Language: UR
ستر آخرت آداب و مسائل
اظہار تشکر شعبۂ اشاعت کتاب ”سفر آخرت“ کی اشاعت میں قلمی و مالی تعاون کرنے پر محترمہ امتہ الرشید محمد حسین صاحبہ کا شکر گزار ہے اللہ تعالی ان کے اخلاص، مال اور نفوس میں برکت عطا فرمائے.قارئین کرام سے ان کے بزرگ والد مکرم و محترم صوفی عبد القدیر صاحب بد و ملهوی (درویش قادیان) این مکرم و محترم مولوی عبدالحق صاحب بد ولمہوی کے لئے دعا کی درخواست ہے اللہ تعالی انہیں اعلی علیین میں جگہ دے اور اپنے احسان سے اُن کی قربانیوں کا ثمر اُن کی نسلوں کو عطا فر ما تار ہے.آمین فجزاهم الله تعالى احسن الجزاء في الدارين خيراً (صرف احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے )
سفر آخرت آداب و مسائل
2
3 پیش لفظ جشن تشکر کے سلسلے کی اکہترویں کتاب شائع کرنے کی توفیق پارہی ہے.الحمد للہ محتر مہ امۃ الرشید محمد حسین صاحبہ مرتبہ کتاب سفر آخرت نے وسیع مطالعہ اور محنت سے حیات سے ممات تک کا سفر اور اس میں در پیش مسائل کو قرآن پاک، احادیث مبارکہ اور حضرت اقدس مسیح موعود اور خلفائے کرام کی تحریروں سے جمع کر کے گراں قدر خدمت سر انجام دی ہے.جزاها الله تعالیٰ احسن الجزا بہت سے مسائل جو اس تعلق سے ذہنوں میں اُبھرتے تھے حل ہو گئے ہیں قارئین کے لئے انڈیکس کی مدد سے اپنے سوال کا جواب پا لینا آسان ہو گیا ہے.قارئین کرام سے استدعا ہے کہ اس کتاب سے نہ صرف خود فائدہ اُٹھا ئیں بلکہ اپنے حلقہ احباب سے بھی متعارف کرا ئیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کا انجام بخیر فرمائے.ہم اس حالت میں اُس کے حضور پیش ہوں کہ راضیہ مرضیہ کا مقام حاصل ہو.آمین اور ان کی معاونات ہماری خصوصی دعاؤں کی مستحق ہیں جن کی
کاوشوں سے علوم کے ذخیرے ہم تک پہنچ رہے ہیں اللہ تعالیٰ خود ان کی جزا بن جائے.آمین اللهم آمین
عرض حال صد شکر اُس خدائے عزوجل کا جو اپنی تمام صفات کے ساتھ ہمہ وقت جلوہ افروز ہے کہ مجھ عاجز بندی کو چھوٹی سی خدمت کی توفیق دی اُس کے احسان تو اس قدر ہیں کہ میری جبیں ہر لحظہ سجدہ شکر بجالاتی ہے مگر میں کمزور بندی شکر گذاری کا سلیقہ بھی نہیں جانتی وہ زبانِ حال کی دعائیں سننے والا اور قبول کرنے والا ہے.نثر و نظم میں اپنے فضل الہی اور اپنے ذوق کے مطابق نظم ونثر میں کچھ نہ کچھ کھتی رہتی ہوں حلقے کی بچیوں کو مضمون و تقاریر بھی لکھ دیتی ہوں اپنا پہلا مجموعہ کلام "اسرار بدی حضرت خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بھیجا تو اس کے ساتھ اپنا ایک خواب بھی لکھا کہ " میں کمرے میں داخل ہوتی ہوں دائیں طرف صوفہ پر میرے شوہر محمد حسین صاحب بیٹھے ہوئے ہیں مجھے کہتے ہیں دیکھو تو کون آیا ہے سلام کرو.میں دیکھتی ہوں تو حضور تشریف فرما ہیں میں سلام کرتی ہوں حضور کھڑے ہو جاتے ہیں اور مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہیں.میں مصافحہ کرتی ہوں اور عقیدت سے بالکل جھک جاتی ہوں آپ نے ہاتھ پکڑے کپڑے مجھے کھڑا کر دیا اور گرنے نہیں دیا
6 حضور پر نور نے کتاب اور خواب ملاحظہ فرما کر تحریر فرمایا ” بہتر ہے آپ نڑ لکھیں" میں نے یہ سارا ماجرا محترمہ آپا سیسہ میر صاحبہ کو سنایا تو آپ نے مجھے باری آپا سے ملواد یا انہوں نے مجھے عنوان دیا اور کتب بتائیں کہ ان میں سے مواد جمع کر کے حوالوں کے ساتھ ترتیب سے لکھوں.اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری محنت ان کو پسند آئی اور اب قارئین کرام کے ہاتھوں میں ہے.اس سلسلے میں ان کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دل سے دعا گو ہوں اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی مغفرت اور قرب عطا فرمائے.آمین
سفر آخرت موت برحق ہے مندرجات صفحہ نمبر IF مرنے والے دنیا کی طرف زندہ کر کے کبھی لوٹائے نہیں جائیں گے...۱۳ اصل زندگی تو موت کے بعد کی زندگی ہے.موت کو ہمیشہ یادرکھو.بحث بعد الموت دنیا کی تلخیاں اور بے ثباتی.دنیا فنا کا مقام ہے.۱۴ ۱۵ 10.19 19 12 ۱۸ 19 19 ۲۱ ۲۱ ۲۲ موت تبدیلی مکان ہے موت ایک مرکب ہے جو دوست کو دوست کے پاس پہنچا دیتا ہے.موت دونوں جہانوں کو جدا کرنے والا پردہ ہے.موت دوسرے عالم میں جانے کا دروازہ ہے.نزع کے وقت پڑھنے کی دعا ئیں دمِ مرگ خیر کے کلمات کے سوا دوسری باتیں نہ کی جائیں.میت کو غسل دینے کا طریق طاعون زدہ کے غنسل اور کفن کے بارے میں حکم.میت کو کفن پہنانے کا طریق.تجہیز و تکفین میں سادگی نمبر شمار IF اله ۱۵
۲۳ لله ۲۶ ۲۶ ۲۷ PA ۲۸ ۲۸ ۲۹ P+ ۳۱ تجہیز و تکفین میں جلدی کرنا.نماز جنازہ کا طریق.نماز جنازہ کی مسنون دُعائیں.نابالغ لڑکے کا جنازہ.نابالغ لڑکی کا جنازہ.نماز جنازہ میں چار سے زیادہ تکبیریں.جنگ میں بہت سے فوجیوں کی شہادت اور ریزہ ریزہ ہو جانے کی صورت میں نماز جنازہ اور قبر کے بارے میں حکم جنازہ جب جائے تو تعظیماً کھڑے ہو جانا چاہئے جنازہ اٹھاتے وقت میت کا سرکس طرف ہونا چاہیئے کسی عورت کی وفات پر دوسری عورت کا موجود نہ ہوتا مرد کی وفات پر کسی دوسرے مرد کے موجود نہ ہونے پر غسل و نماز جنازہ.غیر مسلم کی وفات اسلامی معاشرے میں.نماز جنازہ جوتیوں سمیت اور ننگے سر پڑھنے کے بارے میں.نماز جنازہ کا وقت پھانسی پانے والے شخص کی نماز جنازہ..خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ.جنازہ غائب نماز جنازہ کی تکرار.۳۱ ۳۴ ۳۳ ۳۳ نماز جنازہ حاضر یا غیب میں مردوں کے ساتھ عورتوں کی شمولیت.مسجد میں میت رکھ کر نماز جنازہ ادا کرنا.۱۸ > 19 ۲۲ ۲۳ ۲۷ ۲۸ ۲۹ < I LI ۳۳ ۳۳ ۳۵
9 ۳۷ 3 3 3 ۴۴ ۴۵ قبر کی تیاری اور انداز تدفین.قبروں پر پڑھنے کی مسنون دعائیں حضرت مسیح موعود کی تدفین کے متعلق حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی کی روایت.۳۶ +.........تدفین کے بعد نعش ایک ملک سے دوسرے ملک لے جاتا.........دین حق میں میت کا احترام.وفات پر تعزیت.صبر کے بارے میں قرآنی ارشاد صبر وہ ہے جو صدمے کی ابتدائی حالت میں کیا جائے.آنحضرت کی وفات پر صحابہ کی بے قراری اور فرط غم مومن وہی ہے جو آپ کی اتباع کرے.۴۷ صابر و شاکر بندے کے لئے جنت میں گھر..لخت جگر کی وفات پر رحمت اور شفقت کے آنسو 333 ۴۸ ۴۹ å ۵۱ or دستی بیعت کرنے والی صحابیہ کا ماتم کے وقت صبر کا آنحضور کی خدمت میں عہد صبر کا بہترین بدلہ صبر کی فضیلت.اللہ تعالیٰ کی امانت.اللہ تعالیٰ کی مشیت کے نتائج کو بھلا دینا چاہیے تمام احمد می خواتین کیلئے صبر و رضا کا بہترین نمونہ حضرت مسیح موعود کی زوجہ محترمہ سیدہ نصرت جہاں بیگم.۳۹ ۴۲ ۴۳ ۴۳ ۴۴ ۴۷ ۴۷ ΠΛ ۲۸ ۵۱۰ ۵۲
10 å لاة ΟΛ ۵۹ ۶۰ F ۶۳ ۶۴ صبر و رضا کے ایمان افروز واقعات..تعزیت کے موقع پر غیر شرعی رسوم کی مذمت.بعد وفات میت کو کیا شے پہنچتی ہے میت کے لئے ختم اور فاتحہ خوانی میت کے نام پر قبرستان میں کھانا تقسیم کرنا.جس کے ہاں ماتم ہو اُس کے ساتھ ہمدردی.میت کے لئے دعا میت پر رنگدار کپڑے اور پھول ڈالنا پسندیدہ نہیں مردے کا اسقاط ۵۳ ۵۵ ۵۷ ۵۷ ۵۷ ۵۸ ۵۸ ۵۸ ۵۸ 09...........۵۹ میت کے قتل جو تیسرے دن پڑھے جاتے ہیں.نماز جنازہ کسی ایسے متوفی کا جو بالجبر ملکفر اور مکذب نہ ہو کیا میت کو صدقہ خیرات اور قرآن شریف کا پڑھنا پہنچ سکتا ہے مرنے والے کے عمل ختم ہو جاتے ہیں مگر تین عمل ختم نہیں ہوتے.قبر پر دعا میں کونسی آیت پڑھنی چاہئے قبر کو خانقاہ اور زیارت گاہ نہ بناؤ.قبرستان جانا اور قبر کو پختہ کرنے کے بارے میں جواز...۵۹ ۶۱ ۶۲ ۶۳ 10 12 کیا پختہ قبر بنانا جائز ہے.3 ۶۸ H.19 งง zr قبہ یا روضہ بنانا.۷۳ زیارت قبور میں ثواب ۷۴ قبروں سے فیض قرآن پاک سے ثابت نہیں ۷۵ سوئم ، چالیسواں ، ختم قرآن، آیت کریمہ اور باداموں کے ختم.
۶۶ ۶۶ 12.12.YA.YA........۶۹ 19 21.اے ۷۲ ۷۲ ۷۳ ۷۴ 20 11 مُردے کو قرآن بخشا کسی کے فوت ہونے پر گھر والوں کو کھانا کھلانے کے رواج کی شرعی حیثیت.کسی فوت شدہ عزیز کو ثواب کس طرح پہنچایا جائے مردوں کو ثواب پہنچانے کے لئے کھانا پکانا 21 22 ۷۹ A+ Al Ar Ar ۸۴ ΛΟ MY عُرس منانا.بارہ وفات قبروں پر پھول چڑھانا قبروں پر چراغ جلانا قبر میں سوالات کی زبان اور کیفیت.کیا روحوں کا قبر سے تعلق ہوتا ہے...قبر میں سوال و جواب روح سے ہوتا ہے یا جسم میں وہ روح واپس ڈالی جاتی ہے ۸۷ مردوں کو سلام کرنا اُن کا سننا.مردہ کی آواز.۸۹ ۹۰ ۹۱ سماع موتی کے بارے میں جماعت کا مسلک زندوں کو بھی مرنے والے کے حالات بتائے جاتے ہیں.جنتیوں اور دوزخیوں کو حال بتانا.قبر پر ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنا.قبر میں کیسا جسم ملے گا.لطيف جسم.۹۲ ۹۳ ۹۴
12 مرنے کے بعد دوسری زندگی میں کیا یہی خا کی جسم زندہ کیا جائے گا...۷۵ 24 24 ZA 29.29.A+ موت کو یا درکھتا.غارت گر لذات چیز.طول امل کا شکار.زندگی کا آخری میدان.موت کی تین طرح یاد تسلیم و رضا کا مقام.۹۵ ۹۶ ۹۷ 9A ۹۹ : 1+1
13 موت برحق ہے كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ، وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةٌ ، وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ (الانبياء : (٣٦) ترجمہ : ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور ہم تمہاری برے اور اچھے حالات سے آزمائش کریں گے اور آخر ہماری طرف ہی تم کو لوٹایا جائے گا.-۲ مرنے والے دنیا کی طرف زندہ کر کے بھی لوٹائے نہیں جائیں گے حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ 8 لَعَلَى أَعْمَلُ صَالِحاً فِيْمَا تَرَكْتُ كَلَّا ، إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ، وَمِن وَرَآئِهِمْ بَرزَخٌ إِلَى يَومِ يُبْعَثُونَ ) (مؤمنون : ۱۰۱-۱۰۰) ترجمہ: اور اس وقت جب اُن میں سے کسی کی موت آجائے گی وہ کہے گا اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے.تا کہ میں اس جگہ جس کو میں چھوڑ کر آگیا ہوں (یعنی دنیا میں ) مناسب حال عمل کروں ہرگز ایسا نہیں ہوگا یہ صرف ایک منہ کی بات ہے جسے وہ کہہ رہے ہیں اور ان کے پیچھے ایک پردہ ہے.اس دن تک وہ دوبارہ اُٹھا ئیں جائیں گے.پس وہ دنیا کی طرف زندہ کر کے کبھی لوٹائے نہیں جائیں گے.- اصل زندگی تو موت کے بعد کی زندگی ہے وَمَا هَذِهِ الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهُ وَلَعِبٌ ، وَإِنَّ الدَّارَ
14 الْأَخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَونُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ (العنکبوت : ۶۵) ترجمہ: اور یہ ورلی زندگی صرف ایک غفلت اور کھیل کا سامان ہے اور اُخروی زندگی کا گھر ہی در حقیقت اصلی زندگی کا گھر کہلا سکتا ہے کاش کہ وہ لوگ جانتے.۴.موت کو ہمیشہ یادر کھو حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا کہ لنڈ توں کو توڑ دینے والی یعنی موت کو بہت یا درکھا کرو.(ترندی) حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ جب میرے گھر آنحضور ﷺ کی باری ہوتی تو آپ رات کے آخری حصہ میں مسلمانوں کے قبرستان میں تشریف لے جاتے اور کہتے کہ اے مومن مسلمانو! تم پر سلامتی ہوتم پر اللہ تعالیٰ کا وعدہ پہنچ چکا ہے اور ہم بھی خدا چاہے تو تم سے ملنے والے ہیں پھر فرماتے کہ اے اللہ اس قبرستان والوں کی (مسلم) مغفرت فرما.بریدہ سے روایت ہے کہ رسول مقبول ہے نے ہمیں سکھایا کہ جب ہم لوگ قبرستان میں جاویں تو کہنے والا یوں کہے.( ترجمہ ) سلامتی ہو تم پر اے مومن مسلمانو! اور ہم بھی خدا چاہے تو تم سے آملنے والے ہیں ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے سلامتی اور عافیت طلب کرتے (ریاض الصالحين ) ہیں.ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول مقبول نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص موت کی آرزو نہ کرے کیونکہ اگر وہ شخص نیک ہے تو ( زندہ رہنے کی صورت میں ) امید ہے کہ اور زیادہ نیکیوں کی توفیق مل جاوے اور اگر برا ہے تو ممکن ہے کہ تو بہ کا موقع میسر آجاوے.( پیارے رسول کی پیاری باتیں علامہ میر محمداسحاق صاحب )
15 حضرت مسیح موعود نے فرمایا موت کو ہمیشہ یادرکھو زندگی چند روزہ ہے اس پر نازاں نہ ہونا چاہئے جو راستی پر ہو اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرنے والا ہو تو خدا اُس کے ساتھ ہوتا ہے آپ نے فرمایا کہ موت کا کوئی اعتبار نہیں اور کوئی شخص اپنی نسبت یقینی طور پر نہیں کہ سکتا کہ میری زندگی کس قدر ہے اور کتنے دن کی باقی ہے.۵.بعث بعد الموت حضرت مسیح موعود نے فرمایا " مرنے کے بعد ایک بعث ہوتا ہے جیسے کہ حدیث میں ایک شخص کا ذکر ہے کہ وہ خدا سے بہت ڈرتا تھا لیکن خدا کی قدرتوں کا اُسے علم نہ تھا تو اُس نے وصیت کی کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا اور میری خاک کو دریا میں ڈال دینا تا کہ اجزا ایسے منتشر ہو جا ئیں کہ پھر جمع نہ ہو سکیں جب وہ مر گیا تو اُس کے ورثا نے ایسا ہی کیا لیکن خدا نے اسے عالم برزخ میں پھر زندہ کر دیا اور پوچھا کہ کیا تو اس بات کو نہ جانتا تھا کہ ہم تیرے اجزا کو ہر ایک مقام سے جمع کر سکتے ہیں اور تجھے ہماری قدرتوں کا علم نہ تھا اس نے بیان کیا کیونکہ مجھے اپنے گناہوں کی سزا کا خوف تھا اس لئے میں نے یہ تجویز کی تھی آخر اس خوف کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اُسے بخش دیا تو یہ بھی ایک قسم کی بعث ہے جو قبل قیامت ہوتی ہے مرنے کے بعد ایک ایسی حالت میں بھی انسان پڑتا ہے کہ اسے اپنے وجود کی خبر نہیں ہوتی یہ ایک ٹوم کی قسم ہوتی ہے.مولوی عبد اللطیف صاحب نے جو شہادت سے اول یہ کہا تھا کہ چھ دن کے بعد میں زندہ ہو جاؤں گا اس کے معنی بھی یہ ہو سکتے ہیں کہ چھ دن کے بعد میری بعث ( ملفوظات جلد سوم صفحه ۴۸۳) ہوگی یہ ہمارا ایمان ہے“.۶.دنیا کی تلخیاں اور بے ثباتی ۱/۱۴ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو حضرت مسیح موعود نے فرمایا انسان اس دنیا میں آرام لب کرتا ہے حالانکہ اس میں بڑی بڑی تلخیاں ہیں خویش واقارب کو ترک کرنا
16 دوستوں سے جدا ہونا ہر ایک محبوب سے کنارہ کشی کرنا البتہ آرام کی صورت میں یہی ہے کہ خدا تعالٰی سے دل لگایا جائے انسان ایک لحظہ بھی خوشی کرتا ہے تو دوسرے لحظہ میں اسے رنج ہوتا ہے لیکن اگر رنج نہ ہوتو خوشی کا مزہ نہیں آتا جیسے کہ پانی کا مزہ اسی وقت آتا ہے جبکہ پیاس کا درد محسوس ہو اس لئے درد مقدم ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۳۹ صفحه ۳۰۶ مورخه ۱۹ اکتوبر ۱۹۰۳ء) ے.دنیا فنا کا مقام ہے دنیا فنا کا مقام ہے اگر ایک مرجاتا ہے تو دوسرے نے کون سا ذمہ لیا ہے کہ وہ نہ مرے گا دنیا کی وضع ایسی ہی ہے کہ آخر قضا وقد ر کو ماننا ہی پڑتا ہے دنیا ایک سرائے ہے اگر اس میں آتے ہی جاویں اور نہ نکلیں تو کیسے گزارہ ہو.انبیاء کے وجود سے زیادہ عزیز کوئی دوسرا وجود قدر کے لائق نہیں لیکن آخر اُن کو بھی جانا پڑا ہے موت کے وقت انسان کو دہشت ہوتی ہے مگر جب مجبور ا وقت قریب آتا ہے تو اسے قضا و قدر پر راضی ہونا پڑتا ہے اور نیک لوگوں کے دلوں سے تعلقات دنیا وی خود اللہ تعالیٰ تو ڑ دیتا ہے کہ ان کو تکلیف نہ ہو.البدر جلد ۳ نمبر ۴ صفحه ۶ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۶ء).موت تبدیلی مکان ہے حضرت مسیح موعود نے فرمایا کر نا کوئی خرج یا دُکھ کی بات نہیں جس کو ہم کہتے ہیں مر گیا وہ دوسرے جہاں میں چلا جاتا ہے اور وہ جہاں نیک آدمیوں کے لئے بہت عمدہ ہے خدا کے ہاتھ میں سب کچھ ہے اس نے دو گھر بنائے ہیں ادھر سے اُٹھا کر اُدھر آباد کر دیتا ہے.صفحه ۱۹۳ از کر حبیب حضرت مفتی محمد صادق صاحب ) -۹ موت ایک مرکب ہے جو دوست کو دوست کے پاس پہنچا دیتا ہے حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی فرماتے ہیں کہ حضور ایک وفعہ بیمار
17 پڑ گئے آپ کے ہاتھ پاؤں سرد پڑ گئے بہر حال آخری وقت معلوم ہوتا تھا مرز اسلطان احمد مرحوم موجود تھے اور زار زار رو ر ہے تھے حضور نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا موت کیا ہے؟ یہ ایک مرکب ہے جو دوست کو دوست کے پاس پہنچا دیتا ہے اگر موت نہ ہوتی سالکوں کے تمام سلوک نا تمام رہ جاتے.اصحاب احمد جلد چهارم روایت ظفر صفحه ۱۶۳) ۱۰.موت دونوں جہانوں کو جدا کرنے والا پردہ ہے حضرت مصلح موعود ارشاد فرماتے ہیں ہم دیکھتے ہیں مرنے والے مر جاتے ہیں ان کے لواحقین اور رشتہ دار ساری عمر روتے رہتے ہیں ہمارا عزیز ہم سے جد اہو گیا اور وہ اس پر اس قدر غم اور دکھ کا اظہار کرتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ موت ایک ہوا ہے جو ہر وقت ان کی آنکھوں کے سامنے رہتا ہے.لیکن جب کسی شخص کو اس بات پر یقین ہو جائے کہ زندگی صرف یہی نہیں بلکہ مرنے کے بعد بھی انسان کو زندگی حاصل ہوتی ہے تو وہ موت سے گھبراتا نہیں بلکہ سمجھتا ہے یہ ایک پر دہ ہے جو اس عالم سے جدا کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لٹکا یا گیا ہے مجھے ایسا نظارہ اُم طاہر کی وفات کے دو چار دن بعد دکھایا گیا میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک اسٹیشن پر کھڑا ہوں جس کے دو حصے ہیں مگر اس کی دوسری طرف نظر نہیں آتی درمیان میں ایک لکڑی کا پردہ ہے جو دونوں کو جد ا کر رہا ہے مگر وہ پردہ اس طرح کا ہے کہ کئی لکڑی کے ستون ترچھے گاڑے ہوئے نظر آتے ہیں نیچے سے تو دیوار بالکل بند ہے مگر او پر جا کر جولکڑیاں یا بالے ہیں ان میں ایک شگاف ہے اور اس شگاف میں سے اُم طاہر مجھے جھانک رہی ہیں میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں نیم باز ہیں اور وہ دوسری طرف کھڑی ہو کر اس شگاف میں سے اسٹیشن کے اس حصے کی طرف دیکھ رہی ہیں جس پر ہم کھڑے ہیں.میں نے سمجھا کہ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد کا ایک نظارہ دکھایا
18 ہے اور بتایا ہے کہ یہ سلسلہ متوازی چلتا چلا جارہا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایک پردہ ہے جو دونوں جہانوں کو جدا کر رہا ہے ورنہ یہ بھی زندہ ہوتے اور وہ بھی زندہ ہوتے یہ شور مچارہے ہوتے کہ ہائے ہائے فلاں مر گیا اور مردہ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں کہاں مرا میں تو اس دنیا میں زندہ موجود ہوں میں تو سمجھتا ہوں مرنے والے جب اپنے رشتہ داروں اور لواحقین کی یہ آواز میں سنتے ہونگے تو وہ بعض دفعہ ہنتے ہونگے کہ یہ کیا کر رہے ہیں تو صحابہ کو بعث بعد الموت پر ایسا کامل یقین پیدا ہو چکا تھا کہ یوں معلوم ہوتا کہ وہ مصائب میں مزہ لیتے تھے ان کی پر لطف کیفیت کو دیکھ کر مجھے مولوی عبد الکریم صاحب کا ٹھنڈا پانی پینا یاد آ جاتا ہے وہ ٹھنڈا پانی اس لطف سے پیتے تھے کہ دیکھنے والوں کو یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی ساتھ ہی پانی پی رہا ہے.ا.موت دوسرے عالم میں جانے کا دروازہ ہے الفضل ۳۰ رمئی ۱۹۴۴ء) موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کوئی ذی روح انکار نہیں کر سکتا پروردگار نے ایک وقت معین کر رکھا ہے جو ٹل نہیں سکتا.انسان نو مہینے پیٹ میں رہ کر اپنے کمال وجود کو پہنچتا ہے اور مرنے کے لئے کچھ دیر نہیں لگتی حضرت مسیح موعود در وحانی خزائن جلد ہ میں فرماتے ہیں انسان مرنے کے وقت ایک ہی ہیضے کا دست تھوڑا سا پانی قے کے طور پر نکال کر مُلک بقا ہو جاتا ہے اور وہ بدن جس کی سالہائے دراز میں ظاہری اور باطنی تحمیل ہوئی تھی ایک ہی دم میں اُس کو چھوڑ کر رخصت ہو جاتا ہے موت انسان کے لئے دوسرے عالم میں جانے کا دروازہ ہے جس سے ہر ذی روح کو وقت مقررہ پر خدا تعالیٰ کی تقدیر اور حکمت کے مطابق گذرنا ہی ہے.قرآن کے ارشاد كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ کے عین مطابق.(روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ؟)
19 ۱۲.نزع کے وقت پڑھنے کی دعائیں جب بتقاضائے قدرت کسی کی وفات کا وقت قریب آجائے تو اس کے پاس سورۃ یسین پڑہی جائے.(ابن ماجہ ابواب الجنائز باب ما يقال عنه المريض اذ احضر صفحه ۱۰۴) دھیمے دھیمے اور بلند آواز سے کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت بھی پڑہنا چاہئے وفات واقع ہونے پر اور ایسی خبر ملنے پر موجود لوگ اِنّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھیں مَرنے والے کی آنکھوں کو ہاتھ سے بند کر دیں سر کو باندھ دیں تا کہ منہ کھلا نہ رہ جائے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللَّهُمَّ أَجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا اللَّهُمْ أَغْفِرْ لِفُلَانِ ترجمہ : ہم اللہ تعالیٰ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.ائے اللہ مجھے اپنی مصیبت میں اجر دے اور اس سے بہتر بدلہ عنایت کر.اے اللہ تعالیٰ (متوفی کا نام لیکر ) کو بخش دے.وَارْفَعُ دَرَجَتَهُ فِي الْمَهْدِيِّينَ وَاخْلِفُهُ فِي عَقِبِهِ فِي الْغَبِرِينَ وَاغْفِرْلَنَا وَلَهُ - يَارَبَّ الْعَلَمِيْنَ وَافْسَحْ لَهُ فِي قَبْرِهِ وَنَوْرُ لَهُ فِيْه - ترجمہ : اور اس درجہ ہدایت پانے والوں میں بلند فرما اور کوئی ایسا جانشین مقررفرما اس کے پسماندوں میں سے اور بخش دے ہم کو اور اس کو اے رب العالمین اور اس کے لئے اس کی قبر کو کشادہ فرما اور روشنی فرما اس قبر میں.دعائیہ خزائن ادعیه الرسول الله ) ۱۳ دم مرگ خیر کے کلمات کے سواد دوسری باتیں نہ کی جائیں حضرت اُم سلمہ سے روایت ہے کہ جب نزع کے وقت ابوسلمہ کی آنکھ کھل
20 گئی اس وقت رسول کریم اس کے پاس تشریف لائے آپ نے اس کی آنکھ بند کی اور فرمایا جب روح قبض کی جاتی ہے تو آنکھ اُسکی تابع ہوتی ہے گھر والے رونے لگے تو فرمایا کہ تم اپنے نفسوں پر بجر خیر کے دوسری دعامت کرو کیونکہ فرشتے جو کچھ تم کہتے ہو اس پر آمین کہتے ہیں پھر آپ نے فرمایا اے اللہ ابوسلمہ کو بخش اور اس کا درجہ ان لوگوں میں بلند کر جن کو ہدایت کی گئی ہے اور اس کے پچھلوں میں تو اس کا خلیفہ ہو اور ہم کو اس کو اے رب العلمین بخش اور اس کے لئے اس کی قبر میں فراخی دے اور اس کی قبر میں اس کے لئے روشنی کر.(مسلم) حضور اکرم م نہایت رقیق القلب تھے اعزہ کی وفات پر آپ کو بہت صدمہ ہوتا تھا آپ ان کے گھروں میں تشریف لے جاتے تھے اور انھیں صبر کی تلقین فرماتے.۱۴.میت کو غسل دینے کا طریق میت کے غسل کے سلسلے میں آنحضور نے فرمایا جو شخص میت کو نہلائے اور اس کی پردہ پوشی کرے اللہ تعالٰی اسکی چالیس بار مغفرت کرتا ہے.(مسلم) اس کا طریق یہ ہے کہ تین بار بدن پر تازہ یا نیم گرم پانی ڈالیں اگر ہو سکے تو بیری کے پتے پانی میں ملانا مسنون ہیں.پہلے وہ اعضاء دھوئے جائیں جو وضو میں دھوئے جاتے ہیں.مکلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے یا پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں اس کے بعد بدن کے دائیں اور بائیں حصہ پر پانی ڈال کر دھوئیں نہلاتے وقت بدن کے واجب الستر حصہ پر کپڑا پڑا رہنا چاہئے میت مرد کو مرد، میت عورت کو عورت نہلائے اگر کوئی انتظام نہ ہو سکے تو بحالت مجبوری یا بشرط ضرورت بیوی اپنے متوفی شوہر کو اور میاں اپنی متوفیہ بیوی کو نہلا سکتا ہے.(ابن ماجہ ابواب الجنائز في غسل الرجل امراته و نسل المراة زوجها صفحه ۱۰۵)
21 حضرت ام عطیہ سے روایت ہے بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت نے عورتوں کو جبکہ وہ آپ کی بیٹی حضرت زینب کو غسل دے رہی تھیں ارشاد فرمایا کہ دائیں طرف سے نہلا نا شروع کرو اور پہلے وضو کے اعضاء دھولو.(بخاری) حضرت عبداللہ بن ابو بکر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر فوت ہوئے تو انکی بیوی اسماء بنت عمیس نے ان کو غسل دیا مہاجرین صحابہ جو وہاں موجود تھے سے دریافت کیا کہ میں روزے سے ہوں اور سردی شدت کی ہے تو کیا غسل دینے کی وجہ سے مجھے بھی غسل کرنا ضروری ہے صحابہ نے ارشادات نبوی کی روشنی میں کہا نہیں یعنی غسل ضروری نہیں.۱۵ طاعون زدہ سے غسل اور کفن کے بارے میں حکم (موطا امام محمد ) مومن طاعون سے مرتا ہے تو شہید ہے شہید کے واسطے غسل کی ضرورت نہیں شہید کے لئے کفن کی بھی ضرورت نہیں ہاں اس پر چادر ڈال دی جائے تو کوئی خرج نہیں.(ہدایۃ المجتہد الباب الثانی فی غسل الميت الفصل الثالث صفحہ ۱۷۹) ۱۶.میت کو کفن پہنانے کا طریق ( بدرم را پریل ۱۹۰۷ء) نہلانے کے بعد کفن پہنایا جائے جس میں کم قیمت اور سادہ سفید کپڑا استعمال کیا جائے مرد کے تین کپڑے کر تہ ، تہہ بند اور بڑی چادر جسے لفافہ بھی کہتے ہیں.عورت کے لئے ان تین کپڑوں کے علاوہ سینہ بند اور سر بند بھی ہونے چاہئیں تجہیز و تکفین میں سادگی اختیار کرنا موجب برکت و ثواب ہے شہید کو نہلانے اور کفن پہنانے کی ضرورت نہیں اُسے اپنے پہنے ہوئے کپڑوں میں دفتایا جائے.غسل اور
22 تکفین کے بعد میت کا منہ دیکھنے کی اجازت ہے.( ابن ماجہ ابواب الجنائز باب ماجہ وفی النظر الی المیت از اداج فی الکفانه صفحه ۱۰۶) ۱۷.تجہیز وتکفین میں سادگی ( فقه احمد یہ عبادات ) حضرت ابو بکر صدیق کی وفات کا وقت قریب آیا تو حضرت عائشہ صدیقہ سے دریافت فرمایا کہ حضرت محمد ﷺ کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا گیا عرض کیا تین کپڑوں کا ارشاد فرمایا میرے کفن میں بھی تین کپڑے ہوں دو یہ چادریں جو میرے بدن پر ہیں دھولی جائیں اور ایک کپڑ انیا لیا جائے حضرت عائشہ نے دردمندانہ عرض کیا ابا جان ہم اتنے بھی غریب نہیں ہیں کہ نیا کفن بھی نہ خرید سکیں.ارشاد فرمایا نئے کپڑوں کی مُردوں سے زیادہ زندوں کو ضرورت ہے میرے لئے یہی پھٹا پرانا ٹھیک ہے.حضرت علی بن ابو طالب کرم اللہ وجہ نے قیمتی کپڑا بطور کفن دینے سے منع فرمایا بیان کیا کہ میں نے آنحضرت مﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ قیمتی کپڑوں کا کفن مت دو کیونکہ وہ جلد ہی گل سٹر کر ختم ہو جائے گا یعنی قیمتی کپڑا مردے کے کسی کام نہیں آتا اس واسطے یہ بے ضرورت ہے یا یہ قیمتی کفن چوری ہو جانے کا خدشہ ہوتا ہے اس طرح نعش (ابوداؤد کتاب الجنائز) کی بھی بے حرمتی ہوتی ہے.تکفین کے بعد جنازہ کو کندھوں پر اٹھا کر جنازہ گاہ لے جایا جائے.حضرت امام مالک بیان کرتے ہیں کہ مجھ تک یہ خبر پہنچی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات سوموار کے روز ہوئی اور دفن بروز منگل ہوئے اور آپ کا جنازہ لوگوں نے الگ الگ گروہوں کی شکل میں پڑھا کسی نے امامت نہیں کرائی.(موطا امام مالک)
23 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جس میت کا جنازہ سو مسلمان پڑھیں اور وہ سب کے سب اس کی سفارش کریں تو ان کی سفارش قبول کی جائے گی.۱۸.تجہیز وتکفین میں جلدی کرنا (1) حضرت حصین بن و حویج بیان کرتے ہیں کہ حضرت طلحہ بن براء بیمار ہوئے آنحضرت میں اللہ انکی عیادت کیلئے تشریف لائے آپ ﷺ نے ان کی کیفیت دیکھ کر فرما یا طلحہ کی حالت نازک ہے موت کے آثار نمایاں ہیں اگر اس کی وفات ہو جائے تو مجھے اطلاع دینا اور اسکی تجہیز و تکفین میں جلدی کرنا مسلمان کی میت کے لئے مناسب نہیں کہ زیادہ دیر تک گھر والوں میں روک رکھا جائے.(ابوداؤ د کتاب الجنائز) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جنازہ لے جانے میں جلدی کرو اگر مرنے والا نیک ہے تو تم بھلائی اور بہتری کی طرف اسے جلدی لے جاؤ گے اور اگر وہ صالح نہیں تو تم اسے جلد دفن کر کے اپنی گردنوں سے بُرائی کا بوجھ اُتارسکو گے.بخاری کتاب الجنائز باب السرعة بالجنازه، حديقة الصالحين) ۱۹.نماز جنازہ کا طریق نماز جنازہ کے لئے حاضر لوگ امام کے پیچھے صف باندھیں زیادہ لوگ ہوں تو صفیں بنائی جائیں امام صفوں کے آگے درمیان میں کھڑا ہو میت اس کے سامنے ہو.جنازہ کی نماز میں دوسری نمازوں کے برخلاف رکوع اور سجدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے سب حصے کھڑے کھڑے ادا کئے جاتے ہیں.( بخاری جلد اول باب سنة الصلوة على الجنائز) اور یہ یعنی جنازہ کی نماز میت کو سامنے رکھ کر پڑھائی جاتی ہے اور یہی وجہ اس
24 میں رکوع اور سجدہ نہ ہونے کی ہے کیونکہ میت کے سامنے پڑے ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا لگ سکتا ہے کہ یہ رکوع اور سجدہ اس میت کو کیا جا رہا ہے اور ایسی لاش جو کسی بزرگ کی ہو اس کا جنازہ پڑھتے ہوئے کئی کمزور طبائع خود بھی خیال میں مبتلا ہو سکتی ہیں پس نمازہ جنازہ سے رکوع اور سجدہ کو اڑادیا گیا تا شرک کا قلع قمع ہو.اس نماز کے چار حصے ہوتے ہیں امام قبلہ رو کھڑا ہو کر بلند آواز سے سینہ پر ہاتھ باندھ کر تکبیر کہ کر اس نماز کو شروع کرتا ہے اس نماز سے پہلے اقامت نہیں کہی جاتی پہلی تکبیر کے بعد منہ میں آہستہ آہستہ آواز سے تکبیر امام اور مقتدی اپنے اپنے طور پر سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں اس کے بعد امام پھر بلند آواز سے تکبیر کہتا ہے اور بغیر رکوع میں جانے کے اسی طرح کھڑے ہوئے منہ میں آہستہ آہستہ آواز میں دُرود پڑھتا ہے اور مقتدی بھی اپنے اپنے طور پر ایسا ہی کرتے ہیں اسکے بعد امام پھر تکبیر کہتا ہے اور اسی طرح کھڑے کھڑے میت کی بخشش کے لئے اگر وہ بالغ ہو دعا کرتا ہے اسی طرح دوسرے مسلمان مردوں، عورتوں، بڑوں اور چھوٹوں سب کے لئے عموماً اور میت کے پسماندگان کے لئے خصوصاً دعا کرتا ہے اور مقتدی بھی یہی کام کرتے ہیں میت نا بالغ ہو تو اس کے ماں باپ کے صبر اور نعم البدل کے لئے دعا کی جاتی ہے اور اس امر کے لئے کہ مرنے والے کو خدا تعالیٰ اس کے رشتہ داروں کے لئے اگلے جہان میں رحمت اور بخشش کا ذریعہ بنا دے بعض مقررہ دعاؤں کے علاوہ اپنے طور پر اپنی زبان میں بھی دُعا کی جاسکتی ہے اور کی جاتی ہے اس کے بعد امام پھر بلند آواز سے تکبیر کہتا ہے اور تھوڑے سے وقفے کے بعد سلام پھیر کر نماز کو ختم کر دیتا ہے.۲۰.نماز جنازہ کی مسنون دُعائیں ا.( تفسیر کبیر جلد اول صفحه ۱۱۵) اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيْنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَ صَغِيْرِنَا
25 25 وَ كَبِيرِنَا وَذَكَرِنَا وَ اُنْثَنَا اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِيْمَانِ ترجمہ : اے اللہ تعالیٰ بخش دے ہمارے زندوں کو اور جو مر چکے ہیں اور جو حاضر ہیں اور جو موجود نہیں اور ہمارے چھوٹے بچوں کو اور ہمارے بڑوں کو ہمارے مردوں کو اور عورتوں کو اے اللہ تعالیٰ جس کو تو ہم میں سے زندہ رکھے اس کو اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو تو ہم میں سے وفات دے اس کو ایمان کے ساتھ وفات دے اے اللہ تعالیٰ اس کے اجر وثواب سے ہم کو محروم نہ رکھ اور اس کے بعد ہمیں کسی فتنہ میں نہ ڈال.اللَّهُمَّ اغْفِرْلَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ وَأَكْرِمُ مَنْزَلَهُ وَسِعَ مَدْخَلَهُ وَاغْسِلَهُ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرْدِ وَنَقِم مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقِّى التَّوَبُ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ وَابْدَلَهُ دَارًا خَيْرًا مِنْ دَارِهِ - وَأَهْلُ خَيْرًا مَنْ أَهْلِهِ وَزَوْجاً خَيْرًا مِنْ زَوْجِهِ وَاَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ وَأَعِذْهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ اگر عورت کی میت ہو تو مذکر کی ضمیر کی بجائے یعنی لہ کی بجائے لَهَا کہے اور اسی طرح آگے سارے سارے ضمیروں کو بدلتا جائے مثلاً وَارْحَمْهَا.ابن ماجہ الدعاء في الصلوة على الجنازة صفحه ۱۰۸) ( مسلم باب الدعاء للميت في الصلوة شرح النبي صفحه ۵/ ۳۵۶) ترجمہ : اے اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے اور اس پر رحم فرما اور اس کو معاف کر دے اور اس سے درگز رفرما اور اس کو عزت کی جگہ دے اور اس کے داخل ہونے کی جگہ کو کشادہ فرما اور غسل دے اس کو پانی اور برف سے اور اولوں سے یعنی آپ رحمت کے ذریعہ تپش گناہ اس سے دُور فرمادے اور پاک وصاف کر اس کی خطاؤں سے جیسا کہ کپڑا
26 میل کچیل سے ڈھل کر صاف ہوتا ہے اور اس کو اس کے گھر کے بدلہ میں اچھا گھر عطا فرما اور اہل اچھے اس کے اہل سے اور ساتھی اچھے اس کے ساتھی سے اور اس کو بہشت میں داخل فرما اور اس کو قبر کے عذاب سے محفوظ رکھ.۲۱.نابالغ لڑکے کا جنازہ اللَّهُمَّ اجْعَلُهُ لَنَا سَلَفًا وَفَرَطًا وَزُخَرًا وَأَجْرًا وَشَافِعاً ومُشَفّعاً ( بخاری کتاب الجنائز صفحه ۱۷۸ شرح السنت صفحه ۳۵۷/۵) ترجمہ : اے اللہ تعالیٰ اس کو ہمارے فائدے کے لئے پہلے جانے والا اور ہمارے آرام کا ذریعہ بنا اور سامانِ خیر بنا اور موجب ثواب یہ ہمارا سفارشی بنے اور اس کی سفارش قبول فرما.۲۲.نابالغہ لڑکی کا جنازہ اللَّهُمَّ اجْعَلَهَا لَنَا سَلَفًا وَ فَرَطًا وَزُخْرًا وَأَجْرًا وَشَافِعَةً و مُشفِعَة.ترجمہ: اے اللہ تعالیٰ اس بچی کو ہمارے فائدے کیلئے پہلے جانیوالی اور آرام کا ذریعہ بنا اور سامان خیر بنا اور موجب ثواب یہ ہماری سفارشی بنے اور اس کی سفارش قبول ہو.(مسنون دعائیں نماز مع با محاورہ اُردو تر جمه مولا نا ملک سیف الرحمن فاضل) نماز جنازہ کے بعد جتنی جلدی ہو سکے میت کو دفنانے کیلئے قبرستان لے جایا جائے.حضرت ام عطیہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ ہم عورتوں کو جنازہ کے ساتھ جانے سے روکتے تھے لیکن اس بارے میں زیادہ پختی نہیں فرماتے تھے.(بخاری)
27 ۲۳.نماز جنازہ میں چار سے زیادہ تکبیریں مسلم ترمذی ابوداؤد کی حدیث ہے کہ !.(1) كَانَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ يُكَبِّرُ عَلَى جَنَائِزِنَا أَرْبَعاً وَإِنَّهُ كَبَّرَ خَمْسًا فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ كَانَ رَسُولُ الله له يُكَبِّرُها - ( ابو داؤد ابواب الجنائز باب التكبير على الجنازة صفر ٢-١٠٠) ترجمہ : یعنی زید بن ارقم نے ایک جنازہ پڑھاتے ہوئے پانچ تکبیریں کہیں جب پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ آنحضرت ﷺ بھی کبھی کبھی ) اس طرح چار سے زائد تکبیریں کہا کرتے تھے.(الف) عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ عَلِيَّ إِنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ سِلًّا وَعَلَى الصَّحَابَةِ خَمْسًا وَعَلَى سَائِرِ النَّاسِ أَرْبَعًا - ابن منذر بحوالہ نیل الاوطار صفحه ۵۸/۴) (ب) عَنْ عَلِيٌّ إِنَّهُ كَبَّرَ عَلَى سَهْلِ بَنِ حُنَيْفٍ سِنًّا وَقَالَ إِنَّهُ شَهِدَ بَدْرًا - ( بخاری کتاب المغازی صفحه ۵۷۱/۲ ونیل الاوطار صفحه ۵۹/۴ ) یعنی ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی بدر کے صحابہ کے جنازہ میں چھ دوسرے صحابہ کے جنازہ میں پانچ اور عام لوگوں کے جنازہ میں چار تکبیریں کہا کر تے تھے.بخاری میں بھی اسی مضمون کی حدیث آئی ہے کہ حضرت علی نے ایک بدری صحابی سہل بن حنیف کے جنازہ پر چھ تکبیریں کہیں.پس ان احادیث سے چار سے زائد تکبیرات کا جواز ثابت ہے گو عام دستور
28 چار تکبیر میں کہنے کا ہے.( فقه احمدیہ صفحہ ۲۴۷ - ۲۴۸ ) جنگ میں بہت سے فوجیوں کی شہادت اور ریزہ ریزہ ہو جانے کی صورت میں نماز جنازہ اور قبر کے بارے میں حکم جنگ میں بسا اوقات بمباری وغیرہ سے انسانی اعضاء کے بکھر جانے کی وجہ سے نعش نا قابل شناخت ہوتی ہیں اُن کے لئے حکم ہے کہ ایک ہی جگہ نعشوں کے بچے کھچے حصوں کو جمع کر کے اکھٹے جنازہ پڑھا جائے اور ایک قبر میں دفن کر دیا جائے اس میں کچھ حرج نہیں اُحد کی جنگ میں ایک قبر میں کئی کئی شہدا کو دفن کیا گیا تھا.( ترمذی بات قتل احد و ذکر حمزه صفحه ۱-۱۲۱ (فقه احمد یه صفحه ۲۴۸)) ۲۵.جنازہ جب جائے تو تعظیماً کھڑے ہو جانا چاہئے آنحضور علہ جب جنازہ جاتا تو کھڑے ہو جاتے آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ جنازہ جاتا ہو تو س کے ساتھ جاؤ ورنہ کم از کم کھڑے ہو جاؤ اور اس وقت تک کھڑے رہو کہ جنازہ سامنے سے نکل جائے.-۲۶.جنازہ اُٹھاتے وقت میت کا سر کس طرف ہونا چاہئے جنازہ کو قبرستان لے جانا اور اس کی تدفین میں حصہ لینا ایک شرعی ہدایت ہے اور شرعی ہدایت کی بنیا د قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات پر ہے ہم اپنے قیاس یا خود ساختہ حکمت سے کسی امر یا طریق کا رکو شرعی نہیں قرار دے سکتے.جنازہ لے جاتے وقت میت کا سرکس طرف اور پاؤں کس طرف ہونے چاہئیں طبعی طریق جسے سنت عمل اور اُمت کے تعامل نے واضح کیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء نے عملاً تصدیق فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ میت کا سر اُدھر ہونا چاہئے جدھر جنازہ لے جایا جارہا ہے اور حکمت دینی کا تقاضہ بھی یہی ہے.فقہ کی کتابوں میں جنازہ اُٹھانے کا جو طریق لکھا ہے وہ یہ ہے.
29 ترجمہ : یعنی جنازہ چار اطراف سے اُٹھایا جائے جو شخص جنازہ کو کندھا دینا چاہے وہ پہلے میت کے اگلے حصہ کی دائیں جانب کو کندھا دے پھر دوسرا اس کے پچھلے حصہ کی دائیں جانب کو کندھے پر رکھے پھر تیسرا اگلے حصہ کی بائیں جانب کو کندھا دے اور چوتھا پچھلے حصہ کی بائیں جانب کو کندھا دے.( تحفة الفقهاء صفحه ۴۸۶/۱) حضرت انس سے طبرانی کی روایت ہے کہ آنحضرت مہ نے فرمایا :- مَن حَمَلَ جَوَانِبَ السَّرِيرِ الْأَرْبَعِ كَفَّرَ اللَّهُ عَنْهُ أَرْبَعِينَ كَبِيرَةً یعنی جو شخص جنازہ کو چاروں اطراف سے اُٹھاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے چالیس قصور معاف کر دے گا.(طبرانی الاوسط بحوالہ نیل الاوطار کتاب الجنائز باب حمل الجنازة واليسر بها صفحه ۶۹/۴) ۲۷.کسی عورت کی وفات پر دوسری عورت کا موجود نہ ہونا اور مرد کی وفات پر کسی دوسرے مرد کے موجود نہ ہونے کی صورت غسل و نماز جنازہ میدان جنگ میں اگر کوئی عورت ایسی حالت میں مر جائے کہ وہاں کوئی دوسری عورت نہیں تو بلا غسل اس کی تجہیز و تکفین کی جائے ہاں نماز جنازہ میں اگر کوئی روک نہ ہو تو پڑھی جائے بحالت ضرورت غیر محرم مرد عورت کا جنازہ اُٹھا سکتے ہیں اور اس کی تدفین کر سکتے ہیں اور اگر کسی بیماری کی وجہ سے عورت کی وفات ہو جائے تو غسل کے لئے کپڑوں سمیت او پر پانی ڈالا جائے اور پھر کفن میں لپیٹ کر تدفین کی جائے.بعض علماء نے یہ لکھا ہے کہ اس صورت میں بلا غسل تدفین ہو یا میت کو تیم کرانے والا اپنے ہاتھوں پر کپڑا لپیٹ لے.مراسیل ابو داؤد باب غسل المیت صفحه ۱۷)
30 ہمارے نزدیک میت کے رشتہ دار یا جماعت کے ذمہ دار عہدے دار حسب صوابدید و موقع مناسب فیصلہ کر سکتے ہیں جس طرح بیماری کی صورت میں اگر لیڈی ڈاکٹر نہ ملے تو عورت مرد ڈاکٹر سے بھی علاج اور قابل ستر حصہ میں بیماری کی تشخیص کر سکتی ہے اسی طرح یہاں بھی یہی طرز عمل اختیار کیا جاسکتا ہے بہر حال یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور پردہ دار غیر محرم کو چھونے کی ممانعت سے متعلق عام ہدایات پر اس اجتہاد کی بنیاد ہے فقہا ء نے اس سلسہ میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے: ہدایۃ المجتہد الباب الثاني في غسل الميت الفصل الثالث - صفحه ۱۷۹/۱، فقہ احمدیہ ) -۲۸ غیر مسلم کی وفات اسلامی معاشرے میں اگر کوئی غیر مسلم مسلمان کے ہاں یا اسلامی معاشرے میں فوت ہو جائے اور اس کے لواحقین کے لئے اسکی تجہیز و تکفین کا انتظام کرنا ممکن نہ ہو تو تکفین اور تدفین کا انتظام مسلمان اپنے طریق پر کر سکتے ہیں البتہ نسل دینے کی ضرورت نہیں.بحوالہ (الف) ابوداؤ د باب الرجل بموت له قرابة مشترک صفحه ۱۵۲/۲ (ب) ہدایہ صفحہ ۱/ ۱۴۰) ۲۹.نماز جنازہ جوتیوں سمیت اور ننگے سر پڑھنے کے بارے میں (الف) نماز جنازہ جوتیوں سمیت پڑھنے کے بارے میں حدیث میں امر پوری وضاحت کے ساتھ آیا ہے کہ جوتی کے ساتھ نماز جائز ہے حدیث کی ہر مشہور کتاب میں یہ روایت موجود ہے کہ ہم جو مساجد میں جوتیاں لے جانے سے منع کرتے ہیں تو اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ مساجد میں صفائی رہے دریاں اور فرش گندے نہ ہوں ورنہ یہ ممانعت کسی شرعی حکم کی وجہ سے نہیں ہے.نماز جنازہ چونکہ مسجد کے باہر ہوتی ہے اس لئے جوتیاں پہن کر نماز جنازہ ادا کر لینے میں کوئی حرج نہیں.(ب) نگے سر نماز ادا کرنا پسندیدہ امر نہیں کیونکہ یہ امر بزرگوں اور سلف صالحین
31 کے طریق کے خلاف ہے.اس لئے معیوب ہے.۳۰.نماز جنازہ کا وقت نماز جنازہ کسی وقت بھی ہو سکتی ہے نماز عصر کے بعد بھی اور نماز فجر کے بعد بھی اس میں کوئی شرعی روک نہیں ہے.البتہ کچھ فرقے مکروہ اوقات میں نماز جنازہ پسندیدہ نہیں سمجھتے.(۱) ترندی باب کرابتہ الصلوة على الجنازه صفحه /۱۲۲ (ب) شرح وقایہ کتاب الصلوۃ صفحه / ۱۴۹ ۳۱.پھانسی پانے والے شخص کی نماز جنازہ جس شخص کو پھانسی کی سزا ملی ہو اس کی نماز جنازہ جائز ہے.اعتراف جرم کی صورت میں سزا پا نا ایسی تو بہ کا رنگ رکھتا ہے کہ اگر یہ تو بہ ایک بڑی قوم پر تقسیم کی جائے تو ان کی بھی مغفرت ہو جائے.حدیث کے الفاظ ہیں:.قَالَ رَسُولُ الله الله لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً قُسِمَتْ بَيْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتُهُمْ (مسلم کتاب الحدود بن اعتراف على نفس بالز لی صفحه ۱۱۰/۳) -۳۲ خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ آنحضرت ﷺ نے خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ نہیں پڑھی چنانچہ حدیث میں آتا ہے.إِنَّ رَجُلًا قَتَلَ نَفْسَهُ بِمَشَا قِصَ فَلَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ عَ الله (ابن ماجہ کتاب الجنائز باب في الصلوة على اهل القبلة صفحه ۱۱) ایک شخص نے تیز پھل والے تیر سے خود کشی کر لی آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑ ہی بعض علماء نے کہا آپ گا یہ عمل عبرت اور فعل کی شناخت کے اظہار کے لئے تھا کہ یہ بہت ہی بدی کا کام ہے.( فقه احمد یه صفحه ۲۵۱ - ۲۵۰)
32 32 ۳۳.جنازہ غائب آنحضرت ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے نجاشی شاہ حبشہ ( جو مسلمان ہو چکے تھے) کی نماز جنازہ پڑھی تھی جبکہ نجاشی کی لاش ظاہری لحاظ سے عام دستور کے مطابق آپ کے سامنے نہ تھی چنانچہ روایت ہے:.( ترجمہ ) حضور نے اپنے صحابہ کو نجاشی کی وفات کی خبر سنائی پھر فرمایا اس کے لئے بخشش کی دعا کرو پھر آپ اپنے صحابہ کے ساتھ جنازہ گاہ میں آئے اور کھڑے ہو کر اس طرح نماز پڑھائی جس طرح (سامنے پڑے ہوئے ) جنازے کی نماز پڑھائی جاتی ہے.(مسند احمد صفحه ۲/ ۵۲۹) ترندی نے بھی اس مضمون کی روایت کی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں.عَن عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ إِنَّ أَخَاكَمُ النَّجَاشِي قَدَمَات فَقُوْمُوا فَصَلُّو اعَلَيْهِ ایک اور روایت: (ترمذی ۱۲۳/۱) یعنی حضور یا ہر تھے کہ اہم سعد وفات پا گئیں جب ایک ماہ کے بعد آپ تشریف لائے اور آپ کو وفات کا علم ہوا تو آپ نے اُن کی نماز جنازہ پڑہائی.( ترمذی باب الصلوۃ صفحہ ۱۲۳/۱) مجموعہ احادیث کی مشہور کتاب کشف الغمہ میں ہے.كَانَ عَهِ اللهِ يُصَلِّي عَلَى الْغَائِبِ عَنِ الْبَلَدِ (کشف الغمه ۲۹۲/۱) آنحضور ﷺ اس شخص کا جنازہ پڑھتے جو مدینہ سے دور کسی دوسری جگہ فوت ہوتا.غرض اس مضمون کی احادیث صحاح ستہ میں بکثرت آئی ہیں اسی بنا پر صاحب نیل الاوطار لکھتے ہیں.
33 ترجمہ : یعنی فقہ کے مشہور عالم حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد جنبل اور اکثر بزگان سلف جنازہ غائب پڑھنے کے قائل تھے مشہور محدث ابن حزم کہتے ہیں کہ کسی صحابی کے متعلق یہ نہیں آتا کہ اس نے جنازہ غائب سے منع کیا ہو امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ نماز جنازہ تو ایک دُعا ہے پھر غائب میت کے لئے یہ دُعا کیوں جائز نیل الاوطار الصلاة على الغائب بالنية وعلى القبر الى شهر صفحه ۴۹/۴) نہیں.حضرت مسیح موعود نے فرمایا:.جو جنازے میں شامل نہ ہو سکیں وہ اپنے طور پر دعا کریں یا جنازہ غائب پڑھیں“.۳۴.نماز جنازہ کا تکرار ( بدر ۹ ارمنی نے ۱۹۰ ء ) ایک میت کی کئی بار نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے اور اس کا جواز مندرجہ ذیل روایات سے ثابت ہے.(1) أَنَّهُ عَنِ اللهِ صَلَّى عَلَى قَتْلَى أَحَدٍ عَشْرَةً وَفِي كُلِّ عَشْرَةً حَمْزَة حَتَّى صَلَّى عَلَيْهِ سَبْعِينَ ترجمہ : یقیناً حضور علیا اللہ نے احد کے شہدا کا دس دس کا جنازہ پڑھا اور ہر دفعہ حضرت حمزہ کو شامل کیا اس طرح حضور ﷺ نے حضرت حمزہ کا جنازہ 70 دفعہ پڑھا.نیل الاوطار ترک الصلوة على الشهيد صفحه ۴۳/۴) (۲) حضرت امام اعظم کی چھ بار نماز جنازہ پڑھی گئی.(سیرت آئمہ اربعه صفحه ۶۳) ۳۵.نماز جنازہ حاضر یا غیر حاضر میں مردوں کے ساتھ عورتوں کی شمولیت نماز جنازہ میں عورتوں کی شمولیت کے اہتمام کو پسند نہیں کیا گیا.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ کے زمانے میں اور پھر اس زمانہ کے حکم وعدل کے عہد میں
34 اس نماز میں عورتوں کی شمولیت کی کوئی نمایاں مثال ہمیں نہیں ملتی البتہ اگر اتفاقی طور پر کوئی عورت شامل نماز ہو جائے مثلاً جمعہ یا درس کے لئے عورتیں جمع ہیں اور جنازہ آگیا ہے یا گھر کے صحن میں نماز جنازہ ہو رہی ہے اور صفوں کے پیچھے دو چار عورتوں نے اپنی صف بنالی ہے اور نماز پڑھ لی ہے تو ایسی صورت جائز ہوگی.اسی طرح نماز جنازہ غائب میں بصورت موجودگی (جیسے جمعہ کی نماز کے بعد جنازہ غائب یا حاضر ہو اور عورتوں کو اپنی الگ صف بنانے کے لئے مسجد سے باہر نہ جانا پڑے ) تو نماز جنازہ میں شامل ہو سکتی ہیں اس کا جواز مندرجہ ذیل روایات سے نکلتا ہے اور سابقہ علماء نے بھی ان سے ایسا ہی استدلال کیا ہے.ترجمہ : یعنی حضرت عائشہ نے سعد بن ابی وقاص کی نماز جنازہ میت مسجد میں رکھوا کر پڑھی.(مسلم کتاب الجنائز باب الصلوة على الجنازه في المسجد صفحه ۲ (۳۸۵).( مشکوۃ ابواب الجنائز صفحه ۱۴۵ حاشیه ۴) ترجمہ : یعنی آنحضور علی اللہ نے حضرت ابو طلحہ کے بیٹے عمیر کی نماز جنازہ ان کے گھر میں پڑہی آپ آگے تھے ان کے پیچھے ابوطلحہ اور ان کے پیچھے اُتم سلیم صف بنا کر کھڑی اوجز المسالک شرح موطا امام مالک صفحه ۴۶۱/۲) تھیں.ترجمہ : یعنی آنحضرت ﷺ کی نماز جنازہ عورتوں نے بھی پڑھی.ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ذکر وفاته ودفنہ علیہ صفحہ ۱۱۷) تا ہم اس جواز کے باوجود یہ بات مسلّم ہے کہ عورتوں کے لئے خاص طور پر جنازہ کے ساتھ نکلنا اور جنازہ کی نماز میں اہتمام کے ساتھ شامل ہو نا پسند نہیں کیا گیا.۳۶.مسجد میں میت رکھ کر نماز جنازہ ادا کرنا عام علماء کا مسلک یہ ہے کہ جنازہ کی نماز مسجد سے باہر ہو یعنی میت اور نماز جنازہ پڑہنے والے دونوں مسجد سے باہر ہوں لیکن ضرورت یا مجبوری ہوتو مسجد کے اندر
35 بھی نماز جنازہ ہو سکتی ہے میت کو بلا اشد مجبوری مسجد کے اندر نہیں رکھنا چاہئے بلکہ صورت یہ ہو کہ امام اور مقتدی مسجد کے اندر صف باندھے ہوں اور میت مسجد سے باہر امام کی نظر کے سامنے ہو اس طریق عمل کے جواز کے لئے سند موجود ہے جس کے الفاظ یہ ہیں.ترجمہ : (۱) یعنی حضرت سعد بن وقاص کی وفات ہوئی تو حضرت عائشہ معتکف تھیں اس لئے انھوں نے کہلا بھیجا کہ میت مسجد میں لائی جائے تا کہ وہ بھی جنازہ میں شامل ہو سکیں بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو آپ نے کہا آنحضرت ﷺ نے بیضاء کے دو بیٹوں کا جنازہ (غالباً اعتکاف کی وجہ سے یا بارش کے پیش نظر ) مسجد میں پڑھا تھا.(مسلم کتاب الجنائز باب الصلوة على الجنازه صفحه ۲/ ۳۸۵) (۲) حضرت ابو بکر و عمر کی نعش مبارک مسجد نبوی میں منبر اور روضہ کے درمیان رکھ کر نماز جنازہ ادا کی گئی تھی.حدیث کے الفاظ یہ ہیں :.عمر فاروق اعظم از محمد حسین ہیکل اُردو تر جمه صفحه ۷۳۰ ) عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدُ اللَّهِ بِن عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ صَلَّى عَلَىٰ عُمَرَ بْنَ الْخَطَابِ فِي الْمَسْجِدِ (موطا امام مالک باب الصلواۃ علی الجنائز في المسجد صفحه ۵۰ و نصب الرايه صفحه ۲۷۶) شكُرِهَتْ فِي مَسْجِدِ جَمَاعَةٍ إِنْ كَانَ الْمَيِّتُ فِيْهِ وَإِنْ كَانَتْ خَارِجَةً لَا تَكْرَهُ عِنْدَ الْمَشَائِخ یعنی مسجد میں میت رکھ کر جنازہ پڑھنا بعض علماء کے نزدیک مکروہ اور
36 نا پسندیدہ ہے لیکن اگر نمازی مسجد میں ہوں اور میت مسجد سے باہر ہو تو یہ جائز ہے اور ( کتاب الفقه علی المذاہب الاربعہ صفحہ ۱/ ۵۲۷) مکروہ نہیں ہے.۳۷.قبر کی تیاری اور انداز تدفین جب جنازہ قبرستان لے جایا جائے سب ساتھ جانے والوں کو باری باری کندھا دینے کی کوشش کرنی چاہئے.قبر لحد والی یا شق دار دونوں طرح جائز ہے البتہ میت کی حفاظت کے پیش نظر کشادہ اور گہری ہونی چاہیے بصورت مجبوری ایک قبر میں کئی میتیں بھی دفن کی جاسکتی ہیں اگر میت امامتنا دفن کرنا ہو یا زمین سخت سیلا بہ ہو تو میت کی حفاظت کے مد نظر لکڑی یا لوہے کے صندوق میں دفن کر سکتے ہیں.(رد المختار صفحه ۸۳۶ جلد اول حاشیه ) میت کو احتیاط کے ساتھ قبر میں اتارتے وقت بِسْمِ اللَّهِ عَلَى مِلَّةِ رَسُول اللہ سلیم اللہ کے الفاظ کہے جائیں.(ابن ماجہ کتاب الجنائز باب ما جاء في ادخال الميت القبر صفحہ 11) لیٹی ہوئی چادر کا بند کھول کر میت کا منہ ذرا قبلہ کی طرف جھکا دیا جائے کچھ اینٹیں یا چوڑے پتھر رکھ کر لحد بند کر دی جائے اور اوپر مٹی ڈال دی جائے ہر حاضر کو مٹی ڈالنے میں کچھ نہ کچھ حصہ لینا چاہئے اور نہیں تو دونوں ہاتھوں سے تین مٹھی مٹی ڈالے اور ساتھ یہ آیت کریمہ پڑھے.مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيْهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخرى ترجمہ : ہم نے اسی (زمین) سے تم کو پیدا کیا ہے.اور اسی میں تم کو لوٹا دیں گے اور اس میں سے تم کو دوسری دفعہ نکالیں گے.( سورة طه آیت ۵۶) قبر کو سطح اور کو ہان دار بنانا مسنون ہے قبر تیار ہونے پر مختصری دعائے مغفرت کی جائے.اس کے بعد اَلسّلامُ وعَلَيْكُم وَإِنَّا إِنْشَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لاحِقُونَ کہتے
37 ہوئے یا دل حزیں صبر و حوصلہ لوگ واپس آئیں.( فقه احمدیه ) حضرت عثمان بن عفان بیان کرتے ہیں کہ آنحضور جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو اس کی قبر پر کھڑے ہو کر فرماتے اپنے بھائی کے لئے بخشش مانگو اسکی ثابت قدمی کے لئے دعا مانگو کیونکہ اب اس سے سوال وجواب شروع ہونے والا ہے.۳۸.قبروں پر پڑھنے کی مسنون دعائیں (ابوداؤد) السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدَّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَ إِنَّا إِن شَاء اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ نَسْأَلُ اللهَ وَلَكُمُ الْعَافِيهِ سلامتی ہو تم پر اس دیار کے رہنے والے مومنو اور مسلمانو اور ہم بھی اللہ تعالیٰ چاہے تم سے ملنے والے ہیں ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمہارے لئے عافیت مانگتے ہیں.السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ الْقَبُورِ يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكمْ أَنْتُمْ سَلَفْنَا وَنَحْنُ بِالْاثر ترجمہ: سلامتی ہو تم پر اے قبروں کے رہنے والو! ہمیں اور تمہیں اللہ تعالیٰ بخش دے تم آگے آگے چلو اور ہم تمہارے پیچھے پیچھے آتے ہیں.دعائیہ خزائن ادعية الرسول الله ۳۹.حضرت مسیح موعود کی تدفین کے متعلق حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی کی روایت لاہور سے جس تابوت پر حضور پُر نور کا جسد اطہر لایا گیا تھا بٹالہ پہنچ کر خالی کر دیا گیا اس طرح نعش مبارک بٹالہ سے قادیان چار پائی پر لائی گئی تھی لوگوں کو چہرہ مبارک دکھانے اور جنازہ پڑھنے کے وقت تک بلکہ اس کے بعد قبر لے جانے کے وقت بھی حضور پر نور کا جسم مبارک چار پائی پر ہی تھا نہ کسی پہلے صندوق میں رکھا گیا نہ
38 کسی دوسرے میں.قبر تیار کرنے والوں نے اس خیال سے کہ نعش مبارک چونکہ صندوق میں آئی ہے دفن بھی ضرور صندوق میں کی جائے گی قبر ایسے طریق پر کھدوائی جس میں صندوق اتارا جا سکے اور لحد نہ بنائی حضور کا جسد اطہر بغیر کسی تابوت ،صندوق یا بکس کے صرف کفن میں لپٹا ہوا قبر میں اتارا گیا جس کے فرش پر کچھ ریت بچھا دی گئی تھی قبر کے گڑھے کے اندراینٹ کی دیواروں پر لاہور سے آئے ہوئے بکس کے تخت ڈال کر چھت دیا گیا تھا اور ان کے اوپر کچی اینٹوں کی ڈاٹ لگادی گئی تھی پھر اس ڈاٹ کے اوپر مٹی ڈلوائی گئی مکرم قاضی عبد الکریم صاحب جو اس وقت اس کام پر مامور تھے اُن کی خواہش اور تجویز تھی کہ تختوں کے امر پر ڈاٹ پختہ اینٹوں کی بنائی جائے تاکہ قبر بیٹھ جانے کا اندیشہ نہ رہے مگر حضرت خلیفہ امسیح الاول نے اس کی اجازت نہ دی.روز نامہ الفضل ۶ار جولائی ۱۹۴۴ء گده ۴۰.تدفین کے بعد نعش ایک ملک سے دوسرے ملک لے جانا میت اگر ایک جگہ دن ہو اور ضرورت کی بناء پر اُسے دوسری جگہ یا دوسرے ملک میں منتقل کرنا ہو تو اس میں کوئی شرعی روک نہیں ہے اصل مقصد میت کی توقیر ہے اگر نعش نکالنے کا مقصد اس کی تحقیر نہ ہو بلکہ کوئی مفید اور مسلم غرض ہو تو لش کو قبر سے نکالا جا سکتا ہے خصوصاً جبکہ وہ بکس میں محفوظ ہو.ضرورت اور مصلحت کا فیصلہ مسلمانوں کے مرکزی نظام یا مقامی تنظیم کو کرنا چاہئے اصل مقصد بو سے بچنا ہے اگر بو نہیں تو عرصہ کی تعیین کے بغیر بھی بکس نکالا جا سکتا ہے عرصہ اور مدت کوئی شرعی مسئلہ نہیں بلکہ اندازہ اور تجربہ کی بناء پر چھ ماہ یا سال کی مدت بتائی جاتی ہے کہ اس عرصے میں بالعموم پوختم ہو جاتی ہے اور نعش خشک ہو جاتی ہے.سابقہ فقہاء کی آراء اور بعض واقعات كَانَ رَسُولُ الله الله يَرْخُصُ فِي نَقْلِ الْمَيِّتِ
39 وَ نَبْشِ قَبْرِهِ لِمَصْلِحَةِ مَاتَ سَعْدُبُنِ أَبِى وَقَاصٍ وَسَعِيدُ بْنِ زَيْدٍ بِقَصْرِهِمَا بِالْعَتِبْقِ فَحُمِلَا إِلَى الْمَدِينَةِ وَدُفِنَا بِهَا.حضرت سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید عتیق میں وفات پاگئے انکی نعش مدینہ لائی گئیں اور وہاں تدفین ہوئی.تُوَفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بِالحَبْشِهِ (اسمُ مَكَانٍ) فَحُمِلَ إِلَى مَكَّةَ وَ دُفِن بِهَا حضرت عبداللہ بن ابی بکر حبشہ میں وفات پاگئے ان کی نعش کو مکہ لایا گیا اور تدفین ( کشف الغمه صفحه / ۳۰۸ باب في نقل المیت ) ہوئی.۴.حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کی نعشیں مصر سے منتقل کر کے فلسطین لائی گئیں.(۱) طبری الجز ء اول تاریخ الام و الملوک صفحه ۱۸۷-۲۱۲ (ب) البدایہ والنہایہ صفحه ۲۲۰/۱ ( ج ) رد المختار صفحه ۱ / ۸۴۰ ۵.تابوت کے جواز کے بارے میں مندرجہ ذیل سند قابل مطالعہ ہے :- (1) لا بأسَ بِاتِّخَاذِ التَّابُوَتِ وَلَوْ بِحَجْرٍ أَوْ حَدِيدٍ عِندَ الْحَاجَةِ كَرَ خَاوَةِ الْأَرْضِ (ب) إِسْتَحْسَن مَشَائِخُنَا إِتِّخَاذِ التَّابُوتِ لِلنِّسَاءِ وَلَوْ لَمْ تَكُنِ الْأَرْضِ رَخْوَةٌ فَإِنَّهُ أَقْرَبُ إِلَى السَّتْرِ وَالتَحَرُّرِ مَن سَيْهَا عِنْدَ الْوَضْعِ فِي الْقَبْرِ.دین حق میں میت کا احترام آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں :- ردالمختار صفحه ۱ / ۸۳۶
40 "لا تسبو الأموات فانهم قد افضوا إلى ماقد موا (المستدرک، کتاب الجنائز باب النهی عن سب الميت ) یعنی تم وفات یافتہ لوگوں کو برا بھلا نہ کہو.ان سے برا سلوک نہ کرو کیونکہ وہ اپنے خدا کے حضور پہنچ چکے ہیں.خدا تعالیٰ جیسا چاہے گا ان سے سلوک کرے گا تمہارے برا بھلا کہنے سے ان کا کچھ نہ بگڑے گا تم صرف اپنی زبان ہی گندی کرو گے.اسی طرح حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن بیان کرتی ہیں کہ لَعَنَ رسول الله الله الله المختفى والمختفية یعنی نباش القبور (موطا امام مالک جنائز باب ماجاء فی الاختفاء وهو النباش) کہ حضور علی اللہ نے قبروں کو بد نیتی اور بے حرمتی کے طور پر اکھیڑ نے والوں پر لعنت بھیگی ہے.اسی طرح ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ جو شخص کسی مردے کی قبر بد نیتی سے اکھیڑتا ہے تو اسے قطع ید کی سزا دی جائے کیونکہ وہ ایک میت کے گھر میں داخل ہوا (ابوداؤ د کتاب الحدود وباب في قطع النباش) ہے.فقہاء نے بھی وضاحت کی ہے کہ مردوں کی بے حرمتی نہ کی جائے خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں چنانچہ فقہ کی مشہور کتاب بحر الرائق میں لکھا ہے کہ اگر قبر تنگی ہو جائے اور اس میں یہودی کی ہڈیاں نظر آرہی ہوں تو ان کی بے حرمتی نہ کی جائے کیونکہ ان ہڈیوں کی بے حرمتی بھی وہی ہے جو مسلمانوں کی ہڈیوں کی ہے نیز جب زندگی میں ان سے ظالمانہ سلوک کرنا اور ان کی بے حرمتی کرنا منع ہے تو ان کی وفات کے بعد بطریق اولی یہ ممانعت قائم ہے.تو ہین کی غرض سے قبر اکھیڑنا
41 حرام ہے".( بحر الرائق جلد دوم صفحه ۱۹۵) علاوہ ازیں مندرجہ ذیل واقعات احترام میت کی ضرورت پر کھلی روشنی ڈالتے ہیں.مرَّ على رسول الله الله بجنازة فقام فقيل له انه یهودی فقال لیست نفساً (سنن نسائی - کتاب الجنائز باب القيام الجنازة ابل الشرقي ) کہ ایک دفعہ حضور ﷺ تشریف فرما تھے کہ ایک جنازہ گذرا آپ اس کے احترام میں کھڑے ہو گئے کسی نے کہا یہ تو یہودی کا جنازہ ہے آپ نے فرمایا کیا ہوا انسان تو ہے گویا انسانیت کا احترام آپ کو اس حد تک تھا کہ آپ کسی جنازے کے ۲.احترام کے لئے بھی کھڑے ہو جاتے تھے.جنگ احزاب میں ایک کافر سردار خندق میں گر کر ہلاک ہو گیا اور نعش پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا کفار نے پیشکش کی کہ دس ہزار درہم لے لیں اور یہ نعش ان کے حوالے کر دی جائے.آپ نے فرمایا ہم مردہ فروش نہیں ہم اس کی دیت نہیں لیں گے اور پھر بلا معاوضہ اس نعش کو واپس کر دیا.( شرح الواہب اللد ينة لزرقانی جلد دوم صفحه ۱۴) اسی طرح حضور ﷺ کا یہ طرز عمل تھا کہ اگر میدان جنگ میں یا اس قسم کے حالات میں آپ کو کوئی نعش پڑی ملتی تو آپ اس کی تدفین کا حکم دیتے اور اسے اپنی نگرانی میں دفن کراتے اور سی کا پوچھتے کہ یہ مومن کی نعش ہے یا کافر کی.( السيرة الجليله جلد ۲ صفحہ ۱۹۰) حضور ﷺ کا حکم تھا کہ کسی مخالف کی نعش کا مثلہ نہ کیا جائے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو وحشت مذہب سے دور لوگوں میں پائی جاتی ہے آنحضور مسلمانوں میں اس کو مٹانا چاہتے تھے اور سب کو تہذیب کے دائرے میں رکھنا آپ کا
42 منصب نقاص تھا.اسی طرح بنو قریظہ کو جب ان کی سرکشی کی سزادی گئی تو ان کی نعشوں کو خندقیں کھدوا کر دفن کیا گیا.(سیرۃ ابن ہشام جلد ۳ صفحه ۲۵۹) آنحضرت نے اپنے چچا اور حضرت علی کے والد ابوطالب کی وفات پر حضرت علی کو ارشاد فرمایا کہ آپ اپنے والد کی تجہیز وتکفین کریں اور غسل دیں پھر ان کو ( السيرة الجليله جلده اصفحه ۳۸۹) دفنا ئیں.۴۲.وفات پر تعزیت وفات ہو جانے پر ضروری ہے کہ پسماندگان صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑ ہیں.صبر سے مراد یہ نہیں کہ انسان کو غم نہ ہو بلکہ صبر سے مراد یہ ہے کہ ایسا غم نہ جو حواس جاتے رہیں اور عقل اور قوت عملیہ باطل ہو جائے یہ کیسی اعلیٰ درجہ کی فطرت انسانی کے مطابق تعلیم ہے نہ غم سے روکا کہ وہ فطرتی امر ہے نہ جزع فزع اور کام چھوڑ دینے کی اجازت دی کہ یہ بزدلی اور کم ہمتی کی علامت ہے مومن کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جزع فزع کرنے کی بجائے پورے یقین اور ایمان کے ساتھ یہ کہتا ہے کہ ہم تو اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں یہ وہ نمونہ ہے جس کی اللہ تعالٰی اپنے مومن بندوں سے امید رکھتا ہے وہ چاہتا ہے کہ جب انہیں تکلیف پہنچے تو وہ گھبرانے اور جزع فزع کرنے کی بجائے خدائے تعالیٰ پر توکل رکھیں اُسی کو حاضر ناظر سمجھتے ہوئے کچے دل سے یہ کہیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون بظاہریہ چھوٹا سا فقرہ ہے مگر اپنے اندر وسیع مطالب رکھتا ہے.( تفسیر کبیر جلد دوم سورۃ بقرہ آیت ۱۵۷ حضرت مصلح موعود ) إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون یعنی ہم خدا کے ہیں اور اسی کی طرف ہمارا رجوع ہے سب سے پہلے یہ صدق و وفا کے کلے آنحضرت اللہ کے منہ سے نکلے
43 پھر دوسروں کے لئے اس نمونہ پر چلنے کا حکم ہو گیا.تاریخ دان جانتے ہیں کہ آپ کے گھر گیارہ لڑ کے پیدا ہوئے تھے اور سب کے سب فوت ہو گئے تھے آپ نے ہرلڑ کے کی وفات کے وقت یہی کہا مجھے اس سے کوئی تعلق نہیں میں خدا کا ہوں اور خدا کی طرف جاؤں گا ہر ایک دفعہ اولاد کے مرنے میں جولخت جگر ہوتے ہیں یہی منہ سے نکلا کہ اے خدا ہر ایک چیز پر میں تجھ کو مقدم رکھتا ہوں مجھے اس اولا د سے کچھ تعلق نہیں.(روحانی خزائن جلد ۲۳ چشمه معرفت حصہ دوم) ۴۳.صبر کے بارے میں قرآنی ارشاد وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ ترجمہ: جو تجھے تکلیف پہنچے اس پر صبر کر (سورۃ لقمان ) کے مطابق تکلیف پر صبر سے کام لینا چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ صابرین سے محبت رکھتا ہے اور ان کا دوست بن جاتا ہے.سورة بقره رکوع ۱۹ (وَبَشِّرِ الصَّابِرِين سے الْمُهْتَدُونَ) ترجمہ: اور تو ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے جنہیں جب مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے برکتیں نازل ہوتی رہتی ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں.۲۴.صبر وہ ہے جو صدمہ کی ابتدائی حالت میں کیا جائے وقت تو نہر حال گذر جاتا ہے گوشت پلاؤ کھانے والے بھی آخر مر جاتے ہیں لیکن جو شخص تلخیاں دیکھ کر صبر کرتا ہے اس کو بالآخرما جر ملتا ہے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کی اس بات پر شہادت ہے کہ صبر کا اجر ضرور ملتا ہے.جو لوگ خدا تعالیٰ کی خاطر صبر نہیں کرتے ان کو بھی صبر کرنا ہی پڑتا ہے پھر نہ وہ ثواب ہے نہ اجر کسی عزیز کے مرنے کے وقت عورتیں سیا پا کرتی ہیں بعض نادان
44 مرد سر پر راکھ ڈالتے ہیں تھوڑے عرصہ کے بعد ہی صبر کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں ایک عورت کا ذکر ہے کہ اس کا بچہ مر گیا وہ قبر کھٹڑی سیا پا کر رہی تھی آنحضرت ﷺ وہاں سے گزرے تو آپ نے فرمایا تو خدا سے ڈر اور صبر کر اس کمبخت نے جواب دیا کہ تو جا تجھ پر میرے جیسی مصیبت نہیں پڑی بد بخت نہیں جانتی تھی کہ آپ گیارہ بچوں کے فوت ہونے پر صبر کرنے والے ہیں جب اس کو بعد میں معلوم ہوا کہ اس کو نصیحت کرنے والے خود آنحضور تھے تو پھر آپ کے گھر آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ میں صبر کرتی ہوں آپ نے فرمایا " الصَّبَرُ عِندَ الصَّدَمَة الأولى" مبروہ ہے جو پہلے ہی مصیبت پر کیا جائے غرض بعد میں وقت گذرنے پر رفتہ رفتہ صبر کرنا ہی پڑتا ہے صبر وہ ہے جو ابتدا ہی میں انسان اللہ تعالیٰ کی خاطر کرے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر دیتا ہے یہ صبر کرنے والوں کا مقدر ہے.( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۴۱۸ - ۴۱۹) ۴۵.آنحضرت ﷺ کی وفات پر صحابہ کی بیقراری اور فرط اغم آپ ﷺ کی وفات پر صحابہ کی کیا حالت ہوئی تھی دو دیوانہ وار پھرتے تھے آپ کی زندگی اُن کو اتنی عزیز تھی کہ حضرت عمر نے تلوار کھینچ لی تھی کہ اگر کوئی آپ کو مردہ کہے گا تو میں اُس کا سر اُڑا دونگا اس شور پر حضرت ابو بکر آئے اور انہوں نے آگے بڑھ کر آپ کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا کہ آپ کی وفات پر خدا تعالی دو موتیں جمع نہ کرے گا اور پھر یہ آیت پڑھی وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ (ال عمران : (۱۴۵) یعنی آنحضرت ملالہ بھی ایک رسول ہیں پہلے جس قدر رسول آئے سب وفات پاگئے
45 ہیں صحابہ نے جب اس آیت کو سنا تو انہیں ایسا معلوم ہوا یہ آیت اب اتری ہے انہوں نے معلوم کیا کہ آپ کے مقابلہ میں کوئی اور زندہ نہیں ہے.حسان بن ثابت نے اس موقعہ پر ایک مرثیہ لکھا جس میں وہ کہتے ہیں.كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى - فَعَمِيَ عَلَيْكَ النَّاظِر مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ - فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ یعنی اے میرے پیارے نبی تو تو میری آنکھوں کی پتلی تھا اور میرے دیدوں کا نور تھا پس میں تو تیرے مرنے سے اندھا ہو گیا ہوں اب تیرے بعد میں دوسروں کی موت کا کیا غم کروں.( ملفوظات جلد چہارم صفحه ۱۳۵) حضرت مسیح موعود ایک اور جگہ فرماتے ہیں آنحضرت ﷺ کی وفات پر صحابہ کس قدر بیقرار ہو گئے تھے انہیں قرار نہیں آیا جب تک حضرت ابو بکر صدیق نے خطبہ پڑھ کر سب انبیاء علیہم السلام کی وفات پر اجماع نہ کرالیا فرمایا یہ کیا ہی مبارک اجماع تھا اگر یہ اجتماع نہ ہوتا تو بڑا بھاری فتنہ اسلام میں پیدا ہوتا.اسلام میں سب سے پہلا اجماع وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ال عمران : ۱۴۵) ہی پر ہوا ہے حضرت ابو بکر صدیق کا منشاء تو اس صدمہ کو دور کرتا تھا اور وہ مرگ یاراں جتنے دار دہی سے دور ہونا تھا.(ملفوظات جلد چہارم صفحه ۳۳۵) آنحضرت ﷺ کی وفات کوئی معمولی اور چھوٹا امر نہ تھا جس کا صدمہ صحابہ کو نہ ہوا ہوا ایک گاؤں کا نمبر دار یا محلہ دار یا گھر کا عمدہ آدمی مر جائے تو گھر والوں یا محلہ والوں یا دیہات والوں کو صدمہ ہوتا ہے پھر وہ نبی جو گل دنیا کے لئے آیا تھا اور رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْن ہو کر آیا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا ہے وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِين (الانبیاء: ۱۰۸) اور پھر دوسری جگہ فرمایا قل يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعاً (الاعراف : ۱۵۹)
46 پھر وہ نبی جس نے صدق اور وفا کا نمونہ دکھایا اور وہ کمالات دکھائے کہ جنگی نظیر نہیں ملتی وہ فوت ہو جاوے اس کے جانثار متبعین پر اثر نہ پڑے جنہوں نے اس کی خاطر جانیں دے دینے سے دریغ نہ کیا جنہوں نے وطن چھوڑا خویش و اقارب چھوڑے اور اس کے لئے ہر قسم کی تکلیفوں اور مشکلات کو اپنے لئے راحت جان سمجھا ایک ذرا سے فکر اور توجہ سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ جس قدردُ کھ اور تکلیف انہیں اس خیال کے تصور سے ہو سکتا ہے اس کا اندازہ اور قیاس ہم نہیں کر سکتے ان کی تسلی اور تسکین کا موجب یہی آیت تھی کہ جو حضرت ابو بکڑ نے پڑھی اللہ تعالی انہیں جزائے خیر دے کہ انہوں نے ایسے وقت میں صحابہ کو سنبھالا.۴۶.مومن وہی جو آپ ﷺ کی اتباع کرے آنحضرت ﷺ کی زندگی تو انہیں ایسی محبوب اور پیاری تھی کہ اب تک آپ کی وفات کا دُکھ کر کے لوگ روتے ہیں پھر صحابہ کے لئے تو اور بھی یہ درد اور رفت اس وقت پیدا ہو گئی تھی میرے نزدیک مومن وہی ہوتا ہے جو آپ کی اتباع کرتا ہے اور وہی کسی مقام پر پہنچتا ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (ال عمران : ۳۲) یعنی کہہ دو کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو تا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنا محبوب بنالے.اب محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ محبوب کے فعل کے ساتھ خاص موانست ہو اور مرنا آنحضرت ﷺ کی سنت ہے آپ نے مرکر دکھایا پھر کون ہے جو زندہ رہے یا زندہ رہنے کی آرزو کرے؟ یا کسی اور کیلئے تجویز کرے کہ وہ زندہ رہے.( ملفوظات جلد چہارم صفحه ۵۴۰) ۴۷.صابر و شاکر بندے کے لئے جنت میں گھر حدیث ترمذی کتاب الجنائز باب فضل المصيبة از احتسب)
47 حضرت ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالٰی اپنے کسی بندے کے بچے کو وفات دیتا ہے تو ملائکہ سے کہتا ہے کہ تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کی؟ اس پر فرشتے جواب دیتے ہیں ہاں ہمارے اللہ! پھر فرماتا ہے تم نے اس کے دل کی کلی توڑی ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں ہاں ہمارے اللہ ! پھر وہ پوچھتا ہے اس پر میرے بندے نے کیا کہا؟ فرشتے کہتے ہیں اس نے تیری حمد کی اور إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا اس پر اللہ تعالیٰ کہتا ہے تم میرے اس صابر شاکر بندے کے لئے جنت میں ایک گھر تعمیر کرو اس کا نام بیت الحمد رکھو.لخت جگر کی وفات پر رحمت اور شفقت کے آنسو ( حدیث بخاری کتاب الجنائز باب قول النبي ﷺ انا بك لمحزونون) حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت میں نے اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات کے وقت تشریف لائے آپ کی آنکھوں میں آنسو تھے عبدالرحمن بن عوف نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ روتے بھی ہیں؟ اس پر آپ نے فرمایا اے ابن عوف یہ تو رحمت اور شفقت ہے آپ کے آنسو جاری تھے اور کہتے جاتے تھے آنکھیں آنسو بہاتی ہیں دل غمگین لیکن ہم وہی کہیں گے جس کو ہمارا ارب پسند کرتا ہے اے ابراہیم ! تیری جدائی سے ہم ننگین ہیں.-۲۹ دستی بیعت کر نیوالی صحابیہ کا ماتم کے وقت صبر کا آنحضور کی خدمت میں عہد (ابوداؤ د کتاب الجنائز باب في النوح) حضرت اسید ایک دستی بیعت کرنے والی صحابیہ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضور نے بیعت لیتے وقت جو عہد اُن سے لیا اس میں یہ بات بھی تھی کہ ہم حضور کی
48 نافرمانی نہیں کریں گی ماتم کے وقت نہ اپنا چہرہ نوچیں گی اور نہ واویلا کریں گی نہ اپنا گریبان پھاڑیں گی اور نہ اپنے بال بکھیریں گی یعنی ایسیار و بی اختیار نہیں کریں گی جس سے سخت برہمی شدید بے صبری اور مایوسی کا اظہار ہوتا ہو.۵۰ صبر کا بہترین بدلہ حضرت ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ اللہ نے فرمایا جب تم میں ے کسی پہ مصیبت آئے تو وہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن پڑھے اور دعا مانگے کہ میرے اللہ میں تیرے حضور اپنی مصیبت کو پیش کرتا ہوں مجھے اس کا بہتر اجر دے اس کے بدلے میں مجھے خیر اور برکت عطاء کر پس جب ابو سلمہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے دعا کی اے میرے اللہ میرے اہل کو میرے بدلہ میں اچھا قائم مقام عطاء کرنا جب ان کی وفات ہو گئی تو حضرت اُم سلمہ نے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون پڑھا اور دعا کی کہ میں اپنی مصیبت تیرے حضور پیش کرتی ہوں تو مجھے اس کا بہتر اجر دے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت ام سلمہ کی شادی آنحضور سے ہو گئی اور اس طرح بہترین بدلہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عطاء کیا.۵۱.صبر کی فضیلت صبر کی فضیلت کے بارے میں اسامہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کی طرف ایک آدمی کے ہاتھ کہلا بھیجا کہ میرا بیٹا نزع کی حالت میں ہے آپ ہمارے گھر تشریف لائیں آپ نے اس آدمی کو کہا کہ جاؤ لڑکی کو میر اسلام کہو اور کہنا جو اللہ نے دیا اور جو اللہ نے لیا وہ سب اللہ ہی کا مال ہے اور اللہ کے علم میں سب کی موت کا وقت مقرر ہے لڑکی کو چاہنے صبر کر لے اور صبر کو ثواب سمجھے.اس پر آنحضرت کی صاحبزادی نے آدمی بھیجا کہ خدا کے واسطے حضور تضر در تشریف لاویں آپ کھڑے ہو گئے اور آپ کے ہمراہ سعد بن عبادہ اور
49 چند دوسرے صحابی تھے جب وہاں پہنچے تو بچہ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا آپ نے گود میں لے لیا بچہ نزع کی حالت میں تھا یہ دیکھ کر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تو سعد نے کہا یا رسول اللہ یہ رونا کیسا؟ آپ نے فرمایا یہ رحم کے آنسو ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ہر بندے کے دل میں فطرہ ودیعت کیا ہے اور اللہ تعالیٰ رحم کرنے والوں پر رحم کرتا ہے.( نسائی کتاب الجنائز باب الامر بالاحتساب والمعمر ) صبر کی فضیلت کے بارے میں قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں کہ میری بیوی فوت ہو گئی تو تعزیت کے لئے میرے پاس محمد بن کعب قرظی تشریف لائے اور بسلسلہ تعزیت و تسلی یہ حکایت سنانے لگے کہ بنی اسرائیل میں ایک بڑا فقیہ عالم اور عبادت گزار بزرگ شخص تھا اس کی بیوی فوت ہو گئی جو بہت خوبصورت تھی اور اس کو بہت پیاری تھی بیوی کے مرنے کی وجہ سے اس عالم کو بہت غم ہوا اور اس قدر افسوس ہوا کہ اس نے لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور گھر میں بند ہو کر بیٹھ گیا تا کہ اس کے پاس کوئی بھی نہ آسکے ایک عورت کو جب اس بات کا علم ہوا تو وہ آئی اور کہا کہ میں ایک اہم فتویٰ پوچھنے کے لئے آئی ہوں اس سے ملنا چاہتی ہوں.آئے ہوئے تمام لوگ ملے بغیر چلے گئے لیکن یہ عورت جم کر بیٹھ گئی اور کہا کہ میں ملے بغیر نہیں جاؤں گی اس عالم کو گھر والوں میں سے کسی نے جا کر بتایا کہ سب لوگ تو چلے گئے ہیں لیکن ایک عورت جانے کا نام نہیں لیتی.کہتی ہے بالمشافہ ایک مسئلہ پوچھنا ہے اس عالم نے کہا اچھا اس کو اندر آنے دو اندر آ کر اس نے عالم سے فتویٰ پوچھا میں نے اپنے پڑوسی سے کچھ زیور عاریتہ لیا تھا میں اس زیور کو کافی عرصہ پہنتی رہی اب انہوں نے وہ زیور واپس مانگ بھیجا ہے لیکن مجھے یہ زیور بہت پسند ہے واپس کرنا ہو گا دل تو واپس کرنے کو نہیں چاہتا اس فقیہہ اور عالم نے کہا کیوں نہیں اس زیور کا واپس کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ
50 اُن کا ہے وہ واپس مانگنے کے حقدار ہیں اور تجھے یہ واپس کرنا ہی پڑے گا یہ جواب سُن کر وہ عورت کہنے لگی میں اللہ تجھ پر رحم کرے کیا تو اس چیز پر قائم اور سوگ کر رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے تجھے عاریتہ دی تھی اور اپنی چیز واپس لے لی کیونکہ اس کی امانت تھی اور اس نے اپنا ہی حق واپس لیا ہے اس دانا عورت کی یہ بات سُن کر عالم کی آنکھیں کھل گئیں اسے صبر کی توفیق ملی اور معمول کی زندگی شروع کر دی.موطا امام مالک کتاب الجنائز جامع الحية في المصيبة ) ۵۲.اللہ تعالیٰ کی امانت ابو عمیرا بھی بچہ ہی تھے کہ حضرت ابوطلحہ کی عدم موجودگی میں فوت ہو گئے.حضرت ام سلیم نے ان کی رحلت پر صبر و استقلال سے کام لیا خاموشی سے ان کی میت کو کفن پہنا کر ایک طرف رکھ دیا اور گھر والوں کو منع کر دیا کہ حضرت ابوطلحہ کو آتے ہی ابو میر کی المناک موت کی خبر نہ دیں رات کو ابوطلحہ آئے انہیں کھانا کھلایا اور وہ اطمینان سے لیٹ گئے تو ام سلیم نے ان سے پوچھا اگر تمہیں کوئی چیز مستعار دی جائے اور پھر واپس لے لی جائے تو کیا اس کا واپس لیا جانا تمہیں نا گوار گزرے گا ؟ حضرت ابوطلحہ نے جواب دیا ہر گز نہیں.بولیں تمہارالڑ کا بھی اللہ کی امانت تھی جو اس نے واپس لے لی تھی اب اس کی طرف سے صبر کرنا چاہئے.ابو لہ نے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا اور ان سے کہا تم نے پہلے کیوں نہ بتایا بولیں اس لئے تا کہ تم اطمینان سے کھانا وغیرہ کھالو.صبح اٹھ کر ابو طلحہ رسول کریم نے کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ سنایا حضور نے حضرت ام سلیم کے صبر و رضا پر ان کی تعریف فرمائی اور نعم البدل کے لئے دعا کی اس دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں عبداللہ فرزند عطا فرمایا جس سے ابوطلحہ کی نسل چلی.
51 ۵۳.اللہ کی مشیت کے نتائج کو بھلا دینا چاہئے (1) حضرت عبد اللہ بن عمر کے صاحبزادے کا انتقال ہوا تو آپ تجهیز و کفین سے فارغ ہو کر بدوؤں کی دوڑ کے مقابلے میں شرکت کرنے لگے حضرت نافع نے کہا ابھی تو آپ بیٹے کو دفن کر کے آئے ہیں اور اب بدوؤں کے ساتھ دوڑ رہے ہیں اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر نے جواب دیا اللہ کی مشیت نے جو کام کر دیا اس کے نتائج کو جس طرح بھی ممکن ہو بھلا دینا چاہیے.(۲) غزوۂ احد سے واپسی پر حضرت حمنہ بنت بخش نے اپنے عزیز واقارب کا ے اپنے عزیز وا حال پوچھا آنحضرت ﷺ نے فرمایا حمنہ اپنے بھائی عبد اللہ پر صبر کرو" انہوں نے یہ سن کر مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کی اور صبر کیا.آنحضرت مے نے پھر فرمایا.”حمند اپنے ماموں حمزہ بن عبد المطلب پر بھی صبر کرو انہوں نے پھر دعائے مغفرت کی اور خاموش رہیں.سوگ کی مدت افسوس اور تعزیت کی حالت تین دن تک قائم رکھی جائے اس کے بعد زندگی معمول پر آجانی چاہئے البتہ جس عورت کا خاوند مر جائے وہ چار ماہ دس دن تک سوگ منائے یعنی بلا اشد ضرورت گھر سے باہر نہ نکلے بناؤ سنگھار نہ کرے بھڑکیلے کپڑے نہ پہنے خوشبو کا استعمال نہ کرے خوشی کی تقریبات میں شامل نہ ہو صبر و شکر کے ساتھ ذکرِ الہی میں دن گزارے.
52 ۵۴.تمام احمدی خواتین کیلئے صبر و رضا کا بہترین نمونہ حضرت مسیح موعود کی زوجہ محترمہ حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم (حضرت اماں جان ) حضرت اماں جان اخلاق کے اعلیٰ مقام پر فائز تھیں رضائے الہی پر سرتسلیم خم کرنے کا یہ عالم کہ پانچ بچے کم عمری میں فوت ہو جاتے ہیں لیکن بے صبری کا کوئی کلمہ زبان پر نہیں آتا یوں بھی ہوا کہ بچے کی آخری حالت ہے نماز کا وقت ہو رہا ہے فرماتی ہیں.اب اس کے بچنے کی تو کوئی صورت نہیں پھر میں اپنی نماز کیوں قضا کروں.پھر اطمینان سے نماز ادا کر کے بچے کا حال دریافت فرماتی ہیں اور یہ جواب ملنے پر کہ فوت ہو گیا ہے صبر کے الفاظ ادا کر کے خاموش ہو جاتی ہیں.اسی طرح مرزا مبارک احمد جو آٹھ سال کی عمر میں فوت ہو گئے تھے اس وقت صرف زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں ” میں خدا کی تقدیر پر راضی ہوں“ اللہ تعالیٰ کو یہ ادا اتنی پسند آئی کہ فرمایا ” خدا خوش ہو گیا جب حضرت اقدس بائی سلسلہ احمدیہ نے حضرت اماں جان کو بتایا تو بے ساختہ بولیں کہ مجھے اس پاک کلام سے اس قدر خوشی ہے کہ اگر دو ہزار مبارک بھی مرجاتا تو پرواہ نہ کرتی.مجله تقریب صد سالہ جشن تشکر صفحه ۶۹) حضرت مسیح موعود کی وفات کے موقع پر اس صبر و رضا کی چٹان یعنی (اماں جان ) نے کمال صبر و تسلیم اور تو کل الی اللہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے خدا کے حضور عرض کی.اے میرے پیارے خدا! یہ تو ہمیں چھوڑتے ہیں مگر تو ہمیں نہ چھوڑیو بچوں کو اپنے پاس بلا کر بڑے درد اور خوشی سے فرمایا :-
53 گھر خالی دیکھ کر تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ کر گئے انہوں نے آسمان پر تمہارے لئے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا.( الفضل ۱۹؍ جنوری ۱۹۶۲ صفحه ۱۵) آج دنیا گواہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کی دعاؤں کے خزانہ سے آپ کی اولا د کس قدر مستفیض ہو رہی ہے.-۵۵ صبر و رضا کے ایمان افروز واقعات نذر محمد نذیر گولیکی ضلع گجرات تحریر کرتے ہیں :- آج سے تقریباً ۳۵ - ۳۶ سال قبل لاہور میں حضرت ملک غلام فرید صاحب کنجاہی.M.A رفیق ابن رفیق جماعت احمدیہ لاہور کے اکابرین اور معزز ترین احباب میں سے تھے اور وہ ہستی تھے جنہوں نے خدا کے کلام کا انگریزی ترجمہ کیا تھا ان کی رہائش ٹمپل روڈ لاہور پر تھی ان کی ایک بچی کی شادی تھی صبح پسرور سے بارات آئی تھی خدا کی تقدیر کہ مہندی کی رسم سے فراغت کے بعد اس بچی کی سہیلی نے اپنے گھر جاتا تھا حضرت ملک صاحب کا بیٹا کرشن بمعہ اپنی بہن ( صبح کی دلہن ) اور اس کی سہیلی کو کار میں گھر چھوڑ نے جا رہے تھے راستہ میں حادثہ ہو گیا کرشن اور سہیلی بال بال بچ گئے تمام خوشیوں کی جگہ غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے صبح بارات کی آمد تھی بعض احباب نے حضرت ملک صاحب کو مشورہ دیا کہ بارات کو روک دیا جائے لیکن اس صبر و رضا کے پیکر نے جس نے حضرت بانی سلسلہ کے مدرسہ میں تربیت پائی تھی یہ مشورہ ماننے سے انکار کر دیا اور بارات کو آنے دیا ادھر مہندی لگی دلہن کا جنازہ تیار رکھا ہے بارات آتی ہے پیاری بیٹی کو حضرت ملک صاحب اور بہن بھائی اور سارے خاندان والے اور ساری بارات والے ڈولی کی بجائے قبر میں اتارتے ہیں ( بعد جنازہ پھر کھانا
54 کھلایا جاتا ہے اس طرح بغیر کسی رکاوٹ کے روٹین کے مطابق چھوٹی پیاری بیٹی کو بغیر مہندی کے ڈولی میں ڈال کر بارات والوں کے حوالے کیا جاتا ہے اس درد ناک حقیقی فلم کا نقشہ دیکھنے والے ہی کھینچ سکتے ہیں کتنا بڑا امتحان تھا ایک رفیق ابن رفیق کا اور کس طرح یہ رفیق حضرت بانی سلسلہ اللہ رضاؤں کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور پھر تحسین صد تحسین گھر والے ایک ایک فرد پر بچی کی غم زدہ والدہ پر بہنوں پر اور بہنوں کے ویروں پر ملک صاحب کی ساری اولاد پر جس نے اپنے والد کے حکم پر سر تسلیم خم کر دئے اور چوں نہ کی بلکہ مددگار ثابت ہوئی اور پھر قربان اس بچی پر جو سارے کپڑوں میں غموں کے پہاڑ اپنے ننھے منے سینہ میں سمیٹ کر صرف اور صرف اپنے والد بزرگ کے حکم پر اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر ڈولی میں داخل ہو گئی اس روئیداد کو امروز اخبار میں تفصیل سے شائع کیا گیا لیکن جماعت احمدیہ کے گھرانہ کا ذکر الفضل ۷ مارچ ۱۹۸۷) نہ کیا گیا.محترم چوہدری رحمت خاں صاحب ( وفات یافتہ ) محکمہ تعلیم سے فارغ ہوئے تو بطور امام بیت لنڈن تقرری ہوئی ۱۹۶۰ء میں گئے ۱۹۶۴ء میں واپس تشریف لے آئے ان کا جو ان ۲۶ سال کا بیٹا اعلی تعلیم کیلئے ان کے پاس تھا چوہدری صاحب واپس اُس کو وہاں چھوڑ کر پاکستان آگئے.اس کی رہائش بیت الفضل لنڈن میں تھی بیت کے لان میں صفائی کرتے ہوئے کرنٹ لگنے سے اللہ کو پیارا ہو گیا عزیزی مسعود احمد 4 سال سے والدین سے جدا تھا اور سب سے چھوٹا بیٹا تھا مکرم چوہدری رحمت خاں صاحب احمدیہ ہوٹل لاہور میں سپر نٹنڈنٹ تھے ان کو اطلاع ملی کہ مسعود اللہ کو پیارا ہو گیا یہ الفاظ کہ اللہ کی طرف سے آئے اور اللہ کی طرف چلے گئے کہے اور احباب کو خطوط لکھنے شروع کر دیئے.عزیزی مسعود کی نیکی، تقوئی اور اخلاص اور لیاقت کی وجہ سے حضرت
55 چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو اس سے بہت محبت تھی حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بھی ان دنوں لاہور میں تھے دارالذکر لاہور میں پورا خطبہ عزیزی مسعود پر دیا چوہدری رحمت خاں صاحب جب اپنے گاؤں دھیر کے کلاں گجرات گئے تو احمدی- غیر احمدی مرد- مستورات کا ہجوم ان کو ملنے کے لئے جمع ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو استقامت بخشی کسی کو جرات نہ ہوئی کہ گلے لگ کر رونا شروع کرے بہت سنجیدگی اور صبر اور تحمل سے گاؤں والوں کی بے صبری کا مقابلہ کیا جب گھر گئے تو مسعود کی والدہ اور بہنوں نے رو رو کر کہا کہ مسعود تو ہمیں بہت پیارا تھا چوہدری صاحب نے فرمایا کہ اللہ کو اس سے بھی زیادہ پیارا تھا.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں وفات پر صبر ورضا کے ان گنت واقعات ہیں.-۵۶.تعزیت کے موقعہ پر غیر شریعی رسوم کی مذمت ملفوظات جلد پنجم میں حضرت مسیح موعود کی ایک پرانی تحریر کا اقتباس خواتین کے لئے خصوصی نصائح :- ا ماتم کی حالت میں جوع فزع اور نوحہ اور سیا پا کرنا اور چینیں مارتا اور بے صبری کے کلمات زبان پر لانا یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ جن کے کرنے سے ایمان کے جانے کا اندیشہ ہے اور یہ سب رسمیں ہندوؤں سے لی گئی ہیں جاہل مسلمانوں نے دین کو بھلا دیا اور ہندوؤں کی رسمیں اختیار کر لیں کسی عزیز اور پیارے کی موت کی حالت میں مسلمانوں کے لئے قرآن شریف میں حکم ہے کہ صرف إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون کہیں یعنی ہم خدا تعالیٰ کا مال ہیں اور ملک ہیں اُسے اختیار ہے جب چاہے اپنا مال لے لے اور اگر رونا ہو تو صرف آنکھوں سے آنسو بہانا جائز ہے اور جو اس سے زیادہ کرے وہ شیطان سے ہے.ایک سال تک سوگ رکھنا اور نئی نئی عورتوں کے آنے کے وقت یا بعض خاص
56 دنوں میں سیاپا کرنا اور با ہم عورتوں کا سر ٹکرا کر رونا اور کچھ کچھ منہ سے بکواس کرنا اور پھر برابر ایک برس تک بعض چیزوں کا چھوڑ دینا اس عذر سے کہ ہمارے گھر میں یا برادر پی میں ماتم ہو گیا ہے.یہ سب نا پاک رسمیں ہیں اور گناہ کی باتیں ہیں جن سے پر ہیز کرنا چاہیے.سیا پا کرنے کے دنوں میں بے جا خرچ بھی ہوتے ہیں حرام خور عورتیں شیطان کی بہنیں جو ڈور ڈور سے سیا پا کرنے آتی ہیں اور مکر و فریب سے منہ ڈھانپ کر اور بھینسوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا کر چیخیں مار کر روتی ہیں ان کو اچھے اچھے کھانے کھلائے جاتے ہیں اور اگر مقدور ہوتو اپنی شیخی اور بڑائی جتانے کے لئے صدہا روپیہ کا پلاؤ اور زردہ پکا کر برادری وغیرہ میں تقسیم کیا جاتا ہے اس غرض سے کہ لوگ واہ واہ کریں کہ فلاں شخص نے مرنے پر اچھی کرتوت دکھائی اچھا نام پیدا کیا سو یہ سب طریق شیطانی ہیں جن سے تو بہ کرنا لازم ہے.-۴- اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو دوسرا خاوند کرنا ایسا بُرا جانتی ہے جیسا کہ کوئی بڑا گناہ بھاری گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ اور رانڈ رہ کر خیال کرتی ہے کہ میں نے بہت ثواب کا کام کیا ہے اور پاکدامن بیوی ہوگئی ہوں حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ ہے عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کر لینا نہایت ثواب کی بات ہے ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں بُرے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کر لے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود لعنتی اور شیطان کی چیلیاں ہیں جن کے ذریعہ شیطان اپنے کام چلاتا ہے جس عورت کو رسول اللہ علے پیارے ہیں اُس کو چاہیے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلاش کر لے اور یا در کھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ
57 ہونے کی حالت کے وظائف سے صدہا درجہ بہتر ہے.۵۷- بعد وفات میت کو کیا شے پہنچتی ہے حضرت مسیح موعود نے فر ما یا دعا کا اثر ثابت ہے ایک روایت میں ہے کہ اگر میت کی طرف سے حج کیا جاوے تو قبول ہوتا ہے اور روزہ کا ذکر بھی ہے ایک شخص نے عرض کی کہ حضور یہ جو لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (انجم:۴۰) فرمایا اگر اس کے یہ معنی ہیں کہ بھائی کے حق میں دعانہ قبول ہو تو سورۃ فاتحہ میں اهْدِنَا کی بجائے ( ملفوظات جلد سوم صفحه ۲۶۶) اهدِني ہوتا.۵۸.میت کے لئے ختم اور فاتحہ خوانی حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا یہ درست نہیں بدعت ہے آنحضرت میں نے سے ثابت نہیں کہ اس طرح صف بچھا کر بیٹھتے اور فاتحہ خوانی کرتے تھے.خیرات البتہ ہر طرح اور ہر رنگ میں جائز ہے اور جیسے چاہے انسان دے مگر فاتحہ خوانی سے ہمیں نہیں معلوم کیا فائدہ ؟ اور یہ کیوں کیا جاتا ہے میرے خیال میں یہ جو ہمارے ملک میں رسم جاری ہے کہ اس پر کچھ قرآن شریف وغیرہ پڑھتے ہیں یہ طریق شرک ہے غربا اور مساکین کو بے شک کھانا کھلاؤ.(ملفوظات جلد سوم صفحه ۱۸۰) ۵۹.میت کے نام پر قبرستان میں کھانا تقسیم کرنا حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ میت کے ساتھ جو لوگ روٹیاں پکا کر یا اور شے لے کر باہر قبرستان میں لے جاتے ہیں اور میت کو دفن کرنے کے بعد مہ کہن میں تقسیم کر دیتے ہیں سب باتیں نیت پر موقوف ہیں اگر یہ نیت ہے کہ اس جگہ مساکین جمع ہو جایا کرتے ہیں اور مردے کو صدقہ پہنچ سکتا ہے ادھر وہ دفن ہوا ادھر مساکین کو صدقہ دے دیا جاوے تا کہ اس کے حق میں مفید ہو اور بخشا جاوے تو یہ ایک عمدہ بات ہے لیکن اگر صرف رسم کے طور پر کیا جاوے تو جائز نہیں کیونکہ اس کا ثواب
58 مردے کے لئے اور نہ دینے والے کے واسطے کچھ فائدے کی بات ہے.۶۰.جس کے ہاں ماتم ہو اس کے ساتھ ہمدردی ( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۶ ) حضرت مسیح موعود سے سوال کیا گیا.کیا یہ جائز ہے کہ جب کار قضاء کسی بھائی کے گھر میت ہو جائے تو دوسرے دوست کھانا تیار کریں؟ آپ نے فرمایا نہ صرف جائز ہے بلکہ برادرانہ ہمدردی کے لحاظ سے ضروری ہے کہ ایسا کیا جائے.۶۱.میت کے لئے دعا ( ملفوظات جلد نهم صفحه ۳۰۴) حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا میت کے واسطے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اس کے ان قصوروں اور گناہوں کو بخشے جو اس نے اس دنیا میں کئے تھے اور اس کے پسماندگان کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے.(ملفوظات جلد پنجم صفحه ا) ۶۲.میت پر رنگدار کپڑے اور پھول ڈالنا پسندیدہ نہیں حضرت ام طاہر کا کفن بالکل سفید کپڑے کا تھا میت پر نہ تو کسی قسم کا رنگدار کپڑا تھا اور نہ پھول وغیرہ بکہ لاہور کی بعض خواتین اپنے ساتھ پھول لائی تھیں جس حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے منع فرما دیا اور فرمایا حقیقت خدا کے حضور حاضر ہونے کے وقت سادگی اور صفائی ہی بجتی ہے.۶۳.مُردے کا اسقاط تابعین اصحاب احمد جلد سوم - سیده ایم طاہر صفحہ ۱۱۰) ملاؤں نے ماتم اور شادی میں بہت سی رسمیں پیدا کر لی ہیں یہ بھی ان میں سے ایک ہے مردے کے اسقاط میں قرآن شریف کو چکر دیتے ہیں یہ اصل میں قرآن شریف کی بے ادبی ہے انسان خدا سے سچا تعلق رکھنے والا نہیں ہوسکتا جیتک سب نظر خدا
59 پر نہ ہو.( ملفوظات جلد سوم صفحه ۶۰۵ ) ۶۴.میت کے قل جو تیسرے دن پڑھے جاتے ہیں حضرت مسیح موعود نے فرمایا قل خوانی کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے صدقہ دعا اور استغفار میت کو پہنچتے ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ ملانوں کو اس کا ثواب پہنچ جاتا ہے سواگر اُسے ہی مردہ تصور کر لیا جائے ( اور واقعی ملاں لوگ روحانیت سے مردہ ہی ہوتے ہیں ) تو ہم مان لیں گے.( ملفوظات جلد سوم صفحه ۶۰۵ بحوالہ ایڈیٹر البدر ) ہمیں تعجب ہے کہ یہ لوگ ایسی باتوں پر امید کیسے باندھ لیتے ہیں دین تو ہم کو نبی کریم نے سے ملا ہے اس میں ان باتوں کا نام تک نہیں صحابہ کرام بھی فوت ہوئے کیا کسی کے قل پڑھے گئے صد ہا سال کے بعد اور بدعتوں کی طرح یہ بدعت بھی نکل آئی ہوئی ہے.۶۵.نماز جنازہ کسی ایسے متوفی کا جو بالجبر مکفر اور مکذب نہ ہو حضرت مسیح موعود نے فرمایا ایسے متوفی کا جو بالجبر مکفر اور مذب نہ ہو تو اس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں کیونکہ علام الغیوب خدا کی ذات ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحه ۲۱۵) -۶۶- کیا میت کو صدقہ خیرات اور قرآن شریف کا پڑھنا پہنچتا ہے؟ حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا میت کو صدقہ خیرات جو اس کی خاطر دیا جاوے پہنچ جاتا ہے لیکن قرآن شریف کا پڑھ کر پہنچانا حضرت رسول کریم ) صحابہ سے ثابت نہیں ہے اس کی بجائے دعا ہے جو میت کے حق میں کرنی چاہئے میت کے حق میں صدقہ خیرات اور دعا کا کرنا ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کی سنت سے ثابت ہے لیکن صدقہ بھی وہ بہتر ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے دنے جائے کیونکہ اس کے
60 ذریعہ انسان اپنے ایمان پر مہر لگاتا ہے.۶۷.مرنے والے کے عمل ختم ہو جاتے ہیں مگر تین عمل ختم نہیں ہوتے حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل ختم ہو جاتے ہیں مگر تین عمل ختم نہیں ہوتے اول صدقہ جاریہ دوم ایسا علم جس سے فائدہ اُٹھایا جائے سوم ایسی نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے.(مسلم) حديقة الصالحين -- قبر پر دعا میں کونسی آیت پڑھنی چاہئے؟ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں یہ تکلفات ہیں تم اپنی ہی زبان میں جس کو بخوبی جانتے ہو جس میں تم کو جوش پیدا ہوتا ہے میت کے واسطے دعا کرو.قبر کو خانقاہ اور زیارتگاہ نہ بناؤ حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ یعنی گھر میں قرآن کریم نوافل اور سنتیں پڑھا کرو اس طرح فرمایا میری قبر کو خانقاہ اور زیارتگاہ نہ بناؤ کہ وہاں آکر سجدے کرو اور چڑھاوے چڑھاؤ پھر فرمایا مجھے پرور و دو سلام بھیجا کرو تمہارا درود و سلام جہاں کہیں بھی تم ہو مجھے پہنچ جاتا ہے.۷۰ قبرستان جانا اور قبر کو پختہ کرنے کے بارے میں جواز حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا: - (ابوداؤد) نذرونیاز کے لئے قبروں پر جانا اور وہاں جا کر منتیں مانگنا درست نہیں ہاں وہاں جا کر انسان عبرت سیکھے اور اپنی موت کو یاد کرے تو جائز ہے قبروں کے پختہ بنانے کی ممانعت ہے البتہ اگر میت کو محفوظ رکھنے کی نیت ہو تو حرج نہیں ہے یعنی ایسی
61 جگہ جہاں سیلاب وغیرہ کا اندیشہ ہو اور اس میں تکلفات جائز نہیں ہیں.اے.کیا پختہ قبر بنانا جائز ہے؟ الحکم جلد نمبر ۲۰ صفحه ۹ مورخه ۳۱ رمئی ۱۹۰۳ء ملفوظات جلد سوم میت کے مسائل) ایک بار پھر حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا نیت پر منحصر ہے مثلاً بعض جگہ سیلاب آتے ہیں قبریں بہہ جاتی ہیں بعض جگہ بجو اور گئے قبروں سے مردے نکال لیتے ہیں اگر ایسے وجوہ پیش آجائیں تو پختہ کر دینا مناسب ہے کیونکہ میت کے لئے بھی ایک عزت ہے نمود کے واسطے گنبد بنانا جائز نہیں مگر حفاظت ضروری ہے حضرت رسول ریم اللہ کی قبر کے گرد پختہ عمارت ہے ایسے ہی بعض اولیاء اور صلحاء کی قبریں پختہ ہیں الہی مصلحت نے ان کے لئے یہی چاہا اور ایسے اسباب مہیا کئے.پرانی نوٹ بک ۱۹۰۱ء صفحه ۲۴۱ ذکر حبیب مصنف حضرت مفتی محمد صادق) ۷۲.قبہ یا روضہ بنانا انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے کہ جن وجودوں کے ساتھ محبت ہوتی ہے ان کے مرنے کے بعد بھی جہاں تک ہو سکے ان کا احترام کرنا چاہتا ہے یوں تو جب کوئی شخص مر جاتا ہے اس کی لاش اگر کتے بھی کھا جائیں تو اُسے کیا تکلیف ہو گی لیکن اس سے محبت رکھنے والے زندہ انسان ہوں ان کی فطرت گوارا نہیں کرتی کہ لاش کی یہ حالت ہو اس لئے وہ اپنے طور پر اس کا احترام کرتے ہیں مگر یہ کوئی شرعی احترام نہیں ہوتا کیونکہ شریعی طور پر ایسا احترام جائز نہیں کیونکہ اس سے شرک پھیلتا ہے بچوں وغیرہ کی قبر پر قبہ نہیں بناتے مگر بزرگوں کی قبر پر قبہ بناتے ہیں کیونکہ ان کی غرض ہی یہ ہوتی ہے کہ ان سے کچھ حاصل ہو گا.الفضل یکم مارچ ۱۹۲۷ء - فقه احمد یه صفحه ۲۶۶)
62 حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے فرمایا:- اگر قبر کی حفاظت کے لئے ضروری نہ ہو تو قحبہ وغیرہ کی ضرورت نہیں اور اگر یادگار کے خیال سے قبہ بنایا جائے تو میں ایسی یادگار کا قائل نہیں کہ اس کے لئے قحبہ بنانا ضروری ہو.یہی خیال ہے جس سے آگے شرک پیدا ہوتا ہے پس حفاظت تو ٹھیک ہے لیکن یادگار ٹھیک نہیں کیونکہ قبر کی اس رنگ میں یادگار ہی وہ چیز ہے جو آگے شرک تک پہنچا دیتی ہے بے شک ہم تو احترام کے لئے مجھے بنا ئیں گے لیکن دوسرے لوگ اس احترام کو اس حد تک پہنچا دیں گے کہ جس سے شرک شروع ہو جائے گا.رسول کریم کے کے مزار پر قبہ بنایا گیا ہے وہ بھی حفاظت کے لئے نہ کہ اس لئے کہ مزار کی عزت کی جائے.الفضل یکم مارچ ۱۹۲۷ء - فقه احمد یه ۲۶۵-۲۶۶) ۷۳.زیارت قبور میں ثواب زیارت قبور کے متعلق حضرت مسیح موعود نے فرمایا قبرستان میں ایک روحانیت ہوتی ہے اور صبح کا وقت زیارت قبور کے لئے ایک سنت ہے یہ ثواب کا کام ہے اور اس سے انسان کو اپنا مقام یاد آ جاتا ہے انسان اس دنیا میں مسافر آیا ہے آج زمین پر ہے تو کل زمین کے نیچے.چاہئے کہ انسان اپنے لئے بھی خدا سے دعا کرے اور اہل قبر کے واسطے بھی خدا سے دعا کرے انسان زندہ ہو یا مردہ ہر حال میں دعا کا محتاج ہے درود شریف جو رسول کریم اللہ پر پڑھا جاتا ہے یہ بھی ایک قسم کی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی برکات نازل کرے اور اپنی رحمتیں بھیجے.قبور کے دیکھنے سے انسان کا دل نرم پڑ جاتا ہے اور اپنا انجام یاد آ جاتا ہے.(ذکر حبیب مصنف حضرت مفتی محمد صادق صفحه ۲۴۶) ۷۴.قبروں سے فیض قرآن پاک سے ثابت نہیں حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی کتاب سے یہ ثابت نہیں کہ
63 آدمی قبروں پر بیٹھ کر اُن سے فیض لے انسان کو چاہئے امن کا راستہ اختیار کرے اولیاء اللہ ایک طرح زندہ ہیں مگر زندگی کے یہ معنی نہیں کہ دیوار کے پیچھے دیکھ سکتے ہیں مرنے کے بعد توسیع مدارج ہو جاتی ہے مگر کوئی انسان خدا انہیں بن جا تا فرمایا ہم نے خدا کے قول "نحن اقرب اليه من حبل الورید یعنی ہم انسان کے رگِ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں کو آزمایا.ہم بات کرتے ہیں وہ جواب دیتا ہے ہماری جماعت کے کئی آدمی بھی اس میں شامل ہیں خدا پر غیر ممکن نہیں کہ وہ اُن پر الہام کا دروازہ کھول دے انسان کو چاہنے کسی انسان پر توقع نہ رکھے سب بھروسہ اللہ پر رکھنا چاہئے.(صفحه ۲۲۳-۲۲۴) الهام "أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبُدَهُ “ کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں باالفاظ دیگر خداداری همه چیز داری چه غم داری -۷۵.سوئم چالیسویں ختم قرآن آیت کریمہ اور باداموں کے ختم حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس موضوع پر فرماتے ہیں ہم وہی ختم مانتے ہیں جو ختم رسول کریم ﷺ سے ثابت ہو اور نہ اس کے سوا کوئی عقیدہ ہے.وجہ یہ ہے کہ اس میں اصولی اختلاف ہے بعض دفعہ نیکی کے نام پر غلط رسمیں رائج ہو جاتی ہیں اور وہ فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچایا کرتی ہیں امر واقعہ یہ ہے اور اس عقیدے پر ہم بڑی شرح صدر سے قائم ہیں اس میں ہم کبھی تبدیلی نہیں کر سکتے کہ آنحضرت ﷺ پر دین کامل ہو گیا اور آپ کا اسوہ حسنہ ہی ہمیشہ کے لئے تقلید کے لائق ہے یا ان صحابہ کا اسوہ حسنہ جنہوں نے آپ سے تربیت پائی ان کے سوا تو قرآن میں اور کسی کا اسوہ ماننے کا کہیں حکم نہیں ہے نکال کر دکھا دیجئے حضرت اقدس محمد مصطفی سی ہے آخری نمونہ ہیں جن کی پیروی لازمی قرار دی گئی ہے کسی اور پیروی تب ہم کریں گے اگر وہ حضور کی پیروی کرے گا ورنہ نہیں کریں گے تو یہ
64 ساری چیزیں جن کا ذکر ہے سوئم ، چالیسواں گٹھلیوں پر قرآن پھونکنا، ختم قرآن باداموں پر پڑھنا ان میں سے ایک بھی چیز حضرت اقدس محمد مصطفی میں ہے اور آپ کے صحابہ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں نہیں تھی اور اس بارے میں شیعہ، سنی روایات میں اختلاف ہی کوئی نہیں متفق علیہ میں حضرت محمد مصطفی میں یہ آپ کے صحابہ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں یہ رسمیں نہیں تھیں تو قرآن کو اُن سے بہتر کون سمجھتا تھا ؟ قرآن سے زیادہ پیار کرنے والے بعد میں پیدا ہوئے نعوذ باللہ من ذالک قرآن کے استعمال کا اچھا طریق بتانے والے اس وقت نہیں تھے اب آگئے ؟ اس کو ہم کسی صورت مان ہی نہیں سکتے جو مرضی آپ کہیں.آپ کہتے ہیں نعوذ باللہ تم قرآن کے دشمن ہوا اگر یہ ختم کرنا قرآن کی دشمنی ہے تو پھر حضرت محمد مصطفی ہے اور آپ کے صحابہ پر زبان کھلے گی وہ بھی تو نہیں کرتے تھے یہ گٹھلیاں اور بادام تنزل کی علامتیں ہیں جب تو میں بگڑتی ہیں تو رسم و رواج بن جایا کرتی ہیں اتنی بات تو غالب بھی سمجھ گیا تھا.بقول غالب ہم موجد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں اگر تم واقعی توحید کے قائل ہو اگر تمہارا یہ دعوی ہی ہے کہ تم موحد ہو تو موحد کا یہ فرض ہے رسم و رواج کو مٹائے اور کاٹ دے ہمارا کیش ہے ترک رسوم اگر یہ نہیں کرو گے تو پھرمٹتی ہوئی امتوں کی علامتیں تمہارے اندر ظاہر ہو جائیں گی.امتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایمان ہو گئیں پھر ایمان نہیں ہوتا.کسی کے ہاتھ کوئی تھوڑا ایمان کا ٹکڑا آگیا کسی کے کچھ ٹکڑا آ گیا کسی نے بہت اخلاص دکھایا تو باداموں پر پھونک دیا کسی نے کم دکھایا تو کھائی ہوئی گٹھلیوں پر پھونک دیا سوچیں تو سہی کہ آپ کا دین کیا بن رہا ہے قرآن والا دین تو نہیں حضرت محمد مصطفی اللہ کا دین تو نہیں ہے.حضرت اقدس محمد
65 مصطفی ﷺ کا تو نہ سوئم ہوا نہ گیارہویں ہوئی نہ چالیسواں ہوا.آپ کے کسی خلیفہ کا نہیں ہوا آپ کے کسی صحابی کا نہیں ہوا تو آج کون حق رکھتا ہے ان رسموں کے علاوہ رسمیں بنانے کا جو آپ کے زمانے میں نہیں تھیں.تو ہم تو کہتے ہیں کہ قوم نے اگر زندہ ہونا ہے تو واپس جانا پڑے گا اس زمانے میں لوٹنا پڑے گا جو زندگی کا زمانہ تھا اس روشنی میں جانا پڑے گا جو حضرت اقدس محمد مصطفی امیے کے نور کی روشنی تھی باقی سب اندھیرا تھا.(مجالس عرفان کراچی) ۷۶.مردے کو قرآن بخشا حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں جہاں تک قرآن کریم ختم کروانے کا تعلق ہے اس کی سنت نبوی سے کوئی سند ثابت نہیں ہوتی یہ محض رسم ہے جس قرآن کریم سے ساری عمر کوئی تعلق نہیں رہا تلاوتیں کرتے ہیں اور نہ عمل کرتے ہیں اور مردے کو قرآن بخشتے ہیں جس کو خود پڑھنا نہیں تو اس کی خاطر بخشوانا بھی ثابت نہیں ہے جو چیز سنت سے ثابت نہیں وہ ہمارا دین نہیں ہے قرآن کو رسما جس رنگ میں پڑھا جاتا ہے کیونکہ سنت نبوی سے ثابت نہیں ہے اس لئے ہمارے نزدیک یہ دین کو بگاڑنے کے مترادف ہے آپ نے فرمایا گھر گھر سپارے بانٹ کر کہا جاتا ہے کہ تم فلاں کو پڑھ کر بخش دو.قرآن کریم تو زندوں کے لئے ہے نہ کہ مُردوں کے لئے.یہ کیسی عجیب بات ہے قرآن کریم تو زندوں کے لئے ہے تا کہ زندہ لوگ اسے پڑھ کر اور اس کی تعلیم پر عمل کر کے اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں نہ کہ مُردوں کے لئے.مُردوں سے اس کتاب کا کیا تعلق ہے.جو زندوں کی کتاب تھی اس کو مردوں کی کتاب میں تبدیل کرنا ظلم ہے.( مجالس عرفان کراچی )
66 ۷۷.کسی کے فوت ہونے پر گھر والوں کو کھانا کھلانے کے رواج کی شرعی حیثیت حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ اسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کسی کے فوت ہونے پر چند دن ایسے آتے ہیں کہ ان دنوں میں ملنے والے اور تعزیت والے بہت آتے ہیں انتظام کی مشکلات اور بسا اوقات فوت ہونے والے اپنے بھی ہوتے ہیں جنہوں نے نقدی پیچھے نہیں چھوڑی ہوتی اُس وقت ان کے بچوں اور بیویوں کے لئے پیسے مانگنا اور گھر کے اخراجات چلانا یہ مزاج کے خلاف بات ہے اس لئے وہ کھانا تعاون با ہمی کا اظہار ہے اگر دکھاوے سے پاک ہے.مناسب کھانا جو ایسے موقعوں کے لئے مناسب ہو بھیجنے میں کوئی حرج نہیں ہے بعض دفعہ چاول بھی ساتھ بھیج سکتے ہیں اس لئے کہ ان دنوں بعض بیمار ہوتے ہیں اُن کے کام آجائیں اور کچھ دن کے بعد اگر میٹھا بھی بھیج دیں تکلف سے پاک رہ کر تو منع نہیں ہے لیکن جہاں بھی یہ رسمیں تکلف میں داخل ہو جائیں اور سوسائٹی پر بوجھ بن جائیں وہاں منع کرنا پڑے گا.حد اعتدال میں رہ کر کریں اسلام کی اصل تعلیم حد اعتدال ہے.( مجالس عرفان کراچی) -۷۸ کسی فوت شدہ عزیز کو ثواب کس طرح پہنچایا جائے فرمایا آنحضرت ﷺ کی سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر کوئی اپنی زندگی میں نیکیاں کرتا ہو اُن کو اُس کی موت کے جاری رکھنا جائز ہے اگر زندگی میں قرآن نہیں پڑھتا مرنے کے بعد اُسے بخشو ایا جائے تو یہ لغو بات ہے ایک شخص کے حضرت رسول کریم میں اللہ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ میری ماں صدقہ و خیرات بہت کیا کرتی تھی اس کی خواہش تھی کچھ دینے کی لیکن وہ اس سے پہلے فوت ہو گئی تو میرے لئے کیا حکم ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم اس کی طرف سے صدقہ دو اس کا ثواب
67 اللہ تعالیٰ اس کو دے گا یعنی وہ نیکی کی نیت کرنے والی تھیں لیکن موت حائل ہو گئی اب اس کو جاری رکھنا منع نہیں اس لئے جماعت میں اپنے بزرگوں کی طرف سے چندہ دینا جائز سمجھا جاتا ہے اور اس کو کثرت سے رواج دیا جاتا ہے چنانچہ ہم بھی اپنے ماں باپ کی طرف سے چند بے دیتے ہیں اس لیئے کہ وہ دیتے تھے لیکن کوئی یہ کہے کہ نادہند کا چندہ میں دینا شروع کردوں اس کا اُسے ثواب ملے گا تو یہ لغو بات ہے ایک آدمی خود تو ساری عمر چندہ نہ دیتا ہو اور اس کا بچہ مخلص بن جائے اور کہے میں اپنے باپ کے چندے کو پورا کروں گا تو وہ چندے اس بچہ کے نام لگیں گے اس کے نادہند بزرگ کے نام نہیں لگیں تو جواز اس بات کا ہے کہ کسی سے جو نیکی ثابت ہو خصوصاً جو منفعت بخش نیکی ہو اس کو آگے جاری رکھنا جائز ہے اور اس کا ثواب بھی مل جاتا ہے.( مجالس عرفان لجنہ اماءاللہ ضلع کراچی ) ۷۹ مردوں کو ثواب پہنچانے کے لئے کھانا پکانا بعض لوگ کسی وفات یافتہ عزیز کی روح کو ثواب پہنچانے کے لئے ایک خاص دن مقرر کر کے لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں بعض لوگ متواتر چالیس دن تک کھانا کھلاتے ہیں اس بارے میں حضرت مسیح موعود نے ارشاد فرمایا.طعام کا ثواب مردوں کو پہنچتا ہے گزشتہ بزرگوں کو ثواب پہنچانے کی خاطر اگر طعام پکا کر کھلایا جائے تو یہ جائز ہے لیکن ہر ایک نیت پر موقوف ہے اگر کوئی شخص اس طرح کے کھانے کے واسطے کوئی خاص تاریخ مقرر کرے اور ایسا کھانا کھلانے کو اپنے لئے قاضی الحاجت خیال کرے تو یہ ایک بُت ہے اور ایسے کھانے کا لینا دینا سب (اخبار البدر ۱۸ اگست ۱۹۰۷ء) حرام اور شرک میں داخل ہے.۸۰ - عرس منانا آج کل خانقاہوں پر عرس منانے کا بڑا رواج ہے ان موقعوں پر قبروں کے
68 طواف کئے جاتے ہیں ان پر غلاف چڑھائے جاتے ہیں قبروں کو بوسہ دیا جاتا ہے طوائفیں بلو ا کر گیت سنے جاتے ہیں اس بارے میں حضرت مسیح موعود نے فرمایا :- شریعت تو اس بات کا نام ہے کہ جو کچھ آنحضرت نے دیا ہے اُسے لے لے اور جس بات سے منع کیا ہے اُس سے ہے.لوگ اس وقت قبروں کا طواف کرتے ہیں ان کو مسجد بنایا ہوا ہے عرس وغیرہ ایسے جلسے نہ منہاج نبوت ہے نہ طریق ( ملفوظات جلد پنجم صفحه ۱۶۵) سنت.۸۱ بارہ وفات حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ایسے عرس میں خواہ بنی کریم ا ک ہی ہو بدعت نظر آتی ہے حضرت مسیح موعود نے کبھی بارہ وفات کا جلسہ اپنے گھر میں ہر گز نہیں کیا غرض میں اپنی زندگی میں چند دنوں کے لئے بدعت کو گوارا نہیں کر سکتا اور ایسے امور میں بدعت کے خطرناک زہروں سے بچنے کا لحاظ رکھو.(۲۱/۲۸ فروری ۱۹۱۳ء) ۸۴.قبروں پر پھول چڑھانا بعض لوگ قبروں پر پھول رکھنے یا پھولوں کی چادر چڑھاتے ہیں اس بارے میں حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے فرمایا :- اس سے میت کی روح کو کوئی خوشی نہیں ہو سکتی اور یہ نا جائز ہے اس کا کوئی اثر قرآن و حدیث سے ثابت نہیں اس کے بدعت اور لغو ہونے میں کوئی شک نہیں.۸۳.قبروں پر چراغ جلانا (بدر ۱۲ اگست ۱۹۰۹ء) ایک رسم جہالت کی یہ بھی ہے کہ بعض لوگ بزرگوں کے مزار پر رات کو چراغ جلاتے ہیں یہ ہندوانہ اور مشرکانہ بدعت ہے آنحضرت ﷺ نے اس منع فرمایا
ہے.69 حدیث : ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کی ہے اور ان پر جو قبروں پر مسجدیں بناتے اور ان (ترندی) پر چراغ جلاتے ہیں.محضور ﷺ نے پہلے فرمایا تھا کہ قبروں کی زیارت نہ کیا کرو پھر فرما دیا اچھا اب کر لیا کرو.پہلے منع کرنا بھی حکمت رکھتا تھا کہ لوگوں کے خیالات ابھی تازہ بتازہ بت پرستی سے ہٹے تھے تا وہ پھر اس عادت کی طرف عود نہ کر آئیں پھر جب دیکھا کہ اب اُن کے ایمان کمال کو پہنچ گئے ہیں اور کسی قسم کے شرک و بدعت کو ان کے ایمان میں راہ نہیں تو اجازت دے دی.(ملفوظات جلد سوم صفحه ۲۵۳ - ۲۵۴) ۴.قبر میں سوالات کی زبان اور کیفیت زبان : الہام ہمیں انگریزی فارسی اردو اور عربی سب زبانوں میں ہوئے فرشتہ بھی ہر زبان بول سکتا ہے.کیفیت : کیفیت کے بارے میں حضرت مسیح موعود نے فرمایا مرنے کے بعد مردے کا تعلق زمین سے ضرور رہتا ہے مومن کا تعلق ایک آسمان سے ہوتا ہے اور ایک زمین سے.اصل حساب کتاب تو برزخ میں ہو جائے گا مگر مقابلہ کرانا باقی رہ جائے گا وہ حشر میں ہوگا ہزاروں انبیاء دجال کذاب کفار اور ملعون وغیرہ خطاب پائے گئے قیامت میں اس لئے حشر ہوگا کہ ان کی کرسی پر بٹھا کر اور مذبوں کو ذلت کا عذاب دے کر دکھلایا جائے گا کہ دیکھو کون صادق اور کون کا ذب تھا.۸۵.کیا روحوں کا قبر سے تعلق ہوتا ہے؟ ( ملفوظات جلد دوم صفحه ۶۳۷) حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ ارواح کا قبور سے تعلق ہے اور ہم ذاتی تجربہ
70 کی بنا پر کہتے ہیں کہ مردوں سے کلام ہو سکتا ہے مگر اس کے لئے کشفی قوت اور جس کی ضرورت ہے ہر شخص کو یہ بات حاصل نہیں روح کا تعلق قبر کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور روح کا تعلق آسمان سے بھی ہوتا ہے جہاں اُسے ایک مقام ملتا ہے.ذکر حبیب مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صفحه ۱۸۷) حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ انسان کشفی طور سے گذشتہ روحوں سے مل سکتا ہے مگر اس کے لئے ضروری امر ہے کہ روحانی مجاہدات کئے جائیں بیشک ان سے مفید باتیں دریافت کر سکتا ہے مگر اس کیلئے بہت سے مجاہدات کی ضرورت ہے جو اس زمانے کے لوگوں سے نہیں ہو سکتے جب ہی وہ ایسی باتوں سے انکار کرتے ہیں میرا بذہب یہ ہے کہ انسان خواب میں نہیں بلکہ بیداری میں مردوں سے باتیں کر سکتا ہے چنانچہ حضرت مسیح سے میری ملاقات ہو چکی ہے حضرت رسول کریم والے سے بھی ایسا ہی اور اہل قیور سے میں نے ملاقات کی.یہ بات تو سچ ہے مگر ہر ایک کے لئے میسر نہیں انسان کے قلب کی حالت کچھ ایسی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے عجائبات ڈال رکھے ہیں جیسے کنویں کو کھودا جائے تو آخر بہت ہی محنت کے بعد مصفا پانی نکل آتا ہے اسی طرح جب تک مجاہدہ پورے طور سے انتہاء تک نہ پہنچ پیچ اور صاف خیر حاصل نہیں ہو سکتی.ذکر حبیب مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق صفحه ۴۱۵) قبر میں سوال و جواب روح سے ہوتا ہے یا جسم میں وہ روح واپس ڈالی جاتی ہے؟ حضرت مسیح موعود نے فرمایا : - اس پر ایمان لانا چاہئے کہ قبر میں انسان سے سوال و جواب ہوتا ہے لیکن اس کی تفصیل اور کیفیت کو خدا پر چھوڑ نا چاہئے یہ معاملہ انسان کا خدا کے ساتھ ہوتا ہے
71 وہ جس طرح چاہتا ہے کرتا ہے پھر قبر کا لفظ وسیع ہے جب انسان مر جاتا ہے تو اس کی حالت بعد الموت میں جہاں خدا اسے رکھتا ہے وہی قبر ہے خواہ دریا میں غرق ہو جاوے خواہ جل جاوے، خواہ زمین پڑار ہے دنیا سے انتقال کے بعد انسان قبر میں ہے اور اس سے مطالبات اور مواخذات جو ہوتے ہیں اس کی تفصیل کو اللہ تعالی بہتر جانتا ہے انسان کو چاہئے کہ اُس دنیا کے لئے تیاری کرے نہ کہ اس کی کیفیت معلوم کرنے کے پیچھے پڑے.۸۷.مُردوں کو سلام کرنا اُن کا سننا حضرت مسیح موعود نے فرمایا:- ( فقه احمد یه صفحه ۲۶۰) السلام علیکم یا اہل القبور کہنے پر وہ سلام کا جواب وعلیکم السلام تو نہیں دیتے خداوہ سلام جو ایک دعا ہے پہنچا دیتا ہے اب ہم جو آواز سنتے ہیں اس میں ہوا ایک واسطہ ہے لیکن یہ واسطہ مُردے اور ہمارے درمیان نہیں لیکن السلام علیکم میں خدا تعالیٰ ملائکہ کو واسطہ بنا دیتا ہے.اسی طرح درود شریف ہے کہ ملائکہ آنحضرت ﷺ کو پہنچا دیتے ہیں.مُردہ کی آواز بدر ۱۶ ار مارچ ۱۹۰۴ء ( فقه احمد یه صفحه ۲۶۱) خدا تعالیٰ کی آواز تو آتی ہے مگر مُردوں کی نہیں آتی اگر کبھی کسی مردے کی آواز آتی ہے تو خدا تعالیٰ کی معرفت یعنی خدا تعالی کوئی خبر ان کے متعلق دے دیتا ہے اصل یہ ہے کہ کوئی خواہ نبی ہو یا صدیق یہ حال ہے " آن را که خبر شد خبرش بازینامد اللہ تعالیٰ ان کے درمیان اور اہل و عیال کے درمیان ایک حجاب رکھ دیتا ہے وہ سب تعلق قطع ہو جاتے ہیں اس لئے فرماتا ہے "فَلَا أَنْسَابِ بَيْنَهُمْ " (فتاوی احمد یه صفحه ۱۱۴)
72 ۸۹.سماع موتی کے بارے میں جماعت احمدیہ کا مسلک ہمارے نزدیک فوت شدہ اس دنیا کے رہنے والوں کی باتیں براہ راست نہیں سن سکتے البتہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو یہاں کے رہنے والوں کی باتیں ان تک پہنچا سکتا ہے اور بعض اوقات مصلحت کی بنا پر پہنچانا بھی ہے.اسی طرح مرنے والے اللہ تعالٰی کی اجازت اور توفیق کے مطابق دنیا والوں کے لئے دعائیں بھی کرتے ہیں لیکن چونکہ ان سب امور کا تعلق براہ راست اللہ تعالیٰ کی مرضی اور ارادہ کے ساتھ ہے اس لئے اس کے متعلق وہی طریق اختیار کرنا چاہئے جس کی اجازت شریعت نے بالوضاحت دی ہے مثلاً ان کے حق میں دعا کرنا انہیں ثواب پہنچانے کے لئے رسم و رواج سے بچ کر صدقہ و خیرات کرنا اظہار تعلق کا بہترین ذریعہ ہے اس صورت میں اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو مرنے والوں کو بھی اس کی اطلاع کر دے گا اور وہ بھی اللہ تعالٰی کی دی ہوئی توفیق سے اپنے پسماندگان کے لئے دعا کریں گے براہ راست مُردوں کو مخاطب کرنا کہ وہ اس کیلئے دعا کریں یا اس کا یہ کام کر دیں ایک رنگ کا شرک ہے جسے ( فقه احمد یه صفحه ۲۶۰) اسلام پسند نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ مردوں کو آوازیں سنا سکتا ہے کے متعلق حضرت مصلح موعود نے فرمایا بیشک انسان مُردوں کو آواز نہیں سنا سکتا اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ فرمایا ہے یعنی ان کو آواز اللہ تعالیٰ سناتا ہے بندہ نہیں سنا سکتا چنانچہ قبر پر جب دعا مانگی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ مردوں کی روح کو بتا دیتا ہے کہ تمہارے لئے آج فلاں شخص نے دعا کی ہے پس بے شک وہ خود اپنی آواز اس کو نہیں سناسکتا مگر اللہ تعالیٰ الفضل ۳۰ رمئی ۱۹۴۴ء) سنادیتا ہے.۹۰.زندوں کو بھی مرنے والے کے حالات بتائے جاتے ہیں عرض کیا گیا اگر مرنے والے کو اس کے لواحقین کے حالات بتائے جاتے
73 نہیں تو کیا اس کے لواحقین کو بھی کبھی مرنے والے کے حالات بتائے جاتے ہیں؟ فرمایا جہاں تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے حالات بتانے کا سوال ہے مرنے والے کو بھی زندوں کے حالات بتائے جاتے ہیں اور زندوں کو بھی مرنے والوں کے حالات بتائے جاتے ہیں مگر فوق یہ ہے کہ زندوں کو کبھی کبھار کوئی بات بتائی جاتی ہے اور مرنے والے کو اکثر اپنے لواحقین کے حالات بتائے جاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری دنیا میں دل کی صفائی اور پاکیزگی کے لئے رنج وغم اور مصائب کا موجود رہنا ضروری ہے تا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھنے کا موقع ملتا رہے اور اس کا قلب دنیوی آلائشوں سے منزہ رہے اسی لئے زندوں کو مرنے والوں کے بہت کم حالات بتائے جاتے ہیں تا کہ وہ ہر حالت میں رو بخدا رہیں اور دنیا کی محبت اُن پر سردر ہے لیکن جنت میں چونکہ اس قسم کے علاج کی ضرورت نہیں اس لئے جنتیوں کو جلد جلد اپنے لواحقین کے حالات بتائے جاتے ہیں کیونکہ انہیں اگر جلد خبریں نہ پہنچیں تو ان کے دل مغموم ہو جائیں اور ان پر رنج کی کیفیت طاری ہو جائے جو جنت کے مناسب حال نہیں پس چونکہ ان کا دل خوش لکھنا ضروری ہوتا ہے اس لئے انہیں جلد جلد خبریں دی جاتی ہیں اور دنیا میں رہنے والوں کا چونکہ امتحان لیا جاتا ہے اس لئے انہیں مرنے والوں کے بہت کم حالات بتائے جاتے ہیں.۹۱ - جنتیوں اور دوزخیوں کو حال بتانا عرض کیا گیا کہ صرف جنتیوں کو حالات بتائے جاتے ہیں یا دوزخیوں کو بھی.فرمایا: - صرف جنتیوں کو اللہ تعالی حالات بتاتا ہے دوزخیوں کو نہیں بتاتا کیونکہ دوزخی تو اس کے غضب کے نیچے ہوتے ہیں ہاں بعض دفعہ ان کو بھی کوئی بات پہنچا دیتا ہو گا مگر وہ ایسی ہی ہوتی ہوگی جس سے ان کا عذاب اور زیادہ ہو مثلاً انہیں بتایا جا تا ہوگا کہ تمہارا فلاں رشتہ دار بھی کا فر ہو گیا اور ہمارے عذاب کے نیچے آ گیا تمہارے فلاں
74 عذاب کو اور بھی بڑھانے والی ہوں.دوست کو بھی شیطان نے ورغلا لیا تمہارا فلاں عزیز بھی شرک میں ترقی کر گیا اور ہمارے عذاب میں گرفتار ہو گیا غرض انہیں ایسی ہی خبریں پہنچائی جاتی ہونگی جو ان کے الفضل ۳۰ مئی ۱۹۴۴ء مجلس عرفان حضرت مصلح موعود ) ۹۲.قبر پر ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنا قیر پر ہاتھ اٹھا کر دعامانگنا جائز ہے.الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۱۱ء حدیث سے ثابت ہے حضرت امام بخاری اپنے رسالہ رفع الیدین میں یہ حدیث لائے ہیں.ترجمہ : یعنی حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں ایک رات آنحضرت نے گھر سے باہر تشریف لے گئے انہوں نے اپنی خادمہ حضرت بریرہ کو پیچھے بھیجا کہ جا کر دیکھو حضور کدھر جاتے ہیں چنانچہ بریرہ نے واپس آکر بتایا کہ حضور جنت البقیع گئے تھے اور وہاں حضور نے ہاتھ اُٹھا کر دعا کی صبح حضرت عائشہ نے حضور سے پوچھا کہ آپ رات کس لئے باہر گئے تھے تو آپ نے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ میں جنت البقیع میں مدفون اپنے صحابہ کے لئے دعا کروں.( فقه احمدیه صفحه ۲۵۹) ۹۳.قبر میں کیسا جسم ملے گا دین حق میں یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی فلاسفی ہے کہ ہر ایک قبر میں ہی ایسا جسم مل جاتا ہے کہ جو لذت اور عذاب کے ادراک کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے ہم ٹھیک ٹھیک نہیں کہہ سکتے کہ وہ جسم مادے سے تیار ہوتا ہے کیونکہ یہ فانی جسم تو کالعدم ہو جاتا ہے اور نہ کوئی مشاہدہ کرتا ہے کہ در حقیقت یہی جسم قبر میں زندہ ہوتا ہے اس لئے بسا اوقات یہ جسم جلایا بھی جاتا ہے اور عجائب گھروں میں لاشیں بھی رکھی جاتی ہیں اور
75 مدتوں تک قبر سے باہر بھی رکھا جاتا ہے اگر یہی جسم زندہ ہو جایا کرتا تو البتہ لوگ اس کو دیکھتے مگر بایں ہمہ قرآن سے زندہ ہو جانا ثابت ہے لہذا یہ مانا پڑے گا کہ کسی اور جسم کے ذریعہ سے جس کو ہم نہیں دیکھتے انسان کو زندہ کیا جاتا ہے اور غالبا وہ جسم اسی جسم کے لطائف جوہر سے بنتا ہے تب جسم ملنے کے بعد انسانی قومی بحال ہوتے ہیں اور یہ دوسرا جسم چونکہ پہلے جسم کی نسبت نہایت لطیف ہوتا ہے اس لئے اس پر مکاشفات کا دروازہ نہایت وسیع طور پر کھلتا ہے.(روحانی خزائن جلد ۱۳ کتاب البریہ صفحه ۷۰) ۹۴ - لطیف جسم فرمایا "بعد الموت انسان کو ایک اور جسم عطا ہوتا ہے جو اس جسم کے علاوہ ہے وہ ایک نورانی جلالی لطیف جسم ہوتا ہے شہداء کے متعلق بھی نہیں لکھا ہے کہ وہ فوراً داخل جنت ہو جاتے ہیں دوسرے مومن بھی.خدا کی راہ میں جو لوگ کسی قسم کی قربانی کرتے ہیں اور فوت ہو جاتے ہیں وہ داخل جنت ہو جاتے ہیں مگر ایک دن تحمل عظیم کا بھی ہے جس میں حشر اجساد ہوگا.لطیف روحانی جسم کے متعلق ہمارا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ بین بیداری کی حالت میں مُردوں کے ساتھ گفتگو ہوتی ہے اسی طرح جیسا کہ زندوں کے ساتھ.ایسا ہی رسول کریم ﷺ کو معراج بھی ایک لطیف روحانی جسم کے ساتھ معین بیداری کی حالت میں ہوا.ذکر حبیب صفحه ۲۳۸-۲۴۹ حضرت مفتی محمد صادق پرانی نوٹ بک 1900ء) -۹۵ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں کیا یہی خاکی جسم زندہ کیا جائے گا؟ مرنے کے بعد یہ جسم زندہ نہیں ہوگا اگر یہ جسم زندہ ہو تو مصیبت پڑ جائے کیونکہ مرنے کا پتہ نہیں کب مرتا ہے کوئی سو سال کا بڑھا بھی مرسکتا ہے تو کیا ای جسم
76 کے ساتھ زندہ ہو گا بے چارہ! کوئی اندھا انا لولی لنگڑ امرسکتا ہے تو اس طرح زندہ ہو گا یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جسم کو دوبارہ زندہ نہیں کرے گا لیکن اس کے اندر جو روح ہے اسکو ایک جسم عطا کیا جائے گا حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ ہمارے بدن سے ایک اور روح نکلے گی اور وہاں بھی روح اور بدن کا رشتہ اسی طرح قائم رہے گا.مجلس عرفان حضرت خلیفہ انبیح الرابع تمبر ۲۰۰۰ ء ماہنامہ خالد ) خواجہ اظہر ظہور بٹ صاحب کا مضمون بشکریہ لاہور ۲۰ مئی ۲۰۰۰ء ۹۶.موت کو یا د رکھنا جس شخص نے اس حقیقت کو ذہن نشین کر لیا کہ میرا انجام ہر حالت میں موت ہے اور خوب جان لیا کہ میری آخری قرارگاہ ہے.منکر و نکیر میرے موکل ہیں اور میدان قیامت میں مجھے بہر حال حاضر ہونا ہے اور جنت و دوزخ میں سے ایک نہ ایک جگہ میرا ٹھکانہ ہو کر رہے گا.اُس کیلئے کوئی اندیشہ موت کے اندیشے سے بڑھ کر اہم نہ ہوگا.حضور اکرم کا ارشاد ہے کہ دانا وہی ہے جس نے اپنے نفس کو مغلوب اور مسخر کر لیا اور اُن اعمال میں مصروف ہو گیا جو موت کے بعد کام آئیں گے اور سیدھی کی بات ہے کہ جو شخص موت کو زیادہ یاد کرے گا وہ لامحالہ اُس کے زاد راہ کی تیاری میں زیادہ زور شور سے مشغول رہے گا.یہی وہ شخص ہوتا ہے جو مرنے کے بعد جب قبر میں پہنچتا ہے تو اس کو باغات بہشت کے ایک باغ تر و تازہ کی مانند پاتا ہے.جبکہ موت کو بھول جانے والا شخص جب قبر میں اترتا ہے تو زاد آخرت سے خالی ہاتھ ہونے کے باعث یوں ہوتا ہے گویا دوزخ کے مہیب غاروں میں سے کسی غار میں اُتر گیا ہو.اسی لئے موت کو یا درکھنا بہت بڑے فضائل میں شمار کیا گیا ہے.۹۷- غارت گر لذات چیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ "اے لوگو! دنیا کی لذات میں سرشار ہوئے
77 جاتے ہو.اُس چیز کو اکثر یاد کرتے رہا کرو جو غارت گر لذات ہے یعنی ”موت“.اور فرمایا اگر ڈھور ڈنگروں اور چرندوں اور چو پاؤں کو بھی موت اور اس کے حال سے اتنی آگاہی ہوتی جتنی کہ تمہیں ہے تو کسی بھی انسان کو فربہ اور صحت مند جانور کا گوشت نصیب نہ ہوتا یعنی سب جانور اُسی کی یاد میں سوکھ کر کانٹا ہو جاتے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص جام شہادت نوش کئے بغیر شہیدوں کے رتبہ کو پہنچ سکے گا؟ فرمایا ہاں وہ جو موت کو دن میں کم سے کم ہیں مرتبہ یاد کرتا ہو.حضور کا گذر ایک قوم کے نزدیک سے ہوا.ہر شخص ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوا جار ہا تھا اور قہقہے بلند کر رہا تھا آپ نے اُن لوگوں کو کہا کہ تم پر لازم ہے کہ اپنی مجلس میں ذکر ہی اُس بیٹے کا کرو جو تمام لذتوں کو مخض کر دیتی ہے.لوگوں نے پوچھا کہ وہ کون سی شئے ہے؟ آپ نے فرمایا "موت" ہے جناب انس روایت کرتے ہیں کہ حضور نے فرمایا کہ موت کو بہت یاد کیا کرو کیونکہ وہ تمہیں صرف دنیا ترک کرنے کی تحریک نہیں کرتی بلکہ تمہارے گناہوں کا کفارہ بھی بن جاتی ہے اور فرمایا کہ لوگوں کو پند و نصیحت کے سلسلہ میں یہی کافی ہے.کہ اُنہیں موت کی یاد دلاتے رہیں.صحابہ نے حضور کے سامنے ایک شخص کی بے حد تعریف کی.آپ نے فرمایا یہ بتاو کہ اس کا دل موت کے بارے میں کیسا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ موت کا ذکر کرتے ہوئے ہم نے اُسے کبھی نہیں دیکھا.فرمایا تو پھر وہ ایسا نہیں جیسا کہ تم بتا رہے ہو..حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں دس آدمیوں کے ہمراہ رسول اللہ علی اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا.انصار میں سے ایک نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ بزرگ ترین اور کریم ترین شخص کون ہے؟ فرمایا کہ دنیاوی شرف اور کرامت آخرت تو انہیں لوگوں کا حصہ ہے جو موت کو بہت یاد کرتے ہیں اور اُس جہان کے لئے زاد راہ جمع کرنے
78 میں حریص و بے قرار ہیں.ایک عورت نے حضرت عائشہ سے اپنے دل کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ میں بے حد سخت دل واقع ہوئی ہوں.اس کا کیا علاج کروں.حضرت عائشہ نے فرمایا کہ موت کو بہت زیادہ یاد کرتی رہا کرو.اُس عورت نے اس پر عمل کیا تو سختی دل جاتی رہی.جب دوبارہ حاضر خدمت ہوئی تو انمول مشورے کا شکر یہ ادا کیا.ربیع خظیم نے گھر کے اندر ایک قبر کھود رکھی تھی اور دن میں کئی کئی مرتبہ اس میں لیٹا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس سے موت کی یاد ہر دم تازہ رہتی ہے.جو تیری یاد سے اک لحظہ بھی رہوں غافل تو مجھ پہ خواہش جنت حرام ہو جائے رسول کریم نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا ” سچ بتاؤ کہ کیا موت تمہارے لئے لکھی ہوئی نہیں ہے؟ اور یہ جنازے جو لوگ اپنے کندھوں پر لئے جاتے ہیں کیا ان مسافروں کے نہیں جنہیں پھر کبھی واپس نہیں آنا ؟ کیا یہ لوگ ان اہل جنازہ کو خاک میں ملا کر ان کی میراث خود نہ کھانے لگیں گے؟ اور اس حقیقت سے غافل نہ ہو بیٹھیں گے کہ یہی راہ خود انہیں بھی پیش ہے.“ ۹۸ طول امل کا شکار پس موت کو یاد نہ کرنا اکثر و بیشتر اس وجہ سے ہوتا ہے کہ لوگ طول امل کا شکار ہوتے ہیں یعنی لمبی لمبی امید میں باندھے رہتے ہیں اور یہ طول امل ہی دراصل تمام فسادوں کی جڑ ہے.یادرکھنا چاہئے کہ جس شخص نے اپنے دل میں یہ تصور کر رکھا ہو کہ اس کی عمر بہت طویل ہو گی اور مدت دراز تک اُسے موت نہ آئے گی اس سے دین کا کوئی کام سرانجام نہیں پاسکتا کیونکہ وہ یہی سمجھتا رہتا ہے کہ ابھی بہت عرصہ پڑا ہے دینی کام جب چاہوں گا کرلوں گا.ابھی تو راحت و آسائش اور عیش وعشرت کا وقت ہے.اس کے برعکس جو شخص اپنی موت کو ہمیشہ نزدیک تصور کرتا ہے وہ ہر حالت میں
79 آخرت کی بہتری کے لئے تدبیریں بھی کرتا رہتا ہے.آنحضرت نے ابن عمر سے فرمایا کہ صبح اُٹھو تو یوں نہ سمجھو کہ شام تک ضرور زندہ رہو گے اور شام کو بھی یہ خیال نہ کرو کہ صبح کو زندہ ہی اُٹھو گئے.ایک مرتبہ جناب اُسامہ نے ایک ماہ کے لئے کوئی چیز اکٹھی خرید لی.حضور نے سنا تو فرمایا کہ اُسامہ سے کچھ بعید نہیں کیونکہ وہ لمبی چوڑی زندگی کی امیدیں باندھے ہوئے ہے.پھر فرمایا کہ قسم ہے اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں جب پلک جھپکتا ہوں تو یہی سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد شائد آنکھ نہ کھول سکوں اور مر جاؤں اس طرح جب آنکھ کھولتا ہوں تو یہ خیال کرتا ہوں کہ شائد اب جھپکنے کی نوبت نہ آئے.۹۹.زندگی کا آخری میدان ابو موسیٰ اشعری نے آخری عمر میں حد درجہ کی ریاضت اور مجاہدہ شروع کر دیا تھا جو ان کی عمر اور ضعیفی کے اعتبار سے بہت شدید اور سخت تھا.لوگوں نے کہا کہ اس محنت اور تکلیف میں کچھ کمی کر دیجئے.آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟ فرمایا گھوڑا دوڑنے کو ہر جگہ دوڑتا ہی رہتا ہے.لیکن جب میدان جنگ میں دوڑتا ہے تو اپنا پورا زور لگا دیتا ہے.میری عمر کا بھی آخری میدان ہے اور موت بالکل سامنے دکھائی دے رہی ہے پھر اگر ریاضت و مجاہدہ میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھوں تو اس میں حیرت کی کون سی بات ہے؟ ۱۰۰.موت کی تین طرح یاد جانا چاہئے کہ موت کا یاد کرنا بھی تین طرح کا ہوتا ہے ایک قافلوں کا طریق ہے کہ دنیا میں سرتا پا مستغرق ہوتے ہیں اور موت کو یاد کر کے اس سے کراہت و نفرت کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ یہ خوف دامنگیر ہوتا ہے کہ پیاری دنیا ہم سے چھوٹ جائے گی.دوسرا انداز موت کو یاد کرنے کا وہ ہوتا ہے جو اہل تو بہ اختیار کرتے ہیں.
80 تائب موت اسی لئے یاد کرتے ہیں کہ خوف اُس پر زیادہ سے زیادہ حد تک غالب رہے اور وہ ہمیشہ تو بہ و استغفار میں مشغول رہ سکے.تائب کو موت سے کراہت نہیں ہوتی بلکہ کراہت اس کے جلد آ جانے پر ہوتی ہے کیونکہ زاد آخرت ابھی پوری طرح تیار نہیں ہوا ہوتا.تیسرا انداز ایک عارف کا انداز ہے.وہ موت کو اس لئے یاد کرتا ہے که دیدار حق کا وعدہ یہی ہے کہ موت کے بعد نصیب ہوگا.پھر وہ اس وقت کو فراموش کرے تو کیونکر جب اُسے دیدار دوست کی لذت نصیب ہو گی.پس وہ ہر وقت موت کا انتظار کرتا ہے.۱۰۱ تسلیم ورضا کا مقام اور ایک درجہ ایسا بھی ہے جو مذکورہ بالا تینوں درجوں سے بھی بلند تر ہی نہیں بلکہ اعلیٰ ترین درجہ ہی وہ ہے اس میں انسان کو موت سے نہ نفرت و کراہت ہوتی ہے اور نہ اس کی خواہش و انتظار.نہ اس کے جلد آ جانے کی آرزو کرتا ہے اور نہ دیر سے آنے کا خواہشمند ہوتا ہے بلکہ وہ حق تعالٰی کے حکم پر راضی رہتا ہے اور اپنے اختیار سے یکر علیحدہ ہو جاتا ہے اور اس عظیم مقام پر پہنچ جاتا ہے جسے تسلیم و رضا کا مقام کہتے ہیں.اور یہ مقام جس کو حاصل ہوتا ہے اُسے موت یاد تو ضرور آتی ہے لیکن یوں بھی نہیں کہ ہر وقت ذہن پر مسلط رہے کیونکہ اُسے اس دنیا میں بھی مشاہدہ حق اکثر نصیب ہو جاتا ہے اور ذکر الہی اُس کے دل پر اس طرح غالب رہتا ہے کہ زندگی اور موت میں اُسے کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا اور دے بھی کیسے جب کہ دل ہمہ وقت یاد الہی میں مستغرق اور محبت حق تعالی میں ڈوبا رہتا ہے.
آسمانی کہاں تک حرص و شوق مال فانی؟ اُٹھو ڈھونڈو متاع کہاں تک جوش آمال و امانی یہ تو سو چھید ہیں تم میں نہانی تو پھر کیوں کر ملے وہ یار جانی کہاں غیر بال میں رہتا ہے پانی کرو کچھ فکر ملک جاودانی ملک و مال جھوٹی ہے کہانی بسر کرتے ہو غفلت میں جوانی مگر دل میں یہی تم نے ہے ٹھانی خدا کی ایک بھی تم نے نہ مانی ذرا سوچو یہی زندگانی ؟ ہے خدا نے اپنی رہ مجھ کو بتا دی فسجان الذي اخرى الا عادی درتین
اے حب جاہ والو یہ رہنے کی جا نہیں اس میں تو پہلے لوگوں سے کوئی رہا نہیں دیکھو تو جا کے اُن کے مقابر کو اک نظر سوچو کہ اب سلف ہیں تمہارے گئے کدھر اک دن وہی مقام تمہارا مقام ا اک دن یہ صیح زندگی کی تم پہ شام ہے اک دن تمہارا لوگ جنازہ اُٹھائیں گے پھر دفن کر کے گھر میں تأسف سے آئیں گے اے لوگو! میش ادنیا کو ہر گز وفا نہیں کیا تم کو خوف مرگ و خیال فنا نہیں باپ دادے تمہارے کدھر گئے کس نے بلا لیا وہ سبھی کیوں گزر گئے وہ دن بھی ایک دن تمہیں یارو نصیب ہے خوش مت رہو کہ کوچ کی نوبت قریب ہے ڈھونڈو وہ راہ جس سے دل و سینہ پاک ہو نفس دنی خدا کی اطاعت میں خاک ہو درین