Language: UR
1924 میں انگلستان کی مشہور عالمی ویمبلے نمائش کے سلسلہ میں ایک مذاہب کی کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔ اس کانفرنس میں شرکت اور مذہب اسلام کے متعلق احمدی نقطہ نگاہ پیش کرنے کے لئے سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اور دیگر ایک درجن احباب کا قافلہ ماہ جولائی میں قادیان سے انگلستان کے لئے روانہ ہوا۔ اسی سفر کے دوران بیت الفضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس مبارک سفر کے آغاز سے اختتام سفر تک حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی یومیہ ڈائری کی صورت میں رپورٹ تیارکرکے ساتھ ساتھ قادیان بھجواتے رہے۔ جو احباب جماعت کے لئے الفضل میں شائع تھیں۔ اس ڈائری کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اسے کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ پانصد صفحات سے زیادہ ضخیم یہ ٹائپ شدہ مواد جماعتی تاریخ، سفر کے احوال، اور ظاہری و مادی اسباب کے لحاظ سے جماعتی کی تدریجی ترقی کی جھلکیاں لئے ہوئے ہے۔ اس تحریر کی سادگی اور روانی قارئین کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی معیت میں یورپ کی بحری راستے سے دلچسپ اور ایمان افروز سیاحت کی قائم مقام ہے۔ جس میں راستے میں آنے والے ملکوں کی ضروری معلومات اور مصنف کے گہرے مشاہدات کا کافی بڑا ذخیرہ جمع ہے۔
سفر یورپ ١٩٢٤ء از قلم حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی
نام کتاب سفر یورپ ۱۹۲۴ء حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی ناشر..عبد المنان کوثر پرنٹر مطبع طاہر مہدی امتیاز احمد وڑایچ ضیاء الاسلام پریش ربود (چناب نگر)
پیش لفظ ۱۹۲۴ء کے آغاز میں انگلستان کی مشہور عالمی ویمبلے نمائش کے سلسلہ میں سوشلسٹ لیڈر مسٹرولیم لافٹس ہیر (Mr.Willam Loftus Hare) کی تجویز پر ایک مذاہب کا نفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا.اس کا نفرنس میں شرکت اور مذہب اسلام کے متعلق احمدی نقطہ نگاہ پیش کرنے کے لئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں درخواست کی گئی.اسی طرح حضرت حافظ روشن علی رضی اللہ عنہ کو تصوف کے بارے میں تقریر کا دعوت نامہ بھجوایا گیا.اس کانفرنس میں شرکت کی غرض سے حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ حضرت حافظ روشن علی رضی اللہ عنہ اور دیگر گیارہ احباب کے ساتھ ۱۲ جولائی ۱۹۲۴ء کو قادیان سے روانہ ہوئے.اسی سفر میں بیت الفضل لندن کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا.اس مبارک سفر کے آغاز سے اختتام سفر تک حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی یومیہ ڈائری کی صورت میں رپورٹ تیار کر کے ساتھ ساتھ قادیان بھجواتے رہے.اس ڈائری کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اسے کتابی شکل میں احباب جماعت کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ کتاب احباب جماعت کے از دیا دایمان اور راہنمائی کا موجب ہو.آمین ناشر
i مضمون انڈیکس خط نمبر ۱ - از عدن ۲۳ جولائی ۱۹۲۴ء قادیان سے روانگی کے حالات صفحه نمبر ۱۲ ۱۳ ۱۵ ۱۶ ایک کرامت دہلی کا اسٹیشن عید الضحی کی نماز انگریزی میں بول چال بمبئی میں نزول جہاز افریقہ شفقت امام کا نمونہ جہاز کا پہلا دن اور بحری تکالیف کی ابتداء ایک غلط نہی بھائی جی اور چوہدری فتح محمد خان صاحب کو خدمت کی توفیق ملی
صفحه نمبر ۱۷ ۱۸ ۱۸ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۸ ۳۱ ۳۲ ۳۳ ۳۵ ۳۷ ii مضمون بے تار کا برقی پیغام شدت تلاطم جہاز کا چوتھا دن سمندر میں پانچواں دن جہاز میں چھٹا دن جہاز اور ہمارا حال ایک ہند و طالب علم ہمسفر ساتواں دن دلیل پیش کرنے کا طریق ایک نکتہ ء معرفت یورپ کے تمدن کا مقابلہ آٹھواں دن جھولا جھولنے کا فائدہ
!!! مضمون مصر کے حالات قاہرہ سے واپسی.بیت المقدس بیت اللحم حرم بیت المقدس.خط نمبر ۴- از بیت المقدس ۳ را گست ۱۹۲۴ء خط نمبر ۶ - از حیفا۴ راگست ۱۹۲۴ء قدس سے روانگی اور حیفا میں آمد علہ کے حالات کا علم ریل میں.صفحه نمبر है ट है है है ۴۳ ۴۸ ۵۱ ۵۳ ۶۹ ۷۲ مخط نمبر۷- از دمشق ۸/اگست ۱۹۲۴ء دمشق میں ورود شام میں سلسلہ تبلیغ جامعه اموی
صفحه نمبر ۷۳ g ۹۵ ۹۸ 1+1 ۱۰۵ 11.۱۱۸ ۱۲۶ ۱۴۳ iv مضمون منارة بيضا دمشق سے روانگی بیروت حیفا سے روانگی محمد علی بہائی سے سوال و جواب.پورٹ سعید کے حالات اہلِ پیغام کے بارہ میں نظم محیط نمبر ۸- از بگیره روم ۱۳ را گست ۱۹۲۴ء خط نمبر ۹- از برنڈ زی ۱۶ را گست ۱۹۲۴ء برنڈزی کی پورٹ اور دیگر حالات مخط نمبر ۱۰- از روما (اٹلی) ۱۹ ر ا گست ۱۹۲۴ء اخبار کے اسٹنٹ ایڈیٹر کے ساتھ مکالمہ.
V مضمون خط نمبر ۱۱- از روما (اٹلی) ۲۰ راگست ۱۹۲۴ء ڈی اٹالیا کے ایڈیٹر کے سوالات لندن پہنچنے پرتقسیم اوقات ولایت کی تھرڈ کلاس گاڑی.عالیشان مقام.خط نمبر ۱۲- از لندن ۴ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه نمبر ۱۵۵ ܬܪܙ ۱۶۷ ۱۶۸ ۱۶۹ ۱۷۰ ۱۷۰ ۱۷۵ ۱۸۰ ۱۸۴ ۱۸۴ ایڈورڈ فورتھ کا ہال.ساحل سمندر کی سیر برائیٹن کی کیفیت حضور سپر چولسٹوں (Spiritulists) کے ہال میں اخبارات کے نمائندوں سے ملاقات عورتوں کی خوش اخلاقی اور حیاداری چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو مبارکباد مولوی نعمت اللہ خاں کی شہادت کی خبر
vi مضمون کابل کے متعلق تار پٹنی میں نماز جمعہ خط نمبر ۱۳-۱۱ ستمبر ۱۹۲۴ء افغانی سفیر کو چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا خط صفحه نمبر ۱۹۲ ۱۹۵ ۱۹۶ ۱۹۸ ۲۱۱ ۲۱۶ ۲۲۲ ۲۳۵ ۲۶۹ ۲۷۴ ۲۸۳ میاں عبدالرحیم خان صاحب کی طرف سے دعوت الفضل کا خیال سابق ڈپٹی کمشنر گورداسپور سے حضور کی ملاقات حضرت اقدس کی تقریر پیغام آسمانی خط نمبر ۱۴- از لنڈن ۱۸ ستمبر ۱۹۲۴ء ہندوستانی طلباء کے ایڈریس کا جواب بخارا سے آمدہ خط نقل مضمون برائے پروٹسٹ (Protest) میٹنگ
vii مضمون رپورٹ از لندن ۲۶ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحه نمبر ۲۹۶ ۳۰۵ ۳۱۸ ۳۴۶ ۳۵۸ ٣٧٩ ۳۸۶ ۳۹۲ ۴۱۹ ہندوستان کے حالاتِ حاضرہ اور اتحاد کے بارہ میں خطاب نقل مضمون حضرت اقدس نو جوانوں کے مجمع میں خلاصہ خطبہ جمعہ رپورٹ از لندن ۳۰ ستمبر ۱۹۲۴ء رپورٹ از چشم پیلس لندن ۹ اکتوبر ۱۹۲۴ء حضرت مسیح موعود کے پیغام کے بارہ میں مضمون لنڈن کی البیت کا سنگ بنیاد رپورٹ از پیرس ۱/۳۰ کتوبر ۱۹۲۴ء میلان ( پیرس) کے اسٹیشن پر اخبار کے ایڈیٹر کے سوالات کا جواب
صفحه نمبر ۴۲۷ ۴۳۰ ۴۶۱ ۴۷۵ ۴۸۵ ۴۸۹ viii مضمون مولوی عبد الرحیم صاحب کے لئے ہدایات.وینس اور اٹلی کا پہلا شیر یں پھل جہاز میں کئے جانے والے سوالات کا جواب.سمندر کی آخری گھڑی ایڈریس کا جواب ایڈریس جماعت احمد یہ پشاور رپورٹ از بمبی ۱۸ نومبر ۱۹۲۴ء رپورٹ از بمبئی ۱۹ نومبر ۱۹۲۴ء جہلم کی طرف سے ایڈریس کا جواب.ضمیمه
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خط نمبرا، از مقام عدن: مورخه ۲۳ جولائی ۱۹۲۴ء برادران قادیان! السلام عليكم و رحمة الله وبركاته قادیان شہر سے حضرت کی روانگی کا نظارہ تو آپ نے دیکھا ہی ہو گا.ڈلہ کے موڑ کی دعا ئیں بھی آپ نے حضور کے ساتھ کی ہوں گی.سیدہ حضرت (اماں جان ) نے جب حضور کو ایک بار اور ملاقات کی غرض سے مردوں کے جم غفیر سے اونچے چبوترہ کے جانب شمال بلوا کر دیر تک گود میں لئے ہوئے دعائیں کی تھیں وہ نظارہ بھی آپ کو نہ بھولا ہوگا اور نہ ہی وہ دلچسپ منظر اس قابل ہے کہ کبھی بھولے.سیدہ حضرت اماں جان) کی آواز پر جس طرح سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی لبیک کہتے ایک تیز تیر کی مانند حضرت اماں جان ) کی طرف بڑھے وہ نقشہ ماں کی آواز پر لبیک اور ماں کے حکم کی تعمیل اور فرمانبرداری کے لئے ایک زریں مثال اور قابل تقلید اُسوہ تھا.دوستوں کو مصافحہ کا موقع حضور نے دیا اور نہایت کشادہ پیشانی اور خوش خلقی سے ایک ایک کر کے دوستوں سے مصافحہ کیا حالانکہ وقت بہت تنگ تھا اور کارکن غلاموں کی با ادب آوازیں حضور کے گوش گزار ہو رہی تھیں کہ وقت تنگ ہے مگر حضور نے نہایت ہی اطمینان سے سب کو مصافحہ کا موقع دیا اور شاید کسی ایک کو بھی اس نعمت سے محروم نہیں رکھا.حضور پہلی موٹر کی اگلی سیٹ پر رونق افروز ہوئے اور دریافت فرمایا کہ سب دوست سوار ہو گئے ؟ عرض کیا گیا کہ حضور سب سوار ہو گئے.تب موٹر کو روانگی کا حکم دیا.مولوی نیک محمد خان صاحب کو ساتھ دوڑتے دیکھ کر سوار ہو جانے کا حکم دیا مگر جب دیکھا کہ وہ ساتھ ساتھ اور بعد میں پیچھے پیچھے دوڑتے تھے حکم دیا کہ وہ سوار ہو جائیں یا واپس لوٹ جائیں چنا نچہ مولوی نیک محمد خان صاحب ایک ساتھ جانے والے ٹمٹم میں نہر کے پل تک سوار ہو گئے جہاں حضور کا موٹر پانی لینے اور ساتھیوں کی دوسری موٹر کی انتظار میں ٹھہر گیا تھا.دھنے (گاؤں کا نام) کی ریت میں موٹر لاری ضرور فیل ہو جاتی اگر مکرم با با محمد حسن صاحب کی سعی اور ان کے ماتحت ایک مضبوط نو جوانوں کا گروہ
وہاں موجود نہ ہوتا.بابا محمد حسن صاحب کے سپرد یہ کام تھا کہ حضور سے مصافحہ کر کے ہمیں چھپیں مضبوط زمیندار آدمیوں کی ایک جماعت کو لے کر پہلے سے اسی ریت کے مقام پر پہنچیں ، چنانچہ بابا صاحب موصوف اپنی جماعت سمیت لاریوں کے پہنچنے تک اس مقام پر پہنچ چکے تھے.خود بابا صاحب بوجہ اپنی کمزوری و بڑھا پا کچھ پیچھے رہ گئے تھے ، چنانچہ میں نے دیکھا کہ انہوں نے اپنی اس کمی کو دوڑ کر پورا کیا اور ہانپتے ہانپتے منزل مقصود تک پہنچ کر لاری کو دھکیلنے میں مدد کی.جزاھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء حضرت کی لاری پل پر پہلے پہنچی دوسری لاری پیچھے رہ گئی جس کی انتظار حضور نے اس پل پر فرمائی اور ساتھیوں کو لے کر پھر ا کٹھے نہر کی پڑی کے راستے روانہ ہوئے.ایک میل کے قریب جا کر حضور کی لاری کے اگلے پیتے میں ہوا کم ہو گئی جس کے لئے ٹھہر نا پڑا اور ہوا بھرنی پڑی مگر ابھی تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ پھر ہوا ختم ہو گئی اور معلوم ہوا کہ ایک بڑا پنکچر ٹیوب میں ہو گیا ہے.ٹیوب تبدیل کرنے اور ہوا بھرنے پر قریب دس منٹ کے خرچ ہو گئے پھر روانگی ہوئی اور تیزی سے موٹر لاریاں چلنے لگیں.حضرت کی لاری ذرا تیزی سے چلی اور پچھلی لاری سے فاصلہ کر گئی اور بیرنگ ہائی اسکول سے قریب ایک سو گز آگے نکل کر خاموش کھڑی ہوگئی.وجہ معلوم کی گئی تو معلوم ہوا کہ تیل ختم ہو گیا ہے اور اس لاری کا تیل چھلی لاری میں ہے.آخر وقت چونکہ بالکل تنگ تھا پہلے مولوی نیک محمد خان صاحب ( جو نہر قادیان کے پل سے موٹر کے پائیدان پر بیٹھے ہوئے ساتھ جا رہے تھے ) بٹالہ سٹیشن کی طرف پیدل دوڑے.بعد میں مجھے بھی حکم دیا گیا تا کہ سٹیشن پر پہنچ کر اطلاع دیں مگر ہم دونوں ابھی بٹالہ منڈی تک ہی پہنچے تھے کہ پیچھے سے لاریاں آن پہنچیں.بٹالہ پہنچنا : گاڑی ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر کھڑی تھی.جماعت بٹالہ اور دوسرے تمام دوست سخت کشمکش میں تھے.دوستوں نے آخر فیصلہ کر لیا تھا کہ گاڑی ریز رو کوٹرین کے ساتھ لگوا کر امرتسر لے جایا جاوے تا کہ سامان وغیرہ مع ریز روگاڑی تو امرتسر جا پہنچے.حضور اگر گاڑی چلنے تک بھی نہ آئے تو موٹروں کے ذریعہ سے ہی امرتسر پہنچ جائیں گے مگر سٹیشن ماسٹر اس معاملہ میں ہارج تھا.آخر بڑی رڈو کد کے بعد یہی فیصلہ ہوا کہ گاڑی ریز رو جو دوسری لائن پر کھڑی تھی ٹرین کے ساتھ لگا دی جاوے چنانچہ چند قلی گاڑی کو دھکیل کر لا رہے تھے اور گاڑی ٹرین سے بمشکل ایک سوفٹ کے فاصلہ پر تھی جب کہ حضور مع خدام پلیٹ فارم پر پہنچ گئے.خدام زائرین اور دوسری پبلک کا ایک
اثر دہام تھا جس کی وجہ سے لاری سے اُتر کر پلیٹ فارم تک جانا محال ہو گیا.آخر بڑی جد و جہد اور چیخ و پکار کے بعد حضور کو بمشکل پلیٹ فارم پر پہنچنے کے لئے راستہ بنایا گیا.الحمد للہ اور اللہ اکبر کے نعروں سے پلیٹ فارم گونج اٹھا.گاڑی کا کوئی مسافر نہ تھا جو اس نظارہ کو دیکھنے میں مصروف نہ تھا.سٹیشن کا تمام سٹاف قلی سے لے کر اعلیٰ افسروں تک ٹرین کے مسافر اور افسر غرض ہر قسم کے لوگ کیا عورت کیا مرد اس دلکش سین کو دیکھنے لگے.گاڑی کی روانگی کا وقت ہو چکا تھا مگر توجہ دوسری طرف کھنچ چکی تھی لہذا گاڑی لگ جانے کے بعد آرام سے دوست سوار ہوئے اور اطمینان سے بیٹھ جانے کے بعد گاڑی روانہ ہوئی.بٹالہ کی جماعت نے بہت اعلیٰ پیمانہ پر برفاب اور دودھ پانی وغیرہ کا انتظام کر رکھا تھا.فوٹو کے لئے پورا سامان کیا تھا.کرسیاں وغیرہ بچھا کر اچھی نشست گاہ بنائی تھی مگر وقت کی تنگی اور حضور کی بد سیر رسیدگی نے ان کے دل کی دل ہی میں رہنے دیں.چلتے چلتے غالبا حضرت میاں شریف احمد صاحب نے اس تمام ہجوم کا فوٹو لیا.بٹالہ سے روانگی: گاڑی بٹالہ سے جیتی پور پہنچی وہاں بھی زائرین کا ایک اثر دہام حضور کی گاڑی کے سامنے تھا.سیکنڈ کلاس کے ہر دور یز رو کمپارٹمنٹ تھرڈ کلاس سے زیادہ پر تھے مگر حضور کی موجودگی کی وجہ سے کسی کو کوئی تکلیف نہ تھی بلکہ وہ تنگی فراخی سے بھی زیادہ مرغوب اور کشائش سے بھی محسوب تھی.کتھو منگل دیر کا اور آخر امرتسر کا اسٹیشن آ گیا جہاں پلیٹ فارم پر کثرت سے جماعت کے دوست موجود تھے جو لا ہور اور امرتسر اور مضافات سے حضور کی تشریف آوری کی خبر سن کر جمع ہو گئے تھے.ہماری ریز روگاڑی ٹرین سے کاٹ لی گئی اور ایک کو نہ میں کھڑی کر دی گئی جہاں سے حضور مع چند خدام اور جماعتہائے لاہور اور امرتسر وغیرہ سٹیشن کے متصل ہی ایک کوٹھی میں تشریف لے گئے جہاں ایک دن کے لئے انہوں نے انتظام کر رکھا تھا.لاہور اور امرتسر کی جماعتوں نے فوٹو لئے.حضور نے کھانا تناول فرمایا اور پھر گاڑی پر تشریف لے آئے اور جلدی ہی لاہور سے وہ گاڑی آگئی جس کے ساتھ ہماری یہ گاڑی لگائی گئی.دوست باری باری مصافحہ کرتے جاتے تھے اور دعا کے لئے درخواستیں پیش کرتے جاتے تھے.گاڑی روانہ ہوگئی اور بعض دوست چلتی گاڑی سے اُترنے کی کوشش میں بعض ساتھ ساتھ دوڑنے کی
وجہ سے گرتے گرتے بچ گئے.ایک کرامت مگر ایک خاص واقعہ جو امرتسرسٹیشن پر پیش آیا وہ یہ تھا کہ ایک دوست اس کشمکش میں نیچے گر گئے اور حضور کی گاڑی کا پچھلا حصہ جس میں غالباً چار پہیتے تھے اور ایک اور پورا چھکڑا جو حضور کی گاڑی کے پیچھے لگا ہوا تھا جس کے کم از کم آٹھ پیتے تھے یہ سب اس گرنے والے مخلص کے پاس سے نکل گئے مگر کسی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت نہ ہوئی کہ اس مخلص کا ایک بال بھی بریکا کرے.وہ شخص گرا اور بری طرح سے گرا.میری آنکھوں نے اسے گرتے ہوئے تو نہ دیکھا مگر گرے ہوئے دیکھ لیا تھا.میں نے دیکھا کہ خدا نے اپنے خاص فضل اور خارق عادت قدرت سے اپنا ہاتھ دے کر بچالیا تھا ورنہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے میں ذرا بھی کسر باقی نہ رہی تھی.غرض خدا نے اس کو بچایا اور اس طرح سے اپنی معجز نمائی کے ذریعہ سے سٹیشن امرتسر کو ایک زندہ نشان دکھا کر اپنی محبت پوری کی تا سعید اس سے فائدہ اٹھائے اور شقی اپنی شقادت کی وجہ سے ملزم ٹھہر کر حجت ملزمہ کے نیچے آوے.ریاست کپورتھلہ کے پُرانے اور مخلص خاندان مرحوم منشی محمد خان صاحب کے نونہال عبدالمجید خان صاحب مجسٹریٹ نے پنڈت سری ناتھ صاحب کو ( جن کا مکان متصل ( بیت ) اقصیٰ عالیشان عمارت کی صورت میں ہے ) امرتسر تک پیشوائی کے لئے بھیجا ہوا تھا اور ایک نقشہ ترتیب وار نشست گاہوں کا بنا کر روانہ کیا تھا تا کہ اُتر کر ترتیب دینے میں دیر نہ ہوا اور جلد سے جلد فوٹو لیا جا سکے.بیاس : چنانچہ گاڑی جب بیاس ریلوے سٹیشن پر پہنچی تو حسب اطلاع حضور فوٹو کے واسطے تشریف لے گئے جہاں حضور کے تین مختلف فوٹو لئے گئے.جالندھر، پھگواڑہ ، پھلور : پھر جالندھر شہر کے ٹیشن پر ، جالندھر چھاؤنی کے سٹیشن پر ، پھگواڑہ اور پھلور پر بہت ہی مخلص جماعتیں حاضر تھیں.ضلع جالندھر اور ہوشیار پور کے مخلصین نے اپنی اپنی محبت اور اخلاص کا اظہار کیا.
لدھیانہ سات بجے کے بعد گاڑی لدھیا نہ پہنچی جہاں علاوہ شہر کی جماعت کے دیہات اور گردو پیش کے مخلصین بھی جمع تھے.جماعت لدھیانہ نے اس خوشی میں تمام ٹرین پر برف اور دودھ کا شربت تقسیم کیا.پھولوں کے ہار تو ہر جگہ سے ملتے ہی چلے آئے تھے.جالندھر کے سٹیشن پر جماعتوں نے سوڈا برف اور خاص ہوشیار پور کے آموں سے دوستوں کی خدمت کی.کھتہ : کھنہ کے اسٹیشن پر مکرمی حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری کی تیار کردہ جماعت غوث گڑھ ۱۸ میل کا سفر پیدل طے کر کے حاضر تھی.ایک چھوٹے سے سٹیشن پر صرف دو عورتیں اور دو تین بچے پروانہ وار قربان ہونے کو آئے ہوئے تھے.گاڑی ہماری چونکہ سب سے پیچھے تھی اس وجہ سے اکثر پلیٹ فارم سے باہر ہی کھڑی ہوا کرتی تھی.دوستوں کو ملاقات میں گونہ دقت بھی ہوتی تھی مگر یہاں تو ایک عورت نے بڑی بہادری دکھائی.گاڑی کی روانگی کا وسل ہو گیا تھا دوستوں نے روکا کہ گاڑی چلنے والی ہے نیچے ہی سے سلام کر لو مگر اس نے ایک نہ سنی اور برقعہ اوڑھے گاڑی پر چڑھ کر حضور کی خدمت میں پہنچی اور گاڑی روانہ ہوگئی.عورت نے اُترنے کی کوشش کی اور چلتی گاڑی سے کود پڑی.قریب تھا کہ سر پھٹ جاتا اور تمام بدن لہولہان ہو جاتا مگر ایک احمدی دوست نے لپک کر ایسا ہاتھوں پر لے لیا جس طرح ماں بچے کو گود میں اٹھا لیتی ہے اور اس طرح سے وہ بیچاری منزل مقصود پر پہنچ کر سلامت واپس بھی چلی گئی.را جپوره شیشن : راجپورہ کے سٹیشن پر جماعت پٹیالہ نے کھانے کا انتظام کر رکھا تھا اور با قاعدہ انتظام تھا.کھانا تمام دوستوں میں اچھی طرح سے تقسیم کیا گیا اور انبالہ چھاؤنی تک ساتھ کھلاتے پلاتے دوست چلے گئے اور چھاؤنی سے واپس آگئے.چھاؤنی انبالہ سے بارش کا سلسلہ جاری ہو گیا اور دوست سردی اور بارش کی تکلیف اُٹھا کر خدمت اور ملاقات کے دوہرے اجروں کے وارث ہوئے.فجزا هـم الله تعالى احسن الجزا في الدنيا والآخرة اصلی گاڑی مس (MISS) ہو گئی : ہماری گاڑی راستہ میں لیٹ ہوتی گئی.پھگواڑ ہسٹیشن پر
۶ غالباً کلکتہ میں نے اور بھی زیادہ لیٹ کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سہارنپور سے وہ گاری جو د ہلی کو جاتی تھی ہماری گاڑی کے پہنچنے سے پہلے روانہ ہوگئی اور اس طرح سے ہم لوگ بمبئی میل کی اس گاڑی کو جو براستہ بی.بی اینڈ سی.آئی آکر جاتی تھی پکڑنے کے نا قابل ہو گئے.برستی بارش میں آخر سہارنپور کے یارڈ سے سامان ریز روگاڑی سے نکال کر پلیٹ فارم پر پہنچایا گیا اور چند گھنٹہ دوسری گاڑی کا انتظار کرنا پڑا.جی.آئی.پی کی بمبئی میں ساڑھے چار بجے صبح کے سہارنپورٹیشن پر پہنچی اور فوراً جلدی سامان گاڑی میں رکھ دیا گیا.حضور مع خدام سوار بھی ہو گئے.گاڑی سہارنپور سے روانہ بھی ہو گئی.میں سامان کی دیکھ بھال میں اور جانچ پڑتال میں رہا.دوسرے سٹیشن پر جا کر دوباتیں معلوم ہوئیں.اول تو یہ کہ جس گاڑی میں ہم لوگ سامان رکھ کر سوار ہیں وہ دہلی میں کٹ جائے گی.تھرو (Through) بمبئی نہیں جائے گی.دوسرے یہ کہ صاحبزادہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب سلمہ ربہ اور بابو فخر الدین صاحب ملتانی دونوں سہارنپور سے واپس قادیان تشریف لے گئے ہیں تا کہ نماز عید قادیان میں گزار سکیں.مجھے دوسری بات کا سخت صدمہ ہوا اور اب تک ہے اور غالباً اس وقت تک رہے گا کہ اللہ کریم مجھے دوبارہ واپس قادیان لا کر صاحبزادہ حضرت میاں صاحب سلمہ رتبہ کی زیارت و ملاقات کا شرف نصیب کرے.گو مجھے خیال تھا کہ حضرت میاں صاحب سہارنپور سے واپس جانے والے ہیں مگر یقین نہ تھا.میں نے حضرت میاں صاحب سے معلوم بھی کیا مگر آپ نے فرمایا کہ فیصلہ نہیں گو ارادہ ہے کہ اسی جگہ سے واپس چلے جائیں.میں کام کی مصروفیت کی وجہ سے ان کی ملاقات سے محروم رہا جس کا مجھے سخت ہی افسوس اور گہرا صدمہ ہے.اللہ کرے کہ پھر بخیریت واپس قادیان آؤں اور ان کی زیارت سے فیضیاب ہو سکوں.آمین.دوسری گھبراہٹ یہ ہوئی کہ دہلی پہنچنے سے پہلے پہلے پھر تمام سامان اور سواریاں کسی ایسی گاڑی میں تبدیل کر لی جائیں جو تھرو (Through) بمبئی جانے والی ہو چنانچہ مظفر نگر کے سٹیشن ہی سے ایسا تغیر وتبدل شروع کر دیا گیا اور اللہ کے احسان سے دہلی پہنچتے پہنچتے ہم لوگ مع تمام سامان کے ایسی گاڑیوں میں چلے گئے جو سیدھی بمبئی جانے والی تھیں اور اس طرح سے وہ گھبراہٹ خدا نے دور کر دی.
مظفر نگر اور میرٹھ : مظفرنگر ، میرٹھ چھاؤنی اور شہر کے دوست حضور کی دست بوسی اور زیارت کو آئے اور فیضیاب ہو کر واپس چلے گئے.غازی آباد آیا اور دہلی پہنچے.دہلی کا سٹیشن ،۱۳ / جولائی : جماعت نے ایک شاندارو یکم (Well Come) کا جھنڈا تیار کر رکھا تھا اور پلیٹ فارم پر استقبال کے لئے حاضر تھی.فوٹو کے واسطے خاص انتظام تھا.دوپہر کے کھانے کا بھی دہلی کی جماعت نے انتظام کر رکھا تھا.دودھ، چائے اور برف بھی آئی.بریلی ، شاہجہانپور کی جماعتیں اور قائم گنج کے عبد الغفار خان صاحب بھی دہلی ہی کے اسٹیشن پر آئے ہوئے تھے.علی گڑھ سے ڈاکٹر ا قبال علی صاحب عفی عنہ بھی تشریف لائے ہوئے تھے.دہلی اسٹیشن پر پہنچ کر ایک اور دقت کا سامنا ہوا اور وہ یہ تھا کہ 4 بڑے بکس جو ہم نے بک کرا کے بریک میں رکھوائے ہوئے تھے جی.آئی.پی.آر کے گارڈنے نکلوا کر باہر رکھ دیئے اور کہا کہ بی.بی اینڈ سی.آئی.آر سے بک ہوئے ہیں اُسی گاڑی سے جائیں گے میں نہیں لے جاؤں گا.بہت بڑی کوشش کی گئی.دوڑ دھوپ ہوئی مگر وہ نہ مانتا تھا.گاڑی بھی چند منٹ لیٹ ہو گئی.سامان ضروری تھا اگر ہمارے ساتھ نہ جاتا تو وہ ضائع ہو جاتا یا بے کار ہوتا.آخر خدا نے کوئی ایسی صورت پیدا کر دی کہ وہ بھی ہمارے ساتھ کا ساتھ ہی چلا آیا.اسی طرح سے ہر مشکل کے وقت اللہ کریم نے خود ہماری مدد کی اور ہماری کمزوری اور بیجز پرستاری کی چادر ڈالی اور ہمارے سارے کام خود سنوارے اور دہلی سے گونہ تسلی اور اطمینان کا سفر شروع ہوا.دہلی سے نکل کر کئی اسٹیشنوں کے بعد ایک جگہ گاڑی ٹھہری.وہاں بھی دو تین دوست حضور کی زیارت کی غرض سے موجود تھے جو میرے خیال میں بلب گڑھ کے تھے.یہ عرض کرنا رہ گیا کہ امرتسر سے مکر می مستری حاجی محمد موسیٰ صاحب نے برف کا انتظام کیا جو دہلی تک جاری رہا اور خود بھی دہلی تک حضرت کے ہمرکاب تشریف لائے.چلتی گاڑی میں دوستوں کو دہلی سے آیا ہوا کھانا کھلایا گیا.
Λ متھرا : متھرا اسٹیشن پر آگرہ کی جماعت حاضر تھی.ہمارے امیر المجاہدین میدان انسداد فتنہ ارتداد بھی آئے ہوئے تھے.فرخ آباد اور علاقہ مین پوری سے ماسٹرمحمد شفیع صاحب اسلم اور مولوی غلام محمد صاحب بھی آئے ہوئے تھے.فوٹو کا انتظام تھا.فوٹو لیا گیا اور تمام دوست متھر اسے آگرہ جنکشن تک حضرت کے ہمرکاب سوار ہو کر آئے.اسلم صاحب نے فرخ آبادی عمدہ نسل کے کچھ آم حضرت کے حضور پیش کر کے عرض کیا کہ ان میں سے حضور ضرور کچھ تناول فرما ئیں یہ نہایت ہی عمدہ قسم کے آم ہیں.حضور نے قبول فرمائے مگر چونکہ ابھی تیار نہ تھے کسی دوسرے وقت تیاری پر کھانے کا وعدہ فرمایا.اسی طرح سے مکرمی عبدالغفار خان صاحب نے قائم گنج سے نہایت عمدہ نسل کے آموں کا ایک ٹوکرہ حضرت کے حضور دہلی کے مقام پر پیش کیا.بھوپال : آگرہ سے چل کر گوالیار، جھانسی اور بینا ہوتے ہوئے رات کے وسطی حصہ میں بھوپال پہنچے جہاں مکرمی با بوعلی بخش صاحب احمدی سب اور سیر مع ایک ٹین گھی کے حاضر تھے جن کے ساتھ حضرت مولوی عبید اللہ صاحب بسمل اور دو ایک اور بھی دوست تھے.بھوپال کے بعد بمبئی کے آخری اسٹیشن وکٹوریا ٹرمینل (Terminal) تک پھر کوئی جماعت نہ مل سکی.بعد میں معلوم ہوا کہ سورت کے ریلوے اسٹیشن پر ملک حسن محمد خان صاحب مع دوسرے دوستوں کے حضور کی تلاش کرتے رہے مگر چونکہ ہم بی.بی اینڈ سی.آئی.آر کو چھوڑ چکے تھے اس وجہ سے وہ حضور کی زیارت بمبئی سے ورے نہ کر سکے.عید الا ضحے کی نماز ۱۴ / جولائی : ۱۴ جولائی ۱۹۲۴ء تاریخ کو چونکہ عید تھی جو ہمیں ریل میں آئی حضور نے منماڑ کے ریلوے اسٹیشن پر نماز عید پلیٹ فارم پر پڑھائی اور مختصر سا خطبہ پڑھا.دعا پلیٹ فارم سے اُٹھ کر گاڑی کے اندر آ کر کی گئی.۱۳؎ کی شام کا کھانا ڈائننگ کار میں کھایا گیا جس میں چھری اور کانٹا کا استعمال کرنا سکھایا گیا.سوائے چوہدری علی محمد صاحب اور میاں رحمدین کے باقی سب دوست شامل تھے ، گویا کھانا کھانے کی ٹرینینگ ملنی شروع ہو گئی.۱۴ ء کی دو پہر کا کھانا بھی اسی طرح سے ڈائننگ کا ر میں کھایا گیا.
۹ انگریزی میں بول چال : ۱۳ ء کی شام کو حضور نے حکم فرمایا کہ سب دوست مل کر ہا ہم انگریزی میں باتیں کریں اگر کوئی اردو میں بات کرے تو ایک آنہ جرمانہ ادا کرے.انگریزی کے بعد عربی میں بھی اجازت کلام تھی مگر جب کوئی اور غیر لوگ شامل ہوں تو پھر اردو کلام کی بھی اجازت تھی.یہ زور کلام انگریزی اور عربی کا بمبئی سٹیشن تک جاری رہا اور سید نا حضرت اقدس سے لے کر خادم قادیانی اور علی محمد صاحب تک بھی انگریزی میں کلام کرتے رہے مگر بمبئی میں اُتر کر وہ سلسلہ ختم ہو گیا.بمبئی میں نزول : بمبئی سٹیشن پر گاڑی پانچ بجے بعد دو پہر پہنچی.جماعت حاضر تھی.موٹر میں موجود تھیں.فوٹو کا سامان تیار تھا.مصافحہ کے بعد فوٹو لیا گیا اور حضور فورا تھامس کٹک کے دفتر کو تشریف لے گئے جہاں صرف اور صرف حضور کی خاطر تمام دفتر اس وقت تک کھلا رکھا گیا تھا کیونکہ عموماً دفا تر ۴ بجے بند ہو جاتے ہیں مگر چونکہ حضور کا تارپہنچا ہوا تھا لہذا ان کو کھلے رکھنے پڑے.حضور تشریف لے گئے.کام کیا اور پھر واپس تشریف لائے اور مکان میمنی بلڈنگ پر ساڑھے سات بجے شام کے بعد پہنچے.سامان اُتارا گیا.دیکھ بھال کی گئی خدا کے فضل اور محض فضل سے برا بر اترا.راستہ میں خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب کی جیب سے دس روپے کا ایک نوٹ دہلی اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے گم ہوا اور پھر چوہدری فتح محمد خان صاحب کی واسکٹ گم ہوگئی اور اس کے بعد دونوٹ اور دس دس کے خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب کے گم ہو گئے جو صرف سہل انگاری یا اپنی بے پروائی وغفلت کا نتیجہ تھا.چور کوئی بیرونی نہ تھا یا کم از کم چوری کی نیت سے نہ آیا تھا.یہ صرف بے پروائی کی وجہ سے گر گئے یا کسی نے بے توجہ پا کر اُٹھا لئے.چوہدری فتح محمد خان صاحب کی واسکٹ میں صرف دو تین روپے تھے.خان صاحب مکرم نے بتایا کہ میرٹھ سے چند گورے ہماری گاڑی میں آن گھسے تھے یہ کام انہی کا تھا.ہمیں غافل پا کر نقصان پہنچا گئے.اس کے سوا اللہ کے فضل سے باقی تمام قسم کا سامان بخیر و خوبی صحیح وسلامت بمبئی کے مکان تک پہنچ گیا.فالحمد للہ الحمد لله ثم الحمد للہ رب العلمین.بمبئی پہنچتے ہی تھا مس کٹک کمپنی کی طرف - سے اطلاع ملی کہ ہمارا جہاز الیں.ایس افریقہ نامی صبح ساڑھے آٹھ بجے تیرے گا جس کے لئے
1.علی الصباح ہم کو 4 بجے روانہ ہو جانا چاہئیے.بمبئی : میں اوپر عرض کر چکا ہوں کہ ریل سے اُترتے ہی پہلی خبر ہمیں یہ ملی کہ جہاز علی الصباح روانہ ہو جائے گا.اس خبر کا اثر ہم سب پر تھا کیونکہ اکثر سامان کی خرید و فروخت بمبئی کے لئے ملتوی کی گئی تھی جو اب ناممکن تھی.بڑی ہی کوشس کی گئی.محنت سے کام کیا گیا.ساری رات جاگتے جاگتے گزاری دی مگر کچھ نہ بنا اور اکثر حصہ ضروریات کا باقی رہ گیا.کمبل ملے نہ جراب و بنیان ملیں.سلیپر لئے گئے نہ ڈیک شوز - خوردونوش کا سامان ہوا نہ کوئی فروٹ لیا جا سک حتی کہ سامان پر لیبل بھی نہ لگ سکے.مدراس سے اور کلکتہ سے کچھ لٹریچر آیا ہوا تھا اس کے بکسوں کو نہ کھولا گیا نہ کتا ہیں لی گئیں بلکہ سارے کے سارے بکس ساتھ اُٹھالئے گئے اور کوئی بکس بمبئی میں ہی رہنے دیا گیا.نہ معلوم کیا کچھ ساتھ لینا تھا اور کیا لیا گیا.نہ معلوم کیا کچھ چھوڑ نا تھا اور کیا کچھ چھوڑا گیا.لنڈن پہنچ کر کھولا جانے پر ہی معلوم ہوگا کہ کیا ہونا چاہیئے تھا اور کیا ہو گیا ہے.الغرض تمام اسکیم، ساری تجاویز نا تمام رہ گئیں اور ہمیں اپنی کمزوریوں کا یقین ہوتے ہوئے از سر نو اللہ تعالیٰ پر ہی تو کل اور بھروسہ ہو گیا اور حقیقت یہی ہے کہ ہمارے سارے کام محض اللہ ہی کے بنانے سے بنتے چلے آئے.ابتدا سے لے کر انتہا تک ہما را و ہی سہارا بنا ہے اور اسی کے فضل سے ہماری رہبری اور راہ نمائی ہوئی ہے.اسی طرح اب بھی اس آخری مرحلہ پر اس نے ہماری مدد کی اور صبح کی نماز کے بعد بمشکل ایک موٹر لاری ملی جس پر تمام سامان با ر کر کے ڈیک پر پہنچا دیا گیا ورنہ پہلے گڈوں کا انتظام کیا گیا تھا جو یقیناً وقت پر نہ پہنچ سکتے.میں ( عبد الرحمن قادیانی) چوہدری علی محمد اور میاں رحمد بن متینوں موٹر لا ری کے ذریعہ سے ڈاکٹری معائنہ کرانے کے واسطے گئے.بابو عبد الغنی صاحب جو پہلے کسی وقت قادیان میں کام کر چکے ہیں ہمارے ساتھ تھے.پولیس مین جو بھپارہ کے مکان کے دروازہ پر کھڑا تھا اس نے دیکھ لیا کہ ہم لاری سے اُتر کر طبی معائنہ کے لئے آگئے ہیں اور سامان آگے بھیج دیا ہے.وہ اس بات سے چڑ گیا اور ڈاکٹر کو اُکسانے لگا کہ ان لوگوں نے سامان کی لاری آگے بھیج دی ہے اس کو بھی منگایا جاوے اور بھپارہ د رہ دلایا جاوے.ڈاکٹر بھی بہت اچھلا کو دا اور پھر کا.ایک اور آفیسر کو بھڑ کا یا اور کہا کہ میں - تم کو ہرگز ہرگز پاس نہ کروں گا.اصل مدعا ان سب کا صرف کچھ وصول کرنا تھا مگر ہمارے پاس کوئی فنڈ نہ تھا جس سے ان کی شکم پُری کر سکتے.آخر چارونا چار وہ ڈھیلے ہونے لگے.ٹکٹ مانگنا شروع
11 کیا مگر وہ ہمارے پاس نہ تھے حضرت کے ساتھ تھے.تنگ آکر مجبور ہو گئے اور ہمیں پکڑ کر ایک مُہر ہمارے بازو پر لگا دی کہ تم پاس ہو گئے ہو.اس پاس کی علامت کو لے کر ہم لوگ اپنے جہاز کے پاس گئے جہاں ہمارے آقا وسردار مع تمام خدام کے پہنچ چکے تھے.سامان اندر جارہا تھا مگر ہمیں جانے کی ابھی اجازت نہ تھی.دوبارہ بڑے ڈاکٹر کا معائنہ ہوا اور سب سے پہلے ہم دونوں (چوہدری علی محمد صاحب اور قادیانی ) کو جہاز کے اندر جانے کی اجازت ہوئی.جہاز افریقہ : سیدنا حضرت خلیفہ امسیح اور دوسرے سیکنڈ کلاس مسافر خان صاحب ذ وا الفقار علی خان صاحب ، حافظ صاحب ، حضرت میاں صاحب مرزا شریف احمد ، چوہدری فتح محمد خان صاحب اور چوہدری محمد شریف صاحب لاہور کے ان لوگوں کو بھی آسانی سے اجازت ہو گئی مگر ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب، مولوی رحیم بخش صاحب شیخ صاحب مصری اور شیخ صاحب عرفانی اور میاں رحدین کے طبی معائنہ میں ایک حد تک دقت ہوئی جس کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ یہ دوست ہمارے ساتھ پہلے چھوٹے ڈاکٹر کے پاس معائنہ کو نہ گئے تھے بلکہ سیدھے بڑے ڈاکٹر کے پاس آ گئے تھے مگر چھوٹے ڈاکٹر اور چھوٹی پولیس نے یہاں روک پیدا کی اور خراب کرنے کی کوشش کی آخر بمشکل آخری لمحہ پر اجازت ہوئی.سامان اندر پہنچ چکا تھا.جہاز کے انجن نے وسل روانگی کا کر دیا تھا کہ یہ بزرگ جہاز میں آئے مگرمیاں رحمدبن اور چوہدری فتح محمد خان صاحب اب تک نہ پہنچ سکے جن کے لئے گھبراہٹ تھی.جہاز کی سیڑھی بھی اب اُٹھائی جانے والی تھی مگر میاں رحمد دین اور چوہدری صاحب دونوں نہ آئے جس کی وجہ صرف یہ ہوئی کہ دونوں کے ٹکٹ بعد میں خرید کئے گئے تھے اور وہ پولیس کی لسٹ میں نہ درج ہوئے تھے.ان دونوں کا آنا اور جہاز میں قدم رکھنا تھا کہ جہاز کی سیڑھی اُٹھا دی گئی.اور اندر کے اندر اور باہر کے باہر رہ گئے اور ہمارے اور ہمارے دوستوں کے درمیان سمند ر حائل ہو گیا.دعا اور جہاز کی روانگی : اس علیحدگی سے پہلے جب کہ جہاز نے وسل دیا تھا حضور نے دعا کے لئے ہاتھ بڑھائے اور دوستوں کو رخصت کرنے کی دعا فرماتے تھے.دعا قدرے لمبی ہو گئی.جہاز کا
۱۲ وقت ہو گیا تھا.قلی لوگ جہاز کی سیڑھی اُٹھانا چاہتے تھے.مگر جہاز کے کپتان نے مومنٹ مومنٹ کر کے ان قلیوں کو روکے رکھا حتی کہ دعا ختم ہو گئی.چوہدری صاحب اور میاں رحمد بن بھی آگئے اور جہاز کی سیڑھی اُٹھا دی گئی.ابتدأ جہاز کا انجن خود کام نہ کرتا تھا بلکہ ایک چھوٹا سٹیمر جہاز کو کھینچتا تھا.چھوٹے سٹیمر نے جہاز کو چکر دیا اور اس کا پچھلا سرا آگے اور اگلا سرا پیچھے کر کے اس کو سیدھا کر دیا.اس لوٹا پھیری میں جہاز ایک دوسرے ڈیک کے پاس سے گزرا.ہمارے دوستوں نے جو اب تک کھڑے حضور کو دیکھتے اور دعائیں کرتے تھے اس موقع کو غنیمت جانا اور بھاگا بھاگ اس جگہ پر پہنچے جہاں سے جہاز نے گزرنا تھا اور ایک مرتبہ پھر رو بر و حضور کو السلام علیکم عرض کرتے ہوئے حاضر ہوئے.حضور نے بھی بہت محبت سے جواب دیا.دونوں طرف سے اللہ اکبر کے نعرے بلند ہوئے.اب چونکہ جہاز خود چلنے لگا تھا اور چھوٹے سٹیمر کی مدد کی ضرورت نہ رہی تھی جہاز تیزی سے روانہ ہونے لگا اور جلدی جلدی دوستوں کو نظروں سے اوجھل کرنے لگا.حضرت نے پھر ایک مرتبہ دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور فرمایا کہ دوستوں کے واسطے ایک بار پھر دعا کریں.دعا دیر تک جاری رہی حتی کہ دوست نظروں سے اوجھل ہو گئے.امام کا نمونہ : حضور نے دوستوں سے علیحدگی کے وقت جہاز کی لوٹا پھیری کی حرکات سے فائدہ اُٹھا کر عجیب محبت اور تلطف کا نمونہ دکھایا.جہاز کا جو حصہ دوستوں کے قریب ہوتا دوڑ کر و میں تشریف لے جاتے کبھی اس سرے کبھی دوسرے سرے.کبھی وسط میں اور کبھی دوسری طرف.غرض جہاز کے چاروں طرف حضور ایک بچھڑتے ہوئے بچے کی ماں کی طرح گھومتے پھرتے تھے.مجھے تو اس وقت سیدہ ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا صفا و مروہ میں اپنے پیاسے بچے کے واسطے پانی کی تلاش میں دوڑنا یا د آ گیا.میرے خیال میں بمبئی کے ساحل سمندر پر یہ نظارہ بھی اپنی نظیر آپ ہی تھا جو حضور کی اپنے خدام سے دلی محبت قلبی لگاؤ اور ماں سے بھی زیادہ محبت کا ثبوت اور دلیل ہے.بارش بھی آگئی.پانی بھی برسا.حضور کے کپڑے بھی گیلے ہوئے مگر جب تک دوست بالکل اوجھل نہ ہو گئے حضورا نہی کی طرف متوجہ رہے.
۱۳ ۱۵ / جولائی جہاز کا پہلا دن اور بحری تکالیف کی ابتدا : ۱۵؍ جولائی ۱۹۲۴ء کی صبح کو پونے کو بجے ہمارا جہاز ساحل سمندر سے روانہ ہوا.اس دن کی صبح ہی سے غالبا لمبے سفر کی کوفت کے باعث اور اسی شب کو بیداری بھی ہوئی ان وجوہات سے حضور کو در دسر کا دورہ تھا چنانچہ صبح کی نماز کے بعد حضور کی خدمت میں چائے پیش کی گئی تو حضور نے نوش نہ فرمائی کیونکہ یہ دن حضور کے سر درد کے دورہ کا دن تھا.جہاز جب روانہ ہو گیا تو حضور نے فرمایا کہ معلوم کرو کہ اس میں بے تار خبر رسانی کا آلہ بھی ہے؟ پھر فرمایا کہ اگر یہ ریل گاڑی ہوتی تو میں ضرور گاڑی کو ٹھہرانے کی زنجیر کھینچ لیتا.مجھے کچھ ایسی سخت تکلیف ہے مگر یہ جہاز ہے کچھ ہو نہیں سکتا.ساحل سمندر کے قریب قریب جس کو بمبئی کا پانی بولتے ہیں سفید رنگ کا پانی تھا جو دو تین گھنٹہ تک رہا.اس کے بعد پانی کا رنگ بدل گیا اور نیلا پانی آ گیا جو عصر کے بعد تک رہا.اس کے بعد پانی فیروزہ رنگ کا ہو گیا.بمبئی سے روانگی کے قریباً پانچ گھنٹہ بعد ہمیں ایک جہاز عدن سے بمبئی کو آتا ہوا نظر آیا جس کو دیکھ کر لوگ بہت خوش ہوئے.اسی دن شام سے پہلے ہمارے مکرم چوہدری محمد شریف صاحب طالب علم لاء کالج لا ہور کو سی سک نس (Sea Sickness) ہوئی.انہوں نے قے کی اور بہت گھبرائے.حوصلہ دلانے پر بھی نہ سنبھلے اور کہا کہ ”جو ہونا تھا سو ہو گیا اب کیا ہوسکتا ہے.“ ان کی دیکھا دیکھی ان کے دوسرے سیکنڈ کلاس ساتھی بھی ان کی تقلید کرنے لگے اور چاروں طرف سے آغوآ غو کی آوازیں آنی شروع ہو گئیں اور قریباً سب نے گوشہ گزینی اختیار کرنی شروع کر دی.حضرت کی طبیعت بھی صبح سے ہی خراب تھی ظہر و عصر کی نمازیں جمع کر کے حضور نے پڑھائیں.اس کے بعد طبیعت زیادہ خراب ہو گئی.حضور سب سے بالائی منزل میں جہاں فرسٹ کلاس ڈرائینگ روم ہے تشریف لے گئے.میں اور چوہدری علی محمد صاحب بھی ساتھ گئے اور اچھی طرح سے خدمت کی.حضور کی طبیعت صاف ہو گئی اور ہمیں آرام کرنے کا حکم دیا اور حضور خود اپنے
۱۴ کیبن ( کمرہ ) میں تشریف لے گئے جہاں ڈاکٹر صاحب حضور کی خدمت میں رہے.کمرہ حضور کا اتنا چھوٹا ہے کہ بمشکل دوسرا آدمی وہاں گزر کر سکتا ہے.ڈاکٹر صاحب حضرت کے حضور میں رہے اور باقی تمام بیمار دوستوں کی خدمت میرے اور مکرمی چوہدری فتح محمد خان صاحب کے حصہ آئی اور یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے اس سفر میں بھی مجھے خدمات کا موقع دیا اور اس طرح سے ان بزرگوں کو شرمندگی سے بچا لیا جنہوں نے حضور کے ہمرکاب میرے ہی آنے پر زور دیا تھا.۱۶ / جولائی : رات گزری دوسرا دن آیا دوسرا دن بھی گزرا.دوسری رات آئی وہ بھی گزری.تیسرا دن آگیا.وہ مرغوب چیزیں اور محبوب کھانے جو خشکی پر چھینا جھپٹی کر کے بھی لے لئے جایا کرتے تھے یکدم ایسے بھولے کہ ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنا بھی معیوب معلوم ہوتا تھا بلکہ بعض اوقات ان کے نام لینے سے لئے آ جاتی تھی.پورے دو دن اکثر دوستوں کے اسی حالت میں گزر گئے.جو لیٹا اسے اُٹھنے کی ہمت نہ ہوئی.لیٹے ہوئے کو کپڑا اوڑھنے تک کی طاقت نہ تھی.دوائی تک بھی لیٹے لیٹے کسی کے منہ میں ڈالی جاتی تھی.ہمارے ڈاکٹر صاحب بے چارے کرسی پر سے اسی غفلت میں ایسے گرے کہ ناک اور پیشانی پر متعدد گہرے زخم آگئے اٹھنے کی ہوش نہ رہی.خون تک پونچھنے کی ہمت نہ ہوئی.غرض عجیب قسم کا سماں تھا جو جہاں پڑ گیا بس پڑا رہا.اُٹھنے کو نہ دل چاہانہ ہی اُٹھنے کی ہمت ہوئی.حضور سفر کے پہلے دن عصر کے بعد اپنے کیبن میں تشریف لے گئے.دوسرے دن باہر تشریف نہ لائے مگر سب دوستوں کا نام بنام حال دریافت فرماتے رہے.دوسرا دن پہلے دن سے زیادہ سخت تھا.طوفان شروع ہو چکا تھا.حالت بدتر ہو رہی تھی.ہائے وائے کی آواز میں آ رہی تھیں.بہتوں نے کچھ نہ کھایا بعض نے صرف ایک آدھ سنترہ پر دن گزار دیا.۱۷ جولائی ، تکالیف میں اضافہ: تیسرے دن طوفان کا اور بھی زور تھا اور حالت خطر ناک نظر آتی تھی.میاں رحمدین کہتا تھا کاش واپس جانے کا کوئی راستہ ہوتا اور میں واپس جا سکتا.کبھی معلوم کرتا تھا کہ کیا لنڈن جانے کا خشکی کا کوئی راستہ نہیں ؟ کبھی مجھے کہتا تھا کہ بھائی آپ کو بھی خوف آتا ہے یا نہیں ؟ مگر جب میں نفی میں جواب دیتا تو کہتا کہ نہیں آپ کو ضرور دل میں خوف
۱۵ لگتا ہے مگر آپ ظاہر نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ.چوہدری علی محمد صاحب کہتے تھے کہ کاش مجھے ان حالات کا علم ہوتا اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ایسے خطر ناک حالات پیش آئیں گے تو میں حضور کو کبھی بھی سمندر کے ایسے خطر ناک سفر کے لئے نہ آنے دیتا اور اپنا پورا زور ساری طاقت اس بات کے لئے صرف کر دیتا کہ جس طرح بن پڑے حضور خود یہ سفر نہ کریں.اب یہ حالات دیکھ کر پچھتاتا ہوں.ایک غلط نہی : چوہدری علی محمد صاحب کی روایت ہے کہ شیخ یعقوب علی صاحب نے گھبرا کر کہا کہ ہمارے اولوالعزم بھی کیسے ہیں ہمیں کہاں لا ڈالا ہے.( بعد میں معلوم ہوا کہ یہ خود چوہدری صاحب ہی کا خیال تھا.خیال کے وقت کہیں شیخ صاحب سامنے آگئے تو چو ہدری صاحب کو یہی خیال پختہ ہو گیا کہ شیخ صاحب نے ایسا کہا ہے جب کہ شیخ صاحب نے ایسا نہ کہا تھا.زبانی شیخ صاحب عرفانی) گو حضور کو حرارت تھی اور طوفان کی شدت اور جہاز کی بے طرح حرکت سے حضور بھی اس قابل نہ تھے کہ اُٹھتے مگر محض دوستوں کی دلجوئی کی خاطر حضور نے اپنا آرام قربان کیا اور باہر تشریف لائے.اول وہ آم منگائے جو عزیز اسلم صاحب نے بڑے اخلاص سے فرخ آباد سے لے کر متھرا جنکشن پر پیش کر کے درخواست کی تھی کہ حضور ضرور ان میں سے کچھ نوش فرما ئیں اور ساتھ ہی خان صاحب عبدالغفار خان صاحب آف قائم گنج کے آوردہ آم بھی منگائے.ایک حصہ جہاز کے افسروں کے واسطے اپنے دست مبارک سے الگ کیا اور دوسرا باہر بھیج کر فرمایا کہ برف منگا کر ان کو ٹھنڈا کیا جاوے ہم بھی آویں گے.سیکنڈ کلاس ڈرائینگ روم کے سایہ دار ورائڈہ میں نوش کیا گیا.آم ٹھنڈے کئے گئے.حضور کرسی پر تشریف فرما تھے اپنے ہاتھ سے نسل نسل کے آم تراش کر قاش بنانے کے واسطے مجھے اور چوہدری فتح محمد صاحب کو دیئے.سب دوستوں کو بلوایا حتی کہ شیخ صاحب مصری جو برابر تین دن رات اپنی جگہ سے نہ ہلے تھے اور ایک کہنہ مشق سادھو کی طرح ایک ہی حالت میں تپسیا کا منظر دکھا رہے تھے ان کو بھی کھینچ تان کر بلوایا گیا.شیخ صاحب عرفانی جو حضور کے ہمرکاب ایک جرنلسٹ کی حیثیت میں آئے تھے اور برابر تین دن رات سے زیریں حصہ ڈیک میں پڑے تھے ان کو بھی بلوایا گیا
17 مگر یہ دونوں صاحب چند منٹ کی نشت کے بعد حضور سے اجازت لے کر واپس چلے گئے اور بیٹھنے کی تاب نہ لا سکے.بھائی جی اور چوہدری فتح محمد خان صاحب کو خدمت کی توفیق ملی : اس موقع پر حضور نے دوستوں کی عیادت فرمائی اور حال پرسی کی.سب نے خادم قادیانی اور مکرمی چوہدری فتح محمد خان صاحب کا شکریہ ادا کیا اور مرحبا جزاک اللہ اور تحسین و آفرین کہی.اس پر حضور بہت خوش ہوئے اور فرمایا اب بتاؤ اگر آپ لوگوں میں سے ہر ایک خادم تھا اور کسی خادم کی ضرورت نہ تھی اگر آپ کے مشورہ پر عمل کیا جاتا تو آج کیا حال ہوتا؟ کوئی پانی پوچھنے والا بھی نہ ہوتا.ہر ایک اپنی جگہ بے کسی اور بے بسی کی حالت میں نہ معلوم کیا کچھ کرتا اور کر بیٹھتا.بعض دوستوں نے سر جھکا لئے.بعض نے عرض کیا کہ حضور ہم تو اس بات کی تائید میں تھے کہ ضرور بھائی جی کو کم از کم جانا چاہئیے وغیرہ.مگر حضور نے فرمایا جوفر مایا اور کہا کہ صرف ایک شخص حضرت میاں بشیر احمد صاحب سلمہ ربہ ) اس امر کی تائید میں رہے اول سے آخر تک کہ آدمی جانا چاہئیے اور وہ بھائی جی ہوں باقی لوگ عام طور پر مخالف ہی تھے اور کہتے تھے کہ کیا ضرورت ہے ہم سب لوگ حضور کے خادم ہیں.فرمایا : ان دنوں میں اس سفر کے دوران میں بھائی جی اور چوہدری فتح محمد خان صاحب نے شیروں کا کام کیا ہے.جزاهم الله تعالى احسن الجزاء اور باقی لوگ گیڈر بلکہ گیڈر بھی تو نہیں بن سکے.آم حضور نے کھائے.لوگوں کو کھلوائے.پاس ہی ایک لیڈی تھی اس کو اور دو بچے تھے ان کو بھی حصہ دلایا.بہت خوش ہوئے.آم کی عمدگی اور خوش مزگی کی تعریف فرمائی.بار بار اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور لانے والوں کے واسطے خاص طور پر دعائیں کیں اور دوستوں کو بھی دعا کے واسطے حکم دیا.( عزیز اسلم اور عبدالغفار خان صاحب کو مبارکبادصد ہزاراں ) دعاؤں کے بعد جلسہ ختم ہوا.حضور تین بجے کے بعد اندر تشریف لے گئے.بمبئی میں عزیز با بوعبد الغنی صاحب کو مولوی رحیم بخش صاحب بعض مقامات پر تار دینے کو کہہ آئے تھے لنڈن ، مصر،
۱۷ قا دیان وغیرہ روانگی جہاز کی اطلاع کے.بے تار کا برقی پیغام : اس عزیز نے ان امور کی تعمیل کر کے ایک تار دیا جو ہمیں تیسرے دن جہاز میں وائر لیس ٹیلیگرافی سے ملا.مضمون تار تھا کہ تمام احکام کی تعمیل کر دی گئی ہے.یہ تار بھی عجائبات قدرت کا ایک کرشمہ تھا.اِذَ الصُّحُفُ نُشِرَتْ کا وعدہ خاص کر حضرت مسیح موعود کے لئے تھا.اس کی تکمیل ہوتی دیکھ کر خدا تعالیٰ کے حضور سجدات کو دل چاہتا ہے.اسی دن سید نا حضرت خلیفۃ المسیح کے حکم سے ایک تار قادیان کو حضرت امیر جماعت کی خدمت میں بھجوایا گیا جس کا مضمون یہ تھا.تار جو قادیان میں بھیجا : "سمندر بہت ہی ناہموار ہے.تمام دوست سوائے بھائی جی اور سیال صاحب کے بیمار ہیں حضرت کی طبیعت رو بصحت ہے.یه تا ر ۳۵ حروف کا تھا.چھبیس روپے خرچ ہوئے جو اس مقام سے اس تار جا سکنے کے مقابلہ میں ۲۶ کوڑی سے بھی کم قیمت تھے.تار بھیج کر یہاں کے دوستوں میں ایک سکون اور اطمینان تھا کہ تا رقادیان میں ہماری حالت کا پہنچا وہاں کے دوست ضرور دعائیں کریں گے اور رحمت الہی کا نزول ہو کر ہماری مدد آسمان سے ہو گی.اسی تیسرے دن ان دوستوں کی حالت کا نقشہ لینے کی خواہش پیدا ہوئی تا کہ قادیان اور دوسری جماعتوں کے دوستوں کو مسافروں کی صحیح حالت کا نقشہ دکھا کر بتایا جا سکے کہ یہ لوگ اس قدر قربانی کر رہے ہیں اور کیسی مشکلات اور جان جوکھوں میں ڈال کر اعلائے کلمتہ اللہ کی خاطر ایسے سفر کر رہے ہیں تا بعض لوگوں کے اس خیال کی تردید ہو سکے جو کہتے ہیں کہ سیر و تما شا غرض ہے اس سفر کی ، مگر فوٹو کی تیاریاں ہی تھیں کہ لیٹے ہوئے بزرگوں کو پتہ لگ گیا کہ ہماری اس حالت کا فوٹولیا جانے لگا ہے، گرتے پڑتے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی اصلی حالت کا فوٹو سوائے صرف ایک بزرگ مستقل مزاج شیخ صاحب مصری کے اور کسی نے نہ لینے دیا.عرفانی صاحب ایسی جگہ تھے جہاں سے فوٹو لیا نہ جاسکتا تھا ورنہ تجویز تھی کہ ان کی فوٹو پر لکھا جاوے’عرفانی ٹیلنگ نوٹس.مصری میگنگ ورشپ - خان صاحب وزیٹنگ آفیسرز - رحمدین میگنگ فوڈ وغیرہ وغیرہ.مگر دوستوں کی خبر داری
۱۸ سے وہ نقشہ جم نہ سکا اور ہمارے بھائی حقیقت حال اور ٹھیک نقشہ کے دیکھنے سے محروم رہ گئے تا ہم چند فوٹو لے لئے گئے جو غالبا حضرت میاں صاحب لنڈن پہنچ کر ٹھیک بنانے کی کوشش کریں گے.غیر معمولی شدت تلاطم : ہمارے دوست تو خیرا کثر کا پہلاسفر تھا.حالات کی شدت کا پتہ اس امر سے لگ سکتا ہے کہ جہاز کے عملہ کا اکثر حصہ بیمار پڑ گیا اور جہاز والوں کو حضرت سے مدد کی درخواست کرنی پڑی.کھانا وغیرہ وقت سے بے وقت ملنے لگا اور ان کے ہسپتال کے کمرہ میں کوئی جگہ باقی نہ رہی اور ان میں بھی گھبراہٹ کے آثار نظر آنے لگے.جہاز کا چوتھا دن : تیسرے دن کے بعد کی رات خطر ناک تھی.جہاز کے ہر حصہ میں پانی پھرتا تھا.اونچے سے اونچا حصہ بھی سمندر کی لہروں سے محفوظ نہ تھا.فرسٹ کلاس ڈرائینگ روم سب سے او پر تھا مگر وہاں بھی لہروں کے تھپیڑے پہنچ کر ورا نڈا کے فرش کو تر بہ تر کر دیتے تھے.ہم لوگ عموماً فرسٹ کلاس ڈیک پر رہتے ہیں مگر وہ ایسی حالت میں تھا کہ ایک لمحہ کے واسطے بھی خشک نہ ہوتا تھا ڈیک چیر ز ( کرسی ) بالکل بریکا رتھیں.کپڑے ، بسترے اور تمام سامان تر تھا - الامان الحفیظ - ذرا وقفہ دیکھ کر جو لیٹے تو پانی کی رو آئی اور آدمی لڑ کھنے لگے.جوں توں کر کے رات گزاری.صبح ہوئی نمازیں اپنی اپنی جگہ پر ادا کی گئیں.حکم تھا صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ - حضور کی طبعیت پرسی کے واسطے گیا تو ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ حرارت تیز ہو گئی ہے اور طبیعت زیادہ خراب ہے.دل پریشان ہوا.دوستوں کو اطلاع دی گئی.سب دعاؤں میں لگ گئے.ہمارا جہاز پانی کے اوپر قریب ۲۰ فٹ کے بلند ہے مگر بعض اوقات لہریں ایسی خطرناک حالت میں آتی تھیں کہ جہاز کے اوپر ۲۰ فٹ اور بلند ہو جایا کرتی تھیں.حضور زیادہ تکلیف کی وجہ سے بالکل بالائی منزل میں تشریف رکھتے تھے.دفعہ ایک لہر ایسی اٹھی کہ اس سے پہلے کبھی نہ اٹھی تھی حضور کا تمام لباس مبارک بھیگ گیا اور تمام جہاز اس کی زد اور ٹکر سے کانپ گیا اور چندلحہ کے واسطے جہاز ایسا نظر آتا تھا کہ زیر آب ہو گیا ہے.الامان الحفیظ.حضور فور اوہاں سے تشریف لے آئے.کمرہ میں آئے اور باتوں باتوں میں فرمایا کہ جی چاہتا ہے کہ صرف ایک شعر ہی تار میں
۱۹ قادیان پہنچا دیا جاوے.شب تاریک و بیم موج و گرداب چنیں حائل کجا دانند حال ما سبک ساران ساحل با مگر کسی خادم نے عرض کیا حضور ایسا شعر قادیان میں جا کر نہ معلوم کیا حالت پیدا کر دے.بہتر یہی ہے کہ اللہ پر توکل کر کے حالت امن ہی کی اب وہاں اطلاع دی جاوے.ایک تار پہلے جا چکا ہے اس سے نہ معلوم کیا خوف و خطر وہاں پیدا ہوا ہو گا اب اس مضمون سے اور بھی حالت نازک ہوگی.چوتھا دن : جہاز کے سفر کے چوتھے دن جمعہ تھا مگر طوفان کا ایسا شدید زور تھا اور حالات ایسے خطر ناک تھے کہ نماز جمعہ بھی ادا نہ ہوسکی.نماز ظہر وعصر اپنے اپنے مقام پر ملا کر ادا کی گئیں اور جو جہاں تھا اپنے حال میں پڑا دعائیں کرتا رہا.حضور نے دوستوں کے واسطے مجموعی طور پر دعائیں بھی کیں اور حضور کے ہمرکاب غلاموں نے بھی دعاؤں میں وقت گزارا.چوتھے دن کی چوتھی رات بھی تیسری رات سے کم خطرناک نہ تھی.سقوطری جزیزہ قریب تھا جہاں خصوصیت سے ہوا تیز اور مند اور چکر دار ہوا کرتی ہے.ان حالات کا نقشہ صرف وہ دوست ٹھیک طور پر کھینچ سکتے ہیں جنہوں نے طوفانی حالات میں جہازوں کے سفر کئے ہیں.بار بارطوفان کی خطرناک حالت کا دہرانا اور اپنی تکالیف یا خدمات کا ذکر کرنا مجھے اس سے شرم آتی ہے.خلاصہ در خلاصہ یہ ہے کہ دن بہت خطرناک تھے اور خوف وخطر در پیش تھا.کام اور فاقہ مزید برآں یہ رات بھی اللہ کریم نے اپنے فضل سے گزار دی.مکر می چو ہدری فتح محمد خان صاحب سیکنڈ کلاس پسنجر تھے.ٹکٹ ود فوڈ (With Food) تھا.کھانے کے میز پر سوائے ان کے اور تو کوئی جاتا نہ تھا.ہل سکتا تو جاتا بھی.سب کے لئے کچھ اُٹھا لاتے تھے جس سے جہاز کے کارکن ان کو پیٹو کہنے لگے اور کہ وہ بہت ہی بلانوش ہیں.دوسری مشکل چوہدری صاحب کو یہ تھی کہ وہ اگر دوستوں کے نام سے کوئی چیز منگاتے ، نو کر لاتے تو یہ بزرگ کہہ دیتے کہ ہمیں ضرورت نہیں.نہ خود کھاتے نہ تھرڈ کلاس والوں کو دیتے.
غرض چار روز اسی طرح سے گزر گئے.کھان پان کا کوئی انتظام نہ تھا.کسی نے صرف ایک سنترہ پر گزر کیا کسی نے ایک ٹوسٹ روٹی پر دن رات بسر کر دیئے.ایک آدھ مرتبہ میاں رحمدین نے کچھ کوشش بھی کی کہ کچھ پکائے مگر نا کام- ایک قدم اُٹھتا پھر سر پکڑ کر لیٹ جاتا تھا.لیٹنے والے تو کھانے کی طرف راغب ہی نہ ہوتے تھے مگر میرا اب بھوک نے ناک میں دم کر لیا.ضعف بڑھنے لگا اور میری حالت مارے بھوک کے دگرگوں ہونے لگی.حضور کو ان حالات کا علم ہوا.چوہدری فتح محمد خان صاحب کو کہلا بھیجا کہ دس منٹ کے اندر اندر ا نتظام کر دیں ورنہ پھر ہم خود کریں گے مگر اللہ تعالیٰ بھلا کرے چوہدری صاحب کا وہ پہلے ہی سے فکر میں تھے.اس حکم کے پہنچتے ہی چار بریڈ (Bread) اور بٹر (Buter) لے آئے جس میں سے دو میں نے کھا کر ناشتہ کیا اور دو دوسرے دوستوں نے لقمہ لقمہ کر کے لے لئے.سمندر میں پانچواں دن: پانچویں دن کی صبح کچھ حوصلہ افزا تھی.دوسفید پرندے اڑتے ہوئے نظر آئے جن کو سی گل کے نام سے یاد کرتے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ جانور بعض اوقات ایک سو میل سے بھی زیادہ فاصلہ تک اُڑے چلے جاتے ہیں.ہم ان پرندوں کو دیکھ کر خوش ہوئے کہ کوئی خشکی قریب ہے مگر اس وقت جب کہ میں خط لکھ رہا ہوں برابر ۲۰ گھنٹہ جہاز کو چلتے ہو گئے ہیں کوئی خشکی نظر نہیں آئی.جہاز ساڑھے آٹھ ناٹ (سمندری میل ) کے حساب سے چل رہا تھا مگر ابھی تک خشکی کا نام نہیں البتہ پرند سفید و سیاہ پہلے سے زیادہ نظر آنے لگے ہیں.پھر تھوڑی دیر بعد دُور سے ایک جہاز کا دھواں نظر آیا.جہاز کا نام آنا تھا کہ تمام مسافر اور جہاز کا کل عملہ بالائی ڈیک پر جمع ہو گئے.فرسٹ کلاس پسنجر بھی اپنی کھڑکیوں سے جھانکنے لگے.ڈور بین جن مسافروں کے پاس تھی وہ دُور بینوں سے اور باقی اپنی نظروں کی ڈور بین سے دیکھنے لگے.کوئی ایک گھنٹہ کے بعد وہ جہاز قریب ہوا دکھائی دیا مگر مسافر نہ نظر آتے تھے.آخر دو گھنٹہ کے بعد وہ ایسا قریب آ گیا کہ اس کا ایک فوٹو بھی لے لیا گیا.قریباً تین گھنٹہ تک بڑی دلچسپی کے سامان رہے.جہازوں کی دوڑ ہوئی.ہمارا جہاز آگے نکل گیا دوسرا بہت پیچھے رہ گیا.ایک بجے ہمارا جہاز کھانے کے واسطے تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر گیا تو دوسرا جہاز آگے نکل گیا مگر تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ ہم نے اسے پھر پکڑ لیا اور اس سے آگے نکل گئے اور اتنے آگے نکلے کہ پھر وہ دکھائی بھی نہ دیا.دراصل
۲۱ وہ ایک کارگو ( بار برداری کا جہاز ) تھا کراچی سے عدن کو جاتا تھا.اٹالین کمپنی کا تھا.اس وقت سے دوستوں میں حرکت کے آثار پیدا ہوئے حتی کہ ہمارے مستقل مزاج شیخ صاحب مصری نے بھی اپنی جگہ چھوڑی اور دوستوں میں بھی چہچہاہٹ شروع ہوگئی.جہاز کے کھانا پکانے والوں سے کہہ سن کر کچھ آلو اور چاول ابلوانے کا انتظام کیا گیا جو انہوں نے اپنے مذاق کے مطابق اُبال کر دیئے.کچھ کھائے کچھ پھینکے.اُبلے ہوئے آلو بھائی رحمد بن صاحب نے نمک مرچ لگا کر اور لیموں نچوڑ کر اچھے چٹ پٹے بنا دیئے.سب نے کھائے اور خوش ہوئے مگر مولوی رحیم بخش صاحب کو قے ہوگئی اور ان کی طبیعت سنبھلتی سنبھلتی پھر بگڑ گئی.سید نا حضرت خلیفہ امسیح کی طبیعت بھی صاف ہو گئی.حضور نے باقی آم منگائے.اپنے ہی کمرہ میں ٹھنڈے کرائے.اپنے واسطے رکھ کر باقی دوستوں میں تقسیم کرنے کی غرض سے باہر بھجوا دیئے اور حکم بھیجا کہ سب مل کر کھائیں.عصر کی نماز کے بعد حضور باہر تشریف لائے.موسمی حالت کے متعلق قادیان میں اطلاع کی غرض سے ایک لمبا تا ر اپنے دست مبارک سے اپنے نوٹ بک میں لکھا اور فرمایا کہ نیچے میرا نام لکھا جاوے.تا رلکھا گیا جو حسب ذیل تھا :- بخدمت مولوی شیر علی صاحب قادیان After five days Constant shaking and rolling the ship is becoming steady.The last five days experince beyond description.Thank God now the reverest part of voyage has passed.God willing will reach Aden Tuesday.Khalifatulmassih رو مگر اس تار کو اول عدن جانا اور پھر عدن سے بمبئی ہوتے ہوئے قادیان پہنچنا تھا.پچاسی پے خرچ ہوتے تھے.دیگر تا رتھی زیادہ خوف دلانے والی اس وجہ سے روک کر دوسری تار دی گئی.Weather improving God willing reaching Adan
Tuesday.۲۲ Khalifatulmassih میں نے حضور کے تار کے اصل الفاظ لکھ کر جو حضور نے اپنے قلم سے لکھے اور تار میں اپنا نام لکھنے کی ہدایت کی میں سمجھتا ہوں سفر کی اصلی حالت کا پورا فوٹو آپ تک پہنچا دیا ہے.حضور کے الفاظ "The last five days experince beyond description." ساری حقیقت کے انکشاف کے لئے کافی ہیں.الفاظ یہ ہیں اور ان کے لکھنے والا وہ انسان ہے جس کا نام خدا نے اولوالعزم رکھا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ میں نے سفر کی حالت کا پورا فوٹو آپ تک پہنچا دیا ہے.اس تار کے ساتھ ساتھ ایک اور تار حضور نے عدن کے ڈاکٹر جلال الدین صاحب کو دیا کہ ہم انشاء اللہ منگل کو عدن پہنچیں گے دوسرے احمدیوں کو بھی اطلاع دے دیں.آج شام اور عشاء کی نمازیں حضور نے خود باجماعت ادا کرا ئیں اور اپنے کمرے میں تشریف لے گئے.جہاز کے سفر میں یہ پہلا دن تھا کہ حضور نے اپنے کمرہ سے باہر دوستوں میں مل کر با جماعت مغرب و عشاء پڑھائی.یوں تو حضور نے کوئی نماز تنہا نہیں پڑھی با جماعت ہی پڑھتے رہے کیونکہ ڈاکٹر صاحب ہمیشہ حضور کے پاس رہتے تھے ان کو ساتھ لے کر نماز با جماعت کرالیتے تھے.ٹھیک ساڑھے چار دن کے بعد شیخ عبدالرحمن صاحب مصری اپنی جگہ سے اُٹھے ، ہوش سنبھالے اور اپنے آپ میں قائم ہوئے.اس سارے عرصہ میں انہوں نے بمشکل ۶ سنترہ کھائے ہوں گے یا ایک دو لیموں اور دو ایک مرتبہ چٹنی کے دو لقمے اور بس.مگر اب اُٹھتے ہی وہ ساری کسریں نکالنے لگے ہیں.پلاؤ ، زردہ ، قورمہ ، مرغ اور مچھلی یا دکراتے ہیں اور ہمارے آلو چاول کو کھانا پسند نہیں کرتے.کل شام حضور نے جہاز کے عملہ اعلیٰ اور خاص خاص مسافروں کو ایک ڈنر دینے کا ارادہ فرمایا جس کے لئے میاں رحمد بین صاحب سے پوچھا کہ کیا کیا پکا سکو گے.پلاؤ اعلیٰ قسم ، زردہ عمدہ ترین ، ایک قسم کا گوشت سبزی والا سالن بیٹھی دال اور بادام کی مٹھائی کی تجویز ہوئی جس کے لئے حکم ہوا کہ عدن پہنچتے ہی تمام سامان عبدالرحمن قادیانی خریدے.دعوت عدن سے نکل کر دی جاوے
۲۳ گی اور ایک شرط ساتھ ہو گی کہ اس ڈنر کے روز میز پر شراب کی کوئی قسم بھی استعمال نہ کی جاوے.حضور نے جو کچھ آم عملہ میں تقسیم کئے ہیں ان کا بہت بڑا اثر ہے اور وہ لوگ بہت محبت احترام اور عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور بات سنتے ہیں.ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نے ایک دو ڈاکٹروں سے جو جہاز میں ملازم ہیں تعارف پیدا کیا ہے اور بڑے ڈاکٹر کو پرنس آف ویلز اور ٹیچنگ آف اسلام دی ہیں جن کو وہ پڑھنے کا وعدہ کر کے لے گیا ہے اور شکریہ ادا کرتا تھا.اٹالین لوگ ہونے کی وجہ سے انگریزی سے نا آشنا ہیں اس وجہ سے ان کو تبلیغ میں مشکلات ہیں.نہ وہ ہماری سمجھیں نہ ہم ان کی سمجھ سکیں.تین آدمی اس جہاز میں چینی ہیں جو آج معلوم ہوا ( چھٹے روز ۲۰ جولائی کو ) کہ مسلمان ہیں.دھوبی کا کام کرتے ہیں.چھٹا دن جہاز میں چھٹا دن جہازی سفر کا یعنی ۲۰ / جولائی اتوار کا دن گویا یہ جہازی لوگوں کے لئے عید کا دن ہے.سمندر بڑی حد تک ساکن ہے.ہوا کم ہے.دھوپ نکلی ہوئی ہے.لوگ اپنی اپنی جگہ چھوڑ کر ادھر ادھر پھرتے ہیں.کپڑے جو 4 دن سے بھیگے ہوئے خشک نہ ہوئے تھے آج دھوپ میں پھیلائے گئے ہیں.جہاز کے وہ روشندان جو لہروں اور طوفان کے پانی کی وجہ سے بند کر دیئے گئے تھے آج کھول دیئے ہیں اور آج جہاز میں ایک قسم کی چہل پہل نظر آتی ہے.لوگوں نے کپڑے بدل دیئے ہیں اور میلے کپڑے دھوبیوں کے حوالے کر دیئے گئے ہیں.4 دن سے دھو بیوں کو کہا جاتا ہے کہ کپڑے دھو د و مگر وہ کہتے تھے جب تک پہلے کپڑے خشک نہ ہوں اور کیوں کر دھوئیں.دھوبیوں نے بھی آج جہاز کو سفید کپڑوں سے جھنڈیوں کی طرح رسیوں پر خشک ہونے کو لٹکا کر سجا دیا ہے.چوہدری محمد شریف صاحب جو سب سے اول نمبر پر بیمار ہوئے تھے سب سے آخر اُٹھے ہیں اور حضرت کے کمرہ تک چل کر آج صبح ہی آئے ہیں.حافظ صاحب بھی کل سے اُٹھے ہوئے ہیں.شیخ صاحب عرفانی بھی ایک دو مرتبہ اوپر ہو گئے ہیں مگر جو اپنی جگہ سے نہیں ہلے وہ ہیں مولوی عبدالرحیم صاحب در د حضرت صاحب کے پرائیویٹ سیکرٹری.حضور نے کل شام وعشاء کی نمازیں ان کے پاس پڑھائیں مگر وہ نہ اُٹھے اور نہ اُٹھ سکے.حضور کا کمرہ انہوں نے ابھی تک دیکھا تک بھی نہیں.العجب ثم العجب - میاں رحمد بن صاحب کو آج پھر دو تین مرتبہ ئے ہو گئی.
۲۴ جہاز اور ہمارا حال : جہاز میں پانچ ٹکٹ سینڈ کلاس کے ، سات ٹکٹ ڈیک کے ہیں اور ایک ٹکٹ سید نا حضرت خلیفہ امسیح کا فرسٹ کلاس کا ہے.سیکنڈ کلاس پسنجرز کے واسطے کیبن ہیں مگر ہمارے دوستوں میں سے ایک بھی کبھی رات کے لئے تو کیا ایک گھنٹہ کے واسطے بھی ان کیبنوں میں نہیں رہا.ہمارے حافظ صاحب ایک ہی مرتبہ اپنے درجہ کے جائے ضرور میں رفع حاجت کی غرض سے گئے تھے تو ان کو قے ہو گئی.چوہدری محمد شریف صاحب کا قول ہے کہ جلتی آگ اور طوفانی سمندر سے وہ خوف نہیں آتا جو نیچے کے حصہ کے کیبن میں جانے سے آتا ہے.ان سب بزرگوں نے یہ پانچ دن کی سختی اور ہوا اور طوفان کی بوچھاڑ سب کچھ بالائی ڈرائینگ روم میں بسر کیا.ڈیک کے مسافروں کا حال سیکنڈ کلاس پسنجرز کے حال سے اندازہ ہوسکتا ہے جن کے واسطے نہ کوئی کمرہ نہ مکان نہ سامان رکھنے کی جگہ نہ سونے کا مقام - جو حصہ ان کے واسطے رکھا گیا ہے اس کی دو قسمیں ہیں، ایک جہاز کے اگلے حصہ میں دوسرا سیکنڈ کلاس اور فرسٹ کلاس کے درمیان نیچے کے حصہ میں.اگلا حصہ تو بالکل نا قابل استعمال ثابت ہوا ہے اور شاید ایک گھنٹہ کے لئے بھی مسافر وہاں آرام نہیں پاسکے.چند ہندوستانی گجراتی.عدن کے تاجر مسافر وہاں مقیم تھے مگر ان کے سامان - پارچات-خوراک سب نذر آب ہو گئے اور وہ بے چارے دریا کے کنارہ کے طوفان زدہ بدنصیب گاؤں کے باشندوں کی طرح بے خانماں ہو رہے ہیں.ان کو دیکھ دیکھ کر رحم آتا ہے اور جہاز والوں کے ظلم کا ثبوت ملتا ہے کہ کرایہ لے کر کوئی صورت آرام کی پیدا نہیں کی.دوسرے حصہ کا ایک حصہ واقف کار یہودیوں نے روکا ہوا ہے اور بڑے لمبے چوڑے گریلے بچھا کر لیٹے ہوئے ہیں.صرف ایک آدمی کے سونے کی جگہ بمشکل اور تنگ و تاریک کنارہ ہمارے حصہ میں آیا جہاں ہمارا سامان بھی نہیں ٹک سکا مگر مصلحت الہی اور اس کے فضلوں نے ہمیں سب سے زیادہ آرام میں رکھا اور وہ یہودی بھی طوفانی حالت میں بھاگے بھاگے پھرا کرتے ہیں.امن اگر کچھ ڈیک مسافروں کو ملا تو یہ صرف ہمارے حصہ میں آیا جس کو لوگوں نے ردی سمجھ کر چھوڑ دیا وہی کام کی جگہ ثابت ہوئی اور محفوظ مقام بن گیا.سید نا حضرت خلیفتہ امسیح کی موجودگی ہمارے واسطے بہت بڑی رحمت بنی ہوئی ہے.حضور کے طفیل ہم لوگ گویا سب کے سب فرسٹ کلاس پسنجر ہیں اور جو آرام ہمیں حضور کی ہمرکابی کی
۲۵ بدولت نصیب ہے اس کا اندازہ نہیں البتہ ایک مثال سے شاید سمجھ میں آ سکے.ایک ہندو طالب علم ہم سفر : ایک گریجوایٹ طالب علم بی.ایس.سی مالدار ہند و جرمن چمڑہ کا کام سیکھنے کو جا رہا ہے وہ بھی تھرڈ کلاس ڈیک پسنجر ہے.جہاز میں داخل ہو کر اس کے حالات کے مطالعہ کے بعد کیپٹن جہاز سے مل کر اس نے ایک کمرہ دو پونڈ کرایہ پر عدن تک کے لئے حاصل کیا.۴ پونڈ خوراک کے داخل کئے گویا نوے روپے اس نے زائد خرچ کئے.مگر کل رات روتا ہوالرزاں وتر ساں ہمارے پاس آیا اور ایک ایک سے منت سماجت کی اور کہا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے.میرے پاس روپیہ ہے اور میں ڈرتا ہوں کہ مجھے وہ سیلرز (Sailors) جن کے ساتھ میں رہتا ہوں روپیہ چھین کر سمندر میں نہ ڈال دیں.لہذا آپ لوگ مجھ پر رحم کریں اور میری مدد کریں اور اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دیں.اس بے چارے کی حالت اس قدر قابل رحم تھی کہ سب کو رحم آ گیا اور یک زبان سب نے اس کی مدد کا وعدہ کیا.اس کا سامان منگا لیا گیا اور اس کو اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دی گئی جہاں ایک رات گزار کر وہ بہت ہی مشکور ہوا.کھانا تک بھی اس نے ہمارے ساتھ ہمارا پکا ہوا کھایا.غرض خدا کے فضلوں کا بیان نہیں کیا جا سکتا جو ہم لوگوں پر حضور کی موجودگی کی وجہ سے ہور ہے ہیں.الحمد للہ الحمد لل ثم الحمد لله الهم ز دفز و لطیفہ : ہمارے مکرم چوہدری علی محمد صاحب تین دن تک بڑی حیرت اور استعجاب سے دوستوں سے کہتے رہے کہ خدا جانے نمک یہاں کہاں سے آ گیا ہے.جب زبان ہونٹوں پر پھیر تا ہوں نمکین مزہ ہوتا ہے.ان کو معلوم نہ تھا کہ سمندر کا پانی نمکین اور کھاری ہوتا ہے.صاحبزادہ حضرت میاں شریف احمد صاحب نے ان کو بتایا کہ سمندر کا پانی کھاری ہوتا ہے.اس پر انہوں نے تعجب کیا اور بتایا کہ میں حیران تھا کہ کیوں ہر وقت میری زبان اور ہونٹ نمکین رہتے ہیں.حضور کی مجلس میں اس کا ذکر آیا.فرمایا علیمحمد پورا مولوی ہے اس کی نظر صرف عـــــذب فُرَات پر ہی رہی مِلْحٌ اُجاج یاد نہیں رہا.مولوی میرک شاہ کی طرح جس نے پوچھا تھا کسی حاشیہ نشین سے کہ دیو بندکس ضلع میں واقع ہے.اس طرح سے چوہدری علی محمد صاحب اب پورے مولوی
۲۶ صاحب کہلانے لگے.واپسی کے متعلق حضور نے گل باتوں باتوں میں ذکر فر مایا کہ انشاء اللہ ۲۰ نومبر قادیان پہنچ جائیں گے.فرمایا پہلے سی سک نس Sea Sickness) تھی.اب ہوم سک نس (Home Sickness) شروع ہو گئی ہے.ہر وقت خیال قادیان ہی کا رہتا ہے چنانچہ حضور نے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کی نظم کے جواب میں ایک نظم لکھی ہے جو ریل میں سنائی تھی اس میں حُبّ قادیان کا جس قدر ذکر ہے اس کا اندازہ آپ لوگ کر سکتے ہیں غالبا اس خط پہنچنے تک وہ شائع ہو چکی ہوگی.حضور کے دل میں قادیان اور جماعت قادیان کی جو محبت ہے اس کا اندازہ حروف اور الفاظ ہرگز ہر گز نہیں کر سکتے.کچھ نقشہ اس کا حضور کے اس تار سے معلوم ہوسکتا ہے جو حضور نے بمبئی سے روانگی سے قبل اپنے ہاتھ سے لکھ کر صاحبزادہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب سلمہ رتبہ اور حضرت مولوی شیر علی صاحبان کی معرفت جماعت کو پہنچایا تھا.کیا ہی دردناک الفاظ اور کیا ہی پیار سے بھرے ہوئے الفاظ ہیں وہ سب خود حضرت نے اپنے دل سے اور اپنے قلم سے لکھے تھے جو خاصہ ایک مضمون تھا اور یقیناً اس کا ترجمہ شائع ہو کر آپ لوگوں تک پہنچ چکا ہوگا.حضور سفر یورپ کا ارادہ کر چکے تھے اور تشریف لے جا رہے ہیں.مگر یا درکھیں کہ خالصاً لِوَجْهِ الله دل حضور کا قادیان میں ہے اور قادیان کی جماعت کے ساتھ.یہ مشکلات جو حضور کو اس سفر میں نظر آئے ہیں حضور سے پہلے پوشیدہ نہ تھے.سفر کرنے والوں سے زیادہ ان کا علم حضور کو تھا مگر با وجود ان کے جاننے کا حضور نے سفر کیا اور ولایت تشریف لے جا رہے ہیں جو محض ابتغاء لِوَجْهِ اللہ اور اعلائے کلمۃ اللہ کی غرض سے ہے ورنہ اگر ضروریات دین اس سفر کے لئے حضور کو مجبور نہ کرتیں حضور ہرگز اس سفر کو ان ایام میں گوارا نہ فرماتے.ہمارے جہاز کے متعلق پہلے خیال تھا کہ پانچ دن میں عدن پہنچے گا.طوفان کی وجہ سے راستہ میں آکر معلوم ہوا کہ سات دن میں پہنچے گا مگر اب کل کپتان نے بتایا کہ غالبا بدھ کو پہنچے گا یعنی قریبا نو دن کے بعد.
۲۷ حضور کو کل پھر دل کا دورہ شروع ہو چلا تھا.نماز عصر کے بعد حضور تشریف لائے اور مغرب وعشاء کی نمازوں کے بعد اپنے کمرے میں تشریف لے گئے.اس اثناء میں حضور نے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی وہ نظم جو انہوں نے قادیان سے الوداع کہنے کو لکھی تھی سنی جس کو ڈاکٹر صاحب اور مولوی عبد الرحیم صاحب درد نے خوش الحانی سے پڑھا.اس کے بعد حضور نے اپنی وہ نظم سنی جو حضور نے ۱۳ / جولائی کو ریل گاڑی میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی نظم کے جواب میں لکھی تھی.ان دونوں نظموں کے بعد حضور نے اپنی ایک پرانی نظم جو حضور نے کئی ماہ پہلے جب کہ مسٹر محمد علی ( شوکت علی ) جیل سے رہائی پانے والے تھے لکھی تھی سنی اور ا بھی نا تمام ہے.جس کا مصرعہ یہ ہے.صید و شکار غم ہے تو مسلم خستہ جان کیوں؟ دو مرتبہ سن اور فرمایا کہ یہ ظم مسٹرمحمد علی کے واسطے لکھی تھی.لطیفہ: کل صبح چوہدری محمد شریف صاحب نے لائم جوس (Lime Juice) منگایا.جہاز کا خادم لے کر آ گیا.صاحبزادہ حضرت میاں شریف احمد صاحب سلمه ر به تشریف فرما تھے ان کے پیش کیا.آپ نے فرمایا میں نے تو منگایا نہیں چوہدری محمد شریف صاحب نے منگایا ہو گا.یہ سن کر بولا کیا کروں آپ لوگوں میں سے ہر ایک کی ڈاڑھی ہے پہچان تو ہوتی نہیں گڑ بڑ ہو ہی جاتی ہے.حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ تم لوگوں کی شناخت میں ہمیں ڈاڑھی نہ ہونے کے باعث گڑ بڑ ہو جاتی ہے.لطیفہ : کل حضور کی خدمت میں کھانے کی فہرست آئی.بعض چیز میں حضور نے کاٹ دیں بعض رہنے دیں.ایک چیز کا نام سب سے لمبا لکھا ہوا تھا.حضور نے اس کے لمبے نام کی وجہ سے اس کو رہنے دیا مگر جب وہ آیا تو معلوم ہوا کہ ایک ابلا ہوا بے چھلا آلو تھا.لطیفہ : حضور نے کل کی مجلس میں بیان فرمایا کہ کل دوپہر کے کھانے کے ساتھ ایک رومال بجائے تہ کر کے لانے کے نوکدار مینار کی شکل بنا کر لایا گیا.چوہدری علی محمد صاحب بیٹھے ہوئے تھے تعجب اور حیرت اور کچھ گریڈی (Greedy) آنکھوں سے اس کو دیکھتے رہے.دیر تک دیکھنے کے بعد آخر ان سے نہ
۲۸ رہا گیا تو دریافت ہی کر لیا کہ اس میں کیا ہے؟ بتایا گیا کہ خالی رومال ہے تو ان کو یقین نہ آیا اور جانا کہ ضرور اس میں کچھ ہے اور وہ عجیب چیز ہے مگر جب کھول کر ان کی تسلی کر دی گئی تو خاموش ہوئے.ساتواں دن: ۲۱ / جولائی ۱۹۲۴ء یعنی سمندری سفر کا ساتواں دن خدا کے فضل سے رات ہر طرح سے امن و آرام سے کئی.سمندر ٹھنڈا ہے اور اب سمندر میں کوئی شہر، کوئی پہاڑ ، کوئی گاؤں، کوئی مکان ، کوئی پڑا وہ حتی کہ کوئی جھونپڑی بھی بنتی نظر نہیں آتی.( جو کہ طوفان کی حالت میں لہریں بنا دیا کرتی تھیں ) سمندر بالکل پر سکون وکام (Calm) ہے،صرف جہاز کے پاس پاس جہاز ہی کی حرکت کی وجہ سے پانی میں حرکت اور سفیدی، سبزی اور سیاہی کے رنگ نمودار ہوتے ہیں.باقی میلوں میل تک سمندر بالکل صاف لہرئیے دار کالا پانی ہی پانی نظر آتا ہے.دوست خوش ہیں.سامان خشک کیا جا رہا ہے مگر اگر دو حصہ خشک ہوتا ہے تو ایک حصہ نمکین پانی کی وجہ سے تر بھی ہو جاتا ہے.سوائے میاں رحمد بن صاحب کے کوئی اب بیمار نہیں.سوائے مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور چوہدری محمد شریف صاحب کے سب دوست چلتے پھرتے اور کھاتے پیتے ہیں.چوہدری علی محمد صاحب میں آج خاص طور پر درد، رقت اور سوز و گداز پیدا ہو رہا ہے.رو رو کر دعائیں کرتے ہیں.دل نرم ہے آواز ہلکی ہے اور جسم ڈھیلا ہے.نہ معلوم کیا یاد آیا کس بات نے ان کے دل پر اثر کیا.بہر حال اچھی حالت ہے.دعاؤں کا موقع ہے دوستوں کے لئے دعائیں کر رہے ہیں.کل رات انہوں نے ایک دور ڈ یا بظاہر منذر دیکھی تھیں اپنی اہلیہ اور بچے کے متعلق شاید اس کا بھی کچھ اثر ہو.اللہ تعالیٰ ان پر فضل وکرم کرے.قادیان میں کیا ہو رہا ہے اللہ ہی کو علم ہے.وہاں کی خبروں کا سخت بے تابی سے انتظار ہے.بعض اوقات خیال آجاتا ہے کہ کیوں نہ دوستوں نے بے تار کا پیغام دے کر قادیان کے حالات سے مطلع کر دیا.اچھا سمندر میں نہیں تو خدا کرے کہ عدن میں ہی کوئی خبر مل جاوے.ہمیں اخبار الفضل عدن میں مل سکتا تھا اگر عملہ الفضل مہربانی کرتا.دیکھیں شاید کسی دوست کے نام عدن میں آیا ہو تو دیدار نصیب ہو جائے گا.خطوط بھی عدن کے پتہ پر پہنچ سکتے تھے کیونکہ وہ ڈاک جواب کے ۱۷ رکو پنجاب سے روانہ ہوئی عدن میں ہماری رسیدگی سے پہلے پہنچے گی.اسی طرح سے پورٹ سعید پر بھی ہماری آنکھیں ڈاک قادیان کا انتظار کریں گی.خدا کرے کہ ہمارے دوستوں کو تو فیق
۲۹ مل جائے کہ وہ قادیان کے حالات سے مفصلاً ہمیں مطلع فرمائیں.میں اوقات فرصت میں قادیان کے عزیزوں ، دوستوں اور بزرگوں کے لئے حالات سفر لکھنے کی کوشش کرتا ہوں اور امید بلکہ یقین رکھتا ہوں کہ میں ان سب کی دعاؤں میں ان کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہوں گا اگر پہلے نہیں تو اب ہی سہی مگر پھر بھی درخواست ہے کہ ؎ جب کبھی تم کو ملے موقع دعائے خاص کا یاد کر لینا ہمیں اہل وفائے قادیاں ہمارے مکرم شیخ صاحب عرفانی جز نسلٹ ہمارے ساتھ ہیں اور وہ خاص طور راس کام پر مامور ہیں.یقین ہے کہ اُن کی مفصل رپورٹ الفضل میں شائع کر کے دوستوں کو حضور کے حالات سفر سے آگاہ کرتے رہیں گے.میرا ہد یہ نا چیز ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں قبول ہو تو خوش قسمتی ہے.میں اس عریضہ کی متعد د نقول تو کر سکتا نہیں اتنا بھی کاروبار ضرور یہ سے چھینا جھپٹی کر کے یا گھنٹہ کے کام کو نصف گھنٹہ میں کر کے وقت نکالتا ہوں تب لکھتا ہوں.اپنا آرام قربان کرتا ہوں تب لکھتا ہوں.گر قبول افتد ز ہے عز و شرف.لہذا تجویز یہی ہے کہ ایک نام پر بھیج کر تمام بزرگوں کی خدمت میں پیش کر دوں.حضور کل شام فرما رہے تھے کہ بیت المقدس سے مدینہ منورہ صرف ۴۰۰ میل کے فاصلہ پر رہ جاتا ہے اگر ایک ہفتہ اور چھینا جھپٹی کر لی جاوے تو پھر زیارت مدینہ منورہ سے بھی مشرف ہو سکتے ہیں.فرمایا میں اس تجویز پر غور کر رہا ہوں مگر ہمارے اس جہاز نے تین دن لیٹ کر کے ہمارا بڑا نقصان کیا ہے.بہر حال اگر کوئی صورت ممکن ہوئی تو زیارت مدینہ منورہ کی بھی کوشس کی جاوے گی انشاء اللہ مگرا بھی فیصلہ نہ سمجھ لیں.اسی طرح حضور نے یہ بھی فرمایا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ ساتھیوں کو آگے روانہ کر کے خود ایک ہفتہ میں برلن اور دیگر بڑے بڑے مقامات یورپ کا بھی دورہ کر لیا جاوے تا کہ اس بات کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہو کہ آئندہ مشن کہاں کہاں رکھا جاوے.جہاز کی لیٹ کے ایام کی کسر نکالنے کی غرض سے اب حضور اس تجویز پر غور فرما رہے ہیں کہ
بجائے پورٹ سعید کے سویز ہی میں اُتر جائیں اس طرح سے بھی ایک دن بچ سکتا ہے.یہ تجاویز اور سکیم حضور کے زیر غور ہیں غالبا عدن تک یا کم از کم سویز پہنچنے تک حضورضرور کوئی فیصلہ کن تجویز فرما کر احکام نافذ فرمائیں گے انشاء اللہ اور مجھ سے جو بن پڑے گا عرض کرتے رہنے کی کوشش کروں گا.فروگذاشتوں اور کوتاہیوں سے چشم پوشی فرما ئیں میرے آقا اور میرے خدا دوست بھی.حضور کی وہ نظم جیسی ہے درج کر ہی دیتا ہوں شاید کام آ سکے.صید و شکار غم ہے تو مسلم خستہ جان کیوں اُٹھ گئی سب جہان سے تیرے لئے امان کیوں ؟ بیٹھنے کا تو ذکر کیا ، بھاگنے کو جگہ نہیں ہو کے فراخ اس قدر تنگ ہوا جہان کیوں ؟ ڈھونڈھتے ہیں تجھی کو کیوں سارے جہاں کے ابتلا پیستی ہے تجھی کو ہاں گردشِ آسمان کیوں ؟ کیوں بنیں پہلی رات کا خواب تری بڑائیاں قصیم ما مضی ہوئی تیری وہ آن بان کیوں ؟ ہاتھ میں کیوں نہیں وہ زور، بات میں کیوں نہیں اثر چھینی گئی ہے سیف کیوں ، کاٹی گئی زبان کیوں ؟ واسطہ جہل سے پڑا وہم ہوا رفیق دہر علم کدھر کو چل دیا ، جاتا رہا بیان کیوں ؟ رہتی ہیں بے شمار کیوں تیری تمام محنتیں تیری تمام کوششیں جاتی ہیں رائیگان کیوں ؟ سارے جہاں کے ظلم کیوں ٹوٹتے ہیں تجھی پہ آج بڑھ گیا حد صبر سے عرصئہ امتحان کیوں ؟ تیری زمین ہے رہن کیوں ہاتھ میں گبر سخت کے تیری تجارتوں میں ہے صبح و مسا زیان کیوں ؟ کسب معاش کی رہیں تیری ہر اک گھڑی ہے جب تیرے عزیز پھر بھی ہیں فاقوں سے نیم جان کیوں؟ کیوں ہیں یہ تیرے قلب پر کفر کی چیرہ دستیاں دل سے ہوئی ہے تیرے محو خصلت امتنان کیوں؟ خُلق تیرے کدھر گئے خلق کو جس یہ ناز تھا دل تیرا کیوں بدل گیا بگڑی تری زبان کیوں ؟ تجھ کو اگر خبر نہیں اس کے سبب کی مجھ سے سُن تجھ کو بتاؤں میں کہ برگشتہ ہوا جہان کیوں ؟ منبع امن کو جو تو چھوڑ کے دور چل دیا تیرے لئے جہان میں امن ہو کیوں امان کیوں؟ ہو کے غلام تو نے جب رسم وداد قطع کی اس کے غلام در جو ہیں تجھ پہ ہوں مہربان کیوں؟ حضور کی طبیعت صاف نہ تھی.دن بھر اپنے کمرہ کے دروازے بند کر کے لیٹے رہے اور خدام کے لئے دعائیں کرتے رہے.عصر کے وقت تشریف لائے.ظہر وعصر کی نمازیں باجماعت پڑھائیں اور وہیں تشریف فرما ر ہے.رات کے دس بج گئے تو حضور شام وعشاء کی نمازیں پڑھا کر
۳۱ کھانا کھانے کو تشریف لے گئے اور پھر جلدی ہی واپس آگئے اور بہت دیر تک نظم کا سلسلہ جاری رہا حتی کہ اس شغل میں ڈیڑھ بج گیا.جہاز کے ڈاکٹر کو ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نے کچھ لٹریچر دیا تھا جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے.یہ اٹالین ڈاکٹر بڑا سمجھدار آدمی ہے اور تحقیق کا اس کو شوق ہے.بہت تھوڑی انگریزی جانتا ہے مگر انگریزی اخبار اور کتب کا مطالعہ کرنے کا شوق رکھتا ہے.اس نے کچھ اور لٹریچر مانگا.ہمارے خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب نے حضرت کے حضور بعد عصر کی مجلس میں ذکر کیا.حضور نے فرمایا پہلا لٹریچر پڑھا بھی ہے یا یونہی کتا بیں جمع کرنے کا شوق ہے.خان صاحب نے عرض کیا حضور سمجھ کر پڑھتا ہے چنانچہ اس نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ احمدی اور دوسرے مسلمانوں میں فرق کیا ہے؟ اس کا جواب میں نے یہ دیا تھا کہ ”ہم لوگ احمدی حضرت مسیح موعود کو مانتے ہیں اور دوسرے مسلمان نہیں مانتے“ دلیل پیش کرنے کا طریق: اس پر حضور نے فرمایا کہ اس کا سوال تو بالکل معقول اور نیچر کے مطابق ہے مگر اس کا جواب کافی نہیں.خان صاحب آپ اب ایسے ملک کو جا رہے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ بہت ہی باریک نظر رکھتے ہیں اور کہ دلائل سے بات کو مانتے ہیں.اب آپ کو بھی چاہئیے کہ اپنی گفتگو میں دلائل کو وہی رنگ دیں اور ان کے مذاق اور عقل و فہم کے مطابق ان سے گفتگو کرنے کی عادت ڈالیں تا کہ بات بے وقعت ہلکی اور بے اثر نہ جائے.اگر آپ ڈاکٹر کو صرف یہی جواب دے دیتے کہ ہم میں اور ہمارے غیروں میں یہ فرق ہے کہ ہم لوگ مانتے ہیں کہ ریوولیوشن (Revolution) کا دروازہ ہمیشہ ہمیش کے لئے کھلا ہے اور وہ لوگ اس کے خلاف یہ مانتے ہیں کہ ریوولیوشن (Revolution) کا دروازہ اب بالکل بند ہے.ہم اپنے عقیدہ کے مطابق یقین رکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں بھی ایک بہت بڑا ریفارمر آیا اور وہ حضرت مسیح موعودؓ تھے اور وہ لوگ اس بات کا انکار کرتے ہیں وغیرہ.تو اس طریق جواب سے اس کو ایک عظیم الشان فرق بھی نظر آ جاتا اور بات کی اہمیت بھی اس کے دل میں پیدا ہو جاتی اور حضرت مسیح موعود کا وجود بھی پیش ہو جا تا وغیرہ وغیرہ.نماز ظہر و عصر کے واسطے حضور کے تشریف لانے کی خبر آئی.میں نماز کے واسطے جگہ بنا
۳۲ رہا تھا.دولوٹے ٹین کے جو امرتسر سے وضو وغیرہ کی غرض سے خرید کئے گئے تھے اور جہاز میں وہ دوستوں کے اُٹھ نہ سکنے کی وجہ سے کارِ خاص میں بہت معاون ہوئے تھے.( دوست اپنی جگہ سے اٹھ کر پیشاب کرنے کی بھی طاقت نہ رکھتے ہوئے ان لوٹوں ہی میں پیشاب کرتے تھے جس کو پنجروں کی نظر بچا کر دور پھینکنا پڑتا تھا ابھی محفوظ تھے.ان کے متعلق دوستوں سے اجازت حاصل کی کہ اگر ان کی اب ضرورت نہ ہو تو سمندر کی نذر کر دیئے جائیں تا کہ میلا کچیلا سامان اب آنکھوں سے اوجھل ہو.دوستوں نے بہت ہی سوچ بچار کے بعد اجازت دی کہ ان کو سمندر میں پھینک دیا جاوے.اس سے پہلے دو تین ٹوکریاں پرانی مٹھائی کے بقیہ کی جو سمندر کے پانی کی ملاوٹ کی وجہ سے خراب ہو چکی تھیں ہمارے ڈاکٹر صاحب کے معائنہ کے بعد صاحبزادہ حضرت میاں شریف احمد صاحب سلمہ ربہ نے نذرسمندر کی تھیں جو سمندر میں تیرتی رہیں.ایک نکتہ معرفت : لوٹے جب میں سمندر میں پھینکنے لگا تو حضرت میاں صاحب نے فرما یا بھائی جی شرط یہ ہے کہ ڈو میں نہیں تیرتے رہیں.مگر وہ لوٹے تھے ٹونٹی دار کیوں کر تیر سکتے تھے.جاتے ہی سمندر کی تہ کی طرف دوڑے.حضرت میاں صاحب نے آواز دی بھائی جی کیا ہوا ؟ اتنے میں سیدنا حضرت خلیفہ اسی تشریف لے آئے اور بیٹھ گئے.میرا خیال سمندر کی طرف تھا اور لوٹوں کی طرف نظر تھی.میں نے حضور کو تشریف لاتے نہ دیکھا تھا.میں نے اپنے خیال میں حضرت میاں صاحب کے سوال کا جواب دیا اور عرض کیا کہ میرے ڈبوئے بھلا بیچ سکتے ہیں.لوٹ کر دیکھا تو حضور تشریف فرما تھے.حضور نے بھی معاً مجھے مخاطب فرما کر کس پیار بھرے لہجہ میں ، کس محبت بھری ادا، کسی شفقت بھری آواز سے فرمایا بھائی جی ڈبونا اچھا ہے یا تیرا نا؟ ان الفاظ میں کیا کچھ بھرا ہوا تھا اس کا اندازہ اہل دل احباب اپنے اپنے ذوق کے مطابق کر سکتے ہیں اور میں اس حصہ کو انہی کے لئے چھوڑ کر آگے چلتا ہوں.یہ سریلی اور دلکش آواز کم کسی نے سنی ہوگی اور میں جانتا ہوں کم ہی کوئی سنے گا.میں نے سنی دل میں لی اور انشاء اللہ اس دنیا میں بھی اور بعد الموت بھی مجھے یہ لذت اور سرور دیتی ہی رہے گی.
۳۳ ہاں میں یہ عرض کرنا بھول گیا تھا کہ حضور کا یہ بھی منشا ہے کہ اصحاب الکہف کے اُس مقام پر تشریف لے جائیں اور دعا کریں جو حضور کی تحقیقات کے مطابق اٹلی میں بصورت زمین دوز غاروں اور وسیع شہروں کے معلوم ہوئی ہے.یورپ کے تمدن کا مقابلہ : حضور نے بیان فرمایا کہ یورپ کے متعلق مجھے اس بات کا خطرہ اور فکر نہیں ہے کہ ان کا مذہب کیوں کر فتح کیا جائے گا.مذہب کے متعلق تو مجھے یقین ہے کہ عیسائیت اسلام کے سامنے جلد تر سرنگوں ہو گی.مجھے اگر فکر ہے تو صرف یہ ہے کہ یورپ کا تمدن اور یورپ کی ترقی Intellectual ( دفاعی ترقی ) کا کیوں کر مقابلہ کیا جاوے.یہی دو باتیں ایسی ہیں کہ میں راتوں کو اس فکر میں گزار دیتا ہوں ، گھنٹوں اس بچار میں پڑا رہتا ہوں.ان اقوام کا یہ اصول ہے کہ تمام وہ چیزیں جو ترقی کرنے والی قوم کے راستہ میں روک ہیں ان کو ہٹا دیا جاوے اور اس کے واسطے اکثر انہوں نے سینکڑوں نہیں بعض اوقات ہزاروں جانوں کو بھی ضائع کرنے سے دریغ نہیں.کیا وہ کہا کرتے ہیں کہ اگر جنگلی جھاڑیوں کو کاٹ کر ان کی بجائے پھل اور پھول پیدا کرنے والے درخت لگا دیئے جائیں تو کیا حرج ہے اور کس کو اعتراض ہے.اس اصل کے ماتحت ان لوگوں نے بعض جگہ عورتوں اور بچوں تک کے قتل سے دریغ نہیں کیا.بھا گئی عورتیں قتل کی گئیں.ان لوگوں کی کتابیں اور مضامین میں نے پڑھے ہیں.ان لوگوں نے اب ایشیا کو پھاڑنے کی غرض سے ایک سکیم بنائی ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ سنگا پور سے اب یہ حملہ کریں گے اور ایشیا کو دو ٹکڑے کر کے الگ الگ ان کو مفتوح کرنے کی کوشش کریں گے.بہت ہی باریک اور وسیع سکیم ہے.اس کے مقابلہ میں میں نے سوچا ہے کہ ایشیا کو ابھی سے تیار کرنا چاہیے ورنہ ایشیا کی ہستی بالکل اب معرض خطر میں ہے.ایک تجویز تو میں نے یہ سوچی ہے کہ ایشیا اپنے تمدن پر سختی سے قائم ہو جائے اور اس کے خلاف یورپ کے تمدن اور ان کے لباس کو ترک کر دے.اپنی آئندہ نسلوں کے دلوں میں اس بات کے لئے ایک حمیت اور غیرت پیدا کرنے کی کوشش کی جاوے کہ ہمارا تمدن ، ہمارا لباس ان لوگوں سے اعلیٰ ہے اور ہم ان کے مقابلہ میں ان سے معزز تر ہیں.ان خیالات کے پیدا ہو جانے کا یقینی نتیجہ یہ ہوگا کہ پھر یورپ کا افسون ایشیا پر ہرگز ہرگز کارگر نہ ہو گا.
۳۴ اس بیان میں فرماتے فرماتے فرمایا کہ انگریزی لباس سے مجھے سخت چڑ ہے چنانچہ مبلغوں کو یورپ جاتے وقت میں نے ہدایت کی تھی کہ ہیٹ اور پتلون ہرگز نہ پہنیں بلکہ یہاں تک فرمایا کہ اگر ہمارے بچوں میں سے کوئی پتلون اور ہیٹ کا استعمال کرے تو اس کو بید کی سزا دینی چاہیئے.فرمایا جس قوم کے پاس لباس بھی اپنا نہیں اور دوسرے کے لباس کو اپنے سے اچھا سمجھ کر اسے اختیار کر لینا چاہتی ہے اس قوم نے اس کا مقابلہ کیا کرنا ہے؟ فرمایا.آنحضرت نے آنکھ کھلتے ہی عربوں کی اس اصل کو تاڑ لیا تھا اور حضور نے دیکھا کہ اب یہ قوم خواب غفلت سے جاگی ہے.ترقی کا خیال اس کے دل میں موجزن ہے.مبادا یہ رومیوں یا نصرانیوں کی ترقیات کے سامنے سرنگوں ہو کر انہی کی طرز کو پسند کر لیں.اس کے علاج کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا خـالـفـوا اليهود و النصارى.....الخ اور من تشبه بقوم فهو منهم اور حقیقت یہی ہے کہ جو کسی قوم کے لباس اور تمدن کو قبول کر لیتا ہے وہ دل سے انہی میں سے ہوتا ہے.دل اس کا ان کی عظمت سے اور ترقی کا قائل ہو چکا ہوتا ہے گو قو لا نہیں مگر فعلاً اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اس قوم کا لباس یا وہ بات اس کے لباس وغیرہ سے بہتر ہے اور اس طرح اپنی شکست کا اقرار کرتا ہے.الغرض حضور نے اس مضمون پر بہت ہی لمبی اور بسیط تقریر فرمائی.حضور جب کمرے سے تشریف لائے تھے چہرہ اُتر ا ہوا تھا مگر اس تقریر کے دوران میں حضور کا چہرہ تمتا اٹھا اور آواز میں زور اور شوکت تھی اور غیرت اور حمیت کا ایک دریا تھا جو موجزن تھا.عرفانی صاحب جو حاضر مجلس تھے نوٹ کرنے لگے مگر حضور نے فرمایا یہ بات لکھنے کی نہیں.(اطلاع کے طور پر عرض ہے کہ اگر کوئی حصہ اس خط کا اخبار میں جانا ہو تو یہ حصہ ہرگز ہرگز نہ جاوے یوں حضور کی ڈائری کے طور پر نوٹ کرایا ہے خلاصہ در خلاصہ وہ بھی اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ) شام سے ذرا پہلے جب کہ خدام کے حلقہ میں حضور رونق افروز تھے اٹالین آفیسران جہاز ، مسافر اور قلی وغیرہ ادھر ادھر چہل پہل میں مصروف تھے اکثروں کی نظریں اسی حلقہ شاہی کی طرف تھیں.حضور نے قہوہ منگانے کا حکم دیا جو جلدی آ گیا.حضور نے خدام سمیت کھلی مجلس میں فرش جہاز پر قہوہ نوش فرمایا اور غلاموں میں سے ایک ایک کو دیا.انالین ڈاکٹر ا و پر کھڑا دوسروں کو بتا تا تھا کہ "Jesus and his twelve hawaris" ڈاکٹر نے فوٹو لینے کی خواہش کی مگر کہا گیا کہ پورے حلقہ
۳۵ کی لے لو.کیمرہ چھوٹا تھا پورے حلقہ کی نہ لے سکتا تھا نیز چاہتا تھا کہ حضور اپنی نشست کو تبدیل پر فرمائیں جو اس وقت اس کے خیال میں ٹھیک نہ تھی.لہذا اس کا فوٹو رہ گیا.جہاز تیزی سے چل رہا ہے اور کوشش میں ہے کہ کسی طرح سے لیٹ نکالے.امید ہے کہ ۲۳ کی علی الصبح ۳ یا ۴ بجے عدن کے پانیوں میں جا پہنچے گا اور پھر وہاں سے 8 بجے صبح کے روانہ ہو جائے گا.شام کے کھانے کی گھنٹی ہو گئی.حضور کا کھانا کمرہ میں آگیا مگر حضور نے فرمایا ذرا ٹھہر کر ، نماز پڑھیں گے اور بعد میں کھانا کھائیں گے.مگر دوسرے دوستوں کو اگر وہ نہ جاتے تو کھانا ملنا مشکل تھا.( سیکنڈ کلاس والے ) لہذا ان کو حکم دیا کھانا کھا آئیں.انہوں نے عرض کی حضور نماز پہلے ہو جائے.فرمایا اذا حضر العشاء کی حدیث بھول گئے.سیکنڈ کلاس والے پانچوں بزرگ کھانے کے کمرہ کو چلے گئے اور خدام حاضر مجلس تھے کہ مسٹر جوشی بی.ایس.سی جن کا ذکر اوپر کسی حصہ عریضہ میں آچکا ہے وہ ناگپور کے باشندے اور جرمن چمڑے کا کام سیکھنے کو جا رہے ہیں انہوں نے حضور سے ایک سوال کیا جس کا سلسلہ بہت ہی لمبا ہو گیا اور تمدن سے لے کر ذات باری اور صداقت انبیاء اور شناخت مذہب صادق تک خوب ہی اس کو حضور نے تبلیغ کی اور آخر اسے تلقین فرمائی کہ روزانہ دعا کر کے سویا کرے کہ ” اوخدا اگر تو کوئی خدا ہے تو میں تیری رضا کی راہ کی تلاش میں ہوں مجھے خود راہ نمائی فرما اور فرمایا کہ ہم سے زبانی بات چیت میں سوال بھی کر لیا کریں.بہت ہی پُر لطف مضامین تھے.معجزات نشانات حضرت مسیح موعود.اسلام اور دیگر مذاہب کی تعلیم کا مقابلہ غرض تمام پہلوؤں پر حضور نے اس کے مذاق کے مطابق روشنی ڈالی.اس نے کھانا بدستور ہمارے ساتھ مل کر کھایا اور ہمیں میں سویا.آٹھواں دن: ۲۲ جولائی ۱۹۲۴ء سفر جہاز کا آٹھواں دن رات حضور ڈیڑھ بجے کے قریب پنے کمرہ میں تشریف لے گئے.صبح کی نماز وہیں ادا کی اور اب حضور بعض خطوط تحریر فرما رہے ہیں کیونکہ عدن انشاء اللہ آج دن اور رات کے سفر کے بعد آنے والا ہے جہاں ڈاک حوالہ ڈاک کی جاوے گی.کل حضور نے چار نمازیں باجماعت ادا کرائیں اور آج صبح کی نماز ہم لوگوں نے
۳۶ با جماعت کھڑے ہو کر ادا کی.یہ پہلی نماز ہے جو اس جہاز میں کھڑے ہو کر ادا کی گئی.عدن ڈاکٹر جلال الدین صاحب کو ایک تار دیا گیا تھا وہ واپس آیا کہ ڈاکٹر صاحب عدن سے ہندوستان چلے گئے ہیں.جہاز کے بعض نرخ : جہاز میں سوڈا واٹر کی کھاری بوتل ۶ / ( چھ آنے ) میں ایک چھوٹی سی ڈبل روٹی جس میں ایک تولہ مکھن لگا ہو ۱۲ ء میں ملتی ہے.ایک چھوٹے کپڑے کی دھلائی مثلاً قمیص ۶ رفی عدد ہے.شلواروں کی دھلائی غالبا گزوں کے حساب سے بہت بڑھ جائے گی.ٹراؤزر کی دھلائی ہے.الا مان ہم تو کپڑے دے بھولے.سمندر کا پانی آج کا لا نہیں رہا بلکہ تیز نیلگوں ہے اور بہت ہی خوش منظر ہے.جہاز کے اوپر کا حصہ جو سیکنڈ کلاس ڈرائینگ روم اور فرسٹ کلاس کینز کے درمیان ہے پہلے بالکل کھلا تھا آج اس کو سایہ دار بنا دیا گیا ہے جو ہوا کی کمی اور موسم کی گرمی پر دلالت کرتا ہے.اس طرح سے آج ہمارے جہاز کا نقشہ بہت ہی خوبصورت اور فرحت بخش ہو گیا ہے.بہت دوست دوستوں کو خط لکھ رہے ہیں.چوہدری علی محمد صاحب اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے شرط کی ہے کہ کار ڈلکھیں گے اور بہت زیادہ دوستوں کو لکھیں گے خواہ صرف سلام ہی لکھیں مگر ہر سو قادیان میں چرچا پیدا کر دیں گے کہ چوہدری علی محمد صاحب کا خط آیا.مولوی عبد الرحیم صاحب درد کا خط آیا - قلموں کی دوڑ ہے ہر ایک نے ایک کو نہ لے لیا ہے تا کہ اس کی توجہ میں خلل واقع نہ ہو.میں ہوں اور میرا یہ ایک ہی خط.اللہ کرے بہتوں کے لئے مفید اور بہتوں کے واسطے پیاس بجھانے والا ہو آمین اور اس کے ذریعہ سے میں بھی کسی کو یا د رہ سکوں دعاؤں میں.رات حضور نے صرف تین گھنٹہ تک نیند فرمائی.صبح کی نماز کے بعد برابر چار گھنٹہ تک حضور خطوط لکھتے رہے اور ۲۱ عدد خطوط لکھے تھے کہ طبیعت خراب ہو گئی.تھوڑی دیر کے لئے حضور نے آرام فرمایا.کھانا کھایا اور طبیعت صاف ہو گئی.میاں رحمد دین صاحب جو کل تک بیمار تھے آج کچھ اچھے ہیں چنانچہ آج کی ہانڈی انہوں نے خود ہی پکائی ہے.حضور کی خدمت میں کچھ تو سالن بھیجا گیا.حضور نے نوش فرمایا اور خوش
۳۷ ہو کر دعا دی.” واہ اور حمدین! آخر کچھ کام آ ہی گیا اس سالن کے بعد پھر دوسرے جہازی سالن کیا مزہ دیتے.اسی پر اکتفاء فرمائی.عملہ جہاز کے افسروں اور مسافروں کی جس دعوت کی تجویز تھی وہ بعض مجبوریوں کی وجہ سے یوں فیصل ہوئی ہے کہ صرف پلاؤ کی ڈش چند چیدہ لوگوں کو پہنچا دی جاوے اگر ضرورت مجھی گئی تو دوسرے دن کباب کی ڈش دے دی جاوے گی مگر یہ سب کچھ اس صورت میں ہو گا کہ برتن پکانے وغیرہ کے میسر آ جائیں.عدن سے نکل کر دیکھا جاوے گا.آج اس وقت کہ دو بجے ہیں ایک جہاز عدن کی طرف سے آتا ہوا دکھائی دے رہا ہے.مسافرشوق سے دیکھتے ہیں.دور بین ہاتھوں میں ہے.بعض نے کیمرے بھی لے رکھے ہیں کہ پاس سے گزرتے ہوئے جہاز کے فوٹو لے لئے جائیں.جھولا جھولنے کا فائدہ : اس سفر میں اللہ کریم نے مجھے خاص طور پر سی سک نس (Sea Sickness) سے محفوظ رکھا اور یہ محض اس کا فضل ہے ورنہ میں حقیقتا بہت ہی کمزور تھا اور مجھے اپنی طبیعت سے بہت اندیشہ تھا.خدا کے فضلوں کے ساتھ ساتھ میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ بچپن میں جھولا جھولنے کی عادی طبائع بھی سی سک نس سے محفوظ رہتی ہیں اور بچپن کی اس عادت کا اثر بھی اس بیچاؤ میں گونہ مددگار ہوتا ہے.لہذا چونکہ ہماری قوم کو اب انشاء اللہ جہازی سفروں کا کثرت سے موقع ملنے والا ہے کیونکہ حضور کا منشاء ہے کہ جہاز اپنے بنوائے جائیں تا کہ تجارتی اور تبلیغی اغراض میں معاون ہوسکیں ، اگر بچوں کو پینگ ( جھولا جھولنے کا عادی بنایا جاوے تو انشاء اللہ مفید ہو گا.قادیان میں کئی درخت بڑ کے ہیں ان پر جھولے لگوا دینے چاہئیں اور ماسٹروں کی نگرانی میں خوب زور سے اس ورزش کی پابندی کرائی جانی چاہئیے.آج مورخہ ۲۲ جولائی ۱۹۲۴ء کو اٹالین جہاز کے ڈاکٹر نے حضرت کا فوٹو لیا.( صرف حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا ) اور دوسرا فوٹو خدام سمیت اسی کرسی پر لیا گیا.ڈاکٹر کا نام ایر بلیو میگلی تھا.فوٹو میں حسب ذیل خدام موجود تھے.صاحبزادہ حضرت میاں شریف احمد صاحب سلمہ ربہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب، مولوی عبد الرحیم صاحب ،درد، چوہدری فتح محمد خان صاحب، شیخ
۳۸ ، یعقوب علی عرفانی صاحب حافظ روشن علی صاحب چوہدری محمد شریف صاحب، شیخ عبدالرحمن صاحب مصری ، ذوالفقار علی خان صاحب، چوہدری علی محمد صاحب اور کا تب الحروف عبدالرحمن قادیانی صرف ایک میاں رحمد بن صاحب غیر حاضر تھے.ظہر و عصر کی دونوں نمازیں حضور نے باجماعت پڑھائیں اور فرمایا کہ آج کا دن تو سارے کا سارا خطوط نویسی میں گزر گیا ہے اور ابھی بہت سے لمبے لمبے خطوط لکھنے باقی ہیں.اب نماز کے بعد بھی حضور نے باہر تشریف رکھتے ہوئے خطوط لکھنے شروع کر رکھے ہیں.سورج غروب ہو چکا ہے اور شام ہوگئی ہے مگر حضرت صاحب ابھی خطوط تحریر فرماتے جار ہے ہیں.آج رات بھر چلنے کے بعد انشاء اللہ صبح کو عدن پہنچیں گے.میں اپنا عریضہ دعاؤں کی درخواست کے ساتھ بند کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جس طرح میں نے آپ لوگوں کے محبوب آقا وامام کے حالات سفر عرض کرنے میں اپنے آرام اور آسائش کی پرواہ نہیں کی اور اسی کوشش میں رہا ہوں کہ جس طرح سے ہو سکے حضور کے حالات سفر آپ بزرگوں تک مفصل پہنچیں آپ بھی مجھے اپنی سحر گاہانہ دعاؤں میں ضرور یاد فرماتے رہیں گے.ایک لمبا تار حضور نے عدن سے قادیان دلانے کی غرض سے لکھوایا ہے جو عدن پہنچ کر دیا جائے گا.4 بج چکے ہیں اور ابھی ہمارا جہاز چل رہا ہے.عدن ابھی تک نظر بھی نہیں آتا.ایک خط حضور نے مکر می حضرت مولوی شیر علی صاحب کے نام لکھا ہے جو بہت ہی پُر درد ہے اور جماعت کی محبت اور اخلاص کے اظہار پر مشتمل ہے.نصائح ہیں.حضور نے خود پڑھ کر سنایا اور ایک بڑے لفافہ میں بند کر کے روانہ کر دیا.رات حضور ۲ بجے تک خطوط لکھتے رہے.صبح کی نماز کے بعد حضور باہر خدام میں تشریف لائے ہوئے ہیں.جہاز انشاء اللہ تعالیٰ عدن ۹ بجے کے قریب پہنچے گا.عدن کے پہاڑ نظر آنے شروع ہو گئے ہیں اور عدن اب بالکل قریب معلوم ہوتا ہے.فقط شیر سفر انگلستان عبد الرحمن قادیانی از قرب عدن ۲۳ جولائی ۱۹۲۴ء
۳۹ نوٹ: اس خط کے لفافہ پر مندرجہ ذیل نوٹ ہے.حضرت صاحب عدن شہر کی سیر کے واسطے تشریف لے جائیں گے.ڈاک اور تاروں کا لینا دینا میرے اور شیخ صاحب عرفانی کے سپرد ہوا ہے.بعض ضروریات کی خرید کے واسطے شیخ صاحب مصری مقرر ہوئے ہیں.چوہدری علی محمد صاحب جہاز میں سامان کے پاس رہیں گے.بھیرہ اور کابل کے واقعات بذریعہ تار پہنچے ہیں.حضور نے تار دیا ہے.حضرت میاں بشیر صاحب کے ہاں لڑکا پیدا ہونے اور مولوی عبد السلام کے لڑکے کی پیدائش پر مبارکبا د عرض کر دیں.مجید احمد نام حضرت نے رکھا ہے.“ قادیانی از عدن
۴۰ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خط نمبر ۴ ، از مقام بیت المقدس : مورخه ۳ / اگست ۱۹۲۴ء السلام عليكم و رحمة الله وبركاته مصر کے حالات : قاہرہ سے روانگی سے پہلے سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی مع خان صاحب اور صاحبزادہ حضرت میاں صاحب سلمہ رتبہ، جامع از هر جامع عمر بن العاص مصر جدید سے ہوتے ہوئے تھامس کٹنگ کے ہاں بعض اطلاعات دینے کو تشریف لے گئے اور وہاں سے سٹیشن پر تشریف لے آئے.نماز ظہر سے پہلے حضور بعض افسروں کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے تھے جہاں سے فارغ ہو کر عجائب خانہ کو گئے اور پھر مکان پر تشریف لے آئے.مکر می شیخ یعقوب علی صاحب مع شیخ محمود احمد اور حافظ صاحب عطار محامی وکیل شرعیہ مصر جو جامع ازہر کے تعلیم یافتہ اور مصر میں مشہور سرکردہ آدمی ہیں ان کی ملاقات کو تشریف لے گئے اور بہت ہی خوش خوش آئے.وکیل صاحب موصوف نے حضور کے پیغام کو نہایت عزت ، محبت اور ادب سے سنا اور قبول کیا اور ایسا گرویدہ ہوا اور کہنے لگا کہ میں ابھی بیعت کر لیتا مگر حضور ٹھہر نہیں سکتے واپسی پر انشاء اللہ میں ضرور بیعت کرلوں گا اور آپ کے ساتھ مل کر کام کروں گا.اسی طرح سے حضور کی خدمت میں کئی اور مقامات سے درخواستیں آئیں کہ ہم لوگ ملنا چاہتے ہیں اور حضور سے تبادلہ خیالات کرنا چاہتے ہیں مگر حضور نے پروگرام تجویز کر لیا تھا اور زیادہ نہ ٹھہر سکتے تھے کیونکہ مصر کے امرا اور حکام کا اکثر حصہ ان دنوں گرمی کی وجہ سے موسم گزارنے کو سرد مقامات کو گیا ہوا تھا.حضور نے فیصلہ فرمایا کہ واپسی پر انشاء اللہ کئی روز مصر ( قاہرہ ) میں ٹھہریں گے اور یہاں کے لوگوں کو اچھی طرح سے ملیں گے.مصر میں کام کا میدان بہت بڑا وسیع ہے اور لوگوں کے قلوب میں جگہ نظر آتی ہے کہ وہ حق کو قبول کر لیں گو مخالفت کے بغیر کسی جگہ بھی روحانی سلسلے قائم اور کامیاب نہیں ہوتے مگر مصر میں کام
۴۱ کے شروع کرنے اور چل جانے کی زیادہ تر امید کی جاتی ہے چنانچہ حضور نے ایک تاراسی مضمون کی قادیان روانہ بھی فرما دی ہے کہ فضا حالات کی بنا پر امید افزا اور تسلی بخش ہے.ایک پیاسی اور مستعد روح: سید وفی ابوالفرائم کی ملاقات اور اس کا حضور کے کلام سے وجد میں آجانا اور یا سیدی اور امامنا اور صدَقْتَ وَ آمنتُ کر کے اظہا را خلاص کرنا کوئی معمولی بات نہیں.وہ بہت بڑا صاحب اثر عالم باعمل مانا گیا ہے حتی کہ بادشاہ وقت تک کے مقابلہ میں کھڑا ہوا ہے.پھر صرف تنہائی اور علیحدگی میں اگر وہ ایسا اظہار کرتا تو بھی کچھ شبہ اور شک کی بات باقی تھی مگر اس نے تو علی رؤس الا شہاد اپنے خاص شاگردوں اور مریدوں میں جن کی تعدا د ٹھیک 9 کس تھی اور واقع میں وہ بڑے علماء بھی تھے.بعض انگریزی خوان تھے کیونکہ ان میں سے ایک نے خان صاحب سے انگریزی میں باتیں کر کے ان کا ترجمہ اس کا سنایا.ان سب کے سامنے اس نے ایمان لانے کا اظہار کیا اور کہا کہ میں حضرت امامنا پر ایمان لاتا ہوں تم گواہ رہو.تم اگر ڈرو اور نہ مانو تو تمہاری مرضی ورنہ میں نے مانا اور قبول کیا کہ یہ سب کلام حق ہے.اس کلام میں کھول کر سنا دیا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود کا مذہب ہے کہ مسیح ناصری وفات پاچکے ہیں وغیرہ وغیرہ اور دوسرے تمام خصوصی عقائد بھی پہونچا دیئے تھے.قاہرہ سے واپسی : الغرض ہمارا قافلہ سوا چھ بجے قاہرہ سے واپس پورٹ سعید کی طرف کوروانہ ہوا اور قطرہ کے سٹیشن پر ساڑھے تو بجے شام کے پہنچا جہاں گاڑی بدل کے سویز کے دوسرے پار سرز مین فلسطین پرسید نا حضرت خلیفہ امسیح نے مع خدام قدم رکھا اور دعائیں کیں.قنطرہ سے سامان تھا مس تک کے آدمیوں نے ہم سے لے لیا اور کسٹم ہاؤس کو لے گئے جہاں بعض حصے سامان کے کھول کر دکھانے پڑے.صرف ڈیڑھ گھنٹہ وقت تھا جس میں ایک گاڑی کو چھوڑ کر دوسری میں جانا جن کے درمیان نہر سویز پڑتی ہے اور وہ سر کاری کشتی کے ذریعہ سے عبور کی جاتی ہے.سامان کشٹم ہاؤس میں دکھانا، پاس حاصل کرنا جو ایک چٹ سامان پر لگا کر ملتا ہے دوسری طرف گاڑی پر جانے کے لئے لمبا چوڑا راستہ طے کر کے بالکل بھر پور گاڑی میں سوار ہونا بہت ہی مشکل کام تھے جو کک کے آدمیوں کے ذریعہ بآسانی طے ہو گئے.گاڑی ۲۴ گھنٹے میں صرف ایک
۴۲ چلتی ہے جو قنطرہ سے لد کو لے جاتی ہے.لد ایک سٹیشن ہے فلسطین میں جہاں گاڑی ساڑھے چھ بجے کے قریب پہنچی اور وہاں پر پھر گاڑی تبدیل کرنی پڑی.لد سے ایک لائن حیفا کو چلی جاتی ہے اور حیفا سے آگے بڑھ کر عکہ اور عکہ سے دمشق کو جاتی ہے.لد سے بدل کر ہماری گاڑی پہاڑی راستوں سے ہوتی ہوئی ساڑھے نو بجے پہاڑیوں کی چوٹی پر ایک وسیع میدان میں پہنچی جہاں شہر یروشلم آباد ہے.( بیت المقدس ) جس کو اس علاقہ میں القدس کہتے ہیں اور ٹکٹ پر بھی القدس ہی لکھا ہوتا ہے اور یہی نام اس علاقہ میں معروف ہے.کرایہ ریل از پورٹ سعید تا قاہرہ (مصر) ۴۳ قرش یعنی قریباً سات روپیہ تھرڈ کلاس خرچ ہوا تھا اور مصر سے ( قاہرہ سے ) القدس تک ایک گنی (جو ولایتی گنی سے کسی قدر بڑی ہوتی ہے ) اور ساڑھے اکیالیس قرش جو قریباً ہوتے ہیں خرچ ہوتا ہے ( تھرڈ کلاس ) سیکنڈ اور تھرڈ کلاس میں عموماً بہت زیادہ رش ہوتا ہے.فرسٹ کلاس میں بہت کم پسنجر ہوتے ہیں.رات کو سونے کے واسطے جگہ ریزرو کرانے کے واسطے سلیپنگ کار (Sleeping Car) ساتھ ہوتی ہے جس کے لئے درجہ اول کے لئے ایک گنی اور ۲۰ پیا سٹر زیادہ دینے ٹھہر.کا رصرف اول درجہ کے لئے ہوتی ہے.بیت المقدس : القدس کی پہاڑیاں بالکل تنگی اور خشک ہیں بعض جگہ جو باغات کثرت سے نظر آتے ہیں وہ قدرتی اور خودرو نہیں بلکہ لوگوں نے خاص محنت سے لگائے ہوئے ہیں.انگور ،سیب اور تربوز عام اور کثرت سے پائے جاتے ہیں.گاڑی سٹیشن پر پہنچتے ہی ایک مجاور خوش وضع مولوی قطع جبہ پوش جس کو کسی طرح سے حضور کا نام پہنچ گیا تھا ( حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ) ایک کاغذ پر لکھا ہوا لئے پوچھتا پھرتا تھا.آخر تلاش کر کے ملا اور عرض معروض کرتا رہا کہ حضور میرے غریب خانہ پر ٹھہریں میں خدمت کرنا چاہتا ہوں وغیرہ وغیرہ.مگر حضور نے کوئی فیصلہ نہیں فرمایا اور کنگ کے آدمیوں کے حوالے سامان کر کے اور اس خادم اور میاں رحمد بن صاحب کو سامان کی نگرانی پر چھوڑ کر خود تشریف لے گئے گھوڑا گاڑیوں کے
۴۳ ذریعہ سے اور یروشلم کے نیو گرانڈ ہوٹل میں فروکش ہوئے.تھوڑی دیر بعد سامان بھی اور ہم دونوں بھی ہوٹل میں حاضر ہو گئے.کھانا بازار سے خریدا گیا.کھانے سے فارغ ہو کر حضور نے نمازیں پڑھائیں اور پھر حضور موٹر کے ذریعہ سے ابوالانبیاء حضرت ابراہیم کی قبر پر تشریف لے گئے جو اس جگہ سے ۲۵ میل کے فاصلہ پر واقع ہے جہاں حضرت اسحاق - حضرت سیدہ سارہ - حضرت اسحاق کی بیویوں کی اور حضرت یعقوب - حضرت یوسف کی قبور بھی ہیں ایک ہی احاطہ میں اور وہاں مسجد بھی ہے.اس جگہ پر صرف مسلمان جاسکتے ہیں.یہودی اور نصرانی نہیں جاسکتے.بیت الم : یروشلم سے ۹ میل کے فاصلہ پر واقع ہے.وہاں بھی حضور ٹھہرے تھے.وہاں دنیا میں سب سے زیادہ پرانا گر جا ہے.حضور کے ساتھ صاحبزادہ حضرت میاں صاحب سلمہ رتبہ.خان صاحب - چوہدری فتح محمد خان صاحب.چوہدری محمد شریف صاحب - حافظ صاحب اور شیخ صاحب عرفانی تھے.حضور نے حضرت ابراہیم کے مقبرہ پر لمبی دعائیں کیں اور حضرت اسحاق کے مقبرہ پر بھی.پھر حضرت اسحاق کی دونوں بیویوں کے مقبرہ پر اور حضرت یوسف اور حضرت یعقوب کے مقبرہ پر بھی الگ الگ دعائیں کیں.جہاں سے حضور شام کی نماز کے بعد پھر واپس پہنچے.نمازیں ادا کیں اور کھانا کھانے کے بعد آرام فرمایا.یہ تو ہوئی یکم اگست ۱۹۲۴ء بروز جمعہ کی کارروائی.نماز جمعہ نہیں ہوئی نماز ظہر و عصر جمع ہوئیں.دو تار قادیان سے خیریت حالات کے آئے.ایک میں بھیرہ کے بلوہ کی تفاصیل تھیں دوسرا حضرت نواب صاحب قبلہ کے متعلق پرائیویٹ تھا.۲ / اگست ۱۹۲۴ ء ہفتہ : صبح کی نماز حضور نے خود پڑھائی.حضور کو آج کچھ پیچش کی شکایت ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ کل صبح اور شام کا کھانا بازار سے منگا کر تناول فرمایا تھا اور اس میں اس ملک کے رواج کے مطابق ترشی بہت زیادہ تھی.گوشت اس جگہ ڈیڑھ روپیہ فی سیر ہے.سوڈا واٹر کی کھاری بوتل ہوٹل میں سے چوہدری فتح محمد خان صاحب نے لی اور دس آنے چارج کئے ہیں.دودھ زیادہ گراں نہیں.پنیر روزانہ تازہ ملتا ہے.خربوزہ ، تربوز، سیب اور انگور بکثرت ہیں مگر خربوزہ میٹھا نہیں اور گراں ہے.انگور ابھی
۴۴ پورے پکے نہیں مگر ارزاں ہیں.بادام اس علاقہ میں بہت عمدہ اور سستے ملتے ہیں.ڈبل روٹی وغیرہ کے ناشتہ کی بجائے اگر بادام کا ناشتہ کیا جاوے تو ارزاں اور مفید تر ہوگا.دو روپے کے قریب قیمت پر ایک سیر عمدہ قسم کے بادام کا مغز ملتا ہے اور ان میں سے ایک بھی کروایا کسیلا نہیں.موسم میں پہاڑی رنگ ہے.نہایت صاف ہوا رات کو ٹھنڈی ایسی کہ کمرے کے اندر بھی کچھ اوڑھنے کی ضرورت ہوتی ہے.دن کی دھوپ میں ابھی کچھ تیزی ہے مگر نہ ایسی کہ برداشت ہی نہ ہو بلکہ ایسی ہے کہ گرمی معلوم نہیں ہوتی ہمارے ہاں کے اکتوبر بلکہ نومبر کے ابتدا کا سا موسم ہے.ہوٹل والے نے فی کس یومیہ ۳ بیا سٹر یعنی قریباً چار روپے گیارہ آنے فی کس چارج کئے ہیں خالی رہنے کے.سادہ نسل کے لئے دولوٹے پانی ساڑھے بارہ آنے میں.اگر پانی گرم کرانا ہو تو ایک روپیہ فی کس سے بھی زیادہ - ایک بوٹ کی معمولی پالش اڑھائی آنے میں ہوتی ہے.ایک بیاسٹر ) سکہ اس جگہ مصر کا چلتا ہے.ایک جنی ( گئی ) ۱۰۰ پیا سٹر یا بیا سٹر اور بیاسٹر ہمارے ملک کے٫۰۲ کے قریب ہوتا ہے.بیا سٹر کوٹر ش ، قرش ، عرش ، عش ، غرش اتنے الفاظ میں بولتے ہیں.نصف بیاسٹر ( پیاسٹر ) کو تعریفہ کہتے ہیں اور وہ پانچ پیسے ہمارے ملک کے برابر ہوتا ہے اس پر انگریزی میں پانچ لکھا ہوتا ہے مگر اس کے اندر سوراخ ہوتا ہے.پانچ کا ہندسہ پانچ بیا سٹر پر بھی لکھا ہوتا ہے مگر اس میں سوراخ نہیں ہوتا اور وہ بڑا ہوتا ہے.ایک پیسہ کو ملین کہتے ہیں.دس بیا سٹر اور پانچ بیا سٹر چاندی کے بھی ہیں اور زنکل کے بھی.چاندی کے چھوٹے اور نکل کے بڑے.حرم بیت المقدس : حضور نے کل صبح صرف ایک پیالی قہوہ سے ناشتہ فرمایا کچھ پیچش کی تکلیف تھی.9 بجے کے قریب حضور حرم شریف کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے یعنی جس مقام کے نام بیت المقدس ، یروشلم ، القدس ، قدس ہیں اس مقام کو یہاں حرم شریف کے نام سے تعبیر کرتے ہیں.ایک بڑے وسیع احاطہ کے بیچوں بیچ ایک گول گنبد کی بلند بالا عمارت جس کے چاروں طرف کئی دروازے اور جالی دار جھرو کے ہیں کھڑی ہے.اولاً حضور اس عمارت کے باہر کھڑے ہوئے خدام ہمرکاب ساتھ تھے.البتہ ذوالفقار علی خان صاحب چونکہ گورنمنٹ ہاؤس میں ایک ضروری کام کو گئے تھے اور چوہدری فتح محمد خان صاحب بوجہ علالت طبع شریک نہ ہو سکے.صاحبزادہ
۴۵ حضرت میاں صاحب سلمہ رتبہ نے ایک فوٹو لیا جس میں کوشش یہ تھی کہ کسی طرح سے ساری عمارت کا فوٹو بھی آ جائے مگر نہ آسکا کیونکہ دھوپ کا وقت تھا.فوٹو کے بعد حضور اس مکان کے اندر تشریف لے گئے.جو تے جو پہلے صحن حرم میں پہنے ہوئے تھے اب اُتار دیئے گئے.بعض لوگ جو تا اُتارتے نہیں اس کے اوپر غلاف چڑھا لیتے ہیں.مکان کے اندر مختلف مقامات حضور کو دکھائے گئے.وہ صحرہ ( پتھر ) جس پر ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اور دوسرے تمام انبیاء نے قربانیاں کیں اور اور تمام باتیں حضور کو بتائی گئیں جو بطور روایات اس مقام سے متعلق چلی آرہی ہیں.حضور نے حنفی مصلی پر دو رکعت نماز ادا کر کے لمبی دعائیں کیں.میں نے وہ ساری فہرست حضرت کے حضور پیش کی جو دوستوں کے ناموں کی دعاؤں کی غرض سے بنائی گئی تھی اور جس کے ابتدا میں خاندان نبوت کے تمام اراکین و خواتین مبارکہ کے اسماء فرداً فرداً لکھے گئے تھے جو حضور نے بغور ایک ایک کر کے ملاحظہ فرمائے اور دعائیں کیں.حضور کے سوا باقی سب دوستوں نے وضو کرنا تھا.حضور انتظار میں رہے بیٹی کہ دوست وضو کر کے آگئے.سب سے پہلے وضو کر کے میں حاضر ہوا.حضور اس وقت تنہا دعا ئیں کر رہے تھے بیٹھے ہوئے.ان مقامات کو دیکھ کر حضور مسجد عمر میں تشریف لے گئے جس کا ایک حصہ مرمت کے واسطے بند تھا.مرمت کے واسطے قسطنطنیہ سے انجنیر آئے ہوئے تھے اور معمار بھی وہیں سے آئے ہوئے تھے.حضور کو تمام مقام الگ الگ دکھائے گئے اور پرانے صُحف بھی دکھائے گئے جن میں ایک مصحف سورہ یس کا حضرت عثمان کے طرز تحریر کی نقل تھا اور اس میں نقاط اور اعراب بالکل نہ تھے.وہاں سے فارغ ہو کر حضور اس مقام پر تشریف لے گئے جس کے متعلق یہ قصہ مشہور ہے کہ حضرت عیسی وہیں سے آسمان پر اُٹھ گئے تھے ، بذریعہ موٹر کا رسب ۶ آدمی ساتھ تھے جن میں سے ایک میں بھی تھا.مسجد اقصیٰ کی سیڑھیوں سے اُترتے ہوئے حضور کا ایک اور فوٹو لیا گیا.ایک بجے حضور گورنر کی ملاقات کو تشریف لے گئے اور بعض سیاسی امور اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت پر لمبی گفتگو رہی.اس نے حضور کی دعوت بھی کی جو حضور ۳ / تاریخ کو ایک بجے
۴۶ کھائیں گے.ترجمان مولوی عبد الرحیم صاحب درد تھے خان صاحب بھی ساتھ تھے.بہت لطائف تھے جو آئندہ عرض کروں گا انشاء اللہ.ہندوستان کی ڈاک : سنا ہے کہ آج ۸ بجے جائے گی لہذا مختصراً عرض ہے کہ کل ۲ / اگست کو حضور کی چائے کے لئے دعوت تھی مفتی بیت المقدس کے مکان پر جو یہاں کی سپریم کونسل کا صدر ہے.چائے پر مذہبی گفتگو اور سلسلہ کے حالات پر بھی بحث رہی جو انشاء اللہ پھر عرض کروں گا.بڑے بڑے آدمی اس دعوت پر مدعو تھے ہمارے شاہ صاحب ولی اللہ شاہ صاحب کے ایک دوست بھی تھے.شام کے قریب وہاں سے دواڑھائی گھنٹہ کے بعد فارغ ہو کر حضور اس مقام کو دیکھنے گئے جہاں حضرت عیسی علیہ السلام کو بطور ملزم پیش کیا گیا تھا اور جہاں ان پر فردجرم لگایا گیا اور جہاں ان کو فیصلہ سنایا گیا تھا اور جہاں پیلاطوس نے ان کے خون سے ہاتھ دھوئے تھے.ہاں عرض کرنا بھول گیا ظہر وعصر کے بعد حضرت نے اس مقام کو بھی دیکھا جو یہاں بڑا گر جا ہے جہاں حضرت عیسی نے اپنی صلیب آپ اُٹھائی تھی اور چودہ مقامات پر بے ہوش ہو ہو کر کھڑے ہوتے تھے اور پھر گر جاتے تھے اور جہاں ان کی ماں ان کو ملنے آئی اور جہاں آخر ان کو صلیب دیا گیا تھا ان کا لاشہ رکھ کر معطر کیا گیا تھا اور وہ قبر بھی دیکھی جس میں تین دن رہے تھے وہ پتھر جو قبر کے دروازہ سے ہٹایا گیا اب بھی کھڑا ہے.رومی سپاہی جس مقام پر پہرہ دیتے تھے وہ کمرہ بھی موجود بتایا جاتا ہے.غرض روایات اور کہانیوں کے طومار ہیں جو ختم نہیں ہوتے خواہ وہ بائبل کے بھی خلاف ہوں بہت ہی سنائے جاتے ہیں.حضرت عمر نے جب بیت المقدس کو فتح کیا اور گر جا کے اسقف نے گر جا کی چابیاں پیش کر کے گرجا میں نماز کی درخواست کی تھی وہ مقام بھی دیکھا مگر حضرت عمر نے جہاں نماز ادا کی وہ جگہ اب مسجد ہے جس کا منا ر ہے بلند - محراب ہے.حضرت صاحب نے اس محراب میں ایک سجدہ کیا لمبا اور ہم سب نے حضرت کے ساتھ مل کر دعا کی.کل ۲ / اگست ۱۹۲۴ء کو حضور نے دوستوں کو یونیفارم میں نکلنے کا حکم دیا اور ترتیب مقرر کی کہ کس کس طرح سے ہم لوگ حضور کے ساتھ رہیں.ہمارے مقامات اور درجات بتائے جو پھر انشاء
۴۷ اللہ عرض کروں گا.رات کو عشاء کے وقت حضور واپس تشریف مکان پر لائے.یہودی لوگ دیواروں میں سر دے کر اور منہ لگا لگا کر جہاں دعائیں کرتے ہیں، روتے ہیں وہ دیوار اور نظارہ بھی حضور نے کل ۲ / اگست کو ملاحظہ فرمایا تھا.دیوار گر یہ اسی دیوار کا نام ہے.مغرب اور عشاء کی نماز میں حضرت نے خود پڑھا ئیں.ایک تار قادیان سے آیا جس میں بھیرہ کے حالات درج تھے اور ضمانت پر رہائی کی اطلاع تھی.حضور نے کل مسجد عمر میں سجدہ کے وقت بھیرہ والوں کے واسطے بھی دعائیں کی تھیں.آج ۳ را گست کا دن ہے.حضور صبح کی نماز میں نہیں آسکے طبیعت خراب ہے.آج واپسی کا ارادہ ہے اور حیفا اور عکہ سے ہوتے ہوئے دمشق جانے کا ارادہ ہے.شام کو پانچ بجے کی گاڑی سے روانہ ہوں گے انشاء اللہ.الگ الگ خطوط پھر بھی عرض نہیں کر سکا وقت اور فرصت نہیں لہذا اسی کو قبول فرما یا جاوے اور دعاؤں میں یا د رکھا جاوے.خادم عبدالرحمن قادیانی از بیت المقدس ۳/اگست ۱۹۲۴ء
۴۸ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خط نمبر ۶ ، از مقام حیفا : مورخه ۴ را گست ۱۹۲۴ء السلام عليكم و رحمة الله وبركاته قدس سے روانگی ۳ را گست : ۵ بجے شام کو القدس سے سوار ہو کر شام کے وقت ہم لوگ واپس لد کے سٹیشن پر پہنچے جہاں حیفا کے لئے گاڑی بدلنی پڑی.لد سے دوسری گاڑی لے کر رات کے ساڑھے دس بجے حیفا کے سٹیشن پر پہنچے.حیفا سمندر کے کنارے پر بہت ہی خوبصورت اور صاف ستھری بستی ہے.ریل کی لائن سمندر کے بالکل کنارے پر سے گزرتی ہے اور سمندر کی موجیں ریل کی سڑک سے ٹکر اٹکرا کر واپس جاتی ہیں.رات کا وقت سمندر کے اندر کشتیوں اور جہازوں میں بجلی اور لیمپوں کی روشنی شہر کے مکانات سے چراغاں کا سماں نہایت ہی دلکش نظارہ اور خوش منظر تھا.سمندر کی ٹھاٹھوں کو دیکھ کر ایک بار پھر ہمیں اپنا پہلا جہازی سفر یاد آ گیا.حیفا میں ورود ۴ را گست: گاڑی حیفا کے سٹیشن پر پہنچی.ہوٹلوں کے ایجنٹ اور دلال پلیٹ فارم پر موجود تھے اور اترنے والے مسافروں کو یا حاجی یا حاجی کر کے ادھر اُدھر گھسیٹتے تھے.کنگ کے ایجنٹ بھی موجود تھے حضور نے انہی کے سپر داپنا کام کر دیا.سامان گاڑی سے ہم لوگوں نے خود ہی اُتارا اور اسٹیشن کے مسافرخانہ میں لے گئے.حضرت کا سامان حضرت کے ساتھ ہی گرائنڈ ہوٹل نضار میں بھیج دیا جو سمندر کے کنارے بہت ہی خوبصورت مقام پر واقع ہے.حضرت کے ہمرکاب اس ہوٹل میں صاحبزادہ حضرت میاں صاحب سلمہ رتبہ ، حضرت خان صاحب، ڈاکٹر صاحب اور چوہدری محمد شریف صاحب بھی تشریف لے گئے.باقی کے متعلق حضرت حکم دے گئے کہ کسی قریب کے ہوٹل میں ٹھہر جائیں کیونکہ وہ ہوٹل شہر سے بہت دور تھا سامان کا لے جانا اور پھر صبح کو واپس لانا مشکل ہوتا.لہذا ہم میں سے حافظ صاحب، عرفانی صاحب اور چوہدری فتح محمد خاں صاحب تینوں بزرگ ایک یہو دن کے ہوٹل میں ٹھہرے جو سٹیشن سے ایک منٹ کی راہ پر واقع تھا اور جس کا نام ہید ڈائری کے خط نمبر ۴ اور ۶ تاریخ کے لحاظ سے مسلسل ہیں ممکن ہے نمبر دیتے وقت سہوا نمبر ۵ کی بجائے نمبر ۶ درج کر دیا گیا ہو.
۴۹ دار الفرح تھا اور شاید کسی وجہ سے کچھ بد نام بھی تھا.شیخ صاحب مصری گئے اور کرایہ کا فیصلہ کیا ۶ قرش فی کس تھا.مگر خود وہاں جا کر اس وجہ سے نہ ٹھہرے کہ وہاں عورتوں کی موجودگی بدنامی کا موجب معلوم ہوتی ہے اور حیفا چونکہ اس علاقہ میں بدنام بھی ہے اس لئے اس جگہ ہوٹلوں میں ٹھہرنے کے وقت احتیاط ہی لازم ہے.باقی مصری صاحب، مولوی عبد الرحیم صاحب درد، چوہدری علی محمد صاحب ، میاں رحمدین اور قادیانی ہم لوگ سٹیشن کے مسافر خانہ میں ہی شب باش ہوئے.سامان چونکہ سب ہمارے پاس تھا لہذا میاں رحمدین اور قادیانی رات کو باری باری پہرہ دیتے رہے باقی دوست جہاں آرام کی جگہ دیکھی اِدھر اُدھر کے بنچوں پر لیٹ گئے.موسم گرم تھا رات کو پسینہ آتا تھا.مچھر اور گتی بھی ستاتے تھے.پولیس ہوشیار اور فرض شناس معلوم ہوتی ہے.رات کو شہر میں وسلوں کی آوازیں بہت بھلی معلوم ہوتی تھیں جو پولیس کے پہرہ دار ایک دوسرے کو خبر دار کرنے کی غرض سے بجاتے تھے.حیفا ایک چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے سلسلہ کے ساتھ آباد ہے اور بہت خوش وضع اور صاف مقام ہے.لوگ اکثر اس کے نظاروں کی وجہ سے سیر و سیاحت اور بعض کیا اکثر عیاشی کی غرض سے یہاں آتے سنے جاتے ہیں.رات چونکہ حضرت کو دو ایک دست آگئے تھے اور طبیعت بے آرام تھی بلکہ القدس سے ہی طبیعت خراب تھی رات بے آرامی میں گزری.صبح کو سٹیشن سے مصری صاحب اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد حضرت کے حضور گئے مگر حضور سوئے ہوئے تھے آٹھ بجے کے بعد بیدار ہوئے اور نماز صبح کے بعد پھر سو گئے تھے.بیداری کے بعد ناشتہ فرمایا اور شہر کی سیر کے لئے نکلے.راستہ میں گاڑیاں مل گئیں کرایہ پر لے لیں.حضرت کی گاڑی کا ڈرائیور ( گھوڑا گاڑی عربی گھوڑوں کی فٹن یا لینڈ و ) پڑھا لکھا بلکہ مولوی آدمی تھا.حضرت نے اس کو تبلیغ شروع کر دی اور وہ خاصے سوال و جواب کرتا رہا.تھوڑی دور جا کر حیفا کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی کوٹھی آ گئی حضرت صاحب نے مولوی
عبدالرحیم صاحب درد کو اس سے ملاقات کرنے کو بھیج دیا اور خود بازار میں سڑک کے ایک موڑ پر کھڑے رہے گا ڑیوں میں.ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اچھا خلیق آدمی تھا.محبت اور اخلاق سے پیش آیا اور حضرت کا نام سن کر کہا کہ سفر لمبا ہے راستہ میں شاید کوئی سامان نہ ملے لہذا میں کچھ فروٹ منگا تا ہوں آپ میری طرف سے ہنر ہولی نس (His Holiness) کے پیش کردیں سفر میں آرام ہو گا مگر مولوی صاحب نے شکریہ کے ساتھ معذرت کی.مختصر سی باتیں ہوئیں.سید نا حضرت صاحب کا عزم اور کچھ حالات اور ہندوستان کی سیاسی حالت اور مسٹر گاندھی کے حالات بھی پوچھے.مولوی صاحب نے اس سے پوچھا کہ آیا اس کے پاس القدس کے گورنر کی کوئی چٹھی پہنچی ہے یا کہ نہیں.اس نے کہا کہ کوئی نہیں آئی اگر آئی ہو گی تو آج اتوار کی وجہ سے دفاتر بند ہیں.مجھے مل نہیں سکی.چٹھی کے سوا بھی اگر کوئی خدمت میرے لائق ہو تو میں حاضر ہوں.پھر کہا کہ حیفا بہت خوبصورت جگہ ہے ایک دو دن ٹھہر کر دیکھنا چاہیئے اور بیروت ضرور جانا چاہئیے یہاں سے موٹر جاتی ہے وغیرہ.مولوی صاحب اس سے مل کر واپس حضرت کے حضور آ گئے اور رپورٹ پیش کی اور حضور آگے چلے.ایک مقام پر ایک مکان کے اوپر لکھا ہوا تھا " عبد البھا عباس‘.حضرت اقدس کو چونکہ رات ہی رپورٹ پہنچ چکی تھی کہ حیفا میں بہائی لوگ موجود ہیں اور کہ شوقی آفندی جو اس وقت بہائیوں کے ایک حصہ کا خلیفہ مانا جاتا ہے وہ عکہ سے نکل کر حیفا میں آ گیا ہے کیونکہ علکہ میں محمد علی صاحب کے مقابلہ میں جو کہ بہاء اللہ کا بھائی ہے اس کے تنازعات ہو گئے ہیں اور معاملہ طول پکڑ کر آخر شوقی صاحب کو محمد علی کے مقابلہ میں شکست ہوئی اور عکہ چھوڑنا پڑا اور اس طرح وہ تمام خاندان کو لے کر حیفا میں آگیا ہے اور کہ اب وہ حیفا میں بھی موجود نہیں بلکہ سوئیٹر رلینڈ میں چلا گیا ہے.حضرت کے حکم سے مولوی عبد الرحیم صاحب درد، صاحبزادہ حضرت میاں صاحب سلّمه ربہ اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب شوقی کے مکان پر گئے.ان کے نوکر سے معلوم کیا.نوکر نے بتایا کہ شوقی آفندی یہاں موجود نہیں سوئیٹزرلینڈ میں گیا ہوا ہے اور کہ اس کا باپ یہاں موجود ہے اس کو اطلاع کئے دیتا ہوں.اتنے میں دو چار چھوٹے چھوٹے بچے اور ایک لڑکی پندرہ سولہ برس کی آگئے
۵۱ اور محبت سے ملنے لگے.ان میں ایک لڑکا شوقی صاحب کا بھائی اور دوسرا سالا تھا.حضرت میاں صاحب سلمہ ربہ نے فوراً ان کے گھر سے ایک کرسی منگا کر ان بچوں کا فوٹو لے لیا اور مولوی عبد الرحیم صاحب درد اور ڈاکٹر صاحب ان بچوں کے اندر کھڑے ہو گئے.مکان کا ایک حصہ فوٹو میں لینے کی کوشش کی گئی مگر بعد میں معلوم ہوا کہ فاصلہ لینے میں جلدی کی وجہ سے غلطی ہوئی.شاید فوٹو صاف نہ آیا ہو یا خراب ہی ہو گیا ہو.شوقی صاحب کے باپ ابھی گھر سے باہر نہ آئے تھے کہ حضرت میاں صاحب سلمہ رتبہ فوٹو وغیرہ لے کر بچوں کو پیار کرتے ہوئے واپس آگئے.لڑکوں نے یا ان کے نوکر نے اعزاز کے طور پر بطور نذرانہ ایک خوشه انگور اپنے مکان سے صاحبزادہ حضرت میاں صاحب سلمہ رتبہ کو دیا جو لے لیا گیا اور سید نا حضرت کے حضور پیش کیا گیا.حضور نے تمام حالات سن کر فرمایا کہ بہت اچھا اب اس خوشه انگور کے عوض واپسی پر ان بچوں کے لئے کوئی تحفہ ہم بھی لے آویں گے.صاحبزادہ حضرت میاں صاحب سلمہ رتبہ کے مکان پر جانے اور فوٹو لے کر واپس آ جانے کا علم شوقی صاحب کے باپ کو بھی ہو گیا اور وہ جلدی جلدی ملاقات کر نے کوٹیشن پر آیا مگر حضرت اقدس چونکہ پہلے ہوٹل کو گئے ہوئے تھے جہاں سے سامان لیا اور پھر سٹیشن پر تشریف لائے لہذا شوقی صاحب کے والد صاحب مولوی عبدالرحیم صاحب درد سے ملے اور پوچھا کہ کیا آپ ہمارے مکان پر گئے تھے؟ مولوی صاحب نے کہا ہاں مگر کوئی بات نہ ہو سکی کیونکہ گاڑی چلنے میں بہت تھوڑا وقت تھا بمشکل سامان پہنچا کر ٹکٹ لیا گیا.وہ دو ایک اور آدمیوں کو لے کر اسٹیشن پر آئے تھے کہ ملاقات ہوگی اور حالات معلوم ہوں گے مگر گاڑی کی جلدی کی وجہ سے کسی کو بھی فرصت نہ ہوئی کہ ان سے بات چیت کرتا اور ہم لوگ گاڑی پر سوار ہو کر جلدی حیفا سے رخصت ہو گئے.ریل میں جو عکہ کے حالات سنے گئے : عکہ کے متعلق بعض حالات ہمیں عکہ کے مقامی لوگوں ہی کے ذریعہ سے جو گاڑی میں ہمارے ہم سفر تھے معلوم ہو گئے تھے.عکہ کی کل آبادی ۱۵۰۰ نفوس پر مشتمل تھی جن میں سے ۹۰۰ کے قریب مسلمان باقی یہود ونصاری ہیں.ان میں بابیوں کی کوئی حیثیت اور نام نہیں.بہت کریدنے سے معلوم ہوا کہ تھے کچھ لوگ مگر اب وہ منتشر ہو گئے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ۴۰ نفوس ان کے عکہ میں ہوں گے ان کو وہاں کوئی وقعت نہیں لوگ منافق کہتے
۵۲ ہیں.عکہ میں یہ لوگ نماز مسجدوں میں جا کر ادا کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ.ان لوگوں کے حالات بالکل منافقانہ اور غیر معززانہ ہیں.کوئی شہرت کوئی وقعت واہمیت ان کو یہاں نہیں دی جاتی اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تباہی کے سامان پیدا کر دیئے ہیں اور انشاء اللہ وہ دن دُور نہیں کہ اس فرقہ ضالہ کی حقیقت کا انکشاف ہو کر دنیا میں اس کی رسوائی اور ایسی ذلت ہو کہ پھر یہ کفر کبھی سر نہ اٹھا سکے.اللہ کرے ایسا ہو.عکہ گوا بھی حضور نے دیکھا نہیں کیونکہ حضور کی طبیعت اچھی نہ تھی اس وجہ سے صبح نہ جا سکے مگر ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ دمشق سے واپسی پر موقع دے تو ضرور دیکھا جائے.عکہ حیفا سے موٹر کے ذریعہ صرف ۲۰ منٹ کا راستہ ہے اور ساحل سمندر پر واقع ہے.پورٹ اور بندرگاہ ہے.گاڑی میں سے نظر آتا تھا اور ریل بھی وہاں جاتی ہے.حیفا سے ساڑھے دس بجے صبح کے روانہ ہوئے اور شام کو ساڑھے آٹھ بجے صبح دمشق پہنچے.حیفا سے چل کر راستہ میں جلیل ( گلیل) کی پہاڑیاں پڑتی ہیں جو حضرت مسیح ناصری کی خاص طور پر یاد دلاتی ہیں.ناصرت بھی راستہ میں آتا ہے اور ناصرت کے قریب سے ریل گزرتی ہے.میدانوں میں عرب کے قبائل کے پرانی اور قدیم طرز کے سیاہ بالوں کے خیمے دیکھنے میں آئے اور پرانے زمانہ کی یاد آنکھوں کے سامنے پھر گئی.قبائل بالکل ننگے میدانوں میں خیمہ زن تھے.عورتیں اور بچے خیموں میں نہایت خوشی اور بے فکری سے اِدھر اُدھر چلتے پھرتے نظر آتے تھے.بعض بچے گاڑی کو دوڑتے دیکھ کر گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑنے کی مشق کرتے حتی کہ بعض بڑے بڑے آدمی بھی اسی طرح کرتے دیکھے گئے.اونٹ سُرخ ، اونٹ سفید، بھیڑ، دنبے اور بکریاں کثرت سے میدانوں میں پھرتی نظر آتی تھیں.ان کے ساتھ راعی عموماً ایک گدھے پر سوار نظر آتا تھا جس کے ساتھ ساتھ ایک کتا بھی رہتا تھا.نہایت سرسبز حصے میدانوں کے جن میں خریف اور ربیع دونوں فصل برابر برابر کھڑے نظر آتے تھے یعنی گیہوں کے کھیت بھی بعض جگہ ابھی کھڑے تھے اور اکثر جگہ کاٹے جاچکے تھے.بعض جگہ غلہ نکل چکا تھا اور اکثر جگہ ابھی غلہ نہ نکلا تھا اور ساتھ ہی مکئی ، جوار، تل اور چنے کے سبز کھیت موجود تھے.ان سرسبز میدانوں کو عبور کرتے کرتے اور انجیر، انگور اور سیب سٹیشنوں پر سے ارزاں تر خرید تے
۵۳ ہوئے مسافر لوگ آخر پہاڑیوں کے پیچدار راستوں سے گزرتے دریائے بیرون اور یرموک کے پاس سے ہوتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی محنتوں اور جانفشانیوں کے حالات کی یاد کو متحضر کرتے دعائیں کرتے اور درود پڑھتے ہوئے نکلتے گئے.آخر گاڑی پہاڑیوں کی چوٹیوں سے اوپر کے میدان میں پہنچی جہاں کھلا اور ہموار میدان تھا.پہلا بڑاسٹیشن جو میدان میں آیا اس کا نام درعا تھا جہاں فرنچ گورنمنٹ کی چھاؤنی اور غلہ کی بڑی بھاری منڈی تھی.کھلے میدانوں اور دیہات کے مناظر کو دیکھتے اور جوار کے طول طویل کھیتوں کی سیر کرتے ہوئے دمشق کی طرف ہم لوگ بڑھتے چلے گئے.شام ہو گئی اور پھر پہاڑیوں کا سلسلہ جاری ہو گیا جن میں سے نکل کر پھر گاڑی دمشق کی پہاڑیوں میں پہنچی.سرسبز باغات ، چشموں اور آبشاروں سے گزرتے ہوئے آخر ساڑھے آٹھ بجے رات کو دمشق کے سٹیشن پر خلیفہ وقت اور اس کے خدام کو لے پہنچی.دمشق میں ورود : دمشق کے اسٹیشن پر پہنچتے ہی لوگوں کا گھمسان ہو گیا.حجاج چونکہ ان دنوں حج سے واپس آ رہے ہیں ان کے استقبال کے لئے ان کے عزیز اور رشتہ دار اسٹیشن پر موجود تھے.بعض حاجی لوگ حج کے بعد مقامات مقدسہ کی زیارت کو بھی آتے ہیں ان کے لینے اور اپنے ہاں ٹھہرانے کی غرض سے دلال لوگ حاجی حاجی کرتے پھرتے اور اپنے مکانات پر لے جانے کی کوشش کرتے تھے.حاجیوں کے رشتہ دار آتے اور حاجیوں سے مل کر ایک دوسرے کے بوسے لیتے تھے.یہ طریق بوسوں کا ہمیں تو بہت ہی مکر وہ نظر آیا.واللہ اعلم بالصواب اس علاقہ کا رواج ہی کچھ ایسا ہے جسے دیکھ کر بھی گھن آتی ہے.ہم لوگ جب سامان اُتار رہے تھے ایک صاحب پنجاب ضلع لدھیانہ کے رہنے والے حاجی عبداللہ کے نام سے مشہور جو اس علاقہ میں بیس سال سے رہتے ہیں اور حجاج اور زائرین کی خدمت کرتے ہیں ان کو ہمارا پتا کسی نے القدس سے لکھ دیا تھا وہ ہمارے پاس پہنچے اور اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کرنے لگے.ان سے ہوٹل وغیرہ کا کرایہ فیصلہ کرنا چاہا گیا مگر معلوم ہوا کہ وہ صرف کمیشن ایجنٹ ہیں یا حجاج سے کچھ بطور بخشش ان کو مل جاتا ہے ملازم ہوٹل نہیں ہیں.خیر ان کی مدد سے سامان سٹیشن سے باہر نکلوایا گیا اور کشم پر لایا گیا.سٹیشن کے ہال کا گنبد نہایت ہی شاندار
۵۴ چھت سے مقف ہے اور بہت ہی قیمتی کام اس کی چھت پر کیا گیا ہے.اس کے نیچے کٹم ہاؤس کا ایک افسر فرانسیسی کھڑا تھا اس سے بات چیت کی گئی اور اس طرح سامان دیکھے بغیر ہی اس نے اجازت دے دی.سامان گاڑیوں میں لا دا گیا حضور نے سب خدام کوٹیشن کے پورچ کے چبوترہ پر جمع کر کے داخلہ شہر کی دعائیں کیں اور پھر گھوڑا گاڑیوں کے ذریعہ سے حضور شہر کے ایک اچھے ہوٹل خد یو یہ نامی میں تشریف لائے.سامان اُتارا گیا اور کمرے دیکھنے کی کوشش کی گئی مگر معلوم ہوا کہ گنجائش نہیں ہے.آخر حضور تو وکٹوریہ ہوٹل میں تشریف لے گئے مع خان صاحب ، صاحبزادہ حضرت میاں صاحب سلمہ رتبہ اور ڈاکٹر صاحب کے اور باقی خدام خدیویہ کے ایک کمرہ میں فرش زمین پر لیٹ رہے جس کے لئے ہمیں فی کس نصف مجیدی یعنی ۱۲ ر فی کس کے قریب ادا کرنا پڑا.۵ / اگست ۱۹۲۴ء : ۵/اگست کی صبح کو حضور وکٹوریہ ہوٹل سے واپس تشریف لے آئے کیونکہ وکٹوریہ میں بھی کوئی جگہ خالی نہ تھی رات جو جگہ مل گئی تھی وہ صرف رات ہی کے واسطے تھی اور صبح ۱۰ بجے وہاں بھی اور مسافر آنے والے تھے جن کے لئے وہ سیٹیں ریز رو تھیں.لہذا حضور خد یو یہ میں تشریف لے آئے اور خدام کو جمع کر کے کسی اچھے ہوٹل کی تلاش کا حکم دیا.باوجود بڑی جد و جہد کے کوئی اچھی جگہ نہ ملی بمشکل سنترال ہوٹل میں صرف ایک کمرہ تین سیٹ کا ملا - پھر خان صاحب کو فضل کے پاس بھیجا گیا جس سے بات چیت کے نتیجہ میں اس نے اپنا آدمی سنتر ال ہوٹل میں بھیجا تب جا کر ایک چھوٹا کمرہ حضرت اقدس کے لئے الگ ہمیں دستیاب ہوا.ہوٹل صاف اور اچھا ہے.تیسری منزل پر حضور فروکش ہیں.حضور کے ساتھ ہی جناب خان صاحب اور ڈاکٹر صاحب کا کمرہ ہے مگر پاخانہ ( بیت الخلا ) بہت ہی گندہ اور بد بودار ہے.بعد میں صاحبزادہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب سلمہ رتبہ کے واسطے بھی ذرا ہٹ کر الگ ایک چھوٹے کمرے کا انتظام ہو گیا فالحمد للہ.دوسرے دوستوں کے لئے باوجود کوشش کے کوئی اچھی جگہ نہ ملی آخر اسی بازار میں خدیو یہ اور سنترال ہوٹل کے متصل ہی ایک ہوٹل دار السرور میں 9 سیٹ مل گئیں جو ایک معمولی اور سستا ہوٹل ہے.پون مجیدی فی کس کرایہ پر فیصلہ ہوا جو مجبور آلینا پڑا.
حضور نے شیخ صاحب عرفانی، حافظ صاحب اور چوہدری فتح محمد خان صاحب کو دمشق کے علماء اور رؤسا کے ملنے کا حکم دیا جو عصر کی نماز کے بعد گئے اور ایک افغان سے مل کر دمشق کے بعض علماء اور ا کا بر کے پتے لئے.الشیخ مولوی بدرالدین مشہور اور پرانے عالم سے بھی ملے اور اور بہت سے علماء کے ایڈریس بھی لائے.حضور کل شام کو ٹرام کے ذریعہ سیر کے لئے تشریف لے گئے اور دو تین میل تک جا کر پھر واپس آئے.ٹرام کا ٹکٹ کلکٹر بہت ہی پر لطف آدمی تھا.اس نے حضور سے عربی میں خوب باتیں کیں اور کئی معلومات اس سے حاصل ہوئے.ٹرام ان دنوں شہر میں بالکل خالی پھرتی ہے.اس کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ ٹرام کا کرایہ بڑھا دیا گیا تھا لوگوں نے اس کو بالکل بائیکاٹ کر دیا ہے اور اب ترام شہر میں قریباً قریباً خالی پھرتی ہے.کبھی کبھی کوئی عورت یا نا واقف اجنبی آدمی بیٹھ جاتے ہیں یا سرکاری آدمی اس کے ذریعہ سے نقل وحرکت کرتے ہیں.اس نے بتایا کہ کوئی آپ لوگوں کی طرح دھو کا خوردہ انجان ہی آجکل ٹرام پر بیٹھتا ہے ور نہ واقف کا رشہری کوئی نہیں بیٹھتا.ٹرام کے کرایہ میں اس کو ایک بڑا سکہ دے دیا گیا ہے اس نے سارے کا سارا رکھ لیا اور کہا کہ ہمارا قاعدہ ہے جو ہاتھ آجائے واپس نہیں دیا کرتے.زیادہ آ گیا تو ہما را اگر کسی نے کم دے دیا تو بھی بھگت لیتے ہیں.اس نے بتایا کہ ہماری ٹرام کا سکہ ہی الگ ہے جو ہمارے قانون اور مرضی کے مطابق بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے.پھلوں کا ذکر کرتے ہوئے خوب منہ بنا بنا کر باتیں کرتا ،ساتھ بولتا اور ساتھ ساتھ اشارات بھی کرتا تھا.انگور کے متعلق بھی بتایا کہ ابھی خام ہے دس دن کے بعد تیار ہو گا اور بہت ہی لذیذ اور شیریں ہوگا.انجیر کے متعلق بتایا کہ چھوٹی انجیر بہت ہی اچھی ہوتی ہے.پھر تھیڑ کا ذکر کرتے ہوئے بہت ہی شوق دلایا کہ ضرور دیکھ لینا.اگر آپ پسند کریں تو میں ساتھ چلوں گا مگر حضرت نے اس کی تفاصیل پوچھیں تو بتایا کہ اس میں تین عورتیں ہوں گی اور تین مرد ہوں گے.عورتیں گائیں گی اور مرد بجائیں گے.گویا کچینیوں کا ناچ بتایا حالانکہ یہی وہ چیز تھی جس کو وہ پہلے کہتا تھا کہ عربی علم ادب کی اعلی ترین واقفیت حاصل کرنا ہو تو تھیٹر میں جائیں.پھر حضرت نے فرمایا کہ وہاں شراب بھی پیتے ہوں گے تو کہا شوق سے جتنی چاہیں ملے گی.حضور نے
۵۶ ان باتوں کے سننے پر فرمایا کہ ان لوگوں کی غیرت و حمیت اور دینی جس ہی مر چکی ہے اگر ہم اس سے کھول کھول کر نہ پوچھتے تو ایک علمی اور ادبی مجلس کے دھوکہ میں ہمیں بھی ایسی بد نام اور گندی مجلس میں لے جاتا.ٹرام واپس اپنے سٹیشن پر پہنچی.حضور نے وہاں سے دو موٹریں کرایہ پر لیں اور سوار ہو کر اندرون شہر کی سیر کا ارادہ فرمایا اور فرمایا کہ شہر کے مشرقی جانب سے شہر میں داخل ہوں.خان صاحب ساتھ نہ تھے ان کو لو کندہ سنترال سے جہاں حضرت صاحب ٹھہرے ہوئے تھے لینے آئے تا کہ قافلہ پورا ہو جائے.وہ دیر سے آئے.موٹر کو ڈرائیور چلانے لگا تو موٹر چلتی ہی نہ تھی دیر تک کھڑے رہے.موٹر والوں نے ہزار کوشش کی مگر موٹر نہ چلی.لوگوں کا ایک جمگھٹا موٹر کے گرد جمع ہو گیا جن میں اچھے سمجھدار لوگ اور سنجیدہ آدمی بھی تھے.تنگ آ کر موٹر کو دھکیلنا شروع کیا اور واپس ڈھلان کی طرف دوڑایا تا کہ اس طرح شاید سٹارٹ ہو جائے مگر اڈہ تک دوڑائے چلے گئے.سٹارٹ نہ ہوئی.آخر حضور اس گاڑی سے اُتر کر دوسری گاڑی میں تشریف لے آئے اور پہلی گاڑی خالی کر دی.دوسری گاڑی کرایہ کے لئے منگانے کی کوشش کی مگر وہ کرایہ دگنا ما نگتے تھے.اس فکر میں قریب تھا کہ کسی دوسری موٹر میں سوار ہو جاتے کہ وہ پہلی حضرت اقدس والی موٹر سٹارٹ ہوگئی اور ہم لوگ اس میں بیٹھ کر حضرت کے ہمرکاب شہر کے اندرونی حصہ کی سیر کو روانہ ہوئے.شہر کے شرقی جانب محلۃ الیہود کی جانب شہر سے باہر نکل گئے اور پھر شہر میں داخل ہوئے.محلۃ الیہود کو عبور کیا محلہ النصاری آیا.اس کو بھی عبور کرتے تھے کہ مولوی عبد الرحیم صاحب درد نے کہا دمشق کے شہر کو سوتے سوتے ہی فتح کر لیں.اس کلمہ کے دو چار قدم بعد ہی ہماری موٹر کا پہیہ نکل گیا اور موٹر زمین پر لیٹ گئی.حضرت صاحب کی موٹر بھی ٹھہر گئی.خان صاحب کو حضرت صاحب کی موٹر میں بٹھا دیا گیا اور حضور شہر کے گرد گھومتے ہوئے بذریعہ موٹر مکان پر پہنچے.ہمیں حکم دیا کہ گھوڑا گاڑی یا کوئی اور سواری ملے تو لے کر مکان پر آ جائیں جو ۲ میل کے قریب دُور تھا مگر ہم لوگوں کو سواری اس وقت نہ ملی پیدل ہی مکان پر آن حاضر ہوئے.مولوی عبد الرحیم صاحب درد، ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب اور قادیانی ہم تینوں تھے.
۵۷ را گست ۱۹۲۴ء : رات کا کھانا کھا کر حضور نے نمازیں پڑھائیں اور آرام فرمایا اور پھر صبح کی نماز کے بعد لیٹ گئے.۸ بجے کے قریب اُٹھے ناشتہ فرمایا اور پھر اہل دمشق کے نام ایک پیغام لکھنا شروع کیا جو حضور کی تحریر کے مطابق فل سکیپ کاغذ کے ۱۶ کالموں پر حضور نے ختم فرمایا.فارم بیعت بھی ساتھ لگایا اور شیخ صاحب مصری کو ترجمہ کرنے کی غرض سے دیا جو بعد شام انہوں نے ختم کر لیا.میں نے کوشش کی تھی کہ اصل مضمون پیغام کی نقل بھی کر کے بھیج دوں مگر ابھی چونکہ ترجمہ حضرت صاحب نے ملاحظہ نہیں فرمایا اصل کی ضرورت ہے مقابلہ مضمون کے لئے اس وجہ سے اصل مضمون میرے نقل کرنے کے لئے فارغ نہیں ہو سکا اور شاید اس ڈاک میں بھیجنے کے لئے نہ ہی مل سکے کیونکہ ڈاک آج شام یا کل صبح کو بند ہو جانے والی ہے.سیدنا حضرت اقدس نے دو پہر کا کھانا کل اڑھائی بجے مضمون ختم کر کے نوش فرمایا.کھانا کھا چکے تھے کہ اطلاع آئی کہ شیخ عبد القادر جیلانی کی اولاد کے ایک بزرگ حضور کی ملاقات کی غرض سے حاضر ہیں.ان کے ساتھ ہی دمشق کے افسر خزانہ اور دو ایک اور سرکاری عہدے دار بھی حاضر تھے.حضور نے ملاقات سنترال ہوٹل کے بالائی منزل کے ڈرائینگ روم کے جنوبی حصہ میں سیڑھیوں سے جانب غرب بیٹھ کر کی.ان لوگوں نے بہت ہی شریفانہ طریق سے سوالات کئے اور جواب پا کر ادب اور احترام سے قبول کرتے رہے.سلسلہ گفتگو قریب نصب گھنٹہ جاری رہا.ایک صاحب بعد میں آئے ان کو علم نہ تھا کہ پہلے کوئی گفتگو ہو کر معاملہ کس حد تک پہنچ چکا ہے انہوں نے کچھ تیزی اور سختی سے بعض سوالات کئے.حضور نے جواب دیئے.اس نے کہا کہ نبی اور رسول کی آمد کی کیا ضرورت پڑی ہے.کیا کوئی فساد ہمارے کپڑوں اور لباس میں نظر آتا ہے یا اعمال اور کاروبار سے ظاہر ہوتا ہے؟ حضور نے فرمایا ظاہر نہیں بلکہ مسلمانوں کے دل بگڑ گئے ہیں.عقائد بگڑ گئے ہیں.شعائر اللہ کی عزت اور احترام باقی نہیں.نماز کی پانبدی نہیں.زکوۃ کی ادائیگی نہیں اور اسلام صرف نام و رسم کا باقی ہے.اس پر اس شخص نے کہا کہ صرف دمشق کے ایک شہر میں ہم لوگ اتنی زکوۃ ادا کرتے ہیں کہ ۷۵ لاکھ روپیہ سالانہ جمع ہو جاتا ہے.حضرت نے فرمایا کہ وہ تم اپنی خوشی سے نہیں دیتے وہ تو چھین کر تم سے لیا جاتا ہے اور اول تو میں یقین ہی نہیں کرتا کہ صرف ایک شہر میں اس قدر رو پیہ جمع ہوتا ہوا گر ایسا ہے تو پھر غربت کیسی ؟ اور کمزوری کے کیا معنی ہیں اور وہ روپیہ ہے کہاں؟
۵۸ دراصل اس شخص نے مبالغہ کیا تھا اور محاصل سرکاری کے روپیہ کو بڑھا کر بیان کیا تھا.زکوۃ سے مرا دصرف محاصل اور ٹیکس سرکاری تھے.اس بات کو سمجھ کر حضور نے جواب دیا تھا کہ هـــو يُسلب منكم مگر دوسرے ساتھیوں نے اور ان سید صاحب نے اس کو سمجھایا اور کہا کہ بات جوحضور فرماتے ہیں بالکل درست ہے اور ان میں سے افسر خزانہ نے جس کا عہدہ غالبا کلکٹر کے برابر کا تھا کہا جب یہ لوگ اپنا مال اور جان اسلام کی خدمت کے لئے قربان کرتے ہیں.وطنوں سے بے وطن ہوتے ہیں.مصائب اور مشکلات جھیلتے ہیں تو ہمیں بہر حال ان کا ساتھ دینا چاہئیے اور ان سے مل کر کام کرنا چاہیئے.حالات خواہ کچھ بھی کیوں نہ ہوں ہمیں اس جماعت کے ساتھ مل جانا چاہئے.ان باتوں پر آخر وہ شخص بھی نرم ہو گیا اور ادب سے بات کرنے لگا اور پانچوں نے اس پر اتفاق کیا.- سلسلہ گفتگو میں انہوں نے پھر پوچھا اور عرض کیا کہ کہ آپ نے ہمارے ممالک عربیہ میں کیوں مبشر نہیں بھیجے اور کیوں جرائد اور مجلد جاری نہیں کئے.حضور نے فرمایا کہ میرا ارادہ ہے کہ جلدی ہی یہاں مبشر بھیج دوں اور مبشرین کے آنے پر انشاء اللہ جرائد اور مجلد بھی (اخبار اور ماہوار رسالے) جاری کر دیئے جائیں گے اور ہمیں اللہ کے فضل سے یقین اور امید قوی ہے کہ جلد تر ان علاقہ جات میں جماعتیں ہمارے ساتھ مل جائیں گی کیونکہ حق ہمارے ساتھ ہے اور ہم حق کو لے کر دنیا میں نکلے ہیں وغیرہ.اس پر ان لوگوں نے عرض کیا کہ آپ جلدی یہاں مبشر بھیجیں.ہم لوگوں میں ایک بڑی جماعت ہے جو آپ کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے تیار و آمادہ ہے جو حق کی پیاسی اور صداقت کی بھوکی ہے.یہ بات ایسی سنجیدگی اور متانت سے ان لوگوں نے کہی کہ اس میں شبہ کی گنجائش ہی نہیں کہ انہوں نے مذاق کیا ہو یا مبالغہ آمیز بات کی ہو.دراصل وہ لوگ حکومت کی پارٹی کے تھے اور ان کو چونکہ حکومت کی طرف سے کوئی خطرہ نہ تھا انہوں نے اپنے خیالات کا آزادی سے اظہار کیا اور واقع میں وہ لوگ بات کو سمجھ گئے اور قبول حق کے لئے آمادہ ہیں.سلسلہ کلام اسی جگہ تک پہنچا تھا کہ مولوی عبد القادر صاحب آگئے جو نہایت ہی جو شیلے اور
۵۹ نیچری خیالات کے آدمی ہیں.ہیں تو معمر مگر باتیں کچھ اس طرح ہاتھ مار مار کر کرتے ہیں جو وقار و ثقاہت سے دور ہیں.ان کے آتے ہی پہلی پارٹی اُٹھ کر چلی گئی صرف سید عبدالقادر جیلانی کی اولاد کے بزرگ صاحب بیٹھے رہے جو معلوم ہوتا ہے کہ سنجیدہ اور صاحب رسوخ آدمی تھے کیونکہ جو بھی آتا تھا ان کو ادب اور احترام سے سلام کرتا تھا.یہ صاحب اول سے آخر تک ہمارے خیالات کی بہت ہی تائید کرتے رہے اور سمجھدار آدمی تھے.مولوی عبد القادر صاحب کی باتوں کا طرز جوشیلہ اور بحث کا رنگ لئے ہوئے تھا.بہت سے سوالات کے جواب پا کر اس نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہم لوگ عرب ہیں.اہل زبان ہیں.قرآن کو خوب سمجھتے ہیں ہم سے بڑھ کر کون قرآن کو سمجھے گا وغیرہ.اس پر حضور نے اس کو کسی قد رسختی سے جواب دیا اور فر مایا کہ تم کون ہو.تم شامی لوگ لغت قرآن کو بالکل نہیں جانتے.تمہاری زبان قرآن کی زبان نہیں.تم لوگ بھی اسی طرح سے لغت کے محتاج ہو جس طرح سے ہم ہیں.قرآن خدا نے ہمیں سکھایا ہے اور سمجھایا ہے.ہماری زبان با وجود یکہ ہم لوگ اردو میں گفتگو کرنے کا محاورہ رکھتے ہیں اور عربی میں بولنے کا ہمیں موقع نہیں ملتا تم سے زیادہ فصیح اور بلیغ ہے وغیرہ وغیرہ.حضور نے بڑے جوش سے عربی میں ایسی فصیح گفتگو فرمائی کہ وہ سید صاحب بھی مولوی عبد القادر کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے کہ واقع میں ان کی زبان ہم لوگوں سے زیادہ فصیح ہے.( مولوی عبد القادر کی زبان بھی بہت اچھی اور قریبا فصیح تھی) اس پر مولوی عبد القادر نے کچھ نرمی اختیار کی اور پھر ادب سے گفتگو کرنے لگا.حضرت صاحب نے ان کو بتایا کہ ہم لوگ تو قادیان میں اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی عربی زبان سکھاتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ عربی زبان ہماری ثانوی زبان ہو جائے چنانچہ اس غرض کے لئے اب حضور نے یہ ارادہ فرمالیا ہے کہ ان عربوں اور شامیوں اور مصریوں کے اس گھمنڈ کو توڑ دیا جائے کہ جب کبھی کوئی عرب، شامی، مصری قادیان جاوے تو ہمارے سکھے اور دھوبی تک ان سے پوچھا کریں کہ کیا تم کو عربی بولنی آتی ہے؟ اور فرمایا کہ ہمارے دوستوں کو چاہئیے عربی عورتوں سے شادی کریں اور عربی زبان کی ترویج کریں.مولوی عبد القادر صاحب سے ختم نبوت اور نبوت حضرت مسیح موعود پر بھی گفتگو رہی اور
۶۰ حضور نے جب قرآن نکال کر بعض آیات پیش کیں تو کہہ اُٹھا کہ قرآن ہاتھ میں لے کر بات کر دینے سے بھی کوئی مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟ کوئی تفسیر ہو ( غالباً معالم التنزیل کا نام لیا تھا ) جب اس نے تفسیر کا نام لیا تو حضرت صاحب نے اس کو بہت جھنجھوڑا اور فرمایا کہ تم لوگ اس علم پر گھمنڈ رکھتے ہو اور اتنے بڑے دعوے کرتے ہو کہ تم عرب اور اہلِ زبان ہو تفاسیر کیا حقیقت رکھتی ہیں.کیا ہم قرآن سمجھنے کے لئے ان تفاسیر کے محتاج ہیں؟ وغیرہ وغیرہ.خوب ہی لیا تو اس کو اپنی فصاحت بھی بھول گئی اور دوسرے لوگوں کو مخاطب کر کے بولا شف یہ کیا کہتے ہیں.ایسی بے چارگی اور حیرت سے اس نے شف کا لفظ بولا کہ اس پر رحم آتا تھا.آخر بالکل ٹھنڈا ہو گیا.سر سے پگڑی تین مرتبہ اس نے اُتاری اور پسینہ سکھانے کی کوشش کی.یہ دیکھ کر میں نے تولیہ سے پنکھا بنا کر ٹھنڈا کیا تب جا کر ہوش آیا.اس نے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود کی کتابوں میں زبان کی غلطیاں ہیں.اس کا بھی جواب حضور نے خوب دیا اور فرمایا کہ تم میں اگر کچھ طاقت ہے تو اب بھی ان اغلاط کا اعلان کر دو یا ان کتب کا جواب لکھ کر شائع کر دو مگر یا درکھو کہ تم ہر گز نہ کر سکو گے اگر قلم اُٹھاؤ گے تو تمہاری طاقتِ تحریر سلب کر لی جاوے گی.تجربہ کر کے دیکھ لو وغیرہ وغیرہ.ان باتوں پر اب اس نے منت سماجت شروع کی کہ آپ ان دعووں کو عرب، مصر اور شام میں نہ پھیلائیں اس سے اختلاف بڑھتا ہے اور اختلاف اس وقت ہمارے لئے سخت نقصان دہ ہے.وہابیوں نے پہلے ہی سخت صدمہ پہنچایا ہے.بلا د یورپ، امریکہ اور افریقہ کے کفار اور نصاریٰ میں تبلیغ کریں.مبشر بھیجیں.یہاں ہرگز ان عقائد کا نام نہ لیں خدا کے واسطے اَنَا اَرْجُو کم یا سیدی کبھی بوسہ دے کر کبھی ہاتھوں کو لپیٹ کر غرض ہر رنگ میں بار بار منت کرتا تھا کہ خدا کے واسطے ان علاقہ جات میں سیدنا احمد رسول الله کی تعلیمات کا اعلان نہ کریں اور نہ مبشر بھیجیں وغیرہ وغیرہ.ہم جانتے ہیں کہ وہ اچھے آدمی تھے.اسلام کے لئے غیور تھے مگر ان کی نبوت اور رسالت کو ہم تسلیم نہیں کر سکتے صرف لا اله الا الله پر لوگوں کو جمع کریں.حضرت نے ان باتوں کا جواب بلند آواز اور پر شوکت لہجہ میں دیا کہ اگر یہ منصوبہ ہمارا ہوتا تو ہم چھوڑ دیتے مگر یہ خدا کا حکم ہے اس میں ہمارا اور سیدنـا احـمـد رسول اللہ کا کوئی دخل نہیں.خدا کا یہ حکم ہے ہم پہنچائیں گے اور ضرور پہنچائیں گے.لَنْ نَبْرَحَ الْأَرْضَ کا قول ہمارا بھی
۶۱ قول ہے.آپ مشکلات اور مصائب سے ہمیں ڈراتے ہیں.مخالفت کا خوف دلاتے ہیں ہم ہرگز پرواہ نہیں کرتے خواہ ساری دنیا مخالفت پر کھڑی ہو جائے.ایشیا، یورپ ، امریکہ اور افریقہ سب مخالف ہوں ہم حق پہنچائیں گے خواہ قتل بھی کئے جائیں.کا بل نے آخر ہمارے آدمی قتل کئے مگر ہم نے تبلیغ نہیں چھوڑی اور نہ چھوڑیں گے.تم زیادہ جانتے ہو یا خدا زیادہ جانتا ہے کہ مسلمانوں کے مفادات کس بات میں ہیں.خدا نے مسلمانوں کی بہتری اور اصلاح کی غرض سے جو راہ اختیار کیا ہے بہر حال وہی درست ہے.تم ما نو بھلا ہوگا نہ مانو ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا.تم نہ مانو گے تو دیکھ لینا تمہاری آنکھوں کے سامنے ہزاروں کی تعداد میں اللہ تعالیٰ اس ملک میں جماعت دے گا اور ضرور دے گا.تم لوگوں کی مخالفت اور دشمنی حقیقت ہی کیا رکھتی ہے وغیرہ.الغرض بڑے ہی جوش کی تقریر تھی.اس تقریر پر وہ مولوی عبد القادر بہت ٹھنڈا ہوا اور کہا کہ آپ کے استقلال اور اولوالعزمی کا میں اعتراف کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ مبارک کرے مگر ان خیالات کو ہمارے ملک میں نہ پھیلائیں اور نہ ذکر کریں.آخر اُٹھ کر چلا گیا اور ایک کو نہ میں دوسرے لوگوں سے باتیں کرنے لگا.با وجو د اس بحث اور جھگڑے کے طریق ادب کو اس نے نہ چھوڑا اور یا سیدی اور سیدنا حضرت احمد قادیانی کے الفاظ سے ہی بولتا اور کلام کرتا رہا.اس کا لہجہ سخت تھا مگر با ادب.آخر اس نے درخواست کی کہ جامع امویہ حضور ضرور دیکھیں.دو پٹھان طالب علم غالبا سوالی تھے آئے اور تھوڑی دیر باتیں کرتے رہے مگر حضور نے نماز کی وجہ سے عذر کیا اور نماز کے واسطے اندر تشریف لے گئے.۵ بج چکے تھے حضور نے نمازیں جمع کر کے پڑھائیں اور ابھی فارغ ہی ہوئے تھے کہ دو صاحب ایک ایڈیٹر الفید اور ایک اور صاحب آئے اور مکان کے اندر بات کرنی چاہی.بہت ہی احتیاط اور خوف سے باتیں کرتے تھے.وہ لوگ دراصل گورنمنٹ کے مخالف پارٹی کے تھے اس وجہ سے ڈرتے تھے.ڈیڑھ سال قید رہ کر رہا ہوئے تھے اور بتاتے تھے کہ ڈیڑھ سال میں کوئی آدمی وہاں سوائے قید خانہ کے کارکنوں کے نظر نہیں آیا اور گورنمنٹ کی سختی کی شکایت کرتے تھے.بہت ہی تھوڑی باتیں ہوئی تھیں اور مسلمانوں کی غربت کا رونا روتے تھے کہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ ابھی ایک صاحب آئے تھے وہ تو کہتے ہیں کہ زکوۃ کا
۶۲ روپیہ صرف دمشق سے ۷۵ لاکھ سالا نہ جمع ہوتا ہے تو غربت کیسی ؟ اس پر انہوں نے کہا نہیں غلط ہے اتنا روپیہ مسلمانوں کے پاس کہاں ہے.حضرت نے فرمایا ابھی ابھی ایک صاحب مجھ سے کہہ کر گئے ہیں اور میں خود ان کی اس بات سے تعجب اور حیرت میں تھا.حضرت صاحب اس طرح سے باتیں کرتے تھے کہ خان صاحب نے اس شخص کے نام کا کارڈ نکال کر حضرت کے ہاتھ میں دے دیا جس شخص نے ایسا کہا تھا.وہ کا ر ڈاب حضرت صاحب کو انہیں دکھانا پڑا کیونکہ ان کے سامنے خان صاحب نے پیش کیا تھا جس کو دیکھ کر وہ لوگ بالکل خاموش ہو گئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر اجازت لیتے چلے گئے.ان کے جانے کے بعد حضرت صاحب ناراض ہوئے اور خان صاحب سے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ سے رہا نہیں جا سکتا.آپ کی ڈیوٹی تو راز کے رکھنے کی ہے مگر آپ را ز رکھ نہیں سکتے اور یہ تو امانت کے بھی خلاف ہے کہ کسی کا راز افشا کر دیا جائے.اس شخص کا آپ نے راز افشا کیا اور ان کو فائدہ اٹھانے سے محروم کیا.آپ کا رڈ نہ دکھاتے تو ان کے طرز سے معلوم ہوتا تھا کہ بہت کچھ کہنا چاہتے تھے.مگر یہ پارٹی پہلی پارٹی کی دشمن ہے.یہ گورنمنٹ کے خلاف ہیں اور وہ گورنمنٹ کے موید - یہ لوگ اس خیال سے خاموش ہو گئے اور چلے گئے ہیں کہ گورنمنٹ کے دوست بھی ان سے ملتے ہیں تو پھر ہمارا ان سے باتیں کرنا کیسے مفید ہو سکتا ہے مبادا کوئی نقصان پہنچے.گورنمنٹ کی سختی سے یہ لوگ بہت ڈرتے ہیں اس وجہ سے اب باتیں کرتے کرتے کارڈ دیکھ کر خاموش ہو گئے اور پھر کوئی بات نہ کی.شام کا وقت تھا اذان ہوئی.حضرت نے نمازیں پڑھا ئیں اور پھر پیدل سیر کے لئے تشریف لے گئے - ایک گھنٹہ کے قریب پیدل سیر کی اور نہر کے کنارے جانب غرب دور تک چلے گئے حتی کہ بیروت کا ریلوے سٹیشن آ گیا.وہاں سے بیروت کو جانے والی ٹرین کا وقت اور کرایہ وغیر ہ معلوم کیا اور پھر واپس تشریف لے آئے.کھانا کھایا اور اپنے کمرہ میں آرام کو تشریف لے گئے اور اس طرح سے ۶ / تاریخ اگست کا دن بھی تمام ہوا.سید ولی اللہ شاہ صاحب کے ایک شاگرد کل ہمیں بازار میں ملے وہ بھی حضرت صاحب کی ملاقات کو حاضر ہوئے اور نوٹ لے کر چلے گئے کہ اخبارات میں مضامین شائع کرائیں گے بلکہ یہ بھی بتا گئے کہ میں احمدی ہوں.انہوں نے بعض علماء کے نام دیئے اور حضرت نے حکم دیا کہ حافظ صاحب اور شیخ صاحب عرفانی اور چوہدری فتح محمد خان
۶۳ صاحب ان لوگوں سے ضرور ملیں.رات کو صاحبزادہ حضرت میاں صاحب سلمہ ربہ اور حافظ صاحب جامع امویہ میں گئے اور درس قرآن دیکھا.اذان کا نمونہ خانہ کعبہ کا سا دیکھا جہاں چاروں مصلے چار اماموں کے دیکھے.مختلف درس قرآن ملا حظہ فرمائے اور کھانے کے وقت واپس تشریف لے آئے.شیخ صاحب عرفانی اور چوہدری محمد شریف صاحب زاویہ ہندیہ میں گئے اور ان کے شیخ سے ملے جس نے ۷/اگست کو حضرت سے ملنے کا وعدہ کیا اور وعدہ کیا کہ وہ شام کو اپنے مجاوروں کا حال یا رقص دکھائے گا.دمشق جیسا کہ آپ بزرگوں کو معلوم ہے بہت پرانا شہر ہے.اس کی وسعت بھی بہت بڑی ہے.باغات اور نہروں کی کثرت ہے.خوبصورت صاف بھی ہے اور بعض حصے گندے اور میلے بھی ہیں.سڑکیں خصوصیت سے خراب ہیں اور پھر کی اینٹوں کی ہیں جن پر گاڑیاں اور موٹریں بہت بُری طرح سے چلتی ہیں.ٹرام کا بھی انتظام ہے.روشنی بہت کم ہے.حکومت فرانس کی ہے.حکومت اور رعیت کی باہم مخالفت ہے.حکومت کا سکہ اور ہے جن کو سوری بولتے ہیں اور رعیت کا سکہ اور ہے جس کو تر کی یا مصری کہتے ہیں اور وہ فلسطین اور مصر میں بھی چلتا ہے.گورنمنٹ ترکی یا مصری سکہ نہیں لیتی اور پبلک گورنمنٹ کا سکہ نہیں لیتی باہم مخالفت ہے.ڈاک خانہ میں جائیں تو ڈاک خانہ کے بابو لوگ مدد کرتے ہیں اور سکہ بدلوا کر بھی لے دیتے ہیں یا کبھی اس سکہ کے لینے سے انکار کر دیتے ہیں اور مجبوراً بازار کے صرافوں سے لینا پڑتا ہے.صرافوں کے دگنے ہوتے رہتے ہیں اور صرافہ زیادہ فائدہ میں ہے.ریلوے کا وقت یا کرایہ معلوم کرنا ہو تو پولیس سے معلوم کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہر مسافر کا نام لکھا جاتا ہے.آنے والے کا اور دمشق سے باہر جانے والے کا بھی.ریل والوں کو کرایہ معلوم ہے نہ گاڑیوں کی آمد و رفت کا وقت یا اگر معلوم ہے تو بتاتے نہیں.اسبغول خرید نا ہو تو لوہار کی دکان پر جانا پڑتا ہے.حضرت اقدس کے لئے ضرورت تھی ہزار تلاش کی ہر قسم کی دکانیں دیکھیں مگر دستیاب نہ ہوا.آخر مجبور ہو کر تنگ آکر شاید کسی الہی تصرف کے ماتحت میں نے ایک بڑھیا سے مدد مانگی اور اشاروں سے اپنی ضرورت بتائی تو اس نے ایک لوہار کی دکان کی طرف اشارہ کیا جہاں سے میری
۶۴ مشکل حل اور ضرورت پوری ہوئی.پھل کثرت سے ہیں اور ارزاں بھی.انگور ،سیب، ناشپاتی عمدہ قسم ، انجیر دو قسم اعلیٰ درجہ کی وغیرہ خوب ملتے ہیں.دمشق میں عورتیں کثرت سے بازاروں میں پھرتی ہیں مگر پردہ کا بہت ہی اچھا انتظام ہے.عورتوں میں شرافت ہے.آزادی کا جائز استعمال کرتی ہیں.برقعہ کا طریق بھی اچھا ہے بدن کا کوئی حصہ نگا نہیں.اونچی ایڑی کی گرگابی کا رواج ہے البتہ برقعہ ذرا اونچا ہے یہ نقص ضرور ہے.جرا ہیں لمبی پہنتی ہیں یعنی عورتوں کی پنڈلی تک جرابوں کی نزاکت و باریکی کی وجہ سے نظر آتی ہے.یہ نقص بھی ہے مگر نسبتا کم.لوگ عورتوں کا احترام کرتے ہیں ان کے لئے راستہ چھوڑ دیتے ہیں اور مستورات کی طرف قطعاً کوئی نہ گھورتا نہ نظر اُٹھاتا ہے.خوشی ہے کیونکہ یہ طریق بہت ہی پسندیدہ ہے.آزادی ہے مگر مصر والی حد سے بڑھی ہوئی آزادی نہیں.برقعہ خوشنما عموماً سیاہ ہے مگر اس میں مصر کی سی بے پردگی نہیں ہوتی.عورتیں پھرتی ہیں اور سودا سلف کرتی ہیں مگر مصر کی طرح سے بے باک اور اپنی خوبصورتی دکھانے اور تَبَرَّجُ الْجَاهِلِيَّةِ کی غرض سے نہیں.یروشلم اس امر میں اول نمبر پر تھا اور دمشق دوسرے نمبر پر ہے.گورنمنٹ سے لوگ بہت شاکی ہیں اور خوفزدہ ہیں بات بھی کھل کر نہیں کر سکتے.تبلیغ تو علماء تک نے چھوڑ رکھی ہے اور اس بات کا صاف اقرار کرتے ہیں کہ ہم لوگ تبلیغ نہیں کر سکتے.کل مولوی عبد القادر صاحب نے بھی اس بات کا اقرار کیا تھا کہ ہم لوگ تبلیغ دین ہرگز نہیں کر سکتے کیونکہ ہم گورنمنٹ سے بہت ڈرتے ہیں.گاڑی بیروت کو روزانہ ۱۲ بجے جاتی ہے اور ۴ بجے بیروت پہنچتی ہے.حیفا کو ایک دن چھوڑ کر جاتی ہے.اب جمعہ کے دن ۸/ اگست کو جائے گی جس پر حضرت کے واپس جانے کا ارادہ ہے اگر پورٹ سعید سے لک والوں کا کوئی تار نہ آ گیا تو.کنگ والوں کو ۵ اگست کے دن ایک تار دیا تھا کہ پلسنا جہاز کی عدن سے روانگی اور پورٹ سعید کی رسیدگی کی اطلاع دیں.تار کا جواب ابھی تک نہیں آیا انتظار ہے.
حضور نے فرمایا کہ ہمارے اس سفر سے بہت بڑے فوائد ہوئے ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سلسلہ کی عظمت اور اہمیت کا لوگوں کو علم ہو گیا ہے اور اب لوگ ہمارے مبلغین اور مبشرین کو یک و تنہا نہ سمجھیں گے.علماء اور مسلمانوں کے حالات ہم نے بچشم خود دیکھ لئے ہیں.اب کام کرنا سہل ہوگا اور مبلغین کو ہدایات دینے میں بہت آسانی ہوگی.شام میں ہمارا مقابلہ ہو گا اور سخت ہوگا مگر انشاء اللہ کامیابی بھی بہت بڑی ہوگی.عربی ترجمہ پیغام بنام اہل دمشق کا ہو چکا ہے اس کی طبع کا آج ہی انشاء اللہ انتظام ہوگا اور شائع بھی کثرت سے کیا جائے گا.حضور مع خدام بخیریت ہیں.دو الگ الگ ہوٹلوں میں رہتے ہیں.نماز بعض اوقات یکجا ہوتی ہے بعض اوقات الگ الگ.دمشق اخراجات کے لحاظ سے ارزاں تر ہے.ریشمی کپڑا اور اونی کپڑا اچھا اور ارزاں ملتا ہےخصوصاً برقعہ بنانے کا کپڑا بہت اعلیٰ قسم کا ہے ریشمی بھی اور سوتی بھی.ریشمی کپڑا سیاہ اور دوسرے رنگوں کا بھی ہے.ساڑھے چھ مجیدی می گز ( ۴۰ اینچ) کے حساب سے ملتا ہے.اس سے ہلکا ساڑھے چار مجیدی بھی اوسط درجہ کا ملتا ہے.سوتی کپڑا سوا مجیدی سے پونے دو مجیدی تک کا ملتا ہے.ہوٹل ان دنوں عموماً بھرے ہوئے ہیں کیونکہ حجاج کثرت سے آتے ہیں.ڈاک خانہ اور تار گھر رات کو بھی کھلے رہتے ہیں.ہوٹلوں میں پانی دو قسم کا ہوتا ہے پینے کا اور استعمال کرنے کا.عام طور پر فوارے اور چشمے لوگوں نے بنائے ہوئے ہیں.پینے کا پانی پوچھ کر لینا چاہیئے.ہوٹلوں میں غسل خانوں کا رواج کم ہے نہانے کے واسطے الگ حمام ہیں اور اچھے ہیں.ہوٹلوں میں بازاری عورتوں کے رکھنے کا گندہ رواج بھی پایا جاتا ہے.سب سے بڑا اور اچھا ہوٹل وکٹوریا ہے.دوسرے درجہ پر خدیو یہ.تیسرے درجہ پر سنتر ال.اس کے بعد اور بھی ہیں دار السرور - مکہ ہوٹل.ہوٹل کو عمو مال کندہ بولتے ہیں.بعض بعض جگہ او تیل بھی لکھا ہوتا ہے.۷/اگست ۱۹۲۴ ء : سید نا حضرت اقدس آج ۹ بجے کے قریب گورنر کی ملاقات کو تشریف لے گئے ہیں.خان صاحب اور حضرت میاں صاحب سلمہ رتبہ ہمرکاب ہیں.
۶۶ پیغام بنام اہالیان دمشق کی طبع کا انتظام ہو گیا ہے اور ایک صاحب اپنے خط میں اس کی نقل بغرض طباعت لے رہے ہیں.میں نے حضرت کے حضور عرض کیا تھا.فرمایا کہ ابھی مضمون کو صاف کرنا ہے صاف کر کے امیر جماعت احمدیہ کے نام حضور خود بھیجیں گے.۷/ اگست ۱۹۲۴ء کو ساڑھے نو بجے صبح کا وقت فرنچ گورنر نے حضرت کی ملاقات کی غرض سے دیا ہوا تھا اور ا ابجے کے بعد انگلش قفصل کی ملاقات کا وقت مقرر تھا.۱۲ بج چکے ہیں مگر ابھی حضور تشریف نہیں لائے.سید نا حضرت اقدس گورنر کی ملاقات اور برٹش فضل کی ملاقات سے فارغ ہو کر ۱۲ بجے کے بعد واپس آئے.سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے شاگرد جو کل آئے تھے آئے ہوئے تھے.حضور نے ان سے تخلیہ میں باتیں کیں.ابھی حضور کمرہ میں تھے کہ دو مولوی صاحب جو ہمیں بازار میں ملے تھے اور ہمیں پوچھا کہ کون ہو.ہم نے بتایا ہم کون ہیں اور کس کے ساتھ ہیں تو ان کو شوق ملاقات ہوا وہ مکان پر آئے اور حضرت صاحب سے باتیں کرنے لگے.ان کے ساتھ ساتھ بعض شرفا اور امرا بھی آگئے.تھوڑی دیر کی گفتگو پر وہ بہت برانگیختہ ہوئے کہ ہم لوگ ایسے دعوئی اور ایسے خلاف اسلام عقائد سنے کو نہیں آئے ہم تو اس خیال سے آئے تھے کہ آپ لوگ مبشرین اسلام ہیں مگر آپ کچھ اور ہی عقائد سناتے ہیں.اُٹھ کھڑے ہوئے اور چل دیئے مگر سیڑھیوں سے پھر لوٹ کر آئے اور بیٹھ گئے پھر سلسلہ کلام ایسا جاری ہوا کہ سوا تین بجے تک جاری رہا.بحث ہوئی اور خوب ہوئی.اعتراض کئے اور ایسے جواب پائے کہ بالکل ساکت ہو جاتے تھے.لوگ بھی بکثرت اور بڑے بڑے علماء و امرا جمع ہو گئے انہوں نے سنا اور قبول کیا.مولوی دونوں شیخ کے مشورہ کے منتظر رہتے مگر حماء کے آدمی اطراف دمشق کے لوگ اور اور لوگ فائدہ اُٹھا گئے.ایک عربی زبان کا شاعر بھی آیا اس نے سیاست اور خلافت کے متعلق سوالات کئے اور ایسے جواب پائے کہ خوش ہو گیا.اس نے حضرت مسیح موعود کے بعض الہامات بھی نوٹ کئے اور زبان کے لحاظ سے تنقید بھی کی.ياتوك من كل فج عمیق پر بہت اڑا کہ نون کیوں بیان نہیں کیا شاید اخبار میں بھی اس کے متعلق کچھ لکھے.الغرض آج خوب اور خوب ہی تبلیغ ہوئی اور لوگوں میں ایک شور مچ گیا.سمجھدار لوگ ، پڑھے
۶۷ لکھے آدمی ، امرا اور علماء کی ہیں سے زیادہ کی جماعت ہوٹل میں جمع ہوئی.ایک نصرانی بھی آ گیا.بعض نے حضرت سے سوال کیا کہ کیا آپ پر بھی وحی نازل ہوتی ہے.حضور نے فرمایا کہ ہاں بعض بعض دن مگر میں نبی نہیں ہوں.سیدنا حضرت مہدی نبی تھے میں نبی نہیں ہوں مجھ پر بشارت کے طور پر وحی نازل ہوتی ہے.ان دیار میں مسیح موعود کے لفظ سے بعض کو شبہ ہوتا ہے کہ ہم لوگ نصرانی ہیں اس وجہ سے لفظ مہدی معہود کو زیادہ زور سے اور پہلے بیان کیا جاتا ہے.تقریر کے بعد لوگوں نے کچھ لٹریچر مانگا مگر لٹریچر ہمارے ساتھ نہ تھا آخر عر بی ٹیچنگز آف اسلام ایک عیسائی کو دی گئی منت سماجت سے لی - حماء کا ایک لمبے قد کا آدمی جس کا پتہ لکھ لیا گیا ہے حضرت سے جھگڑتا تھا کہ نصرانیوں کو کتاب دی مگر مسلمانوں کو نہ دی حالانکہ حق ہمارا زیادہ ہے.حضرت نے فرمایا نہیں عیسائی کو ایک اور مسلمان کو دو دی ہیں اور یہ کتاب ہے بھی نصاری کے واسطے.خاص کر مسلمانوں کے واسطے مصر سے انشاء اللہ بھیج دیں گے مگر اس نے جھگڑا کیا اور گویا لحاف بن کر مانگی حتی کہ ایک کتاب اس کو دی گئی.کتاب لے کر بہت خوش ہوا اور لوگوں کو بتایا کہ میں نے بھی لے لی ہے.بعد میں کھڑے ہو کر ادب سے عرض کیا حضور میں نے آپ کو دین کا خادم پایا ہے.جو غیرت اور حمیت آپ میں اسلام کے واسطے ہے میں نے آج تک دنیا میں کسی میں نہیں دیکھی نہ میں نے نہ میرے باپ نے.میں حضور کو مبارک باد عرض کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور کام میں برکت دے.میں ایمان لایا.میں نے قبول کیا.آپ نے جو دعویٰ سنایا ہے حق ہے.میں کوشش کروں گا کہ اپنے علاقہ میں اس حق کو پہنچاؤں وغیرہ وغیرہ.دو تین مرتبہ جوش کھا کھا کر آگے بڑھا اور اسی قسم کی باتیں کیں.لوگوں نے اپنے ایڈریس شوق اور اصرار سے دیئے.ان میں بہت سے لوگ واقعی بڑے بڑے آدمی تھے.اللہ کے فضل سے آج وہ رنگ پیدا ہو گیا ہے کہ سلسلہ کے حالات جلدی شائع ہو جائیں گے.بعض اخبارات میں انشاء اللہ آج بعض میں کل سلسلہ کے حالات شائع ہو جائیں گے.حضرت اقدس نے جو اشتہار لکھا ہے وہ بھی انشاء اللہ شائع ہو کر کام کرے گا.حضور نے نماز ظہر وعصر
۶۸ ادا کی.کھانا کھایا اور پھر کل والے مولوی عبد القادر صاحب ملاقات کے واسطے آئے اور اب بیٹھے ہیں مگر آج بڑی ٹھنڈی باتیں کر رہے ہیں.اور بھی بعض لوگ بیٹھے مستفید ہو رہے ہیں.منجد لغت عرب کی کتاب آج بازار سے خریدی ساڑھے تین مجیدی میں ملی ہیں.اقرب الموارد ۸ مجیدی میں ملتی ہے.حضرت اقدس سن کر حیران ہوئے اور فرمایا کہ بہت ارزاں ہیں ہم بھی کئی جلد میں خریدیں گے.ہوتے حضرت اقدس نے کل فرمایا تھا کہ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو یہاں مبشر اسلام بنا کر بھیجیں گے.مولوی عبد القادر نے اس پر بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں ان کو خوب جانتا ہوں.حضرت نے آج فیصلہ فرمایا ہے کہ کل یعنی ۱۸ اگست کو واپس نہ جائیں گے بلکہ اب چونکہ یہاں شہرت ہو گئی اور کام چل نکلا ہے اس واسطے دو دن کم از کم اور ٹھہریں گے تا کہ اس جوش سے فائدہ اٹھا ئیں اور پھر شاید بیروت ہی کے راستہ بذریعہ موٹر کا ر جانا پڑے.ڈاک کا وقت ہے عریضہ بند کرتا ہوں.باقی انشاء اللہ آئندہ عرض کروں گا.دعاؤں کا طالب عبد الرحمن قادیانی از دمشق ۷ را گست ۱۹۲۴ء نوٹ : ہم جہاں ٹھہرے ہوئے ہیں اس کے پاس منارہ بیضا ہے.اس طرح سے وہ حدیث (عـــــد منارۃ البیضاء) پوری ہوگئی.
۶۹ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خط نمبر۷ ، از دمشق : مورخه ۸/ اگست ۱۹۲۴ء السلام عليكم و رحمة الله وبركاته شام میں سلسلہ تبلیغ: کل کے خط میں عرض کیا تھا کہ سید نا حضرت اقدس نے بلادِ شام میں تبلیغ کی غرض سے مبشرین بھیجنے کا پختہ ارادہ فرما لیا ہے.لوگوں نے اصرار سے درخواستیں کی ہیں اور کرتے ہیں.مکر می سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے شاگر داور واقف کارلوگ بھی یہاں موجود ہیں وہ لوگ جہاں ان سے محبت اور اخلاص کا اظہار کرتے ہیں شاہ صاحب سے ملاقات کا شوق بھی رکھتے ہیں.حضور نے جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے یہاں بھیجنے کا لوگوں میں اعلان بھی فرما دیا ہے اور ان کے ساتھ دوسرے عزیز مولوی جلال الدین صاحب شمس کو بھیجنے کا ارادہ ظاہر فرمایا ہے.کل صبح سے شام بلکہ عشاء بلکہ رات کے ۱۰ بجے تک لوگ ملاقات کے لئے آتے رہے اور حضور کو دن بھر تبلیغ میں مصروفیت رہی.علماء سے تو بحث کا رنگ بھی جاری ہو جاتا تھا.امرا اور شرفا اور بعض گریجوایٹ دوست جو سوالات کرتے ان کے جوابات دئے جاتے تھے.حلب کے ایک عربی اخبار کے ایڈیٹر بھی اسی ہوٹل میں حضور کے کمرہ کے قریب ٹھہرے ہوئے ہیں.پہلے تو دو دن سے حضور کی باتیں دُور سے سنتے تھے کل عصر کے بعد خود بڑھے اور بعض مسائل خصوصی پر اعتراض اور بہت سے سوالات کر کے جوابات پائے اور مطمئن ہیں کہ بالمشافہ گفتگو کا موقع ملا اور یہ ان کے لئے خوشی کا دن ہے.وہ آخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ سیاست تمام مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع نہیں کر سکتی کیونکہ مسلمانان ہند کی سیاست اور طرز کی ہے ان کو شام کے مسلمانوں کی سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہے.
مسلمانان حجاز کی سیاست اور طرز کی ہے ان کی سیاست سے چین کی مسلمان آبادی کو کوئی تعلق نہیں ہو سکتا.علی ھذا مسلمان چونکہ مختلف ممالک میں رہتے ہیں اور مختلف حکومتوں کے ماتحت ہیں لہذا ان کا سیاست کے لئے کسی ایک ہاتھ پر جمع ہو جانا ناممکن ہے.البتہ مذہب ایک ایسی چیز ہے کہ واقع میں اس کے لئے مسلمانانِ عالم ضرور ایک ہاتھ پر جمع ہو سکتے ہیں چنانچہ اس اصل کے ماتحت وہ اب سلسلہ کے مفصل حالات حافظ روشن علی صاحب سے معلوم کر رہے ہیں اور صبح سے ۱۲ بجے بلکہ ایک بجے کا وقت ہو گیا ہے وہ سلسلہ کی صداقت کے دلائل اور خصوصیات سن رہا ہے علیحدہ کمرہ میں.اسی طرح سے بعض اخبارات کے مالک ایڈیٹر اور بھی حضرت کے حضور آئے اور خوب دیر تک باتیں کرتے رہے.حالات معلوم کرتے رہے اور سمجھدار تعلیم یافتہ طبقہ میں اللہ کے فضل سے بڑی سرگرمی پائی جارہی ہے گو علماء کا پہلو زیادہ تر مخالفت کی طرف جھکتا نظر آتا ہے.دمشق کے روزانہ اخبارات میں مضامین اور نوٹ اور مکالمات شائع ہونے شروع ہو گئے ہیں اور شہر میں ایک بچل ہے.ہوٹل ہر وقت بھرا رہتا ہے.ہوٹل کا مینجر ہجوم کی کثرت کا شا کی ہے اور کہتا ہے کہ اتنے لوگ ہوٹل میں جمع ہو جاتے ہیں میرے دوسرے مسافروں کو تکلیف ہوتی ہے.آج اس نے کرسیاں اُٹھالی ہیں اور کہا ہے کہ روزانہ دس پونڈ ادا کرو تو رہو ورنہ اپنا انتظام اور جگہ کر لو.ایک الگ کمرہ اسی ہوٹل میں ملاقات کی غرض سے لینا تجویز کیا گیا ہے اگر ممکن ہو سکا تو.رات حضرت صاحب عشاء کی نماز کے بعد زاویۃ الہنود میں ان کے ذکر کا طرز دیکھنے کو تشریف لے گئے.مثنوی رومی والے صاحب کی طرف وہ لوگ اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں.ان کے درویش بھی کثرت سے مختلف مقامات پر موجود ہیں.دمشق کا زاویہ ( تکیہ ) تمام شام میں بڑا ہے.وہ اپنا ذکر تو کر چکے تھے مگر حضرت کی خاطر انہوں نے دوبارہ ذکر کرنے کا انتظام کیا.حضور کا استقبال ان کے بڑے شیخ صاحب نے دروازہ پر کیا.تھوڑی دیر ایک دالان میں بیٹھ کر مزاج پرسی ہوئی اور پھر مسجد میں تشریف لے گئے جس کے وسط میں ایک قبر تھی.محراب میں ان کا بڑا شیخ بیٹھ گیا اور باقی درویش حلقہ بنا کر اس کے گرد جمع ہو گئے.اللہ - اللہ اللہ کہنا شروع کیا.اولاً بلا - بلا کی آواز لمبی معلوم ہوتی تھی بعد میں آہستہ آہستہ تدریجاً جلدی جلدی پڑھنے لگے آخر میں تو
اے اتنی جلدی جلدی کرنے لگے کہ کچھ سمجھ میں ہی نہ آتا تھا کہ کہتے کیا ہیں اور اتنے زور سے بولتے تھے کہ خطرہ ہوتا تھا کہ سینہ ہی کسی کا پھٹ جائے.تھوڑی دیر ذکر کرنے کے بعد انہوں نے سجدہ کیا کھڑے ہوئے.ایک شخص نے آخر خوش الحانی سے قرآن پڑھا اور ذکر ختم کیا.ذکر کے بعد حضرت اقدس پھر پہلے دالان میں تشریف لے گئے اور انہوں نے سب کو قہوہ پلایا.حافظ صاحب نے مثنوی رومی کے چندا بتدائی شعر پڑھے پھر حضرت صاحب کا عربی قصیدہ سنایا پھر اردو کے چندا شعار مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے مل کر پڑھے.ان کا ترجمہ حافظ صاحب نے عربی میں کیا.حضرت صاحب نے حضرت مسیح موعود کا دعوئی ان کو سنایا.پھر ان میں سے ایک مولوی صاحب نے ایک عربی قصیدہ پڑھا جس کی ہم کو کچھ سمجھ نہ آئی ایسے کچھ لہجہ میں پڑھا.وہاں سے واپس آن کر رات کے ۱۲ بجے حضور نے کھانا تناول فرمایا اور آرام کے لئے اپنے کمرہ میں تشریف لے گئے.اگست : آج صبح کو سوا آٹھ بجے چونکہ فضل برٹش نے حضور کی ملاقات کی غرض سے ہوٹل میں آنا تھا اس کے لئے رات ہی احکام صادر ہو چکے تھے کہ صبح کو تمام دوست یو نیفارم میں ساڑھے سات بجے حاضر ہو جائیں.چنانچہ اس حکم کی تعمیل کی گئی اور سب دوست یو نیفارم پہن کر وقت پر حاضر ہوٹل ہو گئے.ملاقات کی غرض سے درمیانی چھت کا سیلون تجویز کیا گیا تھا جس میں تیرہ کرسیاں بچھائی گئی تھیں.گیارہ خدام ہمرکاب ایک خود حضرت سید نا خلیفہ المہدی وامسیح اور ایک فضل بہادر کے لئے.سیدنا حضرت اقدس ٹھیک سوا آٹھ بجے اپنے کمرہ سے نیچے تشریف لائے اور خدام کو ہدایات دیں.خان صاحب نیچے جا کر صاحب بہادر کے استقبال کی غرض سے کھڑے تھے.قریب پندرہ منٹ لیٹ ہو کر ( ہماری گھڑی سے ) صاحب بہادر تشریف لائے.حضور نے سیڑھیوں کے سرے پر ان کو ریسیو (Receive) کیا اور ہم میں سے ہر ایک سے انٹروڈیوس کرایا.مصافحہ ساتھ
۷۲ ساتھ تھا.آدھ گھنٹہ تک حضور مع صاحب بہادر ، جناب خان صاحب ، مولوی عبد الرحیم صاحب درد اور حضرت میاں صاحب کمرہ کے اندر بیٹھے رہے اور مختلف گفتگوئیں ہوتی رہیں.آخر صاحب بہادر تشریف لے گئے.جامع اموی : اور حضور تھوڑی دیر بعد جامع امویہ کی زیارت کو تشریف لے گئے.خد ام ہمرکاب - یونیفارم میں تھے اور حضور نے عبا زیب تن کیا ہوا تھا.( یہ عبا جو حضور قادیان سے ساتھ لائے تھے ) بازاروں میں کثرت ہجوم میں سے حضور کا گزرنا تمام لوگوں کی توجہ کو کھینچتا تھا اور اکثر لوگ تعارف چاہتے تھے.جمعہ کا دن تھا نماز جمعہ کے واسطے دیہاتی لوگ اور ثواب کے خواہشمند نماز جمعہ کے انتظار کیلئے مسجد میں جمع تھے.جوتے ہمارے ایک خادم نے لے لئے اور سب ننگے پاؤں مسجد میں گئے.مسجد کے وسط میں ایک حجرہ کے اندر ایک قبر کی طرف اشارہ کر کے ایک شخص نے عرض کیا کہ حضرت یجیے نبی کی قبر ہے حضور زیارت کریں گے؟ حضور نے فرمایا کہ ہم اس بات کا اعتقاد نہیں رکھتے.یہ بات صحیح نہیں کہ یہاں حضرت سیئے نبی کی قبر ہے وہ تو القدس میں فوت ہوئے اور وہیں ان کی قبر ہے.بعض لوگوں نے اور ایسی ہی روایات کی طرف حضور کو متوجہ کرنا چاہا مگر حضور نے پسند نہ فرمایا اور مسجد کے اندر کے حصہ میں سے گزرتے ہوئے مغرب سے مشرق کی جانب تشریف لے گئے اور وسعت کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ وہ مسجد ہے جہاں یقیناً صحابہ نے نمازیں پڑھیں ہیں.مسجد کی عمارت اور وسعت سے پتہ لگ سکتا ہے کہ اس زمانہ میں کس قد ر لوگ نماز کے پابند تھے.حضور نے اندازہ کرایا تو معلوم ہوا کم از کم تین سو آدمی ایک صف میں کھڑا ہو سکتا ہے اور بیس سے زیادہ صفوف مسجد کے تینوں حصوں میں کھڑی ہو سکتی ہیں یعنی چھ یا سات ہزار آدمی مسجد کے اندر نماز ادا کر سکتا ہے اور اسی قدرصحن میں گویا قریباً پندرہ ہزار آدمی ایک وقت میں نماز ادا کر سکتا ہے.مسجد کی چھت بہت بلند اور شاندار ہے.خوبصورت زری کا کام کیا گیا ہے.ایک بلند بالا گنبد بہت ہی شاندار معلوم ہوتا ہے.دو مینار ہیں ایک جانب شمال دوسرا جانب شرقی کو نہ- شمالی مینار پر اذان کہی جاتی ہے اور دوسرا بالکل بند پڑا ہے اس پر چڑھنے کی کسی کو اجازت نہیں.کہتے ہیں کہ اس کو حضرت مسیح کے نازل ہونے کے واسطے ریزرور کھا ہوا ہے.مسجد کا کوئی مینا ر سفید نہیں نہ شمالی نہ
۷۳ مشرقی بلکہ رنگ دا ر اور سرخی مائل ہیں.منارہ بیضا : منارہ بیضا صرف وہی منارہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت تامہ اور حکمت کا ملہ کے ماتحت سیدنا حضرت خلیفۃ المہدی والمسیح کو ان دنوں ٹھہرایا ہے اور یقیناً یہی بات ہے کہ اس ہوٹل سنترال میں اللہ تعالیٰ نے ہی قیام کے لئے سامان کئے جس کے بالکل ملحق ( درمیان میں صرف ایک بازار ہے ) جانب غرب ایک مسجد کا مینار ہے اور وہ سفید ہے.حضور کا منشا تھا اور اس منشا کے ادا کرنے کی غرض سے شہر کے قریباً تمام ہی حصص کو ٹو لا گیا اور کوشش کی گئی کہ کسی طرح سے حضور کا منشا پورا ہو اور وہ منشا یہ تھا کہ کسی معزز اور آباد حصہ شہر میں - بہت شریفانہ قیام پر کوئی جائے قیام مل جائے.خدو یو یہ ہوٹل میں سب سے پہلے حضور کو لایا گیا مگر وہاں جگہ نہ تھی اور ہزار کوشش کی مگر جگہ نہ ہی ملی.رات کو حضور نے وکٹوریہ ہوٹل میں گزاری اور وہ بھی عارضی طور پر.صبح کو تمام خادم ہوٹل یا مکان کی تلاش میں نکلے بہت کوشش کی مگر کوئی جگہ نہ ملی.سنتر ال ہوٹل میں بھی گئے مگر صرف ایک کمرہ تھا جس میں تین چار پائیاں تھیں اور وہ حضور کے مناسب حال نہ تھا.علیحدگی نہ تھی.آخر جب کوئی صورت نہ بنی تو اس خیال سے کہ صرف ایک دن گزارنے کے لئے یہاں ٹھہر جائیں حضور ٹھہر گئے.اُمید یہ تھی کہ خدیو یہ ہوٹل جو نسبتا زیادہ صاف ہے اس میں جگہ مل جاوے گی جیسا کہ اس کے مینجر نے وعدہ بھی کیا تھا مگر کوئی جگہ خالی نہ ہوسکی اور معلوم ہوا کہ تمام ہوٹل بھر پور ہیں اور مسافر زیادہ آ رہے ہیں.آخر مجبوراً اسی سنتر ال ہوٹل کو ہی اختیار کرنا پڑا جس میں آخر فصل کی کوشش سے ایک الگ کمرہ حضرت اقدس کے واسطے بھی مل گیا.ایک حصہ قافلہ کا اسی میں یعنی صرف ۳ بزرگ خادم اور حضرت صاحب اور قافلہ کا دوسرا حصہ دار السرور ہوٹل میں.یہ جدائی و تفریق حضور کو ہرگز پسند نہ تھی مگر مجبوراً ایسا ہی کرنا پڑا اور اس وقت کسی کو بھی اس کا خیال نہ تھا کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے.مولوی لوگ آنے لگے.مباحثات کا بازار گرم ہوا.جواب وسوال کا سلسلہ جاری ہوا.سید نا حضرت اقدس نے لوگوں سے پوچھا کہ منارۃ البیضا مسجد جامع امویہ میں کوئی ہے بھی یا کہ نہیں ؟ تو انہیں اقرار کرنا پڑا کہ کوئی منارہ منارہ بیضا کہلانے والا وہاں موجود نہیں ہے چنانچہ ایک
۷۴ دن کی بحث میں حضرت صاحب نے ایک مولوی صاحب کو بطور حجت ملزمہ کہا بھی کہ لاؤ وہ منارہ بیضا ہے کہاں؟ ر کی صبح کو حضور نے نماز صبح اسی ہوٹل میں دونوں خدام ہمرکاب کے ساتھ پڑھی.سلام پھیرا تو منارہ مسجد کی طرف نظر پڑی جو بیضا تھا اور حضور اس کے مشرقی جانب سنتر ال ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے.معا اللہ تعالیٰ نے دل میں ڈالا کہ یہی وہ منارۃ البیضا ہے جس کے متعلق وارد ہے کہ بیح عند منارة البيضاء نازل ہوگا سو حضرت مسیح موعود کے خلیفہ،حضور کے لختِ جگر اور حسن و احسان میں حضرت مسیح موعود کے نظیر کا اس مقام پر نزول گویا خود حضرت مسیح موعود ہی کا نزول تھا اور یہی اس حدیث کے معنے ہیں جو واقعات کے مطابق ہوئے اور یوں وہ حدیث نبوی ہے پوری ہوئی اور جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے بتایا.طرفہ یہ کہ اس نماز میں حضرت اقدس کے ساتھ دو ہی خادم شریک تھے یعنی مکر می ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور خان صاحب ذوالفقار علی صاحب.مسجد امویہ کے صحن میں سے منارہ شرقی کے اوپر کا حصہ صرف نظر آتا تھا.حضور کے ارشاد پر میں مکان ( ہوٹل ) سے کیمرہ لے کر مسجد میں پھر حاضر ہوا اور حضرت میاں صاحب عالی مقام نے اس منارہ کا فوٹو مسجد کے شمالی جانب کے ورانڈہ میں کھڑے ہو کر لیا اور بعد میں ایک فوٹو سیدنا حضرت اقدس کا مع خدام اس مسجد امویہ کے صحن میں ایک قطار میں کھڑے کر کے لیا گیا جس کے بعد حضرت اقدس وہاں سے مع خدام واپس مکان پر تشریف لائے اور موٹر کے ذریعہ سے پھر سارے علاقہ شام کے گورنر کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے جس کا وقت گیارہ بجے کے بعد مقرر تھا.کل جس گورنر کی ملاقات کا ذکر تھا وہ صاحب صرف ضلع دمشق کے گورنر تھے اور یہ صاحب تمام شام کے گورنر ہیں.ان کا نام کبھی بیگ ہے.عرب نسل کے مسلمان ہیں اور بڑے سمجھدار اور ز کی آدمی ہیں.سلسلہ کا بھی ذکر ان سے حضرت اقدس نے کیا.ان سے یہ بھی ذکر آیا کہ ہم لوگ یہاں مبشرین بھیجنا چاہتے ہیں آپ کو ان کے متعلق کوئی اعتراض تو نہیں یا قانونا کوئی روک تو نہیں؟ اور اگر کوئی روک نہیں تو کیا آپ ہماری کچھ مدد کر سکیں گے صرف اخلاقی مدد.حضور کے تشریف لے جانے کے وقت اس کے پاس چند علماء اور رؤسا بھی موجود تھے.بعض نے ہماری مخالفت کی اور کہا کہ ان لوگوں کو یہاں داخل نہ ہونے دینا چاہئیے اور بہت کچھ شور
۷۵ مچایا مگر ایک صاحب جو ایک بڑے جلیل القدر عہدے پر مامور ہیں نام ان کا کل معلوم کر کے لکھوں گا انشاء اللہ اور وہ سنترال ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں، آستینیں چڑھا کر کھڑے ہو گئے اور علماء مخالف کو مخاطب کر کے بڑے جوش سے بولے کہ تم لوگ عیسائیوں اور بابیوں کو تو آنے دو اور ان کا زہر تو ملک میں پھیلنے دو مگر نہ آنے دو تو ایک ایسی جماعت کو جو جان اور مال سے خدمت اسلام کی غرض سے گھروں سے نکلی ہے اور کسی سے کچھ نہیں مانگتی اور مفت خدمت دین اسلام کرتی پھرتی ہے وغیرہ وغیرہ.اس بزرگ کی تقریر ایسی جوشیلی اور پُر زور تھی کہ سب مخالفت دب گئے اور کوئی جواب نہ دے سکے.آخر گورنر نے بھی اس کی تائید کی اور کہا کہ اچھا آپ لوگ بتائیں کہ اگر یہ لوگ (احمدی) یہاں آ کر اپنا مدرسہ جاری کر کے اپنے خیالات کی تشہیر کریں تو تم روک سکتے ہو؟ نصرانی مدارس اور اخبارات کے ذریعہ سے اپنے خیالات پھیلا جائیں تو پرواہ نہ کرو مگر روک پیدا کر و تو ایسے لوگوں کے لئے جو خادم دین ہیں.الغرض گورنر نے حضرت سے عرض کیا کہ آپ بے شک مبلغین اور مبشرین اسلام یہاں بھیجیں ہم ان کی حتی المقدر مدد کریں گے اور اگر لوگ ان پر حملہ بھی کریں گے تو ہم ان کی حفاظت اور مدد کریں گے البتہ اگر لوگوں کا زور اور غلبہ وفتنہ اتنا بڑھ جائے کہ ہماری طاقت سے اس کا دبنا اور رکنا ممکن نہ ہو تو پھر ہم آپ سے کہہ دیں گے کہ آپ اپنا انتظام آپ کر لیں ورنہ ہم ہر طرح سے مدد کے لئے حاضر ہیں وغیرہ وغیرہ.الغرض گورنر بہادر سے ملاقات اللہ کے فضل سے بہت کامیاب ملاقات ہوگئی.تبلیغ بھی ہوگئی اور آئندہ کے لئے راستہ بھی کھل گیا.گفتگو اور ملاقات بہت طویل تھی میں نے خلاصہ عرض کیا ہے.چھوٹے گورنر صاحب نے حضرت صاحب سے خود ہی لٹریچر مانگا تھا مگر چونکہ لٹریچر ساتھ نہ تھا اور مصر کا بھی ابھی طبع نہ ہوا تھا صرف اسلامی اصول کی فلاسفی عربی ساتھ ہے وہ ایک کتاب اس کو بھیج دی گئی مگر اس نے تحفہ شاہزادہ ویلز کا حال سن کر بہت اشتیاق ظاہر کیا کیونکہ اس نے حضرت اقدس سے حالات تصنیف تحفہ شاہزادہ ویلز سنے تھے جس کی وجہ سے اس کو اس کے مطالعہ کا بہت شوق پیدا ہوا تھا مگر جب سید نا حضرت اقدس نے فرمایا کہ وہ تو انگریزی میں ہے تو بہت افسوس کیا مگر ساتھ ہی کہا کہ نہیں وہ ضرور بھیج دیں میں اپنی لڑکی کو دوں گا وہ انگریزی جانتی ہے چنا نچہ تحفہ شاہزادہ ویلز بھی دے دیا گیا.بیک کرشمہ دو کار والی بات ہے.لڑکی کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک موقع دے
۷۶ دیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو قبول حق کی توفیق بخشے.چھوٹے گورنر کا نام حقی بے یا حقی بیگ ہے.اس نے مبشرین کے بھیجنے اور تبلیغ اسلام کا سلسلہ جاری کرنے کی خوشی سے اجازت دی اور مدد کا وعدہ بھی کیا تھا.اس کے سوا حضور یہاں کے اعلیٰ فرنچ آفیسر سے بھی ملے تھے اور وہ ملاقات بھی اللہ کے فضل سے بہت ہی کامیاب ملاقات تھی.دوران گفتگو میں ترجمان نے حضرت اقدس کے متعلق معمولی الفاظ استعمال کئے تو حاکم نے اس کو سختی سے ڈانٹا اور کہا کہ وہ ہندوستان کے ایک بہت بڑے پرنس ہیں اور مذہبی پیشوا ہیں اور مشہور ریفارمر ہیں ان کا نام ادب اور احترام اور عزت سے لینا اور ان کے مرتبہ اور درجہ کا خیال رکھنا.یہ الفاظ اس نے گوفرانسیسی زبان میں کہے تھے مگر حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کی بات کو سمجھ لیا تھا کیونکہ فرانسیسی کے الفاظ اکثر انگریزی سے ملتے ہیں مثلاً پرنس کو وہ لوگ پر نسو کہتے ہیں وغیرہ.الغرض سید نا حضرت خلیفتہ المسح والمہدی کی تشریف آوری ان علاقہ جات میں نہایت ہی کامیاب ہوئی اور سلسلہ تبلیغ کے واسطے ایک بہت آسان راہ کھل گئی ہے.سلسلہ کا تعارف ہو گیا اور اہمیت اور عظمت قائم ہو گئی ہے اگر ایک ہزار مبلغ بھی آتا تو یہ بات پیدا ہوئی مشکل تھی جو حضور کی تشریف آوری سے پیدا ہو گئی ہے.گو اصل غرض سفر اس سے بہت بلند و بالا ہے مگر اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ یہ بھی اس بڑے اصل ہی کی فرع و شاخ ہے.جمعہ کا دن دمشق میں عام اجتماع کا دن ہے.حضرت اقدس کی تشریف آوری کا اعلان اخبارات میں ہو چکا ہے.بعض مولوی صاحبان حضور سے مل کر سلسلہ کے حالات سے آگاہ ہو چکے ہیں.بعض ایڈیٹروں اور علماء کو حضور کے خدام گھروں پر جا کر سلسلہ کی تبلیغ کر آئے ہیں.اکثر لوگوں سے تعلقات لین دین اور گفت و شنید بازاروں اور ہوٹلوں میں ہو چکے ہیں اور اب ہم لوگ دمشق میں معروف ہیں.ہمارے عقائد کے متعلق عام طور پر چرچا بلکہ شور ہو چکا ہے کہ یہ لوگ کوئی نئے عقائد پیش نہیں کرتے ہیں.ہماری خدمات اسلام اور تبلیغ واشاعت کے کام کو محبت کی نظر سے دیکھا اور شوق سے سنا جاتا ہے.جامع امویہ میں بھی ہم لوگ عین جمعہ کی نماز سے پہلے جب کہ اذان ہو چکی تھی ہو
LL آئے ہیں.اکثر عوام اور بہت سے مولوی لوگ مسجد میں جمع تھے انہوں نے ہمارے وفد کو یونیفارم میں دیکھا اور یونیفارم میں ہونے کے باعث ہم لوگ اپنی تعداد سے بہت زیادہ نظر آتے ہیں.جامع امویہ میں آج خطیب نے اور بھی ہماری شہرت کر دی ہے.خطبہ جمعہ میں اس نے ہمارے متعلق اعلان کر دیا ہے گو مخالفت کی ہے اور سخت سست الفاظ استعمال کئے ہیں مگر بہر حال ایک اشتہار ضرور دے دیا ہے.چنانچہ دو ایرانی اس کے خطبہ سننے کے بعد ہوٹل پر آئے.وہ کئی زبانوں کے ماہر ہیں اور حضور سے ملنا چاہتے تھے مگر حضور اس وقت کسی خاص ملاقات میں مصروف تھے اور ان کو زیادہ فرصت نہ تھی آخر کل 9 بجے کو آنے کا وعدہ کر گئے ہیں.ان کے سوا اور بھی بہت سے لوگ اور کئی مولوی محض خطبہ میں ہمارا ذکر سن کر دیکھنے کو آئے ہیں اور آج تو اتنے لوگ آئے ہیں کہ ہوٹل میں کوئی کرسی باقی نہیں رہی بلکہ اکثر لوگ گفتگو کھڑے ہو کر سن رہے ہیں.حافظ صاحب صبح سے لگے ہوئے ہیں.حلب کے ایڈیٹر صاحب کو اکثر حصہ دلائل کا لکھا دیا ہے.وہ غور کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ میرا دل چاہتا ہے کہ احمدی ہو جاؤں اور آپ کے ساتھ مل کر کام کروں مگر انشراح ہو جائے اور دلائل اور براہین پر غور کرلوں تب.حمص کا ایک بزرگ حضرت کی تقاریر اور مباحثات اور مولویوں کی بدعنوانیاں اور چاروں طرف سے حملے واعتراضات کی بوچھاڑ کو اور دوسری طرف حضور کا سب کو حوصلہ ،تحمل اور بہادری سے جواب دینا اور نہ گھبرانا دیکھ کر عاشق ہو رہا ہے اور عش عش کر کے بعض اوقات لوگوں سے لڑنے لگتا ہے کہ یہ کیا تہذیب ہے کہ ایک شخص سے ایک آدمی بات نہیں کرتا چاروں طرف سے بولنے لگتے ہومگر وہ تنہا سب کو مسکت جواب دیتا جا رہا ہے.یہ بزرگ بھی اپنے علاقہ میں بہت بڑا آدمی ہے اور کہتا ہے کہ قریباً ایک ہزار آدمی میرے زیر اثر ہے میں چاہتا ہوں کہ احمدی ہو جاؤں انشاء اللہ میرے ساتھی بھی جماعت میں شامل ہو جائیں گے اور بہت ہی قریب ہے احمدیت کے اور یہ وہی شخص ہے جس کو کل ۷ اگست کے دن حضرت اقدس نے اپنے دست مبارک سے سلسلہ کی پہلی کتاب دی تھی.کیا مولوی لوگ اور کیا امرا اور شرفا اور کیا طلبا سب ہی لوگ دوران گفتگو اور سخت مباحثہ
ZA میں بھی یہ لوگ حضور کو استاد یا استاد، استاد الاکبر کے نام سے پکارتے ہیں.حافظ صاحب ابھی حلب کے ایڈیٹر صاحب سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ شیعہ فرقہ کا بڑا مفتی اور کئی بڑے بڑے علماء آگئے اور ہر ایک مولوی محض یہ نیت لے کر آتا تھا کہ کسی رنگ میں حضرت اقدس کو یا حضور کے غلاموں کو بحث میں شکست دیں.کوئی لغت کا زور لے کر آتا.کوئی حدیث دانی کے گھمنڈ پر آتا.کوئی فلاسفی کوئی منطق کوئی صرف ونحو کے زعم پر آتا تھا مگر ان کو معلوم نہ تھا کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے علوم کو ایسا غلام کر رکھا ہے کہ کسی کو حضرت اقدس تو کیا حضرت کے غلاموں سے بھی بازی لے جا سکنے کی توفیق نہ ملتی.جو آتا پہاڑ سے ٹکر کھا کر واپس لوٹ جا تا.پھوڑتا تو اپنا ہی سر پھوڑتا.علماء کی اس بے بسی اور بدتہذیبی کی وجہ سے ہی ۸/ اگست ۱۹۲۴ء کے اخبار الف بانے نوٹ لکھتے ہوئے لکھا کہ میدان میں ایک کامیاب جرنیل یا شیر بہادر کی طرح سے چاروں طرف کے حملوں کا جواب دیتا تھا ہمارا امام ).اگر چہ اس اخبار کو ایک غلطی لگ گئی ہے کہ اس نے تمام مسم کے ( دعاوی سید نا حضرت خلیفہ اسیح کی طرف منسوب کر دیئے ہیں.یہ اخبارات قادیان روانہ کئے جا رہے ہیں اور کئی اور اخبار جاری کئے جائیں گے.کل ہوٹل میں ایک کمرہ ایک پونڈ روزانہ پر لے لیا گیا تھا مگر اس میں گنجائش نہ رہی تو خود لوگوں نے مینجر ہوٹل سے جا کر کہا کہ ہمیں اجازت دو کہ ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر کچھ باتیں کریں.مینجر نے مجبور ہوکر اجازت دی اور پھر وہ بڑا کمرہ لوگوں سے بھر گیا.ایک حلقہ بنایا گیا.کرسیوں پر جگہ نہ رہی تو لوگ کھڑے کھڑے سنتے رہے.حافظ صاحب کو کل ساڑھے چار بجے کھانا نصیب ہوا.حافظ صاحب کھانے کو گئے اور حضرت صاحب باہر تشریف لے آئے اور مجلس ایک بار اور پوری بھر گئی اور لوگ ہمہ تن گوش ہو کر سننے لگے.حضرت اقدس نے عربی میں سلسلہ کلام بڑی فصاحت سے جاری رکھا چنانچہ ۸/ اگست ۱۹۲۴ء کے اخبار الف با نے اس بات کا بھی اقرار کیا کہ حضور بڑی فصیح زبان عربی میں کلام فرماتے تھے.ہر قسم کے مولویانہ اعتراضات کئے گئے.وفات مسیح سے لے کر ختم نبوت اور نبوت حضرت مسیح موعود اور صداقت مسیح موعود اور وحی الہی کے نزول تک تمام مسائل پر ہر رنگ میں گفتگو ہوتی
۷۹ رہی اور نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ خاص طور پر متاثر تھا.خصوصاً حضور کا اہلِ زبان نہ ہونا اور چاروں طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ ہونے کے باوجود حضور کا نہ گھبرانا اور شیر کی طرح سے سب کے حملوں کا جواب دینا ایسی باتیں تھیں کہ خواہ مخواہ لوگوں کی ہمدردی ہمارے ساتھ ہو جاتی تھی اور پھر بڑی بات یہ تھی کہ حق ہمارے ساتھ تھا اور اس حق کو بیان کرنے والے ہمارے آقا خلیفہ اللہ ہیں.آخر میں ایک جاہل گردن فراز مولوی دو اور بڑھے مدرسوں کو لے کر آیا اور لغت اور منطق وغیرہ میں باتیں کرنی شروع کیں.حضور جواب دیتے رہے.اس نے دجل کیا اور دھوکہ دے کر حضور کی طرف ایسی بات منسوب کی جو حضور کا منشا نہ تھا بلکہ حضور اس کے خلاف دلائل دے رہے تھے.حضور کو اس کی اس حرکت سے رنج ہوا.حضور نے اس کو ڈانٹا اور فرمایا کہ تم کو معلوم ہو جانا چاہیئے کہ (حضرت صاحب کو الہام ہوا ہے عبد مُكْرَم - حضور کو پہلے اور دوسرے دن دمشق میں خیال ہوا کہ لوگ آئے نہیں اور کہ کوئی تحریک لوگوں میں نہیں ہوئی جس پر حضور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں میں تحقیق حق کا جوش پیدا کر دے اس پر حضور کو یہ الہام ہوا اور ساتھ ہی وہ رجوع خلائق کہ جس کا بیان ممکن نہیں ) تم کسی اپنے شاگرد سے باتیں نہیں کر رہے بلکہ ایک سلسلہ کے امام سے کلام کرتے ہو جس کے شاگرد بھی تم کو سبق دے سکتے ہیں.یہ بدخلقی تم میں شاید اس وجہ سے ہے کہ تم لڑکوں کے مدرس ہو چنانچہ اس بات سے گویا وہ مر ہی گیا پھر نہ بولا اور نہ ہی بول سکا بلکہ جلتا بھنا بکواس کرتا ہوا اُٹھ گیا اور سیڑھیوں پر جا کر بکا شِمْر لَعِيْنٌ نَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْهَا) یہ بول وه بڈھا بولا تھا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو ضرور شِمْر لَعِيْنُ ہی بنا کر مارے گا.اس کے بعد نوجوان طبقہ بیٹھا رہا اور نوجوان بہت محبت سے حضور سے باتیں کرتے رہے ایڈریس لیتے رہے اور پھر آنے کا وعدہ کرتے ہوئے بعد شام چلے گئے.اخبار المقسم کا ایڈیٹرکل تین اور بڑے بڑے ایڈیٹروں یا نائب ایڈیٹروں کے ساتھ حضرت اقدس سے تخلیہ میں ملا.حضور کے اس سفر کی غرض پوچھی جو حضور نے ابتدا سے انتہا تک اپنے عربی الفاظ میں اس کو نوٹ کرا دی.کانفرنس کی اطلاع ، دعوت اور حضور کا جماعت سے مشورہ لینا وغیرہ وغیرہ عام حالات حضور نے لکھائے.آئندہ سفر میں حضور کہاں کہاں جائیں گے، کیا اغراض ہیں، واپسی کب ہو گی ، کہاں کہاں ٹھیریں گے وغیرہ وغیرہ سوالات کے جوابات حضور نے لکھائے
۸۰ اور یہ سلسلہ انٹرویو برابر جاری رہا.پھر سیاست کے متعلق بھی اس نے بعض سوالات کئے.ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت.ہماری جماعت کی حالت- نظام - طر ز کا ر اور ہر شعبہ کا طریق عمل حضور نے مفصل طور پر اس کو لکھایا اور بتایا.چندوں کی فراہمی.زکوۃ کی وصولی کا انتظام - اخراجات طریق - غرباء کی امداد و غرض ہر صیغہ کو مفصلاً حضور نے بتلایا جو انہوں نے نوٹ کیا اور حضرت اقدس سے عرض کی کہ کل حضور خود کچھ حالات اپنے ذاتی لکھ کر دیں تا کہ ان کو شائع کیا جاوے.یہ طبقہ لوگوں کا بہت ہی معقول طبقہ ہے اور بڑے بڑے آدمی ہیں.علماء کو حقارت سے دیکھنے اور ان کی مجلس میں بیٹھ کر بات کرنا یا سننا پسند نہیں کرتے.دراصل یہاں کے مولوی طبقہ کو بھی فکر ہوگئی ہے کہ لوگوں کا رجوع سید نا حضرت اقدس کی طرف ہو گیا ہے جس کی روکو روکنے کی فکر میں ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح سے ہمارا کام رک جائے مگر خدا کا فرمان سچ ہے کہ خدا کے کام کو کون روک سکتا ہے“ حضرت اقدس اللہ کے فضلوں کی بارش پر خوش ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس علاقہ میں سے کامیابی کی خوشبو آتی ہے اور کہ انشاء اللہ ہمیں اس علاقہ میں جلد تر بڑی جماعت مل جائے گی.شام اور عشاء کی نمازوں کے بعد حضرت اقدس نے کھانا کھایا اور تھوڑی دیر کے واسطے حضور سیر کو تشریف لے گئے.چوہدری فتح محمد خان صاحب کے ایک واقف کا رفلاسفر جو مشہور مصنف ہیں نے چوہدری صاحب کی دعوت کی تھی وہ رات اس کے ہاں گئے اور واپس آئے.آج صبح کو وہ پھر ملاقات کے لئے آوے گا اور امید ہے کہ بیعت ہی کرے گا.( عبدالرحیم آفندی آف بیروت پوسٹ ماسٹر دمشق جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے دوست ہیں اور کلاس فیلو ہیں.القدس میں اکیلے رہتے تھے.شاہ صاحب کی بہت ہی تعریف کرتے تھے.۹ / اگست ۱۹۲۴ء : صبح سے علماء، طلباء امرا اور شرفا برابر آ رہے ہیں.حافظ صاحب نیچے کے سیلون میں بیٹھے برابر تقریر کر رہے ہیں.لوگ سوالات کرتے ہیں جواب دیئے جاتے ہیں اور آج ایسا طریق تبلیغ اللہ تعالیٰ نے حافظ صاحب کو سکھایا ہے جسے کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے الہام ہی کیا
ΔΙ ہے کہ اس طریق سے گفتگو کر و.سب علماء خاموش ہیں.سب علماء اور شرفا ہمہ تن گوش ہیں اور ایک بجلی کی سی کشش ہے جو لوگوں کو اپنی طرف جذب کرتی ہے.تین گھنٹے ہو چکے ہیں اکثر لوگ کھڑے ہیں اور سن رہے ہیں صرف چند کرسیاں ہیں باقی لوگ کھڑے ہیں.دوسری طرف سید نا حضرت اقدس ابھی غسل سے فارغ ہوئے ہیں اور بعض علما ء خاص طور پر پرائیویٹ ملاقات کے لئے بیٹھے ہیں.ایک مولوی صاحب سے حضرت اقدس تخلیہ میں گفتگو کر رہے ہیں.دوسرا بزرگ شکل دروازہ پر انتظار میں بیٹھا ہے.تیسری طرف مولویوں نے مخالفت شروع کر دی ہے.وہ پیغام جس کا میں نے پہلے خط میں ذکر کیا ہے کہ اہلِ دمشق کے لئے حضور نے لکھا ہے اور عربی میں ترجمہ کرا کر شائع کرنے کا ارادہ کیا ہے کمپوز ہوکر پروف بھی دیکھا جا چکا ہے اور پروف صحیح بھی ہو کر رات چلا گیا تھا.آج صبح رسالہ لینے کو پریس میں گئے تو معلوم ہوا کہ اول اجازت لینی لازمی ہے پریس برانچ کے افسروں سے.حضرت اقدس کے حضور عرض کیا گیا.حضور نے حقی بیگ کے پاس جا کر معاملہ عرض کرنے کا حکم دیا.حقی بیگ گورنر نے کہا اول وہ مضمون مفتی صاحب دیکھ لیں وہ اجازت دیں تب شائع ہو سکے گا.مفتی صاحب کو بتایا گیا.اس نے دیکھ کر کہا مضمون مذہبی ہے مگر میں اس کو دو تین دن میں پڑھ سکوں گا اور پڑھنے کے بعد فیصلہ دوں گا.پھر گورنر حقی بیگ کے پاس عرض کیا گیا.مفتی بھی وہیں جا پہنچا.گورنر کے حکم سے سارا ٹریکٹ پڑھا گیا.پڑھ کر مفتی نے کہا کہ یہ ہمارے مسلمہ عقائد کے خلاف ہے الہذا اس کی اشاعت کی میں اجازت نہیں دوں گا.شیخ عبد الرحمن صاحب مصری گئے ہوئے تھے انہوں نے چند مرتبہ رڈ وکڈ بھی کی مگر انہوں نے نہ مانا.یہ بھی کہا گیا کہ جب مذہبی آزادی ہے تو کیوں ایک مذہبی ٹریکٹ کو روکا جاتا ہے.حقی بیگ (پاشا) نے بھی آخر کہہ دیا کہ میں کیا کر سکتا ہوں جب مفتی جو اس صیغہ کا افسر ہے اس کی اشاعت کی اجازت نہیں دیتا کچھ ہو نہیں سکتا حتی کہ یہ بھی کہہ دیا کہ اس صورت میں اخبارات میں بھی اس مضمون کی اشاعت ناممکن ہے.عجیب مذہبی آزادی اور عجیب ہی طرز حکومت ہے کیوں نہ برٹش گورنمنٹ کی تعریف کی جائے.اب حضرت اقدس نے مصری صاحب اور خان صاحب کو فرنیچ گورنر کے پاس بھیجا ہے کہ
۸۲ وہاں جا کر معاملہ پیش کریں اور اگر کوئی صورت اشاعت کی نہ ہو سکے تو ان سے کہہ دیا جائے کہ اس اشتہار پر ہمارا خرچ ہو چکا ہے اور وہ ہماری ملکیت ہے وہ ہمیں دلا یا جاوے.ہم دمشق میں شائع نہ کریں گے باہر جا کر شائع کر دیں گے.دیکھیں اب کیا جواب آتا ہے.ہمارے شاہد صاحب زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے دوست عبدالرحیم آفندی بیروتی پوسٹ ماسٹر دمشق نے بھی آج بعد نماز ظہر ساڑھے تین بجے حاضر ہو کر ملاقات کرنے کی خواہش کی اور کہا کہ میں ان عقائد کو ماننے کے لئے تیار ہوں.اس وقت کہ گیارہ بجے ہیں ہوٹل کے اندر اس قدر لوگ بھرے ہوئے ہیں کہ ہوٹل والا رو رہا ہے.شیخ رہا ہے اور پکارتا ہے خدا کے واسطے آپ لوگ کسی مسجد میں جائیں میرا مکان اس قدر لوگوں کو برداشت نہیں کر سکتا.دروازہ ہوٹل کا آخر تنگ آکر بند کر دیا گیا.لوگ دروازے پر اس کثرت سے جمع ہیں کہ دروازہ ٹوٹنے کا بھی اندیشہ ہے.چند آدمی دروازہ پر متعین کر دیئے گئے ہیں.علماء عظام جمع ہیں اور کہتے ہیں کہ عوام کو چھوڑ دیا جاوے اور ہم سے بات کی جاوے.صرف دس ہی منٹ دے دیئے جاویں.زیارت ہی کرا دی جاوے.حضرت اقدس ایک خاص صاحب سے علیحدگی میں ملاقات کر رہے ہیں اور عوام اور نو جوان طبقہ نہیں چاہتا کہ حضرت حافظ صاحب اپنی تقریر بند کر کے اوپر چلے جائیں ان کو وہیں لطف آ رہا ہے.غرض عجیب سماں ہے اور نہایت ہی اچھا نظارہ ہے.حق تبلیغ آج دمشق کی سرزمین میں پورے طور پر ادا کیا جا چکا ہے.ثمرات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں.تمام دمشق میں ایک ہیجان ہے اور لوگ ہوٹل سنتر ال کی طرف ٹوٹے پڑتے ہیں.بڑے علماء جو کبھی گھروں سے نکلنا بھی گوارا نہ کرتے تھے حضرت کے دروازہ پر جمع ہیں اور منتظر ہیں کہ کسی طرح چند ہی منٹ ان کو مل جائیں.گفتگو نہیں تو زیارت ہی ہو جائے مگر وقت حصے میں آتا نظر نہیں آتا.ہم میں سے ہر ایک شخص کسی نہ کسی سے باتیں کر رہا ہے کیونکہ ہر ایک عرب یہاں پیاسا نظر آتا ہے.ہم میں ہر ایک جس سے کچھ بن پڑتا ہے ان پیاسوں کی سیرابی کو مہیا کرنے کی کوشش میں ہے.سارے شام میں بڑا آدمی شیخ توفیق ایوبی دروازہ پر ہے اور درخواست کرتا ہے کہ چند منٹ کے واسطے ملاقات کا موقع دیا جائے.اندر اس کا ایک شاگرد ہے جو باتیں کر رہا ہے مگر یہ امر بھی خلاف اخلاق ہے کہ ایک بڑے آدمی کی خاطر چھوٹے کی دل شکنی کی جاوے جب کہ پہلے وہ
۸۳ حضرت سے وقت لے چکا ہے.اب رقعہ لکھ کر حضرت کے حضور پھر پیش کیا گیا ہے اور وہ رقعہ شیخ توفیق آفندی ایوبی نے اپنے شاگرد کے نام بھیجا ہے کہ ہم باہر بیٹھے ہیں ہمیں بھی وقت لینے دو.حضرت صاحب باہر تشریف لے آئے ہیں اور اب بالائی ڈرائینگ روم میں علماء اور اس مفتی کے بیٹے سے جس نے اشتہار کی اشاعت روک دی ہے باتیں کر رہے ہیں.مختلف مسائل پر گفتگو جاری ہے جن میں سے کسر صلیب اور قتل خنزیر اور جزیہ اُٹھا دینے کے معانی و مطالب پر حضور ذکر فرما رہے ہیں اور علماء ور و ساوا مرا ہجوم کئے بیٹھے ہیں.خلق خدا کا انبوہ واثر دہام نیچے بے قرار کھڑا انتظار کر رہا ہے.پولیس ہوٹل میں پہنچ گئی ہے اور لوگوں کو داخلہ سے روک رہی ہے البتہ چند علماء جو موجود ہیں باتیں کر رہے ہیں.ہوٹل کا مینجر پھر آیا اور کہتا ہے کہ دو گھنٹہ کے اندر اندر میرا ہوٹل خالی کر دو.میں روپیہ کی پرواہ نہیں کرتا اگر آپ ایک سو پونڈ بھی روزانہ دیں تو میں منظور نہ کروں گا.کئی سو آدمی ہوٹل کے دروازہ پر جمع ہے اور دروازہ توڑنے کی کوشش کر رہا ہے.مینجر نے یہ امر پولیس کو جو اندر موجود ہے کہا ہے جس پر ایک دو سپاہی نیچے گئے ہیں تا کہ دروازہ کی حفاظت کریں.توفیق ایوبی نے ایک لمبا وعظ شروع کر دیا تھا.اس کو ایک شخص نے ٹوک دیا ہے اور روکا ہے کہ آپ نے وعظ شروع کر دیا ہے ہم تمہاری باتیں سننے کو نہیں آئے.ہم ان ہی کی باتیں سنیں گے جن کی سننے کو ہم جمع ہوئے ہیں آپ تو پھر بھی سنا سکتے ہیں.الغرض آپس میں بحث ہو گئی ہے.مولوی کہتا ہے کہ یہ لوگ تارک الصلوۃ ہیں.کل جمعہ کا دن تھا ، مسجد میں گئے ، اذان ہوئی مگر یہ لوگ مسجد سے لوٹ آئے اور اذان اور موذن کی پکار کا ذرہ بھی خیال نہ کیا.حضرت صاحب سے جواب مانگا کہ آپ کیوں اذان سن کر واپس آ گئے تھے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ تم بتاؤ کہ صحابہ اس طرح سے نماز پڑھا کرتے تھے جس طرح تم پڑھتے ہو.چار مصلے بنارکھے ہیں.الگ الگ جماعت ہوتی ہے چنانچہ اس بات کا صاف اقرار کیا اور کہا کہ واقعی یہ خطا ہے.آخر تنگ آ کر پولیس نے علماء کو بھی کہا ہے کہ یہ مقام بحث و مباحثہ کا نہیں ہے مسجد میں چلے جائیں چنانچہ توفیق ایوبی تو چلا گیا ہے مگر باقی لوگ ابھی موجود ہیں اور توجہ و اطمینان سے سن رہے
۸۴ ہیں کیونکہ مولوی صاحب کے جانے سے بحث کا رنگ نہیں رہا.حکومت کی طرف سے بھی ایک حکم اس مضمون کا آ گیا ہے کہ بحث مباحثہ کے واسطے کوئی مکان سوائے ہوٹل کے تجویز کیا جاوے ہوٹل میں بحث مباحثہ کی اجازت نہیں ہے.ان باتوں کا حضرت حافظ صا حب نے اعلان کر دیا ہے کہ صاحب لوکندہ ( مالک ہوٹل ) نے منع کر دیا ہے کہ یہاں مجمع نہ ہو اس وجہ سے ہم معذور ہیں کیونکہ اب کچھ بات کرنے کی اجازت نہیں ہے اور یہ آپ لوگوں کے مولویوں کا قصور ہے ورنہ یہ روک کھڑی ہوتی نہ ہم سنانے سے تھکتے.ایک سفید پوش ڈاکٹر جس نے توفیق ایوبی کو ذلیل کیا اور جھاڑ دیا تھا خدا نے بھیج دیا تھا ور نہ مولوی بہت ہی بکواس کرتا تھا.وہ چاہتا تھا کہ حضرت اقدس کی بے ادبی کرے مگر خدا نے اس کو ذلیل کیا اور اس طرح بھی عبد مکرم کا الہام پورا ہوا.بازار میں ہوٹل کے نیچے اس قدر مخلوق کھڑی تھی کہ الامان الحفیظ - پولیس ہم سے کہتی ہے کہ وہ لوگ ہجوم کر کے آپ لوگوں کے خلاف آئے ہیں.مولویوں نے ان کو اکسایا ہے اور وہی جمع کر کے لائے ہیں اور کہ وہ دروازہ محض اس وجہ سے توڑنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ لوگوں پر حملہ کریں اور کہ ہم بغرض حفاظت بھیجے گئے ہیں مگر خدا کی شان ہے مولوی کس نیت سے آئے ہیں اور خدا کیا سامان پیدا کرتا ہے.انی مهین من اراد اهانتک والا معاملہ ہے.اصل یہ ہے کہ پولیس خودا اپنی ذمہ داری کی وجہ سے خوفزدہ تھی اور ہم کو کمرہ سے باہر نہ نکلنے کی تاکید اسی وجہ سے کر گئے ہیں.حلب کا مدیر بھی اس وقت بہت کام آیا.کھڑا ہو گیا اور کہا کہ علماء جہلاء نے کیا حرکات شروع کی ہیں.حضرت اقدس نے ہوٹل کی بالائی منزل کے تیسری منزل کے کمرے کے ورانڈہ ( گیلری ) سے نیچے کے ہجوم کو جھانکا اور ان کو السلام علیکم کہا.ان لوگوں نے وعلیکم السلام عرض کیا اور کسی نے کوئی نازیبا حرکت نہیں کی.میرا تو یہی خیال ہے کہ یہ لوگ صرف حضرت اقدس کو دیکھنے اور باتیں سننے کو آئے تھے.جب ہوٹل والوں نے روکا تو وہ اور بھی جوش میں آئے اور اندر آنے کی کوشش کی الانسان حریص لما منع عنه - روک نے ہی یہ نقشہ پیدا کر دیا تھا.یہ
۸۵ اخبار میں کل جو مضمون شائع ہوا ( اخبار الف با میں ) اس نے تمام دعاوی حضرت خلیفۃ المسیح کی طرف منسوب کر دیئے تھے اس کی وجہ سے بھی لوگ کثرت سے آئے کہ حضور کو دیکھیں اور باتیں سنیں اور کرامات ما نگیں جیسا کہ ان کا عقیدہ ہے.پولیس نے مجمع کو منتشر کر دیا اور اکثر چلے جاچکے تھے.اس کے بعد خیال آیا کہ فوٹو لے لیا جاوے چنانچہ حضرت میاں صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ نے باقی ماندہ مجمع کا فوٹو لے لیا.فرنچ گورنر نے کہا کہ کوئی ایسا قانون مجھے یاد نہیں اور نہ ہی میرے نزدیک کوئی قانون ایسا ہے نہ معلوم کیوں آپ کو روکا گیا ہے.دراصل پر لیس والے نے غلط بیانی کی ہے.یہ بھی کہا کہ آپ رسالہ چھپا ہوا ساتھ لے جا سکتے ہیں اس میں بھی کوئی حرج نہیں.وہاں سے پھر گورنر سجی بیگ کے پاس بھی گئے.اس نے کہا کہ حریت اور آزادی صرف مسلمہ مذاہب کے لئے ہے.مسلمان ( اہلسنت والجماعت ) اور عیسائی یہ لوگ باہم جو کچھ بھی شائع کریں اجازت ہے مگر باہر سے آنے والے مبشرین کو اجازت نہیں ہے حتی کہ پچھلے دنوں وہابی لوگ بھی آئے تھے ان کو روک دیا گیا تھا.صحی بیگ نے سلسلہ کے متعلق باتیں بھی کیں اور پھر کہا کہ حقی بیگ کے پاس جائیں وہ کیا کہتے ہیں.اب حقی بیگ کے پاس پھر جاتے ہیں.حضرت اقدس نے حکم دیا ہے کہ برٹش فضل کو اطلاع دے دی جاوے کہ اس طرح سے ملانوں کی انگیخت کی وجہ سے لوگوں نے ہجوم کیا ہے مبادا کوئی فساد کی صورت ہو جائے.آپ اس بارہ میں کیا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ خیال تھا کہ بعض لوگ ملانوں کی انگیخت کی وجہ سے فساد پر بھی آمادہ ہیں.میاں رحمدین برف کے واسطے نیچے گیا تھا مگر پولیس نے دروازہ بند کر رکھا تھا اس کو باہر جانے کی اجازت نہ دی.اب حضرت اقدس نے چوہدری علی محمد صاحب کو بھیجا ہے کہ معلوم کر وکس قسم کے لوگ ہیں جو دروازہ پر یا بازار میں جمع ہیں.حضرت صاحب نے تجویز فرمائی ہے کہ آج موٹروں پر سوار ہو کر بازاروں میں نکلیں اور سود ا خریدنے کی غرض سے بعض جگہ دکانات میں جائیں پھر شہر کی حالت کا ٹھیک معائنہ ہو سکے گا کہ لوگ کس خیال کے ہیں.گالیاں دیتے ہیں یا کہ محبت سے ملتے ہیں.یونیفارم میں پھرنے کا منشا ہے.دمشق کی حالت بھی عجیب واقع ہوئی ہے.دو دو پیسے کے نوٹ چلتے ہیں.روزانہ نرخ
۸۶ تبدیل ہو جاتا ہے.حکومت اور رعیت میں اختلاف ہے.رعیت بھی عجیب ہے.سخت مشکلات کا مقابلہ کرتی ہے اور روزانہ سکہ کے لین دین میں اس کو سخت مشکلات اور نقصان ہے مگر برداشت کرتی ہے اور پرواہ نہیں کرتی.گورنمنٹ بھی خوب ہی مضبوط ہے رعایا کے جذبات کا ذرہ بھر بھی خیال نہیں.تمام سرکاری لین دین میں سوری سکہ جاری ہے وہ دوسرا کوئی سکہ قبول نہیں کرتے ٹرام تک لوگوں نے بائیکاٹ کر رکھے ہیں.مصر سے آج شیخ محمود احمد صاحب کی ڈاک وصول ہوئی ہے.وہ لکھتے ہیں کہ مصری لوگ حضرت اقدس کی ملاقات غرض سے اب تک میرے مکان پر آ رہے ہیں.ان کو تار دے دیا گیا ہے کہ مطبوعہ کتب کی ایک ایک سو کاپی لے کر پورٹ سعید اار اگست تک پہنچیں.حضرت اقدس کا منشا ہے کہ اگر لاری کا اچھا انتظام نہ ہوا تو دمشق سے ریل کے ذریعہ بیروت جائیں گے اور پھر وہاں سے موٹروں کے ذریعہ سے حیفا اور حیفا سے لد - قنطارہ سے ہوتے ہوئے پھر پورٹ سعید تشریف لے جائیں.ا ر کی شام تک وہاں پہنچنے کا ارادہ ہے.یہ خط انشاء اللہ میں پورٹ سعید ہی سے پوسٹ کروں گا.لوگ ابھی آ رہے ہیں اور آنے کی کوشش میں ہیں مگر ہوٹل والے اور پولیس والے ان کو آنے سے روکتے ہیں.مولوی شکل لوگوں کے سوا باقی لوگ ہم سے محبت کرتے اور اظہار اخلاص کرتے ہیں.خان صاحب آئے تو اکثر نے ان کا ہاتھ چوما.چوہدری علی محمد صاحب آئے تو کسی نے تعرض نہ کیا اور محبت سے راستہ چھوڑ دیا.میں گیا دوسرے ہوٹل میں اور کتاب لایا تو عزت سے سلام کیا اور سلام کا جواب محبت سے دیا اور راستہ خالی کر دیا.غرض سوائے مولوی لوگوں کے باقی سب صرف شوق زیارت اور وفور محبت کی وجہ سے جمع ہوئے تھے.شاید چند بد قسمت بدا رادہ بھی لے کر آئے ہوں.پولیس جو ہوٹل پر متعین ہوئی تھی اس کی تعدادہ تھی جن میں دو تین افسر بھی تھے.دس اوپر کی منزل میں حضرت اقدس کے پاس تھے اور پانچ یا چار نیچے کی منزل اور سیٹڑھوں اور سیڑھیوں کے دروازہ پر آتے جاتے رہتے تھے.منارہ بیضا جس کا ذکر میں نے سنترال ہوٹل (سنٹرل ہوٹل ) کے جانب غرب کیا ہے
۸۷ جس کے مشرق میں حضرت اقدس نے نزول فرمایا ہے اس کی اوپر کی چوٹی سندھوری رنگ کی ہے اور باقی سفید ہے.اذان کہنے کے واسطے ایک گیلری لکڑی کی ہے جس میں کھڑے ہو کر گر دا گر دموذن پھرتا ہوا اذان کہتا ہے.سفیدی کچھ بہت تیز نہیں ہے مدھم سی سفیدی ہے.حضرت اقدس نے جب صبح کی نماز کے بعد اس منارہ کو دیکھا اس نماز میں حضور کے ساتھ خان صاحب مکرم اور ڈاکٹر صاحب دونوں تھے.ہمارے شیخ صاحب عرفانی نے آج عربی جبہ اور عربی قسم کا رستہ بجائے پگڑی سر پر باندھنے کے لئے خرید کیا ہے تا کہ لنڈن میں جا کر اسی لباس میں لوگوں سے ملاقات کریں اور اسی شکل میں ایک جرنلسٹ کی ڈیوٹی ادا کریں.خان صاحب برٹش فضل کے ہاں سے واپس آگئے.بتاتے ہیں کہ فضل خود تو موجود نہیں اس کا نائب ہے.اول تو اس نے سلام عرض کیا اور معذرت کی ہے کہ میں ملاقات کی غرض سے حاضر نہیں ہو سکا.اس کا بڑا باعث یہی ہے کہ فضل صاحب کے بعد دفتر میں اور کوئی موجود نہ تھا اس وجہ سے میں حاضر نہ ہو سکا.میری غیر حاضری کو کسی خاص بات پر محمول نہ کیا جاوے.پھر کہا کہ کیا واقعی کوئی بات شرارت کی ہوئی ہے یا صرف خیال اور اندیشہ ہی ہے؟ کہا گیا کہ پولیس موقع پر موجود ہے اور لوگوں کو منتشر کرنے میں ایک حد تک کامیاب بھی ہو گئی ہے مگر محض اس خیال سے کہ مبا وا کوئی بد معاش ملانوں کے بھڑ کانے پر کوئی شرارت کرے آپ کو اطلاع دی گئی ہے.اس پر اس نے کہا کہ میں ابھی ابھی اپنے آدمی کو بلوا کر پولیس کو اطلاع دیتا ہوں کہ وہ انتظام کریں اور ہر طرح سے تسلی دلائی.حضور نے کھانا تناول فرما کر نمازیں جمع کر کے پڑھا ئیں اور لوگ پھر ہوٹل کے بالائی ڈرائینگ روم میں جمع ہونے شروع ہوئے مگر صرف شرفا جن کو پولیس بھی نہ روکتی تھی اور ہوٹل والے بھی نہ منع کرتے تھے.ان لوگوں کا ایک معقول مجمع جن کی تعداد میں کے قریب ہے اب بیٹھا ہے اور حضرت اقدس برابر مختلف مسائل پر تقریر فرما رہے ہیں.ہوٹل والے نے پھر شور مچانا شروع کیا کہ میرا کمرہ خالی کر دو مگر ہوٹل کے مسافروں نے اس کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کر دیا ہے مگر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہم خالی نہیں بیٹھ سکتے.کام کرنے کو - آئے ہیں لہذا دار السرور ہوٹل یا خدیو یہ ہوٹل والوں سے گفتگو کر کے فیصلہ کیا جاوے کہ معقول طبقہ
۸۸ کے لوگ ہمارے پاس ملاقات کے واسطے آویں گے اگر جگہ دے دو تو ہم ان کو تمہارے ہاں بلوا کر ملاقات کر لیا کریں.دار السرور والے نے بسر و چشم منظور کیا مگر اس کا ڈرائینگ روم صرف ۲۰×۱۲ فٹ کا ہے.گنجائش تھوڑی ہے کرسیاں بہت تھوڑی بچھ سکیں گی اور وہ ہے بھی بالکل ہی غیر محفوظ.غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے فیصلہ ہوا کہ پولیس کا انتظام کر لیا جاوے کہ جس کو ہم چاہیں داخلہ کی اجازت دیں اور جس کو نہ چاہیں وہ نہ داخل ہو سکے.اتنے میں بعض متاثر لوگ بعض دوسروں کو ساتھ لے آئے اور ملاقات کی غرض سے باہر تشریف لانے کی درخواست کی.حضرت اقدس نے فرمایا دو چار آدمی ہیں تو اندر ہی کرسیاں منگا لیں مگر ان لوگوں نے منتیں شروع کر دیں کہ ضرور باہر ہی حضور تشریف لے آویں چنانچہ حضور نے باہر جانا منظور فرما لیا اور اب بالائی منزل کے بڑے ڈرائینگ روم میں تشریف فرما ہیں.ہوٹل والے نے عرض کیا کہ میرا نقصان ہو گیا ہے.لوگوں نے دروازہ توڑ دیا ہے اور بعض شیشے بھی ٹوٹ گئے ہیں.اس سے کہا گیا ہے کہ اگر واقعی تمہارا کچھ نقصان ہماری وجہ سے ہو گیا ہے تو ہم سے لے لو مگر مناسب - اس پر وہ ٹھنڈا ہو گیا اور اصرار کو چھوڑ دیا اور معقول لوگ اب آتے ا جاتے بھی ہیں.اشتہار چھپ چکا ہے اور مطبع والے نے کہا ہے کہ آپ کیوں افسروں کے پاس چلے گئے ہیں میں خود ہی اجازت حاصل کر لیتا اور اب بھی وہ گیا ہوا ہے اور کوشش میں ہے کہ اس کو اجازت دے دی جاوے کہ اشتہار مطبوعہ ہمارے حوالے کر دے.پہلے خیال تھا کہ ۱۰ر کی صبح کو دمشق سے روانہ ہوں گے مگر آج حضور نے فرمایا ہے کہ وار کی شام کو یہاں سے روانہ ہو کر بیروت بذریعہ ریل جائیں گے.نو جوان اور تعلیم یافتہ پارٹی ابھی شوق ملاقات اور عقیدت رکھتی ہے اور کتابوں کی درخواست کرتی ہے.ہوٹل والا بہت ہی ننگ تھا.نصرانی ہے مگر اس نے بھی بہت اصرار سے ایک کتاب اپنے پڑھنے کو اور اپنے ہوٹل کی لائبریری میں رکھنے کولی ہے اور حضرت اقدس کے دستخط سے لی ہے جس پر حضور نے لکھا ہے کہ میں نے میجر ہوٹل کو یہ کتاب پڑھنے اور لائبریری میں رکھنے کو دی ہے اور نیچے دستخط اپنے قلم سے کئے ہیں.
۸۹ اب چار بجے ہیں.حضور ڈرائینگ روم کی ملاقات سے فارغ ہوئے ہیں اور اب حلب کا مدیر جریدہ تنہائی میں حضرت اقدس کے ساتھ ہے.میں اندر تھا حضرت اقدس میرے سر پر آ گئے اور فرما یا بھائی جی باہر چلے جائیں علیحدگی میں بات کرنی ہے.میں نے اس وقت حضرت اقدس کو دیکھا جب حضور میرے سر پر تھے.میں کرسی سے کھڑا ہو گیا اور ندامت سے بھرا ہوا باہر آ گیا کہ دروازہ کھلنے پر میں نے کیوں نہ دیکھا کون ہے.لکھ رہا تھا.حلب والے مدیر صاحب ہوٹل کے متعلق کوئی ذکر کرتے تھے کر کے باہر آ گئے ہیں اور اب الْمُقْتَبَس کے ایڈیٹر صا حب مع دو اور نائب ایڈیٹروں کے حضرت اقدس کے پاس تخلیہ میں گئے ہیں.غالبا کل کو مطالبہ پورا کرائیں گے یعنی حضرت اقدس کے بعض خصوصی حالات لکھوائیں گے.میں صرف حالات عرض کر رہا ہوں تقاریر، سوال و جواب اور مباحثات کو مفصل شیخ صاحب عرفانی لکھ رہے ہیں وہ مفصل رپورٹ روانہ کریں گے.میں تقاریر کا خلاصہ بھی درج نہیں کر سکا.غلطی اور کوتا ہی یا قصور فہم و علم سے درگز را ور چشم پوشی کا طالب اور دعائے خیر کا خواہاں ہوں.اب مولویوں نے لڑکوں کو بکواس کرنے کے لئے تیار کر لیا ہے اور وہ ہمارے آدمیوں کو آتے جاتے دیکھ کر کچھ بولتے اور بکتے ہیں مگر چونکہ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آتا اس وجہ سے کچھ بُرا بھی نہیں لگتا اور اگر بُرا لگے بھی تو موجب ثواب ہے.خدا کی راہ میں ایسی باتیں سنی پڑا ہی کرتی ہیں.ہوٹل والوں کا بل بھی آیا ہے.اس میں ایسی باتیں درج کی ہیں کہ جن کا وجود بھی نہیں مثلاً آج دو پہر کا تمام کھانا ہمارے ذمہ ڈالا ہے وجہ یہ کہ ہجوم اور کثرت لوگوں کی وجہ سے میرا کھانا پک نہیں سکا.اتنے شیشے لوگوں نے تو ڑ دیئے ہیں.اتنی کرسیاں خراب ہو گئی ہیں.دروازہ تو ڑ دیا ہے وغیرہ وغیرہ.حضرت اقدس نے حکم دیا ہے کہ اس کے نقصانات کو دیکھ لیا جا وے اگر واقعی ہوئے ہیں تو ادا کر دیئے جائیں.۲۳ پونڈ کاہل ہے.المقتبس کے ایڈیٹر صاحب مع اپنے ساتھیوں کے کام کر کے چلے گئے تو ان کے بعد وزیر صاحب گورنر حکومت کی طرف سے تسلی دینے کو آئے اور اندر تخلیہ میں حضرت اقدس کے حضور عرض کیا کہ کسی قسم کا فکر اور اندیشہ نہ کریں.حافظ صاحب برابر لوگوں کو تبلیغ کر رہے ہیں.طرز تبلیغ ان کا ایک لیکچرار کے رنگ میں ہے.طلبا خاموشی سے سنتے ہیں کبھی کبھی سوال کر لیتے ہیں.
۵ بجے کے بعد ایک اخبار کے ایڈیٹر کی طرف سے حضور کا فوٹو لینے کے لئے فوٹوگرافر آیا اور اول حضرت اقدس کا اکیلے فوٹو لیا پھر خدام کے ساتھ بھی لیا.حضرت صاحب کے کئی فوٹو لئے.بیٹھے ہوئے.کھڑے ہوئے اور جماعت کے ساتھ (جماعت خدام کے ساتھ ) اور پھر کچھ سلسلہ کے حالات حضرت اقدس کی اپنی زبان میں لکھوائے.دمشق آنے کی اصل وجہ حضرت اقدس نے اس کو لکھوائی جس کا ذکر حدیث نبوی ﷺ میں آیا ہے.اس وقت کہ ساڑھے پانچ بجے ہیں حافظ صاحب باہر کے کمرے میں تبلیغ کر رہے ہیں.حضرت اقدس ایڈیٹر ان کو بعض حالات لکھا رہے رہیں اور حضرت اقدس کے کمرے اور منارہ بیضا کے درمیان بازار کے چوک میں اس وقت کم از کم ۵۰۰ آدمی جمع ہیں جو اس بات کی انتظار میں ہیں که مسیح ( حضرت خلیفتہ امی ) کو نازل ہوتے دیکھ بھی لیں عجیب ہی نظارہ ہے جو ہندوستان میں کبھی نظر نہیں آیا.جس طرح او پر تبلیغ ہو رہی ہے اسی طرح سے نیچے بازار میں ٹولیاں کھڑی موافقت اور مخالفت میں بحث کر رہی ہیں.بازاروں میں چرچا ہے.جدھر بھی ہم جاتے ہیں لوگ خاص نظروں سے دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں تم مہدی کے رفقاء میں سے ہو؟ ایک آگ ہے جو سارے دمشق میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک لوگوں میں لگ چکی ہے.کوئی مخالفت میں جل رہا ہے اور کوئی موافقت میں منو رہو رہا ہے.شام کا وقت ہو چکا ہے اور لوگ اسی طرح سے جمع ہیں.حضرت کے پاس اس وقت لاء کالج کے طلبا حاضر ہیں اور سوالات کر رہے ہیں.حضور بہت محبت اور نرمی سے جواب دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کے دل نور ایمان سے منور ہو جائیں.اب جو لوگ حضور کو ملنے آتے ہیں ان کو اول پولیس سے اجازت حاصل کرنی پڑتی ہے.پولیس کی اجازت اور پاس کے بغیر کوئی شخص ہوٹل میں داخل نہیں ہوسکتا.باوجود اس قدر مشکلات اور رکاوٹوں کے لوگ اس کثرت سے آ رہے ہیں کہ ملاقات کی باری بھی نہیں آتی اور مکان میں جگہ بھی نہیں رہتی.کالحیٹ نو جوان بہت ہی اچھے سوالات کر رہے ہیں اور حضور جواب دیتے ہیں تو سن کر خوش ہوتے ہیں جھگڑا اور اصرار نہیں کرتے.اب ایک سوال ایک لڑکے نے ایسا کیا ہے جس کے متعلق اس نے کہا کہ میں نے ہر مذہب وملت کے علماء سے کیا ہے.مسلمان علماء بھی اس کا جواب
۹۱ نہیں دے سکے اب اگر آپ اجازت دیں تو میں سوال کروں.آخر حضرت اقدس کی اجازت سے سوال کیا اور حضور جواب دیتے رہے ہیں.سوال کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ انسان دنیا میں آ کر گناہ کرے گا.بد کاری بھی کرے گا.فساد بھی کرے گا اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی صفات میں صفت ایک رحیم کی بھی ہے تو پھر انسان کو پیدا ہی کیوں کیا ؟ اگر پیدا کیا تو سزا کیوں دیتا ہے وغیرہ وغیرہ.حضرت اقدس نے جواب دیا اور مفصل دیا اور سمجھا سمجھا کر دیا.حتی کہ وہ لڑکا اور اس کے ساتھی سب خوش ہوئے اور کہہ دیا اچھل کر کہا ” میری تسلی ہو گئی اور میرا سینہ حضور کے اس جواب سے صاف ہو گیا ہے اور اس کے چہرے سے ایک بشاشت ایمان ٹپکتی ہے.اس کے ساتھیوں نے بھی بعض سوالات کئے جس کے جوابات حضور نے دیئے اور وہ بھی تسلی پا کر خوشی خوشی حضور سے رخصت ہوئے.ایڈریس دے گئے اور حضرت کا ایڈریس لے گئے ہیں.رات کے 9 بجے کا وقت ہے بازار کے لوگوں کا شوق ابھی تک ختم نہیں ہوا.ہجوم بازار میں برابر موجود ہے.ملاقاتیوں کی آمد میں اب کمی ہو گئی ہے.اب رقعات آرہے ہیں کہ خدا کے واسطے ہمیں ضرور موقع دیا جاوے اور نہیں تو صرف مصافحہ ہی سہی.کوئی لکھتا ہے کہ آپ بلائیں یا نہ بلائیں ہم لوگ آپ کے خادم ہیں.بعض طلبا کے خطوط آئے کہ خدا کے لئے ہمیں موقع دیں اور محروم نہ رکھیں.بعض نے منت کی کہ آپ کے علوم کا دسواں حصہ ملا ہے مگر اس علم سے بھی ہم اپنے آپ کو غلاموں کے طور پر پیش کرتے ہیں.ہم ساتھ جانے کو تیار ہیں ہمیں خدام کے طور پر رکھیں وغیرہ وغیرہ.ہما را عربی کا رسالہ جو پیغام بنام دمشق لکھا گیا تھا پولیس اُٹھا کر لی گئی ہے.مطبع والا اجرت مانگتا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا ہے کہ ہماری چیز پولیس اُٹھالے گئی قیمت بھی وہی ادا کرے یا ہم کو پولیس اور حکومت رسید دے کہ ہم نے رسالہ لے لیا ہے تا کہ ہم اپنی گورنمنٹ کے ذریعہ سے اس کا مطالبہ کرائیں اور اپنے حقوق واپس لے سکیں.سلسلہ ملاقات ابھی جاری ہے بعض بزرگ ابھی آ رہے ہیں.جن بزرگ نے صرف مصافحہ کی درخواست کی تھی وہ بھی پہنچ گئے ہیں اور واقع میں مخلص ہیں.رفتی العارب.الف با دونوں نے آج بھی مضامین شائع کئے ہیں اور الف بانے کل کی غلطی کی اصلاح بھی کر دی ہے.اب جب کہ رات کے ساڑھے نو بجے ہیں حکم ملا ہے کہ علی الصبح یہاں سے براستہ ریل
۹۲ بیروت جانا ہے تیاری کرلو.بازار میں آج کے تازہ پرچے تلاش کرنے کو گیا تو معلوم ہوا کہ پرچے ختم بھی ہو چکے ہیں.آج پر چوں کی اس قدر مانگ تھی کہ ہاتھوں ہاتھ پک گئے.بعض پرچے تو ہمیں ملے بھی نہیں.لوگ پرچے بیچنے والے بھی حیران تھے کہ آج بات کیا ہے.اخبارات والے آج فوٹو بھی لے گئے ہیں اور کل صبح روانگی کے وقت بھی لیں گے انشاء اللہ.پولیس کے دفتر سے رسید مل گئی ہے کہ اشتہار ہم نے پریس سے سب اُٹھا لیا ہے اس وجہ سے اب پریس والوں کو مزدوری دے دی گئی ہے.لوگ کل صبح کی روانگی سن کر بہت افسوس کر رہے ہیں کہ بہت تھوڑا وقت ہم لوگوں کو ملاقات کا دیا گیا ہے.بعض کو تو موقع ہی نہیں ملا.آج خبریں سن کر آئے تو پولیس والوں نے روک دیا.ایک پارٹی اب تک کہ ساڑھے دس بج چکے ہیں بیٹھی حضرت اقدس سے باتیں سن رہی ہے.پہلے گلے کی تکلیف کی وجہ سے حضرت نے ان کو شیخ صاحب مصری کے سپرد کیا تھا پھر خود ہی شروع ہو گئے اور مسئلہ نبوت اور صداقت مسیح موعوڈ پر ذکر فرمارہے ہیں.آج رات معلوم ہوتا ہے کہ انشاء اللہ ساری ہی اس کام میں خرچ ہو جائے گی.گیارہ بج چکے ہیں اور ابھی حضور پہلے وفد سے فارغ نہیں ہوئے.ایک اور وفد آ گیا ہے جن میں سے ایک صاحب شکاگو کے ایم اے ہیں اور شکا گوامریکہ میں ایک عرصہ رہ چکے ہیں.کھانا شام سے رکھا ہے مگر فرصت ہو تو کھا ئیں.ہوٹل والے بھی حیران ہیں کہ یہ کیسا انسان ہے دن اور رات بولتا ہے اور تھکتا نہیں.ہمارے طلبی صاحب مدیر کو تو حضرت اقدس پر خاص طور پر رحم آتا ہے دیکھیں اب اس وفد کو کب تک حضور وقت دیتے ہیں.پونے بارہ بج چکے ہیں اب بھی نماز کی وجہ سے لوگوں کو اُٹھایا ہے اور خود اُٹھایا ہے تاکہ نماز کا وقت نہ جاتا رہے ورنہ وہ لوگ نہ اُٹھتے تھے نہ اُٹھنا چاہتے تھے اور تعجب اور حیرت کی بات ہے کہ یہ لوگ واقف نہیں کوئی جان پہچان نہیں وہ لوگ بالکل اجنبی ہیں مگر اس طرح سے گرتے ہیں جیسے شمع پر پروانہ مقناطیسی جذب ہے لوگ کھچے چلے آتے ہیں اور اٹھنے کو نہیں چاہتے کوشش کر کے اُٹھایا ہے.غرض خدا کے فضل کی بات ہے اس نے ایسا فضل کیا کہ سارے شام میں تبلیغ ہو گئی ہے اور آئندہ کے لئے راستے کھل گئے ہیں.مدیر حلبی تو اللہ کے فضل سے ایسے گرویدہ ہیں
۹۳ کہ اب بیروت تک ساتھ جانے اور لوگوں کو جمع کر کے سلسلہ کے حالات سنانے کا انتظام کرنے کی غرض سے ساتھ جانا چاہتے ہیں.امریکن ایم اے نے کہا کہ حضور مجھے کوئی کتاب دیں.کتاب دی تو عرض کیا کہ حضور اپنا نام لکھ کر دیں تا کہ میرے پاس یادداشت رہے.یہ باتیں بھلا خلاص کے بغیر ہوسکتی ہیں.غرض فضل الہی نے بڑی نصرت اور تائید فرمائی اور ملک شام میں حضرت اقدس کا وہ الہام پورا ہوتا نظر آتا ہے کہ ابدال شام تیرے واسطے دعائیں کریں گے“ ہا فاس ایجنسی نے بھی معلومات حاصل کر لی ہیں اور فوٹو کا انتظام کیا ہے.ہا فاس ایجنسی نصف دنیا میں خبریں بھیجتی ہے بلکہ زیادہ حصہ میں.ایشیائے کو چک کے لوگ خدا نے بھیجے.حلب کے لوگ آئے.حمص کے لوگ ملے.ایرانی بھی آن پہنچے.غرض دور دور تک اللہ تعالیٰ نے تبلیغ پہنچا دی ہے.ہافاس ایجنسی کی تاروں سے دنیا کے قریباً ہر قسم کے لوگوں میں حالات سلسلہ جا پہنچیں گے اس طرح سے خدا کی وہ بات پوری ہوئی.کہ ” میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ ۱۲ بج کر کچھ اوپر وقت گذر چکا ہے.اب حضرت اقدس کھانے پر بیٹھے ہیں اور اب بھی لوگ حاضر ہورہے ہیں.کس وقت تشریف لے جائیں گے کدھر جائیں گے وغیرہ وغیرہ.ایک بجے کے بعد رات حضور اپنے آرام کے کمرہ میں تشریف لے گئے اور صبح کو پھر نماز کے بعد حضور نے کچھ لکھنا شروع کر دیا ہے.۱۰ اگست ۱۹۲۴ ء : حضور صبح سے ایک مضمون لکھ رہے ہیں.میرا خیال ہے کہ اخبار میں کوئی مضمون یا اعلان شائع کرانا چاہتے ہیں جس کی غرض اہل دمشق کو بذریعہ خط و کتابت تعارف پیدا کرنا اور معلومات حاصل کرنا ہے.میں سامان لے کر اسٹیشن پر پہنچا ہوں.گاڑی بھی بیروت سے آئی ہے اور وہی خالی ہو کر پھر واپس بیروت کو جائے گی انشاء اللہ.اخبارات جن میں حضرت اقدس کے حالات اور سلسلہ کے خیالات شائع ہوئے ہیں ان کے متعلق بھی خطرہ کیا جاتا ہے کہ ان کو قاضی وغیرہ مل ملا کر ضبط کرانے کی کوشش نہ کریں لہذا جس قدر
۹۴ پرچے ہم لوگوں کو ان اخبارات کے مل سکے ہیں وہ بہت ہی تھوڑے ہیں ہم نے لے لئے ہیں.اہالیان دمشق کے نام جو النداء حضور نے عربی میں لکھی تھی اور پولیس نے اس کو پر لیس سے ضبط کر لیا ہے وہ بھی ہمیں مل جائے گا برٹش فضل کی معرفت اور اس کا اصل مطبوعہ ایک کاپی ہمارے پاس موجود بھی ہے لہذا اگر مطبوعہ کا پیاں ہمیں نہ بھی ملیں تو حضور کا منشا ہے کہ مصر میں چھپوا کر بذریعہ ڈاک شائع کر دیں گے.اس کی کوئی روک نہیں ہو سکتی.عرفانی صاحب کو پولیس میں بھیجا گیا تھا کہ جب تم نے ہمارا رسالہ ضبط کیا ہے پریس والوں کو مزدوری دو یا پھر کم از کم ہم کو رسید دے دو کہ تم نے ہمارا رسالہ ضبط کیا ہے.پولیس کچھ گھبرائی اور اِدھر اُدھر مشورے کرنے لگی.آخر آن کر پوچھا کہ رسید کو کیا کرو گے؟ جواب دیا گیا کہ آخر ہم بھی کسی کی رعایا میں اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے چارہ جوئی کریں گے.ہمارا مال جبراً روک لیا گیا حالانکہ کوئی قانون موجود نہیں.( جیسا کہ فرنچ گورنر نے بتلایا اور پھر ہمیں بتایا بھی نہیں گیا.ہم نے پوچھا بھی تھا اگر کوئی ایسا قانون تھا تو پہلے بتا دیا ہوتا.اس بات سے ان کو اور بھی فکر ہوئی.آخر رسید تو دے دی مگر ساتھ یہ بھی بتا دیا ( پردہ میں ) کہ رسالہ آپ کو مل جائے گا فضل برٹش کی معرفت - سید نا حضرت خلیفتہ امسیح بھی مع خدام کے سٹیشن پر بذریعہ موٹر کا ر پہنچ گئے.کل با فاس ایجنسی والے نے فوٹو لیا تھا اور وہ خراب ہو گیا تھا.رات ہی وہ عرض کر گیا تھا کہ فوٹو دوبارہ صبح کولوں گا چنانچہ آج صبح کو اس نے پھر فوٹو لیا.میں ، رحمد بین اور چوہدری محمد شریف اس میں ڈیوٹی پر ہونے کی وجہ سے شامل نہ ہو سکے.آج صبح روانگی کے وقت بھی ہجوم ہو گیا اور کثرت سے لوگ جمع ہو گئے.تین سو کے قریب لوگ تھے اور بہت ہی محبت سے دیکھتے تھے حالانکہ صبح کا وقت ان شہروں میں لوگوں کے سونے کا ہوتا ہے مگر پھر بھی اس قدر مجمع ہو جانا بہت بڑے شوق ، محبت اور عشق کی علامت ہے.روانگی کے وقت لوگ مَعَ السلام مع السلام کہتے تھے اور محبت سے رخصت کیا.در اصل ہماری طرف سے بڑی کوتا ہی رہی.یہ خیال کر لیا گیا کہ لوگ فساد کی نیت سے آئے ہیں
۹۵ حالانکہ وہ محض وفور محبت کی وجہ سے جمع ہوتے اور دروازے تو ڑ کر ہوٹل کے اندر گھسنا چاہتے تھے.کیا ہمارے جلسہ میں دروازے اور شیشے نہیں ٹوٹا کرتے ؟ اگر ان کی طرف توجہ ہوتی تو بہت ہی بڑا فائدہ ہوتا مگر خیر احتیاط اسی میں تھی جو کیا گیا.پولیس بھی خوفزدہ تھی اس وجہ سے احتیاط کی گئی اور بعض ملاں لوگ تھے بھی لوگوں کو بھڑکاتے.بعض بچے ناشائستہ حرکات بھی کرتے تھے مگر بالعموم لوگ محبت ، اشتیاق اور ولولہ عشق ہی سے جمع ہوتے رہتے تھے.سٹیشن پر بھی غیر معمولی ہجوم ہو گیا جو الوداع کہنے کو آیا ہے.دمشق سے روانگی : حلبی مدیر صاحب ہمرکاب سفر ہیں.برٹش قفل یا حکومت کی طرف سے ایک خاص پولیس کا سپاہی حضرت اقدس کے ہمرکاب بیروت تک پہنچانے کو متعین ہے جو پولیس کی وردی میں ساتھ ساتھ جاتا ہے اور ہر قسم کی سہولت پہنچانے کی کوشش کرتا ہے.بعض سٹیشنوں پر لوگوں کو ایک یا دوسری وجہ سے حضور کی تشریف آوری کا علم بھی ہو گیا تھا وہ شوق ملاقات کے لئے سٹیشن پر گاڑی کے گرد جمع ہو جاتے ہیں.بعض لوگوں کو چوہدری علی محمد صاحب یا حلبی مدیر صاحب اطلاع بھی کر دیتے ہیں اور اس طرح سے اسی ساری لائن پر پورا پورا اعلان حضرت کی تشریف آوری کا ہو گیا ہے.حضرت اقدس درجہ اولیٰ میں سوار ہیں.ٹوٹکٹ سیکنڈ کے ہیں اور صرف تین ٹکٹ ہمارے تھرڈ کلاس کے ہیں چو ہدری علی محمد صاحب ، میاں رحمدین صاحب اور خاکسار قادیانی باقی سب کے دمشق میں تبلیغی کامیابی کی یادگار یا خصوصیت دکھانے کی غرض سے سیکنڈ کلاس کے لئے گئے ہیں تا کہ یہاں کے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ فقرا ہیں اور غیر ملک میں نکل کر کوئی خلیفہ کوئی سیکرٹری اور کوئی وزیر بن گئے ہیں.وضع داری کے خیال سے سب کے سیکنڈ کلاس ٹکٹ لئے گئے ہیں.کل حضرت اقدس نے خان صاحب کی اچکن کے متعلق بھی فرمایا کہ اس کو اب پینشن دے دینی چاہیئے کئی پیوند روز اس کو لگائے جاتے ہیں اور وہی پہن کر گورنر اور قنصلوں اور بڑے بڑے عہدہ داروں کی ملاقات کو جاتے ہیں.اس کو رکھ لیا جاوے قادیان جا کر پہن لیں.دوسری اچکن وردی کی جو ساتھ ہے اس کو استعمال کریں.قادیان میں اور بات ہوتی ہے وہاں ایثار اور قربانی دکھانی ہوتی ہے مگر ان علاقہ جات میں وضعداری رکھنی بھی لازمی ہوتی ہے تا کہ لوگ حقارت ہی نہ کریں.ہم تین آدمیوں کے ٹکٹ تھرڈ کلاس کے ہیں اور بدقسمتی سے تینوں الگ الگ بیٹھے ہیں.
۹۶ ایک گاڑی کے اگلے سرے پر دوسرا آخری سرے پر اور تیسرا بیچوں بیچ اس طرح سے تنہائی اور جدائی ایسا نظارہ دکھاتی ہے کہ گویا کسی جنگل میں ہوں.دوسرے لوگ اہل زبان نہیں.اہل مذہب نہیں.یہودی ہیں ایک عورت ایک مرد اور ایک بچہ ہے.قلیوں نے رش کی وجہ سے سامان اس میں رکھ دیا تھا مجبور سامان کے ساتھ ساتھ بیٹھنا پڑا ہے.گاڑی ساڑھے گیارہ بجے ریاق اسٹیشن پر کھڑی ہے.پونے آٹھ بجے دمشق سے روانہ ہوئی تھی ۴ بجے بعد عصر انشاء اللہ بیروت پہنچے گی.ریاق کوئی چھاؤنی معلوم ہوتی ہے.دمشق سے۲ گھنٹہ کی راہ تک خشک اور ننگے پہاڑوں میں سے گاڑی گزرتی چلی آئی مگر ساتھ ساتھ جہاں سے گاڑی نکلتی آئی ہے نہایت ہی سبزہ زار باغات اور پھل دار درخت تھے.مناظر بہت اچھے تھے مگر صرف ایک لمبی وادی کی شکل میں پانی کی گزرگاہوں کے کنارے کنارے.باقی تمام پہاڑ ننگے اور بالکل خشک تھے اور ہیں.انار ، سیب ، آلو بخارا، نارنگی، انگور، انجیر، شہتوت وغیرہ وغیرہ پھل کثرت سے پائے جاتے ہیں.گیہوں کے کھلیان تیار ہو رہے ہیں.چنے ابھی کھیتوں میں سبز ہیں.مکی کے ٹھتے نکلے ہوئے ہیں.فلسطین میں کثرت سے یہودیوں کی آبادیاں تھیں اور عربی لوگوں سے انہوں نے روپیہ دے کر اراضیات خرید لی تھیں اور اپنی نئی نئی آبادیاں بسا رہے تھے وہ نظارے ان علاقہ جات میں نظر نہیں آئے.اس سٹیشن پر بھی لوگ حضرت اقدس کی زیارت کرتے اور حالات معلوم کرتے ہیں.حضور کا ہندوستانی فاخرہ لباس میں ہونا اور فرسٹ کلاس میں تشریف رکھنا بھی لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچتا ہو گا مگر روحانی جذب بہت بڑھا ہوا ہے ورنہ اس طرح تو لوگ شاید بادشاہوں کو بھی دیکھنے نہ آتے ہوں گے.بعض کے پاس اخبارات دمشق موجود ہیں ان میں پڑھ کر ان کو حالات معلوم ہوئے اور وہ شوق زیارت میں سٹیشن پر موجود ہیں.بعض کو دوسروں سے بعض کو ہمارے اپنے ساتھیوں سے بعض کو حلبی مدیر صاحب سے بعض کو سرکاری پولیس کی وجہ سے اور بعض کو شاید سرکاری طور پر علم دیا گیا ہوگا.بہر حال تبلیغ ہوتی ہی چلی جارہی ہے.مُحَطَّةٌ عَين صوفر (اسٹیشن) سے گاڑی سوا دو بجے روانہ ہوئی.بہت ہی شاندار.
۹۷ آبادی.موسم کے لحاظ سے شملہ.نیچے بڑی وسیع اور طول طویل آبادی اور سبزہ نظر آتا تھا.عمارت بہت خوبصورت اور صاف.آبادی غالباً یہود اور نصاری کی زیادہ تھی.انگور کے کھیت میلوں میل تک ان علاقہ جات میں پائے جاتے ہیں.ہمارے ملک میں جس طرح تربوز کے کھیت ہیں تربوز کی بیلیں کھیتوں میں پھیلی ہوئی ہیں قریباً اسی طرز پر یہاں کھیتوں میں انگور کی بیلیں ہیں جن کو لکڑیوں کا سہارا دے کر زمین سے ذرا اونچا کر دیا گیا ہے تا کہ انگور کے خوشے لٹکے رہیں.بہت ہی بہتات اور کثرت ہے انگور کی.بعض جگہ لمبوترے پتھروں کا سہارا دیا ہوا ہے.اس سے پہلے سٹیشن پر چنے کے بونٹ (ڈڈے) بکتے نظر آئے ہیں جن کو اکثر جنٹل مینوں نے بڑے شوق سے ہاتھوں ہاتھ لیا اور کھاتے گئے.موٹر کار دمشق سے بیروت ۳ گھنٹہ میں پہنچاتی ہے موٹر لاری ۵ گھنٹہ میں اور ریل آٹھ گھنٹہ میں.موٹر کار بہت زیادہ چلتی ہیں مگر سڑک اچھی نہیں.آبادی اس نواح میں زیادہ ہے.سٹیشن دودو تین تین میل پر آ جاتے ہیں.عین صوفر سے دوسر اسٹیشن بحمدون آیا جو بمشکل دو میل دور ہو گا مگر آبادی مسلسل چلی گئی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقام خاص طور پر صحت افزا ہے.برلب سڑک ریل.کثرت سے لوکندے ( ہوٹل ) لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں.اس ریلوے میں بڑا نقص یہ ہے کہ فرسٹ سے لے کر تھرڈ کلاس تک کسی میں بھی پاخانہ پیشاب کی جگہ نہیں رکھی گئی.تعجب کی بات ہے ۸ گھنٹہ کا متواتر سفر اور ان ضروریات کے واسطے کوئی جگہ نہیں غالباً ان لوگوں کو ضرورت ہی نہ پڑتی ہو گی.گاڑی کھڑی ہوئی اُترے اور کھڑے کھڑے پیشاب کر لیا.ہم لوگوں کو تو سخت مشکل اور دقت کا سامنا ہوا ہے.توت کو خاص طرز میں کثرت سے کاشت کیا گیا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ریشم کے کیڑے ان علاقہ جات میں پالے جاتے ہیں.دمشق کا پولیس مین ریاق کے اسٹیشن سے بدل گیا وہ تمام راستہ حضور کی گاڑی کے پائیدان پر کھڑا آیا تھا.ریاق سے دوسرا پولیس سارجنٹ اس خدمت پر مامور ہو کر ساتھ ہوا مگر اس کو وہ معلومات نہ تھے جو پہلے کو تھے.آرام سے گاڑی میں ساتھ سفر کرتا چلا آ رہا ہے.
۹۸ بیروت : گاڑی پونے پانچ بجے شام بیروت پہنچی.سمندر میں تیرا کی اور بوٹنگ (Boating) کا عجیب منظر تھا.سمندر کے کنارے کنارے گاڑی کی پڑی ہے.جہاز بھی کھڑے تھے.بہت ہی خوبصورت نظارہ تھا.کشتیوں اور جہازوں کی اس پورٹ پر بھی عجیب ہی چہل پہل ہے.اتوار کا دن ہونے کی وجہ سے سینکڑوں نوجوان لڑکے اور مرد تیرا کی کے کرتب دکھاتے پھرتے ہیں اور بعض لوگ کشتیاں تیراتے اور دوڑاتے ہیں.ہماری گاڑی نے ہمیں ایک بازار میں اُتار دیا جو سچ سچ بازار ہے کوئی سٹیشن کی شکل و صورت نہیں.بازار کی دکانیں ہیں اور دوسری طرف سمندر درمیان سے ریل کی پٹڑی گزرتی ہے اس جگہ ختم ہو جاتی ہے.سنترال ہوٹل میں سید نا حضرت خلیفہ المسیح ٹھہرے ہیں اور تمام خدام ہمرکاب ہیں.آج صبح جو مضمون حضور نے اخبارات کے لئے لکھنا شروع کیا تھا طبیعت خراب ہو جانے کی وجہ سے نامکمل رہا اور اخبارات میں کوئی مضمون نہ دیا جا سکا.حضور نے صبح ناشتہ بھی نہ کیا تھا.ادھر ناشتہ آیا اُدھر فوٹو گرافر ہا فاس ایجنسی کا آ گیا.حضور نے ناشتہ نہ کیا اور فوٹو کے لئے تشریف لے گئے.پھر سٹیشن پر آگئے طبیعت خراب ہو گئی اور اب جب کہ بیروت پہنچے ہیں طبیعت بہت ہی خراب ہے.راستہ میں ڈاکٹر صاحب نے دوائی وغیرہ پلائی اور غالبا افیون بھی دی جس سے قبض ہو گئی اور طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے.حضور نے ظہر وعصر کی نمازیں اپنے کمرہ میں ادا کی ہیں اور نمازوں کے بعد لیٹ گئے ہیں.تکلیف بہت زیادہ ہے.مجھے بھی بلوایا میں نے دیکھا پاؤں بالکل ٹھنڈے ہیں زور زور سے دبایا اور چاپی کی میں نے اور چوہدری علی محمد صاحب نے.بمشکل کوئی ایک گھنٹہ کے بعد کچھ آفاقہ ہوا ہے.حضور نے تکلیف کی شدت میں مولوی عبد الرحیم صاحب کو بلوا کر حکم دیا کہ کوئی امریکن ڈاکٹر لاویں.عرفانی صاحب اور مولوی صاحب سارے شہر میں پھرے مگر اتوار کی وجہ سے قریباً تمام ہی ڈاکٹر مع طلبا کے اور پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر بھی اوپر کے پہاڑ پر سیر کے لئے گئے ہوئے ہیں رات کو آویں گے.آخر ایک مسلمان ڈاکٹر کو جو ڈبلن کا ڈگری یافتہ ہے لائے ہیں جس نے اِ دھر
۹۹ اُدھر دیکھ کر نسخہ دیا ہے مگر حضور نے فرمایا ہے کہ مسلمان اپنے فرض کو نہیں سمجھتے جو تکلیف بتائی ہے اُدھر توجہ بھی نہیں کی اور اپنی مرضی کی باتیں کر کے چلا گیا.( پندرہ روپے فیس لے گیا ) اسی خیال سے امریکن ڈاکٹر بلوانے کو کہا تھا.وہ لوگ اپنے فرض کو فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں بیگار نہیں کاٹتے.طبیعت بحال ہو رہی ہے.گرم پانی کی ایک پیالی نوش فرمائی پھر سوڈا اور دودھ کے چند چھ ملا کر پئے ہیں.ڈاکٹر صاحب نے بھی دوائی دی ہے.فرمایا ہے کہ مجھے سونے بالکل نہ دینا اور اس کی بہت تاکید فرمائی ہے.حافظ صاحب اور چوہدری فتح محمد خان صاحب کو ایڈیٹر ان اخبار کی طرف ملاقات کی غرض سے بھیجا تھا مگر کوئی نہ مل سکا دفاتر بند تھے.چند پرانے اخبارات لے آئے جن میں ہمارا کوئی ذکر نہیں.خان صاحب اور مصری صاحب کو موٹروں کے نرخ وغیرہ کے لئے بھیجا تھا اور کہ معلوم کریں کہ حیفا سے پورٹ سعید کو گاڑی کب جاتی ہے مگر وہ بھی دفاتر بند ہونے کی شکایت کرتے ہیں اور کوئی پختہ خبر نہیں لائے.صبح کو پھر جانا ہو گا.حضور کا منشا کل ہی کسی وقت بیروت سے حیفا کو روانہ ہو جانے کا ہے.بخار رات کو ۱۰۱ پھر ۱۰۲ تک بڑھ گیا.حضور نے مولوی عبد الرحیم صاحب درد اور ڈاکٹر صاحب سے ساڑھے گیارہ بجے تک نظم سنی اور پھر سو گئے.۱۱ / اگست ۱۹۲۴ء : اار اگست ۱۹۲۴ء کی صبح کو حضور کا بخار ۹۹ ہے اور حضور ابھی لیٹے ہوئے ہیں.ربڑ کی بوتل میں گرم پانی ڈال کر ٹکور پیٹ پر کی جارہی ہے مگر حضور کی طبیعت اب اللہ کے فضل سے اچھی ہے.باتیں کر رہے ہیں اور دمشق کی تبلیغ اور لوگوں کے وفور محبت اور عشق کا ذکر فرماتے ہیں.ایک صاحب سفید لباس میں آئے تھے سنوسی فرقہ کے تھے.ان کو ملاقات کا موقع ہی نہ ملا تھا جس کا حضرت اقدس بھی افسوس کرتے ہیں.اسی طرح اکثر لوگ آئے ملاقات کا موقع نہ ملا چلے گئے.پولیس کا زور ہو گیا.بلا اجازت پولیس اندر آنے کی اجازت نہ رہی تو لوگوں کو آنے میں مشکلات پیدا ہو گئیں اکثر نہ آسکے.یہاں بھی حضرت اقدس کا اسی طرح سے تبلیغ کرنے کا ارادہ تھا مگر وقت بالکل نہیں ہے.
100 آج ہی یہاں سے روانگی بھی ہے.بہر حال اب پھر حافظ صاحب اور چوہدری صاحب کو علماء کی طرف بھیجا ہے.ایک صاحب صبح ہی آئے تھے.حضرت صاحب کی طبیعت اچھی نہ تھی.حافظ صاحب سے باتیں کر کے چلے گئے اور دو کتابیں بھی لے گئے ہیں.ایک بجے بیروت سے روانگی کا فیصلہ ہو گیا ہے.بیروت میں اللہ تعالیٰ کے فرشے ہی کوئی کام کریں گے نصرانیت کا بڑا مرکز ہے.لبنان کا تمام پہاڑ نصاری سے بھرا پڑا ہے اور اتنا آباد اور سرسبز ہے کہ اس کی نظیر بہت ہی کم ہوگی.دمشق کے سنتر ال ہوٹل ( او تیل سنترال) یا لوكندة سنترال میں حضور کی خواب گاہ تو نمبر ۲۵ کمرہ میں تھی نشست گاہ حضور کی اکثر بلکہ عموماً نمبر ۲۳ میں تھی.نماز ، کھانا اور ملاقاتیں پرائیویٹ اسی میں ہوتی تھیں اور یہی وہ کمرہ ہے جو منارہ بیضا کے جانب شرق واقع ہے.ہوٹل سنترل بیروت میں حضور نمبر ۳۹ کمرہ میں تشریف فرما ہیں.وکٹوریہ دمشق میں حضور نے صرف چند گھنٹے گزارے تھے.میں وہاں گیا نہ کمرہ کا نمبر لے سکا.اسی طرح سے حیفا کے گرانڈ ہوٹل نصر میں بھی نہ گیا نہ نمبر لیا.اب واپسی پر آج رات انشاء اللہ پھر اسی ہوٹل میں نازل ہوں گے تو کمرہ سابقہ کا بھی نمبر لے لوں گا.اب کے جس کمرہ میں تشریف فرما ہوں گے اس کا بھی نمبر لے لوں گا.حضرت میاں شریف احمد صاحب خدا کے فضل سے بہت ہی بے نظیر طریقہ پر تبلیغ کیا کریں گے.دمشق میں قیام کے ایام میں حضرت میاں صاحب نے بہت سے نو جوانوں کو اپنی محبت بھری اور رسیلی تبلیغ سے گرویدہ بنایا تھا.آج مصری صاحب کے ساتھ بازار خرید وفروخت کی غرض سے گئے ہیں.فضل جنرل کی ملاقات کے وقت اس نے خان صاحب سے کہا کہ ہم تو کئی روز سے آپ کی تشریف آوری کے منتظر تھے.ایک فرینچ اخبار نے آپ کی تشریف آوری کی خبر شائع کی ہے مگر افسوس کہ آپ تشریف لائے اور علالت کی وجہ سے ہم مستفیذ نہ ہو سکے.پلسنا جہاز کے واسطے اس نے پورٹ سعید قفصل کو تار دیا ہے جس کے جواب کی انتظار۲ بجے تک ہے.کہتا ہے کہ اگر تار آنے سے پہلے آپ تشریف لے گئے تو میں حیفا میں اطلاع دوں گا.حیفا جاتے ہوئے عکہ راستہ میں پڑے گا جہاں حضرت اقدس نے ایک گھنٹہ ٹھہر کر حالات معلوم کرنے کا ارادہ فرمایا ہے اور اب اس وقت کہ ۱۲ بجے ہیں حضور موٹر کے ذریعہ سے بیروت شہر دیکھنے کو تشریف لے گئے ہیں.چلتے چلاتے غالباً ۲ بج ہی جائیں گے.حافظ صاحب ، چوہدری
1+1 صاحب اور عرفانی صاحب تین ایڈیٹروں کو مل آئے ہیں جن میں سے دو سے امید ہے کہ وہ ضرور حالات اور اطلاعات درج اخبار کریں گے.۱۲ / اگست ۱۹۲۴ ء روانگی از حیفا گاڑی سے : حیفا سے گاڑی قطرہ کو جا رہی ہے.خط لکھنے کی کوشش کرتا ہوں مگر لکھا جاتا کچھ نہیں.خیالات اور یادداشتیں پراگندہ ہوگئی ہیں کیونکہ ہمارے عرفانی صاحب اور چوہدری فتح محمد خان صاحب دونوں گاڑی سے رہ گئے ہیں ان کے پاس پیسہ ہے نہ کپڑا.پاسپورٹ ہے نہ راہداری - تنگ وقت میں بہائیوں کے ہاں گئے تھے واپس نہ پہنچ سکے حالانکہ ان کو علم تھا کہ وقت بالکل تنگ ہے اور حضرت اقدس نے کتابیں لے کر جانے کا حکم دیا تھا وہ بھی ان کو نہ ملی تھیں کیونکہ وہ بکس جن میں وہ کتب تھیں بک کرا دیا جا چکا تھا مگر افسوس کہ وہ دونوں بزرگ چلے گئے اور پھر واپس نہ آسکے.آج دن بھر میں اور کوئی گاڑی نہیں آئے گی ۲۴ گھنٹے بعد ایک گاڑی چلتی ہے.اگر جہاز پورٹ سعید سے ان کی خوش قسمتی سے لیٹ ہوا تین دن تو شاید پہنچ جاویں اور نہ کوئی صورت نہیں -اناللہ وانا اليه راجعون کل موٹر کے سفر میں حضرت اقدس کی طبیعت بہت ہی خراب رہی.دس بارہ مرتبہ حضور کو دست بھی آئے.حضرت اقدس کا منشا تھا کہ اگر قفصل جنرل کو پورٹ سعید سے تار کا جواب متعلق پلسنا جہاز آجاوے تو دو چار دن بیروت میں ٹھہر جائیں تا کہ بیماری سے آفاقہ بھی ہو جائے اور صحت اچھی ہو کر کچھ کام تبلیغ کا ہو جائے کیونکہ ایک خط سے معلوم ہوا تھا کہ ۱۱ رکو جہاز پورٹ سعید سے روانہ ہونے والا ہے اور اسی انتظار میں حضرت اقدس نے ساڑھے تین بجا دیئے.آخر مجبوراً جب ساڑھے تین بجے تک بھی تار کا کوئی جواب نہ آیا تو حضور تین موٹروں کے ذریعہ بیروت سے حیفا کو روانہ ہو گئے.تین موٹروں کا کرایہ ۱۶ پونڈ مقرر ہوا.نماز ظہر و عصر حضور نے راستہ کے ایک تکیہ میں ادا کی اس وقت تینوں موٹر ا کٹھے تھے.حضور کی طبیعت بہت ہی مضمحل تھی اور حضور نے اس کا اظہار بھی کیا.( ڈاکٹر صاحب نے دوائی بنائی اور چوہدری علی محمد کے ذریعہ سے پیش کی مگر حضور نے نہ قبول فرمائی.چہرہ سے آثار نا راضگی بھی نظر آتے تھے ) آخر چلتے چلتے فریج سرحد میں پہنچے جہاں پاسپورٹ دکھانے پڑے اور پھر سب موٹر میں اکٹھی ہو گئیں.حضور کی طبیعت اسی طرح مضمحل تھی.وہاں سے فارغ ہو کر تھوڑی ہی دور پر پھر برٹش
۱۰۲ گورنمنٹ کی سرحد تھی وہاں بھی پاسپورٹ دکھائے گئے اور اندراجات کرائے گئے.( خان صاحب کے ساتھ ایک ریوالور اور ایک چھرا ہے اس کا یہاں قضیہ ہو گیا.برٹش چوکی کے افسروں نے مانگا، کارتوس بھی مانگے.خان صاحب نے بتایا کہ صرف ۵ ہیں حضرت صاحب کو شاید علم تھا کہ زیادہ ہیں.اس معاملہ میں حضرت صاحب کو پھر سخت تکلیف ہوئی اور حضور نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا.خان صاحب کو اپنی موٹر سے اُتار کر حکم دیا کہ جا کر باقی کارتوس بھی ان کے حوالے کر دیں.خان صاحب کی بجائے مولوی عبد الرحیم صاحب درد کو اپنی موٹر میں بٹھا لیا مگر خان صاحب جب لوٹ کر آئے تو چوکی والوں نے کارتوس ، ریوالور اور چھر اسب کچھ خان صاحب کو دے دیا مگر خان صاحب پھر دوسری موٹر میں ہی آئے.بیروت سے لے کر حیفا تک تقریباً ۲۰۰ کلومیٹر فاصلہ ہے.سڑک سمندر کے بالکل کنارے کنارے گئی ہے.بہت ہی خوبصورت نظارہ اور قابل سیر سفر تھا مگر حضرت کی بیماری اور بعض دیگر ناگوار واقعات کی وجہ سے کوئی خوش نہ ہوا اور یہ راستہ کٹنا بھی مشکل ہو گیا.برٹش چوکی سے نکل کر ایک مقام آیا جس کے متعلق موٹر ڈرائیور نے کہا - هـذا بَهْجَـة فـيــه جم محبوس - اس کی بات کو ہم نے سمجھا نہیں اور آگے نکل گئے کیونکہ جس جگہ کے لئے سیدنا حضرت اقدس نے ایک گھنٹہ ٹھہر نے کا فیصلہ موٹر والوں سے کیا تھا دراصل یہی جگہ تھی - عکہ کا نام محض پرا پیگنڈہ ہی تھا.بیروت سے چلتے وقت موٹر ایجنسی سے فیصلہ کیا تھا کہ عکہ میں ایک گھنٹہ ٹھہریں گے چنا نچہ موٹریں عکہ پہنچ کر کھڑی ہوئیں تو لوگوں سے پوچھا کہ بابیوں یا بہائیوں کے مکانات کہاں ہیں.اول تو لوگ حیران تھے کہ بابی کون ہیں کہاں ہوتے ہیں کیونکہ اولاً صرف بابی یا بہائی پوچھے تھے نام ان کے بعد میں لئے گئے ( محمد علی یا شوقی آفندی ) آخر نام لینے پر ایک شخص نے کہا ہاں ہاں وہ تو بھجے میں رہتے ہیں اور محمد علی کو آج ہی عصر کے وقت میں نے وہاں دیکھا تھا.معلوم کیا کہ کتنی دور ہے تو انہوں نے کہا ۲۰۰ کلومیٹر - ایک دوسرے آدمی نے کہا کہ نہیں یہاں سے آدھ گھنٹہ کی مسافت پر ، چنانچہ موٹروں کو وہاں چلنے کو کہا گیا تو موٹر والے اڑ گئے اور کہنے لگے کہ وہ جگہ دُور ہے ہم وہاں نہ جائیں گے ہم نے عکہ ٹھہرنے کا اقرار کیا تھا نہ کسی دوسری جگہ.آخر بڑی رڈ وکد کے بعد انعام و اکرام کے وعدے دے کر ان کو واپس لوٹایا اور ۴ میل کے قریب فاصلہ طے کر کے ایک
۱۰۳ دوسرے گاؤں میں جو عکہ نہیں بلکہ بالکل الگ اور دوسرے مستقل نام سے مشہور ہے گئے.رات کا اندھیرا تھا.موٹر میں گرتی پڑتی ایک سنسان اور شہر خموشاں گاؤں کے ایک بڑے محل کے نیچے کھڑی ہوئیں جہاں سے شیخ صاحب عرفانی اور مصری کو حضور نے بھیجا کہ محمد علی یا شوقی آفندی میں سے کسی سے معلوم کریں اگر موقع ہو تو ان سے مل کر بعض حالات معلوم کئے جائیں.شیخ صاحب ایک مقامی آدمی کو ساتھ لے گئے جو پہلے ان کو شوقی آفندی کے مکان پر لے گیا.مگر شوقی آفندی کے گھر والوں نے دروازہ بھی نہ کھولا اور اندر کھڑے کھڑے خائف وترساں نظر آتے تھے جواب دے دیا کہ وہ یہاں نہیں ہے.آخر محمد علی صاحب کے پاس گئے وہ ملا اور اس نے ملاقات پر آمادگی کا اظہار کیا.حضور مع تمام خدام کے اس کے محل میں تشریف لے گئے اور حکم دیا کہ ہماری خصوصیت نہ ظاہر کی جاوے بلکہ اس طرح سے خلط ملط کیا جاوے کہ اس کو کسی خصوصیت کا پتہ نہ لگے سکے چنانچہ چند دوست حضور کے آگے اور چند پیچھے ہو گئے.ایک بڑھا خادم دروازہ پر ملا فارسی اور عربی دونوں بولتا تھا.راہبری کر کے مکان کے اندر لے گیا.ایک کھلے دالان میں گدے دار پیچ بچھے ہوئے تھے.لیمپ میز پر جل رہا تھا.دو ایک الماریاں کمرے میں تھیں.ہم سب لوگ ان پر جا کر بیٹھ گئے حضرت کی کوئی خصوصیت نہ کی جیسا کہ حکم تھا.تھوڑی دیر میں ایک چھوٹے قد کا بڑھا آدمی ڈاڑھی کا صرف منہ پر نشان تھا ( کترائی ہوئی ایسی تھی کہ شاید جنگی میں بھی بال نہ آ سکتے ) سر کے بال بعض سندھیوں کی طرح لمبے اور پیچھے کو ڈالے ہوئے تھے.رومی ٹوپی کے اوپر سفید مکمل دو گز لپیٹی ہوئی تھی اور ایک لمبا چوغہ پہنا ہوا تھا جس سے ٹخنے بھی ڈھکے ہوئے تھے.معلوم نہیں نیچے پاجامہ تھا بھی یا کہ نہیں.بالکل ایک معمولی آدمی آیا اس نے ہم سب کو سلام کیا.مصافحہ کیا اور حال پوچھا.حافظ صاحب نے پوچھا آپ کا نام کیا ہے.تب معلوم ہوا کہ محمد علی صاحب یہی ہیں جن کی اتنی دھاک سنی جاتی تھی.ان کی شکل و شباہت دیکھتے ہی سارے معمے حل ہو گئے اور سارا تانا بانا نظر آ کر حقیقت آشکار ہوگئی.خلاصہ گفتگو درج ذیل کرتا ہوں.ان علاقوں میں عورتیں اکثر ( نصرانیہ ) بال کٹواتی ہیں اور جہلم اور بھیرہ وغیرہ کے مردوں کی طرح نظر آتی ہیں پٹے رکھے ہوئے ) لد کا اسٹیشن آ گیا ہے اور ایک تار ہمارے بچھڑے ہوئے دوستوں کا آیا ہے.
۱۰۴ تار کا مضمون قضل جنرل نے حیفا سے ٹیلی فون کیا ہے.لد کے سٹیشن ماسٹر سے پوچھا کہ دو آدمی رہ گئے ہیں ان کو پہنچانے کے لئے میں کیا کر سکتا ہوں.یہاں سے جواب آ گیا کہ ایک بجے مال گاڑی حیفا سے چلے گی اس سے ان کو بھیج دیا جائے کل دس بجے وہ قطرہ پہنچیں گے.روپیہ بھی انہوں نے مانگا ہے ٹکٹ بھی.ٹکٹ گارڈ کے ذریعہ واپس بھیج دیئے گئے ایک گاڑی جاتی تھی اس میں.اڑھائی پونڈ اور اخراجات کے واسطے بھی بھیجے گئے ہیں اور کہہ دیا گیا ہے کہ قطرہ پہنچتے ہی فوراً موٹر لے کر پورٹ سعید پہنچیں کیونکہ قطرہ سے کوئی گاڑی اس وقت نہیں چلتی.خدا کرے جہاز لیٹ ہواور ہمارے دوست ہمیں مل جائیں ورنہ بہت ہی فکر کی بات ہے.اللہ رحم کرے.اس خبر نے سر دست بڑا کام کیا ہے.دلوں کو گو نہ تسلی تو ہو گئی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا غم کا ایک پہاڑ سر سے اُتر گیا ہے اور گویا کہ کسی مرے ہوئے کی زندگی کی خبر مل گئی ہے.سب کو بھوک لگ گئی ہے.حضرت اقدس خود ہماری گاڑی میں تشریف لائے اور خوشی میں خیال نہ رہا.فرمایا کہ سٹیشن والوں سے کہہ دو کہ ان کا ٹکٹ تھرڈ کلاس ہے ایسا نہ ہو کہ سٹیشن والے ان کو نقدی دینے کے واسطے سیکنڈ کلاس میں تلاش کرتے پھریں.مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور چوہدری علی محمد صاحب نے بھی کچھ نہ سمجھا سوچا اور جلدی میں اسٹیشن والوں کو بلوایا اور کہا کہ ان کے ٹکٹ تھرڈ کلاس...اتنا کلمہ کہا ہی تھا کہ خیال آگیا کہ وہ تو مال گاڑی سے آ رہے ہیں تھرڈ اور سیکنڈ کی کیا تمیز ہے.معا منہ پھیر لیا اور بات کو ٹال گئے.گاڑی چل ہی رہی تھی پوری بات ظاہر نہ ہوئی.حضرت اقدس بھی بہت ہنسے کہ خوشی کی گھبراہٹ میں کچھ سوجھ بوجھ ہی نہ رہی.حافظ صاحب نے دو بڑے سمجھدار آدمیوں کو تبلیغ کی جو بہت ہی متاثر ہوئے.حضرت مسیح موعودؓ کا کلام سن کر عش عش کرنے لگے اور قربان ہوتے تھے.گوخودان کی اپنی زبان بھی بہت فصیح تھی مگر حضرت کے کلام نے ان پر غیر معمولی اثر کیا.ایڈریس ان کے لئے گئے ہیں اور وہ ہمارا پتہ لے گئے ہیں.بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگ تھے.ان میں سے ایک صاحب نابلس کے رہنے والے تھے اور بتاتے تھے تمام بستی مسلمانوں کی ہے اور دوسرے صاحب شام کے.بہائی کے مکان میں ایک قطعہ لکھا ہوا تھا.
۱۰۵ يابها الابها سوال و جواب : بیان محمد علی بہائی - بجواب سوالات = میرا نام محمد علی ہے.بہائی لقب ہے.ہندی میں آپ لوگ بھائی بمعنے برادر بولتے ہیں.ہر شخص جو بہائی کے ہاں پیدا ہوتا ہے بہائی نہیں ہوتا.اس علاقہ کا نام بقعہ ہے اور گاؤں کا نام منشیا ہے اور اس قصر کا نام جس میں میں رہتا ہوں بہجہ ہے.عکہ سے یہ مقام نصف گھنٹہ کی مسافت پر واقع ہے.میں میلوں کا حساب نہیں جانتا کلو میٹر کا حساب جانتا ہوں.تین کلو میٹر کا اندازہ ہو گا.مہمانوں کی آمد کا کوئی قانون نہیں کبھی کم آتے ہیں کبھی زیادہ کبھی نہیں بھی آتے.آج کوئی نہیں آیا.( آپ لوگوں کے سوا ) کل بھی کوئی نہیں آیا.پرسوں کا مجھے علم نہیں.ماہوار اوسط کا بھی ہمارے پاس کوئی اندازہ نہیں.مہمان خانہ عمومی بھی ہمارا کوئی نہیں." ہمیں منزل امن است ہر کہ آید اھلاً و سھلا دو قسم کے لوگ آتے ہیں بعض ایسے کہ زیارت کی اور چل دیئے اور اکثر ایسے ہی ہوتے ہیں تا کہ ہمیں تکلیف نہ ہو.خارجی مہمان گا ہے آتے ہیں جو کبھی آتے ہیں اسی مکان میں ٹھہرتے ہیں.آپ لوگ بہائی ہیں یا کہ نہیں؟ بہائی معنے برادر در عقائد - شوقی آفندی میں نے سنا ہے کہ چلا گیا ہے اس کا مکان بند ہے.اس میں صرف دو ادنی درجہ کے لوگ رہتے ہیں جن کو آپ لوگ مالی کہتے ہیں.بہاء اللہ اسی جگہ رہتے تھے.(اس میرے والے مکان میں ) ان کی وفات پر اس پر میرا ہی قبضہ ہے.وصیت میرے حق میں تھی.امریکہ میں وہ وصیت انگریزی زبان میں ترجمہ ہو کر شائع ہوئی ہے.شوقی آفندی ان کا نواسہ ہے اور میں بیٹا ہوں.میرے بھائی عباس کی صرف چارلڑ کیاں ہیں ایک شوقی آفندی سے بیاہی ہے.باقی تینوں اس کے پاس رہتی ہیں اس وجہ سے کل املاک پر اسی کا قبضہ ہو گیا ہے.اس جگہ شوقی کے دو تین مرید ہیں.حیفا میں اکثر ہیں.مزار بہاء اللہ اسی جگہ ہے اور وہ بھی شوقی آفندی کے قبضہ میں ہے.مزار آپ دیکھ سکتے ہیں.شوقی کے معتقد خدام ( کمین ) لوگ ہیں و ہی جن کو آپ لوگ مالی کہتے ہیں.حیفا میں بعض بڑے بڑے لوگ بھی ہیں مگر آپ نے اگر ان لوگوں کو دیکھا ہے تو سمجھ سکتے ہیں کہ کیسے بڑے ہیں.میرے کہنے کو شاید کسی خاص مصلحت پر مبنی یا کسی
1.7 خاص وجہ کی بنا پر سمجھا جاوے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ لوگ کیسے ہیں.ان کے چہروں سے ان کی حیثیت کا پتہ لگ سکتا ہے میرے کہنے کی ضرورت نہیں ہے.رجال مساکین- تعداد کا سوال مجہول ہے.ہمارا ملک غیر متمدن ہے ٹھیک حسابات نہیں رکھ سکتے.تخمینہ دس ملا ئکین ( دس ملین ) کا ہے.ثبوت کوئی نہیں صرف ایسا خیال ہے.شوقی آفندی امریکہ کے بہائیوں کے متعلق مبالغہ کرتے ہیں میں مبالغہ میں دخل نہیں دیتا.میرے اتباع بھی امریکہ میں ہیں.میرالڑکا بھی امریکہ میں ہے.الحق يُعْلُو ولا يعلى عليه - میں قیاس نہیں کر سکتا کہ زیادہ بہائی میرے ساتھ ہیں یا شوقی کے ساتھ (ایک کاغذ قلم دوات منگائی اور کہا کہ آپ لوگ نام لکھا دیں تا کہ تعارف میں سہولت ہو اور آئندہ رسل و رسائل میں بھی آسانی رہے اور کوئی اخبارات وغیرہ آپ کو بھیجے جا سکیں.( پھر ہمارے سوالات پر ) رجسٹر مہماناں ہمارے ہاں کوئی نہیں ہے.وصیت اولاً عباس آفندی کے نام تھی ان کے بعد میرے حق میں تھی.عباس آفندی زندگی میں ہی حیفا چلے گئے تھے وہیں وفات پائی اور وہیں مدفون ہیں.عکہ میں میرے مرید بہت کم ہیں.عرب نہیں ایرانی ہیں.خطوط کی آمد کا بھی میرے پاس کوئی حساب نہیں.دفتر بھی کوئی نہیں.مرید خط لکھتے ہیں ہر خط کا جواب میں خود دیتا ہوں.فارسی اور عربی لکھ سکتا ہوں.خط میر ا خوبصورت ہے آپ نے میرا خطا نہیں دیکھا.( پھر چند قطعات اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے منگائے اور ایک ایک کر کے دکھائے واقعی بہت خوشخط لکھے ہوئے تھے.) ہندوستان کے کسی بڑے بہائی کا نام میں نہیں بتا سکتا.محمود زرقانی ہندوستان میں رہا ہے مگر اب وہ بھی آ گیا ہے.ہندوستان میں میرا کوئی مرید نہیں ہے.لندن میں بھی کوئی نہیں.امریکہ میں ہیں.مصر میں ہیں.( مگر نام کسی کا نہیں بتایا بار بار پوچھنے کے باوجود) نیو یارک میں میرالٹر کا پندرہ سال سے رہتا ہے.حیفا کے کسی بڑے بہائی کا نام نہیں بتایا.حیفا میں بھی میرا لڑکا ہے بدیع اللہ آفندی نام ہے مگر مکان چونکہ حیفا میں بے ترتیب ہیں آپ کو تلاش میں دقت ہوگی.گورنمنٹ سے کوئی وظیفہ نہیں ملتا نہ ملت کی طرف سے کچھ مقرر ہے اپنے ذاتی املاک ہی کفایت کرتے ہیں.ہم لوگ درویشانہ زندگی بسر کرتے ہیں.شوقی کے متعلق نہیں جانتا کہ اس کو کوئی وظیفہ ملتا ہے یا نہیں.
۱۰۷ دراصل یہ مکان ایک تاجر کا تھا.ہم لوگ کرایہ پر رہتے تھے اس کی موت پر بہاء اللہ نے یہ مکان اس تاجر کے ورثا سے خرید لیا.دو تہائی حصہ خریدا ایک تہائی حصہ اس کی اولاد کے قبضہ میں رہا.وہ دو تہائی حصہ شوقی کے قبضہ میں ہے.میں اس مکان میں کرایہ پر رہتا ہوں.تاجر شامی تھا.زائرین سے ہم کوئی ہد یہ یا نذرانہ قبول نہیں کرتے.قبر کو سجدہ کرنے سے کوئی روکتا نہیں ہے اپنی خوشی سے کوئی چاہے تو سجدہ کرے یا نہ کرے مذہب کو اس سے کوئی تعلق نہیں.یہ آداب ہیں ورنہ سجدہ دراصل حضرت غائب ہی کے لئے مخصوص ہے.عجم میں لوگ بادشاہوں کو سجدہ کیا کرتے تھے یہ سجدہ اس کا بقیہ ہے بطور احترام اور ادب کے.( قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا کوئی جواب نہ دیا اور ٹال گیا اور منہ پھیر لیا.دو مرتبہ پوچھا دونوں مرتبہ منہ پھیر لیا.سوال استقبال قبلہ کا تھا ) کہا کہ کیا آپ کے ملک کے رواج کے مطابق میں بھی آپ سے کوئی سوال کر سکتا ہوں آپ نے تو مجھ سے کئی سوال کئے ہیں.سوال: آپ قادیانی ہیں : ہاں ہم لوگ قادیانی ہیں اور سب قادیان سے تعلق رکھتے ہیں.آپ لندن کو جا رہے ہیں نمائش میں شرکت کی غرض سے.جواب دیا گیا ہاں لندن میں بھی جائیں گے مگر نمائش اصل مقصد نہیں ہے.اصل غرض نظام تبلیغ پر غور کرنا ہے.پھر کہا میں نے مقطم میں آپ کا ذکر پڑھا تھا اس نے آپ کی بہت تعریف کی ہے اور لکھا ہے کہ قا دیانی علما ء کا ایک وفد لندن جا رہا ہے.باب کا مزار حیفا میں ہے.ان کے جسم کے متعلق کوئی جھگڑانہیں.تحقیقی اور یقینی بات یہی ہے کہ انہی کا جسم مزار میں مدفون ہے.بہاء اللہ پہلے عکہ میں تھا وہاں ہم لوگ نو سال تک قید رہے اس کے بعد یہاں بَهْجَہ میں آگئے.میں صرف کتاب البیان دیتا ہوں.کتاب اقدس کوئی نہیں صرف ایک نسخہ ہے جو فارغ نہیں کر سکتا.کسی سے آپ کے واسطے منگایا تھا مگر اس نے بھی عذر کیا ہے کہ اس کی مجھے خود ضرورت ہے.کتاب پر دستخط کرنے اور لکھنے کی ضرورت نہیں میں روبرو ہدیہ پیش کر رہا ہوں اور آپ لے رہے ہیں پھر تحریر کی کیا ضرورت ہے.کتاب ہی کافی یادگار ہے.میں زیادہ دکھاوا کرنا نہیں چاہتا یہی کافی یادگار ہے کہ میں خود پیش کرتا ہوں اور کتاب دے دی.آپ کے سوا اور کوئی ہوتا تو ہرگز ہرگز یہ نسخہ نہ دیتا.
آخر حیفا میں اپنے لڑکے کے نام ایک رقعہ لکھ کر دیا اور بہاء اللہ کا مزار دیکھنے کے متعلق خبر آئی کہ ان مالیوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ رات کے وقت ہم نہیں کھولتے.دوبارہ سہ بارہ نوکر گیا مگر انہوں نے انکار پر ہی اصرار کیا.آخر حضرت نے فرمایا خیر جانے دو.ابتدائے نشست میں اس کا نو کر قہوہ لایا.حضرت اقدس نے نہ پیا اور عذر پیچش کا کیا باقی لوگوں نے پی لیا.رات کے گیارہ بج چکے تھے وہاں سے چلے آئے.اس کا نوکر بخشیش کی غرض سے موٹروں تک آیا اور بہت کچھ لجاجت کرتا رہا.اس کو حضرت اقدس نے انعام دلایا اور حضور وہاں سے رخصت ہوئے.محمد علی کے پاس صرف ایک بڑھا نو کر اور ایک کتا تھا.باقی سارے بھجن بھر میں کوئی آواز بھی انسان کی سنائی نہ دی.نو بجے ہم لوگ وہاں پہنچے تھے دو گھنٹہ تک ٹھہرے مگر کچھ معلوم نہ ہوا کہ اس جگہ کوئی اور بھی آباد ہے یا کہ نہیں.جلدی جلدی سمندر کے کنارے کنارے حیفا پہنچے.حضرت اقدس اسی ہوٹل میں گرانڈ نصار ہوٹل کے کمرہ نمبر ۲۲ میں ٹھہرے جہاں پہلے ٹھہرے تھے باقی لوگ دار السرور ہوٹل میں ٹھہرے اور صبح کو ۸ بجے حیفا سے پورٹ سعید کی طرف روانہ ہوئے.روانگی سے ایک گھنٹہ پیشتر حضرت اقدس نے شیخ صاحب عرفانی اور چوہدری صاحب کو حکم دیا تھا کہ محمد علی صاحب کے لڑکے کو کتا ہیں پہنچا دیں.کتابوں کا بکس بلٹی ہو چکا تھا کتا بیں بھی نہ مل سکیں اور الٹے ہمارے دو بزرگ دوست حیفا کی نذر ہو گئے.انا للہ وانا اليه راجعون بیروت سے حیفا کو آتے ہوئے سیدا اور سور کی دونوں بستیاں سمندر کے عین کنارے آباد نظر آئیں.آج حضرت نے فیصلہ کیا ہے کہ قادیان واپس جا کر انشاء اللہ اپنی دفتری زبان عربی کر دی جائے گی.خواجہ صاحب نے اپنی ولایت میں آمد کی خبریں مصر کے اخبارات میں بہت زور سے شائع کرائی ہیں اور بڑے دھڑنے کے مضامین لکھوائے ہیں.دمشق میں حضرت اقدس نے حضرت مسیح موعوڈ کے رویا متعلقہ دمشق کی یہ تاویل فرمائی کہ الولد سرلا بیه یعنی سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا دمشق میں آنا گویا خود حضرت مسیح موعود کا آنا ہے.حضور نے یہ بھی فیصلہ فرمایا ہے کہ ایک عربی رسالہ ضرور جاری کر دینا چاہئیے جس کا اسٹاف قادیان میں ہوا شاعت مصر سے ہوا کرے اور بلا د عرب و شام، فلسطین اور عرب علاقوں وغیرہ میں
۱۰۹ اس کو شائع کیا جاوے.آج حضرت اقدس کی طبیعت نسبتا اللہ کے فضل سے اچھی ہے باقی خدام ہمرکاب اور حضرت میاں صاحب سلمہ رتبہ بھی خدا کے فضل سے بخیریت ہیں.قنطر ہ اب قریب ہے.سامان سمبھالنے کی تیاریاں کرنی ہیں لہذا عریضہ ھذا کو بند کرتا ہوں.اس عریضہ کو پورٹ سعید سے انشاء اللہ حوالہ ڈاک کروں گا.فقط والسلام عبدالرحمن قادیانی از قنطره ۱۳ اگست ۱۹۲۴ء
11+ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خط نمبر ۸، از بحیرہ روم : مورخه ۱۳ اگست ۱۹۲۴ء السلام علیکم ورحمة الله وبركاته کل پورٹ سعید سے ایک خط مفصل ۷۲ صفحات کا حوالہ ڈاک کر چکا ہوں.خدا کرے کہ وہ آپ صاحبان تک صحیح سلامت پہنچ جاوے.دمشق کی ساری تبلیغی کارروائی اور کامیابیوں کی مفصل تفصیل اس میں درج ہے اور پھر دمشق سے حیفا تک کے کل حالات درج ہیں.عکہ کے بہائی خلیفہ کی عظمت و شوکت اور ان کے سلسلہ اور دفاتر کے مناظر بھی اس میں درج ہیں.خدا کرے کہ وہ خط ضرور پہنچ جائے بہت ہی مفید اور ضروری معلومات کا مجموعہ ہے اور میں نے اس کے لکھنے میں بے حد محنت اور کوشش کی ہے اور اکثر حالات عین موقع پر درج خط کئے ہیں اور اسی وجہ سے بالکل صحیح اور اصل کیفیت کو لئے ہوئے ہیں.مبالغہ یا کمی ان میں بالکل نہیں ہے.پونے گیارہ بجے شب ہماری گاڑی قنطارا سے پورٹ سعید پہنچی.ہوٹل کانٹی نینٹل میں پہنچتے ہم کو ساڑھے گیارہ بج گئے.رات کا وقت تھا.قہوہ خانوں کے سوا تمام بازار بالکل بند تھے.ٹکٹ تھوڑے سے میرے جیب میں قاہرہ سے رکھے ہوئے تھے وہ لگا کر ہی خط ڈاک میں ڈال دیا مگر خط وزنی تھا ٹکٹ تھوڑے تھے ساڑھے سات آنہ کے تھے.ان علاقوں میں ہر خط کو وزن کر کے ٹکٹ لگوا تے ہیں.میں نے بغیر وزن کئے ہی ڈال دیا ہے نہ معلوم کیا حشر ہوگا.دل میں گھبراہٹ بہت ہے مگر اس امید سے کہ اللہ تعالیٰ اس کو آپ تک پہنچا ہی دے گا اور کہتا آپ صاحبان کو دمشق سے عکہ تک کے مفصل حالات جلدی مل جائیں میں نے جلدی کی.میرے اس خط کے سوا اور کوئی خط پورٹ سعید سے شاید کسی صاحب نے نہیں لکھا.اچھا خدا تعالیٰ میری کمزوریوں پر پردہ ڈالے اور وہ خط ضرور ہی آپ تک پہنچ جا وے آمین ثم آمین.ہمارا جہاز پلسنا رات دس بجے کے قریب قنطارا سے گزرکر پورٹ سعید کو آتا ہوا دکھائی دیا تھا اس وقت ہم لوگ گاڑی کی انتظار میں قنطارا اسٹیشن پر تھے.جہاز کو ہماری گاڑی نے دوسرے
اسٹیشن سے پہلے ہی پیچھے چھوڑ دیا اور اس طرح سے اب جہاز ہم سے پیچھے رہ گیا ہے.نہر سویز اور ریلوے لائن قنطارا سے ساتھ ساتھ جاتی ہیں بمشکل ایک سو گز کا فاصلہ ہوگا.قا را اسٹیشن غربی سے قطا را شرقی تک سامان لے جانے اور سوار کرانے کٹم سے سامان پاس کرانے کا پچھلی مرتبہ کا بل ۳ پونڈ تھا.اب کی مرتبہ وہ بل ساڑھے تین پونڈ ہو گیا - تفاصیل معلوم کرنے پر پتہ لگا کہ بہت زیادہ چارج کرتے ہیں.مولوی عبد الرحیم صاحب درد نے بل ادا نہ کیا.اس کے عوض میں یا غلطی سے یا بھول کر کک والوں نے چوہدری محمد شریف صاحب بی.اے کا ایک سوٹ کیس دوسرا ہینڈ بیگ گاڑی میں نہ رکھا جو چوہدری صاحب نے ان کے حوالے کر کے باقی سامان سے الگ کر دیا تھا کہ اس کو میرے سیکنڈ کلاس کے کمرہ میں رکھنا.گاڑی چل جانے کے بعد معلوم ہوا کہ سامان گاڑی میں نہیں آیا.اُن کا تمام سامان پوشیدنی وغیرہ اسی میں تھا.گاڑی پورٹ سعید پونے گیارہ بجے پہنچی اور جہاز ساڑھے بارہ بجے پہنچ گیا.حضرت صاحب اسٹیشن سے سیدھے کانٹی نینٹل ہوٹل میں تشریف لے گئے اور ہندوستان سے آئی ہوئی ڈاک ملا حظہ فرمائی.ایک آدمی کو کنگ کے مینجر کے پاس بھیجا کہ روپیہ لے سکیں.ادھر وہ آیا اور حضور دفتر میں تشریف لے گئے جہاں دو بج گئے.سامان کٹم میں لے جایا گیا.ایک موٹر قعطا را روا نہ کی گئی کہ عرفانی صاحب اور چوہدری صاحب کو لے آوے.شیخ محمود احمد صاحب موٹر میں گئے.ان کو تاکید کر دی گئی کہ چوہدری محمد شریف صاحب کا سامان بھی لے آویں.ہم لوگ کسٹم وغیرہ کے جھگڑوں سے فارغ ہو کر ساڑھے تین بجے جہاز کے اندر پہنچے.ہمارا جہاز آٹھ بجے صبح پورٹ سعید سے روا نہ ہوا.آخری وقت تک عرفانی صاحب اور چوہدری صاحب کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہے مگر کوئی نہ آیا.آج رات بھر ہم میں سے کوئی بھی ایک لمحہ کے واسطے سوسکا اور نہ لیٹ سکا.ہوٹل میں چند منٹ حضرت اقدس ٹھہرے جس کے لیے پندرہ روپے نقد ادا کرنے پڑے.قنطارا کی موٹر کو پچھتر روپے دیئے گئے اور عرفانی صاحب اور چوہدری صاحب کے واسطے ہیں پونڈ کنگ کے پاس رکھوائے گئے اور ہدایت کی گئی کہ جمعہ کے دن جو جہاز اسی کمپنی کا اٹلی کو روانہ ہونے والا ہے.اس میں ان دونوں کوضرور سوار کر وایا جاوے.
۱۱۲ عرفانی صاحب اور چوہدری صاحب کو حضرت اقدس نے حیفا سے آگے نکل کر ایک تار دلوایا تھا کہ آپ مال گاڑی کے ذریعہ یا کسی اور طریق سے فوراً قطا را پہنچیں وہاں سے موٹر کے ذریعہ پورٹ سعید پہنچیں.پورٹ سعید سے ۱۳ کو جہاز روانہ ہوگا اگر آپ لوگ وقت پر نہ پہنچے تو واپس ہندوستان چلے جاویں مگر بعد میں فضل حیفا کی کوشش سے ان کی روانگی کا کچھ انتظام ہو گیا تو حضور نے ان کی سہولت کے تمام سامان مہیا کرائے اور ان کے لئے اخراجات جمع کرا دیئے.حضرت کی طبیعت متواتر سفروں - شب بیدار یوں.غذا کی بے ترتیبیوں اور خصوصاً دمشق کی متواتر اور لمبی لمبی تقریروں کی وجہ سے خراب تھی.بیروت پہنچ کر اس کا حملہ سخت ہوا حتی کہ حضور کی زبان سے تکلیف میں ہائے ہائے کے الفاظ بھی نکلتے سنے گئے.درد اور تکلیف سے طبیعت ایسی بے قرار و بے چین ہوئی کہ زبان بھی تھراتی تھی اور ہاتھ پاؤں بالکل ٹھنڈے ہو گئے تھے.ڈاکٹر خاص بلوانے کی ضرورت پڑی اور ابھی کچھ افاقہ نہ ہوا تھا کہ بیروت سے حیفا تک کا سفر موٹر کے ذریعہ کرنا پڑا.مزید برآں اُس دن حضرت کو دس بارہ دست بھی ہو گئے.با ایں ہمہ علہ پہنچ کر حضور نے پھر اپنی تکلیف کا کچھ خیال نہ کیا اور آرام پر کام کو مقدم کیا.گیارہ بجے رات تک بہائیوں سے باتیں کرتے رہے.۱۲ بجے ہوٹل حیفا میں پہنچے.کھانے کو ملا کچھ نہ پینے کو.پھر علی الصباح ۸ بجے گاڑی حیفا سے قنطارا کی طرف روانہ ہوئی.دن بھر سفر کیا پھر رات بھر جاگے اور جہاز میں سوار ہوئے.یہ سب - باتیں حضور کی جسمانی تکلیف کا موجب ہوئیں اور دوستوں کے بچھڑ جانے کا صدمہ جدا تھا.صبح کی نماز حضور نے اپنے کمرے میں ادا کی اور آرام فرمایا.پھر کئی مرتبہ حضور تھرڈ کلاس ڈیک پر تشریف لائے اور ساتھیوں کا حال پوچھا.ڈاک کے بعض حصے سنائے اور قادیان سے آئی ہوئی تار کا جواب تار میں لکھا جس میں کل ۳۲۰ لفظ تھے.تارجب تار گھر بھیجی ( جہاز کے تار گھر میں ) تو معلوم ہوا کہ ۹۰۰ روپیہ کے قریب خرچ ہوں گے تو اس کو ملتوی فرما کر مختصر الفاظ میں ایک تار پورٹ سعید سے لندن کو روانگی کی بھجوائی اور دوسرا تا ر ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے نام لکھایا کہ خلیفہ تقی الدین صاحب کو اطلاع کریں کہ وہ لندن آ سکتے ہیں.مگر بعد میں قادیان سے آئی ہوئی تار کو دوبارہ مطالعہ فرما کر دوسرا تار بھی بجائے ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے حضرت مولوی شیر علی صاحب ہی کے نام روانہ فرمایا.جس میں خلیفہ تقی
۱۱۳ الدین صاحب کو بھی اجازت لندن آنے کی دی اور تین بچوں کے نام بھی رکھے.حضرت میر محمد اسحق صاحب کے بچے کا نام داؤ د احمد - بخارائی صاحب کے بچے کا نام محمد لطیف اور چوہدری علی محمد صاحب کے بچے کا نام برھان محمد تحریر فرمایا اور حضرت میر صاحبان کو مبارک باد بھی لکھی.تحفہ کا بل بذریعہ ڈاک امیر کابل کے نام بھیجنے کی اجازت دی اور گھر کے خطوط نہ آنے پر افسوس کا اظہار فرمایا اور ان دونوں تاروں پر بھی دس پونڈ کے قریب خرچ ہو گیا.پہلے جو تار حضرت اقدس نے لکھی تھی.اس میں دمشق کی تبلیغ اور خدا کی تائید ونصرت اور کامیابیوں کا بھی ذکر تھا مگر افسوس کہ وہ بذیعہ تار اخراجات کی زیادتی کی وجہ سے آپ تک جلد پہنچ نہ سکا.ہم لوگ پورٹ سعید ایسے تنگ وقت پہنچے تھے کہ کوئی دوائی حضرت اقدس کے واسطے اور نہ ہی کوئی سبزی اور نہ ہی کوئی چوزہ یا پھل وغیرہ خرید سکے جو حضور کے کام آتا.ساتھ ہی تھرڈ کلاس پنجروں کا ٹکٹ ود آؤٹ فوڈ (with out food) تھا.ان کے کھانے کے لیے بھی کوئی چیز نہ لے سکے اور خالی ہاتھ بمشکل جہاز میں سوار ہوئے اس وجہ سے تھر ڈ کلاس پسنجر بھو کے پیاسے تھے.ان کے واسطے خوراک وغیرہ کے انتظام کے لئے حضور بہت ہی بے چین اور بے تاب تھے اور بار بار خان صاحب کو حکم دیتے تھے کہ جلدی کوئی انتظام کریں مگر چونکہ جہاز کے آفیسر رات بھر کام کرتے رہنے کے بعد صبح سے سوئے اور ایسے سوئے کہ چار بجے شام تک نہ اُٹھے اس وجہ سے کوئی انتظام خوراک کا ناممکن تھا.ظہر وعصر کی نمازیں حضور نے ڈیک پر کھڑے ہو کر پڑھا ئیں.نمازوں کے بعد کچھ خشک رسد کا انتظام ہو گیا اور ڈبل روٹی مل گئی جو دوستوں نے کھائی اور ہوش سنھبالے ورنہ کچھ رات کی بے خوابی کی وجہ سے اور کچھ بھوک کے باعث بستر سے اُٹھ بھی نہ سکتے تھے.- شام کی نماز کی لئے حضور پھر تشریف لائے اور شام وعشاء بیٹھ کر ادا کرائیں کیونکہ سمندر میں حرکت تھی اور دوران سر اور متلی وغیرہ کا خطرہ پھر پیدا ہو چکا تھا.نمازوں کے بعد لیٹ گئے اور ہم لوگ پاؤں دباتے رہے.سر میں بھی تکلیف تھی اس طرح قریباً ایک گھنٹہ بعد حضور اپنے کمرہ میں تشریف لے گئے.اس نئے جہاز میں ہمیں بہت تکلیف ہے کیونکہ جہاز والے پسند ہی نہیں کرتے کہ کوئی آدمی
حضرت کے کمرہ میں جائے.چوہدری علی محمد صاحب کہیں ایک مرتبہ نگے سر اور ننگے پاؤں گئے تھے.اس بات کو نوٹ کیا اور حضرت کے حضور شکائت کی.حضرت نے بھی اس امر کو نا پسند فرمایا اور اوپر جانے سے روک دیا.خان صاحب نے ڈاکٹر صاحب اور چوہدری علی محمد صاحب کے لئے اجازت چاہی مگر انہوں نے خوشی سے منظور نہ کیا.دراصل جہاز میلا ہونے کا بھی بہانہ ہے.ان کی عیاشی میں فرق آتا ہو گا.اس وجہ سے وہ تھرڈ کلاس پنجروں کو اوپر جاتے دیکھ بھی نہیں سکتے.نوٹس لگایا ہوا ہے کہ ہر درجہ کے لوگ اپنے اپنے احاطہ سے باہر نہ جائیں.ڈاکٹر جہاز بھی بہت ہی خشک آدمی ہے.میاں رحمد مین اور ڈاکٹر صاحب کو بلوا کر خواہ مخواہ ٹیکہ کر دیا ہے.اور وں کو بھی بلوا تا تھا مگر اور کوئی نہ گیا ورنہ وہ تو سبھی کو ٹیکہ لگا دینے کے درپے تھا.یہ جہاز بہت بڑا اور وسیع ہے مگر ہمارے مناسب حال نہیں.اس کی پابندیاں ایسی ہیں کہ گویا قید خانہ میں ہیں.اب ہم میں سے نہ کوئی حضرت اقدس کے پاس جا سکتا ہے نہ عام طور پر حضرت اقدس نیچے آتے ہیں کیونکہ اس امر کو بھی وہ لوگ پسند نہیں کرتے اور حقارت کرتے ہیں کہ اوپر کے درجہ کے لوگ ادنئے درجہ والوں سے یوں اختلاط اور میل جول رکھیں.رات بھر حضرت اقدس تنہا اپنے کمرہ میں آرام فرماتے رہے.ہمیں حضور کا پتہ نہ تھا کس حالت میں ہیں اور حضور کو ہماری خبر نہ تھی.۱۴ / اگست ۱۹۲۴ء : چوہدری محمد شریف صاحب اور میاں رحمد بن صاحب دونوں کو پھرسی سک لس (sea sikness) ہو گئی ہے اور دوسرے احباب بھی چکروں کی وجہ سے سرنہیں اُٹھا سکتے.نیند کا ایسا غلبہ ہے کہ کھانے کے لئے بھی نہیں اُٹھتے ، اُٹھتے ہیں تو پھر لیٹ جاتے ہیں.صاحبزادہ حضرت میاں صاحب سلمہ رتبہ بھی کل سے لیٹے ہوئے ہیں اُٹھے نہیں.سر درد کا دورہ اور چکروں کی تکلیف ہے.اللہ کریم حافظ و ناصر اور معین و مددگار ہو آمین.قادیان سے منشی غلام نبی صاحب کی شکایت حضرت کے حضور پہنچی ہے کہ کوئی رپورٹ الفضل کے واسطے نہیں آتی.حضور نے حکم دیا ہے کہ سب دوست دمشق کی رپورٹ الگ الگ لکھ کر
۱۱۵ بھیجیں مگر کسی کو ہمت نہیں کہ اُٹھ کر رپورٹ لکھے.حضرت اقدس کی تکلیف کے لئے ڈاکٹر جہاز سے مشورہ کیا گیا اور سوائے دودھ چائے یا شور با کے کوئی چیز نہ کھانے کی ہدایت کی اور تاکید کر دی ہے کہ حضور لیٹے رہیں اُٹھیں نہیں لہذا اب حضور نیچے بھی تشریف نہیں لاتے.صبح کی نماز بھی حضور نے وہیں پڑھی.خان صاحب کبھی کبھی حضور کی خبر گیری کے واسطے جاتے ہیں اور ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب بھی دبے پاؤں ہو کر آئے ہیں مگر حضور نے حکم دے دیا ہے کہ بہت ہی صاف کپڑے پہن کر آؤ چنا نچہ ڈاکٹر صاحب نے بالکل نئے کپڑے بدلے اور کچھ شور با اور ڈبل روٹی حضور کو کھلا آئے ہیں اور اس طرح خدام ہمرکاب کو گونہ تسلی ہوئی ہے.اب حضور نے فرمایا ہے کہ چوہدری علی محمد کو کپڑے بدلوا کر پاؤں دبانے کو بھیج دیا جاوے.چوہدری علی محمد صاحب بھی عملہ جہاز سے ڈرتے ہوئے جار ہے ہیں کیونکہ کل کسی افسر نے ان کو او پر جانے سے روک دیا تھا.ہمارا جہاز انشاء اللہ ۱۶ اگست کو ۹ بجے صبح کے قریب برنڈزی پہنچے گا جہاں سے حضرت اقدس مع خدام انشاء اللہ تعالیٰ روم کو روانہ ہو جائیں گے.مصر سے شیخ محمود احمد صاحب سوائے عربی ٹیچنگز آف اسلام کے اور کوئی کتاب نہیں لائے حالانکہ ان کو دمشق سے تار دیا گیا تھا کہ تمام عربی مطبوعہ کتب کی ایک ایک سو کاپی ساتھ لاویں مگر اُنہوں نے عذر کیا کہ دوسری کتب ابھی تک طبع ہی نہیں ہوئیں.آج چودھویں رات کا چاند ہے.4 بجے کے قریب سے چاند کو گہن لگنا شروع ہوا اور ہوتے ہوتے تمام چاند سیاہ ہو گیا ہے.رات کے گیارہ بارہ بجے جا کر گہن ختم ہوا.دو تین دوستوں یعنی سیکنڈ کلاس والوں نے نماز گہن پڑھی.تھرڈ کلاس ڈیک پر اس وقت جہاز والوں کا گانا بجانا ہورہا تھا اس وجہ سے ہم لوگ شریک نماز نہ ہو سکے.اوپر جانے کی اجازت نہ تھی اور ہماری جگہ پر اس قدر شور وشغب تھا کہ نماز پڑھنا مشکل تھا.اپنی اپنی جگہ استغفار کرتے اور دعائیں مانگتے رہے.حضرت کو ڈاکٹر جہاز نے جلاب دے دیا تھا اس کی وجہ سے دو تین دست آگئے اور چند سدے بھی نکلے ہیں.انتڑیوں میں سوزش کا بھی خیال ہے.حضور نے سوائے چائے کے رات بھی کچھ نہ کھایا.کل دو پہر کو تین چار تولے شور با اور نصف کے قریب چھوٹی ڈبل روٹی کھائی تھی (یعنی
117 جسے خشک کر کے بکرم کے نام سے چبایا جاتا ہے.) صبح سے شام تک حضور لیٹے ہی رہے اور کمرہ سے باہر سوائے حاجت ضروری کے نہیں نکلے.نمازیں بھی وہیں ادا کیں.ہم لوگ بھی زیارت سے محروم رہے اور درحقیقت یہ تکلیف اور محرومی نا قابل برداشت ہے.حضور نے جو مضمون دمشق سے روانگی کے دن " المقتبس“ کے ایڈیٹر کی خواہش پر لکھنا شروع کیا تھا مکمل ہو گیا اور اس کا ترجمہ عربی میں ہو چکا ہے.اب انشاء اللہ برنڈزی سے ایڈیٹر کو بھیج دیا جاوے گا.پہلے حضور کا منشا تھا کہ پورٹ سعید سے ہی بھیج دیا جاوے مگر وقت تنگ تھا نہ جا سکا اب انشاء اللہ روانہ ہو جائے گا.مضمون حضور نے لکھا ہے مگر اس کو ایسے طرز میں لکھا ہے کہ گو یا اخبار والا خو دلکھ رہا ہے.اس میں حضور نے اپنے مختصر سے حالات ابتدا سے اس زمانہ تک کے ایسے رنگ میں درج فرمائے ہیں گویا ایک مختصر سی سوانح عمری ہے.اُردو انشاء اللہ حضور خود ہی روانہ فرما ئیں گے مجھے اجازت نقل نہیں ملی.حضرت کو اس سفر میں بواسیر کی بھی شکایت ہوگئی ہے جس کی وجہ سے حضور کو دوہری تکلیف ہے.آج صبح ۸ بجے حضرت نے دروازہ کھولا.ڈاکٹر صاحب عیادت کے لئے حاضر ہوئے تو معلوم ہوا کہ بواسیر کی سوزش کی وجہ سے حضور کو سخت تکلیف ہے.اتنی خبر سُن کر ہی ڈاکٹر صاحب دوائی کے واسطے نیچے آگئے باقی حالات پوچھ بھی نہیں سکے.صحت کے لئے دعا ئیں فرمائی جاویں.ڈاکٹر جہاز کا خیال ہے کہ حضور سفر کو جاری نہ رکھیں اور کسی اچھے مقام پر پہنچ کر دو چار روز آرام کر کے علاج کرائیں.صحت ہو جائے تو پھر سفر کو جاری کریں بصورت موجودہ سفر کو جاری رکھنا سخت مضر ہو گا.آج تو حضور کو بواسیر کے مسئے میں سے پیپ بھی آئی ہے.یہ تمام تکالیف حضور کو متواتر محنت اور سفروں کی کوفت اور دن رات کی متواتر تقریروں اور خوراک کی بدانتظامی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں.جماعت کی خاص دعا ئیں حضرت اقدس کے ساتھ ہونی از بس ضروری ہیں.تاکید
۱۱۷ اور تاکید پر تاکید ہے کہ تحریک دعا متواتر اور مسلسل کی جائے.۱۵ ر ا گست ۱۹۲۴ء: سمندر ساکن ہے اور جہاز اطمینان سے چل رہا ہے.کل جو تکلیف حرکت سے پیدا ہو گئی تھی اور بعض دوستوں کوئے وغیرہ کا سلسلہ جاری ہو گیا تھا اور اکثر کو چکر آتے تھے آج نہیں ہیں.سب دوست آج خطوط نویسی کے مقابلہ کی مشق کر رہے ہیں کیونکہ کل صبح ڈاک پوسٹ کی جانے والی ہے.جو مضمون حضرت اقدس نے اپنی سوانح کے طور پر اخبار المقتبس کے لئے لکھا ہے اور ترجمہ عربی میں کرایا ہے اس کا ترجمہ انگریزی میں بھی کرنے کا حکم دیا ہے.مولوی عبد الرحیم صاحب در دکر ر ہے ہیں.آج صبح سے 9 بجے تک حضور کو دو دست آچکے ہیں جس سے ضعف بہت ہو گیا ہے.مکرمی ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ٹیکہ کر رہے ہیں.حضرت اقدس نے ڈاکٹر کی اس رائے سے اتفاق نہیں کیا کہ کسی جگہ اٹلی میں ٹھہر کر آرام اور علاج کیا جاوے بلکہ فرمایا کہ آرام اور علاج کا اٹلی میں کوئی مقام نہیں اس کے لئے لنڈن ہی موزوں ہے جو ہماری منزل مقصود بھی ہے.اٹلی میں اب صرف چند روز روم میں ٹھہر کر لنڈن جا کر ہی انشاء اللہ کام اور آرام اکٹھا کریں گے اور اگر علاج کی ضرورت ہوئی تو وہ بھی وہیں ہوگا.اب کے شام کے قریب کا وقت ہے.حضور کی طبیعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہے.( جہاز کے ) ڈاکٹر نے گلا گھونٹ کر ماری ہوئی مرغی کا شور با بھیجا تھا مگر حضور نے واپس کر دیا.لانے والے خادم نے کہا یہ ڈاکٹر نے بھیجا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا وہ مذہب پر حاکم نہیں ہوسکتا.اس کو لے جاؤ اور دوسرے گوشت کا شور بالا ؤ.چنانچہ وہ لایا اور حضور نے پی لیا.کل سے حضور تنہا لیٹے ہوئے ہیں صرف ڈاکٹر صاحب اور خان صاحب کبھی کبھی حضور کے پاس جا سکتے ہیں.حضور نے اس عرصہ میں ایک نظم لکھی ہے جو آپ کے واسطے درج ذیل کرتا ہوں.
۱۱۸ معلوم ہوا ہے مجھ کو اہل پیغام یہ بعض احباب وفا کیش کی تحریروں سے میرے آتے ہی ادھر تم کھلا ہے یہ یہ راز تم بھی میدان دلائل کے ہو رن بیروں سے میں وہ زور اگر وہ طاقت ہے چاہو تو چھلنی کر سکتے ہو تم پشت عدد تیروں سے آزمائش کے لئے تم نے چنا ہے مجھ کو پشت پر ٹوٹ پڑے ہو مری شمشیروں سے مجھ کو کیا شکوہ ہو تم سے کہ میرے دشمن ہو تم یونہی کرتے چلے آئے ہو جب پیروں سے حق تعالیٰ کی حفاظت میں ہوں میں یاد رہے وہ بچائے گا مجھے سارے خطا گیروں میری غیبت میں لگا لو جو لگانا ہو زور تیر بھی پھینکو کرو حملے بھی شمشیروں پھیر لو جتنی جماعت ہے مری بیعت میں باندھ لو ساروں کو تم مکروں کی زنجیروں
119 پھر بھی مغلوب رہو گے میرے تا یوم البعث ہے تقدیر خداوند کی تقدیروں سے ماننے والے میرے بڑھ کے رہیں گے تم سے یہ قضا وہ ہے جو بدلے گی نہ تدبیروں سے مجھ کو حاصل نہ اگر ہوتی خدا کی امداد کب کے تم چھید چکے ہوتے مجھے تیروں سے ایک تنکے سے بھی بدتر تھی حقیقت میری فضل نے اس کے بنایا مجھے شہتیروں سے تم بھی اگر چاہتے ہو کچھ تو جھکو اس کی طرف فائدہ کیا تمہیں اس قسم کی تدبیروں سے نفس طامع بھی کبھی دیکھتا ہے روئے نجات فتح ہوتے ہیں کبھی ملک بھی کفگیروں مرے قتل کو نکلے تو ہو غور کرو پر شیشے کے ٹکڑوں کو نسبت بھلا کیا ہیروں سے جن کی تائید میں مولی ہو انہیں کس کا ڈر کبھی صیاد بھی ڈر سکتے ہیں مچھیروں ހނ حضرت اقدس نے جو مضمون المقتبس کے لئے لکھا ہے اور زبان عربی اور انگریزی میں اس کا ترجمہ کر وایا ہے اس میں علاوہ حضرت کی مختصر سوانح کے سلسلہ کے حالات اور جماعت کے اختلاف کی تاریخ بھی درج ہے.یہ تبلیغ سلسلہ کے لئے ایک مکمل تاریخی مضمون کا کام دے سکتا ہے.
۱۲۰ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے ہم لوگ پورٹ سعید سے کوئی سامان خوردنی نہ خرید سکے تھے اور بالکل خالی ہاتھ جہاز میں داخل ہوئے پہلی رات بھی اکثر بھو کے ہی تھے بھوکے ہی داخل جہاز ہوئے.پھر دن بھر کھانا نہ مل سکا کیونکہ تھرڈ کلاس چھ آدمیوں کے ٹکٹ بغیر خوراک تھے اور حضرت اقدس کے بار بار حکم دینے پر بمشکل ۵ بجے شام خشک رسد کا انتظام ہوا.رسد بھی خراب تھی الہذا آئندہ احمدی احباب جو تھرڈ کلاس میں سفر کرنا چاہیں اپنا انتظام کر کے خوراک سامان ساتھ لے کر روانہ ہوا کریں.۹ روٹی نصف آنہ والی ۴ سیر چاول موٹے ۳۰ سیر گوشت ، ایک سیر آلو اور ۱۲ چھٹا نک مکھن کے ہم لوگوں کو جہاز میں بارہ روپے دینے پڑے ہیں.سارے سمندری سفر میں آج شام جس حصہ سمندر میں سے ہمارا جہاز پلسنا گزرا ہے.نہایت ہی خوبصورت اور دلکش مناظر کا مجموعہ ہے.یونان کے جزائر کی پہاڑیاں دونوں طرف کھڑی ہیں کہیں کہیں آبادی بھی نظر آتی ہے.انگور کے کھیت جابجا بچھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.زیتون کے جنگلوں کے جنگل کھڑے ہیں.بعض بعض جگہ سڑو کے بلند بالا نو کیلے خوبصورت درخت پہاڑی مناظر کو اور بھی خوبصورت بناتے ہیں.نہر سویز انسانوں نے بنائی مگر یہ نہر قدرتاً ایسی خوبصورت ہے کہ اس کا کسی رنگ میں بھی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا.میلوں میل تک دورویہ پہاڑیاں چلی گئی ہیں جن کا درمیانی فاصلہ بمشکل میل ڈیڑھ میل ہو گا.دیہات کے مکانات نظر آتے ہیں.آگ جلتی دکھائی دیتی ہے.انگور کے کھیت اچھی طرح نظر آتے ہیں.سڑکیں اور درخت نظر پڑتے ہیں.مکانات کے شیشے تک چمکتے دکھائی دیتے ہیں مگر نہیں نظر آتا تو کوئی آدم زاد نہیں دکھائی دیتا حیرت ہی ہوتی ہے کہ یہ کیوں ؟ غرض بہت ہی دلکش سین ہے یا ہمیں لمبے سمندری سفر سے اُکتا جانے کی وجہ سے یہ سماں زیادہ خوبصورت دکھائی دیا ہے.آج شام کے وقت حضرت اقدس نے مولوی عبد الرحیم صاحب درد کو بلوا کر حکم دیا کہ تمام دوستوں کو حکم دیں کہ اب ہم یورپ میں داخل ہو رہے ہیں لہذا اپنے اوقات کو لطیفہ بازی میں نہ
۱۲۱ گزاریں بلکہ کثرت سے دعائیں کریں.پھر فرمایا کہ کل صبح انشاء اللہ 9 بجے کے قریب برنڈزی پہنچیں گے لہذا جہاز سے اترنے سے پہلے اور جہاز سے اتر کر پراگندہ نہ ہوں بلکہ پہلے بھی دعائیں کریں مل کر جمع ہو کر دعا کریں اور پھر جہاز سے اتر کر بھی دعائیں مل کر کریں تب جدھر حکم ہو روا نہ ہوں.سامان وغیرہ کی نگرانی اور نقل و حرکت کے متعلق ہدایات دیں اور فر مایا کہ جہاں جہاں اُترنا اور ٹھہرنا ہو گا ان مقامات کے پتے زبانی یاد کر لیں تا کہ اگر کوئی بھول بھی جائے تو اس مقام کا پتہ معلوم کر کے پہنچ سکے.روم میں بھی اور دوسرے مقامات پر بھی اس بات کو اچھی طرح مد نظر رکھا جائے.یہ بھی فرمایا کہ اگر بھول جائیں تو پولیس سے پتہ معلوم کریں کیونکہ دوسرے لوگوں سے پو چھنے میں بعض اوقات خطرہ دھوکا کا ہوا کرتا ہے.ان ہدایت پر کار بند رہنے کی تاکید فرمائی اور دعاؤں پر زور دینے کا خاص طور پر حکم دیا ہے تا کہ یہ سفر با برکت ہوا اور غرض و غایت اس کی بطریق احسن اللہ تعالیٰ پوری فرمائیں.یہ بھی حکم دیا کہ ڈنر ( کھانے ) کے بعد مولوی عبد الرحیم صاحب درد بے تار برقی پیغام کے ذریعہ سے معلوم کریں کہ چوہدری فتح محمد خان صاحب کسی دوسرے جہاز میں سوار ہو گئے ہیں یا کہ نہیں؟ یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ وہ لمبا تار جو پورٹ سعید سے روانگی کے وقت لکھا گیا تھا اور جس میں شام کی کامیابیوں کا ذکر بھی تھا مع کچھ ایزادی کے اب برنڈزی پہنچ کر دے دیا جاوے تا کہ قادیان کے دوست زیادہ انتظار میں نہ رہیں.سو مبارک ہو کہ آپ کی دلجوئی حضرت اقدس کو بہت ہی منظور ہے ورنہ رپورٹیں تو مفصل پورٹ سعید سے روانہ ہو ہی چکی تھیں جن میں ایک رپورٹ میری عین موقع کی لکھی ہوئی ۷۲ صفحات کی تھی مگر پھر وہی زیادتی خرچ کا سوال در پیش رہا جس کا حل یوں فرمایا کہ یہ مضمون تا رلنڈن بذریعہ خط بھیج کر غیر صاحب کو لکھا جائے کہ لنڈن سے بذریعہ تار قا دیان بھیج دیں اس میں بہت کفایت ہوگی اور پہنچ بھی جلدی جائے گا.حضرت اقدس جہاز افریقہ کے اول درجہ کے کمرہ نمبر ۱۲ میں ٹھہرے ہوئے تھے اور اس جہاز پلسنا کے اول درجہ کے کمرہ نمبر ۱۷ میں رہتے ہیں.ابھی ڈاکٹر صاحب تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ چلو تم کو اور علی محمد کو حضور نے یا دفرمایا ہے.سو میں اب او پر حضرت اقدس کی خدمت میں جارہا ہوں ڈاکٹر صاحب دوائی بنالیں اور چوہدری علی محمد صاحب آلیں.
۱۲۲ میری چھلی رپورٹ جو پورٹ سعید سے روانہ کی گئی تھی اور اس میں دمشق کے تفصیلی حالات درج ہیں اگر الفضل کو نہ ملی ہو تو عزیز عبد القادر سے لے کر بے شک غیر ضروری حصص کو چھوڑ کر باقی شائع کر دی جاوے خواہ بہائیوں کے حالات بھی شائع کر دیں کوئی روک باقی نہیں ہے.رپورٹ چونکہ جلدی اور انتہائی مصروفیتوں میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے لکھی جاتی رہی ہے لہذا غلطی ، نقصان فہم اور کوتا ہی کا امکان ہے جو یقیناً میری کمزوری ، کم علمی یا کوتا ہی و جہالت کا نتیجہ ہوگی لہذا ذرا توجہ سے اچھی طرح دیکھ بھال کر کے شائع کی جاوے.صوفی ازم پر جو مضمون حافظ روشن علی صاحب نے لکھنا تھا ابھی تک انہوں نے شروع بھی نہیں کیا.حضرت اقدس نے آج بعد عصر ان کو بلوا کر نوٹ لکھائے ہیں اور مضمون کی ترتیب بتائی ہے امید ہے کہ آج یا کل سے حافظ صاحب لکھنا شروع کر دیں گے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ وسط اگست تک مضمون کمیٹی کو بھیجنے کا ہم نے وعدہ کیا تھا سو وسط اگست تو گزر چکی ہے اب ۲۰ / اگست تک تو ان کو پہنچ جاوے.رات حضرت اقدس نے بعد نماز عشاء مجھ کو بلوا کر سفر مصر و شام وفلسطین کی رپورٹ لکھوائی.کچھ پہلے خود لکھی ہوئی تھی ۴۰ صفحات پورے فل سکیپ کے لکھوا کر حکم دیا کہ باقی صبح کو انشاء اللہ پھر لکھوائیں گے.ڈاکٹر نے آنا تھا بس کر وا دیا.اسی قسم کے حالات میں نے بھی اپنی رپورٹ میں لکھے ہوئے ہیں مگر حضور کی رپورٹ ایسی مکمل اور جاندار ہے کہ اس کے بعد کسی اور رپورٹ یا تفصیل کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی.حضور نے تو واقعات میں ایک جان ڈال دی ہے اور نہایت مرتب کر کے ان کو لکھا نا شروع فرمایا ہے اور تمام نتیجہ خیز باتیں ہیں میں نے کوڑا کرکٹ سب کچھ جمع کر دیا تھا.الغرض حضور کی اپنی لکھی اور لکھائی ہوئی رپورٹ شائع ہونے پر جو لطف آپ دوستوں کو آ جائے گا اس کا اندازہ بھی کون کرسکتا ہے.بہائیوں کے خلیفہ محمد علی نے جو کتاب البیان کے نام سے دی تھی وہ نسخہ قلمی تھا.اس کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ شاید البیان نہ ہو بلکہ کوئی اور ہی کتاب ہو.اس کے دستخط کر کے نہ دینے سے یہ طیبہ اور بھی قوی ہوتا نظر آتا ہے.اول تو قلمی ہے دوسرے اگر مطبوعہ بھی ہوتی تو سُنا ہے کہ ان پر بھی وہ پر لیس اور تاریخ وغیرہ نہیں لکھتے پھر کیا اعتبار ہے.
۱۲۳ ۱۶ / اگست ۱۹۲۴ء : حضور کی طبیعت میں کچھ آفاقہ معلوم ہوتا ہے.اس وقت آرام فر ماتے ہیں.قادیان کی لمبی تار جو پہلے روک لی گئی تھی ۳۸۳ الفاظ پر مشتمل ہے.میں نے محض اس خیال سے اس کو نقل نہ کیا تھا کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے پردہ غیب میں رکھ لیا ہے میں اس کو شائع کر کے آپ بزرگوں کی تکلیف کا باعث کیوں بنوں مگر اللہ تعالیٰ کو منظور یہی تھا جو ہو ا.خوف اور امید، غم اور خوشی کا لمبا تا ر آخر روانہ کر ہی دینے کا فیصلہ کر دیا گیا.گو اس میں بعض باتوں کے متعلق نا راضگی کا اظہار اور جواب طلبی بھی ہے مگر دمشق کے حالات کی رپورٹ کا جو خا کہ حضور نے کھینچ کر آپ کو بھیج دیا ہے میری ۷۲ صفحات کی رپورٹ بھی یہ کام نہ کر سکے گی.بہر حال وہ تار آج برنڈ زی سے روانہ ہو گا.ایک تا راسی کے ساتھ حضور نے لنڈن بھجوایا ہے اور لنڈن کے کوائف طلب فرمائے ہیں اور لکھا ہے کہ ۲۲ / اگست تک انشاء اللہ لنڈن پہنچیں گے.ٹھیک تار پھر دیا جاوے گا.ایک تار برلن بھی دیا گیا ہے.مولوی مبارک علی صاحب سے حالات طلب کئے ہیں مگر تین دن کے اندر روم میں تین دن قیام کا ارادہ ظاہر فرمایا ہے.صبح کی نماز کے بعد سے جزائر سلی (Scisly) کا سلسلہ شروع ہے اور یورپین آبادی بالکل کنارے پر نظر آ رہی ہے.ہمارے جہاز کا رخ اس وقت جانب شمال مغرب ہے.سسلی کے جزائر جانب غرب ہیں.میلوں سے یہ سلسلہ ساتھ ساتھ چلا آ رہا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم کسی آبادشہر کے ساتھ ساتھ جا رہے ہیں.آبادی تھوڑے تھوڑے فاصلہ سے مسلسل چل رہی ہے.جنگل یا غیر آباد علاقے درمیان میں نظر نہیں آتے.سب دوست دعاؤں میں لگے ہوئے ہیں.سامان باندھ کر تیار رکھا ہے.اب تو برنڈ زی بھی نظر آنے لگا ہے مگر بتاتے ہیں کہ ابھی کم از کم ایک گھنٹہ کی راہ باقی ہے.برنڈ زی کو دیکھ کر دوستوں نے پھر دعائیں کیں اور بعض جن کو دعا پوری یا د نہ تھی انہوں نے یاد کرنی شروع کی ہوئی ہے تا کہ آئندہ یورپ کے تمام شہروں میں اس مسنون دعا کو حضرت اقدس کے حکم کے ماتحت بالالتزام مانگ لیا کریں.موسم پورٹ سعید سے لے کر اس مقام تک قریباً یکساں ہی چلا آ رہا ہے.کوئی سردی نہیں
۱۲۴ ہے البتہ تیز ہوا کی وجہ سے کسی قدر خنکی معلوم دیتی ہے والا ان ممالک تک معلوم ہوتا ہے کہ سردی کا اثر نہیں ہے بلکہ بتاتے ہیں کہ برنڈ زی گرم ترین مقام ہے.برنڈزی سے ساڑھے نو بجے ایک ایکسپریس ٹرین سیدھی روم کو جاتی بتائی جاتی ہے اگر ساڑھے ٹو تک جہاز سے اتر نے اُتارنے سے فارغ ہو گئے اور کسٹم وغیرہ کے جھگڑے بکھیڑوں سے نجات مل گئی تو انشا اللہ آج ہی شام تک روم پہنچیں گے ورنہ کل جائیں گے.دوسرا ٹرین نیپلز (naples) تبدیل ہو کر روم کو جاتا ہے سیدھا روم نہیں جاتا.ڈاکٹر صاحب ابھی اوپر سے آئے ہیں فرماتے ہیں حضور کی طبیعت جیسی اچھی رات کو تھی ویسی اچھی آج نظر نہیں آتی.صبح قضائے حاجت کو تشریف لے گئے مگر اجابت ٹھیک نہیں ہوئی.انیما کیا گیا ہے اور حضور پھر چوکی پر ہیں.کل بھی دو مر تبہ انما کیا گیا تھا.رات چوہدری صاحب اور عرفانی صاحب کی خبر منگانے کے لئے مولوی عبدالرحیم صاحب در داو پر بے تار برقی پیغام رسانی کے دفتر میں گئے سگنیلر (Signaler) بے چارے نے انگلیاں ہلائیں اور آلہ برقی کو کانوں سے لگایا.انگلیوں کے ہلتے ہی سبز سبز رنگ کے شرارے بجلی کے اس میں سے نکلے اور ساتھ ہی سر سُر کی آواز آئی.بمشکل نصف منٹ گزرا ہوگا کہ اس نے مولوی صاحب سے کہا نو پاسی بل (No Possible اور کہ آس پاس کے سب جہازوں کو میرا تا ر پہنچ گیا ہے جو ادھر اُدھر پانچ سو میل کے محیط میں تھے.وہ جہاز جس میں آپ کے آدمیوں کی آمد کی امید ہے پانچ سومیل سے دور ہے اور ۷۰۰ یا ۸۰۰ میل کے فاصلہ پر ہے لہذا نو پاسی بل (No Possible) تعجب کی بات ہے اور کارخانہ قدرت کے عجائبات کی کوئی انتہا نہیں کیا کیا سامان سہولت پیدا کر دیئے ہیں.پانچ پانچ سو میل کے فاصلہ پر خبر کا جانا اور اس کا جواب بھی مل جانا طرفہ یہ کہ وقت صرف نصف منٹ خرچ ہوا.مولوی صاحب نے حیرت اور تعجب سے پوچھا بھی کہ جواب کب تک آئے گا ؟ کیونکہ مولوی صاحب نے تا رکو پہلے ” نو پاسی بل (No Possible) سے یہی سمجھا تھا کہ اس نے قیاس سے ایسا کہہ دیا ہے مگر جب اس نے کہا کہ یو هیوسین ( You have seen) ( تم نے جواب آتے (You دیکھ لیا ) تو مولوی صاحب بہت حیران ہوئے.یہ تمام کا رخانہ قدرت حقیقتا حضرت مسیح موعود ہی کی
۱۲۵ خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے.پھر اس نے اس تار اور جواب کا کوئی محصول بھی نہ لیا مفت کام کر دیا اور اب بتایا کہ برنڈ زی سے پتا لگ سکے گا.اس جہاز میں حضرت میاں صاحب کی ایک لنگی کی دھلائی ڈیڑھ روپیہ دینی پڑی اور ململ کی پگڑی کی دھلائی ۱۴ آنے دی گئی.گرانی کا یہ حال ہے.شہر آ گیا ہے.جہاز نے رخ بدل لیا ہے لہذا خط بند کر کے سامان کی سنبھال کرتا ہوں اللہ حافظ - دعاؤں کا محتاج - عبدالرحمن قادیانی از برنڈ زی بندرگاه ۱۶ / اگست ۱۹۲۴ء
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خط نمبر ۹ ، از مقام برنڈزی علاقہ اٹلی : مورخه ۱۶ / اگست ۱۹۲۴ء السلام علیکم ورحمة الله وبركاته ٹھیک ساڑھے نو بجے صبح ہمارا جہاز پلسنا برنڈزی کے پورٹ پر پہنچا جو عین لپ بازار واقع ہے.سینکڑوں عورت مرد اور بچے بازار میں ہجوم کئے کھڑے تھے.پاسپورٹ دکھانے اور طبی معائنہ ہو جانے کے بعد جہاز سے اترنے کی اجازت ہوئی.جہاز ہمارا ا بھی حرکت میں ہی تھا کہ حضرت اقدس نے تمام خدام کو جہاز کی بالائی چھت پر جمع ہونے کا حکم دیا چنا نچہ سوائے میاں رحمد بن صاحب کے جسے سامان کے پاس ٹھہر نے کا حکم تھا سب خدام حاضر ہوئے.فرش جہاز کے اس حصہ پر جس کے نیچے تھرڈ کلاس پسنجر ٹھہرے تھے سیڑھیوں کے ساتھ حضور نے کپڑوں کے فرش پر رو بقبلہ ہو کر سرزمین یورپ پر قدم رکھنے سے پہلے خاص دعاؤں کے لئے ہاتھ اٹھائے.خدام نے بھی اقتدا کی اور قریب ہیں منٹ کے دعا ہوتی رہی.جہاز کے عملہ کا فارغ حصہ اور فرسٹ ، سیکنڈ کلاس کے مسافروں کا ایک جم غفیر اس نظارہ کو دیکھنے کے واسطے آس پاس جمع ہو گیا اور جب تک حضرت نے دعا ختم نہ کی لوگ یہ دلکش نظارہ خاموشی سے کھڑے دیکھتے رہے.دعا کے ختم ہوتے ہی افسروں نے پاسپورٹ طلب کئے اور ڈاکٹری معائنہ ہوا.آج کا جہاز سے حضرت اقدس کا مع خدام کے سرزمین یورپ پر اُترنا جہاں ایک عجیب روحانی کیفیت رکھتا تھا وہاں دلوں میں ایک قسم کی اُمنگ ، اُمید اور کا میابیوں کی جھلک بھی معلوم ہوتی تھی.سامان ہمارا کٹم ہاؤس میں کٹک کے آدمی لے گئے.سگریٹ ، سگار، کافی ، چائے وغیرہ ہم سے پوچھا گیا کہ تمہارے پاس ہو تو بتا دو.دو ایک بنڈل کھول کر بھی دیکھے اور بعد میں سب کو بلا دیکھے پاس کر دیا.کٹم ہاؤس کے دروازہ پر سینکڑوں عورتیں خاص کر لڑکیاں جمع ہو گئیں.مرد بھی تھے مگر کم.بعض لڑکیوں کے ہاتھ میں کیمرے تھے اور وہ اس تاک میں تھیں کہ کب قافلہ نکلے اور وہ
۱۲۷ فوٹو لیں.دو ایک مرتبہ میں اندر سے باہر نکلا سامان کی دیکھ بھال کے لئے تو وہ ایک ہوشیار اور پچست و چاق شکاری کی طرح فور انشا نہ بناتی تھیں مگر سارے قافلہ کو نکلتے نہ دیکھ کر پھر کیمرہ ہٹا لیتیں.ان میں سے ایک نے تو کسی طرح اِدھر اُدھر سے ایک کرسی بھی حاصل کی جس کے اوپر وہ چڑھ کر کھڑی ہو گئی جہاں سے فوکس ٹھیک لیا جا سکتا تھا اور اس نے لنک کے آدمی سے بھی کچھ سمجھوتہ کر لیا کہ جب حضرت اقدس باہر نکلیں وہ حضور کو ذرا ٹھہرائے تا کہ وہ اطمینان سے فوٹو لے سکے.کسٹم سے فارغ ہو کر حضور باہر تشریف لائے.وہ کرسی پر کھڑی تھی کیمرہ سیدھا کیا.ادھر کنگ کے آدمی نے حضور کو کسی بات کے بہانے ایک لمحہ کے لئے ٹھہرایا اتنے میں اُس نے فوراً اپنا کام شروع کر کے اشارہ کا ہاتھ اُٹھا دیا اور کنگ کے آدمی نے بات ختم کر کے حضور کا راستہ چھوڑ دیا.وہ فوٹو لے کر اس قدر خوش تھی کہ بیان سے باہر ہے.تین چار مرتبہ وہ اپنی کرسی پر کھڑے ہی کھڑے گودی اور پھر نیچے اتر کر ا چھلی بہت ہنسی اور خوش ہوئی.حضور کٹم ہاؤس سے فارغ ہو کر گرانڈ ہوٹل انٹر نیشنل میں تشریف لائے اور کمرہ نمبر ۱۹ میں قیام پذیر ہوئے.لینچ ہوٹل میں خدام کے ساتھ نوش فرمایا اور نماز ہوٹل کے کمرہ نمبر ۲۹ میں ادا کی جس میں حافظ صاحب کا قیام ہے.تمام خدام بھی حضرت اقدس کے ہمرکاب اسی ہوٹل میں مقیم ہوئے ہیں.تاریں یہاں سے لنڈن ، برلن اور قادیان کو دی گئیں.قادیان کو وہ لمبی تار جو۳ ۳۸ الفاظ کی تھی نہیں دی گئی بلکہ صرف اٹلی میں پہنچنے کی خیریت کی خبر دی ہے.ایک تار تھا مس کنک پورٹ سعید کو بھی دیا گیا ہے اور پوچھا گیا ہے کہ ہمارے دونوں ساتھی وہاں سے روانہ ہوئے ہیں یا نہیں اگر روانہ ہو گئے ہوں تو جواب روم کے دفتر تھا مس کنگ کی معرفت روا نہ کریں تا کہ تسلی ہو وے بس صرف یہ تار یہاں سے دیئے گئے ہیں.خطوط بھی اس جگہ سے پوسٹ کئے ہیں مگر افسوس کہ پوسٹ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ ہمارے خطوط ۱۰ ستمبر کے قریب قادیان پہنچیں گے.حضرت اقدس نے اس وجہ سے یہاں سے خط نہیں لکھا پیرس سے لکھیں گے انشا اللہ.برنڈزی ایک چھوٹا سا خوبصورت قصبہ ہے اور سمندر کے ساحل کے بالکل کنارے واقع ہے مٹی کے جہاز بازار کی سڑک کے ساتھ آن کھڑے ہوتے ہیں.ایک طرف سمندر ہے دوسری
۱۲۸ طرف بازار کی دکانات.ہمارا ہوٹل بھی اسی سڑک کے کنارے بالکل سمندر پر واقع ہے اور بہت ہی خوش منظر مقام پر آباد ہے.برنڈزی کا علاقہ بہت ہی آباد اور سرسبز نظر آتا ہے.بازار وغیرہ تو ہم دیکھ نہیں سکے کیونکہ عورتیں گرد جمع ہو جاتی ہیں.پہلے تو ٹھہرا کر باتیں کرنا چاہتی ہیں یا عجوبہ بنانا چاہتی ہیں اگر ان کی طرف دیکھیں تو مصیبت نہ دیکھیں تو مشکل.تالی بجانے لگ جاتی ہیں اور شور مچاتی ہیں.ہم لوگ ان کے لئے ایک سوانگ سے بنے ہوئے نظر آتے ہیں اور تماشا گاہ عالم بھی.جہاں نکلے لوگوں کا ہجوم ساتھ ہو لیا.عورتوں کے بلانے پر ان کی بات سنیں تو اول تو سمجھ ہی نہیں آتی دوسرے وہ ہمیں دیکھ کر بے طرح ہنستی ہیں.مرد بھی ان کو نہیں سمجھاتے کہ پرائے مردوں سے اس طرح بے حجابانہ باتیں کیوں کرتی ہو.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں عورتوں کی کثرت ہے اور انہی کی حکومت.مرد بے چارے ان کے پیچھے پیچھے چلنے والے ہیں.جب عورتوں کی طرف توجہ نہ کریں تو وہ مذاق کرتی اور ہنستی اور تالیاں بھی بجانے لگتی ہیں چنانچہ اس وجہ سے حضرت اقدس نے حکم دیا ہے کہ بلا ضرورت بازار میں نہ جائیں اور جانا ہو تو گاڑی لے کر جائیں.ان وجوہات سے بازاروں وغیرہ کی کیفیت بیان نہیں کر سکتے.پھل میں سے تربوز ، آڑو، آلوچہ ، انگور اور اعلی قسم کا خربوزہ از قسم سردہ ہم لوگوں نے پنج پر ہوٹل میں کھایا.خربوزہ نہایت ہی شیر میں اور قابل تعریف تھا.لوگ زیادہ تر غربا اور مزدوری پیشہ نظر آتے ہیں.آسودگی کے علامات علاقہ معلومہ میں تو نظر نہیں آئے اندرون قصبہ میں شاید مالدار لوگ بھی ہوں گے.دفاتر میں عورتیں کام کرتی ہیں.موٹر صرف ایک نظر آتا ہے.جہاز کئی ادھر سے اُدھر آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں.ایک گھوڑے کی فٹن (لینڈ و ) جسے بمبئی میں وکٹوریہ کہتے ہیں اکثر نقل و حرکت میں کام آتی ہے.مزدور ہتھ چھکڑوں سے سامان کو اِ دھر سے اُدھر لے جاتے ہیں.بعض گاڑیوں میں گدھے بھی بجھتے دکھائی دیئے جن میں فروٹ وغیرہ باہر سے آتا ہے.برنڈ زی بڑی تجارتی منڈی معلوم ہوتی ہے اور اکثرفتم کا سامان یہاں سے جہازوں پر بار کر کے بیر ونجات کو جاتا دکھائی دیتا ہے.سکہ کیروں کا چلتا ہے.انگریزی پونڈ تک بھی عام دفاتر والے نہیں پہچانتے اور نہ قبول کرتے ہیں.اِدھر اُدھر سے چینج کرا کر لیروں کی شکل میں ادا کرنا پڑتا ہے.موسم میں قدرے خنکی نظر آنے لگی ہے اور حرارت میں کمی واقع ہونی شروع ہوگئی ہے.
۱۲۹ حضرت اقدس کی طبیعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہے.ہوٹل میں دوستوں کے ساتھ مل کر کمرہ میں لنچ نوش فرمایا جس میں حضور کے لئے خاص طور سے پر ہیزی شور با تیار کرایا گیا.فروٹ بھی حضور نے نوش فرمائے اور خوشی خوشی دوستوں سے باتیں کرتے رہے.گاڑی ایک تو صبح کو ساڑھے نو بجے روانہ ہوگئی دوسری گاڑی روم کو شام کے ساڑھے چھ بجے روانہ ہوگی اور اسی سے حضور نے تشریف لے جانے کا عزم فرمایا ہے.خدام نے عرض کیا تھا کہ حضور رات اسی جگہ آرام فرما ئیں تا کہ رات کے سفر کی کوفت سے بچاؤ ہو جائے کل صبح کی گاڑی سے تشریف لے چلیں مگر فر مایا کہ اس طرح سے ہمارا ایک دن ضائع ہو جائے گا.آرام کے لئے رات کو سلیپنگ کا ر کا ٹکٹ لے لیا جائے اس طرح ہم صبح کو روم جا پہنچیں گے اور کل کا دن کام میں گزرے گا ور نہ کل کا دن بھی سفر ہی کی نذر ہو جائے گا.اس پر بعض نے عرض کیا کہ حضور نیا علاقہ ہے.دن کے سفر میں اچھی طرح دیکھا جاوے گا.فرمایا دوسرا علاقہ دن میں بھی دیکھنے کا موقع مل جائے گا.اب تو یورپ ہے سب ہی سرسبز اور شاداب ہے.زمینیں تھوڑی ہیں اس وجہ سے کوئی خطہ غیر آباد نہیں چھوڑا گیا.سب ملک ہی قریباً سرسبز ہیں یہ نہیں تو وہ دیکھ لینا.الغرض آج شام کی گاڑی سے روانگی کا پختہ عزم ہے.گاڑی ایکسپریس ہے سیدھی روم جائے گی اور انشاء اللہ ساڑھے چھ بجے صبح روم پہنچے گی مگر اس گاڑی میں تھر ڈ کا ٹکٹ نہیں ہوتا.فرمایا خیر اب تو سب کا سیکنڈ ہی لے لیا جائے تا کہ ایک دن ضائع نہ ہو.روم سے آگے انشاء اللہ تھرڈ کلاس کا انتظام کر لیں گے اور اس طرح اس زیادتی کی تلافی ہو سکے گی.ہوٹل جس میں حضرت آج مقیم ہیں نہایت صاف اور خوبصورت بنا ہوا ہے اور بڑے عمدہ اور وضعدار کمرے ہیں.پانی اور روشنی کا خوب انتظام ہے.موقع بھی بہت اچھا ہے.خدام ہوٹل میں بعض لیڈیاں ہیں مگر یہ شائد اس ملک کا رواج ہے جس سے چارہ نہیں.کھانے میں صفائی اور عمدگی ونفاست ہے اور ایشیائی ہوٹلوں کے سے نقص نہیں ہیں.باوجود ان تمام خوبیوں کے رہائش کے لحاظ سے پورٹ سعید ، دمشق اور القدس کے ہوٹلوں سے ارزاں بھی ہے.انگریزی زبان کا بہت ہی کم رواج ہے اس وجہ سے ہمیں اس علاقہ میں بہت وقت ہوتی ہے.گاڑی جس میں حضور روم کو تشریف لے جائیں گے ایکسپریس ہے اور راستہ میں چند
اسٹیشنوں پر ٹھہرتی ہے وہ بھی صرف چند سیکنڈ.کھانے اور پانی کا گاڑی میں کوئی انتظام نہیں ہوگا نہ ہی گاڑی میں پاخانہ پیشاب کے لئے کوئی جگہ مقر رسنی جاتی ہے.۱۲ گھنٹہ کا رن (run) ہے.واقف لوگ کہتے ہیں کہ کھانے کا سامان ایک لفافہ میں ساتھ لے لو اور ایک ایک بوتل سوڈے کی بھی ساتھ رکھ لو ورنہ راستے میں تکلیف ہو گی مگر وہ نہیں جانتے کہ کھانے اور پینے کے بغیر تو ہمارا گزارا ہو بھی جائے گا مگر نماز کے واسطے ہم کو پانی کی جو ضرورت ہوگی وہ کہاں سے پوری کریں گے.عجیب ملک ہے جس کی گاڑی میں ٹی اور غسل خانہ کا بھی انتظام نہیں.دمشق کے وکٹور یا ہوٹل میں حضرت اقدس نے ایک رات کاٹی تھی.میں اس کے کمرہ کا نمبر نہ لکھ سکا تھا کیونکہ میں وہاں گیا نہیں تھا اور جو دوست گئے تھے ان میں کسی کو کمرہ کا نمبر یاد نہ تھا.آج دورانِ سفر روما میں قبلہ خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب کی مہربانی سے معلوم ہوا کہ حضرت اقدس کمرہ نمبر ۴۵ میں اور خدام اور حضرت میاں صاحب کمرہ نمبر ۴۶ میں شب باش ہوئے تھے.۱۷ اگست ۱۹۲۴ء : گاڑی ساڑھے نو بجے روما سٹیشن پر پہنچی.حضرت اقدس گرانڈ کانٹی نینٹل ہوٹل میں ٹھہرے.حضور کا کمرہ نمبر ۱۰ ہے.ہوٹل بالکل سٹیشن سے متصل ہے.خان صاحب اور ڈاکٹر صاحب کمرہ نمبر 9 میں ہیں.باقی خدام سامان لے کر اور ہوٹلوں کی تلاش میں ایک گھنٹہ تک پھرتے رہے.آخر کار ایک بڑے وسیع چوک میں ایک ہوٹل ٹرمیٹس نامی میں ٹھہرے.جس کی مینجر عورت اور خادمات بھی عورتیں ہی ہیں.اس کے سامنے بڑا وسیع اور شاندار چوک ہے جس کے بیچوں بیچ ایک بہت بڑا فوارہ چلتا ہے جس کا پانی دوسہ منزلہ عمارت کے برابر اونچا جاتا ہے.حوض اور چبوترہ خوبصورت ہے مگر بڑا گند یہ ہے کہ عین بیچوں بیچ میں ایک ننگے آدمی کی تصویر معلوم ہوتی ہے جس نے کچھ اُٹھایا ہوا ہے اور اس میں سے فوارہ گزرتا ہے.اس کے نیچے چاروں طرف چارنگی عورتوں کی تصاویر ہیں جن پر مختلف فواروں کا پانی پڑتا ہے.تصاویر کے ننگا ہونے کی وجہ سے نظر تک نہیں سکتی اور حیا اس کی خوبصورت صنعت کو بھی دیکھنے میں مانع ہو جاتی ہے اس وجہ سے میں اس کی ساری کیفیت بیان نہیں کر سکتا بلکہ
۱۳۱ مجھے یہ بھی شبہ ہے کہ چاروں طرف عورتوں ہی کی تصویر میں ہیں یا کہ کوئی ان میں مرد بھی ہے.بہر حال اس نقص کے ساتھ وہ حوض عین چوک بازار میں فواروں کا شاندار منظر دکھاتا ہے.آج اتوار کی وجہ سے بازاروں کی دکانیں بند ہیں کیونکہ لوگ سیر گا ہوں کو چلے جاتے ہیں.بازاروں میں سے عموماً ضروریات کی فراہمی میں دقت ہوتی ہے.سبزی اور فروٹ کی مارکیٹ ۱۲ بجے سے پہلے لگتی ہے اور پھر وہ بھی بند ہو جاتی ہیں.بعض اور دکانات بھی ۱۲ بجے تک کھلتی ہیں مگر ۱۲ بجے کے بعد سوائے قہوہ خانوں کے اور کوئی دکان نہیں کھلتی.ہمیں ہوٹل میں پہنچتے اور سامان وغیرہ لگاتے ساڑھے بارہ بج گئے کھانے کا کوئی انتظام نہ ہو سکا.بازار کو گئے تو بمشکل خشک روٹی لائے جو روکھی کھائی.حضرت اقدس کے واسطے بند ( بن ) اور کچھ پیسٹری اور مکھن لے گئے مگر حضور نے بہت تھوڑا کھایا.پہلے ہمارے ہوٹل والی عورت سے فیصلہ ہوا تھا کہ وہ ہمیں کھانا پکانے کی جگہ اور اجازت دے گی مگر بعد میں وہ منکر ہوگئی اس وجہ سے حضور کے واسطے چوزہ وغیرہ بھی نہ پک سکا جو بڑی تلاش کے بعد بازاروں سے ڈھونڈ کر لائے تھے.آخر حضور نے بالکل تھوڑ اسا برائے نام ہی ناشتہ کیا.حضرت اقدس کے حکم سے اور ہوٹلوں کی تلاش شروع کی جس میں ہمیں اپنا کھانا پکانے کی اجازت ہو سکے.بڑی مشکل یہاں یہ ہوئی کہ زبان کوئی نہیں سمجھتا.لاکھوں میں سے شائد کوئی ایک آدھ انگریزی جانتا ہوگا.بڑی تلاش کے بعد تھک کر واپس ہونے کا ارادہ کر لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک آدمی بھیج دیا جس نے ہنستے ہنستے پوچھا ؤٹ یو وانٹ ؟ ?what you want) ان الفاظ سے دل خوش ہو گئے اور اُمید کی جھلک دکھائی دینے لگی.جواب دیا گیا کہ انگلش نوئنگ مین (knowing man) جس کے جواب میں اس نے کہا ہیر آئی ایم ( here I am) - اس سے درخواست کی گئی کہ ہمیں کوئی ایسا ہوٹل بتائیے جس میں ہم لوگ کھانا اپنا کا سکیں.اول تو اس نے بتایا کہ یہ بہت مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے پھر وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ ہوٹل والے حرام حلال کی تمیز نہیں کرتے ہم لوگ مسلمان ہیں ہمیں اپنے ہاتھ کا ذبیحہ پکانا ہو گا.یہ وجہ معلوم کر کے اس کو زیادہ خیال ہوا اور اس نے آخر ایک ہوٹل کی لائن کی طرف اشارہ کیا جس میں تلاش کرتے کرتے ایک ایسا ہوٹل بھی مل گیا جو نصف کرایہ کا تھا.یہ بھی اجازت دے دی کہ اپنے ہی کمرے کے اند رسٹو و پر کھانا پکا لیا کرنا.
۱۳۲ چنانچہ شام کے 9 بجے اس ہوٹل میں دو کمرے دو آدمیوں کے واسطے لے کر میاں رحمدین کو حضرت اقدس کے واسطے چوزہ پکانے کو بھیج دیا گیا جو اب کہ رات کے ساڑھے دس بجے ہیں حضرت اقدس کے حضور تیار ہو کر پہنچ چکا ہے.انشاء اللہ حضور اب کھانا اچھی طرح سے کھائیں گے.چوہدری علی محمد صاحب کو بھی میاں رحمدین کے ساتھ اسی ہوٹل میں بھیج دیا گیا ہے.ہم لوگ بھی انشاء اللہ صبح کو اگر رات کو وہ ہوٹل بھر نہ گیا تو اسی میں چلے جائیں گے کیونکہ اس میں خرچ نصف ہوگا.موجودہ ہوٹل والے تمام دوست صرف خشک روٹی اور اُبلے ہوئے نمک لگے آلو کھا کر سو گئے ہیں کیونکہ اس سے زیادہ اور کچھ انتظام نہیں ہو سکا.سید نا حضرت اقدس آج ۴ بجے کے بعد موٹر کے ذریعہ سیر کو تشریف لے گئے تھے.شہر کے بعض حصوں کے علاوہ اصحاب الکہف والے غاروں پر بھی گئے مگر باہر ہی باہر پھر کر واپس تشریف لے آئے ہیں.کل برنڈ زی سے چلتے ہوئے وہاں کے ہوٹل کابل آیا تب اس کی ارزانی کی حقیقت معلوم ہوئی.اس نے ساری کسر کھانے ہی میں نکال لی اور گیارہ پونڈ کا بل پیش کیا یعنی چند گھنٹہ ٹھہر نے اور ایک پنچ اور شام کے لئے دو دو ٹوسٹ ، نصف چھٹانک چاول چوتھا حصہ مرغی کا اور کچھ بے نمک کے پھلیاں اور ایک چھٹانک فی کس انگور لفافوں میں بند کر کے دیئے.ان سب کا بل فی کس ایک پونڈ بنایا - انا لله وانا اليه راجعون کنگ والے نے بھی اپنا بل پیش کیا اور وصول کیا مگر سفر میں تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ لک والے بھی بہت کچھ ہاتھ پھیر لیتے ہیں اور جیسا کہ ان سے اُمید کی جاتی ہے ہمدردی اور خیر خواہی سے کام نہیں کرتے بلکہ اپنا لحاظ اور رسوخ قائم رکھنے کے لئے قلیوں ، گاڑی بانوں اور ہوٹل والوں کے مفاد کو مقدم رکھتے ہیں اور خود بھی دوہرا ہاتھ مارتے ہیں.مسافروں سے براہ راست الگ وصولی کرتے ہیں اور ہوٹل والوں سے بھی کمیشن لیتے ہیں.کل جو کٹک والے نے ہمیں بتایا کہ اس گاڑی سے صرف سیکنڈ کلاس پسنجر جا سکتے ہیں اس کی وجہ بعد میں معلوم ہوئی کہ ان کو سیکنڈ کلاس ٹکٹوں میں کمیشن ملتا ہے ورنہ ایک صورت ایسی بھی ممکن تھی کہ اکثر حصہ سفر کا ہم لوگ تھرڈ میں طے کرتے اور تھوڑے سے حصہ کے لئے جہاں سے تھرڈ کلاس کٹ جاتی ہے ہم لوگ سیکنڈ کلاس ٹکٹ خرید لیتے مگر
۱۳۳ کٹک والوں نے یہ نہ بتایا اور گاڑی جس کے متعلق بتایا گیا تھا کہ پانی ملے گا نہ غسلخانہ و بیت الخلاء ہوگا.اس میں سے پانی بھی مل گیا اور ایک جگہ بیت الخلاء بھی موجود تھا.ہمیں محض اس وجہ سے ڈرایا گیا تھا کہ اس طرح پر ایک آدمی کم از کم دو دو بوتل سوڈا کی خریدے گا جس کی ادنیٰ قیمت سوار و پیہ ہو گی اور کنگ کو کمیشن مل جائے گا ورنہ گاڑی راستے میں ٹھہرتی بھی آئی اور بعض جگہ نصف گھنٹہ بھی ٹھہری اور پانی بھی ملتا رہا جس کی وجہ سے اور کوئی تکلیف نہ ہوئی.پندرہ گھنٹہ میں ٹھیک گاڑی برنڈزی سے روما پہنچی گاڑی البتہ بہت معمولی قسم کی بنی ہوئی ہے.ہم لوگ پنجاب کی گاڑی اور سرکار کو کوسا کرتے ہیں مگر کم از کم اٹلی میں گاڑیوں کا پنجاب سے بھی ادنیٰ حال ہے.فٹ لمبی جگہ میں ے چارسیکنڈ کلاس مسافروں کو بیٹھنا ہوتا ہے.سامان رکھنے کی کوئی جگہ نہیں سوائے اس کے کہ سر پر چھت کے قریب ایک چھوٹا سا بڑھاؤ تاگے سے بنا ہوا ہوتا ہے.سیٹ کے نیچے کوئی جگہ سامان کے واسطے نہیں.دوسیٹوں کے درمیان سیکنڈ کلاس میں بھی بمشکل اتنا فاصلہ ہے کہ زانو با ہم ٹکراتے ہیں.کوئی آئینه، بیت الخلاء یا غسلخانہ نہیں البتہ سر پر گاڑی کے ایک حصہ میں ایسا بنا ہے کہ جو ساری گاڑی میں چلا جاتا ہے.گدیلے بھی کوئی صاف نہیں.میلے کچیلے اور پرانے ہیں.سید نا حضرت اقدس فرسٹ کلاس میں تھے.ایک انگریز اور ایک اٹالین حضور کے ہم سفر تھے.انگریز کو حضور نے تبلیغ کی اور اٹالین نے حضور کی بہت کچھ خدمت کی.ادب احترام اور ایشیائی طریق سے مدارات کرتا رہا جس سے حضور بہت خوش ہوئے اور اندازہ کیا کہ اٹلی کے لوگ ہماری تبلیغ کے لئے زیادہ موزوں معلوم ہوتے ہیں.ان میں اخلاق ، اخلاص اور ایثار کا مادہ موجود ہے.شرافت میں بعض دوسری اقوام سے آگے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں.محبت ، ملنساری اور ہمدردی بھی ہے جس کا ہم نے بھی آج بازاروں میں تجربہ کیا ہے اور اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ بڑے بوڑھے اور جوان اور بچے ہم سے ہمدردی کرتے رہتے ہیں مگر برنڈ زی میں اس سے خلاف معلوم ہوا تھا.گاڑی میں چونکہ راستہ ہوتا ہے کسی عورت نے گزرتے ہوئے حضور کو دیکھ لیا ہوگا وہ دوڑی دوڑی اور کئی عورتوں کو لے آئی اور حضور کے کمرے میں آن گھسی.کچھ باتیں کرنا چاہتی تھیں کہ حضور کے رفیق سفرا ٹالین نے ان کو سمجھا کر واپس کر دیا اور اس طرح وہ چپکے سے چلی گئیں.یہ علاقہ بھی جس میں سے ہو کر ریل گزرتی آئی ہے نہایت ہی سرسبز اور شاداب ہے.انگور
۱۳۴ ، زیتون اور ناشپاتی وغیرہ پھل بکثرت موجود ہیں.باغات جا بجا نظر آتے ہیں اور کھیتی باڑی علمی طریقہ پر بہت ہی باقاعدہ کی جاتی ہے.سن ، مکی اور جوار کے کھیت کثرت سے دکھائی دیئے.سبزیاں بھی بہت ہیں.پہاڑی علاقہ ہے مگر نہایت ہی سرسبز اور شاداب اور خوش منظر پہاڑیوں سے نکل کر ایک وسیع میدان میں بہت ہی بڑا اور لمبا چوڑا شہر آباد ہے جو نہ معلوم کتنے میلوں میں پھیلا ہوا ہوگا.عمارات خصوصیت سے پُر رعب اور شاندار اور بہت بڑی بڑی ہیں.بازارصاف سیدھے اور با قاعدہ ہیں.موٹرمیں کثرت سے اور نہایت خوبصورت اور صاف ہیں.گھوڑا گاڑی (وکٹوریا ) بھی چلتی ہے.ٹرام بکثرت چلتی ہیں.عورت مرد اور بچے تک محنت کرتے ہیں.عمارتی صنعت اور سنگ تراشی کے فن کا کمال نظر آتا ہے.جابجائت اور خوبصورت سٹیجو کھڑے ہیں.سٹیشن سے اتر کر حضور نے کٹک کے آدمی سے ہوٹل وغیرہ کا پتہ لے کر فیصلہ کرنے کے بعد پلیٹ فارم پر ہی قریباً پندرہ منٹ تک سب خدام سمیت لمبی دعا کی اور دوران سفر میں یہ بھی فرما دیا تھا کہ یہ مقام چونکہ عیسائیت کا تخت گاہ ہے اور اس کے خلیفہ کا مقام ہے اس لئے خاص طور سے توجہ اور سوز سے دعائیں کی جائیں چنانچہ تمام دوستوں نے آٹھ دس میل دور سے ہی جب کہ شہر ر و ما نظر آنا شروع ہوا تھا دعائیں کرنی شروع کر دی تھیں اور یہ سلسلہ کچھ ایسی رقت ، تضرع اور اخلاص و یکسوئی سے جاری رہا کہ گویا دل سبھی کے پکھل کر آستانہ الہی پر جھک رہے ہوں.وہ بڑا تار جو دمشق کے حالات کے متعلق تھا آج حضور نے لنڈن بھیج کر ( بذریعہ ڈاک ) نیر صاحب کو ہدایت کرا بھیجی ہے کہ اس کو قادیان بذریعہ تار بھیج دیں.لنڈن سے ۵ آنہ فی لفظ لگے گا یہاں ۵ لیرا فی لفظ تھا اس وجہ سے خرچ بہت زیادہ ہوتا اور ساتھ ہی لکھا ہے کہ نیر صاحب لکھ دیں کہ حضرت اقدس کے حکم سے یہ تار بھیجتا ہوں.حضور نے کل بعد عصر کی سیر میں پانچ سیٹ کا ایک موٹر کرایہ پر لیا اور شہر نیز بازاروں کے علاوہ کلوسیم باتھس آف کیریکلا.رومیوں کے پرانے حمام ، ایک اور مقام مشہور کے کھنڈرات کٹا کومبز (Cata Combs) دیکھے اور لاسٹ ڈیز آف پمپائز (Last days of Pompous) کے تاریخی واقعات کو دہرا کر حضور نے خدام کو پُرانے حالات بتائے.کھنڈرات اصحاب الکھف کے وقت چونکہ رات ہو چکی تھی اور اندھیرا تھا اس وجہ سے حضور او پر او پر ہی سے واپس آگئے.
۱۳۵ حضرت اقدس نے دوران سیر میں لوگوں کے اشارات ، انگشت نمائی اور دیکھ دیکھ کر ہنسی اور استعجاب کو محسوس کر کے فرمایا کہ ہم لوگ ایک جماعت ہیں اور موٹر میں سوار ہیں واقع میں اگر کوئی اکیلا آدمی ہو تو اس کے لئے تو بہت ہی مشکل اور تکلیف کا باعث ہو.لوگ جو یورپ میں پہنچتے ہی اپنی ہیئت اور پوزیشن تبدیل کر لیتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہی لوگوں کی انگشت نمائی اور استعجاب یا مذاق ہو گا جس کو لوگ نا قابل برداشت سمجھ کر جھک جاتے ہیں.میاں رحمدین نے جو برنڈ زی کی عورتوں کے سلوک کو دیکھ کر رائے دی تھی کہ فورا کوٹ پتلون اور ہیٹ پہن لینا چاہیئے پھر کوئی دیکھے گا بھی نہیں وہ بالکل سچی اور فطری بات معلوم ہوتی ہے.ان ممالک میں اخراجات بہت زیادہ ہیں.کوئی بجٹ یہاں کام نہیں آ سکتا.اندازے غلط ہو جاتے ہیں اور حساب کتاب ٹھیک نہیں رہتا.ایک سٹیشن پر گاڑی کھڑی ہوئی ہمیں پانی کی ضرورت تھی.ایک اچھا بھلا آدمی محبت سے ہمیں دیکھتا تھا ہم نے اس کو پو چھا پانی کہاں ملے گا (صرف ایکوا یا آٹو ا کہا ) اس نے برتن مانگا ، لوٹا دیا گیا.وہ پانی لایا تو سہی پانی دے کر مزدوری کے اشارات کر نے لگا اور آخر اڑھائی پیسہ لے کر گیا.قلی کی مزدوری معمولی گھڑی یا بکس کی ۵ آنے ہے.ایک چھکڑ ا سامان کے واسطے سٹیشن سے دس منٹ کے راستہ پر سامان پہنچانے کو لیا تھا جس کے بمشکل ۲۵ لیرے مقرر ہوئے مگر ہمیں اس ہوٹل میں جگہ نہ ملی دوسرے میں لے گئے.بمشکل آدھ یا پون گھنٹہ خرچ ہوا ہو گا لہذا ۲۵ کی بجائے ۴۰ لیرے کا بل بن گیا یعنی ۶ روپے ۴ آنے.چوہدری علی محمد صاحب نے برنڈ زی کی ہوٹل خادمہ کو چائے کا آرڈر کیا.۲ پیالی چائے ۲ ٹوسٹ اور ۲ تولہ مکھن ایک روپیہ ۴ آ نے خرچ ہو گئے.ہمارے ہوٹل روما کے ٹرمینل (Terminal) میں ابھی چوہدری علی محمد صاحب نے ہاتھ (Bath) کا آرڈر کیا.خادمہ باتھ کو تیار کر کے آئی اور ۸ لیرے۴ عص کاربل رکھ دیا.چوہدری صاحب نے چاہا کہ کسی طرح سے یہ پیالہ مل جائے.عذر معذرت کی مگر وہ ہاتھ تیار کر چکی تھی ( صرف کچھ ٹھنڈا اور کچھ گرم پانی ایک کمرے میں رکھ کر دو تو لیے رکھ دیئے ) لہذا وہ پل اب واجب ہو گیا تھا وہ نہاتے یا نہ نہاتے.ایک گائیڈ جو لٹک کی معرفت لیا جائے دن بھر موٹر گاڑی میں ساتھ ساتھ رہے گا اور شام کو اس کا بل سو لیرے کا ہو گا جس کے معنی ہیں کہ پندرہ ساڑھے پندرہ روپے اس کا حق ہو گیا.حضور نے ہمارے قابو سے باہر ہوتے اخراجات کو دیکھ کر حکم دیا ہے کہ ممکن
۱۳۶ سے ممکن کم اخراجات کئے جائیں مگر یہاں اگر روکھی روٹی کھا کر کچھ بچایا جاتا ہے تو کوئی دوسری راہ ایسی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ساری کسر پوری کر جاتی ہے.پونڈ کے سوا بات ہی نہیں ہوتی.لیرے، قرش یا پیا سٹر کی تو اب یہاں کوئی حقیقت ہی نہیں.یورپ کے فرنشڈ ہوٹل ان کے گڑے اور پلنگ مثل ریشم کے لچکدار - گد میلے اور قالین میز کرسیاں اور آئینے سلیچیاں اور ٹوال الماریاں اور نیز روشنی اور گرم سرد پانی کے نظام، کھانے کے تکلفات اور پانی کی صراحیاں.مکانات کی سجاوٹ اور پاخانوں تک کی صفائی وغیرہ میرے جیسے آدمی کے لئے تو کم از کم صحابہ رضوان اللہ علیھم کی فتوحات کے زمانوں کی یاد دلاتے رہتے ہیں.شاہی رومال میں حضرت ابوھریرہ کا تھوکنا یا د آ جاتا ہے.میرے ساتھ تو یقیناً سید نافضل عمر اس صحابی کوسونے کے کڑے پہنانے والا معاملہ فرمارہے ہیں.خدا کرے کہ روحانی فتوحات اور حقیقی غلبہ اسلام کا زمانہ بھی ہمیں دیکھنا نصیب ہو اور وہ وقت بھی ہم دیکھیں کہ جب یہ لوگ با این ساز وسامان خدائے واحد کے بندے بن کر اسی کے دروازے پر جھکیں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک کی غلامی کے جوئے کو اپنے کندھوں پر دل سے اُٹھا ئیں اور حضرت احمد کی صداقت ان پر روز روشن کی طرح کھل جائے.یہ خدا کے ہوں اور خدا ان کا ہو جائے آمین ثم آمین.۱۸ / اگست ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز کے بعد سے ہوٹل کی تبدیلی کے انتظامات اور سامان کی نقل و حرکت میں مصروف ہیں.کنگ کے آدمی کو پکڑا کہ تم نے دھوکا کیا کل کہا کہ کھانا پکانے کی اجازت ہو گی مگر ان لوگوں نے پکانے نہ دیا.آخر معلوم ہوا کہ ہوٹل کی عورتوں نے بدعہدی کی.اقرار کر کے پھر انکار کیا.آخر آج ان کا ہوٹل چھوڑ دیا گیا.۱۰ بجے چوہدری فتح محمد صاحب اور عرفانی صاحب بھی تشریف لے آئے اور اس طرح سے پھر خدا کے فضل سے بچھڑے مل کر قافلہ پورا ہو گیا ہے.ان کی کہانی بھی عجیب ہے.فضل برٹش نے حیفا میں ان کی ہر طرح سے امداد کی اور ریلوے والوں کو ہر ممکن آرام پہنچانے کا حکم دیا چنانچہ حیفا سے غازہ تک وہ فرسٹ کلاس میں سفر کر کے آئے حالانکہ ٹکٹ ان کا تھرڈ کلاس تھا.دو ڈی ، ٹی ایس (D.T.S) ان کی خدمت کے لئے متعین کئے گئے.ہر سٹیشن سے ان کی خبر گیری کے ٹیلیفون ہوتے تھے.غازہ سے پسنجر ٹرین کی بجائے گڈز ٹرین ہو گئی اس میں بھی گارڈ کے بریک میں جگہ دی گئی.
۱۳۷ گارڈ نے اپنا کمبل وغیرہ بچھا کر ان کو آرام پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی.وہی روٹی ان کے آگے رکھی اور گاڑی اس تیزی سے چلائی کہ اگر وہ اسی رفتار سے چلی جاتی تو 4 بجے صبح کے وہ قطرہ پہنچ جاتے اور ے بجے پورٹ سعید پہنچ کر وہ ہمارے ساتھ ہی جہاز میں سوار ہو جاتے مگر اتفاقاً انجن بگڑ گیا اور ۴ گھنٹہ تک گاڑی رکی رہی آخر نیا انجن آیا اور گاڑی کو لے کر روانہ ہوا اور اس طرح سے گاڑی بجائے ۶ کے ۱۲ بجے قنطرہ پہنچی جہاں موٹر رات سے ان کا انتظار کر رہی تھی.قنطرہ سے چوہدری محمد شریف صاحب کا سامان جو کک کے قلیوں نے رکھ لیا تھا لے کر وہ پورٹ سعید پہنچے.اس موٹر کا بل 9 پونڈادا کیا گیا.اڑھائی پونڈ ان دونوں بزرگوں کے واسطے لد کے اسٹیشن ماسٹر کو حضرت نے دیئے تھے وہ بھی اور ڈیڑھ پونڈ برٹش فضل نے دیا وہ بھی اور پچیس پونڈ کٹک سے پورٹ سعید سے لے کر روانہ ہوئے کل انتیس یا تیس پونڈ اخراجات اس پیچھے رہ جانے کی وجہ سے زائد بر داشت کر نے پڑے اور تکلیف اور رنج جدا.چوہدری صاحب اور عرفانی صاحب پورٹ سعید ایک رات ٹھہر کر اسکندریہ گاڑی کے ذریعہ سے گئے اور وہاں ایک رات ٹھہر کر جمعہ کے روز اسی کمپنی کے ایک اچھے جہاز میں سوار ہوئے جس کا کرایہ ان کو الگ ادا کرنا پڑا کیونکہ پہلے ٹکٹ ان کے ہمارے ساتھ تھے کسی کو دیئے نہ گئے تھے.دونوں تھرڈ کلاس میں سوار ہو کر آئے اور اسکندریہ میں ایک مصری ڈاکٹر کو تبلیغ کی جس نے سلسلہ کا لٹریچر مانگا اور بہت اخلاص سے پیش آیا اور اظہار عقیدت کیا اور کہا کہ میرے ساتھ بہت سے لوگ ہیں ہم اگر سمجھ میں آ گیا تو سب شامل سلسلہ ہوں گے.جہاز جس میں یہ دونوں بزرگ تشریف لائے بہت اچھا اور تیز رو تھا.۱۷ یا ۱۸ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آیا حالانکہ ہمارا جہاز صرف ۱۰ یا امیل کی رفتار سے چلتا تھا اس طرح خدا نے تین دن کے فرق کو پورا کر کے صرف ایک دن کے فرق سے ہمارے ساتھیوں کو ہم تک پہنچا دیا.عرفانی صاحب بتاتے ہیں.(اور اس امر کی مفصل رپورٹ وہ خود لکھیں گے یا لکھی ہو گی ) کہ پچھلی مرتبہ حیفا میں حضرت میاں صاحب اور مولوی عبدالرحیم صاحب در دشوقی آفندی کے باپ کو نہ ملے تھے بلکہ چا کو ملے تھے.اب کے عرفانی صاحب اور چوہدری صاحب اس کے باپ کو ملے اور تمام حالات اسی طرح سے معلوم کئے جس طرح سے محمد علی غشن اعظم سے معلوم کئے گئے تھے تو
۱۳۸ معلوم ہوا کہ ان کی بھی نہ کوئی حیثیت ہے نہ پوزیشن.کسمپرس گمنام آدمی ہیں.یہ بھی انہوں نے کہا کہ ان علاقہ جات میں ہمارے متبعین بہت کم ہیں.شائد ۲۰۰ تک ہوں گے مگر ہندوستان میں بہت ہیں.جس کے جواب میں ان کو بتایا گیا کہ ہندوستان کا حال ہم خوب جانتے ہیں اور یہاں کا آپ نے بتا دیا ہے.نماز کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ مکہ کی طرف منہ کر کے پڑھتے ہیں.جب ذراز ور دے کر دہرایا گیا تو کہ دیا کہ کبھی عکہ کی طرف بھی منہ کر لیتے ہیں وغیرہ وغیرہ.چوہدری صاحب نے بتایا اور اقرار کیا کہ پیچھے رہ جانے میں واقعی ہمارا اپنا قصور ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا.حضور نے رات کھانا اچھی طرح سے نوش فرمایا اور آج دو پہر کا کھانا بھی اچھی طرح سے نوش فرمایا اور فرمایا کہ جی چاہتا ہے کہ آٹھ دن کا کھانا اکٹھا ہی کھالیا جائے.( بروایت چوہدری علی محمد صاحب) ۲۰ کی شام کو روما سے لنڈن کو روانگی کا ارادہ ہے یہاں سے سیدھے لنڈن تشریف لے جائیں گے.سوئٹزر لینڈ راستہ میں نہ آوے گا.پیرس کو سیدھی گاڑی جاتی ہے.۲۰ ر کی شام کو پونے ۱۰ بجے گاڑی روانہ ہو کر ساڑھے تین بجے بعد دو پہر جمعہ کے دن انشاء اللہ ۲۲ / اگست کو لنڈن پہنچے گی.اس سفر میں بھی بعض جگہ سیکنڈ اور تھرڈ کا جھگڑا کرنا پڑے گا.یہاں سے تھرڈ لگے گی.راستہ میں تھر ڈکٹ جائے گی پھر کسی تھرڈ کا تھر و (through) ٹکٹ مل جائے گا پھر دو جگہ بدل کر گاڑی سیدھی لنڈن جائے گی رود بارانگلستان جہاز کے ذریعہ سے پار کرنا ہوگا.خان صاحب فرماتے ہیں کہ حضور نے کھانے کے بعد فرمایا کہ مکھن خراب تھا کیونکہ کھانے کے بعد متلی شروع ہو گئی.آج تین بجے سے چار بجے بعد عصر تک حضور برٹش فضل کی ملاقات کے واسطے تشریف لے جائیں گے.تفصیل ملاقات انشاء اللہ پھر عرض کروں گا اگر کچھ معلوم ہوا تو.حیفا میں شوقی آفندی کے باپ کے سٹیشن پر آنے کے متعلق پہلے حیفا والے خط میں ذکر کر چکا ہوں کہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے فرمایا تھا کہ دو شخص ملاقات کو سٹیشن پر آئے تھے ان میں سے ایک شوقی آفندی کا باپ تھا مگر آج کے خط میں اوپر لکھا گیا ہے بروایت عرفانی صاحب کہ شوقی آفندی کا باپ ملاقات کو نہ آیا تھا بلکہ چچا آیا تھا.مولوی عبدالرحیم صاحب در دفرماتے ہیں کہ چچا اور باپ دونوں تھے.اب باپ کے آنے کو چھپایا جاتا ہے کہ اس کی کسرشان نہ ہو.ایک پستہ قد آدمی تھا
۱۳۹ اور دوسرا دراز قد.دونوں کا حلیہ مولوی صاحب جُد اجد ابتاتے ہیں مگر چونکہ اس وقت ان سے ملنے کا وقت بالکل نہ تھا گاڑی جانے والی تھی گفتگو کچھ نہ ہوئی اور نہ پورا حلیہ مولوی صاحب کو یاد ہے.عرفانی صاحب کے اس سوال پر کہ اچھا بتائیں کہ اس کے باپ کی ڈاڑھی کیسی تھی ؟ مولوی صاحب نے فرمایا ہے کہ میں اس کی طرف پوری توجہ ہی نہ دے سکا تھا.ہوٹل جو ہم نے آج تبدیل کیا ہے.اس کا نام نو دا روما (Nova Roma) ہے.۷،۶ منزل بلند ہے.سادگی اور ار زانی کے ساتھ صفائی کا بھی انتظام ہے.اس میں پونے دوسو کے قریب کمرے ہیں اور بیڈ بہت زیادہ ہیں کیونکہ بعض کمروں میں دو اور بعض میں تین اور بعض میں صرف ایک ایک ہی بیڈ ہے.خلاصه مکالمه ما بین عرفانی صاحب و مرز امحسن داماد عبد الیها مورخه ۱۲ / اگست ۱۹۲۴ء بمقام حیفا بر مکان شوقی آفندی منقول از شیخ صاحب عرفانی ) (س) کیا شریعت اسلامیہ کو آپ منسوخ سمجھتے ہیں؟ ( ج ) ہاں تغیر و تبدل کے قائل ہیں.(س) نماز کتنی مرتبہ پڑھتے ہیں؟ ( ج ) تین مرتبہ - (س) کس قبلہ کی طرف نماز ادا کرتے ہو؟ ( ج ) مکہ کی طرف منہ کرتے ہیں.(س) عکہ کی طرف تو نماز نہیں پڑھتے ؟ ( ج ) کبھی گزارتے ہیں کبھی نہیں.( س ) پھر تو عکہ قبلہ نہ رہا؟ ( ج ) نہیں.(س) شوقی آفندی کی غیر حاضری میں کوئی ان کا قائمقام ہوتا ہے؟
۱۴۰ ( ج ) کوئی نہیں.( س ) کوئی ہے کہ خطوط کا جواب دیتا ہو؟ ( ج ) کوئی نہیں خود شوقی آفندی ہی جواب دیتے ہیں.(س) شوقی آفندی اور مرزا محمد علی میں کیا فرق ہے؟ ( ج ) کوئی فرق نہیں ہے.مرز امحمد علی نے اختلاف کیا اور اطاعت نہیں کی.(س) مرزا محمد علی کے مریدین کس قدر ہیں؟ ( ج ) پانچه شش نفر وبس - (س) مرزا شوقی آفندی کے متبعین کس قدر ہیں؟ (ج)x ڈاک کا وقت ہے حضرت اقدس ڈاک روانہ کر رہے ہیں اس وجہ سے اس جگہ بند کرتا ہوں.عبد الرحمن قادیانی ۲۴ را گست ۱۹۲۴ء
۱۴۱ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خط نمبر ۱۰، از مقام روما - اٹلی: مورخه ۱۹ / اگست ۱۹۲۴ء السلام علیکم ورحمة الله وبركاته کل ایک حصہ رپورٹ نامکمل میں نے پوسٹ کر دی جس میں مکالمہ بہائیہ نا تمام رہ گیا تھا.وجہ یہ ہوئی کہ ساڑھے ۴ بجے کے قریب سید نا حضرت اقدس فضل عمر کا حکم پہنچا کہ سب لوگ اپنی جگہ پر رہیں کوئی ادھر اُدھر نہ جائے ہم آتے ہیں چنانچہ جلد ہی حضور مع خان صاحب مکرم ڈاکٹر صاحب تشریف لائے اور خدام کی حسب ذیل تقسیم فرمائی.(1) چوہدری فتح محمد خان صاحب، عرفانی صاحب اور مولوی عبد الرحیم صاحب درد کو حکم دیا کہ تینوں صاحب ایڈیٹر ان اخبارات سے مل کر ان کو حالات سلسلہ بتا ئیں.(۲) حضرت میاں شریف احمد صاحب اور چوہدری محمد شریف صاحب کو فرمایا کہ سفر میں شروع سے آج تک جس قدر فوٹو حضرت میاں صاحب نے لئے ہیں ان کو ڈویلپ کرا کے دیکھیں تا کہ معلوم ہو سکے کہ وہ ٹھیک آئے بھی ہیں یا نہیں ؟ چنانچہ حضرت میاں صاحب تصاویر کے نیگیٹو کسی فوٹوگرافر کو ڈویلپ کرنے کو دے کر جلد ہی واپس تشریف لے آئے.اور اس طرح ایک قافلہ حضرت اقدس کے ہمرکاب حافظ صاحب ، خان صاحب ، حضرت میاں شریف احمد صاحب اور چوہدری محمد شریف صاحب پر مشتمل گھ پر مشتمل گھوڑا گاڑی کے ذریعہ روما شہر کی عمومی حالت کا معائنہ اور شہریوں نیز ملکی خواص و عوام کے حالات کے مطالعہ کی غرض سے نکلا.باقی خدام کو یہ حکم ملا کہ وہ ٹرام کے ذریعہ سے ایک معروف مقررہ مقام پر پہنچ کر حضور کا انتظار کریں چنانچہ حضور شہر کے مختلف حصوں اور علاقوں میں سے گزرتے ہوئے بازاروں کی حالت دیکھتے بعض بڑی دکانات میں تشریف لے جا کر برائے نام کچھ معمولی رومال ریشمی اور ایک قسم کی چوڑیاں وغیرہ جو اس جگہ کی خاص صنعت کی مشہور ہیں خرید فرمائیں اور اس طرح تاجروں سے گفتگو کرتے اور ان کے حالات کا مطالعہ فرماتے رہے اور اس تعلق میں تبلیغ کا موقع مہیا کیا جاتا رہا.
۱۴۲ بقیہ مکالمہ بہائیہ.( جو کل کے خط میں رہ گیا تھا ) (س) مرزا شوقی آفندی کے متبعین کس قدر ہیں؟ (ج) اس جگہ عکہ حیفا اور کل فلسطین میں دوصد نفر ہوں گے.(س) کیا پنجہ ، عکہ کی اراضی میں داخل ہے؟ (ج) صرف نیم ساعت کا راستہ ہے.(س) شوقی آفندی کے لئے کوئی وظیفہ حکومت کی طرف سے مقرر ہے؟ ( ج ) کچھ نہیں.(س) ملت کی طرف سے کچھ ملتا ہے؟ (ج) امر بہائی کے اخراجات ملت دیتی ہے.(س) امریکہ میں کیا تعداد ہے؟ ( فقط ) ( ج ) معلوم نہیں.کل جو وفد ایڈیٹر ان اخبارات کے پاس گیا تھا وہ حضرت کی واپسی کے بعد حضرت اقدس کے حضور پہنچا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت کامیاب واپس آیا.شیخ صاحب قبلہ عرفانی بحیثیت ایک ایڈیٹر اخبار سب سے پہلے روما کے بڑے اخبار لاٹر پیونا (Latribuna) جس کی روزانہ اشاعت سوا لاکھ ہے اور جس کے تین ایڈیشن خاص شہر روما کے لئے اور دس ایڈیشن مختلف دیگر شہروں کے واسطے نکلتے ہیں اور جس کا ایک ہفتہ وار مصوّر ایڈیشن جُدا ہے اور ایک ماہانہ مصوّ رایڈیشن الگ ہے کے ایڈیٹر کے پاس گئے اور اپنی ہندوستانی اخبار کی ایڈیٹری کا انٹر و ڈیوس خود بخودہی کرا کر اس سے ایسے طریق سے گفتگو کی کہ وہ ایک باخبر ایڈیٹر ہونے کی حیثیت میں عرفانی صاحب کا ممنون و مشکور ہوا اور درخواست کی کہ اُسی کو سب سے پہلے حضرت اقدس سے انٹرویو کرنے کا شرف دلایا جاوے اور کہ اس سے پہلے کسی دوسرے اخبار کو یہ عزت نہ بخشی جاوے تا کہ سب سے پہلے اسی کے اخبار میں سلسلہ اور حضرت اقدس کے حالات شائع ہوں اور بمنت درخواست کی کہ اسے آج ہی کسی وقت خواہ وہ آدھی رات ہی کیوں نہ ہو موقع دیا جاوے کہ وہ باریاب ہو سکے.اس نے اس وفد کے فوٹو بھی اصرار کر کے لے لئے کیونکہ یہ بزرگ تنہا فوٹو نہ دینا چاہتے
۱۴۳ تھے مگر اس نے اس خیال سے کہ آپ تینوں پہلے میرے دفتر میں آئے ہیں آپ کا فوٹو ا لگ لیتا ہوں.حضرت کا مع خدام کل لے کر انشاء اللہ کل ہی کی اشاعت اول میں شائع کرنے کی کوشش کروں گا.فوٹو اخبار کی مصوّرا شاعت اول میں شائع کرے گا اور مضمون اور حالات روزانہ اخبار میں.یہ رپورٹ حضرت اقدس کے حضور سوا نو بجے پیش ہوئی اور اس کی درخواست بھی ساتھ ہی پیش کی گئی.حضرت اقدس نے ساڑھے دس بجے کا وقت مقرر فر مایا اور شیخ صاحب نے ٹیلیفون ہی میں اس کو اطلاع کر دی جس کا جواب اس کی طرف سے شکریہ کے ساتھ مل گیا.حضور کے حکم سے اسی وقت ہوٹل کے نیچے کے درجہ کا بڑا سیلون یا ڈرائینگ روم ملاقات کی غرض سے فارغ کرالیا گیا.حضرت اقدس نے کھانا کھایا.خدام کو حکم دیا کہ وہ بھی کھانا کھا کر جلدی پوری یونی فارم میں حاضر ہوں چنانچہ سب خدام حاضر ہوئے اور ٹھیک سوا دس بجے اسٹنٹ ایڈیٹر ہوٹل کے دروازہ پر پہنچا جہاں مکرم شیخ صاحب عرفانی اس کو ریسیو (receive) کرنے کے واسطے کھڑے تھے اس کو لے کر اندر آئے.حضرت اقدس کی خدمت میں اطلاع کی گئی.حضور تشریف لائے اور حلقہ خدام میں تشریف فرما ہوئے اور سلسلہ کلام اس اسٹنٹ ایڈیٹر سے شروع ہوا.انگریزی زبان میں حضرت خود کلام فرماتے تھے کوئی ترجمان درمیان میں نہ تھا.اس اسٹنٹ ایڈیٹر کے ساتھ ساڑھے دس بجے سے مکالمہ شروع ہو کر بارہ بجے کے قریب تک جاری رہا پانچ منٹ صرف کم تھے.گویا قریب ڈیڑھ گھنٹہ مکالمہ جاری رہا.(1) میں پولیٹیکل اور مذہبی تحریکوں سے زیادہ دلچسپی رکھتا ہوں.ہندوستان میں ان ہر دو لحاظ سے اتحاد کی کیا صورت ہے.جواب میں حضور نے بتایا کہ ہندوستان میں موجودہ صورت میں اتحاد مشکل ہے کیونکہ مختلف مذاہب ہیں وغیرہ وغیرہ.(۲) مشکل کیا ہے.اس کے جواب میں حضور نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ ہندومسلمانوں کے لیڈروں سے متحد نہیں اور ایک کو دوسرے پر پورا اعتماد نہیں ہے وغیرہ.(۳) کیا تمام مسلمان متحد ہیں؟ حضور نے مختلف فرق سُنن کا ذکر فرما کر جہاں مذہبی اختلاف کا ذکر فرمایا وہاں یہ بھی فرمایا کہ سیاسی مسائل میں بھی اختلاف ہے.مثال کے طور پر مسئلہ خلافت کو لے
۱۴۴ کر شیعہ، سنی ، وہابی اور احمدیوں کے خیالات میں اختلاف کے متعلق مفصل بیان فرمایا اور آخر میں یہ بھی بتایا کہ میری جماعت مجھے خلیفہ یقین کرتی ہے.(۴) کیا یہ اختلاف متعلق خلافت اعتقادی امر ہے؟ اس کے جواب میں حضور نے ہاں کا لفظ بیان فرمایا اور خلافت سے مذہب کا امام مراد بتائی اور اس کی تفاصیل کے لئے اپنے پمفلٹ کا ذکر فرمایا جو حضور نے خلافت ترکیہ کے لئے لکھا ہے.(۵) یوئیر ہولی نس (Your Holiness) پولیٹیکل تحریک نہیں رکھتے ؟ جواب میں حضور نے فرما یا نہیں.(1) مسلمانوں میں کتنے فرقے ہیں ؟ جواب پانچ بڑے بڑے فرقے ہیں اور اس ضمن میں اس کے سوال پر نیچریوں کے عقائد کا بھی مفصل ذکر فر مایا.(۷) کیا نیچری مانتے ہیں کہ قرآن تبدیل ہو گیا ؟ جواب میں حضور نے فرمایا نہیں مگر وہ الہام کی کیفیت میں اختلاف کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ الہام الفاظ میں نہیں ہوتا.(۸) آپ کا فرقہ کیا مانتا ہے؟ ہم یقین رکھتے ہیں کہ قرآن کے الفاظ بھی خدا کی طرف سے ہیں اور نیچری فرشتوں کو بھی نہیں مانتے بلکہ انسانی قومی اور طاقتوں ہی کو فرشتے مانتے ہیں.(۹) آپ کی تحریک کا کیا نام ہے ؟ حضور نے فرمایا احمدی اور اس کا بہت تفصیل سے ذکر فر مایا.(۱۰) کیا آپ کے مبلغین صرف ہندوستان میں ہیں ؟ حضور نے تمام ان ممالک کے نام بتائے جہاں جہاں احمدی جماعت پھیلی ہوئی ہے اور کسی قدر کام کی وسعت اور اس کے طریق کار کا بھی ذکر فرمایا.(۱۱) کیا حضرت احمد علیہ السلام کا وہی مقام و درجہ تھا جو دوسرے انبیاء کا تھا ؟ جواب بحیثیت نبی ہونے کے ان میں اور دوسرے انبیاء میں کوئی فرق نہیں ( تفصیل ) (۱۲) کیا آپ کا کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کی بجائے کوئی ہے؟ جواب میں فرمایا.نہیں.(۱۳) کیا حضرت احمد نے مذہب میں کوئی تبدیلی یا اصلاح کی ؟ اگر کی تو کیا وہ اصولی تبدیلی
۱۴۵ ہے.حضور نے فرمایا کہ اسلام میں اصولی تبدیلی نہیں ہو سکتی اور نہ قیامت تک ہو گی.اصلاح ہوتی رہی اور ہوتی رہے گی جو امتدادزمانہ کی وجہ سے ضروری ہو جایا کرتی ہے.(۱۴) کیا آپ کا دوسرے مسلمانوں سے سوشل نقطہ خیال کے لحاظ سے کوئی فرق ہے ؟ جواب میں حضور نے خصوصیت سے عورتوں کی تعلیم ، ان کے حقوق اور بچوں کی تعلیم وتربیت کے متعلق تصریح فرمائی اور اپنا نقطہ نظر ایسے رنگ میں بیان فرمایا کہ اس پر ایک خاص اثر تھا.(۱۵) آپ نے کہا ہے کہ آپ کے خیالات عورتوں کی تعلیم وغیرہ میں دوسرے فرقہ کے لوگوں سے مختلف ہیں.کیا آپ کے عقاید میں عورتوں کو حقیر نہیں سمجھا گیا ؟ حضرت اقدس نے فرمایا نہیں بلکہ قرآن کریم دونوں کو مساوات کے حقوق دیتا ہے.مساوات کے احکام دیتا ہے اور مساوات کے ہی انعامات کا وعدہ کرتا ہے.(۱۶) کیا تعد دازدواج آپ کے مذہب میں جائز ہے؟ حضور نے فرمایا ہاں.(۱۷) کیا چار تک؟ فرمایا ہاں اور اسی کے ضمن میں حضور نے مسئلہ غلامی پر بھی تقریر فرما کر اس کو اچھی طرح سے سمجھا دیا کہ اسلام کس قسم کے غلام بنانے کی اجازت دیتا ہے یعنی صرف وار پر زنرز (War Prisoners) اور پھر اس سلسلہ میں اس سے بڑھ کر آزادی کا ذکر وغیرہ حضور نے مفصل بیان فرمایا اور غلاموں کے ساتھ سلوک کا ذکر واقعات اور تاریخی مثالوں سے سمجھایا.(۱۸) پردہ کے متعلق سوال کیا ؟ حضور نے اس کی فلاسفی اور اصل تعلیم اور حکم بوضاحت بتایا اور بتایا کہ مرد اور عورتوں کے اختلاط سے جو بدیاں پھیلتی ہیں یا خطرات ہوتے ہیں ان کے روکنے اور بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پردہ کا حکم دیا ہے اور اس کی حکمت کو اس طرح واضح فرمایا کہ جس سے حقارت کے خیال کا رڈ ہوتا ہے اور نتائج بد کے روکنے کا بہترین طریق نظر آتا ہے.(۱۹) کیا عورتیں کوئی کام بھی کر سکتی ہیں ؟ جواب میں فرمایا اس صورت میں اسلام ان کو اور بھی آزادی اور سہولت دیتا ہے کہ وہ اپنا منہ بھی ایک حد تک نگا کر سکتی ہیں.کھتی باڑی کے کاموں میں اور جنگوں میں عورتوں کی امداد اور کام کی تفصیل کا ذکر فرمایا.(۲۰) کیا اسلام میں قانونی لحاظ سے مرد عورت کے حقوق مساوی ہیں؟ اور کیا مرنے کے بعد ان
۱۴۶ کے ثواب و عذاب میں حقوق مساوی ہیں؟ حضرت نے جواب میں فرمایا کہ مساوی ہیں بلکہ یہ بھی فرمایا کہ اگر عورت معمولی متقی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کے شوہر کے درجہ کے مطابق اعلیٰ درجہ دے گا یعنی مساوات سے بڑھ کر ایک رعایت اور نرمی عطا فرمائی ہے.(۲۱) دوزخ کی ابدیت یا کیفیت کا سوال تھا.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ ہمارے عقیدہ میں جہنم ابدی نہیں بلکہ علاج کے طور پر ایک ہسپتال کی مانند مقام ہے جہاں سے علاج ہو کر شفا ہونے کے بعد نکال لیا جاوے گا اور اس کے متعلق سید نا احمد علیہ الصلوۃ والسلام کی تحقیق کا مفصل ذکر فرمایا جوحضور نے صحیح اسلامی تعلیم اور قرآن کریم ہی سے اخذ فرما کر دنیا کے سامنے پیش فرمائی ہے.(۲۲) بہشت کی نعمتوں کے متعلق حضور کا کیا خیال ہے ؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہم ان کو روحانی سمجھتے ہیں مگر ایسا نہیں جیسا کہ نصرانی سمجھتے ہیں.ہم مانتے ہیں کہ جسم بھی ہو گا مگر وہ جسم بھی روحانی ہوگا اور خواب کی مثال دے کر تشریح فرمائی اور انسانی اعمال سے ان نعماء کی مماثلت کا ذکر فرمایا جو دنیا میں انسان کرتا ہے.بہت لطیف رنگ میں استدلال فرما کر سمجھایا.(۲۳) آپ کے اس سفر کی غرض کیا ہے ؟ حضور نے مفصل فرمایا کہ ہم ایک تبلیغی جماعت ہیں.تبلیغ کا نظام قائم کرنا اصل غرض ہے.باقی امور ضمنی اور بطور فرع ہیں.(۲۴) کیا آپ وہاں کے باشندوں کو مسلمان کرتے ہیں؟ کیا مذہب اور پولیٹیکس کا جھگڑا تو نہیں ہوتا ؟ فرمایا ہاں اور اس کے جواب میں حضور نے مفصل ذکر فرمایا اور حضرت مسیح موعود کا اصول کھول کر بیان فرمایا کہ ہم جس حکومت کے ماتحت ہوں ہم اس حکومت کی اطاعت کریں کیونکہ امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ رعایا قائم شدہ گورنمنٹ کے قانون کی پابندی نہ کرے اور اس سے اتفاق نہ کرے.بعض حالات میں رعا یا گورنمنٹ سے اختلاف کر سکتی ہے مگر امن عامہ کسی صورت میں نہیں تو ڑسکتی.(۲۵) آپ پرا پیگینڈا کیوں کر کرتے ہیں؟ کتب اخبارات اور مشنریوں کے ذریعہ سے.(۲۶) کرائیسٹ (Christ) کے متعلق کیا خیال ہے ؟ جواب ہم ان کو خدا کا نبی یقین کرتے ہیں جو یہودیوں کی اصلاح اور احکام تو رات کو قائم کرنے آئے تھے کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آئے
تھے.۱۴۷ (۲۷) کیا آپ اس مکالمہ کی اشاعت کی اجازت دیتے ہیں ؟ جواب میں حضور نے فرمایا ہاں.سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے سیدنا حضرت اقدس نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی متعلق عیسائی مذہب کہ تین سو سال میں عیسائیت احمدیت میں تبدیل ہو جائے گی کا مفصل ذکر فر ما یا اور بتایا کہ یہ تمام پیشگوئیاں ایسے وقت میں کی گئی تھیں جب کہ حضور بالکل یکہ و تنہا تھے اور غیر تو در کنار اپنے خاندان کے لوگ بھی حضور کو نہ جانتے تھے بلکہ خود ان کی بستی کا نام تک کوئی نہ جانتا تھا اور سامان موافق ہونے کی بجائے تمام کے تمام ناموافق تھے.(۲۸) سوال وہ کہاں پیدا ہوئے ؟ قادیان پنجاب میں.(۲۹) کیا آپ نے اٹلی میں کو ئی مشنری بھیجا ہے ؟ جواب ! ابھی نہیں مگر میں نے اٹالین کو بڑی دلچسپی لیتے پایا ہے اور میرا ارادہ ہے کہ جلد ہی دوسرے ممالک کی طرح اٹلی میں بھی اپنا مشن قائم کروں تا آسمانی پیغام خدا کی مخلوق کے اس حصہ کو بھی جلد پہنچایا جا سکے.(۳۰) کلرجی شپ کے متعلق کچھ سوال تھا.جواب میں حضرت اقدس نے فرمایا.ہمارے ہاں ہر شخص کو حق ہے کہ وہ اشاعت اسلام کرے.کلر جی شپ اسلام میں نہیں ہے.ہمارے ہاں ہر عالم شخص امام نماز ہوسکتا ہے اور خطبہ دے سکتا ہے.(۳۱) ایسے امام کو کون منتخب کرتا ہے؟ نماز کے وقت لوگ اس کو کھڑا کر سکتے ہیں خاص طریقہ انتخاب کا نصاری کی طرح ہم میں نہیں ہے (۳۲) مگر کوئی مرکزی طاقت تو ہونی چاہیئے ؟ ہاں اسلام میں وہ طاقت مرکز یہ خلیفہ وقت کا وجود ہے.(۳۳) کیا آپ کا کوئی مدرسہ الہیات کا قائم ہے ؟ حضرت اقدس نے فرمایا ہاں اور حافظ صاحب کو پیش کیا کہ یہ اس مدرسہ کے ناظم ہیں.(۳۴) سبز پگڑی یا پگڑی کے متعلق سوال تھا.کیا یہ مذہبی لباس ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ یہ ایک ایسالباس ہے جو ہم نے اپنے مشنریوں کے واسطے مقرر کیا ہے ہم لوگ ہیٹ نہیں پہنتے.
۱۴۸ (۳۵) میں نے اس واسطے پوچھا تھا کہ چین میں مسلمان کا ایک نشان ہوتا ہے.میں سمجھا تھا کہ شاید یہ بھی کوئی نشان ہو.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہما را نشان خدا کی عبادت.نسل انسان کی خدمت اور وہ نیک اعمال ہیں جو انسان کے چہرہ سے اس کے ایمان کی شہادت دیتے ہیں اور جن کا تعلق خدا سے لے کر اس کی ادنی ترین مخلوق تک سے ہوتا ہے اور بہت مفصل بیان فرمایا.- (۳۶) آپ کب تک یہاں ٹھہریں گے ؟ جواب میں فرمایا دو دن اور.میں لندن جا رہا ہوں مگر یہاں مسولینی ( وزیر اعظم اٹلی ) سے بھی ملنا چاہتا ہوں.(۳۷) کیا آپ پوپ سے بھی ملیں گے ؟ جواب ! سنا ہے کہ اس کی ملاقات دو ہفتہ تک بند ہے کیونکہ اس کے مکان کی مرمت ہو رہی ہے.البتہ کل گیارہ بجے مسولینی سے ملوں گا.(۳۸) پوپ سے ملتے وقت آپ اس کو کیا سمجھتے ؟ حضور نے فرمایا کہ ایک جماعت کا سردار ہونے کی وجہ سے میں اس کو معزز سمجھتا ہوں.میں اس کے سامنے اسلام پیش کرتا کیونکہ سب سے بڑا تحفہ یہی ہے جو انسان کی دینوی اور اُخروی بھلائی کا موجب ہو سکتا ہے اور حقیقی خیر خواہی اسی میں ہے جو ایک انسان کسی سے کر سکتا ہے.اسی سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ وہ نشانات جو پہلے نبیوں کو دیئے جاتے تھے اب بھی ان کے سچے متبعین کو دیئے جاتے ہیں اور خدا کی رضا اور معیت کا ثبوت ہوتے ہیں.میری جماعت میں ہزاروں ہیں کہ خدا سے کلام پاتے ہیں اور خود مجھ سے با رہا خدا نے کلام کیا.ہم کسی شخصیت کو بغیر نشانات کے قبول نہیں کرتے کیونکہ خدا کا تعلق کلام اور زبر دست نشان کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا.(۳۹) کیا آپ بھی خدا سے کلام پاتے ہیں ؟ فرمایا ہاں اور تفصیل اس کی بیان فرمائی اور بتایا کہ میں الفاظ خدا کے سنتا ہوں.(۴۰) کیا اس میں بانی سلسلہ کی خصوصیت ہے یا یہ سلسلہ جاری بھی رہتا ہے؟ جواب میں حضرت اقدس نے فرمایا ہر شخص بقدر مراتب حصہ پا سکتا ہے جس کے دل میں خدا کی محبت ہوتی کہ اگر انسان ان پڑھ بھی ہو تو وہ محبت کا ولولہ رکھتے ہوئے حصہ پا سکتا ہے مگر ایمان شرط ہے کیونکہ باغی انعام کے مستحق نہیں ہوا کرتے.آخر اس نے درخواست کی تھی کہ مجھے کوئی لٹریچر یا فوٹو دیا جاوے.حضور نے تحفہ پرنس آف ویلز کا ذکر فرمایا اور اسی وقت ایک کاپی اس کو منگا کر دے دی.یہ کتاب دیتے ہوئے
۱۴۹ تصریح فرمائی کہ اس میں برٹش گورنمنٹ کی اطاعت کا جو ذکر ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ ہند وستان میں برٹش گورنمنٹ کے ماتحت رہتے ہیں مگر اصل ہمارا یہ ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہیں اس حکومت کی اطاعت کریں.یہ اصل ہمارے امام علیہ السلام بانی سلسلہ نے ہمیں فرمایا ہے.وہ اُٹھنے کو تھا مگر حضرت شیخ صاحب عرفانی نے اس کو کہا کہ میں ایک اخبار نویس کی حیثیت سے تم کو توجہ دلاتا ہوں کہ عالمگیر صلح کے متعلق بھی حضرت سے ایک سوال کر لو.اس پر اس نے سوال کیا کہ (۴۱) عالمگیر صلح کس طرح سے ممکن ہے.جواب میں حضور نے مذہب اور سیاست کے لحاظ سے عالمگیر صلح کے اصول بیان فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام جو اللہ تعالیٰ نے امن و صلح کا شاہزادہ رکھا ہے اس کا تفصیل سے ذکر فرمایا جس کو اس نے اردو رومن میں لکھ لیا.اس پر حضور نے مفصل تقریر فرمائی اور آئندہ دنیا کے امن اور مستقل صلح کی بنیاد کے قیام کو سید نا حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات سے وابستہ ہونے کا اعلان فرمایا.اس کی درخواست پر حضرت نے کتاب تحفہ شاہزادہ ویلیز پر اپنے قلم سے دستخط فرمائے جس کا اس نے شکریہ ادا کیا اور پھر دوسرے دن صبح ساڑھے نو بجے فوٹو کے لئے وقت مقرر کر کے چلا گیا.۱۲ بجنے کو تھے حضور نے نماز میں پڑھا ئیں اور پھر آرام فرمایا.حضور کی طبیعت ابھی تک پیچش وغیرہ تکالیف سے صاف نہیں ہوئی.تکالیف برابر ہیں مگر افاقہ ضرور ہے مگر با ایں ہمہ اپنے آرام اور صحت کو سلسلہ کی تبلیغ اور اشاعت اسلام پر قربان فرماتے ہوئے بہت ہی سخت محنت فرمارہے ہیں.کل صبح سے عصر تک ڈاک لکھی.عصر کے بعد سے شام تک بازار کی سیر کو گئے.شام سے لے کر ۱۲ بلکہ ایک بجے رات تک اسٹنٹ ایڈیٹر کے ساتھ گفتگو فرماتے رہے اور حق تبلیغ اس طرح ادا فرمایا کہ مرکز عیسائیت ، قصر شرک وکفر اور خود پوپ کے گو یا گڑھ اور قلعہ ہی میں بیٹھ کر تمام اٹلی میں اعلان حق کا فرض ادا فر ما دیا -اللهم زدفرد- دوائی برابر استعمال کروائی جارہی ہے.آج صبح کو ۸ بجے مجھے حاضری کا حکم ہے تا کہ حضور وہ مضمون پورا کرا دیں جو حضور نے سفری رپورٹ کے طور پر لکھوانا شروع کرایا ہوا ہے.اس کے بعد حافظ صاحب کا مضمون تصوف کے
متعلق دیکھنا ہوگا جس کے نوٹ حضور نے جہاز میں حافظ صاحب کو لکھائے تھے اور حافظ صاحب نے وہ مضمون مکمل کر لیا ہے.اس کے بعد ساڑھے کو بجے کا وقت پھر اسسٹنٹ ایڈیٹر کو فوٹو وغیرہ کے واسطے دیا ہوا ہے جس سے فارغ ہو کر آج حضور وزیر اعظم اٹلی سے ملاقات کی غرض سے گیارہ بجے تشریف لے جائیں گے جہاں سے فارغ ہو کر کھانا اور نمازیں ہوں گی.اس کے بعد برٹش فضل سے ملاقات کا وقت ہے جو کل نہ ہوسکی تھی.اس کے بعد پھر انشاء اللہ انٹرویو کا سلسلہ جاری ہو گا دوسرے اخبارات کے ایڈیٹروں اور دوسرے شہری لوگوں سے..الغرض حضور کی طبیعت متواتر محنت سے اور سفری کوفت اور کھانے کی بے ترتیبی کی وجہ سے فاقوں ہی کے باعث خراب ہوئی ہے اور اس کا حضور خیال نہیں فرماتے.ڈاکٹر صاحب بھی بے چارے کڑھتے ہیں مگر کچھ پیش نہیں جاتی.دوستوں سے سید نا حضرت اقدس کی صحت کے لئے خاص طور پر درخواست کی جاتی ہے کہ ابھی منزل مقصود تو اور آگے ہے.اصل مقام تو زیادہ محنت مانگے گا یہ تو دوران سفر میں تھوڑے سے کام کا نتیجہ ہے وہاں پہنچ کر تو دن رات ایک کرنا ہوگا لہذا دعاؤں پر خاص طور سے زور دیا جاوے.روما کی شہریت اس کے بازاروں کی ترتیب اور صفائی.شہر کی وسعت- تجار کی شاندار دکانات کی کثرت اور پرانی عمارات یا ان کے کھنڈرات- روما کے بڑے بڑے گر جا اور ان میں صنعت و نقاشی اور کاریگری کے بے نظیر عجائبات کچھ ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ میں ان کی تفاصیل لکھنی شروع کر دوں.لکھے پڑھے بزرگ اور دوست حتی کہ طلبا بھی ان امور کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں.البتہ کسر رہ جاتی ہے تو صرف اتنی کہ شنیدہ گے یو د مانند دیدہ - واقعی دیکھنے اور سننے میں بڑا فرق ہے اور گوسُن کر جو نقشہ ذہن میں انسان کسی چیز کے متعلق بناتا ہے عموماً بڑا ہی ہوتا ہے، مگر یہاں تو میرے.خیال میں ۹۰ فیصدی وہ نقشہ دیکھنے کے بعد بھی چھوٹا ہی معلوم ہوگا.قیاس اور و ہم سے زیادہ بڑھ کر یہ شہر اپنے اندر کمالات فن رکھتا ہے.ممکن ہے کہ میرا یہ خیال پیرس یا لندن کو دیکھ کر تبدیل ہو جائے مگر اب تک جو کچھ دیکھا میں اس سے اندازہ کر کے کہہ رہا ہوں کہ روما کا شہر اپنے اندر بہت ہی
۱۵۱ عدیم المثال شان اور کمالات رکھتا ہے.ایک طرف اس کی عظمت اور جبروت اور سطوت کو خیال کرتا ہوں.دوسری طرف صحابہ کرام رضوان اللہ یھم اجمعین کے کارناموں کو ذہن میں لاتا ہوں تو بس ایک خدائے واحد کی ذات کے سوا کوئی چیز درمیان میں باقی ہی نہیں رہتی اور یقین بھرے دل، وثوق بھرے قلب اور ایک غیر متزلزل عرفان سے اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ یقیناً یقیناً صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ہاتھ نہ تھا جو روما کی سلطنت کے خلاف اُٹھا بلکہ وہ یقیناً خدائے قیوم اور صاحب العزت والعظمت والہیت والقدرت والجبروت کا اپنا ہاتھ تھا جو صداقت اسلام کے لئے روما کی شاندار اور پُر شوکت سلطنت کے خلاف اُٹھا اور جس نے خدا کی ہستی کا ثبوت اس رنگ میں بھی دکھایا تھا - اللهم صل على محمدٍ وعلى آل محمد كما صليت وسلمت وباركت على ابراهيم و علی ال ابراهیم انک حمید مجید اس شہر کے لوگ کیا مرد اور کیا عورتیں اور کیا بچے کیا بڑے اور کیا چھوٹے سبھی ہمیں پر لے درجے کی حیرت اور استعجاب سے دیکھتے ہیں.جہاں ذرا کھڑے ہوں بیسیوں گر د جمع ہو جاتے ہیں مگر چونکہ اختلاف لسانی حائل ہے اس وجہ سے ان کی اور ہماری بھی دل کی دل ہی میں رہ جاتی ہیں ور نہ ان کے چہروں سے ٹپکتا ہے اور ان کے اعضاء کی حرکات بتاتی ہیں کہ ان کے دلوں میں ہماری محبت ہے اور ان کی آنکھیں بتاتی ہیں کہ ان کے دلوں میں ہماری عزت ہے.بعض جگہ ٹوپی کے اشارے سے اور اکثر ہاتھ کے اشاروں سے سلام کا طریق استعمال کرتے نظر آتے ہیں اور بڑی حد تک مہذب اور ملنسار اور خلیق معلوم دیتے ہیں.اگر ان کو زبان ملتی جس سے وہ اپنا مافی الضمیر ظاہر کر سکتے تو غالباً ہمیں گلیوں میں چلنا بھی مشکل ہو جاتا اور ہم ان کے استفسارات کا جواب دینے کی - طاقت نہ پاتے.باوجود جاننے کے کہ نہ ہم ان کی زبان سمجھتے ہیں اور نہ وہ ہماری بات سمجھتے ہیں پاس کھڑے ہوتے ہی ہمیں اپنی زبان میں مخاطب کر لیتے ہیں اور باتیں کرتے چلے جاتے ہیں جن کو ہم کھڑے سنتے رہتے اور ان کے چہروں کو تکتے رہتے ہیں یہ لوگ انگریزوں کے اخلاق کے شاکی ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ خود پسند ہیں اور مطلب کے یار - برخلاف اس کے اپنے آپ کو زیادہ ملنسار اور خیر خواہ اور نفع رسان وجود ظاہر کرتے ہیں.میں اس قدر لکھ چکا تھا ۸ بجے ٹھیک حضرت اقدس کے حکم کے مطابق حضور کے دروازہ پر
۱۵۲ مضمون لکھنے کو حاضر ہوا.حضور لیٹے ہوئے تھے تھوڑی دیر بعد حضور اُٹھے اور مجھے باریاب فرمایا اور پچھلا حصہ مضمون کا سن کر آگے لکھا نا شروع فرمایا جو الگ حضور کے اصل مضمون میں درج کیا گیا ہے.جس حد تک میں لکھ چکا ہوں حضور نے لکھایا.اتنے میں فوٹوگرافر آ گیا اور حضور نے مضمون کو بند کر کے باقی آئندہ کرا دیا جو الگ ارسال ہے.اخبار کے فوٹو گرافر نے فوٹو لے لیا.دو کا پیاں لی ہیں اور ایک حضور کا الگ لینے کی درخواست کرتا ہے جو ابھی تک منظور نہیں ہوئی.حضور چوکی پر ہیں تشریف لائیں گے تو جواب دیا جا سکے گا.ہوٹل ھذا کے مینجر نے بھی الگ دو فوٹو لئے ہیں.تجارت پیشہ لوگ ہیں نفع کثیر کا موجب ہو گا.ہاتھوں ہاتھ ہزاروں فوٹو بک جائیں گے.حضرت نے فرمایا ہے کہ چونکہ اس علاقہ یورپ میں اکثر اخبارات والے فوٹو ما نگتے ہیں لہذا اگر کسی بڑے فوٹو گرافر سے انتظام کر کے دو یا تین قسم کے فوٹو اور لے لئے جائیں تو تبلیغی کام میں سہولت ہوگی کیونکہ ہر جگہ اور ہر وقت نیا فوٹو لینے میں وقت کے علاوہ خرچ کی زیادتی اور دقت بھی ہوتی ہے.حضرت نے آج تارلنڈن بھجوا دیا ہے کہ روما سے بدھ کی شام ۲۰ راگست کو انشاء اللہ یہاں سے روانہ ہوں گے.پہلے وکٹوریہ سٹیشن پر اُتر کر دعا کریں گے پھر لڈ گیٹ کو جانا چاہتے ہیں وہاں بھی دعا کریں گے.اس کے بعد آپ کے پروگرام کے مطابق جائیں گے.ان امور کا انتظام کر رکھیں خدا نے چاہا تو ایسا ہی ہوگا.اب پھر حضور نے کل والی پارٹی کو اخبارات کے ایڈیٹروں کی طرف بھیجا ہے اور خود حافظ صاحب کا مضمون سن رہے ہیں.ابھی ابھی انشاء اللہ وزیر اعظم اٹلی کی ملاقات کو بھی تشریف لے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ناصر ہو آمین - فقط عبدالرحمن قا دیانی از روم کانٹی نینٹل ہوٹل کمرہ نمبر ۹ (اٹلی) ۱۹ / اگست ۱۹۲۴ء
۱۵۳ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خط نمبر ۱۱، از مقام روما (اٹلی) مورخه ۲۰ / اگست ۱۹۲۴ء السلام عليكم ورحمة الله وبركاته کل کی ڈاک سے تین تین خط پوسٹ کر چکا ہوں امید کہ پہنچ جائیں گے.ایک خط میں میری نامکمل ڈائری تھی.کنگ کے دفتر میں مجھے ایسا معلوم ہوا کہ انڈین میل کا وہی دن ہے.میں نے ۱۸ء کی شام کو جو کچھ میرے پاس تھا حوالہ ڈاک کر دیا کیونکہ حضرت نے بھی اسی دن اپنی ڈاک پوسٹ کرائی تھی پھر معلوم ہوا کہ ۱۹ر کو بھی ڈاک جاسکتی ہے.چنانچہ ڈائری کا باقی حصہ پورا کر کے اور حضرت اقدس کا وہ مضمون جو حضور نے بطور خلاصہ رپورٹ مصر-فلسطین.شام اور حیفا وغیرہ کے متعلق مجھے لکھوایا تھا اور جس کا ایک حصہ جہاز میں لیٹے لیٹے خو دلکھا تھا یہ سب کچھ کل دوپہر کو فوٹو سے فارغ ہو کر جب حضرت اقدس وزیر اعظم کی ملاقات کو تشریف لے گئے میں نے حوالہ ڈاک کیا.یہ دونوں رپورٹیں میں نے بصیغہ رجسٹری بھیجی ہیں.کل شام اخبار لاٹر بیونا(Latribuna) شائع ہو گیا جس میں علاوہ فوٹو کے مضمون بھی تھا.ڈاک جانے میں کچھ وقت پا کر کوشش کی اور وہ بھی حوالہ ڈاک کر دیا.اس طرح سے کل تک پچھلی ڈاک سے تین عرائض ارسال کر چکا ہوں.لاٹر یونا(Latribuna) کے فوٹو گرافر سے فارغ ہوئے تھے کہ ہوٹل کے مینجر نے بھی ایک فوٹو لیا.ان فوٹو گرافروں سے فارغ ہو کر کمرے میں گئے اور حافظ صاحب نے اپنا مضمون تصوف حضور کوسنا نا شروع کر دیا.مصروفیت میں وقت کا خیال نہ رہا اور ہماری گھڑیوں سے ٹھیک گیارہ بج گئے جو وزیر اعظم کی ملاقات کا وقت مقرر تھا.جلدی سے حضور نیچے اُترے.موٹر ا تفاق سے ایسا سا منے کھڑا تھا جس کا ڈرائیور اٹالین کے سوا کچھ نہ جانتا تھا.اس میں بیٹھ کر حضور نے جلدی چلانے کا حکم دیا مگر وہ سمجھا نہیں کہ حضور کہاں جانا چاہتے ہیں یا اس کو معلوم ہی نہ تھا کہ مسولینی وزیراعظم کا مکان ہے کہاں.بہر حال اس نے شہر میں خوب ہی گھمایا اور ادھر ادھر چکر دیے اور برابر پون گھنٹہ تک پھرانے کے بعد جا کر منزل مقصود پر پہنچے.حضور کی ملاقات کے وقت میں سے اب صرف پندرہ
۱۵۴ منٹ باقی تھے چنانچہ وہی حضور نے لئے اور باہر تشریف لا کر فرمایا کہ ہمارا وقت اتنا تنگ ہو گیا تھا کہ مفصل گفتگو نہیں ہوسکی.مبلغین کے بھیجنے اور مرکز تبلیغ بنانے کے متعلق اس سے گفتگو نہ ہوسکی.باقی تفاصیل ملاقات ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو ئیں لہذا کچھ لکھ نہیں سکتا.اس بے قاعدگی یا کوتا ہی کا حضرت اقدس کی طبیعت پر گہرا اثر تھا اور رنج تھا کہ کیوں حضور کو وقت سے پہلے اطلاع نہ دی گئی اور کیوں وزیر اعظم کے مکان تک پہنچنے کا انتظام پہلے سے ٹھیک معلوم نہ کر لیا گیا اور ساری انفارمیشن لے کر ٹھیک بند و بست ملاقات کا نہ کیا گیا.گو حضور خاموش تھے مگر در حقیقت یہ خاموشی ہم سب کے لئے ایک تازیانہ تھی.مکان پر پہنچ کر بد قسمتی سے ایک دوسرا واقع یہ پیش آگیا کہ کھانا لگایا گیا تو حضور کی سامنے کی پلیٹ میں تو مرغی یا چوزے کا شور با اور سالن تھا اور باقی پلیٹوں میں صرف سبزی تھی.غلطی یہ ہوئی کہ چوزے کا شور با حسب معمول دستر خوان کی سب پلیٹوں میں نہ لگایا گیا سارا ایک ہی میں لگا دیا گیا یا باقی بچا کر الگ رکھ لیا گیا.حضور کو اس نظارہ سے سخت تکلیف ہوئی.حضور نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور کھانا چھوڑ کر کھڑے ہو گئے.عرفانی صاحب بتاتے ہیں کہ جب ہم لوگ ڈیوٹی کا کام کر کے رپورٹ پیش کرنے کو گئے تو حضور کھانا چھوڑ کر کھڑے تھے اور چہرے پر غصہ کے آثار نمودار تھے.پہلے نہ معلوم کیا باتیں ہو چکی تھیں مگر ہمارے پہنچنے پر چوہدری علی محمد صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ( مفہوم اور خلاصہ ) جب میرے سامنے مرغ کی پلیٹ رکھی گئی تھی تو کیوں باقی ساتھیوں کے واسطے نہیں رکھی.میں کھانا نہیں کھاؤں گا.یہ کیسا کمینہ پن ہے اور میرے اخلاق پر کتنا بد نما دھبا آتا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم باپ دادا سے بھی شریف تھے اور اب خود ہم پر بھی خدا تعالیٰ کے خاص فضل ہیں اور اس قسم کا کمینہ پن کبھی نہیں ہوا کہ ہمارے دستر خوان پر ہمارے کھانے کے لئے کچھ اور ہو اور ساتھیوں کے واسطے کچھ اور.سلسلہ نے ہم کو اور بھی شریف بنا دیا ہے.پس میں اس قسم کی جست کو کبھی برداشت نہیں کر سکتا.کھانا اُٹھا لو چنانچہ کھانا اُٹھا لیا گیا.عرفانی صاحب بتاتے ہیں کہ ہم نے یعنی خان صاحب اور ڈاکٹر صاحب نے چوہدری علی محمد صاحب سے اصل بات معلوم کی تو انہوں نے بتایا کہ کچھ غلطی ہی ہوگئی ہے.آخر خان صاحب نے شیخ صاحب عرفانی سے کہا کہ آپ معافی کی درخواست کریں چنانچہ چند منٹ کے وقفہ کے بعد شیخ
۱۵۵ صاحب نے جب دیکھا کہ حضور نے اخبار دیکھنا شروع کر دیا ہے اور طبیعت کچھ دوسری طرف لگ گئی ہے عرض کیا کہ حضور اس قصور کو معاف فرما ئیں اور کچھ ناشتہ فرمالیں.صبح بھی ناشتہ نہیں فرمایا اور ابھی حضور کی طبیعت میں بیماری کا اثر بھی باقی ہے.آج مصروفیت بھی زیادہ ہے.صبح سے حضور محنت کا کام کر رہے ہیں.ہم میں سے ہر ایک کو یہ یقین ہے کہ حضور ہم سب کو اپنے سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور ہماری خاطر حضور کو بہت زیادہ ملحوظ ہے اور یہ رنج بھی حضور کو صرف ہماری تکلیف کے خیال ہی کی وجہ سے ہوا ہے.واقعی غلطی ہو گئی ہے.حضور رحم فرما کر معاف فرما دیں چنانچہ تھوڑی دیر تامل کر کے حضور نے ایسے لہجے میں فرمایا کہ جس میں عفو کی شان تو نمایاں تھی مگر وہ عزم کا رنگ لئے ہوئے تھا.فرمایا کہ میں جس بات کا ارادہ کر لیتا ہوں اس کو چھوڑتا نہیں ہوں - إِلَّا ان يشاء الله شیخ صاحب فرماتے ہیں میں نے اس کے بعد کچھ کہنا سوء ادب سمجھا مگر اس خیال سے کہ حضور نے کل شام سے کھانا کھایا ہوا ہے کچھ کھا لیں تو اچھا ہے مبادا ضعف ہوکر بیماری پھر عو د کرے مگر حضور خاموش ہی رہے اور کوئی جواب پھر نہ دیا.اڑھائی بجے کے وقت اِل جرنیل ڈی اٹالیا ایڈیٹر حضرت اقدس کی ملاقات کو آیا اور حضور سے مندرجہ ذیل سوالات کئے.(س) آپ کی اٹلی کے باشندوں کے متعلق کیا رائے ہے؟ (ج) حضور نے فرمایا کہ میں بہت تھوڑا وقت یہاں ٹھہرا ہوں اور گزرتے گزرتے اتنے تھوڑے وقت میں میں نے جس بات کا اندازہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ اٹلی کے باشندوں میں انگریزوں کی نسبت ہمدردی کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے اور کہ وہ لوگ مشرقی روحانی امور کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور یہ باتیں مشرق و مغرب کے ملانے میں بہت کچھ مدد دیں گی اور چونکہ یہ بھی ہماری ایک غرض ہے اس وجہ سے ہمیں اس بات کی بہت خوشی ہے.(س) مشرق اور مغرب کو آپس میں ملا کر امن قائم کرنے کا خیال عیسائی خیال ہے؟ ( ج ) حضور نے فرمایا نہیں بلکہ یہ تو خالص اسلامی خیال ہے اور حقیقت بھی یہی ہے مگر چونکہ آج کل کے مسلمانوں کی حالت کچھ ایسی گر گئی ہے کہ ان کے اخلاق اور اعمال و افعال سے یہ بات
ܪܬܙ نمایاں طور سے واضح اور مترشح نہیں ہوتی اس لئے عیسائیوں کو اس خیال کے اپنانے کا موقع مل گیا ہے مگر اب ہماری جماعت دوبارہ اس خیال کو لے کر کھڑی ہوئی ہے اور اس نیت سے کھڑی ہوئی ہے کہ اسی کے سر پر اس کی تکمیل کا سہرا ہوگا کیونکہ خدا نے یہ کام خود اس کے سپر دفرمایا ہے.(س) کیا پرافٹ (prophet) احمد فوت ہو چکے ہیں ؟ ( جیسا کہ اس کو چوہدری فتح محمد صاحب کی پہلی ملاقات سے کچھ معلوم ہو چکا تھا ) ( ج ) حضور نے فرمایا ہاں وہ فوت ہو چکے ہیں مگر مشن ان کا زندہ ہے.(س) مسولینی سے آپ نے ملاقات کی ہے اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ (ج) حضور نے فرمایا کہ میں بہت تھوڑی دیر تک ان سے ملا ہوں اور میں ایک ہی ملاقات میں ایک ایسے شخص کے متعلق کوئی رائے قائم کرنے کو ٹھیک نہیں سمجھتا اور نہ ہی کوئی رائے قائم کر سکتا ہوں مگر فر ما یا مفید آدمی ہے.مفید کام کر رہا ہے.(س) پوپ سے ملنے کا بھی آپ کو خیال ہے ( طنز کے طور پر سوال تھا ) (ج) حضور نے فرمایا کہ خیال تو تھا کہ ملیں مگر اس کا مکان ٹھیک نہیں ملاقات ہو نہیں سکی.(س) آپ اٹلی میں کب تک ٹھہریں گے؟ (ج) حضرت اقدس نے فرمایا کہ میں کل شام لنڈن جا رہا ہوں وہاں دو ماہ قیام ہے اور ایک جلسہ میں شرکت بھی ہے.واپسی پر اگر ممکن ہوا تو ٹھہرنے کی کوشش کروں گا.اٹلی یورپ کا پہلا ملک ہے جو ابھی میں نے دیکھا ہے.ان مختصر سوالات کے بعد وہ اجازت لے کر چلا گیا.چوہدری صاحب نے پہلی ملاقات میں اسی کو حضرت اقدس کی تعریف اور غرض سفر مختصراً لکھ کر دی تھی جو اس نے اپنے اخبار میں شائع کر دی.اخبار کے پرچے لئے گئے ہیں.اس ایڈیٹر کی ملاقات سے فارغ ہو کر حضرت نے نمازیں پڑھائیں اور پھر فوٹو گرافر کے مکان پر جا کر چھ قسم کے فوٹو کھوائے جن میں سے دو تو خدام سمیت تھے.ان میں سوائے چوہدری علی محمد صاحب کے باقی سب خدام تھے اور یہ گروپ حضرت اقدس سمیت ۱۲ کس کا تھا.ایک فوٹو میں پانچ کرسیاں تھیں اور سات خادم دوسری لائن میں کھڑے تھے.دوسرے فوٹو میں تین قطار تھیں.
۱۵۷ ایک پانچ کرسیوں کی اور دوسری لائن میں چار خادم کھڑے اور تین حضرت اقدس کے قدموں میں بیٹھے تھے.ان دو کے سوا باقی چار فوٹو صرف حضرت اقدس کے تھے مختلف اشکال میں.ایک پورا کھڑا.ایک پورا کرسی پر کی نشست میں اور ایک کیبنیٹ برسٹ اور دوسرا کیبنیٹ نشست میں.ان سب فوٹو ؤں پر جو ضروریات تبلیغ کی غرض سے حضور نے تیار کرائے ہیں ۶ یا.پونڈ خرچ ہوگا.فوٹوگرافر حضرت اقدس کی تصویر لینے میں تصنع اور فیشن کی کوشش کرتا تھا اور کبھی حضور کو ٹیڑھے بیٹھنے کی درخواست کرتا تھا.کبھی گردن موڑ کر بیٹھنے کو کہتا.حضور نے ان باتوں کو نا پسند فرما کر فر مایا کہ یہ سب باتیں آن نیچرل ( غیر طبعی ) اور بناوٹ و تکلفات ہیں جو بازاری لوگوں کا کام ہے.میں ان کو پسند نہیں کرتا.قدرتی اور بے تکلفانہ سیدھا سادہ فوٹو چاہتا ہوں.چنانچہ پھر ایسا ہی کیا گیا.ایک فوٹو میں یہ سوال تھا کہ حضرت کے ہاتھ میں چھڑی رہے یا کرسی پر ہاتھ ہو.حضور نے اس پر فر مایا کہ ان باتوں کو دین سے کوئی تعلق نہیں.چھڑی ہو تو حرج نہیں اور کرسی پر ہاتھ ٹکا ر ہے تو بھی کوئی نقصان نہیں چنانچہ کرسی پر ہاتھ رکھ کرفوٹو کھوایا گیا.فوٹو سے فارغ ہو کر حضور تک کے دفتر میں تشریف لے گئے اور لنڈن کے ٹکٹ خرید فرمائے جن پر حضور کا بہت وقت خرچ ہوا اور بہت محنت کرنی پڑی.( حسابات وغیرہ کی ) پہلے - حضرت کے حضور ر پورٹ پہنچی تھی کہ پیرس سے لنڈن تک بھی تھرڈ کلاس مل جائیں گے مگر کل جب حضور کو بتایا گیا بلکہ ٹکٹ بن کر تیار بھی ہو گئے تو حضور نے ملاحظہ فرمانے میں بھاری غلطی پکڑی.دراصل ان ٹکٹوں کے ذریعہ سے حضرت کے سوا ساری پارٹی پیچھے رہ جاتی اور بجائے ساڑھے تین بجے دن کے ساڑھے دس بجے رات کو لنڈن پہنچتی مگر حضور چونکہ کل لنڈن تار دے چکے تھے جس کی وجہ سے وہاں انتظامات بھی ہو چکے ہوں گے لہذا حضور نے اس کو نا پسند فرمایا اور پھر نئے سرے سے سارے ٹکٹ ردی کرا کر دوبارہ بنوائے اور اس طرح قریباً ۱۲ پونڈ زیادہ ادا کرنے پڑے.تک والوں نے عرض بھی کیا کہ تھوڑی سی بات کے واسطے اتنا روپیہ کیوں خرچ کرتے ہیں.قافلہ والے دن کو نہیں تو رات کو پہنچ جائیں گے یا دوسری صبح کو پہنچ جائیں اس میں کیا حرج ہے.حضور نے فرمایا
۱۵۸ کہ ہم لوگوں کا کام ایک نظام کے ماتحت ہے اور ہمارا ایک پروگرام ہے جس پر ہم کو عمل کرنا ہے.اس کے علاوہ لنڈن میں بھی کچھ انتظامات ہیں اگر ہم وقت پر نہ پہنچیں تو اس میں بہت بڑا حرج اور تکلیف ہے لہذا ہم مقررہ وقت پر ہی اور اکٹھے پہنچنا چاہتے ہیں.کٹک کے دفتر سے فارغ ہو کر حضور مکان پر تشریف لائے اور تھوڑی دیر تک آرام فرما کر شام کا کھانا تناول فرمایا جو جلدی تیار کرایا گیا تھا اور پھر جلدی اپنے کمرے میں تشریف لے گئے.لاٹر بیہونا (Latribuna) کے فوٹو گرافر نے حضرت اقدس کے حضور دوفو ٹو بھیجے اور پھر دو بارہ حضرت اقدس کا فوٹو لینے کی درخواست کی جو حضور نے منظور فرمائی اور ۲۰ راگست کی صبح کو ۹ بجے کا وقت دیا.اس کے فوٹو کے جواب میں حضور نے ایک چٹھی شکریہ کی اس کو لکھوائی ہے اور اس کو دس اور فوٹو کا آرڈر کیا اور فرمایا کہ یہ فوٹو قا دیان بطور تحفہ بھیج دیں گے.یہ وہ فوٹو ہے جو اخبار لاٹر یونا مورخه ۲۰ اگست ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا تھا.- فوٹو ۹ بجے ہونے والا تھا جس کے واسطے صبح مجھے حکم دیا گیا کہ تم جا کر نو وا روما (Nova Roma) ہوٹل میں مقیم لوگوں کو اطلاع دو کہ ۹ بجے فوٹو ہو گا اس کے واسطے ساڑھے بجے یونیفارم پہن کر کانٹی نینٹل ہوٹل میں آجاویں.میں نے اطلاع کر دی.پھر ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کے ذریعہ سے یہی حکم دہرایا گیا وہ بھی اطلاع کر کے چلے گئے.چنانچہ بعض لوگ جلدی اور بعض ذرا دیر کر کے جاپہنچے.حضرت اقدس کی طرف سے جواب طلبی ہوئی کہ جب سوا آٹھ بجے حاضری کا حکم تھا تو تم لوگ کیوں وقت پر حاضر نہیں ہوئے.( سب لوگ پونے نو بجے تک وہاں پہنچ چکے تھے ) اور فوٹو گرافر ابھی تک آیا نہ تھا.عرض کیا گیا کہ حضور کا حکم ساڑھے آٹھ بجے حاضری کا تھا سو لوگ ٹھیک وقت پر آگئے ہیں اور پھر حضور نے یا پیغام بر نے اسی بات کو دہرایا کہ حکم سوا آٹھ بجے کا تھا.اگر ایسا نہیں تو پھر کیوں بعض لوگ پہلے اور بعض پیچھے آئے.عرض کیا گیا کہ حضور بعض مقررہ وقت سے پہلے حاضر ہو گئے اور بعض ٹھیک وقت پر حاضر ہوئے ہیں.خیر چند مرتبہ ہیرا پھیری کے بعد معاملہ طے ہو گیا.پھر مولوی عبدالرحیم صاحب درد کی طلبی ہوئی اور نہ معلوم ان سے کیا بیتی اور انہوں نے کیا
۱۵۹ کیا جواب دیئے.ان کے بعد عبد الرحمن قادیانی کو طلب کیا گیا اور پوچھا گیا کہ تم کو جب معلوم تھا کہ ہم نے صبح کھانا نہیں کھایا تو تم رحمدین کو فوٹو کے واسطے کیوں لے گئے تھے.( وہی فوٹو جو کل شام کو ہوا تھا ) میں نے عرض کیا حضور فوٹو کے واسطے ساڑھے تین بجے چلے گئے تھے اور رحمدین کو میں نے ان دوستوں کے حکم سے ساتھ لیا تھا جنہوں نے مجھے خاص طور پر حکم دیا کہ رحمد بن آج تک کسی فوٹو میں شامل نہیں ہوا اس کو ضرور ساتھ لینا.ان لوگوں کے حکم کی تعمیل میں رحمدین کو بھی ساتھ لے گیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی خیال تھا کہ وہاں صرف چند منٹ لگیں گے.حضور نے فرمایا کہ تم کو جب علی محمد نے کہا تھا کہ رحمدین کو کہہ دینا کہ تیل وغیرہ لے آوے میں رکا بیاں وغیرہ لے کر آتا ہوں.عرض کیا گیا ہاں حضور کہا تھا مگر اس سے پہلے بڑے بڑے بزرگوں کے حکم کی تعمیل میرے ذمے تھی اس تعمیل کی وجہ سے میں نے رحمدین کو کہہ دیا کہ فوٹو کے لئے ساتھ جائے ورنہ میرا اس میں کوئی ذاتی فائدہ نہ تھا یا نفسانی خواہش نہ تھی.حضور نے اس جواب پر فرمایا کہ کس نے کہا تھا کہ رحمدین کو فوٹو کے واسطے لے جانا ؟ میں نے عرض کیا حضور سبھی تھے نام خاص طور پر نہیں لے سکتا.شیخ یعقوب علی صاحب بھی تھے اور خان صاحب بھی اور بھی سب تھے.فرمایا عجیب بات ہے رحمدین کو وہاں سے دو ہزار روپیہ خرچ کر کے یہاں فوٹو کے واسطے لائے تھے ؟ رات جلدی میں اس نے کھانا خراب کر دیا ہلدی کچی رکھی اور گوشت بھی اچھا نہ تھا.صبح کو کچھ نہ کھایا تھا.بھوک لگی ہوئی تھی میں کھا گیا.رات کو متلی ہوئی تین دست آگئے.بخار ہو گیا اور جگر پھر خراب ہو گیا.اتنے جلاب لئے لوائے سب بے فائدہ اور رائیگاں گئے.اچھا شیخ صاحب عرفانی اور خان صاحب کو بلوا ؤ.دونوں حاضر ہوئے.عرفانی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کیوں رحمدین کو فوٹو کے واسطے لے جانے کا حکم دیا گیا تھا ؟ اللہ تعالیٰ رحم کرے عرفانی صاحب پر اور ان کی ال اولاد پر سچ بولنے میں ذرا بھی نہ جھجکے اور کسی خیال نے ان کو حق گوئی سے نہ روکا.انہوں نے صاف اقرار کیا کہ حضور غلطی ہوئی معاف فرما یا جاوے اور روپڑے اور عذر خواہی کی.جب کہ حضرت اقدس نے فرمایا کہ آپ کو معلوم ہے کہ کل کا کھانا میں نے اس وجہ سے نہیں کھایا کہ مجھے علم دیا گیا تھا کہ مجھے کھانے کو مرغی ملتی ہے اور دوسروں کو پیاز اور مرچ کی چٹنی.پھر آپ لوگوں نے ایسی غلطی کی اور میری بھوک کی پرواہ نہ کرتے ہوئے رحمد ین کے فوٹو کی فکر میں پڑ
17.گئے.رات کا کھانا زہر دینے کے مترادف تھا وغیرہ وغیرہ - حضور نے اظہار ناراضگی کیا مگر شیخ صاحب مکرم کی عذر خواہی اور رونے سے حضور کو رحم بھی آ گیا.اس سے پیشتر خان صاحب سے بھی پوچھا مگر وہ بندہ خدا صاف مگر گئے کہ میں نے تو رحدین کے فوٹو کے واسطے بالکل نہ کہا تھا حالانکہ میرے کان اب تک اس آواز اور اسی لہجہ کو سن رہے ہیں جس لہجہ میں انہوں نے مجھے کہا تھا مگر مجھے گلہ نہیں کیونکہ وہ اکثر بھول بھی جایا کرتے ہیں اور حافظہ کی کمزوری کا ان کو خود بھی اقبال ہے.ان سے مجھے یہ شکایت نہیں کہ انہوں نے مجھے ایک حکم دے کر پھر وقت پر انکار کر دیا کیونکہ شیخ صاحب عرفانی کے بیان سے حضور کو یقین ہو گیا تھا کہ واقعہ کیا ہے.خان صاحب بے چارے بھول بھی جاتے ہیں اور سہو بھی ہو جاتا ہے.بیروت سے واپسی پر انگریزی کٹم ہاؤس سرحد پر کارتوسوں کا واقعہ بھی ان کی معذوری پر دال ہے.اچھا اللہ تعالیٰ ان پر رحم کرے.دوسرے دوستوں کا میں نے نام نہ لیا کیونکہ حضور کی نا راضگی ٹھنڈی پڑ چکی تھی اور معاملہ قریباً صاف ہو چکا تھا.دوسرے بھی شاید کچھ کمزوری دکھاتے اللہ تعالیٰ نے ان کی پردہ پوشی فرمائی.میں بھی اس ذکر کو چھوڑتا ہوں.فوٹو گرافر کے آجانے کی اطلاع ہوئی اور حضور پگڑی سر پر رکھ کر باہر تشریف لے گئے.سب گئے پر میں نہ گیا کیونکہ اس وقت مجھے سخت صدمہ تھا.میں سمجھتا تھا کہ اگر حضرت کے ان الفاظ کے سننے سے پہلے مجھے موت آجاتی اور میں وہ الفاظ رنج و در دحضرت اقدس کے منہ سے نہ سنتا تو بہتر تھا.زمین اور آسمان میرے واسطے تنگ ہو گئے تھے.دل روتا تھا مگر آنسو نہ نکلتے تھے.خیر میں فوٹو میں نہ گیا مگر مجھے بلوایا گیا.پھر اس خیال سے کہ اگر نہ گیا تو مبادا اور کوئی ناراضگی بڑھے چلا گیا مگر میں نے دیکھا کہ وہ ترتیب جو حضرت اقدس نے فوٹو کے واسطے مرتب کرائی ہوئی ہے بلکہ خود ہاتھ سے لکھ کر دی ہوئی ہے چھوڑ کر ایک اور ترتیب بنائی گئی.مجھے بھی اس فوٹو میں کھڑے ہونے کے واسطے کہا گیا غالباً میرا فوٹو آیا ہی نہ ہوگا اور اگر آیا ہو گا تو شاید ہی کوئی پہچان سکے.ایک گروپ کے فوٹو کے بعد حضرت اقدس کا اکیلے ایک فوٹو اس فوٹو گرافر نے لیا اور اس کے بعد ہوٹل کے باہر موٹروں کے پاس آدھ گھنٹہ کھڑے ہو کر صلاح مشورے اور پروگرام تجویز ہوتے رہے کہ کس موٹر میں کون بیٹھے اور کتنے موٹر لئے جائیں.مجھے مولوی عبد الرحیم صاحب درد
۱۶۱ نے حکم دیا ( بعد میں معلوم ہوا کہ ان کا اپنا حکم تھا نہ کہ حضرت اقدس کا ) کہ تم ٹھہر جاؤ.میں نے کہا کہ ٹھہرا ہوا تو ہوں مگر اگر کوئی کام کہیں تو اس وقت میں نہ کر سکوں گا.میری حالت میرے بس کی نہیں ہے اور میرے خیالات بالکل پراگندہ ہیں.اس پر کہہ دیا کہ اچھا پھر ساتھ چلو.میں نے کہا کہ میں ساتھ بھی نہیں جا سکتا میری حالت ٹھیک نہیں.میرے قلب پر سخت صدمہ ہے.بصد مشکل موٹروں کی تقسیم پوری ہوئی.شیخ صاحب مکرم نے پھر مجھے گھسیٹا.آخر میں موٹر کے پاس گیا تو حضرت خان صاحب نے پھر مولوی عبد الرحیم صاحب درد کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کیا یہ رحمدین کے ساتھ نہ ٹھہریں گے؟ میں نے ان الفاظ کو سنا اور مطلب سمجھ لیا.میں سوار نہ ہوا اور دوسرے ہوٹل میں آن کر لباس بدل لیا.قریب دس منٹ بعد چوہدری محمد شریف صاحب آئے اور کہا کہ حضرت اقدس نے فرمایا ہے کہ میں نے کوئی ایسا حکم نہیں دیا کہ عبد الرحمن یہاں ٹھہرے ساتھ نہ جائے لہذا چلو.جلدی کرو.مگر میں چونکہ یونیفارم اُتار چکا تھا سادہ لباس میں ہی چلا گیا.تینوں موٹر میں کھڑی تھیں.ایک میں میں بھی ایک مٹی کے ڈھیر پر پتھر کے باٹ کی طرح بیٹھ گیا اور موٹریں کٹا کومبز (Cata Combs) اصحاب الکہف کے مقامات کو چلیں.وہاں جو کچھ دیکھا میں نہ لکھ سکا نہ لکھنے کی تاب تھی.ایک بت کی طرح پیچھے پیچھے پھرتا رہا اور پھر ساتھ واپس آ گیا ہوں.حالات ایسے ہیں کہ آہ بھی بعض اوقات کھینچ کر نہیں لی جا سکتی.بعض پولیٹیکل انسان بعض خاص اغراض کے ماتحت کام کرتے ہیں.میں ایسی چالوں کا واقف نہیں ہوں.میں الزام اپنے ذمے لے لیتا ہوں مگر زبان درازی مجھے نہیں آتی کیونکہ میں جانتا ہوں انسان آخر انسان ہی ہے خواہ کتنا بھی بڑا کیوں نہ ہو.جب تک اللہ تعالیٰ اسے کوئی معاملہ نہ بتائے تب تک اس کو کسی بات کی حقیقت کیوں کر معلوم ہوسکتی ہے.میں ہمیشہ صبر کا عادی رہا ہوں اور میں نے ہمیشہ صبر کا پھل میٹھا ہی دیکھا ہے گو کہ صبر خود بہت ہی تلخ ہوتا ہے.یہ بھی مجھے یقین ہے کہ جو انسان کسی کی ذلت کے لئے کوشش کرتا ہے اور چالا کی ہوشیاری اور عیاری سے ایسی راہیں پیدا کرتا ہے کہ اس میں اس کی برتری اور کارگزاری ثابت ہو وہ یقیناً یقیناً ایک دن خود ذلیل و خوار ہوتا ہے اور نہیں مرتا جب تک کہ اس کئے کی سز انہیں بھگت لیتا.پس میں پھر
۱۶۲ بھی صبر کرتا ہوں اور معاملہ اللہ کے حوالے کرتا ہوں.افوض امری الی الله ان الله بصیر بالعباد انما اشكوا بثي وحزني الى الله - فقط عبدالرحمن قادیانی ۲۰ اگست ۱۹۲۴ء قتل ایک بہت بڑا گناہ ہے مگر میں جانتا ہوں کہ جو شخص کسی انسان کے روحانی پیشوا امام و مقتدا کوکسی بات پر ناراض کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ اس سے اس کی عزت افزائی ہو اور کارگزاری کا سہرا اس کے سر پر بندھے وہ قتل سے بھی بڑھ کر جرم کا مرتکب ہوتا ہے.اللہ اس پر رحم کرے.فقط عبدالرحمن قادیانی حضرت کی یہ ناراضگی و خفگی اگر چہ ہم سب ساتھیوں پر تھی اور حقیقتا ایک شکوہ تھا جو شفقت پدری اور مہر مادری سے بھی بڑھا ہوا رنگ رکھتا تھا مگر میں نے دیکھا کہ اس کا سب سے زیادہ بوجھ میرے ہی قلب پر واقع ہوا.اور بزرگوں نے سنا اور دل میں پشیمان ہوئے ہوں گے مگر ان کے ظاہر پر کچھ بھی اس کا اثر نہ تھا.اس واقعہ کے معا بعد ہی خوشی ہنسی اور مذاق شروع ہو گئے مگر میرے قلب پر اس کا ایسا گہرا اثر ہوا کہ میں برابر اس واقعہ کے بعد ۴ ۸ گھنٹہ تک کچھ کھا سکا نہ پی سکامنتی کہ لندن پہنچ کر حضرت اقدس کو اس امر کا علم ہوا اور حضور نے نہایت شفقت اور رحم سے فرمایا کہ ہم ناراض نہیں ہیں محض شکوہ تھا اور بات کو دل میں نہ رکھا.نکال دی تھی کہ تا دل میں رہ کر رنج کا موجب نہ بنے مگر بھائی جی اب نہیں کھاتے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ مقاطعہ کرتے ہیں.بہتر ہو کہ خواہ دل چاہے یا نہ چاہے کچھ کھا لیں.اس حکم کی تعمیل میں مجبوراً چند گھونٹ دودھ کے ٹھیک ۹۶ گھنٹے کے بعد میں نے نگلے.میری رگیں اور پٹھے اتنے دن نہ کھانے پینے کی وجہ سے خشک ہو چکے تھے بہت مشکل سے ڈاکٹر صاحب کی محنت اور توجہ کے بعد جا کر تیسرے دن ٹھیک ہوئے.روما سے ۲۰ کی شام کو روانگی ہوئی.حضرت اقدس کا ٹکٹ اول درجہ کا تھا باقی سب تھرڈ
۱۶۳ کلاس تھے.راستہ میں ایک جگہ پہنچ کر پھر سب سیکنڈ میں چلے گئے اور لنڈن تک سیکنڈ ہی میں گئے کچھ پونڈ اور اضافہ راستہ میں ادا کرنا پڑا.روما سے پیرس اور پیرس سے کیلیے (Calley) تک کا راستہ جیسا سرسبز اور شاداب تھا اس کی تفصیل مجھ سے ممکن نہیں.پہاڑی پیچدار راستوں سے تیز رفتار گاڑی گزرتی ہوئی ہمیں بعض برفانی پہاڑوں میں سے لے کر گزرتی گئی.بیسیوں سرنگ.لاکھوں مکانات.سینکڑوں بڑے بڑے شہر راستہ میں آئے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم لوگ ایک وسیع شہر کے درمیان سے گزرتے جار ہے ہیں اور کوئی فاصلہ درمیان میں غیر آباد نہ نظر آتا تھا.سرنگ تو راستہ میں کثرت سے آئے مگر اٹلی اور فرانس کی حد پر ایک بہت بڑی سرنگ آئی جس کا طول ۱ امیل کا تھا اور بہت بڑے بلند پہاڑ کے نیچے سے بنائی گئی تھی.نصف اٹلی کا اور نصف فرانس کا وہ پہاڑ ہے.صبح کو 9 بجے کے قریب پیرس پہنچ کر گاڑی بدلی گئی اور پیرس کی گاڑی سے ڈیڑھ بجے کیلیے پہنچ کر رود بار انگلستان پار کرنے کے لئے جہاز پر سوار ہوئے جس نے ایک گھنٹہ میں رود بار انگلستان کو عبور کیا.سمندر جوش میں تھا جس کی وجہ سے دوستوں اور مسافروں کو سی سک نس (Sea Sikness) کی تکلیف ہوئی.ڈوور (Dover) پہنچ کر پھر گاڑی لی جو چار بجے روانہ ہو کر سوا چھ بجے لنڈن پہنچی.جماعت کے دوست اور اکثر حصہ پریس کے نمائندوں کا جوس بج کر ۲۰ منٹ کی گاڑی کے لئے اسٹیشن پر موجود تھا ( جیسا کہ ان کو تار کے ذریعہ اطلاع دی گئی تھی کلک کی غلط اطلاع کی بنا پر ) سارے کا سارا نا اُمید ہو کر واپس جاچکا تھا.- لنڈن کے دوست بتاتے ہیں کہ اتنا بڑا مجمع جو کسی بڑے سے بڑے آدمی کے واسطے جمع ہو سکتا ہے جمع تھا مگر افسوس کہ غلط اطلاع کی وجہ سے تمام واپس گیا جس کا افسوس جماعت لنڈن کو سخت تھا.ہمارے چند دوست سٹیشن پر موجود تھے اتفاقاً اس گاڑی سے انہوں نے ہمیں دیکھا اور جمع ہو گئے والا ان کو اُمیدا بھی نہ تھی.ان کو خیال تھا کہ سوا سات بجے حضور تشریف لاویں گے.سٹیشن سے اُتر کر حضور نے دعا کی جس کا فوٹو کسی نے لے لیا.( میں اور رحمد بن سامان
۱۶۴ کے پاس تھے ) پھر موٹروں کے ذریعہ سے لد گیج کی طرف روانہ ہو کر سینٹ پال کے گر جا کے صحن میں دائیں طرف کی سیڑھیوں سے نیچے حضور نے کھڑے ہو کر لمبی دعا کی.بازار تھا لوگ کثرت سے جمع ہو گئے.سات بجے دعا ہوئی اور ساڑھے سات بجے مکان پر پہنچے اور پھر دروازہ پر دعا کی گئی اور مکان کے اندر داخل ہوئے.لنڈن پہنچ کر میری خدمات کی تقسیم ایسی طرز پر ہوئی ہے کہ اب میرے واسطے رپورٹوں کا لکھنا یا حالات سے اطلاع دینا سخت مشکل بلکہ محال ہے.قریباً ۱۸ گھنٹہ کی ڈیوٹی ہے لہذاب میں زیادہ نہ لکھ سکوں گا.اطلاعاً عرض ہے.ہمارے مکرم شیخ صاحب عرفانی لکھتے ہیں اور ان کا تمام تر وقت اسی کام کے لئے وقف رکھا گیا ہے.- لنڈن میں حضرت کے کئی ایک فوٹو لئے گئے تھے جو یہاں کے اخبارات نے شائع کئے ہیں ان سب کی تین تین کا پیاں جیسا کہ میرے ذمے ہیں میں نے ایک پیکٹ کے ذریعہ ارسال کر دی ہیں.اُمید کہ پہنچیں گی.آج تک جو کچھ خدمت میں حالات لکھ کر ارسال کرنے کی کر سکا ہوں اللہ تعالیٰ اس کو آپ بزرگوں کی خوشنودی اور بہبودی کا ذریعہ بنا دے اور میرے لئے بھی رضائے الہی کے حصول کا ذریعہ ہو.مجھے دعاؤں میں یا د فر ما یا جاوے اور آئندہ کی معذوری بوجہ مجبوری سمجھ کر اور بھی دعا فرمائی جاوے.حضرت اقدس نے خود میرے ذمے ایسی خدمات لگائی ہیں کہ پھر ان کے بعد لکھنے کا وقت بالکل نہیں ملتا.فقط والسلام عبد الرحمن قادیانی از لنڈن ۲۸ / اگست ۱۹۲۴ء
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خط نمبر ۱۲، از مقام لنڈن : مورخه ۴ رستمبر ۱۹۲۴ء السلام عليكم ورحمة الله وبركاته لنڈن پہنچ کر میری تقسیم اوقات حسب ذیل ہے.نماز صبح ۴ بجے سے ۶ تک بعض اوقات ساڑھے چھ بجے تک بھی.ناشتہ کرانا : نماز صبح کے بعد سے ۹ بجے تک.دفتر ڈاک میں کام کرنا : 9 بجے سے ابجے تک.کھانا دو پہر : ۱۲ بجے سے نماز ظہر تک.ضروریات کچن کی سپلائی کا آرڈر ونگرانی تعمیل : ظہر سے ۴ بجے تک.چائے : ۴ بجے سے نماز عصر تک.سیر شام ہمرکاب حضرت صاحب : عصر سے شام تک.کھانا شام : نماز شام سے عشاء تک جس کا وقت ۱۲ بجے رات تک بلکہ بعض اوقات ایک ڈیڑھ بجے تک چلتا ہے.یہ انضباط اوقات میری ڈیوٹی ہے جس کا حضرت اقدس نے حکم دیا ہے.خود حضور خصوصیت سے پابندی اوقات ترتیب اور نظام کو دیکھنا پسند کرتے ہیں اور دوسری طرف میری طبیعت بھی خدا کے فضل سے ایسی واقع ہوئی ہے کہ انتظام ترتیب اور پابندی اوقات سے کام کرنے کرانے میں چست و خوش رہتی ہے.کام کی کثرت با قاعدگی کے ساتھ اور حضرت کے حکم کے ماتحت میرے واسطے روحانی اور جسمانی غذا ہے جس سے کوفت کی بجائے آرام اور ضعف کی بجائے قوت ملتی ہے.انگلستان میں کھانا کھلانا اور چائے پلا نا میز پر جو محنت ، مصروفیت ،صفائی وا نہاک اور وقت
۱۶۶ چاہتا ہے اس کا اندازہ صرف وہی دوست کر سکتے ہیں جو انگریزی طرز خوردونوش سے واقف ہیں.میز پر کھانے کے کئی دور ہوتے ہیں.ہر دور میں پلیٹوں کا تبدیل کرنا.چھری کانٹا لگا نا.نمک.رائی.سرکہ - مکھن - جام - پھل وغیرہ کا مہیا کرنا.ہر شخص کے واسطے الگ الگ پلیٹیں اور الگ الگ گلاس فراہم کرنا.الغرض خاصہ اچھا ایک گورکھ دھندا ہے جس میں بہت سا وقت سخت محنت میں خرچ ہو جاتا ہے.ان وجوہات سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مجھے کونسا وقت باقی رہتا ہے جس میں میں حالات سفر بھی عرض کر سکوں.مکرمی چوہدری علی محمد صاحب کی ڈیوٹی بھی میرے ساتھ لگائی گئی ہے مگران کو حضرت اقدس کی خدمت میں بھی حاضر ہونا پڑتا ہے اس وجہ سے اکثر حصہ کام کا بوجھ صرف مجھے ہی پر ہے جو کم از کم ے ا گھنٹہ روزانہ کھڑے رہنے سے انجام پذیر ہو سکتا ہے.دوسری طرف میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جماعت کے احباب ان دنوں حضرت اقدس آقا و امام کی جدائی کی وجہ سے پریشان اور مضطر ہیں ان کو حضرت کے حالات اگر ہفتہ وار بھی نہ پہنچیں تو ان کی تکلیف اور افسردگی کا موجب ہوں گے.پچھلی مرتبہ ڈاک میں میں نے بہت ہی کم کچھ عرض کیا تھا اس کا مجھے بھی سخت قلق اور صدمہ ہے اور افسوس ہے کہ میں کیوں زیادہ مفصل حالات نہ لکھ سکا مگر مجبوری اور معذوری او پر عرض کی گئی وہی تھی.اب میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جہاں تک مجھ سے بن پڑے گا اور جو کچھ ہو سکے گا عرض کرتا ہی رہوں گا خواہ وہ رات کے حصوں میں کرنا پڑے یا ڈیوٹی کے اوقات میں چلتے پھرتے یا کھڑے ہوئے ہی کیوں نہ ہو.جو ہو سکے گا انشاء اللہ عرض کیا کروں گا تا کہ تلافی مافات بھی تو کچھ ہو سکے.۲۸ کی عصر کے بعد جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا حضرت نے لنڈن پریس کو ایک ایٹ ہوم (Eat Home) دیا اور تمہیں کے قریب دعوتی کارڈ بھیجے جو بڑے بڑے مشہور اخبارنویسوں کے نام تھے مگر صرف ۶ یا کے نمائندے آئے.ان میں مذہبی کا نفرنس کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری صاحب بھی تھے.حضور نے ایک پیغام ان کے واسطے تیار کیا تھا جو اسی وقت محترم جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ترجمہ کیا اور ان لوگوں کے سامنے پڑھا.زبانی طور پر بھی مختلف اذکار ہوتے رہے.ان لوگوں نے نوٹ بھی کئے بعض نے اپنے اخبارات میں اس کا ذکر بھی کیا مگر صرف اپنے
۱۶۷ مطلب اور سمجھ کی بات لکھی کیونکہ ان کی نظر آگے جاہی نہ سکی تھی.دوسرے دن جمعہ تھا.مسٹر شیلڈر خالد نے برائیٹین میں کوئی خاص انتظام کیا اور وہاں.حضرت کے حضور بلاوا آیا چنانچہ ساڑھے دس بجے کے قریب حضور مع تمام خدام ہمرکاب ولوکل دوستوں کے وکٹوریہ سٹیشن سے سوار ہو کر برائیٹن کو روانہ ہوئے.۶ ٹکٹ درجہ اول پل مین گاڑی ؟ کے تھے اور ا ا ٹکٹ درجہ سوم پل مین گاڑی کے تھے.۴ دوست اپنے کرایہ پر ساتھ تھے جن میں سے دو اخبارات کے رپورٹر اور دو ہمارے دوست تھے اس طرح کل ۲۱ آدمی کا قافلہ وکٹوریہ اسٹیشن سے برائیٹن کو روانہ ہوا جہاں ۵۲ میل کا سفر طے کر کے گاڑی قریباً ۲ ۵ ہی منٹ میں جا پہنچی.گویا ۶۰ میل کی رفتار سے چلی.ولایت کی تھرڈ کلاس گاڑی : تھرڈ کلاس جس گاڑی کا نام ہے وہ دراصل ہمارے ملک کی سیکنڈ کلاس سے بھی بہتر معلوم ہوتی ہے.اس سے فرسٹ کلاس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیسی ہوگی.سیکنڈ اور انٹر کلاس اس میں نہیں تھا مگر تھر ڈ کہنے کو تھرڈ ہے کرایہ میں ہمارے پنجاب کی فرسٹ کلاس کے قریب ہے.اس ۵۲ میل سفر کے لئے تھرڈ کلاس کا کرایہ جو ہمیں پل مین گاڑی کے واسطے فی کس ادا کرنا پڑا،۱۴ شلنگ ۸ پنیس تھا گویا گیارہ روپے آمد رفت فی کس.بٹالہ سے لاہور ۵۳ میل دور ہے.اس طرح سے ہمارے ملک کی گاڑی کے حساب سے بٹالہ سے لاہور تک کا تھرڈ کلاس کا کرایہ ساڑھے پانچ روپے غالبا فسٹ کلاس کا ہوگا.ایٹ ہوم کے موقع پر حضرت اقدس نے جو پیغام اخبارات کے نمائندگان کے واسطے لکھا تھا اس کی ایک نقل میں اس عریضہ کے ساتھ الگ شامل کرتا ہوں جس کے ساتھ ہی برائیٹن کے ایڈریس کی بھی نقل ہے جو حضور نے اہل برائین کے ایک مجمع کثیر کے سامنے اول خودار دو میں پڑھا اور بعد میں مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے انگریزی میں اس کا ترجمہ پڑھا جو انہوں نے چلتی گاڑی اور ہوتی باتوں میں کیا تھا.حضور نے بھی یہ مضمون صبح ۸ بجے کے بعد ہی لکھنا شروع کیا اور سٹیشن پر پہچنے سے قبل ہی قبل مکمل فرما دیا تھا.برائین کے اسٹیشن سے ہم لوگوں کو ۴ موٹروں کے ذریعہ سے ایک جنگل کے میدان میں پہنچایا گیا جو نہایت ہی دلکش اور خوبصورت سبزہ زار مخملی فرش گویا بنا دیا گیا ہے.یہ علاقہ پہاڑی علاقہ کے مشابہ ہے مگر پہاڑ نہیں صرف مٹی کے تو دے ہیں جو زمین کو
۱۶۸ نا ہموار بناتے اور پہاڑی نظارہ پیش کرتے ہیں مگر با وجود اس نشیب وفراز کے کہیں ایک چپہ بھر جگہ بھی ایسی نظر نہیں آتی جو بد نما ہو یا جس کو برکا ر چھوڑ دیا ہو.کہیں کھیتی ہے تو کہیں سبزہ زار چرا گا ہیں قائم ہیں جن میں بھیڑ ، گائے اور گھوڑے آزاد اور کھلے کھاتے پیتے پھرتے ہیں.ڈلہوزی کا لاٹوپ اور ڈائن کنڈ کی سبز گھاس کے نظارے اور پھولوں کے تختے کے تختے بھی نظر آئے جن میں سے گزرتے ہوئے ایک مقام پر پہنچ کر موٹریں کھڑی ہو گئیں اور ہم نے دیکھا کہ ایک موٹر ہم سے پہلے وہاں موجود ہے.ہم لوگ موٹروں سے اتر کر ایک میل کے قریب چڑھائی کے رستوں کو عبور کر کے ایک احاطہ میں پہنچے جو ہندوستانی سیاحوں کی یادگار میں قائم کیا گیا ہے اور جو ہندوستانی وفا اور بہادری اور قربانی کے جذبات کو تازہ کرتا ہے.وہاں سنگ سفید کے چبوترہ پر ایک خوبصورت چھتر نما گول گنبد ۱۰،۸ فٹ کے قریب بلند کھڑا ہے.فوٹوگرافر اور سنیما والے : اس جگہ تین فوٹو گرافر بڑے بڑے بھاری کیمرے لئے پہلے سے تیار کھڑے تھے جو بعد میں معلوم ہوا کہ بعض سنیما کمپنیوں کے ایجنٹ ہیں اور دو معمولی فوٹو گرافران کے علاوہ تھے.جو نہی کہ ہم لوگ حضرت اقدس کے ساتھ ساتھ اس چبوترہ کی طرف بڑھے انہوں نے اپنی مشینوں کو حرکت دے کر چکر دینے شروع کئے جس کے نتیجہ میں خدا جانے کیا عمل کیا کہ ہم سب کی چلتی پھرتی تصویر میں ان کے ہاں بنتی چلی گئیں.تقریر اور دعا: حضور اس یادگاری چبوترہ پر کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ یہاں ہم لوگ کس رنگ میں دعا کر سکتے ہیں.طریق دعا اور غرض دعا کی تفصیل بتانے کے بعد حضور نے ہاتھ اُٹھا کر دعا کی اور تمام خدام نے بھی حضور کے ساتھ آمین کہی.سینما کے فوٹو گرافر اور دوسرے بھی ہمارے گرد و پیش گھومتے اور اپنا کام کرتے رہے.دعا کے بعد حضور نے اس چھتری کے گرد ایک چکر لگایا اور دوسری طرف سے ہو کر سیڑھیوں سے خدام سمیت اُتر کر ایک بنگلہ کی طرف گئے جہاں مسافروں کے واسطے چائے وغیرہ کا انتظام کیا جاتا ہے.چند منٹ ٹھہر کر حضور وہاں سے واپس اپنی موٹروں کے پاس آئے اور تمام ساتھیوں کو لے کر پھر برائیٹن کے شہر میں پہنچے.عالیشان مکان: وہ بڑا عالیشان مکان جو ہندوستانی سپاہیوں کے علاج معالجہ اور مرہم پٹی کی
۱۶۹ غرض سے بطور ہسپتال استعمال ہوتا رہا ہے اپنی مکانیت، عمارت اور سجاوٹ کے لحاظ سے واقعی بہت ہی خوبصورت ہے.اس کے سامنے ایک وسیع چوگان اور دوسری جانب ایک کھلا میدان جس میں نرم وسبز گھاس کا گویا بچھونا بچھا ہے اور پاس ہی ایک عالیشان ایشیائی طرز کا گنبد دار ہال ہے جس کو غالباً تھیٹر تماشہ یا با جا و موسیقی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ ایڈورڈ فورتھ نے تعمیر کرایا تھا.اس ہسپتال کے دروازہ پر حضور کا استقبال مقامی لوگوں اور منتظمین ہسپتال نے کیا اور مکان کے تمام کمرے اور گردو پیش کی تعمیرات حضور کو دکھا ئیں اور بعض مقامات پرتی حالات عرض کئے.ر تفصیل نماز جمعہ : چونکہ جمعہ کا دن تھا اور نماز کا وقت ہو چکا تھا حضور نے منیجر مکان سے نماز کے واسطے جگہ پوچھی.اس نے ہسپتال کے جنوب مشرقی جانب کے وسیع سبزہ زار میں قالین بچھوا دیے جن پر ہم لوگوں نے اپنے جائے نماز بچھا کر اذان کہی.حضور نے خطبہ پڑھا اور پھر نماز پڑھائی جس کے ساتھ ہی نماز عصر بھی جمع کر لی گئی.اس نماز کے بھی لوگوں نے مختلف فوٹو لے لئے.وضو حضرت اقدس نے اور حضور کے خدام نے بھی ہسپتال کے زیریں حصہ میں کیا جہاں غسل خانوں کے ساتھ پانی کے نل بھی موجود تھے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا مضمون : نماز سے پہلے حضور نے غربی جانب کے بڑے پورچ میں کھڑے ہو کر وہ ایڈریس اردو میں خود پڑھا جو حضور نے اس موقع کے واسطے جمعہ کی صبح ہی کو لکھا تھا جس کو لوگوں کے بہت بڑے اژدھام نے ادب توجہ اور محبت سے سنا اور متاثر ہوئے.اس کے بعد مکرم جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس کا انگریزی ترجمہ سنایا جس پر لوگوں نے بار بار ہیئر.ہیئر کہا اور خاتمہ پر خوب تالیاں پیٹیں اور خوشی سے اُچھلے.( نقل اس ایڈریس کی دوسری جگہ شامل کی گئی ہے.) ایڈورڈ فورتھ کا ہال : نماز جمعہ کے بعد پاس ہی کے ایک ریسٹورنٹ میں حضور نے مع تمام خدام کھانا تناول فرمایا.کل ۲۱ آدمی شریک کھانا تھے اور بل کھانے کا ۶ پونڈ کا ہوا.کھانے کے بعد حضرت نے وہ بڑا ہال دیکھا جو ایڈ ورڈ فورتھ نے بنا کر دیا تھا.اس ہال میں دو جگہ پر یہ لکھا ہوا
16+ موجود ہے کہ لا غالب الا اللہ اور چاند اور ستارے کا نشان بھی متعدد مقامات پر نمایاں موجود ہے جو مصلحت الہی نے نہ معلوم کس مقصد کے لئے لکھوایا اور قائم رکھا ہے.ساحل سمندر کی سیر : اس شاندار اور خوبصورت عمارت کو دیکھنے کے بعد حضور موٹر میں بیٹھ کر سمندر کے کنارے تشریف لے گئے اور دوسرے تمام خدام پیدل پہنچے جہاں ہزاروں مرد ، عورت، بچے ، جوان اور بوڑھے سمندر کے کنارے بیٹھے سیر کر رہے تھے.کنارے کو صاف رکھنے کے لئے چھوٹے چھوٹے پتھر لاکھوں من وہاں بکھیرے گئے ہیں.جن پر چلنا ایک شور بپا کر دیتا ہے.گول گول پتھر اخروٹ کے برابر کے ریت کی جگہ بچھائے ہوئے ہیں.چلنے میں پاؤں ٹخنوں تک اندر گھس جاتا ہے اور پتھروں کی آواز سے ایک شور اٹھتا ہے.سمندر کی موجوں میں عموماً بچے کھیلتے اور نہاتے نظر آتے تھے.کوئی کوئی عورت بھی تھی.بعض نوجوان بھی متوسط عمر کے لوگ کنارے پر بیٹھے ہوئے مطالعہ یا سیر میں مصروف تھے.ہمارے ہاں کے ہند و تیرتھ ہر دوار کے میلہ کا سارنگ نظر آتا تھا اور بڑی چہل پہل تھی.سمندر کے اندر نصف میل کے قریب لمبا ایک پلیٹ فارم لکڑی کا بنا کر اس میں مختلف اقسام کے کھیل تماشے بنائے گئے ہیں کہیں با جا بجتا ہے تو کہیں جو آ کھیلا جاتا ہے کہیں ورزش اور زور آزمائی کے کرتب دکھائے جاتے ہیں تو کہیں تھیڑ اور سینما کہیں انگریز عورتوں کے ناچ اور گیت ہیں تو کہیں کشتی و مکہ بازی اور ہنسی تمسخر کے اکھاڑے غرض ہر قسم کے سامان موجود تھے جن میں ہزاروں ہی آدمی جمع تھے.ٹکٹ فی کس ۳ آنہ دینا پڑتا ہے.حضور نے یہ مقام بالکل نہ دیکھا اور کسی دوسرے قدرتی منظر کی طرف تشریف لے گئے.گاڑی برائیٹین سے ۵ بج کر ۵ منٹ پر روانہ ہوئی مگر حضور واپس نہ آسکے اس وجہ سے ہم لوگ سٹیشن پر ہی رہے.تھوڑی دیر بعد حضور تشریف لے آئے اور اس طرح ہم لوگ حضور کے ہمرکاب ۵ بج کر ۳۵ منٹ کی گاڑی پر واپس برائیٹین سے لنڈن روانہ ہوئے.برائیٹن کی کیفیت : برائین کی آبادی ایک لاکھ بتائی جاتی ہے.شہر نہایت خوبصورت اور مصفا و با قاعدہ بنا ہوا ہے.نشیب و فراز میں عمارات کی قطاریں بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتی ہیں اور
درمیان میں سے سیدھی سڑکوں اور باقاعدہ درختوں کی قطاریں بھلی نظر آتی ہیں.ٹرام ، موٹر اور کچھ گھوڑا گاڑیاں بھی چلتی ہیں.معلوم ہوتا ہے لوگوں کو اپنے اس قصبہ کی خوبصورتی پر فخر ہے کیونکہ ہر شخص ہم سے اس کی خوبصورتی کی داد چاہتا تھا.جس سے دو لفظ کلام کرنے کا موقع ملا اس نے پوچھا ہمارے قصبہ کو آپ نے کیسا پایا؟ اور اس میں شک بھی نہیں کہ واقعی قصبہ ہر لحاظ سے اس قابل ہے جس پر باشندوں کا نازحق بجانب ہے.یورپین شہروں کی خوبصورتی : اٹلی میں سے گزرتے ہوئے روما کے شہر کو دیکھ کر میں نے لکھا تھا کہ یہ شہر نہایت ہی خوبصورت ہے اور شاید کہ اس کا نظیر اور یورپ میں نہ ہو گا مگر جوں جوں یورپ کے اندر گھسے اور قدم یورپ کے وسطی حصہ کی طرف بڑھتا گیا پچھلی خوبصورتی کم ہوتی گئی اور اگلا حصہ پچھلے سے بہت نمایاں طور پر بڑھا ہوا پایا گیا ہے.فرانس کا شہر پیرس جس میں سے صرف ہم لوگ موٹروں سے گزرے تھے بہت ہی خوبصورت معلوم دیتا تھا.اس کے سبزہ زار.اس کی با قاعدہ کھیتیاں.اس کے باغات.اس کی چراگاہ جن میں کثرت سے گائے گھوڑے ، موٹی بھیڑیں چرتی تھیں ، نہایت دلکش منظر دکھاتے تھے مگر جو نہی کہ اس چھوٹے سے جزیرہ برطانیہ میں قدم رکھا اس کی شان اور آن بان بالکل نرالی ہی پائی.- مکانات کا ایک ڈیزائین، بلاک، چوک اور سڑکوں کی عمدگی.روشوں کی خوبصورتی اور باقاعدگی.سبزے جنگل اور کھیتوں کی سجاوٹ - باغات اور آبادی کی وضعداری بہت ہی خوبصورت ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارا ملک ہی لاہور کا گویا لارنس گارڈن ہے بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے.نہ معلوم ان لوگوں نے کتنی محنت اور کیسی جانفشانی اور کتنے عرصہ کی لگا تار ان تھک کوششوں سے اپنے ملک کو ایسا خوبصورت بنایا ہے.حقیقتا یہ ملک نہیں بلکہ سارا ہی ایک خوشنما باغ ہے.باغ بھی وہ کوئی معمولی نہیں بلکہ نہایت شاندار خوبصورت، آراسته و پیراسته گاڑیوں کی کثرت : برائیٹین سے واپسی پر میں نے خود گنا کہ ایک گھنٹہ کے عرصہ میں ہمیں ۳۳ ریل گاڑیاں اس سمت کو جاتی ہوئی دکھائی دیں جدھر سے ہماری گاڑی آرہی تھی.یہ تو وکٹوریا سٹیشن
۱۷۲ سے جار ہی تھیں دوسرے سٹیشنوں سے خدا جانے کتنی جاتی ہوں گی.زمین تلے کی ریلوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ قریباً ہر منٹ یا دوسرے منٹ بعد گاڑی آن موجود ہوتی ہے.سٹیشن پر جا کر کھڑے ہوں تو کوئی گاڑی کھڑی ہوگی یا جاتی نظر آوے گی یا آتی گاڑی کی آواز کان میں پڑے گی.زمین کے نیچے بھی دو حصوں میں گاڑیاں چلتی ہیں.ایک تھوڑی گہرائی پر دوسری زیادہ گہرائی پر.خدا جانے اتنی مخلوق یہاں آ کہاں سے گئی ہے کہ دن رات اس قدر گاڑیاں چلتی ہیں اور چلتی ہی رہتی ہیں.دوسری سواریوں کی بھرمار : ریل گاڑیوں کے سوا موٹریں ، موٹر لاریاں ، بس اس کثرت سے چلتی ہیں کہ باوجود نہایت اعلیٰ بلکہ اعلیٰ ترین انتظامات اور لوگوں کے واقف کا راور عادی ہونے کے سنا گیا ہے کہ یہاں اوسطاً کے موتیں موٹروں کی وجہ سے روزانہ ہو جاتی ہیں.بازار کے ایک طرف سے دوسری طرف جانے کے لئے نہایت چوکنا و ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے یا پھر پولیس مین ( جو واقع میں نہایت شریف اور نہایت ہوشیاری سے اپنی ڈیوٹی پر کھڑے ہوتے ہیں ) کے ہاتھ یا انگلی کے اشارے سے انسان سڑک کو عبور کر سکتا ہے ورنہ سڑک کا عبور کرنا کارے دارد.پولیس مینوں کی تعریف : پولیس مین کیسے ہوشیار را ور فرض شناس ہیں اس کی میں تعریف نہیں کر سکتا.کاش پنجاب کو بھی ایسی پولیس نصیب ہو.پولیس مین کے صرف اشارے پر بیسیوں موٹریں فوراً کھڑی ہو جاتی ہیں اور نہیں چلتیں جب تک اجازت نہ دے اور وہ بھی کوئی بے قاعدگی یا جانبداری دبختی نہیں کرتا.بلکہ نہایت حکمت اور ترتیب سے اِدھر سے اُدھر جانے والی موٹروں کو پاس کرتا ہے اور اپنے فرض کو فرض سمجھتے ہوئے دیانت داری و محنت سے ادا کرتا ہے.رات کو مکان پر پہنچے اور آرام سے گزاری صبح کی نماز میں حضور تشریف نہ لائے.۳۰ اگست ۱۹۲۴ء حضرت خلیفہ اسیح کی علالت : ۳۰/اگست کل برائین کے کھانے کی وجہ سے یا کسی اور باعث سے پھر حضور کو پیچش کی شکایت ہوگئی اور حضور صبح کی نماز میں تشریف نہ لا سکے.ناشتہ بھی حضور نے اپنے ہی کمرہ میں کیا.دو پہر کے بعد ایک صاحب جو دو کنگ سے تعلق رکھتے ہیں اور غالباً انگلش مسلم ایسوسی ایشن کے سیکرٹری ہیں مکان پر آئے.حضور سے
۱۷۳ ملاقات ہوئی اور دو پہر تک باتیں ہوتی رہیں.ہمارے مقامی مبلغ کہتے ہیں کہ وہ خواجہ صاحب سے بیزار ہے مگر اس نے حضرت اقدس کے سامنے خواجہ صاحب کی تعریف ہی کی اور ان سے محبت و اخلاص کا اظہار کیا.ہمارے مولوی غیر صاحب نے اس سے کسی معاملہ میں لجاجت کی اور کوئی درخواست امداد کسی رنگ میں کی جس کو حضرت اقدس نے بہت ہی ناپسند فرمایا اور فر مایا کہ یہ تو وقار کو صدمہ پہنچانے والا طریق ہے اور یہ طریق ہمیں قطعا پسند نہیں.یہ شخص گو مسلمان ہے مگر نماز روزہ کی ضرورت نہیں سمجھتا اور کہتا ہے کہ یہ باتیں وقتی تھیں اب ضرورت نہیں کیونکہ زمانہ ترقی کر گیا ہے.اسلامی پردہ کا بھی قائل نہیں اور اس کو نا قابل عمل حکم سمجھتا ہے.سود کے متعلق کہتا ہے کہ میں نہیں لیتا جس کے معنے یہ ہیں کہ لینا منع ہے دینا منع نہیں وغیرہ وغیرہ.ایسی باتیں یہاں کیں کہ جو اسلام کے خلاف ہیں اور ایسا طریق اور طرز بیان تھا جو ایک مسلمان سے ہر گز نہیں اُمید کیا جاتا.اس سے ان لوگوں کے اسلام کی حقیقت معلوم ہوتی ہے.حضور نے آج سیر کا وقت تبدیل فرما دیا.فرمایا کہ کھانے کے بعد سیر کو جانے سے ہی پیچش کی تکلیف ہوگئی لہذا آئندہ سیر بجائے بعد مغرب کی نماز کے مغرب کی نماز سے پہلے کیا کریں گے.حضرت خلیفہ اسیح کی سیر : حضور کی سیر اتنے دن کیا رہی ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ شام کی نماز کے بعد اندھیرے میں ہائیڈ پارک تک جا کر پھر کھلی سڑک کے بازاروں میں کبھی دریا کے کنارے کبھی پارک کی جھیل کے کنارے دو دو گھنٹہ تک تیزی سے چلتے جاتے تھے حتی کہ بعض ساتھی بعض اوقات بہت ہی تھک جاتے تھے.گیارہ بجے کے بعد حضور تشریف لاتے تھے.آج کی سیر 4 بجے کے بعد ہوئی.سیر سے پہلے حضور کی خدمت میں بعض لوگ ملاقات کو آئے جن سے حضور ملاقات کر کے بعد 4 بجے کے سیر کے لئے تشریف لے گئے.ہائیڈ پارک میں جا کر جھیل میں حضور نے ایک کشتی لی جس کو خود چلاتے رہے اور دوسری کشتی میں دوسرے ساتھی سوار تھے.شام کی نماز مکان پر ادا کی.کھانے کے بعد عشاء کی نماز ہوئی اور پھر حضور نے یہاں کی مجلس مشاورت قائم کی جو رات کے ڈیڑھ دو بجے تک ہوتی رہی.اس میں خاص خاص بزرگ شریک تھے
۱۷۴ اور مسئلہ لنڈن مشن کے قائم رکھنے یا نہ رکھنے کا تھا.مقامی دوستوں سے حضور نے حالات سنے.دوستوں کی رائیں لیں اور اچھی طرح آزادی سے اظہار رائے کا موقع دیا مگر معاملہ طے نہ ہوا اور فرمایا کہ کل پھر ایک نشست ہو گی.برائیٹن کے ایڈریس کا اخبارات میں ذکر : حضرت اقدس کے ایڈریس برائیٹن کے متعلق بعض اخبارات میں ذکر ہوا.برائیٹن کے اخبار میں بھی اور لنڈن کے اخبارات میں بھی جہاں نفس مضمون کی خوبی ، طریق استدلال و بیان کی نفاست اور حضرت اقدس کی شخصیت اور روحانیت کا ذکر بہت اچھے رنگ میں کیا گیا ، وہاں مکرم جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی زبان دانی کے کمال اور پڑھنے کے طریق اور تلفظ کی ادائیگی کی بہت تعریف کی ہے.۳۱ ر ا گست ۱۹۲۴ء دوخواتین کا قبول احمدیت : آج حضور کی طبیعت کل سے بھی زیادہ خراب رہی.صبح کی نماز میں تشریف نہ لا سکے اور دو پہر تک اپنے کمرہ ہی میں لیٹے رہے.کھانا بھی سوائے دو چار چیچے ساگودانہ کے کچھ نہ کھایا.مسٹر ڈین اور اس کی بہن نے حاضر ہو کر بیعت کی.کل ایک عورت دہر یہ خیال حضور کی ملاقات کو آئی تھی جس کی لڑکی بھی ساتھ تھی مگر وہ لڑکی خدا کو مانتی تھی.قادیان کے حالات کا اثر : قادیان کا تار جس میں ہیضہ کی شکایت اور بعض مخلصین کی وفات کا بھی ذکر تھا حضرت اقدس کے حضور ۲۹ کی شام کو پہنچی جب کہ حضور برائیٹین سے واپس تشریف لائے.اس تار کا بھی حضور کی طبیعت پر اثر تھا.یہ امر بھی کچھ بیماری کی زیادتی کا باعث ہو گیا.ملاقاتیں : آج بھی حضور کی ملاقات کے لئے بعض لوگ حاضر ہوئے اور حضور نے با وجو د تکلیف کے ان لوگوں کو باریاب فرمایا اور تبلیغ کی.مسز ڈین اور اس کی بہن کو بھی حضور نے بوقت بیعت بہت تبلیغ کی اور دیر تک تلقین و نصائح فرمائیں.حضور کا خیال یہ ہے کہ ان ممالک میں اسلام عورتوں کے ذریعہ سے انشاء اللہ جلدی پھیلے گا.اگر دو چار بھی عورتیں کی اور راسخ الایمان ہمیں میسر آجائیں تو پھر انشاء اللہ جاگ لگتی جائے گی.عورتوں کو مذہب سے دلچسپی بھی ہے اور لگاؤ بھی نسبتاً زیادہ - گر جا
۱۷۵ میں بھی اکثر عورتیں ہی جاتی ہیں.مرد اگر کوئی جاتے ہیں تو وہ بھی عورتوں ہی کے لے جائے ہوئے ہوتے ہیں.دہر یہ عورت کے خیالات اور صاف صاف باتوں کو سن کر حضور نے فرمایا کہ ان کی صاف گوئی بھی ایک صفت ہے مگر اگر ان کو سمجھ آجائے کہ حقیقتا کوئی خدا ہے تو پھر انشاء اللہ خدا کو بھی اسی صفائی اور پختگی سے مانیں گی اور دل سے مسلمان ہوں گی.حضور کی تقریر جو مذہبی کا نفرس میں پڑھی جانے والی ہے اس کا ترجمہ دن رات ایک کر کے مکرمی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کر رہے ہیں.محترم چوہدری صاحب نے ۱۵ را کتوبر کے جہاز میں ہندوستان جانے کا انتظام کیا ہوا تھا مگر حضرت اقدس نے حکم دے کر اس کو منسوخ کرا دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اب آپ ہمارے ساتھ ہی چلیں.قابل رشک ہیں یہ نو جوان بزرگ جس نے اپنے آقا و امام کی خوشنودی پر نہ جانیں کتنے ارادے اور کیا کیا پروگرام قربان کر کے یہ اسوہ حسنہ قائم کیا ہے.جزاه الله تعالى احسن الجزاء في الدنيا و الآخرة حضرت خلیفہ اسیح الثانی سپر چولسٹوں کے ہال میں : آج حضور سپر چولسٹوں کے ہال میں تشریف لے گئے.ایک عورت نے خدا کی ہستی اور انسانی تعلقات پر لیکچر دیا.ایک حد تک اچھا لیکچر تھا مگر وہ لوگ روح انسانی ہی کو خدا سمجھتے ہیں.بعد میں ایک عورت نے روحیں بلانی شروع کیں اور اس طرح بہکی بہکی باتیں کرنے لگی کہ لوگ سمجھیں کہ واقعی اس پر کوئی روحیں آئی ہیں اور وہ ان کا حلیہ بیان کر رہی ہے.ابتدا سے انتہا تک حضور نے ساری کارروائی دیکھی.جلسہ کے خاتمہ پر ایسوسی ایشن کے بڑے کا رکن حضور سے ملے اور حضور کی رائے پوچھی.حضرت نے فرمایا کہ آخری حصہ سے تو ہم لوگ بالکل اتفاق نہیں کرتے.البتہ پہلی لیڈی کا لیکچر ایک حد تک معقول تھا جس نے یہ بیان کیا کہ انسانوں سے خدا بولتا ہے اور ان سے تعلق رکھتا ہے چنانچہ خود مجھ سے بھی بولتا ہے اور میں نے خدا کی آواز سنی ہے.حضور کی ان باتوں سے اور عرفانی صاحب کی بعض باتوں سے جو انہوں نے انگریز مرد اور عورتوں سے کیں اکثر لوگوں کا حضور کی طرف رجحان ہو گیا اور وہ محبت اور تعجب سے حضور کی باتیں سنتے رہے.انجمن والوں نے حضور سے درخواست کی کہ پھر بھی حضور ہمارے جلسہ کو رونق بخشیں.
127 چونکہ رات کو دیر سے واپس مکان پر آئے لہذا آج سیر نہیں ہوئی.حضور کو تکلیف بھی تھی اور کچھ لوگ ملاقات کو بھی آئے ہوئے تھے ان سے دیر تک حضور باتیں کرتے رہے اور تبلیغی کام ہوتا رہا.رات کو بھی حضور کو تکلیف رہی اور ایک بجے تک مکرمی ڈاکٹر صاحب دوائی وغیرہ دیتے رہے.۱۹۲۴ء : صبح کی نماز میں حضور تشریف نہ لا سکے.دو وقتہ صرف دو چار پیچ ساگودانہ کے حضور کھاتے ہیں.بیماری کی وجہ سے ہی کل کی مجلس شوری کی کارروائی بند ہے اور لنڈن مشن کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا.آج ہندوستانی ڈاک کا دن تھا.صبح ہی ڈاک آئی اور حضور ڈاک ملاحظہ فرماتے رہے.نسبتا آج حضور کو آفاقہ ہے.گھر سے حضور کو کوئی خط نہیں آیا.منتظمین ڈاک قادیان کی لا پرواہی پر حضور نے اظہار ناراضگی فرمایا.ساٹھ ستر خطوط حضور کی خدمت میں ہندوستان سے اور قادیان سے آئے مگر نہ آئے تو وہ خطوط جن کے متعلق حضور حکم دے آئے تھے کہ سب لوگ قادیان کے دفتر میں خط دے دیا کریں.دفتر والے احتیاط اور حفاظت سے ہمیں پہنچا دیا کریں گے.اس طرح خرچ بھی زیادہ نہ ہوگا اور ڈاک بھی احتیاط سے مل جایا کرے گی مگر وہی خطوط حضور کو اور حضور کے ساتھیوں کو نہ ملے.براہ راست جو خطوط حضور کی خدمت میں یا دوسرے دوستوں کو احباب نے بھیجے وہ سب پہنچتے رہے ہیں.دو پہر کے کھانے پر حضور تشریف لائے اور کھانے کے بعد حضور دیر تک پیٹنی کے مکان کے بے موقع ہونے کے متعلق گفتگو فرماتے رہے اور تجویز فرماتے رہے کہ شہر کے کسی آباد اور معزز طبقہ کی آبادی میں کوئی مکان لمبے عرصہ کے واسطے کرایہ پر لے لیا جاوے جس سے حضور کا منشا صاف ظاہر ہے کہ لنڈن مشن کو توڑنا حضور کو کبھی بھی منظور نہیں خواہ پچھلے حالات تبلیغی کیسے ہی دل شکن تھے.اخبارات کے نمائندوں سے ملاقات : یکم ستمبر کو دو پہر کے کھانے کے بعد دو تین آدمی حضور کی ملاقات کی غرض سے آئے جو بعض اخبارات کے نمائندے یار پورٹر تھے.حضور نے ان سے ملاقات فرمائی اور نمازیں ۴ بجے کے بعد جمع کر کے ادا کیں اور آج بھی سیر کو تشریف نہ لے جا سکے.برائیٹین میں جو کسی سینما والوں نے حضور کا مع خدام کے فوٹو لیا تھا وہ آج شہر کے مشہور سینما میں دکھایا جار ہا تھا کسی نے حضرت کے حضور عرض کی کہ دیکھ لیا جاوے.حضور نے بھی فرمایا بہت اچھا اور بعض
122 باتیں اور وقت پوچھوا یا مگر چوہدری فتح محمد خان صاحب اور ملک مولا بخش صاحب نے مخالفت کی اور عرض کی کہ یہ بات وقار کے خلاف ہے.لوگ کہیں گے کہ اپنی تصویروں کو دیکھنے آئے ہیں لہذا حضور نے اس بات کو پسند فرمایا کہ میں سینما کو تو دیکھنا چاہتا ہوں مگر ایسا ہو کہ جس میں خرافات نہ ہوں بلکہ صرف میدان جنگ کے نظارے اور علمی و تاریخی واقعات دکھائے جائیں.آج تو میں بیمار بھی ہوں لہذا ان سے کہہ دو کہ نہیں آسکتے مگر بعض دوستوں کی تحریک پر فرمایا کہ اچھا علی محمد سے کہہ دو کہ دیکھ آوے چنانچہ چوہدری علی محمد صاحب دیکھنے کو گئے ہوئے ہیں اور حضرت اقدس آج مکان سے باہر تشریف نہیں لے جا سکے.اتوار کے دن عرفانی صاحب سبز کے سوا دوسری پگڑی بندھ کر لنڈن کے بڑے گر جا میں گئے جہاں ان کو اچھی جگہ بٹھایا گیا اور وہ سرمن وغیرہ سن کر واپس آگئے.تکلفات بہت سناتے ہیں کہ گر جا کے اندر ہوتے ہیں.عورتیں اور مرد ادھیڑ عمر کے زیادہ جاتے بتاتے ہیں نو جوان کم مگر کہتے ہیں کہ جو لوگ جاتے ہیں دل سے جاتے ہیں.چوہدری علی محمد صاحب سینما دیکھ کر واپس آگئے اور انہوں نے بتایا کہ حضرت اقدس کا مع خدام اس یادگار پر تشریف لے جانا اور دعا کرنا اور ادھر اُدھر پھرنا پورے کا پورا فلم پر لے لیا گیا ہے جو ہو بہو نظر آتا ہے.پوری صفائی اور ٹھیک ترتیب سے کوئی فرق کسی قسم کا ظاہر اور اس فوٹو میں نہیں ہے اور لوگ بڑے ادب استعجاب اور توجہ اور حیرت سے اس نظارہ کو دیکھتے ہیں.کوئی مثال ہنسی اور مذاق یا بے ادبی و گستاخی کی دیکھنے میں نہیں آئی.رات حضور ساڑھے ۱۲ بجے تک اس مضمون کا ترجمہ درست کراتے رہے جو مذہبی کا نفرنس میں پڑھا جانے والا ہے اور جسے جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نہایت محبت بلکہ عشق اور شوق سے کر رہے ہیں.لنڈن کا شہر اس قدر وسیع ہے کہ اس کی ابتدا انتہا کا پتہ لگانا مشکل ہے.۷۰ لاکھ انسان ہے.۷۰ اس میں بستے ہیں.میلوں میں باغات اور سیر گاہیں اور تماشا گا ہیں آبادی کے درمیان بنائے گئے ہیں.دریا اور جھیلیں اس کے درمیان سے نکلتی ہیں.اوور گراؤنڈ (Over Graund) اور انڈر گراؤنڈ (Under Graund) ٹیوب لائنز کی سینکڑوں ٹرینیں ایک ایک دو دو منٹ کے بعد چلتی
IZA ہیں.بیسیوں اسٹیشن اور بیسیوں ہی جنکشن سٹیشن ہیں.ہزاروں بس با قاعدہ شہر کے اندر گھومتی ہیں.لاکھوں کا ر اور ٹیکسیاں ہیں جن کی کوئی حد و حساب ہی نہیں.تجار- ٹھیکہ دار.روٹی والا.دودھ والا - گوشت والا.جنرل مرچنٹ - کوئلہ والا.سبزی فروش - فروٹ مرچنٹ غرض ہر پیشہ و کام والا اپنی موٹریں رکھتا ہے.دھوبی کی بھی موٹریں ہیں.چمار بوٹ ساز کی بھی موٹریں ہیں.لوہار اور ترکھان اور معمار بھی موٹریں رکھتے ہیں.ادھر آپ نے مکان سے فون کیا اُدھر اس نے موٹر میں سامان رکھا اور آپ کے دروازہ پر حاضر ہو گیا.ہزاروں گھوڑا گاڑیاں ہیں.لاکھوں چھکڑے ہیں جو دن رات کام کرتے ہیں.شہر کی وسعت کا اندازہ لگانے کے لئے ایک بات ہی کافی ہوگی اور وہ یہ کہ ایک ستر سالہ بڈھا آدمی انگریز پاگل نہیں ہوشیار سمجھدار اور کاروباری آدمی جولنڈن میں پیدا ہوا اور لنڈن ہی میں دن رات کا روبار کرتا ہے اس کو بھی اگر اپنے محلہ یا خاص خاص مشہور مقامات کے علاوہ کسی دوسری جگہ جانا پڑے تو پولیس مین یا کسی محلہ دار سے پوچھتا پھرے گا یا اگر اس کونقشہ کی واقفیت ہے تو نقشہ کی مدد سے وہاں پہنچ سکے گا.ایسا شخص بھی اگر ان چیزوں کی امداد کے بغیر کسی جگہ جانے کی کوشش کرے تو ناممکن ہے یقینا بھولتا اور ٹھوکریں کھاتا پھرے گا.ہمارے مبلغین جن میں سے بعض کو پانچ پانچ سال یہاں رہتے ہو گئے ہیں ان سے جب کبھی کسی مقام کا راستہ معلوم کیا گیا انہوں نے عذر ہی کیا اور کہہ دیا کہ پوچھتے چلے جانا.پولیس مین سے دریافت کر لینا ہمیں واقفیت نہیں ہے.کبھی کہتے ہیں کہ ہم لوگ اگر ایک مکان پر بیس مرتبہ بھی جاچکے ہوں تو بھی وہ ہمارے واسطے نیا ہے جب جاتے ہیں اس مکان کا رخ بدلا ہوا ہی نظر آتا ہے.الغرض لنڈن کا شہر ، شہر نہیں بلکہ ایک ملک ہے جس میں مسلسل آبادی چلی گئی ہے اور مکانات کی کثرت اور یک رنگی اور بازاروں سڑکوں اور چوکوں کی مشابہت ایسی واقع ہوئی ہے کہ انسان بے پوچھے کسی جگہ پہنچ ہی نہیں سکتا مگر اس کے ساتھ ہی صفائی اور انتظام کا بھی کمال ہے.سڑکوں پر پتہ تک گرا ہوا نظر نہیں آتا.بعض جگہ بس کے ٹکٹوں کے سوا ( ان کو بھی ممکن سے ممکن جلدی اُٹھا لیا جاتا ہے.) جو لوگ بسوں سے اُترتے ہوئے سڑک پر ڈال دیتے ہیں کچھ کہیں پڑا نظر نہیں آتا.شہر با وجود ایسا آباد ہونے کے بالکل خاموش معلوم ہوتا ہے.ہمارے محلہ میں ہزاروں مکان
۱۷۹ ہیں اور سب آباد ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب خالی اور بند پڑے ہیں.دروازہ کھول کر بیٹھنا یہاں معیوب ہے.بات کرتے ہیں تو بہت آہستہ چلنے پھرنے اور کاموں میں ایک ترتیب انتظام اور وقار نظر آتا ہے.موٹروں اور گاڑیوں کو بھی ایسا بنا دیا ہے کہ شور بہت کم ہوتا ہے.ربڑ نا ئیرایسی بنائی ہیں کہ کم از کم آواز نکلے.کل کھانے کے میز پر حضرت نے فرمایا کہ ہمارے نیر صاحب ہمیں ایسے کام بتاتے ہیں جن کے لئے ہم یہاں آئے نہیں.وہ کہتے ہیں حضور فلاں میوزیم قابل دید ہے.فلاں ہال بہت اچھا بنا ہوا ہے.فلاں سینما میں بہت ہی عجائبات دکھائے جاتے ہیں.فلاں سٹریٹ خاص کر دیکھنے کے قابل ہے.فلاں لارڈ بہت بڑا آدمی ہے مگر ہم یہاں نہ سیر کو آئے ہیں نہ ہماری یہ غرض ہے اور نہ ہی ان چیزوں کے دیکھنے کا دل میں شوق ہے.جس غرض اور ضرورت کو لے کر ہم یہاں آئے ہیں اس کے پورا کرنے کا فکر کریں تو ہمیں خوشی بھی ہو.پٹنی کا مکان فروخت کر دینے کا حضور ارادہ فرماتے ہیں اور خیال ہے کہ کسی اچھے یسپیکٹیل (Respectable) حصہ میں کوئی مکان لانگ لیز (Long Lease) پر لے لیا جاوے مثلاً ۳۰ سال کے واسطے لے لیا جاوے.نمائش گاہ کا ملا حظہ : پچھلے منگل کو حضرت اقدس ویمبلے کی نمائش گاہ دیکھنے کو تشریف لے گئے اور کل حضرت میاں شریف احمد صاحب گئے تھے.ویمبلے ایک پارک کا نام ہے جس میں اس نمائش کا انتظام کیا گیا ہے اس وجہ سے اس نمائش کا نام ویمبلے کی نمائش رکھا گیا ہے.با وجو دلنڈن کی اس وسعت کے کوئی انسان یہاں بھول نہیں سکتا بشر طیکہ اس کو اپنے مقام کا نام یاد ہو اور اسی خیال سے سید نا حضرت اقدس نے تمام خدام ہمرکاب کو حکم دے رکھا ہے کہ اپنی جگہ کا نام خوب یا درکھیں.سننے میں آتا ہے کہ لنڈن میں بدمعاش لوگ بھی رہتے ہیں.گانٹھ کترنے میں ان کو بڑی مہارت حاصل ہے.دھو کا باز بھی ہیں مگر آج تک ہمیں جن لوگوں سے واسطہ پڑا ہے بہت ہی شریف، خلیق ، ملنسار اور سچے ہمدرد اور محبت کرنے والے ملے ہیں.بڑی سے بڑی دکان کا بڑا
۱۸۰ کارندہ بھی Thank you sir.Beg your parden sir وغیرہ الفاظ سے بولے گا اور ہزار چیز محبت اور ادب سے دکھائے گا.کشادہ پیشانی ، ادب اور نرمی سے بات کرے گا.لینا نہ لینا آپ کا کام ہے مگر حتی الوسع وہ گاہک کو خالی جانے دیا نہیں کرتے.انسان ان کے اخلاق اور طریق تجارت سے مجبور ہو جاتا ہے کہ کچھ تو ضرور ہی خریدے.خوش اخلاقی اور فرض کی ادائیگی : ریل گاڑیوں، بتوں اور موٹروں والے غلاموں کی طرح آپ کے احکام کی تعمیل کریں گے.پوسٹ آفس یاد وسرے دفاتر میں جائیں زیادہ تر عورتیں ہوں گی مگر ہمارے ملک کے بد مزاج مردوں سے ہزار گنا اچھی ہیں.محنت ، توجہ اور نرمی سے دوسرا کام چھوڑ کر بھی آپ کے حکم کی تعمیل کریں گی اور اگر اس کا کام نہیں تب بھی وہ آپ کا کام خود کر دے گی یا دوسرے سے کرا دے گی.میں پنجاب کے ڈاک خانوں میں جانے سے اکثر گھبرایا ہی کرتا ہوں مگر یہاں کے ڈاک خانہ میں مجھے ڈاک لانے اور لے جانے کا کام ملا ہوا ہے.ڈاک خانہ والے بہت ہی خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں.بنڈل ان کے ہاتھ میں دے کر الگ کھڑا ہو جاتا ہوں.پتا دیکھنا.وزن کرنا.محصول بتانا بلکہ خود ہی ٹکٹ چسپاں کر کے رسید دینا سب کام خود کرتے ہیں.اگر کبھی رسید بھول جاؤں تو دوسرے دن دے دیا کرتے ہیں.کام کرنا اور محنت اور دیانت داری سے کرنا.اوقات کی پابندی سے کرنا.کام کرنے میں عار نہ کرنا.افسروں کی فرمانبرداری کرنا اور ایک دوسرے سے تعاون کرنا ان لوگوں سے سیکھنا چاہیئے.تھوڑے وقت میں زیادہ کام کرتے ہیں.(انرجی ) طاقت کو ضائع ہونے سے بچاتے ہیں.وقت کی قیمت پہچانتے ہیں.سلیقہ سے کام کرتے ہیں.دھوکا نہیں کرتے.عورتوں کی حیاداری : ہوں گے گندے لوگ بھی.ہوں گے بد معاش اور عیاش لوگ بھی.ہوں گے دھوکا باز اور دغا باز لوگ بھی ہوں گے ست اور کاہل اور کام کے چورلوگ بھی.ہوں گے نافرمانبردار اور غدار لوگ بھی مگر میں جانتا ہوں کہ زیادہ تر شرفا ہیں.بازار میں نکلیں تو عورتیں ہی عورتیں زیادہ نظر آتی ہیں.نہ معلوم یہاں عورتیں ہیں ہی زیادہ یا مرد چھپے بیٹھے رہتے
۱۸۱ ہیں.نظر زیادہ عورتیں ہی آتی ہیں مگر میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی عورت بے حیائی سے یا گستاخی سے کسی کو گھورتی ہو.ہم لوگ یہاں عجوبہ ہیں اور حقیقتاً ان لوگوں کے لئے تما شا ہیں.بعض کیا اکثر ہمیں دیکھتی ہیں مگر ان کا دیکھنا ایسا مہذبانہ ہوتا ہے کہ اس کی نظیر نہیں حتی کہ بعض ہمارے ملک کی نام کی پردہ دار عورتوں سے بھی جو دراصل بد نام کنند و کونا سے چند ہوتی ہیں زیادہ حیا اور رخص بصر سے کام لیتی ہیں.کام کاج کی وجہ سے ان کو اپنے اکثر اعضا ننگے رکھنے پڑتے ہیں.لیکن اگر ان کے دلوں میں ذرہ بھی ایمان کی چنگاری داخل ہو جائے تو انشاء اللہ بہت جلد ان میں پوری غض بصر کا نظارہ دیکھا جا سکتا ہے.خدا کرے کہ جلد تر یہ لوگ اسلام اور حقیقت اسلام کو سمجھیں.لنڈن مشن کی تبلیغی مساعی کا کوئی شمر اب تک تو نظر آیا نہیں.خدا کرے کہ جلد تر یہ باغ بھی ہرا بھرا ہوا ور حضرت فضل عمر کی دعا ئیں ، تو جہات اور محنت و کوشش بار آور ہو آمین.حضور نے کل رات رؤیا میں ھادی اور فضل الرحمن کو دیکھا.ھا دی تو وہی ھادی علی خان قادیان والے ہیں مگر فضل الرحمن کوئی نیا آدمی ہے.رؤیا : حضور نے کل یہ رویا سنایا.اس وقت جب کہ مولوی غیر صاحب نے حضور کے کام نہ ہونے کے ذکر پر عرض کیا حضور کام بہت آنے والا ہے.حضور دیکھیں گے کہ کام کتنا آتا ہے.حضور کو ایک منٹ کی بھی فرصت نہ ہوگی.حضرت اقدس نے فرمایا کہ کام تو خدا دے گا اور ضرور دے گا چنانچہ رات ہی اس نے مجھے تسلی دی ہے اور یہ رویا دکھائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کام تو انشاء اللہ آ وے گا اور ضرور آوے گا اور فضل کے دروازے کھلیں گے اور ضرور کھلیں گے مگر محض خدا کے فضل اور رحم سے نہ آپ کی کہ کوشش سے“.۶ ستمبر ۱۹۲۴ء : حضور آج بھی صبح کی نماز میں تشریف نہیں لائے.ناشتہ بھی لے کر بیٹھا ہوا ہوں اور دوست ناشتہ کرتے جاتے ہیں مگر حضور نہیں تشریف لائے.طبیعت خراب ہے جس کی وجہ سے سبھی پر اُداسی ہے.
۱۸۲ مکرمی ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کی بیگم اور بچوں کو بھی قادیان لانے کی تجویز در پیش ہے اور بابو عزیز الدین صاحب کو بھی واپس قادیان لانے کا معاملہ زیر غور ہے.ایجنسی کا کام بھی خاص طور پر توجہ کے قابل ہے.مولوی مصباح الدین صاحب دو سال تک مشن لنڈن کے انچارج رہے ہیں اب شاید ایجنسی کا انتظام بھی انہی کے سپرد کیا جاوے اور اس کو بھی وہ سنبھال لیں البتہ ان کی قابلیت اور اہلیت کا سوال زیر غور ہے.حضرت کی طبیعت اللہ کے فضل سے آج گل کی نسبت اچھی ہے.حضور کھانے کے لئے میز پر تشریف لائے.ساگودانہ ، ایک چپاتی اور تھوڑا سا پھل بھی تناول فرمایا.مذہبی کا نفرنس کے مضمون کے متعلق حضور نے یہ تجویز کی ہے کہ سنائے جانے سے دو چار روز قبل اس کو یہاں بھی خوبصورت طبع کرالیا جاوے اور سنائے جانے کے دن کی صبح کو اخبارات کے نام پوسٹ کر دیا جاوے اور جوطبع یہاں کی ہو وہ یورپ ہی میں فروخت اور شائع کی جاوے اور جو ہندوستان میں چھپ رہا ہے وہ ہندوستان میں فروخت ہو.جب ہندوستان کی طبع ختم ہو جائے تو دوسری ایڈیشن یورپ میں چھپوائی جاوے.مضمون ٹائپ کے واسطے دیا جا چکا ہے اور کل تک کمیٹی کو پہنچایا جائے گا انشاء اللہ تعالیٰ.لنڈن میں دعا : قیام لنڈن میں کھانے کے بعد عموماً دو وقتہ ہاتھ اُٹھا کر دعا کی جاتی ہے.کھانا شروع کرتے وقت بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کا خاص طور سے تبلیغی اغراض کے مد نظر تاکیدی حکم ہے کیونکہ عموماً غیر بھی شریک طعام ہوتے ہیں اس طرح تبلیغ کے لئے ایک راہ پیدا ہو جاتی ہے.حضور آج ترجمہ کو دیکھ رہے ہیں اور اُمید نہیں کہ سیر کو بھی تشریف لے جائیں.حضرت میاں صاحب اور عرفانی صاحب آج بعد دو پہر ایجنسی کی دکان کو دیکھنے کے واسطے گئے ہیں.غالباً کوئی صحیح رپورٹ مع اپنی رائے کے حضرت اقدس کے حضور پیش کریں گے.حضرت اقدس کا منشا ہے کہ یہاں سے الفضل کے واسطے چھاپنے کی کوئی اچھی مشین خریدی جاوے.ایک دستی پریس کی مشین بھی ہے جس میں معمولی ایجنڈے اور فل سکیپ سائز کے اشتہارات بہت جلدی اور ارزاں اور عمدہ چھپ سکتے ہیں.قیمت صرف بارہ پونڈ ہے مگر اس سے
۱۸۳ اچھی قسم کی مشین بھی یہاں کئی ملتی ہیں.اعلیٰ قسم کی ۲۵ پونڈ تک مل جاتی ہے.اس مشین پر جو بارہ پونڈ کی ملتی ہے ہم لوگوں نے ۲ گھنٹہ میں بارہ سو کاغذ چھاپا جو تمام انجمن ہائے احمدیہ کے سیکرٹریوں کو بطور مختصری رپورٹ کے بھیجا گیا ہے.ابھی پہلا دن تھا ور نہ چھپائی اس کی بہت عمدہ ہو سکتی ہے اور غالباً بہت ارزاں بھی ہوگی.کھانے کا خرچ : ہمارے پہلے عشرہ کا بل ۳۱ / اگست تک صرف کچن کے متعلق ۴۷ پونڈ کا آیا ہے.سیدنا حضرت خلیفہ ایسیح کے دستر خوان پر اوسطاً روزانہ ۲۵ آدمی کا کھانا چنا جاتا ہے جن میں سے دیسی طریق اور دیسی کھانا ۱۹ اکس کے واسطے ہوتا ہے ( جو میاں رحمدبن تیار کرتا ہے.روٹی بازار سے آتی ہے.باقی کس کا کھانا انگریزی طرز کا ہوتا ہے ) جن میں ۴ نوکروں کے علاوہ مکرمی جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور ایک ان کے دوست جرمن رئیس مسٹر آسکر ہیں.نوکر لوگ بھی وہی کھانا کھاتے ہیں بلکہ اس سے بھی ایک رنگ میں بہتر جو ہمارے مکرم چوہدری صاحب کو ملتا ہے.چائے پانی کا تو حساب ہی نہیں جتنی مرتبہ چاہیں پئیں اور جو چاہیں کھائیں اس کے بغیر وہ کام ہی نہیں کرتے.باورچی خانہ کے اخراجات پر کنٹرول کے لئے مجھے حکم ملا ہے.دیسی کھانے میں تو ہر ممکن کمی اور کفایت کر دی گئی ہے انگریزی کھانے کی مجھ سے کوئی حد بست نہیں ہوسکی گور و با صلاح وہ کام بھی ہو چلا ہے.اگر ۲۵ پونڈ ہفتہ وار اخراجات تک میں اس پل کو پہنچا سکوں تو میں سمجھوں گا کہ میری بہت بڑی بہادری ہوگی.بہر حال اخراجات لنڈن کے بہت ہی بے انتہا ہیں.اخراجات کی زیادتی : بعض دوستوں نے لنڈن پہنچتے ہی کپڑے دھونے کو دے دیے تھے.جب پل آیا تو سب کی آنکھیں کھلیں اور سب نے عہد کیا کہ آئندہ حتی الوسع کپڑے دھلانے میں محتاط رہیں گے.میں اٹلی کے شہر روما کا ڈرا ہوا تھا.وہاں ململ کا کرتا دھونے کو دے بیٹھا تھا.کے پیسے لے لئے اور گرتا پھاڑ کر بھیج دیا.وہ گرتا میں نے نیا بنایا تھا جوصرف جہاز میں ایک ہفتہ پہنا تھا اور ایسے گرتے ایک پیسہ کے صابن میں ہم لوگ چار دھو سکتے ہیں.اس خوف کے مارے میں نے تو لنڈن میں کوئی کپڑا نہ دیا.جنہوں نے دیئے وہ حیران ہوئے کہ کپڑے لیں یا مزدوری میں دھوبی کو ہی دے دیں.صرف ایک سفید پاجامہ کی دھلائی ڈیڑھ روپیہ لگائی ہے (۲ شلنگ ) غور فرمائیے
۱۸۴ یہاں کے لوگ کوٹ چھوٹا اور پتلون نہ پہنیں تو کیا کریں؟ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو مبارکباد : ۳ رستمبر حضور رات کو قریبا تین بجے تک مضمون سنتے رہے.ہمارے محترم مخلص نوجوان چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے بہت ہی قابلِ مبارک باد ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ ایسے عظیم الشان تبلیغی کام لے رہا ہے اور ان کے والدین اور بھی زیادہ لائق تحسین اور قابلِ مبارکباد ہیں جن کو اللہ کریم نے ایسا لائق نیک اور خادم دین بچہ دیا اور یہ خدا کا خاص فضل ہے.پانچ یا چھ دن سے دن رات ترجمہ کے کام میں مصروف ہیں.گو وقت کی تنگی کی وجہ سے ترجمہ کرنے میں جلدی کر رہے ہیں اور زیادہ توجہ اور فکر کا موقع نہیں ملتا مگر خدا نے ایسا ملکہ دیا ہے کہ اہلِ زبان بھی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے.برائیٹین میں حضور نے جو ایڈریس پڑھا تھا اس مضمون کو برائیٹین کے دو اخبارات نے پورا پورا شائع کیا ہے اور چوہدری صاحب کی انگریزی کی بہت بڑی تعریف کی ہے کیا بلحاظ زبان اور کیا بلحاظ لہجہ کے.حضرت اقدس پھر کئی روز سے متواتر باوجود بیمار ہونے کے سخت محنت کر رہے ہیں.حضور نے اف اف اف - ہائے ظالم خدا تجھے ظلم کی سزا دے اور ایک بے گناہ معصوم کے سنگسار کرنے کی پوری پوری پاداش دے تو نے اپنے ذمے سے احمدیت کے داغ کو مٹانے کی کوشش میں اور دنیا کو خوش کرنے کی غرض سے ایک بے گناہ کو محض اس وجہ سے قتل کیا ہے کہ وہ خدا کو اپنا رب اور حضرت احمد کو خدا کا مرسل یقین کرتا تھا.تو یقین رکھ کہ جن باتوں کے حصول کے لئے تو نے یہ فعل کیا ہے وہ اغراض تجھے ہر گز گز میسر نہ آئیں گے اور جن کو خوش کرنے کے لئے تو نے اس غریب بے کس، بے بس کو قتل کیا ہے وہ یقینا تیری جان کے دشمن اور تیرے خون کے پیاسے ثابت ہوں گے.یا درکھ! کہ خدا تجھے نہ چھوڑے گا.حتی کہ اس دنیا میں بھی تجھے ذلت اور رسوائی کے اتھاہ گڑھے میں ڈال دے اور آخرت کا عذاب اور بھی سخت واشر ہو گا کے الفاظ دہراتے ہوئے مضمون کا ترجمہ سنا.مولوی نعمت اللہ خان کی شہادت کی خبر : ٹھیک پونے چار بجے ہیں کہ ایک تار ارجنٹ
۱۸۵ (Urgent) قادیان سے پہنچا جس نے اس حقیقت کو آشکار کیا اور اس ظلم کی کہانی کو ہم تک پہنچایا جو سرز مین کا بل میں ۳۱ / اگست ۱۹۲۴ء کے دن ایک خون ناحق کے رنگ میں واقع ہوئی ہے.انا لله وانا اليه راجعون - فصبر جميل والله المستعان- انما اشكوا بثي وحزني الى الله ظالم مظلوموں کو قتل کر کے حق کو مٹانا چاہتے ہیں مگر یقین رکھیں کہ ان مظلوموں کے خون کا ایک ایک قطرہ لاکھوں طالبان حق پیدا کر کے رہے گا اور نہ چھوڑے گا جب تک اس ظلم کی پاداش ظالم کو نہ دے لے اور حق کا پودا مضبوط اور توانا نہ کر دے اور مظلوم کے خون کا ہر قطرہ صحیح معنوں میں شہید کا قائمقام بن کر الیسا انتقام لے گا جس کی مثال دینوی انتقام میں نہ ملتی ہے نہ ملے گی.حضور کی طبیعت کئی دن سے پہلے ہی کمزور اور نا ساز تھی.سیر تک کو گھر سے نہ نکل سکتے تھے کہ پیچش کی شکایت بڑھ نہ جائے.آج کے صدمہ نے حضور کے قلب پر کیا اثر کیا ہو گا اس کا علم اللہ ہی کو ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ بڑے ہی مہربان اور ہمدرد ہوتے ہیں.غلاموں کے ایک کانٹے کی تکلیف ان کو دو بھر گزرتی ہے چہ جائیکہ ان کا ایک غلام ہاں بے گناہ اور معصوم خادم ، خادم دین ، ایسا خادم جس نے حق کے لئے جان تک کی پرواہ نہ کی اس کے قتل کی اچانک خبر حضور کو پہنچی حضور کے دل پر اور حضور کی صحت پر کیا اثر کرے گی.اللہ رحم کرے.اللہ کرم کرے اور حضور کی صحت و عافیت کو ترقی دے.خود حفاظت کرے ہر تکلیف سے آمین.حضور نے فوراً چوہدری فتح محمد خان صاحب کو اور مولوی عبدالرحیم صاحب در دکو جو کہ ابھی ابھی تار کٹنگ کے دفتر سے لے کر آئے تھے اخبارات کی طرف بھیج دیا ہے کہ تا وہ اخبارات والوں کو اس داستان ظلم سے آگاہ کریں.مکرمی مولوی غیر صاحب بھی آئے ہیں ان کو بھی حضرت اقدس نے اخبارات کی طرف روانہ کر دیا ہے اور خود اسی وقت سے دروازہ بند کر کے کمرہ میں مصروف دعا ہیں.قریباً ایک گھنٹہ بعد مذہبی کانفرنس ویمبلے کے وائس پریذیڈنٹ صاحب ملاقات کی غرض سے آئے ہیں ان کا وقت آج ملاقات کے لئے مقرر تھا اور حضور ان کی ملاقات کے واسطے لائبریری
۱۸۶ کے کمرہ میں تشریف لے گئے ہیں.حضور نے ملاقات کے بعد نماز عصر پڑھائی اور وہیں تشریف فرما ہو کر شہید مرحوم کا ذکر شروع فرمایا اور حکومت کابل کے لائق ملامت رویہ اور غداری پر اظہار رنج فرمایا.فرمایا کہ ان لوگوں نے غداری کی ہے.حریت اور مذہبی آزادی کا اعلان کر کے پھر ہمارے لوگوں کو خو د بلوا کر یہ دغا کی ہے.فرمایا کہ اگر ممکن ہو تو جلد سے جلد لنڈن کے شہر میں بڑے بڑے پوسٹروں کے ذریعہ سے موٹر کاروں پر اس ظلم اور بے قانونی کی تشہیر کی جائے.اگر ممکن ہو تو بجلی کے ذریعہ لنڈن کے شہر کے او پر فضا میں اشتہار دیا جائے کہ اس زمانہ تہذیب میں بھی سلطنت کا بل میں اس قسم کے سنگ دلانہ اور وحشیانہ مظالم روا ر کھے جاتے ہیں.اگر ممکن ہو تو سینما کے فلموں پر اس قسم کا اعلان لگوا یا جاوے جس کو تمام لنڈن کے لوگ پڑھیں اور حکومت کابل کے اس ظالمانہ فعل پر اظہار نفرت کریں.فرمایا جوصورت بھی اس ظلم کے اعلان کی جائز طور پر ممکن ہو عمل میں لائی جائے اور تمام مہذب گورنمنٹوں کو تاریں دی جائیں.امریکہ، فرانس، اٹلی وغیرہ تمام حکومتوں کو تار دیئے جائیں تا ان کو ان مظالم کی طرف توجہ ہو اور آئندہ کوئی صورت انسداد پیدا ہو سکے.فرما یا ہر زبان اور ہر ملک کے اخبارات میں ہر قسم کے اخراجات برداشت کر کے تاروں کے ذریعہ سے اعلان کرایا جاوے.اگر کسی کمپنی کے ذریعہ سے ممکن ہو تو اور بھی بہتر ہے.فرمایا شہید مرحوم کے آخری خط کا فوٹو لے لیا جائے اور اس کو محفوظ رکھا جاوے.چنانچہ احباب خود جا کر اور بعض فون پر ان امور اور ہدایات کی تعمیل کے لئے بعض لوگوں سے گفتگو کر رہے ہیں اور حضور نے مجھے حکم دیا کہ تار گھر سے پتہ لوں کہ آیا کا بل کو براہ راست تار جا سکتا ہے یا کہ نہیں ؟ سو میں اس وقت تار گھر میں کھڑا ہوں.تار کی انچارج لیڈی بڑی محنت سے کام کر رہی ہے.خود کچھ نہ کر سکی تو دوسری لیڈیوں سے مدد کی درخواست کی اور سب نے مل کر کوشش کی.نقشہ لے آئیں کہ کابل کہاں ہے بتا دو.بتا دیا گیا.کتابوں کو بار بار تلاش کرتی رہیں کچھ پتہ نہ چلا تو اب بے چاری انچارج ہمارا لکھا ہوا کابل افغانستان انگریزی میں ہاتھ میں لے کر
۱۸۷ بڑے فون پر گئی ہے اور ہیڈ کوارٹر سے معلوم کر رہی ہے.ابھی جواب نہیں آیا.مجھے فرصت مل گئی اور میں لکھنے کھڑا ہو گیا.حضور نے فرمایا کہ شَاتَانِ تُذْبَحَانِ کا الہام میرے نزدیک اب پورا ہوا ہے کیونکہ مولوی عبد الرحمن صاحب کے متعلق اب تک بھی بعض افغان دوستوں کو شبہ ہے کہ وہ اس جرم میں نہ مارے گئے تھے بلکہ کسی اور جرم میں مارے گئے تھے اور پھر قتل کی نوعیت بھی ان کی مختلف تھی.یہ دونوں قتل بذریعہ سنگساری یکساں ہیں اور اس طرح سے شَاتَانِ تُذْبَحَانِ اب پورا ہوتا ہے.ہیڈ آفس سے جواب آ گیا ہے کہ ہمارا کوئی تھر و ( through) کنکشن کا بل سے نہیں ہے مگر ہیڈ آفس والوں نے بتایا ہے کہ ایسٹرن کمپنی والوں کے ذریعہ سے شاید کوئی صورت ممکن ہو سکے.سواب وہ ایسٹرن کمپنی والوں سے معلوم کر کے پھر فون کرے گا تب ٹھیک معلوم ہو گا.جواب کیلئے میں ٹیلیگراف آفس میں منتظر ہوں.قادیان کی ڈاک : آج قادیان سے ۶ راگست کی چلی ہوئی ڈاک کے دو تھیلے حضرت کے حضور پہنچے ہیں جن میں احباب کے بہت سے خطوط ملے ہیں مگر مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کی شہادت کی خبر کی وجہ سے ہندوستانی ڈاک نے آج کوئی لطف نہیں دیا اور ایک لمبے عرصے کی انتظار کے بعد آنے والے خطوط سے کوئی خاص خوشی حاصل نہیں ہوئی.فون کا جواب پھر آگیا.لیڈی انچارج ( خدا ان کو ہدایت نصیب کرے اور مسلمان بنادے ) نے چیف آفس کو فون کیا.ان کے جواب سے ہمیں مطلع کر کے خود دوسرے کام میں لگ گئی.چیف آفس والوں نے ایسٹرن کمپنی سے دریافت کر کے پھر فون کیا اور بتایا کہ ایسٹرن کمپنی کابل کو تار بھیجتی ہے مگر وہ تار براستہ ہندوستان جاتے ہیں.ایک شلنگ آٹھ پنس فی لفظ محصول ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی شرط ہے کہ اس بات کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی کہ تار کا بل میں ڈیلیور (Deliver) بھی ہوگا یا کہ نہیں اور اگر ہوگا تو کتنے دن میں ان باتوں کی کوئی ذمہ داری نہیں.یہ جواب لے کر مکان پر آیا ہوں.حضرت کے حکم کی وجہ سے آج جلدی چلا گیا تھا یو نیفارم نہیں پہن سکا تھا معمولی سفید لباس میں چلا گیا تو میں نے محسوس کیا کہ اس قسم کے لباس کو بہت زیادہ
۱۸۸ تعجب اور حیرت سے دیکھا جاتا ہے.واپسی پر معلوم ہوا کہ دو تین لیڈیاں حضرت اقدس کی ملاقات کو آئی ہوئی ہیں اور حضور لائبریری میں ان کو انٹرویو دے رہے ہیں.عرفانی صاحب نوٹ لے رہے ہیں.ایک چلی گئی تو میں نے رپورٹ متعلق تار پیش کی.پھر دوسری لیڈی کا وقت آگیا اور وہ انٹرویو کے لئے اندر چلی گئی.مکرمی ماسٹر محمد دین صاحب اور عرفانی صاحب اندر ہیں.مگر می مولوی نیر صاحب بعض اخبارات کے ہاں ہو کر آگئے ہیں.اخبارات نے بطور ایک خبر کے شائع کرنے کا وعدہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ہم ڈیٹیلز (Details) کے منتظر ہیں.مگر چوہدری صاحب اور مولوی عبد الرحیم صاحب درد ابھی تک واپس نہیں آئے اور ایڈورٹائزمنٹ (Advertisement) کر نیوالی کمپنیوں کے دفاتر بند ہیں اس وجہ سے بجلی کے اعلانات اور پوسٹروں وغیرہ کا بھی ابھی کوئی بندوبست نہیں ہو سکا.یہ حصہ تو رپورٹ لکھتے ہوئے بطور ایک حادثہ کے اچانک پیش آ گیا تھا جو لکھا اب آگے اصل رپورٹ لکھتا ہوں.مضمون کے ترجمہ کو حضور نے لفظاً لفظاً خود سنا اور درست کرایا اور پھر کچھ اور مضمون بڑھانے کی غرض سے خود مضمون لکھنے بیٹھے ہوئے تھے کہ اس اثنا میں یہ تار پہنچ گیا جس کا ذکر اوپر کیا ہے-فانالله وانا اليه راجعون- کاش ہمارے حقیقی جاں نثاروں کی ایک ایسی جماعت پیدا ہو جائے جو یکے بعد دیگرے اگر ضرورت پڑے تو اس طرح خدا کی راہ میں کلمہ حق پہنچاتے ہوئے جانیں دیں پھر دیکھیں کہ کا بل کی حکومت کہاں تک ظلم کا دروازہ کھلا رکھتی ہے اور پھر کب تک قائم رہتی ہے یا پھر کلمہ حق کو عروج ہوا اور خدا کا نام اور اس کے رسول کا پاک کلام سرزمین کا بل کو فتح کرلے اور ان شہد آء کے سراس فتح کا سہرا بند ھے.خیر یہ کام تو خدا کا ہے خدا خود کرے گیا.ہمیں نیوں کا ثواب ملے گا اور مل کر رہے گا انشاء اللہ.چوہدری فتح محمد خان صاحب اور مولوی عبد الرحیم صاحب در دکو اخبارات کے پاس گئے ) در ہوئے بہت دیر ہوگئی واپس نہیں آئے.حضرت نے فرما یا غالبا اخبارات والوں نے زیادہ دلچسپی لی ہوگی اس وجہ سے دیر ہوئی چنانچہ وہی بات ہوئی جب وہ دس بجے رات کو واپس آئے تو انہوں نے
۱۸۹ بتایا کہ بعض اخبارات کے ایڈیٹروں سے ایک ایک گھنٹہ گفتگو رہی ہے اور تمام حالات ان کو بتائے گئے ہیں مگر وہ اصل حصہ بات کا ان سے بھی رہ گیا کہ جو حضرت کا منشا تھا کہ ضرور اخبارات میں آجائے.وہ یہ تھا کہ خود افغان گورنمنٹ نے آزادی کا اعلان کیا.منصوری کے مقام پر ہمارے نمائندوں کو رو بر و گفتگو میں یقین دلایا کہ افغانستان میں اب آزادی اور امن ہے آپ بے شک اپنے آدمی بھیج دیں اور ہمیں اس مضمون کی چٹھیاں بھی آئیں مگر جب آدمی گئے تو ان کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا.یہ غداری ہے اور بد عہدی.حضور نے تمام مہذب گورنمنوں کو تاریں بھیجوائیں جن میں جاپان.ترک اور مصری حکومتیں بھی شامل ہیں.لیگ آف نیشنز کو بھی حضور نے تار د لایا.ان تاروں کے لئے مضمون حضور نے خود تجویز کیا جس کا انگریزی ترجمہ مکرمی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بتغیر الفاظ کر کے پھر ( نقل مطابق اصل ) حضور کو سنایا.حضور کا مضمون حسب ذیل تھا.افغانستان گورنمنٹ نے ۳۱ /اگست کو احمد یہ مشنری مقیم کا بل کو - بوجہ مذہبی اختلاف کے سنگسار کر دیا.احمدی مشنری نعمت اللہ خان کو اس سے پہلے کئی ہفتہ سے قید خانہ میں ڈال دیا گیا تھا اور افغان گورنمنٹ سے اس کے خلاف احتجاج کیا گیا تھا مگر بجائے انصاف کی طرف لوٹنے کے اس نے اس کو سنگسار کر دیا.اس سے پہلے افغان گورنمنٹ صرف اختلاف مذہبی کی وجہ سے ایک احمدی کو قتل اور ایک کو سنگسار کر چکی ہے.اس تہذیب کے زمانہ میں ایسا ظالمانہ اور کمینہ فعل نہایت قابل نفرت ہے اور میں آپ کی گورنمنٹ سے اُمید کرتا ہوں کہ وہ افغان گورنمنٹ سے اس کے متعلق پروٹسٹ کرے گی.یہ جرم اور بھی زیادہ کمینہ ہو جاتا ہے جب کہ دیکھا جاتا ہے کہ افغان گورنمنٹ نہ صرف یہ کہ مذہبی آزادی کا اعلان کر چکی ہے بلکہ میرے دعوۃ و تبلیغ کے سیکرٹری کو جواب میں لکھ چکی ہے کہ وہ احمدیوں سے آئندہ کوئی تعرض نہیں
کرے گی.“ 190 مرزا بشیر الدین محمود احمد ہیڈ آف دی احمد یہ کمیونٹی قادیان پنجاب حال ۶ چشم پیلیس بلگرا یا لنڈن قادیان بھی حضور نے تار کے جواب میں تار دے دیا ہے.ہدایات بھیج دی ہیں کہ کیا کرنا چاہیئے.-1 رات اخبارات کو یہ واقعات بتائے گئے صبح کی نماز کے بعد شائع ہو گئے ہیں.ڈیلی ایکسپریس اخبار نے بڑی دلچسپی سے لیا مگر واقعات کو خلط کر دیا ہے.شاہزادہ عبد اللطیف صاحب کی شہادت کے واقعات کو بھی خلط کر دیا ہے جو مکرم چوہدری فتح محمد خان صاحب نے ان کو سنائے تھے.-۲ ڈیلی نیوز نے بھی شائع کر دیا ہے مختصر مگر ٹھیک.رات حضور نے یہ بھی تجویز فرمایا تھا کہ ہائیڈ پارک میں لیکچروں میں ان مظالم کی تشہیر کی جائے مگر دیر ہوگئی اور وقت نہ رہا اس وجہ سے رات یہ کام نہ ہو سکا.ڈیلی ٹیلیگراف نے بھی لکھا ہے اور ٹھیک لکھا ہے.اخبار ٹائمنر لنڈن نے بھی اس واقعہ کا ذکر کر دیا ہے اور چٹھی بھی شائع کر دی ہے.مولوی نعمت اللہ خان صاحب مرحوم شہید کی آخری دستخطی چٹھی تھی.حضور آج صبح کی نماز میں بھی تشریف نہیں لا سکے.♡- ڈیلی میل نے بھی شائع کر دیا ہے اور بہت ہی اچھا لکھا ہے.زور دار بھی لکھا ہے اور شہید مرحوم کا خط بھی شائع کر دیا ہے-جزاہ اللہ احسن الجزاء- ڈیلی کرانیکل نے بھی لکھا ہے.ڈاک کا آج چونکہ دن ہے اور میری کئی ڈیوٹیاں باقی ہیں لہذا میں اس عریضہ کو اسی جگہ بند کرتا ہوں.اا بج چکے ہیں اور کھانے کا وقت بھی قریب ہے اور میں نے بہت سی ڈاک بھی پوسٹ
کرنی ہے.۱۹۱ سب دوست اچھے ہیں اور حضور کی طبیعت بھی اللہ کے فضل سے اچھی ہی ہے.دعاؤں میں یا دفرماتے رہیں.موسم یہاں ہر وقت ابر آلود رہتا ہے.تقاطر بھی جاری رہتا ہے.سورج کبھی نظر آتا ہے.فقط.عبد الرحمن قادیانی از لنڈن ۴ رستمبر ۱۹۲۴ء
۱۹۲ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خط نمبر ۱۳، مورخدا ار ستمبر ۱۹۲۴ء السلام عليكم ورحمة الله وبركاته پچھلی ہندوستانی ڈاک حضور نے بالکل آخری وقت لکھ کر ختم فرمائی جو ڈاک خانہ میں بھی بمشکل آخری وقت پوسٹ کی جاسکی.ایک اخبار کا فوٹوگرافر فوٹو لینے آیا جس نے دو قسم کے فوٹو لئے.خانصاحب جو گورنمنٹ آف انڈیا کے دفاتر کو صبح سے ناشتہ کر کے گئے ہوئے تھے، چار بجے کے بعد واپس تشریف لائے اور اپنی رپورٹ حضرت کے حضور سنائی جس میں فارن سیکرٹری کی طرف سے ہمدردی کا اظہار اور وعدہ تھا کہ پرائیویٹ سیکرٹری کے آجانے پر ضرور اس معاملہ کے متعلق نوٹس لیا جانے کی تجاویز اور کارروائی کرنے کی کوشش کرے گا اور کہ نوٹ ہر قسم کے ہم نے مرتب کر لئے ہیں.اخبارات کے کٹنگز آپ کی طرف سے آنے سے بھی قبل ہمارے پاس پہنچ چکے ہیں.وغیرہ وغیرہ.کابل کے متعلق تار: ۴ ستمبر شام کی نماز کے بعد حضور نے کھانا تناول فرمایا اور پھر اپنے کمرہ میں تشریف لے گئے.حضور کی طبیعت اداس اور چہرے پر غم اور رنج کے آثار نمایاں تھے.نماز عشاء کے لئے عرض کرنے کو میں حاضر ہوا تو حضور اس وقت کچھ لکھ رہے تھے اور نہایت مشغول تھے.دو ایک مرتبہ عرض کرنے پر فرمایا کہ اچھا مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو بھیج دو.مولوی عبدالرحیم صاحب دس پندرہ منٹ بعد واپس آئے اور نیچے چلے گئے.مجھے کہا کہ عرفانی صاحب کو لیتے آنا.ہم نیچے گئے تو معلوم ہوا کہ حضرت نے ایک تار قادیان کے لئے لکھا ہے.اس کو مولوی صاحب نے ٹائپ کیا ہے اور اسی وقت بڑے تا رگھر میں تار دینے کو چلے گئے.تار کی ایک نقل شامل ہذا کرتا ہوں.تا رتو آپ کی خدمت میں پہلے ہی پہنچ چکا ہے اور اخبارات میں شائع بھی ہو چکا ہوگا مگر میں اپنے فائل کو پورا ر کھنے کی غرض سے ایک نقل شامل کرتا ہوں.
۱۹۳ کس درد اور کس محبت کا اظہار ہے اور کیا ہمدردی اور شکر گزاری کا طریق جو تار کے ایک ایک لفظ سے ظاہر ہے.مضمون تار حضور نے خود تجویز فرمایا اور الفاظ بھی حضور نے خود ہی اپنے قلم سے لکھے.اصل محفوظ ہے.مولوی عبد الرحیم صاحب دردا بھی ٹائپ کرتے تھے کہ حضرت صاحب نماز کیلئے تشریف لے آئے.نماز پڑھائی اور پھر بیٹھ گئے.چند منٹ کی خاموشی کے بعد حضور نے حافظ روشن علی صاحب کو قرآن شریف سنانے کا حکم دیا.حافظ صاحب نے سورہ مومنون شروع کی اور ختم کر دی.حضور سر جھکائے چہرہ پر رومال رکھے ایک ہی حالت میں بیٹھے رہے.جب سورۃ ختم ہوئی تو چند لمحات کے بعد حضور نے سراٹھایا اور آنکھوں کو رومال سے پونچھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ حضور کی آنکھوں میں رقت اور سوز سے آنسو آئے ہوئے تھے.بیٹھ گئے اور خاموش تھے.نہ معلوم کیا ذکر شروع فرماتے کہ اتنے میں میاں عزیز الدین صاحب نے کچھ اپنا ذ کر شروع کر دیا.حضور اس طرف متوجہ ہو گئے.تھوڑی دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اتنے میں مولوی عبدالرحیم صاحب درد واپس آگئے.پھر حضور نے ان سے مختلف نظمیں سنیں اور اس کے بعد اور اذکار جاری رہے.حتی کہ رات کے ٹھیک دو بجے حضور ( البيت ) کے کمرہ سے اٹھ کر اندر تشریف لے گئے.۵ /ستمبر ۱۹۲۴ء : نماز صبح کیلئے حضور تشریف نہیں لا سکے.ناشتہ ساڑھے آٹھ بجے کے بعد حضور نے اپنے کمرہ میں کیا اور کانفرس مذہبی کے لئے مضمون لکھتے رہے.حتی کہ ٹھیک بارہ بج گئے اور ایک صاحب مسٹر داس گپتا بنگالی جن کے لئے پہلے سے وقت مقرر تھا آگئے اور حضور ان کی ملاقات کے واسطے اپنے کمرہ سے باہر لائبریری میں تشریف لائے.یہ شخص بڑا ہوشیار اور صاحب اثر معلوم ہوتا ہے.بہت دیر تک حضرت سے باتیں کرتا رہا اور واقعہ شہادت مولوی نعمت اللہ خان صاحب کے متعلق اس نے گہری دلچسپی کا اظہار کیا.خوب جرح قدح کر کے حالات پوچھے.جوش سے بھر گیا - اور حضور سے حضور کا عندیہ معلوم کیا کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ ہم خاموش نہ رہیں گے بلکہ اس کے خلاف جہاں تک ممکن ہو گا کوشش کریں گے.
۱۹۴ اس پر اس بنگالی نے عرض کیا کہ اس طرح سے ہندوستان کے مسلمان بھی اور حکومت کا بل بھی آپ کے سخت خلاف ہو جائے گی اور آپ کو مشکلات کا سامنا ہوگا.حضور نے فرمایا کچھ پرواہ نہیں.پہلے کون سے وہ لوگ ہمارے دوست ہیں.اب اگر مظلوم ہوکر بھی آواز نہ اٹھا ئیں تو کیا کریں.اسلامی وقار کا خیال : اس پر اس نے کہا کہ اگر حکومت کا بل کو اس سے کوئی نقصان ہوا تو آپ کو تکلیف تو نہ ہوگی آخر ایک اسلامی حکومت ہے.حضور نے فرمایا کہ اسلامی حکومت کے نقصان کو تو ہم لوگ کسی صورت میں بھی گوارا نہیں کر سکتے اور باوجود مخالفت اور تکالیف کے بھی ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی وقار جہاں تک ممکن ہو اور اسلامی شوکت جہاں تک قائم رہ سکے قائم رکھنے میں ہر ممکن مدد کریں گے مگر جہاں حق وصداقت کا سوال ہوا اور اس کو کسی وجود سے نقصان کا اندیشہ ہو یا اس کے راستہ میں جو چیز بھی روک ہو اس کی ہم لوگ بالکل پرواہ نہیں کرتے کیونکہ حق وصداقت وہ چیز ہیں جن کے قیام کی خاطر ہر چیز قربان کی جاسکتی ہے.ان باتوں کو سن کر وہ شخص بہت متاثر ہوا اور کہا کہ واقعی آپ لوگ حق پر ہیں.لہذا میں بھی آپ کے ساتھ ہوں اور پوری خدمت اور مدد کے واسطے حاضر ہوں.ان حالات میں ہمیں ایک منٹ بھی نہ کھونا چاہیئے اور فوراً کوئی کارروائی شروع کر دینی چاہیئے.جس کے لئے اس نے بتایا کہ شہر میں کوئی بڑا ہال کرایہ پر لے کر احتجاجی تقریر میں شروع کر دینی چاہئیں اور اس کام کے لئے میں اپنا نام بھی دوں گا جس سے امید ہے کہ لوگ کثرت سے آئیں گے اور اخبارات بھی اس معاملہ کو بڑی بڑی شاندار سرخیوں کے نیچے خاص طور پر شائع کریں گے.اس طرح آپ دیکھیں گے کہ چند روز میں دنیا میں کس قدر شور بپا ہوتا ہے.چنانچہ ساڑھے نو بجے ۶ ستمبر کا دن اس نے مقرر کیا کہ ہال وغیرہ دیکھنے کو چوہدری فتح محمد خان صاحب سیال اس کے ساتھ ہوں تا کہ مشورہ کے بعد مناسب جگہ کا فیصلہ کیا جا سکے.ڈیڑھ بجے کے قریب حضور اس کی ملاقات سے فارغ ہوئے.یہ باتیں کچھ حضرت اقدس سے میں نے سن کر اپنے لفظوں میں لکھی ہیں اور کچھ عرفانی صاحب سے سن کر جو اس وقت کمرہ میں نوٹ لے رہے تھے.
۱۹۵ پٹنی میں نماز جمعہ : کھانا کھاتے دیر ہو گئی.اڑھائی بجے فارغ ہو کر نماز جمعہ کیلئے پٹنی کی (البيت) کو گئے.حضور موٹر سے اور باقی لوگ ریل گاڑی سے.(البیت ) دیکھی اور مکان بھی ہم نے دیکھا اور باغات باغیچے بھی دیکھے.نماز جمعہ میں حضور نے سورۃ فاتحہ کی آیت اهدنا الصراط المستقیم کی تفسیر فرمائی اور نماز کے بعد جنازے غائب پڑھے.پھر کچھ حصہ مضمون مذہبی کا نفرنس کا ترجمہ سنا.دعوت چائے : نماز عصر پڑھا کر حضور خالد شیلڈرک کے مکان پر چائے کے لئے تشریف لے گئے.خالد شیلڈرک ایک پرانا مسلمان ہے.بہت محبت سے پیش آتا ہے.اس کی بیوی بھی مکان کے اندر السلام علیکم السلام علیکم کرتی ہوئی کھڑی اپنے مہمانوں کی خاطر مدارات میں لگی ہوئی تھی.لباس اس کا وہی یورپین تھا.حجاب اور پر دہ یا نقاب کچھ بھی نہ تھا بلکہ سر بھی نگا تھا اور کرتہ بھی بالکل یورپین فیشن ہی کا تھا.بہر حال برابر دو گھنٹہ تک بہت محبت سے چائے وغیرہ پلاتے رہے اور مہمانوں کی خاطر مدارات اور دلجوئی میں لگے رہے اور حق خدمت مہمانداری کا ادا کیا.بجے ایک ہال میں شیلڈرک صاحب نے انتظام کر رکھا تھا کہ اپنے دوستوں کو حضور سے ملاقات کرائیں.چنانچہ وقت پر وہاں گئے اور ان کے تین انگیریز دوست جو نو مسلم بتائے جاتے تھے حضور کی ملاقات کے لئے آئے اور چند منٹ تک حضور سے باتیں کرتے رہے.اس کے بعد حضور وہاں سے چل کر اول پیدل پھر ریل میں پھر پیدل مکان تک تشریف لائے.آخری حصہ کا مارچ بہت سخت اور تیز تھا.حتی کہ نصف سے زیادہ دوست ساتھ نہ پہنچ سکے اور پیچھے رہ گئے.رات کو کام : نماز عشاء ومغرب سے پہلے کھانا کھایا گیا.بعد میں نماز میں ہوئیں اور ٹھیک بارہ بجے ہم لوگ وتر کی نماز سے فارغ ہوئے.حضور نے پھر وہ ترجمہ سننا شروع کیا اور نہ معلوم رات کب تک سنتے رہے.میں تو سو گیا تھا.صبح سے کوئی دوست ملے نہیں.سوتے ہیں اسی وجہ سے کسی سے پوچھ بھی نہیں سکا.مسٹر خالد شیلڈرک کے مکان پر ایک انگریز کسی اخبار کا نمائندہ بھی ملا.حضور کے حالات اور گفتگو کے بعض نوٹ لے گیا اور ایک اور صاحب کنزرویٹروں (Conservative) میں سے
۱۹۶ حضور کی خدمت میں آئے اور بہت توجہ اور سنجیدگی سے باتیں کرتے رہے.اپنی پارٹی کے کوئی اچھے ممبر معلوم ہوتے تھے.انہوں نے عرض کیا اور حضور نے منظور فرمالیا کہ ۲۶ رستمبر کو حضور کا ایک لیکچر سیاسی ان کی مجلس میں ہو گا.انشاء اللہ تعالیٰ.۶ ستمبر ۱۹۲۴ء افغانی سفیر کو چوہدری ظفر اللہ خانصاحب کا خط : ۵ ستمبر کو حسب ذیل خط محترم جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے افغانی سفیر کو لکھا تھا اس کی ایک نقل میں نے بھی لے لی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ اس عریضہ کے ساتھ روانہ کروں گا.پچھلی ڈاک سے اخبارات یا ان کے کٹنگ نہیں بھیجے جا سکے.اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ کٹنگز کا انتظام میرے ہاتھ سے نکل کر ملک غلام فرید صاحب کے ہاتھ میں چلا گیا ہے اور آئندہ ان کی سپلائی ان کے ذمہ ہوئی ہے.وہ ابھی تک مہیا نہیں کر سکے.امید کہ اگلی ڈاک سے روانہ ہوں گے.جمعرات کو حافظ صاحب کو چائے نہ ملی تھی.لیٹ ہو گئے تھے سوتے رہے.گھنٹی بج گئی لوگ چائے پی گئے مگر وہ نہ آئے.۹ بجے کے بعد آئے.میں سامان اُٹھا کر باورچی خانہ پہنچا چکا تھا اور حضرت اقدس کا حکم بھی یہی تھا کہ وقت پر نہ آنے والے کو چائے یا کھانا نہ دیا جاوے.کل انہوں نے حضرت اقدس کے حضور عرض کیا کہ حضور صبح کی نماز کے بعد معا ے بجے چائے نہیں پی جاسکتی کیونکہ دراصل وہ وقت ہمارے ملک کے تو 4 بجے کے برابر ہوتا ہے.دوسرا نماز کے بعد نیند غالب ہوتی ہے.یہ وقت تبدیل کر دیا جائے.چنانچہ وقت صبح کے ناشتہ کا اب بجائے ۷ سے ۹ تک کے ساڑھے آٹھ بجے سے ۹ بجے تک ہو گیا ہے.اس طرح مجھے بھی کچھ تو لکھنے کا موقع مل جایا کرے گا.گولوگ آرام کرتے ہیں مگر میرا آرام اسی میں ہے کہ حضرت اقدس کے حالات بقید تاریخ جو مجھے مل سکیں ڈائری میں محفوظ کر کے ارسال خدمت کرتا رہوں.سید نا حضرت فضل عمر نے 9 بجے کے بعد ناشتہ فرمایا ہے.چوہدری فتح محمد خان صاحب مسٹر داس گپتا صاحب بنگالی کے پاس تلاش و پسندیدگی ہال کے واسطے گئے ہوئے ہیں.مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کے متعلق عذر گناہ بدتر از گناہ کے مطابق شملہ کا
۱۹۷ تار یہاں کے اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ ان کو کسی سیاسی معاملہ میں قتل کیا گیا ہے.اس کا جواب حضور ۱۰ بجے کے بعد لکھ رہے ہیں.اس کے جواب میں حضرت خلیفہ اسیح نے حسب ذیل تار وائسرائے ہند کو دیا.حضور نے مضمون تا رلکھا.جس کا ترجمہ جناب چوہدری صاحب محترم ظفر اللہ خان صاحب نے کیا اور گورنمنٹ آف انڈیا کو بھیجا گیا.اس تار کے ۲۸۳ لفظ تھے.۱۰؎ ( دس آنے ) فی لفظ والا تا ر دیا گیا.۲۰ پونڈ کے قریب خرچ ہوئے.نقل شامل کرتا ہوں.آج شام کو حضور نے ٹائمنر کے اس تار کے جواب میں مفصل لکھنے کا ارادہ فرمایا ہے جو انشاء اللہ ترجمہ ہو کر پیر کے اخبارات میں شائع ہوگا تو انشاء اللہ تعالی نقل یا اخبار بھیج دوں گا.خان صاحب کے ذکر میں میں نے لکھا تھا کہ گورنمنٹ آف انڈیا کے دفتر میں گئے.اس سے دراصل انڈیا آفس مراد ہے.چوہدری فتح محمد خان صاحب واپس آگئے.انہوں نے بتایا کہ لنڈن کے مشہور ہال سنٹرل ہال میں گئے اور کوشش کی کہ وہ ہال لیکچر کے واسطے مل جائے مگر وہ نہ ملا اور لوگوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا ہے کہ تم لوگوں نے بڑے زور سے تبلیغ اسلام کا تہیہ کر لیا ہے اس واسطے ہم لوگوں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ یہ ہال آپ لوگوں کو نہ دیا جائے.وہ لوگ چونکہ عیسائی ہیں ان کو حضور کی تشریف آوری اور کام کرنے سے سخت چوٹ لگی ہے.انہوں نے لفظ جو استعمال کیا وہ کمپین (Compain) تھا کمپین (Compain) فوج کشی کرنا غالباً مراد ہے.چوہدری صاحب نے ان سے کہا بھی کہ ہم نے کمپین (Compain) نہیں کی اور کوئی خاص حملہ نہیں ہے معمولی بات ہے.اس بات کو حضرت اقدس نے پسند نہ کیا اور کہا کہ کیوں آپ نے انکار کیا اور ان کو حوصلہ دلایا.ان کی کیوں نہ کمر ٹوٹنے دی.آخر چوہدری صاحب دوسرے ہال کی طرف گئے جس کا نام کیکسٹن ہال ہے اور اس میں پانچ صد آدمی کی گنجائش ہے.کرایہ ساڑھے سات پونڈ روزانہ ہے.ان لوگوں نے مان لیا اور وعدہ کیا کہ ہال دے دیں گے.پیر تک انتظار کریں گے اور کسی کے لئے ٹک نہ کریں گے.۱۵ ستمبر کے دن دے سکیں گے.اب حضرت اقدس کی منشا اور حکم سے پھر ان کو آرڈر کیا جاوے گا.مسٹر داس گپتا ( جیسا کہ بنگالی آدمی کا نام ہے ) بھی آج شام کو آوے گا.کھانا اسی جگہ کھائے گا اور مضمون اشتہار، مضمون
۱۹۸ لیکچر اور اور باتوں کے متعلق تفصیلی مشورہ اور پر وگرام تیار کیا جائے گا.اس کا خیال ہے کہ گورنمنٹ انگلشیہ پٹھانوں سے صلح رکھنا چاہتی ہے کیونکہ روس کی طرف سے کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح سے وہ افغانستان کو اپنے ساتھ شامل کر کے آگے بڑھے.اس وجہ سے انگریز تو شائد معاملہ ھذا میں کھلم کھلا افغانستان کی مخالفت نہ کر سکے.لہذا بہتر ہے کہ یہاں ایسے رنگ میں کام کیا جاوے جس میں پروٹسٹ نہ پایا جاوے بلکہ محض ایک صداقت کے لئے قربانی اور شہید کی جانبازی اور بہادری کا ذکر کیا جاوے.البتہ پرائیویٹ خطوط میں ضرور اس کا پرو پیگنڈا کیا جاوے.اور امریکہ چونکہ آزاد ہے وہاں کام کیا جاوے.اس ملک کے اخبارات اگر اس بات کو اُٹھا ئیں گے تو انگریز بھی مجبور ہوں گے کہ اس سے متاثر ہو کر کچھ کر نے کو آگے بڑھیں.بہر حال وہ آج شام کو انشاء اللہ تعالیٰ پھر آوے گا اور معاملہ طے ہو گا.کابل میں سات سال رہ کر ایک انگریز نے جو کتاب لکھی ہے وہ کتاب آج حضور نے منگائی ہے اور اس کے حوالہ جات سے ایک مضمون شائع کرانے کے واسطے نیر صاحب کو ابھی ابھی بھیجا ہے کہ وہ دیکھیں کہ لنڈن کے اخبارات میں جو خبر شائع ہوئی ہے میں اس کی تفصیل بتانا چاہتا ہوں کہ پتھر سے موت کے کیا معنے ہیں اور کابل میں وہ کس طرح سے ہوتی ہے.اس کو اس انگریز کی کتاب سے لکھ کر پھر کچھ اپنا مطلب بھی لکھ دیا جاوے وغیرہ وغیرہ.میاں عبد الرحیم خان صاحب کی طرف سے دعوت : 4 ستمبر کو نواب عبدالرحیم خان صاحب نے ۴ بجے دس بزرگوں کی ایک بڑے ہوٹل میں چائے کی دعوت کی جہاں حضور جانے والے ہیں.ایک مزدوری پیشہ انگریز نو مسلم بھی آیا ہوا ہے.اس سے باتیں ہورہی ہیں.بہت ہوشیار آدمی ہے.حضور رات بھی الگ اس کو اپنے کمرہ میں لے جا کر باتیں کرتے رہے.مذہبی کا نفرنس کا پروگرام شائع ہو چکا ہے.حضرت اقدس کا مضمون ۲۳ /ستمبر کو۳ بجے کے بعد شروع ہوگا انشاء اللہ تعالی.پروگرام کی ایک کاپی ارسال کرتا ہوں.اس مضمون کے بالا رہنے کی بھی دعائیں کی جائیں کیونکہ یہ بھی کامیابی اور اشاعت کا ایک راہ ہے.
۱۹۹ حضور چائے پی کر واپس تشریف لے آئے ہیں.گل دس آدمی مدعو تھے.۵ پونڈ صرف چائے پر خرچ ہوئے جو محض فیشن کی نذر ہوئے ہیں.بڑے آدمیوں کے بڑے ہی کام.ہوٹل اتنا بڑا بتایا جاتا ہے کہ اس کے اندر کو چے اور بازار ہیں.ناچ گھر ہیں.سنیما ہیں وغیرہ وغیرہ خرافات میں ہوتے ہیں.پہلا نظارہ جو جانے والوں کے سامنے تھا وہ ناچ تھا.چائے پر جو پہلی حرکت ہوئی وہ سور کے گوشت یا چربی والے سینڈ وچ تھے جو لوٹا دیے گئے.ہوٹل کو جاتے ہوئے موٹر کار میں گئے مگر واپسی پر سب پیدل آئے.شیخ صاحب عرفانی کو گفتگو کچھ ہوا لگ گئی اور رات بھر بے چین رہے.شام کو مسٹر داس گپتا آئے جن سے چوہدری صاحب اور خان صاحب کو حضور نے گفتگو کر کے معاملات طے کرنے کا حکم دیا اور خود مسٹر و لہسن نو مسلم انگریز لیبر ر کے ساتھ مختلف پہلوؤں پر گفتہ فرماتے رہے جو حضور کے پرائیویٹ کمرے میں ہوئی.تفصیل معلوم نہیں.اتنا معلوم ہے کہ سب دوست کہتے ہیں کہ بہت ہوشیار آدمی ہے.شاید اللہ تعالیٰ اس کو بھی ہمارے کسی کام کا بنادے.مسٹر داس گپتا بنگالی چوہدری صاحب اور خان صاحب سے باتیں کر کے چلا گیا.کوئی معاملہ طے نہ ہو سکا اور ٹھیک سکیم نہ بن سکی لہذا دوسرے دن پر پھر کام کو اُٹھا رکھا گیا.حالات حضرت کے حضور عرض کر دیئے گئے جن پر حضور نے رات ہی پھر ہدایات دے دیں.۷ ستمبر ۱۹۲۴ء : آج اتوار ہے اور (احمدی) مشنری مولوی عبدالرحیم صاحب نیتر کی طرف سے پیٹنی کے مکان اور ( البيت ) میں حضور کا خوش آمدید کیا جانے والا ہے.جس کے لئے انہوں نے اڑھائی سو کے قریب دعوتی کارڈ بھیج رکھے ہیں.اس ایٹ ہوم (Eat Home) کے واسطے حضور نے ایک ایڈریس لکھنا شروع فرمایا ہے.حضور لکھتے جاتے ہیں اور دوست ساتھ کا ساتھ ترجمہ کرتے جاتے ہیں.حضور صبح کی نماز میں تشریف نہ لا سکے تھے.ناشتہ 9 بجے کے بھی بعد فرمایا.وقت تھوڑا ہے اس وجہ سے کام میں غیر معمولی چستی اور کچھ بے قاعدہ سی دوڑ دھوپ نظر آ رہی ہے.کوئی ایک ورق لے کر کسی کوٹھڑی میں بیٹھا ترجمہ کر رہا ہے کوئی کہیں بیٹھا ہے.ٹائپسٹ اس کوشش میں ہے کہ جو لفظ بھی کو ئی انگریزی
۲۰۰ کا لکھ لے ، میں اس کو ساتھ کا ساتھ ٹائپ کرتا چلا جاؤں.ایسا نہ ہو کہ میرا کام پیچھے رہ جائے.غرض بہت ہی جلدی کی جا رہی ہے.ایسی جلدی میں اور اس طرح سے مختلف لوگوں کے ترجمہ میں جو نقص ہو سکتے ہیں وہ پوشیدہ نہیں.جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی آج قدر آرہی ہے.ان کی تلاش میں کئی آدمی اِدھر اُدھر دوڑے مگر اس کے علاوہ کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ بازار کو گئے ہیں.آخر شام کو انہیں کورٹ مارشل کا حکم سننا ہی پڑا اور ایڈریس پڑھنے میں جو تکلیف اور غلطیوں کی وجہ سے شرمندگی اور ندامت تھی وہ سب آخر انہی کے حصہ آئی اور آنی بھی چاہیئے تھی.کیوں انہوں نے إِذَا كَانُوْا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوْهُ کے خلاف کیا.کیا معلوم کس وقت کسی کل پرزے کی ضرورت پیش آ جائے.اسلام کا ہر حکم اور ہر ہدایت پر حکمت اور برمحل ہے.خیر جیسا کیسا تھا وقت پر تیار ہو ہی گیا.آخری چند سطور قلم سے لکھ لی گئیں اور وقت مقررہ پر پہنچنے کی کوشش کی گئی.نماز میں جیسا کہ نمازیں یہاں کا دستور ہو گیا ہے کھانے کے بعد ۳ بجے یا ساڑھے ۳ بجے ہوا کرتی ہیں.گو وقت کھانے کا ساڑھے بارہ بجے مقرر ہے مگر ڈیڑھ بجے سے پہلے شائد ہی کبھی کھایا گیا ہو.گھنٹی اپنے وقت پر بیج جاتی ہے اور کھانا رکھا جاتا ہے مگر فراغت ہم لوگوں کو عموماً ۳ بجے ہی ہوا کرتی ہے.نمازوں سے فارغ ہو کر حضور جلدی جلدی اُترے اور فرمایا ریل سے جانے والے جائیں ہم لوگ موٹر کے راستہ سے آجائیں گے.صرف ہم کس رہ جائیں..موٹر والے تو پہلے جاپہنچے.ریل والے پیچھے رہ گئے اور ساڑھے ۴ بجے وہاں پہنچے.موسم خراب تھا.بارش ہو رہی تھی.سامان چائے نوشی کا سبزہ باغیچہ پر کیا گیا تھا جو دارالتبلیغ والے مکان کے نیچے اور سامنے کے حصہ میں ہے.میز لگے ہوئے تھے اور سامان خورد و نوش سجایا ہوا تھا.لوگ کچھ درختوں کے سایہ میں کھڑے تھے.کچھ چھتریاں لگائے ہوئے تھے.عورتیں زیادہ تھیں مرد تھوڑے تھے.جب ہم لوگ پہنچے حضرت اقدس بھی کھڑے کھڑے باتیں کر رہے تھے اور کوئی ترتیب یا انتظام نہ تھا.تھوڑی دیر میں ترکی سفیر لنڈن اور ان کے نائب اور ایک میر منشا وہاں پہنچے.نیز صاحب نے تعارف کرایا مگر غلط کرایا.ترکی سفیر کے نائب موٹے تازے آدمی تھے اور وجاہت میں بڑھے ہوئے نظر آتے تھے.انہی کو بڑے سمجھ کر انٹروڈیوس کرایا گیا مگر بعد میں حضرت اقدس نے
۲۰۱ معلوم کیا کہ وہ غلط تھا اور مولوی نیز صاحب کو ڈانٹا کہ آپ اتنا بھی علم نہیں رکھتے.اول تو کھڑے کھڑے حضور ان سے عربی زبان میں باتیں کرتے رہے.نائب سفیر اور میر منشا عربی جانتے تھے مگر سفیر خود عربی نہ جانتے تھے.بعض اخبارات کے فوٹو گرافر موجود تھے انہوں نے فوٹو لینے شروع کر دیے مگر فوٹو کی جگہ ٹھیک نہ تھی.نیز کھڑے کھڑے گفتگو کا اچھا موقع نہ تھا الہند انتظمین نے کرسیوں پر حضور کو بیٹھنے کے لئے عرض کیا.حضور نے اچھی کرسی سفیر کے نائب کو دی اور خود بھی بیٹھ گئے اور احمدیت کے متعلق دیر تک ان کو انفرمیشن دیتے رہے کیونکہ انہوں نے معمولی خوش آمدید اور حالات سفر کے ذکر کے بعد خود ایسی درخواست کی تھی.فوٹو گرافر مختلف پہلوؤں سے فوٹو لیتے رہے.اس اثناء میں اول اکثر عورتوں نے اور چند انگریز مردوں نے ٹیبلوں پر چائے پی لی.جب ایک حصہ چائے پی چکا تو حضرت اقدس کے حضور عرض کیا گیا مگر حضرت اقدس چونکہ تبلیغ میں مصروف تھے حضور نے فرما یا ٹھہر و.تھوڑی دیر میں بارش ذرا زیادہ شروع ہو گئی.بارش کی زیادتی سے صرف تقاطر مراد ہے کیونکہ یہاں وہ بارش نہیں ہوتی جیسی ہمارے ہاں ہوا کرتی ہے ) تو حضور نے خود ساتھیوں کو اُٹھ کر سایہ میں چلنے کو فرمایا اور ایک میز پر حضور بیٹھ گئے.چائے بھی شروع کی اور باتیں بھی جاری رہیں.حضور ایک درخت کے سایہ میں تھے اور سفیر صاحبان باہر کی طرف.لہذا حضور نے ان کے سروں پر چھتری کا سایہ کرنے کا حکم دیا جو انہوں نے کسی قدر عذر کے بعد منظور کر لیا.فوٹو گرافروں نے اس موقع کے بھی فوٹو لے لئے اور مختلف لئے.حضور اور حضور کے ساتھی چائے سے فارغ ہو چکے اور دوسرے اکثر لوگ بھی فارغ ہو چکے تو حضور نے منتظمین کو جلدی کا رروائی ایڈریس کے شروع کرنے کا حکم دیا.چنانچہ چند ہی منٹ میں مولوی نیر امام نے اول اپنا خطبہ شروع کیا اور بڑے جوشیلے الفاظ اور درد ناک لہجہ میں شروع کیا اور خوب ہی نبھایا جو ان کے مذاق اور طرز کا تھا اور اچھا زور دار ایک خطبہ تھا.گو کہ بعض غلطیاں بھی بتائی گئیں کہ انہوں نے کیوں انگریز مردوں اور عورتوں کو جمع کر کے کہا کہ یہ لوگ پتھریلی زمین ہیں یہاں صداقت کا بیج نہیں بویا جاسکتا وغیرہ.مگر بعض نے جواب دیا کہ انہوں نے اپنی بریت کی ہے اور مشکلات کا اظہار
۲۰۲ کیا ہے.غرض ان کا خطبہ بہت ہی زور دار تھا.سب نے سنا اور توجہ سے سنا.ان کے بعد مسٹر جنجوعہ نے کچھ تقریر کی جو بہت ہی غیر محفوظ الفاظ کا مجموع تھی.اس کارروائی کے خاتمہ پر حضرت اقدس کا وہ ایڈریس جس کو مکرم جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے موٹر کے راستہ میں کچھ ٹھیک بھی کیا تھا اور دل ان کا نہ چاہتا تھا کہ اس کو پڑھیں ، شروع ہوا مگر چوہدری صاحب کچھ بولتے بولتے بھی درست کر لیتے تھے.غرض جہاں تک ہو سکا چوہدری صاحب نے اس کی کمزوریوں کو چھپاتے ہوئے اسے نبھا نے کی کوشش کی اور ختم کیا.بہت ہی توجہ اور دلی محبت سے لوگوں نے سنا.خصوصاً نرم دل عورتوں نے اور بعض انگریز مردوں نے اور اس کا اثر ان کے چہروں سے نظر آتا تھا اور میں دیکھتا تھا کہ بعض عورتیں اسی وقت آگے بڑھ کر حضرت اقدس کے قدم چومنے کو تیار نظر آتی تھیں مگر معلوم ہوتا تھا کہ حیا نے ان کو روک رکھا تھا.مضمون ختم ہوتے ہی بہت جلدی کی سفیر ترکی نے جانے کی اور فوراً مصافحہ کر کے چلا گیا.ان کے چلے جانے کے بعد بعض عورتوں نے اور اکثر مردوں نے فرداً فرداً حضور سے باتیں کیں اور ساڑھے ۴ بجے سے ساڑھے 4 بجے تک سلسلہ گفتگو برابر جاری رہا.آخر حضور نے نماز کے لئے سب کو وہیں چھوڑا مگر نماز کے معاً بعد حضرت اقدس کے حضور بہائیہ انگریز عورتوں کی درخواست ملاقات آئی جس کو حضور نے منظور فرمایا اور سات سے دس بلکہ ساڑھے دس بجے تک حضور ان سے گفتگو بلکہ بحث کرتے رہے.بعض عورتیں بہت سخت تھیں اور جس بات کو وہ مان چکی تھیں اس کے خلاف کچھ سننا پسند نہ کرتی تھیں.اول اول تو چوہدری صاحب نے ترجمانی کی مگر بعد میں حضور خود انگریزی میں باتیں کرتے رہے.ایک امریکن لیڈی نے زور سے مباحثہ شروع کیا مگر ایک ہی دو باتوں میں رہ گئی.اس نے تعدد ازدواج پر اعتراضات کئے.حضور نے اور جوابوں کے ساتھ یہ بھی جواب دیا کہ خود تمہارے بہاء اللہ کے دو بیویاں تھیں.اس پر اس نے کہا کہ دعوئی سے پہلے وہ بیویاں تھیں مگر بعد میں وہ بہنیں تھیں بیویاں نہ تھیں.اس پر حضور نے فرمایا کہ وہ تو آخری عمر تک بچے جنتی رہیں.کیا بہن سے بھی کوئی بچہ لیا کرتا ہے؟ اس پر وہ دم بخو د ہوئی اور کچھ نہ بن آیا اور آخر کہنے لگی کہ ہم تو اس کو مسلمان سمجھ کر اس کی پیروی کرتی ہیں اگر وہ مسلمان نہیں ہے تو پھر ہما راس سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور چلی گئی.
٢٠٣ دوسری عورتیں دیر تک حضرت اقدس سے مختلف پہلوؤں پر گفتگو کرتی رہیں مگر ان کو خودان کے بہائیہ عقائد کا پتہ نہ تھا جو بات حضور ان کو بتا ئیں وہ کہہ دیں کہ ہمیں تو اس کا پتہ نہیں.بعض اوقات وہ اپنے عقائد میں باہم ایک دوسرے سے جھگڑنے لگتی تھیں.آخر حضور نے ان کو کہا کہ تم اول اپنے عقائد کو درست کر لو.کتابیں مجھ سے لو اور ان کا مطالعہ کرو پھر بحث کرنا.اُن میں ایک بہت ہی ضدی تھی کہنے لگی کہ میں چونکہ بہاء اللہ پر ایمان لاتی ہوں اس وجہ سے اس کی سب باتوں کو مانتی ہوں اور بلا دلیل قبول کرتی ہوں.حضور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ پھر کوئی مذہب بھی باقی نہ رہے گا جس کے لئے صداقت کے دلائل تلاش کئے جائیں.بے دلیل کی بات ہے تو پھر اس کا میں بھی کیا جواب دے سکتا ہوں مگر اس کی دوسری ساتھیوں پر اس بات کا اثر تھا.وہ چلی گئیں.مجلس برخاست ہوئی مگر اس کے بعد بھی ایک گھنٹہ تک حضور ایک دیسی مسلمان طالبعلم سے باتیں کرتے رہے اور بہائیت کی ہسٹری اور قصہ اس کو کھول کر سنایا اور سمجھایا.مکان پر پہنچ کر کھانا کھایا گیا اور گفتگو کا سلسلہ راستہ میں اور مکان پر کھانا کھاتے وقت اور بعد بھی جاری رہا.وہ طالب علم ساتھ ہی آ گیا تھا.ساڑھے گیارہ بجے عرض کیا گیا کہ حضور نماز کا وقت ہے.چند منٹ بعد حضور اُٹھے اور نماز کے واسطے تشریف لائے.ساتھی تھوڑے تھے فرمایا سب کو بلوا ؤ مگر تھوڑے ہی آئے.فرمایا بعض اوقات آدمی تھکا ہوا ہوتا ہے سو جاتا ہے.بلالا ؤ مگر با وجود بلانے کے نصف ہی آسکے.نماز ہو چکی اور حضور پھر بیٹھ گئے اور کل کے کام کے واسطے اور آئندہ کے پروگرام کے لئے تجاویز کیں اور ساڑھے بارہ بجے کے بعد اپنے کمرہ میں تشریف لے گئے.پیٹنی کے ایٹ ہوم (Eat Home) پر ایک سو سے زیادہ مرد و عورت جمع ہوئے جولنڈن کی تہذیب کے لحاظ سے بہت بڑی کامیابی کی دلیل.پٹی سے آتے ہوئے حضور بھی براستہ ریل واپس تشریف لائے مگر حضور مع دو ایک خدام کے اول درجہ میں سوار تھے.مسٹر جنجوعہ کی بیوی بڑی سخت بہائی عورت بتائی جاتی ہے.کل ایٹ ہوم میں بالکل بے نقاب پھر تی تھی اور رات کی بحث میں اس نے بھی حصہ لیا.حضور فرماتے تھے کہ آج معلوم ہوا کہ اس کو بھی اپنے عقائد کا صحیح علم نہیں ہے.مضمون مذہبی کا نفرنس کے ۶ یا ۷ صفحات ابھی ٹائپ کرنے باقی ہیں اور درستی وصحت ابھی
۲۰۴ تیسرے حصہ کی ہوئی ہے.باقی دو حصے ابھی قابل معائنہ اور درستی ہے.۱۷ صفحات حضور نے ابھی ترجمہ کے سنتے ہیں.۸/ستمبر ۱۹۲۴ء : مضمون کی درستی اور تکمیل کے واسطے حضرت اقدس خود مع ماسٹر محمد دین صاحب اور مولوی عبد الرحیم صاحب درد مکان پر ہیں اور کام ہو رہا ہے.خان صاحب اور سیال صاحب کل بھی مسٹر داس گپتا کے ساتھ کسی ہال کی تلاش میں گئے تھے اور آج بھی گئے ہوئے ہیں تا کہ آخری فیصلہ کر کے آج جلسہ کا انتظام اور اشتہارات کا بندو بست کریں.کل کے ایٹ ہوم میں مسٹر داس گپتا نے بھی تقریر کی اور واقعہ شہادت کے متعلق لوگوں کو انسانی ہمدردی کے واسطے اُبھارا.لوگوں سے ووٹ اور وعدہ لیا تھا کہ اس کے متعلق پروٹیسٹ (Protest) کا جو جلسہ ہو گا اس میں خود بھی شریک ہوں گے اور اپنے دوستوں کو بھی لاویں گے.نقل ایڈریس ایٹ ہوم واقعہ پٹنی کے لینے کی کوشش میں ہوں اگر اردو میں مل گیا تو نقل کر کے شامل ھذا کروں گا.آج حضرت اقدس نے اکثر ساتھیوں کو سیر کی اجازت دی ہے اور وہ لوگ ویمبلے کی نمائش دیکھنے کو تشریف لے گئے ہیں.میں نہیں گیا تا کہ رپورٹ بھی مکمل کرلوں اور بعض دوسرے کام جو باقی ہیں پورے کرلوں.پچھلی ڈاک سے اخبارات نہیں گئے.اب میں نے ان کو جمع کیا ہے ان کی ایک ایک دو دو کا پیاں بھیجنے کا فکر کر رہا ہوں تا کہ آپ کو بھی یہاں کے حالات کچھ تو پہنچتے رہیں.الحمد للہ کہ آج دس مختلف قسم کے اخبارات انگریزی میں نے پیکٹ بنا دئیے ہیں جن میں کسی نہ کسی رنگ میں سلسلہ اور حضرت اقدس کا ذکر ہے.ان کو پڑھنے اور ان کو شائع کرنے کے لئے بہت سے وقت اور بہت بڑی کتاب کی ضرورت ہو گی.یہ خدائی تائیدات حضرت اقدس کی ذات سے وابستہ اور آپ کی تشریف آوری پر منحصر تھیں ورنہ یہ اعلان اور ایسے اشتہار و اعلان لاکھوں کے خرچ سے بھی ممکن نہ تھے.مضمون مذہبی کا نفرنس کے لئے حضور نے ہر طرح مکمل فرما کر تو کلاً علی اللہ آج کا نفرنس کمیٹی کو بھجوا دیا ہے اور اس طرح ایک بڑا بوجھ آج حضور کے قلب اور کندھوں سے اُتر گیا ہے.محنت اور کام تو جس قدر زیادہ خدا دے حضور اس سے خوش ہوتے ہیں اور فارغ رہنے سے گھبراتے ہیں.
۲۰۵ رات بھی ۱۲ بجے تک گویا پورے آٹھ گھنٹے تک متواتر تقریروں کا سلسلہ جاری رہا تھا.کل کے ایڈریس کا مضمون مل گیا ہے.آپ بزرگوں کی اطلاع و خوشی کی خاطر نقل کرتا ہوں گو کہ انگریزی ترجمہ مجھے اس کا مل گیا ہے مگر وہ ترجمہ بوجہ جلدی میں کئے جانے اور مختلف دوستوں کا ہونے کی وجہ سے اچھا نہیں.شاید لطف ہی نہ آوے لہذا اصل اردو ارسال کرتا ہوں.بسم الله الرحمن الرحيم اعوذ با الله من الشيطن الرجيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر بہنو اور بھائیو! میں آپ کی اس تکلیف کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو آپ نے آج مجھے ملنے کے لئے آنے میں برداشت کی ہے.اس کے بعد میں چاہتا ہوں کہ مختصراً اس غرض کو بیان کر دوں جس کے لئے میں دور کا سفر اختیار کر کے انگلستان پہنچا ہوں.میرے مشاغل اور میری ذمہ داریاں مجھے مرکز سے دور جانے کے راستہ میں مانع ہیں اور در حقیقت میرا چند دنوں کے لئے بھی مرکز سے اس قدر فاصلہ پر جانا کہ مرکز سے فوری مشورہ میں دقت ہو کام میں سخت حرج واقع کرتا ہے مگر باوجودان مشکلات کے جو میں نے سفر اختیار کیا ہے تو سیر و سیاحت کی غرض سے نہیں بلکہ اس ہمدردی کی وجہ سے جو میں بنی نوع انسان سے محسوس کرتا ہوں.میری سیر کا تو یہ حال ہے کہ جب انگلستان کے لوگ مجھے ملنے کے لئے آتے ہیں اور انگلستان کے متعلق مجھ سے رائے پوچھتے ہیں تو مجھے یہی جواب دینا پڑتا ہے کہ مجھے آپ کا ملک دیکھنے کا موقع نہیں ملا کہ میں کوئی تفصیلی رائے دے سکوں کیونکہ اس وقت تک تو اکثر دنوں میں مجھے ہوا خوری کے لئے بھی باہر جانے کا موقع نہیں ملا.میری سیر وہی کام ہے جس کے لئے میں آیا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں ایسے طریقوں کو دریافت کروں جن کی مدد سے اپنے مغربی بھائیوں اور بہنوں کو وہ پیغام پہنچا سکوں جو خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لئے بھیجا ہے.واقعات ہمارے مخالف ہیں اور ہر ایک مقام پر ہمارے راستہ میں مشکلات ہیں اور میرا اس جگہ آنا ہی اس امر پر شاہد ہے کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ مشکلات حد سے بڑھی ہوئی ہیں مگر باوجود اس کے میں مایوس نہیں
ہوں.میری سب کوششیں اس محبت کی وجہ سے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے ملی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ مشنری جو میری طرف سے ان ممالک میں کام کرتے ہیں یا کریں گے وہ بھی اسی روح سے کام کریں گے اور میں اس امر کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ جو کام محنت ، اخلاص اور استقلال سے کیا جائے وہ بے نتیجہ رہے.محبت محبت پیدا کرتی ہے اور ہماری گہری محبت جو اس ملک کے لوگوں سے ہے اور جو مجھے مجبور کرتی ہے کہ اپنے ملک سے ہزاروں کوس دور اپنے بال بچوں سے علیحدہ کسی دنیوی فائدہ کیلئے نہیں بلکہ تمام دنیاوی امیدوں کو قطع کر کے اس ملک میں کام کریں وہ ضرور ایک دن اس ملک کے لوگوں کے دلوں پر اثر کر کے رہے گی اگر ایسا نہ ہو تو یقینا یہ ہماری محبت کی کمی کے باعث ہوگا یا اخلاص کے نقص کے باعث.شائد آپ لوگ حیران ہوں گے کہ وہ مشرق جس کی طرف مغرب مشنری بھیج رہا تھا اور بالکل غیر متمدن تھا آج اس میں کیا تبدیلی ہو گئی کہ مغرب کی طرف مشنری بھیجنے لگا.یہ آپ کی اس حیرت کا جواب وہی دے سکتا ہوں جو ایران کے دربار میں محمد رسول اللہ علیہ کے ایک صحابی نے دیا تھا جب اس سے اس قسم کا سوال کیا گیا تھا.اس نے کہا کہ بے شک جو عیب ہماری طرف منسوب کئے جاتے ہیں ہم میں وہ سب موجود تھے بلکہ ان سے بھی زیادہ اور بے شک ہم ایسے ہی کم ہمت تھے جیسا کہ آپ نے بیان کیا مگر خدا تعالیٰ نے ہم میں ایک رسول مبعوث کر کے ہماری حالت کو بدل دیا اور ہماری ہمت کو بلند کر دیا ہے.اب ہم وہ نہیں جو پہلے تھے اور اب ہمیں وہ چیزیں تسلی نہیں دے سکتیں جو پہلے دیا کرتی تھیں.اے بہنو اور بھائیو! ہماری بھی یہی حالت ہے.آج سے چونتیس سال پہلے ( دین حق ) کی حالت ایسی ہی تھی کہ اس کے بہترین محافظ اس کی طرف سے لجاجت کے ساتھ معذرت کیا کرتے تھے مگر چونتیس سال گزرے کہ خدا تعالیٰ نے ایک رسول کو ہم میں مبعوث کیا اس رسول کو جس کی مختلف ناموں سے پہلے انبیاء نے خبر دی تھی.کسی نے اس کا نام مسیح رکھا تھا.کسی نے مہدی.کسی نے کرشن کسی نے میسیو را بھی.اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مردہ قوموں پر زندگی کا پانی چھڑ کا اور وہ خدا کی نازل کردہ روح سے زندہ ہو گئے اور سینکڑوں سالوں کے قبرستانوں کو چھوڑ کر آبادیوں اور
۲۰۷ شہروں میں پھیل گئے تا کہ خدا کے جلال کے لئے شہادت ہوں اور اس کی لازوال طاقتوں پر دلالت کریں.پس ہم جو کچھ کرتے ہیں اپنی طرف سے نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ کا حکم ہمیں چلاتا ہے.ہماری ہر ایک حرکت اور ہماری ہر ایک کوشش اس کے خاص منشاء کے ماتحت ہے اور گویا ہماری مثال اس بانسری کی ہے جو ویسی ہی آواز نکالتی ہے جیسی آواز کہ اس کے پیچھے گانے والا نکالتا ہے.ہم خدا کے منہ میں ایک بانسری ہیں جو اس کی آواز کو دنیا میں پہنچاتے ہیں اور اس لئے ہم کبھی مایوس نہیں ہوتے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی آواز کبھی نیچی نہیں ہوتی.نہ تکلیفیں ہمیں خائف کرتی ہیں اور نہ موت ہم کو ڈراتی ہے.جیسا کہ افغانستان میں آپ لوگوں نے سنا ہوگا کہ حکومت ہمارے آدمیوں کو سنگسار کرتی ہے اور رعایا ان کو قتل کرتی اور ان کے گھروں کو جلاتی ہے مگر باوجود اس کے کہ چوبیس سال سے یہی سلوک ہم سے ہوتا چلا آرہا ہے.ہم نے اس ملک کو نہیں چھوڑا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری ترقی اس ملک میں روز بروز ہوتی ہی جاتی ہے.غرض ہمارا مشن ایک محبت اور خیر خواہی کا مشن ہے اور ہماری ایک ہی غرض ہے کہ جس طرح ہم نے خدا تعالیٰ کو پالیا ہے ہمارے دوسرے بھائی بھی اس کو پالیں اور اس سے دوری کی زندگی بسر نہ کریں اور ہم اس ملک میں مسیح کی آمد ثانی کی منادی کرنے آئے ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک اس کے قبول کرنے کے بغیر نجات نہیں.وہ دنیا کا نجات دہندہ ہے اور جب تک لوگ اس کے دامن کے نیچے نہ آویں گے اور اپنی زندگی کو اس تعلیم کے مطابق نہ کریں گے جو ( دین حق ) نے بیان کی ہے اور جس کی صحیح تشریح کرنے کے لئے مسیح موعود کو بھیجا گیا ہے اس وقت تک موجودہ فسادات دور نہ ہوں گے اور جھگڑے اور لڑائیاں برابر دنیا کے امن کو برباد کرتے چلے جائیں گے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اس سر چشمہ قدوسیت سے دور رہیں گے جس کا قرب حاصل کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.اے بہنو اور بھائیو ! انسان کی پیدائش کی اگر کوئی غرض ہے تو وہ خدا تعالیٰ سے وصال ہے.پھر دل کس طرح تسلی پاسکتے ہیں جب تک وہ اس کا وصال حاصل نہ کریں.میں حیران ہوتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ وید کو پڑھنے والا جب وید کو پڑھتا ہے یا قرآن کو پڑھنے والا قرآن کو پڑھتا ہے اور ان کے ورقوں میں سے خالق ارض و سماء کی شیریں آواز کی گونج کو جو اُن لوگوں پر نازل ہوئی جو
۲۰۸ آج سے ہزاروں سال پہلے گزرے، سنتا ہے تو اس کے دل میں خواہش نہیں پیدا ہوتی کہ میں بھی خدا کے قریب ہوں اور اس کی دلکش آواز کوسنوں اور اس کی محبت کو انہی لوگوں کی طرح حاصل کروں.یا اس کے دل میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ جب اس زمانہ کا سلوک ویسا ہی نہیں جیسا کہ پچھلے لوگوں سے تھا ؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے خیالات کے پیدا نہ ہونے کا سبب یہ خیال ہے کہ خدا تعالیٰ کا فیضان پچھلے زمانہ پر ختم ہو گیا مگر اے بہنو اور بھائیو! یہ خیال اس محبت کرنے والے رب پر بدظنی ہے جس سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی اور کوئی نہیں ہے.میں اپنے تجربہ کی بنا پر آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسیح موعود کے تعلق کے واسطہ سے اب بھی انسان انہی فیوض کو دیکھتا ہے جس کو پچھلے لوگ دیکھتے تھے اور خدا تعالیٰ کی رحمت کے دروازے اب بھی اس طرح کھلے ہیں جس طرح پہلے زمانہ میں کھلے تھے.پس مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں.بے شک ہماری باتیں اس زمانہ کے لحاظ سے عجیب ہیں اور عقل نہیں مانتی کہ اس زمانہ میں یہ باتیں پھیل جائیں گی مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے جب بھی کوئی آواز اُٹھی ہے ایسے ہی حالات میں اُٹھی ہے اور اسی طرح اس کا بلند ہونا ناممکن سمجھا گیا جب حضرت مسیح علیہ اسلام نے بنی اسرائیل کو خدا کا پیغام پہنچایا ، جب کہ محمد ﷺ نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا.اس وقت کون تسلیم کرتا تھا کہ یہ لوگ کامیاب ہو جائیں گے مگر آخر وہ کامیاب ہو کر رہے کیونکہ وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ اس کی طرف سے بولتے تھے جو تمام دنیا کا بادشاہ ہے.اسی طرح اب یہ مشکل معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کا مشن کامیاب ہو جائے گا مگر جیسا کہ خدا تعالیٰ نے پہلے سے خبر دے چھوڑی ہے ایسا ہی مقدر ہے اور ایسا ہی ہو کر رہے گا مگر مبارک ہیں وہ جو تعصب کو نظر انداز کر کے سنجیدگی سے اس شخص کی آواز پر کان دھرتے ہیں جو یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے.یہ دعوی معمولی نہیں ہے خصوصاً اس حالت میں کہ اس دعویٰ کی تصدیق کے آثار ظا ہر ہو چکے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ سب بہنیں اور بھائی جو اس وقت جمع ہیں خواہ کسی ملک اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں پوری توجہ سے اس سلسلہ کی حقانیت کے متعلق غور کرنا شروع کریں گے اور اگر ان پر حق کھل جائے تو اس کو دلیری سے قبول کریں گے اور دوسروں کو بھی حق کی طرف بلائیں گے تا ان کا نام سابقون میں لکھا جائے اور سابقون میں شامل ہونا کوئی معمولی بات نہیں.ایسے لوگ اس دنیا میں بھی ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں اور ان کا
۲۰۹ نام قائم رکھا جاتا ہے اور دوسری زندگی میں بھی یہ لوگ خاص ترقیات حاصل کرتے ہیں.میں ایک دفعہ پھر آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے محبت سے میری باتوں کو سنا ہے اور اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سچائی کے نور کو دنیا میں پھیلائے اور جھوٹ کی تاریکی کا پردہ چاک کرے تا اس کا روشن چہرہ دنیا پر ظاہر ہوا ور علم اور عرفان سے لوگوں کے سینے معمور ہو جائیں - واخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين مرز امحمود احمد آج ڈاک ہند ۲۰ / اگست ۱۹۲۴ء کی یہاں پہنچی ہے اور ایک تھیلا کٹک کے ہاں سے بھی آیا ہے.حضور ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کو ساتھ لے کر غالبا کسی ڈاکٹر کو آنکھ دکھانے گئے ہیں.مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور مولوی محمد دین صاحب بھی سیر کو تشریف لے گئے ہیں.چوہدری فتح محمد خان صاحب اور خان صاحب ہال کے انتظام سے فارغ ہو کر آ گئے ہیں.ایس ایکس (S.X) نام کا کوئی ہال ۴ پونڈ کرایہ پر لیا گیا ہے.اس میں پانچ سو آدمی کی گنجائش بتائی جاتی ہے اور شہر کے مرکز میں واقع ہے.۱۷ ستمبر بروز بدھ جلسہ کی تاریخ مقرر ہوئی ہے جس کے لئے اشتہا رلکھ کر بغرض طبع پر لیں میں دے دیا گیا ہے اور اخبارات میں بھی نوٹ دے دیا گیا ہے.جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور مسٹر داس گپتا اور کسی اور انگریز کا نام شائد مشتہرین و داعین میں ہوگا.کل صبح کو ایک جلسہ کیا جائے گا کہ جس میں تمام مقامی دوستوں کو جمع کر کے مشورہ لیا جاوے گا کہ اس جلسہ کو کامیاب بنانے کے واسطے کس طرح کام کیا جاوے اور تقسیم عمل کیا ہے یعنی کون پادریوں کے پاس جاوے کہ ان میں تحریک کر کے ان کو جلسہ میں شریک ہونے کو تیا ر کرے.کون ایڈیٹروں کو تیار کرے اور کون کس حصہ پبلک میں جاوے.دعاؤں کی ضرورت ہے.( البيت ) برلن کی فروخت کا سوال زیر غور ہے.برلن سے جو آخری اطلاع آئی ہے وہ یہ ہے کہ پچاس ہزار گولڈ مارک نقد اور ستر ہزار کا وعدہ جس کے لئے کسی بنگ کے نام کا کوئی تمسک دیا جائے گا مل سکتے ہیں.نہ معلوم وہ کیا گولڈن سکہ ہے.بہر حال حضرت اقدس نے جواب دیا ہے کہ
۲۱۰ وہ جو آئندہ وصولی کا اقرار ہے.اس کے واسطے اراضی اور وصولی کے لئے مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم.اے کا نام ہوتا کہ وہ بعد میں وصول بھی کر سکیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے اس سودے کو منظور فرمالیا ہے اگر ضرورت ہوئی تو جواب آنے پر مولوی عبدالرحیم صاحب درد برلن بھی جائیں گے.بعد کی خبر ہے کہ کوئی کمپنی اس بات کے لئے تیار ہوگئی ہے کہ ہمیں (البیت ) ہی بنادے جس کے لئے اس کمپنی کو ۶ لاکھ روپیہ گورنمنٹ سے قرض لینا پڑے گا اور وہ نصف کے قریب مکان اس کے عوض میں لے لیں گے اور اس طرح سے ہمیں نصف مکان اور (البیت ) بھی مل جائے گی جن سے ۱۲ ہزار مارک سالانہ کی آمد کی بھی امید دلائی جاتی ہے مگر حضور نے فرمایا کہ اس میں ایک خطرہ بھی ہے اور وہ یہ کہ جو کمپنی گورنمنٹ سے قرض لے گی اگر خدانخواستہ کمپنی بے ایمانی کر کے روپیہ کھا جائے اور عمارت نہ بنائے تو گورنمنٹ اس تمام زمین اور مکان پر قبضہ کرے گی جس پر عمارت بنانے کے لئے وہ روپیہ قرض دے گی.یہ ایک خطرہ بھی ہے.ہم خود قرضہ لینے میں شریک نہیں ہو سکتے کیونکہ اس میں کچھ سود بھی دینا پڑتا ہے ورنہ اگر کسی صورت سے ہم خود قرضہ لے سکیں یا کمپنی کے ساتھ شامل ہوسکیں تو یہ خطرہ بھی نہیں رہتا.بہر حال یہ امورا بھی قابل غور ہیں نہ معلوم اللہ تعالیٰ کس راہ سے خیر و برکت کی راہ نکالے گا.مکرم محترم جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب جنہوں نے خود موقع کو دیکھا ہے چاہتے ہیں کہ وہاں کسی طرح سے (البيت) ضرور بن جائے خواہ مکانات کو کرایہ پر دے دیا جاوے مگر ایسی موقع کی جگہ اگر خدانخواستہ ہاتھ سے نکل گئی تو پھر اس کا ملنا مشکل تر ہے.لہذا بہتر یہی ہے کہ وہاں کسی نہ کسی طرح سے ( البیت ) بھی بن جائے اور مکانات بھی.غرض وہ تو برلن کے کفر گڑھ میں خانہ خدائے واحد کی تکمیل کے مشتاق اور خدا کے نام کی اس کے بلند میناروں سے منادی ہوتے سننے کے متمنی ہیں.خدا قبول کرے.حضرت اقدس کل عصر کے بعد مضامین سے فارغ ہو کر بازار تشریف لے گئے ( کتابوں کی دکانات پر نہ کہ ڈاکٹر کے ہاں جیسا کہ میں نے پہلے لکھا ) مگر کتابوں کی دکانات کسی وجہ سے بند تھیں.لہذا حضور دوسری ضرورت کے لئے بعض دکانات پر تشریف لے گئے اور شام کی نماز کے وقت واپس
۲۱۱ تشریف لائے.۱۲ / اگست کی ڈاک کا تھیلہ کٹک کے ہاں سے آیا ہوا تھا ملا حظہ فرمایا اور ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ادویات وغیرہ کی تلاش میں کسی ڈاکٹر سے مل کر اس کو حضرت اقدس کا پتہ دے آئے تھے وہ شام کے وقت حضور کی ملاقات کے لئے آیا ہوا تھا.اس سے حضور نے بہت دیر تک ملاقات کی.الفضل کا خیال : ملاقات کے بعد حضرت اقدس نے میرے ہاتھ میں اخبار دیکھ کر فرمایا اخبار آ گیا ؟ میں نے عرض کیا حضور الحکم ہے.فرمایا الفضل نہیں آیا ؟ میں نے پٹنی کے دوستوں سے الفضل بھی منگایا ہوا تھا عرض کیا حضور ہے.فرمایا لاؤ.میں تو بہت تلاش میں ہوں چنانچہ وہ پیش کیا اور حضور ا سے لے کر کمرہ میں تشریف لے گئے.مسٹر داس گپتا بنگالی بھی آئے اور اشتہار کا پروف وغیرہ لائے جس کی صحت کی گئی.مسٹر داس گپتا سے حضور کھانے پر دیر تک گفتگو فرماتے رہے اور ٹھیک ساڑھے گیارہ بجے اُٹھ کر نماز کے واسطے تشریف لے گئے.نمازوں سے فارغ ہو کر ایک بجے تک پھر مختلف امور کے متعلق ذکر فرماتے ر ہے.اسی ذکر میں شیخ صاحب مصری کے اہل بیت کا ذکر فرمایا کہ وہ یہ خبر پڑھ کر کہ شیخ صاحب کو بہت سخت Sea Sickness ہوگئی تھی گھبرا رہے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب تو شیخ صاحب لنڈن میں موجود ہیں امن سے رہتے ہیں ، ابھی تک اس خیال میں ہیں کہ شیخ صاحب کو سی سک نس کی تکلیف ہے.حضور ابھی اور ٹھہرتے مگر ڈاکٹر صاحب کھڑے منتیں کر رہے تھے دوستوں کی کہ کسی طرح سے سلسلہ کلام بند کریں تا حضور آرام فرما ئیں مگر وہ سلسلہ بند نہ ہوتا تھا.میں نے روشنی کے لیمپوں میں سے جو کہ ۸ یا ۹ جل رہے تھے ، اول دو چار کو پھر چھ سات کو بجھا دیا اور پھر سارے ہی گل کرائے مگر محترم چوہدری صاحب ظفر اللہ خان صاحب کے فرمانے پر پھر دو جلا دئیے.سلسلہ گفتگو لمبا ہوتا چلا گیا مگر کھڑے کھڑے.آخر ایک بجے پھر میرا ہاتھ سویچ (Switch) پر پڑا اور وہ بھی گل ہو گئے تو حضور نے فرمایا کہ بھائی جی چاہتے ہیں کہ اب سلسلہ کلام کو بند ہی کر دیا جائے مگر میں نے عرض کیا حضور یہ سب ڈاکٹر صاحب کے حکم کی تعمیل میں ہے.حضور کمرہ میں تشریف لے گئے اور ڈھائی بجے کے بعد خواب فرمایا.کئی دن سے ہوا خوری کا حضور کو بالکل موقع نہیں ملا.مضمون کی مصروفیت اور ملاقاتوں کا
۲۱۲ سلسلہ جاری رہتا ہے.تفاصیل میں عرفانی صاحب کے لئے چھوڑ دیا کرتا ہوں کیونکہ مجھے تفاصیل لکھنے کا وقت میسر نہیں آتا - تفاصیل میں پڑوں تو یہ ڈائری بھی رہ جانے کا اندیشہ ہے.۹ رستمبر ۱۹۲۴ء : حضور صبح کی نماز میں تشریف نہیں لا سکے.ناشتہ 9 بجے تناول فرمایا.میں کسی ضروری کام کو کمرہ میں گیا تو حضور کچھ لکھ رہے تھے نہ معلوم کیا تھا..پروٹسٹ کے جلسہ کی تیاری کے لئے آج تمام دوستوں کو جمع کر کے 4 چشم پیلس پر چوہدری فتح محمد خان صاحب مشورہ کر رہے ہیں تا کہ تقسیم عمل کی پالیسی سے فائدہ اُٹھا کر جلسہ کو کا میاب بنانے کی کوشش کی جائے.ویمبلے کی نمائش سے دوست رات ۱۰ بجے کے بعد تشریف لائے جو دیکھ کر واپس آئے ہیں اس کی بہت تعریف کرتے ہیں اور مصری صاحب فرماتے ہیں کہ اس نمائش کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ہندوستان ہر بات میں سب سے پیچھے ہے اور اس کا افسوس ان کو بہت زیادہ تھا.عرفانی صاحب کہتے ہیں کہ میں تو حضرت اقدس سے اجازت لے کر ایک بار پھر جاؤں گا تاکہ تسلی سے ایک ایک چیز کو دیکھ سکوں اس کے بغیر علم حاصل نہیں ہو سکتا.حافظ صاحب نے کہا کہ حضور تو دوڑتے ہی پھرے جس کی وجہ سے ہم لوگ کوئی چیز ٹھہر کر تسلی سے نہیں دیکھ سکے.دوڑ نا ہی دوڑ نا یا درہ گیا ہے دیکھنا کسی چیز کا بالکل یا دنہیں رہا.پروٹسٹ کمیٹی کے پریذیڈنٹ مولوی محمد دین صاحب بی.اے اور سیکرٹری چوہدری فتح محمد خان صاحب مقرر ہوئے ہیں اور حسب ذیل کام دوستوں کے سپرد کئے گئے ہیں.حضرت میاں صاحب مع میاں خدا بخش صاحب طالب علم بارایٹ لا تھیو صافی کل اور (1) سپر چولزم Spiritualism سوسائٹی میں جا کر جلسہ میں شرکت کے لئے تحریک کریں.(۲) خان صاحب قبلہ ذوالفقار علی خان صاحب کنسرویٹو پارٹی میں جائیں اور کوشش کریں.(۳) مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور مصری صاحب یو نیٹرین لوگوں کے گرجوں میں جا کر کوشش کریں اور ان کو شرکت جلسہ کی تحریک کریں.(۴) محترم عرفانی صاحب یہودیوں کے کوارٹروں، دکانوں اور عبادت گاہوں میں جا کر ان کو
۲۱۳ اُبھاریں کہ اس ظلم کے خلاف پروٹسٹ میں شریک ہوں.(۵) مسٹر جنجوعہ صاحب بہائیوں میں کوشش کریں کہ وہ بھی ایسے مظالم کے خلاف آواز اُٹھائیں اور انسانیت کی اس خدمت میں ہمارے شریک کار ہوں.(1) مولوی محمد دین صاحب بی.اے مبلغ امریکہ امریکن پر لیس میں سعی کریں کہ وہ بھی جہاں رپورٹ جلسہ شائع کرے وہاں اپنی طرف سے بھی پروٹسٹ کرے.(۷) مولوی نیر صاحب امام لنڈن ڈاکٹر لینن صاحب اور دوسرے تین سو ملاقاتیوں کو جمع کرنے کی کوشش کریں.(۸) چوہدری محمد شریف صاحب سیکولر سوسائٹی کے لوگوں میں جائیں.الغرض یہ صورت کام کی آج تجویز کی گئی ہے اور بعض دوستوں کے لئے دوسرے کام تجویز کر کے کام کو با قاعدگی کے ساتھ چلانے کا انتظام کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے اور اخلاص سے کام کرنے کی ہمت دے کر کام کو بارور اور باشمر بنائے آمین.محترم جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے افغان لیگیشن کو جو خط لکھا تھا اس کا جواب آج کی ڈاک سے آیا ہے جس کی ایک نقل میں نے بھی کرالی ہے تا کہ رپورٹ مکمل رہے اور آپ بزرگوں کو بھی جواب پڑھنے کا موقع مل جائے.حضرت اقدس بازار تشریف لے گئے ہیں.۱۲ بجے کے بعد کھانا ابھی تک نہیں کھایا.دوستوں کو کھلا دینے کا حکم دے گئے تھے.حضور کا کھانا رکھا ہے.۲ بج چکے ہیں اور حضور ابھی تک واپس نہیں آئے.حضور نے آج حکم دیا ہے کہ عرفانی صاحب ، حضرت میاں صاحب اور مصری صاحب جا کر ایجنسی کے حسابات کی جانچ پڑتال کریں اور مفصل رپورٹ حضرت اقدس کے حضور پیش کریں.حضرت میاں صاحب کی طبیعت رات سے کچھ خراب ہے اس وجہ سے وہ تو نہیں جا سکے باقی دونوں دوست اب جانے والے ہیں.تیاری میں ہیں.آج مسٹر واٹسن (Mr.Watson) سابق ڈپٹی کمشنر گورداسپور حضور سے ملاقات کریں
۲۱۴ گے.ساڑھے چار بجے کا وقت مقرر ہے.وہ ان دنوں لنڈن میں آنریری طور پر بچوں کی تربیت کے کام کے انچارج ہیں.اب کے ہفتہ باورچی خانہ کابل با وجود بڑی احتیاط اور کشاکش کے تمیں پونڈ ہو گیا ہے جس میں صرف دس پونڈ گوشت کے ، تین پونڈ کے قریب مچھلی کے ہیں.بعض نقص ہیں جو ابھی تک قابو میں نہیں آ سکے.حضرت اقدس کے حضور معاملہ پیش کیا گیا تھا حضور نے اور بھی گنجائش نکالنے کا حکم دیا ہے اور خرچ کے گھٹانے کا ارشاد فرمایا ہے.رات حضرت اقدس نے نہایت محبت بھرے لہجہ میں مجھے مخاطب کر کے فرمایا.” بھائی جی قادیان سے شکایت آئی ہے کہ اب آپ کی رپورٹیں چھوٹی ہو گئی ہیں.“ حضرت اقدس کے حضور تو میں نے عرض کرنا مناسب نہ سمجھا آپ سب بزرگوں کی خدمت میں میں اپنا پروگرام اور انضباط اوقات پہلے عریضہ میں عرض کر چکا ہوں اس سے آپ نے اندازہ کر لیا ہوگا کہ میرے پاس کونسا وقت خالی ہے جس میں میں زیادہ وضاحت سے رپورٹ عرض کرسکوں.۱۸ گھنٹہ متواتر مجھے کھڑے رہنا پڑتا ہے.نوٹ بک ہاتھ میں یا جیب میں رکھتا ہوں جب موقع ملتا ہے سطر لکھ لیتا ہوں یا پھر اپنے آرام کو آپ بزرگوں کی خاطر قربان کر کے کچھ عرض کر سکتا ہوں.میں جانتا ہوں کہ مجھ سے اکثر حالات اور واقعات رہ جاتے ہیں اس کی وجہ بخل یا سستی نہیں بلکہ محض یہ وجہ ہے کہ میں اپنی ڈیوٹی کی وجہ سے بعض مقامات پر حاضری سے معذور ہوتا ہوں.آپ یقین جانیں کہ آپ لوگوں تک یہاں کے حالات پہنچانے کے لئے میں اکثر اوقات اپنی طبیعت کے خلاف بھی کام کرتا ہوں.میری طبیعت تنہائی پسند ہے اور میں بہت کم مجلس میں بیٹھنے کا عادی ہوں - کان رس کی عادت مجھ میں بہت کم ہے مگر یہاں مجھے بعض دوستوں سے منت کر کے لجاجت کر کے اور پیچھے پڑ کر بھی کام لینا پڑتا ہے اور نقول وغیرہ حاصل کرنی پڑتی ہیں.آپ یقین جانیں کہ میں لنڈن میں ہوں مگر لنڈن کا کوئی حصہ میں نے محض ان مصروفیات کے باعث دیکھا تک نہیں تا کہ فارغ اوقات میں ڈائری عرض کرسکوں گو ہم لوگ لنڈن میں سیر و تفریح کو نہیں آئے اور یہی حقیقت ہے مگر پھر جب آئے ہیں خواہ مخواہ بعض خالی اوقات میں کچھ
۲۱۵ دیکھنے کا خیال طبعا دل میں پیدا ہوتا ہے اور میرے ساتھی بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات وقت نکال کر جاتے ہیں.حضرت اقدس سے اجازت لے کر بھی چلے جاتے ہیں.حضور خود بھی کبھی خدام کو اجازت دے دیتے ہیں مگر میں عمد ا محض اس رپورٹ کی وجہ سے نہیں جاسکتا.میں جانتا ہوں کہ میری عمر گزرچکی ہے اور میں اب موت کے کنارے کھڑا ہوں.مجھ سے کوئی ایسا کام نہیں ہو سکا جس سے مجھے امید یا خیال بھی پیدا ہو کہ میں نے بھی کوئی خدمت اسلام کی ہے.میرے دل میں یہ جوش ہے کہ بجائے اس کے کہ میں کوئی وقت آنکھوں کو خوش کرنے پر خرچ کروں کیوں نہ کوئی ایسا کام کروں جس سے میرے دوست بھائی اور بزرگ کوئی فائدہ حاصل کر کے میرے واسطے دعا کریں شاید کسی دل کی دعا میرے واسطے بخشش کا موجب ہو سکے جس کا میں اپنے بھائیوں ، دوستوں اور بزرگوں سے امیدوار ہوں.مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کے متعلق جو کچھ لنڈن کے اخبارات نے لکھا ہے اس کو یکجا کر کے ایک پمفلٹ کی صورت میں چھپوانے کی تجویز کی گئی ہے.طبع پر انشاء اللہ اس کی چند کا پیاں ارسال کروں گا اس سے اخبارات کی ورق گردانی سے بھی آپ بچ جاویں گے.اس کے بعد جلسہ پروٹسٹ کی پروسیڈنگز بھی طبع ہوجائیں گی تو ارسال کروں گا.انگریزی ترجمہ ایڈریس حضرت صاحب جو پٹنی میں دیا گیا بھی بھیجنے کی کوشش میں ہوں اگر مل گیا تو بھیجوں گا.ایسٹ اینڈ ویسٹ سوسائٹی کے جلسہ میں آج شام کو سوا آٹھ بجے حضرت اقدس کا لیکچر ہوگا جو حضور نے صبح کو لکھ کر مکرم جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو ترجمہ کے واسطے دیا تھا.ترجمہ ہو رہا ہے.مسٹر داس گپتا اس سوسائٹی کے ممبر ہیں.رات حضرت اقدس سے شمولیت جلسہ کے واسطے عرض کرنے آئے تھے.اس مضمون کی نقل اگر ممکن ہو سکا تو انشاء اللہ روانہ کروں گا.لیکچر گلڈ ہاؤس (Guild House) میں ہوگا انشاء اللہ.چوہدری صاحب محترم جس اخلاص ، محبت اور شوق و محنت سے ان کا موں کو پوری توجہ اور انہماک سے کرتے ہیں ہم سب کے واسطے موجب رشک اور قابل تقلید ہے.پانچ بج چکے ہیں مگر مسٹر واٹسن سابق ڈپٹی کمشنر آئے نہیں.بارش آج معمول سے زیادہ ہوئی اور ہو رہی ہے اس وجہ سے شاید رُک گیا ہو.پریس لنڈن کے خیالات متعلق شہادت شائع کرنے کے واسطے پانچ سو کاپی طبع کی غرض سے پریس سے معلوم کیا تھا.۳۰ پونڈ گویا ساڑھے چارسو
۲۱۶ روپیہ مانگتے ہیں.مضمون کچھ کم کر دیا ہے.سابق ڈپٹی کمشنر گورداسپور سے ملاقات : 9 ستمبر ساڑھے پانچ بجے مسٹر واٹسن ملاقات کے لئے آئے.ان سے حضور کے انتظار کا ذکر کیا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے تو ساڑھے پانچ بجے ہی کی ملاقات کے لئے ٹیلیفون کیا تھا.مولوی محمد دین صاحب کہتے ہیں کہ شاید مجھے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو.بہر حال وہ آئے حضرت کی خدمت میں عرض کیا گیا.حضور تشریف لائے ہیں اور ریڈنگ روم میں ان سے باتیں ہو رہی ہیں.پورا ایک گھنٹہ گفتگو ہوتی رہی.اس کے بعد مسٹر واٹسن چلا گیا اور حضور نے نمازیں ادا کرائیں اور تھوڑی دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے.فرمایا ! مسٹر واٹسن کا خیال تھا کہ وہ مجھے بھی بچوں کی تربیت کی ایسوسی ایشن کا ممبر بنائے.کہتا تھا کہ صرف ایک شلنگ فیس ادا کرنے سے ممبر ہوسکتا ہے.دراصل وہ اردو اب بھول گیا ہے اس وجہ سے اس کی بات کے سمجھنے میں اولاً مجھے بھی غلطی ہی رہی مگر بعد میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے ممبر بننے کی تحریک کرتا تھا.حضور نے فرمایا کہ ارادہ ہے کہ ہم یہاں کے مقامی مبلغ کو لیبر پارٹی کی طرف سے پارلیمنٹ کا مبر کھڑا کر دیں.مولوی عبدالرحیم صاحب درد کا نام بھی لیا.دوسو پونڈ کے خرچ سے ایسا ممکن ہے جیسا کہ مسٹر واٹسن نے بتایا.اس سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ ایک پارٹی سے خواہ مخواہ کے تعلقات بنے رہیں گے کیونکہ آخر وہ ممبران کی امداد کرے گا جس سے ان کی ہمدردی اور توجہ ہمارے ساتھ ہو جائے گی اور کیا عجب کہ یہی ذریعہ تبلیغ کارگر ہو جائے.ہمارا کام کوشش کرنا اور خدا کے بتائے ہوئے سامانوں کا جمع کرنا ہے.تو کل ہمارا اور بھروسہ خدا کے سوا کسی پر نہیں.حضور کے مضمون کا ترجمہ چوہدری صاحب نے ختم کر کے ٹائپسٹ (Typist) کو دیا وہ ٹائپ ہو کر آ گیا.حضور نے اس کو پڑھنا شروع فرمایا اور اپنے کمرہ میں تشریف لے گئے اور جاتے ہوئے فرمایا کہ آج تو مضمون بھی میں نے خود ہی پڑھنا ہے چنانچہ رات کو حضور نے خود ہی وہ مضمون پڑھا.گلڈ ہاؤس میں جلسہ کی کارروائی سوا آٹھ بجے شروع ہونے والی ہے.ان دنوں مولوی محمد دین صاحب ناظر اعلی کی ڈیوٹی پر ہیں.چوہدری فتح محمد خان صاحب پرائیویٹ
۲۱۷ سیکرٹری ، خان صاحب فارن سیکرٹری اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد ابھی تک ناظر سفارت انگلستان کا کام کرتے ہیں.ے بجے کے قریب مولوی محمد دین صاحب سے میں نے پوچھا جب کہ چوہدری فتح محمد خان صاحب اور چند اور دوست بھی ریڈنگ روم میں موجود تھے کہ سنا ہے کہ حضرت اقدس کا آج کسی جگہ لیکچر ہے.اول تو ہمیں اس کا علم نہیں دوسرے معلوم نہیں کہ اس میں جانے کی عام اجازت ہے یا کہ خاص بزرگ لوگ جائیں گے.مولوی صاحب نے فرمایا وہاں جانا جبری نہیں جو چاہے جاسکتا ہے روک کوئی نہیں سب کو جانے کی اجازت ہے، چونکہ جلسہ کی کارروائی جلدی ہونے والی تھی اس وجہ سے حضرت اقدس کی اجازت سے کھانا ٹھیکے بجے شام کا کھلا دیا گیا مگر حضرت اقدس نے نہ کھایا کہ دو پہر کا کھانا حضور نے ساڑھے تین بجے کے قریب کھایا تھا.فرمایا والپسی پر دیکھا جائے گا.حضرت اقدس اپنے کمرے میں تھے.اجازت سے اذان کہی گئی مگر حضور آٹھ بجے کے بعد نماز کو تشریف لائے اور صرف نماز شام پڑھائی.دوستوں کا رجحان تھا بلکہ تکبیر بھی کہی جانی شروع ہو گئی مگر حضور نے روک دیا اور نمازیں جمع نہ کرائیں.نماز کے بعد حضرت اقدس پھر اپنے کمرہ میں تشریف لے گئے اور فرما گئے کہ پونے کو بجے ہمیں وہاں پہنچنا چاہیئے.مولوی محمد دین صاحب نے اور چوہدری فتح محمد خان صاحب نے اس خیال سے کہ حضرت اقدس نے موٹر میں جانا ہوگا بہتر ہے کہ باقی لوگ پیدل چلے جائیں.حضور سے اجازت بذریعہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد منگائی.حضور نے اجازت دے دی ، چنانچہ مولوی محمد دین صاحب ناظر اعلیٰ کی امارت میں حسب ذیل لوگ گلڈ ہاؤس کو روانہ ہوئے اور پوچھتے پچھاتے کوئی پونے نو بجے کے بھی بعد وہاں پہنچے.9 بجنے میں چند منٹ باقی تھے.(۱) مولوی عبدالرحیم صاحب درد- ( ۲) ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب (۳) عرفانی صاحب- (۴) ملک نواب دین صاحب - ( ۵ ) ملک غلام فرید صاحب - (۶) چوہدری علی محمد صاحب - ( ۷ ) مولوی مصباح الدین صاحب - (۸) عبد الرحمن قادیانی - (۹) شیخ صاحب مصری - - اس جلسہ کے متعلق کوئی اطلاع یا اعلان نہ تھا اور نہ ہمیں علم تھا کہ کیسا جلسہ ہے اور وہاں پر کیا ہونے والا ہے.صرف یہ علم ہوا تھا کہ حضرت اقدس کا لیکچر ہوگا اور حضور کی زبانی یہ پتہ لگا تھا کہ
۲۱۸ پونے نو بجے وہاں پہنچنا چاہیئے.چنانچہ جب اس کی اطلاع مجھے ہوئی تو میں نے مولوی محمد دین صاحب سے شکایت بھی کی کہ ہم لوگوں کو بالکل آخری وقت اطلاع ہوئی ہے.کیا اچھا ہو کہ روزانہ مفصل اعلان سب کو سنا دیا جایا کرے خواہ چائے پر خواہ کھانے پر.اس پر انہوں نے فرمایا بہت اچھا ایسا ہی کیا جایا کرے گا.پارٹی گلڈ ہاؤس کو گئی اور پہنچی.مولوی مصباح الدین صاحب نے دروازہ کھلوایا اور ہم سب لوگ اندر داخل ہوئے تو ہدایت ہوئی کہ نیچے چلے جاؤ مگر نیچے کی طرف اندھیرا تھا.مولوی مصباح الدین صاحب آگئے تھے اور باقی لوگ ایک دوسرے کے پیچھے.سیٹرھیاں اترنے سے شور ہوا تو مولوی عبد الرحیم صاحب درد نے کہا آہستہ آہستہ اُتر و شور نہ ہونے دو.نیچے اندھیرا تھا اور صرف سٹیج پر کچھ روشنی تھی جہاں دو عورتیں اور دو مرد کھڑے تھے.ہم لوگ نیچے اُتر کر حیرت میں کھڑے ہو گئے کہ ہم کہاں آگئے ہیں شاید یہ وہ جگہ نہیں ہے جہاں ہم نے جانا ہے کہ اتنے میں پردہ اُٹھا اور کمرہ سارا روشن ہو گیا اور ایک ترکی ٹوپی والے آدمی نے آکر کچھ اعلان کرنا شروع کیا کہ آئندہ کیا ہوگا.جس کو سمجھ کر مولوی عبدالرحیم صاحب در دسب سے پہلے اُٹھے اور گھبراہٹ سے مولوی محمد دین صاحب اور شیخ صاحب عرفانی اور مجھ سے فرمایا کہ اب کیا کیا جاوے کیونکہ یہاں تو ڈرامہ ہوگا ہم تو حضرت اقدس کا لیکچر سننے کو آئے تھے مگر یہاں کچھ اور ہی ہورہا ہے.اس سے ذرا پہلے خان صاحب کو ملک غلام فرید صاحب نے آکر کہا کہ حضرت اقدس آگئے ہیں.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ حضرت اقدس کہاں بیٹھیں گے اور دل میں خوش تھے کہ حضرت کے آنے سے پیشتر انہوں نے اچھی جگہ بیٹھنے کی حاصل کر لی ہے.خان صاحب نے کہا کہ میں جا کر حضرت اقدس کو لاتا ہوں.حضور بھی اس جگہ آدیں گے اور لیکچر اسی جگہ ہو گا.شیخ عبدالرحمن صاحب مصری اور ملک غلام فرید صاحب جو سیڑھیوں سے اُترنے میں سب سے پیچھے تھے وہ بھی اوروں کی طرح گھبراہٹ میں تھے کہ ہم کہاں آ گئے ہیں مگر یہ نقشہ دیکھ کر دونوں واپس اوپر چلے گئے.اتنے میں حضرت اقدس بھی تشریف لے آئے اور پوچھا کہ خان صاحب کہاں ہیں ؟ ملک غلام فرید صاحب نے عرض کیا کہ وہ نیچے ہیں.وہ خان صاحب کو بلا کر لے گئے اور پھر بھی کسی کو نہ بتایا کہ لوگ یہاں نہ رہیں حالانکہ ان کو علم تھا.چوہدری فتح محمد خان
۲۱۹ صاحب کسی حاجت کی وجہ سے پہلی پارٹی کے ساتھ نہ جا سکے تھے.موٹر میں جگہ نہ تھی لہذا چو ہدری فتح محمد خان صاحب اور میاں رحم دین صاحب دونوں تھوڑی دور پیدل چل کر پھر ایک بس پر سوار ہوکر وہاں حضرت کے پیچھے پیچھے جاپہنچے.جب چوہدری صاحب وہاں پہنچ گئے جن کے متعلق حضور کو خیال تھا کہ وہ شاید نہ پہنچ سکیں تب حضرت اقدس نے فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب اور دوسرے ساتھی کہاں ہیں ؟ خان صاحب ہمیں نیچے کمرہ میں آئے ہوئے دیکھ کر اوپر گئے تھے.انہوں نے عرض کیا حضور وہ سب آگئے ہیں اور نیچے ہیں.حضور نے فرمایا کیا کرتے ہیں؟ خان صاحب نے عرض کیا حضور دیکھ رہے ہیں.خان صاحب کا یہ کلمہ کہنا تھا کہ حضور بہت خفا ہوئے اور سخت ناراضگی سے ملک غلام فرید صاحب کو فرمایا کہ جاؤ ان سے کہہ دو کہ وہ لوگ گھر کو چلے جائیں مگر حضور نے جیسا کہ بعد میں فرمایا اس حکم سے مراد صرف مبلغ لوگ تھے مگر ملک صاحب نے اس حکم کی کوئی تصریح نہ کی اور بلا امتیاز سب کو حضرت اقدس کا حکم پہنچا دیا.ادھر جب خان صاحب نیچے سے یہ کہہ کر اوپر گئے کہ میں حضرت اقدس کو لاتا ہوں مولوی عبدالرحیم صاحب درد بہت گھبراہٹ میں تھے کیونکہ وہ سن چکے تھے اور سمجھ چکے تھے کہ اب کسی ڈرامہ کا اعلان ہوا ہے اور اب ہمیں حضرت اقدس کے حکم کے مطابق یہاں نہ بیٹھنا چاہیئے.وہ گھبرا کر مولوی محمد دین صاحب سے، شیخ صاحب عرفانی صاحب سے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا کرنا چاہیئے.میں نے عرض کیا کہ امیر قافلہ کون ہے انہوں نے کہا افسر مولوی محمد دین صاحب ہیں.وہ کہتے ہیں کہ کوئی حرج نہیں بیٹھے رہو اور شیخ صاحب عرفانی نے بھی ایسا ہی کچھ جواب دیا.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ میری گھبراہٹ کو دیکھ کر ڈاکٹر صاحب بھی گھبرائے اور میرے بعد ڈاکٹر صاحب نے بھی مولوی محمد دین صاحب سے پوچھا مگر مولوی صاحب نے جو کہ ہمارےاس وقت افسر تھے انہوں نے ان کو بھی یہی جواب دیا کہ کوئی حرج نہیں بیٹھے رہو.مگر با ایں ہمہ مولوی صاحب گھبراہٹ کے مارے اُٹھ کر اوپر چلے گئے.ڈاکٹر صاحب نے ان سے کہا کہ ہمیں بھی اطلاع دینا مگر وہ کہتے ہیں کہ میں صرف یہ کہہ کر چلا گیا کہ حضرت کی خبر لاتا ہوں.چلے گئے اور پھر نہ آئے.بعد میں معلوم ہوا کہ پکڑے گئے اور سخت پکڑے گئے.حضور ناراض ہوئے اور سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم یہاں کیوں آئے ہو.گھر چلے جاؤ وغیرہ.
۲۲۰ شیخ عبد الرحمن صاحب بھی نیچے جا کر اور دیکھ کر اور ملک غلام فرید صاحب بھی نیچے جا کر اور دیکھ کر اوپر آئے تھے.شیخ صاحب مصری کہتے ہیں کہ میں نے حضرت اقدس کے حضور عرض کیا کہ حضور کے حکم کی مجھے بھی اطلاع نہیں تو اوروں کو کیا ہوگی.میرا خیال ہے کسی کو بھی اطلاع نہیں ہوئی ور نہ حضور کا حکم پا کر کوئی بھی ایسی غلطی نہ کرتا.ملک غلام فرید صاحب نے حضرت اقدس کا حکم پاکر نیچے کے لوگوں کو جو پہلے ہی گھبراہٹ میں تھے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں.سنا تھا کہ حضور آتے ہیں.خان صاحب کہہ کر گئے ہیں کہ میں حضرت اقدس کو لاتا ہوں مگر وہ بھی نہیں آئے.حکم سنتے ہی حیران و ششدر رہ گئے اور فور ابا ہر آ گئے.باہر آ کر اس خیال میں تھے کہ کسی طرح سے حضرت اقدس کے حضور سارا ماجرا عرض کیا جاوے کہ ہم لوگ کسی گھبراہٹ میں تھے.کوئی حکم نہیں دیا گیا.آئے ایسی جگہ ہیں جہاں معاملہ کچھ اور ہی نظر آ رہا ہے پھر ہم پر یہ ناراضگی اور سزا نازل ہوئی ہے.ہم لوگ اسی خیال میں تھے کہ ملک نواب دین صاحب نے جرات کی اور مولوی مصباح الدین صاحب کو ساتھ لے کر حضرت اقدس کے حضور گئے مگر حضور نے فرمایا کہ یہ سز اغلطی ہی کی ہے نیکی کی تو نہیں گھر چلے جائیں مگر جیسا کہ بعد میں حضرت اقدس سے معلوم ہوا وہ حکم صرف مبلغین کے لئے اور ان میں سے بھی صرف دو آدمیوں کے لئے تھا اور حضور کو خیال بھی یہی تھا کہ مبلغین نے باوجود حکم سننے کے خلاف ورزی کی ہے.غرض ڈاکٹر صاحب، عرفانی صاحب، چوہدری محمد شریف صاحب، چوہدری علی محمد صاحب، ملک نواب الدین صاحب، مولوی مصباح الدین صاحب، مولوی محمد دین صاحب اور قادیانی با چشم گریاں اور بادل بریاں واپس مکان پر آگئے.مولوی عبدالرحیم صاحب در دحضور کی نا راضگی سنتے رہے مگر ر ہے و ہیں.حضور کی تقریر جو حضور نے اردو میں لکھی تھی جس کو میں ذیل میں نقل کرتا ہوں اور انگریزی میں جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ترجمہ کی.اصل ترجمہ پنسل کا لکھا ہوا ارسال کرتا ہوں ، حضور نے خود پڑھی اور خدا کے فضل سے خوب ہی پڑھی.لوگوں نے حضور کو کھڑے ہونے پر چیئر ز دیئے اور پھر مضمون کے درمیان بھی کسی خاص مقامات پر چیئر ز دیئے.حضور کی آواز بالکل صاف تھی
۲۲۱ اور نہایت برجستگی سے حضور نے مضمون کو نباہا ایسا جیسا کہ حضور اپنے اردو مضمون کو آہستگی اور تسلی سے ادا فر ماتے ہیں.لوگوں نے خوش ہو کر بڑی لمبی چیئر ز دیں.حضور کی تقریر کے بعد اور بھی تقریریں ہوئیں مگر وہ بدھ مذہب کے متعلق تھیں اور بالکل معمولی و رسمی بلکہ سطحی تھیں.( یہ باتیں محترم در دصاحب سے سن کر عرض کی ہیں ) حضور رات بوٹ بھی پہن کر نہ گئے تھے بلکہ صرف گرگابی پرانی تھی.حضور فرماتے ہیں کہ جب میں بیٹھ گیا ( سٹیج پر ) تب معلوم ہوا کہ بوٹ نہیں بلکہ پرانی گرگابی ہے.پونے گیارہ بجے حضور وہاں سے تشریف لائے.مضمون دس یا پندرہ منٹ میں ختم ہو گیا تھا.واپس آ کر حضور نے کھانا کھایا.نماز عشاء پڑھائی اور آرام کیا.رستمبر ۱۹۲۴ء : حضور صبح کی نماز میں تشریف نہیں لائے.ناشتہ حضور نے 9 بجے فرمایا.میں نے موقع پا کر حضرت اقدس کے حضور حاضر ہو کر رات کا سارا واقعہ عرض کیا تو فرمایا کہ میں تم سے ناراض نہیں ہوں کیونکہ مجھے علم ہے کہ تم لوگوں کو میرے اس حکم کا علم نہ تھا لہذا میں ناراض نہیں ہوں مگر چونکہ اس وقت ان لوگوں کے ساتھ تھے جنہوں نے خلاف حکم کیا اس وجہ سے وہاں سے واپس آنا پڑا.صرف دو آدمیوں کا خاص کر نام لیا کہ میں ان سے ناراض ہوں.الحمد للہ حضور کے اس فرمان سے جان میں جان آئی اور عرض کیا حضور کل ڈاک ہند جانے والی ہے اطلاعاً عرض ہے.فرمایا ہاں میں لکھ رہا ہوں.اس وقت حضور لنڈن شہر کا نقشہ ملا حظہ فرما رہے تھے اور ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب پاس بیٹھے ہوئے تھے.تھوڑی دیر بعد حضور بازار کو مع ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب تشریف لے گئے.کل بھی حضور بازار گئے تھے اور علاوہ بعض دوسری اشیاء کے فرینچ، جرمن، اٹالین وغیرہ زبانوں کی ابتدائی کتب حضور نے خرید فرما ئیں اور چند چھوٹے چھوٹے ناول انگریزی زبان کے زبان دانی کی غرض سے خرید فرمائے.آج حضور نے ڈاکٹریس نو مسلم کو دعوت دی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کی بیوی بچوں کی بھی بلکہ غلام فرید صاحب کی بیوی اور بچوں کو بھی بلوایا ہوا ہے کہ تا عورتیں عورتوں میں مل
۲۲۲ کر خوش رہ سکیں مگر وقت دعوت کا ساڑھے بارہ بجے تھا.ایک ڈیڑھ بجنے والا ہے وہ لوگ نہیں آئے اور حضور بھی باہر تشریف لے گئے ہوئے ہیں ابھی تک واپس تشریف نہیں لائے.ڈاکٹریس آن پہنچے ہیں مگر تنہا کیونکہ بیوی بچوں کو ساتھ لانے کے متعلق ان کو خط نہیں پہنچا.اب وہ شاید اڑھائی بجے پہنچیں گے.حضرت اقدس کی اردو میں لکھی تقریر درج ذیل ہے.بسم الله الرحمن الرحيم اعوذ بالله من الشيطن الرجيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر صدر مجلس، بہنو اور بھائیو! گو آج آپ ایک اور لیکچر کے سننے کے لئے جمع ہوئے ہیں مگر مسٹر داس گپتا ڈائرکٹر آف دی یونین آف دی ایسٹ اینڈ ویسٹ نے چونکہ مہربانی سے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں بھی چند منٹ کے لئے بولوں میں بھی اپنے چند خیالات کا اظہار کرتا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ اس سوسائٹی کی اصل غرض کے سوا اور کوئی مضمون ایسا لطیف نہیں ہو گا جس کے متعلق میں آج آپ لوگوں کے سامنے کچھ کہوں.اس سوسائٹی کی غرض جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے مشرق و مغرب کے درمیان اتفاق ہے اور اس غرض سے مجھے خاص طور پر دلچسپی ہے کیونکہ میں جس بزرگ کی پیروی پر فخر کرتا ہوں اور جس کی نیابت کا عہدہ خدا تعالیٰ نے محض بندہ نوازی سے مجھے عطا فرمایا ہے اس کا دعویٰ تھا کہ خدا تعالیٰ نے اسے اس لئے دنیا میں بھیجا ہے کہ تمام دنیا سے فساد کو دور کرے اور سب لوگوں میں محبت اور پیار کی روح پھونکے.اس کے عہدوں میں سے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے عطا ہوئے ایک سلامتی کا شہزادہ بھی تھا کیونکہ وہ سب دنیا کو سلامتی دینے کے لئے آیا تھا.پس مجھے اور ہر ایک میرے ہم مذہب کو اس امر کو دیکھ کر کہ کوئی جماعت اس غرض کے پورا کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہے جس کے لئے ہمارا امام بھیجا گیا تھا نہایت ہی خوشی پہنچتی ہے.پس طبعا مجھے آپ کی ایسوسی ایشن
۲۲۳ سے ایک اُنس ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کے کام میں برکت دے اور آپ کی ہمتوں کو بلند کرے.بہنو اور بھائیو! میں ایک بات کی طرف آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں جو یقیناً آپ کے کام میں مد ہوگی اور جس کے بغیر حقیقی کامیابی مشکل ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کو اس ہستی کی طرف قدم بڑھانا چاہیئے جو تمام عالم خلق کے لئے بطور مرکز کے ہے.ایک دائرہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ تمام بعد مرکز سے بعد کی وجہ سے ہوتے ہیں اور جوں جوں ہم مرکز کے قریب ہوتے جائیں خواہ ہم کسی جانب سے بھی کیوں نہ چلے ہوں ہم دوسرے کے زیادہ سے زیادہ نزدیک ہوتے چلے جاتے ہیں حتی کہ اگر ہم مرکز تک پہنچنے کی توفیق پالیس پھر تو ہم میں کوئی جدائی رہتی ہی نہیں.اس تمام عالم خلق کا مرکز خدا ہے اور بغیر اس کی کامل محبت کے اور اس کے قرب کے ہم حقیقی اتحاد پیدا نہیں کر سکتے.جھگڑے تبھی پیدا ہوتے ہیں جب کہ ہم اس کی طرف سے منہ موڑ لیتے ہیں.اس کی کامل محبت ہمارے دلوں کو نفرت اور حقارت کے جذبات سے بالکل خالی کر دیتی ہے.لوگ ضرب المثال کے طور پر بھائیوں کی محبت کو پیش کرتے ہیں مگر یہ محبت کس سبب سے ہے؟ اسی لئے کہ ان کے وجود میں لانے والی ہستی ایک ہے.اولاد کا ماں سے یا باپ سے تعلق ان کے باہمی تعلقات کو مضبوط کر دیتا ہے.اسی طرح جب لوگ خدا تعالیٰ کی محبت کو دوسری باتوں پر ترجیح دیں گے تو ان کے باہمی تعلقات مضبوط ہوں گے اور وہ محسوس کریں گے کہ جب ان سب کا پیدا کرنے والا ایک ہے اور وہ ایک ہی ہستی کے دامن رحمت کے سایہ کے نیچے بیٹھے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی نسبت نفرت اور حقارت کے جذبات کو پیدا ہونے دیں.دنیا کا امن دنیا کے لوگوں کے ذریعہ سے نہیں ہو سکتا کیونکہ صلح کرنے والا یا مغربی ہوگا یا مشرقی اور اس وجہ سے ایک یا دوسری قوم اس کی کوششوں کو شک کی نگاہوں سے دیکھے گی.صلح اس ہستی کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے جو نہ مشرقی ہے نہ مغربی ہے بلکہ سب جہتوں سے پاک ہے.اسی ذات کی طرف قدم بڑھانے سے ہم در حقیقت ایک دوسرے کی طرف قدم بڑھاتے ہیں اور جو اس کی طرف سے آئے وہی ہم کو جمع کر سکتا ہے کیونکہ وہ جو آسمان سے آتا ہے وہ مشرقی یا مغربی نہیں کہلا سکتا بلکہ جو اس سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی مشرق و مغرب کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں.
۲۲۴ میں سخت حیران ہو جاتا ہوں جب دیکھتا ہوں کہ بلا وجہ بے سبب قو میں آپس میں کیوں عداوت کرتی ہیں.رہائش کی جگہ کے اختلاف اور دلی منافرت اور عداوت کا آپس میں کیا تعلق ہے.کیا کوئی ملک ہے جو سب دنیا کی آبادی کو جمع کر سکا ہے.کیا یورپ یا اس کے مختلف پہلا دامریکہ، افریقہ اور ایشیا کی آبادی کو جگہ دے سکتے ہیں.کیا افریقہ، امریکہ یا ایشیا دوسرے براعظموں کی آبادی کو سنبھال سکتے ہیں.اگر نہیں تو جو بعد محض ضرورت کی وجہ سے ہے اور جس کا علاج کسی کے پاس نہیں اس کے سبب سے اس قدر جھگڑا اور لڑائی کیوں ہے.میں مذہبی تمدنی اور علمی اختلاف کو دیکھتا ہوں تو بھی وجہ اختلاف کی نظر نہیں آتی.اگر کوئی قوم دوسری قوموں سے مذہبی ، تمدنی یا علمی ترقی میں بڑھی ہوئی ہے تو اس کو دوسری قوموں کو اُبھارنے کی کوشش کرنی چاہیئے نہ کہ اس سے نفرت کرنی چاہیئے.ایک گرے ہوئے بھائی کی حالت دیکھ کر ایک شریف آدمی کے دل میں اظہار ہمدردی پیدا ہوتا ہے یا اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے؟ دوستی تو وہی ہے جو تکلیف کے وقت میں ظاہر ہو نہ وہ جس کا اظہار آرام اور راحت کے زمانہ میں کیا جائے.پھر جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے قوموں کی ترقیات اور ان کے تنزل دوامی نہیں.آج ایک قوم ترقی کرتی ہے کل دوسری.کون سی قوم ہے جس نے شروع دنیا سے علم کی مشعل کو اونچا رکھا ہو.کس قوم کا حق ہے کہ وہ دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے.دنیا کی ہر ایک قوم ایک دوسرے کی شاگرد ہے.باری باری سب ہی استاد اور شاگرد کی جگہیں تبدیل کرتے چلے آئے ہیں پھر یہ اختلاف اور منافرت کیوں ہے اس وجہ سے کہ لوگ اپنے آپ کو اس دنیا میں محدود سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے جہات کا اختلاف اور حالتوں کا تغیر ان کے قلوب پر برا اثر ڈالتا ہے.جس دن دنیا کا یہ نقطہ نگاہ بدلا اسی دن سے صلح اور امن کا دور دورہ شروع ہو جائے گا.بہنو اور بھائیو! آؤ ہم اپنی نظر کو ذرا اونچا کریں اور دیکھیں کہ ہم صرف اسی دنیا کے ساتھ جو سورج کے گرد زمین کی گردشوں کی وجہ سے مشرق ومغرب میں منقسم ہے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ہماری جگہ بہت وسیع ہے.ہم اس خدا سے تعلق رکھتے ہیں جو تمام عالم کا پیدا کرنے والا ہے.پس ہمارا مقام سورج سے بھی اونچا ہے اور مشرق و مغرب ہمارے غلام ہیں نہ کہ ہم مشرق و مغرب کے غلام.ہم سمجھدار ہو کر ان باتوں سے کیوں متاثر ہوں جو صرف نسبتی اور وہمی ہیں.مشرق و مغرب کا سوال لوگوں کے امن کو برباد کر رہا
۲۲۵ ہے مگر میں پوچھتا ہوں کہ وہ مغرب کہاں ہے جو کسی دوسری جہت سے مشرق نہیں اور وہ مشرق کہاں ہے جو کسی دوسری جہت سے مغرب نہیں ؟ آؤ ہم اپنے آپ کو ان وہموں سے اونچا ثابت کریں اور اس مرکز خلق کی طرف توجہ کریں کہ جو سب کو جمع کرنے والا ہے.“ آج حضور کی بعض ملاقاتیں تھیں.حضور نے ڈاکٹریس کو مع لیڈی وغیرہ دعوت دی ہوئی تھی.وہ آئے مگر حضور بازار گئے ہوئے تھے.ڈاکٹر صاحب دیر تک انتظار کرنے کے بعد واپس چلے گئے حضور ۵ بجے کے بعد واپس تشریف لائے.اس وقت بھی ایک صاحب سپرنٹو والے آئے ہوئے تھے ( سپرنٹو نئی زبان ) - ان سے حضور نے ملاقات کی اور پھر ایک اور صاحب آئے ان سے ملاقات کو بیٹھ گئے اور ۸ بجے کے بعد تک ملاقات ہوتی رہی.شام کی نماز کے بعد حضور نے کھانا کھایا اور پھر اپنے کمرہ میں تشریف لے گئے.حضور آج پھر سخت ناراض ہوئے جب کہ بازار سے واپس آئے اور عرض کیا گیا کہ ڈاکٹر لیس مع لیڈی ولڑکی کے آیا تھا.حضور کا انتظار کر کے چلا گیا تو حضور منتظمین ملاقات سے سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں نے جب حکم دے رکھا ہے کہ دن بھر کی ملاقاتوں کی اطلاع صبح کو میرے کمرے میں لکھ کر پہنچا دینی چاہیئے کیوں اس حکم کی تعمیل نہیں کی جاتی اور لوگوں کو ٹھو کر کا موقع یا برے خیالات لے کر واپس جانے کا سامان کیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ.پروٹسٹ کمیٹی کے ممبروں نے کام شروع کیا اور بعض دوست اپنے اپنے مفوضہ کاموں کے لئے گئے اور آکر رپورٹیں پیش کیں.اخبارات کے نوٹ جو شہادت کے متعلق تھے یکجا جمع کر کے طبع کرانے کا ارادہ تھا.کل پر لیس میں بھیجے تو اس نے ۳۰ پونڈ ۵۰۰ کاپی کے مانگے تھے.آخر نہ چھپوائے.آج اس میں سے تیسرا حصہ کم کر کے کسی دوسرے پر لیس کو بھیجے تو یہ کام صرف ۳ پونڈ میں ہو گیا.مکرمی چوہدری فتح محمد خان صاحب کو پورٹ سمتھ جانے کا حضرت نے حکم دیا ہے جہاں وہ ار کو چلے جائیں گے کیونکہ وہاں حضور کا لیکچر ۴ار کو مقرر ہے.حضور ۱۴ر کو تشریف لے جائیں گے.
۲۲۶ چوہدری صاحب کو حضور نے وہاں پہلے جا کر تیاری کرنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ وہاں احمدی لوگ بھی تھے ان کو تلاش کر کے جمع کرنے کی کوشش کریں.حضور نے فرمایا کہ ملک غلام فرید صاحب کو بھی ساتھ لے جائیں اور دونوں مل کر تین دن تک کام کریں کہ وہاں کے لوگ جو اسلام کے قریب ہیں وہ اور زیادہ قریب ہو جائیں.حضور نے فرمایا کہ قصبات اور دیہات میں کام کرنے سے یہ فائدہ ہوگا کہ وہاں جلد تر اور سہولت سے تبلیغ ہو سکے گی اور اس کا اثر شہروں پر بھی پڑے گا.حضور نے فرمایا کہ شہری آدمی تو اتنے مصروف ہیں کہ ان کو دین کی سمجھ ہی نہیں آسکتی کیونکہ ان کو ہوش ہی نہیں.فیشن کی ایسی ایک رو ہے کہ بازاروں میں ایک تماشا ہوتا ہے اور لوگ چلتے چلتے بھی دکانات میں لٹکتی ہوئی چیزوں کو دیکھتے جاتے ہیں کہ مبادا کوئی نیا فیشن نکل آیا ہو جس کی انہیں اطلاع نہ ہو اور انہوں نے نہ لیا ہو تو اس سے ان کی ہتک ہو جائے اور اس طرح سوسائٹی میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے.حضور نے فرمایا کہ آپ لوگ جا کر خوب کام کریں اور ایک مضمون کا عنوان میسج فرام ہیون (Message from Heaven) رکھیں اگر ہو سکا تو دوسرا مضمون بھی دے دیا جائے گا اگر موقع ہوا تو اس کے واسطے کسی اور صاحب کو نوٹ لکھا دیں گے تا دوسرا مضمون وہ بول لیں.الغرض حضور کی توجہ اس طرف ہے کہ چھوٹے چھوٹے شہروں سے تبلیغ کو شروع کیا جاوے تا کہ ان کا اثر بڑے شہروں پر پڑے کیونکہ چھوٹے شہروں کے لوگوں کو ایسے غافل کرنے والے سامان نسبتا کم میسر آتے ہیں جو بڑے شہروں میں بہت زیادہ ہیں.حضور نے فرمایا کہ حافظ صاحب کو ارادہ ہے کہ پانچ چھ دن کے واسطے کا رڈنگ بھیج دیا جائے تاکہ وہاں کے عربوں میں تبلیغ کریں.انشاء اللہ تعالیٰ وہاں خوب کامیابی ہوگی.عربوں کی آبادی ہے انہوں نے انگریز عورتوں سے شادیاں کی ہوئی ہیں اور ان کی اولا دیں اب انگریز ہی نظر آتی ہیں.مذہبی کا نفرنس کے مضمون کی طبع کا کام حضرت اقدس نے مولوی محمد دین صاحب کے
۲۲۷ سپر دفرمایا ہے اور ہدایت فرمائی ہے کہ ٹیچنگز آف اسلام کے سائز پر چھپوا یا جاوے اور مجلد کرایا جاوے.نماز عشاء کے بعد حضور بیٹھ گئے ہیں اور ایک گھنٹہ سے زیادہ دیر تک یہاں کی دکانات وغیرہ کی باتیں کرتے رہے.فرمایا کہ ایک گھنٹہ خریدا ہے جس کی چابی ۴۰۰ دن کی ہے جس کی قیمت صرف ۲۷ روپے ہے.سلفرج کی مشہور دکان کے حالات بیان فرماتے رہے.۴۳ ہجری کے برکات میں سے ہی فرمایا کہ لنڈن کا سفر بھی ایک عجوبہ ہے.آنے کا کوئی خیال نہ تھا نہ اس پیشگوئی کا خیال تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لنڈن میں سفید پرندے پکڑنے کے متعلق دیکھی تھی.پریس نے جو خدمت کی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی حتی کہ بادشاہوں کے واسطے بھی ایسا کبھی نہیں ہوا.مسٹر گپتا آج بھی آئے اور انہوں نے حضور کے رات کے مضمون پڑھنے کا ذکر کر کے کہا کہ حضور نے جو مضمون پڑھا تھا وہ بہت ہی قابل تعریف تھا.وہ کہتا ہے کہ میں ہی نہیں کہتا بلکہ مجھے دوسرے لوگوں نے بھی کہا تھا.اس نے یہ بھی کہا کہ اس دن جو (البیت ) میں ایڈریس پڑھا گیا تھا اس سے بھی اچھا مضمون رات حضور نے پڑھا.چنانچہ رات کے مضمون کی رپورٹ اس نے خود بھی اخبارات کو بھیجی ہے.حضور نے فرمایا کہ اسپرنٹو والا جو آیا تھا اس نے کہا کہ جو خدمت آپ فرما ئیں ہم کرنے کو تیار ہیں.حضور نے فرمایا کہ ان لوگوں سے ہمیں مل جانا چاہیئے.یہ بہت ہی مفید بات ہے کیونکہ عربی تو جب پھیلے گی دیکھا جائے گا مگر یہ لوگ تو اب بھی ہمارے بنے کو تیار ہیں.اس ذریعہ سے ہمیں ایک بنی بنائی قوم مل سکتی ہے جس کو پھر ہم اپنے مطلب کا بنالیں گے اور اپنے سانچے میں ڈھال لیں گے.اس شخص نے حضور سے عرض کیا کہ آپ ہمیں کوئی عربی دان دیں تو اپنی زبان میں قرآن شریف کا ترجمہ کریں گے اور دوسری چیز ایسٹ اینڈ ویسٹ ایسوسی ایشن یہ دونوں ہمیں بہت پسند ہیں اگر ہمارے آدمی ہوشیاری سے کام لیں تو ان مجلسوں کے ممبر بن کر ان پر قبضہ ہی کر سکتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ اسپرنٹو والے تو آپس میں ایک دوسرے سے اس طرح محبت کرتے ہیں جس طرح سے احمدی احمدی سے محبت کرتا ہے اور جہاں اس کو دیکھ پاتا ہے لپٹ جاتا ہے اور خوش ہوتا ہے چونکہ وہ بالکل ایک نرالی زبان ہے اور اس کے جاننے والے کہیں کوئی خال خال پائے جاتے ہیں.جب
۲۲۸ ایک کو دوسرے کی اطلاع ہوتی ہے تو وہ آپس میں بہت محبت کرتے ہیں.چوہدری فتح محمد خان صاحب نے حضرت اقدس کے تشریف لانے سے پہلے اس اسپر نٹو والے سے سلسلہ کے متعلق اور اسلامی تعلیم کے متعلق ذکر کرتے ہوئے کہا کہ قرآن میں تو تمام دنیا میں امن قائم کرنے کی تعلیم ہے اور حضرت مسیح موعود خاص طور پر اس تعلیم کو لے کر آئے اور خدا نے ان کا نام شاہزادہ امن رکھا ہے وغیرہ وغیرہ.تو اس پر وہ شخص بہت ہی خوش ہوا اور کہنے لگا یہ تو بالکل نئی بات ہے اور بالکل نئی ریسرچ معلوم دیتی ہے اور ایک نئی ہی دریافت ہے جو آپ لوگوں نے کی ہے.آپ کے متعلق دنیا کو اچھی طرح سے اطلاع دیں اور ہم بھی خدمت کے لئے حاضر ہیں.جہاں تک ممکن ہو سکے گا دریغ نہ کریں گے.وغیرہ وغیرہ گورات کو نماز اپنے وقت مقررہ پر ہوگئی ساڑھے دس بجے مگر حضور نماز کے بعد بیٹھ گئے اور ٹھیک بارہ بجے آرام گاہ کو تشریف لے گئے.۱۱ ستمبر ۱۹۲۴ ء : صبح کی نماز میں حضور تشریف نہیں لائے.حضرت کی مصروفیت کا ایک مختصر سا نقشہ ذیل میں درج کرتا ہوں.ملاحظہ فرمائیں اور ابھی روز افزوں خدا کے فضل سے اس میں ترقی ہے.۱۱/ستمبر ۲۴ء..۵ بجے شام قا ئمقام لیگ آف نیشنز سے ملاقات.۱۴ ستمبر ۲۴ پورٹ سمتھ میں لیکچر.۱۵/ ستمبر ۶۲۴ ہندوستانی طلبا نے کیکسن ہال میں مدعو کیا.۱۹ ستمبر ۲۴...کلیم سپر چول ہال ۸ بجے شام لائف آفٹر ڈیتھ - ۱۷ ستمبر ۲۴ پروٹسٹ میٹنگ.۲۲ ستمبر ۶۲۴ حضور کی تقریر مذہبی کا نفرنس میں ایمپریل انسٹی ٹیوٹ میں.۲۵ ستمبر ۲۴ حافظ صاحب کا لیکچر صوفی مذہب پر جو دراصل حضرت اقدس کا ہے.۲۶ ستمبر ۲۴ء ایسٹ اینڈ ویسٹ اور کنزرویٹو پارٹی میں لیکچر.
۲۲۹ ۲۸ ستمبر ۲۴ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں ( انگریز ) ٹیچنگز آف محمد پر لیکچر ہوگا.ان کے علاوہ حضور کی مصروفیت مکان پر ملاقاتیوں کی اللہ کے فضل سے روزانہ دو تین آدمیوں کی اوسطاً ہے.حضرت اقدس رات کو نماز عشاء کے بعد پونے تین بجے تک اپنے کمرے میں قادیان اور ہند کی ڈاک لکھتے رہے.صبح کی نماز اپنے کمرے میں ادا کر کے پھر لیٹ گئے.ساڑھے نو بج چکے ہیں ابھی آرام فرماتے ہیں.
۲۳۰ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم خط نمبر ۱۴، از مقام لنڈن : مورخہ ۱۸؍ ستمبر ۱۹۲۴ء السلام عليكم و رحمته الله وبركاته ۱۱ ستمبر ۱۹۲۴ء : آج ہندوستانی ڈاک کا دن تھا.سیدنا حضرت فضل عمر رات بھی کہیں تین بجے کے قریب جا کر لیٹے تھے.ڈاک لکھتے رہے اور آج دن بھر بھی اسی کام میں مصروف رہے.حضور نے ایک مضمون لکھ کر حضرت مولوی شیر علی صاحب کے نام رجسٹر ڈ لیٹر میں بھجوایا ہے اور آٹھ عددفوٹو بھی بھجوائے ہیں وہ بھی رجسٹرڈ.اس کے علاوہ ۲۰ کے قریب اور ملفوف حضور نے رقم فرمائے اور سوا پانچ بجے شام تک اسی کام میں بے حد مصروف رہے حتی کہ یہ اطلاع ملی کہ لیگ آف نیشنز لنڈن کے دوسر کردہ ممبر حضور کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے ہیں.حضور نے چونکہ ان کو وقت دے رکھا تھا خطوط اور ڈاک کا کام بند فرما کر ان کی ملاقات کو تشریف لے گئے.مجھے ڈاک پوسٹ کرنے کا حکم دیا.خطوط پر انگریزی پتہ مولوی عبدالرحیم صاحب در د ساتھ ساتھ لکھتے گئے تھے تا کام جلدی ختم ہو جائے.شیخ یعقوب علی صاحب اپنی ڈیوٹی پر یہودی بھیڑوں کی تلاش میں گئے ہوئے تھے انٹرویو ختم ہو جانے کے بعد واپس آئے.انٹرویو بہت ہی دلچسپ تھا.اس وقت صرف مولا نانیر ہی موجود تھے انہوں نے عرفانی صاحب کو خلاصہ اپنی زبان میں سنایا.( دینِ حق ) کی پُر امن تعلیم اور حضرت مسیح موعود کا خاص اور اہم ترین کام صلح کا شاہزادہ، جہاد کی حقیقت ، سلسلہ کی امن پسندی ، جہاد کی غلط سپرٹ کے خلاف جد و جہد ، اس کی وجہ سے علماء و عوام مسلمانوں کی مخالفت ، واقعہ شہادت در کا بل وغیرہ وغیرہ کا ذکر حضور نے ان سے کھول کر فرمایا.وہ لوگ سن کر گرویدہ ومتاثر ہوئے اور ہر ممکن امداد کا یقین دلایا.انہوں نے سوالات کئے جن کے حضور نے تسلی بخش جواب دیئے.ان کا شوق اور بھی بڑھا.انہوں نے عرض کیا کہ ہم ہندوستان میں بھی لیگ آف نیشنز کی ایک شاخ کھولنا چاہتے ہیں آپ ہمیں کیا مدد دے سکیں گے.حضور نے ہر قسم کی مدد دینے کا وعدہ فرما یا بشرطیکہ مذہبی
۲۳۱ مجبوری ہمیں کسی امر میں شامل ہونے سے نہ روک دے.انہوں نے مسز بسنٹ کی امداد کے وعدہ کا ذکر بھی کیا.حضور نے اس کے متعلق فرمایا کہ وہ پولیٹیکل معاملات میں بھی دخل دیتی ہے اس وجہ سے اس کی امداد آپ لوگوں کے لئے مفید نہ ہو سکے گی البتہ ہمارا سلسلہ ہر قسم کی مدد دے سکے گا جو ایک ٹھوس موثر اور مخلصانہ و بے غرض امداد ہوگی.حضور نے مذہبی مباحثات کے متعلق حضرت مسیح موعود کی پیش کردہ پر امن تجویز کا بھی ذکر ان کو کھول کر سنایا اور پھر ان کو ان کی کمزوریوں پر بھی مطلع کیا.قریباً ایک گھنٹہ کی ملاقات کے بعد وہ.لوگ چلے گئے اور بہت ہی اچھا اثر لے کر گئے.جاتے ہوئے انہوں نے عرض کیا کہ ہم اپنی کوششوں اور سرگرمیوں کی اطلاع آپ کو کس طرح سے دے سکتے ہیں ؟ حضور نے فرمایا کہ ہمارے مقامی نمائندہ مقیم لنڈن کے ذریعہ سے.آج دوپہر کے کھانے پر حضور نے حکم دیا کہ مکان طذا ہفتہ کے لئے کرایہ پر لیا گیا تھا جو غالباً ۱۹ اکتوبر کوختم ہو گا مگر چونکہ اکثر بڑے بڑے لوگ گرمی اور تعطیلات کی وجہ سے لنڈن سے باہر گئے ہوئے ہیں ممکن ہے کہ ان لوگوں کی واپسی میں کچھ دیر ہو لہذا بہتر ہے کہ ایک ہفتہ کے لئے مکان اور کرایہ پر لے لیا جاوے یعنی ۲۶ / اکتوبر تک کرایہ نامہ کی میعاد بڑھائی جاوے تا کہ ایسا نہ ہو کہ ہم ان لوگوں سے ملے بغیر ہی واپس چلے جائیں اور کام ادھورا رہ جائے.فرانس میں جانا ایسا ضروری نہیں جیسا کہ اب یہاں ٹھہرنا ضروری ہے.فرانس کی امید پر ہم اس چلتے ہوئے کام میں حرج کرنا پسند نہیں کرتے.فرانس کے لئے ایک خاص سیکرٹری مقرر کر کے خط و کتابت کے ذریعہ سے تبلیغ شروع کر دیں گے اور یہاں بیٹھے بیٹھے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے پھر اگر فرصت ہو گئی تو ۲۵ کو یہاں سے چل کر دو چار روز وہاں ٹھہر بھی لیں گے.مذہبی کا نفرنس والا مضمون کمیٹی کے پاس جاچکا ہے.سیکرٹری صاحبہ نے دیکھ کر کہا کہ اتنا لمبا مضمون کون پڑھے گا اور کون سنے گا مگر اس کو اطمینان دلایا گیا کہ اس میں سے بعض حصے پڑھنے میں ترک کر دیئے جائیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ مضمون وقت کے اند رختم کر دیا جائے گا.مضمون کی خوبی کا اس پر گہرا اثر ہے جس کی وجہ سے وہ خاموش رہی ورنہ خلاصہ کئے بغیر پڑھے جانے سے انکار کر دیتی.دوسرے مضمون کو بھی اس نے بہت پسند کیا اور خوش ہوئی کہ یہ
۲۳۲ مضمون اچھا ہے اور مختصر بھی ہے.یہ بھی حضرت اقدس ہی کا بتایا ہوا ہے صرف نام حافظ صاحب کا لکھا گیا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا میں نے کہا تھا نا کہ یہ طرز ان لوگوں کے مذاق کے مطابق ہے.حضرت اقدس نے اپنے مضمون کے طبع کرانے کا حکم دے دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ۲۰۰۰ ہزار کا پی طبع کرالی جائے.سائیز ٹیچنگز آف اسلام کا ہو اور کا غذ بھی وہی لگایا جانے کی تجویز ہے.آج دن بھر مولوی محمد دین صاحب اسی کام کے لئے پھرتے رہے اور مختلف پر یسوں میں گئے اور بڑی محنت اور تلاش کے بعد ایک جگہ فیصلہ کر آئے ہیں کہ ۲۰۰۰ ہزار کا پی کارڈ بورڈ کی مجلد تیار ۷۰ پونڈ میں مکمل دیں گے.۲۰ /اکتوبر تک انشاء اللہ ۲۰۰ کا پی تیار بھی کر دیں گے اور باقی پھر جلدی دو چار روز میں تیار کر کے دے دیں گے.نیوسن پریس میں فیصلہ ہوا ہے.باقی بڑے بڑے پر لیس تو ڈیڑھ سو پونڈ مانگتے تھے اور وقت بھی تین ہفتے مانگتے تھے اس سے پہلے تیار کر دینے کا وعدہ نہ کرتے تھے.اس پریس کی چھپائی کا بھی جو نمونہ آیا ہے اچھا ہے اور حضرت نے پسند فرمالیا ہے.میں اس کوشش میں ہوں کہ اگر کسی طرح سے ۱۸ ء کو کوئی ایک کاپی بھی مل سکے تو قادیان بھجوا دوں.مولوی صاحب نے بھی فرمایا ہے کہ کوشش کروں گا اگر کوئی ایک کاپی بھی مل گئی تو منگا دوں گا.کل جمعہ ہے.نماز جمعہ انشاء اللہ ( البيت ) لنڈن میں ہوگی جو پٹنی میں ہے.آج کی ڈاک سے کچھ پہلے اخبارات اور پھر کچھ اخبارات کے وہ ورق بھیج دیئے گئے ہیں جن میں ہمارے سلسلہ کا کوئی ذکر ہے صرف تصاویرا اور فوٹو والے اخبارات کی ضرورت نہیں سمجھی گئی.ریویو انگریزی بجائے قادیان سے شائع ہونے کے لنڈن سے شائع کرنیکی تجویز حضور کے زیر غور ہے.آج اس کا بھی تذکرہ کھانے پر تھا.حضور یہاں سے اپنا کوئی نہ کوئی رسالہ ضرور شائع ہونا پسند کرتے ہیں.مسلم سن رائز امریکہ کے بند ہو جانے کا حضور افسوس کرتے ہیں.حضور کو پہلے اس بات کا علم نہ تھا آج ہی حضور کو اس کے بند ہونے کی اطلاع ہوئی ہے.ظہر وعصر کی نمازیں بہت تنگ وقت میں ادا کی گئیں.نمازوں کے بعد حضور اپنے کمرہ میں تشریف لے گئے اور جاتے ہوئے فرما گئے کہ کھانا نماز شام سے پہلے کھلا دیا جاوے کیونکہ بعد میں کھانا کھانے سے تکلیف ہو جاتی ہے.چنا نچہ کھانا ے بجے ٹھیک رکھ کر عرض کر دیا گیا.حضور ساڑھے سات بجے کھانے پر تشریف لائے اور کھانے کے بعد نماز شام پڑھا کر پھر اپنے کمرے میں تشریف لے گئے.نماز عشاء کی اذان
۲۳۳ ہوئی اور حضور جلدی ہی تشریف لے آئے اور نماز عشاء سے فارغ ہو کر ۱۰ بجے ٹھیک اپنے کمرہ میں تشریف لے گئے.۱۲ ستمبر ۱۹۲۴ء : آج بہت دن کے بعد حضور صبح کی نماز میں تشریف لائے.نماز کے معاً بعد تشریف لے گئے.ناشتہ 9 بجے کے بعد فرمایا مگر حضور کے پیٹ میں درد تھا.ڈاکٹر صاحب نے غالباً انجکشن کیا کیونکہ مجھ سے ذکر فرمایا تھا اور بعض سامان بھی منگائے تھے.دس بجے کے بعد حضور بازار تشریف لے گئے ہیں اور ابھی تک واپس تشریف نہیں لائے.رات کو مولوی مبارک علی صاحب کا ایک تار آیا کہ ( البيت ) کے سودے کے متعلق کوئی تفصیلی ہدایات نہیں ملیں مگر ان کو خط لکھایا جا چکا ہے غالباً اس تار کی روانگی کے بعد ان کو پہنچ چکا ہوگا.نماز جمعہ حضور نے ۳ بجے پٹی پڑھائی اور قادیان سے آئے ہوئے تار کا ذکر کیا جس میں ڈاکٹر فضل کریم صاحب کے خط کا خلاصہ متعلق شہادت مولوی نعمت اللہ خان صاحب اور تبلیغ کا بل کے لئے نام پیش کرنے والوں کا ذکر تھا.خطبہ الحمدللہ کی تفسیر لطیف پر مشتمل تھا جو محترم عرفانی صاحب نے لکھ لیا ہے.مذہبی کا نفرنس کی سیکرٹری نے حضور کے مضمون کے متعلق ایک عریضہ حضور کی خدمت میں لکھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے خیال میں حضور کا مضمون قابل اعتراض ہے کیونکہ اس میں تو از سرتا پا تبلیغ ہی تبلیغ ہے مگر لکھنے میں انہوں نے ایسے ادب سے لکھا ہے کہ اعتراض کا لفظ بھی نہیں لکھا.صرف یہ لکھا ہے کہ حضور نے جو فرمایا ہے کہ مضمون کا کچھ حصہ کم کر دیں گے لہذا ہما را آدمی حضور کی خدمت میں حاضر ہوگا تا کہ مشورہ سے جو حصہ نکالنا ہو نکالا جاوے.دراصل ہوشیاری کی ہے کہ حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر زبانی عرض کریں کہ جو حصے زیادہ زور دار تبلیغ کے ہیں وہ کم کر دئیے جائیں مگر ساتھ ہی ایک امر قابل ذکر یہ ہے کہ اس نے لکھا ہے کہ امپارٹنٹ (Important) مضمون تو حضور ہی کا ہے جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خدا نے ان لوگوں کے دلوں میں بھی کتنی اہمیت پیدا کر دی ہے.الحمد للہ ثم الحمد للہ الہی تصرف اور سچی اور پاک روحانیت کے بغیر یہ جذب کیوں کر؟ محترم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا خیال ہے کہ ان کا آدمی اگر یہاں آوے گا تو
۲۳۴ ہمارے لئے ہی مفید ہوگا اور ہماری رائے غالب رہے گی.ہم اس کو اپنی مرضی منوا لیں گے اور اہم ترین حصص نہ کم کرنے دیں گے لہذا اس کا آ جانا ہمارے واسطے زیادہ مفید ہوگا کیونکہ اسطرح بعد میں کسی کو لب کشائی تک کی گنجائش نہ رہے گی.پورٹ سمتھ سے چوہدری فتح محمد خان صاحب اور مکرمی ملک غلام فرید صاحب کا تار آیا ہے کہ وہاں حضور کے دو مضمون ہوں گے.ایک مضمون گیارہ بجے دو پہر اور دوسرا چھ بجے شام - وہاں کے لوگوں نے یہ درخواست اصرار سے کی ہے.۱۴ کو یہ لیکچر ہیں آج ۱۲ ہے.وقت تنگ ہے حضور فرماتے ہیں کہ وقت بہت تنگ ہے لہذا ایک مضمون حضور تیار کریں گے اور دوسرا فر مایا کہ مولوی محمد دین صاحب تیار کر لیں اگر ہو سکا اور وقت مل گیا تو دونوں میں خود تیار کرلوں گا مگر احتیاطاً دوسرا مضمون مولوی صاحب تیار کر لیں تو اچھا ہوگا اگر مجھے فرصت نہ ہوئی تو اس سے کام تو چل سکے گا.حضور خود میسیج فرام ہیون ( Message from Heaven) پر یر مضمون لکھیں گے اور حضرت مسیح کی آمد ثانی دوسرا مضمون مولوی صاحب کے لئے رکھا ہے مگر اگر موقع ہوا تو حضور دونوں ہی لکھ لیں گے.۱۴ر کی صبح ہی کو یہاں سے پورٹ سمتھ کو روانگی بھی ہوگی.بعد نماز شام ) حضور نے کھانے کے متعلق آج پھر وہی حکم دیا کہ شام سے پہلے ہی کھایا جاوے.چنانچہ اس کی تعمیل کی گئی.نماز عصر کے بعد (البيت ) کے کمرہ سے تشریف لے جا کر حضور نے پورٹ سمتھ کے لئے مضمون لکھنا شروع فرما دیا ہے اور کھانے سے پہلے پہلے صرف آدھ گھنٹہ کے وقفہ میں ابتدائی دو تین صفحات رقم فرما کر محترم جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو ترجمہ کے واسطے دے بھی دیئے ہیں اور چوہدری صاحب نے ترجمہ شروع بھی کر دیا ہے.اللہ کریم ان کے علم میں برکت اور الفاظ میں تاثیر بھر دیں.نماز شام کے بعد حضور نے پھر مضمون کا کام شروع کیا ہوا ہے جو صفحات حضور لکھتے ہیں چوہدری صاحب کو ساتھ ساتھ پہنچا دیئے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اس خدمت کے لئے ان کو چن لیا ہے.حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ گولڈ کوسٹ مغربی افریقہ سے آج بعد عصر یہاں پہنچے.ان
۲۳۵ کا تار جہاز سے اترنے کا جمعہ کی نماز میں حضور کی خدمت میں پہنچا تھا.( آپ کا ۹ ر کا تا ر قا دیان سے ا ر کو لنڈن پہنچ کر ۱۲ کو تقسیم ہوا جس میں آپ نے ڈاکٹر فضل کریم صاحب کے خط کا بھی ذکر کیا ہے.پٹنی کے مکان کی فروخت کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے.ساڑھے تین ہزار پونڈ تک فروخت کر دینے کی ایجنٹ کو ہدایت کر دی گئی ہے.رات کو بھی حضور کوئی دو تین بجے تک کام کرتے رہے جس کی وجہ سے آج صبح کی نماز میں پھر تشریف نہ لا سکے.سر میں درد اور بخار بھی ہے.رات کو آنکھ میں درد بھی ہو گیا تھا جس کی وجہ سے حضور کوئی اخبار پڑھ سکے نہ مضمون ہی لکھا گیا صرف چار صفحات ہی لکھے گئے تھے جو ساتھ کے ساتھ ترجمہ بھی ہو چکے ہیں.۱۳ / ستمبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز میں حضور تشریف نہیں لا سکے ناشتہ 9 بجے کے بعد حضور نے فرمایا.نماز کمرہ میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ باجماعت ادا کی.مضمون جو حضور نے پورٹ سمجھ کے لئے لکھنا شروع فرمایا ہے اس کی نقل ذیل میں کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیں.نقل مطابق اصل اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر جناب صدر جلسہ، بہنو اور بھائیو! السلام علیکم پیغام آسمانی Wherefore I say unto you, all manner of sin and blasphemy shall be forgiven unto men, but blasphemy against the holy Ghost shall not be forgiven unto men.And whoseever speaketh a word
۲۳۶ against the son of man it shall be forgiven him, but whosoever speaketh against the Holy Ghost it shall not be forgivon him, neither in this world, neither in the world to come'.St.Methew 12.31,320 ان الفاظ میں خدا تعالیٰ کے ایک مقدس نبی نے ان لوگوں کو جو ایک آسمانی پیغام کا انکار کر رہے تھے آج سے انیس سو سال پہلے مخاطب کیا تھا اور ان الفاظ کا زور اور طاقت آج بھی ایسا ہی قائم ہے.ان تمام روایات کو اگر الگ کر دیا جائے جو قوت واہمہ نے روح القدس کے لفظ کے گرد جمع کر دی ہیں تو روح القدس وہ فرشتہ ہے جو خدا تعالیٰ کا پیغام حضرت مسیح کے پاس لایا تھا اور حضرت مسیح علیہ السلام کی مراد مذکورہ بالا الفاظ سے سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ ہر قسم کا گناہ اور کفر انسان کو بخشا جائے گا مگر وہ کفر اور گناہ جو خدا کے کلام کے خلاف ہو گا نہیں بخشا جائے گا.ابن آدم یعنی مسیح کی ذات کے خلاف اگر کوئی شخص کہے گا تو اس کی معافی کی امید ہے مگر جو شخص اس پیغام کے خلاف کچھ کہے گا جو ابن آدم لایا ہے وہ اس دنیا میں بھی سزا پائے گا اور اگلے جہان میں بھی.یہ فقرے ایک زبر دست صداقت اپنے اندر رکھتے ہیں.ایسی صداقت جس کے اندر ایک شائبہ بھی غلطی کا نہیں.اگر ذرا بھی غور کر کے دیکھا جائے تو عقل اس نتیجہ پر پہنچنے پر مجبور ہوتی ہے کہ اگر کوئی خدا ہے اور اگر وہ دنیا کی اصلاح کے لئے کوئی پیغام بھیجتا ہے اور اگر اس کا پیغام واقع میں دنیا کے فائدہ کی باتوں پر مشتمل ہوتا ہے نہ کہ بے معنی اور بے فائدہ باتوں پر تو جو شخص اس کلام کا انکار کرے یا اس کی طرف سے منہ پھیرے ضرور اسے اپنے عمل کا خمیازہ بھگتنا چاہیے.ہم کسی شخص کو کسی جگہ کا راہ بتادیں اور وہ باوجود ہماری ہدایت سے بے پروائی کرنے کے بے تکلف اور بے تکلیف کے منزل مقصود پر پہنچ جائے تو یقینا ہماری ہدایات کی غلطی ثابت ہوگی اگر ہماری ہدایات درست ہو تیں تو وہ شخص کبھی بغیر ٹھو کر کھانے اور اپنی اصلاح کرنے کے منزل مقصود پر نہ پہنچ سکتا.اسی طرح اگر خدا کا کلام بھی کسی ہدایت پر مشتمل ہوتا ہے تو یقیناً اس کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں انسان کو دکھ پہنچنا چاہیے نہ اس لئے کہ خدا ایک کینہ رکھنے والی ہستی ہے بلکہ اس لئے کہ خلاف کرنے والے نے اس راستہ پر قدم ما را جو تکلیفوں اور دکھوں کا راستہ تھا.خدا کا کلام اس لئے دنیا میں نہیں آتا کہ وہ اس کے ذریعہ سے لوگوں کا امتحان لے بلکہ اس لئے آتا ہے کہ تا وہ لوگوں کو اس راستہ کی خبر دے جو
۲۳۷ منزل مقصود تک پہنچے کا صحیح راستہ ہے.میری غرض اس تمام تمہید سے یہ ہے کہ پیغام آسمانی کوئی معمولی بات نہیں کہ انسان اس کی طرف سے منہ پھیر لے اور کچھ ضرر نہ پائے بلکہ وہ طبعی قانون کی طرح ایک روحانی قانون ہے جس کی خلاف ورزی روحانی صحت سے انسان کو محروم کر دیتی ہے جس طرح زہر کھا کر کوئی انسان اس کے اثر سے بچ نہیں سکتا اس طرح خدا کے کلام کا انکار کر کے بھی انسانی روح اس کے بداثر سے بیچ نہیں سکتی.اس کے مطابق عمل کرنا اس پر احسان نہیں بلکہ اپنی جان پر احسان ہے اور اس کی خلاف ورزی سے خدا تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں بلکہ اس میں ہمارا اپنا نقصان ہے.پیغام آسمانی کی اہمیت کے بتانے کے بعد میں آپ لوگوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ چونکہ انسان کی پیدائش کی غرض ہی یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرے اور تقدس اور کمال پیدا کرے.اس لئے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے پیغام اس کو ملتے رہیں جو اس کی توجہ کو قائم رکھیں اور اس کی دلچسپی کو باطل نہ ہونے دیں.یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ خدا تعالیٰ جس کی نسبت ہم یقین رکھتے ہیں کہ منبع علم و حکمت ہے وہ انسان کو ایک خاص غرض کے لئے پیدا کر کے پھر اس کو چھوڑ دے گا کہ اب جو چاہے کرتا پھرے اور اس طرح اپنے کام کو خود باطل کر دے گا.تجر بہ بھی اس نتیجہ کی تصدیق کرتا ہے.کوئی ملک کوئی قوم ہمیں ایسی نظر نہیں آتی جس میں الہام الہی کا خیال کسی نہ کسی وقت نہ پایا جاتا ہو اور جس میں ایسے لوگوں کا پتہ نہ لگتا ہو جو الہام کے مدعی تھے.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ سب کے سب جھوٹے تھے یا یہ کہ سب کے سب اعصابی مرضوں کے شکار تھے کیونکہ دنیا کے اخلاق اور اس کے تمدن کا نقطہ مرکزی یہی لوگ نظر آتے ہیں اور ان کو الگ کر کے دنیا بالکل خالی نظر آتی ہے.قرآن کریم اس مضمون کے متعلق فرماتا ہے.وَإِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذیر کوئی قوم نہیں جس میں نبی نہ گزرا ہوا اور یہی امر صحیح اور درست معلوم ہوتا ہے.وہ خدا جس نے انسان کو ایسی طاقت کے ساتھ پیدا کیا ہے جو اسے ترقیات کے بلند مقام تک لے جاسکتی ہیں اس کو ایسی قوتوں کے ساتھ پیدا کر کے یونہی نہیں چھوڑ سکتا تھا اور وہ خدا جس کی نظر میں سب بنی نوع انسان ایک ہیں اور وہ سب سے یکساں محبت کرتا ہے باقی سب اقوام کو چھوڑ کر ایک قوم کو اپنی وحی سے مخصوص نہیں کر سکتا تھا.اگر ہم ایک رحیم خدا پر ایمان لائیں گے تو ساتھ ہی ہم
۲۳۸ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ وہ ہر اک زمانہ میں اپنا پیغام دنیا کی طرف بھیجتا ہے ورنہ ہم اپنے ایمان میں متضاد باتوں کو جمع کرنے والے بنیں گے.جب ہم اس نتیجہ پر پہنچ جاویں کہ خدا تعالیٰ کا کلام جب بھی اس کی ضرورت ہو نا زل ہونا چاہیے تو گویا ہم خدا کے پیغام کو قبول کرنے کے مقام کی طرف ایک قدم بڑھاتے ہیں اور اپنے دل کی ایک کھڑکی کو کھول دیتے ہیں مگر ابھی ہمارے لئے ایک قدم اُٹھانا اور باقی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کیا ہمارے زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی پیغام آنے کی ضرورت ہے؟ اگر ضرورت ثابت ہو جائے تو ہمارا دل خدا کے پیغام کو سننے کے لئے بالکل تیار ہو جاتا ہے.چونکہ ہم اس کے قانون کو جب دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جہاں ضرورت ہے وہاں اس کے پورا ہونے کے سامان بھی موجود ہوتے ہیں اگر ضرورت ہے تو ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کو پورا بھی کیا ہو.اے بہنو اور بھائیو! غور کر کے دیکھو کہ خدا کے کلام اور اس کے پیغام کی کیا ضرورت ہوتی ہے؟ کیا یہی نہیں کہ لوگوں کو اس کی ذات کی نسبت کامل یقین ہو اور وہ اس کی کامل محبت اور اس کے کامل عرفان کے ذریعہ سے اپنے نفس کی اصلاح کرنے پر قادر ہوں اور ایسی طاقتیں حاصل کر لیں جن کے ذریعہ سے اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی خدا تعالیٰ کے وصال کو پائیں جو انسانی پیدائش کی اصل غرض ہے.پھر غور کرو کہ کیا یہ باتیں دنیا میں پائی جاتی ہیں؟ کیا اس زمانہ کے لوگ فی الواقع خدا پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا ان کے دلوں میں اس کی ویسی ہی محبت ہے جیسی کہ ہونی چاہیے اور وہ اس کے احکام کو اپنے اعمال پر اسی طرح حاکم بناتے ہیں جس طرح کہ ان کو حاکم بنانا چاہیے اور کیا فی الواقع ان کو وہ روحانی طاقتیں حاصل ہیں جن کے ذریعہ سے انسان کے واصل باللہ ہونے کا علم ہوتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے ہر اک نے کم سے کم بائیل پڑھی ہوگی یا اس کے بعض حصوں کو دیکھا ہوگا.آپ لوگ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ لوگ جن کا بائیل میں ذکر ہے کیا آج بھی پائے جاتے ہیں؟ کیا آج بھی اللہ تعالیٰ ان کے لئے اس قسم کے نشانات دکھاتا ہے؟ اگر ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں بلکہ دنیا خدا تعالیٰ پر ایمان سے خالی ہے.دہریت کا زور ہے.بجائے خدا تعالیٰ سے محبت ہونے کے روپیہ اور مال اور عزت سے محبت ہے.بجائے بنی نوع انسان کی ہمدردی کرنے کے لوگ ایک دوسرے کا حق مارنے کی فکر میں رہتے ہیں.بجائے اس کے کہ
۲۳۹ خدا تعالیٰ کسی کے ہاتھ پر نشان دکھائے خدا تعالیٰ کا اپنا وجود ہی مخفی ہو رہا ہے.صرف اور صرف جسمانی لذتوں کے حصول کی فکر میں لوگ مشغول ہیں اور مذہب کے احکام کو تو ظاہری شکل کہہ کر ٹال دیتے ہیں لیکن کالر اور نکھائی اور بوٹ اور لباس کی اور بہت سی اقسام اور کھانے کے طریق وغیرہ کے متعلق اپنے خود ساختہ قوانین کی اس قدر پابندی کر رہے ہیں کہ گویا انسانی حیات کا واحد مقصد ہی وہی کام ہیں ذرا سے غور سے بھی انسان معلوم کر سکتا ہے کہ آسمانی احکام کو ظاہری شکل اور قشر کہنے سے ان کی یہ غرض نہیں ہے کہ ظاہری شکل اور قشر کی ضرورت نہیں بلکہ اصل غرض یہ ہے کہ خدا کے احکام کو منسوخ کر کے وہ خود قواعد بنانا چاہتے ہیں.یہ انکار در حقیقت قانون کا نہیں ہے بلکہ قانون بنانے والے کے حق کا ہے.اب میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا ان حالات میں اس بات کی ضرورت ہے یا نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تازہ پیغام بندوں کو آئے تا کہ وہ محسوس کریں کہ ان کا خدا زندہ خدا ہے اور طاقتور خدا ہے اور یہ نہیں کہ دیر تک کام کر کے تھک گیا ہے اور جنت کے کسی گوشہ میں سورہا ہے.ضرورت پیغام کو ثابت کرنے کے بعد میں اصل مضمون کی طرف لوٹتا ہوں اور آپ کو بتا تا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو چھوڑا نہیں اور وہ ان کی ضروریات کو بھولا نہیں بلکہ اس نے اسی طرح اپنے ایک برگزیدہ کے ذریعہ سے دنیا کی ہدایت کے لئے پیغام بھیجا ہے جس طرح کہ اس نے نوح - ابراہیم.موسی - داؤد - مسیح - کرشن - رامچند ر- بدھ - کنفیوشس - زرتشت اور محمد ﷺ کی معرفت پیغام بھیجا تھا.اس پیغام بر کا نام احمد تھا اور جو لوگ اس کے پیغام کو قبول کر کے اس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں وہ اسی طرح خدا کے فضل کے وارث ہوتے ہیں جس طرح کہ پہلے نبیوں کے ماننے والے خدا کے فضل کے وارث ہوتے رہے ہیں.میں اسی پیغمبر کا ماننے والا ہوں اور اس کا خلیفہ ثانی ہوں اور اس محبت کی وجہ سے جو اس پیغمبر نے ہمارے دلوں میں بنی نوع انسان کے متعلق بھر دی ہے آپ لوگوں کو اس کا پیغام سنانے آیا ہوں.وہ پیغام کیا ہے.میں اس کو حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں ہی بیان کر دیتا ہوں.(انگریزی)
۲۴۰ "Listen all ye that will listen.What is that which God desires of you? Only this that you stould be entirely His and should not set up any other God with him, neither in Heaven nor in Earth.Our God is the God who is living today as He was living in ages past.It is an unwarranted thought that he hears to-day, but He does not speak.He speaks as He hears.All His attributes are eternal, and one of them lies or will ever lie idle.He is the one, without any partner, Who has neither son nor wife.Remember I say to you truly that the man will perish who has a leaven of worldliness in his faith, and Hell is very near the soul whose intentions are all for God, but some are for God and some for this world.If there is an atom's weight of worldlinese in your object, all your worship is vain.It is satan you follow in that case and not God.Never expect that God will assist you in this condition for you are a worm of the earth in this case, and you will perish like a worm in a few days, and God will not be with you but will be pleased to destroy you.But if you really submit yourselves to death, then you will appeal in God, and God will be pleased with you, and the house will be blessed in which such a man lives.If your life and your death and all your movements and your mildness and severity are all for the sake of God, and you do not try your God in every difficulty and distress, but make an advancement in every step, then truly you will be a favourite people of God"."Look upon your God as one, and do not ascribe to Him any partner, either in heaven or in earth.You are not forbidden to make use of means, but he who forsakes God and trusts to his means solely, sets up others with Him in whom should be all your trust".Think not that the age of Divine Revealation is past and that the Holy Spirit does not descend now as it used to do in times past.The perfect law has finaily been revealed to the world in the Holy Quran, but the doors of revealation are not closed, for revealation is the soul of true faith.Religion not accompanied by revealation is not a living system but a dead log.I tell you truly that every other door
۲۴۱ may be closed but the door of revealation can never be closed.Open the windows of your hearts that it may enter them.You are removing yourselves farther away from that Bright Sun because you close the windows through its rays can find an entrance into your heart.Thou fool! arise and open the windows of thy heart and the light shall enter into it of itself.Almighty God tas not closed against you the doors of worldly blessings, but has opened them wider than they were in the past.Do you think that the ways of heavenly blessings of which you feel the greator need now, have been stopped in thes age? That cannot be.The doors of heavenly blessings are also opened more widely and clearly".That God is the God of all the world who revealed His word to me, Who showed mighty signs for me, and sent me as the Promised Messiah in this age.Besides Him there is no other God, neither in earth nor in heaven.Blessed is he who believes in such a God, for he shall be happy.Woe to him who does not believe for he shall be forsaken and his days shall end in grief.I have received the revealation of my God which is brighter than the Sun.I have seen Him and knwon Him that He is the God of the whole world and there is none besides Him.What a powerful and supporting God that I have found? When an owner of mighty wonders that I have seen"? "Hear and in saying this I am discharged of the responsibility of delivering my message to you, that sin is a poison and therefore shun it, and that the disobedience of God is an abominable death and therefore esehew it.Pray to God that strength be given to you"."Be not deceived that a few words that your lips utter are the goal of your life, for Almighty God wishes to bring about a thorough transformation in your lives"."Be kind and merciful to the creatures of God.Let not your tongue speak evil against them or your hands do injury to them.Do not oppress them but try your best to do good to them.Speak not the word of pride and vanity to any one though he be your subordinate or servant.Abuse not any one though be might
۲۴۲ abuse you.Walk upon earth in humility and meakness and sympathise with your fellow beings that you may be accepted of God.There are many who are smooth in appearance but they have the nature of serpants.You can not be accepted of your God unill your tongue conforms to your heart.If you are in a high place, glory not in your greatness, and do not look down upon the lowly but have mercy upon them.If you are learned, glory not in your learning, and do not despise the ignorant with manity but give them a word of kind advice.If you are rich glory not in your richness and behave not proudly towards the poor, but serve and assist them.Shun the paths that lead to destruction.Fear God and be righteous.Worship not any cresture but severing all your carthly connections, be ye wholly devoted unto God.Let not your delight be in this world.Serve God only, and devote your life to His service.Hate every impurity and evil for Gods' sake, for your Lord is holy.Lot every morning bear witness that you have passed the night with righteousness, and let every evening bear witness that you have passed the day fearing God"."You are also men as I am a man and the same God who is my God is also your God.Neglect not therefore your powers of purity.If you incline wholly to God, then bear in mind and I say it to you as God has directed me to say that you will be a chosen people of God".یہ وہ پیغام ہے جو اس زمانہ کا پیغا مبر لایا ہے اور اس پر غور کرنے سے مندرجہ ذیل امور ہمیں معلوم ہوتے ہیں.یہ کہ خدا تعالیٰ ہمیں اپنی کامل توجہ کی طرف بلاتا ہے اس طرح نہیں کہ لوگ کہیں کہ وہ ایک خدا ہے اس طرح تو پہلے بھی بہت سے لوگ کہتے ہیں بلکہ اس طرح کہ ہمارے ہر اک کام اور خیال پر خدا کی تو حید کی حکومت ہو.ہم اپنا تو کل صرف خدا تعالیٰ پر رکھیں.ہم اسباب کو استعمال کریں اور ساتھ ہی یقین رکھیں کہ تمام نتائج اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں.کسی چیز کی محبت خدا تعالیٰ کی محبت پر غالب نہ ہو، نہ وطن کی نہ مال کی نہ رشتہ داروں کی نہ اپنی خواہشات اور لذتوں کی.نہ کسی چیز کی نفرت خدا تعالیٰ کی محبت کے تقاضوں پر غالب ہو.ہم کسی چیز کی نفرت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے احکام
۲۴۳ کو نظر انداز نہ کر دیں.غرض ہمارا ہر اک عمل خدا تعالیٰ کے لیے ہو جائے اور اس کے سوا ہمارا کوئی مقصد نہ رہے.یہی وہ تو حید ہے جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اور یہی وہ تو حید ہے جو دنیا کو کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے کیونکہ یہ صرف پتھروں کے بتوں سے ہی ہمیں نجات نہیں دلاتی بلکہ خواہشات اور نفرت کے بتوں سے بھی ہم کو نجات دلاتی ہے اور دنیا میں بھی امن قائم کر دیتی ہے.دوسرا ضروری امر جو اس پیغام میں بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان کی نجات کا واحد ذریعہ قرآن کریم کا بتایا ہوا قانون ہے.اس میں ہر اک ضروری امر کو جو روحانیت اور اخلاق سے تعلق رکھتا ہے.بیان کر دیا گیا ہے.وہی ایک تعلیم ہے جس پر عمل کر کے انسان خدا کی رضا کو حاصل کر سکتا ہے.پس دنیا کو اپنی مشکلات کے حل کرنے کے لئے اس کی طرف توجہ کرنی چاہیے.تیسرا ضروری امر جو اس پیغام میں بیان ہوا ہے یہ ہے کہ ایک مکمل قانون کے بیان ہو جانے کے یہ معنے نہیں کہ خدا کا پیغام آنا آئندہ کے لئے بند ہو جائے.خدا کا پیغام صرف شریعت کے قانون پر مشتمل نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ وہ صرف لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف بلانے کے لئے آتا ہے.وہ فرما تا ہے کہ میں جب کبھی بھی لوگ مجھ سے دور ہو جائیں ان کو اپنی طرف بلاتا ہوں.خدا کا اپنے بندوں سے کلام کرنا محبت کی ایک علامت ہے اور وہ اپنی محبت کا دروازہ کبھی بھی بند نہیں کرتا کیونکہ اگر انسان کی پیدائش کی غرض یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کو پالے اور اس کی رضا حاصل کر لے تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ملنے کا دروازہ بند کر دیا جائے.یہ کہنا کافی نہیں ہوسکتا کہ انسان مرنے کے بعد خدا کو مل جائے گا کیونکہ اگر دنیا میں صرف ایک ہی مذہب اور ایک ہی خیال ہوتا.تب تو یہ جواب کچھ تسلی دے بھی سکتا تھا مگر دنیا میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں مذہب ہیں اور سب اس امر کے مدعی ہیں کہ ان پر چل کر انسان خدا تعالیٰ سے مل سکتا ہے تو اگر خدا تعالیٰ کے ملنے کا علم مرنے کے بعد ہوتا ہے تو اس دنیا میں جو دار العمل ہے انسان کے پاس سچائی دکھانے کا کونسا موقع رہا اور آخرت میں سچائی کے معلوم ہونے کا کیا فائدہ؟ وہاں سے انسان دوبارہ تو نہیں آ سکتا کہ اپنی اصلاح کرے پس وہاں کا علم نفع بخش نہیں ہو سکتا.پس ضروری ہے کہ اسی دنیا میں خدا کی رضا کے معلوم ہو جانے کا کوئی یقینی ذریعہ موجود ہو اور وہ ذریعہ خدا تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفات کی جلوہ گری ہے.چنانچہ آپ کا دعویٰ تھا کہ یہ باتیں اسی طرح جس طرح پہلے نبیوں کو حاصل تھیں مجھے حاصل ہیں اور مجھے اللہ تعالیٰ
۲۴۴ نے اسی لئے دنیا میں بھیجا ہے کہ میں دنیا کو اس یقینی ایمان کا پتہ دوں جس کے بغیر انسان گناہ سے نہیں بچ سکتا اور ان کے دلوں میں ایسی کامل محبت پیدا کروں جس کے بغیر انسان سچی قربانی نہیں کرسکتا.ہے.چوتھی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ نبی بھی دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان ہوتا اس کے وجود کو ایک عام طبعی قانون سے بالا کوئی کرشمہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ خدا تعالیٰ نے سب انسانوں کو یکساں طاقتیں دی ہیں اور ہر انسان کی ترقی کے لئے دروازہ کھلا رکھا ہے.جو بھی خدا تعالیٰ کے لئے کوشش کرے اعلیٰ ترقیات کو حاصل کر سکتا ہے اور معرفت کے دروازے اس کے لئے کھولے جا سکتے ہیں.پس کسی انسان کو اپنی پوشیدہ طاقتوں کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ ان کو استعمال کر کے روحانی ترقیات کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے اور خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق پیدا کرنے اور اس سے کامل یگانگت پانے کی جد و جہد میں کو تا ہی نہیں کرنی چاہیے.پانچویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مذہب کی یہ غرض نہیں کہ وہ ہم کو دنیا سے علیحدہ کر دے اور خدا تعالیٰ سے ملنے کی یہ شرط نہیں کہ ہم دنیا سے قطع تعلق کر لیں بلکہ مذہب کا کام یہ بتانا ہے کہ ہم کس طرح دنیا میں رہ کر پھر خدا تعالیٰ سے کامل تعلق پیدا کر سکتے ہیں.خدا تعالیٰ اس طرح نہیں ملتا کہ ہم دولت اور مال اور تعلقات کو چھوڑ دیں بلکہ اس طرح ملتا ہے کہ ہم ہر قسم کے حالات میں اس سے تعلق مضبوط رکھیں.خواہ خوشی کا موقع ہو خواہ رنج کا.خواہ ترقی کی حالت ہو خواہ تنزل کی.خواہ نفع ہو خواہ نقصان ہو جائے ہر حالت میں ہم اس کی طرف توجہ رکھیں اور اس کی رحمت سے مایوس نہ ہوں اور اس کی محبت بڑھائیں اور اس کے حضور میں دعائیں کرنے میں کوتا ہی نہ کریں.بہادر وہ نہیں ہوتا جولڑائی سے بھاگ جائے بلکہ بہادر وہ ہے جو میدان جنگ میں ثابت قدم رہے.چھٹی بات یہ نکلتی ہے کہ نیکی اس کا نام نہیں کہ ہم نیک اعمال کریں اور نہ بدی اس کا نام ہے کہ ہم بد اعمال کریں بلکہ نیکی اور بدی دل کی نیک اور بد حالت کا نام ہے اور نیک اعمال اور بد اعمال در حقیقت نیکی اور بدی کے اثمار ہیں.ہمارا یہ کام نہیں ہونا چاہیے کہ ہم صرف علامات اور آثار کو مٹائیں بلکہ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم بدی کے میلان کو مٹائیں اور نیکی کا میلان پیدا کریں کیونکہ
۲۴۵ قلب کی صفائی اصل صفائی ہے اور جوارح کی صفائی اس کے تابع ہے.ساتویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ کوئی علمی یا ذہنی ترقی انسان کو عمل سے آزاد نہیں کر سکتی.خدا تعالیٰ کا قانون چٹی نہیں ہے کہ ہم اس سے کسی وقت بھی آزاد ہوسکیں.وہ طبعی قانون کی طرح سبب اور نتیجہ کے اصول پر مبنی ہے اس پر عمل کئے بغیر ہم روحانی ترقی حاصل نہیں کر سکتے.گناہ اس لئے گناہ نہیں کہ خدا نے اس سے منع کیا ہے بلکہ خدا نے اس سے اس لئے روکا ہے کہ وہ ایک روحانی زہر ہے.پس شریعت انسان کو گناہ گار نہیں بناتی بلکہ گناہ سے بچنے میں مدد دیتی ہے جس کو پہلے سے خبر دے دی جائے وہ پہلے سے مقابلہ کے لئے تیار ہو جاتا ہے نہ کہ خبردار کرنے سے انسان گڑھے میں گر جاتا ہے.حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں گناہ ایک زہر کی طرح ہے یعنی جس طرح زہر سے اس لئے روکا جاتا ہے کہ وہ مضر ہے اسی طرح سے گناہ سے روکا گیا ہے.زہر ڈاکٹر کے منع کرنے کی وجہ سے مہلک نہیں بنتا.اسی طرح گناہ خدا تعالیٰ کے منع کرنے کی وجہ سے مہلک نہیں بنتا.آٹھویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ سے ہی تعلق نہیں مضبوط کرنا چاہیے بلکہ بنی نوع انسان سے بھی اپنے تعلقات کو مضبوط کرنا چاہیے اور ایسے کاموں سے بچنا چاہیے جو فساد اور جھگڑے کا موجب ہوتے ہیں اور چاہیے کہ جو نعمتیں اسے ملیں ان سے بجائے حکومت اور غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے اپنے سے کمز ور لوگوں کی خدمت کرے.یہ وہ پیغام ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود لائے ہیں اور ہر ایک شخص ادنی سے غور سے سمجھ سکتا ہے کہ یہ پیغام کیسا اہم اور کیسا ضروری ہے.یہ پیغام امید کا پیغام ہے.امن کا پیغام ہے اور حکمت کا پیغام ہے.اگر دنیا اس پیغام کی طرف توجہ کرے تو اس کی تمدنی اور روحانی دونوں حالتوں کی اصلاح ہو جائے.یہ پیغام انسان کی طرف سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.مسیح موعود یہ نہیں کہتا کہ میں اپنی عقل سے یہ باتیں تم کو سناتا ہوں بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں تم کو وہ کچھ کہتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے مجھے کہا ہے کہ میں تم کو سناؤں اور خدا تعالیٰ کے پیغام سے زیادہ اہم اور کونسا پیغام ہوسکتا ہے.اے بہنو اور بھائیو! اگر انسان کو خدا تعالیٰ پر یقین ہو تو وہ کبھی قصوں اور کہانیوں پر تسلی نہیں پاسکتا.ہمیں اپنی مذہبی کتابوں میں یہ پڑھ کر کہ پرانے زمانہ میں خدا تعالیٰ اس طرح بولا کرتا تھا کیا
۲۴۶ تسلی ہوسکتی ہے.اگر وہ پچھلے زمانوں میں نشان دکھایا کرتا تھا اور اب وہ ایسے نشان نہیں دکھاتا تو ہمیں اس سے کس طرح محبت ہو سکتی ہے.اس کے تو یہ معنے ہیں کہ پرانے زمانے کے لوگ خدا کے پیارے تھے اور ہماری طرف اس کو کوئی توجہ نہیں.کیا یہ خیال محبت پیدا کرنے کا موجب ہوسکتا ہے یا نفرت.کیا ایسے خدا سے کوئی شخص تعلق پیدا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے جو خدا اپنا دروازہ ہمارے منہ پر بند کرتا ہے.ہم یہ بھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ جب کہ انسان روز بروز علمی ترقی کی طرف جا رہا ہے، خدا تعالیٰ کی قوتیں باطل ہورہی ہیں کیونکہ گوہم یہ نہیں مان سکتے کہ خدا تعالیٰ کی قوتیں ترقی کر رہی ہیں مگر ہم یہ بھی نہیں مان سکتے کہ اس کی صفات میں ضعف پیدا ہورہا ہے.اس کا کمال اس کے غیر مبدل ہونے میں ہے.تبدیلی خواہ بہتری کی طرف ہو خواہ تنزل کی طرف نقص پر دلالت کرتی ہے اور نقص سے اس کی ذات پاک ہے.فطرت انسانی اس امر پر گواہی دے رہی ہے کہ اسے اوپر سے کوئی ہدایت ملنی چاہیے اور سیر چویل (Spirtual) سوسائیٹیاں جو ہزاروں کی تعداد میں دنیا میں قائم ہو چکی ہیں اس امر پر شاہد ہیں کہ انسان اس دنیا کے علم پر قانع نہیں مگر کیا ہم یقین کر سکیں گے کہ ہمارے آباء کی روحیں تو ہمیں ترقی کی طرف لے جانے کی فکر میں ہیں مگر وہ ہستی جو سب روحوں کی خالق ہے اور جس نے ہمیں اسی لئے پیدا کیا ہے کہ ہم اس کا قرب حاصل کریں ہماری ترقی کی کوئی فکر نہیں کرتی اور ہمارے لئے اپنے سے ملنے کا کوئی راستہ نہیں کھولتی ؟ ہر گز نہیں.اگر کسی کو ہماری ترقی کا فکر ہو سکتا ہے.اگر کسی کو ہم سے ملاقات کا خیال ہو سکتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے.بے شک خدا تعالیٰ سے یگانگت کے لئے شرطیں ہونی چاہئیں.بے شک اس سے وصال کے لئے بندہ میں ایک خاص قسم کی پاکیزگی کا وجود ہونا ضروری ہے.بے شک اس کا دروازہ کھلنے سے پہلے ہماری طرف سے دستک ملنی چاہیے مگر بہر حال اس کا دروازہ کھلنے کا امکان ہر وقت موجود رہنا چاہیے اور مسیح موعود خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام لایا ہے کہ یہ امکان موجود ہے اگر تم چاہو اور میری بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق عمل کرو تو آج بھی تم میرے کلام کو اسی طرح سن سکتے ہو جس طرح کہ پہلے لوگ سن سکتے تھے اور آج بھی تمہارے لئے میں اپنی طاقتوں کو اسی طرح ظاہر کر سکتا ہوں جس طرح پہلے لوگوں کے لئے کیا کرتا تھا.
۲۴۷ یہ پیغام کیسا اُمید افزا ہے.کس طرح بندے اور خدا تعالیٰ کے درمیان صلح کرانے والا ہے.مجھے اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں مگر میں اس بات کے کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس پیغام کے ذریعہ سے مسیح موعود نے خدا تعالیٰ اور بندوں کے درمیان صلح کرا دی ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ آج کل کے لوگ خدا تعالیٰ سے سوتیلے بیٹے کا سا تعلق نہیں رکھتے بلکہ وہ ان سے ایسی محبت کرتا ہے جیسا کہ سگے بیٹے سے کی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود کا دعوی معمولی دعوی نہیں.آپ کا دعوی ہی آپ کی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ کہنا تو آسان ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں مگر یہ کہنا کہ میں ہراک شخص کو خدا تعالیٰ تک پہنچا سکتا ہوں نہایت مشکل ہے.اول الذکر ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جس کی صحت اور عدم صحت صرف دلیلوں سے تعلق رکھتی ہے اور دلیلوں میں بہت کچھ اُتار چڑھاؤ کئے جا سکتے ہیں مگر ثانی الذکر دعویٰ جس کا تعلق مشاہدہ سے ہے اور مشاہدہ کرا دینا آسان کام نہیں مگر مسیح موعود نے نہ صرف یہ دعوی کیا بلکہ ہزاروں آدمیوں نے آپ کی تعلیم پر چل کر خدا تعالیٰ کے نشانات کو دیکھ لیا اور اس کے کلام کو سنا اور وہ آپ کے دعوی کی صداقت کی دلیل ہیں.کیا کوئی جھوٹا شخص یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس کی اتباع سے لوگ اسی طرح خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتے ہیں جس طرح کہ پہلے لوگ پہنچا کرتے تھے.کیا ایسے شخص کا دعویٰ تھوڑے ہی دنوں میں جھوٹا ثابت ہو کر اس کی رسوائی اور ذلت کا موجب نہیں ہوگا ؟ اے پورٹ سمجھ کے لوگو! میں تمہارے لئے ایک بشارت لایا ہوں.ایک عظیم الشان بشارت یعنی خدا کا پیغام کہ اس نے تم کو چھوڑ نہیں.اس کی رحمت کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہیں.ان میں داخل ہونا تمہارے اپنے اختیار میں ہے.اس کی بتائی ہوئی شریعت پر عمل کرو اور اس زندگی میں ایک زندہ خدا کی طاقتوں کو دیکھ لو.سب مذاہب اُدھار پر لوگوں کو خوش کرتے ہیں مگر مسیح موعودؓ جو چیز پیش کرتا ہے وہ نقد ہے.مرنے کے بعد نہیں بلکہ اسی دنیا میں خدا تعالیٰ سے لگا نگت کا وہ وعدہ دیتا ہے.وہ باتیں جن کو تم حیرت اور استعجاب سے بائیل میں پڑھتے تھے آج اس کے ذریعہ سے ممکن ہو گئی ہیں.تجربہ کرو اور دیکھ لو مسیح موعود کی زندگی تمہارے لئے ایک نمونہ ہے اور قرآن شریف تمہارے لئے ایک کامل راہ نما ہے.کیا یہ امرلوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں کہ
۲۴۸ آج سے چونتیس سال پہلے ایک شخص نے جنگل سے آواز دی کہ دیکھو خدا کی طرف سے پکارنے والے کو سنو! ایک منادی کی آواز کو.خدا کی رحمت کے دروازے کھولے گئے ہیں.وہ اپنی مخلوق کی بہتری کی طرف متوجہ ہوتا ہے.وہ میرے ذریعہ سے سب دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کرنا چاہتا ہے.وہ دنیا کو شک اور شبہ کی زندگی سے نکال کر یقین کا پانی پلانا چاہتا ہے.شہروں کے لوگ ہنسے.بستیوں کے لوگوں نے تیوری چڑھائی.حکومتوں نے اسے حقارت سے دیکھا.رعایا نے اس سے تمسخر کیا مگر اس کی آواز باوجود ہر قسم کی مخالفتوں کے بلند ہونی شروع ہوئی.وہ بار یک بانسری کی آواز بلند ہوتے ہوتے ایک بگل کی آواز بن گئی اور سونے والے گھبرا گھبرا کر بیدار ہونے لگے.ایک نے یہاں سے ایک نے وہاں سے اس آواز کی طرف دوڑنا شروع کیا.وہ اکیلا منادی ایک سے دو ہوا اور دو سے چارھتی کہ چونتیس سال کے عرصہ میں اس کی جماعت کی تعداد ایک ملین کے قریب پہنچ گئی اور پچاس ملکوں میں اس کے ماننے والے پیدا ہو گئے.یہ ترقی بے روک ٹوک کے نہیں ہوئی.لوگ پھولوں کی سیچوں پر چل کر اس تک نہیں پہنچے بلکہ بہتوں کو اس کے ماننے کی وجہ سے گھر چھوڑنے پڑے.خاوندوں کو بیویوں سے جُدا ہونا پڑا اور بیویوں کو خاوندوں سے علیحدہ ہونا پڑا.باپ کو بیٹوں نے الگ کر دیا اور بیٹوں کو والدین نے گھر سے نکال دیا.ظالم حکومتوں نے اس کی طرف متوجہ ہونے والوں کو گرفتار کیا اور مجبور کیا کہ اس پر ایمان نہ لائیں ورنہ ان کو قتل کیا جائے گا مگر وہ پیچھے نہ ہٹے اور مرنے میں انہوں نے وہ لذت محسوس کی جو دنیا کی اور کسی چیز میں نہیں ہے.وہ ہنستے ہنستے ظالموں کے سامنے سر بلند کر کے کھڑے ہو گئے اور سنگدل قاتلوں نے ان پر پتھروں کا مینہ برسانا شروع کیا.ایک ایک پتھر جو - اُن پر گرا اس کو انہوں نے شگوفہ خیال کیا جس طرح دولھا دلہن کو لے کر خوش خوش اپنے گھر جاتا ہے اسی طرح وہ مسیح موعود کی محبت کو لے کر اپنے مولیٰ کے سامنے حاضر ہو گئے اور انہوں نے یہی یقین کیا کہ نہایت عمدہ سودا ہے.ان راستوں سے گزر کر جانا معمولی بات نہیں مگر مسیح موعود کی آواز کچھ ایسی دلکش تھی کہ جن کے کان کھلے تھے ان میں طاقت ہی نہ رہی کہ وہ اس کا انکار کر سکتے.اس نے دلوں کو شکوک اور شبہات سے دھود یا اور قلوب کو یقین اور ایمان سے بھر دیا اور ان لوگوں کو جنہوں نے اس کی تعلیم پر
۲۴۹ چل کر خدا تعالیٰ کی شیریں آواز خود سن لی تھی اس کی باتوں میں شبہ ہی کیا رہ سکتا تھا.زمین آسمان بدل جائیں تو بدل جائیں ایسے لوگوں کے دل تو نہیں بدل سکتے.اے بہنو اور بھائیو! میں یہ باتیں سنی سنائی نہیں کہتا بلکہ میں نے خود مسیح موعود کے طفیل خدا تعالیٰ کی پُر لذت آواز کو سنا ہے اور اس کی محبت والے کلام سے مسرور ہوا ہوں اسی طرح جس طرح کہ مسیح کے حواریوں نے کلام کو سنا تھا بلکہ ان سے بھی زیادہ ، اور میں نے خدا تعالیٰ کی زبر دست قدرتوں کو دیکھا ہے.اس نے میری خاطر اپنے جلال کو ظاہر کیا اور میری ایسے مقامات پر مدد کی جہاں کوئی انسان مدد نہیں کر سکتا اور مجھے میرے دشمنوں کے حملوں سے اس وقت بچایا جب کہ کوئی شخص مجھے بچا نہیں سکتا تھا.اس نے مجھے ایسے امور کے متعلق قبل از وقت خبریں دیں جن کو کوئی انسان دریافت نہیں کر سکتا تھا.پھر اسی طرح ہوا جس طرح کہ اس نے مجھے کہا تھا.پس میری آنکھوں نے مسیح موعود کی صداقت کو دیکھ لیا اور میرے دل نے اس کی سچائی کو محسوس کیا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ہر اک جو اس سے تعلق پیدا کرے گا اور اس کی محبت کو دل میں جگہ دے گا یہی باتیں دیکھے گا جو میں نے دیکھیں بلکہ شاید اپنی محبت کے مطابق مجھ سے بھی بڑھ کر.اے وے لوگو! جو اپنے بیٹوں یا والدین یا خاوندوں یا بیویوں یا دوستوں کے پیغام سننے کے لئے شوق سے لپکتے ہو کیا خدا تعالیٰ کے پیغام کی طرف سے منہ موڑ لو گے اور کیا خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہوئے پھر بھی اس کی بات کی طرف توجہ نہ کرو گے.کیا پہلے نبیوں کے تجربہ کو بھلا دو گے اور ان سے بالکل فائدہ نہ اُٹھاؤ گے.ایسا نہ ہو کہ تمہارا نفس تم کو دھوکا دے اور تم سے کہے کہ دیکھو اس شخص کو جو خدا کا پیامبر بنتا ہے، دیکھو اس کو جو مشرق کے غیر متمدن علاقوں کا رہنے والا ہے اور جس کے پاس کوئی طاقت نہیں اور جو ایک غیر ملکی حکومت کے ماتحت رہتا تھا اس کو یہ رتبہ کہاں سے نصیب ہوا اور اس کو خدا نے کیوں چنا.یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے کام نرالے ہیں اور اس کی قدرتیں عجیب.وہ ہمیشہ اس پتھر کو چنا کرتا ہے جسے معمار رڈ کر کے پھینک دیا کرتے ہیں اور اسی کو کونے کا پتھر بنا کر اسے ایسی طاقت دیتا ہے کہ جس پر گرتا ہے وہ بھی چکنا چور ہو جاتا ہے اور جو اس پر گرتا ہے وہ بھی چکنا چھو رہو جاتا ہے.وہ کون نبی آیا ہے جسے لوگوں نے ایسی باتیں نہیں کہیں اور وہ کون نبی آیا جو با وجود ذلیل سمجھا جانے کے آخر کامیاب نہیں ہوا.پس اے بھائیو ! ان باتوں کو دیکھو جو وہ کہتا ہے
۲۵۰ اور اس پیغام کی طرف کان دھر و جو وہ لایا ہے اور پھر ان نفرتوں کا مشاہدہ کرو جو خدا کی طرف سے اسے حاصل ہوئیں اور اس کے قبول کرنے کے لئے بڑھو کیونکہ اسی میں برکت ہے.ایسا نہ ہو کہ تمہاری رسمیں اور تمہاری عادتیں تمہارے راستہ میں روک بنیں.رسمیں روز بدلتی رہتی ہیں اور عادتیں ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہیں.پس کیا خدا کے لئے رسموں اور عادتوں کو نہیں چھوڑو گے؟ لوگ کہتے ہیں کہ ( دینِ حق ) کے احکام سخت ہیں اور عمل میں مشکل مگر کیا وہ خیال کرتے ہیں خدا تعالیٰ کی یگانگت یو نہی منہ کی باتوں سے مل جائیں گی.دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کیا وہ خلاف عقل ہیں یا وہ فساد پھیلانے والی ہیں.کیا وہ سچی طہارت پیدا نہیں کرتے اگر ایسا نہیں تو کیا وہ محض اس لئے کہ ( دینِ حق ) کے بعض احکام ان کی پرانی عادتوں کے خلاف ہیں اپنے اوپر خدا کی رحمت کے دروازوں کو بند کر لیں گے اور اس کی یگانگت کی نعمت کو رڈ کر دیں گے.کیا قربانی کے بغیر بھی کوئی نعمت مل سکتی ہے.تم ایک ہی وقت میں اپنے نفس کی ادنی خواہشوں کو اور خدا تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتے.سب مذاہب اس امر پر متفق ہیں کہ خدا تعالیٰ موت کے بعد ملتا ہے.یہ سچ ہے مگر اس کا یہ.مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ اس موت کے بعد ملتا ہے جو انسان اپنے نفس کی خواہشات پر خدا کی خاطر وار دکر لیتا ہے.اے لوگو! اس بات سے مت ڈرو کہ لوگ تم پر ہنسیں گے یا تم کو پاگل سمجھیں گے.کبھی کسی نے سچائی کو ابتدا میں قبول نہیں کیا کہ اسے لوگوں نے پاگل نہیں سمجھا.کیا موسیٰ کے ماننے والے اور مسیح پر ایمان لانے والے پاگل نہیں سمجھے گئے مگر کیا آخر وہی پاگل دنیا کے را ہنما نہیں بنے ؟ میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس پر جھوٹ بولنے والے کے متعلق تمام آسمانی کتب متفق ہیں کہ وہ ہلاک کیا جاتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے دکھلایا ہے کہ میں انگلستان کے ساحل سمندر پر کھڑا ہوں اور میرے ہاتھ پر انگلستان کی روحانی فتح ہوئی ہے.پس آج نہیں تو کل انگلستان مسیح موعود کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ( دینِ حق ) کی طرف کو ٹے گا مگر مبارک ہے وہ جو اس کام میں سب سے پہلے قدم اُٹھا تا ہے کیونکہ جو شخص حق کے قبول کرنے کے لئے آگے بڑھتا ہے دوسرے لوگ جو اس کے پیچھے آتے ہیں اس کے برابر نہیں ہو سکتے.اس کے لئے دُہرا اجر ہے ایمان لانے کا بھی اور دوسروں کے لئے محرک بننے کا
۲۵۱ بھی.پس کیا اے اہل پورٹ سمتھ ! جو ساحل سمندر پر بستے ہو اس اجر کو جو انگلستان کے شہروں میں سے کسی نہ کسی کے قبضہ میں آنے والا ہے لینے کے لئے تم آگے نہیں بڑھو گے.بے شک سچائی کو لوگ آہستہ آہستہ قبول کرتے ہیں مگر وہ آخر غالب آ کر رہتی ہے.حضرت مسیح موعود سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جس طرح مسیح اول کے بعد تین سو سال میں مسیحیت نے غلبہ حاصل کر لیا تھا اسی طرح تین سوسال کے اندر آپ کے سلسلہ کو غلبہ حاصل ہو جائے گا مگر وہ غلبہ پہلے غلبہ سے زیادہ مکمل ہوگا کیونکہ اس وقت تو مسیحیت روم کا سرکاری مذہب بنا تھا لیکن اس وقت احمدیت تمام دنیا کے قلوب پر تصرف حاصل کرے گی.یہ بے شک غیب کی خبر میں ہیں مگر دنیا آپ کی ہزاروں پیشگوئیاں پوری ہوتی دیکھ چکی ہے اور ماضی مستقبل پر گواہ ہے.کیا یہ عجیب نہیں کہ آج سے چونتیس سال پہلے حضرت مسیح موعود اس وقت جب کہ اکیلے تھے یہ پیشگوئی اپنی ایک کتاب کے ذریعہ شائع کی تھی کہ آپ کی تعلیم انگلستان میں جلد ہی پہنچنے والی ہے اور وہاں کے کئی لوگ اسے عنقریب قبول کرنے والے ہیں اور آج تم دیکھتے ہو کہ ان کے متبعین کی ایک جماعت تمام انگلستان میں صداقت کا اعلان کرتی پھرتی ہے اور کئی لوگ اس وقت تک سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں.پس خدا کے کاموں کو عجیب نہ سمجھو کہ اس کی قدرت کے آگے سب کچھ آسان ہے.اے سچائی کے طالبو! اور اے خدا تعالیٰ سے لقا کی سچی تڑپ رکھنے والو! میں اپنے تجربہ کی بنا پر آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ خدا سے لقا کا ذریعہ سوائے مسیح موعود کی اتباع کے اور کوئی نہیں.آج سب دروازے بند ہیں سوائے اس کے دروازے کے، اور سب چراغ بجھے ہوئے ہیں سوائے اس کے چراغ کے.پس اس دروازہ سے داخل ہو جس کو خدا تعالیٰ نے کھولا ہے اور اس چراغ سے روشنی لو جسے اس نے جلایا ہے اور خدا کے جلال کو اپنی آنکھوں سے دیکھو اور اس کے قرب کو اپنے دلوں سے محسوس کر و.ہاں یہ یاد رکھو کہ دو کشتیوں میں پیر رکھنا کبھی فائدہ نہیں دیتا.بغیر قربانی کے کوئی ایمان نفع بخش نہیں ! جو شخص اپنے آرام اور اپنی آسائش اور اپنے وقت اور اپنی عادات اور اپنی رسوم کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوتا وہ کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھتا اور جو شخص یہ سب کچھ کر لیتا ہے اس کو کوئی چیز تباہ نہیں کر سکتی.مسیح موعود فرماتے ہیں.
۲۵۲ "You can never abtain the pleasure of God untill you forsake your own pleasures, your enjoyments, your position, your property and your life; and in his path meet every difficulty which brings before your eyes the scene of death.But if you meet all difficulties you will be taken into the bosom of God, like a dear child, and made heirs, to the righteous, who have gone before you and the doors of every blessing will be opened to you".دیکھو خدا نے یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مطابق مشرق سے ایک راستباز کو برپا کیا ہے اور اس کے ذریعہ سے وہ اپنی مرضی کو تمہارے تک لایا ہے.کیا میں امید رکھوں کہ تم اس کو دلی شوق سے قبول کرو گے اور اس کے پیغام کے لئے مغربی ممالک میں پہلے جھنڈے بردار ہو گے اور میں تم کو اسی علم کے ماتحت جو خدا تعالیٰ نے مجھ کو دیا ہے تم کو یقین دلاتا ہوں کہ تب قو میں تم سے برکت پائیں گی اور آئندہ آنے والی نسلیں تم پر برکتیں بھیجیں گی اور تم خدا میں ہو کر غیر فانی ہو جاؤ گے.فقط یہ ہے سید نا حضرت فضل عمر فخر رسل اولوالعزم حضرت خلیفہ المسیح والمہدی کا وہ مضمون جو حضور نے کل لکھا اور ۲۸ صفحات پر ختم فرمایا جس کا ترجمہ ساتھ ساتھ ہوتا گیا اور یہ خاکسار آپ بزرگوں کے لئے ساتھ ساتھ نقل لیتا رہا.مضمون خود بتائے گا کہ وہ کیا ہے اور کس دل اور دماغ سے نکلا ہے.کس قوت اور یقین سے لکھا گیا ہے.مبارک وے جو قبول کریں.ترجمہ کرنے والے مقدس انسان کو بھی اللہ کریم مورد برکت و رحمت بنا دیں جو اخلاص ، شوق اور محبت سے یہ کام کر رہے ہیں.حضور کے ساتھ پورٹ سمتھ صرف پانچ آدمی جائیں گے ا.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب -۲- مولوی محمد دین صاحب ۳ - ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب -۴- مولوی عبدالرحیم صاحب در داور ۵- مکرم عرفانی صاحب- باقی تمام دوست مکان پر لنڈن میں رہیں گے.پچھلی مرتبہ برائیٹین میں ایک دن کا خرچ پانچ سو کے قریب ہو گیا تھا اس وجہ سے اب کے زیادہ قافلہ ساتھ نہیں لے جایا گیا.مضمون حضور کا لکھا ہوا اتوار کی شام کو 4 بجے کے بعد پڑھا جاوے گا جس کے لئے اہالیان پورٹ سمتھ نے وقت کی تعیین نہیں کی اور حضور کو کھلا وقت دیا ہے مگر حضور نے لوگوں کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور وقت کی تنگی کی وجہ سے صرف قریباً ایک گھنٹہ میں پڑھا جانے کا مضمون رقم فرمایا ہے تا کہ لوگ گھبرا کر اُٹھنے نہ شروع ہو جائیں اور اتنا لکھا ہے کہ شوق سے لوگ سن سکیں.
۲۵۳ ایک ٹائپسٹ ۳ پونڈ فی ہفتہ پر مقرر کی ہوئی ہے جو ٹائیپ کا کام کرتی ہے.رات اس سے اوور ٹائم لگوا کر ٹائیپ ختم کرالیا گیا تھا.مولوی محمد دین صاحب نے مضمون لکھا ہے وہ ساڑھے ۳ بجے اتوار کو ۱۴ ستمبر کے دن سنایا جائے گا یعنی پہلے وہ مضمون سنایا جائے گا بعد میں حضرت اقدس کا مضمون ہوگا.رات وہاں ٹھہرنے کی شاید ضرورت ہو جائے کیونکہ وہاں سے 9 بجے کے بعد کوئی گاڑی واپس لنڈن کو نہیں آتی.۹ بجے بھی جو آتی ہے رات کو ایک بجے لنڈن پہنچتی ہے.فرماتے تو تھے کہ اگر ممکن ہوا تو رات ہی کو آجائیں گے.ایک بجے سونا تو ہمارا معمول ہی ہو چکا ہے بلکہ سو میرا ہی ہوگا.- حضور ۱۴ ستمبر ۱۹۲۴ء : آج صبح کی نماز میں حضور تشریف لائے.ناشتہ ساڑھے آٹھ بجے فرمالیا اور اب واٹرلو کے سٹیشن سے سوار ہو کر (۱۰ بجے کی گاڑی سے ) گیارہ بارہ بجے پورٹ سمتھ پہنچیں گے اور فیصلہ یہی ہو گیا ہے کہ رات کو وہیں ٹھہریں گے اور ۱۵ ء کی دو پہر کو انشاء اللہ واپس آویں گے مگر حضور آج اتنی دیر کر کے روانہ ہوئے ہیں کہ بظاہر امید نہیں کہ حضور اس گاڑی کو پکڑ سکیں.صرف دس منٹ باقی رہ گئے تھے اور واٹر لو کاسٹیشن یہاں سے چار میل کے فاصلہ پر ہے.بازاروں میں موٹر تیز چلانے کی اجازت نہیں.ہندوستان کی ڈاک کے بعض خطوط کل شام لنڈن تقسیم ہو گئے.الفضل بھی رات پٹنی کے پستہ پر آیا اور آج صبح ہمیں مل گیا ہے.تھامس کنگ کی معرفت کی ڈاک کل بروز پیرانشاء اللہ تعالیٰ ملے گی جس میں قادیان کے دوستوں کے خطوط کی امید کی جاتی ہے.کل دوپہر کا کھانا ٹھیک ساڑھے بارہ بجے لگایا گیا.حضور کھانے پر تشریف بھی جلدی لے آئے.کھانے کے بعد دیر تک بیٹھے رہے حتی کہ حافظ صاحب نے عرض کیا حضور اب دعا کر لیں کہ تین بھی بج چکے ہیں.حسابات ایجنسی لنڈن کے متعلق ذکر ہوتا رہا تھا اور بعض رقوم کی گڑ بڑ تھی کہ وہ کیوں داخل نہیں.نفع اور نقصان ، حالت، تجارت، بکری اور کارکنوں کی سعی اور ان کی رائے ، اخراجات کا
۲۵۴ سوال، عملہ میں تخفیف ، تنخواہوں میں تخفیف، جمع خرچ غرض ایجنسی کے متعلق تمام پہلوؤں پر مفصلاً گفتگو رہی.ماسٹر ملک نواب دین صاحب کو ۱۳ پونڈ کسی ریزولیوشن کی بنا پر دیئے جاتے ہیں ؟ مکان ایجنسی اور اس کی لیز اور انگریز عورت کے رہنے کا سوال ، ( البيت ) کا فرنیچر اور بعض ضروریات کا ( البيت ) سے ایجنسی میں استعمال ہونا وغیرہ وغیر ہ گل امور پیش تھے.مکان ( البيت ) کے متعلق بھی ذکر ہوتا رہا.اس کی حالت- شکست وریخت- لوگوں کا بلا اجازت وہاں رہنا.جنجوعہ صاحب کے چار قالین عید کے دن گم ہو گئے تھے.مولوی مبارک علی صاحب کے زمانہ میں جن کے لئے ۶۰ پونڈ کا مطالبہ جنجوعہ صاحب یا ان کی بیوی کا.(البیت ) کے مکان اور زمین کی فروخت کا سوال.یا رکھ کر اس میں ( البیت) کے بنانے کی تجویز غرض اس کے متعلق بھی ہر پہلو زیر بحث رہا.اور ایک موقع پر تو حضور نے فرمایا کہ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انچارج مبلغین نے ان چیزوں کو اپنی پراپرٹی سمجھ کر استعمال کیا ہے یا جسے چاہا دے دیا ہے حالانکہ یہ قطعاً قطعاً ان کے لئے جائز نہ تھا.بعض پلوں پر بھی حضور نے فرمایا کہ سلسلہ کے اموال کا لوگوں کے سامنے میں ذمہ دار اور جوابدہ ہوں کہ روپیہ حفاظت اور احتیاط سے خرچ ہو اور موقع ومحل پر ہو.بعض پہلوں میں تین تین چار چار پونڈ کے ٹکٹ ڈاک درج ہیں وغیرہ وغیرہ.مبلغین اور انچارج ایجنسی اور کارکنان کی تنخواہ اور گزارہ کا سوال تھا.حضور نے اپنے تجربہ کی بنا پر زیادہ سے زیادہ ۷ یا ۸ یا حد۱۰ پونڈ ماہوار تجویز کئے.حسب مداراج وضرورت اس پر نیر صاحب نے عرض کیا حضور یہ رقم کم ہے.اخراجات بعض اوقات زیادہ ہو جاتے ہیں.حضور نے خود دیکھ ہی لیا ہے کہ اخراجات کیسے بڑھے ہوئے ہیں.نیر صاحب کا منشا کسی اعتراض کا نہ تھا بلکہ حقیقت کا اظہار تھا.انہوں نے حضور کی ذات کے اخراجات کی طرف اشارہ کر دیا.اس کو حضور نے ناپسند فرمایا اور فرمایا کہ میں اپنا ذاتی خرچ کرتا ہوں کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے.میں جس قدر چا ہوں خرچ کروں.میرے اخراجات پر دوسرے مبلغوں یا تجارت کے کارکنوں کے اخراجات کا قیاس کرنا سراسر غلطی ہے.فرمایا میرے ذاتی اخراجات تو بہت کم ہو سکتے ہیں.میں حج کے لئے بھی
۲۵۵ آیا.مصر بھی گیا ہوں.میں نے دیکھا ہے کہ بہت کم اخراجات میں گزارا ہوسکتا ہے مگر اب تو میں خلافت کے عہدہ کی وجہ سے مجبور ہوں کہ بعض اخراجات میں زیادتی کروں.یہ تو میرا احسان ہے جماعت پر کہ جماعت کے امام کے مرتبہ اور عہدہ کی وجہ سے مجھ پر جو بوجھ زیادہ ہو رہا ہے میں اس کو بھی برداشت کرتا ہوں اور یہ سب اخراجات میں نے اپنی ذات پر ڈالے ہیں نہ کہ جماعت کے روپیہ پر.فرمایا کہ دیکھیں میں نے جماعت کے روپیہ کو کس احتیاط سے خرچ کیا ہے کہ کیسے بڑے بڑے علماء کو ڈیک پر اور تھرڈ کلاس میں لایا ہوں وغیرہ وغیرہ." حضور کا لہجہ ناراضگی کا تھا مگر نیز صاحب نے غلطی کا اعتراف کیا اور ادب سے عرض کیا کہ حضور میری زبان کی غلطی طرز ادا اور طریق بیان کا نقص ہے ورنہ میرا یہ مطلب ہرگز نہ تھا.پورٹ سمتھ کے مضمون کی انگریزی کاپی کے حصول کی بھی کوشش میں ہوں.مل گئی تو انشاء اللہ ارسال کروں گا مگر اب کے ارادہ ہے کہ رجسٹرڈ نہ بھیجوں کیونکہ معلوم ہوا ہے کہ رجسٹرڈ خط دیر کر کے پہنچتا ہے.بہر حال وقت پر دیکھوں گا کہ کیا کرنا چاہیے.کل شام کا کھانا حضور نے ٹھیک وقت پر کھایا اور سات بجے کھانے کے میز پر تشریف لے آئے.مسٹر داس گپتا بھی آئے ہوئے تھے کھانے میں شریک ہوئے اور مختلف قسم کی باتوں کے دوران میں انہوں نے بڑے زور سے بار بار اصرار کر کے عرض کیا کہ آپ امریکہ ضرور ہی تشریف لے چلیں کیونکہ وہاں بہت جلد کامیابی کی امید ہے.آپ اب ہندوستان سے آئے ہوئے ہیں اور دروازے پر پہنچ کر کوٹ جانا امریکہ کی بدقسمتی ہو گی.آپ ضرور امریکہ تشریف لے چلیں وہاں کے لوگوں میں قبولیت کا مادہ بہت زیادہ ہے.اس نے عرض کیا کہ اگر حضور تشریف لے جانے کا ارادہ فرمالیں تو میں چار پانچ شہروں میں حضور کے لیکچروں کا فوراً انتظام کرادوں گا ۱.نیویارک ۲ - واشنگٹن ۳ - بوسٹن ۴ - فلڈلفیا اور ۵ - شکاگو اور امید ہے کہ وہ لوگ حضور کی تقریروں سے ضرور متاثر ہونگے.اس نے پھر حضور کے مضمون اور طرز ادا کی تعریف کی اور کہا کہ اس دن کے لیکچر کے بعد پانچ آدمی میرے پاس آئے اور انہوں نے حضور کے مضمون کو پڑھنے اور نفس مضمون کی بھی بہت تعریف کی.طرز ادا اور لہجہ حضور کا موثر تھا جس کی گرفت دلوں پر پڑتی معلوم ہوتی تھی.-
۲۵۶ حضرت نے فرمایا کہ مجھے تو شائد امریکہ کے قانون کے مطابق امریکہ میں داخل بھی نہ ہونے دیں ( آنکھوں کی بیماری کی وجہ سے یا کثرت ازدواج کی وجہ سے اس کی تصریح نہیں فرمائی ) اس پر اس نے عرض کیا کہ ان باتوں کا میں ذمہ لیتا ہوں کہ کوئی روک حضور کے داخلہ کے متعلق پیش نہ آوے گی.آمد ورفت کے دس دن اور پانچ دن وہاں کے قیام کے کل دو ہفتے آپ مجھے اپنے اوقات گرامی سے امریکہ کے لئے دے دیں.آپ دیکھ لیں کہ پھر کبھی اگر ہندوستان سے حضور کو امریکہ آنے کی ضرورت ہوئی تو حضور کا نکلنا کن مشکلات کا موجب ہوگا.اب تو حضور قادیان سے نکلے ہوئے ہیں اور امریکہ کے دروازہ پر ہیں.اس کی ان باتوں پر حضور حساب وغیرہ لگاتے رہے کہ کب جایا جائے تو کب تک واپسی ہو سکتی ہے ٹکٹ تو ضائع نہ ہوں گے.یہ بھی فرمایا کہ اب تو ہماری واپسی کا بھی انتظام ہو چکا ہے.جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے عرض کیا کہ حضور پھر اس کمپنی کے ۱۵ یا ۱۶ نومبر کے جہاز پر بمبئی کے لئے سوار ہو سکتے ہیں.الغرض اس قسم کی با تیں دیر تک ہوتی رہیں.حضور نے شام کی نماز پڑھائی اور تشریف لے گئے اور پھر عشاء کی نماز کے لئے تشریف لائے اور نماز کے بعد مکرم جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے کمرہ میں تشریف لے گئے جو حضور سے بالائی منزل پر تھے اور جہاں وہ ترجمہ کر رہے تھے.اس کے بعد حضور او پر ہمارے کمرہ میں تشریف لائے.میں سنتیں پڑھ رہا تھا اور عرفانی صاحب اور مولوی محمد دین صاحب مسٹر بینٹ ہاؤس کیپر بڑھیا سے کچھ باتیں کر رہے تھے.غالب خیال ہے کہ حضور نے یہ باتیں سنی ہوں گی.حضور کمرہ میں چپکے سے داخل ہوئے.دروازہ کھلا تھا السلام علیکم کہہ کر تشریف لے آئے.مسز بینٹ تو نکل گئی مگر میرے ساتھی بہت شرمندہ ہوئے کہ حضور کیا کہتے ہوں گے مگر حضور نے جتایا کچھ نہیں.آج کے لیکچر کی رپورٹ اور آمد ورفت کے حالات حضور کے ہمرکاب ساتھیوں سے معلوم کر کے عرض کرنے کی کوشش کروں گا مگر اب بعض ساتھی حالات بتانے میں بخل کرتے ہیں یا بے پروائی کرتے ہیں.بہر حال بتاتے نہیں یا عذر کر دیتے ہیں.
۲۵۷ حضرت نے یہ بھی تجویز فرمائی ہے کہ جو مبلغ ہندوستان سے یہاں آیا کریں ان کو سیدھا اپنے مشن ہاؤس میں نہیں بھیج دینا چاہیے بلکہ ان کو اول دو چار ماہ تک حسب معمول یہاں کے کسی گھرانے میں رکھا جایا کرے تا کہ وہ یہاں کے آداب اور طرز بود و باش سے واقف ہو جایا کریں.اس طرح یہاں کے لوگ آداب کی ناواقفیت کی وجہ سے حقارت یا نفرت نہ کرسکیں گے.فرمایا کہ ہمارے موجودہ بعض مبلغین کے متعلق اس قسم کی شکایات بھی ہمیں موصول ہوئی ہیں کہ ان کی وجہ سے پڑوسیوں کو تکلیف ہوئی اور شکایت کا موقع ملا.حضور نے جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو مخاطب کر کے یہ بھی فرمایا کہ جس علاقہ میں ہماری (البیت ) ہے اس کے گردو پیش کے لوکل لوگوں کو ایک وفد کی صورت میں مل کر ان کا عندیہ اور خیالات بھی سن لینے چاہئیں تا کہ اگر ان لوگوں کو کوئی شکایات ہوں تو ان کا انسداد کر دیا جائے تا وہ آئندہ میل جول میں بلا تکلف ہمارے مکان پر آیا جایا کریں.ان سے پوچھا جائے کہ وہ کیوں ہمارے مکان پر نہیں آتے یا کیوں وہ خلا ملا پسند نہیں کرتے.اس طرح بھی بعض باتیں ایسی معلوم ہوں گی جو ہماری تبلیغ کے راستہ میں روک ہیں.جنجوعہ صاحب کے قالینوں کے متعلق فرمایا کہ ان کا نمونہ ہمیں دکھایا جاوے ہم ویسے قالین مہیا کر دیں گے.خواہ ۲۰۰ پونڈ خرچ ہو جائیں مگر ان کو نقد ۶۰ پونڈ نہ دیئے جائیں.فرمایا کہ اگر پہلے سے علم ہوتا تو ان کو چار قالین شاید ہم ساٹھ روپے پر خرید کر کے دے دیتے.بخارا کے قالین سرحد پر بکثرت ارزاں اور سستے ملتے تھے.اب بھی ان کو امیران ہی سے منگا دیں گے.ان سے نمونہ لے لیا جاوے اور ناپ اور سائز بھی.پروٹسٹ میٹنگ کے لئے خان صاحب اشتہارات تقسیم کرتے پھرتے ہیں.نماز مغرب کے وقت بھی وہ بعض گرجوں کو گئے اور مصری صاحب کو اور ماسٹر نواب الدین صاحب کو بھی ساتھ لے لیا کہ کسی جگہ وہ جائیں اور کہیں خود خان صاحب تقسیم کریں.۱۵ ستمبر ۱۹۲۴ء: پونے گیارہ بجے کے قریب حضور پورٹ سمتھ سے واپس تشریف لے آئے ہیں.بعض ساتھی پیدل یا گاڑی سے پہلے مکان پر پہنچے اور حضور چند منٹ بعد تشریف لائے.
۲۵۸ حالات جو سنائے گئے ہیں حسب ذیل ہیں.پورٹ سمتھ میں 4 نفوس احمدی اب تک موجود ہیں جنہوں نے شکایت کی کہ ان کے پاس کوئی آدمی کبھی نہیں آیا.حضرت اقدس نے رات کو ان کی دعوت کی اور ۱۲ بجے رات تک ان کو نصائح فرماتے رہے اور ان لوگوں نے بھی اخلاص کا اظہار کیا اور عقیدت دکھائی.حضور نے فرمایا کہ مجھے افسوس تھا کہ ان علاقہ جات میں کوئی بھی احمدی نہیں مگر آج وہ افسوس جاتا رہا ہے اور دل کو خوشی ہے کہ یہاں بھی خدا تعالیٰ نے احمدیت کا پودا لگا دیا ہے.میدان تبلیغ کے واسطے وسیع ہے بشرطیکہ یہاں اچھی طرح محنت سے کام کیا جاوے.حضور پورٹ سمتھ کل ۱۲ بجے کے قریب پہنچے تھے.چوہدری فتح محمد خان صاحب اور ملک غلام فرید صاحب سٹیشن پر نہ تھے.ان کو تار جو پہنچا تھا اس کی وجہ سے وہ ایک بجے سٹیشن پر آنے والے تھے مگر حضور پہلے جا پہنچے.ٹائم ٹیبل کچھ ٹھیک طور سے جانچا نہ گیا ہو گا.مولوی محمد دین صاحب کا لیکچر بہت گہرا علمی اور پبلک کی استعداد سے بڑھ کر تھا گو لوگوں نے توجہ سے سنا.لیکچر گر جا میں ہوا.حاضری ۶۰ یا ۰ ۷ نفوس کی بتائی گئی.حضرت اقدس کا لیکچر پونے سات بجے شام کو اسی گرجا میں ہوا.حضور نے اول زبانی انگریزی میں آٹھ یا دس منٹ تک تمہیدی تقریر فرمائی اور پھر اپنا مضمون خود پڑھا جو ایک گھنٹہ کے قریب وقت میں ختم ہوا.مضمون اوپر درج کیا جا چکا ہے.اس کی اہمیت اور مقبولیت کے متعلق میں کیا عرض کرسکتا ہوں وہ مضمون خود ہی گواہ ہے.چوہدری فتح محمد خان صاحب کا چہرہ بشاش ہے اور شاید سارا خون چہرے پر ہی جمع ہو گیا ہے.ان کا کہنا ہے اور اس پر وہ مصر ہیں کہ وہ مضمون تو ایسا عجیب ہے کہ اس کی اشاعت لاکھوں کی تعداد میں کرنی چاہیے اور خوشی سے پھولے نہیں سماتے بلکہ بار بار کہتے ہیں کہ حضور کا مضمون لوگوں پر ایسا موثر تھا کہ تمام لوگ گو یا بت بن گئے ہوں اور کہ سارے کا سارا مضمون نہایت اطمینان، توجہ اور دلچسی سے سنا گیا اور کہ بے حد جاذب اور خارق عادت دلچسپ اور روحانی معلومات کا گویا ایک خزانہ ہے.یہ تو وہ کچھ ہے جو ہمارے اپنے دوستوں نے سنایا.بہت کریدا اور بار بار الگ الگ
۲۵۹ - کر کے بھی پوچھا مگر کسی نے کچھ زیادہ نہ بتایا مگر میرے دل کو تسلی نہیں ہوئی.دل چاہتا ہے کہ زیادہ حالات اس سفر کے عرض کروں چنانچہ جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے باوجود اپنی مصروفیت کے مجھ پر توجہ کی اور ذیل کے حالات جلدی جلدی جیسا کہ ان کی عادت ہے سنائے ہیں.چوہدری صاحب نے سنایا کہ کل لوگ اسی گاڑی پر سوار ہو گئے تھے جس کا حضور گھر سے قصد کر کے نکلے تھے.وہ بتاتے ہیں کہ بظاہر کوئی صورت سوار ہونے کی نہ تھی مگر معلوم ہوتا ہے کہ ہماری گھڑیاں ایسی ٹائم کی عادی ہیں وہ کچھ آگے تھیں اس وجہ سے وقت سے پہلے ہم لوگ پہنچے اور جو دوست حضرت اقدس سے پہلے مکان سے روانہ ہوئے تھے راستہ کے کسی سٹیشن پر اُتر کر واٹرلو کی تلاش میں پھرتے تھے اور ناراض تھے کہ واٹر لو کہاں چلا گیا ہے حالانکہ اس سٹیشن پر تبدیل کر کے ان کو دوسری گاڑی سے واٹرلو جانا تھا.آخر ایک بس والا آیا اور اس نے ان کو بتایا کہ میں واٹر لو جاتا ہوں اگر تم واٹر لو جانا چاہتے ہو تو آؤ سوار ہو جاؤ.چنانچہ وہ دونوں بزرگ یعنی ڈاکٹر صاحب اور عرفانی صاحب اس بس میں سوار ہو کر واٹر لو پہنچے.ٹکٹ جناب چوہدری صاحب نے خرید کر دیے اور حضور اول درجہ میں سوار ہوئے.جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب حضور کے ساتھ تھے.مضمون جو حضور نے پڑھنا تھا اس کو پڑھانا چاہتے تھے مگر چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ میں حضور کو بار بار ڈسٹرب کرتا تھا کہ حضور کچھ سیر بھی تو کر لیں کیا عجائب نظارے ہیں مگر حضور نے فرمایا.کہ کیا واپسی پر اس راستہ سے نہیں آئیں گے؟ چوہدری صاحب نے عرض کیا کہ حضور واپسی پر اسی راہ سے آویں گے مگر کون کہہ سکتا ہے کہ حضور اس وقت مصروف نہ ہوں گے اور واپسی پر ضرور حضور ان سیر گاہوں کو دیکھ سکیں گے لہذا بہتر ہے کہ کچھ جاتے ہوئے دیکھ لیں اور کچھ واپسی پر دیکھا جائے گا مگر حضور ان کی خاطر گاہ گاہ سیر فرماتے اور اکثر وقت مضمون کا مطالعہ فرماتے گئے.چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ سٹیشن پر جب ہم لوگ پہنچے تو کوئی بھی وہاں موجود نہ تھا اور نہ ہم میں سے کسی کو معلوم تھا کہ ہم نے جانا کہاں ہے؟ آخر سوچا کہ کوئی ٹیکسی لے کر چوہدری فتح محمد خان صاحب کی تلاش کریں.اسی شش و پنج میں تھے کہ ایک صاحب انگریز صورت نے ٹوپی اتار کر السلام علیکم عرض کیا جس سے خوشی ہوئی کہ کم از کم مسلمان تو ہے.اس سے پوچھا گیا کہ کچھ معلوم ہے کہ چوہدری فتح محمد خان صاحب کہاں ہیں.اس نے عرض کیا کہ مجھے انہوں نے ساڑھے 10 بجے
۲۶۰ سٹیشن پر ملنے کو کہا تھا.میں تو ان کے ملنے کو یہاں آیا ہوں معلوم نہیں وہ کہاں ہیں ؟ مگر چلئے ایک صاحب کا نام لے کر کہ شاید اس کے ہاں ہوں چنانچہ حضور مع رفقا اس کے مکان پر پہنچے.حضور موٹر سے اور بعض دوست ٹرام کے ذریعہ سے ( تفصیل نہیں معلوم ) تو معلوم ہوا کہ چوہدری فتح محمد خان صاحب نہایت اطمینان کے ساتھ ڈائیٹنگ ہال میں اخبار پڑھ رہے ہیں.حضرت کو دیکھ کر ہنس پڑے اور عذر کیا کہ میں سمجھا تھا کہ حضور کے تشریف لانے کا وقت گزر گیا ہے اور حضور اب شاید لیکچر کے وقت پر بھی نہ پہنچ سکیں گے.آخر حضرت کے لئے جس ہوٹل میں ٹھہرنے کا انتظام کیا گیا تھا پہنچایا گیا.حضور نے کھانا وغیرہ کھایا اور جلدی جلدی لیکچر کے واسطے تیار ہو گئے.حضور موٹر کے ذریعہ سے اور دوسرے ساتھی ٹرام سے گئے مگر موٹر والا غلطی سے شہر سے دور ایک گرجا میں لے گیا پھر وہاں سے واپس اس جگہ تشریف لائے جہاں لیکچر ہونے والا تھا.جب حضور پہنچے تو گر جا میں سروس ہور ہی تھی اور پادری صاحب سرمن دے رہے تھے.انہوں نے حضور کو آتے دیکھ کر حضور کی آمد کی خوشخبری لوگوں کو دی اور کہا کہ یہ نہایت خوش قسمتی ہے کہ ایسا ایک پاک انسان آج ہم میں آیا ہے جس کے والد بزرگوار اس زمانہ کے نبی اور ریفارمر تھے اسی طرح جس طرح کہ لارڈ حضرت محمد صاحب ( ع ) اور لارڈ مسیح نبی تھے.اور کہا کہ میں تو ان کو مانتا ہوں اور میں نے کہا ہے کہ میں ہر طرح سے امداد دینے کو تیار ہوں اور دل سے تیار ہوں.میں چاہتا ہوں کہ تمام مذاہب آپس میں مل جائیں اور اتفاق کریں اور گرجے اور مساجد ہر مذہب کے انسانوں کے لئے برابر کھلے ہوں وغیرہ وغیرہ.ایسی تعریف کی اور ایسے رنگ میں حضور کو انٹروڈیوس کرایا کہ احمدی بھی شاید اس سے زیادہ نہ کہہ سکتا اور ان لوگوں سے کہا کہ میں آپ لوگوں سے معافی نہیں مانگتا کہ میں نے کیوں ان کو بلوایا ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آپ لوگ بھی ان کی آمد سے ایسے ہی خوش ہیں جیسا کہ میں.اور آخر میں اعلان کیا کہ اب ایک لیکچر مسیح کی آمد ثانی پر مولوی محمد دین صاحب کا ہوگا اور شام کو دوسری سروس کے ساتھ حضرت اقدس کا لیکچر ہو گا.بہت لمبی چوڑی تفصیل سے تعریف اور انٹروڈیوس کرایا اور پھر اپنی سروس میں لگ گیا.سروسوں اور عبادت سے فارغ ہو کر اس نے مولوی محمد دین صاحب کو لیکچر سنانے کی اجازت دی جو گونہ جلالی اور ساتھ ہی
۲۶۱ جمالی بھی تھا اور کسی قدر دقیق اور لاجیکل بھی تھا.کچھ حصہ مولوی صاحب نے لکھے ہوئے مضمون کا پڑھا اور پھر زبانی تقریر شروع کر دی.لوگوں نے شروع سے آخر تک توجہ اور سکون سے سنا.ہمارے پورٹ سمجتھ کے نومسلم بھی گر جا اور اس کی سروس میں حسب معمول شامل تھے مگر بعض حرکات انہوں نے یہ دیکھ کر کہ حضرت اقدس اور ساتھی نہیں کرتے انہوں نے بھی چھوڑ دی تھیں.مولوی صاحب کے مضمون کے بعد پادری صاحب نے حضرت سے دعا کی درخواست کی مگر حضرت اقدس یہ فرمانا چاہتے تھے کہ شام کے لیکچر کے بعد میں دعا کروں گا اور گفتگو چونکہ انگریزی میں تھی حضور جب آفٹر (after) کے لفظ پر پہنچے تو پادری صاحب نے سمجھ لیا کہ حضور اس کے بعد دعا کریں گے.اس نے فوراً دعا کے واسطے ہاتھ اُٹھائے اور دعا کی.اس تقریر کے بعد حضور ہوٹل میں تشریف لے گئے اور چائے اور نماز سے فارغ ہو کر پھر گر جا میں تشریف لے گئے.ہوٹل میں حضرت کے ہمرکاب دو ایک نو مسلم بھی گئے اور باتیں کرتے رہے جو زیادہ تر تبلیغ اور نصائح پر مشتمل تھیں اور کچھ مقامی حالات سے متعلق معلومات پر.کہتے ہیں کہ حضور نے اپنی لکھی ہوئی تقریر سے پہلے چند منٹ تک زبانی انگریزی میں گفتگو کی.وہ گفتگو ایسی صاف اور سلیس انگریزی میں تھی کہ ساتھی بھی اس کی تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے توجہ سے سنا اور غور کیا اور اس نیت سے سنا کہ حضور کوئی غلطی تو نہیں کرتے مگر کوئی غلطی نہ پائی گئی حتی کہ مولوی محمد دین صاحب نے باہر آ کر حضرت کے حضور عرض کیا کہ حضور مبارک ہو کہ بہت ہی با محاورہ اور بالکل صحیح و فصیح انگریزی بولی گئی.ہمارے ملک غلام فرید صاحب کہتے ہیں.کہ ” میں نے غور کیا ہے اور سچے دل سے فیصلہ کیا ہے نہ اس وجہ سے کہ میں ایک احمدی اور حضرت اقدس کا مرید ہوں بلکہ محض ایک ثالث کی حیثیت سے کہہ سکتا ہوں کہ میں ایسی انگریزی ہرگز نہیں بول سکتا اور کہ وہ کلام انگریزی حضور کی بہت ہی فصیح تھی.لیکچر حضور نے پڑھا اور جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بتاتے ہیں کہ بعض جگہ غلطیاں بھی ہوئیں.بعض فقرات پر زور دینے کی جگہ زور نہ دیا گیا.بعض الفاظ غلط بھی پڑھے گئے جن کو حضرت اقدس محسوس کر کے پھر جلدی ٹھیک بھی کر لیتے تھے مگر ان باتوں کا اثر لوگوں پر ایسا نہ تھا کہ وہ اصل مضمون کی اہمیت اور فصاحت کو نہ سمجھ سکتے بلکہ انہوں نے مضمون پوری دلچپسی و توجہ سے سنا
۲۶۲ اور بہت ہی متاثر ہوئے.مکرمی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کہتے ہیں.کہ " میرا دل چاہتا تھا کہ جس طرح اہم اور افضح وہ مضمون ہے ویسا ہی پُر زور پڑھا بھی جاوے مگر اس خیال سے کہ حضور کا حجاب اُٹھ جاوے اور حضور کو بھی ربط خود پڑھنے کا ہو جائے بہتر یہی تھا کہ حضور خود ہی پڑھیں.بہر حال مضمون خدا کے فضل سے اچھی طرح سے پڑھا گیا جس کے ابتدا میں بھی اور آخر پر بھی پادری صاحب نے اسی طرح تعریف اور انٹروڈیوس کرایا.ایسا کرایا اور ایسے الفاظ بولے کہ جو ایک احمدی سے ہی امید کئے جاتے ہیں.افسوس میں ساتھ نہ تھا ورنہ ان حالات کو بہت مفصل اور وضاحت سے لکھنے کی کوشش کرتا جس سے اس مجلس ہی کو گو یا دوستوں کے سامنے کر دکھاتا.لیکچر سے فارغ ہو کر حضور پھر ہوٹل میں تشریف لے گئے اور چند نو مسلم مرد اور عورت بھی ساتھ گئے کیونکہ حضور نے دعوت دی تھی.اول اول تو حضور کو بھی حجاب تھا اور ان نومسلموں کو بھی چنانچہ کچھ دیر تو نہ حضور بولے اور نہ وہ بولتے تھے.آخر جناب چوہدری صاحب نے ان عورتوں کو اکسایا کہ موقع ہے کوئی بات کرو.کچھ پوچھ لو اس سے تعلق بڑھتا ہے اور باتیں یاد رہتی ہیں.ایک دوسری کو اور دوسری تیسری کو اشارہ کرتی تھی کہ تم بات کرو.دومرد اور تین لیڈیاں یورپین احمدی شامل دعوت تھیں.آخر خاموشی کا سلسلہ ٹوٹا.عورتوں نے جرأت کی اور حضور کے سامنے شکایات کا ایک سلسلہ پیش کر دیا کہ ہماری خبر نہیں لی جاتی.عیسائی بچپن سے مسیح کی تعلیمات اور کرامات ومعجزات سننے لگتے ہیں اور سوسائٹی ان کی مدد کرتی ہے.ملک کی عام آبادی اور ماحول بھی ان کو کفر پر قائم رہنے کے سامان کثرت سے مہیا کرتے ہیں.ہم مانتے ہیں اور سب کچھ مانتے ہیں مگر افسوس ہماری خبر گیری نہیں کی جاتی اور کچھ بتایا نہیں جاتا کہ جس چیز کو ہم نے قبول کیا ہے اس کی خوبیاں کیا ہیں اور برتری کیا.اس کے حکم کیا ہیں اور اعمال کیا.جن سے خدا ملتا ہے.حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کی ان باتوں کا ہمارے پاس کوئی جواب نہ تھا.آخر ان کو تسلی دی گئی اور کہا گیا کہ جب تک مستقلاً مشن قائم نہ ہولنڈن کا مشنری آپ کے پاس آیا کرے گا اور وہ تعلیم بتایا کرے گا اور ( دین ) سکھایا کرے گا.دوست بتاتے ہیں کہ رات کے گیارہ
۲۶۳ بارہ بجے تک حضور بالکل بے تکلف انگریزی زبان میں ان سے باتیں کرتے رہے اور ان کو مختلف نصائح بھی فرماتے رہے اور وہ لوگ نہایت شوق سے حضور کی باتوں کو سنتے.سوالات کرتے اور اپنے ایمان تازہ کرتے رہے.حضرت اقدس نے آج کھانے کی میز پر فرمایا کہ انگلستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ لوگ بہت ہی پکے احمدی ہیں.پانچ سال سے برا بر احمدی ہیں.اگر چہ ہماری طرف سے ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی مگر وہ لوگ اکثر ایسے ہیں کہ جہازوں پر اشتہارات اور ٹریکٹ لے کر جاتے ہیں اور تبلیغ کرتے ہیں اور اس طرح سے وہ لوگ بچے احمدی مبلغ ہیں اور یہ عمل بغیر پختہ ایمان کے ممکن نہیں.یہ حالات ہیں جو مجھے اکثر مکرم جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے ملے اور دوسرے دوستوں نے بھی ان کی تصدیق کی ہے.آج کھانے کی میز پر ہی حضرت مفتی صاحب کا خط بنام حافظ صاحب پڑھا گیا جس میں حافظ صاحب کی دمشق میں شادی کا ذکر کر کے حافظ صاحب کو سنایا گیا تھا کہ ان کے گھر کے صحن میں دمشق کا خط مفصل سنایا گیا جس میں آپ کی دمشقی شادیکی تجویز بھی تھی.آپ کے گھر والوں نے سنا ہوگا اور کیا اثر ہوا ہو گا اس کا اندازہ آپ کر لیں.یہ خط حضرت کی موجودگی میں پڑھا گیا.حضور نے سن کر فر مایا کہ ہاں میرے گھر سے بھی آج ایک خط آیا ہے ان کو بھی ایسی خبر پہنچی ہے اور ان کو اس کی وجہ سے سخت تکلیف ہوئی ہے.عورتیں کمزور ہوتی ہیں.ہم لوگ سفر میں ہیں اس کا بھی ان کو صدمہ ہے.وہ ہر وقت خیریت اور خوشی کی خبروں کی امیدوار ہوتی ہیں.ادھر سے ایسی خبر جا پہنچی تو ان کو صدمہ ہوا.ہم خو دا گر گھر میں ہوں تو ان کو سمجھا بجھا کر ان کی دل جوئی کرنے کا موقع مل جاتا ہے مگر ایسی حالت میں ایسی خبر کا پہنچنا واقعی ان کے لئے موجب تکلیف اور باعث رنج ضرور ہوا ہوگا.ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ.میں تو پہلے بھی بارہا عرض کر چکا ہوں کہ میرے خطوط مختلف امور کی کھچڑی یا گداگری کی کشکول میں پڑھنے یا سنانے والے بزرگ یا شائع کرنے والے اصحاب انتخاب فرمالیا کریں.باقی
۲۶۴ میں نے تو جس نیت اور غرض کے لئے یہ باتیں لکھیں وہ اللہ کو معلوم ہیں.میں نے حضور کی اس غیرت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا جو ایک مولوی نے حضور کو متکبرانہ لہجہ میں کہا تھا اور حقارت کی تھی کہ عجمی لوگ کیا عربی کو سمجھیں گے اور کیا قرآن کریم کو ہم سے زیادہ جانیں گے وغیرہ وغیرہ.اس پر حضور نے جس غیرت کا اظہار فرمایا تھا اس کی ذیل میں ہی وہ باتیں تھیں اور واقعات تھے کہ حضور نے ایسی تجاویز کا ذکر فرمایا مگر ان باتوں کو عورتوں تک پہنچانا اور پھر ایسے طریق سے یہاں لکھنا نہ معلوم اس میں کیا حکمت و غرض تھی ؟ میں نے تو عزیز عبد القادر کی معرفت حضرت میاں صاحب کی خدمت میں عرض بھی کر بھیجا تھا کہ ضروری نہیں کہ میرے نام خطوط سب کو سنائے جائیں بلکہ عرض کیا تھا کہ بعض حصے خطوط کے عام کرنے والے نہیں ہوتے لہذا حضرت میاں صاحب جس کو چاہیں یا اجازت دیں سنا دئیے جائیں اور جسے مناسب نہ ہو نہ سنایا جایا کرے یا جو حصہ پبلک کرنے کے قابل نہ ہوا سے پبلک نہ کریں.بعض باتیں آج نہیں تو کل یا کسی آنے والے زمانہ میں تاریخ احمدیت کے جہاں اہم ستون ثابت ہوں گی وہاں سید نا حضرت اقدس کی پاک سوانح پر بھی روشنی ڈالنے میں معاون ہوں گی.تعجب ہے حضرت مفتی صاحب جیسا انسان اور میرے لئے یہ دکھ.اللہ مجھ پر رحم کرے.میں تو محبت و عشق میں خون پانی ایک بنانے سے دریغ نہ کروں مگر دوست میرے واسطے اس قسم کے رنج دہ حالات پیدا کریں جو کم از کم میرے جیسی طبیعت کے انسان کے لئے ناقابل برداشت ہیں.خصوصاً جب کہ میرے آقا ومحبوب کی زبان پر میرے لئے کوئی ایسا لفظ آ جائے.یا اللہ رحم - میں نہیں سمجھتا کہ قادیان کے دوستوں کی مرحبا جزاک اللہ سے مجھے کیا خوشی ہو سکتی ہے اگر اس کا نتیجہ حضرت کی ناراضگی اور حضرت امام کی ناپسندیدگی ہو کیا عرض کروں کچھ کہا نہیں جا سکتا.آج ٹی پارٹی ہے.وہ چونکہ ہندوستان کے مسلمان لڑکوں کی طرف سے دی گئی ہے ضرور ہے کہ وہاں تبلیغ ہو یا سوال وجواب کا سلسلہ چلے.مجھے بھی کہا جا رہا ہے کہ چلوں مگر جس وقت سے حضرت اقدس نے وہ کلمات فرمائے ہیں میرا خون خشک ہو رہا ہے.کھانے تک کو دل نہیں چاہا.دل میں رنج اور صدمہ ہے تو میں کیسے ایسی پارٹی میں شریک ہو سکتا ہوں.نہ جاسکتا ہوں اور نہ وہاں کے حالات عرض کر سکوں گا.انا للہ وانا الیہ راجعون.
۲۶۵ مجھے خود افسوس ہے کہ میں ایک ضروری حصہ ڈائری کو نہ لکھ سکوں گا اور نہ آپ بزرگوں تک پہنچا سکوں گا.حضرت اقدس نہ لے جائیں اور میں کوئی بات نہ لکھ سکوں تو اور بات ہے مگر حضرت اقدس لے جائیں اور میں نہ جاسکوں یا ڈائری نہ لکھ سکوں یہ کچھ اور بات ہے.مجھے اس محرومی کا سخت ہی صدمہ ہوگا..نماز ظہر وعصر حضور نے آج جمع کرا دی ہے کیونکہ اس ٹی پارٹی سے نہ معلوم کب واپس آ سکیں گے.نماز کے بعد بیٹھے تھے کہ فون ہوا.معلوم ہوا کہ مذہبی کانفرنس کے سیکرٹری صاحب حضور کے مضمون کے متعلق مشورہ کو آنا چاہتے ہیں.فرمایا ان سے کہہ دیا جائے کہ پونے چار بجے ہم ٹی پارٹی کو جارہے ہیں اس سے پہلے پہلے اگر وہ آ سکتے ہیں اور بات چیت کر سکتے ہیں تو آجائیں تا کہ ایسا نہ ہو کہ بعد میں وہ ہمارے جلدی چلے جانے کو نا پسند کریں.چنانچہ انہوں نے اسی بات کو منظور کیا اور مکان سے چل آئے ہیں.حضرت اقدس کا مضمون مذہبی کا نفرنس والا ۶ ۹ صفحات ٹائپ پر ختم ہوا ہے.وقت صرف ڈیڑھ گھنٹہ ہے جو اندازہ کیا گیا ہے کہ ڈیڑھ گھنٹہ میں ختم نہیں ہوسکتا.اس کے لئے حضرت اقدس نے پہلے ہی فرمایا تھا کہ کچھ کم کر کے صرف ۶۰ صفحات ٹائپ کر کے پڑھنے کے واسطے رکھ لیے جائیں اور باقی ۳۶ صفحات کاٹ دیئے جائیں.( قادیان کا مفصل تار متعلق شہادت مولوی نعمت اللہ خان صاحب آج کی ڈاک سے مشتمل بر حالات زبانی ڈاکٹر فضل کریم صاحب ڈاک کے ساتھ ہی ملا ہے جس کا مختصر خلاصہ حضور نے سنایا - ) سیکرٹری حضرت اقدس کے حضور آیا اور حضور کے مضمون پر نشان کر کے لے آیا کہ یہ حصص کاٹ دیئے جائیں.ان میں سے اکثر وہی تفاصیل تھیں جو حضرت اقدس نے پہلے ہی کاٹنے کا ارادہ فرمایا تھا.مضمون وہ دے گیا ہے کہ بدھ کے دن ۴ بجے عصر کو ہماری کمیٹی ہونے والی ہے اس کمیٹی کے اجلاس سے پہلے پہلے پھر ٹھیک کر کے اور فقرات کا جوڑ توڑ کر کے مجھے پہنچا دیا جائے.حضرت اقدس نے مضمون رکھ لیا ہے اور فرمایا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ٹھیک کر کے وقت مقررہ تک پہنچا دیا جائے گا اور حضور خود مع جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور حافظ صاحب موٹر کے ذریعہ سے ٹی
۲۶۶ پارٹی کے مقام کو تشریف لے گئے ہیں.مجھے مضمون رکھنے کا حکم دے کر فرما گئے ہیں کہ واپسی پر مجھے آتے ہی یا دکرا دینا.سیکرٹری کے سوال پر کہ کون پڑھے گا.فرمایا میں خود یا چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پڑھیں گے.اس نے عرض کیا کہ ہندوستانی کی بجائے اگر کوئی انگریز پڑھے تو اچھا ہوگا کیونکہ ایک تو لہجہ کے اختلاف کی وجہ سے سمجھنے میں دقت ہوگی ، دوسرے لوگ پڑھنے والے کی شکل و شباہت کو دیکھنے کی وجہ سے پوری توجہ نہ کر سکیں گے.مگر حضرت نے کل پورٹ سمجھ ہی میں فیصلہ فرما لیا تھا کہ مضمون حضور خود ہی پڑھیں تا کہ حضرت مسیح موعود کی وہ پیشگوئی ٹھیک ٹھیک طور پر من و عن پوری ہو.اگر چہ کل کا مضمون جو حضرت نے گرجا گھر کے ممبر پر کھڑے ہو کر پڑھا تھا اس کو بھی دوستوں نے اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر چسپاں کیا مگر حضور کا یہی منشا معلوم ہوتا ہے کہ حضور کا نفرنس میں بھی خود ہی پڑھیں.ایک اخبار میں کسی پادری نے حضور کے متعلق ہر ہولی نس کے الفاظ اخبارات میں پڑھ کر اس کی مخالفت کی ہے اور ایک نوٹ شائع کرایا ہے کہ اس کے خلاف ہم کو پروٹسٹ کرنا چاہیے کہ ہر ہولی نس کا خطاب حضور نے حضرت مسیح کا کیوں چھین لیا ہے.ایک اخبار نے شائع کیا ہے کہ آریہ سماج اور بر ہموازم اکٹھے ہو گئے ہیں اور کہ ان کا ایک نمائندہ قادیان سے مذہبی کا نفرنس میں لیکچر دینے کو آیا ہے.عجیب ہی یہ لوگ ہیں اور عجیب ہی ان کے دماغ کہ آریہ سماج اور برہمو ازم کے الحاق میں قادیان کی نمائندگی کے خواب پریشان دیکھتے ہیں.ایک اخبار نے حضرت اقدس کو چیلنج کیا ہے اور دعوت دی ہے کہ آپ تو اسلام کی خوبیاں بیان کریں گے مگر اگر آپ عیسائیت کے مضامین بھی اسی کا نفرنس میں سنیں گے تو ضرور ہی امید کی جاتی ہے کہ آپ عیسائی ہو جائیں گے.کیوں نہ ہو کا سر صلیب شخص کے متعلق یہ مجنونا بڑ ہانکنا یورپ ہی کے حصہ آیا ہے.ایک اخبار میں دوکنگ کے متعلق کوئی مضمون شائع کر کے خواجہ صاحب اور ہمارے
۲۶۷ تعلقات کو بتایا ہے اور ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا ہم بھی خواجہ صاحب کے ساتھ ہیں.میں پوری طرح سمجھ نہیں سکا کہ تفاصیل کیا ہیں.حضرت اقدس نے ان سب اخبارات کو جواب دینے کا حکم دیا ہے.بعض کی تردید فرمانے کا ارشاد فرمایا ہے اور بعض کی اصلاح فرمانے کا حکم دیا ہے مگر مزیدار جواب وہ ہو گا جو عیسائیت کے مضامین سننے پر عیسائی ہو جانے کی امید لگائے بیٹھا ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ اس کو لکھا جاوے کہ ہم ضرور وہ مضامین سنیں گے.آپ کا احسان ہوگا اگر ان عیسائی لیکچراروں کے نام اور لیکچروں کی تاریخیں اور وقت سے آپ ہم کو اطلاع دے دیں.مذہبی کا نفرنس نے اعلان کرنے میں ستی کی ہے اور ہمیں علم نہیں ہو سکا کہ کب اور کس عیسائی کا مضمون اس سوسائٹی میں پڑھا جائے گا.آپ جیسے باخبر اخبار سے یقیناً ہمیں فائدہ ہوگا اور آپ کی اطلاع آنے پر ہم ضروران مضامین کوسن کر غور کرنے کے قابل ہوسکیں گے“.اصل بات یہ ہے کہ عیسائیوں کا کوئی مضمون اس مذہبی کانفرنس میں پڑھا ہی نہ جائے گا.اس بیچارے اخبار نے یونہی بے خبری سے ایسا لکھ دیا ہے.مولوی محمد دین صاحب سے میں نے ان کا مضمون لیا ہے جو اس عریضہ کے ساتھ ہی قادیان بھیجتا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ.انہوں نے بہت محنت سے تیار کیا ہے.شاید قادیان میں کسی کام آ سکے.مضمون قلمی ہے اور ۱۹ صفحات پر مشتمل ہے.۱۷ صفحات لکھے ہوئے ہیں اور پہلے دو اوراق پر A اور B لکھا ہوا ہے.جو مضمون حضرت اقدس نے پورٹ سمجھ میں پڑھ کر سنایا اس کا اصل تو میں نے اسی عریضہ میں نقل کر دیا ہے مگر اس کی ایک کا پی نقل ٹائپ کی یا اصل خود جناب چوہدری صاحب کی دستخطی بھی لے کر انشاء اللہ اسی عریضہ کے ساتھ روانہ کروں گا.گورنمنٹ آف انڈیا کو شملہ میں حضرت اقدس نے ایک لمبا تار دلایا تھا جس پر ۲۰ پونڈ خرچ ہوئے اس کا جواب اب تک کوئی نہیں آیا.حضرت اقدس آج فرماتے تھے کہ دو ایک دن اور انتظار کر کے ایک اور تار دلایا جاوے گا.
۲۶۸ مذہبی کا نفرنس کے مضمون کے لئے اعلان اور تشہیر کی تجاویز ہورہی ہیں.بعض کمپنیوں سے خط و کتابت کی گئی تھی ، دو تین کا جواب آیا ہے.بہت ہی زیادہ اخراجات کا مطالبہ کرتے ہیں.دواڑھائی سو پونڈ تک کے اخراجات کے اندازے کرتے ہیں.ایک کمپنی نے لکھا ہے کہ پانچ دن کے لئے ستر آدمی ملازم رکھنے پڑیں گے.اشتہارات (پوسٹر ) کے خاص خاص موقعوں پر جیسا کہ بعض کمپنیوں نے اپنے اپنے بورڈ لگوائے ہیں ان پر ایک ہفتہ تک پوسٹروں کے صرف چسپاں رہنے کا خرچ ۶۶ پونڈ کے قریب بتایا گیا ہے یا شاید ۵۰۰ کی چھپائی کا بھی خرچ شامل ہوگا.پوسٹر بہت بڑے بڑے ۱۰ × ۵ فٹ کے ہوں گے جن پر حضرت اقدس کا فوٹو بھی ہوگا.یہ بھی تجویز ہے کہ اپنے ساتھی بعض خاص آمد و رفت کے مقامات پر دیسی لباس میں کھڑے ہو کر خود اشتہارات تقسیم کریں لوگوں کو زیادہ دلچسپی ہوگی.الغرض ابھی تجاویز ہیں فیصلہ کوئی نہیں ہوا.فیصلہ ہونے پر پھر لکھوں گا.آج حضرت اقدس فرماتے تھے کہ بعض حالات میں یہ شہادت ( مولوی نعمت اللہ خان صاحب) پہلی شہادت (شہزادہ صاحب) سے بھی بڑھی ہوئی ہے.وہ شخصیت کی وجہ سے بڑی تھی مگر اس شہادت میں حق کا اعلان بہت بڑھا ہوا ہے اور ثبات بے نظیر ہے.شاہزادہ صاحب کی پوزیشن ایسی تھی کہ اس کا اثر ان کو پوزیشن کی وجہ سے تھا مگر اس شخص نے اعلان میں حد کر دی ہے.اس کا باپ کو غیر احمدی ہے مگر چونکہ شہید اس کا لڑکا تھا میرا خیال ہے کہ اس کے باپ کے واسطے ضرور کچھ وظیفہ مقرر ہو.بخارا سے بخارا کے مخلصین کا ایک مفصل خط حضرت اقدس کی خدمت میں پہنچا ہے جن سے ان کے اخلاص اور محبت کا پتہ چلتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نے وہاں جماعت قائم کر دی ہے.ممکن ہوا تو خط کی نقل ارسال کروں گا.خط عربی اور فارسی میں ہے اور نہایت مخلصانہ ہے.کل حضرت اقدس ہندوستانی طلباء کی دعوت چائے پر تشریف لے گئے اور شام کے وقت واپس آئے.پہلے کھانا کھایا اور بعد میں دونوں نمازیں جمع کر کے ادا کیں.نماز کے بعد مضمون کو ترتیب دینے کی غرض سے خود مع جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور مولوی محمد دین صاحب
۲۶۹ مسجد ہی میں رونق افروز رہے اور دیر تک مضمون کو ٹھیک کرتے اور ترتیب دیتے رہے.ہندوستانی طلباء نے حضرت اقدس کے حضور ایک ایڈریس پیش کیا جو انگریزی میں پڑھا گیا جس کا خلاصہ مکرمی مولوی مصباح الدین صاحب سے عرض کر کے میں نے حاصل کیا ہے حسب ذیل ہے.(1) ہم حضور کی تشریف آوری پر بہت خوش ہوئے ہیں اور جو حضور نے ( دینِ حق ) کی خاطر یہ دور دراز کا سفر اختیار کیا ہے اس کی ہمارے دلوں میں بہت قدر ہے نیز آپ کی ان تمام خدمات کی جو آپ نے پہلے راہ خدا میں کی ہیں بہت ہی ہمارے دلوں میں ان کی عظمت ہے.خدا کرے کہ ( دینِ حق ) یورپ میں پھیلے اور وہ دن جلد آویں جب کہ دنیائے مغرب ( دینِ حق ) کے جھنڈے کے نیچے آوے.حضور سے با ادب التماس ہے کہ مذہبی کا نفرنس میں اصل اور صحیح اور بچے ( دین حق ) کو پیش کیا جاوے.(۲) اس کے بعد ہماری یہ درخواست ہے کہ آپ ہندوستان کی آزادی کے لئے پوری کوشش کریں وغیرہ وغیرہ خلاصہ.حضرت نے اس ایڈریس کا جواب اردو میں دیا کیونکہ اکثر ہندوستانی وہاں جمع تھے.چند معزز لیڈیاں اور مرد بھی تھے ان کی خاطر مکرمی جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے حضرت اقدس کے جواب کا ترجمہ اپنے لفظوں میں انگریزی میں کر کے سنا دیا تھا.ا کرنے سنا خلاصہ جواب سیدنا حضرت اقدس خلیفہ ایح : " مجھے آپ لوگوں کا ایڈریس سن کر بہت خوشی ہوئی ہے اور مجھے اس کی اصل کے ساتھ بکلی اتفاق ہے گو تفصیلات کے ساتھ اختلاف ہو.فی الحقیقت دنیا میں کوئی دو چیزیں ایسی نہیں ہیں جو کہ بالکل آپس میں ملتی ہوں.بہن بھائیوں کی شکلوں میں اختلاف ہوتا ہے.آپ لوگوں نے جو ( دین حق ) کی کامیابی کی تڑپ کا اظہار کیا ہے مجھے اس کو سن کر بہت ہی خوشی ہوئی ہے.پس میں آپ کو خوشخبری سناتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّہ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بھیجا ہی اس غرض کے لئے ہے کہ تا اس کے ذریعہ سے ( دینِ حق ) کا تمام مذاہب پر غلبہ
۲۷۰ ثابت کر کے دکھائے.پس مغرب تو در کنار مشرق کے بھی باقی حصوں پر انشاء اللہ تعالیٰ ( دینِ حق ) پھیل کر رہے گا اور ایسے غالب رنگ میں پھیلے گا کہ مذاہب کی جزئیات پر بھی اس کا نمایاں غلبہ ہو گا.باقی رہا یہ امر کہ میں مذہبی کا نفرنس میں اصل صحیح اور بچے ( دین ) کو پیش کروں.سو اس کے متعلق میں کہنا چاہتا ہوں کہ میں یقیناً اسی ( دین ) کو اصل اور صحیح اور سچا سمجھتا ہوں جس کو میں پیش کروں گا اور میں منافقت کو نا پسند کرتا ہوں اس لئے میں کسی کے خوش کرنے کی خاطر کوئی ایسی بات نہیں کر سکتا جس کو میں اپنے خیال میں صحیح نہیں جانتا.(۳) ہندوستان کی آزادی اور اتفاق کے متعلق میں یہ کہتا ہوں کہ میں ایک ایسے خاندان کا آدمی ہوں جس کو قریبا سات سو سال تک ہندوستان کے اکثر حصوں پر حکومت حاصل رہی ہے اور میرے دادا صاحب پر آ کر ختم ہوئی ہے.گویا ہمارے خاندان میں وہ روایات ابھی تک بالکل تازہ ہیں جن کا حکومت اور آزادی سے تعلق ہے.پس مجھ سے بڑھ کر آزادی کا خواہاں اور کوئی نہیں ہوسکتا لیکن چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالت میں برٹش گورنمنٹ ہندوستان کے لئے مفید ہے اس لئے میں اس کی وفاداری کی تعلیم دیتا ہوں اور خود وفاداری کرتا ہوں.بعض لوگوں کو یہ دھوکا لگا ہے کہ میں گورنمنٹ کا خوشامدی ہوں.یا د رکھنا چاہیے کہ میں اور میری جماعت خوشامدی نہیں ہیں.گورنمنٹ کی کئی چٹھیاں ہمارے خاندان کی عظمت کی بحالی کے متعلق ہمارے گھر میں موجود ہیں لیکن ہم نے کبھی گورنمنٹ کے نوٹس میں ان کو اس غرض کے لئے نہیں لانا چاہا کہ ہمارے حقوق بحال کئے جائیں.ہماری نسبت بیسواں حصہ کم خدمات کرنے والوں نے گورنمنٹ سے انعامات، خطابات اور اراضیات حاصل کی ہیں لیکن ہم نے کبھی کوئی معاوضہ گورنمنٹ سے اپنی خدمات کا نہیں چاہا اور نہ چاہتے ہیں بلکہ اگر گورنمنٹ کچھ دینا بھی چاہتی ہے تو میں اس کو اپنی ہتک سمجھتا ہوں کیونکہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ ہم کو دیا ہے.وہ اس سے بہت بالا ہے اور دینوی گورنمنٹ کے عطا یا کو اس کے ساتھ شامل کرنا ان کی بے قدری اور توہین کے مترادف ہے.پچھلے ہی دنوں میں ایک شخص نے دہلی سے مجھے لکھا جو کہ معلوم ہوتا تھا کہ وزراء کے اشارہ سے لکھا گیا تھا اگر آپ کو ہز ہولی نس کا خطاب دیا جاوے تو آپ کو بُرا تو معلوم نہ ہوگا.اس کا جواب
۲۷۱ میں نے فوراً یہی دیا کہ گورنمنٹ اگر مجھے کوئی خطاب دے تو میں اس کو اپنی ہتک یقین کروں گا پس میں جو کچھ کرتا ہوں کسی معاوضہ یا لالچ کی غرض سے نہیں بلکہ خدا کا حکم سمجھ کر اور اپنے امام کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کرتا ہوں.اتفاق اور اتحاد کے متعلق یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب تک دل نہ ملیں اتفاق واتحاد کبھی قائم نہیں رہ سکتا.قلوب کے اتحاد سے جسموں کا اتفاق قائم رہ سکتا ہے.پس ایسی خاص کوشش سے ایسے اصول طے کئے جائیں جن سے اول قلوب کا اتحاد ہو.میں مانگنے اور سوال کرنے سے طبعاً نفرت کرتا ہوں.مجھے اپنی چار پانچ سال تک کی عمر کا حال معلوم ہے کہ میں نے اپنے والدین سے بھی کبھی مانگ کر چیز نہیں لی تھی.پس اگر ہند و مسلمانوں کا اتحاد ہو جائے تو پھر ہمیں گورنمنٹ سے سلف گورنمنٹ مانگنے کی حاجت ہی نہ رہ جائے گی.غیر قوم اسی وقت تک حاکم رہتی ہے جب تک اندرونی اختلاف ہو.جب ہمارا اختلاف اُٹھ جائے اور اتحاد قائم ہو جائے تو قانون قدرت کے ماتحت برٹش لوگ خود ہم کو چھوڑ کر چلے جائیں گے چہ جائیکہ ہم خود ان سے درخواست کریں اور ہاتھ پھیلائیں کہ وہ ہمیں آزاد کر دیں.بالآ خر میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان خیالات کے مطابق عمل کرنے کی توفیق بخشے جو آپ لوگوں نے ظاہر کئے ہیں.پچاس ساٹھ کا مجمع تھا.لڑکوں نے نہایت ادب احترام اور اعزاز سے ساری کارروائی کی اور ہنر ہولی نس ہر ہولی نس سے حضور کو خطاب کرتے رہے.کوئی بات ایسی نہیں ہوئی جس سے کسی قسم کا خیال پیدا ہوتا بلکہ حضرت اقدس کا خیال تھا کہ وہ لوگ سوالات کریں تو حضور بعض مسائل کو واضح کر کے سنا دیں مگر انہوں نے اس وقت کوئی سوال و جواب نہ کیا.آپس میں ایک دوسرے سے محبت سے ملتے اور بے تکلفانہ ذکر اذکار کرتے رہے اور کل کے دن عصر کے بعد سے شام تک ایک ہندوستانی مجلس کا نظارہ لنڈن کی سرزمین میں بھی دکھائی دیا.چائے وغیرہ سے انہوں نے تمام دوستوں کی اچھی طرح سے خدمت کی.۱۶ ستمبر ۱۹۲۴ء: رات حضرت اقدس کا نفرنس والے مضمون کو رڈ و بدل فرماتے رہے اور دیر سے آرام کیا.صبح کی نماز میں تشریف نہ لا سکے.ناشتہ 9 بجے کے قریب حضور نے فرمایا اور ایک فوٹو گرافر کی درخواست پر فوٹو کے لئے ساڑھے نو بجے ڈرائینگ روم میں تشریف لائے.ایک فوٹو
۲۷۲ گروپ کا ہوا دوسرا حضور کا تنہا.فوٹو کے بعد پھر حضور مضمون کی درستی اور ترتیب میں لگ گئے.جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور مولوی محمد دین صاحب ساتھ تھے.ساڑھے بارہ بجے کھانے کی گھنٹی ہوئی تب حضور اُٹھے.آج دوپہر کے کھانے پر پھر وہی دمشق کا قصہ اور قادیان کی مستورات کی شکایت کا تذکرہ ہوتا رہا.حضرت اماں جان ) کا خط اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا خط شاید حضور نے کل نہ پڑھا ہو گا آج پڑھایا آیا ہی آج ہوگا.حضور نے فرمایا کہ حضرت اماں جان ) اور ہمشیرہ صاحبہ کا خط بھی آیا ہے.ان خطوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ قادیان میں مستورات کو اس خیال سے بہت تکلیف ہوئی ہے.بعض الفاظ بھی حضور نے سنائے کہ خط کا وہ حصہ سن کر عورتیں کھڑی ہوگئیں ، ٹہلنے لگیں ، رنگ ان کے زرد ہو گئے اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہونے لگے وغیرہ وغیرہ.مگر یہ لوگ بڑے ہی رحیم کریم ہوتے ہیں اپنے غلاموں کی دلجوئی کا بھی خیال رکھتے ہیں.کہہ بھی سب کچھ لیا مگر میری دلجوئی بھی کر دی اور بنتے بنتے باتیں کیں اور یہ بھی فرمایا کہ ” بھائی جی نے اپنے آپ کو تو مستی کر لیا ہوگا تا کہ ان کے گھر میں ایسی فکر نہ لگ سکے.الغرض آج پھر سے مسئلہ تعدّ دازدواج اور مستورات کے احساسات پر بہت دیر تک گفتگو رہی اور حضور نے فرمایا عورتیں تو خیر خود میں بھی اس احساس سے خالی نہیں.عجیب اتفاق کی بات ہے کہ ادھر تو قادیان سے مستورات کے حالات پہنچے ہیں اُدھر دمشق سے اس وقت تو گو سب کے سب خالی ہی آگئے تھے کسی کے متعلق بھی با وجود تلاش اور کوشش کے انتظام نہ ہو سکا تھا مگر کل ہی کی ڈاک میں حضور کے پاس دمشق سے ایک معزز خاندان کی ایک لڑکی کے رشتہ کی درخواست آ بھی گئی جو علماء کا خاندان ہے اور انہوں نے لکھا ہے کہ وہ بالکل تیار ہیں حتی کہ حضرت مفتی صاحب کے خط کے سننے کے بعد حضرت اقدس نے حافظ صاحب کو یہ بھی فرمایا کہ حافظ صاحب اب تو آپ بذریعہ تار بھی قادیان انکار و عذر نہیں کر سکتے کیونکہ دمشق سے آج ہی بذریعہ تا را یک درخواست آ بھی گئی ہے.مگر آج بعد کھانے کے گفتگو میں حضور نے فرمایا کہ اس رشتہ کے لئے نامزد کسی کو نہیں کیا گیا.مولوی جلال الدین صاحب شمس ابھی بغیر نکاح کے ہیں شاید ان کے لئے تجویز ہو جائے یا کسی
۲۷۳ اور کے لئے فیصلہ ہو جائے.- حافظ صاحب کو بھی اس امر کا فکر بہت لگ گیا ہے.آج کھانے کے میز پر حضرت کے حضور عرض کرتے تھے کہ حضور وہ ہفتہ واری تار حضور کب بھجوائیں گے ہفتہ سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے.غرض ان کی یہ تھی کہ حضور جب تار بھیجیں تو اس میں ذکر کر دیں اور تسلی دلا دیں کہ نکاح کوئی نہیں ہوا.خالی خیال ہی خیال تھا.حضرت کی خدمت میں مختلف حصص سے خطوط آ رہے ہیں کہ ان کی سوسائیٹیوں میں حضور لیکچر دیں.حضور کا منشاء ہے کہ تمام دوستوں کو جو لیکچر دے سکتے ہیں تقسیم کر دیا جائے اور جہاں جہاں لوگوں نے بلوایا ہے وہاں بھی اور جہاں نہیں بلوایا وہاں بھی جا کر ان میں لیکچر دیئے جائیں اور ایک دفعہ جزیرہ بھر میں سبز پگڑی والے مبلغوں کا دور دورہ ضرور ہو جائے اور لوگ ان سے واقف ہو جا ئیں.اخبارات میں بھی موافق اور مخالف سلسلہ جاری ہی رہتا ہے.( میرے دل میں کل سے بار بار یہ خیال موجزن ہے کہ حضرت میاں صاحب کی خدمت میں بذریعہ تار عرض کروں کہ میرے خطوط پبلک میں نہ سنائے جایا کریں حتی کہ میں نے تار کے لفظ بھی تجویز کرنے کے لئے مکر می چوہدری صاحب کی خدمت میں عرض کر دیا تھا مگر پھر رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ اس طرح سے کثرت کے ساتھ دوست اپنے محبوب محمود کے حالات سننے سے محروم رہ جائیں گے.الغرض میں ان دونوں باتوں میں فیصلہ نہیں کر سکا کہ آیا تا ر دے کر خطوط کا سنایا جانا بند کر دوں یا قادیان کے دوستوں کی خاطر اگر کچھ ہفت ہشت ہوتی رہے تو کان دبا کرسن ہی لیا کروں.بہر حال میں یہی چاہتا ہوں کہ دوستوں کو حضرت کے حالات پہنچتے رہیں مجھے جو تکلیف ہونی تھی ہو چکی.) الفضل میں ہمارا سب سے پہلا تا رنہیں چھپا جس کے متعلق اخبار میں لکھا گیا ہے کہ وہ تا رملا ہی نہیں.نہ معلوم کیوں نہیں ملا.وہ تار دیا گیا جہاز میں سے اور ضرور دیا گیا تھا.کم از کم دریافت تو کرنا چاہیے تھا.
۲۷۴ نقل خط آمد و از جماعت احمد یہ بخارا نقل مطابق اصل حضرت واجب تعالیٰ حضرت رسول اکرم ﷺ جناب حضرت امام رضی اللہ عنہ سلمه الله تعالى اللهم کن ناصره و حافظه اللهم قهر من عاداه احينى مسكيناً وامتنى مسكيناً واحشرني في زمرة المساكين- آمین نحمده و نصلی علی رسوله الكريم اللهم احينى.بسم الله الرحمن الرحيم ونشكر و الله في نعمت عظمی و في عطاء كثر و لأخرة الخير في زمن الاكبر في وقت خروج الامام الهمام وزمانه المسيح الموعود اعنی اما بعد میگید ابن فقر حقر پورحزن و اندوه و از وطن اصلی دور افتاده و در میں وطن فنا گرفتار شده و از اشتیاق جمال جهان عارای معنی حقیقی و لباس سراخ و دید با بنور کردیده و در دشته ذلالت کم را ہی فرورفته و هیچ علاج نیست بجز بقای حبیب دورم بصورت از در دو نسرای روست لکن بجان وردر مقیماں حضرتم الحمد لله حمدا کثیرا در میں آوان پر ظلمت خروج حضرت امام را در اہل بخارا و در قریہ ہاے بخارا وسمر قند وبسیاری اہل اسلام را رسانیدم اکثر دوستان اشتیاق صحبت دارند خاصتاً ایں غریب نالائق یک سال بازه مشتاق جمال جہان عادای احبائی فی اللہ مستم است از طلب ندارم تا کام من بر آید یا جان رسد بجاناں یا جاں زتن برآید - انشاء اللہ تعالیٰ اگر توجه دوستان درباره این غریب کونند انشاء اللہ تعالیٰ کمر ابستم در راهی مشهد بردم ثانیا دعا و سلام از جانب ملا غلام حید ر ملا سید محمد جان افغان ملا عبدالنبی و بسیار دوستان ایمان بغیب آورده وامید واری از دعائی حضرت واکر احتباء فی اللہ و جناب حضرت محمد امین صاحب و شیخ غلام فرید صاحب باقی السلام علیکم تحریر یافت روز جمعہ کا ہی شوال الداعی حاجی مردان قلی این خط من نالائق کتابت نیست مرمسکن هوسی در شتکه در کعب رسد است ار بالی کبوتر زود نا کاه رسید ابلہاں تعظیم مسجد میکنند در جفائی اہل دل حد میکنند آن مجاز ست ایں حقیقت اے خران نیست مسجد جز درون سروران مسجدی کاندر درون اولیاست سجده گاه جمله است آنجا خداست پیش دانا یاں سخن گفتنی فاست این دلیل هستی و هستی فاست الهم تحم بالخیر البهم اشرح صدری
۲۷۵ بحرمت النبی وآلہ واصحابہ احباہ اجمعین برحمتک یا ارحم الرحمین.اس خط کا جواب حافظ روشن علی صاحب افسر ڈاک نے لکھوایا ہے.میں نے اس کو نقل مطابق اصل بنانے کی کوشش کی ہے.مجھے بھی بعض الفاظ سمجھ میں نہیں آئے.میں نے الفاظ کی شکل کی نقل کر دی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بخارا میں جماعت قائم کر دی ہے.آج بھی حضرت قریباً صبح سے ہی مضمون کی درستی اور ترتیب میں مصروف ہیں.4 بج چکے ہیں مگر ا بھی کام کر رہے ہیں.طبیعت محنت سے تھک گئی ہے اور متلی شروع ہوگئی ہے.حضور خود تشریف لائے اور فرمایا کہ ہلکا سا قہوہ بنالاؤ مجھے متلی ہونی شروع ہوگئی ہے.فرمایا الا بچی ڈال کر بنائیں.میں نے جلدی قہوہ پیش کیا.ایک پیالی نوش فرمائی اور حضور نے دُھتا اوڑ ہا ہوا تھا.کام برابر کر رہے تھے.قہوہ پینے کے دوران میں ذکر فرماتے فرماتے فرمایا کہ میں نے تو اب فیصلہ کیا ہے کہ ۲۹ کے بعد خود کوئی لیکچر نہ دوں.لیکچروں کا کام دوستوں کے سپر د کر دوں اور خود دو ایک آدمی ساتھ لے کر جو ملنے ملانے میں مدد کریں یہاں کے بڑے بڑے لوگوں سے خود ان کے گھروں پر جا کر ملوں یا ان کو یہاں اپنے گھر پر بلوا لیا کروں تا کہ اصل کام بھی تو کچھ ہو جو ہماری اصل غرض ہے.فرمایا کہ اب تک ہمارے کام کی صرف آؤٹ لائن ہی شروع ہوئی ہے.ملک کے مختلف حصص کے خواص ، امرا ، علماء اور فلاسفروں سے مل ملا کر ان کے حالات خیالات اور آراء کا مطالعہ کرنا اور پھر ان میں سے اشاعت ( دین ) کی راہیں نکالنی اور ایسی تجاویز پر غور کرنا کہ جن سے ان کا تمدن ان کے ایمان لانے کے بعد ( دین ) کو بدل ہی نہ دے وغیرہ وغیرہ باتوں پر غور کرنا تو ابھی باقی ہے.فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس جگہ سے ۲۵ / یا ۲۶ را کتوبر ہی کو روانہ ہونا ہوگا.کام کو ادھورا چھوڑ دینا ٹھیک نہیں.پیرس میں نہ ٹھہریں گے.واپسی کے ذکر پر حضور نے آج فرمایا کہ مختلف جماعتوں کی درخواستیں آ رہی ہیں.مدراس - کلکتہ - حیدر آباد - کراچی.لدھیانہ.لاہور وغیرہ جماعتیں خواہش کرتی ہیں کہ ان کے راستہ سے جائیں اور ان کے ہاں ٹھہریں مگر ہمارا قادیان جاتے ہوئے جو ہمیشہ کا دستور ہے وہ ایسا ہے کہ بٹالہ سے اتر کر یکے والے کو جلدی چلنے کی تاکید کیا
کرتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ وہ جلدی نہیں پہنچتا تو یکہ کو چھوڑ کر پیدل چلنا شروع کر دیا کرتے ہیں کہ شاید ہم پیدل اس سے جلدی پہنچیں گے مگر پیدل چلنے میں وہ آگے نکل جایا کرتا ہے تو پھر اسے بلانا پڑا کرتا ہے کہ ٹھہر ٹھہر و بیٹھ جانے دو.پیچھے رہ کر اس رفتار کا اندازہ ہوا کرتا ہے.ان حالات میں نہ معلوم کہ دوستوں کی درخواستوں کا کیا جواب دیا جائے اگر کوئی ہوائی جہاز ہو تو شاید جلدی سے سب کی خوشی پوری کی جا سکے.مکرمی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے عرض کیا حضور بمبئی میں تو صرف کشم والے ہی دیر کیا کرتے ہیں اگر ایسا انتظام کرایا جاوے کہ معمولی ہینڈ بیگ وغیرہ کے سوا باقی سامان کے لئے دو تین دوستوں کو بمبئی چھوڑ دیا جاوے تو فوراً روانگی ہو سکتی ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ پیچھے رہنے والوں کے دل قادیان کے لئے کیا کچھ کم مشاق ہوں گے؟ کھانا شام کا حضرت اقدس نے نماز شام سے پہلے تناول فرمایا.مسٹر داس گپتا آج پھر آئے.ان سے حضور نے فرمایا کہ امریکہ کے متعلق ہم نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ سر دست اس کو ملتوی کر دیا جاوے.اللہ تعالیٰ جب احمدیت کو ترقی دے گا تو پھر ہمیں آنے کی ضرورت ہوگی اس وقت انشاء اللہ تعالیٰ امریکہ کا سفر کر لیا جائے گا.آج ظہر کی نماز میں ایک غلطی ہوئی.نماز بجائے چار کے تین رکعت ہوئی ہیں مگر کسی نے سبحان اللہ نہ کہا ہر ایک نے یہی سمجھا کہ شاید میری ہی غلطی ہو.نماز ہو چکی سلام پھر گیا حضرت اقدس نے سنتیں پڑھنی شروع کر دیں.اس وقفہ میں ایک دوسرے سے اور دوسرا تیسرے سے پوچھنے لگے کہ تین رکعت ہوئی یا چار کعت.سب نے یہی کہا کہ تین ہوئی ہیں.میں تو سبحان اللہ کہنے لگا تھا مگر میں نے بھی سمجھا شاید میری ہی غلطی ہو.حضور نے سنتوں کا سلام پھیرا تو عرض کیا گیا.فرمایا مجھے تو چار ہی کا خیال ہے.ایک سے پوچھا.دوسرے سے دریافت کیا تو معلوم ہوا سب تین پر متفق ہیں.آخر حضور نے کھڑے ہو کر ایک رکعت ادا کرائی اور سجدہ سہو کیا.سنت جو ہو چکی تھی وہ ہو گئیں بعد میں سنت کو ئی نہیں پڑھی.رات کو بھی حضور کا نفرنس والے مضمون کی دیر تک درستی اور ترتیب میں مشغول رہے اور بہت دیر کر کے سوئے.جوڑ تو ڑ کرنا اور سیاق و سباق کو قائم رکھ کر اہم حصص کا قائم رکھنا بہت محنت
۲۷۷ طلب کام ہو گیا.خلیفہ تقی الدین صاحب کا تار پہنچ گیا ہے غالباً کل کسی وقت پہنچیں گے.برائین کے غربا اور مساکین وغیرہ کی امداد کے واسطے حضرت اقدس نے ۱۵ پونڈ بھجوانے کا حکم دیا جو غالبا بھیجے بھی گئے ہیں.بعض غریب طلباء کی بھی حضور نے مدد کی جو کسی نہ کسی وجہ سے مقروض اور زیر بار تھے.ایک کو تین پونڈ دوسرے کو ایک پونڈ عطا فرمایا.فقیر یہاں خالی مانگتے نہیں پھرتے کچھ شغل رکھتے ہیں مثلا ریڑھی پر با جالئے پھرتے ہیں.در بدر بجاتے ہیں یا دیا سلائی فروخت کرتے پھرتے ہیں یا اسی طرح کے بعض اور طریق ہیں جن کو لے کر خاموش بیٹھے رہتے یا کھڑے رہتے ہیں.ایک شخص کو میں نے دیکھا گلے میں ایک بور ڈ لگایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا - Quiteblind ( یعنی کہ یہ شخص نابینا ہے ) وغیرہ وغیرہ حضور ایسے مساکین اور سائلوں کو بھی کچھ خیرات دیا کرتے ہیں.خیرات مانگنا اس ملک میں ممنوع ہے.ایک ٹائپسٹ ۳ پونڈ ہفتہ وار پر رکھی ہوئی ہے بہت ہی باتونی ہے.آنے جانے والے دوست اکثر اس کے پاس جمع رہتے ہیں اور کام میں حرج ہوتا ہے.کبھی وہ فون کو لے کر بیٹھ جاتی ہے کام کرے تو بہت جلدی کر لیتی ہے.پرسوں اس نے کام بہت تھوڑا کیا.مولوی محمد دین صاحب نے اس کو ڈانٹا اور کہا کہ آج میں تمہیں جانے نہ دوں گا جب تک کام کو پورا نہ کر لو گی چنانچہ اس نے اپنے اصل وقت سے زیادہ کام کیا اور اس کو اوور ٹائم میں محسوب کیا.حضرت اقدس نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ آج کونسا زیادہ کام تھا کہ آپ نے ٹائپسٹ کو اوور ٹائم کے لئے کہا.انہوں نے عرض کی حضور میں نے تو نہیں کہا البتہ یہ بات ہوئی تھی اس سے اس نے اپنے مطلب کی بات نکال لی ہوگی.میں تو یہ کہہ کر پریس کو چلا گیا مجھے علم نہیں پیچھے کیا ہوا اور کیوں اس نے اوور ٹائم کا مطالبہ کیا.حضرت اقدس نے فرمایا اس نے آج آپ کو دو طریق سے لوٹا.کام نہ کر کے بھی اور کر کے بھی.کام نہ کیا کھیلتی رہی.کام کیا تو اوور ٹائم میں محسوب کر لیا.اس کی نگرانی ضروری ہے.
۲۷۸ وہ کام کرے اور پورا وقت کیا کرے.( حافظ صاحب نے اس کا نام ڈھینگری رکھا ہوا ہے ) حافظ صاحب نے عرض کیا حضور وہ تو ڈھینگری ہے.آتے جاتے کو چمٹ جاتی ہے.حضور نے یہ سن کر دوستوں کو حکم دیا کہ اس کے پاس کوئی نہ جایا کرے کام میں حرج ہوتا ہے اور پھر کل تو اس امر کی نگرانی بھی حضور نے خود توجہ دے کر فرمائی.دو تین مرتبہ جانچا کہ وہ کام کرتی ہے یا خالی ہے اور کہ حضور کے حکم کے بعد کون اس کے پاس جا کر گئیں ہانکتا ہے.کچن پر کنٹرول اور میانہ روی کی حضور بارہا تاکید فرماتے ہیں.اخراجات میں نسبتا کمی بھی ہوگئی ہے.اس ہفتہ کا پل باوجود مہمانوں کی زیادتی کے صرف ۲۳ پونڈ نکلا ہے.انگلش فیشن اور دیسی کھانا دونوں میں بہت احتیاط ہو رہی ہے ایسی کہ بعض اوقات دوست بول اُٹھتے ہیں کہ بھائی جی اس سے زیادہ کم خرچی کا خیال نہ کر لینا.کھانے والوں کی اوسط ۳۰ کے قریب رہتی ہے.۱۳ ہم ہیں ، جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور ان کا دوست جرمن شاہزادہ :۲ مولوی محمد دین صاحب، حکیم فضل الرحمن صاحب اور حافظ صاحب کا ایک مہمان بھائی :۳ مولوی نیز صاحب، ملک غلام فرید صاحب ، غلام حسین ماریشس ، علی محمد صاحب سیٹھ ، خدا بخش جہلم : ۵ ملا زم : ۴ کس اور متفرق آنے والے مہمان ملاقاتی یا دوست بھی.الغرض کل تعداد اوسطاً ۳۰ کی رہتی ہے.ہمارے چوہدری فتح محمد خان صاحب عموماً حساب نہیں رکھ سکتے.ایک دوست سناتے تھے کہ انہوں نے مولوی مبارک علی صاحب سے پوچھا کہ آج کل تو اخراجات پر اتنا کنٹرول کیا جاتا ہے اور پائی پائی کی سوچ بچار ہوتی ہے چو ہدری فتح محمد خان صاحب کے زمانہ میں کیا ہوتا تھا ؟ مولوی صاحب نے کہا کہ اس وقت ہم ایک بادشاہ کے ماتحت ہیں.اس سفر میں بھی ان سے بعض اوقات حساب رکھنے والے حساب مانگ لیا کرتے ہیں اور ان کی بے حسابی کی بات حضرت صاحب تک بھی پہنچ جایا کرتی ہے.میں نے ان کو ملکا نا وار میں دیکھا ہے سچ سچ حساب نہیں رکھ سکتے.اپنی جیب سے انہوں نے کئی سو روپیہ خسارہ دیا ہے.چنانچہ چوہدری صاحب کا واقعہ ہے کہ انہوں نے بمقام پورٹ سمتھ حضرت اقدس کے حضور بڑے ادب سے محبت بھرے لہجہ میں عرض کیا کہ حضور میں نے مدت ہوئی ایک خواب دیکھا تھا وہ اب تک پورا نہیں ہوا نہ معلوم کیا وجہ ہے؟ خواب یہ تھا کہ مجھے حساب نہ رکھ سکنے کی خود بھی اپنے اوپر شکایت ہے.میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور نے اس
۲۷۹ بے حسابی کے علاج کے لئے مجھے چھاتی سے لگا کر خوب بھینچا ہے جس سے میں بیدار ہو گیا جس سے میں سمجھا تھا کہ اس بے حسابی کا علاج ہو گیا ہے مگر ابھی تک اس کے نتیجہ کی انتظار میں ہوں وہ بظاہر پورانہیں ہوا خدا جانے کب پورا ہوگا..حضرت اقدس نے مسکرا کر فرمایا.شاید اس کی تعبیر یہ ہو کہ حساب دوستاں در دل مگر پھر جو اُن سے کسی نے حساب مانگا تو انہوں نے حضرت اقدس کے سامنے شکایت کی.اس پر حضور نے فرمایا.ان کو حساب جو سکھانا ہوا.ان سے اگر کوڑی کوڑی کا حساب نہ پوچھا جائے گا تو وہ حساب رکھنا سیکھیں گے کیسے؟ غرض یہ تمام باتیں سبق آموز ہیں.ایک امر قابل اصلاح تھا اس کی اصلاح حضور کو مقصود تھی.اس کے لئے کیسی پیار اور محبت بھری ترکیب حضور نے اختیار کی.ہنستے ہنستے اور باتوں باتوں میں حضور بہت سے امور اسی طرح سے بطور نصیحت فرما جاتے ہیں.۱۷ ستمبر ۱۹۲۴ ء : صبح کی نماز میں حضور تشریف نہ لائے.ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مل کر اپنے ہی کمرہ میں نماز ادا کی.پونے کو بجے ٹھیک حضور ناشتہ کے لئے آج بہت دنوں کے بعد تشریف لائے.اندر یہ گفتگو تھی کہ ناشتہ کا وقت گزر رہا ہے اور دوست آئے نہیں.قادیانی کہہ رہا تھا کہ میں نے ۹ بجے ڈاک کی ڈیوٹی پر چلے جانا ہے وغیرہ - حضور دفعتہ آئے اور فرمایا ”لو دو اور آ گئے ہیں“.مولوی محمد دین صاحب بھی حضور کے پیچھے پیچھے آتے تھے.ہندوستان کی ڈاک کے بعض حصے آج وصول ہوئے.حضور نے آج بھی فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ ۲۶ / یا ۲۷ رکو یہاں سے واپسی کا ارادہ ہے.دوستوں کے عرض کرنے پر حساب کرایا کہ قادیان کی ڈاک اگر دوست براہ راست اس مکان کے پتہ پر ارسال کریں تو ہماری واپسی کے دن تک پہنچ سکتی ہے یعنی ۱۸ ستمبر کی ڈاک کے خطوط کے جوابات قادیان سے آ سکتے ہیں.الفضل میں ایک نظم پڑھ کر فرمایا کہ نظم بالکل غلط ہے.الفضل کیوں ایسی نظموں کو چھاپ دیتا ہے.اس سے تو اخبار کی بھی بہتک ہوتی ہے اور بعض باتیں تو اس میں قادیان اور حضرت مسیح موعوڈ پر اعتراض ہیں بلکہ کفر تک بھی بن جاتی ہیں.آسمان پر گہن والا شعر ماہ رمضان میں گہن آپ
۲۸۰ نے دکھائے قادیان فرمایا کیا قادیان اور حضرت مسیح موعود نعوذ باللہ ظلمت دکھانے والے ہیں؟ حضور آج فرماتے رہے کہ مولوی مبارک علی صاحب کی بھی یہی رائے ہے کہ پورٹ سمتھ ہمارے کام کے لئے بہترین جگہ ہے.ان کی تو یہ بھی رائے ہے کہ ( البیت ) بجائے لنڈن کے وہیں بنائی جاوے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ اگر ہمیں کچھ ایسے مسلمان مل جائیں جو یہ خواہش رکھتے ہوں کہ ان کو ( دین حق ) کی تعلیم سکھائی جائے اور وہ ( دینِ حق ) کو سچا یقین کرتے ہوں اس کے تمام احکام پر ایمان رکھتے ہوں خواہ عمل میں کچھ کمزور ہی کیوں نہ ہوں.نما ز بعض مجبوریوں کی وجہ سے نہ پڑھ سکتے ہوں مگر دل میں ان احکام کو سچا اور خدا کا حکم سمجھنے والے ہوں تو میں سمجھوں گا کہ ( دینِ حق ) ان بلاد میں پھیل رہا ہے اور ترقی کر رہا ہے.فرمایا میں جتنے بھی لوگوں سے ملا ہوں ان میں سے ایک ڈاکٹر لیون عبد اللہ کو ٹیم کا طرز استدلال اور طریق کار مجھے ایسا نظر آیا ہے جو میری رائے اور خیال کے مطابق ہے وغیرہ وغیرہ مفصل مثالیں دے کر اس کے کام کی طرز کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ وہ کہتا ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بڑی محنت اور کوشش سے کام جاری کیا مگر لوگ بات نہ سنتے تھے.آخر میں نے ٹمپرنس سوسائیٹی سے تعلق پیدا کیا اور ان کے لیکچروں میں شریک ہو گیا.انہوں نے میرا بھی لیکچر رکھ دیا.میں نے شراب کے خلاف لیکچر دیا اور عرب کی حالت کے نوشی اور رسول اکرم کا مجاہدہ کوشش اور محنت کی تفصیل ان کو سنائی.وہ کہتے ہیں کہ جب میں لیکچر دے کر باہر نکلا تو ایک شخص میرے پیچھے پیچھے آیا اور اس نے مجھے کہا کہ عرب کے ملک کو شراب چھڑانا تو ایک معجزہ تھا جس میں خدا ئی ہاتھ نظر آتا ہے کیوں نہ اس شخص کو خدا کا پیارا یقین کر لیں جس نے عرب کے لوگوں کو شراب سے نجات دی اور کیوں نہ ہم لوگ مسلمان ہو جا ئیں.آپ جب حضرت ﷺ کے ایسے معجزات کے قائل ہیں تو کیوں مسلمان نہیں ہو جاتے.الله ڈاکٹر لیون کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں تو مسلمان ہوں.اس پر اس نے کہا تب میں بھی مسلمان ہوں اور پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سے دو ہو گئے اور مل کر کام کرنے لگے وغیرہ وغیرہ.دیکھو کیسا اچھا طرز تبلیغ اس کو سو جھا.در حقیقت سچی تڑپ ہو تو آسمان بھی انسان کی مدد کے سامان پیدا کر دیا کرتا ہے.حضور فرماتے تھے کہ پورٹ سمجھ کا وہ پادری کیسے اچھے خیالات کا ہے جو لوگوں کو ہماری طرف راغب کرتا ہے اگر ہمارے مبلغ بھی ہوشیاری اور عقلمندی سے کام لیں تو اس
۲۸۱ کے زیر تعلیم لوگوں پر اپنا اثر قائم کر سکتے ہیں اور ان کا رخ آسانی سے ( دین حق ) کی طرف پھیر سکتے ہیں اور پھر ساتھ ہی پورٹ سمتھ کے مسلمانوں کا ذکر کر کے حضور بہت خوش ہوئے.چائے پر حافظ صاحب نے عرض کیا کہ حضور نے بیرونی مبلغین کے لئے دو سال مقرر فرمائے ہیں تو ہمارے وہ مبلغ جن کو دو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے مثلاً مولوی محمد دین صاحب وغیرہ.ان کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضور نے فرمایا ہاں یہ لوگ تو پہلے فیصلہ کے ماتحت یہاں آئے ہوئے ہیں اب نئے فیصلہ کی تعمیل میں ان کو دو دو سال اور دینے چاہئیں.اور پھر دو سال کی حکمتیں بیان فرماتے رہے.رسول اکرم کے حکم کے مطابق اور سوار کے کمر کے ٹیڑھا ہو جانے والی حدیث کی تفصیل و تشریح فرماتے رہے.چائے کے بعد تشریف لے گئے اور تذکرۃ الشہادتین مانگی غالباً پروٹسٹ میٹنگ کے لئے مضمون لکھنا شروع فرمایا ہے.کانفرنس والا مضمون حضرت اقدس نے رات پورا کر کے ٹائپ کے لئے دے دیا ہے.اب وہ مضمون صرف ۴۵ صفحات کے قریب ہوگا جو انشاء اللہ تعالیٰ بخوبی پڑھا جا سکے گا اور اغلب ہے کہ حضرت خود ہی پڑھیں گے.پورٹ سمجھ کے مضمون کی انگریزی کاپی بھی میں نے حاصل کر لی ہے مگر ٹائپ کی غلطیاں ٹھیک نہیں ہوسکتیں.بعض الفاظ میں کسی قدر تغیر بھی کیا گیا تھا جس کا مضمون پر کوئی خاص اثر نہیں.اصل کا پی حضرت اقدس کے پاس ہے مانگنے کی جرأت نہیں ہوئی.مضمون حضرت اقدس کا ۹۶ صفحات کا جس کا خلاصہ اب کانفرنس میں پڑھا جائے گا.چھپ رہا ہے.حضرت اقدس کا فوٹو بھی اس میں دیا گیا ہے.کوشش کی تھی کہ کسی طرح سے ایک آدھ کا پی تیار ہو کر مل جاتی خواہ پروف ہی مل جائے تو کل کی ڈاک سے ارسال کرتا مگر نہیں ہو سکا.۲۱ رکو مل سکے گی انشاء اللہ تعالیٰ دوسری ڈاک سے روانہ ہوگی.اس خلاصہ کی ایک نقل جو انشاء اللہ تعالیٰ کا نفرنس میں پڑھا جائے گا.لے کر آج ہی کوشش کروں گا کہ کل کی ڈاک سے بھیج دوں.ایک شخص آرتھر فیلڈ نے ہمارے پروٹسٹ میٹنگ کے خلاف بہت بڑی کوشش جاری کر دی ہے اور تمام مسلمانوں کو خطوط لکھے ہیں کہ اس جلسہ میں شرکت اختیار نہ کریں.تاکید کی ہے.آرتھر فیلڈ ایک آزاد خیال آدمی سنا جاتا ہے جو مسلمان تو نہیں مگر خلافت وغیرہ مسائل
۲۸۲ اور ایجی ٹیشن میں حصہ لینے کا عادی ہے.یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ افغان ڈیلی گیشن نے اس سے مل کر یہ کارروائی کی ہو یا دو کنگ والوں کا ہی اس میں ہاتھ ہو.بہر حال کوشش بظاہر زبر دست جاری کی گئی ہے.صوفی ازم کا مضمون جو کا نفرنس میں سنایا جائے گا اس کی انگریزی کاپی ارسال کرتا ہوں.نمبر ۳ ، اس پر لگایا گیا ہے.برائین کے ایڈریس کا اصل نہ معلوم میں نے ارسال کیا تھا یا کہ نہیں.بہر حال آج اس کا اصل روانہ کرتا ہوں جو نمبر ۴ ہے.حضرت اقدس نے رات کے لیکچر کے لئے مضمون لکھنا شروع فرما دیا ہے اور ترجمہ بھی ساتھ ساتھ ہونا شروع ہو گیا ہے جو جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کر رہے ہیں.ایں سعادت بزور بازو نیست آج حضور نے تجویز فرمایا ہے کہ ۲۰۰ تک ٹکٹ کا نفرنس کے لیکچر کے دن کے لئے خرید کر بعض شائقین میں تقسیم کروائے جائیں جو خیراتی سوسائیٹیوں کے ذریعہ فروخت کرائے جائیں.قیمت ان ٹکٹوں کی کم کر دی جاوے جو قیمت وصول ہو وہ خیراتی کاموں پر صرف ہو.ہال میں ۲۰۰۰ آدمی کی گنجائش ہے.اور ابھی تک صرف ۴۰۰ ٹکٹ فروخت ہوئے ہیں.حضرت اقدس نے سر دست حکم دیا ہے کہ ۲۰۰ میں سے ۶۰ ٹکٹ آج خرید لئے جائیں.یہ فروخت ہو جائیں تو پھر اور.پھر اسی طرح اگر ضرورت ہو روز فروخت ہوتے جائیں تو ۲۰۰ تک خرید لئے جائیں.ڈے ٹکٹ ( یعنی خاص کر ایک دن کے لئے ) کی قیمت ایک شلنگ ہے.اور اکٹھا ٹکٹ لینے میں خاص رعایت ہے.اس تجویز کے علاوہ حضرت اقدس نے منظوری دی ہے کہ ایک چھوٹا سا پمفلٹ دس ہزار کی تعداد میں شائع کرایا جاوے اور بعض اخبارات میں اُجرتی اشتہار دے دیا جاوے.پوسٹروں کی تجویز رڈ کر دی ہے کیونکہ بہت زیادہ خرچ چاہتی تھی.انگریزی لٹریچر کے چھپیں چھپیں نسخے ایک سوسائٹی کو فروخت کی غرض سے دیئے گئے ہیں جو قریباً لاگت کے برابر قیمت پر فروخت ہوں گے.
۲۸۳ نقل مضمون جو آج شام پروٹسٹ میٹنگ میں پڑھا جائے گا.بسم الله الرحمن الرحيم اعوذ با الله من الشيطن الرجيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر شکریہ: پریذیڈنٹ ! بہنو اور بھائیو! میں آپ لوگوں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ہمارے صدمہ میں ہم سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے.آپ لوگ یہ تو پڑھ چکے ہوں گے کہ مولوی نعمت اللہ احمدی کو اکتیس اگست کے دن کا بل گورنمنٹ نے سنگسار کر دیا ہے صرف اس وجہ سے کہ اس نے احمدیت کو کیوں قبول کیا ہے مگر آج آپ لوگوں کو اختصار کے ساتھ اس واقعہ کی تمام کیفیت سنانا چاہتا ہوں تا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ فعل کیسا نا روا تھا.شہید مرحوم کے حالات: مولوی نعمت اللہ خان کا بل کے پاس ایک گاؤں کے رہنے والے تھے.احمدی ہونے پر ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ وہ سلسلہ کی تعلیم بھی حاصل کریں اور قادیان چلے آئے جہاں وہ احمد یہ دینی کالج میں داخل ہوئے.وہ ابھی کالج ہی میں تعلیم پار ہے تھے کہ کابل کے احمدیوں کی تعلیم کے لئے ان کو وہاں بھیجنا پڑا.چنانچہ ۱۹۱۹ ء میں وہ وہاں چلے گئے اور چونکہ افغانستان میں احمدیوں کے لئے امن نہ تھا مخفی طور پر اپنے بھائیوں کو سلسلہ کی تعلیم سے واقف کرتے رہے.اس عرصہ میں گورنمنٹ افغانستان نے کامل مذہبی آزادی کا اعلان کیا اور ہم نے سمجھا کہ اب احمد یوں کو اس علاقہ میں امن ہوگا مگر پیشتر اس کے کہ وہاں کی جماعت کے لوگ اپنے آپ کو علی الاعلان ظاہر کرتے مناسب سمجھا گیا کہ گورنمنٹ سے اچھی طرح سے دریافت کر لیا جائے.ارکان حکومت کابل کے مواعید : چنانچہ جب محمود طرزی صاحب سابق سفیر پیرس کی قیادت میں افغان گورنمنٹ کا ایک مشن برٹش گورنمنٹ سے معاہدہ صلح کرنے کے لئے آیا تو اس
۲۸۴ وقت میں نے ان کی طرف ایک وفد اپنی جماعت کے لوگوں کا بھیجا تا کہ وہ ان سے دریافت کرے کہ کیا مذہبی آزادی دوسرے لوگوں کے لئے ہے یا احمدیوں کے لئے بھی.اگر احمدیوں کے لئے بھی ہے تو وہ لوگ جو اپنے گھر بار چھوڑ کر قادیان میں آگئے ہیں واپس اپنے گھروں کو چلے جاویں.محمود طرزی صاحب نے میرے بھیجے ہوئے وفد کو یقین دلایا کہ افغانستان میں احمدیوں کو اب کوئی تکلیف نہ ہوگی کیونکہ ظلم کا زمانہ چلا گیا ہے اور اب اس ملک میں کامل مذہبی آزادی ہے.اسی طرح دوسرے ممبران وفد نے بھی یقین دلایا.ان لوگوں میں سے جو اپنے ملک کو چھوڑ کر قادیان آ گئے ہیں ایک نوجوان نیک محمد بھی ہے جو احمدیت کے اظہار کی آزادی نہ پا کر چودہ سال کی عمر میں اپنا وطن چھوڑ کر چلا آیا تھا.اس نو جو ان کا والد غزنی کے علاقہ کا رئیس تھا اور غزنی کا گورنر بھی رہا ہے.یہ نو جوان بھی وفد کے ساتھ تھا.اس کو دیکھ کر کئی ممبر ان وفد کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے کہا کہ ایسے ایسے معزز خاندانوں کے بچے اس عمر میں اپنے عزیزوں سے جُدا ہو کر دوسرے وطنوں کو جانے پر مجبور ہوں یہ بہت بڑا ظلم ہے جو ہر میجسٹی امیر امان اللہ خان کے وقت میں نہ ہوگا اور ایشیائی طریق پر اپنے سینوں پر ہاتھ مار کر کہنے لگے کہ تم واپس وطن کو چلو دیکھیں تم کو کون ترچھی نظر سے بھی دیکھتا ہے.اس ملاقات کے نتیجہ میں ہمارا وفد اپنے نزدیک نہایت کامیاب واپس آیا مگر مزید احتیاط کے طور پر میں نے چاہا کہ امیر افغانستان کو اپنے عقائد سے بھی مطلع کر دیا جائے اور ہماری امن پسند عادت سے بھی آگاہ کر دیا جائے تا کہ پھر کوئی بات نہ پیدا ہو اور میں نے مولوی نعمت اللہ خان کو ہدایت کی کہ وہ محمود طرزی صاحب سے ان کی واپسی پر ملیں اور ان سے بعض احمد یوں پر جو ظلم ہوا ہے اس کا تذکرہ کریں اور امیر کے سامنے اپنے خیالات پیش کرنے کی بھی اجازت لیں.محمود طرزی صاحب نے ان احمدیوں کی تکلیف کا تو ازالہ کرا دیا اور اس امر کی اجازت دی کہ جو خط امیر کے نام آئے وہ اس کو غور سے پڑھیں گے.اس موقع پر ہمارے مبلغ نے اپنے آپ کو جس طرح گورنمنٹ کے سامنے ظاہر کر دیا تھا پبلک پر بھی ظاہر کر دیا.چونکہ افغانستان کے بعض علاقوں سے یہ خبریں برابر آ رہی تھیں کہ احمد یوں پر برا بر ظلم ہو رہا ہے.ان کو بلا وجہ قید کر لیا جاتا ہے پھر ان سے روپیہ لے کر ان کو چھوڑ ا جاتا ہے اس لئے میں نے اپنے صیغہ دعوۃ والتبلیغ کے سیکرٹری کو ہدایت کی کہ وہ اس کے متعلق افغانستان گورنمنٹ
۲۸۵ سے خط و کتابت کریں.چنانچہ انہوں نے ایک چٹھی وزیر خارجیہ افغانستان کولکھی اور ایک جمال پاشا تر کی مشہور جرنل کو جو سیکرٹری دعوۃ والتبلیغ کے ذاتی طور پر واقف تھے اور اس وقت افغانستان میں تھے ، ان سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ بھی اس امر کے متعلق افغانستان کی گورنمنٹ سے سفارش کریں.اس چٹھی کے جواب میں وزیر خارجہ افغانستان کی ایک چٹھی مئی ۱۹۲۱ء میں آئی جس میں لکھا تھا کہ احمدی اسی طرح اس ملک میں محفوظ ہیں جس طرح دوسرے و فا دار لوگ.ان کو احمدیت کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ دی جائے گی اور اگر کوئی احمدی ایسا ہے جسے مذہب کی وجہ سے تکلیف دی جاتی ہو تو اس کا نام اور پتہ لکھیں گورنمنٹ فوراً اس کی تکلیف کو دور کرے گی.اس کے کچھ عرصہ بعد خوست کے علاقہ میں بعض احمدیوں کو پھر تکلیف ہوئی تو احمد یہ جماعت شملہ کی لوکل شاخ نے سفیر کا بل متعینہ ہندوستان کو اس طرف توجہ دلائی اور ان کی معرفت ایک درخواست گورنمنٹ کا بل کو بھیجی جس کا جواب مورخہ ۲۴ رمئی ۱۹۲۳ء کو سفیر کا بل کی معرفت ان کو یہ ملا کہ احمدی امن کے ساتھ گورنمنٹ کے ماتحت رہ سکتے ہیں.ان کو کوئی تکلیف نہیں دے سکتا.باقی وفادار رعایا کی طرح ان کی حفاظت کی جائے گی.اس خط میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا تھا کہ یہ معاملہ ہر میجسٹی امیر کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور ان کے مشورہ سے جواب لکھا گیا ہے.شملہ کی لوکل احمدی انجمن کی درخواست میں احمدی عقائد کا بھی تفصیلاً ذکر کیا گیا تھا اور گورنمنٹ افغانستان نہیں کہہ سکتی کہ ان کو پہلے احمدی عقائد کا علم نہ تھا.اس طرح متواتر یقین دلانے پر کابل اور اس کے گرد کے احمدی ظاہر ہوگئے دیگر علاقوں کے لوگ پہلے کی طرح مخفی ہی رہے کیونکہ گورنمنٹ افغانستان کا تصرف علاقوں پر ایسا نہیں کہ اس کی مرضی پر پوری طرح عمل کیا جائے.وہاں لوگ قانون اپنے ہی ہاتھ میں رکھتے ہیں اور بار ہا حکام بھی لوگوں کے ساتھ مل کر کمزوروں پر ظلم کرتے رہتے ہیں.احمدیوں پر مصائب : ہم خوش تھے کہ افغانستان میں ہمارے لئے امن ہو گیا ہے کہ ۱۹۲۳ء کے آخر میں اطلاع ملی کہ دو احمد یوں کو افغانستان کی گورنمنٹ نے قید کر لیا ہے جن میں سے ایک کا بیٹا بھی ساتھ قید کیا گیا ہے.ان دو میں سے ایک تو کچھ دے دلا کر اپنے بیٹے سمیت چھٹ گیا لیکن دوسرا میری قادیان سے روانگی تک قید تھا اور مجھے نہیں معلوم کہ اس کا اب کیا حال ہے.دوسرا جو
۲۸۶ آزاد ہو گیا تھا اس کو ایام گرفتاری میں اس قدر مارا گیا کہ وہ آزاد ہونے کے بعد ۱۴ دن کے اندر فوت ہو گیا.مولوی نعمت اللہ کی سنگساری : شروع جولائی میں مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو بھی حکام نے بلایا اور بیان لیا کہ کیا وہ احمدی ہیں.انہوں نے حقیقت کو ظاہر کر دیا اور ان کو بیان لے کر چھوڑ دیا گیا.اس کے چند دن کے بعد ان کو گرفتار کر لیا گیا اور پھر علماء کی کونسل کے سامنے پیش کیا گیا جس نے اار اگست کو ان سے بیان لیا کہ وہ احمد کو کیا سمجھتا ہے.انہوں نے اپنے عقائد کا اظہار کیا جس پر علماء کی کونسل نے ان کو احمدی قرار دے کر مرتد قرار دیا اور موت کا فتویٰ دیا.اس کے بعد ۱۶ / اگست ۱۹۲۴ء کو ان کو علماء کی اپیل کی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جس نے پھر بیان لے کر ماتحت عدالت کے فیصلہ کی تائید کی اور فیصلہ کیا کہ نعمت اللہ کو ایک بڑے ہجوم کے سامنے سنگسار کیا جائے.۳۱ را گست کو پولیس نے ان کو ساتھ لے کر کابل کی تمام گلیوں میں پھرایا اور وہ ساتھ ساتھ اعلان کرتی جاتی تھی کہ اس شخص کو ارتداد کے جرم میں سنگسار کیا جائے گا.لوگوں کو چاہیے کہ وہاں چلیں اور اس نیک کام میں شامل ہوں.اسی دن شام کے وقت کابل کی چھاؤنی کے ایک میدان میں ان کو کمر تک زمین میں گاڑا گیا اور پہلا پتھر کا بل کے سب سے بڑے عالم نے مارا.اس کے بعد ان پر چاروں طرف سے پتھروں کی بارش شروع ہوگئی یہاں تک کہ وہ پتھروں کے ڈھیر کے نیچے دب گئے.ان کی لاش ابھی تک اس پتھروں کے ڈھیر کے نیچے پڑی ہے اور اس پر پہرہ لگا ہوا ہے.اس کے بوڑھے باپ نے جو احمدی نہیں ہے گورنمنٹ سے درخواست کی کہ وہ اس کو لاش دے دیں تا کہ وہ اس کو دفن کر دے مگر گورنمنٹ نے اس کی لاش کو دفن کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے.مولوی نعمت اللہ کی استقامت : کابل گورنمنٹ نے مولوی نعمت اللہ خان کو سنگسار کرنے سے پہلے بار بار احمدیت کو چھوڑ دینے کی صورت میں آزادی کا انعام پیش کیا مگر مولوی نعمت اللہ شہید نے ہر دفعہ اسے حقارت سے رڈ کر دیا اور ضمیر کی آزادی کو جسم کی آزادی پر ترجیح دی.
۲۸۷ جب ان کو سنگسار کرنے کے لئے گاڑا گیا تب پھر آخری دفعہ ان کو ارتداد کی تحریک کی گئی مگر انہوں نے جواب دیا کہ جس چیز کو میں حق جانتا ہوں اس کو زندگی کی خاطر نہیں چھوڑ سکتا.جس وقت ان کو گلیوں میں پھر ایا جا رہا تھا اور ان کی سنگساری کا اعلان کیا جا رہا تھا.اس وقت کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بجائے گھبرانے کے مسکرا رہے تھے گویا کہ ان کی موت کا فتویٰ نہیں بلکہ عزت افزائی کی خبر سنائی جارہی ہے.شہید مرحوم کی آخری خواہش اور اس کے متعلق افغان حکام کا شکریہ : جب ان کو میدان میں سنگسار کرنے کے لئے لے گئے تو انہوں نے اس وقت ایک خواہش کی جسے افغان حکام نے منظور کر لیا اور ہم اس کے لئے اس کے ممنون ہیں.وہ خواہش یہ نہ تھی کہ وہ اپنی ماں کو دیکھ لیں یا اپنے بوڑھے باپ کو ایک دفعہ مل لیں بلکہ یہ خواہش تھی کہ اس دنیا کی زندگی کے ختم ہونے سے پہلے ان کو ایک دفعہ اپنے رب کی عبادت کرنے کا پھر موقع دیا جائے.حکام کی اجازت ملنے پر - انہوں نے اپنے رب کی عبادت کی اور اس کے بعد ان کو کہا کہ اب میں تیار ہوں جو چا ہوسو کر و.کابل کی سرکاری اخبار کا بیان : کابل کا نیم سرکاری اخبار جس سے شہادت کے واقعات کا اکثر حصہ لیا گیا ہے اپنی ۶ ستمبر کی اشاعت میں حالات شہادت لکھتے ہوئے لکھتا ہے کہ ” مولوی نعمت اللہ بڑے زور سے احمدیت پر پختگی پر مصر رہا اور جس وقت تک اس کا دم نہیں نکل گیا سنگساری کے وقت بھی وہ اپنے ایمان کو بآواز بلند ظاہر کرتا رہا.ایک چھوٹا سا زخم انسان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے لیکن اس شخص کا خیال کرو جس پر چاروں طرف سے پتھر پڑ رہے تھے مگر اسے صرف ایک ہی دھن تھی کہ جس امر کو وہ سیچ یقین کرتا تھا وہ اسے مرنے سے پہلے پھر ایک دفعہ اپنے برادرانِ وقت کے کانوں تک پہنچا دے.دیگر واقعات : ایسوشی ایٹڈ پریس کا پشاور کام رستمبر کا تار جو ہندستان کے سب اخبارات میں چھپا ہے اس میں بتایا گیا ہے سنگساری سے پہلے مولوی نعمت اللہ شہید کو قید خانہ میں بھی کئی قسم کے عذاب دیئے گئے تھے.ہندوستان کا سب سے وسیع الاشاعت انکمو انڈیل روزانہ پاؤئیر لکھتا ہے کہ یہ معاملہ معمولی نہیں بلکہ نہایت اہم ہے.وہ اپنے تازہ ایشوع میں یہ بھی لکھتا ہے کہ امیر نے
۲۸۸ نعمت اللہ خان کو صرف آرتھوڈا کس پارٹی کے خوش کرنے کے لئے قتل کیا ہے.کابل کی آمدہ خبروں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گورنمنٹ کا بل نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ بھی احمدیوں سے ایسا ہی معاملہ کرے گی اور وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے ملک کا قانون مرتد سے ایسے ہی سلوک کا مطالبہ کرتا ہے.مگر گورنمنٹ کی اپنی چٹھیاں اس امر کی تردید کر رہی ہیں.یہ تمام واقعات مجھے قادیان سے میرے نائب نے بذریعہ تار مختلف تاریخوں پر بھیجے ہیں اور ان کی معلومات کا ذریعہ کابل کے اخبارات ہیں جن میں سے اکثر واقعات لئے گئے ہیں.تین خون: اے بہنو اور بھائیو! گو یہ واقعہ اپنی ذات میں بھی نہایت افسوسناک ہے مگر یہ واقعہ منفرد نہیں ہے.یہ تیسرا خون ہے جو گورنمنٹ افغانستان نے صرف مذہبی اختلاف کی بنا پر کیا ہے.سب سے پہلے مولوی عبدالرحمن صاحب کو امیر عبدالرحمن خان نے احمدیت کی بنا پر گلا گھونٹ کر مروا دیا.پھر صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب کو جو خوست کے ایک بڑے رئیس تھے اور تمہیں ہزار آدمی ان کے مرید تھے اور علم میں ان کا ایسا پا یہ تھا کہ امیر حبیب اللہ خان کی تاجپوشی کے موقع پر انہوں نے ہی اس کے سر پر تاج رکھا تھا.امیر حبیب اللہ خان نے سنگسار کروا دیا اور باوجود اس عزت کے جو اُن کو حاصل تھی ان کو پہلے چار ماہ تک قید رکھا اور زمانہ قید میں طرح طرح کے دکھ دیئے لیکن جب انہوں نے اپنے عقائد کو ترک نہ کیا تو ان پر سنگساری کا فتویٰ دیا اور حکم دیا کہ ان کے ناک میں چھید کر کے اس میں رسی ڈالی جائے اور پھر اس رسی سے گھسیٹ کر ان کو سنگسار کرنے کی جگہ تک لے جایا جائے.مسٹر مارٹن اپنی کتاب انڈر دی ایسولیٹ (Under the absolute) میں ان کی شہادت کا واقعہ لکھتے ہوئے اس امر پر خاص طور سے زور دیتے ہیں کہ ان کے قتل کا اصل سبب احمد یہ جماعت کی وہ تعلیم ہے کہ دین کی خاطر جہاد جائز نہیں ہے.امیر ڈرتا تھا کہ اگر یہ تعلیم پھیلی تو ہمارے ہاتھ سے وہ ہتھیار نکل جائے گا جو ہم ہمیشہ ہمیشہ ہمسایہ قوموں کے خلاف استعمال کیا کرتے ہیں.ایک بے تعلق آدمی کی یہ شہادت ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے آدمی محض مذہب کی خاطر نہیں مارے جاتے بلکہ وہ اس لئے بھی قتل کئے جاتے ہیں کیونکہ وہ اس امر کی تعلیم دیتے ہیں کہ مذہبی
۲۸۹ اختلاف کی وجہ سے ہندوؤں مسیحیوں اور دوسرے مذہب والوں کو مارنا یا ان کے خلاف لڑنا درست نہیں.پس وہ اپنی خاطر جان نہیں دیتے بلکہ تمام بنی نوع انسان کی خاطر جان دیتے ہیں.قتل کو پولیٹیکل رنگ دینے کی کوشش : مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ افغان گورنمنٹ کے بعض سفیر اب یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس قتل کو پولیٹیکل رنگ دیں مگر وہ ان واقعات کو کہاں چھپا سکتے ہیں کہ اس قتل سے پہلے وہ دو ہمارے آدمی محض مذہبی اختلاف کی وجہ سے قتل کر چکے ہیں اور مسٹر مارٹن ایک غیر جانبدار کی شہادت موجود ہے.پھر اس واقعہ کو وہ کہاں چھپا سکتے ہیں کہ کابل کے بازاروں میں اس امر کا اعلان کیا گیا ہے کہ مولوی نعمت اللہ خان کو ارتداد کی وجہ سے سنگسار کیا جائے گا اور آخر میں کابل کے نیم سرکاری اخبار حقیقت کو وہ کہاں لے جائیں گے جس نے مقدمہ کی پوری کا رروائی چھاپ دی ہے اور تسلیم کیا ہے کہ شہید مرحوم کے سنگسار کئے جانے کا باعث اس کا مذہب تھا اور پھر وہ اس تمام خط و کتابت کو کہاں چھپا دیں گے جو کابل گورنمنٹ نے زور دیا ہے کہ ڈاکٹر فضل کریم کو لیکیشن سے واپس کر دیا جائے کیونکہ وہ احمدی ہے.یہ تمام واقعات بتار ہے ہیں کہ افغان گورنمنٹ مذہبی طور پر احمدیوں سے عداوت رکھتی ہے یا ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ اس کو عداوت ہے اور یہ کہ مولوی نعمت اللہ خان کے قتل کی وجہ صرف ان کی احمدیت تھی.افغان گورنمنٹ ہمدردی کی محتاج ہے : شہادت کے حالات کے متعلق میں اور کچھ نہیں کہنا چاہتا مگر میں مضمون کے ختم کرنے سے پہلے یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ باوجود اس لمبے عرصہ کے ظلم کے میں اپنے دل میں افغان گورنمنٹ اور اس کے حکام کے خلاف جذبات نفرت نہیں پاتا.اس کے فعل کو نہایت برا سمجھتا ہوں مگر میں اس سے ہمدردی رکھتا ہوں اور وہ میری ہمدردی کی محتاج ہے.اگر کوئی شخص یا اشخاص اخلاقی طور پر اس حد تک گر جائیں کہ ان کے دل میں رحم اور شفقت کے طبعی جذبات بھی باقی نہ رہیں تو وہ یقیناً ان لوگوں سے جو صرف جسمانی دکھوں میں مبتلا ہیں ہماری ہمدردی کے زیادہ محتاج ہیں.میں نے آج تک کسی سے عداوت نہیں کی اور میں اپنے دل کو اس واقعہ کی وجہ سے خراب کرنا نہیں چاہتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ میرے بچے متبع بھی اسی طریق کو اختیار کریں گے.میں کسی ایسی میٹنگ میں شامل نہیں ہوتا جو ا ظہار غیظ وغضب کی خاطر منعقد کی گئی.
۲۹۰ ہو.میں جانتا ہوں کہ ظلم نہ ظلم سے مٹتے ہیں اور نہ عداوت سے.پس میں نہ ظلم کا مشورہ دوں گا.اور نہ عداوت کے جذبات کو اپنے دل میں جگہ دوں گا.میں صفائی سے کہتا ہوں کہ میری اغراض اس میٹنگ میں شمولیت سے یہ ہیں.اول : اس امر کا اظہار کہ امیر کے اس فعل کو اسلام کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہیے.یہ فعل اسلام کے بالکل بر خلاف ہے.اسلام کامل مذہبی آزادی دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ حق اور باطل ظاہرا مور ہیں پس کسی پر زبر دستی کرنے کی وجہ نہیں.ہر شخص کے لئے تو اس کا اپنا دین ہے.حضرت ابو بکر کے زمانہ میں جو لوگ مرتد ہوئے ان کو کسی نے نہیں قتل کیا.صرف اس وقت تک ان سے جنگ کی گئی جب تک کہ انہوں نے حکومت سے بغاوت جاری رکھی.پس کسی شخص کو حق نہیں کہ وہ اس فعل کو اسلام کی طرف منسوب کرے.ایسے افعال ہر مذہب کے لوگوں سے ہوتے رہتے ہیں.دوم : اس امر کا اظہار کہ ہم لوگ امیر کے اس فعل کو درست نہیں سمجھتے اور اس اظہار کی یہ غرض ہے کہ جب کسی شخص کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کے فعل کو دنیا عام طور پر نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے تو اس کی آئندہ اصلاح ہو جاتی ہے.پس بلا جذبات عداوت کے اظہار کے جن کو میں اپنے دل میں نہیں پاتا ، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کابل گورنمنٹ کا یہ فعل اصول اخلاق و مذہب کے خلاف تھا اور ایسے افعال کو ہم لوگ ناپسندیدہ سمجھتے ہیں.یہ افعال ہمیں اپنے کام سے پیچھے نہیں ہٹا سکتے.نہ پہلے شہیدوں کی موت سے ہم ڈرتے ہیں اور نہ یہ واقعہ ہمارے قدم کو پیچھے ہٹا سکتا ہے.چنانچہ اس دل دہلا دینے والے واقعہ کی اطلاع ملتے ہی مجھے تار کے ذریعہ سے بائیس آدمیوں کی طرف سے درخواست ملی ہے کہ وہ افغانستان کی طرف مولوی نعمت اللہ خان کا کام جاری رکھنے کے لئے فوراً جانے کو تیار رہیں اور ایک درخواست یہاں انگلستان میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بارایٹ لا ایڈیٹر انڈین کیسر نے اسی مضمون کی دی ہے.پس جو غرض ان قتلوں سے ہے وہ ہرگز پوری نہ ہوگی.ہم آٹھ لاکھ آدمیوں میں سے ہر ایک خواہ مرد ہو خواہ عورت خواہ بچہ اس راستہ پر چلنے کے لئے تیار ہے جس پر نعمت اللہ خان شہید نے سفر کیا ہے.اب میں اس امید پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ مذہبی آزادی کے دلدادہ اس موقع پر وہ
۲۹۱ کم سے کم خدمت کر کے جو آزادی کی راہ میں وہ کر سکتے ہیں اپنے فرض سے سبکدوش ہوں گے یعنی اس فعل پر نا پسندیدگی کا اظہار کریں گے.قومیں الگ ہوں ، حکومتیں الگ ہوں مگر ہم سب انسان ہیں ہماری انسانیت کو کوئی نہیں مار سکتا.ہماری ضمیر کی آزادی کو کوئی نہیں چھپا سکتا.پس کیا انسانیت اس وقت ظلم پر اپنی فوقیت کو بالا ثابت کر کے نہیں دکھائے گی ؟ حضرت اقدس اس وقت بازار تشریف لے گئے ہیں.مضمون ختم فرما گئے ہیں.قلم اور بیان میں خدا تعالیٰ نے قوت و طاقت کا بہت اضافہ فرما دیا ہے.خدا تعالیٰ کے فضلوں کی بارش کے آثار نظر آتے ہیں.خدا تعالیٰ ہمیں بھی وہ سب کچھ دکھائے جو کچھ دن بعد ظاہر ہونے والا آمین.ہے مسٹر ایون پورٹ سمتھ سے آئے ہیں.یہ وہ صاحب ہیں جن کو دیکھ کر حضرت اقدس بہت خوش ہیں.شام کا کھانا ساڑھے چھ بجے لگا دیا گیا مگر چونکہ حضرت جلسہ کے مضمون کو پڑھ رہے تھے اس وجہ سے دیر ہوگئی اور ے بجے ٹھیک حضور تشریف لائے.ساڑھے سات بجے کے بعد کھانے سے فارغ ہوئے اور جلدی ہی لوگ جانے کو تیار ہو گئے.میرے واسطے چونکہ ابھی کھانا کھانا اور سامان سمیٹنا بھی تھا میں اس جلدی میں لوگوں کا ساتھ نہ دے سکا اور اس جلسہ میں بھی شامل نہ ہو سکا.ایک بزرگ سے عرض کیا کہ رپورٹ لا دیں.ان کو کاغذ بھی دیئے اور پنسل بھی مگر ان کو جلسہ گاہ کے دروازہ پر ڈیوٹی پر لگا دیا گیا کہ لوگوں کو رسیو کر میں اس طرح وہ بھی نہ لکھ سکے.نماز میں حضور نے جلسہ سے واپس آ کر ادا کیں.جلسہ گاہ میں لوگ ۸ بجے سے بھی پہلے آنے شروع ہو گئے تھے.جیسا کہ چوہدری فتح محمد خان صاحب نے مجھے بتایا کیونکہ وہ دروازہ پر سب سے پہلے انتظام کے لئے گئے تھے جلسہ کی کارروائی ٹھیک سوا آٹھ بجے شروع ہو کر ٹھیک سوا دس بجے ختم ہوئی.گھڑیوں کے اختلاف کی وجہ سے کچھ کمی بیشی ہو تو وہ الگ بات ہے.حاضری کے متعلق - دوستوں میں اختلاف ہے.زیادہ خیال یہ ہے کہ دواڑھائی سو کی تھی مگر مصری صاحب صرف ایک سو بتاتے ہیں.چوہدری فتح محمد خان صاحب جو کہتے ہیں کہ میرا اندازہ حاضری کے متعلق ہمیشہ کم ہی ہوا کرتا ہے اور انہوں نے لنڈن کے اکثر ایسے جلسے دیکھے بھی ہیں.وہ بتاتے ہیں کہ میرے اندازہ میں دو اور اڑھائی سو کے درمیان حاضری تھی.
۲۹۲ لوگ آٹھ بجے سے پہلے آنے شروع ہوئے اور جلسہ کی کارروائی کے شروع ہو جانے پر بھی آتے رہے.مسٹر داس گپتا نے جلسہ کی غرض مفصل بیان کی اور ڈاکٹر والٹر ورش صاحب کو لوگوں سے انٹروڈیوس کرایا جو کہ پریذیڈنٹ جلسہ مقرر ہوئے تھے.لوگوں نے ان کی اس تجویز کی تالیوں منظوری دی اور ڈاکٹر صاحب صدارت کی کرسی پر رونق افروز ہوئے.پریذیڈنٹ نے کھڑے ہو کر ایک مختصر سی تقریر کی اور بتایا کہ ایسا ظالمانہ قتل نہ صرف احمدیت کے خلاف ہے بلکہ یہ فعل انسانیت کے بھی خلاف ہے لہذا اس پر اظہار نفرت کرنا چاہیے.تقریر میں جوش اور زور تھا.اس نے حضرت اقدس کو لوگوں سے انٹروڈیوس کرایا اور بہت اچھے الفاظ میں کرایا اور حضرت اقدس سے عرض کی کہ واقعہ قتل کی تفصیل لوگوں کو سنائیں.حضرت نے وہ مضمون جس کی نقل اوپر درج کر آیا ہوں انگریزی میں خود پڑھا اور کہتے ہیں کہ پہلے دونوں مضامین سے زیادہ اچھا پڑھا گیا تھا اور بہت ہی مؤثر تھا حتی کہ بعض مرد اور عورتیں زار و قطار روتے دیکھے گئے.مضمون نہایت ہی دلچسپی اور اطمینان سے سنا گیا جس کا پبلک پر بہت گہرا اثر بتایا جاتا ہے.اس کے ساتھ ساتھ مضمون کی سادگی - اختصار اور لکھنے میں اطمینان قلب اور طرز تحریر بہت ہی پسند کیا گیا.حضرت کا مضمون پڑھا جانے کے بعد ڈاکٹر ورش اُٹھے اور انہوں نے ایک بہت ہی زور دار تقریر کی جس میں واقعہ قتل کے متعلق اظہار نفرت اور انسانی آزادی کے راستہ میں ایک زبر دست روک بتاتے ہوئے ساتھ ہی سید نا حضرت خلیفہ اسیح کی تقریر کی بہت ہی تعریف کی اور لوگوں کو بتایا کہ ایسے امن پسند لوگ جن کا باوجود یکہ ایک آدمی نہایت بے رحمی اور دردناک طریق سے ابھی ابھی قتل کیا گیا ہے ان کے اپنے قاتلوں کے متعلق ایسے خیالات سن کر بغیر تعریف کئے رہا نہیں جاسکتا.اس واقعہ قتل نے ان کے دلوں میں قاتلوں سے نفرت اور حقارت کے جذبات پیدا نہیں کئے اور یہ ایک بہت ہی بڑی بات ہے.یہ چونکہ ایک جماعت کے امام ہیں اس سے ہم اندازہ اور یقین کر سکتے ہیں کہ ان کی تمام جماعت کے بھی یہی خیالات ہوں گے.اس نے لوگوں کو بتایا کہ جس قسم کے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے وہ بہت ہی قابل رشک ہیں اور پاکیزہ ، اور غصہ سے پاک ہیں.آپ کا
۲۹۳ یہ پروٹسٹ ایک اصول کے ماتحت ہے نہ کہ محض عداوت یا نا راضگی کی وجہ سے.پریذیڈنٹ نے حضرت اقدس کی تقریرہ پر ریمارکس کرتے ہوئے پہلا ریزولیوشن بھی پیش کر دیا.( ریزولیوشنز کی ایک کاپی ساتھ الگ بھیجتا ہوں ) ہاں اور عرض کرنا رہ گیا کہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کے ثبات اور استقلال کی بھی بہت تعریف کی کہ کس طرح اس شخص نے ایمان اور صداقت کے لئے استقلال دکھایا اور حق کے لئے جان تک قربان کر دی.ساتھ ہی اس نے مولوی نعمت اللہ خان کے کام کو جاری رکھنے کی بھی احمد یہ جماعت کو تاکید کی اور انگریز قوم سے خواہش کی کہ اگر موقع ہو تو ان لوگوں کی امدا دضرور کریں اور بتایا کہ انگریزی قوم جو آزادی اور حق کے لئے جان دینا اپنا پیشہ سمجھتے ہیں اس کام میں بھی انسانی ہمدردی اور امداد کرنا اپنا فرض سمجھیں گے.ریز ولیوشن نمبر ایک پیش ہوا.پادری جیفرے صاحب نے اس کی پر زور الفاظ میں تائید کی.اس کے بعد ایک کرنل صاحب نے تائید کی.ووٹ لئے گئے اور ریزولیوشن پاس ہو گیا.پریذیڈنٹ جب ریزولیشن کی روئیداد لکھنے لگا تو خواجہ صاحب کا نونہال نذیر احمد اُٹھا اور کوشش کی کہ جلسہ کو ڈسٹرب کرے مگر خدا تعالیٰ نے ناکام و نامراد رکھا اور ذلت کے ساتھ اس کو ندامت کے گڑھے میں گرنا پڑا.تفصیل یہ ہے کہ نذیر احمد اُٹھا اور کہا کہ بعض لوگ اس کے خلاف بھی ہیں.پریذیڈنٹ نے کہا کہ اب ریزولیوشن پاس ہو چکا ہے آپ پہلے کہاں تھے جب ہم نے مخالفت کرنے والوں کو بولنے کا موقع دیا تھا.نذیر احمد نے کہا کہ آپ نے کوئی موقع نہیں دیا.پریذیڈنٹ نے کہا کہ موقع دیا تھا اچھا حاضرین سے پوچھ لیا جاوے.چنانچہ قریباً سب حاضرین نے ہاتھ کھڑے کر کے پریذیڈنٹ کی تائید کی اور نذیر کو ذلیل ہو کر بیٹھنا پڑا.پھر بے روک ٹوک ریزولیوشنز یکے بعد دیگرے پاس ہو گئے اور سب ہی بالا تفاق پاس ہو گئے.خدا تعالیٰ نے شامت کے ماروں کو یہ بھی توفیق نہ دی کہ امداد نہیں کر سکتے تو مخالفت ہی نہ کریں.خیر مدد کرتے تو خدا جانے کہاں کہاں سناتے اور کتنا احسان جتاتے.مخالفت کر کے بھی دل کی بھڑاس نکال لی ہے اور یہ افسوس بھی دل میں باقی نہ رہا.آخر میں نیر صاحب نے پریذیڈنٹ کا شکریہ ادا کیا اور جلسہ برخاست ہو گیا.جلسہ میں
۲۹۴ بعض اخبارات کے رپورٹر بھی تھے جو جلسہ کی روئیدا دلکھ کر لے گئے.خلیفہ تقی الدین رات کے گیارہ بجے سٹیشن پر پہنچے اور رات کو ہی ان کو حضرت اقدس کے ارشاد سے مکان پر لے آیا گیا.وہ اللہ کے فضل سے بخیریت پہنچے ہیں.( خلیفہ صاحب کے ہیٹ پہن کر کا ر سے نکلنے کا واقعہ جو حضرت اقدس نے خود دیکھ لیا تھا اور بعد کی حالت لکھی نہیں گئی آگے ہے) ۱۸ / ستمبر ۱۹۲۴ء : آج صبح کی نماز میں حضور تشریف نہیں لا سکے.اپنے کمرہ میں ہی نماز ادا کی بلکہ اور بھی اکثر دوست شامل نماز نہیں ہوئے.مسٹر ایون پورٹ سمتھ کے رات اسی جگہ شب باش ہوئے.مولوی محمد دین صاحب کا بھی خیال ہے کہ رات کے جلسہ کی حاضری ایک سونفوس کی تھی.حاضرین سمجھدار طبقہ کے تھے.چوہدری فتح محمد خان صاحب بتاتے ہیں کہ میں نے یہاں کے بہت جلسے دیکھتے ہیں اتنی حاضری میں نے کسی جلسہ میں نہیں دیکھی حتیٰ کہ خلافت کا جلسہ بڑی محنت اور کوشش کا نتیجہ تھا مگر اس میں بھی باوجود بڑا زور لگانے کے اور مسٹر محمد علی صاحب کے آنے کے تمام ہندوستانی لوگوں کو ملا کر بمشکل ۶۰ یا ۷۰ کی حاضری تھی اور صرف چند انگریز مرد اور عور تیں تھیں مگر ہمارے رات کے جلسہ میں سوائے چند ایک حضرت اقدس کے ہمراہیوں اور صرف ۳ یا ۴ ہند وستانیوں کے باقی سارے انگریز مرد اور عور تیں تھیں حتی کہ کہا جا سکتا ہے کہ رات کا جلسہ خالص انگریزوں کا جلسہ تھا.خلیفہ تقی الدین صاحب رات کو گیارہ بجے آئے.حضرت نے ان کو آتے دیکھ کر ( گلی میں ان کو جھانک کر ) ان کے سر پر ہیٹ انگریزی تھی حضور نے دیکھتے ہی انا للہ پڑھی اور اب کہ ۱۲ بجنے والے ہیں اس وقت تک باوجود کوشش کے حضرت نے ان کو حاضری کا موقع نہیں دیا.خط بھی نہیں لیا.دروازہ بھی نہیں کھولا.اللہ تعالیٰ رحم کرے.ساتھی اگر ان کو بتادیتا کہ حضرت اقدس ہیٹ کو نا پسند کرتے ہیں تو بے چارہ اس رنج کا منہ تو نہ دیکھتا.اخبار ڈیلی ٹیلیگراف نے رات کے جلسہ کا خلاصہ شائع کر دیا ہے.رات کو وقت تنگ تھا اس
۲۹۵ وجہ سے شاید دوسرے اخبارات شائع نہیں کر سکے.آج بعض دوست اخبارات والوں کے پاس گئے ہیں کہ کارروائی جلد تر شائع ہو جائے.حضرت اقدس کا رات کا مضمون انگریزی اخبارات کے ایڈیٹروں کے پاس بھیجا گیا ہے تا کہ وہ چاہیں تو صحیح حالات شائع کرسکیں.کوشش کروں گا اگر کوئی کاپی ہمیں مل سکی تو ملنے پر انشاء اللہ تعالیٰ بھیجنے کی کوشش کروں گا.سردست اسی کو بند کر کے روانہ کرتا ہوں تا کہ وقت پر پہنچ سکے.رجسٹرڈ کرانا ہے احتیاطاً ا بھی کراتا ہوں.فقط والسلام دعا گوخادم قادیانی از لنڈن ۱۸ ستمبر ۱۹۲۴ ء گیارہ بجے کے بعد تک پورے ایک سو صفحات کی رپورٹ ارسال خدمت ہے.مضامین اور دوسرے کاغذات الگ ہیں.فقط قا دیانی
۲۹۶ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم از مقام لندن: مورخه ۲۶ ستمبر ۱۹۲۴ء (الف ) مخدومی حضرت مولوی صاحب! السلام عليكم و رحمة الله وبركاته ڈاک تو لنڈن سے کل ہندوستان کو روانہ ہو چکی ہے اور میں نے اس ڈاک سے کئی رجسٹریاں آپ کی خدمت میں روانہ کی ہیں.مفصل حالات بھی بھیجے ہیں مگر حضور کے مضمون کے متعلق دلچسپی کا سلسلہ ایسا وسیع ہو گیا ہے اور خدا کے فضل نے لوگوں کے دلوں پر ایسا تصرف کیا ہے کہ میں اس کی رپورٹ مفصل کیا مجمل بھی عرض نہیں کر سکتا.جہاں حضرت اقدس جاتے ہیں لوگ گر د جمع ہو جاتے ہیں اور تعریف و توصیف کے پل باندھ دیتے ہیں حتی کہ اب بکثرت لوگ ہمارا لٹریچر خرید کر دن رات مطالعہ کرنے لگے ہیں اور پھر حاضر ہوتے ہیں.کل جب کہ حضرت اقدس حافظ صاحب کے لیکچر کے لئے ہال میں تشریف لے گئے لیکچر سے فارغ ہو کر ویلز کا ایک پروفیسر حضور کی خدمت میں نہایت ادب سے بڑھا.مصافحہ کیا مگر حال یہ تھا کہ محبت اور رعب سے اس کے ہاتھ کانپتے تھے اور زبان سے لفظ نہ نکل سکتے تھے.بڑی کوشش اور محنت سے اس نے ہوش سنبھال کر باتیں کیں اور بتایا کہ میں پرسوں آپ کی کتاب ”احمدیت‘ لے گیا تھا رات کو بھی اور دن میں بھی میں نے پڑھی.میں نے اس کو نہایت ہی عجیب ولطیف مضامین کا مجموعہ اور مدلل بیان پر مشتمل پایا.میں نے اس سے قبل اپنی عمر میں ایسا لٹریچر کسی مذہب کے متعلق نہیں دیکھا وغیرہ - دیر تک اخلاص و محبت سے باتیں کرتا رہا اور اپنے ایک ساتھی کو بھی حضرت کے حضور پیش کیا.اس کو حالات سنائے اور گویا ہمارا ایک مبلغ بن کر اس کو تبلیغ کی اور اس سے وعدہ لیا کہ وہ بھی سلسلہ کی کتابیں پڑھے گا.اسی طرح ایک بڑھا سفید ریش معمر پادری شکل حضرت اقدس کے حضور حاضر ہوا.اس کے ہاتھ میں سلسلہ کی تین یا چار کتابیں تھیں جو اس نے اسی ہال میں سے خرید کی تھیں.اس نے بڑی محبت اور ادب سے حضرت اقدس کو جھک جھک کر سلام کیا اور کتابیں حضور کو دکھا ئیں کہ میں نے خرید لی ہیں اور اب ضرور پڑھوں گا.علی ھذا مکرم محترم جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو بھی کئی معروف
۲۹۷ آدمیوں نے ان کے مضمون پڑھنے کی خوبی کی وجہ سے مبارک بادیاں پیش کیں اور ساتھ ہی مضمون کی خوبی اور شوکت و تاثیر کا بھی اعتراف کیا اور اس بات کا صاف اقرار کیا کہ حقیقتا یہی ایک مضمون کانفرنس کی روح رواں اور رونق و کامیابی کا باعث تھا جو اس سے پہلے ہم نے سنا نہ اور کسی سننے والے نے بتایا.الغرض خدا تعالیٰ کے فضل نے ایسی صورتیں پیدا کر دی ہیں کہ حضور کا اس ملک میں آنا نہایت ہی مفید اور بابرکت ہو رہا ہے.خوف تھا اور سچا تھا کہ ابھی اس ملک میں ہمارے سلسلہ کی کوئی عظمت اور خصوصیت قائم نہیں ہوئی حضور کا یہاں تشریف لانا شاید قبل از وقت ہو مگر خدا تعالیٰ نے وہ کچھ دکھایا کہ کم ایسا دکھا سکتا کوئی خواب.مشہور اور بہت آگے نکلے ہوئے لوگ بھی خدا تعالیٰ نے پیچھے ڈال دیئے ہیں - وذلك فضل الله يوتيه من يشاء اور یہ وہی فضل ہے جو ہمارے آقا کے لئے ازل سے مقدر اور حضور کی ذات سے وابستہ و پیوستہ تھا.اخبارات بھی لکھ رہے ہیں اور بہت تعریفی کلمات استعمال کرتے ہیں.ان متعصب عیسائی اخبارات کے قلم سے اسلام کی تعریف میں کوئی ایک کلمہ بھی نکل جانا بہت بڑی بات ہے جس کے معنے ہیں کہ انہوں نے اپنے خیال اور اپنے مذہب کے خلاف کسی دوسرے مذہب کی تعریف یقیناً صداقت باہرہ سے مجبور ہو کر اور اس کے آگے گردن ڈال کر ہی لکھی ہے ورنہ کون اپنے مذہب کے مقابل میں کسی دوسرے کی تعریف و بڑائی بیان کر سکتا ہے-والفضل ما شهدت به الاعداء- مانچسٹر گارڈین نے لکھا ہے کہ کانفرنس میں پڑھے جانے والے مضامین میں سے سب سے بلند پایہ اور زیادہ پسندیدہ مضمون اسلام پر جماعت احمدیہ کے امام کا مضمون تھا جس کی قبولیت اور بہت تعریف ہوئی.کٹنگ بھیجتا ہوں.اس کے علاوہ مسٹر ڈبلیو لافٹس ہیر نے کانفرنس مذاہب پر اپنے تاثرات کے سلسلہ میں جو لکھا وہ ملاحظہ فرمائیں.بر خلاف ان باتوں کے امام جماعت احمدیہ نے سب سے پہلے ہماری دعوت کو منظور فرمایا اور ان کی منظوری نے ہمارے انتظامات کو کامیاب بنانے میں بہت مدددی.اب میں اپنے مضمون کے اس حصہ کی طرف آتا ہوں جو پڑھنے
۲۹۸ والوں کے لئے بھی ایسا ہی دلچسپ ہوگا جیسا کہ لکھنے والے کے لئے ہے.شخصیت کی قدرو قیمت کیا بلحاظ خاص و عام میں ہر دلعزیزی حاصل ہونے اور کیا بلحاظ اس کے باریک در بار یک اثرات کے اس وقت سے ظہور پذیر ہونی شروع ہوگئی جب کانفرنس مذاہب کے افتتاح سے کچھ ہفتے قبل وکٹوریہ اسٹیشن پر جماعت احمدیہ کا وفد اُترا.ایک درجن خوبصورت ہندوستانیوں کے سبز عماموں نے دفعہ ہر کس و ناکس کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کر لیا حتی کہ پریس کے نمائندگان جوق در جوق اس منظر کو دیکھنے کے لئے آ جمع ہوئے.اس ( وفد ) کے صدر حضرت خلیفہ اسیح الحاج مرزا بشیر الدین محمود احمد تھے جو سفید عمامہ زیب سر کئے ہوئے تھے اور جنہوں نے بہت جلد ہمیں اپنا گرویدہ بنا لیا.پریس اور پبلک کو فوراً آپ کے آنے کا مقصد معلوم ہو گیا اور ہماری کانفرنس نے آپ کی ذات میں ایک بیش قیمت معاون پایا.ہمارے ان مشرقی برادران کی ممتاز جماعت کا ( کانفرنس ہال میں ) روزانہ داخلہ اور متانت و سنجیدگی سے تمام لیکچروں کو سننا نیز ان کا اپنے انگریز رفقاء سے برادرانہ رابط و اتحاد ایک نہایت ہی خوش کن منظر تھا.ان سبز عمامہ پوشوں میں سے ہر ایک نے گرانڈیل مسٹر ذوالفقار علی خاں سے لے کر صغیر الجسم مسٹر نیر جو قبل از میں لنڈن مسجد کے امام تھے تک نے اپنے دوستوں کا ایک ایک حلقہ بنا لیا.ان سب نے ہمارے ساتھ نہایت ہی شرافت اور ملاطفت کا سلوک کیا اور ہم نے بھی ان سے ایسا ہی سلوک کرنے کی کوشش کی.اگر چہ حضرت خلیفتہ امسیح کو انگریزی میں تقریر کرنے کی زیادہ مشق نہیں مگر آپ کی گفتگو نہایت ہی موزون اور دلر ہاتھی اور خاص کر آخری روز صدر جلسہ کی درخواست پر جب آپ نے اپنی مادری زبان میں آزادی کے ساتھ تقریر کی تو ہم نے ایک برقی اور روحانی شخصیت کے اثرات کا مشاہدہ کیا.آپ کی چمکتی ہوئی آنکھیں ، آپ کی مردانہ آواز ، آپ کے منفی الفاظ کی رو،
۲۹۹ آپ کے خوبصورت حرکات اور اشارات اور آپ کی درخشاں خوش طبعی نے سامعین کو ایسا مفتون اور گرویدہ بنا لیا کہ انہوں نے تحسین و آفرین کی ز بر دست داد دے کر اپنی محبت کا جو ان کو آپ (حضرت اقدس ) کے ساتھ اور آپ کے مذہب اور آپ کی قوم کے ساتھ پیدا ہوگئی اظہار کیا اور ثابت ہو گیا کہ کس طرح بدوں انسانی تدابیر لوگ ایک دوسرے کی طرف ایسے روابط کے ساتھ کھینچے جاتے ہیں جو بآسانی کبھی شکستہ نہیں ہو سکتے.“ سرتھیوڈور ماریسن آف ڈرہم یونیورسٹی نے جماعت احمدیہ کا پرچہ پڑھا جانے کے وقت کرسی صدارت کو قبول کرتے ہوئے یوں فرمایا : - اسلامی دنیا آغاز سے ہی بہت سے فرقوں میں منقسم ہو چکی ہے اور اب جب کہ خیالات جدید اور نئے علوم کی لہر اسلامی ممالک میں پہنچ چکی ہے یہ جاننا تعجب خیز نہیں کہ نئے فرقہ جات میں زیادتی ہوگئی ہے.ان نئے علوم اور فرقہ جات کی موجودگی میں لوگوں نے اپنے اپنے مذاہب کو نئے علوم کے مطابق بنانے کی کوشش کی ہے اور اس واسطے وہ اپنی مذہبی کتابوں کے دوبارہ کامل طور پر پڑھنے کے لئے مجبور ہوئے ہیں.اس کے نتیجہ میں انہوں نے اپنی کتابوں کے بعض مقامات پر زور دینے کی ضروت محسوس کی ہے اور بعض ایسے مقامات جن کو پہلے بہت اہمیت دی جاتی تھی اب کم زور دینا شروع کر دیا ہے.بعض اوقات یہ تبدیلی رائے چپ چاپ واقع ہو جاتی ہے مگر اس واقعہ میں ( یعنی تحریک احمدیہ ) اسلام کے بین اور صریح اقوال کو دوبارہ قائم اور طاقت دینے کی صورت اختیار کی گئی ہے.میری عمر میں ان اہم فرقوں میں سے سب سے زیادہ ضروری تحریک وہ ہے جو قادیان پنجاب سے رونما ہوئی ہے.ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ اصیح اس وقت ہمارے درمیان موجود ہیں جو اس جماعت کے متعلق جس کے آپ امام ہیں آج کچھ بیان فرمائیں گے.میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ چند الفاظ حاضرین کے لئے بیان فرما دیں.
۳۰۰ بعد ہا آپ کا پرچہ جو کہ آپ نے لکھا ہے مسٹر ظفر اللہ خان بی.اے.ایل.ایل - بی بیرسٹرایٹ لاء پڑھ کرسنائیں گے.“ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے حسب ذیل چند الفاظ فرمائے.بہنو اور بھائیو! سب سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں اس وقت ممبران کا نفرنس کے سامنے بعض خیالات پیش کروں گا تا کہ آپ لوگ ان اہم مسائل پر پوری طرح غور و خوض کر کے اپنے لئے یہ فیصلہ کر سکیں کہ کونسا مذ ہب قبول کریں گے.“ حضرت خلیفہ المسیح نے اپنے پرچہ میں جماعت کی ابتدائی تاریخ اور اس کی تمہیں سالہ ترقی مختلف ممالک ہندوستان، انگلستان، امریکہ، نائیجیریا، گولڈ کوسٹ ، مصر، ماریشس ، سیلون، ہانگ کانگ، آسٹریلیا، ٹرینیڈاڈ ، فلپائنز اور میسوپوٹامیہ وغیرہ میں باوجود اس سخت مخالفت اور ظلم و تعدی کے ہوتی گئی جس کی تازہ مثال مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی کابل میں سنگساری ہے بیان فرمائی.علاوہ ازیں اس پر چہ نے اسلام کے متعلق بہت سی بدظنیوں کو دور کر دیا اور اس بات پر خاص زور دیا گیا کہ زندہ مذہب وہی ہے جو زندہ خدا کو پیش کرے.صرف مسلمان ہی اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ وہ اپنی اس زندگی میں حاملِ کلامِ خدا ہو سکتے ہیں اور اس کو عملی طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کے بانی سے اس طرح کلام کیا جس طرح وہ گذشتہ تمام انبیاء سے کرتا رہا.پر چہ کو سامعین کے سامنے ختم اس اپیل پر کیا گیا کہ وہ اس شخص کے دعویٰ پر ادب اور سنجیدگی کے ساتھ غور کریں جو کہ تمام گذشتہ معلمین اور مسجد ڈین کی قوت اور روح کے ساتھ آیا ہے.جس وقت یہ پرچہ پڑھا گیا ہال کی تمام جگہیں کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں اور سامعین نے اُسے پوری توجہ سے سنا.صدر سر تھیوڈور مارلین نے آپ کو آپ کے پرچہ کی کامیابی پر مبارک باد دی اور اس اثنا میں سامعین کی طرف سے تعریف اور تحسین کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی.میں آج اس کوشش میں ہوں کہ یہ عریضہ ہوائی ڈاک سے پوسٹ کر دوں تا خدا تعالیٰ چاہے تو مارسلز سے کل کی ڈاک کو پکڑ کر اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان پہنچ سکے.خدا تعالیٰ کرے ایسا
ہو ، تا ایک ہفتہ بعد کی خبر میں آپ کو ایک ہفتہ پہلے پہنچ جائیں.خرچ کا خیال ہے ورنہ دل چاہتا ہے کہ ان خبروں کو بذریعہ تار بلکہ بذریعہ وائرلیس بھیجا کروں تا دارالامان کے بزرگ، دوست اور عزیز بھی ممکن جلدی ان خوشیوں میں شریک ہوتے رہیں.حضرت اقدس جیسا کہ میں نے لکھا تھا کل ایک نائیجیرین لیڈی کے ہاں چائے پر تشریف لے گئے جہاں چند اور نائیجیرین مرد، عورتیں بھی جمع تھے.دو چار انگریز مرد عورتیں بھی شریک دعوت تھے.یہ سب لوگ عیسائی تھے.بہت ہی محبت اخلاص اور اکرام سے پیش آئے اور حتی المقدور نہایت کوشش سے حضور کی ہر ممکن خدمت کی.چائے کے بعد ایک فوٹو حضور کا لیا گیا اور پھر ایک ایڈریس حضرت کی خدمت میں پیش کیا گیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ نے بہت ہی عزت افزائی فرمائی اور ہم کو نوازا ہے کہ ہمارے غریب خانہ میں دعوت چائے پر تشریف لائے.اس کے لئے ہم لوگ دل سے شکر یہ ادا کرتے ہیں اور کہ ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ کو جب کبھی خدا موقع دے نائیجیر یا ضرور تشریف لائیں وہاں آپ کی ترقی جماعت کے لئے ہم لوگ دل سے خواہاں ہیں وغیرہ.حضور نے اس کا جواب دیا اور فرمایا کہ میں آپ لوگوں کی محبت اور اخلاص کی قدر کرتا ہوں اور اس مہمان نوازی کے لئے شکریہ ادا کرتا ہوں.یہاں آکر میرے معلومات میں اضافہ ہوا ہے اور کہ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا میں کبھی مس پیز ( جیسا کہ گھر والی نائیجیرین عورت کا نام ہے ) پر کوئی احسان کرتا رہا ہوں.نائیجیریا میں ہماری جماعت قائم ہے.مبلغ موجود ہیں آپ لوگ ان سے مل کر ہمارے ساتھ محبت کا ثبوت دے سکتے ہیں.ہمارا جانا تو سردست نہیں ہوسکتا مگر اس بات کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ہمیں آپ کی قوم سے خاص محبت ہے بلکہ ہماری بہت سی اُمید میں آپ کی قوم سے وابستہ ہیں.آپ لوگوں نے جس قدر محبت و اخلاص کا اظہار کیا ہے اور تعلق کا شوق ظاہر کیا ہے اور اس بات کا اشتیاق بتایا ہے کہ ہماری جماعت نائیجیریا میں ترقی کرے اس کے لئے ہم آپ کے تہ دل سے مشکور ہیں اور اُمید رکھتے ہیں کہ آپ لوگ جب وہاں جائیں گے تو ہمارے دوستوں اور مبلغوں سے مل کر ہمارے سلسلہ کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور پھر ان پر غور کریں گے.
٣٠٢ - حضور وہاں سے فارغ ہو کر لیکچر ہال میں تشریف لائے جہاں مضمون شروع ہو چکا تھا اور حافظ صاحب ابتدائے مضمون میں تبر کا قرآن شریف کی تلاوت کر رہے تھے.ہم لوگ جب سیٹرھیوں سے چڑھے فرش پتھر وغیرہ کا پختہ تھا چلنے سے کچھ آہٹ ہوئی تو دروازہ پر جو کہ لیکچر گاہ سے کم از کم پچاس فٹ کے فاصلہ پر تھا ایک دو عورتیں اور مرد حضور کی خدمت میں سمنت التجا کر نے لگے اور اشاروں سے بتانے لگے کہ قرآن شریف پڑھا جا رہا ہے ذرا ٹھہر جائیں تا کہ آہٹ سے پریشانی نہ ہو.گویا وہ لوگ قرآن شریف کے خوش الحانی سے پڑھے جانے پر ایسے مست اور بے خود تھے کہ خوشامدانہ رنگ پایا جاتا تھا.منتیں کرتے تھے کہ خدا کے واسطے آہٹ کر کے ڈسٹرب نہ کریں.ہم لوگ دو چار قدم آہستہ چلنے کے بعد قالین پر آگئے اور اس طرح آہٹ پاؤں کی بند ہوگئی.حافظ صاحب کا قرآن شریف پڑھنا نہایت ہی موثر تھا.خاتمہ پر لوگ بے ساختہ خوشی سے تالیاں پیٹنے لگ گئے اور بہت ہی چیئر ز دیئے جو ان لوگوں کی انتہائی خوشی کے اظہار کا بہترین طریق سمجھا جاتا ہے.تلاوت کے بعد حافظ صاحب نے تین شعر حضرت مسیح موعود کی نظم کے ” محبت تو دوائے ہزار بیماری ست والے انتہائی سوز سے پڑھے اور ان پر بھی چیئر ز دیئے گئے.حافظ صاحب کا مضمون تصوف جناب مولوی محمد دین صاحب بی.اے نے پڑھا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے خوب پڑھا.لوگوں نے اس کی بھی داد دی اور بار بار دی.مضمون لمبا تھا وقت تھوڑا.چیئر مین نے دو تین نہیں بلکہ چار پانچ مرتبہ وقت ختم ہونے کی اطلاع دی مگر مولوی صاحب چاہتے تھے کہ کسی طرح سے اس کو ختم کر کے ہی چھوڑیں جو نہ ہو سکا.حاضری خاصی تھی اور مضمون بھی دلچسپی سے سنا گیا.آخر مولوی صاحب کو اپنے دوستوں نے روکا.مضمون کے خاتمہ پر بہت چیئر ز دیئے گئے.لوگوں نے کہا کہ ویری انٹریسٹنگ بٹ ویری لونگ (Very interesting but very long) مبارک بادیں دی گئیں.خوشی کا اظہار کیا گیا.تعریفیں کی گئیں اور بعض لوگوں نے اس مضمون کو مکان پر آکر پورا پڑھنے کی درخواست کی.پریذیڈنٹ نے بہت اچھے ریمارکس کئے اور حافظ صاحب کو مبارک باد دی کہ ایسا اچھا مضمون ہمیں سنایا اور دلچسپ معلومات ہمارے واسطے جمع کئے ہیں.پریذیڈنٹ کا نفرنس مذاہب نے انٹروڈیوس کراتے وقت ابتدا ہی میں بتا دیا تھا کہ حافظ صاحب پیدائشی صوفی ہیں اور ۲۰ سال سے احمد یہ سلسلہ کی خوبیوں کو معلوم کر کے احمدی ہو گئے ہیں.وطن رنمل گجرات پنجاب ہے مگر اب
٣٠٣ قادیان میں رہتے ہیں اور بہت بڑے صوفی ہیں اور صوفی ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں وغیرہ.مولوی محمد دین صاحب کے متعلق بھی بتا دیا گیا تھا کہ احمد یہ جماعت کے ممبر ہیں.امریکہ میں احمدیہ مشن کے انچارج رہے ہیں چنانچہ آپ کو ڈاکٹر محمد دین کر کے پکارا جاتا تھا.خاتمہ پر لوگوں نے مولوی صاحب کے لہجہ کی بھی تعریف کی اور حضرت اقدس سے عرض کیا کہ بہت اچھی انگریزی بولتے ہیں شاید بہت عرصہ سے انگلستان میں ہیں.حضرت اقدس نے بتایا کہ وہ ہماری طرف سے امریکہ میں مبلغ مقرر ہیں.حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ مولوی صاحب نے غلطی کی کہ مضمون کو زبر دستی لمبا کرتے چلے گئے.اگر پانچ منٹ بھی پہلے بند کر دیتے تو موجودہ اثر سے دس گنا اچھا اثر رہتا.لوگوں کے دل مضمون کی خوبی کے قائل تھے مگر دیر کی وجہ سے چھوڑ چھوڑ کر کثرت سے چلے گئے گوا کثر لوگ موجود رہے مگر انہوں نے بھی دلچسپ کے ساتھ لمبے ہونے کی شکایت ہی کر دی.الغرض خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ لیکچر بھی ہمارا نہایت کامیاب لیکچر ثابت ہوا.رپورٹر نے تاریں دے دیں اور اخبارات نے بھی لکھا ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ دوسری ڈاک سے روانہ کرنے کی کوشش کروں گا.ایک صاحب ہسٹری کے پروفیسر لکھنؤ کے رہنے والے مجھے کل ملے اور مجھ سے حالات پوچھتے رہے.ان کو سلسلہ سے بہت دلچسپی تھی.مجھ سے انہوں نے کہا کہ میں نے سب لیکچر سنے ہیں مگر ان میں سے بلا ریب سب سے اچھا اور اعلی لیکچر آپ لوگوں ہی کا تھا یعنی حضرت اقدس کا مضمون کیونکہ یہ باتیں حافظ صاحب کے لیکچر سے پہلے کی ہیں.پھر مجھ سے پتا لے کر اتوار کے دن مکان پر آ کر ملنے اور معلومات حاص کرنے کا وعدہ کیا.آج بھی سامعین میں موجود تھے چنانچہ پھر مجھ سے ملے اور حافظ صاحب کے لیکچر کے بعد درخواست کی کہ کیا اگر میں مکان پر آؤں تو یہ لیکچر مجھے پورا پڑھنے کو مل سکے گا ؟ میں نے اُمید دلائی اور ہاں میں جواب دیا.حضرت اقدس کے مضمون کے ۴ صفحات اور بھیجتا ہوں.دو میرے بھیجے ہوئے مضمون کے ساتھ لگوالیں اور دو حضرت میاں صاحب کے مضمون کے ساتھ لگوا دیں.باقی صفحات انشاء اللہ تعالیٰ دوسری ڈاک سے ارسال کروں گا.تصوف کا مضمون بھی اس ڈاک سے اسی لفافہ میں ارسال خدمت کرتا ہوں ملاحظہ
۳۰۴ فرمائیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے نہایت ہی کامیاب رہا.والله الحمد- سید نا حضرت اقدس آج صبح کی نماز میں تشریف نہیں لا سکے.آج شام کو ایک سیاسی لیکچر ہونے والا ہے وہ لکھ رہے ہیں.ترجمہ ساتھ کا ساتھ ہوتا جا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ٹائپ بھی.آج جمعہ کی نماز اس مضمون کی وجہ سے مکان ہی پر ہوگی.ایک بے لیکچر ہال میں ایک فوٹولیا جاوے گا.بدھ مذہب والے لیکچروں کے دن بھی حضور کا ایک فوٹو لیا گیا تھا جس میں گو بہت بڑا مجمع ہے مگر فوٹو بہت صاف ہے.اس میں ملک کی رسم اور رواج کے مطابق بعض عورتیں حضرت کے قدموں میں بیٹھی ہیں.پہلے ایک چلبلی سی عورت اچانک بے خبری میں حضرت اقدس کے قدموں میں آن بیٹھی تھی اس کو تو خدا تعالیٰ نے وہاں سے اُٹھوا دیا.اب جو بیٹھی ہے وہ سنجیدہ لڑکی ہے اور کچھ ہٹ کر بیٹھی ہے مگر فوٹو میں بالکل ساتھ معلوم ہوتی ہے.حضرت اقدس قریب تھا کہ فوٹو چھوڑ کر اُٹھ جائیں مگر فوٹو لینے والے نے جلدی کی اور لے ہی لیا.میں ساتھ تھا نہ ہی چوہدری علی محمد صاحب ورنہ اس جگہ ان عورتوں کو نہ بیٹھنے دیتے بلکہ اس جگہ کو خو د روک لیتے.ساتھی جو حضور کے ساتھ تھے اُن کو جرات نہ ہوئی کہ اس عورت کو قدموں میں سے اُٹھا دیں.بہر حال وہ فوٹو لے لیا گیا ہے.عریضہ ھذا کو دعاؤں کی درخواست کے ساتھ بند کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو بھی کل کی ڈاک کے ساتھ ہی قادیان پہنچا دے آمین.میری اس رپورٹ کو بھی پہلی رپورٹ کے ساتھ شامل کر دیا جاوے اور دوسری چیزوں کو بھی.کل کی تفصیل کے ساتھ اگر ممکن ہو تو اس رپورٹ کا خلاصہ بھی شائع فرما دیا جاوے تاکیداً عرض ہے.خادم عبدالرحمن قادیانی ۲۶ ستمبر ۱۹۲۴ء
۳۰۵ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم از مقام لنڈن : مورخه ۲۶ ستمبر ۱۹۲۴ء (ب) السلام عليكم ورحمة الله وبركاته کل کی ڈاک سے گزشتہ ہفتہ کی مفصل رپورٹ ارسال کر چکا ہوں.پچھلے پہر کی کارروائی اور حافظ صاحب کے لیکچر کی رپورٹ آج صبح ہوائی ڈاک کے ذریعہ سے بھیجنے کی کوشش کی مگر پوسٹ آفس سے واپس آگئی کہ ہوائی جہاز کا کوئی کنکشن مارسلیز کے ساتھ نہیں ہے فرانس کے ساتھ ہے مگر وہاں سے ہندوستانی ڈاک راتوں رات نکل گئی تھی.وہ کارروائی بھی اب اس رپورٹ کے ساتھ آئندہ ہفتہ کی ڈاک سے جاسکے گی.اس لفافہ پر میں نے نمبر (۱) لگا دیا ہے.اس کو ترتیب میں پہلے رکھا جاوے اور اس رپورٹ کو اس کے بعد.آج صبح سے حضور مضمون لکھتے رہے.کھانا جلدی تناول فرما کر لیکچر ہال میں تشریف لے گئے جہاں کسی اخبار کے رپورٹر نے حضور کا مع خدام فوٹو لیا جو وہ حضور کی تقریر کے ذکر کے ساتھ اپنے اخبار میں شائع کرنا چاہتا ہے.( حافظ روشن علی صاحب کا بھی ایک فوٹو الگ لیا گیا ) وہاں سے فارغ ہو کر حضور مکان پر واپس تشریف لائے اور نماز جمعہ پڑھائی.خطبہ کا خلاصہ میں نے بھی لکھنے کی کوشش کی ہے-وهو هذا- فرمایا ہمارے سفر کی جو اصل غرض تھی وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک حد تک پوری ہونی شروع ہوگئی ہے اور جو ضمنی غرض تھی وہ بھی اس کے احسان سے کامیابی کے ساتھ پوری ہو چکی ہے.مجھے اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت بعض رؤیا اور الہامات کے ذریعہ سے خبر دی تھی کہ یورپ میں ترقی ( دین حق ) میرے یہاں آنے کے ساتھ وابستہ ہے.مثلاً میرا وہ رؤیا جس میں ولیم دی کونکر ر کا الہام ہے اور اس کے سوا اور بھی بعض اسی قسم کے مبشرات ہیں جو صراحت سے میرے خیال کی تائید کرتے ہیں مگر بائیں میں نے اس سفر کے اختیار کرنے میں بہت احتیاط کی.دعاؤں اور مشوروں اور استخاروں کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے انشراح بخشا تب قدم اٹھایا اور مناسب
۳۰۶ ساتھیوں کا انتخاب کیا گیا.پس میں اس پر یقین رکھتا ہوں کہ میرا یورپ میں آنا ( دینِ حق ) کے لئے فتوحات اور ترقی کا اسی طرح سے پیش خیمہ ہے جس طرح سے حضرت مسیح موعود کے لئے جلسہ مہوتسو یعنی جلسہ اعظم مذاہب تھا جس کے لئے حضور نے اسلامی اصول کی فلاسفی لکھی تھی اور مذاہب عالم کے دنگل میں گویا وہ فتح نمایاں کا آغا ز تھا.حضرت اقدس کے اس مضمون کا فوری اثر بھی گو بہت ہوا تھا اور لوگوں میں اس کا چرچا ہو گیا تھا مگر بعد میں جو نتائج اس کتاب کے ظاہر ہوئے اور جو برکات اس کے ہم اب محسوس کر رہے ہیں وہ اس وقت ایسے نمایاں نہ ہوئے تھے.گو اس وقت بھی یہ اثر ضرور ہوا تھا کہ اسلام بھی دوسرے مذاہب کے مقابل میں آنے کی طاقت رکھتا ہے جو بد قسمتی سے اس وقت کے مسلمانوں کی رڈی حالت اور گرے ہوئے خیالات کی وجہ سے مایوسی کی حد تک پہنچ کر دوسرے مذاہب کی نظروں میں ذلیل اور حقیر ہو چکا تھا اور اب نہ صرف یہ کہ وہ اپنا بچاؤ کرتا ہے بلکہ دوسروں پر حملہ کرتا اور کامیاب حملہ کر کے فتح پاتا ہے.گو یہ فوری اثر تو پیدا ہو گیا تھا مگر جو نتائج اس مضمون کے آج ہم دیکھ رہے ہیں وہ اس وقت ابھی دنیا کی آنکھوں سے اوجھل تھے اور ایک بیج کی طرح سے زمین میں دبے ہوئے اور پوشیدہ تھے.بعینہ اسی طرح سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ماتحت میری یہ آمد اور اس کے برکات ( دین ) کے لئے انشاء اللہ تعالیٰ بتدریج مفید ہونگے.جس طرح حضرت اقدس کے اس مضمون نے مسلمانوں کے دلوں میں یہ یقین پیدا کر دیا تھا کہ ہم ( دین حق ) کے بچے اصولوں کو لے کر دنیا کے تمام مذاہب کے مقابلہ میں فتح پاسکتے ہیں اسی طرح سے ہمارے ان مضامین کا بھی انشاء اللہ تعالیٰ اثر ہوگا اور یورپین لوگ جب ان پر غور کریں گے تو ضرور ان صداقتوں اور حقیقتوں کے سامنے آخر سر جھکا دیں گے اور ایسا یقین جب کسی ایک مسلمان کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے تو گویا وہ ایک نبی کے مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے اگر دس کے دل میں پیدا ہو گیا تو گویا دس نبی دنیا میں آگئے اور اگر سو کے دل میں وہی یقین اور وثوق پیدا ہو گیا تو اس کے معنے ہوں گے کہ خدمت ( دین ) کے لئے گویا دنیا میں ایک سو نبی آ گیا.انبیاء کا کیا کام ہوتا ہے یہی کہ وہ ایک یقین اور وثوق کے ساتھ دنیا میں آتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ آخر کا ر دنیا
۳۰۷ میں حق کو غالب کر کے جائیں گے.پس ایسے مومن جن کے دل میں ( دینِ حق ) کی صداقت اس طرح سے گڑ جائے اور گھر کر جائے کہ ان کو اس پر یقین ہو اور ساتھ ہی یہ بھی وثوق ہو کہ ہم ( دین حق ) کو دنیا پر غالب کر کے رہیں گے تو وہ گویا انبیاء کے قائمقام اور ظل ہوتے ہیں کیونکہ ان کا کام انبیاء کا کام ہوتا ہے اور انہی کا سا اخلاص ، جوش اور عزم لے کر وہ کھڑے ہوتے ہیں.دیکھئے ہماری آمد کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ایسے غیر معمولی سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ جماعت جس کو یہاں کوئی جانتا بھی نہ تھا سوائے معدودے چند واقف کاروں کے ، اس کو اب کتنی شہرت اور عظمت حاصل ہوگئی ہے کہ غیر لوگ بھی کہنے لگے ہیں کہ آجکل جہاں جائیں احمدیت ہی احمدیت کا ذکر ہوتا ہے.جہاں دیکھو اور پڑھو گفتگو کا یہی ٹاپک (Topic) اور مجالس میں اسی کا چرچا ہوتا ہے حتی کہ لوگ اس کا نفرنس کو بھی احمدیہ کا نفرنس کہنے لگے ہیں.مولوی نعمت اللہ خان کی شہادت کا واقعہ بھی اس شہرت کا بڑا ذریعہ ہوا ہے مگر ہمارا آنا اور مولوی نعمت اللہ خان کا شہید ہونا ان دونوں واقعات کو جمع کس نے کیا ؟ ان باتوں میں غور کرنے والے اور فکر کرنے والے خدائی مشیت اور الہی ارادہ کو سمجھ سکتے ہیں اور عرفان کا مقام ان کے قریب ہو سکتا ہے.اگر ہم آئے ہوتے اور یہ واقعہ نہ ہوتا اور اگر ہم نہ آئے ہوتے اور یہ واقعہ ہو جاتا ، پس یہ بھی تو خدا ہی کا کام ہے کہ اس نے ایسے سامان جمع کر دئیے ہیں جن سے ہمارے سلسلہ کی شہرت ہو گئی.یہ تو سونے پر سہاگے والا کام ہو گیا ہے.آخر اس سے پہلے بھی تو دوشہادتیں ہیں جو بعض حالات میں اس سے بہت زیادہ اہم تھیں مگر ان سے ہماری ترقی یا شہرت پر کیا اثر ہوا تھا ؟ الغرض ہمارے اس سفر کے اغراض میں سے ایک حصہ جو ظاہر کے ساتھ تعلق رکھتا تھا خدا کے فضل سے پورا ہو چکا ہے.باقی کے پورا ہونے کی بھی ہمیں پوری امید اور پختہ یقین ہے اور کہ خدا کی پوشیدہ تقدیر ضر و ر اب ظاہر ہو کر رہے گی مگر ان خواب اور رویا میں جو ہمارے اس سفر کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں میں نے بعض رنج وہ امور بھی دیکھے تھے جو غم اور ہم پر دلالت کرتے تھے.چنانچہ میں نے اپنے اشتہار میں صاف طور پر لکھا تھا کہ بعض امور ا یسے بھی ہیں کہ آپ لوگ ان کو نہیں جانتے اور اگر جان لیں تو بہتوں کے دل مجھ پر رحم کھا ئیں اور ہمدردی سے بھر جائیں.چنانچہ ان میں سے بھی بعض واقعات کئی رنگ میں پورے ہوئے ہیں.مثلاً ان دوماہ میں
(۱) پندرہ ہیں وفاتوں کی خبریں آگئی ہیں.(۲) مولوی نعمت اللہ خان کی شہادت کا واقعہ ہے.(۳) بھیرہ کا بلوہ اور اس میں چالیس احمدیوں کا گرفتار ہو جانا ہے.(۴) قادیان میں وباء ہیضہ کا پھوٹ پڑنا.( ۵ ) اور بلوہ کے مقدمہ کی صورت میں جس کا ہماری موجودگی میں وہم تک بھی باقی نہ رہا تھا ہمارے بعض معزز دوستوں کو بھی ملوث کرنا وغیرہ امور ہیں.ان کے علاوہ ابھی پرسوں ہی (۶) حضرت میر صاحب کی وفات کی خبر آ گئی ہے جو ہمارے نانا تھے.یہ اور ایسے بعض اور واقعات انسان اگر گھر میں ہو اور وطن میں ہوتے ہوئے بعض مشکلات پیش آویں تو ان کا رنگ اور ہوتا ہے مگر سفر میں اس کے بالکل بر عکس ہوتا ہے.ہم غم اور تکالیف چاہتے ہیں کہ انسان کچھ آرام کرے مگر کام چاہتا ہے کہ اس کا حق ادا کر کے اسے پورا کیا جائے.اب تک جس قدر بھی رنج و غم کی خبر میں آئی ہیں انتہائی مشغولیت اور گہری مصروفیت میں آئی ہیں.میر صاحب کی وفات کی خبر آئی تو میں مضمون لکھ رہا تھا.جسم چاہتا تھا کہ آرام کروں مگر فرض کہتا تھا کہ کام کروں.میں نے دیکھا کہ ایک ایک منٹ کے بعد قلم رکھتا تھا.غرض سفر میں ایسی خبریں اور بھی زیادہ تکلیف کا باعث ہوتی ہیں لیکن بعض باتیں اور بھی ہیں جن کی طرف ان خوابوں میں اشارہ تھا.میں نے ان کو ظاہر نہ کیا اور نہ اب ظاہر کرتا ہوں کیونکہ اولیاء اللہ کا طریق یہی ہے کہ منذر خوابوں کا حتی الامکان بیان نہ کیا کرتے تھے.ہمارے حضرت اقدس کا بھی یہی طریق تھا.پس میں نے اسی طریق کوملحوظ رکھتے ہوئے ان کو ظاہر نہ کیا.ان دوماہ کی غیر حاضری میں جو واقعات پیش آئے ہیں بعض حالات کی وجہ سے بہت ہی اہم ہیں بعض مخلص مثلا شیخ فضل کریم صاحب حیدر آبادی جن کی ذات سے سلسلہ کو بڑی بھاری مدد ملا کرتی تھی بعض عزیز اور بعض بزرگ گزر گئے ہیں اور ہیضہ یا مقدمه بلوه قادیان یا مقدمه بلوہ بھیرہ ایسے ہیں کہ جن میں ہماری عدم موجودگی لوگوں کے لئے اور بھی گھبراہٹ کا موجب ہوئی.مشکلات کے وقت اگر اپنے محبوب اور پیارے پاس ہوں تو گونہ تسلی بھی ہوتی ہے مگر اگر وہ پاس نہ ہوں تو گھبراہٹ بہت بڑھ جاتی ہے.یہی حال ان دنوں قادیان میں اور بھیرہ میں ہوا ہے.ہمیں دو قسم کے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے.ایک وہ جو کام چاہتے ہیں مثلاً مقدمات دوسرے وہ جو آرام چاہتے ہیں مثلاً بعض موتیں.پس ہمارے لئے دونوں ایک دوسرے کو کاٹ کر
۳۰۹ صرف رنج، غم اور محنت اور تکلیف ہی باقی رہ جاتی ہے.بعض حالات جن کا میں نے اظہار نہیں کیا وہ دعاؤں سے تفرع سے مل بھی سکتے ہیں حتی کہ میں نے تجربہ کیا ہے بعض دفعہ ایسے حالات کے آثار ظاہر بھی ہونے شروع ہو جاتے ہیں مگر دعا، صدقات اور تضرعات سے مل جاتے ہیں.پس کثرت سے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان حالات کو بدل دے اور ٹال دے ان کا علاج صرف ایک ہی ہے اور وہ دعا ہے.پس تم دعاؤں میں لگ جاؤ کہ بقیہ حصہ سفر کا خیر وخوبی سے کٹ جائے اور نہ ادھر سے کوئی رنج و غم کی خبر جائے نہ اُدھر سے کوئی ہم وغم کی خبر آوے.جہاں سفر کے غم و ہم زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں وہاں سفر کی دعائیں بھی زیادہ قبول ہوتی ہیں.پس تم دعاؤں سے کام لو تا اللہ تعالیٰ تم کو تکلیف نہ دے.میں نے حضرت اقدس کے خطبہ کا یہ خلاصہ درخلاصہ اپنے لفظوں میں لکھا ہے.حضور مضمون لکھ رہے ہیں.آج صبح پھر حضرت میاں صاحب، شیخ صاحب عرفانی اور شیخ مصری کو دکان کا حساب وغیرہ پڑتال کرنے کو بھیجا تھا بعض حسابات میں غلطی معلوم ہوئی تھی.نماز جمعہ کے بعد حضور نے حافظ صاحب اور عرفانی صاحب کو خو دحکم دیا کہ کانفرنس میں جا کر مضمون کو سنیں اور پوری رپورٹ لائیں.باقی دوستوں کو بھی اجازت ہے کہ جو چاہے جائے.میں نے خطبہ کا خلاصہ لکھنا تھا نہیں جاسکا اور بیٹھار پورٹ لکھ رہا ہوں.حضرت مضمون لکھتے جاتے ہیں مکرمی چوہدری صاحب ساتھ ساتھ ترجمہ کرتے جاتے ہیں اور ٹائپسٹ (ڈھینگری ) ٹائپ کرتی جارہی ہے.۲۵ صفحات تک مضمون ہو چکا ہے مگرا بھی ختم نہیں ہوا.اس کی نقل بھی انشاء اللہ بھیجوں گا.مضمون حضور نے وقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے خود بند کر دیا اور ۲۳ صفحات پورے ہوئے.شام کی نماز حضور نے وقت پر پڑھائی.اکثر دوست لیکچر ہال میں گئے ہوئے تھے وہ نماز کے بعد آئے.نماز کے بعد حضرت نے کھانا تناول فرمایا - دوست بھی کھانے کے وقت تک پہنچ گئے.بہائیوں نے اپنے لیکچر کے دو حصے کر کے یکے بعد دیگرے دو آدمیوں نے سنائے.ایک لیکچرار انگریز کہیں سے بلوایا ہوا تھا جو لیکچر پڑھنے میں بڑا مشاق اور ماہر تھا.دوسرا خودشوقی آفندی کا
۳۱۰ قریبی رشتہ دار رومی افغان تھا.کہتے ہیں کہ دونوں پر چے بڑی خوبصورتی سے پڑھے گئے اور بعض جگہ فقرے فقرے پر چیئر ز دیئے گئے.حاضری کو بعض کافی کہتے ہیں اور بعض دوست بتاتے ہیں پچھلی ۹ قطار میں دونوں طرف کی خالی تھیں اور انگلی قطار میں بھی چھدری چھدری تھیں.ٹھس کر بھری نہ تھیں.انگریز مقرر نے اپنا لیکچر نہایت خوبی سے پڑھا اور علی ھذار و می نام افغان نے بھی بہت محنت اور کوشش سے نبھانے کی کوشش کی.لوگوں کو خوش کر دینے اور چیئر ز لینے کی ایک ہی راہ تھی جوان کے مذہب میں کوئی پابندی حکم، کوئی نہی یا کوئی امر نہ ہونے کی وجہ سے تھی.آزادی ، محبت ، برابری، حریت اور رواداری وغیرہ کے الفاظ زمانہ کے رخ اور چلتی ہوئی رو نیز دہریت وابا ہت کے منتخبہ فقرات کو جوڑ تو ڑ کر مضمون نگاری یا لفاظی پر مشتمل یا بعض اقوال انہی معنوں کی تصدیق اور انہی مقاصد کی تائید میں اپنے گرو کے لیکچروں سے نوٹ اور کوٹ (Cout) کرکر کے سناتے رہے.مثلاً بہائیت میں کوئی مذہبی پابندی نہیں !!! چیئر ز - بہائیت میں ہر مذہب کے لوگ جمع ہو سکتے ہیں !!! چیئر ز - بہائیت محبت اور صلح پھیلانا چاہتی ہے !!!! چیئر ز - ایک سکھ ، ایک عیسائی ، ایک یہودی ، ایک مجوسی ، ایک بت پرست، ایک دہریہ، ایک فلاسفر، ایک مسلمان اپنے اپنے خیالات کی پابندی کرتے ہوئے صرف بہاء اللہ کو ماننے سے ایک ہو جاتے ہیں کسی عملی قربانی کی ضرورت نہیں !!! چیئر ز - بہائیت عورت کی بڑی عزت کراتی ہے!!! چیئر ز - بہائیت میں عورت مرد کو مساوی حقوق حاصل ہیں !!! چیئر ز - بہائیت کثرت ازدواج کے خلاف ہے!!! چیئر ز - بہائیت غلامی کے خلاف ہے !!! چیئر ز - بہائیت سور کو جائز قرار دیتی ہے !!! چیئر ز - بہائیت کو زمانہ کی رو کے مطابق بنانے اور ہمیشہ تبدیلی کرنے کے لئے ایک کا نفرنس بنادی گئی ہے !!! چیئر ز - الغرض سنا گیا ہے کہ بہائیوں نے اپنے مضامین کو اس رنگ میں پیش کیا اور ہر دلعزیز دکھا کر چیئر ز بھی لئے اور پریذیڈنٹ جو خیالات میں لیبرل چرچ کا لیڈر ہے اور اس کا مذہب ہے کہ اللہ، رام ، رحیم ، گاڈ، پر میشر ، غرض جس نام سے خدا کو کوئی مانے وہ سب یکساں خدا تک پہنچتے ہیں اور وہ بڑا مقرر آدمی ہے.ڈاکٹر والش اس کا نام ہے.اس نے ریمارکس بھی اچھے دیئے کیونکہ خیالات میں دونوں کا اتحاد تھا اور کوئی مخالفت نہ تھی.اس وجہ سے ڈاکٹر والش نے بھی خوب زور دار الفاظ میں لیکچر کو دھرایا اور تعریف کی.
۳۱۱ شاید کوئی کہے کہ مخالفت عقائد کی وجہ سے ایسے رنگ میں میں نے لکھا ہے جس سے مذمت ٹپکتی ہے تو میں ایک ایسا فقرہ عرض کر دیتا ہوں جس کو لیکچرار نے بڑے شوق سے بار بار دہرایا اور اس پر ناز کیا.آپ سمجھ لیں کہ اس میں کیا حکمت تھی.وہ کہتا ہے کہ جب کسی کے گھر میں لڑکی پیدا ہو تو اس کو چاہئے کہ اسے لڑکے سے اچھا سمجھے اور لڑکے پر ترجیح دے.لڑکے کو نہ پڑھائے اور نہ اچھی تربیت کرے تو نقصان نہیں مگر لڑکی کو تو ضرور پڑھائے اور اچھی طرح سے تعلیم و تربیت دلائے کیونکہ اس نے ماں بننا ہے.گویا لڑکے نے تو کسی کا باپ نہیں بننا.ظاہر بات ہے کہ اس فقرہ سے عورتیں اور خصوصاً لنڈن کی عورتیں کیسی خوش ہوئی ہوں گی اور انہوں نے تالیاں پیٹی ہوں گی.چیئر ز کیوں نہ ہوں ؟ اخبارات میں ان لیکچر ان کا ذکر ہوا ہے مگر نہ اتنا جتنا ان کو امید تھی.نہ ایسا جیسا وہ چاہتے تھے اور ان کی کوشش تھی.ایک اخبار ان کے مضمون کا ذکر کے اوپر ہیڈ نگ لکھتا ہے.Non Competitive Creed جس کا مطلب یہ ہے کہ صلح کل - با مسلمان اللہ اللہ.بابرہمن رام رام.اب بتائیے ان کی کون تعریف نہ کرے خصوصاً ایسے ملک میں جہاں اباہت اور ہر دلعزیزی پیدا کرنا ہی موجب نجات سمجھا جا رہا ہو.پریذیڈنٹ ڈاکٹر والش جس کا مذہب ہی خود یہ ہے کہ دنیا کا مذہب زوائد کو اگر چھوڑ دیا جائے تو ایک ہی ہے.ہندو ہندو رہ کر.برہمو بر ہمورہ کر.عیسائی اور یہودی اپنے عقائد پر رہ کر.مسلمان اپنے عقائد پر رہ کر نجات پاسکتے ہیں اور اس لحاظ سے بہائی عقیدہ اور بہائی تحریک ایک Foremost تحریک ہے اور بس.مگر ابھی تک یہ خیالات اور یہ رائے یک طرفہ فیصلہ ہیں کیونکہ ظلمت کے سوا ان کے سامنے کچھ آیا ہی نہیں.نور کے آنے کے بعد جو رائے قائم ہوگی حقیقی اور سچی رائے کہلانے کی وہی مستحق ہو گی مگر با وجود ان باتوں کے نہ وہ حاضری تھی نہ وہ قبولیت جو دلوں پر پاک اثر پیدا کر کے روحانی اور اخلاقی ترقی کی طرف لے جاتی ہے.خالی واہ واہ تھی سو وہ بھی پندرہ میں بہائی عقیدہ کی لیڈیاں بیٹھی تھیں اور وہ بات بات پر چیئر ز دینے کی ابتدا کر دیتی تھیں جس سے متاثر ہو کر یا ان کو شرمندگی سے بچانے کے لئے اور مرد و زن بھی ان
۳۱۲ کے ساتھ ہو جاتے تھے ورنہ خیر.بہائی کہا کرتے ہیں کہ یورپ میں ان کی بہت بڑی تعداد ہے مگر اس تعداد کا پتہ اس عظیم الشان دنگل میں بھی نہیں لگ سکا اور سوائے چند ایک عورتوں یا خال خال مردوں کے کوئی بہائی نظر نہ آتا تھا اگر وہ تھے تو کیوں نہ اس عظیم الشان لیکچر میں آئے.کیا ہوسکتا ہے کہ لاہور میں سید نا حضرت مسیح موعود کا لیکچر جلسہ اعظم مذاہب میں پڑھا جائے ، اور اور تو اور لاہور کے احمدی بھی اس میں شریک نہ ہوں ؟ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا.فطرت چاہتی ہے کہ جس مذہب سے اس کو دلی تعلق اور قلبی وابستگی ہے اس کی اشاعت اورس کے مقابلہ کے اوقات میں اس کے ساتھ شریک ہو.بہائی بھی اس اصل سے باہر نہیں آئے.آئے اور ضرور آئے اور سب ہی آئے ایک بھی ان میں سے باہر نہیں رہا.جتنے تھے عورت کیا مردسب ہی آگئے تھے اور اس جلسہ میں شامل تھے.دراصل ان لوگوں کو اپنی تعداد میں غلطی لگی ہے.دنیا کے روز تبدیل ہوتے ہوئے خیالات جس مذہب کا اصل ہوں وہ سارے جہان کو بھی اگر اپنا ہم مذہب کہہ لے تو کون اس کی زبان یا اس کا قلم روک اور پکڑ سکتا ہے.رات کو حضرت اقدس کا ایک ٹیچر تھا جس کا ترجمہ محترم جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے جس سرعت ، تیزی اور جلدی ، محنت اور محبت سے کیا ہے اس کا مجھ سے بیان نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس کی داد دی جاسکتی ہے.ماشاء الله لاقوة الا بالله - چشم بد دور اللہ تعالیٰ دن دگنا رات - چوگنا کرے.بڑھائے اور خدمات دین کا بیش از بیش موقع و توفیق رفیق کرے.آمین ثم آمین مشکل سے مشکل خیالات کو ایسی صفائی اور تیزی سے اور دنوں کے کام کو گھنٹوں میں پورا کیا کہ خالی اردو لکھنا بھی اور نقل کرنا بھی شاید ایسی جلدی نہ ہوسکتا.حضرت اقدس ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے بذریعہ موٹر ہال میں پہنچے.حضور کی تشریف آوری پر ہال بھرا ہوا تھا.خدام الگ پہلے بذریعہ ریل جاچکے تھے.وقت ہو گیا تھا اور منتظمین کی گھبراہٹ کی کوئی حد نہ تھی.ایک دوسرے سے اور دوسرا تیسرے سے بار بار پوچھتے تھے کہ ہر ہولی نس کیوں نہیں آئے.ہمیں خیال تھا کہ ترجمہ پورا نہیں ہوا یا ہوا تو ٹائپ میں دیر ہو گئی ہے.سب لوگ اس گھبراہٹ میں تھے کہ دفعتا نظر اٹھی تو دیکھا کہ حضور حاضرین کی قطاروں میں سے جلد جلد قدم اُٹھائے سٹیج کی طرف تشریف لے جارہے ہیں.
۳۱۳ ہم لوگ جو حضور کی انتظار میں ساتھ کے کمرہ میں تھے حضور کو دیکھ کر لیکے اور ہال میں چلے گئے.حضور کا سٹیج پر پہنچنا تھا کہ ہال چیئر ز اور متواتر چیئر ز سے گونج اٹھامگر منتظمین نے کوئی ترتیب ابھی دینی تھی حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کر کے حضور کو مع خدام بغلی کمرہ میں لے آئے اور ادھر اپنا کام کر لیا اور پھر جلدی ہی حضور کی خدمت میں عرض کر کے لے گئے.پھر حضور مع خدام سٹیج پر پہنچے تھے کہ لمبے اور متواتر چیئر ز کے ساتھ دوبارہ سہ بارہ ہال گونجنے لگا.حضور کے ساتھ سٹیج پر سب دوست نہ تھے کیونکہ جگہ کم تھی.مکرمی مولوی عبدالرحیم صاحب اور ڈاکٹر صاحب خان صاحب عرفانی ،صاحب مصری صاحب، حافظ صاحب، چوہدری صاحب، مولوی مبارک علی صاحب، چوہدری محمد شریف صاحب، مولوی محمد دین صاحب اور نیر صاحب تھے.پریذیڈنٹ مسٹر بوٹ نے جو کنسرویٹو پارٹی کے لیڈر ہیں اور ڈلج کی میونسپل کمیٹی کے اعلیٰ عہدیدار، انہوں نے حضور کا مختصر الفاظ میں تعارف کرایا اور پھر حضور سے درخواست کی حضور اپنی تقریر سنائیں.حضرت اقدس نے کھڑے ہو کر ان کا رکنوں کا شکر یہ ادا کیا کہ آپ لوگوں نے ہمیں خیالات کے اظہار کا موقع دیا ہے اور معذرت کی کہ میں اپنا پر چہ بوجہ اس کے کہ میں لکھے ہوئے کے پڑھنے کا عادی نہیں اور بوجہ اس کے کہ میں اعلیٰ درجہ کا زبان دان نہیں اور لہجہ بھی میرا اجنبی ہے خود لیکچر نہیں پڑھ سکتا بلکہ میرے دوست اور میرے مرید چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بارایٹ لا ، میرا پر چہ سنا ئیں گے آپ توجہ سے سنیں.حضرت اقدس کے ان چند فقرات کے خاتمہ پر جناب چوہدری صاحب کھڑے ہوئے اور مشترکہ چیئر ز کا سلسلہ پھر جاری ہو گیا جو خاصہ لمبا تھا.چوہدری صاحب نے مضمون کو پڑھا اور پڑھنے کا حق ادا کر دیا.پورے سوا گھنٹہ میں مضمون ختم کیا گیا.درمیان میں حضرت اقدس نے طوالت کے خوف سے بعض باتیں لکھی نہ تھیں.صرف ایک بات ہی لکھی مگر راستہ میں چوہدری صاحب کو جاتے ہوئے سمجھا دیا تھا کہ وہ کیا کیا باتیں ہیں ان کو چوہدری صاحب نے نہایت موزوں اور مناسب الفاظ میں اور دلچسپ پیرا یہ میں خود بیان کر دیا.اس سوا گھنٹہ کے عرصہ میں ابتدائی اور آخری طویل اور پر زور چیئر ز کو چھوڑ کر مضمون مضمون
۳۱۴ پر دس مرتبہ دل و جان سے حاضرین نے چیئر ز دیئے اور ایک مرتبہ ہندوستانی بننے کے مظالم کے بیان پر سخت نفرت کا اظہار کیا.اس سوا گھنٹہ میں حاضرین میں سے ایک متنفس بھی نہ اُٹھا حتی کہ کروٹ تک بھی نہ لیا.ہال میں جس قدر گنجائش ممکن تھی کی گئی.گیلری بھی اور ہال بھی بھر گیا اور تل دھرنے کو جگہ نہ رہی.بغلی کمروں میں لوگ جمع ہو کر کھڑے ہوتے گئے اور بیسیوں دروازہ کھٹکھٹا کر واپس چلے گئے.حاضرین نے نہایت دلچپسی اور پوری توجہ سے مضمون کو سنا اور بہت ہی تعریف کی.لوگوں کی حاضری کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ پریذیڈنٹ کا ایک فقرہ لکھ دینا ہی کافی ہوگا جس نے کہا کہ ” خوش قسمتی سے آج کا دن بہت خراب ہے.( کثرت باران اور کیچڑ وغیرہ کی وجہ سے ) ور نہ نہ معلوم ہمارا اور ہمارے ہال کا کیا حال ہوتا.“ اور مضمون کے دلچسپ اور علمی اور نہایت اعلیٰ ہونے کے متعلق بھی شاید اسی طرح ایک ہی فقرہ نقل کر دینا کافی ہوگا جس میں بیسیوں صفحات کا مضمون داخل ہے اور جو ایک بڑے آدمی نے جو سٹیج پر پریذیڈنٹ کے پاس بیٹھا تھا غالبا وائس پریذیڈنٹ تھا اور بڑا مقر رتھا.اس نے کہا.” ہمارے پریذیڈنٹ صاحب نے بے شمار جلسوں کی صدارت کی ہے مگر I dare say میں دلیری سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسے دلچسپ (انٹریسٹنگ ) علمی ، مفید اور کامیاب جلسہ کی صدارت کبھی نہ کی ہوگی.یہ فخریہ عزت ہمارے معزز پریذیڈنٹ کے لئے قابل صد مبارکباد ہے جو زندگی بھر بلکہ اس کے بعد بھی اس کے نام کو عزت کے ساتھ یاد کراتی رہے گی.میں سمجھتا ہوں کہ ساری حقیقت اور ساری تعریف جو ممکن تھی اور حاضری اور حاضرین کی حاموشی اور دلچسپی اور آخیر تک بیٹھے رہنا اور نہ ہلنا بلکہ اونچا سانس بھی نہ لینا سب باتیں اور ان کے سوا مضمون کی خوبی اور کمال اور اور ترتیب اور اعلیٰ خیالات سب باتیں ان دو فقروں میں مرکوز ہیں.مضمون کے خاتمہ پر ریزولیوشن پیش کیا گیا اور اتفاق رائے سے پاس کیا گیا کہ ایسے مفید معلومات علمی خیالات اور اعلیٰ درجہ کے مشورہ کے لئے ہر ہولی نس کا شکر یہ ادا کیا جائے جس کو ہاتھوں کے اٹھانے اور Aye Aye Aye کے الفاظ کے دہرانے سے بہت محبت اور جوش سے پاس کیا گیا.
۳۱۵ ایک بناوٹ اور فیشن ہوتا ہے وہ الگ ہے.وہ پوشیدہ نہیں رہ سکتا.یہ باتیں اس بناوٹ اور محض فیشن سے خالی تھیں اور دلی اور قلبی مسرت اور حقیقی خوشی کا اظہار تھا جس میں ایک شمہ بھی بناوٹ کا نہ تھا اور وہ ان کے حرکات اور چہروں سے عیاں تھا.اور عیاں راچہ بیاں.شاید کوئی کہہ دے کہ حضرت کے مضمون میں گورنمنٹ کی تعریف اور خوشامد تھی اس وجہ سے ایسا مقبول ہوا اور دلچسپ بنا مگر یہ سراسر غلطی اور حق پوشی ہوگی جو مضمون کو پڑھنے سے صاف طور پر واضح ہو جائے گی لوگ بھی حیران تھے.وہ ایک بات پر چیئر ز دیتے تھے مگر ساتھ ہی مضمون کا رنگ پلٹ جاتا تھا اور وہ حیرت میں پڑ جاتے تھے کہ کیا تھا اور کیا ہو گیا.حضور نے پوری آزادی سے تنقید بھی کی.گورنمنٹ کی غلطیوں کو بھی ظاہر کیا اور مفید مشورے دیئے.موجودہ بے چینی اور گھبراہٹ کے اسباب بھی سنائے اور ان کے علاج بھی بتائے.خوبی کا بھی ذکر کیا اور نقائص بھی کھول کر سنائے مگر سخن کز دل برون آید - نشیند لاجرم بر دل والی بات تھی.حضور نے ہندوستان اور گورنمنٹ دونوں کی خیر خواہی اور بہتری کی نیت سے جو حق تھا کہہ دیا اور اس حق کہنے میں گورنمنٹ اور رعایا دونوں کی غلطیوں اور خوبیوں کو کھول دیا اور اپنی آزاد و بے لوث رائے ظاہر فرما دی.حاضرین اور کارکنان نے اپنی بعض غلطیوں کو تسلیم بھی کیا اور ان کی اصلاح کا وعدہ کیا اور ان نئے معلومات پر مزید غور کرنے کا وعدہ کیا جو حکومت اور رعایا دونوں کے لئے یکساں طور پر مفید اور کارآمد ہیں.جلسہ کے خاتمہ پر قریباً دس منٹ تک پھر خوشی کی باتیں اور مضمون کی تعریف اور خیالات کی توصیف ہوتی رہی.جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے لہجہ اور انگریزی کی بھی بے حد تعریف کی گئی اور کہا گیا کہ خالص اور اعلیٰ درجہ کی زبان ہے جس میں نفاست، حلاوت اور شیرینی کے ساتھ ساتھ لمبی حقیقت کو مختصر الفاظ میں ادا کیا گیا ہے.جلسہ کے بعد حضرت اقدس کے مع رفقاء دعوت چائے پیش کی گئی اور دیر تک پریذیڈنٹ صاحب حضرت اقدس سے اور باتیں کرتے رہے بعض لوگ دوسرے دوستوں سے بڑی دلچسپی اور گہری محبت سے ہمارے خیالات سنتے رہے اور شوق ملاقات ظاہر کرتے رہے جو یقیناً تصنع اور بناوٹ سے نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی معلوم ہوتا تھا.ایک لائق پروفیسر اور پادری جو اس لیکچر کی خبر پا کر اول مکان پر آئے اور پھر ہمارے ساتھ ہی لیکچر گاہ تک گئے بہت ہی متاثر تھے.انہوں نے سلسلہ کی بعض کتابیں بھی خرید لیں.وہ لیکچر کی خوبی سے متاثر ہوکر اپنی کرسی سے بار بار اُچھلتے نظر
۳۱۶ آتے تھے.بہت کچھ سنا اور پھر آنے کا وعدہ کیا اور اقرار کیا کہ آئندہ میں اسلام کے ان خیالات کو پر بیچ (Preach) کیا کروں گا اور ٹیچنگز آف اسلام میں جو خیالات بیان کئے گئے ہیں ان کو لے کر وعظ و تبلیغ کروں گا.نام ان کا ڈیرے ( قافلہ ) میں کسی کو یاد نہیں.بتاتے ہیں کہ خلیفہ تقی - الدین صاحب کو یاد ہوگا وہ بازار گئے ہیں آئیں گے تو پوچھنے کی کوشش کروں گا انشاء اللہ تعالی.وہاں سے فارغ ہو کر حضور ۱۲ بجے کے قریب مکان پر پہنچے.راستہ میں برابر بارش ہوتی چلی آئی.دو حصے پیدل اور ایک حصہ ریل کے ذریعہ سے طے کیا.نما ز عشاء رات کو ۱۲ بجے کے بعد ادا کی گئی اور ایک بجے کے قریب حضور اپنے کمرے میں تشریف لے گئے.ہمارے چوہدری محمد شریف صاحب بہت ملنسار آدمی اور بظاہر خاموش مگر حقیقتا بڑے محنتی اور کام کے آدمی ہیں.چپکے چپکے ہندوستان سے واپس آنے والے عہد یداروں سے ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں.پرسوں غالباً وہ کرنل ڈگلس کی ملاقات کو گئے.کرنل صاحب سے اور اذکار کے ساتھ سلسلہ کی خصوصیات کا بھی ذکر آیا.اور کرنل صاحب نے ان سے پوچھا کہ دوسرے مسلمانوں میں اور احمد یوں میں بڑا فرق کیا ہے؟ چوہدری صاحب نے اس وقت ان کو جواب میں یہی کہا کہ وہ لوگ مانتے ہیں کہ خدا پچھلے زمانہ میں اپنے پیاروں سے کلام کیا کرتا تھا اور لوگوں کی ہدایت کے لئے اپنی طرف سے نبی اور رسول بھیجا کرتا تھا اب نہ وہ بولتا ہے اور نہ وہ کلام کرتا ہے اور نہ رسول بھیجتا ہے مگر بر خلاف اس کے احمدیوں کا عقیدہ ہے کہ خدا جس طرح پچھلے زمانہ میں بولتا تھا اسی طرح اب بھی اپنے پیارے اور خاص بندوں سے کلام کرتا ہے اور ان کی ہدایت کے لئے نبی اور رسول بھیجتا ہے جس طرح پہلے بھیجتا تھا وغیرہ.یہ سن کر کرنل صاحب نے کہا کہ دنیا میں اس زمانہ میں تعصب اور نسلی امتیاز اس قدر بڑھ گیا ہے کہ کوئی شخص بھی مشرقی نبی کو ماننے کے لئے تیار نہ ہوگا اور اس کے علاوہ جو تمدنی اختلاف اسلام اور مغربیت یا عیسائیت میں ہے یہ روک بھی نا قابل عبور ہے.چوہدری صاحب نے کہا کہ رومیوں نے جس طرح سے حضرت مسیح کو قبول کر لیا تھا اسی طرح اب بھی مغرب ایک مشرقی نبی کو قبول کرنے کے لئے آخر مجبور ہو گا مگر کرنل صاحب نے کہا کہ وہ زمانہ اب نہیں اگر حضرت مسیح اب خود بھی آجائیں اور سینٹ پال کے گرجا میں کھڑے ہو کر چیختے بھی رہیں تو کوئی بھی ان کو نہ مانے گا وغیرہ (الفاظ میرے ہیں )
۳۱۷ پھر کہا کہ احمدیوں کی ایک خصوصیت کا تو میں بھی قائل ہوں اور وہ یہ ہے کہ ان میں کام کرنے اور ترقی کرنے کی بے نظیر سپرٹ پائی جاتی ہے اور آگے ایک ایسا فقرہ کہا جو اس کے اپنے علم کے لحاظ سے تھا مگر میں درج کرتا ہوں.کہا حتی کہ حضرت محمد ( ﷺ ) میں اور ان کے صحابہؓ میں بھی نہ تھی.( یہ تو اس کی کم علمی اور نا واقفیت کا نتیجہ ہے ) اور نہ حقیقت یہ ہے کہ چہ نسبت خاک را با عالم پاک؟ - ۲۷ ستمبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز میں حضرت اقدس تشریف نہ لا سکے.مصروفیت بہت زیادہ ہے.کل کو ایک دعوت ہماری طرف سے مذہبی کا نفرنس میں آنے والوں اور منتظمین کو دی گئی ہے جو کسی بڑے ہوٹل میں ہوگی اور ایک لیکچر رات کو طلبا میں ہوگا جو ۱۸ سال تک کی عمر کے ہیں.رسول کریم کے حالات پر لیکچر ہوگا.اس کی تیاری میں حضور مصروف ہیں.آج چار بجے حضرت نے ایک بہائی عورت کے ہاں چائے کی دعوت پر بھی جانا ہے.بلام فلیڈ شاید اس کا نام ہے.آج دو پہر کے کھانے پر کرنل ڈگلس کا ذکر آ گیا.جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے حضرت اقدس کے حضور عرض کی کہ حضور چوہدری محمد شریف کی ملاقات میں کرنل ڈگلس نے کہا کہ احمدیوں میں روحانیت ضرور ہے.حضور نے فرمایا کہ اس کو کس طرح پتہ لگا کہ احمدیوں میں روحانیت ہے.آخر اس کو اس رائے کے وجوہات تو معلوم ہونے چاہئیں.فرمایا ایک بات تو میں نے بھی اس میں دیکھی ہے کہ اس کے دل میں سلسلہ کی عظمت اور محبت ضرور ہے.حضور سے مصافحہ کرتے وقت اس دن اس نے مغربی طریق کے بالکل خلاف بجائے ایک ہاتھ کے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا مگر تعجب ہے کہ وہ با وجود پکار ہر یہ ہونے کے پکا عیسائی بھی ہے.رات کے جلسہ کے خاتمہ پر حضرت اقدس وہاں سے چلنے کے لئے اُٹھے.حضور کا منشا تھا کہ اب چلیں گے مگر دیکھا کہ تمام لوگ کھڑے ہو گئے ہیں اور معاً ایک گیت گایا جانا شروع ہو گیا جو قومی گیت کے نام سے مشہور ہے.حضور بھی اس گیت کے گاتے وقت کھڑے ہی رہے مگر کھڑے کسی خیال سے خاص رسماً نہ ہوئے تھے بلکہ چونکہ چلنے کے واسطے کھڑے ہو چکے تھے لہذا کھڑے ہی رہے.
۳۱۸ بسم الله الرحمن الرحيم اعوذ بالله من الشيطن الرجيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر ہندوستان کے حالات حاضرہ اور اتحاد کے پیدا کرنے کے ذرائع صدر جلسہ، بہنو اور بھائیو! گو میں ایک ایسا آدمی ہوں جس کی زندگی دینی کاموں کے لئے وقف ہے لیکن سیاست گومذہب میں داخل نہیں مگر کئی پہلوؤں سے اس کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور چونکہ دنیا کے امن کا قیام مذہب کی سب سے بڑی غرضوں میں سے ہے جو بھی قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ سیاسی امن بھی قائم نہ ہو.اس لئے میں نہایت ہی خوش ہوں کہ مجھے ہندوستان کے موجودہ حالات اور ان کے علاج کے متعلق بولنے کا موقع ملا ہے.پیشتر اس کے کہ میں اپنے مضمون کو شروع کروں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مجھے ہندوستان کی کسی پولیٹیکل جماعت سے تعلق نہیں ہے.بہت سے لوگ ہمیں گورنمنٹ کا خوشامدی کہتے ہیں لیکن جو شخص بھی ہمارے حالات سے واقف ہے جانتا ہے کہ ہماری پالیسی ایک آزاد پالیسی ہے.ہم جیسا موقع ہو گورنمنٹ کی پالیسی پر یا قوم پرستوں کی پالیسی پر نکتہ چینی کرنے سے باز نہیں رہتے مگر ہاں ہمارا یہ اصل ہے کہ ہمیں کبھی ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہئے جس سے کہ ملک کی قائم شدہ گورنمنٹ کے لئے کام کرنا مشکل ہو جائے ورنہ ہم گورنمنٹ سے نہ کسی انعام کے امیدوار ہوتے ہیں نہ پسند کرتے ہیں کہ گورنمنٹ ملکی خدمات کے بدلے میں لوگوں کو انعام دے کیونکہ اس سے نیک نیتی کی خدمت کی روح مرجاتی ہے اور ملک کو انجام کا رنقصان پہنچتا ہے.اس تمہید کے بعد میں سب سے پہلے ہندوستان کی جغرافیکل اور سوشل حالت بیان کرنی چاہتا ہوں کیونکہ بغیر اس حالت کے علم کے کوئی شخص ہندوستان کے متعلق صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا.ہندوستان ایک ایسا ملک ہے.جس کے شرقی اور شمالی طرف چینی حکومت ہے اور شمال مغربی طرف
۳۱۹ افغانستان کی حکومت.چینی حکومت کوخود ایسی نہیں ہے کہ اس کے ہندوستان پر حملہ کی امید کی جائے مگر چینی سرحد پر ایسی ریاستیں موجود ہیں کہ جو جنگی نسل کے لوگوں سے آباد ہیں اور اگر ہندوستان کسی وقت کمزور ہو جائے تو بعید نہیں کہ وہ ہندوستان کے بعض حصوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں جس طرح کہ وہ پہلے بھی کرتی رہی ہیں.افغانستان ایک ایسا علاقہ ہے جہاں کے لوگوں کو یہ یقین ہے کہ ہندوستانی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور پرانی روایات ان کے جوشوں کو قائم رکھتی ہے.افغان اپنے دل سے اس بات کو نہیں نکال سکتے کہ ہمیشہ ہندوستان شمالی حملہ آوروں کے حملوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر رہا ہے.پس اگر ہندوستان میں حکومت طاقتور نہ ہو تو ہندوستان ہر وقت بیرونی حملہ آوروں سے محفوظ نہیں ہے.ان حملوں کے علاوہ جو خشکی کی طرف سے ہو سکتے ہیں سمندر کی طرف سے بھی ہندوستان محفوظ نہیں ہے.اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ہندوستان میں حکومت کے کمزور ہونے پر سولھویں اور سترویں صدی کی دست درازیوں کا زمانہ پھر نہ آ جائے گا اور بعض چھوٹے چھوٹے علاقے وسیع ہونے والی حکومتوں کے لئے بیج کا کام نہ دیں گے.قومی حالت ہندوستان کی یہ ہے کہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک مختلف قوموں کا جال پھیلا ہوا ہے.باہر سے آنے والی قوموں میں سے پٹھان سب سے زیادہ ہیں پھر سید اور مغل اور قریشی ہیں.ان کے علاوہ اور چھوٹی چھوٹی قو میں بھی ہیں.خود ہندوستان کی بہت سی قومیں ہیں.برہمن ، راجپوت ، مرہٹے، جاٹ گوجر ، بنٹے ، ارائیں ، کشمیری ، ککے زئی.ان میں سے اکثر قوموں میں پھر تقسیم ہے یعنی مسلمان اور ہندو کی.ان قوموں کے علاوہ شو دریا نجس اقوام بہت سی ہیں جیسے چوڑھے، چمار، گونڈ، بھیل، غاسو دراز وغیرہ.یہ تمام قو میں ابھی تک اپنی علیحدہ ہستی کو قائم رکھے چلی جاتی ہیں اور ان میں ایسا قومی اتحاد ہے کہ کوئی خارجی اثر اس کو ہٹا نہیں سکا.ہندوستان کے الیکشن اس قد ر لیاقت یا اصول کی بنیاد پر نہیں ہوتے جس قدر کہ قومیت کی بنا پر.جب کوئی شخص کسی لوکل یا امپریل انسٹی ٹیوٹ کی ممبری کے لئے کھڑا ہوتا ہے سب سے پہلا سوال اس کے متعلق یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس علاقہ میں اس کی قوم کے اس قدر آدمی ہیں کہ اس کو جیتنے کی امید ہو.پچھلے الیکشن میں ہمارے ضلع سے سات آٹھ آدمی امیدوار کھڑے ہوئے تھے مگر وہی لوگ آخر تک رہ سکے جو قومی ووٹ رکھتے تھے.راجپوتوں نے راجپوت امیدوار کو ، گوجروں نے گوجر کو اور پٹھانوں نے پٹھان
۳۲۰ امیدوار کو ووٹ دیئے.استثناء ہوتے ہیں مگر قانون یہی ہے.مذہبی حالت یہ ہے کہ ہندومسلم کا سوال ہمیشہ زور پر رہتا ہے گو بعض لوگ ایسے ہوں کہ ملکی فائدہ کو قومی فائدہ پر مقدم کریں مگر کثرت سے لوگ ایسے ہی ہیں کہ مذہبی تعصب کو دور نہیں کر سکتے.گورنمنٹ کے ہر صیغہ میں چھوٹے عہدوں کے متعلق جو مقامی طور پر پر کئے جاتے ہیں یہ بات نظر آئے گی کہ مذہبی تعصب رونما ہو گا.مسلمان چونکہ تعلیم میں پیچھے رہ گئے تھے اس لئے لازماً سرکاری ملا زمت میں بھی کم تھے.اب تعلیم یافتہ مسلمان بہت کثرت سے مل سکتے ہیں مگر ان کو ملا زمت نہیں مل سکتی کیونکہ قومی تعصب ہمیشہ راستہ میں حائل ہو جاتا ہے.پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی باون فیصد سے بھی زیادہ ہے مگر سرکاری ملازمتوں میں وہ تہیں فیصد کے بھی حصہ دار نہیں ہیں.ٹیکنیکل کالجوں میں بھی ان کو داخلہ کا موقع نہیں ملتا جس وقت انگریزی حکومت کا سوال ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ عمدہ گورنمنٹ سیلف گورنمنٹ کا مقابلہ نہیں کر سکتی مگر جس وقت ملازمتوں کا سوال ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اصل معیار لیاقت ہے.کسی قوم کو بحیثیت قوم کے حکومت میں کوئی حق نہیں ہے مگر لیاقت کی تعریف ایسی غیر معین ہے کہ دوسری قوموں کے آدمی اس کا وجود اپنی ذات میں ثابت ہی نہیں کر سکتے.غرض سوائے نہایت محدود جماعت کے باقی لوگوں میں سخت تعصب کے آثار پائے جاتے ہیں.زبان کا سوال بھی نہایت پیچیدہ ہے.سیلف گورنمنٹ کے لئے ایک سرکاری زبان کا ہونا ضروری ہے.ہندوستان میں بیسیوں زبانیں ہیں.علاوہ اردو کے جو پنجاب، یوپی ، بہار، حیدر آباد، صوبہ سرحدی میں تو اچھی طرح سے بولی اور سمجھی جاتی ہے باقی ہندوستان کے صوبوں میں بھی کم و بیش اس کا رواج ہے.ہندی زبان ہے.بنگالی ہے.سندھی ہے.تامل ہے.تلنگو ہے.مالا باری ہے.اُڑ یہ ہے.کشمیری ہے.پشتو ہے.مرہٹی ہے.گجراتی ہے.ان سب زبانوں میں سے اردو اور ہندی زبانوں کے متعلق اختلاف ہے کہ کونسی زبان ملکی زبان ہونی چاہیے.ہند و پورا زور لگاتے ہیں کہ ہندی زبان کو ملکی زبان قرار دیا جائے اور مسلمان اس بات پر مصر ہیں کہ اردو زبان اصلی قرار دی جائے اور اسی اختلاف میں پھر قومی اور مذہبی تعصب کا دخل ہے.ہندی کا زیادہ رواج ہندوؤں میں ہے اور اردو کا مسلمانوں میں.اگر ملک میں ہندی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا جائے تو اکثر مسلمانوں کو ملازمتوں سے علیحدہ ہونا پڑے.کچھ دنوں سے بنگالی کی
۳۲۱ نسبت بھی کہا جاتا تھا کہ وہ بھی سرکاری زبان ہونے کی امیدواری کی خواہش رکھتی ہے.یہ تمام اختلافات مل کر ہندوستان کی طاقت کو نقصان پہنچا رہے ہیں مگر افسوس کہ ان اختلافات کو مٹانے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ ان کو بڑھایا جاتا ہے.رواداری بالکل نہیں ہے.مختلف مذہب تو الگ رہے خود ایک مذہب کے ساتھ تعلق رکھنے والوں میں ایک دوسرے سے انصاف کی امید نہیں ہوتی.ابھی ایک احمدی مشنری کو افغانستان میں صرف مذہبی اختلاف کی وجہ سے سنگسار کیا گیا ہے.مجھے پرسوں ہی گورنمنٹ آف انڈیا کی تاریلی ہے جس میں انہوں نے تصدیق کی ہے کہ وہ خالص مذہبی مخالفت کی وجہ سے مارا گیا ہے وہ تاریہ ہے."Your talegram to H.E the Viceroy.Copy of the telegram sent to the Times from India has only just been secured.It is not based on official report and Govt.of India had not previously seen the story of the ambush.They have issued no statement to the press, but understand from Afgan newspapers that death sentense was awarded purely on religious grounds." مگر انسانی ہمدردی کا یہ حال ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی کالج دیو بند کے پروفیسروں نے جلسہ کر کے امیر افغانستان کو تار دیا ہے کہ اس نے بہت ہی اچھا کام کیا ہے اور اس سے امید کی ہے کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح کرے گا.ان اختلافات کی وجہ سے قومی فوائد کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے.مثلاً سود کا لین دین قریباً سب کا سب ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے.اس کا بہت بڑا اثر غربا پر پڑتا ہے جو مسلمان ہیں.گورنمنٹ بھی چاہتی ہے کہ کچھ اس کا تدارک ہو.مسلمان بھی چاہتے ہیں کہ یہ مصیبت ان کے گلے سے اُترے.لیکن ہند و زمیندار بھی جو خود اس بلا کے پنجہ میں پھنسے ہوئے ہیں ہر ایک اس کوشش کا مقابلہ کرتے ہیں جو سود کو محدود کرنے کے لئے ہو.اس لئے کہ اس کا زیادہ فائدہ مسلمانوں کو پہنچتا ہے.اس وقت سود کا ایسا خطر ناک بوجھ جو غر با پر ہے کہ بعض دفعہ سور و پیہ لے کر لوگوں کو چار پانچ ہزار دینا پڑا ہے.گورنمنٹ نے کو آپریٹو بنکوں کا سلسلہ شروع کیا ہے مگر اس کا زیادہ فائدہ پنجاب کے بعض علاقوں کو پہنچا ہے.یوپی ، بہار وغیرہ کے علاقوں میں اب تک اس بلا
۳۲۲ سے لوگوں کو نجات نہیں ہوئی.ہند و برات اگر باجہ بجاتی ہوئی مسلمانوں کی مسجد کے سامنے سے گزر جائے تو وہ اس کو مارنے کو دوڑ پڑتے ہیں اور اگر مسلمان کسی ہندو مندر کے پاس سے اس طرح گزریں تو ہندوان پر حملہ کرتے ہیں.محرم اور عید پر ہندولڑ پڑتے ہیں اور دسہرہ اور دیوالی پر مسلمان اور وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ فلاں پر وسیشن فلاں گلی سے کیوں گزرا اور فلاں شخص اپنے کھانے کیلئے گائے کا گوشت کیوں لایا.دو سمجھدار قوموں کا ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے لڑنا کیا قابل تعجب نہیں ہے؟ ان حالات کو دیکھ کر لا ز ما ماننا پڑتا ہے کہ ہندوستان ابھی مکمل سیلف گورنمنٹ کے لئے تیار نہیں ہے.وہ ابھی ایک ایسی قوم کی مدد کا محتاج ہے جو اول تو زبر دست جنگی طاقت رکھتی ہو.تا کہ اسے خشکی اور تری کے حملوں سے بچائے کیونکہ بوجہ جنگی سامانوں کی عدم موجودگی کے اور فنون جنگ سے ناواقفی کے ہندوستان ابھی اپنی حفاظت خود نہیں کر سکتا.دوسرے وہ قوم ہندوستان سے باہر کی ہوتا کہ مختلف اقوام کے درمیان توازن کو قائم رکھ سکے اور کسی قوم کو اس کے خلاف یہ شکایت پیدا نہ ہو کہ وہ کسی کی رعایت کرتی ہے اور میرے نزدیک انگریزوں سے زیادہ اور کوئی قوم اس کے لئے مناسب نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ ہندوستانیوں کو جانتے ہیں اور ہندوستان ان کو جانتے ہیں.یہ تصویر کا ایک رخ ہے مگر کبھی نتیجہ صحیح نہیں نکلتا جب تک کہ تصویر کے دونوں رخ نہ دیکھے جائیں.اس لئے ہم کو ہندوستان کے حالات کا دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہیے.ہندوستان میں اب مغربی تعلیم کا چرچا پھیلتا جاتا ہے.وہ لوگ جو پہلے اس کو گناہ سمجھ کر اس کے قریب نہیں جاتے تھے اب ضرورت سے مجبور ہو کر اس کے حصول کے لئے کوشاں ہیں.مغربی تعلیم کے ساتھ ہی مغرب کی سیاسی آزادی اور اقتصادی ترقی اور علمی فروغ کا خوشنما منظر بھی لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آ رہا ہے.وہ جو کچھ کہ کتب میں پڑھتے ہیں اس کو جب اپنے گرد و پیش نہیں دیکھتے تو قدرتاً ان کے دلوں کو تکلیف ہوتی ہے اور جس طرح اس شخص کا حال ہوتا ہے کہ جو اپنا کام دوسروں سے کرانے کا عادی ہوتا ہے اور جب کام اس کے نزدیک خراب ہو تو بغیر اس امر پر غور کرنے کے کہ حالات کی مجبوریوں کی وجہ سے وہ کام خراب ہوا ہے وہ اس کام کے کرنے والے کو برا کہنے لگتا ہے.اسی طرح ہندوستانیوں کے دلوں میں گورنمنٹ کے خلاف جوش پیدا ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس کی سستی کی
۳۲۳ وجہ سے کام درست نہیں ہوتے.پھر جبکہ وہ مغربی قوموں کی ترقی کے ساتھ ان کے حکومتی نظام پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کو یقین ہو جاتا ہے کہ مغرب کی ترقی کا اصل باعث اس کا نیا بتی طریقہ حکومت ہے اور ان کے دلوں میں بھی ترقی کی اُمنگ پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی یورپ کی قوموں کی طرح حکومت میں دخل حاصل ہو اور یہ ان کی خواہش طبعی ہے.ان پر اس دلیل کا کچھ اثر نہیں ہوتا کہ تمہارا ملک تعلیم میں کم ہے کیونکہ وہ فوراً جواب دیتے ہیں کہ جس وقت مغربی ممالک کو آزادی حاصل ہوئی ہے اسی وقت کی نسبت ہماری تعلیم مغربی لوگوں سے کم نہیں ہے.دوسرا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ تعلیم ہمارے ہاتھ میں نہ تھی اگر تعلیم کم ہے تو اس کی جواب دہ گورنمنٹ ہے نہ کہ ہم.اسی طرح تو ایک قوم کو تعلیم میں پیچھے رکھ کر ہمیشہ کی غلامی میں رکھا جا سکتا ہے.مگر تعلیم سے بھی زیادہ اثر کرنے والی چیز ان کا وہ بڑھنے والا تعلق ہے جو مغرب سے ان کو پیدا ہورہا ہے.جوں جوں ہندوستانی باہر نکلتے ہیں وہ مغربی طرز حکومت کو عملی صورت میں دیکھ کر اس قسم کی حکومت اپنے ملک میں بھی جاری کرنی چاہتے ہیں.آج ہزاروں لاکھوں آدمی ہندوستان کا مغربی ممالک میں پھیلا ہوا ہے حالانکہ ایک وقت وہ تھا کہ ایک ہند و اگر ملک سے باہر آتا تھا تو اس کی قوم اس کو فوراً قوم سے خارج کر دیتی تھی کیونکہ ان کے نزدیک ہندوستان سے باہر جانے میں ہندو اپنے مذہب سے الگ ہو جاتا تھا.آج کوئی مغربی ملک نہیں جہاں ہندوستان کے باشندے عارضی یا مستقل رہائش نہیں رکھتے.باہر آنے والے لوگ جو خیالات کہ ان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ان کو واپس جا کر یا خطوں کے ذریعہ سے باقی ملک میں پھیلاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ روز مرہ ان لوگوں کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے جو نیا بتی حکومت کے خواہش مند ہیں.یہ لوگ جو ہندوستان سے باہر جاتے ہیں ان کے خیالات سے تین طرح متاثر ہوتے ہیں.اول باہر کی حکومتوں کو دیکھ کر.دوسرے اس وجہ سے کہ بعض جگہ پر ہندوستانیوں سے اچھا معاملہ نہیں کیا جاتا اور ان کے دلوں میں اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہماری اپنی حکومت ہوتی تو ہمیں اس طرح ذلیل نہ کیا جاتا اور اگر کوئی ہمیں ذلیل کرنے والی بات کر بھی بیٹھتا تو فوراً ہماری حکومت ہماری مدد کرتی.تیسرے بعض مغربی حکومتوں کے لوگ انگریزی حکومت سے عداوت کی وجہ سے ہندوستانیوں کے قومی جوش کو اُبھارنے کے لئے ہمیشہ ان ہندوستانیوں کو جو ان کے ملک میں جاتے
۳۲۴ ہیں یہ طعنہ دیتے ہیں کہ تم لوگ کب معزز ہو سکتے ہو جن پر ایک چھوٹے سے جزیرہ کے لوگ حکومت کر رہے ہیں.دنیا میں دلیلیں اس قدر گہرا اثر نہیں کرتیں جس قدر کہ طعنے اثر کرتے ہیں اور یہ طعنے بہت سے ہندوستانیوں کے دلوں میں گہرے زخم پیدا کر چکے ہیں.مگر سب سے زیادہ ہندوستانیوں کے خیالات کو بدلنے والی پچھلی جنگ ثابت ہوئی ہے.انگریزوں سے سب سے زیادہ ملنے کا موقع تعلیم یافتہ لوگوں کے بعد ہند وستانی سپاہی کو ملتا تھا مگر وہ ان روایات کے ماتحت جو نسلاً بعد نسل چلی آتی ہیں انگریز سپاہی کی برتری کو تسلیم کئے چلا آتا تھا اور انگریز سپاہی اس سے الگ بھی رکھا جاتا تھا اور جو نئے سپاہی آتے تھے وہ اپنے سے پہلے سپاہیوں سے مل کر عام طور پر ہندوستانی سپاہی سے الگ رہنے کے عادی ہو جاتے تھے مگر اس جنگ نے نقشہ ہی بدل دیا.ہندوستان سے ایک وقت میں پانچ لاکھ آدمی کے قریب غیر ممالک میں رہا.اسے پہلے فرانسیسوں میں رہنے کا موقع ملا جنہوں نے موقع کی اہمیت کو مدنظر رکھ کر ان کی خوب خاطر کی.پھر اس کی جگہ کو بدل تو دیا گیا مگر پھر بھی کثرت سے انگریز سپاہیوں کے ساتھ اسے رہنے کا موقع ملا جو انگلستان سے تازہ وہاں گئے تھے اور ہر وقت کے ساتھ رہنے اور جنگ کے خطرناک دنوں کے اثر کی وجہ سے اپنے ریز رو کو قائم نہیں رکھ سکتے تھے.پس ہندوستانی سپاہی جو پہلے صرف اطاعت اور ادب سے واقف تھا اسے معلوم ہوا کہ میرے بھی کچھ حقوق ہیں اور ہندوستانی طریق حکومت کے علاوہ دنیا میں اور بھی طریق حکومت ہیں.یہ لاکھوں آدمی جو ملک کے گوشہ گوشہ کے قائمقام تھے جب جنگ سے واپس گئے تو انہوں نے ان علاقوں میں بھی جہاں کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے لوگ اس امر کے سمجھنے کی قابلیت نہیں رکھتے تھے کہ دنیا میں ایک سے زیادہ طریق حکومت بھی ہیں ان خیالات کو پھیلا دیا اور ہندوستان کی کثیر آبادی مغربی ممالک کے طریق حکومت کی باریکیوں سے واقف نہ تھی اور نہ ہے مگر اس امر کو خوب سمجھ گئی کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اپنے ملک کے لوگوں کے ذریعہ سے ملک پر حکومت کی جائے اور یہ کہ ساری دنیا کے پردے پر اسی حکومت کو بہتر سمجھا جاتا ہے.جنگ کا ایک اور بھی اثر ہوا.اس جنگ سے پہلے عام ہندوستانی یہ خیال کرتا تھا کہ انگریزوں کے برابر اور کوئی قوم نہیں.اس کے نزدیک سب دنیا مل کر بھی انگریزوں کو پریشان نہیں کر سکتی تھی اور وہ اس خیال پر ایسا مضبوط تھا کہ اس کے نزدیک انگریزوں سے حکومت ہند کا مطالبہ
۳۲۵ کرنا ایسا ہی تھا جیسے چاند کی خواہش کرنی.جنگ میں جب اس کے گھر پر افسروں نے متواتر آنا اور یہ کہتا شروع کیا کہ اس وقت سرکار پر سخت مصیبت ہے.ان کو سرکار کی مدد کر کے اپنی وفاداری کا ثبوت دینا چاہیے.جرمن نے بلا وجہ سرکار انگریزی سے لڑنا شروع کر دیا ہے تو تمام ملک کی ایک سرے سے دوسرے سرے تک آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے سوچنا شروع کیا کہ دنیا میں ایک ہی حکومت نہیں ہے بلکہ اور بھی ہیں اور جوں جوں ریکروٹنگ پر زور دیا جانا شروع ہوا لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بڑھتا گیا کہ جرمنی کی حکومت انگریزوں سے زیادہ زبر دست ہے اور یہ کہ ہندوستان ایسا کمزور نہیں ہے.اس وقت انگلستان اپنے بچاؤ کے لئے اس کی مدد کا محتاج ہے.جنگ سے پہلے لوگ اس قدر اخبار پڑھنے کے عادی نہ تھے لیکن جب ہر قصبہ سے لوگ جنگ پر جانے شروع ہو گئے تو ان کے عزیزوں اور رشتہ داروں نے قدرتاً اخباروں کا مطالعہ شروع کیا تا کہ ان کو جنگ کے حالات معلوم ہوتے رہیں اور دل کو ایک حد تک تسلی رہے.اس اخباری مطالعہ سے ان کی عام علمیت میں بھی اضافہ ہوا مگر جنگی نقصانات کے حال پڑھ کر اور یہ دیکھ کر کہ سب طرف سے جرمن کا ہی شور ہے ان کے دلوں میں یہ خیال اور بھی مضبوط ہو گیا کہ انگریزی حکومت ایسی مضبوط نہیں جیسی کہ وہ سمجھتے تھے بلکہ ان کے تو ہمات نے جرمن کی طاقت کے ایسے نقشے کھینچ دیئے کہ ان کو سن کر انسان حیران ہو جاتا ہے.وہ ان اخبار کے ساتھ ساتھ وہ قومی آزادی کے مضمون بھی پڑھتے رہتے جو اخباروں میں چھپتے تھے اور اس سے ان کی سیاسی دلچسپی ترقی کر گئی.عوام الناس پر تو یہ اثر پڑا.تعلیم یافتہ طبقہ پر جنگ کا یہ اثر پڑا کہ جنگ کے دوران میں اس مسئلہ پر خاص طور پر زور دیا گیا کہ کسی حکومت کو حق نہیں کہ وہ کسی ملک کی آبادی کی مرضی کے خلاف اس پر حکومت کرے اور اس پر اس قدر زور دیا گیا کہ یہ اصل ایک ازلی مذہبی اصل کی طرح مقدس ہو گیا.ہندوستان کے بعض ہوشیا رسیاسی لیڈروں نے خوب پھیلا پھیلا کر اس اصل کو شائع کیا اور اس موقع کی انتظار بڑے شوق سے کرنے لگے جبکہ اس اصل کو استعمال میں لایا جائے گا.خلاصہ یہ کہ جنگ کے دوران میں ہندوستان کا سیاسی مطلع بالکل بدل گیا.اور دوسرے طبعی حالات سے مل کر اس نے ہندوستان میں ایسا تغیر پیدا کر دیا ہے کہ انسان اس کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے.اس تغیر نے لوگوں کے اندر سیلف گورنمنٹ کی ایک پوشیدہ خواہش پیدا کر دی جس کے
٣٢٦ اُبھرنے کے لئے کسی تحریک کی ہی ضرورت تھی.جنگ کے ختم ہوتے ہی ایسے سامان پیدا ہونے لگے کہ یہ تحریک بھی پیدا ہوگئی.جنگ کے بعد لاکھوں آدمی جو جنگی کاموں پر مامور تھے فارغ ہو گئے اور ان کو اپنے گھروں میں واپس آکر ایسے کام نہ ملے جن سے ان کا ایسا گزارہ ہوسکتا جس کے اب وہ عادی ہو چکے تھے.دوسرے ریکروٹنگ کے وقت لوگوں کو بہت امید میں دلائی جاتی تھیں کہ ان کو بہت سے فوائد ہوں گے اور چونکہ چند سال پہلے سرگودہا اور لائکپور میں آبادی کی خاطر گورنمنٹ نے لوگوں کو مربعے دیئے تھے حتی کہ بعض دفعہ اس وجہ سے دیئے تھے کہ فلاں شخص نے گاؤں میں سمال پاکس کا ٹیکا لگوایا تھا.ہر ایک شخص جو جنگ کو جاتا تھا اسے یہ امید تھی کہ وہاں سے آتے ہی اسے کم سے کم ایک مربع زمین کا ضرور ملے گا.گورنمنٹ کے پاس اس قدر زمین نہ تھی کہ سب کو خوش کر سکتی اس لئے واپس آنے والے سپاہیوں میں بے چینی پیدا ہوگئی.اسی طرح جب صلح کی تجویز شروع ہوئی اور تعلیم یافتہ ہندوستانی جو یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ صلح کے ہوتے ہی ہندوستان کو بہت کچھ حقوق مل جائیں گے اس امید کے بر نہ آنے پر برافروختہ ہو گئے.اگر مختلف ناموں کے ماتحت بعض اور ڈومینز کو فائدہ نہ پہنچتا تو یہ ہندوستانیوں کو اس قدرمحسوس نہ ہوتا مگر چونکہ گولفظ اقرار نہ کیا جاتا ہو مگر فی الواقع جنگ میں تعاون کی وجہ سے بہت سی نو آبادیوں کو فائدہ پہنچا اور اس کا اثر ہندوستان پر بہت ہی برا پڑا اور اس کا نقطہ نگاہ بالکل بدل گیا.رولٹ ایکٹ اور تحریک خلافت ایسے بہانے بن گئے جن کی وجہ سے پوشیدہ خواہشات جو ملک میں پیدا ہوگئی تھیں بیدار ہوگئیں اور ایک سرے سے دوسرے تک لوگ سیلف گورنمنٹ کی نہ پوری ہونے والی امید کے حصول کے لئے کھڑے ہو گئے اور تمام مذکورہ بالا امور نے اس خواہش میں عوام الناس کو بھی شامل کر دیا.میرے نزدیک ہندوستان میں امن کبھی قائم نہیں ہو سکتا جب تک انگلستان کے لوگ ان امور کو مدنظر نہ رکھیں جو ہندوستان میں بے چینی پیدا کرنے کا موجب ہیں اور وہاں کی اصل حالت سے واقف نہ ہوں گے اور میں آپ لوگوں کو بڑے زور سے اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اب سیلف گورنمنٹ کی تحریک صرف شہروں اور تعلیم یافتہ لوگوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ یہ تحریک گاؤں اور غیر تعلیم یافتہ لوگوں میں پھیل گئی ہے.عورتیں جو ہندوستان میں بہت ہی کم تعلیم رکھتی ہیں وہ بھی اس سے واقف ہوگئی ہیں.چونکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں جنگ نے ہر ایک گاؤں کو طبعا
۳۲۷ پولیٹیکس کا ایک سکول بنا دیا ہے.یہ بالکل درست ہے کہ عوام الناس اس امر کی حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ سیلف گورنمنٹ کی حقیقت کیا ہے مگر اس امر سے اس حقیقت میں کوئی فرق نہیں آتا کہ ملک کا بیشتر حصہ اس تحریک سے متفق ہے.وہ سُوراج کو جانتا ہے یا نہیں جانتا مگر وہ اس کو حاصل ضرور کرنا چاہتا ہے.ان حالات کو جب دیکھا جائے تو مجبوراً ما ننا پڑتا ہے کہ ہندوستان کی اس خواہش کا کچھ علاج ضرور ہونا چاہیے ورنہ قیام امن مشکل ہو گا مگر میں جو حالات پہلے حصہ مضمون میں بتا آیا ہوں وہ اس کے مخالف ہیں کہ ہندوستان کو موجودہ وقت میں سوراج ملے.جو قو میں اس وقت ایک دوسرے سے انصاف نہیں کر سکتیں اور ایک معمولی سے اشتعال پر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں وہ اس وقت کیا کریں گی جب انگریز واپس آجائیں اور ان کو کامل اختیارات حاصل ہو جائیں.میرے نزدیک ہندو مسلمان بھی اپنے دلوں میں اس امر پر خوش ہے کہ ہم طاقتور ہیں.انگریزوں کے باہر نکلتے ہی ہم حکومت پر قابض ہو جائیں گے.مسلمانوں کو اپنی طاقت اور ہمسایہ مسلمان حکومتوں پر گھمنڈ ہے.ہندوؤں کو اپنی تعداد اور بعض ہمسایہ بدھ حکومتوں پر گھمنڈ ہے.نہایت دبی آوازوں میں ہم گور کھا اور سکھ سپاہی اور پٹھان سپاہی کی طاقت اور قابلیت کے مواز نے سنتے ہیں اور میرے نزدیک ہندو قوم اب ایسی منظم ہو چکی ہے کہ مسلمانوں کے دعوے ایک ورثہ میں ملے ہوئے خیال سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے.پس میرے نزدیک موجودہ حالات میں سب سے بڑی تباہی ہندوستان کے لئے یہی ہو سکتی ہے کہ انگریز اپنا قدم وہاں سے ہٹا لیں.پہلے مسلمان تباہ ہوں گے اور پھر سب ملک.سیلف گورنمنٹ اچھی چیز ہے مگر وہ سیلف گورنمنٹ جوسیلف ڈسٹرکشن کی طرف لے جاوے ہر گز قابل پسند نہیں.مگر ہمارا یہ فیصلہ کہ اس وقت کے سوشل حالات ہندوستان کو سیلف گورنمنٹ دلانے کی تائید نہیں کرتے کافی نہیں ہو سکتا کیونکہ خواہش پیدا ہو چکی ہے اور عام بھی ہو چکی ہے اور اگر اس خواہش کو کسی طرح ٹھنڈا نہ کیا گیا تو اس سے مایوسی پیدا ہوگی اور اس کے نتیجہ میں عدم مبالات.پس مایوسی کا نتیجہ یا ہلاکت نفس ہوتی ہے یا ہلاکت گیر.پس سیلف گورنمنٹ دی جائے یا نہ دی جائے دونوں صورتوں میں ہلاکت ہندوستان کا منہ تک رہی ہے اور برٹش ایمپائر کے بہی خواہوں کا فرض ہے کہ وہ اس کا علاج سوچیں کیونکہ ہندوستان کی ہلاکت میں ایمپائر کی ہلاکت ہے اور برٹش
۳۲۸ ایمپائر کے بدخواہ ابھی سے اس پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ مانٹیگو چمسفورڈ ریفارم سکیم اس کا علاج ہے.میرے نزدیک جن اصول پر اس رپورٹ کی بنیاد ہے اور جس نیت سے یہ تیار کی گئی ہے وہ قابل تعریف ہے مگر میرے نزدیک اس سکیم میں بعض اصولی غلطیاں ایسی رہ گئی ہیں کہ یہ سکیم اپنی موجودہ حالت میں ہندوستان کی بیماری کا علاج نہیں ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ اس سے زیادہ اختیارات ہندوستانیوں کو دینے چاہئیں جو یہ سکیم دیتی ہے بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ جس طریق سے اختیار دیئے گئے ہیں وہ درست نہیں بلکہ ان سے فساد پیدا ہوتا ہے.جس وقت اس سکیم کو رائج کیا گیا ہے اس وقت اس کے متعلق میری رائے بھی لی گئی تھی اور میں نے جو رائے اس وقت دی تھی گو اس وقت کے حالات کے ماتحت کہ حکام میں ایک تسلی کی روح پھیلی ہوئی تھی قبولیت کے قابل نہیں سمجھی گئی تھی مگر بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ میری رائے درست تھی.ریفارم سکیم نے ایک یہ اصل قرار دیا ہے کہ ہندوستانی ایلینڈ (Elected) ممبر کونسلوں میں زیادہ ہونے چاہئیں.میرے نزدیک یہ غلط اصل تھا اور ایجی ٹیشن کی بنیاد یہیں سے رکھی گئی ہے.میں نے اعتراض کیا تھا کہ ضرور ہے کہ مختلف موقعوں پر ہندوستانی ممبر گورنمنٹ کی رائے کے خلاف ہوں.جب وہ خلاف ہوں گے اور گورنمنٹ کے مسودہ کو رد کر دیں گے یا اس کی رائے کے خلاف کوئی مسودہ پاس کریں گے اور گورنمنٹ اس کو قبول نہ کرے گی تو یقیناً ملک کے لوگ ہندوستانی ممبروں کے ساتھ ہوں گے اور اسی سے ایجی ٹیشن پیدا ہوگا اور اگر اس ایجی ٹیشن کے ڈر سے گورنمنٹ اس کو قبول کرلے گی تو گویا وہ خود اس اصل کو باطل کر دے گی کہ ابھی کچھ عرصہ کے لئے ہندوستانی کامل سیلف گورنمنٹ کے قابل نہیں ہیں.ویٹو صرف اس جگہ کام دیتا ہے جہاں یہ تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ دارالنواب حکومت کی قابلیت رکھتا ہے.لیکن کسی غیر معمولی موقع کے خیال سے ویٹو کا دروازہ کھلا رکھا جاتا ہے اور چونکہ وہ شاذ و نادر ہوتا ہے اس لئے اس پر ملک اس قدر برافروختہ نہیں ہوتا مگر جہاں اعلیٰ اتھاریٹیز (Authorities) اس امر کو تسلیم کرتی ہیں کہ ابھی دار النواب حکومت کے قابل نہیں وہاں اس کو
۳۲۹ اختیار دے کر ویٹو سے بدنتائج کو روکنے کی کوشش کرنا گویا خو د فساد پیدا کرنا ہے.غرض ویٹو کا طریق اسی وقت بغیر فساد پیدا کرنے کے کام دے سکتا ہے جب کہ واضعان قوانین اس امر کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ جن لوگوں کے خلاف اس کو استعمال کرنا ہے وہ فیصلہ کرنے کی پوری قابلیت رکھتے ہیں اور ان کے فیصلہ کے خلاف اس کو استعمال کرنے کا موقع یا تو بالکل نہیں ملے گا یا شاذ و نادر کبھی ملے گا.اسی طرح ایجی ٹیشن کا دروازہ بھی اسی وقت کھولا جاسکتا ہے جب کہ وہ حکام جن کے خلاف اس کو استعمال کیا جائے رائے عامہ کے ماتحت بدلے جا سکتے ہوں.اس وقت بے شک ایجی ٹیشن ایک عمدہ ذریعہ ہے عام رائے کے نفاذ کا مگر جب کہ حکام عام رائے کے ماتحت بدلے نہ جا سکتے ہوں تو پھر ایجی ٹیشن سوائے ریوولیوشن (Revolution) کے اور کیا نتیجہ پیدا کرسکتا ہے.جب حکام عام رائے کے ماتحت ہوتے ہیں تو وہ یہ نہیں دیکھتے کہ عام رائے صحیح ہے یا غلط بلکہ جو عام رائے ہو وہ اس کی اتباع کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں نہیں تو کام سے علیحدہ ہو کر ان لوگوں کو موقع دیتے ہیں جو عام رائے سے متفق ہیں مگر جو حکام عام رائے کے ماتحت نہیں وہ اگر دیانت دار ہوں تو تمام امور کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ کیا وہ بات ملک کے لئے مفید بھی ہے یا نہیں اگر وہ کسی بات کو ملک کے لئے مضر پاتے ہیں تو اس کو رد کر دیتے ہیں.ایسے لوگوں کے خلاف اگر ایجی ٹیشن ہو اور حکام اور عام رائے میں اتفاق رائے نہ ہو سکے تو اس کا لازمی نتیجہ ریوولیوشن ہوگا.میرے نزدیک ریفارم سکیم بناتے وقت اس امر کو اس کے واضعین نے بالکل نظر انداز کر دیا ہے اور انگلستان کی موجودہ حالت پر قیاس کر کے ایجی ٹیشن کو ریوولیوشن کا ذریعہ سمجھ لیا ہے حالانکہ ہندوستان میں ملک کی عام رائے کو گورنمنٹ کے مقرر کرنے یا الگ کرنے میں کوئی دخل نہیں ہے.اس وجہ سے وہاں ایسا طریق حکومت جو لازماً ایجی ٹیشن پیدا کرتا ہو یقیناً سمبش یا ریوولیوشن (Revolution) ان دونوں سے ایک نتیجہ پیدا کرے گا.میری رائے یہ تھی اور اب بھی ہے کہ کونسلوں میں کثرت رائے گورنمنٹ ممبروں کی ہونی چاہیے تھی لیکن گورنر جنرل اور گورنروں کو ہدایت ہونی چاہیے تھی کہ جب ایسے معاملات پیش ہوں جن کی نسبت گورنمنٹ سمجھتی ہو کہ کوئی فیصلہ بھی کونسل کرے وہ اس پر عمل کرسکیں گے.ان میں گورنمنٹ ممبر ووٹ نہ دیں اور پبلک رائے پر اس معاملہ کو چھوڑ دیں جو معاملات زیادہ اہم نہ ہوں
۳۳۰ لیکن ان کا اثر گورنمنٹ پر بھی پڑتا ہو ان میں گورنمنٹ ممبروں کو آزاد چھوڑ دیں کہ وہ اپنی ذاتی رائے کے مطابق عمل کریں اور جس امر میں گورنمنٹ یہ سمجھے کہ وہ اپنے نقطہ نگاہ کو نہیں بدل سکتی ان میں کثرت رائے سے جو اس کی ہوگی فیصلہ کرے.اس امر کونہیں بھولنا چاہیے کہ انسانی فطرت ہر وقت زندہ رہتی ہے اور عقل اور دلیل اس پر پورے طور سے غالب نہیں آ سکتے.ملک پر اس امر کا اثر بالکل اور پڑتا ہے کہ اس کی منتخب کردہ جماعت ایک فیصلہ کرے اور اس کو ر ڈ کر دیا جائے اور اس کا اثر اور پڑتا ہے کہ ایک کونسل جس میں خواہ گورنمنٹ کے ممبر ہی ہوں کثرت رائے سے ایک مسودہ کو رڈ کر دے یا پاس کر دے.دوسر انقص ریفارم سکیم میں یہ رہ گیا ہے کہ اس میں کامل اختیار ہند وستانیوں کو کسی صیغہ میں بھی نہیں ملے اور جرح کرنے کا اختیار ہر صیغہ میں مل گیا ہے.بغیر ذمہ واری کے تنقید کرنا بالکل آسان ہوتا ہے.ذمہ داری انسان کو بہت محتاط بنادیتی ہے.نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہندوستانیوں کے لئے تسلی کی صورت کوئی پیدا نہیں ہوئی اور رنج کی صورتوں کے نکلنے کے لئے دروازہ کھول دیا گیا ہے.میرا مشورہ یہ تھا کہ دو صیغے مثلاً تعلیم اور جنگلات یا تعلیم اور کوئی اور صیغہ کلی طور پر ہندوستانیوں کو سپرد کر دیا جائے.صوبوں میں بھی اور مرکزی حکومت میں بھی.ان صیغوں میں ہندوستانی وزراء، گورنروں اور گورنر جنرل سے مل کر کام کریں اور وزراء پورے طور پر کونسلوں کے ماتحت ہوں.اگر کونسلیں وزراء کے کام پر خوش نہ ہوں وہ کام سے علیحدہ ہو جائیں جس طرح کہ مغربی ممالک میں ہوتا ہے.اس کے کئی فائدے تھے.اول تو یہ کہ ہندوستانیوں کو بغیر حکومت کو کوئی معتد بہ نقصان پہنچانے کے حکومت کا تجربہ ہو جاتا.دوسرے ان کو یہ تسلی ہوتی کہ بعض صیغوں میں ان کو اپنی لیاقت اور حسن انتظام دکھانے کا موقع مل گیا ہے.تیسرے ملک کو بھی ممبران کونسل کے کام دیکھنے کا موقع ملتا اور صحیح اصول پر سیاسی پارٹیوں کی نشو و نما کا راستہ کھل جاتا.اب چونکہ ذمہ داری کوئی نہیں صرف تنقید ان کا کام ہے اس لئے سب ملک ان کے کام کی خوبی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے ہندوستانی ہونے کے سبب سے ان کی تائید کرنے لگتا ہے.چوتھے وزراء چونکہ کونسلوں کے سامنے ذمہ دار ہوتے.ان کو اپنے ہم خیال بنانے اور ان کو ساتھ ملائے رکھنے کا خیال رہتا اور مختلف خیالات میں توازن قائم رہتا.اب یہ ہوتا ہے کہ وزراء گوملکی ہوتے ہیں مگر چونکہ کونسل کے سامنے جوابدہ نہیں
ہوتے اس لئے وہ ممبروں کی دلجوئی اور ان کو اپنے ساتھ رکھنے کی پوری کوشش نہیں کرتے اور اس کا بداثر گورنمنٹ کی نیک نامی پر پڑتا ہے.پانچواں زبر دست یہ فائدہ تھا کہ اس سے غیر ذمہ دارانہ تنقید کا دروازہ آسانی سے بند کیا جاسکتا تھا.اس وقت اور انہی معاملات میں مؤثر تنقید کا موقع کونسلوں کو دیا جاتا جب اور جن معاملات کی نسبت خیال کیا جا تا کہ ان کو ہندوستانیوں کے سپرد کر دینے میں کوئی حرج نہیں آئندہ سیلف گورنمنٹ کی ترقی کے مدارج اختیارات کی زیادتی میں نہ ہوتے بلکہ صیغوں کی زیادتی میں ہوتے.وقفہ وقفہ پر جو صیغے محفوظ سمجھے جاتے وہ ہندوستانیوں کو دے دیئے جاتے.اس طرح گورنمنٹ اور رعایا کے تعلقات بھی درست رہتے اور فرقوں کو آپس میں نیک سلوک کرنے کا موقع ملتا.مگر چونکہ ایک اصول پر ریفارم سکیم کی بنیاد پڑ چکی ہے اور اس سے اس کو ہٹانا شاید اصول سیاست کے خلاف سمجھا جائے اس لئے موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے میرے نزدیک مندرجہ ذیل امور قابل غور ہیں جن کے علاج سے موجودہ شورش میں کچھ کمی ہو سکتی ہے.پیشتر اس کے کہ میں علاج بتاؤں میں موجودہ شورش کی نسبت آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں.اس وقت ہندوستان میں حد اعتدال سے باہر دو پارٹیاں ہیں اور یہ دونوں پارٹیاں عدم تعاون کے عنوان کے نیچے کام کرتی ہیں.ان میں سے ایک مسٹر گاندھی کی پارٹی ہے جس کا یہ خیال ہے کہ گورنمنٹ سے کلی طور پر عدم تعاون کرنا چاہیے.نہ کونسلوں میں جانا چاہیے ، نہ اس کے اسکولوں میں داخل ہونا چاہیے ، نہ اس کی عدالتوں میں جانا چاہیے.دوسری پارٹی کے لیڈر مسٹر داس اور مسٹر نہرو ہیں اول الذکر بنگال کے اور ثانی الذکر یوپی کے مشہور وکیل ہیں.ان کی پارٹی کا یہ خیال ہے کہ ہمارے نان کو آپریٹ کرنے سے گورنمنٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا جب کہ دوسرے لوگ ایسے موجود ہیں جو گورنمنٹ سے کو آپریٹ کرنے کے لئے تیار ہیں.اس لئے ان کے نزدیک ایسی کو آپریشن جس کا آخری نتیجہ مؤثر نان کو آپریشن ہو جائز ہے اور اس اصل کے ماتحت یہ لوگ کونسلوں میں داخل ہوئے ہیں اور ان کی ایک غرض تو اس سے یہ ہے کہ انگلستان کے لوگوں پر ثابت کر دیں کہ یہ امر غلط ہے کہ ملک کی رائے ان کے خلاف ہے.چنانچہ کثرت سے ان لوگوں کے نامزد کردہ ممبر کا میاب ہوئے ہیں
۳۳۲ سوائے پنجاب کے جہاں ان کو بہت کم کامیابی ہوئی ہے.دوسری غرض ان کی یہ ہے کہ جولوگ گورنمنٹ سے کو آپریٹ کرنا چاہتے ہیں ان کو جہاں تک ہو سکے کونسلوں سے نکال دیں تا کہ گورنمنٹ اور رعایا کا تعلق کمزور ہو جائے.تیسری غرض ان کی یہ ہے کہ کو آپر یٹر ز کو نان کو آپریشن پر مجبور کریں اور وہ اس طرح کہ جب کوئی ایسا موقع آئے کہ جس میں ان کی رائے اعتدال پسندوں سے مل جائے تو اس وقت گورنمنٹ کو شکست دے کر اس کے غیر مقبول ہونے کو ظاہر کریں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی کونسلوں میں داخل ہونے کے بعد جو لوگ پہلے اشتراک فی العمل کے حامی تھے ان کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے.پہلے تو وہ اتحاد کے خیال سے گورنمنٹ سے سمجھوتہ کر لیا کرتے تھے.اب ان کے داخل ہونے کے سبب سے چونکہ ان کی اور نان کو آپریٹروں کی خدمات کا مقابلہ کرنے کا ملک کو موقع ملتا ہے اس لئے وہ اس پالیسی کو اختیار نہیں کر سکتے اور ان کو اپنی عزت اور اپنے نام کے خیال سے مجبوراً اس پہلی سودا کر نے والی پالیسی کو ترک کرنا پڑا ہے.نتیجہ اس کا یہ ہوا ہے کہ ریفارم سے جو فائدہ مدنظر تھا وہ نکلتا نظر نہیں آتا جیسا کے سی پی - بنگال اور امپریل کونسل کے واقعات سے ظاہر ہے.اگر گورنمنٹ بار بار پرانی کونسلوں کو منسوخ کر کے نئے انتخاب کرے گی تو تب بھی ان لوگوں کا فائدہ ہے کیونکہ اس صورت میں یہ پارٹی لوگوں سے کہے گی کہ دیکھ لو ہندوستان کو کوئی اختیارات نہیں دیئے گئے تھے جب کوئی بات گورنمنٹ کی رائے کے خلاف ہوئی اس نے کونسلوں کو ہی تو ڑ ایا اختیارات صرف دکھاوے کے تھے.میرے نزدیک موجودہ حالات میں گورنمنٹ کے لئے اصل میں تو یہی راستہ کھلا ہے کہ ریفارم سکیم کی اصلاح کر کے اس کے بدنتائج سے محفوظ ہولیکن اگر یہ قابل عمل نہ سمجھا جائے تو پھر یہ چاہیے کہ جس ذریعہ سے لوگوں کو کامیابی ہوئی ہے اسی ذریعہ کو گورنمنٹ بھی اختیار کرلے اور وہ ذریعہ جو انہوں نے اختیار کیا ہے یہ ہے کہ وہ پبلک کے پاس اپیل کرتے ہیں.گورنمنٹ کو بھی یہی ذریعہ اختیار کرنا چاہیے اور یہ موقع سب سے بہتر ہے.اس وقت ملک کے لوگوں میں بین الاقوام فسادات کی وجہ سے یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ ان کو برطانوی گورنمنٹ کی ابھی ضرورت باقی ہے.پس اس وقت اگر گورنمنٹ عوام الناس کی طرف توجہ کرے تو وہ ملک کو اس سڑک پر چلا سکتی ہے جس
۳۳۳ سے وہ کامیابی کا منہ دیکھ سکے.مجھے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ گورنمنٹ کچھ وقت سے نروس ہوئی ہوئی ہے جس وقت ہندو مسلمانوں میں فسادات شروع ہی ہوئے تھے میں نے پنجاب گورنمنٹ کو توجہ دلائی تھی کہ ملک میں فساد ہمیشہ نہیں رہ سکتا کچھ دن فساد ہو گا پھر لوگ اکٹھے ہو جائیں گے اور مسٹر گاندھی اس موقع کو کبھی نہیں جانے دیں گے اور لوگ یہ خیال کریں گے کہ اصل خیر خواہ ملک کے مسٹر گاندھی ہیں.پس گورنمنٹ کو چاہیے کہ اس وقت خود دخل دے کر ہند و مسلمانوں کے جھگڑے کو ختم کر دے اور میں نے اس کے لئے اپنی جماعت کی خدمات بھی پیش کی تھیں کیونکہ ہم پہلے طرفین کے خیالات معلوم کر کے ابتدائی کام کر سکتے ہیں اور اگر ایسا ہو جاتا تو یقیناً لوگوں کے دلوں میں یہ بات بیٹھ جاتی کہ گورنمنٹ ان کی بچی بہی خواہ ہے اور عوام الناس جو ان جھگڑوں سے دل ہی دل میں تنگ ہیں اس کو ایک احسان سمجھتے مگر گورنمنٹ نے مجھے یہ جواب دیا کہ اگر ہم صلح کرانے کی کوشش کریں گے تو لوگ اس کو بد نیتی پر محمول کریں گے.ایک حقیقی فائدہ کو نظر انداز کر کے ایک خیالی خطرہ کی اتباع کرنا صرف نروس نیس کی علامت ہے.اب مسٹر گاندھی نے فاقہ کشی کا ڈراوا دیا اور یقیناً ملک کے اکثر لوگ محسوس کریں گے کہ گورنمنٹ فساد چاہتی تھی مگر مسٹر گاندھی نے اپنی جان کی قربانی دے کر ملک کو بچایا - گو بہت سی باتیں ہیں جن کی اصلاح سے موجودہ حالت کو بدلا جا سکتا ہے مگر ان کو ایک لیکچر میں بیان نہیں کیا جا سکتا.اس لئے میں صرف ایک بات کو بیان کر دیتا ہوں اور وہ گورنمنٹ سے نہیں بلکہ اقوام سے تعلق رکھتی ہے.میرے نزدیک اس وقت سب سے زیادہ مدد جو اس فساد کی اصلاح میں دے سکتا ہے وہ فرد ہے نہ گورنمنٹ - انگریز افسر جو ہندوستان کو بھیجا جاتا ہے اس کے ذہن میں اس بات کو خوب اچھی طرح ڈالنا چاہیے کہ اب ہندوستان کے احساسات بدل گئے ہیں.اب ایک حاکم باپ کی طرح حکومت نہیں کر سکتا اب وہ ایک بھائی کی طرح اپنی بات منوا سکتا ہے.آج سے پہلے ہندوستانی انگریز افسر کو ماں باپ کہتا تھا.اب وہ باہر کے خیالات سے متاثر ہوکر اس کو بھائی کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے اور چاہیے کہ انگریز افسر جو ہمیشہ اپنے ملک کے فوائد کو مدنظر رکھ کر ضرورت زمانہ کے مطابق اپنے حالات بدلتا رہا ہے اب برادرانہ سلوک کو اختیار کرے اور عوام الناس میں مل کر رہے.وہ
۳۳۴ لوگوں سے زیادہ تعلق پیدا کرے.وہ ان سے بے تکلفی پیدا کرے.وہ اپنی افسریت کے خیال کو ترک کر کے اصرار اور سمجھانے سے کام لے.وہ ان کی دعوتوں ، ان کی مجلسوں اور ان کی خوشیوں اور غموں میں شامل ہو اور اس پرانے ریزرو کو جس کا وہ عادی رہا ہے ترک کر دے تا کہ ہندوستانی اسے صرف اپنا خیر خواہ ہی نہ سمجھیں بلکہ اسے اپنے میں سے ہی ایک خیال کریں.اسی طرح چاہیے کہ انگلستان کے لیکچرار اور اخبار اپنی تقریروں اور تحریروں میں ہند وستانیوں کے احساسات کا خیال رکھیں بعض معمولی باتیں بڑے نتائج پیدا کر دیتی ہیں.میرے نزدیک اس قدر ایجی ٹیٹر کو کسی اور چیز نے فائدہ نہیں دیا جس قدر کہ بعض انگریز لیکچراروں کی تقریروں اور بعض نامہ نگاروں کی تحریروں نے.ایک ہندوستانی جس وقت یہ پڑھتا ہے کہ اس کے ہم وطنوں کو برا کہا جاتا ہے یا ان کی نسبت یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ملک کی رائے ان کے ساتھ نہیں ہے تو وہ طبعا ان کی طرف بھی جاتا ہے اور اگر وہ پہلے ان کا مخالف تھا تو اب ہمدرد ہو جاتا ہے.پس میں آپ لوگوں سے یہ درخواست کروں گا کہ ہندوستانی طبیعت کا زیادہ مطالعہ کریں اور اپنی تقریروں اور تحریروں اور سلوک میں ہندوستانیوں کے احساسات کا خیال رکھیں.مجھے تعجب آتا ہے جب کہ انگریزوں سے میں یہ سنتا ہوں کہ ہندوستانی انگریزوں کی طبیعت کا مطالعہ نہیں کرتے.میں جانتا ہوں کہ یہ درست ہے مگر اس میں بھی شک نہیں کہ انگریز ہندوستانیوں کی طبیعت کا بہت ہی کم مطالعہ کرتے ہیں جس قوم کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ہو اس کا فرض ہے کہ وہ پہلے قدم اُٹھائے.پس چاہیے کہ برطانیہ کے لوگ ہندوستانیوں کی طبیعت کا گہرا مطالعہ کریں پھر ان سے ہمدردانہ معاملہ کریں.اس سے لازماً ہندوستانیوں کی بدظنیاں دور ہو جائیں گی اور طبائع اس امر کے لئے تیار ہو جائیں گی کہ ٹھنڈے دل سے ان اختلافات کے دور کرنے کیلئے با ہمی بیٹھ کر غور کر سکیں جن کی موجودگی دونوں قوموں کو تکلیف دے رہی ہے اگر تھوڑی سی احساسات کی قربانی ، اگر تھوڑا سا جذبات کو دبانا ہندوستان کے ہیرے کو جو برٹش تاج کی زینت رہا ہے مگر اس وقت اپنی جگہ سے ہل رہا ہے پھر اپنی جگہ پر مضبوطی سے قائم کر دے تو کیا آپ لوگ اس کے لئے تیار نہیں ہوں گے؟ مجھے یقین رکھنا چاہیے کہ ضرور ہوں گے.فقط ۲۶ ستمبر ۱۹۲۴ء- عصر
۳۳۵ حضور مضمون لکھ رہے ہیں.اسی مصروفیت کی وجہ سے آج نماز ظہر و عصر جمع کر کے ادا کیں اور نماز کے بعد جلدی ہی حضور مع مولوی عبد الرحیم صاحب درد، چوہدری فتح محمد خان صاحب اور خان صاحب اور حافظ روشن علی صاحب دعوت چائے کے لئے کلیر ج ہوٹل میں تشریف لے گئے جہاں ایک سو کے قریب لوگ چائے پر مدعو تھے جن میں چند مرد وزن بہائی تھے اور باقی مسلمان اور انگریز لوگ مرد اور عورتیں تھیں.روح افغان بھی تھا مگر صرف تعارف کے طور پر چند کلمات گفتگو کے ہوئے.تفصیلی گفتگو کو ئی کسی سے بھی نہ ہوئی.لارڈ ہیڈلے بھی ملے اور اِدھر اُدھر کی معمولی باتیں ہوئیں.مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت پر بھی اس نے حضرت اقدس سے گفتگو کی اور حضور جلدی وہاں سے فارغ ہو کر واپس تشریف لے آئے اور مضمون لکھنا جاری رکھا.نماز مغرب اور عشاء جمع کر کے ادا کیں اور کھانا بعد میں کھایا.کل طبیعت کسی قدر خراب تھی کچھ پسلی کی طرف درد کی شکایت تھی مگر اس کے باوجود حضور کام میں مصروف ہیں.۲۸ ستمبر ۱۹۲۴ ء : صبح کی نماز میں حضور تشریف نہیں لا سکے.ناشتہ وقت پر کیا مگر کمرے میں ڈاک ہندوستان کا ایک حصہ رات آ گیا تھا جس میں لاہور سے سید دلاور شاہ صاحب نے مولوی نعمت اللہ خان صاحب کے مقدمہ کا حال لکھا تھا.ہاں ایک ضروری بات لکھنی رہ گئی تھی وہ یہ کہ نائیجیریا کی عورت کی دعوت کے دن حضرت اقدس جب ان کے ایڈریس کا جواب دینے لگے تھے تو حضور نے خوش نصیب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو میری زبان “ کر کے مخاطب فرمایا تھا.وایں سعادت بزور بازو نیست نه بخشد خدائے بخشنده مبارک با دصد ہزار ایک اور واقعہ بہت ہی سنجیدہ پیش آ گیا.وہ یہ تھا کہ آج کی شام کی چائے کی دعوت جو ریٹرز ہوٹل میں دی جانے والی تھی اس کے کارڈ شائع کرنے میں غلطی ہوگئی جو بالکل بے خیالی میں ہوئی.عمد اس میں بالکل نہیں تھا.اس میں لکھا گیا تھا ' سیکرٹری ٹو دی انڈین ڈیلی گیشن، گو حضور نے پہلے دن بھی اس کا رڈ کو دیکھا تھا مگر شاید نظر نہ پڑی یا کیا معاملہ ہوا.آج صبح کے اخبارات "
۳۳۶ پڑھتے پڑھتے حضور کی طبیعت خراب ہوئی.( چوہدری علی محمد صاحب کہتے ہیں کہ غالبا اس دعوت کے متعلق کوئی نوٹ اخبار میں نکلا ہوگا ) کھانے کے میز پر اس دعوت کے وقت وغیرہ کا ذکر آ گیا.حضور نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ میں تو اس دعوت میں نہیں جاؤں گا کیونکہ ہند وستانی احمدیوں کے نائب کی شکل میں ہمیں ظاہر کیا گیا ہے.خلافت کا مقام بہت ہی نازک مقام ہے.بات بات پر ، لفظ لفظ پر نقطہ نقطہ پر بلکہ خلیفہ کی ہر حرکت وسکون پر دنیا بعد میں بحث اور تنقید کرے گی.دیکھئے حضرت مسیح موعوڈ کے لفظ لفظ پر کس طرح بحث ہو رہی ہے.مسجد کا معاملہ اب تک ہمارے گلے کا ہار بنا آ رہا ہے.( غالبا مسجد بھیرہ کا معاملہ حضرت خلیفہ اول کا واقعہ ) غرض جب تک میز پر تشریف فرما رہے قریباً ایسی ہی گفتگو رہی.حافظ صاحب ، مصری صاحب، چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور اور دوستوں نے اور نیر صاحب نے بھی بہت کچھ عرض معذرت کی مگر حضور نے نہ مانا.لوگوں نے عرض کی حضور آج بڑے بڑے لوگ حضور نے چائے پر بلائے ہوئے ہیں ان پر اس بات کا گہرا اثر پڑے گا اور سلسلہ کی تبلیغ میں سخت روک ہو جائے گی.حضور نے فرمایا وہ نقصان عارضی ہے اور اس نقصان کے مقابلہ میں بہت ہی تھوڑا ہے وغیرہ وغیرہ.حضور نے اس کے نقصانات کو مفصل اور بار بار افسوس سے ظاہر فرمایا اور فرمایا کہ ترقی کرنے والی قوم کے افراد کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے اور تول تول کر زبان سے لفظ نکالنے چاہئیں کیونکہ ان الفاظ کا اثر نہ صرف یہیں ختم ہو جاتا ہے بلکہ آئندہ بھی ان کا سلسلہ جاری رہنے والا ہوتا ہے.عجیب بات ہے کہ بعض اوقات بات پر بات تکلیف و رنج کی پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ حضور کھانے کے میز سے ابھی اُٹھے بھی نہ تھے کہ ایک اور ایسا ہی قضیہ پیش آ گیا جو یہ تھا کہ آج کے دوپہر کے کھانے پر خان صاحب نے ایک خان بہادر صاحب کو دعوت دے رکھی تھی جن کے واسطے کھانا بھی خاص پکوا رکھا تھا مگر عجیب بات یہ ہوئی کہ جب کھانے کا وقت ہوا تو دونوں صاحب موجود نہ تھے.مہمان آئے جو ۶ کس تھے.حافظ صاحب ان سے تبلیغی باتیں بھی کرتے رہے مگر سب نے یہی سمجھا کہ طلباء ہیں.شوق سے آگئے ہیں.کسی نے ان کا نام تک بھی نہ پوچھا حتی کہ ان کے بیٹھے بیٹھے کھانے کی گھنٹی ہوئی مگر کسی نے ان سے نہ کہا کہ کھانا کھا ئیں کیونکہ جن کو علم تھا وہ موجود نہ تھے.دوسرے جرات نہ کرتے تھے کہ ۶ آدمیوں کو کیونکر کر کھانے پر بلائیں.
۳۳۷ آخر نیز صاحب اتفاقاً کھانے کے کمرے میں آئے تو میں نے ان کو توجہ دلائی اور عرض کیا کہ بہتر ہو اگر اپنے چند دوست اس وقت کھانے پر نہ بیٹھیں اور ان کو بٹھا دیں.( کیونکہ ہماری میز پر اتنی گنجائش ہے کہ زیادہ سے زیادہ سترہ آدمی بیٹھ سکتے ہیں اور آج کل کھانا ہمارے ہاں تھیں بنتیں آدمیوں کا پکتا ہے) چنانچہ نیز صاحب نے کہا کہ بعض دوست بازار بھی تو گئے ہوئے ہیں ان کی جگہ بھی تو خالی رہے گی.مل ملا کر کام ہو جائے گا.اچھا میں ان کو لاتا ہوں.چند اور دوست بھی جو اس وقت میز پر موجود تھے متفق ہوئے اور اس طرح فیصلہ یہی ہوا کہ ان کو بلا لیا جائے مگر وائے شامتِ اعمال کہ نیر صاحب بجائے ان کو بلانے کے کسی اور کام میں لگ گئے اور بھول گئے اور حضرت اقدس تشریف لے آئے اور کھانا شروع بھی ہو گیا کہ بازار سے آنے والے کسی دوست نے عرض کی حضور چند دوست ملاقات چاہتے ہیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں آج بہت مصروف ہوں اور مضمون لکھ رہا ہوں ملاقات کیسے ہو سکتی ہے.چنانچہ وہ دوست واپس گئے اور ان مہمانوں کو ( جن میں سے در حقیقت ایک صاحب کی دعوت تھی اور باقی یونہی آگئے تھے ) معذرت کر کے کہ حضرت اقدس بہت مصروف ہیں رخصت کر دیا اور وہ چلے گئے.تھوڑی دیر بعد خان صاحب بازار سے کھانے کے عین آخر پر آگئے اور پوچھا کہ کیا خان بہا در تشریف نہیں لائے؟ دوستوں نے کہا کہ کوئی ۶ آدمی آئے تھے مگر چلے گئے ہیں اور تمام واقعہ کہہ سنایا.اس پر خان صاحب نے کہا کہ ان کو تو کھانے پر بلایا گیا تھا.بس حضور کو اس بات سے بہت رنج ہوا اور فرمایا کہ مہمانوں کو کھانے پر بلا کر پھر خالی بھیج دینا کیسی خطرناک حرکت ہے.وہ کیا خیال کرتے ہوں گے وغیرہ وغیرہ.حضور کھانے سے فارغ ہو کر کمرہ میں تشریف لے گئے.پیچھے سب نے مل کر مشورہ کیا کہ اگر خدانخواستہ حضور آج کی دعوت چائے پر تشریف نہ لے گئے تو اس کا اتنا برا اور گہرا اثر ہوگا جس کا زائل کرنا مشکل ہو جائے گا.سب مل کر چلو معافی مانگیں.چنانچہ سب کے سب حضرت اقدس کے دروازہ پر حاضر ہوئے بہت کچھ عرض کیا.معذرت کی.معافی مانگی.غلطی کا اقرار کیا اور خدا خدا کر کے جان میں جان آئی جب کہ حضرت اقدس نے یہ فرمایا کہ اچھا انشاء اللہ تعالیٰ میں چلوں گا مگر بات بہت ہی قابل افسوس اور نا قابل تلافی ہو چکی ہے وغیرہ وغیرہ.
۳۳۸ اس مرحلہ پر دوستوں نے حافظ روشن علی صاحب کو حضرت اقدس کے حضور عرض کرنے کی غرض سے پیش کیا تھا.ان کی عرض پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ آپ کا اس میں کیا تعلق ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ تعلق نہیں تو سفارش تو کر سکتا ہوں.الغرض باتیں بہت تھیں لمبی نہیں لکھتا کہ مبادا پھر مجھ سے کوئی غلطی ہو جائے.جلد جلد حضرت اقدس نے مضمون کے ترجمہ کے ختم کرنے اور ٹائپ کرانے کا حکم دیا.نماز ظہر و عصر جمع کر لی گئی اور حضور ساڑھے تین بجے ہوٹل کو تشریف لے گئے جو دوست الگ لگ اوراق لے کر ترجمہ کر رہے تھے ان کو ختم کر کے قادیانی کے حوالے کر آنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ قادیانی ٹائپ کروا کر ہوٹل میں لے آوے کیونکہ وہاں سے اتنی فرصت نہ ہوگی کہ پھر مکان پر آ کر دوسرے لیکچر کے لئے جائیں.مکرم جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب، چوہدری محمد شریف صاحب، مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور چوہدری محمد خان صاحب ترجمہ ختم کر کے حضرت کے پیچھے ہوٹل میں جا پہنچے مگر مولوی محمد دین صاحب ( جو واقعی ایک محنت کش کا رکن انسان ہیں ) اور ملک غلام فرید صاحب نہ گئے اور گل مضمون کی تیاری اور ٹائپ ہو چکنے کے بعد میرے ساتھ ہی ہوٹل کو گئے.ہوٹل میں جب ہم لوگ پہنچے تو حافظ صاحب چائے سے فراغت پر مثنوی رومی کے اشعار پڑھ رہے تھے اور ان کا بھی آخری شعر ان کی زبان پر تھا.مجلس لگی ہوئی تھی اور لوگ ادب اور خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے.میں نے بڑھ کر مضمون پیش کیا جس کو لے کر حضرت اقدس نے کسی دوست کے سپر د کر دیا.مجلس برخاست ہوئی اور عورتیں اور مرد شکریہ اور سلام کے بعد رخصت ہونے لگے.عورتیں ذرا ادب سے کسی قدر جھک کر سلام کرتی تھیں اور مردمصافحہ بھی کرتے تھے.یہاں کی عورتیں جن کے ہاتھ ان کے قابو میں ہی نہیں ہوتے اور جب کوئی مردان کے سامنے ملاقات کو آتا ہے تو جھٹ بے اختیار اور بے ساختہ ان کے ہاتھ اچھل پڑتے ہیں اور ان کو چین نہیں آتا اور دل نہیں مطمئن ہوتا ان کا بلکہ ان کو اپنی بے عزتی اور تو ہین وہتک کا خیال دامنگیر ہو جاتا ہے اگر مصافحہ نہ کریں یا نہ کیا جاوے.وہ عورتیں ہاں وہی آزاد خیال اور اپنے فیشن کی دلدادہ عورتیں جب ان کو ایک امرا چھی طرح سے مدلل کر کے سمجھا دیا گیا.اس کے نقائص اور کمزوریاں جتا دی گئیں تو انہوں نے اب مصافحہ نہ کرنے میں ہی اپنی عزت اور اپنا وقار و احترام یقین کیا اور دونوں ہاتھوں کو بجائے
۳۳۹ پھیلانے کے سمیٹ کر چھاتی کی طرف لے جاتے ہوئے سلام کیا اور چلتی گئیں.خدا نے آخر عقل دی ہے.علم دیا ہے.ان میں بھی فہم اور فراست ہے اور وہ حق و باطل میں تمیز کرنے کی قابلیت رکھتی ہیں.جب ان کو عقل اور نقل سے بات سمجھا دی گئی انہوں نے اس کو قبول کیا اور دل سے مانا.وہ لوگ جو یہاں ان امور میں مشکلات اور مجبوریوں کے نام کی آڑ لیتے ہوئے ان باتوں میں خود گر جاتے ہیں ان کا برا نمونہ بھی اگر یہاں نہ ہو تو جلد تر یہ قوم اپنی غلط اور مضر اخلاق عادات کو ترک کرنے کے لئے تیار اور اس کی اہل ہے.اس ٹی پارٹی کے مفصل حالات تو میں کیا عرض کرسکتا ہوں خلاصہ کے طور پر جو مجھے ادھر اُدھر سے چھینا جھپٹی کر کے ملے ہیں عرض کرتا ہوں.توجہ سے سنئے گا.اس ہوٹل کا نام ریٹرز ہے اور بہت بڑا معزز اور چنا ہوا ہوٹل شمار ہوتا ہے.حضور وقت پر تشریف لے گئے.خان صاحب کو پہلے حضور نے بھیج دیا ہوا تھا.ہوٹل میں مسٹر لافٹس ہیز MI) (Lafis Hayes مولوی نیر صاحب اور لیڈی سر لافٹس ہیز استقبال کرتے تھے اور ہر مہمان کو حضرت اقدس سے انٹروڈیوس کراتے تھے.ساڑھے پانچ بجے تک مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور اس کے بعد حضور مع رفقاء چائے کے کمرے میں تشریف لے گئے.۷۰ کے قریب اصحاب چائے پر موجود تھے جن میں کچھ عورتیں اور باقی مرد تھے.۵ شلنگ فی کس خرچ ہوا اور کچھ انعامات بھی دیئے گئے نوکروں کو.چائے کے کمرے میں حضور کے خدام متفرق ہو کر اور مہمانوں میں مل مل کر بیٹھے تاکہ ان کی خاطر مدارات کر سکیں اور ان سے سلسلہ کلام جاری رکھ کر کچھ تبلیغ بھی کر سکیں.چنانچہ چائے پر تبلیغ اور کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں اور چائے کے بعد پریذیڈنٹ کا نفرنس مذہبی نے جن کا نام سر ڈینی سن راس ہے حضرت اقدس سے کچھ سنانے کی درخواست کی.حضرت اقدس نے چلتے چلتے ایک چھوٹا سا مضمون لکھ کر چو ہدری صاحب کو دیا تھا کہ اس کا ترجمہ کر لیں مگر چونکہ اس وقت ابھی پہلے مضمون کا ترجمہ ہو رہا تھا اور کسی کو بھی فرصت نہ تھی چوہدری صاحب نے عرض کیا کہ حضور میں اسی وقت ترجمہ کرلوں گا جب بولنا ہوگا.چنانچہ حضرت اقدس نے چوہدری صاحب کو اشارہ فرمایا کہ کچھ کہہ دیں مگر پریذیڈنٹ صاحب نے عرض کیا کہ ہم لوگ تو خود حضور کی زبان سے سننے کو آئے ہیں اور یہی ہماری
۳۴۰ خواہش ہے کہ آپ خود ہی کچھ اپنی زبان مبارک سے فرمائیں.حضرت اقدس نے عذر کیا اور فرمایا کہ میں انگریزی زبان اور اس کے محاورات پر پوری طرح حاوی نہیں ہوں اور بولنے کا محاورہ بھی ابھی نہیں اس وجہ سے میں خود نہیں بول سکتا مگر انہوں نے کچھ ایسے رنگ میں اصرار کیا جس پر آخر حضرت اقدس ہی کو کچھ بولنا پڑا جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے.یہ بھی عرض کر دینا ضروری ہے کہ بعض خاص خاص آدمیوں کے نام عرض کردوں تا کہ کون لوگ اور کس قسم کے آدمی اور عورتیں وہاں جمع تھے.گو تمام کے تمام ہی اعلیٰ طبقہ کے لوگ اور تعلیم یافتہ بھی تھے مگر خاص نام یہ ہیں.لارڈ ہیڈلے.کرنل ڈگلس.کرنل میئرس (وزیر ہند کے پولیٹیکل سیکرٹری) مذہبی کانفرنس کے پریذیڈنٹ.سیکرٹریز - ممبرز - سپیکرز اور وقت بوقت پریذیڈنٹ بننے والے لوگ تمام شامل تھے.حضرت اقدس نے انگریزی میں تقریر شروع کی.فرمایا پرانے زمانہ میں آپ کے ملک کا قاعدہ تھا کہ جلسوں میں عموماً شراب وغیرہ پیا کرتے تھے اور بوتلیں اور پیالے اکثر ٹوٹا کرتے تھے لیکن آج یہاں چونکہ شراب نہ تھی بلکہ خالی چائے تھی اس وجہ سے نہ کوئی بوتل ٹوٹی اور نہ گلاس و پیالہ ٹوٹا ہوا نظر آتا ہے.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگ چاہتے ہیں کہ بوتل اور گلاس ٹوٹے ہوئے نہیں تو کم از کم ٹوٹی پھوٹی انگریزی ہی سن لیں اور یوں کلام شروع فر مایا...In place of brake bottles they want to see some broken words of English.حضرت اقدس نے پریذیڈنٹ ، سیکرٹریز اور کمیٹی کے ممبروں کا شکر یہ ادا کیا اور فرمایا کہ ان لوگوں نے اس کا نفرنس کے انعقاد سے دنیا کے امن کو بھی مضبوط کیا ہے کیونکہ میرے نزدیک بغیر مذہب کے اخلاق قائم نہیں رہ سکتے.لیگ آف نیشنز بھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک آپ لوگوں کی مدد اس کے ساتھ شامل نہ ہو.آپ جو مذہبی احساس پیدا کرنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں وہ نسل انسان کی ایک قابل قدر خدمت ہے.مذہب کی غرض لوگوں میں اللہ تعالیٰ کی ہستی کا یقین پیدا کرانا اور پھر اس کی توحید کا یقین دلا کر لوگوں میں موت اور بعد الموت حساب کتاب کا احساس پیدا کرانا ہے جس کے بغیر اخلاق درست نہیں ہو سکتے.پس دراصل یہ کانفرنس بھی لیگ آف نیشنز ہی کا کام کر رہی ہے.وہ ھیکس (Thanks) دے یا نہ دے مگر یہ کام حقیقتا اسی کے کام کی بڑی بھاری مدد
۳۴۱ ہے کیونکہ اخلاق کی درستی بھی بہت حد تک امن کی ضمانت اور اس کے قیام کی معاون ہوتی ہے.فرمایا کہ مذہب کے بغیر اخلاق درست نہیں ہو سکتے اور اخلاق کی خرابی اور نقص ہی امن عامہ کو تباہ کر دینے والا ہوا کرتا ہے.فرمایا میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ آئندہ بھی اس کا نفرنس کے اجلاس ہوں اور ضرور ہوں بلکہ اس سے بھی بڑے پیمانہ پر ہوں مگر ان میں موجودہ کا نفرنس کی طرح دریا کو کوزہ میں بند کر دینے کی خواہش نہ کرنی چاہیے بلکہ ایک خاص مضمون یا سوالات کے تقرر کے ذریعہ کا نفرنس کو زیادہ مفید بنانا چاہیے نہ یہ کہ مذہب کے تمام پہلوؤں پر صرف ایک گھنٹہ میں گفتگو کرنے پر پابند کیا جائے وغیرہ اور اس پر حضور نے تقریر ختم فرما دی کیونکہ دوسرے جلسہ میں شرکت کا وقت قریب تھا.سر ڈینی سن راس نے اپنی جوابی تقریرہ میں عرض کیا کہ میں حضور کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ہماری بڑی ہمت بڑھائی ہے.حضور نے جو انگریزی بولی ہے وہ تو بہت اچھی انگریزی ہے اور ویسی ہی ہے جیسی کہ ہم لوگ بول سکتے ہیں.( بعض دوستوں کا جن میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی ہیں یہ خیال ہے کہ اس نے کہا تھا کہ آپ کی انگریزی تو ہماری انگریزی سے بھی اچھی ہے ) اور کہ آپ نے جو تجویز آئندہ کا نفرنس کے متعلق فرمائی ہے بہت ہی معقول اور مفید اور بالکل نئی ہے.اس کے مطابق آئندہ کام کرنے کی کوشش کی جائے گی مگر آپ نے تو اب بھی دریا کو کوزے میں بند کر کے دکھا دیا ہے جو آپ کے مضمون سے بخوبی عیاں ہے اور کہ یہ صرف میری ہی رائے حضور کے مضمون کے متعلق نہیں بلکہ ان بہت سے لوگوں کی بھی یہی رائے ہے جنہوں نے مجھ سے حضور کے متعلق گفتگو کی ہے اور اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کا نفرنس بھی آپ کی بہت مشکور ہے کہ آپ نے اس کی ابتدائی مراحل میں بہت مدد کی اور ہماری حوصلہ افزائی فرمائی اور حقیقت یہ ہے کہ آپ لوگ اگر ہماری مدد نہ کرتے اور قادیان سے اتنی جلدی ہماری تحریک پر لبیک نہ کہی جاتی تو شاید کا نفرنس ہو ہی نہ سکتی.اس نے کہا کہ آپ نے ہماری مالی مدد بھی ایسے وقت میں کی جب کہ ظاہری حالات میں اس روپیہ کو خطرہ میں ڈالنے یا ضائع کرنے کے مترادف تھا.( کانفرنس کے اخراجات کے لئے چندہ جمع کیا گیا تھا.) اور میں اس بات کو بھی اچھی طرح سے نوٹ کرتا رہا ہوں کہ آپ لوگ جو کچھ کہتے ہیں عملاً کر کے بھی دکھاتے ہیں.چنانچہ آپ لوگوں نے جس خوبی سے تمام -
۳۴۲ لیکچروں کو اٹینڈ (attend) کیا ہے وہ بھی کوئی چھوٹی بات نہیں ہے.آپ خود آتے تھے اور آپ کے ساتھی بھی آتے تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو کانفرنس کے اغراض اور حقیقی سپرٹ سے پورا اتفاق تھا جس کو آپ نے قول اور فعل دونوں سے ظاہر فرمایا اور یہ وہ بات ہے جس کی مثال اور کسی میں نہیں پائی گئی اور یہ وہ چیز تھی جو آپ کے دلوں کے اندر کی چیز کو ہمارے سامنے لاکھڑا کرتی اور ہمارے دلوں پر ایک مضبوط گرفت کرتی رہی ہے.اس نے حضرت اقدس کی تعریف میں ایک فقرہ بولا جو مجھے بعینہ مل گیا ہے.لکھتا ہوں.اس نے کہا کہ...Very cultured and refined gentleman.اس کے بعد مس شار پلز نے جو کانفرنس کی سیکرٹری ہیں کہا کہ اگر آپ بہ نفس نفیس نہ تشریف لاتے تو ہماری کانفرنس کو پوچھنا کس نے تھا.یہاں تو مذہبی حس ہی مر چکی ہے.ادھر توجہ ہی کسے ہوتی تھی.آپ تشریف لائے اور لنڈن میں دھوم مچ گئی.لوگوں کی توجہ کا نفرنس کی طرف پھر گئی اور کا نفرنس کو یہ کامیابی نصیب ہوئی.ہمیں یہ دن ہرگز نہ بھولیں گے.اور کبھی نہ بھولیں گے.مس شار پلز کے آخری فقرہ پر حضرت اقدس نے فرمایا.مگر ہمیں بھی آپ لوگوں کا پردوں میں سے جلسہ کی حالت کو جھانک جھانک کر دیکھنا کبھی نہ بھولے گا.( دراصل ان لوگوں کو ان کی امید خیال اور وہم سے بھی بڑھ کر کامیابی حاصل ہوئی.وہ عموماً جلسہ گاہ کے دوسرے حصہ میں رہتے تھے جدھر سے لوگ آتے جاتے تھے.گاہ گاہ جھانکا کرتے تھے کہ اندر کیا حالت ہے.لوگ جم کر سن رہے ہیں یا نہیں ) الغرض کل کی ٹی پارٹی بھی بہت ہی کامیاب ہوئی ، مؤثر ہوئی اور انشاء اللہ اس کے شیر میں اثمار بھی خدا تعالیٰ دکھائے گا.تقریر کے بعد فوٹو لیا گیا مگر حضرت کے ارشاد پر یہ تجویز کی گئی کہ کرسیوں پر تمام عورتیں بٹھا دی گئیں اور مرد قریباً سب کھڑے رہے.کیمرہ نہایت اعلیٰ قسم کا تھا.خود بخود پھرتا تھا اور لمبی تصویر ا ورصاف بنا تا تھا.عورتوں نے اس عزت اور قدردانی کو بڑی قدر کی نظر سے دیکھا اور بول اٹھیں کہ یورپ
۳۴۳ ر, کے مرد تو اب ہماری ویسی عزت نہیں کرتے جو ہمیں حاصل تھی.گاڑیوں میں، بسوں پر اور ٹیوب ریلوے میں ہمیں جگہ نہیں دی جاتی.مرد بیٹھے رہتے ہیں اور عورتوں کو کھڑے دیکھ کر بھی جگہ نہیں دیتے مگر بعض مردوں نے ان کو جواب دیا کہ ” تم اب مردوں کی برابری کا دعوی کرتی ہو.حقوق برابر کے مانگتی ہو لہذا تکالیف بھی تو مردوں کے برابر برداشت کرنے کی عادت ڈال لو.اس کے بعد حافظ صاحب نے قرآن شریف - دیوان حافظ اور پھر مثنوی رومی کے چند اشعار پڑھے اور جلسہ برخاست ہو کر بل وغیرہ ادا کئے.دربان کو انعام دیا اور موٹر پر سوار ہو کر حضور بچوں کی درخواست پر لیکچر دینے کو لنڈن فیلڈ ز میں تشریف لے گئے.باقی ساتھی بس اور ریل کے ذریعہ حضور کے بعد پہنچے جہاں پہلے ان کے لڑکے لڑکیاں اپنا قومی گیت گا رہے تھے.گیت سے فراغت کے بعد ہال کو دوسرے رنگ میں تیار کیا گیا اور حضرت اقدس کو اس میں لے گئے جہاں ۵۰ یا ۶۰ مرد وعورت نوجوان موجود تھے.پریذیڈنٹ بھی ایک نو جون لڑکا بنایا گیا تھا.پہلے ان لوگوں نے گیت گائے اور پھر حضرت اقدس سے درخواست کی کہ حضورا اپنا مضمون سنائیں.حضرت نے انگریزی میں خود نہ پڑھنے کی معذرت کی اور جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو پڑھنے کا ارشاد فرمایا.چوہدری صاحب نے نہایت خوبی سے مضمون کو پڑھا اور ان کے لہجہ کو ملحوظ رکھ کر ادا کیا.ایک گھنٹہ سے زیادہ وقت میں مضمون ختم ہوا.لیکچر کے خاتمہ پر پریذیڈنٹ نے سوالات کی اجازت دی چنانچہ دو سوال کئے گئے.جن کے جواب حضرت اقدس کے ارشاد پر چوہدری صاحب نے دیئے جو حضور نے بتائے.پہلا سوال تھا کہ آپ نے محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق تو ہمیں بہت کچھ بتایا اور ہمارے علم میں بہت بڑا اضافہ کیا مگر اپنے سلسلہ کا بھی کچھ حال سنائیں.اس پر حضرت اقدس نے چوہدری صاحب کی معرفت ان کو سلسلہ کا مختصر سا ذکر اور خصوصیات سلسلہ سنا ئیں.تمام مذاہب میں پیشگوئیاں تھیں، پوری ہوئیں اور کہ حضرت مسیح موعود ان پیشگوئیوں کے پورا کرنے والے ہیں.دوسرا سوال کیا گیا کہ جنگ کے متعلق آپ کے کیا خیالات ہیں.آپ تو امن کی تعلیم دیتے ہیں اس کے متعلق بھی کچھ روشنی ڈالیں.اس کا بھی مفصل جواب حضرت اقدس نے ان کو دیا.
۳۴۴ لوگ بہت خوش ہوئے اور محبت سے رخصت کیا.نو عمر لڑکے لڑکیاں تھیں.ان کی عقل اور سمجھ کے مطابق ان سے کلام کیا گیا اور رسول اکرم کے مفصل سوانح ان کو ایسے دلچسپ پیرا یہ میں سنائے گئے اور تو حید اور رسالت پر ایسے دلائل سنائے گئے جن کو انہوں نے توجہ اور محبت سے سنا.خدا کرے کہ ان کے دلوں کی کھیتی میں یہ باتیں ایک صالح پیج ثابت ہوں.وہاں سے فارغ ہو کر مکان پر تشریف لائے.کھانا کھایا گیا اور نمازیں جمع کر کے ادا کی گئیں اور اس طرح رات کے بارہ بجے بلکہ بعد بمشکل آرام فرما سکے.مولوی مبارک علی صاحب ایتھی کل چرچ میں گئے.نام پادری صاحب کا ”ٹی سول ڈیوس‘ تھا.ہر ہمو خیالات کا آدمی ہے مگر معمولی لیکچر اور سرمن کے بعد اس نے ہمارے سلسلہ کا بھی ذکر کیا اور لوگوں کو سنایا کہ مذہب ہمیشہ ترقی کر رہا ہے اور آج بھی دنیا میں نئے نئے خیالات پیدا ہور ہے ہیں جو کہ انسان کی ترقی کا ذریعہ ہیں اور ہم ایسے لوگ ہیں کہ جن لوگوں کے خیالات کے سبب سے ان کے ایک مشنری کو افغانستان میں سنگسار کیا گیا.خدا کا شکر ہے کہ ہمیں یہاں پوری آزادی ہے اور خیالات کی تبلیغ میں جو کہ خواہ گورنمنٹ کے بھی خلاف ہو تبلیغ کر سکتے ہیں مگر ابھی دنیا میں ایسی بھی جگہ ہیں جہاں ایسے خیالات کو الحاد سمجھا جاتا ہے اور اس کی قیمت انسانی جان ہوتی ہے اور کہا کہ احمد یہ سلسلہ کے ساتھ ہماری بڑی ہمدردی ہے اور کہ ہم اس سلسلہ کی ترقی کے متمنی ہیں کیونکہ اس سلسلہ کے ذریعہ سے لوگ دنیا میں بڑی ترقی حاصل کر سکتے ہیں.مکرمی نیر صاحب نے بھی حضرت اقدس کے آنے سے پہلے بہت کچھ کوشش کی.ان کوششوں میں سے ایک کوشش ٹائمنز آف انڈیا بمبئی کا مورخہ ۶ /ستمبر ۱۹۲۴ء کا پرچہ بھی ہے.امید کہ آپ کے ہاں پہنچا ہو گا.اس نے ایک مفصل اور لمبا مضمون لکھا ہے.۲۹ ستمبر ۱۹۲۴ ء : صبح کی نماز میں حضرت اقدس تشریف نہیں لا سکے آج ڈاک ہند کا دن ہے.ہندوستان میں بھی اکثر پیر کے دن ڈاک تقسیم ہوتی ہے اور یہاں بھی سوائے بعض خاص حالات کے ڈاک ہند عموماً پیر کے دن ہی تقسیم ہوتی ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ چلتی بھی ایک ہی دن یعنی جمعرات ہی کو لاہور سے چلتی ہے اور جمعرات ہی کو لنڈن سے چلتی ہے.
۳۴۵ حضور نے ناشتہ بھی دیر سے کیا.ڈاک ملاحظہ فرما رہے ہیں.کھانا ساڑھے بارہ بجے سے رکھا ہوا ہے.ڈیڑھ بج چکا ہے مگر حضور تشریف نہیں لائے.میں نے اپنا خط لکھنا شروع کر دیا کیونکہ میں آج پیچھے ہوں.۲۳ صفحات کا مضمون جو کل رات حضور نے بچوں میں پڑھایا تھا اس کی ایک نقل انگریزی تو مجھے مل گئی ہے مگر اردو بہر حال لکھنا پڑے گا.گواصل حضرت اقدس کے ہاتھ کا لکھا ہوا بھی قادیان بھیجا جاتا ہے مگر میں جانتا ہوں کہ وہ سیدھا الفضل میں جاتا ہے اور آپ لوگوں کو سنایا نہیں جا تا.اس نیت سے کہ قادیان کی غریب جماعت کو بیرونی جماعتوں سے پہلے بات پہنچے لکھنے کی محنت اُٹھاتا ہوں اور تا کہ خلافت کی برکتیں سب سے پہلے قادیان کی جماعت پر نازل ہونے کا ثبوت ہوں.گومیری نظر کی کمزوری بعض اوقات مجھے سخت تکلیف دیتی اور کام میں حارج ہو جاتی ہے مگر پھر بھی حتی المقدور آپ بزرگوں کی خاطر جو کچھ مجھ سے ہو سکتا ہے کرنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میری اس تھوڑی سی محنت سے قادیان کے بہت سے پاک دل راحت حاصل کرتے اور حضرت سید نا محمود کے حالات سننے سے خوش وقت ہوتے ہیں.گفته اند کہ دل بدست آور که حج اکبر است حضور نے ارادہ فرمایا تھا کہ ۱۸ء کے بعد کوئی پبلک لیکچر نہ دیں گے اور لوگوں ملاقاتوں کے ذریعہ سے تحقیقاتی کام کریں گے مگر کل جب حضور فارغ ہوئے تو ایک اور درخواست یو نیٹریں چرچ کی طرف سے آگئی کہ ہمارے چرچ میں لیکچر دیں.اب غالبا وہ بھی حضور کو دنیا ہی پڑے گا.ریویو آف ریلیجنز کے لئے حضور نے ایک اشتہار شائع بھی کر دیا ہے جو اگر چھپ کر آ گیا تو اس ڈاک سے روانہ کروں گا.حضور کا منشاء ہے کہ یکم نومبر ۲۴ ء کو پر چہ ضرور نکل جاوے.قادیان کے دوستوں کی طرف سے اور دوسری جماعتوں کی طرف سے بھی حضور کی خدمت میں عرض کیا جارہا ہے کہ حضور اب لنڈن ٹھہر کر کچھ عرصہ آرام بھی کریں مگر حضرت اقدس نے فرمایا کہ یہ بھی بھلا ممکن ہے کہ ہم یہاں رہیں اور کام نہ کریں.گھر میں تو آرام ہو بھی سکتا ہے یہاں آرام کہاں؟ آرام کا خیال ہوتا تو گھر سے ہی کیوں آتے - گھر میں تو اگر طبیعت خراب ہو تو آرام ہوسکتا ہے مگر یہاں تو بعض اوقات ایسی تدابیر کرنی پڑتی ہیں کہ جن سے وقتی فائدہ ہو جائے اور کام میں
۳۴۶ حرج نہ ہو گو اس کا آخری نتیجہ صحت کے لئے سخت مضر نکلتا ہے.فرمایا کہ سر درد کا دورہ بعض اوقات کام میں ہو جاتا ہے تو میں اس خیال سے کہ کام میں حرج نہ ہو اسپرین کھا لیا کرتا ہوں حالانکہ اسپرین میرے لئے سخت مضر اور مضعف ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں صبح کی نماز میں اکثر شامل نہیں ہوسکتا.گھر میں میں نے اس طرح کبھی اسپرین کا استعمال نہیں کیا جیسا کہ یہاں کام کی مجبوری کے باعث کرنا پڑتا ہے.باتوں باتوں میں لارڈ ہیڈلے کا بھی ذکر آ گیا.فرمایا وہ مجھ سے ملے ہیں.میرے خیال میں تو اچھا آدمی ہے.دراصل ان لوگوں کو ہماری نسبت بہت غلط خیالات بتائے گئے ہیں چنا نچہ اس نے ابھی کسی اخبار میں مضمون شائع کرایا ہے اور اس میں میری نسبت لکھا ہے کہ میں نے مسیح ہونے کا دعوی کیا ہے.ٹی پارٹی کے دن اس سے باتیں ہوئیں تو حضور نے اس کو اصل بات بتائی.جب اس نے کہا میں تو اس کے بر خلاف سنتا تھا.میں نے جو مضمون لکھا ہے اب اس کی تردید کرنی پڑے گی.نقل مضمون جو حضرت اقدس نے ۲۸ ستمبر ۱۹۲۴ء کی شام کو نو جوانوں کے ایک مجمع میں پڑھوایا - مطابق اصل اعوذ با الله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر رسول کریم ﷺ کی زندگی اور تعلیم صدر جلسہ، میرے عزیز نوجوانان انگلستان بہنو اور بھائیو! مجھے نہایت خوشی ہوئی ہے کہ آپ لوگوں نے مجھے اس شخص کے حالات اور تعلیم بیان کرنے کا موقع دیا ہے جو انسانوں میں سے مجھے سب سے زیادہ پیارا اور عزیز ہے اور جو نہ صرف بڑی عمر کے لوگوں کا رہنما ہے بلکہ چھوٹے بچوں کا بھی رہنما ہے.ہر انسان کی زندگی کے کئی پہلو ہوتے ہیں اور کئی نقطہ نگاہ کو مدنظر رکھ کر اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی جاسکتی ہے.میں آج رسول کریم کی زندگی اور آپ کی تعلیم کے متعلق اس
۳۴۷ امر کو مد نظر رکھتے ہوئے روشنی ڈالوں گا کہ نوجوان اور بچے اس سے کیا فائدہ حاصل کر سکتے ہیں.تیرہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہوا کہ ۱۰ / اپریل ۵۷۱ ء کو عرب کے ملک میں بحیرہ احمر کے مشرقی کنارے کے قریب ساحل سمندر سے چالیس میل کے فاصلہ پر مکہ نامی گاؤں میں ایک لڑکا پیدا ہوا.ایک معمولی بچہ اس قسم کا بچہ جس قسم کے بچے کہ دنیا میں روز پیدا ہوتے ہیں مگر مستقبل اس کے لئے اپنے اخفاء کے پردے میں بہت کچھ چھپائے ہوئے تھا.اس بچہ کی والدہ کا نام آمنہ تھا اور باپ کا نام عبد اللہ اور دادا کا نام عبد المطلب - اس بچہ کی پیدائش اس کے گھر والوں کے دلوں میں دو متضاد جذبات پیدا کر رہی تھی.خوشی اور غم کے جذبات خوشی اس لئے کہ ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جس سے کہ ان کی نسل دنیا میں قائم رہے گی اور نام محفوظ رہے گا اور غم اس وجہ سے کہ وہ بچہ اپنی ماں کو ایک نہایت ہی محبت کرنے والے خاوند کی اور اپنے دادا کو ایک نہایت ہی اطاعت گزار بیٹے کی جو اپنے بچہ کی پیدائش سے پہلے ہی اس دنیا کو چھوڑ چکا تھا یاد دلا رہا تھا.اس کی شکل اور شباہت اس کا سادگی سے مسکرانا اس کا حیرت سے اپنی نئی دنیا کو دیکھنا جس میں وہ بھیجا گیا تھا.غرض اس کی ہر اک بات اس نوجوان خاوند اور بیٹے کی یاد کو تازہ کرتی تھی جو سات ماہ پہلے اپنے بوڑھے باپ اور جوان بیوی کو داغ جدائی دے کر اپنے پیدا کرنے والے سے جاملا تھا مگر خوشی غم پر غالب تھی کیونکہ اس بچہ کی پیدائش سے مرنے والے کا نام ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا.دادا نے اس بچہ کا نام جو پیدائش سے پہلے ہی یتیم ہو چکا تھا محمد رکھا اور اس یتیم بچے نے اپنی والدہ اور اپنے چچا کی ایک خادمہ کے دودھ پر پرورش پانی شروع کی.مکہ کے لوگوں میں رواج تھا کہ وہ اپنے بچوں کو گاؤں کی عورتوں کو پرورش اور دودھ پلانے کے واسطے دے دیتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ بچے کی پرورش شہر میں اچھی طرح نہیں ہوسکتی اور اس کی صحت خراب ہو جاتی ہے.مکہ کے ارد گرد کے تئیں چالیس میل کے فاصلہ کے گاؤں کے لوگ وقتاً فوقتاً شہر میں آتے اور بچوں کو لے جاتے اور جب وہ پال کر واپس لاتے تو ان کے ماں باپ پالنے والوں کو بہت کچھ انعام دیتے.محمد کی پیدائش کے بعد جب یہ لوگ آئے تو ان کی والدہ نے بھی چاہا کہ آپ کو بھی کسی خاندان کے سپر د کر دیں مگر ہر اک عورت اس بات کو معلوم کر کے کہ آپ یتیم ہیں آپ کو لے جانے سے انکار کر دیتی کیونکہ وہ ڈرتی تھی کہ بن باپ
۳۴۸ کے بچہ کی پرورش پر انعام کون دے گا.اس طرح یہ آئندہ بادشاہوں کا سردار ہونے والا بچہ ایک ایک کے سامنے پیش کیا گیا اور سب نے اس کے لے جانے سے انکار کر دیا مگر خدا تعالیٰ کی قدرتیں بھی عجیب ہوتی ہیں اس نے اس مبارک بچہ کی والدہ کا دل رکھنے کے لئے اور اس بچہ کے گاؤں میں پرورش پانے کے لئے اور سامان کر چھوڑے تھے.یہ لوگ جو بچے لینے کے لئے آئے تھے ان میں ایک غریب عورت حلیمہ نامی بھی تھی جس طرح محمد ایک ایک عورت کے سامنے کئے جاتے تھے اور رڈ کر دئیے جاتے تھے اسی طرح وہ عورت ایک ایک گھر میں جاتی تھی اور رڈ کر دی جاتی تھی کیونکہ وہ غریب تھی اور کوئی شخص پسند نہ کرتا تھا کہ اس کا بچہ غرباء کے گھر پرورش پا کر تکلیف اُٹھائے.یہ عورت مایوس ہو گئی تو اپنے ساتھ والیوں کے طعنوں سے ڈر کر اس نے ارادہ کیا کہ وہ آپ کو لے جائے چنا نچہ وہ آپ کو ساتھ لے گئی.جب آپ نے کچھ ہوش سنبھالی تو آپ کی دائی آپ کو واپس ماں کے پاس چھوڑ گئی.وہ ان کو اپنے ماں باپ کے گھر مدینہ لے گئیں اور وہاں کچھ عرصہ رہ کر جب مکہ کی طرف واپس آ رہی تھیں کہ راستہ ہی میں فوت ہو گئیں اور محمد چھ سال کی عمر میں اپنی ماں کی محبت بھری گود سے بھی محروم رہ گئے.کسی نے آپ کو مکہ آپ کے دادا کے پاس پہنچا دیا جو دو سال کے بعد جب آپ آٹھ سال کے تھے فوت ہو گئے اور آپ کو اپنے چا ابو طالب نے اپنی کفالت میں لے لیا.اس طرح یکے بعد دیگرے اپنے محبت کرنے والوں کی گود سے جدا ہوتے رہے حتی کہ آپ جوانی کو پہنچے.جن گھروں میں آپ نے پرورش پائی وہ امیر گھر نہ تھے.وہاں با قاعدہ میز بچھا کر کھانا نہیں ملتا تھا بلکہ مالی اور ملکی رواج کے ماتحت جس وقت کھانے کا وقت آتا بچے ماں کے گرد جمع ہو کر کھانے کے لئے شور مچا دیتے اور ہر ایک دوسرے سے زیادہ حصہ چھین لے جانے کی کوشش کرتا.آپ کے چچا کی نوکر بیان کرتی ہے کہ آپ کی یہ عادت نہ تھی.جس وقت گھر کے سب بچے چھینا جھپٹی میں مشغول ہوتے آپ ایک طرف خاموش ہو کر بیٹھ جاتے اور اس بات کی انتظار کرتے کہ چیچی خود آن کر کھانا دے اور جو کچھ آپ کو دیا جاتا اسے خوش ہو کر کھا لیتے.جب آپ کی عمر ۲۰ سال کی ہوئی تو آپ ایک ایسی سوسائٹی میں شامل ہوئے جس کا ہر ایک ممبر اس امر کی قسم کھاتا تھا کہ اگر کوئی مظلوم خواہ کسی قوم کا ہوا سے مدد کے لئے بلائے گا تو وہ اس کی
۳۴۹ مدد کرے گا.یہاں تک کہ اس کا حق اسے مل جائے اور اس نوجوانی کی عمر میں آپ کا یہ مشغلہ تھا کہ جب کسی شخص کی نسبت معلوم ہوتا کہ اس کا حق کسی نے دبا لیا ہے تو آپ اس کی مدد کر تے یہاں تک کہ ظالم مظلوم کا حق واپس کر دیتا.آپ کی سچائی امانت اور نیکی اس عمر میں اس قدر مشہور ہوگئی کہ لوگ آپ کو صادق اور امین کہا کرتے تھے.جب اس نیکی کا چرچا بہت ہونے لگا تو پچیس سال کی عمر میں آپ کو مکہ کی ایک مالدار تاجرہ عورت خدیجہ نے نفع پر شراکت کا فیصلہ کر کے تجارت کے لئے شام کو بھیجا اور اور آپ کے ساتھ ایک غلام بھی کیا.اس سفر میں آپ کی نیکی اور دیانت داری کی وجہ سے اس قدر نفع آیا کہ پہلے کبھی خدیجہ کو اس قدر نفع نہ ملا تھا.اور آپ کے نیک سلوک اور شریفانہ برتاؤ کا ان کے غلام پر جس کو انہوں نے ساتھ بھیجا تھا اس قدراثر ہوا کہ وہ آپ کو نہایت ہی پیار کرنے لگا اور اس نے حضرت خدیجہ کو سب حال سنایا.ان کے دل پر بھی آپ کی نیکی کا اس قدر اثر ہوا کہ انہوں نے آپ سے شادی کی درخواست کی اور آپ نے اس کو قبول کر لیا.اس وقت خدیجہ کی عمر چالیس سال کے قریب تھی اور آپ کی عمر کل پچیس سال کی تھی.خدیجہ نے نکاح کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جس قدر مال ان کے پاس تھا اور غلام ان کی خدمت میں تھے سب آپ کے سامنے پیش کر دیئے اور کہا کہ یہ سب کچھ اب آپ کا ہے اور آپ نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ سب غلاموں کو آزاد کر دیا اور اس طرح اپنی جوانی میں وہ کام کیا جو اس سے پہلے بوڑھے بھی نہیں کر سکتے تھے یعنی غلامی کی جڑ کو کاٹ دیا حالانکہ آپ اس شہر کے رہنے والے تھے جس کے لئے غلامی بمنزلہ ایک روح کے تھی جن کے بغیر اس کے کام چل ہی نہ سکتے تھے.آپ اپنے ملک کی خرابیوں کو دیکھ کر بہت افسردہ رہتے تھے اور بالعموم شہر سے تین میل کے فاصلہ پر حرا نامی پہاڑ کی چوٹی پر جا کر ایک پتھروں کی غار میں بیٹھ کر اپنے ملک کی خرابیوں اور شرک کی کثرت پر غور کیا کرتے تھے اور اسی جگہ ایک خدا کی پرستش کیا کرتے تھے.اس عبادت میں آپ کو اس قد ر لطف آتا تھا کہ آپ کئی دفعہ کئی کئی دن کی غذا گھر سے لے کر جاتے تھے اور کئی کئی دن اس غار میں ہی رہتے تھے.آخر جب کہ آپ چالیس برس کی عمر کے تھے آپ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام نازل
۳۵۰ ہوا کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کر اور اس سے علم کی ترقی اور روحانی عزت اور ان علوم کے حصول کی دعا کر جو پہلے دنیا کو معلوم نہ تھے.آپ کی طبیعت پر اس وحی کا ایسا اثر ہوا کہ آپ گھبرا کر اپنے گھر آئے اور اپنی بیوی حضرت خدیجہ سے کہا کہ مجھے ایسا الہام ہوا ہے.میں ڈرتا ہوں کہ کہیں یہ میری آزمائش ہی نہ ہو.حضرت خدیجہ نے جو آپ کی ایک ایک حرکت کا غور سے مطالعہ کرتی تھیں اس بات کو سن کر جواب دیا کہ نہیں ہر گز نہیں.یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ آپ کو اس طرح ابتلا میں ڈالے حالانکہ آپ رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں اور جو لوگ کام نہیں کر سکتے ان کی مدد کرتے ہیں اور وہ اخلاق آپ سے ظاہر ہوتے ہیں جو دنیا میں اور کسی سے ظاہر نہیں ہوتے اور آپ مہمانوں کی خوب خاطر کرتے ہیں اور جو لوگ مصائب میں مبتلا ہوں ان کی مدد کرتے ہیں.یہ اس عورت کی رائے ہے جو آپ کی بیوی تھی اور جو آپ کے تمام اعمال سے واقف تھی اور اس سے زیادہ سچا گواہ اور کون ہو سکتا ہے کیونکہ انسان کی حقیقت ہمیشہ تجربہ سے معلوم ہوتی ہے اور تجربہ جس قدر بیوی کو خاوند کے حالات کا ہوتا ہے دوسرے لوگوں کو نہیں ہو سکتا مگر آپ کی تکلیف اس تسلی سے دور نہ ہوئی اور حضرت خدیجہ نے یہ تجویز کی کہ آپ میرے بھائی سے جو بائیبل کے عالم ہیں ان سے ملیں اور ان سے پوچھیں کہ اس قسم کی وحی کا کیا مطلب ہوتا ہے.چنانچہ آپ وہاں تشریف لے گئے اور ورقہ بن نوفل سے جو حضرت خدیجہ کے رشتہ میں بھائی تھے جا کر پہلے ان کو سب حال سنایا.انہوں نے سن کر کہا کہ گھبرائیں نہیں تجھے اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی ہے جس طرح کہ موسیٰ کو ہوا کرتی تھی اور پھر کہا کہ افسوس کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں.کاش میں اس وقت جوان ہوتا جب خدا تعالیٰ تجھے دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کرے گا اور تیری قوم تجھے شہر سے نکال دے گی.رسول کریم جو رات اور دن دنیا کی بہتری کی فکر میں لگے ہوئے تھے اور سب اہل شہران سے خوش تھے اس امر کو سن کر حیران ہوئے اور حیرت سے دریافت فرمایا کہ کیا میری قوم مجھے نکال دے گی ؟ ورقہ نے کہا ہاں کبھی کوئی شخص اس قدر بڑے پیغام کو لے کر نہیں آیا جو تو لایا ہے کہ اس کی قوم نے اس پر ظلم نہ کیا ہو اور اس کو دکھ نہ دیا ہو.اس سلوک اور محبت کی وجہ سے جو آپ لوگوں سے کرتے تھے ، اس محبت کے سبب سے جو آپ کو ہر آدمی سے تھی اور اس خدمت کے ماتحت جو آپ اپنے شہر کے غرباء کی کرتے تھے، یہ بات کہ شہر کے لوگ آپ کے دشمن ہو جائیں گے آپ کو عجیب
۳۵۱ معلوم ہوئی مگر مستقبل آپ کے لئے کچھ اور چھپائے ہوئے تھا.اس واقعہ کے چند ہی ماہ کے بعد آپ کو پھر وحی ہوئی جس میں آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ سب لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف بلائیں اور بدی کو دنیا سے مٹائیں اور شرک کو دور کریں اور نیکی اور تقوی کو قائم کریں اور ظلم کو دور کریں.اس وحی کے ساتھ آپ کو نبوت کے مقام پر کھڑا کیا گیا اور آپ کے ذریعہ سے استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ ” میں تیرے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی بر پا کروں گا.آپ بنو اسماعیل تھے جو بنواسرائیل کے بھائی تھے اور آپ اسی طرح ایک نیا قانون لے کر آئے جس طرح کہ حضرت موسی ایک نیا قانون لے کر آئے تھے.رسول کریم کو نبوت کا عہدہ ملنا تھا کہ یکدم آپ کے لئے دنیا بدل گئی.وہ لوگ جو پہلے محبت کرتے تھے نفرت کرنے لگے اور جو عزت کرتے تھے حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگے جو تعریف کرتے تھے مذمت کرنے لگے اور جو لوگ پہلے آپ کو آرام پہنچاتے تھے تکلیف دینے لگے مگر چار آدمی جن کو آپ سے بہت زیادہ ملاقات کا موقع ملتا تھا وہ آپ پر ایمان لے آئے.یعنی خدیجہ آپ کی بیوی ، علی آپ کے چچازاد بھائی اور زید آپ کے آزاد کردہ غلام اور ابوبکر آپ کے دوست اور ان سب کے ایمان کی دلیل اس وقت یہی تھی کہ آپ جھوٹ نہیں بول سکتے.ان چاروں میں حضرت ابوبکر کا ایمان لانا عجیب تر تھا جس وقت آپ کو وحی ہوئی کہ آپ نبوت کا دعوی کریں اس وقت حضرت ابو بکر مکہ کے ایک رئیس کے گھر میں بیٹھے تھے.اس رئیس کی لونڈی آئی اور اس نے آکر بیان کیا کہ خدیجہ کو آج معلوم نہیں کیا ہو گیا ہے.وہ کہتی ہیں کہ میرے خاوند اسی طرح نبی ہیں جس طرح حضرت موسیٰ تھے.لوگ تو اس خبر پر ہنسنے لگے اور اس قسم کی باتیں کرنے والوں کو پاگل قرار دینے لگے مگر حضرت ابو بکر جو رسول کریم کے حالات سے بہت گہری واقفیت رکھتے تھے اسی وقت اُٹھ کر حضرت رسول کریم کے دروازہ پر آئے اور پوچھا کہ کیا آپ نے کوئی دعوی کیا ہے؟ آپ نے بتایا کہ ہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے اور شرک کے ہٹانے کا حکم دیا ہے.حضرت ابو بکر نے بغیر اس کے کہ اور کوئی سوال کرتے جواب دیا کہ مجھے اپنے باپ کی اور ماں کی قسم کہ تو نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور میں نہیں مان سکتا کہ تو خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولے گا.پس میں ایمان لاتا ہوں کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ خدا تعالیٰ
۳۵۲ کی طرف سے رسول ہیں.اس کے بعد ابو بکر نے ایسے نو جوانوں کو جمع کر کے جو اُن کی نیکی اور تقویٰ کے قائل تھے سمجھانا شروع کیا اور سات آدمی اور رسول کریم پر ایمان لائے.یہ سب نوجوان تھے جن کی عمر ۱۲ سال سے لے کر پچیس سال تک تھی.سچائی کا قبول کرنا آسان کام نہیں.مکہ کے لوگ جن کا گزارہ ہی بتوں کے معبودوں کی حفاظت اور مجاورت پر تھا وہ کب اس تعلیم کی برداشت کر سکتے تھے کہ ایک خدا کی پرستش کی تعلیم دی جائے.جو نہی ایمان لانے والوں کے رشتہ داروں کو معلوم ہوا کہ ایک ایسا مذ ہب مکہ میں جاری ہوا ہے اور ان کے عزیز اس پر ایمان لے آئے ہیں انہوں نے ان کو تکلیف دینی شروع کی.حضرت عثمان کو ان کے چچا نے باندھ کر گھر میں قید کر دیا اور کہا کہ جب تک اپنے خیالات سے تو بہ نہ کرے میں نہیں چھوڑوں گا اور زبیر ایک اور مومن تھے ان کی عمر پندرہ سال کے قریب تھی ان کو بھی ان کے رشتہ داروں نے قید کر دیا اور ان کو تکلیف دینے کے لئے جس جگہ ان کو بند کیا ہوا تھا اس میں دھواں بھر دیتے تھے مگر وہ اپنے ایمان پر پختہ رہے اور اپنی بات کو نہ چھوڑا.ایک اور نوجوان کی والدہ نے ایک نیا طریق نکالا.اس نے کھانا کھانا چھوڑ دیا اور کہا کہ جب تک تو اپنے آباء کی طرح عبادت نہیں کرے گا اس وقت تک میں کھانا نہیں کھاؤں گی مگر اس نوجوان نے جواب دیا کہ میں دنیا کے ہر معاملہ میں ماں باپ کی فرمانبرداری کروں گا مگر خدا تعالیٰ کے معاملہ میں ان کی نہیں مانوں گا کیونکہ خدا تعالیٰ کا تعلق ماں باپ سے بھی زیادہ ہے.غرض سوائے ابوبکر اور خدیجہ کے آپ پر ابتدائی زمانہ میں ایمان لانے والے سب نوجوان تھے جن کی عمریں پندرہ سال سے پچیس سال تک کی تھیں.پس یوں کہنا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے بوجہ یتیم ہونے کے نہایت چھوٹی عمر سے اپنے لئے راستہ بنانے کی مشق کی جب ان کو خدا تعالیٰ نے مبعوث کیا تو اس وقت بھی آپ کے گرد نوجوان ہی آکر جمع ہوئے.پس اسلام اپنی ابتداء کے لحاظ سے نو جوانوں کا دین ہے.چونکہ ہر ایک نبی کے لئے عام تبلیغ کرنی ضروری ہوتی ہے آپ نے ایک دن ایک بلند جگہ پر کھڑے ہو کر مختلف گھرانوں کے نام لے کر بلانا شروع کیا.چونکہ لوگ آپ پر بہت ہی اعتبار رکھتے تھے سب لوگ جمع ہونے شروع ہو گئے اور جو لوگ خود نہ آ سکتے تھے انہوں نے اپنے قائم مقام بھیجے تا کہ سنہیں کہ آپ کیا کہتے ہیں.جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا کہ اے اہل مکہ اگر
۳۵۳ میں تم کو یہ ناممکن خبر دوں کہ مکہ کے پاس ہی ایک بڑا لشکر اُترا ہوا ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے؟ یہ بات بظاہر ناممکن تھی کیونکہ مکہ اہل عرب کے نزدیک متبرک مقام تھا اور یہ خیال بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ کوئی قوم اس پر حملہ کرنے آئے گی اور پھر یہ بھی بات تھی کہ مکہ کے جانور دور دور تک چرتے تھے اگر کوئی لشکر آتا تو ممکن نہ تھا کہ جانور چرانے والے اس سے غافل رہیں اور دوڑ کر مکہ کے لوگوں کو خبر نہ دیں مگر باوجود اس کے کہ یہ بات ناممکن تھی سب لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کی بات ضرور مان لیں گے کیونکہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے.آپ نے فرمایا کہ جب تم گواہی دیتے ہو کہ میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا تو میں تم کو بتاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس لئے مبعوث کیا ہے کہ میں اس کا پیغام تم کو پہنچاؤں اور یہ سمجھاؤں کہ جو کام تم کرتے ہو اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوگا.یہ بات سنتے ہی لوگ بھاگ گئے اور کہا کہ یہ شخص پاگل ہو گیا ہے یا جھوٹا ہے.تمام شہر میں شور پڑ گیا اور جو لوگ آپ پر ایمان لائے تھے ان پر نہایت سختیاں ہونے لگیں.بھائی نے بھائی کو چھوڑ دیا.ماں باپ نے بچوں کو نکال دیا - آقاؤں نے نوکروں کو دکھ دینا شروع کیا.غرض عجیب طرح سے ان لوگوں کو جو آپ پر ایمان لاتے تکالیف دینی شروع کیں.چودہ چودہ پندرہ پندرہ سالہ نوجوانوں کو جو کسی رسم و رواج کے پابند نہ تھے بلکہ مذہب کی تحقیق میں اپنی عقل سے کام لیتے تھے اور اسی لئے جلد آپ پر ایمان لے آتے تھے ان کے ماں باپ قید کر دیتے اور کھانا اور پانی دینا بند کر دیتے تاکہ وہ تو بہ کر لیں مگر وہ ذرہ بھی پرواہ نہ کرتے تھے اور خشک ہونٹوں اور گڑھے میں گھسی ہوئی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتے یہاں تک کہ ماں باپ آخر اس ڈر سے کہ کہیں مر نہ جائیں ان کو کھانا پینا دے دیتے مگر نو جوانوں پر تو رحم کرنے والے لوگ موجود تھے جو غلام آپ پر ایمان لائے ان کی حالت نہایت نازک تھی اور یہی حال دوسرے غرباء کا تھا جن کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا.غلاموں کو لوہے کی زرہیں پہنا دیتے تھے اور پھر ان کو سورج کے پاس کھڑا کر دیتے تھے تا کہ لو ہا گرم ہو کر ان کا جسم جھلس جائے.( یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہ عرب کا سورج تھا نہ کہ انگلستان کا ) بعض کی لاتوں میں رسیاں ڈال کر ان کو زمین پر گھسیٹتے تھے.بعض دفعہ لوگ لو ہے کی سیخیں گرم کر کے ان سے مسلمانوں کا جسم جلاتے تھے اور بعض دفعہ سوئیوں سے ان کے چمڑے کو اس طرح چھید تے تھے جس طرح کہ کپڑا سیتے ہیں مگر وہ ان سب باتوں کو برداشت کرتے تھے اور عذاب کے وقت کہتے جاتے
۳۵۴ تھے کہ وہ ایک خدا کی پرستش کو نہیں چھوڑ سکتے.ایک عورت جو نہایت ہی پختہ مسلمان تھی اس کے پیٹ میں نیزہ مار کر اس کو مار دیا.خود رسول کریم کو بھی لوگ بہت دکھ دیتے تھے گو ڈرتے بھی تھے کیونکہ آپ کے خاندان کی مکہ میں بہت عزت تھی.لوگ آپ کو گالیاں دیتے بعض دفعہ نماز میں جب آپ سجدہ کرتے تو سر پر اوجھڑی ڈال دیتے.کبھی سر پر راکھ پھینک دیتے.ایک دفعہ آپ سجدہ میں تھے کہ ایک شخص آپ کی گردن پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہو گیا اور دیر تک اس نے آپ کو اسی طرح دبائے رکھا.ایک دفعہ آپ عبادت کے لئے مسجد مکہ میں گئے تو آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر گھونٹنا شروع کر دیا مگر با وجودان مخالفتوں کے آپ تبلیغ میں لگے رہتے اور ذرہ پر واہ نہ کرتے.جہاں بھی لوگ بیٹھے ہوتے آپ وہاں جا کر ان کو تعلیم دیتے کہ خدا تعالیٰ ایک ہے اس کے سوا کوئی شخص معبود نہیں.نہ اس کا کوئی بیٹا ہے نہ بیٹی.نہ اس کے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی کا بیٹا ہے.نہ زمین میں نہ آسمان پر اس کا کوئی شریک ہے.اس پر ایمان لانا چاہیے اور اسی کی عبادت کرنی چاہیے اور اسی سے دعائیں مانگنی چاہئیں.وہ لطیف ہے اس کو کوئی نہیں دیکھ سکتا.اس میں سب طاقتیں ہیں.اسی نے دنیا کو پیدا کیا ہے اور جب لوگ مرجاتے ہیں تو ان کی روحیں اس کے پاس جاتی ہیں اور ایک زندگی ان کو دی جاتی ہے اور چاہیے کہ اس کی محبت کو اپنے دل میں پیدا کرے اور اس سے تعلق کو مضبوط کرے اور اس کے قریب ہونے کی خواہش کرے اور اپنے خیالات اور عمل اور اپنی زبان کو پاک کرے.جھوٹ نہ بولے.قتل نہ کرے.فساد نہ کرے.چوری نہ کرے.ڈاکہ نہ مارے.عیب نہ لگائے.طعنہ نہ دے.بد کلامی نہ کرے.ظلم نہ کرے.حسد نہ کرے.اپنے وقت کو اپنے آرام اور عیاشی میں صرف نہ کرے بلکہ بنی نوع انسان کی ہمدردی اور بہتری میں اور محبت اور امن کی اشاعت کرے.یہ تعلیم تھی جو آپ دیتے مگر با وجود اس کے کہ یہ تعلیم اعلیٰ درجہ کی تھی لوگ آپ پر ہنتے.مکہ کے لوگ سخت بت پرست تھے اور سینکڑوں بت بنا کر انہوں نے اپنے معبد میں رکھے ہوئے تھے جس کے سامنے وہ روزانہ عبادت کرتے تھے اور جن کے آگے باہر سے آنے والے لوگ نذرانے چڑھاتے تھے جن پر کئی معزز خاندانوں کا گزارا تھا.ان لوگوں کے لئے ایک خدا کی عبادت بالکل عجیب تعلیم تھی.وہ اس بات کو سمجھ ہی نہ سکتے تھے کہ
۳۵۵ خدا تعالیٰ کیوں انسان کی شکل میں یا کسی پتھر کے بت میں ظاہر نہیں ہوسکتا.وہ ایک نہ نظر آنے والے خدا کا تخیل ناممکنات سے سمجھتے تھے.پس جب وہ آپ کو دیکھتے بنتے اور کہتے کہ دیکھو اس شخص نے سب خداؤں کو اکٹھا کر دیا ہے کیونکہ وہ خیال کرتے تھے کہ کئی خداؤں کے ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں.پس محمد عمل ہے جو کہتے ہیں کہ ایک ہی خدا ہے اس سے مراد ان کی یہ ہے کہ انہوں نے اب سب خداؤں کو اکٹھا کر کے ایک ہی بنا دیا ہے اور اپنی اس غلط فہمی کی بے ہودگی کو آپ کی طرف منسوب کر کے خوب قہقہے لگاتے.بعث بعد الموت کا عقیدہ بھی ان کے لئے عجیب تھا.وہ - ہنتے اور کہتے کہ یہ شخص خیال کرتا ہے کہ جب ہم مر جائیں گے تو پھر زندہ ہوں گے.جب مسلمانوں کی تکلیفیں بہت بڑھ گئیں تو رسول کریم نے صحابہ کو اجازت دے دی کہ وہ حبشہ کو جو اس وقت بھی ایک مسیحی حکومت تھی ہجرت کر کے چلے جائیں.چنانچہ اکثر مسلمان مرد و عورت اپنا وطن چھوڑ کر افریقہ کو چلے گئے.مکہ والوں نے وہاں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا.بادشاہ کے پاس ایک وفد بھیجا کہ ان لوگوں کو واپس کر دیں تا کہ ہم ان کو سزاد یں.مسیحی بادشاہ بہت ہی منصف مزاج تھا.جب اس کے پاس وفد پہنچا تو اس نے دوسرے فریق کا بھی بیان سنا پسند کیا اور مسلمان در بارشاہی میں بلائے گئے.یہ واقعہ نہایت ہی دردناک ہے.ہم قوموں کے ظلموں سے تنگ آکر اپنے وطن کو خیر باد کہنے والے مسلمان ابی سینیا کے بادشاہ کے دربار میں اس خیال سے پیش ہوتے ہیں کہ اب شاید ہم کو ہمارے وطن واپس کرایا جائے گا اور ظالم اہل مکہ اور بھی زیادہ ظلم ہم پر کریں گے.جب وہ بادشاہ کے سامنے پیش ہوئے تو اس نے پوچھا کہ تم میرے ملک میں کیوں آئے ہو؟ مسلمانوں نے جواب دیا کہ اے بادشاہ ہم پہلے جاہل تھے اور ہمیں نیکی اور بدی کا کوئی علم نہ تھا.بتوں کو پوجتے تھے اور خدا تعالیٰ کی توحید سے ناواقف تھے.ہر اک قسم کے برے کام کرتے تھے.ظلم.ڈاکہ قتل.بدکاری ہمارے نزدیک معیوب نہ تھے.ابھی اللہ تعالیٰ نے محمد کو مبعوث کیا.اس نے ہمیں ایک خدا کی پرستش سکھائی اور بدیوں سے ہمیں روکا - انصاف اور عدل کا حکم دیا.محبت کی تعلیم دی اور تقویٰ کا راستہ بتایا.تب وہ لوگ جو ہمارے بھائی بند ہیں انہوں نے ہم پر ظلم کرنا شروع کیا اور ہم کو طرح طرح کے دکھ دینے شروع کئے.ہم آخر تنگ آ کر اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور تیرے ملک میں آئے ہیں.اب یہ لوگ ہمیں واپس لے جانے کے لئے یہاں بھی آگئے ہیں.
۳۵۶ ہمارا قصور اس کے سوا کوئی نہیں کہ ہم اپنے خدا کے پرستار ہیں.اس تقریر کا بادشاہ پر اس قدراثر ہوا کہ اس نے مسلمانوں کو واپس کرنے سے انکار کر دیا.مکہ کے وفد نے درباریوں سے ساز باز کر کے پھر بھی دوسرے دن بادشاہ کے سامنے وہی سوال پیش کیا اور کہا کہ یہ لوگ حضرت مسیح کو گالیاں دیتے تھے.بادشاہ نے پھر دوبارہ مسلمانوں کو بلایا.انہوں نے جو اسلام کی تعلیم مسیح کے متعلق تھی بیان کی کہ ہم ان کو خدا تعالیٰ کا پیارا نبی مانتے ہیں.ہاں ہم انہیں کسی طرح بھی خدائی کے قابل نہیں جانتے کیونکہ ہمارے نزدیک خدا تعالیٰ ایک ہے اور اس بات پر درباری جوش میں آگئے اور بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کو سزا دے مگر بادشاہ نے کہا کہ یہی میرا عقیدہ ہے اور اس عقیدہ کی وجہ سے ان لوگوں کو ظالموں کے ہاتھوں میں نہیں دے سکتا.پھر درباریوں سے کہا کہ مجھے تمہارے غصے کی بھی پرواہ نہیں ہے.خدا کو بادشاہت پر ترجیح دیتا ہوں.اہل مکہ نے رسول کریم کو اور زیادہ تکلیفیں دینی شروع کیں اور آخر آپ کے چچا سے جو چونکہ مکہ کے بڑے رئیس تھے اور ان کی وجہ سے لوگ آپ کو زیادہ دکھ دینے سے ڈرتے تھے کہا کہ آپ کسی اور رئیس کا لڑکا اپنا لڑ کا بنالیں اور محمد کو ہمارے حوالے کر دیں تاکہ ہم اس کو سزا دیں.انہوں نے جواب دیا کہ یہ عجیب درخواست ہے.تم چاہتے ہو کہ میں تمہارے لڑکوں کو لے کر اپنا مال ان کے حوالے کر دوں اور اپنے لڑکے کو تمہارے حوالے کر دوں کہ تم اسے دکھ دے کر مارو.کیا کوئی جانور بھی ایسا کرتا ہے کہ اپنے بچے کو مارے اور دوسرے کے لڑکے کو پیار کرے.جب اہل مکہ نا امید ہوئے تو انہوں نے درخواست کی کہ اچھا آپ اپنے بھتیجے کو یہ سمجھائیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے ایک ہونے پر اس قدر زور نہ دیا کرے اور یہ نہ کہا کرے کہ بتوں کی پرستش جائز نہیں اور جو کچھ چاہے کہے.چنانچہ آنحضرت کو ان کے چچا نے بلا کر کہا کہ مکہ کے رؤسا ایسا کہتے ہیں کیا آپ ان کو خوش نہیں کر سکتے ؟ رسول کریم نے جواب دیا کہ آپ کے مجھ پر بہت احسان ہیں مگر آپ کے لئے اپنے خدا کو نہیں چھوڑ سکتا اگر آپ کو لوگوں کی مخالفت کا خوف ہے تو آپ مجھ سے الگ ہو جا ئیں مگر میں اس صداقت کو جو کہ مجھے خدا سے ملی ہے ضرور پیش کروں گا.یہ نہیں ہوسکتا کہ میں اپنی قوم کو جہالت میں مبتلا دیکھوں اور خاموش بیٹھا ر ہوں.باقی مضمون کو نمبر ۳ رجسٹر ڈ لفافہ میں ملاحظہ فرمائیں )
۳۵۷ حضور نے ظہر وعصر کی نمازیں جمع کرائیں اور جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے جہاں کہ وحشی اقوام اور جنگلی لوگوں کے مذاہب پر مضامین تھے اور شام کی نماز کے بعد تشریف لائے.کھانا کھایا اور پھر حضور کو کچھ تکلیف ہوگئی نماز کے لئے تشریف نہ لا سکے اور فرمایا کہ میری طبیعت اچھی نہیں ، نماز پڑھا دیں.۳۰ ستمبر ۱۹۲۴ء : آج صبح کی نماز میں بھی حضور تشریف نہیں لائے.کل کی ڈاک بہت بڑی تھی اس میں بھی بچوں اور بعض لوگوں کی بیماریوں کی اطلاع آئی تھی.حضور دیر تک ڈاک پڑھتے رہے.اس محنت کا بھی اثر تھا کوفت ہو گئی.آج حضور گیارہ بجے سے بازار کچھ کپڑا گرم خرید فرمانے کو تشریف لے گئے ہیں.اڑھائی بج چکے ہیں واپس تشریف نہیں لائے.کھانے کے متعلق بھی کچھ حکم نہیں دے گئے.دوست منتظر ہیں.میں احتیاطاً اس خط کو آج رجسٹری کراتا ہوں.مجھے بتایا گیا ہے کہ جمعرات کو جو رجسٹری کرائی جاتی ہے وہ قادیان ایک ہفتہ بعد پہنچتی ہے.اس سے مجھے تکلیف ہوئی میں نے تو رجسٹرڈ بھی قادیان کے دوستوں کے مشورہ سے ہی کرانا شروع کیا تھا.میں تو سادہ خط میں بھیجا کرتا تھا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ رجسٹریاں اگر دن نہیں تو چند منٹ یا گھنٹے بعد ضرور تقسیم ہوتی ہیں.خیر آج اسی قدر ارسال کرتا ہوں.اس کا نمبر ۲ ہوگا.اس کے بعد نمبر ۳ الگ ارسال کروں گا اور وہ شاید رجسٹر ڈ بھی نہ کراؤں.مضمون ابھی چل رہا ہے اور ۲۳ میں سے ۱ صفحات باقی ہیں.اس مضمون کا انگریزی ترجمہ بھی میں نے لفافہ میں ڈالا ہے اور احمد یہ موومنٹ جو کا نفرنس میں پڑھا گیا تھا وہ پہلے نامکمل تھا آج مکمل کا پی اس خط میں روانہ کرتا ہوں.دعاؤں کا طالب عبد الرحمن قادیانی ۳۰ ستمبر ۱۹۲۴ء
۳۵۸ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم ازلنڈن : مورخه ۳۰ ستمبر ۱۹۲۴ء (ج) گذشتہ سے پیوستہ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته جب اہل مکہ کو اس سے بھی نا امیدی ہوئی تو انہوں نے ایک رئیس کو اپنے میں سے چنا اور اس کی معرفت آپ کو کہلا بھیجا کہ آپ یہ بتائیں کہ ملک میں یہ فساد آپ نے کیوں مچا دیا ہے.اگر آپ کی یہ غرض ہے کہ آپ کو عزت مل جائے تو ہم سب شہر میں سے آپ کو معزز قرار دے دیتے ہیں.اگر مال کی خواہش ہے تو ہم سب شہر کے لوگ اپنے مالوں کا ایک ایک حصہ الگ کر کے آپ کو دے دیتے ہیں جس سے آپ سارے شہر سے زیادہ امیر ہو جائیں گے.اگر حکومت کی خواہش ہے تو ہم آپ کو اپنا بادشاہ بنانے کے لئے تیار ہیں.اگر شادی کی خواہش ہے تو جس عورت سے آپ چاہیں آپ کی شادی کرا دی جائے گی مگر آپ ایک خدا کی پرستش کی تعلیم نہ دیں.جس وقت وفد نے یہ پیغام آپ کو آ کر دیا آپ نے فرمایا کہ دیکھو اگر سورج کو میرے ایک طرف اور چاند کو میرے دوسری طرف لا کر کھڑا کر دو یعنی یہ دنیا کا مال تو کیا ہے اگر چاند اور سورج کو بھی میرے قبضہ میں دے دو تب بھی میں اس تعلیم کو نہ چھوڑوں گا.اُس وقت تک گل اسی آدمی رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے تھے مگر جب مکہ کے ظلموں کی خبر باہر پہنچی تو لوگوں نے تحقیقات کے لئے مکہ آنا شروع کیا.اس پر اہل مکہ بہت گھبر ائے اور انہوں نے شہر کی سڑکوں پر پہرے مقرر کر دیئے کہ کوئی رسول کریم سے مل نہ سکے اور ارادہ کیا کہ آپ کو قتل کر دیں.اس پر آپ کے چچا اور دیگر رشتہ دار آپ سمیت ایک وادی میں چلے گئے تا کہ آپ کی حفاظت کریں.پس جب اس طرح بھی کام چلتا نہ دیکھا تو سب اہل مکہ نے معاہدہ کر لیا کہ رسول کریم اور آپ کے خاندان اور تمام مسلمانوں کا مقاطعہ کیا جائے اور کوئی شخص ان کے پاس کوئی
۳۵۹ کھانے پینے کی چیز فروخت نہ کرے اور نہ ان سے شادی بیاہ کا تعلق کیا جاوے اور نہ ان سے کبھی صلح کی جائے جب تک وہ آپ کو قتل کے لئے نہ دے دیں.مکہ ایک اکیلا شہر ہے.اس کے اردگرد چالیس میل تک کوئی شہر نہیں.پس یہ فیصلہ سخت تکلیف دہ تھا.مکہ والوں نے پہرے لگا دیئے کہ کوئی شخص ان کے ہاتھ کوئی کھانے کی چیز فروخت نہ کرے اور برابر تین سال تک اس سخت قید میں آپ کو رہنا پڑا.راتوں کے اندھیروں میں پوشیدہ طور پر جس قدر غلہ وہ داخل کر سکتے تھے کر لیتے تھے مگر پھر بھی اس قدرنگرانی میں وہ لوگ کہاں تک انتظام کر سکتے تھے.بہت دفعہ کئی کئی دن جھاڑیوں کے پتے اور شاخوں کے چھلکے کھا کر ان کو گزارا کرنا پڑتا تھا.ایک صحابی کہتے ہیں کہ ان تکلیف کے دنوں میں سب کی صحبتیں خراب ہو گئیں اور بہت دست لگ گئے.ہفتہ نہیں دو ہفتہ نہیں تین سال متواتر وہ بہی خواہ بنی نوع انسان اپنے ماننے والوں کے ساتھ صرف اس لئے دکھ دیا گیا کہ وہ کیوں خدائے واحد کی پرستش اور اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتا ہے مگر اس نے ان تکالیف کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کی.تین سال کی متواتر تکلیف کے بعد بعض رؤسا مکہ کی انسانیت اس ظالمانہ فعل پر بغاوت کرنے لگی اور انہوں نے اس معاہدہ کو جو رسول کریم کے خلاف کیا گیا تھا چاک کر دیا اور آپ اس وادی سے نکل کر باہر آگئے مگر آپ کے بوڑھے چچا اور وفادار بیوی ان صدمات کے اثر سے نہ بچ سکے اور کچھ دنوں کے بعد فوت ہو گئے.اہل مکہ کی بے پروائی کو دیکھ کر آپ نے عرب کے دوسرے شہروں کی طرف توجہ کی اور طائف کے لوگوں کو خدائے واحد کی پرستش کی دعوت دینے کے لئے تشریف لے گئے.طائف مکہ سے ساٹھ میل کے فاصلہ پر ایک پرانا شہر ہے.اس شہر کے لوگوں کو جب آپ نے خدا کا کلام سنایا تو وہ مکہ والوں سے بھی زیادہ ظالم ثابت ہوا.پہلے انہوں نے گالیاں دیں پھر کہا شہر سے نکل جاؤ.جب آپ واپس آ رہے تھے تو بدمعاشوں اور کتوں کو ان کے پیچھے لگا دیا.پتھر پر پتھر چاروں طرف سے آپ پر پڑتے تھے مگر اس وقت ان ظالموں کی نسبت جو خیالات آپ کے دل میں موجزن تھے وہ ان الفاظ سے ظاہر ہیں جو اس سنگساری کے وقت آپ کی زبان پر جاری تھے.آپ خون اپنے جسم سے پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ اے خدا ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ میں جو کچھ ان لوگوں کو کہتا ہوں وہ سچ ہے اور درست ہے اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں اچھا سمجھ کر کر رہے ہیں اس
لئے تو ان پر ناراض نہ ہو اور ان پر عذاب نہ کر بلکہ ان کو سچائی کے قبول کرنے کی توفیق دے.دیکھیں تکلیف کے وقت میں کیسے محبت سے بھرے ہوئے الفاظ کہے گئے ہیں.کیا ان سے بڑھ کر انسانی ہمدردی کی مثال کہیں مل سکتی ہے؟ سچ چھپا نہیں رہتا.آپ کی تعلیم کی خبریں باہر مشہور ہو ئیں اور یثرب نامی ایک شہر کے لوگ ( جسے اب مدینہ کہتے ہیں ) حج کے لئے مکہ آئے تو آپ سے بھی ملے.آپ نے ان کو اسلام کی تعلیم دی اور ان لوگوں کے دلوں پر ایسا گہرا اثر کیا کہ انہوں نے واپس جا کر اپنے شہر کے لوگوں سے ذکر کیا اور ستر آدمی دوسرے سال تحقیق کے لئے آئے جو سب اسلام لے آئے اور انہوں نے درخواست کی کہ آپ ان کے شہر میں چلے جائیں مگر آپ نے اس وقت ان کی بات پر عمل کرنا مناسب نہ سمجھا.ہاں وعدہ کیا کہ جب ہجرت کا موقع ہوگا آپ مدینہ تشریف لائیں گے.جب اہل مکہ کو معلوم ہوا کہ اب باہر بھی آپ کی تعلیم پھیلنی شروع ہوئی ہے تو انہوں نے ہر قبیلہ میں سے ایک آدمی چُنا تا کہ سب مل کر آپ کو رات کو قتل کر دیں اور یہ اس لئے کیا کہ اگر آپ کی قوم اس کو نا پسند کرے تو وہ سب قوموں کے اجتماع سے ڈر کر بدلہ نہ لے سکیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بتا دیا تھا.آپ اسی رات مکہ سے نکل کر ابو بکر کو ساتھ لے کر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے جہاں کے لوگوں پر اسلام کی تعلیم کا ایسا اثر ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں قریباً سب مدینہ کے لوگ اسلام لے آئے اور آپ کو انہوں نے اپنا بادشاہ بنالیا اور اس طرح وہ کونے کا پتھر جسے اس کے شہر کے معماروں نے رڈ کر دیا تھا مدینہ کی حکومت کا تاج بنا.اس ترقی کے زمانہ میں بھی آپ نے اپنا شغل تعلیم اور وعظ ہی رکھا اور اپنی سادہ زندگی کو کبھی نہیں چھوڑا.آپ کا شغل یہ تھا کہ آپ لوگوں کو خدائے واحد کی پرستش کی تعلیم دیتے.اخلاق فاضلہ اور معاملات کے متعلق اسلامی احکام لوگوں کو سکھلاتے.پانچ وقت نماز خود آ کر مسجد میں - پڑھاتے.( مسلمانوں میں بجائے ہفتہ میں ایک مرتبہ عبادت کرنے کے پانچ دفعہ ہر روز مسجد میں جمع ہو کر عبادت کی جاتی ہے ) جن لوگوں میں جھگڑے ہوتے آپ فیصلہ کرتے.ضروریات قومی کی طرف توجہ کرتے جیسے تجارت ، تعلیم ، حفظان صحت وغیرہ اور پھر غرباء کے حالات معلوم کرتے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتے حتی کہ جن لوگوں کے گھروں میں کوئی سودا د ینے والا نہ
۳۶۱ ہوتا ان کے لئے سودا لا دیتے.پھر باوجود ان سب کاموں کے کبھی بچوں کے اندر قو می روح پیدا کرنے کے لئے ان میں جا کر شامل ہو جاتے اور ان کو ان کی کھیلوں میں جوش دلاتے.جب گھر میں داخل ہوتے تو اپنی بیویوں سے مل کر گھر کا کام کرنے لگتے اور جب رات ہوتی اور سب لوگ آرام سے سو جاتے تو آپ آدھی رات کے بعد اُٹھ کر رات کی تاریکی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو جاتے یہاں تک کہ بعض دفعہ کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں سوج جاتے.جو مذہبی تعلیم آپ دیتے تھے اس کا خلاصہ یہ تھا.(1) آپ اس تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ ایک ہے باقی جو کچھ بھی فرشتے خواہ انسان سب اس کی مخلوق ہیں.یہ عقیدہ اللہ تعالیٰ کی بہتک ہے کہ وہ انسان کے جسم میں آ جاتا ہے یا اس کی کوئی اولاد ہوتی ہے یا وہ بتوں میں داخل ہو جاتا ہے وہ ان باتوں سے پاک ہے.وہی زندہ کرتا ہے اور جس قدر مصلح گزرے ہیں سب اس کے بندے تھے کسی کو الوہیت کی طاقتیں حاصل نہ تھیں.سب کو اس کی عبادت کرنی چاہیے اور صرف اس سے دعائیں مانگنی چاہئیں.اسی پر اپنے تمام کاموں میں بھروسہ رکھنا چاہیے.(۲) یہ کہ خدا تعالیٰ نے انسانوں کو ایک اعلیٰ درجہ کی روحانی اور اخلاقی اور تمدنی ترقیات کے لئے پیدا کیا ہے.وہ ہمیشہ دنیا میں اس غرض کو جاری رکھنے کے لئے نبی بھیجتا رہا ہے اور ہر قوم میں بھیجتا رہا ہے.آپ اس امر کے سخت مخالف تھے کہ نبوت کو کسی ایک قوم میں محدود رکھا جائے کیونکہ اس سے خدا تعالیٰ پر جانب داری کا الزام آتا ہے جس سے وہ پاک ہے اور دنیا کی ہر قوم کے نبیوں کی تصدیق کرتے تھے.(۳) آپ اس امر پر زور دیتے تھے کہ خدا تعالیٰ ہر زمانہ کی ضروریات کے مطابق اپنا کلام نازل کرتا رہا ہے اور آپ کا دعویٰ تھا کہ آخری زمانہ کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے اور اس بنا پر آپ قرآن کریم کو سب پہلی کتابوں سے مکمل سمجھتے تھے اور اس کی تعلیم کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے.(۴) آپ کو یہ دعویٰ تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی ہستی کا یقین دلانے کے لئے ہمیشہ اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے اور ان کے لئے نشان دکھاتا رہتا ہے اور آپ دعویٰ کرتے تھے کہ جو لوگ بھی آپ کی
۳۶۲ تعلیم پر عمل کریں گے وہ اپنے تجربہ سے ان باتوں کی صداقت معلوم کریں گے اور میں اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر آپ کو کہہ سکتا ہوں کہ یہ بات بالکل درست ہے.میں نے خود بھی اسلام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی باتیں سنی ہیں جس طرح موسی اور مسیح کے زمانہ کے لوگ سنتے تھے اور خدا تعالیٰ نے کئی دفعہ مجھے ایسے نشان دکھائے ہیں جو انسانی طاقت سے بالا تھے.(۵) آپ کہتے تھے کہ بچے مذہب کی علامت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی زندگی کے سامان کرتا ہے اور فرماتے تھے کہ اسلام کو انسانی خیالات کی تعدی سے محفوظ رکھنے کیلئے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے نبی بھیجتا رہے گا جو اس کی حفاظت کریں گے.چنانچہ ابھی ایک نبی احمد ہندوستان میں اسی غرض سے ظاہر ہوا ہے اور میں اس کا خلیفہ ہوں اور میرے ساتھی اس کی جماعت میں سے ہیں.(1) آپ فرماتے تھے کہ باوجود مذہبی اختلافات کے لوگوں کو آپس میں محبت سے رہنا چاہیے اور مذہبی اختلاف کی وجہ سے جھگڑنا نہیں چاہیے کیونکہ اگر اس کے پاس سچائی ہے تو اس سے لڑنے کی کیا ضرورت ہے وہ سچائی کو پیش کرے خود ہی لوگ متاثر ہوں گے.چنانچہ آپ اپنی مسجد میں عیسائیوں کو بھی عبادت کرنے کی اجازت دیتے تھے اور یہ ایسی وسعت حوصلگی ہے کہ اُس وقت کے لوگ تو الگ رہے آج کل کے لوگ بھی اس کی مثال نہیں پیش کر سکتے.(۷) آپ اس امر پر بہت زور دیتے تھے کہ انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں.ایک روحانی اور ایک جسمانی اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ایسے وابستہ ہیں کہ الگ نہیں ہو سکتے.جسمانی حصہ روحانی پر اثر ڈالتا ہے اور روحانی جسمانی پر.پس آپ کی تعلیم میں اس امر پر خاص زور تھا کہ بغیر دلی پاکیزگی کے ظاہری عبادتیں فائدہ نہیں دے سکتیں اور یہ بھی کہ ظاہری عبادتوں کے بغیر خیالات کی بھی تربیت نہیں ہو سکتی اس لئے کامل تربیت کے لئے انسان کو دونوں باتوں کا خیال رکھنا چاہیے.(۸) آپ انسان کی اخلاقی حالتوں کے متعلق یہ تعلیم دیتے تھے کہ سب انسان پاک فطرت لے کر پیدا ہوتے ہیں اور جو خرابی پیدا ہوتی ہے وہ پیدائش کے بعد غلط تعلیم یا تربیت سے پیدا ہوتی ہے.پس آپ بچوں کی نیک تربیت اور اعلی تعلیم پر خاص طور پر زور دیتے تھے.(۹) آپ اس امر پر بھی زور دیتے تھے کہ اخلاق کی اصل غرض انسان کی اپنی اور دوسرے لوگوں کی اصلاح ہے.پس اخلاق فاضلہ وہی ہیں جن سے انسان کا نفس اور دوسرے لوگ پاکیزگی
۳۶۳ حاصل کریں.پس آپ کبھی ایک تعلیم پر زور نہیں دیتے تھے بلکہ ہمیشہ ہر چیز کے سب پہلوؤں کو بیان کرتے تھے مثلاً یہ نہیں کہتے تھے کہ نرمی کرو ، عفو کرو بلکہ یہ فرماتے تھے کہ جب کوئی شخص تم کو تکلیف دے تو یہ سوچو کہ اس شخص کی اصلاح کس بات میں ہے.اگر وہ شخص شریف الطبع ہے اور معاف کرنے سے آئندہ ظلم کی عادت کو چھوڑ دے گا اور اس نمونہ سے فائدہ حاصل کرے گا تو اسے معاف کر دو اور اگر یہ دیکھو کہ وہ شخص بہت گندہ ہو چکا ہے اور اگر تم اسے معاف کرو گے تو وہ یہ سمجھ لے گا کہ اس شخص نے مجھ سے ڈر کر مجھے سزا نہیں دی یا نہیں دلوائی اور اس وجہ سے وہ بدی پر دلیر ہو جائے گا اور اور لوگوں کو بھی دکھ دے گا تو اسے اس کے جرم کے مطابق سزا دو کیونکہ ایسے شخص کو معاف کرنا دوسرے ناکردہ گناہ لوگوں پر ظلم ہے جو ایسے شخص کے ہاتھ سے تکلیف اٹھارہے ہیں یا آئندہ اُٹھا سکتے ہیں.(10) آپ کی یہ بھی تعلیم تھی کہ کبھی کسی دوسری حکومت پر حملہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ جنگ صرف بطور دفاع کے جائز ہے اور اس وقت بھی اگر دوسرا فریق اپنی غلطی پر پشیمان ہو کر صلح کرنا چاہے تو صلح کر لینی چاہیے.(11) آپ کی یہ تعلیم بھی تھی کہ انسان کی روح مرنے کے بعد برابر ترقی کرتی چلی جائے گی اور کبھی فنا نہ ہوگی حتی کہ گناہ گار لوگ بھی ایک مدت اپنے اعمال کی سزا بھگت کر خدا کے رحم سے بخشے جائیں گے اور دائمی ترقی کی سڑک پر چلنے لگیں گے.اہل مکہ نے جب دیکھا کہ مدینہ میں آپ کو اپنی تعلیم کے عام طور پر پھیلانے کا موقع مل گیا ہے اور لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہونے لگے ہیں تو انہوں نے متواتر مدینہ پر چڑھائیاں کرنی شروع کیں مگر ان لشکر کشیوں کا نتیجہ بھی ان کے حق میں بُرا نکلا اور رسول کریم کی اس سے بھی برتری ثابت ہوئی کیونکہ گو بڑی بڑی تیاریوں کے بعد مکہ والوں نے مدینہ پر حملہ کیا اور مسلمان ہر دفعہ تعداد میں ان سے کم تھے.عموماً ایک مسلمان تین اہل مکہ کے مقابلہ پر ہوتا تھا مگر پھر بھی غیر معمولی طور پر خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی اور اہل مکہ کو شکست ہوئی.بعض دفعہ بے شک مسلمانوں کو عارضی تکلیف بھی پہنچی مگر حقیقی معنوں میں کبھی شکست نہ ہوئی اور ان لشکر کشیوں کے دو نتیجے نکلے.ایک تو یہ کہ بجائے اس کے کہ رسول کریم علیہ تباہ ہوتے آپ سارے عرب کے بادشاہ صلى الله
۳۶۴ ہو گئے اور دوسرا یہ کہ ان لڑائیوں میں آپ کو کئی ایسے اخلاق کے دکھانے کا موقع ملا جو بغیر جنگوں کے مخفی رہتے اور اس سے آپ کی اخلاقی برتری ثابت ہو گئی.اس طرح یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ آپ نے کیسی وفاداری اور قربانی کی روح ایک مُردہ قوم مین پھونک دی تھی.چنانچہ مثال کے طور پر میں اُحد کی جنگ کا واقعہ بیان کرتا ہوں.مدینہ آنے کے تین سال بعد کفار مکہ نے تین ہزار کا لشکر تیار کر کے مدینہ پر حملہ کیا.مدینہ مکہ سے دوسو میل کے فاصلہ پر ہے.دشمن اپنی طاقت پر ایسا نازاں تھا کہ مدینہ تک حملہ کرتا ہوا چلا آیا اور مدینہ سے آٹھ میل پر اُحد کے مقام پر رسول کریم اس کو روکنے کے لئے گئے.آپ کے ساتھ ایک ہزار سپاہی تھے.آپ نے جو احکام دیئے اس کے سمجھنے میں ایک دستہ فوج سے غلطی ہوئی.نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کو پہلے فتح ہو چکی تھی دشمن پھر ٹوٹ پڑا اور ایک وقت ایسا آیا کہ دشمن نے زور کر کے مسلمانوں کو اس قدر پیچھے دھکیل دیا کہ صرف رسول کریم سے دشمنوں کے نرغے میں رہ گئے.آپ نے جرات اور دلیری کا یہ نمونہ دکھایا کہ باوجود اس کے کہ اپنی فوج ہٹ گئی تھی مگر آپ پیچھے نہ ہٹے اور دشمن کے مقابلہ پر کھڑے رہے.جب مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ رسول کریم ﷺ اپنی جگہ سے نہیں ہے اور وہیں کھڑے ہیں تو انہوں نے یک دم حملہ کر کے آپ تک پہنچنا چاہا لیکن صرف چودہ آدمی آپ تک پہنچ سکے.اس وقت ایک شخص نے ایک پتھر مارا اور آپ کا سر زخمی ہو گیا اور بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئے اور آپ کو بچاتے ہوئے کئی اور مسلمان قتل ہو کر آپ پر جا گرے اور لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.وہ لوگ ایک عاشق کی طرح تھے اس خبر کو سن کر کئی لوگ میدان جنگ میں ہی ہتھیار ڈال کر بیٹھ گئے اور رونے لگے.ایک مسلمان جس کو اس امر کا علم نہ تھا وہ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرا اور اس سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے.اس نے کہا رسول کریم تو شہید ہو گئے ہیں.اس نے کہا واہ اس سے بڑھ کر لڑنے کا موقع کب ہوگا جہاں وہ ہمارا محبوب گیا ہے وہیں ہم جائیں گے.یہ کہہ کر تلوار ہاتھ میں لے کر دشمن کی صفوں پر ٹوٹ پڑا اور آخر مارا گیا.جب اس کی لاش کو دیکھا گیا تو ستر زخم اس پر لگے ہوئے تھے.جو لوگ آپ کے پاس تھے انہوں نے جب آپ کے جسم کو لاشوں کے نیچے سے نکالا تو معلوم ہوا کہ آپ زندہ ہیں.اس وقت پھر لشکر اسلام جمع ہونا شروع ہو گیا اور دشمن بھاگ گیا.
اس وقت ایک مسلمان سپاہی اپنے ایک رشتہ دار کو نہ پا کر میدان جنگ میں تلاش کرنے لگا آخر اسے میدان جنگ میں اس حالت میں پایا کہ اس کی دونوں لاتیں کئی ہوئی تھیں اور سب جسم زخمی تھا اور اس کی آخری حالت معلوم ہوتی تھی.اس کو دیکھتے ہی اس زخمی نے پوچھا کہ رسول کریم کا کیا حال ہے.اس نے کہا کہ آپ خیریت سے ہیں.یہ بات سن کر اس کا چہرہ خوشی سے ٹمٹما اٹھا اور سن کر کہنے لگا کہ اب میں خوشی سے جان دوں گا.پھر اس عزیز کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ میری ایک امانت ہے وہ میرے عزیزوں کو پہنچا دینا اور وہ یہ ہے کہ ان سے کہنا کہ محمد رسول اللہ خدا تعالیٰ کی امانت ہے اس کی حفاظت تمہارے ذمہ ہے.دیکھنا اس کی حفاظت میں کوتا ہی نہ کرنا اور یہ کہہ کر مسکراتے ہوئے جان دے دی.یہ تو مردوں کی وفاداری کا حال ہے عورتیں بھی اس سے کم نہ تھیں.مدینہ میں بھی یہ خبر پہنچ گئی تھی کہ آپ شہید ہو گئے ہیں اور سب عورتیں اور بچے شہر سے نکل کر میدان جنگ کی طرف گھبرا کر چل پڑے تھے.اتنے میں ان کو شکر ملا جو خوشی سے آپ سمیت واپس لوٹ رہا تھا.ایک عورت نے ایک سپاہی سے آگے بڑھ کر پوچھا کہ رسول اللہ کا کیا حال ہے؟ اسے چونکہ معلوم تھا کہ آپ خیریت سے ہیں اس نے اس کی پرواہ نہ کی اور اسے کہا کہ تیرا باپ مارا گیا ہے.اس عورت نے کہا کہ میں تجھ سے اپنے باپ کے متعلق نہیں پوچھتی میں محمد دی اے کی بابت پوچھتی ہوں.اس نے پھر بھی پرواہ نہ کی اور کہا کہ تیرے دونوں بھائی بھی مارے گئے ہیں.اس نے پھر چڑ کر کہا کہ میں تجھ سے بھائیوں کے متعلق نہیں پوچھتی میں رسول کریم کے متعلق پوچھتی ہوں.اس نے کہا کہ وہ تو خیریت سے ہیں.اس پر اس عورت نے کہا کہ الحمد اللہ اگر آپ زندہ ہیں تو سب دنیا زندہ ہے.پھر مجھے پرواہ نہیں کہ میرا باپ مارا گیا ہے یا میرے بھائی مارے گئے ہیں.یہ اخلاص اور یہ محبت اس کامل نمونے کے بغیر جو آپ نے دکھایا اور اس گہری محبت کے بغیر جو آپ کو بنی نوع انسان سے تھی کس طرح پیدا ہوسکتا تھا.اسی طرح ایک دفعہ اسلامی لشکر ایک پہاڑی درّہ میں سے گزر رہا تھا جس کے دونوں طرف دشمن کے تیر انداز چھپے ہوئے تھے.مسلمانوں کو اس جگہ کا علم نہ تھا.ایک تنگ سڑک درمیان سے گزرتی تھی.جب اسلامی لشکر عین درمیان میں آ گیا تو دشمن نے تیر مارنے شروع کئے.اس اچانک حملہ کا یہ نتیجہ ہوا کہ گھوڑے اور اونٹ ڈر کر دوڑ پڑے اور سوار بے قابو ہو گئے.رسول کریم
۳۶۶ چار ہزار دشمن تیراندازوں کے اندر صرف ۱۶ آدمیوں سمیت رہ گئے باقی سب لشکر پراگندہ ہو گیا.آپ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دشمن کی طرف بڑھنا شروع کر دیا جو ساتھی باقی رہ گئے تھے وہ گھبرا گئے اور اُتر کر آپ کے گھوڑے کی باگیں پکڑلیں اور کہا کہ جناب اس وقت دشمن فاتحانہ بڑھا چلا آ رہا ہے اسلامی لشکر بھاگ چکا ہے.آپ کی جان پر اسلام کا مدار ہے پیچھے ہٹئے تا کہ اسلامی لشکر کو جمع ہونے کا موقع ملے.آپ نے فرمایا کہ میرے گھوڑے کی باگ چھوڑ دو اور پھر بلند آواز سے کہا کہ میں خدا کا نبی ہوں اور جھوٹا نہیں ہوں ، کون ہے جو مجھے نقصان پہنچا سکے یہ کہہ کر دشمن کے لشکر کی طرف ان سولہ آدمیوں سمیت جو پیچھے رہ گئے تھے بڑھنا شروع کیا مگر دشمن آپ کو نقصان نہ پہنچا سکا.پھر آپ نے ایک شخص کو جو بلند آواز والا تھا کہا کہ بلند آواز سے کہو کہ اے اہل مدینہ خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے.ایک صحابی کہتا ہے کہ ہمارے گھوڑے اور اونٹ اس وقت سخت ڈرے ہوئے تھے اور بھاگے جاتے تھے.ہم ان کو واپس موڑتے تھے اور وہ مڑتے نہ تھے.جس وقت یہ آواز آئی اس وقت یکدم ہماری حالت ایسی ہوگئی کہ گویا ہم مُردہ ہیں اور خدا کی آواز ہمیں بلاتی ہے.وہ کہتا ہے کہ اس آواز کے آتے ہی میں بے تاب ہو گیا میں نے اپنے اونٹ کو واپس لے جانا چاہا مگر وہ باگ کے کھینچنے سے دوہرا ہو جاتا تھا مگر مڑتا نہ تھا.میرے کان میں یہ آواز گونج رہی تھی کہ خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے.جب میں نے دیکھا کہ اونٹ مجھے دور ہی دور لئے جاتا ہے تو میں نے تلوار نکال کر اس کی گردن کاٹ دی اور پیدل دیوانہ وار اس آواز کی طرف بھاگ پڑا اور بے اختیار کہتا جاتا تھا کہ حاضر ہوں حاضر ہوں.وہ کہتا ہے یہی حال سب لشکر کا تھا جو سواری کو موڑ سکا وہ اس کو موڑ کر آپ کے پاس آ گیا اور جو سواری کو نہ موڑ سکا وہ سواری سے کود کر پیدل دوڑ پڑا جو یہ بھی نہ کر سکا اس نے سواری کو قتل کر دیا اور آپ کی طرف دوڑ پڑا اور چند ہی منٹ میں سب لوگ اس طرح گرد جمع ہو گئے جس طرح کہ کہتے ہیں کہ مُردے اسرافیل کے طور پر قبروں سے اُٹھ کھڑے ہوں گے.آپ لڑائی میں ہمیشہ تاکید کرتے تھے کہ مسلمان کبھی پہلے خودحملہ نہ کرے ہمیشہ دفاعی طور پرلڑے اور یہ کہ عورتوں کو نہ ماریں.بچوں کو نہ ماریں.پادریوں کو نہ ماریں.بوڑھے اور معذوروں کو نہ ماریں جو ہتھیار ڈال دیں ان کو نہ ماریں.درخت نہ کاٹیں.عمارتیں نہ گرا ئیں.قصبوں اور گا ؤں کو نہ لوٹیں اور اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ کسی نے ایسی غلطی کی ہے تو اس پر سخت
ناراض ہوتے.جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اہل مکہ پر فتح دی تو مکہ کے لوگ کانپ رہے تھے کہ اب نہ معلوم ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوگا.مدینہ کے لوگ جنہوں نے خودان تکلیفوں کو نہ دیکھا تھا جو آپ کو دی گئیں مگر دوسروں سے سنا تھا وہ آپ کی تکلیف کا خیال کر کے مکہ کے لوگوں کے خلاف جوش میں بھرے ہوئے تھے مگر آپ جب مکہ میں داخل ہوئے سب لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ اے لوگو ! آج میں ان سب قصوروں کو جو تم نے میرے حق میں کئے ہیں معاف کرتا ہوں تم لوگوں کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی.اگر جنگیں نہ ہوتیں اور آپ کو بادشاہت نہ ملتی تو آپ کامل نمونہ کس طرح دکھاتے اور انسانی اخلاق کے اس پہلو کو کس طرح دکھاتے ؟ غرض کہ جنگوں نے بھی آپ کے اخلاق کے ایک پہلو پر سے پردہ اُٹھایا اور آپ کی صلح اور امن سے محبت اور آپ کے رحم کو ظاہر کیا کیونکہ سچا رحم کرنے والا اور عفو کر نے والا وہی ہے جسے طاقت ملے اور وہ رحم کرے اور سچا وہی ہے جسے دولت ملے اور وہ اسے تقسیم کرے.آپ کو خدا تعالیٰ نے ظالم دشمنوں پر فتح دی اور آپ نے ان کو معاف کر دیا.آپ کو اس نے بادشاہت دی اور آپ نے اس بادشاہت میں بھی غربت سے گزارا کر کے اور سب مال حاجت مندوں میں تقسیم کر کے اس بات کو ثابت کر دیا کہ آپ غربا کی خبر گیری کی تعلیم اس لئے نہیں دیتے تھے کہ آپ کے پاس کچھ تھا نہیں بلکہ آپ جو کچھ کہتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے.آپ نے زندگی کے ہر ایک لمحہ کو خدا کے لئے تکلیف اُٹھانے میں خرچ کیا اور گویا آ روز ہی خدا کے لئے مارے جاتے تھے.۶۳ سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی اور بیماری کی حالت میں بھی آپ کو یہی خیال تھا کہ کہیں لوگ میرے بعد شرک نہ کرنے لگیں.چنانچہ بیماری موت میں آپ بار بار گھبرا گھبرا کر فرماتے تھے کہ خدا تعالیٰ بُرا کرے ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو عبادت کی جگہیں بنالیا ہے یعنی اپنے نبیوں کو الوہیت کی صفات دے کر ان سے دعائیں وغیرہ مانگتے ہیں جس سے آپ کا مطلب یہ تھا کہ مسلمان ایسا نہ کریں.اسی طرح شرک کی تردید کرتے ہوئے آپ اپنے پیدا کرنے والے سے جاملے اور باوجود اس کے لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پرستش کرتے ہیں.سب سے زیادہ شرک مٹانے والے محمد یہ ہیں.انہوں صلى الله
۳۶۸ نے اپنی سب عمر اسی کام میں خرچ کی ہے اور دنیا میں جو خیالات توحید کے نظر آتے ہیں وہ سب ان کی اور ان کے متبعین کی ہی کوششوں کا نتیجہ ہیں.والسلام حضرت اقدس کل ۴ بجے کے قریب واپس تشریف لائے.کپڑے کی دکانات پر گرم کپڑا خریدنے کے لئے جانچ پڑتال کے بارہ میں وسیع معلومات بہم پہنچائے.گرم کپڑا اس جگہ بہت ارزاں ہے خصوصاً ٹکڑے.تین شلنگ سے چار پانچ شلنگ تک اعلی قسم کے ٹکڑے فی گز مل جاتے ہیں.اوسط درجہ کا کپڑا تین شلنگ پر مل جاتا ہے.ٹکڑوں کے بڑا چھوٹا ہونے پر بھی خرچ کم و بیش ہو جاتا ہے.کھانا کھا کر حضور نے نماز میں ادا کرائیں اور کسی قدر دیر سے آج نمازیں پڑھی گئیں.نمازوں کے بعد حضور پھر بعض کتب کے خریدنے کے واسطے تشریف لے گئے مگر کتابوں کی دکان بہت خراب تھی حضور کو وہاں تکلیف ہوگئی اور حضور جلدی واپس تشریف لے آئے.کھانا بھی رات نہ کھایا اور نمازوں کے لئے بھی باہر تشریف نہ لا سکے.یکم اکتوبر ۱۹۲۴ء : حضرت آج صبح کی نماز میں بھی تشریف نہیں لا سکے.۲۹ ستمبر کو کا نفرنس والوں نے چندہ مانگا حضرت نے بھی ایک پونڈ اس چندہ میں دیا.مسٹر داس گپتا جن کی سوسائٹی کا نام ایسٹ اینڈ ویسٹ ہے اس کی مدد میں بھی حضور نے دس پونڈ دیئے.خلیفہ تقی الدین صاحب کی آمد پر حضرت نے جلدی سے اٹھ کر خلیفہ صاحب کو دیکھنے کی کوشش کی تو بعض دوستوں نے عرض کیا کہ حضور باہر بارش اور ٹھنڈی ہوا ہے یکدم باہر نکلنا اچھا نہ ہوگا اور وہ یہیں آ رہے ہیں حضور کیوں تکلیف کرتے ہیں.فرمایا ! تم لوگ فلسفی ہو.محبت کے جذبات کو کیا جانو یعنی حضور نے یوں اس وفور محبت اور جوش اُلفت کا اظہار کیا جو حضور کو عزیز سے تھی.“ خلیفہ صاحب کا واقعہ تو میں پہلے کسی عریضہ میں لکھ چکا ہوں مگر مجھے خیال آتا ہے کہ یہ فقرہ شاید میں نے اس میں نہ لکھا ہو اس وجہ سے یہاں درج کر دیا ہے.( حضور کا ورود انگلستان میں چونکہ ایک جرنیل کے رنگ میں ہے اس لئے حضور کے احکام
۳۶۹ بھی فوجی رنگ ہی رکھتے ہیں اور یہ رنگ ایک نمایاں پہلو لئے ہوئے نظر آ رہا ہے.کس.سکتا ہے بیچ اس عقدہ دشوار کا.خدا ہی جب کھولے گا کھلے گا.) یہ معلوم کر کے کہ حسن نظامی نے بڑی چیخ پکار کی ہے کہ احمد یوں کو کیا حق حاصل ہے کہ تصوف پر بھی وہی لیکچر دیں گویا دشمن تصوف سے تصوف کی تفصیل و تشریح کرائی جاتی ہے مگر باوجود اس کی کوششوں کے خدا نے ہمیں کامیاب کیا.لیکچر پڑھا گیا اور اس کی بھی دھوم مچ گئی.ان فقیر اور ملنگوں کو معلوم ہی کیا کہ تصوف ہوتا کیا ہے.حضور کا مضمون شائع ہوگا تو دیکھیں گے کہ تصوف نام کس چیز کا ہے.( مضمون در حققت حضرت ہی کی طرف سے تھا کیونکہ حضور ہی کے نوٹوں اور ہدایات سے یہ مضمون لکھا گیا ہے.حافظ صاحب نے جولکھا تھا وہ اور تھا ) خدا نے کانفرنس ہی ہماری بنادی.جلسہ ہی سارا ہمارا کر دیا.جس کو پسند نہیں وہ روتا رہے اور سر پیٹتا ر ہے.جب یہاں کے مفصل حالات پڑھے گا تو شاید اس کو اور بھی ماتم پڑ جائے.افسوس ان لوگوں کے حسد کی آگ اسلام کی تائید ہوتے بھی نہیں دیکھ سکتی.اللہ رحم کرے.حضرت کا ایک پولیٹیکل لیکچر ڈلج میں ہوا تھا جس کے مفصل حالات اپنے خط میں تو لکھ چکا ہوں اور مضمون بھی درج کر دیا ہے مگر میں نے اسی رات کو ایک تار تیار کرایا تھا کہ آپ کی معرفت قادیان کے احمدیوں اور اخبار کی معرفت دنیا کے احمدیوں کو پہنچا دوں مگر حضرت نے کسی مصلحت سے مجھے اس تار کے بھیجنے کی اجازت نہ دی.میں نے حضرت کے حضور عرض کیا تھا کہ حضور قادیان کے احمدیوں کا میرے ذمہ ایک قرضہ ہے.حضور ا جازت دیں تو ادا ہوسکتا ہے اور وہ تار میں نے حضرت کے ہاتھ میں دے دیا.حضور نے پڑھا اور فرمایا کہ قرضہ کیسا میں سمجھا نہیں.میں نے عرض کیا حضور ہی کی معرفت مجھے ایک تار احمدیان قادیان نے بھیجا تھا وہی قرضہ ہے.حضور بہت ہنسے اور فرمایا اچھا وہ قرضہ ادا کرنا چاہتے ہیں اور اچھا فرما دیا مگر میں نے عرض کیا کہ حضور اس تار میں اگر کچھ کمی یا بیشی کرنی ہو تو فرما دیں.تب فرمایا اچھا پھر سوچ کر بتاؤں گا اس وقت میری طبیعت صاف نہیں مگر پھر وہ موقع ہی نہیں ملا کہ حضور بتا ئیں اس وجہ سے تاررہ گیا.تار کا مضمون بھی اس خط میں بھیجتا ہوں.حافظ روشن علی صاحب کو خط آنے شروع ہو گئے ہیں کہ ہم تصوف کے متعلق مطالعہ کر رہے ہیں.علم کو بڑھانا چاہتے ہیں آپ ہمیں شاگرد اور مرید بنالیں.آپ کے معلومات سے ہمیں بڑا
فائدہ ہوا ہے.آج بھی ناشتہ کے میز پر ایک خط ایک لیڈی کا آیا اس نے جواب بھی مانگا ہے اور لکھا ہے کہ خط کو پوشیدہ رکھیں اعلان نہ کریں.پیٹنی کی زمین کے فروخت کرنے کا سوال ملتوی ہو گیا ہے اور اب تجویز یہ ہے کہ اگر خدا کرے تو حضرت اقدس خود اپنے دست مبارک سے ہی وہاں ( البيت ) کا سنگ بنیا د رکھیں.برلن (البيت) کی اراضی کے فروخت کرنے پر زور دیا جارہا ہے اور گاہک لگے ہوئے بھی ہیں.مولوی مبارک علی صاحب کو پھر واپس جانے کا حکم دے دیا گیا ہے.حضرت ۱۰ بجے کے بعد شاپنگ اور سیر کے لئے تشریف لے گئے اور ڈیڑھ بجے واپس تشریف لائے.کھانا کھایا اور نماز ظہر و عصر جمع کر کے پڑھائیں.حضور کی طبیعت کچھ مرجھائی ہوئی ہے.نماز کے بعد انگریزی خوان اصحاب کو لیکچروں میں جانے اور پورے پورے نوٹ لینے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں خود بھی جانا چاہتا تھا مگر طبیعت خراب ہے.کسی لیڈی کا خط آیا اور کسی مضمون کے متعلق اس نے معلومات دریافت کرنے چا ہے.حضرت نے فرمایا کہ اصل میں وہ اس مضمون کو مجھ سے لے کر اور میرے خیالات کو اپنی طرف منسوب کر کے کچھ لکھنا چاہتی ہے.اس نے ملاقات کے وقت ہی اس مضمون اور ان خیالات کا دوسرا حصہ بھی مجھ سے پوچھنے کی کوشش کی تھی مگر اس وقت موقع نہ ملا.اب خط کے ذریعہ سے پوچھنا چاہتی ہے.اس کو لکھ دیا جائے کہ دو تین دن سے میری طبیعت خراب ہے آئندہ کا تو علم نہیں مگر اس وقت بھی طبیعت خراب ہے کچھ لکھ نہیں سکتا.( حضور نے ظہر اور عصر کی نمازیں اسی عذر کی وجہ سے جمع کرائیں ) حضور نمازوں کے بعد سیر کو تشریف لے گئے.صرف ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ساتھ تھے.کسی دکان پر بھی حضور گئے شام کی نماز کے بعد واپس تشریف لائے اور اس وقت کہ ساڑھے سات بجے ہیں اپنے کمرہ میں ہیں اور خرید فروخت کی باتیں ہو رہی ہیں.سیکنڈ ہینڈ کتا ہیں یہاں کوڑیوں کے مول ملتی ہیں.کوئی بیس پچیس پونڈ کی قیمت کی کتابیں آج ماسٹر نواب الدین صاحب حضرت اقدس کے لئے گل ۶ شلنگ میں لائے ہیں.یہ وہی کتا بیں ہیں جو حضور کل پسند کر آئے تھے مگر دکان خراب تھی زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے تھے طبیعت خراب ہوگئی تھی.
۳۷۱ مولوی عبد الرحیم صاحب درد کا آج لیکچر ہے وہ چپکے سے کہیں نکل گئے ہیں.پتا نہیں کہاں گئے.شاید ا کیلے ہی جہاں ان کا لیکچر ہے چلے گئے ہیں تا کہ نہ کوئی ان کے ساتھ جائے اور نہ ان کو بولتے سنے.لیکچر کی تیاری تو انہوں نے کر رکھی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلسہ اعظم مذاہب والے لیکچر کے نوٹ لکھ لئے ہوئے ہیں اور حضرت خلیفتہ امسیح کے لیکچر کے نوٹ بھی لئے گئے ہیں.غالبا شرم کی وجہ سے وہ اکیلے ہی چلے گئے ہیں یہ تو ہونہیں سکتا کہ وہ لیکچر پر نہ جائیں لیکچر ان کا کہاں ہے؟ سو اس کے متعلق عرض ہے کہ اس جگہ کا نام ہے.School of dance اس سے یہ نہ سمجھ لیا جاوے کہ وہاں کوئی ایسے ویسے لوگ ہیں نہیں بلکہ یہاں تو تہذیب کا نشان ہی یہ ہے کہ اس علم سے بھی لوگ واقف ہوں.موسیقی بھی جانتے ہوں خصوصاً عورتیں.غرض وہ آج اسی قسم کے ایک سکول میں لیکچر کے لئے گئے ہیں.آنریبل ڈاکٹر جونز نائیجیرین کی رات کے کھانے پر دعوت تھی وقت مقررہ سے لیٹ ہو کر آئے.تین اور آدمی بھی ان کے ساتھ نیر صاحب نے کھانے پر بلوائے.حضرت اقدس کی طبیعت اچھی نہ تھی مگر ان کی خاطر حضور کھانے پر تشریف لے آئے کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو قابل ذکر ہو.نماز میں حضور نے اپنے ہی کمرہ میں ادا کیں.مولوی عبدالرحیم صاحب درد چپکے سے چلے گئے تھے ان کے پیچھے مکر می مولوی محمد دین صاحب، مولوی مبارک علی صاحب، خان صاحب ، حکیم فضل الرحمن صاحب بھی گئے کہ ان کو تنہائی کی تکلیف نہ ہو.جہاں لیکچر تھا وہ در حقیقیت ایک مدرسہ ہی تھا.چھوٹا سا کمرہ جس میں صرف ۴ مرد ایک لڑکا اور ۸ عورتیں تھیں ۵ آدمی ہمارے تھے گل ۱۸ کی تعداد تھی.حکیم فضل الرحمن صاحب کہتے ہیں کہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ لوگ ابھی ابھی سبق یاد کرنے سے فارغ ہوئے تھے اور کہ تفریح کے طور پر یہ لیکچروں کا سلسلہ انہوں نے ہر بدھ کو قائم کر رکھا ہے.چنانچہ حکیم صاحب نے بتایا کہ مولوی صاحب نے لیکچر پڑھا اور خوب پڑھا.لیکچر کی خوبی کے متعلق تو کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خیالات تھے مگر مولوی صاحب نے اس کو ادا اچھا کیا.لیکچر کے بعد سوالات کا سلسلہ جاری ہوا اور دو اڑھائی گھنٹہ تک لمبا ہو گیا.وہ آزاد خیال لوگ گرجا میں تو ایسے سوالات پوچھ نہیں سکتے ان کو گھر میں اپنے مکان پر ایسے لوگ مل گئے جن سے وہ دل کھول کر سوالات
۳۷۲ پوچھ سکتے تھے.زندگی بعد الموت کی تفاصیل ، تشریحات ،ثبوت ، ہستی باری تعالیٰ پر گفتگو، پیشگوئیاں اور ان کے ثبوت ایسی پیشگوئیاں جو پوری ہو چکی ہیں اور پھر ایسی جو ابھی پوری ہونے والی ہیں، جنت و دوزخ اور ان کی تفاصیل پر بحث.الغرض لوگوں نے اس سوال و جواب میں بہت بڑی دلچسپی لی اور دو اڑھائی گھنٹے یہی سلسلہ جاری رہا.مضمون تو ایک گھنٹہ میں پڑھا گیا مگر بعد میں ان لوگوں نے سوالات کے کرنے سے اس کو بہت لمبا اور دلچسپ اور مفید بنا لیا تھا.مولوی صاحب کے متعلق بتایا گیا ہے کہ بغیر کسی قسم کی گھبراہٹ کے حوصلہ اور دلیری سے گفتگو کرتے اور جوابات دیتے رہے اور اس طرح سے کہتے ہیں کہ بڑا کامیاب لیکچر تھا.چنانچہ ان کی دلچسپی کا اس سے پتہ لگتا ہے کہ انہوں نے پھر درخواست کی کہ ہمیں بدھ کے دن ۲۲ اکتوبر کو پھر ایک لیکچر سنایا جاوے.لیکچرار اور سامعین رات کو ۱۲ بجے واپس مکان پر پہنچے.اسی طرح کل کا نفرنس کے لیکچر ہال میں سامعین بالکل تھوڑے تھے.مضمون نیچر اور مذہب پر تھا.منتظمین کا نفرنس نے اس کو دلچسپ بنانے کے لئے کوشش کی کہ کسی طرح سے سوال وجواب کا سلسلہ جاری ہو جائے مگر کامیابی نہ ہوئی.اتنے میں ہمارے دوست چلے گئے.خان صاحب نے کہہ کہا کر مولوی محمد دین صاحب کو کھڑا کر دیا.چنانچہ وہ مکالمہ بھی بہت پر لطف ہو گیا اور لوگوں کی دلچسپی کا موجب ہو کر جلسہ کی رونق کا باعث بنا.حضرت اقدس کے ساتھ میاں عزیز الدین صاحب کل بعض دکانات پر گئے ہوئے تھے.اس سے پہلے مولوی مصباح الدین صاحب اور ملک نواب دین صاحب بھی اس خدمت میں حصہ لیتے رہے ہے ہیں بلکہ ایک دن تو خاص مولوی مصباح الدین صاحب نے حضرت اقدس کی ہمر کابی کا شرف حاصل کیا تھا.بھائی عزیز الدین بتاتے ہیں کہ کل ایک بڑی دکان پر گئے ادھر ادھر کا سامان دیکھا بھالا.دکان کا مالک انگریز میاں عزیز الدین صاحب سے الگ ہو کر کہنے لگا کہ یہ شخص اپنے چہرے سے کوئی عظیم الشان شخصیت کا انسان معلوم ہوتا ہے.میاں عزیز الدین صاحب نے کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو یہ انسان واقع میں ایسا ہی ہے جیسا تم نے قیاس کیا مگر تفصیل اس کو نہ بتائی.دراصل بعض لوگوں میں قیافہ کی قوت اور مردم شناسی کا ملکہ خاص طور پر ودیعت کیا گیا ہے
۳۷۳ خصوصاً تجار لوگ اس کے بڑے مشاق ہوتے ہیں.لاہور کے دی پلومر نے حضرت خلیفہ اول کو بالکل سادہ لباس اور زمیندارانہ فیشن کے باوجود بھی کیسا پہچانا تھا.الغرض " چڑھے پن چھپے نہیں رہندے.کوئی چمگا در صفت اگر آنکھوں کو بند کرے تو سورج کا کیا قصور.۲ اکتوبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز میں حضرت اقدس تشریف نہیں لا سکے.طبیعت میں ضعف ہے.دعاؤں سے امداد فر مائیں اور تمام دوستوں کی خدمت میں بھی دعاؤں کی درخواست کریں.باقی آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ.قافلہ کے تمام ممبر اللہ کے فضل سے بخیریت ہیں.خادم عبدالرحمن قادیانی ۲/اکتوبر ۱۹۲۴ء
۳۷۴ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم از مقام ۶ چشم پیلیس بلگر ایا، لنڈن : مورخه ۹ را کتوبر ۱۹۲۴ء السلام عليكم ورحمة الله وبركاته حضرت اقدس چار بجے کے بعد ہاؤس آف کامنز سے واپس تشریف لائے.گورنمنٹ کے ٹوٹ جانے کا اعلان کل کر دیا گیا.اب آئندہ نئے انتخابات ہوں گے جس کی وجہ سے تمام اعلیٰ طبقہ کے لوگ تو ان انتخابات میں مصروف ہو جائیں گے اور پھر غالباً اس طبقہ کے لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی بند ہو جائے گا.حضور نے چائے پی اور پھر ڈاکٹر صاحب کو ساتھ لے کر سیر کو تشریف لے گئے اور شام کی نماز کے بعد تشریف لائے.صرف چائے پی اور کھانا نہ کھایا.آخر کچھ کھایا مگر بہت دیر کے بعد غالبا چار پائی پر ہی.نمازوں میں بھی شریک نہ ہو سکے.۱۰ اکتوبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز میں حضور تشریف نہ لا سکے.نماز بھی تیم سے ادا کی.ناشتہ کیا.آج کچھ پیچش کی شکایت بھی حضور نے فرمایا ہوگئی ہے.ناشتہ کے بعد ۱۰ بجے حضور ڈاکٹر صاحب کے ساتھ باہر تشریف لے گئے.خواجہ نذیر احمد نے اس دن کا نفرنس کے خاتمہ کے لیکچروں کے بعد حضرت کے حضور درخواست کی تھی کہ مجھے علیحدگی میں وقت دیا جاوے کچھ اپنی نسبت عرض کرنا چاہتا ہوں وغیرہ.حضور نے فرمایا تھا کہ آپ جب چاہیں آئیں.اس نے عرض کیا کہ کوئی وقت جو آپ کا فارغ ہو بتا دیں تو حضور نے فرمایا کہ پھر اطلاع دے دیں گے.اس پر حضور نے حکم دیا کہ ان کو جمعہ کے دن ساڑھے چار بجے چائے پر بلوا لیں.چنانچہ مولوی محمد دین صاحب نے ان کو خط لکھ دیا.اس خط کا جواب آج صبح آیا ہے جو اس کے پرائیویٹ سیکرٹری نے اس کی طرف سے لکھا ہے کہ مجھے امام صاحب ود کنگ نے ہدایت کی ہے کہ امام صاحب نزلہ سے بیمار ہیں اس وجہ سے نہیں آسکیں گے پھر کسی وقت اطلاع دی جائے گی.یہ خط سیکر ٹری صاحب حضرت خلیفہ اسیح کے نام تھا.
۳۷۵ آج حضور حکم دے گئے ہیں کہ اگر ہم وقت پر نہ آئیں یعنی ساڑھے بارہ بجے تو کھانا کھلا دیا جاوے اور پھر پٹی سوا ایک بے نماز جمعہ کے لئے دوست پہنچ جائیں کیونکہ ہم وہیں پہنچ جائیں گے.مگر کھانا کھایا جا چکا تھا اور ایک بج کر دس منٹ ہوئے تھے.دوست پٹنی جانے کے لئے کپڑے پہن کر اُتر آئے تھے کہ حضرت اقدس بھی تشریف لے آئے.کسی مشہور سپیشلسٹ ڈاکٹر کے ہاں گئے ہوئے تھے.کھانا کھایا اور جلد جلد فارغ ہو کر فرمایا دوست چلیں چنانچہ ہم لوگ پہلے گئے اور حضور موٹر سے بعد میں پٹنی پہنچے.جمعہ کی نماز بھی پونے تین بجے کے بعد ختم ہوئی.ڈاکٹر نے حضور کی صحت کا حال دیکھا.حلق بھی اچھی طرح دیکھا اور کہا کہ کوئی خاص خطرہ کی بات نہیں سب کچھ بالکل ٹھیک ٹھیک ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ بولنے سے گلے میں تکلیف ہو جاتی ہے.تب اس نے حضور کا بازو پکڑ کر ٹولا اور کہا کہ جب یہ مضبوط ہوگا تو گلا بھی ٹھیک ہو جائے گا.یہ پٹھے ڈھیلے اور کمزور ہیں تو گلے کے کیوں ایسے نہ ہوں.صرف عام جسمانی کمزوری ہے.اس کے سوا کوئی بیماری نہیں اور کہا کہ کھلی ہوا میں سیر کیا کریں.مکھن ، دودھ، گھی وغیرہ خوب کھایا کریں اس سے صحت ہوگی اور گلا بھی ٹھیک ہو جائے گا.حضرت اقدس فرماتے ہیں کہ اس ڈاکٹر کی رائے مجھے پسند آئی اور میری رائے سے ملتی ہے ورنہ لوگ جو مجھے نہ بولنے کا مشورہ دیا کرتے ہیں وہ مجھے کبھی بھی پسند نہیں آیا.غرض اللہ کا احسان ہے اور قابل مبارک باد کہ حضرت اقدس کو جن امراض کا خطرہ بتایا جا تا تھا کوئی نہیں ہیں.آنکھوں کے حلقوں کا درد بھی اسی جسمانی کمزوری کا ہی نتیجہ تھا.اس معائنہ کے بعد حضور خوش بھی تھے اور اللہ تعالیٰ نے دوسری خوشی اور بھی بھیج دی ہے کہ قادیان سے بچے کی پیدائش کی خبر پہنچی.شام کی نماز کے بعد تا رحضور نے کھولا جو غالبا ۲ بجے کے بعد کا آیا ہوا تھا.پہلے جمعہ کی نماز کو چلے گئے اور پھر حضور وہیں سے کسی دوسری جگہ تشریف لے گئے اور شام کے بعد واپس تشریف لائے.دوستوں نے زبانی بھی اور بعض نے تحریری مبارک بادیں عرض کیں.حضرت اقدس نے قادیان تار دے دیا مگر قبل اس کے کہ حضور تا ر بھیجتے چو ہدری علی محمد صاحب نے ایک تاراپنی طرف سے کھڑ کا دیا ہے.(ایکسپریس )
خطبہ جمعہ حضرت اقدس نے پڑھا جو انشاء اللہ کل صبح لکھوں گا جو کچھ بن پڑا.نماز کے بعد حضور ( البیت) کے نقشہ مجوزہ کو ملاحظہ فرماتے رہے.سر دست ایک منزل بنانے کی تجویز ہے.عمارت کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا کہ عارضی ہوگی یا مستقل.عارضی یہاں اس عمارت کو کہتے ہیں جو لو ہے کے گارڈروں وغیرہ سے بناتے ہیں.مستقل عمارت وہ ہے جو پختہ اینٹوں اور چونے کی بنائی جاوے.حضرت اقدس کا منشا ہے کہ ایک ہزار پونڈ تک خرچ کر دیا جائے.قریباً دوسو پونڈ تو پہلے مکان کی مرمت وغیرہ کے لئے بھی درکار ہوں گے.یہ سب مل ملا کر حضرت اقدس ایک ہزار پونڈ اس جگہ خرچ کرنا چاہتے ہیں.مولوی عبد الرحیم صاحب نیر کو سرکاری انجینئر کی طرف بھیجا تھا اس نے نقشہ دیکھا اور اجازت دی ہے کہ جہاں آپ پتھر رکھنا چاہتے ہیں رکھ لیں کوئی حرج نہیں اور اگر مستقل عمارت بنانی ہو تو بھی میں خود اجازت دے سکتا ہوں البتہ عارضی عمارت ( گاڈروں کی عمارت ) کے لئے اوپر کاغذات بھیجنے پڑیں گے.انجینئر صاحب کل غالبا زمین کو دیکھنے کے لئے موقع پر وہ آدیں گے.حضور سنگ بنیاد ( بیت الذکر ) کے محراب میں رکھنا چاہتے ہیں جو محراب کے اندر کی طرف نظر بھی آتا رہے گا.پتھر کا مضمون اور نقشہ وغیرہ بھی ابھی تجویز کرنا باقی ہے.چوہدری فتح محمد خان صاحب دو دن کے لئے لیکچروں کے واسطے باہر جاتے ہیں ان کے لیکچر مقرر ہو چکے ہیں.کل رات نیز صاحب کا لیکچر تھا تھیو صوفٹ لوگوں میں.حاضری ۳۵ اور ۴۰ کے درمیان تھی.ہم میں سے کوئی ایک بھی نہ جاسکا.نیز صاحب بتاتے ہیں کہ لیکچر بڑا کامیاب ہوا اور لوگوں نے بڑی دلچسپی اور توجہ سے سنا.لیکچر کے خاتمہ پر ایک انگریز نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں تو اس لیکچر کو سن کر مسلمان ہو جا تا ہوں اور اسی طرح سے ایک عورت نے بھی.غرض کہ ان کے لیکچر کا اچھا اثر ہوا اور وہ بہت مقبول ہوا.حضرت کا منشا ہے کہ (البيت) کے سنگ بنیا د رکھنے کے دن بہت بڑی دعوت چائے دی جاوے اور کئی ہزار کا رڈ دعوتی شائع کیا جاوے تا کہ کم از کم چار پانچ سو آدمی تو ضرور جمع ہو جائے اور جلسہ بنیاد ( البیت ) لنڈن شاندار ہو اور بہت دعائیں کی جائیں تا کہ کفر و شرک کے اس گڑھ میں
۳۷۷ یہ ( البيت ) خدائے واحد کی عبادت کا ایک مقبول مرکز بنے.نیر صاحب کہتے ہیں کہ انجینئر جو اس ڈسٹرکٹ کا ہے اس خبر سے بہت خوش تھا کہ اس کے علاقہ میں خدا کا گھر بنایا جائے گا.اس نے کہا کہ یہ (البیت ) انگلینڈ میں دوسری ( البيت ) ہوگی.اس پر نیر صاحب نے کہا کہ آپ کیوں نہیں کہتے کہ لنڈن میں پہلی ( البيت ) ہوگی.اس پر وہ اور بھی خوش ہوا کہ ہاں یہ کہنا ٹھیک ہو گا کہ لنڈن میں پہلی ( البيت ) ہے.چوہدری فتح محمد خان صاحب پیر تھ (Perth) جاتے ہیں جو ویلز کے علاقہ میں انگلینڈ کے مغربی کنارے پر واقع ہے.دو لیکچر ہوں گے ایک الہام الہی پر دوسرا اخلاق پر.اللہ تعالیٰ ان کے کلام میں برکت دے اور لوگوں کے دلوں کو حق کے قبول کرنے کے لئے تیار کرے آمین.حضرت اقدس کام ہوتا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں.حضور نے بچے کی پیدائش کی اطلاع کے تار کے جواب میں پہلے ارجنٹ (Urgent) تار تجویز فرمایا تھا مگر پیچھے خیال آگیا کہ کل اتوار ہے بہت زیادہ خرچ ہوگا.آخر آرڈی نری (Ordinary) تا ر کا حکم دے دیا.اُدھر چوہدری علی محمد صاحب نے چاہا کہ کسی طرح سے ان کا تار پہلے چلا جائے.تار گھر کو دوڑے گئے اور نیت کی ارجنٹ تار۴ / فی لفظ کا دیں مگر نہ معلوم ان کا مطلب لوگ نہ سمجھے یا کوئی غلطی ہوئی.انہوں نے کہا کہ چھ شلنگ چھ پچیس فی ورڈ خرچ ہوں گے.اس پر ان کو جرات نہ ہوئی اور لوٹے مگر پھر باہر جا کر آرڈی نری تار دے آئے ۱۰ آنہ فی لفظ پر.اُمید ہے کہ دونوں تاریں اکٹھی ہی پہنچیں گی.- بچے کا نام حضور نے حفیظ احمد رکھا.اللہ کریم مبارک فرمائیں اور اک سے ہزار بنائیں آمین.رات عشاء کی نماز کے بعد چوہدری علی محمد صاحب نے اس خوشی میں قافلہ کو مٹھائی کی دعوت دی اور انگریزی مٹھائی مثل چاکلیٹ اور بادام وغیرہ بہت عمدہ اور خوبصورت اتنی منگائی کہ بہت سی بیچ رہی کھائی نہ گئی.دوستوں نے جیبوں میں بھر لی.مٹھائی حضرت اقدس کے کمرے میں حضور کے سامنے رکھی گئی اور حضور نے اپنے ہاتھ سے تمام دوستوں کو دائیں طرف سے شروع کر کے تقسیم فرمانی شروع کی حتی کہ سب کو قریباً ایک ایک پلیٹ جدا جدا پہنچ گئی اور حضرت اقدس نے اپنا حصہ نہ رکھا بلکہ وہ مولوی عبد الرحیم صاحب درد کے واسطے رکھ دیا جو موجود نہ تھے مگر عرض کیا گیا کہ حضور ان کا
۳۷۸ حصہ موجود ہے تو فرمایا بہت اچھا.حضرت عشاء کی نماز میں تشریف نہ لا سکے تھے.فرمایا کہ نزلہ زور کا ہے نماز پڑھا دی جاوے.اس اطلاع پر چوہدری علی محمد صاحب نے حافظ صاحب کی معرفت عرض کیا کہ پھر حضور اجازت دیں تو حضور کے کمرہ میں ہی دعوت شیرینی پیش کر دی جائے.چنانچہ حضور نے اس درخواست کو منظور فرمالیا اور اس طرح یہ دعوتِ خوشی حضور کے کمرہ ہی میں ہوئی.دعوت کے بعد نیر صاحب نے آمین کے کچھ اشعار سنائے.پھر ڈاکٹر صاحب نے پھر حا فظ روشن علی صاحب نے فارسی نظم ” عجب نوریست در جان محمدم ، نظموں کے بعد حضور کی خدمت میں دعا کے لئے درخواست کی گئی.میں نے فہرست والے دوستوں اور خصوصاً قادیانی احباب کے لئے بھی یاد کرایا.حضور نے فرمایا دعا تو میں کر چکا ہوں اچھا اب پھر کر لیتے ہیں اور اس طرح پھر سب نے حضرت کے ساتھ مل کر دعا کی.ایک لطیفہ ہوا جو قابل ذکر ہے.مولوی نیر صاحب سرِ شام سے یہاں مکان پر تھے اور دفتر میں اپنے پرانے کاغذات کی دیکھ بھال میں مصروف تھے.ان کو اس خوشخبری کا علم نہ ہو سکا تھا.مجلسِ دعوت میں وہ بھی شامل تھے.جب شیرینی کھا چکے تو بولے ” چوہدری صاحب مبارک ہو کیا یہ پہلا ہی لڑکا ہے؟ اس فقرہ پر بے ساختہ وہ قہقہ لگا کہ مارے ہنسی کے پیٹ میں بل پڑ گئے.احباب کی ہنسی سے وہ اور بھی حیران ہوئے اور تعجب سے پوچھنے لگے آخر بات کیا ہے؟ بتایا گیا.تب انہوں نے نہایت شرمندگی سے حضرت اقدس کے حضور مبارک باد پیش کی تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ مبارک تو آپ علی محمد کو دے چکے اب پہلے ان سے واپس لیں جب مجھے پہنچے گی.الغرض اس طرح خوشی خوشی بارہ بجے کے بعد مجلس برخاست ہوئی اور سب دوست اپنے کمروں میں آرام کو چلے گئے.۱۱ / اکتوبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز میں حضور تشریف نہیں لا سکے.سامان کے بکس باندھے جار ہے ہیں.کتابیں اور اور بھاری سامان جہاز کی کمپنی کی معرفت کراچی کی طرف مال کے جہازوں میں روانہ کیا جا رہا ہے.اس وجہ سے میری مصروفیت اب پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے.ذرا دم لینے کو بیٹھ جاتا ہوں اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے لکھ لیتا ہوں.حضرت اقدس کے سامان کے لئے تین بکس لک والے لے کر آئے ہیں مگر وہ مکان کے اندر داخل ہی نہیں ہو سکتے کیونکہ دروازے چھوٹے اور بکس
٣٧٩ بڑے ہیں.اب سر بازار سامان باندھا جارہا ہے.گاڑی دروازہ پر کھڑی ہے.( بکس بدلوانے ہی کی تجویز ہو گئی ہے چنانچہ یہ بکس واپس جاتے ہیں دوسرے آدیں گے.) خلاصہ خطبہ جمعہ: قادیانی کے اپنے الفاظ میں.لہذا غلطی میری غلطی ہوگی ) ۱۰ راکتو بر ۱۹۲۴ء بروز جمعہ پٹنی میں.کلمہ شہادت- تعوذ - تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا انسانی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے.ہم دنیا کی تمام چیزوں میں دیکھتے ہیں کہ ان میں بعض حالتوں میں اتحاد واتفاق ہے اور بعض میں اختلاف پھلوں میں سے ایک آم ہی کو لے لو بعض باتوں میں تمام قسم کے آم ملتے بھی ہوں گے اور بعض باتوں میں باہم بالکل مختلف ہوں گے.اسی طرح سے دوسرے تمام پھلوں کو لے لو.خربوزہ ہے، سنترہ ، سیب اور انار ہیں ان سب میں بعض اتحاد اور بعض اختلاف ہیں.یہی حال جمادات کا بھی ہے.غرض دنیا میں کوئی دو چیزیں ایسی نہ ملیں گی کہ ان میں اختلاف نہ ہو اور کوئی جنس ایسی نہ ہوگی کہ ان میں اتحاد نہ ہو.یہی حال انسان کا ہے.کوئی ملک اور کوئی قوم اس اصل سے باہر نہیں ہے.سارے انگریز ، سارے عرب ، سارے ہی مسلمان اور سارے ہی ہند و سب اسی اصل کے ماتحت ہیں.تمام انسان بلحاظ انسانیت کے متحد ہیں اور خواص وصفات اور اغراض و مقاصد میں با ہم ان میں اختلاف پایا جاتا ہے.ترقی اور آرام کے حصول میں تمام ہی انسان اتحاد رکھتے ہیں اور ان کے حصول کے ذرائع ان کی تفاصیل عمل اور خیالات میں جداجدا ہیں.ایک شخص کام کرنے کا نام آرام رکھتا ہے.محنت کرنے اور کوشش بہی میں اس کو پاتا ہے.دوسرا لیٹ رہنے اور سونے کا نام آرام رکھ لیتا ہے.ایک شخص دوسری مخلوق کی خدمت کو آرام اور ترقی کے حصول کا ذریعہ یقین کرتا ہے تو دوسرا لوگوں سے خدمت لینے کے خیال میں اس کو مرکو ز سمجھتا ہے.ایک شخص اپنا مال لوگوں کو دے دینے میں آرام ، خوشی اور ترقی سمجھتا ہے مگر دوسرا لوگوں کا مال مار لینے اور چھینا جھپٹی کرنے کو مفید اور اچھا جانتا ہے.ترقی سے بھی مراد خوشی ہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ ترقی اور خوشی لازم ملزوم ہیں.روحانی ہوں یا جسمانی کوئی تو انعامات الہیہ کے حصول میں خوشی پاتا ہے اور کوئی خود خدا کو پانے میں اور پھر خدا کے ملنے کے بھی مختلف مدارج ہیں کیونکہ یہ امور اس کیفیت کا نتیجہ ہیں جو انسان کے دل میں پیدا ہوتی
۳۸۰ ہے اور وہ ہر شخص کی نیت ، اخلاص اور قوت عمل پر مختلف ہوتی ہیں.پس ایک امر میں اتحاد کامل اور دوسری طرف اختلاف کامل پیدا کرنا ہی ترقی کا ذریعہ ہوتا ہے.ایک مقام پر کھڑے ہو جانا ترقی کا مخالف ہے.پس چاہیے کہ اتحاد احوال اور اختلاف احوال انسان میں موجودر ہے اور انسان ایک ہی جگہ کھڑا نہ رہے.اختلاف ترقی کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے کیونکہ اس سے انسان کے دل میں بعض دوسری چیزوں کے حصول کی خواہش پیدا ہو کر محنت اور کوشش کی ترغیب پیدا کرتا ہے اور انسان ترقی کرتا ہے.جس طرح انسان کو بعض احوال میں انسانوں سے اختلاف ہو اسی طرح سے اس کی اپنی ذات میں بھی اختلاف ہو اور اس کا ایک دن دوسرے دن سے مختلف ہوتا رہے.جس کے دودن برابر ہو گئے وہ گھاٹے میں ہے کیونکہ وہ کھڑا ہو گیا اور اس کی ترقی رک گئی اور ترقی رکی تو خوشی کہاں ؟ رسول کریم نے فرمایا ہے.اِخْتِلَافُ أُمَّتِی رَحْمَةٌ اس میں یہی راز پنہاں ہے.دنیا میں اگر پگڑی صرف ایک ہی قسم کی ہوتی یا کوٹ ایک ہی رنگ اور طرز کے ہوتے یا کپڑا ایک ہی قسم کا ملتا تو لوگ اس کو حاصل کر کے تسلی پا جاتے اور اس طرح سے ترقی رک جاتی مگر ضروریات انسانی مختلف ہیں اعلیٰ سے اعلیٰ اور ادنیٰ سے ادنیٰ بھی.اس لئے ہر انسان کے دل میں اعلی چیزوں کے حصول کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور وہ کوشش کر کے ترقی کرتے ہیں.یہی حال دینیات اور روحانیات کا ہے.عبادات میں اگر صرف نماز ہی ہوتی تو لوگ فقط نماز پڑھ کر تسلی پا جاتے مگر ایسا نہیں.جسمانی حالات کی طرح روحانی مدارج میں بھی اختلاف ہیں.اس لئے انسان روحانیات میں بھی اعلیٰ مدارج کے حصول کے لئے اجتہاد اور کوشش کرتا ہے اور ترقیات حاصل کرتا ہے.قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں بھی یہی راز پوشیدہ ہے - إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ میں انسان ایک تو اشتراک اور اتحاد کا اظہار کرتا ہے اور اس طرح سے عبادت اور استعانت میں ایک اتحاد پایا جاتا ہے لیکن صراط میں اختلاف ہے.زید کسی راہ کو پسند کرتا ہے اور بکر کسی راہ پر جاتا ہے عمر کسی راہ کو اچھا جانتا ہے مگر مومن صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی درخواست کر کے اعلیٰ مقامات اور اعلیٰ انعامات کے حصول کی خواہش کرتا ہے اور حقیقتاً یہی ترقیات کی راہ ہے.اللہ تعالیٰ توفیق بخشے.آمین
۳۸۱ حضرت اقدس گیارہ بجے کے بعد چوہدری علی محمد صاحب کو ساتھ لے کر باہر تشریف لے گئے اور پونے دو بجے واپس آئے.کھانا میز پر کھایا.ملک غلام فرید صاحب کی بیوی ہندوستان جانے سے عذر کرتی ہیں کہ میں بیمار ہوں کمزور ہوں اتنے لمبے سفر کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتی.حضرت اقدس نے لیڈی ڈاکٹر سے مشورہ کرایا جس نے مشورہ دیا کہ کوئی حرج نہیں جا سکتی ہیں.اگر ملک غلام فرید صاحب نہ بھی گئے تب بھی فیصلہ ابھی تک یہ ہے کہ چوہدری فتح محمد خان صاحب یہاں ضرور ر ہیں تا کہ دونوں کو کام سکھا دیں.تبلیغی ضروریات کے لحاظ سے ملک صاحب کا ٹھہر جانا مفید ہے مگر ان کے گھر کے حالات ایسے ہیں کہ ان کا جان ہی بہتر ہے کیونکہ زچگی کی حالت میں خدا نخواستہ اگر کوئی بیماری ہوگئی تو پھر ا خلاقاً ان اخراجات کا ادا کرنا ہمارے ذمہ ہو گا مگر ہماری مالی حالت ان اخراجات کی متحمل نہیں نظر آتی - ملک غلام فرید صاحب سے مشورہ کر کے فیصلہ کریں گے.طبی مشورہ یہ ہے کہ ان کا یہاں رہنا جانے سے زیادہ خطرناک ہے.جانے میں بظاہر کا ئی خطرہ نہیں صرف خیالی تکلیف ہے مگر چونکہ ان کے پھیپھڑے کمزور ہیں ، سردی کا موسم ہے مبادا کوئی تکلیف ایسی ہو کہ جان کا خطرہ ہو یا اخراجات کثیرہ کا زیر بار ہونا پڑے.حضرت اقدس نے فرمایا ہے کہ حالات یہ ہیں مگر اگر وہ تکلیف محسوس کرتی ہیں تو ہم کیوں کہیں کہ وہ ضرور جائیں.خدانخواستہ اگر کوئی بیماری ہو جائے تو ساری ذمہ داری مجھ پر عائد ہوگی لہذا میں تو اپنا ارادہ بدل لوں گا.مجھے تو فائدہ ہے کیونکہ ایک سو پونڈ میں نے اپنے پاس سے دیا ہے.میں نے اپنے کئی سو دے روک کر یہ روپیہ دیا ہے.نہ معلوم کہ مجھے دفتر سے ملے گا بھی یا نہیں اگر ملے گا تو کب- گزشتہ سال مولوی مبارک علی صاحب کا دس پونڈ خرچ تھا مگر ان کی زچگی کی وجہ سے پچاس پونڈ تک اخراجات جا پہنچے تھے وغیرہ.فرمایا مالی حالات قادیان میں یہاں تک پہنچے ہوئے ہیں کہ مجھے بعض گھروں کی فاقہ کسی کی خبریں ملی ہیں.میرا ذاتی روپیہ جو ان کے پاس تھا وہ بھی دفتر والوں نے خرچ کرلیا ہے اور مجھے لکھا ہے کہ اُمید ہے کہ آپ بُر انہیں منائیں گے.میں نے اگر ہوشیار عورتوں کی طرح سے اِدھر اُدھر سے لے کر جمع نہ کر دیا ہوتا جو لوگوں کی
۳۸۲ امانتیں تھیں ان سے اجازت لے کر اور بعض اور رقوم ادھر اُدھر سے سمیٹ کر بارہ ہزار روپیہ و ہیں کے بنک میں جمع کرا رکھا تھا کہ ضرورت کے وقت تار دے کر منگالوں گا.اگر وہ بھی نہ ہوتا تو میرے ساتھی بھی کبھی کے بے خرچ ہو بیٹھے ہوتے.فرمایا جب مالی حالت اس حد تک پہنچی ہو تو پھر میں نہیں کہہ سکتا کہ جو لوگ قادیان میں دفتر والوں کے سامنے فاقہ کشی کرتے ہوں ان کو چھوڑ کر دفتر والے باہر روپیہ بھیجیں گے.سامنے کی تکلیف تو نظر آتی ہے اسی وجہ سے وہ سخت تر ہوتی ہے.ڈور سے خواہ کتنا ہی کیوں نہ چھینیں چلائیں اتنا احساس ان کی تکلیف کا نہیں ہو سکتا جتنا کہ خود سامنے تکلیف والے کو دیکھ کر ہوتا ہے.پس ان حالات میں اپنا نفع و نقصان سوچ لیں.ہم عمداً تو تکلیف میں رکھنا نہیں چاہتے مگر اگر خدانخواستہ کوئی ایسے حالات پیش آگئے تو پھر اس کا شکوہ ہم پر نہ ہو وغیرہ.ملک غلام فرید صاحب کی بیوی کے بھائی صاحب یہ پیغام لے کر آئے تھے بذریعہ خط اور ساتھ انہوں نے زبانی بھی بہت کچھ عرض کیا.یہ تمام باتیں حضرت اقدس نے انہی کو بتا ئیں اور یہ بھی فرمایا کہ میرا اپنا اگر کوئی عزیز یا رشتہ دار بیوی یا بہن اس حالت میں ہوتی تو میں ان کو ضر ور روانہ کر دیتا.اس موسم سے بہتر موسم پھر ملنا مشکل ہوگا.اب تو دو بچوں کی تکلیف کا خیال ہے پھر تین بچے ہوں گے (کھانے کے میز پر ) اخلاص کا ذکر ہوا تھا.فرمایا جماعت میں اخلاص کی تو کمی نہیں ہے مگر جو چیز اس کے پاس ہے نہیں وہ کہاں سے لاوے.وہی لوگ جو مجھے چلتے وقت کہتے تھے کہ حضور تھوڑا سا روپیہ لے کر چلے جائیں پھر ہم پیچھے سے بھیج دیں گے اب خود میرا روپیہ بھی خرچ کر چکے ہیں حالانکہ اس وقت کہتے تھے کہ حضور بھلا یہ بھی کبھی ہو سکتا ہے کہ ہما را امام ہمارا خلیفہ با ہر ہوا اور ہم خرچ بھیج کر نہ بلوا لیں.ہم کپڑے بیچ کر بھی بلوا لیں گے مگر اب بے بس ہیں اوروں کا تو کیا کہنا ہے خود میری اپنی زمین موجود ہے.کام کرنے والے میرے عزیز بھائی ہیں مگر گا ہک نہیں ملتا.غیروں کے ہاتھ ہم بیچ نہیں سکتے ورنہ وہ لوگ تو ڈیوڑھے دُگنے دینے کو تیار ہیں.مگر اس طرح قومی مفاد کو نقصان پہنچتا ہے جو ہمیں ہر گز پسند نہیں.اسی سلسلہ میں اخلاص کے متعلق ریچھ کی مثال بھی بیان کی
۳۸۳ اور فرمایا ایک شخص کا ریچھ دوست تھا.اس آدمی کی ماں بیمار ہوئی.اس کو دوائی وغیرہ کے لئے باہر جانا پڑا تو ریچھ کو ماں کے پاس بٹھا گیا کہ مکھیاں نہ ستائیں پنکھا ہلاتے رہنا.مکھیاں بار بار آتی تھیں وہ ہٹا تا تھا.بڑی محبت اور اخلاص سے دوست کی ماں کی خدمت کرتا رہا مگر مکھی کی عادت ہے کہ بار بار آتی ہے.ہٹاؤ پھر آ جاتی ہے.ریچھ نے تنگ آ کر سوچا کہ مکھیاں تو باز نہیں آتیں میں ان کو جان سے ہی مار دوں.ایک بھاری پتھر اُٹھا لایا اور تاک کر مکھی کے اوپر مارا جس سے مکھی اور اس کے دوست کی ماں دونوں مر گئیں.یہ مثال در اصل اخلاص ہی کے لئے وضع کی گئی ہے اور نہایت ہی لطیف سبق اس سے ملتا ہے کہ محض اخلاص تعلیم ، تربیت اور مال کا قائمقام نہیں ہو سکتا.ریچھ میں اخلاص تو تھا مگر تعلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے اس نے اپنے دوست کی ماں کا سر پتھر سے کچل دیا - فتدبروایا اولی الابصار و الوفاء- لنڈن میں کیا یورپ بھر میں یہ قاعدہ ہے کہ مرد کمانے سے تعلق رکھتے ہیں.کما کر بیوی کے حوالے کر دیتے ہیں.خرچ کرنا بیویوں کا کام ہے.اسی وجہ سے عموما گھروں کے پل گھر والیوں کے نام آتے ہیں.مسر علی محمد کے نام بل آوے گا اگر چوہدری علی محمد صاحب کوئی سامان خریدیں.کوئی خط کوئی پارسل ہو سب مسز کے نام آتے ہیں.چنانچہ ہمارے ہاں ایسے لطیفے عموماً ہوتے رہتے ہیں حتی کہ حضرت اقدس کے نام بھی اسی طرح سے پل پارسل یا خط آتے ہیں.ایک دن اس قسم کا خط آیا.پہلے پہلے تو چوہدری علی محمد صاحب وہ خط چھپاتے چھپاتے لے گئے اور ڈرتے ڈرتے کئی بل بیچ ڈال کر بات کی.حضرت اقدس ہنسے اور فرمایا کہ یہاں قاعدہ یہی ہے ان کو کیا معلوم کہ ہمارے گھر کے لوگ ہمارے ساتھ نہیں ہیں.ملک کے رواج کے مطابق مسز ( فلاں) کے نام بھیج دیا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ گھر کے بلوں کی ادائیگی عورتوں ہی کے ذمہ ہوتی ہے مردوں کو اس سے کوئی تعلق و واسطہ نہیں ہوتا.نما ز ظہر وعصر حضور نے جمع کرا کے پڑھائیں.مغرب کی نماز میں اور عشاء کی نماز میں تشریف نہ لا سکے.نزلہ کھانسی کی زیادہ تکلیف ہے.میں ابھی نو بجے کہ بعد ہند کی ڈاک لے کر گیا تھا تو دیکھا کہ حضور لیٹے
۳۸۴ ہوئے تھے.میں نے حال پوچھا تو فرمایا نزلہ کھانسی ہے.کھانا شام کا اوپر اپنے کمرے میں منگا کر تناول فرمایا.آج کی ڈاک میں صرف دو خط ہندوستان کے ملے ہیں جن میں ایک حضرت مفتی صاحب کا تھا.باقی انشاء اللہ اب پیر کے دن ملیں گے اس طرح کل کا دن انتظار میں کٹے گا.۱۲ اکتوبر ۱۹۲۴ء : حضور صبح کی نماز میں تشریف نہیں لا سکے طبیعت اللہ کے فضل سے نسبتاً اچھی ہے.ناشتہ فرمایا اور ضروری سامان حضور نے بھی باندھنا شروع کرا دیا ہے.کھانے کے میز پر بھی تشریف لائے.واپسی کے متعلق باتیں ہوتی رہیں.حضور نے فرمایا کہ اب تو ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ یہ دس دن بڑے زور سے کام کریں مگر معلوم ہوتا ہے کہ دوست تھک گئے ہیں حالانکہ کام ابھی بہت محنت چاہتا ہے اور تھکان یا آرام کا خیال بھی نہ آنا چاہیے.پیرس میں ہوٹل کے انتظام کے لئے مولوی محمد دین صاحب سے پوچھا.انہوں نے عرض کیا کہ خالد شیلڈ رک کہتا ہے کہ دو تین دن پیشتر میں پیرس چلا جاؤں گا.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ان کے جانے سے بہت خرچ ہو گا کیوں نہ خط و کتابت سے فیصلہ کر لیا جاوے.دو ہوٹلوں کا انتظام کر لیں.ایک کوئی بڑا ہوٹل ہوا اور معزز جس میں ملاقاتوں کے لئے بڑے لوگ آ سکیں دوسرا معمولی ہو جہاں دوست بھی آسکیں اور کھانا وغیرہ بھی اپنا پک سکے.آتے ہوئے بھی ہم اس طرح سے اخراجات میں کفایت کرتے چلے آئے ہیں.فرما یا ۲۹ یا ۳۰ تک فرانس میں ٹھہریں گے.ایک یا دو تین دن پہلے وینس پہنچنا ضروری ہے تا کہ جہازی سفر کے لئے سامان خوردونوش خریدا جا سکے.آتی دفعہ کھانے پینے میں بہت دقت ہوئی تھی.بعض اوقات تو بھو کے رہنے کے علاوہ بھی اخراجات مجبوراً زیادہ ہو گئے تھے لہذا پچھلے تجربہ سے فائدہ اُٹھانا ضروری ہے تا کہ تکلیف سے بھی بچے رہیں اور خرچ بھی زیادہ نہ ہو.سمندر کی حالت کے متعلق ذکر ہوتے ہوتے فرمایا کہ ہمارے دوستوں میں سے بہت اچھی حالت میں تو بھائی جی اور چوہدری فتح محمد صاحب رہتے تھے.درمیانہ حالت میں رہنے والے دو درجوں میں تقسیم تھے.ایک وہ جو اچھی حالت والوں کے قریب قریب تھے ان میں چوہدری علی محمد ہے اور بیمار حالت والوں سے قریب ہمارے ڈاکٹر صاحب اور خود میں تھا.ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ میں تو حضور سوائے ایک دو دفعہ کے اچھا رہا تھا اور چلتا پھرتا بھی رہا تھا.فرمایا مگر چہرے کی حالت آپ کو تو نظر نہ آتی تھی اس کو ہم دیکھتے تھے جس سے صحیح حالت کا اندازہ ہوسکتا تھا.
۳۸۵ جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اب تک برلن نہیں گئے.کل کو اپنے کسی کام جار ہے ہیں یعنی سیر کے لئے.ہالینڈ میں تار دیا جاوے گا کہ برلن جائیں.انہوں نے حضرت اقدس سے پوچھا حضور اگر ہالینڈ میں ایسے وقت تارگئی کہ میں برلن کام کو ختم کر کے پیرس نہ پہنچ سکوں تو کیا حکم ہے.کام ادھورا چھوڑ دوں اور پیرس پہنچوں یا کام پورا کروں اور پیرس نہ آؤں بلکہ وینیس یا برنڈ زی حاضر ہو جاؤں.فرمایا کام پورا کر کے آویں اور وینیس یا برنڈ زی آملیں.آج ایٹ ہوم (eat home) ہے.چائے وغیرہ کا سامان کیا جا رہا ہے.نماز ظہر پونے تین بجے حضور نے پڑھائی.دوستوں نے جمع کرنے کے لئے عرض کیا کیونکہ مہمان آنے شروع ہو جائیں گے اور مصروفیت ہو جائے گی.فرمایا نہیں عصر کی نماز اپنے وقت پر ادا کریں گے.ایک گھنٹہ بعد پڑھ لیں گے اور تشریف لے گئے.(اپنے کمرہ میں ) حافظ روشن علی صاحب اور شیخ صاحب عرفانی آج حضرت اقدس سے اجازت لے کر دو کنگ گئے ہوئے ہیں.ساڑھے تین بجے ہیں ابھی تک لوٹے نہیں.بہت دن سے ان کو شوق دید تھا.ان کی واپسی پر اگر کوئی حالات قابل ذکر ہوئے تو عرض کروں گا انشاء اللہ تعالیٰ.حضرت اقدس نے نماز کے بعد نو مسلموں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچانے کے لئے مضمون لکھنا شروع کیا اور جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو تر جمہ کے لئے ساتھ ساتھ دے رہے ہیں.
۳۸۶ وَهُوَ هذا اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر ہمشیرگان و برادران ! السلام عليكم ورحمة الله و بركاته میں نے آج آپ کو ایک تو اس لئے تکلیف دی ہے کہ اب چند دنوں میں میں اور میرے احباب جانے والے ہیں آپ لوگوں سے پھر ایک دفعہ ملاقات ہو جائے اور دوسرے ایک اور ضروری اور اہم غرض کے لئے بلایا ہے جس کا بیان کرنا ممکن ہے کہ آپ میں سے بعض کے لئے تکلیف کا موجب ہو لیکن چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کا بیان کرنا مجھ پر فرض ہے اس لئے میں اس کے بیان کرنے سے نہیں رک سکتا اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ بھی اس پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے.آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ جماعت جس کا میں اس وقت امام ہوں ایک علیحدہ نام سے پکاری جاتی ہے اور اس کا انتظام دوسری اسلام کی طرف منسوب ہونے والی جماعتوں سے بالکل الگ ہے.یہ فرق اور یہ اختلاف کس وجہ سے ہے؟ کیا عبادت کی کسی تفصیل کے اختلاف کی وجہ سے ؟ نہیں ہرگز نہیں.اگر یہ اختلاف ہوتا تو میں ہرگز اس اختلاف کی وجہ سے ایک الگ نام کے نیچے کام کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا کیونکہ میرے نزدیک اتحاد جماعت تمام اجتہادوں پر مقدم ہے.ہر ایک اجتہاد خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس قابل ہے کہ اسے اتحاد کی خاطر نمایاں نہ ہونے دیا جائے.پس اس اختلاف کی وجہ کوئی اجتہادی امر نہیں ہے بلکہ اس کا موجب یہ ہے کہ احمدی جماعت کے بانی کا یہ دعویٰ تھا کہ بوجہ اس کے کہ مسلمان اپنے عقیدوں اور اپنے عملوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے بالکل دُور ہو گئے تھے.خدا تعالیٰ نے اپنی قدیم سنت کے مطابق آپ کو نبی بنا کر بھیجا
۳۸۷ تا کہ حقیقی ( دین ) کو قائم کریں اور اس بچی روح کو دلوں میں پیدا کریں جس کے بغیر کوئی مذہبی ترقی ہو نہیں سکتی.پس چونکہ آپ نبی تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث تھے اس لئے ضروری تھا کہ آپ کے ذریعہ سے ایک نئی جماعت بنائی جاتی جس طرح کہ ہمیشہ سے نبیوں کے زمانہ میں نئی جماعتیں بنائی جاتی رہی ہیں.پس خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں دین کی ترقی حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ کے ساتھ وابستگی کے ساتھ معلق کر دی ہے اور اس سلسلہ کے بغیر ( دین ) کے زندہ رہنے کی کوئی امید نہیں ہے.انسانی عقل انہی واقعات کے متعلق سوچ سکتی ہے جن کے سب اسباب سامنے موجود ہوں مگر خدا تعالیٰ اس غیب سے واقف ہے جس تک انسان کی نظر نہیں پہنچ سکتی.اس لئے فیصلہ وہی ہے جو خدا تعالیٰ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کا فیصلہ وہی ہے جو میں نے اوپر بیان کیا ہے.اے ہمشیرگان و برادران ! آپ لوگوں نے اس مذہب کو چھوڑ کر جس پر آپ کے باپ دادا چل رہے تھے ایک نئے مذہب کو اختیار کیا ہے.آپ کی یہ قربانی قابل قدر ہے مگر آپ کو معلوم ہے کہ اسلام کیا ہے؟ اسلام کے معنی کامل طور پر سپر د کر دینے کے ہیں اور جب تک کہ انسان اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی مرضی کے کامل طور پر سپردنہیں کرتا وہ نام ہی کا مسلم ہوتا ہے حقیقت میں مسلم نہیں ہوتا مگر کیا نام حقیقت کے مقابلہ میں کوئی قیمت رکھتا ہے؟ کوئی نام نفع نہیں بخشتا جب تک اس کے ساتھ حقیقت بھی نہ ہو.پس جب کہ خدا تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ اس وقت وہ ان لوگوں کے ذریعہ سے ( دین ) کو فتح اور غلبہ دے جو احمد بیت سے منسوب ہیں تو پھر اگر ہمارا یہ دعویٰ کہ ہم خدا تعالیٰ کو سب کچھ سپر د کر چکے ہیں سچا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کی اس آواز پر لبیک کہیں جو اس زمانہ میں بلند کی گئی ہے.تمام نبی اس لئے عزت کے مستحق ہوتے ہیں کہ وہ اس ہستی کی طرف سے آتے ہیں جو کبھی غلطی نہیں کرتی.اگر نوح کے زمانہ میں نوح کی آواز پر لبیک کرنا ضروری تھا تو صرف اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بولتا تھا.اگر ابراہیم کے زمانہ میں ابراہیم کی آواز پر لبیک کہنا ضروری تھا تو صرف اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بولتا تھا.اگر موسی کے زمانہ میں اور پھر مسیح کے زمانہ میں ان کی آواز پر لبیک کہنا ضروری تھا تو صرف اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کے بلائے سے بولتے تھے
۳۸۸ اور اگر محمد رسول اللہ ﷺ کی آواز پر لبیک کہنا ضروری تھا تو صرف اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے اپنی طرف بلاتے تھے ورنہ یہ لوگ ہمارے جیسے آدمی تھے.اگر خدا تعالیٰ کی آواز ان کے پیچھے نہ ہوتی تو ان کو کوئی رتبہ حاصل نہ تھا.پس اصل آواز خدا کی ہے خواہ وہ کسی منہ سے نکلے اس کا قبول کرنا ضروری ہے اور اس کی طرف سے بے پروائی کرنے سے کبھی روحانی ترقی حاصل نہیں ہوتی.پس اب جبکہ خدا تعالیٰ مسیح موعود میں ہو کر بولا ہے تو ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ اس کی آواز کی طرف توجہ کریں اور اپنی مرضی کو اس کی مرضی پر مقدم نہ کریں.اے ہمشیرگان و برادران ! آپ لوگوں نے خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک قدم اُٹھایا ہے مگر کیا جب آپ کو معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ کی رضا دوسرے قدم کے اُٹھانے کے بعد مل سکتی ہے تو کیا آپ دوسرا قدم نہیں اُٹھا ئیں گے اور صرف اس امر پر کفایت کریں گے کہ جو ہم نے کرنا تھا کر لیا.بے شک آپ کا حق ہے کہ آپ اس امر پر غور کریں کہ مدعی کا دعوی سچا ہے یا نہیں ؟ اگر وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ثابت ہو تو اس سے جھوٹوں والا سلوک کریں اور اگر وہ پاگل ثابت ہو تو اس سے پاگلوں والا سلوک کریں.یہ آپ ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ اگر وہ سچا ہے تو بھی ہمیں اس کے قبول کرنے کی ضرورت نہیں.اس کا بغیر کسی جدید قانون کے آنا ہر گز اس امر کا بھی مجاز نہیں کر دیتا کہ ہم اسے قبول نہ کریں.یوشع ، داؤڈ ، سلیمان ، یوحنا میسیج بغیر کسی نئے قانون کے آئے تھے مگر پھر بھی خدا تعالیٰ نے ان پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیا.حق یہ ہے کہ نبی صرف نئی شریعت کے بیان کرنے کے لئے نہیں آتے بلکہ بسا اوقات وہ نئی روح کے پیدا کرنے کے لئے بھی آتے ہیں اور اس کے لئے ضرورت ہے کہ لوگ ان سے تعلق پیدا کریں.پس خدا تعالیٰ اپنی رضا کو ان کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے وابستہ کر دیتا ہے تا لوگ مجبور ہوں کہ ان کا ساتھ دیں اور اس طرح وہ اتحاد پیدا ہو اور وہ روح پیدا ہو جس کے پیدا کرنے کے لئے ان کو بھیجا گیا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اختلاف بُری چیز ہے لیکن کون نبی آیا ہے جس کے آنے سے یہ ظاہراً اختلاف نہ پیدا ہوا ہو.کیا موسیقی کے وقت میں کیا مسیح کے وقت میں کیا نبی کریم کے وقت میں اختلاف پیدا نہیں ہوا ؟ کیا پھر باوجود اس کے خدا تعالیٰ نے ان نبیوں کو دعوی کرنے پر مجبور نہیں کیا.ہم دنیا میں
۳۸۹ ایک ڈاکٹر کو اس امر کا اہل سمجھتے ہیں کہ وہ جب سمجھے کہ ہمارے جسم کو چیرنے کی ضرورت ہے اسے چیرنے دیں کیونکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہماری صحت اس چیر نے پھاڑ نے سے وابستہ ہے مگر کیا یہ امر تعجب کے قابل نہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کو اس کا اہل نہیں سمجھتے اور اس کے فیصلہ پر اعتراض کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس نے اختلاف کے سامان کیوں پیدا کئے مگر حق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نبیوں کے ذریعہ سے اختلاف پیدا نہیں کرتا بلکہ اختلاف کو ظاہر کرتا ہے.نبی سورج کی طرح ہوتے ہیں.ان کے آنے سے دلوں کی حالت ظاہر ہو جاتی ہے جس طرح سورج کے نکلنے سے رنگوں کا اختلاف ظاہر ہو جاتا ہے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ سورج بُری چیز ہے؟ کیونکہ اس کے نکلنے سے دنیا کی یک رنگی جاتی رہی اور مختلف رنگ نظر آنے لگے ہیں اور کئی چیزوں کی میل اور گندگی ظاہر ہوگئی ہے.اگر سورج کے نکلنے پر یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا تو نبی کی آمد پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ اختلاف پیدا نہیں کرتا بلکہ اختلاف کو ظاہر کر کے اس کے دور کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جس قدر نبی آئے ہیں پہلے ان کے زمانہ میں اختلاف ہوا ہے پھر ان کے ذریعہ سے اتحاد قائم ہوا ہے.اگر وہ نہ آتے تو اتحاد بھی کبھی نہ ہوتا.غرض اے عزیز و! اگر ایک مدعی کی سچائی ظاہر ہو جائے تو اس قسم کے شبہات کی وجہ سے اس کے ماننے میں پیچھے نہیں رہنا چاہئے.کیا آپ دیکھتے ہیں کہ مسیح موعودؓ کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے کیا کچھ کیا ہے.کہتے ہیں کہ مسلمان ہیں کروڑ سے زیادہ ہیں مگر کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ اس بیس کروڑ کو ( دین ) کی خدمت کی وہ توفیق نہیں ملتی جو مسیح موعود کی پیدا کردہ قلیل جماعت کر رہی ہے.یہ امر اس امر کا ظاہر ثبوت ہے کہ ( دین ) کا مستقبل مسیح موعود کے ساتھ وابستہ ہے اور ہر شخص جو (دین) سے انس رکھتا ہے اس کا فرض ہے کہ اس کی جماعت میں داخل ہو کر اس ذمہ داری کو پورا کرے جو ہر فرد بشر پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عائد کی گئی ہے.بے شک تکالیف ہوں گی اور لوگوں کے طعنے بھی سنے ہوں گے مگر ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والوں کے لئے یہ باتیں لازم رہی ہیں اور آپ اس سے بچ نہیں سکتے.ان قربانیوں کے مقابلہ میں جو ہمیں سچائی کے قبول کرنے میں کرنی پڑتی ہیں اس عظیم الشان نتیجہ کو نہیں بھولنا چاہئے.جو ان قربانیوں کے بغیر نکلے گا اور اگر کوئی نتیجہ بھی نہ نکلے تو کیا ہمارا فرض نہیں ہے کہ ہم جو کچھ منہ سے کہتے یا دل میں سمجھتے ہیں اس کی سچائی کو اپنے عمل سے ثابت کر دیں ؟
۳۹۰ اے عزیزو! میں نے خدا تعالیٰ کا پیغام آپ کو پہنچا دیا ہے اور اب میں خدا تعالیٰ کے سامنے بری الذمہ ہوں.میں جب اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی دینوی زندگی کو پورا کر کے حاضر ہوں گا تو اس سے کہوں گا کہ اے میرے رب میں نے تیرا پیغام نہایت کھلے لفظوں میں سنا دیا تھا آگے اس کا منوانا میرے اختیار میں نہ تھا.جو لوگ آپ میں سے ایسے ہوں کہ ابھی ان پر مسیح موعود کی سچائی نہ کھلی ہو ان کو میں اس ذریعہ یقین کی طرف توجہ دلاتا ہوں جسے مسیح موعود نے تجویز کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ متواتر کئی دن تک خدا تعالیٰ سے دعا کر کے سوئیں کہ اے خدا اگر یہ شخص سچا ہے تو اس کی سچائی ہم پر کھول دے اور اگر وہ ایسا کریں گے تو یقیناً ان پر خدا تعالیٰ مسیح موعود کی سچائی کھول دے گا کیونکہ وہ اپنے بندوں کو گمراہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ ان کی ہدایت چاہتا ہے اور خدا کے فیصلہ سے اچھا فیصلہ اور کونسا ہوسکتا ہے.اے عزیز و! اب میں اس دعا پر اس پیغام کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دلوں کو کھول دے اور سچائی کو قبول کرنے کی توفیق دے تا کہ آپ کی منتیں ضائع نہ جائیں اور تا ایسا نہ ہو کہ ایک طرف تو آپ اپنے عزیزوں سے مذہب کی خاطر قطع تعلق کریں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ سے بھی آپ کا تعلق پیدا نہ ہو-اللهم آمین اے اللہ تو ان لوگوں کو بھی جو اس وقت یہاں بیٹھے ہیں اپنی مرضی کے سمجھنے اور اس پر چلنے کی توفیق دے اور ان کو بھی جو دنیا کے چاروں گوشوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور تو رحم کرنے والا مہربان ہے.آمین.مضمون بالا پونے چار بجے سے جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے پاس پہنچنا شروع ہوا اور ساڑھے پانچ بجے کے قریب انہوں نے اس کا ترجمہ کر کے حضرت اقدس کے حکم سے حضور کے سامنے سنا دیا - فجزاهم الله احسن الجزاء في الدنيا و الآخرة- ہر کسے را بہر کاری ساختند - ترجمہ ختم ہونے سے ذرا پہلے جب کہ اکثر مہمان جمع ہو گئے تھے سید نا حضرت خلیفۃ المسح نیچے مہمانوں میں تشریف لے آئے اور فرداً فرداً لبعض سے گفتگو ہوتی رہی.جب ترجمہ تیار ہو گیا چوہدری صاحب نیچے آئے تو پہلے نیر صاحب نے چند کلمات اپنے طرز پر پُر جوش لہجہ میں لوگوں کو
۳۹۱ کہے اور کہا کہ چائے کی ایک پیالی کے بعد اب ہم آپ لوگوں کو وہ چیز دینا چاہتے ہیں جو ہمیشہ رہنے والی ہے.اُمید کہ آپ لوگ پوری توجہ اور دلی شوق سے سنیں گے اور غور کریں گے.کچھ اور بھی جو شیلے الفاظ میں رسول کریم کی وفات اور حضرت مسیح کی وفات کے وقت کے الفاظ بیان کر کے مقابلہ کیا اور آنحضرت کی فضیلت کا ذکر کیا.مکرمی حافظ روشن علی صاحب نے قرآن شریف سنایا جو بہت ہی مؤثر تھا.اس کے بعد چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے حضرت کے لیکچر کا انگریزی ترجمہ سنایا جو انہوں نے بہت ہی پھرتی سے کیا تھا.اس پیغام کے سنانے کے بعد اعلان کیا گیا کہ حضرت اقدس خوشی سے جواب دیں گے ان سوالات کا جو آپ میں سے کوئی صاحب پوچھنا پسند کریں گے.اس پر بعض لوگوں نے حضور سے سوالات پوچھے اور حضور نے اردو میں چوہدری صاحب کو سمجھایا انہوں نے انگریزی میں ترجمہ کر کے لوگوں کو سنایا.( مجھے ایک نہایت قیمتی چیز ملی ہے پہلے اس کو نقل کرتا ہوں.یہ ایک نہایت شاندار تاریخی یاد گار ہے جو انشاء اللہ ہمیشہ ہمیش دنیا میں یادگار کا کام دے گی ) بسم الله الرحمن الرحيم وَهُوَ هذا اعوذ با الله من الشيطن الرجيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ قل ان صلاتي ونسكي ومحياي ومماتي الله رب العلمين......میں مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ امسیح الثانی امام جماعت احمد یہ جس کا مرکز قادیان، پنجاب ہندوستان ہے خدا کی رضا کے حصول کے لئے اور اس غرض سے کہ خدا کا ذکر انگلستان میں بلند ہو اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پاویں جو ہمیں ملی ہے، آج ۱۳۴۳ هجری المقدس کو اس ( البیت ) کی بنیا د رکھتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے کر دوں اور عورتوں کی اس ادنی کوشش کو قبول فرمائے اور اس (البیت ) کی آبادی کے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ کے لئے اس (البیت) کو نیکی ، تقویٰ، انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا
۳۹۲ مرکز بنائے اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود نبی اللہ بر وزمحمد علیہ الصلوۃ والسلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لئے روحانی سورج کا کام دے- اے خدا ایسا ہی کر.۱۹۲۴ء فقط ( تاریخ ٹھیک ابھی فیصلہ نہیں ہوئی ) بقلم خود عبد الرحمن قادیانی یہ سنگِ بنیاد رکھنے کی تاریخ ۱۹ اکتوبر بروز اتوار تجویز ہورہی ہے.اس کے بعد شاید پھر موقع نہ مل سکے.اتوار کے سوا کوئی دن یہاں اجتماع کے لئے موزوں ہی نہیں لہذا غالباً یہی تاریخ پختہ ہوگی.انشاء اللہ تعالی.چائے اور گفتگو اور سوالات کے جوابات سے فارغ ہو کر ا کثر کو کھانے کی بھی دعوت دی گئی.گل حاضری آج کے ایٹ ہوم (eat home) کی ۳۶ مرد وزن و بچہ کی تھی جن میں ۲۹ کھانے میں بھی شامل تھے.ڈاکٹر لیون ( عبد اللہ کوئیم ) حضرت اقدس کے بائیں طرف مع اپنی بیوی کے بیٹھا تھا اور کسی کالج کا پرنسپل مع اپنی سیکرٹری کے حضور کے دائیں جانب تھا.( پرنسپل صاحب کا نام ریورنڈ پول ہے ) ۲ مرد اور گیارہ عورتیں حضور کے میز پر تھیں.حضرت نے آج بھی ڈاکٹر لیون کی بہت تعریف کی اور فرمایا کہ اس کے خیالات مجھ سے بہت ملتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر.اسلام کے متعلق سچا اخلاص ہے اور اس کی رائے بہت بڑی حد تک صائب ہے.روح کے متعلق جو کسی نے سوال کیا تھا اس کا جواب سن کر بہت ہی خوش ہوا اور دو تین مرتبہ بیر ، ہیر (Here Here) کہہ اٹھا تھا اور حضور سے عرض کیا کہ نہایت ہی لطیف جواب تھا.پھر اپنا ایک واقعہ سنانے لگا کہ ایک مرتبہ میں سپر چوازم کی مجلس میں گیا.انہوں نے روحیں بلانی شروع کیں اور مجھے دیکھ کر خوش کرنے کے لئے کہنا شروع کیا کہ ایک مسلمان کی روح آئی ہے.عرب کے ملک کا باشندہ ہے.مکہ کا رہنے والا ہے.نام اس روح کا محمد ہے.ڈاکٹر لیون کہتے ہیں کہ جب میں نے یہ حال دیکھا تو میں نے بلند آواز سے کہا کہ قُل کلمه ( کلمہ سنا ) وہ روح کچھ نہ بولی.تب میں نے کہاقل فاتحه ( فاتحہ سنا ) مگر پھر بھی وہ روح خاموش رہی اور میں نے سمجھ لیا کہ جھوٹ بولتے ہیں اور میں نے یہ تجویز ان کو
۳۹۳ شرمندہ کرنے ہی کی غرض سے کی تھی ورنہ حقیقت حال مجھے معلوم ہی تھی.جب مجھ سے لوگوں نے پوچھا کہ تم نے کیوں شور مچانا شروع کیا تب میں نے بتایا کہ اس نے جس شخص کی روح کا نام لیا تھا وہ بانی اسلام ہیں اور ہمیشہ دنیا میں کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سکھاتے رہے ہیں اور پانچ وقت نماز کی تاکید کرتے رہے ہیں.اگر یہ ان کی روح ہوتی تو بھلا وہ جواب نہ دے سکتی خاموش رہتی.اس شخص کی روح جس نے ساری عمر کلمہ توحید اور سورۃ فاتحہ کی اشاعت و تلقین میں بسر کیا ہو کیونکر نہ جواب دے سکتی ؟ لوگ بات سمجھ گئے اور ان سے نفرت کرنے لگے.ڈاکٹر لیون نے حضرت اقدس کے حضور اس بات پر سخت افسوس کا اظہار کیا کہ لوگ سپر چوازم کے نام سے اسلام کو بدنام کرتے ہیں اور اس فرقہ کی باتوں کو لے کر قرآن قرآن کہتے اور اسلام کی تعلیم کے خلاف باتیں بناتے اور اسلام کو بگاڑتے ہیں اور کسی خاص جماعت مدعی تبلیغ کا نام بھی لیا ( پیغامیوں کا ) اور نفرت کا اظہار کیا.ڈاکٹر لیون نے حضرت اقدس کے پاس بیٹھے ہوئے اپنی بیوی کے سامنے اس بات پر بھی اظہار نفرت کیا کہ ترکوں نے کیوں پر دہ ترک کر دیا ہے.یہ اسلام کی ایک بڑی بھاری خصوصیت تھی اس کو ترک کر دینے میں ان لوگوں نے غلطی کی ہے.بیوی یورپین ہے.اس کے سامنے اس قسم کے خیالات کا اظہار بڑی ہمت ہی کا کام ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ جس قدر لوگ جو شیلے مسلمان یورپ میں سنے گئے ہیں وہ سب اسی شخص کی محنت اور کوشش کا نتیجہ ہیں.بہت بڑی جماعت اس شخص نے پیدا کر لی تھی حتی کہ گورنمنٹ تک کو خطرہ ہو گیا تھا کہ یہاں کوئی بڑا بھاری انقلاب نہ پیدا کر دیں.کوئی مقدمات کا سلسلہ بنا کر اس کو کمزور کر دیا گیا اور اس کی جماعت کو توڑ دیا گیا تھا.حضرت کے دائیں طرف جو ریورنڈ بیٹھے تھے ان کی سیکرٹری نے حضرت اقدس سے سوال کیا کہ آپ کو اس سفر سے کیا بڑا فائدہ پہنچا ؟ حضور نے فرمایا کہ انسان کے سامنے دن رات ہزاروں قسم کے حالات اور خیالات آتے رہتے ہیں مگر سب کے متعلق اس کے دل میں تحقیقات کا خیال پیدا نہیں ہوتا.تحقیقات کا خیال انسان کے دل میں تب ہی پیدا ہوتا ہے جب وہ کسی چیز کو خصوصیت اور اہمیت کے درجہ تک پہنچا ہوا پاتا ہے.
۳۹۴ آج سے پہلے ہمارے سلسلہ کو یہ اہمیت نہ تھی کہ لوگ اس کی طرف توجہ کریں بلکہ سوائے شاذ کے کوئی نام سے بھی واقف نہ تھا مگر اب ہمارے آنے سے خدا نے اس قد را شاعت کر دی ہے اور شہرت اور اہمیت کے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ اب وہ روک ہمارے راستہ سے اُٹھ گئی ہے اور لوگ عام طور پر ہمیں جاننے لگے ہیں اور توجہ دنیا کی ہماری طرف پھرنے لگی ہے وغیرہ.اس جواب کوسن کر دونوں نے پرنسپل اور اس کی سیکرٹری نے کہا."Very great achievement" خدا کے فضل سے اس جلسہ کے بہت بڑے فوائد نکلیں گے.خیالات کو پلٹا دے دیا گیا ہے اور لوگوں میں ایک ہیجان پیدا کر دیا گیا ہے.مردوں کی نسبت عورتیں زیادہ دلچسپی لیتی ہیں اور جس بات کو سمجھ لیتی ہیں قبول کرتی ہیں اور پھر اس پر نہ صرف خود قائم ہو جاتی ہیں بلکہ ان باتوں کو آگے چلاتی ہیں.ایک عورت تا رکہ ہے اس کے خیالات شادی کے خلاف ہیں.رات حضور نے اس سے ایسے طرز پر گفتگو کی کہ آخر اس کو اقرار کرنا پڑا کہ میری غلطی تھی اب میں اس پر اور زیادہ غور کروں گی.حضور نے اس کو سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آخر کسی غرض کے لئے پیدا کیا ہے جو انسان اس غرض کو پورا نہیں کرتا وہ گویا خدا کا مقابلہ کرتا ہے.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ نسل انسان ترقی کرے مگر جو لوگ اس راہ میں روک بنتے ہیں وہ بغاوت کرتے ہیں وغیرہ.ان باتوں سے متاثر ہو کر اس نے کہا کہ اور لوگ دنیا میں شادی بیاہ کرنے والے بھی تو موجود ہیں میں ایک اگر نہ کروں تو کیا حرج ہوگا ؟ اس پر حضور نے فرمایا کہ خیالات ایک منتقل ہونے والی چیز ہیں اور وہ چلتے رہتے ہیں ایک سے دوسرے میں اور دوسرے سے تیسرے میں منتقل ہوتے ہیں ایک ہی جگہ نہیں ٹھہرا کرتے.آج اگر دنیا میں ایک انسان اس خیال کا ہے تو تھوڑے ہی عرصہ میں ہزاروں نظر آنے شروع ہو جائیں گے اور اسی طرح سے اگر ہر ایک اپنے آپ کو اکیلا سمجھ لے گا تو ہوتے ہوتے آخر دنیا میں قطع نسل تک نوبت پہنچ جائے گی اور دنیا کی آبادی کوسخت دھکا لگے گا وغیرہ وغیرہ.حضور نے بہت لمبی گفتگو کی تھی خلاصہ در خلاصہ یہی ہے.مجھے اور بھی کام ہوتے ہیں.جن کے لئے اُٹھنا پڑتا ہے اس وجہ سے تمام تر نہیں لکھ سکتا اور اگر میں تمام کے لکھنے کی کوشش کروں تو
۳۹۵ شاید اتنا بھی رہ جایا کرے کیونکہ وہ تو بہت بڑا کام ہے.غرض اس عورت نے تسلیم کیا اور بہت اچھے خیالات اور مفید اثر لے کر گئی.جاتے جاتے بھی رات عورتوں نے ایک گھنٹہ راستہ میں حضرت اقدس کو کھڑا کر لیا اور بہت محبت اور اخلاص اور حیا اور ادب سے عرض معروض کرتی رہیں.حضور نے بعض زیادہ جوشیلی عورتوں کو کتابوں کی صورت میں بھی تحفے دیئے.بعض نے کتا ہیں خرید بھی لیں.ایک حبشی عورت بہت حصہ لیتی ہیں.مسز بین شاید ان کا نام ہے.انہوں نے حضرت کی دعوت چائے بھی کی تھی اور اپنے ملک کی بہتری کے لئے حضور کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تھی.ا اس نے رات حضرت اقدس کی خدمت میں پھر یاد دہانی کرائی اور عرض کیا کہ میرے ملک کی بہتری کے واسطے بھی امید کہ حضور کو ضرور توجہ ہوگی.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہاں جو کچھ میری طاقت میں ہے سب کچھ کروں گا.I will do all that is in my power.اس فقرہ کو سن کر وہ بہت ہی خوش ہوئی اور شکریہ ادا کیا مگر حضرت اقدس نے ساتھ ہی فرمایا کہ تم کو ملک کی بہتری کا تو خیال ہے مگر اپنی بہتری کا بالکل خیال نہیں ؟ تم ہمسایہ کے گھر کی لگی ہوئی آگ کو تو بجھانے کے خواہاں ہو مگر اپنے گھر کی آگ کی پرواہ نہیں کرتے (انگریزی میں تھا ) تب اس نے عرض کیا کہ میں غور کر رہی ہوں اور مطالعہ کر رہی ہوں مجھے خود اپنی بھی فکر لگ گئی ہے.اب میں بے فکر نہیں رہی.حضرت اقدس نے فرمایا تو وہ وقت ابھی ہے.اس کو ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہیے ایسا نہ ہو کہ غور و فکر کا زمانہ ہی ایسا لمبا ہو جائے کہ جس کے بعد پھر یہ غور و فکر کچھ نفع نہ دے سکے.اس نے پھر ادب سے اخلاص کا اظہار کیا اور رخصت لے کر چلی گئی.( عیسائی ہے اس کو بہت ہی خوبصورت رنگ میں تبلیغ فرمائی ) ایک اور لیڈی بہت ہی شریف پوسٹ آفس کی ملازمہ بہت دیر تک حضرت اقدس.باتیں کرتی رہی اور بڑا اخلاص لے کر گئیں.ڈاکٹر لیون کے متعلق خیال تھا کہ آج کے مضمون سے چمکے گا مگر خدا تعالیٰ کے تصرفات کا کون احاطہ کر سکتا ہے اسی نے سب سے زیادہ اخلاص کا اظہار کیا اور بہت ہی قریب آ گیا ہے اور دوسری طرف سے قریباً الگ ہو چکا ہے.دراصل ان لوگوں کو ایسے
۳۹۶ خیالات بتائے گئے ہیں کہ فرقہ بندی کے نام سے ہی چونک اُٹھتے ہیں اور پھر ان کے مفاد وابستہ ہیں بہت کچھ ان غیر احمدیوں سے جہاں سے ان کو وظائف اور گزارے بھی ملتے ہیں مگر خدا نے دلوں پر تصرف کیا اور اب وہ خدا کے فضل سے بہت ہی قریب آ گیا ہے.خدا کرے کہ اس کو حق کے قبول کی توفیق بانشراح صدر مل جائے.کام کا آدمی اور مخلص مسلمان ہے.برسلز میں بھی خدا نے مفتی صادق صاحب کی کوشش کا پھل پیدا کر دیا ہے اور ایک خط بیعت کا حضرت اقدس کے حضور پہنچا ہے اور اظہا را خلاص کیا گیا ہے.پردہ ،مصافحہ وغیرہ مسائل بھی صاف ہو چکے معلوم ہوتے ہیں.ہالینڈ اور بیلجئیم دونوں میں خدا نے جماعت کے پودے لگا دیئے ہیں.اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحب کو جزائے خیر دے آمین.حافظ صاحب اور عرفانی صاحب نے دو کنگ کے بھی بعض حالات عرض کئے مگر حضور کا منشا نہیں کہ ان کو لکھا جائے اس وجہ سے میں نہیں لکھتا.حضور ایک بجے کے بعد ہی تشریف لے گئے ہیں.فرماتے تھے کہ دماغ میں ایسی تھکان اب سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی.اب تو دماغ پر ایک بوجھ معلوم ہوتا ہے اور بعض اوقات بالکل ڈل ہو گیا ہوا معلوم ہوتا ہے.آنکھوں کی بینائی میں بھی بڑا فرق نظر آتا ہے.دوست چاہتے تھے کہ جلسہ مارچ میں کر دیا جائے مگر مجھے چوہدری صاحب ( ظفر اللہ خان صاحب) کی رائے پسند ہے.وہ کہتے تھے کہ اس میں فائدہ کی بجائے نقصان ہوگا کیونکہ میری واپسی پر لوگ خواہ مخواہ ملاقات کو تو آئیں گے ہی اور پھر ایام دسمبر میں چونکہ رخصتیں ہوں گی.تب بھی آئیں گے.جن کو اب فرصت نہ ہوگی وہ اس وقت آجائیں گے.تو فراغت اور آرام تو ملے گا نہیں البتہ جلسے دو بن کر محنت دوہری ہو جائے گی.لہذا اب تو یہی خیال ہے کہ کسی طرح سے جلسہ گزر جائے تو آرام کریں گے مگر جلسہ کے بعد ہمیشہ ہی ایسا خیال ہوا کرتا ہے آرام کا موقع کم ہی ملتا ہے.کوئی نہ کوئی کام ضروری بلکہ اشد ضروری نکلتے ہی رہتے ہیں.فرمایا نیند بہت ہی کم ہوگئی ہے.ایک بجے کے بعد کمرے میں تشریف لے گئے.حافظ صاحب نے عرض کیا کہ حضور مجھے حکم دیں تو میں روزانہ سیر کو لے جایا کروں.فرمایا جس وقت آپ مجھے سیر کرنے کو لے جانا چاہتے ہیں اس وقت تو میری حالت ایسی ہوتی ہے کہ میں نماز کو بھی نہیں آ سکتا.ایک دن دلیری کر کے آیا تھا
۳۹۷ پھر زیادہ تکلیف ہوگئی.اُس وقت تو مجھے بخا ر سا ہوتا ہے.اس وجہ سے نماز میں بھی نہیں آ سکتا.۱۳ اکتوبر ۱۹۲۴ء : حضور صبح کی نماز میں تشریف نہیں لائے.ناشتہ بھی کمرہ ہی میں منگایا.کھانے کے وقت تشریف لائے تھے.سفر کے اخراجات کے حسابات ملاحظہ فرماتے رہے.اخراجات سفر کے متعلق فرمایا کہ ہمارے وفد کے اخراجات تو شاید بجٹ کے اندراندر پورے ہو جائیں یا کچھ بڑھ جائیں گے مگر میرے ذاتی بجٹ میں بہت زیادتی ہوگئی ہے.اندازہ ہمارا پانچ ہزار کا تھا مگر اب سات ہزار تک پہنچتا نظر آتا ہے.فرمایا قریباً پانچ صد روپیہ تو اس میں ڈاکٹروں کی فیس ہی کا ہو جائے گا جن سے مشورہ کیا گیا ہے.آج ڈاک کا دن تھا مگر پھر بھی حضور نے علاوہ ڈاک کے سارے سفر کے اخراجات کی تفاصیل ملاحظہ فرمائیں.ایجنسی کے متعلق لمبی لمبی رپورٹیں پڑھیں.( البیت ) پٹنی کے نقشہ کے متعلق ہدایات دیں اور جلسہ کو کامیاب بنانے کے انتظام کے متعلق ہدایات فرمائیں.تین بجے کے بعد نماز ظہر و عصر جمع کرا کے حضور بازار تشریف لے گئے ہیں.(البیت ) میں سنگ بنیاد پر کا مضمون جو حضور نے لکھا ہے اس کے اصل پر میں نے قبضہ کرنا چاہا تھا مگر در وصاحب چاہتے ہیں کہ اس اصل کو تاریخی اغراض کے لئے شیشہ وغیرہ میں لگا کر اس ( البيت ) میں آویزاں کریں جس کے سنگ بنیاد کے لئے وہ لکھا گیا ہے لہذا اصل نہیں بھیج سکا نقل او پر کر چکا ہوں.اصل ( البيت ) کا حق ہے.قادیان کی ڈاک میں آج حضور کو نہایت افسوس ناک خبر میں ملی ہیں جن کے انسداد کی طرف حضور کو خاص توجہ ہوئی ہے.کارٹون اور وہ بھی حضرت مولوی شیر علی صاحب کی ذات والا صفات کے متعلق.بہت بڑی جرات اور دلیری و غداری کا کام ہے.اللہ رحم کرے.حضور کو اس کی تکلیف ہے.سیدہ حضرت ام ناصر احمد صاحبہ کی بیماری کے متعلق حضور کو تار ملے جن کے جواب میں حضور نے روزانہ ایکسپریس تار دینے کا حکم بھیجا ہے.دعا ہے کہ اللہ کریم ان کو شفاء عاجل و کامل بخش کر اس وجود با وجود کی خدمات کا بیش از بیش موقع دے آمین.بھاری سامان انشاء اللہ کل یہاں سے جہاز والوں کے سپر د کر دیا جاوے گا.بکس چھوٹے
۳۹۸ ہو کر آگئے ہیں اور انشاء اللہ آج رات اور کل صبح ان میں سامان بند کر دیا جاوے گا.مکرمی ملک غلام فرید صاحب نے آخر اپنی بیوی کو تسلی دلا سا دے کر سمجھا ہی لیا ہے.وہ کل یہاں سے شام کو غالبا روانہ ہو جائیں گے.مارسلز تک ریل سے اور پھر جہاز پر سوار ہوں گے.اللہ تعالیٰ ان کو بخیریت پہنچائے.حضور نے نہایت محبت سے ان کو تیاری کا حکم دیا.شیخ یعقوب علی صاحب اور چوہدری محمد شریف صاحب بی.اے کو حضرت اقدس نے سفراء کے ملنے کو بھیجا تھا.آج چین کے سفیر سے ملاقات کو گئے تھے.وہ مذہبی آدمی نہیں مگر تا ہم دوستوں نے اس کو سلسلہ کے حالات اچھی طرح سے سنائے اور خوب تبلیغ کی.بڑی توجہ سے سنتا رہا.اس سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ہمارے سلسلہ سے واقف ہیں تو کہا ”ہاں ہاں خلیفتہ اسیح ، ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کا نام تو ہر جگہ پہنچ چکا ہے.جاپان کے سفیر نے ملاقات کے لئے بدھ کا دن دیا ہے اور ایرانی سفیر نہ معلوم کیا بات ہے ملاقات کا وعدہ کر کے پھر نہ آیا.بیمار بن بیٹھا.پھر لکھا گیا تو شکر یہ ہمدردی کا ادا کر دیا ہے.ملاقات کا نام نہیں لیتا غالبا کابل سے وابستگی ہوگی ورنہ ایسی تنگدلی کسی اور نے نہیں دکھائی.کیوں نہ ہو مسلمان کہلاتے ہیں نا.شام کی نماز انتظار کر کے پڑھی گئی ہے مگر حضورا بھی تک واپس تشریف نہیں لائے.حضور آٹھ بجے کے بعد تشریف لائے کھانا کھایا اور اپنے کمرہ میں تشریف لے گئے اور نماز شام اور عشاء کوئی گیارہ بجے کے قریب دونوں جمع کر کے پڑھا ئیں اور پھر جلدی ہی تشریف لے گئے.میں نے کوشش کی تھی کہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے ارشاد کی تعمیل ملاقاتیوں کی گفتگو کا خلاصہ بھی دے دوں مگر ہو نہیں سکتا بلکہ خوف ہے کہ اس کوشش میں جو کچھ تھوڑا بہت پیش کر سکتا ہوں رہ نہ جائے.۱۴ اکتوبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز میں حضرت اقدس تشریف نہیں لائے.ناشتہ فرمایا اپنے کمرہ میں اور ساڑھے دس بجے گھر سے ڈاکٹر صاحب سمیت بازار تشریف لے گئے اور شام کی اذان کے
۳۹۹ بعد واپس تشریف لائے ہیں.جانے سے پہلے میں ناشتہ وغیرہ کرانے سے فارغ بھی نہ ہوا تھا کہ حکم دیا دو چیک دے کر کہ دوالگ الگ بنکوں سے روپیہ لے آؤں.میں گیا اور روپیہ دوسو پونڈ لے کر مکان پر آیا تو حضور موجود نہ تھے بلکہ جاتے ہوئے سامان کے پیک کرنے کا کام بتا گئے جو اُس وقت سے لے کر اس وقت تک کہ 4 بجے ہیں کرتا رہا ہوں.چوہدری علی محمد صاحب، خان صاحب اور یہ خاکسار تینوں آج بھی کام کرتے رہے ہیں.باقی دوستوں نے بھی اپنا اپنا سامان بند کیا.چوہدری فتح محمد خان صاحب جس دن سے لیکچر دے کر واپس آئے ہیں ( اتوار سے ) بیمار ہیں.مولوی محمد دین صاحب برا بر دو دن بسترے پر رہے ہیں آج اُٹھے ہیں اور کچھ اچھے ہیں.دل کا دورہ ہو گیا تھا.حضرت میاں صاحب بھی کچھ ڈھیلے ہی ہیں.اللہ تعالیٰ فضل کرے اور سب کو صحت اور عافیت سے رکھے.میاں رحمد بن بھی آج بیمار تھے اس وجہ سے آلو اور ڈبل روٹی پر ہی گزارہ کرایا گیا.اب شام کے کھانے کے واسطے اُٹھے ہیں.شیخ صاحب عرفانی اور چوہدری محمد شریف صاحب آج روس کے ملک کی ایک ریاست کے سفیر کے پاس ملاقات کو گئے.ریاست کا نام ایستھو نیا ہے اور سفیر کا نام ہے عاسکر کیلر.اچھی طرح سے ملا.اس نے بتایا کہ میں احمدیت سے واقف ہوں.اسلام کے دوسرے فرقوں کے متعلق تو ہماری یو نیورسٹی کی مذہبی شاخ میں ہمیں پڑھایا جاتا ہے.احمدیت کے متعلق مجھے ایک ہنگری کے آدمی نے سنایا تھا اور کہا تھا کہ ایک نئی اور زبردست تحریک شروع ہوئی ہے اس کا نام احمدیت ہے.اس نے کہا کہ آپ لوگ اگر ہماری یو نیورسٹی میں اپنا لٹریچر بھیجنا چاہیں تو میں بھیج سکتا ہوں مگر چونکہ میں خود ایک مذہبی آدمی ہوں لہذا دو دو نسخہ بھیجیں تا کہ ایک ایک وہاں بھیج دوں اور ایک ایک میرے واسطے رہے.میں مطالعہ کروں گا.بلکہ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ لوگوں کا کوئی لیکچرار ہماری یو نیورسٹی میں لیکچر دینا چاہے تو میں اس کا بھی انتظام کرا دوں گا.اب اس وقت ملک غلام فرید صاحب کے روانہ کرنے کے واسطے روپیہ کا فیصلہ کیا جا رہا
۴۰۰ ہے کہ کس قدر اور ان کو دے دیا جائے ساڑھے آٹھ بجے ان کی گاڑی روانہ ہوگی.ٹھیک ساڑھے سات بجے ملک غلام فرید صاحب مع اہلیہ اور بچوں کے مکان پر پہنچے اور حضور سے ملے.حضور ان کو رخصت کرنے کے لئے سٹیشن تک تشریف لے گئے ہیں.حافظ صاحب کی شاگر د دو عورتیں آج 11 بجے آئیں اور حافظ صاحب اپنے سیکرٹری ( مولوی محمد دین صاحب ) کے ذریعہ سے ان کے ساتھ باتیں کرتے رہے.عورتیں واقعی شریف اور سنجیدہ ہیں.حافظ صاحب نے ان کو تصوف کے سلسلہ میں داخل کرنے کے جو شرائط پیش کیے وہ بہت ہی لمبے اور قابل قدر ہیں.ان عورتوں نے ان کی حقیقت اور صداقت کا اعتراف کیا اور پھر ۲۰ /اکتوبر کا دن مقرر کر کے چلی گئیں.مصافحہ نہ کرنے کے متعلق انہوں نے عذر کیا کہ ہمارے ملک کا رواج ایسا ہے.اس کی بہت وقت ہوگی تو حافظ صاحب نے ان سے کہا کہ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونا تو ایک موت چاہتا ہے تم مصافحہ کے ترک کرنے سے ڈرتی ہو.عورتوں سے اور اپنے محرموں سے بے شک مصافحہ کیا کر و غیروں سے مصافحہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے.حضور ملک غلام فرید صاحب کو رخصت کر کے واپس آگئے.ان کے بچوں کو پیار کیا اور ایک لمبی دعا فرمائی.سامان ہمارا آج روانہ ہو گیا ہے گل ۲۳ بھاری بکس روانہ کر دئیے گئے ہیں جو انشاء اللہ پورٹ سعید سے ہمارے جہاز میں چڑھائے جائیں گے.اس وقت کہ ساڑھے دس بجے ہیں حضور کھانے کے میز پر بیٹھے ہیں.کھانا کھایا جا چکا ہے.حضور نے سنگ بنیاد کے متعلق فرمایا کہ ارادہ ہے کہ گورنمنٹ کی تینوں بڑی بڑی پارٹیوں کو لکھا جائے کہ اس موقع پر اپنے نمائندے بھیجیں بلکہ یہ بھی خیال ہے کہ بادشاہ کو بھی لکھا جائے کہ اپنا نمائندہ سنگ بنیاد کی دعا کے وقت بھیجے.ہمارا کام ہم کو کرنا چاہیے وہ آئیں یا نہ آئیں یہ ان کا کام ہے.یہ بھی فرمایا کہ اگر فرصت ہو سکی تو ارادہ ہے کہ سارے ملک کو ایک پیغام لکھ کر جائیں اور بادشاہ کو بھی پیغام دے دیا جاوے.گو یہ ہمارے تبلیغی کام میں حارج ہو گا مگر ہمارا کام ہے کرنا ہے.بادشاہ کو تبلیغ کرنے سے ملک مخالف ہو جائے گا.شاہزادہ ویلیز کو تبلیغ کی تھی وہ کتاب یہاں کوئی بھی نہیں لیتا چنانچہ تحفہ شاہزدہ ویلز کا نفرنس کے موقع پر ایک بھی نہیں کی.وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ اس بات کو انگریز لوگ بُرا مناتے ہیں کہ ان کے بادشاہ یا شہزادہ کو مسلمان ہونے کی تبلیغ کی جاوے.
۴۰۱ خود مسلمان ہوں تو حرج نہیں مگر بادشاہ کے متعلق ایسا خیال پسند نہیں کرتے.حضور نے (البيت) کے سنگ بنیاد کے لئے جو کلمات لکھے ہیں ان کے متعلق تجویز ہے کہ حضرت اقدس کی اصل تحریر کا فوٹو لے کر شائع کر دیا جاوے.یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو ہمیشہ رکھنا ضروری ہے.کیبنٹ سائز پر حضور لکھیں گے دوبارہ.حضور کے ہاتھ کا لکھا ہوا اینلا رج کر دیا جائے گا.یہاں بھی اردو اور انگریزی دونوں چھپوا کر لوگوں میں تقسیم کر دیا جاوے گا.بلاک بنوا لیا جاوے گا.حضور نے فرمایا کہ قاضی صاحب کے خط آ رہے ہیں کہ الفضل کے بند ہو جانے کا اندیشہ ہے کوئی مشین الفضل کے لئے ضرور خرید لائیں.آج مشین دیکھنے گئے تھے مگر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا.نیر صاحب کا ایک لیکچر آج بھی تھا.۴۰ کے قریب آدمی تھے.مضمون تھا ”نبی کریم کے سوانح اور تعلیم، تھیوسافیکل لاج میں مضمون خدا کے فضل سے کامیاب ہوا.بعد میں لوگوں نے سوالات کئے مگر دوسوال عجیب تھے.ایک یہ کہ اسلام کے عقائد کے مطابق عورت میں روح نہیں.دوسرا آرمینیا میں ترکوں کے عیسائیوں کو قتل کے متعلق تھا.ان دونوں سوالات کے ایسے دندان شکن جواب دیئے گئے کہ لوگ ٹھنڈے ہو گئے.مگر جب اسلام کی رُو سے عورت کی عزت اور درجہ کا ذکر سنایا گیا تو عورتیں خصوصیت سے خوش ہوئیں اور بہت اچھا اثر لے کر گئیں.گیارہ بج چکے ہیں اور حضور اب نمازوں کے لئے اُٹھ کر تشریف لے جا رہے ہیں.میں بھی جاتا ہوں.حضرت نے آج یہ بھی فرمایا کہ اب کے تو بمبئی میں سے جانے کا ارادہ ہے.بمبئی میں بھی ایک دن تو ٹھہرنا ہی پڑے گا کیونکہ سامان زیادہ ہے.کسٹم والوں سے بھی نپٹنا ہو گا اور بڑے بکس ریل والے لیتے نہیں ان کو پھر وہاں جا کر چھوٹے بکسوں میں بند کرنا پڑے گا.یہ بھی فرمایا کہ جماعتوں کی اطلاع کے لئے چند مرکزوں میں تاریں دے دیں گے کہ وہ آگے اطلاع کر دیں یا یہ صورت کر لی جاوے کہ قادیان لکھ دیا جاوے وہ ہمارے بعض شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک پروگرام تجویز کر کے جماعتوں کو اطلاع دے دیں اور بمبئی بھی اطلاع دے دیں.اس کے مطابق سفر کیا جاوے مگر ابھی آخری فیصلہ نہیں فرمایا کہ کیا کیا جاوے گا.جہاز کی رسیدگی بمبئی غالبا ۷ ار یا ۱۸ کو ہوگی.۱۹ رکو سوار ہو کر ۲۱ کو یا زیادہ سے زیادہ ۲۲ نومبر تک انشاء اللہ قادیان
۴۰۲ پہنچیں گے.تجویز یہ ہے.نماز عشاء سے پہلے ایک نو جوان مہمان آئے ہوئے تھے ان سے تنہائی میں کچھ باتیں ہوتی رہیں.۱۲ بجے نماز سے فارغ ہو کر حضور اپنے کمرہ میں تشریف لے گئے.طبیعت خدا کے فضل.اچھی تھی.۱۵/اکتوبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز میں حضور تشریف نہیں لائے.ناشتہ اپنے کمرہ میں کیا.طبیعت اللہ کے فضل سے اچھی ہے.گیارہ بجے کے قریب حضور اسکول آف اور سینٹ سٹڈی کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے.حضور کے ساتھ مولوی عبد الرحیم صاحب درد، حافظ صاحب ، مصری صاحب تھے.سر ڈینی سن راس کو ملے تو وہ بہت کچھ عذر معذرت کرنے لگا اور کہا کہ مجھے اگر یہ معلوم ہوتا کہ آپ تشریف لا رہے ہیں تو بڑے شاندار استقبال کی تیاری کراتا اور اور انتظامات کراتا.مجھے تو صرف اسی قد را طلاع تھی کہ کوئی مشرقی ممالک کے باشندے آے والے ہیں.ان باتوں اور مزاج پرسی وغیرہ کے بعد اس نے کہا اور بڑے اصرار اور دعویٰ سے زور دار الفاظ میں کہا کہ کل مارگولی اتھ کا لیکچر تھا اس نے اپنے لیکچر میں ثابت کر دیا ہے کہ قرآن شریف سے پہلے عرب میں کوئی شادی تھی نہ شعر حضور چونکہ کسی اور غرض کے لئے گئے تھے توجہ دوسری طرف تھی مگر جب اس نے بار بار اصرار سے اس بات کو دہرایا تو پھر حضور نے اس کے تین چار یا پانچ طریق سے جواب دیئے اور اس کو ایسا ساکت کر دیا کہ اس کو ماننا پڑا کہ مارگولی ایتھ کا لیکچر فضول بکو اس تھی.چنانچہ اس نے کسی دوسرے آدمی سے ذکر بھی کیا کہ عوام میں تو اس نے گویا اپنے دعوئی کو ثابت کر دیا تھا مگر اگر ہز ہولی نہیں ہوتے اور وہ ان کے سامنے ایسی بات کرتا تب بات تھی وغیرہ.حضور نے عربی پڑھنے والوں کی کلاس کو دیکھا اور امتحاناً ایک اخبار سنا مگر بالکل معمولی تھا.بتاتے ہیں کہ دس ہفتے میں عربی سکھا دیتے ہیں.حضور نے چینی ، جاپانی ، ہندوستانی کی کلاسیں اور کتب خانہ بھی دیکھا جو سر ڈینی سن راس نے ساتھ پھر کر دکھائے اور بڑے ادب سے رخصت کرنے آیا.حضور دو بجے کے قریب واپس مکان پر تشریف لائے.کھانا کھایا.نمازیں جمع کرا کے
۴۰۳ پڑھائیں اور پھر بازار میں تشریف لے گئے اور شام کے بعد واپس آئے.کھانا کھا کر تشریف لے گئے اور نمازیں اپنے کمرہ میں ادا کیں.ہم لوگوں نے بھی جمع کر کے پڑھیں.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ہالینڈ پہنچ کر حضرت اقدس کے حضور حالات سفر کے متعلق خط لکھا ہے جس میں انہوں نے ہوائی جہاز کے سفر کو قابل اطمینان سفر بتایا ہے اور حضور کی خدمت میں بھی تحریک کی ہے کہ حضور ضرور تشریف لائیں چنانچہ حضور نے آج شام کے کھانے کے وقت میز پر فرمایا کہ جانے سے پہلے ایک دو دن ہم ہوائی جہاز کے راستہ سے برلن اور ہالینڈ ہو آ ئیں.وہاں سے ہوتے ہوئے قافلہ کو پیرس آملیں گے.یہ ارادہ ہے دیکھیں آخری فیصلہ کیا ہوتا ہے.حضرت میاں صاحب کے ناک کے اندر ایک پھنسی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ان کو تکلیف ہے.دو تین دن سے چار پائی پر ہیں.اللہ تعالیٰ صحت عطا فرمائے.کل صبح حافظ صاحب ، مصری صاحب اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد آکسفورڈ یونیورسٹی دیکھنے کو جائیں گے.شاید حضرت کا بھی ارادہ ہو جائے ابھی کوئی آخری رائے قائم نہیں ہوئی.سکول آف اور مینٹ سٹڈی میں سر ڈینی سن راس نے فلسفۃ التاریخ کی کلاس بھی دکھائی جہاں دو مصری طالب علم تھے.ان میں سے ایک نے مسئلہ نبوت پر گفتگو شروع کر دی.گفتگو ابھی پوری نہ ہو چکی تھی کہ واپسی کا وقت آ گیا لہذا اس کو مکان پر آنے کی دعوت دی گئی اور اس نے کہا کہ میں نے ابھی اس مسئلہ پر بہت سی باتیں کرنی ہیں.پٹنی (البیت ) کے سنگِ بنیاد کے دن انشاء اللہ آوے گا.ایک ہسٹری کے انگریز پروفیسر سے حضور کی باتیں ہوئیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ میں تو انگریزوں کی تاریخ نویسی یا تاریخ دانی کا قائل نہیں رہا.بہت کچھ غلط لکھتے ہیں اور تعصب سے بھی کام لیتے ہیں.ایک بات جب سیوا جی کی طرف منسوب کی جاتی ہے تو بہت اچھی بتائی جاتی ہے اور اعلیٰ اخلاق اور بڑی بہادری کا نمونہ بنا لیا جاتا ہے مگر وہی بات اگر اور نگ زیب کے منہ سے نکلی ہوئی معلوم ہو تو بہت بُری اور قابلِ نفرت ہو جاتی ہے.
۴۰۴ انگریز نے کہا کہ میں نے تو اپنی ہسٹری میں ایسا نہیں کیا.حضور نے فرمایا یہ بات تو میں نے صرف بطور مثال کے کہی ہے.ورنہ کئی باتیں ایسی ہیں جن میں یہی رنگ پایا جاتا ہے.انگریز نے ایک بنگالی کا نام لیا کہ وہ بڑا ہسٹورین ہے.اس نے سیوا جی کے متعلق ایسا نہیں لکھا.حضور نے فرمایا بنگالیوں اور مرہٹوں کی ہمیشہ سے آپس میں عداوت رہی ہے.مرہٹے اپنے آپ کو بڑا بتاتے آئے ہیں اور بنگالی اپنے آپ کو.وہ بھی از روئے تحقیق نہیں لکھا گیا بلکہ عداوت اور ذاتی اغراض کی بنا پر ہے.فرمایا میں نے خوب مطالعہ کیا ہے ان باتوں سے خالی شاید ہی کوئی انگریز ہو گا.کوئی کسی جگہ غلطی کر جاتا ہے کوئی کسی جگہ وغیرہ.ان باتوں کو سن سن کر اور حضور کے علم کو جانچ جانچ کر آخر سر ڈینی سن راس نے اسی جگہ کہا تھا کہ اگر حضور مارگولی استھ کے لیکچر میں ہوتے تو ضرور اس کی اچھی طرح سے خبر لیتے.ابھی ابھی تو ایسا متائثر تھا اس لیکچر کا کہ اس کے دلائل کی بنا پر حضور سے جھگڑا کرتا تھا اور جب حضور کی باتیں سنیں تو مارگولی ایتھ کو کہ دیا کہ غلط کہتا ہے.اس کی بات پایہ ثبوت کو نہیں پہنچی یونہی ایک غلط خیال ہے.انگریز لڑ کا جس سے حضور نے عربی کا اخبار سنا تھا کانپتا تھا.ہاتھ بھی اس کے کانپتے تھے اور لب بھی تھرا ر ہے تھے.سنا کرتے تھے کہ انگریز لٹر کے نروس نہیں ہوتے مگر اس لڑکے کا تو یہ حال تھا.حضور نے طرز تعلیم دیکھنے کی اغراض سے استاد کو کہا کہ ہمارے سامنے پڑھاؤ تو اس نے کہہ دیا کہ میں سبق ختم کر چکا ہوں.بار بار کہنے سے بھی نہ پڑھا کر دکھایا اور عذر کرتا رہا.حضور نے بھی زیادہ مجبور نہ کیا اس کے عذر کو سمجھ لیا.مکرمی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اپنے سفر کے حالات مختصراً لکھے ہیں.دوستوں کی اطلاع کی غرض سے وہ اصل خط بھی شامل ہذا کرتا ہوں.وہ گفتگو جو حضور نے قرآن کریم کے نزول سے پہلے عرب میں شاعری کے موجود ہونے کے متعلق کی اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے جو میں نے شیخ عبد الرحمن صاحب مصری سے لیا ہے.سوال نمبر1 = تحریری رنگ میں ان اشعار کا کوئی ثبوت نہیں کیونکہ اس زمانہ میں تحریر کا رواج نہ تھا.
۴۰۵ جواب = حضرت اقدس نے فرمایا کہ لکھنے کی تو ان کو عادت نہ تھی وہ ہمیشہ زبانی یا درکھتے تھے بلکہ لکھنے کو ہتک سمجھتے تھے.اس لئے محض تحریر میں نہ ہونے کی وجہ سے یہ کہنا کہ عربوں میں اسلام سے پہلے کوئی نظم نہ تھی ایک بالکل سچی بات ہے.سرڈینی سن راس کچھ دیر گفتگو کرتا رہا اور زور دیتا رہا کہ جب تحریر نہیں تو پھر ثبوت کیا ہے کہ نظم اس زمانہ سے پہلے موجود تھی.حضور نے ذیل کے پانچ عقلی دلائل دیئے جس کو سن کر اس کا اعتراض دور ہو گیا اور کہا کہ مار گولی ایتھ کا خیال بالکل غلط ہے اور اس خیال کا کوئی ثبوت نہیں.(۱) قرآن شریف میں ذکر ہے کہ قرآن کو سن کر وہ نبی کریم کو شاعر کہتے تھے.اگر عربوں میں قرآن سے پہلے کوئی شعر نہ تھا تو وہ شاعر کی حقیقت کیونکر سمجھ سکتے تھے.(۲) وہ قصائد جن کو اسلام سے پہلے زمانہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ان میں ایسے عقائد ہیں جو اسلام کے خلاف ہیں اور نصرانیت کی تائید اور توصیف میں ہیں اور وہ خیال نہ صرف اسلام کے خلاف ہیں بلکہ اسلام نے ان کی تردید کی ہے.یہ کیوں کر ہوسکتا ہے کہ مسلمان ایسے شعر بنا ئیں جن میں خلاف اسلام خیالات کو ظاہر کریں.(۳) لبید کا دیوان موجود ہے اور یہ امر تاریخ سے ثابت ہے کہ اس نے قرآن شریف کے آنے کے بعد کوئی شعر نہیں کہا.پس اس کی طرف جو اشعار منسوب ہیں وہ سب زمانہ جاہلیت ہی کے ہیں اور یہ ناممکن ہے کہ ان کی زندگی میں کوئی دوسرا شخص ان کی طرف منسوب کر کے شعر بیان کر دے اور وہ چپکے بیٹھیں رہیں انکار نہ کریں.(۴) بصری اور کوفی دونوں آپس میں زبان کے قواعد پر ہمیشہ جھگڑتے رہے ہیں اور ہر ایک دوسرے کی تردید میں پرانے اشعار سے استدلال کرتا رہا ہے.اگر مارگولی ایتھر کی یہ بات صحیح ہے کہ قرآن کریم سے پہلے کوئی شعر موجود نہ تھا تو بجائے اس کے کہ کوفی یا بصری ان اشعار کی تاویل کی طرف مشغول ہوتے اور اس میں اپنا وقت خرچ کرتے ان کو صاف کہہ دینا چاہیے تھا کہ یہ شعر تو حقیقتاً بعد میں بنائے گئے ہیں ان سے استدلال کیوں کر صحیح ہوسکتا ہے؟ ☑ (۵) قبل اسلام زمانہ میں عربوں کی طرف لاکھوں اشعار منسوب کئے جاتے ہیں.ان تمام
۴۰۶ اشعار کا افترا کے طور پر بنانا اور اسلام سے قبل لوگوں کی طرف منسوب کرنا ایک دو آدمیوں کا تو کام نہیں ہوسکتا اس کے لئے ایک منظم جماعت کا ہونا ضروری ہے اور اس بات کا ثبوت تاریخ سے نہیں مل سکتا.ان دلائل کے سننے کے بعد وہ سیر ہو گیا اور عرض کیا کہ آئیے سکول کا معائنہ فرمائیے.حضور نے فرمایا کہ ان باتوں کے دوران میں خدا نے اتنی اور باتیں سوجھا ئیں جن کو اگر میں بیان کرتا تو پھر کبھی ایسی لغو بات کو سن بھی نہ سکتا.( کیوں نہ اس کو کہہ دیا گیا کہ ابھی اور اصرار کرو با تیں تو نکل آتیں اور علمی ذخیرہ پل جاتا ) مصری طالب علم نے حافظ صاحب اور شیخ صاحب سے سوال کیا اور حضور بھی موجود تھے.آپ لوگ خلافت کے بارے میں کس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں.اس پر خود حضور نے فرمایا کہ ہم ان موجودہ جماعتوں میں سے کسی کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے.اس نے عرض کیا مذہبی طور پر آپ کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں؟ حضور نے فرمایا کہ مذہبی طور پر ہم اس فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کو فرقہ احمد یہ کہتے ہیں اور میں اس کا امام ہوں اور موجودہ فرقوں کے متعلق ہمارا عمل درآمد اس مشہور مقولہ پر ہے.خذ ماصفاء ودع ماكدر هم بعض باتیں شیعہ کی بعض حنفی کی بعض حنبلیوں کی بعض مالکیوں کی جن کو ہم صحیح سمجھتے ہیں بعض وہابیوں کی لے لیتے ہیں وغیرہ وغیرہ.اس نے کہا یہ بہت اچھی بات ہے.پھر حضور لائبریری دیکھتے رہے.دو کتب مجمع الجار اور خصائص ابن جنی نظر نہ آئیں.اس پر حضور نے ان کے انچارج سرڈینی سن راس کو کہا کہ یہ دونوں کتابیں آپ کی لائبریری میں ہیں نہیں میں آپ کو تحفہ بھیجوں گا.جس پر اس نے شکر یہ ادا کیا.
۴۰۷ آکسفورڈ یونیورسٹی حضور تشریف نہیں لے جا سکتے طبیعت پھر کچھ نزلہ کی طرف جھکی ہوئی ہے.اللہ کریم حافظ و ناصر ہو اور قوت وشوکت کے ساتھ انوار و علوم ظاہری و باطنی سے بیش از بیش بہرہ ور فر مائیں آمین ثم آمین.عبد الرحمن قادیانی از مقام لنڈن ۱۵ اکتوبر ۱۹۲۴ء
۴۰۸ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم (۱) از مقام پیرس مورخه ۳۰ اکتو بر ۱۹۲۴ء بعد روانگی ڈاک السلام عليكم ورحمة الله وبركاته حضرت اقدس نے ۳۰ / اکتوبر کے لنچ پر ایک صاحب کی دعوت کی.یہ وہی صاحب تھے جنہوں نے حضور کو ر پورٹر کے تار کی بنا پر پیرس کے سٹیشن پر ویلکم (Welcome) کیا تھا اور اور بھی خدمات کی تھیں.حضور چونکہ ناشتہ کے بعد سیر کے لئے گئے تھے لہذا حضور نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو حکم دیا کہ اگر ہم وقت پر نہ پہنچ سکیں تو آپ ان کے ساتھ لنچ پر بیٹھیں اور ان کی اچھی طرح سے خاطر کریں.حضور بعض قابل سیر مقامات کے دیکھنے کے لئے گئے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور خلیفہ تقی الدین صاحب حضور کے ہمرکاب تھے.ڈیڑھ بجے حضور واپس ہوٹل میں تشریف لائے اور لینچ سے پونے تین بجے فارغ ہوئے.خدام حضور کے حکم کے مطابق ہوٹل میں جمع تھے کیونکہ اڑھائی بجے کا وقت حضور نے ( البیت) پیرس میں نماز ظہر و عصر کی ادائیگی کے لئے مقرر کیا ہوا تھا.کھانے سے فارغ ہو کر حضور نے جلدی جلدی وضو کیا اور نماز کے لئے تین بجے کے بعد ہوٹل سے موٹروں کے ذریعہ سے مع تمام خدام ( البيت ) پیرس کو روانہ ہوئے.بارش ہورہی تھے اور گونہ تیز تھی.اس بارانِ رحمت ہی میں حضور ( البیت ) کے اندر داخل ہوئے.بعض مقامی لوگ شوق سے (البيت) کے احاطہ کے باہر حضور کی پیشوائی کے لئے موجود تھے.انہوں نے استقبال کیا اور حضور کو (البیت) کے اندر گویا آنکھوں پر بٹھا کر لے گئے.(البیت) کے اندر افسر تعمیر نے پیشوائی کی اور ساتھ ہو کر حضور کو ( البيت ) کے محراب میں لے گئے وہاں جولکڑی اور پتھر چونا اور کنکر وغیرہ عمارتی ملبہ پڑا تھا منتظمین نے اس کو دور ہٹا کر اس حصہ ( البيت ) کو اچھی طرح سے صاف کرا دیا تھا اور نماز کے لئے اول چٹائیاں اور چٹائیوں پر قالین اور نمدے بچھا کر اچھا خاصا فرش کر رکھا تھا.حضور نے محراب میں پہنچ کر اذان کا حکم دیا اور فرمایا کہ
۴۰۹ حافظ صاحب کو آ جانے دو وہی آ کر اذان کہیں گے.حافظ صاحب کا موٹر بارش یا راستہ کی بے ترتیبی کی وجہ سے ذرا پیچھے رہ گیا تھا.وہ چند منٹ بعد تشریف لائے اور حضرت اقدس کے حکم کے مطابق بلند آواز اور خوش الحانی سے اذان کہی.لہجہ میں کسی قدر عربی رنگ پیدا کیا اور اذان نہایت مؤثر ہوئی.اذان کے وقت تمام لوگ بالکل خاموش تھے.ہم بیٹھے اور مقامی لوگ بت بنے کھڑے تھے اور کچھ ایسا سماں تھا کہ جیسے کسی غیبی ندا نے صور اسرافیل اور عہد ازل کی یاد تازہ کر دی ہو جس پر ہر ہر روح لبیک اللھم لبیک کہتی معلوم دیتی تھی.آج کی اذان (البیت ) پیرس میں پہلی اذان اور آج کی نماز اس ( البیت ) میں پہلی نماز تھی جوسید نا محمود موعود نے کہلوائی اور پڑھائی.اذان کے معاً بعد دعائے اذان سے فارغ ہو کر حضور قبلہ رو محراب (البیت ) میں کھڑے ہوئے.تکبیر اولیٰ کہی گئی اور نماز قائم ہوئی.حضور نے یکے بعد دیگرے دونوں نمازیں جمع کرا کے پڑھا ئیں.خدام ذیل شریک نماز تھے.(۱) عبدالرحمن قادیانی (۲) چوہدری ظفر اللہ خان صاحب (۳) ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب (۴) چوہدری علی محمد صاحب (۵) مولوی عبدالرحیم صاحب درد (۶) ملک نواب دین صاحب (۷) شیلڈرک خالد صاحب (۸) مولوی مصباح الدین صاحب (۹) خلیفہ تقی الدین صاحب (۱۰) حافظ روشن علی صاحب (۱۱) شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی (۱۲) ذوالفقار علی خان صاحب (۱۳) حضرت میاں شریف احمد صاحب (۱۴) شیخ عبدالرحمن صاحب مصری (۱۵) چوہدری فتح محمد خان صاحب (۱۶) چوہدری محمد شریف صاحب (۱۷) مولوی عبدالرحیم صاحب نیر (۱۸) ملک ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب.ان سترہ بزرگوں اور خادم قادیانی نے سیدنا حضرت اقدس محمود ایدہ اللہ الود و د امام و مقتدا کی اقتدا میں یہ دو نمازیں ( البيت ) پیرس میں ادا کیں.نماز چونکہ ساڑھے تین بجے کھڑی ہوئی تھی اور اب وقت شام کا قریب تھا اور روانگی کی تیاری کرنی باقی تھی لہذا حضور نماز کے بعد جلدی اُٹھے مگر لوگوں نے ذرا ٹھہرنے کی درخواست کی اور چائے اور بسکٹ پیش کئے جن کو حضور نے قبول فرمایا.چائے نہیں قہوہ تھا قہوہ بھی غالباً سبز ریحان کی پنی کا بنایا گیا تھا جو شیشے کے گلاسوں اور سیاہ مٹی کی پیالیوں میں ایک ایک دو دو دور دئیے گئے جو واقعی محبت بھرے دلوں اور حقیقتا دلی اخلاص اور سچے پیار سے دیئے گئے تھے.
۴۱۰ چائے کے بعد حضور نے شیخ صاحب مصری کی معرفت ان لوگوں کا شکر یہ ادا کیا اور دعائے برکت دی اور ان کو ان کے اس کارخیر میں ساعی ہونے پر اللہ سے اجر اور دنیا میں نام پانے اور عزت سے یاد کئے جانے پر مبارک باد دی اور گورنمنٹ فرانس کا بھی اس کا ثواب کا شکر یہ ادا کیا.اس مضمون شکر یہ کو شیخ صاحب نے عربی الفاظ میں ادا کیا کیونکہ سامعین کا اکثر حصہ مراکش اور عربی بولنے اور سمجھنے والا تھا.حضور وہاں سے رخصت ہوئے اور افسر تعمیر نے مشایعت کی.حضور نے ایک سوفرانک آج بھی کارکنان ( البيت ) کو عطا فرمایا جنہوں نے چائے وغیرہ سے خدمت کی تھی.بارش ابھی جاری تھی چنانچہ باران رحمت ہی میں حضرت اقدس موٹروں تک تشریف لائے اور ہوٹل میں پہنچے.حضورا اپنے سامان کی باندھ سنوار میں مشغول ہوئے اور خدام کو مختلف کاموں کا حکم دیا.بعض تیاری سامان میں بعض تیاری زادِ راہ میں بعض بار برداری کے سامان میں اور بعض دیگر ضروریات میں مصروف ہوئے حتی کہ آٹھ بجے شام دو بڑی موٹریں سامان اور سواروں سے لد کر تیار ہو گئی ہیں مگر حضورا بھی فارغ نہیں ہوئے اور چند ساتھی بھی حضور کے ہمرکاب مصروف کار ہیں.ہم لوگ ساڑھے آٹھ بجے گیرڈی لیون (Gere De Layon) ریلوے سٹیشن پر پہنچے.قلی اور بابو.مسافر اور کلرک کوئی بھی ہماری نہ سمجھ سکتا تھا نہ کوئی مدد کر سکتا تھا.ہم ان سے اجنبی اور وہ لوگ ہم کو تماشا بنائے ہوئے تھے.ہمارے گرد جمع ہو جاتے ، بات کریں تو نہ سمجھتے نہ جواب دے سکتے تھے.وقت تنگ ہو رہا تھا کام زیادہ تھا.گھبراہٹ بڑھ رہی تھی.پونے نو بج گئے.ہمارا کوئی کام نہ ہوا.سامان ریڈیوں پر لاد کر قلی بھی بھاگ گئے اور پھر نہ آئے.آخر نو بھی بچ گئے.صرف ہیں منٹ باقی تھے ہم نے سمجھا کہ اس گاڑی سے نہ جاسکیں گے.آخر خدا خدا کر کے 9 بجے کے بعد حضور کی موٹر آئی تب جا کر جان میں جان پڑی.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور مسٹر خالد شیلڈرک اِدھر اُدھر دوڑے بھاگے.مارا مار کی.سامان وزن کرایا.رجسٹرڈ کرایا - بک کرایا کچھ ساتھ رکھنے کو الگ رکھا.پانچ منٹ رہتے تھے کہ پلیٹ فارم نمبر H (ایچ) پر پہنچے جہاں گاڑی روانہ ہونے کو تیار کھڑی تھی.ہمیں دوڑتے بھاگتے دیکھ کر لوگ تماشا دیکھنے جمع ہو گئے.گاڑی کے اندر جو لوگ تھے وہ بھی کھڑکیوں کے آگے زیارت کو ہماری جمع ہو گئے اور ہمیں ایسا معلوم ہونے لگا کہ گاڑی بالکل بھر پور
۴۱۱ ہے اور شاید ایک جگہ بھی اس کے اندر باقی نہیں.ہم تمام گاڑی کو دیکھتے ہوئے آگے نکل گئے مگر آگے جا کر پھر لوٹے کیونکہ اگلے حصہ میں صرف فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کی گاڑی تھی.ہماری سیٹیں ریز رو تھیں مگر ہمارے لیٹ ہو جانے کی وجہ سے رُک چکی تھیں.گارڈ ٹرین ، کلرک اور پورٹر تمام تر مایوس تھے کہ اب یہ لوگ نہ چڑھ سکیں گے مگر خدا نے رہبری کی.ہمت دی اور توفیق بخشی.لوٹ کر تھرڈ کلاس گاڑی کے سامنے پہنچتے ہی سب دوست پل پڑے.کچھ گاڑی کے اندر جا گھسے اور کچھ باہر سے سامان دیتے گئے.دو چار منٹ کے اندر سامان اندر پہنچ گیا اور ہماری مشکل خدا نے حل فرمائی.گاڑی چل پڑی.خطرہ ہوا کہ شاید بک شدہ اور رجسٹر ڈ سامان رہ گیا ہو.نیر صاحب کو دس پونڈ دے کر حکم دیا گیا کہ اتر جائیں اور سامان کے ساتھ کل آجائیں.وہ اترے ہی تھے کہ معلوم ہوا کہ ادھر ہم نے سامان اندر پھینکا اُدھر پورٹروں نے رجسٹر ڈ سامان بریک میں پٹکا اور گارڈ کے چیختے پکارتے سامان اندر پہنچا ہی دیا اور اس طرح سے خدا کے فضل سے وہ کام ہو گیا جس کی آج قطعاً اُمید نہ تھی.بٹالہ اسٹیشن سے آتے ہوئے بھی اسی قسم کا نظارہ تھا مگر وہ صرف سواروں کے متعلق تھا سامان پہلے پہنچ چکا تھا بلکہ گاڑی کے اندر بھی رکھا جا چکا تھا مگر یہاں تمام مشکلات تھے سواروں کے لئے بھی اور سامان کے واسطے بھی.غرض خدا کے فضل سے ایسے سامان پیدا ہوئے ایسی جرات اور دلیری ملی اور اس طرح سب دوستوں نے ہاتھوں ہاتھ کام کیا کہ گویا ایک ایک کے ساتھ دس دس فرشتے کام میں مدد کرنے کو شامل و شریک ہو گئے تھے.مگر ایک امر قابل افسوس ہوا کہ دوستوں سے روانگی کے وقت مل بھی نہ سکے.خلیفہ تقی الدین صاحب اور ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب بڑی محبت سے ساتھ آئے ہوئے تھے.مسٹر خالد شیلڈرک اور مس چارلس ٹائپسٹ سے بھی سلام سلام نہ ہو سکا اور افراتفری اور دوڑا دوڑ میں نو بج کر میں منٹ پر پیرس کے اس اسٹیشن سے سید نا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی گاڑی سوئے کوچہ ہائے قادیان روانہ ہوئی اور جلد جلد سفر کو طے کرتی ہوئی صبح کے سات بجے کے بعد ویلو رب کے سٹیشن پر پہنچی.جب گاڑی پیرس کے سٹیشن سے چل پڑی اور ہم لوگ سامان کو جو اِدھر اُدھر بکھرا ہوا تھا کوئی گھڑی کسی کمرے میں کوئی بیکس کسی کمپارٹمنٹ میں کوئی ٹرنک کہیں اور کوئی سوٹ کیس کہیں تھا ان
۴۱۲ سب کو جمع کیا گیا.شیخ عبد الرحمن صاحب مصری جن کے سپر دسامان کا سپر وین(supervision) تھا وہ سامان کو چیک کر چکے اور ہوش سنبھالی.تب وہ دوست جن کو کام کی وجہ سے شام کا کھانا کھانے کا پیرس میں موقع نہ ملا تھا کھانے کے لئے بے قرار ہوئے.ان کو کھانا دیا گیا اور طبائع ایک سے دوسری طرف متوجہ ہوئیں.دوسرے مسافروں سے بات چیت کرنے کی کوشش شروع ہوئی اور جوش تبلیغ کا ولولہ اُٹھا اور اصل کام کا سلسلہ شروع ہوا.میرے کمرے میں تین فرانسیسی مرد اور ایک عورت بیٹھے تھے.ان کے ہاتھ میں ایک اخبار فرنچ زبان کا تھا وہ اس کو پڑھتے اور ہماری طرف دیکھتے تھے اور بار بار دیکھتے تھے.ان ا کے ان حرکات سے ہم نے سمجھا کہ کچھ معلوم کرنا چاہتے ہیں.ان سے باتوں کی کوشش کی.اشارے کئے.حرکات سے باتیں سمجھانے کی کوشش کی مگر نہ معلوم ہم کیا بتاتے تھے اور وہ کیا سمجھتے تھے.آخر ان سے بھی نہ رہا گیا اور اخبار ہماری طرف بڑھا کر ایک فوٹو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اشارہ سے پوچھا کہ یہ شخص تم میں سے کونسا ہے؟ وہ فوٹو حضرت اقدس کا تھا جو ایک فرینچ اخبار نے شائع کر کے حضور کے حالات کا مختصر سا خلاصہ نیچے دیا ہوا تھا.وہ حالات ان کو اس انسان کے دیکھنے اور معلوم کرنے کا شوق دلاتے تھے.یہ اشارہ ان کا ہم بھی سمجھ گئے اور ان کو اشاروں ہی اشاروں میں بتایا کہ وہ انسان جس کا یہ فوٹو ہے خدا کا ایک بہت بڑا پیارا انسان ہے.ہم سب اس کے غلام ہیں اور وہ مع چند اور خدام کے اول درجہ کی گاڑی میں ہے.علامت یہ ہے کہ سفید عمامہ حضور نے پہنا ہوا ہے.ہماری ان باتوں سے ان کو گو نہ تسلی ہوئی.معلوم ہوتا تھا کہ ایک طرف وہ اس اخبار میں حضور کی بزرگی اور بلند مرتبت کا ذکر پڑھتے تھے دوسری طرف وہ حضور کو ہم میں دیکھتے نہ تھے.اتنا بتانے سے ان کو تشفی ہوئی اور یقیناً اُترتی مرتبہ تو حضور کی زیارت سے مشرف ہو کر بھی گئے ہوں گے کیونکہ ان کے چہروں سے جو کچھ پڑھا جا سکتا تھا وہ یہی تھا کہ وہ اس ہستی کی زیارت کے لئے بے قرار و بے تاب ہیں.یہ فرانس کے دارالخلافہ کا چوتھا اخبار تھا جس نے حضرت اقدس کے متعلق کچھ لکھا.تین کا تو ہمیں پہلے علم ہو چکا تھا اور خرید چکے تھے مگر اس کا کوئی پر چہ ہمارے پاس نہ تھا.میں نے جیب سے مٹھی بھر فرانک نکال کر ان کے آگے کئے اور اخبار لینا چاہا مگر انہوں نے پیسے قبول نہ کئے اور اخبار
۴۱۳ خوشی سے دے دیا اور اس طرح سے بجائے چند پیسوں کے بہت شکریہ اور بڑے اجر کے مستحق بنے.اب یہ اخبار میرے پاس موجود ہے جو انشاء اللہ اسی عریضہ کے ساتھ پیش خدمت کروں گا.نہ معلوم اور کتنے اخبارات نے ذکر کیا جن کا ہمیں علم نہ ہو سکا.۳۱ اکتوبر ۱۹۲۴ء : دیلورب کے اسٹیشن پر پہنچتے ہی واقف کار لوگ اپنا پنا سامان سنبھال سنبھال کر اُٹھے اور گاڑی سے نکل گئے مگر بعض لوگ ہماری طرح بیٹھے بھی رہے.اس وجہ سے ہمیں خیال ہوا کہ وہ لوگ اسی جگہ اُترنے والے تھے ان کا سٹیشن آ گیا اور اُتر گئے مگر تھوڑی دیر بعد ایک آدمی آیا اور باتوں سے اشاروں میں ہمیں گاڑی چھوڑنے کیلئے کہتا رہا مگر ہم اس کی کوئی نہ سمجھے اور اپنی گاڑی میں بیٹھے رہے البتہ بعض دوسرے مسافر جو باقی تھے وہ اُتر گئے.ان کے اترنے سے ہمیں بھی گھبراہٹ ہوئی.پلیٹ فارم پر ٹہلنے والے دوستوں سے چند مرتبہ پوچھا کہ ہم انتر آویں مگر انہوں نے ہمیں بیٹھے رہنے کی تاکید کی کیونکہ ہمیں جو ہدایات پیرس سے چلتے وقت دی گئی تھیں ان میں اس مقام پر کوئی چینج نہ بتایا گیا تھا.انجن آیا اور گاڑی کاٹ کر ایک طرف لے گیا مگر ہم پھر بھی اطمینان سے بیٹھے رہے.یہ خیال ہوا کہ شاید کوئی دوسری گاڑی لگا کر ہمیں بھی لے جائے گا مگر وہ ایسا گیا کہ پھر لوٹنے کا نام نہ لیا.ہم بھاگے دوڑے اور پھر دوستوں سے کہا کہ ٹھیک معلوم کریں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے.آخر معلوم ہوا کہ وہ کمپارٹمنٹ کٹ جانے والا تھا کٹ گیا لہذا اب ہمیں دوسری گاڑی میں جانا چاہئے.پیرس میں جو خطرہ نہ دیکھا تھا اور جو گھبراہٹ وہاں بھی نہ ہوئی تھی اس مقام پر اس کا بھی سامنا ہوا اور وہ یہ تھا کہ حضرت اقدس کی گاڑی جاتی ہوئی نظر آتی تھی اور ہمیں پیچھے رہ جانے کا اندیشہ دامنگیر تھا.پیرس میں خطرہ تھا تو سب کے رہ جانے کا.مگر یہاں خطرہ ایسا تھا جس کی تاب نہ تھی اور اس کا خیال بھی ہاتھ پاؤں ٹھنڈے کئے دیتا تھا کہ سیدنا حضرت اقدس تشریف لے جائیں اور ہم غلام ہمر کاب نہ ہوں مگر خدا نے خیر کی سب دوست بھاگے لیکے اور دوڑے اور ہاتھوں ہاتھ تمام گاڑی خالی کر کے دوسری میں جا پہنچے.بارش ہو رہی تھی بھیگے بھی تھکے بھی پسینہ میں بھی تر بتر ہوئے مگر خدا نے فضل کیا کہ کام ہو گیا اور خطرہ عظیمہ سے بچاؤ ہو گیا.گاڑی وہاں کی چلی ہوئی لوزان (Lausanne) کے سٹیشن پر پہنچی جہاں معاہدہ ترکیہ پر
۴۱۴ دستخط ہو کر تکمیل ہوئی تھی اور مشہور تاریخی مقام ہے.لوزان میں گاڑی پھر تبدیل کرنا پڑی جہاں آسانی اور اطمینان سے کام ہو گیا کیونکہ دوسری گاڑی برابر کے پلیٹ فارم پر کھڑی تھی اور کچھ ایسا رش بھی گاڑی میں نہ تھا اور کچھ ان بار بار کی ٹھوکروں نے قافلہ کو ہوشیار و چوکنا بھی کر دیا تھا.قدم قدم پر پوچھتے اور معلوم کرتے ہی جا رہے تھے.الغرض اس تبدیلی کے بعد پھر بری گیو (Brigue) کے اسٹیشن پر پہنچے جہاں حضرت اقدس کو چینج کرنا پڑا اور ہم لوگ اپنی اسی گاڑی میں بیٹھے رہے.بری گیو سے نکل کر ڈوم ڈوسولا(Dom Dossola) کاسٹیشن پڑا جہاں سوئس (Swiss) گورنمنٹ کے حدود سلطنت ختم اور اٹلی کا علاقہ شروع ہو گیا.اس وجہ سے پاسپورٹ اور کشم والے جانچ پڑتال کو آن پہنچے مگر وہ زیادہ تر سگریٹ سگار کی تلاش میں تھے اس لئے ہمیں کوئی تکلیف نہ ہوئی اور نہ سامان کھولنا پڑا کیونکہ ان چیزوں سے خدا تعالیٰ نے سارے قافلہ ہی کو بچایا ہوا تھا مگر اب دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونکتا تھا بار بار قدم قدم پر پوچھ ہوتی تھی کیونکہ ہم دیکھ چکے تھے کہ یہاں خواندہ وان پڑھ ، موکل دوکیل، دانا و نادان سب برابر تھے.ایک دوسرے کی کوئی سمجھ سکتا تھا نہ بتا سکتا تھا.ہماری کوئی انفرمیشن صحیح نہ نکلی اس وجہ سے اب تحقیقات کا مرجع اور ہدایات کا منبع واقف کار ہی نہ رہے بلکہ ہر شخص اپنے گردو پیش کے لوگوں سے علم حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہوا بڑا چوکس اور چوکنا ہوکر چلتا گیا.- سوئیٹزر لینڈ کا علاقہ بہت ہی خوبصورت اور قابلِ سیر نظر آتا تھا.پہاڑی نشیب وفراز - سبزے سے لدے ہوئے خوبصورت نو کیلے چوٹی دار پہاڑ - برفانی چوٹیاں اور خاموش ندی نالے.ہری ہری گھاس اور سرسبز باغات جھیل اور وادیاں بہت ہی پُر لطف خوش کن نظارے ہیں.لوزان کے پاس ایک بڑی جھیل کشمیر کے ڈل کا نظارہ دکھاتی ہے.میلوں تک گاڑی جھیل کے کنارے کنارے چلتی ہے.ایک طرف جھیل دوسری طرف پہاڑی ڈھلوان.نشیب اور فرازوں پر انگور کی مسلسل اور متواتر کھیتیاں کیا بھلی معلوم دیتی ہیں.انگور کی کاشت کا طریق بھی نرالا ہی نظر آتا ہے.اکثر جگہ تو ایسا معلوم دیتا ہے کہ پتھروں ہی میں اُگے ہوئے ہیں مٹی دکھائی نہیں دیتی.پیرس میں علاقہ کی آبشار میں اور فال بھی جو ریل پر سے بعض نظر آئے بھلے معلوم دیتے ہیں.دامان کوہ کی بکھری بکھری مگر خوبصورت بستیاں، وادیوں کے جھونپڑے اور سیدھے سادھے تنہائی پسند دیہاتی چلتے
۴۱۵ پھرتے کام کاج کرتے اچھے لگتے ہیں.معلوم ہوتا ہے اللہ کریم نے اس علاقہ کو بھی خاص خوبصورتی اور رونق بخشی ہے اور سوئیٹزرلینڈ بھی کشمیر کی سی شکل وصورت دیا گیا ہے اور قدرت نے اس علاقہ کو بھی خاص فضل سے اچھا خوبصورت بنایا ہے.گو موسم میں خزاں کا رنگ پیدا ہوا جا تا ہے اور پت جھڑ کا موسم آ جانے کی وجہ سے پوری خوبصورتی اس وقت موجود نہیں مگر موجودہ حالات سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ بہار کے موسم میں کیا رونق اور کیا خوبصورتی اس گلستان ملک میں ہوتی ہوگی.دنیا کی سب سے بڑی پہاڑی سرنگ جو ۱۳ میل کے قریب لمبی بتائی جاتی ہے اسی علاقہ میں ہے.اس ٹنل (Tunnel) کے خاتمہ پر ڈوم ڈوسولا (Dom Dossola) اسٹیشن پڑتا ہے جہاں سے حکومت اطالیہ کا آغاز اور سوئیس گورنمنٹ کا اختتام ہے.پیرس میں ایک ٹاور ( منار ) لو ہے کا بنا ہوا ہے جس کی بلندی ۸۹۰ فٹ ہے اور دنیا کی بلند ترین یادگار ہے.اس کی پہلی منزل پر بہت بڑا ہال کمرہ بنایا گیا ہے جہاں چائے وغیرہ کے لئے ریسٹورنٹ اور بعض دیگر فضولیات کے سامان ہیں.بلندی پر بذریعہ لفٹ چڑھا جاتا ہے.اس کے علاوہ ایک اور بہت بڑا ہال بنایا گیا ہے جہاں ایک وقت میں چھ ہزار آدمی کرسیوں پر بیٹھ کر لیکچر سن سکتے ہیں.یہ مکان بھی بہت شاندار سمجھا گیا ہے اور فن تعمیر کا عجوبہ بتایا جاتا ہے.شانذ الیڈا اور اس کے آگے نکل کر ایک بہت بڑی وسیع پارک ہے جو اپنی وسعت میں مشہور اور صفائی اور خوبصورتی میں شہرہ آفاق ہے.شا تو ڈی ویفائے (Chateau De Versailles) کے باغات روشیں اور سڑکیں اور آبادی کے محلات شاہی اور دیگر شاندار عمارات جن کو سید نا حضرت فضل عمر نے ۳۰ر کی صبح کو مکرمی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور خلیفہ تقی الدین صاحب کے ساتھ ہو کر معائنہ فرمایا ، بہت ہی مشہور اور خوبصورت مقامات ہیں.موجودہ پریذیڈنٹ فرانس بھی غالباً آجکل وہیں رہتے ہیں.اس لحاظ سے وہ مقامات بہترین خوبصورت اور صاف ہونے کے علاوہ شاہی شان و شوکت اور داب حکومت کے اظہار کے لئے خاص طور پر نمایاں ہیں.حضور نے آج کی سیر میں بعض مقامات کو خاص طور پر پسند فرمایا اور خوش ہوئے.پیرس جیسا کہ مشہور ہے عروس البلاد ہے.واقعی ایسا ہی نظر آتا ہے.دریائے سین کے
کنارے کا شاندار کیتھڈرل ان کی مذہبی یادگار ہے.دریا پر آبادی کو ملانے کے لئے بے شمار پل بنائے گئے ہیں اور عروس البلاد کی خوبصورتی اور اس کے نام کی حفاظت کی غرض سے ہزاروں طرح کے سامان اس شہر میں جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے.موٹروں کا کرایہ پیرس میں خصوصیت سے ارزاں ہے اور موٹرمیں اس کثرت سے اِدھر اُدھر نقل و حرکت کرتی یا منتظر کھڑی نظر آتی ہیں کہ شاید لنڈن میں بھی اتنی موٹریں نہ ہوں گی مگر ویسی خوبصورت اور صاف نہیں ہیں یا شاید اس وجہ سے زیادہ نظر آتی ہیں کہ پیرس میں نقل و حرکت کا انتظام اور ترتیب ویسی نہیں جیسی کہ لنڈن میں ہے.اس لحاظ سے لنڈن بہت ہی ایڈوانس (Advance) ہے.علاوہ بر آں لنڈن میں بسوں سے زیادہ کام لیا جاتا ہے اور ایک بس دو منزلہ ہونے کی وجہ سے پیرس کی کم از کم چار بسوں کے برابر ہے.لنڈن میں بسوں کی کثرت نے بھی شاید زیادہ موٹروں کی ضرورت نہ رکھی ہو.پیرس کے ڈاک خانہ کو بھی میں نے دو تین مرتبہ دیکھا مگر گجا رام رام گجائیں ہیں.زمین و آسمان اور مشرق و مغرب کا فرق ہے.وہاں ڈاک خانہ کا جو انتظام اور جو ترتیب ہے اور جیسی پھرتی سرعت اور تیزی و جلدی سے لنڈن کا پوسٹ آفس کام کرتا ہے اس کے مقابلہ میں پیرس کے ڈاک خانہ کی کوئی حقیقت ہی نہیں.لنڈن کے پوسٹ آفس کی ایک کلرک یا ایک کارکن یقینا یقیناً فرانس کے پانچ بابوؤں کے برابر کام کرتی ہے.لنڈن کے ڈاک خانہ کی لیڈی ایک مشین کا رنگ رکھتی ہے اور جو کام اس کے آگے آجائے بلا کسی قسم کی تمیز وخیال کے کر جاتی ہے مگر پیرس کا با بوایسا نظر آتا ہے جس طرح کوئی افیونی بیٹھا ہو.کام آجائے تو چہرے پر افسردگی اور بوجھ کے آثار نظر آنے لگتے ہیں.ہاتھ کا پنپنے لگتے ہیں.پھر کام کے متعلق غور کرنے لگتا ہے کہ کرے یا کسی طرح ٹال ہی دے.ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور آخر چارونا چار بیگار کاٹنے کی طرح کرتا ہے کہنے کی بات نہیں میں نے چند مرتبہ پوسٹ آفس میں رجسٹریاں کرائی ہیں خود اپنی طبیعت بھی اس نظارہ سے افسردہ و کبیدہ ہو جاتی تھی.دراصل کام کے سسٹم اور ٹریننگ کا فرق اور زندہ و مُردہ یا کم از کم تندرست و توانا اور بیمار و نا تواں کا مقابلہ ضرور ہے.گاڑی ہماری اٹلی کے علاقہ سے گزر رہی ہے.گوسوئٹزرلینڈ کے ساتھ ساتھ ملتا ہوا علاقہ یہ بھی خوبصورت ہے مگر تدریجا تغیر ہوتا چلا جارہا ہے.اٹلی کے علاقہ میں ایک جھیل آئی ہے جو بہت لمبی چوڑی اور خوبصورت نظر آتی ہے.کنارے بالکل بھر پور
۴۱۷ آباد ہیں.جھیل کے اندر بعض چھوٹے چھوٹے جزیرے بھی ہیں مگر بالکل آباد- کنارے بہت خوبصورت بنائے گئے ہیں.درمیان میں بڑے بڑے پہاڑ بھی جزیرے کے طور پر ہیں.ریل اس کے کنارے کنارے جارہی ہے اور میلوں تک اسی طرح جارہی ہے.کئی سٹیشن گزرچکے ہیں.چھوٹی چھوٹی کشتیاں بھی جھیل میں اِدھر اُدھر دوڑتی پھرتی ہیں.سورج نکلا اور بادل پھٹ گیا جس سے اس نظارہ کی خوبصورتی میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے.مدتوں کے بعد دھوپ کا یہ نظارہ دیکھنا ملا اور سورج بھی ایسے مقام پر نکلا ہے جو بہت ہی پیارا مقام اور خوبصورت قطعہ ہے.سورج کی روشنی سے چاروں طرف کے مکانات میں ایک چمک پیدا ہو کر عمارات کی خوبصورتی دوبالا ہوگئی ہے.ایک ہوائی جہاز بھی جھیل کی سیر کراتا پھرتا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقام اس علاقہ میں خاص طور پر سیر گاہ ہے اور لوگ سیر و تفریح اور آرام کے لئے یہاں جمع رہتے ہیں.مکرمی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بتاتے ہیں کہ حضرت نے اس مقام کو دیکھ کر فرمایا کہ یہاں تو صحت دو ہی دن میں اچھی ہو جاتی ہوگی اور پھر فرمایا کہ اب تو گھر کو جار ہے ہیں مصر والوں سے وعدہ کیا تھا وہ بھی اب تو پورا نہیں ہو سکتا.اس وعدہ کے پورا کرنے کو پھر ایک بار آنا ہی پڑے گا.جب مصر آ ئیں گے تو اس جگہ کو بھی ضرور دیکھیں گے وغیرہ وغیرہ) گاڑی ہماری ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب لیٹ جارہی ہے.اندیشہ ہے کہ اگلی گاڑی مس (Miss) کر دیں گے اور اس طرح سے بجائے شام کو پہنچنے کے آدھی رات کو منزل مقصود پر پہنچیں گے.میلان کا اسٹیشن آیا.واقعی وہ گاڑی جاچکی ہے جس سے اگر جاتے تو ساڑھے سات بجے شام کو وینیس جا پہنچتے.سامان اُتارا گیا.حضور مع چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ، حضرت - میاں صاحب اور چوہدری محمد شریف صاحب شہر کو تشریف لے گئے ہیں.لوگ کثرت سے ہمارے گرد جمع ہیں اور ایک حلقہ بنائے کھڑے ہیں.تعجب ہے کہ تھکتے بھی نہیں شاید فرصت کا وقت ہماری زیارت ہی میں صرف کرنے گھروں سے نکلے ہیں.قلی اور با بوٹی کہ ریلوے اتھارٹیز بھی ہجوم کو دیکھ کر آ جاتی ہیں.گاڑیوں کے مسافر کھڑکیوں سے بے تابانہ سر نکال نکال کر اجنبی مسافروں کو دیکھتے اور حیرت و استعجاب سے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں اور اس طرح ایک
۴۱۸ خاموش تبلیغ ہو رہی ہے.یہ لوگ چاہتے ہیں کہ باتیں کریں.دل کی دیں اور دل کی لیں مگر افسوس زبان کے اختلاف کی دیوار حائل، اشاروں کنائیوں سے بات کرتے ہیں.بعض بعض مسافر انگریزی دان ترجمانی کا کام کر رہے ہیں.ہماری سن کر ان کو سنا رہے ہیں اور اس طرح سے اب کئی مختلف اکھاڑے بن گئے ہیں.خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب ایک جگہ ہیں.مولوی نیز صاحب دوسری جگہ ہیں بعض دوسرے دوست ایک طرف کو ہیں.لوگ محبت سے ملتے اور توجہ سے دیکھتے ہیں اور حالات سن کر حیران ہوتے ہیں.ہماری بے زبانی بھی آخر کام آئی رات کے اخبار کا فوٹو نکال کر لوگوں کو دکھانا شروع کیا.فرنچ اکثر لوگ جانتے ہیں فوٹو کو دیکھ کر اور حالات کو پڑھ کر متاثر ہوتے ہیں مگر آگے تفاصیل کون سمجھائے.میں نے اخبار مکر می شیخ صاحب عرفانی کے حوالے کیا جو انگریزی میں گفتگو کر سکتے ہیں.انہوں نے بعض لوگوں کو دکھایا اور تحریک پیدا ہوئی کہ میلان کے مقامی اخبارات کے ایڈیٹروں کو اطلاع دی جاوے.نیر صاحب بھاگے اور اِدھر اُدھر دوڑے.دوڑ کر ٹیلیفون پر گئے مگر جیب میں پیسہ نہیں کہ ڈال کر بات کریں.خیر خدا نے پیسوں کا بھی بندو بست کیا اور میلان کے مشہور اخبار Corriere dellaisera کے ایڈیٹر کو اطلاع دی جس نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں ابھی آ رہا ہوں چنانچہ تھوڑی ہی دیر بعد سٹیشن پر آ گیا اور ایک انگریزی دان تاجر کی ترجمانی سے حضور سے ملاقات ہوئی.حضور شہر میں گئے اور میلان کا مشہور اور پرانا کیتھڈال دیکھا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس عمارت کی بیرونی خوبصورتی کی دنیا میں نظیر نہیں پائی جاتی - سنگ مرمر کا کام نہایت خوبصورت کیا گیا ہے.حضور اس کی بلندی پر ڈیڑھ سو سیڑھی تک چڑھے اور چوہدری محمد شریف صاحب بھی وہیں تک رہ گئے مگر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور حضرت میاں صاحب او پر تک تشریف لے گئے جو پانچ صد سیڑھی پر ختم ہوا.ہمارے فرانسیسی اخبار نے لوگوں میں بہت چرچا کر دیا ہے اور اب لوگ کسی اور نگاہ سے ہمیں دیکھنے لگے ہیں.یہی حال پیرس میں تھا.پہلے دو تین دن ہم لوگ اجنبی تھے مگر (البیت ) میں جانے کے بعد جب کہ اخبارات میں ذکر ہو گیا تو پیرس کے لوگ بھی جوق در جوق ہمارے گرد جمع
۴۱۹ ہو جاتے اور پہلے سے مختلف نقطہ نگاہ سے ہمیں دیکھتے تھے.پہلے اجنبیت اور تماشا کا رنگ تھا مگر بعد میں تعارف اور عظمت پیدا ہو چکی تھی.اسی طرح سے میلان کے سٹیشن پر کے آخری دو گھنٹے گزرے.ایڈیٹر صاحب نے حضور سے ذیل کے سوالات کئے جن کے جوابات حضور نے دیئے.سوال ایڈیٹر آپ کے سلسلہ کا مقصد اور غرض کیا ہے؟ جواب از حضرت اقدس: اہل غرض تو تاجر یا سوسائیٹیوں والے ہوتے ہیں ہم تو مذہبی آدمی ہیں اور مذہب کی غرض محض اصلاح بنی نوع انسان ہوتی ہے جو غرض اور مقصد حضرت موسق - حضرت عیسی اور حضرت محمد عربی میں نے کی تھی وہی غرض اور مقصد ہمارا ہے..سوال آپ کا عام مسلمانوں سے کیا اختلاف ہے؟ جواب: ہم الہام الہی کے ہمیشہ کے لئے جاری رہنے کے قائل ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اسی اصل کے ماتحت حضرت احمد اس آخری زمانہ میں خدا کی طرف سے نبی ہو کر آئے ہیں جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز اور حضرت مسیح کے مثیل ہو کر دنیا میں ظاہر ہوئے.سوال دوسرے مسلمان آپ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ جواب: ہمیں وہ لوگ سخت تکلیف دیتے ہیں چنانچہ ابھی ابھی ہمارے ایک مبلغ کو محض اختلاف عقائد کی وجہ سے حکومت کا بل نے سنگسار کرا دیا.سوال تعجب سے.کیا حکومت کابل نے ایسا کیا ؟ جواب : ہاں ان نام کے مسلمانوں کو ہم سے اس درجہ اختلاف اور اس قدر بغض وعناد ہے کہ حکومت کا بل نے خود سنگساری کے ذریعہ قتل کا حکم دیا اور پھر اس پر فخر کیا کہ اس نے اچھا کام کیا ہے.سوال کیا گاندھی موومنٹ بھی آپ کی مخالفت کرتی ہے؟ جواب : ہاں گاندھی کے ہم مذہب لوگ اور مسلمان بھی جہاں کہیں ان کو موقع ملتا ہے ہمیں تکلیف پہنچاتے ہیں اور ہر رنگ میں مخالفت کرتے ہیں.:سوال یہ لوگ کسی قسم کی تکالیف پہنچاتے ہیں؟
۴۲۰ جواب: ہماری جائدادوں کا چھین لینا.بیا ہے ہوئے مردوں کی بیویوں کو ان سے جدا کر لینا.عام قبرستانوں میں ہمارے جنازے دفن نہ ہونے دینا.دفن شدہ جنازوں کو اکھیڑ کر ان کی ہتک کرنا.پانی اور دیگر ضروریات زندگی تک کی متعلق بائیکاٹ کرنا وغیرہ وغیرہ طریقوں سے دکھ پہنچاتے ہیں.سوال کیا ہندوستان میں بھی آپ کے آدمیوں کو جان سے مار دیا جاتا ہے؟ جواب: ہندوستان میں چونکہ پرٹش گورنمنٹ ایک مستقل اور مضبوط گورنمنٹ ہے اس کی وجہ سے ہمارے دشمنوں کو ہمیں ایسی تکالیف پہنچانے کا موقع نہیں ملتا جیسی کہ افغانستان میں دی گئی ہے.:سوال سلسلہ احمدیہ کے بانی نے کب دعویٰ کیا تھا ؟ جواب : بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۸۸۹ء میں دعویٰ کیا اور آپ کا وصال ۱۹۰۸ء میں ہو گیا.آپ قادیان میں پیدا ہوئے اور وہی سلسلہ کا مرکز ہے گو اس کی شاخیں تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں.سوال: کیا آپ کے پیرو ہندوستان کے ایک ہی حصہ میں رہتے ہیں؟ جواب : نہیں ہندوستان کے مختلف حصوں میں موجود ہیں.سوال: کیا آپ کا مذہب کوئی نیا مذ ہب ہے؟ جواب : ہمارا مذہب نیا نہیں البتہ ہمیں عام مسلمانوں کی تفاسیر اور قرآن کریم کے تراجم اور ان کی بعض عملی واخلاقی تعالیم سے اختلاف ہے.حضرت احمد نے صلح اور امن کی پالیسی پر خصوصیت سے زور دیا اور دین کے لئے جنگ کرنے کو حرام قرار دیا.دوسرے مسلمانوں کے نزدیک کافروں کا قتل جائز بلکہ کارثواب ہے مگر ہمارے نزدیک ایسا کرنا اسلام کی رُو سے ناجائز اور گناہ ہے وغیرہ.سوال کیا پیرس کی (البیت ) کی بنیا د آپ نے ہی رکھی ہے؟ جواب نہیں ہم نے لنڈن کی (البیت) کی بنیاد رکھی تھی اور اس موقع پر جاپانی سفیر اور ان کے علاوہ نصف درجن دوسری حکومتوں کے قائمقام موجود تھے اور کئی سو انگریز مرد وعورتوں کا
۴۲۱ مجمع تھا.ہماری ایک (البیت ) شکا گوامریکہ میں بھی ہے.پیرس کی (البیت ) میں ہم نے کل پہلی مرتبہ امام ہو کر با جماعت نماز ادا کی ہے.سوال آپ کا کثرت ازدواج کے متعلق کیا خیال ہے؟ اور کیا مذہبی پیشوا بھی ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتا ہے؟ جواب: ہمارے نزدیک بعض پابندیوں کے ساتھ کثرت ازدواج جائز ہے اور مذہبی پیشوا بھی ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتے ہیں.سوال : جب آپ روم آئے تھے تو آپ نے پوپ سے ملاقات کی تھی ؟ جواب: ہم نے پوپ سے ملنا چاہا تھا لیکن انہوں نے کہا کہ ان کا مکان زیر مرمت ہے اس وجہ سے نہیں مل سکتے چنانچہ ان کے اس جواب پر روما کے اخبار لائٹر بیونا نے یہ نوٹ بھی لکھا تھا کہ ان کا مکان شاید ہمیشہ ہی زیر مرمت رہے گا.سوال کیا آپ بھی پوپ کی طرح معصوم ہیں؟ جواب: ہمارا ہرگز ایسا مذہب نہیں.میں غلطی کر سکتا ہوں.سوال: ہم لوگ بھی پوپ کی نسبت یہ خیال نہیں کرتے کہ وہ پرائیویٹ معاملات میں مصئون عن الخطا ہے بلکہ یہ یقین کیا جاتا ہے کہ وسائل مذہبی کا صحیح ترجمان پوپ ہے.کیا آپ بھی ایسے ہی ہیں؟ جواب : میرا صرف انتظام وضبط جماعت میں آخری فیصلہ ہوتا ہے.مذہبی اجتہادات میں میں اپنے آپ کو کینتہ مصئون عن الخطا نہیں سمجھتا.سوال آپ کا اٹلی کے متعلق کیا خیال ہے؟ جواب میں اٹلی کے لوگوں کو پسند کرتا ہوں.روم اپنی خوبصورتی اور صفائی میں دوسرے شہروں سے زیادہ پسندیدہ ہے.سوال : آپ ہمارے موسم کی نسبت کیا خیال کرتے ہیں؟ جواب: ہمارے ملک کا آسمان آپ کے ہاں کے آسمان سے زیادہ صاف ہوتا ہے مگر ہاں لنڈن اور پیرس کی نسبت آپ کا موسم بہتر ہے اور آسمان صاف ہے.
۴۲۲ : ایڈیٹر میں آپ کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے باریابی کا موقع دیا.سید نا حضرت میں آپ کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھ سے ملنے کی تکلیف اُٹھائی اور میں اہل اٹلی کا بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے ہماری جماعت کے معاملہ میں دلچسپی لی.اچھا خدا حافظ.یہ تمام گفتگو حضرت نے انگریزی میں کی اور ایک ترجمان نے اس کو ایڈیٹر کی زبان میں ترجمہ کر کر کے پہنچایا ) ٹھیکے بجے شام کو ہماری گاڑی وینیس کو روانہ ہوئی جس میں بہت بڑا رش تھا جس کو دیکھ کر ہمارے پنجاب کی ریل گاڑیاں یاد آ گئیں اور رات کے اندھیرے میں ریل نے وینس کی طرف چلنا دوڑنا اور بھاگنا شروع کیا.شام اور عشاء کی نماز میں ریل ہی میں اپنی اپنی جگہ پر ادا کی گئیں.کھانا بھی حضور نے اور دوسرے تمام دوستوں نے وہی کھایا جو پیرس سے اس سفر کے لئے ساتھ لیا تھا.اس راستہ میں کہیں بھی کھانا اسٹیشن پر نہ ملتا تھا اور اگر کچھ ملتا تھا تو خدا جانے کیا کیا تھا.اس احتیاط سے مکر می چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ہدایت پر کھانا تیار کر ا لیا گیا تھا.جوں جوں گاڑی وینیس کو بڑھتی گئی مسافر انتر اُتر کر کم ہوتے گئے اور ہمیں کھلی جگہ ملتی گئی حتی کہ گاڑیوں کا اکثر حصہ خالی ہو گیا.وینس سے ایک سٹیشن ورے ( ورے نہیں اب تو پرے کہنا چاہئے ) سمندر شروع ہو گیا اور اب گاڑی ایک پل پر سے گزرتی ہوئی ونیس کو روانہ ہوئی.دورویہ سمندر کا پانی.درمیان میں صرف ایک ریل کی سڑک جو کئی میل تک پانی ہی پانی کے اندر چلی گئی ہے بہت خوبصوت نظارہ تھا مگر رات کے اندھیرے نے اس کا لطف نہ اٹھانے دیا اور ہماری گاڑی ایک بجے کے قریب وینیس کے بڑے سٹیشن پر جا پہنچی.سامان اُتار لیا گیا اور ہمیں ہدایت ہوئی کہ سب لوگ سامان کے پاس سٹیشن پر انتظار کریں.حضرت اقدس خود بمعیت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب شہر میں جا کر ہوٹل دیکھ کر فیصلہ فرما ئیں گے پھر اطلاع آنے پر ہم شہر میں جائیں مگر سٹیشن پر ہی ایک ہوٹل کا ایجنٹ مل گیا جس سے حالات اور دیگر قابل دریافت امور وہیں طے ہو گئے اور سارا قافلہ سامان سمیت جو ساتھ تھا ( بک شده سامان دوسرے دن صبح کو منگایا گیا ) تین گنڈ ولوں میں بیٹھ کر رات کے اندھیرے میں شہر کی طرف بڑھا.رات کے اندھیرے اور خاموشی میں ہمارے
۴۲۳ گنڈ ولے ( خوبصورت کشتیاں ) شہر کے گلی کوچوں میں سے ہوتے ہوئے پلوں اور بڑی بڑی بلند و بالا عمارتوں کے نیچے سے نکلتے ہوئے شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے جا نکلے جہاں ایک نہایت ہی شاندار طول طویل پانچ چھ منزلہ عمارت تھی جس کی بناوٹ سے رات ہی کو ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ کوئی سرکاری عمارت ہے.اس کے پاس سے نکل کر کھلے سمندر میں پہنچے اور تھوڑی دور مشرق کو بڑھ کر ایک پین پر جس کے سامنے پلیٹ فارم پر ایک اونچے چبوترہ پر ایک گھوڑے کے سوار کا سٹیچوتھا جس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی.چبوترہ کے شرق اور غرب میں یعنی گھوڑے کے منہ اور دم کی طرف چبوترے کی دیواروں پر اور تصویر میں عورتوں یا مردوں کی بنی ہوئی ہیں جو شیروں کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں اور شیر زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے مگر ان زنجیروں کو تڑانے کی کوشش کرتے ہیں.اس موقع پر گھوڑے کے سٹیچو سے ذرا مشرق کو سامنے بعض عمارات ہیں ان میں سے ایک مکان کے اندر جس کا نام دروازہ پر لکھا ہوا تھاHotel Beau Rivage اس کے اندر حضور مع تمام خدام کے ٹھہرے.کمروں کی تقسیم اور سامان کے پہنچانے سے بمشکل تین بجے فارغ ہو سکے.حضور اس ہوٹل کے کمرہ نمبر ایک میں ٹھہرے جو دروازہ کے بالکل اوپر ہے.دروازے دو ہیں مگر اصل دروازہ سیٹرھیوں کے سامنے ہے.اس دروازہ کے اوپر پہلی منزل پر کمرہ نمبر ایک ہے.باقی دوست الگ الگ دو دو کر کے دوسرے کمروں میں رہے.یکم نومبر ۱۹۲۴ء : رات کو ہمارے کشتیوں سے اُترنے کے بعد ہی جب کہ ابھی ہم لوگ ہوٹل میں مقیم نہ ہوئے تھے ہمارے پیچھے پیچھے ایک اور کشتی اسی گھاٹ پر پہنچی جس میں سے دوعورتیں چار مرد اترے.ہمیں دیکھ کر عورتوں نے ہندوستانی میں باتیں کرنی شروع کیں اور وطن و ملک کا آتا پتا پوچھا جو بتایا گیا.انہوں نے اپنا پتا بھی دیا اور کہا کہ وہ تاجر لوگ ہیں کلکتہ جارہے ہیں.پہلے بھی ہندوستان میں رہ چکے ہیں اس وجہ سے ہم لوگوں کو شکل و لباس سے شناخت کر کے باتیں شروع کیں.انہوں نے بتایا کہ ہم نے آپ لوگوں کو سوئٹزرلینڈ میں دیکھا ہے.ہم نے حیرت سے پوچھا کہ کہاں ؟ ہم لوگ تو سیدھے ریل میں آ رہے ہیں اُترے نہیں.تب انہوں نے بتایا کہ وہاں ایک سینما تھا جس میں برائیٹین کا کوئی نظارہ دکھایا جاتا تھا اس میں آپ لوگوں کو دیکھا تھا.سبحان اللہ نہ معلوم یہ فلمیں دنیا کے کن کن حصوں میں جائیں گی اور اس طرح سید نا حضرت احمد علیہ السلام کا نام
۴۲۴ آپ کے فرزند اور آپ کے غلاموں کے ذریعہ مشہور کر کے ثابت کریں گی کہ ” میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.حقیقتا خدائے برتر کا قول تھا.صدق الله وهو اصدق الصادقين رات چونکہ بہت دیر سے سوئے تھے نماز صبح وقت پر ادا کر کے لوگ پھر سو گئے اور دس بجے کے قریب اُٹھے ناشتہ کیا اور پھر حضرت نے تمام کے لئے کام تقسیم فرما دیے.روپیہ چونکہ دفتر کلک سے حضور نے لینا تھا جو کہ لنڈن سے تار دے کر ایجنسی سے منگایا تھا لہذا سارا قافلہ حضور کے ہمرکاب ہی کک کے دفتر کو چلا جو کہ ہوٹل سے بہت دُور نہ تھا.ڈوبی کا محل ، رائل پیلیس، بڑا گر جا گھر اور کمپائل کا منارہ.ایک چھوٹا سا منارہ چوک اور خوبصورت شاندار دکانات کا سلسلہ اور ان میں خلق خدا کا انبوہ وہجوم جو ہمیں دیکھ کر اور بھی دُگنا چو گنا ہو گیا تھا اور اس چوک کی چہل پہل دیکھ کر ہمیں اپنی رات کی رائے تبدیل کرنی پڑی.رات ہم لوگ سمجھے تھے کہ شہر کی تمام گلیاں کو چے اور بازار پانی ہی پانی ہیں.لوگ کشتیوں ہی کے ذریعہ سے اِدھر اُدھر نقل و حرکت کرتے اور دکانات پر ضروریات مہیا کرنے کی غرض سے آتے جاتے ہیں.بعض کشتی بان اپنی کشتیوں میں سودا سلف لے کر گلی گلی اور کوچہ بکوچہ پھرتے ہیں اور سامان فروخت کرتے پھرتے ہیں.چلنے پھرنے کے لئے کوئی خشکی یا سڑک و بازار نہیں ہیں.مگر اس حصہ شہر کو دیکھ کر جہاں حضور مع خدام تشریف لے گئے ہمیں نہایت ہی خوشی ہوئی اور اُمید کی ایک جھلک دکھائی دی کہ آخر کچھ جگہ تو آدمیوں کے چلنے پھرنے کے لئے ہے.شہر کا یہ حصہ خصوصیت سے خوبصورت اور خوش منظر بنایا گیا ہے.ایک طرف کھلا سمندر ہے.سمندر کے کنارے تین چارسوفٹ طولانی پچاس ساٹھ فٹ عریض ایک خوبصورت ہموار اور صاف پتھر کا پلیٹ فارم بنایا گیا ہے.پلیٹ فارم کے کنارے کنارے یہ چند شا ہی عمارات ہیں جن کے ساتھ لگتا ہوا ہی ایک پُرانے زمانہ کا خطرناک قید خانہ زیر زمین ہے جس کو دیکھ کر دہشت ہوتی ہے اور پرانے طریق قید کا خطر ناک نظارہ آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے.چوک جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے بہت ہی خوبصورت اور وضعدار عمارات سے گھرا ہوا اور وسیع ہے.ہم ضروریات سفر کے خرید کرنے کو بازار گئے تب معلوم ہوا کہ یہ تو با قاعدہ ایک شہر ہے.اچھے خاصے گلی کوچے اور صاف بازار ہیں.گونگی زمین کی وجہ سے گلیاں تنگ ہیں مگر صفائی کا پورا پورا اہتمام کیا گیا ہے اور قدرت نے بھی صفائی کے
۴۲۵ معاملہ میں ان لوگوں کی مدد کی ہے.تمام قسم کا کوڑا کرکٹ سمندر کی نذر ہو کر سمندر کا نمک اس کو ہضم کر جاتا ہے.بازار اور دکانات بھی بہت خوبصورت اور فیشن ایبل ہیں.مکانات بلند مگر ہوا اور روشنی کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے.پانی کے اندر سمندر کے بیچوں بیچ بے شمار جزائر پر شہر کی آبادی مشتمل ہے.موٹریں نہیں کہ دن رات لوگوں کے امن میں خلل ڈالیں.گھوڑا گاڑیاں اور دخانی انجن سے چلنے والے چھکڑے بھی کوئی نہیں کہ دھواں دھار مکانات کو سیاہ کرتا رہے.گھوڑا ، بیل، گائے بھینس بلکہ بکری تک بھی نہیں.ریل بھی شہر میں کوئی نہیں چلتی اور خاموش خوبصورت مگر وضعداری میں یورپ اور ایشیا دونوں کا رنگ لئے ہوئے یہ بستی ٹکڑے ٹکڑے کر کے تین لاکھ آدمیوں کو اپنی گود میں لئے ہوئے آبا دوشاد ہے.ویس چونکہ ایک مشہور اور پرانا خوبصورت بندرگاہ ہے اس وجہ سے کثرت سے سیر و تماشا اور مناظر قدرت کے دیکھنے کی غرض سے لوگ یہاں دُور دُور سے آتے رہتے ہیں اس وجہ سے گرانی کے لحاظ سے یورپ سے بھی کچھ بڑھا ہوا نظر آتا ہے.باشندے محنت کش اور ایشیا و یورپ دونوں رنگ لئے ہوئے ہیں.کسی زمانہ میں ان لوگوں نے بہت زبر دست سلطنت اور بڑے لمبے چوڑے فتوحات کئے تھے اور دینیس ایک بہت بڑی مضبوط اور جابر سلطنت کا پایہ تخت رہ چکا ہے.لوگ چونکہ زیادہ تر ملاح ہیں اور غریب بھی اس وجہ سے بعض خطر ناک جرائم کے بھی مرتکب ہوتے رہتے ہیں.سنا گیا ہے کہ رات کے اندھیرے میں اندرونی گلی کوچوں میں بعض مسافروں کو مال و منال کے طمع کی وجہ سے بے طرح قتل کر کے حوالہ سمندر کر دیا جاتا ہے لہذا عقلمند اور واقف کار مسافر شام کے بعد اندرونی گلی کوچوں میں جانے سے گریز کرتے ہیں.ہم لوگ سفر کی ضروریات کے لئے اور حضور بھی شہر کے بعض حصص کی سیر اور کچھ شا پنگ کے لئے تشریف لے گئے.حضور نے بعض چیزیں خود خرید فر مائیں اور بعض چیزیں اپنے ساتھیوں کے لئے خریدنی پسند فرما ئیں چنانچہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور چوہدری محمد شریف صاحب دونوں نے بعض چیزیں ایسی بھی خرید کیں جن کی خرید حضور نے ان کے لئے پسند کی اور خرید نے کی سفارش کی.اس طرح ہم خرما و ہم ثواب کے مالک ہوئے اور دونوں اپنے اس عمل پر خوش و نازاں ہیں اور واقعی ان کو خوش ہونا بھی چاہئے کیونکہ وہ چیزیں گویا مفت میں ان کے لئے تبرک
۴۲۶ کا کام دیں گی.ناشتہ اور کھانے کا انتظام دو دن کے لئے ہوٹل ہی میں کیا گیا تھا.دو پہر کے کھانے کے بعد سے رات کے ایک حصہ گزر جانے تک حضور شہر کو دیکھتے اور شاپنگ وغیرہ کرتے رہے.شام کے کھانے کے بعد پھر سیر کے لئے سمندر کے کنارے کنارے تشریف لے گئے اور دس بجے کے بعد واپس تشریف لا کر آرام فرمایا.موزیق کا کام ، شال اور شیشے کے سامان خصوصاً وینس میں تیار ہوتے ہیں.چمڑے پر سنہری کام بھی بہت عمدہ ہوتا ہے اور سیاح لوگ اکثر یہاں کے تحائف لے کر جاتے ہیں.نرخ مقرر نہیں بلکہ سودا کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات گرتے گرتے نصف داموں پر چیز مل جاتی ہے.آج کا دن قریباً تمام ہی دوستوں کا بڑی مصروفت میں گزرا اور قریباً تمام ہی دوست و مینس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اچھی رائے لے کر گھر کو آئے.۲ نومبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز دوستوں نے اپنے اپنے کمرہ میں ادا کی.میں بھی نماز سے فارغ ہو کر نیچے آیا.حضرت کے کمرہ سے قرآت کی آواز آئی.اندر گھسا تو حضور جماعت کراتے تھے.خان صاحب اور ڈاکٹر صاحب حضور کے مقتدی تھے تیسرا میں بھی شامل ہو گیا.پہلے اکیلے پڑھی تھی اب حضرت اقدس کے ساتھ ادا کر لی.نماز پڑھ کر نیچے سمندر کے کنارے کے پلیٹ فارم پر گیا.شیخ صاحب مصری بھی آئے.اِدھر اُدھر نظر اُٹھا کر دیکھا تو ڈور ایک بلند پہاڑ سا جہاز دکھائی دیا.خیال کیا کہ پلسنا ہوگا.لوگوں سے پوچھا دریافت کیا تو یقین ہو گیا کہ پلسنا ہے.چلتے چلتے وہ ہمارے سامنے آ گیا اور آگے اپنے دفتر کی طرف چلا گیا.حضرت کے حضور عرض کیا گیا.فرمایا تو پھر ہمیں جلدی فارغ ہو جانا چاہئے یہ تو سویرے ہی آ گیا.حکم دیا کہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو میرے پاس بھیج دو چنانچہ ان کو حضور کی خدمت میں بھیجا گیا اور حضور ان کے واسطے ہدایات لکھنے میں مصروف ہو گئے.ساڑھے سات بجے سے لے کر ۱۰ بجے تک قریب ہدایات ہی لکھتے اور ان کو سمجھاتے رہے.وہ ہدایات یہ ہیں.
۴۲۷ بسم الله الرحمن الرحيم اعوذ بالله من الشيطن الرجيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر اے خدا جس نے اپنے فضل سے ( دینِ حق ) کو انسان کی ہدایت کے لئے نازل کیا اور پھر جب لوگوں نے ( دینِ حق ) سے منہ پھیر لیا اور اس کی ہدایات کو بھلا دیا تو پھر ان کی آنکھیں کھولنے کے لئے اور ان کو نور بخشنے کے لئے مسیح موعود کو نازل فرمایا.میں تیری زبر دست طاقتوں اور تیرے بے انتہا رحم سے مدد مانگتے ہوئے تجھ سے عاجزانہ اور بے کسانہ طور پر عرض کرتا ہوں اور التجا کرتا ہوں کہ میری ان ہدایات میں برکت ڈال اور انگلستان کے مشن احمد یہ میں بعد اس کے کہ وہ ایک مُردہ کی طرح تھا زندگی کی روح ڈال اور اس کے کارکنوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کی توفیق بخش اور ان کی سمجھ کو تیز فرماتی کہ وہ تیری مرضی کو سمجھیں اور اس کے مطابق عمل کریں.ان کو محنت ، شوق اور عقل سے کام کرنے کی توفیق عطا فرما اور ان کی محنت کو قبول فرما خواہ وہ کتنی بھی حقیر کیوں نہ ہو اور اس کے نیک ثمرات پیدا کر جو سب ملک بلکہ گردا گرد کے ملکوں کو بھی تیری برکتوں سے بھر دیں.اے میرے رب ایسا کر کہ ان کا عمل اور ان کا قول اور ان کا فکر اور خیال بھی تیری مرضی اور تیرے منشا کے خلاف نہ ہو بلکہ ان کا عمل اور ان کا خیال اور ان کا قول تیرے ارادے اور تیرے حکم کے مطابق ہو.وہ ( دین حق کو سمجھیں اور اس کے مطابق عمل کریں اور اس کے مطابق لوگوں کو تعلیم دیں اور لوگوں کے خوف سے ( دین حق) کے کسی حکم کو نہ چھپائیں نہ اس کے کسی حکم کی شکل کو بدلیں.لیکن یہ بھی نہ ہو کہ وہ لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوں اور ان کو ایسی سختی میں ڈالیں جو ان کی برداشت سے بڑھ کر ہو اور بے ضرورت ہو اور تیری خوبصورت ہدایات کو جو انسانی دلچسپی کو اپنی طرف کھینچ لینے والی ہیں، ایسی صورت میں پیش کریں کہ وہ لوگوں کو بُری نظر آویں اور ان کے دلوں میں داخل نہ ہوں بلکہ نفرت پیدا کریں.اے خدا تو ان کو ایسے مخلصین کی جماعت عطا فرما جو ان کے کاموں میں ان کی مدد گار ہو اور ان کا ہاتھ بٹانے والی ہو اور دین کے لئے ہر قسم کی قربانیوں کے لئے مستعد ہوا اور تیرے احکام کی
۴۲۸ تعمیل اور ان کی اشاعت میں دلی خوشی محسوس کرتی ہو اور تو اس جماعت کو ( دینِ حق ) کی اشاعت کے کام میں ہمارے مبلغوں کے لئے دایاں باز و بنا اور ان کی کوششوں میں برکت دے اور ان کے حق میں بھی وہ دعائیں سن جو میں نے مبلغوں کے حق میں کی ہیں.اے خدا! تو اس ( البيت ) کو جس کا سنگ بنیاد میں نے لنڈن میں رکھا ہے بابرکت کر اور اس کو جلد مکمل کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرما اور اس کی عمارت کے اپنے فضل سے سامان پیدا کر.وہ اعلیٰ درجہ کی برکات کی جگہ ہوا اور لوگوں کو اس سے سچی نیکی اور سچی طمانیت حاصل ہو جس میں کوئی نہ کوئی شائبہ بدی یا بے اطمینانی کا نہ ہو.اے میرے رب ! ہمارے مبلغوں کے متعلق لوگوں کے دل میں محبت اور اخلاس پیدا کر اور ان سے تعاون کی خواہش پیدا کر اور ہمارے مبلغوں کے دلوں میں ان لوگوں کے متعلق جن میں وہ کام کرتے ہیں محبت پیدا کر اور اخلاص پیدا کر.ان کو ہر قسم کے الزامات سے پاک رکھ اور ان کی عزت کو محفوظ رکھ.اے میرے خدا! مبلغوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی نسبت بھی محبت کے جذبات پیدا کر اور جن کی فرمانبرداری ضروری ہے ان کی فرمانبرداری کی ان کو توفیق دے اور جن کے احساسات کا خیال رکھنا مناسب ہے ان کے احساسات کا خیال رکھتے اور نرمی کا سلوک کرنے کی ان کو تو فیق عطا فرما.اے میرے رب ! وہ اندر اور باہر سے ایک ہوں اور محبت اور پیار اور یگانگت اور اتفاق مجسم ہوں.اے خدا! تو ایسا ہی کر.اے میرے رب! میں پھر تیرے رحم اور تیرے فضل اور تیری قدرتوں کے واسطہ سے مدد مانگتے ہوئے تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ مرے اس سفر کو بابرکت فرما اور اب ان ممالک میں نور اور ہدایت پھیلنے کے راستے کھول دے اور ( دینِ حق ) کی اشاعت کے سامان اپنے پاس سے ہی کھول دے.اے خدا ا تو ایسا ہی کر.اے خدا! تو ایسا ہی کر.اے خدا! تو ایسا ہی کر.اے خدا! میں تجھ سے یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ مجھے اور میرے بعد آنے والے خلفا کو احمدی
۴۲۹ مبلغوں کے کام کی نگرانی اور ان کو صحیح ہدایات دینے کی بےنقص تو فیق عطا فرما اور اے خدا! تو احمدی مبلغوں کے قلب کے اطمینان کے سامان پیدا کر.وہ اپنے عزیزوں اور اپنے دوستوں اور اپنے پیاروں کی حالت سے مطمئن رہیں اور ان کی اولادوں اور ان کی بیویوں اور ان کے دوسرے رشتہ داروں کا تو آپ ہی متکفل ہو اور آپ ہی ان کا مربی ہو.اے خدا! تو ایسا ہی کر - اللهم آمین اللهم آمين اللهم آمين دس بجے ناشتہ فرمایا اور پھر بازار کو تشریف لے گئے.جہاز کے متعلق اطلاع کمپنی سے مل گئی تھی کہ ۳ بجے بعد دو پہر کو روانہ ہو گا.حضور فرما گئے کہ انشاء اللہ تعالیٰ بارہ بجے واپس آجائیں گے.بعض اور ضروریات کیلئے حکم دیا جو بارہ بجے سے پہلے پہلے لے کر ہم لوگ واپس ہوٹل میں پہنچ گئے.ناشتہ کے بعد ہوٹل سے بازار کو جانے سے قبل حضرت میاں صاحب نے حضور کے مع تمام خدام دو فوٹو لئے.ایک ہوٹل کے دروازہ پر دوسرا اسٹیچو کے سامنے جانب مشرق.ہوٹل والوں کو بل وغیرہ کی تیاری کا حکم دیا گیا اور بارہ بجے تک ہوٹل سے روانگی کا فیصلہ کرلیا گیا.سامان وغیرہ کے متعلق ہدایات دے دی گئیں اور حضور بھی گیارہ بجے کے بعد واپس تشریف لے آئے.حضور کی آمد کے بعد سامان ہوٹل سے سمندر کے کنارے جمع کیا گیا اور چیک کرلیا گیا.گنڈ ولے پانچ کرایہ پر لئے گئے اور سامان ان میں رکھنا شروع کیا گیا.جب سامان کا اکثر حصہ گنڈ ولوں میں رکھا جا چکا تب حضور کی خدمت میں عرض کیا گیا اور حضور اپنے کمرہ سے تشریف لائے.اس وقت ہمارے چاروں طرف ایک اثر دھام تھا اور لوگ ہمیں اس طرح گھیرے ہوئے تھے جس طرح چاند کو ہالا.ہر ایک کی یہی خواہش تھی کہ سب سے آگے بڑھ کر ہمیں لپٹ جائے.عورتیں بھی کھڑی تھیں.بڑے اور بوڑھے سنجیدہ آدمی بھی اور اس طرح کم از کم دوسو متنفس کا مجمع ہو گیا تھا.حضور نے پہلے معلوم کیا کہ آیا سارا سامان ٹھیک ٹھیک پہنچ گیا ہے اور کہ تمام دوست موجود ہیں.اس کے بعد حضرت میاں صاحب نے مجمع کا فوٹو روانگی یورپ سے چند منٹ پہلے لیا.سامان کا کچھ حصہ ابھی بکھرا ہوا تھا حضرت میاں صاحب نے اس کو ایک طرف کرنے کا حکم دیا مگر حضور نے فرما یا نہیں رخت سفر ہے اس کو بھی رہنے دو.فوٹو کے بعد حضور نے وہیں کھڑے کھڑے دعا کے لئے
۴۳۰ ہاتھ اُٹھائے اور سرزمین یورپ خصوصاً اٹلی کے لئے ایک مرتبہ پھر دعائیں کیں.دعا کے بعد حضور سب سے پہلے گنڈ ولے میں بیٹھے بعد میں دوسرے دوست اور یہ کشتیاں جہاز کے قیام گاہ کی طرف جلد جلد چلنے لگیں.چونکہ آخری خبر یہ لی تھی کہ جہاز شام کے آٹھ بجے روانہ ہو گا لہذا حضور نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو بھی ساتھ لے لیا اور تمام قافلہ جہازران کمپنی کے دفتر کے سامنے جہاں ایک خوبصورت پلیٹ فارم کے ساتھ پلسنا جہاز کھڑا تھا ۲ بجے کے قریب جا پہنچا اور حضور اترتے ہی جہاز کے اندر تشریف لے گئے.حضور کا کمرہ نمبر ۵۹ فرسٹ کلاس ہے.وینس اور اٹلی کا پہلا شیریں پھل : کل قبل دو پہر جب کہ حضور مع خدام کک کے دفتر میں روپیہ کے واسطے تشریف لے گئے تھے حضور تو کٹک کے دفتر کے اندر چلے گئے اور ہم لوگ باہر چوک میں لوگوں کے تماشا گاہ بنے رہے.انگریزی دان اصحاب نے بعض لوگوں کو جو انگریزی سمجھ سکتے تھے تبلیغ شروع کر دی.خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب جس حلقہ میں کھڑے تھے وہیں ایک نوجوان آن پہنچا.خان صاحب نے اس سے پوچھا کیا تم انگریزی جانتے ہو.اس نے اثبات میں جواب دیا.تب خان صاحب نے اس کے ذریعہ سے لوگوں کو اول تعارف کرایا کہ ہم لوگ کون ہیں.پھر سلسلہ کے حالات بتائے.اور سلسلہ کی شاخوں کا ذکر کیا کہ کہاں کہاں ہیں.وہ نو جوان اوروں کو تو حالات سناتا تھا مگر دل اس کا پکڑا گیا.اس نے خان صاحب سے سوال کیا کہ اٹلی میں بھی آپ کی جماعت کا کوئی آدمی ہے؟ خانصاحب نے کہا کہ اب تک تو نہیں مگر یقین ہے کہ حضرت کا آنا ضرور ایک نہ ایک دن پھل لائے گا.تب بے ساختہ اس نوجوان نے کہا ”تو پھر اٹلی میں میں سب سے پہلا پھل یعنی احمدی ہوں.جس محبت جس اخلاص اور جس جرات سے اس نے یہ الفاظ کہے ان سے خان صاحب کو یقین تھا کہ وہ جو کچھ کہتا ہے دل سے کہہ رہا ہے.اس نے اور حالات سلسلہ سننے کی درخواست کی جو مختصر أخان صاحب نے اس کو سنائے اور کہا کہ میں اب بازار جاتا ہوں آپ دو بجے کے بعد ہوٹل میں آئیں چنانچہ وہ دو بجے کے بعد ہوٹل میں آیا.خان صاحب نے حضرت اقدس سے بھی مصافحہ کرایا اور پھر تبلیغ کرتے رہے.ایک کتاب بھی (احمدیت ) دی اور پھر رات کو آنے کی تاکید کی.اس نے احمدی سلام کا طریق پوچھا جو بتایا گیا کہ ہم لوگ ایک دوسرے کو ملتے وقت اور رخصت ہوتے وقت السلام علیکم کہا کرتے ہیں.تب اس نے جدائی کے وقت انہی
۴۳۱ الفاظ میں سلام کہا اور پھر رات کو آیا.حضور سیر کو تشریف لے جا رہے تھے ساتھ گیا مگر ادب رعب اور محبت کی وجہ سے حضرت اقدس سے تو ہمکلام نہ ہو سکا خان صاحب ہی سے باتیں کرتا رہا اور پھر صبح کو آنے کا وعدہ کیا.کتاب کا بھی کچھ حصہ پڑھا اور صبح کو پھر آن موجود ہوا.خان صاحب کو حضرت اقدس نے پہلے جہاز پر جا کر بعض انتظامات کا ارشاد فرمایا تھا.جب گنڈ ولا میں بیٹھے تو وہ پھر السلام علیکم کہ کر بہت محبت اور پیار سے رخصت ہوا.حرام اور حلال کی تفصیل پوچھی اور کہا کہ میں اب تبلیغ کرنی شروع کر دوں گا کہ مسیح موعود آ گیا مگر خان صاحب کہتے ہیں کہ انہوں نے اسے کہا کہ کتاب کو پہلے اچھی طرح سے پڑھ لو پھر تبلیغ کرنا.اس نے کہا میں نے پڑھ لی ہے.خان صاحب نے کہا ایک مرتبہ اور پڑھو بلکہ پورے تین مرتبہ پڑھ کر تبلیغ شروع کرنا.تب اس نے کہا بہت اچھا اور بہت پیار سے رخصت ہوا.خان صاحب نے تاکید کی کہ جہاز پر آ کر حضرت اقدس کو ضرور ملنا اور رخصت ہوئے.تب پھر اس نے السلام علیکم عرض کیا اور رخصت ہو گیا.خان صاحب کی کشتی چکر کھا کر جاتی تھی.وہ دوڑ کر ایک جگہ کھڑا ہوا جہاں سے وہ کشتی گزرنے والی تھی اور جب کشتی برابر آئی اس نے بآواز بلند السلام علیکم کہا.خان صاحب حیران تھے اور ادھر اُدھر دیکھتے تھے کہ کس نے السلام علیکم کہا ہے.یکا یک جہاز کے ٹیشن پر کنارہ کی طرف نظر پڑی اور دیکھا کہ وہ عزیز کھڑا ہے جس کا نام رینو کیپلیو (Rino Cappellato ) ہے.تب خان صاحب نے اس کو وعلیکم السلام کہا اور پھر وہ رخصت ہو گیا.خان صاحب تو جہاز میں چلے گئے اس کو کسی وجہ سے روک پیدا ہوگئی اور جہاز پر نہ پہنچا.ایک خط مکر می شیخ صاحب مصری کو لکھ کر جب کہ وہ چوک میں حضرت میاں صاحب کے ساتھ فوٹو لے رہے تھے دے گیا.( یہ خط ۲ نومبر ۱۹۲۴ء کا لکھا ہے.) یہ عزیز نو جوان وینیس کے جزیرہ لیڈو میں رہتے ہیں.پہلے ان کے چچا کا دینیس میں ہوٹل تھا اس کے منیجر تھے.آج کل شاید کسی اور کام میں ہیں.وہ ہوٹل ختم ہو چکا ہے.دوست ان کی استقامت اور روحانی ترقی کے لئے دعائیں کریں.جہاز کے اندر پہنچ کر سامان وغیرہ درست کرنے اور کمرے اور جگہ لینے میں قریباً دو گھنٹے خرچ ہو گئے.نمازیں حضور نے ظہر وعصر کی جمع کر کے ہمارے قیامگاہ میں پڑھا ئیں.ہمیں وہی
۴۳۲ قیامگاہ مل گیا ہے جہاں ہم جاتی دفعہ پورٹ سعید سے برنڈ زی تک اسی جہاز میں رہے تھے مگر پہلے نصف حصہ تھا اب کے پورا چبوتر مل گیا ہے اور اور بھی کئی قسم کی سہولت اللہ تعالیٰ نے مہیا کر دی ہے اور وہیں تشریف فرما ہو گئے.مولوی عبد الرحیم صاحب درد سے ان کی نوٹ بک لے کر کچھ دیکھا جہاں حضور نے ہدایات ان کے واسطے لکھی تھیں اور پھر حضور نے کچھ خوشبو مولوی صاحب کو تحفہ دی اور ساتھ ہی وہ حدیث پڑھی جس میں آنحضرت علی اللہ نے خوشبو اور دوسری چیزوں سے پسندیدگی کا ذکر فرمایا ہے.مولوی صاحب اس تحفہ کے حصول پر جس قدر بھی ناز اور فخر کریں ان کا حق ہے.ہم نے بھی مبارک باد کا تحفہ پیش کیا اور بھی بعض ہدایات حضور دیتے رہے.ریویو انگریزی کے متعلق اور بعض دوسرے تبلیغی کاموں کے متعلق اور غروب آفتاب کے بعد حضور نے ایک نظم مولوی صاحب کو دے کر فر مایا کہ پڑھیں چنانچہ مولوی صاحب نے اور ڈاکٹر صاحب دونوں نے مل کر وہ نظم ایک مرتبہ سنائی.پھر حضور نے دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا.یہ نظم حضرت اقدس نے ابھی ابھی کہی ہے.میں بھی ہدیہ ناظرین کرتا ہوں گو خیال ہے کہ وہ ہمارے پہنچنے کے ساتھ ہی یا زیادہ سے زیادہ ایک دن پہلے پہنچے گی مگر میں نہیں چاہتا کہ آپ کو اس لطف میں شریک نہ کروں.(۱) نہیں ممکن کہ میں زندہ رہوں تم سے جدا ہو کر رہوں گا تیرے قدموں میں ہمیشہ خاک پا ہو کر (۲) جو اپنی جان سے بیزار ہو پہلے ہی اے جاناں تمہیں کیا فائدہ ہوگا بھلا اس پر خفا ہو کر (۳) ہمیشہ نفس امارہ کی باگیں تھام کر رکھیو گرا دے گا یہ سرکش ورنہ تجھ کو سیخ پا ہو کر (۴) علاج عاشق مضطر نہیں ہے کوئی دنیا میں اسے ہو گی اگر راحت میتر تو فنا ہو کر (۵) خدا شاہد ہے اس کی راہ میں مرنے کی خواہش میں مرا ہر ذرہ تن جھک رہا ہے التجا ہو کر
۴۳۳ (1) پھر ایسی کچھ نہیں پرواہ دکھ ہو یا کہ راحت ہو رہو دل میں مرے گر عمر بھر تم مدعا ہو کر (۷) مری حالت یہ جاناں رحم آئے گا نہ کیا تم کو اکیلا چھوڑ دو گے مجھ کو کیا گے مجھ کو کیا تم با وفا ہو کر (۸) کہاں ہیں مانی و بہزاد دیکھیں فن احمد کو دکھایا کیسی خوبی مثیل مصطفی ہو کر - حضور نمازوں کے بعد اُٹھ کر تشریف لے گئے اور جہاز میں ادھر ادھر ٹہلتے پھرتے رہے.کبھی اپنے کمرہ کی طرف تشریف لے جاتے کبھی ہمارے چبوترہ کی طرف تشریف لے آتے.مولوی صاحب کو کبھی کوئی دوست کھینچ کر لے جاتا کبھی کوئی.جہاز کی روانگی کا وقت قریب ہونے لگا.حضرت میاں صاحب نے جہاز کے اوپر کے حصہ میں جا کر مولوی صاحب کو اپنے ساتھ کھڑا کر کے ایک فوٹو لیا.جدائی کی گھڑی کٹھن نظر آ رہی تھی جس کا بہت گہرا اثر ہر دل و دماغ پر بحصہ رسدی تھا.سات بجے شام کا وصل ہو گیا.ساڑھے سات کا بھی وصل ہو گیا اور حضور مولوی صاحب کو رخصت کرنے کے لئے سیڑھی کی طرف تشریف لے گئے.سیڑھی ابھی لگی ہوئی تھی.مولوی صاحب ایک ایک کو گلے لگا کر ملتے گئے.دل اداس تھا انہوں نے ضبط کیا گو ہم سے اکثر سے ضبط بھی نہ ہوسکا.جدائی کی گھڑی رخصت کا وقت اپنے دوستوں اور پیاروں کی جدائی نہیں عزیزوں یا رشتہ داروں سے علیحد گی نہیں بلکہ اس مہربان شفیق اور ماں سے زیادہ پیار کرنے والے محسن انسان سے علیحدگی کا وقت دل ہی اس نقشہ کا اندازہ کر سکتے ہیں لفظوں میں نہیں ادا کیا جا سکتا - آخر مولوی صاحب پر بھی رقت طاری ہوئی مگر پھر بھی ضبط کیا.انگریز مرد اور عورتیں اور کئی دیسی جنٹلمین اس رقت آمیز نظارہ کو دیکھتے رہے.جب مولوی صاحب سب سے مل چکے تو حضور نے ان کو گلے لگالیا اور دیر تک چھاتی سے لگائے رکھا.ہونٹ حضور کے ہلنے کی بجائے پھڑ پھڑا رہے تھے اور یہ منظر ہر دل گردہ رکھنے والے پر ایک کپکپی کا عالم طاری کر رہا تھا.حضور نے پہلے تختہ جہاز پر جب کہ تمام دوست جمع ہو گئے مولوی صاحب کو رخصت کرنے کی دعا کی اور بعد میں ان کو دوستوں سے مل لینے کی اجازت دی.حضرت اقدس سے
۴۳۴ معالقہ سے فارغ ہوکر مولوی صاحب نے حضور کی دست بوسی کی اور لمبی کی اور پھر حضور سے اجازت لے کر رخصت ہوئے.ان کا کمبل اور ایک کتاب میرے پاس تھا مگر مجھ سے آگے شیخ صاحب مصری کھڑے تھے.مولوی صاحب نے وہ کمبل لینے کے لئے ہاتھ بڑھایا.حضور نے سمجھا کہ وہ اب پھر کسی سے مصافحہ کرتے ہیں.اس خیال سے حضور نے منع فرمایا اور حکم دیا کہ اب کسی سے مصافحہ نہ کریں.غرض یہ تھی کہ حضرت اقدس کے مصافحہ اور دعا کے بعد پھر کسی اور سے مصافحہ نہ کریں.(سبق) میں نے حضرت اقدس سے اجازت چاہی کہ مولوی صاحب کو نیچے تک جا کر رخصت کر آئیں.حضور نے اجازت دی اور دوسرے بعض دوست بھی نیچے تک جا کر ان کو ارض یورپ پر رخصت کر کے واپس جہاز میں آگئے.مولوی صاحب چاہتے تھے کہ وہ جہاز کی روانگی تک وہیں کھڑے رہیں مگر ہمارے یہ کہنے سے کہ حضور جب رخصت کر چکے ہیں آپ کو ابھی سٹیشن کی طرف چلے جانا چاہئے وہ بختم درد بنے ہوئے رخصت ہو گئے.اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کی کفالت و وکالت اور دلجوئی بھی وہ خود آپ ہی کیا کرے آمین.حضور تختہ جہاز پر اسی جگہ کھڑے رہے جہاں سے مولوی صاحب کو رخصت فرمایا اور دیر تک اس راہ کی طرف دیکھتے ہوئے دعائیں کرتے رہے جدھر کو مولوی صاحب گئے تھے.قریباً پندرہ منٹ بعد وہاں سے ہٹ آئے اور کھانے کے میز پر تشریف لے گئے.کھانے کے بعد حضور پھر ہمارے قیام گاہ پر تشریف لائے اور کچھ دیر تک ٹہلتے پھرتے رہے اور بعض باتیں کرتے رہے.وہ دوست جو سیکنڈ میں ہیں ان سے ہم لوگ ڈیک پسنجر اچھے رہے کیونکہ حضور نماز ہمارے پاس ادا کراتے ہیں بیٹھتے اور مجلس بھی یہاں لگاتے ہیں اور ٹہلنا ہو تو بھی یہیں تشریف لاتے ہیں.فالحمد للہ.ذرہ نوازی ہو تو ایسی.زہے شرف وسعادت.۳ / نومبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز حضور نے خود تشریف لا کر پڑھائی اور کھڑے ہو کر پڑھائی اور نماز کے بعد ٹھہر گئے حتی کہ ناشتہ بھی اسی جگہ تناول فرمایا اور مجلس دو تین گھنٹے تک لگی رہی.قادیان کی یاد اور مختلف دوستوں کے اذکار ہوتے رہے.مختلف اذکار تھے.مقبرہ بہشتی کا بھی ذکر خیر آیا اور کسی قدر لمبا ذکر ہوا.بچوں کی تدفین - باغ مقبرہ کے پھل پھول کی فروخت.ان پھلوں کی چوری کی وارداتوں کی جگر خراش خبریں ان پر حضور کی ناپسندیدگی کا اظہار اور آخر یہ تجویز کہ ارادہ ہے کہ
۴۳۵ دو چار دوست مل کر پھل پھول خرید لیا کریں اور پھر مفت چھوڑ دیا کریں.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی تمام پھل پھول تنہا خرید کر مفت چھوڑ دینے کی خواہش.حضرت اقدس نے ان کو شرکت خریدار ارشاد فرمایا تھا انہوں نے سارے کا سارا خرید لینے کا ارادہ ظاہر کیا وغیرہ وغیرہ اذکا رر ہے.تفصیل نہیں لکھتا.فرمایا بعض اذکار پر کہ نہر پر موڑ کے کنویں پر جہاں ہمیشہ سے دعائیں ہوتی ہیں آرام کے سامان ہونے چاہیں تا کہ مسافر سکھ پائیں.رات آ جائے تو رہ سکیں.پانی کا اچھا اور ستھرا انتظام ہو بلکہ موڑ والے کنوئیں کے متعلق تو بعض خاص باتیں بھی فرما ئیں جن کا اعلان ابھی مناسب نہیں.اس قطعہ کو خرید کر محفوظ کر لینے کی خواہش تھی ) اٹلی کے چند پادری اسی جہاز سے ہندوستان جارہے ہیں ان کا ذکر ہوا.فرمایا وہ ہندوستان کو عیسائی بنانا چاہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا منشا کچھ اور ہی ہے جس سے وہ بے چارے بے خبر ہیں.کھانا حضور میز پر تناول فرماتے ہیں.چار یا پانچ انگریز حضور کے میز پر اور بھی بیٹھے ہیں.پہلے ان جہاز والوں نے حضور کا میزا الگ بچھایا تھا مگر حضور نے اس کو نا پسند فرمایا.تب انہوں نے دوسرے مسافروں کے ساتھ حضور کا میز لگا دیا.ظہر اور عصر کی نمازیں حضور نے جمع کرا کے پڑھا ئیں اور پھر شام تک یہیں تشریف فرما ر ہے کیونکہ نماز کے بعد حضور کو کچھ حرارت سی ہو گئی اور حضور ہمارے چبوترہ پر بیٹھے رہے اور شام اور عشاء کی نمازیں پڑھانے کے بعد شام کے کھانے کے واسطے تشریف لے گئے.اب کی مرتبہ جہاز میں زندہ مرغیاں جہاز والوں سے رکھوالی تھیں.ہم لوگ خود ذبح کرتے ہیں اور حضور کا اور حضور کے خدام سیکنڈ کلاس کا کھانا الگ باورچی خالص مکھن سے تیار کرتا ہے اور بہت احتیاط سے کام ہوتا ہے.پہلی مرتبہ ان باتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے سخت تکلیف ہوتی تھی.سوائے گوبھی اور گھاس کے پتوں کے اور کچھ نہ کھاتے تھے یا آلو تھے اور بس.حضور کھانے کے بعد پھر تشریف لائے اور ایک گھنٹہ کے قریب ڈیک پر ٹہلتے پھرتے رہے.سمندر صاف ہے تموج بالکل نہیں.نہایت امن اور اطمینان سے جہاز جا رہا ہے.چاند کی
۴۳۶ روشنی ان دنوں سمندر میں کیا بھلی معلوم دیتی ہیں.سب دوست اللہ کے فضل سے اچھے ہیں.عملہ جہاز بھی پہلا قریباً قریبا بدل چکا ہے.نئے لوگ ہیں اصلی کپتان جہاز کا جو رخصت پر گیا ہوا تھا اب آگیا ہے.اچھا آدمی ہے.دوسرے ماتحت ملازم بھی اچھے ہیں اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب کے ہم لوگوں کو ہر طرح کا آرام اور سہولت میسر ہے.موسم بھی چنداں سرد نہیں ہندوستان کا اکتو بر معلوم ہوتا ہے.۴ / نومبر ۱۹۲۴ء : علی الصباح ۴ بجے سے بھی پہلے جہاز نے وسل شروع کئے.ایک دو تین چار پانچ چھٹی کہ تیرہ تک میں نے گنے اور پھر چھوڑ دیئے.پہلے اندیشہ ہوا کہ کوئی خطرہ ہے ورنہ اس قدر لگا تار وسلوں کی کیا ضرورت مگر جہاز والوں میں کوئی گھبراہٹ تھی نہ فکر اندیشہ اس وجہ سے سمجھے کہ برنڈ زی قریب ہے اور جہاز لائن کلیئر مانگتا ہے چنانچہ یہی بات نکلی.آج گہر بہت زیادہ ہے اور دھواں دھار ہونے کی وجہ سے چند قدم کی چیز بھی نظر نہیں آتی اسی وجہ سے غالباً جہاز نے اتنے وسل کئے اور پورٹ میں اطلاع دی کہ مبادا کوئی دوسرا جہاز آ کر ٹکرا جائے -۴ بجے سے ۸ بجے کے بعد تک جہاز پورٹ سے باہر کھڑا رہا.آخر آٹھ بجے کے بعد پائلٹ آیا اور جہاز کو پورٹ میں لے کر گیا.جہاز کنارے لگا اور اسی مقام پر ٹھہرا جہاں پہلی مرتبہ حضور کو انگلستان جاتے ہوئے اُتارا تھا.حضور نے دوستوں کو جمع ہونے کا حکم دیا اور بالکل اسی جگہ کھڑے ہوکر دعا کی جہاں پہلی مرتبہ بیٹھ کر کی تھی.لمبی دعاؤں کے بعد حضور نے خدام کو نیچے اُترنے کی اجازت دی اور خود بھی برنڈ زی کے بازار میں تشریف لے گئے جہاں جاتے ہوئے حضرت میاں صاحب نے چلتے چلتے فوٹو بھی لے لیا.جہاز سے حضورا بھی اُترے نہ تھے کہ قادیان کا تار ملا جس میں مکرم حضرت مولانا مولوی میر محمد سعید صاحب حیدر آباد دکن اور برا در مسٹر لائی صاحب سیلون کی وفات کا ذکر تھا.انا للہ و انا اليه راجعون - اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کو غریق رحمت کرے اور جنت نصیب فرمائے آمین ثم آمین.ٹھیک سو بارہ بجے جہاز برنڈزی سے پورٹ سعید کو روانہ ہو گیا.حضور کو کھانسی اور کسی قدر حرارت کی تکلیف تھی مگر پھر بھی صبح ، ظہر و عصر اور شام و عشاء پانچوں نماز میں حضور نے باہر ہی آکر پڑھائیں اور خدام کی مجلس میں تشریف فرما بھی رہے.شام کے کھانے کے بعد حضور نے چند ہندوستانی جنٹل مینوں کو سلسلہ کے حالات کھول کر سنائے جس کے لئے وہ کل سے حضور کی خدمت
۴۳۷ میں درخواست کر رہے تھے.ان لوگوں میں سے بعض پر پورا اور گہرا اثر ہوا.مثال کے طور پر حضور کی گفتگو میں سے ایک فقرہ عرض کرتا ہوں.ان میں سے ایک نے کچھ اعتراض کیا اور کہا کہ آپ لوگوں کی ترقی کوئی غیر معمولی ترقی نہیں ہے اور بھی کئی لوگ ایسے دنیا میں موجود ہیں جن کو ایسی یا اس سے بھی زیادہ کامیابی اور ترقی ملی ہے.اس پر حضور اس کو جواب دینے کے لئے بولنے ہی کو تھے کہ ایک صاحب نے عرض کیا حضور تکلیف نہ فرمائیں اس کا میں ہی جواب دوں گا اور جواب دیا جو ہمیشہ حضور اپنی گفتگو میں ایسے سوالات کا دیا کرتے ہیں کہ تم کوئی ایسی جماعت یا سلسلہ یا شخصیت پیش کرو جس نے زمانہ کی رفتار کے خلاف آواز اُٹھائی ہو اور اس کو اس طرح کامیابی ہوئی ہو جو سلسلہ احمدیہ کو زمانہ کی رو اور رفتار کے خلاف تحریک کر کے ہوئی ہے؟ جن لوگوں یا سلسلوں کا آپ نے نام لیا ہے وہ سارے کے سارے وہی بات کہتے ہیں جو یورپ آج کل دنیا میں پھیلا رہا ہے.یورپ کے تمدن کے سامنے سر جھکانا اور اس کی رو میں بہتے جانا پھر دعویٰ کرنا کہ ہم کامیاب ہو گئے.ہم نے جماعت پیدا کر لی وغیرہ وغیرہ.یہ جواب ان لوگوں میں سے ایک صاحب نے فوری دیا جس سے معترض ساکت ہو گیا اور حضور خوش ہوئے اور اس شخص کی ذکاوت اور عقلمندی اور فراست و فہم کی حضور نے تعریف فرمائی.اس جہاز میں بڑے بڑے لوگ سفر کر رہے ہیں.بعض تجار ہیں ایک کلکتہ کا تاجر ہے.حضور نے اس کو بھی تبلیغ کی اور وہ بہت محبت سے پیش آتا ہے اور لٹریچر مطالعہ کر رہا ہے.بعض کو حضور خود تبلیغ فرماتے ہیں اور باقی لوگوں کو سمجھانے کے لئے حضور نے سیکنڈ کلاس دوستوں کو حکم دیا ہے کہ ان سب کو الگ الگ ملیں اور سمجھدار لوگوں کو تقسیم کر کے تبلیغ کرتے رہیں.لٹریچر پڑھنے کو دیں چنانچہ جہاز میں بھی سلسلہ تبلیغ خدا کے فضل سے جاری ہے اور اس طرح سے سفر نہایت اچھی طرح کامیابی سے طے ہوتا جا رہا ہے.اب ہماری نماز کا رخ جنوب مشرق کی طرف ہے اور سب نمازیں کھڑے ہو کر ادا کی جاتی ہیں.سمند رسا کن ہے ورنہ یہ نعمت جہاز کے سفر میں کہاں میسر تھی.۵ / نومبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز حضور نے خود پڑھائی.گو حرارت رہی مگر نماز میں تشریف لے
۴۳۸ آئے.نماز کے بعد بیٹھ گئے.تھرما میٹر لگایا تو معلوم ہوا کوئی ایک ڈگری کے قریب حرارت ہے.ڈاکٹر صاحب نے دوائی دی اور حضور تھوڑی دیر تک تشریف رکھ کر اپنے کمرہ میں چلے گئے یا اوپر ٹہلتے رہے.ظہر وعصر کی نماز کے لئے حضور کا بہت انتظار کیا گیا کمرہ کے اندر تھے مگر جواب نہ آیا جس سے اندازہ کیا گیا کہ حضور حرارت کی وجہ سے تکلیف میں تھے اب سو گئے ہیں چنانچہ نمازیں حافظ صاحب نے پڑھا دیں.نماز پڑھ کر ہم لوگ فارغ ہوئے ہی تھے کہ حضور بھی تشریف لے آئے مگر یہ معلوم کر کے کہ ہم لوگ نماز پڑھ چکے ہیں حضور اپنے کمرے میں واپس تشریف لے گئے اور پھر شام اور عشاء کی نمازوں کے واسطے تشریف لائے اور دونوں نمازیں حضور نے جمع کر کے پڑھائیں اور نماز کے بعد کھانا کھانے تشریف لے گئے.کھانے کے بعد پھر حضور تشریف لائے اور دیر تک ٹہلتے اور باتیں کرتے رہے.باتوں میں زیادہ تر حصہ پورٹ سعید سے تار کے مضمون کے متعلق تھا.حضور کو خیال تھا بلکہ فرمایا بھی تھا کہ حضرت مسیح موعود کا ایک الہام دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ ( الفاظ ٹھیک یاد نہیں ) شاید ہمارے اس سفر کے متعلق ہو.لہذا اگر ہمارا جہاز ۱۷ نومبر کو بمبئی پہنچے جو اس کے پہنچنے کی مقررہ تاریخ ہے تو اس طرح سے سر زمین ہند پر پہنچنے کا دن بھی دوشنبہ ہوگا اور یہ خدا کا کام ہے کہ ہمارے ارادہ اور خواہش کے بغیر ہی ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ دوشنبہ کے دن ہم لوگ پہنچیں گے مگر بعد میں جہاز کے راستہ میں لیٹ ہو جانے اور رفتار کی کمی سے اندیشہ ہوا کہ شاید بجائے ۱۷؎ کے ۱۸ کو بمبئی پہنچے تو ایک دوسری صورت بھی الہام کے پورا ہونے کی ہوسکتی ہے اور وہ یہ کہ قادیان ۲۴ کے دن پہنچیں گے جو کہ دوشنبہ کا دن ہو گا.یہ تجویز ہمارے علمائے کرام کی طرف سے پیش کی گئی اور کسی قدر زور بھی دیا گیا مگر حضور نے ابھی تک ان امور کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں دیا.ابھی تک غالب رائے یہی ہے کہ ۱۹/ کو سوار ہو کر ۲۱ کی صبح کو قادیان پہنچیں.گوحضور کا یہ خیال کہ جمعہ قادیان میں ادا کیا جائے ۷ار اور ۱۸؎ کے جھگڑے کی وجہ سے بدل گیا ہے کیونکہ اگر ۷ار کو جہاز کا پہنچنا یقینی ہوتا تو ۱۸ رکو روانہ ہو کر ۲۰ کی شام بٹالہ ۲۱ کی صبح قادیان اور نما ز جمعہ وہیں پڑھانا منظور تھا مگر ۲۴ کو پہنچنے کی تجویز ابھی تک حضور نے منظور نہیں فرمائی غور ہو رہا ہے غالباً پورٹ سعید پہنچ کر وہاں کی ڈاک ہند دیکھنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ ہوگا.ایک بات آج حضور کے خدام میں سے خادم خاص چو ہدری علی محمد صاحب کے متعلق
۴۳۹ قابل ذکر ہے.نہ صرف اس لئے کہ ایک واقعہ کو بیان کروں بلکہ اس لئے بھی کہ ان کے واسطے دعا کی جاوے.حضور کے تشریف لے جانے کے بعد صبح کو وہ بہت خوش خوش اِ دھر اُدھر ٹہلتے تھے.طبیعت میں غیر معمولی جوش تھا.چبوترہ سے اُترے اور پورے جوش میں قادیان کے میدان کرکٹ کی یاد میں ایک اور ہینڈ بال کے لئے ہاتھوں کو چکر دیا.فرش جہاز بھی ابھی دھویا جا چکا تھا اور ابھی خشک نہ ہوا تھا.گیلا اور پھسلنا تھا.ایک جوان آدمی پورے زور اور خوشی کی امنگ میں اور ہینڈ بال دینے کو زور سے ہاتھوں کو گھمائے ایک مشین اور شاید کئی گھوڑوں کا زور پیدا ہو جاتا ہے.جو نہی انہوں نے ہاتھ گھمایا نیچے سے دونوں پاؤں اُکھڑ گئے اور وہ دھڑام سے زمین پر چھاتی کے بل آن پڑے.گرنے کا دھما کہ ایک چھت کے گر جانے سے کم نہ تھا.میں ان کے قریب ہی کھڑا تھا مگر میرا منہ دوسری طرف تھا.ان کو حرکت کرتے یا گرتے نہ دیکھا بلکہ دھما کا سن کر لوٹا تو وہ لکڑی کے فرش پر تڑپتے تھے.فوراً اُٹھانے کی کوشش کی مگر ڈاکٹر صاحب ( جنہوں نے ان کو گرتے دیکھا تھا اور دوڑ کر آگئے تھے ) نے اُٹھانے سے روک دیا.ان کا دم اُلٹ گیا.سانس رُک گیا.چہرہ زرد پڑ گیا.نبض چھٹ گئی اور دل کی حرکت میں بھی لغزش پیدا ہوگئی جس سے بے حد ضعف ہو گیا.فوراً مقوی دل ڈبل ڈوز دیا گیا.اُٹھا کر تھام تھما کر چبوترہ اور گدیلوں پر ڈالا گیا اور بدن کو گرم کرنے کی کوشش کی گئی مگر جوں جوں چوٹ کا مقام ٹھنڈا ہوتا گیا درد اور تکلیف زیادہ ہوتے گئے اور ڈاکٹر صاحب کو بھی اندیشہ ہو گیا کہ مبادا کوئی خطرہ کی صورت پیدا ہو جائے.بہت دیر بعد بہت کوشش اور محنت سے آخر ان کی طبیعت ایسے انداز پر آئی کہ ڈاکٹر صاحب نے تسلی دلائی کہ اب خطرہ سے نکل گئے ہیں اور روبصحت ہیں مگر وہ دن بھر اور رات کو بھی دردوں سے چکنا چور رہے.چوٹ جگر کی طرف کے حصہ پر آئی ہے اور ایسی شدید آئی کہ چھاتی پر نیل پڑ گئے.خون جمع ہو کر ورم ہو گیا اور ہاتھ لگانا تو در کنار کپڑے کی بھی برداشت نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ رحم کرے انسان کیسا کمزور ہے ایک دم کی خبر نہیں.ابھی کیا تھا اور ابھی کیا ہو گیا - صدق الله تعالى اذقال لا تموتن الا و انتم مسلمون - انسان غفلت میں پڑ کر بڑی لمبی اُمید میں اور وسیع پروگرام بنا تا رہتا ہے.
۴۴۰ کاش وہ مقام انسان کو حاصل ہو جس سے موت ہر وقت سامنے رہے اور غفلت قریب نہ پھڑ کنے پائے اور بندہ ہر وقت ہی پکا اور سچا فرمانبردار رہے.ان کی صحت کے لئے دعا کی جائے.خدانخواستہ یہی چوٹ اگر دل کی جانب آتی تو شاید فرش سے اٹھانا بھی کسی اور ہی رنگ کا ہو جا تا.اللہ تعالیٰ نے رحم کیا حضور کی خدمت کے طفیل بچالیا.۶ نومبر ۱۹۲۴ء : حضور صبح کی نماز میں تشریف نہ لا سکے.۱۰ بجے کے بعد تشریف لائے اور دیر تک بیٹھے رہے.پیغامی فتنہ کے ابتدائی حالات، خلافت ثانیہ کے مشکلات تغیرات اور تدریجی ترقیات اور فضل الہی اور تائیدات کا ذکر ہوتا رہا.مختلف جماعتوں کے سابقون اور افراد کی ایمانی قوت اور بصیرت کا بھی ذکر رہا.خصوصاً سیالکوٹ کی جماعت کے بعض احباب کی قوت فیصلہ اور سبقت ، ہمت اور جرأت کا ذکر ہوتا رہا اور حضور نے تعریف سے ان بزرگوں کا نام یا د فرمایا.مبارک ہو ان بزرگوں کو نام ان کے خدا کی کتاب میں محفوظ ہیں اور مراتب بھی ان کے اسی کے علم میں.خدا راضی ہو.رات کو بخار تھا ٹیکا کیا گیا.ناشتہ بھی حضور نے اسی جگہ کیا.( ڈائری کے متعلق ایک خاص حکم دیا جس کی تعمیل کی جاچکی ہے ) فرمایا ہمیں بھی ایسے نقشہ جات تیار کرنے چاہئیں جن میں اسلامی قوت وشوکت، حکومت واقتدار اور عروج و زوال کے حالات دکھائے جائیں تا کہ ہماری آئندہ نسلوں کو ان کے دیکھنے سے تحریک ہوتی رہے اور ماضی و مستقبل کا نظارہ ان کے سامنے ہو کر ان میں جوش ، غیرت ، حمیت اور عزم پیدا کرے.اسلاف کے کارنامے بزرگوں کی فتوحات ، قرون اولیٰ کی سطوت و جبروت کو دیکھیں اور موجودہ ذلت و ادبار، کمزوری اور زوال کے حالات کو دیکھ کر متاثر ہوں اور عبرت پکڑیں.ایک وقت وہ تھا کہ یورپ تک میں اسلامی فتوحات کا ڈنکا بجتا تھا اور اب ایک وقت ہے کہ کوئی بھی حکومت مسلمانوں کی باقی نہیں جو حکومت کہلانے کی مستحق ہو وغیرہ وغیرہ.فرمایا کہ علما کو انتظامی کاموں میں نہ لگانا چاہئے.ضرورتا لگایا جاتا ہے تو وہ اصل کام کو چھوڑ کر اسی میں ایسے منہمک ہو جاتے ہیں کہ پھر اس کام سے نکلنا پسند نہیں کرتے.علما کو ان کے علمی مشاغل ہی میں مصروف رکھنا بہتر ہے تاکہ نئے نئے علمی حقائق دریافت کرتے رہیں اور اپنے علوم میں ترقی کرتے رہیں وغیرہ.
۴۴۱ فرما یا رات ایک منذر دیا دیکھی ہے.( دیکھا کہ اوپر کے جبڑے کا دائیں طرف کا دانت ہلتا ہے اللہ کریم فضل کریں اور ساتھ بھی آگے اور پیچھے بھی ہر جگہ عافیت رکھے.قادیان سے منجھلے گھر کی بیماری کی خبریں آتی ہیں.فرمایا نہ معلوم بیماری یا اس کی تفصیل کیوں نہیں لکھتے.اتنا عرصہ بیماری کو ہو گیا ہے جو فکر کی بات ہے.خدام سے ایک ایک کر کے سب سے پوچھا کہ کسی کو قادیان کے متعلق کوئی خواب آئی ہو.خواب یاد ہو یا نہ کسی نے اتنا ہی دیکھا ہو کہ قادیان دیکھا ہے مگر سوائے دو یا تین کے کسی نے کچھ بھی نہ بتایا.فرمایا خواب بھی دو قسم کے ہیں.ایک طبعی دوسرے الہی.مجھے طبعی خواب یاد نہیں کہ کبھی آیا ہوتی کہ میں نے بار ہا تجربہ کیا ہے کہ استخارہ کے بعد مجھے کبھی خواب نہیں آیا حالانکہ بعض اوقات خواہش بھی ہوتی ہے مگر نہیں آتی البتہ استخارہ کے کئی روز بعد جب اس کا خیال بھی نہ رہے خواب آ جاتے ہیں.خلافت کے وقت بھی میں نے بہت کوشش کی مگر کوئی خواب نہ آئی.کئی دن بعد الہام الہی ہوا - قل ما يعبؤ بكم ربي لولادعائكم - غرض يه فضل الہی کی بات ہے کہ مجھ سے خدا کا ایسا معاملہ ہے تا الہی اور رحمانی خواب کی علامت ہو.زمانہ خلافت ثانیہ کے ایام ابتدائی کی خوابوں کا ذکر ہوتا رہا کہ ان دنوں میں کیسا انتشار روحانیت اور فیضان الہی کے نزول کا زمانہ تھا اگر اس وقت کی رؤیا لکھی اور جمع کی جاتیں تو شاید سینکٹروں صفحات کی کتاب بن جاتی چنانچہ بعض خوابوں کا ذکر بھی فرمایا.حتی کہ بعض غیر احمدیوں کی خوابوں کا بھی تذکرہ فرمایا اور پروفیسر عطاء الرحمن صاحب کی رؤیا کو یا دفرما کر دہرایا جس میں یہ فقرہ تھا کہ ” بادشاہی را نہ شاید پیلتن اور فرمایا کہ کیا کیا عجائبات ہیں ان خوابوں میں اور کیسے کیسے علوم بھرے ہوئے ہیں اور کیوں کر ہدایات ورہنمائی درا ہبری کا ذریعہ ہوئی تھیں وہ خواہیں وغیرہ وغیرہ.فرمایا مجھے یاد نہیں کہ میری زندگی میں کوئی اہم تغیر ہونے والا ہو یا کوئی واقعہ عظیم آ نے والا ہو اور اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے آنے سے پیشتر خواب یا الہام کے ذریعہ سے مطلع نہ کر دیا ہو.بہائی فتنہ آیا اور بہت زور سے آیا حتی کہ خود قادیان سے بعض لوگ گھبرا اُٹھے اور ان پر گھبراہٹ اور پریشانی کے اثرات ظاہر ہونے لگے مگر میں حیران تھا کہ اس کے متعلق مجھے کوئی خواب
نہیں ہوا.۴۴۲ مگر اب چند روز ہوئے ہیں کہ مجھے اپنا ایک پرانا رؤیا یا د آیا جو اسی فتنہ کے متعلق تھا اور میں اس کو پہلے جب یہ رویا ہوا تھا سنا بھی چکا ہوں.( خواب کے الفاظ میں پوری طرح نہیں پکڑ سکا خلاصہ مضمون درج کرتا ہوں.قادیانی ) فرمایا.میں نے دیکھا کہ ایک شور مچا ( البیت) کی چھت پر سورج اندھیرا ہوتا جاتا ہے حتی کہ بالکل اندھیرا ہو گیا.لوگ گھبرائے پھرتے ہیں اور شور مچاتے ہیں کہ قیامت آ گئی.حضرت اماں جان بھی گھبرائے ہوئے ہیں اور خصوصیت سے جس آدمی کو میں نے دیکھا وہ ہمارے شیخ عبدالرحیم صاحب ہیں.( بھائی عبد الرحیم صاحب) جو نہایت بے تابی سے سر مارتے پھرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قیامت آ گئی.اندھیرا بڑھتے بڑھتے یہاں تک بڑھا کہ باوجود یکہ عصر کا وقت تھا مگر آسمان پرستارے نظر آنے لگے.گھبراہٹ گو مجھے بھی تھی مگر میں لوگوں کو تسلی دیتا تھا کہ نہیں قیامت ہرگز نہیں آئی کیونکہ ابھی اس کے آثار نہیں ظاہر ہوئے.کوئی مصیبت کوئی مشکل ضرور ہے مگر قیامت ہرگز نہیں.میں بہت سمجھاتا ہوں مگر لوگ گھبراہٹ میں ایسے بے خود ہیں کہ ان کی سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ میں کہتا کیا ہوں.آخر (البيت) کے چھوٹے حصہ میں چلا گیا اور دعا شروع کی.میرے دعا کرتے کرتے اُجالا شروع ہوا اندھیرا کم ہوتا گیا.تب میں نے زور سے پکارا اور لوگوں کو کہا کہ دیکھو میں نہیں کہتا تھا کہ قیامت نہیں ہے.( خلاصہ ) فرما یا پیغا می فتنہ بھی بہت بڑا فتنہ تھا مگر اس فتنہ بہائیہ کا کچھ عجیب ہی رنگ تھا کہ ہمارے بڑے بڑے لوگ بھی بعض حیران تھے کہ ہو کیا گیا.وہ اپنے آپ کو تو محفوظ سمجھتے تھے مگر ان کا خیال تھا کہ شاید ان کے سوا دوسرا کوئی بھی اس کے اثر سے محفوظ نہ ہو گا.پیغا می فتنہ میں بھی گھبراہٹ تھی مگر ان دنوں کام کا چونکہ زور تھا.مصیبت کے ساتھ محنت بھی تھی اس وجہ سے اس کا اثر ایسا نہ معلوم ہوا تھا وغیرہ وغیرہ.پورٹ سعید کل دو پہر کو پہنچیں گے انشاء اللہ تعالیٰ.وہاں چونکہ حضرت میاں صاحب نے اُترنا ہے لہذا آج رات کو نمازوں کے بعد دوستوں نے مشورہ کیا ہے کہ تھوڑی دیر تک جہاز کی بالائی منزل پر سیکنڈ کلاس کے اوپر سے بھی اوپر بیٹھ کر جہاں کل رات بھی بعض دوستوں نے اشعار وغیرہ
۴۴۳ پڑھے پڑھائے تھے آج بھی ایک جلسہ کریں.ظہر و عصر کی نمازیں حضور نے خود ہی پڑھائیں اور کھانے کو تشریف لے گئے.حضور کے کھانے سے واپس آنے سے پہلے ہی پہلے سیکنڈ کلاس کے دوست کھانے سے فارغ ہو چکے اور انہوں نے تمام دوستوں کو اوپر بلوالیا اور مجلس مشاعرہ قائم ہوگئی.نظم خوان دوستوں نے نظمیں پڑھیں اور تقاضا ہورہا تھا کہ سبھی دوست کچھ نہ کچھ سنا ئیں کہ اتنے میں حضور بھی اوپر ہی تشریف لے آئے اور پھر مجلس با قاعدہ لگی اور سب کو باری باری کچھ نہ کچھ سنانا پڑاھتی کہ حضرت نے بھی فرمایا کہ میں بھی سناؤں گا مگر شرط یہ ہے کہ میرے قریب قریب ایک فٹ کے دائرہ میں آ جائے جس نے سننا ہو.سب نے سنایا اور بعض دوست چھپے رستم نکلے.حضور نے ان کے لہجہ اور آواز کو پسند فرمایا.میرے لئے یہ پیالہ سخت مشکل تھا.میں نے بھاگ کر جان چھڑانے کی کوشش کی مگر حضرت اقدس نے دیکھ کر پکارا کہ پکڑو پکڑو بھائی جی بھاگے.خیر میں پکڑا گیا اور سنانا پڑا.ساری مجلس کا پہلا لطف میں نے بدمزگی اور بے لطفی سے بدل دیا کیونکہ سب سے بھڑی پھوٹے ڈھول کی سی میری آواز تھی.میرے بعد حضرت اقدس نے خود چند اشعار غالب ”اے تازہ واردان بساط ہوائے دل کے سنائے اور ایسے لہجے میں پڑھے کہ دل سے درد اُٹھتا تھا.دوست سب قریب قریب جمع تھے ایک گھنٹہ یا اس کے قریب قریب یہ مجلس رہی.اس کے بعد حضور وہاں سے اتر کر ہمارے چبوترہ پر تشریف لائے اور کوئی آدھ گھنٹہ تک تشریف فرما ر ہے.چوہدری علی محمد صاحب کو آفاقہ ہے.۷/ نومبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز میں حضور یوں تشریف نہ لا سکے کہ مؤذن نے حضور کو اطلاع دی اور آہستہ آہستہ دروازہ کھٹکھٹایا کیونکہ حضرت اقدس نے حکم دے رکھا ہے کہ دروازہ ایسی طرح نہ کھٹکھٹایا جایا کرے کہ پڑوسی لوگوں کو تکلیف ہو کیونکہ وہی وقت ان بے چاروں کے سونے کا ہوتا ہے اور زور سے کھٹکھٹانے سے ان کی نیند خراب ہوتی ہے.ایک مرتبہ پھر دوبارہ بھی مؤذن صاحب گئے مگر حضور نہ بولے.آخر نماز پڑھالی گئی مگر جو نہی کہ سلام پھیر کر بیٹھے حضور تشریف لے آئے اور جماعت ہو چکی دیکھ کر مصلی لے کر اپنے کمرہ
۴۴۴ میں تشریف لے گئے اور پھر دیر بعد واپس چبوترہ پر تشریف لائے.ناشتہ فرمایا اور چونکہ آج حضرت میاں صاحب اُترنے والے ہیں اس وجہ سے غالبا ان کے لئے کچھ ہدایات لکھ رہے ہیں مگر حضور نے کئی ایک الگ الگ لفافے لکھے ہیں نہ معلوم کیا ہے.بہر حال وہ ہیں میاں صاحب ہی کے لئے.تختہ جہاز پر نوٹس لگ گیا ہے کہ پورٹ سعید ڈیڑھ بجے پہنچے گا.بعض جہاز قرب ارض مصر کی وجہ سے آتے جاتے نظر آتے ہیں کہیں کہیں خشکی اور چٹانیں بھی دکھائی دینی شروع ہوئی ہیں.دو پہر کے کھانے کی گھنٹی ذرا سویرے بجائی گئی ہے.ہم لوگ بھی آج اس خیال سے کہ پورٹ سعید اُترنا ہوگا کھانے سے ذرا جلدی ہی فارغ ہو چکے ہیں.جمعہ کا دن بھی ہے مگر جمعہ تو پڑھا نہیں جائے گا.ایک دقت اور آن پڑی ہے.ہما را چبوترہ جو ایک ہولڈ کے اوپر ہے اس میں سے بعض سامان نکال کر جہاز والے پورٹ سعید اُتاریں گے اس کے لئے ہمیں بھی اپنا تمام سامان اٹھانا اور پھر دوبارہ لگانا پڑے گا.پورٹ سعید آ گیا.کشتیاں اور موٹر لانچ ساتھ ساتھ دوڑ رہے ہیں.کنگ کا بھی ایک موٹر لانچ آیا ہے اس میں ہماری ہندوستانی ڈاک کے بنڈل رکھے نظر آتے ہیں.لگ والوں سے پوچھا گیا.ٹھیک نکلا ہمارا خیال کہ وہ ڈاک سیدنا حضرت فضل عمر ہی کی ہے.جہاز ٹھہرے گا تب ملے گی اور اس طرح دار الامان کی خبریں اور حالات معلوم ہوں گے.خدا تعالیٰ خیر کی خبر سنائے.جہاز ٹھہر گیا ہے.ڈاک او پر آ گئی ہے.مجھے اور بعض دوستوں کو الگ الگ بذریعہ ڈاک آنے والے خطوط مل گئے ہیں.حضور کی ڈاک ابھی خان صاحب کے پاس ہے وہ لے کر حضور کے کمرہ میں گئے ہیں مگر حضرت ہمارے ساتھ ہیں.حضور کی ڈاک بھی آگئی ہے مگر شیخ محمود احمد صاحب نظر نہیں آتے.حضور نے ڈاک میں سے پہلے تاریں نکالی ہیں پانچ یا چھ تار ہیں.(1) شیخ محمود احمد کا تارہے کہ ٹرین سے رہ گیا اب سویز ملوں گا انشاء اللہ تعالیٰ.(۲) مولوی عبدالرحیم صاحب درد کا تار ہے کہ لنڈن پہنچ گیا ہوں اور احکام کی تعمیل مطابق
ہدایات کر رہا ہوں.۴۴۵ (۳) قادیان کا ایک تار حضرت کے گھر کی بیماری کے متعلق ہے.دوسرا حضرت مفتی صاحب کے بمبئی آنے کے متعلق ہے اور ایک تار نواب عبدالرحیم خان صاحب خالد کا لنڈن سے بعض پرائیویٹ معاملات کے متعلق ہے.شیخ محمود احمد صاحب کا تار پڑھ کر حضور نے فرمایا کہ میاں صاحب کو روک لیا جاوے وہ یہاں نہ اتریں بلکہ سویز ہی چل کر اُتریں.ٹکٹ دوسرا لے لیا جاوے چنا نچہ حکم کی تعمیل کی گئی اور اس طرح سے ایک دن رات اور حضرت میاں صاحب کی صحبت کا ہمیں موقع مل گیا.حضور نے ڈاک میں سے کچھ حصہ ساتھ لے لیا اور پورٹ سعید اُترے.حکم دیا کہ وضو کر لیا جاوے تا کہ نماز شہر کی کسی بیت الذکر میں ادا کر سکیں.اول حضور نے بعض خطوط جولنڈن کو لکھے تھے.(لنڈن کے بعض نومسلموں سے حضور نے سلسلہ خط و کتابت جاری رکھنے کا حکم دیا.بعض کو خو دلکھا اور بعض کو دوسرے دوستوں سے خطوط لکھوائے ) وہ پوسٹ کرنے کی غرض سے ڈاک خانہ کو تشریف لے گئے.راستہ میں ایک آدمی سے ڈاک خانہ کا راستہ پوچھ بیٹھے جو گلے کا ہار ہی بن گیا اور گائیڈ ہوکر ساتھ ہولیا - پوسٹ آفس پہنچتے پہنچتے حضور نے قادیان کی ڈاک سے ایک خط پڑھ کر فر مایا ” بھلا ان لوگوں کا کون مقابلہ کر سکتا ہے.بات یہ تھی کہ خط میں خواجہ کمال الدین صاحب کے کسی اعلان کا ذکر تھا جو اس نے اپنے مضمون متعلقہ کا نفرنس کی کامیابی کے متعلق شائع کیا ہے اور لکھا ہے کہ گویا اس کے مضمون کے بعد پریذیڈنٹ نے اعلان کیا کہ بس ثابت ہو گیا کہ زندہ مذہب اسلام ہے خواجہ صاحب کا مضمون جو تھا وہ خود بھی جانتے ہیں.وہ چونکہ ( دینِ حق ) کی طرف منسوب کیا گیا تھا اس وجہ سے اس کے متعلق ہم نے کوئی بات نہ لکھی تھی ورنہ اس پر ایسے ایسے ریمارکس لوگوں نے کئے کہ اگر خواجہ صاحب خود ہوتے تو سن کر نادم ہوتے.اسی وجہ سے تو وہ خود پڑھنے نہ آئے تھے.جور بیمارکس پریذیڈنٹ نے یا دوسرے اخبار نے سید نا حضرت خلیفۃ المسیح کے مضمون کے متعلق کئے ان کو لے کر اپنے مضمون کی طرف منسوب کر کے لوگوں کے جیب خالی کرانے کا اچھا ڈھنگ نکالا گیا ہے.الامان الحفیظ - حضور نے فوراً ایک خط اس کی حقیقت کو کھولنے کیلئے لنڈن مولوی
۴۴۶ عبد الرحیم صاحب درد کولکھوایا کہ وہ ۲۴/ اور ۲۵ کا اخبار مانچسٹر گارڈین فوراً دفتر اخبار سے خرید کر قادیان حضور کی خدمت میں بھیج دیں جس کے ریمارکس سے خواجہ صاحب کے اس حیلہ کی بھی قلعی کھل جائے گی.اخبار پہلے قادیان بھیجا بھی گیا تھا مگر نہ معلوم کیوں اس کا خلاصہ یا اس کے نوٹ کو الفضل میں شائع نہیں کیا گیا.بہر حال اب پھر حضور نے وہ اخبارات منگائے ہیں.ڈاک خانہ سے فارغ ہو کر نماز کے واسطے ایک ( بیت الذکر ) کو آئے مگر وہاں نماز جمعہ ہو رہی تھی اس وجہ سے واپس آگئے اور پھر کسی دوسری چھوٹی سی ( بیت الذکر ) میں جا کر نماز ادا کی جس میں بمشکل ہم لوگ پورے آ سکے.اگر سارے کے سارے ہوتے تو شاید اس میں اتنی بھی گنجائش نہ ہوتی.چھوٹی سی نامعلوم سی شکل کی سر بازار ایک سگریٹ والے کی دوکان کے ساتھ ( بیت الذکر ) ہے.ظاہری علامت ( بیت الذکر ) کی کوئی معلوم نہیں دیتی البتہ صرف ایک لفظ مصلی باہر کے دروازہ پر لکھا ہوا ہے.سمندر کے کنارے ایک بڑے بازار کے ایک طرف کو ایک کو چہ میں واقع ہے.حضور نے اس میں نمازیں جمع کر کے پڑھا ئیں اور وہیں بیٹھ کر ڈاک ملاحظہ فرماتے رہے.بعض کتب کی خرید کے لئے مکر می شیخ صاحب مصری کو بھیجا اور مجھے بھی بعض ضروریات خرید لانے کا حکم دیا چنانچہ حضور ا بھی وہیں بیٹھے تھے کہ ہم لوگ خرید سامان سے فارغ ہو کر واپس حاضر ہو گئے.حضور بھی وقت چونکہ تنگ تھا اُٹھے اور ایک ہوٹل میں پانی ( لیمن ایڈ ) پی کر ساحل سمندر سے پھر سوار ہو کر جہاز پلنا میں پہنچے.جہاز سے اتر کر شہر میں جانے اور شہر سے نکل کر جہاز میں جانے کا ٹیکس فی کس کشتی بان کو ۱۰ آنہ ادا کرنا پڑا حالانکہ جہاز ساحل سمندر سے چند گز کے فاصلہ پر کھڑا تھا.ہمیں اطلاع دی گئی تھی کہ جہاز پانچ بجے روانہ ہو گا اس وجہ سے جلدی کر کے جہاز میں آگئے مگر جہاز چلتے چلتے بھی ساڑھے سات بجے شام کو جا کر چلا.سامان سمیٹا گیا.اپنے چبوترہ پر قبضہ کر کے دوبارہ پلیٹ فارم کو ٹھیک کیا گیا.بعض نئے مسافر جہاز میں آئے تھے گڑ بڑ کا اندیشہ تھا مگر خیر ہوئی.ان لوگوں نے گھمسان سامان وغیرہ کو دیکھ کر کسی ملازم جہاز کا کیبن کرایہ پر لے لیا اور اس طرح سے ہم لوگ اسی طرح سے امن و آرام میں رہے.
۴۴۷ آج کھانا شام کا حضور نے نمازوں سے پہلے کھایا اور نمازیں بہت دیر کے بعد ہوئیں.کل رات جہاں حضرت اقدس نے مجلس مشاعرہ قائم رکھی تھی وہیں جا کر آج نماز میں ادا کی گئیں اور نمازوں کے بعد حضور اپنے کمرے میں تشریف لے گئے.چوہدری علی محمد صاحب کو نسبتا آرام ہے.۸/ نومبر ۱۹۲۴ء : تمام رات کی دوڑ کے بعد ساڑھے نو بجے ٹھیک چودہ گھنٹے کی محنت سے ہمارا جہاز سویز کے پورٹ پر پہنچ کر ذرا آگے کھلے سمندر میں کھڑا ہو گیا.شیخ صاحب مع ایک نائیجیرین احمدی مسٹر شیا کے کشتی میں بیٹھے جہاز کا انتظار کر رہے تھے.جہاز کو دیکھ کر خوش ہوئے اور ساتھ ساتھ ہو لئے مگر جہاز کی تیزی کی وجہ سے پیچھے رہ گئے.آخر جہاز کے قیام گاہ پر پہنچ کر اوپر پہنچے اور بہت محبت اور تپاک سے ملے.مسٹر شیا جس کو لنڈن سے مصر بھیج دیا گیا تھا مصر میں پہنچ کر خطرناک بیماری میں مبتلا ہو چکا تھا اور جو ع البقر کی بیماری کی وجہ سے وہ شیخ محمود احمد صاحب کے لئے ایک نا قابل برداشت مہمان تھا جس کی خاطر شیخ صاحب موصوف نے بہت کچھ قربانی کی اور اپنے اکثر ضروریات کو فروخت کر کے بھی اس کی تواضع تیمار داری اور ہمدردی کی تھی.اب اللہ کے فضل سے کچھ روبصحت تھا مگر بیماری کے اثر سے اس کی زبان قریباً بند تھی.حضرت اقدس کے حضور حاضر ہوکر پہلے گھٹنوں کے بل گرا اور پھر قدموں پر ڈھیر ہو گیا اور زار و قطار روتا رہا.حضور نے اس کو اُٹھا لیا اور وہ دوسرے دوستوں سے ملتا جلتا اور روتا ہی جاتا تھا.چند عربی کتب ڈیک چیرز (Chairs) اور کچھ سامان عرفانی صاحب کا ان کے ساتھ تھا.کتب حضرت اقدس کے واسطے لائے تھے.پیش کیں اور مختصراً بعض حالات مصر عرض کئے اور بتایا کہ لنڈن کے حالات حضور کے متعلق ریوٹر ایجنسی کے ذریعہ مصر کے اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں اور ( البيت ) لنڈن کے سنگ بنیا د ر کھے جانے کے متعلق مقطم کے خاص نامہ نگار نے تار بھیجا اور لکھا کہ حقیقتاً اگر انگلستان میں کوئی عبادت گاہ کہلانے کی مستحق ہے تو یہی عبادت گاہ ہے.جس کا خلیفہ اسیح نے سنگ بنیا د رکھا ہے وغیرہ.جہاز چونکہ جلدی روانہ ہونے والا تھا لہذا حضرت میاں صاحب کا سامان پہلے نیچے بھیج دیا گیا اور حضرت میاں صاحب دوستوں سے ملنے میں مصروف ہو گئے.سب سے ملنے کے بعد حضور سے ملے اور معانقہ کیا.وہ نظارہ بہت ہی درد انگیز اور رقت آمیز تھا.جبکہ دونوں بھائی ایک
۴۴۸ دوسرے سے بغلگیر تھے.کثرت سے انگریز مرد اور عورتیں کھڑے اس نظارہ کو دیکھ رہے تھے اور وہ اب اجنبی نہ تھے کیونکہ دونوں بھائیوں سے قریباً تمام مسافروں کا تعارف ہو چکا تھا اور اپنے اخلاق سے سب کے دل میں ہر دل عزیزی پیدا کر کے یہ بزرگوار لوگوں کے دلوں میں گھر کر چکے تھے.اس نظارہ سے میں نے دیکھا کہ لوگوں کے دلوں پر گہرا اثر ہوا اور بعض پر رقت طاری ہو گئی.لمبے معانقہ کے بعد مصافحہ کے لئے ہاتھ دونوں طرف سے بڑھے اور سیدنا حضرت محمود نے حضرت شریف کو الوداع کر کے اللہ کے حوالے کیا.ان لوگوں کے ضبط کو کون سمجھ سکتا سوائے خدائے علیم کے جو دلوں کے حالات کا واقف ہے.ہم لوگوں نے بھی اپنے اپنے طور پر دعائیں کیں مگر حضرت نے تمام دوستوں سمیت جو دعا حضرت میاں صاحب کو الوداع کہنے سے پہلے کی وہ نظارہ تمام جہاز کے لئے دلکش ، سبق آموز اور دردانگیز تھا.دعا لمبی تھی اور چونکہ دلوں سے نکلتی تھی اس وجہ سے مؤثر بھی بے حد تھی اور آس پاس کے لوگوں کے دلوں پر اس کا ایسا اثر تھا کہ میں جانتا ہوں کہ وہ سب ہی افسردہ اور غمزدہ نظر آتے تھے.دوفو ٹو ڈاکٹر صاحب نے اس منظر کے لئے جو غالبا قا دیان پہنچ کر تیار ہوں گے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لخت جگر جس کو خدا نے قاضی اور بادشاہ کا نام دیا حضرت مرزا شریف احمد جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے وعدے ہیں آج کچھ عرصہ کے لئے ہم سے جدا ہوتا ہے.دل اس جُدائی سے دردمند ہیں اور آنکھیں آنسو بہاتی ہیں مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ چند روزہ جدائی بہت بڑے دینی مفاد کا موجب ہوگی اور انشاء اللہ تعالیٰ مصر.شام.فلسطین اور عراق کے علاقہ جات حضور کے ہاتھ پر مفتوح ہوں گے اور بہت بڑے بڑے دینی مفاد اور روحانی برکات کا حضور کے وجود کے ساتھ نزول ہو گا لہذا دلوں کو سمجھا بجھا کر دعائیں کرتے ہوئے اللہ کے حوالے کرتے ہیں.جاؤ حضور اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہو.حامی و مددگار ہو، راہبر ہو ، را ہنما ہو.آمین ثم آمین.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے بھی ہم نے حضرت ابراہیم والی دعائیں کیں.ربنا انی اسكنتُ من ذريتي بوادٍ غیر ذی زرع عند بيتك المحرم.....آمین ثم آمین.
۴۴۹ جہاز روانہ ہو گیا.کشتی بندرگاہ کو چل دی اور دونوں میں فاصلہ بڑھتا گیا مگر حضور کشتی کی طرف ٹکٹکی لگائے رہے.پہلے اسی جگہ جہاں سے رخصت کیا تھا پھر بالائی منزل کے اوپر جا کر اور اتنی دیر تک کھڑے دعائیں کرتے رہے جب تک کہ وہ کشتی نظر سے بالکل اوجھل ہو کر کنارے بھی پہنچ چکی بلکہ شہر کے مکانات بھی نظروں سے غائب ہو گئے تھے.غرض ان دعاؤں کے ساتھ سید نا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے چھوٹے بھائی کو محض خدا کی رضا کے حصول کے لئے اور محض خدمت ( دین ) کی نیت کے واسطے رخصت کر کے الوداع کہا.اس رقت آمیز منظر اور پُر درد واقعہ کو میں زیادہ تفصیل سے نہیں لکھ سکتا.اسی پر بس کر کے سب دوستوں اور بزرگوں سے التماس کرتا ہوں کہ تمام احباب حضرت میاں صاحب کے لئے ان کے مقاصد میں کامیابی کی دعائیں کرتے رہیں اور ان کی تائید و نصرت کے لئے اللہ کریم سے دست بدعا ر ہیں.اوپر سے آ کر حضور نے کھانا کھایا.نہ معلوم کیا کھایا اور کیا نہ کھایا.نمازیں پڑھائیں مگر معلوم ہوتا تھا اور نظر آتا تھا کہ حضور کے دل پر اس جدائی کا کیا اثر ہے.کھانے کے متعلق میں نے اس وجہ سے ایسا خیال کیا ہے کہ حضور نے عصر کی نماز کے بعد فرمایا ” بھائی جی کچھ انگور ہو تو لاؤ“.اس سے میں نے اندازہ کیا کہ حضور نے غالباً میز پر کھانا برائے نام ہی کھایا ہو گا.شام اور عشاء کی نمازیں حضور نے خود ہی جمع کر کے پڑھائیں.آج چونکہ حضور کو مصر سے نئی کتب عربی ملی ہیں حضور ان کے مطالعہ میں بہت ہی مصروف ہیں.نماز سے پہلے بھی اور بعد بھی انہی کے مطالعہ میں مصروف ہیں مگر طبیعت حضور کی کچھ مضمحل بھی نظر آتی ہے.کھانے کے بعد حضور بلا ناغہ ہمارے چبوترہ کے پاس تشریف لا کر بیٹھا یا ٹہلا کرتے تھے مگر آج تشریف نہیں لائے.چوہدری علی محمد صاحب چلتے پھرتے ہیں البتہ کھانسنے اور لیٹنے سے درد ہوتا ہے.۹/ نومبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز میں حضور تشریف لائے اور نماز پڑھائی مگر آج کی نما ز خصوصیت سے لمبی تھی.قرآت میں غیر معمولی درد، سوز اور گداز تھا اور تلاوت میں بہت آہستگی.سجدے بھی لمبے تھے.دوسری رکعت کے رکوع کے بعد حضور نے کھڑے ہو کر بھی دعائیں کیں اور دوسری رکعت کے سجدات پہلی سے بھی زیادہ لمبے تھے.نماز سے فارغ ہو کر حضور بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آج تو
۴۵۰ رات بھر بخار رہا ہے.تھرما میٹر لگایا مگر معلوم ہوا کہ اب بخار نہیں.حضور لیٹے رہے.پاؤں چوہدری علی محمد صاحب دباتے رہے.ناشتہ پیش کیا تھوڑی دیر رکھا رہا.چوہدری فتح محمد خان صاحب نے عرض کیا حضور ناشتہ ٹھنڈا ہو جائے گا.فرمایا میں تو کچھ نہیں کھاؤں گا چنانچہ آج ناشتہ بھی نہیں کیا.ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب حضور لیٹے لیٹے باتیں کرتے رہے.ان دنوں پھر وہی عربی یا انگریزی میں گفتگو کا التزام ہو گیا ہے.کھانا حضور نے میز پر کھایا اور آج چونکہ مدینہ منورہ کے مقابل پر ہمارا جہاز ایک بجے کے بعد جا رہا ہے.لہذا حضور نماز کے واسطے جلدی تشریف لائے.نماز کا رخ بھی آج تبدیل کیا گیا اور حضور نے ظہر اور عصر کی نمازیں بھی خاص دعاؤں کے ساتھ پڑھا ئیں اور کثرت سے دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو تمام جماعت اور سارے ہی خدام کے لئے قبول فرمائے آمین.نمازوں کے بعد بیٹھ گئے اور مختلف اذکار ہوتے رہے.شیخ صاحب مصری نے بعض خطوط حضور کے سامنے جواب کے لئے پیش کئے.بعض جماعتوں کی طرف سے درخواست دعوت تھی.بعض نے اجازت چاہی تھی کہ ان کو معانقہ کرنے کی اجازت دی جاوے.دعوتوں کے متعلق حضور نے فرمایا کہ قادیان سے فیصلہ کرانا چاہئے اور معانقہ کے متعلق فرمایا کہ اگر ایک کو اجازت دے دی جائے تو باقی بھی کرنے لگیں گے اس صورت میں میرا کیا حال ہوگا ؟ اب حضور او پر تشریف لے گئے ہیں اور اب تک یہی خیال ہے کہ ۱۹ ء کو بمبئی سے روانگی ہوگی.ہاں میں عرض کرنا بھول گیا کل حضور نے قادیان تار بھی دیا ہے.تار سے پہلے جہاز پر ہی مشورہ بھی کیا تھا اور فرمایا تھا کہ میرا تو خیال یہی ہے کہ جس قدر جلدی ہو سکے قادیان جانا چاہئے.خدا کی طرف سے اگر کوئی روک پیدا ہو کر ہم رُک جائیں اور ۲۴ رکو قادیان پہنچیں تو یہ اور بات ہے ور نہ اب جلسہ قریب آ رہا ہے اور دو تین دن بھی ضائع کرنے کا موقع نہیں.بہتر یہی ہے کہ جلدی قادیان چلے جائیں چنانچہ حضور نے تار گھر جا کر تار دیا اور خود ہی لکھا خود ہی دیا نہ کسی نے پوچھا اور نہ کسی کو بتایا.مکرمی جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے عرض کیا حضور کا ان دنوں پرائیویٹ
۴۵۱ سیکرٹری کون ہے.فرمایا کہ میں نے ابھی کسی کو مقرر نہیں کیا.چند روز تو آرام کرلوں پرائیویٹ سیکرٹری مقرر کر لیا تو میرے گرد ہو جائے گا کہ یہ کام کیوں کر ہوا ور وہ کیسے ہے؟ وغیرہ وغیرہ.اب ہمارا جہاز ارضِ حجاز سرزمین مقدس وطن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ جا رہا ہے.دل نرم ہیں.دعائیں کی جارہی ہیں.تمام دوست یقین جانیں کہ ان سب کے لئے دعائیں کرتے ہیں ان کے واسطے بھی جنہوں نے لکھا یا لکھ کر دیا اور ان کے لئے بھی جنہوں نے نہ ہمیں لکھ کر دیا نہ پھر کبھی لکھا اور نہ ہم نے ان کو لکھا مگر دعاؤں میں سب کو شامل و شریک کیا جا رہا ہے.قبولیت اور برکات اللہ کریم کے ہاتھ میں ہیں اور آپ بزرگوں کے اپنے اپنے حالات اور تعلقات کے مطابق جد احد ا.ہم مفت میں آپ سب کے لئے دعائیں کر کے اجر اور ثواب لے رہے ہیں.حضور پھر تشریف لائے ہیں اور ارادہ ظاہر فرمایا ہے کہ بعض مسافروں کی دعوت کرنے کا ارادہ ہے.کیا اتنا سامان ہے؟ میں نے عرض کیا حضور گوشت کے سوا باقی سامان موجود ہے.مدن سے سامان ہو سکے گا مگر پھر کوشش کی جارہی ہے کہ جہاز والوں سے گوشت وغیرہ لے کر کام کر لیا جاوے.سویز نکل کر گرمی شروع ہوگئی ہے اور موسم میں تغیر ہونا شروع ہو گیا ہے.لنڈن میں بہت زیادہ سردی تھی پیرس میں کم دیفیس میں اس سے بھی کم اور برنڈزی میں اور بھی تھوڑی.سویز کے بعد تو خاص گرمی ہے حتی کہ سیکنڈ کلاس والے خواہش کرتے ہیں کہ ان کا کیبن کوئی لے کر ان کو ہمارے چبوترہ پر سونے کو جگہ دے دے.رات کمبل کے بغیر سوئے تھے مگر آج دن ایسی گرمی ہے کہ گویا جیٹھ اساڑھ کا مہینہ آ گیا ہے.پسینہ رکتا ہی نہیں.کپڑے اُتارنے کو جی چاہتا ہے.جہاز والوں نے اس گرمی کی وجہ سے آج جہاز کے اوپر ایک لمبا چوڑا اور خاصا گہرا حوض بنا لیا ہے جس میں انگریز نہاتے اور تیرتے پھرتے ہیں.شام اور عشاء کی نماز میں حضرت اقدس نے خود اول وقت میں جمع کر کے پڑھا ئیں اور چونکہ بہت شدت کی گرمی تھی اس وجہ سے تمام لوگ اوپر کی منزل پر ٹہلتے پھرتے تھے.حضور نیچے آئے کسی کو نہ پا کر اوپر تشریف لے گئے.دعوت قریباً تمیں آدمی کی حضور نے کل دو پہر کے کھانے پر پلاؤ اور قورما اور کچھ مٹھائی کی
۴۵۲ کر دی ہے.گوشت ذبیحہ تازہ بچھرے کا مل گیا ہے جو پورٹ سعید سے لیا گیا تھا.رات پھر سخت شدت کی گرمی رہی لوگ تڑپتے رہے.پنکھے بھی بریکار تھے اور کھلے آسمان کے نیچے بھی امن نہ تھا.آدھی رات پیچھے کچھ ٹھنڈک ہوئی.لوگوں کو رات بھر کروٹ لیتے پہلو بدلتے گزری.برف آب اور لیمون ایڈ (Lemon Add) کا دور دورہ ہو رہا ہے.۱۰/ نومبر ۱۹۲۴ء : حضور کو رات بخار تھا.صبح کی نماز میں تشریف لائے مگر طبیعت مضمحل تھی.تھوڑی دیر بیٹھ کر تھرما میٹر لگایا اور دوائی پی کر حضور تشریف لے گئے.اب تک کہ دس بجے ہیں باہر تشریف نہیں لائے.آج ہمارا جہاز مکہ معظمہ بیت اللہ عظیم کے برابر سے گزر رہا ہے.سیدنا حضرت اقدس اور تمام دوست دعاؤں میں مصروف ہیں.اللہ تعالیٰ شرف قبولیت بخش کر حقیقی انعامات اور بچے ثمرات کا وارث بنائے.آمین ( ۸ بجے صبح ) حضور تشریف لائے اور دعوت کے متعلق بعض ہدایات دیں اور پھر خود او پر تشریف لے گئے.دعوت خدا کے فضل سے کامیاب ہوئی.حضور بہت خوش تھے.کھانا با وجود بے سروسامانی تنگی جگہ اور شدت گرما کے بھی خدا کے فضل سے اچھا تیار ہو گیا.کھانے والوں نے کیا انگریز اور کیا دیسی سبھی نے پسند کیا.ایک ہندو نوجوان نے بعد میں شکایت کی کہ مجھے کیوں پلا ؤ نہیں کھلایا گیا ؟ حضور نے پھر کسی وقت اس کی شکایت کو دور کرنے کا وعدہ فرمایا.از عمل ثابت کن کہ آں نورے کہ درایمان تست کا عملی نمونہ دیکھنا ہو تو وہ دیکھے ہمارے آقائے نامدار کے رات اور دن کے اقوال و اعمال میں.اس کی دعاؤں میں دوسروں کو دعاؤں کی تاکید میں اور اس کی تبلیغی سرگرمیوں اور مصروفیتوں میں.کاش کہ کوئی چشم بینا اور دل بیدا ر وا لا غور کرے.جہاز بھی خدا کے فضل سے تبلیغی میدان بن رہا ہے.بعض لوگ خودشوق سے حضور سے ملاقات کی خواہش کرتے اور حالات سنتے ہیں.فرسٹ کلاس میں عموماً بڑے بڑے لوگ ہی سفر کیا کرتے ہیں.مسافروں کا اکثر حصہ حضور سے مانوس اور سلسلہ کا لٹریچر مطالعہ کر رہا ہے.بعض نے مانگ مانگ کر بھی لٹریچر لیا ہے اور تختہ جہاز گویا ایک احمد یہ لائبریری بنی ہوئی معلوم دیتا ہے.
۴۵۳ ایک کرنل صاحب سے حضور کی ملاقات ہوئی.حضور سے مانوس ہوا اور فرنٹئیر کے متعلق اپنے خیالات اور سکیم سناتا رہا اور حضور سے بھی اس کے متعلق رائے معلوم کرتا رہا.جب حضور نے اپنی سکیم سنائی تو متعجب ہوا اور کہا کہ میں آپ کی باتوں اور آپ کے خیالات سے بہت ہی متاثر اور انٹریسٹیڈ (Interested) ہوا ہوں.آپ دوبارہ کسی وقت مجھے اپنی سکیم سنائیں.میں تو متواتر پندرہ سال سے اس معاملہ پر غور کر ہا ہوں ابھی تک کسی فیصلہ پر نہیں پہنچ سکا.نماز ظہر و عصر حضور نے خود جمع کر کے پڑھائیں.آج چونکہ ہمارا جہاز جدہ سے آگے نکل آیا ہے لہذا نماز کا رخ شمال مشرق کو تبدیل کر لیا گیا ہے.حضور اب چبوترہ پر تشریف فرما ہیں اور مختلف اذکار شروع ہیں.گرمی ابھی زور پر ہے.حضور نے بھی آج تو نماز کے بعد کوٹ اُتار کر رکھ دیا.ہمارے جہاز کی رفتار سے خطرہ ہے کہ شاید ۱۷ رکو نہ پہنچ سکے.۲۴ گھنٹہ گزشتہ میں ۳۰۷ میل چلا ہے اور اس طرح عدن ۱۲ ء کی شام کو پہنچنے کی امید کی جاتی ہے.حضور ۲ بجے کے بعد نمازیں ادا کر کے بیٹھے.پونے پانچ بجے تک بیٹھے رہے.گفتگو کا زیادہ حصہ بعض قوموں کی تحقیق کے متعلق تھا.خصوصاً جاٹ اور راجپوت کا ذکر کثرت سے رہا اور ان میں تبلیغ کے ذرائع تجاویز کا سلسلہ جاری رہا.شام اور عشاء کی نمازیں حضور نے خود پڑھا ئیں اور پھر کھانے کے لئے تشریف لے گئے.کھانے کے بعد ایک مرتبہ تشریف لائے مگر کوئی نیچے نہ تھا.اوپر تشریف لے جا کر تنہا ٹہلتے رہے.یہ یادر ہے کہ اس طرح کی تنہائی حضور کی بے معنی نہیں ہوا کرتی خاص الخاص دعا ئیں ہوا کرتی ہیں یا پھر کوئی سکیم تبلیغ زیر غور اور یا پھر بعض گہرے اور دقیق علمی وروحانی علوم پر فکر اور سوچ و بچار.لہذا عارف لوگ اس حالت میں مخل ہونے سے ہمیشہ ہی بچتے اور رُکتے رہتے ہیں.۱۱ / نومبر ۱۹۲۴ء : آج صبح کی نماز میں حضور تشریف لائے سر میں شدید درد کی تکلیف ہے.تھرما میٹر بھی لگایا بخار تو نہیں ہے.ڈاکٹر صاحب نے دوائی پلائی.حضور نے ناشتہ کا حکم دیا ہے ناشتہ اسی جگہ فرمایا اور ایک بجے کے بھی بعد تک حضور تشریف فرما ر ہے ہیں.سلسله گفتگو مختلف امور کے متعلق جاری رہا ہے.کرنل صاحب جن کا ذکر کل کے حصہ خط
۴۵۴ میں کیا گیا ہے انہوں نے پوچھا کہ میں آپ کو کس طرح خطاب کیا کروں.حضور نے فرمایا جولوگ مجھ سے حُسن عقیدت رکھتے ہیں وہ مجھ کو ہنر ہولی نہیں کے الفاظ سے خطاب کرتے ہیں اور جولوگ مخالف ہیں ان میں سے بعض نام لے کر خطاب کرتے ہیں.بعض مرزا صاحب کہہ کر خطاب کرتے ہیں.میں پسند کرتا ہوں کہ جو لوگ مجھ سے عقیدت نہیں رکھتے یا ان پر میری سچائی اور صداقت نہیں کھلی وہ مجھ کو ”مرزا صاحب کہہ کر خطاب کیا کریں.( مفصل ) احباب میں سے بعض نے حضور کے سامنے ہی عرض کیا کہ ہم تو پسند نہیں کرتے کہ حضور کو کوئی مرزا صاحب کر کے پکارا کرے.حضور نے فرمایا کہ وہ لوگ جو ہمیں سچا نہیں سمجھتے یا ان پر ہماری صداقت ابھی تک نہیں کھلی ان سے آپ لوگ اس بات کے کیوں اُمیدوار ہیں جو ایمان بلکہ عرفان سے تعلق رکھتی ہے.ان میں سے اگر کوئی ہمیں ہز ہولی نہیں کہتا بھی ہے تو وہ محض لفظی اور رسمی ہوتا ہے اس میں حقیقت کچھ نہیں ہوتی.پس میں یہی پسند کرتا ہوں کہ ایسے لوگ مجھے مرزا صاحب“ ہی سے خطاب کیا کریں.ہولی نیس کے الفاظ کے معانی پر دیر تک گفتگو ہوتی رہی.مسٹر جنٹلمین.حضرت وغیرہ الفاظ بھی اسی ذیل میں آگئے.گاندھی اور مہاتما کے لفظ کا بھی ذکر ہوتا رہا.مہاتما کے معنوں پر تفصیلی گفتگو ہوئی.جہاز کے روزانہ سفر کا اعلان ہوا کرتا ہے چنانچہ آج مورخہ ۱۱/ نومبر ۱۹۲۴ء کی دو پہر کے ۱۲ بجے جہاز کی آج کے ۲۴ گھنٹہ کی مسافت کا نوٹس لگا جو ۳۰۷ میل ہے.اس سے اندازہ کیا گیا ہے کہ عدن ابھی ۳۵۴ میل باقی ہے.اسی رفتار سے اگر گیا تو ۱۲ رکو۴ بجے دو پہر انشاء اللہ تعالیٰ عدن پہنچے گا.پورٹ میں داخل ہونے میں کچھ وقت صرف ہو گا.ڈاک ہماری معرفت پوسٹ ماسٹر آئی ہوئی ہوگی ایسا نہ ہو کہ پوسٹ آفس بند ہو جائے اور ڈاک نہ مل سکے.کپتان جہاز کو توجہ دلائی جائے کہ وہ اپنے طور پر تار دے کر ڈاک کے واسطے کوئی ایسا انتظام کرے کہ ڈاک مل جائے.حضور نے فرمایا کہ اس طرح تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا جہاز بمبئی ۱۸ نومبر کو پہنچے گا اور ۱۸؎ کو بھی شاید شام کے وقت اور اگر شام کو 4 بجے کے بعد پہنچا تو پھر رات کو پورٹ میں داخل بھی نہ ہونے دیں گے.معلوم ہوتا ہے کہ خدائی منشا یہی ہے کہ ہم قادیان ۲۴ ر کو ہی پہنچیں کیونکہ اگر ۱۹ رکو بمبئی پہنچے تو خواہ مخواہ ۲۰ / یا ۲۱ / کوروانگی ہو سکے گی اور ۲۴ رکو رسیدگی قادیان - عدن پہنچ کر ایک تار
۴۵۵ دے دیا جاوے کہ ہم ۲۴ کو پہنچیں گے.حضور کھانے کو تشریف لے گئے اور پونے چار بجے نمازوں کے لئے تشریف لائے.آج گرمی کی حدت وشدت میں کمی ہے.نمازوں کے بعد تشریف فرما رہے اور فرمایا کہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کی شہادت کے متعلق جو جلسہ پروٹسٹ کیا گیا تھا اس میں جو مضمون میں نے پڑھا تھا وہ نہ معلوم الفضل نے کیوں نہیں چھاپا.شاید پہنچا ہی نہ ہو.مجھ سے پوچھا کہ تم نے مضمون بھیجا تھا یا نہیں ؟ میں نے عرض کیا حضور میں نے اپنے خط میں حضور کے اصل مضمون کی نقل اردو بھیجی تھی بلکہ انگریزی نقل بھی لے کر ساتھ کر دی تھی.فرمایا تعجب ہے کیوں نہیں چھاپا گیا کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی.وہ تو اب سے پہلے اخبار میں شائع ہو جانا چاہیے تھا.اس کے بعد حضور نے خان صاحب سے بعض ضروری چٹھیوں کے متعلق پوچھا اور دریافت فرمایا اور حکم دیا کہ تمام سیاسی چٹھیاں آپ کے پاس محفوظ رہنی چاہئیں.ضائع نہ ہوں کیونکہ وہ نہایت ضروری اور تاریخی چیزیں ہیں.حضور نہانے کے واسطے غسل خانہ میں پانی رکھوانے کا حکم دے چکے تھے.مولوی نیر صاحب آئے کہ حضور لیڈی ٹین (Luttyen) حضور سے ملاقات کی غرض سے آئی بیٹھی ہیں.حضور غسل خانہ کو تشریف نہ لے گئے غسل ملتوی فرما دیا مگر نیز صاحب نے لیڈی صاحبہ سے ذکر کر دیا جس کی وجہ سے لیڈی صاحبہ کی طرف سے ہی درخواست ہوئی ہے کہ اچھا وہ پرسوں مل لیں گی.یہ لیڈی صاحبہ سرٹین کی بیوی ہیں جو آج کل نئی دہلی کی تعمیر اور نقشہ جات کے انتظام کے اعلیٰ افسر ہیں.ان لیڈی صاحبہ کے بھائی آج کل گورنر بنگال ہیں اور یہ صاحبہ یورپ کی تمام تھیوسا فیسکل سوسائیٹیوں کی پریذیڈنٹ ہیں اور بہت ہی انفلونشل لیڈی ہیں ( بزبان نیر صاحب ) ان کے ساتھ دو کرشن مورتیاں بھی ہیں ( دولڑ کے پرورش کئے جارہے ہیں ) کہتے ہیں کہ مسز اپنی بسنٹ کے بعد یہ عورت سب سے بڑی ہیں.وہ علم کے لحاظ سے اور یہ اپنے تمول اور اثر کے لحاظ سے بڑھی ہوئی ہیں.آج کی نمازیں مغرب وعشاء حضور نے رات کے کھانے کے بعد پڑھائیں.نمازوں سے پہلے مختلف اذکار تھے اور نئی نئی تحقیقا توں کا ذکر تھا جو سب لکھنے کے قابل نہیں اس وجہ سے چھوڑتا ہوں.پوری تحقیق اور تدقیق کے بعد اگر ان مسائل کا اظہار ہوا تو خود ہی اعلان ہو جائے گا.
۴۵۶ نمازیں آج بھی سیکنڈ کلاس ڈرائینگ روم کے اوپر کی منزل پر ادا کی گئیں.آج چونکہ تختہ جہاز پر انگریزوں وغیرہ کے ناچ رنگ کا زور تھا اس وجہ سے حضور زیادہ دیر اوپر نہ بیٹھے بلکہ جلد اپنے کمرہ میں آگئے مگر عین حضور کے کمرے کے اوپر کے حصہ پر وہ مجلس رقص وغنی گرم تھی جس کی وجہ سے حضور کو تکلیف ہی رہی.چوہدری علی محمد صاحب کو آج بعد نماز عشاء چھاتی کے حصہ جگر پر جہاں چوٹ آئی ہوئی ہے سخت درد اُٹھا جس سے وہ پھر بہت ہی بے چین رہے.دوائی وغیرہ دی گئی ہے.اللہ تعالیٰ رحم کرے.۱۲ / نومبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز میں حضور تشریف لائے.عرفانی صاحب نے پوچھا حضور رات نیند آئی یا نہیں؟ فرمایا آج رات نیند کہاں؟ وہ جنات کا عملہ آپ کی طرف نہ آیا ہوگا مجھے تو رات دو مرتبہ ایسا خطرہ ہوا کہ خدانخواستہ جہاز خطرہ میں پڑ گیا ہے.اُٹھادیکھا مگر کوئی ایسی علامت نہ پائی اور پھر لیٹ گیا مگر شور وشغب نے بالکل چین نہ لینے دیا.ہمارے کمرے کے اوپر سخت شور وغوغا رہا ہے.آج رات ناچ اور گانا بجانا زوروں پر تھا.اس وقت کہ آٹھ بجے ہیں باب المندب سے جہاز گز ررہا ہے اور سرزمین عرب کا ایک چھوٹا سا گاؤں ساحل سمندر پر بہت ہی محبوب و پیارا لگتا ہے جسے دیکھ کر دل میں ایک تڑپ ایک اُمنگ اور ایک خواہش اور جوش پیدا ہوتا ہے.لهم آمین ثم آمین یا ارحم الراحمين پونے نو بجے کے قریب حضرت اقدس پھر چبوترہ پر تشریف لائے.ناشتہ فرمایا.مجلس گرم ہوئی اور تجارت زراعت اور حرفت کے متعلق طویل گفتگو جاری رہی.حضور کا منشا ہے کہ قادیان میں انڈسٹریز کا تجربہ وریسرچ کیا جاوے اور کوشش کی جاوے کہ کسی طرح سے قادیان میں کامیاب انڈسٹریز قائم ہو جائیں کیونکہ اس کے بغیر بیرونی ممالک اور غیر بلا د سے تعلقات قائم نہیں ہو سکتے جو ہمارے واسطے ضروریات تبلیغ کو مدنظر رکھتے ہوئے نہایت ضروری ہیں وغیرہ وغیرہ.ایک گھنٹہ سے زیادہ دیر تک اس امر کے مختلف پہلوؤں پر گفتگو جاری رہی.اب حضور عدن
۴۵۷ سے قادیان کوروانہ کرنے کے لئے تارلکھ رہے ہیں.کھانے کی پہلی گھنٹی بجی.دوسری بھی ہو گئی ہے اور حضور اب کھانے کے لئے تشریف لے گئے ہیں.سیکنڈ والے بھی چلے گئے.رہ گئے ہم چبوترے والے- ہمارا بھی دستر خوان بچھ گیا اور کھانا چنا جا رہا ہے.یہ روحانی جسمانی نعماء خدائے دو جہاں نے سیدنا مسیح پاک کے طفیل بخشیں.شکر ہے.کھانے سے فارغ ہو کر جلدی حضور نمازوں کیلئے تشریف لے آئے کیونکہ ۳ بجے کے قریب یا بعد جہاز عدن پہنچے والا ہے.نمازوں سے فارغ ہو کر دیکھا تو عدن سامنے ہے.آج کی نمازوں میں بھی حضور نے دعاؤں کو لمبا کیا ہے.سرزمین حجاز ہماری آنکھوں کے سامنے صبح سے ساتھ ساتھ چلی آتی ہے جس کا دیدار جس کی زیارت بار بار عالم خیال میں حرم کعبہ میں لے جا کھڑی کرتی ہے جس سے خون میں جوش، دلوں میں تڑپ اور اعضاء میں حرکت ہوتی اور دل پکھل کر پانی کی طرح بہنے لگتا ہے.دعاؤں کا وقت ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ دوستوں کے دل عموماً نرم ہیں.اللہ کریم ان کو قبولیت کا درجہ عطا فرمائے آمین.حضور اپنے کمرے میں تشریف لے گئے ہیں.دوست جہاز کے کناروں پر کھڑے ارضِ حجاز کی طرف ٹکٹکی لگائے ہیں.جہاز والے جہاز کے ہولڈوں کو کھولنے میں مصروف ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں اپنا سامان اُٹھانا پڑا ہے.ایسے وقت میں سامان کی ہیرا پھیری دوبھر معلوم ہوئی مگر دل کو سمجھا لیا کہ آخر یہ بھی تو تمہارا فرض ہے.جہاز ٹھہر گیا.پائلٹ آ گیا اور جہاز کو خراماں خراماں پورٹ کے اندر لے جا رہا ہے.چھوٹی کشتیاں مسافروں کو لئے ہوئے بعض ڈونیاں سامان تجارت سے بھری ہوئی.موٹر لانچ پولیس اور سرکاری ڈاکٹر کو لے کر چاروں طرف سے جہاز کے ارد گرد جمع ہونے شروع ہو گئے ہیں.کشتیوں میں عرب تجار کا عربی اردو اور انگریزی میں سودے کرنا اور مسافروں کا تختہ جہاز سے جھک جھک کر ضروریات کے وصول کی کوشش کرنا.آوازے اور شور و پکار عجیب چہل پہل پیدا کر رہے ہیں.مسافر جہاز سے اترنے والے اُترنے کی جلدی میں ، سیر کے لئے شہر کو جانے والے وقت کی بچت کے خیال سے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر پولیس مین ابھی اجازت نہیں دیتا.لوگوں کی گھبراہٹ ان کے چہروں سے عیاں ہے.
۴۵۸ اجازت ہو گئی.راستہ کھل گیا.اوپر کے نیچے اور نیچے کے لوگ اوپر کو آنے لگے.تجار اور پھیری والوں ، مزدوروں اور حمالوں سے جہاز بھر گیا ہے مگر ہماری توجہ اب ہندوستانی ڈاک نے اپنی طرف کھینچ لی ہے جو حضور کی خدمت میں تختہ جہاز پر ہی آن پہنچی ہے.ماشاء اللہ ڈاک کیا ہے خاصا پوسٹ آفس کھل گیا ہے.لوگ بھی حیران ہیں مسافر بھی گھور گھور کر دیکھنے لگے ہیں.انگریز بھی دُزدیدہ نگاہوں سے دیکھتے اور دل ہی دل میں تعجب کرتے نظر آتے ہیں.چشم بد دور.نظر بد پرے.معلوم ہوتا ہے کہ دوستوں نے بھی اس آخری سٹیشن سے فائدہ اُٹھانے کے لئے دل کھول کھول کر لکھا ہے.اچھا اللہ کریم دلوں کے حالات سے واقف ، نیتوں کا عالم ، دعاؤں کا سننے والا ، قلوب کے اسرار سے واقف سب کی سنے اور قبول کرے.مرادیں برلائے اور دین ودنیا میں سرخر و کر کے سب سے ایسا خوش ہو کہ جس کے بعد کوئی ناراضگی نہ ہو آمین.حضور مع حافظ صاحب اور نیز صاحب پوسٹ آفس تک تشریف لے گئے ہیں.چوہدری علی محمد صاحب، مصری صاحب اور رحمدین کو ضروریات کی خرید کے لئے بھیجا گیا ہے.میرا دل کچھ اداس ہے توجہ بٹی ہوئی ہے میں عمد ا نہیں گیا تا کہ اس تنہائی سے فائدہ اُٹھا سکوں.سو اللہ کے فضل سے اس خلوت میں جلوت نصیب ہے.دوستوں اور بزرگوں کو یاد کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ سب کے ساتھ ہو آمین.جہاز میں مسافر آئے اور کثرت سے آئے.ہیں بھی ڈیک کے اور آئے بھی ہمارے ہی چبوترہ کے لئے ہیں.سامان اتنا ہے کہ دیکھ کر گھبراہٹ ہوتی ہے.دھم دھڑام ہو رہی ہے.ان کو آتے ہی اطلاع تو دے دی گئی ہے کہ یہاں جگہ نہیں ابھی سے دوسری جگہ کا انتظام کر لیں مگر وہ ابھی ہماری سمجھتے نہیں.ہے بجے کے قریب حضرت جہاز سے اتر کر عدن کی بستی کو گئے تھے اب شام ہو چکی اندھیرا ہوگیا ہے.ساڑھے سات بج چکے ہیں مگر ابھی تک تشریف نہیں لائے.کھانے کی گھنٹی ایک ہوئی دوسری بھی اور کھانا ہو بھی رہا ہے مگر حضور نہیں تشریف لائے.بجے کے قریب حضور واپس تشریف لائے.سامان خرید نے والے اصحاب پہلے آگئے مگر حضور کو ان کی فکر تھی اور آتے ہی اسٹنٹ کیپٹن کو کہہ رہے ہیں کہ ہمارے تین آدمی ابھی باہر ہیں وہ
۴۵۹ رہ نہ جائیں.اس نے عرض کیا ہے کہ ۹ بجے سے پہلے جہاز روانہ نہ ہو سکے گا.اتنے میں شیخ صاحب مصری آگئے.حضور نے دیکھ کر فرمایا کہ میں سمجھتا تھا کہ آپ نہیں آئے چنانچہ اسی وقت افسر جہاز سے کہہ دیا کہ ہمارے آدمی آگئے ہیں کوئی گھبراہٹ نہیں.حضور نے جہاز سے اتر کر اؤل تار گھر سے تار کا پتہ کیا ہے پھر دفتر کمپنی جہاز میں تشریف لے گئے مگر وہاں بھی کوئی تار نہ تھا.انہوں نے کہا کہ آپ کی تمام ڈاک ایجنٹ کے ہاتھ جہاز پر بھیج دی گئی ہے.حضور نے ان کو پتا دیا کہ اگر جہاز کی روانگی کے بعد کوئی تار آ وے تو بے تار برقی پیغام کے ذریعہ سے بھجوا دیں.اگر بمبئی پہنچنے کے بعد آوے تو پنجاب کا پتا دیا اور حضور عدن کے حوض تالاب اور باغیچہ کو دیکھنے تشریف لے گئے جن کے متعلق مشہور ہے کہ شدا د کا بنایا ہوا ہے.وہاں بچے تھے انہوں نے دیکھ کر حضور کو پکارا.بابا نو مدر نو فادر ( یتیم ہیں ) حضور نے ان کو کچھ دینا چاہا مگر ریز گاری نہ ملی صرف ایک دونی نکلی جو حضور نے ان میں سے ایک لڑکے کو دے دی جوا و پر آیا تھا.نیچے کے بچوں نے پوچھا کہ بتا تو جائیں کہ آپ نے کیا دیا ہے.حضور نے فرمایا کہ ایک دونی.موٹر بگڑ گئی تھی ذرا دیر ٹھہر نا پڑا.حضور کے گرد اور بہت سے لڑ کے جمع ہو گئے.حضور نے ان کو بھی پیسے وغیرہ تڑوا کر دیے.واپسی پر سمندر کے کنارے پہنچ کرتا رگھر میں ایک تار دیا ہند کو ( غالباً قادیان ) اور دوسرا لنڈن کو اور جہاز میں تشریف لے آئے.کھانا ہو چکا تھا.حضور کو بھوک تھی.ہمارا کھانا بھی ابھی تیار نہ تھا کہ رحمد بن ابھی آیا تھا.کچھ سالن جو حضور کے لئے دو پہر کو تیار کرایا تھا موجود تھا گرم کر کے پیش کیا اور ڈبل روٹی حضور نے کھائی.نمازیں پڑھائیں اور پھر دس بجے کے قریب حضور کمرے میں تشریف لے گئے.جہاز ۹ بجے کے بعد عدن پورٹ سے روانہ ہوا اور اب ہند کو آ رہا ہے.۱۳ نومبر ۱۹۲۴ ء : صبح کی نماز میں حضور تشریف نہیں لائے.نماز میں رات سے جانب شمال کو رخ کر کے پڑھی جاتی ہیں.۸ بجے کے قریب حضور تشریف لائے اور ایک بجے کے قریب تک تشریف فرما ر ہے.فرمایا رات پیٹ میں درد رہی ہے اور اب بھی ہے.ایک دست بھی ہو گیا تھا.ڈاکٹر صاحب نے دوائی دی.
۴۶۰ چوہدری فتح محمد خان صاحب نے عرض کیا کہ حضور کیا یہ لباس مبلغین کا مستقل لباس تجویز ہو چکا ہے؟ حضور نے فرمایا ہاں مگر پگڑی یہ نہیں یہ مرینہ کی پگڑی بہت بوجھل اور بھاری ہے کوئی ہلکی پگڑی تجویز کرنی چاہئے.چوہدری صاحب نے عرض کیا حضور کوٹ بھی یہ زیادہ لمبا ہے اس میں بھی کچھ ترمیم ہونی چاہئے.یہ گفتگو بہت دیر تک جاری رہی اور لباس کے مختلف پہلوؤں پر بحث ہوتی رہی.تجاویز ہوتی رہیں.ہمارے اس سفر میں اس لباس کے اثر کا بھی ذکر رہا.لنڈن میں اس کو کس نگاہ سے دیکھا گیا یہ بھی ایک سوال تھا.اس پر باتوں باتوں میں ایک دوست کے منہ سے کچھ ایسے الفاظ نکلے جن کا لہجہ قابل اعتراض تھا.حضور نے اس کو نا پسند کیا اور اس کے خلاف بہت کثرت سے واقعات اور دلائل حضور نے بیان کئے.(تفصیل لکھے بغیر نہ بات پوری لکھی جاتی ہے نہ بات کی حقیقت کا پتا لگ سکتا ہے.تفصیل لکھنے میں بعض مشکلات بھی ہیں مگر چونکہ غالباً نفع سے نقصان بڑھ جانے کا اندیشہ ہے اس وجہ سے ان کو چھوڑنا پڑتا ہے ) حضور نے یہ بھی دوران گفتگو میں فرمایا کہ ہمارے مبلغ خاص پرسنلیٹی (Personalty) کے ہوتے ہیں جبھی تو ان کو ایک ایسے اہم ذمہ داری کے کام پر لگایا جاتا ہے.ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی شخصیت کو ایسا بنا کر رکھیں کہ ان پر کوئی اعتراض نہ آئے اور نہ کسی کو جرات ہو.ان کو خدا نے ہر قسم کے علوم کا ذخیرہ دے کر ترقی کرنے اور اعلیٰ مدارج پر پہنچنے کے سامان پیدا کئے ہوئے ہیں.وہ چاہیں تو علم میں ، اخلاق میں ، تربیت میں اور کیریکٹر میں اپنی پوزیشن کو ایسا بنا سکتے ہیں کہ تمام لوگ ان کا اعزاز کریں ان کا اکرام کریں وغیرہ.مسٹر گاندھی جیسا آدمی جس لباس میں رہتا ہے میں نے سنا ہے خود بعض انگریزوں نے مجھ سے کہا ہے کہ مسٹر گاندھی بڑے مضبوط اخلاق کا انسان ہے.وجہ پوچھی تو کہا کہ دیکھو کیسے سادہ لباس میں رہتا ہے.اس کا وہ لباس جس میں وہ رہتا ہے کیا وہ یورپ کا لباس ہے؟ ہرگز نہیں.تو پھر کیوں اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.کیوں لوگ اس کو نفرت سے نہیں دیکھتے ؟ افریقہ کے بعض بیرسٹر کچہری تک میں کیوں ادہر و تجھے میں جا کھڑے ہوتے ہیں اور ان کو کوئی حقارت سے نہیں نکال دیتا ؟ قومی لباس کی اگر انسان خود عزت نہ کرے اور غیر قوموں کی غلامی میں ایسا گر جائے کہ
۴۶۱ اس کا قومی لباس کوئی باقی ہی نہ رہے تو اس کا کیا حق ہے کہ لوگ اس کی عزت کریں.جس قوم کے پاس اپنا لباس تک نہیں اس کا کیا حق ہے کہ وہ دوسروں کو ایسی باتیں منوانے کے لئے نکلے جو انسان کی روح کے ساتھ تعلق رکھتی اور ابد الآباد تک کام آنے والی ہیں؟ وغیرہ وغیرہ - ایک مفصل اور مشرح تقریر تھی جو شاید ایک گھنٹہ سے بھی زیادہ دیر تک رہی.ان بزرگ نے عرض کیا حضور میرا مطلب یہ نہ تھا مگر فرمایا کہ ” میں اردو خوب سمجھتا ہوں.کھانے کی گھنٹی ہوئی اور حضور تشریف لے گئے.نمازیں ظہر و عصر کی جمع کر کے پڑھائیں اور پھر کچھ فروٹ کا ناشتہ فرمایا.کھجورا چھی نہ تھی پسند نہ کی اور لیڈی نکین کی ملاقات کا ساڑھے پانچ بجے کا وقت مقرر تھا.تشریف لے گئے میں نہ جاسکا کیونکہ وہاں عام جا نا منع تھا اس وجہ سے بالفاظ نیز صاحب لکھتا ہوں.یہ ملاقات محض تعارف کے لئے تھی، کیونکہ لیڈی لٹمین حسن اتفاق سے اسی جہاز میں سفر کر رہی ہیں.مزاج پرسی کے بعد لیڈی صاحبہ نے عرض کیا کہ ہمیں نیز صاحب نے سلسلہ کے متعلق کچھ سنایا ہے مگر میرے ساتھی اس بات کے خواہاں ہیں کہ حضور کی زبان سے کچھ سنیں.حضور نے سلسلہ کے حالات وقت کے تقاضا کوملحوظ رکھتے ہوئے ۲۰ منٹ تک زبان انگریزی میں حضرت مسیح موعود کے دعاوی اور آپ کی مخصوص تعلیم بیان فرما ئیں جس میں کلام الہی کا جاری رہنا.حیات بعد الموت اور روح کی پیدائش وغیرہ مسائل کی نہایت عمدگی سے تشریح فرمائی.سوال کیا گیا کہ یہ باتیں تو ہندو مذہب میں پائی جاتی ہیں کہیں کہیں جزوی اختلاف ہے تو اسلام کو اس بارہ میں کیا خصوصیت ہے؟ اس پر حضور نے فرمایا کہ جزوی اختلافات سے بڑے بڑے اثرات ظاہر ہوتے ہیں چنانچہ علم طب میں اگر تین قطروں کی بجائے بعض ادویہ کے چار پانچ قطرے کر دیئے جائیں تو بجائے فائدہ کے بعض اوقات ضرر ہو جاتا ہے اس لئے جزوی اختلافات اپنی جگہ ضرور اثر رکھتے ہیں اور نظر انداز نہیں کئے جا سکتے.سوال: کیا ہندو مذہب میں بھی سچائی ہے؟ حضور نے فرمایا: ہاں ہندو مذہب کی بنیا دسچائی پر تھی لیکن اب موجودہ ہندو مذہب میں خرابیاں واقع ہوگئی ہیں اور اصلاح کی ضرورت ہے.
۴۶۲ سوال تو بس ہندو مذہب کی اصلاح کی ضرورت ہے جو کر کے اصل پر قائم کرنے کے بعد پھر کسی دوسرے مذہب کی کیا ضرورت ہے؟ فرمایا بچے کی ضروریات جو ان اور بڑھے مردوں کی ضروریات سے مختلف ہوتی ہیں.ہندو مذہب کی اصل تعلیم ابتدائی اور انسان کی حالت ابتدائی کے مطابق ضرورت زمانہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے مخصوص الوقت تھی مگر اب انسان ترقی یافتہ ہے اور وہ محمد رسول اللہ کے زمانہ میں ترقی کرتے کرتے اس حد تک پہنچ چکا تھا جس میں بچپن کی بجائے پختہ عمری کے زمانہ کی تعلیم ہونی چاہئے تھی ، چنانچہ یہ تعلیم آنحضرت کے زمانہ میں آپ کی معرفت دی گئی اور چونکہ یہ ایک کامل تعلیم تھی اس لئے اس تعلیم کے تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں.صرف غلطیاں مرورِ زمانہ کی وجہ سے تراجم وغیرہ میں ہو چکی ہیں ان کی اصلاح کی ضرورت تھی.سوال کچھ مدت کے بعد زمانہ ترقی کرتے کرتے اس حالت تک پہنچ جائے گا کہ پیغمبر خدا کے وقت کو وحشیانہ زمانہ خیال کیا جائے گا اور وہ تعلیم دنیا کے لئے موزوں و مناسب نہ ہوگی.فرمایا اب تک اسلام کی کوئی تعلیم ایسی نہیں ثابت ہو سکی جسے سائنس یا فلسفہ رڈ کرسکتا یا زمانہ ترقی پا جانے کے باوجود اس کی عدم ضرورت کو ثابت کر سکتا.آئندہ ابھی بحث سے خارج ہے آپ کوئی ایسی تعلیم بتائیں جو اسلام میں مورد اعتراض ہوئی ہو.(اب تک ) یا زمانہ کی کوئی ایسی ضرورت بتا ئیں میں ثابت کروں گا کہ اس ضرورت کو اسلام کی تعلیم پورا کرتی ہے.دیکھئے اسلام نے ایک چیز کو منع فرمایا جو دنیا بھر میں رائج تھی مگر آج کس طرح دنیا اس کی مضرت کو تسلیم کر کے اس کے ترک کرنے کے درپے ہے.سوال کیا عیسائیت ہندو مذہب سے بہتر ہے؟ فرمایا: ہاں.سوال کیا بچے اور جوان کی روح میں کوئی فرق ہے؟ فرمایا کوئی فرق نہیں مگر ضروریات جُدا جُدا ہیں اور دونوں کے فہم و عقل میں بڑا فرق ہے.
۴۶۳ ( مین Intellect) اور اس کے ذریعہ سے ہی انسان روحانی تعلیم حاصل کرتا ہے.کیا جس طرح ایک بچے کو ایک حکم بلا دلیل دیا جاتا ہے اسی طرح بڑے آدمی کو بھی بلا دلیل حکم دے سکتے ہیں ؟ ہر گز نہیں.ایک بچے سے آپ امید رکھتے ہیں کہ بلا دلیل آپ کا حکم مان لے.اس کو آپ یہ سمجھانے کی بھی ضرورت نہیں سمجھتے کہ اس کام کے کرنے میں کیا فائدہ نہ کرنے میں کیا نقصان ہے.کیا اس طرح سے بڑے آدمی سے بھی سلوک کیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں وغیرہ وغیرہ.مکرمی نیر صاحب نے تو مجھے اس قدر لکھایا ہے مگر جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے جو کچھ زبانی سنایا تھا وہ کچھ زیادہ بھی تھا اور فصیح و بلیغ بھی.آخر میں لیڈی صاحبہ کی خواہش پر حضرت اقدس کے حکم سے حافظ صاحب نے کچھ قرآن کریم اور پھر مثنوی رومی کے چند اشعار سنائے.اس ملاقات کا گہرا اثر معلوم ہوتا تھا.بہر حال غالباً شیخ یعقوب علی صاحب نے کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے.ان کے پاس مفصل نوٹ ہیں وہ صاف کر کے اخبار میں بھیجیں گے.مجھے تو یہ بتایا گیا ہے کہ اس صحبت میں سوال و جواب نہایت عالمانہ رنگ کے تھے مگر مجھے جو لکھائے گئے ہیں وہ تو بالکل یہی ہیں.خیر مجھے جو کچھ پہنچا میں نے لکھ دیا.کھانا حضور نے نمازوں سے پہلے تناول فرمایا اور پھر نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.لیڈی ٹین نے حضور کا شکریہ ادا کیا اور پھر ملاقات کی خواہش کرتے ہوئے رخصت ہوئی.نمازوں سے پہلے حضور کچھ دیر تک اِدھر اُدھر ٹہلتے رہے اور حافظ روشن علی صاحب سے چین کے ملک میں تبلیغ کے متعلق ذکر کرتے رہے جہاں عیسائیوں نے بڑا جال پھیلا دیا ہے اور سنا گیا ہے کہ ایک ایک دن میں بعض جگہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ عیسائی ہوئے ہیں.حضور نے یہ بھی فرمایا کہ مغرب الشمس کے سفر سے تو اب ہم فارغ ہوئے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اب ہمیں مطلع الشمس کی طرف بھی جانا پڑے گا اور چین، جاپان اور امریکہ تک کا اکٹھا سفر کرنا پڑے گا.بہر حال جماعت کو اب چین کی طرف رخ کرنے کے لئے تیار ہو جانا چاہئے.۱۴/ نومبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز میں حضور تشریف نہ لا سکے رات بھی طبیعت کسی قد ر خراب رہی.
۴۶۴ ناشتہ کے وقت تشریف لائے دوائی پی.ناشتہ بھی کچھ برائے نام ہی کیا اور پھر جلدی ہی اندر تشریف لے گئے.گیارہ بجے کے قریب پھر تشریف لائے اور تھوڑی دیر تک ٹہلتے رہے.آج جمعہ ہے حضور نے فرمایا کہ نماز جمعہ ہوگی اور پھر کمرے میں تشریف لے گئے.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو ایک تار پہنچا کہ کوئی جگہ خالی ہے جو جی کی پیش خیمہ ہے.حضور کے عرض کیا حضور نے فوراً درخواست کرنے کو فرمایا چنانچہ بذریعہ تار ہی درخواست بھیج دی گئی.اللہ کریم ایسے سامان کرے کہ وہ آسامی چوہدری صاحب کو مل جائے اور بابرکت بھی ہو.حضور اپنے کمرے میں تھے.میں نے بائیں خیال کہ اب سفر کے آخری ایام ہیں سمندری سفر ختم ہونے والا ہے آج جمعہ کا دن بھی ہے اور احباب اور بزرگوں نے کثرت سے دعاؤں کی یاد دہانی کے لئے خطوط بھی بھیجے ہیں گو ان کے جواب دینے کا ہمیں سمندری سفر کی وجہ سے موقع نہیں مگر احکام کی تعمیل تو کر دی جا سکتی ہے.لہذا میں نے ایک مفصل عرضداشت لکھی اور خاص احباب کے نام بھی لکھے.جماعتوں کو بھی شامل کیا اور جہاں تک ہو سکا کسی کو نہ چھوڑا البتہ جن دوستوں کے خطوط خاص طور پر آئے تھے ان کے نام خاص ہی رنگ میں پیش کئے گئے.ان کے علاوہ بھی اکثر احباب کے نام شامل کر لئے گئے.میں نے عریضہ لکھ کر تیار کیا.ڈاکٹر صاحب نے اذان کہی اور اطلاع کے لئے جاتے تھے.میں نے عرض کیا کہ میرا بھی ایک کام کرتے جائیں.عریضہ دیا کہ حضرت کے ہاتھ میں اسی طرح کھلم کھلا پیش کر دیں.ان کو راستہ میں ایک تار بھی ملا وہ بھی ساتھ لے گئے.حضور نے تارکھولا پڑھا اور خوش ہوئے اور ساتھ ہی توجہ دعا کی طرف منتقل ہوئی.دعاؤں کی یاد دہانی کا عریضہ ساتھ ہی تھا وہ بھی حضور نے لے لیا.ڈاکٹر صاحب دوڑے ہوئے اور خوش آئے اور مجھے مبارک باد دے کر کہا کہ بہت ہی خاص وقت میں اور نیک ساعت میں آپ کا رقعہ دیا گیا ہے اور پھر سنایا کہ بچہ کی پیدائش کی تارا بھی ابھی مفتی صاحب کی طرف سے پہنچی ہے.یہ سن کر ہم بھی دوڑے اور بغیر کوٹ ننگے پاؤں ننگے ہی سر حضور کے کمرے میں پہنچ کر مبارک باد پیش کی.میں نے دیکھا کہ حضور میرے عریضہ کو لے کر پڑھ رہے تھے اور ایک ایک نام کو حضور نے توجہ سے پڑھا اور دعائیں کیں.فلهذا فطوبى لكم ايها
۴۶۵ الاخوان المكرمين تھوڑی دیر بعد حضور تشریف لائے اور ایک تارلکھ کر خان صاحب کو دیا کہ قادیان بھیج دیں.تار میں حضرت اماں جان.اُم امتہ القیوم اور دونوں گھروں کو بچہ کی پیدائش پر مبارک باد دیا ہوا تھا اور لکھا تھا کہ بچہ قبل از وقت پیدا ہوا ہے لہذا بچے اور اس کی والدہ کا اندیشہ ہے اور دعا کی تھی کہ اللہ کریم دونوں کو صحیح اور تندرست رکھے آمین.مفتی صاحب کے تار میں بچہ کی پیدائش کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے پانیوں میں حضور کے داخلہ پر تمام جماعت احمدیہ کی طرف سے بھی مبارک بادعرض کیا گیا تھا.خطبہ جمعہ حضور نے مختصر آ پڑھا اور ہمرکاب ساتھیوں کو بہت ہی قیمتی نصائح فرما ئیں اور فرمایا کہ اختلاف طبائع کی وجہ سے باہم اختلافات ہو جایا کرتے ہیں ان کو بالکل فراموش کر دینا چاہئے اور اگر کسی کی ذات کے متعلق کسی سے کوئی امر تکلیف دہ ظاہر ہوا ہو تو اس سے معافی لے لینی چاہئے اور اگر عام طور پر کوئی معاملہ ہوا ہوتو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہئے اور قبل اس کے کہ ارضِ ہند پر پہنچیں طبائع کو صاف کر لینا چاہئے.کوئی معاملہ ضد اور کینہ و بغض کے رنگ میں ساتھ نہ لے جانا چاہئے اور نہ ہی اس کو جا کر پھیلانے کی کوشش کرنا چاہئے وغیرہ وغیرہ.نیز دوسرے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں وہم وگمان سے بھی بڑھ کر کامیابیاں اس سفر میں عطا فرمائی ہیں ان کا شکریہ ادا کرنا اور ان کو یا درکھنا چاہئے تا کہ نعمت زیادہ ہو.خطبه مکرم شیخ صاحب عرفانی نے مفصل نوٹ کیا ہے ) نمازیں دونوں جمع کر کے پڑھائیں اور تھوڑی دیر تک بیٹھے رہے اور پھر انعامات الہیہ کا جو اس سفر میں عطا ہوئے ہیں ذکر فرماتے رہے اور شکر یہ بجالاتے رہے اور نہایت پیارے لہجہ اور محبت بھری آواز سے رسول کریم علیہ کی وہ حدیث سنائی جس میں آنحضرت نے اس بندے کی خواہش کا ذکر کیا ہے جو وہ انعامات الہی کے پانے کے لئے رکھتا ہے جس کو آخری وقت میں دوزخ سے نکال کر تدریجاً بہشت کی طرف لے جایا جائے گا اور وہ ایک ایک نعمت کو دیکھ کر سوال کرتا جائے گا اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جائے گا کہ اچھا اب اور کچھ نہ مانگوں گا.
فرما یا بعینہ ہم میں سے اکثر کی یہی حالت تھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے فضل کئے اور فتوحات کے دروازے کھول دیئے تو وہ گویا ایک حاکمانہ رنگ میں رنگین ہو گئے اور بعض اوقات بالکل مالکانہ رنگ میں ناراض ہو کر کہا کرتے تھے کہ فلاں اخبار نے یہ کام یوں کیوں نہیں کیا یہ کیوں کیا ہے.الغرض دیر تک اسی قسم کے اذکارفرماتے رہے اور شکریہ کرتے رہے اور ساتھیوں کو عملاً بھی شکر نعمت کا سبق دیا.شام اور عشاء کی نمازیں حضور نے خود جمع کر کے پڑھا ئیں اور پھر کھانے کے بعد تشریف لائے.ایک عیسائی عورت ڈیک پسنجر ہے وہ حافظ صاحب سے عربی میں گفتگو کر رہی تھی.حضور نے بھی کچھ مخاطبہ فرمایا اور اس کے مذہب کے متعلق چند سوالات انگریزی میں اس سے کئے اور آدھ گھنٹہ بعد پھر اندر تشریف لے گئے.۱۵/ نومبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز میں حضور تشریف نہ لائے ناشتہ کے وقت تشریف لائے.دوائی پی ناشتہ کیا اور خان صاحب کے جواب میں فرمایا! طبیعت تو اچھی ہے مجھے کسی نے جگایا ہی نہیں.( ڈاکٹر صاحب جگانے گئے تو تھے مگر حسب ہدایت بہت آہستگی سے کھٹکھٹایا اور چلے آئے ) حضور ناشتہ کے بعد سے بیٹھے ہوئے ہیں اور پہلے قادیان میں طاعون کی بیماری کا ذکر ہوتا رہا.اب پیغام پارٹی کے جلسہ اور ان کی حکمت عملیوں اور چلا کیوں کا ذکر ہورہا ہے اور باری باری اکثر کے نام بعض اذکار پر ساتھ آ رہے ہیں.شیخ محمد نصیب کا نام بھی آیا ہوا ہے اور اس کی کمینہ حرکات اور زر پرستی کے کارنامے پڑھے جا رہے ہیں.اللہ کریم ان لوگوں پر رحم کرے کیوں خدا کے برگزیدہ کی مخالفت میں ایمان سے بھی نکلے جار ہے ہیں.ابتدائی فتنہ کے گمنام ٹریکٹ، خلافت احمدیہ، بعض لوگوں کی شہادت اور مرہم عیسی وغیرہ کے بھی اذکار ہو رہے ہیں مگر آخر ان کے حق میں دعا ہی فرماتے ہیں کیونکہ آخر کبھی صالح تھے.۱۲ بجے سے پہلے ہی حضور تشریف لے گئے اور کھانے سے پہلے ایک مرتبہ پھر تشریف لائے اور تھوڑی دیر ٹھہر کر پھر کھانے کے لئے تشریف لے گئے.کھانے میں آج حضور کو ہمارے ہاں کا پکا ہوا سالن جو روزانہ ایک پلیٹ بھیجا جایا کرتا ہے ملازموں نے نہ دیا اور اپنا پکایا ہوا سالن دے دیا
۴۶۷ ( گوشت اب کے عدن سے اور پورٹ سعید سے ذبیحہ جہاز والوں نے لیا تھا ) مگر وہ گوشت خراب تھا.حضور کی طبیعت پہلے ہی لقمہ سے خراب ہو گئی.حضور جلدی واپس آگئے اور کمرے میں لیٹ کر سو گئے اور چار بجے کے بعد نمازوں کے لئے تشریف لائے.نماز ظہر پڑھا چکنے کے بعد دو چار منٹ کے لئے حضور بیٹھے رہے اور کنپٹیوں اور پیشانی کو ہاتھ سے دبایا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ سر میں درد کی شکایت ہے.حضور نے فرمایا تکبیر کہہ دو.ہم سمجھے کہ شاید تکلیف کی وجہ سے بیٹھ کر ہی نماز پڑھائیں گے مگر جب تکبیر ہوئی تو حضور کھڑے ہوئے اور عصر کی نماز بہت لمبی کر کے پڑھائی جس میں دعاؤں کا خوب موقع ملا.سجدات بھی لمبے تھے حتی کہ حافظ صاحب نے نماز کے بعد عرض کیا کہ حضور ایک رکعت میں سجدہ بجائے دو کے صرف ایک ہوا ہے.( سجدوں کی طوالت کی وجہ سے پہلے سجدہ کا خیال بھول گیا ) مگر سجدات ٹھیک ہوئے تھے اس وجہ سے نماز ختم ہی سمجھی گئی.( دو تین دن پہلے عصر کی نماز بجائے دو رکعت کے تین رکعت پڑھائی گئی تھی.سلام کے بعد عرض کرنے پر حضور نے دوسجدات سہو مع مقتدیوں کے اور کر دئیے ).نمازوں کے بعد شام کے قریب تک حضور بیٹھے رہے مگر ڈاکٹر صاحب نے کوشش کر کے اُٹھوا دیا تا کہ حضور کچھ کھلی ہوا میں ٹہلیں اور پھر میں چنانچہ حضور جب سے گئے ہوئے اب تک واپس نہیں تشریف لائے.لوگوں سے باتیں کرتے رہے اور پھر کھانے پر تشریف لے گئے.( حضور آ گئے ہیں) حضور کھانے کے کمرے سے اُٹھ کر آئے ہیں.فرمایا آج تو حد ہی ہوگئی.ہمارے کھانے کے کمرے میں مختلف قسم کے سوانگ بھر کر لوگ آئے ان کو شناخت نہ کیا گیا مگر بعد کی کرتوتوں.ان کا راز کھل گیا.کوئی ڈاکو بن کر آن گھسے اور عورتوں کی میز پر چلے گئے.ان کو ڈرایا دھمکایا وہ چینیں مارنے لگیں.کوئی یہودی بن کر آیا اور پروں کے پنکھے اور پر وغیرہ فروخت کرتا پھرا.کوئی عرب بن گیا.ایک عورت خادمہ کو سیلر بنا دیا اور بعض مذاق بھی کئے.ایک عورت کے سامنے کھانا پیش کیا جب وہ چھری سے کاٹنے لگی تو وہ بلی بن کر اُچھلا اور پلیٹ سے باہر جا پڑا.ایک مسافر کے سر پر پٹھکانا سا لٹکا دیا اس میں رنگ دار پانی بھرا تھا.جب وہ کرسی پر بیٹھا تو پانی گر کر اس کے کپڑے بھی تر ہو گئے.الغرض آج تو کھانے کے کمرے میں عجیب قسم کا شور و پکار اور قہقہے اور ہنسی مذاق ہی
۴۶۸ ہوتا رہا ہے.دراصل آج ان کا کوئی خاص دن ہے اس کی یاد میں جلسہ کر رہے ہیں.عجیب عجیب روشنی کے سامان بنائے ہوئے ہیں اور اب کہ ہم لوگ نماز سے فارغ ہو چکے ہیں وہ او پر تختہ جہاز پر ہی ناچ رنگ اور گانا بجانا کرنے میں مصروف ہیں.حضور نماز کے بعد اپنے کمرے میں تشریف لے گئے ہیں.نماز یں دونوں مغرب اور عشاء حضور نے جمع کر کے پڑھا ئیں.بمبئی سے جماعتوں کو بھیجنے کے لئے دوسو کے قریب قلمی خطوط لکھے گئے ہیں تا کہ اگر پہلا پروگرام تبدیل کرنا پڑے تو بمبئی پہنچتے ہی دوستوں کو نئے پروگرام کی اطلاع دی جا سکے.آگرہ ٹھہرنے کی بھی تجویز ہے بشرطیکہ بمبئی پہنچ کر کوئی خاص ضرورت جلدی قادیان پہنچنے کی پیش نہ آ گئی.آگرہ ٹھہرنے کی صورت میں قادیان انشاء اللہ تعالیٰ ۲۴ کی صبح ہی کو حضور کا ورود ہوگا.۲۴ / نومبر ۱۹۲۴ء بروز دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ - ساندھن کے مقامی مسلمانوں نے بھی حضرت اقدس کے حضور درخواست بھیجی ہے.چوہدری علی محمد صاحب کو آج بہت آرام ہے.بیچ میں دو تین دن پھر ان کو سخت تکلیف ہو گئی تھی.آج جہاز ۳۱۰ میل سمندری چلا.۱۶/ نومبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز حضور نے خود پڑھائی اور جلدی واپس تشریف لے گئے.رات کو بہت دیر تک جاگتے رہے تھے.آٹھ بجے کے قریب حضور تشریف لائے.ناشتہ فرمایا اور پھر گیارہ بجے تک بیٹھے رہے اور مختلف قسم کے اذکار ہوتے رہے.بعض مسائل خاص کا بھی دیر تک ذکر رہا اور ان کے متعلق تحقیق و تدقیق کرنے کے لئے حضور نے حکم دیا.مختلف ممالک کے رسوم ، رواج اور عادات اور ان کے حسن و فتح کا ذکر فرماتے رہے.جہاز والوں کے پاس ایک انگریزی رسالہ میں ہمارا فوٹو تھا.ڈاکٹر نے ہمارے ڈاکٹر صاحب کو دکھایا.وہ حضرت اقدس کے پاس لے آئے.حضور نے دیکھ کر فرمایا کہ دراصل کثرت سے ایسے اخبارات اور رسالے ہیں جن میں ہمارے فوٹو اور ہمارے متعلق حالات لکھے گئے ہیں جن کا ہمیں علم بھی نہیں ہوا اور نہ ہی ان کے حصول کا کوئی انتظام کیا گیا ہے یہ کو تا ہی ہوئی ہے.مانچسٹر گارڈین نے ہمارے مضمون کے متعلق ایسی عجیب اور کھلی کھلی بات شائع کی تھی جو کسی اور اخبار میں
۴۶۹ شائع نہیں ہوئی مگر معلوم ہوتا ہے کہ وہ لیا ہی نہیں گیا.اس رسالہ کا نام جو ۲۵ / اکتو بر ۱۹۲۴ء کا ہے The Sphere لنڈن سے نکلتا ہے.سنگ بنیاد کے بعد نماز کا خوبصورت فوٹو دیا ہے.جس میں حضرت اقدس امامت کراتے ہوئے پورے دکھائی دیتے ہیں.بعض فوٹو ؤں میں حضور نماز کی امامت کراتے نہیں دکھائی دیتے تھے یا صرف پگڑی کا ایک حصہ نظر آتا تھا.اس اخبار نے آدھے کالم سے زیادہ کا مضمون بھی لکھا ہے.حضور کھانے کے لئے تشریف لے گئے اور عصر اور ظہر کی نمازوں کے لئے ۴ بجے کے بعد تشریف لائے.ظہر کی نماز پڑھ کر بعض دوستوں کی نماز پوری کرنے کا انتظار فرمایا اور پھر عصر پڑھائی.عصر کی نماز خصوصیت سے لمبی تھی اور اس کے تمام ہی ارکان لمبے تھے.بہت آہستگی سے حضور نے نماز ادا کرائی.دوسری رکعت میں رکوع کے بعد کھڑے ہوکر دیر تک دعائیں کیں.بعد کے دونوں سجدات بھی خاصے لمبے تھے.نمازوں میں اور نمازوں کے علاوہ بھی متواتر ومسلسل دعاؤں میں انہاک چلا آ رہا ہے اور اکثر حضور ہمرکاب خدام کو بھی تاکید فرماتے چلے آ رہے ہیں.نمازوں کے بعد تھوڑی دیر تک حضور بیٹھے رہے اور بعض ہندوؤں کے اصرار کا ذکر فرمایا جو انہوں نے پچھلی دعوت کے موقع پر اپنی دعوت کے لئے کیا تھا اور فرمایا کہ ہم نے بھی ان سے وعدہ کیا ہوا ہے.کل ان کی دعوت کر دی جائے.بچے کی پیدائش پر بھی وہ لوگ مبارک بادیں دے کر مٹھائی مانگتے تھے.حضور نے کچھ بادام کی مٹھائی بنوائی ہے جو غالبا کل ان میں تقسیم ہوگی.انشاء اللہ تعالیٰ کھانا شام کا آج نمازوں سے پہلے نوش فرمایا ہے اور ابھی نمازوں کے لئے تشریف نہیں لائے.آج حضور ساڑھے نو بجے کے قریب نمازوں کے واسطے آئے.ڈنر پر دیر یوں ہوئی کہ رات جو جلسہ تھا وہ دراصل کیپٹنز ڈنر ہو کر جلسہ ہوا تھا.کیپٹن نے ڈنر پر تمام مسافروں کا شکر یہ ادا کیا اور اپنے جہاز کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے ان کو آئندہ بھی اسی جہاز میں سفر کرنے اور اس کو یاد رکھنے کی تاکیدی درخواست کی.جس پر مسافروں نے کیپٹن کا شکر یہ ادا کیا اور بعض لطائف بھی بیان کئے جو انہوں نے کہا کہ اور جہازوں میں واقعی کم کبھی دیکھنے میں آئے ہیں.ان وجوہات سے ڈنر پر حضور کو دیر ہوگئی.حضور آئے تو فرمایا کہ اب تو صرف ۴۰ گھنٹے باقی رہ گئے ہیں اور پھر فرمایا کہ کل
۴۷۰ انشاء اللہ تعالیٰ قادیان تار دے دیں گے ، پھر فرمایا کہ اپنی طرف سے سارے ساتھیوں کی طرف سے اور ساری جماعت کو.کسی دوست نے تار کا مضمون پوچھا تو فرمایا کہ جب تار دیں گے تو پتہ بھی لگ جائے گا.خان صاحب کی والدہ بیمار ہیں.دہلی میں ان کو اجازت دیدی ہے کہ وہ بمبئی سے اترتے ہی ۱۸/ نومبر ہی کو ۳ بجے کی بمبئی میں سے دہلی چلے جائیں اور والدہ کی خدمت و عیادت کریں.پھر جب حضور دہلی سے روانہ ہوں تو وہ بھی قافلہ کے ساتھ شامل ہو جائیں.چوہدری فتح محمد خان صاحب کو بھی پہلے آگرہ بھیج دینے کی تجویز ہے تا کہ وہاں جا کر انتظام کریں اور مبلغین اور احمدی وغیرہ احمدی دوستوں کو اطلاع کر دیں اور کہ ساندھن جانے کے واسطے بھی کوئی انتظام کریں.وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ ۱۸ء کو اُترتے ہی خان صاحب کے ساتھ چلے جائیں گے جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بھی اجازت لے لی ہے.چوہدری محمد شریف صاحب بی.اے نے بھی اجازت لے لی ہے چنانچہ یہ چار اصحاب ہمارے ہم سفروں میں سے ۱۸ ء کو جہاز سے اترتے ہی وطن کو روانہ ہو جائیں گے.نماز میں حضور نے جمع کر کے پڑھائیں اور آجکل کے معمول کی طرح یہ نمازیں بھی بہت لمبی پڑھائیں.شام کی نماز کی آخری رکعت کا پہلا سجدہ بہت ہی لمبا کیا.جس میں خوب دعائیں ہوئیں اور عشاء کی نماز کی دوسری رکعت کا دوسرا سجدہ اتنا لمبا کیا کہ یہ بھی خیال نہ رہا کہ سجدے 0 دو ہوئے یا ایک اور ایک اور سجدہ کر دیا جو در حقیقت تیسرا تھا.نماز کے بعد خود ہی پوچھا کہ سجدے تین تو نہیں ہو گئے ؟ عرض کیا گیا کہ تین ہوئے ہیں.تب دوسجدات سہو کر کے سلام پھیرا - فرض نمازوں اور وتر کی نماز سے فارغ ہو کر حضور ا ندرتشریف لے گئے.آج رات بھی آخر رات سمجھ کر کچھ شور و شعب کا لوگوں نے ارادہ کیا تھا مگر اللہ کریم نے تیز ہوا چلا دی جس سے ان کے دیئے اور چراغ بتیاں اور باغ گلزار اور جھاڑ جو انہوں نے بڑی محنت سے روشنی کے لئے تیار کئے تھے اُلٹ پلٹ کر دیئے.آخر وہ خائف ہوئے کہ ناچتے کودتے کہیں انسان ہی اُڑ کر سمندر کی نذر نہ ہو جائیں.ناچ رنگ کے ارادے ترک کر کے امن سے گھروں میں سو گئے ہیں.خدا بھلا کرے ورنہ ایسا ادھم مچاتے کہ امن ملتا نہ توجہ لگتی.ہوا کی تیزی
جہاز کی رفتار کے مخالف ہے اس وجہ سے خطرہ ہے کہ جہاز کی رفتار بھی کم ہو جائے گی اور اس طرح بمبئی پہنچنے میں اور دیر.۱۷/ نومبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز میں حضور تشریف نہیں لا سکے رات کچھ تکلیف رہی.ہوا کی تیزی کی وجہ سے جہاز بیچ (Pitch) بھی کرتا رہا ہے اور رول بھی کر رہا ہے.مولوی عبد الرحیم صاحب نیر کل عصر سے پڑے ہیں جگہ سے ہلنا پسند نہیں کرتے.آج تو بالکل طلوع ہی نہیں فرمایا با دلوں ہی میں ہیں.رحمد بن بھی بے چارہ گرتا نظر آتا ہے.بہت ہی ہمت کر کے صرف چائے بنا کر لایا ہے مگر اس کا چہرا بتاتا ہے کہ آخر لیٹ کر ہی رہے گا.جہاز میں اور بھی لوگ سی سک نس میں مبتلا ہور ہے ہیں.اللہ رحم کرے آخری دن آن کر سمند را پنا آپ دکھانے لگا ہے.افسوس کہ احمدین بھی آخر لیٹ ہی گیا.حضور آج آٹھ بجے تشریف لائے ہیں.ناشتہ میں خود تیار کر رہا ہوں.حضور کی طبیعت کچھ ست سی ہے.اللہ تعالیٰ فضل کرے.ناشتہ پیش کیا تو فرمایا ڈاکٹر صاحب سے پوچھ لو کوئی دوائی دینی ہو تو دے لیں مگر انہوں نے کہا کہ ناشتہ دے دو.حضور کوئی آدھ گھنٹہ بعد ناشتہ فرما کر جہاز کا انجن دیکھنے کو تشریف لے گئے.انجینئر خود آیا ہے تا کہ حضور کے ساتھ ہو کر اچھی طرح سے جہاز اور اس کے انجن وغیرہ دکھائے.پانچ پانچ ہزار گھوڑوں کی طاقت کے دو انجن جہاز میں ہیں.ایک کام کرتا ہے دوسرا آرام.خدانخواستہ ایک میں کوئی نقص واقع ہو جائے تو دوسرے سے کام لیا جا سکے یا کسی جگہ زیادہ طاقت کی ضرورت پیش آ جائے تو روک نہ ہو.اس وجہ سے دو الگ الگ انجن رکھے ہوئے ہیں.انجن سطح سمندر سے ۱۸ فٹ نیچے پانی کے اندر تک ہیں.آج رات کی مخالف ہوا کی وجہ سے رفتار میں جو کمی واقع ہو گئی ہے اس کے پورا کرنے کی غرض سے دونوں انجن چلا دیئے گئے ہیں.رحمد بن بے ہوش و بے سرت پڑا ہے اس طرح ہم آٹھ آدمیوں کی تو گویا ماں بیمار پڑگئی ہے.اللہ رحم کرے.میں آلو ابال کر لایا ہوں.ڈاکٹر صاحب کاٹتے ہیں.چوہدری علی محمد صاحب چھیلتے ہیں کوئی نمک لا یا کوئی مرچ کسی نے ترشی بنائی کوئی برتن لایا.آٹھوں ملے تب جا کر ایک آدمی کا کام ہوا ہے.سب نے مل کر پلا ؤ زردہ سمجھ کر کھایا اور خداوند کریم کا شکر بجالائے.ٹھیک ہے قدر
۴۷۲ نعمت نزول نعمت.حضور ابھی تشریف لائے تھے.آج ہمارے ہاں مشاعرہ ہو رہا ہے یعنی شعروں کا میچ.حضور نے فرما یا مشاعرہ ہے یا شعر بازی؟ اور دو چار منٹ ٹھہر کر پھر تشریف لے گئے.رحمد بن بھی اُٹھا ہے.کچھ کھایا ہے اور اب نسبتاً آرام بتاتا ہے.ہوا بھی مدھم پڑ چکی ہے اور رولنگ اور پیچنگ میں بھی کمی واقع ہو گئی ہے.آج شام کو دعوت تھی وہ بھی حضور نے رحمدین کی بیماری کی وجہ سے ملتوی فرما دی.صرف مٹھائی بادام کی بنائی تھی اسی پر اکتفا فر مایا اور فرسٹ اور سیکنڈ کلاس مسافروں میں تقسیم فرمائی ہے.تارجس کا حضور نے کل ذکر فر مایا تھا کہ قادیان دیں گے اب تک تو دی نہیں یا کم از کم ہمیں اس کا علم نہیں ہو سکا.- حضور کھانا کھانے کے بعد سے شام کے قریب تک باہر تشریف نہ لائے.نماز کے لئے عرض کیا تو فر ما یا ٹھہرو میں آتا ہوں.دیر ہوتی دیکھ کر بعض نے نماز پڑھ لی.دوبارہ عرض کیا تو نہ بولے.سہ بارہ عرض کیا تو فرمایا کہ کہا جو ہے آتا ہوں.عصر کی نماز کا وقت تنگ ہو رہا تھا کہ تشریف لائے.نمازیں پڑھائیں اور لمبی پڑھائیں.دعاؤں کا خوب موقع ملتا رہا.خصوصاً سجدات میں اور نمازوں کے بعد پھر معاً ہی تشریف لے گئے.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور دعاؤں میں لگے ہوئے تھے یا قادیان کے لئے کوئی پیغام لکھ رہے تھے.غرض کسی اہم ضروری کام میں مصروف تھے اور واپس کمرہ میں تشریف لے جا کر بھی مصروف ہی ہیں جب کہ نماز پڑھا کر تشریف لے گئے ہیں.اب تک کہ ۹ بج چکے ہیں تشریف نہیں لائے.نمازوں کے بعد ڈاکٹر صاحب دوائی لے کر گئے.حضور کو تلاش کر کے پہنچائی مگر حضور نے نہ پی.جہاز میں آج کا دن آخری دن تھا اور یہ رات آخری رات.ہم لوگ آپ سب کے لئے دعائیں کرتے ہیں.اللہ کریم ہماری بھی سنے اور آپ لوگوں کی بھی سنے اور ہم سب کو اپنے دین کا پکا عامل اور سچا خادم بنا دے.بچے علوم صالح اعمال کے زیور سے ہم سب کو آراستہ فرمائے اور اشاعت ( دین ) اور خدمت خلق کی توفیق دے کر ہم سے وہ کام لے جو اس کی رضا کا موجب ہو اور ہم کو ایسا بنا دے جیسا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود اور حضور کے خلفا ہم کو بنانا چاہتے ہیں.ہم سب اس کے ہو جائیں اور وہ ہمارا
۴۷۳ ہو جائے اور اسی حالت میں ہمارے انجام بخیر ہوں آمین.سمندر میں کل سے کچھ شندی ہے جس سے اکثر لوگ اُفتاں و خیزاں اوقات بسری کرتے ہیں.بعض گر بھی گئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کا احسان اور اسی کا فضل ہے کہ بہت امن اور آرام سے یہ ایام سفر گزرے ہیں.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے بخیریت کشتی کو ہماری کنارے لگائے.دوست منتظر ہوں گے.اُدھر وہ ادھر ہم.کل صبح کی خوشی میں شاید پوری نیند بھی نہ لے سکیں گے.حضور ساڑھے نو بجے کے بعد تشریف لائے مگر چونکہ سب دوست جمع نہ تھے انتظار میں بیٹھ گئے.فرمایا کل سے طبیعت بہت اداس ہو گئی ہے.سارے سفر میں ایسی اداس نہ ہوئی تھی جیسی کہ اب قریب آ کر ہوئی ہے.فرمایا میں نے کہانیوں کی کتابیں پڑھ کر وقت گزارا ہے یا لوگوں سے باتیں کر کے.باتیں کرنے سے یہ فائدہ ہوا کہ لوگوں سے تعارف بڑھ گیا اور کام بھی خوب ہوتا رہا.بہت لوگ اس طرح سلسلہ سے واقف ہو گئے.اب سوچنا ،فکر کرنا اور غور کر کے فائدہ اُٹھانا ان کا کام ہے.ملک نواب دین صاحب نے اپنی تبلیغی رپورٹ سنائی.وہ ایک پروفیسر صاحب کو جو کہ سیلون میں کنیڈی مقام کے کسی کالج کے پروفیسر ہیں اُن کو کرتے ہیں جو حضور نے توجہ سے سنی اور خوشی کا اظہار فرمایا.یہ پروفیسر صاحب احمدیوں سے پہلے بھی واقف ہیں کیونکہ ان کے کالج کی کلاس میں ان کے شاگردوں میں چار پانچ احمدی لڑکے ہیں مگر پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ وہ خوف کے مارے احمدیت کا اظہار نہیں کرتے.پروفیسر صاحب سے ملک صاحب نے زبانی گفتگوئیں بھی کیں اور لٹریچر بھی دیا جو کہ انہوں نے پڑھا اور بہت متاثر ہوئے ہیں.دلائل کو لا جواب مانتے ہوئے بھی پرانے آبائی خیالات کو چھوڑنے کی جرات نہیں کر سکتے مگر خیر یہ ایک بیج ہے جو ملک صاحب نے ان کے دل میں بود یا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ملک صاحب گواکثر دائم المریض ہیں مگر سلسلہ کی تبلیغ کا ان کو خاص شوق اور جوش ہے اور بات کو ایسے رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ خواہ مخواہ دوسرا سننے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے.شناسائی بھی پیدا کر لیتے ہیں اور مردم رس بھی ہیں.سلسلہ کے دلائل اور خصوصیات سے بھی واقف بلکہ اچھے واقف ہیں.بہتوں کو انہوں نے اسی جہاز میں پیغام حق پہنچایا ہے.
۴۷۴ اللہ کریم ان کی سعی کو سعی مشکور بنائے آمین.حضور نے نمازیں پڑھائیں.نماز کے لئے کھڑے ہوتے وقت میں نے احباب کے لئے دعاؤں کی پھر درخواست کی کیونکہ آج کی رات آخری رات ہے جو اس سفر سمندر میں ہمیں آئی ہے چنانچہ حضور نے شام کی نماز کے التحیات میں اور عشاء کی نماز کی دوسری رکعت کے پہلے سجدے میں بہت دعائیں کیں اور یہ سجدہ بہت ہی لمبا ہوا.آج عشاء کی نماز میں عجیب واقع ہوا.سلام کے بعد میں نے عرض کیا حضور ایک ہی رکعت ہوئی ہے.حضور نے فرمایا دو رکعت ہوئی ہیں.مجھے خوب یاد ہے کیونکہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ عشاء کی پہلی رکعت کے سجدہ میں دعا کروں مگر جلدی سے کھڑا ہو گیا اور دعا نہ کی گئی جس کا مجھے افسوس ہوا اور میں نے نیت کی دوسری رکعت کے پہلے ہی سجدہ میں دعا کرلوں تا کہ ایسا نہ ہو کہ دوسرے سجدہ میں کرنے کے خیال سے پہلے میں نہ کروں اور پھر دوسرے میں بھی موقع نہ ملے اور پھر مجھے یاد ہے کہ میں نے عشاء کی نماز کی دونوں سورتیں.والضحی اور والتین پڑھی ہیں“.حضور کے فرمانے سے میں نے سمجھ لیا کہ مجھے غلطی لگی ہوگی مگر دل پر بوجھ رہا کہ صرف ایک ہی رکعت پڑھی گئی ہے.حافظ روشن علی صاحب نے عرض کیا کہ حضور مجھے بھی یہی یقین ہے کہ ایک ہی رکعت پڑھی گئی ہے.چوہدری محمد شریف صاحب نے عرض کیا کہ مجھے بھی ایک ہی پڑھی جانے کا یقین ہے.شیخ عبد الرحمن صاحب مصری نے بھی یہی کہا.نیر صاحب نے کہا کہ رکعت تو ایک ہی ہوئی ہے مگر سورتیں دونوں پڑھی گئی ہیں.اسی طرح عرفانی صاحب بھی مذبذب تھے کہ ایک ہی پڑھی گئی ہے.باقی دوست کہتے تھے کہ دو پڑھی گئی ہیں.جس وثوق اور یقین سے حضرت اقدس نے دو پڑھنے کا یقین ظاہر فرمایا اس کی عظمت ادب اور احترام کی وجہ سے ہم لوگ اپنی غلطی کے مقر ہیں ورنہ خیال یہی ہے کہ ایک ہی رکعت پڑھی گئی ہے.بہر حال دیر تک حضور اس کے متعلق باتیں کرتے رہے اور پھر فرمایا کہ مجھے تو دو پڑھنے پر ایسا یقین ہے کہ لو میں تو یہ جارہا ہوں اور تشریف لے گئے ہیں.اللہ کریم حضور کے ساتھ ہو آمین.جہاز کے ملازموں اور خادموں وغیرہ کو انعامات وغیرہ آج تقسیم کر دئیے گئے ہیں.جہاز
۴۷۵ کے پل ادا کر دیئے گئے ہیں اور ہر قسم کے حسابات صاف کئے جاچکے ہیں.۱۸/ نومبر ۱۹۲۴ء سمندر کی آخری گھڑیاں ! سید نا حضرت محمود فضل عمر فخر رسل اولو العزم خلیفہ امسیح والمہدی نے خود تشریف لا کر نماز صبح ادا کرائی اور دوسری رکعت کے تشہد میں بہت ہی لمبی دعائیں کیں حتی کہ جب سلام پھیر کر فارغ ہوئے تو سورج نکلا ہوا تھا.دھوپ جہاز کے جھرکوں میں سے صاف اور کھلی پڑ رہی تھی.نماز سے فارغ ہو کر حضور چند منٹ بیٹھے اور پھر تشریف لے گئے.ایک دوست کے سوال پر فرمایا کہ جہاز بے چارے نے اب کیا تنگ کرنا ہے.جتنا زیادہ تنگ کرے گا اتنا اتنا ہی قریب ہوتا جائے گا اور آخر ہمارے اُتر جانے کا اسے بھی افسوس ہوگا کیونکہ خدا جانے اس کو اس قسم کے مسافر کبھی میتر بھی آئیں گے یا نہیں.رخت سفر برائے قادیان بندھ رہا ہے.نظریں کناروں کی طرف دوڑتی ہیں مگر ابھی سوائے افق کے کچھ نظر آتا نہیں.بعض دوست اوپر کی منزل سے کچھ دیکھنے کی کوشش میں ہیں.ساڑھے آٹھ بجے ہیں.حضور دوربین لے کر اوپر تشریف لے گئے ہیں.دوست ادھر کبھی اُدھر دیکھتے ہیں اور بے تابی کا ایک عالم ہر ایک کے چہرے سے پڑھا جاسکتا ہے.بمبئی کی چھوٹی کشتیاں مچھلی پکڑنے کی آدھ گھنٹہ سے نظر آ رہی ہیں.ساحل سمندر کے پہاڑ بھی نظر آنے شروع ہو گئے ہیں اور دل اب سے اُچھلنے لگے ہیں کہ ان کی دھڑکن نمایاں محسوس ہوتی ہے.چہرے خوشی سے ٹمٹمار ہے ہیں کیونکہ مدتوں کے بچھروں کو ملنے کی اُمید لگ رہی ہے.اللہ کریم خیر و برکت کا میل کرے اور دائمی فضل و رحمت اس ملاپ کا نتیجہ ہو آمین.و بج چکے ہیں اور اب تو بمبئی کے مکانات تک نظر آتے ہیں.ہمارے دوست تو شاید جہاز کو بھی دیکھتے ہوں گے مگر وہ ہمیں نظر نہیں آتے.ہر شخص آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے.حضور نے صبح فرمایا تھا کہ ایک دعا جہاز کے ٹھہرنے کے وقت اور دوسری اُترتے ہوئے دو دعائیں کی جائیں گی.جہاز والے فوٹو کی درخواست کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ریسپشن (Reception) پارٹی کے آجانے کے بعد سارے گروپ کی تصویر لیں گے.
حضور تشریف لائے ہیں.دل ہی دل میں شہر کو دیکھنے کی دعائیں کر رہے ہیں.نظریں شہر کی طرف گڑھی ہوئی ہیں.ہم لوگ آمین آمین اللہم آمین کہتے جاتے ہیں.یہ مخفی ہیں وہ دونوں دعائیں ہاتھ اٹھا کر ہوں گی.انشاء اللہ تعالیٰ.حضور دوربین لے کر پھر اوپر تشریف لے گئے ہیں.دنا دن کی آواز میں آ رہی ہیں.ہم بالکل شہر کے پانیوں میں آن پہنچے ہیں.میں نہیں جانتا کہ یہ دنا دن کیسی ہے مگر میں اس سے فال نیک لیتا ہوں کہ حضور کی کامیاب واپسی کے لئے سلامی اُتاری جا رہی ہے اور خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے.سمندر کنارے پر دوست با قاعدہ کھڑے ہیں.ایک انتظام ہے اور ایک ترتیب.ایک سبز پوش غالباً حضرت مفتی صاحب ہیں اپنی جگہ پر کھڑے رومال ہلاتے ہیں.تکبیر میں کہتے ہیں.ہاں ہاں وہ حضرت مفتی صاحب ہی ہیں بلکہ نیک محمد صاحب بھی ہیں میں نے دیکھ لئے.سید بشارت احمد صاحب ہیں.مولوی عبد السلام صاحب ہیں.سیٹھ غلام غوث صاحب شیخ نیاز احمد نسپکٹر - حافظ عبدالوحید صاحب منصوری - شیخ ابراہیم علی صاحب اور بھی بہت سے دوست ہیں جن کے نام ہی مجھے نہیں آتے.حاجی عمر الدین صاحب بھی ہیں مگر افسوس نہ حضرت میاں ناصر احمد صاحب نظر آئے ہیں نہ میاں مبارک احمد صاحب اور نہ ہی وہ گر جنے والے بر سے ہیں نہ معلوم کیا وجہ ( با بو فخر الدین صاحب ) ہاں ہاں سیٹھ عبداللہ الہ ین بھائی بھی آئے ہیں.اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر - وه لواهلا وسهلا و مرحبا کے نعرے بلند ہوئے.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے تھے ایک دوسرے کو دیے جا رہے ہیں.الحمدللہ.الحمد لله ثم الحمد لله رب العلمين سیڑھی جہاز پر لگ گئی ہے اور لوگوں کو اوپر آنے کی اجازت ہوگئی ہے.سامان وغیرہ کی نگرانی اور دوستوں کی ملاقات کی وجہ سے میں اب اپنے عریضہ کو یہیں بند کرتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ کسی طرح سے آج ہی روا نہ ہو کر جمعہ کے دن قادیان پہنچ جاوے.فقط والسلام عبدالرحمن قادیانی از بمبئی ۱۸/ نومبر ۱۹۲۴ء
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم از مقام بمبئی : مورخه ۱۸/ نومبر ۱۹۲۴ء السلام عليكم ورحمة الله وبركاته جہاز کے پورٹ پر پہنچنے تک کے حالات عرض کر چکا ہوں - ڈاک چونکہ جلدی روانہ ہونے والی تھی میں نے اس خط کو وہیں بند کر کے حوالہ ڈاک کیا تا کہ تازہ حالات آپ تک پہنچ سکیں.یہ عریضہ میں نے ۱۸ کو مکان پر پہنچ کر شروع کیا.مگر آج ۱۹ کی صبح ہے.کل ۴ سطور سے زیادہ نہ لکھ سکا.کچھ دوستوں کی ملاقات کچھ اپنا شوق قادیان.جوں جوں قرب بڑھتا ہے آتش محبت و شوق تیز ہوتی جارہی ہے.اور نہیں تو حالات وطن سن کر ہی دل کو دوسری طرف لگا نا پڑتا ہے اس وجہ سے اب شاید مختصراً نہایت ضروری حالات ہی لکھ سکوں گا.ہمارا جہاز جب گودی کے اتنا قریب ہوا کہ دوست ہمیں اور ہم دوستوں کو شناخت کر سکیں تو خوشیوں کی لہریں محبت کے ولولے اور شوق کی آگ بڑھنے گی - اهلا و سهلا و مرحباً - السلام عليكم ورحمة الله و بركاته الله اكبر - الحمدلله کے نعرے بلند ہونے شروع ہوئے جن سے فضا میں گونج پیدا ہو جاتی تھی.دور سے جو چیز ہمیں کوئی سبز نشان یا جھنڈا معلوم دیتا تھا اب وہ مفتی صاحب کے وجود میں تبدیل ہو گیا.کم و بیش ایک سو دوستوں کا مجمع ساحل سمندر پر اس خوشی میں شریک نظر آتا تھا جن میں ایک حصہ تو بالکل اجنبی اور لوکل معلوم ہوتا تھا.جہاز جب ٹھہر گیا سیڑھی لگائی گئی تو دوستوں کو اوپر آنے کا موقع ملا جن میں سے ( سب سے پہلے برادر عزیز مولوی نیک محمد خان صاحب تختہ جہاز پر پہنچ کر حضرت اقدس کی دست بوسی کی سعادت اور عزت سے مشرف ہوئے اور ان کا یہ عمل پروانگی کے ساتھ گونہ دیوانگی کا رنگ لئے ہوئے تھا ) اس تقریب پر جو نمونہ دوستوں نے دکھایا.جس وفور محبت اور ایثار سے بڑی بڑی قربانیاں کر کے دوست ساحل سمندر پر پہنچے ہیں وہ گویا جماعت کی سچی روح اور دلی محبت کی ترجمانی کر رہا تھا.تمام ہندوستان کے نمائندے سید نا محمود کا خیر مقدم کہنے کو موجود تھے.قادیان ، لاہور، پشاور ، کلکتہ، رنگون ، برهما، هموگا، حیدر آباد دکن ، حیدر آباد سندھ ، بنگلور، برار، مالا بار، منصوری
CLA وغیرہ سے احباب آئے اور اظہار محبت کیا جن سے جماعت کی محبت کی اس روح کا پتا لگتا ہے جو حضور کی غیر حاضری از ہند کے زمانہ کی وجہ سے پہلے سے بھی زیادہ تیز ہورہی ہے.ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ کے قریب بعض دوست حضور کی خدمت میں تختہ جہاز پر پہنچ کر شرف ملاقات پاتے رہے.پھر حضور جہاز سے نیچے تشریف لے آئے اور حضور نے ایک لمبی دعا سرزمین ہند پر قدم رکھنے کے ساتھ ہی کی.بعض فوٹو گرافر اور اخبارات کے نمائندے موجود تھے.دعا کے بعد حضرت مفتی صاحب نے تمام جماعت کی نمائندگی کی اور ایک ایڈریس جو نہایت خوشخط لکھا اور ایک نہایت ہی خوبصورت چاندی کی نکی میں ڈالا ہوا تھا پڑھا.جس میں یورپ میں خدا کے فضلوں اور رحمتوں کی بارش اور کامیابیوں پر اور حضور کی کامیاب بخیریت واپسی پر مبارک باد پیش کی گئی تھی اور بہت اچھے پیرا یہ میں نیاز مندی و عقیدت کا اظہار کیا گیا تھا.حضور نے اس ایڈریس کا جواب دیا اور سفر یورپ کی خارق عادت بلکہ معجزانہ اور بالکل غیر متوقع کامیابی کی تفصیل بیان فرماتے ہوئے جماعت کو اس کی ذمہ داری کے بڑھ جانے اور پہلے سے زیادہ قربانیوں کے لئے تیار ہو جانے کی تاکید فرمائی اور فرمایا کہ ان نعمتوں کے پانے کے بعد ان کی قدر کرو اور ہدیہ شکرانہ ادا کرو تا کہ نعمتیں اور زیادہ ہوں ورنہ دوسری طرف وعید بھی موجود ہے جو بہت خطرہ کا مقام اور ڈر کی جگہ ہے.لئن شکرتم لازيد نكم ولئن كفر تم ان عذابي لشدید- آخر میں حضور نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو خدمت دین کی پہلے سے بھی زیادہ توفیق عطا فرما دے.خدا کے فضل اور انعامات بھی جہاں قائم ودائم رہیں وہاں ہمیشہ زیادہ سے زیادہ بھی ہوں.ایڈریس کے جواب کے بعد ایک فوٹو کے لئے مجمع کو دوسری طرف لے جایا گیا تا کہ فوٹو گرافر جو کسی اخبار کا نامہ نگار تھا فوٹو لے سکے.کثرت سے لوکل آدمی ساحل سمندر پر حضور کے استقبال کے لئے بھی جمع تھے مگر افسوس کہ ان کو ہمارے دوستوں نے حضرت کی حضوری اور باریابی کا موقع نہ دیا اور وہ بے چارے دھکے کھا کھا کر ادھر کے اُدھر اور اُدھر کے ادھر ہو جاتے رہے اور آخر چلے گئے.اخبار کا اردو شارٹ ہینڈ رائیٹر نمائندہ بھی وہاں موجود تھا.ڈیلی میل اور ٹائمیز دونوں مشہور اخبارات کے نمائندے آئے اور حضور سے انٹرویو کر کے چلے گئے.ہمارے قافلہ کے بمبئی
پہنچتے ہی ہم میں سے جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب، چوہدری محمد شریف صاحب اور چوہدری فتح محمد خان صاحب تینوں بزرگ کنارہ سمندر ہی سے سٹیشن کو چلے گئے جیسا کہ پہلے تجویز کیا گیا تھا اور کل کے خط میں عرض کر چکا ہوں.خان صاحب کو جہاز سے اترتے ہی یوں فراغت ہوگئی کہ انہیں یہ اطلاع مل گئی کہ ان کی والدہ محترمہ اس جہان فانی سے کوچ کرگئی ہیں.فانا لله و انا اليه راجعون لہذا اب خان صاحب دہلی کو روانہ ہونے کی بجائے حضرت اقدس کے ہمرکاب ہی ٹھہر گئے ہیں.حضور مع دوستوں کے نواب سید محمد رضوی صاحب کی کوٹھی پر جہاں قیام کا انتظام کیا گیا تھا تشریف لائے اور ہم لوگ کسٹم کے جھگڑے میں لگے رہے اور بمشکل کہیں تین بجے جا کر ایک صاحب کی مددا اور مہربانی سے فارغ ہو کر مکان پر پہنچے.شام کے ۵ بجے واٹسن ہوٹل میں مکرم جناب شیخ نیاز محمد صاحب سب انسپکٹر پولیس حیدر آباد سندھ نے حضور کو دعوتِ چائے دی.حضور تمام خدام سمیت تشریف لے گئے.چائے پی اور چائے کے بعد مہمان نواز صاحب نے مختصر الفاظ میں بزبان انگریزی اللہ تعالیٰ کا اور حضور کا شکر یہ ادا کیا.جس کا جواب حضور نے انگریزی زبان میں دیا جو نہایت لطیف نہایت دلچسپ اور معنی خیز تھا وہ الگ عرض کرتا ہوں.حضور کی انگریزی تقریر کے بعد حضرت مفتی صاحب نے بھی مختصر سی تقریر کی اور کہا کہ حضرت سے مل کر سب سے پہلے میں نے جو بات دیکھی اور جس نے مجھے بہت لطف دیا اور مجھ پر خاص اثر کیا وہ یہ تھی کہ میں نے حضور کو انگریزی زبان میں نہایت روانگی اور سلاست سے گفتگو کرتے سنا ہے.میں نے حضرت مسیح موعود سے سنا ہوا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ انگریزی زبان کے سیکھنے کی کیا مشکل ہے صرف ایک رات کی دعا سے یہ کام ہوسکتا ہے.چنانچہ حضور کی اس خواہش کو میں نے اس وقت سید نا محمود کی ذات میں پورا ہوتے دیکھ بھی لیا ہے جو حسن واحسان میں خدا کے پیارے مسیح کا نظیر ہے.میں خوب جانتا ہوں کہ حضور نے اس سفر سے پہلے کبھی شاید ایک فقرہ بھی انگریزی زبان میں نہ بولا ہوگا.مگر آج میں دیکھتا ہوں کہ ایک فصیح اور بلیغ کلام حضور کی زبان مبارک سے بے ساختہ نہایت صفائی روانگی اور سلاست سے نکلتا آ رہا ہے.یہ ایک معجزانہ کلام ہے جو خارق عادت طور پر حضور کو خدا کی طرف سے دیا گیا ہے اور یہ بھی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک بین نشان ہے.فرمایا میں نے خدا کے فضل سے ابتدا سے
۴۸۰ لے کر اس عمر تک اتنے معجزات اور نشانات دیکھے ہیں جن کو گن بھی نہیں سکتا.موت اگر مجھے اب آ جائے تو میں خوش اور تیار ہوں.مجھے اب کوئی خواہش باقی نہیں.خواہش ہے تو صرف یہ کہ کسی طرح حضرت مسیح موعود کے قدموں میں ایک چپ بھی جگہ نصیب ہو جائے وغیرہ وغیرہ.ان تقریروں کے بعد حضرت اقدس نے دعائیں کیں اور ہوٹل سے نکل کر فرمایا میں کچھ پیدل چلنا چاہتا ہوں.چنانچہ حضور سمندر کے کنارے کنارے تین چار میل تک دوستوں سمیت پیدل گئے اور واپسی پر گھوڑا گاڑیوں کے ذریعہ سے مکان پر واپس تشریف لائے.ڈاک قادیان حضور کی خدمت میں جہاز پر پیش ہوئی مکان پر بھی ملی - اخبار الفضل کے پرچے بھی آئے.نماز میں حضور نے پہلے پڑھائیں اور کھانا بعد میں ہوا.۱۹/ نومبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز حضرت اقدس نے خود پڑھائی.نماز کے بعد حضور تشریف فرما ہو گئے اور دربار لگ گیا.پہلے جماعت احمد یہ پشاور کا خوبصورت ایڈریس پیش ہوا اور پھر جماعت احمدیہ کلکتہ کی طرف سے ایک ایڈریس چوہدری نواب دین صاحب نے پڑھا اور حضور نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ دوران قیام انگلستان میں جن چند باتوں سے مجھے نہایت خوشی ہوئی اور جو ایک وقت کے لئے اس تکلیف اور اس احساس ذمہ داری کو کم کرنے والی ہوئی ہیں ان میں ایک امر کلکتہ کی جماعت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.ہر چیز کا وقت پر ہی اندازہ ہوسکتا ہے وقت سے پہلے نہیں ہو سکتا.میں نے جو کتاب لکھی ہے اس کی اہمیت کا اندازہ میں ہی کر سکتا ہوں کہ کن حالات میں وہ لکھی گئی اور کیسے مشکلات سے گزرتی ہوئی وہ شائع ہوئی.اس کتاب کی حیثیت عام کتب سے زیادہ اہم ہے.سخت اور شدید گرمیوں میں جب کہ لوگ دن کو بھی کام نہ کر سکتے تھے اور گھبرا جاتے تھے اس موسم میں رات کے بعض دفعہ دو دو بج جایا کرتے تھے اور میری گردن میں دس دس ہیں ہیں پتنگے چڑھے ہوتے تھے کیونکہ لیمپ کی روشنی میں کام کرنا ہوتا تھا اور بعض اوقات اتنی کوفت ہو جاتی کہ کام کرتے کرتے تھکان کی وجہ سے چار پائی پر جانا بھی مشکل ہو جایا کرتا تھا فرش پر ہی لیٹ جاتا تھا.اس محنت اور ان حالات کی وجہ سے خواہش تھی اور دل چاہتا تھا کہ وہ کتاب وقت پر چھپے بھی اور ہمیں وہاں پہنچ بھی جائے کیونکہ مصنف کو اپنی تصنیف کہتے ہیں کہ بچے کی طرح پیاری ہوا کرتی ہے.جس وقت وہ کتاب وہاں پہنچی اس وجہ سے زیادہ خوشی تھی.جن لوگوں کے ہاتھوں سے وہ کام ہوا
۴۸۱ ہے اس وجہ سے میں نے خاص دعائیں کی ہیں جن کا مجھے یقین ہے کہ ضرور قبول ہوئیں.القصہ نہایت ہی مشکل اور حیرت انگیز حالات میں کتاب لکھی گئی تھی اور اسی وجہ سے وقت جا نا زیادہ خوشی کا موجب ہوا.وہ کتاب محض نصرت و تائید الہی کے ماتحت لکھی گئی ہے.پہلے خیال تھا کہ وہ غلط راہ پر جارہی ہے مگر ایک سو صفحات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ٹھیک راہ ہے اور اب تو اگر دس ہزار صفحات بھی مجھے لکھنے پڑیں تو انشاء اللہ تعالیٰ قلم برداشتہ لکھ سکتا ہوں کیونکہ داغ بیل اس کی اور بنیاد صحیح اور درست و مضبوط اصول پر قائم ہو چکی ہے.وہ کتاب انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی ترقی کے ساتھ خاص تعلق رکھتی ہے.جن جذبات کا اظہار جماعت کلکتہ نے کیا ہے ان سے بھی زیادہ گہرے اور محبت بھرے جذبات سے جماعت کلکتہ کی اس خدمت کو دیکھتا ہوں اور اس کے لئے دل سے دعا کرتا ہوں.صحت اب اچھی ہے.فربہی بھی معلوم ہوتی ہے.عرصہ جہاز سے گو پہلے بہت ہی کمزور ہو گیا تھا مگر پھر بھی با وجود اس عو د صحت کے جسم کھو کھلا ہو چکا ہوا معلوم ہوتا ہے.میری صحت کی موجودہ حالت اس قابل ہے کہ لمبا آرام لے مگر ذمہ داریاں اور کام محنت چاہتے ہیں.جماعت میں جلدی ضرورت ہے کہ کام کے سنبھالنے والے لوگ پیدا ہو جائیں اور ایسے آدمی موجود ہو جائیں کہ ایک کے بعد دوسرا دوسرے کے بعد تیسرا تیار ہو جو کام کو جاری رکھ سکیں.زندہ صرف خدا ہے اور ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والی صرف وہی ایک ذات ہے.وہ خود دنیا میں نہ آیا نہ آئے گا.دین کے کام ہمیشہ انسانوں ہی کے ذریعہ سے کراتا آیا ہے.کسی جماعت کی ترقی اور کامیابی کا راز اس کے آدمیوں کی پیدائش پر منحصر ہے.اگر اس قسم کے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو اس کے کاموں کی باگوں کو اپنے ہاتھ میں لے اور سنبھال سکیں مقامی و انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی تو یہ اس قوم کی زندگی و حیات اور ترقی کے آثار ہوں گے.کلکم راع وكلكم مسئول عن رعيته تمہارے مرد عورت اور بچے بھی راع ہیں.پس اس بات کا خیال رکھو بلکہ اپنی اپنی جگہ جائزہ لیا کرو کہ تم میں قحط الرجال نہ ہو.ایسے وقت میں جب کہ میں دیکھتا ہوں کہ در حقیقت میری صحت کو زیادہ نقصان پہنچا ہے مگر میری خواہش پہلے سے بہت زیادہ بڑھی ہوئی اور میری آرزوئیں پہلے سے زیادہ تیز ہیں تو میں ایسی حالت میں اگر
۴۸۲ دیکھوں کہ قوم میں کام کے سنبھالنے والے آدمی موجود نہیں تو یہ امور میرے لئے کیسے حوصلہ شکن ہوں گے.اگر ایسے آدمی موجود ہوں اور پیدا ہوتے رہنے کا یقین ہو تو مجھے کیسی خوشی ہوگی اور اطمینان کہ کام کو سنبھال لیں گے.پس اپنے دلوں کو ٹو لو اور غور کرو کہ دل کیا کہتے ہیں کیونکہ دراصل پہلے کسی کام کی خواہش پیدا ہوتی ہے پھر تربیت پیدا ہوتی ہے اور پھر کام میں ترقی کی روح آ جاتی ہے.یہ ایک طبعی ترتیب ہے اس کو مدنظر رکھو.حضرت مسیح موعود کی وفات ایک بیج تھا جس کا ذکر کلکتہ کی جماعت کے ایڈریس میں ہے اور کہ حضور کی موت پر میں نے حضرت اقدس کے جنازہ کے سرہانے کھڑے ہو کر عہد کیا تھا کہ خدایا میں تیری ذات کی قسم کھا تا ہوں کہ میں کوشش کروں گا اور اس سچائی کی ہمیشہ خدمت کروں گا.یہ بات اس وقت گو عقلی طور پر نہایت ہی بنسی کی بات تھی کیونکہ بڑے بڑے لوگ اس وقت موجود تھے.علم والے بھی تھے.روحانی سامان والے بھی تھے.تجربہ کار اور بہت بڑے دینوی سامانوں والے بھی تھے حتی کہ میرے استاد بھی ان میں موجود تھے.ایسے وقت میں میرے دل میں ایسا خیال بظاہر محض ہنسی تھا مگر عقد ہمت کرتے وقت انسان افراد کو نہیں دیکھا کرتا کیونکہ انسان بحیثیت انسانیت میرے سامنے تھے اور میں نے کہا اور عہد کیا کہ اگر تمام دنیا بھی مرتد ہو جائے اور مجھے چھوڑ دے تو بھی میں نہ چھوڑوں گا تجھے.دراصل میں انسانیت سے بالا تھا اس وقت اور میری نظر زمین کی بجائے آسمان پر تھی.جب وہ عزم ، نیت اور ارادہ خدا نے میرے دل میں پیدا کیا اور اسی نے میری حفاظت اور میری مد دو یاوری کی وہی پہلا پیج تھا.پس کم از کم انسان اور مومن انسان کو ایسا بیج ضرور اپنے دل میں پیدا کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر تو کوئی چیز ہے ہی نہیں مگر میں تو یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ کوئی ابتلا انسان کو ایمان سے پھیر سکتا ہے.دراصل یہ بھی ادنی خیال ہے کہ اگر ساری دنیا اس صداقت کو چھوڑ دے تو میں اس کو نہ چھوڑوں گا اور یہ بھی ایک کمزوری ہے.چاہئے یہ کہ انسان یہ کہے کہ میں اس صداقت کو قائم کروں گا اور ضرور قائم کر کے چھوڑوں گا.نبی دنیا میں اس لیے نہیں آتا کہ اپنی شوکت اور جلال کو ظاہر کرے کیونکہ اس میں اس خاص شخص کی عظمت پائی جاتی ہے.” خالی اس بات سے خدا کی ہستی اور صداقت ثابت نہیں
۴۸۳ ہوسکتی.نبی کا کمال یہ ہے کہ جو نعمت اس کو عطا ہوئی ہے وہ بطور ورثہ وہ اپنے ماننے والوں کو بھی دے سکتا ہے.نبوت کو روز روشن کی طرح ثابت کرنے والی چیز یہ ہے کہ وہ نبوت کے کمالات کو ورثہ کے طور دے سکے فرمایا کہ ایک جہاز کا انگریز جس کو مجھ سے کلام کر کے محبت پیدا ہو گئی تھی اس نے سوال کیا کہ کیا آپ جیسا معقول آدمی بھی الہام کا قائل ہے؟ تب میں نے اس سے کہا کہ حضرت مرزا صاحب نے صرف یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ان کو الہام ہوتا ہے بلکہ ان کا یہ دعوی تھا اور وہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھ آؤ تا تم کو بھی الہام ہو.جو آدمی سورج کی شہادت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے ساتھ آؤ میں تم کو بھی سورج دکھا دوں اور وہ دکھا بھی دے تو پھر کون مجنون ہے کہ اس سورج سے انکار کرے؟ چنانچہ میرے اس بیان سے اس انگریز کا چہرہ زرد پڑ گیا اور کہنے لگا کہ واقعی یہ تو سوچنے والی بات ہے.ایک کمزور آدمی اور گمنام جس کو رات کی نیند میں کوئی رؤیا ہوتی ہے اور ایک آواز آتی ہے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.اگر وہ خدا پر پورا بھروسہ نہیں رکھتا اور اگر وہ مجنون نہیں تو ہنسی آ جاوے گی یا وہ حیران ہوگا کہ یہ کیسی آواز ہے.اس کے واسطے ایسی آواز کو دنیا میں شائع کرنا بھلا کوئی معمولی سی بات ہے ؟ ایک غریب اور گاؤں کا رہنے والا انسان جس کا حال یہ ہو کہ گاؤں میں اس کو کوئی جانتا نہیں.محلے تک میں کوئی پہنچانتا نہیں اگر اس طرح کا کسمپرس آدمی ایسا الہام شائع کرے تو وہ دو باتوں سے خالی نہیں ہوگا یعنی یا تو وہ مجنون ہوگا جس میں وہم کو بھی میں شامل کرتا ہوں یا پھر پورے وثوق ، یقین اور کبھی نہ ملنے والے ایمان والا آدمی ہی اس کو شائع کر سکتا ہے.اس کے سوا اور کوئی ایسے الہام کو دنیا کے سامنے نہیں پیش کر سکتا.جس طرح ایک قابل جرنیل کئی لاکھ سپا ہی تو پوں سمیت اپنی فوج کو کسی گاؤں سے باہر کھڑا کر کے آیا ہو اور گاؤں سے کوئی بات منوائے اور کہے کہ اگر مخالفت کرو گے تو میں تمہاری خبر لوں گا.تباہ کر دوں گا.اس جرنیل سے بھی زیادہ یقین اور وثوق سے نبی کھڑا ہوتا ہے اور اس یقین ہی میں اسکی فتح و کامیابی کا راز مضمر ہے.
۴۸۴ پس ہر مومن کے دل میں خواہش ہو کہ دنیا میں اس صداقت کو پہنچائیں گے اور قائم کر کے چھوڑیں گے خواہ اسے اکیلے ہی کو یہ کام کرنا پڑے.ایسی خواہش ہو پھر تربیت بھی ہو.خواہش پہلا بیج ہے تربیت دوسرا کام ہے.خواہش اور تربیت دونوں مل کر دنیا کو حیرت میں ڈال سکتے ہیں.مگر افسوس کہ ابھی تک جماعت کے افراد بہت ایسے ہیں کہ یہ سچی خواہش ابھی ان میں پیدا نہیں ہوئی اور جن میں خواہش ہے ان میں اتنا علم نہیں پیدا ہوا کہ ہمارے لئے کسی تربیت کی بھی ضرورت ہے.ورنہ خدا کی طرف سے اتنے علوم ہماری جماعت کو دیئے گئے ہیں کہ اس سے پہلے کسی کو نہیں دیئے گئے حتی کہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو بھی اسی استثناء میں مثال کر سکتا ہوں.ان میں خاص الخاص صحابہ کو الگ کر کے اور رسول اکرم جن پر شریعت اور قرآن نازل ہوا تھا ان کو الگ کر کے میں کہہ سکتا ہوں کہ اتنے علوم اور اتنی باتیں جماعت کو دی گئی ہیں کہ اگر ان کو غور سے سنیں اور مطالعہ کریں تو پہلے اقطاب سے بھی بڑھ جائیں.مگر خالی ان کا بڑھنا کافی نہیں تربیت بھی ضروری ہے کیونکہ تربیت کے بغیر علم سے پورا فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے نہ کسی ایمان واخلاص سے.یہ زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے.قرآن کریم کی تشریحات اس زمانہ کے علوم اور ترقی یافتہ سائنس کے مطابق واقع ہوئی ہیں.آج تک کوئی سائنس نہ فلسفہ قر آنی علوم کو غلط ثابت نہیں کر سکا مگر اس ہتھیار کے چلانے کی مشق ضروری ہے.ایک مرتبہ ترکھان کے ہتھوڑے سے میں نے اپنی انگلی زخمی کر لی تھی کیونکہ مجھے اس کے استعمال کی مشق نہ تھی.کسی برتن میں دانوں کا ہونا برتن کو فائدہ نہیں دیتا.پس جب تک ان علوم کو اپنے اوپر وارد نہ کرو گے کوئی فائدہ نہ ہوگا.اگر نتائج اعمال اور کوششوں کے ٹھیک نہ ہوں تو سوچو اور پھر سوچو کہ کیوں وہ نتائج پیدا نہیں ہوئے اور بار بار کوشش کرو.پس مجھے اس بیماری کے ساتھ ساتھ یہ خواہش اور تڑپ بھی دل میں ہے کہ میں اپنے سامنے ایسے سامان دیکھ لوں ایسے افراد دیکھ لوں کہ جو کام کو جاری رکھ سکیں گے اور سلسلہ ہمارا جاری رہے گا اور دن بدن ترقی کرے گا یہی ایک میری خوشی کی صورت ہے.کلکتہ واقعی اس بات کا مستحق ہے کہ وہاں آدمی بھیجے جائیں اور کام جاری کر کے پھر توجہ بھی کی جائے.میں ابھی ذکر کر رہا تھا کہ ایک مرتبہ ہندوستان میں بھی ایک دورہ کیا جائے اور ہر شہر میں جا کر لوگوں کو سنایا جاوے اور حجت قائم کی جاوے.اللہ نے مجھے صحت دی تو خود میرا ارادہ ہے اور
۴۸۵ اگر مبلغ بھی مل گئے تو وہ بھی بھیجے جاویں گے.اگر چه ایسی تقریر موجودہ زمانہ کے لحاظ سے ایک ایڈریس کے جواب میں با قاعدہ اور فیشن کے مطابق نہیں ہے مگر آگے ہماری کونسی بات باقاعدہ اور مطابق فیشن ہے کہ اب ہم اس کا خیال رکھیں.چونکہ ایڈریس میں ایسے خیالات کا اظہار کیا گیا تھا جنہوں نے میرے جذبات پر اثر ڈالا اس وجہ سے مجھے اتنا بولنا پڑا اور جو کچھ دل میں تھا کہنا پڑا ہے.نقل ایڈریس جماعت احمد یہ پشاور جو ڈاکٹر فتح الدین صاحب نے خود حاضر ہو کر حضرت اقدس کے حضور پیش کیا.( خوشنما چوکھٹہ میں لگایا گیا ہے.) بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر اهلا وسهلا و مرحبا بخدمت اقدس سید نا و مهدینا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز السلام عليكم ورحمة الله بركاته ، جماعت احمدیہ پشاور حضور کے بلا دغریبہ میں بے نظیر کامیابی اور بخیریت مراجعت پر مبارک باد دیتے ہوئے خداوند ذوالجلال والا کرام کا نہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہے اور بارگاہ الہی میں دست بدعا ہے کہ جو تخم ریزی حضور کے مبارک ہاتھوں اور حضور کے رفقا کے ذریعہ اطراف عالم میں ہو چکی ہے رب رحیم حضور کی زندگی میں ہی اس کو بار آور کر کے گلشن احمدیہ کو انتہائی و دائمی رونق بخشے آمین.نیز یہ جماعت حضور پرنور کی خدمت اقدس میں بصد نیاز مستدعی ہے کہ ہماری دینی اور دنیوی ترقی کے لئے بالخصوص دعا فرمائی جائے.والسلام الملتمسان- احقر العباد
۴۸۶ خادم محمد علی امیر جماعت احمدیہ پشاور دستخط محمد عالم محمد عبد الحق آف گولیکی ، عبدالمجید ، غلام محمد اختر ، غلام رسول، عبدالحق ورما، عبد الحمید، محمد اعظم محمد مرغوب اللہ ، قاضی محمد یوسف، ڈاکٹر فتح الدین، ودرما، عبدالحمید، محمدا ، ، یوسف علی، رجب علی ، ظفر الحق ، مرزا عبد الرحیم ، ڈاکٹر محمد حسین شاہ علی حسن رضوی ، شیخ رحمت اللہ ، علی شیخ اللہ بخش، دانشمند، محمد شاہ ، احمد جان، محمد سلیم ، عبد الحکیم محمد سعید آف میانی، فضل الدین ، الطاف علی ، نذر محمد خان، علی احمد شاہ، محمد شفیع ، ڈاکٹر محمد دین و جملہ جماعت و ممبران دیگر بوساطت حضرت مفتی محمد صادق صاحب احمدی ڈی.ڈی بمقام بمبئی.بتاریخ ۱۸/ نومبر ۱۹۲۴ء- - آج کے ٹائمیز آف انڈیا مورنگ (Morning) پیپر نے حضرت اقدس کے متعلق ایک کالم سے زیادہ کا دلچسپ مضمون شائع کیا ہے.اس کی کاپی الگ ارسال کرتا ہوں انشاء اللہ تعالی.پروگرام وہی ٹھیک ہے جو میں پہلے خط میں جہاز سے لکھ چکا ہوں اگر کوئی چھوٹی موٹی تبدیلی ہوئی بھی تو اس کا اثر قادیان کی رسیدگی پر نہیں ہو گا.مکرمی ایڈیٹر صاحب الفضل کو اگر یہ خط دے دیا جاوے تو شاید ان کے کسی کام آ سکے اور کچھ تازہ حالات وہ بیرونی جماعتوں تک حضور کی تشریف آوری سے پہلے پہلے پہنچاسکیں.حضور کی یہ تقریر میں نے ساتھ ساتھ نوٹ کی ہے.جلدی میں اچھا نہیں لکھا گیا کوشش کر کے ٹھیک کر لیں.حضرت اقدس نے کل جو تقریر چائے کے بعد فرمائی تھی اس کا خلاصہ درخلاصہ یہ ہے کہ میرے اس سفر یورپ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ تمام دنیا میں بدامنی اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور دنیا اس بے چینی کے دور کرنے اور امن کے بحال کرنے میں ہندوستان کی محتاج ہے.یورپ کے پاس بے شک مادی ترقی کے سامان موجود ہیں اور سونے چاندی کے پہاڑ ان کے خزانوں میں جمع ہیں مگر وہ چیز جو سونے چاندی کے سکوں سے زیادہ قیمتی اور ہمیشہ کام آنے والی ہے کیا بلحاظ اس دنیا کی ضرورتوں کے اور کیا بلحاظ آئندہ زندگی کی ضرورتوں کے اس سے وہ لوگ کلیتہ محروم ہیں اور محتاج ہیں کہ ہندوستان ان کی مدد کے لئے ہاتھ بڑھائے اور وہ چیز وہ کلام الہی ہے جو خدا نے ہند میں اپنے مقدس بندے اور برگزیدہ انسان حضرت مسیح موعوڈ پر نازل فرما کر دنیا کی را ہبری اور راہنمائی کے سامان مہیا کئے ہیں.ان کے زر و جواہر ان کے مال و منال ان کے خزانے
۴۸۷ زیادہ سے زیادہ اس دنیا میں ایک خیالی فائدہ دے سکتے ہیں مگر ہمیں جو خزانہ ملا ہے وہ ہمیشہ رہنے والا اور اس زندگی اور بعد الموت کی حیات میں بھی کام آنے والا ہے.ساری دنیا میں پھر جاؤ اور سارے جہان کو چھان مارومگر یہ نعمت دنیا کے کسی کونے میں نہ پاؤ گے جو خدا نے ہندوستان میں اپنے نبی اور رسول حضرت مسیح موعوڈ کی معرفت نازل فرمائی ہے اور جس کی حقیقتا ساری دنیا محتاج ہے.دنیا سمجھے یا نہ سمجھے لوگ مانیں یا نہ مانیں آج نہیں تو کل ساری دنیا کے عقلمند اس اقرار پر مجبور ہوں گے کہ سوائے الہام الہی کے اور کلام خدا کے انسانیت اب اس گڑھے سے نکل نہیں سکتی جس میں وہ گر چکی ہے اور کھڑی ہو کر اور اُٹھ کر ترقی نہیں کر سکتی.دنیا کی ترقی ، امن، صلح اور اطمینان کے لئے اب صرف ایک ہی راہ کھلی ہے جو کلام الہی کے رنگ میں خود خدا نے نازل فرمائی.پس انسانیت کے اُٹھانے اور اُبھارنے اور بنی نوع انسان کو بچے امن اور حقیقی صلح کی طرف لانے کے لئے اب ہندوستان ہی ہے جو اگر دنیا کی مدد کرے تو کر سکتا ہے.میں ان جذبات کو جن کی وجہ سے یہ چائے دی گئی ہے پسند کرتا ہوا اس امر کی تاکید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور تمام دنیا کے امن، صلح اور محبت کے قائم کرنے میں اس کی مدد کرے وغیرہ.دوستوں کے خیر مقدم کے تار اور مبارک باد کے ایڈریس حضرت اقدس کے حضور پہنچ رہے ہیں اور سارے ہندوستان میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک خوشی کی ایک لہر خدا نے پیدا کر دی ہے.حضرت اقدس اس وقت بازار تشریف لے گئے ہیں.حضور کی صحت میں لنڈن کی نسبت بہت فرق ہے.خصوصاً سمندری ہوا کا اچھا اثر ہوا ہے.آج صبح کھانسی زیادہ تھی.دعاؤں سے امداد کریں ورنہ صحت پر بہت گہرا اثر ہے اور لمبے آرام کی ضرورت.میں آپ سب کے لئے دعاؤں کی درخواست کرتا رہا ہوں نہ کسی شاباش کی غرض سے نہ کسی اجر کے لئے بلکہ محض خدا کی رضا کے حصول کی نیت سے اللہ کا احسان ہے کہ حضور نے بھی ذرہ نوازی فرمائی اور میری درخواستوں کو توجہ سے سن کر دعائیں کیں.میں آپ کو یقین دلانے اور ثبوت دینے کا کوئی ذریعہ بجز خدا کے نہیں رکھتا البتہ ایک فقرہ مجھے حضرت مولوی عبد السلام صاحب کی
۴۸۸ معرفت رات ملا ہے عرض کرتا ہوں اندازہ کر لیں جو انہوں نے حضرت اقدس کی زبان مبارک سے سنا اور بخوشی مجھے پہنچایا.حضرت مولوی عبدالسلام صاحب عمر نے رات مجھے فرمایا کہ سید نا حضرت اقدس نے فرمایا کہ ایسا وفا دار دعائیں کرانے والا بھی کسی کو ملے گا؟ میں جہاں جاتا ہوں دعاؤں کے لئے یاد دہانی کا خط آیا ہوا ہوتا ہے ڈاک وقت پر نکل جائے اس وجہ سے بند کرتا ہوں غالباً ہفتہ کے دن یہ خط آپ کی خدمت میں پڑھا جائے گا.پیر کو حضور پہنچیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ اخبارات کے نمائندے آئے ہیں.لوگ ملاقاتوں کے لئے موجود ہیں مگر حضور بازار تشریف لے گئے ہیں.حضور کی آمد کے متعلق جو اعلان و تشہیر کی گئی ہے اس سے فائدہ اٹھانے کا انتظام ٹھیک نہیں گواعلان کی تشہیر کی تو کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی گئی.فقط عبدالرحمن قادیانی از بمبئی ۱۹/ نومبر ۱۹۲۴
۴۸۹ بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم از مقام بمبئی: مورخه ۱۹ رستمبر ۱۹۲۴ء السلام عليكم ورحمة الله وبركاته حضور بازار سے واپس تشریف لے آئے ہیں.ڈیلی میل کا نامہ نگار فوٹو لینے کو آیا ہوا تھا لے کر چلا گیا ہے.۲ کالم کے قریب مضمون لکھ کر اخبار میں شائع کر رہا ہے.فوٹو بھی ساتھ دے گا.جہلم سے مولوی عبد المغنی خان صاحب ابن حضرت مولانا برھان الدین صاحب مرحوم تشریف لائے ، ایڈریس پڑھا.حضور نے ایڈریس کا جواب دیا اور فرمایا کہ میں جزاکم اللہ احسن الجزاء کہتا ہوں.تعریف اور شکریہ کی مستحق در حقیقت ذات پاک باری تعالیٰ ہے کیونکہ ہر قسم کے فیوض و برکات اسی کی طرف سے آئے اور آتے ہیں اور وہی مبداء انور اور سر چشمہ خیر و برکت ہے.پس اصل شکر یہ تو اسی ذات کا کرنا چاہئے.باقی جن ممالک میں ہم گئے ہیں وہاں کے لوگ ا ایک حاکم قوم ہونے کی وجہ سے ایک قسم کے تکبر اور غرور میں ہیں.انگلستان سے علا وہ دوسری قو میں بھی ہندوستانیوں کو ذلیل و حقیر سمجھتی ہیں.ان حالات میں اپنی رعیت کے ایک فرد کی آواز پر توجہ کرنا واقعی حیران کن تھا مگر یہ جو کچھ ہوا محض خدا کے فضل کا نتیجہ تھا.دوسرے وہ اپنے علم سائنس اور تمدن کو اس قدر ترقی یافتہ اور بڑھا ہوا خیال کرتے ہیں کہ وہ تمام دنیا کو اپنے مقابلہ میں بیچ سمجھتے ہیں.مذہب کے نام سے تو انہیں جو کچھ کہو وہ سن لیں گے مگر ان کے تمدن کے خلاف کوئی بات کہو تو ان کی آنکھیں چمک اُٹھیں گی اور چہرے متغیر ہو جائیں گے اور وہ کہیں گے کہ سینکڑوں سال کے تجربہ اور محنت و کوشش سے ہم نے ایسی باتیں نکالی ہیں ان کے خلاف بھی بھلا کوئی کچھ کہنے کا حق رکھ سکتا ہے؟ ایسے آدمی کو پاگل اور جاہل خیال کرنے لگ جاتے ہیں مگر ( دین حق ) چونکہ وسیع علوم پر مشتمل اور کامل قانون ہے اور اس کو ہر حصہ انسانی زندگی میں دخل دینا پڑتا ہے اس وجہ سے ہمیں ایسی باتیں بھی کہنی پڑتی ہیں جو ان لوگوں کے تمدن کے خلاف ہیں مگر ان باتوں پر وہ چمک اُٹھتے.وہ کہتے تھے کہ مذہب بتاؤ مگر اس کے فروعات اور تشریحات میں مت جاؤ.عیسی خدا نہیں
۴۹۰ اور خدا صرف ایک خدا ہے اس کو تو مان لیں گے.فرشتوں کے وجود کا تسلیم کروانا آسان ہے جو بات ان کے تمدن میں دخل نہ دے وہ مذہب ہے اور جو اس حصہ سے تعلق رکھے جو ان کے تمدن میں دخل دے اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.مثلاً سود کے خلاف کہو تو وہ بول اُٹھیں گے.عورتوں کے پردہ کے متعلق کہو تو نہ مانیں گے.غرض جو بات ان کے تمدن کے خلاف ہو اس کا تو سننا بھی برداشت نہیں کر سکتے مگر ہم نے خدا کے فضل سے ان باتوں کو پیش کیا اور ایسے رنگ میں پیش کیا کہ ان لوگوں نے گردنیں ڈال دیں اور اقرار کیا کہ اب ہم نے علمی رنگ میں سمجھ لیا ہے کہ جو آپ کہتے ہیں وہی ٹھیک ہے مگر ابھی ہم لوگ ملک کے رسوم کا مقابلہ نہیں کر سکتے.ایک عورت لیکچر سن کر آئی کہ مجھے مومن بناؤ مگر ہم نے انکار کیا اور کہا کہ ابھی کتابیں پڑھو اور زیادہ غور کر لو.بعض نے اخبارات میں ذکر پڑھ کر ہی ( دین حق ) پر آمادگی کا اظہار کیا مگر ہماری طرف سے ایسے لوگوں کو یہی جواب دیا جا تا رہا کہ ابھی تحقیق کرو.ہم لوگ ایسے مومن چاہتے ہیں جو عملی مومن ہوں صرف نام جس کے ساتھ کوئی حقیقیت نہیں ہمارے کام کا نہیں.اکثر لوگ ہمارے گھر آتے تھے.ہماری مجالس میں آتے تھے.ان کو کون لاتا تھا صرف خدا لاتا تھا.خدا نے ایک جذب پیدا کر دیا تھا کہ لوگ کثرت سے آئے.ان کے دلوں پر اثر ہوا اور وہ ( دین ) کے شیدائی ہو گئے.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک بند تھا جس کو خدا نے ہمارے وہاں جانے پر تو ڑا اور اُٹھا دیا اور ایک ہوا چلا دی کہ لوگ کھچے چلے آتے تھے.پس یہ جو کچھ ہوا اللہ کے فضل سے ہوا کہ ہر طبقہ کے لوگ آئے.ملے اور غور وفکر کرنے کی طرف مائل ہوئے.ہمارے نوجوانوں کی بات عزت اور محبت سے سنی اور اس وقت انگلستان میں ہزاروں ایسے آدمی ہیں کہ اگر چہ ہر بات میں ہمارے خلاف ہیں مگر وہ ہماری باتیں سنتے ہیں اور سننے کے لئے تیار ہو گئے ہیں کیونکہ وہ جان گئے ہیں کہ یہ قوم بڑھنے والی ہے.اس بات کا پیدا ہو جانا کوئی چھوٹی بات نہیں.در حقیقت یہی اصل اور پہلی سیڑھی ہے ترقی کی کہ خدا نے دنیا کی توجہ کو ہماری طرف پھر دیا اور ان کے دل میں ڈال دیا کہ وہ سوچیں اور غور کریں.ایک کالج کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری آئے.انہوں نے سوال کیا کہ آپ کو اس سفر میں کونسی کا میابی ہوئی ؟ میں نے ان سے کہا کہ دیکھو توجہ کا پیدا کر دینا یہ انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ یہ خدائی فعل ہے کہ لوگ کسی امر کی طرف متوجہ ہوں اور ان کے دل اس طرف پھر جائیں کہ یہ لوگ
۴۹۱ ایسے ہیں کہ ان کی بات کو سنیں گے تو قبول کرنے کی بھی توفیق مل جائے گی.ہماری تصاویر اور فوٹو دیکھ کر اخبارات میں مضامین پڑھنے کی وجہ سے اب لنڈن کا بچہ بچہ ہمیں جان گیا ہے اور سلسلہ کا ایسا انٹروڈیوس ہو گیا ہے کہ اب اگر کوئی بارہ سالہ بچہ بھی ہمارا انگلستان میں تبلیغ کو چلا جائے تو لوگ اس کی سن لیں گے اور یہ نہ کہیں گے کہ یہ کوئی پاگل آدمی ہے کیونکہ وہ جان چکے ہیں یہ سلسلہ حق حکمت اور شوکت وعظمت والا ہے اور اس لائق ہے کہ اس کی طرف دھیان دے کر سوچا اور فکر کیا جائے اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں جو خدا نے ہمارے واسطے پیدا کر دی ہے.میری ان باتوں سے وہ دونوں بولے کہ واقعی یہ بے نظیر کامیابی ہے.غرض یہ خدائی فعل ہے اور اس کی پیشگوئیوں کے ماتحت ہوا.دس آدمی ، ہیں آدمی ، پچاس بلکہ سو آدمی بھی مان لیں تو وہ محدود ہی ہیں مگر ایک لاکھ یا کروڑ کی توجہ پیدا ہو جائے تو وہ بات بہت بڑی کامیابی کی ہے اور ترقی کی علامت ہے.صرف نام کے مومن پچاس کیا پچاس کروڑ بھی پیدا ہوں تو کس کام کے ہیں؟ اب اللہ نے ہمارے واسطے ایک میدان پیدا کر دیا ہے.ہمارا یہ سفر بھی جہلم کے سفر کی طرح خدا کی رحمت اور فضل کے ذریعہ سے ہوا اور کامیابی بھی فضلوں سے ہوئی ہے.جس طرح حضرت مسیح موعود کے سفر جہلم میں خدا نے خاص مصلحت سے سفر کے سامان کئے اور کامیابیاں عطا فرمائیں بعینہ اسی طرح اس سفر کے سامان ہوئے اور نتیجہ میں خدا نے ایک رو پیدا کر دی ہے.پس میں جماعت جہلم کے ایڈریس سے بھی خوش ہوا ہوں.میں نے سفر کے ابتدا میں جہلم کا ذکر بھی کیا تھا.اس کے بعد دعا فرمائی.ڈاکٹر فتح الدین صاحب نے فارسی نظم سنائی بطور ایڈریس.بعد میں زبانی تقریر کی کہ ہماری جماعت حضور کے اس سفر سے پہلے بہت کمزور تھی مگر اب اللہ کے فضل سے بہت مضبوط ہے.ہمارے دلوں میں انگلستان کی کامیابیوں کے حالات سن کر ، پڑھ کر خدمت کا جوش پیدا ہوا اور ہم نے جماعت کو با قاعدہ منظم کیا اور چندوں میں ترقی کی.خاص تحریکوں میں بھی حصہ لیا اور تمام بقایا جات صاف کر دیے.موجودہ صورت میں ہماری جماعت ایک گورنمنٹ کے منتظم دفاتر کی طرح ہو گئی ہے.یہ سب حضور کے اس سفر کی بدولت تبدیلی اور ہم میں عمل کی روح پیدا ہوئی ہے اور ہمارا امیر، محاسب، محصل ، خازن سب بالکل با قاعدہ کام کرنے لگے ہیں.غرض نہایت ایک کمزور جماعت خدا کے فضل سے حضرت اقدس کے اس سفر کی بدولت ایک اعلیٰ کامیاب اور با قاعدہ
۴۹۲ جماعت بن گئی ہے.تبلیغ کا کام بھی خدا کے فضل سے باقاعدہ طور پر جاری ہو گیا ہے.چونکہ پشاور ایک مرکز بن رہا ہے بہت سے ممالک کا اس وجہ سے تبلیغ میں خوب کامیابی ہونے لگی ہے.غیر مبائعین کا فتنہ خاص طور پر وہاں زور پر ہے.دس کے قریب بڑے بڑے متمول لوگ ان میں ہیں مگر پھر بھی خدا تعالیٰ ہمیں کامیابی دیتا ہے اور ان کی بڑائی اور مال ہمیں ڈرا نہیں سکتے.تعلیم و تربیت کا صیغہ بھی خدا کے فضل سے کامیابی سے چلنے لگا ہے.مہمان نوازی کا صیغہ بھی خدا کے احسان سے اچھا چل رہا ہے.چونکہ ہم لوگ ملا زمت پیشہ ہیں حضور وہاں کے لئے کوئی خاص مبلغ ہمیں دیں کہ جو ان علاقہ جات کی زبان سمجھتا ہو.ملازمت کی وجہ سے ہمیں زیادہ وقت نہیں مل سکتا.اس علاقہ کے ملاؤں نے ہمارے خلاف فتوی بازی بھی شروع کر دی ہے.اس کے مقابلہ میں ہم نے بھی فتویٰ شائع کر کے ان ملانوں کا توڑ کرنا شروع کیا ہوا ہے.اگر کوئی مستقل مبلغ وہاں جائے جو فارسی اور پشتو سے بخوبی واقف ہو تو خدا کے فضل سے بہت زیادہ کامیابی کی اُمید ہے.آخر میں عرض کرتا ہوں کہ حضور انگلستان کے سفر سے کامیاب اور خوش آئے ہیں ہم بھی حضور کو خوشی کی خبر سناتے ہیں کہ ہماری اب خدا کے فضل سے ایک مضبوط جماعت ہے اور حضور کے ہر فرمان کی تعمیل کے لئے تیار ہے مال سے جان سے ہر قربانی کے لئے تیار و حاضر ہیں.جواب از حضرت اقدس :.میں اپنی طرف سے اور اپنے ہمراہیوں کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں.باقی خوشخبری جو سنائی گئی ہے اس کے معلوم ہونے سے مجھے خوشی ہوئی خصوصیت سے اس لئے کہ میں جاتے ہوئے اعلان کر کے گیا تھا کہ تمام جماعتیں خیال رکھیں اور اپنے فرض کو سمجھیں.ذمہ داریوں کو ادا کریں جو میری غیر حاضری کی وجہ سے ان پر عائد ہوتی ہیں.سو پشاور کی جماعت میرے لئے دوہری خوشی کی موجب ہوئی ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ ان کی قربانی کی روح اور ان کا عملی تغیر اور نظام مستقل اور دائمی ہو.صرف غیو یت ہی کے زمانہ سے تعلق رکھنے والا اور عارضی نہ ہو.
۴۹۳ باقی امور کے متعلق :.بعض معاملات کے شائع کر دینے میں غلطی کی ہے مثلاً تبلیغ افغانستان کا معاملہ، زمیندار نے اس پر مضمون لکھا.اخبارات تمام لوگوں کے ہاتھ میں جاتے ہیں ہماری ساری سکیم گویا بر باد ہوگئی ہے اب کوئی نئی سکیم سوچنی پڑے گی.اب آئندہ میں کوئی نئی سکیم نہ بتا سکتا ہوں نہ ہی اس کا شائع و ظاہر کرنا مناسب ہے.سرحد کی جماعت بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے.کا بل پر اس کا بڑا اثر ہو سکتا ہے مگر اس کو ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی اب میں تیار ہوں کہ ظاہر کروں کیونکہ اس سے دشمن واقف ہو کر ہوشیار و چوکنا ہو جاتا ہے اور ہمارے نظام سے واقف ہوکر اس کا توڑ سوچنے میں لگ جاتا ہے اور اس طرح اصل کام کو نقصان پہنچا سکتا ہے وغیرہ.اس کے بعد نماز - آگرہ سے ایک ایڈریس صوفی محمد ابراہیم صاحب بی ایس سی کے والد صاحب کے ہاتھ آیا ہے مگر میں نے ان کو مشورہ دیا ہے کہ چونکہ حضرت اقدس آگرہ تشریف لے جاتے ہیں لہذا بہتر ہوگا کہ وہیں یہ ایڈریس پڑھا جائے.چنانچہ انہوں نے بعض اور دوستوں کے مشورہ سے یہی فیصلہ کیا ہے کہ وہ آگرہ ہی جا کر پیش کریں گے.حضور نے کھانے کے بعد معاً ہی دو ایڈریسوں کا جواب دیا.فارغ ہو کر کمرے میں تشریف لے گئے.طبیعت بہت کمزور ہو گئی تھی کرسی پر لیٹ گئے.بہت زور زور سے تین آدمیوں ( چوہدری علی محمد صاحب، مولوی نیک محمد صاحب اور خاکسار قادیانی) نے دبایا تب جا کر طبیعت سنبھلی مگر ساتھ ہی سو گئے اور آدھ گھنٹہ کے قریب آرام فرما کر اُٹھے اور نمازیں پڑھائیں.نمازوں کے بعد مجھے ایک کام کے لئے بھیجا اور خود ایک پادری صاحب سے جو ایک زمانہ پہلے حضرت اقدس سے قادیان میں ملاقات کر چکے ہیں ملاقات کی اور چائے کے لئے اوری اینٹ ہوٹل میں تشریف لے گئے.یہ دعوت چائے ڈاکٹر فتح الدین صاحب پشاوری کی طرف سے تھی.دعوت کے بعد ڈاکٹر صاحب نے حضور کا اور دوستوں کا چائے پر آنے کا شکر یہ ادا کیا اور حضرت اقدس سے دعا کی درخواست کی اور ذکر کیا کہ حضور گویا اس سفر میں دو پیشگوئیوں کو پورا کرنے کی غرض سے تشریف لے گئے تھے جن میں ایک منارہ مشرقی دمشق کے پاس دوفرشتوں کے کندھوں پر اُترنے والی اور دوسری مغرب سے طلوع آفتاب والی تھی.سوحضور کے جانے سے
۴۹۴ دونوں پوری ہوئیں.حضور نے مختصر الفاظ میں اس ایڈریس کا جواب دیا اور فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب کے ذکر کرنے سے مجھے بھی ابھی خیال آیا ہے کہ وہ جو دو فرشتوں کے متعلق پیشگوئی میں ذکر ہے وہ بھی اس سفر میں پوری ہوئی.ہوٹل کی تلاش میں بہت دقت ہوئی.کوئی جگہ باوجود تلاش کے سوائے - اس ہوٹل کے نہ ملی اور اس میں بھی صرف تین آدمیوں کے لئے ملی.ایک میں تھا اور دو اور تھے.خان صاحب اور ڈاکٹر صاحب) حالانکہ ہم اس ہوٹل میں زیادہ آدمیوں کو جمع کرنا چاہتے تھے اور خیال تھا کہ سب یا کم از کم جتنے اور شامل ہو سکیں ان کو شامل کر لیا جائے مگر باوجود اس کوشش کے کامیابی نہ ہو سکی اور اس طرح سے وہ پیشگوئی خدا نے اپنی حکمت سے پوری کرا دی.اس کے بعد فرمایا کہ اصل طریق ایسی دعوت اور ایسے موقع کا یہ ہے کہ دعا کی جائے.سواب میں دعا کرتا ہوں.چنانچہ دعا کی اور سیر کے لیے موٹر پر سمندر کے کنارے تشریف لے گئے.کئی ایک اخبارات میں حضرت کا ذکر اور فوٹو شائع ہوئے ہیں جو ارسال کرتا ہوں.نمازیں حضور نے جمع کر کے پڑھائیں.۲۰ نومبر ۱۹۲۴ء : صبح کی نماز حضور نے خود پڑھائی اور نماز کے بعد بیٹھ گئے اور سید بشارت احمد صاحب نے جماعت احمدیہ حیدر آباد کی طرف سے ایڈریس پڑھا جس کا حضور نے کھڑے ہو کر جواب دیا - اشهد ان لا اله الا الله....الخ جماعت احمدیہ حیدر آباد کی طرف جن خیالات کا اظہار اس وقت کیا گیا ہے ان کے متعلق اپنی طرف سے اور اپنے ہمراہیان سفر کی طرف سے جزاکم اللہ کہتے ہوئے دوسرے مضامین کی طرف توجہ کرتا ہوں جن کی طرف انہوں نے اپنے مضمون میں اشارہ کیا ہے.سب سے پہلے میں میر محمد سعید صاحب کی وفات کے متعلق بیان کرنا چاہتا ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میر صاحب بہت پرانے آدمی تھے اور نہ صرف جماعت کی نسبت ان کو خدا نے خاص اخلاص دیا تھا بلکہ ان میں دو باتیں ان سے علاوہ پائی جاتی تھیں.ایک تو اس بات کا ملکہ خدا نے ان کو دیا تھا کہ وہ دوسرے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ سکتے تھے.بہت لوگ لائق اور اپنے رنگ میں کامل ہوتے ہیں مگر سب اس لائق نہیں ہوتے کہ کشش اور جذب کا مادہ بھی ان میں ضرور ہو.سارے ہی
۴۹۵ علما اس قابل نہیں ہوتے کہ لوگ ان کی عزت کریں اور اگر عزت کریں تو ضرور ان کی طرف کھیچے بھی چلے آئیں مگر ہمارے میر صاحب میں دونوں باتیں تھیں کہ انہوں نے اپنے علم کو مفید بنایا اس طرح کہ دوسروں تک پہنچایا اور خود باعمل ہو کر اپنے نمونہ اور اسوہ سے دوسروں میں بھی دین پھیلایا اور یگانگت محبت اور اخلاص بھی لوگوں اور جماعت میں پیدا کیا.ہر کسی سے ممکن نہیں اور نہ ہی خالص روحانیت اور خداداد جذب و کشش ہر کسی کو میسر آ سکتا ہے.دوسری بات اور وصف خاص ان کا ہمیشہ تصوف اور طہارت قلب کی طرف میلان تھا اور یہ بات اس زمانہ میں بہت کم پائی جاتی ہے.عام طور پر لوگ یا تو عالمانہ رنگ رکھتے ہیں یا صرف منتظمانہ رنگ رکھتے ہیں لیکن وہ خود طہارت قلبی کی طرف توجہ رکھتے تھے اور مولویت کے ساتھ ان میں تصوّف کا رنگ بھی غالب تھا.علاوہ ان کے ان کا اخلاص اور عملی نمونہ اور ان کا وجود جماعت کے لئے قابل تعریف اور نہایت مفید تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ حیدر آباد کی جماعت کو ان کی موجودگی میں اور کسی قسم کا فکر نہیں تھا مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہر تکلیف دہ چیز میں ایک پہلو مفید بھی ہوتا ہے.ان کی وفات جماعت کے لئے اور ہمارے لئے تکلیف دہ تھی اور ہے اور میرا معاملہ تو یہ ہے کہ جو تکلیف جماعت کے کسی وجود کی وجہ سے بالخصوص کسی مفید وجود کی وفات سے ہوتی ہے اس کو میں برداشت نہیں کرسکتا.لیکن میں نے یہ بات بھی خصوصیت سے دیکھی ہے کہ جماعت کے دلوں میں چونکہ ان کے لئے خاص محبت اور احترام اور عظمت رہی ہے، اس وجہ سے نظام جماعت کچھ ٹھیک طور پر قائم نہ تھا اور تربیت اجتماعی حیدر آباد کی جماعت میں مجھے کبھی نظر نہیں آئی جس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں چند ایسے آدمی موجود تھے اور ہیں کہ جماعت کو ان پر پورا اعتما درہا ہے اور ہے اور وہ ان کی موجودگی کی وجہ سے اور کوئی کام کرنا پسند نہیں کرتے تھے اس خیال سے کہ ان سے بڑھ کر اس کام کو اور کون کر سکتا ہے.غرض ان باتوں سے جماعت کے افراد کی تربیت میں بہت بڑی کمزوری اور کمی رہی ہے اور یہی وجوہ ہیں کہ مجھ سے جب لوگ بعض کاموں کے متعلق پوچھتے ہیں تو میں ناراض ہوتا ہوں کہ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو خود کرو.اگر غلطی کرو گے تو میں جواب طلب کروں گا اور اس طرح سے کام کرنے کا ڈھنگ تمہیں آوے گا اور سوچنے غور کرنے سے قوت عمل پیدا ہوگی.میں نے مجلس شوری کی بنیاد بھی اسی وجہ سے رکھی ہے تا کہ مختلف جماعتیں مل کر کام کرنے کا
۴۹۶ طریق سیکھ سکیں.نیک آدمی افراد کی اصلاح تو کر سکتے ہیں مگر اجتماعی ترقی اور اجتماعی اصلاح میں ان کو کوئی دخل نہیں ہوتا.اجتماعی نظام کی طرف مسلمانوں نے آج تک توجہ ہی نہیں کی.حضرت مسیح موعود کی ذات پر ہی خدا تعالیٰ نے اس بات کو بھی منحصر رکھا ہے کہ اجتماعی ترقی اور اجتماعی نظام کی طرف بھی توجہ ہوئی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ آپ ہی کے وجود سے دنیا اس کے برکات سے بھی ضرور متمتع ہو گی.اجتماعی نظام اور اجتماعی ترقی صرف دینی بات ہی نہیں بلکہ اس میں اور بھی بہت سے بار یک در باریک اور وسیع فوائد ملحوظ ومرکوز ہیں.مولوی صاحب کی وفات گو اس وجہ سے کہ وہ نیک تھے صدمہ اور رنج ہے مگر ان کی وفات سے بعض فوائد بھی ہیں جو انشاء اللہ جماعت کے افراد کو ترقی کرنے اور کام کرنے کی عادت ڈالنے کا ذریعہ ہوں گے.وہ بھی نظر انداز نہیں کئے جا سکتے.حضرت خلیفہ اول وفات پاگئے.سید نا حضرت مسیح موعود کی وفات ہوئی.آنحضرت لے کی وفات ہوئی مگر دوسری طرف خلافت کا قصہ پیش آ گیا مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جولوگ اس وقت کفن دفن میں لگے ہوئے تھے وہ بچے تھے اور آپ کے وصال کے بعد جولوگ خلافت کے سوال پر غور وفکر کر رہے تھے وہ وہ لوگ تھے جن کو اسلام کی روح اور آنحضرت کی آمد کی اصل غرض کے پورا کرنے کی فکر تھی.اگر ہم خیال کر لیں کہ آنحضرت کی وفات کی وجہ سے بعض صحابہ کو تجہیز و تکفین کا فکر نہ رہا تھا بلکہ وہ اس وقت دوسری فکر میں لگ گئے تھے تو چنداں حرج نہیں کیونکہ وہ ایک ایسی بات کی فکر میں لگے ہوئے تھے کہ جس سے خدانخواستہ اسلام کے وجود کا ہی اندیشہ تھا کہ دنیا سے مٹ جائے اور وہ اس کے قیام کی فکر میں تھے.من شاء بعد ک فلیمت - ماشاء بعدک فلیمت آدمیوں پر منحصر نہیں بلکہ اس روح کی طرف توجہ ہونی چاہئے.اسی طرح حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد کے حالات ہیں.یہی معاملات ہمیں بھی پیش آئے اور حافظ صاحب تو ہمیشہ کہا کرتے ہیں اور ان کی بات مجھے ہمیشہ مزہ دیا
۴۹۷ کرتی ہے کہ ان پیغامیوں نے ہمیں حضرت خلیفہ اول کی وفات کا افسوس بھی نہ کرنے دیا درست ہے کہ انسان چاہتا ہے کہ مرنے والوں کے لئے افسوس کا بھی ایک حصہ رکھے اور اس پر غور کرے اور طبیعت فارغ ہو کر اس کی طرف لگے اور اس کی کمی کی تلافی کرنے کی فکر کرے.میں اس موقع پر اس مضمون کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتا جو میں نے روانگی سے پہلے لکھا تھا اور اس میں کھول کر لکھا تھا کہ (اگر وہ بات جو خدا نے مجھے بتائی ہے آپ کو بھی معلوم ہو تو ہمدردی سے آپ کے دل بھر جائیں اور مجھ پر رحم کریں ) دراصل اللہ نے مجھے ایسی باتیں دکھائی تھیں.بعض کھلے طور پر بعض اجمالی رنگ میں.اسی پر میں نے دعا کی تھی اور الہام ہوا تھا.قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتي لله رب العلمین اور اسی وجہ سے پھر میں نے دعا کرنا بھی سو عواد بی سمجھا تھا اور سمجھ لیا تھا کہ ان مشکلات اور صدمات کو برداشت کرانا بھی خدا کا منشا ہے.ان واقعات کو اگر جمع کیا جاوے تو ہماری احمد یہ تاریخ کے پچھلے دس سال میں بھی ایسے اور اتنے واقعات پہلے کبھی جمع نہ ہوئے ہوں گے.میر محمد سعید صاحب.شیخ فضل کریم صاحب دہلی کے.حضرت نانا جان کی وفا تیں ہوئیں.ہیضہ قادیان میں آیا جو پہلے مجھے یاد نہیں کہ کبھی آیا ہو.مرکز میں ایسی مرض کہ چند گھنٹہ بلکہ چند منٹ میں انسان کا خاتمہ ہو جاتا ہے.اس قسم کی خبروں کے ملنے پر جو صدمہ ہوتا ہے اس کا اندازہ کون کر سکتا ہے.جس شخص کو خدا نے ذمہ داری دی ہو اور وہ چھ ہزار میل پر بیٹھا ہو اور مرض ایسی ہو کہ جس سے آدمی کے منٹوں میں رخصت ہو جانے کا اندیشہ لاحق ہو کیسے تفکرات پیدا کرتا ہے.خود میری ذاتی تکالیف کا ڈائریوں اور ظاہر حالات اور خطوں سے اندازہ ہرگز نہیں کیا جا سکتا بلکہ بعض اوقات خود پاس رہنے والے بھی اس کو سمجھ نہیں سکتے تھے.میری حالت عجیب طرح واقع ہوئی ہے.بعض اوقات بیماری کا مقابلہ کر کے اس کا اظہار نہ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور کام کرنے والے آدمیوں کو اخفا بھی رکھنا پڑتا ہے.غرض یہ لوگ بھی ستون تھے جماعت کے سبھی جو وفات پاگئے اور اپنی اپنی جگہ پر ان میں سے ہر ایک جماعت کے لئے ستون کا کام دیتا تھا.
۴۹۸ دوستانہ بات ہے.چوہدری ظفر اللہ خان نے کہا ایسی باتیں سن کر کہ اب آئندہ آپ کو کبھی کوئی ہندوستان سے باہر جانے کا مشورہ نہ دے گا.جماعت کو اندازہ لگ گیا ہے کہ خلیفہ بھی جماعت کا کیسا عظیم الشان ستون ہوتا ہے.( میں خیال کرتا ہوں کہ بہت سی باتیں خدا نے ٹال دی ہیں ) دُور ہونے کی وجہ سے تاروں وغیرہ کے اخراجات اور خاص دعا ئیں ہو سکتی ہیں.پس جماعت میں کام کرنے والے آدمیوں کے پیدا کرنے کی فکر کرنی چاہئے.سب سے بڑی توجہ آدمی پیدا کرنے کی کوشش میں لگا دینی چاہئے.ایک جرنیل کا قول کہ ایک سپاہی کی جگہ دوسرا سپا ہی کھڑا ہوتا جائے تو وہ قوم کامیاب ہو سکتی ہے مجھے اس کا یہ قول ہمیشہ ہی پسند آیا کرتا ہے.آدمی پیدا کرنے سے میری مراد یہی ہوا کرتی ہے کہ ہر انسان اہل ہے کہ وہ اپنے آپ کو کام کا آدمی بنا سکے.پس ہر احمدی کو چاہئے خود کام کرنے والا آدمی بن جائے اور سلسلہ کے کارکن ہونے کا بوجھ دوسروں کے سر پر نہ رکھے.دعا.مسٹر گاندھی بمبئی پہنچ گئے ہیں اور حضرت اقدس کی خدمت میں بذریعہ حضرت مفتی صاحب اور نیر صاحب عرض کر بھیجا ہے کہ گیارہ بجے دو پہر کو ملاقات ہو سکے گی جہاں وہ خود ٹھہرا ہوا ہے.آج سیٹھ اسمعیل آدم نے حضرت اقدس کو دعوت ناشتہ دی ہے.صبح کے ناشتہ کے لئے حضور ان کے مکان پر جائیں گے اور دو پہر کا کھانا اسی جگہ مکان پر ہو گا.سامان قادیان کے لئے باندھا جا رہا ہے اور تیاریاں ہو رہی ہیں.سامان کی لوٹا پھیری اور بندش وغیرہ کے کام کی وجہ سے اور زیادہ نہیں لکھ سکتا.بند کرتا - ہوں اور تمام ہی احباب قادیان سے کیا جو بزرگ ہیں اور کیا جو خورد ہیں اور کیا جو دوست ہیں اور کیا جو بھائی ہیں یا بہنیں دعاؤں کی درخواست کرتا ہوں.اُمید کہ قبول ہوں گی.مجھے اور میرے بیوی بچوں کو دعاؤں میں یا درکھا جاوے.گر قبول افتد ز ہے عز وشرف - فقط عبدالرحمن قادیانی از بمبئی ۲۰ نومبر ۱۹۲۴ء
ضمیمه حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی تحریر کردہ ڈائری جو خلافت لائبریری میں محفوظ ہے اس میں خط نمبر ۲ اور ۳ موجود نہیں یہ حصہ آپ کی ڈائری رسالہ مطبوعہ ملک صلاح الدین صاحب سے لیا گیا ہے جسے بطور ضمیمه کتاب ھذا میں شامل کیا جا رہا ہے.
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم بسلسله خط نمبر ۳۰۲ جہاز سے اتر کر سید نا حضرت خلیفة المسیح خانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ایک موٹر کے ذریعہ عدن چھاؤنی سے عدن شہر تشریف لے گئے - خرید وفروخت کے مقامات پر نیگر وعرب سیاہ فام یالے بالوں والے لڑکے اپنی اپنی زنبیل لئے موجود رہتے ہیں تا کہ مسافر اگر کوئی سامان خریدے تو اسے موٹر وغیرہ تک پہنچا دیں.اس طرح ان کو کچھ مل جاتا ہے.جب حضور کا موٹر ایک مارکیٹ کے دروازہ پر پہنچا تو بیسیوں ایسے لڑکے حضور کے گرد جمع ہو گئے.حضور نے دو تین کو ساتھ لے لیا اور ان کی خاطر پھل خریدے.جن کو اُٹھا کر مزدوری کے حقدار ہوئے.حضور نے مزدوری کے علاوہ بطور خیرات بھی انہیں دیا.جس کی وجہ سے اور لڑ کے بھی اکٹھے ہو گئے.بعض نے حضور کے ہاتھ پکڑے بعض نے کپڑے کھینچے.حضور نے دوسرے لڑکوں کو بھی خیرات دی.قصبه شیخ سلیمان : شہر کو دیکھ کر حضور شیخ سلیمان قصبہ کی طرف تشریف لے گئے جو عدن سے ہیں میل کے فاصلہ پر واقع ہے مگر موٹر ڈرائیور نے راستہ میں کسی اور آبادی کو کہہ دیا کہ شیخ سلیمان ہے گو حضور نے سمجھ لیا کہ یہ وہ مقام نہیں کیونکہ حضور نے جو حالات شیخ سلیمان کے متعلق مطالعہ فرمائے تھے وہ اس جگہ موجود نہ تھے مگر چونکہ واپسی کے واسطے جلدی تھی اور وہ خاص مقام ابھی اس جگہ سے قریب آٹھ میل اور دور تھا اس لئے حضور نے واپسی کا ارادہ فرمالیا اور وہاں سے سید ھے جہاز میں تشریف لے آئے.بندرگاہ عدن : عدن بندرگاہ سمندر کے کنارے ایک بالکل خشک اورنگی پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے اور قصبہ عدن بندر سے چار میل کے فاصلہ پر ہے.موٹر اور موٹر لاریوں کے استعمال کی یہاں بہت ہی کثرت ہے.بالکل معمولی بازار ہیں.اکثر یہودی اور پارسی تاجر ہیں.مسلمان بھی ہیں مگر کم.مسلمانوں کی حالت گری ہوئی ہے.اکثر مزدوری پیشہ اور چھوٹے درجہ کے نظر آتے ہیں.کھجور مختلف اقسام، تربوز، انار اور بادام سبز یہاں عام طور پر ملتے ہیں.عدن کے قصبہ میں موٹروں
پر جاتے اور آتے ہوئے ہوا کی تیزی کی وجہ سے موٹی ریت یا بار ایک کنکروں کی بوچھاڑ پڑتی تھی.عدن کے احمدی: عدن کے احمدی دوستوں میں سے صرف ایک صاحب ڈاکٹر جلال الدین صاحب کا پتہ حضرت صاحب کو یاد تھا ان کے پتہ پر تار دیا گیا مگر وہ تار اس لئے واپس آگیا کہ ڈاکٹر جلال الدین ہندوستان چلے گئے ہیں.لہذا اور دوستوں کو پتہ نہ ملا کہ حضور عدن میں تشریف فرما ہیں.نہ ہمیں ان میں سے کسی کا پتہ تھا.بعض فوجی آدمیوں سے کسی احمدی دوست کا پتہ لینے کی بھی کوشش کی گئی مگر لا حاصل.کوئی احمدی دوست نہ ملے جس کا ہمیں بھی افسوس ہے اور ان دوستوں کو بھی ہوگا.عدن سے روانی : ہمارا جہا ز عدن سے روانہ ہو چکا ہے اور جلدی جلدی عدن کی پہاڑیاں جو ہمارے سامنے تھیں نظروں سے اوجھل ہوتی جا رہی ہیں اور آنکھیں اس جانِ عالم کے وطن کی سرزمین کے کنارہ کو اوجھل ہوتے دیکھ کر آنسو بہا رہی ہیں.گو ایک بار اور امید ہے کہ جدہ کی پہاڑیاں نظر آئیں گی یعنی واپسی پر.اس لئے حضور نے فرمایا ہے کہ پھر ایک مرتبہ دعا کریں گے.مشرق کی طرف منہ کر کے نماز : ۲۳ / جولائی کو ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کی نماز میں حضور نے خود کھڑے ہو کر پڑھا ئیں.اب چونکہ قبلہ جانب شرق و شمال ہو گیا ہے.لہذا آج شام کی نمازیں رُخ بدل کر ادا کی گئیں.عربی اور انگریزی میں گفتگو : حضور نے عربی اور انگریزی میں کلام جاری رکھنے کا عدن سے روانگی پر پھر حکم فرما دیا چنانچہ اسی پر عمل درآمد ہو رہا ہے.اب سوائے ان دو زبانوں کے اور زبان میں کلام نہیں کیا جا تا.شکریہ کی چٹھی : ۲۴ جولائی کو حضور نے جہاز کے فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کے مسافروں کو دعوتِ طعام دی اور پلاؤ پکوا کر کھلایا جس پر تمام مسافروں نے متفقہ شکریہ کی چٹھی چھپوا کر حضور کی خدمت میں بھیجی.حضرت خلیفہ امسیح کی انگریزی میں گفتگو : کھانا حضور میں (Mess) میں کھاتے ہیں
اور دوسرے لوگوں کی انگریزی گفتگو میں شریک ہوتے ہیں.انشاء اللہ واپسی تک زبان انگریزی بھی فصیح ہو جائے گی.جدہ کے سامنے دعا : ۲۵ / جولائی کو حضرت صاحب رات کے گیارہ بجے تک اس لئے جاگتے رہے کہ اس وقت جہاز کے جدہ کے بالمقابل پہنچنے کا اندازہ تھا.اس وقت حضور نے دو رکعت نماز لمبی با جماعت بلند قرات سے پڑھائی اور دعائیں کی گئیں.اللہ کریم ان سب دعاؤں کو ترقی اسلام اور ہماری انفرادی و قومی اصلاح و ترقیات کی صورت میں قبول فرمائے.فتوحات اسلامیہ کا نظارہ دکھائے اور دنیا کی آنکھیں کھو لے کہ وہ اس حق و راستی کو قبول کرے.جنوب مشرق کی طرف نماز : ۲۶ / جولائی کو حضور نے جب ظہر وعصر کی نمازیں پڑھا ئیں تو قبلہ کا رخ جنوب مشرق کا کو نہ تھا.پردہ کے متعلق اٹالین ڈاکٹر کی رائے : نماز کے بعد حضور نے اٹالین ڈا کٹر کو تبلیغ کی.اس نے کہا میری ذاتی رائے یہ ہے کہ عورت کو پردہ کرنا چاہئے.میں اس طریق یورپ کے خلاف ہوں کہ عورتیں اس طرح آزا در ہیں.وہ عورتیں گھر میں تو میلی چھیلی رہتی ہیں لیکن جب باہر جاتی ہیں تو بن سنور کر نکلتی ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا بناؤ سنگھار اپنے خاوند کے لئے نہیں بلکہ دوسروں کی خاطر ہوتا ہے.جب ایک عورت میری ہے تو وہ صرف میرے واسطے ہونی چاہئیے.دوسروں کا اس کو دیکھنا ٹھیک نہیں.ساتھیوں کی کارگزاری کی رپورٹ : حضور نے شام کی نماز سے پہلے ایک ایک کر کے سب سے پوچھا کہ آپ نے کیا کام کیا.سب کی رپورٹیں لیں اور آئندہ روزانہ کارگزاری کی ہا.رپورٹ دینے کا حکم دیا.ذمہ داری کا راز : ۲۷ / جولائی کو ذمہ داری پر حضور نے نہایت لطیف تقریر فرمائی.فرمایا : یورپ کی ترقی کا راز ہی ذمہ داری کی شناخت میں ہے.ہمارے ہندوستانی بلکہ میں افسوس سے کہوں گا کہ احمدی بھی اس راز کو نہیں سمجھے.ایک انگریز جرنیل جس طرح سے فتوحات پر عزت کے خطابات اور انعامات کو خوشی سے قبول کرے گا اسی طرح سے ناکامی یا غلطی کا خمیازہ اور سزا بھگتنے کے لئے بھی
تیار ر ہے گا.ایسے موقع پر وہ کہتا ہے مجھے گرنے دو کیونکہ اس سے مجھے بڑھنے کا بھی موقع ملے گا.پھر صحابہ کی ایسی مثالیں بیان کیں.ان کے کارنامے اور فتوحات کا بھی ذکر کیا اور بعض جن کو سزائیں دی گئیں تھیں ان کا بھی ذکر فرمایا.کوہ طور : ۲۷ جولائی کو عصر کی نماز کے بعد وہ سلسلہ کو ہی سامنے آیا جس میں حضرت موسی کا طور سینا ہے اور جبل موسیٰ کے نام سے موسوم ہے.حضور نے اس سلسلہ کو ہی کے بعض حصص کا فوٹو لیا.نہر سویز کا نظارہ: ۲۸ / جولائی کو ہم نہر سویز میں داخل ہوئے.کینال کے دفاتر کا منظر اور سمندر میں سے شہر کا نظارہ اور آب رسانی کے چاہات نہایت ہی خوشکن اور فرحت افزاء مقام ہیں.ہمارا جہاز دفاتر کینال کے ساتھ ساتھ چلا جا رہا تھا.ادھر جہاز اور اُدھر دفاتر کی خوبصورت عمارت کا بہت ہی اچھا نظارہ تھا.اکثر حصہ مسافروں کا اس نظارہ کی سیر کر رہا تھا.تھوڑی دور آگے چل کر نہر سویز آ گئی جو بمشکل دو سوفٹ چوڑی ہو گی.گہرائی کا پتہ نہیں مگر اند از ۳۰ فٹ ہوگی.اٹالین ڈاکٹر کی نااُمیدی : انالین ڈاکٹر بچارہ بڑے شوق اور امید سے آیا کرتا تھا اور یقین رکھتا تھا کہ حضرت صاحب اس کی سوسائٹی میں شامل ہو جائیں گے.مگر اب بالکل مایوس ہو گیا اور کہنے لگا آپ لوگ بڑے سنجیدہ اور متین ہیں میں آپ کو اپنے ساتھ شامل نہیں کر سکتا.جنگ کے بعد لوگوں نے غم اور حزن کو دور کرنے کے واسطے کئی قسم کی کمیٹیاں بنائی ہوئی ہیں.ان میں سے ایک اکٹی نام سے مشہور ہے.یہ ڈاکٹر اس کا پریذیڈنٹ ہے جس میں خوش رہنے کی تجاویز سوچتے ہیں.ایک دوسرے کو ملتے وقت ایک ہاتھ اس طرح اُٹھاتے ہیں جس طرح سے سامنے آتی گاڑی کو روکنے کے لئے کھڑا کرتا ہے اور کہتے ہیں کہ سب سے بڑی طاقت اسی ہاتھ میں ہے.چلتی گاڑی کھڑی ہو جاتی ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی ہاتھ کو کھڑا کر کے جنگ جاری رکھی تھی اور جب کمزور ہو کر گرنے لگا تو شکست ہونی شروع ہو گئی جس پر دو آدمیوں نے ہاتھ کو تھاما.تب جا کر ہاتھ کھڑا ہوا اور لڑائی ختم ہوئی وغیرہ وغیرہ.اٹالین ڈا کٹر کوتحریر : حضرت صاحب نے اس کی درخواست پر اسے ایک تحریر لکھ کر دی جس کا
۶ خلاصہ یہ ہے ہم مایوسی کے دشمن ہیں مگر ہم زندگی کو بنی اور کھیل کے لئے بھی بنانا نہیں چاہتے.ہاں اعتدال کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں.ہم لوگ وقار اور وضعداری سے رہنا چاہتے ہیں اور مذہبی زندگی کے ساتھ ہی خوش ہیں.ہماری ساری خوشی خدا میں ہے اور اس لئے ہم ہمیشہ خوش ہیں.اگر آپ مذکورہ بالا امور کو اپنے قواعد میں داخل کر لیں تو ہم اکٹی بن جائیں گے ورنہ ہم ہرگز اکٹی نہیں.ہم شراب نہیں پیتے اگر تم ہمیں شراب کے خلاف اپنے ممبروں میں وعظ کرنے کی اجازت دو تو ہم اکٹی ہو جائیں گے ورنہ ہم بالکل اکٹی نہیں.کوئی طلسم ہمارے نز دیک نہیں.کوئی تصویر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ کی نہیں ہے.یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے.ہم مذہبی آدمی ہیں.ہم ہاتھ نہیں اٹھاتے ہم لو وقار رکھنے والے ہیں.ہاتھ کا اٹھانا وقار کے خلاف ہے.پورٹ سعید پہنچنا : ۲۸ / جولائی کو نہر سویز میں کوئی جہاز نہ تھا اور حسنِ اتفاق سے ہمارا ہی جہاز تھا.اس لئے کوئی روک پیدا نہ ہوئی اور جہاز ہمارا جلدی جلدی سے نہر سویز پار ہو گیا اور آٹھ بجے سے بھی پہلے پورٹ سعید کے پانیوں میں آکھڑا ہوا.یہاں فوراً قلی چلتے جہاز میں داخل ہو گئے اور سامان اتار نے اور مکان پر پہنچانے کے لئے مسافروں سے بات چیت کرنے لگے.ہم لوگ چونکہ اس ملک کے حالات سے واقف نہ تھے ہمیں ضرور کوئی تکلیف ہوتی یا دیر گتی مگر ٹامس لک کے آدمی آن پہنچے جن سے بات چیت کرنے میں شیخ محمود احمد نے بڑی ہوشیاری دکھائی.سامان گن کر ان لوگوں کے حوالہ کر دیا اور وہ تمام سامان جہاز پر سے رسوں کے ذریعہ سے قلیوں نے فوراً نیچے کھڑی کشتیوں میں بھر کر بھوپارہ کی طرف روانہ کر دیا.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح دوسروں کا انتظار کرتے رہے اور جہاز کے افسر حضور سے الوداعی سلام عرض کرتے رہے.ایک بنگالی تاجر جو کہ بائیسکلوں کا بڑا تاجر ہے اور فرسٹ کلاس کا مسافر تھا حضور کے سامنے میز پر بیٹھا کرتا تھا.آخری دنوں میں حضرت صاحب کو اس کے ساتھ بہت انس ہو گیا اور حضور نے جہاز کے سفر کی آخری گھڑیاں اس سے بات چیت کرنے میں صرف کیں.حضور نے اس کو بہت تبلیغ کی اور اللہ کے حوالے کیا.نہر سویز کی خوبصورتی : نہر سویز کو بہت ہی خوبصورت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے بھی کہ بعض مقامات ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا کسی بڑے شہر کی مال روڈ ہے جس پر جہاز گذر رہا ہے خصوصاً پورٹ سعید کے قریب کے کنارے تو بہت ہی خوبصورت ہیں.
پورٹ سعید کا ذکر : پورٹ سعید میں موسم زیادہ گرم نہیں.رات کو مکان کے اندر کے کمروں میں سوئے رہے.بازار اور سڑکیں نہایت با قاعدہ اور صاف ہیں.دکانیں بڑی خوبصورت اور سلیقہ سے سجائی ہوئی.عمارات بہت ہی شاندار اور خوبصورت وضع کی صاف ستھری.موٹر اور فٹن کا عام رواج ہے.ٹرام بھی خچروں سے اندرونی بازاروں میں چلتے ہیں.بار روم ( جہاں لوگ کثرت سے بیٹھ رہتے ہیں ) بکثرت ہیں.چاء اور شراب وغیرہ کی دکانیں بہت گرم رہتی ہیں.عورتیں سیاہ لباس میں ایک حد تک پردہ کئے ہوئے بازاروں میں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں.ہوٹل : جس ہوٹل میں ہم ٹھہرے ہیں.فی کس رات رہنے کا خرچ ۵ شلنگ ہے.میں نے رات حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور اگر اجازت ہو تو سامان بھی اسٹیشن پر پہنچا دیا جائے مگر حضور نے پسند نہ فرمایا اور فرمایا وہاں سامان کی حفاظت کا انتظام نہ ہو سکے گا کیونکہ یہ علاقہ ہمارے ملک کی طرح نہیں ہے.ابھی ابھی اس ہوٹل سے حضرت میاں شریف احمد صاحب کا ایک ہوا جس میں ۱۶۵ کے نوٹ تھے گم ہو گیا.ایک شخص دروازہ پر بیٹھا تھا اور حضرت میاں صاحب نے بٹوا ایک جگہ سے اُٹھا کر دوسری جگہ رکھا.غالباً اس نے تاڑ لیا.حضرت میاں صاحب حضرت صاحب کے کمرہ میں تشریف لائے واپس لوٹ کر گئے تو وہ بٹوا ندارد.جس کی تحقیق کی جارہی ہے اور تلاش ہو رہی ہے.پورٹ سعید : پورٹ سعید کے متعلق جو جو ضروری کام تھے سرانجام دینے کے بعد ۲۹ جولائی کو ساڑھے بارہ بجے کی ایکسپریس ٹرین سے حضرت خلیفہ امیج مع خدام قاہرہ تشریف لے گئے.حضور کا ٹکٹ فرسٹ کلاس کا تھا اور حضور کے ساتھ پرائیویٹ سیکرٹری ذوالفقار علی خاں صاحب کا بھی اسی درجہ کا.باقی تمام خدام نے مع حضرت میاں شریف احمد صاحب تھرڈ کلاس میں اکٹھے بیٹھ کر سفر کیا.اس جگہ ہر قسم کے لوگ موجود ہیں.ہر ملک اور ہر مذہب کے آدمی ملتے ہیں مگر عموماً چور، ٹھگ ، دھوکہ باز اور ڈاکو زیادہ ہیں.مسافروں کے کپڑے اتارنے تک سے دریغ نہیں کرتے.تاجر بلکہ پھیری والے بھی جہاز میں زور سے مال بیچنے کی کوشش کرتے ہیں اور خواہ مخواہ گلے پڑتے ہیں.
Λ پردہ کا رواج اندرون مصر پردہ کا عام رواج نظر آتا ہے.عورتیں سیاہ اوڑھنی کو پیشانی اور رخساروں پر اس طرح پہنتی ہیں کہ آنکھیں اور صرف ناک نگارہ جاتا ہے پھر ناک پر ایک کلپ زیور کی شکل کا خوبصورت سا لگا لیتی ہیں جو اوپر اور نیچے کے کپڑے کو پکڑے رہتا ہے جس سے رخساروں کے ننگے ہونے کا خطرہ نہیں رہتا.چلنے پھرنے میں آزادی بہت نظر آتی ہے مگر پردہ کا لحاظ عورتوں میں خاص طور پر ہے بعض عورتوں کو کھیتوں میں اپنے مردوں کی امداد کرتے دیکھا.اس حالت میں بھی انہوں نے پردہ کا لحاظ رکھا ہوا تھا.عورتوں کا لباس پر دہ اور وضعداری دونوں کے لئے ہوتے ہے.عام سواری: اس علاقہ میں عموماً گدھے کی سواری مروج ہے.عورتیں، بچے ، مرد اور بوڑھے ہر قسم کے لوگ گدھوں پر بلا تکلف سوار ہو کر ادھر ادھر نقل و حرکت کرتے ہیں.گدھے سبک رفتار ہیں.کپاس کی کاشت ان دنوں کثرت سے نظر آتی ہے.تل بھی قریب پختگی کے ہیں.مکی اور جوار بھی نظر آتی ہے.انگور کثرت سے ملتے ہیں اور ارزاں تر بھی.آبادیاں زیادہ با قاعدگی اور اچھی خوبصورتی کو لئے ہوئے نظر آتی ہیں.لوگوں میں متمول اور آسودگی نظر آتی ہے.تجارت، زراعت اور پیشہ وری کا عام چرچا ہے.جس علاقہ میں سے یہ لائن گزرتی ہے دریائے نیل کی نہروں کی وجہ سے خوب ہی سرسبز ہے.تربوز بہت بڑے بڑے اور کثرت سے پائے جاتے ہیں.نہروں میں بادبانی کشتیاں چلتی ہیں.مصری ریل گاڑی: گاڑی میں عورت مرد مل کر بیٹھتے ہیں.مرد عورتوں کا احترام کرتے ہیں.سہولت کی جگہ ان کو دے دیتے ہیں.گاڑیوں کا انتظام اچھا ہے.اول تا آخر رستہ نکلتا ہے.کھانے پینے کی اشیاء عموماً ہر قسم کی گاڑی کے اندر ہی مل جاتی ہیں.گاڑی میں لوگ بظاہر تمام ہی مسلمان نظر آتے ہیں.قاہرہ کا سٹیشن : سامان گاڑی سے اُتار کر ہم نے قلیوں کے حوالہ کیا.حضرت صاحب پلیٹ فارم پر خدام کے منتظر رہے.جب تمام خدام فارغ ہو کر حضور کے پاس پہنچ گئے تو حضور نے پوچھا کہ داخلہ شہر کی دعا سب نے کر لی ؟ عرض کیا گیا فردا فردا تو کر لی ہے.حضور نے پھر مجموعی طور پر دعا کے
۹ لئے ہاتھ اٹھائے خدام کا حلقہ بھی دست بدعا ہوا.اس کے بعد ایک اور حلقہ تھا جس میں اور لوگ تھے.سٹیشن پر فوٹو : دعا کے بعد حضور سٹیشن پر سے باہر کی طرف بڑھے.خدام ہمرکاب دائیں بائیں تھے.سٹیشن کے باہر سیٹرھیاں حضور اترتے تھے کہ فوٹوگرافر کی درخواست پر حضور ایک منٹ کے لئے ٹھہر گئے.خدام کے ساتھ بعض دوسرے لوگ بھی شامل تھے.ان کا بھی غالبا فوٹو آ گیا ہوگا.سٹیشن سے روانگی : فوٹو کے بعد حضور موٹر میں بیٹھ کر تھوری دی ٹھہرے رہے کیونکہ سامان چیک کر کے گاڑیبان کے حوالہ کیا جا رہا تھا.جب اس طرف سے فارغ ہو چکے تو حضور مع خدام شیخ محمود احمد صاحب کے مکان پر پہنچے.شیخ محمود احمد صاحب جس مکان میں رہتے ہیں اس مکان کا کچھ اور حصہ تین دن کے لئے انہوں نے لے لیا جو حضرت صاحب کی وجہ سے خدام یا ملاقاتیوں کے لئے رکھا گیا تھا.مکان میں کرسیاں اور کا وچ لگے ہوئے تھے اور حتی الوسع صفائی کا بھی انتظام کیا ہوا تھا.شیخ محمود احمد صاحب : شیخ صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے قاہرہ میں بہت ہی کارآمد ثابت ہوئے اور زبان دان ہونے کی وجہ سے کئی قسم کی سہولتیں ان کے وجود سے میسر ہوئیں.علماء سے ملاقات : مکان پر پہنچنے کے چند منٹ کے بعد چار علماء حضور کی ملاقات کے لئے آئے.جن سے سلسلہ کلام عربی زبان میں شروع ہوا.مسئلہ خلافت کے متعلق گفتگو جاری رہی اور آدھ یا پون گھنٹہ کے قریب یہ نشت قائم رہی.جس میں حضرت صاحب حافظ روشن علی صاحب اور شیخ عبد الرحمن صاحب مصری نے مسئلہ خلافت کے متعلق علماء کو مسلمانوں کی غلطیاں ٹھوکریں اور تلون بتایا اور پھر اپنا عقیدہ وضاحت سے سنایا.ان باتوں کو سن کر وہ لوگ خوش ہوئے شکر یہ ادا کیا اور کہا کہ آپ لوگوں کی محبت ہمارے دلوں میں گھر کر گئی ہے.آپ نے جو اعزاز ہمیں بخشا ہے اس کے ہم شکر گزار ہیں.کل پھر کسی وقت حاضر ہوں گے.جب حضور موقع دیں حاضر ہوں اور چلے گئے.مصر میں اخراجات : مصر میں عام نظر سے انگریزیت ہی کا غلبہ نظر آتا ہے.اخراجات سن کر حیرانی ہو جاتی ہے.پورٹ سعید کے ہوٹل میں شب باشی کے اخراجات سے ڈر کر قاہرہ میں مکان لیا تھا.کھانے کے واسطے روٹی تنور سے منگائی گئی کہ خرچ کم ہو مگر صرف سالن جو بازار سے منگایا گیا اور
1.جس میں نصف سبزی تھی چودہ آدمیوں کے واسطے دس روپے کا آیا.شیخ محمود احمد صاحب بتاتے ہیں کہ انہوں نے بہت رعایت اور کفایت سے خریدا ہے ورنہ اگر کوئی نا واقف جا تا اور سبزی شامل ہوتی تو یہی سالن بیس روپے کو آتا.شہری عورتوں کی بیجا آزادی : قاہرہ شہر کی عورتوں کا لباس سیاہ قسم کا ہے مگر شہری عورتوں میں سے اکثر حصہ جو بازاروں میں پھرتا نظر آتا ہے شرعی آزادی اور پردہ کی حد کو توڑ کر فیشن اور ترج کی طرف ترقی کرتا نظر آتا ہے.چھاتی کا ایک حصہ انگریز لیڈیوں کی طرح ننگا رکھ کر اوپر سے ایک جالیدار نقاب لگایا ہوتا ہے جس سے نہ جسم ڈھک سکتا ہے نہ پردہ رہ سکتا ہے.اس لباس کو بھی اگر پردہ کی نیت سے پہنا جائے تو پردہ کے لئے کافی ہو سکتا ہے مگر عموماً اس کو فیشن اور خوبصورتی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور پردہ کا چنداں خیال نہیں رکھا جاتا ایک نابینا طالبعلم : ازہر کا ایک طالب علم جس کی ایک نظم ۱۹۲۳ء کے جلسہ پر عربی میں پڑھی گئی تھی حاضر ہوا.اس نے دو قصیدے اور ایڈریس پڑھے اور قرآن شریف سنایا.یہ طالب علم نابینا ہے.اور قوت لامسہ کے ذریعہ پڑھتا تھا.یہ طالب علم اس قوت سے تصنیف بھی کرتا ہے مگر اس کی تصنیف نا بینا ماہر ان علم ہی پڑھ سکتے ہیں.مصر کی حالت : ۳۰ / جولائی صبح کی مجلس میں حضور نے فرمایا.مصر کی حالت تو اس امر کی مقتضی ہے کہ یہاں کم از کم دو ماہ متواتر قیام کیا جائے کیونکہ جس تباہ کن تمدن سے میں اسلام کو بچانا چاہتا ہوں اس کا زہر تو مصری مسلمانوں میں سرایت کر چکا ہے اور مصری مسلمان اس یورپ کے تمدن کے سامنے سرتسلیم خم کئے جارہے ہیں.ہندوستان اور انگلستان کا تعلق : ہندوستان میں سیاسی تغیرات کا ذکر ہوتا رہا حضرت صاحب نے فرمایا.میرا خیال ہے کہ ادھر ہندوستان میں احمدیت ترقی کرے گی اور اُدھر یورپ میں ترقی پکڑے گی.اس صورت میں ہندوستان اور انگلستان کا آپس میں ایک تعلق پیدا ہو جائے گا.حضرت کی عربی میں تقریر : کھانے کے بعد حضور کے پاس ایک احمدی مصری دوست آئے
۱۱ حضور کی زیارت کی اور عربی میں ایک ایڈریس اور نظم حضرت صاحب کے حضور پڑھی.تقریر میں مایوسی اور اسلام کی مصیبت کا بہت ذکر تھا.اس پر حضور نے عربی میں تقریر اور ایڈریس کا جواب دیا کہ مایوسی سے اسلام نے منع کیا ہے اگر چہ حالات ایسے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی مدد کی اور وقت پر خبر لی.سو مبارک ہو آپ کو اہل مصر کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اب جلد انشاء اللہ آپ لوگوں کے شامل حال ہو نے والا ہے.میں مصر کے حالات کے مطالعہ کی غرض سے یہاں آیا ہوں.انشاء اللہ جلد تر کوئی تبلیغی نظام قائم کر دوں گا اور بہتر نتائج پیدا ہونے کی اللہ تعالیٰ سے امید کی جاتی ہے.اہرام مصر کی سیر : اہرام مصر شہر سے ۱۰ میل کے قریب دور ہیں جنہیں دیکھنے کے لئے ہم گئے.اہرام تو اور بھی ہیں مگر زیادہ آمد و رفت انہی کی طرف ہے.یہ تین بڑے اہرام ہیں جو دو اور تین سو فٹ کی بلندی کے ہیں.ایک کے اندر قبر اور کمرے نیچے سے اوپر کو جاتے ہیں اور دوسرے میں نیچے کی طرف جاتے ہیں.میں ان تین میں سے درمیانی کے اندر گیا تھا ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بھی ساتھ تھے.راستہ کا پہلا حصہ بہت ہی صاف پتھروں کا بنا ہوا تھا جو اوپر سے نیچے کو ڈھلوان تھا.انسان اگر پاؤں پیار کر بیٹھ جائے تو خود بخود پھلتا پھسلتا نیچے جا سکتا تھا مگر ہم کھڑے ہو کر دونوں دیواروں کو ہاتھ لگائے جسم کو سنبھالے اترے دو دلیلی ( راہنما ) موم بتی جلائے ہمارے ساتھ تھے.کوئی پچاس فٹ گہرائی تک جا کر ایک غار آئی جس میں کود کر ائتر نا پڑا.غار کی گہرائی 4 یاے فٹ تک تھی.اس غار سے آگے کا راستہ بالکل نا ہموار تھا جو قبر کے اندر کا سامان وغیرہ کھود لینے کی وجہ سے پتھر مٹی اور چونہ سے پٹا پڑا تھا اور کسی نے صاف نہ کیا تھا.بعض بعض جگہ میں پیٹ کے بل گھسٹتے گھسٹتے جانا پڑا.کچھ دور جا کر پھر کھڑے ہو کر نکلنے کا راستہ آ گیا حتی کہ ہم ایک ہال میں جا پہنچے جو وضع دار بنا ہوا ہے.اس کے اندر ایک طرف کو ایک پتھر کی کھدی ہوئی خالی قبر ہے.معلوم ہوتا ہے اس میں جنازہ تھا اور باقی کمرہ میں لاکھوں روپیہ کا زر و جواہر اور ضروریات زندگی رکھی ہوئی تھیں جواب نکال لی گئی ہیں.یہ بڑا کمرہ اور راستہ کا ایک حصہ پتھر کھود کر بنایا گیا ہے.کھدائی کی محنت اور صنعت واقعی حیرت انگیز ہے.اس بڑے کمرہ کے بعد ہم ایک دوسرے کمرے کی طرف لے جائے گئے جو پہلے کمرہ سے چھوٹا مگر وہ بھی بہت وسیع تھا.اس کے اندر قبر کھدی ہوئی نہ تھی بلکہ صاف کمرہ تھا.دونوں کمروں کو ہم نے آتشبازی کی تار جلا کر خوب اچھی تیز روشنی میں دیکھا اور واپس آگئے.
۱۲.اہرام مصر کیا ہیں : لوگوں میں یہ روایت مشہور ہے کہ یہ عظیم الشان عمارات محض قبور ہیں جو اولاً پتھروں کو کھود کر کمرے وغیرہ بنا کر بعد میں ان کے اوپر اور کروڑوں من پتھروں کی بلند بالا عمارات بنائی گئی تھیں اور راستوں کو ایسا پیچدار بنا دیا گیا کہ کوئی اندر نہ پہنچ سکے.پتھروں کے اوپر چونہ گج کیا گیا تھا مگر اب گورنمنٹ نے اہرام کے اندر پہنچ کر حالات معلوم کرنے کی کوشش میں راستہ تلاش کرنے کی غرض سے ان اہرام کو کئی مقامات سے توڑا پھوڑا ہے مگر جب پھر بھی راستہ نہ ملا تو اوپر سے گچ کے کام کو بالکل اتار پھینکا اور عمارات عظیم کو بالکل ننگا کر دیا.کہتے ہیں کہ بادشاہ کو مرنے کے بعد ایسے عظیم الشان کمرہ میں دفن کرتے جو اس کی شان کے مطابق ہوتا.اسی طرح علی قدر مراتب ہر شخص کو اس کی حیثیت اور پوزیشن کے مطابق رکھا کرتے تھے اور موت کے بعد بھی ان کے ساتھ لوازم زندگی اور تعیش کے سامان جمع کر دیئے جایا کرتے تھے.بادشاہ کے متعلق خیال تھا کہ وہ موت کے بعد بھی اپنی رعایا کے ساتھ تعلق رکھتا تھا اور رعیت کی نگرانی اور بوقت ضرورت امدا د کرتا تھا اور روح انسانی اپنی دینوی چیزوں سے ہمیشہ محبت کرتی اور وابستہ رہتی تھی.انہی وجوہات کی بناء پر کوشش کی جاتی تھی کہ ہر قسم کے سامان بعد الموت بھی اس کے گرد جمع کر دیئے جائیں جو رعیت کی امداد یا خود مردہ کی روح کی خوشی اور دلجوئی کا موجب بن سکیں.یہ سامان بادشاہوں کے ساتھ چونکہ لاکھوں روپیہ کی قیمت کے رکھے جاتے تھے اس لئے ان کی حفاظت اور مردہ کی حفاظت کے لئے اوپر بہت ہی محفوظ اور مضبوط عمارت بنا کر دروازے وغیرہ بالکل بند کر دیئے جاتے تھے.چنانچہ اب جب کہ گورنمنٹ نے وہ سامان اور زر و جواہر نکلوائے ہیں معلوم ہوا ہے کہ کس قدر قیمتی زیورات ، جو ہرات ، فرنیچر ، تابوت، ڈھانچ اور برتن و دیگر سامان وغیرہ رکھے جاتے تھے اور ان سے اس زمانہ کی صنعت اور کاریگری کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں کس قدر کمال ان لوگوں کو حاصل تھا.اہرام کی شکل : اہرام مصری سید ھے بلند بالا نہیں بنائے گئے بلکہ سیڑھیوں کی طرح درجات کے طریق پر پتھر لگائے گئے ہیں نیچے سے بہت چوڑے لمبے ہیں اور اوپر سے تنگ ہوتے جاتے ہیں.نوکدار چوٹی نکال دی ہے اس طرح کی چوگونہ مخروطی شکل ہے.ایک ایک پتھر دودوٹن بلکہ اس not found.سے بھی زیادہ وزن کا ہو گا جو اینٹوں کی جگہ استعمال کیا گیا ہے.ایسے بڑے اور بھاری پتھروں کا اتنی
۱۳ بلندی تک لے جانا ہی کچھ کم حیرت انگیز نہیں ہے.اس جگہ جو لوگ راہبر کے طور پر کام کرتے ہیں بہت ہی مشاق ہوتے ہیں.ان میں ایک مضبوط اور تیز رو آدمی ایک روپیہ مزدوری مقرر کر کے حرم کی چوٹی تک بھاگتا ہوا گیا.چھ منٹ میں اوپر جا پہنچا جہاں وہ فٹ بال کے گیند کے برابر نظر آتا تھا.آدھ منٹ ٹھہر کر چار چارفٹ اونچے پتھروں کی سیڑھیوں سے بے دھڑک کوند تا پھاند تا نیچے چلا آیا اور دومنٹ میں زمین پر آ گیا.9 منٹ کا وقت مقرر کر کے گیا تھا ساڑھے آٹھ منٹ میں واپس آ گیا.ہم میں کا مضبوط آدمی بھی بمشکل شاید آدھ گھنٹہ میں چڑھ سکتا.- ایک بڑا بت : ابوالہول ایک بڑے پتھر کا بت ہے جس کا ناک فرانسیسی فاتح نے کلہاڑے سے کاٹ دیا تھا.دیکھا اس کے پاس بھی عجائب خانہ قبرستان ہے جس کو دیکھ کر حیرت ہی ہوتی ہے نہ معلوم ابھی اس سرزمین کے اندر کیا کیا عجائبات پوشیدہ ہیں جس کا علم بجز خدائے علیم کے کسی کو نہیں.پولیس کا انتظام : یہاں پولیس کا انتظام حکومت کی طرف سے خاطر خواہ ہے اور لوگ آزادی سے جاتے اور سیر کرتے ہیں ورنہ کچھ زمانہ پہلے اس مقام پر لوگ لوٹ لئے جاتے تھے.ڈاکہ پڑتا تھا قتل ہوتے تھے.لوگ زائرین کو غاروں اور قبروں کے اندر لے جا کر قتل کر دیتے تھے اور ان کا مال و اسباب کوٹ لیتے تھے.اہرام مصر: سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: وو پرانے زمانے میں سب سے اونچے مینار مصر میں ہی بنا کرتے تھے اور یہ اونچے مینار اسی خیال کے ماتحت بنائے جاتے تھے کہ مصری سمجھتے تھے کہ ارواح سماویہ آسمان سے اُترتی ہیں تو بلندی پر رہنے کی وجہ سے وہ بلند جگہوں کو پسند کرتی ہیں اسی لئے وہ اپنے بزرگوں اور بادشاہوں کی قبریں بلند میناروں کی شکل میں بنایا کرتے تھے.مگر چونکہ اس وقت تک حساب کا علم ابھی مکمل نہیں ہوا تھا اس لئے وہ سیدھا اور گول مینار بنانے کی بجائے اس شکل کی عمارات بنایا کرتے تھے یعنی ان کی چوٹی تو صرف Londo airey 3r nofib.hr چند مربع گز میں ہوتی تھی لیکن بنیاد ہزاروں مربع گز میں ہوتی تھی.بعد میں جب حساب مکمل ہوا اور بنیادوں اور سدھائی کا علم ہوا تو سیدھے گول میناروں کا رواج
۱۴ ہو گیا.میں جب مصر میں گیا تھا تو میں نے بھی ان میناروں کو دیکھا تھا.یہ اتنے بلند مینار ہیں کہ اچھا قوی اور مضبوط آدمی بھی ان پر چڑھتے چڑھتے تھک جاتا ہے.آج بھی انجنئیر جب ان میناروں کو دیکھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں کہ اس زمانہ میں ناقص انجنئیر نگ کے باوجود انہوں نے کتنی بلند و بالا عمارتیں کھڑی کر دیں.در حقیقت یہ مینار نہیں بلکہ قبریں ہیں جو بادشاہوں کے لئے بنائی جاتی تھیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ان میناروں کے ذریعہ آسمانی ارواح ان کے بزرگوں کے نزدیک ہو جاتی ہیں.“.ایک با اثر صوفی کی ملاقات : شام کو مکان پر جب واپس لوٹے تو ایک با اثر سید صاحب کا ایک آدمی موجود پایا جس نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ صوفی صاحب حضور سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں اجازت ہو تو انہیں لے آؤں.حضور نے اجازت دی اور وہ صوفی صاحب کو لے آیا.صوفی صاحب مع 9 کس مریدوں اور شاگردوں کے حاضر ہوئے اور انہوں نے نہایت ادب اور احترام اور تپاک سے ملاقات کی اور عرض کیا کہ حضور کی تشریف آوری کا اگر مجھے پہلے علم ہو جاتا تو میں پورٹ سعید تک استقبال کو حاضر ہوتا اور ہر قسم کے انتظامات کرتا.اپنے مکان پر گو کہ میں بھی مسافر ہوں ٹھہراتا اور خدمت بجا لاتا مجھے بھی ثواب ہوتا.حضور نے شکریہ ادا کیا.سید نا حضرت مسیح موعود کی کتاب ”اسلامی اصول کی فلاسفی عربی طبع جدید مصری کی دو جلد میں حضور نے ان کو تحفہ دیں جن کو لے کر انہوں نے چوما اور آنکھوں پر رکھا.بہت بہت شکریہ ادا کیا.انہوں نے حضرت مسیح موعود کی صداقت کی تصدیق کی اور شاگردوں کو اس پر گواہ بنایا.ایک عربی قصیدہ حافظ روشن علی صاحب نے سنایا جسے سن کر وجد میں آگئے اور لفظ لفظ پر قربان اور نثار ہوتے ہیں اور حق حق کہہ کر قبول کرتے.وفات مسیح کا اس میں ذکر تھا اس کی بھی تصدیق کی.فارسی کے چند اشعار پڑھ کر بھی ترجمہ کیا گیا.بہت محظوظ ہوئے اور جاتی دفعہ بہت اخلاص اور محبت سے رخصت ہوئے.شیخ محمود احمد کومخاطب کر کے حضرت صاحب کے سامنے کہا کہ تم نے ہم سے بخل کیا اور یہ باتیں ہمیں نہیں سنائیں.حضرت خلیفتہ امیج کو خلیفہ کے لفظ سے پکارتے اور سید نا حضرت مسیح موعودؓ کو حضرت امام کے نام سے بار بار یاد کر تے تھے.
۱۵ اخبارات کی مخالفت : دو ایک اخبارات نے حضور کی تشریف آوری کا اعلان بھی لکھا ہے اور ساتھ ہی مخالفت بھی کی ہے.فرعون کی لاش : ہم چند آدمی عجائب گھر دیکھنے گئے.واقعہ میں یہ عجائب خانہ ہے.فرعون موسیٰ کی لاش بھی دیکھی اور بہت بڑی عبرت حاصل ہوئی.وہ فرعون جو کسی وقت اس ملک کا واحد مالک تھا آج کس بے بسی اور بے کسی میں لوگوں کے لئے عبرت بن رہا ہے.خدا کے وعدہ کے مطابق حضرت موسی کے دیکھتے دیکھتے اپنے لشکروں سمیت غرق ہو گیا مگر عبرت کے لئے اس کا بدن بچالیا گیا.سوچنے والوں کے لئے اس میں بڑے سبق ہیں اور غور کرنے والوں کے لئے بڑی عبرت ہے.اور بھی بہت سی مومی لاشیں بالوں تک محفوظ رکھی ہوئی ہیں اور عجائبات قدرت بھی دیکھنے میں آئے.قبروں کے صندوق اور تمام زر و جواہرات جو بادشاہوں کی قبروں سے ملا اسی عجائب گھر میں اس کا اکثر حصہ موجود ہے.فرعون مصری کی لاشیں : الْيَوْمَ نتجیک ببدنگ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی رقم فرماتے ہیں :- فرعون کے جسم کے بچائے جانے کا ذکر قرآن کریم کے سوا دوسری کتب میں نہیں ہے بائیبل اس امر میں خاموش ہے اور تاریخیں ساکت ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کی با تیں کیسی کچی ہوتی ہیں آج تین ہزار سال سے زائد عرصہ کے بعد فرعون موسیٰ یعنی منفتاح کی لاش مل گئی ہے اور قاہرہ کے عجائب گھر میں موجود ہے اور میں نے اپنی آنکھوں سے اسے دیکھا ہے.چھوٹے قد کا دبلا سا ایک شخص ہے جس کے چہرہ سے حماقت اور غضب دونوں قسم کی صفات ظاہر ہوتی ہیں.کجا وہ زمانہ اور کجا یہ زمانہ خدا تعالیٰ نے اس کے جسم کو نہ صرف بچایا بلکہ پچھلوں کے لئے اسے عبرت کا موجب بنانے کے لئے اس کی لاش کو اس وقت محفوظ رکھا ہے.یہ آیت قرآن کریم کی سچائی پر کیسا ز بر دست شاہد ہے اور بائیبل پر اس کی کس قدر
17 فضیلت ثابت کرتی ہے بائیل کا دعوی ہے کہ وہ موسیٰ کے وقت کی تاریخ بیان کرتی ہے قرآن کریم اس کے قریباً دو ہزار سال بعد آتا ہے اور وہ واقعات بیان کرتا ہے صاحب جو بائیل میں نہیں ہیں اور پھر واقعات اس کی صداقت ثابت کرتے ہیں اور بائیبل ناقص ثابت ہوتی ہے.“ ایڈیٹروں سے ملاقات : ۳۱ جولائی کو حضرت خلیفۃ المسیح نے حافظ روشن علی صاحب، چوہدری فتح محمد صاحب، شیخ یعقوب علی صاحب اور شیخ محمود احمد صاحب کو صوفی سید.سے ملاقات کرنے اور اخبارات کے ایڈیٹروں اور قائمقاموں سے مل کر اپنے سفر کی غرض و غایت وضاحت کے ساتھ بتانے کے لئے بھیجا اور بعض باتیں نوٹ کر کے فرمایا.ان میں سے کوئی بات ایسی نہ چھوڑیں جو ان لوگوں کو پہنچائی نہ جائے اور کوئی بات زیادہ بھی نہ کریں جو حکم ہے وہ کریں.یہ وفد واپسی پر خوشگوار رپورٹ لایا.بعض نے گہری دلچسپی لی اور وعدہ کیا کہ اخبار میں ضرور ذکر کریں گے.ایک ایڈیٹر نے بہت بحث مباحثہ کے بعد کہا کہ میں آپ لوگوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ یہاں مشن قائم کر کے روپیہ اور وقت ضائع نہ کریں.آپ لوگ یہاں نہ رہنے پائیں گے بلکہ نکال دیئے جائیں گے.مگر اس کا یہ جواب پا کر ہم لوگ ان باتوں کا خوف نہیں رکھتے اور دنیا کی کوئی طاقت ہمیں کسی جگہ سے نکال نہیں سکتی اور ہم کسی سے اجر کے امیدوار نہیں ہیں وغیرہ وغیرہ.اس کی حالت بدلی گئی اور وہ کہنے لگا اگر یہ بات ہے اور آپ لوگ دین کے لئے ایسی قربانی کر سکتے ہیں تو پھر میں آپ کو مبارکبا د عرض کرتا ہوں آپ کام کریں انشاء اللہ ضرور کامیاب ہوں گے.رحیم بخش سے عبدالرحیم درد: اسی مجلس میں حضور نے سب دوستوں کو جمع کر کے اعلان فرمایا کہ آئندہ سے مولوی رحیم بخش کی بجائے ان کا نام عبد الرحیم درد ہو گا سب یا درکھیں.ڈائری کے خط نمبر ۴ اور نمبر 4 تاریخ کے لحاظ سے مسلسل ہیں.ممکن ہے نمبر دیتے وقت سہوا نمبر ۵ کی بجائے نمبر 4 درج کر دیا گیا ہو.