئیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک چنیدہ بندوں کو خود سکھائیں، بالترتیب جمع کی ہیں تا کہ پڑھنے والوں کو آسانی ہو علم میں اضافہ ہو اور از دیا دایمان کا موجب بنے.(الفضل ربوه ۱۰ جون ۲۰۱۰ء) مکرمہ امۃ الرشید ارسلہ صاحبہ کی مرتبہ حسن اخلاق بھی ۲۰۱۰ء میں چھپی.اس کتاب پر الفضل نے تبصرہ میں لکھا: ” جماعت احمدیہ میں مضامین لکھنا اور نقار پر تیار کرنا ایک خاص اہمیت رکھتا ہے.انصار، لجنہ ، خدام ، اطفال اور ناصرات مقابلہ جات کے لئے اپنی اپنی سطح پر شوق اور جذبے سے تقاریر کی تیاری کرتے ہیں.جن کو راہنمائی کرنے والے اچھے اور تجربہ کار احباب و خواتین مل جاتی ہیں وہ تو مقابلوں میں آگے نکل جاتے ہیں اور بعض مواد کی تیاری نامکمل ہونے یا صحیح ترتیب نہ ہونے کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں.مضمون لکھنا یا تقریر تیار کرنا با قاعدہ ایک فن ہے.مہارت سے تیار کی 157
سیلاب رحمت ہوئی تقریر یا مضمون ضرور مقبول ہوتے ہیں.ایسے میں اگر مختلف موضوعات پر مواد ایک کتاب میں مل جائے تو یہ سارے مراحل قدرے آسان ہو جاتے ہیں.اس مشکل کو آسان کیا ہے لجنہ اماءاللہ کراچی نے جن کے زیر اہتمام صد سالہ جشنِ تشکر کے سلسلے میں بہت سی مفید کتب احمد یہ لٹریچر کا حصہ بن چکی ہیں.اسی سلسلہ کی یہ کتاب نمبر ۹۵ ہے جس میں مضامین و تقاریر تیار کرنے کے لئے امدادی مواد جمع کیا گیا ہے.اس اہم کتاب میں روزمرہ کے ۲۷ موضوعات کو لیا گیا ہے...اس کتاب کے موضوعات میں آیات قرآنی احادیث نبوی ، ارشادات حضرت مسیح موعود، واقعات اور اشعار وغیرہ درج کئے گئے ہیں...چار رنگوں کے خوب صورت ٹائٹل اور اعلیٰ طباعت کے ساتھ عمدہ مواد پر مشتمل یہ کتاب نو آموز لکھنے والوں کے لئے بہت مفید اور اہم ہے اللہ تعالی لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی کی انتظامیہ کو جزائے خیر عطا فرمائے.“ (الفضل ربوه ۲۶ مارچ ۲۰۱۲) چھیانوے دیں کتاب قدرت ثانیہ کا دور اول.حضرت خلیفتہ امسیح الاول مکرم عبد الباسط صاحب شاہد کی تحریر کردہ تاریخی اہمیت کی کتاب ۲۰۱۲ء میں قادیان سے شائع ہوئی.کراچی میں مختلف وجوہات کی بنا پر ایک وقت ایسا آگیا کہ کتابیں شائع کرنا ممکن نہ رہا.ایک دھن میں مست بھاگتے ہوئے جھٹکے سے رُکنا دو بھر تھا.کتابیں تیار تھیں، مگر چھپوانا مشکل تھا ، بے بسی کی صورت تھی.اسی دوران خاکسار پاکستان سے امریکہ آگئی.یہاں سے کتب کی اشاعت کے لئے مکرم خورشید خادم صاحب سے قادیان میں رابطہ کیا تو راہیں کھل 158
رحمت گئیں.تعطل جو برداشت نہیں ہو رہا تھا دور ہو گیا.خورشید خادم صاحب نے بڑی مہارت ، عمدگی اور خلوص سے تعاون کیا.حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ عنہ خاکسار نے مرتب کی.اس کے لئے ابتدا میں مکرمہ رضیہ صادق صاحبہ نے نوٹس مہیا کئے تھے مگر بعد میں تحقیق اور سن رائز کے پرچوں سے بہت سے مواد کا اضافہ کیا.با تصویر کتاب ہے.جس کے ٹائٹل پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر ہے.جس میں آپ کی چھڑی کے آخری حصے کو تھامے آپ کے قدموں میں حضرت مفتی صاحب بیٹھے ہیں.یہ گویا کتاب کا خلاصہ ہے.یہ کتاب بڑے مشکل مراحل سے گزر کر ۲۰۱۲ء میں منظرِ عام پر آئی.اس کی کمپوزنگ اور تصاویر کی سیٹنگ کا کام قادیان میں ہوا.جسے ہم نے ربوہ سے شائع کروایا.یہ کتاب جماعت امریکہ نے ہماری اجازت سے امریکہ سے بھی شائع کی.جماعت کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے.الفضل ربوہ نے مفصل تعارف پیش کیا: حضرت مفتی محمد صادق صاحب عفی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جامع حالات زندگی محترمہ امۃ الباری صاحبہ نے مرتب کئے ہیں.یہ لجنہ اماءاللہ کراچی کے شعبہ تصنیف کی صد سالہ جشنِ تشکر کے سلسلہ کی کتاب نمبر ۹۷ ہے.اس کے بعد کتاب سے چیدہ چیدہ واقعات اور سترہ تصانیف کی فہرست اور حضرت حافظ مختار شاہجہان پوری صاحب کے اشعار درج کئے ہیں : کیسے کیسے مرے غم خوار چھٹے ہیں مجھ سے وائے تقدیر کہ وقف غم ہجراں ہوں میں 159
سیلاب رحمت نہ ہیں اب حضرت صادق نہ غلام غوث آہ کیا سے کیا ہوگیا آشفتہ و حیراں ہوں میں آرزو ہے کہ انہیں قرب الہی مل جائے ان پر اس فضل، اس انعام کا خواہاں ہوں میں سب مندرجہ بالا امور کی تفصیل آپ کو اس خوب صورت کتاب میں ملے گی.اللہ تعالیٰ اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ نافع الناس الفضل ۲۴ جولائی ۲۰۱۴) بنائے.اٹھانوے ویں کتاب زندہ درخت ہے.یہ عجیب حسن اتفاق ہے کہ اس کتاب کا موضوع ایک صحابی مسیح الزماں حضرت میاں فضل محمد صاحب اور ایک درویش قادیان مکرم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت کے حالات ہیں اور یہ قادیان سے ہی شائع ہوئی.۴۰۰ صفحات پر مشتمل با تصویر کتاب ۲۰۱۲ء میں منظر عام پر آئی.اس کتاب کی خصوصی اہمیت یہ ہے کہ ایک درویش نے اپنی یادداشتیں لکھی تھیں جو ابتدائے درویشی کے چشم دید حالات کی تاریخی دستاویز ہے، جسے درویش کی بیٹی نے قدرے مرتب کر کے پیش کیا ہے.گویا باپ بیٹی نے مل کر لکھا ہے.اس کتاب سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ جو اس کے در کا فقیر ہو جاتا ہے اس کی آل اولاد کی اللہ تعالیٰ خود کفالت فرماتا ہے.مکرم مبارک احمد نذیر صاحب مشنری انچارج جماعت احمدیہ کینیڈا نے خاکسار کے بھائی کے نام مکتوب میں اظہار خوشنودی کیا جو ہمارے لئے باعث اعزاز ہے: "This book has been my companion for the past two weeks.I have read and reread most of it.There are incidents in this book that my wife and I read 160
many many times.Masha Allah it is wonderful written by our imminent scholar and writer Mrs Amtul Bari Nasir sahiba.She has penned many grand books that are now an integral part of our Jamaat literature.Regarding the book I can say that once you pick it up it is so enchanting that it is difficult to put it down.Many inspiring incidents that I was unaware of came to light by only reading this treatise.I was particularly fascinated by the often heard poetic single verse of Hadhrat Massih-e-Maood (as) on the title page.How true indeed! "All the trees that had a flicker of life in them, blossomed - They were thus copiously blessed and laden with sweet fruit" (This is just my rough translation).Now we all know your family and source of those blessings.May Allah reward these stalwarts and companions of Hadhrat Massih-e-Maood (as).May we also leave behind such a progeny who will carry on the struggle and navigate humanity to the Gracious and Merciful Allah and to follow the example of the Great Exemplar (sas).- If possible please convey my haphazard sentiments and thanks to this our illustrious writer and scholar Amatul Bari Nasir and tell her on our behalf Jazakamulllah Ahhsanal Jaza.Wassalam Mubarak A.Nazir (Missionary In-charge AMJ Canada)" 161
فارسی در ثمین مع اردو ترجمہ - ٹرانسلٹریشن - فرہنگ ہمارے سر کا تاج ننانوے ویں کتاب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی فارسی در ثمین مع فرہنگ ہے.کلام محمود مع فرہنگ کی اشاعت کا کام ۲۰۰۵ء میں مکمل ہوا تھا.مسلسل شدید محنت اور لگن سے کام کرتے ہوئے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے ہم دنیائے شعر کے سارے پہاڑ سر کر کے بیٹھے ہوں.کلام محمود حضور انور کی خدمت میں بھیج کر جواب کا انتظار کر رہے تھے.پیارے حضور کا مکتوب ملا، حسب معمول دعا پڑھتے ہوئے کھولا.اس میں تحریر تھا کہ: آپ نے کلام طاہر ، در ثمین، کلام محمود کا کام بہت خوبصورتی سے کیا ہے.اب حضرت اقدس مسیح موعود کی فارسی در ثمین بھی اعراب اور فرہنگ کے ساتھ تیار کریں.ہم حضور ایدہ الودود کی طرف سے دعاؤں کے انعام کے منتظر تھے.ہمیں دعاؤں کے ساتھ اتنا عظیم اتنا مقدس اتنا حسین انعام ملے گا ، یہ تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے.الحمد للہ ثم الحمد للہ.اس کے ساتھ حضور پر نور نے مکرم ناظر صاحب اشاعت ربوہ کو ہدایت فرمائی کہ لجنه کراچی کو فرہنگ اور اعراب کے ساتھ درثمین فارسی تیار کرنے کی اجازت میں نے دی ہے.اگر آپ کے پاس اس سلسلہ میں کوئی کام ہوا ہے تو اس کے بارہ میں ان کو بتا دیں.ہم خود کو اس کام کے اہل نہیں سمجھتے تھے.کچھ منٹ تو ہوش ٹھکانے نہیں رہے.پھر خیال آیا کہ خلیفہ وقت نے کام کے قابل سمجھا ہے تو اللہ تعالیٰ توفیق بھی دے گا.اسی دن سے منصوبہ بندی شروع کر دی.مکرم عبد الخالق بٹ صاحب چالیس سال ایران میں رہ کر آئے 162
سیلاب رحمت) تھے.مستعد اور مخلص سلطان نصیر بن گئے.فارسی درثمین میں الفاظ کو الگ الگ لکھوانے کے لئے نشان لگا کر دئے.اس کے ساتھ ہم نے اعراب لگانے کا کام کیا.جو صفحات تیار ہو جاتے مکرم ادریس صاحب اور مکرم شیخ داؤد احمد صاحب کو کمپوز کروانے کے لئے دے دئے جاتے.صفحے کا بارڈر اور لکھائی کے رنگ سب انہیں کا کمال فن ہے.بٹ صاحب اور خاکسار نے کتاب کے لئے صفحات تیار کرنے، پروف ریڈنگ ، ٹرانسلٹریشن اور اردو ترجمے کو لکھوانے کا کام کیا.اس کے ساتھ ساتھ مشکل الفاظ کی فہرست بھی بنائی.ان پر اعراب لگائے.اردو میں معانی لکھے جسے مکرمہ نصری حمزہ صاحبہ نے ترتیب دے کر انگریزی ترجمہ شامل کیا اور کمپوزنگ بھی خود کی.مکرم ہادی علی صاحب کو طغرے اور ٹائٹل بنانے کی درخواست کردی.مکرمہ برکت ناصر صاحبہ نے حوالے نکال نکال کر دئے.اس طرح ایک ساتھ چار محاذوں پر کام شروع کیا گیا.باقاعدگی سے حضور انور کی خدمت میں دُعاؤں سے مدد دینے کی درخواست کرتی.دعاؤں کا زاد راہ ملاحظہ ہو: مکر مہ امۃ الباری ناصر صاحبہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط ملا جزاک اللہ.اللہ توفیق دے اور مدد فرماتا رہے اور در ثمین فارسی کی طباعت اور اشاعت کا کام خوش اسلوبی سے مکمل ہو.آمین.اللہ کرے آپ لوگ ان ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں سرانجام دیتے رہیں اور ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور حفاظت اور رحمت آپ کے شاملِ حال رہے اور کام کرنے والوں اور خدمت کرنے والیوں پر خدائے رحمن 163
ہمیشہ رجوع برحمت ہو.آمین.دعاؤں پر زور دیں.اللہ ساتھ ہو اور ” سلطان القلم کے فیضان سے آپ کا قلم برکت پذیر رہے.آمین.فی وو امان الله ( 6 جون 2008ء) " آپ کا خط ملا جس میں آپ نے در ثمین فارسی، پر ہونے والے کام کی رپورٹ دی ہے.جزاکم اللہ خیرا.اللہ تعالیٰ آئندہ بھی مددفرماتا رہے اور آپ کی زیر نگرانی خوبصورت اور دیدہ زیب نسخہ سامنے آئے اور یہ درثمین ہر پڑھنے والے کے قلب وروح میں ایک نیا ایمان اور نیا جذبہ پیدا کرنے کا موجب بنے.اور احمدی اس کی برکتیں سمیٹنے والے ہوں.اھم آمین.اللہ ہمیشہ ساتھ ہو اور سب مدد کرنے والوں کو جزائے خیر دے اور آپ سب کو رمضان کی برکات سے حصہ دے.آمین.“ والسلام مرزا مسرور احمد (۱۰/اکتوبر ۲۰۰۷) سب کے مخلصانہ تعاون سے جو کتاب ہم نے تیار کر کے حضور ایدہ الودود کی خدمت میں ارسال کی اس کی چند خصوصیات درج ہیں : -1- حضرت اقدس علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں سب سے آخر میں چھپنے والی کتب سے فلمیں لی گئیں ان میں جو سہو کتابت کی غلطیاں تھیں ان کی حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے اجازت لے کر 164
اصلاح کی.-2 کتاب کا طرز تحریر بعینہ حضرت اقدس علیہ السلام کے زمانے کا رکھا گیا ہے.الفاظ کو مناسب فاصلہ رکھ کر کھوایا گیا تا کہ پڑھنے میں سہولت ہو 3- ابتدا میں سارے الہامی اشعار ترتیب نزول سے یکجا کر دئے گئے ہیں.4 کتاب میں شامل نظموں کو روحانی خزائن کی ترتیب سے لکھوایا گیا ہے.5.آخر میں متفرق اشعار، قطعات، رباعیات یکجا کر کے ترتیب سے ابواب بنائے گئے ہیں.ہر حصے میں اضافے بھی ہوئے ہیں.6.ساری کتاب میں ہر مصرع کے نیچے ٹرانسلٹریشن لکھوائی گئی ہے.7 - فرہنگ گلوسری میں اہم الفاظ کا تلفظ، اردو اور انگریزی معانی دئے گئے ہیں.8.فارسی کے وہ اشعار جو دوسرے شعراء کے حضرت اقدس نے اپنی کتابوں میں لکھے ہیں ان کی بھی ایک فہرست مع حوالہ جات بنائی.مکرم ہادی علی صاحب کے تیار کردہ ٹائٹل اور طغرے کتاب کے حسن میں اضافہ کر رہے ہیں.جولائی ۲۰۰۹ء میں ہم نے کام مکمل کر کے منظوری کے لئے حضور انور کی خدمت میں بھیج 165
سیلاب رحمت دیا.اپنی دانست میں ہر لحاظ سے مکمل کام کیا تھا لیکن جائے استاد تو خالی رہتی ہے.مکرم سید عاشق حسین شاہ صاحب نے ، جو یو کے میں فارسی ڈیسک کے انچارج ہیں، جائزہ لیا تو ترجمے میں بعض جگہ اصلاحات کی ضرورت محسوس کی.حضرت خلیفہ امسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے ذاتی دلچسپی لی.مکرم شاہ صاحب کے ساتھ ایک ایک شعر کے ترجمے پر نظر ثانی فرما کر ترجمہ منظور فرماتے پھر مکرم شاہ صاحب کمپوز کر کے مجھے بھجواتے ،اسے مسودے میں شامل کیا جاتا.یہ وقت طلب کام تھا جو بفضل اللہ مکمل ہوا.سارے ردو بدل کے بعد 2013 ء میں مسودہ مکمل کر کے پرنٹنگ کے لئے تیار ڈی وی ڈی اور ڈمی بنا کر لندن بھجوایا جوکہیں طاق نسیاں پر رکھا رہ گیا.اس حادثے کا علم 2016ء میں ہوا.پھر سے جگر لخت لخت جمع کرنا شروع کیا اس دوران پیارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر ناظر صاحب اشاعت ربوہ مکرم خالد مسعود صاحب اور ان کے ساتھیوں نے اردو ترجمہ کی نظر ثانی کی.ہم نے یہ تیسری دفعہ اصلاح شدہ ترجمہ کتاب میں سیٹ کیا.جلسہ سالانہ برطانیہ 2018 ء کے مبارک موقع پر مکرم ملک مظفر صاحب کی ذاتی توجہ سے رقیم پریس یو کے سے خوبصورت کتاب پرنٹ ہوئی.الحمد للہ علی ذالک.الفضل انٹر نیشنل نے اپنی 22 تا 29 مارچ 2019ء کی اشاعت میں ایک پر مغز معلوماتی تبصرہ شائع کیا ہے جس کا ایک حصہ پیش خدمت ہے: گزشتہ ایک صدی میں درثمین فارسی کے متعدد ایڈیشنز طبع ہو چکے ہیں.تاہم گزشتہ سال لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی نے اس مجموعہ کلام کو نہایت دیدہ زیب گیٹ اپ کے ساتھ شائع کرنے کی توفیق پائی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بلند پایہ منظوم کلام کی شوکت اور اس میں بیان فرمودہ 166
سیلاب رحمت مضامین کی عظمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے جس پرکشش انداز میں یہ پاکیزہ کلام زیب قرطاس کرنے کی سعی کی گئی ہے وہ یقینا اس دلی محبت کا آئینہ دار ہے جو حضور علیہ السلام اور آپ کے انقلاب آفریں علم کلام کیلئے آپ کے غلاموں کے دلوں میں موجزن ہے.فارسی زبان سے شناسائی نہ رکھنے والوں کیلئے بھی یہ ایڈیشن ایک گرانقدر تحفہ سے کم نہیں ہے کیونکہ طرز تحریر خوبصورت ، صاف اور واضح ہونے کے ساتھ ساتھ نقل صوتی (Transliteration) کی موجودگی فارسی زبان میں موجود منفرد لذت سے قاری کو لطف اندوز کرتی چلی جاتی ہے.عبارت کی سیٹنگ اور ڈیزائننگ ( یعنی کمپوزنگ ) بہترین ہے.منفرد آرٹ ورک اور شاندار گرافک ڈیزائین کے ساتھ عمدہ سفید کاغذ کا استعمال، رنگین طباعت اور دیدہ زیب ٹائٹل کی Hardbound کور کے ساتھ پیشکش میں جدید طباعت کے تمام اعلیٰ معیار ملحوظ رکھے گئے ہیں.مزید یہ کہ تمام تر ظاہری خوبیوں سے مرصع ، دوجلدوں پر مشتمل یہ مجموعہ کلام سلیس اور رواں اردو ترجمہ ( جو حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جیسے صاحب عرفان کی شاندار کاوش ہے) اور 70 سے زائد صفحات پر مشتمل فرہنگ (Glossary) بھی کتاب کے آخر میں شامل کر کے قاری کیلئے حتی المقدور آسانی پیدا کی گئی ہے.اسی طرح سارا مواد مستند حوالہ جات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے.گو یا ظاہری اور باطنی ہر دو پہلوؤں سے اعلیٰ درجہ پر 167
رحمت فائز ، شستہ زبان وادب کا مرقع اور علوم ومعرفت سے بھر پور یہ ایک شاہکار مجموعہ کلام ہے.690 صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب کو دوحصوں میں پیش کیا گیا ہے.جلد اوّل ابتدائی 341 صفحات پر مشتمل ہے.جو فارسی منظوم کلام اس میں شامل ہے اسے بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.کتاب کا با قاعدہ آغاز سید نا حضرت اقدس علیه السلام کے الہامی اشعار سے کیا گیا ہے جن کی تعداد 55 ہے.بعدہ 97 منظومات درج ہیں اور پھر 82 اشعار اس مجموعہ کلام کی زینت ہیں.نیز چند فارسی شعراء اور اساتذہ کے وہ اشعار بھی اس مجموعہ کلام میں شامل ہیں جو حضور علیہ السلام نے اپنی کتب میں متفرق مقامات پر نقل فرمائے ہیں.الفضل انٹر نیشنل 22 تا 29 مارچ 2019ء - خصوصی اشاعت ) سوویں کتاب خاکسار کا مجموعہ کلام ہے جو 412 صفحات پر مشتمل ہے، 2013ء میں ย قادیان سے شائع ہوا.کلام تو جو ہے سو ہے لیکن اس کے آغاز میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع " کے خاکسار کے کلام پر تبصرے بے حد پر لطف ہیں.اس کا خوب صورت ٹائٹل مکرم ہادی علی صاحب کا فن پارہ ہے.نمی کا عکس دیکھ کر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حوصلہ افزائی فرمائی: "آپ کا مجموعہ کلام نمی کا عکس، موصول ہوا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.میں نے جستہ جستہ پڑھا ہے.ماشاء اللہ اچھا کلام ہے.امید 168
سیلاب رحمت ہے کہ ادبی ذوق رکھنے والوں کو آپ کا یہ مجموعہ پسند آئے گا.اللہ تعالیٰ آپ کے سخن و فہم میں مزید برکت دے اور ہر آن آپ پر اپنے پیار کی نگاہیں ڈالتا رہے آمین.(مکتوب ۱۱۲ پریل ۲۰۱۴) الفضل انٹر نیشنل نے تبصرہ کیا: آج ہمارے پیش نظر ایک ایسی شاعرہ کی کتاب ہے جس کے بارے میں یہ حکایت صادق آتی ہے کہ جو ہر کی قدر جوہری ہی جانتا ہے.چنانچہ معروف شاعرہ محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ بھی ان چند خوش نصیب افراد میں سے ہیں جن کی سخن وری اور فکری بالیدگی نے در بار خلافت سے ایسی داد سمیٹی جو محض چند خوش نصیب شعرا کے حصے میں آسکی ہے.بلا شبہ اپنے زمانے کے عظیم سخن شناس ( یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع " ) ایسے جو ہر شناس تھے جو سونے کو کندن بنانے کے عمل سے بخوبی آشنا تھے اور کتاب نمی کا عکس، کا مطالعہ اس امر کا ثبوت ہے کہ اک خاک کے ذرے پر عنایات کا عالم کچھ اس طرح سے ہوا کہ جس نے اس ذرہ ء خاک کو نمو کے مراحل سے گزار کر ایک گوہر بنانے میں اپنی دعاؤں اور راہنمائی کو یکجا کر دیا.یقینا یہ سعادت اپنے زور بازو سے حاصل نہیں کی جاسکتی.“ الفضل ربوہ نے تحریر کیا: شاعری محض اظہار کا وسیلہ ہی نہیں یہ تو انسان کے نازک قلبی احساسات اور جذبات کی آئینہ دار بھی ہوتی ہے.زندگی کی سچائیوں سے 169
آگاہ ہونے کے بعد ہی سچی اور سچی شاعری کی ابتدا ممکن ہو سکتی ہے اور ایک احمدی سے زیادہ کون اس حقیقت کو سمجھ سکتا ہے.اس لئے احمدی شعرا اور شاعرات کے کلام میں ایک سچائی اور مقصدیت ہوتی ہے اور ان کی نمایاں خصوصیت ان کا طرہ امتیاز بھی ہے.محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے.ان کی شاعری میں وہ تمام اوصاف موجود ہیں جو کہ بلا شبہ انہیں ایک مستند اور معتبر شاعرہ کے طور پر روشناس کروانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں.محترمہ امۃ الباری ناصر صاحبہ کا شمار ان انتہائی خوش قسمت احمدی شعرا میں ہوتا ہے جنہیں ہمیشہ در بارِ خلافت سے پذیرائی بھی ملتی رہی اور قبولیت و پسندیدگی کی سند بھی عطا ہوتی رہی اور یقیناً اسی کی بدولت ہر آنے والے دور میں ان کی شاعری میں مزید خوب صورتی اور نکھار پیدا ہوتا گیا.“ (الفضل ربوه ۳۰ مئی ۲۰۱۵) نظارت نشر و اشاعت قادیان سے کتب کی اشاعت خلاصہ مضمون یہ ہے کہ ۱۹۸۹ء سے شروع ہونے والا شعبہ ء اشاعت کا بابرکت سفر ۲۰۱۸ء میں سو کتابوں کے ساتھ مکمل ہوا.مولیٰ کریم نے ہمارے لئے نئے افق کھول دئے.ہم حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں جن کے ارشاد پر نظارت نشر واشاعت قادیان نے ہم سے رابطہ کیا کہ کتب قادیان سے شائع کرنے کے لئے شائع شدہ کتب اور ان کا ریکارڈ دے دیا جائے.یہ خبر ہمارے لئے انتہائی خوش کن تھی جیسا کہ میں 170
سیلاب رحمت نے ذکر کیا ہے، پریس کے کام میں دشواری ہو رہی تھی اور ہمیں پاکستان اور بیرونِ پاکستان سے آرڈر پر آرڈر آ رہے تھے.اس خبر سے یوں لگا ہمارا بار آسمان نے اٹھا لیا ہے اور ہمیں سبک دوش کر دیا ہے.فرشتے مدد کو اتر آئے ہیں.یہ غم دور ہو گیا کہ یہ کتب احمدی احباب تک کیسے پہنچا ئیں.یہ انتظام ہماری تڑپ کا جواب بھی ہے.ایک دفعہ جرمنی سے آئی ہوئی رقم واپس کرنی پڑی تھی کہ ہم مجبور ہیں کتا بیں نہیں بھجوا سکتے.اس وقت دل بہت خراب ہوا تھا.یہ بے بسی کا احساس در اصل ہمارے تو کل کی کمی تھی اللہ تعالیٰ معاف فرمائے وہ تو بڑاد یا لو ہے خود سامان کر دیتا ہے اور ہمارے تصور سے کہیں بہتر.الحمد للہ.قادیان سے چھپنے والی کتابوں کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں: آغاز رسالت - امن کا گہوارہ مکہ مکرمہ.بے پردگی کے خلاف جہاد.دعوت الی اللہ اور ہجرت حبشہ - در ثمین مع فرہنگ.حضرت محمد مصطفی صلی ا یستم کا بچپن.حضرت محمد مصطفی سلیم ای یتیم اور بچے.ہجرت مدینہ اور مدینہ میں آمد - انسانی جواہرات کا خزینہ.کلام محمود مع فرہنگ.کلام طاہر.کر نہ کر.مجالس عرفان.مشاغل تجارت - میرے بچپن کے دن.مقدس ورثہ ، چشمہ زمزم - قواریر قوامون_سفر آخرت شعب ابی طالب اور سفر طائف.یروشلم.جماعت کی ویب سائٹ پر پھر ایک راستہ جماعت کی ویب سائٹ پر کتابیں ڈالنے کا کھلا.کتب سکین کر کے بھیجنی شروع کیں.اب تک ہماری بیشتر کتابیں ایک مستقل عنوان کتب لجنہ اماء اللہ کراچی کے تحت الاسلام ڈاٹ آرگ پر آچکی ہیں الحمدللہ.پھر یہ شوق ہوا کہ ان کتب کی خاص طور پر 171
ب رحمت منظوم کلام کی آڈیو بھی تیار کی جائیں.اب تک بہ توفیق الہی 16 کتب کی آڈیوز بھی جماعت کی ویب سائٹ پر آچکی ہیں.جن میں درثمین اردو، کلام محمود، کلام طاہر، الہام کلام اس کا، بخار دل، در عدن، مقدس ورثه، اصحاب فیل ، حضرت محمد مصطفی صلی ایام کا بچپن ، چشمہ زم زم، امن کا گہوارہ مکہ مکرمہ، پیاری مخلوق ، سیرت و سوانح حضرت محمد مصطفی ملی لیست مشاغل تجارت، آغاز رسالت، دعوت الی اللہ اور ہجرت حبشہ شامل ہیں.مالی معاونت اگر ہر بال ہو جائے سخن ور تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر شعبہ اشاعت کے کاموں میں رقم کی ضرورت تھی.کام کے آغاز میں اس کے لیے کوئی بجٹ نہ تھا.صدر صاحبہ نے از راہ شفقت ہمیں دو ہزار روپے دئے اور تسلی بھی دی کہ آپ کام کرتی جائیں، اللہ تعالیٰ سامان کر دیتا ہے.ایک نصیحت بھی کی کہ کبھی کسی سے کہنا نہیں کہ ہمیں کتاب چھاپنے کے لئے رقم دو اور ہم نے اس پر عمل کیا.ہر قدم پر بفضل الہی اپنے پیارے اللہ کا معجزانہ سلوک دیکھا.ہمیں ضرورت پڑنے سے پہلے سرمایہ مہیا ہو جاتا.مخیر خواتین و حضرات پہلے سے کہہ دیتے کہ اب جو کتاب آئے گی، ہم اپنے بزرگوں کو ایصال ثواب کے لئے اس کا خرچ دینگے.کچھ رقم کتاب کی فروخت سے حاصل ہوتی.ہمارے کام جاری رہتے.اللہ تعالی سب مالی معاونت کرنے والوں کے اموال نفوس اور اخلاص میں برکت عطا فرمائے.آمین.فجز اھم اللہ تعالیٰ احسن الجزا.172
عطیہ دہندگان 1- کونیل مکرمہ ڈاکٹر ناہید منصور صاحبہ مکرمہ ڈاکٹر امتہ المصور زاہد خورشید صاحبہ (امریکہ ) - مکرمہ فائزہ حبیب صاحبہ مکرم مرزا محمد افضل صاحب ( کینیڈا) - مکرمہ امتہ السلام مسعود صاحبہ مکرمہ ناصرہ بشیر صاحبہ مکرمہ حفصہ آصفہ اہلیہ مسعود اشرف صاحب (امریکہ ) - مکرم حاجی مبارک احمد صاحب (سرگودھا).مکرم مرزا محمد ارشد صاحب (امریکہ ).مکرمہ مریم کھوکھر صاحبہ (لندن) 2 - The Nazarene Kashmiri Christ ممبرات قیادت نمبر ایک 3 - قوار یرقوامون مکرمہ نصرت حمید صاحبہ 4- گل ممبرات قیادت نمبر 9 5- بیت بازی مکرمہ سلیمہ میر صاحبہ مکرمہ امتہ المتین وحید صاحبه 6- تذکرۃ الشہادتین اور پیغام صلح مکرمه ثریا مقبول صاحبه 7- حضرت رسول کریم صلی ی ی یتیم اور بچے مکرمہ عطیہ محمود صاحبہ اور ان کے بہن بھائی از طرف بیگم ومکرم با بواللہ داد صاحب مرحوم 8- فتوحات مکرمه بشری شوکت اعجاز صاحبه 9 - آداب حیات مکر مہ امتہ ائی خالد صاحبہ مکرمہ امتہ الباری نعیم صاحبہ 10- مجالس عرفان مکرمہ بشری صاحبہ اہلیہ مکرم سید محمود احمد صاحب - مکرمہ انور سلطانہ صاحبہ 11 - خطبه لقاء مکرمه بشری تاثیر صاحبه 12 ری الانبیاء مکرمہ محمودہ بٹ صاحبہ 173
13 - ہماری کہانی مکرمہ رفیعه محمد صاحبه 14 - انبیاء کا موعود ایک خاتون نے بشری دا ؤ د صاحبہ کی محبت میں خرچ دیا.15 - نماز با ترجمه با تصویر مکرمہ طیبہ بشیر صاحبه مکرمه منصورہ رضوان صاحبہ ( فلاڈلفیا) - مکرمہ سعدیہ حیدرالدین ٹیپو صاحبہ - مکرمہ نعیمه تحریم صاحبہ (امریکہ) مکرمہ مریم کلیم میر صاحبہ (مانچسٹر).مکرمہ امتہ الجمیل مبارک کھوکھر صاحبہ.مصباح عنبریں.مکرم شوکت صاحب الرحیم جیولرز 16 کتاب تعلیم مکرمہ برکت ناصر صاحبہ کے بہن بھائیوں نے اپنے والد صاحب کے ایصال ثواب کے لئے 17 - تجلیات الہیہ کا مظہر محمدصلی مالیاتی مکرمہ عطیہ شریف صاحبہ ( کینیڈا) 18 - امن کا گہوارہ مکہ مکرمہ مکرمه فرحت افزا صاحبه 19 - مشاغل تجارت و حضرت خدیجہ سے شادی.مکرمہ فرحت افزا صاحبہ 20 کو نیل (سندھی) مکرمہ ڈاکٹرامتہ المصور صاحبہ 21 سفر آخرت - آداب و مسائل مکرمه امته الرشید ارسله صاحبه 22 - حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کے اہل خاندان 23 غیبت ایک بدترین گناه مکرمه امته الرشید ارسله صاحبه 24 - حمد و مناجات مکرمہ سلیم اختر صاحبہ بیگم مبارک احمد بٹ صاحب برائے ایصال ثواب والدین 25 بخار دل مکرم مرزا محمد انور صاحب برائے ایصال ثواب والده صاحبه مکرمه خورشید بیگم صاحبه 174
اہلیہ مکرم مرزا محمد اسمعیل صاحب 26.ورثہ میں لڑکیوں کا حصہ مکرمہ فہمیدہ منیر صاحبہ 27- آپ بیتی مکرم محمد رفیع ناصر صاحب (ناصر دواخانہ ربوہ) 28- جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ مکرمہ شاہدہ حسین صاحبه 29.نبوت سے ہجرت تک مکرمہ طیبہ بشیر صاحبه 30- انبیاء علیہم السلام کی دعائیں مکرمہ سلیمہ شاہنواز صاحبہ.مکرم بارون ناصر صاحب 31 حسن اخلاق مکرم محمد حسین صاحب برائے اہلیہ مرحومہ امۃ الرشید ارسلہ صاحبہ 32 قدرت ثانیہ کا دور اول مکرم عبدالمجید نیاز صاحب (والدین کی طرف سے) 33 زندہ درخت مکرم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت درویش کی اولاد کی طرف سے 34.نمی کا عکس خاکسار کے بچوں کی طرف سے مکرمہ تنویر عثمان صاحبہ نے دفتر شعبہ اشاعت کے لئے الماریوں کا تحفہ دیا.ہم اس بات کے لئے بھی اپنے مولا کریم کے شکر گزار ہیں کہ اشاعت کے سلسلے میں کئی افراد کو مالی معاوضہ دینے کے قابل ہوئے.چھوٹی بڑی کتابوں پر لاکھوں روپیہ خرچ ہوتا جو ہنر مند ہاتھوں کا ذریعہ آمد ہوتا.وہ جو ساتھ چھوڑ گئے اس عرصہ خدمت میں ہمارا ساتھ چھوڑ کر اللہ کو پیارے ہونے والے یاد آتے ہیں.مکرمہ عقیلہ صادق صاحبہ نفیس طبیعت کی محنتی خاتون تھیں.سٹاک انچارج تھیں.ایک عمر رسیدہ لوہے کی الماری کا سلائڈنگ دروازہ ہلنے کا نام نہ لیتا اور عقیلہ صادق صاحبہ اس میں 175
ب رحمت کتب رکھنے اور نکالنے کے لئے زور آزمائی کرتی رہتیں.مکرمہ بشری داؤ د صاحبہ کراچی کی مقبول ترین فعال کارکن تھیں.اس کا ساتھ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت تھا جو بہت مختصر رہا.مکرمہ امۃ الرشید ارسلہ صاحبہ بہت ساده، صاف گو اور محبت کرنے والی خاتون تھیں.تین کتب مرتب کی تھیں.مکرمہ امتہ الکریم مبارک صاحبہ نے طویل عرصہ سیلز سیکشن میں محنت سے کام کیا.خاموش، بے نفس خدمت گزار تھیں.لجنہ اماءاللہ کراچی بجاطور پر کرم شیخ محمد ادریس صاحب مرحوم کی شکر گزار ہے.موصوف وائی آئی پریس کے مالک تھے.ہمارے کام کے آغاز سے ہی ان کی رہنمائی ،مفید مخلصانہ مشورے اور دعا ئیں ہمارے ساتھ شامل ہو گئیں.یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اس میدان میں ہمارا تجربہ صفر تھا.وہ نہ صرف ہمدردی سے کام کرتے بلکہ حوصلہ افزائی بھی کرتے.کام ان کے سپر د کر کے معیار کے بارے میں بے فکر ہو جاتے.مسودہ ضرور پڑھتے اور ایسی اصلاحات تجویز کرتے جو کتاب کے معیار کو بڑھا دیتیں.خاص طور پر کلام طاہر مع فرهنگ، در ثمین مع فرہنگ اور کلام محمود مع فرہنگ کا کام خاص لگن سے کیا جن کی نمایاں خوبصورت طباعت کو خلیفہ وقت نے بھی سراہا.موصوف ہمارے علمی کام کو حیرت سے دیکھتے اور کہتے یہ غیر معمولی کام ہے.ایک تاریخ رقم ہورہی ہے.ان کی بیگم مکرمہ ساجدہ اور میں صاحبہ پریس سے رابطے کے علاوہ بھی شعبے کے کئی کاموں میں ذوق وشوق سے معاونت کرتیں.پھر ان کے بیٹے مکرم شیخ داؤ داحمد جو بجائے خود ماہر فن ہیں اور معیاری کام کا ذوق رکھتے ہیں، کتب کی خوب صورتی بڑھانے میں مشیر ہو گئے.لجنہ کراچی 176
سیلاب رحمت کی سو میں سے پچاس کتب ان کے پریس میں شائع ہوئیں.لاگت میں بچت کا بھی خیال رکھتے اور پرنٹنگ سے وابستہ مواد کو محفوظ رکھنے کے طریق بتاتے.یہاں ایک دلچسپ بات کا ذکر کر دوں.جب کلام محمود کے کام سے فراغت کے کچھ ہی عرصہ بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا در ثمین فارسی مع فرہنگ تیار کرنے کا ارشاد موصول ہوا تو میں نے اور میں صاحب کو فون پر بتایا.چند دن خاموشی سی رہی.پھر خاکسار نے کام کا ابتدائی خاکہ بنانے کے لئے ان کے ساتھ میٹنگ کی.اس میں ہماری صدر صاحبہ، مسٹر ناصر ملک صاحبہ اور مکرم عبد الخالق بٹ صاحب بھی موجود تھے.اور میں صاحب نے اپنی بات اس طرح شروع کی کہ: آپ سمجھتے ہوں گے میں خاموش ہو گیا ہوں کام سے گھبرا گیا ہوں.ایسا نہیں ہے آپ نے دیکھا ہوگا جب کسی ویٹ لفٹر کو بڑا سا وزن اٹھانا ہوتا ہے تو وہ چند سیکنڈ خاموش کھڑا ہو کر اپنی طاقت جمع کرتا ہے.خود کو ذہنی طور پر وزن کی مناسبت سے تیار کرتا ہے.میں نے بھی بڑا سا بوجھ اٹھانا تھا.دعا کر رہا تھا تا کہ قادر و توانا خدا سے مدد مانگ کر حامی بھروں.“ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ کام کی اہمیت کا کتنا شعور رکھتے تھے.16 فروری 2014ء کو انتقال کر گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.محترمہ نصری حمزہ صاحبہ نے کلام محمود اور درثمین فارسی کی گلوسری کی تیاری میں کمال عرق ریزی اور ذمہ داری سے کام کیا.کمپوزنگ بھی خود کی.فارسی درثمین کی پرنٹنگ سے پہلے 2018 ء میں پیارے بلانے والے کا بلاوا آ گیا.انا للہ وانا الیہ راجعون.ہم ان سب للبی تعاون کرنے والوں کے لئے مغفرت اور درجات کی بلندی کی دعا کرتے ہیں.177
سیلز سیکشن کتب کی تیاری اور پرنٹنگ کے مرحلے کے بعد ان کی سنبھال اور فروخت کا کام ہوتا ہے.یہ بھی آسان کام نہیں.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمیں محنتی دیانتدار اور پر خلوص معاونات ملیں.سٹاک احمدیہ ہال پہنچنے کے بعد ان کی ذمہ داری شروع ہو جاتی ہے.سب سے پہلے حضرت خلیفہ امسیح کی خدمت میں تحفہ پیش کیا جاتا ہے.پھر دیگر محترم ہستیوں اور لائبریریوں کے لئے کتب مختص کی جاتی ہیں.باقی کتب سیلز سیکشن کی تحویل میں دے دی جاتی ہیں.اس سیکشن کی معاونات میں مکرمہ عقیلہ صادق صاحبہ مکرمہ انور شریف وڑائچ صاحبہ مکرمہ رفیعہ محمد صاحبہ مکرمہ برکت ناصر ملک صاحبہ مکرمہ امتہ الکریم مبارک صاحبہ - مکرمہ امتہ القیوم باجوہ صاحبہ مکرمہ نازیہ عامر بنکوی صاحبہ مکرمہ شہناز نعیم صاحبہ مکرمہ نعیمہ حمید صاحبہ مکرمہ تنویر عثمان صاحبہ مکرمہ شہناز نعیم صاحبہ اور مکرمہ طیبہ بشیر صاحبہ کی خدمات قابل تشکر ہیں.خاص طور پر مکرمہ رفیعہ محمد صاحبہ ہمارے لئے ایک نعمت ثابت ہوئیں.ان کا تعارف بہت دلچسپ انداز میں ہوا.ایک دن آپا سلیمہ صاحبہ نے مجھے بلا کر کہا کہ یہ خاتون مسجد میں کوئی خدمت کرنا چاہتی ہیں.شوہر کی وفات کے بعد اکیلی ہمت کر کے ہال آئی ہیں تمہیں ورکرز کی ضرورت رہتی ہے.دیکھ لو اگر کوئی کام ہے تو اپنے ساتھ لگا لو.یہ قریباً ۸۰ سال کی منحنی سی خاتون تھیں.پہلا خیال یہ آیا کہ کیا یہ کوئی کام کر سکیں گی.میں نے ان سے بطور انٹرویو پہلا سوال کیا: ہمیں شعبہ اشاعت میں سیلز سیکشن میں کام کی ضرورت ہے.آپ حساب کتاب رکھ سکیں گی ؟“ 178
مطبوعات شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ کراچی بسلسلہ صد سالہ جشن تشکر مع نقل موتی (از انسان میشن) ارود تیمر در فرهنگ جام فدا شود به دادن مصطفی کلام کلام طاہر مجارول خاندان حضرت مسیح موعود بدلات مرزا غلام قادر احمد جوئے شیریں احمدی بچوں کے لئے منتخب المیں من کا گہوارہ المنشورات العبر التارت است لارا بن کر رہی ساسان مد سال حشر تشکر امہ الباری ناصر تواریخ (بیت) فضل من و الصَّلوة من العبادة (نماز عبادت کا مغز ہے) 16 GRESSENHALL ROAD, LONDON, SW18 SQL, UNITED KINGDOM یکے از مطبوعات شعبہ اشاعت بجد اماءاللہ ضلع کراچی بسلسلہ صد سالہ جشن تشکر یکے از مطبوعات العبه اشاعت لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی بسلسلہ صد سالہ جشن تشکر مجله لجنہ امام اللہ کراچی سلسلہ صدساله جشن تشکر بر موقع سودان الانہ جماعت حمید عالم الجنه الماء الله کراچی 1441-441 المحراب نماز اور انس کے آداب و مسائل شعبه اشاعت اینه اسماء اللہ ضلع کراچی بسلسلہ ارسال میشن تشکر الاليشان
مطبوعات شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ کراچی بسلسلہ صد سالہ جشن تشکر مضامين جتنے در محت زندہ تھے وہ سب ہوئے ہرے پھل اس مقدر پڑا کہ وہ میووں سے لد گئے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل زنده درخت (اللہ تعالی آپ سے راضی ہو ) (جلد اول) یکے از مطبوعات احب اشاعت اور انا بالہ ضلع کراچی بسلسلہ صد سالہ جشن تشکر انی صاحب مدرن یکے از مطبوعات شعبه اشاعت لجند بماء اللہ ضلع کراچی بسلسلہ صد سالہ جشن تشکر یکے از مطبوعات لعب اشاعت کند اما ء اللہ ضلع کراچی اسلسلہ صد سال جشن تفکر اصلاح معاشرہ قط دوم قَوَارِيرِ قَوَّامُونَ کے از مطبوعات شعبه اشاعت لجن إماء اللہ کراچی بنده مصر الجیش تشکر محسنات احمدی خواتین کی سنهرى خدمات چه خوش بو دے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے نہیں بو دے اگر ہر دل پر از نور یقیں بو دے نیست ثانیہ کا دور اول رت کا دررات رت اقدس بانی سلسلہ کی ایک خواهش والدین کی خدمت اور اطاعت پاکیزه تعلیم اور دلکش نمونے یکے از مطبوعات شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی بسلسلہ صد سالہ جشن تفکر یکے از مطبوعات شور اشاعت این امامان ایرانی دیدی متن تشکر حضر میفتی محمد صادق صاحہ فی اللہ عنہ غیر ممکن کو ممکن میں بدل دیتی ہے ہجرت مدینہ دس سال سے تیرہ سال تک کی عمر کے بچوں کا نصاب اے مرے فلسفیو! زور دعا دیکھو تو دعائے مستجاب عبد الباسط شاہد مربی سلسلہ) کے شعبہ اشاعت اور امان اللہ ضلع کر اپنی مسلسل صد سالہ جشن تشکر تعلیمی و تربیتی نصار سات سے دس.شائع کرده امارت نشر و اشاعت قادیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب مفید یکے از مطبوعات لجنہ اماءاللہ کراچی بسلسلہ صد سالہ جشن تشکر كونيل تعلیمی اور تربیتی نصاب ہ سال تک کی عمر کے بچوں کیلئے یکے از مطبوعات شعبه شانت احنه اما ء اللہ ضلع کرام نیستند کانال اخیر شامل محلات کے بعد چدر و سال تک کے حمدی پیاوں کا نصاب گلشي الحمد
گہر ا سا سانس لے کر جواب دیا: رکھ لیں گے.بساری عمر حساب دیتے ہی گزری ہے.“ میں چونک گئی.میرے تاثرات یکسر تبدیل ہو گئے.یہ تو کسی داستان کا عنوان تھا.یہ آواز کسی سمندر کی تہ سے آئی تھی.میں انہیں لے کر بیٹھ گئی اور بہت طویل داستان سننے کے بعد جب انہیں خدا حافظ کہا تو انہیں سیلز سیکشن میں انچارج کا عہدہ سنبھالنے کی درخواست کے ساتھ یہ وعدہ لے چکی تھی کہ وہ اپنے خاندان کی احمدیت کے لئے قربانیوں کی ایمان افروز کہانی لکھیں گی.اس انتہائی پر خلوص، دیانت دار جانباز خاتون سے سالہا سال ساتھ رہا.کلکتہ کی میمن خاتون پائی پائی کا حساب رکھتیں.ہر دن کی مکمل رپورٹ اور رقم کی ادائیگی مع رسید درج کرتیں.اپنے ساتھ کام کرنے والیوں کو شفقت سے کام سکھاتیں.ان کا اور طیبہ طاہر کالمبا ساتھ رہا اور طیبہ مجھے اس طرح ملی تھی کہ ایک ہمدرد خاتون اسے ہمارے گھر لائیں کہ یہ آجکل کچھ پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے.کسی کام میں لگالیں تا کہ دھیان ہے.میں نے سیلز سیکشن میں کام کی پیشکش کی جو اس نے قبول کر لی.پھر ایسی لگن سے کام کیا جیسے پیدا ہی اسی کام کے لئے ہوئی تھی.آپا رفیعہ اور طیبہ میں ماں بیٹی کا سا پر خلوص تعلق بن گیا.یہ دونوں اپنی معاونات کے ساتھ کراچی میں اور مسز برکت ناصر صاحبہ کراچی کے علاوہ پاکستان اور بیرون پاکستان فروخت کی ذمہ دار تھیں.آپس میں پیار محبت اور چھیڑ چھاڑ سے کام کرتی رہتیں.جس سے شعبہ اشاعت کے دفتر کا ماحول بہت خوشگوار رہتا.افسوس! کہ آپا رفیعہ صاحبہ بھی 2018ء میں اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہو گئیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.سوموار اور جمعرات کو سٹال لگانا، نفقد اور ادھار کا حساب رکھنا ہلکی وغیر ملکی آرڈرز پر کتب 179
سیلاب رحمت بھیجنا مشکل کام تھا.خاص طور پر ربوہ کے آرڈر کے لئے بوریوں اور ڈبوں میں کتب پیک کر کے بذریعہ ریل گاڑی یا کورئیر سروس ذمہ داری سے بھجوا نا مشکل کام ہیں.ایک اور مہربان خاتون کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے.مکرمہ شاہدہ حسین صاحبہ، یہ لجنہ کراچی کی سیکرٹری مال ہیں.ہمارے ساتھ بہت تعاون کرتی ہیں.وقت بے وقت خرچ لینے اور آمد جمع کرانے میں ان سے واسطہ رہا.لین دین کے معاملات میں ہمارے مسئلوں کو سمجھ کر آسانی پیدا کرنے کے لئے کوشاں رہتی ہیں.ربوہ میں ہماری معاونت مسز ناصر صاحبہ کے بھائی مکرم مرزا محمد اکرم صاحب کرتے ہیں.کتب کا سٹاک رکھنا اور وقت ضرورت وہاں سے کتب مانگ کی جگہ تک پہنچانا خوش دلی سے کرتے ہیں.کتب کی فروخت کے حوالہ سے ربوہ میں ہمارے سب سے بڑے معاون و مددگار مکرم شکور بھائی رہے ہیں.کتابوں کی محبت میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں.فجر اھم اللہ تعالی احسن الجزا.حرف آخر دو مفید اقتباس مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کرتے.ایک ملاقات میں فرمایا کہ دو حوالے لکھ لیں مجھے لجنہ کراچی کا کام دیکھ کر ان کا خیال آتا ہے.آپ کے لکھوائے ہوئے حوالوں سے چھوٹے چھوٹے اقتباس پیش کر کے منہ میٹھا کرتے ہیں.اگر چہ ہم خود کوکسی قابل نہیں سمجھتے تاہم ایک بزرگ کا تحفہ سمجھ کر پیش کرتی ہوں.اللہ کرے یہ دعا بن کر ہمارے شامل حال ہو جا ئیں.آمین.وہی قوم ترقی کر سکتی ہے جس کی ساری عورتوں کا دینی معیار 180
رحمت بلند ہو.وہ جواں ہمت اور حوصلہ مند ہوں.وہ مصائب و مشکلات کی پرواہ کرنے والی نہ ہوں.وہ دین کے لئے ہر قسم کی قربانی پر تیار رہنے والی ہوں.وہ جرأت اور بہادری کی پیکر ہوں اور وہ اپنے اخلاص اور اپنے جوش اور اپنی محبت میں مردوں سے پیچھے نہ ہوں.“ ( تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحه ۵۴) 2 - ”بے شک محمد رسول اللہ لا یتیم کے ہاں کوئی نرینہ اولاد نہیں رہی جس سے آپ کی جسمانی نسل چلتی مگر جہاں تک روحانی اولاد کا سوال ہے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اولا دمحمد رسول اللہ صلی ا یہ تم کولی اور اتنی کثرت سے ملی کہ اس کی نظیر دنیا کے کسی نبی میں بھی نظر نہیں آتی.اسی چیز کا ذکر آیت خاتم النبیین میں کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ گومحمد رسول اللہ صلی للی سیم کی کوئی نرینہ اولاد نہیں جس کے آپ باپ کہلا سکیں مگر خدا تعالی آپ کی روحانی اولا د کو قیامت تک جاری رکھے گا جو ہمیشہ آپ کے نام کو جاری رکھے گی...اگر کسی کو روحانی اولا دمل جائے اور وہ اس کے نام اور کام کو دنیا میں پھیلائے تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی کہلائے گی...گویا اس سورۃ میں اس بات کی پیش گوئی کی گئی تھی کہ آئندہ محمد رسول اللہ صلی یا یہ تم کو روحانی اولا د دی جائے گی.چنانچہ اس وقت جو تم یہاں بیٹھی ہو تم بھی محمد رسول اللہ صلی ایم کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد ہو اور تم انا اعطينك الكوثر كا نظارہ دیکھ رہی ہو..کوثر سے مراد ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں کہ وہ صاحب خیر کثیر ہیں اور ایک کوثر سے مراد تم ہو ، جنہیں خدا تعالی نے بڑی 181
ب رحمت کثرت بخشی ہے.“ (الا ز ہار لذوات الخمار صفحہ ۱۸۸) خاکسار نے اس سارے عرصہ میں مکر مہ آپا سلیمہ میر صاحبہ اور مکرمہ آیا امتہ الحفیظ بھٹی صاحبہ کو بہت مہربان پایا.ہم ان کا کما حقہ شکریہ ادا نہیں کر سکتے.ہر سر دو گرم میں ڈھال بن کر حوصلہ افزائی کرتیں.اگر ان کا ٹھنڈا میٹھا سایہ نہ ہوتا تو خدمت کرنا مشکل ہوتا.آخر میں ایک عاجزانہ درخواست ہے کہ سب عاجز خادمات شعبہ اشاعت کراچی کو اپنی دعاؤں میں یادرکھیں.ہوسکتا ہے خاکسار سے ایسے کوئی نام لکھنے سے رہ گئے ہوں جو ہمارے بہی خواہ تھے.دعا ہے کہ اللہ تبارک تعالیٰ سب للہی خدمت گزاروں کو اجر عظیم عطا فرمائے.آمين اللهم آمين - جزاكم الله تعالى احسن الجزاء 182
سیلاب رحمت ہم آپ کو بہت یادرکھیں گے 2018ء میں لجعہ کراچی کی دو سابق صدرات خالق حقیقی سے جاملیں.انا لله و انا اليه راجعون.مکرمہ آپا سلیمہ میر صاحبہ 1981ء سے 1997ء تک آپا سلیمہ میر صاحبہ کے ساتھ کام کرنے کا اور آپ کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا.1989ء جشن صد سالہ تشکر کے سلسلے میں سو کتب کی اشاعت کے منصوبے پر آپ کی سرپرستی میں کام ہوا.خاکسار سیکرٹری اشاعت مقرر کی گئی.آپ کو بہترین رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنے والی سمجھدار، بردبار اور تحمل پایا.چھوٹی چھوٹی کتابوں سے کام شروع ہوا.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کو دعا کے لئے کتب پیش کرتے اور آپ ہمیں دعاؤں سے مالا مال کر دیتے.ساٹھ کتابیں آپ کے عہد صدارت میں چھپیں جن میں بچوں کے لئے نصاب، سیرت نبوی سالی تم پر سلسلہ وار کتب، در ثمین مع فرہنگ اور کلام طاہر مع فرہنگ شامل ہیں.کلام محمود مع فرہنگ پر کام کی آپ نے فرمائش کی تھی.ہم نے شروع سے یہ سلسلہ رکھا تھا کہ ہر کتاب کا پیش لفظ صدر صاحبہ لکھیں.آپ بہت جامع اور بلیغ پیش لفظ لکھتی تھیں.183
اشاعت کے کاموں میں محنت کشوں کو معاوضہ دینے میں دل کھلا رکھتیں بلکہ زائد حسن سلوک بھی کرتیں.سیر چشم اور مخیر تھیں.پرنٹنگ کا خرچ کم نہیں ہوتا تھا مگر آپ ہمیشہ تسلی دیتیں کہ کام اچھا کر وخرچ کی فکر نہ کرو، اللہ تعالیٰ کبھی کمی نہیں رکھتا.اچھے کاغذ پر رنگین سرورق اور جلدوں کے ساتھ معیاری کتب شائع ہوئیں.جن کے معیار کو سراہا گیا.ملکوں سے آرڈر آنے لگے.اس کام میں کئی کٹھن مراحل آئے جس میں آپ نے بڑی دانشمندی اور بہادری سے حق بات کی.اشاعت کے سلسلے میں پبلشرز کے ساتھ میٹنگ میں ساتھ رہتیں.صائب الرائے تھیں.ہمیں آپا کے فیصلوں پر اعتماد رہتا.ٹیم ورک کی اہمیت سمجھتی تھیں.ایسا خوبصورت ماحول بنایا ہوا تھا کہ کام میں لطف آتا تھا.دو پہر کو لجنہ ہال میں سادہ سا کھانا مل جل کر کھانا بہت اچھا لگتا.بشاشت اور مسکراہٹ ان کی شخصیت کا حصہ تھی.ملک میں اور ملک سے باہر جہاں بھی جاتیں کتابوں کا تعارف ضرور کراتیں اور خرید کر محفوظ رکھنے کی تحریک کرتیں.ان کا جملہ یہ خزانہ ہے خزانہ یا د رہتا ہے.خود بھی خرید خرید کر تحفے دیتیں.تعلیمی مقابلوں میں انعامات میں کتابیں ہی دیتیں.احمد یہ ہال میں کتا بیں رکھنا مشکل ہو گیا تو اپنے گھر میں کمرہ دے دیا.میری ادنی ادنی خدمات کو بہت سراہتیں.ایک نصیحت اکثر کرتیں: وو دنیا وچ بڑیاں باریاں نے تے بڑیاں ایم اے نے..جے اللہ نے کم دی توفیق دتی اے تے سر نیواں رکھیں.“ 184
شعبہ اشاعت کے حوالے سے مکر مہ آپا سلیمہ میر صاحبہ کا خطبہ جمعہ 30 مارچ 2018 ء میں ذکر خیر حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا: ’...انہوں نے 1986 سے 1996 تک صدر لجنہ کراچی کے فرائض سر انجام دئے.لجنہ کراچی نے کتب کی اشاعت کے سلسلے میں آپ کے دور میں بڑا کام کیا جن میں ساٹھ کتب اور دو مجھے آپ کے دور میں شائع ہوئے.امۃ الباری ناصر صاحبہ کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپا سلیمہ میر صاحبہ سے لجنہ کراچی کی طویل خدمت لی.آپ اس دنیا میں نہیں رہیں لیکن آپ کی تربیت یافتہ ممبرات دنیا کے کونے کونے میں لجنہ کے کام کرتی ہوئی آپ کا نام اور کام زندہ رکھیں گی.آپ کا نام حسن کا ر کر دگی کی مثال بن گیا ہے اور کہتی ہیں ہمیشہ بڑی سر پرستی کیا کرتی تھیں.کام سکھایا کرتی تھیں.اپنے نام کی ان کو زیادہ خواہش نہیں تھی بلکہ یہ خواہش ہوتی تھی کہ جتنی انکے ساتھ کام کرنے والی ہیں ان کو کسی طرح کام آجائے اور جب کتابوں کی اشاعت ہوئی ہے اس میں بھی انہوں نے اپنی ٹیم کو بڑا 185
سیلاب رحمت Encourage کیا.آخری عمر میں اکثر ملک سے باہر جانا پڑتا تھا.جماعت کا کام متاثر نہ ہو اس لئے خود ہی مرکز کو درخواست دے کر ایک دوسری صدر منظور کروالیں اور بڑی خوبصورتی سے ایک میٹنگ بلائی اور ان کو پھولوں کے ہار پہنائے اور مسز بھٹی صاحبہ کو صدر کی کرسی پر بٹھا کر ان کی خدمات کے بارے میں دلنشین تقریر کی اور اطاعت کی تلقین کی اور بڑے وقار سے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئیں.یہ کھتی ہیں کہ انتقال اقتدار ایسے بھی ہوتا ہے.پس وہ لوگ جنہیں بعض دفعہ جماعتی خدمات سے ہٹایا جائے یا ان کی منظوری نہ دی جائے تو اس پر بڑے اعتراض شروع ہو جاتے ہیں.ان کے لئے یہ سبق ہے کہ اگر کام مل جائے تو الحمد للہ اور اگر نہیں ملتا تو تب بھی اللہ کا شکر ادا کریں اور کام کرنے کے ، جماعت کی خدمت کرنے کے اور دوسرے طریقے تلاش کریں.لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ عہدہ ہی ملے تو کام ہوسکتا ہے.پھر یہ کہتے ہیں کہ سب کام معاملہ نہی اور راز داری سے کرنے والی تھیں.دل کی بات کر کے کبھی یہ خدشہ نہیں ہوتا تھا کہ یہ بات کہیں نکل جائے گی.بڑی راز رکھنے والی تھیں.امتہ الباری ناصر صاحب لکھتی ہیں کہ پتہ نہیں کیسے وہ سب کے راز اپنے سینے میں دفن رکھتی تھیں اور یہ بہت بڑی خصوصیت ہے جس کی کمی آج کل مردوں میں بھی ہے.“ 186
محتر مہ امة الحفیظ محمود بھٹی صاحبہ محترمہ امتہ الحفیظ محمود بھٹی صاحبہ کی ہمراہی میں طویل عرصہ خدمت دین کا موقع ملا.بہت شفیق تھیں.افسرانہ انداز کی بجائے خاکساری سے محبت پیار سے کام لیتیں.ہمارا تعلق بہنوں کا سا تھا.شعبہ تصنیف و اشاعت کے کاموں کی نوعیت دوسرے شعبوں سے مختلف تھی اس لئے ان کے تعاون ، رہنمائی اور سر پرستی کی زیادہ ضرورت رہتی.محترمہ آپا سلیمہ میر صاحبہ کی سبک دوشی کے بعد قریباً 50 کتب کی اشاعت آپ کے عہد صدارت میں ہوئی.اللہ تعالٰی کا بڑا احسان ہے کہ ان کی زندگی میں فارسی درثمین چھپ کر آ گئی.سالہاسال کی کئی جہت سے محنت کا ثمر دیکھ کر خوش ہو ئیں اور اپنے انداز میں دعاؤں سے نوازتی رہیں.محنت کی قدر دان تھیں.بہت حوصلہ افزائی کرتیں.کتب کی اشاعت کے مختلف مراحل میں بعض مشکل مقامات آ جاتے.آپ معاملات کو سلجھانے میں بہت تحمل سے کام لیتیں.میرے خیال میں ان کی سب سے بڑی خوبی ان کا صبر اور تحمل تھا.بعض دفعہ ان کا لمبا تمل جھنجلا ہٹ پیدا کرتا مگر بالآخران کا فیصلہ ہی درست ثابت ہوتا.صبر اور اول وقت صبر کا مظاہرہ ان کے شوہر کی وفات کے موقع پر بھی نظر آیا.بڑے وقار اور صبر سے بھاری صدمہ برداشت کیا.تعزیت کرنے والوں کو صبر کی تلقین کرتی رہیں.بہت معاملہ فہم تھیں.خاص طور سے عائلی جھگڑوں کو سلجھانے میں دونوں طرف کی بات سن کر مناسب نصیحت کرتیں.اسی طرح رشتے کرانے میں بھی ہر پہلو مد نظر رہتا.مجھے ان کی اس خوبی کا بھی اعتراف کرنا ہے کہ پاکستان سے فون پر رابطہ رکھتیں.187
سیلاب رحمت ہمارے گھر سے جو بھی فون اٹھاتا بڑے پیار سے اس کی اور ناصر صاحب کی خیریت دریافت کرتیں پھر مجھے بلوا کر جس کام کے لئے فون کیا ہوتا وہ دریافت کرتیں.ان کی رحلت پر اس طرح فون پر رابطہ میں آنے والوں کو بھی افسوس ہوا.دعا ہے کہ مولا کریم غفور الرحیم اپنے پیار کے دامن میں سمیٹ لے.آمین.شعبہ اشاعت کے حوالے سے مکر مہ آپا امتہ الحفیظ بھٹی صاحبہ کا خطبہ جمعہ 15 اکتوبر 2018ء میں ذکر خیر حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے نماز جنازہ پڑھانے سے پہلے ارشاد فرمایا: امتہ الباری صاحبہ نے بھی ان کے ساتھ کام کیا.انہوں نے یہی لکھا ہے کہ بڑی محبت سے کام لیتی تھیں.کوئی افسرانہ انداز نہیں تھا.ان کے زمانے میں کراچی کی طرف سے پچاس کتب کی اشاعت ہوئی اور فارسی کتاب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی کلام کا مجموعہ ہے وہ بھی کراچی کی لجنہ کو ان کی صدارت میں ہی شائع کرنے کا موقع ملا.بڑی تحمل مزاج تھیں اور امتہ الباری صاحبہ کہتی ہیں کہ میرے خیال میں ان کی سب سے بڑی خوبی ان کا صبر اور تحمل تھا.بہت معاملہ فہم تھیں، خاص طور پر عائلی جھگڑوں کو سلجھانے میں دونوں طرف کی بات سن کر مناسب نصیحت کرتیں اور کوشش کرتیں کہ معاملات سلجھ جائیں اور یہی آج کل کے مسائل ہیں ہماری جماعت میں بھی.عائلی جھگڑے بہت 188
رحمت زیادہ ہو گئے ہیں.اللہ تعالیٰ فریقین کو بھی عقل دے کہ آپس میں سلجھا لیا کریں اور عہدیداروں کو بھی عقل دے کہ ان کو سلجھانے میں حقیقی کردار ادا کرنے والے ہوں.“ لجنہ کراچی بالعموم اور خاکسار بالخصوص ان پیاری ہستیوں کی جدائی سے بڑا خلا محسوس کر رہی ہے.اللہ تبارک تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور اعلی علیین میں مقام قرب عطا فرمائے.آمین اھم آمین.189
سیلاب رحمت ایم ٹی اے کے لئے درثمین کا پروگرام اور حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی حوصلہ افزائی حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے کراچی لجنہ کی پیشکش در ثمین کے مشکل الفاظ اور درست تلفظ کے پروگرام پر پسندیدگی کا اظہار فرما یا جو ہمارے لئے ایک اعزاز ہے.آپ کا مکتوب پیش کرنے سے پہلے پروگرام کی تیاری اور وڈیو ریکاڈنگ کی دلچسپ روداد مختصر بیان کر دوں.۱۹۹۴ ء کی بات ہے، حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے ایم ٹی اے پر اپنے پروگرام ملاقات میں یہ خوشخبری سنائی کہ اب نشریات کا وقت بڑھایا جائے گا.دوسرے ممالک کی جماعتیں بھی اپنے اپنے پروگرام بنا کر بھیجیں.'من انصاری الی اللہ کی آواز کان میں آتے ہی سوچا کہ اللہ تعالی کا نام لے کر جو بھی صلاحیت ہے اس میں جھونک دیں.دل میں آیا کیوں نہ در ثمین پڑھائی جائے.درثمین سے ہمیشہ سے ایک والہانہ لگاؤ تھا اور کوئی نہ کوئی صورت اس کو پڑھنے پڑھانے کی نکالتی رہتی تھی.ایک دفعہ لجنہ کراچی کے سمعی بصری پروگرام کے لئے تحت اللفظ پڑھ کے درثمین کی آدیو کیسٹ بنانے کا کام کیا تھا.پھر احمد یہ ہال میں جامعہ احمدیہ کی طرز پر درس و تدریس کا کام شروع ہوا تو میں نے اپنے ذمے در ثمین پڑھانے کا کام لیا تھا اور صرف اس جذبے سے کہ پیاری نظمیں درست پڑھی جائیں، اس کی گلوسری بنائی تھی.ایم ٹی اے پر پروگرام کی صورت میں درثمین کی خدمت کا شوق پورا 190
سیلار کرنے کا یہ موقع بہت اچھا تھا.اس طرح آواز زیادہ احباب تک پہنچے گی.ارادہ تو کر لیا مگر مجھے وڈیو ریکارڈ کرانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا.تجربہ تھا تو جامعہ نصرت میں پڑھانے کا تھا.جہاں ایک بلیک بورڈ ہوتا تھا چاک سے اس پر لکھ کر سمجھاتی تھی.سٹوڈیو کا لفظ صرف کہانیوں میں پڑھا تھا کبھی دیکھا نہ تھا.جب میں نے اپنی صدر صاحبہ کو اپنا خیال پیش کیا تو وہ خوش ہوئیں اور جماعت کی انتظامیہ کو بتایا کہ اس طرح ہماری ایک ممبر در ثمین کے مشکل الفاظ کے تلفظ اور معانی کا پروگرام کرنا چاہتی ہے.گیسٹ ہاؤس سے فون آیا ( ضلع کراچی کے امیر صاحب اور ان کی انتظامیہ کے مرکزی دفاتر ڈیفنس کے علاقے میں دو خوبصورت جڑواں بنگلوں میں ہیں جنہیں گیسٹ ہاؤس کہتے ہیں) کہ پروگرام کرانے کی اجازت ہے.آپ کو اس کے لئے کیا کیا چاہئے ہو گا ؟ میں نے کہا کہ ایک وائٹ بورڈ اور مار کر بس اور کچھ نہیں چاہئے.محض تفنن طبع کے لئے یہ بھی لکھ دوں کہ پوچھا گیا ان چیزوں کا خرچ لجنہ اٹھائے گی یا جماعت ؟ اب یاد نہیں کہ یہ مسئلہ کیسے حل ہوا تھا.بہر حال پہلے پروگرام کی ریکارڈنگ کے دن وائٹ بورڈ اور مار کر موجود تھا.اس دن میرے ساتھ مکرمہ سلیمہ میر صاحبہ اور مکر مہ امتہ الحفیظ بھٹی صاحبہ ( صدر اور نائب صدر لجنہ کراچی) بھی از راه شفقت تشریف لائیں.میری چھوٹی بیٹی امتہ الشافی بھی ساتھ تھی.در ثمین اور اس کی پہلی نظم ایک چارٹ پر لکھی ہوئی لے کر گیسٹ ہاؤس پہنچ گئے.ان دنوں در ثمین کی کتابت کروا رہی تھی اس لئے نظموں کے چارٹ بنانا آسان تھا.گلوسری تیار کرنے کے لئے الفاظ پر تحقیق کر چکی تھی ، اس لئے یہ کام بھی تیار تھا.سامنے برآمدے میں کھلنے والے دروازے سے ایک چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوئے.اسی برآمدے میں ایک طرف مکرم امیر صاحب کراچی کا دفتر تھا جہاں وہ کام میں 191
سیلاب رحم مصروف نظر آتے.ہمیں بالکل مؤدب اور خاموش رہنا پڑتا تھا.کمرے میں مکرم سعید بھٹی صاحب اور مکرم عشرت صاحب موجود تھے جو کیمرہ اور لائٹ سیٹ کر رہے تھے.ہمیں بٹھانے کے بعد پوچھا کیا کرنا ہے؟ کیا کرنا تو ہمیں معلوم تھا مگر کیسے کرنا ہے یہ بالکل معلوم نہیں تھا.وہ بھی نئے اور ہم بھی.کوشش اور کامیابی کے تناسب سے کام کرنا تھا.جب سب بیٹھ گئے تو پنکھے کی گھوں گھوں بند کرنے کے لئے پنکھا بند کیا گیا.دروازہ بند ، پنکھا بند کمرہ بھٹی کی طرح گرم ہو گیا.ریکارڈنگ شروع ہے بولنا شروع کریں کا اشارہ سعید صاحب نے ہاتھ اٹھا کر دیا.بسم اللہ الرحمن الرحیم.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ ور ثمین درست تلفظ اور مشکل الفاظ کے معانی کا پروگرام لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں.آج اس سلسلے کا پہلا پروگرام ہے.براہین احمدیہ سے تھوڑی سے تمہید پڑھنے کے بعد نظم پڑھی: خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے اور کھڑے ہوکر بورڈ پر الفاظ لکھنے لگی تو انہوں نے رکنے کا اشارہ کیا اور کہا کہ ہمارا کیمرا فکس ہے.آپ ایک جگہ ہی بیٹھ سکتی ہیں.کام رک گیا.اب کیا کیا جائے.بورڈ پر نظم کا چارٹ لگا تھا.طے پایا کہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے لمبے سے پوائنٹر کے ساتھ لفظ دکھادوں.ٹھیک ہے کام شروع ہوا.اتنے میں باہر کسی نے کسی کو زور سے پکارا.وہ آواز ریکارڈ ہوگئی.کام روک دیا گیا.ایک دن بورڈ پر لکھتے لکھتے مار کر جواب دے گیا.چھٹی کا دن تھا.بازار بند تھے.اس دن سے ہم نے کاغذ کی شیٹ پر لکھنا شروع کیا.خیر اس طرح کے چھوٹے چھوٹے دلچسپ 192
سیلاب رحمت تجربات وحوادث کے ساتھ پروگرام ریکارڈ ہونے لگے.سعید صاحب اور عشرت صاحب نے بہت تعاون کیا.کبھی چارٹ بناتے ، کبھی پہلے سے الفاظ لکھوا کے ریکارڈ کراتے اور سبق میں ترتیب سے لگاتے جاتے.اس کے علاوہ میری فرصت کے مطابق اپنا وقت نکالتے اور ایک دفعہ میں کئی کئی پروگرام ریکارڈ کرتے.فجزاھم اللہ تعالی.یہ بالکل ابتداء کی باتیں ہیں.بعد میں ہمیں ایئر کنڈیشن والا بڑا کمر ہل گیا تھا.کچھ پروگرام تیار ہو گئے تو لندن بھیج دئے.ہمارا خیال تھا کہ خامیوں کی نشاندہی ہوگی اور دوبارہ ریکارڈ کرنے کو کہا جائے گا مگر ہماری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی جب ایک دن ہمارا در ثمین کا پہلا پروگرام ایم ٹی اے سے نشر ہورہا تھا جو کراچی سے تیار ہونے والا پہلا پروگرام تھا.میں تو سجدے میں گر گئی.بے تحاشا خوشی کا عالم تھا.یقین نہیں آرہا تھا.یہ محض اللہ تعالیٰ کا کرم ہے جو ہماری چھوٹی چھوٹی کوششیں قبول فرماتا ہے.خیر ! ہر پروگرام کئی کئی دفعہ لگنے لگا.کبھی کبھی کوئی پسندیدگی کا اظہار کر دیتا تو ہم پھولے نہ سماتے.شافی نے کیمرے پر کام سیکھ لیا.گھر کے کام نمٹا کے ہم دونوں گیسٹ ہاؤس چلے جاتے.میں سامنے کرسی پر اور شافی کیمرے پر پروگرام کر کے آجاتے.ریکارڈ کرنے والے تو رہتے ہی گیسٹ ہاؤس میں تھے.کام کا جنون نت نئے خیال سمجھاتا.لجنہ کراچی نے دھڑا دھڑ پروگرام بنا کر بھیجے.تاریخ احمدیت کوئز پروگرام - اسلامی اصول کی فلاسفی.کھانا پکانے کے پروگرام - ناصرات کی نظمیں اور کوئز - گڑیا کی شادی - انٹرویوز - عید ملن.ہنر جیسے پروگرام ریکارڈ کرائے.ایک دھن لگ گئی تھی کہ جس طرح بھی ممکن ہو ایم ٹی اے کے لئے کام کرنا ہے.پھر ہمیں ایک غضب کی سند ملی.یعنی حضرت خلیفہ امسیح الرابع کا پیارا امکتوب موصول ہوا: 193
وو.رحمت پیاری عزیزه مکرمه امتہ الباری ناصر صاحبہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام کی تشریح اور تلفظ کی درستی پر مشتمل جو پروگرام تیار کر کے بھجوایا اور یہاں MTA پر دکھایا گیا اس کے متعلق بعض لوگوں کی طرف سے اچھے اچھے تبصرے ملے ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزا.ماشاء اللہ اچھا پر وگرم بنایا ہے.اس کو آگے بڑھائیں لیکن ضروری ہے کہ ایک ٹیم ہوجس میں دینی اور ادبی علم رکھنے والے لوگ شامل ہوں اور وہ گہری نظر سے پروگرام کا جائزہ لے لیا کریں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کے حوالے سے احتیاط کا تقاضا یہی ہے.اللہ آپ کے ساتھ ہو جزاکم اللہ احسن الجزا والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خلیفہ اسیح الرابع پیارے آقا کا یہ مکتوب ہمارے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ ہے.کہاں ہماری بچگانہ حقیر کوششیں اور کہاں خلیفہ وقت کی تحسین.الحمد للہ ثم لحمدللہ مکرمہ صدر صاحبہ نے حضور انور کے ارشاد کے مطابق ایک ٹیم تشکیل دی جس کے اجلاسات میں خاکسار اپنا تیار شدہ سبق پیش کرتی.قریباً سو پروگرام ریکارڈ ہوئے.درثمین مکمل نہ ہوسکی.تاہم اللہ تعالی نے میری یہ خواہش اس طرح پوری کر دی کہ نئی در ثمین بڑی سج دھج کے ساتھ مع فرہنگ شائع ہو گئی.پہلے کراچی سے اور اب قادیان سے چھپ رہی ہے.شکر الحمد للہ.194
سیلاب ب رحمت ایم ٹی اے کے بارے میں ایک اور پیارا مکتوب حاضر ہے.پیاری عزیزہ مکرمہ امۃ الباری ناصر صاحبہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا پر خلوص ادبی خط ملا.جزاكم الله تعالى احسن الجزا في الدنيا والآخرة MTA کے Wonder Land نے صرف آپ کو ہی مسحور نہیں کیا ہوا بلکہ ایک عالم کا عالم اس سے مسحور ہورہا ہے اور اس سے فیض پارہا ہے.الحمد للہ ثم احمدللہ.بہر حال MTA کے حوالے سے آپ کی رسپانس ماشاء اللہ بہت ہی ٹھوس اور گہری ہے.نیز اس ادب و اطاعت والی تربیت کا پاک نتیجہ ہے جو آپ کے اندر سرایت کی ہوئی ہے.اللهم زد و بارك اللہ آپ کو علم وادب کی جو غیر معمولی خدمت کی توفیق دے رہا ہے اس کو اپنے فضل سے بڑھاتا رہے.بہت خوشی ہوئی کہ آپ کی بچی نے بھی کیمرے چلانے کی ٹریننگ لے لی ہے.اللہ مبارک کرے اور اسے بھی مقبول خدمتوں کی توفیق دے.ناصر صاحب اور دیگر سب عزیزوں کو سلام و پیار.خدا حافظ و ناصر ہو.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع 195
وہ خواب جو بیداری میں دیکھا تھا کراچی سے ایمریٹس Emirates کا جہاز فضا میں بلند ہوا.اسے دوبئی کو چھو کر ہیتھر و اُتر نا تھا.جہاز کے مسافروں کے اپنے اپنے مقاصد اور جذبات ہوں گے.کہیں بچھڑنے کا غم اور کہیں ملنے کی خوشی.میرا حال سب سے جدا تھا.میں اپنوں سے دور زیادہ اپنوں کے پاس جارہی تھی.ہوا کے دوش پر فاصلے سمٹ رہے تھے.میں اس سرزمین کی طرف جارہی تھی جہاں پیارے خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ۱۹۸۴ ء سے من ء سے متمکن تھے.آسمانی سرکار نے خاکسار کے اس سفر کے لئے سامان مہیا کئے تھے.ہماری بچی امتہ الصبور کے ہاں ولادت متوقع تھی.بڑی بیٹی امتہ المصور پاکستان آ کر واپس کینیڈا براستہ لندن جانے والی تھی.ساتھ اچھا بن گیا.توفیق پرواز کیا ملی عالم ہی بدل گیا.میں جو ہر ایک جانے والے سے درخواست کرتی تھی: میری آنکھوں سے اُنہیں دیکھنا جانے والو باقی سب کچھ جو مجھے کہنا ہے وہ جانتے ہیں اب کئی مشتاقان دید کے ایسے ہی بے تاب پیغامات لے کر محو سفر تھی.سوچ رہی تھی کہ 196
رحمت حضور ربوہ میں تھے تو کیا سب احمدی اکثر و بیشتر آقا کی ملاقات اور دید سے آنکھیں ٹھنڈی کرتے تھے؟ حقیقت میں ایسا نہیں تھا.حضور سے ملاقات نصیبوں سے ہی ہوتی تھی ان کی ذات بابرکات کے ساتھ وابستہ سر پر سائبان ہونے کا احساس ، دھوپ میں سائے کی ٹھنڈک کا لطف طفل شیر خوار کو ماں کی گود جیسی لذت، مشکلات میں اپنے لئے شب باش وجود کے دعا کیلئے اُٹھے ہاتھوں سے حوصلہ.یہ سب کچھ تو ہمیں سمندر پار سے بھی مل رہا تھا.پھر کس کمی کس ادھورے پن نے دونوں طرف ہجر و فراق کی بساط برابر پھیلا دی تھی.یہ الہی محبت کے عجیب سلسلے ہیں.جب ہاتھ میں ہاتھ دے کر عہد وفا کیا جاتا ہے تو مرشد سے قریب تر رہنے کا جنون پیدا ہوتا ہے.ظاہری بعد بوجھل لگتا ہے.یہی احساس تھا جس نے سب کو تڑپا دیا تھا.خاص طور پر پاکستان کے عشاق آقا کے منہ کی بھوک میں بن جل مچھلی کی طرح بے چین ہو گئے تھے.اظہار کا سلیقہ رکھنے والوں نے آنسو الفاظ میں ڈھال کر سب کے دلوں کی ترجمانی کی: اے شخص کہاں چلا گیا تو آ جا کہ ترس گئیں نگاہیں آقا ترے بغیر یہ گلشن اُداس ہے ماحول بھی اُداس ہے کہ من اُداس ہے دیار مغرب سے لوٹ کر کب یہاں پہ آؤ گے میرے آقا تڑپ رہے ہیں بغیر تیرے یہاں پہ تیرے غلام کہنا اے جان تمنا آبھی جا اب اور ہمیں نہ تڑپانا ہم ہار گئے اور مارگئی ہم کو یہ جدائی برسوں کی 197
رحمت باہر تاحد نظر پھیلا ہوا بادلوں کا منجمد طوفان اور اُفق تا افق اس سے جھک کر گلے ملتا آسمان بہت حسین منظر تھا.شوخ نارنجی، نیلے پیلے رنگ آپس میں گھل مل گئے تھے.قدرت نے اپنا حسن خوب نکھار کر بکھیر دیا تھا.ٹی وی سکرین پر پل پل کی خبریں آ رہی تھیں.ہم کہاں ہیں، کس بلندی پر ہیں.رفتار کیا ہے.خوش شکل فضائی میزبان خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ کچھ پیش کر کے سلسلہ خیال تو ڑ دیتی اور کبھی نھا نواسہ وقاص کوئی مزیدار بات کرتا.اُس کو اتنی دیر تک بیٹھنا مشکل لگ رہا تھا.بڑا اچھا خیال سوجھا کہ ہم دونوں کھڑ کی کھول کر جہاز کے پر پر ایک دوڑ لگا کر دیکھیں کہ پہلے واپس جہاز میں کون آتا ہے.افسوس اس کا یہ پروگرام کچھ فنی مشکلات کی وجہ سے پورا نہ ہو سکا.سکرین پر خانہ کعبہ کی سمت اور فاصلہ دکھایا تو دعا کی کہ سب شعائر اللہ حقیقی وارثوں کومل جائیں.حضور پرنور کا شعر زبان پر آ گیا: اے کاش مجھ میں قوت پرواز ہو تو میں اُڑتا ہوا بڑھوں تیری جانب سوئے حرم سیرت نبوی کا بیان نثر میں ہو یا نظم میں تحریر و تقریر دونوں بے مثال عشق کی غمازی کرتے ہیں.صرف زبانی نہیں عملی عشق نے حضرت محمد رسول اللہ صلی ا ستم کا جھنڈا اکناف عالم میں لہرانے کے لیے دعوت الی اللہ کا جوش و جنون پیدا کیا.خدا کے شیر گر جتے ہوئے آگے بڑھے اور بساط دنیا پر جہان نو کے حسین اور پائیدار نقشے اُبھر نے لگے.جہاز سے زیادہ تیز خیالات کی روکو جھٹکا سالگا.انگریزی اور عربی میں اعلانات ہورہے تھے.منزل قریب ہے.جہاز نے مسلسل بادلوں پر پرواز کی تھی.نیچے اُترنے کیلئے بادلوں سے راہ دینے کو کہا.حجاب ہٹتے ہی ہیتھرو کی روشنیوں کا جھما کا سا ہوا.198
رحمت ”اُمید ہے آپ کا سفر خوشگوار رہا ہوگا.“ ایئر ہوسٹس نے شاید میرا چہرہ پڑھ کر یہ جملہ کہا تھا.بین الاقوامی پرواز پر یہ میرا پہلا سفر تھا.اس لئے بہت سے کام دائیں بائیں والوں کو کن اکھیوں سے دیکھ دیکھ کر کرتی رہی.ایئر پورٹ پر ہمیں لینے میرا داماد عمر آیا ہوا تھا.یہ بھی میری بیٹی امتہ الصبور کی طرح سماعت و گویائی سے محروم ہے.گاڑی مہارت سے چلا لیتا ہے.ایئر پورٹ سے ساؤتھ فیلڈ تک کہیں بھی سڑک ٹوٹی ہوئی نہیں تھی.حیرت ہو رہی تھی.بارشیں تو یہاں بہت ہوتی ہیں پھر سڑکیں کیسے سلامت ہیں.کراچی کی سڑکیں تو بارش سے یوں پگھلتی ہیں جیسے تیز اب برسا ہو.زاہد اور مصور میری اس حیرت پر خوب ہنسے.جیسے کہہ رہے ہوں.ابھی آپ نے دیکھا ہی کیا ہے؟ کراچی کی صبح سے ۱۴ مارچ کی لندن کی صبح بہت مختلف تھی.وہاں گرما گرمی اور یہاں سردی اور سکون تھا.کیوں نہ ہوتا آب وگل کے اس جہان میں یہی تو وہ پرسکون گوشتہ تھا، جہاں مولا کریم نے اپنے پیارے کو لا کر بسایا تھا.میری خوش قسمتی کہ اگلے ہی دن ملاقات کا وقت مل گیا.کوئی دوسرا اندازہ نہیں کر سکتا کہ دل کی دنیا کا کیا عالم تھا.مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ چند منٹ کی خوشی کے بعد بہت گھبراہٹ شروع ہوگئی.مجھے لگا کہ حضور کے سامنے جاؤں گی تو انہیں میرے آر پار سارا نکما پن نظر آ جائے گا.سامنے کیسے جاؤں گی.دل میں کئی مسودے ترتیب پانے لگے تاہم یہ بھی لگتا تھا کہ کچھ بھی کہ نہ پاؤں گی.سچ کہتے ہو خودبین و خود آرا ہوں نہ کیوں ہو بیٹھا ہے بت آئینہ سیما میرے آگے ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ 15 مارچ کو حضور انور کی محمود ہال میں اردو میں ایک مجلس 199
عرفان تھی.سوچا کیوں نہ پہلے اس مجلس میں جاکر آنکھوں کو آفتاب دیکھنے کی کچھ مشق کرالوں.مصور اور بھتیجی مدثر کے ساتھ پیدل ہی مسجد کی طرف چل پڑی.سڑک پر گرین ہال لکھا نظر آیا.پہلے لفافوں پر لکھتی تھی آج خود پہنچ گئی.محمود ہال میں عین سامنے سٹیج پر حضور انور نظر آئے.سوال جواب کا سلسلہ جاری تھا.خدا کا شیر علم وعرفان سے مسلح چو کبھی لڑائی لڑ رہا تھا.احباب نہ جانے کتنی اُلجھنوں کو سلجھانا چاہتے تھے.سوال پر سوال آرہے تھے اور وہاں ہزار دام سے مسکرا کر نکلنے کا دلفریب انداز.کوئی تامل، غور و فکر ، ذہن پر زور دینے کا انداز نہیں تھا.ہر سوال کا جواب اس کمپیوٹرائزڈ انسائیکلو پیڈیا سے بچے تلے الفاظ میں آجاتا.موضوع پر مکمل عبور اور زبان و بیان کوثر تسنیم سے دھلی ہوئی.ہماری خوش نصیبی کہ اسی دن بیعت بھی ہوئی.پھر نماز مغرب کے لئے نصرت ہال میں جمع ہوئے.اس سے پہلے 1984 ء کے اوائل میں اپنے امام کی امامت میں نماز ادا کی تھی.نماز کے معابعد ملاقات کیلئے کمرہ انتظار میں بیٹھ گئے.گر دو پیش کا ماحول نظروں سے اوجھل ہور ہا تھا.ساتھیوں کے مشورے کہیں اوپر سے گزر رہے تھے.ایک گھبراہٹ سی طاری تھی.ایک دفعہ ایک شعر کہا تھا: حوصلہ ہوگا تو کر لیں گے نگاہوں سے سلام باقی سب گفتگو اشکوں کی زبانی ہوگی میرے پاس در ثمین اردو مع فرہنگ کی ڈمی تھی اور لجنہ کی کچھ کتا ہیں.ایک کیمرہ بھی.داخلے کی اجازت ملی.وہ لمحہ میرا تھا.اس روشن چہرے کی مسکراہٹ میرے لئے تھی.پیارے حضور اس سے زیادہ ہشاش بشاش اور پر نور نظر آئے جو کیمرے کی آنکھ سے نظر آتے ہیں.عجیب دلفریب ذرہ نوازی تھی.آپ نے فرمایا: ( الفاظ میرے ہیں) کون کہتا ہے آپ پہلی دفعہ آئی ہیں.آپ تو یہیں ہوتی ہیں 200
فرمایا: ب رحمت ہمارے آس پاس.اپنے خطوں کی شکل میں اپنی نظموں کی صورت میں ، آپ تو ہمارے نزدیک ہی رہتی ہیں.“ خاکسار نے در ثمین کی ڈمی پیش کی.پیارے آقا نے ہاتھ بڑھا کر ڈمی وصول کی اور ”اچھالے آئی ہیں ، بہت ضرورت تھی ، ایک غلطیوں سے پاک، 66 جہاں تک انسانی کوشش ہوسکتی ہے درثمین کی.“ عرض کیا: ”حضور آپ دیکھیں گے تو بہت مزا آئے گا.“ ضرور آئے گا مجھے علم ہے آپ نے کتنی محنت کی ہے.“ اس کے ساتھ ہی ڈمی اپنی بائیں جانب بک شیلف میں رکھ لی.میرے پاس کراچی لجنہ کی بچوں کے لئے کتب تھیں، وہ پیش کر دیں.آپ نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا.فرمایا: فرمایا: 'یہ تو میرے بہت کام آئیں گی.بچوں کو پڑھاتا ہوں نا، لجنہ 66 کراچی بہت کام کر رہی ہے اور آپ تو روح رواں ہیں ماشاء اللہ.“ اس ضمن میں بہت سے حوصلہ افزائی کے جملے ارشاد فرمائے) کتب کے بارے میں چند ارشادات کے بعد آپ نے پرائیویٹ سیکریٹری صاحب کو بلا کر فرمایا: 66 یہ کچھ عرصہ یہیں ہیں ان کو کوئی علمی کام دیں خاص طور پر اردو کا.“ پھر تصویر ہوئی.وہ خواب جو بیداری میں دیکھا تھا، حسیں تھا اک عالم خود رفتگی تھا، ہوش نہیں تھا 201
سیلاب رحمت حیرت تھی کہ یہ میں ہوں یا ہے معجزہ کوئی وہ سامنے موجود ہیں، بس اتنا یقیں تھا دل سجدے میں تھا آنکھیں تھیں مصروف عبارت کعبہ بھی وہیں، عرش معلی بھی وہیں تھا ملاقات کے بعد محمود ہال میں لنگر خانہ مسیح موعود کا کھانا کھایا.ہوسکتا ہے کسی نے محسوس بھی کیا ہو کہ یہ خاتون ہر طرف نظریں گھما گھما کر کیا دیکھ رہی ہے.مگر لمبے عرصے کی پیاس بجھانی ہو تو ایسے ہی ہوتا ہے.زاہد، مصور اور وقاص کے نیو یارک روانہ ہونے کے بعد ساری توجہ گھر سنبھالنے اور صبور کے تین سال کے شمر کو بہلانے میں لگ گئی.ہماری محسنہ محترمہ پروین مختار صاحبہ نے مہربان ہستیوں کو فون پر خاکسار کی آمد کی اطلاع دی.اس طرح بہت جلد ایک حلقے میں تعارف بلکہ بے تکلفی ہو گئی.سب سے پہلے اپنی پیاری پھوپھی جان مکرمہ حلیمہ بیگم صاحبہ اور پھوپھا جان مکرم حسن محمد صاحب سے ملنے گئی.یہ پھوپھی جان ابا جان سے شکل اور بات کرنے کے انداز میں بہت ملتی ہیں.دونوں کو جماعت کی خدمت کی توفیق ملتی ہے.خاندان اور جماعت کی پرانی یادوں کو تازہ کرتے رہے.پھر پھوپھا جان نے حضرت چودھری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کے تحفے ایک سوٹ اور کرسی بھی دکھائی.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے 23 مارچ کے یادگار دن صبور کو دوسرے بیٹے سے نوازا.سینٹ جارجز ہسپتال کے چوتھے فلور سے سوتے جاگتے لندن کو دیکھنے کا موقع ملا.دور دور تک بادلوں میں ملفوف ٹھنڈا یخ شہر، کہیں کہیں چمنیوں سے اٹھتا دھواں، پھول اوڑھے قطار در قطار درخت پر سکون خوشحال شہر.میں نے سوچا اللہ پاک کی بے شمار نعمتوں کا اجتماع 202
سیلاب رحمت اسلام کی حقوق العباد کی بعض تعلیمات پر عمل سے ہوا ہے.یہاں بیماروں ، ناداروں، معذوروں، بوڑھوں حاجت مندوں کیلئے سہولتیں ہیں.جھوٹ اور دھوکا دہی سے پر ہیز ہے.ظاہری صفائی اور خوبصورتی ہے یہ خیر کا سامان انہیں ان دعاؤں سے بھی ملا ہے.جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں عدل و انصاف سے کام لینے کی وجہ سے ملی تھیں.ہسپتال میں صبور کا بہت خیال رکھا گیا.پیارے حضور نے نومولود کا نام نصر نصر اللہ خان رکھا.نماز جمعہ مسجد فضل میں پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی.علم و عرفان کی جاری نہر سے فیض یابی بڑی نعمت ہے.سال میں باون جمعے ان کو عرصہ خلافت سے ضرب دیں.ہر خطبہ موضوع کے لحاظ سے انوکھا، کبھی تکرار کا احساس نہیں ہوا.ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہئے اس روز پہلی دفعہ ایم ٹی اے کے کمرے بھی دیکھے.مکرمہ صادقہ کر امت صاحبہ اور ان کے بیٹے نے ہر کمرے میں جا کر کام میں مستعد احباب وخواتین سے تعارف کروایا اور سارا نظام سمجھایا.ایم ٹی اے کا سلسلہ ہر جہت سے ایسا محیر العقول ہے کہ انسانی فکر کتنی بھی ہمہ گیر ہو وسعتوں پر محیط ہونا تو درکنار عمومی اندازہ بھی نہیں کر سکتی.کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کوئی بچہ اپنی نوٹ بک سے کاغذ پھاڑ کر جہاز بنائے اور اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اُڑائے.تو اس کے ہاتھ سے نکلتے ہی وہ سچ سچ کا جہاز بن کر گھن گرج کے ساتھ اُڑنے لگے.ہماری کوششیں اور قادر خدا کی عنایات کی نسبت کچھ ایسی ہی ہے.خدا تعالیٰ کے بندے معمولی ساز وسامان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے کمروں میں دعوت الی اللہ کی آواز بلند کرتے ہیں اور اللہ تبارک تعالیٰ اُسے بسیط فضا میں پھیلا دیتا ہے.203
سیلاب رحمت گر نہیں عرش معلی سے یہ ٹکراتی تو پھر سب جہاں میں گونجتی ہے کیوں صدائے قادیاں ہم کراچی سے پروگرام تیار کر کے بھیجتے تھے.اب ان سب سے مل رہی تھی جو آگے ان پروگراموں کو چلاتے تھے.مکرمہ رقیہ گلزار صاحبہ اور مکرمہ مدثر عباسی صاحبہ نے ہر کام سمجھایا بلکہ اپنی طبعی دلچسپی کی وجہ سے کچھ دن ان کے دفتر میں کام بھی کیا.ایک دن ایم ٹی اے کے آفس میں کچھ دیر کام کر کے نماز ظہر کے لئے نکلی ہی تھی کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ (لقامع العرب کے بعد واپس تشریف لے جاتے ہوئے ) خاکسار پر پڑی.فرمایا: امہ الباری آپ یہاں ہیں.کلاسز میں آیا کریں براہ راست سننے سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے." اس طرح ترجمۃ القرآن کلاسز کی اجازت بھی مل گئی.جس سے میں نے خوب فائدہ اُٹھایا.یہ زندگی کے یادگار دن تھے.الحمد للہ ثم الحمد للہ.صبور کے گھر سے مسجد پیدل جاسکتے ہیں.ترجمۃ القرآن کلاس کے لیے وقت سے پہلے پہنچ جاتی.وہ کمرہ دیکھ رہی تھی جس میں عرفان کی بارش ہوتی تھی.شاگردوں سے تعارف ہوا.پھر حضور انور تشریف لے آئے مخصوص تلاوت و ترجمہ کا سلسلہ شروع ہوا.سب معمول کے مطابق کلاس سے فیض اٹھا رہے تھے مگر میری اُڑان آسمان پر تھی.سوچ رہی تھی پورے کرہ ارض پر اس وقت اللہ تعالیٰ کو محبوب ترین یہی گوشہ ہوگا.فرشتے اپنے پر پھیلائے نور کی بارش کر رہے ہوں گے.اک چشمہ فیض تھا اور تشنہ لب دیوا نے...اس لمحے یہ دعا بھی کی کہ کاش احباب جماعت اس کلاس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ 204
سیلاب رحمت اٹھائیں.دل و دماغ ایک آواز پر مرتکز تھا.یہ کلاس میں گھر پر بھی پابندی سے دیکھتی تھی مگر کہیں نہ کہیں توجہ ہٹ جاتی.فون کی گھنٹی بجتی یا دروازے کی کوئی بچہ مخل ہوجاتا، کہیں جانا پڑ جاتا یا کوئی آجاتا اور حد تو یہ کہ کبھی بجلی چلی جاتی.ایسی یکسوئی میسر کہاں تھی.اس لئے بہت لطف آیا اور بہت کچھ سیکھا./ اپریل کی شام اردو کلاس کے لئے ذرا جلدی آگئی تا کہ نماز بھی مل جائے.نصرت ہال کا منظر دیدنی تھا.وہ سارے پیارے پیارے بچے گھوم رہے تھے جو اردو کلاس کی رونق تھے.جس کمرے میں اُردو کلاس ریکارڈ ہو رہی تھی اتنا چھوٹا تھا کہ اگر کوئی اور بتا تا تو یقین نہ آتا.سب چھوٹے بڑے بچے اپنی جگہ بیٹھے تھے.حضور انور کی تشریف آوری سے تصویر مکمل ہوگئی.حضور نے ایک جدت کی تھی بالکل فطری انداز میں زبان سکھا رہے تھے.جیسے ماں بچے کو سکھاتی ہے.گھر میں گفتگو کے انداز میں خود بخود بچے سیکھ جاتے ہیں.حضور نے ماحول بھی ایسا ہی بنایا ہوا تھا.ایک ماں کے گرد بیچے جمع ہیں کبھی کچن لگتا ہے کبھی کھانے کا کمرہ اور بے تکلف گفتگو ہورہی ہے.کہانیاں، نظمیں ، محاورے، معلومات عامہ، بیٹھنے اٹھنے کھانے پینے کے آداب، اسلامی عقائد کہیں سادہ انداز میں معرفت کے نکتے سبق آموز باتیں، ہلکے پھلکے لطیفے ہر نعمت اس دستر خوان پر موجود تھی.حضور نے تشریف لاتے ہی اجرام فلکی ان کی رفتار اور فاصلوں کی بات چھیڑ دی.خاصا سائنسی موضوع تھا مگر انداز دلچسپ، چھٹتے ہی مجھ سے سورج اور زمین کا فاصلہ پوچھ لیا.ظاہر ہے میرے علم میں نہیں تھا.آخر میں آئس کریم کا دور شروع ہوا.پیارے حضور ایک ایک کپ کھولتے چیچ سے ذرا سا چکھتے ، تبرک کر کے کسی خوش قسمت کو پکڑا دیتے.میں بالکل سامنے اس شعر کی تصویر بنی بیٹھی تھی.205
گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی اے ساقی براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی بالآخر میری باری بھی آگئی.دست مبارک بڑھا کر آئس کریم عنایت فرمائی.بے طلب دیں تو مزا اس میں سوا ملتا ہے اس دن کچھ لطیفے بھی ہوئے.موٹے بچے سے پوچھا: 66 گھڑی کس طرح چلتی ہے.“ بڑے اعتماد سے جواب دیا: Anti Clockwise مکرم عبد الہادی صاحب کو صفائی کی سوجھی.ایک بیگ لے کر ڈھکنے جمع کرنے شروع کر دیئے.حضور نے فرمایا: ”ان میں تو آئس کریم بہت کم لگی ہوئی ہے.“ کلاس کا ہر پہلو خوشگوار تھا.جمعوں کے خطبوں، جلسوں کے خطابات ، مجالس عرفان اور ترجمۃ القرآن کی کلاسز میں ٹھوس علمی و مذہبی موضوعات پر سنجیدگی سے قرآن وحدیث ، سیرۃ نبوی اور سلسلہ احمدیہ کے علم الکلام کی روشنی میں بے تکان با دلائل گفتگو کرتے ہوئے آقا کا اردو کلاس میں ایک اور روپ نظر آتا ہے.کبھی سموسے بیلتے ہوئے میدے سے سنے ہوئے ہاتھ ، کبھی الو سلامت کی کہانی کبھی موٹے چھوٹے بچوں کی باتوں پر قہقہے.لگتا ہے اللہ پاک نے خود اپنے بندے کی تفریح کا سامان کیا ہے.اردو کلاس کے بعد پھر نماز کیلئے نصرت ہال میں جمع ہوئے.یہاں ایک اور ایمان افروز نظارہ تھا.کچھ خواتین دائرے میں کھڑی باتیں کر رہی تھیں.ایک کا تعلق چین سے تھا.ایک ٹرکش ایک بوسنین ایک افریقن ، کچھ لندن کی اور خاکسار پاکستان کی.مگر اپنائیت ایسی گویا ایک جان ہوں.یہ ملتِ واحدہ کی تشکیل کی ایک تصویر تھی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ 206
ب رحمت السلام کو خوشخبریاں دی گئی تھیں کہ مختلف رنگ، نسل اور قوموں کے لوگ جمع ہوں گے.ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.اس کا نقشہ نظر آرہا تھا.ہم گواہ ہیں کہ ہم یہ پیشگوئیاں اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں.یہ سب نعمتیں ہمیں اپنے آقاو مولی محمد رسول اللہ صلی یا ایم کی اتباع سے ملیں ؎ سب جہانوں کیلئے بن کے جو رحمت آیا ہر زمانے کے دکھوں کا ہے مداوا وہی ایک اُس کے دامن سے ہے وابستہ کل عالم کی نجات بے سہاروں کا ہے اب ملجاء ماوی وہی ایک نصرت ہال میں منگل کے منگل ”ڈاک والیوں سے ملاقات ہوتی رہی.حضور کی ڈاک کا نظام بھی رُوئے زمین پر منفرد ہے.پچھلے زمانے کے انصاف پسند بادشاہوں کے متعلق پڑھتے تھے کہ راتوں کو بھیس بدل کر گلیوں میں گھوم پھر کر عوام کے مسائل بچشم خود دیکھا کرتے تھے.پوری دنیا میں پھیلی جماعت کے عادل امام نے خطوں کے ذریعہ ہر گلی محلے میں بسنے والوں سے رابطہ رکھا ہوا ہے.خط میں جس طرح دل کھول کر رکھ دیا جاتا ہے زبانی بھی ممکن نہیں.آپ خطوط ضرور دیکھتے ہیں.بعض سارے اور بعض کے خلاصے.یہ خلاصے تیار کرنے کا کام کچھ خواتین کے ذمے ہے.دل تو چاہا کہ ان کے راز داری کے عہد کو مجروح کر کے دیکھوں تو میرے آقا کو سب کیا کیا لکھتے ہیں.مگر حوصلہ نہیں ہوا.مجھے علم ہے جہاں کوئی پریشانی کوئی جھگڑا کوئی دل آزاری، بیماری ، دکھ کا واقعہ کوئی اندوہ ناک وفات ہو سب اپنے دل کا سارا دکھڑ ا حضور پرنور کے شفیق دل میں اُنڈیل دیتے ہیں.اور پھر پر اسرار دھندلکوں میں سموئے ہوئے غم ، فضاؤں میں سسکتے ہوئے احساس الم اُن کی روح پر جذ بہ مہم بن کر چھا 207
سیلاب رحمت جاتے ہیں.آنکھیں اشکوں کی راہ گزار بن جاتی ہیں اور دل مہمان سرائے غم وحزن.آپ کے سینے میں جوان مرگ اُمنگوں کے اتنے مزار ہیں کہ وہ غم وحزن کے سینکڑوں قافلوں کی زیارت گاہ بن سکتا ہے.کسی کے دھیان کی جو گن سارے رنج و آزار کے ساتھ خود ہی پہلو میں آجاتی ہے اور رات بھر احساس کے دکھتے ہوئے تار چھیڑتی ہے.ایک ایک تار سے غم وحزن کی صدا اُٹھتی ہے.دل ایسے جلتا ہے جیسے دور بیابانوں میں کسی راہب کا چراغ ٹمٹما رہا ہو.درد کے قافلے ویرانوں میں لرزتی ہوئی لو کو دیکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ یہی ہماری منزل ہے.دو گھڑی قلب کے غم خانے میں ستا کے تیرگی یاس کی اوٹ سے نکل کر اُمید کی کرن دیکھ کر چلے جائیں گے.کسی اور کا کہاں حوصلہ ہوسکتا ہے کہ اُن میں جھانکے خطوں کے ذریعے انسانیت کی اتنی بڑی خدمت ہو رہی ہے جس کا اندازہ کرنا مشکل ہے.پھر یہ خط لکھنے والے صرف احمدی احباب نہیں ہوتے ہر مذہب وملت رنگ ونسل کے لوگوں کو علم ہے کہ یہاں ایک درد آشنا دل ہے جو یہ سجھتا ہے کہ غم سے سسکتی ہوئی روحوں کا کوئی الگ مذہب اور رنگ نہیں ہوتا.ہر ستم دیدہ انسان انسان ہی ہوتا ہے.کوئی قشقہ ہے دکھوں کا نہ عمامہ نہ صلیب کوئی ہندو ہے نہ مسلم ہے نہ عیسائی ہے ہر ستم گر کو ہو اے کاش یہ عرفان نصیب ظلم جس پر بھی ہو ہر دین کی رسوائی ہے حضور کی ڈاک میں مدد دینے والے بڑے خوش نصیب ہیں.مجھے بھی حضور کے قریب رہنے کا موقع ملتا تو اسی شعبے سے منسلک ہو کر کام کرتی.اللہ پاک سب کو جزائے خیر عطا فرمائے.آمین.208
لندن میں بغرض سیر نکلنے کا موقع کم ملا.میری پھوپھی زاد بہن محترمہ آپا صفیہ بشیر الدین سامی صاحبہ نے نیشنل آرٹ گیلری، پارلیمنٹ سکوائر ، ڈاؤننگ سٹریٹ ، بکنگھم پیلس ، ہارس گارڈ وغیرہ کی سیر کروائی.بارش میں پیدل چل کر ڈائنا کے فیونرل پر جہاں پھول رکھے گئے تھے.سارا حصہ دیکھا.وہاں اب پارک بن رہا ہے.ایک سیر محترمہ امۃ الرشید احمد صاحبہ نے کروائی.نیچرل ہسٹری میوزیم دیکھا.ایک ایک چیز دیکھ کر بے اختیار حمد وثنا کی.حیوانات، نباتات، جمادات کا ارتقائی سفر، فضا اور زیر آب مخلوقات، کرہ ارض پر مختلف اثرات کا مظاہرہ عجیب حیرت انگیز دنیا ہے.ایک ایک چیز گھنٹوں دیکھنے کے قابل تھی مگر ہر جگہ وقت کی کمی آڑے آتی.سرسری تم جہان سے گزرے ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا خالق کائنات کو ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے.اتنا قیمتی رنگا رنگ حسن پیدا کرنے کا مقصد صفت خالقیت کا اظہار ہے.تا کہ انسان یہ مظاہر دیکھ کر خالق تک پہنچے.کیا عجب تو نے ہر اک ذرے میں رکھے ہیں خواص کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا محترمہ امتہ المتین رشید الحق صاحبہ نے زمین دوز ریلوے کی سیر کرائی اور قدوس نے جو ناصر صاحب کی بھتیجی ہے اسلام آباد کی سیر کرائی.قدوس محترم چودھری رشید احمد صاحب سے شادی کے بعد سے لندن میں سکونت پذیر ہے.ومبلڈن سے اسلام آباد تک رشید صاحب اور قدوس کی کمنٹری کے ساتھ زندگی کی یادگار سیر کی.سارا راستہ اتنا حسین ہے کہ لگتا تھا ساری انگریزی شاعری ایک ساتھ پڑھ لی.دونوں طرف حد نظر تک وسیع چرا گا ہیں ، سبزے کے 209
سیلاب رحمت تختے درمیان میں کہیں کہیں دیہاتی طرز کے سرخ چھتوں کے مکان دھلے دھلائے خوبصورت پیر.کہیں کہیں تاحد نظر سرسوں جیسی فصلوں کی بہار، ہر منظر انتہائی دلفریب تھا.آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا.ہلکی بارش تھی اس جزیرے کو اللہ پاک نے کتنا حسین بنایا ہے.رشید صاحب اس رستے سے بہت مانوس تھے.پہلے جاب کے سلسلے میں پھر اسلام آباد میں روٹی پلانٹ پر ڈیوٹی کی وجہ سے انہیں بہت دفعہ ان سبزہ زاروں کو دیکھنے کا اتفاق ہو چکا تھا.اس لئے وہ میری محویت سے محظوظ ہوتے رہے.اسلام آباد قدرتی طور پر درختوں سے گھرا ہوا گھاس کا وسیع میدان ہے.جس میں حضور کی رہائش گاہ ، لجنہ کا دفتر ، الرقیم پریس، روٹی پلانٹ اور بیرکوں سے تبدیل کر کے بنائے ہوئے کچھ رہائشی مکانات ہیں.اس جنت ارضی میں بائیں خاندان رہتے ہیں کھلی جگہ پر صاف فضا میں پھول سے بچے کھیل رہے تھے.کچھ گھروں میں جا کر مکینوں سے محبت بھری گفتگو کا لطف لیا.خدمت گزاروں نے مل کر جنت کا نقشہ بنالیا ہے.روٹی پلانٹ اور رقیم پریس تفصیل سے دیکھا.ویسے تو خاکسار دس بارہ سال سے تصنیف واشاعت کے کام سے وابستہ ہے لیکن پریس پہلی دفعہ دیکھا تھا.دوسری دفعہ اسلام آبادعید الاضحیہ کے موقع پر گئی.میری تو ایک عید میں کئی عید میں تھیں.یہ بات صرف وہ سمجھ سکتا ہے جس نے پاکستان خاص طور پر کراچی میں عیدیں منائی ہوں.عید سے چند دن پہلے یہ پیغام ملتا ہے کہ عید ایک مرکزی جگہ کی بجائے اپنے اپنے سینٹر میں ہوگی.کبھی یہ بھی اعلان ہو جاتا ہے کہ عورتیں اور بچے عید پڑھنے نہ جائیں.یہاں عید پر مار کی بھری ہوئی تھی.رنگ برنگ خوش لباس خوش باش خواتین اور بچے بھر پور بہار کا منظر پیش کر رہے تھے.بعض خواتین سے پچیس تیس سال بعد ملاقات ہوئی.کچھ درثمین کے حوالے 210
رحمت سے پہچان گئیں.ان دنوں درثمین درست تلفظ اور مشکل الفاظ کے معانی والا پروگرام ایم ٹی اے پر قسط وار آ رہا تھا.پھر حضور ایدہ اللہ کا خطبہ اور نماز کی امامت کا لطف ملا.عید کے اجتماع پر شروع سے آخر تک نظر ڈال کر میں نے دیکھا کہ زیادہ تر پاک و ہند کے چہرے تھے.اس خطہ زمین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے موعود کی تخت گاہ کیلئے چنا.سعید روحوں کو کشاں کشاں اُن کے ارد گرد جمع کیا.پھر انہیں ہر قسم کی برکتوں سے مالا مال کیا.پہلے ایسے اجتماعات پر سادگی حاوی ہوتی تھی.اب تمول نمایاں تھا.عید کے بعد دید ہوئی.گویا دوہری عید ہوئی.حضور انور ذرا دیر کیلئے عورتوں کی مارکی میں تشریف لائے.اُس وقت سب گھر والے اور کراچی والے بہت یاد آئے.اللہ کرے ایسی عید میں اہل پاکستان کے نصیب میں بھی ہوں.ہر دعا کے موقع پر ایسی دعاؤں کا موقع ملا.عید کے بعد اسلام آباد کے طول و عرض میں پھیل کر اپنی اپنی گاڑیوں کی اوٹ میں دائروں کی صورت میں بیٹھ کر گھروں سے تیار کھانا گرم کر کے کھایا.کچھ لوگ بار بی کیو بھی کر رہے تھے.یہ ایک دلفریب منظر تھا.میری بھتیجیاں مبشرہ شکور اور مدثرہ عباسی بھی بڑی مہارت سے ضرورت کی ہر چیز اور وافر کھا نالا ئی ہوئی تھیں.آزاد بلاخوف وخطر خوشیوں سے بھر پور ماحول میں پاکیزگی کے ساتھ حقیقی عید ہوئی.ان کے بچے چلڈرن کلاس کے تربیت یافتہ ہیں.اس لئے آتے جاتے گاڑی میں ان سے نظمیں سنی گئیں.چلتی گاڑی میں باہر کے مناظر کے ساتھ پیارے بچوں کی پیاری آوازوں میں پیاری نظمیں بہت بھلی لگتیں.اپنے آقا سے براہ راست فیض پانے کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کرنے کے شوق میں چلڈرن کلاسز میں بھی جاتی رہی.وقت سے کچھ پہلے محمود ہال میں پہنچ جانے کی وجہ سے پروگرام کی تیاری کے مراحل بھی دیکھے.مائیں اور منتظم خواتین بچوں کی نظمیں تقریریں تیار 211
کرانے میں دوڑ بھاگ کر رہی ہوتیں.یہ پروگرام جہاں بچوں کیلئے دینی درسگاہ ہے بڑوں کیلئے بھی کم فائدہ مند نہیں.بہت مطالعہ سوچ بچار اور محنت سے تیار ہوتا ہے.پھر آپس میں ایک صحتمند مقابلہ بھی جاری رہتا ہے.مستقل حصہ لینے والے بچوں کی ماؤں سے تعارف ہوا.سب ہی بلا امتیاز اپنے اپنے بچوں پر بہت محنت کر رہی ہیں.اپنی خوش نصیبی پر نازاں بھی ہیں.بچوں کی تربیت خلیفہ وقت کے شفیق ہاتھوں میں ہورہی ہے.بندہ خدا سے اور کیا مانگے.یہ بچے نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے عزیزوں کیلئے اور ساری جماعت کے لئے ابدالاباد تک رہنے والی نعمتیں حاصل کر رہے ہیں.حضور انور نے نظمیں پڑھنے کے فن کو بھی صیقل کیا ہے.آواز کے زیر و بم سے زیادہ دل ڈال کر پڑھنا سکھایا ہے.اس مدرسے کے فارغ التحصیل بچے تصنع اور نمائش کو بھول کر دل سے دلوں میں اُترنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوں گے.حضور انور کی محنت مضبوط اور دیر پا رنگ لائے گی.چلڈرن کلاس کے بعض مناظر ہر وقت میرے ساتھ رہتے ہیں.محمود ہال میں حضور پر نور کی موجودگی میں اس نظم کے دلنشین بول دل میں گہرے اترتے چلے گئے.مرے درد کی جو دوا کرے، کوئی ایسا شخص ہوا کرے وہ جو بے پناہ اُداس ہو، مگر ہجر کا نہ گلہ کرے مری چاہتیں مری قربتیں، جسے یاد آئیں قدم قدم تو وہ سب سے چھپ کے لباس شب میں ، لپٹ کے آہ و بکا کرے 129اپریل کا دن اس لحاظ سے یاد گار تھا کہ صدر صاحبہ یوکے کے زیر اہتمام حضور پرنور سے اجازت لیکر مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا.محمود ہال آخر تک بھرا ہوا تھا.سٹیج پر موم بتیوں کی قطار خصوصی انتظام کو چمکا رہی تھی.فرشی نشست پرکشش منظر پیش کر رہی تھی.محترمہ طیبہ 212
سیلاب رحمت شہناز صاحبہ نے میزبانی کے فرائض سنبھالے.شاعرات نے اچھے انداز سے پڑھا.خاکسار کو بھی موقع ملا.باذوق سامعات نے ہلکے پھلکے اشعار کو زیادہ پسند کیا اور کھل کر پسندیدگی کا اظہار کیا.سامعات کے چہروں کی تازگی اور رونق مشاعرے کو کامیاب لکھ رہی تھی.چند شعر پیش کرتی ہوں: پردہ نہیں ہے مردوں سے پر مسجدوں سے ہے مسجد قریب آئے تو پردہ کرے کوئی ہر ملک کی زبان کے مخصوص لہجے میں پنجابی کا نہ تڑکا لگایا کرے کوئی دینے سے پہلے تحفوں سے پھاڑی ہیں قیمتیں جب سیل سے لیا ہو تو پھر کیا کرے کوئی اس مشاعرے کے علاوہ بھی مہربان خواتین نے سننے سنانے کے ساتھ لذت کام و دہن کا بھی اہتمام کیا.مثلاً محترمہ امتہ الحفیظ بیگم ڈاکٹر پروفیسر عبد السلام صاحبہ نے اس عزت افزائی کے علاوہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کا یادگار کمرہ ، اُن کی کتابیں، اعزازات تصویریں ، بستر ، کرسی، میز میری درخواست پر دکھایا.ڈاکٹر صاحب کی ذاتی لائبریری تو صاحبانِ ذوق کیلئے جنت ہے.ایک نظر دیکھ کے دل کیا وہیں کی ہور ہوں.قرآن پاک کے تراجم، تفسیریں، دینی کتب، سائنسی کتب اور شعر و ادب پر ہر قابل ذکر کتاب وہاں موجود تھی.ڈاکٹر صاحب کا فیض کئی لحاظ سے جاری رہے گا.جس میں یہ لائبریری اہم کردار ادا کرے گی.فجز اھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.محترمہ پروین رفیع مختار صاحبہ نے دیگر بہت سی مہر بانیوں کے ساتھ اپنی ایک سکھ شاعرہ 213
سہیلی کو بھی مدعو کر رکھا تھا.سادہ سی اس خاتون نے نہایت پر اثر نظم سنائی.یہ بہن جی محترمہ پروین صاحبہ سے بے تکلف اور ان کے زیر اثر تعصبات سے پاک تھیں بلکہ جب اُنہوں نے اپنے گھر پر بلایا تو ان کی ایک سہیلی ڈاکٹر شیرن کی موجودگی میں کھل کے باتیں ہوئیں.گورو بابا نانک کے لئے ہمارے احترام نے اُن کے دل میں کھلی جگہ بنائی ہوئی تھی.محترمہ امتہ الباسط ایاز صاحبہ کے ہاں بڑی نفیس پارٹی میں خوب دلچسپ باتیں ہوئیں.اُن کی خوش نصیب والدہ محترمہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا.حضور پرنور کے لطائف آدھی انگلش آدھی اردو میں دہرائے گئے.پر لطف جاندار محفل رہی.محترمہ طیبہ شہناز کے یہاں لجنہ لندن کا ماضی و حال جمع تھا.سارا وقت تاریخ لجنہ ہی موضوع رہی.محترمہ ثریا غازی صاحبہ کے مہمانوں کی گفتگو کا محور بھی یہی رہا.محترمہ قانتہ شاہدہ راشد صاحبہ سے حضور پرنور کی ہجرت کے وقت کے حالات سنے.قانتہ نے بتایا کہ ہم ایک کمرے میں سمٹ گئے تھے.حضور تشریف لائے تو نام لے کر ہمارے بیٹے عطاء المنعم کے متعلق پوچھا اور جب ہم نے بتایا کہ وہ سو رہا ہے تو اُس کے کمرے میں جا کر اُسے سوتے میں پیار کیا.محترمہ بی بی فائزہ صاحبہ سے بھی ہجرت کی باتیں سنیں.فائزہ ذہانت سے گفتگو کرتی ہیں.انداز معصومانہ ہے.وہاں حضرت بیگم صاحبہ مرحومہ بہت یاد آئیں.اُن کی مخصوص خوبیوں کا تذکرہ رہا.فائزہ نے بتایا کہ وہ دلچسپ حس مزاح رکھتی تھیں.ہلکے پھلکے مہذب مذاق اور جملوں سے محفل کو پر لطف بنا دیتی تھیں.میں نے سوچا حضور جیسی معمور الاوقات ہستی کی شریک حیات کو یہ وصف اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ودیعت کیا ہو گا.حضور بھی چست جملے بولنے میں کسی سے کم نہیں.خوب گزرتی ہوگی.آخری بیماری کی باتیں بھی ہو ئیں.اللہ تعالیٰ نے بڑا صبر اور حوصلہ عطا فرمایا ہے.214
سیلاب (رحمت) سکھ بانٹتے پھرتے تھے مگر کتنے دکھی تھے بے چارگی غم میں بے چاروں کے سہارے محترمہ اصغری نور الحق صاحبہ کی دعوت پر مشاعرے میں شمولیت کیلئے جاتے ہوئے کار میں فائزہ بی بی ہم سفر تھیں جی بھر کے باتیں ہوئیں.یہ جی بھر کے محاورہ آگیا ہے.سچ یہ ہے کہ جی پھر بھی نہیں بھرا.فائزہ سخن فہم بھی ہیں.اُن کی موجودگی میں شعر سنا کر لطف آیا.پھر باتوں باتوں میں ابا کا ذکر آجاتا تو دوطرفہ والہانہ پن سے مزے ہو جاتے.اپنی بیٹی امتہ الصبور کے شب و روز دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے شکر کے بہت مواقع ملے.صبور اور عمر دونوں کو اپنی سماعت سے محرومی کی وجہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ہے.دروازے کی گھنٹی بجے یا فون یا فیکس آئے ، بچہ روئے یا آواز دے تو بلب روشن ہوتا ہے.اس طرح وہ اپنے معمول کے کاموں کو آسانی سے سرانجام دے سکتے ہیں.بڑے بچے شمر کو نرسری میں خصوصی توجہ سے پڑھایا جاتا ہے.مجھ سے سب یہ پوچھتے ہیں کہ سماعت سے محروم والدین کے بچے سنتے ہیں؟ بولتے ہیں؟؟ میں وضاحت کر دوں کہ سماعت سے پیدائشی محروم والدین کے بچے بھی ضروری نہیں کہ بہرے ہوں جبکہ صبور اور عمر دونوں بیماریوں کے نتیجہ میں محروم ہوئے تھے.اللہ پاک کے کرم سے ان کے دونوں بچے نارمل ، ذہین اور صحتمند ہیں.الحمد للہ.واپسی کے دن قریب آرہے تھے.مبشرہ کی Cheltenham کی دعوت پر نکلے تو بارش ہو رہی تھی.اس کے ہاں جانے کے لئے معمول سے زیادہ وقت لگا.اچھا ہی ہوا ، اتنا حسین سفر جلدی کٹ جاتا تو ملال ہوتا اُسے شوق رہا کہ دھوپ نکل آئے تو میں رنگ برنگے درختوں کا اصل حسن دیکھ سکوں.میری دعا تھی برف باری ہو تو یہ مزہ بھی دیکھوں.اُس دن میری دعاسنی گئی اور ہلکی برف باری ہوئی.نزدیکی پہاڑی پر چڑھ کر دور دور کا نظارہ کیا.شکور صاحب نے 215
بتایا کہ اس شہر کو خوبصورت ترین شہر کا انعام ملا تھا.اتوار دس مئی کو واپسی تھی.آٹھ تاریخ کے جمعہ میں حضور پر نور کی آواز کے ساتھ دل اور آنکھیں بھر جاتی رہیں.سجدے میں سر رکھا تو اُٹھانے کو جی نہ چاہا.خوب دعائیں کیں.اس نادر و نایاب وجود کیلئے جو خدا تعالیٰ کی خاص رحمت کا نشان ہے جس کے اوصاف سے ایسی کھڑکیاں کھلتی ہیں جہاں سے ہم اللہ تبارک تعالیٰ کو دیکھ سکتے ہیں کہ وہ کتنا اعلیٰ و برتر ہے.پھر اُن کیلئے بھی دل سے دعا نکلی جن کے تعاون سے یہ سفر میسر آیا تھا.جمعے کے دن شام کی ملاقات تھی.انتظار کے کمرے میں ہی حالت قابو میں نہ تھی.یہاں مجھے حضور ایدہ الودود کا ایک مکتوب ملا.حضور کے خطوط میرے لئے کیا اہمیت رکھتے ہیں بیان نہیں کر سکتی.حضور کے مقام ومرتبہ کی بلندی کا اندازہ بھی نہیں کر سکتی.نادانی جرات آموز ہوتی ہے.وہ سب کچھ لکھ دیتی ہوں جولکھنا چاہتی ہوں.پھر خوفزدہ رہتی ہوں.استغفار کرتی ہوں.خط آتا ہے تو ڈرتے ڈرتے کھولتی ہوں حضور بیحد شفیق ہیں پھر بھی ڈر لگتا ہے.مگر خط کھول کر سارے غم بھول جاتی ہوں.کبھی کبھی نظموں پر داد اور دُعا بھی ملتی ہے.اس خط میں بھی الفضل انٹرنیشنل میں چھپنے والی ایک نظم کو خوبصورتی سے سراہا گیا تھا.خاص طور پر کچھ اشعار پر زیادہ پسندیدگی کا اظہار تھا: آتا ہے نظر تاروں میں مہتاب ہر پہلو علیحده ہے وہ در نایاب عليحده حرفوں کے بدن ٹوٹے ہیں اُس شب کی دکھن سے جو یاد میں گزری شب مهتاب علیحدہ ترتیب سے رکھتی نہیں یادیں کبھی لیکن باندھا ہے ترے نام کا اک علیحده باب 216
رحمت اب چارہ گری کوشش ناکام رہے گی اس مرتبہ ہیں درد کے اسباب علیحدہ پیارے آقا کی دلداری کے انداز بھی اپنے ہیں.خاکسار اگر کچھ کہ رہی ہے تو اس میں بہت دخل پیارے آقا کی ہمت افزائی اور دعاؤں کا ہے، ورنہ میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ کیا اوقات رکھتی ہوں.ملے جلے جذبات سے مغلوب اشک اندر انڈیلنے کی کوشش میں تھی کہ آفس میں جانے کا اشارہ ہو گیا.صرف اتنا بتا سکوں گی کہ وہاں ہزاروں منصوبے دھرے رہ گئے.مٹھاس ، ٹھنڈک، خوشبو، چاندنی، مامتا نور مجسم سے مل آئی.دفتر پر ایک نظر ڈالی ، باہر جانے والے دروازے کے ہینڈل کو کچھ دیر تھام کر چھوڑ دیا اور آگئی.کیا دیکھا، کیا سنا..نظارے نے بھی کام کیا واں نقاب کا عمرائی مستی سے ہر نگہ ترے رُخ پر بکھر گئی اگلے دن چلڈرن کلاس تھی سوچا کچھ دیر اور ضیافت قلب و نظر ہو جائے.محمود ہال کا مسحور کن ماحول تھا.عزیزہ شوکت ہادی کی آواز اُداس کوئل کی طرح دل سے ہم آن ملیں گے متوالو بس دیر ہے کل یا پرسوں کی تم دیکھو گے تو آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی دید کے ترسوں کی ہم آمنے سامنے بیٹھیں گے تو فرط طرب سے دونوں کی آنکھیں ساون برسائیں گی اور پیاس بجھے گی برسوں کی پیارے حضور عین سامنے تشریف فرم نظم میں ڈوبے ہوئے تھے اور میری آنکھیں ہی نہیں زمین و آسمان ساون برسا رہا تھا.شوکت کی آواز میں حضور کے کلام کا ایک ایک بول عین 217
دل پر ضرب لگا رہا تھا.اگلے دن ایئر پورٹ پر قدوس اور رشید صاحب ،مبشرہ اور شکور صاحب مدثر اور عباسی صاحب صبور اور عمر صاحب مع ثمر اور ڈیڑھ ماہ کے نصر کے الوداع کہنے آئے تھے.صبور اور عمر کے پاس زبان نہیں.اُن کی آنکھوں نے اور باقی سب نے پیار بھرے انداز میں دلی دعاؤں کے ساتھ الوداع کہا.جہاز کے پہیوں نے ہیتھرو سے نا نہ توڑا اور فضاؤں میں بلند ہو گیا.دور دور تک اندھیرا تھا کہیں کہیں بادلوں کی پھٹی ہوئی چادر سے روشن شہروں کا جو بن جھانک رہا تھا.مشرق کی طرف سفر نے جلد ہی صبح نو کی نوید دی.آسمان پر ایسے اُجالے پھوٹتے.میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے.آفتاب تازہ کا طلوع ایسا شاندار ہوتا ہے خبر ہی نہیں تھی.پہلے آسمان پر نارنجی رنگ پھیلنا شروع ہوا.پھر انہیں تیز روشنیوں میں سے سفید کرنیں پھوٹنے لگیں.چندھیا دینے والا نور اپنا دامن پھیلا تا چلا گیا.کس قدر ظاہر ہے نور اُس مبدء الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا وہ آنسو جو کئی دن پہلے سے صبور کی آنکھوں سے چھلک رہے تھے، مجھے ڈبوتے چلے گئے: لمحات وصل جن یہ ازل کا گمان تھا چٹکی میں اُڑ گئے وہ طیور سرور شب میں گئی تھی تو ڈیفوڈلز کھلے ہوئے تھے.پھر ٹیولپ نے رنگ بکھیرے اور بے لباس درختوں نے پھول اوڑھ لئے.خدا حافظ پیارے آقا کے پیارے پر دیں..218
اک خاک کے ذرے پر عنایات کا عالم خاکسار کی منظوم کوششوں پر حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعلی کی داد اور دعا میں در ثمین اردو، در ثمین فارسی، کلام محمود، کلام طاہر اور بخار دل جیسے اعلیٰ مرتبہ کا منظوم کلام پوری توجہ سے ڈوب کر پچاسوں بار پڑھنے کی بدولت شعر کی لطافت، عرفان، چاشنی ، شان، عظمت اور اثر کی انتہائی بلندیوں سے شناسائی ہوئی.اس سے پہلے دور طالب علمی میں ولی دکھنی سے فیض تک شعر زیر مطالعہ رہا.پھر چند سال قبل حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر ہم زمین غزلیں زمانی ترتیب سے یکجا کرنے کی سعی میں از سر نو اردو شاعری کھنگالی.اس تمہید کا مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ کلام کے فکر وفن کی بلندیوں سے آگاہی کے باوجود اپنی مبتدیانہ کاوش پیش کرنے کی جسارت کیسے ہوئی؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ لم حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے از راہ کرم مجھ حقیر فقیر کوفراخدلی سے دعا اور داد سے مالا مال کیا جس سے نمو پانے والی خوش فہمی کی انگیخت پر یہ مجموعہ ترتیب دیا.اب اپنا کلام نہیں آقا کا حسن نظر بصد تشکر اور ناز پیش خدمت ہے.خاکسار کے شعر گوئی کے سفر کا آغاز طالب علمی کے زمانے سے ہوا.کالج و یو نیورسٹی میں 219
سیلاب رحمت رنگینی بزم کے لئے شریر نظمیں یا طرحی مشاعروں کے لئے گھڑی ہوئی غزلیں کہتے ہوئے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ میری یہ بیساختہ فطری صلاحیت کسی گنتی شمار میں آسکتی ہے.پھر یہ ہوا کہ 1974 ء اور بعد کے دُکھ بھرے حالات سے قلب و روح پر لگتی ہوئی چوٹوں کا درد سکتے ہوئے حرفوں کا لباس پہن لیتا.1982ء تک چند نظمیں ہوئیں جن کا رخ ایک ہی تھا.مثلاً : مالک لولاک تیرے نام لیوا ہم بھی ہیں اک نگاہِ لطف و رحمت دل گرفتہ ہم بھی ہیں فیصلہ یہ کون کہتا ہے شکست فاش ہے انتم الاعلون کا وعدہ ہمارے ساتھ ہے کف قاتل کے سلیقہ کو سراہا جائے جان دی جائے نہ چیخا نہ کرایا جائے کچھ نظمیں ہفت روزہ لا ہور اور مصباح میں چھپیں تا ہم ایک ٹھہری ہوئی کیفیت تھی لاہور اور میں تا آنکہ 1983 ء کے اوائل میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کراچی تشریف لائے.گیسٹ ہاؤس کے سبزہ زار پر محافل سوال و جواب ہو ئیں.خاکسار کو خواتین میں مجالس عرفان میں حضور انور کے بہت قریب جگہ ملی.زندگی کا پہلا موقع تھا خلیفہ وقت اس قدر قریب، روح اتھل پتھل ہوگئی.پھر آپ کے تجر علمی اور مشفقانہ محبتوں کے بحر مواج میں سب کچھ ڈوب گیا.میں ایک ڈائری میں آپ کے ارشادات لکھ رہی تھی بچوں کی سی خواہش مچلی کہ اس ڈائری پر آپ کے دستخط لے لوں اتنے میں آپ نے کسی کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ سارے خط آپ خود دیکھتے ہیں اور جواب دیتے ہیں.گھر آ کر حضور کو خط لکھا.نہ جانے کیا کیا 220
سیلاب رحمت لکھا اور دُعا کرنے لگی کاش میرے خط کا جواب آپ کے دستخط کے ساتھ آئے.دعا قبول ہوئی.جواب آیا.لفافہ کھولا تو خوشی کی انتہا نہ رہی سارا خط دستِ مبارک سے تحریر شدہ تھا.اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر کیا.آپ نے تحریر فرمایا تھا: رَبِّ اجْعَلْ لِي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا بيع الله الرحمن الرحيمي + عمل النصلى على رسوله الكريمي پر خدا کے فضل اور نجم کے ساتھ هُوَ النَّ سامير امام جماعت احمدیت 22.3.1362 1983 عزیزه استر الباری السلام علیکم و نعمته باله و برکاته آپ کے خط سے یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ میرا کراچی کا نفر بے کار نہیں گیا اور اند تعالٰی محض اپنے فضل سے میری حقیر کوششوں میں برکت ڈالی اور مجھے بھلی لگا کے جنل خوشگوارد اخلاص کے وہ ارت آپکی تحریر کے بھی فقرے فقرے سے پھوٹ رہی ہے.الحمد للہ کہ اچھے بچوں نے بھی اس نعرے استفادہ کیا - الله تعالٰی آپ سب کو کامیاب نہ کامران خوشیوں سے محمود خدمت دین سے بہکتی ہوئی زندگی عطار فرمائے.اور دنیا اور آخرت کی منانے سے نواز نے خدا فاقد در سر تا کار مزر الملد 221
سیلاب رحمت آپ کے خط سے یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی کہ میرا کراچی کا سفر بے کار نہیں گیا اور اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے میری حقیر کوششوں میں برکت ڈالی اور اخلاص کے وہ میٹھے پھل لگائے جن کی خوشبو اور لذت آپ کی تحریر کے بھی فقرے فقرے سے پھوٹ رہی ہے.الحمد للہ کہ آپ کے بچوں نے بھی اس سفر سے استفادہ کیا.اللہ تعالیٰ آپ سب کو کامیاب و کامران خوشیوں سے معمور خدمتِ دین سے مہکتی ہوئی زندگی عطا فرمائے.اور دنیا و آخرت کی حسنات سے نوازے.خدا حافظ.“ ( مكتوب: 1983-3-22) حضور رحمہ اللہ کی کراچی آمد کی خوشی میں ایک نظم ہوگئی تھی جو بغرضِ دعا حضور کی خدمت میں پیش کر دی.ایک شعر تھا خوش ہیں احمد کے فدائی کہ حضور آئے ہیں حمد باری میں مگن پیکر نور آئے ہیں پیارے حضور نے از راہ شفقت یہ نظم پسند فرمائی اور دعاؤں سے نوازا : آپ کی نظم بعنوان مجلس عرفان کا تاثر پڑھی.آپ کے پر خلوص جذبات اور نیک توقعات پر تہ دل سے ممنون ہوں.ماشاء اللہ آپ خوب لکھتی ہیں.مجھے خیال نہیں تھا کہ آپ کو فصاحت اور بلاغت میں اتنا کمال حاصل ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی صلاحیتوں کو مزید جلا بخشے اور خدمت دین کے لئے استعمال کرنے کی توفیق بخشے اور دین و دنیا کی حسنات سے نوازے.“ ( مكتوب 1983-3-7) 222
سیلاب رحمت صلاحیتوں کی چلا اور خدمت دین کے لئے استعمال کرنے کی توفیق کی دعانے خاکسار کو سلطان قلم کی فوج میں شامل ہو کر عاجزانہ خدمات کی راہوں پر ڈال دیا یہ آپ کی دعاؤں کا اعجاز ہے نہ جانے مجھ جیسے کتنے فقیروں کا ہاتھ پکڑ کر تو نگر بناڈالا.الحمد للہ علی ذالک.پھر حالات نے ایسا درد ناک رخ بدلا کہ حضور پرنور کو وطن سے ہجرت کرنی پڑی.الہی جماعتوں میں پیرومرید یک جان و دو قالب ہوتے ہیں.اس جدائی سے دونوں طرف ایسی تڑپ تھی کہ کوئی سمجھ نہیں سکتا تھا کون پیا ہے کون پر یمی.ایسے میں آپ کے خطبات وخطابات جو کیسٹس کے توسط سے ہم تک پہنچتے ، دل ہلا دیتے.ایک خطاب میں آپ نے فرمایا: مَنْ أَنْصَارِي إِلَى الله - میرا دل پکارا حاضر ہیں دل و جان سے اے قافلہ سالار! خواہش ہے کہ جاں دین پہ صدقے کریں سو بار اور ظلم کے بت اپنی دعاؤں سے گرا دیں ہم داعی الی اللہ نہیں بے کس و لاچار حالات بہت اچھے ہیں اور حوصلے قائم یہ نظم مصباح میں چھپی.پیارے حضور کی نظروں میں آگئی.آپ نے حوصلہ افزائی فرمائی.دلداری کے یہ دلفریب انداز حضور کے ساتھ مخصوص ہیں.تحریر فرمایا: ابھی چند روز ہوئے مباح ہیں آپ کی ایک نظیم رکھیں.جو آنکھوں سے سیدھی دل میں اترتی چلی گئی اور میں آپ کے لئے دعاء کرتا رہا والسلام فالسار از انار خليف مسیح الرابع 223
سیلاب رحمت ابھی چند روز ہوئے مصباح میں آپ کی ایک نظم دیکھی جو آنکھوں سے سیدھی دل میں اُترتی چلی گئی اور میں آپ کے لئے دعا کرتا رہا.“ انہی دنوں لجنہ کے اجتماع میں ایک نظم سنائی جو سب کے بے قرار دلوں کی پکار تھی: لندن کی فضاؤں میں اے بادِ صبا جانا مجھے یاد ہے ہر آنکھ پر نم تھی اور ہر دل دعا گو.پیارے آقا کو بھی بھیج دی.آپ نے دست مبارک سے تحریر فرمایا: لندن 9.1.1365 1985 عزیزه استرالیادی ناصر MIRZA TAHIR AHMAD HEAD OF THE AHMADIYYA COMMUNITY IN ISLAM اسلام علیکم ورحمته الله وبركاته آپ کی بہت پیاری نظم و یک پست به نظر می خورد کے ساتھ علی - خط بھی تو شعریت میں گذرا ہوا تھا- اور جذبات کی لطافت اور یا کنیز کی میں نظم سے.پیچھے نہیں تھا.جزاکم اللہ احسن الجزاء اللہ تعالٰی آپ کی ذہنی اور قلیقی صلاحیتوں کو ان بھی جلد تھے اور اپنے قرب کی راہیں نصیب فرمائے اور اپنے سایہ عاطفت کے نیچے آس کی پر خوبی کو نشو و نما مکار فرماتا رہے اور پر کمزوری کو دھا پیتا رہے بب عزاز وں کو میرا نہایت تحت ہوا سلام است بچیوں کو پیار مجھے لگتا ہے کہ یہ سال ہمارے لئے ہے جو مبارک ہوگا اور اللہ کے پیار اور رحمتوں کے لئے لئے درخشنده نشان لے کر آئے گا.اللہ میری توقعات سے بہت بڑھ کرار جلہ تر جماعت کی بے انتہا خوشیاں مجھے رکھا کے خدا حافظا آیا سلیم اور دیگر ممبرات مجلس کو محبت میرا له در هر ناندر از اطلس 224
رحمت آپ کی بہت پیاری نظم ایک بہت پر خلوص خط کے ساتھ ملی.خط بھی تو شعریت میں گندھا ہوا تھا اور جذبات کی لطافت اور پاکیزگی میں نظم سے پیچھے نہیں تھا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اللہ تعالیٰ آپ کی ذہنی اور قلبی صلاحیتوں کو اور بھی جلا بخشے اور اپنے مقرب کی راہیں نصیب فرمائے اور اپنے سایہ عاطفت کے نیچے آپ کی ہر خوبی کونشو و نما عطا فرما تارہے اور ہر کمزوری کو ڈھانپتا رہے.سب عزیزوں کو میرا نہایت محبت بھر اسلام اور بچوں کو پیار.مجھے لگتا ہے کہ یہ سال ہمارے لئے بے حد مبارک ہوگا اور اللہ کے پیار اور رحمتوں کے نئے نئے درخشندہ نشان لے کر آئے گا.اللہ میری توقعات سے بہت بڑھ کر اور جلد تر جماعت کی بے انتہا خوشیاں مجھے دکھائے.آمین.خدا حافظ.آپا سلیمہ اور دیگر ممبرات مجلس کو محبت بھرا سلام ( مكتوب 1985-1-9) سب آپ کا بڑا پن ہے ایک حقیر ذرہ نا چیز کی حوصلہ افزائی فرمائی.آپ کو کیسے کیسے قادر الکلام شعرائے کرام اپنا کلام دکھاتے ہوں گے.اُن میں خاکسار کی حیثیت ہی کیا تھی.بعض دفعہ بڑے شاعر نو آموز تک بندوں کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کرتے.مگر آپ کا دل بہت بڑا تھا.بے اختیار ہو کر اللہ تعالیٰ کا شکر کرتی جس نے ایسا آقا عطا فرمایا.جلسہ سالانہ یو کے کے قریب پر شکستہ زیادہ محزون ہو جاتے.حضور کی نظموں میں بھی جلسہ کے دنوں کا کرب نمایاں نظر آتا ہے.میرا ایک ٹوٹا پھوٹا اظہار تھا؎ 225
رحمت ہم اے غریب الوطن مسافر خدا کے وعدوں پہ جی رہے ہیں یہ فاصلوں کے دریدہ دامن ہم اپنی پلکوں سے سی رہے ہیں پیارے آقا نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا: آپ کی ایک تنظیم کے جواب میں اپنی تک صرف قیادت برا ایک ہی شعر کہہ سکا ہوں.وہ بھی خود بخود کراچی زبان پر آگیا.اب منتظر ہونا کہ اس کا ساتھی در سلام خاکر لال طلبہ ایک ایر شرک نہیں ہو جائے آپ کو دو شہروں میں خلیط البس الرابع اس نظم کا جواب بھیج دوں ”آپ کی ایک نظم کے جواب میں ابھی تک صرف ایک ہی شعر کہہ سکا ہوں وہ بھی خود بخو دزبان پر آ گیا.اب منتظر ہوں کہ اس کا ساتھی ایک اور شعر مہیا ہو جائے تو آپ کو دوشعروں میں اس نظم کا جواب بھیج دوں.“ ( مكتوب 1985-7-17) جماعت کے حالات حساس دلوں کو اپنی گرفت میں رکھتے الہی جماعتوں پر ابتلاؤں کے بعد فتوحات کے وعدے جینے کا سامان بنتے ہیں.خلیفہ وقت کی دُوری کا غم خوشیوں کے مواقع کو بھی حزیں بنادیتا.ایسے میں عید کا تصور کیا کیا تصویریں دکھاتا ہے 1985ء کی عید تھی.ایک نظم ہوگئی.عید کے چاند سنا کون کس حال میں تھا پیارے آقا کو اس نظم کی بے ساختگی پسند آگئی.میری تو عید ہوگئی.دستِ مبارک سے تحریر فرمایا: 226
واجمل الا من الله سلطة نصر انا فتحنا لك فضائية سم الله الرحمن الرحيم نحْمَدُه وَتُصَلِّ عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ انگار می خومه 30.10.1364 عزیزه استر انبازی اسلام علیکم ورحمته دریا و برکات نا آپ کی نظروں کو اللہ تعالٰی نے ایک انفرادیت بخشی ہے.اللہ یہ امتیاز ہمیشہ قائم رکھتے.اللہ تعالٰی نے آپ کے انتھار تو سیائی کا حسن عطاء فرمایا ہے.اللہ اس دن کو ہمیشہ فروغ بخشا ر ہے.آپ کی بے لیکن ساره خودرو نظم " عید کے چاند ستا" نے دل پر گہرا اثر کیا.مگر ایک مصرعہ اگردو را سا تبدیل کردیں تو میرے تلفظ کے مطابق زیادہ موزوں ہوگا.صحت کی بجائے میری زبان پر تو صحت لفظ آتا ہے اس لئے ر صحت کیسی ہے بتا تو کیسی محبت ہے بتا میں تبدیل کر رہیں.اللہ آپ کو صحت و عافیت رالی خوشیوں ے محمود خدمت دین سے مزین کمبی با مراد با قمر زندگی عطاء فرمائے نامرد کو محبت ہوا سلام بچوں کو پیار خدا حافظ 227 درس فانا گوزار کایہ
رحمت " آپ کی نظموں کو اللہ تعالیٰ نے ایک انفرادیت بخشی ہے.اللہ یہ امتیاز ہمیشہ قائم رکھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کے اشعار کو سچائی کا حسن عطا فرمایا ہے.اللہ اس حسن کو ہمیشہ فروغ بخشتا ر ہے.آپ کی بے تکلف ، سادہ ،خود ر و نظم عید کے چاند سنا‘ نے دل پر گہرا اثر کیا.مگر ایک مصرع اگر ذرا سا تبدیل کر دیں تو میرے تلفظ کے مطابق زیادہ موزوں ہوگا.صحت کی بجائے میری زبان پر تو صحت لفظ آتا ہے اس لیے صحت کیسی ہے بتا“ کو ” کیسی صحت ہے بتا“ میں تبدیل کر دیں.اللہ آپ کو صحت و عافیت والی خوشیوں سے معمور خدمت دین سے مزین لمبی ، بامراد، باشمر زندگی عطا فرمائے.ناصر صاحب کو محبت بھر اسلام.بچوں کو پیار-خدا حافظ.“ ( مكتوب 1985-10-30) خط میں جو دعائیں تحریر فرمائیں میرے من کی مرادیں بھی وہی ہیں.پیارے آقا کے الفاظ اس قدر جامع ہیں کہ دعا کیلئے ہاتھ اُٹھیں تو ان سے بہتر لفظ نہیں سوجھتے.اور پھر جب یہ بھی ذہن میں ہو کہ یہ الفاظ ایسی ہستی نے تحریر فرمائے ہیں جو درگہ الہی میں بلند مقام اور قبولیت کی سند رکھتی ہے تو دل حمد وشکر سے بھر جاتا ہے.یہ دور مہجوری کے وہ دن تھے جو ہمہ وقت درد میں ڈوبے رہتے.اللہ کریم نے محروم دلوں کی طمانیت کے لئے ایک صورت یہ نکالی کہ خطبات کے کیسٹس ملنے لگے.کیسٹ حاصل کرنا سننا ، سنانا پھر خطبوں میں ارشادات کا دوسروں سے ذکر کرنا ہر طرف یہی موضوعات چل رہے تھے.کیسٹ ، ہر دل کے درد کی دوا 228
بن گئے تھے ایک نظم ہو گئی: اگر خطبے نہ آتے تو یہ دن ہم کاٹتے کیسے اب مجھے تھوڑا حوصلہ ہو گیا تھا کہ پیارے آقا ہمت بڑھاتے ہیں.یہ نظم آپ کو بھیج دی.پیارے آقا نے از راہ شفقت تحریر فرمایا: آپ کا خط اور خطبات پر نظم موصول ہوئی.آپ کے جذبات قابلِ احترام ہیں.اللہ انہیں شرف قبولیت سے نوازے.اللہ آپ کے علم کلام میں مزید برکت عطا فرمائے....66 ( مكتوب : 85-12-17) حضور کے لطف و کرم کی بارشیں ، تشکر اور سرشاری عطا کرتیں.کبھی حوصلہ افزائی براہ راست ملتی کبھی بالواسطہ.میری سہیلی میری محسنہ رفیقہ کار محترمہ مسنز برکت ناصر صاحبہ کے نام ایک مکتوب (90-11-15 ) میں آپ نے دستِ مبارک سے تحریر فرمایا: عزیزہ باری کی ایک بہت اعلیٰ پائے کی غزل چھپی ہے.دیکھو پر ہر شعرختم ہوتا ہے اور واقعی آدمی دیکھتا رہ جاتا ہے.“ اس نظم کا ایک شعر تھا: بیٹیاں جان سے پیاری ہیں پہ رخصت کر کے بوجھ اُتر جاتا ہے ماں باپ کے سر سے دیکھو اسیرانِ راہِ مولا کی بے گناہی اور قید و بند کی مصیبتوں پر ہراحمدی کا دل دکھتا تھا.خاص ر حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی تکلیف دیکھ کر یہ دکھن دو چند ہو جاتی.دعا کی تحریک ہوتی اور اکثر یہ دعا آنسوؤں سے بھیگے ہوئے الفاظ میں نظم ہو جاتی.خاکسار کی دسمبر 1988ء کی کہی ہوئی نظم طور پ 229
ب رحمت الفضل 11 فروری 1989ء کے شمارے میں شائع ہوئی مطلع دیکھئے تا کہ حضور پر نور کی مشفقانہ داد کا زیادہ لطف آئے.جہانِ عشق کی توقیر تم نے بڑھا دی ثار ایسی اسیری لاکھ آزادی پیارے آقا نے دستِ مبارک سے تحریر فرمایا: واجعل لا من لذلك سلطا نصراً انا فتحنا لك فتحا مبينا لبسم الله الرحمن الرحيم نحمده وَتُصَلِّ عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ حلیف اد جماعت احمدی 17.1.1989 عزیزه امته الباري اسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته و ابھی الفضل 11 جنوری میں.آپ کی تنظیم اسیران " راه مولد پڑھی تو ھے جو بدی غم کی اٹھی دل سے تھوڑی برازی باری نظم ہی بڑی پُر اثر ہے اور فصیح و بلیغ ہے نکر بعض اشعار ان بعض مصرعے تو شوخی تحریر کے فریادی بنے ہوئے ہیں.میں نے سوچا کہ پہلے اس سے کہ میری آنکھیں خشک ہو جائیں میں آپ کو بتا دوں کہ یہ نظم پڑھ کر ایران راہ مولد کے ساتھ ساتھ میرے دل نے آپ کو بھی دعائیں دیں جزاكم الله من الجزاء في الدنيا د لآخرة د اسلم خان او کز اما یہ 230
سیلاب رحمت بھی الفضل 11 جنوری میں آپ کی نظم اسیرانِ راہِ مولا پڑھی تو ”جو بدلی غم کی اُٹھی دل پہ تھوڑی برسا دی ساری نظم ہی بڑی پراثر ہے اور فصیح و بلیغ مگر بعض اشعار اور بعض مصرعے تو شوخی تحریر کے فریادی بنے ہوئے ہیں.میں نے سوچا کہ پہلے اس سے کہ میری آنکھیں خشک ہو جائیں میں آپ کو بتا دوں کہ یہ نظم پڑھ کر اسیرانِ راہِ مولا کے ساتھ ساتھ میرے دل نے آپ کو بھی دعائیں دیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء في الدنيا والاخرة ( مكتوب:1989-1-7) اسیران کے ساتھ دعاؤں میں شمولیت کی بات خاکسار کے لئے بہت بڑا اعزاز تھی.ایک دفعہ ایک جلی کئی نظم غبار دل پر بھی دا دل گئی.ایک شعر تھا.جواب ملا: تمہارے نام پہ ہم لوگ تھوکتے بھی نہیں مگر ہو موقع میسر تو چوکتے بھی نہیں ( مكتوب :87-4-24) آپ کا خط اور نظم غبار دل پڑھ کر خوشی ہوئی ایسی جلی کٹی سنائی ہیں کہ کمال کر دی ہے.عورت ہی ایسا لکھ سکتی ہے.واقعی آپ کی نظم عنوان غبار دل کے مطابق ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی شاعری میں نکھار پیدا کرے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں بہترین کلام پیش کرنے کی توفیق 231
دے.دشمن تو مرفوع القلم ہے اس کا کیا نام لینا...( یہ نظم شامل اشاعت نہیں ہے ) 66 اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں مدحیہ نظم کہنے کی بھی توفیق ملی.یہ نظم آقا نے پسند فرمائی: آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مدح لکھی ہے اس کے بعض شعر تو بہت ہی پسند آئے ہیں.بہت پر اثر کلام ہے الحمدللہ.ماشاء اللہ.اللہ تعالیٰ مزید لکھنے کی توفیق دے خاص طور پر یہ شعر بہت پسند آئے ہیں: وہ جس دل میں بھی دیکھیں پیار سے سب خارغم چن لیں جو گل ہو اپنے دامن میں وہ نذر دوستاں کر دیں وہ، برکت جن کے کپڑوں سے اکابر بادشاہ پائیں وہ جس بستی میں رہتے ہوں اسے دارالاماں کر دیں سلام ان نیم وا آنکھوں پر رحمت بار نظروں پر کبھی دل کو کریں گھائل کبھی تحلیل جاں کر دیں ( مكتوب: 1989-12-11) 16 فروری 1989ء کے الفضل میں چھپنے والی نظم پر میرے پیارے آقا کی نگاہیں پڑیں.میری خوش قسمتی کہ حضور نے نظم کی پسندیدگی کا خط لکھوایا.اس نظم کے کچھ شعر پڑھئے تا کہ اندازہ ہو کہ جب مجھے یہ خط ملا ہو گا تو میری خوشی کا عالم کیا ہو گا.آقا کا حُسنِ نظر اور 232
خاکسار کے لئے دعاؤں کے سامان : سیلاب رحمت میرے آقا نے خود مجھ کو لکھا خط یہ سرمایا ہے میری زندگی کا ہوا ہے صبر کا پیمانہ لبریز الہی اذن ہو اب واپسی کا نگاہ اُٹھے تو آقا روبرو ہوں یہی دل چاہتا ہے ہر کسی کا جلو میں لاتا ہے سیلاب رحمت ذرا سا عکس آنکھوں میں نمی کا خدایا تیرے بندے اور بے بس! زمانے کو نہ دے موقع ہنسی کا جو چاہی کرب نے صورت بنا لی مرے بس کا نہیں فن شاعری کا بہت خوب صورت مکتوب ہے: 233
سم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلي على رسوله الكريم ام میں فرت الحمدية لندن 23.2.1368 1983 مکرمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ السلام علیکم ورحمه الله و برکاتہ.الفضل کی 16 فروری کی اشاعت میں آپ کی نظم پڑھی ماشاء اللہ بہت عمدہ نظم ہے اور یہ شعر تو خاص طور پر لائق تحسین ہے کہ اہ چلو میں لاتا ہے.سیلاب رحمت ذرا سا عکس آنکھوں میں نمی کا اللہ تعالٰی آپ کے ظاہر و باطن کو پاکیزہ اور خوشنما بنائے اور آپ کے حسین فطرت اور حسین معرفت کو چار چاند لگا دے.اللہ تعالٰی آپ کے ساتھ ہو.والسلام لئے خاکسار یرا یہ شعر خصوصاً اس سے معین دل کے نشانے پر لگا کہ ایک ہی دن پہلے ہیں یہ مضمون سوچ رہا تھا کہ اللہ کی کا انتہاء رحمت کی کیا شان ہے کہ ہماری آنکھوں 20 کراچی آپ نے لے کر محل کے کان کا مالک کا نہ آنے دو روز میں انت عوائد مدار امیر اب کیا نمی پر ہی رحمتوں کی بارش برسا دیتا ہے 234
یہ شعر خصوصاً اس لئے عین دل کے نشانے پر لگا کہ ایک ہی دن پہلے یہ مضمون سوچ رہا تھا کہ اللہ کی لا انتہا رحمت کی کیا شان ہے کہ ہماری آنکھوں کی کمی پر ہی رحمتوں کی بارش برسا دیتا ہے.آپ نے لجنہ کے مجلہ کے لیے نظم کا مطالبہ کیا تھا ایک دو روز میں انشاء اللہ بھیج دوں گا.“ ( مكتوب 1989-2-23) دل چاہتا ہے پیارے حضور کے دعائیہ الفاظ الگ لکھ کر مرتب کروں عجیب اثر انگیز ، رحم کو جذب کرنے والے الفاظ ہیں : ” ظاہر و باطن کو پاکیزہ اور خوشنما بنائے.حسن فطرت اور حسنِ معرفت کو 66 چار چاند لگائے.اللہ تعالی آپ کے ساتھ ہو.آمین الہم آمین " ایک دفعہ خدمت اقدس میں بھجوائی ہوئی دو نظموں پر ایک ہی مکتوب میں دلنواز تبصرہ موصول ہوا.دستِ مبارک کی یہ تحریر خاکسار کے لئے نعمت غیر مترقبہ ہے: 235
واجعل لا من لذلك سلطا نصيرا انا فتحنا لک فتحا مينا الله بندر ق المالية ال20 نحْمَدُه وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الكَرِيمِ امام جماعت محمود AHMADIYYA MUSUM 30.4.1990 چھ سال پہلے میں 29 اور 30 اپریل کی درمیانی رات کو کراچی سے ادا نہ ہو اتھا.اس وقت تو آپ کو سوتا چھوڑ کر آیار چھوڑ عزیزہ امتہ الباری ناصر السلام علیکم ورحمته الله وبركاته آپکا.و 150 کا خط ملا جن میں یہ پڑھ تھا.یہ جرگہ تھی کہ بہت خوشی ہوئی کہ آپ اپنا منظوم پہیہ تشکر کہ او تا لیور طبع کروانے کی تیاری کر رہی ہیں.نمی کا عکس عنوان کر بارہا ہوں.مجھے الله جلو بھی آپ نے خوب چنا ہے.اس کے بعد آنے والے مجموعہ کلام کا عنوان تعجب نہیں کہ سیلاب رحمت اب آپ سب کو ہنشا ہوا دکھائے تو اپنے آنسو ہمیشہ کے لئے جذبات ہو.تشکر کی نقہ کردوں.ماشاء الله آپکے کلام میں رفتہ رفتہ ایک کئی جلد پیدا ہوتی جارہی ہے.شاد کے طور پر کہیں کہیں خیال پیدا ہوتا تھا کہ اصلاح کی گنجائش موجود ہے لیکن کوئی نظم یا غزل بھی بے اثر نہیں دیکھی.بعض اشعار تو یوں اٹھتے اور بلند ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ نگاہیوں کے قدم روک لیتے ہیں.زبان حال سے یہ کہتے ہوئے کہ ہمیں سرسری نظر سے دیکھ کر اپنی قدر شناسی کو پامال کئے بغیر آگے 236
نے بھائی ہیں بڑھ سکتے..احمدی شعرار کو اللہ تعالٰی کی تا جوری بخشی ہے اربھائی ہی ان کے کلام کو ایک امتیازی حسن بخشتی ہے.آپکا کلام بھی اس منبع چشن سے بہرہ ور ہے.اس کے علاوہ بھی آپکے کلام میں کچھ خواں ہیں جواسے القراری رفعت عطاء کرتی ہیں.قافیہ کے استعمال میں اچانک ایسا تنوع جو یکسانیت کو اس طرح توڑتا ہے کہ موسیقی پیدا ہوتی ہے.علاوہ ازیں بھی بہت سے اشعار دل پر براہ راست اور بے ساختہ اثر کرتے ہیں.یہ تو کوئی صاحب فین ہی آپکو بتا سکتا ہے کہ صنعتی اعتبار سے اُن میں کیا کیا خوبیاں میرے مجھے تو صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ زبان سیک آو ہوتی ہے ان مضمون دلنشیں جیسے وہاں تیار کسی کا دل رکھا تھا زمین تیتی رہی.بادل نہ ٹھہرا لاکھوں میں ایک شعر ہے.بچک بھی اس میں ایسی صاحب دل کے بدلنے سے اس کا دوسرا مصرعہ باسانی ہے کہ ایک دوسرے رنگ میں ڈھل سکتا ہے.شکر میں ہوتا تو یولی کہتا کہ دیاں شائد کسی کا دل رکھا تھا رفضا برسی - اگر بادل نہ پھرا 237
واجْعَلْ إِن مِن لَّدُنكَ سُلْطَنَا نَصِيراً انا فتحنا لك فتحا مبينة ن الله ببند وانت ولقد نصركم الى مام جماعت احمدية اسم الله الي الحلم نحْمَدُه وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكريم AHMADIYYA MUSLIM گا تو کیسی اسی میں گرا ہے حجاب اترا تو پھر بھی نہ ٹھیرا غیر اسی غزلی کا یہ شعر کا ایک ایسی احمدی شاعرہ کے منہ سے کیا سجتا ہے جس نے قیام حجاب کی راہ میں سالہا سال جانکاہی کی ہو.چہرہ اس شعر کا بتا رہا ہے کہ یہ نہ تو کیسی زاہد خشک کا کلام ہے نہ کسی بے عملی شاعر کا بلکہ ایک بار یک نظر صاحب تجربه کے دل کی پکار ہے.دوسرا مصرعہ تو لا جواب ہے وہ حجاب اترا تو پھر آنچل نہ ٹھہرا پھرا ہے اس شعر کو جلی اپنے ی پڑھ کر رہیں کہ اشکوں نے مجھے تو یاد نہیں کہ لفظ کا بل ایسا خوبصورت انه بر محل استعمال کبھی کہیں اور پڑھا ہے.قافیہ کے استعمال میں اچانک تنوع پیدا کرنے کی شالی بھی ہی چھوٹی سی غزل سے مل جاتی ہے مثلا جو سچ کہ دے اُسے مختل نہ ٹھہرا دوسر یا غزل جو اس خط کے ساتھ آپ نے بھیجی ہے وہ بھی بہت اعلی پائے کی ہے.شعروں ان نہیں c سے تین شعر ایسے ہیں جنکا پہلا مصرعہ پڑھتے ہوئے وہم بھی نہیں آسکتا کہ دوسرا مصرعہ ایک عام سے مضمون کو اٹھا کر کہاں سے کہاں نے جائے گا 238
فقط اس سے توقع ہے مہربانی کی رکھنی کلجے کی سجدے میں سب بتائی ہے نجیب عجز میں کرنا ہے رفعتوں کا حصول که ترکشی کبھی بند نے کی خوش نہ آئی آنے جو اس کی یاد میں مچلتے نہیں گوہر نایاب پسند آتی ہے اشکوں کی پارسائی آئے تینوں شعروں میں یہ قدر مشترک دکھائی دیتی ہے کہ دوسرے مصرعے پہلے نازل ہوئے تو ان کی تنصیب کے لئے پہلے مصرعے بعد تین بنائے گئے بالله آپکا حامی و ناصر ہو.خدمت دین کی توفیق بڑھانے اور پہلے سے بڑھ کر سلیقہ علماء کرے.علم و عمل دونوں کوئی جلا بخشے انہ آپکے اشکوں کی پارسائی اند دل کی عاجزی اُسے خوش آ جائے خدا حافظ! در سلام فارکس به انا کل یہ 239
سیلاب رحمت چھ سال پہلے میں 29 اور 30 اپریل کی درمیانی رات کو کراچی سے روانہ ہوا تھا اس وقت تو آپ کو سوتا چھوڑ کر آیا تھا.یہ خبر نہ تھی کہ روتا چھوڑ کر جارہا ہوں اب اللہ جلد تر مجھے آپ سب کو ہنستا ہوا دکھائے تو اپنے آنسو ہمیشہ کے لئے جذبات تشکر کی نذر کر دوں.آپ کا 90-03-15 کا خط ملا جس میں یہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ اپنا منظوم ہدیہ تشکر طبع کروانے کی تیاری کر رہی ہیں.” نمی کا عکس عنوان بھی آپ نے خوب چنا ہے.اس کے بعد آنے والے مجموعہء کلام کا عنوان تعجب نہیں کہ سیلاب رحمت ہو.ما شاء اللہ آپ کے کلام میں رفتہ رفتہ ایک نئی جلا پیدا ہوتی جارہی ہے.شاذ کے طور پر کہیں کہیں خیال پیدا ہوتا تھا کہ اصلاح کی گنجائش موجود ہے لیکن کوئی نظم یا غزل بھی بے اثر نہیں دیکھی.بعض اشعار تو یوں اُٹھتے اور بلند ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ نگاہوں کے قدم روک لیتے ہیں زبانِ حال سے یہ کہتے ہوئے ہمیں سرسری نظر سے دیکھ کر اپنی قدر شناسی کو پامال کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے.احمدی شعراء کو اللہ تعالیٰ نے سچائی کی تاجوری بخشی ہے اور سچائی ہی اُن کے کلام کو ایک امتیازی حسن بخشتی ہے.آپ کا کلام بھی اس منبعِ حُسن سے بہرہ ور ہے.اس کے علاوہ بھی آپ کے کلام میں کچھ خوبیاں ہیں جو اسے انفرادی رفعت عطا کرتی ہیں.قافیہ کے استعمال میں اچانک ایسا تنوع جو یکسانیت کو اس طرح توڑتا ہے کہ موسیقی پیدا ہوتی ہے.علاوہ ازیں بھی بہت سے اشعار دل پر براہِ راست بے ساختہ اثر کرتے ہیں.یہ تو کوئی صاحب فن ہی آپ کو بتا سکتا ہے کہ 240
سیلاب رحمت صنعتی اعتبار سے اُن میں کیا کیا خوبیاں ہیں مجھے تو صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ زبان سبک رو ہوتی ہے اور مضمون دلنشین جیسے وہاں شاید کسی کا دل دُکھا تھا زمیں تپتی رہی بادل نہ ٹھہرا لاکھوں میں ایک شعر ہے.لچک بھی ایسی ہے کہ صاحب دل کے بدلنے سے اس کا دوسرا مصرع بآسانی ایک دوسرے رنگ میں ڈھل سکتا ہے مثلاً میں ہوتا تو یوں کہتا کہ : وہاں شاید کسی کا دل دُکھا تھا فضا برسی اگر بادل نہ ٹھہرا پھر اس غزل کا یہ شعرے گرا تو کیسی پستی میں گرا ہے حجاب اترا تو پھر آنچل نہ ٹھہرا ایک ایسی احمدی شاعرہ کے منہ سے کیسا سجتا ہے جس نے قیامِ حجاب کی راہ میں سالہا سال جانکاہی کی ہو.چہرہ اس شعر کا بتارہا ہے یہ نہ توکسی زاہد خشک کا کلام ہے نہ کسی بے عمل شاعر کا بلکہ ایک بار یک نظر صاحب تجربہ کے دل کی پکار ہے.دوسرا مصرع تو لا جواب ہے.حجاب اُترا تو پھر آنچل نہ ٹھہرا پھر اپنے اس شعر کو ہی پڑھ کر دیکھیں جس کا کاجل اشکوں نے دھو دیا ہے.مجھے تو یاد نہیں کہ لفظ کا جل کا ایسا خوبصورت اور برمحل استعمال کبھی کہیں اور پڑھا ہو.241
سیلاب رحمت قافیہ کے استعمال میں اچانک تنوع پیدا کرنے کی مثال بھی اسی چھوٹی سی غزل سے مل جاتی ہے مثلاً: جو سچ کہہ دے اُسے مختل نہ ٹھہرا دوسری غزل جو اس خط کے ساتھ آپ نے بھیجی ہے وہ بھی بہت اعلیٰ پائے کی ہے.ان شعروں میں سے تین شعر ایسے ہیں جن کا پہلا مصرع پڑھتے ہوئے و ہم بھی نہیں آسکتا کہ دوسرا مصرع ایک عام سے مضمون کو اُٹھا کر کہاں سے کہاں لے جائے گا.فقط اسی سے توقع ہے مہربانی کی دُکھن کلیجے کی سجدے میں سب بتائی اُسے نشیب عجز میں گرنا ہے رفعتوں کا حصول که سرکشی کبھی بندے کی خوش نہ آئی اُسے جو اُس کی یاد میں مچلے ہیں گوھر نایاب پسند آتی ہے اشکوں کی پارسائی اُسے تینوں شعروں میں یہ قدر مشترک دکھائی دیتی ہے کہ دوسرے مصرعے پہلے نازل ہوئے تو ان کی تنصیب کے لئے پہلے مصرعے بعد میں بنائے گئے.اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو خدمت دین کی تو فیق بڑھائے اور پہلے سے بڑھ کر سلیقہ عطا کرے علم و عمل دونوں کو نئی جلا بخشے اور آپ کے اشکوں کی پارسائی اور دل کی عاجزی اُسے خوش آ جائے.خدا حافظ.( مكتوب : 1990-4-30) 242
دعائیہ جملہ ملاحظہ فرمائیے: آپ کے اشکوں کی پارسائی اور دل کی عاجزی اُسے خوش آ جائے.“ کس قدر حسین انداز ہے جو پیارے آقا پر بس ہے.ہر دفعہ الفضل میں نظم چھپنے پر ضروری تو نہیں ہوتا تھا کہ حضور رحمہ اللہ کا مکتوب ملے مگر لطف اس قدر آتا تھا کہ ایک لذیذی آس لگ جاتی.شاید حضور کی نظر پڑ جائے شاید کوئی خط آجائے.بعض دفعہ تو یہاں تک سوچتی کہ نظم میں جان کے کوئی غلطی کر دوں اور پھر پیارے آقا مجھے تفصیل سے سمجھا ئیں.پھر کسی دن اچانک خط آجاتا.من میں جشن کا سا سماں ہو جاتا.الفضل میں غزل چھپی : غلط ہے آسماں سوکھا پڑا ہے زمیں کی کوکھ بنجر ہو گئی ہے آپ نے تحریر فرمایا: آپ کا کلام بالعموم کسی نہ کسی پہلو سے جاذبیت رکھتا ہے لیکن بعض نظمیں بعض دوسری نظموں پر فوقیت لے جاتی ہیں.ان میں سے ایک وہ ہے جو 18 جون 1990ء کے الفضل میں شائع ہوئی مطلع میں اگر چہ ایک ایسی سچائی بیان ہوئی ہے جو ہر صاحب نظر کو معلوم ہی ہوگی لیکن جس رنگ میں آپ نے ڈرامائی انداز میں اس مضمون کو پیش کیا ہے وہ غیر معمولی اثر کرنے والا ہے.غلط ہے آسماں سوکھا پڑا ہے زمیں کی کوکھ بنجر ہو گئی ہے 243
اب رحمت اسی طرح دوسرا اور تیسر ا شعر بھی خاص ادا کے مالک ہیں.پہلی غزل کی طرح اس غزل میں بھی آپ نے ایک ایسا شعر ایسے خاص انداز میں کہا ہے جو کوئی مرد شاعر نہیں کہہ سکتا خواہ کیسا ہی قادر الکلام کیوں نہ ہو.یہ ایک ایسی خاتون کا کلام ہے جو گھر کے روز مرہ کاموں میں بھی عارفانہ نکتے سوچتی رہتی ہو.وہ شعر یہ ہے؎ باہر من نہیں ہے ان تیلوں میں تیل باقی مجھے پہچان چھو کر ہو گئی ہے یہ چھو کر پہچان ایک ایسا خیال ہے جو ایک مرد شاعر کی رسائی سے معلوم ہوتا ہے.بہر حال آپ کی یہ نظم بہت عمدہ اور لطیف خوبیوں سے مزین ہے.اللہ آپ کو قلب و نظر کی مزید روشنی عطا فرمائے اور پہلے سے بڑھ کر خدمتِ دین کی توفیق عطا فرما تا رہے.اللہ آپ کے ساتھ ہو اور اپنی حفاظت ورحمت کے سائے تلے رکھے.“ ( مكتوب 90-7-4) مؤرخ احمدیت محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کی گرفتاری کی خبر احباب جماعت پر بجلی بن کر گری.بدخواہ ہاتھوں کی بے باکی سے دل ہل گئے.ہر خبر پہلے سے سنگین آرہی تھی.اپنے بس میں تو خدا تعالیٰ کے حضور فر یا دہی تھی.ایک دن یہ فریاد نظم ہوگئی.وہ دوست محمد کے ہیں ، شاہد ہیں خدا کے مولا نے انہیں گود میں رکھا ہے بٹھا کے پیارے حضور نے تحریر فرمایا: 244
سیلاب رحمت ”مولا نا دوست محمد صاحب شاہد کی گرفتاری کی خبر سن کر جو نظم آپ نے کہی ہے وہ بہت ہی بلند پایہ اور پرتاثیر ہے.نہایت دلنشین اور سلجھا ہوا کلام ہے ماشاء اللہ.چشم بد دور.اللہ آپ کی ذہنی و قلبی استعدادوں کو جلا بخشے اور صحت و عافیت والی خدمت سلسلہ سے معمور، فعال اور کامیاب و کامران لمبی زندگی عطا فرمائے اور ہمیشہ اپنی حفاظت و رحمت کے سائے تلے رکھے.اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہو.“ ( مكتوب 90-9-1) خاکسار کی سکینت کا موجب بنے والا ایک اور مکتوب ملاحظہ ہو.مگر اس کا لطف لینے کے لئے پہلے غزل پڑھئے : اس کے لہجے میں نگاہوں میں حلاوت دیکھی میں نے ہر سمت برستی ہوئی رحمت دیکھی کوئی تحفہ نہ تبسم سے حسین تر پایا کوئی دولت نہ محبت کی سی دولت دیکھی اپنے کھل جانے کی کچھ شرم عناں گیر رہی ورنہ کہہ دیتے کہ کیا کیا تری صورت دیکھی صبح بشاش تھی پر کیف و حسیں تھا سب کچھ رات بھر خواب میں وہ چاند سی طلعت دیکھی بارہا لب پہ ترے آیا جو میں نے سوچا دل سے دل تک یہ خیالات کی ہجرت دیکھی 245
لندن آج اس بحر محبت میں تلاطم سا تھا میں نے اک اور طرح سے تری چاہت دیکھی غیر سو طرح کے محفوظ حصاروں میں جلے ہم نے تو مکڑی کے جالے سے حفاظت دیکھی لبسم الله الريح الفحم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّ عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ واجْعَل لي من لدنك سلطناً تعبيراً انا فتحنا لك فتخاطبينا الله بنذار والشمال MIRZA TAHIR AHMAD HEAD OF THE AHMADIYYA COMMUNITY IN ISLAM عزیزه امته البادی ناصر اسلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکات کے 22 جنوری کے الفضل میں شائع ہونے والار آپکا کلام مجھے بہت اچھا لگا.سوچا کہ دو صرف تحسین کے اپنے ہاتھ سے ڈال دوں تو کچھ اس لطف کا احسان اترے.ویسے احسانمند دل سے احسان اترتا میں نے کبھی دیکھا نہیں.اس مضمونی میں میرے عمر ہو کے تجربے کا نچوڑ یہی ہے.بعض اشعار تو پھولوں کی طرح کھلے ہو گئے ہیں اور رنگ و بو بھی بہار کی سی رکھتے ہیں.میں نہیں جانتا کہ کھل جانا ان کے کہتے ہیں.یہ کلام پڑھتے ہوئے دل سے دل لگیں جو خیالات کی ہجرت دیکھی ایک بہت پر لطف نظارہ تھا.آصفہ بیم کی طبیعت پہلے سے تو قدرے مریم بہتر ہے مگر ابھی بیماری نے اپنا قبضہ نہیں چھوڑا.ایک مبر از ما جد و جہد سامنے پڑی ہے جن یار کا عرصہ حمد ماه سے ایک سال تک بتاتے ہیں.پسینہ کراچی کو بھی کبھی دعاء کے لئے یاد کرواتی ہیں.جزاکم الله درسه خانه از اطل به 246 6.2.92
سیلاب رحمت 22 جنوری کے الفضل میں شائع ہونے والا آپ کا کلام مجھے بہت اچھا لگا.سوچا کہ دو حرف تحسین کے اپنے ہاتھ سے ڈال دوں تو کچھ اس لطف کا احسان اُترے ویسے احسان مند دل سے احسان اُترتا میں نے کبھی دیکھا نہیں اس مضمون میں میرے عمر بھر کے تجربے کا نچوڑ یہی ہے.بعض اشعار تو پھولوں کی طرح کھلے ہوئے ہیں اور رنگ و بو بھی بہار کی سی رکھتے ہیں.میں نہیں جانتا کہ گھل جانا اور کسے کہتے ہیں.یہ کلام پڑھتے ہوئے دل سے دل تک جو خیالات کی ہجرت دیکھی ایک پر لطف نظارہ تھا.آصفہ بیگم کی طبیعت پہلے سے تو قدرے بہتر ہے مگر ابھی بیماری نے قبضہ نہیں چھوڑا.ایک صبر آزما جد و جہد سامنے پڑی ہے جس کا عرصہ چھ ماہ سے ایک سال بتاتے ہیں.لجنہ کراچی کو بھی کبھی کبھی دعا کے لئے یاد کرواتی رہیں.جزاکم اللہ “ ( مكتوب 92-2-6) روزنامه الفضل 6 فروری میں آپ کی جو نظم شائع ہوئی ہے وہ بڑی پر اثر اور اعلیٰ پایہ کی ہے.آپ کا کلام ہمیشہ ہی بہت اچھا ہوتا ہے لیکن یہ نظم تو خاص امتیاز اور شان رکھتی ہے.جزاکم اللہ تعالیٰ.اللہ تعالیٰ آپ کو بہتر سے بہتر رنگ میں لکھنے کی توفیق دے 247
سیلاب رحمت اخلاص، عمر اور کام میں برکت دے اور لازوال فضلوں سے نوازے“ ( مكتوب 1992-5-27) لجنہ کے دفتر کی گہما گہمی کے حوالے سے ایک نظم کہی جو مختلف مجلسوں میں سنائی.ایسی وقتی طور پر محظوظ ہونے والی نظموں کو فنی طور پر سنوارنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی.میری سامعات اُسی سے خوش ہو جاتیں.ایسی ہر محفل میں جس میں اس نظم سے شگفتگی کی لہر پیدا ہو جاتی مجھے یہ نظم آقا کوبھجوانے کا خیال رہتا.آخر ایک دن جرات کر ہی ڈالی.وہ نظم جسے بھیجتے ہوئے خاصا جھینپ رہی تھی بہت ہی برکتوں والی ثابت ہوئی.91-8-22 کے مکتوب میں دست مبارک سے تحریر فرمایا: ”آپ نے جو لجنہ کے دفتر پر مزاحیہ نظم بھیجی تھی اس پر میں نے کچھ مرمت لگائی ہے مگر کام باقی تھا کہ دوسرے کاموں نے گھیر لیا.“ اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر کیا سب کو بتایا کہ اُس نظم کی مرمت لگ رہی ہے.بے حد شوق سے انتظار کرتے رہے.اس کے بعد آپ جلسہ سالانہ قادیان میں مصروف ہو گئے اور خاکسار کی انتظار کی گھڑیاں طویل ہوتی گئیں.آخر مارچ 1992ء کو آپ نے یہ نظم ایک مکتوب کے ساتھ بھیجی.اس نظم کی شان ہی کچھ اور ہو گئی تھی آخری بندا ایسے تھے کہ اُس میں آپ نے میری نظم کے چند الفاظ ہی تبدیل کئے.مگر پہلے پانچ بند تو زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دئے.خط میں کراچی جماعت کے لیے دعائیں بھی تحریر فرمائیں : 248
AHMADIYYA MUSLUM EXT واجعل إن من الذلكَ سُلطا نصراً انا فتحنا لك فتحا مبينا ان الله ميلاد والقسمة إلى لهم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلي عَلَى رَسُولِهِ الكريم ر میں ان الحرية لندن 1.3.1371/1992 عزیزه مگر مرد امته الباری ناصر صاحبہ السلام علیکم و رحمتہ اشد و بر کان ہے.جلسہ پر جانے سے پہلے آپ سے کہا تھا کہ میں نے آپ کی مزاحیہ نظم " لجنہ کا دفتر میں تھوڑی سی اصلاح تجویز کی ہے.دو بند رھتے تھے اس لیئے اس وقت بھیجے نہیں سکا.قادیان سے واپسی کے بعد تھوڑا سا وقت مل گیا تو اصلاح کر کے بھیجوارھا ہوں.امید ہے آپ کو یہ اصلاح بڑی نہیں لگے گی.آپ نے جو کلام ظاہر کے متعلق لکھا ہے اسپر آپ کا شکریہ.اسمیں کئی جگہیں ایسی ہیں جنہیں ابھی تک پوری طرح تسلی نہیں شاید کسی وقت اصلاح کا موقعہ مل جائے لیکن آپ کے نزدیک کوئی غلطی رہ گئی ہو تو اس کی طرف بھی متوجہ کریں.اس کو بھی ٹھیک کرلیں گے اور پھر انشاء اللہ چھپوانے کی اجازت بھی دی جاسکتی ہے.کچھ پرانی نظموں میں سے بھی ایک آدھ شامل کی جا سکتی ہے.سخالی تھنوں کو محبت بھر اسلام کہیں.نظم جتہ کا دفتر ساتھ منسلک ہے.کراچی کی ساری جماعت کو محبت بڑا نظر یہ جماعت آئی جماعتوں میں سے ہے جو والسلام میری خاکسار میرے دل میں رہتی.نظر تو بات اداری میں امتی ہے.خدا جانروں کی چشمہ یہ ہے تلاطلہ بیائے ارو ہے اور سب کی عالی ان کی محبت کچھ صحت کی طرف طرح کے کیے کی آنکھیں ٹھنڈی رکھے.بی بی کی ایل دختر با بودی مڑھی ہے شفاء دوا سے نہیں بلکہ اعجاز یہ ہو اگر انشا دانه کراچی کی ساری جماعت کو محبت بھرا سلام.یہ جماعت اُن جماعتوں میں سے ہے جو میرے دل میں رہتی ہیں.میری نظر تو ہمیشہ دُعا بن کر لگتی ہے.خدا حاسدوں کی چشم بد سے بچائے اور ہمیشہ آپ سب کی طرف سے میری آنکھیں ٹھنڈی رکھے.بی بی کی طبیعت کچھ صحت کی طرف مڑی ہے.شفا دوا سے نہیں بلکہ اعجاز سے ہوگی.انشاء الله ( مكتوب 92-3-22) 249
ب رحمت لجنہ کے دفتر کے حوالے سے ایک اور نظم بھی دلچسپی کا سامان بن گئی.ہوا یوں تھا کہ دفتر کی صفائیاں ہو رہی تھیں نئے اور مستعمل کپڑے خدمت خلق کے لئے پیک کیے جارہے تھے مگر نہ جانے کیا ہوا سب کو کھجلی شروع ہو گئی.ہر ایک سمجھ رہی تھی کہ مجھے ہی کوئی الرجی ہوئی ہے.آہستہ آہستہ علم ہوا کہ کسی ایک کو نہیں سب کو کھجلی ہو رہی ہے.خاکسار کے لئے طبیعت مچلنے کا کافی سامان میسر ہو گیا اور ایک نظم ہوگئی : آخری شعر تھا.چیونٹیاں چلنے لگی تھیں میرے سارے جسم پر کچھ الرجی کی طرح بے چینیاں تھیں جسم پر کیا ہوا ، کیا کیا ہوا، کیا نہ ہوا مت پوچھئے ہو سکے تو پیر کو دفتر میں آکر دیکھئے نظم سب کو پسند آئی پھر وہی شوق تازہ ہوا کہ میرے آقا بھی چند سیکنڈ محفوظ ہوں گے.آپ نے واقعی لطف لیا تحریر فرمایا: لجنہ کے دفتر کی تفصیلی صفائی کے دوران آپ نے اچانک محسوس ہونے والی کیفیات اور خیالات کو جن الفاظ میں نظم کیا ہے وہ تو یوں لگتا ہے کہ جگہ جگہ ہونے والی خارش اور شدید سوزش کے نتیجہ میں جواچوی سی لگ جاتی ہے، یہ کلام اُسی کا نتیجہ ہے اور وہی کیفیت ہے جو نظم میں ڈھلتی چلی گئی ہے.بہر حال نقشہ خوب کھل کر سامنے آ گیا ہے.کوئی پہلو بھی آپ نے باقی نہیں چھوڑا.الرجی کی حالت میں غالباً اس سے بہتر نظم کہنا مشکل ہے.یہ نظم شامل اشاعت نہیں ہے) 66 250
رسیلاب رحمت الفضل میں چھپنے والی ایک نظم پر آپ نے بڑے شگفتہ انداز میں کھل کر تبصرہ فرمایا: الفضل کے 2 نومبر 1992ء کے شمارہ میں آپ کی ایک نظم شائع ہوئی جس کا پہلا مصرع ہے: نام ونشاں پر طرز و ادا پر بھی اعتراض اعتراض پر اعتراض کرنا تو مناسب نہیں.ساری نظم ہی اس کے خلاف شکوہ ہے.لیکن مجبوراً مجھے اس کے ایک دوشعروں پر اعتراض ہے.مگر یہ محض دل لگی میں لکھ دیا ہے ورنہ اعتراض ہر گز نہیں.ہاں بعض جگہ معمولی سی ترامیم تجویز کی ہیں.آپ کا کلام ماشاء اللہ بلند پایہ ہے تاہم کبھی کبھی معمولی کتر بیونت عادتا کر دیتا ہوں.صرف آپ ہی کا کلام اس مشق ستم کا نشانہ نہیں بنتا چودہری محمد علی صاحب سلیم شاہجہانپوری صاحب نسیم سیفی صاحب ،جنرل محمود الحسن صاحب، عبد المنان ناہید صاحب، عبد الكريم قدسی صاحب عزیزه قوسی، حبیب ساحر وغیرہ جو ماشاء اللہ شعر و شاعری میں اپنا اپنا مقام بنا چکے ہیں بلکہ بعض تو اسا تذہ فن میں اپنا اپنا مقام بنا چکے ہیں بلکہ بعض تو اساتذہ فن کے ہم پلہ اور صاحب طرز ہیں ، ان کے کلام سے بھی جہاں محفوظ ہوتا ہوں وہاں کبھی کسی شعر کو اپنے مزاج اور ذوق میں ڈھالنے میں بھی مضائقہ نہیں سمجھتا.غالباً یہ دست درازی اصلاح کی قبیل میں شمار نہیں ہوتی.اسے کسی اچھی چیز کو اپنانے کی سعی کہنا زیادہ موزوں ہو گا.آپ کی یہ زیر نظر نظم الفضل میں دیکھی تو مندرجہ ذیل اشعار میں کہیں کہیں اپنے ذوق کے مطابق تبدیلی کی 251
رحمت ہے جو ضروری نہیں کہ جو کچھ آپ کہنا چاہتی ہیں اس کے مطابق ہو یا اس سے بہتر ہو.مثلاً چوتھے شعر کا حلیہ میں نے یہ بنا دیا ہے.ہر تازہ واردات کی برداشت پر حرف ہے احتمال جور و جفا پر بھی اعتراض آپ نے اس شعر میں جو مضمون باندھا ہے وہ بہت اچھا ہے میرا خیال ہے کہ مندرجہ بالا ترمیم میں بھی بعینہ وہی بات ہے جو آپ کہنا چاہتی ہیں.اس سے اگلے شعر میں گر ہو سکے تو جڑ دو میں لگتا ہے جڑ دو بہت جلدی میں جڑ دیا گیا ہے اور ذرا جلدی میں پڑھنا پڑتا ہے حالانکہ یہ دو لفظ سارے مصرع کی جان ہیں مجھے لگتا ہے کہ اگر انہیں بیچ سے اُٹھا کر شروع میں رکھ دیں تو ادائیگی میں ہلکے مگر وزن میں زیادہ ہو جائیں گے اس صورت میں مصرع یوں بن جائے گا: جڑ دوگر ہو سکے تو خدا پر بھی اعتراض اس سے اگلا شعر ہے جھلا گئے عدو ، بھی مزید توجہ کے لائق ہے.پیہم ثبات کی ترکیب غالباً نئی ہے اس لئے ذرا اجنبی دکھائی دیتی ہے غالباً صبر و ثبات میں بدلنے سے پہیم کا مضمون تو قائم رہے گا اجنبیت نہیں رہے گی بہتر ہے اس کو یوں کر دیں ؎ جھلا کے میرے صبر پر کرنے لگے عدو خود اب تو اپنی طرز جفا پر بھی اعتراض آٹھویں شعر میں آپ جماعت کی وسعت پزیری پر اُن کے 252
اعتراض کا مضمون بیان کرنا چاہتی ہیں.یہ بہت اچھا مضمون ہے لیکن دونوں مصرعوں کا آپس میں وہ تقابل نہیں بنتا جو اس طرز کلام کا تقاضا ہے.قرآن کریم میں جہاں دوسرے مصرعے کا مضمون ملتا ہے وہاں پہلے مصرع کے لئے بھی متقابل مضمون موجود ہے اس سے استفادہ کریں تو شعر کچھ اس شکل میں ڈھل جائے گا.اپنی زمین گھٹنے سے غافل ہے پر مرے وسعت پذیر ارض و سماء پر بھی اعتراض اگر اپنے پہلے مصرع کا مضمون قائم رکھتے ہوئے الفاظ میں مناسب ترمیم کرنی ہو تو متبادل تجویز یہ ہے.اُس کا مری نگاہِ ظفر موج سے وسعت پزیر ارض و سماء پر بھی اعتراض الفضل میں طبع ہونے والے احمدی شعراء کے کلام میں سے وقت ملے تو اپنائیت کے رنگ میں کبھی ایک آدھ شعر پر مشق ستم کر لیتا ہوں.اس طرح ذہن کو چند منٹ سستانے کا موقع مل جاتا ہے.اُمید 66 ہے برانہیں منائیں گی.ناصر صاحب کو محبت بھر اسلام بچوں کو پیار.“ ( مكتوب 92-12-3) نظم میں اصلاح کی گنجائش ہونا کس قدر باعث برکت ہو گیا.جس مقام پر میرے آقا متمکن تھے اُس کی بلندی کو ذہن میں لا کر سوچئے ایک حقیر فقیر سے اس قدر بے تکلفانہ اظہار خیال کتنے بڑے دل والی من موہنی ہستی کا ہو سکتا ہے.میں نے خوشی خوشی میں جواب دیتے 253
سیلار ہوئے نظم کا وہ شعر بھی لکھ دیا جو سیفی صاحب نے چھوڑ دیا تھا.بڑا دلچسپ جواب ملا: آپ نے لکھا ہے کہ اعتراض والی نظم کا ایک شعر سیفی صاحب کی سنسر شپ کی زد میں آگیا.اس شعر کو شائع نہ کرنے کی حکمت تو مکرم سیفی صاحب سمجھتے ہوں گے لیکن ایسا کرنے سے وہ خود بھی آپ کے اعتراض کی زد میں آگئے.اصل بات یہ ہے کہ مکرم سیفی صاحب ماشاء اللہ بڑی ذہانت سے الفضل کی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں.ورنہ الفضل کبھی کا بند ہو چکا ہوتا.اگر الفضل ماہ بہ ماہ چھپتا تو بلاشبہ سیفی صاحب بھی ماہ لقا کہلوانے کے مستحق ٹھہرتے لیکن الفضل تو روزنامہ ہے اور سورج کی طرح روز اُن کے خوبصورت کلام کے آئینہ میں اُن کی لقاء الفضل کے شائقین سے کرواتا ہے.اس پہلو سے اُن کا چیں بہ جبیں ہونا تعجب کی بات نہیں وہ سمجھے ہوں گے کہ شعر کا مصداق وہ خود ہیں لیکن ماہ لقا لکھ کر اُن کو اصل مقام سے گرا دیا گیا ہے جو مہر لقا یا خورشید لقاء ہونا چاہیے تھا انہوں نے ویسی ہی بات کی ہے جیسے غالب کے ایک مصرع میں مذکور ہے.یوسف اس کو لکھوں اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی افسوس کہ آپ کے شعر کی خیر نہ ہوئی.“ (مکتوب 93-1-28) حذف شدہ اشعار میں سے ایک اور شعر بھی نظر کرم کے قابل ٹھہرا.4.3.1993 کے الفضل میں ایک نظم چھپی تھی جس کا پہلا شعر تھا.میری راہیں سخت کٹھن ہیں صبر و جنوں کی ہمت لے کر فیصلہ سوچ سمجھ کے کرنا میرے ساتھ آنے سے پہلے 254
اسی نظم کا ایک شعر تھا؎ حسنِ عمل کا ابٹن لے کر روح و جسم کو مل مل دھوئیں کچھ سنگار تو کرنا ہو گا وصل کی رات آنے سے پہلے نیم سیفی صاحب نے نظم میں سے یہ شعر حذف کر دیا.جب پیارے آقا سے حذف شدہ اشعار کی بات چلی تو میں نے یہ بھی لکھ دیا.پیارے آقا نے بڑے شگفتہ انداز میں تحریر فرمایا: مدیر صاحب الفضل کے سنسر کی زد میں آنے والا شعر بھی آپ نے بھجوا دیا ہے.یہ تو بہت اعلیٰ شعر ہے.جب حُسنِ عمل کا آپ نے کہہ دیا تو ذہن کے لئے کسی غلط روش پر چلنے کی کوئی وجہ تو نہیں لیکن چونکہ یہ منظر کشی بہت کھلی کھلی سہاگ رات کی تیاری پر صادق آتی ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے مدیر صاحب الفضل ڈر گئے.اس قسم کا مبنی بر احتیاط فیصلہ مدیر کے حقوق میں داخل ہے.لیکن یہ اچھا ہوا کہ آپ نے مجھے یہ شعر لکھ دیا.شعرا اپنی ذات میں بہت خوبصورت ہے.مدیر صاحب خود شاعر ہیں وہ اگر شعر میں معمولی سی تبدیلی کر لیتے تو کسی احتیاط کی ضرورت ہی نہ رہتی مثلاً یوں کہا جا سکتا ہے.حسنِ عمل کا ابٹن لے کر روح کے جسم کو مل مل دھو میں کچھ سنگار تو کرنا ہوگا وصل کی رات آنے سے پہلے“ انہیں دنوں الفضل میں ایک نظم چھپی تھی.پہلے اپنا حسن نکھاروں پھر دوجے سے بات کروں استغفار میں صبح کروں اور استغفار میں رات کروں 255
سیلاب رحمت اس نظم میں خاکسار کی کم علمی سے کچھ نقم تو تھے ہی الفضل والوں نے بھی کچھ اصلاح کر دی تھی.اس کے علاوہ جن دو اشعار کا ذکر ہے وہ درج ذیل ہیں : چاند نہ جانے گھومتا گھامتا کب پہنچے کیا بات کہے میرا تمہارا ملنا ہو تو سامنے بیٹھ کے بات کروں گود میں بھر کے پیار کروں میں سر دیکھوں اور خار چنوں تو مل جائے یا رہی تو خاطر مدارات کروں پیارے حضور نے تبصرہ فرمایا: (مکتوب 93-5-6) ”اچھا کیا آپ نے استغفار میں صبح کروں اور استغفار میں رات کروں ، کا مصرع لکھ دیا.اس تصحیح شدہ مصرع کے ساتھ یہ شعر اور سنور گیا ہے لیکن الفضل نے غالباً ایک اور بھی غلطی کی ہے.میں ہونا چاہیے.لیکن دونوں جگہ میں لکھ کر آپ کے شعر کا ستیا ناس کیا ہوا ہے.اس طرح دوسرے شعر کے متعلق بھی الفضل کی غلطی کی نشان دہی کر کے آپ نے اچھا کیا اور نہ چاند نہ جانے گھومتا گھامتا کب جانے کیا بات کہے سے بات نہیں بنتی تھی.بہت اعلیٰ پائے کا شعر ہے.ماشاء اللہ ، چشم بد دور.اگر الفضل نے غلط چھاپنا ہی تھا تو بہتر تھا کہ کب کے بعد وقفہ ڈالتے اور جانے کیا بات کہے پر بات ختم کرتے تو پھر بھی مضمون بہت سنور جاتا ویسے مجھے ذاتی طور پر یہی جائے کیا بات کہنے والی بات زیادہ پسند ہے کیونکہ گھومتے گھامتے چاند کے متعلق کب جائے“ کا خیال ضرور آتا ہے.اس نظم کے دوسرے شعر میں تو مل جائے یا ربی تو خاطر مدارات 256
سیلاب رحمت کروں، میں وزن واضح طور پر ٹوٹ جاتا ہے.مذآرات پڑھنے سے وزن بنے گا مدارات نہیں پڑھا جاسکتا.اس سے تو اگر خدمت میں دن رات کروں، بنا دیتیں تو بہتر تھا.میں، پر کوئی حرکت نہ ڈالیں جس کی مرضی خدمت میں، پڑھے اور چاہے خدمت میں دن رات کروں، پڑھے اسے دونوں طرح ہی پڑھا جا سکتا ہے.تاہم مجھے تو میں کے مقابل پر میں زیادہ ،، پسند ہے اور مراد یہ ہے کہ اپنے دن رات خدمت میں صرف کروں.“ اس نظم کے ایک اور شعر پر ایک دوسرے پہلو سے بات نکلی.کلام میں پڑھنے کی طرز سے بعض دفعہ سقم کا احساس ہوتا ہے آپ نے تحریر فرمایا: وو..اس پہلو سے اگر آپ اپنے کلام پر نظر ڈالیں تو اس میں بھی آپ کو کئی مثالیں ملیں گی.صرف کلام کی مجبوریاں سمجھانے کی خاطر ایک آدھ مثال بیان کر دیتا ہوں کیا خوب مصرع ہے.خشک آنکھوں سے نیر بہاؤں چہرے پر مسکان سجاؤں لیکن اس میں صرف سجا پڑھا جا سکتا ہے ؤں زائد ہے لیکن شعراء عملاً ایسا کرتے ہیں اجازت ہوتی ہے.ہرگز معیوب نہیں سمجھا جاتا پھر یہ مصرع ملا حظہ فرمائیں ؎ پھر کس گن پر اتراؤں اور فخر ومباہات کروں اب اس میں اگر پھر ہلکا پڑھیں تو پھر کس گن پر اتراؤں میں ہونا چاہیے یعنی ایک میں ڈالنا پڑے گا.اور اگر پھر زور سے پڑھیں تو آپ والا مصرع موزوں ہو جائے گا.پس اس میں پڑھنے کے انداز کے فرق کی وجہ سے دو صورتیں بنتی ہیں ایک ہے پھر کس گن پر اتراؤں اور 257
سیلاب رحمت دوسری ہے پھر کس گن پر اتراؤں میں اس میں لفظ میں زائد کرنے کے باوجود وزن دونوں کا ایک ہے.بہر حال انداز قرآت نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض اوقات نقص کا گمان ہوتا ہے.پڑھنے والے کے انداز پر اس کی درستی یا سقم کا انحصار ہے.(مکتوب 93-5-15) 66 4 مارچ 1993 کو الفضل میں خاکسار کی ایک نظم چھپی جس کے دوشعروں پر پیارے آقا نے تبصرہ فرمایا.شعر یہ ہیں : کسی نصیبوں والی گھڑی میں یکدم وہ گھر آ جائیں گے ہر سُو خوشبو مہک رہی ہے اُن کی ذات آنے سے پہلے چپ چپ رہ کر بھی دیکھا ہے دنیا کس سے خوش رہتی ہے آؤ ذرا کھل کھیل ہی لیں ہم الزامات آنے سے پہلے حضور پرنور نے تحریر فرمایا: وو چار مارچ کی الفضل میں بھی آپ کی ایک بہت اچھی غزل شائع ہوئی ہے.لیکن اس میں ایک تو لفظ 'مہک کے اعراب اور دوسرے الزامات آنے کا محاورہ محل نظر ہے.لفظ مہک...مہک ہے یا مہک ہے.( ہم تو مہک ہی پڑھا کرتے تھے ) لیکن کوئی بھی ڈکشنری کو سکون کے ساتھ نہیں لیتی سوائے اس کے کہ جب مہ کا پڑھا جائے.مجھے لگا تھا کہ یہاں کوئی غلطی ہوگئی ہے.اسی لئے میں نے ڈکشنریوں سے چیک کیا تھا لیکن مشکل یہ ہے کہ ڈکشنریاں مہک دے رہی ہیں جو اجنبی لگتا ہے کیونکہ ہم تو مہک ہی پڑھتے آئے ہیں اس بارہ میں تحقیق کر 258
کے بتائیں کہ اس کا درست تلفظ کیا ہے.جزاکم اللہ احسن الجزاء.دوسرے الزامات آنے کا محاورہ میں نے پہلی دفعہ سنا ہے الزام لگنا ہونا چاہیے سوائے اس کے کہ الزامات لئے ہوئے پیغامات آئیں.میں یہ مثالیں ہرگز کسی اعتراض کی نیت سے نہیں بلکہ سمجھانے کے لئے لکھ رہا ہوں کہ یہ کلام کی مجبوریاں ہوتی ہیں بعض جگہ مضامین کو زبان پر فوقیت دینی پڑتی ہے اور ضرور کوئی نہ کوئی رخنہ رہ جاتا ہے.باقی آپ کو خدا نے اظہار بیان پر خوب مقدرت بخشی ہے اور آپ کو بات کہے بغیر کہہ جانے کا سلیقہ آتا ہے.انھم زد و بارک.تھ 66 اس مضمون کی تیاری میں یاد ماضی کے ایسے ایسے باب کھلے ہیں جن کا ذکر کرنے سے بھی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں.مئی 1993 میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ ( رحمہا اللہ تعالی ) ہماری پیاری چھوٹی آپا نے کراچی میں گھٹنے کا آپریشن کروایا تھا.آپ کے وجود کی برکت سے کراچی میں رونق ہو رہی تھی.آپ کی صحت کے لئے ہم سب دعا گو تھے لمحے لمحے کی خبر رکھ رہے تھے.آپ صحت یاب ہو کر گھر آئیں تو لجنہ نے آپ کی قیام گاہ پر حاضر ہو کر شگفتہ سا پروگرام رکھا جس میں خاکسار نے قطعات پیش کئے.ایک قطعہ تھا: یہاں سب چاہنے والے مبارک باد دیتے ہیں بھلا لگتا ہے ہم کو آپ کا آرام سے اُٹھنا خدا کا شکر ہے اُس نے ہماری ہر دعا سُن لی مبارک صد مبارک آپ کو دو لاکھ کا گھٹنا 259
سیلاب رحمت حضرت چھوٹی آپا بے ساختہ مسکرائیں اور پیار بھری نظروں سے داد دی.ایسے ہر موقع پر مجھے حضور پرنور یاد آجاتے کہ اگر آپ یہ قطعہ سُنتے تو پسند فرماتے.میں نے خط میں لکھ کر بھیج دیا آپ نے بڑا پیارا جواب دیا: " آپ کا خط محررہ 8.7.93 وصول ہوا جزاکم اللہ احسن الجزاء سارا خط ہی ماشاء اللہ بہت دلچسپ ہے.اللہ کرے زور قلم اور زیادہ.چشم بد دور آپ کے شعر خصوصاً دوسرا شعر بہت مزیدار ہے لیکن آرام سے اُٹھنا تو مجھے بھلا نہیں لگتا.چاہے آرام سے اٹھنا ہو یا مشکل سے.اللہ فضل فرمائے اور پوری صحت کے ساتھ رکھے.اللہ آپ سب کو جزائے خیر دے جنہوں نے چھوٹی آپا کی خدمت کی لجنہ کراچی ہمیشہ کی طرح اب بھی خدمت کے میدان میں آگے آگے ہے اللہ یہ اعزاز 66 برقرار رکھنے کی توفیق دیتار ہے.تمام کارکنات کو محبت بھر اسلام.“ ( مكتوب93-7-19) ایم ٹی اے پر نشریات شروع ہوئیں تو گھر گھر میں ڈش انٹینا لگوانے کی باتیں ہونے لگیں.ڈش ہر احمدی گھرانے کی پہلی ضرورت بن گیا.ادھر ادھر سے سُنی ہوئی باتیں ذہن میں جمع ہوئیں اور چند قطعات کا روپ دھار گئیں مثلاً : ابا مجھے جہیز میں کچھ بھی نہ دیجئے چاندی نہ دیجئے مجھے سونا نہ دیجئے بستر نہ دیجئے مجھے صوفہ نہ دیجئے سب چھوڑ کے بس ایک ڈش انٹینا دیجئے 260
وو ب رحمت نظم کی شگفتگی نے یہ شوق اچھالا کہ حضور کو بھیج دی جواب ملا : دوسری نظم جو ڈش انٹینا کے متعلق ہے بہت اچھی ہے ماشاء اللہ جس طرح پہلی نظم نفسِ مضمون کے مطابق شایانِ شان تھی اسی طرح یہ بھی نفس مضمون کے عین مطابق ہے.بڑی کھلی ہوئی ، رنگین اور معطر نظم ہے جزاکم اللہ احسن الجزاء اللہ آپ کے ساتھ ہو.شہد کی مکھیوں کو محبت بھر اسلام.“ پیارے حضور لجنہ کراچی کو شہد کی مکھیاں، کہتے تھے.جس سے ہم بے حد لطف لیتے.حضور کو خطوط لکھنے میں خاکسار بے تکلفی سے سارا احوال لجنہ کے دفتر اور اپنے گھر کا لکھ دیتی.آپ کے جوابات سے اندازہ ہوتا کہ آپ محظوظ ہوتے ہیں.خوشی کا اظہار بھی دل کھول کر فرماتے دل رکھنے کا فن بھی آپ کو خوب آتا تھا.ایک نظم کا ایک شعر داد حاصل کر گیا.پہلا شعر تھا: سامنے ہو نگاہ کے دور بھی ہو نگاہ سے اس کیفیت کو کیا کہوں ہجر ہے یا وصال ہے؟ آپ نے تحریر فرمایا: ” ایک شعر جو ساری غزلوں کا جان و مال ہے اس کی داد دئے بغیر نہیں رہ سکتا.واقعی یہ بہت جاندار شعر ہے.وقت کا ٹوٹتا بدن شام کی سرمئی تھکن آنکھوں میں جاگتی لگن دل کا عجیب حال ہے“ ( مكتوب 96-10-5) خاکسار کی ایک غزل بہت خوش قسمت ہے اس کو دو دفعہ حضور پر نور سے داد ملی.پہلی دفعہ تیرہ مارچ 1997ء کے الفضل میں چھپی تو حضور ایدہ الودود نے تحریر فرمایا: والفضل کے 13 مارچ 1997 کے شمارہ میں آپ کی جو نظم شائع 261
سیلاب رحمت ہوئی ہے اسے پڑھ کر بہت لطف آیا.ویسے تو ساری نظم ہی بڑی اچھی ہے اور تازہ بتازہ ہے لیکن یہ اشعار بہت بلند پایہ ہیں: آتا ہے نظر تاروں میں مہتاب علیحدہ ہر پہلو سے ہے وہ دُر نایاب علیحدہ ترتیب سے رکھتی نہیں یادیں کبھی لیکن باندھا ہے ترے نام کا اک باب علیحدہ حرفوں کے بدن ٹوٹے ہیں اس شب کی دُکھن سے جو یاد میں گزری شب مہتاب علیحدہ اب چارہ گری کوشش ناکام رہے گی اس مرتبہ ہیں درد کے اسباب علیحده اللہ آپ کے علم و عمل میں برکت دے اور عرفان کو مزید بڑھائے.“ یہی غزل قیام لندن کے دوران مکرم سامی صاحب کی فرمائش پر الفضل انٹرنیشنل کے لئے دی.پیارے آقا کی نگاہوں میں آئی.از خود آپ نے خط لکھا اور جب میں واپسی سے پہلے ملاقات کی انتظار میں آپ کے آفس کے باہر بیٹھی تھی.پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے یہ خط مجھے تھا یا.تصور کیجئے کبھی خط کے لئے راہ تکتے تکتے آنکھیں تھک جاتی ہیں اور کبھی آفس کے باہر بیٹھے ہاتھ کے ہاتھ خط مل جاتا ہے.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ.آپ نے تحریر فرمایا: " آپ کی جو نظم الفضل انٹر نیشنل، کے شمارہ 17 اپریل تا 123 اپریل 1998 میں شائع ہوئی اس کے یہ دوشعر تو بہت ہی اعلیٰ درجہ کے ہیں ؎ 262
رسیلاب رحمت جو کچھ بھی میسر تھا وہ سب بانٹ رہے ہیں رکھے نہیں اپنے لئے کچھ خواب علیحدہ حرفوں کے بدن ٹوٹے ہیں اُس شب کی دُکھن سے جو یاد میں گزری شب مہتاب علیحدہ ویسے تو ساری نظم اچھی ہے مگر ان دو شعروں کا جواب نہیں ہے آپ کی نظم میں یہ علیحدہ ہی نظر آتے ہیں ماشاء اللہ جزاکم اللہ احسن الجزاء.اللہ تعالیٰ آپ کے زور قلم میں برکت عطا فرمائے.“ (98-5-7) 15-11-98 کا تحریر کردہ پیارا مکتوب ملا : ”پاکیزہ شجر کے نام سے جود الفضل ربوہ میں آپ کی نظم شائع ہوئی ہے مجھے پسند آئی ہے.کبھی کبھی آپ ہر میں آکر جو کلام کہتی ہیں تو وہ چمک اُٹھتا ہے ماشاء اللہ.جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.اللہ آپ کے علم و عرفان کو مزید صیقل فرمائے.نیک مرادیں پوری کرے اور بچوں کو دین و دنیا میں ترقی عطا فرمائے.“ اس نظم کا ایک شعر لکھ دیتی ہوں: وہ جو اک شخص محبت کا ہنر رکھتا ہے بڑا پارکھ ہے مرے دل پہ نظر رکھتا ہے 31-1-2001 کے مکتوب میں تحریر فرمایا: میں رسالوں میں آپ کی نظمیں دیکھتا رہتا ہوں ماشاء اللہ آپ نے بڑی محنت کی ہے اور اب بھی بڑی محنت سے علمی ادبی کام کرتی رہتی 263
ب رحمت ہیں...ماشاء اللہ.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.25 جنوری کے الفضل میں بھی آپ کی بڑی اچھی نظم چھپی ہے.“ اس طرح کے دعائیہ خطوط مجھے ایسی خوشی عطا کرتے کہ میں کسی دوسرے کی داد سے بے نیاز ہو جاتی.ایک سلسلہ ربط ہم جاری رہتا جس میں سراسر آقا کی شفقت اور احسان تھا.دلداری کے کئی پہلو تھے.نظم بیٹے کی ماں بہت مقبول ہوئی اپنے آقا کو بھیج دی جواب ملا.بہت بہت شکریہ.جزاکم اللہ احسن الجزاء.بہت مزیدار نظم ہے.( مكتوب 2001-03-22) نیز آپ کے ارشاد پر یہ ظلم الفضل انٹر نیشنل میں شائع ہوئی.پیارے حضور کی دلدار یوں پر اپنی کیفیات کا اظہار کرنے لگوں تو کئی کتابیں لکھنے سے بھی حق ادا نہ ہوگا.حضور کا حسن نظر ہے ورنہ اپنی کم مائیگی کا ادراک ہے.اگر کوئی میرا یہ مضمون پڑھے تو خلیفہ وقت کی دعائیں لینے کے لئے ہر صلاحیت دین کے لئے وقف کر دے.خدا تعالیٰ کا ہو جائے.اُس سے راضی ہو جائے اُس کی رضا کی جنت حاصل کرلے.یہی میری مراد ہے یہی میرا صلہ ہے.شعر و سخن میں خاکسار کی حوصلہ افزائی کرنے اور کلام کے سقم دور کرنے میں مشوروں کے لئے محترم بھائی نسیم سیفی صاحب مرحوم، محترم سلیم شاہجہانپوری صاحب مرحوم، محترم شاہد منصور لکھنوی صاحب اور محترمہ برکت ناصر صاحبہ کی شکر گزار ہوں.مؤخر الذکر شعر گونہیں شعر فہم ہیں.نظم پڑھ کر بے تکلفی سے کہتیں کہ : ”اے لفظ میرے منہ تے نہیں چڑدا پھر میں متبادل لفظ تلاش کر لیتی.محترم خالد محمود اعوان صاحب نے غیر معمولی محنت سے لخت لخت کلام کو مربوط کیا.جزاهم الله تعالیٰ احسن الجزا فی الدارین خیرا.264
سیلار دیکھ کر تجھ کو چمن بس کہ نموکرتا ہے خاکسار کی نثری کاوشوں پر حوصلہ افزائی اور دعائیں خدائے رحمان کے سائے میں مہرومحبت کی روشنی پھیلانے والے علم وعرفان کے جام لنڈھانے والے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی دلفریب یادوں کی پہلو دار داستانیں عنوانات اور ذیلی عنوانات کے تحت پھیلے ہوئے طلسم ہوشربا کی طرح ہر لوح دل پر لکھی ہیں، دہرانے لگیں تو لذت بھری کسک محسوس ہوتی ہے.آپ کے لطف و کرم کی تابانی کا ذکر کرنے میں، ایک حسین مجبوری کی طرح ، اُس ذرے کا ذکر بھی رہے گا جس نے وہ روشنی جذب کی.ذکر جس کا ہے معتبر تھا وہ بات ٹھہری ہے معتبر میری گذشته مضمون : اک خاک کے ذرے پہ عنایات کا عالم میں اپنی ٹوٹی پھوٹی شاعری پر حضور کی حوصلہ افزائی ، اصلاح، بے تکلف تبصروں اور دعاؤں کا ذکر تھا.یہ مضمون اس کا دوسرا حصہ ہے.اس میں اپنی نثری کاوشوں پر حضور کی 265
سیلاب رحمت مشفقانہ دادو تحسین کا ذکر کروں گی، جس سے آپ کی وسعت قلبی اور ذرہ نوازی کا اندازہ ہوگا.آپ کا حسن نظر ، حقیر لکھاریوں کیلئے جینے کا سامان عطا کرتا.اپنی حقیقت سے آگاہ ہوں اس تناظر میں آقا کے بڑھاوے اور دعاؤں کے سہارے میں بالکل ماں کا سا انداز ہے.خود ہاتھ پکڑ کر چلنا سکھاتے ہیں پھر خوش ہوتے ہیں کہ بچہ کیسا اچھا چلنا سیکھ گیا.پہلی بار ایک جملے پر داد ملی.گیسٹ ہاؤس کراچی کے سبزہ زار پر محفل سوال جواب کی ہے.حضور کے ہاتھ میں سوالات کی پرچیاں تھیں.آپ نے پہلی پر چی اُٹھائی سوال پڑھا.کیا نظر لگنا برحق ہے؟ مسکرائے اور فرمایا: لکھا کسی نے خوب ہے نظر لگنا برحق ہے!“ دل چاہا اُچھل کر کھڑی ہو جاؤں اور بچوں کی طرح چیخ کر کہوں یہ میں نے لکھا ہے.بہت خوشی ہوئی اور اترا اترا کر سب کو بتاتی رہی.پھر حضور ہجرت فرما گئے.ایک درد بھرا دورِ مہجوری تھا.آپ دیار مغرب میں جابسے.ہمارے پاس رابطے کی صورت خطوط رہ گئے.لجنہ کراچی کے شعبہ اشاعت سے منسلک ہونے کی وجہ سے بہت سے امور میں رہنمائی کیلئے خط لکھتی.آپ کی پارکھ نگا ہیں ہماری مبتد یانہ باتوں میں بھی حسن تلاش کر لیتیں.یہ محض فضل و احسان الہی ہے کہ میری جھولی لعل و جواہر سے بھر دی.اردو ادب میں خطوط غالب کا بڑا مقام ہے.اگر ہم خطوط طا ہر مرتب کر سکیں تو ادبیت کا کوئی اور ہمالہ تر اشنا ہوگا.پیارے حضور نے کئی مرتبہ خاکسار کی نثر کوسراہا.ایک مضمون پر داد کی کہانی بہت دلچسپ ہے.کراچی لجنہ کی طرف سے صد سالہ جشن تشکر پر مجلہ الحراب تیار کر رہی تھی.ہمیں یہ سعادت حاصل تھی کہ حضور اپنے دور خلافت کے ابتدائی سال جو پاکستان میں رہے کراچی تشریف لاتے رہے اور لجنہ کو خاص طور پر نوازا.مجالس عرفان منعقد ہوئیں.انفرادی اور 266
سیلاب رحمت اجتماعی ملاقاتیں ہوئیں.لجنہ کی عاملہ کے ساتھ میٹنگ اور دعوت کا انتظام ہوا.غرضیکہ بھر پور موسم بہار گزارا تھا جس کی یادیں اکثر نشستوں میں موضوع گفتگو رہتیں.خاکسار نے ان یادوں کو سمیٹ کر ایک مضمون ترتیب دیا جس کا عنوان تھا: المصل خوشا نصیب کہ ہم میزبان تھے اُن کے یہ مضمون پہلے الحراب صد سالہ جشن تشکر نمبر میں شائع ہوا.پھر الفضل ربوہ نے مجتے سے یہ مضمون چھاپا.( ا صلح کراچی کے ماہ مارچ 2004ء میں بھی چھپ چکا ہے ) پیارے حضور کی نظروں میں آیا اور آپ نے صدر لجنہ کراچی کے نام ایک تعریفی مکتوب لکھا.اس مضمون پر المحراب میں میرا نام تھا نہ الفضل میں ،مگر میرے آقا کی فراست دیکھئے کہ پہچان لیا کس نے لکھا ہے.دستِ مبارک سے لکھا ہوا طویل مکتوب لجنہ کے دفتر پہنچا تو سب کی خوشی دیدنی تھی اور خاکسار تو حمد وشکر میں ڈوب گئی.آپ ہمیشہ مہربانی کا سلوک فرماتے اور ہر دفعہ توقعات سے اس قدر بڑھ کر کہ کبھی اپنی اوقات دیکھتے اور کبھی بارش کی طرح برستے آپ کے الطاف واکرام پر نازاں ہوتے.کوئی مناسبت ہی نہیں تھی اپنی کوشش اور اُن کی داد میں.می محض فضل خداوندی ہے.بے اختیار دل چاہا کہ یہ قیمتی مکتوب الفضل میں چھپ جائے.اُن دنوں خاکسار کے پھوپھی زاد بھائی نیم سیفی صاحب ایڈیٹر افضل تھے.ایک مستقل کالم میں لوگوں کے نام حضور کے خطوط چھاپ رہے تھے.اس لا جواب خط کا ذکر کیا تو سیفی صاحب نے بتایا کہ اب وہ سلسلہ ختم کر دیا ہے.حضور کی اجازت کے بغیر کوئی خط شائع نہیں ہوگا.ٹھیک ہے اطاعت لازمی ہے صبر کر لیا.میں حضور کو خط لکھ رہی تھی آخر میں یہ بات بھی لکھ دی اور پنجابی کا ایک محاورہ لکھا: ”غریباں روزے رکھے تے دن وڈے آئے.“ یہ خط بھیجنے کے چند دن بعد اپنی صدر صاحبہ محترمہ سلیمہ میر صاحبہ کے ہاں حضور سے فون 267
پر بات کا موقع مل گیا.آپ نے فرمایا: ” میں ابھی ابھی آپ کا خط پڑھ رہا تھا.بہت دلچسپ ہے بہت لطف آیا ہے.آپ نے لکھا ہے میرے لفظ اور جملے اچھے لگے مگر مجھے لگ رہا ہے آپ کے زیادہ اچھے ہیں.میں بھی ایسا ہی لکھتا ہوں.مجھے تو لگ رہا ہے سارا خط ہی میں نے لکھا ہے.“ حضور نے بہت پیارے انداز میں تعریف فرمائی.سب جملے تو مجھے من وعن یا د بھی نہیں رہے.دراصل میری کیفیت اس وقت عجیب تھی.یہ تصور کہ حضور سے بات ہو رہی ہے.ہر احساس پر حاوی تھا.حضور نے بہت شفقت سے ہنستے ہوئے فرمایا: میں آپ کے روزوں والی بات بھی سمجھ گیا ہوں.میں سیفی صاحب کو لکھوں گا آپ کا خط چھاپ دیں.آپ بھی انہیں میرا یہ پیغام دے دیں.“ چند منٹ کی گفتگو خوشیوں کے خزانے عنایت کر گئی.پیارے حضور نے وعدہ پورا کیا نیم سیفی صاحب کو خط چھاپنے کی اجازت دیدی.2 ستمبر 1991ء کا الفضل آیا تو پہلے صفحے پر سیفی صاحب کے نام اجازت والا اور ہمارا خط شان سے چھپا ہوا تھا.حضور نے سیفی صاحب کو لکھا تھا: آپ نے درست فیصلہ کیا کہ میری اجازت کے بغیر الفضل میں میری طرف سے احباب کے نام ذاتی خطوط شائع کرنے بند کر دیئے لیکن دو خطوط ایسے ہیں جن کی اشاعت کی میری طرف سے اجازت ہے.ان میں سے ایک آپا سلیمہ میر صاحبہ کے نام ہے کیونکہ اس کا لجنہ اماء اللہ اور مختلف جماعتوں سے تعلق ہے.اسے بے شک چھپوا دیں...268
سیلاب رحمت اس طرح یہ یاد گار خط الفضل کی زینت بنا.جب بھی یہ خط پڑھتی ہوں ، لگتا ہے المحراب کی تیاری میں صرف شدہ ساری محنت کا اجر کئی گنا بڑھا کر اللہ تعالیٰ نے اس خط کی صورت میں عطا کر دیا ہے.ملاحظہ فرمائیے: واجعل إن من لدنه سلما نصيرة انا فتحنا لك فتحا مبينا ولقد تضركم نحْمَدُه وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الكَرِيمِ AHMADIYYA MUSLIM S لنڈی امام جماعت احورية یلم مئی 1991 چرا میں نے اس عنوان میں صرف اتنا تصرف کیا ہے کہ میزبان کو میمان' میں بدل دیا ہے مکرمہ آیا سلیمی قید تجنہ اماءاللہ کراچی اسلام علیکم ونعمته است و برکات کا ابھی الفصل مورخہ 29 رمضان المبارک میں شائع شدہ مضمون بعنوان: خوش نصیب کہ ہم میزبان تھے ان کے پڑھا ہے.دل کی عجیب کیفیت ہے.لاہور اسلام آباد راولپنڈی.شیخو پورہ.کراچی.حیدر آباد میر یو خاص ناصر آباد دیر میں سفر کے دوران کہیں تھوڑا کہیں زیادہ ٹھہرنے کا موقع ملا کرتا تھا.تھا جہاں زیادہ موقع ملتا تعادہ بھی ہمیشہ تھوڑا ہی معلوم مدا.آن کی آن میں وقت گزر جایا کرتا تھا.یہ مضمون پڑھتے ہوئے وہ سب یا دیں ہجوم در ہجوم امڈ آئیں.جوں جوں پڑھتا گیا دل گداز ہوتا چلا گیا اند پانی برستا رہا.کس نے اتنا اچھنا مضمون لکھا ہے.اتنا سمجھا ہوا.اتنا متوازن - اتنا شسته - مسکراہٹوں کے ریشم.میں درد لیٹے ہوئے.سنجیدہ باتوں کے ہمراہ ان کی انگلیاں کھڑے ہوئے ہلکی پھلکی لا ابالی باتیں بھی کمسن بچیوں کی طرح ساتھ ساتھ چلتی.دوڑتی دکھائی وشاکی دیتی 269
تحریر تو امتہ الباری ناصر ہمہا اللہ کی دکھائی دیتی ہے.لیکن لگتا یہ یہ ہے کہ آپکی ساری حاملہ نے مل جل کہ بوایا ہے.کچھ مشور ہے باہم ضرور ہوئے ہونگے جو اپنے رنگوں میں اثبات بہار ہوا ہے.بعض دفعہ کا موں میں اپنا رہنا ک ہوتا ہے کہ سب یادوں کے رشتے معطل ہوئے ہوتے ہیں.اچانک کوئی پیر در دخط - کسی خط میں کوئی سادہ سا بے ساختہ اظہار تعلق کوئی پرتاخیر اعظم.کوئی اچھوٹی ثارات تحریر چونکا دیتے نہیں ان یادوں میں ایسا تموج پیدا کز رہتے ہیں کہ اسے دھیما ہوتے ہوتے اور قرار پکڑتے نے کچھ وقت لگتا ہے.پاکستان کے پیارے احمدی سب یاد آنے لگتے ہیں.چند لمحوں کے لئے یادیں کار فرما نہ کافر معطل نہیں جاتے ہیں نیہ بھی ایک غنیمت ہے.کبھی کبھی چپو چھوڑ کے ہیں - تو چوں کے ہاتھ بہتے چلے جاتے ہیں بھی ایک مزا ہوتا کچھ عرصہ خیالوں میں غرق ہو کر پھر سلامت ابھر آئے ہے جنم دجال کو ایک نئی توانائی ملتی ہے.جو یاد یں کیا ہوتی ہیں کئی کلفتیں دھر بھی ڈالتی " اللہ تعالٰی لجنہ کراچی کو ہمیشہ دین کی بے لوث اور غمر دار خدمت کی توفیق عطاء فرماتا رہے.آپکی قیادت میں چین طرح سب نہیں خلوص کے ساتھ مل جل کر ایک جان اور ایک قالب میں ڈھل کر تعاون علی البر کا دلکش مظاہرہ کر رہی ہیں خدا کرے یہ پیشہ اسی طرح رہے.اللہ تعالٰی چشم شور نے اپکی حفاظت فرمائے اپنی رضا کی دائی جنت آپکو عطاء فرمائے اور دونوں جہان کی جنات سے آپ سب کے دامن بفرد ہے آمین و اسلام خاکار کا اطلاقه 270
رحمت ا بھی الفضل، مورخہ 29 رمضان المبارک میں شائع شدہ ایک مضمون بعنوان ”خوشا نصیب کہ ہم میزبان تھے ان کے ( حاشیہ: میں نے اس عنوان کو بدل کر صرف اتنا تصرف کیا ہے کہ میزبان کو مہمان" میں بدل دیا ہے ) پڑھا ہے.دل کی عجیب کیفیت ہے.لاہور اسلام آباد، راولپنڈی ، شیخوپورہ، کراچی، حیدرآباد ، میر پور خاص ، ناصر آباد وغیرہ میں سفر کے دوران کہیں تھوڑا کہیں زیادہ موقع ملتا تھا.وہ بھی ہمیشہ تھوڑا ہی معلوم ہوا.آن کی آن میں وقت گزر جایا کرتا تھا.یہ مضمون پڑھتے ہوئے وہ سب یادیں ہجوم در ہجوم امڈ آئیں.جوں جوں پڑھتا گیا دل گداز ہوتا چلا گیا اور پانی برستارہا.کس نے اتنا اچھا مضمون لکھا ہے.اتنا سلجھا ہوا،اتنامتوازن،اتنا مشستہ، مسکراہٹوں کے ریشم میں درد لیٹے ہوئے.سنجیدہ باتوں کے ہمراہ اُن کی انگلیاں پکڑے ہوئے ہلکی پھلکی لا ابالی باتیں بھی کمسن بچیوں کی طرح ساتھ ساتھ چلتی دوڑتی دکھائی دیتی تھیں.تحریر تو امتہ الباری ناصر سلمھا اللہ کی دکھائی دیتی ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ آپ کی ساری عاملہ نے مل جُل کر لکھوایا ہے.کچھ مشورے باہم ضرور ہوئے ہوں گے جو اتنے رنگوں میں اثبات بہار ہوا ہے.بعض دفعہ کاموں میں ایسا انہاک ہوتا ہے کہ سب یادوں کے رشتے معطل ہوئے ہوتے ہیں.اچانک کوئی پر درد خط، کسی خط میں کوئی سادہ سا بے ساختہ اظہار تعلق ، کوئی پرتاثیر نظم ، کوئی اچھوتی شائستہ 271
سیلاب رحمت تحریر چونکا دیتے ہیں اور یادوں میں ایسا تموج پیدا کر دیتے ہیں کہ اسے دھیما ہوتے ہوئے اور قرار پکڑتے ہوئے کچھ وقت لگتا ہے.پاکستان کے پیارے احمدی سب یاد آنے لگتے ہیں.چند لمحوں کیلئے یادیں کارفرما اور کام معطل ہو جاتے ہیں.یہ بھی ایک غنیمت ہے کبھی کبھی چپو چھوڑ کر موجوں کے ساتھ بہتے چلے جانے میں بھی ایک مزا ہوتا ہے.کچھ عرصہ خیالوں میں غرق ہو کر پھر سلامت اُبھر آنے سے جسم و جان کو ایک نئی توانائی ملتی ہے.جو یا دیں ڈبوتی ہیں.کئی کلفتیں دھو بھی ڈالتی ہیں.اللہ تعالیٰ لجنہ کراچی کو ہمیشہ دین کی بے لوث اور ثمر دار خدمت کی توفیق عطا فرماتا رہے.آپ کی قیادت میں جس طرح سب بہنیں خلوص کے ساتھ مل جل کر ایک جان اور ایک قلب میں ڈھل کر تعاون علی البر کا دلکش مظاہرہ کر رہی ہیں.خدا کرے یہ ہمیشہ اسی طرح رہے.اللہ تعالیٰ چشم حسود سے آپ کی حفاظت فرمائے.اپنی رضا کی دائی جنت آپ کو عطا فرمائے.اور دونوں جہان کی حسنات سے آپ سب کے دامن بھر دے.آمین.سب بہنوں اور عزیزوں کو سلام.خدا حافظ.“ اس نادر مکتوب کا شکریہ میں نے دل سے اُٹھنے والے احسان مندی کے جذبات کو ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ڈھال کر ادا کیا.چپو چھوڑ کر لہروں کے سہارے والی منظر کشی مجھے بہت پسند آئی تھی.حضور کی خوشنودی حاصل ہونے کی سعادت نے سرشار کر دیا تھا.جیسا کہ میں نے ہے.آپ کے احسان کا ہر قدم پہلے سے آگے ہوتا.اس خط کے جواب میں حضور کا لے لکھا.272
سیلار رحمت فون آیا.آپ نے از راہ شفقت بہت تعریف فرمائی: ”المحراب والا مضمون پڑھ کر ایسا لگا سارے منظر زندہ ہوگئے ہیں بلکہ زندہ ہوکر سامنے بیٹھ گئے ہوں.واقعی بہت اچھا لکھا ہے آپ نے.“ قیمتی مضمون بلکه حرف آخر یا درفتگاں کے باب میں قیمتی مضمون بلکہ حرف آخر کی سند خاکسار کو اپنی رفیقہ کار پیاری حور جہاں بشری داؤد کی یاد میں لکھے ہوئے مضمون پر ملی.اللہ تعالیٰ مرحومہ کے حق میں حضور کی سب دُعائیں قبول فرمائے.آمین." عزیزہ حوری کے متعلق آپ کا جو مضمون 26 ستمبر کے الفضل میں شائع ہوا وہ یادرفتگان کے باب میں ایک قیمتی مضمون ہے.یوں لگتا ہے دل کے احساسات از خود فقروں میں ڈھلتے چلے گئے ہیں اور جانے والی ہستی کا ایک پیارا دلکش خاکہ قارئین کی دعائیں جذب کرنے کیلئے صفحات پر ابھارتے چلے گئے ہیں.مضمون بہت عمدہ ہے.جزاکم اللہ احسن الجزاء (10 نومبر 1993 ) پیاری بشری داؤد کی وفات کے صدمے میں حضور کو جو خط لکھا اُس کا جواب کسی اعلیٰ درجے کے ادبی شہ پارے سے بھی بلند ہے اور ذرہ نوازی دیکھئے میرے خط کے مضمون کو اس مضمون پر حرف آخر قرار دیتے ہیں.میں اس پر اپنے اللہ تعالیٰ کا جس قدر شکر کر سکوں کم ہے.خطوط پر حضور کی پسندیدگی بھی کئی دفعہ حاصل ہوئی.پہلے میں بہت ڈرا کرتی تھی.بلکہ ہمیشہ ہی اس بات کا ڈر رہتا کہ خلاف ادب کوئی بات نہ لکھ جاؤں.پیارے حضور نے کبھی کسی 273
رحمت بات کا برانہیں مانا تھا، بلکہ حوصلہ افزائی فرماتے تھے.میں حضور کی خدمت میں دل کی ہر بات لکھ دیتی.جس طرح اللہ تعالیٰ سے ہم سجدے میں دل کی ہر بات سادگی سے کہہ جاتے ہیں.حضور کو بھی لکھ سکتے ہیں.آپ کی نظر الفاظ کے پیچھے اخلاص تک پہنچ جاتی ہے.خطوط پر حوصلہ افزائی کا طریق ملاحظہ فرمائیے.اپنی حمد و شکر اور خوشی کا عالم آپ کی چشم تصور پر چھوڑتی ہوں.چند اقتباس پیش ہیں: " آپ کا خط آپ ہی کے مصرع صبح کی تازہ دم ہوا کی طرح آیا ما شاء اللہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ کراچی کو بہت خدمت کی توفیق بخشی ہے.خاص طور پر شعبہ اشاعت تو بہت دلجمعی اور مضبوط قدموں سے آگے بڑھ رہا ہے.ماشاء اللہ چشم بد دور....آپ کے چند اور دلچسپ خطوط بھی میرے پاس پڑے ہوئے ہیں.شاید ان کا جواب نہیں دیا جا سکا.ان پر ایک نظر ڈالوں گا تو پھر جواب دوں گا.آپ کے خط کے ساتھ منسلک وہ تمام پیار بھرے الفاظ پڑھنے کا موقع ملا جو سید نا حضرت مسیح موعود نے اللہ تعالیٰ کے ذکر میں استعمال کئے ہیں.بہت لطیف اور گہرے مضامین کا ایک سمندر ہے.آپ کو خوب خیال آیا.ماشاء اللہ آپ کی ذہنی اور قلبی صلاحیتوں کو اور بھی زیادہ روشن فرمائے.خدا حافظ.“ ( 21 جنوری 1991 ) وو " آپ نے المحراب کی اشاعت کے سلسلہ میں سب خدمت کرنے والی ساتھنوں اور ساتھیوں کا بہت اچھے انداز میں نہ صرف انفرادی تعارف کروایا ہے بلکہ حسن کارکردگی کی حقیقت کے دائرے 274
سیلاب رحمت میں رہتے ہوئے بہت عمدہ تعریف کی.خوب احسان کی احسان سے جزادی.فجزاکم اللہ احسن الجزاء.وجزاھم اللہ احسن الجزاء 66 (12 دسمبر 1991 ) " آپ نے بڑی انکساری سے کام لیا یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ انکساری کی بجائے حق گوئی سے کام لیا ہے.جب آپ نے یہ لکھا کہ ایسی نثر لکھ گئے ہیں جس کی تعریف اور توصیف کیلئے آپ سے بڑھ کر علم چاہئے.اور پھر یہ لکھنے کے بعد جب آپ نے تعریف اور توصیف کا خوب خوب حق ادا کیا ہے تو پڑھ کر معلوم ہوا کہ آپ کا یہ بہتر علم والا تبصرہ تو خود آپ پر صادق آرہا ہے.پس اگر چہ تمام خط خلوص انکسار لئے ہوئے ہے اور اس فقرے کا مقصد بھی اپنی عاجزی کا اظہار ہی ہے لیکن میں اسے اس نظر سے دیکھتا ہوں کہ گویا یہ اظہار حق ہے.اور آپ کو پتہ ہی نہیں لگا کہ خود آپ کی ذات پر صادق آ رہا ہے.“ (6 مئی 1993ء) آپ کا پرخلوص اور آپ کی چاشنی سے بھر پور خط موصول ہوا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اللہ تعالیٰ آپ کی تمام خدمات اور پر خلوص جذبات کو قبول فرمائے اور ذہنی وقلبی صلاحیتوں کو مزید صیقل فرمائے ، اور ان سے بھر پور استفادہ کی توفیق عطا فرمائے.خدمات دینیہ کے مقامِ محمود عطا فرمائے.اپنی برکتوں نعمتوں اور رحمتوں سے وافر حصہ عطا 66 فرمائے.خدا حافظ و ناصر.“ 6 مئی 1993ء) ایم ٹی اے شروع ہوا تو ہر احمدی کی طرح خاکسار کی بھی خواہش تھی کہ جلدی سے جلدی 275
رحمت ڈش لگ جائے.چنانچہ ۲ فروری ۱۹۹۴ء کو ہمارے گھر کی چھت پر ڈش لگ گئی.جب سیٹنگ مکمل ہو کر ٹی وی لگایا تو پیارے حضور کا پروگرام آ رہا تھا اس خوشی کے وقت آپ کو خط لکھنے بیٹھی تو فروری کے پر بہار موسم کی بھی لفظوں سے کچھ تصویر بنادی.پیارے آقا نے خوب داد دی، مزا ہی آگیا.تحریر فرمایا: آپ کے خطوط ملے.الحمد للہ کہ بالآخر آپ کے گھر کی چھت بھی ڈش سے مزین ہو گئی ہے.اللہ آپ کو اور آپ کے سب ملنے والوں کو اس سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.آپ نے صحن میں لگے پودوں اور درختوں کے ذکر کے ساتھ اپنے گھر کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں تو کمال ہی کر دیا ہے.آپ کی نثر بعض دفعہ آپ کے شعروں پر غالب آجاتی ہے.کیونکہ شعر کی پابندیاں بعض اوقات آپ کے دل کے ہر ولولے اور ہر مقصد کو اصل شان سے بیان کرنے میں روک ہو جاتی ہیں.جبکہ نثر میں خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسا ملکہ اور عبور بخشا ہے کہ آپ فصاحت و بلاغت کے دریا بہاتی چلی جاتی ہیں چنانچہ آپ کے صحن اور باغ کا نقشہ پڑھ کر تو یوں لگتا ہے جیسے میں نے آپ کا گھر صرف دیکھا ہی نہیں بلکہ اس کے صحن میں بیٹھ کر کچھ وقت گزار آیا ہوں.اللہ آپ کے قلم میں مزید روانی اور جاذبیت پیدا فرمائے.“ اردو کلاس کی افایت پر کچھ ٹوٹا پھوٹا لکھا ہوگا.آپ نے بہت سراہا: اردو کلاس کے حوالے سے آپ کا تبصرہ پڑھ کر بہت محظوظ ہوا ہوں کہ زبان رکھتی تو کتنی نازاں ہوتی.بہت عمدہ فقرہ لکھا ہے اس سے تو لگتا ہے 276
رحمت کہ ماشاء اللہ اردو زبان سے آپ خوب واقف ہیں.اور نہ صرف اس کا استعمال جانتی ہیں بلکہ زبان بھی رکھتی ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء.“ (12 نومبر 1998ء) پیارے حضور کی نگاہ کرم کے دائروں کی وسعت دیکھئے.کراچی سے پندرہ روزہ اے المصلح نکلتا ہے.کبھی کبھی خاکسار کی تحریر کو بھی جگہ مل جاتی ہے.نوک جھونک کے نام سے ایک کالم شروع کیا جس پر نام کی بجائے صرف اب ن لکھا.حضور نے پہچان لیا اور بہت پیار سے داد دی.تحریر فرمایا: پندرہ روزہ «المصلح کراچی کا جو رسالہ اس وقت میرے ہاتھ میں ہے.یہ یکم تا 15 اپریل 2001 ء کا شمارہ ہے اور اس میں اچھے اچھے مضامین ہیں لیکن اس رسالے کی جان آپ کے مضامین میں ہے.ماشاء اللہ چشم بد دور...جہاں ا.ب.ن آجائے وہاں فصاحت و بلاغت کے در کھل جاتے ہیں.جزاكم الله احسن الجزاء في الدينا والاخرة پیارے حضور کی طرف سے نہ صرف آپ کی زندگی میں داد ملتی رہی بلکہ آپ کے دوسری دنیا میں جانے کے بعد آپ کی طرف سے بھیجا ہوا ایک پیغام ملا جو خاکسار کے لئے ایک نعمت ہے ایک اعزاز ہے.آپ کی وفات حسرت آیات کو چند دن ہی گزرے تھے تازہ تازہ صدمہ، بے انتہا کرب انگیز دن تھے.ایسے میں لندن سے ایک فون ملا.آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کا ایک پیغام دینا ہے.حضور کے لفظ اور پھر ان کی طرف سے پیغام کا سن کر پورا وجود رود یا.میرے حضور نے یہ پیغام دیا تھا کہ انہیں مضمون الہام کلام اس کا بہت پسند آیا ہے اور وہ ہدایت کرتے ہیں کہ جب بھی کلام طاہر شائع ہو تو یہ مضمون اس میں شامل ہو.یہی 277
سیلاب رحمت) پیغام محترمہ بی بی فائزہ صاحبہ نے کئی دفعہ اور پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے بھی پہنچایا.بی بی فائزہ صاحبہ نے تو یہ بھی بتایا کہ سارا مضمون حضور نے آخری بیماری میں بی بی فائزہ صاحبہ سے سنا اور بہت محظوظ ہوئے اور فرمایا کہ مجھے تو یاد بھی نہیں تھا کہ میں باری کو کیا کیا لکھتا رہا ہوں.اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ کلام طاہر کے ساتھ خاکسار کا نام ہمیشہ کے لئے جڑ گیا.الحمدللہ.ثم الحمد لله ایں سعادت بزور بازو نیست ایک حقیر معمولی ، عاصی محض پر الطاف و اکرام کی یہ بارشیں برسانے والا وجود کتنا عظیم کتنا کریم تھا اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا.اللہ تعالیٰ ہمارے حق میں ان کی سب دعائیں قبول فرمائے اور تادم آخر مقبول خدمتِ دین کی توفیق عطا فرمائے.آمین.نور کی شاہراہوں پہ آگے بڑھو، سال کے فاصلے لمحوں میں طے کرو خوں بڑھے میرا تم جو ترقی کرو ، قرۃ العین ہو سارباں کے لئے ( کلام طاہر ) 278
تعمیل ارشاد ا پیارے حضرت خلیفہ المسح الرابع رحہ اللہ تعالیٰ کی شفقتوں اور احسانات کا ایک دلنشین رنگ یہ بھی تھا کہ کبھی کبھی کسی کام کے لئے ارشاد فرماتے.اوّل تو آپ کا اعتماد کہ کسی کام کے قابل سمجھنا ہی بہت بڑا احسان ہوتا اس پر آپ کی رہنمائی تفصیلی ہدایات، ہر اونچ نیچ سمجھانا نعمت سے کم نہیں تھا.پھر آپ دُعاؤں سے مددفرماتے اور کام مکمل ہونے پر اس طرح شکر گزار ہوتے جیسے ہم حقیر فقیر بہت بڑی خدمت کر رہے ہوں.چند کاموں کا مختصر ذکر جو آپ کے ارشاد پر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.وما توفيقى الا بالله العلى العظيم حضرت اقدس می نام کی تحریروں میں الفاظ کی تذکیر و تانیث علی اسلام خاکسار کو 12.11.91 کا تحریر کردہ حضور کا ایک مکتوب ملا : وو....آپ کے سپر د ایک کام بھی کرنا ہے.کئی دفعہ پہلے بھی خیال آیا لیکن کسی کے سپرد نہیں کر سکا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاں کئی الفاظ تذکیر و تانیث دونوں طرح استعمال ہوئے ہیں جبکہ 279
رحمت بعض کے متعلق عمومی طور پر ایک ہی استعمال معروف ہے.مجھے چونکہ وقت نہیں مل سکا تحقیق کرنے کا اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو خدا کے فضل سے اردو گرائمر پر اتنا عبور ہے کہ آپ انشاء اللہ اس کام کو آسانی سے کر سکیں گی...66 یہ ایک طویل محنت طلب کام تھا.ایک ٹیم بنائی اور اللہ تبارک تعالیٰ کی مدد سے روحانی خزائن کی سب جلدوں کے لفظ لفظ کے مطالعہ سے ایسے الفاظ کی مکمل فہرست بنا کر لغت میں اُس کا استعمال وضاحت سے لکھ کر حضور کی خدمت میں پیش کئے.آپ نے ساری ٹیم سے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور دعاؤں سے نوازا.الحمد للہ علی ذالک.حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ دوسرا کام حضور کی اپنی کتاب تھی جسے چھاپنے کی سعادت ہمیں عطا فرمائی.کتاب ” حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ کے نام سے طبع ہوئی.اللہ تعالیٰ نے خاکسار کی خوشی کا یہ سامان بھی فرمایا کہ ایک دن پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا فون آیا کہ حضور پیش لفظ میں یہ آئیڈیا چاہتے ہیں کہ اماں حوآ پر یہ الزام تھا کہ آدم کو جنت سے نکلوایا ہے.اب احمدی خواتین اللہ تعالیٰ کے فضل سے اماں حوآ پر الزام سے بریت کا سامان بنی ہیں اور نیک تربیت سے دوبارہ جنت حاصل کر لی.مضمون اتنا خوبصورت تھا کہ خودشعر میں ڈھل گیا آج حوا کی بریت کے ہوئے ہیں ساماں بیٹیاں جنت گم گشتہ کو لے آئی ہیں حضور نے پسند فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ کتاب کے شروع میں پورے صفحہ پر دیا جائے.280
سیلاب رحمت ان خطابات میں مشی گن امریکہ میں خواتین سے انگریزی میں خطاب بھی تھا.آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس کا ترجمہ بھی خود کر لیں.ترجمہ کرنے میں کچھ مقامات پر وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی.حضور انور کی خدمت میں بصد ادب عرض کیا کہ نظر ثانی فرما دیجئے.پیارے حضور نے سارا خطاب اسقدر بدل دیا کہ پھر سے ترجمہ کیا.اس ترجمے کے دوران پیارے حضور کے بہت اچھے خطوط ملے.ہم لجنہ کراچی والے کئی لحاظ سے خوش نصیب ہیں.ایک خوش نصیبی یہ بھی ہے کہ سہ ایک دوسرے کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتے ہیں.حضور کی طرف سے مکتوب آنے پر سب خوش ہوتے اور اگر کوئی کام ہو تا عین سعادت سمجھ کر تعاون کرتے.بچوں کے لئے سوال جواب کی کیسٹوں سے کتاب مرتب کرنا 20.01.93 کے مکتوب میں ہمیں ایک اور کام کیلئے ارشاد ہوا، تحریر فرمایا : جرمنی اور یہاں بعض مواقع پر بچوں اور بچیوں کے ساتھ سوال جواب کی بڑی مفید مجلسیں لگتی رہتی ہیں.جرمنی میں ان کے علاوہ بعض اردو میں بھی مجالس سوال و جواب منعقد ہوئی ہیں.اگر آپ ان کو یکجا کر کے شائع کرسکیں تو بڑی دلچسپ اور مفید چیزیں بن جائیں گی.بچوں اور بچیوں والی مجالس تو اکثر انگریزی میں ہوں گی وہ الگ اور اردو والی الگ شائع کرنی پڑیں گی.خاصا محنت طلب کام ہے.اگر ارادہ ہو تو مشورہ کر کے بتائیں پھر آپ کو یہاں سے ایسی سب کیسٹس بھجوا دی جائیں گی.بچوں والی مجالس کا یکجا ہوکر شائع ہونا تو بچوں کی تربیت کے 281
سیلاب رحمت سلسلہ میں بہت ہی مفید ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ.“ ہماری خوشی سے رضامندی پر کیسٹیں ملنا شروع ہوگئیں اور ہم نے ٹیم ورک کے ساتھ کام مکمل کر کے حضور کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی.فالحمد للہ علی ذالک.کلاسیکل شعرا کے مجموعہ ہائے کلام 17.1.93 کو پیارے حضور کا مکتوب موصول ہوا: میر تقی میر اور دوسرے بڑے بڑے شعرائے کرام جو کلاسیکل شاعری میں ایک نام رکھتے ہیں، کے مجموعہ ہائے کلام اکٹھے کر کے یہاں بھجوا دیں.ان کا سائز بڑا نہ ہو بلکہ جیبی سائز میں ملیں تو بہتر ہوگا.مارکیٹ میں عموماً اسی سائز کے مجموعہ کلام مل جاتے ہیں.امید ہے جلد یہ کام کر دیں گی.جزاکم اللہ احسن الجزاء.“ میں یہاں قدرے تفصیل میں جاؤں گی.صرف یہ بتانا چاہتی ہوں کہ حضور انور کی اس خواہش پر امید ہے جلد یہ کام کر دیں گئی ، قدرت نے کس طرح مدد کی.مختلف نوعیت کا کام تھا.بڑے بڑے اشاعتی اداروں کو فون کئے کئی قسم کے دیوان دستیاب تھے ان میں سے کون سے معیاری ہوں گے.کیسے انتخاب کروں.بشری داؤد صاحبہ سے مشورہ کیا.اُس نے داؤد صاحب کو اردو بازار بھیجا.وہاں محترم خالد لطیف صاحب کتب فروش کی مدد سے کئی کئی قسم کے دیوان گھر اُٹھا لائے کہ اب ان میں سے انتخاب کرلیں باقی واپس ہو جا ئیں گے.حسن اتفاق سے اُسی وقت محترم عبد اللہ علیم صاحب گھر آگئے جو اس کام میں یدطولیٰ رکھتے تھے.منٹوں میں اچھے دیوان چھانٹ کر الگ رکھ دئے.محترمہ بیگم صاحبہ عبدالرحیم بیگ صاحب نے اپنے 282
سیلاب رحمت بہنوئی کو کتب لندن لے جانے پر آمادہ کر لیا.تیسرے دن کتب لندن بھیجی جا چکی تھیں.یہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے پیارے کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ پر غیبی مددکا سامان.پیارے حضور کا مکتوب محررہ (93-2-9) موصول ہوا: آپ کے خط کے ساتھ میرے کئی دل پسند شعراء کے انتخاب یا دیوان ملے.جزاکم اللہ احسن الجزاء.سب میری پسند کے مطابق ہیں، یہ کتابیں دفتر میں سجادی ہیں.اب ان سے طاق نسیاں کے بجھے بجھے نقوش اُجاگر کروں گا ، اللہ آپ کو دین و دنیا کی حسنات سے نوازے...آپ نے جس خلوص اور برق کی سی تیزی سے بھجوائی ہیں میرے لئے وہی تحفہ بہت ہے.اللہ آپ کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے.“ حضور کی خوشنودی سے دل حمد وشکر سے بھر گیا.ترے در کی گدائی سے بڑا ہے کون سا درجہ مجھے تو بادشاہت بھی ملے تو میں نہ لوں ساقی علیم صاحب کے مجموعہ کلام کا دیباچہ ہر کام جو حضور انور نے ارشاد فرمایا اپنی استطاعت سے بڑا لگا.الحمد للہ کہ مولا کریم نے کروا بھی دیا.مگر درج ذیل مکتوب (99-12-8) میں جس کام کیلئے ارشاد تھا بہت ہی مشکل تھا.تحریر تھا: ایک اہم کام جو شاید آپ کے سوا کوئی دوسرا نہ کر سکے آپ کے سپر د کر رہا ہوں.کام یہ ہے کہ ہم عبید اللہ علیم کے کلام پر مشتمل کتاب ข 283
رحمت شائع کرنا چاہتے ہیں.اس سلسلہ میں محترم علیم صاحب کی یاد میں جو مشاعرہ کراچی میں ہوا تھا اس کی Tapes وہاں ہوں گی.انہیں دیکھ کر اس میں شامل شعراء نے علیم صاحب کے مشاعرہ کے متعلق کوئی تبصرہ کیا ہو یا ان کی ذات کے متعلق اچھے فقرے کہے ہوں، یا علیم صاحب کی یاد میں اچھے شعر کہے ہوں تو وہ اکٹھے کر کے کتاب کے پیش لفظ یا دیباچہ کیلئے ان کی روشنی میں پانچ چھ صفحات پر مشتمل ایک مضمون تیار کر دیں.جزاکم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.“ نگار علیم تحسین علیم، احمد مبارک صاحب، پی ٹی وی اور ایم ٹی اے والوں سے معلومات لیں اور دن رات محنت کر کے 28.12.99 کو احباب کے تاثرات نثر نظم میں جمع کر کے پہلی قسط کام کی بھیج دی.پیارے آقا " نے ارشاد فرمایا: د علیم صاحب کی کتاب کے دیباچے کیلئے خوب محنت کی ہے.ٹھیک ہے، کام تسلی سے کریں.اللہ اس کام کا بھی حق ادا کرنے کی توفیق دے.“ میں اپنے مولا کریم کا جتنا بھی شکر کروں کم ہے.خلیفہ وقت کی نگاہ کسی خدمت کے لئے مجھ پر پڑے اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی.زمانی ترتیب سے ہم زمین غزلیں حضور پر نور رحمہ اللہ کے ارشاد پر مکرم منیر جاوید صاحب کا تحریر کردہ خط 99-5-07 ملا.اس میں آپ نے جس کام کا ارشاد فرمایا اس کی طوالت اور کٹھنائیوں کا کوئی بھی اندازہ 284
نہیں لگا سکتا.تحریر فرمایا: وو مختلف نئے اور پرانے شعراء کے کلام میں جو یکسانیت یا مطابقت پائی جاتی ہے اور ایک شاعر کی زمین پر دوسروں نے بھی کلام کہا ہوا ہے.اسے زمانی ترتیب کے لحاظ سے مرتب کر کے بھجوائیں.مثلاً میر تقی میر کی نظم 'فقیرانہ آئے صدا کر چلئے کی طرز پر صدا کر چلے، دعا کر چلے، چلے، چلے کی ردیف کے ساتھ ان سے پہلے اور بعد کے شعرا نے غزلیں کہی ہوں تو وہ سب زمانی لحاظ سے اکٹھی ہو جا ئیں کہ سب سے پہلے کس نے اس طرز پر نظم یا غزل کہی پھر کس نے اور پھر کس نے وغیرہ وغیرہ.اس سلسلے میں نقوش کے غزل نمبر میں ولی دکنی ، غالب میر، خواجہ میر درد، ذوق وغیرہ کے کلام دیکھ لیں ، ان سے کافی مددمل سکتی ہے.اسی طرح ولی دکنی کی ایک غزل ” خطاب آہستہ آہستہ گلاب آہستہ آہستہ“ کے الفاظ پر مشتمل ہے اس میں دیکھیں کہ کن کن دوسرے شعرا نے کوشش کی ہوئی ہے.تاریخ وار شاعروں کے نام اور ان کا کلام اکٹھا ہو جائے.دلی دکنی کی غزل..کرتے ہیں، غلام کرتے ہیں، سلام کرتے ہیں، تمام کرتے ہیں، اس پر بھی دیکھیں کہ اور کس کس شاعر نے غزلیں کہی ہوئی ہیں اسی طرح میر تقی میر کی غزلیں نوحہ گری کا ، آشفتہ سری کا، شیشہ گری کا وغیرہ الفاظ میں ہے.میر ہی کی آخر کام تمام کیا.بعبث بدنام کیا ، آرام کیا وغیرہ وغیرہ.اس پر بھی کام کریں.غالب کی غزلیں دوا نہ ہوا ، برا نہ ہو انجر آزمانہ ہوا، غزل سرا نہ ہوا.پھر 285
سیلاب رحمت زلف کے سر ہونے تک خبر ہونے تک سحر ہونے تک..اسی طرح دوسرے بڑے بڑے شعرا کی مشہور غزلیں چن لیں.ان پر یہ کام کریں کہ کس نے سب سے پہلے اس پر کہا اور کب کہا اور کیا ہوا.پھر دوسرے نمبر پر کون آیا اور تیسرے پر کون اور اسی طرح بعد میں کون کون آئے.پھر عبید اللہ علیم صاحب بھی صاحب طرز شاعر ہیں.ان کی طرزیں اگر پہلے موجود تھیں تو کن کن شعراء نے ان پر کہا ہوا تھا.یہ مواد بھی اکٹھا ہو جائے.“ اس ارشاد کے مطابق شعراء کی فہرست زمانی ترتیب سے بنانا ہی مہینوں کا کام تھا.پھر ہم زمین غزلوں کی تلاش کئی لائبریریاں کئی ادارے مل کر بھی یہ کام مشکل سے کر سکتے تھے.پہلے کوئی نمونہ موجود نہ تھا.ردیف قافیہ ایک ہونے پر بھی بحر مختلف ہوتی.مشکلات اور ان کے حل کی ایک طویل داستان ہے کہ کس طرح مولا کریم نے قدم قدم پر غیر معمولی مدد فرمائی اور کس قدر محنت کی توفیق عطا فرمائی.کام بہت دقیق تھا جب کوئی سرانہ ملتا، حضور پر نور کا دعاؤں سے معطر خط مل جاتا.آپ مسلسل حوصلہ افزائی فرمارہے تھے : اردو شعرا کا ہم زمین، کلام اکٹھا کرنے کا کام آپ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا تھا.اس لئے آپ کے سپرد کیا ہے.باقی آپ کی بات درست ہے کہ کام بہت پھیلا ہوا ہے میں نے بھی جو مطالعہ کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بہت پیچیدہ اور پھیلا ہوا کام ہے.کوئی آسان کام نہیں...اللہ تعالیٰ آپ کی توفیق کو بڑھائے اور اپنے فضلوں سے نوازے.آمین.“ ایک دوسرے مکتوب میں تحریر فرمایا: 286
ب رحمت ہم زمین غزلوں کے کام کو آپ بڑی محنت ، سلیقہ اور قرینہ سے سرانجام دے رہی ہیں.بڑی بات ہے.آپ کو محنت کی داد دینی پڑتی ہے جزاکم اللہ احسن الجزا.اللہ قبول فرمائے اور آپ کی معاونت کو بھی اجر عظیم عطا فرمائے اور سب کام وقت پر پورے ہوں...میں رمضان میں آپ اور آپ کے بزرگوں کو دعاؤں میں یا درکھوں گا.“ جس خوش نصیب کو ایسی دعائیں مل جائیں اُسے دو جہاں کی دولت مل گئی.یہ مضامین تحریر کرنے کا مقصد بھی پیارے حضور کی شفقتوں کا جلوہ دکھانا ہے.کام مکمل ہوا طوالت کا اندازہ لگانے کے لیے ایک جھلک دیکھیے : سن عیسوی کے لحاظ سے شعراء کی زمانی ترتیب 19 صفحات انڈیکس ہم زمین غزلیں 45 صفحات 2467 صفحات پیارے حضور رحمہ اللہ نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور دعائیں دیں: آپ کا خط اور ہم زمین غزلوں کی ترتیب کا کام موصول ہوا جزاکم اللہ احسن الجزاء.آپ نے تو حیرت انگیز کام کیا ہے.ماشاء اللہ بہت زبردست محنت کی ہے.میں تو حیران ہوں کہ آپ نے اتنے بڑے کام کو کیسے اتنی تیزی سے نپٹا لیا.جزاکم اللہ احسن الجزاء في الدنيا والاخرة.اب یہ ساری جلدیں آپ کو اپنے نام سے چھپوانی ہوں گی...اللہ تعالیٰ آپ کی سب خدمتوں کو قبول فرمائے.اس کی 287
رحمت حمتیں بارش بن کر نازل ہوں.ہمیشہ اس کے پیار کی نظریں آپ پر پڑتی رہیں اور اس کی رضا کی راہوں پر چلنے کی تو فیق پاتی رہیں.سب اخلاص سے خدمت کرنے والیوں کو اور بچوں کو بہت بہت سلام.خدا 66 حافظ و ناصر ( مكتوب 24.3.2000) کلام طاہر کا دوسرا ایڈیشن کلام طاہر کے دوسرے ایڈیشن میں حضور پر نور رحمہ اللہ تعالیٰ نے 18 نظموں کا اضافہ فرمایا.محترم منیر جاوید صاحب نے 50 صفحات پر مشتمل نظمیں فیکس کیں اور حضور کا ارشاد کہ ان میں کمپوزنگ کی کوئی غلطی ہو تو بتادیں اور گلوسری تیار کر دیں.الحمد للہ گلوسری تیار کرنے کی توفیق ملی اور نظموں میں خاکسار کی بہت سی گزارشات کو حضور نے از راہ شفقت قبول فرمایا.کلام طاہر شائع ہوئی تو آپ نے ایک نسخہ خاکسار کو بطور خاص اپنے دستخط کے ساتھ بھجوایا.یہ وہ سعادتیں ہیں جن کو قیمت دے کر خرید انہیں جاسکتا.فرمائش اور مطالبے پر بھی نہیں ملتیں محض فضلِ خداوندی ہے.اگر ہر بال ہو جائے سخنور تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر 288
قلب طاہر کا در داور دردمندی.کلام طاہر کی روشنی میں اس نظر سے جس نے بند کواڑ کھول کر اندر سے جائزہ بھی لیا ہے ہر روز نئے فکر ہیں ہر شب ہیں نئے غم یارب یہ مرا دل ہے کہ مہمان سرا ہے کلام طاہر میں کئی سال ہمہ وقت ڈوبے رہنے سے کلام اور صاحب کلام سے کسی حد تک شناسائی ہوئی.شعر و سخن میں شاعر کے اندر کا وجو د سانس لیتا ہے.ایک ایسی توانائی جو پہاڑی چشموں کی طرح ذات کے اندر سے اپنی اصل اور مصفا صورت میں بے اختیار پھوٹتی ہے.مجھے یہاں درد اور دردمندی کا بیکراں سمندر ملا.آنکھ ہے میری کہ اشکوں کی ہے اک راہ گزار دل ہے یا ہے کوئی مہمان سرائے غم و حزن ہے یہ سینہ کہ جواں مرگ امنگوں کا مزار اک زیارت کہ صد قافلہ ہائے غم و حزن ایک ایسا شخص جو یادوں کی محفل میں مہمانوں کے ہاتھ تاپنے کیلئے اپنا کوئلہ کوئلہ دل 289
سیلاب رحمت دہکا تا رہا.یہ دل کوئلہ کوٹلہ کیسے ہوا کچھ ذات کی محرومیاں کچھ بے قرار تمنائیں، کچھ اپنوں اور غیروں کے دیے ہوئے درد، کچھ بار امانت کو سرخروئی سے اٹھانے کا خوف الہی.جب سے خدا نے ان عاجز کندھوں پر بار امانت ڈالا راہ میں دیکھو کتنے کٹھن اور کتنے مہیب مراحل آئے اپنی ذات کے دکھ تو پھر بھی کوئی سہارلے، یہاں تو جماعت کا ہر فردا اپنی پریشانیوں کا سارا بوجھ خلافت کی جھولی میں ڈال کر دعا کا طلبگار ہوتا.یہ غم آپ کے دل میں اترتے آپ کی راتیں سب کے دکھوں میں دعائیں بن جاتیں.آنکھیں لہو برساتیں.نالے عرش کو ہلا دیتے اور رحمت کے وعدے لے کر لوٹتے.غموں کی میزبانی نے آپ کو یہ بتایا کہ سکتی روحوں کا کوئی وطن مذہب رنگ نسل اور جنس نہیں ہوتی.سب انسان ہوتے ہیں.آپ کی کوشش تھی کہ ہر انسان کو رسول اللہ کے دامن سے وابستہ کر دیں جن کو اللہ تعالیٰ نے رحمتہ للعالمین بنایا ہے.اس کے دامن سے ہے وابستہ کل عالم کی نجات بے سہاروں کا ہے اب ملجا و ماوی وہی ایک والدہ ماجدہ سے محبت مے خانہ غم میں احساس درد و الم کا اولیس جام آپ کو والدہ مرحومہ کی رحلت پر پینا پڑا.نو عمر بچے کیلئے یہ اتنا بڑا حادثہ تھا جیسے پہاڑ آ گرے ہوں.میٹرک کا امتحان دیتے ہوئے بچے کو ایک کڑے امتحان سے گزرنا پڑا.آپ کے اور پیاری ماں کے درمیان موت کا سنگین پردہ حائل ہو گیا.کمرے میں ایک تصویر ہے، اسی سے مخاطب ہیں: تیرے لئے ہے آنکھ کوئی اشکبار دیکھ نظریں اٹھا خدا کے لیے ایک بار دیکھ 290
سیلاب رحمت وعدہ ضبط الم نبھانا مشکل ہے بند شکیب ٹوٹ ٹوٹ جاتے ہیں.کتنا عجیب تجربہ ہے آنسو اپنے ہیں مگر اپنوں پر بھی اختیار نہیں.ماں کی تصویر سینے سے لگائی جاسکتی ہے مگر وہ آنسو نہیں پونچھ سکتی.ہم نے بارہا دیکھا آپ اُمی کے ذکر پر آبدیدہ ہو جاتے.اگر کوئی اپنی امی کی بیماری یا وفات کا ذکر کرتا تو آپ کا درد جاگ اُٹھتا.اپنی زندگی کی شام گہری ہو چکی تھی مگر والدہ مرحومہ سے محبت اور وفا کا خراج ” مریم شادی فنڈ کی صورت میں دے رہے تھے.اب 1944ء کی ایک آرزو پوری ہو چکی ہے.گو جدائی ہے کٹھن دور بہت ہے منزل پر مرا آقا بلالے گا مجھے بھی اے ماں اور پھر تم سے میں مل جاؤں گا جلدی یا بدیر اس جگہ مل کے جدا پھر نہیں ہوتے ہیں جہاں کتنا اچھا لگا ہو گا جب عالم بالا میں استقبال کیلئے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہونے والوں میں ماں کو دیکھا ہوگا.اب کبھی مل کر جدانہیں ہوں گے.قادیان سے محبت ماں کے بعد مادر وطن سے جدائی کا صد ساٹھانا پڑا.اپنے والد حضرت طلیقہ مسیح الثانی کی تڑپ بھی دیکھ رہے تھے قادیان کی مقدس بستی جہاں پیدا ہوئے گلیوں میں کھیلے کو دے.یکدم چھٹ گئی.اب ہاتھ دعا کیلئے اٹھتے تو زمین ، مکان ، دولتِ جہان کیلئے نہیں قادیان کے لیے دُعا ہوتی.پر احمدی وہ ہیں کہ جن کے جب دعا کو ہاتھ اٹھیں تڑپ تڑپ کے یوں کہیں کہ ہم کو قادیاں ملے 291
سیلاب رحمت قادیان اپنے روحانی مرکز ہونے کی وجہ سے محبت اور تکریم کا مرکز بھی رہا.ربوہ کی بستی آباد ہوگئی مگر قادیان کا مقام اپنی جگہ ہے.ربوہ میں آج کل ہے جاری نظام اپنا پر قادیاں رہے گا مرکز مدام اپنا 1947ء سے 1991ء تک چوالیس سال قادیان سے دور رہنے کے بعد جب قادیان کیلئے رخت سفر باندھا تو جذبات نظم میں ڈھل گئے.”اپنے دیس میں اپنی ایک سندرسی بستی تھی، اس میں اپنا ایک سند رسا گھر تھا.میں ملکوں ملکوں پھر امگر اس کی یادیں ساتھ لئے پھر آکبھی میرا تن من دھن اس کے اندر تھا اب وہ میرے من میں بستی ہے.اس کے رہنے والے سادہ اور غریب تو تھے لیکن نیک نصیب تھے.ہر بندہ دوسرے کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا تھا وہ بڑے سچے لوگ تھے وہ بڑی سچی بستی تھی.وہاں جو جتنا بڑا تھا اتنا ہی خاکسار تھا.اس دھرتی میں وہ موعود مسیحا پیدا ہوا جس کا صدیوں سے انتظار تھا.اس نے آکر دین حق کا احیاء کیا پوری دنیا سے حق آشنا یہاں جمع ہوتے.اس قدر پھل پڑا کہ زندہ درخت میووں سے لد گئے.اس مسیح موعود کی صورت میں جو نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی سالانہ اسلام کا عاشق تھا.میں نے بھی اس سے فیض پایا ہے.یہ اس کا اثر ہے کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی محبت ملی گو یا خود خدا تعالیٰ مل گیا.کیڑی سے کم تر کے گھر نارائن آ گیا.اس کے سارے کام 292
رحمت سنوار دیئے.برہا کے مارے اپنے گھر آئے.اپنے مینارے دیکھے ساری بستی پر انوار الہی کی بارش برستی دیکھی.آنے والوں کے ساتھ فرشتے پر پھیلائے آئے.سب کے سروں پر رحمت کا سایہ ہے.سب کے چہروں پر نور الہی ہے.سب کی آنکھوں میں پیار دیکھا اس منظر میں ایک کمی رہی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور دوسرے عشاق جواب اس دنیا میں نہیں رہے.زندگی کی آخری سانس تک صبر و رضا سے اس آس میں رہے کہ کاش خدا قادیان لے جائے یہ بستی سدا سہا گن ہے.اس میں وہ ہستی پیدا ہوئی جو نوروں کا ایک سمندر تھی.جس سے نوروں کے سوتے پھوٹے.ایک اللہ کا نام باقی رہے گا.اسے جس بھی نام سے پکارلو.وا ہے گرو،ایشور، اللہ اکبر“ جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر جس والہانہ انداز میں آپ گلی کوچوں میں گھومے پھرے جس گداز سے آپ نے عبادت کی.جس وسعت سے اس کے مقام پر وقار کوسجانے سنوارنے کے منصوبے بنائے.جس طرح آپ نے سلامتی کے تحفے فضا میں بکھیر دیے.طویل دلفریب ایمان افروز داستانیں ہیں، جو ہم نے ظاہری اور باطنی آنکھوں سے دیکھیں.بنا ہے مہبط انوار قادیاں دیکھو وہی صدا ہے سے اٹھی ہے سنو جو صدا سے کنارے گونج اُٹھے ہیں زمیں کے جاگ اٹھو کہ ایک کروڑ صدا اک صدا سے اٹھی ہے 293
ہو میو پیتھی آپ کے درد آشنا دل میں درد کے کچھ دروازے ہو میو پیتھی کی پریکٹس سے بھی کھلے ایک برآمدہ تھا.دیواروں سے لگی الماریوں میں چھوٹی چھوٹی شیشیاں تھیں.میاں طاری تھے اور سینکڑوں مجبور ، بیمار ، لاچار بے بس ، غریب دکھی بوڑھے خواتین بچے اپنے اپنے دکھ کی داستانیں لے لے کر آتے اور میاں طاری کے آگے ڈھیر کر دیتے.ان کو تو وہ میٹھی میٹھی سفید گولیوں میں دوا کے چند قطرے ڈال کر دے دیتے مگر اپنا دل درد سے بھر جاتا.بے چارگی کی ساری تصویریں آپ نے دیکھیں درد کے سارے رخ آپ کی نظر سے گزرے اور اس قدر قریب سے کہ شاید ہی کوئی دوسری مثال ہو.یہ برآمدہ ایک درسگاہ تھی.ایک میخانہ غم تھا جو آپ کے دم سے آباد تھا.ہومیو پیتھی کی کلاس میں سنے ہوئے بعض جملے یاد آرہے ہیں.ایک دفعہ آپ نے فرمایا تھا کسی غریب بچے کو دوا دیتے وقت سوچیں کہ شاید یہی مٹھاس ہے جو اس کو کبھی میسر آئی ہے غربت کے ذکر میں فرمایا بعض خواتین کے پاس تقریبات کیلئے بھی لباس نہیں ہوتا اگر کوئی ایک کپڑا اچھا ہو، اسی کو نمایاں کر کے پہن لیتی ہیں.عید پر تحائف ،غرباء کے لئے مکان ، جہیز فنڈ اسی احساس محرومی سے آگہی کا نتیجہ ہیں.کوئی مذہب ہے سسکتی ہوئی روحوں کا نہ رنگ ہر ستم دیدہ کو انسان ہی پایا ہم نے بن کے اپنا ہی لپٹ جاتا ہے روتے روتے غیر کا دکھ بھی جو سینے سے لگایا ہم نے 294
ربوہ سے والہانہ پیار ہجرت اللہ تعالیٰ کی خاطر ہوتی ہے.دین ودنیا میں ترقیات اور اجر وثواب کا باعث ہوتی ہے.مگر اپنے ساتھ جو کسک اور دُکھن لے کے آتی ہے اس کے دائرے بہت وسیع اور طویل ہوتے ہیں.دریائے چناب کے کنارے بسنے والی پریم نگری ربوہ مٹی دھول اور موسم کی شدتوں کے باوجود اپنے مکینوں کے جذبہ ایمانی سے کوئی آسمانی بستی لگتی ہے.حضور جب ربوہ آئے تو قریباً 20 سال کے ہوں گے.جوانی کا بھر پور زمانہ اس روح پرور ایمان آفریں ماحول میں گزارا ، یہیں شادی ہوئی اولاد کی نعمت نصیب ہوئی، ردائے خلافت پہنائی گئی اور اچانک ایک دن یہ بستی ، بہشتی مقبرے اور مقدس مزاروں کی یہ بستی ، چھٹ گئی.بھرے گھر سے اٹھے.مڑکر بھی نہ دیکھا، دروازے پر تالے پڑے رہ گئے.ربوہ کے درویشوں سے پھر ملاقات نہ ہوسکی.ربوہ اور اہل ربوہ کے ذکر پر آپ کا گلا رندھ جاتا آواز بھرا جاتی.کبھی کبھی امید کی کرن جاگتی تو ربوہ آنے کی خواہش مچل کر لبوں تک آجاتی.ربوہ کے رمضان المبارک کا نقشہ بڑے پیارے الفاظ میں بناتے ہیں : آج کی رات ربوہ کی زمین ذکر الہی سے اس طرح بھر گئی ہے گویا کہ خدا خود یہیں اتر آیا ہے.لوگ توطعن سے اسے جنت کہتے تھے جنت ہی نہیں یہ تو خلد بریں ہے.یہاں کے خاک نشیں اپنی مرضی سے دل کھول کے خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہیں.کوئی انہیں کا فرقرار دینے والا ادھر آ نکلے تو ربوہ کے ہر مکین کی جبین پر سجدوں کے نشان اسے اپنے عقیدے کا مفہوم سمجھا دیں.ہمیں اس کی پرواہ ہی نہیں کہ ” کا فر ملحد 295
سیلاب رحمت دجال، کیوں کہا جاتا ہے ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ اللہ اور رسول اللہ کے عاشق اگر کہیں ہیں تو بس ربوہ میں ہیں.جو راتوں کو اُٹھ کر خدا کے حضور اس قدر روتے ہیں کہ لگتا ہے کہ جان ہی دے دیں گے.اس ماحول کا تصور اس نور بار کیفیت کو محسوس کرنے والا ہی کر سکتا ہے.دل کرتا ہے یہ سیمیں لمحات اسی طرح ہولے ہولے ربوہ پر نور کے گالوں کی طرح اُترتے رہیں.اس پر بہار باغ سے جدا ہو کر نہ مالی کو چین آیا نہ باغ کو قرار نصیب ہوا.طائر اڑ گیا، نشیمن اداس رہ گیا.نشیمن سے اداسی کے پیغام جاتے تو آپ بے چین ہو جاتے : بس نامہ بر اب اتنا تو جی نہ دُکھا کہ آج پہلے ہی دل کی ایک اک دھڑکن اُداس ہے آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بن باسیوں کی یاد میں صرف گھر اُداس ہیں.بن باسیوں کے من کی اداسی مجھ سے زیادہ تو نہیں میری غم نصیب آنکھوں میں بسنے والو ! در دمہجوری سے تڑپنے والو !! ادھر بھی یہی حال ہے.آنکھوں سے جو لگی ہے جھڑی، تھم نہیں رہی آکر ٹھہر گیا ہے جو ساون، اُداس ہے بس یاد دوست اور نہ کر فرش دل پہ رقص سن! کتنی تیرے پاؤں کی جھانجمن اداس ہے 296
رحمت پیارے حضور نے حضرت موسی کی دعا کو نظم فرمایا، آخری بند پڑھئے اور کئی بار پڑھئے.بے ٹھکانہ ہوں گھر نہیں اپنا سر پہ چھت ہے نہ بام و در اپنا گاؤں کی چمنیوں سے اٹھتا ہے گو دھواں، وہ مگر نہیں اپنا دل سے شعلہ سا نوا اٹھی مصر جانے کو جی مچلتا ہے اکیلا ہوں خوف کھاؤں گا پر دست و بازو کوئی عطا کردے لوٹ کر تب وطن کو جاؤں گا دل سے مضطرب دعا اٹھی مشرق کے باسیوں سے پیار پاکستان کے احمدیوں پر ہونے والے مظالم آپ کے آبگینہ دل پر ہتھوڑے برساتے.1983ء کے جلسہ سالانہ میں آپ نے پیاری جماعت کو دو گھڑی صبر سے کام لے کر دعائیں کرنے کا ارشاد فر ما یا تھا.آپ کو یقین تھا کہ نمرود یت کو اپنی آگ میں جل جانا ہے.عصائے موسی باطل کی قوتوں کو ڈس لے گا.شہیدان احمدیت کا خون رنگ لائے گا.وہی تیغ دعا جو پہلے لیکھو پر چلی تھی آج کے لیکھو پر بھی چل جائے گی.دیر ہوسکتی ہے اندھیر نہیں.یہ فقیرانہ صدائیں شش جہت میں پھیلیں گی.دعائے غلام مسیح الزمان سے عصر بیمار کو شفا ہوگی.297
ب رحمت آپ نے جونوید فتح عطا فرمائی اس میں آزمائش صبر کی دو گھڑیاں بہت طویل ہوگئیں...جسمانی بعد نے مہوری کے بہت دکھ دئے.خلیفہ اور جماعت یک جان و یک قالب ہوتے ہیں.پاکستان کے ایک ایک احمدی کا دکھ آپ کے درد میں اضافہ کر جاتا.حضور حق میں فریاد میں عرش کے پائے ہلانے لگیں.مولیٰ ! صبر و رضا کے اسلوب بہت سکھا دئے.اب کرب و بلا کے دن لمبے نہ کر.پیمان وفا نبھانے والے اپنی جان مال سب قربان کر رہے ہیں.پاکستان میں پابند سلاسل محبوس صرف تیرا نام سینے پر سجانے کے گنہگار ہیں.میں ان سے جدا ہوں مجھے کیوں آئے کہیں چین که: دل منتظر اس دن کا کہ ناچے انہیں پاکے کبھی دیار مشرق کے باسیوں کو غریب الوطن کی چاہتوں کے سلام کے ساتھ یہ پیغام آتا میرے شام و سحر کی کیفیت آپ کے صبح و شام پر منحصر ہے.میرے مقدر کے زائچے میں تمہاری خوشیاں جھلک رہی ہیں.میرے جام میں جو مے ہے دراصل تمہارا خون جگر ہے.میری ذات تم سے کوئی الگ نہیں ہے.تم ہی میری کائنات ہو.میری زیست پر تمہاری یادوں کا عنوان لگ چکا ہے.اے میرے سانسوں میں بسنے والو! تم کبھی بھی مجھ سے جدا نہیں ہوئے.یہ تعلق جو خدا نے باندھا ہے ہمیشہ قائم رہے گا میرے نغمے ، میری دعائیں ،سب تمہارے لئے ہیں تمہارے درد والم سے ہی میری عبادت میں سوز و گداز پیدا ہوتا ہے.مجھے یقین ہے کہ تمہیں مٹانے کے عزم لے کے اٹھنے والے خاک کے 298
سیلاب رحمت بگولوں کی خدا خاک اُڑا دے گا.انہیں رسوائے عام کر دے گا.تم خدا کے شیر ہو.تمہارے سامنے ان جنگلی جانوروں کی حیثیت ہی کیا ہے.بساط دنیا جہان نو کے حسین اور پائیدار نقشے ابھار رہی ہے.سارا نظام بدل رہا ہے فتح و ظفر کی چابیاں مقدر نے تمہیں تھما دی ہیں.تمہارے سر پر خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اور رحمت کا سائبان ہے.دین حق کی شاہراہوں پر جرات و شجاعت سے آگے بڑھتے رہو.جلسہ سالانہ یو کے 1987ء میں پڑھی جانے والی نظم کا آغاز دور دیسوں سے آنے والے قافلوں کی آمد پر خوشی کا اظہار تھا.جو ایک غریب الوطن کیلئے پیار کے پھول اور اخلاص و وفا کی مشعلیں لے کر آئے تھے.آپ سب کو دعائیں دیتے ہیں.تم نے میری ترسی نگاہوں کی سیرابی کا سامان کیا.تم پر فرشتے پھول نچھاور کریں.ترقی کی راہیں کشادہ ہوں میری آرزوئیں دعائیں بن کر رنگ لائیں تم سے زندگی کا ہر غم دور ہو جائے.تم نور کی شاہراہوں پر آگے بڑھو اور اس تیز رفتاری سے کہ سال کے فاصلے لمحوں میں طے ہوں.تمہاری ترقی میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گی.اس خوشگوار استقبال کے ساتھ ان پرشکستگان کا بھی خیال آتا ہے جو پرواز نہ کر سکے اور دشمنوں کے طعن کا نشانہ بنے.یہ روداد غم ایسی ہے جو دل کے پردے پر خون سے لکھی ہے.دل میں ایک ایسا بھی قابل احترام گوشہ ہے جو اپنے ان دوستوں کے لئے وقف ہے.ان کی یادیں ایک گھٹا کی طرح آتی ہیں.ان کا ذکر آنسوؤں سے بھیگا ہوا ہوتا ہے.خوب آہ و فغاں کا موسم بنتا ہے.تصور کی آنکھ سے ان سب کو دیکھتا اور ان کیلئے دعائیں کرتا ہوں.نظم کے آخر میں وطن میں پابہ زنجیر آزادیوں کا خیال آتا ہے.آزادی ہے تو فقط خدا 299
-رحمت- تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کی.وطن میں عائد پابندیوں یا ذاتی مجبوریوں میں جکڑے بے بسوں کیلئے دعا ہے کہ خدایا تو خود تسکین بن کر ان کے پہلو میں آجا.ان سے لاڈ کر.انہیں لوریاں دے.ان کا دل بڑھا.ان کی بلائیں دور کر.انہیں بتا کہ ابھی صبر کے امتحان کے کتنے دن باقی ہیں.وطن اور اہل وطن سے تہی محبت کے ساتھ واپسی کی راہوں کے مہیب مراحل کا شعور ہو تو بے بس آرزوئیں اندر ہی اندر درد کی لہریں پیدا کرتی ہیں.یہ درد بڑا کھا جانے والا ہوتا ہے.ایسے میں مشرق کی طرف سے آنے والی ہواؤں کے سند یسے ہی زندگی کا سامان بنتے ہیں.وطن سے آنے والے کسی بھی مسافر کا ہاتھ پکڑ کسی سایہ دیوار میں بیٹھ کرفرمائش ہوتی ہے.آبیٹھ مسافر پاس ذرا، مجھے قصہ اہل دردنا مجھے ان کا حال سناؤ جو پیار کی پیاس بجھانے سمندر پار نہیں.آسکتے.مجھے اس بے بسی سے اندازہ ہوا ہے کہ کس طرح ہر دور افتادہ اولیس پر لخت جگر سے بڑھ کر پیار آتا ہے.اے مسافر ! تو جور و جفا کی نگری ، صبر و رضا کے دیس سے آیا ہے.تجھے تو سب علم ہوگا کہ غیروں نے میرے پیاروں پر کیا کیا ستم ڈھایا ہے.تو آنکھوں میں لکھی شکووں کی کہانی جانتا ہے.تو میرے محبوبوں پر نازل ہونے والی بلاؤں سے واقف ہے.مجھے تو کئی برس ہو گئے یہ حالات دیکھتے دیکھتے اندیشہ یہ ہے کہ کیا یہ ظلم وستم ہی میرے وطن کی پہچان ہوں گے؟ مجھے ان مظلوموں ، مجبوروں ،محروموں کا حال سناؤ.جو راہ مولیٰ اسیر ہیں.جن کی پیشانیوں کی روشنی سے وطن کی جیلوں میں اُجالے 300
سیلاب رحمت ہیں.میرے ہم وطنوں کی باتیں بھی عجیب ہیں خدا کو اس وقت پکارتے ہیں.جب کوئی مشکل در پیش ہو ورنہ مساجد کے میناروں سے نفرت کی منادی ہوتی ہے.بلبل کو وطن سے نکال دیا ہے.کوے اور ناگ بے روح بے جان صدائیں دیتے ہیں.صرف احمدی ہی نہیں وطن میں سب اہل وطن آزادی سے محروم ہیں.اللہ تعالیٰ کی جماعت کو ہمیشہ ہی وفا کے امتحانوں سے گزرنا پڑتا ہے.اُحد، مکہ، طائف، شعب ابو طالب ، میدان کربلا میں خدا کی راہ میں قربانیاں دی گئیں.اللہ والوں پر شیطان پتھر برساتے ہیں.کہیں دار پر لٹکاتے ہیں.احمدیوں کو بھی آزمائشوں سے گزر کر وفا کے امتحان دینے پڑے جو واقعہ کا بل میں حضرت سید عبد اللطیف صاحب شہید کے ساتھ پیش آیا.ہاں پے در پے جیسے تسبیح کے دانے گرتے ہیں.قربانیاں دی گئیں.مردان ،سکھر ہسکرنڈ، پنوں عاقل، وارہ، لاڑکانہ، حیدر آباد ، نواب شاہ، کوئٹہ، اوکاڑہ، لاہور، گوجرانوالہ ، ٹوپی، خوشاب، ساہیوال فیصل آباد، سرگودھا میں جان کے نذرانے پیش کئے گئے.معاہد سے کلمہ توحید مٹائے گئے.ہر طرح کے ظلم آزمائے گئے.مگر نصرت الہی سے ہر گام ترقی کی طرف اٹھا.ہر واقعہ جو پاکستان کے احمدیوں کے ساتھ پیش آیا آپ کا دل بڑھا تا رہا.یادوں کی یہ بارات آپ کے دردمند دل کو بے چین رکھتی.عجب مستی ہے یاد یار مے بن کر برستی ہے سرائے دل میں ہر محبوب دل رندانہ آتا ہے وہی رونا ہے ہجر یار میں بس فرق اتنا ہے کبھی چھپ چھپ کے آتا تھا اب آزادانہ آتا ہے 301
پھر آپ فرماتے ہیں: ہر طرف آپ کی یادوں پہ لگا کر پہرے جی کڑا کر کے میں بیٹھا تھا کہ مت یاد آئے ناگہاں اور کسی جی ایسا دکھا بات میں بہت رویا مجھے آپ بہت یاد آئے اس غم والم کے موسم میں جو تسلیاں دیتے وہ بھی اتنی دکھ بھری کہ دونوں طرف کی تڑپ میں اضافہ ہو جاتا.ہم آن ملیں گے متوالو.بس کل پرسوں کی بات ہے.دید کے ترسوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی.ہم آمنے سامنے بیٹھیں گے تو فرط طرب سے آنکھیں ساون برسائیں گی اور برسوں کی پیاس بجھے گی.تم دور دور کے دیسوں سے قافلہ قافلہ آؤ گے، تو خوشی سے میرے دل کے کھیتوں میں سرسوں کی فصلیں پھولیں گی.عشق و وفا کے کھیت رضا کے خوشوں سے لد جائیں گے.ہجر کا موسم بدل جائے گا پیار کی رُت آئے گی.میرے بھولے بھالے حبیب مجھے لکھ لکھ کر کیا سمجھاتے ہیں.کیا ایک انہی کو دکھ دیتی ہے، جدائی لمبے عرصوں کی.اب بہت عرصہ نہیں لگے گا.ظالموں کے دعوے جھوٹے ثابت ہوں گے.عرصوں کی کلفت دور ہوگی برسوں کی پیاس بجھے گی، ہم ملن کے گیت گائیں گے.عجیب اعجاز خداوندی ہے کہ مولا کریم نے ہر دعا بہتر رنگ میں سنی.وطن تو آپ کے قدموں سے محروم رہا اور یہ ملن کے موسم سرسوں پھولنے کے دنوں میں قادیان میں آئے اور پوری دنیا سے احمدیوں نے مل کر ملن کے گیت گائے.الحمد للہ.(روز نامہ الفضل 30 جولائی 2003ء) 302
اک عنبر بار تصور نے یادوں کا چمن مہکایا ہے حضرت خلیفہ اسی ارابع حماللہ تعلی کی اور شخصیت کے فیضان کا ذکر کرتے ہوئے ایک جھجک مانع ہوتی ہے کہ کہاں ایک خلیفہ اسیح کا مقام ومرتبہ اور کہاں ایک ذرہ نا چیز کوئی خاندانی، ذاتی ، دینی ، دنیاوی وجاہت نہیں کوئی استحقاق نہیں.ایک عاجز خاک نشین ، جاہل مطلق بندی اور بیان ایک ہمالہ سے بھی بالا ہستی کا.کم مائیگی راستہ روکتی ہے پیچھے ہٹنے لگوں تو ضمیر کی آواز ہاتھ تھام لیتی ہے.ہولے سے کہتی ہے اپنی نیت ٹولو اگر مقصد اپنی ذات کو اُجاگر کرنا ہے تو قلم توڑ دو اور استغفار کرو اور اگر ایک خلیفہ اسیح کی غیر معمولی عنایات کا ذکر کرنا سود ہے تو لکھتی رہو.تمہاری یادیں جماعت کی امانت ہیں.آج ایسے ہی انداز فکر سے حوصلہ پاکر تحریر کی جسارت کر رہی ہوں.خاکسار پر آپ کے احسانات کو ایک پیمانہ سمجھ لیجئے اور اس کے تناسب سے ساری جماعت سے آپ کے حسنِ سلوک کا اندازہ لگائیے.یہ اللہ تبارک تعالیٰ کے نورانی سلسلے ہیں جن سے وابستگی ذروں کو چمکا دیتی ہے.اپنی یادوں کے مہکتے ہوئے چمن سے کچھ پھول آپ کے خطوط کے حوالوں سے سجا کے پیش کرتی ہوں.حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی سے شرف ملاقات خلافت کے منصب پر سرفراز ہونے کے بعد 29 جولائی 1982 ء کو آپ نے کراچی کی بیت الحمد مارٹن روڈ میں خواتین سے خطاب فرمایا اور اجتماعی بیعت لی.خاکسار اس بیعت میں 303
سیلاب رحمت شامل تھی.پھر آپ نے 1983ء میں کراچی آمد کے موقع پر 14 اور 19 فروری کو لجنہ کو اجتماعی ملاقات کا موقع دیا.حضور نے فرمایا کہ ایک ایک خاتون یا خاندان کی انفرادی ملاقات کی بجائے سب کو ایک ساتھ بلا لیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین اور بچوں کو فائدہ ہو.یہ پروگرام بہت اچھا رہا.گیسٹ ہاؤس کے لان میں انتظام تھا.جوکھا کبھی بھرا ہوا تھا.پیارے آقا اور بیگم صاحبہ تشریف فرما تھے.خاکسار کو آپ کے قدموں میں جگہ ملی.نماز ظہر تک علم و عرفان کا یہ لنگر جاری رہا.لگتا تھا ہم کسی آسمان پر بیٹھے ہیں.یہ اجتماعی طویل ملاقاتیں بہت ایمان افروز تھیں.پھر ایک شام انفرادی تعارف کا بھی موقع ملا.اس میں حضور نہ صرف نام سے پہچان گئے بلکہ میرے دعا کے لئے لکھے ہوئے خط کا حوالہ بھی دیا.1984ء میں بھی حضور انور کی کراچی آمد پر اجتماعی ملاقات میں شریک تھی اس کے بعد حضور لندن تشریف لے گئے.وہاں تک رسائی ہر ایک کے بس میں نہیں تھی.خطوط رابطے کی صورت تھے.شدید خواہش تھی اور دعائیں کرتی تھی کہ اللہ تعالی اپنا فضل فرمائے تو میں بھی جاسکوں.بالآخر حضور کے تشریف لے جانے کے چودہ سال بعد توفیق پرواز ملی اور میں 1998ء میں لندن جا سکی.جاتے ہی ملاقات کا وقت لیا.یہ کئی رنگ میں یاد گار ملاقات تھی.جس کی تفصیل اس کتاب میں شامل ایک مضمون وہ خواب جو بیداری میں دیکھا تھا، میں پیش کی ہے.دراصل دیکھا جائے تو یہی ایک ملاقات تھی جس میں تفصیل سے کئی موضوعات پر آپ کے ارشادات سنے کا موقع ملا.الحمد للہ علی ذالک.اس کے بعد 2002ء میں لندن جانا ہوا.حضور انور کی صحت بہت کمزور ہو چکی تھی.ہم ہر وقت آپ کی صحت و عافیت اور طویل با مراد فعال زندگی کی دعائیں مانگتے تھے.ملاقات کے منتظر بیٹھے تھے.جب ہماری باری آئی تو مکرم منیر جاوید صاحب نے انتہائی افسردہ لہجے میں کہا: 304
سیلاب رحمت جائیں..مل لیں.ناصر صاحب اور خاکساراندر گئے تو دل کو بہت دھکا لگا.آپ کے انداز میں شناسائی نہیں تھی.مجھے لگا آپ نے پہچانا بھی نہیں.بس خیر خیریت پوچھی.میکانکی انداز میں تصویر ہوئی.بمشکل خود کو سنبھال کر باہر آئے.یہی کیفیت نظم ہوگئی.یہ سوچ میں ڈوبا ہوا ٹھہرا ہوا انداز جیسے کبھی آپس میں تعلق نہ رہا ہو مجھ سے تو نہیں رکتے یہ بہتے ہوئے آنسو کیا بات ہے کیا ہو گیا کیوں مجھ سے خفا ہو تم نے تو کبھی درد کو یوں راہ نہ دی تھی گویا که در دل پہ کڑا پہرا رہا ہو یہ آپ سے آخری ملاقات تھی.حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کی طرف سے ملنے والے تحائف اللہ تعالیٰ کے بے پایاں احسانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حضور انور نے خاکسار کو تین کتابیں اور ایک پین بطور تحفہ عنایت فرمائے.گیسٹ ہاؤس سے نائب امیر ضلع کراچی محترم مرزا عبد الرحیم بیگ صاحب کا فون آنا بجائے خود بہت اہمیت کا حامل تھا اس پر اُن کی آواز میں بے انتہا خوشی نے اشتیاق کو مزید ہوا دی.میں ہمہ تن گوش تھی بیگ صاحب فرما رہے تھے.آپ کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے تحفہ بھیجا ہے.یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے.آپ کو اندازہ نہیں یہ کتنی بڑی خوش نصیبی ہے.حضور نے آپ کو اپنی کتاب دستخط کر کے بھیجی ہے.کراچی میں صرف چار کتب آئی 305
رحمت ہیں.جن میں سے ایک آپ کی ہے.آپ منگوالیں نہیں ، میں آپ کو خود بھجوا ؤں گا.آپ کا تحفہ ہے، تحفے کی طرح ملنا چاہیے.دل حمد و شکر سے بھر گیا.پیارے آقا کی ہر کرم فرمائی مجھے غریب کے لئے نعمت غیر مترقبہ تھی.اُن کو دلداری کا ہنر آتا تھا.یہ سوچ سوچ کر میں نہال ہو جاتی کہ آقا نے اپنی نئی کتاب A Journey From Facts to Fiction بھجوانے کا اہل سمجھا.کتاب ملی تو اس پر دستِ مبارک سے تحریر تھا : Amatul Bari and Nasir Sahib with best regards! and good wishes.(M Tahir Ahmed) Frankfurt - 29-8-94 خاکسار کے ساتھ ناصر صاحب بھی بے حد خوش تھے.حضور نے ایک and کے اضافے کے ساتھ ہم دونوں کی مسرت کا سامان فرما دیا.دوسرا تحفہ مبارک دستخط کے ساتھ کلام طاہر تھا.کلام طاہر پر کام کا عرصہ چار پانچ سال بنتا ہے ہر دن نئی اور انوکھی برکتیں لے کر طلوع ہوتا.جولائی 1995ء میں کتاب طبع ہوئی تو حضور کی خدمت میں ابتدائی طور پر پچاس نسخے بھجوائے.حضور کی ذرہ نوازی کا اندازہ لگائیے اگر چہ جانتے تھے کہ میرے پاس طبع شدہ کلام طاہر کے ایک ہزار نسخے موجود ہیں.اپنی کتب میں سے پہلی کتاب خاکسار کو دست مبارک سے تحریر کر کے ارسال فرمائی.جزاہ اللہ احسن الجزاء في الدنيا والاخره - اس کے بعد کلام طاہر لندن سے چھپی اس میں کچھ نظموں کا اضافہ ہوا اور ان کی گلوسری بھی بنائی.اس میں بھی تھوڑی سی خدمت کا موقع ملا.پیارے آقا نے از راہ شفقت اس کا بھی 306
ب رحمت ایک نسخہ خاکسار کو اپنی تحریر کے ساتھ بھجوایا.فالحمد للہ علی ذالک.چوتھا تحفہ ایک پین تھا.یہ حضور رحمہ اللہ کی نگاہ دلنواز تھی کہ آپ نے خاکسار کو صاحب قلم بھی بنا دیا.حضور کی طرف سے پین کا تحفہ ملنے کا طریق بڑا دلچسپ تھا.محترمہ آپا سلیمہ میر صاحبہ حضور سے ملنے لندن گئیں تو آپ نے لجنہ کراچی کی عاملہ کے لئے کچھ پین عنایت فرمائے.آپا نے اُن میں سے ایک خاکسار کو دیا.جس پر بہت خوشی ہوئی میں نے حضور کو شکریہ کا خط لکھا.پیارے حضور نے جواب میں تحریر فرمایا: صدر صاحبہ لجنہ نے آپ کو جو پین کا تحفہ دیا تھا وہ انہیں واپس کر دیں.اب میں آپ کو ایک خوبصورت قلم بھجوا رہا ہوں جو کہ اُمید ہے آپ کے شاعرانہ ذوق کے مطابق ہوگا.جزاكم الله احسن الجزاء في الدنيا والاخره والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد حضرت خلیفہ مسیح الراب رحمہ اللہ سے ٹیلیفون پر بات کی سعادت فرض کیجئے کہ آپ ٹیلی فون اُٹھا ئیں اور دوسری طرف سے آواز آئے: میں مرزا مسرور احمد بول رہا ہوں.“ تو آپ کی کیا کیفیت ہوگی.اسی سے اندازہ لگا لیجئے.کہ خاکسار حضور کا فون آنے پر اپنی کم مائیگی اور خلیفہ وقت کے مقام و مرتبہ کا سوچ کر کس طرح کپکپا گئی ہوگی.پھر اُس 307
رحمت زمانے میں جب ہجر و فراق کا درد ناک موسم تھا.تسکین نظر کے لئے ایم ٹی اے بھی نہیں تھا، صرف خطوط رابطہ کا ذریعہ تھے.ایسے میں فون پر بات نصیبوں کی بات تھی.اللہ تبارک تعالیٰ کی اس نعمت کے تذکرے سے جہاں شکر وحمد مقصود ہے وہاں حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ کی شفقت بے پایاں کے ذکر سے خلافت کے احسانات کی تصویر کشی بھی مدعا ہے.کہ میں ناچیز ہوں اور رحم فراواں تیرا 20 جولائی 1991ء کی بات ہے ہماری صدر صاحبہ آپا سلیمہ میر کی طبیعت خراب تھی.خاکسار محترمہ محمودہ امتہ السمیع (کمی) کے ساتھ اُن کی مزاج پرسی کے لئے گئی.ہماری وہاں موجودگی میں اُن کی بیٹی طیبہ کی حضور انور سے دوا پوچھنے کے لئے کال ملانے کی کوشش کامیاب ہوگئی.ہم نے بھی سلام کہلایا.فرمایا : ” بات کروا دیں.اس نے پہلے مجھے فون دیا میں نے عرض کیا : ”السلام علیکم.“ آپ نے فرمایا: وو وعلیکم السلام..آپ امتہ الباری ہیں.امتہ الباری ناصر، آپ کا بڑا دلچسپ خط ملا ہے.میں ابھی آپ کا ہی خط پڑھ رہا تھا.بہت لطف آیا ہے آپ نے مجھے لکھا ہے کہ میرے لفظ اور جملے اچھے ہوتے ہیں مجھے لگتا ہے آپ کے زیادہ اچھے ہیں.بہت دلچسپ خط ہے.“ بہت سے تعریفی جملے ارشاد فرمائے ) پھر فرمایا: آپ نے لکھا ہے جادوگر ہو، میں بھی کبھی کبھی ایسے ہی لکھتا ہوں.بلکہ مجھے لگتا ہے سارا خط ہی میں نے لکھا ہے.اب آپ آپا سلیمہ سے ملنے آئی ہیں.ٹھیک ہے اچھا ہے آپ ان کا دل بہلا ئیں.ان سے باتیں کریں.ہاں وہ میں 308
آپ کی روزوں والی بات سمجھ گیا ہوں ( لہجے میں بے حد شگفتگی تھی ) میں نسیم سیقی صاحب کو لکھ دوں گا کہ آپ کا خط چھاپ دیں.آپ بھی انہیں لکھ دیں کہ میں نے اجازت دی ہے.“ میرے بعد کمی کی بات ہوئی پھر آپا سلیمہ صاحبہ نے فون لیا تو آپ نے فرمایا: آج آپ نے میری اُن سے بات کرا دی جن سے میں خود بات کرنا چاہتا تھا.“ روزوں والی بات کی کچھ وضاحت کر دوں.ہوا یہ تھا کہ حضور پرنور نے ایک خط میں کراچی میں خواتین کے ساتھ محافل سوال جواب کا بڑے پیارے الفاظ میں ذکر فرمایا تھا.چونکہ اس خط کا موضوع بالعموم ساری ممبرات لجنہ کے لئے خوش کن تھا.اس لئے میں چاہتی تھی کہ یہ خط ” الفضل میں چھپوا دوں کیونکہ اُن دنوں حضور انور کے خطوط چھپ جایا کرتے تھے.میں نے سیفی صاحب ایڈیٹر الفضل سے ذکر کیا تو آپ نے جواب دیا حضور نے اپنے خطوط چھاپنے منع فرما دئے ہیں.میں نے حضور کو خط میں لکھا تھا کہ جب ہمیں اتنا اچھا خط آیا تو آپ نے خطوط چھاپنا منع فرما دیا ہے.ٹھیک ہے ”غریباں روزے رکھے تے دن وڈے آئے.حضور پر نور نے اس محاورے کا بہت لطف لیا.نہ صرف داد دی بلکہ از خود نسیم سیفی صاحب کو ہمارا خط چھاپنے کا لکھ دیا جوصفحہ اول پر شائع ہوا.ایک بات کی وضاحت کردوں کہ فون پر کی ہوئی بات من وعن یاد نہیں رہتی.میری عادت ہے کہ اہم باتیں فوراً لکھ لیتی ہوں ورنہ بعد میں بھول جاتی ہیں یا پیغام رسانی کے پیغام کی طرح کچھ کا کچھ بن جاتی ہیں.تاہم بات کرنے کے فوراً بعد لکھنے سے بھی لفظ اپنے ہی ہوتے ہیں جو یادداشت کا سہارا لے کر زیادہ سے زیادہ ٹھیک لکھنے کی سچی کوشش ہوتی ہے.اور پیارے حضور 309
رحمت کی باتیں تو لوح دل پر نقش کا لحجر ہیں.اس قدر خوشی ہوئی تھی کہ بیان سے باہر ہے.میں نے حضور کو خط لکھا کہ فون پر مختصر بات ہوئی دل نہیں بھرا تھا زیادہ بات کرنا چاہتی تھی مگر جھجک تھی.خط لکھا تھا مگر یہ وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ اس کے جواب میں حضور خود فون کر لیں گے.اللہ تبارک تعالیٰ کی مہربانی سے 25 ستمبر 1991ء کا دن ایک یادگار دن بن گیا.یہ بہت خوبصورت دن تھا.بڑی بیٹی مصور شادی کے بعد پہلی دفعہ کینیڈا سے آئی تھی.ہم اُس سے باتیں کئے جارہے تھے.تصویریں دیکھ رہے تھے کسی کا بھی اُٹھنے کا دل نہیں کر رہا تھا.ناصر صاحب پہلی دفعہ Cordless فون لائے تھے.میں نے پوچھا کب سیٹ کریں گے تو جواب دیا جب حضور کراچی تشریف لائیں گے تو گھر پر بلائیں گے.پھر یہ فون لگاؤں گا.یہ گھر کے بے تکلف ماحول کی عام سی بات تھی جو ایک رنگ میں پوری ہوگئی.بچوں کے اصرار پر فون سیٹ کیا تو پہلا فون حضور کا آیا.فون کی گھنٹی بجی چھوٹی بیٹی شافی نے فون لیا.پھر مجھے بلایا کہ امی آپ کا فون ہے.میں نے فون لیا تو ایک مانوس سی رس گھولتی آواز سنائی دی : الفضل، میں آپ کی نظمیں پڑھتا ہوں بہت اچھی ہوتی ہیں.بہت لطف لیتا ہوں.اچھا کہتی ہیں.کہاں سے سوجھتی ہیں آپ کو اتنی اچھی باتیں.کمال کر دیتی ہیں ایک مصرع کے بعد دوسرے مصرع میں مضمون اتنا اُٹھا دیتی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.“ فرمایا: جی آپ..آپ..آپ...66 ”آپ لکھتی ہیں کہ جی بھر کے بات نہیں ہو سکی ، دیر تک بات 310
ب رحمت کرنے کی خواہش ہے اور اب میں نے فون کیا ہے تو پہچانتی نہیں اور پوچھ رہی ہیں آپ کون ہیں؟“ حضور یہ آپ ہیں.آپ میرے حضور ہیں.آپ کہاں سے عرض کیا : بول رہے ہیں ؟“ حضور کا فون آنا اتنا غیر معمولی تھا کہ میں سمجھی آپ کراچی تشریف لے آئے ہیں.میرے اس بے تکے سے سوال کے بعد حضور کی آواز آنا بند ہوگئی.میرے سوال نے حضور کو جذباتی کر دیا.فرمایا: میں لندن سے بول رہا ہوں.آپ کیا سمجھ رہی ہیں کہ میں کراچی آ گیا ہوں.کراچی تو میں صرف خوابوں میں آسکتا ہوں.“ ان الفاظ کے ساتھ آپ کی آواز رندھ گئی اور پھر بہت سارے سیکنڈ ایسے گزرتے گئے کہ آپ کی آواز ہی نہیں آئی.مجھے یہ بھی لگا کہ شاید فون کٹ گیا ہے مگر دل کہہ رہا تھا نہیں جذبات پر قابو پایا جارہا ہے.پاکستان آنے کے ذکر پر یہ کیفیت ہوئی ہے.میں نے سپیکر آن کر دیا بچے ارد گرد جمع ہو گئے.ہم سب بے خود ہورہے تھے.پھر آواز آئی: " آپ نے المحراب کے لئے جو مضمون لکھا ہے.واقعی جان ڈال دی.منظر زندہ ہو گیا ہے.ایسا لگتا ہے سامنے بیٹھ کر بات کر رہے ہیں.پھر سے سب کچھ سامنے آ گیا.آپ خوب لکھتی ہیں.“ عرض کیا : جزاک اللہ سب آپ کی ذرہ نوازی ہے.حضور میں اس وقت بہت 311
سیلار ب رحمت خوش ہوں.بس نہیں چلتا کس طرح اس وقت کو محفوظ کرلوں.“ فرمایا: ”ہاں ! وہ لجنہ والی نظم بھی بہت مزے دار ہے.میں نے آپ کو لکھا تھا نا کہ اس کی مرمت لگا رہا ہوں.وہ تیار ہوگئی ہے مصروف ہو گیا تھا اس لئے بہت دیر ہوگئی.اچھا میں آپ کو دو تین بند سنا دیتا ہوں.“ آپ نے بڑے پیارے انداز میں پہلے تین بند سنائے جو بہت بہتر ہو گئے تھے.خاکسار نے عرض کیا: یہ تو بہت اچھی ہوگئی آپ نے تو اس کو کہیں کا کہیں پہنچا دیا.“ فرمایا: میں نے اپنی نظم جو در دسکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے اپنی آواز میں آڈیو کیسٹ میں بھری ہے.بالکل چھپ کے الگ بیٹھ کے پڑھی ہے.گلا ٹھیک نہیں تھا مگر سمجھ آ جائے گی.دو کیسٹس بھری ہیں.مردوں میں عبید اللہ علیم صاحب کو بھجوا رہا ہوں اور عورتوں میں آپ کے لئے بھیجی ہے.کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ شاعر ہیں آپ ہی سمجھ سکتی ہیں ایک شاعر کی کیفیات کہ کیا کیا گزرتی ہے.آواز بہت صاف نہیں ہے ، گلا خراب تھا مگر آپ سمجھ لیں گی.ہی کے ہاتھ بھیجی ہے آپ جانتی ہیں ہی کو؟ بی بی با چھی کا بیٹا قمر سلیمان احمد..آپ اُس سے حاصل کر لیں.وہ کراچی گیا ہے.وہاں سے ربوہ جائے گا.312
عرض کیا : رجی مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے.وہ نظم بہت ہی پیاری ہے.حضور میری بیٹی آئی ہے.بڑی بیٹی جو شادی ہو کے کینیڈا گئی تھی.ماشاء اللہ خوش ہے، بہت عزت ملی ہے فرمایا: 66 دوشکر ہے آپ کو مبارک ہو.میں بھی خوش ہوں کہ بیٹی خوش ہے.“ 66 ”حضور میرے بچوں کو دعاؤں میں یادرکھیں، ناصر صاحب کو بھی.“ ” خدا تعالیٰ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی رکھے.اب تو آپ خوش ہیں، لمبی بات ہو 66 گئی.اب تو نہیں کہیں گی کہ لمبی بات نہ ہو سکی.اچھا خدا حافظ.السلام علیکم.“ ایک دفعہ پھر یہ نعمت ایسے میسر آئی جیسے کوئی دعا قبول ہوتی ہے.11 نومبر 1992ء کی بات ہے.صدر لجنہ کراچی محترمہ آپا سلیمہ میر صاحبہ نے احمد یہ ہال میں ضروری میٹنگ رکھی تھی.ہمارا گھر اُن کے راستے میں پڑتا تھا.مجھے ساتھ لے لیا.فوراً ہی باتوں کا عنوان حضرت صاحب ہو گیا.میں نے آپا سے کہا کہ آج کل حضور انور سے پوچھنے کی بہت سی باتیں جمع ہو گئی ہیں.خط کا جواب آنے میں بہت وقت لگ جاتا ہے.دل کرتا ہے فون کی سہولت ہوتی تو فوراً پوچھ لیا کرتی.آپا نے مشورہ دیا کہ سب باتیں لکھ کر فیکس کروا دو.( اُن دنوں کلام طاہر - حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ اور ترجمے کا کچھ کام ہورہا تھا) یہ خواہش اللہ تعالیٰ نے فوراً اسی دن پوری کر دی.شام کو ہم فون پر صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ کا ایک پیغام دینے کے لئے ربوہ کی کال ملانے کی کوشش کر رہے تھے کہ دوسرے فون پر گھنٹی ہوئی.او پرشانی نے فون اُٹھایا.کسی نے پوچھا امی کہاں ہیں.اُس نے کہا نیچے ہیں.نیچے کیا کر رہی 313
سیلاب رحمت ہیں؟ آپ کیا کر رہی ہیں؟ میں الماری صاف کر رہی ہوں.کیا آپ روز الماری صاف کرتی ہیں.اچھا امی کو کہیں کہ لندن سے فون ہے.اب تو شافی سمجھ گئی کیونکہ انداز میں مٹھاس اور اپنا پن وہ محسوس کر چکی تھی.خوشی سے بولی امی امی فون میں حضور کا فون ہے لندن سے.فون اُٹھاتے ہی حضور پر نور کی مانوس آواز میں السلام علیکم سنائی دیا.فرمایا: آپ امتہ الباری ناصر ہیں؟“ جی حضور..! میری آواز میں لرزش تھی.آپ نے فرمایا: میں کئی دن سے آپ سے بات کرنی چاہ رہا تھا لیکن نمبر کہیں لکھ کر بھول گیا.دیکھئے اللہ تعالیٰ کی حکمت کہ آپ کا خط آیا اور اُس میں آپ نے نمبر لکھا تھا اب میں نے نمبر ملایا ہے.درثمین کے الفاظ کے معانی اور کلام طاہر مل گئے ہیں.آپ نے بہت محنت کی ہے.آج کل کام بہت زیادہ ہے.دو تین دن میں دیکھ لوں گا.مجھے پتا نہیں تھا کہ آپ کو یو نیورسٹی میں اتنے اچھے ریمارکس ملتے رہے ہیں.میں تو صرف آپ کی تحریر سے آپ کی صلاحیتوں کا اندازہ لگا تا تھا ماشاء اللہ.“ پیارے حضور نے خاکسار کے لئے از راہ ذرہ نوازی بہت سے تعریفی جملے ارشاد فرمائے.میں نے عرض کیا: ”حضور ہم آپ کو آج بہت یاد کر رہے تھے.“ ”اچھا کیا بات ہوئی تھی.“ " آج میٹنگ تھی.آپا سلیمہ نے مجھے گھر سے لیا تھا.میں راستے 314
میں اُن سے کہہ رہی تھی کہ انٹر نیشنل کال کی سہولت ہوتی تو میں حضور سے 66 بہت سی باتیں پوچھتی.“ 66 ”اچھا آپ نے یہ کہا تھا.اب پوچھ لیں ساری باتیں.“ حضور خطابات لکھوا کر بھجوائے تھے ابھی تک آپ نے انگریزی والا اصلاح کر کے نہیں بھیجا.“ فرمایا کون سا میں نے تو ایک اور خطاب کر دیا ہے امریکہ میں“ مشی گن والا " فرمایا اچھا ابھی نہیں بھیجا ہمیں پتا کرتا ہوں.قریشی صاحب کیسے ہیں؟“ الحمد للہ آپ انہیں دعا میں یاد رکھا کریں اور صبور کو بھی.(اس کے رشتہ کی بات چل رہی تھی ) فرمایا ”ضرور کروں گا.“ حضور اس بچی نے میٹرک کر لیا.سلائی کڑھائی کے کورسز بھی کر لئے ہیں.“ فرمایا ”خوب! آپ نے اس کو بہت سکھا دیا ہے.اچھا علیم صاحب کیسے ہیں.“ ٹھیک ہیں.ربوہ گئے ہیں.آپا کی صاحبہ کے بیٹے کی شادی کے سلسلے میں.“ ،، فرمایا ” اس کا مطلب ہے پہلے سے بہتر ہیں.میر اسلام کہیے.“ جی اچھا.حضور آج سیرت النبی کا جلسہ تھا.احمد یہ ہال میں مردوں عورتوں کا اکٹھا جلسہ ہوا تھا.اس میں میں نے بھی تقریر کی تھی.“ 315
" ” بہت خوب مجھے اس کی ریکارڈنگ بھجوا دیں.اچھا السلام علیکم خدا حافظ 66 میں اُسی جگہ بیٹھی تھی جہاں فون کال سے پہلے تھی.وہی کمرہ اور وہی ماحول مگر مولا کریم نے مجھے ایسے عالم میں پہنچا دیا جہاں ان سے کٹ کر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی بارش میں شرابور ہو گئی.بہت دیر اسی لذت کو محسوس کرتی رہی ایک تو اسی دن خواہش کی جو پوری ہوگئی اور پھر حضور کی اتنی شفقت الحمد للہ.10 جولائی 1993 ء رات پونے گیارہ بجے ہم ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہوئے اپنے بچوں مصور اور منصور سے بات کرنے کے لئے فون کے پاس ہی بیٹھے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی ناصر صاحب نے فون اُٹھا یا.دعا سلام کے بعد جب ناصر صاحب نے پوچھا کہ حضور آپ کیسے ہیں تو میں خوش ہوگئی کیونکہ یہ تو میرے پیارے حضور کا فون تھا.آپ سے جو بات ہوئی پہلے اس کا پس منظر بتا دوں.آپ نے اس سے پہلے خط میں تحریر فرمایا تھا کہ کلام طاہر کی اصلاح کر رہے ہیں.اگر میرے ذہن میں بھی کوئی چیز ہو تو لکھ دوں.مجھ جیسی کم علم کو یہ حکم ملا تو اطاعت میں چند مقامات پر نظر ثانی کا لکھ دیا.آپ نے کچھ تجاویز قبول فرمالیں اور کچھ رڈ کر دیں.مجھے اپنی جسارت پر ندامت ہوئی اور خط میں معذرت لکھی اس میں یہ جملہ بھی تھا کہ اب میں بچگانہ تبصرے نہیں کروں گی.یہ سوچ کر کہ میری حماقتیں بارخاطر ہوئیں بہت استغفار پڑھ رہی تھی.فون آنے پر تھوڑی سی خوفزدہ ہو گئی.آپ نے ناصر صاحب سے پہلے دفتر کے معاملات اور ترقی وغیرہ کی بات کی پھر صبور کے رشتہ کی بات ہوئی کہ میں اچھی طرح جائزہ لے کر جواب دوں گا.پھر دریافت فرمایا کہ امتہ الباری سو تو نہیں گئیں.ناصر صاحب نے مجھے فون دے دیا.میں نے السلام علیکم عرض کیا.آپ نے فرمایا: 316
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ! آپ کیا کریں بچگانہ تبصرے.گھبرا کیوں رہی ہیں.جو جی چاہے لکھ دیں.میری طرف سے اجازت ہے.ت مشق نازکر، خونِ دو عالم میری گردن پر اچھا لگتا ہے.بے تکلفی سے تبصرے کرنا.آپ کے خط بہت دلچسپ ہوتے ہیں.الفضل میں آپ کی نظم بھی بہت اچھی تھی.اچھا ایک بات بتائیں میں کراچی میں ڈش انٹینا سے خطبہ سننے والوں کی حاضری کا جائزہ لے رہا تھا.کراچی میں حاضری کم ہے.آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہے؟ اس اچا نک سوال پر ایک دم جو ذہن میں جواب آیا وہی عرض کر دیا کہ فاصلے زیادہ ہیں.دو دو دفعہ وقت نکالنا سواری کا خرچ کر کے سینٹرز پر پہنچنا مشکل ہوتا ہے.پہلے جمعہ کی نماز کے لئے پھر گھر جا کر خطبہ سننے کے لئے لوگوں کو مشکل لگتا ہوگا.ویسے آج گیسٹ ہاؤس میں خواتین کی تعداد 52 تھی.اور مرد؟ حضور کا سوال تھا.جی حضور مرد تو میں نے نہیں گئے.“ میرے بے ساختہ جواب پر آپ ہنس دیئے.آواز میں بہت شگفتگی تھی.میں نے عرض کیا کہ کلام طاہر کی کتابت مکمل ہوگئی.فرمایا: "ما شاء الله میں نے عرض کیا: ”جلسے والی نظم بھی بھیج دیں.“ فرمایا وہ تیار بیٹھی ہے آپ کے پاس آنے کے لئے 1952ء میں 317
سیلاب رحمت کہی تھی ابھی فیصلہ نہیں ہوا کہ جلسے پر وہ پڑھی جائے گی یا نہیں بہر حال 66 آپ کو بھیج رہا ہوں.‘“ اس کے بعد اپنی صحت اور منصور کے رشتہ کے لئے دعا کی درخواست کی آپ نے فرمایا: ” مجھے یاد ہے آپ کو خط لکھوں گا.“ فون اُٹھایا تو یہ تم تھے یہ کوئی خواب نہ تھا آج بھی یاد وہ انمول گھڑی رہتی ہے حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ہمارے گھرانے پر احسانات عالمین کے رب کی نعماء سے ہر کس و ناکس فیض یاب ہوتا ہے.اسی طرح اُس کے نمائندے خلیفہ وقت کی شفقتیں بھی عام ہوتی ہیں.ہمارے گھرانے کے ہر فرد تک آپ کی دعاؤں کی برکتوں کا فیض پہنچا.ناصر صاحب سرکاری افسر رہے ہیں.ہمارے ملک میں سرکاری افسر کو بالعموم جن مسائل کا سامنا رہتا ہے وہ احمدی ہونے کی وجہ سے دو چند ہو جاتے ہیں.مثلاً ترقی میں رکاوٹ بار بار تبدیلیاں اور مخالفت کوئی نہ کوئی مسئلہ لگارہتا ہے.ہر مشکل میں نظریں مشکل کشا کی طرف اُٹھتیں.جس نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں خلافت کی ڈھال عطا کی ہے اور ہم دعاؤں کی درخواستیں کر کے تسلی پاتے ہیں.حضور انور کو خط لکھ کر ہی یقین ہو جاتا کہ دعائیں قبول ہو گئیں.ایسے ہی کسی مسئلے پر دعا کا خط لکھا تو ناصر صاحب کے نام جواب آیا: ” میرا پیارا مولا کریم اپنے خاص فضل و کرم سے آپ کی تمام مشکلات اور پریشانیوں کو دُور فرمائے اور جہاں آپ کا رہنا آپ کے 318
سیلاب رحمت لئے دینی دنیاوی بہتری کا موجب ہو اس کا خود انتظام فرمائے.آپ کو اور آپ کے بچوں کو اپنے سایہ رحمت میں رکھے.مقبول خدمت دینیہ کی توفیق بخشے اور دینی دنیاوی ہر قسم کی نعمتوں سے مالا مال کرے آمین اللهم آمین 66 (20-9-86) یہ حضور کی دعاؤں کا ثمر تھا کہ بفضل الہی ناصر صاحب کی خواہش کے مطابق مسلسل کراچی میں ہی رہنے کے سامان ہوتے گئے.عزت اور وقار سے عرصہ ملازمت پورا کر کے ریٹائر ہوئے.1989ء کے اواخر کی بات ہے ناصر صاحب کو ئٹہ میں بحیثیت جنرل مینجر متعین تھے.ان کے خلاف محض مخالفت کی وجہ سے دفتر میں اثر و رسوخ استعمال کر کے مذہبی تعصب پھیلانے کا بے بنیاد کیس بنا دیا گیا.درخواست پر عینی گواہوں کے سوڈیڑھ سو دستخط تھے.ایف آئی آر کٹ گئی اخبارات میں خبریں آنے لگیں کہ گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیں.ہم نے حضور پر نور کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا.آپ کو جماعت کی طرف سے بھی اطلاعات پہنچ رہی تھیں.آپ نے دعاؤں سے نوازا اور ہمارا حوصلہ بڑھایا کہ فکر نہ کریں اچھی اطلاعات ہیں.بفضل الہی دیکھتے ہی دیکھتے کیس تحلیل ہو گیا.کمشنر صاحب کی مداخلت سے قصہ ختم ہو گیا.آپ ہماری خوشی میں شامل تھے.تحریر فرمایا: الحمد للہ قریشی صاحب کو اس مصیبت سے نجات ملی.اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے اور ان حالات میں آپ سب کو اپنی امان میں رکھے اور ہر قسم کی پریشانیوں سے بچائے اور خوف کی حالت کو امن میں (1-12-90) 319 بدل دے.آمین.“
سیلاب رحمت حضور کی طلسماتی یادداشت کے ان گنت واقعات ہیں.ایک واقعہ جس نے ناصر صاحب کو حیرت زدہ کر دیا.یہ 1984ء میں چند منٹ کے لئے حضور سے ملے تھے.اس کے گیارہ سال بعد 1995 ء میں لندن گئے.مسجد فضل میں حضور نے دیکھتے ہی فرمایا: ناصر صاحب آپ کب آئے؟“ ناصر صاحب حیران رہ گئے.خدا تعالیٰ جب کسی کو خلافت کے لئے چنا ہے تو اُسے غیر معمولی قومی عطا فرماتا ہے.ملاقات میں حضور نے فرمایا: باری نے لکھا تھا کہ آپ آئیں گے.“ یہ بھی حیران کن بات ہے.ناصر صاحب سرکاری دورے پر سویڈن گئے تھے.واپسی پرلندن جانا تھا.میں نے ایک خط میں حضور کو لکھا تھا کہ ناصر صاحب کہتے ہیں میں پہلے حضور کو ملوں گا.ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو لے آئے ہمیں پہلے ملوا دے.خط کے اس جملے کا ذہن میں رہنا اور عند الملاقات یہ فرمانا کہ: باری نے لکھا تھا“ عام انسان کی سمجھ سے بالا تر ہے.ہمارے بچوں کی آپ سے محبت کا عالم بھی دیدنی تھا.آپ نے خلیفہ منتخب ہوتے ہی کراچی کے دورے فرمائے جن میں لجنہ کے لئے علیحدہ وقت رکھا.ان دوروں سے ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ کراچی میں رہنے والے بڑے چھوٹے حضور کے دیدار اور آپ کے ارشادات سے فیضاب ہوئے.اور حضور انور سے بے حد محبت کرنے لگے.بڑی بیٹی امتہ المصور نے ایم بی بی ایس میں کامیابی کے لئے حضور کو دعا کا خط لکھا جس کا بے حد پیارا شفقت سے بھر پور جواب ملا: اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے فضلوں سے نوازے.اپنی رضا اور پیار کے 320
ب رحمت عطر سے ممسوح فرمائے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس دنیا کی حسنات بھی عطا فرمائے اور اُس جہاں کی حسنات سے بھی نوازے اور آپ کے بہن بھائیوں کو کامیابیوں سے ہمکنار کرے.آپ کے والدین کو صحت تندرستی عطا فرمائے اور آپ کو اخلاص محبت اور پیار کے ساتھ ان کی خدمت کرنے کی توفیق دے اور آپ ان کے لئے قرۃ العین بنتے ہوئے ان کی 66 دعا ئیں حاصل کرنے والے ہوں.آمین.“ (86-8-27) اللہ تعالیٰ نے آپ کی ساری دعائیں قبول فرمائیں.یہ پیاری بیٹی واقعی قرۃ العین ثابت ہوئی.جب اس کا رشتہ طے کرنے کا وقت آیا تو بہت مشکل کام لگا.بڑی بہن آپا امتہ اللطیف صاحبہ نے اپنے چھوٹے بیٹے عزیز زاہد کے لئے رشتہ مانگا.لڑکا گھر کا، ہر لحاظ سے سعادت مند مگر یہ لوگ کینیڈ انتقل ہو چکے تھے.بچی کو یکدم اس قدر دور بھیج دینے کا حوصلہ نہیں ہورہا تھا.اس لئے فیصلے میں وقت ہورہی تھی.آڑے وقت کا ایک ہی حل تھا، حضور پر نور کو دعا کے لئے لکھ دیا.آپ نے بخوشی اجازت مرحمت فرمائی: عزیزہ امتہ المصور کے رشتہ پر بڑی خوشی ہوئی.بہت بہت مبارک ہو.اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو دونوں خاندانوں کے لئے دونوں جہان کے لئے خیر و برکت کا موجب بنائے.گھر کا رشتہ ہے.لڑکا اچھے اخلاق کا ہے اور نیک سیرت اور نیک صورت ہے تو فاصلے کی دوری سے نہ گھبرائیں.دعا کر کے اگر شرح صدر ہو تو طے کر دیں.شیخ صاحب کا خاندان خادم سلسلہ ہے.“ (16-4-89) 321
سیلاب رحمت مولا کریم کے خاص فضل سے رشتہ طے ہو گیا اور خاکسار نے رخصتانہ کی اطلاع دے کر دعا کے لئے لکھا.سچی بات یہ ہے کہ میرا دل بہت ڈرا ہوا تھا اور میں اُداس بھی تھی.شادی پر جو گیت اور نظمیں پڑھی جاتی ہیں، سب کے بول کانوں میں گونجتے رہتے.لو جاؤ تم کو سایہ رحمت نصیب ہو بڑھتی ہوئی خدا کی عنایت نصیب ہو دل کسی طور نہیں بہل رہا تھا.ایسے میں پیارے حضور انور کا مکتوب تسکین کا سامان بن کر آیا.آپ نے ہماری خوشی کو دو گنا کر دیا اور ہر مرحلے پر آپ کی دعائیں شامل حال رہیں.اپنائیت کے انداز نے حمد وشکر میں لطف بھر دیا.پیارے آقا نے آخر میں چند الفاظ دست مبارک سے بھی تحریر فرمائے تھے : " آپ کا خط ملا.عزیزہ امتہ المصور کی شادی کی بہت بہت مبارک ہو.آپ نے اس کے رخصتانہ کے وقت کا جو نقشہ خط میں کھینچا ہے خصوصاً آپا سلیمہ کا کردار پھر میاں کے جذبات ، یہ ساری باتیں دل پر گہرا اثر کرنے والی ہیں.اللہ تعالیٰ بچی کو خوشیوں سے معمور زندگی عطا فرمائے اور آپ کے بچوں کی جنت آپ کی آنکھوں کو تراوت بخشتی رہے.میرا خیال تھا کہ بچی کے لئے وہاں تحفہ بھجواؤں مگر جلسہ کی وجہ سے تحفہ بھجوانے میں تاخیر ہوگئی جس کا افسوس تھا.اب آپ نے بتایا ہے کہ وہ یہاں سے ہو کر جائے گی تو الحمد للہ اب انشاء اللہ ملاقات پر خود تحفہ دوں گا.مگر خدا کرے اس وقت یہاں سے گزرے جب میں بھی یہاں 322
سیلاب رحمت ہوں.آپ نے شادی کی تصویر بھجوا کے بہت اچھا کیا.میں بھی اس تصویر کے ذریعے اس تقریب میں شامل ہو گیا.ناصر صاحب کو محبت بھر اسلام اور مبارک باد.اور بچوں کو پیار دیں.اللہ آپ کے ساتھ ہو.ور میں نے تو سوچا تھا کہ اس غیر متوقع جال سلام اچانک دولتی ہر باری اور نا مر جب خوش خاکسارا متن لیکن اسے بیا آرزو کہ خاک شده میرا دل مراحل آپ کے جو بچہ کے لا نائی مگر کام یہ نظم بھیجی تھی اس پر میں یہ نظم میں در بیزار باقی تھا کہ دوسرے کاموں نے گھیر! میں نے تو سوچا تھا کہ اس غیر متوقع اچانک خوشی پر باری اور ناصر جب خوش ہوں گے تو میرا دل بھی طمانیت سے بھر جائے گا لیکن ”اے بسا آرزو کہ خاک شده آپ نے لجنہ کے دفتر پہ مزاحیہ نظم بھیجی تھی اس پر میں نے کچھ مرمت لگائی مگر کام باقی تھا کہ دوسرے کاموں نے گھیر لیا.“ ( مكتوب 91-8-20) اس خط میں آپا سلیمہ کے کردار کا جو ذکر ہے یہ ایک اچھی بات تھی.آپا سلیمہ مجھے بیٹیوں کی طرح چاہتی ہیں.آپ نے سمجھایا کہ بیٹی کو حو صلے سے رخصت کرنا.میں نے سات بیٹیاں بیاہی ہیں.اپنے تجربے سے کہہ رہی ہوں اگلے دن ہنستی کھیلتی آجاتی ہیں.دل میلا نہ کرنا.ایک فرض کی ادائیگی پر شکر کرتے ہوئے رخصت کرو اور مصور کو سمجھایا کہ ” بچی تمہارے 323
.رحمت رونے سے امی کا دل بوجھل ہو گا.ہمت کرنا اللہ ساتھ دیتا ہے.بچیوں کو تو اپنے گھر جانا ہی ہوتا ہے.نبیوں کی بیٹیاں بھی رخصت ہوتی ہیں.مجھے اس ہمدردانہ انداز نے بہت متاثر کیا خط میں ذکر کر دیا.یہ بات حضور کو بھی پسند آئی.اگلے مکتوب میں بیٹی کے ساتھ داماد بھی دعاؤں میں شامل ہو گیا.خط کے آخر میں ایک خوشخبری تھی جو قدرے تاخیر سے پوری ہوئی مگر یہ جملہ تقویت دیتا رہا کہ حضور کی فرمائی ہوئی بات پوری ضرور ہوگی.خط ملاحظہ کیجئے : آپ کا اور عزیزہ امتہ المصور کا خط مجھے بر وقت مل جاتا تو میں ضرور اس موقع پر آپ کو اور بچی کو مبارک باد کی تار دیتا تاہم مجھے اُمید ہے کہ شادی کی یہ تقریب ہر لحاظ سے بخیر و خوبی سرانجام پائی ہوگی اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رشتے کو دونوں خاندانوں کے لئے دونوں جہانوں میں ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور اس جوڑے کو دنیا و آخرت کی حسنات سے نوازے اور یہ گھر ہمیشہ جنت کا گہوارہ بنا ر ہے.میری طرف سے ناصر صاحب کو محبت بھرا سلام اور اسی طرح عزیزہ امتہ المصور اور داماد کو بہت بہت سلام و پیار اور مبارک باد دیں.غالباً انگلی ملاقات تک آپ نانی بن چکی ہوں گی اللہ آپ کے ساتھ ہو.“ الحمد للہ حضور انور کی دعاؤں سے اس کو کئی لحاظ سے خدمت دین کی توفیق مل رہی ہے.کس زباں سے میں کروں شکر کہاں ہے وہ زباں کہ میں ناچیز ہوں اور رحم فراواں تیرا 324
رحمت ہمارے بڑے بیٹے منصور احمد کو حضور نے علم و معرفت میں ترقی اور انسانیت کی عمدہ رنگ میں خدمت کی دعادی اور تحریر فرمایا: ما شاء اللہ آپ نے ایم بی بی ایس کے امتحان میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کی ہے.الحمد للہ مبارک ہو.اللہ تعالیٰ یہ اعزاز آپ ، آپ کے خاندان اور سلسلہ کے لئے بابرکت کرے اور علم و معرفت میں ترقی دے اور انسانیت کی عمدہ رنگ میں خدمت کی توفیق دے آمین.“ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے.منصور ان دعاؤں کے سائے میں ترقی کی راہوں پر گامزن ہے.جب اس کی شادی کا مرحلہ آیا تو پتا چلا کہ لڑکی کے لئے ہی نہیں لڑکے کے لئے بھی مناسب رشتہ تلاش کرنا مشکل کام ہے.جب مشکل لگا تو حضور پر نور کولکھ دیا.آپ نے بہت پیارا جواب تحریر فرمایا: میں انشاء اللہ کوشش کروں گا کہ دین و دنیا میں خیر و برکت والا رشتہ ملے اور آپ کی طرح روشن خیال ، روشن دماغ اور دین میں مستحکم خاندان ہو.آپ خود بھی نظر رکھیں اور کوئی مناسب رشتہ ملے تو مجھے مطلع کریں.پھر میں خود ان کے حالات کا جائزہ لے کر آپ کی رہنمائی کروں گا.اللہ آپ کے سب بچوں کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے.آمین.6-5-93 آپ کی خواہش دعا بن کر لگی اور منصور کا رشتہ مکرم محترم مولانا سلطان محمود انور صاحب کی صاحبزادی فوزیہ سے تجویز ہوا.مولانا موصوف نے اپنی طرف سے اجازت لے لی.میں 325
سیلاب رحمت نے بھی دعا کی غرض سے خط لکھا تو جواب موصول ہوا: منصور کے لئے عزیزہ فوزیہ سے رشتہ کے متعلق میں تو عرصہ ہوا اپنی پسند کا اظہار کر چکا ہوں.شوق سے کریں.اللہ بے حد مبارک فرمائے اور دونوں جہان کی حسنات سے نوازے آمین.“ (5-12-93) دعاؤں کی دولت سمیٹے یہ شادی مولا کریم کے خاص فضل سے رحمتوں اور برکتوں کے شمرات کی حامل ثابت ہوئی.میرے پاس الفاظ نہیں جن سے اللہ تبارک تعالیٰ کا کما حقہ شکر ادا کرسکوں.فوزیہ ہمارے گھر میں برکتوں والا اضافہ ثابت ہوئی اللہ تعالیٰ اس کو اور اس کے والدین کو اجر عظیم سے نوازے.آمین.الحمد للہ علی ذالک.ہماری دوسری بیٹی امتہ الصبور ایک سال کی عمر میں بخار کے اثر سے سماعت اور اس کے نتیجے میں گویائی سے محروم ہو گئی.خاکسار انتہائی عاجزی سے ہر ایک سے دعاؤں کی بھیک مانگتی.حضور انور نے بہت حوصلہ دیا.مولا کریم نے دعا ئیں اس رنگ میں قبول فرما ئیں کہ بچی غیر معمولی ذہین اور ہنر مند ہو گئی.انٹر کر رہی تھی جب لندن سے حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے بھتیجے کے بیٹے (جس کو آپ نے بیٹا بنایا ہوا تھا ) عزیزم عمر نصر اللہ خان کا رشتہ آیا.فیصلے میں مشورے اور دعا کے لئے حضور کی خدمت میں درخواست کی.آپ نے روحانی باپ کی طرح اس کام کو اپنا سمجھ کر کیا اور مجھے لکھا: عزیزم عمر نصر اللہ خان کو پہلے بھی جانتا تھا.اب باقاعدہ رپورٹ منگوائی ہے دعا کر کے تسلی ہے تو کر لیں.خاندان بھی اچھا ہے.آپ کی رؤیا بھی مبارک ہے.لڑکا بھی ہمیشہ سے شریف 326
ب رحمت النفس، قابل اور خود اعتماد ہے.اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے.“ اُسی دن ایک دوسرے خط پر دستِ مبارک سے تحریر فرمایا: 3-12-92 عمر نصر اللہ کے متعلق میں نے الگ پیغام بھجوادیا تھا کہ ماشاء اللہ اچھا لڑکا ہے.دین و دنیا ہر لحاظ سے درست.اللہ کرے یہ رشتہ طرفین کے لئے دونوں جہان کی حسنات کا حامل ہو اور آپ کے لئے بھی ہمیشہ آنکھوں کی ٹھنڈک بنار ہے.آمین.“ آپ کی اجازت اور دعاؤں کے ساتھ یہ شادی ہوئی.بچی لندن چلی گئی.شریف النفس عمر، اس کے والدین اور عزیزوں نے بچی کو بہت پیار اور عزت دی.لندن میں پیارے حضور نے بہت خیال رکھا.جب اس کے ہاں پہلا بیٹا ہوا تو آپ بچے کو دیکھنے اس کے گھر تشریف لائے اور اُسی دن خاکسار کو ایک مکتوب دستِ مبارک سے تحریر فرمایا: آج میں آپکا حوالہ دیکھتے آپکھی تھی کے سکھر کیا تھا بہت مزہ آیا.ماشاء اللہ دونوں بہت ہیں فرش ات البادی ناصر حاج رہے اور اپنے اپنے آرٹ سے گھر بچایا ہوا ہے.اب احمد یہ ہال کراچی چو مشتر کہ آرٹ کا نمونہ بیٹے کے صورت تخلیق ہوا ہے وہ ماں باپ دونوں کی دیکر کہ ان کے ہائی 327
7-10-98 " آج میں آپ کا نواسا دیکھنے آپ کی بچی کے گھر گیا تھا.بہت مزہ آیا.ماشاء اللہ دونوں بہت ہی خوش ہیں اور اپنے اپنے آرٹ سے اپنا گھر سجایا ہوا ہے.اب جو مشتر کہ آرٹ کا نمونہ بیٹے کی صورت میں تخلیق ہوا ہے.وہ ماں باپ دونوں کی دلکش آمیزش سے تخلیق پایا ہے.“ دوسرے بیٹے عزیزم محمود احمد اور چھوٹی بیٹی امتہ الشافی کی شادیاں بھی آپ کی دعاؤں سے بابرکت ہوئیں.شافی نے دو دفعہ آپ کا فون ریسیو کیا تھا اس کا ذکر بے حد خوشی سے کرتی ہے.اسی طرح جب اس نے ایم ٹی اے کے لئے ریکارڈنگ میں کام کیا تو حضور انور کی طرف سے حوصلہ افزائی کا خط ملا.بچی کے نام خط میں اپنائیت اور پیار کے اظہار کا نمونہ دیکھئے تحریر فرمایا: ”اُمید ہے تمہارے ابا کی پریشانیاں ختم ہوگئی ہوں گی اور امی کو لجنہ کے کاموں سے گھر کے لئے بھی فرصت مل جاتی ہوگی لیکن گھر کے لئے فرصت ملے بھی تو شعر سوچنے میں وقت گزر جاتا ہو گا.کبھی تمہیں پیار دینے کا موقع ملا ہے یا نہیں.“ کیسی فراست تھی کہ بچی کو سمجھا دیا کہ امی ابا مصروف ہوں تو زیادہ توجہ نہ ملنے کومحسوس نہ کرے اور ہمیں بھی سمجھا دیا کہ بچوں کا حق ہوتا ہے کہ انہیں پیار ملے.ہمارے پیارے آقا کی شفقتوں کی کوئی انتہانہ تھی.آپ تو ہمارے گھر کے ایک فرد تھے.328
حضرت اقدس خلیفہ امسح الرابع رحم اللہ علی کی گود میں مرنصراللہ خان
حضرت اقدس خلیفہ مسیح الرابع رحم اللہ تعال کی گود میں نر نصراللہ خان
خاکسار کے نام خطوط میں دوسروں کا ذکر اور دوسروں کے نام خطوط میں خاکسار کا ذکر متوقع خوشی کی نسبت غیر متوقع خوشی زیادہ لطف دیتی ہے.اچانک کوئی خبر دے کہ حضور انور کا خط آیا ہے اُس میں آپ کا ذکر ہے تو حمد و شکر میں ڈوبی ہوئی خوشی کا عالم ہی کچھ اور ہوتا ہے.شعبہ تصنیف و اشاعت کراچی کا کام کرتے ہوئے جن مخلص ساتھیوں نے اس رستے میں کانٹے ، پھول اور پھل مل بانٹ کر سمیٹے اُن میں محترمہ حور جہاں بشری داؤ د صاحب غفر لھا اور محترمہ برکت ناصر صاحبہ سر فہرست ہیں.جس بے مثال ہم آہنگی سے ہمیں کام کی توفیق ملی اُسے پیارے آقا نے محسوس فرمایا.کچھ اور مانوس ہستیوں کا ذکر بھی رہے گا.آپ ساری جماعت کو ایک وسیع کنبہ سمجھتے.ایک کے نام خط میں دوسرے بچوں کا ذکر محبت کے دھاروں کو وسیع تر کرتا.آپ کے خطوط اتنے لطیف اور شگفتہ ہیں کہ جب بھی ان کو پڑھیں نیا لطف دیتے ہیں.محترمہ حور جہاں بشری داؤ د مرحومہ کا قابل صدر شک ذکر 20 جولائی 1993ء کو ہماری یہ پیاری محسنہ اچانک ہمارا ساتھ چھوڑ گئی.یہ صدمہ نہ صرف ہمارے لئے بلکہ حضور انور رحمہ اللہ کے لئے بھی درد ناک تھا.جمعہ کی نماز سے پہلے آپ نے خاکسار کے نام لکھوائے ہوئے خط پر دستخط فرماتے ہوئے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا: عزیزہ بشری داؤ د حوری کے درد ناک سانحہ ارتحال سے متعلق آپ کا خط ملا تھا.اس پاکباز ، فدائی حسن و احسان کی مرقع بیٹی کی نماز 329
جنازہ غائب کا فیصلہ تو خبر ملتے ہی کر لیا تھا.آج بعد نماز جمعہ انشاء اللہ نماز جنازہ ہو گی.اقربا ، جماعت کراچی اور لجنہ کراچی سے تعزیت کا اظہار خطبہ کے آخر پر کروں گا.“ 23 جولائی کے خطبہ میں آپ نے قابل رشک پیارے الفاظ میں مرحومہ کا ذکر فرمایا.اس کے بعد 29 جولائی کو خاکسار کے نام مکتوب میں جو خاکسار سے تعزیت فرمائی وہ نہ صرف مرحومہ کے لئے ایک اعزاز ہے بلکہ ادب کا شاہکار بھی ہے.اللہ تعالیٰ اس خوش نصیب کے حق میں حضور کی دعائیں بڑھا کے قبول فرماتا رہے.آمین.محترم عبید اللہ علیم صاحب کا محبت بھر اذکر خیر پہلے یہ ذکر آچکا ہے کہ حضور انور نے اپنی نظم جو در دسکتے ہوئے حرفوں میں ڈھلا ہے اپنی آواز میں پڑھ کر علیم صاحب اور خاکسار کو بھجوائی تھی.ایک مکتوب میں اسی بات کے تسلسل میں آپ نے علیم صاحب کا بہت محبت سے ذکر فرمایا:.آپ کو اور مکرم عبید اللہ علیم صاحب کو یہ نظم بھجوانے میں حکمت یہ تھی کہ آپ دونوں چونکہ اس کیفیت سے بخوبی آگاہ ہیں جو شعر ڈھلتے وقت دل کی ہوتی ہے اس لئے آپ کو میری آواز میں یہ نظم سن کر صحیح اندازہ ہو سکے گا کہ کس قلبی کیفیت نے اس نظم کا روپ دھارا.اس سے زیادہ کوئی مقصد نہیں تھا.ورنہ عبید اللہ صاحب علیم کو ترنم سے نظم پڑھ کر 330
سیلاب رحمت بھجوانا تو ایک خلاف حکمت بات تھی.ان کو تو خدا نے ایسی دلکش آواز اور ترنم کے زیر و بم پر اختیار عطا فرمایا ہے کہ ان کو تو یہ نظم ترنم کے نمونہ کے طور پر بھجوانا ایک مضحکہ خیز بات ہوتی.یہ نظم بعد میں کسی وقت گلے کی بہتر حالت کے وقت بہتر رنگ میں بھی ادا ہوسکتی تھی مگر مشکل یہ تھی کہ عزیزم قمر سلیمان کو دوسرے دن ربوہ واپس جانا تھا.اگر اُن کے جانے ہلے ٹیسٹس تیار نہ ہو جاتیں تو اسیرانِ راہِ مولا کو نہ بھجواسکتا.دراصل هد یہ ان کی امانت تھی.امید ہے ان تک پہنچ چکی ہوگی عزیزم عبید اللہ صاحب علیم کو بھی بات سمجھا دیں.ورنہ وہ بیچارے حیران بیٹھے رہیں گے کہ یہ مجھے کیا سوجھی ادب ، محبت اور اخلاص کا پتلا ہیں.طبعی رد عمل کو ذہن کے پردے پر الفاظ میں ڈھلتا دیکھ کر بھی گھبرائیں گے.لیکن اصل نیت معلوم ہو جائے تو سب اُلجھن ختم ہو جائے گی.پچھلے دنوں بعض مشاعروں کی کیسٹس سنے کا موقع ملا.ان کا کلام سنتے ہوئے بعض دفعہ قلم توڑنے کے محاورہ کی حقیقت سمجھ آجاتی ہے اور یہ بات کوئی شاعرانہ مبالغہ نہیں رہتی.میرے نزدیک تو اس دور کے آسمانِ شعر و ادب میں ان سے بلند پرواز کرنے والا اور کوئی شاعر دکھائی نہیں دیتا.بعض اُڑانوں نے تو ہفت آسمان سر پر اُٹھا رکھا ہے.کئی دفعہ سوچا اُن کو خط لکھنے کا مگر پھر اتنا لکھنا پڑے گا اور پھر بھی سیری نہ ہوگی تو کیا فائدہ.بہتر ہے آپ ہی کی 331
معرفت یہ دو حرفی پیغام بھیج کر کم از کم ان کا یہ مسئلہ تو حل کر دوں کہ اب تک خاموش کیوں ہوں.اسے جبر و اختیار کا مسئلہ ہی سمجھ لیں مگر بندے میں یہ طاقت کہاں کہ آغاز سے اُٹھائے اور انجام تک کے سب مراحل طے کر ڈالے “ مکرم احمد ندیم قاسمی صاحب کا ذکر 3-10-93 احمد ندیم قاسمی کی تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی.وہ فرضی باتیں کرتے ہیں.احمدیوں پر تو انہیں کبھی رحم نہیں آیا اور نہ کبھی انہوں نے جرات سے ان کی ہمدردی کی ہے.لیکن دعوے ان کے بنی نوع انسان کی ہمدردی کے ہیں.اللہ ہی ہے جو انہیں عقل دے.“ (2-5-2001) محترمہ آپا سلیمہ میر صاحبہ اور شعبہ تصنیف و اشاعت کی خادمات کا ذکر شعبہء اشاعت و تصنیف کا کام بہت ہی بابرکت ہے اس سے ہمیں دعاؤں کی بیش بہا دولت ملی.پیارے آقا ہمیں مالا مال کر دیتے : آپ اور آپ کی ساتھنیں بہت عمدہ خدمت بجالا رہی ہیں.ماشاء اللہ الم زد و بارک اللہ تعالیٰ آپ سب کو اجر عظیم عطا فرمائے.اور بیش از پیش خدمت کی توفیق دے.آپا سلیمہ میر صاحبہ کو خاص طور پر دعا میں یادرکھتا ہوں اور آپ سب کو بھی.اللہ تعالیٰ ان کو عمر میں برکت 332
دے.بچوں کے لئے کتب کا پروگرام بہت اچھا ہے.بڑا پسند آیا ہے اور دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی ہے.اللہ تعالیٰ ان مساعی کا اجر دے اور مثبت نتائج برآمد ہوں.سب لکھنے اور کام کرنے والیوں کو خاص طور پر میری طرف سے محبت بھر اسلام دیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.میں آپ اور آپ کی معاونات کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب پر اپنی پیار کی نظر رکھے اور ہمت و توفیق بڑھائے اور دین کے کاموں کی جو چاٹ لگ گئی ہے اس میں مزید جلا بخشے اور بیش از پیش خدمات کی توفیق عطا فرمائے اور کام کے نتائج حیرت انگیز طور پر خوش کن ہوں.عزیزہ برکت ناصر صاحبہ، رفیعہ محمد صاحبہ طیبہ بشیر صاحبہ اور امتہ الکریم صاحبہ اور جن کے نام آپ سے رہ گئے ہیں لیکن خلوص سے کام کرتی ہیں ان سب کو میری طرف سے شاباش اور محبت بھر اسلام اور ڈھیروں دعائیں خدا حامی و ناصر ہو.“ (1-7-99) محترمہ برکت ناصر صاحبہ کے نام خطوط میں خاکسار کا ذکر اور دعائیں عجیب پر لطف ماحول تھا.لجنہ کا دفتر ہو یا گھر لگتا تھا حضور ساتھ ساتھ ہیں.لجنہ کے کاموں میں ہماری حقیر خدمات بلکہ ہمارے آپس کے تعلق سے بھی واقف ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں.پہلا خط دست مبارک سے ہے.اس لئے بعینہ شامل کر رہی ہوں: 333
انا فتحنا لک فتحا مبينا الله ببند وانت ولقد تضركم الى نعم الله الي ال نحْمَدُه وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكريم امام مما تحت السورية 14.9.90 AHMADIYYA MUSUM USESTURE عزیزه نامره ملک السر پہیلیاں خیریت اسلام علیکم و بحمته الله وبركاته ہے.آپ اور شافی بر امور دوسری واپس پہنچ گئے ہو لئے.آپ عطر سے جیٹ کا تحفہ جو مجید ارگئی تھیں اس کے ساتھ ایک عطر سے کہیں زیادہ معطر شعر لکھے ہوئے تھے.آپکو تو عزیزہ امتہ البازی کی مدد کے بغیر شور ٹھیک سے پڑھتے بھی نہیں آتے آپ نے ایسے اچھے سادہ مگر بہت پر اتر شعر کہ لئے.جذبات تو صاف پہچانے جاتے ہیں کہ آپ ہیں.شہر مزید اشتر از باری نے آرڈر پر بنوائے ہونگے.بنانے اور بنوانے والے دونوں شکریہ کے لائق ہیں جزاکم اللہ احسن الجزاء سب دین کی خدمت کرنے والی ناتھنوں کو محبت بھرا سلام ان بچوں کو پیار اور اپنے اپنے میاؤں کو بھی بہت بہت محبت کرنے سلام - دکتر ناکار خراطالہ اللہ نے ا باری ثبت ر بیٹ کہنے دیا کا مجھے فارم بنایا ہے کہ شکر ادا کرتے کرتے مر بھی جاؤں تو شکر کا حق ارانہ ہو- 334
اُمید ہے آپ اور شافی اور دوسری سہیلیاں خیریت سے واپس پہنچ گئے ہوں گے.آپ عطر کا تحفہ جو چھوڑ گئی تھیں اس کے ساتھ ایک چٹ پر عطر سے کہیں زیادہ معطر شعر لکھے ہوئے تھے.آپ کو تو عزیزہ امتہ الباری کی مدد کے بغیر شعر ٹھیک سے پڑھنے بھی نہیں آتے ، آپ نے کیسے ایسے اچھے، سادہ مگر بہت پر اثر شعر کہہ لئے.جذبات تو صاف پہچانے جاتے ہیں کہ آپ کے ہیں.شعر ضر ور امتہ الباری سے آرڈر پر بنوائے ہوں گے.بنانے اور بنوانے والے دونوں شکریہ کے لائق ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اللہ نے اتنی پیاری محبت کرنے والی ہر آواز پر لبیک کہنے والی جماعت کا مجھے خادم بنایا ہے شکر ادا کرتے کرتے مر بھی جاؤں تو شکر کا حق ادا نہ ہو.سب دین کی خدمت کرنے والی ساتھنوں کو محبت بھرا سلام اور بچوں کو پیار اور اپنے اپنے میاؤں کو بھی بہت بہت محبت بھرے سلام “ (14-9-90) پیارے آقا نے ایک ہی خط میں ہم دونوں کی خوشی کے سامان کر دئے.مسز ناصر کے نام مکتوب میں تحریر فرمایا: آپ کا خط ملا ، فصاحت و بلاغت اور خیالات کی جو پاکیزگی اور اُڑان اس میں دکھائی دی اس سے پہلے تو میں سمجھا تھا کہ یہ باری کا خط ہو گا لیکن جب دیکھا تو آپ کا خط نکلا ماشاء اللہ.چشم بد دور باری جتنا اچھا 66 شعر کہ سکتی ہیں آپ اُن سے کم نثر نہیں لکھتیں.“ (23-3-94) 335
سیلاب رحمت برکت صاحبہ کے نام درج ذیل مکتوب میں بھی بے پایاں شفقت ہے: آپ دونوں ہی خدا کے فضل سے مسز ناصر بھی ہیں اور بہت سی باتوں میں ہم مزاج بھی ہیں اور ہم پیالہ بھی ہیں مگر شراب معرفت کی ہم پیالہ اور جب لجنہ کے دفتر جاتی ہیں تو پتیلی دال میں ہم نوالہ بھی ہو جاتی ہیں.آپ کو جو یہ پریشانی ہے کہ ایک دوسرے کا اشتباہ ہو جاتا ہے تو فرق یوں ہو سکتا ہے.کہ ایک اچھی نظمیں کہنے والی اور ایک اچھی نظمیں پڑھنے والی مسٹر ناصر ہیں.باقی آپ لوگوں کے کام سے بہت خوشی ہوتی ہے آپ دونوں ہی مسلسل محنت سے اپنے دائرے میں خوب خدمت کی توفیق پاری ہیں.الم ز دو بارک.نظمیں کہنے والی مسٹر ناصر کے بچوں کی شادی کی تصویر میں اور پاکیزہ گھریلو ماحول میں بے تکلفی سے کھینچی ہوئی تصویر دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی ہے.ماشاء اللہ خدا نے اس خاندان کو صرف باطنی صفات سے ہی نہیں نوازا.المهم زوو بارک نظمیں پڑھنے والی مسر ناصر کی اولاد کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ورثہ میں اچھی آواز دی ہے ماشاء اللہ چشم بد دور لیکن ان کے بچے تو غالباً اکثر ہی چھوٹے ہیں ان کے لئے میری یہی دعا ہے.بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہو شمشاد خدا کرے کہ بشارت کا یہ جھونکا آپ کے لئے بھی شمشاد تک جا پہنچے اور سب بچوں کی طرف سے آپ کو آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب 336
ہو.اپنے میاں اور عزیزوں کو اور ہم نواؤں ہم پیالوں اور اگر لجنہ خصوصیت سے پیش نظر ہو تو ہم پیالیوں اور ہم اداؤں کو محبت بھر اسلام اور پر خلوص دعا ئیں.اللہ آپ کے ساتھ ہو اور دونوں جہاں کی حسنات سے نوازے اور آپ سے ہمیشہ راضی رہے آمین.“ 23-12-94 جستہ جستہ.خطوط سے دلچسپ اور مفید اقتباسات ٹی وی ذرا دور رکھ لیں بات میں بات نکال کر ہلکے پھلکے انداز میں جواب دینے میں آپ کو ملکہ حاصل تھا.ایک دفعہ رباعی کہی تھی.میں کہنا چاہتی تھی کہ اللہ پاک جتنے بڑے بڑے احسان فرماتا ہے وہاں تک تو ہمارے تصور اور دعا کی بھی پہنچ نہیں ہوتی جیسے ہم ایک گھونٹ مانگیں وہ خم خانہ تھا دے.مگر میرے الفاظ کے چناؤ میں جھول تھا جو حضور نے پکڑ لیا.رباعی یوں تھی: روز اک گھنٹے ملاقات کا سوچا بھی نہ تھا یہ ہے جس خواب کی تعبیر وہ دیکھا بھی نہ تھا اب تو وہ چاند اتر آیا مرے کمرے میں قرب مانگا تھا مگر اتنا تو مانگا بھی نہ تھا آپ نے تحریر فرمایا: خط کے آخر پر آپ نے جور باعی لکھی ہے ماشاء اللہ بہت پیاری 337
سیلاب رحم -رحمت- ہے.آخری مصرع کا جواب آپ کے اپنے اختیار میں ہے.ٹی وی ذرا دور رکھ لیا کریں.بہر حال رباعی اچھی ہے.“ قیمت ادا کر نالازم ہوجاتا ہے 9-2-93 آپ نے تو بل نہیں بھیج لیکن میں چھپی ہوئی قیمتوں کا میزان لگوا کر بھجوا رہا ہوں.جب میں کوئی چیز خود کہہ کر منگوا ؤں تو قیمت ادا کرنالازم ہو جاتا ہے.امید ہے میری یہ روایت توڑنے پر اصرار نہیں کریں گی.کریں گی بھی تو رتی برابر فائدہ نہ ہوگا.پیسے تو سب وصول کرنے پڑیں گے آپ نے جس خلوص اور برق کی سی تیزی سے بھجوائی ہیں میرے لئے وہی تحفہ بہت ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے آمین.“ شگفتگی سے نصیحت 20-10-93 لجنہ سے خطابات شائع کروانے کا شکریہ.مجھے اس کا ایک نسخہ ملا تھا.وہ بھی اب نہیں مل رہا ، کہیں غائب ہو چکا ہے.نہ پرائیویٹ سیکریٹری صاحب کو نظر آ رہا ہے نہ مجھے.زیادہ نسخے بھجوانے چاہیے تھے.ویسے سنا ہے کہ آپ نے زیادہ بھیجے تھے لیکن لانے والے ویچ 66 وٹ کے کھا گئے.“ 338
مجھے بھی ضیاع سے تنافر ہے معلوم ہوتا ہے کہ آج کل لجنہ اماءاللہ نے بچت کی مہم شروع کر رکھی ہے.مجھے بھی ضیاع سے تنافر ہے حتی المقدور کاغذ کا ہر پرزہ بھی ضائع ہونے سے بچا سکوں تو بچاتا ہوں.پس آپ نے اپنے خط کے دوسری طرف لجنہ کی تصویر کا دوسرا رخ مرتسم کر دیا تو بہت اچھا کیا لیکن دونوں رخ ما شاء اللہ ہم مزاج اور ہم صورت ہیں.آپا سلیمہ صاحبہ کو میری طرف سے بہت محبت بھر اسلام دے دیں اگر اصل خط ان کا ہوتا اور آپ نے اس کے پیچھے لکھا ہوتا تو میں ان کے ذریعے آپ کو جواب 66 دیتا اب آپ کے ذریعے ان کو دے رہا ہوں.“ روبرو بیٹھا کر کوم کالو خلف الي الرابع (نوٹ) برا نہ منائیند رسمی جواب ایسے ہی ہوتے ہو دستخط کرتے وقت حسرت سے دیکھتا رہ جاتا ہوں کہ جن بے کاروں کو یہ جواب ملیں گے اُن کی پیاس لیے تجھے گی.وہ جو اتنے پیار سے اتنی مختبہ ہے.خط لکتے ہیں ایسے رسمی جواب اُن پر کتنا ظلم ہے.شکر میں کر آکھا نہیں سکتا.بس چلے تو ہر ایک کو اد برک بٹھا کر جواب لکھوں.339
دلداری سیلاب رحمت بُرا نہ منائیں.رسمی جواب ایسے ہی ہوتے ہیں.دستخط کرتے وقت حسرت سے دیکھتا رہ جاتا ہوں کہ جن بے چاروں کو یہ جواب ملیں گے ان کی پیاس کیسے بجھے گی.وہ جو اتنے پیار سے اتنی محنت سے خط لکھتے ہیں ایسے رسمی جواب ان پر کتنا ظلم ہے مگر میں کر کچھ نہیں سکتا.بس چلے تو ہر ایک کو روبرو بٹھا کر جواب لکھوں.“ آپ نے تحریر کیا ہے کہ اب میں کسی شعر پر بچگانہ تبصرہ نہیں کروں گی.آپ بچگانہ تبصرے بے شک کیا کریں.اچھا لگتا ہے.خلوص کے ساتھ کی ہوئی بچگانہ حرکتیں کیسے بُری لگ سکتی ہیں.مگر بچگانہ تبصروں پر اصرار نہ کیا کریں اور اگر نہ مانوں تو ناراض نہ ہو جایا کریں.“ باندھا ہے ترے نام کا اک باب علیحدہ آپ نے میری ساری ڈاک پڑھنے اور اس میں سے پیار بھرے جملے جمع کرنے کی خواہش کا اظہار بڑے شوق سے کیا ہے.عقیدت اور محبت کے پرخلوص جذبات پر مشتمل ایسے خطوط میں سے خود اپنے خطوں تک تو بہر حال آپ کی رسائی موجود ہے.اور وہی پورا باب بن جائیں گے.یہ ایک باب ہی بہت کافی ہے ورنہ مکمل کتاب کے لئے تو پھر بہت لمبے وقت اور محنت کی ضرورت ہوگی.بعض ایسے خط جن کا آپ نے ذکر کیا ہے میں الگ رکھتا ہوں لیکن اب تو ان کے بھی 340
سیلاب رحمت ڈھیر بن گئے ہیں.کسی وقت فائزہ کے سپر د کروں گا کہ ان کو سلیقہ سے الگ الگ کر کے فائل کر دیں.لیکن اگر میں پاکستان میں ہوتا تو آپ سے بھی یہ کام لیا جا سکتا تھا.93-5-6 حضرت خلیفہ امسح الرابع" کی ایک خواہش پوری ہونے کے سامان 26 ستمبر 1993ء کے الفضل میں خاکسار کا ایک مضمون شائع ہوا جو محترمہ حور جہاں بشری صاحبہ کی یاد میں لکھا تھا.اُس میں ایک واقعہ لکھا تھا کہ بشری نے ایک بے ماں کی بچی کا جہیز چھوٹی سے چھوٹی چیزوں کا خیال رکھ کر بنایا تھا.اُن دنوں اشاعت کا بہت کام تھا.میں نے اُسے کہا تم کیا گوٹے ٹکانے کے چکر میں پڑ گئی ہو ہمارے بہت کام ہیں.بشری نے جواب دیا: اس بچی کی ماں نہیں ہے مجھے خیال آیا کہ پتہ نہیں اپنی بچی طوبی کی شادی کے وقت میں ہوں گی یا نہیں، کوئی اور جہیز بنائے گا.“ ”اچھا اچھا بس کرو“ سے بات بس وہیں ختم ہوگئی لیکن چند ہفتوں کے بعد بشری اپنی ساڑھے نو سال کی بچی کو چھوڑ کر اپنے خالق و مالک کے حضور حاضر ہوگئی تو مجھے یہ بات یاد آئی.میں نے مضمون میں لکھ دی مضمون بہت لوگوں نے پڑھا ہو گا مگر اُس ہستی نے جو ہر ایک کے غم کو اپنے دل میں جگہ دے دیتی تھی، یہ مضمون پڑھ کر خاکسار کولکھا: عزیزہ حوری کے متعلق آپ کا جو مضمون 26 ستمبر کے الفضل میں شائع ہوا وہ یادرفتگاں کے باب میں ایک قیمتی مضمون ہے.یوں لگتا 341
سیلار رحمت ہے دل کے احساسات از خود فقروں میں ڈھلتے چلے گئے ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے.اس مضمون میں آپ نے عزیزہ حوری کی بیٹی طوبی کی شادی کے متعلق جس خواہش کا اظہار کیا ہے اللہ اُسے ان کی توقعات سے بڑھ کر زیادہ عمدگی کے ساتھ پورا فرمائے.جب اس کی شادی ہونے والی ہو تو مجھے بھی بتا دیں تا کہ میں بھی اس کی خوشیوں میں شامل ہوسکوں.اللہ اپنے فضل سے اسے ہمیشہ خوش و خرم رکھے.باقی مضمون بہت عمدہ ہے.اللہ جزا دے 16-11-93 1993ء کی یہ بات 2005 ء میں مجھے بہت یاد آئی جب معلوم ہوا کہ عزیزہ طوبی کی شادی ہونے والی ہے.اللہ تبارک تعالیٰ نے میرے دل میں یہ خواہش پیدا کی کہ حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو طوبی کے لئے دعا کے لئے لکھ دوں.خط میں حضرت خلیفہ اسیح الرابع” کے خط کا حوالہ دیا تھا اور دعا کے لئے لکھا تھا.چند دن بعد حضور انور کا سپین سے پیغام ملا جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ اُن کی طرف سے بچی کو خود جا کر شادی کا تحفہ پیش کروں.یہ تحفہ ایک خطیر رقم تھی جو میں نے جا کر حضور کی طرف سے خوش نصیب بچی کو پیش کی.اس موقع پر بشری داؤد بہت یاد آئی اور اس طرح حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحم الله کے جذ بہ صادق کی قدر آئی جسے مولا کریم نے اس طرح نوازا کہ خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دل میں اُن کے احساس کو منتقل کیا اور آپ نے فراخ دلی سے جانے 342
سیلاب رحمت والے خلیفہ کے دل کی خواہش پوری کی.یہ بھی عرض کر دوں کہ میں نے خط کا صرف حوالہ دیا تھا.اصل تحریر نہیں بھیجی تھی پھر بھی آپ نے اُن کے نیک جذبے کی قدر فرمائی جس سے میں بہت متاثر ہوئی اور خوشی بھی بہت ہوئی کہ دونوں جانے والوں کی رُوحوں کو سکون نصیب ہوگا.میرا پیار اُن کی خاطر دعا بن گیا حضرت خلیفہ امسیح الرابع ” کے خطوط سے دعائیہ جملے میری سب سے قیمتی دولت ہیں.دنیاو آخرت میں میری ڈھال ہیں.اللہ تعالیٰ سے عرض گزار ہوں کہ میں تو گنہگار ہوں پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں.اللہ کرے اسی صدقے بخشش نصیب ہو.آمین.اللھم آمین.343
البام کلام اس کا حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالیٰ کی بلند پایہ شاعری اور پر شوکت مضامین کپی کلام طاہر کی نظر ثانی کے دوران حضور کے ارشادات اور رہنمائی دنیا کے چوٹی کے شعراء نے کیفیات کے اعلیٰ تقاضوں پر زبان دانی کی قیود کو قربان کیا آج جو شاہ کار آپ کی خدمت میں پیش کر رہی ہوں وہ کچھ ٹکڑوں کو جوڑ کر بنا ہے.ہر ٹکڑ اسیدی و آقائی حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کی تخلیق ہے.میں نے صرف انہیں ترتیب دے کر فریم کیا ہے.یہ میرے پاس ایک امانت تھی جو اس کے حقداروں یعنی ساری جماعت کو ادا کر رہی ہوں.344
رحمت پس منظر یہ ہے کہ 1991ء میں کلام طاہر دیکھ کر خیال آیا کہ طباعت شایانِ شان نہیں ہے.چھوٹی سی پتلی سی کتاب کتابت کی غلطیاں نظمیں نامکمل، سرورق پر دھندلی تصویر.یہ کتاب تو اس سے بہت بہتر طریق پر شائع ہونی چاہئے.کیوں نہ لجنہ کراچی یہ کام کرلے.اپنی رفیقہ کار مسز برکت ناصر سے مشورہ کیا تو وہ اچھل پڑیں.ہم نے دعا کی اور حضور پر نور سے اجازت حاصل کرنے کیلئے خط لکھ دیا.22 مارچ 1992ء کو حضور کا تحریر کردہ مکتوب موصول ہوا: " آپ نے جو کلام طاہر کے متعلق لکھا ہے اس پر آپ کا شکریہ.اس میں کئی جگہیں ایسی ہیں جن میں ابھی تک پوری تسلی نہیں.شاید کسی وقت اصلاح کا موقع مل جائے.لیکن آپ کے نزدیک کوئی غلطی رہ گئی ہے تو اس کی طرف بھی متوجہ کریں اس کو بھی ٹھیک کر لیں گے.اور پھر انشاء اللہ چھپوانے کی اجازت بھی دی جاسکتی ہے.کچھ پرانی نظموں میں سے بھی ایک آدھ شامل کی جاسکتی ہے.“ خاکسار نے سرخوشی میں چند کتابت کی غلطیاں لکھیں اور کچھ اشعار پر نظر ثانی کی درخواست کی.مقصد صرف یہ تھا کہ بات آگے بڑھے اور حضور اپنے کلام پر نظر ثانی کا کام شروع فرماویں.حضور پر نور کا پذیرائی کا مکتوب ملا : " آپ کا خط ملا.نثر میں ایسے لطیف اور اعلیٰ پائے کے شعر بہت کم پڑھنے میں آتے ہیں جیسے آپ کا یہ خط ہے.بعض چھوٹے چھوٹے لطیف اشاروں کے ساتھ بعض مضامین پر ایسے عمدہ تبصرے آپ نے کئے ہیں جیسے کسی خوبصورت سیر گاہ میں جاتے ہوئے انسان کبھی دائیں 345
سیلاب رحمت کبھی بائیں قابل دید مقامات کی طرف اشارہ کرتا ہے.ماشاء اللہ آپ کو یہ خوب فن عطا ہوا ہے.اللہ آپ کی ذہنی، قلبی صلاحیتوں کو اور بھی چمکائے اور روشن تر فرمائے.خلاصہ آخری بات کا یہی ہے کہ اگر آپ متوجہ نہ کراتیں تو شاید اپنے کلام پر نظر ثانی کی توفیق ہی نہ ملتی اور ملتی بھی تو بہت محنت کرنی پڑتی.آپ نے تو ایک ایک جگہ جہاں ضرورت تھی کہ توجہ کی جائے ہاتھ لگا لگا کر دکھا دی.امید ہے جب باقی مسودہ آئے گا تو پھر باقی کام بھی انشاء اللہ اسی طرح آسان ہو جائے گا.اب تو اس کی شدت سے انتظار ہے.ابھی تک تو آپ نے بھیجاہی نہیں حالانکہ اب تک دیر کرنے کا دوش مجھ پر رہا...امید ہے جب آپ کلام شائع کرائیں گی تو وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مستند ہوگا اور وہ لوگ جو اپنی طرف سے نئے نئے نمونے شائع کراتے رہتے ہیں وہ سلسلہ اب ختم ہو جائے گا.اللہ آپ کے ساتھ ہو.(مکتوب 28 فروری 1993ء) شوکت مضمون اور کیفیات کی لطافت کی چند مثالیں جو مشورے حضور پر نور کو بھجوائے تھے ان میں محترم محمد سلیم صاحب شاہجہانپوری کی آراء بھی شامل تھیں.حضور نے ہمیں فن شعر اور فن اصلاح، خاص طور پر اشعار میں مضامین کے بیان کی اہمیت سمجھائی.یہ اس لائق ہے کہ اعلیٰ پائے کی تنقیدی کتب میں جگہ پائے.آپ نے تحریر فرمایا: 346
وو سیلاب رحمت "..شعر کی دنیا اس سے زیادہ وسیع ہے کہ زبان درست ہو اور غلطیوں سے پاک ہو اور محاورہ ٹکسالی کا ہو.اوز ان کے لحاظ سے اور لفظوں کے استعمال کے لحاظ سے کلام نوک زبان پر بھاری نہ ہو.بعض اوقات صحت زبان اور صحت محاورہ کے تقاضے جذبات کی شدت کے اظہار اور اظہار حق سے متصادم ہو جاتے ہیں یعنی اظہار حق جس زبان میں ممکن ہو اس سے بہتر مرصع زبان میں مگر حق سے کچھ ہٹ کر ایک بات کی جاسکتی ہے.بعض دفعہ ممکن نہیں رہتا کہ بیک وقت کوئی اپنے متموج جذبات اور سچائی اور گہرے درد کے تقاضے پورے کرتے ہوئے زبان کی صحت اور قاعدے قانون کی پابندی کا بھی حق ادا کر سکے.ایسی صورت میں کبھی کبھی کچھ نہ کچھ مروج قاعدوں کو توڑ نا بھی پڑتا ہے اور استثناء کی نئی کھڑکیاں کھولی جاتی ہیں.دنیا کے تمام چوٹی کے شعراء نے کیفیات کے اعلیٰ تقاضوں پر بارہا زبان دانی کی قیود کو قربان کیا ہے.شیکسپیئر میں بھی یہ بات ملتی ہے اور غالب میں بھی.اور دیگر شعراء میں بھی اپنے اپنے مرتبہ اور اسلوب کے اعتبار سے کچھ نہ کچھ ایسی مثالیں دکھائی دیتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اردو اور عربی کلام میں بھی یہی بالا اصول کارفرما ہے کہ شوکت مضمون اور کیفیات کی لطافت پر زبان دانی کے نسبتاً ادنی تقاضوں کو قربان کیا جائے...( مكتوب 16 جنوری 1993 ء صفحہ 1) 347
آئین سخن اور آئین حق اس ٹھوس تحریر کے ساتھ اسی مکتوب سے ایک ہلکا پھلکا ٹکڑا بھی پیش کرتی ہوں.انداز لطیف لیکن سبق بہت ثقیل.تحریر فرماتے ہیں: مکرم محترم سلیم صاحب شاہجہانپوری نے خوب لکھا ہے کہ آئین سخن میں اصلاح تجویز کرنا گستاخی شمار نہیں ہوتا.یہ بالکل درست ہے.اسی سے حوصلہ پاکر میں ان کی خدمت میں یہ بھی گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آئین سخن میں اصلاح قبول نہ کرنا بھی غالباً گستاخی شمار نہیں ہوگا.خصوصاً جبکہ پاس ادب رکھتے ہوئے احترام اور معذرت کے ساتھ ایسا کیا جائے.دوسری بات یہ ہے کہ آئین سخن ہی کی بات نہیں ، آئین حق یعنی سچائی کے آئین میں بھی تو ازل سے یہی دستور چلا آرہا ہے کہ صحیح گستاخی شمار نہیں ہوتی.نماز باجماعت میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی سبق ہمیں دیا ہے.سبحان اللہ! کیا پاکیزہ طریق اصلاح کا سکھایا.سبحان صرف اللہ ہی کی ذات ہے.(مکتوب 16 جنوری 1993، صفحہ 2) فلسفه اصلاح 66 اصلاح کے مشورے اور اصلاح قبول کرنے کے اختیار کے ساتھ آپ نے فلسفہ اصلاح بھی سمجھایا.فرماتے ہیں : رہا فلسفہ اصلاح تو میرے نزدیک ہر قادر الکلام استاد کا یہ حق تو 348
سیلاب رحمت ہے کہ کسی دوسرے کے شعر کی اصلاح کرے لیکن اصلاح کا حق صرف اتنا ہی ہے کہ اس مضمون کو تبدیل کئے بغیر جو شاعر بیان کرنا چاہتا ہے بہتر الفاظ میں ( زبان کے سقم کو دور کر کے ) بیان کرنے میں اس کی مدد کرے یا اگر طرز بیان بے جان ہے تو الفاظ کے تغیر و تبدل سے اسی مضمون میں جان ڈال دے مگر نیا مضمون داخل کرنے کو میں اصلاح نہیں سمجھتا.نہ ہی زبان کی اصلاح کرتے کرتے مضمون کا حلیہ بگاڑ دینا میرے نزدیک اصلاح میں داخل ہے.“ ( مكتوب 16 جنوری 1993 صفحہ 3) خاکسار تسلیم کرتی ہے کہ اپنی کم فہمی کی وجہ سے ذوق سلیم کی بلندیوں پر متمکن پیارے حضور کی کوفت کا سامان کیا.مگر یہ تو دیکھئے کہ اس معدن علم پر ہلکی سی دستک سے کیا کیا خزائن اہل پڑے.کیسے کیسے ٹھنڈے میٹھے پانیوں کے چشمے جاری ہو گئے.ایک کوہ وقار کے نہاں خانہ دل کی کچھ کھڑکیاں کھل گئیں.پس میری کوتاہیوں سے صرف نظر کر کے اس سدا بہار گلستان کی سیر کیجئے.فرماتے ہیں: وو...جو کام سالہا سال سے کرنے کو پڑا تھا مگر نہ وقت ملتا تھا نہ دماغ میسر آتا تھا وہ آپ نے آسان کر دیا.نشان لگا کر بھیج دئے اور پیچھے پڑ کر مجبور کر دیا کہ اب اس کام کو نہ ٹالو.حسن اتفاق سے مسودہ ملنے کا وقت بھی نہایت موزوں ثابت ہوا.چنانچہ کینیڈا سے واپسی پر ہالینڈ میں قیام کے دوران کچھ فرصت میسر آگئی اور اللہ کے فضل سے دو دن کے اندر ہی ان مقامات کی تصحیح کی توفیق مل گئی جن کے متعلق دیرینہ خلش 349
سیلاب رحمت تو تھی مگر وقت کے ہاتھوں مجبور تھا.یہی روک تھی کہ کبھی کسی کو کلام شائع کرنے کی اجازت نہیں دی اور جنہوں نے بلا اجازت شائع کیا انہوں نے نہ صرف اس حصے کو اسی طرح غلط شائع کر دیا جس پر میں نظر ثانی کرنا چاہتا تھا بلکہ سہو کتابت کے وجہ سے سوء فہم کی بنا پر کلام میں مزید بہت سے سقم پیدا کر دئے.مثلاً اضافت کے غلط استعمال ، الفاظ کی بے جا تکرار وغیرہ جس نے مضمون بھی بگاڑا اور وزن بھی توڑا.علاوہ ازیں بعض الفاظ کا ٹچھٹ جانا وغیرہ وغیرہ.اب ان سب جگہوں پر میں نے درستی کر دی ہے مگر یہ غلطیاں نہیں تھیں بلکہ کتابت یا ناشر کے فہم کا قصور تھا.لیکن اس قبیل کے قابل اصلاح شعروں کے علاوہ بھی متعدد ایسے اشعار تھے جو کئی طرح کے سقم رکھتے تھے جن کیلئے دماغ اور وقت کا میسر آنا ایک مسئلہ بنا ہوا تھا.مدت سے ذہن یہی بات سوچتا اور ٹالتا رہا کہ کسی وقت تسلی سے ٹھیک کر کے زبان کے تقاضے قربان کئے بغیر مضمون کا حق ادا کرنے کی کوشش کروں گا.اور اگر آپ اس طرح مستقل مزاجی اور صبر کے ساتھ مجھے بار بار تنگ نہ کرتیں تو شاید یہ کام کبھی بھی نہ ہوتا.(مکتوب 16 جنوری 1993 ، صفحہ 3) لفظوں کے حکیمانہ انتخاب میں جانکاہی کی چند مثالیں پیارے حضور نے نظموں کی اصلاح کرتے ہوئے جو حکمتیں سمجھائی ہیں وہ علوم کا ایک خزانہ ہیں.جن کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کسی چیز کو سرسری نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ 350
سیلاب رحمت حرف حرف اور لفظ لفظ کے مزاج کی تہ میں اُترتے ہوئے مناسب جگہ پر استعمال فرماتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک مربوط فکری پس منظر ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں: ” آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ میں جو شعر کہتا ہوں وہ صرف اکیلا ہی نہیں بلکہ بعض دفعہ اس کی دس دس اور پندرہ پندرہ متبادل صورتیں ذہن میں آئی ہوتی ہی اور پھر ان میں سے ایک کو کسی وجہ سے چنتا ہوں.تو اب میں آپ کو اپنے ساتھ وہ سارا سفر کس طرح کرواؤں کہ کیوں بالآخر متعدد امکانی صورتوں میں سے ایک کو اختیار کیا.مکتوب محررہ22اکتوبر 1993ءصفحہ 13 ) اب حضور پر نور کے مکاتیب سے لفظوں کے چناؤ میں جانکا ہی کی کچھ مثالیں پیش کرتی ہوں: نظم نمبر 1 ”تاریکی پر تاریکی اندھیروں پر اندھیرے“ تحریر فرمایا: آپ کا خط ملا.اندھیروں پر اندھیرے کے متعلق آپ نے لکھا ہے کہ اسے ان دھیرا پڑھنا پڑتا ہے.اس سے میں آپ کا جو مطلب سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ نون غنہ غائب سا پڑھا جائے جو وزن میں اضافہ نہ کر سکے.آپ کے نزدیک اگر نون غنہ پڑھا جائے تو سویروں پر سویرے کی طرز اور وزن پر اندھیروں پر اندھیرے 351
سیلاب رحمت پڑھا جائے گا.ورنہ ان اور دھیرا دو حصے پڑھنے پڑیں گے.آپ کی دلیل بڑی واضح ہے اور خلاصہ اس کا یہی نکلتا ہے کہ نون غنہ اس طرح ادا ہو کہ گو یا زائد لفظ موجود ہی نہیں.اس طرح ادھیرے اور اندھیرے کا ایک ہی وزن ہوگا.اسی اصول کو مندرجہ ذیل مثالوں پر بھی چسپاں کر کے دکھا ئیں.انگاروں پر انگارے اس میں آپ ان گارہ پڑھیں گی یا نون غنہ کے ساتھ ان گارہ کر کے پڑھیں گی.اور اگر نون غنہ پڑھیں گی تو کیا نون کا لعدم سمجھا جائے گا اور اگارے اور انگارے کو ایک ہی وزن پر پڑھا جائے گا؟ صاف ظاہر ہے کہ جب نون غنہ آئے تو بعض دفعہ بہت خفیف پڑھا جاتا ہے اور بعض دفعہ وہ بعد والے حرف میں مدغم ہوکر اس میں ایک قسم کی تشدید ( شد ) پیدا کر دیتا ہے.پس باوجود اس کے کہ انگارے کو ان گارے نہیں پڑھتے.پھر بھی نون کے گاف میں ادغام کی وجہ سے گاف میں ایک قسم کی تشدید آجاتی ہے لیکن واضح تشدید نہیں ہوتی.پس اس کو اپنے ذہن میں دہرائیں تو میری بات سمجھ میں آجائے گی کہ انگارے اور اگارے دونوں کا ایک ہی وزن نہیں جبکہ آپ کے بتائے ہوئے طریق سے دونوں کا ایک ہی وزن بنتا ہے جو سویرے کے وزن پر ہے.اسی طرح انگیخت لفظ ہے پھر انبار سے انجام ہے نیز انگشت ہے.اسے ان گشت نہیں پڑھا جاتا.اور نہ ہی ان گشت پڑھا جاتا ہے اسے 352
سیلاب رحمت انگشت پڑھا جاتا ہے.میں آپ کو مصرع بتاتا ہوں : انگشت نمائی سے کچھ بات نہیں بنتی اس کو چاہئے ان گشت، پڑھیں یا انگشت، وزن پر کوئی فرق نہیں پڑتا.اسی طرح دندان ہے اس کو نہ دن دان اور نہ دں داں پڑھا جاتا ہے.آپ کے اصرار نے مجھے انگشت بدنداں کر دیا ہے کہ آپ اندھیروں پر اندھیرے کو سویروں پر سویرے کے وزن پر پڑھنا چاہتی ہیں جب کہ میں اسے قندیلوں پر قندیلیں اور زنجیروں پر زنجیریں کے وزن پر پڑھتا ہوں نہ ”زن جیریں بعد میں آپ نے اس مصرع کو تبدیل فرما دیا: تحریر فرمایا: تاریکی پہ تاریکی گمراہی پر گمراہی آیا وہ غنی جس کو جو اپنی دعا پہنچی ( مکتوب 5 دسمبر 1993ء ) چوتھے بند کے پہلے شعر آیا وہ فنی جس کو جو اپنی دعا پہنچی میں آپ نے 'جو' کو جب سے بدل دیا ہے.سمجھ نہیں آئی کہ کیوں جب سے بدلا گیا ہے اصل میں جو اور جب میں ایک بہت لطیف فرق ہے جس کو وہی جان سکتا ہے جس نے جانکاہی سے معنوں کی تہ میں اتر کر الفاظ کا چناؤ کیا ہو....جب اپنی دُعا پہنچی کا تو مطلب یہ ہے کہ بس ہماری دعا کی دیر تھی جیسے ہی پہنچی لگ گئی.حالانکہ کلمہ طیبہ کیلئے یرفع العمل الصالح بھی 353
ہونا چاہئے.یہ تو نہیں کہ جس کسی نے درود شریف پڑھا وہ آنحضرت سائی تم کو جا پہنچا.خاص کیفیات میں اُٹھتی ہوئی دعا ہی ہے جو رفعتوں کو پاتی ہے اور وہی ہے جو مقدر سنوارا کرتی ہے.اس لئے جو ہی رہنے دیں.وہی دعا بخت سنوار سکتی ہے جو اس تک پہنچنے کی سعادت پا جائے.جو میں جو 66 انکسار ہے اس کا لطف 'جب میں نہیں.“ ،، ( مکتوب 16 جنوری 1993 ء صفحہ 6) نظم ظہور خیرالانبیاء سے خاکسار کو بے حد پیار تھا.نظم حضور کی ہے اضافے بھی آپ نے خود فرمائے لیکن بہت دور کھڑی میں اس بات سے لطف لیتی رہتی ہوں کہ ہو سکتا ہے اس تبدیلی میں خاکسار کی تحریک کا کوئی دخل ہو.جب یہ نظم جلسہ سالانہ جرمنی 1993ء میں پڑھی گئی تو میں نے فون پرسنی اور نوٹ کی.آپ نے درج ذیل اشعار کا اضافہ فرمایا تھا.مکتوب میں تحریر ہے: کہیں کہیں مضمون کو مزید اجاگر کرنے کیلئے بعض اشعار کا اضافہ بھی کرنا پڑا ہے مثلاً ظہور خیر الانبیاء کے آخری بند کو تبدیل کرنے کے علاوہ ایک بند بڑھا بھی دیا ہے.اب اس کی شکل یوں بن جائے گی : دل اس کی محبت میں ہر لحظہ تھا رام اس کا اخلاص میں کامل تھا وہ عاشق تام اس کا مرزائے غلام احمد تھی جو بھی متاع جاں کر بیٹھا نثار اس پر ہو بیٹھا تمام اس کا 354
اس دور کا یہ ساقی گھر سے تو نہ کچھ لایا مئے خانہ اسی کا تھائے اس کی تھی جام اُس کا سازندہ تھا یہ اُس کے سب ساتھی تھے میت اس کے دھن اس کی تھی گیت اس کے لب اس کے پیام اس کا اک میں بھی تو ہوں یارب، صید تہ دام اس کا دل گا تا ہے گن اس کے لب جیتے ہیں نام اس کا آنکھوں کو بھی دکھلا دے، آنا لب بام اس کا کانوں میں بھی رس گھولے، ہر گام خرام اس کا خیرات ہو مجھ کو بھی، اک جلوہ عام اس کا پھر یوں ہو کہ ہو دل پر، الہام کلام اس کا اس بام سے نور اترے نغمات میں ڈھل ڈھل کر نغموں سے اُٹھے خوشبو، ہو جائے سرود عنبر لذي ( مكتوب 16 جنوری 1993 صفحہ 4-5) شاعری جز ویست از پیغمبری اس سے زیادہ کہیں اور صادق نہیں آتا.کچھ ترامیم و اضافے کے بعد اس نظم کا حسن دوبالا ہو گیا.میں نے نظم سن کر اپنے تاثرات لکھے.میں نے تو کیا لکھا ہوگا ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں مگر آپ کا جواب آپ کے حسن واحسان کا مرقع ہے: ” آپ کی طرف سے لجنہ امریکہ سے خطاب کا اردو ترجمہ اور میرے کلام کا کتابت شدہ مسودہ موصول ہوا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.355
سیلار اپنے خط میں آپ نے نعت ظہور خیر الانبیاء صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم“ کے حوالے سے جو تبصرہ کیا ہے اس میں دو باتیں قابل غور ہیں : ایک تو یہ کہ ماشاء اللہ بہت ہی خوبصورت زبان میں تبصرہ کیا ہے اور جن جذبات کا اظہار کیا ہے وہ بھی بہت لطیف ہیں.اور یہ بھی بالکل درست ہے کہ اس نظم پر محض آپ کی یاد ہی نہیں آئی بلکہ جذبہ احسان کے ساتھ یاد آتی رہی کیونکہ اس کے بہت سے شعر ایسے تھے جن کے متعلق مجھے خیال تھا کہ اصلاح کے محتاج ہیں لیکن وقت نہیں ملتا تھا.آپ نے درست طور پر ان کی نشان دہی کی اور اصلاح کروا کے چھوڑی ورنہ میں کئی سال سے اسے ٹال رہا تھا.اس لئے یہ نعت اور اس کے علاوہ کئی اور نظموں پر آپ کی توجہ کے نتیجہ میں جو وقت نکالا ہے یہ مواقع ہمیشہ جذبہ احسان کے ساتھ آپ کی یاد دلاتے ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء فی الدنيا والآخرة - ( مکتوب 22 اکتوبر 1993 ء ) اعظم نمبر 2 نظم ”اے شاہ مکی و مدنی سید الوری “ کے ایک مصرع اے میرے والے مصطفی اے میرے مجتبی کے متعلق پیارے آقا نے خاکسار کو اچھی طرح سمجھانے کیلئے وضاحت سے دلائل اور علمی وزن کے ساتھ ایک اچھوتا نقطہ بیان فرمایا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں: 356
وو ب رحمت " آپ نے میرے والے مصطفیٰ ، میں لفظ والے کو سقم سمجھتے ہوئے تو ہی تو مصطفی ہے مرا تجویز کیا ہے.یہ دو وجوہات سے مجھے قبول نہیں.ایک یہ کہ اس نظم کی شانِ نزول تو ایک رویا میں ہے.جس میں ایک شخص کو دیکھا جو بڑی پر درد آواز میں حضرت اقدس محمد مصطفی سالی ایتم کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود کا کوئی کلام پڑھ رہا ہے.ان شعروں کا عمومی مضمون تو مجھے یا د رہا مگر الفاظ یاد نہیں رہے.البتہ ایک مصرع جو غیر معمولی طور پر دل پر اثر کرنے والا تھا وہ ان الفاظ پر مشتمل تھا : اے میرے والے مصطفی ، خواب میں اس کا جو مفہوم سمجھ میں آیا وہ یہ تھا کہ لفظ والے نے بجائے اس کے کہ سقم پیدا کیا ہو اس میں غیر معمولی اپنائیت بھر دی اور قرآن کریم کی بعض آیات کی بھی تشریح کر دی جن کی طرف پہلے میری توجہ نہیں تھی.عموماً یہ تاثر ہے کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی مصطفیٰ ہیں حالانکہ قرآن کریم میں حضرت آدم ، حضرت نوح ، حضرت ابراہیم اور آل ابراہیم (احق “ ، یعقوب ، اسماعیل ) حضرت موسی اور حضرت مریم حتی کہ بنی آدم کیلئے بھی لفظ اصطفی استعمال ہوا ہے.تو مصطفیٰ ایک نہیں، کئی ہیں.پس اگر یہ کہنا ہو کہ باقی بھی مصطفیٰ ہونگے مگر میرے والا مصطفیٰ یہ ہے تو اس کا اظہار ان الفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ میں ممکن نہیں.یہ بات ایسی ہی ہوگی جیسے کوئی بچہ ضد کرے کہ مجھے 357
ب رحمت میرے والی چیز دو.میرے والی کہنے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ مجھے محض یہ چیز نہیں چاہئے بلکہ وہی چیز چاہئے جو میری تھی.اس طرز بیان میں اظہار عشق بھی محض میرے مصطفیٰ ، کہنے کے مقابل پر بہت زیادہ زور مارتا ہے.پس رویا میں ہی میں یہ نہیں سمجھ رہا کہ اس میں کوئی نقص ہے بلکہ اس ظاہری نقص میں مجھے فصاحت و بلاغت کی جولانی دکھائی دی اور مضمون میں مقابلہ بہت زیادہ گہرائی نظر آنے لگی.علاوہ ازیں چونکہ یہ طرز بیان محض ریڑھی والوں کی نہیں ہوا کرتی جو ایک عامیانہ طرز ہے بلکہ بچوں کی سی ادا بھی ہوا کرتی ہے.جس میں معصومانہ پیار اور اپنائیت جوش مارتے ہیں.پس اس پہلو سے میں نے نہ صرف خواب میں ظاہر کردہ الفاظ کے ساتھ وفا کی بلکہ اسے ہر دوسری طرز بیان سے بہتر بھی پایا.ہاں ”اے میرے والے مجتبی اے میرے مصطفیٰ کے بعد پور اسجتا نہیں.ویسے بھی مصطفی، مجتبی ، مرتضیٰ وغیرہ خدا کی طرف منسوب ہوتے ہیں اس کی جگہ میں سوچ رہا ہوں کہ یہ کر دوں.اے میرے والے مصطفی "اے میرے راہنما یا پھر ”اے میرے والے مصطفیٰ " میں ہو چکا تر “ بھی کر سکتے ہیں.لیکن اس شعر کے دوسرے مصرع میں جو الفاظ ہیں رویا میں قریباً یہی الفاظ تھے جیسا کہ مجھے یاد پڑتا ہے مگر سو فیصد یقین سے نہیں کہہ سکتا.اس میں لفظ ” تیری شامل ہوتا تو لفظ اُمت کی وضاحت تو ضرور ہو جاتی کہ کس کی امت مراد ہے.مگر ایسی امت کو جو رسول اللہ کی طرف 358
سیلار منسوب کرنا جو مہدی کو بادی نہ سمجھے پسندیدہ بات نہیں ہے چنانچہ رسول کریم سال لیا کہ تم نے بھی علماء ھم کہہ کر ان علماء کو ان لوگوں کی طرف منسوب کر دیا جن کا ذکر سیاتی على الناس زمان کی حدیث میں مذکور ہے.اور ان کیلئے علماء امتى كانبيا بنى اسرائیل نہیں فرمایا.ہاں جہاں ربانی علماء کا ذکر فرمایا وہاں یہ فرمایا کہ علماء امتى كانبيا بني اسرائیل.پس اگر چہ محض امت کا لفظ کچھ خلا کا سا احساس پیدا کرتا ہے مگر اسے تیری اُمت کی بجائے کسی اور رنگ میں بدلا جا سکے تو بہتر ہوگا.مثلاً اس طرح کہ اہل دنیا یا علماء سوء ہمیں جدا جدا نہ سمجھتے.مگر یہ اظہار اس چھوٹے سے مصرع میں سما نا مشکل ہے.بہر حال خواب میں جو کیفیات تھیں میں ان کے ساتھ وفاداری کرنا چاہتا ہوں.ان میں درد کا مضمون تھا، بحث کا نہیں.آپ نے جو یہ تجویز دی اُمت تری سمجھتی نہیں کیوں یہ ماجرا‘ اس کیوں میں تو بحث کا رنگ ہے جبکہ جدا جدا میں اظہار درد اور بیکسی ہے.ایک متبادل یہ بھی زیر غور لا یا جاسکتا ہے بلکہ یہی اختیار کر لیں.اے میرے والے مصطفیٰ اے سید الوری اے کاش ہمیں سمجھتے نہ ظالم جدا جدا اسی نظم کے ایک اور مصرع پر بھی نظر ثانی ہوئی: اُڑتے ہوئے بڑھوں، تیری جانب سوئے حرم“ اس مصرع میں آپ نے اُڑتا ہوا تجویز کیا ہے.آپ کی یہ 359
زیادہ تجویز مجھے قبول تو ہے لیکن میں نے اگر چہ اردو گرائمر زیادہ نہیں پڑھی.پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ اُڑتے ہوئے بھی ٹھیک ہے.خصوصیت سے یہ تخاطب کے وقت استعمال ہوتا ہے.غائب میں اُڑتا ہوا پڑھتے ہیں لیکن مخاطب میں اُڑتے ہوئے، پڑھنا جائز ہے.اس لئے میں تو اسے اُڑتے ہوئے پڑھوں تو مجھے زیادہ اچھا لگتا ہے.مگر آپ کی یہ تجویز مان لیتا ہوں کیونکہ میرے مضمون پر اس کا اثر نہیں پڑے گا.(مکتوب 16-1-93 صفحہ 12 ) نظم نمبر -3 حضرت سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم پیارے حضور نے ایک شفیق ماں کی طرح جو اپنے کم فہم نادان بچے کو قریب تر کر کے تفصیل سے آسان الفاظ میں سمجھاتی ہے اس نظم میں ایک ایک تبدیلی کی حکمت سمجھائی: وو 66 نبیوں کا سرتاج ابنائے آدم کا معراج محمد “ مجھے ڈر تھا کہ آپ دونوں ” کا معراج کو کی میں بدل دیں گے کیونکہ مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب نے اپنے کلام میں معراج کو کئی یعنی تانیثی نسبت سے باندھا ہے اور اردو کتب لغات بھی اسے تانیث میں ہی پیش کرتی ہیں.مگر ہم نے قادیان میں ہمیشہ اس کو مذکر ہی سنا اور ذہنی طور پر معراج کو تانیث کے ساتھ استعمال کرنے پر دل آمادہ نہیں ہوتا.اس لئے میں نے عمداً یا یوں سمجھ لیں کہ ضد کر کے اس غلطی پر اصرار 360
سیلاب رحمت کیا ہے.نبیوں کا سرتاج...کہنے کے بعد اگر یہ کہا جائے کہ ابنائے آدم کی معراج تو گھٹیا سی ترکیب نظر آتی ہے جو معراج کی شان کے خلاف ہے.پس مجھے تو آنحضرت صلی ہی تم ہمیشہ ہی سے ابنائے آدم کا معراج دکھائی دیتے ہیں نہ کہ ابنائے آدم کی معراج.پس بعض ایسے مقامات بھی ہوتے ہیں کہ جہاں شاعر اپنا حق سمجھتا ہے کہ چاہے دنیا اس کے کسی استعمال کو غلط قرار دے وہ اپنی مرضی سے عمداً کسی خاص مقصد کے پیش نظرا اپنی غلطی پر مصر ہو.“ ( مكتوب 16 جنوری 1993 ء صفحہ 16-17 ) اس نظم میں بھی حضور نے نظر ثانی کے دوران کچھ تبدیلیاں فرما ئیں اور ہر جگہ بات کو خوب کھول کر بیان فرما یا مثلاً.آپ نے ایک مصرع مٹ گئے مہر و ماہ و انجم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبدیل فرمایا اور مفہوم کے حسن کو واضح فرمایا: میں نے اس مصرع کو یوں کر دیا ہے: مہر و ماہ نے توڑ دیا دم صلی می ایستیم بھاگنے کے ساتھ دم کا ٹوٹنا ایک اور لطیف مناسبت بھی رکھتا ہے.کسی پر شوکت جلوہ کے مقابل دم توڑ دینا اور دوڑتے ہوئے دم توڑنا ہم آہنگ ہیں.“ ( مكتوب 16 جنوری 1993ء.صفحہ 13 ) اب اس شعر کو پڑھ کر زیادہ لطف آئے گا: آپ کے جلوۂ حسن کے آگے.شرم سے نوروں والے بھاگئے ”مہر و ماہ نے توڑ دیا دم - صلی اللہ علیہ وسلم 361
متلاطم عرفان کا قلزم بہہ نکلا عرفان کا قلم لالایی ایلام حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کو درست فرمایا.سوچ کی گہرائی کا اندازہ کیجئے.درست کرنے کی وجہ اور مضمون سے وفا کا اندازہ لگائیے تحریر فرماتے ہیں: یہ بھی ان جگہوں میں سے ایک ہے جس کو میں نے پہلے ہی نشان لگا رکھا تھا کہ وقت ملا تو ٹھیک کرنا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی تجویز موج میں تھا عرفان کا قلزم بہہ نکلا عرفان کا قلزم سے بہت بہتر ہے مگر پہلے جو مضمون بیان ہوا ہے اس کے ساتھ موج میں تھا..؟ مطابقت نہیں رکھتا.موج میں تھا، کا مضمون ایک ساکت جامد حالت کو پیش کر رہا ہے.لیکن پہلی طرز بیان تقاضا کرتی ہے کہ ایک چیز سے دوسری چیز ہو گئی کی طرز پر اس میں کچھ ہو جانے یا کسی تبدیلی کا ذکر پایا جانا چاہئے.جیسے عربی میں اصبح ، سار وغیرہ کلمات سے ادا کیا جاتا ہے.موج میں ہو گیا کا اندازہ ہونا چاہئے تھا یا پھر فعل کا استعمال کلیۂ ختم کر کے اس مصرع کو صفت موصوف کی ترکیب میں پڑھا جائے تو تب بھی کوئی حرج نہیں.اس مجبوری کی وجہ سے میں نے موج میں تھا...کی بجائے بہہ نکلا، کے الفاظ میں مضمون بیان کرنے کی کوشش کی لیکن دل میں یہ کھٹک تھی کہ بہہ نکلا.قلزم کے متعلق کہنا جائز نہیں.کیوں نہ اس مصرع کا تعلق پہلے بند کے جاری مضمون سے توڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے باندھ دیا جائے.اس صورت میں یہ 362
اب رحمت متلاطم عرفان کا قلزم صلی اللہ علیہ وسلم » اس طرح مصرع کا پہلا نصف دوسرے نصف کے ساتھ نسبت تو صیفی یا نسبت بدل اختیار کر لیتا ہے.نظم نمبر 4 نظم آج کی رات میں ایک شعر ہے: ( مکتوب 16 جنوری 1993 ء صفحہ 15) آنکھ اپنی ہی ترے ہجر میں ٹپکاتی ہے وہ لہو جس کا کوئی مول نہیں، آج کی رات اس کے پہلے مصرع کے متعلق حضور فرماتے ہیں: اس کے متعلق تجویز ہے کہ اسے یوں بدل دیا جائے: چشم عاشق ہی ترے ہجر میں ٹپکاتی ہے.مجوزہ مصرع دیکھنے میں تو بہت چست لگتا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ آنکھ اپنی ہی ترے ہجر میں ٹپکاتی ہے.میں جو بات کہنی چاہتا ہوں وہ چشم عاشق میں آہی نہیں سکتی.میں تو طعنہ آمیز دشمن کے مقابلہ پر اپنی ہی آنکھ کی محبت کو نمایاں کرنا چاہتا ہوں.چشم عاشق نے تو اس مضمون کا کچھ رہنے ہی نہیں دیا جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں.دوسرے میں نے عمداً ہجر کو چھوڑ کر عشق اختیار کیا تھا کیونکہ بحث یہ نہیں کہ ہم آنحضور سلام کے وصل سے محروم ہیں کہ نہیں.بحث یہ ہے کہ ہمارا دل آپ کے عشق سے خالی ہے یا لبالب بھرا ہوا ہے.363
رحمت پس ہر چند کہ اس مصرع میں لفظ ہجر پڑھنا عشق پڑھنے کی نسبت زبان پر ہلکا ہے.مضمون کی مناسبت سے عشق ہی موزوں ہے.پس یہ مصرع یوں ہی رہے گا: آنکھ اپنی ہی ترے عشق میں ٹپکاتی ہے ( مکتوب 16-1-93 صفحہ 8) " کاش اُتر آئیں یہ اُڑتے ہوئے سیمیں لحات " کا متبادل آپ نے یہ تجویز کیا ہے.کاش رک جائیں یہ اڑتے ہوئے سیمیں لمحات یہ تو بڑا خطرناک مشورہ ہے.کیونکہ اڑتے ہوئے رکیں گے تو مریں گے گر کر.میرا جو تصور ہے وہ تو یہ ہے کہ جس طرح پرندے اترتے ہیں اسی طرح یہ روحانی لمحات نور کے پرندوں کی طرح اتر آئیں.آپ نے دو مضامین کو دو مصرعوں میں Repeat کیا ہے یعنی رک جائے اور ٹھہر جائے.جب کہ میں نے پہلے مصرع میں اڑتے ہوئے بلحاظ پرندوں کی طرح اترنے کا مضمون باندھا ہے.پرواز میں رک کر دھڑام سے گرنے کی بات نہیں کی.میرے تصور پر میرا زیادہ حق ہے.براہ کرم اس کے پر نہ باندھیں.اس بیچارے کو تسلی سے مکتوب 15 مئی 1993 ء صفحہ 6) اڑنے دیں.“ نظم نمبر 7 برق تپاں ہے خندہ کہ خرمن اداس ہے“ 364
سیلاب رحمت معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ نظم پہلی اشاعت سے نقل کی ہے.میں نے تو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو ان کے یہ نظم بھجوانے کے بعد یہ ہدایت کی تھی کہ برق تپاں ہے خندہ...مصرع کی فوری اصلاح بھجوا دیں اور غالباً وہ الفضل میں چھپ بھی گئی ہوگی.لیکن اس کے باوجود آپ کو سہو کتابت والی نظم ہی مل سکی بہر حال اس کی دو صورتیں میرے سامنے آتی ہیں: (1) برق تپاں خندہ زن.خرمن اداس ہے مگر اس میں یہ ستم ہے کہ وزن کی تال کے لحاظ سے خندہ زن تک کے مضمون کو پہلے نصف مصرع میں ہی سما جانا چاہئے تھا.کیونکہ اس نظم کا ہر مصرع دوحصوں میں بٹا ہوا ہے.گویا برق تپاں ہے خندہ پر ایک ضرب ختم ہوتی ہے اور کہ خرمن اداس ہے پر دوسری.مگر خندہ زن کر دیا جائے تو زن کا قدم اپنے نصف مصرع کی حدود میں رہنے کی بجائے دوسرے نامحرم نصف پر جا پڑتا ہے.اسی خیال سے میں نے اسے یوں کر دیا تھا: برق تپاں نہال.کہ خرمن اداس ہے غالباً یہی بہتر رہے گا.خنداں اس لئے جائز نہیں کہ یہاں خندہ صرف زبر کا متحمل ہے الف کا متحمل نہیں.365 ( مكتوب 16.1.93 صفحہ 18 )
حضور تحریر فرماتے ہیں: نظم نمبر 8 دوغم فرقت میں کبھی اتنا لانے والے“ اس میں اصلاح یہ تجویز ہوئی ہے.غم فرقت میں کبھی خوب رلانے والے.لفظ 'خوب بہت خوب ہے.مگر لفظ اتنا میں جو اپنائیت اور شکوہ پایا جاتا ہے وہ خوب میں ہرگز نہیں.غالباً یہ اصلاح اس لئے تجویز کی گئی ہے کہ اتنا کے بعد اس کا جواب آنا چاہئے.حالانکہ یہ ضروری نہیں ہوا کرتا.بعض دفعہ بغیر جواب کے ہی شرطیہ حصہ پر کلام ختم ہو جاتا ہے اور قرآن کریم میں اس کی بہت ہی پیاری مثالیں موجود ہیں.ایک کہنے والا یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ آپ نے مجھے اتنا رلایا ہے.ضروری نہیں کہ بعد میں وہ یہ بھی کہے کہ آنسو پونچھ پونچھ کر میری آنکھیں سرخ ہوگئیں.اس کے مقابل پر آپ نے مجھے خوب رلایا ہے میں لگتا ہے کہ بات ختم ہوگئی اور اپنی ذات میں یہ مضمون و ہیں مکمل ہو گیا.لیکن لفظ اتنا ایک تشنگی باقی چھوڑ دیتا ہے.وہ خواہ شکوے کی ہو یا کسی اور چیز کی.پھر یہ تشنگی مضمون کو اور بھی رفعت عطا کرتی ہے.اس لئے میرے نزدیک یہاں بھی تبدیلی کی ضرورت نہیں.“ ( مکتوب 93-1-16 صفحہ 17 ) 366
نظم نمبر 9 اک ذکر کی دھونی مرے سینے میں رمائے پہلے اس مصرع میں لفظ ”بھیا کے آتا تھا.جس پر نظر ثانی کی درخواست پر حضور نے تحریر فرمایا: لفظ بھبا کے سے متعلق آپ کی بات درست ہے کیونکہ بھبک سے بھیا کا کسی ڈکشنری میں نہیں ملا.دراصل ہماری بچپن کی Slang تھی.خوشبو کے لئے ہمارے ذہن میں قادیان میں جو تصور پیدا ہوتا تھا وہ گویا اس طرح تھا کہ چھوٹا سا خوشبو کا جھونکا ہو تو اسے بھبکا کہتے مگر خوشبو کا ایسا بھبکا کہ گویا فوارہ پھوٹ پڑے.اس کو ہم بچپن کی Slang میں مہصبا کا کہا کرتے تھے.اسی طرح اگر شدید بد بو کا ذکر کرنا ہوتا تو اس کو ہم اس طرح بیان کیا کرتے تھے کہ فلاں شخص یا جگہ سے تو بد بو کے بھبا کے اُٹھ رہے ہیں.پس ایسی Slangs مختلف علاقوں میں رائج ہو جاتی ہیں جو ڈکشنریوں میں راہ پانے کیلئے لمبا عرصہ لیتی ہیں.اس لئے میں آپ کی بات مانتا ہوں.یہ لفظ ابھی تک عرف عام کی سند نہیں پاسکالیکن ممکن ہے ہمارے گھر کی حدود تک محدودرہا ہو.پس اس مصرع کو اب اس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے.سینے میں مرے ذکر کی اک دھونی رما کے بیٹھا رہاوہ ذکر کی اک دھونی رما کے اک ذکر کی دھونی مرے سینے میں رما کے 367
سیلاب رحمت غالباً یہ آخری بہتر ہے مگر تینوں میں سے جو آپ پسند کر لیں.اس معاملہ میں آپ کی پسند پر اعتماد کرتا ہوں.اگر تینوں ہی دل کو نہ لگیں تو مجھے ایک اور موقع دیں.(مکتوب 5 دسمبر 1993ء) کیا موج تھی جب دل نے جے نام خدا کے“ اسی نظم کے ایک شعرے میں ان سے جدا ہوں مجھے چین آئے تو کیوں آئے دل منتظر اس دن کا کہ ناچے انہیں پاکے اس کے پہلے مصرع پر نظر ثانی کی درخواست کی تھی.پہلے تو ایسی جسارتوں پر بہت نادم ہوتی تھی.مگر اب اس کے نتیجے میں خاکسار کو سمجھانے کیلئے جو شعر میں زبان و بیان کے متعلق علم کے دریا بہائے ہیں مجھے نازاں کر رہے ہیں.جو بھی پڑھے گا اس کا عالم مجھ سے مختلف نہیں ہوگا.ایسا لگتا ہے ساری عمر صرف ادب کا مطالعہ فرمایا ہے.تحریر ملاحظہ ہو: میں ان سے جدا ہوں، مجھے چین آئے تو کیوں آئے اس مصرع کے بارے میں آپ نے ترتیب بدلنے یا کیوں آئے، کی جگہ کوئی دوسرا لفظ لانے کی تجویز پیش کی ہے.لیکن مجھے آپ کے اصرار کی سمجھ نہیں آئی کہ کیوں ترتیب بدلی جائے.اسے اہل کلام جب پڑھتے ہیں تو آئے دو آوازیں نہیں نکلتیں بلکہ دونوں آپس میں مدغم ہو جاتی ہیں.جس طرح غالب کے مرثیہ میں ہائے ہائے میں آخری ے کی آواز نمایاں نہیں ہے.آئے اور ہائے کی آواز کبھی Soft پڑھی جاتی ہے اور کبھی دے کر کے الگ پڑھی جاتی ہے.جب 368
سیلاب رحمت Soft پڑھی جاتی ہے تو عملاً یہ اتنی خفیف ہو جاتی ہے کہ زبان پر بوجھ نہیں پڑتا اور اہل کلام اس کو نا گوار خاطر نہیں سمجھتے.مکرم سلیم صاحب کا غالباً یہ بھی اعتراض ہے کہ کیوں آ پر وزن کا دم ٹوٹ جاتا ہے.ان کو بتادیں کہ یہ آ اور ائے نہیں یعنی دئے پر الگ زور نہیں.معلوم ہوتا ہے کہ سلیم صاحب کو جس طرح آتش کے اس مصرع میں آئے استعمال ہوا ہے صرف اسی طرح آئے کہنے کی عادت ہے اور و Soft ' آئے پڑھ ہی نہیں سکتے.آتش کا پورا شعر یوں ہے: بجا کہتے آئے ہیں بیچ اس کو شاعر کمر کا کوئی ہم سے مضمون نہ نکلا اب یہاں آئے پڑھنا پڑتا ہے اگر آئے Soft پڑھیں گے تو وزن ٹوٹ جائے گا.اس کے مقابل پر غالب کی نظم میں Soft پڑھنے کی مثال موجود ہے.اس کی 'ہائے ہائے والی نظم میں آخری ہائے کو Soft پڑھتے ہیں اور لمبا کر کے بارے نہیں پڑھتے بلکہ ہارے ہاء پر ہی بات ختم ہو جاتی ہے.غالب کہتا ہے: درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے اگر دوسرے ہائے کو بھی ہا ائے پڑھیں تو اس میں ائے کی آواز زائد ہے.اصل میں ہائے ہا ہونا چاہئے تھا.اس کی یہ ساری نظم اسی طرح چلتی ہے.پھر غالب کہتا ہے.369
سیلاب رحمت عمر بھر کا تو نے پیغام وفا باندھا تو کیا یہ بڑا چست مصرع ہے اس میں کچھ زائد نہیں ہے اس کے مطابق اگلا مصرع یوں ہونا چاہئے تھا کہ عمر کو بھی تو نہیں ہے پائیداری ہائے ہا اگر آپ پہلے کو کیا ئے کر دیں تو جس طرح کیائے میں آئے زائد ہوتی ہے بالکل اسی طرح آئے میں دئے زائد ہوئی ہے اور ہائے ہائے میں آخری 'ئے زائد ہے.صرف پڑھنے کے انداز کا فرق ہے.پس میرے اس مصرع کی تقطیع کا جہاں تک تعلق ہے اس میں غالب کی ہائے ہائے والی نظم کی طرح ہی ائے زائد ہے اور یہاں ائے کی اس طرز کی واضح آواز نہیں ہے کہ گویا آ اور ائے دو حرف ہیں بلکہ آ کے ساتھ ائے کی آواز کونرمی کے ساتھ مدغم کیا گیا ہے.بہر حال یہ کوئی سقم نہیں چوٹی کے شعراء کے کلام میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں.آپ دونوں بھی ماشاء اللہ ماہرفن اور قادرالکلام شعراء ہیں.مجھے تو آپ کا کلام بھی اس سے خالی دکھائی نہیں دیتا اور پڑھتے وقت کئی مثالیں سامنے آتی ہیں لیکن چونکہ اردو ادب میں اس کی اجازت سمجھی جاتی ہے اور اہل فن بھی استعمال کرتے ہیں.اس لئے میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا مثال کے طور پر مکرم سلیم صاحب کا یہ شعر ملاحظہ ہو: یہ زیست کیا ہے سکینت اگر نصیب نہ ہو جو موت وجہ سکوں ہو تو کیا ہے کم اعجاز 370
سیلاب رحمت اس میں اگر زیست پڑھیں گے تو کیا کا کاف اور ی' دونوں زائد ہیں.کیونکہ فنی نکتہ نگاہ سے اس کا وزن زیستا بنتا ہے.گویا کاف اوری دونوں زائد ہیں.لیکن اگر کیا پورا پڑھنا ہو تو پھر زیست کی ت زائد بنتی ہے.اب یہ دیکھ لیں کہ ماشاء اللہ یہ شعر چوٹی کا ہے لیکن پڑھنے کے انداز کے فرق سے وزن پر اثر پڑتا ہے اور سقم نظر آتا ہے لیکن میرے نزدیک یہ ستم نہیں.پھر سلیم صاحب کا یہ شعر دیکھیں: ان بہتے آنسوؤں کا ہی تحفہ قبول ہو ہے اس کے پاس کیا جو یہ تیرا غلام ہے اس کے پہلے مصرع میں ظاہر اوزن ٹوٹتا ہے اور بہتے میں زیر پڑھنی پڑتی ہے.بڑی ے نہیں پڑھی جاسکتی.یا ساکن یا زیر کے ساتھ الگ سے ت آسکتی ہے نئے کی گنجائش ہی نہیں.ان کی اس نظم کا اس سے اگلا شعر : پہرے بٹھا دے میری سماعت پہ یا خدا ہی اس کی مثال ہے.حالانکہ بڑے قادر الکلام ہیں مگر یہ سقم ہے.اور وزن کے اعتبار سے پہرے میں صرف زیر پڑھنی پڑتی ہے.اس پہلو سے اگر آپ اپنے کلام پر نظر ڈالیں تو اس میں بھی آپ کو اس کی کئی مثالیں ملیں گی.صرف کلام کی مجبوریاں سمجھانے کی خاطر ایک آدھ مثال بیان کر دیتا ہوں.کیا خوب مصرع ہے.خشک آنکھوں سے نیر بہاؤں چہرے پر مسکان سجاؤں 371
سیلاب رحمت لیکن اس میں صرف سجا' پڑھا جاسکتا ہے.اوں زائد ہے لیکن شعراء عملاً ایسا کرتے ہیں.اجازت ہوتی ہے.ہرگز معیوب نہیں سمجھا جاتا.پھر یہ مصرع ملاحظہ فرمائیں: پھر کس گن پر اتر اؤں اور فخر و مباہات کروں اب اس میں اگر پھر ہلکا پڑھیں تو پھر کس گن پر اتراؤں میں ہونا چاہئے یعنی ایک میں ڈالنا پڑے گا.اور اگر پھڑ زور سے پڑھیں تو آپ والا مصرع موزوں ہو جائے گا.پس اس میں پڑھنے کے انداز کے فرق کی وجہ سے دوصورتیں ممکن ہیں.ایک ہے.دپھر کس گن پر اتراؤں دپھر کس گن پر اتراؤں میں اس میں لفظ میں زائد کرنے کے باوجو د وزن دونوں کا ایک ہے.بہر حال انداز قرآت نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض اوقات نقص کا گمان ہوتا ہے.پڑھنے والے کے انداز پر اس کی درستی یا سقم کا انحصار ہے.عام بول چال میں بھی اس کی مثالیں بہت ملتی ہیں.چنانچہ بولنے والا حسب حالات آ.اے کہتا ہے اور کبھی Soft آئے کہتا ہے جیسے کہتے ہیں: کب آؤ گے پیتم پیارے یہاں آ.اؤ دو آوازیں ہیں اور آؤنا جب کہتے ہیں تو اس میں دو آوازیں نہیں نکلتیں اور دوسری حرکت شدید نہیں پڑھی جاتی.زیر نظر مصرع میں آپ کو کیوں آئے پر اعتراض ہے.اگر آپ اس کی ترتیب 372
سیلاب رحمت بدل لیں یا اسکی جگہ دوسرا لفظ لانے پر مصر ہیں تو بیشک اس کو یوں کر لیں: میں اس سے جدا ہوں مجھے کیوں آئے کہیں چین نظم نمبر -10 (مکتوب 93-5-15 صفحہ 7 تا 9 ) اس نظم میں اے میرے سانسوں میں بسنے والو کے بارے میں آپ نے تحریر فرمایا: آپ نے میری سانسوں تجویز کیا ہے.ہم نے تو سانس کا لفظ ہمیشہ مذکر ہی استعمال کیا ہے اور بالعموم اس کا مذکر استعمال ہی سنا ہے.آپ کی اس تجویز پر میں نے لغت بھی چیک کی ہے اس میں اس کا استعمال مذکر اور مونث دونوں طرح سے آیا ہے.جامع اللغات میں لکھا ہے ، سانس اندر کا اندر باہر کا باہر ، سانس پورے کرتا ہے.سانس کا روگ وغیرہ وغیرہ.بہر حال اگر چہ مونث استعمال ہوسکتا ہے اور شاید لکھنوی زبان کی نزاکتوں اور لطافتوں کے تابع وہاں مونث کا استعمال رائج ہولیکن میں نے گھر میں اسے کبھی مونث نہ استعمال کیا، نہ سنا.لغت بھی اس کے استعمال سے مانع نہیں ، اس لئے اس طرح رہنے دیں.“ ( مكتوب 16 جنوری 1993 ء صفحہ 21) نظم نمبر 13 کیا حال تمہارا ہو گا جب شدّاد ملائک آئیں گئے آپ نے مسودہ میں شداد کے معانی کی وضاحت کرتے ہوئے 373
حاشیہ میں سورۃ تحریم کی آیت کا جو حوالہ دیا ہے وہ اطلاق نہیں پاتا.یہ آیت نہ لکھیں کیونکہ شداد پر شداد کی مثال صادق نہیں آتی.اگر اس کا حوالہ دینا ہے تو پھر لکھ دیں کہ اگر چہ آیت میں لفظ شداد ہے لیکن اردو میں یہی معنی لفظ شداد سے ادا ہوتا ہے.شداد قوم عاد کے اس بادشاہ کا نام ہے جس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا اور شعر کہتے وقت یہی میرے پیش نظر تھا.دوسرے لغوی لحاظ سے اس آیت میں جو لفظ شداد ہے وہ شدید کی جمع ہے.شدید کی جمع کی دوسری مثال قرآن کریم میں اشداء بھی آئی ہے جب کہ میں نے لفظ شداد استعمال کیا ہے جو کہ شدید سے مبالغہ کا صیغہ ہے.اس لئے اگر چہ معنوی طور پر یہاں بھی مراد وہی ہے لیکن بہتر ہے کہ آپ قرآن کریم کا حوالہ دینے کی بجائے لغت کا حوالہ دیں کہ یہ شدید سے مبالغہ کا صیغہ ہے جس کا مطلب ہے بہت زیادہ سختی کرنے والا.یہ قوم عاد کے ایک بادشاہ کا نام بھی ہے.جس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا.لغت کے حوالے سے بس یہ نوٹ دے دیں.“ ( مكتوب 15 مئی 1993 ء صفحہ 10-11 ) آزاد کہاں وہ ملک جہاں قابض ہو سیاست پر ملاں خاکسار نے عرض کی کہ مُلاں کی بجائے ملا ہونا چاہئے دن کی ضرورت نہیں.آپ نے تحریر فرمایا: " آپ کی یہ تجویز کہ لفظ ملاں کی بجائے ملا ہونا چاہئے.آپ سے اتفاق ہے.نون غنہ کٹوادیں.آپ کی اس بہت عمدہ تجویز پر بے حد 374
سیلاب رحمت شکریہ.جزاکم اللہ احسن الجزاء ( مکتوب 22اکتوبر 1993ء) نظم نمبر 14 تو مرے دل کی شش جہات بہنے“ اس نظم میں تبدیلیاں اور ان کی حکمتیں ملاحظہ ہوں.پیارے آقا تحریر فرماتے ہیں : ترے منہ کی سبک سبک باتیں دل کے بھاری معاملات بنے پر نظر ثانی کی آپ نے خواہش کی ہے.یہ مضمون دراصل حدیث کلمتان خفيفتان على اللسان ثقيلتان في المیزان...‘ سے اخذ کیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے تیرے منہ کی ملکی ہلکی باتیں ہمارے دل کی بڑی وزنی باتیں بن جاتی ہیں.آپ کی بات درست ہے کہ بنے کی ضمیر باتیں کی طرف جاتی ہے جو مؤنث ہے لہذا بنے نہیں بلکہ بنیں، چاہئے تھا.اس مصرع کو بدل کر میں نے یوں کر دیا ہے ؎ تیرے منہ کے سبک سہانے بول دل کے بھاری معاملات بنے اگر سہانے کی بجائے آپ ریلئے پسند کریں تو اسے سبک رسیلے بول کر دیا جائے لیکن سبک سہانے زبان پر زیادہ ہلکا ہلکا لگتا ہے.“ 66 ( مکتوب 93-10-22 صفحہ 3) 375
وو کتنے کھنڈر محل بنائے گئے کتنے محلوں کے کھنڈرات بنے اکثر و بیشتر تو خاکسار کے بچگانہ بلکہ بیوقوفانہ مشوروں پر تبصرہ میں معرفت کے نکتے حاصل ہوئے.دو مقامات ایسے بھی ہیں جہاں ڈھنگ سے توجہ نہ دلا سکنے کی وجہ سے وضاحت موصول ہوئی.مثلاً مندرجہ بالا شعر میں کھنڈر کے دن کی آواز نون غنہ ہوتی تو بہتر تھا.خوف اس قدر مسلط تھا کہ نہ جانے کیا لکھ دیا.مناسب وضاحت نہ کی جواب موصول ہوا.دوسرے خط میں جو آپ نے کھنڈر لفظ پر نظر ثانی کیلئے بڑی ہی ملائمت سے توجہ دلائی ہے اس کیلئے معذرت کی تو کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن آپ نے وضاحت نہیں کی کہ اس پر اعتراض کیا ہے.مجھے ابھی سمجھ نہیں آئی کہ لفظ کھنڈر پر اعتراض کیا ہے.اگر یہ وہم ہے کہ کبھی کھنڈر حل نہیں بنائے گئے تو یہ درست نہیں.تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ بار ہا کئی شہرا جڑے اور پھر آباد کئے گئے اور جو محل کبھی آباد تھے ان کے کھنڈروں کو آبادکیا گیا.موہنجودڑو کے متعلق یہی ذکر آتا ہے ویسے بھی دنیا میں یہی ملتا ہے کہ بعض محل ویران ہوئے اور پھر ان کھنڈرات کو آباد کیا گیا.اگر کوئی اور بات ہے تو بے تکلفی سے لکھیں.سقم کی طرف توجہ دلانا تو قابل تحسین ہے.بے شک مجھے بتائیں کیا کمزوری نظر آ رہی ہے.غالباً دلی والے لفظ کھنڈر پڑھتے ہیں.اگر یہ بات ہے تو شعر یوں کر لیں ؎ جو کھنڈر تھے محل بنائے گئے اور محلوں کے کھنڈرات بنے 376 ( مکتوب 11 دسمبر 1989ء )
نظم نمبر -18 بلائے ناگہاں اک نت نیا مولا نا آتا ہے ”ہر مولانافی ذاتہ بلائے ناگہاں ہے.وہ کوئی خاص خاص مولانا نہیں جو بلائے ناگہاں ہوں.بلکہ ہر مولا نا جب آتا ہے بلائے ناگہاں کی طرح ہی آتا ہے.کبھی ایک ہی بار بار آتا ہے کبھی نت نیا.میرے ذہن میں نت نیا مولانا کے آنے کا تصور تھا.بن کر آنے کا محاورہ میرے دل کی بات ظاہر نہیں کرتا میں تو ہر مولوی کو ہی بلائے ناگہاں سمجھتا ہوں.اس لئے اسے اسی طرح رہنے دیا جائے نت نیا' کہہ کر تو ان کی روزانہ بڑھتی ہوئی تعداد کی طرف اشارہ مقصود ہے اور جتنے بھی آتے ہیں ہمیشہ بلائے ناگہاں ہی ثابت ہوں گے.“ نظم نمبر.21 مکتوب 16.1.93 صفحہ 26-27) کچھ لوگ گنوا بیٹھے دن کو جو یار کما یا ساری رات " آپ کی تجویز یہ ہے کہ لوگ گنوا بیٹھے سب دن کو جو بھی کمایا ساری رات لیکن اس میں عمومیت کی آگئی ہے جو اچھا برا کما یا وہ دن کو گنوا دیا.جبکہ جو مضمون میرے پیش نظر ہے اس میں خدا کمانے اور ساری رات اس کی عبادت میں گزارنے کا مضمون ہے.اور مطلب یہ ہے کہ اگر انسان را تیں تو ذکر الہی میں گزارے اور دن بھر دنیا کے پیچھے 377
سیلار رحمت بھاگتا پھرے تو یہ اچھا عمل نہیں.اگر یار کمانے کے اظہار بیان پر اعتراض ہے.تو یہی محاورہ تو اس شعر میں میری جان ہے اور شعر کی بھی.یار یونہی نہیں مل جاتے ، کمانے پڑتے ہیں“ نظم نمبر 22 ( مکتوب 93-1-16 صفحہ 20 ) جو آنکھیں مند گئیں رورو کر اور گھل گھل کر جو چراغ بجھے اس مصرع کے بارہ میں آپ کا مشورہ درست ہے اور جو آنکھیں مند گئیں رو رو کر ، زیادہ بہتر ہے لیکن پھر اس سے اگلے مصرع کا پہلا جزو..آں، پرختم ہو اور دوسرا حصہ اس طرح شروع ہو گھل گھل کر جو چراغ بجھئے تو پھر وزن درست رہتا ہے.اگر چہ یہ سقم ہے.اس لئے اگر اسے بدلنا ہے تو پھر اس سے اگلے حصہ مصرع کو بھی وزن کی درستی کے لئے بدلنا پڑے گا اور اس میں وہ یا یوں یا اور زائد ڈالنا پڑے گا.آپ کے مجوزہ متبادل میں پہلا تو مکمل ہے.لیکن دوسرے میں جوڑنے کیلئے جو لفظ چاہئے وہ غائب ہے مثلاً یوں گھل گھل کر جو چراغ بجھے کر دیا جائے تو پھر ٹھیک ہے.پڑھنے کے انداز کے فرق سے جو تم سا پیدا ہوتا ہے اس کی مثالیں قادر الکلام شعراء کے حوالے سے بیان کر چکا ہوں جو مکروہ نہیں سمجھی جاتیں.اس لئے وزن ٹھیک رکھنے کی خاطر اگر نصف مصرع کا کچھ آخری ٹکڑا دوسرے نصف مصرع کو شروع میں مستعار بھی دینا پڑے ا 378
ب رحمت تو کوئی حرج نہیں.بہر حال اس مصرع کی شکل دو طرح بن سکتی ہے.پہلی تجویز میں یوں اگر زائد لگتا ہے تو اسے اور کرلیں.جو آنکھیں مند گئیں رو رو کر یوں گھل گھل کر جو چراغ بجھے جو مند گئیں آنکھیں روتے روتے گھل گھل کر جو چراغ بجھے مجھے تو پہلی تجویز یوں کی بجائے اور کے ساتھ اچھی لگ رہی 66 ہے.آپ کو جو پسند ہو وہ رکھ لیں.“ ( مکتوب 15 مئی 1993ء صفحہ 11) ظالم نے اپنے ظلم سے آپ اپنے ہی افق دھندلائے ہیں کے متعلق آپ نے تجویز دی ہے کہ آپ کی بجائے خود بھی ہو سکتا ہے.آپ کی تجویز منظور ہے.بہت اچھی ہے.جزاکم اللہ تعالیٰ.ٹھیک ہے اس کے مطابق اب اسے یوں کر دیں: ظالم نے اپنے ظلم سے خود اپنے ہی افق دھندلائے ہیں“ نظم نمبر - 23 کہہ رہا ہے خرام باد صبا جب تلک دم چلے مدام چلو ( مكتوب 5 دسمبر 1993ء ) خرام، مندرجہ بالا شعر میں پہلی اشاعت میں مؤنث باندھا گیا تھا.نظر ثانی کی مؤدبانہ 379
ب رحمت درخواست پر نہ بُرا مانا، نہ گستاخی پر محمول سمجھا.کھلے لفظوں میں حقیقت حال بیان فرمائی.اعلیٰ ظرفی اور وسیع قلبی کا ایسا مظاہرہ دنیا کے بڑوں میں کہاں دیکھنے کو ملتا ہے.یہ حصہ صرف اس سبق کے لئے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے کہ بڑا دل دکھانے سے کوئی چھوٹا نہیں ہو جاتا.وضاحت سے تحریر فرمایا: خرام کے متعلق میری غلط نہی ان شعروں کی وجہ سے ہے جن میں لفظ خرام استعمال ہوا اور جہاں ضمیر لفظ خرام کی طرف نہیں بلکہ مضاف کی طرف جاتی ہے.جیسے: موج خرام ناز بھی کیا گل کتر گئی اسی طرح میرے علم میں خرام کے معنوں میں جتنے لفظ مستعمل ہیں وہ سب چونکہ تانیث کا مرتبہ رکھتے ہیں جیسے چال ورفتار وغیرہ.اس لئے اس خیال سے بھی ہمیشہ اس لفظ کو تانیث کے درجہ پر رکھتارہا.اب آپ نے توجہ دلائی تو لغات اٹھا کر دیکھیں جس سے معلوم ہوا کہ اہل ادب کے ہاں اس کے مؤنث استعمال کی کوئی سند نہیں.ویسے بھی یہ شعر کچھ کمزور تھا کیونکہ صبا تو صبح کی ہوا کو کہتے ہیں شام کی ہوا کو نہیں اور صبا کا پیغام صبح چلنے کا تو ہوسکتا ، شام کے چلنے کا نہیں.لیکن چونکہ یہ دونوں نظمیں جو جلسہ میں پڑھی گئیں جلسہ سے چند دن پہلے شروع ہوئیں اور جلسہ کے ہنگامے کے دنوں میں مکمل ہوئیں اس لئے پوری طرح نظر ثانی نہیں ہو سکتی تھی.اگر خرام لفظ استعمال ہوتا تو پھر بھی مؤنث میں ہی ہونا تھا.لیکن ہوسکتا ہے کہ متبادل شعر میں یہ لفظ آتا ہی نہ.اس لئے اگر وقت ملا 380
سیلاب رحمت تو پہلا مصرع تبدیل کر کے الفضل کو ترمیم کے لئے لکھ دوں گا ورنہ اس شعر کو حذف کرنے کیلئے اعلان کروایا جا سکتا ہے.66 ( مکتوب 12 نومبر 1991ء) بحر عالم میں اک بپا کر دو، پیار کا غلغلہ تلاطم عشق خاکسار نے پہلے مصرع میں اک کی جگہ 'تم تجویز کیا.جو حضور نے از راه شفقت منظور فرمالیا.مگر جب مسودہ اصلاح کیلئے گیا تھا پھر اک ہی تحریر کروایا.میرے توجہ دلانے پر آپ نے بڑا دلچسپ جملہ لکھا: بحر عالم میں اک بپا کر دو والے مصرع میں اک کی بجائے تم کی اجازت دی ہوگی لیکن بادل نخواستہ دی ہوگی کہ آپ کی ہر بات کا تو انکار نہیں ہوسکتا.ویسے مجھے تو اک کے ساتھ زیادہ پسند ہے.“ ( مکتوب 5 دسمبر 1993ء) نظم نمبر 26 اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا اس نظم میں انیسواں شعر ہے: آخر دم تک تجھ کو پکارا، آس نہ ٹوٹی دل نہ ہارا مصلح عالم باپ ہمارا، پیکر صبر و رضا رہبر تھا خاکسار کی معمولی سی ترمیم کی درخواست پر آپ نے اصولی بحث کے ساتھ اچھی طرح سمجھایا.تحریر فرماتے ہیں: دل نہ ہارا کی بجائے آپ نے دل بھی نہ ہارا کی تجویز دی 381
سیلاب رحمت ہے.وزن تو اس میں بھی نہیں ٹوٹتا.صرف پڑھنے کے انداز کا فرق ہے.کسی لفظ پر زیادہ زور دے کر پڑھا جائے یا کم زور دے کر پڑھا جائے.تو اس سے بعض اوقات شعر کا وزن ٹوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے مثلاً اس نظم کا پہلا مصرع ہے: اپنے دیس میں اپنی بستی میں اک اپنا بھی تو گھر تھا لفظ میں اس مصرع کے دوسرے نصف میں واقع ہے.لیکن جو اسے پہلے حصہ کے ساتھ ملاتے ہیں وہ وزن توڑ دیتے ہیں.جیسا کہ قادیان میں پڑھنے والے نے یہ مصرع پڑھا ہے اور جس جگہ زور آنا چاہئے اس سے ہٹا کر دوسرے لفظ منتقل کرنے کے نتیجہ میں بالکل بے وزن مصرع لگ رہا ہے.پہلے مصرع کے نصف کے آخری حرف کا قدم دوسرے نصف کے شروع میں جا پڑنے کے بہت سے نمونے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عربی فارسی کلام میں ملتے ہیں اور شعراء کے نزدیک ایسا کرنا جائز ہے.ایسی صورت میں اگر اس کو پہلے حصے سے ملا کر پڑھیں تو وزن ٹوٹ جائے گاور نہ نہیں.بیسویں شعر میں لفظ انوار کے بارے میں آپ نے لکھا ہے کہ ہندی تسلسل میں اجنبی لگ رہا ہے.اس وجہ سے دوسرے مصرع کو یوں ہونا چاہئے : جس سے نور کے سوتے پھوٹے.روشنیوں کا جوسا گر تھا اس نظم کا مزاج ملا جلا ہے.یہ صرف سکھوں اور ہندوؤں کے لئے 382
سیلاب رحمت ہی نہیں بلکہ پاکستانیوں کیلئے بھی تھی.اس لئے میں نے اس نظم میں بعض جگہ عربی اور فارسی الفاظ استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا تا کہ ہم اپنا حق بھی قائم رکھیں.جہاں تک انوار کے لفظ کا تعلق ہے، نور کی یہ جمع شاید زیادہ اجنبی رہی ہو.لیکن اس کو روشنیوں کی بجائے نوروں میں تبدیل کر دیا جائے تو اور کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں کیونکہ لفظ نور جو پہلے آیا ہوا ہے وہ تو پھر بھی موجود رہے گا.جس کو نور کی سمجھ آجائے گی وہ نوروں کو بھی سمجھ جائے گا.پس یہ شعر یوں بن جائے گا: سدا سہاگن رہے یہ بستی جس میں پیدا ہوئی وہ ہستی جس سے نور کے سوتے پھوٹے جو نوروں کا اک ساگر تھا“ اس نظم کا آخری شعر ہے: مکتوب 15.5.93 صفحہ 5-4) ہیں سب نام خدا کے سندر، واہے گرو، اللہ اکبر سب فانی، اک وہی ہے باقی ، آج بھی ہے جو کل ایشر تھا خاکسار کی پہنچ محض لغت تھی.لغت دیکھ کر تجویز کر دیا کہ ایشر کی جگہ ایشور ہو تو وزن نہیں ٹوٹتا.حضور پر نور کی لفظوں پر تحقیقات کے دائروں کا اندازہ لگائیے.آپ نے تحریر فرمایا: اول تو یہ درست نہیں کہ ایشور سے وزن نہیں ٹوٹتا.دوسرے دو جہاں تک ایشر کا تعلق ہے بات یہ ہے کہ قادیان میں ہندی دان احمدی سکالرز سے میں نے چیک کروالیا تھا اور ان سب نے اس پر صاد کیا.لغوی لحاظ سے اس کا اصل ایش ہے.جسے ایس بھی پڑھا جاتا 383
ہے.دونوں متبادل ہیں.ہندی اردو لغت میں ان دونوں کا مطلب مالک ، خدا، حاکم ، بادشاہ، اللہ تعالیٰ دیا گیا ہے.یہ لفظ ور یا محض لڑ کے اضافہ کے ساتھ بھی مستعمل ہے.اردو لغت جامع اللغات میں لکھا ہے کہ ایسٹر دراصل وہ شہر ہے جہاں سب سے بڑے دیوتا یعنی خدا کی عبادت ہوتی ہے.چنانچہ یہ مضمون کھول کر جامع اللغات الیسر، ایشر اور ایشور تینوں لفظ متبادل کے طور پر پیش کرتی ہے.جن کا مطلب بڑا دیوتا، خدا یا مالک یا خدا تعالیٰ ہے.اسی طرح ایسر میں ایشر لکھ کر آگے خدا، اللہ معانی دئے ہوئے ہیں.گویا ایشور کا دوسرا تلفظ ایسر اور ایشر ہے.اس لئے کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ایشر ہی ٹھیک ہے.“ ( مكتوب 93-10-22 صفحہ 8 ) چند دن کے بعد آپ کا ایک مکتوب موصول ہوا: میرا گزشتہ خط آپ کو مل چکا ہوگا ایشر کے لفظ پر.اس پر میں آپ کی تجویز کی روشنی میں تبصرہ تو کر چکا ہوں.لیکن اسکے بعد یہ بات سامنے آئی کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے اپنی دو نظموں بعنوان 'شان اسلام میں کوئی 6 دفعہ اور ہندوؤں سے خطاب میں 5 مرتبہ لفظ ایشر استعمال فرمایا ہے.اس شہادت سے تو مزا ہی آگیا ہے.اس کے بعد تو کسی اور سند کی ضرورت ہی نہیں.آپ نے درثمین کی اتنی عمدہ کتابت کروائی ہے لیکن آپ نے بھی اسے نوٹ نہیں کیا.“ ( مكتوب 93-11-1 ) 384
نظم نمبر -29 تری بقا کا سفر تھا قدم قدم اعجاز اس نظم کو پڑھتے ہوئے ایک شعر مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا.ہو موت اس کی رضا پر یہی کرامت ہے خوشی سے اس کے کہے میں جو کھا ئیں سم، اعجاز میں نے پڑھتے ہوئے اس پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا کہ مزید غور کروں گی.پیارے آقا کی نظر اس سوالیہ نشان پر پڑ گئی.میری الجھن دور کرنے کیلئے وضاحت فرمائی: اس نظم کے دسویں شعر کے دوسرے مصرع کے سامنے آپ نے سوالیہ نشان ڈالا ہے.یہ مصرع یوں ہے : خوشی سے اس کے کہے میں جو کھا ئیں سم اعجاز یہاں خدا تعالیٰ کا اعجاز مراد نہیں ہے بلکہ انسان کی کرامت اور اس کا اعجاز مراد ہے.یہی مضمون ہے جو پہلے مصرع نے واضح کر دیا ہے.گو یا اعجاز تو یہ ہے کہ انسان اس کے کہے میں خوشی سے زہر بھی کھا جائے اور موت کی قطعاً پرواہ نہ کرے.پر واہ ہو تو صرف اس کی رضا کی ہو اور اس کی خاطر انسان تلخ سے تلخ گھونٹ پینے پر ہرلمحہ مستعدر ہے.“ نظم نمبر 30 ( مكتوب 15.5.93 صفحہ 3) الفضل 7 مئی 1992 ء کے شمارہ میں صفحہ اول پر میری ایک پرانی نظم بی بی کے وصال 385
سیلاب رحمت پر چسپاں ہونے والے کچھ نئے اشعار اضافہ کے ساتھ شائع ہوئی ہے.اس پر بھی میں نے نظر ثانی کی ہے اور اس کے علاوہ آخر پر بعض مزید اشعار کا اضافہ کیا ہے وہ بھی شامل کرلیں : تم جن کا وسیلہ تھیں وہ روتی ہیں کہ تم نے دم توڑ کے توڑے ہیں ہزاروں کے سہارے وہ آخری ایام وہ بہتے ہوئے خاموش حرفوں کے بدن، اشکوں کے دھاروں کے سہارے بھیگی ہوئی، بجھتی ہوئی، مٹتی ہوئی آواز اظہار تمنا وہ اشاروں کے سہارے ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہنا دم رخصت وہ ہاتھ میں نے نہیں جینا نگہداروں کے سہارے وہ جن کو نہ راس آئیں طبیبوں کے دلاسے شاید کہ بہل جائیں، نگاروں کے سہارے آ بیٹھ مرے پاس مرا دست تہی تھام مت چھوڑ کے جا درد کے ماروں کے سہارے آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آخری دواشعار کی طرف توجہ دلا دی کہ ان کے درمیان کچھ کمی سی معلوم ہوتی ہے.مجھے بھی لگ رہا تھا.بہر حال آپ نے بہت اچھا کیا جو توجہ دلائی.شروع میں ان سے میں مخاطب ہوں مگر آخر پر وہ مجھ سے مخاطب ہیں.اس لئے مضمون کو مزید کھولنے کیلئے میں نے چند نئے شعروں کا اضافہ کر دیا ہے.امید ہے اب اس 386
سیلاب رحمت 66 سے بات واضح ہو جائے گی.انشاء اللہ تعالیٰ.“ ( مكتوب 93_3_16 صفحہ 29-28) اعراب اور تلفظ کی غلطیوں کے بارہ میں راہنمائی اعراب کی غلطیاں بھی آپ نے سمجھا سمجھا کر لغات کے حوالے سے بتا ئیں.صرف چند مثالیں ملاحظہ ہوں : لفظ مناروں نہیں، مناروں ہے.مینا ر درست ہے جب دی کے ساتھ آئے اور جب دہی کے بغیر ہو تو منا ر ہوتا ہے.“ تحت الثری درست نہیں.یہ لفظ تحت الثری“ ہے.فیروز اللغات میں بھی اسے ”تحت الثری ہی لکھا ہے.لفظ گر فتار نہیں اگر چہ عموماً بولا اسی طرح جاتا ہے.لغت کی کتابیں چیک کی ہیں.اس کا صحیح لفظ گرفتار ہے.“ جاء الحق وزهق الباطل، اردو میں تو ”زھق الباطل ٹھیک ہے لیکن آیت کریمہ میں اس پر پیش موجود ہے.تاہم عربی میں جس لفظ پر بھی قاری ٹھہرتا ہے وہ اس کی آخری حرکت کو نہیں پڑھتا، لیکن حرکت اسی طرح لکھی جاتی ہے.صرف وقف کی وجہ سے پڑھنے میں نہیں آتی.اس لئے پیش ضرور ڈالیں.لیکن نیچے نوٹ دے دیں کہ شعر میں چونکہ یہاں وقف کرنا ہے.اس لئے حرکت نہیں پڑھی جائے گی.بلکہ باطل کی بجائے باطل پڑھا جائے گا.“ 387
سیلاب رحمت آپ نے مسودہ میں اویس کے نیچے تصیح کرتے ہوئے الف کی زبر کے ساتھ اسے اولیس لکھا ہے.یہ لفظ اولیس ہے.الف کی پیش کے ساتھ.اسے اولیس لکھنا یا پڑھنا غلط ہے.عربی لغت کی کتابوں لسان العرب القاموس المحیط اور المنجد وغیرہ میں اولیس ہی لکھا ہے.“ مسودہ میں جاں لکھا ہے.یہ جاں نہیں بلکہ نون کے ساتھ جان ہے.ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر آپ کو گہری نظر رکھنی پڑے گی اور جہاں جہاں میں نے اعراب کو واضح کیا ہے.وہاں آئندہ مسودہ واضح کر کے لگوائیں.ان میں سے کوئی حرکت زیر زبر چھوٹنے نہ پائے.سب اعراب اس مقصد سے لگائے جانے چاہئیں کہ آج کل کے اردو پڑھنے والے بھی عربی کی طرح اعراب کے محتاج ہو چکے ہیں.خصوصاً پاکستان سے باہر پیدا ہونے والے تو اس کے بہت محتاج ہیں.لفظ خاتم کے معنی ختم کرنے والا درست نہیں.ت کی زبر کے ساتھ اس کے معنی انگوٹھی اور مہر کے ہوتے ہیں اور مراد سب سے اعلیٰ سب سے افضل جس پر مقام ختم ہو جائے اور ہر قسم کے فیوض کا اجراء جس کی ذات سے وابستہ ہو جائے.یہ معنی ہیں جو کھول کر بیان کرنے چاہئیں.‘“ (مکتوب 93-5-15 صفحہ 19) 388
مہک / لفظ مہک کے متعلق آپ کی بات درست ہے.یہ مہک اور مہک دونوں طرح آجاتا ہے.مگر مجھے تو مہک سے زیادہ لگاؤ ہے اور ہمارے گھروں میں بھی مہک ہی پڑھا جاتا تھا.لیکن اہل زبان ح ، ہ، DO سے پہلے زیر آجائے تو اس میں امالہ بھی کرتے ہیں جیسے رہنا، کہنا ،سہنا وغیرہ.اسی طرح میں بھی مہک کو مہک کی بجائے امالہ کر کے مہک پڑھتا ہوں لیکن بعض شعراء جب ضرورت سے زیادہ اپنی اردو جتاتے ہیں تو وہ مچل کے وزن پر مہک پڑھتے ہیں.“ ( مکتوب 4 دسمبر 1993ء) چاروں اور بجی شہنائی اور پر زبر نہیں ہے.یہ لفظ اور ہے اور نہیں.اور کا مطلب ہوتا ہے مزید جب کہ اور کا مطلب ہے سمت.جس طرح چور کو چور پڑھنا جائز نہیں اسی طرح اور کو اور پڑھنا جائز نہیں.“ ضائع ( مکتوب 5 دسمبر 1993 ء صفحہ 8) لفظ ضائع کا ایک تلفظ اگر چہ ضایا، بھی چل پڑا ہے مگر جب ادبی کلام پڑھا جائے تو پھر اس کو ضا یا پڑھنا یا لکھنا غلط ہے اور اس کو پسند 389
درد.رحمت نہیں کیا گیا.حضرت مصلح موعود اس سے بہت الرجک تھے.لیکن اب یہ عرف عام میں مستعمل ہو چکا ہے.اس لئے اس کے اوپر کوئی گرائمیرین دھونس ڈالنی مناسب نہیں.زبان دانی کی دھونس لفظوں پر ضرور چلتی ہے لیکن جب کوئی لفظ غلط العام ہو جائے تو پھر اس کے سامنے ادب کی ساری لگا میں ڈھیلی پڑ جاتی ہیں.چنانچہ باوجود اس کے کہ ت مصلح موعود کافی عرصہ لفظ 'ضایا کے خلاف احتجاج فرماتے رہے ہیں مگر پھر بھی ضایا راہ پاہی گیا ہے.آپ اس نا پسندیدگی کا اظہار اکثر ایسے پڑھنے والوں پر فرماتے تھے جو آپ کے کلام میں ” ضایا میرا پیغام..“ پڑھ دیا کرتے تھے اور ایسے اعلیٰ ادبی کلام میں واقعی ضائع کو ضائع ہی پڑھنا چاہئے اور رضا یا نہیں کہنا چاہئے...باقی جو عام درست الفاظ ہیں ان میں اگر کوئی غلط پڑھے تو بہت تکلیف دیتا ہے مثلاً نشان کو 66 نشان پڑھنا..( مکتوب 5 اپریل 1995 ، صفحہ 3) وو ہے جیسے :..ضمناً یاد آیا کہ شعروں میں تو درد لفظ کا مذکر استعمال ہی ملتا در دمنت کش دوا نہ ہوا دل میں اک درد اُٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے لیکن بول چال میں بسا اوقات درد ہورہی ہے، سننے میں آتا ہے.390
یا مجھے درد ہو رہی ہے.اس کو آپ کس مقام پر رکھیں گی.کیا غلط العام شمار ہوگا یا غلط شمار ہوگا ؟ ( مکتوب 12 نومبر 1991ء) مشکل الفاظ کے معنی Glossary کی تیاری متن کے بعد دوسرا مرحلہ مشکل الفاظ کے معافی اور تلفظ کو واضح کرنا تھا.ابتدائی طور پر جو گلاسری Glossary خاکسار نے بنا کر بھیجی اس کے متعلق آپ نے تحریر فرمایا تھا: ” جہاں تک حاشیہ میں الفاظ معنی دینے کا تعلق ہے یہ بہت اچھا خیال ہے اور ضرورت بھی ہے.لیکن ان کا انتخاب ہر قسم کے پڑھنے والوں کی ذہنی اور علمی سطح کا خیال رکھتے ہوئے کرنا چاہئے.بعض تو بہت ہی عام فہم الفاظ کے معنی آپ نے دیے ہوئے ہیں.لیکن بعض ایسے الفاظ جو روز مرہ مستعمل نہیں اور بعض اوقات اچھے بھلے پڑھے لکھے شخص کے ذہن میں بھی مستحضر نہیں ہوتے ان کے معانی نہیں دیے گئے.اس لحاظ سے انتخاب کو Balance بنانے کی ضرورت ہے.اردو میں تلفظ دینے کی بجائے انگریزی میں تلفظ دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا.کیونکہ اردو میں جس طرح تلفظ دئے گئے ہیں ان سے پڑھنے والوں کو الجھن پیدا ہوسکتی ہے.مثلاً منت کو من نت، آئینہ خانے کو آئی نا خانے متی نصر اللہ کو متا نص رل لاہ ٹیلہ کوئی لا نیر ہدی کونی می رےہ دا وغیرہ وغیرہ.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس میں بڑی محنت کی گئی ہے.لیکن پڑھنے والوں کو اس سے الجھن بھی ہوسکتی ہے.اس لئے ساتھ انگریزی میں بھی تلفظ دیں اور اردو میں ساتھ یہ نوٹ دے دینا چاہئے کہ یہ لفظ 391
سیلاب رحمت ایک ہی ہے صرف پڑھتے ہوئے صوتی لحاظ سے اس کی آواز جس طرح بننی چاہئے اس کی وضاحت کیلئے اس طرح لکھا گیا ہے.‘ ( مکتوب 15-5-93 صفحہ 18 ) خاکسار نے ان ہدایات کے مطابق الفاظ معنی کو Balance کیا.انگریزی تلفظ اور معانی دئے اور آپ کی خدمت اقدس میں روانہ کئے.آپ نے ایک ایک لفظ کا جائزہ لیا.آپ کے ساتھ ایک ٹیم کام کرتی تھی جو اصلاحوں کو نوٹ کر کے کمپوز کر کے مجھے بھجوا دیتی.الفاظ معنی کی درستی کے بعد کمپوزنگ کا مسئلہ تھا اور کمپوزنگ سے بڑھ کر پروف ریڈنگ کا جس میں آخر تک کچھ نہ کچھ خامیاں رہیں.کلام طاہر مع فرہنگ چھپ گئی جولائی 1995ء میں جلسہ سالانہ پر کتاب بھیجنے کے جنون نے دن رات کام پر لگائے رکھا.صفحے کے ڈیزائن اور سائز تک کی منظوری حضور سے لی.طباعت کے کام میں سر دینے والے ہی اندازہ کر سکتے ہیں کہ قدم قدم پر کیسی کیسی دشواریاں راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہیں اور پھر کراچی کے مخصوص حالات میں ایسی جگہوں پر صبر آزماد ی لگتی رہی جو پہلے سوچا بھی نہیں ہوتا تھا.مولا کریم کے فضل و احسان سے 19 جولائی 1995 ء کو کتاب چھپ کر آ گئی اور جلسہ سالانہ پر حضور رحمہ اللہ کی خدمت میں ہماری صد ر مکرمہ سلیمہ میر صاحبہ اور قائمقام صدر مکرمہ امتہ الحفیظ بھٹی صاحبہ نے پیش کی.ان کی سر پرستی میں کام ہوا اور ان کو ہی پیش کرنے کی سعادت ملی.حضور نے پسندیدگی کا اظہار فرمایا اور دعائیں دیں.اس موقع پر سارے مددگاروں کا ذکر دعا اور شکرانے کے لئے درج ہے.برکت ناصر صاحبہ نے کلام جمع کرنے میں مدد دی.محترم سلیم شاہجہانپوری صاحب نے 392
سیلاب رحمت کلام اور گلاسری Glossary دونوں کی نظر ثانی کی.محترم عبید اللہ علیم صاحب نے قیمتی مشوروں سے نوازا اور طباعت میں مکرم شیخ ادریس صاحب اور مکرم شیخ داؤ داحمد صاحب نے محنت کی.ان کے وائی آئی پریس سے طباعت ہوئی.فجز اھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.کلام طاہر کی طباعت پر اظہار خوشنودی اور دعائیں پیارے حضور نے آپا سلیمہ صاحبہ کے نام مکتوب میں تحریر فرمایا: " آپ کی سر پرستی میں کلام طاہر“ پر جو کام ہوا ہے وہ بہت ہی اعلیٰ ہے.ماشاء اللہ بہت خوبصورت پیشکش ہے.جن کے نام آپ نے لکھے ہیں ان سب کا شکریہ اور میری طرف سے انہیں محبت بھر اسلام.اللہ تعالیٰ ان کے اموال نفوس اور اخلاص میں برکت دے اور اپنی رحمتوں سے نوازے." خاکسار کے نام آقا نے تحریر فرمایا: کلام طاہر کی خوبصورت دیدہ زیب طباعت پر بے حد شکریہ.آپ نے اس پر بہت محنت کی.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اللہ آپ سب کو علمی ، ادبی تعلیمی، تربیتی اور تبلیغی خدمات سرانجام دینے کی توفیق دے اور سب بچوں کی طرف سے آنکھوں کی راحت عطا فرمائے.سب کو بہت بہت محبت بھر اسلام.“ روز نامہ الفضل نے تبصرہ لکھا: احمد یہ جماعت میں سب سے خوبصورت کتاب کاغذ ، جلد اور 393
فلیپ کی خوبصورتی کو مدنظر رکھتے ہوئے چھپنے والی کتاب کا اعزاز شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی کے حصہ میں آیا ہے.“ روزنامه الفضل ربوہ 16 اکتوبر 1995ء) سب سے حسین ترین بات یہ کہ پیارے حضور پرنور نے کتب ملنے پر خاکسار کو کلام طاہر کا تحفہ بھیجا اور اس پر دست مبارک سے تحریر فرمایا: وو عزیزه استرالباری ناصر کیمیا اتر یہ پیلو نسخہ ہے جو کسی کو پر خلوص دعاؤں کے ساتھ بھجوا رہا ہوں ظاہر ہے کہ آپکا حق خالق ہے جزات المرضن الجزاء في الدنيا دلا خرد توران گلایه 25-7.95 لنڈی عزیزہ امتہ الباری ناصر سلمھا اللہ.یہ پہلا نسخہ ہے جو کسی کو پر خلوص دعاؤں کے ساتھ بھجوا رہا ہوں.ظاہر ہے کہ آپ کا حق فائق ہے.جزاك الله احسن الجزاء في الدنيا والاخره مرزا طاہر احمد (25-7-95-لنڈن) 394
سیلاب رحمت کس زباں سے میں کروں شکر کہاں ہے وہ زباں کہ میں ناچیز ہوں اور رحم فراواں تیرا مولا نانسیم سیفی صاحب نے الفضل 22 اگست 1995ء کے شمارے میں ایک دلچسپ قطعہ شائع کیا: سلیمہ میر و باری کو تہہ دل سے مبارک : ہو بہت شایان شان آیا کلام حضرت طاہر کچھ ایسی دیدہ زیب اس کی کتابت و طباعت ہے که از خود ہو گیا مفہوم اس کا ظاہر و باہر خاکسار نے جواباً لکھا: کلام حضرت طاہر کی خدمت اک سعادت ہے اسے فضل خداوندی کا سارا سلسلہ کہہ دوں یہ سب اللہ کا احسان ہے اس کی عنایت ہے لگی ہے مجھ کو اک درویش کے دل کی دعا کہہ دوں سلیمہ میر و باری تو ہیں اک تنظیم کا میں سب لجنہ کراچی کی طرف سے شکر یہ کہہ دوں حصہ (الفضل انٹرنیشنل 11 جنوری 2002ء) 395
سیلاب (رحمت) کلام طاہر کی لندن سے طباعت اور اضافے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا جتنا بھی شکر کروں کم ہے.2001ء میں لندن سے کلام طاہر کا نیا ایڈیشن شائع ہوا.حضور پر نور کے ارشاد پر نئی شامل ہونے والی نظموں کی پروف ریڈنگ اور گلاسری کی تیاری کی سعادت نصیب ہوئی.لندن سے جو کتاب شائع ہوئی وہ بدرجہا خوبصورت ہے.لجنہ کراچی کی اشاعت کا اسلوب برقرار رکھا.جس کی ہم سب کو بہت خوشی ہے.کتاب موصول ہوئی جس پر پیارے آقا کا دلفریب نوٹ تھا: پیاری عزیزہ امتہ الباری ناصر صاحبہ کلام طاہر کے تعلق میں آپ کے بہت ہی قیمتی مشورے ملتے رہے ہیں اور بڑی محنت سے آپ نے اس کی گلوسری بنائی ہے.اس کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے ، حق ادا نہیں ہوسکتا.بہر حال میری طرف سے یہ عید کا تحفہ جس میں آپ کا بڑا دخل ہے، ذرا تاخیر سے پیش ہے، 66 قبول فرما ئیں.“ والسلام خاکسار (18 دسمبر 2001 لندن) دستخط مرزا طاہر احمد دستخط کر کے مجھے بھیجی کلام طاہر آپ جیسا کوئی دلدار نہ دیکھا نہ سنا اپنے عشاق سے یہ پیار نہ دیکھا نہ سنا لطف اور ایسا طرح دار نہ دیکھا نہ سنا 396
میری جھولی کے لعل و جواہر کلام طاہر کی تیاری کے مہ و سال میرے زندگی کا سنہری دور تھا.گل تو ہوتے ہی حسین ہیں خار بھی بہت حسین تھے.حضور انور کی خدمت میں خط لکھنا چھیڑ خوہاں سے چلی جائے اسد والا معاملہ نہیں ہوتا.جان و ایمان بہتھیلی پر رکھا ہوتا ہے.آپ کی طرف سے جواب موصول ہوتا تو ہر دفعہ یہ سوچ کر کھولتی کہ لکھا ہوگا: عزیزہ ! اگر مبلغ علم کی کوتاہ قامتی کا یہ عالم ہے تو زحمت نہ ہی کریں.جزاکم اللہ “ مگر آپ نے بڑے تحمل و برداشت بلکہ صبر سے میری کوتاہیوں سے صرف نظر فر ما یا اور سمجھا سمجھا کر حوصلہ بڑھاتے رہے.میری جھولی میں ایسے لعل و جواہر بھی ہیں جن پر مجھے بجا طور پر عاجزانہ فخر ہے.یہ بھی کلیۂ آپ کا حسن نظر ہے.رکھتی نہیں ترتیب سے یادیں کبھی لیکن باندھا ہے ترے نام کا اک باب علیحدہ میرے اس علیحدہ باب میں الگ باندھ کے رکھا ہوا ایک مکتوب مجھے بے حد عزیز ہے.اس میں پیارے آقا کی شخصیت کے کئی روپ کھلتے ہیں.دست مبارک سے تحریر فرمایا: 397
29.9.90 عزیزه محترمه استر العبادی ناصر اسلام علیکم و رحمتہ الله و بركاته بلہ کے پڑھی جانے والی نعمون بے متعلق مست بھرے رنگا رنگ کے خطوط ملتے ہیں لیکن سب پر محبت کا رنگ غالب رہتا ہے اس لئے پوری طرح اطمینان نہیں ہوتا کہ کسی نے متوازن تنقیدی نظر سے بھی جائزہ لیا کہ نہیں کبھی کبھی سلسلہ کے بعض چوٹی کے تعداد ان ادیب بھی جب اپنی کا امن کرتے ہیں تو مجھے احساس ہوتا به تعریف تو ہی کر رہے ہیں لیکن خامیوں متعلق صرف نظر کر جاتے ہیں آپکا آج کا خط مشی ہے.پہلی بات که تما متریح تو یہ نمایاں ہے کہ اور سچ ہے ایہ بینچ کے ہوا ان کچھ نہیں.جہاں کچھ اصلاح کی گنجائش وہ بھی بڑے ملائم دیسند الفاظ میں تجویز کردی.انکار کی آئیرش نے ان الفاظ کو ان بھی شائستہ بنا دیا.398
دوسری نمایاں بات یہ ہے کہ آپکے تبصرہ میں بھنورے کا سارنگ پایا جاتا ہے.دور ہی سے دیکھا اور سر لگتا نہیں بلکہ بھنورے کی طرح پر کے دل میں ڈوب کر پردوں میں لیٹی ہوئی شعر اوح سے شناسائی کے بعد لب کشائی کی ہے.یہ تو میں نہیں کہتا کہ میرے دل کی سب باتوں تک آپ اتر گئیں لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ بند کرواؤں دائے گھر کو راستہ چلتے بھر کر نہیں دیکھا بلکہ کواڑ کھول کر اندر سے بھی جائزہ لیا.ایک ایر بات یہ بھی کہ سکتا ہوں کہ کواڑ کھلوائے نہیں خود کھولے ہیں یعنی آپکی اپنی چابی ہی سے تالے کھل گئے کا جہاں تک اصلاح کے اشاروں کا تعلق ہے ذوق کی لطاقت سے تو انکار نہیں لیکن سر میں جن راہوں سے گزر چکی ہیں ان یلو علم نہیں ہم نے کوئکہ کو ٹکہ رینا دل میں ہے امر مانع رہے کہ اول پس طرح ایک ایک کرکے وٹلے کے ے کوٹے کا تصور ابھر آتا ہے یر کوٹلہ کی تکرار پہلے ہی ہے މ بل جل ئلہ نبوئے ہوئے دل کا تصور پیش کرتا ہے 399
آنچل پڑانے یا کھرانے میں یہ ایک بھی پیش نظر تھی کہ دو تین شعر جو اس غزل میں پڑھتے نہیں آئے اکران میں ایک آبچل پرا نے والہ شعر بھی تھا.دوسرے یہ نہ بھی ہوتا تو شفق کے چہرے پر آنچل لہرانے یا لکھوانے کی بجائے گیر بکھانے کا مضمون زیادہ ہر محل معلوم ہوتا ہے آنچل سے یا پلو سے چہرہ چھپایا تو جاتا ہے چہرے پر آنچل میرا پایا بکھر آیا نہیں جاتا.جو شعر نہیں پڑھے گئے اُن میں سے جو یاد ہیں وہ لکھ دیتا ہوں خالق کی طرح ہر بہت بھی اک نئی شان بران بر اساست موسم کے رقص وسرور نے جلا دی کا دربار لگا کمیٹی کاشی اُودے پہلے پھول کھلے ہیں یا ہے یا بہن نے پر بہکی بھکی ست بیواؤں نے اُچھل بہکایا.دور افق پرانہ ہی رت ہے.چھائی ہے گنگو گھٹا بادل نے پھلی نے گرج نے اک کہرام مچایا ہے اسی طرح کے بہتے اچھے خط آپ بے شک ہے جھوک لکھا کریں.ایسے خطوں کے چلتے چلتے رکے بغیر ستانے کے یا سان ہو جاتے ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء دالله صرفا کی ، کوشتی ہے.جزاکم اللہ احسن الجزاء آپکی سنجنہ کی مصروفیات کی رپورٹ دل سے دعائیں مزار لاالہ 400
29-9-90 عزیزہ مکرمہ امۃ الباری ناصر جلسہ پر پڑھی جانے والی نظموں کے متعلق محبت بھرے رنگارنگ خطوط ملتے ہیں لیکن سب پر محبت کا رنگ غالب رہتا ہے اس لئے پوری طرح اطمینان نہیں ہوتا کہ کسی نے متوازن تنقیدی نظر سے بھی جائزہ لیا یا نہیں کبھی کبھی سلسلہ کے بعض چوٹی کے شعراء اور ادیب بھی جب اپنی پسند کا اظہار کرتے ہیں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ تعریف تو سچی کر رہے ہیں لیکن خامیوں کے متعلق صرف نظر کر جاتے ہیں.آپ کا آج کا خط مستثنی ہے پہلی بات تو یہ نمایاں ہے کہ تمام تریج ہے اور سچ کے سوا کچھ نہیں.جہاں کچھ اصلاح کی گنجائش دیکھی وہ بڑے ملائم دل پسند الفاظ میں تجویز کردی.انکساری کی آمیزش نے ان الفاظ کو اور بھی شائستہ بنادیا.دوسری نمایاں بات یہ ہے کہ آپ کے تبصرہ میں بھنورے کا سارنگ پایا جاتا ہے.دور ہی سے دیکھا اور سونگھا نہیں بلکہ بھنورے کی طرح ہر شعر کے دل میں ڈوب کر پردوں میں لپٹی ہوئی روح سے شناسائی کے بعد لب کشائی کی ہے.یہ تو میں نہیں کہتا کہ میرے دل کی سب باتوں تک آپ اتر گئیں لیکن یہ ضرور کہ سکتا ہوں کہ بند کواڑوں والے گھر کو راستہ چلتے ٹھہر کر نہیں دیکھا بلکہ کواڑ کھول کر اندر سے بھی جائزہ لیا.ایک اور بات یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ کواڑ کھلوائے نہیں خود کھولے 401
سیلاب رحمت ہیں یعنی آپ کی اپنی چابی ہی سے تالے کھل گئے.جہاں تک اصلاح کے اشاروں کا تعلق ہے ذوق لطافت سے تو انکار نہیں لیکن میری سوچیں جن راہوں سے گزرچکی ہیں ان کا آپ کو علم نہیں.ہم نے کوئلہ کوئلہ اپنا دل میں یہ امر مانع تھا کہ اول اس طرح ایک ایک کر کے کوئلے کے بعد دوسرے کوئلے کا تصور اُبھرتا ہے جب کہ موجودہ جگہ پر کوئلہ کی تکرار پہلے ہی سے جل جل کر کوئلہ ہوئے ہوئے دل کا تصور پیش کرتی ہے.آنچل لہرانے یا بکھرانے میں یہ روک پیش نظر تھی کہ دو تین شعر جو اس غزل میں پڑھے نہیں گئے ان میں ایک آنچل لہرانے والا شعر بھی تھا.دوسرے یہ نہ بھی ہوتا تو شفق کے چہرے پر آنچل لہرانے یا بکھرانے کی بجائے گیسو بکھرانے کا مضمون زیادہ برحل معلوم ہوتا ہے.آنچل سے یا پلو سے چہرہ چھپایا تو جاتا ہے چہرے پر آنچل لہرایا یا بکھرا یا نہیں جاتا.جو شعر پڑھے نہیں گئے ان میں سے جو یاد ہیں وہ لکھ دیتا ہوں : خالق کی طرح پر بت بھی ایک نئی شان ہر آن بدلتا ہے موسم کے رقص و سرود نے جلووں کا دربار لگایا ہے چمپئی کاسنی اودے پہلے پھول کھلے ہیں سبزے پر مست ہواؤں نے آنچل لہکایا ہے بہکی بہکی دور افق پر اور ہی رت ہے چھائی ہے گھنگھور گھٹا بادل نے بجلی نے گرج نے اک کہرام مچایا ہے 402
سیلاب رحمت اس طرح کے بیچے اچھے خط آپ بے شک بے جھجھک لکھا کریں.ایسے خطوط سے چلتے چلتے ، رُکے بغیر سستانے کے سامان ہو جاتے ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء.آپ کی لجنہ کی مصروفیات کی رپورٹ دل سے دعا ئیں لوٹتی ہے جزاکم اللہ احسن الجزاء.والسلام خاکسار ( دستخط) مرزا طاہر احمد ایک اور بہت مزے دار بات ایم ٹی اے کی نشریات کا بالکل آغاز تھا.عجیب سر خوشی کا عالم تھا کہ حضور انور نے خاکسار کا ذکر فرمایا جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی.14 جنوری 1994ء کو ملاقات پروگرام میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ امتہ الباری ناصر یہ پروگرام سن رہی ہوں تو یہ رباعی بھی کلام طاہر میں شامل کر لیں : بذل حق محمود سے میری کہانی کھو گئی بذل حق سے روٹھ کروہ واصل حق ہوگئی نذر راوی کی تھی میں نے کتنے ارمانوں کے ساتھ ناؤ لیکن کاغذی تھی غرق راوی ہوگئی 403
وہ کرتے ہیں احساں پہ احساں ہمیشہ، وراثت میں پائی ہے شان کریمی خدا کی ادائیں ہیں مردِ خدا میں، وگرنہ میں کیا میری ہستی ہی کیا ہے غنیمت ہے نا چیز ذروں کی خاطر ، شغف میرے سورج کا شعر و ادب میں ہے سایہ فگن آسماں معرفت کا، زمیں پہ بہت روپ آیا ہوا ہے میں لاؤں کہاں سے وہ الفاظ جن میں، ادا کر سکوں شکریہ جیسا حق ہے بہے جارہے ہیں تشکر کے آنسو، مرا پگلا دل آج پگھلا ہوا ہے بڑی عاجزی سے میں سر کو جھکائے ، خدا سے یہی اک دعا مانگتی ہوں میرے آقا کی ساری دعائیں ہوں پوری ، علاوہ ازیں چاہئے اور کیا ہے 404 (الفضل انٹر نیشنل 14 اپریل 2003ء)
حضرت خلیفۃ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی المناک رحلت لندن سے آپ کی کمزور صحت دیکھ کر آنے والے دل دہلا دینے والی خبر میں سناتے.ایک مسلسل فکر دامنگیر رہتا.اُٹھتے بیٹھتے دعا کر رہے تھے ،اللہ خیر رکھے.اللہ شافی ہمارے حضور کو رہتی دنیا تک سلامت رکھے.خطبوں میں تعطل آیا تو دل پکارا : کیوں ہو گئے چپ یکدم کیوں آنکھ سے اوجھل ہو سنبھلے گا یہ دل کیسے جو پہلے ہی بے کل ہو ترسی ہوئی آنکھوں کے ہونٹوں یہ دعائیں ہیں گفتار مسلسل ہو ہو دیدار مسلسل مولیٰ کی ربوبیت لیتی ہے پناہوں میں جب دل میں خشیت ہو بھیگا ہوا آنچل ہو ان دنوں ایم ٹی اے پر خاکسار کی دعائیہ نظم بار بار چلتی اور دل درد سے بھر جاتا.آؤ نا کریں اُس کے لئے ہم بھی دعائیں جو شخص ہمارے لئے سرتا پا دعا ہو 405
سیلاب رحمت جھونکا نہ کبھی گرم ہوا کا اُسے چھوئے ہر آن لئے سائے میں رحمت کی ردا ہو ایسے میں بہت درد سے ہوتی ہیں دعائیں جب سینے میں دُکھ درد سے اک حشر بپا ہو کشکول لئے بیٹھے ہیں سب در کے بھکاری اس محسن و مشفق کو عطا پوری شفا ہو ہم کشکول لئے پھر رہے تھے کہ مولی کریم اس میں آقا کی کامل شفا کی خیرات ڈال دے،مگر جو ہمارا پیارا تھاوہ اللہ کا بھی پیارا تھا.بلانے والے کا بلاوا اچانک آگیا.تیرہ اپریل کی ایک گرم دو پہر تھی.جب معمول کے کاموں کے بعد ذرا تھکن محسوس ہوئی تو کچھ دیر آرام کرنے کے لیے اپنے کمرے میں آکر لیٹی ہی تھی کہ ہماری بہو مینا نے آواز دی: امی..! اس کی آواز میں اتنا درد تھا کہ میں سمجھی ضرور کوئی بہت ہی بری خبر ہے.اس سے بولا نہیں جار ہا تھا.کیا ہوا؟ میں نے گھبرا کر پوچھا تو اس نے روتے ہوئے ٹی وی کی طرف اشارہ کیا مکرم منیر احمد جاوید صاحب وہ دلدوز خبر سنارہے تھے جس کے سننے کی کسی میں تاب نہ تھی.پھر ایم ٹی اے پر اس شاہزادے کا آخری سفر دکھایا گیا.وہ جری اللہ سب کو تڑ پتا چھوڑ کر فرشتوں کی سی معصومیت سے گہری نیند سو گیا تھا.جیسے کہہ رہا ہو: بہت مشکل ہے یہ بارِ خلافت میں اب آرام کرنا چاہتا ہوں 406
سیلاب رحمت نہ پیاروں کی دعائیں روک لیں پھر اچانک کوچ کرنا چاہتا ہوں پیارے حضور کی رحلت ہر احمدی کے لیے انتہائی تکلیف دہ تھی لیکن مجھے غریب کا یہ ذاتی نقصان تھا.آپ کے حسن و احسان کی یا دخون کے آنسو رلا رہی تھی.یہی آنسو کچھ اشعار میں ڈھل گئے.ایک نظم کے کچھ بند پیش ہیں: ہر گھڑی سوچتی رہتی تھی کہ خط آئے گا دلِ بے چین کچھ اس طرح سکوں پائے گا سلسلہ ربط بہم کا کوئی ہو جائے گا شاید اس بار کسی شعر پہ کچھ داد آئے میں بہت روئی مجھے آپ بہت یاد آئے اک فقط میں ہی جدائی پہ نہیں ہوں دیگیر اک دنیا ہے ترے حسن کی احساں کی اسیر لوگ یوں تڑپے ہیں، روئے ہیں نہیں جس کی نظیر سب کو جو اُن سے تعلق تھا وہ سب یاد آئے میں بہت روئی مجھے آپ بہت یاد آئے ہر گھڑی جنگ کڑی اُس نے لڑی ہے مولا زندگی دعوت دیں میں ہی کئی ہے مولا تا دم واپسیں خدمت ہی رہی ہے مولا 407
پر سیلاب رحمت سکوں سوئے ہوئے آپ بہت یاد آئے میں بہت روئی مجھے آپ بہت یاد آئے آپ کی ساری لگن دل میں بسا لیں ہم بھی پاک تبدیلی کا منصوبہ بنا لیں ہم بھی آپ سے پیار میں کچھ یار کما لیں ہم بھی آپ سے عہد وفا ہم کو بہت یاد آئے میں بہت روئی مجھے آپ بہت یاد آئے مڑ کے یہ دیکھا نہیں ہم لوگ ہیں کس حال میں چھوڑ کر یوں چل دیے جیسے کوئی ناتا نہیں سلسلہ اک خط کا تھا باہم تھا جس سے رابطہ اب وہاں سے کوئی بھی خط لاتا لے جاتا نہیں کون سی محفل ہے جس میں ذکر خیر اُس کا نہیں کون ہے جس کو کہ اُس کا ذکر تڑپاتا نہیں 408
ہجر کو لمحے میں وصال کیا سارا قصہ ہی انفصال کیا ہو بہو تھا وہ باپ کی تشبیہ اُس نے دادا کو بھی مثال کیا اُس کا جینا بھی اک کمال کا تھا اس نے رحلت میں بھی کمال کیا عہد حاضر کا عہد ساز تھا وہ کام ہر ایک لازوال کیا جھولی بھر نے میں تھا وہ حاتم وقت جس نے جب بھی کبھی سوال کیا شعر فہمی اُسے ودیعت تھی میں نے شعروں میں عرض حال کیا ناز کرتی ہوں عجز سے بے حد اُس نے میرا بڑا خیال کیا وآخر دعوانا عن الحمد لله رب العلمین 409
حرف دعا جزاکم اللہ احسن الجزاء..تم نے مجھے سیلاب رحمت کا مسودہ پڑھنے کے لئے دیا.کیا کہوں.مجھ جیسے کمزور علم والی کے ہاتھ بہتا ہوا سیلاب رحمت کیا لگا کہ مجھے ہی اپنی چند تیز لہروں میں بہا کر لے گیا اور میں اس خوبصورت سیلاب میں کبھی ڈوبتی کبھی تیرتی اور کبھی غوطے کھاتی ہوئی بڑی مشکل سے پارگی ہوں.لیکن یہ ایک ایسا سیلاب تھا جس نے مجھے جی بھر کے سیراب بھی کیا.الحمد للہ.کتاب کا ایک ایک لفظ پڑھا ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں تمہاری تحریر کو ایک مقام حاصل ہے.میں بہت اچھے لفظوں میں تعریف کرنا چاہتی تھی مگر اس قابل نہیں ہوں.محترم منیر جاوید صاحب نے میری مشکل آسان کر دی.انہیں کے الفاظ دہرا کر کچھ حق ادا کرتی ہوں.کیا خوب لکھا ہے: ایک ایسی جواں ہمت ، حوصلہ مند ، جرأت و بہادری کی پیکر ، اپنے اخلاص اور جوش اور محنت اور خدا داد صلاحیتوں سے مردوں سے بھی آگے بڑھ جانے والی خاتون محترمہ امتہ الباری صاحبہ ہیں.محترمہ امتہ الباری صاحبہ ایک بہترین شاعرہ ہیں.بھلا جسے شاعری کی داد، خلیفہ المسیح کی 66 طرف سے ملی ہو اس سے بڑھ کر کیا سند اور اعزاز چاہئے.“ اور پھر حضور کا دل جیت کر ایسی داد وصول کرنا اللہ کا بڑا احسان ہے.جس خلیفہ المسیح کی ایک مسکراہٹ کے لئے کروڑوں لوگ اپنی جان نثار کرنے کو تیار ہوں وہ باری کی اس طرح 410
دلداری فرمائیں کہ : میں یہ تو نہیں کہتا کہ میرے دل کی سب باتوں تک آپ اُتر گئی ہیں لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ بند کواڑوں والے گھر کو راستہ چلتے ٹھہر کر نہیں دیکھا بلکہ کواڑ کھول کر اندر سے بھی جائزہ لیا ہے...ایک اور بات یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ کواڑ کھلوائے نہیں خود کھولے ہیں.یعنی آپ کی اپنی 66 چابی سے ہی تالے کھل گئے ہیں.“ جس کی تحریر میں یہ طاقت اور جادو ہو کہ وہ اللہ تعالی کے خلیفہ کے دل کو اپنی چابی سے کھول لے اس کی کسی بات پر کیا تبصرہ ہو.باری! تمہیں بہت مبارک ہو کراچی لجنہ اور دوسرے چاہنے والوں کا تم سے اور تمہارا ان سے محبت و اخلاص قابل رشک ہے.تمہاری تحریر کے ایک ایک فقرہ میں فطری عاجزی اور انکساری سمائی ہوئی ہے بہت جگہ میں نے دل سے چاہا کہ کاش میں بھی ان نیک کاموں میں شامل ہوتی اور دین کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل کر سکتی.لیکن پھر بھی بہت خوش ہوں باری ہماری ہے جو اُس کو سعادت ملی ہے اور جو اُس نے اپنی صلاحیتوں سے مقام حاصل کیا ہے وہ حقدار ہے کہ اُن خوشیوں کا مزالے جو اللہ میاں نے اُس کی جھولی میں ڈالی ہیں.اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے اُس کی رحمتوں کے جھولے میں جھولے اور اللہ تعالی کی پیار بھری نظریں ہمیشہ اُس پر سایہ بن کر اُس کی حفاظت کرتی رہیں.اللہ پاک خود اس کی جزا بن جائے اور دین ودنیا میں حامی و ناصر ہو.آمين اللهم آمین صفیه بشیر سامی 411
412
جلو میں لاتا ہے سیلاب رحمت ذرا سا عکس آنکھوں میں نمی کا آپکا 150 کا خط ملا جس میں یہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ اپنا منظوم پہیہ تشکر طبع کروانے کی تیاری کر رہی ہیں نمی کا عکس عنوان بھی آپ نے خوب چتا ہے.اس کے بعد آنے والے مجموعہ کلام کا عنوان تعجب نہیں کہ سیلاب رحمت ہو و اسیدم خاکسار سونپا ہے قلم وارث سلطان قلم نے اور ساتھ اشاعت کا بھی کچھ کام دیا ہے مجھ جیسی گنہگار پہ اکرام کی بارش یہ سارا خلافت سے محبت کا مزا ہے پانا ہے اگر کچھ تو اطاعت سے ملے گا پہلوں سے سبق سیکھا ہے ، نسلوں کو دیا ہے خليط الي الراج Sailab-e-Rehmat Amtul Bari Nasir یکے از مطبوعات شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ کراچی بسلسلہ صد سالہ جشن تشکر