Sabr O Istiqamat

Sabr O Istiqamat

صبرو استقامت کے شہزادے

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ صحابہ و صحابیات رسول اللہ ﷺ

اس کتاب میں حضرت محمد ﷺ کے معزز اصحاب کی ایمان کی خاطر قربانیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اوریہ حضرت محمد رسول کریم ﷺ کی ہی قوت قدسیہ کا زبردست اعجاز تھا۔ دین کی راہ میں مصائب و شدائد کا مقابلہ کرنا تو ہر نبی کے ماننے والوں کا شیوہ رہا ہے۔ لیکن رسول کریم ﷺ کے متبعین نے آپ کے فیضان تربیت کے نتیجہ میں دشمنوں کی اشد مخالفت کے مقابل  پر جو نمونے دکھائے وہ ہر آنے والی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں۔


Book Content

Page 1

نام کتاب صبر واستقامت کے شہزادے صبر واستقامت کے شہزادے طبع دوم.2006ء |

Page 2

2 1 پیش لفظ ایمان ایک متاع بے بہا ہے ، ایک لازوال دولت ہے جس کو پانے کے لیے بسا اوقات جسم و جان کو کھونا پڑتا ہے.یہ منظر سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے وقت میں ظاہر ہوا جب شیطان اپنی تمام فوجوں اور پیادوں کے ساتھ مومنوں پر چڑھ دوڑا اور ہر ممکن طریق سے مومنوں کو بہکانے کے لیے ڈرایا، لالچ دیے اور پھر مار دینے کی دھمکیاں دیں مگر اہل ایمان ہر قربانی کے لیے تیار رہے اور ایمان پر آنچ نہ آنے دی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ جدو جہد اپنے معراج کو پہنچ گئی.شیطانی طاقتوں نے بھی اپنا انتہائی زور لگایا اور ایمانی طاقتوں نے اپنی آخری بلندی پر تمكنت اختیار کی جس سے زیادہ متصور نہیں ہو سکتی.یہ ایک ایسی داستان ہے جو دردانگیز افسانوں سے زیادہ درد ناک اور حیران کن کہانیوں سے زیادہ حیرت انگیز ہے.یہ تاریخ عزم و ہمت کے وجد آفرین اقوال و افعال سے اس سطح ارض پر لکھی گئی جو انمٹ اور لازوال ہے اور ہر آنے والے دور کے لیے مشعل راہ ہے.یہ تاریخ اُمت کے آخری زمانہ میں پھر دہرائی جانے والی تھی جس کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا سے خبر پا کر دی تھی.خدا کے فضل سے آج ہم اس دور سے گزر رہے ہیں.خوش قسمت وہ لوگ ہیں جو صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہوں پر چلتے ہوئے سب کچھ کھو کر ایمان کو پالیں.ایسے ہی دلوں کی استقامت اور عزیمت کو تقویت دینے کے لیے صحابہ کرام کی قربانیوں اور صبر واستقلال کے یہ واقعات جمع کیے گئے ہیں.یہ خوبصورت کتاب نومبائعین اور ان سعید روحوں کے لیے بے حد مفید ہے جو حق کو قبول کر چکے ہیں یا قبول کرنا چاہتے ہیں اور ابتلاؤں کے پہاڑ انہیں نظر آ رہے ہیں.صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عزیمت کی یہ کہانیاں انہیں حوصلہ اور طاقت دیں کی مرے

Page 3

دیباچہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان خدام و اطفال کو صحابہ اور بزرگان سلف کی سیرت کے بارے میں آگاہی دلانے کے لیے کتب شائع کر رہی ہے.زیر نظر کتاب ”صبر و استقامت کے شہزادے“ کے عنوان سے شائع کی جارہی ہے جس میں صحابہ رسول کی ایمان کی خاطر قربانیوں کا تذکرہ ہے.یہ کتاب پہلی بار 2000ء میں شائع کی گئی تھی.اب شعبہ اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان اسے دوبارہ شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے.اس کتاب کی تیاری کے سلسلہ میں خاکسار مکرم کا شف عدیل صاحب، مکرم عامر سہیل صاحب اور مکرم سالک احمد صاحب کے تعاون کا ممنون ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء حرف وفا ہمارے آقا و مولیٰ آنحضرت ﷺ نے ہر خلق اور اعلیٰ صفت کو اپنے کمال تک پہنچا دیا.لیکن آپ کا کمال صرف اتنا نہیں ہے بلکہ آپ نے یہ تمام اعلیٰ اقدار اور مکارم اخلاق اپنے صحابہ کے اندر بھی قائم فرما دیئے اور وہ ہر میدان میں ہر دوسرے نبی کے تابعین سے آگے بڑھ گئے اور یہ رسول کریم ﷺ کی قوت قدسیہ کا ایک زبر دست اعجاز ہے.دین کی راہ میں مصائب و شدائد کی برداشت اور صبر استقامت کے نمونے تو ہر نبی کے ساتھ ظاہر ہوتے رہے ہیں مگر رسول کریم ﷺ کے متبعین نے آپ کے فیضان تربیت کے نتیجہ میں اس تعلق میں جو نمونے دکھائے ہیں وہ ہر آنے والی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں اور آنحضرت ﷺ نے یہ خبر بھی دی تھی کہ دکھوں اور مشکلات اور مصائب کے یہ ادوار آئندہ بھی آئیں گے اور نجات یافتہ وہی ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش پا کو چوم کر آگے بڑھیں گے.پس ان چراغوں کو تو ہمیشہ فروزاں رہنا ہے ان کو کوئی بجھا نہیں سکتا مگر ان کو نظروں کے سامنے رکھنا ہر آنے والی نسل کے لئے ضروری ہے.اسی نقطہ نظر سے یہ مختصر کتابچہ مرتب کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ صحابہ کے صدقے اس کوشش کو قبول فرمائے اور ان کی برکات سے ہمیں ہمیشہ متمتع فرما تار ہے.

Page 4

6 5 ارشاد خداوندی نیا اور آخرت کی بھلائی وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِى اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّ تَنَّهُمُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَلَا جُرُا لآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (النحل: 43-42) اور جن لوگوں نے اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا اللہ کے لیے ہجرت اختیار کی.ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے کہ ) ہم انہیں ضرور دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور آخرت کا اجر اور بھی بڑا ہو گا.کاش ( یہ منکر اس حقیقت کو ) جانتے.جو (ظلموں کا نشانہ بن کر بھی ) ثابت قدم رہے اور ( جو ہمیشہ ہی) اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں.الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمُ إِيْمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ - (آل عمران: 174) ( یہ ) وہ (لوگ ہیں ) جنہیں دشمنوں نے کہا تھا کہ لوگوں نے تمہارے خلاف (لشکر ) جمع کیا ہے اس لیے تم ان سے ڈرو تو اس ( بات ) نے ان کے ایمان کو اور بھی بڑھا دیا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے اللہ ( کی ذات ) ہی کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے.فرمان رسول سیچے ایمان کی علامت عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيْهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيْمَانِ أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ (بخاری کتاب الایمان باب حلاوة الايمان ) حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین باتیں ہیں جس میں وہ ہوں وہ ایمان کی حلاوت اور مٹھاس کو محسوس کرے گا.اوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول باقی تمام چیزوں سے اسے زیادہ محبوب ہو.دوسرے یہ کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی سے محبت کرے اور تیسرے یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے کفر سے نکل آنے کے بعد پھر کفر میں لوٹ جانے کو اتنا نا پسند کرے جتنا کہ وہ آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہو.

Page 5

8 7 دُکھ اُٹھانے اور صبر کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.” ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ میں خود سبقت کر کے ہرگز تلوار نہیں اُٹھائی بلکہ ایک زمانہ دراز تک کفار کے ہاتھ سے دُکھ اُٹھایا اور اس قد رصبر کیا جو ہر ایک انسان کا کام نہیں اور ایسا ہی آپ کے اصحاب بھی اسی اعلیٰ اصول کے پابند ر ہے اور جیسا کہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ دُکھ اُٹھاؤ اور صبر کرو، ایسا ہی انہوں نے صدق اور صبر دکھایا.وہ پیروں کے نیچے کچلے گئے.انہوں نے دم نہ مارا.ان کے بچے ان کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے.وہ آگ اور پانی کے ذریعہ سے عذاب دیے گئے.مگر وہ شہر کے مقابلہ سے ایسے باز رہے کہ گویا وہ شیر خوار بچے ہیں.کون ثابت کر سکتا ہے کہ دنیا میں تمام نبیوں کی اُمتوں میں سے کسی ایک نے بھی باوجود قدرت انتقام ہونے کے خدا کا حکم سن کر ایسا اپنے تئیں عاجز اور مقابلہ سے دست کش بنالیا، جیسا کہ انہوں نے بنایا ؟ کس کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں کوئی اور بھی ایسا گروہ ہوا ہے، جو باوجود بہادری اور جماعت اور قوت بازو اور طاقت مقابلہ اور پائے جانے تمام لوازم مردمی اور مردانگی کے پھر خونخوار دشمن کی ایذاء اور زخم رسانی پر تیرہ برس تک برابر صبر کرتا رہا.گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ 10) دشمنوں کی اذیتوں اور دکھوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کارد عمل حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:- ایک دفعہ حضرت خباب بن ارت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا.یا رسول اللہ ! مسلمانوں کو قریش مکہ کے ہاتھوں اتنی تکالیف پہنچی ہیں.اتنی تکالیف پہنچ رہی ہیں کہ اب تو حد ہوگئی ہے.یا رسول اللہ ! آپ ان پر بددعا کیوں نہیں کرتے.آپ نے جب یہ سنا اس وقت آپ لیٹے ہوئے تھے ، جوش سے اُٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ غصہ سے تمتما نے لگا.آپ نے فرمایا: دیکھو! تم سے پہلے وہ لوگ بھی گزرے ہیں جن کا گوشت لوہے کے کانٹوں سے نوچ کر ہڈیوں تک صاف کر دیا گیا اور ایسے بھی تھے جن کے جسم آروں سے چیر دیے گئے لیکن انہوں نے اُف تک نہ کی.دیکھو! خدا اس کام کو ضرور پورا کرے گا جو کام اس نے میرے سپر د کیا ہے.یہ تھا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا رد عمل.یہی تربیت تھی جو آ نے اپنے غلاموں کو دی اور یہی رد عمل تھا جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں سے ظاہر ہوتا رہا.چنانچہ حضرت خبیب بن عدی کے متعلق حدیثوں میں آتا ہے کہ وہ جب جان دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور تلوار ان پر گر کر ان کا سرتن سے جدا کرنے کو تھی تو گھبراہٹ نہیں تھی ، کوئی واویلا نہیں تھا.ہاں دو شعر ان کی زبان پر جاری ہوئے اور ہمیشہ کے لیے ان کی

Page 6

10 9 یاد کو بھی زندہ جاوید کر گئے.انہوں نے قتل ہونے سے پہلے یہ شعر پڑھے:.فَلَسْتُ أَبَالِي حِيْنَ أَقْتَلُ مُسْلِمًا على أَيِّ شِيِّ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعى وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَا يُبَارِک عَلَى أَوْصَالِ شِلُرٍ مُمَزَّعِ کہ اے کفار ! میں تو اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ میں جب قتل کیا جاؤں گا تو کس پہلو پر گروں گا.یعنی میری موت چونکہ خدا کی خاطر ہے اس لیے مجھے تو اس کی بھی پرواہ نہیں ہے کہ جب میرا سرتن سے جدا ہوگا تو میں کس کروٹ پر گروں گا.خدا کی قسم یہ سب کچھ خدا کی خاطر ہو رہا ہے اور اگر وہ چاہے تو میرے جسم کے ذرہ ذرہ کو برکتوں سے بھر دے گا.یہ تھا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کا رد عمل اور یہی ان کو تعلیم دی گئی تھی.پس آج آغاز اسلام کی باتیں کرتے ہوئے ہمیں درود بھیجنا چاہیے اُس محسن اعظم پر جس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ کس شان کا وہ رسول تھا اور کس شان کے وہ غلام تھے جو آپ کے ساتھ تھے.ان کی کیسی اعلیٰ تربیت کی گئی اور انہوں نے تربیت کا کیسا پیارا رنگ پکڑا.پس آؤ آج کی دعاؤں میں خصوصیت کے ساتھ ہم درود بھیجیں محسن اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور سلام بھیجیں روح بلالی پر اور سلام بھیجیں روح خباب پر اور سلام بھیجیں روح خبیب پر.پس میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا دھر سے اُدھر ہو جائے ، زمین و آسمان ٹل جائیں مگر یہ تقدیر نہیں بدل سکتی کہ ہمیشہ ہر حال میں نار بولھبی یقیناً شکست کھائے گی اور نور مصطفوی یقیناً کامیاب ہوگا.کوئی نہیں جو بلالی احد کی آواز کو مٹا سکے.کوئی پتھر ، کوئی پہاڑ نہیں جو سینوں پر پڑ کر لا الہ کی آواز کو دبا سکے.کوئی دکھ اور کوئی غم نہیں ، کوئی صدمہ نہیں جو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی شہادت سے کسی کو باز رکھ سکے.یہ امر یقیناً ہمیشہ ہمیش کے لیے زندہ اور قائم رہے گا.محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم وَالَّذِينَ مَعَهُ غالب آنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں.مغلوب ہونے کے لیے نہیں بنائے گئے“.(الفضل 10 فروری 1983ء)

Page 7

12 11 قدموں میں لغزش نہیں آئی.دیکھو! خدا مجھے ضرور غلبہ دے گاھتی کہ ایک شتر سوارصنعاء استقامت اور عفوکے تین مناظر پہلا منظر بھٹی میں آگ جل رہی ہے.لوہے کو پگھلانے کے لیے کوئلے دہکائے جا رہے ہیں ، جب وہ انگاروں کی صورت میں بھڑک اُٹھتے ہیں تو چند ہٹے کٹے لوگ اِدھر اُدھر سے اکٹھے ہو جاتے ہیں.دیکھو! انہوں نے جلتے ہوئے کوئلے نکالے ہیں.انہی پر اس لو ہار کولٹا دیا ہے اور ایک شخص اس کی چھاتی پر چڑھ گیا ہے تا کہ وہ حرکت نہ کر سکے.اُف ! کتنا تکلیف دہ منظر ہے.ظلم کی انتہا ہے.زندہ انسان کو جلایا جا رہا ہے.چربی کے جلنے کی بُو آ رہی ہے اور وہ کو نکلے اسی طرح جل جل کر اس مظلوم کے نیچے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں.یہ حضرت خباب ہیں جنہیں اسلام لانے کی پاداش میں اس عذاب سے گزارا جارہا ہے.دوسرا منظر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس ٹیک لگائے بیٹھے ہیں.حضرت خباب بن ارت اور بعض دوسرے صحابہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں.یا رسول اللہ ! مسلمانوں کو قریش کے ہاتھوں اتنی تکالیف پہنچ رہی ہیں آپ ان کے لیے بددعا کیوں نہیں کرتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ الفاظ سنتے ہی اُٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں.آپ کا چہرہ جوش سے تمتما اٹھتا ہے اور فرماتے ہیں:.دیکھو! تم سے پہلے وہ لوگ گزرے ہیں جن کا گوشت لوہے کے کانٹوں سے نوچ نوچ کر ہڈیوں تک صاف کر دیا گیا مگر وہ اپنے دین سے متزلزل نہیں ہوئے اور وہ لوگ ا بھی گزرے ہیں جن کے سروں پر آرے چلا کر ان کو دوٹکڑے کر دیا گیا مگر ان کے سے لے کر حضر موت تک سفر کرے گا اور اس کو سوائے خدا کے اور کسی کا ڈر نہ ہوگا.تیسرا منظر حضور صلی اللہ علیہ وسلم 10 ہزار صحابہ کے ساتھ مکہ میں داخل ہو چکے ہیں.ہر طرف تو حید اور اللہ اکبر کے نعرے ہیں.اللہ کے وعدوں کے مطابق اسلام نے شرک اور کفر کو شکست دے دی ہے.مکہ کی گلیوں میں اعلان ہو رہا ہے کہ جو خانہ کعبہ میں آ جائے وہ بھی امن میں ہے، جو اپنے گھر میں بیٹھ جائے وہ بھی امن میں ہے، جو بلال کے بھائی ابورویحہ کے جھنڈے تلے آ جائے وہ بھی امن میں ہے.مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار جو مسلمانوں کو دکھ دینے میں پیش پیش تھے سرنگوں ہو چکے ہیں.کچھ تو بدر اور بعد کی جنگوں میں ذلت کے ساتھ مارے گئے.کچھ نے اسلام قبول کر لیا.باقی گردنیں جھکائے کھڑے ہیں اور فیصلے کے منتظر ہیں.تاریخ مذہب کا خلاصہ یہ تین مناظر مذہب کی ہزاروں سالہ تاریخ کا خلاصہ ہیں جب بھی خدا کا کوئی مامور آتا ہے یہی تاریخ دہرائی جاتی ہے.نور کی شمع کو بجھانے کے لیے تاریکی کے فرزند ہر حربہ استعمال کرتے ہیں شیطان خدا کے فرستادہ کے چاروں طرف مشکلات اور مصائب کے خارزار کھڑے کر دیتا ہے.مگر سعادت مند لوگ ہر مشکل کو پھلانگتے ہوئے اور ہر پہاڑ کو سر کرتے ہوئے مامور الہی کے آستانہ پر حاضر ہو جاتے ہیں اور پھر کسی قیمت پر ایمان کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے.یہی وہ لوگ ہیں جو ابتلاؤں اور آزمائشوں کی بھٹی سے گزر کر کندن بن جاتے

Page 8

14 13 ہیں اور ابدی عزت کے تاج انہی کے سروں پر رکھے جاتے ہیں.اس تاریخ کا سب سے روشن باب حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے اپنی قربانیوں سے رقم کیا.ایک طرف مخالفت کی تند و تیز آندھیاں ہیں تو دوسری طرف صبر و استقامت کے پہاڑ ہیں.بظاہر کمزور اور نا تواں انسان مگر عزم اور یقین میں شیروں کے دل دہلا دیتے ہیں اور بڑی جرات اور پامردی کے ساتھ سر اُٹھا کر اپنے ایمان کا برملا اعلان کرتے چلے جاتے ہیں جو متاع بے بہا ہے ، زندگی کی سب سے قیمتی دولت ہے اور خدا کے حضور سرفرازی کی علامت ہے.قربانیوں کا نقد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو جن المناک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، ان کے چند نمایاں باب یہ ہیں.جانیں قربان کیں، تیروں اور تلواروں سے شہید کیا گیا، صلیب دے کر شہید کیا گیا ، جلتے انگاروں پر لٹایا گیا، اُلٹا لٹکا کر نیچے آگ جلا دی گئی ، لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں کھڑا کیا گیا، بھوک اور پیاس میں مبتلا رکھا گیا ، عین دو پہر کے وقت گرم پتھروں پر گھسیٹا گیا ، زدوکوب کیا گیا اور مار مار کر لہولہان کر دیا گیا، جوتیوں سے اتنا مارا گیا کہ پہچانے نہ جاتے تھے ، شیر خوار بچوں کو دودھ سے محروم رکھا گیا، مسلمان ماؤں سے ان کے چھوٹے بچے جدا کر دیے گئے ، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، سوشل بائیکاٹ کیا گیا، ہر قسم کے تعلقات قطع کر دیے گئے ،شوہروں نے مسلمان بیویوں کو طلاق دے دی ، وطن سے بے وطن کیا گیا، مسلمانوں کی محنتوں کا معاوضہ ضبط کر لیا گیا، مقدس حاملہ عورتوں کے حمل گرائے گئے ، نام بگاڑے گئے ، عبادت گاہیں گرادی گئیں، خدائے واحد کی عبادت کرنے سے روکا گیا.غرضیکہ ہر روز نئے ستم ایجاد کیے گئے.ہر رات نئے ظلم تراشے گئے.صبح و شام کو مصائب و آلام کی چکیوں میں تبدیل کر دیا گیا.زندگی کی ہر گھڑی موت کا الارم سناتی تھی ، ہر سانس زہر ہلاہل تھا.مگر اے خدا کے شیر و! اے استقامت کے شہزادو! تم نے اذیتوں کے یہ سارے پتھر اپنے پائے استقامت سے روند ڈالے.تم نے توحید کا پرچم سر بلند کیا تو خدا نے قیامت تک تمہارے نام زندہ جاوید کر دیے.آج قو میں تم پر فخر کرتی ہیں اور ابدالآباد تک کرتی رہیں گی.شہادت کے مناظر یہ وہ لوگ تھے جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتے تھے.جن کے لیے ایمان کے مقابل پر یہ فانی دنیا کوئی حیثیت نہ رکھتی تھی.اسلام لانے کے بعد ان سب نے اپنی جانیں خدا کے حضور پیش کر دی تھیں.کچھ کو براہ راست شہادت کی نعمت عطا ہوئی اور بہت سے ایسے تھے جو دشمنوں کے ہاتھوں مدتوں زنجیروں میں گرفتار رہے اور مر مر کر جیتے رہے.آئیے ! پہلے ان جوانمردوں کا تذکرہ کریں جنھوں نے اس دنیا کے بدلے دائمی زندگی قبول کی.اس باب میں سب سے پہلے حضرت یا سر اور ان کے تمام گھرانے کی غیر معمولی قربانی قابل ذکر ہے.حضرت عمار کے والد یا سر یمن سے آ کر مکہ میں آباد ہوئے تھے اور ان آل یاسر کے حلیف ابو حذیفہ نے اپنی لونڈی حضرت سمیہ کے ساتھ ان کی شادی کر دی تھی.جب مکہ میں آفتاب رسالت طلوع ہوا تو حضرت یا سر اور ان کی اہلیہ سمیہؓ

Page 9

16 15 اور بیٹا عمار نسب ابتدائی ایام میں ہی اس نور سے منور ہو گئے.اس وقت ابھی مسلمانوں کی تعداد 30-35 سے زیادہ نہ تھی اور یہ وہ زمانہ تھا جب مکہ کے ذی وجاہت مسلمان بھی قریش کی ستم رانیوں کا شکار تھے تو اس غریب الوطن خاندان کے حالات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے.بنومخزوم نے اس خاندان پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی.بظاہر ان کی زندگی موت سے بدتر بنا دی گئی.ایک دفعہ اس سارے گھرانے کو تکلیف دی جا رہی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گذر ہوا تو آپ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا: اے آل یاسر ! صبر کرو اور خوش ہو جاؤ کیونکہ تمہاری وعدہ گاہ جنت ہے.(مستدرک حاکم کتاب معرفة الصحابه ذکر مناقب عمار جلد 3 صفحہ 383مكتبه النصر الحديثه.رياض) طرح ابراہیم کے لیے بنی تھی.(طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 353 مطبوعہ ایجوکیشنل پریس کراچی طبع اول 1970ء) حضرت عمار کی پیٹھ پر وہ نشان موت تک باقی رہے.مگر ان کے ایمان میں کوئی لغزش نہ آئی.طبقات ابن سعد جلد 3 ص 246) یہی نعرہ ان کے در دزبان رہا.یہ جان و دل شار محمد کی آن پر اس راہ میں ہر ایک اذیت قبول ہے غزوہ اُحد کے قریب زمانہ میں دس صحابہ کو بے قصور ظالمانہ طور تختہ دار کو چوم لیا پر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا.مگر کسی نے صداقت سے منہ نہ پہلی شہادت جب دشمن اپنی پوری طاقت کے باوجود اس پاکیزہ گھرانے کے موڑا.ان میں سے ایک صحابی حضرت خبیب نے شہادت سے قبل دو نفل ادا کیے اور یہ پائے ثبات میں کوئی جنبش پیدا نہ کر سکے تو غصہ سے آگ بگولا ہو کر ابو جہل نے حضرت سمیہ کی شرمگاہ میں نیزہ مار کر ان کو شہید کر دیا.یہ اسلام میں عورت کی پہلی شہادت تھی جو اہل ایمان کو سورج چاند کی طرح روشنی دکھاتی رہے گی.جلتے انگاروں پر مگر یہ انجام دیکھنے کے باوجود باپ اور بیٹا ایمان پر ثابت قدم رہے.تھوڑے دنوں بعد حضرت یا سر بھی بوجہ ضعیف العمری کے ان شدائد سے جانبر نہ ہو سکے اور انتقال کر گئے.حضرت عمار کو قریش دو پہر کے وقت انگاروں پر لٹاتے اور پانی میں غوطے دیتے.ایک مرتبہ انہیں انگاروں پر لٹایا جا رہا تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا.آپ نے حضرت عمار کے سر پر ہاتھ پھیر کر یہ دعا کی:- یا نَارُ كُوْنِي بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلَى عَمَّارٍ كَمَا كُنْتِ عَلَى ابْرَاهِيمَ اے آگ ! عمار کے لیے اسی طرح ٹھنڈک اور سلامتی کا موجب بن جاجس شعر پڑھتے ہوئے تختہ دار کو چوم لیا.لَسْتُ أَبَالِي حِيْنَ أَقْتَلُ مُسْلِمًا عَلى أَيِّ جَنْبِ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَا يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوِ مُمَزَّعِ یعنی جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جاؤں تو مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میں کس پہلو پر گرتا ہوں.میری یہ سب قربانی اللہ کی رضا کے لیے ہے.وہ اگر چاہے گا تو میرے ریزہ ریزہ اعضاء میں بھی برکت ڈال دے گا.فُزْتُ بِرَبِّ الْكَعْبَة اسی زمانہ میں ستر صحا بہ کو دھوکہ سے تبلیغ کے بہانے بلایا گیا مگر انتہائی سفاکی کے ساتھ شہید کر دیا گیا.ان کے سردار حضرت حرام بن ملحان کو پشت کی طرف سے نیزہ مارا گیا جو جسم سے پار ہو گیا.

Page 10

18 17 جب خون کا فوارہ پھوٹا تو حضرت حرام نے اس سے چلو بھر کر منہ اور سر پر پھیرا اور فرمايا: قُرْتُ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا.(صحیح بخاری کتاب المغازى باب غزوة الرجيع) حضرت خبیب ، حضرت حرام اور ان کے ساتھیوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں.ان کے عزم اور استقلال نے کئی سعادت مندوں پر گہرے اثرات چھوڑے اور وہ بالآخر آغوش اسلام میں آگرے.اذان کی سزا حضرت عروہ بن مسعود ثقفی نے 9 ہجری میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قوم کی طرف واپس جانے کی اجازت چاہی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آغاز میں انکار کیا مگر ان کے اصرار پر اجازت دے دی.وہ عشاء کے وقت اپنی قوم کے پاس پہنچے اور جب ان کے قبیلہ ثقیف کے لوگ ان سے ملنے کے لیے آئے تو حضرت عروہ بن مسعودؓ نے انہیں اسلام کی طرف دعوت دی.مگر انہوں نے حضرت عروہ پر الزام لگائے اور بہت نازیبا کلمات کہے اور واپس چلے گئے.مگر وہ حضرت عروہ کی موت کا فیصلہ کر چکے تھے.صبح فجر کے وقت حضرت عروہ نے اپنے گھر کے صحن میں کھڑے ہو کر اذان دی تو ایک بد بخت وہاں پہنچا اور تیر سے انہیں شہید کر دیا.(مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 615 كتاب معرفة الصحابه مكتبه النصر الحديثه.رياض) سچائی کی خاطر حضرت فروہ بن عمرو فلسطین کے علاقہ میں معان اور قرب و جوار میں قیصر روم کے عامل تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو بغیر کسی پس و پیش کے اسلام لے آئے اور حضور کی خدمت میں چند تحائف بھی بھجوائے.جب قیصر روم کو ان کے اسلام لانے کی اطلاع ہوئی تو انہیں دربار میں بلایا اور قید کر دیا اور جب اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو انہیں صلیب پر لٹکا کر شہید کر دیا مگر حضرت فروہ نے جادہ حق سے ہٹنا گوارا نہ کیا.(شرح زرقاني على المواهب اللدنيه جلد 4 صفحه 44 مطبع از هریه مصريه طبع اولی 1327ھ) ایک روایت میں ہے کہ وہ قید کی حالت میں فوت ہو گئے تھے.ان کے مرنے کے بعد انھیں صلیب پر لٹکایا گیا.(طبقات ابن سعد جلدنمبر 7 صفحہ 435 بیروت 1958ء) ایک ایک عضو کاٹ دیا گیا حضرت حبیب بن زید انصاری صحابی تھے.مسیلمہ کذاب نے اپنی بغاوت کے زمانے میں انہیں پکڑ لیا اور کہا کیا تم شہادت دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں.حضرت حبیب نے فرمایا: ہاں.پھر اس نے پوچھا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں.تو آپ نے فرمایا: نہیں.میں یہ بات سننا بھی نہیں چاہتا اس بات پر کئی دفعہ تکرار ہوئی مگر حضرت حبیب نے اسے رسول ماننے سے اور رسول اللہ کا انکار کرنے سے مسلسل انکار کیا.اس پر مسیلمہ نے ان کا ایک ایک عضو کاٹ کر انہیں شہید کر دیا.(سيرة النبى ابن هشام جلد 2 صفحہ 110 مطبع مصطفی البابی الحلبی.مصر 1936ء) صحابہ کی ان عظیم قربانیوں کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں کھینچا ہے.فَدَمُ الرِّجَالِ لِصِدْقِهِمْ فِي حُبِّهِمُ تَحْتَ السُّيُوفِ أُرِيقَ كَالْقُرُبَان ان عظیم انسانوں کا خون سچائی سے محبت کی وجہ سے تلواروں کے نیچے قربانی کے جانوروں کی طرح بہایا گیا.

Page 11

20 19 مارپیٹ کے مناظر بارگاہ احدیت کے وہ جاں نثار جن کو تاریکی کے فرزند ابدی زندگی کا جام پلانے سے قاصر رہے ان کی زندگیاں تو لمحہ لحہ عذاب تھیں.مار پیٹ اور جسمانی مظالم کا ایک بازار گرم تھا جس میں ان کے جسم اور عزتیں بلاخوف وخطر پامال کی جارہی تھیں.مگر ان پر پڑنے والی ہر ضرب ان کے بلند روحانی مقامات کے بگل بجارہی تھی.اس تشدد اور ظلم سے معزز گھرانوں کے مسلمان بھی محفوظ نہ تھے.اس لیے حضرت عبدالرحمن بن عوف اور دوسرے صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دفعہ عرض کیا تھا کہ : یا رسول اللہ ! جب ہم مشرک تھے تو معزز تھے اور کوئی شخص ہماری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا مگر مسلمان ہو کر ہم کمزور اور نا تواں ہو گئے ہیں.(سنن نسائی کتاب الجهاد باب و جوب الجهاد) ان لوگوں نے بظاہر دنیا کی ذلت قبول کر لی مگر سچائی کا دامن نہیں چھوڑا اور ابدالآباد تک ایک ایسی عزت حاصل کی جس پر کبھی فنا نہیں آئے گی.منہ سے پہلا جملہ یہ نکلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے.یہ سن کر قبیلہ کے لوگ واپس چلے گئے مگر آپ بہت اصرار کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حال دریافت کرتے رہے اور جب آپ کے صحیح سالم ہونے کی اطلاع ملی تو والدہ کی منت کر کے ان کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی حالت دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں مگر حضرت ابوبکر عرض کرتے تھے کہ سوائے چہرہ کے زخموں کے اور کوئی تکلیف نہیں.پھر آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی.میری والدہ کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور ان کے لیے دعا بھی کریں.چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ سے وہ اسلام لے آئیں.(البدايه والنهايه جلد 3 صفحہ 30 از حافظ ابن کثیر طبع اولی 1966 مكتبه معارف بیروت) حضرت ابو بکر کی تبلیغ سے حضرت طلحہ اسلام لائے تو نوفل بن خویلد بن العدویہ نے ان دونوں کو پکڑ لیا.یہ شخص اسد قریش کہلاتا تھا یعنی قریش کا شیر.اس نے دونوں کو ایک رسی میں بندھوا دیا اسی لیے ان دونوں کو قرینین بھی کہتے ہیں.حضرت ابوبکر کے قبیلہ بنو تمیم نے بھی انہیں چھڑانے سے انکار کر دیا.حضور صلی اللہ قرینین حضرت ابوبکر کا عشق حضرت ابوبکر قریش کے ایک معزز فرد تھے.اسلام علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو آپ نے دعا کی: لائے تو انہوں نے برملا اپنے ایمان کا اظہار کیا اور قریش کو بھی دعوت اسلام دی مگر یہ سنتے ہی مشرکین حضرت ابو بکر اور قریبی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور حضرت ابو بکر کو گرا کر بہت مارا.بد بخت عتبہ بن ربیعہ اپنے مضبوط جوتے سے ان پر وار کرتا رہا اور ان کے چہرے پر اتنا مارا کہ ان کا چہرہ پہچانا نہ جاتا تھا.بالآخر آپ کے قبیلہ بنو تمیم کے لوگ آئے اور انہوں نے آپ کو دشمنوں سے بچایا.مگر حالت یہ تھی کہ حضرت ابو بکڑ کے قریب المرگ ہونے میں کسی کو شبہ نہ تھا.لیکن دن کے آخری حصہ میں جب انہیں ہوش آیا تو ان کے ماں کا اے اللہ ! ہمیں ابن العدویہ کے شر سے بچا.تب خدا نے ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے.(البدايه و النهایه جلد3 صفحه 29 از حافظ ابن کثیر طبع اولی 1966- مكتبه معارف بیروت) حضرت مسعود بن حراش بیان کرتے ہیں کہ میں صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگا رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ ایک نو جوان کو کھینچتے ہوئے لے جا رہے ہیں جس کے ہاتھ اس کی گردن میں بندھے ہوئے ہیں.میں نے

Page 12

22 21 پوچھا یہ کون ہے؟ تو لوگوں نے بتایا یہ طلحہ بن عبید اللہ ہے جو صابی یعنی مسلمان ہو گیا ہے.ایک عورت ان کے پیچھے غراتی اور گالیاں دیتی ہوئی چلی جا رہی تھی.میں نے اس کے متعلق پوچھا تو بتایا گیا کہ یہ طلحہ کی ماں صعبہ بنت حضرمی ہے.(التاريخ الكبير جلد 7 صفحہ 421 از امام بخاری.بیروت) ہوئے گھسیٹ کر مکہ میں لے آئے.ظلم وستم کا سلسلہ جاری تھا کہ مطعم بن عدی نے آ کر انہیں نجات دلائی.(سيرة ابن هشام جلد 2 صفحه 91 مطبع البابی الحلبی.مصر 1936) حضرت عثمان بن مظعونؓ نے اسلام قبول کیا تو دشمنوں کے مظالم سے بے قراری بچنے کے لیے ولید بن مغیرہ کی پناہ میں آگئے.مگر جب انہوں نے دیکھا جو چاہو کر لو حضرت عمر بن خطاب جیسا جری اور بے باک شخص بھی دشمنوں کے شر کہ دوسرے صحابہ تکالیف برداشت کر رہے ہیں اور میں امن سے پھر رہا ہوں تو انہوں نے سے محفوظ نہ رہا.انہوں نے اسلام قبول کیا تو ایک شخص جمیل بن معمر نے مسجد حرام میں جا کر اعلان کیا کہ عمر بے دین ہو گیا ہے.حضرت عمر وہاں پہنچے اور کہا یہ جھوٹا ہے میں نے تو حید کو قبول کیا ہے.یہ سن کر سب حضرت عمرؓ پر جھپٹ پڑے اور دیر تک ان سے لڑتے رہے حضرت عمرؓ فرماتے تھے:.تم جو چا ہو کر لو.اب تو میں یہ دین نہیں چھوڑ سکتا.(البدايه والنهايه جلد3 صفحه 82 از حافظ ابن کثیر طبع اولی 1966 - مکتبه معارف بيروت) حضرت زبیر بن العوام جب اسلام لائے تو ان کی عمر 8 سال کی تھی.ان ہر گز نہیں کا چچا انہیں چٹائی میں لپیٹ کر لٹکا دیتا تھا اور نیچے آگ جلا کر ان کی ناک میں دھواں پہنچاتا تھا اور ساتھ کہتا کہ اسلام سے انکار کر دے مگر حضرت زبیر فرماتے: میں کبھی اسلام سے انکار نہیں کروں گا.(مستدرک حاکم کتاب معرفة الصحابه باب مناقب الزبير جلد3 صفحہ 360-ریاض) گھسیٹے گئے حضرت سعد بن عبادہ نے بیعت عقبہ ثانیہ میں اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی.وہاں سے واپسی پر دشمنوں نے پکڑ لیا.ان کے ہاتھ ان کی گردن سے باندھ دیے، ان کے بال کھینچے، زدو کوب کیا اور سخت اذیت دیتے ولید بن مغیرہ سے کہا کہ تم اپنی پناہ واپس لے لو اور اس کا اعلان مسجد حرام میں کر دیا گیا.اس واقعہ کے تھوڑے دن بعد ایک مشرک نے ان کی آنکھ پر ایسا مکا مارا کہ ڈیلے سے باہر نکل آئی.اس پر ولید جو وہاں موجود تھا کہنے لگا کہ اگر تم میری پناہ واپس نہ کرتے تو یہ تکلیف نہ ہوتی تو حضرت عثمان بن مظعونؓ نے فرمایا: تم اس کی بات کرتے ہو میری تو دوسری آنکھ بھی خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لیے بے تاب ہے.(البدایه و النهایه جلد3 صفحه 92 از حافظ ابن كثير طبع اولی 1966-مكتبه المعارف بيروت) کل پھر حضرت عبداللہ بن مسعود نے خانہ کعبہ میں قرآن کریم کی چند آیات بلند آواز سے کفار کو سنائیں تو انہوں نے اس قدر مارا کہ چہرے پر نشان پڑ گئے.جب دوسرے صحابہ نے ہمدردی کا اظہار کیا تو فرمایا :- اگر کہو تو کل پھر اسی طرح ان لوگوں کو اونچی آواز میں قرآن سناؤں.(اسد الغابه جلد 3 صفحہ 256 تذکره عبدالله بن مسعود مکتبه اسلامیه طهران حقیقت یہ ہے کہ سچا ایمان دل میں ایک غیر معمولی جرات اور بے خوفی پیدا کر دیتا ہے جو ایک کمزور بے کس کو طاقتور مخالف کے مقابل کھڑا کر دیتا ہے.اس کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو.

Page 13

24 23 سچ کی طاقت حضرت ابوذر غفاری اسلام لانے سے قبل مخالفین سے اتنے خوف زدہ تھے کہ اپنے قبیلہ غفار سے مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تلاش میں آئے مگر کسی سے آپ کا پتہ نہ پوچھتے تھے.یہاں تک کہ حضرت علیؓ نے نیزوں سے شکار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب ہجرت کر کے مکہ سے مدینہ جا رہی تھیں کہ ہبار بن اسود نے حضرت زینب کو نیزہ سے زمین پر گرا دیا.وہ حاملہ تھیں حمل ساقط ہو گیا.(زرقانی جلد 3 صفحہ 223) بڑی حکمت سے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا اور آپ نے اسلام قبول کر لیا.انکار ممکن نہیں حضرت عمر کے اسلام لانے میں ان کی بہن کی استقامت اور مگر اسلام قبول کرتے ہی ایسی شجاعت پیدا ہوئی کہ مسجد حرام میں جا کر بانگ دہل کلمہ توحید کا اعلان کیا تو دشمن ان پر پل پڑے اور مارتے مارتے بے حال کر دیا.یہاں تک کہ جب وہ بے دم ہو کر زمین پر گر پڑے تو سمجھا کہ ان کا کام تمام ہو گیا ہے.تب واپس جانے لگے.آپ بیان کرتے ہیں کہ مجھے جب ہوش آیا تو میں سر سے پاؤں تک لہولہان ہو چکا تھا.بعض روایتوں میں ہے کہ جب آپ مرنے کے قریب ہو گئے تو حضرت عباس نے آ کر دشمنوں سے چھڑایا مگر آپ پھر دوسرے دن اسی طرح مسجد حرام میں جا کر توحید کی منادی کرنے لگے تو دشمنوں نے پہلے کی طرح زدو کوب کرنا شروع کر دیا اور حضرت عباس نے اس ظلم و ستم سے نجات دلائی مگر آپ کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی.(مستدرک حاکم جلد3 صفحه 338-صحیح بخاری کتاب بنیان الکعبه باب اسلام ابی ذر) حضرت عمر کے بہنوئی حضرت سعید بن زید نے بھی بہت تکالیف برداشت کیں.حضرت عمر ا سلام لانے سے قبل انہیں رسیوں سے باندھ دیتے تھے.فدائیت کا بڑا دخل ہے.ان کو جب پتہ لگا کہ ان کی بہن نے اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ غصہ میں بھرے ہوئے گھر پہنچے اور اپنی بہن کو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مارا مگر اس نے صاف صاف کہ دیا کہ تم جو چاہوکر لو میں تو اسلام لا چکی ہوں اب اس سے کسی قیمت پر انکار نہیں کر سکتی.(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد الهيثمي جلد 9 صفحه 62 كتاب المناقب باب مناقب عمر) غلامان رسول مسلمان غلاموں اور لونڈیوں نے بھی فدائیت اور جاں فروشی کے نئے نئے باب رقم کیے.حضرت ابن عباس فرماتے ہیں:- ان کو کفار لوہے کی زرہیں پہنا کر سخت دھوپ میں کھڑا کر دیتے تھے مگر دھوپ کی شدت ان کی دینی حرارت اور جوش ایمانی کے سامنے بالکل ناکارہ اور بے حیثیت ہو جاتی تھی اور دشمن ان سے اپنی مرضی کے کلمات کہلوانے میں ناکام رہتا تھا.(اسد الغابه محمد بن عبدالكريم الجزری جلد 3 صفحہ 32 مكتبه اسلامیه طهران) (صحیح بخاری کتاب الاکراه باب من اختار الضرب) احد احد حضرت بلال کا بھی ان سرفروشوں میں نمایاں نام ہے.انہیں اللہ کی راہ مقدس خواتین کے نمونے مسلمان مردوں کے شانہ بشانہ خواتین بھی عزم کے اس سفر میں شریک تھیں.میں اپنے نفس کی کسی تکلیف کی کوئی پرواہ نہ تھی اور اپنی قوم کی نظر میں وہ بالکل بے حقیقت تھے.کفار ا نہیں لڑکوں کے حوالے کر دیتے جو انہیں مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے مگر بلال کے منہ سے احد احد کی صدا بلند ہوتی رہتی تھی یعنی خدا ایک ہے،

Page 14

26 25 خدا واحد ہے.(مستدرک حاکم کتاب معرفة الصحابه جلد 3 صفحہ 284 مكتبه النصر الحديثه.رياض) حضرت بلال کا آقا امیہ بن خلف ظلم کی انتہا کر دیتا تھا.عین تپتی دوپہر کے وقت ان کو باہر نکالتا ایک بھاری پتھر ان کے سینہ پر رکھتا اور پھر کہتا: یہ پتھر نہیں ہٹاؤں گا جب تک تو مر نہ جائے یا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا انکار کر کے لات اور عڑی کی عبادت نہ کرنے لگے.حضرت بلال اس کے جواب میں احد احد پکارتے رہتے تھے.حضرت ابوبکر نے انہیں اس حال میں دیکھا تو خرید کر آزاد کر دیا.(البدايه و النهایه جلد 3 صفحه 57 از حافظ ابن کثیر طبع اولی 1966_مكتبه معارف بيروت) انگاروں کو ٹھنڈا کرنے والا حضرت خباب بن ارت کا ذکر پہلے گزرا ہے وہ ایک لوہار تھے.مشرکین انہی کی بھٹی سے انگارے دہکاتے اور انہیں انگاروں پر لٹا دیتے.یہاں تک کہ جسم سے رطوبت نکل نکل کر ان انگاروں کر سرد کر دیتی.مگر یہ مرد مجاہد کسی طور پر صداقت سے سرمو انحراف کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا.(کنز العمال علاؤ الدين على المتقی - جلد 7 صفحه 32 کتاب الفضائل - مطبع دائرة المعارف النظامیه حیدر آباد1314ھ) حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ حضرت خباب کی پیٹھ دیکھی تو فرمایا میں نے کبھی کسی شخص کی ایسی پیٹھ نہیں دیکھی.حواس کھو بیٹھے حضرت ابو فکیہہ ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے.حضرت بلال کے ساتھ اسلام لائے تھے.آپ صفوان بن امیہ کے غلام تھے.اسلام لائے تو صفوان آپ کو رسی سے باندھتا اور گرم پتھروں پر گھسیٹتا.پھر گلے میں کپڑا ڈال کر گھونٹتا.صفوان کے ساتھ اس کا بھائی اُمیہ بھی شریک تھا جو کہتا تھا اسے مزید عذاب دو.چنانچہ وہ دونوں یہ سلسلہ جاری رکھتے.یہاں تک کہ حضرت ابوفکیہہ کے مرنے کا شبہ ہونے لگتا.تاریخ بتاتی ہے کہ صرف ان کا آقا ہی نہیں سارا قبیلہ ان کے در پئے آزار تھا.ان کو قبیلے والے سخت گرمی میں نکالتے ، پاؤں میں بیڑیاں ڈالتے ، پھر گرم پتھروں پر لٹاتے اور اوپر وزنی پتھر رکھ دیتے یہاں تک کہ اذیت کی شدت اور سخت گرمی کی وجہ سے وہ اپنے حواس کھو بیٹھتے.یہ عذاب جاری تھا کہ حضرت ابو بکر نے انہیں صفوان سے خرید کر آزاد کر دیا اور وہ حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے.(اسد الغابه جلد 5 صفحہ 273 از عبدالکریم جزری مکتبه اسلامیه طهران قيد و بند اور بھوک پیاس عام مار پیٹ کے ساتھ قید و بند اور بھوک پیاس کی اذیت کا سلسلہ بھی بدستور سر پر گرم لوہا حضرت خباب کی مالکن ام انمار و باخت گرم کرتی اور حضرت خباب جاری تھا مگر وہ سرفروش زنجیروں کی جھنکاروں کے ساتھ ساتھ عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ سر کے سر پر رکھ دیتی.انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے اُم انمار کوسر میں ایک بیماری ہوگئی اور حضرت خباب نے اس کے مظالم سے نجات پائی.(اسد الغابه جلد 2 صفحہ 98 از عبدالکریم جزری مکتبه اسلامیه طهران) وسلم کے گیت گاتے رہے اور اپنے رب کی رضا اور محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ان کی ہر بھوک اور پیاس کا مداوا تھا.مسلسل تکلیف دینے کے باوجود بھی جب کفار مکہ نے تاریک گھاٹی کے قیدی دیکھا کہ مسلمان صبر و استقامت سے ان تمام مراحل کو

Page 15

28 27 برداشت کرتے چلے جارہے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے تو انہوں نے محرم 7 نبوی میں ایک باقاعدہ معاہدہ لکھا کہ :- کوئی شخص خاندان بنو ہاشم اور بنو مطلب کے پاس کوئی چیز فروخت نہ کرے گا.نہ ان سے کچھ خریدے گا.نہ ان کے پاس کوئی کھانے پینے کی چیز جانے دے گا.نہ ان کے ساتھ رشتہ کرے گا.نہ ان سے کسی قسم کا تعلق رکھے گا جب تک وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے الگ نہیں ہو جاتے.اس معاہدہ پر تمام بڑے بڑے رؤساء کے دستخط ہوئے بچوں کی یہ حالت تھی کہ بھوک سے ان کے رونے اور چلانے کی آواز باہر جاتی تھی تو قریش اُسے سن سن کر خوش ہوتے.حضرت حکیم بن حزام ایک دفعہ اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ کے لیے خفیہ طور پر کوئی کھانے کی چیز لے کر جا رہے تھے کہ ابو جہل کو پتہ لگ گیا تو اس نے سختی کے ساتھ روکا.(سيرة النبي ابن كثير جلد 2 صفحہ 47 تا 50 دار الاحياء التراث العربي بيروت) تین سال کے بعد اس مصیبت سے مسلمانوں نے رہائی پائی.دشمن تھک گیا حضرت عثمان اسلام لائے تو ان کے چا حکم بن ابی العاص نے ان کو اور پھر قومی عہد نامہ کے طور پر کعبہ میں لٹکا دیا گیا.چنانچہ مسلمان اور ان کے حامی شعب ابی طالب میں قیدیوں کی طرح نظر بند کر دیے گئے.(سیرت ابن هشام حالات شعب ابی طالب - طبقات ابن سعد ذكر حصر قریش) ان ایام میں محصورین کو جو سختیاں برداشت کرنی پڑیں ان کا حال پڑھ کر بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے.مگر آفرین ہے ان پر کہ کسی ایک نے بھی ایک لمحہ کے لیے بھی استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات انہوں نے جانوروں کی طرح جنگلی درختوں کے پتے کھا کھا کر گزارہ کیا.(السيرة المحمديه باب اجتماع المشركين على منابذه بنی هاشم معلوم نہیں کیا تھا حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رات کے وقت ان کا پاؤں کسی ایسی چیز پر جا پڑا جو تر اور نرم معلوم ہوتی تھی ان کی بھوک کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے فوراً اُسے اُٹھا کر نگل لیا اور وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آج تک پتہ نہیں وہ کیا چیز تھی.ایک دوسرے موقع پر بھوک کی وجہ سے ان کا یہ حال تھا کہ انہیں ایک سوکھا ہوا چمڑا مل گیا تو اس کو انہوں نے پانی میں نرم کیا اور پھر بھون کر کھا لیا.(الروض الانف جلد2صفحه 160.حالات نقض الصحيفة) پکڑ کر رسیوں سے باندھ دیا اور کہا کہ تو اپنے باپ دادا کے دین سے نئے دین کی طرف پھر گیا ہے.میں تجھے نہیں کھولوں گا جب تک تو اس دین کو چھوڑ نہ دے.مگر اس عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں کبھی اس دین کو چھوڑ نہیں سکتا.حکم بن ابی العاص نے جب دیکھا کہ یہ اپنے دین کے بارہ میں انتہائی سخت ہیں تو ان کو چھوڑ دیا.(طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 55 دار بیروت.بیروت 1957ء) حضرت مصعب بن عمیر مکہ کے ایک مالدار گھرانے کے چشم و روپ بدل گیا چراغ تھے.انہوں نے اس قدر ناز و نعم سے پرورش پائی تھی کہ مکہ میں کوئی ثانی نہ رکھتے تھے.عمدہ سے عمدہ لباس پہنتے اور اعلیٰ سے اعلیٰ خوراک کھاتے.نہایت بیش قیمت خوشبوئیں اور عطریات استعمال کرتے.اسلام لانے کے بعد ایک عرصہ تک تو اسے پوشیدہ رکھا مگر ایک روز ایک مشرک نے انہیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اور آپ کی ماں اور دوسرے اہل خاندان کو خبر کر دی جنھوں نے آپ کو فوراً بند کر دیا.ایک عرصہ تک آپ قید و بند کے مصائب نہایت صبر کے ساتھ برداشت کرتے رہے اور موقع ملنے پر حبشہ کی راہ لی.

Page 16

30 29 لکھا ہے کہ قید میں ان کا بدن بھاری ہو گیا.رنگ و روپ بدل گیا.اس حال کو دیکھ کر ماں بھی لعنت ملامت کرنے سے باز آ گئی تھی.اسی دین پر رہوں گا (طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 116 دار بیروت.بیروت 1957ء) حضرت خالد بن سعید ایک خواب کی بناء پر اسلام لائے.ان کے والد کو معلوم ہوا تو خالد کو پکڑنے کے لیے کئی آدمی بھیجے.جب وہ انہیں لے آئے تو والد نے انہیں شدید زدوکوب کیا اور انہیں ایک کوڑے سے مارا یہاں تک کہ ان کے سر پر مارتے مارتے وہ کوڑ اٹوٹ گیا.ان کے والد نے سمجھا کہ اب شاید ان کے خیالات بدل گئے ہوں گے اور پوچھا: کیا تم اب بھی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اتباع کرو گے؟ خالد نے جواب دیا: خدا کی قسم یہ سچا دین ہے.میں اسی پر رہوں گا.اس پر والد نے بہت گالیاں دیں اور انہیں قید کر دیا.بھوکا پیاسا رکھا یہاں تک کہ تین دن اسی حال میں گذر گئے.آخر ایک دن موقع پا کر فرار ہو گئے اور حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے.(طبقات ابن سعد جلد 4 صفحہ 94-95داربیروت.بیروت1957ء) اسیران راہ مولی عیاش بن ربیعہ ماں کی طرف سے ابوجہل کے بھائی تھے.اسلام لائے اور ہجرت کر کے مدینہ کی نواحی بستی قبا پہنچے تو ابو جہل اور حارث بن ہشام وہاں آگئے اور ان کو بہلا پھسلا کر مکہ لے آئے اور قید کر دیا.حضرت سلمہ بن ہشام بھی قدیمی مسلمانوں میں سے ہیں.آپ ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے تھے.واپس آئے تو ابو جہل نے انہیں قید کر دیا اور بھوکا اور پیاسا رکھا.فرار ہوکر حضرت ولیڈ خالد بن ولید کے بھائی تھے.وہ اسلام لائے تو انہیں حضرت سلمہ اور عیاش بن ابی ربیعہ کے ساتھ قید کر دیا گیا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان تینوں کی رہائی کے لیے دعا کیا کرتے تھے.ولید کسی طرح قید سے چھوٹ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی دوساتھیوں کا حال پوچھا.انہوں نے بتایا کہ وہ سخت اذیت اور مصیبت میں ہیں.ایک کا پاؤں دوسرے کے پاؤں کے ساتھ باندھا ہوا ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر حضرت ولیڈ مکہ گئے اور ایک خفیہ طریق سے ان دونوں کو لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے.خالد بن ولید نے پیچھا کیا مگر یہ بیچ کر مدینہ پہنچ گئے.(طبقات ابن سعد جلد 4 صفحہ 129 تا 133 دار بیروت.بیروت 1957ء) قریش کے ایک لیڈرسہیل بن عمرو کے بیٹے ابو جندل مسلمان ہوئے تو ان پابجولاں کے والد نے بیڑیاں پہنا ئیں اور کئی برس تک قید رکھا.اس دوران انہیں سخت عذابوں میں سے گزارا گیا.حدیبیہ کا معاہدہ طے ہو رہا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح پابجولاں وہاں آ پہنچے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایفائے عہد کا بلند نمونہ پیش کرتے ہوئے انہیں واپس کر دیا.وہ تعمیل حکم کرتے ہوئے پھر انہی مصائب میں گرفتار ہو گئے مگر پائے ثبات میں لغزش نہ آئی.(صحیح بخارى كتاب الشروط باب الشروط في الجهاد) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت عبداللہ بن ہر خوف سے آزاد حذافہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں رومیوں کے ساتھ ایک جنگ میں گرفتار ہو گئے.ان کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ اصحاب محمد میں سے ہیں.بادشاہ نے اولاً تو انہیں لالچ دیا اور کہا: اگر تم عیسائی ہو جاؤ تو میں تمہیں اپنی حکومت اور سلطنت میں شریک کرلوں گا.حضرت عبداللہ نے ان سے کہا کہ اگر تم اپنی ساری سلطنت اور دولت بھی مجھے اس شرط پر دے دو کہ میں دین محمد سے پھر جاؤں تب بھی میں یہ بات ایک لمحہ کے لیے بھی قبول نہیں کروں گا.تب بادشاہ نے انہیں موت کی

Page 17

32 31 دھمکی دی تو انہوں نے کہا: یہ تیرا اختیار ہے تو جو مرضی کر.چنانچہ بادشاہ کے حکم سے انہیں صلیب پر لٹکا دیا گیا اور اس نے تیراندازوں سے کہا: ان پر اس طرح سے تیر چلا ؤ کہ ان کو نہ لگیں ، ہاتھوں اور پاؤں کے قریب سے گزر جائیں.اس کے ساتھ ہی بادشاہ کہہ رہا تھا کہ اگر تم عیسائی ہو جاؤ تو بچ جاؤ گے مگر وہ مسلسل انکار کرتے رہے.آخر بادشاہ نے ایک اور چال چلی.ان کو صلیب سے اتروا لیا.ایک دیگ منگوائی اور اس کو لبالب پانی سے بھروایا ، نیچے آگ جلوائی اور خوب جوش دلوایا.پھر دو مسلمان قیدیوں کو بلوایا.ان میں سے ایک کو دیگ میں پھینکنے کا حکم دیا اور اسے پھینک دیا گیا.اس طرح بادشاہ نے اپنے خیال میں حضرت عبداللہ پر اذیت ناک موت کا خوف طاری کر کے انہیں پھر عیسائی ہو جانے کا مشورہ دیا مگر انہوں نے اسے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا.تب بادشاہ نے کہا کہ انہیں بھی اسی دیگ میں ڈال دیا جائے جب ان کو لے جایا جانے لگا تو حضرت عبداللہ رو پڑے.بادشاہ کو پتہ لگا تو وہ سمجھا کہ موت سے خوفزدہ ہو گئے ہیں.چنانچہ انہیں قریب بلا کر پھر عیسائیت کا پیغام پیش کیا تو انہوں نے انکار کر دیا.اس پر بادشاہ نے تعجب سے کہا کہ پھر رونے کی کیا وجہ تھی.حضرت عبداللہ نے فرمایا:- میں نے سوچا کہ ابھی مجھے دیگ میں ڈال دیا جائے گا اور میری ایک ہی جان ہے جو چلی جائے گی.میری خواہش تو یہ ہے کہ میرے جسم کے بالوں جتنی تعداد میں یعنی ہزاروں لاکھوں جانیں ہوتیں جو سب کی سب راہ خدا میں آگ میں ڈال دی جاتیں.اس صدمہ سے مجھے رونا آ گیا.بالآخر بادشاہ نے ان سے کہا کہ اگر تم میرے سر پر بوسہ دو تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا.اس پر حضرت عبداللہ نے تمام مسلمان قیدیوں کی رہائی کا وعدہ لیا اور سوچا کہ اس کے سر کو بوسہ دینے سے میرے تمام ساتھیوں کو بریت نصیب ہوتی ہے تو اس میں کیا حرج ہے.چنانچہ تمام قیدی رہا ہو کر حضرت عمر کے پاس پہنچے اور انہیں یہ سارا واقعہ بتایا گیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ عبداللہ بن حذافہ کے سر کو بوسہ دے اور اس کا آغاز میں کروں گا.(کنزالعمال كتاب الفضائل جلد 7 صفحہ 62 مطبع دائره المعارف النظامیه حیدر آباد1314ھ) معجزانه رزق اسی قید و بند اور اذیت کے عالم میں خدا تعالیٰ نے ایسے معجزانہ طور پر صحابہ کو رزق عطا فر مایا کہ دشمن حیران رہ گئے اور یہ امران کے لیے ہدایت کا موجب بن گیا.حضرت ابو امامہ باہلی اپنی قوم کو تبلیغ کر رہے تھے مگر قوم مسلسل انکار کر رہی لذیذ پانی تھی.اس موقع پر انہیں سخت پیاس لگی.انہوں نے پانی طلب کیا تو ان کی قوم نے کہا: ہم تمہیں ہرگز پانی نہیں دیں گے.یہاں تک کہ تم پیاس سے مر جاؤ.حضرت ابوامامہ سر پر کپڑا لپیٹ کر سخت گرمی میں پتھروں پر لیٹ گئے اور بعید نہیں تھا کہ شدت پیاس اور گرمی سے ان کی جان نکل جاتی.مگر خدا اپنے فدائیوں کے لیے غیر معمولی معجزے بھی دکھاتا ہے.انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی ان کے لیے ایک قیمتی پیالہ میں ایسا پانی لایا ہے جس سے زیادہ خوبصورت پیالہ اور لذیذ پانی کبھی کسی نے نہیں دیکھا.انہوں نے وہ پانی سیر ہو کر پیا.یہ معجزہ جب انہوں نے ثبوت کے ساتھ پیش کیا تو ساری قوم ایمان لے آئی.(مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 642 كتاب معرفة الصحابه مكتبه النصر الحديثه.رياض)

Page 18

34 33 تمہارا دین بہتر ہے حضرت اُم شریک قبیلہ بنو عامر بن لوئی میں سے تھیں.مکہ میں اسلام قبول کیا.آپ خفیہ طور پر قریش کی عورتوں کے پاس جاتیں اور اسلام کی تبلیغ کرتیں.جب اہل مکہ کو پتہ لگا تو انہوں نے حضرت ام شریک کو پکڑ لیا اور ان کے لیے سزا تجویز کی اور انہیں اونٹ کی ننگی پیٹھ پر سوار کرا دیا اور انہیں نا معلوم منزل کی طرف لے کر چل پڑے انہیں تین دن تک کھانے پینے کے عتیبہ سے ہو چکے تھے.جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کا اعلان فرمایا تو ابولہب اور اس کی بیوی نے اپنے دونوں بیٹیوں کو حکم دے کر رخصتانہ سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دلوا دی.یہ دونوں مقدس خواتین بعد میں یکے بعد دیگرے حضرت عثمان کے عقد میں آئیں اور حضرت عثمان نے ذوالنورین کا لقب پایا.(اسد الغابه جلد 5 صفحہ 612 از محمد بن عبدالكريم الجزری.مکتبه اسلامیه طهران) لیے کچھ نہ دیا گیا.جب کسی منزل پر رکتے تو خود سائے میں بیٹھ جاتے اور ان کو دھوپ اگر سو جانیں ہوں حضرت سعد بن ابی وقاص والدہ سے بہت محبت اور حسن میں باندھ دیتے.خود کھاتے پیتے اور ان کو بھوکا پیاسا رکھتے.مگر خدا تعالیٰ نے ان کے ساتھ یہ سلوک فرمایا کہ رویا میں انہیں بہترین ٹھنڈا اور میٹھا پانی پلایا گیا جو انہوں نے اپنے اوپر بھی چھڑک لیا اور ان کی حالت بہت بہتر ہو گئی.جب ان کے مخالفین نے ان کی یہ کیفیت دیکھی تو سمجھا کہ شاید انہوں نے ان کے مشکیزوں سے پانی لے لیا ہے.مگر حضرت اُم شریک نے انہیں اپنا رویا بتایا اور انہوں نے دیکھ لیا کہ ہمارے مشکیزے با قاعدہ اسی طرح بھرے ہوئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ تمہارا دین ہمارے دین سے بہتر ہے اور پھر اسلام لے آئے.(الاصابه جلد 4 صفحہ 446 از ابن حجر عسقلانی مطبع مصطفى محمد رشته داروں سے جدائی - مصر 1939ء) صحابہ پر جو ایک گہرا جذباتی وار کیا گیا وہ رحمی رشتوں کا انقطاع تھا.ان کے اہل خاندان نے نہ صرف ان سے تمام تعلق توڑ لیے بلکہ ان پر مظالم کی بھی قیادت کرتے رہے.مگر صحابہ اس امتحان سے بھی سرخرو ہو کر نکلے.جیسا کہ متعدد واقعات پہلے درج کیے جاچکے ہیں.چند مزید نمونے پیش خدمت ہیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی نبوت سے قبل آپ کی دو بیٹیوں جبری طلاق حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثوم کے نکاح ابولہب کے دو بیٹوں عتبہ اور سلوک کرنے والے تھے.جب وہ اسلام لائے تو ان کی ماں نے کہا یہ تو نے کیا دین اختیار کر لیا ہے.اسے چھوڑ دے ورنہ میں کچھ کھاؤں گی نہ پیوں گی یہاں تک کہ مر جاؤں.مگر حضرت سعد نے انکار کر دیا اور ماں نے بھوک ہڑتال شروع کر دی اور ایک دن رات اسی طرح گزر گیا اور وہ بہت کمزور ہوگئی.مگر دین کے معاملہ میں حضرت سعد نے غیر معمولی استقامت کا مظاہرہ کیا اور انہوں نے اپنی والدہ سے کہا: اگر تیرے سینہ میں ہزار جانیں بھی ہوں اور ایک ایک کر کے ساری نکل جائیں تب بھی میں کسی قیمت پر اس دین سے جدا نہیں ہوسکتا.یہ سن کر ان کی والدہ نے کھانا پینا شروع کر دیا.(اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 292 از عبدالکریم جزری ) خاندان بکھر گیا حضرت ابوسلمہ نے قریش کے مظالم سے تنگ آ کر مدینہ ہجرت کا ارادہ کیا.اپنے ساتھ اپنی بیوی اُم سلمہ ہند اور بیٹے سلمہ کو اونٹ پر سوار کیا اور مدینہ کی طرف چل پڑے.جب اُمّ سلمہ کے قبیلہ بن مغیرہ کو معلوم ہوا تو وہ لپک کر پہنچے اور ابو سلمہ سے کہا کہ تیری ذات تو ہم سے جدا ہو سکتی ہے مگر تو ہمارے قبیلہ کی عورت کو نہیں لے جا سکتا.یہ کہہ کر انہوں نے اونٹ کی نکیل کو ابوسلمہ کے ہاتھ سے چھین لیا اور انہیں اکیلے ہجرت کی اجازت دے کر اُم سلمہ کو روک لیا اور قید کر دیا.

Page 19

36 35 جب ابوسلمہ کے قبیلہ بنوعبد الاسد تک یہ خبر پہنچی تو وہ دوڑے آئے اور کہا کہ ابوسلمہ کا بیٹا تو ہمارے قبیلہ کا فرد ہے اسے ہم ماں کے پاس نہیں رہنے دیں گے اور یہ کہہ کر اُم سلمہ سے ان کا بیٹا بھی چھین لیا جو گود کا شیر خوار بچہ تھا.اس طرح بیوی کو خاوند سے اور بیٹے کو ماں سے جدا کر دیا گیا.حضرت اُم سلمہ فرماتی ہیں کہ میں روزانہ صبح با ہر نکل جاتی اور ویرانوں میں بیٹھ کر سارا دن آنسو بہاتی رہتی اور اس طرح پورا سال اسی حال میں گزر گیا.یہاں تک کہ بنو مغیرہ کے ایک آدمی کو ان پر رحم آ گیا.ان کو بچہ واپس کیا گیا اور مدینہ جانے کی اجازت دی گئی اور وہ اکیلی بچے کو لے کر مدینہ پہنچیں.(سيرة ابن هشام جلد 2 صفحہ 112 مطبع مصطفی البابی الحلبی.مصر 1936ء) یہی اُم سلمہ اپنے خاوند کی شہادت کے بعد رسول کریم کے عقد میں آئیں اور اُم المؤمنین کہلائیں.جائیداد سے محرومی صحابہ نے اپنی جانیں، اپنے جسم ، اپنی عزتیں اپنے تمام دنیوی تعلقات کے ساتھ اپنے تمام اموال بھی راہ مولیٰ میں قربان کر دیے مگر ایمان پر آنچ نہ آنے دی.عاص بن وائل پر حضرت خباب کی اُجرت باقی تھی.انہوں نے تقاضا کیا تو اس نے کہا: جب تک محمد کی نبوت سے انکار نہ کرو گے مال نہ دوں گا.مگر خباب نے جواب دیا مال دو یا نہ دو یہ انکار قیامت تک نہیں ہو سکتا.(بخاری کتاب التفسير - سورة مريم) نفع مند سودا حضرت صہیب بھی ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے.آپ کمزور طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت عمار بن یاسر کے ساتھ اسلام لائے تھے.انہوں نے ہجرت کرنا چاہی تو کفار نے سخت مزاحمت کی اور کہا کہ تم مکہ میں محتاج ہو کر آئے تھے لیکن یہاں آ کر دولتمند ہو گئے.اب یہ مال لے کر ہم تمہیں یہاں سے نہیں جانے دیں گے.حضرت صہیب نے کہا اگر میں یہ سارا مال تمہیں دے دوں تو پھر جانے دو گے.اس پر کفار راضی ہو گئے اور حضرت صہیب سارا مال دے کر متاع ایمان کے ساتھ مدینہ پہنچ گئے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو فرمایا: صہیب نے نفع بخش سودا کیا ہے.(طبقات ابن سعد جلد 4 صفحہ 227 دار بیروت.بیروت 1957ء) ذوالبجادین حضرت عبداللہ ذوالبجادین نے جب اسلام قبول کیا تو ان کی قوم نے ان کے تمام کپڑے اُتر والیے.وہ اپنی ماں کے پاس گئے تو اس نے انہیں ایک چادر دے دی.انہوں نے اس کے دو ٹکڑے کیے ایک تو تہبند بنالیا اور ایک اوپر قمیض کے طور پر لے لی.یہی اُن کی جائیداد تھی جسے لے کر وہ خوش خوش حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دو چادروں کی وجہ سے ہی انہیں ذوالبجادین کا لقب عطا فر مایا.(اسدالغابه جلد 3 صفحہ 122 از عبدالکریم جزری.مکتبه اسلامیه طهران) یہ کیفیت دو چار صحابہ کی نہیں سب مہاجرین کی تھی.وہ جہاں جہاں سے بھی آتے اپنے تمام اموال اور جائیدادیں یا خود چھوڑ کر آگئے یا دشمنوں نے زبردستی چھین لیں اور ان پر قبضہ کر لیا.چنانچہ بڑے بڑے مالدار اور تاجر صحابی اس حال میں مدینہ پہنچے کہ تن کے کپڑوں کے سوا اور کوئی چیز ان کے پاس نہ تھی.ہاں آسمان سے حاصل ہونے والی رضائے الہی کی ردا اُن پر سایہ فگن تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تمام آبائی جائیداد جو مکہ میں تھی اس پر تیل (جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے ) نے قبضہ کر لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر فرمایا: کیا عقیل نے ہمارے لیے کوئی جگہ چھوڑی ہے جہاں ہم ٹھہر سکیں اور ایسی عالی ظرفی کا مظاہرہ کیا کہ فتح کے باوجود وہ مکانات اور جائیدادیں ان سے واپس نہ لی گئیں.(بخاری کتاب المغای باب این رکز النبي صلى الله عليه وسلم)

Page 20

الغرض یہ ایک عجیب خوش قسمت قوم تھی.انہوں نے ایک ہاتھ خوش قسمت قوم سے ساری دنیا ر ڈ کر دی اور دوسرے ہاتھ سے وہ سب کچھ پالیا جس کی ایک سعادت مند انسان تمنا کر سکتا ہے.انہوں نے جو بھی کھویا اس سے ہزاروں گنا بڑھ کر پایا کیونکہ خدا اپنے سچے عاشقوں اور ایمانداروں کو کبھی ضائع نہیں کرتا.اور ہمیشہ اُن کے حق میں تائید و نصرت کے وعدے پورے کرتا رہتا ہے.آج ان صحابہ کے تمام دشمن ملیا میٹ ہو چکے ہیں مگر ان عالی ہمت انسانوں کو ہمیشہ عزت اور فخر کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے.یہی تاریخ ہے جو آج بھی دہرائی جائے گی.یہی قربانیاں ہیں جن کے مقدر میں کبھی فنا نہیں لکھی گئی.یہی عظمتیں ہیں جو نا قابل تسخیر ہیں.☆

Page 20