Language: UR
(المؤمن : ۳۹) صرف احمدی احباب کے لئے کی وَقَالَ الَّذِي آمَنَ يَقَوْمِ اتَّبِعُوْنِ أَهْدِكُمْ سَبِيْلَ الرَّشَادِ سبیل الرشاد جلد چهارم مشتل ارشادات و فرمودات حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپریل 2003 ء.جون 2014 ء
نام کتاب سبیل الرشاد جلد چهارم جولائی 2014ء سن اشاعت طبع اول تعداد ایک ہزار
خلیفہ سید نا حضرت مرزا مسرور احم احلالالالالالالالالالالالالال بمصر العزیز
1 33 73 117 181 197 239 259 299 311 345 383 419 سبیل الرشاد جلد چہارم انڈیکس 2003ء کے ارشادات و فرمودات باب اوّل باب دوم 2004ء کے ارشادات و فرمودات باب سوم 2005ء کے ارشادات و فرمودات باب چهارم 2006ء کے ارشادات و فرمودات باب پنجم 2007ء کے ارشادات و فرمودات باب ششم 2008ء کے ارشادات و فرمودات باب ہفتم 2009ء کے ارشادات و فرمودات باب ہشتم 2010ء کے ارشادات و فرمودات باب نم 2011ء کے ارشادات و فرمودات باب دہم 2012ء کے ارشادات و فرمودات باب یاز دہم 2013ء کے ارشادات و فرمودات باب دوازدہم 2014ء کے ارشادات و فرمودات اشاریه
ίν تفصیلی انڈیکس سال صفحہ نمبر 1 3 4 5 10 11 12 13 14 14 22 33 35 36 36 37 37 $2003 سبیل الرشاد جلد چہارم نمبر شمار 6 انصار اللہ کے عہد میں بیان شدہ ذمہ داریوں کو ہمیشہ نبھانا ہے عہدیداران کے خلاف گھروں میں باتیں نہ کریں عہدہ ایک حفاظت ہے اس کی حفاظت کریں نظام جماعت اور عہدیداران کی اطاعت کریں عہدیداران برائی کی تشہیر نہ کریں ہمارے اجتماع کا مقصد افراد جماعت کے دل آخرت کی طرف جھکنا اور انکے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف پیدا کرنا ہے کسی کی مدد کرتے ہوئے عزت نفس کا خیال رکھیں ذیلی تنظیمیں توجہ کریں بچوں کی ایسی تربیت کریں کے وہ ہمیشہ جماعت اور خلافت سے وابستہ رہیں و ذیلی تنظیموں کا قیام حضرت مصلح موعوددؓ کا جماعت پر بہت بڑا احسان ہے 92004 1 شادی بیاہ پر انصار کو مردوں کی طرف Serve کرنے کی ہدایت 2 عہدیداران اپنے عزیز رشتہ داروں اور دیگر احباب جماعت میں فرق نہ کریں انصار اللہ کے نمونہ سے ہی دوسروں نے سبق لینا ہے دستور اساسی کے مطابق کام کریں ذیلی تنظیموں کا مقصد جماعت میں ہر عمر کے احمدی کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلانا ہے
38 38 39 40 6 40 41 48 55 55 56 57 58 59 73 75 75 76 سبیل الرشاد جلد چهارم فرد جماعت کی بات عہدیدار کے پاس ایک راز ہے، امانت ہے اسے باہر نکال کر خیانت 6 7 نہیں کرنی چاہئے انابت اللہ ، عاجزی ، توبہ واستغفار سے اللہ کے حضور جھکنا اور اس کے اصولوں کے مطابق عبادت بجالانے کا نام ہے انصار اپنے گھروں کی نگرانی کریں و عہد یدار آنے والے ہر فرد کو خوش آمدید کہیں اور اُٹھ کر ملیں 10 تمام قائدین دستور اساسی کا مطالعہ کریں 11 قیادت تعلیم القرآن کی ذمہ داریاں 12 آج انصار اللہ اپنے عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم کریں 13 جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہد یدار نیکیوں اور عبادتوں کو پہلے اپنے گھروں میں رائج کریں 14 ذیلی تنظیمیں بدعات پھیلانے والوں کا جائزہ لے کر سد باب کی کوشش کریں 55 دور ہے احمدیوں کو قریب لانے کی ذمہ داری ذیلی تنظیموں کی ہے 16 انصار والدین کو سمجھائیں کے لڑکیوں کی شادی میں تاخیر نہ کریں 17 جنوری سے ہی نئے سال کا پلان بنا کر کام کیا کریں 18 1 جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہدیداران اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریق پر نبھانے کے لئے خدا سے مددطلب کریں $2005 ذیلی تنظیمیں چندہ وقف جدید اور چندہ دہندگان میں اضافہ کریں اسلام اور آنحضور پر غیروں کے اعتراضات کا خطوط کے ذریعہ اخبارات میں جواب دینے کی ذیلی تنظیموں کو تلقین خلیفہ وقت کے خطبات کو با قاعدہ سنیں 2
78 78 79 81 86 93 94 96 96 98 100 101 102 104 106 107 108 112 114 سبیل الرشاد جلد چهارم 9 10 قائدین انصار کو کانسٹی ٹیوشن مہیا کریں کانسٹی ٹیوشن کے مطابق اپنی عاملہ بنائیں انصار وصیت کے نظام کی طرف جلدی بڑھیں vi عہدیداران اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں جماعتی وقار کے خلاف ہر بات عہدیداران کو بتلائیں مطالعہ کتب اور امتحانات میں اراکین مجلس عاملہ کو بھی شامل کریں ذیلی تنظیموں کے عہدیدار جماعتی و دوسری ذیلی تنظیموں کے عہدیداروں کا احترام اپنے دل میں پیدا کریں 11 عہدیدران کو تعز یز یافتہ افراد سے تعلق رکھنے میں احتیاط کرنی چاہئے 12 پچاس فیصد انصار ایسے ہوں جن کے ہاں الفضل آتا ہو 13 عہدیداران اپنے عہدہ جو ایک امانت ہے کی حفاظت کریں 14 قرآن کریم کی تلاوت کی عادت ڈالیں 18 نومبائعین کو نظامت جماعت میں ضم کریں 16 ہمارے بڑے بڑے ے بڑے بڑے عظیم الشان کاموں کی کنجی دعا ہی ہے 1 عہدہ لے کر کام نہ کرنا اپنے نفس اور خدا کے ساتھ دھوکا ہے 18 ذیلی تنظیمیں خوشی کے مواقع پر مساجد کی تعمیر میں چندہ دینے کی تلقین کریں 19 ذیلی تنظیموں کا نظام شادی بیاہ پر نظر رکھیں 20 انصار بوڑھے اور کمزور لوگوں کا وزٹ کریں 21 ذیلی تنظیمیں بھی دعوت الی اللہ کے پروگرام بنائیں
117 118 119 131 136 137 138 139 140 143 148 150 152 154 155 157 159 159 162 vii $2006 سبیل الرشاد جلد چهارم 1 سست عہدیداران کو Active کریں جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہد یداران کو نظام جماعت کی اہمیت اور اطاعت کے بارے پر 2 3 5 معارف وزریں نصائح عہد یداران کو عاملہ کی مدد سے شوری کے فیصلوں پر عمل کرنا چاہئے انصار اللہ وصیت کرنے کے بعد ذیلی تنظیم یا چندہ بھی دیں انصار کے بچے نماز یں اور قرآن پڑھنے والے ہوں جماعتی و ذیلی تنظیموں کا نظام فعال اور مستعدد ہو تو جماعت کئی گنا ترقی کرتی ہے ذیلی تنظیموں کے عہدیداران وصیت کے مبارک نظام میں شامل ہوں دیہاتوں میں دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دیں انصار اللہ کی تنظیم اس امر کا جائزہ لے کہ شکوہ کرنے والے کیوں پیدا ہوتے ہیں جہاں جماعت قائم نہیں وہاں مجلس انصاراللہ قائم ہو سکتی ہے مجھے ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں جو کام نہ کرسکیں 12 جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہدیدار لغوحرکات کو چھوڑ دیں تمام قائدین اپنی اپنی سکیم بنا کر مجلس عاملہ میں ڈسکس کریں 14 انصار اللہ کی سب سے اہم ذمہ داری نئی نسل کی تربیت ہے 18 جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کے نظام کو معاشرہ کی ہر برائی ختم کرنے کے لئے مہم چلانی چاہئے 16 اللہ تعالیٰ جماعت کو ایسے لوگ عطا کرتارہے گا جونحن انصار اللہ کا نعرہ لگانے والے ہوں گے 17 لوگوں کے ذہن بدلنے کے لئے چیئر ٹی واکس اہم رول ادا کرتی ہے 18 نیشنل عاملہ انصار اللہ ہالینڈ کو ہدایات
163 164 165 168 176 177 178 178 179 181 183 184 185 186 187 190 191 سبیل الرشاد جلد چهارم 19 viii جس قدر آپ کا خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق ہوگا اسی قدر آپ دینی و دنیاوی حسنات سے حصہ پائیں گے 20 ذیلی تنظیموں کو نو جوانوں کو سنبھالنا چاہئے اور ہنر سکھلا کر بیکاری کا خاتمہ کرنا چاہئے 21 انصار اللہ کا بڑا کام خلافت کی حفاظت کرنا ہے 22 صحابہ کے فدائیت کے نمونے آپ انصار اللہ نے دکھلانے ہیں 24 25 عہدیداران میاں بیوی کے جھگڑے میں ظالم شوہر کے ساتھ بے جا ہمدردی نہ کریں اعزازی خدمت کرنے والے سے بھی کوئی ایسا فعل سرزرد نہ ہو کوئی ایسا کلمہ نہ نکلے جو سچائی کے خلاف ہو عہدیداران مدد میں برابر کا سلوک کریں خواہ مدد لینے والوں میں سے کسی نے ان کے خلاف کوئی بات کہہ دی ہو 26 انصار اللہ اپنے وعدے خود پورے کریں مرکز پر انحصار نہ کریں 27 جماعتی سطح پر جو بستیاں یا کمیاں ہیں ان کو ذیلی تنظیموں نے پورا کرنا ہے 1 5 $2007 عہدیداران جماعتی اموال خرچ کرنے سے پہلے منصوبہ بندی کریں اجتماعات پر انصار کو جگہ دینے کی اطفال ، خدام کو نصیحت عہدیداران انصاف سے کام لینے والے ہوں عہدیدان بیوی بچوں سے اچھا سلوک کریں انصار اللہ کی سب سے اہم ذمہ داری پنجوقتہ نمازوں کا قیام ہے عہدیداران سیکورٹی پر کھڑے خدام سے اپنی چیکنگ کروائیں جلسوں اور اجتماعات پر ڈیوٹی دینے والے عہدیداران اپنے اندر برداشت پیدا کرنے کی کوشش کریں 7
سبیل الرشاد جلد چهارم ix 1 5 6 7 8 ذیلی تنظیموں کے قیام کا مقصد جماعت کے ہر طبقہ کو جماعتی کاموں میں مصروف کرنا ہے $2008 یلی تنظیمیں ایسے پروگرام بنائیں جس سے قربانیوں کے معیار بلند ہوں اگر ذیلی تنظیمیں اور جماعتی نظام فعال ہو جائیں تو ہماری ترقی کے قدم کئی گنا بڑھ جائیں صحت تلفظ اور ترجمہ قرآن کے لئے ذیلی تنظیمیں بھی کام کریں جو بلی پر ذیلی تنظیموں کا صرف چھوٹے چھوٹے پروگرام بنانا کافی نہیں انصار اللہ کے معنی اللہ کے مددگار کے ہیں ذیلی تنظیمیں اپنے معاملات میں براہ راست خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں پیغام سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز عہدیداران خادم بنیں گے تو مخدوم کہلائیں گے و عہدیداران خالی الذہن ہو کر فیصلہ کریں اور تربیت کا کام اچھے طریقے سے سرانجام دیں 10 نئے آنے والوں کی زیادہ تربیت کی ضرورت ہے 194 197 199 200 203 204 204 205 206 212 213 214 11 عہدیداران انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے وحدانیت اور امن کے قیام کی کوشش کریں 216 12 انصار اللہ کے عہد کو معمولی نہ سمجھیں.یہ ایک بہت بڑا عہد ہے 13 انصار اللہ کو اللہ کی عبادت کا حق ادا کرنے والا ہونا چاہئے اپنی زندگیوں کو قرآنی تعلیمات اور رہنمائی کے سانچے میں ڈھالیں 1 $2009 انصار اللہ کا کام اپنے عہد کی طرف توجہ کرنا اور ان راستوں پر چلتا ہے جن کی رہنمائی حضرت مصلح موعودؓ نے فرمائی عہدہ ایک خدمت ہے خدمت کا تصور پیدا ہوگا تو صحیح طور پر خدمت ہو سکے گی عہدیداران بصیغہ راز معاملات کو اپنے پاس رکھ کر اصلاح کی کوشش کریں 216 225 237 239 241 241 243
سبیل الرشاد جلد چهارم 5 X مسجدیں آباد ہوں گی تو جماعت کی عمومی روحانی حالت بھی ترقی کرے گی آبادہوں کی سب سے پہلا اور اہم تقاضا انصار اللہ بنے کا عبادت کے معیار کو قائم کرنا ہے اپنے بچوں میں خلافت کی محبت پیدا کریں یہی اسلام کی روح ہے جب میں ایک بات کسی مجلس انصار اللہ کو کہتا ہوں تو وہ سب کے لئے ہوتی ہے $2010 بدرسومات سے متعلق ہدایات کی پابندی کروائیں 2 غیبت اور بدظنی سے بچنے کی عہدیداران اور نظام جماعت کو تلقین 243 244 253 253 259 261 262 تمام ذیلی تنظیمیں اور جماعتی نظام کو روحانی خزائن سے فیض اٹھانے کے پروگرام بنانے چاہئیں 262 ایک عام احمدی اور عہدیدار میں فرق تبلیغ کا پروگرام جماعتی وذیلی تنظیموں کی سطح پر بنے ذیلی تنظیموں کا ہر عہدیدار، فرد جماعت کی حیثیت سے جماعتی نظام کا پابند ہے ذیلی تنظیمیں نو جوان لڑکوں اور لڑکیوں کو جماعتی نظام سے اس طرح جوڑیں کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں 8 تربیت کے سلسلہ میں جماعتی وذیلی تنظیموں کو فعال پروگرام بنانے کی ضرورت ہے انصار اللہ نے اپنی اصلاح کے ساتھ اپنی بیوی بچوں کی بھی اصلاح کرنی ہے 10 پاکستان میں ذیلی تنظیموں کے اجتماعات میں رکاوٹ جماعتی ترقی صرف اپنے بچوں کی تربیت سے وابستہ نہیں ہے 263 263 264 265 266 267 269 270 12 مجلس انصاراللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر صحابہ کا دلچسپ اور دلنشین انداز میں تذکرہ 281 13 آپ کی ہر حرکت وسکون خلیفہ کے تابع ہونی چاہئے 14 شہدائے لاہور نے حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب جیسی روح کا مظاہرہ کرتے ہوئے استقامت کی لازوال تاریخ رقم فرمائی 294 294
299 301 302 302 303 304 308 308 313 314 315 317 318 319 322 335 336 340 344 345 347 سبیل الرشاد جلد چهارم xi $2011 1 صف دوم کے انصار ڈیوٹیوں کے دوران اپنے خدام کو نہ بھولیں 3 1 2 3 6 ہر سطح کا عہدیدار انصاف کے تقاضوں کو خدا کا خوف رکھتے ہوئے پورا کرے ذیلی تنظیمیں میری باتوں کی جگالی کرواتی رہیں جماعتی عہد یدار دنیا وی عہد یدار نہیں بلکہ خادم ہے اگر عہد یدار ہی مطالعہ کر لیں تو 70 فیصد انصار مطالعہ مکمل کرنے والے ہو جائیں احمدیت کیا چیز ہے؟ اس کا پیغام کیا ہے؟ اپنی اولاد کی تربیت کی فکر کریں ان پر معاشرے کے غلط رنگ نہ چڑھنے دیں $2012 یہ انصار کا بھی کام ہے کہ وہ اپنے نمونے آنحضرت کے اعلیٰ خلق کے مطابق کریں بر تنظیم کے عہدیدار مسجد میں حاضر ہونا شروع ہو جا ئیں تو مسجدوں کی رونقیں بڑھ جائیں گی پیچھے ہٹے لوگوں کا جائزہ لے کر کیٹیگری (Category) بنائیں قائدین کو دوسروں کے لئے نمونہ ہونا چاہئے ہر سطح کی ذیلی تنظیموں اور مرکزی عہدیداروں کو بھی میں کہتا ہوں کہ اپنے جائزے لیں آپ انصار حقیقی رنگ میں اپنی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے انصار اللہ بنیں وقف عارضی کیا کریں انصار اللہ اچھا کام کر رہی ہے مگر میں ان سے اور کام چاہتا ہوں و فارغ انصار وقف عارضی کریں اور دوسروں کو قرآن کریم پڑھائیں 10 انصار اللہ کو جماعتی نظام کے ساتھ مل کر رشتہ ناطہ کے مسائل حل کرنے چاہیئے $2013 1 آنحضرت اور حضرت مسیح موعود کی محبت کی وجہ سے داڑھی رکھ لیں
سبیل الرشاد جلد چهارم xii عہدیداران کی داڑھی ہونی چاہئے عہدیداران انصاف کے ساتھ اپنے عہدوں کو سرانجام دیں جوذ مہ داری آپ کو سونپی گئی ہے اسے اپنے پورے دل ، پوری جان، نیک نیتی انتہائی درجہ کی ایمانداری اور متانت سے پورا کرنے کی کوشش کریں 8 نوجوانوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا جواب ذیلی تنظیمیں دیں مجلس عاملہ کا ہر ممبر سال میں ایک بیعت کروائے ذیلی تنظیموں کے چندوں کا بقایا دار ذیلی تنظیم اور جماعت کا عہدیدار نہیں بن سکتا انصار کی نمازوں کا ریکار ڈرکھیں 348 349 359 362 372 377 377 و قرآن کریم جاننے والے انصار ، وقف عارضی کے دوران بچوں اور نو جوانوں کی کلاسز لیں 380 10 انصار اللہ کی تنظیم لائبریری میں قرآن کریم رکھوائے $2014 1 عہدیداروں میں ایک اہم خلق شفقت اور ہمدردی ہونا چاہئے افراد جماعت کی عملی اصلاح کے لئے ذیلی تنظیموں کو اپنا کر دار ادا کرنا چاہئے جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہدیداران ، خلیفہ وقت کی باتوں کو ہمیشہ سامنے رکھیں تا افراد جماعت کی عملی اصلاح میں اپنا کردار بھر پور طور پر ادا ہو 4 6 ہر تنظیم کے عہدیدار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بعض دلوں میں خلافت کے بارے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات دور کرے تمام عہدیداران پہلے اپنے جائزے لیں نیشنل عہد یداران کو اپنے خولوں سے باہر آنے کی ضرورت ہے.وہ باہر نکلیں اور اپنے آپ کو افسر نہ سمجھیں بلکہ خادم سمجھ کر جماعت کی خدمت کریں 382 383 385 385 394 405 406 418
سبیل الرشاد جلد چہارم xiii بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ آج جب دنیا ، خلافت کے لئے تشنہ اور اس کی متلاشی ہے.خوش قسمت ہے جماعت احمد یہ جو ایک صدی سے زائد عرصہ سے یہ انعام پا کر اس کی برکات سے بھی مستفیض ہورہی ہے.خلیفہ نبی کا خلق اور اس کی صفات کا پر تو ہوتا ہے.دراصل نبوت و رسالت کی برکات کو جاری رکھنے کے لئے ہی اللہ تعالیٰ خلافت کا سلسلہ جاری فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ خلفاء کی بڑی علامت یہ ہے کہ وہ خود ان کا متکفل ہوتا ، ان کی تائید ونصرت فرما تا اور حسب حالات و ضرورت ان کی رہنمائی فرماتا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام امام الزمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ کے فضل سے علوم الہیہ میں اس کو بسطت عنایت کی جاتی ہے...علوم حقہ کے جاننے میں نو رفر است اس کی مدد کرتا ہے اور وہ نوران چھمکتی ہوئی شعاعوں کے ساتھ دوسروں کو نہیں دیا جاتا.ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ.پس جس طرح مرغی انڈوں کو اپنے پروں کے نیچے لے کر ان کو بچے بناتی ہے اور پھر بچوں کو پروں کے نیچے رکھ کر اپنے جو ہر ان کے اندر پہنچا دیتی ہے.اسی طرح یہ شخص اپنے علوم روحانیہ سے صحبت یا بوں کو علمی رنگ سے رنگین کرتا رہتا ہے اور یقین اور معرفت میں بڑھاتا جاتا ہے.“ ( ضرورة الامام ، روحانی خزائن جلد نمبر 13 صفحہ 480) ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفتہ امسح الامس ایدہ اللہ تعالی کے حق میں یہ علامت بھی بڑی شان سے پوری ہوئی.1903ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خوش و خرم باش“ کے الہام میں آئندہ جماعت کی ترقیات کی نوید مسرت دیتے ہوئے مسرور کے اسم بامسمی سے یاد کر کے الہاماً إِنِّي مَعَكَ يَا مَسْرُور “ کا مژدہ جانفزا سنایا.اس کے ٹھیک سوسال بعد اللہ تعالیٰ نے 2003ء میں رجل فارس اور نبیرہ مسیح موعود حضرت مرزا
سبیل الرشاد جلد چهارم χίν مسرور احمد صاحب کو آپ کی نیابت میں مسند خلافت پر متمکن فرمایا تو خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت کے طور پر الہی معیت کا یہ وعدہ کمال شان کے ساتھ آپ کے حق میں بھی جلوہ گر ہوا.اہل ربوہ جانتے ہیں کہ خلافت سے قبل حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کو طبعا تقریر کرنے میں حجاب ہوتا تھا.لیکن منصب خلافت سنبھالنے کے بعد دنیا شاہد ہے کہ اللہ تعلی کے غیر معمولی فضل واحسان سے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے حق میں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح زبان کی گرہ کھلنے والا نشان ظاہر ہوا اور آپ کی زبان و بیان میں غیر معمولی تاثیر عطا کی گئی.موقع ومحل اور ضرورت کے عین مطابق آپ نے جماعت کو جو خطابات فرمائے اور ذیلی تنظیموں کو جو معتین اور ٹھوس اصولی تربیتی و انتظامی ہدایات ارشاد فرمائیں وہ اس پر کافی دلیل ہیں.مجلس انصار اللہ پاکستان نے اپنے قیام جولائی 1940ء سے خلفاء سلسلہ کی ذیلی تنظیم کے حوالہ سے ہدایات جمع کر کے ان کی اشاعت کا سلسلہ سبیل الرشاد کے نام سے شروع کیا.اور حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشادات پرمشتمل جلد اول جون 1996ء میں، حضرت خلیفہ آسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر مشتمل جلد دوم 2006ء میں شائع ہوئی.جبکہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر مشتمل جلد سوم انصار اللہ کے پچھتر ویں سال 2014ء میں شائع ہورہی ہے.زیر نظر سبیل ارشاد جلد چہارم ہمارے پیارے امام حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے انصار اللہ کے بارہ میں آپ کی خلافت کے پہلے گیارہ سالہ دور کے ان ارشادات پر مشتمل ہے جو مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اپریل 2003 ء سے جون 2014 ء تک آپ نے ارشاد فرمائے.خلافت خامسہ کا بابرکت دور جہاں جماعتی ترقیات اور فتوحات کے دروازے کھلنے کا دور ثابت ہوا.وہاں اس کے ساتھ تنظیموں نے بھی نمایاں ترقی کی.2008ء میں خلافت جو بلی کے کامیاب اور شاندار انعقاد کی ایک برکت خلافت سے جماعت کی غیر معمولی محبت و فدائیت اور اس ادارہ کے مزید استحکام کی صورت میں ظاہر ہوئی اور حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جماعت کو عموماً تنظیمی ذمہ داریاں زیادہ بہتر رنگ میں ادا کرنے کی طرف توجہ دلاتے رہے.حضور انور نے اپنے خطابات میں اپنی زندگیاں قرآنی تعلیمات کے مطابق گزار نے ، تقویٰ
XV سبیل الرشاد جلد چہارم اختیار کرنے ، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی عملی اصلاح حسن خلق اور نرمی کے ساتھ نئی نسل کی تربیت کرنے اور عہدیداران اور انصار کو اس کے لیے عمدہ نمونہ پیش کرنے کی تحریک فرمائی اور آپ نے توجہ دلائی کہ انصار اللہ کی ایک اہم ذمہ داری خلافت سے وابستگی اور استحکام کی کوشش ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ان ارشادات کو جمع و ترتیب اور تالیف واشاعت کے کام میں جملہ احباب کے تعاون اور محنت کے لئے شکر گزار ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں اس کی جزاء عطا فرمائے.آمین مجلس انصار اللہ پاکستان کے لئے یہ امر باعث سعادت ہے کہ مجلس انصار اللہ کے پچھتر ویں سال 2014 ء میں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے انصار اللہ کے لئے راہنما ارشادات پر مشتمل یہ کتاب شائع ہو رہی ہے.جو ڈائمنڈ جوبلی کے استقبال کے موقع پر انصار کے لئے ایک عمدہ تحفہ اور نعمت غیر مترقبہ ہے.اللہ تعالیٰ اس کتاب کو ہر لحاظ سے بہت بابرکت اور نافع الناس بنائے اور جملہ انصار کوعموماً اور عہدیداران کو خصوصاً اس سے بھر پور رنگ میں فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
سبیل الرشاد جلد چهارم دو xvi انصار اللہ کے عہد کو معمولی عہد نہ سمجھیں (ارشاد حضرت خلیفہ انبیح الخامس اید و اللہ تعالی ) خلیفۃ آپ نے ایک عہد بھی کیا ہے کہ اسلام اور احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت کے لئے آخر دم تک کوشش کروں گا.نظام خلافت کی حفاظت کے لئے آخر دم تک کوشش کروں گا.اپنے بچوں میں بھی یہ روح پھونکنے کی کوشش کروں گا تو یہ عہد جو ہے اس کو معمولی عہد نہ سمجھیں.یہ ایک بہت بڑا عہد ہے.اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھہرا کر ہم یہ عہد کر رہے ہیں اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ جو انصاراللہ ہیں اگر آپ نے اپنے اس عہد کو نہ نبھایا ، اپنے اس عہد کو نبھانے کے لئے وہ بھر پور کوشش نہ کی جس کی آپ سے توقع کی جاتی ہے تو آئندہ آنے والی نسلیں آپ کو معاف نہیں کریں گی کیونکہ انہوں نے بھی آپ کے نقش قدم پر چلنا ہے.جن بچوں کی جن نو جوانوں کی تربیت آپ نے کرنی ہے وہ آپ کو الزام دیں گی کہ کیوں ہماری تربیت نہیں کی.اس لئے یہ یادرکھیں کہ عہد جو آپ نے کیا ہے اس کو نبھانا آپ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے“ الفضل انٹر نیشنل 9 جنوری 2009ء)
سبیل الرشاد جلد چهارم xvii عرض ناشر خلفائے احمدیت کے مجلس انصار اللہ کے اجتماعات سے خطابات نیز خطبات جمعہ سے انصار اللہ سے متعلق ارشادات و فرمودات کو مجلس انصاراللہ پاکستان سبیل الرشاد کے نام سے شائع کرنے کی سعادت پارہی ہے.سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ بانی مجلس انصاراللہ کے ارشادات جلدا ؤل اور سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کے ارشادات جلد دوم اور حضرت خلیفہ اصیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشادات جلد سوم میں افادہ عام کے لئے طبع ہو چکے ہیں.جب کہ ہمارے موجودہ پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے انصار اللہ کو ہدایات و نصائح پر مشتمل فرمودات وارشادات زیر نظر کتاب میں پیش ہیں.انصار بھائیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی علمی و دینی پیاس بجھانے کے لئے یہ روحانی مائدہ خلافت خامسہ کے 11 سالہ دور پرمشتمل ہے.جس میں اپریل 2003ء سے جون 2014 ء تک کے خطبات جمعہ و خطابات اور اجتماعات پر پیغامات نیز دورہ جات پر مجالس عاملہ میں دی گئی ہدایات کا احاطہ کیا گیا ہے.جن سے تنظیم انصار اللہ کی ضرورت واہمیت اور ذمہ داریوں اور مقام کے علاوہ اولاد کی تربیت کے بارہ میں نصیحت ورہنمائی ہے.اس علمی مائدہ کی تیاری کے لئے خطبات مسرور، الفضل انٹر نیشنل، روز نامه الفضل ربوه، بدر قادیان، ذیلی تنظیموں کے ترجمان رسائل اور خلافت لائبریری میں موجود بیرون ملک طبع ہونے والے جرائد و اخبارات سے مدد لی گئی ہے.ابتداء اس کی تیاری میں مکرم خواجہ مظفر احمد صاحب قائد عمومی نے عزیزم فرحان احمد ذکا ء صاحب کی مدد سے حوالہ جات جمع کروائے اور اس کا کافی حصہ کمپوز بھی کروا دیا.اس سال کے آغاز پر مکرم حافظ مظفر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ پاکستان نے خاکسار کو سبیل الرشاد جلد چہارم کی تیاری کی ہدایت کی.خاکسار نے از سر نو مسودہ کا جائزہ لے کر مزید مواد حاصل کرنے کے لئے تمام منبع تک رسائی حاصل کی تو دیگر کئی نادر ارشادات ملے جو پہلے مسودہ میں شامل ہونے سے رہ گئے تھے.اس کام میں کئی مربیان کرام نے میری معاونت فرمائی.کمپوزنگ کے بعد مکرم نذیر احمد خادم صاحب نے اس کی پروف ریڈنگ کی اور مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب مربی سلسلہ نے
سبیل الرشاد جلد چهارم xviii پروف ریڈنگ کے ساتھ ساتھ اشاریہ بھی تیار کیا.فجزاهم الله تعالیٰ احسن الجزاء پاکستان کے علاوہ دنیا بھر کی مجالس انصار اللہ کے اجتماعات اور مجالس عاملہ کی میٹنگز پر حضورا نور ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو بھی حضور کے اس ارشاد کے مطابق اس کتاب کا حصہ بنادیا گیا ہے.جیسا کہ آپ فرماتے ہیں: ” جب میں ایک بات کسی مجلس انصار اللہ کو کہتا ہوں تو وہ سب کے لئے ہوتی ہے.اچھی مجالس، اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس سے ہدایات لیتی ہیں اور ان پر عمل کرتی ہیں.اپنے پروگرام بناتی ہیں اور پھر مجھے لکھتی ہیں کہ فلاں ملک کی مجلس عاملہ انصار اللہ کو جو ہدایات دی تھیں وہ ہم نے لی ہیں اور پروگرام بنا کر ان پر عمل کیا ہے“ ہدایت بر موقعہ نیشنل مجلس عاملہ جرمنی منعقدہ 15 دسمبر 2009ء از ماہنامہ انصاراللہ فروری 2010ء) اس کتاب کی اشاعت سے مجلس انصار اللہ پاکستان کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس اہم ارشاد پر عمل کی بھی توفیق مل رہی ہے.آپ فرماتے ہیں: اگر آپ ان باتوں کی جگالی نہیں کرتے رہیں گے، اگر ذیلی تنظیمیں میری طرف سے کہی گئی باتوں کی ہر وقت جگالی نہیں کرواتی رہیں گی تو پھر کچھ عرصہ بعد یہ باتیں ، یہ جوش، یہ شرمندگی کے جو اظہار ہیں یہ ماند پڑنے شروع ہو جاتے ہیں“ ( خطبات مسرور جلد 9 صفحہ 475-476) کوشش کی گئی ہے کہ اس مجموعہ میں انصار سے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہر ہدایت و نصیحت شامل کر لی جائے.پھر بھی اگر کسی دوست کی نگاہ میں کوئی ایسا ارشاد آئے جو اس مجموعہ کا حصہ نہیں بن سکا تو وہ اس سے ضرور مطلع فرماویں تا آئندہ ایڈیشن میں اسے شامل کر لیا جائے.اللہ تعالیٰ اس روحانی مائدہ سے تمام انصار کو فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
سبیل الرشاد جلد چہارم باب اوّل & 2003 کے ارشادات و فرمودات
سبیل الرشاد جلد چہارم 2 انصار اللہ کے عہد میں بیان شدہ ذمہ داریوں کو ہمیشہ نبھانا ہے عہدیداران کے خلاف گھروں میں باتیں نہ کریں عہدہ ایک حفاظت ہے اس کی حفاظت کریں نظام جماعت اور عہدیداران کی اطاعت کریں عہد یداران بُرائی کی تشہیر نہ کریں ہمارے اجتماع کا مقصد افراد جماعت کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف پیدا کرنا ہے کسی کی مدد کرتے ہوئے عزت نفس کا خیال رکھیں ذیلی تنظیمیں توجہ کریں بچوں کی ایسی تربیت کریں کے وہ ہمیشہ جماعت اور خلافت سے وابستہ رہیں ذیلی تنظیموں کا قیام حضرت مصلح موعودؓ کا جماعت پر بہت بڑا احسان ہے
سبیل الرشاد جلد چہارم 3 انصار اللہ کے عہد میں بیان شدہ ذمہ داریوں کو ہمیشہ نبھانا ہے مجلس انصار اللہ جو معنی کے سالانہ اجتماع 2003ء کے موقع پر انصار کے نام پیغام پیارے انصار الله جرمنی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی ہے کہ جماعت ہائے احمد یہ جرمنی کے انصار، اللہ کے فضل سے اپنا سالانہ اجتماع منعقد کرنے کی توفیق پارہے ہیں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اجتماع کو بہت برکت بخشے اور اس میں شامل ہونے والوں کو اپنی رحمت سے حصہ وافر عطا فرمائے.كُونُوا أَنْصَارَ اللهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِينَ مَنْ أَنْصَارِيُ إِلَى اللَّهِ طَقَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ (الصف :15) آپ سب لوگ وہ چنیدہ افراد ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں انصار اللہ کے الفاظ میں کیا گیا و ہے.اے وہ لو گو! جو ایمان لائے ہو اللہ کے انصار بن جاؤ! اللہ کے انصار بن جاؤ جیسا کہ عیسی بن مریم نے اپنے حواریوں سے کہا تھا ( کہ ) کہ کون ہیں جو اللہ کی طرف راہنمائی کرنے میں میرے انصار ہوں ؟ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے انصار ہیں.پس اے مومنو! تم اللہ کے دین کے لئے مددگار بن جاؤ اگر چہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آپ کی بیعت کرنے والے سب کے سب آپ کے انصار ہیں لیکن حضرت الصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کے ان افراد کا نام "انصار اللہ " رکھا جن کی عمر چالیس سال سے زائد ہے تا کہ ہمیشہ ان کے مدنظر یہ رہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت اور حضرت مسیح موعود کے مشن کی تکمیل کے لئے ہمیشہ صف اول میں رہنے کا عہد کئے رکھنا ہے.پس اس پہلو سے آپ پر بہت بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.وہ ذمہ داریاں اجمالاً انصار کے عہد میں بیان کر دی گئی ہیں جسے آپ اپنے ہرا جلاس میں دہراتے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اسلام احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظام خلافت کے لئے آخر دم تک جد و جہد کرنی ہے.اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہنا ہے اور اپنی اولاد کو ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتے رہنا ہے اور ان کے دلوں میں خلیفہ وقت سے محبت پیدا کرنی ہے.یہ اتنا عظیم اور عظیم الشان نصب العین ہے کہ اس عہد پر پورا اترنا اور اس کے تقاضوں کو نبھانا ایک عزم اور دیوانگی چاہتا ہے.پس اس بابرکت اجتماع کے موقع پر میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس اجتماع سے یہ
سبیل الرشاد جلد چہارم 4 عزم کر کے گھروں کو لوٹیں کہ نظام خلافت کی حفاظت کے لئے ہر دم تیار رہیں گے اور خلافت احمدیہ کے خلاف ہر شرارت کا سر کچل کر رکھ دیں گے.جماعت جرمنی خدا کے فضل سے اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کے لئے بڑا اہم کام کر رہی ہے اور حضرت خلیفہ اسیح الرابع " آپ سے خوش گئے ہیں.اس لئے اب آپ کا فرض ہے کہ آپ نے اسی جذ بہ کو ہمیشہ زندہ اور قائم رکھنا ہے.اس کے لئے آپ کا قدم آگے سے آگے بڑھنا چاہئے.آپ نے خلیفہ رابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی دعائیں لی ہیں اور آپ ان کے دل کے قریب رہے ہیں.میری دعائیں بھی ہر وقت آپ کے ساتھ ہیں.اللہ آپ کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی توفیق بخشے.خدا آپ کے ساتھ ہو اور ہمیشہ آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے.آپ کی مشکلات دور فرمائے.آپ کو ہر قسم کی برکتوں ، رحمتوں اور فضلوں کا وارث بنائے.آمین والسلام خاکسار ( دستخط) مرزا مسرور احمد " خلیفة المسح الخامس (ماہنامہ الناصر جر منی جون تا ستمبر 2003ء) عہد یداران کے خلاف گھروں میں باتیں نہ کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 27 جون 2003ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.پھر یہ بات واضح کروں کہ کسی بھی قسم کی برائی دل میں تب راہ پاتی ہے جب اس کے اچھے یا برے ہونے کی تمیز اُٹھ جائے.بعض دفعہ ظاہر اہر قسم کی نیکی ایک شخص کر رہا ہوتا ہے.نمازیں بھی پڑھ رہا ہے،مسجد جا رہا ہے، لوگوں سے اخلاق سے بھی پیش آرہا ہے لیکن نظام جماعت کے کسی فرد سے کسی وجہ سے ہلکا سا شکوہ بھی پیدا ہو جائے یا اپنی مرضی کا کوئی فیصلہ نہ ہو تو پہلے تو اس عہدیدار کے خلاف دل میں ایک رنجش پیدا ہوتی ہے.پھر نظام کے بارہ میں کہیں ہلکا سا کوئی فقرہ کہہ دیا ، اس عہد یدار کی وجہ سے.پھر گھر میں بچوں کے سامنے بیونی سے یا کسی اور عزیز سے کوئی بات کر لی تو اس طرح اس ماحول میں بچوں کے ذہنوں سے بھی نظام کا احترام اٹھ جاتا ہے.اس احترام کو قائم کرنے کے لئے بہر حال بہت احتیاط کی ضرورت ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے الفاظ میں یہ نصیحت آپ تک پہنچا تا ہوں.
سبیل الرشاد جلد چہارم 5 بہت ضروری ہے کہ واقفین نو کو نظام کا احترام سکھایا جائے.پھر اپنے گھروں میں کبھی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے نظام جماعت کی تخفیف ہوتی ہو یا کسی عہد یدار کے خلاف شکوہ ہو.وہ شکوہ اگر سچا بھی ہے پھر بھی اگر آپ نے اپنے گھر میں کیا تو آپ کے بچے ہمیشہ کے لئے اس سے زخمی ہو جائیں گے.آپ تو شکوہ کرنے کے باوجود اپنے ایمان کی حفاظت کر سکتے ہیں لیکن آپ کے بچے زیادہ گہر از خم محسوس کریں گے.یہ ایسا زخم ہوا کرتا ہے کہ جس کو لگتا ہے اس کو کم لگتا ہے، جو قریب کا دیکھنے والا ہے اس کو زیادہ لگتا ہے.اس لئے اکثر وہ لوگ جو نظام جماعت پر تبصرے کرنے میں بے احتیاطی کرتے ہیں ، ان کی اولادوں کو کم و بیش ضرور نقصان پہنچتا ہے.اور بعض ہمیشہ کے لئے ضائع ہو جاتی ہیں.واقفین بچوں کو سمجھانا چاہئے کہ اگر تمہیں کسی سے کوئی شکایت ہے خواہ تمہاری تو قعات اس کے متعلق کتنی ہی عظیم کیوں نہ ہوں ، اس کے نتیجے میں تمہیں اپنے نفس کو ضائع نہیں کرنا چاہئے.ان کو سمجھا ئیں کہ اصل محبت تو خدا اور اس کے دین سے ہے.کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے خدائی جماعت کو نقصان پہنچتا ہو.آپ کو اگر کسی کی ذات سے تکلیف پہنچی ہے یا نقصان پہنچا ہے تو اس کا ہرگز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپ کو حق ہے کہ اپنے ماحول، اپنے دوستوں، اپنے بچوں اور اپنی اولاد کے ایمانوں کو بھی آپ زخمی کرنا شروع کر دیں.اپنے زخم حو صلے کے ساتھ اپنے تک رکھیں اور اس کے اند مال کے جو ذرائع با قاعدہ خدا تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں ان کو اختیار کریں" ( خطبه جمعه فرموده 10 فروری 1989ء) خطبات مسرور جلد 1 صفحہ 149-150 ) عہدہ ایک امانت ہے اس کی حفاظت کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 8 اگست 2003ء میں فرمایا: "ہمارے نظام جماعت میں عہدیداروں کا نظام مختلف سطحوں پر ہے.اس زمانے میں ہر احمدی جہاں، جس ملک میں رہتا ہے اس ملک میں دنیاوی سطح پر امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرنے کی کوشش کرتا ہے، ان تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کا فرض ہے کہ اپنے اس فرض کی صحیح ادائیگی کرے اور حق دار لوگوں تک اس امانت کو پہنچائے وہاں نظام جماعت بھی ہر احمدی سے خواہ عہدیدار ہو یا عام احمدی اس سے یہی توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی امانتوں کی صحیح ادائیگی کرے.اب سب سے پہلے تو افراد جماعت ہیں جو نظام جماعت چلانے کے لئے عہد یدار منتخب کرتے ہیں.ان کا کیا فرض ہے، انہوں نے کس طرح جماعت کی اس امانت کو جو ان کے سپرد کی گئی ہے صحیح حقداروں تک پہنچانا ہے.تو اس کے لئے جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں انتخابات سے پہلے قواعد بھی پڑھ کر سنائے جاتے ہیں، عموما یہ جماعتی روایت ہے.دعا کر کے اپنے ووٹ کے صحیح استعمال
6 سبیل الرشاد جلد چہارم کی کوشش کی جاتی ہے اور پھر آپ کس کو ووٹ دیتے ہیں یا کم از کم یہی ایک متقی کی کوشش ہونی چاہئے کہ اس کو ووٹ دیا جائے جو آپ کے نزدیک سب سے زیادہ اللہ کا خوف رکھنے والا ہے.جس عہدے کے لئے منتخب ہو رہا ہے اس کا کچھ نہ کچھ علم بھی اس کو ہو.پھر جماعت کے کاموں کے لئے وقت بھی دے سکتا ہو.جس حد تک اس کی طاقت میں ہے وقت کی قربانی بھی دے سکتا ہو.پھر صرف اس لئے کسی کو عہد یدار نہ بنائیں کہ وہ آپ کا عزیز ہے یا دوست ہے.اور اتنا مصروف ہے کہ جماعتی کاموں کے لئے وقت نکالنا مشکل ہے.لیکن عزیز اور دوست ہونے کی وجہ سے اس کو عہد یدار بنانے کی کوشش کی جائے تو یہ ہے امانت کے حقدار کو امانت کو صحیح طرح نہ پہنچانا.اس نیت سے جب انتخابات ہوں گے کہ صحیح حقدار کو یہ امانت پہنچائی جائے تو اس میں برکت بھی پڑے گی، انشاء اللہ اور اللہ سے مدد مانگنے والے، نہ کہ اپنے اوپر ناز کرنے والے، اپنے آپ کوکسی قابل سمجھنے والے عہدیدار او پر آئیں گے.اور جن کے ہر کام میں عاجزی ظاہر ہوتی ہوگی اور یہی لوگ آپ کے حقوق کا صحیح خیال رکھنے والے بھی ہوں گے.اور نظام جماعت کو صحیح نہج پر چلانے والے بھی ہوں گے.بعض دفعہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں عہد یدار بناؤ.ان کے بارہ میں یہ حدیث ہے جو حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل نے حقائق الفرقان میں Quote کی ہے کہ حضرت نبی کریم کے روبرو دو شخص آئے کہ ہمیں کام سپر د کیجئے ، ہم اس کے اہل ہیں.فرمایا : جن کو ہم حکم فرما دیں، خُدا اُن کی مدد کرتا ہے.جو خود کام کو اپنے سر پر لے، اس کی مدد نہیں ہوتی.پس تم عہدے اپنے لئے خود نہ مانگو " عہدیدار کے پاس اگر کسی کا کوئی معاملہ آئے وہ امانت ہے ( حقائق الفرقان جلد نمبر 2 صفحہ 30 ) پھر عہد یداران ہیں ان کو یہ بات یادرکھنی چاہئے بلکہ جماعت کا ہر کارکن یہ بات یادر کھے کہ اگر کسی دفتر میں کسی عہدیدار کے پاس کوئی معاملہ آتا ہے یا کسی کا رکن کے علم میں کوئی معاملہ آتا ہے چاہے وہ ان کی نظر میں انتہائی چھوٹے سے چھوٹا معاملہ ہو.وہ اس کے پاس امانت ہے اور اس کو حق نہیں پہنچتا کہ اس سے آگے یہ معاملہ لوگوں تک پہنچے.ایک راز ہے، ایک امانت ہے، پھر کسی کی کمزوریوں کو اچھالنا تو ویسے بھی نا پسندیدہ فعل ہے اور منع ہے بڑی سختی سے منع ہے.اور بعض دفعہ تو یہ ہوتا ہے کہ کسی بات کا وجود ہی نہیں ہوتا اور وہ بات بازار میں گردش کر رہی ہوتی ہے.اور جب تحقیق کرو تو پتہ چلتا ہے کہ فلاں کا رکن نے فلاں سے بالکل اور رنگ میں کوئی بات کی تو جوکم از کم نہیں تو سو سے ضرب کھا کر باہر گردش کر رہی ہوتی ہے.تو جس کے متعلق بات کی جاتی ہے جب اس تک یہ بات پہنچتی ہے تو طبعی طور پر اس کے لئے تکلیف کا باعث ہوتی ہے.اول تو بات اس طرح ہوتی نہیں اور اگر ہے بھی تو تمہیں کسی کی عزت اچھالنے کا کس نے اختیار دیا ہے.
سبیل الرشاد جلد چہارم 7 مشورہ ایک امانت ہے پھر مشورے ہیں اگر کوئی کسی عہدیدار سے یا کسی بھی شخص سے مشورہ کرتا ہے تو یہ بالکل ذاتی چیز ہے، ایک امانت ہے.تمہارے پاس ایک شخص مشورہ کے لئے آیا تم نے اپنی عقل کے مطابق اسے مشورہ دیا تو تم نے امانت لوٹانے کا حق ادا کر دیا.اب تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ اس مشورہ لینے والے کی بات آگے کسی اور سے کرو.اور اگر کرو گے تو یہ خیانت کے زمرے میں آجائے گی.عہدیداران کو بھی ، کارکنان کو بھی اس حدیث کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہئے.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرنا.سائل نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ان کے ضائع ہونے سے کیا مراد ہے؟ فرمایا : جب نا اہل لوگوں کو حکمران بنایا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا.خدمت اور عہدہ بھی ایک عہد ہے ( بخاری.کتاب الرقاق.باب رفع الامانة )....ہمیشہ یادرکھنا چاہئے عہدیداران کو ، کارکنان کو کہ عہدہ بھی ایک عہد ہے، خدمت بھی ایک عہد ہے جو خدا اور اس کے بندوں سے ایک کارکن ، ایک عہدیدار، اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے کرتا ہے.اگر ہر عہدیدار یہ سمجھنے لگ جائے کہ نہ صرف قول سے بلکہ دل کی گہرائیوں سے اس بات پر قائم ہو کہ خدمت دین ایک فضل الہی ہے.میری غلط سوچوں سے یہ فضل مجھ سے کہیں چھن نہ جائے تو ہماری ترقی کی رفتار اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی گنا بڑھ سکتی ہے.ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے، ایک سوچنے کا مقام ہے کہ امانت ایمان کا حصہ ہے، اگر امانت کی صحیح ادائیگی نہیں کر رہے، اگر اپنے عہد پر صیح طرح کار بند نہیں ، جو حدود تمہارے لئے متعین کی گئی ہیں ان میں رہ کر خدمت انجام نہیں دے رہے تو اس حدیث کی رو سے ایسے شخص میں دین ہی نہیں اور دین کو درست کرنے کے لئے اپنی زبان کو درست کرنا ہوگا.اور فرمایا کہ زبان اس وقت تک درست نہ ہوگی جب تک دل درست نہ ہوگا.اور پھر ایک کڑی سے دوسری کڑی ملتی چلی جائے گی.تو حسین معاشرے کو قائم رکھنے کے لئے ان تمام امور کی درستی ضروری ہے.ایک بات اور واضح ہو کہ صرف منہ سے یہ کہہ دینے سے کہ میرا دل درست ہے، کافی نہیں.ہر وقت ہم میں سے ہر ایک کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ دلوں کا حال جانتا ہے.وہ ہماری پاتال تک سے واقف ہے.وہ سمیع و بصیر ہے اس لئے اپنے تمام قبلے درست کرنے پڑیں گے.تو خدمت دین کرنے کے مواقع بھی ملتے رہیں گے.تو یہ تقویٰ کے معیار قائم رہیں گے تو نظام جماعت بھی مضبوط ہوگا اور ہوتا چلا
8 سبیل الرشاد جلد چہارم جائے گا انشاء اللہ تعالیٰ.ایسے عہد یدار جو پورے تقویٰ کے ساتھ خدمت سر انجام دیتے ہیں اور دے رہے ہیں ان کے لئے ایک حدیث میں جو میں پڑھتا ہوں، ایک خوشخبری ہے.حضرت ابوموسی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ مسلمان جو مسلمانوں کے اموال کا نگران مقرر ہوا اگر وہ امین اور دیانتدار ہے اور جو اسے حکم دیا جاتا ہے اسے صحیح حیح نافذ کرتا ہے اور جسے کچھ دینے کا حکم دیا جاتا ہے اسے پوری بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ اس کا حق سمجھتے ہوئے دیتا ہے تو ایسا شخص بھی عملاً صدقہ دینے والے کی طرح صدقہ دینے والا شمار ہوگا.(مسلم کتاب الزكوة باب اجر الخازن الامين والمرأة....اپنے سے بالا عہدیدار کے متعلق بات کرنا فتنہ پیدا کرنے کے مترادف ہے.....اس میں بعض اوقات اچھے بھلے سلجھے ہوئے کارکن بھی شامل ہو جاتے ہیں اور ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں اور اس طرح غیر محسوس طور پر ایک کارکن دوسرے کارکن کے متعلق بات کر کے یا ایک عہدیدار دوسرے بالا عہد یدار کے متعلق بات کر کے یا اپنے سے کم عہدیدار کے متعلق بات کر کے، لوگوں کے لئے فتنے کا موجب بن رہا ہوتا ہے.کمزور طبیعت والے ایسی باتوں کا خواہ وہ چھوٹی باتیں ہی ہوں، بُرا اثر لیتے ہیں.اور ایسے کارکنوں کو بھی جو اپنے ساتھی عہدیداران کے متعلق باتیں کرنے کی عادت پڑ جائے تو منافق بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور نظام بھی متاثر ہوتا ہے.اس لئے تمام کارکنان اور عہدیداران کو جو ایسی باتیں خواہ مذاق کے رنگ میں ہوں کرتے ہیں ان کو اپنے عہدوں اور اپنے مقام کی وجہ سے ایسی باتیں کرنے سے پر ہیز کرنا چاہئے.اور ایسی مجلسوں میں بیٹھنے والوں کے لئے یہاں اجازت ہے.اب ویسے تو مجلس کی باتیں امانت ہیں با ہر نہیں نکلی چاہئیں لیکن اگر نظام کے خلاف باتیں ہورہی ہوں تو یہاں اجازت ہے کہ چاہے وہ اگر نظام کے متعلق ہے یا نظام کے کسی عہد یدار کے متعلق ہیں اور اس سے یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ اس میں کئی اعتراض کے پہلو ابھر سکتے ہیں ، نکل سکتے ہیں تو اس کو افسران بالا تک پہنچانا چاہئے.اور ایک حدیث میں اس کی اس طرح اجازت ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجالس کی گفتگو امانت ہے سوائے تین مجالس کے.ایسی مجلس جہاں ناحق خون بہانے والوں کے باہمی مشورہ کی مجلس ہو.پھر وہ مجلس جس میں بدکاری کا منصوبہ بنے.اور پھر وہ مجلس جس میں کسی کا مال ناحق دبانے کا منصوبہ بنایا جائے.تو جہاں ایسی سازشیں ہو رہی ہوں جس سے کسی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، ایسی باتیں سن کر متعلقہ لوگوں تک یا افسران تک پہنچانا یہ امانت ہے.ان کو نہ پہنچانا خیانت ہو جائے گی.تو نظام کے متعلق جو باتیں ہیں وہ بھی اسی زمرہ میں آتی ہیں کہ اگر کوئی نظام کے خلاف بات کر رہا ہو اور بالا افسران تک نہ پہنچا ئیں.پھر بعض دفعہ عہدیداران کے خلاف
9 سبیل الرشاد جلد چہارم شکایات پیدا ہوتی ہیں تو بعض اوقات یہ صرف غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں.یا بعض دفعہ کسی نے اپنے ذاتی بغض کی وجہ سے جو کسی عہدیدار کے ساتھ ہے اپنے ماحول میں بھی لوگ اس عہد یدار کے خلاف باتیں کر کے لوگوں کو اس کے خلاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ایسی صورت میں بھی آپ کو چاہئے کہ امانتیں ان کے صحیح حقداروں تک پہنچا ئیں.یعنی باتیں بالا افسران تک، عہد یدارن تک، نظام تک پہنچائیں.لیکن تب بھی یہ کوئی حق نہیں پہنچتا بہر حال کہ ادھر ادھر بیٹھ کر باتیں کی جائیں.بلکہ جس کے خلاف بات ہورہی ہے مناسب تو یہی ہے کہ اگر آپ کی اس عہدیدار تک پہنچ ہے تو اس تک بات پہنچائی جائے کہ تمہارے خلاف یہ باتیں سننے میں آرہی ہیں.اگر صحیح ہیں تو اصلاح کر لو اور اگر غلط ہے تو جو بھی صفائی کا طریقہ اختیار کرنا چاہتے ہو کرو.پھر کسی کی پیٹھ پیچھے باتیں کرنے والوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ باتیں صحیح ہیں یا غلط یہ غیبت یا جھوٹ کے زمرے میں آتی ہیں.اور غیبت کرنے والوں کو اس حدیث کو یا درکھنا چاہئے کہ اگلے جہان میں ان کے ناخن تانبے کے ہو جائیں گے جس سے وہ اپنے چہرے اور سینے کا گوشت نوچ رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں...." مومن وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور عہدوں کی رعایت رکھتے ہیں یعنی ادائے امانت اور ایفائے عہد کے بارہ میں کوئی دقیقہ تقویٰ اور احتیاط کا باقی نہیں چھوڑتے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کا نفس اور اس کے تمام قومی اور آنکھ کی بینائی اور کانوں کی شنوائی اور زبان کی گویائی اور ہاتھوں اور پیروں کی قوت یہ سب خدا تعالیٰ کی امانتیں ہیں جو اس نے ہمیں دی ہیں اور جس وقت چاہے اپنی امانت کو واپس لے سکتا ہے.پس ان تمام امانتوں کی رعایت رکھنا یہ ہے کہ باریک در بار یک تقوی کی پابندی سے خدا تعالیٰ کی خدمت میں نفس اور اس کے تمام قومی اور جسم اور اس کے تمام قومی اور جوارح سے لگایا جائے اس طرح پر کہ گویا یہ تمام چیزیں اس کی نہیں بلکہ خدا کی ہو جائیں.اور اُس کی مرضی اس کی نہیں بلکہ خدا کی مرضی کے موافق ان تمام قومی اور اعضاء کا حرکت اور سکون ہو.اور اس کا ارادہ کچھ بھی نہ رہے بلکہ خدا کا ارادہ اس میں کام کرے اور خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں اس کا نفس ایسا ہو جیسا کہ مردہ زندہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے.اور یہ خود رائی سے بے دخل ہو ( یعنی اپنا وجود ہی نہ ہو ) اور خدا تعالیٰ کا پورا تصرف اس کے وجود پر ہو جائے.یہاں تک کہ اُسی سے دیکھے اور اُسی سے سنے اور اُسی سے بولے اور اسی سے حرکت یا سکون کرے.اور نفس کی دقیق در دقیق آلائشیں جو کسی خوردبین سے بھی نظر نہیں آسکتیں دور ہو کر فقط روح رہ جائے.غرض مہیمنت خدا کی اس کا احاطہ کرلے.( یعنی انسان خدا تعالیٰ کے مکمل طور پر قبضہ میں ہو ).اور اپنے وجود سے اس کو کھوہ دے اور اس کی حکومت اپنے وجود پر کچھ نہ رہے اور سب حکومت خدا کی ہو جائے.اور انسانی جوش سب مفقود ہو جائیں.اور
10 سبیل الرشاد جلد چہارم تمام آرزوئیں اور تمام ارادے اور تمام خواہشیں خدا میں ہو جائیں.اور نفس امارہ کی تمام عمارتیں منہدم کر کے خاک میں ملا دی جائیں.اور ایک ایسا پاک محل تقدس اور تطہر کا دل میں تیار کیا جاوے جس میں حضرت عزت نازل ہو سکیں اور اس کی روح اس میں آباد ہو سکے.اس قدر تکمیل کے بعد کہا جائے گا کہ وہ امانتیں جو منعم حقیقی نے انسان کو دی تھیں وہ واپس کی گئیں تب ایسے شخص کو یہ آیت صادق آئے گی وَالَّذِيْنَ هُمْ لِامْنَتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُوْنَ"....پس یا درکھیں کہ امانت کی بہت بڑی اہمیت ہے.اور جتنے زیادہ عہد یداران جماعت اور.....میں جا کر امانت کے مطلب کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اتنے ہی زیادہ تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم ہوتے چلے جائیں گے.حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے اعلیٰ معیار قائم ہوں گے.نظام جماعت مضبوط ہوگا ، نظام خلافت مضبوط ہوگا.آپ کی نظام سے وابستگی قائم رہے گی.خلافت کے نظام کو مضبوط کرنے کے لئے خلیفہ وقت کی تو ہمیشہ یہی دعا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے متقیوں کا امام بنائے.تو پھر ان دعاؤں کے مورد، ان کے حامل تو وہی لوگ ہوں گے جو اپنی امانتوں کا پاس کرنے والے، اپنے عہدوں کا پاس کرنے والے، اپنے خدا سے وفا کرنے والے ہوتے ہیں اور تقویٰ پر قائم رہنے والے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد کو یہ معیار قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے" خطبات مسر در جلد 1 صفحہ 232-236) نظام جماعت اور عہدیداران کی اطاعت کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 22 اگست 2003ء میں فرمایا.ہمیشہ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ جو بھی صورت حال ہو ہمیشہ صبر کرنا ہے.یہ بھی ذہن میں رہے کہ صبر ہمیشہ حق تلفی کے احساس پر ہی انسان کو ہوتا ہے.اب یہاں احساس کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ اکثر جس کے خلاف فیصلہ ہو اس کو یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ غلط ہوا ہے اور میر احق بنتا تھا.تو یہ خیال دل سے نکال دیں.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نیچے سے لے کر اوپر تک سارا نظام جو ہے غلط فیصلے کرتا چلا جائے اور یہ بدظنی پھر خلیفہ وقت تک پہنچ جاتی ہے.اگر ہر احمدی کے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان رہے کہ بتايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأَوْلِى الأمْرِ مِنْكُمْ ، فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا ( النساء : (60) اس کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی.اور اگر تم کسی معاملہ میں (اولو الامر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے
سبیل الرشاد جلد چہارم 11 اللہ اور رسول کی طرف کو ٹا دیا کرو اگر (فی الحقیقت) تم اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان لانے والے ہو.یہ بہت بہتر ( طریق) ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے.تو سوائے اس کے کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے جہاں واضح شرعی احکامات کی خلاف ورزی کے لئے تمہیں کہا جائے، اللہ اور رسول کی اطاعت اس میں ہے کہ نظام جماعت کی ، عہد یداران کی اطاعت کرو، ان کے حکموں کو ، ان کے فیصلوں کو مانو.اگر یہ فیصلے غلط ہیں تو اللہ تمہیں صبر کا اجر دے گا.کیونکہ تم یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوتو اللہ پر معاملہ چھوڑ وہ تمہیں اختیار نہیں ہے کہ اپنے اختلاف پر ضد کرو.تمہارا کام صرف اطاعت ہے، اطاعت ہے،اطاعت ہے" خطبات مسرور جلد 1 صفحہ 260-261) عہد یداران بُرائی کی تشہیر نہ کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 22 اگست 2003ء میں فرمایا.ایک حدیث میں آتا ہے.حضرت عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سننا اور اطاعت کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے.خواہ وہ امر اس کو پسند ہو یا نا پسند.یہاں تک کہ اسے معصیت کا حکم دیا جائے.اور اگر معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اطاعت اور فرمانبرداری نہ کی جائے.( صحیح بخاری کتاب الاحکام باب اسمع والطاعة لا مام....) تو جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ سوائے اس کے کہ شریعت کے واضح احکام کی خلاف ورزی ہو.ہر حال میں اطاعت ضروری ہے اور اس حدیث میں بھی یہی ہے.یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تم گھر بیٹھے فیصلہ نہ کرلو کہ یہ حکم شریعت کے خلاف ہے اور یہ حکم نہیں.ہو سکتا ہے تم جس بات کو جس طرح سمجھ رہے ہو وہ اس طرح نہ ہو.کیونکہ الفاظ یہ ہیں کہ معصیت کا حکم دے، گناہ کا حکم دے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظام جماعت اتنا پختہ ہو چکا ہے کہ کوئی ایسا شخص عہدیدار بن ہی نہیں سکتا جو اس حد تک گر جائے اور ایسے احکام دے.تو بات صرف اس حکم کو سمجھنے ، اس کی تشریح کی رہ گئی.تو پہلے تو خود اس عہد یدار کو توجہ دلاؤ.اگر نہیں مانتا تو اس سے بالا جو عہدیدار ہے، افسر ہے، امیر ہے، اس تک پہنچاؤ.اور پھر خلیفہ وقت کو پہنچاؤ.لیکن اگر یہ تمہارے نزدیک برائی ہے تو پھر تمہیں یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ باہر اس کا ذکر کرتے پھرو.کیونکہ برائی کو تو وہیں روک دینے کا حکم ہے.اب تمہارا یہ فرض ہے کہ نظام بالا تک پہنچاؤ اور اس کے فیصلے کا انتظار کرو" (خطبات مسرور جلد 1 صفحہ 265 )
سبیل الرشاد جلد چہارم 12 ہمارے اجتماع کا مقصد، افراد جماعت کے دل آخرت کی طرف جھکنا اور ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف پیدا کرنا ہے سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ کیرالہ منعقدہ 6-7 ستمبر 2003ء کے موقع پر حضور کا پر معارف پیغام میرے پیارے بھائیو ! ( مجلس انصار اللہ کیرالہ ) السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ الحمد للہ کہ مجلس انصار اللہ کیرالہ اپنا 2 روزہ سالانہ اجتماع کروانے کی توفیق پارہی ہے.اللہ اس اجتماع کو بہت مبارک فرمائے اور تمام انصار بھائیوں کو جو اس اجتماع میں شرکت کے لئے سفر کر کے آرہے ہیں اپنی حفاظت میں رکھے اور اس اجتماع کے روحانی اور تربیتی پروگراموں سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشے.ہمارے جلسوں اور اجتماعات کا اصل مدعا اور مقصد یہ ہے کہ تمام افراد جماعت کے دل بکلی آخرت کی طرف جھک جائیں.اور ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہوا ور وہ زہد و تقویٰ اور پرہیز گاری میں دوسروں کے لئے نمونہ بن جائیں اور انتہائی انکسار اور تواضع اور استبازی ان میں پیدا ہو.دنیا کفر وضلالت اور مادہ پرستی میں گم ہو کر اپنے خالق حقیقی کو بھلا چکی ہے اور وہ لوگ جو بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں وہ درحقیقت اس وقت خدا سے دور جا پڑے ہیں.امانت اور دیانت نا پید ہو چکی ہے اور دل تقوی سے عاری ہیں.جھوٹ ، نخوت، تکبر اور خود پسندی نے انسانیت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے.اس دور میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کا قیام اس غرض سے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو اور وہ انسان جو خدا سے دور ہورہا ہے اسے پیار اور محبت سے سمجھا کر خدا کے قریب لایا جائے.اس سلسلہ میں ہم پر یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم خود اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق قائم کریں اور اس کے حقیقی عبد بن جائیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: نفسانی جذبات کو بکلی چھوڑ کر خدا کی رضا کے لئے وہ راہ اختیار کرو جو اس سے زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو.دنیا کی لذتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جدا کرتی ہیں اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کرو.درد جس سے وہ راضی ہو اس لذت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہو جائے اور وہ شکست جس سے خدا راضی ہو اس فتح سے بہتر ہے جو موجب غضب الہی ہو.اس محبت کو چھوڑ دوجو خدا کے غضب کے قریب کرے.......دیکھو میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ آدمی ہلاکت شدہ ہے جو دین کے ساتھ کچھ دنیا کی ملونی رکھتا ہے اور اس نفس سے جہنم بہت قریب ہے جس کے تمام ارادے خدا کے لئے نہیں ہیں......پس اگر تم
سبیل الرشاد جلد چہارم 13 دنیا کی ایک ذرہ بھی ملونی اپنے اغراض میں رکھتے ہو تو تمہاری تمام عبادتیں عبث ہیں" پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: (الوصیت صفحہ 9) " اپنے مولیٰ کی طرف منقطع ہو جاؤ اور دنیا سے دل برداشتہ رہو اور اسی کے ہو جاؤ اور اسی کے لئے زندگی بسر کرو......تم سچے دل سے اور پورے صدق اور سرگرمی کے قدم سے خدا کے دوست بنوتا وہ بھی تمہارا دوست بن جائے......تم سچ مچ اس کے ہو جاؤ تا وہ بھی تمہارا ہو جائے " (کشتی نوح صفحه 12 ) پس حضرت اقدس مسیح موعود کی ان نصائح کو حرز جان بنا ئیں اور خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے ہر وقت کوشاں رہیں.اپنی اولاد کے دلوں میں بھی خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے لئے جد و جہد کریں.ان کے لئے دعائیں بھی کریں اور ان کے سامنے اپنا نیک نمونہ بھی پیش کریں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو نیک مقاصد میں کامیاب وکامران فرمائے.والسلام خاکسار (دستخط) مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ہفت روزہ بدر قادیان 16 دسمبر 2003ء) کسی کی مدد کرتے ہوئے عزت نفس کا خیال رکھیں.ذیلی تنظیمیں توجہ کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ 12 ستمبر 2003ء میں بنی نوع انسان کی ہمدردی رضائے الہی کا ذریعہ ہے پر خطبہ ارشاد فرمایا.جس میں حضور نے ذیلی تنظیموں کو مخاطب ہو کر فرمایا.اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ ذہن میں رکھتے ہیں کہ اللہ کی خاطر وہی دو جس کو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو.یہ نہیں کہ جس طرح بعض لوگ اپنے کسی ضرورتمند بھائی کی مدد کرتے ہیں تو احسان جتا کے کر رہے ہوتے ہیں.بلکہ بعض تو ایسی عجیب فطرت کے ہیں کہ تحفے بھی اگر دیتے ہیں تو اپنی استعمال شدہ چیزوں میں سے دیتے ہیں یا پہنے ہوئے کپڑوں کے دیتے ہیں.تو ایسے لوگوں کو اپنے بھائیوں، بہنوں کی عزت کا خیال رکھنا چاہئے.بہتر ہے کہ اگر توفیق نہیں ہے تو تحفہ نہ دیں یا یہ بتا کر دیں کہ یہ میری استعمال شدہ چیز ہے اگر پسند کرو تو دوں.پھر بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ہم غریب بچیوں کی شادیوں کے لئے اچھے کپڑے دینا چاہتے ہیں جو
14 سبیل الرشاد جلد چہارم ہم نے ایک آدھ دن پہنے ہوئے ہیں.اور پھر چھوٹے ہو گئے یا کسی وجہ سے استعمال نہیں کر سکے.تو اس کے بارہ میں واضح ہو کہ چاہے ایسی چیزیں ذیلی تنظیموں، لجنہ وغیرہ کے ذریعہ یا خدام الاحمدیہ کے ذریعہ ہی دی جا رہی ہوں یا انفردی طور پر دی جارہی ہوں تو ان ذیلی تنظیموں کو بھی یہی کہا جاتا ہے کہ اگر ایسے لوگ چیزیں دیں تو غریبوں کی عزت کا خیال رکھیں اور اس طرح ، اس شکل میں دیں کہ اگر وہ چیز دینے کے قابل ہے تو دی جائے.یہ نہیں کہ ایسی اُترن جو بالکل ہی نا قابل استعمال ہو وہ دی جائے.داغ لگے ہوں، پسینے کی بو آرہی ہو کپڑوں میں سے.تو غریب کی بھی ایک عزت ہے اس کا بھی خیال رکھنا چاہئے.اور ایسے کپڑے اگر دئے جائیں تو صاف کروا کر ، دھلا کر، ٹھیک کروا کر ، پھر دئے جائیں.اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہماری ذیلی تنظیمیں بھی، لجنہ وغیرہ بھی دیتی ہیں کپڑے تو جن لوگوں کو یہ چیزیں دینی ہوں ان پر یہ واضح کیا جانا چاہتے کہ یہ استعمال شدہ چیزیں ہیں تا کہ جو لے اپنی خوشی سے لے.ہر ایک کی عزت نفس ہے میں نے جیسے پہلے بھی عرض کیا ہے اس کا بہت خیال رکھنے کی ضرورت ہے اور بہت خیال رکھنا چاہئے " خطبات مسرور جلد 1 صفحہ 310-311) بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ ہمیشہ جماعت اور خلافت سے وابستہ رہیں ،اب خلافت سے وابستگی میں ہی آپ کی زندگی اور بقا ہے.جب تک ہم قرآن پڑھ کر سمجھ کر اس کی تعلیم کو اپنے اور اپنی نسلوں پر لاگو نہیں کریں گے، ہمارے مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.خلافت خامسہ کے مبارک دور میں مجلس انصار اللہ برطانیہ کا پہلا سالانہ اجتماع 12-13-14 ستمبر 2003ء کو بیت الفتوح میں منعقد ہوا.جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 14 ستمبر کو اختتامی خطاب فرمایا.جس کا خلاصہ مکرم محمود احمد ملک صاحب نے تیار کیا.انصار اللہ کی تنظیم کا قیام اور اس کے مقاصد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت مصلح موعود جن کو اپنے بچپن سے ہی اور جوانی میں ہی ہر وقت فکر دامن گیر رہتی تھی کہ کس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعثت کے مقصد کو پورا کیا جائے اور آپ کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچایا جائے.اور خلیفہ منتخب ہونے سے پہلے ہی آپ اس بارہ میں بہت سوچا کرتے تھے اور دعائیں کیا کرتے تھے.چنانچہ فروری 1911ء میں آپ کو کو عالم رؤیا میں دکھایا گیا کہ ایک بڑے محل کا ایک حصہ گرایا جارہا ہے.ساتھ ہی ایک میدان میں ہزاروں پتھیر ے اینٹیں
سبیل الرشاد جلد چہارم 15 پات رہے ہیں.آپ کو بتایا گیا یہ عمل جماعت احمد یہ ہے اور تھیرے فرشتے ہیں اور محل کا ایک حصہ گرایا جارہا ہے تا کہ بعض پرانی اینٹیں خارج کر کے بعض کچی اینٹیں پکی کی جائیں اور نئی اینٹوں سے محل کی توسیع کی جائے.نیز معلوم ہوا کہ جماعت کی ترقی کی فکر ہم کو بہت کم ہے اور فرشتے ہی اللہ تعالیٰ سے علم پا کر یہ کام کر رہے ہیں.اس خواب کی بناء پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے خلافت سے پہلے ہی ایک انجمن بنانے کا فیصلہ کیا تا کہ اس کے ذریعے سے احمدیوں کے دلوں میں ایمان کو پختہ کیا جائے اور فریضہ تبلیغ کو با اصل وجوہ ادا کیا جائے.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب نے نہ صرف خود استخارہ کیا بلکہ کئی اور بزرگوں سے استخارہ کروایا اور کئی ایک دوستوں کو اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارات ہوئیں تب آپ نے حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کی اجازت سے (وہ دور حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کا دور تھا ) ایک انجمن انصاراللہ کی بنیاد ڈالی اور اخبار بدر میں مفصل اعلان کروایا.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل نے ، جو ان دنوں میں بیمار تھے، بیماری کے باوجود آخر تک اس مضمون کا مطالعہ کیا اور حضرت صاحبزادہ صاحب سے فرمایا کہ میں بھی آپ کے انصار اللہ میں شامل ہوتا ہوں کیونکہ یہ پاک دل سے اُٹھی ہوئی ایک پاک تمنا تھی اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الاول نے بھی اس کام کو سراہا اور ظاہر ہے اس لئے بھی اس کی قدر کی کیونکہ جیسا کہ بعض اور حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے آپ کے علم میں تھا کہ آئندہ جماعت کی باگ ڈور اس شخص کے ہاتھ میں آنی ہے اور اس لئے بھی حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل کی تو ہر وقت یہی خواہش ہوتی تھی اور کوشش ہوتی تھی کہ کون اسلام کی خدمت کے لئے آگے آئے اور میں اس کا ساتھ دوں ، اپنے آپ کو اس انصار اللہ کی تنظیم میں شامل فرمایا.اس زمانہ میں اس تنظیم نے جس کی ممبر شپ اتنی وسیع نہیں تھی جو کام کئے وہ تو کئے لیکن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی نے اپنے دور خلافت میں اس رؤیا کے تقریباً 30 سال بعد وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے 40 سال سے اوپر کی عمر کے ممبران جماعت کے سامنے کچھ مقاصد پیش کئے جو کہ قومی ترقی کے لئے نسلوں کی تربیت کے لئے ، انتہائی ضروری تھے.ایک تنظیم کا قیام فرمایا اور اس کا نام انصار اللہ رکھا.انصار اللہ کو پانچ با توں کی طرف توجہ دینے کی ہدایت اس سے پہلے خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں آچکا تھا.اور جو خطبہ ارشادفرمایا اس میں جن کاموں کی طرف جماعت کو توجہ دلائی وہ پانچ کام ہیں جن کو ہر فرد جماعت کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور عمر کے لحاظ سے سب سے زیادہ انصار اللہ کواس پر توجہ دینی چاہیے اور وہ کام یہ ہیں: اس تبلیغ کرنا.۲.قرآن پڑھنا ۳.شرائع کی حکمتیں بیان کرنا.۴.اچھی تربیت کرنا.۵.قوم کی دنیاوی کمزوریوں کو دور کر کے اُسے ترقی کے میدان میں بڑھانا.آپ نے اس بات پر بڑا زور دیا کہ اگر یہ پانچ باتیں آپ میں پیدا ہوگئیں تو انشاء اللہ تعالیٰ ہماری
سبیل الرشاد جلد چہارم 16 ترقی کی رفتار کئی گنا بڑھ جائے گی.آپ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ آخرین کا بھی یہی کام ہے جو صحابہ نے کیا اور صحابہ کے یہی پانچ اہم کام تھے، اور یہی ہم نے کرنے ہیں.تبلیغ ہماری ذمہ داری ہے.پیغام حق پہنچانا ضروری ہے.اور اسلام اور احمدیت کا پیغام ہم نے بہر حال ہر صورت میں دنیا تک پہنچانا ہے اور اس کے لئے ہر طرح کی کوشش کرنی ہے.انصار کی عمر ایک ایسی عمر ہے جس میں تبلیغ میں بہت ساری سہولتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور اُس کی وجوہات ہیں.طبیعت میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے، اس عمر میں جذبات پر کنٹرول بھی عموماً پیدا ہو جاتا ہے.خیالات بھی میچور (Mature) ہو چکے ہوتے ہیں.پھر علم اور تجربہ بھی اس حد تک ہو جاتا ہے جس سے وہ خود بھی فائدہ اُٹھا سکتا ہے.اور نو جوانوں کو بھی تبلیغ کے طریقے سکھا سکتا ہے.تو اس لحاظ سے سب سے زیادہ انصار اللہ کو دعوت الی اللہ کے میدان میں سرگرم ہونا چاہئے.پھر قرآن پڑھنا ہے.اس میں بھی انصار کو خود بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے اور اپنے بچوں کو بھی توجہ دلانی چاہئے کیونکہ جب تک ہم قرآن پڑھ کر سمجھ کر اس کی تعلیم کو اپنے پر اور اپنی نسلوں پر لاگو نہیں کریں گے ہمارے مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.پھر شرائع کی حکمتیں بیان کرنا ہے جو احکامات ہیں اُن کو آگے بیان کرنا اس کے لئے بھی علم حاصل کرنا ضروری ہے.انصار کی عمر میں اپنی تربیت تو مشکل ہے.بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں پھر تربیت ہے.انصار اللہ کی عمر تو ایک ایسی عمر ہے جس میں آپ تربیت کر تو سکتے ہیں لیکن آپ کی تربیت کرنی مشکل ہے.تو اس کے لئے بڑا آسان اصول ہے کہ آپ کے ذمہ جو فرض لگایا گیا ہے تربیت کرنے کا، اس کو پورا کریں، بچوں اور نو جوانوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں.اپنی بھی تربیت ساتھ ساتھ ہوتی جائے گی.پھر قوم کی دنیوی کمزوریوں کو دور کرنا ہے.اس طرف بھی اگر سب توجہ دیں گے تو اقتصادی لحاظ سے بھی اپنے آپ کو مضبوط بنائیں گے، جماعتی لحاظ سے بھی اور قومی لحاظ سے بھی.تو مرکزی سطح پر بھی اور مقامی سطح پر بھی، ہر ذیلی تنظیم کی (انصار اللہ کی بھی ) شوری ہوتی ہے، وہاں اس کے لئے تجاویز دیں.اپنے تجربہ سے دوسروں کو فائدہ پہنچائیں کیونکہ اقتصادی لحاظ سے مضبوط ہونا بھی آج کل کے زمانہ میں انتہائی ضروری ہے تا کہ پھر بے فکر ہو کر دین کی خدمت کر سکیں یا دین کی خدمت کرنے والوں کی ضروریات کا خیال رکھ سکیں.تو یہ ساری باتیں ایسی ہیں جن پر انصار اللہ کو بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.جب آپ اس لحاظ سے سوچیں گے تو پھر ہی آپ اللہ کے دین کے انصار بن سکتے ہیں اور اس آیت کے مصداق ٹھہریں گے کہ " اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کے انصار بن جاؤ جیسا کہ عیسی ابن مریم نے حواریوں نے کہا تھا کہ کون ہیں جو اللہ کی طرف راہنمائی کرنے میں میرے انصار ہوں.حواریوں نے کہا ہم
سبیل الرشاد جلد چہارم 17 اللہ کے انصار ہیں پس بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لے آیا اور ایک گروہ نے انکار کر دیا پس ہم نے اُن لوگوں کی جو ایمان لائے اُن کے دشمنوں کے خلاف مدد کی تو وہ غالب آگئے." (الصف: 15) تو جب مسیح محمدی کو مان کر ، اس پر ایمان لا کر ہم انصار اللہ میں شامل ہو چکے ہیں تو پھر اس تعلیم پر بھی عمل کرنا ہوگا.اور اُن باتوں کو بھی ماننا ہو گا جن کا تقاضا اور مطالبہ ہم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق دشمنوں پر ہمیں جلد غلبہ عطا ہو.حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں کہ "تمام کامیابی ہماری معاشرت اور آخرت کے تعاون پر ہی موقوف ہو رہی ہے.کیا کوئی اکیلا انسان کسی کام دین یا دنیا کو انجام دے سکتا ہے، ہر گز نہیں.کوئی کام دینی ہو یا د نیوی بغیر معاونت با ہمی کے چل ہی نہیں سکتا.ہر ایک گروہ کہ جس کامدعا اور مقصد ایک ہی مثل اعضائے یک دیگر ہے اور ممکن نہیں.جو کوئی فعل جو متعلق غرض مشترک اس گروہ کے ہے بغیر معاونت با ہمی ان کی کے بخوبی و خوش اسلوبی ہو سکے.بالخصوص جس قدر جلیل القدر کام ہیں اور جن کی علت غائی کوئی فائدہ عظیمہ جمہوری ہے وہ تو بجز جمہوری اعانت کے کسی طور پر انجام پذیر ہی نہیں ہو سکتے اور صرف ایک ہی شخص ان کا متحمل ہرگز نہیں ہو سکتا اور نہ کبھی ہوا.انبیاء علیہم السلام جو تو کل اور تفویض اور تحمل اور مجاہدات افعال خیر میں سب سے بڑھ کر ہیں ان کو بھی بہ رعایت اسباب ظاہری مَنْ أَنْصَارِي إِلَی اللہ کہنا پڑا.خدا نے بھی اپنے قانون تشریعی میں یہ تصدیق اپنے قانون قدرت کے تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوى كا حکم فرمایا " تبلیغ رسالت، مجموعه اشتہارات.جلد اوّل صفحہ ۶۲) تو اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام واضح طور پر فرمارہے ہیں کہ ہماری تمام کامیابیاں چاہے وہ دنیا وی ہوں یا دینی ہوں بغیر آپس کے تعاون کے حاصل نہیں ہوسکتیں کیونکہ اکیلا انسان سارے کام نہیں کر سکتا.اس لئے تمام وہ لوگ جو ایک مقصد کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں، ایک گروہ کی شکل میں ہیں، ایک جماعت ہیں ایک ہو کر آپس کے تعاون سے کام کریں گے تو تمام امور خوش اسلوبی سے طے پائیں گے اور کامیابیاں تمہارے قدم چومیں گی.کیونکہ جس قدر بڑا کام ہو، جتنا بڑا مقصد ہو اس کے نتائج تم بغیر ا کٹھے ہوئے ، بغیر ایک ٹیم ورک کے اور ایک دوسرے کی مدد کے حاصل ہی نہیں کر سکتے.فرمایا کہ یہاں تک کہ انبیاء بھی جن میں برداشت بھی ہوتی اور انہوں نے مجاہدات بھی کئے ہوتے ہیں ان کا تو کل اللہ تعالیٰ کی ذات پر بہت بڑھا ہوا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ خود اُن کو اس کام کے لئے مامور کر رہا ہوتا مقرر فرمارہا ہوتا ہے پھر بھی ان کو ظاہری اسباب کی ضرورت ہوتی ہے.تو اس لئے ان کو کہنا پڑتا ہے کہ کون اللہ تعالیٰ کی طرف دیئے گئے ان کاموں میں میرے مددگار ہوں گے اور اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قانون شریعت میں قانون قدرت کے
سبیل الرشاد جلد چهارم 18 مطابق ہی نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کا حکم فرمایا ہے.پھر آپ نصیحت فرماتے ہیں جسے خاص طور پر انصار کی عمر کے لوگوں کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ کیونکہ زندگی کا ایک بڑا حصہ گزر چکا ہے اس لئے اب بہت زیادہ فکر کی ضرورت ہے، کوئی پتہ نہیں کس وقت بلا وا آ جائے.آپ فرماتے ہیں ایک ذرہ بدی کا بھی قابلِ پاداش ہے.اگر چھوٹی سے چھوٹی بدی بھی تم کرتے ہو تو اُس کی بھی سزا اُس پر مل سکتی ہے.وقت تھوڑا ہے اور کار عمل نا پیدا.بہت تھوڑ اوقت رہ گیا ہے اور کوئی پتہ نہیں عمر کتنی ہے اور کیا کام کرنے ہیں.تیز قدم اٹھاؤ کہ شام نزدیک ہے جو کچھ پیش کرنا ہے وہ بار بار دیکھ لو ایسا نہ ہو کہ کچھ رہ جائے اور زیاں کاری کا موجب ہو.یا سب گندی اور کھوٹی متاع ہو جو شاہی دربار میں پیش کرنے کے لائق نہ ہو یعنی سب کچھ ضائع نہ ہو جائے اور یہ جو تم پیش کر رہے ہو جو ہمارے اعمال ہیں یہ ایسے نہ ہوں کہ وہ اس قابل ہی نہ ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں پیش کئے جاسکیں.بندہ اور خدا کا درست تعلق انصار اللہ کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے حضرت مصلح موعودؓ جنہوں نے یہ تنظیم قائم فرمائی ، فرماتے ہیں کہ انصار اللہ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے.وہ اپنی عمر کے آخری حصے میں سے گزر رہے ہیں اور یہ آخری حصہ وہ ہوتا ہے جب انسان دنیا کو چھوڑ کر اگلے جہان جانے کی فکر میں ہوتا ہے اور جب کوئی انسان اگلے جہان جار ہا ہو تو اسے اس وقت اپنے حساب کی صفائی کا بہت زیادہ خیال ہوتا ہے اور وہ ڈرتا ہے کہ کہیں وہ ایسی حالت میں اس دنیا سے کوچ نہ کر جائے کہ اس کا حساب گندا ہو، اس کے اعمال خراب ہوں اور اس کے پاس وہ زادِراہ نہ ہو جو اگلے جہان میں کام آنے والا ہے.جب احمدیت کی غرض یہی ہے کہ بندہ اور خدا کا تعلق درست ہو جائے تو ایسی عمر میں اور عمر کے ایک ایسے حصہ میں اس کا جس قدر احساس ایک مومن کو ہونا چاہئے وہ کسی شخص سے مخفی نہیں ہوسکتا.پھر انصار کواُن کے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ آپکا نام انصار اللہ اسلئے رکھا گیا ہے کہ جہاں تک ہو سکے آپ دین کی خدمت کی طرف توجہ کریں.اور یہ تو مالی لحاظ سے بھی ہوتی ہے اور دینی لحاظ سے بھی ہوتی ہے.دینی لحاظ سے بھی آپ لوگوں کا فرض ہے کہ عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں.اور دین کا چر چا زیادہ سے زیادہ کریں.تا کہ آپ کو دیکھ کر آپکی اولادوں میں بھی نیکی پیدا ہو جائے.دین کا چرچا یہی ہے کہ تبلیغ کی طرف زیادہ توجہ دیں.حضرت ابراہیم کی قرآن کریم میں یہی خوبی بیان کی گئی ہے کہ آپ اپنے اہل و عیال کو ہمیشہ نماز وغیرہ کی تلقین کرتے رہتے تھے.یہی اصل خدمت آپ لوگوں کی ہے.آپ خود بھی نماز اور ذکر الہی کی طرف توجہ کریں اور اپنی اولادوں کو بھی نماز اور ذکر الہی کی طرف توجہ دلاتے رہیں.جب تک جماعت میں یہ روح پیدار ہے اور لوگوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فرشتوں کا تعلق قائم رہے اور اپنے اپنے درجہ کے مطابق کلامِ الہی ان پر نازل ہوتار ہے اسی وقت تک جماعت زندہ رہتی ہے
19 سبیل الرشاد جلد چہارم کیونکہ اس میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی آواز سُن کر اُسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور جب یہ چیز مٹ جاتی ہے اور لوگ خدا تعالیٰ سے بے تعلق ہو جاتے ہیں تو اس وقت قو میں بھی مرنے لگ جاتی ہیں.پس آپ لوگوں کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور اپنی اولادوں کو بھی ذکر الہی کی تلقین کرتے رہنا چاہیے.پھر تہجد اور ذکر الہی اور مساجد کی آبادی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کی دماغی نمائندگی انصار اللہ کرتے ہیں.جب کسی قوم کے دماغ اور دل اور ہاتھ ٹھیک ہوں تو وہ قوم بھی ٹھیک ہو جاتی ہے.پس میں پہلے تو انصار کو یہ توجہ دلاتا ہوں ان میں سے وہ ہیں جو صحابی ہیں یا کسی صحابی کے بیٹے ہیں ( اور اسوقت یہاں کافی صحابہ کی اولاد میں سے بھی ہیں ) یا کسی صحابی کے شاگرد ہیں.اس لئے جماعت میں نمازوں، دعاؤں اور تعلق باللہ کو قائم رکھنا اُن کا کام ہے.اُن کو تہجد ، ذکر الہی اور مساجد کی آبادی میں اتنا حصہ لینا چاہیے کہ نوجوان اُن کو دیکھ کر خود ہی ان باتوں کی طرف مائل ہو جائیں.اصل میں تو جوانی کی عمر ہی وہ زمانہ ہے جس میں تہجد، دعا اور ذکر الہی کی طاقت بھی ہوتی ہے اور مزہ بھی آتا ہے.لیکن عام جوانی کے زمانے میں موت اور عاقبت کا خیال کم ہوتا ہے اس وجہ سے نوجوان غافل ہو جاتے ہیں لیکن نو جوانی میں اگر کسی کو یہ توفیق مل جائے تو وہ بہت ہی مبارک وجود ہوتا ہے.پس ایک طرف تو میں انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے نمونے سے اپنے بچوں اپنے ہمسایوں کے بچوں اور اپنے دوستوں کے بچوں کو زندہ کریں اور دوسری طرف میں خدام الاحمدیہ کو وجہ دلاتا ہوں کہ وہ اتنا اعلیٰ نمونہ دکھائیں کہ نسلاً بعد نسل اسلام کی روح زندہ رہے.پس آپ نے نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کہہ کر اللہ تعالیٰ سے جو عہد باندھا ہے اس کو پورا کرنے کے لئے اپنی تمام استعدادوں کو بروئے کارلائیں.جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ تعلق باللہ کو بڑھائیں.دعاؤں اور نمازوں کی طرف زیادہ توجہ دیں.تہجد میں بھی باقاعدگی اختیار کریں.اپنی راتوں کو زندہ کریں.اپنے بچوں اپنے احمدی ماحول کے بچوں کی تربیت کی فکر اپنے اندر پیدا کریں.بعض والدین بڑی پریشانی اور فکر کے ساتھ اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمارے بچے جوانی کو پہنچ کر ہمارے ہاتھوں سے نکل رہے ہیں یا نکل گئے ہیں تو بہر حال جو وقت ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا اور ہماری اولاد میں سے اگر کوئی بے دینی کی طرف چل پڑا ہے تو پیار سے محبت سے اُسے واپس لانے کی کوشش کریں.اور دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے اس کو ضائع ہونے سے بچائیں.گو ایسی ایک آدھ مثال ہی ملتی ہے لیکن ہم اپنا ایک بھی بچہ کیوں ضائع ہونے دیں.بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ ہمیشہ جماعت اور خلافت سے وابستہ رہیں.کیونکہ اب خلافت کی وابستگی کے ساتھ ہی آپکی زندگی اور بقا ہے ویسے بھی اپنی اولاد کے راعی ہیں آپ لوگ.اور ہر راعی سے پوچھا جائے گا اس کی رعایا کے بارہ میں.
20 سبیل الرشاد جلد چہارم پھر حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں یاد رکھو تمہارا نام انصار اللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار.گویا تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے.اور اللہ تعالیٰ از لی اور ابدی ہے اس لئے تم کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ابدیت کے مظہر ہو جاؤ.تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کیلئے قائم رکھتے چلے جاؤ اور کوشش کرو یہ کام نسلاً بعد نسل چلتا چلا جاوے اور اس کے دو ذریعے ہو سکتے ہیں ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی جائے اور اس میں خلافت کی محبت قائم کی جائے اور اگر تم حقیقی انصار اللہ بن جاؤ اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرلو تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی طور پر رہے گی.خلافت کے ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھو فرمایا کہ آپ نے انصار کا نام قبول کیا ہے تو صحابہ جیسی محبت بھی پیدا کریں.آپ کے نام کی نسبت خدا تعالیٰ سے ہے اور خدا تعالیٰ ہمیشہ رہنے والا ہے.اس لئے تمہیں بھی چاہیے کہ خلافت کے ساتھ ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھو.اور ہمیشہ دین کی خدمت میں لگے رہو.کیونکہ اگر خلافت قائم رہے گی تو اس کو انصار کی بھی ضرورت ہوگی ، خدام کی بھی ضرورت ہوگی اور اطفال کی بھی ضرورت ہو گی.ورنہ اکیلا آدمی کوئی کام نہیں کر سکتا.اکیلا نبی بھی کوئی کام نہیں کر سکتا.دیکھو حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حواری دیئے ہوئے تھے اور رسول کریم کو بھی اللہ تعالیٰ نے صحابہ کی جماعت دی تھی.اسی طرح اگر خلافت قائم رہے گی تو ضروری ہے کہ اطفال الاحمدیہ، خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ بھی قائم رہیں.اور جب یہ ساری تنظیمیں قائم رہیں گی تو خلافت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم رہے گی انشاء اللہ.پھر آپ نے فرمایا کہ انصار اللہ خصوصیت کے ساتھ اپنے کام کی نگرانی کریں تا کہ ہر جگہ اور ہر مقام پر ان کا کام نمایاں ہو کر لوگوں کے سامنے آجائے اور محسوس کرنے لگ جائیں کہ یہ ایک زندہ اور کام کرنے والی جماعت ہے.مگر میں سمجھتا ہوں جب تک انصار اللہ اپنی ترقی کے لئے صحیح طریق اختیار نہیں کریں گے اس وقت تک انہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی.میں سمجھتا ہوں بڑی عمر کے لوگوں کو ضرور یہ احساس اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے کہ وہ شباب کی عمر میں سے گزر کر اب ایسے حصہ عمر میں گزر رہے ہیں جس میں دماغ تو سوچنے کے لئے موجود ہوتا ہے مگر زیادہ عمر گزرنے کے بعد ہاتھ پاؤں محنت ، مشقت اور کام کرنے کے قابل نہیں رہتے.اس کی وجہ سے اُن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے کاموں کے سرانجام دینے کے لئے کچھ نو جوان سیکر یٹری 40 سال کے اوپر کے مگر زیادہ عمر کے نہ ہوں، مقرر کر لیں جن کے ہاتھ پاؤں میں طاقت ہو اور وہ دوڑنے ، بھاگنے کا کام آسانی سے کر سکیں.تاکہ ان کاموں میں سستی اور غفلت کے آثار پیدا نہ ہوں.آپ نے اس وقت فرمایا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر 40 سال سے 55 سال کی عمر تک کے لوگوں پر نظر دوڑاتے تو ضرور اس عمر کے لوگوں میں ایسے لوگ مل جاتے جن کے ہاتھ پاؤں بھی ویسے ہی چلتے ہیں جیسے
سبیل الرشاد جلد چہارم 21 اُن کے دماغ چلتے ہیں.اسی لئے حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے 40 سال سے 55 سال تک کے لئے بعد میں انصار اللہ کی صف دوم کا قیام فرمایا اور اس کے لئے ایک نائب صدر بھی علیحدہ ہوتا ہے تو جو بڑی عمر سے ہیں ان لوگوں کو چاہئے کہ جو 40 سال سے 55 سال کی عمر تک کے ہیں کہ بڑوں سے تجربہ حاصل کریں.اور بڑوں کو چاہئے کہ اپنے تجربے سے اس عمر کے انصار کو تربیت دیں اور اُن کو راہنمائی کریں اور برداشت کرنے کا بھی مادہ پیدا کریں.یہ نہیں کہ ہم بڑے ہیں تو اس لئے ہمارے پاس ہی سارے عہدے ہونے چاہئیں.آپ فرماتے ہیں کہ یہ ایک الہی قدرت کا کرشمہ ہے کہ ایک زمانہ انسان پر ایسا آتا ہے جب اس کے جسمانی قوی تو نشو و نما پاتے ہیں مگر اس کے دماغی قولی ابھی پردہ میں ہوتے ہیں.یہ نہیں کہتا کہ ان میں انحطاط واقع ہو جاتا ہے اُن میں گراوٹ آنی شروع ہو جاتی ہے اُن میں کمی شروع ہو جاتی ہے.انحطاط نہیں بلکہ قومی دماغیہ ایک پردے کے اندر رہتے ہیں اور یہ زمانہ وہ ہوتا ہے جو 25 سال سے 40 تک کی عمر کا ہے.لیکن پھر اس کے بعد ایک زمانہ ایسا آتا ہے جو جسم میں نشو نما اور ارتقاء کی طاقت تو نہیں رہتی مگر جو اسے کمال حاصل ہو چکا ہوتا ہے وہ قائم رہتا ہے.یہی وہ زمانہ ہے جس میں خدا تعالیٰ عام طور پر نبیوں کو اصلاح خلق کے لئے کھڑا کیا کرتا ہے گویا یہ زمانہ بَلَغَ أَشُدَّہ کا زمانہ ہوتا ہے، طاقتیں اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہیں.پس جب میں نے انصار اللہ میں شمولیت کے لئے 40 سال سے اوپر کی شرط رکھی تو اس کے معنے یہ تھے کہ کام کرنے کا بہترین زمانہ انہیں حاصل تھا.تمام عمر کے انصار سے انصار اللہ تنظیم کام لے بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے ہم انصار کی عمر کو پہنچ گئے ہیں اس لئے اب ہم کچھ نہیں کر سکتے.فرمایا کہ بشرطیکہ اس عمر والوں سے فائدہ اٹھایا جاتا مگر مجھے افسوس ہے کہ انہوں نے اس حکمت کو نہ سمجھا اور کام اُنہی لوگوں کے سپر د رکھا جو زیادہ عمر کے ہیں.حالانکہ اگر سارے کے سارے کام اُن لوگوں کے سپرد کر دئے جائیں جو 60 سال سے اوپر یا 70 سال کے قریب ہوں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگوں کے پاس دماغ تو ہوگا مگر کیونکہ کام کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں نہیں ہوں گے اس لئے وہ کام خراب ہو جائے گا.مفید نتائج کا حصول نہیں ہوگا.لیکن الحمد للہ جب سے صف دوم قائم ہوئی ہے، ہر طرح کے انصار اپنے کاموں میں شامل ہوتے ہیں تو عاملہ کے ممبران کے علاوہ بھی جو دوسرے انصار میں مجلس عاملہ کو اور انصار اللہ کی تنظیم کو کوشش کرنی چاہئے کہ اُن کو بھی زیادہ سے زیادہ اپنے پروگراموں میں شامل کریں اور ایسے لوگ جو ایک عمر کے بعد مایوس ہونا شروع ہو جاتے ہیں اُن کو مایوسی سے نکالیں.اُن کی مایوسی دور کریں.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے کہا صف دوم کی وجہ سے نئی قوت اور ہمت پیدا ہو چکی ہے انصار اللہ میں.اب انصار اللہ کا وہ تصور نہیں ہے کہ 40 سال سے اوپر نکلے اور جو بھی کام کرتے تھے پہلے، وہ اب ختم ہو جائیں اور آج کی کھیلوں میں آپ نے
سبیل الرشاد جلد چہارم 22 اندازہ لگا لیا کہ نوجوانوں کے نوجوانوں نے ، خدام الاحمدیہ کو بھی ہرا دیا رسہ کشی میں.تو الحمد للہ جہاں یہ خوشی ہے انصار اللہ کے لئے وہاں خدام الاحمدیہ کے لئے فکر کا مقام بھی ہے کہ بوڑھے اُن سے آگے نکل گئے ہیں.ان کاموں میں تو کم از کم ان کو آگے نکلنا چاہیے.بس یہ چند گزارشات تھیں اس پر ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سب کو ہمت سے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے تبلیغ کے کام کو بھی ، تربیت کے کام کو بھی اور عبادت کو بھی حقیقی رنگ میں بجالانے کی توفیق عطا فرمائے.(ماہنامہ اخبار احمد یہ برطانیہ جنوری، فروری، مارچ 2014ء) ذیلی تنظیموں کا قیام حضرت مصلح موعودؓ کا جماعت پر بہت بڑا احسان ہے حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ مورخہ 5 دسمبر 2003ء میں جماعتی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیداران کو گرانقدر نصائح سے نوازتے ہوئے فرمایا.ابتدائی ذیلی تنظیمیں بچوں اور نو جوانوں کو اطاعت سکھلاتی ہیں " جماعت احمدیہ کا نظام ایک ایسا نظام ہے جو بچپن سے لے کر مرنے تک ہر احمدی کو ایک پیار اور محبت کی لڑی میں پرو کر رکھتا ہے.بچہ جب سات سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اسے ایک نظام کے ساتھ وابستہ کر دیا جاتا ہے اور وہ مجلس اطفال الاحد یہ کا ممبر بن جاتا ہے.ایک بچی جب سات سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو وہ ناصرات الاحمدیہ کی رکن بن جاتی ہے جہاں انہیں ایک ٹیم ورک کے تحت کام کرنے کی تربیت دی جاتی ہے.پھر انہی میں سے ان کے سائق بنا کر اپنے عہدیدار کی اطاعت کا تصور پیدا کیا جاتا ہے.پھر پندرہ سال کی عمر کو جب پہنچ جائیں تو بچے خدام الاحمدیہ کی تنظیم میں اور بچیاں لجنہ اماءاللہ کی تنظیم میں شامل ہو جاتی ہیں اور ایک انتظامی ڈھانچے کے تحت بچپن سے تربیت حاصل کر کے اوپر آنے والے بچے اور بچیاں ہیں جب نو جوانی کی عمر میں قدم رکھتے ہیں تو ان نیک تنظیموں میں شامل ہونے سے جماعتی نظام اور طریقوں سے ان کو مزید واقفیت پیدا ہوتی ہے.اور عمر کے ساتھ ساتھ کیونکہ اب یہ بچے اور بچیاں اس عمر کو پہنچ جاتے ہیں جس میں شعور پیدا ہو جاتا ہے.اس لئے پندرہ سال کی عمر کے بعد یہ خود بھی اپنے میں سے ہی اپنے عہدیدار منتخب کرتے ہیں اور ان کے تحت ان کی تربیت ہو رہی ہوتی ہے اور نظام چل رہا ہوتا ہے.تو پندرہ سال کی عمر کے بعد جیسا کہ میں نے کہا کہ لجنہ یا خدام میں جا کر یہ لوگ اپنے عہدیدار اپنے میں سے منتخب کرتے ہیں اور پھر مرکزی ہدایات کی روشنی میں متفرق امور اور تربیتی امور خود سر انجام دے رہے ہوتے ہیں اور ان پر عمل بھی کرتے ہیں.تو بچپن سے ہی ایسی تربیت حاصل کرنے کی وجہ سے، ایسے پروگراموں میں شمولیت کی وجہ سے ان کو ٹریننگ ہو جاتی ہے اور پھر یہی بچے جب بڑے ہوتے ہیں اور جماعتی نظام میں پوری طرح سموئے جاتے ہیں
23 سبیل الرشاد جلد چہارم تو جماعتی کاموں میں بھی زیادہ فائدہ مند اور مفید وجود ثابت ہوتے ہیں اور اس نظام کا ایک حصہ بنتے ہیں.تو بہر حال انہی ذیلی نظاموں کا حصہ بنتے ہوئے ہر بچہ، جوان ، عورت، مرد، جب جماعتی نظام کا حصہ بن جاتے ہیں تو گو جماعتی نظام پہلے ہے، مقدم ہے.لیکن اس میں ہر بچے اور نوجوان کی اس طرح مکمل Involvement نہیں ہوتی جس طرح کہ شروع میں ذیلی تنظیموں میں ہو رہی ہوتی ہے اور ہو بھی نہیں سکتی.اس لئے حضرت مصلح موعودؓ کی دور رس نظر نے ذیلی تنظیموں کا قیام کیا تھا اور یہ آپ کا ایک بہت بڑا احسان ہے جماعت پر.اور اسی وجہ سے جیسا کہ میں نے کہا، ابتداء سے ہی جماعت کے ہر بچہ کے ذہن میں جماعتی نظام کا ایک تقدس اور احترام پیدا ہو جاتا ہے.اور اسی احترام اور تقدس کے تحت وہ پروان چڑھتا ہے اور چونکہ ابتداء سے ہی نظام کا تصور پیار ومحبت اور بھائی چارے اور مل جل کر کام کرنے کی روح کے ساتھ وہ بچہ پروان چڑھ رہا ہوتا ہے اور پھر خلیفہ وقت کے ساتھ ہر موقع پر ذاتی پیار و محبت کا تعلق اس ٹریننگ کی وجہ سے ہو رہا ہوتا ہے اور ہو جاتا ہے اس لئے ہر فرد جماعت جب جماعت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہو اور اپنے عہد یداران کی اطاعت بخوشی کرتا ہے تو اس لئے کرتا ہے کہ بچپن سے نظام کے بارہ میں پڑنے والی آواز اور خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق اور پیار کی وجہ سے مجبور ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظام جماعت چونکہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے اور خلیفہ وقت کی براہ راست اس پر نظر ہوتی ہے اس لئے نئے شامل ہونے والے، نومبائعین بھی ان احمدیوں کے علاوہ بھی جو پیدائشی احمدی ہوں، بڑی جلدی نظام میں سموئے جاتے ہیں.عہد یداران کو غصہ کی عادت ترک کرنی ہوگی لیکن جیسے جیسے یہ سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جارہا ہے، نظام جماعت کو چلانے والے کارکنان اور عہدیداران کی ذمہ داریاں بھی زیادہ بڑھتی چلی جارہی ہیں.انہیں تسبیح اور استغفار کی طرف توجہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے.فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ کا جو حکم ہے اس طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.اور یہی چیز ان کو زیادہ احساس دلا رہی ہے، یا کم از کم احساس دلانا چاہئے کہ اپنی طبیعتوں میں نرمی پیدا کرنے کی طرف زیادہ توجہ دیں.اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دینے کے احساس کو زیادہ ابھارنے کی ضرورت ہے.نظام جماعت کی ذمہ داری ادا کرتے وقت اپنی اناؤں اور خواہشات کو مکمل ختم کر کے خدمت سرانجام دینے کی طرف توجہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے اور پہلے سے بڑھ کر ضرورت ہے.ذراذراسی بات پر غصہ میں آجانے کی عادت کو عہدیداران کو ترک کرنا ہوگا اور کرنا چاہئے.جماعت کے احباب سے پیار، محبت کے تعلق کو بڑھانے ، ان کی باتوں کو غور اور توجہ سے سنے اور ان کے لئے دعائیں کرنے کی عادت کو مزید بڑھانا چاہئے تبھی سمجھا جا سکتا ہے کہ عہدیداران اپنی ذمہ داریاں مکمل طور پر ادا کر رہے ہیں یا کم از کم ادا کرنے کی
سبیل الرشاد جلد چہارم کوشش کر رہے ہیں.قوم کے سردار قوم کے خادم ہوتے ہیں 24 جماعت احمدیہ میں عہدیدار اسٹیجوں پر بیٹھنے یا رعونت سے پھرنے کے لئے نہیں بنائے جاتے بلکہ اس تصور سے بنائے جاتے ہیں کہ قوم کے سردار قوم کے خادم ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جماعت کو اکٹھا رکھنے کے لئے ایک رہنما اصول اس آیت میں بتا دیا ہے جو میں نے تلاوت کی ہے.تو اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خوبی کی وجہ سے کہ آپ کے دل میں لوگوں کے لئے نرمی اور محبت کے جذبات تھے لوگ آپ کے ارد گرد اکٹھے ہوتے تھے اور آپ کے پاس آتے تھے تو پھر میں اور آپ، ہم کون ہوتے ہیں جو محبت اور پیار کے جذبات لوگوں کے لئے نہ دکھا ئیں اور امید رکھیں کہ لوگ ہماری ہر بات مانیں.ہمیں تو اپنے آقا کی اتباع میں بہت بڑھ کر عاجزی، انکساری، پیار اور محبت کے ساتھ لوگوں سے پیش آنا چاہئے.کیونکہ خلیفہ وقت کے لئے تو ہر ملک میں، ہر شہر میں یا ہر محلے میں جا کر لوگوں کے حالات سے واقفیت حاصل کرنا مشکل ہے.یہ نظام جماعت قائم ہے جیسا کہ میں نے بتایا کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے.عہد یداران خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں وہ تمام عہد یدار چاہے ذیلی تنظیموں کے عہدیدار ہوں چاہے جماعتی عہد یدار ہوں ،خلیفہ وقت کے نمائندے کے طور پر اپنے اپنے علاقہ میں متعین ہیں اور ان سے یہی امید کی جاتی ہے اور یہی تصور ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں.اگر وہ اپنے علاقہ کے احمدیوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے، ان کی غمی خوشی میں شریک نہیں ہور ہے، ان سے پیار محبت کا سلوک نہیں کر رہے، یا اگر خلیفہ وقت کی طرف سے کسی معاملہ میں رپورٹ منگوائی جاتی ہے تو بغیر تحقیق کے مکمل طریق کے جواب دے دیتے ہیں یا کسی ذاتی عناد کی وجہ سے، جو خدا نہ کرے ہمارے کسی عہدیدار میں ہو، غلط رپورٹ دے دیتے ہیں تو ایسے تمام عہد یدار گنہگار ہیں.ابھی گزشتہ دنوں بغیر مکمل تحقیق کے ایک رپورٹ چند احمدیوں کے بارہ میں مقامی جماعت کی طرف سے مرکز میں آئی کہ انہوں نے فلاں فلاں جماعتی روایات سے ہٹ کر کام کیا ہے اور جماعتی قواعد کے مطابق اس کی سزا اخراج از نظام جماعت تھی.جب مرکزی دفتر نے مجھے لکھا اور ان اشخاص کو اخراج از نظام جماعت کی سزا ہوگئی.تو جن کو سزا ہوئی تھی انہوں نے شور مچایا کہ ہمارا تو اس کام سے کوئی واسطہ ہی نہیں ، ہم تو بالکل معصوم ہیں ، اور کسی طرح بھی ہم ملوث نہیں ہیں.تو پھر مرکز نے نئے سرے سے کمیشن خود مقرر کیا اور تحقیق کی تو پتہ چلا کہ صدر جماعت نے بغیر مکمل تحقیق کے رپورٹ کر دی تھی اور اب صدر صاحب کہتے ہیں غلطی سے نام چلا
25 سبیل الرشاد جلد چہارم گیا.یعنی یہ تو بچوں کا کھیل ہو گیا کہ ایک معصوم کو اتنی سخت سزا دلوار ہے ہیں اور پھر بھولے بن کر کہ دیا کہ غلطی سے نام چلا گیا.تو ایسے غیر ذمہ دار صدر کو تو میں نے مرکز کو کہا ہے کہ فوری طور پر ہٹا دیا جائے.اور آئندہ بھی جو کوئی ایسی غیر ذمہ داری کا ثبوت دے گا اس کو پھر تا زندگی کبھی کوئی جماعتی عہدہ نہیں ملے گا.ایسے شخص نے ہمیں بھی گناہگار بنوایا.اللہ تعالیٰ معاف فرمائے.حدیث میں آتا ہے حضرت معقل بن بسیار بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا نگران اور ذمہ دار بنایا ہے وہ اگر لوگوں کی نگرانی ، اپنے فرض کی ادائیگی اور ان کی خیر خواہی میں کوتاہی کرتا ہے تو اس کے مرنے پر اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت حرام کر دے گا اور اسے مسلم کتاب الامارہ باب فضلة الامام العادل.....) بہشت نصیب نہیں کرے گا.تم میں سے ہر ایک نگران ہے پھر ایک حدیث ہے.ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے اس سے اپنی رعایا کے بارہ میں پوچھا جائے گا.امیر نگران ہے اور آدمی اپنے گھر کا نگران ہے، عورت بھی اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے، اولاد کی نگران ہے.پس تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی ذمہ داری کو کس طرح نبھایا ہے.تو تمام عہدیداران اپنے اپنے دائرہ عمل میں نگران بنائے گئے ہیں.میں نے پہلے بھی ذیلی تنظیموں کا بھی ذکر کیا ہے تو بعض دفعہ بعض رپورٹیں ذیلی تنظیموں کی معلومات پر مبنی ہوتی ہیں، ان کی طرف سے آ رہی ہوتی ہیں.تو اگر ہر لیول پر اس نگرانی کا صحیح حق ادا نہیں ہو رہا ہوگا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرما دی ہے کہ اگر تم بطور نگران اپنے فرائض کی ادائیگی نہیں کر رہے تو تم پوچھے جاؤ گے.اللہ تعالیٰ کے حضور مجرم کی حیثیت سے حاضر ہونا اور پوچھے جانا بذات خود ایک خوف پیدا کرنے والی بات ہے لیکن یہاں جو فر مایا کہ یہ نہ سمجھو کہ تم پوچھے جاؤ گے اور شاید نرمی کا سلوک ہو جائے اور جان بچ جائے بلکہ فرمایا کہ جنت ایسے لوگوں پر حرام کر دی جائے گی.پس بڑا شدید انذار ہے، خوف کا مقام ہے، رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر عہدیدار کو ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.عہدیداران کسی کے خلاف جلدی میں رائے قائم نہ کریں یہ بات بھی یا درکھنی ضروری ہے کہ ذیلی تنظیموں کی عاملہ ہو، لجنہ ، انصار، خدام کی یا جماعت کی عاملہ، کسی شخص کے بارہ میں جب کوئی رائے قائم کرنی ہو تو اس بارہ میں جلدی نہیں کرنی چاہئے.چاہے اس شخص کے گزشتہ رویہ کے بارہ میں علم ہو کہ کوئی بعید نہیں کہ اس نے ایسی حرکت کی ہو اس لئے اس کو سزا دے دو یا سزا
26 سبیل الرشاد جلد چہارم کی سفارش کر دو نہیں، بلکہ جو معاملہ عاملہ کے سامنے پیش کیا ہے اس کی مکمل تحقیق کریں.اگر شک کا فائدہ ہل سکتا ہے تو اس کو ملنا چاہئے جس پر الزام لگ رہا ہے.اگر وہ شخص مجرم ہے تو شاید اس کو یہ احساس ہو جائے کہ گو میں نے جرم تو کیا ہے لیکن شک کی وجہ سے مجھ سے صرف نظر کیا گیا ہے.تو آئندہ اس کی اصلاح بھی ہوسکتی ہے یا کم از کم مجلس عاملہ یا ایسے عہد یدار اس حدیث پر تو عمل کرنے والے ہوں گے جو حضرت عائشہؓ سے روایت ہے.بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان کو سزا سے بچانے کی حتی الامکان کوشش کرو.اگر اس کے بچنے کی کوئی راہ نکل سکتی ہو تو معاملہ رفع دفع کرنے کی سوچو.امام کا معاف اور درگزر کرنے میں غلطی کرنا بہزاد ینے میں غلطی کرنے سے بہتر ہے.(ترمذی ابواب الحدود باب ما جاء في درء الحدود) عہدیدار اپنے فرائض کی ادائیگی کے ذمہ دار ہے....بحیثیت عہد یدار تم پر بڑی ذمہ داری ہے.بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس لئے صرف یہ نہ سمجھو کہ عہد یدار بن کر ، صرف عاملہ میں بیٹھ کر جو معاملات لڑائی جھگڑے یا لین دین کے آتے ہیں ان کو ہی نمٹانا مقصود ہے.بلکہ ہر عہدیدار پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھائے.ہر سیکرٹری اپنے فرائض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے.اب سیکرٹری امور عامہ کا صرف یہ کام ہی نہیں ہے کہ آپس کے فیصلے کروائے جائیں یا غلط حرکات اگر کسی کی دیکھیں تو انہیں دیکھ کر مرکز میں رپورٹ کر دی جائے.اس کا یہ کام بھی ہے کہ اپنی جماعت کے ایسے بیکار افراد جن کو روزگار میسر نہیں، خدمت خلق کا بھی کام ہے اور روزگار مہیا کرنے کا بھی کام ہے، اس کے لئے روزگار کی تلاش میں مدد کرے.بعض لوگ طبعا کاروباری ذہن کے بھی ہوتے ہیں.ایسے لوگوں کی فہرستیں تیار کریں.اگر ایسے افراد میں صلاحیت دیکھیں تو تھوڑی بہت مالی مددکر کے معمولی کا روبار بھی ان سے شروع کروایا جا سکتا ہے.اور اگر ان میں صلاحیت ہوگی تو وہ کاروبار چمک بھی جائے گا اور آہستہ آہستہ بہتر کاروبار بن سکتا ہے.میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے جو پاکستان میں بھی سائیکل پر پھیری لگا کر یا کسی دوکان کے تھڑے پر بیٹھ کے، ٹوکری رکھ کر یا چند کپڑے کے تھان رکھ کر اس وقت دوکانوں کے مالک بنے ہوئے ہیں.تو یہ ہمت دلانا بھی، توجہ دلانا بھی، ایسے لوگوں کو پیچھے پڑ کر کہ کسی نہ کسی کام پر لگیں یہ بھی جماعتی نظام یا جماعتی نظام کے عہدیدار کا کام ہے جس کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے یعنی سیکرٹری امور عامیہ.پھر سیکرٹری تعلیم ہے.عموماً سیکرٹریان تعلیم جماعتوں میں اتنے فعال نہیں جتنے ان سے توقع کی جاتی ہے یا کسی عہدیدار سے توقع کی جاسکتی ہے.اور یہ میں یونہی اندازے کی بات نہیں کر رہا، ہر جماعت اپنا اپنا جائزہ لے لے تو پتہ چل جائے گا کہ بعض سیکرٹریان پورے سال میں کوئی کام نہیں کرتے.حالانکہ مثلاً سیکرٹری تعلیم کی مثال دے رہا ہوں ،سیکرٹری تعلیم کا یہ کام ہے کہ اپنی جماعت کے ایسے بچوں کی فہرست بنائے جو پڑھ
27 سبیل الرشاد جلد چہارم رہے ہیں، جو سکول جانے کی عمر کے ہیں اور سکول نہیں جار ہے.پھر وجہ معلوم کریں کہ کیا وجہ ہے وہ سکول نہیں جا ر ہے.مالی مشکلات ہیں یا صرف نکما پن ہی ہے.اور ایک احمدی بچے کو تو توجہ دلانی چاہئے کہ اس طرح وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے.مثلاً پاکستان میں ہر بچے کے لئے خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ شرط لگائی تھی کہ ضرور میٹرک پاس کرے.بلکہ اب تو معیار کچھ بلند ہو گئے ہیں اور میں کہوں گا کہ ہر احمدی بچے کو ایف.اے ضرور کرنا چاہئے..........پھر سیکر ٹری تربیت یا اصلاح و ارشاد ہے ان کو بھی بہت فعال کرنے کی ضرورت ہے.اگر یہ سیکرٹریان تربیت یا اصلاح وارشاد بعض جگہوں پر کہلاتے ہیں، اپنے معین پروگرام بنا کر نچلے سے نچلے لیول سے لے کر مرکزی لیول تک کام کریں جس طرح کام کرنے کا حق ہے تو امور عامہ کے مسائل بھی اس تربیت سے حل ہو جائیں گے، تعلیم کے مسائل بھی کافی حد تک کم ہو جائیں گے، رشتہ ناطہ کے مسائل بھی بہت حد تک کم ہو جائیں گے.یہ شعبے آپس میں اتنے ملے ہوئے ہیں کہ تربیت کا شعبہ فعال ہونے سے بہت سارے شعبے خود ہی فعال ہو جاتے ہیں اور جماعت کا عمومی روحانی معیار بھی بلند ہوگا.تو یہ جو حدیث ہے، لوگوں کی ضروریات پوری کرنے سے یہ مراد ہے کہ یہ عہدے تمہارے سپرد ہیں ان عہدوں کی ذمہ داری کو سمجھو اور ان کو ادا کرو.جب اس طریق سے ہر عہدیدار اپنے اپنے شعبہ کی ذمہ داریاں ادا کرے گا تو لوگوں کے دلوں میں آپ کے لئے مزید عزت واحترام پیدا ہوگا اور جیسا کہ میں نے کہا جماعت کا عمومی معیار بھی بلند ہوگا.عہدیدار محبت اور پیار سے حکم دے اس بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ کا ایک اقتباس ہے وہ میں سناتا ہوں.فرمایا: " دنیا میں بہترین مصلح وہی سمجھا جاتا ہے جو تربیت کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں ایسی روح پیدا کر دیتا ہے کہ اس کا حکم ماننالوگوں کے لئے آسان ہو جاتا ہے اور وہ اپنے دل پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم باقی الہامی کتب پر فضیلت رکھتا ہے.اور الہامی کتابیں تو یہ کہتی ہیں کہ یہ کرو اور وہ کرو.مگر قرآن یہ کہتا ہے کہ اس لئے کرو، اس لئے کرو.گویا وہ خالی حکم نہیں دیتا بلکہ اس حکم پر عمل کرنے کی انسانی قلوب میں رغبت بھی پیدا کر دیتا ہے.تو سمجھانا اور سمجھا کر قوم کے افراد کو ترقی کے میدان میں اپنے ساتھ لئے جانا، یہ کامیابی کا ایک اہم گر ہے.اور قرآن کریم نے اس پر خاص زور دیا ہے.چنانچہ سورہ لقمان میں حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے جو نصیحتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک نصیحت یہ ہے کہ وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ ط (لقمان: 20 ) کہ تمہارے ساتھ چونکہ کمزور لوگ بھی ہوں گے اس لئے ایسی طرز پر چلنا کہ کمزور رہ نہ جائیں.بے شک تم آگے بڑھنے کی کوشش کر ومگر اتنے تیز بھی نہ ہو جاؤ کہ کمز ور طبائع بالکل رہ جائیں.
سبیل الرشاد جلد چہارم 28 دوسرے جب بھی تم کوئی حکم دو، محبت پیار اور سمجھا کر دو.اس طرح نہ کہو کہ "ہم یوں کہتے ہیں ".( تو قرآن شریف کی تعلیم تو یہ ہے کہ محبت اور پیار سے حکم دو، نہ کہ آرڈر ہو.بلکہ ایسے رنگ میں بات پیش کرو کہ لوگ اسے سمجھ سکیں.اور وہ کہیں کہ اس کو تسلیم کرنے میں تو ہمارا اپنا فائدہ ہے.وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ طَ کے یہی معنی ہیں.گویا میانہ روی اور پر حکمت کلام یہ دو چیزیں مل کر قوم میں ترقی کی روح پیدا کیا کرتی ہیں.اور پر حکمت کلام کا بہترین طریق یہ ہے کہ دوسروں میں ایسی روح پیدا کر دی جائے کہ جب انہیں کوئی حکم دیا جائے تو سننے والے کہیں کہ یہی ہماری اپنی خواہش تھی.یہی وقت ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کا قدم ترقی کی طرف سرعت کے ساتھ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے" عہد یداران لوگوں میں نظام جماعت کا احترام پیدا کریں اصل میں تو امراء، صدران، عہدیداران یا کارکنان جو بھی ہیں ان کا اصل کام تو یہ ہے کہ اپنے اندر بھی اور لوگوں میں بھی نظام جماعت کا احترام پیدا کیا جائے.اور اسی طرح جماعت کے تمام افراد کا بھی یہی کام ہے کہ اپنے اندر بھی اور اپنی نسلوں میں بھی جماعت کا احترام پیدا کریں.نظام جماعت کا احترام پیدا کریں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ جو نصائح میں عہد یداران کے لئے کرتا ہوں اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ صرف عہدیداران کے لئے ہیں بلکہ تمام افراد جماعت مخاطب ہوتے ہیں اور ان کو بھی یہ نصائح ہیں.ہو سکتا ہے کہ کل کو ایک عہدیدار کے ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جانے کی وجہ سے، یا بیمار ہو جانے کی وجہ سے، یا بڑھاپے کی وجہ سے، یا فوت ہو جانے کی وجہ سے کوئی دوسرا شخص اس عہدے کے لئے مقرر کر دیا جائے.پھر انتخابات بھی ہوتے ہیں، عہدے بدلتے بھی رہتے ہیں.تو ہر ایک کو اپنے ذہن میں یہ سوچ رکھنی چاہئے کہ جب بھی وہ عہدیدار بنیں گے وہ ایک خادم کے طور پر خدمت کرنے کے لئے بنیں گے.بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ عہد یدار بدلے بھی جاتے ہیں ، خلیفہ وقت خود بھی اپنی مرضی سے بعض عہدوں کو تبدیل کر دیتے ہیں.تو بہر حال نئے آنے والے شامل ہوتے ہیں اور نئے آنے والوں کی بھی یہی سوچ ہونی چاہئے اور اگر بنیادی ٹریننگ ہوگی تو اس سوچ کے ساتھ جو عہدہ ملے گا تو ان کو کام کرنے کی سہولت بھی رہے گی.تو جیسا کہ میں نے کہا ہر شخص کو اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے کہ اس نے نظام جماعت کا احترام کرنا ہے اور دوسروں میں بھی یہ احترام پیدا کرنا ہے.تو خلیفہ وقت کی تسلی بھی ہوگی کہ ہر جگہ کام کرنے والے کارکنان، نظام کو سمجھنے والے کارکنان ، کامل اطاعت کرنے والے کارکنان میسر آسکتے ہیں تو بہر حال
سبیل الرشاد جلد چہارم 29 جیسا کہ میں نے کہا کہ اصل کام نظام جماعت کا احترام قائم کرنا ہے اور اس کو صحیح خطوط پر چلانا ہے.تو اس کے لئے عہد یداران کو ، کارکنان کو دو طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے.ایک تو وہ ہیں جو جماعت کے عام ممبر ہیں.جتنے زیادہ یہ مضبوط ہوں گے، جتنا زیادہ ہر شخص کا نظام سے تعلق ہوگا، جتنی زیادہ ان میں اطاعت ہوگی ، جتنی زیادہ قربانی کا ان میں مادہ ہوگا ، اتنا ہی زیادہ نظام جماعت مضبوط ہوگا.اور یہ چیزیں ان میں کس طرح پیدا کی جائیں.اس سلسلہ میں عہدیداران کے فرائض کیا ہیں؟ اس کا میں اوپر تذکرہ کر چکا ہوں.اگر وہ پیار محبت کا سلوک رکھیں گے تو یہ باتیں لوگوں میں پیدا ہوتی چلی جائیں گی.اور یہی آپ کا گروہ ہے جتنازیادہ اس کا تعلق جماعت سے اور عہدیدارن سے مضبوط ہوگا، اتنا ہی زیادہ نظام جماعت بھی آرام سے اور بغیر کسی رکاوٹ کے چلے گا.اتنا زیادہ ہی ہم دنیا کو اپنا نمونہ دکھانے کے قابل ہوسکیں گے.اتنی ہی زیادہ ہمیں نظام جماعت کی پختگی نظر آئے گی.جتنا جتنا تعلق افراد جماعت اور عہدیداران میں ہوگا.اور پھر خلیفہ وقت کی بھی تسلی ہوگی کہ جماعت ایسی مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکی ہے جن سے بوقت ضرورت مجھے کارکنان اور عہد یداران میسر آ سکتے ہیں.اگر کسی جگہ کچھ جماعتیں تو اعلیٰ معیار کی ہوں اور کچھ جماعتیں ابھی بہت پیچھے ہوں تو بہر حال یہ فکر کا مقام ہے.تو عہدیداران کو اپنے علاقہ میں، اپنے ضلع میں یا اپنے ملک میں اس نہج پر جائزے لینے ہوں گے کہ کہیں کوئی کمی تو نظر نہیں آرہی.اپنے کام کے طریق کا جائزہ لینا ہوگا.اپنی عاملہ کی مکمل Involvement کا یا مکمل ان کاموں میں شمولیت کا جائزہ لینا ہوگا.کہیں آپ نے عہدے صرف اس لئے تو نہیں رکھے ہوئے کہ عہدہ مل گیا ہے اور معذرت کرنا مناسب نہیں اس لئے عہدہ رکھی رکھو اور اس سے جس طرح بھی کام چلتا ہے چلائے جاؤ.اس طرح تو جماعتی نظام کو نقصان پہنچ رہا ہوگا.اگر تو ایسی بات ہے تو یہ زیادہ معیوب بات ہے اور یہ زیادہ بڑا گناہ ہے بہ نسبت اس کے کہ عہدے سے معذرت کر دی جائے.اس لئے ایسے عہد یدار تو اس طرح جماعت کے نظام کو، جماعت کے وقار کو نقصان پہنچانے والے عہد یدار ہیں.عہدیداران اپنے ماتحت عہدیداروں کو استخفاف کی نظر سے نہ دیکھیں دوسرے یہ ذمہ داری ہے عہدیداران کی عام لوگوں سے ہٹ کر، اپنے دوسرے برابر کے عہد یداروں یا ماتحت عہدیداران یا کارکنان کا احترام ہے.یہ کوئی دنیاوی عہدہ نہیں ہے جس طرح میں پہلے بھی کہہ آیا ہوں کہ جو آپ کومل گیا ہے اور کوئی سمجھ بیٹھے کہ اب سب طاقتوں کا میں مالک بن گیا ہوں.یہاں بھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے امیر اپنی عاملہ کا احترام کریں، ان کی رائے کو وقعت دیں، اس پر غور کریں.اسی طرح اگر کوئی ماتحت بھی رائے دیتا ہے تو اس کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھیں، کم نظر سے نہ دیکھیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے کہ مشورہ کریں تو ہم، آپ تو بہت معمولی چیز ہیں.تو کسی کی رائے کو کبھی بھی تکبر کی نظر
30 سبیل الرشاد جلد چہارم سے نہیں دیکھنا چاہئے.اپنا ایک وقار عہدیدار کا ہونا چاہئے اور یہ نہیں کہ غصے میں مغضوب الغضب ہو کر ایک تو رائے کو رد کر دیا اور مسجد میں یا میٹنگ میں تو تکار بھی شروع ہو جائے.یا گفتگو ایسے لہجہ میں کی جائے جس سے کسی دوسرے عہد یدار کا یا کسی دوسرے شخص کے بارہ میں جس سے استخفاف کا پہلونکلتا ہو، کم نظر سے دیکھنے کا پہلو نکلتا ہو.تو ہمارے عہدیداران اور کارکنان کو تو انتہائی وسعت حوصلہ کا مظاہرہ کرنا چاہئے.کھلے دل سے تنقید بھی سنی چاہئے ، برداشت بھی کرنی چاہئے.اور پھر ادب کے دائرے میں رہ کر ہر شخص کی عزت نفس ہوتی ہے اس کا خیال رکھ کر دلیل سے جواب دینا چاہئے.یہ نہیں کہ میں نے یہ کہہ دیا ہے اس پر عمل نہیں ہورہا تو تم یہ ہو، تم وہ ہو، یہ بڑا غلط طریق ہے.عہدیدار کا مقام جماعت میں عہد یدار کا ہے خواہ وہ چھوٹا عہد یدار ہے یا بڑا عہدیدار ہے.پھر قطع نظر اس کے کہ کسی کی خدمت کو لمبا عرصہ گزر گیا ہے یا کسی کی خدمت کو تھوڑا عرصہ گزرا ہے.اگر کم عمر والے سے یا عہدے میں اپنے سے کم درجہ والے سے بھی ایسے رنگ میں کوئی گفتگو کرتا ہے جس سے سکی کا پہلونکلتا ہو تو گو دوسر شخص اپنے وسعت حوصلہ کی وجہ سے، یعنی جس سے تلخ کلامی کی گئی ہے وہ اپنے وسعت حوصلہ کی وجہ سے، اطاعت کے جذبہ سے برداشت بھی کر لے ایسی بات لیکن اگر ایسے عہد یدار کا معاملہ جو دوسرے عہدیداران یا کارکنان کا احترام نہیں کرتے میرے سامنے آیا تو قطع نظر اس کے کہ کتنا Senior ہے اس کے خلاف بہر حال کارروائی ہوگی تحقیق ہوگی.اس لئے آپس میں ایک دوسرے کا احترام کرنا بھی سیکھیں اور مشورے لینا اور مشوروں میں ان کو اہمیت دینا.اگر اچھا مشورہ ہے تو ضروری نہیں کہ چونکہ میں بڑا ہوں اس لئے میرا مشورہ ہی اچھا ہوسکتا ہے اور چھوٹے کا مشورہ اچھا نہیں ہو سکتا.اس کو بہر حال وقعت کی نظر سے دیکھنا چاہئے ،اس کو کوئی وزن دینا چاہئے..کسی کو عہدے کی خواہش نہیں کرنی چاہئے.عہدہ خوف پیدا کرتا ہے....اس کے علاوہ عہدیداران کے متعلق بعض عمومی باتیں بھی ہیں جن کا میں ذکر کر دیتا ہوں.اللہ کے فضل سے جماعت میں عموماً عہدے کی خواہش کا اظہار کوئی نہیں کرتا اور جب عہدہ مل جاتا ہے تو خوف پیدا ہوتا ہے کہ میں ادا بھی کر سکتا ہوں یا نہیں.لیکن بعض سر پھرے بھی ہوتے ہیں.خط لکھ دیتے ہیں کہ ہمارے ضلع میں صحیح کام نہیں ہو رہا.لکھنے والا لکھتا ہے گو میں جانتا ہوں کہ عہدے کی خواہش کرنا مناسب نہیں لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اگر میرے سپر د امارت یا فلاں عہدہ کر دیا جائے تو میں چھ مہینے یا سال میں اصلاح کر سکتا ہوں.تبدیلیاں پیدا کر دوں گا.تو بعض تو ایسے سر پھرے ہوتے ہیں جو کھل کر لکھ دیتے ہیں اور بعض بڑی ہوشیاری سے یہی مدعا بیان کر رہے ہوتے ہیں.تو ان پر میں یہ واضح کر دوں کہ ہمارے نظام میں ، جماعت احمدیہ کے نظام میں اگر کسی انتخاب کے وقت کسی کا نام پیش ہو جائے تو وہ اپنے آپ کو ووٹ دینے کا حق بھی نہیں رکھتا.اپنے آپ کو ووٹ دینا بھی اس بات کا اظہار ہے کہ میں اس عہدے کا حقدار
سبیل الرشاد جلد چہارم 31 ہوں.ایسے لوگوں کو یہ حدیث پیش نظر رکھنی چاہئے....حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بعض لوگوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اس قسم کے عہدے لینے کے لئے مجالس میں شامل ہوتے ہیں.ایسے لوگ لعنت ہوتے ہیں اپنی قوم کے لئے اور لعنت ہوتے ہیں اپنے نفس کے لئے.وہ وہی ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَوَيْلٌ لِلْمُصَلَّيْنَ 0 الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلاتِهِمْ سَاهُونَ الَّذِيْنَ هُمْ يُرَآء ون ( الماعون: 5-7 ریا ہی ریا ان میں ہوتی ہے.کام کرنے کا شوق ان : میں نہیں ہوتا..(مشعل راه جلد اول صفحه 20-21) پھر حضرت مصلح موعودؓ نے کارکنان کو ہدایات دیتے ہوئے ایک جگہ فرمایا کہ." کارکنوں کو چاہئے کہ تندہی سے کام کریں.یہ خواہش کہ ہمارا نام و نمود ہوا ایسا خیال ہے جو خراب کرتا ہے.اس خیال کے ماتحت بہت لوگ خراب ہو گئے ہیں، ہوتے ہیں ہوتے رہیں گے.تم اللہ سے ڈرو اور اسی سے خوف کرو اور اس بات کو مدنظر رکھو کہ اس کا کام کر کے اس سے انعام کے طالب ہو.........اور لوگوں سے مدح اور تعریف نہ چاہو.اللہ تعالیٰ ہمارے کاموں میں للہیت پیدا کرے.اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے اور مجھ پر بھی رحم کرے.آمین" خلاصہ ہدایات بابت عہدیداران خطبه فرمودہ 22 / دسمبر 1922 ء از خطبات محمود جلد 7 صفحہ 433)...پھر آخر میں خلاصہ دوبارہ بیان کر دیتا ہوں کہ جو باتیں میں نے کہی ہیں عہد یداران کے لئے اور یہ خلفائے سلسلہ کہتے چلے آئے ہیں پہلے بھی لیکن ایک عرصہ گزرنے کے بعد بعض باتیں یاد نہیں رہتیں.جو نئے آنے والے عہدیداران ہوتے ہیں جو نہیں سمجھ رہے ہوتے صحیح طرح اس لئے بار بار یاد دہانی کروانی پڑتی ہے.تو خلاصہ یہ باتیں ہیں: (1) عہدیداران پر خود بھی لازم ہے کہ اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھا ئیں اور اپنے سے بالا افسر یا عہدیدار کی مکمل اطاعت اور عزت کریں.اگر یہ کریں گے تو آپ کے نیچے جو لوگ ہیں،افراد جماعت ہوں یا کارکنان ، آپ کی مکمل اطاعت اور عزت کریں گے.(2).یہ ذہن میں رکھیں کہ لوگوں سے نرمی سے پیش آنا ہے.ان کے دل جیتے ہیں، ان کی خوشی غمی میں ان کے کام آنا ہے.اگر آپ یہ فطری تقاضے پورے نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے عہد یدار کے دل میں تکبر پایا جاتا ہے.
32 سبیل الرشاد جلد چہارم (3) امراء اور عہدیداران یا مرکزی کارکنان یہ دعا کریں کہ ان کے ماتحت یا جن کا ان کو نگران بنایا گیا ہے، شریف النفس ہوں، جماعت کی اطاعت کی روح ان میں ہو اور نظام جماعت کا احترام ان میں ہو.(4) کبھی کسی فرد جماعت سے کسی معاملہ میں امتیازی سلوک نہ کریں اور یہ بھی یا درکھیں کہ بعض لوگ بڑے ٹیڑھے ہوتے ہیں.مجھے علم ہے کہ امراء کے، عہدیداران کے، یا نظام جماعت کے ناک میں دم کیا ہوتا ہے ایسے لوگوں نے لیکن پھر بھی ان کی بد تمیزیوں کو جس حد تک برداشت کر سکتے ہیں کریں اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر کسی قسم کا شکوہ نہ کریں، بدلہ لینے کا خیال بھی کبھی دل میں نہ آئے.ان کے لئے دعا کریں، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں.(5) پھر یہ کہ نظام جماعت کا استحکام اور حفاظت سب سے مقدم رہنا چاہئے اور اس کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہئے.پھر بھی اپنے گرد جی حضوری کرنے والے یا خوشامد کرنے والے لوگوں کو اکٹھا نہ ہونے دیں.جن عہدیداروں پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہو جاتا ہے پھر ایسے عہدیداران سے انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی.ایسے عہد یدار پھر ان لوگوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بن جاتے ہیں تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دعا کی تلقین فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی بُرے مشیر میرے اردگر دا کٹھے نہ کرے.(6)....پھر یہ بھی یادرکھنے والی بات ہے جیسا کہ میں بیان بھی کر چکا ہوں کہ جہاں نظام جماعت کے تقدس پر حرف نہ آتا ہو، عفو اور احسان کا سلوک کریں.ان کے لئے مغفرت مانگیں جو ان کی اصلاح کا موجب بنے.یہ تو عہد یدارن کے لئے ہے لیکن آخر میں میں پھر احباب جماعت کے لئے ایک فقرہ کہہ دیتا ہوں کہ آپ پر بھی ، جو عہدیدار نہیں ہیں ، ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کا کام صرف اطاعت ، اطاعت اور اطاعت ہے اور ساتھ دعا کرنا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے " خطبات مسرور جلد 1 صفحه 531-532)
33 & 2004 کے ارشادات و فرمودات سبیل الرشاد جلد چہارم باب دوم
سبیل الرشاد جلد چہارم 34 شادی بیاہ پر انصار کو مردوں کی طرف Serve کرنے کی ہدایت عہدیداران اپنے عزیز رشتہ داروں اور دیگر احباب جماعت میں فرق نہ کریں انصار اللہ کے نمونہ سے ہی دوسروں نے سبق لینا ہے دستور اساسی کے مطابق کام کریں ذیلی تنظیموں کا مقصد جماعت میں ہر عمر کے احمدی کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلانا ہے فرد جماعت کی بات عہدیدار کے پاس ایک راز ہے اسے باہر نکال کر خیانت نہیں کرنی چاہئے انابت اللہ ، عاجزی سے اللہ کے حضور جھکنا اور اصولوں کے مطابق عبادت بجالانا ہے • انصار اپنے گھروں کی نگرانی کریں عہد یدار آنے والے ہر فر دکو خوش آمدید کہیں اور اُٹھ کر ملیں تمام قائدین دستور اساسی کا مطالعہ کریں • قیادت تعلیم القرآن کی ذمہ داریاں آج انصار اللہ اپنے عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم کریں • جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہدیدار نیکیوں اور عبادتوں کو پہلے اپنے گھروں میں رائج کریں ذیلی تنظیمیں بدعات پھیلانے والوں کا جائزہ لے کر سد باب کی کوشش کریں دور ہٹے احمدیوں کو قریب لانے کی ذمہ داری ذیلی تنظیموں کی ہے انصار والدین کو سمجھائیں کہ لڑکیوں کی شادی میں تاخیر نہ کریں جنوری سے ہی نئے سال کا پلان بنا کر کام کیا کریں عہدیداران اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریق پر نبھانے کیلئے خدا سے مدد طلب کریں
سبیل الرشاد جلد چہارم 35 شادی بیاہ پر انصار کو مردوں کی طرف Serve کرنے کی ہدایت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 30 جنوری 2004ء کو خطبہ جمعہ میں پردے کی اہمیت ،اس کی برکات وفوائد بیان فرمائے.جس میں حضور نے شادی بیاہ کے فنکشنز پر کھانا تقسیم کرتے وقت انصار کو مردوں کی طرف کھانا Serve کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا." بعض جگہوں پر ہمارے ہاں شادیوں وغیرہ پر لڑکوں کو کھانا Serve کرنے کے لئے بلا لیا جاتا ہے.دیکھیں کہ تختی کسی حد تک ہے اور کجا یہ ہے کہ لڑکے بلا لئے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ چھوٹی عمر والے ہیں حالانکہ چھوٹی عمر والے بھی جن کو کہا جاتا ہے وہ بھی کم از کم 17-18 سال کی عمر کے ہوتے ہیں.بہر حال بلوغت کی عمر کو ضرور پہنچ گئے ہوتے ہیں.وہاں شادیوں پر جوان بچیاں بھی پھر رہی ہوتی ہیں اور پھر پتہ نہیں جو بیرے بلائے جاتے ہیں کس قماش کے ہیں تو جیسا کہ میں نے کہا ہے بلوغت کی عمر کو پہنچ چکے ہوتے ہیں اور ان سے پردے کا حکم ہے.اگر چھوٹی عمر کے بھی ہیں تو جس ماحول میں وہ بیٹھتے ہیں ، کام کر رہے ہوتے ہیں ایسے ماحول میں بیٹھ کر ان کے ذہن بہر حال گندے ہو چکے ہوتے ہیں.اور سوائے کسی استثناء کے الا ماشاء اللہ ، اچھی زبان ان کی نہیں ہوتی اور نہ خیالات اچھے ہوتے ہیں.پاکستان میں تو میں نے دیکھا ہے کہ عموما یٹر کے تسلی بخش نہیں ہوتے.تو ماؤں کو بھی کچھ ہوش کرنی چاہئے کہ اگر ان کی عمر پردے کی عمر سے گزر چکی ہے تو کم از کم اپنی بچیوں کا تو خیال رکھیں.کیونکہ ان کام کرنے والے لڑکوں کی نظریں تو آپ نیچی نہیں کر سکتے.یہ لوگ باہر جا کر تبصرے بھی کرسکتے ہیں اور پھر بچوں کی خاندان کی بدنامی کا باعث بھی ہو سکتے ہیں.ایک دفعہ حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ احمدی لڑکے ، خدام ، اطفال کی ٹیم بنائی جائے جو اس طرح شادیوں وغیرہ پر کام کریں.خدمت خلق کا کام بھی ہو جائے گا اور اخراجات میں بھی کمی ہو جائے گی.بہت سے گھر ہیں جو ایسے بیروں وغیرہ کو رکھنا Afford ہی نہیں کر سکتے لیکن دکھاوے کے طور پر بعض لوگ بلا بھی لیتے ہیں تو اس طرح احمدی معاشرے میں باہر سے لڑکے بلانے کا رواج بھی ختم ہو جائے گا.خدام الاحمدیہ، انصار اللہ یا اگرلڑکیوں کے فنکشن ہیں تو لجنہ اماءاللہ کی لڑکیاں کام کریں.اور اگر زیادہ ہی شوق ہے کہ ضرور ہی خرچ کرنا ہے ، Serve کرنے والے لڑکے بلانے ہیں یا لوگ بلانے ہیں تو پھر مردوں کے حصے میں مرد آئیں.یہاں میں نے دیکھا ہے کہ عورتیں بھی Serve کرتی ہیں عورتوں کے حصے میں تو وہاں پھر عورتوں کا انتظام ہونا چاہئے اور اس بارہ میں کسی بھی قسم کے احساس کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہئے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ بعض لوگ دیکھا دیکھی خرچ کر رہے ہوتے ہیں تو یہ ایک طرح کا احساس کمتری ہے.کسی قسم کا احساس کمتری نہیں ہونا چاہئے.اگر یہ ارادہ کر لیں کہ ہم نے قرآن کے حکم کی تعمیل کرنی ہے اور پاکیزگی کو بھی قائم رکھنا ہے تو کام تو ہو ہی جائے گا لیکن اس کے ساتھ ہی آپ کو ثواب بھی مل رہا ہوگا" خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 87-88)
سبیل الرشاد جلد چہارم 36 عہد یداران اپنے عزیز رشتے داروں اور دیگر احباب جماعت میں فرق نہ کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 6 فروری 2004ء کو فر مایا." پہلی بات جو اس میں بیان کی گئی ہے، اس کی میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ جو کام تم اللہ تعالیٰ کی خاطر کر رہے ہو اس میں ہمیشہ خلوص نیت ہونا چاہئے.جماعتی عہدے جو تمہیں دئے جاتے ہیں انہیں نیک نیتی کے ساتھ بجالاؤ.صرف عہدے رکھنے کی خواہش نہ رکھو بلکہ اس خدمت کا جو حق ہے وہ ادا کرو.ایک تو خود اپنی پوری استعدادوں کے ساتھ اس خدمت کو سرانجام دو.دوسرے اس عہدے کا صحیح استعمال بھی کرو.یہ نہ ہو کہ تمہارے عزیزوں اور رشتہ داروں کے لئے اور اصول ہوں، ان سے نرمی کا سلوک ہو اور غیروں سے مختلف سلوک ہو، ان پر تمام قواعد لاگو ہور ہے ہوں.ایسا کرنا بھی خیانت ہے.پھر اس عہدے کی وجہ سے تم یا تمہارے عزیز کوئی ناجائز فائدہ اٹھانے والے نہ ہوں.مثلاً یہ بھی ہوتا ہے کہ چندوں کی رقوم اکٹھی کرتے ہیں.تو بہتر یہی ہے کہ ساتھ کے ساتھ جماعت کے اکاؤنٹ میں بھجوائی جاتی رہیں.یہ نہیں کہ ایک لمبا عرصہ رقوم اپنے اکاؤنٹ میں رکھ کر فائدہ اٹھاتے رہے.اگر امیر نے یا مرکز نے نہیں پوچھا تو اس وقت تک فائدہ اٹھاتے رہے.یہ بالکل غلط طریقہ ہے.اور اگر کبھی مرکز پوچھ لے تو کہ دیا کہ ہم نے یہ رقم ادا کرنی تھی مگر بہانے بازی کی کہ یہ ہو گیا اس لئے ادا نہیں کر سکے.تو غلط بیانی اور خیانت دونوں کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں.شیطان چونکہ انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے اس لئے ایسے مواقع پیدا ہی نہ ہونے چاہئیں اور ان سے بچنا چاہئے.پھر یہ ہے کہ اپنے بھائیوں کے کام آؤ، ان کے حقوق ادا کرو.پھر یہ بھی یا درکھو کہ نظام جماعت کے ساتھ ہمیشہ چمٹے رہو ، نظام کی پوری پابندی کرو.کسی بات پر اعتراض پیدا ہوتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ وہ اعتراض انسان کو بہت دور تک لے جاتا ہے.اور پھر آہستہ آہستہ عہدے داروں سے بڑھ کر نظام تک اور پھر نظام سے بڑھ کر خلافت تک یہ اعتراض چلے جاتے ہیں.اس لئے اگر یہ کرو گے تو یہ بھی خیانت ہے" خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 109-110 ) انصار اللہ کے نمونہ سے ہی دوسروں نے سبق لینا ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 14اپریل 2004ء کو نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ بور کینا فاسو کی میٹنگ میں شعبہ وائز عاملہ کے ممبران کے کام کا جائزہ لیا اور تفصیل سے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا: انصار اللہ کے نمونہ سے ہی دوسروں نے سبق لینا ہے اس لئے آپ کو اعلیٰ نمونہ قائم کرنا چاہئے.
سبیل الرشاد جلد چہارم 37 فرمایا کہ شروع سے ہی اپنے نظام کو مضبوط کریں.اگر آپ نے شروع میں توجہ نہ دی تو پھر بہت پیچھے رہ جائیں گے، الفضل انٹر نیشنل 23 تا 29 اپریل 2004ء) دستور اساسی کے مطابق کام کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 10 اپریل 2004 ء کو نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ بین کی میٹنگ میں اراکین کے کام کا جائزہ لیا اور ہدایات دیتے ہوئے فرمایا ” دستور اساسی کے مطابق عہدے بنا کر کام کریں اور الفضل انٹر نیشنل 7 تا 13 رمئی 2004ء) ہر ماہ اپنی رپورٹس مجھے بھجوائیں ذیلی تنظیموں کا مقصد جماعت میں ہر عمر کے احمدی کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلانا ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 21 مئی 2004 ء کو خطبہ جمعہ میں خلافت ایک دائمی سلسلہ ہے کی تفصیل بیان فرمائی.اس دوران حضور نے انصار کو ان کی ذمہ داریاں یاد دلاتے ہوئے فرمایا.غرض کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور 52 سال رہا اور ہر روز ایک نئی ترقی لے کر آتا تھا.کئی زبانوں میں آپ کے زمانے میں تراجم قرآن کریم ہوئے.بیرونی دنیا میں مشن قائم ہوئے.افریقہ میں، یورپ میں مشنز قائم ہوئے اور بڑی ذاتی دلچسپی لے کر ذاتی ہدایات دے کر.اس زمانے میں دفاتر کا بھی نظام اتنا نہیں تھا.خود مبلغین کو براہ راست ہدایات دے دے کر اس نظام کو آگے بڑھایا اور پھر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ہندو پاکستان میں بلکہ دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی اور خاص طور پر افریقہ میں لاکھوں کی تعداد میں سعید روحوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوئیں.پھر دیکھیں آپ نے کس طرح انتظامی ڈھانچے بنائے.صدرانجمن احمدیہ کا قیام تو پہلے ہی تھا اس میں تبدیلیاں کیں ، ردو بدل کی.اس کو اس طرح ڈھالا کہ انجمن اپنے آپ کو صرف انجمن ہی سمجھے اور کبھی خلافت کے لئے خطرہ نہ بن سکے.پھر ذیلی تنظیموں کا قیام ہے، انصار اللہ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ آپ کی دور رس نظر نے دیکھ لیا کہ اگر میں اس طرح جماعت کی تربیت کروں گا کہ ہر عمر کے لوگوں کو ان کی ذمہ واری کا احساس دلا دوں اور وہ یہ سمجھنے لگیں کہ اب ہم ہی ہیں جنہوں نے جماعت کو سنبھالنا ہے اور ہر فتنے سے بچانا ہے.اپنے اندر نیک تبدیلی اور پاک تبدیلی پیدا کرنی ہے.اگر یہ احساس پیدا ہو جائے قوم کے لوگوں میں تو پھر اس قوم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.تو دیکھ لیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے ہر
سبیل الرشاد جلد چہارم 38 ملک میں یہ ذیلی تنظیمیں قائم ہیں" خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 344) فرد جماعت کی بات عہدیدار کے پاس ایک راز ہے، امانت ہے اسے باہر نکال کر خیانت نہیں کرنی چاہئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 28 مئی 2004 ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا جماعتی عہد یداران ہیں ، صدر جماعت یا سیکرٹریان مال، ان کو بھی یہ کہتا ہوں کہ ہر فر د جماعت کی کوئی بھی بات ہر عہدیدار کے پاس ایک راز ہے اور امانت ہے اس لئے اس کو باہر نکال کر امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہئے ، یا مجلسوں میں بلا وجہ ذکر کر کے امانت میں خیانت نہیں کرنی چاہئے.رعایت یا معافی چندہ کوئی شخص لیتا ہے تو یہ باتیں صرف متعلقہ عہد یداران تک ہی محدود رہنی چاہئیں“ خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 361) انابت الی اللہ ، عاجزی، توبہ واستغفار سے اللہ کے حضور جھکنا اور اس کے اصولوں کے مطابق عبادت بجالانے کا نام ہے مجلس انصاراللہ جرمنی کے 24 ویں سالانہ اجتماع کے اختتامی اجلاس میں مورخہ 31 مئی 2004ء کو باد ہومبرگ کے مقام پر انابت الی اللہ کے موضوع پر نہایت بصیرت افروز خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: انصار اللہ کا اصل مقصد اشاعت اسلام، تربیت اولاد اور استحکام خلافت ہے.انابت الی اللہ یہ ہے کہ عاجزی دکھاتے ہوئے تو بہ، استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا اور اس کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق عبادت بجالا نا.انصاراب عمر کے اُس حصہ میں ہیں جس میں خدا تعالیٰ کی طرف جھکنا بہت ضروری ہے.جوں جوں عمر بڑھتی ہے اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے.دنیا داروں کے دل میں بھی نرمی پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے لیکن ایک احمدی تو زمانے کے امام کو ماننے کی وجہ سے حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کا زیادہ پابند ہے.نمازوں اور نوافل کی ادائیگی کی طرف خصوصی توجہ کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے أَقِيمُوا الصَّلوة کا حکم دیا ہے نمازیں اللہ تعالیٰ کے رحم کو جذب کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں.انابت الی اللہ کے لئے نمازوں اور دعاؤں اور نوافل کی ضرورت ہے.نماز پنجگانہ کے علاوہ نماز تہجد کا بھی اہتمام کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: أَقِمِ الصَّلوةَ لِدَلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ الَّيْلِ وَ قُرْآنَ الْفَجْرِ (بنی اسرائیل: 79)
39 سبیل الرشاد جلد چہارم اس آیت کی روشنی میں اپنی عبادات بجالائیں آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جو حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے پیش فرمایا جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کے بارہ میں پوچھا جائے گا.باوجود دل نہ چاہنے کے نماز کے لئے آنا اور اچھی طرح وضو کرنا.بعض لوگ نماز تو پڑھتے ہیں لیکن کا روبار میں لوگوں کو لوٹتے ہیں.آپ کی نمازیں ایسی ہوں جو آپ کی حفاظت کریں.آپ نے مجلس انصار اللہ جرمنی کی طرف سے سو مساجد تحریک کی مد میں پانچ لاکھ یورو کے وعدہ کا بھی ذکر فرمایا.انصار اللہ کی بہت بڑی ذمہ داری اپنی اولاد کی تربیت کرنا ہے اور تربیت اولاد کے لئے اپنا نیک نمونہ پیش کرنا بہت ضروری ہے.تربیت کا آغاز بچپن سے ہی کر دینا چاہئے بچوں کو سات سال کی عمر سے نمازوں کا عادی بنا ئیں گھر میں بھی سنتیں اور نوافل ادا کر میں بچے اپنے والدین کو دیکھتے ہیں.نو جوان نسل کو بھی پیارے انداز میں نماز پڑھنے کی تلقین کریں.بعض والدین با قاعدگی سے نماز نہیں پڑھتے ایسی صورت ہو تو بچے کب نماز پڑھیں گے.اگر اس عمر میں نماز نہیں پڑھیں گے تو کب پڑھیں گے.سید نا حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ جو شخص قرآن مجید کے سات سو احکام میں سے ایک پر بھی عمل نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.اس لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم کا گہرائی سے مطالعہ کرتے رہیں اور قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے سیدنا حضرت مسیح موعود کی کتب کا مطالعہ ضروری ہے.مجلس انصار اللہ ایک خاص پروگرام کے تحت کتب حضرت مسیح موعودؓ کو پڑھنے کا اہتمام کرے.اپنی اولاد کے لئے پہلے اپنی اصلاح کریں.اپنی بیگم کے ساتھ نرم رویہ اور بچوں کے ساتھ پیار کا سلوک کریں اور آپ کا یہ نعرہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ بھی سچ بن جائے.اسلام نے انشاء اللہ ترقی کرنی ہے.جو وعدے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود" سے کیسے ہیں وہ ہر حال میں پورے ہوں گے.اس لئے ضروری ہے کہ ہم سب متقی بن جائیں تا ہمارا بھی اس ترقی میں حصہ ہو.اپنی جانوں پر رحم کرو اور اس راہ میں فدا ہو جاؤ اور ہمہ تن اس کے ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا حضرت مسیح موعود کی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین" (ماہنامہ الناصر جرمنی اگست 2004ء) انصارا اپنے گھروں کی نگرانی کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 5 جون 2004ء کو میٹنگ میں مجلس عاملہ انصار اللہ ہالینڈ کے کاموں کا جائزہ لیا اور انصار کو اپنی تربیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ انصاراپنے گھروں کی نگرانی کریں اور بچوں کی تربیت کریں.گھروں میں بیویوں سے حسن سلوک کریں الفضل انٹر نیشنل 25 جون تا یکم جولائی 2004ء)
سبیل الرشاد جلد چہارم 40 عہد یدار آنے والے ہر فر دکو خوش آمدید کہیں اور اُٹھ کر ملیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 3 ستمبر 2004ءکو خطبہ جمعہ میں فرمایا جماعت کے عہدیداران کو بھی میں کہنا چاہتا ہوں، ان کو بھی سبق لینا چاہئے کہ ملنے کے لئے آنے والے کو اچھی طرح خوش آمدید کہنا چاہئے.خوش آمدید کہیں ، ان سے ملیں ، مصافحہ کریں، ہر آنے والے کی بات کو غور سے سنیں.بعض لکھنے والے مجھے خط لکھ دیتے ہیں کہ ہمارے بعض معاملات ہیں کہ آپ سے ملنا تو شاید آسان ہو لیکن ہمارے فلاں عہدیدار سے ملنا بڑا مشکل ہے.تو ایسے عہدیداران کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ حسنہ کو یا درکھنا چاہئے ، ملنے والے سے اتنے آرام سے ملیں کہ اس کی تسلی ہو اور وہ خود تسلی پا کر آپ سے الگ ہو.پھر دفتروں میں بیٹھے ہوتے ہیں.ہر آنے والے کو کرسی سے اٹھ کر ملنا چاہئے ، مصافحہ کرنا چاہئے.اس سے آپ کی عاجزی کا اظہار ہوتا ہے اور یہی عاجزی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی ہے.دیکھیں آپ بیٹھتے وقت بھی کتنی احتیاط کیا کرتے تھے (خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 637-638) تمام قائدین دستور اساسی کا مطالعہ کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 5 ستمبر 2004 ء کو نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ جرمنی کی میٹنگ میں باری باری تمام سیکرٹریان ( قائدین ) سے تعارف حاصل کیا اور ہر ایک سے اُس کے شعبہ کے کام اور پروگرام کے بارہ میں دریافت فرمایا اور قائد عمومی کو ہدایت فرمائی کہ ہر ماہ مجلس انصار اللہ کے کام کی رپورٹ با قاعدگی سے حضورا نور کی خدمت میں بھجوائیں.حضور انور نے تمام قائدین کو ہدایت فرمائی کہ انصار اللہ کے کانسٹی ٹیوشن، دستور اساسی کا مطالعہ کریں.اور ہر قائد اپنے شعبہ کے بارہ میں لائحہ عمل اور ہدایات پڑھے اور پھر اس کے مطابق اپنے اپنے شعبہ کو آر گنائز کریں اور پروگرام بنائیں اور کام کریں.قائد تعلیم کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ انصار کے مطالعہ کیلئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جو چھوٹی کتب ہیں وہ مقرر کریں اور باقاعدہ امتحان لیں.حضور انور نے فرمایا ” سال میں کم از کم دو امتحان تو ہو سکتے ہیں“.انصار کی آمد اور چندوں کا بھی حضور انور نے تفصیل سے جائزہ لیا اور ہدایت فرمائی کہ چندہ بڑھانے میں بہت گنجائش ہے.چندے مزید بڑھائے جاسکتے ہیں.فرمایا موصیان کی تعداد بڑھائیں“.قائد ایثار کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ " یہاں جو Old People Homes ہیں جہاں بوڑھے لوگوں کو رکھا جاتا ہے وہاں ہمارے انصار جائیں.ان لوگوں سے ملیں.باتیں کر میں ان کا حال دریافت کریں.پھول پھل وغیرہ لے کر جائیں.اس طرح ان سے ملنے اور باتیں کرنے سے آپ کو مقامی
سبیل الرشاد جلد چہارم 41 زبان بھی آئے گی.اور آپ کچھ نہ کچھ زبان سیکھ لیں گے.الفضل انٹر نیشنل یکم تا 7 اکتوبر 2004ء) قیادت تعلیم القرآن کی ذمہ داریاں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 24 ستمبر 2004ء کو خطبہ جمعہ میں جماعت کو قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دلائی.آپ نے خطبہ میں مجلس انصار اللہ کی قیادت تعلیم القرآن کو مخاطب ہو کر بعض ذمہ داریوں سے آگاہ فرمایا.آپ فرماتے ہیں.ایک احمدی کو خاص طور پر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس نے قرآن کریم پڑھنا ہے، سمجھنا ہے، غور کرنا ہے اور جہاں سمجھ نہ آئے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وضاحتوں سے یا پھر انہیں اصولوں پر چلتے ہوئے اور مزید وضاحت کرتے ہوئے خلفاء نے جو وضاحتیں کی ہیں ان کو ان کے مطابق سمجھنا چاہئے.اور پھر اس پر عمل کرنا ہے تب ہی ان لوگوں میں شمار ہوسکیں گے جن کے لئے یہ کتاب ہدایت کا باعث ہے.دور نہ تو احمدی کا دعوی بھی غیروں کے دعوے کی طرح ہی ہوگا کہ ہم قرآن کو عزت دیتے ہیں.اس لئے ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے کہ یہ صرف دعویٰ تو نہیں؟ اور دیکھے کہ حقیقت میں وہ قرآن کو عزت دیتا ہے؟ کیونکہ اب آسمان پر وہی عزت پائے گا جو قرآن کو عزت دے گا اور قرآن کو عزت دینا یہی ہے کہ اس کے سب حکموں پر عمل کیا جائے.قرآن کی عزت یہ نہیں ہے کہ جس طرح بعض لوگ شیلفوں میں اپنے گھروں میں خوبصورت کپڑوں میں لپیٹ کر قرآن کریم رکھ لیتے ہیں اور صبح اٹھ کر ماتھے سے لگا کر پیار کر لیا اور کافی ہو گیا اور جو برکتیں حاصل ہوئی تھیں ہو گئیں.یہ تو خدا کی کتاب سے مذاق کرنے والی بات ہے.دنیا کے کاموں کے لئے تو وقت ہوتا ہے لیکن سمجھنا تو ایک طرف رہا، اتنا وقت بھی نہیں ہوتا کہ ایک دور کوع تلاوت ہی کر سکیں“.ہر احمدی کو اپنے بچوں کو قرآن پڑھانے کی فکر ہونی چاہئے پس ہر احمدی کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ وہ خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دیں.پھر ترجمہ پڑھیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر پڑھیں.یہ تفسیر بھی تفسیر کی صورت میں تو نہیں لیکن بہر حال ایک کام ہوا ہوا ہے کہ مختلف کتب اور خطابات سے ملفوظات سے حوالے اکٹھے کر کے ایک جگہ کر دیئے گئے ہیں اور یہ بہت بڑا اعلم کا خزانہ ہے.اگر ہم قرآن کریم کو اس طرح نہیں پڑھتے تو فکر کرنی چاہئے اور ہر ایک کو اپنے بارے میں سوچنا چاہئے کہ کیا وہ احمدی کہلانے کے بعد ان باتوں پر عمل نہ کر کے احمدیت سے دور تو نہیں جارہا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: " یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن
42 سبیل الرشاد جلد چہارم شریف کو چھوڑ دیا ہے.لیکن پھر بھی قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں چنانچہ میں اس وقت اس ثبوت کے لئے بھیجا گیا ہوں اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے اپنے وقت پر اپنے بندوں کو اپنی حمایت اور تائید کے لئے بھیجتا رہا ہے.کیونکہ اس نے وعدہ فرمایا تھا کہ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُوْنَ ( الحجر : 10 ) یعنی بے شک ہم نے اس ذکر ( یعنی قرآن شریف ) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں " (الحکم 17 نومبر 1905ء) پس ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں بھی جو کچھ ملنا ہے قرآن کریم کی برکت سے ہی ملنا ہے اور برکت اس کے احکام پر عمل کرنے میں ہی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : " قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے.اور ایسی کامیابی ایک خیالی امر ہے جس کی تلاش میں یہ لوگ لگے ہوئے ہیں.صحابہ کے نمونوں کو اپنے سامنے رکھو.دیکھو انہوں نے جب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اور دین کو دنیا پر مقدم کیا تو وہ سب وعدے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے کئے تھے پورے ہو گئے.ابتداء میں مخالف ہنسی کرتے تھے کہ باہر آزادی سے نکل نہیں سکتے اور بادشاہی کے دعوے کرتے ہیں.لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں گم ہو کر وہ پایا جوصدیوں سے ان کے حصے میں نہ آیا تھا" ( ملفوظات جلد اول صفحہ 409 ) قیادت تعلیم القرآن کے قیام کا مقصد پس بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھنے کی عادت ڈالیں اور خود بھی پڑھیں.ہر گھر سے تلاوت کی آواز آنی چاہئے.پھر ترجمہ پڑھنے کی کوشش بھی کریں.اور سب ذیلی تنظیموں کو اس سلسلے میں کوشش کرنی چاہئے ، خاص طور پر انصار اللہ کو کیونکہ میرے خیال میں خلافت ثالثہ کے دور میں ان کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا.اسی لئے ان کے ہاں ایک قیادت بھی اس کے لئے ہے جو تعلیم القرآن کہلاتی ہے.اگر انصار پوری توجہ دیں تو ہر گھر میں با قاعدہ قرآن کریم پڑھنے اور اس کو سمجھنے کی کلاسیں لگ سکتی ہیں.ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو موسی سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مومن قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال ایک ایسے پھل کی طرح ہے جس کا مزہ بھی عمدہ اور خوشبو بھی عمدہ ہوتی ہے.اور وہ مومن جو قرآن نہیں پڑھتا مگر اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال اس کھجور کی طرح ہے کہ اس کا مزہ تو عمدہ ہے مگر اس کی خوشبو کوئی نہیں.اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اس خوشبودار پودے کی طرح ہے جس کی خوشبو تو عمدہ ہے مگر مزا کڑوا ہے.اور ایسے منافق کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا ایسے کڑوے پھل کی طرح ہے جس کا مزا بھی کڑوا ہے جس کی خوشبو بھی کڑوی ہے.( بخاری کتاب فضائل القرآن باب اثم من رأی بقراۃ القرآن او تا کل به او فجر به )
43 سبیل الرشاد جلد چہارم اس حدیث سے قرآن کریم کی مزید وضاحت یہ ہوتی ہے کہ نہ صرف تلاوت ضروری ہے بلکہ اس کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے.جو قرآن کریم پڑھتے بھی ہیں اور اس پر غور بھی کرتے ہیں اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں وہ ایسے خوشبودار پھل کی طرح ہیں جس کا مزا بھی اچھا ہے اور جس کی خوشبو بھی اچھی ہے.کیسی خوبصورت مثال ہے.کہ ایسا پھل جس کا مزا بھی اچھا ہے جب انسان کوئی مزیدار چیز کھاتا ہے تو پھر دوبارہ کھانے کی بھی خواہش ہوتی ہے.تو قرآن کریم کو جو اس طرح پڑھے گا کہ اس کو سمجھ آ رہی ہوگی اس کو سمجھنے سے ایک قسم کا مزا بھی آ رہا ہو گا اور جب اس پر عمل کر رہا ہو گا تو اس کی خوشبو بھی ہر طرف پھیلا رہا ہو گا.اس کے احکام کی خوبصورتی ہر ایک کو ایسے شخص میں نظر آ رہی ہوگی.پس ایسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو تقویٰ میں ترقی کرنے والے اور راہ ہدایت پانے والے ہوتے ہیں.ان کے گھر کے ماحول بھی جنت نظیر ہوتے ہیں.ان کے باہر کے ماحول بھی پرسکون ہوتے ہیں.وہ بیوی بچوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں.وہ ماں باپ کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں.وہ صلہ رحمی کے بھی اعلیٰ معیار قائم کر رہے ہوتے ہیں.وہ ہمسایوں کے بھی حقوق ادا کر رہے ہوتے ہیں.وہ اپنے دنیاوی کاموں کے بھی حق ادا کر رہے ہوتے ہیں اور وہ جماعتی خدمات کو بھی ایک انعام سمجھ کر اس کی ادائیگی میں اپنے اوقات صرف کر رہے ہوتے ہیں.اور سب سے بڑھ کر وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے، رحمان کے بندے ہوتے ہیں.ان کے بچے بھی ایسے باپوں کو ماڈل سمجھ رہے ہوتے ہیں اور ان کی بیویاں بھی ان سے خوش ہوتی ہیں اور پھر ایسی بیویاں ایسے خاوندوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں ، اپنے عملوں کو بھی ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس طرح ایسے لوگ بغیر کچھ کہے بھی خاموشی سے ہی ایک اچھے راعی ، ایک اچھے نگران کا نمونہ بھی قائم کر رہے ہوتے ہیں.ان کا ہمسایہ بھی ان کی تعریف کے گیت گا رہا ہوتا ہے اور ان کا ماحول اور معاشرہ بھی ایسے لوگوں کی خوبیاں گنوا رہا ہوتا ہے.ان کا افسر بھی ایسے شخص کی فرض شناسی کے قصے سنا رہا ہوتا ہے اور اس کا ماتحت بھی ایسے اعلیٰ اخلاق کے افسر کے گن گا رہا ہوتا ہے اور اس کے لئے قربانی دینے کے لئے بھی تیار ہوتا ہے.اور اس کے دوست اور ساتھی بھی اس کی دوستی میں فخر محسوس کر رہے ہوتے ہیں.یہ خوبیاں ہیں جو قرآن پڑھ کر اس پر عمل کر کے ایک مؤمن حاصل کر سکتا ہے.بلکہ اور بھی بہت ساری خوبیاں ہیں.یہاں تو میں ساری گنوا نہیں سکتا.تو جس کو یہ سب کچھ مل جائے وہ کس طرح سوچ سکتا ہے کہ وہ قرآن کریم پڑھ کر اس پر عمل نہ کرے جب عمل کرنے کے بعد یہ سب کچھ حاصل ہو رہا ہے.اور پھر جو دوسری مثال اس میں دی کہ جو اتنی نیکی رکھتا ہے گو وہ با قاعدہ گھر میں تلاوت تو نہیں کر رہا ہوتا، ترجمہ پڑھنے والا تو نہیں ہے، اس پر غور کرنے والا تو نہیں ہے لیکن جب بھی جمعہ پر آتا ہے، درسوں پر آتا ہے، نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا ہے، وہاں قرآن کریم کی کوئی ہدایت کی بات سن لیتا ہے تو پھر اس پر عمل کرنے کی
44 سبیل الرشاد جلد چہارم کوشش کرتا ہے.تو وہ اس کا مزا تو نہیں لیتا جو قرآن کریم کو پڑھنے، سمجھنے اور غور کرنے سے حاصل ہوسکتا ہے لیکن اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے بھی وہ کچھ نہ کچھ حصہ لے رہا ہوتا ہے.اس مثال میں جس طرح بیان کیا گیا ایسے لوگ ہیں جو دنیا کے دکھاوے کے لئے قرآن کریم پڑھتے ہیں تو قرآن کریم کی خوشبو اس کو پڑھنے کی وجہ سے ماحول میں قائم ہوگی.کوئی نیک فطرت اس سے فائدہ اٹھالے گا.لیکن وہ شخص جو دکھاوے کی خاطر یہ سب کچھ کر رہا ہے اس شخص کو اس کا پڑھنا کوئی مٹھاس، کوئی خوشبو میسر نہیں کر سکتی.کوئی فائدہ اس کو نہیں پہنچے گا.اور پھر وہ شخص جو نہ قرآن پڑھتا ہے اور نہ اس پر عمل کرتا ہے، اس میں تو فرمایا کہ ایسی منافقت بھر گئی ہے کہ جس میں نہ خوشبو ہے اور نہ مزا ہے.نہ وہ خود فیض پاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا اس سے فیض پاسکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ایسا بننے سے محفوظ رکھے.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں میں سے کچھ لوگ اہل اللہ ہوتے ہیں.راوی کہتے ہیں اس پر آپ سے دریافت کیا گیا یا رسول اللہ ! خدا کے اہل کون ہوتے ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن والے اہل اللہ اور اللہ کے (مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 128 مطبوعہ بیروت) خاص بندے ہوتے ہیں.اہل اللہ بننے کے لئے جیسا کہ پہلی حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے.قرآن کریم کو پڑھنے والے بھی بنیں اور اس پر عمل کرنے والے بھی بنیں.کامیاب وہی ہے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ " کامیاب وہی لوگ ہوں گے جو قرآن کریم کے ماتحت چلتے ہیں.قرآن کو چھوڑ کر کامیابی ایک ناممکن اور محال امر ہے" (احکام 31 اکتوبر 1901ء) پس ہر احمدی کو اپنی کامیابیوں کو حاصل کرنے کے لئے یہ نسخہ آزمانا چاہئے.دین بھی سنور جائے گا اور دنیاوی مسائل بھی حل ہو جائیں گے.آج دیکھ لیں مسلمانوں میں جو لڑائی جھگڑے اور دنیا کے سامنے ذلت کی حالت ہے وہ اسی لئے ہے کہ نہ قرآن پڑھتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرتے ہیں.جو پڑھتے ہیں وہ عمل نہیں کرتے ، سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تو ظاہر ہے پھر قرآن کو چھوڑنے کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جونکل رہا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : یا درکھو قرآن کریم حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کا سچا ذ ریعہ ہے.یہ ان لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآن کریم پر عمل نہیں کرتے.عمل نہ کرنے والوں میں ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں.اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے.یہ لوگ تو بہت دور پڑے ہوئے ہیں.لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے، اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے.ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے
45 سبیل الرشاد جلد چہارم ساری عمر میں کبھی اسے پڑھا ہی نہیں.پس ایسے آدمی جوخدا تعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لا پرواہ ہیں ان کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفی اور شیر میں اور خنک ہے اور اس کا پانی بہت سے امراض کے واسطے اکسیر اور شفا ہے.یہ علم اس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اس کی کیسی بدقسمتی اور جہالت ہے، اسے تو چاہئے تھا کہ اس چشمے پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اس کے لطف اور شفا بخش پانی سے حظ اٹھاتا.مگر باوجود علم کے اس سے ویسا ہی دور ہے جیسا کہ ایک بے خبر.اور اس وقت تک اس سے دور رہتا ہے جو موت آ کر خاتمہ کر دیتی ہے.اس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے.مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے.وہ جانتے ہیں کہ ساری کامیابیوں کی کلید یہی قرآن شریف ہے جس پر ہم کو عمل کرنا چاہئے ،مگر نہیں.اس کی پروا بھی نہیں کی جاتی.ایک شخص جو نہایت ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ اور پھر نری ہمدردی ہی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم اور ایماء سے اس طرف بلا وے تو اسے کذاب اور دجال کہا جاتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا قابل رحم حالت اس قوم کی ہوگی.فرمایا کہ ” مسلمانوں کو چاہئے تھا اور اب بھی ان کے لئے یہی ضروری ہے کہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں.اس کی قدر یہی ہے کہ اس پر عمل کریں اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح ان کی مصیبتوں اور مشکلات کو دور کر دیتا ہے.کاش مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایک نیک راہ پیدا کر دی ہے.اور وہ اس پر چل کر فائدہ اٹھائیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 140-141.احکم 24 ستمبر 1904 ) جب یہ دوسروں کے لئے نصیحت ہے تو یہ ہمارے لئے تو اور بھی زیادہ بڑھ کر ہے.ایسے لوگوں کے لئے جو عمل نہیں کرتے ،قرآن کریم میں آیا ہے کہ وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان : 13 ).اور رسول کہے گا اے میرے رب یقیناً میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے.پس احمدیوں کو ہمیشہ فکر کرنی چاہئے کیونکہ ماحول کا بھی اثر ہو جاتا ہے.دنیا داری بھی غالب آ جاتی ہے.کوئی احمدی کبھی بھی ایسا نہ رہے جو کہ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت نہ کرتا ہو، کوئی احمدی ایسا نہ ہو جو اس کے احکام پر عمل نہ کرتا ہو.اللہ نہ کرے کہ کبھی کوئی احمدی اس آیت کے نیچے آجائے کہ اس نے قرآن کریم کو متروک چھوڑ دیا ہو.پس اس کے لئے توجہ دینے کی ضرورت ہے.جو کمیاں ہیں ہر ایک کو اپنا اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ ہمارے اندر کوئی کمی تو نہیں.ہم نے قرآن کریم کو چھوڑ تو نہیں دیا.تلاوت با قاعدگی سے ہو رہی ہے یا نہیں.ترجمہ پڑھنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ نہیں.تفسیر سمجھنے کی کوشش ہو رہی ہے کہ نہیں.متروک چھوڑنے کا مطلب یہی ہے کہ اس کے حکموں پر عمل نہیں کر رہیض نہ اللہ کے حقوق ادا کر رہے ہیں نہ بندوں
سبیل الرشاد جلد چہارم 46 کے حقوق ادا کر رہے ہیں.ایسی صورت میں جب ہر کوئی اپنا جائزہ لے تو ہر ایک کو اپنا علم ہو جائے گا کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں رہے گی......قرآن کریم کو خوش الحانی سے پڑھنا چاہئے....قرآن کریم کے پڑھنے کے بھی کچھ آداب ہیں اس کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے.حضرت عبداللہ بن عمر و بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے تین دن سے کم عرصے میں قرآن کریم کو ختم کیا اس نے قرآن کریم کا کچھ نہیں سمجھا.(ترمذی ابواب القراء ة ) بعض لوگوں کو بڑا فخر ہوتا ہے کہ ہم نے اتنے دن میں ، ایک دن میں یا دو دن میں سارا قرآن کریم ختم کر لیا.یا ہم نے اتنے منٹ میں سیپارے ختم کر دیئے یا اتنا سیپارہ ختم کر دیا.بلکہ رمضان کے دنوں میں تو پاکستان میں ( اور جگہوں پہ بھی ہوگا ) غیروں کی مسجدوں میں مقابلہ ہوتا ہے کہ کون جلدی تراویح پڑھاتا ہے.....حکم یہ ہے کہ قرآن کریم غور سے اور سمجھ کر پڑھو پھہر ٹھہر کر پڑھو.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص قرآن کریم خوش الحانی سے اور سنوار کر نہیں پڑھتا اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں.(ابوداؤد كتاب الصلوة باب كيف يستحب الترتيل في القراءة) تويد مزيد کھل گیا کہ ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھ مجھ کر پڑھنا چاہئے.اور کس طرح پڑھنا چاہئے؟ اس کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ " انسان کو چاہئے کہ قرآن شریف کثرت سے پڑھے.جب اس میں دعا کا مقام آوے تو دعا کرے اور خود بھی خدا سے وہی چاہے جو اس دعا میں چاہا گیا ہے.اور جہاں عذاب کا مقام آوے تو اس سے پناہ مانگے.اور ان بداعمالیوں سے نیچے جن کے باعث وہ قوم تباہ ہوئی.بلا مد دوجی کے ایک بالائی منصوبہ جو کتاب اللہ کے ساتھ ملاتا ہے وہ اس شخص کی ایک رائے ہے جو کہ کبھی باطل بھی ہوتی ہے، اور ایسی راے جس کی مخالفت احادیث میں موجود ہو وہ محدثات میں داخل ہوگی.رسم اور بدعات سے پر ہیز بہتر ہے.اس سے رفتہ رفتہ شریعت میں تصرف شروع ہو جاتا ہے.بہتر طریق یہ ہے کہ ایسے وظائف میں جو وقت اس نے صرف کرنا ہے وہی قرآن شریف کے تدبر میں لگاوے.دل کی اگر تختی ہو تو اس کے نرم کرنے کے لئے یہی طریق ہے کہ قرآن شریف کو ہی بار بار پڑھے.جہاں جہاں دعا ہوتی ہے وہاں مومن کا بھی دل چاہتا ہے کہ یہی رحمت الہی میرے بھی شامل حال ہو.قرآن شریف کی مثال ایک باغ کی ہے کہ ایک مقام سے انسان کسی قسم کا پھول چنتا ہے پھر آگے چل کر ایک اور قسم کا پھول چنتا ہے.پس چاہئے کہ ہر ایک مقام کے مناسب حال فائدہ اٹھاوے.اپنی طرف سے الحاق کی کیا ضرورت ہے.ورنہ پھر سوال ہوگا کہ تم نے ایک نئی بات کیوں بڑھائی.خدا تعالی کے سوا اور کس کی طاقت ہے کہ کہے فلاں راہ سے اگر سورۃ یاسین پڑھو گے تو برکت ہوگی
سبیل الرشاد جلد چہارم 47 ور نہ نہیں".( ملفوظات جلد 3 صفحہ 915 جدید ایڈیشن) یہ باتیں ہوتی ہیں کہ اس طرح سورۃ یاسین پڑھی جائے تو برکت ہوگی اور اگر اس طرح ہوگی تو نہیں ہوگی.پس ہر ایک کو اس نصیحت پر عمل کرنا چاہئے ، دلوں کو پاک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس طرح غور اور تدبر سے پڑھنا چاہئے جیسا کہ آپ نے فرمایا.پھر ہر ایک جائزہ لے کہ کتنے حکم ہیں جن پر میں عمل کرتا ہوں.تو اگر روزانہ تلاوت کی عادت ہو اور پھر اس طرح روزانہ جائزہ ہو تو کیا دل کے اندر کوئی برائی رہ سکتی ہے.کبھی نہیں.تو یہ بھی ایک پاک کرنے کا ذریعہ ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: " قرآن شریف اپنی روحانی خاصیت اور اپنی ذاتی روشنی سے اپنے پیرو کو اپنی طرف کھینچتا ہے.اور اس کے دل کو منور کرتا ہے اور پھر بڑے بڑے نشان دکھلا کر خدا سے ایسے تعلقات مستحکم بخش دیتا ہے کہ وہ ایسی تلوار سے بھی ٹوٹ نہیں سکتے جو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہے.وہ دل کی آنکھ کھولتا ہے اور گناہ کے گندے چشمہ کو بند کرتا ہے.اور خدا تعالیٰ کے لذیذ مکالمہ مخاطبہ سے شرف بخشا ہے اور علوم غیب عطا فرماتا ہے اور دعا قبول کرنے پر اپنے کلام سے اطلاع دیتا ہے" چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 308-309) انصار اللہ میں بھی ابھی 100 فیصد تلاوت قرآن کرنے والے نہیں اللہ کرے کہ ہم خود بھی اور اپنے بیوی بچوں کو بھی اس طرف توجہ دلانے والے ہوں اور اپنے دلوں کو منور کرنے والے ہوں اور قبولیت دعا کے نظارے دیکھنے والے ہوں.جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ انصار اللہ کے ذمہ خلافت ثالثہ میں یہ لگایا گیا تھا کہ قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کریں، قرآن کریم کی تلاوت کی طرف توجہ دیں.گھروں کو بھی اس نور سے منور کریں لیکن ابھی بھی جہاں تک میرا اندازہ ہے انصار اللہ میں بھی 100 فیصد قرآن کی تلاوت کرنے والے نہیں ہیں.اگر جائزہ لیں تو یہی صورتحال سامنے آئے گی.اور پھر یہ کہ اس کا ترجمہ پڑھنے والے ہوں آج انصار اللہ کا اجتماع بھی شروع ہو رہا ہے یہ بھی ان کے پروگرام میں ہونا چاہئے کہ اپنے گھروں میں خود بھی پڑھیں اور اپنے بیوی بچوں کی بھی نگرانی کریں کہ وہ بھی اس پر عمل کرنے والے ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ " میں بار بار کہتا ہوں اور بلند آواز سے کہتا ہوں کہ قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھنا اور سچی تابعداری اختیار کرنا انسان کو صاحب کرامات بنادیتا ہے" ضمیمہ انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 61) پھر آپ فرماتے ہیں " قرآن شریف پر تدبر کرو اس میں سب کچھ ہے.نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل
48 سبیل الرشاد جلد چہارم ہے.اور آئندہ زمانے کی خبریں ہیں وغیرہ.بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بتازہ ملتے ہیں.انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا.اس کی تعلیم اس زمانے کے حسب حال ہو تو ہو ، لیکن وہ ہمیشہ اور ہر حالت کے موافق ہرگز نہیں.یہ فخر قرآن مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قومی کی تربیت فرمائی ہے.اور جو بدی ظاہر کی ہے اس کے دور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے.اس لئے قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو" ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 102 - الحکم 17 جنوری 1907 ) پھر آپ فرماتے ہیں " قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی نا امید نہ ہو.مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا.یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں.ہمارا خدا علی كُلّ شَيْئ قَدِير خدا ہے.قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھو.اپنی زبان میں بھی دعائیں کر لو.قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو بلکہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو " ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 191 ـ الحکم 17 جون 1902) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم قرآن کریم کے مقام کو پہچانیں اور اپنی زندگیاں بھی سنوار نے والے ہوں اور اپنی نسلوں کی زندگیاں بھی سنوار نے والے ہوں.اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو ہمیں نصائح فرمائی ہیں ان پر عمل کرنے والے ہوں" خطبات مسر و ر جلد 2 صفحہ 686-699) آج انصار اللہ اپنی عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم کریں اور حسن سلوک کے بھی اعلیٰ معیار قائم کریں نیشنل عاملہ سے لے کر نچلی سے نچلی سطح تک عاملہ کے تمام عہدیداران کو وصیت کے بابرکت نظام میں شامل ہونے کی تاکیدی نصیحت سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ برطانیہ 2004ء کے آخری روز مورخہ 26 ستمبر کو خطاب کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:."الحمدللہ کہ آج آپ کو اپنا با ئیسواں سالانہ اجتماع بخیر وخوبی اختتام تک پہنچانے کی توفیق مل رہی ہے.اللہ تعالے کے فضل سے اس دفعہ حاضری بھی پچھلے سال کی نسبت زیادہ بہتر ہے اور دوسرے پر وگرام بھی، تربیتی پروگرام بھی شامل کئے گئے.ذکر حبیب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر تقاریر بھی
سبیل الرشاد جلد چہارم 49 ہوئیں.بہر حال وہ آپ لوگوں کے علم میں اضافے اور روحانیت میں ترقی کا باعث بنی ہونگی.اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ ہر کوئی ان باتوں کو جو سنی گئی ہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرے.انصار کا اپنے گھر میں سلوک مثالی ہو اس مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے ، جہاں ہر قسم کی آزادی ہے، انصار اللہ کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے.جہاں آپکو اپنے بچوں کی طرف اپنے گھروں کی طرف توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے، بیوی کی طرف بھی توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے.بیوی سے اگر حسنِ سلوک ہوگا تو وہ یکسوئی سے آپکے بچوں کی صحیح تربیت کی طرف توجہ کرے گی.ورنہ تو وہ بچوں کی تربیت کی بجائے گھر میں ہر وقت ان بچوں کے سامنے ایسے خاوند ، ایسے باپ جو صحیح طرح اپنے بیوی بچوں کی طرف توجہ نہیں دیتے ، ان کے رویوں کا ذکر ہی ہوتار ہے گا، ان کی شکایتیں ہی ہوتی رہیں گی.بچے اور ماں ایک دوسرے سے اپنے باپوں کے بارے میں رونے ہی روتے رہیں گے.اور پھر ایسی صورت کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کے بچے آپ سے پیچھے ہٹتے چلے جائیں گے.چالیس سال کی عمر کے انصار جو ہیں ان کے بچے ابھی چھوٹی عمر کے ہوتے ہیں، اس سے بڑی عمر کے انصار میں ان کے بچوں کی نو جوانی میں شادیاں ہو گئیں، ان کے آگے بچے ہیں، تو ہر عمر کے انصار کے گھر کا جو ماحول ہے، اس میں اگر اس کا رویہ اپنے گھر والوں سے ٹھیک نہیں تو وہ بعض دفعہ ٹھوکر کا باعث بن سکتا ہے.اور پھر آپ سے جب پرے ہٹیں گے تو پھر دین سے بھی پرے ہٹتے چلے جائیں گے.نحن انصار اللہ کے حوالہ سے انصار اللہ کی ذمہ داریاں اگر بچوں میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ ہمارا باپ یا ہمارا دا دایا ہما را نا نا دین کے بڑے خدمت گاروں میں شمار ہوتا ہے لیکن گھر کے اندر وہ اعلیٰ اخلاق جو ایک دیندار کے اندر ہونے چاہیں ان کا اظہار نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کی عبادت کے جو نظارے ان بزرگوں میں نظر آنے چاہئیں وہ نظر نہیں آتے ، تلاوت قرآن کریم کی طرف توجہ جس طرح ہونی چاہئے وہ توجہ نہیں ہوتی.پھر بچے یہ بھی سوچتے ہیں کہ ہماری ماں کے ساتھ جو حسنِ سلوک اس گھر میں ہونا چاہئے وہ نہیں ہوتا تو باہر جا کر جس دین کی خدمت کا ایسا شخص نعرہ لگاتا ہے بچے کے ذہن میں یہی رہے گا کہ وہ سب ڈھکوسلا ہے.تو پھر جیسا کہ میں نے کہا ایسے بچے دین سے بھی دُور ہو جاتے ہیں.اور معاشرے میں اس ماحول میں شیطان تو پہلے ہی اس تاک میں بیٹھا ہوا ہے کہ کب کوئی ایسی ذہنی کیفیت والانظر آئے اور کب میں اس کو اپنے جال میں پھنساؤں.پھر ایسے بگڑتے ہوئے بچے جب شیطان اپنے جالوں میں ان کو پھنسا لیتا ہے تو بعض اوقات خدا کی ذات کے بھی انکاری ہو جاتے ہیں، ان کو اللہ تعالے کی ذات پر بھی یقین نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے خدا کے نام پر اپنے باپوں کو اپنے بزرگوں کو دوہرے
50 سبیل الرشاد جلد چہارم معیار قائم کرتے دیکھا ہوتا ہے، دو عملی کرتے ہوئے دیکھا ہوتا ہے.جب ان کے بچوں کے ذہن میں شیطان یہ بات ڈال دے کہ اگر خدا ہوتا تو تمہارا باپ جو یہ دو عملیاں کر رہا ہے اس کو پکڑ نہ لیتا.تو دیکھیں اس کے بڑے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں اگر انسان سوچے تو خوفزدہ ہو جاتا ہے.اسلئے ہر احمدی کو اور خاص طور پر انصار اللہ کو جو عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں اب صحت مزید کمزور ہونی ہے، قومی جو ہیں مزید کمزور ہونے ہیں اور کچھ ایسی عمر کے بھی ہیں، پتہ تو نہ جو ان کا ہے نہ بچے کا لیکن کسی وقت بھی خدا کی طرف سے بلاوا آ سکتا ہے.تو اگر ہم نے اب بھی اپنے رویوں کو بدلنے کی کوشش نہ کی ، اگر اب بھی ہم نے اپنے گھر کے رَاعِني بننے کا حق ادا نہ کیا ، اگر اب بھی ہم نے ان کی نگرانی اور حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی تو مرنے کے بعد خدا تعالیٰ کو کیا منہ دکھائیں گے.اللہ تعالیٰ کے حضور جب حاضر ہوں گے تو خدا تعالیٰ پوچھے گا نہیں کہ تم نے دعوی تو یہ کیا تھا کہ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ ، ہم اللہ کے انصار ہیں.کیا اللہ کے انصار ایسے ہوتے ہیں.تم اللہ تعالیٰ کے کاموں میں مددگار بننے کی بجائے اپنی اولادوں کو بھی اللہ تعالیٰ سے دور ہٹانے والے بن رہے ہو.جب تمہارے اپنے گھروں میں تربیت کی طرف پوری توجہ نہیں بلکہ تمہارے نمونہ کی وجہ سے تمہاری اولادوں میں نمازوں کی عادت نہیں پڑی تمہاری اولادوں میں قرآن کریم پڑھنے کی عادت نہیں پڑی، تمہاری اولادوں میں دین کی غیرت نہیں ابھری، ایسی غیرت کہ وہ نو جوانی میں بھی اپنی ذاتی اناؤں اور ذاتی خواہشات کو قربان کرنے والے ہوں.اگر تمہاری بیوی تمہاری بہو، تمہارے حسن سلوک اور عبادت گزاری کی گواہی نہیں دیتیں تو صرف مختلف مواقع پر یہ اعلان کر دینا کہ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ.اس کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے.اللہ کی مدد کیا ہے.آجکل یہ کیا طریقہ ہے جس سے ہم اللہ کی مدد کر سکتے ہیں.کیا اللہ تعالیٰ کی مدد گولے چلانا ہے.کیا اللہ تعالیٰ کی مدد کیلئے تو پوں اور بندوقوں سے جنگ کرنا ہے؟ نہیں، بلکہ آج انصار اللہ، اللہ کے مددگاروں کا یہ کام ہے کہ وہ اپنی عبادتوں کے بھی اعلیٰ معیار قائم کریں اور حسن سلوک کے بھی اعلیٰ معیار قائم کریں.ان کے گھروں سے ان کے ان اعلیٰ معیاروں کی خوشبو میں اٹھتی ہوں، ان کے ماحول سے ان کے ان اعلیٰ معیاروں کی خوشبو میں اٹھتی ہوں تبھی وہ پورے معاشرے میں اللہ کی مدد سے ان اعلیٰ معیاروں کی خوشبوئیں پھیلا سکتے ہیں.اللہ کو تو کسی بندے کی ضرورت نہیں ہے.یہ تو ایک اعزاز ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے " سے بندوں کو دے رہا ہے کہ تم میری تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اگر اس دنیا میں زندگی گزارو گے اور تم میری تعلیم کو دنیا میں پھیلاؤ گے تو اس طرح تم میرے دین کی مدد کر رہے ہو گے.فضل اگر خاموشی سے بھی ، زبان سے کچھ کہے بغیر بھی تمہارے عملی نمونہ سے کسی کی اصلاح ہوتی ہے اور اس وجہ سے دوسرے کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کے دین کی عظمت بڑھ رہی ہے تو یہ ایسے لوگ ہیں جو خاموشی سے بھی ، کچھ کہے بغیر بھی انصار اللہ ہونے کا حق ادا کر رہے ہونگے.اللہ تو تمہیں محض اور محض اپنے فضل سے
سبیل الرشاد جلد چہارم 51 اپنے مددگاروں میں شمار کر رہا ہو گا کہ تم اس کے حکموں پر عمل کرنے والے ہو اور اس وجہ سے بعض سعید روحیں راہ راست پر آ رہی ہیں ، تمہارے نمونہ کو دیکھ کر سیدھے راستے پر آ رہی ہیں ، ورنہ اللہ کو ہماری مدد کی کیا پرواہ ہے اور کیا ضرورت ہے.اس کو تو کوڑی کی بھی ضرورت نہیں ہماری ان مردوں کی.ان رجال میں شمارنے کے لئے دعا کریں جو مسیح موعود کے مددگاروں میں سے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں اس زمانے میں بھی ہمارے پاس بے شمار مثالیں ہیں جن میں خدا تعالے نے براہ راست خوابوں کے ذریعے سے لوگوں کو جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.بعض ایسی ٹھوکریں انکی اصلاح کا باعث بن گئیں جن کی وجہ سے وہ جماعت میں شامل ہو گئے.پھر اگر جماعت کی ضروریات کا دیکھا جائے تو ایسے ایسے رنگ میں مالی ضروریات بھی اللہ تعالے نے پوری فرما ئیں جب بھی ضرورت ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی اور خلفاء کے زمانے میں بھی.اور ایسے لوگ جو اس طرح احمدی ہوئے وہ اپنے ایمانوں میں اکثر اوقات ان سے زیادہ مضبوط ہیں جتنا کہ پیدائشی احمدی ہیں.یہ واقعات اکثر و بیشتر اللہ تعالیٰ اس لئے دکھاتا ہے تا کہ ہمیں بتا سکے کہ تم یہ نہ مجھو کہ جس مشن کو میں اپنے پیاروں کے ذریعے جاری کرتا ہوں اس کو پھیلانے کے لئے مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے.یہ تو میں اپنے بندوں پر خود بھی ظاہر کر سکتا ہوں.ان کو راہ راست پر لانے کے طریقے اور بھی ہیں.اور اسی لئے وقتاً فوقتاً نمونے دکھاتا بھی رہتا ہوں.اللہ تعالے فرماتا ہے تا کہ تم لوگ یہ نہ سمجھو کہ بندوں پر انحصار ہے اللہ تعالے کے کاموں کا تمہیں تو ثواب کا مستحق بنانے کے لئے ، ان نیکیوں پر قائم رکھنے کے لئے تمہیں اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے یہ موقع دیا ہے کہ اگر تم زمانے کے امام پر ایمان لائے ہو تو اس کے شکرانے کے طور پر اللہ تعالے کا شکر گزار بندہ بنتے ہوئے اس کام میں میرے پیاروں کا ہاتھ بٹاؤ.جوتعلیم اس نے دی ہے اس پر عمل کرو اور اپنے نیک نمونے قائم کرو تا کہ تمہیں دنیا اور آخرت کے انعاموں کا وارث بنایا جائے.ورنہ خدا تعالیٰ نے جو وعدے اپنے پیاروں سے کیسے ہوتے ہیں ان کی وجہ سے ان کو اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ اگر فلاں شخص نے میری مددنہ کی تو غلبہ کس طرح ہوگا.یا اگر فلاں حکومت نے مخالفت کی تو میرے کام کیسے آگے بڑھیں گے، میری جماعت کس طرح پھیلے گی.اگر چند لوگ وعدہ کر کے بھول بھی جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی مدد کے لئے اور لوگ لے آتا ہے اور جماعت پیدا کر دیتا ہے.ظالم حکومتوں سے بھی خود نپٹ لیتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ وعدے کئے ہوئے ہیں اور وقتا فوقتا اپنی اس قدرت کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے اور تقریباً ہر احمدی جس کا جماعت کے نظام سے پختہ تعلق ہے اس کو اس کا تجربہ ہے.بہت سارے مواقع پر یہ اظہار ہوتے رہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کواللہ تعالیٰ نے الہاما بتایا تھا کہ يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوْحِيْ
52 سبیل الرشاد جلد چہارم إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ کہ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم اپنی طرف سے الہام کریں گے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بات پر کامل یقین رکھتے تھے کہ اللہ تعالے سچے وعدوں والا ہے.وہ ضرور بضر ور اپنے وعدوں کے مطابق مددگار بھیجتا رہے گا، دین کے خادم بھیجتا رہے گا، دین کی نصرت کرنے والے بھیجتا رہے گا.اور آج سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے اس وعدہ کو پورا فرما رہا ہے اور آئندہ بھی فرمائے گا اور فرماتا چلا جائے گا.انشاء اللہ.لیکن ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے اور اپنے عملوں کو درست کرتے ہوئے خدا سے یہ دعا مانگنی چاہئے کہ ہمارا بھی ان رجال میں شمار ہو جن کو خدا تعالیٰ قبول کرتے ہوئے مسیح موعود کے مددگاروں میں شامل کرے گا.ورنہ اگر ہمارے عمل اس قابل نہیں ، ہماری عبادتیں سوز و گداز سے بھری ہوئی نہیں ، ہم اللہ کی نظر میں مقبول نہیں تو لاکھ ہم نَحْنُ أَنْصَارُ اللہ کہتے رہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا.اور دوسرے لوگ آکر یہ مقام لے جائیں گے.اللہ تعالیٰ تو اس طرح قبول نہیں کرتا وہ تو یہی کہے گا کہ پہلے اپنی حالت درست کرو، اپنے اعمال درست کرو، انسانی حقوق ادا کرو، پھر میرے دین کے مددگار کہلا سکتے ہو.نحن انصار اللہ کا نعرہ لگانے سے قبل اس کے معانی پر غور کریں پس ہر ایک کو ہم میں سے اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا نَحْنُ أَنْصَارُ اللہ کا نعرہ لگانے سے پہلے غور بھی کیا ہے کہ یہ کتنا گہرا اور وسیع نعرہ ہے.کیا کیا قربانیاں دینی پڑیں گی اس کے لئے اور قربانیاں ہیں کیا ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کوئی جنگ ، توپ ، گولہ نہیں ہے، کسی گولے کے آگے کھڑا ہونا نہیں ہے، کسی توپ کے منہ کے سامنے کھڑے ہونا نہیں ہے ، تیروں کی بوچھاڑ کے آگے کھڑے ہونا نہیں ہے.صحابہ کرام ، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے ان کی طرح گردنیں کٹوانا نہیں ہے.ہاں یہ قربانیاں بھی اللہ تعالیٰ کبھی کبھارا کا دکا لے لیتا ہے.نمونے قائم رکھنے کے لئے اس طرح کرتا ہے.لیکن قربانی جو اس زمانے میں کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں.اپنے معاشرہ کے حقوق ادا کرنے ہیں.اپنے مالوں کی قربانیاں دینی ہیں.اپنی عبادتوں کو زندہ کریں پس انصار اللہ کا فرض بنتا ہے اور میں بار بار کہتا ہوں کہ اپنی عبادتوں کو زندہ کریں، اپنے لئے ، اپنی اولادوں کیلئے ، اپنے معاشرہ کیلئے ، دکھی انسانیت کیلئے ، غلبہ اسلام کیلئے ایک تڑپ سے دعا مانگیں.آخرت کی فکر اپنے دلوں میں پیدا کریں جب آخرت کی فکر زیادہ ہوگی تو معاشرہ کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ زیادہ ہوگی، قرآن کریم کے پڑھنے، پڑھانے کی طرف بھی توجہ کریں.اس بارہ میں انصار اللہ نے پروگرام بھی
53 سبیل الرشاد جلد چہارم بنالیا ہے اور میرا خطبہ بھی سن لیا ہے.قربانی کرتے ہوئے ہر ایک کا حق ادا کریں ، اس کا حق اس کو دینے کی کوشش کریں.دوسروں کی برائیوں پر نظر رکھنے کی بجائے اپنی برائیوں کو دیکھیں تو پھر اصلاح بھی ہوگی اور اصلاح کی طرف توجہ بھی پیدا ہوگی.پھر مالی قربانیوں کی طرف توجہ کریں ، اپنے عہدوں کو پورا کریں.آپ نے عہد کیا ہے کہ احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت کیلئے قربانی کرتا رہوں گا.یہ جوا بھی عہد دہرایا ہے ، پس اس بارہ میں سوچیں، غور کریں کہ کہاں تک اس عہد کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے.کہاں تک اپنے آپ کو اس کے لئے تیار کیا ہے.مجلس عاملہ کا ہرممبر نظام وصیت میں شامل ہو میں نے جلسہ کی تقریر کے دوران آخری دنوں میں انصار اللہ کے ذمہ بھی یہ لگایا تھا کہ وہ نظامِ وصیت میں شامل ہونے کی طرف توجہ دیں، اس بارے میں بھی کوشش کریں.ایک بہت بڑی تعداد ہے جو صف دوم کے انصار پر مشتمل ہے.یاد رکھیں کہ آپ کی تلقین بھی تبھی کامیاب ہوگی تبھی کارآمد ہوگی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس نظام میں بھی شامل ہوں گے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس میں شامل ہونے والوں کے لئے بہت دعائیں کی ہوئی ہیں.اور جس کو یہ دعائیں لگ جائیں اس کی دنیا بھی سنور جائے گی اور اس کی آخرت بھی سنور جائے گی.پس اس طرف بھی توجہ کریں.اور سب سے پہلے میں یہاں کہوں گا کہ تمام عہدیداران جو ہیں ان کو اس نظام میں شامل ہونا چاہئے، نیشنل عاملہ سے لے کر نچلی سے نچلی سطح تک جو بھی عاملہ ہے اس کے لیول تک.ہر عاملہ کانمبر اس نظام میں شامل ہو تبھی وہ تلقین کرنے کے قابل بھی ہوگا.اللہ کے انصار بن کر جو برکتیں حاصل کی ہیں ان کو اپنی اولاد میں منتقل کریں پس یہ طریق ہیں نصرت کے وعدے کو پورا کرنے کے ، یہ طریق ہیں اپنے وعدے کو سچا کرنے کے اور یہ طریق ہیں اللہ تعالے کی برکات اس کے نتیجے میں حاصل کرنے کے.اللہ تعالے کے دین نے تو انشاء اللہ تعالیٰ غالب آنا ہے اور یہ خدا تعالے کا وعدہ ہے جیسے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی الہاماً فرمایا تھا اور اتفاق یہ ہے کہ آج سے سو سال پہلے کا یہ الہام ہے.دو، تین اکتوبر کا کہ قَدْ جَاءَ الدِّينُ مِنَ النُّصْرَةِ ثُمَّ سَيَعُودُ مِنَ النُّصْرَة ( تذکره صفحه ۲۵، مطبوعه ۹۲۹، ، ر بوه ) کہ دین پہلے بھی نصرت ہی سے غالب آیا تھا اب بھی دوبارہ وہ نصرت ہی کے ذریعہ سے غالب آئے گا.پس جہاں یہ الہام ہمیں یہ تسلی دے رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں احمدیت کو بھی غلبہ عطا کروں گا اسی طرح جیسے پہلے اسلام کو غلبہ عطا ہوا تھا.کہیں کوئی کم عقل یہ نہ سمجھ لے کہ شاید میری کسی کوشش کی وجہ سے یا میرے کسی کام کی وجہ سے یا میرے کسی کارنامے کی
54 سبیل الرشاد جلد چہارم وجہ سے، میری کسی قربانی کی وجہ سے غلبہ عطا ہو رہا ہے یا جماعت میں ترقی ہو رہی ہے.اس بارہ میں اور بھی بہت سارے الہامات ہیں نصرت کے بارہ میں اللہ تعالے کے.تو جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہمیں اللہ تعالیٰ نے انصار بنا کر برکتیں سمیٹنے کا موقع دیا ہے.پس ان برکتوں کو اگر جاری رکھنا ہے، اپنی نسلوں کی اصلاح کی خواہش اگر آپ کو ہے اور تمنا ہے، تو عملی نمونے قائم کرنے ہونگے.گھروں میں بھی ، ماحول میں بھی ، معاشرہ میں بھی.عبادتوں کے بھی عملی نمونے ، اعلیٰ اخلاق کے بھی عملی نمونے اور قربانی کے معیار کے بھی نمونے قائم کرنے ہوں گے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے، جیسا کہ میں نے کہا، کہ ہمیں انصار اللہ بنا کر اس ثواب کا مستحق بنا رہا ہے.ہمیں ان ترقیات میں ہماری حقیر سی کوششوں کو قبول فرماتے ہوئے شامل فرما رہا ہے جو جماعت کے لئے اس نے مقدر کی ہوئی ہیں.جس کا اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ کیا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ سب انصار کو حقیقی معنوں میں انصار اللہ بنے کی توفیق عطا فرمائے.اور خدا کرے کہ یہ غلبہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں.ہمارے اعمال کی کمزوریاں کہیں ہمیں ان نظاروں کے دیکھنے سے ،جس کے خدا تعالیٰ نے اپنے مسیح سے وعدے کئے ہیں.محروم نہ کر دیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں دنیا جائے گزشتنی و گزاشتنی ہے اور جب انسان ایک ضروری وقت میں ایک نیک کام کے بجا لانے میں پوری کوشش نہیں کرتا تو پھر وہ گیا ہوا وقت ہاتھ نہیں آتا" پھر آپ نے فرمایا کہ: یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوششوں سے آتا ہے بلکہ خدا تعالے کی طرف سے آتا ہے.اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجالا کر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کیلئے بلاتا ہے.اور میں سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب کے سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلو تہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجالائے گی.تم یقینا سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے.تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے.پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو اور یا یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں.میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرا محتاج نہیں ، ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقع دیتا ہے" پھر آپ فرماتے ہیں کہ " تمہیں معلوم نہیں کہ اس وقت رحمت الہی اس دین کی تائید میں جوش میں ہے اور اس کے فرشتے دلوں پر نازل ہو رہے ہیں.ہر ایک عقل اور فہم کی بات جو تمہارے دل میں ہے وہ تمہاری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہے.آسمان سے عجیب سلسلہ انوار جاری اور نازل ہو رہا ہے.پس میں بار بار کہتا ہوں کہ خدمت میں جان تو ڑ کر کوشش کرو مگر دل میں مت لاؤ کہ ہم نے کچھ کیا ہے.اگر تم
55 سبیل الرشاد جلد چہارم ایسا کرو گے (یعنی دل میں اگر لاؤ گے ) ہلاک ہو جاؤ گے" تبلیغ رسالت.جلد دہم.صفحہ 45 تا65) اللہ کرے کہ ہم حقیقی معنوں میں انصار اللہ بھی ہوں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی توقعات پر پورا اترنے والے ہوں اور ان تمام دعاؤں کے وارث ہوں جو آپ نے اپنی جماعت کے نیک لوگوں کیلئے کی ہیں.اللہ توفیق دے الفضل انٹر نیشنل 31 دسمبر 2004ء) جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہدیدار، نیکیوں اور عبادتوں کو پہلے اپنے گھروں میں رائج کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یکم اکتوبر 2004ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا.اگر ( عہد یدار ) اپنے گھر سے ہی نیکیوں کو پھیلانے اور نمازوں کو قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر تو کامیابی ہوگی.اگر نہیں کریں گے تو اس کا باہر بھی کوئی اثر نہیں ہو گا.کوئی دعوت الی اللہ بھی کارگر نہیں ہو گی.اگر ہر عہد یدار خواہ وہ جماعتی عہدیدار ہو یا ذیلی تنظیموں انصار، خدام بالجنہ کے عہدیدار ہوں.ان نیکیوں اور عبادتوں کو اپنے گھروں میں رائج نہیں کریں گے تو باہر بھی کوئی آپ کی بات نہیں سنے گا.انقلاب لانے والے پہلے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں.وہی قوم ترقی کرتی ہے جن کے لیڈروں کے اپنے نمونے اعلیٰ ہوں ، جن کے عہد یدار خود مثالیں قائم کرنے والے بنیں.پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جماعت کے ہر فرد پر، ہر بچے پر، ہر بڑے پر، ہر عہدیدار پر کہ اللہ تعالیٰ کے انعام کی قدر کرتے ہوئے پاک نمونے دکھائیں.عبادتوں کے معیار قائم رکھیں تا کہ سب سے بڑی نعمت جو خلافت کی نعمت ہے وہ آپ میں ہمیشہ قائم رہے" خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 707-708) ذیلی تنظیمیں بدعات پھیلانے والوں کا جائزہ لے کر سد باب کی کوشش کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 22 اکتوبر 2004ء کو خطبہ جمعہ میں ذیلی تنظیموں سے مخاطب ہوکر فرمایا." حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ : ” پیر ہیں.پیر پرست نہ بنیں.یہاں یہ بھی بتادوں کہ بعض رپورٹیں ایسی آتی ہیں، اطلاعیں ملتی رہتی ہیں، پاکستان میں بھی اور دوسری جگہوں میں بھی، بعض جگہ ربوہ میں بھی کہ بعض احمد یوں نے اپنے دعا گو بزرگ بنائے ہوئے ہیں.اور وہ بزرگ بھی میرے نزدیک نام نہاد ہیں جو پیسے لے کر یا ویسے تعویذ وغیرہ دیتے ہیں یا دعا کرتے ہیں کہ 20 دن کی دوائی لے جاؤ ، 20 دن کا پانی لے جاؤ یا تعویذ لے جاؤ.یہ سب فضولیات اور لغویات ہیں.میرے نزدیک تو وہ احمدی
56 سبیل الرشاد جلد چہارم نہیں ہیں جو اس طرح تعویذ وغیرہ کرتے ہیں.ایسے لوگوں سے دعا کروانے والا بھی یہ سمجھتا ہے کہ میں جو مرضی کرتا رہوں ، لوگوں کے حق مارتا رہوں، میں نے اپنے بزرگ سے دعا کر والی ہے اس لئے بخشا گیا، یا میرے کام ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ مومن کہلانا ہے تو میری عبادت کرو، اور تم کہتے ہو کہ پیر صاحب کی دعائیں ہمارے لئے کافی ہیں.یہ سب شیطانی خیالات ہیں ان سے بچیں.عورتوں میں خاص طور پر یہ بیماری زیادہ ہوتی ہے، جہاں جہاں بھی ہیں ہمارے ایشین (Asian) ملکوں میں اس طرح کا زیادہ ہوتا ہے یا جہاں جہاں بھی Asians اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں وہاں بھی بعض دفعہ ہو جاتا ہے.اس لئے ذیلی تنظیمیں اس بات کا جائزہ لیں اور ایسے جو بدعات پھیلانے والے ہیں اس کا سد باب کرنے کی کوشش کریں.اگر چند ایک بھی ایسی سوچ والے لوگ ہیں تو پھر اپنے ماحول پر اثر ڈالتے رہیں گے.نہ صرف ذیلی تنظیمیں بلکہ جماعتی نظام بھی جائزہ لے اور جیسا کہ میں نے کہا کہ چند ایک بھی اگر لوگ ہوں گے تو اپنا اثر ڈالتے رہیں گے.اور شیطان تو حملے کی تاک میں رہتا ہے.اللہ تعالیٰ کی بات ماننے والے بننے کی بجائے اس طرح بعض شرک میں پڑنے والے ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ سب کو اس سے محفوظ رکھے.لیکن میں پھر کہتا ہوں کہ یہ بیماری چاہے چند ایک میں ہی ہو، جماعت کے اندر برداشت نہیں کی جاسکتی.اللہ تعالیٰ تو یہ دعا سکھاتا ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں ہر ایک یہ دعا کرے کہ مجھے متقیوں کا امام بنا.خلیفہ وقت بھی یہ دعا کرتا ہے کہ مجھے متقیوں کا امام بنا.اور یہ پیر پرست طبقہ کہتا ہے کہ ہم جو مرضی عمل کریں ہمارے پیر صاحب کی دعاؤں سے ہم بخشے جائیں گے.اِنَّا لِلہ.یہ تو نعوذ باللہ عیسائیوں کے کفارہ والا معاملہ ہی آہستہ آہستہ بن جائے گا.وہی نظریہ پیدا ہوتا جائے گا.پس اس طرف چاہے یہ چھوٹے ماحول میں ہی ہو، بہت توجہ کی ضرورت ہے.ابھی سے اس کو دبانا ہوگا.اور ہر احمدی یہ عہد کرے کہ اس رمضان میں اپنے اندر انشاء اللہ تعالیٰ انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں.ہر احمدی یہ کوشش کرے اور ہر احمدی خودان دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے مزے چکھے بجائے اس کے کہ دوسروں کے پیچھے جائے" خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 764-765) دور ہٹے احمدیوں کو قریب لانے کی ذمہ داری ذیلی تنظیموں کی ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 3 دسمبر 2004ءکو خطبہ جمعہ میں فرمایا: اگر چند ایک بھی ایسے احمدی ہوں جن کا جماعت سے اتنا زیادہ تعلق نہ ہو تعلق سے میری مراد ہے جماعتی پروگراموں میں حصہ نہ لیتے ہوں یا جلسوں وغیرہ پر نہ آتے ہوں یا جن کا دینی علم نہ ہو، ایسے لوگ اپنے آپ کو بڑا پڑھا لکھا بھی سمجھتے ہیں ، یہ لوگ ایسی باتیں کر جاتے ہیں.اپنے ماحول میں اس قسم کی باتوں سے بُرائی کا بیج بو سکتے ہیں.یا بعض دفعہ جیسا کہ میں نے کہا کہ جو لا مذہب قسم کے لوگ ہوتے ہیں وہ بھی
57 سبیل الرشاد جلد چہارم ماحول پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں.اور کیونکہ برائی کے جال میں انسان بڑی جلدی پھنستا ہے اس لئے بہر حال فکر بھی پیدا ہوتی ہے کہ ایسے مغربی معاشرے میں جہاں مادیت زیادہ ہو، اس قسم کی باتیں کہیں اوروں کو بھی اپنی لپیٹ میں نہ لے لیں.اس وجہ سے میں نے اس موضوع کو لیا ہے.لیکن کچھ کہنے سے پہلے ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بھی اپنے ماحول میں جائزہ لیتے رہیں.عموماً جو احمدی کہلانے والے ہیں عموماً ان تک ان کی پہنچ ہونی چاہئے.جو نو جوان دُور ہٹے ہوتے ہیں ان کو قریب لانا چاہئے تا کہ اس قسم کی ذہنیت یا اس قسم کی با تیں ان کے ذہنوں سے نکلیں " خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 867 ) انصار، والدین کو سمجھا ئیں کہ لڑکیوں کی شادی میں تاخیر نہ کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 24 دسمبر 2004ء کو خطبہ جمعہ میں لڑکے اور لڑکیوں کی شادیوں کے حوالے سے بعض زریں نصائح فرمائیں.جس میں بعض ایسے لوگوں کا ذکر کیا جولڑکیوں کی کمائی کی خاطر ان کو گھروں میں بٹھا چھوڑتے ہیں.جولڑکیوں کی شادی میں تاخیر کا موجب ہوتی ہے.اس سلسلہ میں حضور انور نے انصار کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا.بعض لوگ ایسے ہیں جو بیٹیوں کی کمائی کھانے کے لئے اس طرح کر رہے ہوتے ہیں.بعض بیٹوں کی کمائی کھانے کے لئے اس طرح کر رہے ہوتے ہیں.اور جو بیٹیوں کی کمائی کھانے والے ہیں وہ صرف اس لئے کہ گھر کے جولڑ کے ہیں وہ نکھے ہیں، کوئی کام نہیں کر رہے پڑھے لکھے نہیں اس لئے گھر بیٹیوں کی کمائی پر چل رہا ہے اور اگر شادی کر بھی دی تو کوشش یہ ہوتی ہے کہ داماد، گھر داماد بن کر رہے ، گھر میں ہی موجود رہے جوا کثر ناممکن ہوتا ہے.جس سے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں.اس لئے شادی کرنے کے بعد اگر میاں بیوی علیحدہ رہنا چاہتے ہیں اور ان کو توفیق ہے اور والدین عمر کے اس آخری حصے میں نہیں پہنچے ہوتے جہاں ان کو کسی کی مدد کی ضرورت ہو اور کوئی بچہ ان کے پاس نہ ہو، پھر تو ایک اور بات ہے قربانی کرنی پڑتی ہے.وہ بھی لڑکوں کا کام ہے.اگر کسی کے لڑکا نہ ہو تو پھر لڑکی کی مجبوری ہے.لیکن عموماً لڑکی بیاہ کر جب دوسرے گھر میں بھیج دی تو اس کو اپنا گھر بسانے دینا چاہئے.اور اس طرف جماعتی نظام کے ساتھ ہماری تینوں ذیلی تنظیموں لجنہ ، خدام ، انصار، ان کو بھی توجہ دینی چاہئے.ان کو بھی اپنے طور پر تربیت کے تحت سمجھاتے رہنا چاہئے.انصار والدین کو سمجھائیں، لجنہ والدین کو لڑکیوں کو اور خدام لڑکوں کو سمجھائیں" خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 933-934)
سبیل الرشاد جلد چہارم 58 جنوری سے ہی نئے سال کا پلان (Plan) بنا کر کام کیا کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ فرانس کی مورخہ 29 دسمبر 2004ء کی میٹنگ میں تمام قائدین سے اُن کے عہدوں کا تعارف حاصل کیا اور ان کے کام اور آئندہ کے لائحہ عمل کا جائزہ لیا اور ہر قائد کو اُس کے شعبے کے بارہ میں ساتھ ساتھ ہدایات دیں.حضور انور نے فرمایا کہ مجلس انصاراللہ کی مساعی کی ماہانہ رپورٹ با قاعدگی کے ساتھ خلیفہ مسیح کو آنی چاہئے.قائد تعلیم کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ انصار اللہ کیلئے با قاعدہ نصاب مقرر کر کے امتحان لیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی چھوٹی کتاب مقرر کر لیں.اور پھر اس کا امتحان ہو.مجلس عاملہ کے تمام ممبران بھی امتحان میں شامل ہوں.حضور انور نے فرمایا جوصرف فرنچ زبان جانتے ہیں اُن کے لئے فرینچ زبان میں علیحدہ لیں اور اردو زبان والوں سے علیحدہ امتحان لیں.قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کے بارہ میں بھی حضور انور نے انصار اللہ کو ہدایت فرمائی کہ انصار ترجمہ قرآن کریم سیکھیں.قائد ایثار کو مخاطب ہوتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ کئی بوڑھے انصار فارغ ہوں گے انہیں چاہئے کہ وہ یہاں کے Old People's Home میں جائیں.وہاں بوڑھوں سے دوستی کریں.باتیں کریں ان کا حال پوچھیں اور تعلق بنا ئیں.جاتے ہوئے پھل وغیرہ ساتھ لے لیا.اس طرح تعارف بڑھے گا اور رابطے وسیع ہوں گے.حضور انور نے فرمایا کہ قائد تعلیم القرآن کو قرآن کریم سکھانے اور ترجمہ سکھانے کی طرف خصوصیت سے توجہ دینی چاہئے خود بھی توجہ دیں بچوں کو بھی توجہ دلائیں.قرآن کریم سب کو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنا آنا چاہئے.انصار اللہ کے چندہ کا جائزہ لیتے ہوئے حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جو انصار اللہ بالکل چندہ ادا نہیں کرتے کہ ان کی آمد نہیں ہے.ان سے بھی کچھ نہ کچھ لے لیا کریں آخر وہ کھاتے پیتے تو ہیں.صف دوم کے انصار کیلئے نائب صدر کا تقررنہیں تھا.حضور انور نے نائب صدر کا تقرر فرمایا اور ہدایت دی کہ انصار اللہ کے دستور سے اپنی ذمہ داریاں اور کام پڑھ لیں.انصار کو سیر وغیرہ کرنی چاہئے.سائیکلنگ کرنی چاہئے.حضور انور نے فرمایا کہ تمام قائدین اپنی مجالس کو Active کریں.نئے نئے راستے کام کے نکالیں.اپنے شعبوں میں کام میں بہتری کیلئے سوچیں اور کام کے، ملک کے حالات کے مطابق نئے طریقے سوچیں اور جوانوں سے زیادہ کام لیں.
سبیل الرشاد جلد چہارم 59 حضور انور نے مجلس عاملہ کو ہدایت فرمائی کہ جنوری سے انصار اللہ کا نیا سال شروع ہو جائے گا.اس لئے نئے سال کیلئے با قاعدہ پلان بنائیں اور اس کے مطابق کام کریں.اپنے سامنے ٹارگٹ رکھیں اور اس کو حاصل کرنے کیلئے ہرممکن کوشش کریں.الفضل انٹر نیشنل 11 تا 17 فروری 2005ء) جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہد یداران اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریق پر نبھانے کے لئے خدا سے مدد طلب کریں اور اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 31 دسمبر 2004 ء کو عہد یداروں کو ان کی ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف توجہ دلائی اور احباب جماعت اور ان کے درمیان جو محبت کا رشتہ قائم ہے اس کا تفصیل سے ذکر فرمایا.حضور نے آغاز میں تشہد وتعوذ ، سورۃ فاتحہ اور سورۃ النساء کی یہ آیت تلاوت فرمائی.إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الا سنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِطِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْل ط إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ به إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيْعًا بَصِيرًا ه اور فرمایا: (النساء: 59) یہ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بعد نظام خلافت جماعت میں جاری فرمایا اور اس نظام خلافت کے گرد جماعت کا محلہ کی سطح یا کسی چھوٹی سے چھوٹی اکائی سے لے کر شہری اور ملکی سطح تک کا نظام گھومتا ہے.یعنی کسی چھوٹی سے چھوٹی جماعت کے صدر سے لے کر ملکی امیر تک کا بلا واسطہ یا بالواسطہ خلیفہ وقت سے رابطہ ہوتا ہے.پھر ہر شخص انفرادی طور پر بھی رابطہ کر سکتا ہے.ہر فرد جماعت خلیفہ وقت سے رابطہ رکھتا ہے.لیکن اگر کسی جماعتی عہد یدار سے کوئی شکوہ ہو یا شکایت ہو اور خلیفہ وقت تک پہنچانی ہو تو ہر ایک کے انفرادی رابطے کے باوجود اس کو یہ شکایت امیر کے ذریعے ہی پہنچانی چاہئے اور امیر ملک کا کام ہے کہ چاہے اس کے خلاف ہی شکایت ہو وہ اسے آگے پہنچائے اور اگر کسی وضاحت کی ضرورت ہے تو وضاحت کر دے تاکہ مزید خط وکتابت میں وقت ضائع نہ ہو.لیکن شکایت کرنے والے کا بھی کام ہے کہ اپنی کسی ذاتی رنجش کی وجہ سے کسی عہدیدار کے خلاف شکایت کرتے ہوئے اسے جماعتی رنگ نہ دے.تقویٰ سے کام لینا چاہئے.بعض دفعہ بعض کم علم یا جن میں دنیا کی مادیت نے اپنا اثر ڈالا ہوتا ہے ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو جماعت کے وقار اور روایات کے خلاف ہوتی ہیں اس لئے ایسے کمزوروں یا کم علم رکھنے والوں کو سمجھانے کے لئے میں یہ بتا رہا ہوں کہ ایسی
سبیل الرشاد جلد چہارم باتوں سے پر ہیز کرنا چاہئے.60 منتخب عہدیدار کو ووٹ نہ دینے والا بھی اس کی کامل اطاعت کرے عہد یداروں کا چناؤ آپ انتخاب کے ذریعے سے کرتے ہیں.عموماً اسی طرح ہوتا ہے، سوائے اس کے کہ بعض خاص حالات میں بعض جگہ نامزدگی کر دی جائے اور یہ جو نامزدگی ہے یہ بھی مرکز یا خلیفہ وقت کی منظوری سے ہوتی ہے.تو بہر حال جب یہ انتخاب اکثریت کی خواہش کے مطابق ہو جاتا ہے تو پھر جس نے منتخب عہدیدار کو ووٹ نہیں بھی دیا اس کا بھی کام ہے کہ مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کے ساتھ عہدیدار کے ساتھ رہے.پھر تمام جماعت اگر اس طرح رہے گی تو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح بن کے رہے گی، بنیان مرصوص کی طرح بن کے رہے گی.یہ تمام باتیں میں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ خدانخواستہ کہیں سے کوئی بغاوت کی بو آ رہی ہے یا کہیں کوئی مسئلہ کھڑا ہوا ہے.یہ اس لئے بتا رہا ہوں کہ بعض دنیا دار جیسا کہ میں نے کہا اپنی کم علمی یا بے وقوفی یا دنیاداری کی وجہ سے ایسی باتیں کر جاتے ہیں.اور بعض دفعہ جماعت میں نئے شامل ہونے والے ایسی باتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں.اور اس کے علاوہ یہ نومبائعین کی اپنی تربیت کے لئے بھی ضروری ہے کہ ان کو نظام جماعت کے بارے میں، عہدیداروں کی ذمہ داریوں کے بارے میں بتایا جائے.کیونکہ نئے آنے والوں کے ذہنوں میں سوال اٹھتے رہتے ہیں.بہر حال الہی وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں یہ نظام، نظام خلافت کے ساتھ قائم رہنا ہے اور اب یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مضبوط بنیادوں پر قائم ہو چکا ہے.کوئی مخالف یا کوئی دشمن اب اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا انشاء اللہ لیکن ہمیں اپنے ذہنوں میں بعض باتیں تازہ رکھنے کے لئے وقتاً فوقتا ان باتوں کی جگالی کرتے رہنا چاہئے.تا کہ جو پُرانے احمدی ہیں ان کے ذہنوں میں بھی یہ باتیں تازہ رہیں اور اس کے ساتھ ہی نو مبائعین بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں.اور کبھی کسی کے ذہن میں کسی قسم کی بے چینی پیدا نہ ہو.انتخاب میں عہد یدار کو ووٹ دینے کا طریق اور اس کے اسلوب سب سے پہلے تو ہم قرآن کریم سے رہنمائی لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا فرمایا ہے یا کیا فرما تا ہے کہ اپنے عہد یداروں کا چناؤ کس طرح کرو.جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں کے سپرد کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو.یقیناً بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تعالی تمہیں نصیحت کرتا ہے یقیناً اللہ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے.
61 سبیل الرشاد جلد چهارم پہلی بات تو یہ کہ عہدیدار چنے والوں کو فرمایا کہ عہدے اُن کو دو، اُن لوگوں کو منتخب کرو جو اس کے اہل ہوں.اس قابل ہوں کہ جس کام کے لئے انہیں منتخب کر رہے ہو وہ اس کو کرسکیں ، وقت دے سکیں.یہ نہیں کہ چونکہ تمہارے تعلقات ہیں، اس لئے ضرور اس عہدے کے لئے اسی کو منتخب کرنا ہے یا ضرور اسی کو اس عہدے کے لئے ووٹ دینا ہے.اس میں ایک بہت بڑی ذمہ داری چناؤ کرنے والوں پر منتخب کرنے والوں پر ڈالی گئی ہے.اس لئے جو ووٹ دینے کے جماعتی قواعد کے تحت حقدار ہیں، ہر ممبر تو ووٹ نہیں دیتا.جو بھی ووٹ دینے کا حقدار ہے ان کو ہمیشہ دعا کر کے فیصلہ کرنا چاہئے کہ جو بہتر ہو اس کو ووٹ دے سکے.یہاں ضمنا یہ بھی بتادوں کہ بعض دفعہ بعض افراد پر کسی وجہ سے پابندی لگی ہوتی ہے کہ وہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے.اس لئے اس بارے میں ضد نہیں کرنی چاہئے کہ کیونکہ ہمارے نزدیک فلاں شخص ہی اس کام کے لئے موزوں تھا یا موزوں ہے اس لئے اسی کو ہم نے ووٹ دینا تھا اور اس کی اجازت دی جائے ورنہ ہم انتخاب میں شامل نہیں ہوتے.یہ غلط طریق ہے.اطاعت کا تقاضا یہ ہے اور نظام جماعت کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کوئی فیصلہ ہو گیا ہے کہ کسی شخص کو حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے تو پھر اس بارے میں اصرار نہیں کرنا چاہئے.....عہدہ ایک قومی امانت ہے اس کا حق ادا کرو اور یہ بھی ذہن میں رہے، منتخب کرنے والوں کے اور جو منتخب ہور ہے ہیں ان کے بھی، بعض دفعہ لمبا عرصہ کر کے بعض ذہنوں میں باتیں آجاتی ہیں کہ کوئی عہدہ جماعت میں کسی کا پیدائشی حق نہیں ہے، کوئی مستقل حق نہیں ہے.اس لئے جو خدمت کا موقع ملتا ہے وہ اللہ کا فضل ہے اور اللہ کا فضل ہو تو اللہ تعالیٰ خود ہی خدمت کا موقع دے دیتا ہے.خود کبھی خواہش نہیں کرنی.اس لئے اشارہ بھی کبھی کسی قسم کا یہ اظہار نہیں ہونا چاہئے کہ مجھے عہد یدار بناؤ.نہ کسی کے دوست یا عزیز کو یہ حق حاصل ہے کہ کسی شخص کے حق میں ہلکا سا بھی اشارہ یا کنابیۂ اظہار کرے کہ اس کو ووٹ دیا جائے.اگر نظام جماعت کو پتہ چل جاتا ہے تو پھر جس کے حق میں پہلے پراپیگنڈہ کیا گیا ہے اس کو بھی اور جو پراپیگنڈہ کرنے والا ہے یا جس نے کوئی بات کسی کے لئے کہی ہو انتخابات سے پہلے، اس کو بھی انتخابات میں شامل ہونے سے روکا جا سکتا ہے.اس حق سے محروم کیا جا سکتا ہے اور کر بھی دیا جاتا ہے.اس لئے یہ جو جماعت کے انتخاب ہیں ان کو خالصتا اللہ تعالیٰ کے لئے خدمت گزاروں کی ٹیم چننے والا تصور کر کے انتخاب کرنا چاہئے.پھر اللہ تعالیٰ نے منتخب عہدیداران کی ذمہ داری بھی لگائی ہے کہ تمہیں جب منتخب کر لیا جائے تو پھر اس کو قومی امانت سمجھو.اس امانت کا حق ادا کرو.اپنی پوری استعدادوں کے ساتھ اس ذمہ داری کو نبھاؤ.اپنے وقت میں سے بھی اس ذمہ داری کے لئے وقت دو.جماعتی ترقی کے لئے نئے نئے راستے تلاش کرو.اور تمہارے فیصلے انصاف اور عدل کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہونے
سبیل الرشاد جلد چہارم 62 چاہئیں.کبھی تمہاری ذاتی انا، رشتہ داریوں یا دوستیوں کا پاس انصاف سے دور لے جانے والا نہ ہو.کبھی کسی عہدیدار کے دل میں یہ خیال نہ آئے کہ فلاں شخص نے مجھے ووٹ نہیں دیا تھا.یا فلاں کا نام میرے مقابلے کے لئے پیش ہوا تھا اس لئے مجھے کبھی موقع ملا، کبھی کسی معاملے میں تو اس کو بھی تنگ کروں گا.یہ مومنانہ شان نہیں ہے بلکہ انتہائی گری ہوئی حرکت ہے.عہدیداران اور احباب جماعت ایک دوسرے کے لئے دعا کریں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو تمہیں اللہ تعالیٰ نے نصیحت کی ہے یہ ایسی نصیحت ہے کہ تم دونوں، ووٹ دے کر منتخب کرنے والوں اور عہدیداروں ، دونوں کے لئے بڑی اعلیٰ نصیحت ہے کہ ووٹ دینے والا سوچ سمجھ کر ووٹ دے اور جو شخص منتخب ہو جائے وہ بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کرے.اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے.اللہ تعالیٰ ہر عہد یدار کو چاہے وہ جماعتی عہدیدار ہوں یا ذیلی تنظیموں کے عہدیدار ہوں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے.پھر آخر میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا افراد جماعت کو بھی اور عہدیداران کو بھی یہ توجہ دلائی ہے کہ اس کے بعد بھی دعاؤں میں لگے رہو.ہر عہدیدار انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اللہ سے دعا مانگے کہ وہ اسے ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر فر د جماعت یہ دعا کرے کہ جو عہد یدار منتخب ہوئے ہیں وہ ہمیشہ اس امانت کے ادا کرنے کے حق کو اس کے مطابق ادا کرتے رہیں.اور کبھی کوئی مشکل نہ آئے ، کبھی کوئی ابتلاء نہ آئے جو عہد یدار اور افراد جماعت کے لئے کسی بھی قسم کی ٹھوکر کا باعث بنے.اگر اللہ تعالیٰ سمجھتا ہے کہ یہ عہدیدار جو انہوں نے منتخب کیا ہے وہ پوری ذمہ داری سے اپنے فرائض ادا نہیں کر رہا تو اللہ تعالیٰ خود ہی ایسے انتظامات فرمائے کہ اسے بدل دے تا کہ کبھی نظام جماعت پر بھی کوئی حرف نہ آئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اس طرح دونوں مل کر دعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس نیک نیت سے کی گئی دعاؤں کو سنے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے دین کے لئے اور دین کی خدمت کرنے والوں پر بڑی گہری نظر ہوتی ہے.وہ بڑی گہری نظر رکھتا ہے.وہ دیکھ رہا ہے، وہ دلوں کا حال جانتا ہے.وہ اس درد کی وجہ سے جو تمہارے دل میں ہے ہمیشہ بہتری کے سامان پیدا فرما تارہے گا اور ہمیشہ تمہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوط رکھے گا.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہر قسم کی ٹھوکر سے بچائے.عہد یداران انصاف کے تمام تقاضے پورے کریں اب میں ذرا وضاحت سے عہدیداران کا احباب جماعت سے کس قسم کا رویہ یا سلوک ہونا چاہئے
63 سبیل الرشاد جلد چہارم اس کے بارے میں کچھ بتاؤں گا.اور پھر احباب جماعت، افراد جماعت عہد یداروں سے کیسا رویہ رکھیں.عہد یداروں کو تو ایک اصولی ہدایت قرآن نے دے دی ہے کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے ہیں.اگر کوئی غور کرے اور سوچے کہ انصاف کے کیا کیا تقاضے ہیں تو اس کے بعد کچھ بات رہ نہیں جاتی.لیکن ہر کوئی اس طرح گہری نظر سے سوچتا نہیں.اس طرح سوچا جائے جس طرح ایک تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والا سوچتا ہے تو پھر تو اس کی یہ سوچ کر ہی روح فنا ہو جاتی ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں.لیکن نصیحت کیونکہ فائدہ دیتی ہے جیسا کہ میں نے کہا باتوں سے اور جگالی کرتے رہنے سے یاددہانی ہوتی رہتی ہے.بعض باتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ مزید ذرا وضاحت کھول کر کر دی جائے.عہد یداران غصہ کو دبائیں اور مکمل طور پر اپنے آپ کو عاجز بنا ئیں پہلی بات تو یہ ہے کہ عہدیدار اس بات کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو یہ حکم فرمایا ہے کہ وَالْكَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران : 135 ) یعنی غصہ دیا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہوں.تو اس کے سب سے زیادہ مخاطب عہدیداروں کو اپنے آپ کو سمجھنا چاہئے.کیونکہ ان کی جماعت میں جو پوزیشن ہے جو ان کا نمونہ جماعت کے سامنے ہونا چاہئے وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ مکمل طور پر اپنے آپ کو عاجز بنائیں.اگر اصلاح کی خاطر کبھی غصے کا اظہار کرنے کی ضرورت پیش بھی آ جائے تو علیحدگی میں جس کی اصلاح کرنی مقصود ہو، جس کا سمجھانا مقصود ہو اس کو سمجھا دینا چاہئے.تمام لوگوں کے سامنے کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرنا چاہئے اور ہر وقت چڑ چڑے پن کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے.یا کسی بھی قسم کے تکبر کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے.اصلاح کبھی چڑنے سے نہیں ہوتی بلکہ مستقل مزاجی سے در در کھتے ہوئے اور دعا کے ساتھ نصیحت کرتے چلے جانے سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے.اور ایک آدھ دفعہ کی جو غلطی ہے، اگر کوئی عادی نہیں ہے تو اصلاح کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ عفو سے کام لیا جائے.معاف کر دیا جائے ، درگز ر کر دیا جائے.جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہدیداران اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کریں اس لئے یہاں بھی ( مراد فرانس میں ) اور دنیا میں ہر جگہ جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں، جماعتی عہدیدار بھی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیدار بھی اپنے رویوں میں ایک تبدیلی پیدا کریں.لوگوں سے پیار اور محبت کا سلوک کیا کریں.خاص طور پر بعض جگہ لجنہ کی طرف سے شکایات زیادہ ہوتی ہیں اور ان میں بھی خاص طور پر بچیوں یا نوجوان بچیوں اور نئے آنے والیوں جنہوں نے نظام کو پوری طرح سمجھا نہیں ہوتا ، ان کے لئے تربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اس لئے ان کے لئے بہت خیال رکھنا چاہئے.کیونکہ تربیت کرنے کی
سبیل الرشاد جلد چہارم 64 جیسی آپ چھاپ لگا دیں گے بچوں پر بھی اور نئے آنے والوں پر بھی.آئندہ نمونے بھی ویسے ہی نکلیں گے، آئندہ عہدیدار بھی ویسے ہی بنیں گے.تو خلاصہ یہ کہ غصے کو دبانا ہے اور عفو سے کام لینا ہے درگزر سے کام لینا ہے.لیکن یہ نرمی بھی اس حد تک نہ ہو کہ جماعت میں بگاڑ پیدا ہو جائے.ایسی صورت میں بہر حال اصلاح کی کوشش بھی کرنی ہے.جیسا کہ میں نے کہا کہ جو عادی نہیں ہیں ان کو تو معاف کر کے بھی اصلاح ہوسکتی ہے لیکن اگر جماعت میں فتنے کا خطرہ ہو تو پھر معافی کی کوئی صورت نہیں ہوتی.اور پھر یہ ہے کہ اگر ایسی بات ہو تو نہ صرف مقامی طور پر اس کی اصلاح کرنی ہے بلکہ اس کی مرکز کو بھی اصلاح کرنی چاہیئے.لیکن سختی ایسی نہ ہو، جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ جن کی اصلاح نرمی سے ہو سکتی ہے کہ وہ نو جوان اور نئے آنے والے دین سے ہی متنفر ہو جائیں.عہد یداران ، عہدہ کو فضل الہی سمجھ کر قو م کا خادم بن کر خدمت کریں پھر عہد یداروں میں جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر اپنے خلاف ہی شکایت ہو تو سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے.ہمیشہ سچی بات کہنے سننے کرنے کی عادت ڈالیں.چاہے جتنا بھی کوئی عزیز یا قریبی دوست ہوا گر اس کی صحیح شکایت پہنچتی ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے.اگر یہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے تو بہتر ہے کہ معذرت کر دیں کہ فلاں وجہ سے میں اس کام سے معذرت چاہتا ہوں.کیونکہ کسی ایک شخص کا کسی خدمت سے محروم ہونا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ پوری جماعت میں یا جماعت کے ایک حصے میں بے چینی پیدا کی جائے.یادرکھیں جو عہدہ بھی ملا ہے چاہے وہ جماعتی عہدہ ہو یا ذیلی تنظیموں کا عہدہ ہواس کو ایک فضل الہی سمجھیں.پہلے بھی بتا آیا ہوں اس کو اپنا حق نہ سمجھیں.یہ خدمت کا موقع ملا ہے تو حکم یہی ہے کہ جو لیڈر بنایا گیا ہے وہ قوم کا خادم بن کر خدمت کرے.صرف منہ سے کہنے کی حد تک نہیں.چار آدمی کھڑے ہوں تو کہہ دیا جی میں تو خادم ہوں بلکہ عملاً ہر بات سے ہر فعل سے یہ اظہار ہوتا ہو کہ یہ واقعی خدمت کرنے والے ہیں اور اگر اس نظریے سے بات نہیں کہ رہے تو یقیناً پوچھے جائیں گے.جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس کو پوری طرح ادا نہ کرنے کی وجہ سے یقیناً جواب طلبی ہوگی.ایک روایت میں آتا ہے حضرت معقل بن سیار بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا نگران اور ذمہ دار بنایا ہے وہ اگر لوگوں کی نگرانی اور اپنے فرائض کی ادائیگی اور ان کی خیر خواہی میں کوتاہی کرتا ہے تو اس کے مرنے پر اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت حرام کر دے گا.اور اسے بہشت نصیب نہیں کرے گا.(مسلم کتاب الایمان.باب استحقاق الوالى الغاش لرعیة النار ) اب دیکھیں اس انذار کے بعد کون ہے جو بڑھ بڑھ کر اختیارات کو حاصل کرنے کی خواہش کرے یا
65 سبیل الرشاد جلد چہارم عہدے کو حاصل کرنے کی خواہش کرے.یہ تو ایسا خوف کا مقام ہے کہ اگر صحیح فہم اور ادراک ہو تو انسان ایک کونے میں لگ کے بیٹھ جائے.پس عہدیدار اس فضل الہی کی قدر کریں اور اپنی ذمہ داریاں ادا کریں.اپنی ذمہ داریوں کو نبھا ئیں.اللہ تعالیٰ کا غضب لینے کی بجائے اس کی محبت حاصل کرنے والے بنیں.ایک اور روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو لوگوں میں سے زیادہ محبوب اور اس کے زیادہ قریب انصاف پسند حا کم ہوگا اور سخت نا پسندیدہ اور سب سے زیادہ دور ظالم حاکم ہوگا.(ترمذی ابواب الاحکام باب فی الامام العادل) پس سب کو چاہئے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے محبوب بنیں.اور اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کے لئے وہ طریقے اختیار کریں جو اللہ تعالیٰ کے رسول نے بتائے ہیں.ایک روایت میں آتا ہے ابوالحسن بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن مرہ نے حضرت معاویہؓ سے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو امام حاجتمندوں، ناداروں غریبوں کے لئے اپنا دروازہ بند رکھتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی ضروریات وغیرہ کے لئے آسمان کا دروازہ بند کر دیتا ہے.حضور علیہ السلام کے اس ارشاد کو سننے کے بعد حضرت معاویہ نے ایک شخص کو مقرر کر دیا کہ لوگوں کی ضروریات اور مشکلات کا مداوا کیا کرے اور ان کی ضرورتیں پوری کرے.( ترمذی کتاب الاحکام باب فی امام الرعية ) جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہدیداران خلیفہ وقت کے نمائندہ ہیں پس لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کریں، اپنے بھائیوں سے ، بہنوں سے اس لئے پیار اور محبت کا سلوک کریں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے، اس کا محبوب بننا ہے.اور یا درکھیں امراء بھی ، صدران بھی اور عہدیداران بھی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیداران بھی کہ وہ خلیفہ وقت کے مقرر کردہ انتظامی نظام کا ایک حصہ ہیں اور اس لحاظ سے خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں.اس لئے ان کی سوچ اپنے کاموں کو اپنے فرائض کو انجام دینے کے لئے اسی طرح چلنی چاہئے جس طرح خلیفہ وقت کی.اور انہیں ہدایات پر عمل ہونا چاہئے جو مرکزی طور پر دی جاتی ہیں.اگر اس طرح نہیں کرتے تو پھر اپنے عہدے کا حق ادا نہیں کر رہے.جو اس کے انصاف کے تقاضے ہیں وہ پورے نہیں کر رہے.پھر عہدے کی خواہش کرنا ہے پہلے بھی میں نے کہا کہ یہ ایک ایسی بات ہے جو جماعت میں بڑی معیوب سمجھی جاتی ہے اور ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے جو اس بارے میں کوشش کرتا ہے.اس بارے میں ایک حدیث میں اس طرح آتا ہے کہ حضرت عبد الرحمن بن سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ اے عبدالرحمن ! تو امارت اور حکومت نہ مانگ.اگر تجھے بغیر مانگے یہ عہدہ ملے تو اس ذمہ داری کے بارے میں تیری مدد کی جائے گی.( یعنی خواہش نہ ہو اور پھر عہدہ مل
66 سبیل الرشاد جلد چہارم جائے تو پھر اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرماتا ہے اور اپنے بندے کی مدد کرتا ہے.) اور اگر تیرے مانگنے پر تجھے یہ عہدہ دیا گیا ہے تو تو پھر اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہوگا.( ذراسی بھی غلطی ہوگی تو پکڑ بہت زیادہ ہوگی.اور جب تو کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے متعلق قسم کھائے اور پھر اس قسم سے بر عکس تجھے بہتر بات نظر آئے تو وہ بہتر بات کر اور اپنی قسم کو توڑ دے اور اس کا کفارہ ادا کر دے.(بخاری کتاب الاحکام ) یہی ہے کہ عہدیداران بھی بعض دفعہ قسم تو نہیں کھاتے لیکن بعض ضدیں ہوتی ہیں کہ یہ کام اس طرح نہیں ہونا چاہئے تو اگر جماعت کے مفاد میں ہو تو پھر تمہاری ضدیں یا تمہاری قسمیں زیادہ اہم نہیں ہیں.ان کو ختم کرو.یہ جماعت کے مفاد میں حائل نہیں ہونی چاہئیں بلکہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اس طرح کام ہونا چاہئے جس طرح جماعت کے حق میں بہترین ہو.پھر ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسانی پیدا کرو اور تنگی پیدا نہ کرو.اور اچھی خبر ہی دیا کرو اور لوگوں کو بد کا یا نہ کرو.(صحیح بخاری کتاب اعلم.باب ما کان النبی خولهم بالموعظة والم کی لاینر وا) تو اصولی قواعد بھی اس لئے ہیں کہ صحیح سمت میں چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں پر چلتے ہوئے لوگوں کے لئے بہتری اور آسانی پیدا کی جائے.تمہاری ضدیں، تمہاری قسمیں تمہاری انائیں سنبھی بھی کسی بات میں حائل نہ ہوں جس سے لوگ تنگ ہوں.اگر کوئی قاعدہ بن بھی گیا ہے یا کوئی فیصلہ ہو بھی گیا ہے اگر اس سے لوگ تنگ ہورہے ہیں تو بدلا جا سکتا ہے.انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ لوگ ہمیشہ تمہارے پاس خوشی کی خبروں اور محبت اور پیار کے پیغاموں کے لئے اکٹھے ہوا کریں نہ کہ تنگ ہونے کے لئے دور بھاگتے چلے جائیں.عہدیداران، مربیان کا ادب و احترام اپنے دل اور لوگوں کے دلوں میں پیدا کریں پھر دنیا میں ہر جگہ جماعتی عہدیداروں کی ایک یہ بھی ذمہ داری ہے کہ مبلغین یا جتنے واقفین زندگی ہیں ان کا ادب اور احترام اپنے دل میں بھی پیدا کیا جائے اور لوگوں کے دلوں میں بھی.ان کی عزت کرنا اور کروانا، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا ، حسب گنجائش اور توفیق ان کے لئے سہولتیں مہیا کرنا، یہ جماعت کا اور عہدیداران کا کام ہے تاکہ ان کے کام میں یکسوئی رہے.وہ اپنے کام کو بہتر طریقے سے کر سکیں.وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنے فرائض کی ادائیگی کر سکیں.اگر مربیان کو عزت کا مقام نہیں دیں گے تو آئندہ نسلوں میں پھر آپ کو واقفین زندگی اور مربیان تلاش کرنے بھی مشکل ہو جائیں گے.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی جاری کردہ واقفین نو کی تحریک کے تحت بہت سے واقفین نو بچے وقف کے میدان میں آ رہے ہیں.لیکن جتنا جائزہ میں نے لیا ہے میرے خیال میں جتنے مبلغین کی ضرورت ہے اتنے اس میدان میں نہیں آرہے دوسری فیلڈز (Fields) میں جارہے ہیں.بہر حال جب مربی کو مقام دیا جائے
67 سبیل الرشاد جلد چہارم گا، گھروں میں ان کا نام عزت و احترام سے لیا جائے گا، ان کی خدمات کو سراہا جائے گا تو یقیناً ان ذکروں سے گھر میں بچوں میں بھی شوق پیدا ہوگا کہ ہم وقف کر کے مربی بنیں.تو اس لحاظ سے بھی عہد یداران کو خیال کرنا چاہئے.چھوٹے موٹے اختلافات کو ایشو (Issue) نہیں بنا لینا چاہئے جس سے دونوں طرف بے چینی پھیلنے کا اندیشہ ہو....عہدیداران مسکراتے چہرے کے ساتھ احباب کو ملیں....اب عہد یداروں کو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ لوگوں کے لئے پیار اور محبت کے پر پھیلائیں.خلیفہ وقت نے آپ پر اعتماد کیا ہے.اور آپ پر اعتماد کرتے ہوئے اس پیاری جماعت کو آپ کی نگرانی میں دیا ہے.ان کا خیال رکھیں.ہر ایک احمدی کو یہ احساس ہو کہ ہم محفوظ پروں کے نیچے ہیں.ہر ایک سے مسکراتے ہوئے ملیں چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو.بعض عہد یدار میں نے دیکھا ہے بڑی سخت شکل بنا کر دفتر میں بیٹھے ہوتے ہیں یا ملتے ہیں.ان کو ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ پر عمل کرنا چاہئے جس کا روایت میں یوں ذکر آتا ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ملاقات سے منع نہیں فرمایا اور جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھتے تو مسکرا دیتے تھے.(بخاری کتاب الادب باب القسم والضحک ) تو کوئی پابندی نہیں تھی جب بھی ملتے مسکرا کر ملتے.بعض عہدیداروں کے متعلق شکوہ ہے کہ لوگ کسی کام کے لئے عہدیداروں کے پاس اپنے کام کا حرج کر کے جاتے ہیں تو بعض عہدیدار امراء، بعض دفعہ مہینہ مہینہ نہیں ملتے.ہو سکتا ہے اس میں کچھ مبالغہ بھی ہو کیونکہ شکایت کرنے والے بعض دفعہ مبالغہ بھی کر جاتے ہیں لیکن دنوں بھی کسی سے کیوں چکر لگوائے جائیں.اس لئے امراء کو چاہئے کہ وقت مقرر کریں کہ اس وقت دفتر ضرور حاضر ہوں گے اور پھر اس وقت میں لوگوں کی ضروریات پوری کریں.بعض امراء یہ کرتے ہیں کہ اپنے نمائندے بٹھا دیتے ہیں اور ان نمائندوں کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ فلاں فیصلہ بھی کرنا ہے.اب اگر اس فیصلے کے لئے جانا پڑے تو پھر ان کو انتظار کرنا پڑتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ امراء خود جائیں یا پھر اپنے نمائندے کو پورے اختیار دیں کہ جو تم نے کرنا ہے کرو.سیاہ وسفید کے مالک ہو.پھر امیر بننے کی ضرورت ہی نہیں ہے پھر تو اسی کو امیر بنا دینا چاہئے.پھر مسکراتے ہوئے اور خوش دلی سے ملیں.جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص کا معیار بڑا اونچا ہے.ہر احمدی، اگر امیر مسکرا کر ملتا ہے تو اس کی مسکراہٹ پر ہی خوش ہو جاتا ہے، چاہے کام ہو یا نہ ہو.اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا.معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو.اگر چہ اپنے بھائی.خندہ پیشانی سے پیش آنے کی نیکی ہو.(مسلم کتاب البر والصلۃ باب استحباب طلاقہ الوجه عند اللقاء) تو مسکرا کر ملنا اور
سبیل الرشاد جلد چہارم 68 بھائی کے جذبات کا خیال رکھنا بھی نیکی ہے.تو نیکیوں کا پلڑا تو جتنا بھی بھاری کیا جائے اتنا ہی کم ہے.اس لئے عہدیداران کو ، امراء کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے.افراد جماعت (انصار ) کا نظام جماعت میں کردار اب میں افراد جماعت کو بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا نظام جماعت میں کیا کردار ہونا چاہئے.پہلی بات یا درکھیں کہ جتنے زیادہ افراد جماعت کے معیار اعلیٰ ہوں گے اتنے زیادہ عہد یداران کے معیار بھی اعلیٰ ہوں گے.پس ہر کوئی اپنے آپ کو دیکھے اور ان معیاروں کو اونچا کرنے کی کوشش کرے اور اپنے فرائض یعنی ایک فرد جماعت کے عہدیدار کے لئے کہ اطاعت کرنی ہے اس کے بھی اعلیٰ نمونے دکھا ئیں.یہ نمونے جب آپ دکھا رہے ہوں گے تو اپنی نسلوں کو بھی بچارہے ہوں گے.انہی نمونوں کو دیکھتے ہوئے آپ کی انگلی نسل نے بھی چلنا ہے اور انہیں نمونوں پر جو نسلیں قائم ہوں گی وہ آئندہ جب عہد یدار بنیں گی تو وہ وہی نمونے دکھا رہی ہوں گی جو اعلیٰ اخلاق کے نمونے ہوتے ہیں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی.جس نے حاکم وقت کی اطاعت کی، اس نے میری اطاعت کی ، اور جو حاکم وقت کا نافرمان ہے وہ میرا نا فرمان ہے.( صحیح مسلم کتاب الامارۃ.باب وجوب طاعة الامراء فی غیر معصیة وتحريمها فی المعصية ) امیر کی اور نظام جماعت کی اطاعت کے بارے میں یہ حکم ہے.لوگ تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم خلیفہ کی اطاعت سے باہر نہیں ہیں، مکمل طور پر اطاعت میں ہیں، ہر حکم ماننے کو تیار ہیں.لیکن فلاں عہد یدار یا فلاں امیر میں فلاں فلاں نقص ہے اس کی اطاعت ہم نہیں کر سکتے.تو خلیفہ وقت کی اطاعت اسی صورت میں ہے جب نظام کے ہر عہدیدار کی اطاعت ہے.اور تب ہی اللہ کے رسول کی اور اللہ کی اطاعت ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تنگدستی اور خوشحالی، خوشی اور نا خوشی حق تلفی اور ترجیحی سلوک غرض ہر حالت میں تیرے لئے حاکم وقت کے حکم کو سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے.( صحیح مسلم کتاب الامارۃ) فرمایا کہ جو حالات بھی ہوں تمہاری حق تلفی بھی ہو رہی ہو، تمہارے سے زیادتی بھی ہو رہی ہو تمہارے ساتھ اچھا سلوک نہ بھی ہو اور دوسرے کے ساتھ بہتر سلوک ہورہا ہو، تب بھی تم نے کہنا ماننا ہے.سامنے لڑائی جھگڑے کے لئے کھڑے نہیں ہو جانا.کسی بات سے انکار نہیں کر دینا.بلکہ تمہارا کام یہ ہے کہ اطاعت کرو.یہ بہر حال نظام جماعت میں بھی حق ہے کہ اگر کوئی غلط بات دیکھیں تو خلیفہ وقت کو اطلاع کر دیں اور پھر خاموش ہو جا ئیں، پیچھے نہیں پڑ جانا کہ کیا ہوا، کیا نہیں ہوا.اطلاع کر دی، بس ٹھیک ہے.حضرت عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیعت کے
69 سبیل الرشاد جلد چہارم وقت عہد لیا کہ تنگی ہو یا آسائش، خوشی ہو یا نا خوشی، ہر حال میں آپ کی بات سنیں گے اور اطاعت اور فرمانبرداری کریں گے خواہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے.نیز ہم ان لوگوں سے جو کام کے اہل اور صاحب اقتدار ہیں، مقابلہ نہیں کریں گے سوائے اس کے کہ ہم کھلا کھلا کفر دیکھیں اور ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی برہان آ جائے کہ حکام غلطی پر ہیں.نیز اللہ تعالیٰ کے حکم کے بارے میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی علامت سے نہیں ڈریں گے اور حق بات کہیں گے.(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعة الامراء) تو مطلب یہی ہے کہ اطاعت کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ حق بات کہنی ہے.سوائے شریعت کے واضح حکم کی کوئی خلاف ورزی کر رہا ہو تو پھر اطاعت نہ کریں جس طرح حکومت پاکستان نے احمدیوں پر پابندی لگا دی ہے کہ نمازیں نہیں پڑھنیں تو یہ تو ہمارا ایک حق ہے اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی کرنا.اور شریعت کے قانون پر تو کوئی قانون بالانہیں ہے اس لئے احمدی نمازیں پڑھتا ہے.اس کے علاوہ ہر ملکی قانون کی ہر طرح پابندی کی جاتی ہے.پھر ایک روایت میں آتا ہے: حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو اور اطاعت کرو.یہ جو دو الفاظ ہیں ان کو اپنا شعار بناؤ، یہی تمہارا طریق ہونا چاہئے.خواہ ایک حبشی غلام کو ہی کیوں نہ تمہارا افر مقرر کر دیا جائے.کسی کو حقیر اور کمز ورسمجھتے ہو اگر وہ بھی تمہارا امام ہے تو اطاعت کرو.( صحیح بخاری کتاب الاحکام باب اسمع والطاعة لامام مالم تكن معصية ) پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی اپنے امیر میں کوئی بظاہر نا گوار یا کوئی بری بات دیکھے تو وہ صبر کرے اور کیونکہ جو شخص تھوڑا سا بھی جماعت سے الگ ہو جاتا ہے اور تعلق توڑ لیتا ہے وہ جہالت کی موت مرتا ہے.(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الامر بلزوم الجماعة عند ظهور الفتن وتحذير الدعاة الى الكفر ) احباب کو عہدیداران میں بُری بات دیکھ کر بھی جماعت سے تعلق نہیں تو ڑنا چاہئے تو صبر سے مراد یہ ہے کہ امیر کی بری بات دیکھ کے یہ نہیں کہ پورے نظام کے خلاف ہو جاؤ.نظام سے وابستہ رہو اور وہ بات آگے پہنچادو اور اس کے بعد صبر کرو.جماعت سے تعلق نہیں ٹوٹنا چاہئے.اگر تمہارا جماعت سے تعلق ٹوٹتا ہے تو یہ جہالت کی موت ہے.تو جن لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ہم برداشت نہیں کر سکتے اس لئے ہم ایک طرف ہو گئے نمازوں اور جمعوں پر بھی بعض نے آنا چھوڑ دیا تو فرمایا کہ یہ ایسی حرکتیں ہیں، یہ جہالت کی حرکتیں ہیں.اکا دکا کوئی واقعات ہوتے ہیں.اللہ کے فضل سے عموماً ایسا جماعت میں نہیں ہوتا.یہ جہالت کی حرکتیں جو ہیں ان سے ہمیشہ بچنا چاہئے.تمہارا کام یہ ہے کہ صبر کرو اور دعا کرو.جیسا کہ میں نے شروع میں بھی کہا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری یہ نیک نیتی سے کی گئی دعاؤں کو قبول میں کروں گا.پھر ایک روایت میں آتا ہے.حضرت عوف بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی
70 سبیل الرشاد جلد چہارم اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تمہارے بہترین سردار وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں.تم ان کے لئے دعا کرتے ہو اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں.تمہارے بدترین سردار وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں.تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں.راوی کہتا ہے کہ اس پر ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم ایسے سرداروں کو ان سے جنگ کر کے ہٹا کیوں نہ دیں.آپ نے فرمایا نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے ہیں اس وقت تک کوئی ایسی بات نہیں کرنی.( صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب الانكار على الامراء فيما يخالف الشرع ) یعنی دینی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے.تو آنحضرت نے یہ حکم واضح طور پر دے دیا کہ اگر کوئی اس قسم کے بھی لوگ ہوں جو اتنا تنگ کر دیں کہ ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے لگ جاؤ تب بھی ان سے بغاوت نہیں کرنی.اللہ نہ کرے کہ کبھی جماعت کی یہ صورتحال ہو.لیکن یہ ایک انتہائی مثال ہے ایسی صورتحال ہو بھی جائے جیسا کہ بتایا گیا ہے تب بھی تم نے فرمانبرداری دکھانی ہے.دعا کرتے رہیں اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے جماعت اور نظام جماعت کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھے.اگر افراد جماعت بھی اور عہدیدار بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر، جماعتی وقار کی خاطر ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ بھی ان پر اپنے خاص فضلوں کی بارش برساتا رہے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے.آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں میں انہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں گا.پس آج یہ ہر احمدی کا کام ہے کہ خدا کی عظمت اور جلال کو قائم کرے اور اللہ کی رضا کی خاطر ایک دوسرے سے پیار ومحبت شفقت اور فرمانبرداری کے نمونے دکھائے.تاکہ اللہ تعالیٰ کے سایہ رحمت میں جگہ پائے.اللہ تعالیٰ اس کی سب کو تو فیق عطا فرمائے.آمین احباب کو نظام جماعت و خلافت سے اخلاص کے نمونے برقرار رکھنے کی نصیحت جماعت کی جب ترقی ہوتی ہے تو حاسدوں کے حسد بھی بڑھ جاتے ہیں.وہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ مختلف حیلوں بہانوں سے جماعت میں بے چینی پیدا ہو، ہمدرد بن کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں.حالانکہ یہ لوگ مخالفین کے آلہ کار بنے ہوئے ہوتے ہیں.بعض دفعہ کسی عہدیدار کے متعلق کوئی بات کر کے بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بعض دفعہ فرد جماعت کے دل میں کسی عہدیدار کے خلاف بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.بعض دفعہ مرکزی عہدیداران کے خلاف بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اور بعض دفعہ مجھے ایسے خط لکھ دیں گے اور عموماً ایسے خط بغیر نام اور پتے کے ہوتے ہیں کہ گویا جماعت میں اخلاص و وفا
71 سبیل الرشاد جلد چهارم کے نمونے نہیں رہے، نعوذ باللہ تمام عہدیدار بھی اور اکثریت جماعت کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے دور ہٹ گئی ہے.یہ سب ان کے دلوں کی خواہش ہوتی ہے.ایک صاحب نے مجھے لکھا اور ایسا بھیا نک نقشہ کھینچا کہ گویا اب جماعت نام کی رہ گئی ہے عمل ختم ہو گئے ہیں، کوئی چیز باقی نہیں رہی ، اخلاص ختم ہو گیا ہے.اور پھر لکھتے ہیں اور آپ ہی اس کا جواب بھی دے دیا کہ مجھے پتہ ہے آپ یہی جواب دیں گے جو حضرت علی نے دیا تھا کہ پہلے خلفاء کے ماننے والے میرے جیسے لوگ تھے اور مجھے ماننے والے تم جیسے لوگ ہو.لیکن سن لیں میرا جواب یہ نہیں ہے.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت احمدیہ نے ہمیشہ قائم رہنا ہے اور وفا قائم کرنے والے اس میں ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے.میرا جواب یہ ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں لاکھوں، کروڑوں ایسے ہیں جو حضرت علی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اخلاص و وفا کے نمونے قائم کرنا جانتے ہیں.نظام جماعت اور نظام خلافت کے لئے قربانیاں کرنا جانتے ہیں.یہ خوف دلانا ہے تو کسی دنیا دار کو دلاؤ.میں تو روزانہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید و نصرت کے نظارے دیکھتا ہوں.لوگوں کے اخلاص و وفا کے نظارے دیکھتا ہوں.مجھے تو یہ باتیں ڈرانے والی نہیں.اور انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدے کئے ہیں وہ انہیں پورا ہوتا ہمیں دکھا بھی رہا ہے اور ہمیشہ دکھاتا بھی رہے گا اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہماری نسلوں کو بھی دکھاتا رہے.حضرت مسیح موعود کی بتائی ہوئی اسلامی تعلیم پر عاجزی اور وفا کے ساتھ چلتے رہیں جماعت کو میں یہ کہتا ہوں کہ دعاؤں کے ساتھ ہر سطح پر اخلاص و وفا کے نمونے دکھاتے ہوئے اس اسلامی تعلیم پر عمل کرتے چلے جائیں جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتائی ہے.عاجزی اور وفا دکھاتے ہوئے اگر آپ چلتے رہیں گے تو کوئی خطرہ نہیں ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق جماعت سے چھٹے رہیں تو کوئی خطرہ نہیں ہے.اُن لوگوں کو خطرہ ہے جو ٹھوکر کھا کر شیطان کے بہکاوے میں آ کر جماعت کو چھوڑ دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کو یا جماعت کے ساتھ چمٹے رہنے والوں کو کوئی خطرہ نہیں.اُن کی دنیا و آخرت دونوں سنوری ہوئی ہیں اور انشاء اللہ سنوری رہیں گی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ اپنی جماعت سے کیا امید رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کے مطابق سب کو چلنے کی توفیق دے.فرمایا کہ " میری جماعت میں سے ہر ایک فرد پر لازم ہوگا کہ تمہاری مجلسوں میں کوئی نا پا کی اور ٹھٹھے اور ہنسی کا مشغلہ نہ ہو.اور نیک دل، اور پاک طبع اور پاک خیال ہو کر زمین پر چلو اور یا درکھو کہ ہر ایک شر مقابلہ کے لائق نہیں.اس لئے لازم ہے کہ اکثر اوقات عفو اور درگزر کی عادت ڈالو اور صبر اور حلم سے کام لو اور کسی پر ناجائز طریق سے حملہ نہ کرو اور جذبات نفس کو دبائے رکھو".
سبیل الرشاد جلد چہارم 72 پھر فرمایا کہ: " اگر کوئی جہالت سے پیش آوے تو سلام کہہ کر ایسی مجلس سے جلد اٹھ جاؤ".پھر آپ فرماتے ہیں کہ: " خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہیں ایک ایسی جماعت بناوے کہ تم تمام دنیا کے لئے نیکی اور راستبازی کا نمونہ ٹھہر و.سو اپنے درمیان سے ایسے شخص کو جلد نکا لوجو بدی اور شرارت اور فتنہ انگیزی اور بدنفسی کا نمونہ ہے.جو شخص ہماری جماعت میں غربت اور نیکی اور پرہیز گاری اور حلم اور نرم زبانی اور نیک مزاجی اور نیک چلنی کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ جلد ہم سے جدا ہو جائے.کیونکہ ہمارا خدانہیں چاہتا کہ ایسا شخص ہم میں رہے.اور یقین وہ بدبختی میں مرے گا کیونکہ اس نے نیک راہ کو اختیار نہ کیا.سوتم ہوشیار ہو جاؤ اور واقعی نیک دل اور غریب مزاج اور راستباز بن جاؤ تم پنجوقتہ نماز اور اخلاقی حالت سے شناخت کئے جاؤ گے اور جس میں بدی کا بیج ہے وہ اس نصیحت پر قائم نہیں رہ سکے گا" ( مجموعہ اشتہارات جلد نمبر 2 صفحہ 221) تو یہ جو مجھےنصیحتیں کرنے والے ہیں ان کو سوچنا چاہئے کہ وہ جماعت میں نہیں رہ سکتے.جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے قائم رہے گی.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس تعلیم کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے اور ہمیشہ جماعت کے ساتھ چمٹارہ کر نظام جماعت کی اطاعت کر کے دوسروں کے حقوق کا خیال رکھ کر ان فضلوں کے وارث بنیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا ہے.اللہ سب کو توفیق دے.آمین" خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 942 تا 960)
73 23 سبیل الرشاد جلد چہارم سوم $ 2005 کے ارشادات و فرمودات
سبیل الرشاد جلد چہارم 74 یلی تنظیمیں چندہ وقف جدید اور چندہ دہندگان میں اضافہ کریں اسلام اور آنحضور پر غیروں کے اعتراضات کا جواب دینے کی ذیلی تنظیموں کو تلقین خلیفہ وقت کے خطبات کو با قاعدہ سنیں قائدین انصار کو کانسٹی ٹیوشن مہیا کریں کانسٹی ٹیوشن کے مطابق اپنی عاملہ بنائیں انصار وصیت کے نظام کی طرف جلدی بڑھیں عہد یداران اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں جماعتی وقار کے خلاف ہر بات عہدیداران کو بتلائیں مطالعہ کتب اور امتحانات میں اراکین عاملہ کو بھی شامل کریں عہد یدار جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہد یداروں کا احترام اپنے دل میں پیدا کریں عہدیدران کو تعز یز یافتہ افراد سے تعلق رکھنے میں احتیاط کرنی چاہئے پچاس فیصد انصار ایسے ہوں جن کے ہاں الفضل آتا ہو عہدیداران اپنے عہدہ جو ایک امانت ہے کی حفاظت کریں قرآن کریم کی تلاوت کی عادت ڈالیں نو مبائعین کو نظامت جماعت میں ضم کریں اہمارے بڑے بڑے عظیم الشان کاموں کی کنجی دعا ہی ہے عہدہ لے کر کام نہ کرنا اپنے نفس اور خدا کے ساتھ دھوکا ہے ذیلی تنظیمیں خوشی کے مواقع پر مساجد کی تعمیر میں چندہ دینے کی تلقین کریں ذیلی تنظیموں کا نظام شادی بیاہ پر نظر رکھیں انصار بوڑھے اور کمزور لوگوں کا وزٹ کریں ذیلی تنظیمیں بھی دعوت الی اللہ کے پروگرام بنائیں
سبیل الرشاد جلد چہارم 75 ذیلی تنظیمیں چندہ وقف جدید اور چندہ دہندگان میں اضافہ کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 7 جنوری 2005 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا." وقف جدید کے ضمن میں احمدی ماؤں سے میں یہ کہتا ہوں کہ آپ لوگوں میں یہ قربانی کی عادت اس طرح بڑھ بڑھ کر اپنے زیور پیش کرنا آپ کے بڑوں کی نیک تربیت کی وجہ سے ہے.اور سوائے استثناء کے الا ماشاء الله ، جن گھروں میں مالی قربانی کا ذکر اور عادت ہو ان کے بچے بھی عموماً قربانیوں میں آگے بڑھنے والے ہوتے ہیں.اس لئے احمدی مائیں اپنے بچوں کو چندے کی عادت ڈالنے کے لئے وقف جدید میں شامل کریں.حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں بچوں کے ذمہ وقف جدید کیا تھا.اور اُس وقت سے وہاں بچے خاص شوق کے ساتھ یہ چندہ دیتے ہیں.اگر باقی دنیا کے ممالک بھی اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کو خاص طور پر اس طرف متوجہ کریں تو شامل ہونے والوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ چندے میں بھی اضافہ ہوگا اور سب سے بڑا مقصد جو قربانی کا جذ بہ دل میں پیدا کرنا ہے وہ حاصل ہوگا.انشاء اللہ.اگر مائیں اور ذیلی تنظیمیں مل کر کوشش کریں اور صحیح طریق پر کوشش ہو تو اس تعداد میں آسانی سے ( جو موجودہ تعداد ہے ) دنیا میں 6لاکھ کا اضافہ ہو سکتا ہے، بغیر کسی دقت کے.اور یہ تعداد آسانی سے 10 لاکھ تک پہنچائی جاسکتی ہے.کیونکہ موجودہ تعداد 4 لاکھ کے قریب ہے جیسا کہ میں آگے بیان کروں گا" (خطبات مسرور جلد 3 صفحہ 9) اسلام اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر غیروں کے اعتراضات کا خطوط کے ذریعہ اخبارات میں جواب دینے کی ذیلی تنظیموں کو تلقین حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 18 فروری2005 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.ایسے لوگ جو یہ لغویات، فضولیات اخبارات میں لکھتے رہتے ہیں.اس کے لئے گزشتہ ہفتے بھی میں نے کہا تھا کہ جماعتوں کو انتظام کرنا چاہئے.مجھے خیال آیا کہ ذیلی تنظیموں خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کو بھی کہوں کہ وہ بھی ان چیزوں پر نظر رکھیں کیونکہ لڑکوں، نوجوانوں کی آج کل انٹرنیٹ اور اخباروں پر توجہ ہوتی ہے، دیکھتے بھی رہتے ہیں اور ان کی تربیت کے لئے بھی ضروری ہے کہ نظر رکھیں اور جواب دیں.اس لئے یہاں خدام الاحمد یہ بھی کم از کم 100 ایسے لوگ تلاش کرے جو اچھے پڑھے لکھے ہوں جو دین کا علم رکھتے ہوں.اور اسی طرح لجنہ اپنی 100 نوجوان بچیاں تلاش کر کے ٹیم بنائیں جو ایسے مضمون لکھنے والوں کے جواب مختصر خطوط کی صورت میں ان اخبارات کو بھیجیں جن میں ایسے مضمون آتے ہیں یا خطوط آتے ہیں.
76 سبیل الرشاد جلد چہارم آج کل پھر اخباروں میں مذہبی آزادی کے اوپر ایک بات چیت چل رہی ہے.اسی طرح دوسرے ملکوں میں بھی جہاں جہاں یہ اعتراضات ہوتے ہیں.وہاں بھی اخباروں میں یا انٹرنیٹ پر خطوط کی صورت میں لکھے جا سکتے ہیں.یہ خطوط گو ذیلی تنظیموں کے مرکزی انتظام کے تحت ہوں گے لیکن یہ ایک ٹیم کی Effort نہیں ہوگی بلکہ لوگ اکٹھے کرنے ہیں.انفرادی طور پر ہر شخص خط لکھے یعنی 100 خدام اگر جواب دیں گے تو اپنے اپنے انداز میں.خط کی صورت میں کوئی تاریخی ، واقعاتی گواہی دے رہا ہوگا اور کوئی قرآن کی گواہی بیان کر کے جواب دے رہا ہو گا.اس طرح کے مختلف قسم کے خط جائیں گے تو اسلام کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تصویر واضح ہوگی.ایک حسن ابھرے گا اور لوگوں کو بھی پتہ لگے گا کہ یہ لوگ کس حسن کو اپنے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سے ماند کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ جو تصور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لئے مسلمانوں کے پاس دلیل نہیں ہے اس لئے جلد غصے میں آ جاتے ہیں.اس کو بھی اس سے رد کرنا ہو گا.ہمارے پاس تو اتنی دلیلیں ہیں کہ ان کے پاس اتنی اپنے دفاع کے لئے نہیں ہیں.لیکن کیونکہ مسلمان تمام انبیاء کو مانتے ہیں.اس لئے انبیاء کے خلاف تو کوئی بات کر نہیں سکتے اور یہ لوگ بے شرم ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیچڑ اچھالنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کے شر سے پناہ دے " خطبات مسرور جلد 3 صفحه 105-106 ) خلیفہ وقت کے خطبات کو با قاعدہ سنیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 3 مئی 2005 ء کو نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ کینیا مشرقی افریقہ کی میٹنگ میں شمولیت فرما کر درج ذیل ہدایات اراکین کو دیں.صدر مجلس انصار اللہ کے انتخاب کے طریق کار کے بارہ میں حضور انور نے ان کو سمجھایا اور تفصیل کے ساتھ ان کو بتایا کہ کس طرح صدر کا انتخاب ہوتا ہے.حضور نے ہدایت فرمائی کہ اپنی رپورٹس میں جماعتوں کی بجائے مجالس کا لفظ استعمال کیا کریں.حضور انور نے قائد عمومی کو ہدایت فرمائی کہ تمام مجالس سے رابطہ رکھنا ، یاد دہانیاں کروانا اور ان سے ماہانہ رپورٹس کا حصول اس شعبہ کی فرمہ داری ہے.حضور انور نے فرمایا کہ مجلس انصار اللہ براہ راست خلیفہ اسیح کے ماتحت ہے اس لئے آپ نے مجلس عاملہ انصار اللہ کی ماہانہ رپورٹ باقاعدگی سے خلیفہ اسی کو بھجوانی ہے.فرمایا رپورٹ باقاعدگی سے ہر ماہ بھجوائیں.یہ نہیں کہ چند ماہ کی اکٹھی بھجوادی یا سال کے بعد بھجوادی یہ طریق درست نہیں ہے.حضور انور نے تمام قائدین کو ہدایت فرمائی کہ اپنے اپنے شعبوں میں فعال اور مستعد ہوں اور اپنی مجالس
77 سبیل الرشاد جلد چہارم سے باقاعدہ اپنے اپنے شعبوں کے بارہ میں رپورٹس حاصل کریں، ان کو یاد دہانی کروائیں.فرمایا مبلغین معلمین سے بھی مدد لیں.حضور نے فرمایا کہ گراس روٹ سے کام شروع کریں.حضور انور نے چندوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ ہر ایک ناصر کو چندہ کے نظام میں شامل کریں.جو غریب ہیں وہ بھی نظام میں شامل ہوں خواہ وہ آپ کے مقررہ ریٹ کے مطابق نہ بھی دیں.جو بھی دے سکیں ان سے لیا جائے.حضور انور نے فرمایا کہ آپ نے مجلس کا بجٹ اور تمام ضروریات خود پوری کرنی ہیں.حضور انور نے قائد تبلیغ کو ہدایت فرمائی کہ آپ کی جو 360 مجالس ہیں ان سب میں تبلیغی پلان بنائیں.یاددہانی کے خطوط بھیجیں اور یاد دہانی کرواتے رہیں جب تک کہ اپنا مقصد حاصل نہ کر لیں.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ اپنے سالانہ اجتماع پر اچھی مجالس کو سندات خوشنودی اور جو مجلس اول آئے اس کو علم انعامی دیا جائے.حضور انور نے قائد تعلیم کو ہدایت فرمائی کہ جو بالکل ان پڑھ ہیں ان کو قرآن کریم ناظرہ پڑھائیں.صرف نیروبی ریجن میں آپ نے کوشش نہیں کرنی بلکہ سارے ملک میں یہ انتظام کرنا ہے.حضور انور نے قائد تحریک جدید کو ہدایت فرمائی کہ انصار کوتحریک جدید کے نظام میں شامل کریں.غرباء کو بھی شامل کریں خواہ وہ ایک شلنگ چندہ دیں.اسی طرح حضور انور نے قائد وقف جدید کو بھی ہدایت فرمائی کہ اپنے چندہ کے نظام کو منظم کریں اور باقاعدہ فہرستیں بنائیں اور اپنے ممبران کو چندہ کے نظام میں شامل کریں.حضور انور نے قائد تجنید کو فرمایا کہ آپ تمام مجالس سے اپنی تجنید مکمل کریں.ممبران کی فہرستیں تیار ہوں جس میں ان کا نام ، والد کا نام، پروفیشن تعلیم وغیرہ کا ذکر ہوں.فرمایا اپنی تجنید مکمل کر کے رپورٹ بھجوائیں.حضور نے قائد ایثار کو فرمایا کہ آپ غریب، ضرورتمند لوگوں کی مدد خدمت خلق فنڈ کے ذریعہ کر سکتے ہیں.ہسپتالوں کی مدد سے Rural Area میں میڈیکل کیمپ لگا سکتے ہیں جہاں علاج کی سہولت نہیں ہے.حضور انور نے فرمایا کہ غرباء اور ضرورتمند لوگوں کی امداد اور میڈیکل کیمپ لگانے کا پروگرام، یہ دو مقاصد آپ حاصل کر لیں تو یہ آپ کے لئے بہت ہے.ان دونوں پر توجہ دیں.حضور نے فرمایا کہ ہومیو پیتھی کیمپ بھی لگائے جاسکتے ہیں.حضور نے قائد تربیت کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ اس بات کی کوشش کریں کہ ہر ناصر پانچ نمازیں ادا کرے، نماز با جماعت ادا کرے، نماز جمعہ میں باقاعدہ شامل ہو.خلیفتہ اسیح کے خطبات کو با قاعدہ سنیں.جو ناظرہ قرآن کریم پڑھ سکتے ہیں وہ تلاوت قرآن کریم روزانہ با قاعدہ کریں.کم از کم دو رکوع کی تلاوت کریں.جو قرآن کریم ناظرہ پڑھنا نہیں جانتے ان کے لئے پیشل درس کا پروگرام ہو.ان کے لئے جو اچھی آواز میں پڑھنے والا ہے دور کوع کی تلاوت کر دے.حضور انور نے فرمایا کہ نائب صدر اول کو پیشل ڈیوٹی ایڈیشنل قائد تربیت نو مبائعین“ کی دیں.
سبیل الرشاد جلد چہارم 78 یہ سب نو مبائعین کی لسٹ بنائیں ، کلاسز لگائیں، ان کوٹرینڈ کریں، نظام میں شامل کریں، اپنے اجتماعات میں شامل کریں.آخر پر حضور انور نے فرمایا: اب مستعد ہو کر کام کریں اور اپنی خامیاں دور کریں.الفضل انٹر نیشنل 20 مئی 2005ء) قائدین انصار کو کانسٹی ٹیوشن مہیا کریں نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ تنزانیہ کے ساتھ مؤرخہ 13 مئی 2005ء بروز جمعۃ المبارک " مسجد سلام " میں میٹنگ میں حضور انور نے صدر صاحب انصار اللہ کو ہدایت فرمائی کہ تمام قائدین کو انصار اللہ کا کانسٹی ٹیوشن (constitution) مہیا کریں.ان کو علم ہونا چاہئے کہ ان کے شعبہ کا کیا کام ہے.ان کی کیا ذمہ داری ہے.حضور انور نے بڑی تفصیل کے ساتھ قائدین کو ان کے شعبہ جات اور کام کے بارہ میں بتایا اور ان کو سمجھایا کہ کس طرح آپ نے اپنے شعبہ کے تحت پروگرام بنانے ہیں اور پھر ان پر عمل کرنا ہے اور کروانا ہے.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ ہر ٹاؤن اور گاؤں میں جہاں انصار اللہ ممبران موجود ہیں وہ اپنی مجلس قائم کریں.حضور انور نے آمد اور اخراجات کا بجٹ بنانے کے بارہ میں بھی تفصیل کے ساتھ ان کو سمجھایا.حضور انور نے فرمایا اب وقت ہے کہ تمام ذیلی تنظیمیں فعال ہوں اور مستعد ہوں تو ترقی کی رفتار کئی گنا ہوگی.الفضل انٹر نیشنل 10 جون 2005ء) کانسٹی ٹیوشن کے مطابق اپنی عاملہ بنائیں اور ہر قائد کو اس کے فرائض سے آگاہ کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دورہ مشرقی افریقہ میں نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ یوگنڈا کے ساتھ میٹنگ میں مکرم صدر صاحب مجلس انصار اللہ (جن کا تقر ر حال ہی ہوا ) کو مورخہ 22 مئی 2005ء بروزاتوار درج ذیل ہدایات سے نوازا.اپنی عاملہ کا تقرر کر کے باقاعدہ منظوری حاصل کریں اور اپنی ماہانہ رپورٹ باقاعدگی سے بھجوائیں“.حضور انور نے صدر صاحب مجلس انصار اللہ کو بڑی تفصیل کے ساتھ انصاراللہ کا سارا نظام سمجھایا اور ہدایت دی کہ کانسٹی ٹیوشن (constitution) کے مطابق اپنی عاملہ بنا ئیں اور کانسٹی ٹیوشن کے مطابق ہر قائد کو اس کے فرائض کا علم ہونا چاہئے.حضور انور نے فرمایا ” ہر گاؤں ، قصبہ میں جہاں بھی انصار موجود ہیں وہاں انصار کی مجلس قائم کریں اور اس طرح گراس روٹ لیول سے اپنے کام کو منظم کریں.حضور انور نے
سبیل الرشاد جلد چہارم 79 انصار اللہ کے چندوں کا بھی جائزہ لیا اور بجٹ بنانے کے بارہ میں بھی ہدایات سے نوازا.الفضل انٹر نیشنل 1 جولائی 2005ء) انصار وصیت کے نظام کی طرف جلدی بڑھیں حضور انور کا ماہنامہ انصار اللہ وصیت نمبر کے لئے خصوصی پیغام پیارے صدر صاحب مجلس انصاراللہ ربوہ السلام عليكم ورحمة الله و بركاته یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ ماہنامہ انصار الله وصیت کے حوالہ سے خصوصی اشاعت کا اہتمام کر رہا ہے.جزاكم الله احسن الجزاء.وصیت کے نظام کو قائم ہوئے خدا کے فضل سے سوسال پورے ہو رہے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعودؓ نے اپنی وفات سے دو سال قبل اس نظام کو جاری فرمایا.یہ آپ کی آخری وصیت تھی جو آپ نے اپنے ماننے والوں کو فرمائی اور یہ خوشخبری دی کہ یہ نظام خدا تعالیٰ کا قرب پانے کا ایک ذریعہ ہے اور اگر تم چاہتے ہو کہ تمہیں خدا تعالیٰ سے خاص انعام ملے تو اس نظام میں شامل ہو جاؤ.آپ فرماتے ہیں.و تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے.ہر ایک قوم دنیا سے پیار کر رہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اسکی طرف دنیا کو توجہ نہیں.وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں ان کے لئے موقع ہے کہ وہ اپنے جو ہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں“ الوصیت.روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 308 مطبوعہ لندن ) پس وصیت کا نظام اصلاح نفس کا زبردست ذریعہ ہے.اس نظام کے قیام سے جنت قریب کر دی گئی ہے.اگر کوئی ایک وقت میں جنتی نہیں بھی تو وہ اس نظام میں شامل ہونے کی وجہ سے جنتی بنادیا جائے گا.میں نے جلسہ سالانہ یو کے 2004ء کے اختتامی خطاب میں احباب جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ اس آسمانی نظام میں اپنی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے.اپنی نسلوں کی زندگیوں کو پاک کرنے کے لئے شامل ہوں اور ایک سال میں کم از کم پندرہ ہزارنئی وصایا ہو جائیں تا کہ اس سال کے آخر تک اس نظام میں کم از کم پچاس ہزار موصی بن جائیں اور نظام کے قیام پر سو سال ہو جانے پر کم از کم پچاس فیصد چندہ دہند موصی بن جائیں اور ایسے مومن نکلیں کہ کہا جائے کہ انہوں نے خدا کے مسیح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قربانیوں کے اعلیٰ معیار قائم کئے ہیں.الحمد للہ کہ میری آواز پر مسیح موعود کی پیاری جماعت نے لبیک کہتے ہوئے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اور کثرت سے احمدی نظام وصیت میں داخل ہو رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی ان مالی قربانیوں کو
80 سبیل الرشاد جلد چہارم قبول فرماتے ہوئے اپنے قرب سے نوازے.اس موقع پر میں اپنے انصار بھائیوں اور خاص طور پر صف دوم کے انصار کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس طرف خاص توجہ دیں.وہ انصار جو اپنے دلوں میں ایمان اور اخلاص تو رکھتے ہیں مگر وصیت کے بارہ میں سنتی دکھلا رہے ہیں میری ان کو یہ نصیحت ہے کہ وہ اشاعت اسلام کی خاطر اور اپنے نفوس میں نیک اور پاک تبدیلیوں کے لئے وصیت کی طرف جلدی بڑھیں کیونکہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ یہ جنت کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ ہے.زندگی بہت مختصر ہے اور نہیں معلوم کہ کس وقت خدا تعالیٰ کی طرف بلاوا آ جائے.بعض بڑے مخلصین بغیر وصیت کے نظام میں شامل ہوئے وفات پا جاتے ہیں اور پھر حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش یہ بھی مخلصین کے ساتھ مقبرہ موصیان میں دفن کئے جاتے.ہماری جماعت میں سینکڑوں ایسے قربانی کرنے والے ہیں کہ وہ اپنے اموال کے دسویں حصہ سے زیادہ چندہ دیتے ہیں اور مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں مگر وصیت کرنے میں سستی کرتے ہیں ایسے دوستوں کو میرا یہ پیغام ہے کہ وہ سستیاں ترک کریں اور اس نظام میں شامل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.وصیت کی شرائط کو اگر غور سے پڑھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ صرف ایک مالی قربانی کی ہی تحریک نہیں ہے بلکہ اپنے نفسوں کو پاک اور صاف کرنے کا ایک مسلسل جہاد ہے.آپ فرماتے ہیں کہ ”تیسری شرط یہ ہے کہ اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی اور محرمات سے پر ہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہو.سچا اور صاف مسلمان ہو، پس اس لحاظ سے انصار کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں اپنی بیویوں اور اپنی اولادوں کو بھی دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے لئے تیار کریں.اپنے بچوں کی بچپن سے ہی دینی ماحول میں تربیت کریں ، نمازوں کی عادت ڈالیں.مالی قربانی کا جذبہ ان کے دلوں میں پیدا کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت اقدس مسیح موعود اور نظام خلافت سے محبت اور اطاعت کا جذبہ ان میں اُجاگر کریں.اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے.اپنی نسلوں کو دنیا کے عذاب سے بچانے والے ہوں گے.قُوْا أَنفُسَكُمْ وأَهْلِيكُمْ نَاراً (التحریم: 7) پر عمل کرنے والے ہوں گے.حضرت اقدس مسیح موعودؓ فرماتے ہیں: " چاہئے کہ تم بھی ہمدردی اور اپنے نفسوں کے پاک کرنے سے روح القدس سے حصہ لو کہ بجز روح القدس کے حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتی اور نفسانی جذبات کو بگلی چھوڑ کر خدا کی رضا کے لئے وہ راہ اختیار کرو جو اس سے زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو.دنیا کی لذتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جدا کرتی ہیں اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کرو.وہ درد جس سے خدا راضی ہو اس لذت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہو جائے" (الوصیت )
81 سبیل الرشاد جلد چهارم پس خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کی راہیں تلاش کریں.اس کی ایک راہ اس زمانہ میں نظام وصیت میں شامل ہونا ہے اس کے لئے جلد قدم بڑھائیں.پھر اس نظام کا نظام خلافت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے.حضرت اقدس مسیح موعود نے رسالہ ”الوصیت میں جن دو باتوں کا ذکر فرمایا ہے.ان میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کی وفات کے بعد قدرت ثانیہ کا ظہور ہو گا یعنی نظام خلافت کا اجراء ہو گا جس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا جب تک اپنے اندر روحانی تبدیلیاں پیدا کرنے والے پیدا ہوتے رہیں گے تو جماعت کے تقویٰ کا معیار بھی بڑھتا رہے گا اور پھر ان قربانی والے متقیوں کے ذریعہ انشاء اللہ خلافت حقہ اسلامیہ بھی ہمیشہ قائم رہے گی کیونکہ متقیوں کی جماعت کے ساتھ ہی خلافت کا وعدہ ہے.پس اس نعمت کی قدر کریں اور اس کے ساتھ کامیل وفا اور پورے اخلاص کے ساتھ وابستہ ہو جائیں اور یاد رکھیں کہ آپ کی ساری ترقیات خلافت سے ہی وابستہ ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ آپ میں سے ہر ایک خلافت احمدیہ کا فرمانبردار ہے اور نظام وصیت میں شامل ہو کر آپ خود بھی اور آپ کی نسلیں بھی خدا کے فضلوں کی وارث بنیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت میں داخل ہوں.كَانَ اللهُ مَعَكُمْ والسلام.خاکسار ( دستخط ) مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس (ماہنامہ انصار اللہ جون 2005 صفحہ 9 تا 11 ) عہد یداران اپنے عہدوں کا نا جائز فائدہ نہ اٹھائیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 24 جون 2005 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے " کہ نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں ایک دوسرے کے لئے ایک نمونہ بن جائیں.تو تقویٰ کا اعلیٰ معیار تبھی قائم ہوسکتا ہے جب پیار، محبت اور عاجزی اور ایک دوسرے کی خاطر قربانی کی روح پیدا ہو.کیونکہ جس میں اپنے بھائی کے لئے محبت نہیں اس میں تقویٰ بھی نہیں.جس میں انکسار نہیں وہ بھی تقویٰ سے خالی ہے.جس دل میں اپنے بیوی بچوں کے لئے نرمی نہیں وہ بھی تقویٰ سے عاری ہے.جو بیوی یا خاوند ایک دوسرے کے حقوق ادا نہیں کرتے وہ بھی تقویٰ سے خالی ہیں.جو عہد یدار اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں وہ بھی تقوی سے خالی ہیں.غرض کہ جو دل بھی اپنی انا اور تکبر یا کسی بھی قسم کی بڑائی دل میں لئے ہوئے ہے وہ تقویٰ سے عاری ہے.جو بھی اپنے علم کے زعم میں دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے وہ تقویٰ سے خالی ہے.لیکن جو لوگ اپنی عبادتوں کے ساتھ ساتھ عاجزی اور
82 سبیل الرشاد جلد چہارم انکساری دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بندوں کی عزت کرتے ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں، ان کے حقوق ادا کرتے ہیں، ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے ہیں اور یہ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف ہے، صرف اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں.صرف اس لئے کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی محبت نے اس کی مخلوق سے محبت پر بھی ان کو مجبور کیا ہے تو یہ ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے " بے انتہا انعام پانے والے ہیں....ہر ایک آپس کی رنجش دور کرے یہ وہ روح ہے جو ہر احمدی کے دل میں پیدا ہونی چاہئے.کیونکہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کے بعد آپ ہی وہ قوم ہیں جن پر دنیا کی اصلاح کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے.اس لئے اگر اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعوی ہے، اگر اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کی خواہش ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی چاہتے ہیں تو پھر اللہ کی مخلوق سے محبت بھی اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے اور اپنے انجام بخیر کے لئے اور اس کے سایہ رحمت میں جگہ پانے کے لئے کرنی ہوگی.اور جلسے کے یہ دن اس بات کی طرف توجہ پیدا کرنے کے لئے ٹرینگ کے طور پر ہیں.اس کی ابتدا آج سے ہی ہو جانی چاہئے.آج سے ہی ہر دل میں یہ ارادہ ہونا چاہئے کہ ہم نے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں، اپنے معیار اونچے کرنے ہیں.جو ناراض ہیں وہ ایک دوسرے کو گلے لگائیں ، جو روٹھے ہوئے ہیں وہ ایک دوسرے کو منائیں.جنہوں نے گلے شکوے دلوں میں بٹھائے ہوئے ہیں وہ ان گلوں شکووں کو اپنے دلوں سے نکال کر باہر پھینکیں.اور ان دنوں میں عبادتوں کے ساتھ ساتھ محبتیں بانٹنے کی بھی ٹریننگ حاصل کریں.یہ عہد کریں کہ پرانی رنجشوں کو مٹادیں گے.ایک دوسرے کے گلے اس نیت سے لگیں کہ پرانی رنجشوں کا ذکر نہیں کرنا.ایک دوسرے سے کی گئی زیادتیوں کو بھول جانا ہے.کسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرنی بلکہ حقیقی مومن بن کر رہنا ہے تا کہ اللہ تعالی کے حضور پیش کی گئی عبادتیں بھی قبولیت کا درجہ پائیں.اور اللہ کی خاطر اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے کی گئی نیکیاں ان کے حقوق کی ادائیگیاں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ پائیں.اور یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان فرمودہ طریق کے مطابق مومن بن جائیں.تبھی ہم مومن بن سکتے ہیں جب یہ باتیں اپنے اندر پیدا کریں گے جن کے بارے میں ایک روایت میں اس طرح ذکر آتا ہے.حضرت عامر کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو مومنوں کو ان کے آپس کے رہن، محبت اور شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح دیکھے گا.جب جسم کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو اس کا سارا جسم اس کے لئے بے خوابی اور بخار میں مبتلارہتا ہے.( صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والا دب باب تراحم المومنين وتعاطفهم )
سبیل الرشاد جلد چہارم 83 تقوی سے عاری عہدیداروں کے خلاف تعزیری کارروائی ہوگی.....کچھ مرد غلط اور غلیظ الزام لگا کر بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں جو کسی طرح بھی جائز نہیں.ایسے لوگوں کا تو قضا کو کیس سنا ہی نہیں چاہئے جو اپنی بیویوں پر الزام لگاتے ہیں.ان کو سیدھا انتظامی ایکشن لے کرا میر صاحب کو اخراج کی سفارش کرنی چاہئے.غرض کہ ایک گند ہے جو کینیڈ اسمیت مغربی ملکوں میں پیدا ہو رہا ہے.اور پھر اس طبقے کے لوگ ایک دوسرے کو تکلیف پہنچا کر خوش ہوتے ہیں.بعض بچیوں کے جب دوسری جگہ رشتے ہو جاتے ہیں تو ان کو تڑوانے کے لئے غلط قسم کے خط لکھ رہے ہوتے ہیں.کوئی خوف نہیں ایسے لوگوں کو.اللہ تعالیٰ کے عظمت و جلال کی ان کو کوئی بھی فکر نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کے سایہ رحمت سے دور رہنے کی ان کو کوئی بھی پروا نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ کے رسول کے حکم کے خلاف چلتے ہیں اور بجائے اس کے کہ ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کریں اور اس تکلیف پر ایک جسم کی طرح، جس طرح جسم کا کوئی عضو بیمار ہونے سے تکلیف ہوتی ہے اُسے محسوس کریں ، بے چینی کا اظہار کریں وہ بے حسی میں بڑھ جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام مومنوں کو یہ فرما رہے ہیں کہ ایک لڑی میں پروئے جانے کے بعد تم ایک دوسرے کی تکلیف کو محسوس کرو.میاں بیوی کا بندھن تو اس سے بھی آگے قدم ہے.اس سے بھی زیادہ مضبوط بندھن ہے.یہ تو ایک معاہدہ ہے جس میں خدا کو گواہ ٹھہرا کر تم یہ اقرار کرتے ہو کہ ہم تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں گے.تم اس اقرار کے ساتھ ان کے لئے اپنے عہد و پیمان کر رہے ہوتے ہو کہ تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے ہم ہر وقت اس فکر میں رہیں گے کہ ہم کن کن نیکیوں کو آگے بھیجنے والے ہیں.وہ کون سی نیکیاں ہیں جو ہماری آئندہ زندگی میں کام آئیں گی.ہمارے مرنے کے بعد ہمارے درجات کی بلندی کے کام بھی آئیں.ہماری نسلوں کو نیکیوں پر قائم رکھنے کے کام بھی آئیں.اللہ تعالیٰ کی اس وارننگ کے نیچے یہ عہد و پیمان کر رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خبیر ہے.جو کچھ تم اپنی زندگی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرو گے یا کر رہے ہو گے دنیا سے تو چھپا سکتے ہو لیکن خدا تعالیٰ کی ذات سے نہیں چھپا سکتے.وہ تو ہر چیز کو جانتا ہے.دلوں کا حال بھی جاننے والا ہے.دنیا کو دھوکا دے سکتے ہو کہ میری بیوی نے یہ کچھ کیا تھا یا بعض اوقات بیویاں خاوند پہ الزام لگا دیتی ہیں لیکن (اکثر صورتوں میں بیویوں پر ظلم ہورہا ہوتا ہے ) لیکن خدا تعالیٰ کو دھوکا نہیں دے سکتے.اکثر یہی دیکھنے میں آیا ہے جیسا کہ میں نے کہا کہ مرد عورت کو دھوکا دیتے ہیں.لڑکیاں بھی بعض اس زمرے میں شامل ہیں لیکن ان کی نسبت بہت کم ہے.اور پھر عہدیدار بھی غلط طور پر مردوں کی طرفداری کی کوشش کرتے ہیں.عہد یداروں کو بھی میں یہی کہتا ہوں کہ اپنے رویوں کو بدلیں.اللہ نے اگر ان کو خدمت کا موقع دیا ہے تو اس سے فائدہ اٹھا ئیں.یہ نہ ہو کہ ایسے تقویٰ سے عاری عہدیداروں کے خلاف بھی مجھے تعزیری کا رروائی کرنی پڑے
سبیل الرشاد جلد چہارم 84 مرد کو اللہ تعالیٰ نے قوام بنایا ہے، اس میں برداشت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے.اس کے اعصاب زیادہ مضبوط ہوتے ہیں.اگر چھوٹی موٹی غلطیاں، کوتاہیاں ہو بھی جاتی ہیں تو ان کو معاف کرنا چاہئے..مخلوق سے ہمدردی اللہ تعالیٰ کے قرب کا باعث بنتی ہے......پس آپس میں ایسی محبت پیدا کریں کہ دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھیں.دوسرے کی ضروریات کو اس لئے پورا کریں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے کا باعث بنے گی اور آپ کی ضرورتیں بھی خدا تعالیٰ پوری فرماتا رہے گا.دوسروں کی تکلیف دور کرنے سے اللہ تعالیٰ آپ کی بھی تکلیفیں دور فرمائے گا.اور سب سے بڑی بات جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ قیامت کے دن ستاری ہو.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس زمرے میں شامل فرمائے جن سے ہمیشہ ستاری اور مغفرت کا سلوک ہوتار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے مطابق آپ کی خواہش کے مطابق ایسی جماعت بنے جواللہ اور والی بنے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی بھی ہو اور بندوں کے حقوق ادا کرنے والی بھی ہو آپس میں محبت اور اخوت کی اعلی مثالیں قائم کرنے والی بھی ہو.آپ فرماتے ہیں کہ: دو تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آ جائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکر وہ معلوم نہ ہو“.اطلاع منسلکہ آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 351) پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور یہ ماحول تو یہاں میسر آ گیا ہے کہ ان تین دنوں میں دنیا داری سے ہٹ کر خالص اللہ کے ہوتے ہوئے اس کے حضور جھکتے ہوئے ، اس سے مدد مانگتے ہوئے ، اس غرض کو پورا کرنے کی کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی محبت ،سب محبتوں پر غالب آ جائے.اور یہ محبت اس وقت تک غالب نہیں ہو سکتی جب تک دنیا کی محبت ٹھنڈی نہ ہو جائے.اگر نمازیں پڑھ رہے ہیں اور اس طرح جلدی جلدی پڑھ رہے ہیں کہ دنیا کے کام کا حرج نہ ہو جائے تو یہ تو انقطاع نہیں ہے.یہ تو دنیا سے تعلق توڑنے والی بات نہیں ہے.اللہ تعالیٰ دنیاوی کاموں کو جائز قرار دیتا ہے بلکہ یہ بھی ناشکری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کام کے جو موقعے دیئے ہیں ان سے پورا فائدہ نہ اٹھایا جائے.لیکن اگر یہ کام، یہ کاروبار، یہ جائیدادیں خدا تعالیٰ سے دور لے جانے والی ہیں تو پھر ایسے کام بھی ، ایسی ملازمتیں بھی ، ایسے کاروبار بھی ایسی جائیدادیں بھی پھینک دینے کے لائق ہیں.اگر ملازمتوں میں، کاروباروں میں خدا تعالیٰ کو بھلا کر دھو کے اور فراڈ کئے جار ہے ہیں تو ایسے کاروبار اور ایسی ملازمتوں پر لعنت ہے.لیکن اگر یہی کام، یہی کاروبار، یہی جائیداد میں اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کا باعث بن رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کا
سبیل الرشاد جلد چہارم 85 باعث بن رہی ہیں تو یہی چیزیں ہیں جو بندے کو خدا تعالیٰ کے سایہ رحمت میں رکھ رہی ہیں اور سایہ رحمت میں رکھنے کے قابل بنا رہی ہیں.پس احمدی کی دنیا داری بھی دین کی خاطر ہونی چاہئے.پھر ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ " اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان ، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے.تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو.اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو.اور بے جا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو.میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے.تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بعض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں.ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا.اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے.ہر ایک جماعت کی اصلاح اول اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے.چاہئے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بد گوئی کرے تو اس کے لئے درد دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھا دے.جیسے دنیا کے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہے.جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے.پس جب تک تبدیلی نہ ہو گی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں.خدا تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو.اگر تم ان صفات حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے.لیکن مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے.ان باتوں سے صرف شماتت اعداء ہی نہیں ہے بلکہ ایسے لوگ خود بھی قرب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں" ( ملفوظات جلد 4 صفحہ 99، البدر صفحه 3 تا 8 مورخہ 8 ستمبر 1904ء) عہد یداران عبادتوں اور اعلیٰ اخلاق میں نمونہ بنیں پس ہم میں سے ہر ایک اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں سے کہلا سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی محبت کے بعد اعلیٰ اخلاق بھی اپنائے جائیں.دراصل تو اعلیٰ اخلاق بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کا ہی ایک حصہ ہیں.کیونکہ اعلیٰ اخلاق بھی تقویٰ سے ہی پیدا ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے اندر اپنی محبت اور اس کے نتیجے میں تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور جن برائیوں کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے ان سے مکمل بچنے والے ہوں.اپنے دلوں کو کینوں اور بغضوں سے پاک کرنے والے ہوں.اپنی ذاتی رنجشوں کو جماعتی رنگ دینے والے نہ ہوں.کسی عہد یدار سے ذاتی عناد یا رنجش کی وجہ سے اس عہدیدار کی حکم عدولی کرنے والے نہ ہوں.اور اسی طرح عہدیداران بھی اپنی کسی ذاتی
86 سبیل الرشاد جلد چہارم رنجش کی وجہ سے کسی کے خلاف ایسی کارروائی نہ کریں جس سے ان کے عہدے کا ناجائز استعمال ظاہر ہوتا ہو.اللہ تعالیٰ نے اگر کسی کو موقع دیا ہے کہ وہ جماعتی عہد یدار بنایا گیا ہے اس پر خدا کا شکر کریں.، نہ کہ اس وجہ سے گردنیں اکٹر جائیں اور تکبر اور رعونت پیدا ہو جائے.جماعتی عہدیداران کو اپنی عبادتوں میں بھی اور اعلیٰ اخلاق میں بھی ایک نمونہ ہونا چاہئے.عاجزی اور انکساری کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے چاہئیں.عدل اور انصاف کے بھی تمام تقاضے پورے کرنے چاہئیں.پس جہاں ایک عام احمدی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرے، صبر سے کام لے، ایک دوسرے کے قصوروں کو معاف کرنے کی عادت ڈالے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق جماعت کا فرد بنے تا کہ دشمن کے ہنسی ٹھٹھا سے بھی بچے.کیونکہ جب احمدی اتنے دعووں کے بعد ایسی غلطیاں کرتا ہے تو دشمن کے لئے جماعت پر انگلیاں اٹھانے کا باعث بنتا ہے، مخالفین کے لئے جماعت پر انگلیاں اٹھانے کا باعث بنتا ہے.اور کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کی غیرت رکھتا ہے ایسی حرکتوں کی وجہ سے وہ احمدی جس نے دشمن کو نسی کا موقع دیا اللہ تعالیٰ کے قرب سے گر جاتا ہے.تو جب ایک عام احمدی کی ایسی حرکتوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا تو جو عہد یدار ہیں وہ تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں زیادہ ہیں.اس لئے ان کو اور زیادہ استغفار کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کا اہل بنائے کہ اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرسکیں" خطبات مسر در جلد 3 صفحہ 375-384) جماعتی وقار کے خلاف ہر بات عہد یداران کو بتلائیں حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے یکم جولائی 2005ء کو کینیڈا کے جلسہ سالانہ کے بعد اگلے خطبہ جمعہ میں عہدیداران کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا."یا درکھیں جہاں محبت کرنے والے دل ہوتے ہیں وہاں فتنہ پیدا کرنے والے شیطان بھی ہوتے ہیں جو اس تعلق کو توڑنے یا اس تعلق میں رخنے ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.پس ایسے لوگوں سے بھی آپ کو ہوشیار رہنا چاہئے.اپنے ماحول پر نظر رکھنی ہے.کہیں سے بھی کوئی ایسی بات سنیں جو جماعتی وقار یا خلافت کے احترام کے خلاف ہو تو فوری طور پر عہدیداران کو بتائیں ، امیر صاحب کو بتا ئیں، مجھے بتائیں.کیونکہ بعض دفعہ بظاہر بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن اندر ہی اندر پکتی رہتی ہیں اور پھر بعض کمزور طبائع کو خراب کرنے کا باعث بنتی ہیں.عہدیداران بھی اپنے اندر یہ عادت پیدا کریں کہ جب ایسی باتیں سنیں تو سن کر سرسری طور پر دیکھنے کی بجائے اس کی تحقیق کر لیا کریں، یاکم از کم نظر رکھا کریں.ایک دفعہ اگر سنی ہے تو ذہن میں رکھیں اور اگر دوبارہ سنیں تو بہر حال اس پر توجہ دینی چاہئے.امیر صاحب کو بتا ئیں پھر مجھے بھی بتا ئیں اسی
87 سبیل الرشاد جلد چہارم واسطے سے بعض دفعہ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ چھوٹی سی بات لگ رہی ہوتی ہے اس لئے کہ ہر ایک کو اس کے پس منظر کا ، بیک گراؤنڈ کا پتہ نہیں ہوتا.اس کی جڑیں کسی اور جگہ ہوتی ہیں.اس لئے کسی فتنے کو بھی چھوٹا نہ سمجھیں ، اگر کوئی ایسی بات ہے جو وقتی ہے، آپ کے نزدیک سطحی سی بات ہے، اور غصے میں کسی نے کہہ دی ہے تو اس کا پتہ چل جاتا ہے.اور ان وقتی شکایتوں اور شکووں کو دور کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے.اور عہد یداروں کی طرف سے بھی کی جانی چاہئے.عہد یداروں کو اس بات کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے اور ایسی باتیں سننی چاہئیں تا کہ توجہ نہ دینا فرد جماعت اور عہد یداروں میں دوری پیدا کرنے کا باعث نہ بن جائے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا جب بھی کسی بات کا مجلسوں میں ذکر ہورہا ہے اور پھر شرارت پھیلانے کی غرض سے ذکر ہورہا ہے تو اس کا پتہ چل جاتا ہے.بہر حال ہر صورت میں جب بھی آپ کوئی ایسی بات سنیں جس میں ذراسی بھی نظام کے خلاف کسی بھی قسم کی بو آتی ہو تو اس طرف توجہ دینی چاہئے.اس لئے یہاں سمیت تمام دنیا کے عہدیداران بھی اور امراء بھی جہاں جہاں بھی ہیں، ان سے میں کہوں گا کہ اپنے آپ کو ایک حصار میں، ایک شیل (Shell) میں بند کر کے یا محصور کر کے نہ رکھیں ، جہاں صرف ایسے لوگ آپ کے اردگرد ہوں جو سب ٹھیک ہے“ کی رپورٹ دینے والے ہوں.بلکہ ہر ایک احمدی کی ہر متعلقہ امیر اور عہدیدار تک پہنچ ہونی چاہئے تا کہ ہر طبقے اور ہر قسم کے لوگوں سے آپ کا براہ راست تعلق ہو.بعض دفعہ بعض نوجوان بھی ایسی معلومات دیتے ہیں اور ایسی عقل کی بات کہہ دیتے ہیں جو بڑی عمر کے لوگ یا تجربہ کارلوگوں کے ذہن میں نہیں آتی.اس لئے کبھی بھی کسی بھی نوجوان کی یا کم پڑھے لکھے کی بات کو تخفیف یا کم نظر سے نہ دیکھیں.وقعت نہ دیتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ہر بات کو توجہ دینی چاہئے.پھر بعض دفعہ نو جوانوں کے ذہنوں میں بعض سوال اٹھتے ہیں اور اس معاشرے میں اور آج کل کے نواجونوں کے ذہن میں بھی باتیں اٹھتی رہتی ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ اور ایسا کیوں نہیں ہے؟.اس لئے خدام الاحمدیہ کو بھی لجنہ اماءاللہ کو بھی اور جماعتی عہد یداران کو بھی ایسے نو جوانوں کی تسلی کرانی چاہئے ، ان کو تسلی بخش جواب دینے چاہئیں تا کہ کسی فتنہ پرداز کو ان کو استعمال کرنے کا موقع نہ ملے.عہد یداران خدمت کے لئے مقرر کئے گئے ہیں پھر عہدیداران جو جماعتی نظام میں عہدیداران ہیں وہ صرف عہدے کے لئے عہد یدار نہیں ہیں بلکہ خدمت کے لئے مقرر کئے گئے ہیں.وہ نظام جماعت، جو نظام خلافت کا ایک حصہ ہے، کی ایک کڑی ہیں.ہر عہد یدار اپنے دائرے میں خلیفہ وقت کی طرف سے ، نظام جماعت کی طرف سے تفویض کئے گئے ، ان کے سپرد کئے گئے اس حصہ فرض کو صحیح طور پر سر انجام دینے کا ذمہ دار ہے.اس لئے ایک عہد یدار کو بڑی محنت سے، ایمانداری سے اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے کام کو سر انجام دینا چاہئے.اور
88 سبیل الرشاد جلد چہارم اُن عہدیداروں میں اپنے آپ کو شمار کرنا چاہئے جن سے لوگ محبت رکھتے ہوں.جس کا ایک حدیث میں یوں ذکر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے بہترین سردار وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں.تم ان کے لئے دعا کرتے ہواور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں.مسلم کتاب الامارة - باب خيار الائمة و شرارهم ) تو اگر تقویٰ پر چلتے ہوئے تمام عہدیدار اپنے فرائض نبھا ئیں اور جب فیصلے کرنے ہوں تو خالی الذہن ہو کر کیا کریں، کسی طرف جھکاؤ کے بغیر کیا کریں.جیسا کہ پہلے بھی میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تقویٰ یہی ہے کہ اگر اپنے خلاف یا اپنے عزیز کے خلاف بھی گواہی دینی ہو تو دے دیں.لیکن انصاف کے تقاضے پورے کریں تو پھر ایسے عہدیدار اللہ کے محبوب بن رہے ہوں گے جیسا کہ ایک حدیث میں ذکر آتا ہے.حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کولوگوں میں سے زیادہ محبوب اور ان سے زیادہ قریب انصاف پسند حا کم ہوگا اور سخت نا پسندیدہ اور سب سے زیادہ دور ظالم حاکم ہوگا.عہد یدار اپنے دائرے میں نگران ہے ( ترمذی ابواب الاحکام باب ماجاء فی الامام العادل ) یہاں حاکم تو نہیں ہیں لیکن عہدے بہر حال آپ کے سپرد کئے گئے ہیں، ایک ذمہ واری آپ کے سپر د کئی گئی ہے.ایک دائرے میں آپ نگران بنائے گئے ہیں.پس یہ جو خدمت کے مواقع دیئے گئے ہیں یہ حکم چلانے کے لئے نہیں دیئے گئے بلکہ خلیفہ وقت کی نمائندگی میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے ہیں.خلیفہ وقت کے فرائض کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں یہ فرما دیا ہے کہ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللَّهِ ( ص : 27) یعنی پس تو لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلے کر اور اپنی خواہش کی پیروی مت کر.وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی.عہدیداران سے خلیفہ وقت نے انصاف کے ساتھ فرائض ادا کرنے کی امید رکھی ہے پس جب عہدیداران پر خلیفہ وقت نے اعتماد کیا ہے اور اُن سے انصاف کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے کی امید رکھی ہے.کیونکہ ہر جگہ تو خلیفہ وقت کا ہر فیصلہ کے لئے پہنچنا مشکل ہے ہممکن ہی نہیں ہے.تو اگر عہدیداران ، جن میں قاضی صاحبان بھی ہیں، دوسرے عہدیداران بھی ہیں اپنے فرائض انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ادا نہیں کرتے تو پھر اللہ کی گرفت کے نیچے آتے ہیں.میرے نزدیک وہ
89 سبیل الرشاد جلد چہارم دو ہرے گناہگار ہو رہے ہوتے ہیں.دوہرے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں.ایک اپنے فرائض صحیح طرح انجام نہ دے کر، دوسرے خلیفہ وقت کے اعتماد کوٹھیس پہنچا کر، خلیفہ وقت کے علم میں صحیح صورت حال نہ لا کر.نمائندے کی حیثیت سے جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، عہدیداران کا یہ فرض بنتا ہے کہ خلیفہ وقت کو ایک ایک بات پہنچائیں.یہ خیال کہ خلیفتہ اسی کو کوئی بات بتلانا تکلیف دہ ہوگا، شیطانی خیال ہے بعض دفعہ بیوقوفی میں بعض لوگ یہ کہہ جاتے ہیں، ان میں عہدیدار بھی شامل ہیں، کہ ہر بات خلیفہ وقت تک پہنچا کر اسے تکلیف میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے.عام لوگ بھی جس طرح میں نے کہا کہہ دیتے ہیں کہ اپنی تکلیفیں زیادہ نہ لکھو جو مسائل ہیں وہ نہ لکھو.وہ کہتے یہ ہیں کہ پہلے تھوڑے معاملات ہیں؟ پہلے تھوڑی پریشانیاں ہیں؟ جماعتی مسائل ہیں جو ان کو اور پریشان کیا جائے.تو یاد رکھیں ، میرے نزدیک یہ سب شیطانی خیال ہیں ، غلط خیال ہیں.اللہ تعالیٰ کا براہ راست حکم خلیفہ کے لئے ہے اور کیونکہ کام کے پھیل جانے کی وجہ سے، کام بہت وسیع ہو گئے ہیں، پھیل گئے ہیں، خلیفہ وقت نے اپنے نمائندے مقرر کر دیئے ہیں تا کہ کام میں سہولت رہے.لیکن بنیادی طور پر ذمہ داری بہر حال خلیفہ وقت کی ہے.اور جب اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے تو پھر اس کی مدد کے لئے وہ تیار رہتا ہے.کیونکہ خلیفہ بنایا بھی اس نے ہے تو یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ خلیفہ بنائے بھی خود، ذمہ داری بھی اس پر ڈالے اور پھر اپنی مدد اور نصرت کا ہاتھ بھی اس پر نہ رکھے.اس لئے یہ تصور ہی غلط ہے کہ خلیفہ وقت کو تکلیف نہ دو.خلیفہ کی جو برداشت ہے اور تکلیف دہ باتیں سنے کا جس قدر حوصلہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہوتا ہے یا خلافت کے انعام کے بعد جس طرح اس کو بڑھاتا جاتا ہے کسی اور کو نہیں دیتا.اس لئے یہ ساری ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس سے ادا کروانی ہوتی ہے.بہر حال وہ حوصلہ بڑھا دیتا ہے.اس لئے یہ تصور غلط ہے کہ تکلیف نہ دو.کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور تکلیف پہنچانا اس حد تک جائز ہے بلکہ ہر ایک کا فرض ہے.پس اس تصور کو عہد یداران جن کے ذہنوں میں یہ بات ہے کہ خلیفہ وقت کو تکلیف کیا دینی ہے، وہ ذہن سے یہ بات نکال دیں اور مجھے بھی گناہگار ہونے سے بچائیں اور خود بھی گناہگار ہونے سے بچیں.اگر اصلاح کی خاطر کسی بڑے آدمی کے خلاف بھی کارروائی کرنی پڑے تو کریں اور اس بات کی قطعا کوئی پرواہ نہ کریں کہ اس کے کیا اثرات ہوں گے.اگر فیصلے تقویٰ پر بنی اور نیک نیتی سے کئے گئے ہیں تو یا درکھیں اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت ہمیشہ آپ کے شامل حال رہے گی.ورنہ یا درکھیں اگر جماعت احمد یہ البہی جماعت ہے اور یقیناً الہی جماعت ہے تو پھر اس کی رہنمائی بھی اللہ تعالیٰ ہی فرماتا ہے، فرماتا رہے گا.ایک حد تک تو بعض عہد یداران سے صرف نظر ہوگی لیکن پھر یا تو خلیفہ وقت کے دل میں اللہ تعالیٰ ڈال دے گا یا کسی اور ذریعہ
سبیل الرشاد جلد چہارم 90 سے اس عہد یدار سے خدمت کا موقع چھین لے گا ، اس کو خدمت سے محروم کر دے گا.پس تمام عہدیداران تقویٰ سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ اپنے فرائض منصبی ادا کریں.اور آپ کا کبھی کوئی فیصلہ، کبھی کوئی کام نفسانی خواہشات کے زیراثر نہ ہو.اللہ سب کو اس کی توفیق دے.خلیفہ وقت اور افراد جماعت کا لطیف تعلق اور عہد یدار ان کی ذمہ داریاں دوسری بات میں احباب جماعت سے یہ کہنا چاہتا ہوں، جیسے کہ پہلے بھی میں کہہ آیا ہوں کہ ایک بہت بڑی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت سے وفا اور اخلاص کا تعلق رکھتی ہے.لیکن یاد رکھیں یہ ریزولیوشنز ، یہ خط، یہ وفاؤں کے دعوے تب سچے سمجھے جائیں گے، تب سچے ثابت ہوں گے جب آپ ان دعووں کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں.نہ کہ وقتی جوش کے تحت نعرہ لگالیا اور جب مستقل قربانیوں کا وقت آئے ، جب وقت کی قربانی دینی پڑے، جب نفس کی قربانی دینی پڑے تو سامنے سوسومسائل کے پہاڑ کھڑے ہو جائیں.پس اگر یہ دعویٰ کیا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کی خاطر خلافت سے محبت ہے تو پھر نظام جماعت جو نظام خلافت کا حصہ ہے اس کی بھی پوری اطاعت کریں.خلیفہ وقت کی طرف سے تقویٰ پر قائم رہنے کی جو تلقین کی جاتی ہے اور یقیناً یہ خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہی ہے، اس پر عمل کریں.اللہ تعالیٰ نے سورۃ نور کی جس آیت میں خلافت کا انعام دیئے جانے کا وعدہ فرمایا ہے اس سے پہلی آیتوں میں یہ مضمون بھی بیان ہوا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اللہ سے ڈرو، اس کا تقویٰ اختیار کرو تو پھر تمہاری کامیابیاں ہیں.ور نہ پھر کھوکھلے دعوے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے اور ہم وہ کر دیں گے.ہم آگے بھی لڑیں گے، ہم پیچھے بھی لڑیں گے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ اَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا طَاعَةٌ مَّعْرُوفَةٌ طَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بمَا تَعْمَلُونَ (النور: 53-54) یعنی جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اور اس کا تقویٰ اختیار کرے تو یہی ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تو انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے.تو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ.دستور کے مطابق اطاعت کرو.یقینا اللہ جوتم کرتے ہواس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے.پس اگر حقیقت میں یہ سچا دعوی ہے تو پھر تقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کریں، اس کے بندوں کے حقوق ادا کریں، جلسے کے دنوں میں جو نصائح کی گئی تھیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اپنے
91 سبیل الرشاد جلد چہارم اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں.اپنے اس عہد پر عمل کر کے دکھائیں کہ ہر معروف فیصلے پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے.ورنہ یہ عہد یہ دعوے کھو کھلے ہیں.تم اپنی باتوں سے تو زبانی جمع خرچ میں یہ کہہ سکتے ہو کہ ہاں ہم یوں کرتے ہیں.لیکن یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ان دعووں کی کنہ تک سے واقف ہے.اس کو گہرائی تک علم ہے.دلوں کا حال جانتا ہے.باتوں کی اصل حقیقت کو جانتا ہے.اس لئے اس کو دھوکا نہیں دیا جاسکتا.پس اللہ کا یہ خوف دل میں رکھتے ہوئے ہر احمدی کو اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اگر اس طرح زندگی گزارو گے تو تمہارا خلافت کے ساتھ تعلق بھی مضبوط ہوگا اور کیونکہ یہ تعلق خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہوگا اس لئے اللہ تعالیٰ تم پر اپنا فضل فرماتا رہے گا.اللہ تعالیٰ نے خلافت کے انعام سے فیض پانے والے ان لوگوں کو قرار دیا ہے جو نیک اعمال بھی بجا لانے والے ہوں.پس خلافت سے تعلق مشروط ہے نیک اعمال کے ساتھ.خلافت احمدیہ نے تو انشاء اللہ تعالی قائم رہنا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.لیکن نظام خلافت سے تعلق انہیں لوگوں کا ہو گا جو تقویٰ پر چلنے والے اور نیک اعمال بجالانے والے ہوں گے.اگر جائزہ لیں تو آپ کو نظر آ جائے گا کہ جن گھروں میں نمازوں میں بے قاعدگی نہیں ہے، ان کا نظام سے تعلق بھی زیادہ ہے.جو اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے ہیں ان کا خلافت اور نظام سے تعلق بھی زیادہ ہے.اور جن گھروں میں نمازوں میں بے قاعد گیاں ہیں، جن گھروں میں اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے میں وہ شدت نہیں ہے احمدی ہونے کے باوجو د نظام جماعت کا احترام نہیں ہے ،لوگوں کے حقوق صحیح طور پر ادا نہیں کرتے وہی لوگ ہیں جن کے گھروں میں بیٹھ کر خلیفہ وقت کے بارہ میں بعض منفی تبصرے بھی ہورہے ہوتے ہیں.تو اپنے آپ کو نظام جماعت اور جماعتی عہدیداران سے بالا بھی وہاں سمجھا جارہا ہوتا ہے.ایسے لوگ تبصرے شروع کرتے ہیں عہد یداروں سے اور بات پہنچتی ہے خلیفہ وقت تک.جب نظام جماعت کی طرف سے ان کے خلاف کوئی فیصلہ آتا ہے تو اس پر بجائے استغفار کرنے کے اعتراض ہو رہے ہوتے ہیں.حالانکہ نظام جماعت میں تو خلافت کی وجہ سے یہ سہولت میسر ہے کہ اگر کسی کو یہ خیال ہو کہ کوئی فیصلہ کسی فریق کی طرفداری میں کیا گیا ہے تو خلیفہ وقت کے پاس معاملہ لایا جاسکتا ہے.اگر پھر بھی بعض شواہد یا کسی کی چرب زبانی کی وجہ سے فیصلہ کسی کے خلاف ہوتا ہے تو اس کو تسلیم کر لینا چاہئے اور بلا وجہ نظام پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے.کیونکہ یہ اعتراض تو بڑھتے بڑھتے بہت اوپر تک چلے جاتے ہیں.ایسے موقعوں پر اس حدیث کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے ، پیش نظر رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی اپنی چرب زبانی کی وجہ سے میرے سے فیصلہ اپنے حق میں کروالیتا ہے حالانکہ وہ حق پر نہیں ہوتا تو وہ آگ کا گولہ اپنے پیٹ میں ڈال رہا ہوتا ہے.یعنی اس وجہ سے وہ اپنے پر جہنم واجب کر رہا ہوتا ہے اور کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس فعل کی وجہ سے اس دنیا میں بھی اذیت میں مبتلا
92 42 سبیل الرشاد جلد چہارم رکھے.اس کو کئی قسم کے صدمات پہنچ رہے ہوں مختلف طریقوں سے.مختلف وجوہات سے وہ مشکلات میں گرفتار ہو جائے.تو بہر حال جیسا کہ میں پہلے عہدیداران سے بھی کہہ آیا ہوں کہ انہیں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلے کرنے چاہئیں.لیکن فریقین سے بھی میں یہ کہتا ہوں کہ آپ بھی حسن ظنی رکھیں اور اگر فیصلے خلاف ہو جاتے ہیں تو معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں.اور جیسا کہ حدیث میں آیا ہے دوسرے فریق کو آگ کا گولہ پیٹ میں بھرنے دیں.اور لڑائیوں کو طول دینے اور نظام جماعت سے متعلق جگہ جگہ باتیں کرنے کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تعلیم پر عمل کریں کہ بچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کرو.اللہ تعالیٰ سب میں یہ حوصلہ پیدا فرمائے اور ہر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والا بن جائے.میاں بیوی کے جھگڑوں میں عہد یداران کا کردار لیکن یہاں میں عہدیداران خاص طور پر امراء کے لئے ایک بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ ان مغربی ممالک میں جیسا کہ میں اپنے جلسے کی تقریر میں ذکر کر چکا ہوں عائلی یا میاں بیوی کے جھگڑوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے.اور یہ جھگڑے ایسی نوعیت اختیار کر جاتے ہیں کہ علم ہونے اور ہمدردی ہونے کے باوجود نظام جماعت بعض پابندیوں کی وجہ سے کچھ نہیں کر سکتا.کیونکہ بعض صورتوں میں ملکی قانون ایک فریق کو حق پر نہ ہونے کے باوجود اس کے شرعی حقوق کی وجہ سے بعض حق دے دیتا ہے.اس لئے ایسے مرد جو ظلم کر کے اپنی بیویوں کو گھروں سے نکال دیتے ہیں.یہ بھی نہیں دیکھتے کہ موسم کی شدت کیا ہے.پھر ایسے ظالم باپ ہوتے ہیں کہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ اس موسم کی شدت میں ماں کی گود میں چند ماہ کا بچہ ہے.تو ایسے لوگوں کے خلاف نظام جماعت کو عورت کی مدد کرنی چاہئے.پولیس میں بھی اگر کیس رجسٹر کروانا پڑے تو کروانا چاہئے.یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ہم جماعت میں فیصلہ کر لیں گے اور باہر نہ نکلیں.بعد میں اگر فیصلہ جماعت کے اندر کیا جا سکتا ہو تو کریں، کیس واپس لیا جا سکتا ہے.لیکن ابتدائی طور پر ضرور ر پورٹ ہونی چاہئے.اور پھر جو لا وارث اور بے سہارا عورتیں ہیں، ان ملکوں میں آکر لاوارث بن جاتی ہیں کیونکہ والدین یہاں نہیں ہوتے ، مختلف غیروں کے گھروں میں رہ رہی ہیں ان کو بھی جماعت کو سنبھالنا چاہئے ، ان کی رہائش کا بھی جماعت بندوبست کرے، ان کے لئے وکیل کا انتظام کرے.(اور پھر ظاہر تو ہو جاتا ہے، پردہ پوشی کی جائے تو الگ بات ہے ).ایسے ظالم خاوندوں کے خلاف جماعتی تعزیر کی سفارش بھی مجھے کی جائے.تو اس کے لئے فوری طور پر امریکہ اور کینیڈا کے امراء ایسی فہرستیں بنائیں ، بعض دوسرے مغربی ممالک میں بھی ہیں، لجنہ کے ذریعہ سے بھی پتہ کریں اور ایسی عورتوں کو ان کے حق دلوائیں.اور جن عورتوں کے حقوق ادا نہیں ہور ہے اور نظام جماعت بھی اس بارے میں حرکت میں نہیں آرہا تو یہ عورتیں مجھے براہ راست لکھیں" خطبات مسرور جلد 3 صفحہ 389-396)
سبیل الرشاد جلد چہارم 93 مطالعہ کتب اور امتحانات میں اراکین مجلس عاملہ کو بھی شامل کریں اراکین نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ کینیڈا کے ساتھ مؤرخہ 5 جولائی 2005ء بروز منگل حضور انور نے میٹنگ میں نائب صدر صف دوم کو ہدایت فرمائی کہ صف دوم کے تمام انصار کو چندہ کے نظام میں شامل کریں.ان کی سائیکل ریس وغیرہ کروالیا کریں.آؤٹنگ (outing) وغیرہ کے پروگرام ہونے چاہئیں.قائد مال سے حضور انور نے ان کے بجٹ ، چندہ دینے والے انصار کی تعداد، کمانے والے انصار کی تعداد اور اس تعلق میں دیگر امور کے بارہ میں دریافت فرمایا اور ہدایات سے نوازا.معاون صدر سے حضور انور نے ان کے سپر د کام کے بارہ میں دریافت فرمایا.قائد صحت جسمانی نے حضور انور کی خدمت میں مختلف ٹورنامنٹس اور کھیلوں کی رپورٹ پیش کی.قائد ایثار نے خدمت خلق کے کام کے بارہ میں رپورٹ پیش کی.حضور انور نے قائد ایثار کو فرمایا کہ انصار اللہ کا لائحہ عمل پڑھیں اس کے مطابق سکیم بنا کر کام کریں.قائد وقف جدید کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ انصار سے ذاتی رابطے پیدا کریں تا کہ آپ کا ٹارگٹ پورا ہو.قائد تربیت نے حضور انور کو بتایا کہ نماز با جماعت کے قیام کی طرف توجہ دی جارہی ہے.حضور انور نے فرمایا اس کا Follow Up ہونا چاہئے.اصل چیز یہ نہیں ہے کہ سکیم بنائی یا پروگرام بنایا.اصل چیز یہ ہے کہ کیا حاصل ہوا ہے اور کیا نتیجہ نکلا ہے؟.قائد تعلیم کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ مطالعہ کتب میں اور امتحانات میں مجلس عاملہ کو بھی شامل کریں اور ان سے رپورٹ لیتے رہا کریں کہ کتنے صفحات کا مطالعہ کیا ہے.مقصد یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے خزانے میں سے حصہ لیتے رہیں.ایڈیشنل قائد مال کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ آپ چندہ کے سلسلہ میں ہر ایک سے رابطہ رکھیں اور سبھی کو اس نظام میں شامل کرنے کی کوشش کریں.انصار اللہ کے اراکین خصوصی سے حضور انور نے فرمایا کہ اپنے لئے اور باقیوں کے لئے دعا کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہی توفیق دیتا ہے.قائد اشاعت کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ رسالہ انصار اللہ جو آپ کو پاکستان سے آتا ہے اس کی تعداد بڑھائیں.آپ کے جو Active انصار ہیں وہ یہ رسالہ لگوا سکتے ہیں.قائد تجنید کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ ہر سال آپ کی تجنید مکمل ہونی چاہئے.خدام انصار میں آرہے ہوتے ہیں.اس لئے ہر سال تجنید مکمل کیا کریں.فرمایا قائد تجنید بہت مستعد ہونا چاہئے.قائد عمومی کوحضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جن مجالس سے آپ کور پورٹس موصول نہیں ہوتیں ان کو
سبیل الرشاد جلد چہارم 94 بار بار یاد دہانی کروائیں اور ان کے پیچھے پڑیں اور کوشش کریں کہ آپ کو سو فیصد مجالس سے رپورٹس ملیں.الفضل انٹر نیشنل 19 اگست 2005ء) ذیلی تنظیموں کے عہدیدار، جماعتی اور دوسری ذیلی تنظیموں کے عہد یداروں کا احترام اپنے دل میں پیدا کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 26 اگست 2005ء کو جرمنی کے جلسہ سالانہ کے دنوں میں حبل اللہ کے معانی بیان کرتے ہوئے ذیلی تنظیموں کے عہدیداران کو یہ نصائح فرمائیں." یہاں اس ملک میں آکر آپ میں سے بہتوں کے جو معاشی حالات بہتر ہوئے ہیں اس بات سے آپ کے دلوں میں ایک دوسرے کی خاطر مزید نرمی آنی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے آگے سر مزید جھکنا چاہئے کہ اس نے احسان فرمایا اور اس احسان کا تقاضا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رتی کو مزید مضبوطی سے پکڑتے ہوئے اس کے حکموں پر عمل کیا جائے.اپنے بھائیوں کے حقوق ادا کئے جائیں اور یوں اللہ کا پیار بھی حاصل کیا جائے.اور جہاں ہم اس طرح اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر رہے ہوں گے وہاں آپس کی محبت اور پیار اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی وجہ سے آپس میں مضبوط بندھن میں بندھ رہے ہوں گے.اور جب ہم اس طرح بندھے ہوں گے اور اللہ کی رہتی کو تھامے ہوئے اس کے احکامات پر عمل کر رہے ہوں گے تو ہمارا ایک رعب قائم ہوگا جو مخالفین کے ہر حملے سے ہمیں محفوظ رکھے گا.ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا جماعتی وقار بھی جاتا رہے گا اور تمہارے اندر بز دلی بھی پیدا ہو جائے گی.جیسا کہ فرمایا أَطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ (الانفال:47) اور اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ تم بزدل بن جاؤ گے اور تمہارا رعب جاتا رہے گا.اور صبر سے کام لو.یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.پس ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے.اگر ایسے مواقع آبھی جائیں جس میں کسی کی طرف سے زیادتی ہوئی ہو تو صبر اور حوصلے سے اس کو برداشت کرنا چاہئے.آپس کے چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں پڑ کر اپنی اناؤں کے سوال پیدا کر کے اپنی طاقتوں کو کم نہ کریں.ہر بھائی دوسرے بھائی کی عزت کا خیال رکھے.ہر بہن دوسری بہن کی عزت کا خیال رکھے.اپنے بچوں کے دلوں میں ایک دوسرے کیلئے احترام پیدا کریں.عہد یدار افراد جماعت کی عزت نفس کا خیال رکھیں اور افراد جماعت عہدیداروں کی عزت کریں، ان کے وقار کا خیال رکھیں.پھر آپس میں عہدیدار ایک دوسرے کی عزت اور احترام کریں.ذیلی تنظیموں کے عہدیدار دوسری ذیلی تنظیموں کے
سبیل الرشاد جلد چہارم 95 96 عہدیداروں کا احترام اپنے اندر اور اپنی تنظیم کے اندر پیدا کریں.پھر تمام ذیلی تنظیموں کے عہد یدار جماعتی عہدیداروں کا احترام اپنے دل میں پیدا کریں.آپس میں تمام عہد یدار ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھیں.عہدیداروں سے میں کہتا ہوں کہ جب یہ چیز عہدیداروں کی سطح پر اعلیٰ معیار کے مطابق پیدا ہو جائے گی.تو جماعت کے اندر ایک روحانی تبدیلی خود بخود پیدا ہوتی چلی جائے گی.جس طرح آپ تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام کر رہے ہوں گے.اسی طرح افراد جماعت ایک دوسرے کا احترام کر رہے ہوں گے اور خیال رکھ رہے ہوں گے.ضرورتیں پوری کر رہے ہوں گے.قربانی دینے کا شوق پیدا ہو رہا ہوگا.پس اس بات کو چھوٹی نہ سمجھیں.یہی باتیں آپ کو اعلیٰ اخلاق کی طرف لے جانے والی ہیں اور انہیں باتوں کے اپنانے سے اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے سے، اپنے اوپر لاگو کرنے سے ، ہم جماعت کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہوں گے.ان باتوں کے اختیار کرنے کی طرف توجہ کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مختلف طریقوں سے ہمیں سمجھایا ہے کہ آپس میں اخوت اور بھائی چارے کی فضا کس طرح پیدا کرنی ہے.ایک روایت میں آتا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بھی کسی کی بے چینی اور اس کے کرب کو دور کرتا ہے.اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے کرب اور اس کی بے چینی کو دور کرے گا اور جو شخص کسی تنگ دست کے لیے آسانی مہیا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے لیے آسانی اور آرام کا سامان بہم پہنچائے گا اور جو شخص دنیا میں کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے.اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا.اللہ تعالیٰ اس شخص کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کے لیے کوشاں رہتا ہے.ترندی کتاب البر والصلۃ باب فی الستر علی المسلم ) پس یہ آسانیاں پیدا کرنا بھی محبت بڑھانے کا ذریعہ ہے.خاص طور پر ایک دوسرے کی پردہ پوشی کی طرف بہت توجہ دیں.لیکن یہاں ایک وضاحت بھی کر دوں.اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ غلاظت کو معاشرے میں پلنے اور بڑھنے دیا جائے اور جو غلط حرکات ہو رہی ہوں ان سے اس طرح پردہ پوشی کی جائے کہ جو معاشرے پر برا اثر ڈال رہی ہو.اس کی اطلاع عہدیداران کو دینی ضروری ہے.مجھے بتائیں لیکن آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کرنا یا کسی کے متعلق باتیں سن کے آگے پھیلانا یہ غلط طریق کار ہے.اس معاملے میں پردہ پوشی ہونی چاہئے.لیکن اصلاح کی خاطر بتانا بھی ضروری ہے.لیکن ہر جگہ بات کرنے سے پر ہیز کرنا چاہئے.یہ برائیاں اگر کوئی کسی میں دیکھتا ہے تو ایک احمدی کو بے چین ہو جانا چاہئے ، اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.بے چینی سے اس کی غلطیوں کو لوگوں پر ظاہر نہیں کرنا.بے چینی اصلاح کے لئے ہونی
سبیل الرشاد جلد چہارم 96 چاہئے اور وہیں بات کرنی چاہئے جہاں سے اصلاح کا امکان ہو.اگر خود اصلاح نہیں کر سکتے تو جس طرح میں نے کہا ہے پھر عہدیداروں کو بتا ئیں، مجھے بتائیں.اور پھر یہ عہد یدار رحم اور محبت کے جذبات کے ساتھ اس شخص کی اصلاح کی طرف توجہ کریں.ایک روایت میں آتا ہے حضرت عامر کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو مومنوں کو ان کے آپس کے رحم محبت و شفقت کرنے میں ایک جسم کی طرح دیکھے گا.جب جسم کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے.اس کا سارا جسم اس کے لئے بے خوابی اور بخار میں مبتلا رہتا ہے.( بخاری کتاب الادب.باب رحمۃ الناس والبھائم ) پس معاشرے کو تکلیف سے بچانے کے لیے اپنے آپ کو اس بیماری سے بچانے کے لیے پاک دل ہو کر اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے ، دعا کرنی چاہئے.یہ رویے اگر ہوں گے تو یقیناً یہ ایسے رویے ہیں جو معاشرے کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ڈھالنے والے ہوں گے.پھر آپس کے تفرقہ کو دور کرنے کے لیے، آپس میں محبت کرنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نہایت خوبصورت اصل ہمیں بتا دیا.روایت میں آتا ہے حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین راتوں سے زیادہ قطع تعلق رکھے اور یہ کہ وہ راستے میں ایک دوسرے سے ملیں تو منہ پھیر لیں.ان دونوں میں سے بہترین وہ الادب المفرد للبخاری، باب من بدا بالسلام ) ہے جو سلام میں پہل کرے.پس آپس کی رنجشوں کو لمبا نہیں کرنا چاہئے اس سے تفرقہ پیدا ہوتا ہے اور بڑھتے بڑھتے جماعتی وقار کو نقصان پہنچاتا ہے.غیر اس سے فائدہ اٹھاتا ہے.کئی خط آتے ہیں لوگ لکھتے ہیں کہ فلاں شخص کے ساتھ ناراضگی تھی ، آپ کے کہنے پر جب میں اس کے پاس گیا اور اس سے اپنی غلطی کی معافی مانگی تو اس نے سختی سے مجھے جھڑک دیا.وہ بات کرنے کا روادار نہیں ، سلام کرنے کا روادار نہیں.یہاں جرمنی میں کئی ایسے واقعات ہیں" خطبات مسرور جلد 3 صفحه 520-523) عہد یداران کو تعزیر یافتہ افراد سے تعلق رکھنے میں احتیاط کرنی چاہئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 2 ستمبر 2005ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا.بعض معمولی باتیں ہوتی ہیں جو دلوں کو ٹیڑھا کرنے کا باعث بن جاتی ہیں اور عموماً یہی چیزیں ہوتی
97 سبیل الرشاد جلد چہارم ہیں.مثلاً دو باتیں ہیں ایک شدید محبت اور ایک شدید غصہ جس میں انتہا پائی جاتی ہو.تو اصل میں جو شدید محبت ہے وہی شدید غصے کی وجہ بنتی ہے.جب غصہ آتا ہے تو وہ یا تو نفس کی محبت غالب ہونے کی وجہ سے آتا ہے یا اپنے کسی قریبی عزیز کی محبت غالب ہونے کی وجہ سے آتا ہے.بعض دفعہ میاں بیوی کی جوگھر یلولڑائیاں یا خاندانی لڑائیاں یا کاروباری لڑائیاں ہوتی ہیں ان میں انسان مغلوب الغضب ہو کر ہوش وحواس کھو بیٹھتا ہے.تو جب یہ مغلوب الغضب ہوتا ہے تو اس وقت اپنے نفس سے ہی پیار کر رہا ہوتا ہے.اس کو اپنے نفس کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آرہی ہوتی اور اس کو پتہ نہیں لگ رہا ہوتا کہ کیا کہہ رہا ہے.بالکل ہوش و حواس غائب ہوتے ہیں.قضاء میں بعض معاملات آتے ہیں اگر فیصلہ مرضی کے مطابق نہ ہو، ایک فریق کے حق میں نہ ہو تو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں.ہوش و حواس میں نہیں رہتے.صاف جواب ہوتا ہے کہ جو کرنا ہے کر لو.اور پھر جب تعزیر ہو جاتی ہے، سزامل جاتی ہے تو پھر معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے معافی مانگتے ہیں کہ غلطی ہوگئی ، ہمیں معاف کر دیں اور پھر فیصلہ پر بھی عملدرآمد کر دیں گے.تو یہ تو وہی حساب ہو جاتا ہے ان کا کہ سو جو تیاں بھی کھا لیں اور سو پیاز بھی کھالئے.لیکن بعض ایسے بھی ہیں جن کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی ، جھوٹی اناؤں نے انہیں اپنے قبضے میں لیا ہوتا ہے.اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اطاعت کرنی ہے.ویسے اگر اپنے او پر کوئی بات نہ ہو، اپنا مسئلہ نہ ہو تو دعوے یہ ہوتے ہیں کہ نظام جماعت پر ، خلیفہ وقت پر ہماری تو جان بھی قربان ہے.لیکن اپنے خلاف فیصلہ ہو جائے تو پھر وہ نہیں مانتے.اور پھر نہ صرف مانتے نہیں بلکہ جماعت کے خلاف اعتراض بھی کرنے شروع ہو جاتے ہیں.تو ایسے جو لوگ ہیں وہ اس زمرے میں شمار ہوتے ہیں جن کے دل آہستہ آہستہ مستقل ٹیڑھے ہو جاتے ہیں.جھوٹی اناؤں کی خاطر، چند ایکڑ زمین کی خاطر وہ اپنا دین بھی گنوا بیٹھتے ہیں.لیکن ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ان کے عزیز جو مجلس لگاتے ہیں یا ان کو اپنی مجلسوں میں بلاتے ہیں یا بعض دفعہ پاس بٹھا کر کھانا کھلا لیتے ہیں کہ جی مجبوری ہوگئی تھی.بعض دفعہ یہ بہانے بن رہے ہوتے ہیں کہ فلاں عزیز کی وفات پر وہ آیا تھا اس لئے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیا.تو ایسے لوگ بھی اس مجرم کی طرح بن رہے ہوتے ہیں.نظام جماعت کی ان کے نزدیک کوئی وقعت نہیں ہوتی.خلیفہ وقت کے فیصلوں کی ان کے نزدیک کوئی وقعت نہیں ہوتی.جماعت کی تعزیر جو ایک معاشرتی دباؤ کے لئے دی جاتی ہے، اس کو اہمیت نہ دیتے ہوئے چاہے ایک دفعہ ہی سہی اگر کسی ایسے سزایافتہ شخص کے ساتھ بیٹھتے ہیں جس کی تعزیر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زبانِ حال سے یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ سزا تو ہے لیکن کوئی حرج نہیں، ہمارے تمہارے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے تعلقات قائم ہیں.سوائے بیوی بچوں یا ماں باپ کے.ان کے تعلقات بھی اس لئے ہوں کہ سزا یافتہ کو سمجھانا ہے.اور قریبی ہونے کی وجہ سے ان میں درد زیادہ ہوتا ہے اس لئے ایک درد سے سمجھانا ہے.ان کے لئے دعائیں کرنی ہیں.اس کے علاوہ اگر کوئی شخص کسی جماعتی تعزیر یافتہ
سبیل الرشاد جلد چہارم 98 98 سے تعلق رکھتا ہے تو میرے نزدیک اسے نظام جماعت کا کوئی احساس نہیں ہے.اور خاص طور پر عہدیداران کو یہ خاص احتیاط کرنی چاہئے " خطبات مسرور جلد 3 صفحہ 538-539) پچاس فیصد انصار ایسے ہوں جن کے ہاں الفضل آتا ہو حضور انور کے ساتھ اراکین مجلس عاملہ مجلس انصار الله جرمنی کی میٹنگ مورخہ 3 ستمبر 2005ء کو ہوئی.جس میں حضور انور نے دعا کے بعد تمام قائدین سے باری باری ان کی کارگزاری کا جائزہ لیا اور ساتھ ساتھ ہدایات دیں.قائد عمومی کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ آپ خود مستعد ہوں اور اپنی تجنید مکمل کریں.قائد عمومی نے بتایا کہ جماعت نے تجنید تیار کی ہے وہاں سے ہم لے رہے ہیں.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ انصار اللہ کی اپنی تجنید مکمل کریں جماعتی نظام کو ذیلی تنظیموں کی مدد کرنی چاہئے اور ذیلی تنظیموں کو جماعت کی مدد کرنی چاہئے.نو مبائعین کی تربیت کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ انصار جو آپ کے ذریعہ احمدی نہیں ہوئے وہ آپ کے تحت آنے چاہئیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا اپنی مجالس کے زعماء کو کہیں کہ ان نو مبائعین کے گھروں میں جائیں.ان سے رابطہ کریں.ان کو نماز سکھائیں.جو مسلمان نہیں ہیں.فرمایا جب کوئی نو مبائع جگہ تبدیل کرے تو آپ کو علم ہونا چاہئے کہ وہ کس علاقہ میں منتقل ہوا ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا گزشتہ دس سالوں میں انصار اللہ کی جو بیعتیں ہوئی ہیں ان کو تلاش کریں.اس کام کیلئے کافی توجہ کی ضرورت ہے.قائد تعلیم نے رپورٹ دیتے ہوئے بتایا کہ انصار کو پورے سال کا لائحہ عمل دیا جاتا ہے.رسالہ الوصیت پڑھنے کیلئے دیا ہوا ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اس کی معین رپورٹ آپ کو آنی چاہئے کہ کتوں نے پڑھ لیا ہے.عاملہ ممبران کا بھی جائزہ لیں کہ کتنوں نے یہ کتاب پڑھی ہے.مرکزی طور پر سارے ملک کے انصار سے امتحان لیں.فرمایا کسی کتاب کے چند صفحے دے دیں.بے شک کتاب دیکھ کر حل کر دیں یہ کام کر لیں.بہت بڑا کام ہے.قائد مال سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انصار کے بجٹ اور ماہانہ چندوں کا جائزہ لیا اور ہدایت دی کہ تجنید کے مطابق تمام انصار کو چندہ کے نظام میں شامل کریں.قائد اشاعت نے بتایا کہ الفضل انٹر نیشنل میں انصار اللہ جرمنی کا رسالہ ”الناصر“ شائع ہوتا ہے.
99 سبیل الرشاد جلد چہارم حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا الفضل انٹرنیشنل کتنے انصار پڑھتے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کتنے انصار کے گھروں میں الفضل آتا ہے.آپ کی مجلس عاملہ، ریجنل عاملہ اور مقامی مجالس عاملہ کو بھی آنا چاہئے.حضور انور نے فرمایا پندرہ صد کی تعداد میں اس کی خریداری بڑھائیں، پچاس فی صد انصار ایسے ہونے چاہئیں جن کے ہاں الفضل آتا ہو.قائد تربیت کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ صف دوم کے انصار کو نمازوں کی ادائیگی اور تلاوت قرآن کریم کی طرف توجہ دلائیں.فرمایا چھوٹی مجالس میں اپنے زعماء کو Active کریں.جن کے گھر نماز سنٹر سے دور ہیں وہ اپنے گھر میں بچوں کے ساتھ نماز پڑھا کریں.قرآن کریم پڑھنے کی عادت ڈالا کریں.قائد خدمت خلق ( ایثار ) کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ انصار ہسپتالوں میں جا کر مریضوں، بوڑھوں کا حال پوچھیں اور پھل، پھول وغیرہ ساتھ لے جائیں.دوسرے ملکوں سے یہاں لوگ آئے ہوئے ہیں ان کے جا کر حالات دیکھیں اور ان سے تعلقات بنا ئیں.قائد تحریک جدید کو نے ہدایت فرمائی کہ آپ کا تحریک جدید کا چندہ جماعت کی وصولی کا 1/4 ہونا چاہئے.قائد عمومی کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کی جن مجالس سے ماہانہ رپورٹس نہیں آتیں وہاں سے باقاعدگی سے رپورٹس آنی چاہئیں.باقی مجالس کو بھی Active کریں اور تمام مجالس رپورٹس بھیجیں.حضورا نور ایدہ اللہ تعالیٰ نے صدر صاحب مجلس انصاراللہ کو ہدایت فرمائی کہ جو انصار لازمی چندہ نہیں دے رہے وہ لازمی چندہ دیں گے تو ان سے مجلس انصاراللہ کا قبول ہوگا.جو مجلس انصاراللہ کا چندہ دیتا ہے اور لازمی نہیں دیتا تو وہ اس کا انصار اللہ کا چندہ لا زمی چندہ میں شمار کیا جائے اور جماعت کے کھانہ میں چلا جائے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو شخص کہتا ہے کہ میری آمداتنی ہے، میں اس پر اتنا دوں گا تو آپ لکھ لیں اور اس سے لے لیا کریں.اصل مقصد یہ ہے کہ تربیت ہونی چاہئے.نفس کی اصلاح ہو، دین کی طرف رجحان ہو ، خدا کی عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو، اللہ کے حکموں پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو موصی ہے اس کو سمجھانا چاہئے کہ وصیت کرنے کے بعد تم نے اعلیٰ معیار کی قربانی کا وعدہ کیا ہے.ایک عہد کیا ہے.اپنے اس عہد اور اعلیٰ معیار کی قربانی سے پھر رہے ہو.فرمایا جو موصی نہیں ہیں ان کو بھی سمجھاتے رہنا چاہئے کہ یہ چندہ بھی جماعت کی طرف سے مقرر شدہ ہے.ذیلی
100 سبیل الرشاد جلد چہارم تنظیموں کا بھی مقرر شدہ ہے.اس کو بھی باقاعدہ ادا کرو.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجلس انصار اللہ کو فرمایا کہ آپ کو چاہئے کہ 2008 ء تک پانچ مساجد بنا کر دیں.چندوں کا مسئلہ نہیں ہے، جرات پیدا کریں، حوصلہ پیدا کریں ، خدا تعالیٰ خود حالات پیدا کر دے گا.(الفضل انٹر نیشنل اکتوبر 2005ء) عہد یداران اپنے عہدہ جو ایک امانت ہے کی حفاظت کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 9 ستمبر 2005ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا.یہ ایمان کی نرم ٹہنیاں بھی اس وقت مضبوط ہوں گی جب اپنے نفس پر کسی برائی کو غالب نہیں آنے دو گے.اور جب یہ چیز حاصل کر لو گے تو ایمان میں مزید مضبوطی پیدا ہوگی اور پھرا گلا قدم یہ ہے کہ اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے تمہارے جتنے بھی عہد ہیں ان کی حفاظت کرو.جتنی امانتیں ہیں ان کی حفاظت کرو.ہر احمدی کا بہت بڑا عہد اس زمانے کے امام کے ساتھ ہے، ان کو مان کر ہے.جو عہد بیعت آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا ہوا ہے، ہر ایک اپنا جائزہ لے کہ کیا وہ ان دس شرائط بیعت کی پابندی کر رہا ہے؟ ہر احمدی خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرتا ہے کہ اے خدا ! میں تیری تعلیم کو بھلا بیٹھا تھا لیکن اب مسیح موعود کے ہاتھ پر عہد کرتا ہوں کہ میرے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما آئندہ انشاء اللہ میں اس عہد پر قائم رہوں گا.پھر عہد یداروں کے عہد ہیں.ان کے سپر دامانتیں ہیں.وہ جائزے لیں کہ کہاں تک وہ اپنے عہد اور اپنی امانتیں پوری طرح ادا کر رہے ہیں.ان کی حفاظت کر رہے ہیں.جائزہ لیں کہ اپنے کام، اپنے فرائض کا حق ادا نہ کر کے وہ کہیں گناہگار تو نہیں ہورہے.وہ اپنے ایمانوں میں ترقی کرنے کی بجائے ، ایمانی پودے کی حفاظت اور آبیاری کی بجائے اس کو سکھا تو نہیں رہے.کیونکہ ایمان کی مضبوطی کے لئے ہر پہلو پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.اس لئے جائزہ لیں کہ کوئی پہلو ایسا تو نہیں رہ گیا جس سے میرا ایمان وہیں رک گیا ہو.مجھے تو حکم ہے کہ تم نے نیکیوں میں ترقی کرنی ہے.جہاں نیکیوں میں ترقی رکی وہاں ایمان کی ترقی بھی کر جائے گی.غرض یہ عہد اور امانتیں اس قدر ہیں کہ جس کی انتہا نہیں ہے.ایک عہد سے دوسرا عہد سامنے آتا چلا جاتا ہے.اور ایک امانت کی ادائیگی کے بعد دوسری امانت کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.چاہے وہ ایک عام احمدی کی طرف سے ہو، عہدیداروں کی طرف سے ہو یا کسی ذمہ دار کی طرف سے ہو.اور یہیں پر بس نہیں ہے.بلکہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد جو تم نے ایمان کے درخت کو مضبوط کیا ہے اس پر بھی ابھی پھل نہیں لگے گا جس سے تم بھی فیض پاسکو اور دوسرے بھی فیض اٹھا ئیں.اس کے لئے اور طاقتیں حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے.غرض یہ ایک مسلسل عمل ہے جس کو تا زندگی جاری رکھنا ہو گا.اور جب ان نیکیوں میں اور ایمان کو مضبوط کرنے کی کوشش میں با قاعدگی آجائے گی پھر
101 سبیل الرشاد جلد چہارم ایمان ایسی حالت میں پہنچ جائے گا کہ جب ہر فعل خود بخود خدا کی رضا حاصل کرنے والا فعل ہو گا.پس ہر احمدی کو اپنے ہر فعل سے خدا کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے.جب یہ صورت ہو جائے گی تو اپنے ماحول پر بھی آپ پہلے سے بہت بڑھ کر اثر انداز ہو رہے ہوں گے.اور احمدیت اور حقیقی اسلام کے پیغام کولوگوں کی ہمدردی اور خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے پھیلا رہے ہوں گے.اللہ کرے کہ آپ اس طرف توجہ کریں.اپنی ایمانی حالت میں بھی ترقی کرنے والے ہوں اور دنیا کو بھی احمدیت کی خوبصورت تعلیم سے آگاہ کرنے والے ہوں.اور آپ کی زندگی بھی پھل لانے والی زندگی بن جائے " خطبات مسرور جلد 3 صفحہ 552-553) قرآن کریم کی تلاوت کی عادت ڈالیں اراکین نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ ڈنمارک کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میٹنگ مؤرخہ 10 ستمبر 2005 ء بروز ہفتہ کو ہوئی.جس میں حضور انور نے قائد تعلیم کو ہدایت فرمائی کہ انصار کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب مطالعہ کے لئے مقرر کریں یا کتاب کا کوئی حصہ مقرر کریں اور پھر انصار سے اس کا امتحان لیں اور انہیں کہیں کہ بے شک کتاب سے دیکھ کر پر چہ حل کر لیں لیکن سب امتحان دیں.حضور انور نے قائد تربیت کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ انصار کو توجہ دلاتے رہیں کہ گھروں میں اپنے بچوں کی تربیت کریں.ان کو نماز پڑھائیں ، قرآن کریم کی تلاوت کی عادت ڈالیں اور نگرانی بھی کریں.قائد عمومی سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کتنی مجالس ہیں جو آپ کو ریگولر رپورٹس بھجواتی ہیں.حضور انور نے فرمایا تمام مجالس سے ماہانہ رپورٹ لیا کریں اور پھر اپنی ماہانہ رپورٹ تیار کر کے مجھے بھجوایا کریں.حضور انور نے فرمایا کہ قائد عمومی کا یہ بڑا کام ہے کہ اپنے تمام حلقہ جات کو Active کریں، خود بھی دورہ کریں، وفود بھجوائیں.نائب صدر صف دوم کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ صف دوم کے انصار کے لئے خاص پروگرام بنائیں.ان کی جوانی کی روح قائم رہنی چاہئے.قائد وقف جدید اور قائد تحریک جدید سے حضور انور نے ان کے کام کا جائزہ لیا اور ہدایت فرمائی جو انصار نو مبائع ہیں ان کو سنبھالیں اور انصار کی تنظیم کا بھی حصہ بنا ئیں.قائد تبلیغ وقائد ایثار سے بھی ان کے پروگراموں کا حضور انور نے تفصیل سے جائزہ لیا اور ہدایت فرمائی کہ تبلیغ کے لئے چھوٹی چھوٹی جگہوں پر جائیں اور وہاں تبلیغ کے پروگرام بنا ئیں اور رابطے کریں.فرمایا.ڈنمارک کے جو چار جزیرے ہیں ان سب میں پیغام پہنچانے کے لئے پروگرام بنا ئیں اور دورے کریں.مختلف قوموں کے جو لوگ آباد ہیں ان میں بھی تبلیغ کریں.
سبیل الرشاد جلد چہارم 102 حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے شعبہ ایثار کو ہدایت فرمائی کہ اولڈ پیپلز ہوم میں جائیں.خود بھی جائیں اور دوسرے انصار کو بھی بھجوائیں.ساتھ پھل، پھول وغیرہ لے جائیں.اس طرح ان کا حال پوچھیں.ان سے باتیں کریں اور تعلق بڑھائیں.قائد تجنید کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تجنید مکمل کرنے کی ہدایت فرمائی.قائد مال سے حضور انور نے بجٹ اور انصار کے ماہانہ چندہ کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا.فرمایا ممبر شپ چندہ کا حساب علیحدہ رکھیں اور چندہ اجتماع کا حساب علیحدہ رکھیں.فرمایا جو انصار مجلس کے چندہ کو اہمیت نہیں دیتے ان کو آہستہ آہستہ سمجھاتے رہیں.آپ کا کام سمجھانا اور سمجھاتے چلے جانا ہے.ان میں قربانی کا احساس پیدا کریں.حضور انور نے فرمایا! قائد تربیت جب تربیت کر لیں گے تو چندے بھی خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے.حضور انور نے فرمایا جو شخص لازمی چندہ ادا نہیں کرتا اس سے ذیلی تنظیم کا چندہ نہیں لینا.سوائے اس کے کہ اس کو بتایا جائے کہ تم جو ذیلی تنظیم کا چندہ دے رہے ہو اس کو لازمی چندہ میں ڈال رہے ہیں.ایک سوال کے جواب پر کہ جو شخص چندہ اجتماع یا مجلس کا ماہانہ چندہ نہیں دیتا لیکن صدقہ دینا چاہتا ہے تو کیا اس سے صدقہ لے لیا جائے.حضور انور نے فرمایا کہ جو صدقہ دینا چاہتا ہے اس سے صدقہ لے لیا جائے لیکن اس کو مجلس کا چندہ اور اجتماع کا چندہ ادا کرنے کی تلقین کریں اور سمجھاتے رہیں.الفضل انٹر نیشنل 21 اکتوبر 2005ء) نومیا ئعین کو نظام جماعت میں ضم کریں اراکین نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ سویڈن کی میٹنگ مؤرخہ 14 ستمبر 2005ء بروز بدھ کو مسجد ناصر گوتھن برگ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ منعقد ہوئی.جس میں حضور انور نے نائب صدر انصار اللہ صف دوم کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ صف دوم اس لئے بنایا گیا تھا کہ خدام سے انصار اللہ میں جانے والے سُست نہ ہو جائیں.حضور انور نے فرمایا سائیکل چلائیں، سیر کریں.فرمایا ان کو Active رکھنا آپ کا کام ہے.فرمایا ان کو خدمت خلق کے پروگراموں میں شامل کریں.قائد مال سے حضور انور نے انصار اللہ کے بجٹ ، چندہ دہندگان کی تعداد اور چندہ کے معیار کا بھی جائزہ لیا اور ہدایات سے نوازا.فرمایا انصار اللہ کے چندہ مجلس اور چندہ اجتماع کا حساب علیحدہ علیحدہ رکھا کریں.قائد ایثار کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جو بڑی عمر کے انصار ہیں یہ ہسپتالوں میں جائیں ، اولڈ پیپلز ہوم میں جائیں ، بیماروں کی عیادت کریں.ان کا حال دریافت کریں.اپنے ساتھ پھول، پھل وغیرہ لے جائیں.اس طرح تعلق بڑھے گا اور رابطے قائم ہوں گے.
سبیل الرشاد جلد چہارم 103 حضور انور نے فرمایا یہ بھی جائزہ لیں کہ افریقہ ، قادیان وغیرہ میں انصار اللہ سویڈن خدمت خلق کے تحت کیا خدمت کر سکتی ہے.شعبہ نو مبائعین کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ تین سال بعد نو مبائع نہیں رہتا.تین سال کے بعد اس کو با قاعدہ نظام کا حصہ بنائیں.حضور انور نے فرمایا جو نو مبائعین انصار کی عمر کے ہیں ان کو اپنے اجتماع پر لے کر آئیں.ان کو شروع سے ہی جماعت کے نظام میں شامل کرنے کی کوشش کریں.فرمایا جب ان کو اپنے پروگراموں میں شامل کریں گے تو ان کو نمازوں اور چندوں کی عادت پڑے گی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ویسے تو یہاں ایسے انصار بھی ہیں جن کو سویڈش زبان آتی ہے.فرمایا ان نو مبائعین سے ملیں.ان کو اپنے ساتھ شامل کریں.فرمایا خطبہ جمعہ سویڈش زبان میں ہونا چاہئے ، اردو زبان میں اس کا خلاصہ بتا دیا جائے.فرمایا MTA پر جب خطبہ آتا ہے تو سن کر کم از کم 15-20 منٹ کا خلاصہ بنایا کریں.میرا خطبہ سن کر نوٹ لے لیا کریں اور اس کا سویڈش میں ترجمہ کر لیا کریں.حضور انور نے نئے آنے والوں کو نظام کا حصہ بنانے کے بارہ میں فرمایا کہ ان کو پہلے سے بتا دیا کریں کہ جماعت کسی فرد کی نہیں ہے.آپ جماعت میں شامل ہوئے ہیں.جس کے ذریعہ بیعت ہوتی ہے اس کو ساتھ لے جا کر بتا دیا جائے کہ اب یہ نو مبائع جماعت کے سپرد ہے.بیعت کروانے والا خود بتادے کہ اب تم نظام کا حصہ ہو.جماعت تم سے رابطہ رکھے گی.حضور انور نے فرمایا جب شعبہ تربیت کا رابطہ Active ہوگا تو بیعت کرانے والے کا خود بخود پیچھے چلا جائے گا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہر شہر اور ہر علاقے میں اپنی ٹیم بنائیں جوان نو مبائعین کے قریب ہوں اور رابطہ کرسکیں.آپ خود تو ہر جگہ نہیں جاسکتے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ کا کم از کم ہر ہفتہ نو مبائع سے رابطہ ہونا چاہئے تا کہ جب وہ کہیں دوسری جگہ منتقل ہو تو آپ کو اطلاع دے کر جائے کہ فلاں جگہ جا رہا ہوں ، وہاں میں کس سے رابطہ کروں.قائد تحریک جدید اور قائد وقف جدید کو حضور نے ہدایت فرمائی کہ باقاعدہ ٹارگٹ بنا کر کام کریں.قائد تبلیغ کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا.آپ نے نیا چارج سنبھالا ہے تو گزشتہ تمام ریکارڈ دیکھیں، فائلوں کا مطالعہ کریں اور پھر آگے چلیں.فرمایا کہ کتب کا سٹال لگانا تو ایک چھوٹا سا ذریعہ تبلیغ ہے.یہ آپ کی تبلیغ کا کل ذریعہ نہیں ہے.آپ وسیع پیمانہ پر اپنے تبلیغی پروگرام بنائیں.مختلف پاکٹ تلاش کریں.دوسرے ممالک سے آنے والے مہاجرین ،عرب، البانین، یوگوسلاوین ، ہنگری ، پولش و غیرہ مختلف جگہوں پر آباد ہیں.مختلف ممالک کے لوگ آتے رہتے ہیں ان سے رابطے کریں اور ان کے پاس جائیں اور پیغام
104 سبیل الرشاد جلد چہارم پہنچائیں.فرمایا اپی تبلیغ کی ٹیمیں بنائیں.مالمو میں بھی بنائیں اور سٹاک ہالم میں بھی بنائیں اور ان میں صف اوّل صف دوم کے انصار کو شامل کریں.فرمایا سٹال لگا لینا کافی نہیں یہ تو پرانا طریق ہے.اب نئے نئے راستے تلاش کریں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.مختلف قوموں سے جو لوگ احمدی ہوئے ہیں ان سے پوچھیں کہ آپ کی قوم میں نفوذ کا کیا ذریعہ ہے.کیا طریق ہے رابطوں کا ، ان نو مبائعین کو کہیں کہ آپ پروگرام بنائیں مجلس لگائیں ہم تبلیغ کے لئے آئیں گے.قائد تعلیم کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ انصار کے مطالعہ کے لئے کوئی کتاب مقرر کریں ان کا امتحان لیں.ساری مجلس عاملہ کا بھی امتحان لیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انصار کو کہیں کہ بے شک دیکھ کر پر چھ حل کریں لیکن سب انصار آپ کے امتحان میں شامل ہوں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو خطبے سنتے ہیں ان کے بارہ میں آپ کو معین طور پر علم ہونا چاہئے.فرمایا والدین کو توجہ دلائیں کہ اپنے بچوں کو گھروں میں نمازیں پڑھائیں.قرآن کریم کی تلاوت کروائیں اور اس طرف توجہ دلاتے رہیں.قائد عمومی کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ اپنے ماہانہ رپورٹ فارم میں ہر شعبے کا علیحدہ علیحدہ سوالنامہ تیار کریں.اس طرح مجالس سے ہر شعبہ کی علیحدہ علیحدہ رپورٹ آئے گی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے قائد اشاعت کو ہدایت فرمائی کہ انصار جو رسالہ شائع کرتے ہیں وہ آدھا اردو میں اور آدھا سویڈش زبان میں شائع کیا کریں.فرمایا صف دوم کے انصار کی ٹیم بنائیں وہ ترجمہ کر دیا کریں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے قائد تجنید کے بارہ میں ہدایت فرمائی کہ قائد تجنید علیحدہ بنائیں.وہ اپنی ید مکمل کرے اور جو لوگ پیچھے ہٹ گئے ہیں ان کو بھی رابطہ کر کے اپنی تجنید میں شامل کرے.الفضل انٹر نیشنل 28اکتوبر 2005ء) ہمارے بڑے بڑے عظیم الشان کاموں کی کنجی دعا ہی..حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ بھارت 16-17-18 ستمبر 2005ء کے موقع پر درج ذیل پیغام بھجوایا: پیارے انصار بھائیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته الحمد للہ کہ مجلس انصار اللہ بھارت کو اپنا سالانہ اجتماع منعقد کرنے کی توفیق مل رہی ہے.اللہ کرے
سبیل الرشاد جلد چہارم 105 کہ آپ سب اس اجتماع سے بھر پور فائدہ اٹھانے والے ہوں اور علم و عرفان اور روحانیت سے معمور ہو کر یہاں سے بخیریت اپنے گھروں کو واپس لوٹیں.آمین مجھے یہ کہا گیا ہے کہ اس موقع پر آپ کو کوئی پیغام بھجواؤں.میرا پیغام تو یہی ہے جس پر میں شروع دن سے زور دیتا چلا آیا ہوں کہ ہمارے بڑے بڑے عظیم الشان کاموں کی کنجی دعا ہی ہے.خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھولنے کا پہلا مرحلہ دعا ہی ہے.دعا ہی ہمارا ہتھیار ہے اس کے سوا اور کوئی ہتھیار ہمارے پاس نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.ابتدائے اسلام میں بھی جو کچھ ہوا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا نتیجہ تھا جو مکہ کی گلیوں میں خدائے تعالیٰ کے آگے رورو کر آپ نے مانگیں.جس قدر عظیم الشان فتوحات ہوئیں کہ تمام دنیا کے رنگ ڈھنگ کو بدل دیا وہ سب آنحضرت کی دعاؤں کا اثر تھا ورنہ صحابہ کی قوت کا تو یہ حال تھا کہ جنگ بدر میں صحابہ کے پاس صرف تلوار میں تھیں اور وہ بھی لکڑی کی بنی ہوئیں تھیں." پھر آپ فرماتے ہیں:.یہ میری نصیحت جس کو ساری نصائح قرآنی کا مغز سمجھتا ہوں قرآن شریف کے 30 پارے ہیں اور وہ سب کے سب نصائح سے لبریز ہیں لیکن ہر شخص نہیں جانتا کہ ان میں سے وہ نصیحت کون سی ہے جس پر اگر مضبوط ہو جاویں اور اس پر عمل درآمد کریں تو قرآن کریم کے سارے احکام پر چلنے اور ساری منہیات سے بچنے کی توفیق مل جاتی ہے مگر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کلید اور قوت دعا ہے دعا کو مضبوطی سے پکڑ لو میں یقین رکھتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر اللہ تعالی ساری مشکلات کو آسان کر دے گا" انبھی کچھ دنوں تک رمضان بھی شروع ہونے والا ہے.اس مہینہ کا بھی دعاؤں کے ساتھ گہرا تعلق ہے.پھر آپ تمام انصار پرانے بھی اور نو مبائعین بھی دعاؤں پر زور دیں.دعاؤں سے اپنے مولیٰ کو راضی کریں اور اسی سے مدد کے طالب ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام فرماتے ہیں.میں ایک ضروری نصیحت کرتا ہوں کاش لوگوں کے دل میں پڑ جاوے.دیکھو عمر گزری جارہی ہے.غفلت کو چھوڑ دو اور تضرع اختیار کروا کیلے ہو ہو کر خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ خدا ایمان کو سلامت رکھے اور تم پر وہ راضی اور خوش ہو جائے " اللہ تعالیٰ آپ سب کو دعا کا حقیقی عرفان عطا فرمائے.آمین والسلام خاکسار ( دستخط) مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ہفت روزہ بدر قادیان 27 ستمبر 2005ء)
سبیل الرشاد جلد چهارم 106 عہدہ لے کر کام نہ کرنا اپنے نفس اور خد تعالی کے ساتھ دھو کہ ہے نیشنل مجلس انصاراللہ ناروے کے ساتھ میٹنگ میں مؤرخہ 23 ستمبر 2005ء بروز جمعۃ المبارک مسجد نور اوسلو کے مقام پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تمام قائدین سے باری باری ان کے کام کا جائزہ لیا اور ساتھ ساتھ ہر ایک کو ہدایات سے نوازا.نائب صدر صف دوم کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ صف دوم کے انصار کے لئے آپ کے پروگرام علیحدہ ہونے چاہئیں.صف دوم کے انصار کے لئے آپ نے کوئی پروگرام نہیں بنایا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا عہدہ لے لینا اور کام نہ کرنا یہ اپنے نفس کے ساتھ بھی دھوکہ ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی.حضورانور نے فرمایا کہ انصار اللہ کا کانسٹی ٹیوشن (constitution) پڑھیں اور کام کریں.صدر مجلس انصار اللہ ناروے نیشنل مجلس عاملہ ناروے میں سیکرٹری تعلیم بھی ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ بہت سے قائدین عاملہ مجلس انصار اللہ کے پاس جماعت کی نیشنل مجلس عاملہ میں بھی عہدے ہیں.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ جو مجلس عاملہ انصار اللہ کے عہدیدار ہیں ان کے پاس کوئی دوسرا عہدہ نہیں ہو گا.حضور انور نے امیر ناروے کو فر مایا کہ آپ پہلے یہ جائزہ لیں کہ کس کو جماعت کے عہدہ سے ہٹانا ہے اور کس کو انصار اللہ کے عہدے سے ہٹانا ہے.فرمایا پہلے جائزہ لے کر مجھ سے منظوری حاصل کریں پھر ان کو ہٹا کر ان کی جگہ نیا انتخاب کروائیں.قائد تبلیغ سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ کب تبلیغی دورے کرتے ہیں.سال میں کتنے دورے کئے ہیں.جس جگہ ایک دفعہ گئے ہیں کیا دوبارہ بھی وہاں کا دورہ کیا ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.انصار اللہ میں سے ٹیمیں نکالیں.مختلف علاقوں کے لئے ٹیمیں بنائیں جو وہاں جائیں اور تبلیغ کریں اور پھر مسلسل رابطے رکھیں.ٹیموں کو Activate کریں.یہ دورے کریں اور بار بار جائیں.ایک دفعہ جانے سے تو پتہ نہیں چلتا.نہ تو آپ کو قیافہ شناسی ہے کہ ایک دفعہ وہاں جا کر ہی سب کچھ پتہ چل جائے اور نہ ہی اگلا شخص پہلی مرتبہ کھل کر اظہار کرتا ہے.فرمایا بار بار رابطہ کریں.فرمایا یہاں ترک، بوز نین ، سربین ہوں گے.جائزہ لیں کہ یہ لوگ کہاں کہاں آباد ہیں.کہاں ان کی پاکئٹس ( Pockets) ہیں وہاں جائیں اور کام کر میں اور رابطے اور تعلق بڑھا ئیں.قائد تجنید کو حضور انور نے اپنی تجنید مکمل کرنے کی ہدایت فرمائی.فرمایا کہ قاعدہ یہ ہے کہ جولوگ یہاں سے شفٹ ہوئے ہیں لیکن ان کی کمائی ناروے میں ہے تو چندہ ناروے میں ہی دینا ہے.قائد تعلیم کوحضور انور نے ہدایت فرمائی کہ آپ سال میں اجتماع کے علاوہ بھی امتحان لیں.کم از کم سال میں ایک دفعہ تو لیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی چھوٹی کتاب مقرر کر لیں اور پھر اس کا امتحان لیں.فرمایا آپ نے رسالہ وصیت انصار کو پڑھنے کے لئے دیا ہے تو چیک کریں کہ کتنوں نے پڑھا ہے.قائد تربیت کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ یہ بھی جائزہ لیں کہ گھروں میں نمازیں پڑھی جا رہی ہیں اور
107 سبیل الرشاد جلد چہارم بچے نمازیں پڑھ رہے ہیں اور قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں.انصار اللہ کو اس طرف مسلسل توجہ دلاتے رہنا آپ کا کام ہے.حضور انور نے قائد صحت جسمانی و ذہانت کے کام کا بھی جائزہ لیا.قائد عمومی کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ اپنی مجالس سے ہر ماہ رپورٹس لیا کریں اور مجھے با قاعدگی سے ہر ماہ آپ کی طرف سے رپورٹ آنی چاہئے.جس ماہ کوئی کام نہیں ہوا.اس ماہ کی رپورٹ میں یہ کھیں کہ کوئی کام نہیں ہوالیکن رپورٹ ہر ماہ ضرور بھجوانی ہے.قائد مال سے حضور انور نے انصار اللہ کے سالانہ بجٹ ، کمانے والے انصار ، چندہ مجلس دینے والے انصار اور چندہ کے معیار کا جائزہ لیا.قائد مال لمبا عرصہ ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے پوری طرح معلومات پیش نہ کر سکے جس پر حضور انور نے انہیں ہدایت فرمائی کہ اگر آپ ملک سے باہر رہتے ہیں تو انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ جماعت سے نظام سے اور اپنے عہدے سے انصاف کرتے ہوئے اپنا اسٹمنٹ بنا کر رکھنا تھا.چندہ کے معیار کا جائزہ لیتے ہوئے حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ پیسے اکٹھے کرنا مقصد نہیں ہے.احساس دلانا مقصد ہے کہ قربانی کیا چیز ہے.قائد ایثار کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بوڑھوں کے پاس چلے جایا کریں.اسی طرح ہسپتالوں میں جایا کریں.مریضوں کی عیادت کریں ، پھل پھول وغیرہ ساتھ لے گئے.اس طرح رابطے اور تعلقات بڑھیں گے اور خدمت بھی ہوگی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عہدیداروں کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ کا یہ کمال نہیں ہے کہ آپ نے کیا کام کیا.کمال یہ ہے کہ آپ نے دوسروں سے کیا کام کروایا.فرمایا آپ سب اپنے عہدوں کا حق ادا کریں اور وقت دیا کریں.فرمایا یہاں انصار کی بڑی تعدا د نہیں ہے آپ ہر ایک کو Active کر سکتے ہیں.آپ کو تو دنیا کے لئے نمونہ ہونا چاہئے.(الفضل انٹر نیشنل 11 نومبر 2005ء) ذیلی تنظیمیں خوشی کے مواقع پر مساجد کی تعمیر میں چندہ دینے کی تلقین کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 11 نومبر 2005 ء کو تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے خطبہ کے آخر میں ذیلی تنظیموں کو مساجد کی تعمیر کی مد میں چندہ دینے اور اپنی اولادکو اس کی تحریک کرنے کی یوں نصیحت فرمائی.اس زمانے میں جس میں مادیت کا دور دورہ ہے احمدی ہی ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے اس کے گھر بھی تعمیر کرتا ہے اور اس کی عبادت سے اپنے آپ کو سجانے کی کوشش بھی کرتا ہے.اپنی نسلوں
108 سبیل الرشاد جلد چہارم میں بھی ان کی اعلیٰ تربیت کے ذریعہ یہ روح پھونکنے کی کوشش کرتا ہے.اس ضمن میں مجھے یاد آیا کہ ہمارے بچپن میں تحریک جدید میں ایک مد مساجد بیرون کی بھی ہوا کرتی تھی.ہر سال جب بچے پاس ہوتے تھے تو عموماً اس خوشی کے موقع پر بچوں کو بڑوں کی طرف سے کوئی رقم ملتی تھی.وہ اس میں سے اس مد میں ضرور چندہ دیتے تھے یا اپنے جیب خرچ سے دیتے تھے.یہ مداب بھی شاید ہو.حالات کی وجہ سے پاکستان میں تو میں اس پر زور نہیں دیتا لیکن باہر پتہ نہیں ، ہے کہ نہیں اور اسے اب بیرون کہنے کی تو ضرورت بھی نہیں.عموماً مساجد کی ایک مد ہونی چاہئے اس میں جب بچے پاس ہو جا ئیں تو اس وقت یا کسی اور خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر میں چندہ دیا کریں اور اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کونے کونے میں بے شمار احمدی بچے امتحانوں میں پاس ہوتے ہیں.اگر ہر سال ذیلی تنظمیں اس طرف توجہ دیں ، ان کو کہیں اور جماعتی نظام بھی کہے کہ اس موقع پر وہ اس مد میں اپنے پاس ہونے کی خوشی میں چندہ دیا کریں تو جہاں وہ اللہ تعالیٰ کا گھر بنانے کی خاطر مالی قربانی کی عادت ڈال رہے ہوں گے وہاں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کا فضل سمیٹتے ہوئے اپنا مستقبل بھی سنوار رہے ہوں گے.والدین بھی اس بارے میں اپنے بچوں کی تربیت کریں اور انہیں ترغیب دلائیں تو اللہ تعالیٰ ان والدین کو بھی خاص طور پر اس ماحول میں بہت سی فکروں سے آزاد فرما دے گا" خطبات مسرور جلد 3 صفحه 665-666) ذیلی تنظیموں کا نظام بیاہ شادیوں پر نظر رکھے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 25 نومبر 2005ء کو خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو بد رسوم سے بچنے کی تحریک فرمائی.بیاہ شادیوں کے موقعوں پر جو ناچ، بے ہودہ گانے اور دیگر فتیح ہندوانہ رسومات بجالائی جاتی ہیں.ان کا تفصیل سے ذکر کر کے جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کے نظام کو حرکت میں آنے کی تلقین کی اور فرمایا کہ بغیر کسی رعایت کے ایسے لوگوں کی پکڑ ہونی چاہئے جو رسومات بجالاتے ہیں.ان کی مرکز رپورٹ بھجوانا ذیلی تنظیموں کا کام ہے.آپ نے فرمایا.بعض دفعہ ہمارے ملکوں میں شادی کے موقعوں پر ایسے ننگے اور گندے گانے لگا دیتے ہیں کہ ان کو سن کر شرم آتی ہے.ایسے بے ہودہ اور لغو اور گندے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کہ پتہ نہیں لوگ سنتے کس طرح ہیں.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ احمدی معاشرہ بہت حد تک ان لغویات اور فضول حرکتوں سے محفوظ ہے لیکن جس تیزی سے دوسروں کی دیکھا دیکھی ہمارے پاکستانی ہندوستانی معاشرہ میں یہ چیزیں راہ پا رہی ہیں.دوسرے مذہب والوں کی دیکھا دیکھی جنہوں نے تمام اقدار کو بھلا دیا ہے اور ان کے ہاں تو مذہب کی کوئی اہمیت نہیں رہی.شرابیں پی کر خوشی کے موقع پر ناچ گانے ہوتے ہیں،شورشرابے ہوتے ہیں ،طوفان بدتمیزی
109 سبیل الرشاد جلد چہارم ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ اس معاشرے کے زیر اثر احمدیوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے بلکہ بعض اکا دُکا شکایات مجھے آتی بھی ہیں.تو یاد رکھیں کہ احمدی نے ان لغویات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے اور بچنا ہے.بعض ایسے بیہودہ گانے گائے جاتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا یہ ہندو اپنے شادی بیاہوں پر تو اس لئے گاتے ہیں کہ وہ دیوی دیوتاؤں کو پوجتے ہیں.مختلف مقاصد کے لئے، مختلف قسم کی مورتیاں انہوں نے بنائی ہوتی ہیں جن کے انہوں نے نام رکھے ہوئے ہیں ان سے مدد طلب کر رہے ہوتے ہیں.اور ہمارے لوگ بغیر سوچے سمجھے یہ گانے گا رہے ہوتے ہیں یا سن رہے ہوتے ہیں.اس خوشی کے موقع پر بجائے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو طلب کرنے کے کہ اللہ تعالیٰ یہ شادی ہر لحاظ سے کامیاب فرمائے ، آئندہ نسلیں اسلام کی خادم پیدا ہوں ، اللہ تعالیٰ کی کچی عباد بنے والی نسلیں ہوں، غیر محسوس طور پر گانے گا کر شرک کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں.پس جو شکایات آتی ہیں ایسے گھروں کی ان کو میں تنبیہ کرتا ہوں کہ ان لغویات اور فضولیات سے بچیں.پھر ڈانس ہے ، ناچ ہے، لڑکی کی جور رونقیں لگتی ہیں اس میں یا شادی کے بعد جب لڑکی بیاہ کرلڑکے کے گھر جاتی ہے وہاں بعض دفعہ اس قسم کے بیہودہ قسم کے میوزک یا گانوں کے اوپر ناچ ہورہے ہوتے ہیں اور شامل ہونے والے عزیز رشتہ دار اس میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس کی کسی صورت میں بھی اجازت نہیں دی جا سکتی.بعض گھر جود نیا داری میں بہت زیادہ آگے بڑھ گئے ہیں ان کی ایسی رپورٹس آتی ہیں اور کہنے والے پھر کہتے ہیں کہ کیونکہ فلاں امیر آدمی تھا اس لئے اس پر کارروائی نہیں ہوئی.یا فلاں عہد یدار کا رشتہ دار عزیز تھا اس لئے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، اس سے صرف نظر کیا گیا.غریب آدمی اگر یہ حرکتیں کرے تو اسے سزا ملتی ہے.بہر حال یہ تو بعض دفعہ لوگوں کی بدظنیاں بھی ہیں لیکن جب اس طرح صرف نظر ہو جائے چاہے غلطی سے ہو جائے اور پتہ نہ لگے تو یہ بدظنیاں پیدا ہوتی ہیں.اس بارے میں واضح کر دوں کہ ایسی حرکتیں جو جماعتی وقار کی اور اسلامی تعلیم اور اقدار کی دھجیاں اڑاتی ہوں اگر مجھے پتہ لگ جائے تو ان پر میں بلا استثناء، بغیر کسی لحاظ سے کارروائی کروں گا اور کی بھی جاتی ہے اس لئے یہ بدظنیاں دور ہونی چاہئیں.بعض لوگ اکثر مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد اپنے خاص مہمانوں کے ساتھ علیحدہ پروگرام بناتے ہیں اور پھر اسی طرح کی لغویات اور ہلڑ بازی چلتی رہتی ہے گھر میں علیحدہ ناچ ڈانس ہوتے ہیں چاہے لڑکیاں لڑکیاں ہی ڈانس کر رہی ہوں یا لڑکے لڑکے بھی کر رہے ہوں لیکن جن گانوں اور میوزک پر ہورہے ہوتے ہیں وہ ایسی لغو ہوتی ہیں کہ وہ برداشت نہیں کی جاسکتیں اس لئے آج میں خاص طور پر پاکستان اور ہندوستان اور اس معاشرے کے لوگوں کو جہاں ہندووانہ رسم ورواج تیزی سے راہ پا رہے ہیں، داخل ہورہے ہیں، ان کے احمد یوں کو کہتا ہوں کہ اس سلسلہ میں اپنی اصلاح کر لیں اور جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کا نظام جو ہے یہ بھی ان بیاہ شادیوں پر نظر رکھے اور جہاں کہیں بھی اس قسم کی بیہودہ فلموں کے ناچ گانے یا ایسے گانے جو سراسر
110 سبیل الرشاد جلد چہارم شرک پھیلانے والے ہوں دیکھیں تو ان کی رپورٹ ہونی چاہئے.اس بارے میں قطعاً کوئی ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ کوئی کس خاندان کا ہے اور کیا ہے ؟ آج کل پاکستان میں کیونکہ شادیوں کا سیزن ہے تو جیسا کہ میں نے کہا اکا دُکا یہ شکایات پیدا ہو جاتی ہیں اس لئے چند مہینے خاص طور پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.ویسے تو جب بھی اور جہاں بھی اس قسم کی حرکتیں ہورہی ہوں فوری نوٹس لینا چاہئے لیکن ان دنوں میں جیسا کہ میں نے کہا شادیوں کی کثرت کی وجہ سے ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی بھی ایسی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں.حالانکہ غیروں کو جب ہم اپنی شادیوں پر بلاتے ہیں تو ان کی اکثریت جو ہے وہ ہماری شادی کے طریق کو پسند کرتی ہے کہ تلاوت کرتے ہیں، دعائیہ اشعار پڑھتے ہیں، دعا کرتے ہیں اور بچی کو رخصت کرتے ہیں.اور یہی طریق ہے جس سے اس جوڑے کے ہمیشہ پیار محبت سے رہنے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے دعا کر رہے ہوتے ہیں اور اس کی آئندہ نسل کے لئے اولاد کے لئے بھی نیک صالح ہونے کی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں.ہاں جیسا کہ میں نے کہا کہ لڑکی کی شادی کے وقت دعائیہ اشعار کے ساتھ خوشی کے اظہار کے لئے شریفانہ قسم کے دوسرے شعر بھی پڑھے جاسکتے ہیں اور یہ ہر علاقے کے رسم ورواج کے مطابق جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ انصار پسند کرتے ہیں تو یہ نہیں فرمایا کہ ضرور ہونا چاہئے بلکہ فرمایا کہ انصار پسند کرتے ہیں.یہ خاص خاص لوگ ہیں جو پسند ہیں اور اس میں کیونکہ کوئی شرک کا اور دین سے ہٹنے کا اور کسی بدعت کا پہلو نہیں تھا اس لئے آپ نے فرمایا کہ اس طرح کرنا چاہئے کوئی حرج نہیں ہے.یہ نہیں فرمایا کہ ہر ایک، ہر قبیلہ ضرور دف بجایا کرے اور یہ ضروری ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اپنے رواج کے مطابق ایسے رواج جو دین میں خرابیاں پیدا کرنے والے نہ ہوں ان کے مطابق خوشی کا اظہار کر لیا کرو یہ ہلکی پھلکی تفریح بھی ہے اور اس کے کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں.لیکن ایسی حرکتیں جن سے شرک پھیلنے کا خطرہ ہو، دین میں بگاڑ پیدا ہونے کا خطرہ ہو اس کی بہر حال اجازت نہیں دی جاسکتی.شادی بیاہ کی رسم جو ہے یہ بھی ایک دین ہی ہے جبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب تم شادی کرنے کی سوچو تو ہر چیز پر فوقیت اس لڑکی کو دو، اس رشتے کو دو، جس میں دین زیادہ ہو.اس لئے یہ کہنا کہ شادی بیاہ صرف خوشی کا اظہار ہے خوشی ہے اور اپنا ذاتی ہمارا فعل ہے.یہ غلط ہے.یہ ٹھیک ہے جیسا کہ پہلے بھی میں کہ آیا ہوں اسلام نے یہ نہیں کہا کہ تارک الدنیا ہو جاؤ اور بالکل ایک طرف لگ جاؤ.لیکن اسلام یہ بھی نہیں کہتا کہ دنیا میں اتنے کھوئے جاؤ کہ دین کا ہوش ہی نہ رہے.اگر شادی بیاہ صرف شور و غل اور رونق اور گانا بجانا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ شروع ہو کر اور پھر تقویٰ اختیار کرنے کی طرف اتنی توجہ دلائی ہے کہ توجہ نہ دلاتے.بلکہ شادی کی ہر نصیحت اور ہر ہدایت کی بنیاد ہی تقویٰ پر ہے.پس نے اعتدال کے اندر رہتے ہوئے جن جائز باتوں کی اجازت دی ہے اُن کے اندر ہی رہنا چاہئے اور اسلام.
111 سبیل الرشاد جلد چہارم اس اجازت سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے.حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے کہ دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے.اس لئے ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہتے کہ ایک مومن کے لئے ایک ایسے انسان کے لئے جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے شادی نیکی پھیلانے ، نیکیوں پر عمل کرنے اور نیک نسل چلانے کے لئے کرنی چاہئے.اور یہی بات شادی کرنے والے جوڑے کے والدین، عزیزوں اور رشتہ داروں کو بھی یا درکھنی چاہئے.ان کے ذہنوں میں بھی یہ بات ہونی چاہئے کہ یہ شادی ان مقاصد کے لئے ہے نہ کہ صرف نفسانی اغراض اور لہو ولعب کے لئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی شادیاں کی تھیں اور اسی غرض کے لئے کی تھیں اور یہ اسوہ ہمارے سامنے قائم فرمایا کہ شادیاں کرو اور دین کی خاطر کرو.یہی آپ نے نصیحت فرمائی.نہ ان لوگوں کو پسند فرمایا جوصرف عبادتوں میں لگے رہتے ہیں اور دین کی خدمت میں ڈوبے رہتے ہیں.نہ اپنے نفس کے حقوق ادا کرتے ہیں نہ بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دیتے ہیں.نہ ان لوگوں کو پسند کیا جو دولت کے لئے ، خوبصورتی کے لئے ، اعلیٰ خاندان کے لئے رشتے جوڑتے ہیں یا جو ہر وقت اپنی دنیا داری اور بیوی بچوں کے غم میں ہی مصروف رہتے ہیں.نہ ان کے پاس عبادت کے لئے وقت ہوتا ہے اور نہ دین کی خدمت کے لئے کوئی وقت ہوتا ہے.خلاصہ یہ کہ نہ اسلام یہ کہتا ہے کہ دنیا میں اتنے پڑ جاؤ کہ دین کو بھول جاؤ، نہ یہ کہ بالکل ہی تجرد کی زندگی اختیار کرنا شروع کر دو اور دنیا داری سے ایک طرف ہو جاؤ.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا کہ کسی صحابی نے کہا ہے کہ میں شادی نہیں کروں گا اور مسلسل عبادتوں میں اور روزوں میں وقت گزاروں گا.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کیسے لوگ ہیں.میں تو عبادتیں بھی کرتا ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں ، بندوں کے دوسرے حقوق بھی ادا کرتا ہوں شادیاں بھی کی ہیں.پس جو شخص میری سنت سے منہ موڑتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے.پھر اسلام کسی بھی طرف جھکاؤ سے منع کرتا ہے.اپنا اُسوہ حسنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے رکھ دیا.نہ افراط کرو نہ تفریط کرو.آخر میں جو فرمایا کہ جو میری سنت سے منہ موڑتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے.اس میں ان لوگوں کے لئے بھی وارننگ ہے جو یہ کہتے ہیں کہ شادی صرف خوشی کا نام ہے اور اس میں ہر طرح جو مرضی کر لو کوئی حرج نہیں.تو آپ نے یہ کہہ کر کہ جو میری سنت سے منہ موڑتا ہے وہ مجھ سے نہیں ہے.یعنی افراط کرنے والوں کو بھی بتا دیا کہ لغویات سے بچنا نیکیوں کو قائم کرنا بلکہ تقویٰ کے اعلیٰ ترین معیار حاصل کرنا میری سنت ہے اس لئے تم بھی نیکیوں پر چلنے کی اور لغویات سے بچنے کی لہو ولعب سے بچنے کی میری سنت پر عمل کرو.بعض لوگ بعض شادی والے گھر جہاں شادیاں ہورہی ہوں دوسروں کی باتوں میں آ کر یا ضد کی وجہ سے یا دکھاوے کی وجہ سے کہ فلاں نے بھی اس طرح گانے گائے تھے ، فلاں نے بھی یہی کیا تھا، تو ہم بھی کریں گے اپنی نیکیوں کو برباد کر رہے ہوتے ہیں.اس سے بھی ہر احمدی کو بیچنا چاہئے.فلاں نے اگر کیا
سبیل الرشاد جلد چہارم 112 تھا تو اس نے اپنا حساب دینا ہے اور تم نے اپنا حساب دینا ہے.اگر دوسرے نے یہ حرکت کی تھی اور پتہ نہیں لگا اور نظام کی پکڑ سے بھی بچ گیا تو ضروری نہیں کہ تم بھی بچ جاؤ.تو سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ سب کام کرنے ہیں یا نیکیاں کرنی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی خاطر کرنی ہیں ، وہ تو دیکھ رہا ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے ہر اس چیز سے بچنا ہو گا جو دین میں برائی اور بدعت پیدا کرنے والی ہے.اس برائی کے علاوہ بھی بہت سی برائیاں ہیں جو شادی بیاہ کے موقع پر کی جاتی ہیں اور جن کی دیکھا دیکھی دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں.اس طرح معاشرے میں یہ برائیاں جو ہیں اپنی جڑیں گہری کرتی چلی جاتی ہیں اور اس طرح دین میں اور نظام میں ایک بگاڑ پیدا ہورہا ہوتا ہے.اس لئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ، اب پھر کہہ رہا ہوں کہ دوسروں کی مثالیں دے کر بچنے کی کوشش نہ کریں، خود بچیں.اور اب اگر دوسرے احمدی کو یہ کرتا دیکھیں تو اس کی بھی اطلاع دیں کہ اس نے یہ کیا تھا.اطلاع تو دی جاسکتی ہے لیکن یہ بہانہ نہیں کیا جا سکتا کہ فلاں نے کیا تھا اس لئے ہم نے بھی کرنا ہے تا کہ اصلاح کی کوشش ہو سکے، معاشرے کی اصلاح کی جا سکے.ناچ ڈانس اور بیہودہ قسم کے گانے جو ہیں ان کے متعلق میں نے پہلے بھی واضح طور کہہ دیا ہے کہ اگر اس طرح کی حرکتیں ہوں گی تو بہر حال پکڑ ہوگی " خطبات مسرور جلد 3 صفحہ 686-691) انصار بوڑھے اور کمزور لوگوں کا وزٹ کریں حضور انور سے اراکین نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ ماریشس کی میٹنگ مورخہ 5 دسمبر 2005ء کو ہوئی جس میں حضور نے قائد عمومی سے مجالس کی تعداد دریافت فرمائی اور مجلس اور جماعت کا فرق سمجھایا.حضور انور نے جائزہ لیا کہ کتنی مجالس با قاعدہ رپورٹس بھجواتی ہیں اور کتنی ہیں جو بے قاعدہ ہیں یا نہیں بھجواتیں.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جو مجالس باقاعدہ ہر ماہ اپنی رپورٹس نہیں بھجواتیں ان کو صرف میٹنگ میں توجہ دلانا کافی نہیں بلکہ خطوط لکھیں اور بار بار یاد دہانی کروائیں.پھر حضور نے اس بات کا جائزہ لیا کہ جب آپ کو ( قائد عمومی کو ) رپورٹس موصول ہوتی ہیں تو کیا کرتے ہیں.صدر صاحب کیا کرتے ہیں اور قائدین اپنے اپنے شعبوں کے بارہ میں کیا کرتے ہیں.حضور انور نے قائد عمومی کو ہدایت فرمائی کہ آپ رپورٹس صدر صاحب کو دیا کریں.وہ اپنے ریمارکس دیں جو اُن مجالس کو بھجوایا کریں.قائدین کو کہیں کہ وہ آفس آئیں اور اپنے اپنے شعبوں کی رپورٹس دیکھیں اور اپنے اپنے شعبہ پر ریمارکس دیں جو مجالس کے متعلقہ سیکرٹریان کو بھجوائے جائیں.حضور انور نے قائد عمومی کو توجہ دلائی کہ آپ نے ہر مجلس کو اُس کی رپورٹ کی رسیدگی سے مطلع کرنا
113 سبیل الرشاد جلد چہارم ہے کہ فلاں مہینہ کی رپورٹ مل گئی ہے.اس طرح مجالس زیادہ مستعد اور فعال ہوں گی.حضور انور نے فرمایا: صدر مجلس کو حق ہے کہ جوز عیم صحیح طرح کام نہیں کر رہا اس کو تبدیل کر دیں.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ مجھے ہر ماہ با قاعدگی سے آپ کی رپورٹ آنی چاہئے.نا ئب صدر صف دوم سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ نے صف دوم کے انصار کے لئے کیا پروگرام بنایا ہے.حضور انور نے فرمایا: ان کے لئے علیحدہ پروگرام بنا ئیں.نیز فرمایا مجالس جو ماہانہ رپورٹس بھجواتی ہیں اس میں صف دوم کا پیش کالم ہوتا کہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ مجالس میں صف دوم کے تحت کیا کام ہوا ہے اور کیا پر وگرام جاری ہیں.قائد اشاعت نے اپنی رپورٹ دیتے ہوئے بتایا کہ حضور انور کے خطبہ جمعہ کا کریول زبان میں ترجمہ شائع کرتے اور احباب میں تقسیم کرتے ہیں.حضور انور نے فرمایا: آپ کی مجلس انصار اللہ کا News) (Letter ہونا چاہئے جس میں مہینہ کے چاروں خطبات کا ذکر ہو اور کر یول زبان میں ترجمہ شائع ہو.قائد تجنید کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ اپنی تجنید ہر وقت up-date رکھیں.حضور انور نے صدر صاحب انصار اللہ کو ہدایت فرمائی کہ آپ کو دو معاون صدر رکھنے کی اجازت ہے.آپ ان کے سپرد کوئی بھی خاص کام کر سکتے ہیں.مثلاً وصیت کے نظام میں انصار کو شامل کرنے کیلئے خاص کوشش ہونی ہے.یہ کام معاون صدر کے سپرد کیا جا سکتا ہے.حضور نے فرمایا صف دوم کے اندر کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ انصار وصیت کے نظام میں شامل ہوں.قائد تعلیم سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ نے کیا سپیشل پروگرام بنایا ہے؟ حضور انور نے انہیں ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ کے شعبہ کا تعلق انصاراللہ کی دینی تعلیم کے بارہ میں ہے.آپ کے پاس یہ سارا ریکاڑ ہونا چاہئے کہ کتنے انصار سادہ نماز جانتے ہیں، کتنے ہا تر جمہ جانتے ہیں، قرآن کریم ناظرہ کتنے جانتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو با ترجمہ جانتے ہیں.کتنے انصار روزانہ تلاوت کرتے ہیں اور کتنے باقاعدہ مطالعہ کرتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ کوئی کتاب مطالعہ کیلئے مقرر کریں.سوالنامہ بنا ئیں اور پھر امتحان لیں.فرمایا ینے ممبرز کو Activate کریں.قائد ایثار نے بتایا کہ بوڑھے لوگوں، بیمار لوگوں کا وزٹ کرتے ہیں.حضور نے فرمایا میڈیکل کیمپ لگائیں ،غربا کی مدد کریں، ہسپتالوں میں آپ کی ٹیمیں جائیں.بعض مریض ہوتے ہیں جو غریب ہوتے ہیں انہیں مدد کی ضرورت ہوتی ہے.اس کا بھی جائزہ لیں اور ایسے لوگوں کی مدد کے پروگرام ہوں.فرمایا : اپنی ٹیمیں ہفتہ وار بھجوائیں.اس سے جہاں غربا کی مدد ہوگی وہاں غرباء سے آپ کا مستقل رابطہ ہو جائے گا اور ان
سبیل الرشاد جلد چہارم کو احمدیت سے متعارف کرواسکیں گے.114 قائد وقف جدید کو حضور انور نے توجہ دلائی کہ اس وقت جو انصار چندہ وقف جدید ادا کر رہے ہیں وہ انصار کی کل تعداد کا نصف سے بھی کم ہے.آپ کو آگے بڑھنا چاہئے.قائد تربیت نو مبائعین سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ گزشتہ تین سال کے کتنے نو مبائعین ہیں جو آپ کے ریکارڈ میں ہیں.حضور انور نے فرمایا تین سال بعد نو مبائع جماعت کے نظام کا باقاعدہ حصہ بن جاتا ہے، نو مبائع نہیں رہتا.حضور انور نے فرمایا: آپ نو مبائع انصار کی لسٹ بنائیں، ان سے رابطہ کریں ، ان کی تربیت کریں، ان کو ٹرینڈ کریں.آپ کی ہر مجلس میں جو نو مبائع انصار میں ان سے رابطہ کے لئے اپنے شعبہ کے تحت لوگوں کو مقرر کریں جو ان سے مستقل رابطہ رکھیں.حضور انور نے فرمایا ہر نو مبائع سے رابطہ ہونا چاہئے.فرمایا 2008 ء تک ہر نومبائع کو نظام کا مکمل حصہ بننا چاہئے.قائد تبلیغ اصلاح وارشاد کو حضور انور نے فرمایا کہ مستعد ہوں اور تبلیغ کے لئے پلاننگ کریں.قائد تربیت کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ آپ کے پاس یہ انفارمیشن ہونی چاہئیں کہ پانچوں نمازوں کی ادائیگی کتنے کر رہے ہیں، کتنے ہیں جو نمازوں میں باقاعدہ ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ انصار کو نمازوں میں با قاعدہ ہونا چاہئے.ہر نا صر کو پانچ نمازیں با قاعدہ ادا کرنی چاہئیں.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ شعبہ تعلیم اور تربیت بعض کا موں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں.قائد ذہانت و صحت جسمانی کو حضور انور نے فرمایا کہ صف دوم کی کھیلوں کے پروگرام میں ان کی مدد کریں.قائد تحریک جدید سے حضور انور نے ان کے وعدہ جات اور چندہ کی ادائیگی کا جائزہ لیا..قائد مال سے حضور انور نے تفصیل کے ساتھ انصار کے بجٹ، فی کس چندہ کے معیار اور انکم ( income) کا جائزہ لیا.چندہ اجتماع اور اخراجات کا بھی جائزہ لیا.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ آپ نے اپنے ریز روفنڈ سے جو بھی خرچ کرنا ہے میری اجازت سے کرنا ہے.الفضل انٹر نیشنل 30 دسمبر 2006ء) ذیلی تنظیمیں بھی دعوت الی اللہ کے پروگرام بنائیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 9 دسمبر 2005 ء کو ماریشس میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرمایا." یہاں کی تاریخ پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ گویا وہ ایک جان تھے اور اس کا اثر تھا کہ ان چند لوگوں نے آج سے 70 سال بلکہ اس سے بھی پہلے 6-7 سو افراد کی جماعت بنالی.اب ان میں سے ایک ایک کے
115 سبیل الرشاد جلد چہارم آگے کئی کئی بچے ہیں.ان میں تو نسل بڑھ رہی ہے لیکن تبلیغ کے میدان میں پیچھے ہیں.اس کی ایک وجہ دنیا داری کی طرف زیادہ توجہ بھی ہو سکتی ہے.آپس کی ان لوگوں کی طرح پیار و محبت میں کمی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے پس اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے جہاں اپنی کمزوریوں کو دور کریں وہاں جیسا کہ میں نے کہا تبلیغ میں بھی آگے بڑھیں ، لوگوں کی رہنمائی کریں لیکن اس کے لئے اپنے بھی اعلی عمل اور عملی نمونے دکھانے ہوں گے.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو خلافت سے وابستگی اور اخلاص ہے.لیکن اس کے باوجود یہ کمزوری یہاں کافی ہے کہ تبلیغ کی طرف اس طرح توجہ نہیں دی جارہی جس طرح ہونی چاہئے.اس لئے جماعتی نظام بھی اور ذیلی تنظیمیں بھی دعوت الی اللہ کے پروگرام بنا ئیں.اردگرد کے چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں جہاں بھی آبادی ہے وہاں وفد بھیجیں اور ان جزیروں کو احمدیت کی آغوش میں لائیں.یہاں اس جزیرے میں بھی تبلیغ کریں.مسلمان یہاں اگر خلاف ہیں تو اپنے مولویوں کے احمدیت کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کی وجہ سے خلاف ہیں.ان کے علم میں ہی نہیں ہے کہ احمدیت کی حقیقی تعلیم کیا ہے اور ہمارا کیا ایمان ہے اور کیا مانتے ہیں.کئی مسلمان شرفاء با وجود ان فسادیوں کے جلوس نکالنے اور تقریریں کرنے کے ، جو کہ ہمارے جلسے کے دوران آخری دن انہوں نے کیں، یہ شرفاء ہمارے جلسے میں شامل ہوئے اور مجھے ملے اور اسلام کی صحیح تصویر دکھانے اور احمدیت کے حقیقی پیغام کے پہنچانے کا شکر یہ ادا کر کے گئے.تو یہ مستقل تبلیغی را بطے اگر ہوں گے تو انہیں احمدیت کی حقیقی تعلیم سے آگاہی ہوگی.پس آپ لوگ ایک ہو کر اس تبلیغی مہم میں جت جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے.یا درکھیں یہی ایک ذریعہ ہے جس سے آپ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے اور اپنی اولادوں کو بھی محفوظ رکھیں گے.اپنے نوجوان بچوں اور بچیوں کو دنیا کے گند سے بچا کر رکھ سکیں گے.اپنے بچوں میں بھی اس بات کو راسخ کریں کہ تمہارے باپ دادا نے ، تمہارے بزرگوں نے احمدیت کو صحیح سمجھا ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر عمل کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بے انتہا فضلوں سے نوازا.تم لوگ بھی بجائے یہ دیکھنے کے کہ دنیا آجکل کس طرف جا رہی ہے یہ دیکھو کہ خدا تعالیٰ تمہیں کس طرف بلا رہا ہے.پس اس طرف آؤ اور اس کے حکموں پر عمل کرو.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بدی کو بیزار ہو کر ترک کرو.پس اس کے لئے آپ کو اپنے بچوں کے لئے اپنے عملی نمونے بھی پیش کرنے ہوں گے، اپنے اندر سے بھی چھوٹی چھوٹی برائیوں کو ختم کرنا ہو گا.آپ لوگوں کو خود بھی نیکیوں کو اپنانا ہو گا.آجکل معاشرے میں بہت سی ایسی برائیاں ہیں جن کا اثر ہمارے معاشرے میں پڑ رہا ہے.پس اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے خود بھی ان سے بچیں اور اپنی اولادوں کو بھی ان سے بچائیں.کیونکہ اسی میں اب آپ کی بہتری ہے.اللہ کرے کہ آپ لوگ اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس حقیقت کو سمجھنے والے ہوں اور
116 سبیل الرشاد جلد چہارم نوجوان بھی اور بوڑھے بھی اور مرد بھی اور عورتیں بھی نیکیوں کے اعلیٰ نمونے قائم کرنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو سمجھنے والے ہوں تا کہ اپنی نسلوں اور نئے آنے والوں کی تربیت بھی کر سکیں اور احمدیت کے پیغام کو اپنے عمل سے بھی اپنے ہم قوموں کو پہنچاسکیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی تو فیق عطا فرمائے اور دعوت الی اللہ کے میدان میں اب تک جو سستی ہوئی ہے اس کی کمی کو پورا کرنے کی توفیق دے.آپ کو ہر لحاظ سے اپنی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آپ کا جماعت اور خلافت سے جذبۂ اخلاص و وفا ہمیشہ قائم رہے اور اس میں اللہ تعالیٰ اضافہ فرماتا رہے.آمین" (خطبات مسرور جلد 3 صفحہ 716-717)
117 $2006 کے ارشادات و فرمودات سبیل الرشاد جلد چہارم باب چہارم
سبیل الرشاد جلد چہارم 118 سست عہد یداران کو Active کریں جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہدیداران کو نظام جماعت کی اہمیت کے بارے میں نصائح عہدیداران کو عاملہ کی مدد سے شوری کے فیصلوں پر عمل کروانا چاہئے انصار اللہ وصیت کرنے کے بعد ذیلی تنظیم یا چندہ بھی دیں انصار کے بچے نمازیں اور قرآن پڑھنے والے ہوں • جماعتی وذیلی تنظیموں کا نظام فعال اور مستعد دہو تو جماعت کئی گنا ترقی کرتی ہے ذیلی تنظیموں کے عہدیداران وصیت کے مبارک نظام میں شامل ہوں دیہاتوں میں دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دیں انصار اللہ کی تنظیم اس امر کا جائزہ لے کہ شکوہ کرنے والے کیوں پیدا ہوتے ہیں جماعت جہاں قائم نہیں وہاں مجلس انصاراللہ قائم ہوسکتی ہے مجھے ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں جو کام نہ کر سکیں جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہدیدار لغو حرکات کو چھوڑ دیں تمام قائدین اپنی اپنی سکیم بنا کر مجلس عاملہ میں ڈسکس کریں انصار اللہ کی سب سے اہم ذمہ داری نئی نسل کی تربیت ہے جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کے نظام کو معاشرہ کی برائی ختم کرنے کیلئے مہم چلانی چاہئے اللہ تعالیٰ جماعت کو ایسے لوگ عطا کرتا رہے گا جو حسن انصار اللہ کا نعرہ لگانے والے ہوں گے لوگوں کے ذہن بدلنے کے لئے چیئرٹی واکس اہم رول ادا کرتی ہے نیشنل عاملہ انصار اللہ ہالینڈ کو ہدایات آپ خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق رکھ کر دینی و دنیاوی حسنات کا حصہ پائیں گے ذیلی تنظیموں کو نو جوانوں کو سنبھالنا چاہئے اور ہنر سکھلا کر بریکاری کا خاتمہ کرنا چاہئے صحابہ کے فدائیت کے نمونے انصار اللہ نے دکھلانے ہیں عہدیداران میاں بیوی کے جھگڑے میں ظالم شوہر کے ساتھ بے جا ہمدردی نہ کریں اعزازی خدمت کرنے والے سے بھی کوئی ایسا فعل سرزرد نہ ہو جو سچائی کے خلاف ہو ا عہد یداران مدد میں برابر کا سلوک کریں انصار اللہ اپنے وعدے خود پورے کریں مرکز پر انحصار نہ کریں جماعتی سطح پر جو بستیاں یا کمیاں ہیں ان کو ذیلی تنظیموں نے پورا کرنا ہے
سبیل الرشاد جلد چہارم 119 ست عہدیداران کو Active کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجلس عاملہ انصار اللہ بھارت کی میٹنگ مؤرخہ 7 جنوری 2006ء بروز ہفتہ بمقام ایوان انصار میں شمولیت فرمائی.حضور نے قائدین سے ان کے شعبوں کا تعارف ، ان کے کام، آئندہ کے لائحہ عمل اور منصوبہ بندی کا جائزہ لینے کے بعد قائدین کو ہدایات سے نوازا اور راہنمائی فرمائی.حضور انور نے قائد عمومی سے مجالس انصاراللہ کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا نیز دریافت فرمایا کہ کتنی مجالس با قاعده رپورٹس بھجواتی ہیں اور کتنی رپورٹس بھجوانے میں بے قاعدہ ہیں.اور جو ر پورٹس نہیں بھجواتیں ان کے بارہ میں کیا طریق اختیار کیا گیا ہے.فرمایا کہ مرکز کا کام ہے کہ ہر مجلس سے براہ راست رابطہ رکھے اور براہ راست یاددہانی کروائیں ، خط لکھیں یا فون وغیرہ کریں.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جو عہدیدار اتنے سست ہیں ان کو بھی Active کیا جائے اور بار بار یاددہانی کروائی جائے.فرمایا: ہر مجلس کی ماہانہ رپورٹ میں تمام شعبوں کی ماہانہ رپورٹ کا ذکر ہونا چاہئے.نائب صدر صف دوم نے اپنی رپورٹ دیتے ہوئے کہا کہ نومبائعین کی دوصد مجالس قائم کی ہیں.زیادہ تر صف دوم کے انصار ہیں.جس پر حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کو نمازوں کے قیام اور قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ دلائیں اور وصیت کے نظام کو متعارف کروائیں.فرمایا: صف دوم کے انصار کے اس احساس کو ختم کرنے کے لئے کہ اب وہ بوڑھے ہو گئے ہیں ان کے اپنے پروگرام ہونے چاہئیں.مثلاً سائیکلنگ ہو، صبح کی سیر ہو، کھیلوں وغیرہ کے پروگرام ہوں.حضور نے فرمایا: بعض لوگوں کو ایک دو میل جانا ہوتا ہے لیکن بس کے انتظار میں کھڑے رہتے ہیں.ایک دو میل پیدل چل کر نہیں جاتے.حضور انور نے فرمایا کہ نیروبی ( کینیا) میں دیکھا ہے کہ وہاں لوگ پانچ چھ میل پیدل چل کر اپنے کام پر جاتے ہیں.یہاں بھی یہ عادت ڈالنی چاہئے.معاون صدر نے اپنے کام کے بارہ میں بتایا کہ صدر مجلس جو کام سپر د کرتے ہیں وہ کیا جاتا ہے نومبائعین کی رپورٹس کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ان سے خط و کتابت ہوتی ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا: تین سال سے زائد کو نو مبائع کہنا چھوڑ دیں.پھر انہیں یہ احساس ہوگا کہ ہماری کوئی علیحدہ حیثیت نہیں ہے.تین سال کا عرصہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کی تربیت ہو جائے اور نظام کا پتہ چل جائے.فرمایا: جو تین سال سے قبل کے ہیں اب ان کو با قاعدہ نظام کا حصہ بن جانا چاہئے.یہ ہرگز مقصد نہیں تھا کہ وہ بالکل علیحدہ چیز بنا دیئے جائیں.ان کا تشخص علیحدہ قائم کیا جائے.حضور نے فرمایا : اب آپ کی ساری جماعتیں پرانی ہیں.نو مبائع صرف وہ ہے جو گزشتہ تین سال میں شامل ہوا ہے.فرمایا کہ اب یہ جائزہ لیں کہ کتنے ہیں جو نظام میں سموئے گئے اگر نہیں سموئے گئے تو ان کی ٹرینگ اور تربیت کا علیحدہ پروگرام بنا ئیں.نئی مجالس کے زعماء،
سبیل الرشاد جلد چہارم 120 ان کے منتظمین ان کی ٹریننگ کریں.ریفریشر کورسز کا انعقاد ہو.تربیتی پروگرام ہوں.اتنا عرصہ ہو گیا ہے یہ لوگ فعال ممبر نہیں بن رہے.اب ان سب کو فعال ہونا چاہئے.حضور نے فرمایا: کچھ کو یہاں مرکز میں بلائیں ان کا دس پندرہ روز کاریفریشر کورس ہو.پھر قائدین کو ان کے علاقوں میں بھی بھجوائیں.وہاں جا کر ٹریننگ دیں.اسی طرح ہر صوبے کے سنٹر میں ، مرکز میں ریفریشر کورس ہوں.دس پندرہ دن کے لئے لوگ اکھٹے ہوں ، ان کے تربیتی کورسز میں اس علاقہ کے مربی صاحب سے مدد لی جاسکتی ہے.قائد ایثار نے رپورٹ دیتے ہوئے بتایا کہ میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں.فرمایا: نئی جماعتوں میں بھی میڈیکل کیمپ لگائیں تا کہ ان کا ایک اچھا اثر قائم ہو.ڈاکٹر ز جائیں گے ان کو احساس ہوگا کہ ہمارے پیچھے کوئی ہے ہم کو پوچھا جا رہا ہے.چھوڑ نہیں دیا گیا.حضور نے فرمایا: ایسے علاقوں میں میڈیکل کیمپس لگائیں جو Remoteعلاقے ہیں، جہاں طبی سہولتیں نہیں ہیں.حضور انور نے قائد ایثار کو یہ بھی ہدایت فرمائی کہ ہسپتالوں میں بھی جائیں.وہاں بہت سے غریب مریض ہوتے ہیں.ان کا حال پوچھیں ، ان کی مدد کریں، آپ لوگوں کا ایک تشخص قائم ہوگا کہ یہ لوگ ہیں جو خدمت انسانیت کرنے والے ہیں.قائد وقف جدید کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ نئے آنے والوں کو بھی چندہ وقف جدید کے نظام میں شامل کریں.قائد تعلیم سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ انصار سے کتنے امتحان لیتے ہیں.کیا طریق کار ہے.حضور نے ہدایت فرمائی کہ با قاعدہ پرچے تیار کریں.مجالس میں بھجوائیں اور سب انصار امتحان میں شریک ہوں.فرمایا انتخابات کو آرگنائز کریں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی چھوٹی کتب نصاب میں رکھی جاسکتی ہیں، مطالعہ کے لئے رکھیں اور پھر امتحان ہو.قائد تجنید کو حضور انور نے تجنید مکمل کرنے کی ہدایت فرمائی.فرمایا کہ آپ کی تجنید مکمل ہونی چاہیئے.قائد تربیت نو مبائعین کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ گزشتہ کئی سالوں سے آپ کے جونومبائعین چلے آرہے ہیں اس کے لئے آپ کو ایک سال کا عرصہ دیتا ہوں.اس کے بعد یہ نومبائعین نہیں رہیں گے اور باقاعدہ نظام جماعت کا حصہ بن جائیں گے.حضور انور نے فرمایا: انصار کا کام ہے کہ گھروں میں تربیت کریں.بچوں کو توجہ دلائیں.نمازوں کی طرف توجہ دلائیں ، قرآن کریم کی طرف توجہ دلائیں.
121 سبیل الرشاد جلد چہارم حضور نے دریافت فرمایا کہ نئی مجالس میں کتنے ایسے انصار ہیں جو آپ کی کوششوں کے بعد فعال ہوئے ہیں اور آپ کی کوششوں کا کیا نتیجہ نکلا ہے فرمایا: ایک سال میں ان کا علیحدہ اجتماع کریں اور انہیں بتائیں کہ اب آپ کو اتنے سال ہو گئے ہیں اب آپ باقاعدہ جماعت کا حصہ بن جائیں.حضور نے ہدایت فرمائی کہ نئے آنے والوں کو سنبھالیں اور ایک سال کے اندر اندر ان کو نظام کا حصہ بنائیں.فرمایا کہ جو نئے احمدی ہیں ان کے اندرا گر تبدیلیاں پیدا ہوئیں تو نظر آنی چاہئیں.ان تبدیلیوں کو دیکھ کر ان کے عزیز وا وقارب واپس آئیں.ان کو قریب لائیں.فرمایا: جو نئے رابطے قائم ہوئے ہیں ان کا کیا ریسپانس(Response) ہے.فرمایا: ان لوگوں سے رابطہ رکھیں اور ان کو احساس ہو کہ ہم سے رابطہ رکھا جارہا ہے.ہم سے تعلق ہے.ہم کو پوچھا جا رہا ہے.قائد تبلیغ کوحضور انور نے اپنے تبلیغی پروگراموں کو فعال بنانے کی ہدایت فرمائی ہے.اور فرمایا کہ انصار کو عادت ڈالیں کہ وہ اپنے ذاتی رابطے قائم کریں.اور تبلیغ کریں اور جو ٹا رگٹ آپ نے مجالس کو دیا ہے اس کا Follow Up کریں.قائدتحریک جدید سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کتنے انصار تحریک جدید کے چندہ کے نظام میں شامل ہیں.قائد تعلیم القرآن سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کتنے فیصد انصار ہیں جو قرآن کریم پڑھ سکتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ اس بارہ میں کیا پروگرام بنایا ہے.فرمایا پروگرام بنا کر مجالس کو بھجوائیں اور اس پر عمل کروا ئیں اور مجالس سے پوچھیں کہ کتنے انصار نے کتنی تعداد میں پڑھنا شروع کر دیا ہے.قائد تربیت نے بتایا کہ نئے آنے والوں میں سے جو تعداد اب تربیتی پروگراموں میں شامل نہیں ہے ان میں سے دس فیصد کو ٹارگٹ بنایا جاتا ہے.حضور نے ہدایت فرمائی کہ پہلے تجنید کا جائزہ لیں اور سابقہ تجنید پر بنیاد نہ رکھیں.بلکہ مجالس کا خود جائزہ لیں اور پھر معین رپورٹ بنا کر بھجوائیں.زعیم اعلیٰ قادیان سے حضور انور نے قادیان کے انصار کی تجنید اور ان کے پروگراموں کے بارہ میں دریافت فرمایا.آڈیٹر سے حضور انور نے دریافت فرمایا: کیا آپ باقاعدہ آڈٹ کرتے ہیں رسیدیں ، بل وغیرہ چیک کرتے ہیں.دستخط دیکھتے ہیں کہ صدر کی منظوری سے خرچ ہوتا ہے،اخراجات بجٹ کے اندر ہوتے ہیں.ایک مد سے دوسری مد میں تبدیلی قواعد کے مطابق ہے.قائد اشاعت سے حضور نے دریافت فرمایا کہ کیا اشاعت کمیٹی بنائی ہے، سہ ماہی رسالہ کی سرکولیشن کے بارہ میں بھی حضور انور نے دریافت فرمایا.
122 سبیل الرشاد جلد چہارم قائد ذہانت و صحت جسمانی سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ انصار کی صحت کا خیال رکھتے ہیں.کتنے انصار سیر کرتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ گھر سے مسجد وغیرہ آتے ہیں تو اس کو سیر نہیں کہتے.چار پانچ میل کی سیر، سیر ہوتی ہے.فرمایا: جماعتوں کو جو سرکلر کرتے ہیں تو پھر رپورٹ بھی منگوایا کریں.حضور نے فرمایا کہ اپنی نیشنل عاملہ کی سیر کا جائزہ بھی لیا کریں.قائد مال سے حضور انور نے انصار کے چندہ مجلس، ان کے بجٹ اور چندہ کے معیار کا جائزہ لیا.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ آپ کی جو نئی مجالس قائم ہوئی ہیں ان کو چندہ کے نظام میں شامل کریں اور با قاعدہ اپنے نظام کا حصہ بنائیں.خواہ ٹوکن کے طور پر چندہ لیں.ایک روپیہ یا آٹھ آنے دیں لیکن ہر ایک دے.آخر پر حضور انور نے فرمایا کہ صدر انصار اللہ کو دور کے صوبوں پر نظر رکھنی چاہئے اور دورہ پر جانا چاہئے.حضور انور نے فرمایا: صوبوں کے ریجن کی سطح پر بھی اجتماع منعقد کریں جو صوبے دور ہیں جہاں انصار کی تعداد ایک صد پچاس سے زائد ہو وہاں اجتماع کیا کریں.ان لوگوں کو آر گنائز کریں اور ان کو ہی آرگنائزر بنائیں.تربیت کے لحاظ سے نمازوں کی پابندی ہو.قرآن کریم کی تلاوت کی طرف توجہ پیدا ہو.مالی قربانی کی اہمیت انہیں بتا ئیں.اخراجات محتاط طریقے سے کرنے ہیں.ان میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ ایک ایک پیسے کی حفاظت کرنی ہے اور ممکنہ حد تک تک بچت کرنی ہے.یہ احساس ان میں پیدا ہونا چاہئے.الفضل انٹر نیشنل 3 مارچ 2006ء) جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہدیداران کو نظام جماعت کی اہمیت اور اس کی اطاعت کے بارے پر معارف وزریں نصائح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 9 مارچ2006 کو خطبہ جمعہ میں فرمایا.جماعت احمدیہ میں خلافت کی اطاعت اور نظام جماعت کی اطاعت پر جو اس قدر زور دیا جاتا ہے یہ اس لئے ہے کہ جماعتی نظام کو چلانے کے لئے یک رنگی پیدا ہونی ضروری ہے اور اس زمانے کے لئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلان ہے کہ مسیح موعود کے آنے کے بعد جو خلافت قائم ہوئی ہے وہ علی منهاج النبوۃ ہونی ہے اور وہ دائی خلافت ہے اور جس کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے.کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.پھر آپ نے فرمایا کہ: " خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں.ایسے
سبیل الرشاد جلد چہارم 123 لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 309) نظام خلافت و جماعت سے جُڑے رہنے کے لئے اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اس دائمی قدرت کے ساتھ وابستہ رہنے کے لئے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے جڑے رہنے اور خلافت سے وابستہ رہنے کے لئے ، اطاعت کے وہ معیار قائم کرنے کی ضرورت ہے جو اعلیٰ درجہ کے ہوں جن سے باہر نکلنے کا کسی احمدی کے دل میں خیال تک پیدا نہ ہو.بہت سارے مقام آسکتے ہیں جب نظام جماعت کے خلاف شکوے پیدا ہوں.ہر ایک کی اپنی سوچ اور خیال ہوتا ہے اور کسی بھی معاملے میں آراء مختلف ہوسکتی ہیں، کسی کام کرنے کے طریق سے اختلاف ہوسکتا ہے.لیکن نظام جماعت اور نظام خلافت کی مضبوطی کے لئے جماعتی نظام کے فیصلہ کو یا امیر کے فیصلہ کو تسلیم کرنا اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ خلیفہ وقت نے اس فیصلے پر صاد کیا ہوتا ہے یا امیر کو اختیار دیا ہوتا ہے کہ تم میری طرف سے فیصلہ کر دو.اگر کسی کے دل میں یہ خیال ہو کہ یہ فیصلہ غلط ہے اور اس سے جماعتی مفاد کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے تو خلیفہ وقت کو اطلاع کرنا کافی ہے.پھر خلیفہ وقت جانے اور اس کا کام جانے.اللہ تعالیٰ نے اس کو ذمہ دار اور نگران بنایا ہے اور جب خلیفہ، خلافت کے مقام پر اپنی مرضی سے نہیں آتا بلکہ خدا تعالیٰ کی ذات اس کو اس مقام پر اس منصب پر فائز کرتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ اس کے کسی غلط فیصلے کے خود ہی بہتر نتائج پیدا فرمادے گا.کیونکہ اس کا وعدہ ہے کہ خلافت کی وجہ سے مومنوں کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دے گا.مومنوں کا کام صرف یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کریں ، اس کے احکامات کی بجا آوری کریں اور اس کے رسول کے حکموں کی پیروی کرنے کی کوشش کریں اور کیونکہ خلیفہ نبی کے جاری کردہ نظام کی بجا آوری کی جماعت کو تلقین کرتا ہے اور شریعت کے احکامات کو لاگو کرنے کی کوشش کرتا ہے اس لئے اس کی اطاعت بھی کرو اور اس کے بنائے ہوئے نظام کی اطاعت بھی کرو.اور افراد جماعت کی یہ کامل اطاعت اور خلیفہ وقت کے اللہ کے آگے جھکتے ہوئے ، اس سے مدد مانگتے ہوئے کئے گئے فیصلوں میں اللہ تعالیٰ اپنی جماعت کے ایمان کو مضبوط کرنے کے لئے اور اپنے بنائے ہوئے خلیفہ کو دنیا کے سامنے رُسوا ہونے سے بچانے کے لئے برکت ڈال دے گا.کمزوریوں کی پردہ پوشی فرمادے گا اور اپنے فضل سے بہتر نتائج پیدا فرمائے گا اور من حیث الجماعت اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو ہمیشہ بڑے نقصان سے بچالیتا ہے اور یہی ہم نے اب تک اللہ تعالیٰ کا جماعت سے اور خلافت احمدیہ سے سلوک دیکھا ہے اور دیکھتے آئے ہیں.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ يَا يُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوا أَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (النساء:60) اے وہ لوگو! جو ایمان
124 سبیل الرشاد جلد چہارم لائے ہو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی.اور اگر تم کسی معاملہ میں اولوالامر سے اختلاف کرو تو ایسے معاملے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دیا کرو.اگر فی الحقیقت تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو.یہ بہت بہتر طریق ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہے.یعنی تمہارا کام اطاعت کرنا ہے اللہ تعالیٰ کے حکموں کی پوری پیروی کرو.پہلے اپنے آپ کو دیکھو کہ تم اللہ کے حکموں کی پیروی کر رہے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے شریعت کے جو احکامات اتارے ہیں، پہلے تو ان کا فہم و ادراک حاصل کرو، کیا وہ تمہیں حاصل ہو گیا ہے.اور جب مکمل طور پر حاصل ہو گیا ہے تو پھر اُن احکامات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بناؤ اور جب ایک شخص خود اس پر عمل کرنے لگ جائے گا اور اس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی سنت پر بھی عمل کر رہا ہوگا تو پھر وہ شاید اپنے خیال میں یہ کہنے کے قابل ہو سکتا ہے کہ ہاں اب میں ایمان لانے والوں میں سے ہوں.لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی، یہ آیت ہمیں کچھ اور بھی کہتی ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم علمی اور عملی لحاظ سے احکام شریعت کے بہت پابند ہیں اور علم رکھنے والے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جو غیب کا علم بھی رکھتا ہے اور حاضر کا علم بھی رکھتا ہے اور جو آئندہ ہونے والا ہے اس کا علم بھی رکھتا ہے اس کو پتہ تھا کہ اگر صرف اللہ اور رسول صلی اللہ کی اطاعت کا کہہ دیا تو کئی نام نہاد علماء اور بزعم خویش سنت رسول پر چلنے والے پیدا ہوں گے اور جو جماعت کی برکت ہے وہ نہیں رہے گی اور ہر ایک نے اپنی ایک ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائی ہوگی اور اپنے محدود علم کو ہی انتہا سمجھیں گے اور آج ہم مسلمانوں میں دیکھتے ہیں تو یہی کچھ نظر آتا ہے.لیکن یہ جو زعم ہے کہ ہم اللہ اور رسول کے حکم پر عمل کر رہے ہیں، اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہلوا کر ختم کر دیا کہ مسیح موعود کے آنے کے بعد اس کو ماننا ضروری ہے اور پھر اس کے بعد جو خلافت علی منہاج النبوة قائم ہوتی ہے اس کی اطاعت بھی ضروری ہے.ورنہ یہ دعوی ہے کہ ہم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کر لی.اور پھر اس سے آگے اللہ تعالیٰ نے نظام جماعت میں یکرنگی پیدا کرنے کے لئے اور اس نظام کی حفاظت کے لئے یہ بھی فرما دیا کہ اولوالامر کی بھی اطاعت کرو.صرف مسیح موعود کو جو مان لیا اس کے بعد جو نظام مسیح موعود کی جماعت میں، نظام خلافت کے قائم ہونے سے قائم ہوا ہے اس کی بھی اطاعت کرو.ذیلی تنظیموں ہی کی وجہ سے جماعت کا ہر شخص جماعتی ڈھانچے اور اطاعت کے مضمون کو سمجھتا ہے آج ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اور ہم اس نظام میں پروئے گئے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کی طرف توجہ دلاتارہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف بھی توجہ دلاتا رہتا ہے اور ہم دوسرے مسلمان فرقوں کی طرح بکھرے ہوئے نہیں بلکہ خلافت کی برکت کی وجہ سے ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے وعدے کے مطابق علوم
125 سبیل الرشاد جلد چہارم ظاہری و باطنی سے پر ، ذہین اور فہیم، ایسا موعود بیٹا عطا فرمایا جس نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے ہم میں چھوٹی سے چھوٹی سطح سے لے کر ملکی اور پھر مرکزی سطح پر ایک ایسا جماعتی ڈھانچہ بنا کر دے دیا جس میں نہ صرف جماعت کے انتظامی معاملات بلکہ تربیتی تبلیغی تعلیمی، تمام قسم کے معاملات جو ہیں، سب کا ایک اعلیٰ انتظام موجود ہے.پھر جماعت کے ہر طبقے کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس پیدا کرنے کے لئے ، ہر طبقے کے ہر شخص کو جماعتی معاملات میں شامل کرنے اور اس کو اس کی اہمیت کا احساس دلانے کے لئے ذیلی تنظیموں، خدام، اطفال، لجنہ ، ناصرات، انصار کا قیام فرمایا.آج یہی وجہ ہے کہ جماعت کا ہر وہ شخص، ہر وہ بچہ اور جوان اور عورت جس کا اپنی تنظیموں سے ابتدائی عمر سے رابطہ ہے وہ ان تنظیموں میں شمولیت کی وجہ سے جماعتی ڈھانچے اور اطاعت کے مضمون کو سمجھتے ہیں.ان تنظیموں میں ابتداء سے حصہ لینے والے کو علم ہے کہ ان کی حدود کیا ہیں، اس کی ذیلی تنظیموں کی حدود کیا ہیں جماعتی نظام کی اہمیت کیا ہے اور خلیفہ وقت کی اطاعت کس طرح کرنی ہے.لیکن بعض دفعہ دنیا داری کی وجہ سے اپنی اہمیت اور انا کی وجہ سے بعض لوگوں کی آنکھوں پر پردہ پڑ جاتا ہے اور باوجود اس اہمیت کا علم ہونے کے کہ اطاعت میں کتنی برکت ہے بعض ایسی باتیں کر جاتے ہیں جس سے اگر جماعتی نظام متاثر نہ بھی ہو تو پھر بھی بعض کمزور ایمان والوں یا نئے آنے والوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بن جاتے ہیں.مثلاً اگر کوئی کمیشن کسی بارے میں قائم ہوا ہے کہ تحقیق کر کے بتائیں، بعض لوگوں کے بعض معاملات کی رپورٹ دیں یا بعض دفعہ کوئی معاملہ خلیفہ وقت کی طرف سے بھجوایا جاتا ہے کہ اس بارے میں جائزہ اور ر پورٹ دیں تو تحقیق کرنے کے بعد یا جائزہ لینے کے بعد جور پورٹ بھجوائی جاتی ہے اگر خلیفہ وقت اس کے مطابق کوئی فیصلہ نہ کرے تو اور کچھ نہیں کہہ سکتے تو جماعت میں یا کم از کم اس طبقے میں یہ بات کہہ کر بے چینی پیدا کر دیتے ہیں کہ ہم نے تو یوں لکھا تھا پتہ نہیں نیشنل امیر نے یا مرکزی عاملہ نے رپورٹ بدل کر بھیج دی ہے یا خلیفہ وقت نے اس کے الٹ فیصلہ دیا ہے.بہر حال ہم نے تو یہ رپورٹ نہیں دی تھی.تو یہ ایسی بات ہے جو یقیناً جماعت میں فتنے کا باعث بن سکتی ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ایسی باتوں سے احتراز کرنا چاہئے.اگر کسی سطح پر آپ لوگوں کو خدمت کا موقع دیا گیا ہے تو اس کو فضل الہی سمجھیں اور اُن حدود کے اندر ہی رہیں جو مقرر کی گئی ہیں اور اپنی حدود سے تجاوز نہ کریں.بعض لوگ بیوقوفی اور کم علمی کی وجہ سے ایسی باتیں کرتے ہیں، بعض اپنی انا کی وجہ سے.اور مختلف ملکوں میں ایسے معاملات اکا دکا اٹھتے رہتے ہیں اور توجہ دلانے پر پھر احساس بھی ہو جاتا ہے اور معافی بھی مانگتے ہیں.عہد یدار ان کو اطاعت کے معیار بڑھانے کے لئے خلیفہ وقت کے فیصلوں کی خود تعمیل کرنی ہے لیکن آج میں خطبے میں اس بات کا ذکر اس لئے بھی کر رہا ہوں کہ یہ سب کو بتا دوں کہ جو فتنے کے لئے یہ باتیں کرتے ہیں ان کے علم میں آجائے کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کافی میچور
126 سبیل الرشاد جلد چہارم (Mature) ہو چکی ہے.اپنی بلوغت کو پہنچ چکی ہے اور ایسے لوگ جن کو اللہ تعالیٰ نے خدمت کا موقع دے دیا ہے وہ بھی اپنی نظر اور سوچ کو اپنی ذات کے محور سے نکالیں.پھر بعض لوگ اپنی رائے اور عقل کو سب سے بالا سمجھتے ہیں وہ بھی اس خول سے نکلیں.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں عقل رکھنے والے بھی بہت ہیں.علم رکھنے والے بھی بہت ہیں ، تقویٰ پر چلنے والے بھی بہت ہیں، تعلق باللہ والے بھی ہیں، اس لئے ہر خدمت گزار جس کو کسی بھی سطح پر خدمت کا موقع ملتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھتے ہوئے اور کامل اطاعت کے ساتھ اس خدمت کی برکات سے فیض اٹھا ئیں ورنہ اگر کوئی بھی عہدیدار کسی بھی سطح پر کھلے دل سے اور بغیر کوئی خیال دل میں لائے خلیفہ وقت کی اطاعت نہیں کرے گا تو اس کے عہدے کی حدود میں اس سے نیچے کام کرنے والے بھی اس کی اطاعت نہیں کریں گے.اور کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے اس لئے اللہ تعالیٰ ایک وقت تک ایسے لوگوں کو موقع دیتا ہے.جیسا کہ میں نے کہا خدمت کو اللہ کا فضل سمجھیں ، ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ ایسے لوگوں کی وہاں تک پردہ پوشی ہوتی ہے یا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی پردہ پوشی فرماتا ہے جب تک کہ ان کی خدمت جماعت کے مفاد میں رہے.یہاں میں خطبہ دے رہا ہوں اس لئے یہ واضح کر دوں کہ صرف یہاں نہیں بلکہ بعض دوسرے ملکوں میں بھی بعض عہد یدار اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں اور وہ بھی اپنے تکبر اور انانیت میں پڑے ہوئے ہیں.ان کو بھی اپنے خول سے باہر آنا چاہئے.کیونکہ یہی عادت بن چکی ہے کہ جہاں خطبہ دیا جارہا ہو، لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف وہی مخاطب ہیں.بلکہ جہاں جہاں بھی یہ بیماریاں یا برائیاں ہیں اور ہر جگہ کے وہ لوگ لوگوں کے خطوط کے ذریعہ سے میرے علم میں آتے رہتے ہیں، ہر اس جگہ پر جہاں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے ذہنوں میں خناس سمایا ہوا ہے ان کو اس سے باہر نکلنا چاہئے اور استغفار کرنی چاہیئے.دوسرے نیشنل امراء سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب کسی بھی قسم کی تحقیق کے لئے کمیشن بناتے ہیں تو تلاش کر کے تقوی شعار لوگوں کے سپرد یہ کام کیا کریں.یا اگر میرے پاس کسی کمیشن کے بنانے کی تجویز دی جاتی ہے تو ایسے لوگوں کے نام آیا کریں جو تقویٰ پر چلنے والے ہوں اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہوں اور اطاعت کے اعلیٰ معیار کے حامل ہوں.کسی بھی فریق سے ان کا کسی بھی قسم کا تعلق نہ ہو.اسی طرح امراء اور مرکزی عہدیداران کو بھی میں کہتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ جماعت کے تعاون اور اطاعت کے معیار بڑھیں تو خود خلیفہ وقت کے فیصلوں کی تعمیل اس طرح کریں جس طرح دل کی دھڑکن کے ساتھ نبض چلتی ہے.یہ معیار حاصل کریں گے تو پھر دیکھیں کہ ایک عام احمدی کس طرح اطاعت کرتا ہے کیونکہ ایک احمدی کے لئے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے اور اس یقین پر قائم ہے کہ اب یہ سلسلہ خلافت چلنا ہے انشاء اللہ اور جیسا کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ دائی اور ہمیشہ رہنے والا سلسلہ ہے ان لوگوں
127 سبیل الرشاد جلد چہارم کے لئے جو ایمان میں ترقی کرنے والے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کرنے والے ہوں گے ، تو احمدی کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد سب سے زیادہ اطاعت اولوالامر کے طور پر خلیفہ وقت کی اطاعت ہے.پھر مرتبے کے لحاظ سے ہر سطح پر جماعتی نظام کا ہر عہد یدار قابل اطاعت ہے.عہدیداران کسی کو تخفیف کی نظر سے نہ دیکھیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نظام اور اولوالامر کی اطاعت یہ معیار بنے گی تمہارے ایمان کی حالت کی اور اس بات کی کہ حقیقت میں تم یوم آخرت پر ایمان لانے والے ہو.اس یقین پر قائم ہو کہ مرنے کے بعد خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور وہاں یہ سوال بھی ہونا ہے کہ تم نے اپنی بیعت کے بعد اپنی اطاعت کے معیار کو کسی حد تک بڑھایا ہے.وہاں غلط بیانی ہو نہیں سکتی.کیونکہ جسم کے ہر عضو نے گواہی دینی ہے اور اس دن کسی کا کوئی عضو بھی اس کے اپنے کنٹرول میں نہیں ہوگا اس کی اپنی بات نہیں مانے گا بلکہ وہی کہے گا جو حق ہے، حقیقت ہے اور بیچ ہے.پس اگر آخرت پر یقین ہے اور بہتر انجام چاہتے ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ اولوالامر کے ہر حکم کو بھی مانو.اس کی کسی بات کو تخفیف کی نظر سے نہ دیکھو.کیسے ہی حالات ہوں اطاعت کا دامن کبھی نہ چھوڑو.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اس سے دنیاوی حاکم بھی مراد ہیں.ان کی اطاعت کرنا بھی فرض ہے اور سوائے اس کے کہ وہ کوئی غیر شرعی حکم دیں تم نے اطاعت کرنی ہے.تو یہ عمومی حکم ہر ایک کے لئے ہے.عہد یداروں کے لئے بھی ہے اور عام احمدی کے لئے بھی ہے.بلکہ اللہ اور رسول کی طرف لوٹنے کا حکم اس لئے ہے کہ اگر کوئی دنیاوی حاکم کوئی ایسا حکم دے جو غیر شرعی ہو تو اللہ اور رسول سے رہنمائی لو، قرآن اور سنت سے رہنمائی لو.جماعتی نظام میں تو تمہیں یہ حکم نہیں ملنا جو خلاف شریعت ہو.نہ خلیفہ وقت کی طرف سے شریعت کے خلاف کوئی حکم دیا جائے گا.دنیاوی حاکموں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : "اگر حاکم ظالم ہو تو اس کو برا نہ کہتے پھرو، بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو.خدا اس کو بدل دے گا یا اسی کو نیک کر دے گا.جو تکلیف آتی ہے وہ اپنی ہی بد عملیوں کے سبب آتی ہے.ورنہ مومن کے ساتھ خدا کا ستارہ ہوتا ہے.مومن کے لئے خدا تعالیٰ آپ سامان مہیا کر دیتا ہے.میری نصیحت یہی ہے کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو.خدا کے حقوق بھی تلف نہ کرو اور بندوں کے حقوق بھی تلف نہ کرو" الحکام جلد 5 نمبر 19 مورخہ 24 مئی 1901 صفحہ 9) تو ہر احمدی کو یہ سوچنا چاہئے کہ حکم عمومی طور پر ہر ایک کے لئے ہے.اس نے تو بہر حال اپنے نظام اور جو بھی عہدیدار ہے اس کی اطاعت کرنی ہے کیونکہ وہ خلیفہ وقت کا قائم کردہ نظام ہے.لیکن عہد یداروں کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ انہوں نے اگر اطاعت کے معیار بڑھانے ہیں تو خود بھی اطاعت کے اعلیٰ نمونے قائم
سبیل الرشاد جلد چہارم 128 پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: " اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر بچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے.مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے.اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے" اپنی جو نفسانی خواہشات ، انائیں، جھوٹی عزتیں ہیں ان کو اطاعت کے لئے ذبح کرنا پڑتا ہے.ہر سطح پر ہر احمدی کو ایک عام احمدی سے لے کر ( عام تو نہیں بلکہ ہر احمدی خاص ہے کیونکہ اس نے زمانے کے امام کو مانا ہے، عام سے میری مراد یہ ہے کہ ایک احمدی جو عہد یدار نہیں ہے، اس سے لے کر ) بڑی سے بڑی سطح کے عہد یدار تک ، ہر ایک کو اپنی نفس کی خواہشات کو کچلنا ہوگا.اور وہ اسی وقت پتہ لگتا ہے جب اپنے خلاف کوئی بات ہو.جہاں تک دوسروں کے معاملات آتے ہیں، ہر ایک بڑھ بڑھ کر اپنی سچائی ظاہر کرنے کے لئے گواہیاں دے رہا ہوتا ہے.لیکن جہاں اپنا معاملہ آجائے یا اپنے بچوں کا معاملہ آجائے وہاں جھوٹ کو بنیاد بنالیا جاتا ہے.فرمایا کہ: " اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے.بڑ وں اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی".اگر یہ نفس کو ذبح نہیں کرتے تو اس کے بغیر اطاعت ہی نہیں کرتے " اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے".بڑے بڑے جو دعویٰ کرنے والے ہیں کہ ہم عبادت کرنے والے ہیں اور ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں اور اللہ کو ایک جاننے والے ہیں اور اس کا تقویٰ ہمارے دل میں ہے، خوف ہے.جب اپنے معاملے آتے ہیں جیسا کہ میں نے کہا تو پھر یہ سب چیزیں نکل جاتی ہیں.پھر نفس بت بن کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے.پس دیکھیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ اپنے نفس کی انا کو دبانا بہت مشکل ہے.پس اگر اللہ کی رضا حاصل کرنی ہے تو صرف زبانی نعروں سے یہ رضا حاصل نہیں ہوگی کہ ہم ایک خدا کو ماننے والے ہیں اور اس کی عبادت کرنے والے ہیں بلکہ امام الزمان ، اس کے خلیفہ اور اس کے نظام کے آگے یوں سر ڈالنا ہوگا کہ انانیت کی ذراسی بھی ملونی نظر نہ آئے، کچھ بھی رمق باقی نہ رہے.ورنہ تو یہ انانیت کے بُت اس نظام کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے بلکہ پھر یہ خلیفہ وقت کے مقابلے پہ بھی کھڑے ہو جاتے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے بھی کھڑے ہو جاتے ہیں.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے پر بھی کھڑے ہو جاتے ہیں.وہاں سے بھی اطاعت سے باہر نکل جاتے ہیں ، پھر اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر بھی کھڑے ہو جاتے ہیں.اور وہی شخص جو یہ خیال کر رہا ہوتا ہے کہ میں سب سے بڑا
129 سبیل الرشاد جلد چہارم موحد ہوں، خدا کی عبادت کرنے والا ہوں ، شرک کرنے والوں میں شامل ہو جاتا ہے.اللہ کرے کہ ہر احمدی اس شرک سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے والا ہو.اللہ سے مدد مانگتے ہوئے اپنے نفس کی خواہشات اور اناؤں کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور وہ نمونے قائم کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی جماعت میں قائم کرنا چاہتے ہیں.آپ فرماتے ہیں: " یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم، قوم نہیں کہلاسکتی اور ان میں ملیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے".فرمایا کہ اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ نے حکم دیا ہے.اب اللہ اور رسول کی اطاعت کے بعد اولوالامر کی اطاعت ہے اور اولوالامر میں نظام جماعت کا ہر شخص شامل ہے.ایک احمدی بھی جو عہدیدار نہیں ہے اور وہ بھی جو عہدیدار ہے.ہر عہدیدار اپنے سے بالا عہد یدار کی اطاعت کرے.ہر احمدی ہر عہد یدار کی اطاعت کرے.فرمایا کہ: "اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے.اس میں یہی تو ستر ہے.یہی ایک راز ہے، یہی اصل بات ہے اور یہی جڑ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو حید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے".66 الحکم جلد 5 نمبر 5 مورخہ 10 فروری 1901ء) پس یہ اطاعت کے معیار ہیں جو ایک احمدی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اسی سے توحید کا قیام ہونا ہے.پس اس کے لئے ہر احمدی کو ، ہر مرد کو، ہر عہدیدار کو، ہر ممبر جماعت کو ، ہر مربی اور مبلغ کو کوشش کرنی چاہئے تا کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے توحید کے قیام کا جو کام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے سپر دفرمایا ہے اس کو ہم آگے سے آگے لے جاسکیں.انشاء اللہ.عہد یداران اپنے جائزے لیں پس جیسا کہ میں نے کہا سب سے پہلے اس کے لئے عہدیدار یا کوئی بھی شخص جس کے سپر د کوئی بھی خدمت کی گئی ہے اپنا جائزہ لے اور اطاعت کے نمونے قائم کرے کیونکہ جب تک کام کرنے والوں میں اطاعت کے اعلیٰ معیار پیدا کرنے کی روح پیدا نہیں ہوگی، افراد جماعت میں وہ روح پیدا نہیں ہو سکتی.پس ہر لیول پر جو عہد یدار ہیں چاہے وہ مقامی عاملہ کے ممبر یا صدر جماعت ہیں، ریجنل امیر ہیں یا مرکزی عاملہ کے ممبر یا امیر جماعت ہیں اپنی سوچ کو اس سطح پر لائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقررفرمائی ہے کہ اپنی ، اپنے نفس کی خواہشات کو، اناؤں کو ذبح کرو.اور جب یہ مقام حاصل ہوگا تو پھر دل اللہ تعالیٰ کے نور
سبیل الرشاد جلد چہارم 130 سے بھر جائے گا اور روح کو حقیقی خوشی اور لذت حاصل ہوگی ایسا مومن جو کام بھی کرے گا وہ یہ سوچ کر کرے گا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کر رہا ہے اور یہی ایک مومن کا مقصد ہونا چاہئے.ذیلی تنظیمیں ، اپنے ممبران کی تربیت کریں پس جہاں جماعتی عہدیداران یہ روح اپنے قول و فعل سے جماعت میں پیدا کرنے کی کوشش کریں وہاں مربیان اور مبلغین کا بھی کام ہے کہ اپنے قول و فعل کے اعلیٰ نمونے قائم کرتے ہوئے جماعت کی اس نہج پر تربیت کریں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام چاہتے ہیں.ذیلی تنظیمیں اپنی اپنی مجالس میں اس طریق پر اپنی متعلقہ تنظیموں کے ممبران کی تربیت کریں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش ہے.اور جب اطفال اور ناصرات کے لیول سے یہ تربیتی اُٹھان ہورہی ہوگی تو بہت سے معاشرتی اور اخلاقی مسائل جو اس معاشرے میں پیدا ہورہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دا سے دور ہور ہے ہوں ہمارے بچے معاشرے کے غلط اثرات سے بیچ رہے ہوں گے.اس وجہ سے گھروں کا امن اور سکون پہلے سے بڑھ کر قائم ہو رہا ہوگا.پس اس اطاعت کے معیار کو بڑھانے کے لئے ہر سطح پر کوشش کریں، ہر سطح پر ، ہر عہدیدار اپنے سے بالا عہد یدار کی اطاعت کرے.احباب جماعت اپنے عہدیداران کی اطاعت کریں اور سب مل کر خلافت سے بچے تعلق اور اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھا ئیں.....عہدیداران کی باتیں طبیعت پر گراں گزرتی ہیں گے.جیسا کہ میں نے جو آیت تلاوت کی تھی اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اطاعت کرنے والوں کا ہی انجام اچھا ہے.بہت سے لوگ لکھتے ہیں کہ دعا کریں کہ انجام بخیر ہو، تو انجام بخیر کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک بہت اہم راستہ ہمیں دکھا دیا ہے کہ اللہ اور رسول اور اولوالامر کی اطاعت کرو اور اپنے اوپر یہ لازم کر لوتو اللہ تم پر رحم فرماتے ہوئے پھر تمہارا انجام بخیر کرے گا.اس بارہ میں کہ کس حد تک ہمیں اطاعت کرنی چاہئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے امیر کی اطاعت ، میری اطاعت ہے اور میری اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور میرے امیر کی نافرمانی میری نافرمانی ہے اور میری نافرمانی خدا تعالیٰ کی نافرمانی ہے.تو اس حد تک اطاعت کا حکم ہے.اس کو ہر احمدی کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے کیونکہ یہی ہماری بنیاد ہے، یہی ہماری اساس ہے اور اس کے بغیر جماعت کا تصور ہی نہیں ہے.ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ : اَطِيْعُوا اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (آل عمران: 133) کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم رحم کئے جاؤ تو اللہ تعالیٰ کا یہ رحم حاصل کرنے کے لئے اس
131 سبیل الرشاد جلد چہارم کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرنی ہوگی.وہ اطاعت جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے حدیث میں آتا ہے کہ امیر کی اطاعت کرو گے تو میری اطاعت کرو گے اور میری اطاعت کرو گے تو خدا کی اطاعت کرو گے.پس اللہ تعالیٰ کا یہ رحم حاصل کرنے کی ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے.اطاعت جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ آسان کام نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے کے لئے اطاعت کے دائرے میں ہی ایک احمدی نے رہنا ہے.بہت سی باتیں عہد یداران یا امراء کی طرف سے ایسی ہوتی ہیں جو طبیعت پر گراں گزرتی ہیں.لیکن جماعت کے وقار اور اپنی عاقبت کے لئے ان کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور اس صبر کا ثواب بھی ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے حاکم سے نا پسندیدہ بات دیکھے وہ صبر کرے کیونکہ جو نظام سے بالشت بھر جدا ہوا اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی.( بخاری کتاب الاحکام باب اسمع والطاعة الامام مالم تكن معصية ) پس اس جاہلیت کی موت سے بچنے کے لئے اور اللہ تعالیٰ کا رحم حاصل کرنے کے لئے اطاعت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو جہالت سے بچاتے ہوئے ہدایت پر قائم رکھے.اللہ ہر احمدی کو تو فیق دے کہ وہ جماعت کے وقار اور تقدس کی خاطر اپنی اناؤں کو ختم کرتے ہوئے اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والا ہو، نہ کہ اپنے آپ کو جماعت سے کاٹ کر جاہلیت کی موت مرنے والا ہو.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ہر ایک پہ اپنا فضل فرمائے.آمین خطبات مسر در جلد 4 صفحہ 277-287) نمائندگان شوریٰ میں سے ایک خاصی تعداد عہد یداران کی ہوتی ہے.انہیں اپنی عاملہ کی مدد سے تعمیل کروانی چاہئے نیز عہد یداران کو عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی تلقین حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 24 مارچ 2006ءکو فرمایا: " اب میں نمائندگان سے بھی چند باتیں کہنا چاہتا ہوں.شوری کی نمائندگی ایک سال کے لئے ہوتی ہے.یعنی جب شوری کا نمائندہ منتخب کیا جاتا ہے تو اس کی نمائندگی اگلی شوری تک چلتی ہے جب تک نیا انتخاب نہیں ہو جاتا.صرف تین دن یا دو دن کے اجلاس کے لئے نہیں ہوتی.شوری کے نمائندگان کے بعض کام مستقل نوعیت کے اور عہدیداران جماعت کے معاون کی حیثیت سے کرنے والے ہوتے ہیں اس لئے مستقلاً
132 سبیل الرشاد جلد چہارم اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.تو جیسا کہ میں نے کہا جماعت کو اپنے نمائندے ایسے لوگوں کو چننا چاہئے جوان کے نزدیک ایک تو سمجھ بوجھ رکھنے والے ہوں.ہر میدان میں ہر ایک ماہر نہیں ہوتا، کوئی کسی معاملے میں زیادہ صائب رائے رکھنے والا ہوتا ہے یا مشورہ دے سکتا ہے، کوئی کسی معاملے میں.دوسری اہم بات یہ ہے کہ عبادت گزار ہونا چاہئے اور حقیقی عبادت گزار ہمیشہ تقویٰ پر قدم مارنے والا ہوتا ہے.کیونکہ وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کرے.اور جہاں قرآن اور سنت کے مطابق واضح ہدایات نہ ملتی ہوں وہاں وہ اپنی سمجھ اور علم کو خدا سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کہنے کا یہ مطلب ہے کہ جب نمائندگان کو افراد جماعت اس حسن ظنی کے ساتھ منتخب کرتے ہیں تو جو نمائندگان شوری ہیں ان پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.وہ ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنی اس ذمہ داری کو ادا کریں.ہمیشہ یادرکھیں کہ جماعت کے افراد نے آپ پر حسن ظن رکھتے ہوئے قرآن کریم کے حکم کے مطابق عمل کرتے ہوئے آپ کو منتخب کیا ہے کہ تُؤدُّوا الْامَنتِ إِلَى أَهْلِهَا (النساء:59) که امانتیں ان کے اہل کے سپر د کرو.خدا کرے کہ اکثریت نمائندگان جو وہاں شوریٰ میں آئے ہوئے ہیں ان کا انتخاب اسی سوچ کے ساتھ ہوا ہو اور کسی خویش پروری یا ذاتی پسند کی وجہ سے نہ ہوا ہو.لیکن اگر بالفرض بعض ایسے نمائندگان بھی آگئے ہیں جو ذاتی تعلق کی وجہ سے منتخب ہوئے ہیں تو میں امید رکھتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے نمائندگان کو سمجھ بوجھ کے ساتھ تقویٰ پر چلتے ہوئے مشورے دینے والا بنائے اور کبھی مجھے ایسے مشیر نہ ملیں جو دنیا کی ملونی اپنے اندر رکھتے ہوئے مشورے دینے والے ہوں.تو میں کہہ یہ رہا تھا کہ اگر بعض نمائندگان اس معیار کو مدنظر رکھے بغیر بھی چنے گئے ہیں وہ بھی اب میری یہ بات سن کر استغفار کرتے ہوئے اپنے آپ کو تقویٰ پر چلاتے ہوئے اس امانت کی ادائیگی کا اہل بنانے کی کوشش کریں.یہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے اس لئے اس پر چلتے ہوئے اگر آپ عمل کریں گے تو اپنی ذات کو بھی فائدہ پہنچارہے ہوں گے.پس ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ایک امانت ہے جس کی ادائیگی کا آپ کو حق ادا کرنا ہے.اس نمائندگی کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں کہ تین دن کے لئے ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں کچھ باتیں سن لیں کچھ دوستوں سے مل لئے اور بس، صرف اتنا کام نہیں ہے، ان کا بڑا وسیع کام ہے.پھر نمائندگان یہ بھی یاد رکھیں کہ جب مجلس شوری کسی رائے پر پہنچ جاتی ہے اور خلیفہ وقت سے منظوری حاصل کرنے کے بعد اس فیصلے کو جماعتوں میں عملدرآمد کرنے کے لئے بھجوا دیا جاتا ہے.تو یہ نمائندگان کا بھی فرض ہے کہ اس بات کی نگرانی کریں اور اس پر نظر رکھیں کہ اس فیصلے پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا اور اس طریق کے مطابق ہو رہا ہے جو طریق وضع کر کے خلیفہ وقت سے اس کی منظوری حاصل کی گئی تھی.یا
133 سبیل الرشاد جلد چہارم بعض جماعتوں میں جا کر بعض فیصلے عہدیداران کی مستیوں یا مصلحتوں کا شکار ہورہے ہیں.اگر تو ایسی صورت ہے تو ہر نمائندہ شوریٰ اپنے علاقے میں ذمہ دار ہے کہ اس پر عملدرآمد کروانے کی کوشش کرے اپنے عہد یداران کو توجہ دلائے ، جیسا کہ میں نے کہا کہ ان کے معاون کی حیثیت سے کام کرے.ایک کافی بڑی تعداد عہدیداران کی نمائندہ شوریٰ بھی ہوتی ہے.وہ اگر کسی فیصلے پر عمل ہوتا نہیں دیکھتے تو اپنی عاملہ میں اس معاملے کو پیش کر کے اس پر توجہ دلائیں.نمائندگان شوریٰ چاہے وہ انتظامی عہدیدار ہیں یا عہدیدار نہیں ہیں اگر اس سوچ کے ساتھ کئے گئے فیصلوں کی نگرانی نہیں کرتے اور وقتا فوقتا مجلس عاملہ میں نتائج کے حاصل ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ نہیں لیتے تو ایسے نمائندگان اپنا حق امانت ادا نہیں کر رہے ہوتے.اور اگر یہاں اس دنیا میں یا نظام جماعت کے سامنے، خلیفہ وقت کے سامنے اگر بہانے بنا کر بچ بھی جائیں گے تو اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگ ضرور پوچھے جائیں گے جو اپنی امانتوں کا حق ادا نہیں کرتے.پس اس اعزاز کو کسی تفاخر کا ذریعہ نہ سمجھیں.بلکہ یہ ایک ذمہ داری ہے اور بہت بڑی ذمہ داری ہے.اگر با وجود توجہ دلانے کے پھر بھی مجلس عاملہ یا عہدیداران توجہ نہیں دیتے اور اپنے دوسرے پروگراموں کو زیادہ اہمیت دی جارہی ہے اور شوریٰ کے فیصلوں کو درازوں میں بند کیا ہوا ہے، فائلوں میں رکھا ہوا ہے تو پھر نمائندگان شوریٰ کا یہ کام ہے کہ مجھے اطلاع دیں.اگر مجھے اطلاع نہیں دیتے تو پھر بھی امانت کا حق ادا کر نے والے نہیں ہیں، بلکہ اس وجہ سے مجرم بھی ہیں.جب بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ کسی وجہ سے، کسی رنجش کی بناپر کوئی فرد جماعت اگر کوئی خط لکھتا ہے تو پھر جب بات سامنے آتی ہے اور جب بعض کاموں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، یاتحقیق کی جاتی ہے تو پھر یہی عہدیداران اور نمائندگان نمبی لمبی کہانیوں کا ایک دفتر کھول دیتے ہیں.امانت کی ادائیگی کا تقاضا تو یہ تھا کہ جب کوئی غلط بات یاستی دیکھی تو فورا اطلاع کی جاتی.اور اگر مقامی سطح پر یہ باتیں حل نہیں ہو رہی تھیں تو اس وقت آپ باتیں پہنچاتے.جماعت کی ترقی کی رفتار تیز کرنے کا یہ ایک مسلسل عمل ہے.بعض لوگ اس خوف سے کہ ہم پر ذمہ داری نہ آ پڑے ذمہ داری سے بچنے کے لئے خاموشی سے بیٹھے رہتے ہیں.تو اگر اپنا جائزہ لینے کی ، اپنا محاسبہ کر نے کی ہر عہد یدار کو ہر نمائندہ شوری کو عادت ہوگی اور یہ خیال ہوگا کہ مجھ پر اعتماد کرتے ہوئے خلیفہ وقت کو مشورہ دینے کے لئے چنا گیا ہے اور پھر تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے مشورہ دینے کے بعد میری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ میں یہ جائزہ لیتا رہوں کہ کس حد تک ان فیصلوں پر عمل ہوا ہے یا ہو رہا ہے تو مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے کاموں میں ایک واضح تبدیلی پیدا ہوگی.جیسا کہ میں نے کہا یہ ایک مسلسل عمل ہے کام کرنے کا اور جائزے لیتے رہنے کا تبھی ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے.اور جماعتوں میں ایک واضح بیداری پیدا ہوگی اور نظر آ رہی ہوگی.
134 سبیل الرشاد جلد چہارم اب اس دفعہ بھی پاکستان کی شوریٰ میں پیش کرنے کے لئے جماعتوں نے بعض تجویز میں رکھیں اور یہ دوسرے ملکوں میں بھی ہوتا ہے لیکن ان تجویزوں کو انجمن یا ملکی مجلس عاملہ شوریٰ میں پیش کرنے کی سفارش نہیں کرتی کہ یہ تجویز گزشتہ سال یا دو سال پہلے شوری میں پیش ہو چکی ہے اور حسب قواعد تجویز تین سال سے پہلے شوریٰ میں پیش نہیں ہو سکتی.تو اس تجویز کے آنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کم از کم اس جماعت میں جس کی طرف سے یہ تجویز آئی ہے وہاں اس فیصلے پر جو ایک سال یا دو سال پہلے ہوا تھا ، شوری نے کیا تھا اور پھر منظوری لی تھی ، اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا.اور یہ بات واضح طور پر اس جماعت کے عہدیداران اور نمائندگان شوری کی سستی اور نا اہلی ثابت کرتی ہے.اور یہ واضح ثبوت ہے اس بات کا کہ خود ہی کسی کام کو کرنے کے بارے میں ایک رائے قائم کر کے اور پھر اس پر آخری فیصلہ خلیفہ وقت سے لینے کے بعد اس فیصلے کو جماعت نے کوئی اہمیت نہیں دی.یہ ستی صرف اس لئے ہے کہ جس طرح ان معاملات کا پیچھا کرنا چاہئے ، مرکز نے بھی پیچھا نہیں کیا ، نظارتوں نے بھی پیچھا نہیں کیا یا ملی سطح پر مکی عاملہ پیچھا نہیں کرتی.ترجیحات اور اور رہیں.اس طرح مرکزی عہدیداران بھی جب یہ توجہ نہیں دے رہے ہوتے تو وہ بھی اپنی امانت کا حق ادا نہیں کر رہے ہوتے.اس کے لئے مرکزی عہدیداران کو بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اور مقامی جماعت کے عہد یداران اور نمائندگان شوری کو بھی اپنا محاسبہ کرنا ہو گا اور جائزہ لینا ہوگا اور وجوہات تلاش کرنی ہوں گی کہ کیوں سال دو سال پہلے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ملکی انتظامیہ کی طرف سے یا انجمنوں کی طرف سے اس بنا پر کہ تھوڑا عرصہ پہلے کوئی تجویز پیش ہو چکی ہے ، پیش نہ کئے جانے کی سفارش آتی ہے.ٹھیک ہے شوریٰ میں پیش تو نہ ہو لیکن اپنے جائزے اور محاسبہ کے لئے کچھ وقت ان تجاویز کی جگالی کے لئے ضروری ہے.یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا وجہ ہے کہ عملدرآمد نہیں ہوا.اگر تو 70-80 فیصد جماعتوں میں عمل ہو رہا ہے اور 20-30 فیصد جماعتوں میں نہیں ہو رہا تو پھر تو جائزے کی ضرورت نہیں ہے.لیکن اگر 70-80 فیصد جماعتوں میں گزشتہ فیصلوں پر عمل نہیں ہو رہا ہے تو لمحہ فکریہ ہے.اس طرح تو اعلیٰ مقاصد حاصل نہیں کئے جاتے.تو میں سمجھتا ہوں کہ شوری میں اس کے لئے بھی مخصوص وقت ہونا چاہئے تا کہ دیکھا جائے اپنا جائزہ لیا جائے.یہ ٹھیک ہے کہ کج بحثی نا پسندیدہ فعل ہے لیکن بحث سے بچنے کے لئے ، اپنے جائزے لینے کے لئے ، آنکھیں بند کر لینا بھی اس سے زیادہ ناپسندیدہ فعل ہے.اس جائزہ میں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جن جماعتوں نے خاص کوشش کی ہے زیادہ اچھا کام کیا ہے ان کا طریقہ کا ر کیا تھا.انہوں نے کس طرح اس پر عملدرآمد کروایا.اس طرح پھر جب ڈسکشن (Discussion) ہوگی تو پھر دوسری جماعتوں کو بھی اپنی کارکردگی بہتر کرنے کا موقع مل جائے گا.لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے اس کا رروائی یا بحث میں بعض
سبیل الرشاد جلد چہارم 135 دفعہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی ذات پر تبصرے شروع ہو جاتے ہیں.کسی کی ذات پر تبصرہ نہیں کرنا بلکہ صرف شعبے کا جائزہ ہو.اس فیصلے پر جس پر پوری طرح عمل نہیں ہو رہا، اس کا جائزہ لیا جائے کہ کہاں کمیاں ہیں اور کیوں کمیاں ہیں.بہر حال ہمیں کوئی ایسا طریق وضع کرنا ہوگا جس سے قدم آگے بڑھنے والے ہوں.یہ نہیں ہے کہ ایک فیصلہ کیا اور تین سال اس پر عمل نہ کیا یا اتنا کم عمل کیا کہ نہ ہونے کے برابر ہو،اکثر جماعتوں نے سنتی دکھائی اور پھر تین سال کے بعد وہی معاملہ دوبارہ اس میں پیش کر دیا کہ شوریٰ اس کے لئے لائحہ عمل تجویز کرے.تو یہ تو ایک قدم آگے بڑھانے اور تین قدم پیچھے چلنے والی بات ہوگی.پھر شوری کے نمائندگان اور عہدیداران کو چاہے وہ مقامی جماعتوں کے ہوں یا مرکزی انجمنوں کے ہوں ایک بات یہ بھی یادر کھنی چاہئے کہ جماعت کی نظر میں آپ جماعت کا ایک بہترین حصہ ہیں جن کے سپر د جماعت کی خدمت کا کام کیا گیا ہے.اور آپ لوگوں سے یہ امید اور توقع کی جاتی ہے کہ آپ کا معیار ہر لحاظ سے بہت اونچا ہوگا اور ہونا چاہئے.چاہے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ہو، عبادت کرنے کی طرف توجہ دینے کے بارے میں ہو، یا بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں ہو یا خلیفہ وقت سے تعلق اور اطاعت کے بارے میں ہو.اس لئے نمائندگان اور عہدیداران کو اس لحاظ سے بھی اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ وہ کس حد تک اپنی عبادتوں کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں.جیسا کہ میں بتا آیا ہوں کہ عبادت ایک بنیادی چیز ہے جس کو نمائندگی دیتے ہوئے مدنظر رکھنا چاہئے اور ایک عام مسلمان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ عبادت گزار ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس دین میں عبادت نہیں وہ دین ہی نہیں ہے.( الترغيب والترهيب جلد نمبر اول حدیث نمبر 820 الترهيب من ترک الصلوة تعمد او اخراجها طبع اول 1994 دار الحدیث قاہرہ) تو ایک عام احمدی کے لئے جب نمازوں کی ادائیگی فرض ہے تو عہد یدار جو ہر لحاظ سے افراد جماعت کے لئے نمونہ ہونا چاہئیں ان کے لئے تو خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی کوئی نماز بغیر جماعت کے نہ ہو سوائے کسی اشد مجبوری کے.پس ہمیشہ یادرکھیں کہ یہ جو دو تین دن شوری کے لئے آتے ہیں اور آئے ہیں، ان میں صرف یہی نہیں کہ ان دنوں میں ہی یہیں نمازیں پڑھنی ہیں اور دعاؤں کی طرف توجہ دینی ہے بلکہ ہر نمائندے کو، ہر عہد یدار کو، با قاعدہ نماز با جماعت کا عادی ہونا چاہئے.خود اپنے جائزے لیں، اپنا محاسبہ کریں، دین کی سر بلندی کی خاطر آپ کے سپرد بعض ذمہ داریاں کی گئی ہیں.اگر ان میں دین کے بنیادی ستون کی طرف ہی توجہ نہیں ہے تو خدمت کیا کریں گے اور مشورے کیا دیں گے.جو دل عبادتوں سے خالی ہیں ان کے مشورے بھی تقویٰ کی بنیاد پر نہیں ہو سکتے.پھر بندوں کے حقوق ہیں.نمائندگان اور عہدیداران کو اپنے دلوں کو ہر قسم کی برائیوں اور رنجشوں
136 سبیل الرشاد جلد چہارم سے پاک کرنا ہو گا، لین دین کے معاملے میں بھی ان کے ہاتھ بالکل صاف ہونے چاہئیں.ہمسایوں کے حقوق کے بارے میں بھی ان کے ہاتھ بالکل صاف ہونے چاہئیں.ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمسائے سے حسن سلوک کا خدا تعالیٰ کا حکم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس کی یہاں تک تاکید فرمائی ہے کہ صحابہ کو خیال ہوا کہ شاید یہ ہمارے ورثہ میں حصہ دار بننے والے ہیں " (خطبات مسر و رجلد 4 صفحہ 160-164 ) انصار اللہ وصیت کا چندہ ادا کرنے کے بعد ذیلی تنظیم کا چندہ بھی دیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 31 مارچ 2006ء کو فر مایا." جو چندے کے معاملے میں سستیاں دکھانے والے ہیں وہ اپنے جائزے لیں اور جو جماعتی عہد یدار نئے شامل ہونے والوں کو اس کی اہمیت سے آگاہ نہیں کرتے وہ بھی ذمہ دار ہیں.پس جہاں دین کی نصرت کے لئے آسمان پر شور ہے وہاں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے.ان ذمہ داریوں کو بھی ہمیں نبھانا ہوگا.اور ہم ہلاکت سے اس صورت میں بیچ سکتے ہیں جب أَحْسِنُوا پرعمل کرتے ہوئے اپنے فرائض عمدگی سے ادا کرنے والے ہوں اور اس کے نتیجہ میں خدا کی رضا حاصل کرنے والے ہوں....پس یہ نمونے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کے نظارے ہمیں دکھاتے ہیں، وہاں اُن سست لوگوں کو بھی توجہ کرنی چاہئے ، ان کو بھی توجہ دلانے والے بننے چاہئیں جو حیلوں بہانوں سے چندوں میں کمی کی درخواستیں کرتے ہیں.تو ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ وہ مالدار ہونے کی طمع رکھتے ہیں ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح پیسہ اکٹھا ہو جائے.یہ چند لوگ ان برکتوں میں نہ شامل ہو کر جو اس قربانی کی وجہ سے ملی ہے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والے ہوتے ہیں.اللہ سب احمدیوں کو عقل دے اور اس بخل سے محفوظ رکھے.....چندوں کے بارہ میں بعض جماعتوں کے بعض استفسار ہوتے ہیں جو بعض لوگوں کی طرف سے ہوتے ہیں جن کے بارے میں سمجھتا ہوں کہ وضاحت کر دوں.ایک تو یہ کہ آج کل وصیت کی طرف بہت توجہ ہے.اور وصیت کی طرف توجہ تو ہوگئی ہے لیکن تربیت کی کافی کمی ہے.اس لئے بعض موصیان یہ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ ہم نے وصیت کی ہوئی ہے اس لئے ہم صرف وصیت کا چندہ دیں گے باقی ذیلی تنظیموں کے چندے یا مختلف تحریکات کے چندے ہم پر لاگو نہیں ہوتے.تو یہ واضح ہو، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ اگر تو حالات ایسے ہوں کہ تمام چندے نہ دے سکتے ہوں تو اس کی اجازت لے لیں.ورنہ توقع ایک موصی سے یہ کی
137 سبیل الرشاد جلد چہارم جاتی ہے کہ ایک موصی کا معیار قربانی دوسروں کی نسبت، غیر موصی کی نسبت زیادہ ہونا چاہئے.تو اگر وصیت کا صرف کم سے کم 1/10 حصہ سے دے کر باقی چندے نہیں دے رہے تو ہوسکتا ہے.غیر موصی دوسرے چندے شامل کر کے موصیان سے زیادہ قربانی کر رہے ہوں.تو اس لحاظ سے واضح کر دوں کہ کوئی بھی چندہ دینے والا ، چاہے وہ موصی ہے یا غیر موصی ہے اگر توفیق ہے تو تمام تحریکات میں چندے دینے چاہئیں کیونکہ ہر تحریک اپنی اپنی ضرورت کے لحاظ سے بڑی اہم ہے پھر ایک اور بات ہے جس کی طرف میں عرصہ سے توجہ دلا رہا ہوں کہ نومبائعین کو مالی نظام میں شامل کریں.یہ جماعتوں کے عہدیداروں کا کام ہے.جب نو مبائعین مالی نظام میں شامل ہو جائیں گے تو جماعتوں کے یہ شکوے بھی دور ہو جائیں گے کہ نو مبائعین سے ہمارے رابطے نہیں رہے.یہ رابطے پھر ہمیشہ قائم رہنے والے رابطے بن جائیں گے اور یہ چیز ان کے تربیت اور ان کے تقویٰ کے معیار بھی اونچے کرنے والی ہو گی.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ قرآن کریم میں مالی قربانیوں کے بارے میں بے شمار ہدایات ہیں.تو اللہ تعالیٰ جو بھی فضل فرماتا ہے ان کو اس میں بھی شامل کرنا چاہیئے " (خطبات مسرور جلد 4 صفحہ 172-175 ) انصار کے بچے نماز یں اور قرآن پڑھنے والے ہوں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 7 اپریل 2006ء کو مسجد طہ سنگا پور میں اراکین مجلس عاملہ انصار اللہ سنگا پور سے ان کا جائزہ لیتے ہوئے صدر صاحب انصار اللہ سے انصار کی تجنید کے بارہ میں دریافت فرمایا اور نائب صدر صف دوم کے بارہ میں تفصیل سے سمجھایا کہ کتنی عمر تک کے انصار صف دوم میں شامل ہیں اور نائب صدر صف دوم کتنی عمر تک کا منتخب ہوتا ہے.حضور انور نے فرمایا کہ 55 سال کی عمر تک کے انصار صف اول میں چلے جاتے ہیں.نائب صدر صف دوم کو فرمایا کہ صف دوم کے انصار کے پروگرام بنا ئیں.پیدل سیر کرنی چاہئے.سائیکلنگ بھی ہو.ان کے لئے کھیلوں کے پروگرام بھی ہوں.قائد مال سے حضور انور نے انصار کے بجٹ اور ان کے چندوں کے معیار کا جائزہ لیا اور اس بات کا جائزہ بھی لیا کہ انصار اللہ کے چندے کا حصہ مرکز ، مرکز کو ادا ہوتا ہے.قائد صحت جسمانی سے حضور انور نے انصار کے کھیلوں کے پروگرام کے بارہ میں دریافت فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ انصار کے لئے کھیلوں کے پروگرام ہونے چاہئیں.قائد تبلیغ (اصلاح وارشاد ) کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ نیشنل مجلس علاقہ سنگا پور کی میٹنگ میں سیکرٹری تبلیغ کو یہاں کے خاص حالات و قوانین کے مد نظر تبلیغ کے بارہ میں جو ہدایات دی ہیں ان کے مطابق
سبیل الرشاد جلد چهارم 138 آپ بھی کام کریں اور اپنی تبلیغی منصوبہ بندی کریں.قائد تعلیم و تربیت سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ انصار اللہ کی اپنی تربیت کے لئے اور ان کے بچوں کی تربیت کے بارہ میں کیا پروگرام بنایا ہے.حضور انور نے فرمایا کہ آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ انصار کو توجہ دلائی کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت کریں.ان کے بچے نمازیں پڑھنے والے ہوں ،قرآن کریم کی تلاوت کریں اور وقت ضائع نہ کریں.شعبہ تعلیم کے لحاظ سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا امتحان لیتے ہیں؟ حضور نے ہدایت فرمائی کہ حضرت مسیح موعود کی کتب میں سے کوئی حصہ مقرر کر لیں اور پھر اس کا با قاعدہ تمام انصار سے امتحان لیں.قائد عمومی سے حضور انور نے ان کے شعبہ کے تعلق میں کام کا جائزہ لیا اور ہدایت فرمائی کہ ماہانہ رپورٹ با قاعدگی سے بھجوایا کریں.قائد اشاعت سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا انصار اللہ کا کوئی رسالہ یا بلیٹن وغیرہ ہے.حضور انور نے انہیں ہدایت دی کہ اپنے کام کو آرگنا ئز کریں.(الفضل انٹر نیشنل 28 اپریل 2006ء ) جماعتی و ذیلی تنظیموں کا نظام فعال اور مستعد ہو تو جماعت کئی گنا ترقی کرتی ہے م مشرقی بعید کے دورہ 2006ء کے دوران اراکین نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمد یہ انڈونیشیا کی میٹنگ حضور انور کے ساتھ 8 اپریل کو ہوئی.گو یہ میٹنگ نیشنل مجلس عاملہ کی تھی تاہم حضور نے اس دوران مجلس انصار اللہ کے حوالہ سے فرمایا.حضرت مصلح موعودؓ نے ذیلی تنظیموں کے قیام کا جو مقصد بیان فرمایا تھا اس کا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے ذکر فرمایا.حضور انور نے فرمایا کہ اگر جماعت کا نظام کمزور ہو اور ذیلی تنظیمیں یا کوئی بھی ایک ذیلی تنظیم فعال ہو تو جماعت ترقی کرتی رہتی ہے.اگر ذیلی تنظیمیں مستعد اور فعال نہ ہوں لیکن جماعتی نظام Active ہو تو تب بھی جماعت آہستہ آہستہ آگے بڑھتی رہتی ہے.لیکن اگر جماعتی نظام بھی فعال ہو اور ذیلی تنظیمیں بھی فعال مستعد اور منظم ہوں تو پھر جماعت کئی گنا تیزی سے ترقی کرتی ہے اور جماعت کا قدم غیر معمولی طور پر آگے بڑھتا ہے.سیکرٹری صاحب مال کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہدایت فرمائی کہ آپ نیشنل سیکرٹری مال ہیں آپ صرف اپنی جماعتوں کے سیکرٹریان مال کے ذریعہ چندہ اکٹھا کروا سکتے ہیں.قائد مال یا خدام ولجنہ
سبیل الرشاد جلد چہارم 139 کے سیکرٹریان مال کے ذریعہ چندہ اکٹھا نہیں کروا سکتے.وہ صرف اپنی تنظیموں کا چندہ اکٹھا کریں گے.حضور انور نے فرمایا کہ ذیلی تنظیمیں براہ راست خلیفتہ امیج کے ماتحت ہیں اور ان کی رپورٹس براہ راست مجھے آتی ہیں.میں ان کی رپورٹس دیکھتا ہوں اور ان پر اپنے ریمارکس دیتا ہوں.صدر صاحب مجلس انصاراللہ کو ہدایت حضور انور نے فرمایا کہ آپ بھی تربیت کا پروگرام بنائیں.اگر انصار اللہ مساجد میں پچاس فیصد حاضر ہورہے ہیں تو مزید کوشش سے یہ تعداد %75 تک بڑھ سکتی ہے.اگر زیادہ انصار آئیں گے تو جوانوں کے لئے مثال بنیں گے.(الفضل انٹرنیشنل 5 مئی 2006ء) ذیلی تنظیموں کے عہدیداران وصیت کے مبارک نظام میں شامل ہوں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سڈنی آسٹریلیا میں 14 اپریل 2006ء کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا.اب میں سمجھتا ہوں 100 سال کے بعد بیرون ہندوستان کے پہلے موصی کے ملک میں یہ میرا دورہ ہے اور اس سے پہلے میں وصیت کرنے کی تحریک بھی کر چکا ہوں.یہاں آنے سے پہلے مجھے علم بھی نہیں تھا کہ یہاں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نظام وصیت کا پہلا پھل آج سے 100 سال پہلے لگ چکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں یہ پھل لگا اور آج سے پورے 100 سال پہلے ایک ایسا کامیاب پھل تھا جس کی اللہ تعالیٰ نے تسلی بھی کروائی کہ تمہارا انجام بھی بخیر ہوگا.تو کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ بیرون پاکستان اور ہندوستان نظام وصیت کی طرف توجہ اس ملک کے احمدیوں کو اس لحاظ سے بھی خاص طور پر کرنی چاہئے کہ وہ ایک شخص تھا یا چند ایک اشخاص تھے جو یہاں رہتے تھے ان میں سے ایک نے لبیک کہتے ہوئے فوری طور پر وصیت کے نظام میں شمولیت اختیار کی.آج آپ کی تعداد سیکڑوں، ہزاروں میں ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل بھی بہت زیادہ ہیں اور 100 سال بعد اور تقریباً اس تاریخ کو 100 سال بھی پورے ہو چکے ہیں اس لئے اس لحاظ سے آپ لوگوں کو جو کمانے والے لوگ ہیں جو اچھے حالات میں رہنے والے لوگ ہیں ان کو اس نظام میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے.اور سب سے پہلے عہدیداران اپنا جائزہ لیں اور امیر صاحب بھی اس بات کا جائزہ لیں کہ 100 فیصد جماعتی عہد یداران اس نظام میں شامل ہوں ، چاہے وہ مرکزی عہدیداران ہوں یا مرکزی ذیلی تنظیموں کے عہدیداران ہوں یا مقامی جماعتوں کے عہد یداران ہوں یا مقامی ذیلی تنظیموں کے عہدیداران ہوں.گو کہ اللہ کے فضل سے مجھے بتایا گیا کہ یہاں موصیان کی تعداد کافی اچھی ہے لیکن حضرت صوفی صاحب کے حالات پڑھ کر جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ
140 سبیل الرشاد جلد چہارم میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ یہاں کا ہر احمدی موصی ہو اور تقویٰ پر قدم مارنے والا ہو.یہ ایسا بابرکت نظام ہے جو دلوں کو پاک کرنے والا نظام ہے.اس میں شامل ہو کے انسان اپنے اندر تبدیلیاں محسوس کرتا ہے.اب سالومن آئی لینڈز (Soloman Islands) میں وہاں کے ایک نئے احمدی ہیں، انہوں نے بھی وصیت کی ہے تو جس طرح نئے آنے والے اخلاص و وفا میں بڑھ رہے ہیں اور انشاء اللہ بڑھیں گے ان لوگوں کو دیکھ کر آپ لوگوں کو بھی فکر ہونی چاہئے کہ کہیں یہ پرانے احمدیوں کو پیچھے نہ چھوڑ جائیں" (خطبات مسرور جلد 4 صفحہ 195 ) دیہاتوں میں دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دیں نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ آسٹریلیا کے ساتھ میٹنگ میں مؤرخہ 17 اپریل 2006ء بروز سوموار مسجد بیت الہدیٰ میں حضور انور قائد عمومی سے مجالس کی تعداد اور انصار کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا.حضور انور نے انصار کی تعداد کے لحاظ سے سب سے چھوٹی مجلس اور سب سے بڑی مجلس کے بارہ میں دریافت فرمایا.حضور انور نے فرمایا آپ کی آٹھ مجالس ہیں جبکہ لجنہ کی بارہ مجالس ہیں.آپ بھی اپنے حالات دیکھ لیں.زیادہ حلقے بنانے ہوں تو بنائے جاسکتے ہیں.حضور انور نے دریافت فرمایا.کتنی مجالس آپ کو رپورٹ بھجواتی ہیں اور کتنی نہیں بھجواتی ؟ فرمایا جو نہیں بھجواتیں ان کو یاد دہانی کرواتے رہا کریں اور کوشش کریں کہ تمام مجالس آپ کو اپنی ماہانہ رپورٹس بھجوائیں اور آپ اپنی ماہانہ رپورٹس با قاعدگی سے مجھے بھجوائیں.نا ئب صد رصف دوم سے حضور انور نے صف دوم کے انصار کی تعداد اور ان کے لئے پروگراموں کے بارہ میں دریافت فرمایا.حضور انور نے فرمایا ان کے لئے کھیلوں کے پروگرام کے علاوہ سیر کا پروگرام بھی ہونا چاہئے.سائیکلنگ ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو کھلی جگہ دی ہے.یہاں آپ اپنے پروگرام بنا سکتے ہیں.باقی مجالس اپنے ہاں پروگرامز آرگنائز کرسکتی ہیں.حضور انور نے فرمایا خدمت خلق کے پروگرام بھی بنا ئیں.نائب صدر صف دوم نے اپنی رپورٹ دیتے ہوئے بتایا کہ ہم ریڈ کر اس کے ساتھ مل کر پروگرام بناتے ہیں.ریڈ کر اس کے ادارہ کی طرف سے ہم اپنے اس علاقہ کے نگران ہیں اور خدام کے ساتھ مل کر رفاہ عامہ کے کام کرتے ہیں.حضور انور نے فرمایا ہیومینٹی فرسٹ یہاں رجسٹرڈ ہے اس کے تحت بھی خدمت کا کام ہو سکتا ہے.قائد صحت جسمانی سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کھیلوں کے پروگراموں کے بارہ میں دریافت فرمایا.میراتھن واک کے بارہ میں حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ اس کیلئے ایسے علاقہ کا انتخاب کریں
141 سبیل الرشاد جلد چہارم جہاں لوگ جماعت کو جانتے نہیں.مختلف علاقوں سے انصار اس جگہ پہنچ جائیں.اس سے اس علاقہ میں جماعت کا تعارف ہوگا اور نئے رابطے قائم ہوں گے.تبلیغ کے لئے راستے کھلیں گے.آپ کی خدمت کے کاموں سے لوگ آپ کو جان جائیں گے.ایسے پروگراموں کی طرف توجہ دیں.فرمایا کہ اس میراتھن واک کے ذریعہ جو چیریٹی (charity) ، فنڈز اکٹھے ہوں وہ اس علاقہ کے لوکل اداروں اور آر گنائزیشن کو بھی دیں.چیرٹی کے طور پر کچھ نہ کچھ ضرور دینا چاہئے.کچھ ہیومینٹی فرسٹ (Humanity First) کو دے دیں.فرمایا با قاعدہ ایک تقریب کا انتظام کر کے جس میں اخباری نمائندے وغیرہ بھی شامل ہوں یہ فنڈ مختلف چیرٹی اداروں کو دینے چاہئیں.قائد تجنید سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ انصار کی جو تجنید ہے کیا آپ کو اس پر تسلی ہے کہ یہ تجنید ہر لحاظ سے مکمل ہے.فرمایا آپ کی تجنید ہر لحاظ سے مکمل ہونی چاہئے.آڈیٹر کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو مجلس انصار اللہ کے جملہ اخراجات کا آڈٹ کرنا چاہئے.اجتماع کے اخراجات جو علیحدہ ہوتے ہیں اس کا بھی آڈٹ ہونا چاہئے.قائد تبلیغ سے حضور انور نے گزشتہ سالوں میں ہونے والی بیعتوں کا جائزہ لیا اور ہدایت فرمائی کہ اپنی مجالس کو کہیں کہ صرف شہروں میں بک سٹال لگانے سے اور سنڈے مارکیٹوں میں جا کر لٹریچر تقسیم کرنے سے کام نہیں ہوگا بلکہ تیمیں بنا کر شہروں سے باہر کے علاقوں میں جائیں.چھوٹی جگہوں میں جائیں اور وہاں پیغام پہنچا ئیں اور ذاتی رابطے قائم کریں.حضور انور نے فرمایا: بڑی آبادیوں کے ساتھ چھوٹی آبادیاں بھی ہوتی ہیں ان سے رابطے کریں.اس طرح کچھ نہ کچھ احمدیت کے بارہ میں ڈسکشن (Discussion) ہو جاتی ہے.زبان بھی بہتر ہوتی ہے اور رابطے اور تعلق قائم ہوتے ہیں.بڑے شہروں میں دنیا دار زیادہ ہوتے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے بتا دیا کہ دینی جماعتوں کو غریب لوگ زیادہ قبول کرتے ہیں تو آپ غریب علاقوں میں تبلیغ شروع کریں.بڑے شہروں میں تعارف ہونا ضروری ہے وہ ہوتا رہے.حضورانور نے فرمایا : پھر مختلف قوموں سے لوگ آکر آباد ہیں مختلف طبقات ہیں ،عرب بھی ہیں، انڈونیشین بھی ہیں ان میں نفوذ کریں.ہر جگہ جا کر رابطے نکالنے ہوں گے.حضور انور نے فرمایا : آپ جو بک سٹال لگاتے ہیں تو ایک طبقہ نہ تو بک سٹال پر آتا ہے اور نہ نمائشوں میں آتا ہے اور نہ مارکیٹوں میں آتا ہے اس لئے اگر آپ ٹیمیں بنا کر مختلف علاقوں میں جا کر کام نہیں کریں گے تو پھر بریک تھرو (Break Through) نہیں ہو گا.اپنے روایتی کام بے شک جاری رکھیں لیکن ہر جماعت میں ٹیمیں بنا کر کام کریں.
سبیل الرشاد جلد چہارم 142 حضور انور نے فرمایا: عربوں کو عربی لیسٹس کے پروگرام دیں.MTA کے ذریعہ تعارف کروائیں.پھر یہاں کیبل نیٹ ورک کا جائزہ لیں اور وہاں MTA متعارف کروائیں.قائد وقف جدید سے حضور انور نے چندہ وقف جدید میں شامل ہونے والے انصار کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا اور ہدایت دی کہ جو انصار باقی رہ گئے ہیں ان کو بھی شامل کریں.سب انصار کو شامل ہونا چاہیئے خواہ حسب توفیق تھوڑا سا چندہ بطور ٹوکن دیں لیکن سب انصار کو شامل ہونا چاہئے.قائد ایثار کو ہدایات دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ اولڈ پیپل ہاؤس تلاش کریں.وہاں جائیں اور آپس میں بیٹھیں ، باتیں کریں.اس آخری عمر میں مرنے سے قبل بھی کوئی احمدی ہو جائے تو عاقبت سنور جاتی ہے.حضور انور نے فرمایا: ہسپتالوں میں بھی جائیں.مریضوں کے لئے پھل ، پھول وغیرہ ساتھ لے جائیں.اس طرح جہاں خدمت کے کام ہوں گے وہاں تبلیغ بھی ہو جاتی ہے.قائد تربیت سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ اس سال کے لئے آپ نے کیا پروگرام بنایا ہے.جس پر قائد تربیت نے بتایا کہ ترتیل القرآن کلاس جاری ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ قائد تربیت کا کام نہیں.قائد تعلیم القرآن کا کام ہے.حضور انور نے فرمایا کہ آپ کو یہ جائزہ لینا چاہئے کہ کتنے انصار پانچوں نمازیں باجماعت پڑھتے ہیں.انصار آگے اپنے بچوں کی تربیت کس طرح کر رہے ہیں.بچوں کی نمازیں اور ان کی قرآن کریم کی تلاوت پر نظر رکھنا انصار کا کام ہے.حضور انور نے فرمایا ہر قائد کا کام ہے کہ اپنے اپنے شعبہ کا پروگرام بنا ئیں ، عاملہ میں ڈسکس کریں اور پھر اس پر عمل کروائیں.حضور انور نے فرمایا انصار کو کہیں کہ بچوں سے حسن سلوک کریں ، بیویوں سے بھی حسن سلوک کریں.بچیوں کے پردہ کا خیال رکھیں.حضور انور نے قائد عمومی کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ مجالس سے آنے والی جور پورٹس ہیں ہر قائد کو اس کے شعبہ کی رپورٹ جانی چاہئے تا کہ وہ اس پر اپنا تبصرہ کر کے بھجوائیں اور مجالس میں اپنے شعبہ کو Active کریں اور انہیں بتائیں کہ یہ یہ کام ہونے والے ہیں جو نہیں ہوئے.قائد تعلیم القرآن نے اپنے شعبہ کی رپورٹ دیتے ہوئے بتایا کہ ہفتہ وار قرآن کریم کی کلاسز جاری ہیں.اس وقت تر تیل پر زور ہے تا کہ انصار درست اور صحیح تلفظ کے ساتھ قرآن کریم پڑھ سکیں.حضور انور نے فرمایا جن کو بالکل پڑھنا نہیں آتا تو ان کو ناظرہ پڑھا دیں.قائد تعلیم سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا کورس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب مقرر کی ہے جس کا سال کے آخر پر امتحان لینا ہو.حضور انور نے فرمایا کہ کوئی کتاب مقررکریں اور سال
143 سبیل الرشاد جلد چہارم کے آخر پر امتحان لیں.بے شک کتاب کو دیکھ کر ہی امتحان دیں.اس طرح انصار کو عادت ڈالیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی.حضور انور نے فرمایا باقی سلیس جو آپ نے بنایا ہے وہ نے آنے والوں کے لئے ہے اور ان کے لئے ہے جو دنیا داری میں پڑے ہوئے ہیں.قائد تحریک جدید سے حضور انور نے چندہ میں شامل انصار کا جائزہ لینے کے بعد ہدایت فرمائی کہ جو انصار باقی رہ گئے ہیں ان کو بھی شامل کریں.قائد مال سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انصار کے بجٹ اور چندہ دینے والے انصار کی تعداد اور ان کے فی کس چندہ کے معیار کا تفصیل سے جائزہ لیا.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ بعض انصار بہت اچھا کمانے والے ہیں اور بعض کی آمد بہت کم ہے.یہ آمد میں جو فرق ہے اس حساب سے ان سے اپنا چندہ لیں.آپ نے دونوں کو ایک ہی سٹیج پر رکھا ہوا ہے حالانکہ دونوں کی آمد میں غیر معمولی فرق ہے.حضور انور نے فرمایا ابھی جو طریق چل رہا ہے اس کے مطابق کریں پھر مجلس شوری میں ڈسکس کر کے اپنی رپورٹ بھجوائیں.قائد اشاعت کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ مجلس انصار اللہ کا اپنا ماہانہ بلیٹن ہونا چاہئے خواہ دو چار ورق کا ہی نکال لیں.اس میں انصار اللہ کی مساعی درج ہو.انصار کے مختلف تربیتی تعلیمی پروگرام ہیں ان کا ذکر ہو.کوئی کتاب مقرر ہے تو اس کا ذکر ہو کہ اس کا امتحان ہوگا.مختلف پروگراموں کی اطلاع ہو.انصار کے لئے اعلانات وغیرہ ہوں انصار کے لئے نصائح اور ہدایات ہوں.اس طرح انصار کی دلچسپی کے لئے سامان پیدا کر دیا کریں.الفضل انٹر نیشنل 26 مئی 2006ء) انصار اللہ کی تنظیم اس امر کا جائزہ لے کہ شکوہ کر نیوالے کیوں پیدا ہوتے ہیں ذیلی تنظیموں کو احباب کی عملی اصلاح کے لئے پلانٹنگ کرنی چاہئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 21 اپریل 2006ء میں فرمایا: " حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے کسی کو برا بھلا کہہ دیا تو جس کو بُرا بھلا کہا جاتا ہے وہ اس قدر غصے میں آجاتا ہے کہ مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتا ہے.جس طرح اس نے ساری زندگی برائی کی نہ ہو.فرمایا کہ اگر ہر کوئی اپنی برائیوں پر نظر رکھے تو کسی کے کچھ کہنے پر بھی غصے میں نہ آئے اور صبر اور برداشت سے کام لے.اور جب ہر کوئی صبر اور برداشت سے کام لے گا تو بہت سے چھوٹے چھوٹے مسائل اور گلے شکوے پیدا ہی نہیں ہوں گے یا پیدا ہوتے ہی ختم ہو جائیں گے.ایک بزرگ کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ وہ بازار میں جارہے تھے تو ایک شخص نے ان کو برا بھلا
سبیل الرشاد جلد چہارم 144 کہنا شروع کیا اور کوئی دنیا کا عیب یا برائی نہیں تھی جو اس نے نہ نکالی ہو یا ان کو نہ کہی ہو.وہ چپ کر کے یہ ساری باتیں سنتے رہے تو برا بھلا کہنے والا شخص جب خاموش ہو گیا تو ان بزرگ نے کہا کہ اگر تو یہ تمام برائیاں جو تم نے مجھ میں گنوائی ہیں واقعی میرے اندر موجود ہیں تو میں بھی اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں تم بھی میرے لئے مغفرت کی دعا کرو.وہ گالیاں نکالنے والا شخص بے قرار ہو کر اس بزرگ سے چمٹ گیا اور کہا کہ میں غلط ہوں.یہ برائیاں آپ میں نہیں ہیں.تو ان بزرگ نے کہا کہ پھر اللہ تعالیٰ تم سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے.تو یہ طریق ہیں بات کو ختم کرنے اور نیکیوں کو پھیلانے کے ورنہ ایسے لوگ جو جھگڑے کر کے جماعت کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں کاٹے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے واضح طور پر فرمایا ہے.پس اگر غلطیاں سرزد ہو جائیں تو صرف نظر سے کام لینا چاہئے.اور اگر کوئی حد سے تجاوز کر گیا ہے برداشت سے باہر ہو چکا ہے اور اس میں جماعت کی بدنامی کا بھی امکان ہے تو پھر متعلقہ بڑے نظام کو، نظام جماعت کو یا خلیفہ وقت کو اطلاع دے کر پھر خاموش ہو جانا چاہئے.دوسروں کو غیروں کو یا کسی بھی تیسرے شخص کو یہ احساس کبھی پیدا نہ ہو کہ فلاں شخص یا فلاں فلاں عہد یدار ایک دوسرے کے خلاف بغض وعنادر کھتے ہیں.غلطیاں ہر ایک سے ہوتی ہیں.آج زید سے غلطی ہوئی ہے تو کل بکر سے بھی ہو سکتی ہے اس لئے کینے دلوں میں رکھتے ہوئے کبھی کسی بات کے پیچھے نہیں پڑ جانا چاہئے.ہر ایک میں کئی خوبیاں اور اچھائیاں بھی ہوتی ہیں وہ تلاش کرنے کی کوشش کریں.یہی چیز ہے جس سے محبت اور پیار کی فضا پیدا ہوگی.پس ہر ایک کو اپنے نمونے قائم کرنے کی ضرورت ہے چاہے وہ عہدیدار ہے یا عام احمدی ہے، مرد ہے یا عورت ہے.اپنے اعلیٰ اخلاق کے نمونے قائم کریں.جب غیر معمولی مثالی نمونے ہر جگہ قائم ہوں گے تو جماعت کی تبلیغی لحاظ سے بھی ترقی ہوگی اور تربیتی لحاظ سے بھی ترقی کرے گی.آئندہ نسلیں بھی احمدیت کی تعلیم پر حقیقی معنوں میں قائم ہونے والی پیدا ہوں گی بلکہ یہ نسلیں جماعت کا ایک قیمتی اثاثہ بنیں گی.زبان ایک ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے محبتیں بھی پنپتی ہیں اور قتل و غارت بھی ہوتی ہے.اس کا صحیح استعمال بھی انتہائی ضروری ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص کے سوال پر اسلام کی یہ خوبی بیان فرمائی کہ وہ لایعنی باتوں کو چھوڑ دے.بلا مقصد کی بے تکی باتوں کو چھوڑ دے ایسی باتوں کو چھوڑ دے، جن سے دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث بنیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اعلیٰ اخلاق کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک اپنے اخلاق دکھائے ہیں کہ بعض وقت ایک بیٹے کے لحاظ سے جو سچا مسلمان ہے، منافق کا جنازہ پڑھ دیا ہے بلکہ اپنا مبارک کر تہ بھی دے دیا ہے.فرمایا کہ اخلاق کا درست کرنا بڑا مشکل کام ہے.جب تک انسان اپنا مطالعہ نہ کرتار ہے اپنے آپ کو نہ دیکھتا رہے، یہ اصلاح
145 سبیل الرشاد جلد چہارم نہیں ہوتی.زبان کی بد اخلاقیاں دشمنی ڈال دیتی ہیں.اس لئے اپنی زبان کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہئے.دیکھو کوئی شخص ایسے شخص کے ساتھ دشمنی نہیں کر سکتا جس کو وہ اپن خیر خواہ مجھتا ہے.پھر وہ شخص کیسا بے وقوف ہے جو اپنے نفس پر بھی رحم نہیں کرتا اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے جبکہ وہ اپنے قولی سے عمدہ کام نہیں لیتا اور اخلاقی قوتوں کی تربیت نہیں کرتا.ہر شخص کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہئے " ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 262 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) اور یہی گر ہے جس کو اگر ہر فردا پنا لے تو جماعت کی ایک امتیازی شان قائم ہو سکتی ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : "جس کے اخلاق اچھے نہیں ہیں.مجھے اس کے ایمان کا خطرہ ہے کیونکہ اس میں تکبر کی ایک جڑ ہے.اگر خدا راضی نہ ہوتو گویا یہ برباد ہو گیا.پس جب اس کی اپنی اخلاقی حالت کا یہ حال ہے تو اسے دوسرے کو کہنے کا کیا حق ہے!" ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 590 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک بہت اعلیٰ مقصد کے لئے مبعوث فرمایا تھا.آپ کی شرائط بیعت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے اور اعلیٰ اخلاق کے نمونے قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.پس ہر احمدی جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شمار کرتا ہے اس پر یہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے کیونکہ یہ عہد آپ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے کر رہے ہیں.جس عہد کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ عہد بیعت میں ہم نے کیا ہے.ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے دوسروں کو بھی کہنے کا ہمیں کیا حق ہے.پس جیسے کہ میں نے پہلے کہا تھا تبلیغی میدان میں ترقی کرنے کے لئے بھی اپنی عملی حالتوں کو درست کرنا انتہائی ضروری ہے.حضرت مسیح موعود نے یہی فرمایا ہے کہ اگر تم خود اپنی اخلاقی حالتوں کو درست نہیں کر رہے تو دوسروں کو تم کیا کہو گے.پس اس حوالے سے دوسری بات جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں، اپنی عملی حالتوں کو درست کرتے ہوئے خدائے رحمن کا بندہ بنتے ہوئے اس کے اس خوبصورت اور حسین پیغام کو جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا اور جس کے پھیلانے کا کام اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے سپر د کیا ہے اس کو ملک میں پھیلائیں یہ اپنے جائزے لیں، دیکھیں ، کہاں کہاں کمیاں ہیں، کہاں کمزوریاں ہیں ان کو پورا کرتے ہوئے اس کام کو بھی سنجیدگی سے سرانجام دینے کی کوشش کریں.اس میں ابھی بھی بہت بڑا خلا باقی ہے.جماعتی نظام بھی اور ذیلی تنظیموں کا نظام بھی اس بارے
146 سبیل الرشاد جلد چہارم میں پلاننگ کریں.صرف روایتی بک سٹال یا صرف عشرہ تبلیغ منانے سے مقصد حاصل نہیں ہو سکتے.صرف اتنا کام ہی کا میابی نہیں دلائے گا اس کے لئے مزید پلانٹنگ بھی کرنی ہوگی.انفرادی رابطے ہیں اور دوسری چیزیں ہیں.مختلف قوموں کے بارے میں جو یہاں آباد ہیں معلومات جمع کر کے پھر ان میں تبلیغ کے نئے ذرائع تلاش کریں ، ہر طبقے کے پاس پہنچنے کی کوشش کریں اور پھر قائم شدہ رابطوں کو ہمیشہ قائم رکھیں ، ان کے ساتھ مسلسل تعلق اور رابطہ رکھیں.اس ضمن میں یہ بھی بات کہنی چاہتا ہوں کہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے بلکہ چند ایک جواحمدی ہوئے ہیں ان کی شکایت بھی ہے کہ یہاں اکثریت کیونکہ پاکستانیوں کی ہے یہ ہمیں اپنے اندر جذب نہیں کرتے.اجلاس وغیرہ میں بھی ایسی زبان ہونی چاہئے کہ جو یہاں کی زبان ہے یعنی انگریزی میں کارروائی ہو، تا کہ جو یہاں جزائر سے آئے ہوئے احمدی ہیں وہ بھی سمجھ سکیں.گواکثر کو اردو بھی آتی ہے لیکن انگریزی میں زیادہ آسانی ہے.یہاں کے رہنے والے بھی ہیں جو بچے یہاں پلے بڑھے ہیں ان کو بھی انگریزی زبان زیادہ سمجھ آجاتی ہے.سوائے چند ایک بڑی بوڑھیوں کے یا بوڑھوں کے یا ان پڑھوں کے، جن کو سمجھ نہیں آتی ان کیلئے ترجمے کا انتظام ہوسکتا ہے.یا مختصرا اُردو میں کوئی پروگرام ہوسکتا ہے.تو بہر حال غیر پاکستانی احمدیوں کے یہ شکوے دور ہونے چاہئیں کہ ہم یہاں آ کر یوں محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم جماعت کا حصہ نہیں ہیں یہ بہت خطرناک صورت ہو سکتی ہے.ان نئے آنے والوں سے کام بھی لیں ، ان کے شکوے دور کریں.میں نے جائزہ لیا ہے، ان نئے آنے والوں کیلئے بعض سے میں نے یہ پوچھا ہے یہ کس حد تک صحیح ہے، بہر حال مجھے ان سے جو معلومات ملی ہیں یہی ہیں کہ یہاں ان کو با قاعدہ کوئی سکھانے کا انتظام نہیں ہے.عورتوں کیلئے دینی تربیت کا، تعلیم کا انتظام لجنہ کرے.مردوں کے لئے ذیلی تنظیمیں انتظام کریں، مجموعی طور پر جماعت جائزہ لے.اگر اس سلسلے میں ذیلی تنظیمیں پوری طرح فعال نہیں تو جماعتی نظام کے تحت انتظام ہو اور نگرانی ہو.اور جو ذیلی تنظیمیں سست ہیں ان کے بارے میں مجھے اطلاع بھی دیں.تو جب اس طرح کام کریں گے تبھی ہر احمدی کو جماعت کا فعال حصہ بنا ئیں گے.جیسا کہ میں پہلے بھی کہ چکا ہوں بعض فجین احمدیوں کو بھی شکوہ ہے کہ بعض دفعہ یہاں آکر وہ اپنے آپ کو اوپر امحسوس کرتے ہیں.تو ان سے میں کہتا ہوں اس کا ایک یہ بھی علاج ہے.وہ احمدی ہوئے ہیں انہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے اور سمجھا ہے وہ اپنے آپ کو اتنا زیادہ جماعتی کاموں میں لگائیں کہ انتظامیہ ان سے کام لینے پر مجبور ہو.تبلیغ کا بہت بڑا میدان خالی پڑا ہے.ہر احمدی کے
147 سبیل الرشاد جلد چہارم لئے کھلا ہے.اس میں آگے بڑھیں ذاتی رابطے کر کے اور طریقے اپنا کر تبلیغ کا کام کریں.اس کام کو زیادہ سے زیادہ وسعت دیں.مردوں میں تو میں نے دیکھا ہے اللہ کے فضل سے نو جوانوں میں دوسری قوموں کے بھی کافی لڑکے کام کرنے والے ہیں.بعض عورتوں اور بڑی عمر کے لوگوں کو اور عورتوں کو خاص طور پر چاہئے اپنی استعدادوں کے مطابق اور اپنے دائرے کے مطابق تبلیغ کے میدان میں آگے آئیں.بہر حال انصار اللہ کی تنظیم اور لجنہ اماءاللہ کی تنظیم اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم ان سب کو جائزے لینے چاہئیں کہ کیوں یہ شکوے پیدا ہوتے ہیں.چاہے وہ دو چار کی طرف سے ہی ہوں.لیکن شکوے رکھنے والے بے چینی پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں.انصار اللہ کے صدر بھی شاید نجفی کے رہنے والے ہیں.وہ آسانی سے اپنے لوگوں کی نفسیات دیکھ کر پروگرام بنا سکتے ہیں.لجنہ کو بھی جائزے لینے کی ضرورت ہے.غیر پاکستانی احمدیوں کی یا ایسے نوجوان پاکستانیوں کی جو لمبے عرصہ سے ملک سے باہر ہیں اور ان کا معاشرہ بالکل بدل چکا ہے ان کی فہرست بنائیں اور پھر دیکھیں کہ ان کو کس طرح جماعت کا فعال حصہ بنایا جا سکتا ہے.اپنی کوشش کریں تا کہ ان کے شکوے دور ہو جائیں.بہر حال اس کیلئے جس طرح میں پہلے کہہ چکا ہوں دونوں طرف سے دلوں کو کھو لنے اور بلند حو صلے دکھانے کی ضرورت ہے.ہر طبقے کو اپنے تقویٰ کے معیار کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ اس کے بغیر وہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکتے جس کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا.ہر ایک کو یا درکھنا چاہئے کہ جماعت کا ایک نظام ہے اور یہ خلیفہ وقت کے ماتحت ہے اسلئے نظام کی اطاعت بھی فرض ہے.اللہ تعالیٰ ہر ایک کو تقویٰ پر چلتے ہوئے جہاں رحمن خدا سے تعلق جوڑنے کی توفیق دے وہاں اللہ تعالیٰ اخلاق کے نمونے دکھانے اور اطاعت نظام کا پابند بنے کی بھی توفیق دے.اور آج سے آپ لوگوں میں وہ روح پیدا کر دے جس کا اثر ہر دیکھنے والے کو آپ میں نظر آئے.اور آپ لوگ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کو جلد از جلد اس ملک کی اکثریت میں پھیلانے والے ثابت ہوں.آمین" خطبات مسرور جلد 4 صفحہ 204-208)
سبیل الرشاد جلد چہارم 148 جہاں جماعت قائم نہیں وہاں مجلس انصار اللہ قائم ہو سکتی ہے اراکین نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ نبی کی میٹنگ مؤرخہ 30 اپریل 2006ء بروز اتوار حضور انور کے ساتھ مسجد فضل عمرصودا میں ہوئی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے باری باری تمام قائدین سے ان کے کام کی رپورٹ طلب فرمائی اور جائزہ لیا اور ہدایات سے نوازا.قائد عمومی سے حضور انور نے مجالس کے بارہ میں دریافت فرمایا اور جماعت اور مجلس کا فرق سمجھایا.حضور انور نے ہدایت فرمائی جن دونئی جگہوں پر انصار موجود ہیں وہاں بھی اپنی مجلس قائم کریں.فرمایا انصار اللہ کی ذیلی تنظیم کو کسی جگہ اپنی مجلس قائم کرنے کے لئے وہاں جماعت کا قائم ہونا ضروری نہیں ہے.اگر کسی علاقہ میں جماعت قائم نہیں اور آپ اپنی مجلس قائم کرنا چاہتے ہیں تو کر سکتے ہیں.اسی طرح اگر کسی علاقہ میں ایک جماعت ہے تو آپ اپنی سہولت کے لئے اس ایک جماعت میں دو تین یا زائد مجالس حسب ضرورت قائم کر سکتے ہیں.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جو مجالس آپ کو رپورٹ بھجوانے میں فعال (Active) نہیں ہیں.ان کو بار بار یاد دہانی کروائیں اور Active کریں.حضور انور نے صدر مجلس انصار اللہ کو ہدایت فرمائی کہ جب صدر مجلس انصار اللہ کو اپنی منظوری حاصل ہوتی ہے تو اسے جلد مجلس عاملہ نامزد کر کے منظوری حاصل کرنی چاہئے اور مجالس میں زعماء کا انتخاب کر کے اس کی منظوری صدر مجلس کو خود دینی چاہئے.حضور انور نے ایک معاملہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی بھی مجلس کا زعیم نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ کا ممبر نہیں ہوتا.حضور انور نے فرمایا جب تک نئے زعیم اور اس کی عاملہ چارج نہ لے تو پہلے زعیم اور اس کی عاملہ کام کرتی رہتی ہے.اس طرح کہیں بھی کام میں روک نہیں آتی اور خلاء پیدا نہیں ہوتا.حضور انور نے قائد عمومی کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ آپ کی ڈیوٹی ہے کہ ہر ماہ کی رپورٹ تیار کریں اور صدر مجلس کے دستخط کروا کر مجھے بھجوائیں.اگر کوئی کام نہیں ہوا تو رپورٹ میں یہ ذکر ہونا چاہئے کہ کوئی کام نہیں ہوا.رپورٹ بہر حال آنی چاہئے.نا ئب صد رصف دوم سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ صف دوم کے انصار کے لئے کیا پروگرام بنایا ہے.حضور انور نے فرمایا اگر کام کرنے کا ارادہ ہو تو انسان خود رستے نکالتا ہے.تمام مصروفیات اور کام ہونے کے باوجود یہ ارادہ ہوتا ہے کہ میں نے جماعت کے لئے کام کرنا ہے.حضور انور نے فرمایا کہ صف دوم کے انصار کو فعال (Active) رکھنے کے لئے ان کے پروگرام بنائیں.سیر کے پروگرام ہوں ، سائیکل چلائیں اور کھیلوں کے پروگرام ہوں.حضور انور نے مجلس عاملہ کے تمام قائدین کو ہدایت فرمائی کہ سارے قائدین اپنی اپنی سکیم بنائیں.پھر
149 سبیل الرشاد جلد چہارم یہ سکیم مجلس عاملہ سے منظور ہو.اس کے بعد ہر قائد اپنی سکیم پر عملدرآمد کروائے.یہ اس کی ذمہ داری ہے.قائد ذہانت وصحت جسمانی کوحضور انور نے ہدایت فرمائی کہ اپنی سکیم بنا کر مجلس عاملہ میں ڈسکس کریں اور کام کریں.قائد تعلیم کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جن انصار کو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں آتا ان کو قرآن مجید کا ترجمہ سکھائیں.نماز سکھائیں، نماز کا ترجمہ سکھائیں.دعا ئیں سکھائیں، احادیث سکھائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب پڑھنے کے لئے دیں اور سال کے آخر پر اس کا امتحان لیں.انصار بے شک کتاب دیکھ کر امتحان دیں.فرمایا انصار کو جماعت کی بنیادی تعلیم کا پتہ ہونا چاہئے.کئی لوگوں کو جماعت کی بنیادی تعلیم کا علم ہی نہیں ہے.حضور انور نے فرمایا مجالس سے صدر مجلس، قائد عمومی اور ہر قائد کا رابطہ رہنا چاہئے.حضور انور نے فرمایا کہ قائد تعلیم کا یہ کام ہے کہ وہ جائزہ لے کہ انصار کو نماز آتی ہے یا نہیں.کتنوں نے نماز یا اس کا ترجمہ یاد کر لیا ہے.کتنے روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں.کتنے انصار ایسے ہیں جو اپنے گھروں سے بچوں کو نماز کے لئے لاتے ہیں اور ان کے بچے قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور وہ با قاعدہ اس معاملہ میں اپنے بچوں کی نگرانی کرتے ہیں اور اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ باہر پھر کر اپنا وقت ضائع تو نہیں کر رہے.اپنے سکول کی پڑھائی کر رہے ہیں اور دینی تربیت حاصل کر رہے ہیں.بچوں کی نگرانی کرنا بھی باپ کا کام ہے.قائد مال سے حضور انور نے ان کے بجٹ کے بارہ میں دریافت فرمایا اور انصار کی آمد اور فی کس چندہ کے معیار کے بارہ میں دریافت فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ آپ کے چندہ میں جو مرکز کا حصہ ہے وہ با قاعدہ مرکزی ریز روفنڈ میں جمع ہونا چاہئے.قائد تجنید سے حضور انور نے انصار کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا اور فرمایا کیا آپ کی جو تجنید ہے آپ اس سے مطمئن ہیں.قائد دعوت الی اللہ کے پروگراموں کا حضور انور نے تفصیل سے جائزہ لیا اور ہدایت فرمائی کہ اپنے ساتھ کوئی اسسٹنٹ لگائیں.دعوت الی اللہ نہیں ہو رہی.آپ کو تو سارا آئی لینڈ احمدی کر لینا چاہئے.دعوت الی اللہ کے لئے رابطے کریں، ذاتی تعلقات بڑھائیں.ہر مذہب کو اس کے مطابق لٹریچر دیں.حضور انور نے فرمایا کہ نئے احمدی بہت کم ہوئے ہیں.پرانے احمدیوں کے بچے آگے بڑھے ہیں.آپ نئے احمدی بھی بنائیں.حضور انور نے فرمایا آپ نے دعوت الی اللہ کے لئے جو لٹریچر تیار کیا ہے وہ لوگوں تک بھی پہنچنا چاہئے.پھر اس کا تتبع (Follow Up) ہونا چاہئے.چھوڑنا نہیں چاہئے.اگر Follow Up نہیں کریں
150 سبیل الرشاد جلد چہارم گے، رابطہ (Contact) نہیں کریں گے تو آپ کو کیا پتہ کس کے دل میں کیا تبدیلی پیدا ہوئی ہے.ایک ٹیم بنا ئیں جو کام کرنے والی ہو.فرمایا آپ نے جو سکیم بنائی ہے وہ اچھی ہے.اب مسلسل رابطہ اور تعلق قائم رکھنے کی ضرورت ہے.فرمایا جس کام کاFollow Up نہ ہو، فیڈ بیک نہ ہو اس کا نتیجہ نہیں نکلتا.الفضل انٹر نیشنل 16 جون 2006ء) مجھے ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں جو کام نہ کر سکیں اراکین نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ نیوزی لینڈ کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میٹنگ مؤرخہ 7 مئی 2006ء بروز اتوار ” بیت المقیت میں ہوئی.حضور انور نے باری باری تمام قائدین سے ان کے کام کا جائزہ لیا اور ساتھ ساتھ ہدایات سے نوازا.حضور انور نے فرمایا کہ انصار اللہ میں کوئی جنرل سیکرٹری نہیں ہوتا بلکہ قائد عمومی کہلاتا ہے.اسی طرح عاملہ کے تمام عہدیداران قائدین کہلاتے ہیں، سیکرٹریان نہیں کہلاتے.اسی طرح جماعتی نظام میں جو جماعتیں یا برانچز ہیں وہ ذیلی تنظیموں کے نظام میں مجالس کہلاتی ہیں.حضور انور کے دریافت کرنے پر قائد عمومی نے بتایا کہ ہماری صرف ایک مجلس Auckland ہے.حضور انور نے فرمایا کہ آک لینڈ تو بہت بڑا شہر ہے.کام اور رابطوں کو آسان کرنے کے لئے اس بڑے شہر کو انصار کی تعداد اور رہائش کے لحاظ سے دویا تین حصوں میں تقسیم کر کے مجالس بنائی جاسکتی ہیں اور پھر ہر مجلس کا زعیم ہو.فرمایا اپنی مجلس عاملہ میں رکھ کر اس کا جائزہ لیں.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ مجلس عاملہ انصار اللہ کی کارگزاری کی ماہانہ رپورٹ مجھے براہ راست آنی چاہئے اور با قاعدگی سے بھجوایا کریں.قائد مال سے حضور انور نے انصار اللہ کے بجٹ اور فی کس چندہ کے معیار کا جائزہ لیا اور فرمایا جو انصار Job کرتے ہیں ان سے باقاعدہ Percentage پر چندہ لیں اور جو انصار فارغ ہیں کوئی کام نہیں کرتے وہ جو بھی دیں ان سے لے لیں.حضور انور نے چندہ اجتماع کا بھی جائزہ لیا اور اخراجات کے بارہ میں دریافت فرمایا.قائد تبلیغ سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ تبلیغ کے لئے کیا پلان بنایا ہے.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ سکیم بنا کر مجلس عاملہ میں ڈسکس کرنی چاہئے تھی.سکیم بنا ئیں، عاملہ میں رکھیں اور پھر اس پر عمل کریں.حضور انور نے فرمایا حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا تھا کہ مجھے ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں ہے جو کام نہ کر سکیں.تربیت نہ کرنے کی وجہ سے سستیاں پیدا ہوئی ہیں اور اسی وجہ سے کمیاں پیدا ہوئی ہیں.اگر تر بیت کی ہوتی اور فیملیوں کو سنبھالا ہوتا تو فیملیاں نہ بگڑ تھیں.کوئی سنی سے بیاہی ہوئی ہے تو کسی کا رشتہ لاہوریوں
سبیل الرشاد جلد چہارم 151 میں ہوا ہے، کسی نے ہندو سے شادی کر لی ہے.حضور انور نے فرمایا خدا نے آپ کو جو نعمت دی ہے اس کو کیوں ضائع کر رہے ہیں.احمدیت تو انشاء اللہ پھیلے گی.نئے آئیں گے اور مضبوط ہو جائیں گے.آپ لوگ اپنی نسلوں کی تربیت نہ کرنے کی وجہ سے ضائع ہو جائیں گے اس لئے ہوش کریں.اب باتیں چھوڑیں اور کام کرنے کی سکیم بنائیں اور Active ہو کر کام کریں.فرمایا خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد یہ کام کیا ہے کہ ہم پیغام پہنچا ئیں کوشش کرنا ہمارا کام ہے باقی نتیجہ پیدا کر ناخدا کا کام ہے.آپ کی کوشش میں کوئی کمی نہیں ہونی چاہئے.حضور انور نے قائد تربیت سے دریافت فرمایا آپ کی سکیم اور پروگرام کیا ہے.حضور انور نے فرمایا آپ کے پاس باقاعدہ ریکارڈ ہونا چاہئے کہ کتنے انصار نماز باجماعت ادا کرتے ہیں.کتنے روزانہ تلاوت کرتے ہیں.کتنے ہیں جو اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیتے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ انصار کو توجہ دلائیں کہ گھروں میں دین کی باتیں ہوں، مسیح موعود کی باتیں ہوں.آپ کی کتب پڑھی جائیں.گھروں میں دینی ماحول ہو.بچے نمازیں پڑھیں اور قرآن کریم کی تلاوت کریں.انصار کو اس طرف توجہ دینی چاہئے.حضور انورنے فرمایا اگر آپ نے نئی نسل کو بچانا ہے تو آپ کو ان کی تعلیم وتربیت کے لئے سکیم بنانی پڑے گی.قائد تعلیم سے حضور انور نے فرمایا کہ دنیوی تعلیم کا انصار اللہ سے کوئی تعلق نہیں.دینی تعلیم کے بارہ میں بتائیں کہ کیا پروگرام بنایا ہے.جس پر قائد تعلیم نے بتایا کہ امسال انصار کے نصاب میں حضرت اقدس مسیح موعودؓ کی کتاب توضیح مرام رکھی ہے.گزشتہ سال تک چار کتب ہو چکی ہیں جن کے امتحان لئے جاچکے ہیں.حضور انور نے فرمایا ہر ماہ ایک دو ورقہ انصار اللہ کے لئے بلیٹن کے طور پر نکالیں، جس میں قرآن کریم کی ایک آیت ، اس کا ترجمہ اور مختصر تشریح ہو.اسی طرح ایک حدیث ہو اور حضرت مسیح موعود کا ایک اقتباس ہو.انصار اللہ کے پروگراموں کا ذکر ہو.اعلانات ہوں، تربیتی امور ہوں، اردو زبان سکھانے کے تعلق میں حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ بوڑھوں کو مزید کیا اردو سکھانی ہے ان کو کافی اردو آتی ہے.بچوں کو سکھائیں اور بچوں کی طرف توجہ دیں.بڑوں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ انہوں نے خود بھی کچھ نہ کچھ سیکھنا ہے اور بچوں کی تربیت کرنی ہے.حضور انور نے فرمایا کہ انصار اللہ کو مطالعہ کے لئے پہلے چھوٹی چھوٹی چیزیں دیں، مضامین دیں، حضرت اقدس مسیح موعود کے اقتباسات دیں.بڑی کتابیں پڑھنے کی ان کو بعد میں عادت پڑے گی.قائد صحت جسمانی نے بتایا کہ اجتماع کے موقع پر کھیلوں کا پروگرام ہوتا ہے.قائد ایثار کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ غریبوں کی مدد کریں.عرب ملکوں سے لوگ یہاں آئے ہوئے ہیں.ان میں سے بعض غریب ہیں ان کی بھی مدد کر سکتے ہیں.ان ملکوں میں بوڑھے ہیں، بیمار ہیں Old People's Home میں جا کر ان سے ملیں اور ان سے باتیں کریں.پھل، پھول وغیرہ ساتھ لے جائیں.ہسپتالوں
سبیل الرشاد جلد چہارم 152 میں جا کر بیماروں سے ملیں ان کا حال دریافت کریں.جس کو مدد کی ضرورت ہے اس کی مدد کریں.حضور انور نے فرمایا کام کے لئے اگر راستے نکالنے ہیں تو نکل آتے ہیں.قائد تحریک جدید اور وقف جدید کو حضور انور نے فرمایا کہ سب انصار کو اس میں شامل کریں اور انصار سے وعدے لیں.اس بارہ میں آپ کو کوشش کرنی چاہئے.حضور انور نے فرمایا انصار کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بوڑھے ہوگئے ہیں اس لئے سو جاؤ.اپنے دماغ استعمال کر کے کام کریں اور جو آئندہ جزیشن (Generation) آرہی ہے اس سے بھی کام کروائیں.آخر پر حضور انور نے تبلیغ کے بارہ میں تفصیلی ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ بہت سے ملکوں کے لوگ یہاں اکٹھے ہو گئے ہیں.مختلف پاکٹس (pockets) بنی ہوئی ہیں وہاں جا کر کام کریں.ان لوگوں کو عربی، چائینیز ، کورین، جاپانی اور انگریزی زبان کا لٹریچر دیں.رابطے کریں اور یہ رابطے مستقل نوعیت کے ہوں.حضور انور نےفرمایا تبلیغ مسلسل ایک عمل ہے.تھکنا نہیں.بارش کے چھینٹے پھینکتے جاتا ہے کہیں نہ کہیں یہ پانی اثر کرے گا.ہزار میں سے ایک پر بھی اثر ہو جائے تو یہ آپ کی کامیابی ہے.فرمایا اگر آپ ایک جگہ دورے پر جاتے ہیں اور پھر چھ ماہ تک ان کو پوچھتے نہیں تو یہ ہرگز درست نہیں.جہاں ایک دفعہ جائیں وہاں بار بار رابطہ کریں.ایک ٹیم کو ہر دفعہ اسی جگہ پر بھیجیں اور مستقل جاتے رہیں.حضور انور نے فرمایا دو دو آدمیوں کی ٹیمیں بنائیں اور مختلف علاقوں کا انتخاب کر کے ان کے سپرد کر دیں جہاں یہ بار بار جاتے رہیں.حضور انور نے فرمایا کہ یہاں کے لوکل باشندےMori ہیں.ان میں بھی تبلیغ کریں.ان کو پہلے خدا کی طرف بلائیں.فرمایا مختلف طرح کے لوگ ہیں.کسی کو بتانا ہے کہ خدا ہے، کسی کو بتانا ہے کہ اسلام سچا مذہب ہے، کسی کو بتانا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود کا دعوی سچا ہے، کسی کو بتانا ہے کہ احمدیت سچی ہے، کسی کو بتانا ہے کہ خلافت احمد یہ بچی ہے.مختلف طبقے ہیں مختلف لوگ ہیں، ہر ایک کو ان کے حالات کے مطابق پیغام پہنچانا ہے.(الفضل انٹر نیشنل 30 جون 2006ء) جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہد یدار لغوحرکات کو چھوڑ دیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ جاپان کے جلسہ سالانہ کے موقع پر مورخہ 13 مئی 2006 ء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا.پس اپنے پیغام کو ، احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے خوبصورت پیغام کو اگر حقیقی طور پر اس ملک میں پھیلانا چاہتے ہیں تو آپس میں محبت اور بھائی چارے اور ہمدردی کی فضا پیدا کر یں.اگر نہیں تو اسلام کی خوبصورت
153 سبیل الرشاد جلد چہارم تعلیم کو دیکھ کر اگر کوئی احمدیت میں شامل ہو بھی جاتا ہے تو کل اپنے ساتھ مختلف سلوک دیکھ کر دین سے متنفر بھی ہو سکتا ہے اور اگر کوئی شخص مرد یا عورت آپ عہدیداروں، چاہے وہ امیر ہو یا کوئی بھی اور ہو، یا ایک عام احمدی بھی ہو آپ لوگوں کے عمل اور رویتے دیکھ کر اور اپنے ذاتی مفادات کی ترجیحات کو دیکھتے ہوئے دین سے متنفر ہوتا ہے تو اس کا گناہ ان دوڑانے والوں کے سر پر ہے.پس میں عہدیداروں کو چاہے وہ امیر ہوں یا کوئی دوسرے عہدیدار ہوں پہلے کہتا ہوں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے خدمت کا جو یہ موقع دیا ہے اس میں چاہے صدر جماعت ہے یا ذیلی تنظیموں کے عہد یداران ہیں، امیر جماعت ہے آپ لوگوں کو ان لغوحرکات کو چھوڑ نا ہوگا.اور اگر نہیں چھوڑیں گے تو جماعتی طور پر جوا یکشن ہوگا وہ تو ہوگا ہی اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی یہ سب کچھ ہے.اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے کہ آپ لوگ ، عہدیداران کس طرح کام کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہاری ان تمام حرکات سے آگاہ ہوں.پس اگر اللہ کا خوف ہے تو اپنے دلوں کو بدلیں.اپنے عملوں کو ٹھیک کریں.اللہ نے جو خدمت کا موقع دیا ہے اس کو فضل الہی جائیں.اللہ تعالیٰ کا اپنے اوپر احسان سمجھیں ، نہ کہ گروپ بندیاں کر کے سیاست کی دکان چمکانے کی کوشش کی جائے.خلیفہ وقت یا نظام جماعت کسی سے صرف نظر یا پردہ پوشی ایک حد تک کرتا ہے.اگر حدوں سے تجاوز کرنے کی کوشش کی جائے ، یا یہ نظر آرہا ہو کہ جماعت کا وقار مجروح ہو رہا ہے تو پھر یقینا سزا بھی ملتی ہے.پس عہد یدار خاص طور پر اور ہر احمدی عمومی طور پر اپنے رویے بدلے.اپنے اندر اپنے بھائیوں کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا کریں.اگر کسی بھائی سے معمولی غلطی ہو جاتی ہے تو اس کو معاف کرنے کی کوشش کریں.کسی کی غلطی پر مرکز کو بھی پوری طرح واضح نہ کر کے لاعلم رکھ کر اتنی سزا نہ دلوائیں کہ وہ سزا اس جرم سے بھی زیادہ بڑھ جائے اور بے چارے کو مار کر ہی دم لیں.ایک احمدی کے لیے چاہے وہ جیسا بھی ہو نظام جماعت سے علیحدگی اور خلیفہ وقت مار کرہی.کی ناراضگی موت سے کم نہیں ہوتی.پس عہدیداروں کو اپنے رویے بدلنے چاہئیں.امیر جماعت کو اپنے رویے بدلنے چاہئیں.اس بارہ میں پہلے بھی میں خطبات میں کہہ چکا ہوں.یا تو یہ عہد یدار خطبات سنتے نہیں ہیں یا وہ باتیں اپنے لیے نہیں سمجھتے یا مغلوب الغضب ہو کر ان باتوں کو بھول جاتے ہیں اور اپنی اناؤں کے جال میں پھنس جاتے ہیں.یادرکھیں کہ اگر کسی کے خلاف کچی شکایت ہو تو میں اس کے بارہ میں بات کر رہا ہوں کہ اس کو اتنی ہی سزا ہونی چاہئے.اگر جھوٹی شکایت ہوا اور صرف اپنی انانیت کی خاطر کسی کو سزا دلوائی جاتی ہے تو یہ اس حدیث کے مطابق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی اپنی چرب زبانی کی وجہ سے اپنے حق میں میرے سے فیصلہ کر والیتا ہے اور دوسرے کا حق مارتا ہے تو وہ اپنے پیٹ میں آگ کا گولہ ڈالتا ہے.( صحیح بخارى كتاب الشهادات باب من اقام البينة بعد اليمين حديث 2680) اگر آپ لوگ بھی خلیفہ وقت سے کسی کے خلاف ایسے فیصلے کروالیتے ہیں تو آگ کا ٹکڑا اپنے پیٹ میں
سبیل الرشاد جلد چہارم 154 ڈال رہے ہوتے ہیں.اس لیے ہمیشہ تقویٰ سے کام لیتے ہوئے فیصلے کروانے کی کوشش کرنی چاہیے.اگر ہمدردی کے جذبات سے پُر ہو کر سزا بھی دلوانی ہو تو اصلاح کی خاطر سزا دلوانی چاہیے نہ کہ اپنے کینوں اور بغضوں کی تسکین کے لیے.پس یہ ہمدردی اور رحم کے جو جذبات ہیں عہدیدار بھی اپنے اندر پیدا کریں اور عام احمدی بھی اپنے اندر پیدا کریں.ہر احمدی کے آپس کے تعلقات بھی ایسے ہوں جو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے والے ہوں.کسی کو نیچا دکھانے کے لیے نہیں.کسی کو ہنسی اور ٹھٹھے کا نشانہ نہ بنائیں.یہ باتیں ہمدردی سے دور لے جانے والی ہیں.اس سے معاشرے میں فساد اور فتنہ پیدا ہوتا ہے.اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف رنجشیں اس وقت بڑھتی ہیں ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش اس وقت ہوتی ہے جب بدظنیاں دلوں میں پیدا ہوتی ہیں اور پھر یہ بدظنیاں بڑھتے بڑھتے اس حد تک چلی جاتی ہیں جو تعلقات میں دراڑیں ڈالتی ہیں.فاصلے بڑھنے شروع ہو جاتے ہیں.یہ بدظنیاں پھر ایسی کہانیوں کو اختراع کرتی ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا.اس لیے ان بدظنیوں کو اللہ تعالیٰ نے گناہ قرار دیا ہے.پھر ان بدظنیوں کی وجہ سے جیسا کہ میں نے کہا تھا ایسی ایسی کہانیاں بنائی جاتی ہیں جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا.اور کسی کے متعلق یہ کہانیاں بنا کر پھر معاشرہ میں اڑائی جاتی ہیں.الزام تراشیاں کی جاتی ہیں.مجلسوں میں بیٹھ کر دوسرے کے بارہ میں باتیں کی جاتی ہیں.کوئی برائی کسی میں ہے یا نہیں ہے اس کو اچھالا جاتا ہے، اپنے زبان کے مزے لینے کے لئے ڈسکس (Discuss) کیا جاتا ہے اور یہی چیز غیبت ہے.اللہ تعالیٰ نے اس طرح باتیں کرنے کو مردہ بھائیوں کا گوشت کھانے والے کے برابر قرار دیا ہے“ الفضل انٹر نیشنل 21 دسمبر 2012ء) تمام قائدین اپنی اپنی سکیم بنا کر مجلس عاملہ میں ڈسکس کریں اراکین نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ جاپان کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میٹنگ مؤرخہ 13 مئی 2006ء بروز ہفتہ ہوئی.جس میں حضور نے تمام قائدین کو ہدایت فرمائی کہ سب اپنے اپنے شعبہ کی سکیم بنا ئیں اور مجلس عاملہ میں رکھیں اور پھر اس پر عملدرآمد کریں.فرمایا ہر ماہ مجھے رپورٹ آنی چاہئے کہ کیا کام کیا ہے.اگر نہیں بھی کیا تب بھی رپورٹ آنی چاہئے اور لکھیں کہ اس ماہ کام نہیں ہوا.حضور انور نے فرمایا تبلیغ کی بھی سکیم بنائیں.جاپان میں بدھسٹ ہیں یہ بہت سخت ہوں گے.ان پر بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے.یہاں لامذہب اور عیسائیوں کی طرف توجہ دیں.غیر قوموں کے لوگ یہاں آئے ہوئے ہیں اور آباد ہیں ان کی پاکٹس تلاش کریں اور وہاں تبلیغ کے پروگرام بنا ئیں.ان سے
سبیل الرشاد جلد چہارم 155 رابطے کریں اور پھر مستقل رابطہ رکھیں.حضور انور نے فرمایا اسی طرح تعلیم اور تربیت کی سکیم بنائیں اور کام شروع کریں.نومبائعین کی تربیت کر کے ان کو جماعت کے نظام کا حصہ بنانے کی کوشش کریں.ان کو آپ نے نماز سکھانی ہے.قرآن کریم پڑھنا سکھانا ہے.آپ نے صرف انصار نو مبائعین میں کام کرنا ہے.خدام نے اپنا کام کرنا ہے اور لجنہ نے اپنا کام کرنا ہے اور جماعتی نظام نے اپنا کام کرنا ہے.سب نے اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں.الفضل انٹر نیشنل 30 جون 2006ء) انصار اللہ کی سب سے اہم ذمہ داری نئی نسل کی تربیت ہے سالانہ اجتماع انصار الله جرمنی منعقدہ 26 تا 28 رمئی 2006ء کے لئے حضور انور ایدہ اللہ پیارے انصار الله جرمنی تعالیٰ کا پیغام السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مجھے خوشی ہے کہ آپ اپنا سالانہ اجتماع منعقد کرنے کی توفیق پا رہے ہیں اور ایک بار پھر نیک مقاصد کیلئے اکٹھے ہوئے ہیں.اللہ کرے کہ اس دوران آپ سب اپنے مولیٰ کو راضی کرنے والی نیکیوں کی توفیق پائیں.یا درکھیں کہ انصار اللہ کی سب سے اہم ذمہ داری نئی نسل کی تربیت ہے.اگر انصار اپنے بچوں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ ایک اہم مقصد کو حاصل کرنے والے ٹھہریں گے.اس کیلئے آپ کو نیک نمونہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے.جب تک آپ کا اپنا نمونہ ٹھیک نہ ہوگا آپ اپنی اولاد کی تربیت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے.اس لئے آپ کا فرض ہے کہ خدا کی محبت اپنے دلوں میں بٹھا ئیں.ہر وہ کام کریں جو آپ کو خدا سے ملانے والا ہو اور ہر اس کام سے باز رہیں جو خدا سے دور لے جانے والا ہے.اگر آپ نے اپنے دلوں میں خدا کی خالص محبت پیدا کر لی اور خدا کو اپنے دلوں میں بٹھا لیا تو آپ کے بچوں کے دل بھی اس کی محبت سے بھر جائیں گے.پس اپنے نیک نمونے کے ساتھ اپنے بچوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کریں.ہمارا عملی نمونہ ہی ہے جو ہمارے بچوں کے دلوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے.عملی حالت کا عمدہ ہونا بہت ضروری ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: " واعظ اس قسم کے ہونے چاہئیں جو پہلے اپنی اصلاح کریں اور اپنے چلن میں ایک پاک تبدیلی کر کے دکھلائیں تا کہ ان کے نیک نمونوں کا اثر دوسروں پر پڑے.عملی حالت کا عمدہ ہونا یہ سب سے بہترین وعظ ہے.جولوگ صرف وعظ کرتے ہیں مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے وہ دوسروں پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈال سکتے بلکہ
سبیل الرشاد جلد چہارم 156 اُن کا وعظ اباحت پھیلانے والا ہو جاتا ہے کیونکہ سننے والے جب دیکھتے ہیں کہ وعظ کہنے والا خود عمل نہیں کرتا تو وہ اُن باتوں کو بالکل خیالی سمجھتے ہیں." ( ملفوظات جلد: 3.صفحہ: 369-370) پس سب سے اول آپ کی عملی حالت کی درستی ہے.آپ کے نیک نمونہ کو دیکھ کر آپ کے بچے بھی نیکیوں میں آگے بڑھیں گے.تربیت کے لئے ایک اور اہم ذریعہ نماز با جماعت کی ادائیگی ہے جس کی طرف بچپن سے ہی توجہ دلانی چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سات سال کی عمر سے بچوں کو نماز کی تلقین کی جائے اور دس سال کی عمر میں انہیں سختی سے نماز کا پابند بنایا جائے لیکن یہ اس وقت ہو نہیں سکتا جب تک آپ خود پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی کے پابند نہیں ہو جاتے.اس لئے پانچوں وقت کی نماز مسجد جا کر با جماعت ادا کرنے کی کوشش کیا کریں اور اگر بامر مجبوری مسجد نہ جاسکتے ہوں تو گھر میں اس کا اہتمام کیا کریں.اگر آپ خود نمازوں کے پابند ہوں گے تو آپ کے بچے بھی نمازوں کے عادی ہو جائیں گے اور آہستہ آہستہ ان کو نمازوں میں لذت بھی آنے لگے گی اور وہ معاشرے کی برائیوں سے بھی محفوظ رہیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے: إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (العنكبوت: 46) نماز برائیوں اور نا پسندیدہ باتوں سے روکنے کا موجب ہے.پس اگر آپ اپنی اولادوں کی تربیت کرنا چاہتے ہیں اور انہیں مغربی معاشرہ کی برائیوں سے بچانا چاہتے ہیں تو نمازوں پر مداومت اختیار کریں.اولاد کی تربیت کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کو قرآن کریم سکھایا جائے اور قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کے بعد اس کا ترجمہ بھی سکھانے کا انتظام کیا جائے تا کہ ان کو اسلامی تعلیمات کا علم ہو.پھر ان کو قرآن کریم کی با قاعدہ تلاوت کی عادت ڈالیں.ہر گھر میں روزانہ تلاوت قرآن کریم ہونی چاہئے اس سے آپ کے گھر برکتوں سے بھر جائیں گے.الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن کریم میں ہیں.بس آپ خود بھی قرآن کریم سیکھیں اور اپنے بچوں کو بھی سکھائیں.یہ وہ امور ہیں جن کی طرف میں پہلے بھی بار بار توجہ دلا چکا ہوں لیکن ”ذکر“ کے تحت دوبارہ آپ کی اُن کی طرف توجہ مبذول کروارہا ہوں کیونکہ یہی وہ امور ہیں جو آپ کی اور آپ کی اولادوں کی روحانی حفاظت کی ضمانت ہیں.یہ وہ قلعے ہیں جن کے اندر رہ کر شیطان کے حملوں سے بچ سکتے ہو.پھر ایک اہم چیز جو اپنے بچوں میں بچپن سے پیدا کرنے کی ضرورت ہے وہ سچائی ہے.اس کے لئے بھی آپ کو اہم کردار ادا کرنا ہوگا.مذاق میں بھی اپنے بچوں کے ساتھ یا روز مرہ کی زندگی میں جھوٹ نہ بولیں کیونکہ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کے بچے بھی جھوٹ کے عادی ہو جائیں گے.یہ مغربی معاشرہ تو ہے ہی جھوٹ اور دجل.آنحضرت صلی
157 سبیل الرشاد جلد چہارم اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا ہے اور جھوٹ نیکیوں کو کھا جاتا ہے جس طرح آگ ایندھن کو کھا جاتی ہے اس لئے خود بھی ہمیشہ سچ بولنے کی عادت ڈالیں اور اپنی اولادوں میں بھی یہ وصف پیدا کرنے کی کوشش کریں.سب سے اہم اور آخری بات دُعا ہے کیونکہ تربیت خدا کے فضل کے بغیر نہیں ہو سکتی اور خدا کا فضل دُعا کے ذریعہ نازل ہوتا ہے.پس سب سے ضروری یہ ہے کہ راتوں کو اٹھیں اور خدا کے حضور جھکیں اور اپنے مولیٰ کریم سے یہ التجا کریں کہ وہ آپ کو اور آپ کی اولادوں کو اپنی رضا کی راہوں پر چلنے والا بنا دے.حضور اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اس میں شک نہیں ہے کہ انسان بعض اوقات تدبیر سے فائدہ اٹھاتاہے لیکن تدبیر پرگلی بھروسہ کرنا سخت نادانی اور جہالت ہے جب تک تدبیر کے ساتھ دُعا نہ ہو کچھ نہیں" ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 339) پھر فرماتے ہیں " تدابیر انسان کو ظاہری گناہ سے بچاتی ہیں لیکن ایک کشمکش اندر قلب میں باقی رہ جاتی ہے اور دل اُن مکروہات کی طرف ڈانواں ڈول ہوتا رہتا ہے.اُن سے نجات پانے کیلئے دُعا کام آتی ہے کہ خدا تعالیٰ قلب پر ایک سکینت نازل فرماتا ہے." ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 339) اللہ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو ان امور پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.والسلام خاکسار ( دستخط ) مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس (ماہنامہ الناصر جرمنی جولائی اگست 2006ء) جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کے نظام کو معاشرہ کی ہر بُرائی کو ختم کرنے کے لئے مہم چلانی چاہئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 26 مئی 2006ء کے آغاز میں فرمایا.بعض لوگ بعض دوسرے لوگوں سے کسی ناراضگی یا کسی غلط انہی یا بدظنی کی وجہ سے اس حد تک اپنے دلوں میں کینے پالنے لگ جاتے ہیں کہ دوسرے شخص کا مقام اوروں کی نظر میں گرانے کے لئے، معاشرے میں انہیں ذلیل کرنے کے لئے ، رسوا کرنے کے لئے.ان کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کر کے پھر اس کی تشہیر
158 سبیل الرشاد جلد چہارم شروع کر دیتے ہیں اور اس بات سے بھی دریغ نہیں کرتے کہ یہ من گھڑت اور جھوٹی باتیں مجھے پہنچائیں تا کہ اگر کوئی کارکن یا اچھا کام کرنے والا ہے تو اس کو میری نظروں میں گراسکیں.اور پھر یہی نہیں بلکہ بڑے اعتماد سے بعض لوگوں کے نام گواہوں کے طور پر بھی پیش کر دیتے ہیں اور جب ان گواہوں سے پوچھو، گواہی لو تحقیق کرو تو پتہ چلتا ہے کہ گواہ بیچارے کے فرشتوں کو بھی علم نہیں کہ کوئی ایسا واقعہ ہوا بھی ہے یا نہیں جس کی گواہی ڈلوانے کے لئے کوشش کی جارہی ہے.اور پھر اس سے بڑھ کر یہ کہ مجھے مجبور کیا جاتا ہے کہ میں ان جھوٹی باتوں پر یقین کر کے جس کے خلاف شکایت کی گئی ہے ضرور اسے سزا بھی دوں.گویا یہ شکایت نہیں ہوتی ایک طرح کا حکم ہوتا ہے.بہت سی شکایات درست بھی ہوتی ہیں.لیکن اکثر جو ذاتی نوعیت کی شکایات ہوتی ہیں وہ اس بات پر زور دیتے ہوئے آتی ہیں کہ فلاں فلاں شخص مجرم ہے اور اس کو فوری پکڑیں.ان باتوں پر میں خود بھی کھٹکتا ہوں کہ یہ شکایت کرنے والے خود ہی کہیں غلطی کرنے والے تو نہیں ، اس کے پیچھے دوسرے شخص کے خلاف کہیں حسد تو کام نہیں کر رہا.اور اکثر یہی ہوتا ہے کہ حسد کی وجہ سے یہ کوشش کی جارہی ہوتی ہے کہ دوسرے کو نقصان پہنچایا جائے.یہ حسد بھی اکثر احساس کمتری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ سے تعلق نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.اس خیال کے دل میں نہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ خدا جھوٹے اور حاسد کی مدد نہیں کرتا.اور حسد کی وجہ سے یا بدظنی کی وجہ سے دوسرے پر الزام لگانے میں بعض لوگ اس حد تک گر جاتے ہیں کہ اپنی عزت کا بھی خیال نہیں رکھتے.آج کل کے معاشرے میں یہ چیز میں عام ہیں اور خاص طور پر ہمارے برصغیر پاک و ہند کے معاشرے میں تو یہ اور بھی زیادہ عام چیز ہے.اور اس بات پر بھی حیرت ہوتی ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی بعض دفعہ ایسی گھٹیا سوچ رکھ رہے ہوتے ہیں اور دنیا میں یہ لوگ کہیں بھی چلے جائیں اپنے اس گندے کریکٹر کی کبھی اصلاح نہیں کر سکتے یا کرنا نہیں چاہتے اور آج کل کے اس معاشرے میں جبکہ ایک دوسرے سے ملنا جلنا بھی بہت زیادہ ہو گیا ہے، غیروں سے گھلنے ملنے کی وجہ سے ان برائیوں میں جن کو ہمارے بڑوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آکر ترک کیا تھا بعضوں کی اولادیں اس سے متاثر ہو رہی ہیں.ہمارے احمدی معاشرہ میں ہر سطح پر یہ کوشش ہونی چاہئے کہ احمدی نسل میں پاک اور صاف سوچ پیدا کی جائے.اس لئے ہر سطح پر جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کے نظام کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے کہ خاص طور پر یہ برائیاں، حسد ہے، بد گمانی ہے، بدظنی ہے، دوسرے پر عیب لگانا ہے اور جھوٹ ہے اس برائی کو ختم کرنے کے لئے کوشش کی جائے ، ایک مہم چلائی جائے " خطبات مسر در جلد 4 صفحہ 255-256)
سبیل الرشاد جلد چہارم 159 اللہ تعالیٰ جماعت کو ایسے لوگ عطا کرتا رہے گا جو نَحْنُ أَنْصَارُ اللہ کا نعرہ لگانے والے ہوں گے ا حضور انور ایدہ اللہ تعالی نے 4 جون 2006ء کوجلسہ سالانہ پیجیم میں اختتامی خطاب کے دوران والدین کو یوں توجہ دلائی." آپ میں اکثر ان لوگوں کی اولاد ہیں جن کے آباء واجداد نے احمدیت کے لئے تکالیف اٹھائیں لیکن وہ اپنے ایمان میں ہر دن چڑھنے پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گئے.حضرت مسیح موعود سے جو وعدے اللہ تعالیٰ نے فرمائے تھے انہیں ہم ہر روزنئی شان سے پورا ہوتے دیکھتے ہیں.آج احمدیت میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پاکر کئی سعید فطرت لوگ احمدیت میں شامل ہوئے اللہ تعالیٰ جماعت کو ایسے لوگ عطا کرتا رہے گا جو نَحْنُ أَنْصَارُ اللہ کا نعرہ لگانے والے ہوں گے اور تقویٰ کی راہوں پر چلتے رہیں گے.اگر آپ لوگ جو ان کی اولاد ہیں.ان کے نقش قدم پر نہ چلے تو اللہ تعالیٰ اور لوگ لے آئے گا جو تقویٰ کی راہوں پر چلنے والے ہوں گے.لیکن آپ لوگ ان برکتوں سے محروم ہو جائیں گے" (ماہنامہ اخبار احمد یہ برطانیہ صفحہ 13-14 ) لوگوں کے ذہن بدلنے میں چیریٹی واکس اہم رول ادا کرتی ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 12 تا 20 جون 2006ء کو جرمنی اور ہالینڈ کا دورہ فرمایا.جرمنی کے قیام کے دوران مورخہ 14 جون کو بیت السبوح میں نیشنل مجلس عاملہ انصار الله جرمنی کی میٹنگ میں آپ نے شمولیت فرمائی اور بعض شعبہ جات کا جائزہ لے کر انہیں ان کے مناسب حال ہدایات سے نوازا حضور نے نائب صدر صف دوم سے پوچھا کہ آپ کے کتنے انصار ہیں اور کیا ان کی ورزش کا بھی کوئی پروگرام ہوتا ہے.حضور انور کو بتایا گیا کہ انصار کے پاس سائیکلیں ہیں وہ سب سائیکل چلاتے ہیں.اس کے علاوہ سیر اور بعض دیگر ورزشیں بھی کرتے ہیں.حضور نے تجنید ،تحریک جدید اور صحت جسمانی کے شعبوں کا جائزہ لیا اور فرمایا کہ انصار کے مناسب حال کھیلیں ہونی چاہئیں.مثلا رسہ کشی ،سیر، کلائی پکڑنا وغیرہ.شعبہ تعلیم کے جائزہ کے دوران حضور انور نے قائد صاحب تعلیم سے فرمایا کہ آپ کون کون سی کتابیں پڑھا رہے ہیں اور کیا ان کا امتحان بھی لیتے ہیں؟ انہوں نے امتحان میں شامل ہونے والوں کی تعداد بتائی تو حضور انور نے فرمایا کہ یہ تو تجنید کا 1/3 بنتا ہے جو بہت کم ہے.فرمایا کہ ایک سال میں کم از کم ایک کتاب تو
سبیل الرشاد جلد چہارم 160 ضرورختم ہونی چاہئے.فرمایا حضرت مسیح موعود کی چھوٹی کتابیں شروع کر لیں اور ایک ایک کر کے پڑھا دیں.قائد صاحب ایثار سے فرمایا کہ ایثار کا مطلب ہی خدمت خلق ہے.آپ لوگوں کو بوڑھوں کے ہوسٹلوں میں جانا چاہئے.اپنی عمر کے لوگوں سے تعلقات بڑھائیں.حضور انور نے آڈیٹر صاحب سے فرمایا کہ آپ کیسے آؤٹ کرتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ پہلی سہ ماہی کا تو ہو چکا ہے مزید بیرون ملک سفر کی وجہ سے نہیں ہو سکا.فرمایا کہ ہر ماہ ہونا چاہئے.قائد صاحب مال سے شعبہ مال کے کل بجٹ ، اب تک کی وصولی، فی کس چندوں کی شرح کی بابت دریافت فرمایا.چندہ اجتماع کے متعلق فرمایا کہ اس کے لیے آمدنی کی پرسنٹیج (percentage) پر چندہ نہیں ہے بلکہ اس کے لیے فی کس رقم مقرر کرنی چاہئے.حضور انور کو بتایا گیا کہ پہلے 40 مارک لیے جاتے تھے اب یورو کا جب سے نظام چلا ہے اس وقت سے 14 یورو فی کس وصول کیا جاتا ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ 14 یورو تو 40 مارک کے مقابل پر کم بنتے ہیں.یہ تو کم از کم 25 یورو کے برابر بنتے ہیں.اتنا تو کم از کم چندہ رکھنا چاہئے تھا.آپ تو ترقی معکوس کر رہے ہیں جو آپ کو نہیں کرنی چاہیئے.حضور انور نے شعبہ تربیت اور تعلیم القرآن کے جائزہ کے دوران دریافت فرمایا کہ پہلے مساجد اور نماز سنٹرز کی تعداد معلوم کریں.پھر یہ دیکھیں کہ کتنی مجالس میں نماز با جماعت کا انتظام ہے.اور ہر جگہ کم از کم دو نمازیں تو با جماعت ہونی چاہئیں.حضور انور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ مارچ میں ہم نے ہفتہ تربیت منایا تھا اور اپریل کی رپورٹس سے پتہ چلا ہے کہ نمازیں ادا کرنے والوں اور تلاوت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے.فرمایا کہ اب پھر رپورٹ منگوائیں اور دیکھیں کہ کیا یہ تبدیلی صرف ہفتہ تربیت کے دوران تھی یا بعد میں بھی جاری ہے.انصار کو بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ صف دوم کے انصار کی بڑی تعداد کے بچے چھوٹے ہیں.بچوں کی اچھی تربیت کریں تا کہ وہ اچھے کردار والے بن سکیں.مکرم امیر صاحب کی درخواست پر ایک بار پھر حضور انور نے اگلی نسل کو نظام جماعت سے منسلک کرنے کے لیے انصار کو نصیحت فرمائی کہ بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دیں.تعلیم القرآن کے جائزہ کے دوران حضور انور کو بتایا گیا کہ اساتذہ تیار کرنے کی کلاس ہوئی تھی اور بارہ اساتذہ تیار ہوئے ہیں.فرمایا کیا وہ سب پڑھا رہے ہیں؟ اگر نہیں تو اب ان سے کام لیں.کوئی نتیجہ سامنے آنا چاہئے.نو مبائعین کے شعبہ کو ہدایات دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا انہیں ذیلی تنظیموں سے منسلک کرنے کے ساتھ ساتھ main stream میں بھی شامل کریں اور جماعت کے نظام میں absorb کریں.حضور انور نے شعبہ تبلیغ کو بھی اپنی قیمتی نصائح سے نوازا.فرمایا شہروں میں بھی تبلیغ جاری رکھیں لیکن شہروں کی بجائے دیہاتوں کا رخ کریں.دیہات کہیں کے بھی ہوں وہاں کا ماحول سادہ ہوتا ہے.جن سے
161 سبیل الرشاد جلد چہارم ایک دفعہ رابطہ ہو ان رابطوں کو ہفتے دو ہفتے بعد دہرایا کریں.مسلسل اور جاری رابطہ ہونا چاہئے.فرمایا: دیہات کا ماحول چھوٹا ہوتا ہے.آپ کسی کو ملنے جائیں تو اور لوگوں کو بھی attraction پیدا ہوگی.اس سے مزید رابطے پیدا ہوں گے.فرمایا اس کے علاوہ یہاں مختلف قومیتیں ہیں عربوں، ترکوں اور دیگر قوموں میں سے ان لوگوں کی تلاش کریں جن کو مذہب سے دلچسپی ہے.پہلے لوگوں کو خدا کا تصور دینا ہوگا.پھر مزید تبلیغ ہو سکے گی.حضور نے فرمایا کہ اپنے بچوں کو بھی تعلیم دیتے رہیں تا کہ اسلام کے لیے ان کے ذہن کھل جائیں اور ان معاشروں سے ان کے ذہنوں میں اسلام کے متعلق جو غلط نظریات پیدا ہو سکتے ہیں انہیں ان کے ذہنوں سے دور کریں.پھر ہر جگہ کے لئے ان کے مناسب حال انہی کی زبانوں میں لٹریچر تیار کریں.مختلف قومیتوں کے مزاج مختلف ہیں عربوں میں بھی سارے ایک جیسے نہیں.مختلف ممالک کے لوگ مختلف مزاج رکھنے والے ہیں.ان سب سے علیحدہ علیحدہ approach ہونی چاہئے.فرمایا سب کو ایک دفعہ تو ہمیں تعارف کر وا دینا چاہئے تا کہ اتمام حجت تو ہو.حضور انور نے قائد صاحب وصایا سے مجلس عاملہ کے ممبران کی وصایا کی بابت دریافت فرمایا.حضورانور کو بتایا گیا کہ سوائے ایک کے باقی میں سے سات تو پہلے موصی تھے مزید آٹھ اب شامل ہوئے ہیں.ایک باقی ہیں ان کا فارم بھی جلدیل جائے گا.حضور نے فرمایا سب سے پہلے عہدیداروں کو، ناظمین زعماء سب کو تحریک کریں.حضور نے شعبہ عمومی کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ جور پورٹ نہیں بھیجتے انہیں پوچھا کریں.پھر یہ بھی دیکھا کریں کہ یہ نہ ہور پورٹ میں figures کو تدریجی بڑھایا جارہا ہو اور نئے سال کی پہلی رپورٹ سے پھر ان figures کو پیچھے لا کر پہلے کی طرح انہیں زیادہ کیا جارہاہو.نئے سال میں داخل ہو کر پچھلے سال کے figures بڑھنے چاہئیں.حضور انور نے ایک سوال کے جواب میں مکرم صدر صاحب مجلس انصار اللہ کوفرمایا کہ جو قائدین با وجود توجہ دلانے کے پھر بھی رپورٹ نہ بھجوائیں اس کا مطلب ہے کہ وہ کام نہیں کرنا چاہتے.فرمایا جن کی مسلسل تین ماہ کی رپورٹ نہ آئی ہو انہیں فارغ کر کے ان کی جگہ نئے آدمی nominate کریں.(اس موقع پر مکرم امیر صاحب جرمنی نے عرض کی کہ کیا انہیں پہلے وارنگ نہیں دینی چاہئے؟ فرمایا انہیں پہلے سے خبر دار کرنا چاہئے کہ اپنی سنتی دور کریں ورنہ پھر آپ اس خدمت سے محروم کر دئیے جائیں گے ) حضور انور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ ہمارا ایک چیریٹی واک (charity walk) کا پروگرام بھی ہے.فرمایا: ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو جائے ، کہیں ایسا نہ ہو جائے فرمایا: پہلے بھی کئی پروگرام بن چکے ہیں اب عملی جامہ پہنائیں.
162 سبیل الرشاد جلد چہارم فرمایا چیریٹی واکس بہت مفید ہیں.ان واکس (Walks) سے اسلام کے متعلق لوگوں کا ذہن صاف ہوگا.فرمایا کہ جہاں مخالفت ہو چیریٹی واک کریں.برلن میں مسجد بنی ہے وہاں چیریٹی واک کریں.اس کے ذریعہ جمع ہونے والے فنڈ کا زیادہ حصہ وہاں کی لوکل کونسل کو دیں.فرمایا چیریٹی واک منظم ہوتی ہے.پولیس اور انتظامیہ سب کو اس کا پتہ ہوتا ہے.مقامی لوگ بھی بڑی کثرت سے اس میں شامل ہو جاتے ہیں.فرمایا: یو کے میں ہم نے آزما کر دیکھا ہے کہ گوان لوگوں کے مزاج نرم ہیں لیکن پھر بھی سمجھانا پڑتا ہے.ورنہ یہ لوگ تھوڑی تھوڑی بات سے گھبرا جاتے ہیں.ہارن بج جائے ، اذان کی آواز آ جائے تو ان کے حوصلے کم ہونے لگ جاتے ہیں.فرمایا وہاں (یوکے میں ) جو فارم ہم نے خریدا ہے.وہاں اگلے فارم والے کو راستہ چاہئے تھا.میں نے انتظامیہ کو کہا کہ آپ ان کے لیے پچاس فٹ جگہ چھوڑ دیں.کونسل کو جب پتہ لگے گا کہ یہ لوگ تو تعاون کرنے والے ہیں تو وہ ہمارے متعلق اچھا سوچیں گے.اب وہاں انشاء اللہ جلسہ بھی ہوگا.اس لئے وہاں کے لوگوں کے ذہن بدلنے کے لیے مجلس انصاراللہ یوکے نے ایک چیریٹی واک کا انتظام کیا.اس میں میئر ، نائب میئر بھی شامل ہوئے.ایک ہزار انصار شامل ہوئے.فرمایا لوگوں کے concept بدلنے کی ضرورت ہے.لوگوں کو بتائیں کہ ہم چیریٹی واک خدمت خلق کے جذبے سے کرتے ہیں.یہی کافی ہے.اس سے ہمدردی ملے گی.اس سے لوگوں کے اسلام کے متعلق غلط نظریات دھل جائیں گے.الفضل انٹر نیشنل 14 جولائی 2006ء) نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ ہالینڈ کو ہدایات میٹنگ منعقدہ 18 جون 2006ء) مورخہ 18 جون 2006 کو نیشنل عاملہ مجلس انصاراللہ ہالینڈ کی حضورانور کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی.حضور انور نے دعا کروائی اور مختلف شعبہ جات کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں ہدایات سے نوازا.حضور انور نے فرمایا کہ آپ کا چندہ جماعت کے کل چندے کا 1/3 ہونا چاہئے.حضور انور نے قائد تربیت نو مبائعین سے فرمایا کہ نو مبائعین سے متواتر رابطہ رہنا چاہئے.ان کو جلسے پر لانا چاہئے تھا.فرمایا بیعتیں کرا کر انہیں چھوڑ نہیں دینا چاہئے ورنہ تو پھر ایسے ہی ہے جیسے پرندے پکڑے اور پھر چھوڑ دیئے.حضور انور نے تبلیغ کے شعبہ کو بھی فعال ہونے کی نصیحت فرمائی اور فرمایا کہ آپ تبلیغ کا جامع پروگرام بنائیں.جتنا زیادہ اسلام کے خلاف شور ہو رہا ہے اتنا ہی آپ لوگوں کی طرف سے دفاعی کارروائی بھی ہونی چاہئے.حضور انور نے شعبہ مال کو اپنا بجٹ بڑھانے کی بھی ہدایت فرمائی.(الفضل انٹر نیشنل 14 جولائی 2006ء)
سبیل الرشاد جلد چہارم 163 جس قدر آپ کا خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق ہوگا اسی قدر آپ دینی و دنیاوی حسنات سے حصہ پائیں گے سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ بھارت منعقدہ8, 10,9 ستمبر 2006ء کے موقع پر بصیرت افروز پیغام پیارے ممبران مجلس انصار اللہ بھارت السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مکرم صدر صاحب انصار اللہ بھارت نے سالانہ اجتماع کے موقع پر پیغام بھجوانے کے لئے لکھا ہے.اللہ تعالیٰ یہ اجتماع ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب بنائے.آپ سب کو اس سے بھر پور استفادہ کرنے اور آپ کی روحانی تربیت کے سامان پیدا فرمائے.آمین.اس موقع پر میں آپ کو خلافت سے وابستگی اور اطاعت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.آج دنیا سخت بدامنی کا شکار ہے.مسلمان مسلمان سے لڑ رہا ہے مختلف فرقوں میں تقسیم ہوکر وہ ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کا شکار ہیں.ایک ہی کلمہ پڑھنے والے، ایک ہی نبی کی طرف منسوب ہونے والے، ایک دوسرے کے خلاف محاذ آراء ہیں.قرآن کریم اور احادیث کے خزانے موجود ہونے کے باوجود آج مسلمان اس قیادت کی پہچان سے محروم ہیں جو خدا نے انہیں ایک ہاتھ پر جمع کرنے کے لئے مامور فرمائی ہے.آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کو حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کے صدقے نظام خلافت سے وابستگی کی تو فیق عطا ہوئی ہے جو خدا کے فضل سے دائمی ہے.جس قدر آپ کا خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق ہوگا اسی قدر آپ دینی و دنیاوی حسنات سے حصہ پائیں گے.آپ کے آپس کے تعلقات میں بہتری آئے گی.معاشرے میں بھی امن کی فضا قائم ہوگی اس لئے عافیت کے اس حصار سے فیض پانے کے لئے آپ سب کو خلافت سے اپنے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا ہوگا.غلبہ اسلام اور امن عالم کے لئے دعائیں کرنا ہوں گی اپنے اطاعت کے معیار کو بلند کرنا ہوگا.اور اپنے عہدیداروں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے خلافت کے دست و باز و اور خلیفہ وقت کے لئے سلطان نصیر بننا ہوگا.اطاعت کا مضمون بہت اہم ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف موقعوں پر اس کی اہمیت اور افادیت بیان فرمائی ہے.ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ”جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس مضمون پر خوب روشنی ڈالی ہے.آپ فرماتے ہیں: اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ بچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نو ر اور روح میں ایک
سبیل الرشاد جلد چہارم 164 لذت اور روشنی آتی ہے.مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں جس قدرا طاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں شرط یہ ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی مشکل امر ہے.اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کرنا ضروری ہوتا ہے" پھر فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ تو حید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جائے" پس اپنے اطاعت کے معیار کو بلند کریں.ہر سطح پر اپنی اطاعت کو سمجھیں.عہدیداران اپنے سے بالا عہد یدار ان کی اطاعت کریں.احباب جماعت اپنے عہدیداران کی اطاعت کریں اور سب مل کر خلافت سے بچے تعلق اور اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھا ئیں.یادرکھیں کہ آج خلافت احمد یہ ہی ہے جس کے ذریعہ غلبہ اسلام ہوگا.اسی سے حقیقی تو حید کا درس ملے گا اور اسی کے ذریعہ سے عالمی وحدت کا قیام عمل میں آئے گا.اللہ آپ سب کو اور آپ کی آئندہ نسلوں کو خلافت کی لڑی میں پروئے رکھے اور اطاعت کے اعلیٰ نمونے قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ آپ کے ساتھ ہو.آمین.والسلام خاکسار دستخط) مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ہفت روزہ بدر قادیان 14 دسمبر 2006ء) ذیلی تنظیموں کو نو جوانوں کو سنبھالنا چاہئے اور ہنر سکھلا کر بیکاری کا خاتمہ کرنا چاہئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 3 نومبر 2006ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.ایک مطالبہ نو جوانوں کا بریکاری کی عادت ختم کرنے کا تھا.یہ بھی بڑی خطرناک بیماری ہے اور بڑھتی جا رہی ہے.پاکستان میں بعض بے کار نو جوان اس لئے بے کار ہیں کہ یا تو ان کے جو رشتہ دار، والدین، بھائی وغیرہ باہر ہیں وہ باہر سے رقم بھیج دیتے ہیں اس لئے ذمہ داری کا احساس نہیں.یا اس امید پر بیٹھے ہیں کہ باہر جانا ہے.اب باہر جانا بھی اتنا آسان نہیں رہا، ان لوگوں کو بھی غلط امیدوں پر نہیں بیٹھنا چاہئے.اور جو آتے ہیں ان کے بھی یہاں اتنی آسانی سے کیس پاس نہیں ہوتے.اس لئے بلا وجہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے اور دھوکے میں نہ رہیں.اپنے نفس کو دھوکہ نہ دیں اور اپنے آپ کو سنبھالیں.جماعت اور ذیلی تنظیموں کو بھی اس بارے میں معین پروگرام بنانا چاہئے اور نو جوانوں کو سنبھالنا چاہئے.یہ لوگ جو فارغ
165 سبیل الرشاد جلد چہارم بیٹھے ہیں، فارغ بیٹھے یہ مطالبے کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارا کسی طرح باہر جانے کا انتظام ہو جائے ، بعض لڑکوں کے ماں باپ لکھ رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے حالات خراب ہیں باہر بلوالیں.باہر بلوانا کون سا آسان ہے.یا ہماری شادی باہر کروادیں یا جو بھی ذریعہ ہو.اور ایسے لوگوں میں سے جب کسی کی شادی یہاں ہو جاتی ہے اور یہاں آجاتے ہیں تو جب ان ملکوں میں ان کا Stay پکا ہو جاتا ہے تو پھر بیویوں پر ظلم کرنے شروع کر دیتے ہیں یا چھوڑ دیتے ہیں.یہ بھی ایک غلط رو خاص طور پر پاکستان میں اور ہندوستان میں چل پڑی ہے.ایسے نوجوانوں کو میں کہتا ہوں کہ اپنے ملک میں محنت کی عادت ڈالیں اور محنت کر کے کھائیں.اس دوران میں اگر باہر کا کوئی انتظام ہو جاتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن صرف اس لئے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بیٹھے رہنا کہ باہر جاتا ہے، اس سے بہت ساری غلط قسم کی عادتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور بہت ساری برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور پھر وہ برائیاں معاشرے میں ، اس ماحول میں پھیلنی شروع ہو جاتی ہیں.اسی طرح بعض ایسے ہیں جو یہاں آ کر بھی ہنر نہیں سیکھتے ، زبان نہیں سیکھتے ، اور ذراسی کوئی تکلیف ہو جائے تو بیماری کا بہانہ کر کے گھر بیٹھ جاتے ہیں.کیونکہ مددمل جاتی ہے اس لئے کام نہیں کرتے.بریکاری کی عادت کے خلاف ایسی مہم یہاں بھی چلانے کی بہت ضرورت ہے" (خطبات مسرور جلد 4 صفحہ 555) انصار اللہ کا ایک بہت بڑا کام خلافت کی حفاظت کرنا اور بیوی ، بچوں میں اس کی اطاعت کی روح پیدا کرنا ہے حضور انور نے مجلس انصار اللہ UK کے 24 ویں سالانہ اجتماع کے موقعہ پر 5 رنومبر 2005ء کو فرمایا: " حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دفعہ انصار کو مخاطب کرتے ہوئے وضاحت کی تھی کہ قرآن کریم میں انصار کا لفظ ماننے والوں کے لئے دو جگہ استعمال ہوا ہے.ایک جگہ حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق اور ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق.حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ یہ بڑا اہم نکتہ ہے.اگر انصار اس پر غور کریں تو مجلس انصار اللہ جماعت کا ایک انتہائی فعال حصہ بن سکتی ہے.حضورانور نے فرمایا کہ قرآن کریم میں جہاں حضرت عیسی کے تعلق میں لفظ انصار اللہ استعمال ہوا ہے وہاں ایک جگہ تو وہ خود اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ قوم کفر پر اصرار کر رہی ہے تو کون ہے جو میرا مددگار ہوگا.اس پر حواریوں نے کہا کہ ہم انصار اللہ ہیں اور اطاعت اور فرمانبرداری میں صف اول میں شمار ہوتے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ اس کی ایک صورت اس زمانے میں ظاہر ہوئی کہ ہم اس زمانے کے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر اس کی جماعت میں شامل ہوئے ہیں اور اس کی باتوں پر مکمل عمل کا اعلان کرتے ہیں.تو حضرت عیسی کے حواریوں کی طرح آپ کو بلایا گیا ہے کہ دین کی اشاعت کے لئے اس امام
166 سبیل الرشاد جلد چہارم کے مددگار بن جاؤ.حضور نے فرمایا کہ یہ کام آپ اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک ایمان مضبوط نہ ہو.حضور انور نے فرمایا کہ قرآن کریم نے مثال دے کر بتایا ہے کہ اعراب یعنی دیہاتوں کے رہنے والے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی ! تو ان کو بتا دے کہ ابھی یہ تمہارا دعویٰ ہے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں.تم یہ تو کہہ سکتے ہو کہ ہم نے فرمانبرداری قبول کر لی ہے.یہ اسلمْنَا کی حالت امنا میں تب داخل ہوگی جب تمہارا اپنا کچھ نہیں ہوگا.حضور انور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے حوالے سے بتایا کہ مومن وہ ہے جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں اور وہ تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے قبول کرتے اور اس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں.40 سال سے زائد ہر ناصر کے دل میں اللہ کا خوف پہلے سے زیادہ ہو حضور انور نے فرمایا کہ ایک ناصر جو 40 سال سے اوپر ہو چکا ہے اس کی سوچ میں گہرائی آجانی چاہئے.اسے اپنی عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کے کم ہونے کا احساس ہونا چاہئے.اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پہلے سے زیادہ ہونا چاہئے.اس کے اللہ پر ایمان کے معیار بہت اعلیٰ ہونے چاہئیں اور یہ ایمان کا اعلیٰ معیار اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب اللہ کی محبت سب محبتوں پر حاوی ہو جائے.حضور انور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد مبارک کے حوالہ سے بتایا کہ خدا نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اپنی جماعت کو اطلاع دے دیں کہ جو لوگ ایسا ایمان لائے جس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور نفاق اور بزدلی سے آلودہ نہیں اور طاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے.صحابہ رسول “ کا اسوہ اپنانے کی تلقین حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قرآن کریم میں جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا ذکر ہے یہ دو طرح کے لوگ تھے.ایک گروہ مہاجر کہلایا اور ایک انصار.جہاں تک حضرت عیسی کے حواریوں کی طرح انصار کہلانے کا تعلق ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو جب حکم ہوا کہ كُونُوا أَنْصَارَ الله تو کیا مہاجرین اور کیا انصار سب ہی اس میں شامل ہو گئے.ان کی عبادتوں کے معیار بھی ایسے تھے کہ جن کا کوئی مقابلہ نہیں.حضور نے انصار مدینہ کے ساتھ مہاجرین کی مؤاخات کے حوالہ سے انصار کی غیر معمولی قربانیوں کا بھی ذکر فرمایا.اور غزوہ بدر کے موقع پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مدینہ سے باہر جا کر دشمن کا مقابلہ کرنے کے معاملہ پر ان سے رائے چاہی تو مہاجرین کی طرف سے ہر قسم کی قربانیاں پیش
167 سبیل الرشاد جلد چہارم کرنے کے جواب کے باوجود جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار اس بارہ میں مشورہ طلب فرمایا تو ایک انصاری صحابی نے عرض کی کہ شاید حضور ہماری رائے جاننا چاہتے ہیں.انہوں نے کہا کہ آپ سے پہلا معاہدہ اس وقت ہوا تھا اور وہ آپ کی حفاظت اس صورت میں کرنے کا تھا کہ اگر مدینہ پر حملہ ہو.لیکن جب یہ معاہدہ ہوا تھا اس وقت ہم آپ کے پیارے وجود اور آپ کی پیاری تعلیم سے پوری طرح واقف نہیں تھے.اب حقیقت ہم پر مکمل طور پر روشن ہوگئی ہے.ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح آپ سے یہ نہیں کہیں گے کہ تو اور تیرا رب جا کر دشمن سے لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہمارا جواب وہی ہے جو مہاجرین دے چکے ہیں.ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی.آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی اور دشمن ہماری لاشوں کو روندتے ہوئے ہی آپ تک پہنچ سکے گا.حضور انور نے فرمایا کہ یہ تھا فدائیت کا نمونہ جو انصار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی سے فیض پانے کے بعد دکھایا.حضور انور نے اسی طرح غزوہ اُحد کے موقع پر اس انصاری کے اخلاص اور فدائیت سے معمور پیغام کا بھی ذکر فرمایا جو انہوں نے شدید زخمی حالت میں جام شہادت پانے سے چند لمحے قبل اپنی آخری خواہش کے طور پر دیا تھا.انہوں نے اپنی قوم کے لئے پیغام دیا تھا کہ میں اپنے پیچھے تمہارے سپرد خدا تعالیٰ کی ایک مقدس امانت کر کے جا رہا ہوں.میں جب تک زندہ رہا اس کی حفاظت کرتا رہا.اب اگر میری آخری نصیحت کا پاس ہے تو اس رسول کی حفاظت کرنا.حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ صحابہ نے جب نَحْنُ انْصَارُ الله کا اعلان کیا تو اپنا سب کچھ اللہ اور رسول اور اس کے دین پر فدا کر دیا.یہ نمونے ہیں جو آج انصار اللہ نے دکھانے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ اللہ کے حقوق بھی ادا کرو، عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرو.اعلیٰ اخلاق اور مالی قربانیوں کے بھی ایسے نمونے قائم کرو جو خدام کے لئے ، آپ کی بیویوں اور بچوں کے لئے مثال بن جائیں.حضور انور ایدہ اللہ نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں تحریک جدید میں مالی قربانی کے سلسلہ میں برطانیہ کی جماعتوں کا جو جائزہ پیش کیا تھا اس کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس جائزے کو آپ کو جھنجوڑ دینا چاہئے.حضور انور نے تحریک جدید میں پاکستانی احمدیوں کی قربانی کا ایک دفعہ پھر نہایت تحسین بھرے کلمات میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ باوجود نا مساعد حالات کے ان کی مالی قربانی میں گزشتہ سال کی مالی قربانی سے بھی اضافہ تھا اور اضافہ بھی بہت زیادہ تھا.آپ کی اکثریت وہیں سے آئی ہے.کیا وجہ ہے کہ جب وہاں ہوتے ہیں تو باوجود حالات خراب ہونے کے قربانیاں کرتے ہیں.یہاں آتے ہیں تو دوسری ضروریات کا خیال آجاتا ہے.حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ جتنے بلند معیاروں تک آپ اپنی آئندہ نسلوں کو لے جانا چاہتے ہیں
سبیل الرشاد جلد چہارم 168 انہی بلند معیاروں کو سامنے رکھ کر آپ کو اپنی قربانیوں کے معیار بڑھانے ہوں گے.خلافت کی حفاظت انصار اللہ کی اہم ذمہ داری ہے حضور انور نے فرمایا کہ پھر انصار اللہ کا ایک بہت بڑا کام خلافت کی حفاظت کرنا ہے.دعا ئیں کرتے ہوئے ، اللہ کے اور اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے اپنے اور اپنے بیوی بچوں میں خلافت کی مکمل اطاعت کی روح قائم کرتے ہوئے اس جذ بہ کو بڑھائیں.حضور انور نے فرمایا کہ خلافت کا انعام انشاء اللہ ہمیشہ جاری رہے گا لیکن اپنے معیارا ایسے بلند کریں جو ایک حقیقی مومن کا ہونا چاہئے.بچوں کی صرف دنیاوی تعلیم پر ہی نظر نہ رکھیں بلکہ ان کوگھروں میں بھی دینی ماحول مہیا کریں.اپنے بچوں کو مسجدوں کے ساتھ ، نماز سینیٹرز کے ساتھ جوڑیں.قرآن کریم پڑھنے اور دینی تعلیم کی طرف بھی توجہ دلائیں.بچوں سے ایسا دوستانہ تعلق رکھیں کہ جب گھر آئیں تو باہر کی باتیں آپ سے ڈسکس کریں.انہیں اچھا برا سمجھا ئیں.اس طرح کوشش کر کے اگلی نسلوں کو سنبھالیں گے تو ان مومنین میں شامل ہوں گے جن سے خلافت کا وعدہ ہے.حضورانور نے فرمایا کہ خلافت مشروط ہے عبادت گزاروں کے ساتھ اور مالی قربانی سے بھی اس کا تعلق ہے.حضور انور نے فرمایا کہ تحریک جدید نظام وصیت کے ارہاص کے طور پر ہے.جو نظام وصیت میں شامل نہیں ہو سکتے ان کو اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے تا کہ خلافت کی مضبوطی اور اشاعت اسلام کے لئے بڑے چھوٹے سب اس میں شامل ہو سکیں اور مکمل اطاعت اس نظام کو جاری رکھنے کے لئے نہایت اہم ہے.آخر میں حضور انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس روح اور جذ بہ کو سب کو اپنے اندر جاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ غلبہ اسلام کے وعدے ہم اپنی زندگیوں میں پورے ہوتے دیکھیں" الفضل انٹر نیشنل 17 نومبر 2006ء) صحابہ کی فدائیت کے نمونے انصار اللہ نے دکھلانے ہیں انصار اللہ کا ایک بڑا کام خلافت کی حفاظت اور بیوی بچوں میں اس کی اطاعت کی روح پیدا کرنا ہے حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 5 نومبر 2006ء کومجلس انصار اللہ برطانیہ کے 24 ویں سالانہ اجتماع کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نَحْنُ أَنْصَارُ اللہ کی لطیف اور پُر معارف تشریح بیان
169 سبیل الرشاد جلد چہارم فرمائی.جس میں حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد قرآن مجید کے تین مختلف مقامات سے آیات قرآنیہ کی تلاوت کی جن میں انصار کا ذکر ہے اور فرمایا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ انصار کو مخاطب کرتے ہوئے اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی یا یہ وضاحت کی تھی کہ قرآن کریم میں انصار کا لفظ ماننے والوں کیلئے دو جگہ استعمال ہوا ہے.ایک دفعہ حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق اور ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق یہ لفظ استعمال ہوا ہے.یہ ایک بڑا اہم نکتہ ہے.اگر انصار اس پر غور کریں تو مجلس انصار اللہ جماعت کا ایک انتہائی فعال حصہ بن سکتی ہے.اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اگر جائزہ لیں کہ ہم کس حد تک اس پر عمل کر رہے ہیں تو آپ کو خود ہی احساس ہوگا کہ ابھی بہت بڑا وسیع میدان خالی پڑا ہے.حضرت عیسی کے تعلق میں انصار کا ذکر قرآن کریم میں جہاں حضرت عیسی علیہ السلام کے تعلق میں انصار کا ذکر آتا ہے وہاں ایک جگہ تو خود حضرت عیسی قوم کے آپ کی تعلیم پر انکار اور عبادتوں کی طرف توجہ پر انکار کاسن کر بڑے درد سے اعلان کرتے ہیں کہ اکثریت تو ان حکموں پر عمل کرنے اور میری بات سننے سے انکاری ہے کیا تم میں سے کوئی خوش قسمت ہے جو اللہ کا پیغام پہنچانے اور اسکے حکموں پر عمل کرنے میں میرا معاون و مددگار بن جائے.اس پر حواریوں نے کہا کہ نَحْنُ أَنْصَارُ اللہ ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں اور ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر مکمل ایمان لاتے ہوئے اطاعت اور فرمابرداری میں صف اول میں شمار ہوتے ہیں.پھر دوسری جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مکمل ایمان لائے اور اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں پر عمل کرتے ہیں.پھر اس دعوی کی ایک صورت اس زمانے میں پیدا ہوئی جب ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ اس زمانہ کے امام کو مان کر ہم اسکی جماعت میں شامل ہوئے ہیں.اسکی باتوں پر مکمل عمل کرنے کا اعلان کرتے ہیں.پھر جب حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کی طرح اس طرف بلایا گیا کہ دین کی اشاعت اور اسکی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کیلئے میرے مددگار بن جاؤ اور یہ کام تم اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک تمہارا ایمان مضبوط نہ ہو تو صرف اتنا کہہ کر کہ ہم نے زمانہ کے امام کو مان لیا ہے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی اگر بات ہو رہی ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے صرف اتنا نہیں کہا تھا کہ ہم آپ پر ایمان لے آئے بلکہ قربانیوں کے اعلیٰ معیار بھی قائم کئے اور اس زمانہ میں بھی یہ نہیں ہوگا کہ صرف اتنا کہ دینے سے کہ ہم نے امام کو مان لیا ہے تو ایمان حاصل ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مثال دے کر بتا دیا ہے کہ اعراب کہتے ہیں ، دیہاتوں کے رہنے والے کہتے ہیں کہ آمنا ہم ایمان لے آئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بتا دے کہ یہا بھی
سبیل الرشاد جلد چہارم 170 تمہارا دعویٰ ہے کہ تم ایمان لے آئے ، تم یہ تو کہہ سکتے ہو کہ اَسلَمنا کہ ہم نے فرمانبرداری قبول کر لی ہے.پس یہ أَسْلَمْنَا کی حالت آمنا میں تب داخل ہو گی جب اپنا کچھ بھی نہیں ہوگا اور سب کچھ خدا تعالیٰ کی خاطر ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :." مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں.جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کیلئے اختیار کرتے اور اسکی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بُت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمال فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب سے اپنے تئیں دور تر لے جاتے ہیں." ( تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ 103 تفسیر مسیح موعود جلد چہارم صفحہ 226,225) 40 سال سے اوپر ہر ناصر کے دل میں اللہ کا خوف پہلے سے زیادہ ہو تو ایک ناصر جو چالیس سال کی عمر سے اوپر جاچکا ہے، جس کی سوچ میں گہرائی آجانی چاہئے ، جس کو اپنی عمر کے بڑھنے کے ساتھ اپنی زندگی کے کم ہونے کا احساس ہو جانا چاہئے ، جس کو اللہ کا خوف پہلے کی نسبت زیادہ ہونا چاہئے ، جو آنحضرت صلی اللہ پر کامل ایمان لاتے ہوئے آپ کے مسیح اور مہدی علیہ السلام کی جماعت میں بھی شامل ہو چکا ہے، اس کے اللہ کے مددگار بننے کے معیار بہت بڑھ جانے چاہئیں.ہر وقت یہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ ہم نے خدا کی رضا حاصل کرنی ہے.تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنا ہے، جہاں ہر وقت یہ خیال رہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے رتی بھر بھی ادھر اُدھر نہیں ہونا.گو یہ بہت مشکل کام ہے لیکن ایک مومن کا یہی کام ہے کہ اس طرف توجہ رہے اور پھر ایسے شخص کو جس نے انصار اللہ ہونے کا عہد کیا ہے، ایمان کا یہ اعلیٰ معیار اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی محبت سب محبتوں پر حاوی ہو جائے ، نہ مال کی محبت ہو نہ اولاد کی محبت ہو، نہ کسی اور چیز کی محبت ہو.یہ معیار ہے جو ایک خالص مومن کو حاصل کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :." خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بز دلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے." (رساله الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 309) تو دیکھیں یہ ایمان کا معیار ہے اور جیسا کہ میں نے کہا جب انسان اس عمر میں داخل ہوتا ہے جب
171 سبیل الرشاد جلد چہارم آئندہ زندگی تھوڑی نظر آتی ہے یا آرہی ہوتی ہے تو کس قدر اس امر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہمارا نَحْنُ أَنْصَارُ الله کا نعرہ خالصہ اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے لگایا ہو نعرہ ہو اور ہمارا ہر قدم جو اس راہ میں اٹھے وہ اللہ تعالیٰ کے قریب ترلے جانے والا قدم ہو ، وہ صدق سے اٹھا ہوا قدم ہو، سچائی اس میں سے پھوٹ رہی ہو.اللہ کی عبادتوں کی طرف بھی ہماری نظر ہو اور اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کیلئے ہر قربانی دینے کیلئے تیار رہنے کی طرف بھی ہماری توجہ ہو اور اخلاق کے اعلیٰ معیار بھی ہم قائم کر رہے ہوں، حقوق العباد کی ادائیگی بھی ہمارا مطمع نظر ہو اور اپنے اپنے دائرے میں اعلیٰ اخلاق کو پھیلانے اور حقوق العباد ادا کرنے کی طرف ہماری بھر پور کوشش ہو اور ان سب امور میں جن میں اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی شامل ہیں اور حقوق العباد بھی شامل ہیں ہمارے سے غفلت نہ ہو، کبھی ہم سنتی دکھانے والے نہ ہوں.آنحضور کے دور میں کُونُوا أَنْصَارُ اللہ کی پکار اور صحابہ کا نمونہ جب یہ خصوصیات ہم میں پیدا ہو جائینگی تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اپنے عہد کو نبھاتے ہوئے ان لوگوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی ہے جو آنحضرت عبید اللہ کے صحابہ کہلاتے ہیں اور جنہوں نے اپنی روشن اور چمکدار مثالیں اس عہد کے نبھانے کیلئے قائم کی ہیں.یہ دو طرح کے لوگ تھے ایک گروہ مہاجر کہلایا اور ایک گروہ انصار کہلاتا ہے.جہاں تک حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کی طرح انصار بننے کا سوال ہے، آنحضرت علی اسلم کے صحابہ کو اللہ تعالیٰ کا حکم ملا کہ كُونُوا أَنْصَارَ اللہ کہ تم اللہ تعالیٰ کے دین کے مددگار بن جاؤ ، تو کیا مہاجرین اور کیا انصار سب ہی اس اعزاز کو پانے کی دوڑ میں شامل ہو گئے اور وہ کا رہائے نمایاں دکھائے ، ایسے ایسے کام کئے کہ ان کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے.یہ سب کچھ جو ہم غیر معمولی قربانیوں کے معیار اور اپنی حالتوں کو یکسر بدلنے کے نظارے صحابہ میں دیکھتے ہیں یہ اللہ اور اس کے رسول سے غیر معمولی محبت کی وجہ سے تھا، جو محبت صحابہ کے ایمانوں کی ترقی نے پیدا کر دی تھی.ان کی عبادتوں کے معیار بھی ایسے تھے کہ جس کا کوئی مقابلہ نہیں، ان کے دین کی خاطر جان مال، وقت کی قربانی کے معیار بھی ایسے تھے کہ جن کا کوئی مقابلہ نہیں ، ان کی آپس کی محبت اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کے معیار بھی ایسے تھے کہ حیرت ہوتی ہے اور یہ لوگ ایسے تھے جن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:.والشبقُونَ الاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهجريْنَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنْتٍ تَجْرِى تَحْتَهَا الْأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيْهَا أَبَدًا ذلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ - (التوبة: 100)
172 سبیل الرشاد جلد چہارم اور مہاجرین اور انصار میں سبقت لے جانے والے اولین اور وہ لوگ جنہوں نے حسن عمل کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اس سے راضی ہو گئے اور اس نے ان کیلئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں.وہ ہمیشہ اس میں رہنے والے ہیں.یہ بہت عظیم کامیابی ہے.پس یہ لوگ ہیں جو ہمارے لئے مثال اور نمونہ کے طور پر پیش کئے گئے ہیں جنہوں نے اپنا ہر عہد نبھایا اور اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور جنتوں کے وارث ٹھہرے.یہاں میں ان میں سے ایک گروہ جو عليه انصار کہلاتے ہیں کا کچھ ذکر کرنا چاہتا ہوں.انہوں نے جب تک آنحضرت علی اللہ ہجرت کر کے مدینہ نہیں آگئے تھے، آنحضرت صلی اللہ کی صحبت سے اس طرح فیض نہیں پایا تھا جس طرح مکہ کے ابتدائی مسلمانوں نے فیض پایا اور ایمان میں ترقی کی.لیکن ہجرت کے وقت جب آنحضرت علی اللہ نے مواخات کا سلسلہ شروع کیا ، ایک دوسرے کے بھائی بنائے تو انصار نے مہاجر بھائیوں کیلئے حقوق العباد کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرتے ہوئے اپنی جائیدادوں میں سے نصف حصہ ان کو دے دیا، اپنی آمدنیوں میں سے نصف حصہ ان کو دے دیا، ہر چیز بانٹ کر کھانے لگ گئے اور پھر جب آنحضرت علی یا اللہ کی صحبت کا اثر ہوا، قوت قدسیہ کا اثر ہوا تو أَسْلَمْنَا سے آمَنَّا کا ادراک پیدا ہوا.جنگ بدر میں انصاری سردار نے کیا خوبصورت جواب دیا جب آنحضرت علی اللہ ہر ایک سے مشورہ کر رہے تھے تو ہر دفعہ جب آنحضرت علب الا اللہ پوچھتے تھے کہ کس طرح عليلى جنگ لڑی جائے تو مہاجرین ہمیشہ کھڑے ہو کر کہتے تھے کہ ہم حضور عبید اللہ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے لیکن آنحضرت عبید اللہ پھر یہی سوال دہراتے جاتے تھے کہ مشورہ دو.اس پر ایک انصاری سردار نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ حضور کا ارشاد یا اشارہ شاید ہماری طرف ہے، آپ نے فرمایا ہاں.تو انصاری سردار نے عرض کی کہ پھر ہمارا جواب یہ ہے کہ آپ سے پہلا معاہدہ آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہوا تھا اور وہ آپ کی حفاظت اس صورت میں کرنے کا تھا کہ اگر مدینہ میں دشمن آپ پر حملہ کرے تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے اور مدینہ سے باہر نکل کر حفاظت کی ذمہ داری ہم نہیں لے سکتے.لیکن اب آپ بدر کے میدان میں کھڑے ہیں ، مدینہ سے باہر ہیں تو ہمارے سے ہماری صلى الله رائے پوچھ رہے ہیں.حضور علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں اسی لئے میں پوچھ رہا ہوں.تو انصار سردار نے عرض کیا کہ جب یہ پہلا معاہدہ ہوا تھا تو اس وقت ہم آپ کے پیارے وجود اور پیاری تعلیم سے پوری طرح واقف نہیں تھے.اب حقیقت ہم پر مکمل طور پر کھل گئی ہے، ہر طرح سے روشن ہوگئی ہے.اب اے اللہ کے رسول علم اس معاہدہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، اب ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح یہ جواب نہیں دیں گے فَاذْهَبْ أَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَهُنَا قَاعِدُوْنَ (سورة المائدہ:25) کہ تو اور تیرا رب جا کر دشمن
173 سبیل الرشاد جلد چہارم سے لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں.نہیں بلکہ ہمارا جواب بھی وہی ہے جو مہاجرین دے چکے ہیں کہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے ، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور ہماری لاشوں کو روندے بغیر دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا، اگر آپ کہیں تو ہم لوگ سمندر میں بھی گھوڑے دوڑا دیں.عرب چونکہ ریگستان میں رہنے والے تھے، سمندر کافی فاصلے پر تھا، پانی سے وہ لوگ ڈرتے تھے اس کو جانتے نہیں تھے ایک خوف تھا.لیکن اس ایمان نے اتنی جرات پیدا کر دی کہ آپ کہیں تو ہم سمندر میں بھی گھوڑے دوڑا دیں گے.تو یہ تھا فدائیت کا وہ نمونہ جو انصار نے آپ صلی اللہ کی قوت قدسی سے فیض پانے کے بعد دکھایا.پھر جنگ اُحد میں انصار کا نمونہ بھی دیکھیں کہ ایک انصاری جو قریب المرگ تھے، زخموں سے چور تھے، جب ان سے کسی نے پوچھا کہ تمہاری کوئی آخری خواہش رشتے داروں کو پہنچانے کیلئے تمہارا کوئی پیغام ہے؟ تو انہوں نے نہ اپنے بچوں کی فکر کا اظہار کیا ، نہ اپنی بیوی کی فکر کا اظہار کیا، فکر تھی تو آنحضرت علی اللہ کی اور کہا کہ میرے رشتے داروں کو یہ پیغام پہنچادینا کہ وہ تمہیں سلام کہتا تھا اور کہتا تھا کہ میں تو مر رہا ہوں لیکن اپنے پیچھے تمہارے سپر د خدا تعالیٰ کی ایک مقدس امانت کر کے جا رہا ہوں.میں جب تک زندہ رہا اس مقدس امانت کی حفاظت کرتا رہا اپنی جان کی بھی کچھ پرواہ نہیں کی، اب میں تم سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر تمہیں میرے آخری الفاظ کا پاس ہے تو اگر تمہیں اپنی جانوں کے نذرانے بھی دینے پڑے تو اس رسول عبید اللہ کی حفاظت کرنا.انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اور رشتہ داروں کو پیغام بھیجا کہ میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگوں میں آنحضرت عبیل اللہ کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اور آپ لوگ کبھی بھی اپنی جانوں کی پر واہ نہیں کریں گے.تو یہ تھے ان ایمان میں سبقت لے جانے والوں کے نمونے.جب نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ کا اعلان کیا تو اپنا سب کچھ اللہ ، رسول اور اس کے دین پر نچھاور کر دیا.پس یہ نمونے ہیں جو آج آپ انصار اللہ کہلانے والوں نے دکھانے ہیں.پس جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ انصار اللہ کے الفاظ پر غور کریں، اس عہد پر غور کریں جو آپ اپنے اجلاسوں اور اجتماعوں میں پڑھتے ہیں.آج آپ سے تلوار چلانے کا مطالبہ نہیں کیا جارہا ، جنگ میں اپنے آپ کو جھونکنے کا مطالبہ نہیں کیا جا رہا، توپوں اور گولوں کے سامنے کھڑے ہونے کا مطالبہ نہیں کیا جارہا.مطالبہ ہے تو یہ ہے کہ اللہ کے حقوق ادا کرو، اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرو.اپنی عبادتوں کے وہ نمونے قائم کرو جو خدام کیلئے بھی مثال بن جائیں اور اطفال کیلئے بھی مثال بن جائیں، وہ تمہاری بیویوں کیلئے بھی مثال بن جائیں اور تمہاری بچیوں کیلئے بھی مثال بن جائیں.تمہاری مالی قربانیاں بھی ایسی ہوں جن کے نمونہ سے دوسرے بھی فائدہ اٹھائیں.
174 سبیل الرشاد جلد چہارم پرسوں جمعہ کو جو میں نے یو کے کی بعض جماعتوں کا جائزہ پیش کیا تھا، اس جائزہ کو آپ لوگوں کو جھنجھوڑ دینا چاہئے.عموماً اچھی کمائی کا وقت اور بہتر آمد کا وقت 40 سال سے 60 سال تک کی عمر کا ہوتا ہے.اپنے وعدوں کو دیکھیں، اپنے عہدوں کو دیکھیں ، اپنے اس عہد کو دیکھیں اور پھر اپنی قربانی کے معیاروں کو دیکھیں.ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو تم اپنے پر خرچ کر لیتے ہو یا اللہ کی راہ میں جو تم نے خرچ کر دیا وہی بچا ہے، جو تم بچا کر چلے گئے ہو وہ تمہارے کسی کام کا نہیں ، وہ تمہارا نہیں.لیکن اپنے پر خرچ کرنے کی بھی حدیں مقرر ہیں کہ اعتدال سے خرچ کرو، جائز خرچ کرو.جمعہ پر جو میں نے مالی جائزہ پیش کیا تھا اس میں پاکستانی احمدیوں کی قربانی سب سے زیادہ تھی.گزشتہ سال سے گل قربانی میں اضافہ بھی ان کا سب سے زیادہ تھا اور ان کے گزشتہ سال کی نسبت اضافہ بھی بہت زیادہ تھا.آپ لوگوں کی اکثریت جو اس وقت میرے سامنے بیٹھی ہے وہیں سے آئی ہوئی ہے.کیا وجہ ہے کہ جب آپ وہاں ہوتے ہیں تو باوجو د خراب حالات ہونے کے قربانیاں کرتے ہیں، یہاں آتے ہیں تو دوسری ضروریات کا خیال آ جاتا ہے؟ پس اس طرف توجہ دیں.آج اس وقت اس دور میں آپ یہاں جو معیار قائم کریں گے وہی اس جماعت کی مثال بن جائے گی.جتنے بلند معیاروں تک آپ آئندہ نسلوں کو لے جانا چاہتے ہیں انہیں بلند میعاروں کو آپ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ٹارگٹ مقرر کرنے ہوں گے.پس آئندہ نسلوں کو ان قربانیوں کی طرف توجہ دلانے کیلئے بھی آپ کو اپنی قربانیوں کے معیار بڑھانے ہونگے.یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ تحریک جدید میں شمولیت میں بھی بہت گنجائش ہے اس طرف بھی بہت توجہ کی ضرورت ہے.بعض جماعتوں میں نصف سے بھی زائد ایسے لوگ ہیں جو تحریک جدید میں شامل نہیں ہوئے.شاید اسی طرح وقف جدید میں بھی ہو تو انصار یہ ذمہ داری اب لیں کہ تعداد کو بڑھانے میں آپ نے اپنا ایک کردار ادا کرنا ہے.پہلے انصار اللہ اپنا جائزہ لیں کہ وہ سو فیصدی تحریکات میں شامل ہیں.پھر اپنے بیوی بچوں کو شامل کرنے کی کوشش کریں.خلافت کی حفاظت انصار اللہ کی اہم ذمہ داری ہے جب ان قربانیوں کی طرف توجہ ہوگی تو پھر نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کا نعرہ لگانے کے بعد آپ کا ایک بہت بڑا کام جیسا کہ آپ کے عہد میں بھی ہے، خلافت کی حفاظت کرنا ہے.دعائیں کرتے ہوئے ، اللہ تعالیٰ کے فرائض کی مکمل ادائیگی کرتے ہوئے اپنے اور اپنے بیوی بچوں میں خلافت کی مکمل اطاعت کی روح پیدا کریں.اس جذبے کو بڑھا ئیں سطحی نظر سے نہ دیکھیں کہ مومنین کی جماعت سے انعام کا وعدہ ہے.ان الفاظ پر غور کریں کہ کن سے خلافت کا وعدہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی اس انعام کے جاری
175 سبیل الرشاد جلد چہارم رہنے کا وعدہ ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ جاری رہے گا اور ضرور جاری رہے گا لیکن جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ اپنے معیار ایسے بلند کریں جو ایک حقیقی مومن کے ہونے چاہیں تا کہ آپ بھی انہی لوگوں کی صف میں شامل رہیں جن سے اس انعام کا وعدہ ہے.اپنے بچوں کی صرف دنیاوی تعلیم پر ہی نظر نہ رکھیں بلکہ ان کو گھروں میں بھی دینی ماحول مہیا کریں.اپنے بچوں کو مسجدوں کے ساتھ نماز سنٹروں کے ساتھ جوڑیں، انہیں دین کا علم حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائیں.انہیں قرآن کریم پڑھنے کی طرف توجہ دلائیں.ایک دفعہ تو مائیں کسی طرح بچوں کو قرآن کریم پڑھا دیتی ہیں یا کسی ذریعہ سے ، مدد سے پڑھا دیتی ہیں اور بچے کی آمین بھی ہو جاتی ہے لیکن اس کے بعد پھر نگرانی نہیں ہوتی ، تو یہ باپوں کا کام ہے کہ ان بچوں کو توجہ دلاتے رہیں.پھر نو جوانی میں قدم رکھنے کے بعد بچے باہر وقت گزارتے ہیں، اس وقت وہ ماؤں کے ہاتھوں میں نہیں رہتے ، تو ان سے بھی ایسے دوستانہ تعلقات رکھیں کہ جب وہ گھر میں آئیں تو باہر کی باتیں آپ سے ڈسکس کریں.انہیں پھرا چھے برے کا فرق سمجھائیں.اچھا کیا ہے، برا کیا ہے.اسطرح کوشش کر کے جب آپ اپنی اگلی نسل کو سنبھالیں گے تو ان مومنین میں شمار ہوں گے جن کے ساتھ خلافت کا وعدہ ہے.پس عبادتوں میں بھی اپنے نیک نمونے قائم کریں کہ خلافت عبادت گزاروں کے ساتھ مشروط ہے.اپنی مالی قربانیوں کی طرف بھی توجہ دیں کہ خلافت سے اس کا بھی گہرا تعلق ہے اور اس زمانہ میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو نظام وصیت کے ساتھ جوڑ کر تعلق کو مزید واضح فرما دیا ہے.اور جیسا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے تحریک جدید کے بارہ میں شروع میں فرمایا تھا کہ یہ بھی نظام وصیت کے ارہاص کے طور پر ہے.اس لئے جو نظام وصیت میں شامل نہیں ہو سکتے انہیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، جو شامل ہیں ان کو ان قربانیوں میں حصہ لینے سے مزید قربانیوں کی طرف توجہ پیدا ہوگی تاکہ خلافت کی مضبوطی اور اشاعت اسلام کیلئے چھوٹے سے لے کر بڑے تک سب ، جماعت کا ہر ممبر اور ہر فرد شامل ہو سکے.اس لئے بڑوں اور چھوٹوں میں مالی قربانیوں کی روح پیدا کریں.یہ بڑوں کا اور انصار اللہ کا کام ہے کہ روح پیدا کریں اور اطاعت رسول کے بھی اعلیٰ معیار قائم کریں اور پھر اطاعت خلافت اور نظام جماعت کی پابندی کے خود بھی اعلیٰ معیار قائم کریں اور اپنی اولادوں میں بھی اور اپنے بیوی بچوں میں بھی اس معیار کو قائم کرنے کی کوشش کریں کیونکہ اطاعت اس نظام کو جاری رکھنے کیلئے انتہائی اہم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ اطاعت خالص اطاعت ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ اس روح اور اس جذبے کو سب کو اپنے اندر جاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ غلبہ اسلام کے وعدے ہم اپنی زندگیوں میں پورے ہوتے دیکھیں
سبیل الرشاد جلد چہارم 176 عہد یداران ، میاں بیوی کے جھگڑے میں ظالم شوہر کے ساتھ بے جا ہمدردی نہ کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 10 نومبر 2006ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا."اصل چیز یہ ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہے اور ظلم جس طرف سے بھی ہور ہا ہو ختم کرنا ہے اور اس کے خلاف جہاد کرنا ہے.جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا کہ بعض مرد اس قدر ظالم ہوتے ہیں کہ بڑے گندے الزام لگا کر عورتوں کی بدنامی کر رہے ہوتے ہیں، بعض دفعہ عورتیں یہ حرکتیں کر رہی ہوتی ہیں.لیکن مردوں کے پاس کیونکہ وسائل زیادہ ہیں ، طاقت زیادہ ہے، باہر پھر نا زیادہ ہے اس لئے وہ اس سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں.لیکن یا درکھیں کہ اپنے زعم میں جو بھی فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں اپنے لئے آگ کا انتظام کر رہے ہوتے ہیں.پس خوف خدا کریں اور ان باتوں کو چھوڑ ہیں.بعض تو ظلموں میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ بچوں کو لے کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے اور پھر بھی احمدی کہلاتے ہیں.ماں بیچاری چیخ رہی ہے چلا رہی ہے.ماں پر غلط الزام لگا کر اس کو بچوں سے محروم کر دیتے ہیں.حالانکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ قرآن کہتا ہے کہ فائدہ اٹھانے کے لئے غلط الزام نہ لگاؤ.اور پھر اس مرد کے ، ایسے باپ کے سب رشتہ دار اس کی مدد کر رہے ہوتے ہیں.ایسے مرد اور ساتھ دینے والے ایسے جتنے رشتہ دار ہیں ان کے متعلق تو جماعتی نظام کو چاہئے کہ فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے ان کے خلاف تعزیری کارروائی کی سفارش کرے.یہ دیکھیں کہ قرآنی تعلیم کیا ہے اور ایسے لوگوں کے کرتوت کیا ہیں.؟ افسوس اس بات پر بھی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بعض عہدیدار بھی ایسے مردوں کی مدد کر رہے ہوتے ہیں اور کہیں سے بھی تقویٰ سے کام نہیں لیا جار ہا ہوتا.تو یہ الزام تراشیاں اور بچوں کے بیان اور بچوں کے سامنے ماں کے متعلق باتیں ، جو انتہائی نامناسب ہوتی ہیں ، بچوں کے اخلاق بھی تباہ کر رہی ہوتی ہیں.ایسے مرد اپنی اناؤں کی خاطر بچوں کو آگ میں دھکیل رہے ہوتے ہیں اور بعض مردوں کی دینی غیرت بھی اس طرح مرجاتی ہے کہ ان غلط حرکتوں کی وجہ سے اگر ان کے خلاف کارروائی ہوتی ہے اور اخراج از نظام جماعت ہو گیا تو تب بھی ان کو کوئی پروانہیں ہوتی، اپنی انا کی خاطر دین چھوڑ بیٹھتے ہیں.....بہر حا جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اصل کام ظلم کوختم کرنا ہے اور انصاف قائم کرنا ہے اور خلافت کے فرائض میں سے انصاف کرنا اور انصاف کو قائم کرنا ایک بہت بڑا فرض ہے.اس لئے جماعتی عہدیدار بھی
177 سبیل الرشاد جلد چہارم اس ذمہ داری کو سمجھیں کہ وہ جس نظام جماعت کے لئے کام کر رہے ہیں وہ خلیفہ وقت کی نمائندگی میں کام کر رہا ہے.اس لئے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرنا ان کا اولین فرض ہے.یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے.خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر ہر ایک کو یہ ذمہ داری نبھانی چاہئے.فیصلے کرتے وقت، خلیفہ وقت کو سفارش کرتے وقت ہر قسم کے تعلق سے بالا ہو کر سفارش کیا کریں.اگر کسی کی حرکت پر فوری غصہ آئے تو پھر دودن ٹھہر کر سفارش کرنی چاہئے تا کہ کسی بھی قسم کی جانبدارانہ رائے نہ ہو.اور فریقین بھی یادرکھیں کہ بعض اوقات اپنے حق لینے کے لئے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں یا یہ کہنا چاہئے کہ نا جائز حق مانگتے ہیں.( تو انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے )" خطبات مسرور جلد 4 صفحہ 571-572) اعزازی خدمت کرنے والے سے بھی کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو، کوئی ایسا کلمہ نہ نکلے جو سچائی کے خلاف ہو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یکم دسمبر 2006ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا." اس پہلو سے بھی ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو، کوئی ایسا کلمہ نہ نکلے جو سچائی کے خلاف ہو.اس کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے تا کہ اپنے رب کے احسانوں کا شکر ادا کر سکے اور اس کے انعاموں کا وارث بن سکے.ملازمت کرنے والا ہے یا کوئی بھی کام کرنے والا ہے تو محنت اور ایمانداری سے کام کرے، لوگوں سے معاملات ہیں تو ان کے حقوق کا خیال رکھے.جماعتی ذمہ داریاں ہیں، چاہے اعزازی خدمت کی صورت میں ہے یا واقف زندگی کارکن کی صورت میں ہے ان میں کبھی کسی قسم کی نستی یا سچائی سے ہٹی ہوئی بات سامنے نہ لائے.ہر ایک شام کو اپنا جائزہ لے تاکہ پتہ لگے کہ کس حد تک صدق پر قائم ہے، ضمیر گواہی دے کہ ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا اور راتیں بھی اس بات کی گواہی دیں کہ تقویٰ سے رات بسر کی.اگر دن اور رات میں ہماری سچائی اور تقویٰ کے معیار رہے تو کامیابی ہے لیکن اگر معیار گر رہے ہیں تو اس دعا کے حوالے سے کہ ہم نے آنے والے منادی کو سنا، منادی کو مانا یہ بات غلط ہو جائے گی ، یہ جھوٹ ہے، اپنے نفس سے بھی دھوکہ ہے اور خدا تعالیٰ جو ہمارا رب ہے اس سے بھی دھوکہ ہے" (خطبات مسرور جلد 4 صفحہ 600)
سبیل الرشاد جلد چہارم 178 عہد یداران مدد میں برابر کا سلوک کر پیس خواہ مدد لینے والوں میں سے کسی نے ان کے خلاف کوئی بات کہہ دی ہو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 8 دسمبر 2006ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا." جو قسم اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کھائی جائے اس کو توڑنا جائز اور ضروری ہے.تو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ اُس کی ربوبیت کے تحت جو تمہارے ساتھ سلوک ہو رہا ہے، انسانوں سے سلوک ہو رہا ہے، جس میں رحم بھی ہے بخشش بھی ہے اور بہت سے دوسرے فیض بھی ہیں ان سے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے لئے تمہیں بھی ان کو اختیار کرنا چاہئے اور کسی بھی چیز کے خلاف دلوں میں کہنے پیدا نہیں ہونے چاہئیں.ضرورت مند کی ضرورت پوری ہونی چاہئے.یہ نہیں کہ فلاں آدمی ایسا ہے، فلاں عہد یدار کے ساتھ صحیح تعلقات نہیں ہیں یا فلاں بات فلاں کو غلط کہہ دی ہے تو اس کو اگر ضرورت بھی ہے تو اس کی مدد نہیں کرنی.اس کی ضرورت پوری کرنا، اس کی مدد کرنا، اس کی بھوک مٹانا ایک علیحدہ چیز ہے اور انتظامی معاملات اور ان پر ایکشن (Action) لینا ایک علیحدہ چیز ہے“ (خطبات مسرور جلد 4 صفحہ 612) انصار اللہ اپنے وعدے خود پورے کریں مرکز پر انحصار نہ کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالی نے 9 دسمبر 2006ء کو جرمنی میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے فرمایا." کچھ عرصہ ہوا آپ کے صدر صاحب انصار اللہ نے مجھے لکھا کہ انصار اللہ نے 100 مساجد کیلئے وعدہ کیا ہوا ہے.پانچ لاکھ یا جتنا بھی تھا.جو میں نے ٹارگٹ دیا تھا ساروں کو اور فلاں فلاں اخراجات ہو گئے ہیں اس لئے مرکز ہمیں اتنے عرصہ کے لئے کچھ قرض دے دے تاکہ انصار اللہ اپنا وعدہ پورا کر سکے.تو میں نے ان کو جواب دیا تھا کہ بالکل اس کی امید نہ رکھیں.یہ گندی عادت جو آپ ڈالنا چاہتے ہیں اپنے آپ کو اور پھر ایک آپ کو جو یہ گندی عادت پڑے گی تو باقی تنظیموں کو بھی پڑے گی.اس کو میں نہیں ہونے دوں گا خود ہمت کریں ، خود رقم جمع کریں.انہوں نے وعدہ پورا کیا یا نہیں کیا مجھے نہیں پتہ لیکن بہر حال انکار ہو گیا تھا.تو میں نے سوچا تھا کہ اگر انہوں نے زیادہ زور دیا یا کسی اور تنظیم نے لکھا تو پھر میں ان کو یہی جواب دوں گا کہ اب میں پاکستانی احمدیوں سے کہتا ہوں کہ وہ اپنے ان امیر بھائی بہنوں کی مدد کریں کیونکہ یہ ہمت ہار رہے ہیں.اور کچھ تھوڑا بہت جوڑ کر آنہ دو آ نے چندہ جمع کریں اور ان لوگوں کو بھجوادیں.لیکن میرا خیال ہے کہ میرا انصار اللہ کو جو جواب تھا وہ کافی اثر کر گیا اور امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اب آپ لوگ خود اپنے پاؤں پہ ساری تنظیمیں کھڑی ہوں گی.خطبات مسر در جلد 4 صفحہ 644-645)
سبیل الرشاد جلد چہارم 179 جماعتی سطح پر جو بستیاں یا کمیاں ہیں ان کو ذیلی تنظیموں نے پورا کرنا ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دورہ جرمنی کے دوران مورخہ 24 دسمبر 2006ء بیت السبوح فرنکفرٹ میں نیشنل عاملہ مجلس انصار اللہ جرمنی کے ساتھ میٹنگ میں شمولیت فرما کر تمام شعبہ جات کا جائزہ لیا.قائدین سے ان کے کام کی تفصیل دریافت فرمائی اور درج ذیل ہدایات سے نوازا.صف دوم کے انصار میں جو یہ تصور پیدا ہو گیا ہے کہ دس میل سائیکل چلالی اور ٹورنا منٹ کر لئے تو بڑا تیر مارلیا ، آپ کا صرف یہ کام نہیں.بلکہ اس شعبہ کا مقصد یہ ہے کہ اس عمر کے انصار اپنے آپ کو بوڑھے نہ سمجھنے لگ جائیں اور جس تنظیمی کام کو بڑی عمر کے انصار سر انجام دینے سے قاصر ہوں وہ کام یہ انصار سرانجام دیں.صف دوم کے پروگراموں میں ورزش اور سائیکلنگ وغیرہ بھی یہ احساس دلانے کے لئے رکھی جاتی ہے کہ ہمارے اندر طاقت اور قوت ارادی ہے جس سے ہم یہ سارے کام کر سکتے ہیں.پس صف دوم کے سو فیصد انصار کو تبلیغی اور تربیتی کاموں میں شامل کریں.ذیلی تنظیموں کا مقصد یہ ہے کہ جماعتی سطح پر جوتیاں یا کمیاں ہیں ان کو وہ پورا کریں.اگر ذیلی تنظیم کے قائد مال یا قائد تربیت نے جماعتی شعبہ مال اور شعبہ تربیت پر ہی انحصار کرنا ہے تو پھر ذیلی تنظیم کا کیا فائدہ ہوا؟ اس لئے اپنے طور پر ان لوگوں کے بارہ میں معلومات حاصل کریں جو نمازوں اور جمعوں میں شامل ہونے میں سُست ہیں.ان کے جماعت سے عدم رابطہ کی وجہ تلاش کریں اور پھر جماعتی تنظیمی اور ذاتی ہر سطح پر پیار اور محبت سے انہیں سمجھا کر نمازوں میں جمعوں پر اور نظام جماعت کی اطاعت کی طرف لائیں، اس کے بعد چندہ جات کی فکر کریں.اگر صرف پیسے لینے کی طرف توجہ رکھیں گے تو تربیت کے اصل مقصد سے ہٹ جائیں گے.پس اس بارہ میں شعبہ تربیت کو فعال کرنے کی بہت ضرورت ہے.معاون صدر کو اگر صدر مجلس کی طرف سے کوئی کام سپرد نہیں ہوتا تو وہ دعا تو کرسکتا ہے، اپنی تنظیم کے لئے خاص طور پر دو نفل ادا کر سکتا ہے.آمدن نشستن اور برخاستن یعنی آئے ، میٹنگ میں بیٹھے، بڑی بڑی سکیمیں بنا ئیں اور اٹھ کر چلے گئے ، کے رجحان کو ختم کریں.اپنے کاموں کی اور میٹنگز میں طے پانے والے امور کی تعمیل کا با قاعدہ جائزہ لیتے رہنا چاہئے.جب کوئی نیا شخص کسی عہدہ پر آتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ پچھلی فائلوں کو ضرور پڑھ لے تا کہ اسے علم ہو جائے کہ پہلے کیا کمیاں اور نقائص رہ گئے تھے جنہیں اسے دور کرنا ہے.اس کے بعد وہ اپنا پروگرام بنائے.اگر تربیتی کورس بنا کر نو مبائعین کو بھجوائے جائیں اور ان کا با قاعدہ جائزہ لیا جا تار ہے تو تین سال بعد ان نو مبائعین کو جماعت کی Main Stream میں شامل ہو جانا چاہئے ، پھر انہیں نو مبائعین کے کورسوں کی
180 سبیل الرشاد جلد چہارم ضرورت نہیں رہنی چاہئے.نماز بنیادی چیز ہے جو ہر نو مبائع کو پڑھنی چاہئے.سب سے پہلے انہیں نماز پڑھنی ہر اور قرآن کریم پڑھنا سکھایا جائے.قرآن مکمل ہونے پر آمین کی طرز پر تقریب کا اہتمام کیا جا سکتا ہے، اس سے ان کا حوصلہ بڑھے گا.جن نو مبائعین کو نماز اور قرآن کریم پڑھنا آ گیا ہے انہیں چند قرآنی سورتیں یاد کروائیں.پھر قرآن کریم کے ترجمہ سکھانے کی طرف توجہ دیں اور اس طرح انہیں باعمل احمدی بنا ئیں.داعیان کے سیمینار کی طرز کے ریفریشر کورسز کروائیں ، ان کی مشکلا ت سنیں اور ان کو حل کرنے کی کوشش کریں نیز انہیں اپنے تجربات بیان کرنے کا موقع دیں تا کہ دوسرے داعیان بھی ان تجربات سے فائدہ اٹھا ئیں.لٹریچر کے متعلق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس بارہ میں جرمنی کے حوالہ سے ساری دنیا کو ہدایات دے چکا ہوں، تین ملکوں کی طرف سے اس بارہ میں سکیمیں بھی بن کر آ گئی ہیں کہ آپ کی ہدایات کی روشنی میں ہم نے اس طرح کام کرنے کا پروگرم بنایا ہے.آپ جو براہ راست میرے مخاطب ہیں آپ بھی کام کر کے بتا ئیں.چیرٹی واک charity walks) کے سلسلہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اصولی ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ جن علاقوں میں لوگ اسلام اور جماعت کے بارہ میں مشکوک ہیں وہاں ایسے پروگرام بنائیں.نیز جن علاقوں سے رقم اکٹھی ہو ، وہاں کی مقامی چیرٹی تنظیم کو بھی اس رقم کا کم از کم نصف ضرور دیں اس بات کو یہ لوگ بہت پسند کرتے ہیں.چیرٹی واک کے سلسلہ میں ایک سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ ایک بات جس میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کوئی احمدی عورت یا بارہ سال سے بڑی احمدی بچی ٹریک سوٹ، ٹی شرٹ وغیرہ نہ پہنے اور بغیر پردہ کے نہ ہو نیز مخلوط تقریبات میں حصہ نہ لے.اسی سلسلہ میں حضور انور نے عورتوں سے ہاتھ ملانے کی ممانعت کے بارہ میں ہدایات سے نوازا.احمدی بچوں کی دنیوی تعلیم کے بارہ میں حضور انور نے فرمایا کہ احمدی بچوں کو زیادہ سے زیادہ ریسرچ کے میدانوں میں آنا چاہئے اور اگلے پندرہ بیس سال میں اس تحقیق کے میدان میں احمدیوں کا بہت اچھا تناسب ہونا چاہئے تا کہ یہ ملک احمدیوں کو اپنے ملکوں میں رکھنے پر مجبور ہو جائیں.محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے حوالہ سے حضور انور نے فرمایا کہ فزکس، کیمسٹری اور میڈیکل کے میدانوں میں بھی احمدیوں کو الفضل انٹرنیشنل 19 جنوری 2007ء) آگے آنا چاہئے.
سبیل الرشاد جلد چہارم باب پنج 181 $ 2007 کے ارشادارت و فرمودات
سبیل الرشاد جلد چہارم 182 عہدیداران جماعتی اموال خرچ کرنے سے پہلے منصوبہ بندی کریں اجتماعات پر انصار کو جگہ دینے کی اطفال، خدام کو نصیحت عہدیداران انصاف سے کام لینے والے ہوں عہد یدان بیوی بچوں سے اچھا سلوک کریں انصار اللہ کی سب سے اہم ذمہ داری پنجوقتہ نمازوں کا قیام ہے عہدیداران سیکورٹی پر کھڑے خدام سے اپنی چیکنگ کروائیں ڈیوٹی دینے والے عہدیداران اپنے اندر برداشت پیدا کرنے کی کوشش کریں ذیلی تنظیموں کے قیام کا مقصد ، جماعت کے ہر طبقہ کو جماعتی کاموں میں مصروف کرنا ہے
183 سبیل الرشاد جلد چہارم عہدیداران جماعتی اموال کو خرچ کرنے سے پہلے منصوبہ بندی کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 12 جنوری 2007 ء میں فرماتے ہیں." جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوشش کرتی ہے کہ کم از کم وسائل کو زیر استعمال لا کر زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے.یہ معاشیات کا سادہ اصول ہے.اور دوسری دنیا میں تو پتہ نہیں اس پر عمل ہو رہا ہے کہ نہیں لیکن جماعت اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہے اور کرنی چاہئے.جو بھی جماعتی عہد یدار منصوبہ بندی کرنے والے یا کام کرنے والے یار تم خرچ کرنے والے مقرر کئے گئے ہوں ان کو ہمیشہ اس کے مطابق سوچنا چاہئے اور منصوبہ بندی کرنی چاہئے.بعض دفعہ بے احتیاطیاں بھی ہو جاتی ہیں اس لئے جیسا کہ میں نے کہا کہ جو ذمہ دار افراد ہیں وہ اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا کریں کہ جماعت کا ایک ایک پیسہ با مقصد خرچ ہونا چاہئے.جماعت میں اکثریت ان غریب لوگوں کی ہے جو بڑی قربانی کرتے ہوئے چندے دیتے ہیں اس لئے ہر سطح پر نظام جماعت کو اخراجات کے بارے میں احتیاط کرنی چاہئے کہ ہر پیسہ جوخرچ ہو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ ہوا اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی پر خرچ ہو.جب تک ہم اس روح کے ساتھ اپنے اخراجات کرتے رہیں گے، ہمارے کاموں میں اللہ تعالیٰ بے انتہا برکت ڈالتا رہے گا انشاء اللہ تعالیٰ.ابھی تک جماعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک ہے کہ جہاں کسی کام پر دوسروں کا ایک ہزار خرچ ہورہا ہو وہاں جماعت کو ایک سو خرچ کر کے وہ مقاصد حاصل ہو جاتے ہیں.تو جب تک اس طرح جماعت احتیاط کے ساتھ خرچ کرتی رہے گی، برکت بھی پڑتی رہے گی.جہاں قربانیاں کرنے والے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنی قربانیاں تمام قسم کی بدظنیوں سے بالا ہو کر پیش کریں گے اور جماعت کے افراد اسی سوچ کے ساتھ کرتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ خرچ کرنے والے احتیاط سے خرچ کرنے والے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے.بعض لوگ ایسے بھی ہیں، چند ایک ہی ہیں، جو مالی لحاظ سے بہت وسعت رکھتے ہیں لیکن چندے اس معیار کے نہیں دیتے اور یہ باتیں کرتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ جماعت کے پاس تو بہت پیسہ ہے اس لئے جماعت کو چندوں کی ضرورت نہیں ہے، جو ہم دے رہے ہیں ٹھیک ہے.جماعت کے پاس بہت پیسہ ہے یا نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے پیسے میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ برکت بہت زیادہ ہے.اس لئے معترضین اور مخالفین کو بھی یہ بہت نظر آتا ہے.معترضین تو شاید اپنی بچت کے لئے کرتے ہیں اور مخالفین کو اللہ تعالیٰ ویسے ہی کئی گنا کر کے دکھا رہا ہوتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.برکت ڈالتا ہے اور بے انتہا برکت ڈالتا ہے.میں نے یہاں بعض اپنوں کا ذکر کیا تھا جو کہتے ہیں کہ پیسہ بہت ہے اس لئے یہ بھی ہونا چاہئے اور یہ بھی ہونا چاہئے اور خود ان کے چندوں کے معیار اتنے نہیں
سبیل الرشاد جلد چہارم 184 ہوتے.عموماً جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی منصوبہ بندی سے خرچ کرتی ہے.اس لئے ایسی باتیں کرنے والے بے فکر ر ہیں اور چندہ نہ دینے کے بہانے تلاش کرنے کی بجائے اپنے فرائض پورے کریں.چندوں کی تحریک تو ہمیشہ جماعت میں ہوگی ، ہوئی اور ہوتی رہے گی کہ ایمان میں مضبوطی کے لئے یہ ضروری ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہمیں بتایا ہے.دنیا کی تمام منصوبہ بندیوں میں مال کی ضرورت پڑتی ہے، اس کا بہت زیادہ دخل ہے اور یہ منصوبہ بندی جس میں مال دین کی مضبوطی کے لئے خرچ ہورہا ہو اور جس کے خرچ کرنے والے کو اللہ تعالیٰ یہ ضمانت دے رہا ہو کہ تمہارے خوف بھی دور ہوں گے اور تمہارے غم بھی دور ہوں گے اور اجر بھی اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور اتنا اجر ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں تو اس سے زیادہ مال کا اور کیا بہتر استعمال ہو سکتا ہے.ہر دینے والا جب اس نیت سے دیتا ہے کہ میں دین کی خاطر دے رہا ہوں تو اس نے اپنا ثواب لے لیا.کس طرح خرچ کیا جا رہا ہے، اول تو صحیح طریقے سے خرچ ہوتا ہے.اور اگر کہیں تھوڑی بہت کمزوری ہے بھی تو چندہ دینے والے کو بہر حال ثواب مل گیا.اس لئے ہمیشہ ہر وہ احمدی جس کے دل میں بھی انقباض پیدا ہو وہ اپنے اس انقباض کو دور کرے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے" (خطبات مسر در جلد 5 صفحہ 11-12 ) اجتماعات پر انصار کو جگہ دینے کی اطفال ، خدام کو نصیحت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 26 جنوری 2007 ء کو خطبہ جمعہ میں بڑوں سے ادب سے پیش آنے کے حوالہ سے فرمایا." جہاں بڑی مجلس ہو، جمعوں پہ، جلسوں پہ ، گھروں میں بھی بعض دفعہ یہ ہوتا ہے.انصار اللہ کے اجتماع پر بھی میں نے ایک دفعہ خدام اطفال کو کہا تھا جبکہ بڑی عمر کے لوگ کھڑے اور چھوٹی عمر کے بیٹھے ہوئے تھے تو ان کو جگہ دینی چاہئے.تو یہ خلق بھی ایسا ہے جو ہر احمدی میں، بچے میں ، جوان میں، مرد میں عورت میں نظر آنا چاہئے جس سے پھر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں سے بھی حصہ لے رہے ہوں گے.آپ نے فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے.تو جو ہم میں سے نہیں ہوگا وہ دعاؤں سے حصہ کیسے لے گا.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں سے حصہ لینے کے لئے جو آپ نے امت کے لئے کیں ، ہر ایک کو ہر عمل کی کوشش کرنی چاہئے.اور اس کے علاوہ پھر معاشرے میں بھی محبت اور پیار کی فضا پیدا ہوتی ہے" (خطبات مسرور جلد 5 صفحہ 35 )
سبیل الرشاد جلد چہارم 185 عہد یداران انصاف سے کام لینے والے ہوں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 6 اپریل 2007ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.اسی طرح امام کی نگرانی کے ضمن میں یہ بات بھی کرتا چلوں کہ آجکل یا یوں کہنا چاہئے جماعت میں امام یا خلیفہ وقت کی نمائندگی میں جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں ، عہدیداران متعین ہیں، ان کا بھی فرض ہے کہ حقیقی رنگ میں انصاف کو قائم رکھتے ہوئے اگر کبھی کسی موقع پر اپنے پر یا اپنے عزیزوں پر بھی زد پڑتی ہو تو اس کی پروانہ کرتے ہوئے اس نمائندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں جو آپ کے سپرد کی گئی ہے تا کہ اس نگرانی میں خلیفہ وقت کی بھی احسن رنگ میں مدد کر سکیں، تا کہ جزا سزا کے دن اس کو سرخرو کروانے والے بھی ہوں.ہر عہد یدار کے عمل جہاں براہ راست اس کو جوابدہ بناتے ہیں اور ہر عہد یدار اپنے دائرے میں جہاں نگران ہے وہ ضرور پوچھا جائے گا.یا درکھیں کہ خلیفہ وقت کی نمائندگی میں آپ اس لحاظ سے بھی ذمہ دار ہیں، اس لئے کبھی یہ نہ سوچیں کہ کسی معاملے میں خلیفہ وقت کو اندھیرے میں رکھا جا سکتا ہے.ٹھیک ہے، رکھ سکتے ہیں آپ، لیکن خدا تعالیٰ جو جزا سزا کے دن کا مالک ہے، اس کو اندھیرے میں نہیں رکھا جا سکتا.پس ہر عہدیدار کی دوہری ذمہ داری ہے، اس کو ہر وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہئے اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا دعا ہی ہے جو سیدھے راستے پر چلانے والی ہے اور چلا سکتی ہے کہ اپنی ذمہ داری کو دعاؤں کے ساتھ نبھانے کی کوشش کریں.جہاں تک میری ذات کا سوال ہے.میں جہاں اپنے لئے دعا کرتا ہوں، عہد یداروں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ انصاف پر قائم رکھتے ہوئے ، سیدھے راستے پر چلائے.کبھی ان سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جس کا اثر پھر آخر کار یا نتیجتاً مجھ پر بھی پڑے.یہاں جماعت کو بھی یہ توجہ دلا دوں کہ آپ لوگ بھی اپنی ذمہ داری کا صحیح حق ادا نہیں کر رہے ہوں گے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ خادم مالک کے مال کا نگران ہے، اگر آپ اس ذمہ داری کا حق ادا کرتے ہوئے اُسے ادا نہیں کر رہے جو خلیفہ وقت نے آپ کے سپرد کی ہے.اس کی صحیح ادائیگی نہ کر کے آپ بھی اس مال کی نگرانی نہ کرنے کے مرتکب ہو رہے ہوں گے.جب خلیفہ وقت نے آپ سے مشورہ مانگا ہے تو اگر آپ صحیح مشورہ نہیں دیتے تو خیانت کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں.اگر انصاف سے کام لیتے ہوئے ان لوگوں کو منتخب نہیں کرتے جو اس کام کے اہل ہیں جس کے لئے منتخب کیا جا رہا ہے، اگر ذاتی تعلق ، رشتہ داریاں اور برادریاں آڑے آ رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی بھی نا فرمانی کر رہے ہیں کہ تُؤدُّوا الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا (النساء: 59) یعنی تم امانتیں ان کے مستحقوں کے سپر د کرو جو ہمیشہ عدل پر قائم رہنے والے ہوں.اور اس اصول پر چلنے والے ہوں کہ جب بھی فیصلہ کرنا ہے تو اس ارشاد کو بھی پیش نظر رکھنا ہے کہ تَحْكُمُوا بِالْعَدْل (النساء: 59) کم انصاف سے فیصلہ کرو.جو ذمہ داریاں سپرد کی گئی ہیں ان کو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ادا کرو.
سبیل الرشاد جلد چہارم 186 اگر نہیں تو یہ نہ سمجھو کہ یہاں داؤ چل گیا تو آگے بھی اسی طرح چل جائے گا.اللہ کا رسول کہتا ہے کہ جزا سزا کے دن تم پوچھے جاؤ گے.اہل عہد یدار منتخب کریں پس جماعت کا بھی کام ہے کہ ایسے عہدیداروں کو منتخب کریں جو اس کے اہل ہوں اور ذاتی رشتوں اور تعلقات اور برادریوں کے چکر میں نہ پڑیں.اور اسی طرح خلیفہ وقت کی نمائندگی میں عہد یداروں کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے اور ان افراد جماعت کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے ( جیسا کہ میں نے پہلے کہا ) جن پر اعتماد کرتے ہوئے بہترین عہدیدار منتخب کرنے کا کام سپر د کیا گیا ہے اور مالک کے مال کی نگرانی یہی ہے جو ہر فر د جماعت نے ، جس کو رائے دینے کا حق دیا گیا ہے کرنی ہے.یہ سال جماعتی انتخابات کا سال ہے.بعض جگہوں سے بعض شکایات آتی ہیں، ہر جگہ سے تو نہیں اس لئے میں اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے ایسی جگہیں جہاں بھی ہیں ، جو بھی ہیں اور جہاں یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے ان کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں.جیسا کہ میں نے کہا کہ ہر کام دعا سے کریں اور دعائیں کرتے ہوئے اپنے عہدیدار منتخب کریں اور ہمیشہ دعاؤں سے آئندہ بھی اپنے عہدیداروں کی مدد کریں اور میری بھی مدد کریں.اللہ مجھے بھی آپ کے لئے دعائیں کرنے کی توفیق دیتا رہے اور جو کام میرے سپرد ہے اس کو ادا کرنے کی احسن رنگ میں توفیق دیتار ہے" خطبات مسر و ر جلد 5 صفحہ 136-138 ) عہد یداران ، بیوی بچوں سے اچھا سلوک کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یکم جون 2007 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا." ہر احمدی کو اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہئے کہ ہم سلامتی کے شہزادے کے نام پر بٹہ لگانے والے نہ ہوں.اگر ہم اپنے رشتوں کا پاس کرنے والے، ان سے احسان کا سلوک کرنے والے، ان کو دعائیں دینے والے، اور ان سے دعائیں لینے والے نہ ہوں گے تو ان لوگوں سے کس طرح احسان کا سلوک کر سکتے ہیں ، ان لوگوں سے کس طرح احسان کا تعلق بڑھا سکتے ہیں، ان لوگوں کا کس طرح خیال رکھ سکتے ہیں جن سے رحمی رشتے بھی نہیں ہیں.بعض عہد یداروں کے بارے میں بھی شکایات ہوتی ہیں کہ بیوی بچوں سے اچھا سلوک نہیں ہوتا.پہلے بھی میں ذکر کر چکا ہوں، اس ظلم کی اطلاعیں بعض دفعہ اس کثرت سے آتی ہیں کہ طبیعت بے چین ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیا انقلاب پیدا کرنے آئے تھے اور بعض لوگ آپ کی طرف
187 سبیل الرشاد جلد چہارم منسوب ہو کر بلکہ جماعتی خدمات ادا کرنے کے باوجود بعض خدمات ادا کرنے میں بڑے پیش پیش ہوتے ہیں اس کے باوجود، کس کس طرح اپنے گھر والوں پر ظلم روا رکھے ہوئے ہیں.اللہ رحم کرے اور ان لوگوں کو عقل دے.ایسے لوگ جب حد سے بڑھ جاتے ہیں اور خلیفہ وقت کے علم میں بات آتی ہے تو پھر انہیں خدمات سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے.پھر شور مچاتے ہیں کہ ہمیں خدمات سے محروم کر دیا تو یہ پہلے سوچنا چاہئے کہ ایک عہد یدار کی حیثیت سے ہمیں احکام قرآنی پر کس قدر عمل کرنے والا ہونا چاہئے.سلامتی پھیلانے کے لئے ہمیں کس قدر کوشش کرنی چاہئے " خطبات مسرور جلد 5 صفحہ 226-227) انصار اللہ کی سب سے اہم ذمہ داری پنجوقتہ نمازوں کا قیام ہے مجلس انصار الله جرمنی 2007 ء کے سالانہ اجتماع پر پیغام ) پیارے انصار الله جرمنی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته الحمد لله ثم الحمد للہ کہ مجلس انصار الله جرمنی کو اپنا سالانہ اجتماع منعقد کرنے کی توفیق مل رہی ہے.اللہ مبارک کرے اور سب انصار کو اس روحانی ماحول سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشے.صدر صاحب انصار اللہ نے مجھے اس موقع پر پیغام بھجوانے کے لئے کہا ہے.میں آپ کو انصار اللہ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.سب سے پہلی بات یہ ہے کہ انصار اللہ کی سب سے اہم ذمہ داری پنجوقتہ نمازوں کا قیام ہے.قرآن کریم نے مومنوں کی سب سے پہلی یہی علامت بیان فرمائی ہے کہ يُقِيمُونَ الصلوة یعنی وہ نمازوں کو قائم کرتے ہیں.اس کو ضائع نہیں ہونے دیتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز کی ادائیگی کی بہت تاکید فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ مومن اور کافر میں فرق کرنے والے شئے نماز ہے.ایک حدیث میں اس طرح بھی آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نئی جماعت آئی انہوں نے نماز کی معافی کی درخواست کی.آپ نے فرمایا کہ جس مذہب میں عمل نہیں وہ مذہب کچھ نہیں.حضرت مسیح موعود نے بھی اپنی جماعت کو بار بار نمازوں کے قیام کی طرف توجہ دلائی ہے اور بڑے کھول کر بیان فرمایا ہے کہ نماز خواہ نخواہ کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ تمام سعادتوں کی کنجی نماز ہے اور انسان کبھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ اقام الصلواۃ نہ کرے.آپ فرماتے ہیں کہ " اس زندگی کے کل انفاس اگر دنیاوی کاموں میں گزرگئے تو آخرت کے لئے کیا ذخیرہ کیا.تہجد میں خاص کر اٹھو اور ذوق اور شوق سے ادا کرو.درمیانی نمازوں میں بباعث ملازمت کے ابتلا آ جاتا ہے.رازق خدا تعالیٰ ہے.نماز اپنے وقت پر ادا
188 سبیل الرشاد جلد چہارم کرنی چاہئے ( ملفوظات جلد اول صفحہ 6) نیز فرماتے ہیں : ” نماز سنوار کر پڑھو.خدا جو یہاں ہے وہ وہاں بھی ہے.پس ایسا نہ ہو کہ جب تم یہاں ہو تو تمہارے دلوں میں رقت اور خدا کا خوف ہو اور جب پھر اپنے گھروں میں جاؤ تو بے خوف اور نڈر ہو جاؤ نہیں بلکہ خدا کا خوف ہر وقت تمہیں رہنا چاہئے.ہر ایک کام کرنے سے پہلے سوچ لو کہ اس سے خدا راضی ہو گا یا ناراض.نماز بڑی ضروری چیز ہے اور مومن کا معراج ہے.خدا تعالیٰ سے مانگنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے.نماز اس لئے نہیں کہ ٹکریں ماری جاویں یا مرغی کی طرح ٹھونگیں مار لیں بہت لوگ ایسی ہی نمازیں پڑھتے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ کسی کے کہنے سننے سے نماز پڑھنے لگتے ہیں.یہ کچھ نہیں.نماز خدا تعالیٰ کی حضوری ہے اور خدا تعالیٰ کی تعریف کرنے اور اس سے اپنے گناہوں کے معاف کرانے کی مرکب صورت کا نام نماز ہے.اس کی نماز ہرگز نہیں ہوتی جو اس غرض اور مقصد کو مدنظر رکھ کر نماز نہیں پڑھتا.پس نماز بہت ہی اچھی طرح پڑھو.کھڑے ہو اس طرح کہ تمہاری صورت صاف بتا دے کہ تم خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمابرداری میں دست بستہ کھڑے ہو اور جھکو تو ایسے جس سے صاف معلوم ہو کہ تمہارا دل جھکتا ہے اور سجدہ کرو تو اس آدمی کی طرح جس کا دل ڈرتا ہے اور نمازوں میں اپنے دین اور دنیا کے لئے دعا کرو".پس حضرت مسیح موعود نے نماز کی ادائیگی کی بہت تاکید فرمائی ہے اور میں آپ کو ذکر فان الذِّكْرَ تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذاریات: 56) کے تحت یاد دہانی کرواتا ہوں کہ انصار اللہ نے نمازوں کے قیام کے لئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں.خود بھی پنجوقتہ نمازوں پر قائم ہوں اور اپنی بیویوں اور اولا دوں کو بھی اس کا عادی بنائیں.پانچوں نماز میں وقت پر ادا کریں اور انہیں ہرگز ضائع نہ کریں.نمازیں بار بار پڑھیں اور اس خیال سے پڑھیں کہ آپ ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑے ہیں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کر لیوے.یہ آپ کی نسلوں کی روحانی پاکیزگی کی ضمانت ہے.دنیا کے گند اور آلائشوں سے بچانے کا ذریعہ ہے.یہ سیئات کو دور کرتی ہے.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 247 248 دوسری اہم ذمہ داری انصار اللہ کی یہ ہے کہ وہ خود بھی قرآن کریم سیکھیں اور اپنی اولادوں کو بھی سکھائیں.اور پھر ہر گھر میں تلاوت قرآن کا اہتمام اور التزام ہو.اگر آپ خود روزانہ اس کی تلاوت کریں گے تو آپ کے بچے اس سے نیک اثر لیتے ہوئے تلاوت کے عادی بن جائیں گے.میں نے واقفین نو بچوں کو یہ ہدایت کی ہوئی ہے کہ وہ روزانہ کم از کم دو رکوع کی تلاوت کیا کریں.آپ نے ان واقفین نو کی تربیت کرنی ہے تو آپ کو اپنا عملی نمونہ ان کے سامنے پیش کرنا ہوگا.روزانہ کچھ رکوع تلاوت ضرور کیا کریں کوئی وقت اس کے لئے مقرر کریں سب سے اچھا وقت تو فجر کی نماز کے بعد ہے.اس لئے کوشش کریں کہ فجر کے بعد اس کا التزام ہو.حضرت اقدس مسیح موعود نے بھی تلاوت قرآن کریم کی اہمیت بیان فرمائی ہے.آپ فرماتے
سبیل الرشاد جلد چہارم 189 ہیں : " پرستش کی جڑ تلاوت قرآن الہی ہے کیونکہ محبوب کا کلام اگر پڑھا جائے یا سنا جائے تو ضرور بچے محبّ کے لئے محبت انگیز ہوتا ہے اور شورش عشق پیدا کرتا ہے" (سرمہ چشم آریہ ) نیز فرماتے ہیں " میں بار بار اس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشف حقائق کے لئے قائم کیا ہے.کیونکہ بد وں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہو سکتا اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو.اس لئے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو" اللہ تعالیٰ آپ میں سے ہر ایک کو خود بھی تلاوت کریم کرنے ، اس کے مطالب سیکھنے اور سمجھنے کی تو فیق دے اور اپنی اولادوں کو بھی اس پر کار بند کرنے کی توفیق دے.( ملفوظات جلد 3 صفحہ 155) تیسری ذمہ داری جس کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ بچوں کی تربیت ہے.یہ بھی انصار اللہ کا کام ہے کہ وہ احمدی بچوں کی تربیت کی فکر کریں.جیسا کہ میں نے نماز اور تلاوت قرآن کریم کا ذکر کیا ہے.اگران دو امور پر احمدی بچے قائم ہو جائیں تو ان کی احسن تربیت ہوگی.وہ یورپ کے گند اور دنیاوی آلائشوں سے پاک ہو جائیں گے.تربیت کے مضمون میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ماں باپ جتنی مرضی زبانی تربیت کریں اگر ان کا اپنا نمونہ اور کردار ان کے قول کے مطابق نہیں تو بچوں کی تربیت نہیں ہو سکتی.بچے کمزور پہلو کو لے لیں گے اور مضبوط پہلو کو چھوڑ دیں گے.اس لئے آپ کو اپنا عملی نمونہ پیش کرنا ہوگا.نمازوں پر قائم ہونا پڑے گا.تلاوت قرآن کریم کا روزانہ اہتمام کرنا ہو گا.گھروں میں پاکیزہ ماحول اور پاکیزہ باتیں رواج دینی ہوں گی.گھروں میں نظام جماعت کے خلاف باتیں نہ ہوں جن سے بچوں کی تربیت پر بُرا اثر پڑے.میں نے خود دیکھا ہے کہ وہ گھر جن میں نظام جماعت کے خلاف باتیں ہوتیں ہیں ان کے بچے جماعت سے دور ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ دہر یہ ہو جاتے ہیں.پس اگر آپ نے اپنے بچوں کو احمدیت، حقیقی اسلام پر قائم رکھنا ہے تو ان کے دلوں میں خلافت احمد یہ اور نظام جماعت کی محبت اور احترام پیدا کریں اور یہ بھی ہوگا جب یہ محبت اور احترام آپ کے دلوں اور آپ کے عملی نمونہ سے پھوٹ رہا ہو گا.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ آپ کے دلوں میں اپنی محبت بٹھا دے اور آپ اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے ہوں.( آمین ) خدا حافظ و ناصر.سب کو محبت بھر اسلام والسلام.خاکسار ( دستخط ) مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس (ماہنامہ الناصر جر منی اگست ستمبر 2007 ء )
سبیل الرشاد جلد چہارم 190 عہدیداران سکیورٹی پر کھڑے خدام سے اپنی چیکنگ کروائیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 27 جولائی 2007ء کو خطبہ جمعہ میں جلسہ سالانہ یو کے پر عہدیداران کو ہدایات دیتے ہوئے فرمایا.ایک اور اہم بات سکیورٹی کے حوالے سے ہے.سب شامل ہونے والوں سے میں کہنا چاہتا ہوں اور تمام شعبہ جات کے کارکنان سے بھی اور جلسہ میں شامل ہونے والوں سے بھی کہ اپنے اردگرد ماحول پر نظر رکھیں.دنیا کے حالات اس قسم کے ہیں کہ کسی بھی قسم کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.اس ضمن میں ہمیں خواتین سے کہنا چاہتا ہوں کہ بعض دفعہ چیکنگ سے وہ بُرا مان جاتی ہیں، اس لئے مکمل تعاون کریں.اگر آپ کو کوئی چیک کر لے تو اس میں کوئی بے عزتی کی بات نہیں ہے.میں نے سنا ہے کہ بعض شکوہ کرتے ہیں کہ ہم فلاں عہد یدار کی عزیز یا خود عہدیدار ہیں اور اس کے باوجود انہیں چیک کیا گیا.ہر عہد یدار یا کسی عزیز کو ہر ڈیوٹی والا تو جانتا نہیں ہے.بعض دفعہ عورتوں کو بیگوں کی وجہ سے زیادہ چیک کرنا پڑتا ہے یہ مجبوری ہے.میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر مردوں کو بھی چیک کیا جائے تو انہیں برانہیں منانا چاہئے.مجھے یاد ہے کہ ربوہ میں مسجد اقصیٰ میں جمعہ اور عیدین پر چیکنگ ہوتی ہے اور کئی دفعہ مجھے بھی چیک کیا گیا، میں نے تو کبھی برا نہیں منایا بلکہ جب حضرت خلیفہ امسیح الرابع ” نے مجھے امیر مقامی بنایا تو تب بھی ایک دفعہ مجھے چیک کیا گیا.تو چیکنگ میں کبھی برا نہیں منانا چاہئے.آپ کا مکمل تعارف ہر خادم کو نہیں ہوتا جیسا کہ میں نے آپ کو کہا.تو اس لئے اس نظام سے بھی مکمل طور پر تعاون کریں اور یہ اعتراض پیدا نہ ہو کہ مجھے کیوں چیک کیا گیا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ایک واقعہ ہے کہ قادیان میں جب احرار کا خطرہ تھا اور خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار یا دوسری قبروں کی وہ لوگ بے حرمتی نہ کر میں تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بہشتی مقبرہ میں خدام کا پہرہ لگوایا اور کوڈ نمبر دیے کہ جو بھی ہوا گر کوئی کوڈ نمبر کے بغیر اندر آنے کی کوشش کرے اس کو اندر نہیں آنے دینا تو ایک دفعہ چیک کرنے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی خود چھپ کر گئے.غالبا رات کا وقت تھا.خدام نے روکا.آپ نے اپنا نام بتایا.خدام نے کہا نہیں اس طرح اجازت نہیں مل سکتی جب تک آپ اپنا کوڈ نمبر نہیں بتائیں گے اور اس بات پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بڑی خوشنودی کا اظہار فرمایا کہ یہ خدام ہیں جنہوں نے اپنی صحیح ڈیوٹی دی ہے.تو یہ جو انتظام ہے یہ ہمارے اپنے ہی فائدے کے لئے ہے.اس میں کسی بھی قسم کی برا منانے والی بات نہیں ہے.لیکن ڈیوٹی والی خواتین ہیں یا مرد ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اپنے رویوں سے کسی بھی قسم کا ایسا اظہار نہیں کرنا چاہئے جس سے سختی، کرختگی یا کسی بھی طرح کا یہ احساس ہو کہ آپ دوسرے سے عزت سے پیش
191 سبیل الرشاد جلد چہارم نہیں آتے.بعض بلا وجہ کی سختی کرتے ہیں، گزشتہ سال بھی شکایات آتی رہی تھیں.اللہ تعالیٰ اس جلسے کو با برکت فرمائے اور ہر ایک کو ہر لحاظ سے اپنی حفاظت میں رکھے اور کوئی ایسی بات نہ ہو جو کسی کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنے اور جیسا کہ میں نے کہا عمومی طور پر سب شامل ہونے والوں اور ڈیوٹی والوں کو اپنے ماحول پر نظر رکھنی چاہئے کیونکہ یہ سکیورٹی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.جب ہر ایک چوکس ہوگا تو شرارت کرنے والوں کو آسانی سے شرارت کا موقع نہیں ملتا.لیکن اس بارے میں ایک بات یاد رکھیں کہ اگر کوئی مشکوک مرد یا عورت کو دیکھیں تو اس پر نظر رکھیں اور حفاظت کے شعبہ کو اطلاع کریں.خود براہ راست اس سے چھیڑ چھاڑ نہ کریں اور سیکورٹی والوں کے آنے تک اس پر نظر رکھیں.ہر ایک خود بھی اس بات کی پابندی کرے کہ اپنے شناختی کارڈ ہمراہ رکھیں بلکہ سامنے رکھیں اور کارکنان کی طرف سے شناختی کارڈ دکھانے کا جب بھی مطالبہ ہو تو فوراً ان کو دکھا دیں" خطبات مسر و ر جلد 5 صفحہ 314-315) جلسوں اور اجتماعات پر ڈیوٹی دینے والے عہدیداران اپنے اندر برداشت پیدا کرنے کی کوشش کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 31 اگست 2007ء کو جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر خطبہ جمعہ میں عہد یداران و کارکنان کو یوں مخاطب ہوئے." ان دنوں میں جبکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جمع ہوتے ہیں ،اس کے آگے جھکتے ہوئے اس سے دعائیں مانگ رہے ہیں ، کامل ایمان کے ساتھ ذکر الہی میں مشغول ہیں، کامل فرمانبرداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چل رہے ہیں تو پھر یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی بھی موقع پر نظام جماعت کی فرمانبرداری سے باہر ہوں.ایک طرف تو یہ کوشش ہو کہ ہم آسمان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں لکھے جائیں اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کے قائم کردہ نظام جماعت کی اطاعت سے باہر جارہے ہوں.پس یہ دو عملیاں نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے کبھی نہیں دکھا سکتے اور نہ کبھی دکھاتے ہیں.ان دنوں میں دلوں کے اس میل کو بھی دعاؤں کے ذریعہ سے، اصلاح کے ذریعہ سے دھونے کا موقع ملتا ہے.اگر اصلاح کی غرض سے اس جلسے میں شامل ہوئے ہیں اور کوئی میلہ سمجھ کر شامل نہیں ہوئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ جلسہ کوئی میلہ نہیں ہے، تو یقیناً پھر دلوں کے میل بھی دھوئیں گے.بعض دفعہ روز مرہ کی زندگی میں بھی اور جلسہ کے دنوں میں بھی ایک عام احمدی کی رنجشیں اور جھگڑے عہدیداران سے بھی ہو جاتے ہیں.تو ایسی صورت میں اگر یہ ذہن میں ہو کہ
192 سبیل الرشاد جلد چہارم اس جلسے کا مقصد کیا ہے تو ہر ایک احمدی اپنے پرانے جھگڑے بھی ختم کرنے کی کوشش کرے گا اور اگر یہاں کوئی تلخی کی صورت پیدا ہوئی ہے تو اسے بھی دور کرنے کی کوشش کرے گا.عہد یداران اور جلسے کے دنوں میں ڈیوٹی دینے والے بھی اس بات کا خیال رکھیں.کل بھی میں نے یہی کہا تھا کہ اخلاق کے اعلیٰ معیار سب سے زیادہ ڈیوٹی دینے والوں سے ظاہر ہونے چاہئیں کہ بحیثیت کارکن اور عہدیداران کی زیادہ ذمہ داری ہے.اس لئے ان میں برداشت کا پہلو بھی زیادہ ہونا چاہئے یا برداشت پیدا کرنے کی ان کو زیادہ کوشش کرنی چاہئے.ان میں عفو اور درگزر کا پہلو بھی زیادہ ہونا چاہیئے اور انہیں دوسروں کے لئے نمونہ بننے کے لئے اپنی عبادتوں اور دوسرے اخلاق کے معیار اونچا کرنے کی بھی دوسروں کے مقابلے میں بہت زیادہ کوشش کرنی چاہئے.پس اگر عہد یدار اپنے آپ کو عہدیدار کی بجائے خادم سمجھیں اور افراد جماعت اپنے عہدیداران کو نظام جماعت چلانے کے لئے خلیفہ وقت کے مقرر کردہ کا رکن سمجھیں تو یہ تعلقات ہمیشہ محبت اور پیار کے تعلق کی صورت میں رہیں گے جو پھر خلیفہ وقت کے تابع ہو کر دنیا کو امن اور سلامتی کا حقیقی پیغام دینے والے ہوں گے، دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنے والے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کو پورا کرنے والے ہوں گے.ان راہوں پر چلنے والے ہوں گے جن راہوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں چلانا چاہتے ہیں.ان معیاروں کو حاصل کرنے والے ہوں گے جن معیاروں کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں :" اے سعادت مند لوگو ! آپ میں سعادت تھی تو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ، زمانے کے امام کو قبول کیا.اب سعادت کا پہلا قدم تو تم نے اٹھا لیا، آگے آپ فرماتے ہیں "اے سعادت مند لو گو ! تم زور کے ساتھ اس تعلیم میں داخل ہو جو تمہاری نجات کے لئے مجھے دی گئی ہے" ایک قدم سعادت کا تو تم نے اٹھا لیا، نیک فطرت تھی قبول کر لیا، اب اپنے آپ پر اس تعلیم کو بھی لاگو کر وجو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دی گئی ہے.فرماتے ہیں " تم خدا کو واحد لاشریک سمجھو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو نه آسمان میں سے، نہ زمین میں سے.خدا اسباب کے استعمال سے تمہیں منع نہیں کرتا.دنیاوی کام ہیں ان سے تمہیں منع نہیں کرتا.ذریعے ہیں ان سے تمہیں منع نہیں کرتا ، تو کل اگر اللہ تعالیٰ پر کرنا ہے تو اس کے لئے حکم ہے کہ اونٹ کا گھٹنا باندھو." لیکن جو شخص خدا کو چھوڑ کر اسباب پر ہی بھروسہ کرتا ہے وہ مشرک ہے.قدیم سے خدا کہتا چلا آیا ہے کہ پاک دل بننے کے سوانجات نہیں ،سو تم پاک دل بن جاؤ اور نفسانی کینوں اور غصوں سے الگ ہو جاؤ.انسان کے نفس امارہ میں کئی قسم کی پلیدیاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدی ہے.اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کا فرنہ رہتا.سوتم دل کے مسکین بن جاؤ.عام طور پر بھی بنی نوع کی ہمدردی کر وجبکہ تم انہیں بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو سو یہ وعظ تمہارا کب بیج ہو سکتا ہے اگر
193 سبیل الرشاد جلد چہارم تم اس چند روزہ دنیا میں ان کی بدخواہی کرو.خدا تعالیٰ کے فرائض کو دلی خوف سے بجالاؤ کہ تم ان سے پوچھے جاؤ گے.نمازوں میں بہت دعا کرو کہ تا خدا تمہیں اپنی طرف کھینچے اور تمہارے دلوں کو صاف کرے، کیونکہ انسان کمزور ہے.ہر ایک بدی جو دُور ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی قوت سے دُور ہوتی ہے.اپنی طاقت سے کوئی بدی دُور نہیں کر سکتے اس لئے دعائیں مانگو اور جب تک انسان خدا سے قوت نہ پاوے کسی بدی کے دُور کرنے پر قادر نہیں ہوسکتا.اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئیں کلمہ گو کہلا ؤ ، بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائیں اور خدا اور اس کے احکام ہر ایک پہلو کے رو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جا ئیں" ( تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 63 مطبوعہ لندن ) یہ ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قائم کردہ معیار جس کی طرف آپ نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے.نفسانی کینوں اور غصوں سے الگ ہو جاؤ.یہ بڑا اچھا موقع اللہ تعالیٰ نے میسر فرمایا ہے اگر ان دنوں میں ہر ایک خود اپنا محاسبہ کرے تو اپنی تصویر خود سامنے آجائے گی.اگر نیک نیتی سے اپنا محاسبہ کر رہے ہوں گے تو ان نفسانی کینوں اور غصوں کا حال خود معلوم ہو جائے گا.تکبر سے بچوں“ فرمایا یہ تکبر ہی ہے جو نافرمان بناتا ہے.تکبر ہی ہے جس نے انبیاء کا انکار کروایا اور یہ تکبر ہی ہے جو نظام جماعت یا عہد یداران کے خلاف دوسرے کو بھڑکاتا ہے اور یہ تکبر ہی ہے جو آپس میں بھی ایک دوسرے سے لڑاتا ہے.پھر حقیقی ہمدردی اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے پیدا کرو تبھی تمہاری باتوں کا اثر ہوگا تبھی تمہاری تبلیغ مؤثر ہوگی.کئی لوگ ہمارے جلسوں میں شامل ہوتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی آتے تھے، قادیان کا ماحول دیکھتے تھے اور اس ماحول کا ہی اثر ان پر ہوتا تھا.ان لوگوں کے اخلاق کا اثر بھی ان لوگوں پر ہوتا تھا جو احمدی ہو جاتے تھے.اب بھی دنیا کے مختلف ممالک میں جب جماعت کے جلسے ہوتے ہیں اور لوگ آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیک اثر لے کر جاتے ہیں اور بعض ان میں سے پھر بیعت کر کے جماعت میں بھی شامل ہو جاتے ہیں.تو ہر ایک کو یہ یا درکھنا چاہتے اور ہر ایک کو یہ بات اپنے پیش نظر رکھنی چاہئے کہ ہر احمدی کے چہرہ کے پیچھے آج احمدیت کا چہرہ ہے.پس ہمیشہ یاد رکھو تمہارے قول اور عمل میں تضاد نہ ہو تبھی تمہاری دعوت الی اللہ میں برکت پڑے گی.جماعت کی نیک نامی کا باعث بھی تم تبھی بنو گے جب ہمیشہ سچائی پر قائم ہو گے.کسی کی برائی نہ چاہو.ذاتی منفعت اور فائدہ تمہیں کسی سے برائی پر مجبور نہ کرے.ہمیشہ یادرکھو کہ تمہارے ہر عمل کو خدا دیکھ رہا ہے.ہر وقت دل میں خدا کا خوف ہو اور اس کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اس کے آگے جھکو اور اپنی عبادتوں کے معیار قائم کرو اور ہمیشہ یاد رکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بیعت تمہیں تبھی فائدہ دے گی جب ہر حالت میں تم دین کو دنیا پر مقدم رکھو گے.صرف دعوے اور نعرے کبھی کام نہیں آئیں گے" (خطبات مسر در جلد 5 صفحہ 357-359)
سبیل الرشاد جلد چہارم 194 ذیلی تنظیموں کے قیام کا مقصد جماعت کے ہر طبقے کو جماعتی کاموں میں مصروف کرنا ہے کسی وقت بھی اگر کوئی عہد یدار رہا ہو اُسے اپنا عملی نمونہ عہد یدار نہ ہوتے ہوئے بھی برقرار رکھنا چاہئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 7 ستمبر 2007ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.جلسے کے دنوں میں میں نے مقامی جرمن لوگوں سے ایک میٹنگ کی ، جو نو مبائع تھے اور چند مہینے پہلے احمدی ہوئے ، کچھ چند سال پرانے بھی تھے.وہاں ایک نو مسلم جرمن نے یہ سوال کیا کہ اگر کوئی عہد یداررہ چکا ہو اور اب عہد یدار نہ ہونے کی وجہ سے نئے عہدیداروں سے مکمل طور پر تعاون نہ کر رہا ہو، اس کی اطاعت نہ کر رہا ہو تو اس کا کیا علاج ہے؟ کس طرح اصلاح کی جائے؟ یہاں اصلاح کا سوال تو بعد میں آتا ہے اس سوال نے تو مجھے ویسے ہی ہلا دیا ہے کہ پاکستان سے آئے ہوئے احمدیوں نے اپنے یہ نمونے قائم کئے ہیں کہ جب تک عہد یدارر ہے نظام کی اطاعت پر تقریر بھی کرتے رہے اور اطاعت کی توقع بھی کرتے رہے.جب عہدہ ختم ہوا تو بالکل ہی گھٹیا ہو گئے.پاکستانیوں کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ آپ سے اعلی نمونے کی توقع کی جاتی ہے.اگر یہی مثالیں قائم کرنی ہیں تو آپ نے تو اپنی پرانی تربیت بھی ضائع کر دی اور جلسوں کے مقاصد کو بھی ضائع کر دیا.دوسرے یہ یاد رکھیں کہ تمام قوموں نے انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت اور حقیقی اسلام میں شامل ہونا ہے اور ہر قوم نے نظام جماعت میں شامل ہو کر اپنے ملکوں کا نظام بھی خود چلانا ہے.اس لئے اس خیال سے اپنے ذہنوں کو پاک کریں کہ ایک نیا آیا ہوا جرمن ہم پر کس طرح مسلط کیا جاسکتا ہے یا وہ ہمارا عہد یدار کس طرح بن سکتا ہے؟ اس بات سے کہ آپ عہدیدار نہیں بنے اور نیا آیا ہوا عہدیدار بن گیا، آپ کو استغفار کا زیادہ خیال آنا چاہئے ، استغفار میں زیادہ بڑھنا چاہئے کہ ہماری کمزوری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جماعت کی خدمت کا موقع ہم سے لے کر ان نئے شامل ہونے والوں کو دے دیا جو اخلاص و وفا اور اطاعت نظام اور اطاعت خلافت میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں.پس ایسے بد خیالات رکھنے والے اپنی اصلاح کریں.اُس جرمن کو تو میں نے یہی کہا تھا کہ ان لوگوں کو پیار سے سمجھائیں، ان کے لئے دعا کریں.اگر پھر بھی باز نہیں آتے تو امیر صاحب کو لکھیں.اگر امیر صاحب کے کہنے پر بھی اصلاح نہیں کرتے تو مجھے لکھیں تا کہ ایسے لوگوں کے خلاف پھر تعزیری کارروائی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو نیک اور ا خلاص میں بڑھے ہوئے لوگ چاہئیں نہ کہ خو دسر
سبیل الرشاد جلد چہارم 195 اور خود پسند لوگ ، نہ کہ وہ لوگ کہ جب تک مفاد ہو ا طاعت پر زور دیتے رہیں اور جب مفاد نہ رہا تو اطاعت بھی ختم ہوگئی.جرمن نواحمدی ماشاء اللہ نظام جماعت کو سمجھنے میں بھی بہت ترقی کر رہے ہیں.ایک جرمن نو جوان نے سوال کیا کہ ایک طرف جماعت کا کام ہے، یعنی جماعتی نظام کا جو جماعت کے کسی عہد یدار کی طرف سے ان کے سپرد کیا جاتا ہے.دوسری طرف ذیلی تنظیموں ، خدام ، انصار اور لجنہ کے کام ہیں جو ان کے عہد یداروں کی طرف سے سپرد کئے جاتے ہیں.مثلاً ایک ہی وقت میں مجھے جماعتی عہد یدار بھی ایک کام کہتا ہے اور خدام الاحمدیہ کا عہدیدار بھی ایک کام کہتا ہے اور میرا دل بھی نو جوان ہونے کی وجہ سے یہی چاہتا ہے کہ خدام الاحمدیہ کا کام کروں تو اُس وقت کس کام کو پہلے سرانجام دوں؟ مجھے ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے.اس کو تو میں نے اس کا تفصیلی جواب دیا تھا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہمیشہ یہ یادرکھیں کہ جماعتی نظام ایک مرکزی نظام ہے اور خدام، لجنہ اور انصار ذیلی تنظیمیں ہیں اور گو یہ ذیلی تنظیمیں بھی براہ راست خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں ، ان سے ہدایات لیتی اور اپنے پروگرام بناتی ہیں لیکن جماعتی نظام بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور خلیفہ وقت کے قائم کردہ نظاموں میں سے سب سے بالا نظام ہے.ہر ذیلی تنظیم کا ممبر جماعت کا بھی ممبر ہے اور جماعت کا ممبر ہونے کی حیثیت سے وہ جماعتی نظام کا پابند ہے.اگر کوئی جماعتی عہد یدار کسی نوجوان کو کسی خادم کو بحیثیت فرد جماعت کوئی کام سپر د کرتا ہے اور اس دوران خدام الاحمدیہ کے عہد یدار کی طرف سے بھی کوئی کام سپر د ہوا ہے تو وہ خادم جس کے سپر د جماعتی عہدیدار نے کام سپرد کیا ہے، بحیثیت خادم نہیں بلکہ بحیثیت فرد جماعت خدام الاحمدیہ کے متعلقہ افسر کو اطلاع کر کے کہ جماعت کے عہدیدار نے میرے سپر دفلاں فوری کام کیا ہے، اس لئے میں اس کو پہلے کرنے کے لئے جارہا ہوں، اس کام کو پہلے کرے اور خدام الاحمدیہ یا کسی بھی ذیلی تنظیم کا کام بعد میں.یہ تو ہے ہنگامی موقع پر لیکن عام طور پر روٹین (Routine) کے جو کام ہوتے ہیں، اس کا سالانہ کیلنڈر جماعت کا بھی بن جاتا ہے اور ذیلی تنظیموں کا بھی اور جماعت کا کیلنڈر کیونکہ پہلے بن جاتا ہے اس لئے ذیلی تنظیمیں اپنے پروگرامز اس کے مطابق ایڈ جسٹ کریں مثلاً اجتماع ہے، ٹورنامنٹس ہیں اور مختلف جلسے ہیں.اگر ہنگامی طور پر کوئی جماعتی پروگرام کسی جگہ بن جاتا ہے تو جماعتی پروگرام بہر حال ذیلی پروگراموں پر مقدم ہے.ذیلی تنظیموں کے جو پروگرام ہیں ان میں براہ راست جماعتی انتظامیہ کو دخل دینے کا حق نہیں ہے، یہ بھی واضح ہونا چاہئے.خدام الاحمدیہ کے کام میں مقامی صدران یا امیر وغیرہ کوئی دخل اندازی نہیں کر سکتے.نہ لجنہ کے کام میں نہ انصار اللہ کے کام میں، باوجود اس کے کہ ان کا نظام بالا ہے.اگر امراء خلاف تعلیم سلسلہ اور خلاف روایت ذیلی تنظیموں سے کوئی کام ہوتا ہوا دیکھیں تو فوری طور پر متعلقہ ذیلی تنظیم کے صدر کو بلا کر سمجھائیں، اگر مقامی طور پر ہورہا ہے تو امیر کو اطلاع دی جائے اور قائد کو سمجھایا جائے اور پھر فوری طور پر
196 سبیل الرشاد جلد چہارم خلیفہ وقت کو اطلاع دینی ضروری ہے.کیونکہ جماعتی روایات کا تقدس بہر حال قائم کرنا ضروری ہے.لیکن یہ فرق یا درکھنا چاہئے کہ پروگراموں میں براہ راست دخل اندازی نہیں کی جاسکتی.بعض اور جگہوں سے بھی یہ سوال اٹھتے ہیں اس لئے میں ان کو مختصر بیان کر رہا ہوں.لجنہ کے اجلاسوں کے بارے میں بھی واضح کر دوں کہ بعض لجنہ کی تنظیموں سے یہ سوال اٹھتے رہتے ہیں کہ مردوں کے جو ماہانہ اجلاسات ہوتے ہیں اس میں لجنہ کو بھی لازماً شامل ہونے کے لئے کہا جاتا ہے.اس بارہ میں واضح ہو کہ لجنہ کے کیونکہ اپنے ماہانہ اجلاس ہوتے ہیں اس لئے جماعتی ماہانہ اجلاسوں میں لجنہ کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے، نہ ان کا شامل ہونا ضروری ہے.ہاں جو بڑے جلسے ہیں، جیسے سیرت النبی کا جلسہ ہے، یوم مسیح موعود، یوم مصلح موعود، یوم خلافت وغیرہ یا اور کوئی پروگرام جو مرکزی طور پر یا ریجن کے طور پر بنتے ہوں ان میں لجنہ ضرور شامل ہو.اس کے علاوہ لجنہ خود بھی اپنے یہ اجلاسات اور جلسے کر سکتی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذیلی تنظیمیں بنانے کا یہ مقصد تھا کہ جماعت کے ہر طبقے کو جماعتی ایکٹیویٹیز (Activities) میں شامل کیا جائے تاکہ ترقی کی رفتار میں تیزی پیدا ہو.ہر ایک کا اپنا اپنا ایک لائحہ عمل ہو تا کہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسابقت کی روح پیدا ہو.گاڑی کی پڑی کی طرح ، لائن کی طرح دونوں برابر چل رہے ہوں، کہیں ٹکراؤ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس یہ بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے ایک انعام ہے.اس کی قدر کریں تا کہ اسلام اور احمدیت کی گاڑی اس پڑی پر منزلوں پر منزلیں طے کرتی چلی جائے اور ہم اسلام کا جھنڈا دنیا میں لہراتا ہوا دیکھیں" خطبات مسر در جلد 5 صفحہ 366-368)
سبیل الرشاد جلد چہارم اب ششم 197 $ 2008 کے ارشادات و فرمودات
سبیل الرشاد جلد چہارم 198 ذیلی تنظیمیں ایسے پروگرام بنائیں جس سے قربانیوں کے معیار بلند ہوں اگر ذیلی تنظیمیں اور جماعتی نظام فعال ہو جا ئیں تو ہماری ترقی کے قدم کئی گنا بڑھ جائیں صحت تلفظ اور ترجمہ قرآن کے لئے ذیلی تنظیمیں بھی کام کریں جو بلی پر ذیلی تنظیموں کا صرف چھوٹے چھوٹے پروگرام بنانا کافی نہیں انصار اللہ کے معنی اللہ کے مددگار کے ہیں ذیلی تنظیمیں اپنے معاملات میں براہ راست خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں پیغام سیدنا حضرت طلیة اصبع الخامس به واللہ تعالیٰ بنصر والعزيز عہد یداران خادم بنیں گے تو مخدوم کہلائیں گے عہد یداران خالی الذہن ہو کر فیصلہ کریں اور تربیت کا کام اچھے طریقے سے سرانجام دیں نئے آنے والوں کی زیادہ تربیت کی ضرورت ہے عہد یداران وحدانیت اور امن کے قیام کی کوشش کریں انصار اللہ کے عہد کو معمولی نہ سمجھیں.یہ ایک بہت بڑا عہد ہے انصار اللہ کو اللہ کی عبادت کا حق ادا کرنے والا ہونا چاہئے اپنی زندگیوں کو قرآنی تعلیمات اور رہنمائی کے سانچے میں ڈھالیں
سبیل الرشاد جلد چہارم 199 ذیلی تنظیمیں ایسے پروگرام بنا ئیں جس سے قربانیوں کے معیار بلند ہوں حضور انور نے 4 جنوری 2008 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا." جب تک عہدیداران کے اپنے معیار قربانی نہیں بڑھیں گے ان کی بات کا اثر نہیں ہوگا.جہاں عہدیداران اپنی امانتوں کا حق ادا کرنے والے ہیں وہاں کی رپورٹس بتا دیتی ہیں کہ حق ادا ہو رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ایسے کارکنان بھی ہیں جو اپنا سب کچھ بھول جاتے ہیں، بیوی بچوں کو بھی بھول جاتے ہیں ، اپنے نفس کے حق بھی ادا نہیں کرتے.صبح اپنے کام پر جاتے ہیں اور وہاں سے شام کو سیدھے جماعتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے پہنچ جاتے ہیں.انہیں کہنا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہارا اور تمہارے بیوی بچوں کا بھی تم پر حق رکھا ہے.بعض ایسے بھی ہوتے ہیں.بہت محنت کرنے والے ہوتے ہیں لیکن بعض دفعہ یہ جو محنت کرنے والے ہیں یہ بھی صحیح طریق پر محنت نہیں کر رہے ہوتے.مثلاً چندوں کے معاملے میں.جو چندہ دینے والے مخلصین ہیں ہر تحریک کی کمی پورا کرنے کے لئے انہیں کو بار بار کہا جاتا ہے.جب کہ کئی دفعہ کہا گیا ہے کہ نئے شامل ہونے والوں کو بھی شامل کریں اور تعداد بڑھائیں.ہر ایک میں قربانی کی روح پیدا کریں.اگر شعبہ تربیت اور مال یا وقف جدید، تحریک جدید مشتر کہ کوشش کریں تو کمزوروں کو بھی ساتھ ملایا جا سکتا ہے.شروع میں بعض وقتیں پیش آئیں گی لیکن دعا اور صبر سے یہ روکیں اور مشکلات بھی دور ہو جائیں گی انشاء اللہ.بعض لوگ لکھتے بھی ہیں اور زبانی بھی موقع ملے تو کہہ دیتے ہیں کہ بعض افراد جماعت پوری طرح تعاون نہیں کرتے ، پروگراموں میں حصہ نہیں لیتے تو میں انہیں ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ تمہارا کام یہ ہے کہ مسلسل دعا اور صبر سے کوشش کئے جاؤ.جو احمدی ہے اس میں کوئی نہ کوئی نیک فطرت کا حصہ ہے جس کی وجہ سے وہ احمدیت پر قائم ہے.پس کمزوروں کو ساتھ ملا کر چلنا یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے.اس لئے مسلسل کوشش کرتے رہنا چاہئے.اب جبکہ ہم خلافت کی نئی صدی میں چند ماہ تک داخل ہونے والے ہیں.جماعتی نظام جو مختلف شہروں اور ملکوں میں قائم ہیں اور ذیلی تنظیمیں بھی ایسے پروگرام بنا ئیں جس سے ہماری قربانیوں کے ہر قسم کے معیار بلند ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی تڑپ ہر ایک میں پیدا ہو جائے.ہر احمدی بھی ، نئے بھی اور پرانے بھی اپنے جائزے لیں کہ کیا بہترین تحفہ ہم شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لئے جا رہے ہیں" (خطبات مسرور جلد 6 صفحہ 6-7)
سبیل الرشاد جلد چہارم 200 اگر ذیلی تنظیمیں اور جماعتی نظام فعال ہو جائیں تو ہماری ترقی کے قدم کئی گنا بڑھ جائیں عہد یداران مجلس انصاراللہ برطانیہ کے ریفریشر کورس کا انعقاد 2008ء کا سال جماعت احمدیہ میں خلافت جوبلی کا سال تھا.اس سال کے دوران ہونے والے پروگراموں کو کامیاب طور پر منعقد کرنے کیلئے عہدیداران کی تربیت واصلاح بہت ضروری تھی.مجلس انصاراللہ برطانیہ نے اس سال عہدیداران کا مورخہ 19-20 جنوری 2008ء کو ایک ریفریشر کورس منعقد کروایا.اس کے اختتامی اجلاس میں حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے انصار عہدیداران کو زریں نصائح سے نوازا.حضور انور ایدہ اللہ نے تشہد وتعوذ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ " ریفریشر کورسز میں عموماً اتنی فارمل (Formal) تقریریں یا ایڈریس تو نہیں ہوتا اور میرا بھی خیال تھا کہ یہاں جور پورٹ ہوگی ذرا تفصیل سے ہوگی اور میں دیکھوں گا کہ کس حد تک انصار اللہ مختلف اپنی اپنی زعامتوں میں جوان کے سپرد کام ہیں ان کو سرانجام دے رہی ہے.حضور نے فرمایا کہ انصار اللہ کی تنظیم کے بارہ میں عموماً یہ تاثر ہوتا ہے ، اور یہ آج کا نہیں بڑا پرانا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے مجھے نہیں آتی کہ جب ایک خادم انصار اللہ کی تنظیم میں قدم رکھتا ہے یعنی 40 سال کے اوپر بڑھتا ہے تو وہ ایک دم سُست کیوں ہو جاتا ہے.حالانکہ ایک دن کا عمر کا فرق پڑا ہوتا ہے.تو انصار اللہ کا نام بھی اسی سوچ کے ساتھ رکھا گیا تھا کہ یہ نہ سمجھیں کہ آپ اب بوڑھے ہو گئے ہیں.اللہ کے انصار بننے والے یہ سوچ نہیں رکھتے.بچوں کی نگرانی والدین کی ذمہ داری ہے حضور نے فرمایا کہ عموماً میں نے دیکھا ہے اللہ کے فضل سے یو کے میں انصار کی بہت تعداد ایسی ہے جو اس سوچ کے رکھنے والے نہیں ہیں لیکن پھر بھی میں کہتا ہوں کہ وہ اتنے Active نہیں جتنا ہونا چاہئے.اگر انصار اللہ کی تنظیم مستعد ہو جائے تو جس طرح میں مختلف خطبات میں انصار اللہ کو توجہ دلاتا رہا ہوں کہ نمازوں کی ذمہ داری سنبھالیں.اپنی نمازوں کی حفاظت کریں اور اپنے گھروں کی نمازوں کی بھی حفاظت کریں اور گھروں کی نمازوں کی حفاظت یہی ہے کہ اپنے بچوں کو دیکھیں ، خاص طور پر لڑکوں کو جو خدام کی عمر کو پہنچے ہیں.
201 سبیل الرشاد جلد چہارم حضور نے فرمایا کہ اگر چہ خدام الاحمدیہ بھی اس طرف توجہ کر رہی ہے لیکن اگر انصار والدین ان کی نگرانی نہیں کریں گے تو اس کا اتنا اثر نہیں ہوگا.اس لئے ساری تنظیمیں جو بنائی گئی ہیں ان کا مقصد یہ تھا کہ ہرتنظیم اپنی اپنی ذمہ داری سمجھے.اگر لجنہ میں کمی ہے تو انصار سے پوری ہو ، اگر انصار میں کمی ہے خدام سے پوری ہو، خدام کی کمی ہے انصار پوری کریں.ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہوں اور جب پھر جماعتی طور پر کمزوری ہے تو ذیلی تنظیمیں اس کو پورا کر رہی ہوں.حضرت مصلح موعودؓ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ذیلی تنظیمیں اور جماعتی نظام Active ہو جائے تو ہمارے جو ترقی کے قدم ہیں وہ کئی گنا بڑھ جائیں.قرآن پڑھنا، پڑھانا انصار اللہ کی ذمہ داری ہے حضور نے فرمایا کہ بچوں کی نگرانی کرنا انصار کی بھی ذمہ داری ہے.پھر قرآن کریم کی تلاوت ہے.قرآن کریم کا پڑھنا، پڑھانا.یہ انصار اللہ کی ذمہ داری ہے.اس بارہ میں خطبے میں میں تفصیل سے بتا چکا ہوں.دو سال پہلے آپ نے اس کا پروگرام بھی بنایا تھا.پروگرام تو بڑا اچھا بنا تھا مجھے نہیں پتہ کس حد تک اس پر عمل ہو رہا ہے.قرآن کریم پڑھانے کا انٹرنیٹ کے ذریعہ سے ایک نظام بھی شروع کر وایا تھا وہ بھی جاری رہنا چاہئے لیکن اس میں بھی جو شرکت ہے وہ بہت کم ہے.پھر اس کے علاوہ آمنے سامنے بیٹھ کے جو کلاسیں لگتی ہیں وہ مجالس میں لگنی چاہئیں ، گھروں میں لگنی چاہیں.پھر آپ انصار میں بہت سے ایسے ہیں جو اردو پڑھنا جانتے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے اقتباسات کا درس اگر گھروں میں دینا شروع کر دیں تو آپ لوگوں کے بچوں کو پتہ لگے کہ حضرت مسیح موعود کی تعلیم کیا تھی؟ کیا روح وہ ہم میں پیدا کرنا چاہتے تھے اور کس طرح ہم نے اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت کرنی ہے.حضور نے فرمایا کہ ایک تو مسجد میں درس ہوتا ہے یا نماز سنٹر میں درس ہوتا ہے، لیکن بہت سے ایسے ہیں جو فاصلے کی وجہ سے مسجد نہیں جاسکتے یا با قاعدگی سے نہیں جاسکتے.اگر پانچ سات منٹ کا درس کا نظام گھروں میں شروع ہو جائے تو اس کا بہت فائدہ ہوگا.جو اردو پڑھنا نہیں جانتے انگلش پڑھنے والے ہیں Essence Of Islam.s سے ایک پیرا یا چند لائنیں اپنے اپنے گھروں میں درس دیں.اقتباسات پڑھ کر سنائیں.مختلف عنوانات کے تحت پڑھ کر سنائیں تو ایک شوق پیدا ہوگا.ذیلی تنظیموں کو باہمی تعاون سے کام کرنا چاہئے حضور نے فرمایا کہ بعض دفعہ مثل الجنہ کی طرف سے اگر نمازوں اور قرآن کریم کی تعلیم کی یا درس کی سکیم بنتی ہے تو انصار کی طرف سے بھی بن جائے اور خدام کی طرف سے بھی بن جائے اور سب مل کر ایک ہی روح سے کام کریں تو اس سے پھر اثر زیادہ ہوگا.بشرطیکہ لجنہ اور انصار اور خدام کے تعلقات اچھے ہوں کیونکہ بعض دفعہ
سبیل الرشاد جلد چہارم 202 ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ شکایات آتی ہیں کہ لجنہ کا پروگرام ہے تو انصار تعاون نہیں کر رہے اور اپنی گھر کی عورتوں کو ، بچیوں کو روک دیتے ہیں کہ تم نے نہیں جانا.عہدیداران کو عملی نمونہ دکھانا چاہئے حضور نے فرمایا کہ بعض عہدیدار ان کے متعلق بھی شکایات آتی ہیں کہ ان کے اپنے عمل ایسے نہیں یا کم از کم دوسروں پر ان کا اثر ایسا ہے جس کی وجہ سے لوگ ان کی بات مانے کو تیار نہیں ، یا ان کا اپنے سے بالا افسر کے ساتھ رویہ ایسا ہے جو دوسرے ماتحتوں کو پتہ لگتا ہے تو وہ بھی اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں.اگر آپ نے کام لینا ہے اور حقیقی انصار بن کر دکھانا ہے تو پہلے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کر یں.پہلے اپنی نمازوں کی حفاظت کریں.اپنی فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کی طرف بھی توجہ دیں.قرآن کریم کے پڑھنے کی طرف توجہ دیں.ایک احمدی کا ہر فعل خاص طور پر احمدی عہدیدار کا معیاری فعل ہونا چاہئے.اس کا اپنا رویہ اپنے گھر میں، اپنے ماحول میں، اپنے ماتحتوں کے ساتھ ، اپنے افسران عہدیداران کے ساتھ ایسا ہونا چاہئے جو ایک مثال ہو.اگر یہ 386 انصار جو تمام ملک کی مجالس انصاراللہ میں سے جمع ہوئے ہیں، اگر آپ اپنے اندر ایک تبدیلی پیدا کریں، ایسی تبدیلی جو ہر ایک کو نظر آئے تو تبھی انقلاب بھی پیدا ہوسکتا ہے.تبھی آپ کے گھروں کے سکون بھی قائم ہو سکتے ہیں.آپ کے گھروں کی تربیت بھی ہو سکتی ہے اور اس ماحول کی تربیت ہو سکتی ہے جس میں آپ رہتے ہیں.آپ کی مجلس کے قدم ترقی کی طرف بڑھ سکتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ ہم یہاں اکٹھے ہوئے ہیں ایک عہد باندھنے کیلئے کہ یہ ہماری ذمہ داریاں ہیں ان کو ہم نے پورا کرنا ہے اور جو ہمارے سے کمیاں، کمزوریاں اب تک ہو چکی ہیں ان کو ہم نے اپنے اندر سے دور کرنا ہے.حضور نے فرمایا کہ بڑی عمر میں بعض لوگوں میں کرختگی آجاتی ہے اور نو جوانوں کو سختی سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں اس طرح وہ نہیں سمجھیں گے.حکمت جو ہے وہ بھی مومن کا ایک خاصہ ہے اس لئے ہر کام جو آپ نے کرنا ہے ہر تربیت کا پہلو جو لے کے اپنے ماحول کی تربیت کرنے کی کوشش کرنی ہے اس میں حکمت بھی ضروری چیز ہے.اسی طرح تبلیغ ہے، تبلیغی میدان میں بھی حکمت ضروری ہے.یہ بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جماعت کی اور اب انشاء اللہ تعالیٰ مزید ذمہ داریاں بڑھنی ہیں.اپنی کمزوریوں پر نظر رکھ کر کیا جانے والا استغفار تربیت کا موجب ہوتا ہے حضور نے فرمایا کہ اپنی گھر یلو تربیت کے ساتھ ساتھ تبلیغ کی طرف بھی توجہ دیں.پھر جو نئے آنے والے ہیں وہ آپ کے نمونے دیکھنے والے ہوں گے ان کی تربیت کے لئے کوشش کرنی ہوگی.اس کے لئے اللہ تعالیٰ
203 سبیل الرشاد جلد چہارم نے ہمیں ایک اصول بتایا ہے کہ استغفار کرو.استغفار اگر حقیقی معنوں میں کیا جائے ،سوچ کر کیا جائے ، اپنے گناہوں پر نظر رکھ کے کیا جائے تو اپنی بھی تربیت ہوگی اور انشاء اللہ آنے والوں کی بھی ہوگی.اپنے ماحول کی بھی ہوگی ، اپنے بچوں کی بھی ہوگی.استغفار میں بڑی طاقت ہے بشرطیکہ اس کو سمجھ کے کیا جائے.ان گناہوں کو سامنے رکھ کر کیا جائے ، ان کمزوریوں اور کمیوں کو سامنے رکھ کر کیا جائے جو ہم سے صادر ہو چکی ہیں اور آئندہ نہ کرنے کا عہد کیا جائے.اس نظر سے انصار اللہ کو اپنے جائزے لینے چاہئیں ، خاص طور پر عہد یداران کو اپنے جائزے لینے چاہئیں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے.امید ہے کہ آپ لوگ بہت سارے اس پر عمل کر بھی رہے ہوں گے اور جن میں کمیاں، کمزوریاں ہیں وہ آئندہ ایک نئے عزم کے ساتھ ، ایک نئے عہد کے ساتھ اور ارادے کے ساتھ ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے جو آپ کو انصار اللہ کی تنظیم کی طرف سے دیئے گئے ہیں، ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے جو جماعت کی طرف سے مقامی نظام کی طرف سے دیئے گئے ہیں.ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے وقتاً فوقتاً جن کے بارے میں ہمیں بھی کہتا رہتا ہوں.تو یہ جب اکٹھے ہو کے، جمع ہو کے، ایک کوشش ہوگی اور دعا ہوگی تو اس وقت جو انقلابی تبدیلیوں کے نظارے ہم دیکھیں گے انشاء اللہ تعالیٰ وہ غیر معمولی نظارے ہوں گے.اور انشاءاللہ وہ وقت آ رہا ہے کہ وہ نظارے دیکھنے ہیں لیکن ہمیں بھی اپنے آپ کو اس کے لئے تیار کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے" (الفضل انٹر نیشنل 22 فروری 2008 ) صحت تلفظ اور ترجمہ قرآن کے لئے ذیلی تنظیمیں بھی کام کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 7 مارچ 2008ء کے خطبہ جمعہ میں انصار اللہ UK کے انٹرنیٹ کے ذریعہ قرآن پڑھانے کی مثال دیتے ہوئے فرمایا.ایک وقت تھا کہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ صحیح طور پر قرآن کریم نہیں پڑھا جاتا جماعت کو صحت تلفظ کی طرف توجہ دلائی تھی کہ اس طرح پڑھا جائے.کیونکہ زیر ز بر پیش کی بعض ایسی غلطیاں ہو جاتی تھیں، کہ ان غلطیوں کی وجہ سے معنے بدل جاتے ہیں یا مفہوم واضح نہیں ہوتا.تو اس طرح آپ نے صحتِ تلفظ کی طرف توجہ دلائی تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے بعد جماعت میں اس طرف خاص توجہ پیدا ہوئی.لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ ترجمہ قرآن کی طرف بھی توجہ دی جائے.ذیلی تنظیمیں بھی کام کریں.جماعتی نظام بھی کام کرے.یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انصار اللہ یو کے نے شروع کیا ہے.یہ انٹرنیٹ کے ذریعہ سے بھی پڑھا رہے ہیں اس سے استفادہ کرنا چاہئے.کیونکہ
204 سبیل الرشاد جلد چهارم ترجمہ آئے گا تو پھر ہی صحیح اندازہ ہو سکے گا کہ احکامات کیا ہیں؟ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ غور کر تبھی غور کی عادت پڑے گی.عمل کی طرف توجہ پیدا ہوگی اور یہی تلاوت کا حق ہے " خطبات مسرور جلد 6 صفحہ 102 ) جو بلی پر ذیلی تنظیموں کا صرف چھوٹے چھوٹے پروگرام بنانا کافی نہیں،اصل کام خلافت جیسی نعمت کے شکرانے کے طور پر اللہ تعالیٰ سے تعلق کو اور بڑھانا ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 18 اپریل 2008 ءکو خطبہ جمعہ میں فرمایا.یہ سال جس میں جماعت، خلافت کے 100 سال پورے ہونے پر جو بلی منا رہی ہے، یہ جو بلی کیا ہے؟ کیا صرف اس بات پر خوش ہو جانا کہ ہم جو بلی کا جلسہ کر رہے ہیں یا مختلف ذیلی تنظیموں نے اپنے پروگرام بنائے ہیں، یا کچھ سونیئر ز بنالئے گئے ہیں.یہ تو صرف ایک چھوٹا سا اظہار ہے.اس کا مقصد تو ہم تب حاصل کریں گے، جب ہم یہ عہد کریں کہ اس 100 سال پورے ہونے پر ہم یہ عہد کرتے ہیں کہ اس نعمت پر جو خلافت کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر اتاری ہے، ہم شکرانے کے طور پر اپنے خدا سے اور زیادہ قریبی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.اپنی نمازوں اور اپنی عبادتوں کی حفاظت پہلے سے زیادہ بڑھ کر کریں گے اور یہی شکر ان نعمت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مزید بڑھانے والا ہوگا.قرآن کریم میں جہاں مومنوں سے خلافت کے وعدے کا ذکر ہے.اس سے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكَوةَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (النور: 57) اور تم سب نمازوں کو قائم کرو، زکوۃ دو اور اس رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.پس یہ بات ثابت کرتی ہے کہ خلافت کے انعام سے فائدہ اٹھانے کے لئے قیام نماز سب سے پہلی شرط ہے.پس میں جو یہ اس قدر زور دے رہا ہوں کہ ہر احمدی، مرد، جوان ، بچہ عورت اپنی نمازوں کی طرف توجہ دے تو اس لئے کہ انعام جو آپ کو ملا ہے اس سے زیادہ سے زیادہ آپ فائدہ اٹھا سکیں“ خطبات مسرور جلد 6 صفحہ 166 ) انصار اللہ کے معنی اللہ کے مددگار کے ہیں حضور نے جو بلی خلافت کے سال نائیجریا کے دورہ کے دوران 23 اپریل 2008ء کو مجلس عاملہ انصار اللہ نائیجریا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
205 سبیل الرشاد جلد چہارم حضور انور نے مجلس عاملہ انصار اللہ کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ آپ نے اپنے دفاتر کی تعمیر مکمل کرنے کے لئے مدد کی درخواست کی ہے.آپ اس تعمیر کو خود مکمل کریں.زیادہ سے زیادہ آپ کو جو سنٹرل ریز رو ہے وہ آپ کو دیا جاسکتا ہے.حضور انور نے فرمایا: انصار اللہ کا مطلب ہے " اللہ کے مددگار " اور انصار اللہ کے اراکین جہاں اپنی عمر کے لحاظ سے تجربہ کار ہوتے ہیں وہاں بوجہ تجر بہ اپنی تنخواہوں میں بھی بڑھ کے ہوتے ہیں.اس لئے آپ لوگ اخراجات برداشت کریں.جماعت سب کی تربیت نہیں کر سکتی اس لئے ذیلی تنظیمیں بنی ہیں تا کہ جوان، جوانوں کو سنبھالیں ، لجنہ لجنہ کو سنبھالے اور بوڑھے بوڑھوں کی تربیت کریں.نو مبائعین کو بھی تنظیموں میں شامل کریں.ان سے چندہ لیں خواہ ایک نائر ا ہی لیں دو مہینے بعد یا تین مہینے بعد.اگر ان کا ایمان مضبوط ہے تو پھر مالی قربانی میں بھی مضبوط کریں.مالی قربانی سے ایمان پختہ ہوگا.آپ تجربہ کار لوگ ہیں.آپ آج جو مثال قائم کریں گے کل کو وہی نمونہ ٹھہرے گی " الفضل انٹر نیشنل 6 جون 2008ء) ذیلی تنظیمیں اپنے معاملات میں براہ راست خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں ہت تنظیم کی ذمہ داری صرف اپنی متعلقہ تنظیم کی حد تک ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 25 اپریل 2008 ء کے خطبہ جمعہ کے آخر میں انتظامی امور کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.میں ایک انتظامی بات بھی یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں جو ذیلی تنظیموں سے متعلق ہے.یعنی انصار، خدام اور لجنہ.ان ذیلی تنظیموں کو یادرکھنا چاہئے کہ ہر تنظیم کی ذمہ داری صرف اپنی متعلقہ تنظیم کی حد تک ہے.انصار اللہ نہ لجنہ اماءاللہ، نہ خدام الاحمدیہ کے معاملات میں دخل دے سکتے ہیں اور نہ ہی جماعتی پروگراموں اور جماعتی معاملات میں.اسی طرح خدام اور لجنہ صرف اپنے دائرہ کار میں محدود ہیں اور جماعتی نظام ان تمام تنظیموں سے بالا ہے.یہ بات بھی واضح ہو کہ ذیلی تنظیمیں اپنے معاملات میں براہ راست خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں.لیکن اپنے پروگرام بناتے وقت امیر سے مشورہ کرلیا کریں تا کہ جماعتی پروگراموں کے ساتھ ٹکراؤ نہ ہو.دوسرے یا درکھیں کہ ذیلی تنظیم کا ہر مہر جماعت کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے جماعتی نظام کا پابند ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو محبت اور پیار سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ذاتی اناؤں سے بچائے ، خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول آپ کا مقصد ہو.آمین" (خطبات مسرور جلد 6 صفحہ 174 )
سبیل الرشاد جلد چہارم 206 پیغام سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بر موقع صد سالہ خلافت احمد یہ جو بلی 27 رمئی 2008 ء میرے پیارے عزیز ! احباب جماعت السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آج خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہو رہے ہیں.یہ دن ہمیں سو سال سے زائد عرصے میں پھیلی ہوئی جماعت احمدیہ کی تاریخ اور اس وقت کی یاد بھی دلاتا ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مارچ 1889ء میں اللہ تعالیٰ کے ایک برگزیدہ نے اللہ تعالیٰ سے اذن پا کر ایک پاک جماعت کے قیام کا اعلان کیا.آپ کا مشن اور اس جماعت کے قیام کا مقصد خدا اور بندے میں تعلق پیدا کرنا، بنی نوع انسان کو خدائے واحد کے آگے جھکنے والا بنے کی تعلیم دینا اور اس کے لئے کوشش کرنا، تمام اقوام عالم کو امت واحدہ بنا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا، انسان کو انسان کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانا تھا.وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ نے زمانے کے امام اور مسیح و مہدی کے لقب سے ملقب کر کے بھیجا تھا.قیام جماعت اور آغاز بیعت 1889ء سے 1908 ء تک تقریباً انیس سال اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت سے اپنے مشن کو تمام تر مخالفتوں اور نا مساعد حالات کے باوجود اس تیزی سے لے کر آگے بڑھا کہ ہر مخالف جو بھی اس جری اللہ کے مقابلہ پر آیا ذلت ورسوائی کا منہ دیکھنے والا بنا.آخر اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق کہ ہر انسان جو اس فانی دنیا میں آیا اس نے آخر کو اس دنیا کو چھوڑنا ہے اور وہ شخص جواللہ کا خاص بندہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق صادق تھا، وہ تو اپنے آقا کی سنت کی پیروی میں رفیق اعلی سے ملنے کے لئے ہر وقت بے چین رہتا تھا.اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو جسے امام آخر الزمان بنا کر بھیجا تھا، واپسی کے اشارے دیتے ہوئے یہ تسلی دی کہ گو تیرا وقت اب قریب ہے لیکن چونکہ تجھے میں نے اپنے اعلان کے مطابق امام آخر الزمان بنایا ہے، اس لئے اے میرے پیارے! اے وہ شخص جو میری توحید کے قیام اور میرے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت تمام دنیا میں قائم کرنے کا در درکھتا ہے تو یہ فکر نہ کر کہ تیرے مرنے کے بعد تیرے اس کام کی تکمیل کی انتہا ئیں کس طرح حاصل ہوں گی.تو یا درکھ کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق جسے میری تائید حاصل ہے.اب خلافت علی منہاج النبوۃ تا قیامت قائم ہونی ہے، اس لئے تیرے بعد یہی نظام خلافت ہے جس کے ذریعہ سے میں تمام دنیا میں اپنی آخری شریعت کے قیام و استحکام کا نظام جاری کروں گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی آپ کو تسلی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
سبیل الرشاد جلد چہارم وو 207 یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے کتب اللَّهُ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِی (سورۃ المجادلہ: 22) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے اسی طرح خدا تعالیٰ قومی نشانوں کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخم ریزی انہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے.لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو نسی اور ٹھیٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھہ کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.(1) خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (2) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جوا خیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ ” بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے.تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق " کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جوفر مایا تھا: وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَناً (النور:56) یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گئے“ پھر فرمایا: (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 304-305) سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ
208 سبیل الرشاد جلد چہارم وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا.اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جاؤں.لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا.سوضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے.وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفا دار اور صادق خدا ہے، وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے.اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو " (رسالہ الوصیت.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305-306) پس جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا وہ وقت بھی آگیا جب آپ علیہ السلام، اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے اور ہر احمدی کا دل خوف و غم سے بھر گیا لیکن مومنین کی دعاؤں سے قرون اولیٰ کی یاد تازہ کرتے ہوئے ط زمین و آسمان نے پھر ایک بار وَلَيُبَدِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمُنًا (النور: 56 ) کا نظارہ دیکھا.وہ ر عظیم انقلاب جو آپ نے اپنی بعثت کے ساتھ پیدا کیا تھا اسے اللہ تعالیٰ نے خلافت کے عظیم نظام کے ذریعہ جاری رکھا.آپ کی وفات پر اخبار وکیل میں مولانا ابوالکلام آزاد نے یوں رقم فرمایا:.شخص بہت بڑا الشخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو.وہ شخص جود ماغی عجائبات کا مجسمہ تھا.جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی.جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تارا لجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں.وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا.جو شور قیامت ہو کر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا...مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے اور مٹانے کے لئے اسے امتدادزمانہ کے حوالے کر کے صبر کر لیا جائے.ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں دنیا میں انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں.“ (اخبار وکیل امرتسر بحوالہ تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه 560) پس اس انقلاب کا اعتراف غیروں کی زبان اور قلم سے نکلوا کر اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا کہ وہ شخص اللہ تعالی کا خاص تائید یافتہ تھا لیکن غیر کی نظر اس طرف نہ گئی کہ وہ تائید یافتہ جس انقلاب کو بر پا کر گیا ہے اس
209 سبیل الرشاد جلد چہارم انقلاب کو آپ کی پیروی کرنے والوں کے ذریعہ سے نعمت خلافت کے ذریعہ جاری رکھنے کا بھی اس ذوالعجائب اور قدیر ہستی کا وعدہ ہے اور اس کی تصدیق ہوتے ہوئے ایک دنیا نے حضرت مولانا نورالدین خلیفتہ امسیح الاول کے انتخاب خلافت کے وقت دیکھی.باوجود اس کے کہ مخالفین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ ایک منظم جماعت کو دیکھ رہے تھے، باوجود اس کے کہ وہ خلافت کے قیام کا نظارہ دیکھ چکے تھے لیکن انہوں نے جماعت کو ، اس جماعت کو جو خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے قائم کردہ جماعت تھی ایک منظم کوشش کے تحت توڑنے کی کوشش کی جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا: " اذْكُرُ نِعْمَتِي - غَرَسُتُ لَكَ بِيَدِى رَحْمَتِي وَقُدْرَتِي.“ ( تذکرہ صفحہ: 428) ترجمہ: میری نعمت کو یاد کر.میں نے تیرے لئے اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور اپنی قدرت کا درخت لگا دیا ہے.پس اس وعدہ کے مطابق وہ ہمیشہ کی طرح ناکام ہوئے گو کہ یہاں تک مخالفت کی شدت میں بڑھے کہ ایک اخبار نے لکھا: " ہم سے کوئی پوچھے تو ہم خدا لگتی کہنے کو تیار ہیں کہ مسلمانوں سے ہو سکے تو مرزا کی گل کتا بیں سمندر میں نہیں کسی جلتے تنور میں جھونک دیں.اسی پر بس نہیں بلکہ آئندہ کوئی مسلم یا غیر مسلم مؤرخ تاریخ ہند یا تاریخ اسلام میں ان کا نام تک نہ لے.( اخبار وکیل امرتسر 13 جون 1908 ء.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 3 صفحہ 205-206 ) لیکن آج تاریخ احمدیت گواہ ہے، دنیا جانتی ہے کہ ان کا نام لیوا تو کوئی نہیں لیکن خلافت کی برکت سے احمدیت دنیا میں پھول پھل رہی ہے اور کروڑوں اس کے نام لیوا ہیں.اپنی بیہودہ گوئیوں میں یہاں تک بڑھے کہ ایک اخبار کرزن گزٹ میں لکھا جسے حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے اپنی پہلی جلسہ کی تقریر میں بیان کیا کہ : اب مرزائیوں میں کیا رہ گیا ہے.ان کا سرکٹ چکا ہے.ایک شخص جو ان کا امام بنا ہے اُس سے تو کچھ ہو گا نہیں.ہاں یہ ہے کہ تمہیں کسی مسجد میں قرآن سنایا کرے." ( تاریخ احمد بیت جلد 3 صفحہ 221) حضرت خلیفتہ اصبح الاول نے فرمایا سبحان اللہ یہی تو کام ہے.خدا توفیق دے.بدقسمتی سے جماعت کے بعض سر کر دہ بھی خلافت کے مقام کو نہ سمجھے.سازشیں ہوتی رہیں لیکن خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا بڑھتا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق محبوں کی جماعت بڑھتی رہی اور کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کارگر نہ ہوئی.پھر خلافت ثانیہ کا دور آیا تو بعض سرکردہ انجمن کے ممبران کھل کر مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے لیکن وہ تمام سرکردہ علم کے زعم سے بھرے ہوئے، تجربہ کار پڑھے لکھے اس پچیس سالہ جوان کے سامنے ٹھہر نہ سکے اور اس نے جماعت کی تنظیم تبلیغ ، تربیت، علوم و معرفت قرآن میں وہ مقام پیدا کیا کہ کوئی اس کے مقابل ٹھہر نہ
سبیل الرشاد جلد چہارم 210 سکا.جماعت پر پریشانی اور مخالفتوں کے بڑے دور آئے لیکن خلافت کی برکت سے جماعت ان میں کامیابی کے ساتھ گزرتی چلی گئی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے باون سالہ دور خلافت کے حالات پڑھیں تو پتہ چلے کہ اس پسرجری اللہ نے کیا کیا کار ہائے نمایاں انجام دیئے.دنیائے احمدیت میں حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کے بعد پھر ایک مرتبہ خوف کی حالت طاری ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق اسے چند گھنٹوں میں امن میں بدل کر قدرت ثانیہ کے تیسرے مظہر کا روشن چاند جماعت کو عطا فرمایا.حکومتوں کے ٹکرانے کے باوجود، ظالمانہ قوانین کے اجراء کے بعد تمام مسلمان فرقوں کی منظم کوشش کے باوجود، یہ قافلہ ترقی کی منزلیں طے کرتا چلا گیا.پیار ومحبت کے نعرے لگاتا ہوا، غریب اقوام کے غریب عوام کی خدمت کرتے ہوئے ، انہیں رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرتا چلا گیا.پھر وہ وقت آیا کہ ابھی تقدیر کے ماتحت حضرت خلیفہ اصبح الثالث رحمہ اللہ بھی اپنے پیدا کرنے والے کے حضور حاضر ہو گئے.پھر اندرونی اور بیرونی فتنوں نے سراٹھایا لیکن خدائی وعدہ کے مطابق جماعت احمدیہ کو خلافت رابعہ کی صورت میں تمکنت دین عطا ہوئی.ہر فتنہ اپنی موت آپ مر گیا.ظالمانہ قانون کے تحت ہاتھ پاؤں باندھنے والوں اور احمدیت کے کینسر کو ختم کرنے کا دعوی کرنے والوں کو خدا تعالیٰ نے نیست و نابود کر دیا.پاکستان میں ظالمانہ قانون کی وجہ سے خلیفہ وقت کو ہجرت کرنا پڑی لیکن یہ ہجرت جماعت کی ترقی کی نئی منازل دکھانے والی بنی.ایک بار پھر غَرَسُتُ لَكَ بِيَدِى كا وعدہ ہم نے پورا ہوتے دیکھا.تبلیغ کی وہ راہیں کھلیں جو ا بھی بہت دور نظر آتی تھیں.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے گئے وعدے کو کہ ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ خلافت رابعہ کے دور میں MTA کے ذریعہ سے یوں پورا ہوتا دکھایا کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.اگر ہم اپنے وسائل کو دیکھیں اور پھر اس چینل کے اجراء کو دیکھیں تو ایمان والوں کے منہ سے بے اختیار اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کے الفاظ نکلتے ہیں.اسی چینل نے آج مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک ہر مخالف احمدیت کا منہ بند کر دیا ہے.پس وہی لوگ جو خلیفہ وقت کو عضو معطل کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے ان کے گھروں کے اندر MTA نے اس مردِ مجاہد کی آواز پہنچادی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام اور خدا تعالیٰ کی آخری شرعی کتاب قرآن کریم کا آسمانی مائدہ آج ہرگھر میں اللہ تعالیٰ کی تائید سے پہنچ گیا.پھر كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ (الرحمن:27 ) کے قانون کے مطابق حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ کی وفات کے بعد ایک دنیا نے دیکھا اور MTA کے کیمروں کی آنکھ نے سیٹلائیٹ کے ذریعہ ایک نظارہ ہر گھر میں پہنچایا.وہ نظارہ جو اپنوں اور غیروں کے لئے عجیب نظارہ
211 سبیل الرشاد جلد چہارم تھا.اپنے اس بات پر خوش کہ خدا تعالیٰ نے خوف کو امن سے بدلا اور غیر اس بات پر حیران کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں یہ کیسی جماعت ہے جسے ہم سو سال سے ختم کرنے کے درپے ہیں اور یہ آگے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں.ایک مخالف نے بر ملا اظہار کیا کہ میں تمہیں سچا تو نہیں سمجھتا لیکن اس نظارے کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت تمہارے ساتھ لگتی ہے.میرے جیسے کمزور اور کم علم انسان کے ہاتھ پر بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو جمع کر دیا اور ہر دن اس تعلق میں مضبوطی پیدا ہوتی جا رہی ہے.دنیا بجھتی تھی کہ یہ انسان شاید جماعت کو نہ سنبھال سکے اور ہم وہ نظارہ دیکھیں جس کے انتظار میں ہم سو سال سے بیٹھے ہیں لیکن یہ بھول گئے کہ یہ پودا خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے لگایا ہوا ہے جس میں کسی انسان کا کام نہیں بلکہ الہی وعدوں اور تائیدات کی وجہ سے ہر کام ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ یہ الہام پورا فرما رہا ہے کہ ”میں تیرے ساتھ اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں.“ پس یہ الہبی تقدیر ہے یہ اُسی خدا کا وعدہ ہے جو بھی جھوٹے وعدے نہیں کرتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ پیارے جو آپ کے حکم کے ماتحت قدرت ثانیہ سے چھٹے ہوئے ہیں، انہوں نے دنیا پر غالب آنا ہے کیونکہ خدا ان کے ساتھ ہے.خدا ہمارے ساتھ ہے.آج اس قدرت کو سو سال ہو رہے ہیں اور ہر روزنئی شان سے ہم اس وعدہ کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.جیسا کہ میں نے جماعت کی مختصر تاریخ بیان کر کے بتایا ہے.پس ہر احمدی کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو قدرت ثانیہ سے چمٹ کر اپنی تمام استعدادوں کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کریں.آج ہم نے عیسائیوں کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہے.یہ خلافت احمدیہ ہے جس کے ساتھ جوڑ کر ہم نے روئے زمین کے تمام مسلمانوں کو بھی مسیح و مہدی کے ہاتھ پر جمع کرنا ہے.پس اے احمد یو! جو دنیا کے کسی بھی خطہ زمین میں یا ملک میں بستے ہو، اس اصل کو پکڑ لو اور جو کام تمہارے سپر د امام الزمان اور مسیح و مہدی نے اللہ تعالیٰ سے اذن پا کر کیا اُسے پورا کرو.جیسا کہ آپ نے یہ وعدہ تمہاری نسبت ہے“ کے الفاظ فرما کر یہ عظیم ذمہ داری ہمارے سپر د کر دی ہے.وعدے تبھی پورے ہوتے ہیں جب ان کی شرائط بھی پوری کی جائیں.پس اے مسیح محمدی کے ماننے والو! اے وہ لوگو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیارے اور آپ کے درخت وجود کی سرسبز شاخیں ہو.اُٹھو اور خلافت احمدیہ کی مضبوطی کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہوتا کہ مسیح محمدی اپنے آقا و مطاع کے جس پیغام کو لے کر دنیا میں اللہ کی طرف سے آیا ، اُس حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے دنیا کے کونے کونے میں پھیلا دو.دنیا کے ہر فرد تک یہ پیغام پہنچا دو کہ تمہاری بقا خدائے واحد و یگانہ سے تعلق جوڑنے میں ہے.دنیا کا امن اس مہدی ومسیح کی جماعت سے منسلک ہونے سے وابستہ
212 سبیل الرشاد جلد چہارم ہے.کیونکہ امن وسلامتی کی حقیقی اسلامی تعلیم کا یہی علمبردار ہے جس کی کوئی مثال روئے زمین پر نہیں پائی جاتی.آج اس مسیح محمدی کے مشن کو دنیا میں قائم کرنے اور وحدت کی لڑی میں پروئے جانے کا حل صرف اور صرف خلافت احمدیہ سے جُڑے رہنے سے وابستہ ہے اور اسی سے خدا والوں نے دنیا میں ایک انقلاب لانا ہے.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو مضبوطی ایمان کے ساتھ اس خوبصورت حقیقت کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین والسلام خاکسار ( دستخط ) مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس الفضل انٹر نیشنل 23 مئی 2008ء) عہد یداران خادم بنیں گے تو مخدوم کہلا ئیں گے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 20 جون 2008ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.عہدیداران سے بھی میں کہتا ہوں کہ وہ اس انعام کی قدر کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خادم بنیں گے تو مخدوم کہلائیں گے.اپنے اندر وسعت حوصلہ اور برداشت پیدا کریں.ایک احمدی جب آپ کے پاس آتا ہے چاہے وہ کسی قوم کا ہو، اس کی بات غور سے سنیں اور اسے تسلی دلائیں.اگر مصروفیت کی وجہ سے فوری طور پر وقت نہیں دے سکتے تو کوئی اور وقت دیں اور اگر کبھی بھی وقت نہیں دے سکتے تو پھر بہتر ہے کہ ایسے عہدیدار خدمت سے معذرت کر لیں.میں خود با وجود مختلف قسم کی مصروفیات کے، کاموں کی زیادتی کے وقت نکال کر صرف اس لئے ذاتی طور پر بعض بڑھی ہوئی رنجشوں کوسن لیتا ہوں اور حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں تا کہ ان میں کسی طرح آپس میں محبت اور پیار پیدا ہو.وہ حسین معاشرہ قائم ہو جس کے قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے.لیکن اگر عہد یداران سننے کا حوصلہ رکھنے والے ہوں تو میرا خیال ہے کہ ان معاملات میں میرا یہ کام آدھا ہو سکتا ہے" خطبات مسرور جلد 6 صفحہ 247)
سبیل الرشاد جلد چہارم 213 عہد یداران خالی الذہن ہو کر فیصلہ کریں اور تربیت کا کام اچھے طریقے سے سرانجام دیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 20 جون 2008ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا."میں نے کہا آج کل یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور امریکہ میں خاص طور پر یہ بنتا جارہا ہے.مجھے نہیں پتہ کہ ابتدا میں قصور لڑکی کا ہوتا ہے یالڑ کے کا.کچھ نہ کچھ قصور دونوں کا ہوتا ہوگا.لیکن جو باتیں سامنے آتی ہیں ، آخر میں لڑکا اور اس کے گھر والے عموماً زیادہ قصور وار ہوتے ہیں.بعض دفعہ بچے ہو جاتے ہیں اور پھر میاں بیوی کی علیحدگی ہوتی ہے.ایک دوسرے کو بچوں کے ذریعے سے جذباتی تکلیف پہنچا کر تنگ کیا جاتا ہے.حالانکہ خدا تعالیٰ کا بڑا واضح حکم ہے کہ نہ باپ کو اور نہ ماں کو بچوں کے ذریعہ سے تنگ کرو، تکلیف پہنچاؤ.اور پھر یہ نہیں کہ پھر تنگ ہی کرتے ہیں بلکہ بعض ماؤں سے بچے چھین لیتے ہیں اور جب میں نے اس بارے میں کئی کیسز میں تحقیق کروائی ہے تو مجھے پھر جھوٹ لکھ دیتے ہیں.اگر وہ جھوٹ لکھ کر مجھے دھوکہ دے بھی دیں تو خدا تعالیٰ کو تو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.وہ تو عالم الغیب ہے.تو یہ سب کچھ بھی صرف اس لئے ہوتا ہے کہ تقویٰ میں کمی ہے اور اس میں بعض ماں باپ بھی اکثر جگہ قصوروار ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا یہ تعداد بڑھ رہی ہے جو مجھے فکر مند کر رہی ہے.آپ کے کسی عہدیدار نے مجھے کہا کہ لڑکیوں سے کہیں کہ جماعت میں ایسے ہی لڑکے ہیں ان سے گزارا کریں.تو ایک تو ایسے عہدیداروں سے یہ میں کہتا ہوں کہ جب فیصلے کے لئے آپ کے پاس کوئی آئے تو خالی الذہن ہو کر فیصلہ کریں.نہ لڑکے کو مجبور کریں نہ لڑکی کو مجبور کریں اور نہ کسی پر کسی قسم کی زیادتی ہو.دوسرے میرے نزدیک یہ بات ہمارے احمدی نوجوانوں پر بھی بدظنی ہے کہ نہ ہی ان کی اصلاح ہوگی اور نہ ہوسکتی ہے.اور پھر یہی نہیں بلکہ یہ خدا تعالیٰ پر بھی بدظنی ہے کہ اُس میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ان کی اصلاح کر سکے.میں نے تو نصیحت اور دعا سے کئی معاملات میں مختلف قسم کی طبائع میں بڑی واضح تبدیلیاں ہوتے دیکھی ہیں.میں کس طرح بچیوں سے کہوں کہ تمہارے معاملات کا کوئی حل نہیں ہے، زیادتیوں کو برداشت کرتی چلی جاؤ.یالڑکوں کے بارہ میں یہ اعلان کر دوں کہ وہ قابل اصلاح نہیں ہیں.میں نے تو یہاں آکر نو جوانوں میں لڑکوں میں بھی ، مردوں میں بھی، جو اخلاص دیکھا ہے میں تو ان صاحب کی بات پر یقین نہیں کرسکتا.مجھے تو بہت اخلاص سے بھرے ہوئے نوجوان نظر آرہے ہیں.اگر چند ایک لڑکے جماعت میں زیادتی کرنے والے ہیں تو اس اعلان کے بعد گویا پھر لڑکوں کو تو کھلی چھوٹ مل جائے گی ہمیں کھلی چھوٹ دے رہا ہوں گا کہ تم بھی تقوی کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کے نقش قدم پر چلنے والے بن جاؤ.
214 سبیل الرشاد جلد چہارم پس عہدیدار بھی اپنے سر سے بوجھ اتارنے کی کوشش نہ کریں.اللہ تعالیٰ نے تربیت کا جو کام ان کے سپرد کیا ہے اسے سرانجام دیں.اورلڑکوں اور لڑکیوں سے بھی میں یہ کہتا ہوں کہ اپنے اپنے جائزے لیں اور جس کی طرف سے بھی زیادتی ہے وہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے ہوئے اس حسین معاشرے کو جنم دینے کی کوشش کرے جس سے یہ دنیا بھی ان کے لئے جنت بن جائے.نرم دلی اور نیک اعمال اور عبادت کی طرف توجہ پیدا کریں جو تقویٰ کی اساس ہیں ، بنیاد ہیں.اگر ہر احمدی اس کی اہمیت کو سمجھ لے تو حقیقی معنوں میں ایک انقلاب ہوگا جو ہم اپنی زندگیوں میں پیدا کرنے والے ہوں گے.لیکن ہمیشہ یادرکھیں کہ اس کے لئے کوشش کرنی ضروری ہے.ان تمام نیک اعمال پر عمل کرنے کی کوشش کی ضرورت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے بیان فرمائے ہیں.ان کی ایک لمبی فہرست ہے اور آئندہ بھی میں دو دن ان تربیتی امور پر بھی آپ سے کچھ کہوں گا" خطبات مسرور جلد 6 صفحہ 248-249) نئے آنے والوں کی زیادہ تربیت کی ضرورت ہے دورہ امریکہ کے دوران مورخہ 23 جون 2008 ء کو اراکین نیشنل عامله مجلس انصار اللہ امریکہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے میٹنگ میں شمولیت کی سعادت حاصل کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں سب سے پہلے قائد ایثار نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہم طبی سہولیات دے رہے ہیں.حضور انور نے دریافت فرمایا کہ ضرورت مند افریقن ممالک کے لوگوں کے لئے کیا کوئی رقم آپ نے اکٹھی کی ہے؟ یا ان ممالک میں جہاں جماعت کے پراجیکٹ جاری ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ آپ افریقہ میں کم از کم چار پانچ واٹر پمپ لگانے کی ذمہ داری لیں.قائد تعلیم القرآن سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ کا پروگرام کیا ہے؟ قائد صاحب نے بتایا کہ مجالس میں قرآن کلاسز جاری ہیں.64 مجالس میں سے 44 مجالس سے رپورٹس موصول ہو رہی ہیں جن کے مطابق کلاسز میں شامل ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار یک صد گیارہ ہے.یہ صرف پہلی سہ ماہی کی رپورٹ ہے.قائد تبلیغ سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ کا تبلیغی پروگرام کیا ہے؟ قائد صاحب نے بتایا کہ جو چھوٹے علاقے ہیں وہاں تبلیغی پروگرام بنائے گئے ہیں.64 مجالس میں سے 36 مجالس کی رپورٹس موصول ہوئی ہیں اس کے مطابق 897 افراد سے تبلیغی رابطے ہوئے ہیں.نائب صدر اول اور نائب صدر صف دوم نے اپنا تعارف کروایا.نائب صدر صف دوم قائد عمومی بھی ہیں.حضور انور ایدہ اللہ کے دریافت فرمانے پر قائد صاحب عمومی نے بتایا کہ ہماری 64 مجالس ہیں.
سبیل الرشاد جلد چہارم 215 حضور انور نے فرمایا کہ لجنہ کی 66 مجالس ہیں اور آپ کی 64 ہیں.قائد صاحب نے بتایا کہ ملک کے اندر کل 67 جماعتیں ہیں.تین جماعتیں ایسی ہیں جہاں انصار نہیں ہیں.اس لئے وہاں ابھی مجالس قائم نہیں ہوئیں.حضور انور نے فرمایا ان جماعتوں کے صدران سے رابطہ رکھیں اور پستہ کرتے رہیں.قائد اشاعت نے اپنی رپورٹ دیتے ہوئے بتایا کہ لٹریچر شائع کیا ہے.کتب شائع ہوئی تھیں.سپینش زبان میں بھی پمفلٹ شائع کئے گئے ہیں.قائد مال سے حضور انور نے بجٹ کے بارہ میں دریافت فرمایا.قائد مال نے بتایا کہ انصار اللہ کا بجٹ تین لاکھ 16 ہزار ڈالر ہے اور فی کس اوسط 176 ڈالر ہے.قائد تعلیم نے اپنی رپورٹ دیتے ہوئے بتایا کہ صد سالہ خلافت جو بلی" کے پروگرام کے تحت تین کتب معین کی گئی ہیں جن کا مطالعہ کرنا ہے اور امتحان لیا جائے گا.اس کے مطابق پروگرام بنائے جارہے ہیں.قائد ذہانت و صحت جسمانی سے حضور انور نے پروگراموں کے بارہ میں دریافت فرمایا.قائد صاحب نے بتایا کہ (ہیلتھ ) صحت اور ورزش کے بارہ میں سائٹ پر آرٹیکل دیئے ہیں.بیس فیصد انصار ورزش کرتے ہیں.قائد تجنید نے بتایا کہ ہماری تجنید کے مطابق انصار کی تعداد 1991 ہے.قائد تربیت نو مبائعین سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ گزشتہ تین سال میں کتنے نو مبائعین سے رابطہ قائم ہے اور ان کی تربیت ہو رہی ہے؟ قائد تربیت نے بتایا کہ 43 انصار نو مبائعین سے رابطہ ہے اور باقی سے رابطے کئے جار ہے ہیں.معاون صدر سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ کے سپر د خاص کام کیا ہے؟ معاون صدر نے بتایا کہ صدرصاحب نے یہ کام سپرد کیا ہے کہ جو ریٹائر ڈ انصار ہیں اور ان کے پاس کوئی Talent ہے ان کی لسٹ بنائی جائے اور کوائف اکٹھے کئے جائیں تا کہ ان سے فائدہ اٹھایا جا سکے.قائد تربیت کو حضور انور نے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ آپ کو نئے آنے والوں کی زیادہ تربیت کی ضرورت ہے.ان کو اپنے نظام کا حصہ بنا ئیں.الفضل انٹر نیشنل 15 اگست 2008ء)
سبیل الرشاد جلد چهارم 216 عہد یداران انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے وحدانیت اور امن کے قیام کی کوشش کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 4 جولائی 2008 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا." امن کا قیام بھی مسجدوں سے وابستہ ہے.جیسا کہ میں نے بتایا کہ جو مسجد میں اس نیت سے آئے گا کہ خالص ہو کر خدا تعالیٰ کی عبادت کرنی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرے گا.لیکن جولوگ مسجدوں میں آکر بھی بندوں کے حقوق ادا نہیں کرتے وہ عملاً اپنے آپ کو سچی اطاعت سے باہر کر رہے ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اپنی کتابوں میں اپنے ملفوظات میں اس قدر دوسروں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی ہے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ کا سچا پیرو کبھی اس سے صرف نظر کرے.لیکن افسوس کہ بعض لوگ ، بعض احمدی اس خوبصورت تعلیم سے دُور ہٹتے چلے جارہے ہیں اور پھر دعویٰ یہ ہے کہ ہم احمدی ہیں.ایک دوسرے پر الزام تراشیاں، جھگڑے، خاص طور پر میاں بیوی کے جھگڑے ہوں تو پورے کا پورا خاندان اس میں ملوث ہو جاتا ہے.پھر لڑکیوں پر عورتوں پر گندے الزام لگانے سے بھی باز نہیں آتے.تو اُن کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ایسے لوگ اپنے جائزے لیں، کچھ خدا کا خوف کریں.مجھے بعض دفعہ شکایات آتی ہیں بعض عہدیدار بھی انصاف کے تقاضے پورے نہ کرتے ہوئے غلط قسم کے لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں.ان سے بھی میں یہی کہوں گا کہ انصاف کے تقاضے پورے کریں.اس وحدانیت اور امن کے قیام کی کوشش کریں جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے.ورنہ عہد کا پاس نہ کرنے والے اور امانت کا حق ادا نہ کرنے والے بلکہ خیانت کرنے والے کہلائیں گے اور ایسے لوگ پھر اگر یہاں کسی پکڑ سے بچ بھی جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے آگے جوابدہ ہیں" (خطبات مسرور جلد 6 صفحہ 268-269) انصار اللہ کے عہد کو معمولی نہ سمجھیں.یہ ایک بہت بڑا عہد ہے اگر آپ نے اللہ و گواہ شہر ا کر کئے گئے عہد کونہ نبھایا تو آئندہ آنے والی نسلیں آپ کو معاف نہیں کریں گی خلافت جو بلی کے مبارک تاریخی سال میں مجلس انصار اللہ بیــلــجــنــم نے مورخہ 18-19 اکتوبر 2008 ءکو سالانہ اجتماع کا انعقاد کیا.جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جرمنی سے واپسی پر شمولیت فرمائی
سبیل الرشاد جلد چہارم 217 اور 19 اکتوبر کو اختتامی تقریب سے خطاب فرماتے ہوئے فرمایا." آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں انصار اللہ کا اجتماع اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے.اتفاق سے ان دنوں میرا جرمنی جانے کا پروگرام تھا.صدر صاحب نے درخواست کی کہ واپسی پر اس اجتماع میں شامل ہو جاؤں تو اس طرح اتفاقا پروگرام بن گیا.اس جو بلی کے سال ہر جماعت کی خواہش ہے کہ ان کے جلسوں میں میں شامل ہوں لیکن ہر جگہ جاناممکن نہیں ہے.بہر حال بیجیم کی ایک چھوٹی سی جماعت ہے جس کے انصار اللہ کے اجتماع میں کافی تعداد میں دوسرے بھی آئے ہوئے ہیں تو اس لحاظ سے اس اجتماع میں شمولیت اس سال کے حوالے سے ہو گئی ہے.اور بیجیم کی بھی نمائندگی ان ملکوں میں ہو گئی ہے یا میرا پروگرام جن ملکوں میں جانے کا بنا ہے بلیجیم بھی ان میں شامل ہو گیا.جہاں اس سال کے حوالے سے اجتماع یا جلسے میں شامل ہوا ہوں.حضور انور نے فرمایا کہ یہ سال جو خلافت جوبلی کا سال ہے اس میں ہر ایک کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ خوشی منا لینا، جوبلی منالینا یہ تو دنیا داروں کی طرح ہمارا مقصد نہیں.اگر اس سال سے صحیح استفادہ کرنا ہے تو پھر اس روح کو تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کے لئے یہ جوبلی منائی جارہی ہے.اور وہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے 27 مئی کے جلسہ میں ایک عہد لیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانا اور خلافت احمد یہ کے قیام کے لئے آخر دم تک کوشش کرنی اور خلافت کے ذریعہ سے اس پیغام کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ہے دنیا کے کونے کونے تک پہنچا کر اپنے ملک کے کونے کونے تک پہنچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی ہے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا جب تک کہ اس کا حق ادا نہ ہو جائے.انصار اللہ کے عہد کو معمولی نہ سمجھیں حضور نے فرمایا ابھی آپ نے ایک عہد بھی کیا ہے کہ اسلام اور احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت کے لئے آخر دم تک کوشش کروں گا.نظام خلافت کی حفاظت کے لئے آخر دم تک کوشش کروں گا.اپنے بچوں میں بھی یہ روح پھونکنے کی کوشش کروں گا تو یہ عہد جو ہے اس کو معمولی عہد نہ سمجھیں.یہ ایک بہت بڑا عہد ہے.اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھہرا کر ہم یہ عہد کر رہے ہیں اس لئے ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ جو انصار اللہ ہیں اگر آپ نے اپنے اس عہد کو نہ نبھایا، اپنے اس عہد کو نبھانے کے لئے وہ بھر پور کوشش نہ کی جس کی آپ سے توقع کی جاتی ہے تو آئندہ آنے والی نسلیں آپ کو معاف نہیں کریں گی کیونکہ انہوں نے بھی آپ کے نقش قدم پر چلنا ہے.جن بچوں کی ، جن نو جوانوں کی تربیت آپ نے کرنی ہے وہ آپ کو الزام دیں گی کہ کیوں ہماری تربیت نہیں کی.اس لئے یہ یاد رکھیں کہ عہد جو آپ نے کیا ہے اس کو نبھانا آپ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے.
سبیل الرشاد جلد چہارم 218 قرآن کریم میں انصار اللہ کے لفظ کا استعمال حضور انور نے فرمایا قرآن کریم میں انصار اللہ کا لفظ دو جگہ آیا ہے اور ہر جگہ حضرت عیسی علیہ السلام کے حوالہ سے بات کی گئی ہے.آپ نے اپنے ماننے والوں سے پوچھا کہ مَنْ أَنْصَارِى إِلَى الــلــه (الصف: 15 ) کہ کون ہیں جو اللہ کی طرف بلانے میں میرے انصار ہوں گے.تو حواریوں نے یہی جواب دیا نَحْنُ انصار الله کہ ہم ہیں وہ انصار وہ مددگار جو اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پہنچانے کے لئے آپ کے مددگار ہوں گے.یہ ایک عہد تھا جو انہوں نے کیا اور نبھانے کی کوشش کی اور یہی عہد آپ بھی کر رہے ہیں.آپ کو نام دیا گیا ہے انصار اللہ کا.صرف نام دینا کافی نہیں ہے.ہر وقت یا درکھیں کہ اسلام کی روح کیا ہے.اسلام کے اندر کیا کیا گہری باتیں ہیں جن کا ہم نے خیال رکھنا ہے.جن کا ہمیں ہر وقت احساس ہونا چاہئے.حواری کا مطلب کیا ہے ؟ حواری کا مطلب ہے جو کپڑے دھو کر صاف کرے ایسا شخص حواری کہلاتا ہے جو دھلائی کرنے والا ہو.کپڑوں کی دھلائی کر کے ان کو صاف کر دینے والا ہو.پھر حواری کا مطلب ہے ایسا شخص جو امتحانوں سے آزمایا جائے اور ان میں سے کامیاب ہو کر نکلے، کبھی کمزوری دکھانے والا نہ ہو.پھر حواری ایسے شخص کو بھی کہتے ہیں جس کے کردار میں کوئی ملونی اور ملاوٹ نہ ہو.ایسا پاک صاف کردار ہو کہ جو کہہ رہا ہے اس پر عمل بھی کر رہا ہے.اب آپ گہرائی میں جا کر دیکھیں کہ کتنی بڑی ذمہ داری ہے جو انصار اللہ پر پڑتی ہے.جو یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم انصار اللہ ہیں.پھر حواری اس کو کہتے ہیں کہ جس کے مشورے اور عمل ایمانداری اور وفا کے ساتھ ہوں.پھر حواری کا ایک مطلب یہ ہے کہ سچا، وفادار دوست اور مددگار.پھر حواری کے ایک معنی یہ ہیں نبی کا خاص چنیدہ اور وفادار.حضور نے فرمایا کہ اب یہ سارے مطلب آپ دیکھیں تو ایسے ہیں جو ایک بہت بڑی ذمہ داری ڈالتے ہیں اور ان رشتوں سے، ان تعلقات سے یہ امید رکھی جاتی ہے کہ اپنا حق نبھانے کی کوشش کریں گے.کپڑے صاف کر کے دھونا ، دھونا کسی کو صاف کرنے کے لئے.اس سے ایک ذمہ داری یہ بھی آپ پر پڑی کہ اپنے دلوں کو بھی دھونا ہے اور دوسروں کے دلوں کو بھی دھونا ہے.اور ہر آزمائش سے کامیابی سے گزرنا ہے.آج کل کی دنیا میں ، ان ملکوں میں ہزاروں آزمائشیں آپ کے رستہ میں ہوں گی.آپ کے کام ہیں، آپ کی مصروفیات ہیں لیکن دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو عہد کیا ہے اس کو پورا کرنا ہے تبھی آپ انصاراللہ کہلائیں گے تبھی آپ وہ حواری کہلائیں گے جنہوں نے انصار اللہ ہونے کا حق ادا کیا.حضور نے فرمایا: آپ کا کردار ایسا ہو جس میں کوئی ملونی اور ملاوٹ نہ ہو.جو کہا ہے اس پر عمل کرنا ہے.یہ نہیں کہ عمل کچھ اور ہوں اور کہ کچھ اور رہے ہوں.مسجد میں آئیں تو اور رویے ہوں ، باہر جائیں تو اور رویے
219 سبیل الرشاد جلد چہارم ہوں.کہنے کو احمدی ہوں اور نمازوں کی ادائیگی کی طرف بے رغبتی ہو.انصار اللہ کی عمر ایک ایسی عمر ہے جس میں ویسے ہی خیال آجانا چاہئے کہ ہماری عمر گھٹ رہی ہے.لوگ سمجھتے ہیں کہ عمر بڑھ رہی ہے.لیکن جیسے جیسے عمر بڑھ رہی ہے اصل میں تو آپ کی عمر میں کمی آتی جارہی ہے.حضور نے فرمایا یہ نظم جوا بھی پڑھی گئی ہے اس میں یہی توجہ دلائی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہ دنیا تو ایک عارضی ٹھکانہ ہے آخر مرنا ہے اور جب مرکز اللہ تعالیٰ کے حضور جانا ہے اور یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے اور وہاں جواب دہی ہونی ہے تو اس چیز کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے.پھر جیسا کہ میں نے بتایا کہ ایسا حواری ہو جو مشورے دے تو پوری ایمانداری سے دے.آپ میں سے عہدیدار بھی ہیں.آپ میں سے عام احمدی بھی ہیں جو عہد یدار منتخب کرتے ہیں.آپ جب بھی اپنے عہدیدار کو منتخب کریں تو ایسے عہدیداروں کو منتخب کریں جو آپ کے نزدیک ایماندارانہ رائے رکھتے ہوں.انتہائی قابل اعتماد شخص اور جماعت کے ساتھ وفا کا تعلق رکھنے والے اور خدمت کرنے والے ہوں.عہد یداران ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کریں حضور انور نے فرمایا اسی طرح عہدیدار جب وہ منتخب ہو جاتے ہیں تو ان کا کام یہ ہے کہ آپ ایمانداری سے اپنے فرائض ادا کریں.اگر ایسا کریں گے تو تبھی آپ وفادار کہلا ئیں گے.تبھی آپ خالص مدد گار کہلائیں گے.صرف انصار اللہ کانعرہ لگا دینایا انصار اللہ کا لیبل اپنے ساتھ لگا لینا یا نَحْنُ انْصار اللہ کہہ دینا کافی نہیں ہوگا.پس ان باتوں کا خاص طور پر خیال رکھیں.حضور نے فرمایا جہاں تک اللہ تعالیٰ کا سوال ہے.اللہ تعالیٰ کو تو مدد کی ضرورت نہیں.اللہ تعالیٰ جوسب قدرتوں کا مالک ہے وہ بغیر کسی کی مدد کے بھی خود براہ راست مدد کر سکتا ہے.لیکن یہ ایک اعزاز ہے جو اللہ تعالیٰ بندوں کو دے رہا ہے کہ کون ہے تم میں سے جو وفادار ہو کر، جو سچا ہوکر، جو پوری طرح تیار ہو کر، دنیا کی تمام خواہشوں کو دور رکھتے ہوئے ، خالص ہو کر میرے دین کی مدد کے لئے آئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ شریعت نے اسباب کو منع نہیں کیا ہے.شریعت نے جو بھی ذرائع ، وسائل ہیں ان سے منع نہیں کیا.ان کو ضرور استعمال کرنا چاہئے.اور فرمایا : سچ پوچھو تو کیا دعا اسباب میں نہیں ہے؟ دعا بھی تو سبب بنایا ہے نا.کسی چیز کو حاصل کرنے کے لئے کیا دعا اسباب نہیں.تلاش اسباب بجائے خود ایک دعا ہے.جب انسان کسی ذریعہ کی تلاش کرتا ہے تو وہ بھی ایک دعا بن جاتی ہے.اور پھر فرمایا کہ دعا بجائے خود عظیم الشان اسباب کا ایک چشمہ ہے.دعا بہت بڑا سبب اور ذریعہ ہے.پھر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اس بات کو وضاحت سے دنیا پر کھول دینے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا ایک
220 سبیل الرشاد جلد چہارم سلسلہ دنیا میں قائم کیا.اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا اور قادر ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی قسم کی امداد کی ضرورت ان رسولوں کو باقی نہ رہنے دے مگر پھر بھی ایک وقت ان پر آتا ہے کہ وہ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى الله کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.ان کے مَنْ أَنْصَارِی اِلَی اللہ کہنے میں بھی ایک شان ہوتی ہے.وہ دنیا کو رعایت اسباب سکھانا چاہتے ہیں.جو دعا کا ایک شعبہ ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ پر ان کو کامل ایمان اور اس کے وعدوں پر پورا یقین ہوتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ کہ إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (المومن:52) یقینی اور حتمی وعدہ ہے.آپ نے فرمایا.کہ میں کہتا ہوں کہ بھلا اگر خدا کسی کے دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیونکر مددکر سکے.پس یہاں یہ فرمایا کہ نبیوں کو مدد کی ضرورت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ خود مدد کر سکتا ہے اور ان نبیوں کو پورا یقین بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب ان کو کھڑا کیا ہے تو ضرور مدد بھی کرے گا.اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں اور میر ا رسول غالب آئیں گے.تو جب غالب آئیں گے یہ تو نہیں فرمایا کہ فلاں فلاں مدد کرے گا تو غالب آئیں گے.اللہ نے اپنی مدد کے ساتھ یہ اعلان کروایا ہے کہ میں یہ اعلان کر دوں کہ میں اور میرا رسول غالب آئیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یہ الہام ہوا اور کئی دفعہ ہوا.تو انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت نے ہی پھیلنا ہے اور اسلام نے ہی پھیلنا ہے.اور یہ غلبہ تو ہونا ہے.لیکن خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جو انصار اللہ کا حق ادا کرنے والے ہوں گے جو اس غلبہ میں شامل ہو جائیں گے.فرمایا نبی اگر مدد کے لئے کہتے ہیں تو تمہارے بھلے کے لئے کہتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ تمہیں مدد کے لئے بلاتا ہے تو تمہارے بھلے کے لئے ہوتا ہے.پس اس بات کا ہمیشہ خیال رکھو.پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ اشاعت دین میں مامور من اللہ دوسروں سے مدد چاہتے ہیں.یہ مدد کیوں چاہتے ہیں.اس لئے چاہتے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت دلوں میں پیدا ہو جائے.انبیاء کا فرض ہے کہ لوگوں کی اصلاح ہو، ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو، ان کے دلوں میں خشیت پیدا ہو.خدا تعالیٰ کی عظمت پیدا ہو اور وہ ، وہ کام کریں جو خدا تعالیٰ انبیاء سے چاہتا ہے کہ وہ بھی کریں.تبلیغ اس وقت تک بار آور نہیں ہو سکتی جب تک قول و فعل میں یکسانیت نہ ہو خدا تعالی انبیاء کو دنیا میں اصلاح کے لئے بھیجتا ہے.خدا تعالیٰ انبیاء کو اپنی وحدانیت قائم کرنے کے لئے بھیجتا ہے، خدا تعالیٰ انبیاء کو دنیا میں انسانوں کو اپنے قریب لانے کے لئے بھیجتا ہے.پس اگر انبیاء کے سپر دیہ کام ہے تو یہی کام جب انصار اللہ کے سپرد ہوتا ہے، انبیاء کے مددگاروں کے سپرد ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہی
221 سبیل الرشاد جلد چہارم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت دنیا میں قائم کریں اور وہ اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتی جب تک خود اپنے دلوں میں قائم نہ ہو.جب تک خود وہ اُسوہ رسول پر چلنے والے نہ ہوں ، ان کے عمل اس وقت تک بار آور نہیں ہو سکتے جب تک خود ان کے ہر قول وفعل میں یکسانیت نہ پائی جاتی ہو.تبلیغ اس وقت تک بارآور نہیں ہو سکتی جب تک ان کے قول و فعل میں یکسانیت نہ پائی جاتی ہو.پس یہ چیزیں ہیں ، یہ حکمت ہے جو اللہ تعالیٰ پیدا کرنے کے لئے انبیاء کو کہتا ہے کہ لوگوں کو بلاؤ تا کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ان کو اپنا قرب عطا کرے.ان کو بخشے اور ان کو اس دنیا میں بھی اپنے پیار سے نوازے اور آخرت میں بھی ان کے درجات بلند کرے.انصار اللہ کے کام پس انصار اللہ کا یہ کام ہے کہ نیکیوں میں بڑھیں.اپنا تعلق خدا تعالیٰ سے پیدا کریں.تقویٰ میں ترقی کریں اور صرف انصار ہی نہیں ہر شخص ، ہر احمدی جس نے یہ عہد کیا ہے.نوجوان بھی بیٹھے ہوئے ہیں میرے سامنے اور وہ بھی میرے مخاطب ہیں اور یہی چیز ہے جو اس زمانہ میں اپنے عہدوں کا پورا کرنے والی ہر ایک کو بنائے گی.یہی چیز ہے جو انصار اللہ بنے کی طرف نئے نئے راستے آپ کو دکھائے گی کہ انصار اللہ چیز کیا ہے اور کس طرح ہم نے اپنے معیار اونچے کرتے چلے جانا ہے کیونکہ بغیر نیکی اور تقویٰ کے ہم حقیقی انصار کہلانے والے نہیں ہو سکتے.پس ہمیشہ جب آپ یہ چیز اپنے سامنے رکھیں گے کہ انصار اللہ ہمارا نام رکھا گیا ہے تو اس کی طرف ہم نے توجہ کرنی ہے.اپنے اعمال کے جائزے لیں گے.اپنی عبادتوں کے جائزے لیں گے.اپنے اخلاق کے جائزے لیں گے تبھی اس مقام کو حاصل کرنے والے بنیں گے جس کی طرف اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں لے جانا چاہتے ہیں اور ہمیں وہ مقام دلوانا چاہتے ہیں.مدینہ کے انصار کی قربانیاں حضور انور نے فرمایا.اسلام میں انصار کا لفظ استعمال ہوا ان لوگوں کے لئے جو مدینہ کے رہنے والے تھے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ گئے تو وہ انصار تھے جنہوں نے آپ کو خوش آمدید کہا اور آپ کے ساتھ جانے والے مہاجرین بھی شامل تھے.قربانیوں کے ان کے معیار کیا تھے.عبادتوں کے ان کے معیار کیا تھے.تاریخ اس سے بھری پڑی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد انہوں نے گھیرا ڈال لیا.صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد نہیں بلکہ جو دوسرے ان کے بھائی تھے ، جو مہاجرین ہجرت کر کے آئے تھے ان کے بھی حق ادا کئے.کہاں تک حق ادا کئے.وہ غریب جو لٹے پٹے آئے تھے ان کو اپنی جائیدادوں کا حصہ دار بنادیا.لیکن مہاجرین کا بھی اپنا مقام تھا.انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری مدد
222 سبیل الرشاد جلد چہارم چاہتے ہیں، جائیدادیں نہیں لینا چاہتے.پھر بعض انصار نے تو یہ قربانیاں دیں کہ اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دینے پر تیار ہو گئے کہ تم اس سے شادی کر لو.تمہاری بیوی نہیں ہے.تو ان کے قربانیوں کے معیار بلند تھے اور اس کو بلند تر کرتے چلا جانا چاہتے تھے.حضور انور نے فرمایا.پس پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک احمدی کو اپنے ان معیاروں کو بھی دیکھنا چاہئے کہ اس میں کس حد تک اپنے بھائیوں کے لئے قربانی کا جذبہ ہے.صرف اپنے نفس کا خیال نہ ہو بلکہ دوسروں کا بھی خیال ہو.صرف اپنی ہی نہ پڑی رہے بلکہ دوسرے کا بھی خیال رکھنے والے ہوں.اور آپس میں جب ایک دوسرے کے خیال رکھنے کا احساس پیدا ہوگا تو پھر رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح: 30) کی کیفیت بھی سامنے آئے گی، آپس میں محبت اور پیار بڑھے گا ، جماعت میں یکسانیت پید ہوگی ، یگانگت پیدا ہوگی ، محبت پیدا ہوگی ، بھائی چارہ پیدا ہوگا اور پھر جب یہ چیز ہوگی تو جہاں آپ کا اپنا تعلق خدا تعالی سے بڑھے گا وہاں اس ایک ہونے کی وجہ سے جماعت میں مضبوطی پیدا ہوگی اور خلافت میں مضبوطی پیدا ہوگی اور پھر جماعت کا ترقی کی طرف قدم بڑھے گا.حضور انور نے فرمایا.پھر صرف یہ قربانیاں نہیں بلکہ جنگ جب ہوئی.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا صحابہ سے کہ دشمن حملہ کرنے لگا ہے کیا رائے ہے تمہاری؟ جب آپ نے بار بار پوچھا تو انصار کو خیال آیا کہ ہم سے پوچھا جا رہا ہے کہ تمہاری کیا رائے ہے تو انصار نے جواب دیا کہ حضور جب تک ہمیں اسلام کا پوری طرح فہم و ادراک نہیں تھا اور آپ کے نام کی پہچان نہیں تھی تب ہم نے کہا تھا کہ ہم ان شرطوں کے ساتھ آپ کی حفاظت کریں گے.لیکن آج جب ہمیں پوری طرح فہم وادراک حاصل ہو گیا ہم وہ لوگ ہیں جو آپ کے آگے بھی لڑیں گے، آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے، آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا.تو یہ وہ مقام ہے جو اس زمانہ میں انصار اللہ نے پایا.اور یہ وہ مقام ہے جس کے حاصل کرنے کی آپ سے توقع کی جاتی ہے بلکہ انصار کے وہ بچے جوان کے ساتھ جنگ میں شامل ہوئے بالغ اور صاحب فراست انصار نہیں تھے ان میں بھی ایسے بچے تھے جیسے معوذ اور معاذ کی مثال دی جاتی ہے جنہوں نے اپنی جان قربان کردی اور دشمن اسلام کو قتل کر کے رکھ دیا.ابوجہل کو زمین میں خاک و خون میں لپٹا دیا.تو یہ روح جب تک بڑوں میں پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک بچوں میں پیدا نہیں ہو سکتی.ان بچوں نے بھی تو بڑوں سے ہی سنا تھا کہ کون ہے وہ اسلام کا دشمن ، کون ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن جس نے اس حد تک آپ کو تکلیفیں دیں.ہم ہوں گے اس کو قتل کرنے والے اور اس کو خاک آلود کرنے والے.تو یہ جذبہ جب تک آپ لوگوں میں پیدا نہیں ہوگا ، آپ اس جذبے کو آگے اپنے بچوں اور اولادوں میں پیدا نہیں کر سکتے.
سبیل الرشاد جلد چہارم 223 مسیح محمدی سے کئے گئے عہد کو نبھا ئیں حضور انور نے فرمایا.پس اس روح کو سمجھیں.آپ نے مسیح محمدی کے ساتھ ایک عہد کیا مسیح موسوی کے حواریوں نے تو عہد نبھایا تھا.اب آپ کا فرض ہے ، اس زمانے میں آپ نے وہ عہد نبھانا ہے اور اس وقت ان ملکوں میں رہنے والے خاص طور پر، یہاں تلوار اور توپ کی جنگ تو نہیں ہے یا کسی قسم کا خوف اور جان کو خطرہ نہیں ہے جس طرح پاکستان میں یا دوسری جگہوں پر ہے.تو جو آپ سے توقع کی جاتی ہے وہ یہی ہے کہ اس عہد کو نبھاتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے قریب کریں.اپنے اخلاق کے معیار بلند کریں ، اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں.صرف پیسے کی دوڑ کی طرف نہ لگے رہیں.تبلیغ جو آپ کے سپر د کام ہے اس کو ادا کریں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى الله (حم السجدة: 34) کہ اس سے اچھا کام کون سا ہو سکتا ہے جو دعوت الی اللہ کرے.اس کی طرف دیکھیں آپ کے کیا پروگرام ہیں.آپ لوگ Mature ذہنیت کے حامل ہیں.چالیس سال سے اوپر کے لوگ ہیں جن کی سوچیں بھی پکتی ہیں، جن کے علم میں بھی کافی حد تک پختگی آگئی ہوتی ہے.اگر آپ لوگ اپنا حق ادا کرنے والے ہوں گے تو اس ملک میں انقلاب پیدا ہوسکتا ہے.تبلیغ کے راستے مزید کھل سکتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس تبلیغ کے ساتھ عمل صالح کی طرف بھی توجہ ہو.اپنے عمل تمہارے اچھے ہوں گے.نیکیوں کی طرف توجہ ہوگی تو تمہاری تبلیغ بھی بار آور ہوگی ، پھلدار ہوگی.پس اس لحاظ سے بھی یہ آپ کی بہت بڑی ذمہ داری کہ اپنے تبلیغ کے میدان بھی مزید کھولیں.جہاں آپ اپنی تربیت کریں وہاں اپنے بچوں کی تربیت کریں.اس پیغام کو جو اس زمانے میں آپ نے پہنچانے کا عہد کیا ہے اور 27 رمئی کو اس عہد کا اعادہ کیا ہے ،تجدید کی ہے اس کو آپ نے پورا کرنا ہے ورنہ بہت سارے لوگ مجھے خط لکھ دیتے ہیں کہ ہم نے عہد کیا اور ہمارے جذبات میں ایک عجیب تبدیلی آگئی.صرف وقتی طور پر تبدیلی آنا کام نہیں ہے.اس تبدیلی کو مستقل اپنے ذہنوں میں بٹھا نا کام ہے.اور پھر صرف بٹھانا نہیں بلکہ اس پر عمل کرنا بھی کام ہے.پس اس لحاظ سے ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آپ نے اپنے اوپر لی ہے اور خدا کو حاضر ناظر جانتے ہوئے لی ہے، اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں.تبلیغ کا ایک بڑا ذریعہ مساجد کی تعمیر ہے حضور نے فرمایا تبلیغ کے لئے ایک بہت بڑا ذریعہ مساجد کی تعمیر ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ”میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ اگر کہیں جماعت کو متعارف کروانا ہو، اسلام سے متعارف کروانا ہو، خود مسلمانوں کو آرگنا ئز کرنا ہو تو مسجد تعمیر کر دو.بیلجیئم ان ملکوں میں سے ہے جہاں
224 سبیل الرشاد جلد چہارم ابھی تک باقاعدہ مسجد نہیں.سینٹر بے شک ہیں.بڑی مالی قربانیاں کی ہیں سینٹر ز خریدے گئے ہیں.برسلز میں خریدا ہے اور جگہ بھی ہیں اور تربیت کے لحاظ سے تو ٹھیک ہے آپ کرتے ہیں لیکن تبلیغی میدان جو ہے وہ بغیر مساجد کی تعمیر کے لوگوں کی اس طرف توجہ ہونے میں ایک بہت بڑی روک بن جاتا ہے.کیونکہ لوگ اس طرح توجہ نہیں کرتے.مسلمان ان ملکوں میں بہت سارے آئے ہیں وہ مسجد کو دیکھتے ہیں ، اس طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور انصار اللہ جو چالیس سال کی عمر کے ہیں اور اس سے اوپر ہیں.یہ ایک ایسی عمر کا گروپ ہے Age Group جسے کہتے ہیں انگریزی میں یہ جو حصہ ہے اس گروپ میں جولوگ ہیں ان میں عموماً آمدنی کے لحاظ سے بھی اچھے حالات ہوتے ہیں اس لئے مالی قربانی کی طرف انصار کو زیادہ توجہ دینی چاہئے.حضور نے فرمایا کہ مسجد سے کس حد تک تعارف پیدا ہوتا ہے.میں ابھی فرانس میں مسجد کا افتتاح کر کے آیا ہوں.وہاں لوگ احمدی جو تھے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہماری مسجد کا اتنا تعارف ہوگا.نیشنل ٹی وی نے ، اخباروں نے اور میڈیا نے جتنی کو ریج دی ہے اس کو وہ کروڑوں تک بھی خرچ کرتے تو شاید تبلیغ وہاں تک نہ پہنچ سکتی جس طرح اس مسجد کی تعمیر سے پہنچ گئی.پھر برلن مسجد کی تعمیر ہے.مجھے کسی نے بتایا کہ یورونیوز Euro News) نے کافی وقت کی خبر دی ہے.یہاں فرنچ میں ، جرمن میں، انگریزی میں خبریں آتی ہیں.تو احمدیت کی تبلیغ ہوئی اور اس سے لوگوں کو تعارف حاصل ہوا.ابھی جرمنی میں ہی تھا کہ ایک بوڑھی مائی برلن سے آئی کہ میں نے خلیفہ کو ملنا ہے.خلیفہ یہاں آئے ہوئے ہیں.اس سے پوچھا کہ کیسے پتہ لگا تو کہنے لگی میں نے ٹی وی پر دیکھا، اخبار میں پڑھا تو مجھے شوق پیدا ہوا کہ میں خود جا کر دیکھوں.تو اسی طرح اور لوگ بھی آئے مسجد دیکھنے کے لئے.اسی اخباروں کے تعارف کی وجہ سے اور تبلیغ کے نئے راستے بھی کھلے بیعتیں بھی ہوئیں.حضور انور نے فرمایا: تو مسجد جو ہے ایک بہت بڑا راستہ ہے تبلیغ کا.اس کے لئے بھی سب سے پہلے وہ لوگ جن کی سوچیں Mature ہیں، جنہوں نے انصار اللہ ہونے کا اعلان کیا ہے ان لوگوں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے.صرف اس میں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے کچھ نہیں ہوگا.یہ کام نہیں کر رہایا وہ کام نہیں کر رہا.اس سے نتیجے حاصل نہیں ہو سکتے.سب کو اکٹھا ہو کر اپنے رخوں اور اپنی سمتوں کا تعین کرنا ہوگا.اپنی منزلوں کا تعین کرنا ہوگا.اپنے ٹارگٹ مقرر کرنے ہوں گے.تب اس میں برکت بھی پڑے گی.انشاء اللہ تعالیٰ آپ لوگ یہاں بھی اس قابل ہوں گے کہ یہاں مسجد تعمیر کر سکیں.یہاں بے شک میں نے کہا کہ تربیت کے لئے سینٹر ہیں لیکن جہاں مسجد میں ہماری نہیں ہیں یہی رپورٹ آتی ہے کہ جو مسلمانوں میں سے احمدی ہوتے ہیں شروع میں کمزور ہوتے ہیں.ابتدائی حالت ہوتی ہے.دوسرے مسلمان ان کو ورغلا کر لے جاتے ہیں کہ دیکھو انہوں نے تو مسجد نہیں بنائی.یہ تو مسلمان نہیں ہیں.سینٹر بنائے ہیں ، ہال بنائے ہیں ، کمرہ
225 سبیل الرشاد جلد چہارم بنایا ہوا ہے جہاں یہ نماز پڑھتے ہیں.یہ اصل میں دکھاوے کی باتیں ہیں.اگر یہ مسلمان ہوتے تو سب سے پہلے مسجد بناتے.اور یہ بہت بڑی روک ہے تبلیغ میں.اس لئے اس طرف اب بہر حال توجہ کرنی چاہئے.اور اسی حوالے سے اب میں اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ قربانیاں بے شک آپ نے کی ہیں اور کر رہے ہیں.جہاں تک میر اعلم ہے کچھ رقم آپ کے پاس موجود بھی ہے لیکن مسجد بنانے کے لئے جگہ نہ مل سکی ہے.اس لئے کہ سب کی مل کر جو کوشش صحیح رنگ میں ہونی چاہئے وہ نہیں ہوئی.اگر آپ ایک ہو کر کوشش کریں تو انشاء اللہ اس میں برکت پڑ جائے گی.اور جور تم آپ نے جمع کی ہے اس کا صحیح استعمال بھی ہو جائے گا.تو یہاں بھی مسجد بنانے کی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور اسی طرح آپ کو تبلیغ کے میدان میں بھی پہلے سے بڑھ کر توجہ دینے کی توفیق عطا فرمائے.اپنی تربیت کے لئے بھی آپ کو پہلے سے زیادہ توجہ پیدا ہو.اپنی اولادوں کی تربیت کی طرف بھی آپ کو پہلے سے زیادہ توجہ پیدا ہوا اور سب سے بڑھ کر دعاؤں اور خدا تعالیٰ سے تعلق میں آپ بڑھنے والے ہوں سبھی آپ حقیقی رنگ میں انصار اللہ کہلانے والے ہوں گے.اللہ تعالیٰ کرے کہ اس ملک میں بھی احمدیت اسلام کا پیغام جلد سے جلد پھیلے اور ہم وہ ترقیاں دیکھیں جو مقدر ہیں اور جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا ہوا ہے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین حضورانور نے فرمایا جماعت کی خاصی تعداد یہاں موجود ہے.جومیں نے انصار اللہ سے باتیں کی ہیں وہ سب کے لئے ہیں.اس طرف توجہ دیں.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے اور اللہ کرے کہ جلد سے جلد ہم یہاں ترقیاں دیکھیں اور جلد سے جلد آپ کی طرف سے مجھے خوشخبریوں کی اطلاع ملنے لگ جائے.اللہ کرے.آمین" الفضل انٹرنیشنل 9 جنوری 2009ء) انصار اللہ کو اللہ کی عبادت کا حق ادا کر نے والا ہونا چاہئے.جو یہ نہیں کرتا وہ انصار اللہ کیسے کہلا سکتا ہے نحن انصار اللہ کے مبارک الفاظ میں مضمر انصار کی اہم ذمہ داریوں کا تذکرہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 26 اکتوبر 2008ء کو مجلس انصار اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے آخری روز انصار سے خطاب کرتے ہوئے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.لحمد للہ کہ آج انصار اللہ کا اجتماع اختتام کو پہنچ رہا ہے.صدر صاحب انصار اللہ کو کافی فکر تھی.میرے خیال میں انہوں نے رپورٹوں میں اظہار بھی کیا اور کچھ انصار کی طرف سے بھی اس قسم کا اظہار تھا کہ اسلام آباد
سبیل الرشاد جلد چہارم 226 میں ٹھنڈا موسم ہونے کی وجہ سے شاید ہم نہ آسکیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال بھی کافی بہتر حاضری ہے.اس سال خلافت جو بلی کے حوالہ سے ہر فنکشن جو جماعت میں ہورہا ہے ، چاہے وہ ذیلی تنظیموں کے فنکشن ہیں یا جماعتی فنکشن ہیں، حتی الوسع خاص طور پر بڑے اہتمام سے منعقد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ہر ایک کی خواہش ہے کہ اس میں میں بھی شامل ہوں.گزشتہ سال کسی وجہ سے میں شامل نہیں ہو سکا تھا.اس سال بھی جو پہلی تاریخیں دس اکتوبر کی رکھی گئی تھیں ان میں میں سفر کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکتا تھا.تو اس لحاظ سے میں نے صدر صاحب انصار اللہ کو معذرت کر دی تھی کہ اجتماع کر لیں.لیکن پھر عاملہ نے فیصلہ کیا کہ تاریخیں آگے کر دی جائیں.گو موسم ان دنوں میں مزید ٹھنڈا ہو گیا ہے لیکن بہر حال جب انہوں نے آگے کیا تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں شامل ہوتا کیونکہ بہانہ کوئی نہ رہا تھا.بہر حال 10 اکتوبر کو جو شروع ہونا تھا اور 12 کو اختتام تو اس میں بھی نہ شامل ہونے کا بہانہ نہیں تھا.ایک مجبوری تھی کہ فرانس کی مسجد کے افتتاح کے لئے انہیں تاریخیں دے چکا تھا اور جیسا کہ سب لوگوں نے دیکھا کہ فرانس کی مسجد کا افتتاح بڑی تاریخی اہمیت کا حامل تھا اور اُس کی وجہ سے فرانکو فون ممالک میں اور دنیا کے بہت سارے ممالک میں احمدیت کو بہت تعارف حاصل ہوا ہے.اس لحاظ سے بہر حال اس کی اپنی اہمیت تھی اُس کو چھوڑ انہیں جاسکتا تھا.اگر انصار اللہ کی صرف یہ خواہش ہے کہ میں اُس میں شامل ہوں اس لئے کہ ان کے پروگرام زیادہ ہائی لائٹ (Highlight) ہو جاتے ہیں.ایم ٹی اے پر دکھائے جاتے ہیں اور اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، تو بالکل بے فائدہ ہے لیکن اگر اس لئے ہے کہ ہم انصار اللہ ہیں اور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے جس میں اخلاص اور وفا کا اظہار ہوتا ہو تو پھر واقعی آپ کا یہ تاریخیں تبدیل کرنا اور سارا اجتماع ان تاریخوں میں منتقل کرنا قابل ستائش ہے.بس اصل اصول یہ ہے کہ اس کو پکڑے رکھیں کہ اخلاص ، وفا، اطاعت اور کامل فرمانبرداری دکھاتے ہوئے انصار اللہ نے آگے بڑھتے چلے جانا ہے.شرائط بیعت پر پورا اتر نے والا ہی انصار کہلانے کا حق دار ہے اس مضمون پر میں پہلے تیجیم میں بھی اور یہاں بھی روشنی ڈال چکا ہوں.تاریخ ہمیں جن انصار اللہ کا بتاتی ہے وہ یسوع مسیح کے حواری تھے.اور انہوں نے حواریوں سے پوچھا کہ کون ہوں گے میرے مددگار؟ تو حواریوں نے جواب دیا کہ نَحْنُ اَنْصَارُ الله - حواری کا کیا مطلب ہے؟ کیا حواری وہ تھے جو اس وقت فوری طور پر ایمان لائے تھے اور یہ کافی ہو گیا.اور وہ جو حضرت مسیح کو اچھا سمجھنے والے تھے یا صرف وہ جو کہتے تھے کہ ہم آپ پر ایمان لے آئے.باقی عمل کی کوئی ضرورت نہیں.یہ کافی ہو گیا.اگر اس کے گہرے مطالب دیکھے جائیں تو حواری وہ لوگ ہیں کہ جن سے قربانیاں مانگی جارہی ہیں.اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو مکمل
227 سبیل الرشاد جلد چهارم طور پر دین کو اپنے اوپر لاگو کرنے کا وعدہ کرنے والے ہوں.اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ لوگ جو دین کی اشاعت میں مددگار بننے والے ہوں.اور ایک اس کا یہ مطلب ہے کہ ایسے لوگ جو اپنے پاک نمونے قائم کرنے والے ہوں.اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ انتہائی قابلِ اعتماد ساتھی بننے کا عہد کرنے والے ہوں.اور پھر یہ کہ اس حد تک وفادار اور ایماندار ہوں کہ کوئی چیز ان کی وفا اور ایمان کے آڑے نہ آئے.اور اس وجہ سے پھر وہ بہترین مشیر بننے والے ہوں ،مشورے دینے والے ہوں اور پھر یہ کہ دوستی کا حق نبھانے والے دوست ہوں.یہ نہیں کہ منہ سے کہہ دیا کہ ہم دوست ہیں اور جب وقت آئے تو دوست کو چھوڑ کر چلے جائیں.پھر یہ کہ ان میں ایسا رشتہ ہونا چاہئے کہ جو تمام رشتوں پر حاوی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے عہد بیعت میں جو شرائط رکھی ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میرے سے وفا اور اطاعت کا ، وفاداری، فرمانبرداری اور خلوص کا جو تعلق ہے وہ سب رشتوں سے بڑھ کر ہوگا.یہ عہد آپ نے قبول کیا ہے اور یہ عہد آپ انصار کے اجتماع میں دہراتے بھی رہتے ہیں.گو ان الفاظ میں نہیں لیکن خلاصہ یہی ہے کہ ہم ہر قربانی کے لئے تیار رہیں گے.تو اس لحاظ سے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم ایسے حواری ہیں جو ان شرائط پر پورا اترتے ہیں؟ اور اگر ہوں گے تو پھر انصار اللہ کہلانے کے حق دار کہلائیں گے.پس حواری ہونے کی اور اس کے نتیجہ میں انصار اللہ ہونے کی یہ وضاحت اور مطلب ہے.اگر ہم نے انصار اللہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ کام کر کے دکھانے ہوں گے.ہر قربانی کے لئے تیار ہونا ہوگا.اپنی اناؤں کو چھوڑ نا ہوگا.اپنی سوچوں کو بدلنا ہوگا.اپنے آپ کو کامل طور پر اس تعلیم کے مطابق ڈھالنا ہو گا جو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے.صرف منہ سے یہ کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے اور ہم حواریوں میں داخل ہو گئے کہ ہم انصار اللہ ہیں کافی نہیں.یہ توقعات حضرت عیسی علیہ السلام نے ان حواریوں سے کی تھیں اور انہوں نے انہیں پورا کرنے کی کوشش کی ، گو وہ پوری طرح نہیں کر سکے.لیکن مسیح محمدی کے جو حواری ہیں، وہ جو نعرہ لگاتے ہیں کہ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ تو ان کا یہ کام ہے کہ کامل طور پر کامل الایمان ہوکر ، کامل طور پر وفا شعار ہو کر ، کامل طور پر اطاعت گزار ہو کر اپنے آپ کو ایسے حواری بنا کر دکھائیں جو واقعی طور پر انصار اللہ ہوں اور اس کو بیچ کر کے دکھائیں.صحابہ رسول حقیقی معنوں میں انصار اللہ تھے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار تھے.انہوں نے قربانیاں دکھا ئیں.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف نہیں لائے تھے اُس وقت بالکل اور سوچ تھی.جب آپ مدینہ تشریف لے آئے ، جب ایمان میں ترقی کرنے لگے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی نے کام دکھایا تو وہی لوگ جو کچھ شرائط کے ساتھ آپ کی حفاظت کرنے کو تیار تھے آپ کے دائیں لڑنے پر بھی تیار ہو گئے ، آپ کے بائیں
228 سبیل الرشاد جلد چہارم لڑنے پر بھی تیار ہو گئے ، آپ کے آگے لڑنے کو بھی تیار ہو گئے اور آپ کے پیچھے لڑنے کو بھی تیار ہو گئے.اور یہ اعلان کیا کہ دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو نہ روند دے.یہ تھے وہ انصار اللہ.پھر یہی نہیں کہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت میں شامل ہو کے مسلمان ہو گئے.وہ نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنی جان تک قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے بلکہ ایمان میں بڑھے تو صرف آپ کی حفاظت کے لئے تیار تھے یا اسلام کی خاطر جنگیں لڑنی پڑیں تو تیار ہو گئے بلکہ ہجرت کرنے والے صحابہ جو آپ کے ساتھ مدینہ آئے تھے ان کے لئے بھی ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار ہو گئے.اُن کو اپنے مال میں سے حصہ دینے کے لئے تیار ہو گئے.ان کو اپنی بیویوں میں سے حصہ دینے کے لئے تیار ہو گئے.ان کو جو مدد جائز طور پر میسر ہو سکتی تھی دینے کے لئے تیار ہو گئے.تو یہ تھے وہ انصار اللہ.اور پھر ایمان میں اس قدر ترقی کی کہ اسلام اور ایمان کی خاطر باپ بغیر کسی تردد کے بیٹے کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا اور بیٹا باپ کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا اور بغیر کسی سوچ کے یہ اعلان کیا کہ ایک دفعہ ہم نے بیعت کر لی، ایک دفعہ مسلمان ہو گئے ، ہمارے ایمان میں ترقی ہوگئی تو اب ہماری سوچ یہ ہو نہیں سکتی کہ ہم اسلام کی خاطر کوئی بھی شخص جو اسلام کا دشمن ہے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے اس کو برداشت کر سکیں.اسلام کی تاریخ میں عبد اللہ بن ابی ابن سلول کا واقعہ آتا ہے، قرآن کریم نے بھی اس کا تذکرہ فرمایا ہے.وہی شخص جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ شہر کا ذلیل آدمی کہا تھا.صحابہ سخت غصہ میں آگئے اور اس کے بیٹے کو بھی خبر پہنچی تو اس کے بیٹے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ میرے باپ نے یہ الفاظ کہے ہیں اور آپ کی ہتک کی ہے اور نہایت ذلیل الفاظ استعمال کئے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ اس کے لئے آپ سزا کا اور قتل کا فیصلہ فرما ئیں اور یہ جائز ہوگا اور مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اگر میرا باپ کسی اور کے ذریعہ قتل ہوتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ کسی وقت میرے دل میں خیال آجائے کہ فلاں شخص نے میرے باپ کو قتل کیا تھا اور رشتہ کے تعلق کا احساس بھڑک اٹھے اور میں بدلے کیلئے تیار ہو جاؤں.( عربوں میں اس زمانہ میں لوگ بدلہ لینے کیلئے ہر وقت تیار بیٹھے ہوتے تھے ).تو آپ مجھے حکم دیں کہ میں اپنے باپ کی گردن اڑا دوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ایسی بات نہیں ہے.کوئی سزا نہیں دینے والا.لیکن جب وہ مدینہ میں داخل ہو رہے تھے تو اُس نے اپنے باپ کو روک لیا کہ تم اس شہر میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک یہ اعلان نہ کرو کہ میں اس شہر کا ذلیل ترین آدمی ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معزز ترین انسان ہیں.یہ الفاظ کہلوائے اور پھر اسے جانے دیا ورنہ یہ اعلان کیا کہ میں اس کی گردن اڑا دوں گا.تو یہ وہ لوگ تھے جو انصار بنے اور انصار ہونے کا حق ادا کر دیا.یہ ہے ایمان جس کا آج ہم سے مطالبہ کیا جا رہا ہے.مگر کسی کی گردن اڑانے کیلئے نہیں.
سبیل الرشاد جلد چہارم 229 قرآنی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے کے جہاد میں انصار ، صف اول کے مجاہدین ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بعد تو دین کے نام پر تلوار اٹھانا بند ہو گیا ہے.يَضَعُ الْحَرُبَ والی حدیث تو واضح ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ذکر فرمایا ہے.لیکن جو جہاد ہے جس کے لئے ہمیں بلایا جارہا ہے وہ نفس کا جہاد ہے، اپنی حالتوں کو درست کرنے کا جہاد ہے.اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا جہاد ہے.اپنے اندر اور اپنے خاندان میں قرآنی تعلیم کو لاگو کرنے کا جہاد ہے.اللہ تعالیٰ کے پیغام کو تبلیغ کے ذریعہ سے لوگوں تک پہنچانے کا نام جہاد ہے.یہ وہ کام ہیں جو اس زمانہ میں ہم نے کرنے ہیں اور اس کے لئے انصار اللہ صفِ اول کے مجاہدین ہونے چاہئیں کیونکہ انہوں نے نعرہ لگایا ہے.نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ.پس آپ کا نام انصار اللہ رکھنے میں یہ حکمت ہے کہ چالیس سال کے بعد یہ نہ سمجھیں کہ ہم اب بوڑھے ہو گئے ہیں.اب ہماری ذمہ داریاں ختم ہوگئی ہیں.نہیں.بلکہ آپ کی ذمہ داریاں پہلے سے بڑھ گئی ہیں.پہلے تو آپ ایک خادم تھے.خادم کو ایک حکم دیا جاتا ہے کہ یہ کر دیا فلاں کام کرو.اس نے فلاں کام کرنا ہے وہاں چلے جاؤ.وہی کام کرتا رہے گا.لیکن آپ لوگ اب اگلی منزل پر قدم رکھ چکے ہیں.انصار اللہ کہلانے والے ہیں تا کہ ہر معاملہ میں آپ خود آگے بڑھ کر دین کے مددگار بننے والے ہوں.پس یہ چیز آپ کو بن کے دکھانی ہے.اللہ تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے ہر دم تیار رہنا ہے.انصار اللہ کے جو تبلیغی پروگرام ہیں سب سے بڑھ کر مؤثر ہونے چاہئیں.پس اس طرف خاص طور پر توجہ دیں.انصار کو دوسروں کے لئے نمونہ ہونا چاہئے پھر یہ کہ جب آپ نے نَحْنُ أَنْصَارُ اللہ کہا تو تعاون با ہمی جو ہے، تعلقات جو ہیں، ان میں آپ کے رویے اعلیٰ معیار رکھنے والے ہونے چاہئیں.پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کی ہیں اور اس لئے پیدا کی ہیں کہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے اسلام کی صحیح اور خوبصورت تصویر دنیا کے سامنے پیش کر سکیں.جب یہ حالت ہوگی تو پھر ہی آپ انصار اللہ کہلائیں گے اور تبھی آپ سچے مومن کہلائیں گے.آپ نے ایسے نمونے قائم کرتے ہوئے ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ، خدام الاحمدیہ کو بھی اپنے اوپر چلانے کی کوشش کرنی ہے، وہ آپ کے بچے ہیں.اطفال کو بھی اوپر چلانے کی کوشش کرنی ہے.لجنہ کے لئے بھی وہ نمونے قائم کرنے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ عورت سب سے زیادہ اپنے خاوند کی راز دار ہوتی ہے.اس لئے اس کے سامنے بہترین نمونے پیدا کرو تا کہ اس کی تربیت ہو.جب اس کی تربیت ہوگی تو آپ کی اولاد کی تربیت ہوگی.جب آپ کی اولاد کی تربیت ہوگی تو آئندہ نسلوں کی تربیت ہو رہی ہوگی.اور جب آئندہ نسلوں کی تربیت ہو رہی ہوگی تو ہم آئندہ ایسی قوم کی تربیت کر رہے ہوں گے
سبیل الرشاد جلد چہارم 230 جس نے ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرانا ہے.یہ تسلسل سے کئے جانے والا کام ہے جس کی ذمہ داری انصار اللہ پر سب سے بڑھ کر ہے.پس ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ یہ ذمہ داریاں ہیں جو آپ نے نبھانی ہیں.سچے مومن کی نشانی بھی یہی ہے،جیسا کہ میں نے کہا ، مومن جب عہد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ منہ نہیں پھیرتا.اگر پھیرے تو انصار اللہ ہونے کا یا مومن ہونے کا دعوی ہی فضول ہے.جو منہ پھیرنے والے لوگ ہیں ایسے لوگوں کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے يَعْبُدُ الله عَلى حَرف (الحج: 12) یہ اللہ تعالیٰ کی سرسری عبادت کرنے والے ہیں.منہ سے کہہ دیا کہ ہم عبادت کرنے والے ہیں، ہم مدد کرنے والے ہیں لیکن حقیقت میں یہ لوگ نہیں ہیں ، ان کے دلوں میں کچھ اور ہے ، ان کا ایمان کامل نہیں ہے.پس بڑے خوف کا مقام ہے.ہماری عمر بڑھ نہیں رہی.عمر کم ہو رہی ہے.آخری وقت قریب آرہا ہے جس کے لئے ہمیں تیاری کرنی چاہئے.پس اپنے ایمان کو کامل کرنے کی ضرورت ہے.اپنے وعدہ کو پورا کرنے کی ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے وارث بن سکیں.پھر مومن کو اگر ابتلاء آئے تو منہ نہیں پھیر لیتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابتلاء میں بھی مومن وہ ہیں جو کامل اطاعت اور فرمانبرداری سے حصہ لینے والے ہیں.یہ نہیں کہ جب بھلائی پہنچے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اپنے ایمان کے دعوے بڑھ بڑھ کر کرنے لگ جاتے ہیں.پس دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے ، انصار ہونے کا حق ادا کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنے جائزے لیتے رہیں.اپنی حالتوں کے جائزے لیتے رہیں.اپنے گھروں میں اپنی اولادوں کے جائزے لیتے رہیں.اپنی بیوی بچوں کی طرف توجہ دیں.دنیا کمانا اور دنیا میں آکر دنیا میں غرق ہو جانا تو کام نہیں اور پھر دعوئی یہ کرنا کہ ہم انصار اللہ ہیں.پس یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو اس زمانے میں آپ پر ڈالی گئی ہے اور آپ نے وعدہ کیا ہے کہ ہم اس ذمہ داری کو نبھا ئیں گے.عمر بڑھنے کے ساتھ اولا د اور مال کی فکر بڑھتی ہے بڑی عمر میں انسان آتا ہے تو انصار میں داخل ہوتا ہے.اس کی دو صفیں بنائی گئی ہیں ،صف اوّل اور صف دوم.لیکن بڑی عمر میں جس طرح عمر بڑھتی چلی جاتی ہے انسان کی طبیعت میں نرمی بھی آجاتی ہے اور اس نرمی کی وجہ سے کمزوری آجاتی ہے اور ایسی حالت میں پھر بعض دفعہ اولا د ابتلا بن جاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہاری اولا داس عمر میں ابتلا نہیں بننی چاہئے.اس طرح دنیا کمانے کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے.دنیا کمانے کا بہترین حصہ جو تجربہ کے لحاظ سے بھی ہے اور ویسے بھی ہے.وہ تو انصار اللہ کی عمر کا ہے.اگر اس کا جائزہ لیں تو جتنی عمر خدام الاحمدیہ کے کمانے کی ہے، اگر ایک خادم صحیح عمر پہ کام پر لگ جاتا ہے تو وہ پچیس سال ہے لیکن تجربہ کے لحاظ سے اور کمانے کے معراج تک پہنچنے کے لحاظ سے چالیس سال سے لے کر 65 سال
231 سبیل الرشاد جلد چہارم تک انصار اللہ کی عمر اس سے زیادہ بنتی ہے جب وہ پیشے کے لحاظ سے بھی اوپر پہنچ چکا ہوتا ہے.اپنی تنخواہ کے لحاظ سے بھی جو اس کی سکسیلنگ (Scaling) ہوتی ہے اس تک پہنچ چکا ہوتا ہے.کام کے لحاظ سے بھی اور عمر کے لحاظ سے بھی انصار اللہ کی عمر ایسی ہے جو بہر حال جس طرف بھی اس کو لے کر جاتی ہے، جوں جوں اس کا تجربہ بڑھتا ہے اس کی آمد بڑھتی ہے اور پھر طبیعت میں کمزوری پیدا ہوتی ہے.اپنے بچوں کا خیال آتا ہے، پھر مال کمانے کی طرف مزید توجہ پیدا ہوتی ہے اور پھر توجہ صرف مال کی طرف رہ جاتی ہے.بعض ایسے ہیں جو بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے ہیں اور اس کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہاری اولادیں اور تمہارے مال تمہارے لئے ابتلاء نہ بن جائیں.بڑی عمر میں اولاد کی خاطر مال جمع کرتا ہے.ایک یہ وجہ بن جاتی ہے کہ اولاد کی خواہشات کی خاطر کمزوریاں دکھاتا ہے.آہستہ آہستہ جوں جوں اس کی اہمیت بڑھتی ہے اور تجربہ بڑھتا ہے تو ایک انسان کی مانگ بڑھتی ہے.اگر اس میں صحیح ایمان نہ ہو تو دنیا دار بن جاتا ہے اور دنیا کمانے کی طرف رجحان بڑھتا چلا جاتا ہے.بہتر پوزیشن حاصل کرنے کی طرف رجحان بڑھ جاتا ہے.بہتر تنخواہ حاصل کرنے کی طرف رجحان بڑھ جاتا ہے.اس کی دوسری صورتیں بھی ہو سکتی ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے پھر فرمایا کہ اولاد اور مال کے جو ابتلاء ہیں ان سے بچو.یہ تمہارے لئے فتنہ ہیں.انَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ (الانفال:29).پس اس طرف بھی انصار اللہ کو توجہ دینے کی ضرورت ہے.بعض دفعہ ایسی بھی صورتیں ہو جاتی ہیں کہ جماعتی نظام اولاد کی تربیت کے لئے اگر کوئی ایکشن لیتا ہے تو بعض لوگ انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں کہ جماعت نے غلط کیا ہے.اپنے بچوں کی خواہشات کے پیچھے چل پڑتے ہیں.اس لحاظ سے بھی بہت زیادہ گہرائی میں جا کر جائزے لینے کی ضرورت ہے.اس زمانے میں اور ان ملکوں میں رہ کر بچوں سے لاڈ کر کے وہ ان کی بھلائی اور بہتری کے سامان نہیں کر رہے ہوتے بلکہ ان کو تباہی کی طرف لے جارہے ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کے لئے پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ نہ دین کے رہتے ہیں نہ دنیا کے.پس انصار اللہ پر یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے.اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.انصار کو عبادت گزار ہونا چاہئے پھر یہ کہ انصار اللہ کو عبادت کا حق ادا کرنے والا ہونا چاہئے جو ایک انتہائی ضروری اور اہم چیز ہے.اس کے لئے انسان کی پیدائش کی گئی.انسان کی پیدائش کا مقصد ہی عبادت ہے.تو جو عبادت کا حق ادا نہیں کرتے وہ پھر انصار اللہ کیسے کہلا سکتے ہیں ؟ جو مقصد میں نے ابھی حواری ہونے کے اور اس حوالہ سے انصار اللہ بننے کے بتائے ہیں تو کیا ایسے لوگ پھر حواری کہلانے کے مستحق ہیں؟ صحیح اور پکے مومن کہلانے کے مستحق ہیں؟.ایسے لوگ تو مومن نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ایسے لوگ انصار اللہ کہلا سکتے ہیں.
232 سبیل الرشاد جلد چهارم انصار اللہ کی عبادتیں کیسی ہونی چاہئیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت بچی کو دور کر کے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے جیسے زمیندارزمین کو صاف کرتا ہے.عرب کہتے ہیں مورٌ مُّعَبَّد جیسے سرمہ کو باریک کر کے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنا لیتے ہیں اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر ، پتھر، ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہو کہ گویا روح ہی روح ہو اس کا نام عبادت ہے.چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی کی جاوے تو اس میں شکل نظر آجاتی ہے.اور اگر زمین کی جاوے تو اس میں انواع و اقسام کے پھل پیدا ہو جاتے ہیں.پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کبھی اور نا ہمواری، کنکر، پتھر نہ رہنے دے تو اس میں خدا نظر آئے گا.“ فرمایا ”میں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درخت اس میں پیدا ہوکر نشو ونما پائیں گے اور وہ اثمار شیریں وطنیب ان میں لگیں گے جو اُكُلُهَا دَائِم (الرعد: 36) کے مصداق ہوں گے ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 347 مطبوعہ ربوہ ) یہ چیزیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سب سے چاہتے ہیں.فرمایا کہ جیسے سرمہ کو باریک کر کے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنا لیتے ہیں ( آج کل تو سرمہ اتنا استعمال نہیں ہوتا.لیکن بعض ملکوں میں ہوتا بھی ہے ) اور سرمہ یا تو آنکھوں کی خوبصورتی کے لئے یا آنکھوں کی بیماری کو دور کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.پس جو عبادت کرنے والے ہیں ان کو بھی اپنے معیار اتنے اونچے کرنے چاہئیں کہ عبادتیں ان کی خوبصورتی بھی بن جائیں اور ان کی بصارت اور بصیرت کے لئے اللہ تعالیٰ کا فہم و ادراک حاصل کروانے کے لئے ہر دم ان کی رہنمائی کرنے والی ہوں.ان سے وہ کام کروانے والی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو.عبادت وہ ہو کہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو.پس یہ ہے عبادت کا معیار جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام چاہتے ہیں.پھر آپ نے آئینہ کی مثال دی کہ درستی اور صفائی کی جائے تو اس میں شکل نظر آتی ہے.تو عبادتیں بھی ایسی ہوں کہ ہماری عبادتوں میں ہمیں خدا نظر آنے لگ جائے.ہماری عبادتیں دکھاوے کی عبادتیں نہ ہوں.ہمارا مسجد آنا یا اجلاس پہ آنا اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے ہو، نہ کہ دکھاوے کیلئے.اور جب یہ معیار ہم حاصل کر لیں گے تو پھر ہم اپنی بقا کے سامان بھی پیدا کر رہے ہوں گے.اپنے بیوی بچوں کی بقا کے سامان بھی پیدا کر رہے ہوں گے.اپنی نسلوں کی حفاظت بھی کر رہے ہوں گے.پس یہ معیار ہم نے حاصل کرنے ہیں.پھر فرمایا کہ جو اچھی زمین تیار کی جائے اس میں انواع و اقسام کے پھل پیدا ہوتے ہیں.تو یہ باتیں ہیں
233 سبیل الرشاد جلد چہارم جو ثمر آور ہوں گی اور ایسے پھل لائیں گی جو نہ صرف ہمارے اندر پاک تبدیلی کے معیار پیدا کریں گی بلکہ اس کی وجہ سے ہم اپنے ماحول میں اللہ اور رسول کا پیغام پہنچا کر نیک اور پاک اور سعید روحوں کو اپنی طرف کھینچ رہے ہوں گے اور اپنی اولا دوں کی تربیت کر کے ان کو بھی پھلوں سے لا در ہے ہوں گے.ان کی بہترین پرورش کر کے اور اپنے اردگرد کے ماحول میں اور معاشرے میں تبلیغ کے ذریعہ سے بھی پھل حاصل کر رہے ہوں گے تو دنیا کو خدا تعالیٰ کے دامن میں لانے والے ہوں گے.اور یہی چیزیں اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث بنتی ہیں.پس ایسے باغ لگانے کی ہم نے کوشش کرنی ہے جو ہمیشہ پھل دار باغ ہوں.جو ایسے سدا بہار درخت ہوں جن میں ہمیشہ پھل لگتے رہیں اور کبھی خزاں نہ آنے پائے.تو یہ کوششیں بھی ہم نے کرنی ہیں.محنت اور اخلاص اور وفا اور عبادتوں کے درخت جب ہم اپنے دلوں میں لگائیں گے تو یہ ہمیں حقیقی انصار اللہ بنائیں گے.پس یہ باتیں ہیں جو ہمیں بحیثیت انصار اللہ اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اللہ تعالیٰ تو نبیوں کی جماعت کے بارہ میں کہ ہی چکا ہے کہ وہ غالب آئیں گے.كَتَبَ اللَّهِ لَا غُلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِـي (المجادلۃ : 22) کر لکھی ہوئی بات ہے کہ میں نے اور میرے رسولوں نے غالب آنا ہی آنا ہے اور کوئی دنیا کی طاقت اس غلبہ کو نہیں روک سکتی.اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ میں نے غالب آتا ہے.دوسری طرف یہ اعلان کروایا کہ کون ہیں انصار اللہ جو اللہ کے کاموں میں مددگار بنیں.تو کیا اللہ تعالیٰ بندوں کی مدد کے بغیر غالب نہیں آسکتا ؟ کیا اللہ تعالیٰ کو غالب آنے کے لئے بندوں کی ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ غالب آئے گا اور ضرور آئے گا.آج بھی جماعت احمد یہ دنیا میں پھیل رہی ہے تو کسی انسانی کوشش سے نہیں پھیل رہی ہے.اللہ تعالیٰ خود فرشتوں کے ذریعہ سعید روحوں کو اس طرف پھیر رہا ہے.اور ہمارے آباؤ اجداد میں بہت سے ایسے ہیں جو کسی دلیل کے بغیر کسی علم کے بغیر صرف اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے احمدیت کی طرف مائل ہوئے.ان میں بعض خوابوں کے ذریعہ احمدی ہوئے.پس یہ غلبہ تو انشاء اللہ ہوگا لیکن اگر ہم اس میں شامل ہو جائیں گے تو ثواب سے حصہ لینے والے ہوں گے جو اس کام کے صلہ میں ملے گا.اللہ تعالیٰ کو اپنی بڑائی کے لئے نہ ہماری عبادتوں کی ضرورت ہے، نہ اپنا پیغام پہنچانے کے لئے ہماری کوششوں کی ضرورت ہے، نہ ہماری مدد کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَالله غَالِبٌ عَلَى أَمْرِه (یوسف: 22 ) کہ اللہ اپنے فیصلہ پر غالب ہے.اللہ تعالیٰ نے جب یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ اور اس کے رسول غالب آئیں گے تو پھر انصار اللہ کی مدد کی ضرورت نہیں.اللہ تعالیٰ غالب ہے اپنے فیصلہ میں اور اس کو پورا کرتا ہے.یہ تو صاف ظاہر ہے.جیسا کہ میں نے کہا، یہ تو ہماری بہتری کے لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں پاک کرنے کے لئے یہ فرما رہا ہے.ہمیں اس ثواب میں حصہ دار بنانے کے لئے فرما رہا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے لیکن میں تمہیں بتا تا ہوں کہ تمہارا ہی فائدہ ہے کہ یہ نیک کام جس کی طرف
234 سبیل الرشاد جلد چہارم تمہیں بلایا جا رہا ہے ، جس کا اعلان منہ سے کیا ہے اس کا اپنے نمونوں سے بھی اعلان کرو.دلوں میں بٹھا ؤاس کو اور اس کا اظہار کرو.یہ تمہارے فائدہ کے لئے ہے.اگر تم اس کا فائدہ جانو تو کبھی ذرہ بھر بھی تمہارے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو یا یہ گنجائش نہ رکھو کہ ہم نے دنیا کو دین پر مقدم کرنا ہے بلکہ ہمیشہ دین تمہاری دنیا پر مقدم رہے گا.پس یہ سوچیں ہیں جو ہم نے اپنے اندر پیدا کرنی ہیں.جو زمین و آسمان کا مالک ہے، جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے، جو نہ اونگھتا ہے نہ سوتا ہے اور نہ تھکتا ہے تو کیا وہ اپنے نبی کی مدد سے تھک جائے گا؟ یہ تو خیال ہی باطل ہے.پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے.اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اپنی اطاعت میں کامل ہونے کی ضرورت ہے.اخلاق میں اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی ضرورت ہے.انصار اللہ کا مطلب ہے دعوت الی اللہ کے ذمہ دار بن جاؤ دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور پہلے سے بڑھ کر ضرورت ہے.اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے جو ہوا چلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ خود بخود دلوں کو پھیر رہا ہے.اگر ہماری کوشش سے کسی کا دل پھرتا ہے تو اس کا ثواب ملے گا کیونکہ دعوت الی اللہ بڑا کام ہے جس کے ذریعہ غلبہ ہونا ہے.اللہ تعالیٰ تو دلوں کو پھیر رہا ہے.جن کے دل اللہ تعالیٰ پھیرنا چاہتا ہے، جنہیں ہدایت دینا چاہتا ہے وہ پیغام کے متلاشی ہیں.اگر یہ پیغام آپ کے ذریعہ پہنچ جائے تو اس کا ثواب ہے.اللہ تعالیٰ نے جو کہا کہ انصار اللہ بن تو اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ دعوت الی اللہ کے ذمہ دار بن جاؤ.دلوں کو پھیرنا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور اس نے اس کا اعلان فرمایا ہوا ہے لیکن جب دلوں کو پھیر نے کی یہ ہوا چل رہی ہے تو اس میں جب تم مددگار بنے کا اعلان کر رہے ہو گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن رہے ہو گے.پس اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے.نیک لوگوں کی ، پاک لوگوں کی اللہ تعالیٰ کے مددگاروں کی اور ان لوگوں کی جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے ہیں اللہ تعالیٰ نے کیا نشانی بتائی ہے.فرمایا وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أُولئِكَ هُمُ المُفلِحُونَ ( آل عمران : 105) اور چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو جو بھلائی کی طرف بلاتے رہیں ، اچھی باتوں کی تعلیم دیں، بری باتوں سے روکیں اور یہی ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.اب اس میں انصار اللہ کے مختلف طبقوں کے جو لوگ ہیں وہ ہر ایک اپنے اپنے جائزے لیں.65 سال سے اوپر کے انصار اپنے عزیز واقارب کو نیکی کا پیغام پہنچائیں جو سمجھتے ہیں کہ 65 سال کے بعد ہم ریٹائر ڈ ہو گئے ، کچھ کام نہیں کر سکتے ، ان کو اس نیکی سے محروم نہیں کیا
235 سبیل الرشاد جلد چہارم جاسکتا.وہ اپنے آپ کو جماعتی کاموں میں شامل کریں.نیکی کی جو تعلیم دینے والی ہے وہ اپنے گھروں سے شروع کریں ، اپنے ماحول سے شروع کریں، اپنے قریبی رشتہ داروں سے شروع کریں.ان سے تربیتی پہلوؤں اور نیکی کے کاموں کی باتیں کریں.نیکیوں کی تلقین کریں.جماعت سے تعاون اور اخلاص کا تعلق ہر ایک سے جوڑیں.بعض میں بلا وجہ عہدیداروں کے خلاف یا نظام جماعت کے خلاف رنجشیں اور کدورتیں پیدا ہو جاتی ہیں، اس کو دور کرنے کی کوشش کریں.ہر طبقہ جو ہے اور ہر عمر والا جو ہے وہ اس میں حصہ لے سکتا ہے.تبلیغ کے میدان میں بعض لوگ ہیں جو کہتے ہیں ہمیں زبان نہیں آتی ، پیسٹس تیار ہیں ، ڈی وی ڈی بنی ہوئی ہیں، ایم ٹی اے کا ایک رابطہ ہے.اور میں انصار اللہ کو یہ کہا کرتا ہوں کہ جو اولڈ پیپلز ہومز ( Old Peoples Homes) ہیں ، ان کے پاس جا کر بیٹھ جائیں.بہت سارے ہیں جن کو زبان نہیں آتی اور بوڑھوں کو باتیں کرنے کا بڑا شوق ہوتا ہے.اس سے ان کی اپنی زبان بھی ٹھیک ہو جائے گی اور کچھ نہ کچھ پیغام بھی ان تک پہنچ جائے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اگر کوئی بستر مرگ پر بھی ہوتا تھا تو اس کو بھی پیغام پہنچاتے تھے.بڑی حسرت ہوتی تھی کہ کاش یہ اسلام کو قبول کرلے.اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان کر دے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اعلان کر دے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تا کہ اس کی آخرت سنور جائے.پس یہ درد ہے جو پیدا کرنے کی ضرورت ہے.جس کا اسوہ ہمارے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا.اس عمر میں جب ہم آہستہ آہستہ اپنی عمر میں بھی بڑھ رہے ہیں اور ایک لحاظ سے ہماری عمریں کم ہو رہی ہیں تو ہمیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جس حد تک دنیا کو بچانے کے لئے ہم کوشش کر سکتے ہیں کریں اور تبلیغ کے میدان میں تیزی پیدا کریں.تربیت کے میدان میں تیزی پیدا کریں.ہم میں سے ہر ایک انصار اللہ بننے کا عہد کرے اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُون.تم یہ کام کرو گے تو اس کا اجر پاؤ گے یعنی تم کامیاب ہو گے.تم اپنی زندگی کے مقصد کو پانے والے ہو گے.اور جو لوگ اپنی زندگی کے مقصد کو پالیں وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر لیتے ہیں بشرطیکہ ان کی زندگی کا مقصد وہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے رکھا ہے.اور ہماری پیدائش کا مقصد عبادت اور اس کے نام کی بڑائی ہے.اس کی مخلوق کی خدمت اور اس کے پیغام کو پہنچانا ہے.پس جب آپ کہتے ہیں نَحْنُ اَنْصَارُ الله کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مددگار ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم لوگ کامیاب ہو جاؤ گے.پس ہم میں سے ہر ایک کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم فلاح کے راستے تلاش کرتے چلے جائیں اور ان راستوں پر قدم مارتے چلے جائیں.ان حواریوں نے جن سے اللہ تعالیٰ نے یہ خطاب فرمایا کہ میں تمہیں کامیاب کروں گا.دوسرے یہ فرمایا کہ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران : 53) کہ گواہ بن جاؤ کہ ہم فرمانبردار ہیں.پس آج ہم میں سے
236 سبیل الرشاد جلد چہارم ہر ایک کو یہ اعلان کرنا چاہئے کہ ہم نے جو یہ باتیں سنیں تو ہم کامل فرمانبرداری اور کامل اطاعت سے اللہ تعالیٰ کے انصار بننے کا اعلان کرتے ہیں.پس اطاعت کے نمونے دنیا کو دکھا دیں.اخلاص کے نمونے دنیا کو دکھا دیں.خلافت کے لئے ہر قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہنے کے نمونے دنیا کو دکھا دیں.تبلیغ کے نمونے بڑی شان سے دنیا کو دکھا دیں.تربیت کے نمونے پہلے سے بڑھ کر اپنے گھروں میں قائم کر دیں.دعا اور عبادت کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ کرنے والے ہوں.یہی چیزیں ہیں جو آپ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلتے ہوئے قائم کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے.اور پھر انشاء اللہ آپ بھی ہر آن اللہ تعالیٰ کی مدد کے نظارے دیکھیں گے اور نَحْنُ أَنْصَارُ الله کہ کر نہ صرف مدد کر رہے ہوں گے بلکہ اُس کے نتیجہ میں آپ کو اپنے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے نظر آ رہے ہوں گے.کامیابیاں آپ کے قدم چومیں گی.جنہوں نے نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کہا تھا ، ان کا کہنا اور کوششیں اسی حد تک نہیں تھیں کہ انہوں نے نَحْنُ انصار اللہ کہہ دیا اور بات ختم ہوگئی بلکہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مدد کا ہی نظارہ تھا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جہاں یہ ذکر فرمایا وہاں دوسری آیت میں فرمایا فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوْا عَلى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوْا ظَاهِرِينَ (الصف: 15 ) پس ہم نے ان لوگوں کی جو ایمان لائے ان کے دشمنوں کے خلاف مدد کی تو وہ غالب آگئے.پس ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے جو یہ اعلان کیا کہ میں نے اور میرے رسولوں نے غالب آنا ہے، یہ بتا رہا ہے کہ غلبہ انشاء اللہ ہونا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام کئی مرتبہ ہوا.اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ایک دن انشاء اللہ احمدیت نے ساری دنیا پر غالب آنا ہے.دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے مددگار بننے والوں کی مدد کے ذریعہ ان کا غلبہ یہ بتارہا ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو ایمان لائے ان کی دشمنوں کے خلاف مدد کی تو وہ غالب آگئے تو اللہ تعالیٰ ایمانداروں کی مومنوں کی جب مدد کرتا ہے تو مومن غالب آتے ہیں.تو میں بتا رہا تھا کہ اگر ہم ایمان میں خالص رہیں ، اپنی حالتوں پر نظر رکھنے والے ہوں تو ہم میں سے ہر ایک، تمام افراد جماعت جو ہیں اس مدد کے نظارے دیکھیں گے.خدا کرے کہ ہم حقیقت میں اپنے پہ نظر رکھنے والے ہوں.اپنے عہد کو پورا کرنے والے ہوں.اپنی حالتوں کو بدلنے والے ہوں اور فتح و کامرانی کے ے دیکھنے والے ہوں اور بچے اور حقیقی انصار اللہ بننے والے ہوں اور انشاء اللہ جب ہم یہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے نظارے بھی دیکھیں گے.اللہ کرے وہ ہمیں جلد دکھائے " (الفضل انٹر نیشنل 4 مارچ 2011ء)
سبیل الرشاد جلد چہارم 237 اپنی زندگیوں کو قرآنی تعلیمات اور رہنمائی کے سانچے میں ڈھالیں مجلس انصار اللہ لائبیریا کے پہلے سالانہ اجتماع منعقدہ 8, 9 نومبر 2008 کے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انصار بھائیوں کے نام ایک روح پرور پیغام بھجوایا جو مورخہ 9 نومبر 2008 ء کو اختتامی تقریب میں پڑھا گیا.جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انصار اللہ کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ اپنی زندگیوں کو قرآنی تعلیمات اور رہنمائی کے سانچے میں ڈھالیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سنت کی پیروی کریں.دنیا میں قیام امن کا حصول صرف اسلامی تعلیمات پر عمل سے ہی ممکن ہے کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے اس مذہب کا نام اسلام رکھا ہے جس کا مطلب امن ہے.حضور نے فرمایا کہ پُر امن معاشرے کے قیام کے لئے نفرتوں کو مٹا کر محبت کا پرچار کریں.حضور انور نے اپنے پیغام میں مزید فرمایا کہ انصار اللہ کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ہر عمر کے لوگوں کو قرآن کریم سکھانا ہے.یہ تبھی ممکن ہے جب انصار خود بھی قرآن کریم سیکھیں گے.لہذا مجلس انصار اللہ کو اس فرض کی ادائیگی کے لئے سنجیدگی سے انتظامات کرنا ہوں گے.اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہر ناصر اس تحریک میں شامل ہو خواہ استاد کی حیثیت سے یا طالبعلم کے طور پر.حضور انور نے فرمایا کہ آخر پر میں بڑے زور سے آپ کو خلافت احمدیہ کی حفاظت ، اسے مضبوط کرنے اور ہمیشہ اس سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا ہوں.یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا فضل ہے اور دنیا اس کے لئے ترس رہی ہے.تمام برکتیں امام جماعت سے وفاداری میں ہی ہیں.وہی تمام مصیبتوں اور دکھوں کے خلاف آپ کی ڈھال ہے.ہماری تمام ترقیات خلافت سے
سبیل الرشاد جلد چہارم مضبوط تعلق پر منحصر ہیں.238 حضور انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو ہر قسم کی آفتوں سے محفوظ رکھے اور یہ اجتماع ہر ناصر میں پاک تبدیلی اور روحانی ترقی کا موجب بنے.فرمایا کہ جو انصار اس اجتماع میں شامل نہیں ہو سکے ان تک میرا یہ پیغام پہنچا دیا جائے" الفضل انٹر نیشنل 6 فروری 2009ء)
239 & 2009 کے ارشادات و فرمودات سبیل الرشاد جلد چہارم باب ہفتم
سبیل الرشاد جلد چہارم 240 انصار کا کام ان راستوں پر چلنا ہے جن کی رہنمائی حضرت مصلح موعودؓ نے فرمائی عہدہ ایک خدمت ہے خدمت کا تصور پیدا ہوگا تو صیح طور پر خدمت ہو سکے گی عہد یداران بصیغہ راز معاملات کو اپنے پاس رکھ کر اصلاح کی کوشش کریں مسجدیں آباد ہوں گی تو جماعت کی عمومی روحانی حالت بھی ترقی کرے گی سب سے پہلا اور اہم تقاضا انصار اللہ بنے کا عبادت کے معیار کو قائم کرنا ہے اپنے بچوں میں خلافت کی محبت پیدا کریں یہی اسلام کی روح ہے جب میں ایک بات کسی مجلس انصار اللہ کو کہتا ہوں تو وہ سب کے لئے ہوتی ہے
سبیل الرشاد جلد چہارم 241 انصار اللہ کا کام اپنے عہد کی طرف توجہ کرنا اور ان راستوں پر چلنا ہے جن کی رہنمائی حضرت مصلح موعودؓ نے فرمائی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ فرمودہ 20 فروری 2009ء میں خطبہ کے اخیر میں فرمایا.ایک بات اور واضح کرنا چاہتا ہوں کل ہی میں نے ڈاک میں دیکھا کہ کسی ملک کی انصاراللہ کی تنظیم کا ایک پروگرام تھا کہ ہم نے یوم مصلح موعود پر بڑا وسیع کھیلوں کا پروگرام رکھا ہے اور تھوڑا سا علمی موضوع پر بھی پروگرام ہو گا، اجلاس ہوگا.انصار اللہ کا کھیل کود سے کیا کام ہے؟ انصار کو تو چاہئے تھا کہ اپنے عہد کی طرف توجہ کرتے اور ان راستوں پر چلنے کی کوشش کرتے جن پر چلانے کے لئے مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے راہنمائی فرمائی ہے اور انصار اللہ کی تنظیم قائم فرمائی ہے تا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو جلد سے جلد دنیا میں پھیلانے والے بن سکیں اور مجھے امید ہے کہ انصار اللہ جس نے یہ پروگرام بنایا ہے، میں نام نہیں لینا چاہتا ، وہ اپنے اس فیصلہ پر نظر ثانی کریں گے اور آئندہ بھی لوگ اس کی احتیاط کریں گے" (خطبات مسرور جلد 7 صفحہ 104 ) عہدہ ایک خدمت ہے خدمت کا تصور پیدا ہوگا تو صحیح طور پر خدمت ہو سکے گی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ بیان فرمود 130 مارچ 2009ء میں فرمایا.ایک مرتبہ ابوذرغفاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے دولڑکوں کو لے جا کر یہ سفارش کی کہ ان کا بھی یہ خیال ہے اور مجھے بھی یہی خیال ہے کہ زکوۃ کی وصولی پر ان کو لگایا جائے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابو ذر جسے عہدہ کی خواہش ہو ہم اسے عہدہ نہیں دیتے.(صحیح مسلم کتاب الامارة باب النھی عن طلب الامارة حدیث: 4717) جب خدا دیتا ہے تو پھر تو فیق دیتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ اس کی مدد بھی کرتا ہے.اس خواہش کے بغیر کوئی شخص کسی بھی خدمت پر مامور کیا جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے کہ اس کی مدد بھی کرے اور اس میں برکت بھی ڈالے.فرمایا کہ جب مانگ کر لیا جائے تو پھر کام جو ہے وہ حاوی کر دیا جاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ٹھیک ہے تم نے مانگ کے کام لیا، تم سمجھتے ہو میں اس کا اہل ہوں، تمہاری آگے آنے کی بڑی خواہش تھی تو پھر یہ ساری ذمہ داریاں نبھاؤ.میں دیکھوں تم کس حد تک نبھاتے ہو؟ پس عہدے کی خواہش جو ہے اس میں نفس پسندی کا دخل ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ بات بالکل پسند نہیں کہ انسان اپنے نفس کا زیادہ سے زیادہ اظہار کرے.آج بھی بعض دفعہ جماعت میں جن جگہوں پر جن جماعتوں میں تربیت کی کمی ہے، جن لوگوں میں تربیت کی کمی ہے وہ اب عہدے کی خواہش کرتے ہیں.اور بعض دفعہ علم نہ ہونے کی وجہ سے بعض جگہوں پر
سبیل الرشاد جلد چہارم 242 جب جماعتی انتخابات ہوتے ہیں اپنے آپ کو ووٹ بھی دے لیتے ہیں.تو بہر حال اب تو اللہ کے فضل.کافی حد تک جماعت کے افراد کو سوائے ایک آدھ کے جو نیا ہو ان باتوں کا، قواعد کا علم ہو چکا ہے.اپنے آپ کو ووٹ دینے کی پابندی اس لئے جماعت میں ہے کہ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عہدے کی خواہش نہ کرو.اپنے آپ کو ووٹ دینے کا مطلب ہے کہ میں اس عہدے کا اہل ہوں اور میرے سے زیادہ کوئی اہل نہیں ہے اس لئے مجھے بنایا جائے.اسی طرح بعض لوگ انتخابات جب ہوتے ہیں تو اگر اپنے آپ کو ووٹ نہیں بھی دیتے اس مجبوری کی وجہ سے کہ جماعت کے قواعد اجازت نہیں دیتے تو پھر وہ اپنا ووٹ استعمال بھی نہیں کرتے.اپنے ووٹ کو استعمال نہ کرنا بھی اس بات پرمحمول کیا جاتا ہے کہ انسان سجھتا ہے کہ میں اس بات کا اہل ہوں.گو کہ قواعد کی رو سے میں ووٹ تو نہیں دے سکتا لیکن کوئی دوسرا شخص میرے سے زیادہ اس بات کا اہل نہیں ہے اس لئے میں ووٹ استعمال نہیں کرتا.تو اس بات سے بھی بچنا چاہئے یہ بھی تربیت کے لئے بہت ضروری چیزیں ہیں.اگر کسی میں کسی بھی قسم کی صلاحیت ہے تو اس صلاحیت کا اظہار چاہے وہ پیشہ وارانہ ہو یا اور علمی نوعیت کی ہو یا کسی بھی قسم کی ہو تو اس صلاحیت کا اظہار عہدیداران کی یا دوسرے کی مدد کر کے کیا جاسکتا ہے.بغیر عہدے کے بھی خدمت کی جاسکتی ہے.اگر تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خدمت کرنی ہے تو پھر عہدے کی خواہش تو کوئی چیز نہیں ہے پس اس بات کو ہر احمدی کو نئے آنے والوں کو بھی نو جوانوں کو بھی اور پرانوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے.میں نے دیکھا ہے کہ بعض پرانے احمدی بھی بعض دفعہ اس زعم میں کہ ہم زیادہ تجربہ کار ہیں زیادتی کر جاتے ہیں ایسے عہدیداروں کو بھی خیال رکھنا چاہئے ، عہدیداروں میں خاص طور پر بے نفسی ہونی چاہئے.نام کی بے نفسی نہیں بلکہ حقیقی بے نفسی.عہدیداران کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ ہمیشہ سامنے رکھنے چاہئیں کہ عہد یدار قوم کا خادم ہے.پھر ایک موقع پر حضرت ابوموسیٰ اشعری کو مخاطب کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عہدہ ایک امانت ہے اور انسان بہر حال کمزور ہے.یہ امانت ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی اور انسان کمزور ہے اگر امانت کا حق ادا نہیں کرو گے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پوچھے جاؤ گے.( صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب كرامة الامارة بغير ضرورة حديث: 4719) پس اس امانت کا حق ادا کرنے کے لئے انتہائی عاجزی سے اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ اس خدمت کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پہلی بات تو یہ فرمائی کہ عہد یدار قوم کا خادم ہوتا ہے.خدمت کرے اور پھر اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ ، ہر معاملے میں ، ہر قدم پر ، ہر لمحہ پر دعا مانگے کہ اللہ تعالیٰ میری راہنمائی فرما تار ہے تبھی عہدیدارا پن خدمت کا حق ، عہدے کا حق صحیح ادا کرسکیں گے.بعض دفعہ میرے پاس بھی لوگ آتے ہیں.پوچھوں کہ کوئی کام ہے؟ تو جماعتی خدمات کا بتاتے ہیں.جب بھی پوچھو تو کہتے ہیں
سبیل الرشاد جلد چہارم 243 کہ میرے پاس آج کل یہ عہدہ ہے تو نو جوانوں کی تو میں یہ اصلاح کر دیا کرتا ہوں.اکثر میں ان کو یہ کہتا ہوں کہ یہ تمہارے پاس عہدہ نہیں یہ تمہارے پاس خدمت ہے.خدمت کا تصور پیدا کرو گے تو سبھی حیح طور پر خدمت کر سکو گے " (خطبات مسرور جلد 7 صفحہ 138-139 ) عہدیداران بصیغہ راز معاملات کو اپنے پاس رکھ کر اصلاح کی کوشش کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 27 مارچ 2009ء کو خطبہ جمعہ میں فرمایا.اسلام نے پردہ اور حیا پر بہت زور دیا ہے اور ساتھ ہی دوسروں کو بھی کہہ دیا ہے کہ تم ان کے عیب تلاش کرنے کی جستجو نہ کرو اور پھر اس کو پھیلاؤ نہ.اگر کسی کا کوئی عیب علم میں آجاتا ہے اور یہ اتنا بے حیا ہے کہ سامنے بھی کر رہا اور بار بار اس کو پھیلاتا بھی چلا جارہا ہے.تو جماعتی نظام ہے، متعلقہ عہد یدار ہے، یا نظام کو اس کی اطلاع کر دو اور خاموش رہو.تم نے اپنا فرض پورا کر دیا اور اس کے لئے دعا کرو.اگر تم باتیں کر کے، باتوں کے مزے لے کے اس جرم کو پھیلانے کا موجب بن رہے ہو تو پھر تقویٰ سے دور جارہے ہو اور اگر بالفرض کسی کے بارے میں کوئی برائی اتفاق سے علم میں آجائے اور اس کے بعد اس شخص نے اس برائی سے تو یہ بھی کرلی ہو لیکن پھر بھی کسی مخالفت کی وجہ سے کسی موقع کے ہاتھ آجانے پر ، اس برائی کا علم کسی شخص کو ہو جاتا ہے اور وہ اس کی تشہیر کرتا ہے تو وہ نہ صرف پردہ دری کا مرتکب ہو رہا ہے بلکہ فرمایا کہ چغلی کر کے تم وہ حرکت کر رہے ہو جیسے کوئی شخص اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہو.پس معاشرے کو ہر قسم کے فساد سے بچانے کے لئے اور اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے پردہ پوشی انتہائی ضروری ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا اگر اصلاح کی غرض ہے تو دعا کے ساتھ متعلقہ عہد یدار کو اطلاع دینا ضروری ہے کہ برائی دیکھو جو ختم نہیں ہورہی اور پھر اس عہد یدار کا فرض بن جاتا ہے کہ بصیغہ راز تمام معاملہ رکھ کے اس کی اصلاح کی کوشش کرے اور اگر پھر کسی نے برائی پر ضد نہیں پکڑی تو حتی الوسع کوشش کرے ( یہ عہدیداران کا بھی کام ہے ) کہ بات باہر نہ نکلے.“ خطبات مسر در جلد 7 صفحہ 165 ) مسجد میں آباد ہوں گی تو جماعت کی عمومی روحانی حالت بھی ترقی کرے گی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 26 جون 2009ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا." جہاں میں عمومی طور پر جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں وہاں خاص طور پر کارکنان، عہدیداران اور واقفین زندگی جو ہیں ان کو سب سے زیادہ اس کے حصول کی طرف توجہ دینی چاہئے.اگر کارکنان عہد یداران اور واقفین زندگی اس طرف ایک فکر سے توجہ کریں گے تو جہاں ہماری مسجدوں کی آبادی
244 سبیل الرشاد جلد چہارم بڑھ رہی ہوگی وہاں جماعت کی عمومی روحانی حالت میں بھی ترقی ہوگی.معاشرہ میں، احمدی معاشرہ میں، خاص طور پر امن، پیار اور حقوق کی ادائیگی کا ایک خاص رنگ پیدا ہورہاہوگا.عہد یداران کے نمونوں سے افراد جماعت بھی اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ایک سے دوسرے کو جاگ لگتی ہے اور اگر کسی کے نمونے سے دوسرے میں پاک تبدیلی پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی اتنا ہی ثواب دیتا ہے جتنا اس شخص کومل رہا ہے جس نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کی ہے.پس اس طرف خاص طور پر توجہ دیں.کسی کا علم کسی کا صائب الرائے ہونا، کسی کی انتظامی صلاحیت میں اعلیٰ مقام حاصل کرنا، نہ اس کو بحیثیت احمدی کوئی فائدہ دے سکتا ہے، نہ جماعت کو ایسے شخص کے علم ، عقل اور دوسری صلاحیتوں سے کوئی دیر پا فائدہ پہنچ سکتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کا خوف اور خالص ہو کر اس کی عبادت کی طرف توجہ پیدا نہ ہو تو یہ سب چیزیں فضول ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقام کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن کی توقعات ہم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہیں" (خطبات مسرور جلد 7 صفحہ 294) سب سے پہلا اور اہم تقاضا انصار اللہ بننے کا عبادت کے معیار کو قائم کرنا ہے انصار اللہ کا اہم کام خلافت سے وابستگی اور اس کے استحکام کی کوشش کرنا ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجلس انصار اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع سے مورخہ 14 اکتوبر 2009 ء کو خطاب کرتے ہوئے تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." جماعتی ذیلی تنظیموں کے نظام میں انصار اللہ کی تنظیم ایک ایسی تنظیم ہے جس کے ممبران اپنی عمر کے لحاظ سے عمر کے اُس حصہ میں پہنچ جاتے ہیں جہاں مکمل طور پر بالغ سوچ ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہئے.اس عمر میں انسان ہر کام سوچ کر اور جذبات سے بالا ہو کر اور ہوش و حواس میں کرتا ہے سوائے ان لوگوں کے جو ارذل العمر کو پہنچ جاتے ہیں اور پھر اُن کی یاد داشتوں اور اعضاء میں اتنی کمزوری پیدا ہو جاتی ہے کہ گویا وہ بچپن کی عمر میں واپس لوٹ جاتے ہیں اور پیغام رسانی والے پیغام نے یہ مسیح لکھا ہے کہ آخر میں سب کچھ ذہن کھا جاتا ہے اور نہ ذہن رہتا ہے اور نہ ہڈیاں رہتی ہیں.انصار اللہ میں انسان چالیس سال کی عمر میں داخل ہوتا ہے اور ایک بڑا المبا عرصہ کام کرنے کی بھی اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کی بھی توفیق ملتی ہے.اس عمر میں وہ اپنی دنیوی امور کی معراج کو بھی حاصل کرتا ہے اور روحانی امور کی معراج کو بھی حاصل کرتا ہے اور کر سکتا ہے.اس بلوغت کی سوچ کی عمر اور تجربہ کار انسان کو بچوں اور نو جوانوں کی طرح نصیحت تو نہیں کی جاسکتی.ہاں یاد دہانی کروائی جاسکتی ہے.گو یاد دہانی بھی نصیحت کی ہی ایک قسم ہے اور اُس کا ایک رنگ ہے لیکن یہ نصیحت اس قسم کی ہے کہ جو انصار کو اس لحاظ سے
245 سبیل الرشاد جلد چہارم کروائی جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو ذمہ داریاں تم پر ڈالی ہیں اور جو تم پر عائد ہوتی ہیں شاید انہیں بھول رہے ہو علم تو اکثر کو ہوتا ہے اور یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ جو جماعتی نظام میں شامل ہے اور جو اس عمر کو پہنچ گیا ہے اُس کو بعض باتوں کا علم نہیں.علم تو ہے لیکن علم کے باوجود توجہ نہیں دی جارہی یا بھول رہے ہیں.بہر حال جو بھی وجہ ہے یاد دہانی تو اس لحاظ سے کروائی جاتی ہے کہ جس بات پر توجہ نہیں دے رہے اور بھول رہے ہو اس پر توجہ کر دیا اگر توجہ ہے تو اُس معیار کے حصول کی کوشش کرو جو انصار کا ہونا چاہئے.اس لئے یاددہانی میں یہی کہا جاتا ہے کہ ان امور کی طرف توجہ دو، ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ دو، ان کاموں کی طرف توجہ دو جو تمہارے ذمہ لگائے گئے ہیں.عبادات کی طرف توجہ کریں صدر صاحب انصار اللہ سے جب میں نے پوچھا کہ کوئی خاص بات جو انصار کو کہنے والی ہے تو بتا ئیں.انہوں نے کہا اور جیسا کہ انہوں نے رپورٹ میں پڑھا اور اجتماع کے دوران سیشن بھی ہوتے رہے کہ اس سال نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے کو ہم نے سب سے پہلی ترجیح میں رکھا ہے لیکن جو ٹارگٹ ہمیں حاصل کرنے چاہئے تھے وہ حاصل نہیں کر سکے.اس لئے اگر اس طرف توجہ دلانا چاہیں تو دلا سکتے ہیں.صدر صاحب کا یہ جواب جہاں مجھے حیران کرنے والا تھا وہاں فکر مند کرنے والا بھی تھا کیونکہ نو جوانوں اور بچوں کو تو یہ بار بار نصیحت کی جاتی ہے اور والدین کو اس کے لئے سب سے مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے کہ نمازوں کی طرف توجہ دو اور حقیقت میں والدین ہیں بھی ایک بہت مؤثر ذریعہ.لیکن اگر ان میں خود ہی جن کی اکثریت انصار اللہ میں ہے، اس کام کی طرف پوری توجہ نہیں دی جارہی تو وہ بچوں اور نو جوانوں کو کس طرح نمازوں کی اہمیت کی طرف توجہ دلا سکتے ہیں یا ان پر نمازوں کی اہمیت واضح کر سکتے ہیں یا اس کی تلقین کر سکتے ہیں.وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے تو اپنے بڑوں کو اس قدر تر ڈو سے اس طرف توجہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا.ان کو تو اس اہتمام سے نمازیں پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا.یہ بہت خطرناک چیز ہے.اس طرف پوری توجہ نہ دینے کی وجہ سے جہاں خود انصار اللہ میں اپنی روحانی حالت میں ٹھہراؤ یا گراوٹ کا اظہار ہوتا ہے وہاں یہ امر اگلی نسلوں میں نمازوں کی اہمیت کی طرف توجہ نہ دلانے کا باعث بھی بن رہا ہے.تقویٰ سے دور لے جانے والا بن رہا ہے اور پھر انصار اللہ کی عمر تو ایک ایسی عمر ہے جس میں زندگی کے انجام کے آثار ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں.آخر کار بڑھتی عمر کے ساتھ ایک دن انسان کا خاتمہ ہونا ہے اور وہی انجام ہے.تو انجام کی طرف یہ جو تیزی سے بڑھتے ہوئے قدم ہیں وہ تو بہت زیادہ فکر اور تردد کے ساتھ اس طرف توجہ دلانے والے ہونے چاہئیں.پس ایک مومن جسے خدا تعالیٰ کا خوف ہو اپنی عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنے انجام کو سامنے دیکھتے ہوئے خوف زدہ ہو جاتا ہے اور خوف کی یہ حالت پھر اسے مجبور کرتی ہے کہ خالص ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور جھکے اور اس کا قرب چاہے.
246 سبیل الرشاد جلد چہارم گزشتہ دنوں ہم رمضان کے مہینے سے گزرے ہیں.امید کرتا ہوں کہ کمزوروں میں بھی ان دنوں میں ایک خاص تبدیلی پیدا ہوئی ہوگی اور نمازوں کی طرف توجہ ہوئی ہوگی.اور جیسا کہ مساجد کی حاضری سے ثابت ہے کہ توجہ ہوئی ہے.پس اس توجہ کو اگر انصار سو فیصدی اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں تو ایک عظیم الشان پاک تبدیلی ہمیں جماعت کے اندر نظر آئے گی جس کے اثرات نہ صرف ہم اپنے اندر محسوس کر رہے ہوں گے بلکہ اپنے بیوی بچوں میں بھی محسوس کر رہے ہوں گے.اللہ تعالیٰ نے جب نماز پڑھنے کا حکم فرمایا تو یہ بھی اعلان فرمایا کہ اس ذریعہ سے ایک پاک انقلاب تمہارے اندر پیدا ہوگا.لوگ پوچھتے ہیں کہ کوئی دعا یاذ کر بتائیں جس سے ہمارے اندر پاک تبدیلی پیدا ہو اور وہ پاک تبدیلی اگر پیدا ہو جائے تو پھر قائم بھی رہے.سب سے بڑی دعا اور سب سے بڑا ذ کر نماز ہی ہے بشر طیکہ اس کا حق ادا کرتے ہوئے وہ ادا کی جائے.اس لئے حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز عبادت کا مغز ہے.پس جس کو مغزمل جائے جس میں تمام قسم کی دعا ئیں آجاتی ہیں اور نہ صرف دعائیں آجاتی ہیں بلکہ انسان کی ہر طرح کی عاجزی اور انکساری اور کم مائیگی اور تضرع کی وہ حالتیں بھی آجاتی ہیں جس سے ایک مومن خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والا بن سکتا ہے تو اُس کو کسی دوسری قسم کے اذکار اور دعاؤں کی کیا ضرورت ہے؟ پس جب انصار اللہ کا نام اپنے ساتھ لگایا ہے تو سب سے پہلا اور بڑا اور اہم تقاضا انصار اللہ بننے کا یہی ہے کہ اس کی عبادت کے معیار قائم کئے جائیں.جیسا کہ میں نے کہا انصار اللہ نے اپنے تعلق باللہ کے ساتھ ساتھ نو جوانوں اور بچوں کے لئے بھی نمونہ بننا ہے اور اگر انصار اللہ میں نمازوں کے بارے میں ستیاں ہوتی رہیں یا ان میں سے ایک بڑا حصہ ستی دکھاتا رہے یا اگر اکثریت نہ سہی مگر ایک حصہ ستی دکھا تا رہے تو جہاں وہ نماز کے اہم فریضہ پر توجہ نہ دے کر اپنے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں کمی کر رہے ہوں گے وہاں وہ ایک مذہبی فریضہ پر پوری طرح عمل نہ کر کے ایک ایسا جرم کر رہے ہوں گے جو مذہبی جرم ہے.نماز ایک ایسا اہم فریضہ ہے جس کا ادا کرنا بہت ضروری ہے کلمہ طیبہ پڑھنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کرنے کے بعد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد نماز کے فریضہ کو اسلام کے سب سے اہم رکن کے طور پر رکھا گیا ہے.گویا کلمہ طیبہ مسلمان ہونے کا زبانی اقرار ہے اور نماز اس کی عملی تصویر ہے.پس جب تک عمل نہ ہو زبانی دعوے کر کے ایک انسان مجرم بنتا ہے.ایک ملکی قانون کو تو انسان مان لیتا ہے لیکن اگر عمل اس کے الٹ کرے تو کیا یہ لکی قانون توڑنے والا مجرم نہیں کہلائے گا.یقینا انسان اس سے مجرم بنتا ہے تو اس طرح نماز کی ادائیگی نہ کرنے والا بھی مذہبی مجرم ہے اور پھر جب بچوں کی تربیت کی ذمہ داری بھی انصار پر ڈالی گئی ہے تو ان کے سامنے نیک نمونے قائم نہ کر کے اور پھر اس امانت کا حق ادا نہ کر
247 سبیل الرشاد جلد چہارم کے ایسے لوگ قومی مجرم بن جاتے ہیں.اگر قوم میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو وہ ان لوگوں کے عمل کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جن کے سپرد یہ ذمہ داری لگائی ہوتی ہے.اگر ان کی نسل میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو ان کی نگرانی اور دعا میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.پس جب انصار یہ کہتے ہیں کہ الحمد للہ ہم مجلس انصار اللہ کے ممبر ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس مجلس کے ممبر ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں مددگاروں کی مجلس ہے.اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی توحید کے قیام اور آنحضور کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے ہر قسم کی عملی مدد کرنے کے لئے بھی تیار ہیں اور عملی مد کا پہلا اور بنیادی قدم بلکہ ایسا قدم جسے خدا تعالیٰ نے فرائض میں شامل فرمایا ہے نماز ہے اور عبادت کے یہی عملی نمونے جب گھروں میں قائم ہوتے ہیں، نماز کے قیام کی گھروں میں بات ہوتی ہے تو نئی نسل بھی اس کی اہمیت اپنے ذہنوں میں بٹھا لیتی ہے اور اس طرح ہم اپنی نسلوں کی تربیت انہی بنیادوں پر کر رہے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتائی ہیں اور یہ ایک بہت بڑا اہم کردار ہے جو خاموشی سے گھر کا سر براہ ادا کر رہا ہوتا ہے.پس ہمیشہ یا درکھیں کہ انصار اللہ کی کمزوری سے نسلوں میں کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں.ایک بچے نے اُس بزرگ کو صحیح جواب دیا تھا کہ اگر میں کیچڑ میں پھلا تو میرے پھسلنے سے مجھے چوٹ لگے گی لیکن اگر آپ پھلے تو پوری قوم کو لے کر ڈوب جائیں گے.تو اُس بزرگ نے بھی اس کا صرف ظاہری مطلب نہیں لیا بلکہ اُن کی سوچ اس بات کی گہرائی تک گئی کہ بچہ صحیح کہہ رہا ہے.میرے کئی شاگرد ہیں.کئی ایسے لوگ ہیں جو میرے پیچھے چلنے والے ہیں.میری زندگی کے ہر عمل میں ذرا سی لغزش بھی میرے پیچھے چلنے والوں کی دنیا و آخرت خراب کر سکتی ہے.پس یہ سوچ ہے جو انصار اللہ کے ہر ممبر کو ہر ناصر کو اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے.تب ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم حقیقی انصار اللہ ہیں.ورنہ مجلس انصار اللہ کی ممبر شپ لے لینا یا اُس میں شامل ہو جانا یا چالیس سال کی عمر کے بعد طوعاً و کرھا یا مجبوری سے اس میں شامل ہو جانا یا جماعتی قواعد کی روح سے اس کا ممبر بننا یا اپنی آمد میں سے کچھ چندہ مجلس دے دینا یا چیرٹی واک میں حصہ لے لینا یا اجتماع پر چند پروگراموں میں حصہ لے لینا یا اجتماع میں دو دن کے لئے شامل ہو جانا آپ کو انصار اللہ نہیں بنا سکتا.انصار اللہ وہ ہیں جو دیکھیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں کیا حکم دیئے ہیں.ایک مومن کی حیثیت سے ہمارے کیا کیا فرائض ہیں اور پھر ہم نے ان فرائض پر خالص خدا تعالیٰ کی رضا کی حصول کے لئے کس طرح عمل کرنا ہے.کس طرح ان کو بجالانے کے لئے سعی اور کوشش کرنی ہے.پس یہ جو عبادتوں اور نمازوں کی طرف توجہ دلانی ہے یہ بہت اہم چیز ہے.انصار اللہ میں سے تو سو فیصد کو اس طرف توجہ ہونی چاہئے.دینی علوم کے حصول کی طرف توجہ کریں اس کے علاوہ میں کچھ اور باتوں کی طرف بھی آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اُن میں سے ایک یہ ہے
248 سبیل الرشاد جلد چہارم کہ دینی علم کی طرف توجہ اور اس کا حصول قرآن کریم ، احادیث اور حضرت مسیح موعود کی کتب کے پڑھنے سے حاصل ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ پنگھوڑے سے لے کر لحد یعنی قبر تک علم حاصل کرو اور یہ علم حاصل کرتے چلے جانا ایک مومن کا فرض ہے.اس لئے یہ تو کوئی دعوی نہیں کر سکتا کہ میرا علم اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ اب مجھے علم کی ضرورت نہیں.غور کرنے پر قرآن کے تو بے انتہا نئے نئے مطالب سمجھ آتے ہیں.احادیث میں بھی بعض ایسی غور طلب احادیث ہیں جو بعض اوقات اس کا علم رکھنے والوں کو بھی پوری طرح سمجھ نہیں آتیں اور وہ اس کے لئے پھر اپنے سے بہتر احادیث کا علم رکھنے والوں سے مدد لیتے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود کی کتب ہیں.ہر مرتبہ پڑھنے پر نئے معانی اور معرفت کے نکات ان سے ظاہر ہوتے ہیں.اس لئے کوئی یہ دعوی کر ہی نہیں سکتا کہ ہم نے کتب کو پڑھ لیا ہے.یا قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ لیا ہے یا تفسیریں پڑھ لی ہیں یا کچھ احادیث پڑھ لی ہیں اس لئے اب ہم اتنے قابل ہو گئے ہیں کہ اب مزید علم کی ضرورت نہیں علم کو تو بڑھاتے چلے جانا چاہئے.جو اپنے آپ کو اپنے زعم میں بہت بڑا علمی آدمی سمجھتے ہیں ان کی سوچیں بڑی غلط ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ الفضل جماعت کا اخبار ہے.لوگ وہ نہیں پڑھتے اور کہتے ہیں کہ اس میں کون سی نئی چیز ہوتی ہے ، وہی پرانی باتیں ہیں.حضرت مصلح موعود جن کے بارے میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو بتایا تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا ، وہ فرماتے ہیں کہ شاید ایسے پڑھے لکھوں کو یا جو اپنے زعم میں پڑھا لکھا سمجھتے ہیں کوئی نئی بات الفضل میں نظر نہ آتی ہو اور وہ شاید مجھے سے زیادہ علم رکھتے ہوں لیکن مجھے تو الفضل میں کوئی نہ کوئی نئی بات ہمیشہ نظر آ جایا کرتی ہے.انوار العلوم جلد 14 صفحہ 546,545) تو جس کو علم حاصل کرنے کا شوق ہو وہ تو پڑھتارہتا ہے اور بغیر کسی تکبر کے جہاں سے ملے پڑھتا رہتا ہے.جو علم رکھتے ہیں انہیں اپنا علم مزید بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور جوکم دینی علم رکھتے ہیں اُن کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے تا کہ پھر یہ علم جہاں ان کی اپنی معرفت بڑھانے کا باعث بنے وہاں ان کے بچوں کے لئے بھی نمونہ قائم کرنے والا ہو.جب بچے دیکھیں گے کہ گھروں میں دینی کتابیں پڑھی جا رہی ہیں تو اُن میں بھی رجحان پیدا ہو گا.اکثر ان گھروں میں جہاں یہ کتا میں پڑھی جاتی ہیں اُن کے بچے شروع میں ہی چھوٹی عمر میں ہی کتابیں پڑھ رہے ہوتے ہیں اور یہ علم پھر سب سے بڑھ کر تبلیغی میدان میں کام آتا ہے.تبلیغ کی طرف توجہ کریں انصار اللہ کی ایک خاصی تعداد ایسی ہے جو فارغ ہے تو بجائے گھر میں بیٹھنے کے، گھر والوں کو پریشان کرنے کے مجلس انصار اللہ کو باقاعدہ ایسی سکیم بنانی چاہئے جس کے تحت انصار اللہ کے جو ممبران ہیں اُن
سبیل الرشاد جلد چہارم 249 کو تبلیغ کے لئے استعمال کیا جائے اور وہ انصار جو فارغ ہیں خود بھی اپنے آپ کو اس کے لئے پیش کریں اور تبلیغ کے میدان میں مدد کریں.جیسا کہ میں نے جماعت کو بھی کہا ہے اور ذیلی تنظیموں کو بھی کہا ہے کہ اسلام اور جماعت کا حقیقی تعارف ہر طبقہ تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور دس سال کا ایک منصوبہ بنانا چاہئے کہ دس سال میں یہاں UK میں ہر شخص تک جماعت کا ایک مختصر سا تعارف پہنچا سکیں اور پھر اس کے لئے نہیں ہر سال کم از کم دس فیصد آبادی تک جماعت کا یہ تعارف پہنچانا ہو گا.صرف اتنا سا پیغام ہو کہ حضرت مسیح موعود کا پیغام کیا ہے؟ آپ کی بعثت کا مقصد کیا ہے؟ دین کی ضرورت کیا ہے؟ اتنا پیغام ہی پہنچ جائے مختصر باتیں ہوں اور آگے پیچھے ایک ورقہ شائع کیا جائے اور اُس پر ہماری ویب سائٹ کا پتہ دیا جائے.ایم ٹی اے کا پتہ دیا جائے تا کہ جو دلچسپی رکھنے والے ہیں وہ پھر خود ہی توجہ کرتے ہیں.بجائے اس کے کہ ایک چھوٹا سافنکشن کر کے چند آدمیوں کو چند کتابیں دے دی جائیں جو گھر جا کے رکھ دیتے ہیں اور پڑھتے بھی نہیں اور وہ کتابیں ضائع ہو رہی ہوتی ہیں تو اس طرح وہ کسی اور کے کام آسکتی ہیں.بنیادی طور پر پہلے یہ دیکھیں کہ جس کو دے رہے ہیں اس کو مذہب سے یا دین سے کوئی دلچسپی بھی ہے کہ نہیں.پس پہلا کام تو یہ کہ جو تعارفی ایک ورقہ ہے وہ ہم شخص تک پہنچ جانا چاہئے.پھر اس کے ساتھ ساتھ مزید رستے کھلتے چلے جائیں گے.اگر انصار اللہ میں وہ مہران جو کچھ نہیں کر رہے اور فارغ بیٹھے ہیں یا کسی ڈاکٹری مشورہ کی وجہ سے، کسی چوٹ وغیرہ کی وجہ سے بھاری کام نہیں کر سکتے اور ان کو ڈاکٹروں نے سرٹیفیکیٹ دیا ہو کہ تم نے کام نہیں کرنا تو وہ یہ تبلیغ کا کام تو کر سکتے ہیں.وہ اس پیغام کے پہنچانے اور احمدیت کا تعارف پہنچانے کی مہم میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ جب وہ عملاً اس میدان میں قدم رکھیں گے تو اپنے دینی علم کی ترقی اور دعاؤں کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی اور پھر یہ توجہ بڑھتی چلی جائے گی اور اس سے روحانیت میں ترقی ہوتی چلی جائے گی.پس یہ دوسری بات ہے کہ تبلیغ کے میدان میں ایک خاص شوق ، جذبے اور کوشش سے اپنے آپ کو پیش کریں.مالی قربانیوں اور نظام وصیت کی طرف توجہ کریں پھر ایک بات دین کی خاطر مالی قربانیوں کی ہے.میں پہلے بھی اس طرف توجہ دلا چکا ہوں کہ انصار اللہ کی عمر میں ایک ایسا طبقہ بھی ہوتا ہے جو اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں یا ہنر کے کمال کو پہنچ چکا ہوتا ہے.اسی طرح اپنی آمدنیوں کے تنخواہوں کے، اجرتوں کے جو Maximum سکیل ہوتے ہیں اُن کو حاصل کر رہا ہوتا ہے.اس وجہ سے آپ کی آمدنیوں میں جو ترقی ہے اس میں دین کا حق بھی اپنی قربانی کے معیاروں کو بلند کرتے ہوئے ادا کریں.ایک تو میں نے کہا تھا کہ صف دوم کے جو انصار ہیں وہ نظام وصیت میں شامل ہونے کی کوشش
250 سبیل الرشاد جلد چہارم کریں.اگر صف دوم کے انصار نے اس طرف توجہ دی ہے اور ان کی اکثریت بلکہ صف دوم کے انصار کو تو سو فیصد شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر تو اکثریت شامل ہو گئی ہے تو الحمد للہ اور اگر کوئی مزید گنجائش ہے تو اسے بھی پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ کوشش مجلس انصار اللہ کی سطح پر ہونی چاہئے.اگر وہ معیاری عمل نہیں کئے جن کی انصار اللہ سے توقع کی جاتی ہے تو تب بھی توجہ کرنی چاہئے.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں ہمارے عمل ایسے ہیں کہ ہمیں وصیت کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے اگر ایسے عمل ہیں تب بھی وصیت کرنی چاہئے.ہو سکتا ہے کہ اس کی بدولت اللہ تعالیٰ اُن میں نیکی کی روح پھونک دے بلکہ وصیت کرنے کے بعد بہت سے لوگ ایسے ہیں جو مجھے لکھتے ہیں کہ خود بخود توجہ پیدا ہوتی چلی جارہی ہے جو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی وجہ بھی بن رہی ہے، دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے.نمازوں کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے.قربانیوں کی طرف توجہ پیدا ہورہی ہے.قربانیوں کے معیار بلند ہور ہے ہیں.ستر یا پچہتر سال کے جو انصار ہوتے ہیں ان میں سے بعض کی وصیت تو مرکز منظور کرتا ہے اور بعضوں کی نہیں کرتا.لیکن صف دوم کے جو انصار ہیں ان کو خاص طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہئے.پھر اسی طرح دوسری مالی تحریکات ہیں ان کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے.اپنے نام کو دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے مددگار اور ناصر بننے کا اعلان کر رہے ہیں، پھر اپنی قربانیوں کو دیکھیں، خود اپنے جائزے لیں اور پھر اپنے دل سے فتویٰ لیں کہ کیا ہم انصار اللہ ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں.جب خود اپنی سوچ کو اس نہج پر لائیں گے تو مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہر ایک کے اندر پاک تبدیلیوں کے اور قربانیوں کے معیار بڑھتے چلے جائیں گے اور جب یہ بڑھیں گے تو یہی چیز ہے جو من حیث الجماعت، جماعت کی بقا اور ترقی کے سامان کرتی ہے.خلافت سے وابستگی اور اس کے تقاضے ނ پھر انصار اللہ کا ایک اہم کام خلافت سے وابستگی اور اس کے استحکام کی کوشش کرنا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل - جماعت کا ہر فرد اس میں لگا ہوا ہے اور بڑے اعلیٰ نمونے پیش کرتے ہیں.لیکن انصار اللہ کو اس پر نظر رکھنی چاہئے کہ جو معیار حاصل کر رہے ہیں یہ یہیں نہ رک جائیں بلکہ بڑھتے چلے جائیں.اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اور یقیناً یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ خلافت مومنین کے لئے ضروری ہے اور قرآن کریم میں اس کا ذکر بھی فرمایا ہے جیسا کہ فرماتا ہے: وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن؟ صَ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولئِكَ هُمُ
251 سبیل الرشاد جلد چہارم الْفَسِقُونَ ) ( النور : 56) کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے جو ایمان لانے والے ہیں اور نیک عمل کرنے والے ہیں اُن سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اُن کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا یعنی ان میں خلافت کا نظام قائم ہوگا اور مومنین کی جماعت خلیفہ وقت کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی باتوں پر عمل کرنے والی ہو جائے گی.گویا کہ وہ ایک جان بن جائیں گے.جماعت کا اور خلیفہ کا ایک وجود بن جائے گا.افراد جماعت اس کے اعضاء ہو جائیں گے اور خلیفہ وقت اس کے دل و دماغ کا کردار ادا کرے گا اور جب یہ سوچ ہر ایک میں پیدا ہو جائے گی تو سوال ہی نہیں کہ کوئی فرد جماعت اپنے فیصلوں اور اپنے علمی نکتوں اور اپنے عملوں پر اصرار کرے.دنیا نے کبھی یہ واقعہ ہوتے نہیں دیکھا کہ دماغ ہاتھ کو ایک حکم دے اور ہاتھ اس حکم کو رد کرتے ہوئے اپنے طور پر کوئی کام سرانجام دے.پس جو ایمان لانے والے ہیں، نیک اعمال کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ کے احکام ماننے والے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق اس جسم کا عضو بن جاتے ہیں جو دماغ کے تابع ہوتے ہیں.اس جماعت کا حصہ بن جاتے ہیں جو آخری زمانہ میں حضرت مسیح موعود کے ذریعہ سے قائم ہو کر پہلوں سے ملنے والی جماعت ہے.پھر اس کے عملی نمونے دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اس انعام کے حقدار ہو جاتے ہیں جو قیامت تک جاری رہنے والا انعام ہے.انصاراللہ کو ہمیشہ یہ یادرکھنا چاہئے کہ وہ اس انعام سے حقیقی رنگ میں تبھی فیض اٹھائیں گے جب وہ ہر وقت اپنے ذہن میں یہ رکھیں گے کہ بحیثیت انصار اللہ ہم اس جسم کا اہم عضو ہیں اور جسم کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ہر عضو سلامت ہو اور ہم نے اپنا نام اللہ تعالیٰ کا مددگار رکھ کر اپنے آپ کو جماعت کا وہ اہم حصہ بنا لیا ہے جس کے عملی نمونے اور پاک تبدیلیاں دوسری تنظیموں اور افراد جماعت سے بہت بڑھ کر ہونی چاہئیں.ہماری مالی قربانیوں کے معیار بھی دوسروں سے بلند ہوں.ہماری تبلیغی سرگرمیوں کے معیار بھی دوسروں سے بلند ہوں.ہماری عبادتوں کے معیار بھی دوسروں سے بلند ہوں.جب یہ باتیں ہوں گی تو ہم حقیقی انصار اللہ کہلائیں گے.اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود سے وعدہ ہے کہ آپ کی جماعت کو غلبہ عطا فرمائے گا اور ترقیات سے نوازے گا.تبلیغی ترقیات سے نوازے گا.بیشک راہ میں روکیں آئیں گی مگر جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کرتی چلی جائے گی.پس جب اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے اور خلافت کا بھی دائمی وعدہ ہے تو پھر اللہ تعالیٰ خلافت کو اور حضرت مسیح موعود کو دین کے انصار بھی مہیا فرما تا چلا جائے گا.گویا انصار اللہ بھی ایک ہمیشہ قائم رہنے والا ادارہ ہے کیونکہ وہ افراد ہی ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دین کی نصرت کے لئے سامان فرماتا ہے.اگر کوئی فرد دین کی نصرت کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق اور افراد تیار کر دے گا ، اور قو میں تیار کر دے گا اور انصار اللہ کا جو یہ سلسلہ ہے یہ جاری رہے گا اور چلتا چلا جائے گا
252 سبیل الرشاد جلد چہارم اور ہمیشہ جاری رہے گا.پس اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے ، اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھتے ہوئے ہمیشہ یہ کوشش کرتے چلے جانا چاہئے کہ ہر فرد ناصر دین بنار ہے اور اس کا حق ادا کرنے والا ہو.دنیا میں ہم جو جماعتی ترقیات دیکھ رہے ہیں یہ کسی فرد کی یا کسی خاص جماعت کی یا وہاں کے انصار کی مرہون منت نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور جماعت کی من حیث الجماعت ایک کوشش ہے جس میں خدا تعالیٰ برکت ڈال رہا ہے.جس کے پھل آج ہم کھا رہے ہیں اور انشاء اللہ کھاتے چلے جائیں گے.ہمارے بڑوں نے انصار اللہ ہونے کا حق ادا کیا اور بے نفس ہو کر دین کی خاطر قربانیاں کیں.آج یہ ہمارا فرض ہے کہ ایک خاص کوشش اور دعا کے ساتھ ساتھ اپنے پیچھے آنے والوں کے لئے راستے ہموار کرتے چلے جائیں.حضرت مسیح موعود ایک جگہ فرماتے ہیں کہ " میں بار بار اور کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ ظاہری نام میں تو ہماری جماعت اور دوسرے مسلمان دونوں مشترک ہیں تم بھی مسلمان ہو وہ بھی مسلمان کہلاتے ہیں.تم کلمہ گو ہو وہ بھی کلمہ گو کہلاتے ہیں، تم بھی اتباع قرآن کا دعویٰ کرتے ہو وہ بھی اتباع قرآن کے مدعی ہیں.غرض دعووں میں تم اور وہ دونوں برابر ہومگر اللہ تعالیٰ صرف دعووں سے خوش نہیں ہوتا جب تک کوئی حقیقت ساتھ نہ ہو اور دعویٰ کے ثبوت میں کچھ عملی ثبوت اور تبدیلی حالت کی دلیل نہ ہو بیعت کی حقیقت سے پوری واقفیت حاصل کرنی چاہئے اور اس پر کار بند ہونا چاہئے اور بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اندر کچی تبدیلی اور خوف خدا اپنے دل میں پیدا کرے اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی میں ایک پاک نمونہ کر کے دکھاوے.اگر یہ نہیں تو پھر بیعت سے کچھ فائدہ نہیں ".فرماتے ہیں " نصیحت کرنا اور بات پہنچانا ہمارا کام ہے.یوں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس جماعت نے اخلاص اور محبت میں بڑی نمایاں ترقی کی ہے.ہزار ہا انسان ہیں جنہوں نے محبت اور اخلاص میں تو بڑی ترقی کی ہے مگر بعض اوقات پرانی عادات یا بشریت کی کمزوری کی وجہ سے دنیا کے امور میں ایسا وافر حصہ لیتے ہیں کہ پھر دین کی طرف سے غفلت ہو جاتی ہے.ہمارا مطلب یہ ہے کہ بالکل ایسے پاک اور بے لوث ہو جاویں کہ دین کے سامنے امور دنیوی کی حقیقت نہ سمجھیں اور قسم قسم کی غفلتیں جو خدا سے دوری اور مہجوری کا باعث ہوتی ہیں وہ دور ہو جاویں" فرمایا.پس ضروری ہے کہ جو اقرار کیا جاتا ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.اس اقرار کا ہر وقت مطالعہ کرتے رہو اور اس کے مطابق اپنی زندگی کا عملی عمدہ نمونہ پیش کرو.عمر کا اعتبار نہیں.دیکھو ہر سال میں کئی دوست ہم سے جدا ہو جاتے ہیں" (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 605,604) اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی زندگی کو اس نہج پر چلانے والے ہوں.اپنی عبادتوں کے معیار اس حد تک لے جانے والے ہوں جو اللہ اور اس کے رسول ہم سے چاہتے ہیں اور جن کی تلقین
سبیل الرشاد جلد چہارم 253 حضرت مسیح موعود نے فرمائی ہے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.(الفضل انٹرنیشنل 25 دسمبر 2009 ء) اپنے بچوں میں خلافت کی محبت پیدا کریں یہی اسلام کی روح ہے ( مجلس انصاراللہ لائبیریا کے دوسرے سالانہ اجتماع 14-15 نومبر 2009ء کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ کا خصوصی پیغام ) حضورانور نے اپنے پیغام میں انصار اللہ لائبیریا کو تبلیغ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ تمام کامیابیوں کا دارو مدار تقویٰ پر ہے اس لئے جب آپ دوسروں کو تبلیغ کریں تو آپ کی اپنی زندگی دوسروں کے لئے نمونہ ہونی چاہئے.حضور انور نے فرمایا کہ دوسری اہم بات جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ بچوں کی صحیح تربیت ہے.بچہ شروع سے ہی اپنے والدین سے متاثر ہوتا ہے اس لئے اپنے گھروں میں انہیں صحیح احمدی ماحول دیں.اگر تبلیغ کے ذریعہ ہم کچھ لوگوں کو احمدیت کی طرف لے بھی آئیں اور دوسری طرف ہمارے اپنے بچے غیر اسلامی معاشرے سے متاثر ہورہے ہوں تو پھر تمام کوششیں بے فائدہ ہیں.حضور نے فرمایا کہ اپنے بچوں میں خلافت کی محبت پیدا کریں یہی اسلام کی روح ہے.ماضی میں خلافت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسے دوبارہ زندہ کیا گیا ہے اس لئے ہمیں ہر قیمت پر اس کی حفاظت کرنی چاہئے.الفضل انٹر نیشنل 5 تا 11 / مارچ 2010ء) جب میں ایک بات کسی مجلس انصار اللہ کو کہتا ہوں تو وہ سب کے لئے ہوتی ہے اچھی مجالس اخبارات کی رپورٹس سے ہدایات لیتی اور ان پر عمل کرتی ہیں مورخہ 15 دسمبر 2009 ء کو نیشنل مجلس عاملہ انصار الله جرمنی کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میٹنگ ہوئی.حضور انور نے دعا کے بعد باری باری تمام قائدین سے ان کے شعبوں اور کام کا جائزہ لیا اور ساتھ ساتھ ہدایات سے نوازا.
254 سبیل الرشاد جلد چہارم قائد عمومی سےحضورانور نے مجالس کی تعداد، چھوٹی اور بڑی مجالس کی تعداد اور ان میں شامل انصار کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا.حضور انور کی خدمت میں یہ رپورٹ پیش کی گئی کہ انصار کی مجالس کی تعداد 236 ہے.جن میں سے 40 مجالس ایسی ہیں جن کی انصار کی تجنید 20 تک ہے اور جو باقی مجالس ہیں ان کی انصار کی تجنید 20 سے زائد ہے.قائد عمومی نے حضور انور کے دریافت فرمانے پر بتایا کہ وہ روزانہ دس گھنٹے دفتر میں بیٹھتے ہیں اور روزانہ کی ڈاک میں دوصد سے زائد خطوط کا جواب دیا جاتا ہے.حضور انور کے دریافت فرمانے پر قائد عمومی نے بتایا کہ ہم نے سو فیصد مجالس سے ماہانہ رپورٹس حاصل کی ہیں.حضور انور کی خدمت میں رپورٹس کی وصولی کا چارٹ پیش کیا گیا.حضور انور نے یہ چارٹ ملاحظہ فرمانے کے بعد بتایا کہ مئی، جون ، جولائی میں آپ نے سو فیصد رپورٹس حاصل کی ہیں جبکہ بعد کے ماہ میں کچھ کمی آئی ہے.بہر حال آپ کی اچھی رپورٹ ہے.حضور انور نے دریافت فرمایا کہ مجالس سے جور پورٹ آپ کو موصول ہوتی ہیں تو ان رپورٹس پر جواب کون دیتا ہے.قائد صاحب عمومی نے بتایا کہ جملہ قائدین اپنے اپنے شعبہ کی رپورٹ پر جواب دیتے ہیں اور قائدین کے جوابات اور تبصرے صدر مجلس کی نظر سے گزرتے ہیں.صدر مجلس نے بتایا کہ وہ رپورٹس پر قائدین کی راہنمائی کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ یہ جواب دیں اور اس طرح لکھیں.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ قائدین کو خود جواب دینے دیں.خود کام کرنا اتنا اہم نہیں ہے جتنا کام کروانا اہم ہے.قائد تعلیم القرآن و وقف عارضی سے حضور انور نے وقف عارضی کے پروگرام کے بارہ میں دریافت فرمایا.حضور انور کی خدمت میں یہ رپورٹ پیش کی گئی کہ وقف عارضی کے پروگرام پر توجہ نہیں ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ میں نے (اجتماع) مجلس انصار الله یو کے پر اپنے خطاب میں انصار اللہ کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ وقف عارضی میں حصہ لیں اور با قاعدہ پر وگرام بنا کر سکیم بنا کر وقف عارضی کریں.یہ خطاب MTA پر نشر ہو چکا ہے.آپ نے سنا ہے.حضور انور نے فرمایا کہ جب میں ایک بات کسی مجلس انصار اللہ کو کہتا ہوں تو وہ سب کے لئے ہوتی ہے.اچھی مجالس اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس سے ہدایات لیتی ہیں اور ان پر عمل کرتی ہیں.اپنے پروگرام بناتی ہیں اور پھر مجھے لکھتی ہیں کہ فلاں ملک کی مجلس عاملہ انصار اللہ کو جو ہدایات دی تھیں وہ ہم نے لی
سبیل الرشاد جلد چہارم 255 ہیں اور پروگرام بنا کر ان پر عمل کیا ہے.قائد تعلیم نے اپنی رپورٹ دیتے ہوئے بتایا کہ سہ ماہی نصاب دیا جاتا ہے.ایک حدیث بھی دی جاتی ہے.حضور انور نے فرمایا کہ ایک حدیث تین ماہ کے لئے کافی نہیں.ارذل العمر والے کے لئے تو ایک حدیث تین ماہ میں ہو سکتی ہے.جو صف دوم کے ہیں ان کے لئے زیادہ نصاب ہونا چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود کی کوئی چھوٹی کتاب مقرر کر لیں اور وہ ان کو دیں اور پھر اس کا امتحان لیں.صدر مجلس نے بتایا کہ مجالس کو مقالہ ہستی باری تعالیٰ کے عنوان پر دیا ہوا ہے.نیز مختلف عناوین پر صاحب علم لوگوں سے تقاریر تیار کروائی جاتی ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ تقریریں کروا کر سوال و جواب کروائیں پھر فائدہ ہوگا.حضور انور نے فرمایا جو انصار فارغ ہیں ان کو دعوت الی اللہ کے لئے استعمال کریں اور ان سے کام لیں.جو جماعتیں آپ کی Active ہیں وہ آپ کو بے تحاشا لوگوں کی فہرستیں مہیا کر سکتی ہیں.دعوت الی اللہ میں سب کو Active کرنا پڑے گا تب جا کر کام ہو گا.حضور انور کی خدمت میں رپورٹ پیش کی گئی کہ 24 دعوت الی اللہ کی مجالس کروائی گئی ہیں جن میں 684 افراد شامل ہوئے.حضور انور نے دریافت فرمایا کہ ان مجالس سے جو استفادہ کیا اس سے آگے کیا فائدہ اٹھایا.ان لوگوں سے بعد میں رابطہ رکھنا چاہئے - Follow کا سلسلہ ہونا چاہئے.قائد تربیت نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وہ انصار جو مسجد کے نزدیک نہیں رہتے اور اسی طرح وہ انصار جو رابطہ نہیں رکھتے ان کا جائزہ لیا گیا اور کوشش کی گئی.حضور انور نے دریافت فرمایا آپ کے اس جائزے اور کوشش کا کیا نتیجہ نکلا.کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟ قائد تربیت نے بتایا کہ آہستہ آہستہ نتیجہ نکل رہا ہے.حضور انور نے فرمایا کہ تین سال سے آپ کوشش کر رہے ہیں.36 مہینے گزر گئے ہیں.تین سال پہلے کیا حالت تھی.اب کیا حالت ہے؟ قائد صاحب نے بتایا کہ میرے پاس اب ذمہ داری آئی ہے.حضور انور نے فرمایا اب ذمہ داری کا آنا کوئی بہانہ نہیں ہے.اصل میں یہ ہے کہ شعبہ تربیت نے کیا کام کیا ہے.جو بھی سابقہ قائد ہے اس کا فرض ہے کہ اپنے شعبہ کی رپورٹ مکمل کر کے جائے تا کہ آئندہ آنے والا اس کام کو آگے بڑھائے.ہر قائد یہ سوچے کہ میں ایک سال کے لئے قائد ہوں اس نہج پر کام کروں.اس نہج پر چلاؤں کہ آئندہ آنے والا قائد اس سے فائدہ اٹھائے اور آگے کام بڑھا سکے تب ہی فائدہ ہے ورنہ نیا آنے والا پھر صفر سے کام شروع کرتا ہے.قائد ایثار نے اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ نئے سال کے شروع میں جو وقار عمل ہوتا ہے اس میں ہم شامل ہوتے ہیں.پھر بوڑھے لوگوں کے ہوسٹلز میں بھی وزٹ کیا جاتا ہے اور اسی طرح
256 سبیل الرشاد جلد چہارم مختلف شہروں میں پودے لگائے جاتے ہیں.ہم نے سات شہروں میں شجر کاری کی ہے.حضور انور نے فرمایا یہاں ایک پودا لگائیں تو بہت سراہا جاتا ہے.اس لئے اگر پچاس، سولگا ئیں گے تو شور پڑ جائے گا.حضور انور نے فرمایا آپ ان کو کہیں کہ ہمیں کوئی گلی دو ہم آپ کو پچاس، سو پودے لگا دیں گے.جنگل میں خاص ایر یا ہوتا ہے وہ لیا جاسکتا ہے یا پارک وغیرہ کا کوئی حصہ لے لیں کہ ہم یہاں پودے لگائیں گے اور اس کی دیکھ بھال کریں گے.اس سے آپ کا بہت زیادہ تعارف بڑھ سکتا ہے اور آپ کو ہر طرف سراہا جائے گا اور حکام سے رابطے اور تعلق بڑھیں گے.حضور انور کو بتایا گیا کہ دوصد یورو کا ایک پودا ملتا ہے.حضور انور نے فرمایا پودے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں اور مختلف اقسام کے ہوتے ہیں اس لئے مختلف قیمتوں میں ملتے ہیں اور بعض بہت ستے بھی مل جاتے ہیں.حضورانور نے فرمایا آپ اپنے گھروں کے سامنے بھی پودے لگا سکتے ہیں.حضورا نور نے صدر مجلس سے فرمایا کہ آپ کے اجتماع پر چالیس ہزار یورو خرچ ہوتا ہے.رقم بچ جاتی ہے اس میں سے دس ہزار شعبہ ایثار کو دے دیں پودے لگانے کے لئے.بعض جگہ خاص پودے لگتے ہیں اور بعض جگہ اپنی مرضی سے لگاتے ہیں.اس میں ستے بھی ہیں اور مہنگے بھی ہیں.گھروں کے سامنے لگ سکتے ہیں.مسجد کے سامنے لگ سکتے ہیں.Greenery ہو جائے گی.حضور انور نے فرمایا ہر جگہ مجلس ایسے کام کر رہی ہو جہاں پروجیکشن مل رہی ہو.ہمسایہ کی طرف سے بھی اور پھر علاقہ میں بھی تو پھر حق میں آواز بلند ہوتی ہے.جس طرح کہ آج جامعہ (جرمنی) کے سنگ بنیاد کے موقع پر ہوا.میئر نے بھی اور دوسرے مہمان نے بھی کھلے دل کے ساتھ آپ کے حق میں اظہار کیا.حضور انور نے فرمایا اس لئے پوری ریسرچ کریں اور جائزہ لیں کہ ہم کس طرح کے پودے لگا سکتے ہیں.گلوبل وارمنگ (Global Warming) کا آجکل بڑا شور ہے.اگر آپ اس طرح کے کام کر رہے ہوں گے تو کوئی پتہ نہیں کہ کسی وقت حکومت آپ کی مدد کرنی شروع کر دے.حضور انور نے فرمایا نئے راستے نکالنا اصل کام ہے.صرف جوانوں کے جوان کا خطاب لے لینا اصل کام نہیں ہے..قائد دعوت الی اللہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا کہ آپ نے دعوت الی اللہ کا ٹارگٹ کیا رکھا ہے.جس پر موصوف نے بتایا کہ مشرقی جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.ایک حصہ خدام کو اور ایک حصہ انصار کو دیا ہے.حضور انور نے دریافت فرمایا وہاں کے لوگوں کو دین حق سے دلچسپی ہے کہ نہیں، انہوں نے چالیس سال بھوکے رہ کر گزارے ہیں.اب ان کو کھانے پینے ، دولت اور عیاشی سے غرض ہے.حضور انور نے فرمایا شہروں سے باہر نکلیں اور چھوٹی جگہوں پر رابطے کریں، کونسل سے رابطے کریں، گھروں سے رابطے کریں.سیمینار منعقد کریں ، انٹر فیتھ کا نفرنس کا انعقاد کریں اور ایسے عناوین لئے جائیں کہ لوگوں میں دلچسپی پیدا ہو.مثلاً خدا تعالیٰ کا وجود، دین حق امن و سلامتی کا مذہب ہے.تیسری جنگ عظیم سے کس
سبیل الرشاد جلد چہارم 257 طرح بیچا جا سکتا ہے.حضور انور نے فرمایا یہ کہنا غلط ہے کہ جرمنی میں دلچسپی نہیں ہے.بڑے شہروں میں کم ہوگی لیکن چھوٹی آبادیوں اور دیہاتوں میں آپ کو لوگ ملیں گے آہستہ آہستہ تعارف حاصل ہوگا.بڑے شہروں میں تو دنیا داری ہے.یہ لوگ اپنے سیاسی رابطے رکھیں گے یا پھر علم رکھنے کی وجہ سے بعض معلومات کے حصول کے لئے رابطہ رکھیں گے کہ کیا ہورہا ہے.جو لوگ شہر سے باہر ہیں ان پر بیشک میڈیا کا اثر ہوتا ہے لیکن شہر کے ہلے گلے کا اثر نہیں ہوتا.حضور انور نے فرمایا کہ شہروں میں سیمینار کرنا (Seminar) بک سٹال لگانا اور نمائشوں کا انعقاد کرنا یہ پرانے طریقے تو ہیں لیکن اب اپنی روایات کے اندر رہتے ہوئے نئے طریق بھی اختیار کریں.پرانے طریقے بھی ساتھ ساتھ رکھیں لیکن اپنی روایات کے مطابق نئے راستے بھی اختیار کریں.یہ نہیں کہ آؤ تمہیں ڈانس دکھا ئیں گے پھر دعوت الی اللہ کریں گے.مذہب وہ سکھانا ہے جو ہماری حقیقت ہے جو ہماری روایات کے مطابق ہے.قائد مال نے بتایا کہ سال 2008ء میں سو فیصد سے زائد وصولی کی توفیق پائی.حضور انور نے فرمایا یہ نہیں کہہ سکتے کہ سو فیصد وصولی کر لی ہے.یہ ممکن نہیں ہے نہ کہہ سکتے ہیں کہ بجٹ کے مطابق وصولی کر لی ہے.اس بجٹ میں کئی انصار ایسے ہوں گے جو ابھی شامل نہیں ہوں گے اور کئی ایسے ہوں گے جنہوں نے چندہ کم دیا ہوگا اور کئی ایسے ہوں گے جنہوں نے زیادہ دیا ہوگا.کئی آپ کے زیر اثر ہوں گے انہوں نے آپ کے مانگنے پر زیادہ دے دیا ہوگا.اس طرح سو فیصد وصولی کر لی ہوگی.حضور انور نے بجٹ کے بارہ میں دریافت فرمایا.قائد مال نے بتایا کہ انصار کی تجنید 3437 ہے.بجٹ چار لاکھ 28 ہزار یورو ہے.گزشتہ سال چندہ مجلس تین لاکھ 61 ہزار یورو تھا.امسال اضافہ کے ساتھ تین لاکھ 74 ہزار ہے.قائد صحت جسمانی نے بتایا کہ اجتماع کی ایک رپورٹ کھیلوں وغیرہ کی ایک صوبے کے اخباروں میں شائع ہوئی ہے.اس بارہ میں مزید کام کر رہے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر قائد نومبائعین نے بتایا کہ گزشتہ سال پانچ مختلف اقوام کے 14 انصار نو مبائعین تھے جبکہ امسال تین مزید آئے ہیں.دو پاکستان سے ایک جرمنی کا ہے.ان سب سے رابطہ مجالس کے ذریعہ اور فون کے ذریعہ رکھا جاتا ہے.نماز اور دوسراسلیپس زعماء کو دیا ہوا ہے کہ اس کے مطابق ان نو مبائعین کی تیاری کروائیں.مختلف اقوام کے 63 انصار ہیں ان کو بھی یہ سلیپس (Syllabus) بھجوا دیا جاتا ہے تا کہ وہ بھی استفادہ کر لیں.ہم ان کو اجتماعات میں شامل کرتے ہیں، ان کے مقابلہ جات ہوتے ہیں، ان کے سلیبس کے مطابق مقابلہ جات ہوتے ہیں.قائد اشاعت سے حضور انور نے فرمایا کیا مجلس کا کوئی اپنا رسالہ ہے تو قائد اشاعت نے بتایا کہ گزشتہ سال ہم
سبیل الرشاد جلد چہارم 258 نے سیدنا مسرور نمبر نکالا تھا.اب بھی ایک بلیٹن نکالنا تھا لیکن اس میں کچھ اصلاح ہونے والی تھی.صدر صاحب مجلس نے روکا ہوا ہے.حضور انور نے فرمایا کیا اشاعت کی ٹیم نہیں ہے جو معیار دیکھے.اپنی ایک ٹیم بنا ئیں اور اس میں پڑھے لکھے لوگ شامل کریں.قائد تحریک جدید نے بتایا کہ ہم جماعت جرمنی کے تحریک جدید کے چندہ کا 1/4 حصہ جمع کرتے ہیں.ہمیں یہ ہدایت ہے کہ چوتھا حصہ مجلس انصاراللہ دیا کرے.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے کوئی اصول نہیں بتایا تھا.قائد تحریک جدید نے بتایا کہ گزشتہ سال انصار اللہ جرمنی کی طرف سے وعدہ دو لاکھ دس ہزار یورو تھا.اس کے بالمقابل ہمیں دولاکھ 63 ہزار 928 یورو جمع کرنے کی توفیق ملی تھی.قائد تجنید سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ کیا آپ کی تجنید میں تمام انصار شامل ہیں.موصوف نے بتایا ہماری تجنید ابھی تسلی بخش نہیں ہے.حضور انور نے فرمایا تو آپ تسلی بخش بنا ئیں اور مجالس سے رپورٹ لیا کریں.Follow Up کرتے رہیں.زعیم مجلس کا کام ہے کہ جب کوئی ناصر منتقل ہو تو اس کی اطلاع کرے.معاون صدر برائے سو مساجد نے بتایا کہ ہم اپنے وعدے بڑھا رہے ہیں.امسال ہمارا وعدہ پانچ لاکھ 71 ہزار یورو کا ہے.(ماہنامہ انصار اللہ فروری 2010ءصفحہ 11 تا 15 )
259 $ 2010 کے ارشادات و فرمودات سبیل الرشاد جلد چہارم ، ہشتم
سبیل الرشاد جلد چہارم 260 بدرسومات سے متعلق ہدایات کی پابندی کروائیں غیبت اور بدظنی سے بچنے کی عہدیداران اور نظام جماعت کو تلقین تمام ذیلی تنظیمیں اور جماعتی نظام کو روحانی خزائن سے فیض اٹھانے کے پروگرام بنانے چاہئیں ایک عام احمدی اور عہدیدار میں فرق تبلیغ کا پروگرام جماعتی و ذیلی تنظیموں کی سطح پر بنے کھیر ذیلی تنظیموں کا ہر عہدیدار ، فرد جماعت کی حیثیت سے جماعتی نظام کا پابند ہے ذیلی تنظیمیں نو جوانوں کو جماعتی نظام سے اس طرح جوڑیں کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھ • تربیت کے سلسلہ میں جماعتی و ذیلی تنظیموں کو فعال پروگرام بنانے کی ضرورت ہے انصار اللہ نے اپنی اصلاح کے ساتھ اپنی بیوی بچوں کی بھی اصلاح کرنی ہے پاکستان میں ذیلی تنظیموں کے اجتماعات میں رکاوٹ جماعتی ترقی صرف اپنے بچوں کی تربیت سے وابستہ نہیں ہے انصار اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر صحابہ کا دلچسپ اور دلنشین انداز میں تذکرہ آپ کی ہر حرکت وسکون خلیفہ کے تابع ہونی چاہئے شہدائے لاہور نے حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب جیسی روح کا مظاہرہ کرتے ہوئے استقامت کی لازوال تاریخ رقم فرمائی
سبیل الرشاد جلد چہارم 261 بدرسومات سے متعلق ہدایات کی پابندی کروائیں حضور انور ایدہ اللہ کا صدر مجلس انصار اللہ پاکستان کے نام خط حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خط 22 جنوری 2010 ء صدر مجلس انصار اللہ پاکستان کو مخاطب ہوکر تحریر فرمایا." میں نے شادی بیاہ کی رسموں کے بارہ میں اپنے 15 جنوری 2010 ء کے خطبہ جمعہ میں جن امور کا ذکر کیا تھا ان کی پابندی کروائیں.مہندی کی رسمیں گھر کی چار دیواری میں سہیلیوں کی حد تک کرنے کی جوا جازت میں نے دی ہے اس میں ہر جگہ یہ مد نظر رہے کہ آواز میں اتنی زیادہ اونچی نہ ہوں کہ گھر سے باہر نکلیں.مجھے پتہ چلا ہے کہ آجکل ڈیک بھی اس کے لئے استعمال ہوتے ہیں.شادی بیاہ کے گیتوں وغیرہ کے لئے کوئی ساؤنڈ سسٹم استعمال نہیں ہونا چاہئے.گھر سے آواز باہر نہیں نکلنی چاہئے.اسی طرح روشنیوں کا بلا وجہ استعمال نہیں ہونا چاہئے.بعض دوسری بد رسوم جیسے دودھ پلانا اور جوتی چھپانا وغیرہ جو ہیں یہ بھی سب ختم کروائیں اور ہر فرد جماعت کو اس بارہ میں متنبہ کردیں کہ آئندہ اگر مجھے کسی کی بھی ان رسموں کے بارہ میں کوئی شکایت آئی تو اس کے خلاف تعزیری کارروائی ہوگی.جماعتی عہدیداران بھی میری ان ہدایات کے ذمہ دار ہیں.اگر کہیں کوئی ایسی شادی ہو تو ان کی پابندی کروائیں ورنہ وہاں سے اُٹھ کے آجائیں.پہلے شوری میں بھی ان امور پر غور وفکر کے بعد سفارشات آتی رہی ہیں لیکن اب ان سب باتوں کی بلا تفریق پوری طرح سے پابندی ضروری ہے اور یہ کام ذیلی تنظیموں کا بھی ہے اور جماعتی نظام کا بھی کہ ہر حال میں بدعات اور بدرسومات سے بچنے کے لئے جماعتی روایات اور ہدایات کی مکمل پابندی کروائیں.اللہ توفیق دے آمین (ماہنامہ انصار اللہ اپریل 2010ء) غیبت اور بدظنی سے بچنے کی عہد یداران اور نظام جماعت کو تلقین حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 5 فروری 2010 ء کے خطبہ جمعہ میں عہد یداران اور نظام جماعت کو غیبت سے بچنے کی یوں تلقین فرمائی." پھر غیبت ایک گناہ ہے جس سے اصلاح کی بجائے معاشرے میں بدامنی کے سامان ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس گندے فعل سے کراہت دلاتے ہوئے فرمایا کہ تم تو آرام سے غیبت کر لیتے ہو.یہ
262 سبیل الرشاد جلد چهارم سمجھتے ہو کہ کوئی بات نہیں ، بات کرنی ہے کر لی.زبان کا مزا لینا ہے لے لیا.یا کسی کے خلاف زہر اگلنا ہے اگل دیا.لیکن یاد رکھو یہ ایسا مکروہ فعل ہے ایسی مکروہ چیز ہے جیسے تم نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھالیا.اور کون ہے جو اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے کراہت نہ کرے.غیبت یہی ہے کہ کسی کی برائی اس کے پیچھے بیان کی جائے.پس اگر اس شخص کی اصلاح چاہتے ہو جس کے بارہ میں تمہیں کوئی شکایت ہے تو علیحدگی میں اسے سمجھاؤ تا کہ وہ اپنی اصلاح کرلے اور پھر بھی اگر نہ سمجھے تو پھر اصلاح کے لئے متعلقہ عہد یدار ہیں، نظام جماعت ہے، امیر جماعت ہے اور اگر کسی وجہ سے کوئی مصلحت آڑے آ رہی ہے یا تسلی نہیں ہے تو مجھ تک پیغام پہنچایا جاسکتا ہے.بعض لوگ مجھے شکایت کرتے ہیں لیکن ان شکایتوں سے صاف لگ رہا ہوتا ہے کہ اصلاح کی بجائے اپنے دل کا غبار نکال رہے ہیں اور پھر اکثر یہی ہوتا ہے کہ شکایت کرنے والے اپنا نام نہیں لکھتے صرف ایک احمدی یا ایک ہمدردلکھ دیتے ہیں نیچے یا پھر ایسا نام اور پتہ لکھتے ہیں جس کا وجود ہی نہیں ہوتا جو بالکل غلط ہوتا ہے.ایسے لوگ سوائے میرے دل میں کسی کے خلاف گرہ پیدا کرنے کی کوشش کے اور کچھ نہیں کر رہے ہوتے.اور اس میں بھی وہ کامیاب نہیں ہوتے.کیونکہ نام چھپانے سے ایک تو صاف پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ کوئی ہمدرد نہیں ہے بلکہ صرف کسی دوسرے کو بدنام کرنا چاہتے ہیں.عموماً تو ایسے خطوں پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور میرا کام تو ویسے بھی یہ ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پہلے تحقیق کرواؤں، پتہ کروں اور جس کا نام پتہ ہی نہیں اس کی تحقیق بھی نہیں ہوسکتی.لیکن اگر کسی کو سزا ہو بھی تو میرے دل میں اس کے خلاف نفرت کبھی نہیں پیدا ہوئی ، نہ کوئی گرہ پیدا ہوتی ہے بلکہ دکھ ہوتا ہے کہ ایک احمدی کو کسی بھی وجہ سے سزا ہوئی ہے.بہر حال ایک احمدی کو ہمیشہ یہ یا درکھنا چاہئے کہ للہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاتَّقُوا اللَّهَ کہ تقویٰ اختیار کرو.إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِیم کہ اللہ تعالیٰ تو بہ قبول کرنے والا ہے اور بار بار رحم کرنے والا ہے.جن کو اس قسم کی بدظنیوں کی یا تجس کی یا غیبت کی عادت ہے اپنے دلوں کو ٹو لیں اور اللہ تعالیٰ کا خوف کریں.اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی چاہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احساس ندامت لے کر میرے پاس آؤ گے تو میں تمہاری توبہ قبول کروں گا اور تمہارے ساتھ رحم کا سلوک کروں گا" خطبات مسر در جلد 8 صفحہ 74-75) تمام ذیلی تنظیمیں اور جماعتی نظام کو روحانی خزائن سے فیض اٹھانے کے پروگرام بنانے چاہئیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 19 مارچ 2010ء کو خطبہ جمعہ میں روحانی خزائن سے فیض اٹھانے کی ذیلی تنظیموں کو یوں تلقین فرمائی.
263 سبیل الرشاد جلد چہارم یہ روحانی خزانہ ہے جسے ایک طرف تو وہ بد قسمت لوگ ہیں جو اسے لینے سے انکار کر رہے ہیں اور دوسری طرف سچائی کے بھوکے اور پیاسے ہیں جو اس سے سیر ہورہے ہیں اور ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روحانی علوم و معارف کا وہ خزانہ ہمیں دے دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب سے نواز نے والا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں بھرنے والا ہے اور تمام ادیان پر اسلام کی سچائی ثابت کر کے دکھلانے والا ہے.پس ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اس علمی اور روحانی خزانے سے اپنی جھولیاں بھریں اور کامیاب اور بامراد ہوں.اردو پڑھنے اور سمجھنے والے تو آپ کے اس روحانی خزانے کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کر رہے ہیں اور کرنی چاہئے.میں پہلے بھی اس طرف توجہ دلا چکا ہوں کہ تمام ذیلی تنظیمیں بھی اور جماعتی نظام بھی اس بات کا خاص اہتمام کریں.اور اردو نہ جاننے والے آپ کا کلام جو دوسری زبانوں میں جس حد تک میسر ہے اس سے فیض اٹھانے کی کوشش کریں.تراجم کا کام بھی ہو رہا ہے.انگریزی زبان میں زیادہ اور دوسری زبانوں میں ذرا کم یا کچھ حد تک اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس روحانی خزانے کو جلد از جلد دنیا تک مختلف زبانوں میں پہنچانے والے ہم بن سکیں" (خطبات مسرور جلد 8 صفحہ 134 ) ایک عام احمدی اور عہدیدار میں فرق حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 19 مارچ 2010ء کے خطبہ جمعہ کے اخیر میں فرمایا.اسی طرح ایک اور بات کی طرف بھی اس حوالے سے توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ایک عام احمدی اور ایک عہدیدار میں بھی جو فرق ہے وہ عہدیداروں کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے اور نمازوں کے قیام کے لئے بھی اور دوسری نیکیاں بجالانے کی طرف بھی اپنے نمونے قائم کریں.تبھی ایک عام احمدی جو ہے اس کی بھی اس طرف توجہ ہوگی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا فرمائے" خطبات مسرور جلد 8 صفحہ (143) تبلیغ کا پروگرام جماعتی و ذیلی تنظیموں کی سطح پر بنے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 9 اپریل 2010ء کو مسجد بشارت سپین میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے سپین میں تبلیغی کاوشوں کا ذکر فرما کر اس میدان میں مزید آگے بڑھنے کی طرف توجہ دلائی.حضور نے اس خطبہ میں ایک رہنما اصول بھی بیان فرمایا.جس کی دنیا بھر کی ذیلی تنظیمیں مخاطب ہیں.آپ فرماتے ہیں.
264 سبیل الرشاد جلد چہارم ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے ملک کے حالات کے مطابق یہاں تبلیغ کے نئے نئے راستے تلاش کریں.مربیان کے ہفتہ میں ایک دن یا سال میں چند دنوں کے تبلیغی پروگرام بنانے سے پیغام نہیں پہنچ سکتا.وسیع اور باہمت منصو بہ بندی کی ضروری ہے.ٹارگٹ مقرر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ایک سال میں آبادی کے کم از کم ایک یا دو فیصد تک احمدیت کا تعارف پہنچانا ہے.جن ملکوں میں اس نہج پر کوشش ہو رہی ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے کامیاب نتائج نکل رہے ہیں.اور اس کے لئے جیسا کہ میں نے کہا ہے مربیان بھی اور جماعتی نظام بھی اور تمام ذیلی تنظیمیں بھی یہ سارے نظام ساتھ ساتھ چلیں.اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ذمہ بھی یہی کام لگایا تھا.یہی کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ بھی لگایا گیا.اور یہی کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذمہ لگایا گیا کہ تمہارا کام پیغام پہنچانا ہے" (خطبات مسر و ر جلد 8 صفحہ 174-175 ) ذیلی تنظیموں کا ہر عہدیدار، فرد جماعت کی حیثیت سے جماعتی نظام کا پابند ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالٰی نے 16 اپریل 2010 ء کے خطبہ جمعہ کے اخیر میں ذیلی تنظیموں کے عہد یداران سے مخاطب ہوکر فرمایا." تقوی کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ہر فر د جماعت اپنے عہدیدار کے ساتھ مکمل تعاون اور اطاعت کا جذبہ رکھنے والا ہو.اور ہر عہدیدار اپنے سے بالا عہدے دار کا احترام ، تعاون اور اطاعت کے معیاروں کو حاصل کرنے والا ہو.ذیلی تنظیمیں اپنے دائرے میں بے شک آزاد ہیں اور خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں.لیکن جماعتی نظام کے تحت ذیلی تنظیموں کا ہر عہدیدار بھی فرد جماعت کی حیثیت سے جماعتی نظام کا پابند ہے اور اس کے لئے اطاعت لازمی ہے.پس اس طرف بھی خاص توجہ دیں.اگر جماعتی ترقی دیکھنی ہے، اگر اپنی تبلیغی کوششوں کے پھل دیکھنے ہیں؟ اگر اپنے تربیتی معیاروں کو بلند کرنا ہے؟ تو ہر جگہ یکجان ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے.پس تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے زندگی بسر کریں.اختلافات کی صورت میں بھی دعا سے کام لیں.زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اگر کسی سے بہت بڑا اختلاف کوئی ایسا ہوا ہے جس سے کسی کی نظر میں جماعت کا نظام متاثر ہو سکتا ہے یا جماعت کے لئے کسی طرح بھی وہ نقصان کا باعث ہے تو میرے علم میں وہ بات لے آئیں لیکن اطاعت میں فرق نہیں آنا چاہئے.ہر لیول (Level) پر اطاعت ہوگی تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں پر شکر گزاری کا ذریعہ بنے گی.اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اور خاص طور پر عہدیداران کو اپنے اعلیٰ نمونے قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ نئے آنے والوں کے لئے وہ مثال ہوں نہ کہ کسی قسم کا ٹھوکر کا باعث بنیں.مردوں اور عورتوں کی یہ مشترکہ
265 سبیل الرشاد جلد چہارم ذمہ داری ہے کہ جہاں وہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے اور تقویٰ پر چلنے کی طرف توجہ دیں وہاں اپنے بچوں کی بھی ایسے رنگ میں تربیت کریں کہ وہ بڑے ہو کر اسلامی تعلیم کے صحیح نمونے بنیں بلکہ بچپن سے ہی ان سے اسلامی تعلیمات کا اظہار ہوتا ہو.ایک احمدی بچے اور ایک غیر مسلم یا غیر احمدی بچے میں فرق ظاہر ہوتا ہو.اور پھر یہ بچے ،نئی نسل احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے میں بھر پور کوشش کرنے والے بنیں تا کہ اس ملک میں بھی احمدیت کا پیغام ہمیشہ پھیلتا چلا جائے" خطبات مسرور جلد 8 صفحہ 187 ) ذیلی تنظیمیں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو جماعتی نظام سے اس طرح جوڑیں کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں ذیلی تنظیمیں نو جوان نسل کو بُرائیوں سے بچانے کے لئے پروگرام بنانے کا لائحہ عمل بنا ئیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 23 اپریل 2010ء کو خطبہ جمعہ میں نوجوان نسل کو سنگین قسم کی برائیوں سے بچانے کے لئے ایک لائحہ عمل تشکیل دینے کی طرف یوں توجہ دلائی." حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک احمدی سے توقع رکھی ہے کہ ہر قسم کے جھوٹ ، زنا، بد نظری، لڑائی جھگڑا، ظلم ، خیانت، فساد، بغاوت سے ہر صورت میں بچنا ہے.ہر وقت اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ میں ان برائیوں سے بیچ رہا ہوں ؟ بعض لوگ ان باتوں کو چھوٹی اور معمولی چیز سمجھتے ہیں.اپنے کاروبار میں، اپنے معاملات میں جھوٹ بول جاتے ہیں.ان کے نزدیک جھوٹ بھی معمولی چیز ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی شرک کے برابر ٹھہرایا ہے.زنا ہے، بدنظری وغیرہ ہے.یہ برائیاں آج کل میڈیا کی وجہ سے عام ہوگئی ہیں.گھروں میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ یا انٹرنیٹ کے ذریعہ سے ایسی ایسی بیہودہ اور لچر فلمیں اور پروگرام وغیرہ دکھائے جاتے ہیں جو انسان کو برائیوں میں دھکیل دیتے ہیں.خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں بعض احمدی گھرانوں میں بھی اس برائی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.پہلے تو روشن خیالی کے نام پر ان فلموں کو دیکھا جاتا ہے.پھر بعض بد قسمت گھر عملاً ان برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.تو یہ جو زنا ہے یہ دماغ کا اور آنکھ کا زنا بھی ہوتا ہے اور پھر یہی زنا بڑھتے بڑھتے حقیقی برائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے.ماں باپ شروع میں احتیاط نہیں کرتے اور جب پانی سر سے اونچا ہو جاتا ہے تو پھر افسوس کرتے اور روتے ہیں کہ ہماری نسل بگڑ گئی ، ہماری اولادیں برباد ہوگئی ہیں.اس لئے چاہئے کہ پہلے نظر رکھیں.بیہودہ پروگراموں کے دوران بچوں کو ٹی وی کے سامنے نہ بیٹھنے دیں اور انٹرنیٹ پر بھی نظر رکھیں.بعض ماں باپ زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں.جماعتی
266 سبیل الرشاد جلد چہارم نظام کا کام ہے کہ ان کو اس بارے میں آگاہ کریں.اسی طرح انصار اللہ ہے، لجنہ ہے، خدام الاحمدیہ ہے یہ تنظیمیں اپنی اپنی تنظیموں کے ماتحت بھی ان برائیوں سے بچنے کے پروگرام بنا ئیں.نوجوان لڑکوں لڑکیوں کو جماعتی نظام سے اس طرح جوڑیں، اپنی تنظیموں کے ساتھ اس طرح جوڑیں کہ دین ان کو ہمیشہ مقدم رہے اور اس بارے میں ماں باپ کو بھی جماعتی نظام سے یا ذیلی تنظیموں سے بھر پور تعاون کرنا چاہئے.اگر ماں باپ کسی قسم کی کمزوری دکھا ئیں گے تو اپنے بچوں کی ہلاکت کا سامان کر رہے ہوں گے.خاص طور پر گھر کے جو نگران ہیں یعنی مردان کا سب سے زیادہ یہ فرض ہے اور ذمہ داری ہے کہ اپنی اولادوں کو اس آگ میں گرنے سے بچائیں جس آگ کے عذاب سے خدا تعالیٰ نے آپ کو یا آپ کے بڑوں کو بچایا ہے اور اپنے فضل سے زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے.دنیا خاص طور پر دوسرے مسلمان شدید بے چینی میں مبتلا ہیں کہ ان کو کوئی ایسی لیڈرشپ ملے جو ان کی رہنمائی کرے.لیکن آپ پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا ہوا ہے کہ زمانے کے امام کی بیعت میں آکر رہنمائی مل رہی ہے.خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے سے نیکیوں پر قائم رہنے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ کے یہ سب فضل تقاضا کرتے ہیں کہ توجہ دلانے پر ہر برائی سے بچنے کا عہد کرتے ہوئے لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھیں.نیکیوں پر خود بھی قدم ماریں اور اولاد کو بھی اس پر چلنے کی تلقین کریں اور اس کے لئے کوشش کریں.خدا تعالیٰ کے اس ارشاد اور انذار کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم: 7) اے مومنو! اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولا دکو بھی آگ سے بچاؤ" (خطبات مسر و رجلد 8 صفحہ 193-194 ) تربیت کے سلسلہ میں جماعتی و ذیلی تنظیموں کو فعال پروگرام بنانے کی ضرورت ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 23 اپریل 2010ء کے خطبہ جمعہ کے اخیر میں فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہمارے سے یہ توقعات ہیں.اگر ہم حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق جوڑنا چاہتے ہیں تو ہمیں آپ کی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے.حقیقی متبع بننے کے لئے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے.بوڑھوں ، عورتوں، نو جوانوں کو اپنے جائزے لینے ہوں گے.والدین کو اپنے گھروں کی نگرانی کرنی ہوگی.بچوں کے اٹھنے بیٹھنے اور نقل و حرکت پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.پیار سے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے آگاہ کریں.یہ ماؤں کا بھی کام ہے، باپوں کا بھی کام ہے.ایک احمدی مسلمان اور ایک غیر احمدی مسلمان
سبیل الرشاد جلد چہارم 267 کے فرق کو واضح کرنے کی ضرورت ہے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کیا فرق ہے.اگر ہمارے اندر کوئی واضح فرق نظر نہیں آتا.علاوہ ایک نظام کے ہمارے عمل میں بھی ایک واضح فرق ہونا چاہئے.اسی طرح جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعتی نظام اور تمام ذیلی تنظیموں کو اپنے دائرے میں فعال تربیتی پروگرام بنانے کی ضرورت ہے.اگر صرف دولت کمانے اور دنیاوی آسائشوں اور چمک دمک کے حصول میں زندگیاں گزار دیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکر گزاری ہے.جن میں سے سب سے بڑی نعمت جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے وہ حضرت مسیح موعود کو قبول کرنا ہے، ان کی بیعت میں آنا ہے.لیتا رہے" اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو حقیقی احمدی بننے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے حصہ خطبات مسرور جلد 8 صفحہ 198-199 ) انصار اللہ نے اپنی اصلاح کے ساتھ اپنی بیوی بچوں کی بھی اصلاح کرنی ہے دورہ آئر لینڈ کے دوران 19 ستمبر 2010 ء کو اراکین نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ آئر لینڈ کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میٹنگ ہوئی.جس میں حضور انور نے صدر صاحب انصار اللہ کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ صف دوم کے نائب صدر انصار اللہ کا بھی تقرر کریں.قائد تعلیم وتربیت نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ نماز فجر اور نماز عشاء کے بعد درس کا سلسلہ شروع کیا ہے لیکن اس میں حاضری کم ہوتی ہے.حضورانور نے فرمایا: انصار کوتوجہ دلائیں کہ اس میں شامل ہونے کی کوشش کریں.توجہ دلا کر دیکھا کریں کہ نتیجہ نکل رہا ہے یا نہیں.حضور انور نے فرمایا: انصار اگر اپنی نمازوں پر حاضری ٹھیک کر لیں تو بچوں اور خدام کی حاضری خود بخود ٹھیک ہو جائے گی.انصار اپنے نوجوان بچوں اور چھوٹے بچوں کو بھی ساتھ لے کر آئیں.جو آپ کے صدر صاحب اپنے بچوں کو نمازوں پر لاتے ہیں تو یہی رویہ ہر ناصر کا ہونا چاہئے.نماز عشاء پر انصار کی سو فیصد حاضری ہونی چاہئے.انصار اللہ نے اپنی اصلاح کے ساتھ اپنی بیوی بچوں کی بھی اصلاح کرنی ہے.حضور انور نے فرمایا: اپنا دینی علم خود بڑھائیں.جو نماز سینٹر سے دور رہتے ہیں تو وہ اپنے گھروں میں با جماعت نماز اور درس کا انتظام کریں.آپ سب گھروں میں مستعد ہو جائیں تو تربیت کا کام بھی ہو سکتا ہے.ہو
سبیل الرشاد جلد چہارم 268 اس لئے اس طرف بہت توجہ دیں.قائد مال نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ انصار اللہ کا بجٹ 114, 7 یورو ہے.اور 480 یورو اجتماع ہے.حضور انور نے فرمایا جو مرکزی شیئر ہے وہ علیحدہ جماعت کے پاس رکھوا دیا کریں.اس پر آپ کا حق نہیں ہے.باقی جو سال کے اختتام پر بچتا ہے وہ ریز رو میں چلا جاتا ہے.ریزرو میں چلے جانے کے بعد انصار اللہ آئر لینڈ کی ہی رقم ہوگی لیکن اس پر آپ کو مرکز کی منظوری کے بغیر خرچ کرنے کا اختیار نہیں ہے.قائد مال نے بتایا کہ کمانے والوں سے ایک فیصد چندہ لیتے ہیں.جن کو سوشل ملتی ہے وہ بھی ایک فیصد چندہ ادا کرتے ہیں.جو اسا سکم سیکرز ہیں وہ دس یور و سالانہ ادا کرتے ہیں.حضور انور کی خدمت میں ایک عہدیدار نے عرض کیا کہ میں ایک گاؤں میں رہتا ہوں اور وہاں ہم دو احمدی فیملیز ہیں.میں اپنے گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ نماز ادا کرتا ہوں.دوسرے فیملی کے سربراہ عموماً Job پر ہوتے ہیں.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جس دن اپنے کام پر نہ ہوں تو آجایا کریں اور آپ لوگ اکٹھے نماز پڑھ لیا کریں.حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ انصار اللہ کی رپورٹ ہر ماہ با قاعدگی سے آنی چاہئے.جس ماہ کوئی میٹنگ وغیرہ نہ ہوئی ہو تو رپورٹ میں لکھ دیا کریں کہ اس ماہ کوئی میٹنگ نہیں ہوئی.لیکن رپورٹ بھیجوانے میں با قاعدگی ہونی چاہئے.قائد اشاعت اور قائد تبلیغ کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ Leaflets کی تقسیم کے لئے بھر پور طریق سے کارروائی ہونی چاہئیے.ابھی صرف دو ہزار تقسیم ہوئے ہیں.اس میں جو سال کے اندراج کی غلطی ہے وہ انصار سے درست کروا کر تقسیم کروائیں.چھوٹا ملک ہے.یہاں تو چند سالوں میں ہر فرد تک احمدیت کا پیغام پہنچ جانا چاہیئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے نیشنل مجلس عاملہ کے ممبران کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ آپ آج جو نمونہ قائم کریں گے وہ پیچھے آنے والوں کے لئے نمونہ ہو جائے گا.نَحْنُ أَنْصَارُ الله “ پر ہر ناصر غور کرے تو پھر علم ہوگا کہ کون اپنے اس عہد میں کتنا پیچھے ہیں.حضور انور نے فرمایا.آپ خدا تعالیٰ سے دعا مانگتے رہیں.خدا تعالی طاقت دیتا ہے اور جو کمیاں اور کمزوریاں رہ جاتی ہیں وہ اللہ کے فضل سے دور ہو جاتی ہیں.عاجزی اور محنت سے کام کرتے رہیں.حضور انور نے فرمایا: سب سے زیادہ یہاں لجنہ کی تنظیم منظم اور مستحکم ہے اور مستعد ہے اور اچھا کام کر رہی ہے.حضور انور نے فرمایا: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں صوبہ سرحد میں احمدیت بہت پھیلی تھی لیکن بعد میں ان گھروں میں احمدیت میں کمزوری آتی گئی اور پھر بعض خاندان پیچھے ہٹ گئے.
سبیل الرشاد جلد چہارم 269 ان لوگوں کے گھروں میں اب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور لٹریچر پڑا ہوا ہے.لیکن احمدیت آگے چلی نہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں نے تربیت نہیں کی.جولوگ احمدی ہوئے تھے وہ خود تو قادیان جاتے تھے اور جلسوں میں شامل ہوتے تھے لیکن اپنی عورتوں کو نہیں لے کر جاتے تھے جس کی وجہ سے عورتوں کی تربیت نہ ہوسکی.اور پھر آگے ان کی اولاد میں بھی تربیت سے محروم رہیں اور غیروں میں رشتے ہونے بھی شروع ہو گئے.اس طرح آہستہ آہستہ یہ خاندان احمدیت سے دور ہوئے.حضور انور نے فرمایا: بہت اچھی بات ہے کہ لجنہ مستعد ہے.لیکن انصار اللہ کی ذمہ داری بھی بہت بڑی ہے.انصار کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف پوری توجہ دینی چاہئے.(الفضل انٹر نیشنل 5 نومبر 2010ء) پاکستان میں ذیلی تنظیموں کے اجتماعات میں رکاوٹ کا ذکر اور اجتماعات کی اہمیت کا بیان حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 24 ستمبر 2010ء کو مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے اجتماع کے موقع پر خطبہ جمعہ کے آغاز میں ذیلی تنظیموں کے اجتماعات کا ذکر کر کے اس کی اہمیت و افادیت بیان فرمائی.آپ فرماتے ہیں.ستمبر، اکتوبر کے مہینے اکثر ہماری ذیلی تنظیموں، یعنی اکثر ممالک کی ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات کے مہینے ہوتے ہیں.انشاء اللہ تعالیٰ آج خدام الاحمدیہ کا اجتماع شروع ہورہا ہے اور اسی طرح اگلے جمعہ انصار اور لجنہ کے اجتماعات بھی شروع ہونے ہیں.گزشتہ تقریباً 27 ، 28 سال سے UK کے اجتماعات میں خلیفہ وقت کی شمولیت اجتماعات کا حصہ بن چکی ہے.ربوہ سے، پاکستان سے خلیفہ وقت کی ہجرت سے پہلے تمام ذیلی تنظیموں کے اجتماعات میں خلیفہ وقت کی شمولیت ہوتی تھی اور پاکستان سے تمام متعلقہ ذیلی تنظیموں کے نمائندے اجتماعات میں شرکت کیا کرتے تھے جس سے ربوہ کی رونقیں بھی دوبالا ہو جایا کرتی تھیں.خاص طور پر خدام اور اطفال کو اس زمانہ میں ایک خاص شوق اور لگن ہوتی تھی اور اجتماع کا انتظار رہتا تھا.خیموں میں رہائش ہوتی تھی.ہر مجلس اپنی اپنی چادر میں لا کر عارضی خیمے بنایا کرتی تھی.باقاعدہ اس طرح کے ٹینٹ، خیمے نہیں تھے جیسے یہاں مل جایا کرتے ہیں بلکہ بستروں کی چادروں سے ہی خیمے بنائے جاتے تھے اور ان خیموں میں رہائش ہوتی تھی.ہر مجلس یا خیمے میں رہنے والا ہر گروپ جو ہے وہ اپنی اپنی چادر میں لاتا تھا اور یوں رنگ برنگے اور پھول دار اور قسم قسم کے خیمے وہاں رہائش گاہ میں بنے ہوتے تھے.اکتوبر کے مہینے میں پاکستان میں عموماً موسم اچھا رہتا ہے.بارشیں
سبیل الرشاد جلد چہارم 270 نہیں ہوتیں.اس لئے گزارہ ہو جاتا تھا.اگر یہاں کا موسم ہو تو شاید گزارہ نہ ہو سکے بلکہ شاید کا کیا سوال ہے گزارہ ہو ہی نہیں سکتا.بہر حال UK کے خدام الاحمدیہ کے اجتماع نے مجھے بچپن اور جوانی کے اجتماعات کی یادیں دلا دی تھیں اور ساتھ ہی ان مظلوموں کی یاد بھی جو ظالموں کے ظالمانہ قوانین کا شکار ہو کر اپنے اس حق سے بھی محروم کر دیئے گئے ہیں کہ اپنی اصلاح ، تربیت اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے ذکر کے لئے جمع ہو کر اس مجلس اور اجتماع کا انعقاد کر سکیں.بہر حال میں بھی اور آپ بھی اس یقین پر قائم ہیں کہ یہ حالات ہمیشہ کے لئے نہیں ہیں.انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن یہ ظلم بھی اور ظالم بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں صبر، استقامت اور دعا سے کام لیتے چلے جانے کی توفیق عطا فرما تار ہے.اجتماع کے حوالہ سے یہ باتیں جو ہیں مجھے ان کا ذکر اصل میں تو اجتماع کے موقع پر کرنا چاہئے تھا.اور ہر سال میں اجتماع کی مناسبت سے متعلقہ ذیلی تنظیموں کو ان کے حوالہ سے مخاطب بھی ہوتا ہوں.لیکن مجھے اس دفعہ خیال آیا کہ جمعہ پر اس حوالے سے بھی ذکر کر دوں.کیونکہ ایک تو پاکستان کے مرکزی اجتماع میں افتتاحی اور اختتامی خطابات خلیفہ وقت کے ہوتے تھے.دوسرے اجتماع کے موقع پر جو میری اختتامی تقریر ہوتی ہے، وہ عموماً براہ راست ایم.ٹی.اے سے نشر نہیں ہوتی بلکہ کچھ دنوں کے بعد ہفتہ دس دن بعد نشر ہوتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کو ایک بڑی تعداد نہ سن سکتی ہو.تیسرے جہاں جہاں بھی اجتماعات ہور ہے ہیں وہ اس خطبہ کو اپنے لئے بھی پیغام سمجھتے ہوئے ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور پاکستان کے مظلوم احمدیوں کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.اور چوتھے جہاں جہاں نئی جماعتیں یا ذیلی تنظیمیں اور مجالس قائم ہو رہی ہیں وہ بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے براہ راست باتیں سن کر ان سے استفادہ کرنے کی کوشش کریں " خطبات مسر و رجلد 8 صفحه 494-495) جماعتی ترقی صرف اپنے بچوں کی تربیت سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ہماری اور ہماری نسلوں کی بقا ہر حالت میں جماعت سے جڑے رہنے سے وابستہ ہے اپنی نمازوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ بچوں کی نمازوں کی نگرانی بھی ماں باپ کا فرض ہے مجلس انصاراللہ برطانیہ کے 2010ء کے سالانہ اجتماع پر مورخہ یکم اکتوبر کوحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ میں تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." آج مجالس انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ یوں کے کے اجتماعات شروع ہو رہے ہیں.اسی طرح بعض اور ممالک میں بھی اجتماعات ہو رہے ہیں.یہ دونوں تنظیمیں اپنی اہمیت کے لحاظ سے بڑی اہم تنظیمیں ہیں اور
سبیل الرشاد جلد چہارم 271 جماعتی ترقی اور تعلیم و تربیت اور اگلی نسل کو سنبھالنے میں عورت اور مرد خاص طور پر وہ جو چالیس سال سے اوپر کی عمر کے ہیں، بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں.اگر اپنی اس ذمہ داری کو ہماری عورتیں اور مرد حقیقی رنگ میں محسوس کر لیں اور جو ذمہ داریاں مرد اور عورت پر ہیں ان پر بھر پور طور پر توجہ دیں اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کریں تو اگلی نسل کے جماعت سے جڑے رہنے اور ان کے اخلاص و وفا میں بڑھتے چلے جانے کی ضمانت مل سکتی ہے.جہاں تک جماعتی ترقی کا سوال ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے اور اس بات کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی اسی طرح وعدہ ہے جیسا کہ آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے تسلی دلائی تھی کہ آخری زمانے میں آپ کے غلامِ صادق کے مبعوث ہونے کے بعد اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا ایک اور دور شروع ہوگا ، اس میں اسلام کا آخری غلبہ ہوگا.پس یہ ترقی تو جماعت کا مقدر ہے، انشاء اللہ.راستے کی مشکلات بھی ہوتی ہیں جیسا کہ دوسری الہی جماعتوں کو ہوئیں.امتحانوں کا سامنا کرنا پڑا.جماعت احمدیہ کو بھی وقتاً فوقتاً مختلف جگہوں پر ان مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے.آگیں بھڑکائی جاتی ہیں لیکن یہ آگیں اللہ تعالیٰ ٹھنڈی کر دیتا ہے.اور نہ صرف ٹھنڈی کر دیتا ہے بلکہ مومن ان تکالیف اور مشکلات میں سے جب گزرتا ہے تو اس سونے کی مانند ہوتا ہے جو آگ میں پڑ کر کندن بن کر نکلتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو خود بھی قرآنِ کریم میں بیان فرمایا ہے کہ میں آزمائشیں بھی کرتا ہوں، امتحان بھی لیتا ہوں.فرماتا ہے کہ اَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَنْ يَقُوْلُوْا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُون (العنکبوت : 3 ) کیا اس زمانے کے لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کا یہ کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں کافی ہوگا اور وہ چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟ پھر فرماتا ہے: وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الكاذبين (العنكبوت: 4) جو لوگ پہلے گزر چکے ہیں ان کو بھی ہم نے آزمایا تھا اور اب بھی وہ ایسا ہی کرے گا.سوا اللہ تعالیٰ ظاہر کر دے گا ان کو بھی جنہوں نے سچ بولا اور ان کو بھی جنہوں نے جھوٹ بولا.پس یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ کھرے اور کھوٹے میں فرق کرنے کے لئے آزماتا ہے.کبھی کسی قسم کے امتحان سے گزارتا ہے اور کبھی کسی اور قسم کے امتحان سے گزارتا ہے.یہ امتحان ایمان میں جو مضبوط لوگ ہیں ان کے تعلق میں اضافہ کرتا ہے.ان کا مضبوط ایمان بڑھا دیتا ہے اور جو کمزور اور معترض ہیں جو کہ کسی نہ کسی رنگ میں اعتراض میں مصروف رہتے ہیں، وہ لوگ ہر جماعت میں کچھ نہ کچھ ہوتے ہیں.چھوٹی چھوٹی باتوں پر اعتراض ہوتے ہیں.چھوٹے عہدے داروں پر اعتراض ہوتے ہیں.بڑے عہدے داروں پر اعتراض ہوتے ہیں اور پھر یہ اعتراض جو شروع ہوتے ہیں تو بڑھتے بڑھتے ان لوگوں کے ایمان کے لئے بھی خطرہ اور ابتلا بن جاتے ہیں اور اگر اللہ کا خاص فضل نہ ہو تو پھر بعضوں پر ایک صورت ایسی بھی آ جاتی ہے جو
سبیل الرشاد جلد چہارم 272 اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت کی صداقت پر ہی شک کرنے لگ جاتے ہیں.اسی طرح مخالفین کی طرف سے تکالیف اور دشمنیاں کمزور ایمان والوں کو ابتلاؤں میں ڈال دیتی ہیں.پس مومن کا امتحان اس کو مزید صیقل کرنے کے لئے ہے.اس کو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے کے لئے ہے اور من حیث الجماعت، جماعت کے لئے کامیابی کے نئے راستے کھولنے کے لئے ہے، نہ کہ مغلوب کرنے کے لئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ " جو لوگ خدائی امتحان میں پاس ہو جاتے ہیں پھر ان کے واسطے ہر طرح کے آرام و آسائش رحمت اور فضل کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں" ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 460 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تکالیف کا نتیجہ تھا کہ مکہ فتح ہوگیا" ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 299 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ ) ابتلاء فتوحات کے دروازے کھولنے کے لئے آتے ہیں پس یہ ابتلاء انبیاء اور انبیاء کی جماعتوں کے لئے فتوحات کے دروازے کھولنے کے لئے ہیں.اگر ہم اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے جو بھی ابتلاء اور امتحان آئیں گے، ان میں سے کامیابی سے گزرنے کی کوشش کرتے رہے تو رحمت اور فضل کے دروازے ہم پر بھی کھلتے چلے جائیں گے.انشاء اللہ.جب اللہ تعالیٰ نے كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِي (المجادلہ : 22) فرمایا تو ساتھ ہی فرمایا کہ یہ یقینی غلبہ اس لئے ہے کہ إِنَّ اللهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (المجادلہ: 22) کہ یعنی اللہ تعالیٰ قوی ہے ، مضبوط ہے اور تمام طاقتوں والا ہے.وہ عزیز ہے.وہی ہے جو اپنی تمام صفات کی وجہ سے قابلِ تعریف ہے.وہ نا قابلِ شکست ہے اور ہر چیز پر غالب ہے.پس یہ ہمیشہ ہمیں اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے اور آپ کی قائم کردہ جماعت نے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق غالب تو انشاء اللہ تعالیٰ آنا ہے.راستے کی مشکلات نا کامی کی نہیں بلکہ کامیابی کی علامت ہیں.اگر ہم تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنی اور اپنے بچوں کی اصلاح کی طرف نظر رکھیں گے، اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو اس نظام کا حصہ بنائے رکھیں گے جو اللہ تعالیٰ نے قائم فرمایا تو ہم بھی اس رحمت اور فضل کے حاصل کرنے والے بن جائیں گے جو خدا تعالیٰ نے جماعت کے لئے مقدر کئے ہوئے ہیں.اور ہم بھی اور ہماری نسلیں بھی انشاء اللہ تعالیٰ فتوحات دیکھیں گی.اگر ہم میں سے کوئی عمر کے اس حصے میں پہنچا ہوا ہے جہاں بظاہر زندگی کا کچھ حصہ نظر آ رہا ہے، بڑی عمر ہے، ویسے تو کسی کا نہیں پتہ کہ کب قضا آ جائے، لیکن بہر حال بڑی عمر کے لوگوں کو زیادہ فکر ہوتی ہے.جو اس میں بھی پہنچا ہوا ہے تو جس طرح بچوں کی دنیاوی بہتری کے لئے بڑی عمر کے لوگوں کو فکر ہوتی ہے، بڑا تر و د ہوتا ہے، اسی طرح اسے دینی حالت کی بہتری اور
273 سبیل الرشاد جلد چہارم جماعت سے اپنی نسلوں کو جوڑے رکھنے کے لئے بھی فکر ہونی چاہیے.دنیاوی بہتری کے سامان کرنے کے لئے ، بچوں کے لئے جائیداد، مکان ، بہتر تعلیم یا کام کی ان کو فکر ہوتی ہے.بڑے لوگ دعاؤں کے لئے لکھتے ہیں.تو اسی طرح ان کی بچوں کی روحانی اور اخلاقی حالت کی بہتری کے لئے بھی فکر ہونی چاہئے.یہی تقویٰ ہے اور یہی اس عہد کا حق ادا کرنے کی کوشش ہے جو ہم اپنے اجلاسوں اور اجتماعوں میں دہراتے ہیں.پس یاد رکھنا چاہئے کہ جماعتی ترقی ہمارے اپنے بچوں کی تربیت سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ہماری اور ہماری نسلوں کی بقا ہر حالت میں جماعت سے جڑے رہنے سے وابستہ ہے.جماعت اور اسلام کا غلبہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے.اس خدا کی تقدیر ہے جو تمام طاقتوں کا مالک خدا ہے اور وہ نا قابلِ شکست اور غالب ہے.اگر کوئی ہم میں سے راستے کی مشکلات دیکھ کر کمزوری دکھاتا ہے، اگر ہماری اولادیں ہمارے ایمان میں کمزوری کا باعث بن جاتی ہیں، اگر ہماری تربیت کا حق ادا کرنے میں کمی ہماری اولادوں کو دین سے دور لے جاتی ہے، اگر کوئی ابتلا ہمیں یا ہماری اولادوں کو ڈانواں ڈول کرنے کا باعث بن جاتا ہے تو اس سے دین کے غلبے کے فیصلے پر کوئی فرق نہیں پڑتا.ہاں جو کمزوری دکھاتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ دوسروں کو سامنے لے آتا ہے، اور لوگوں کو سامنے لے آتا ہے، نئی قو میں کھڑی کر دیتا ہے.پس اس اہم بات کو، اور یہ بہت ہی اہم بات ہے ہمیں ہمیشہ ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی نسلوں کی تربیت کی فکر کی ضرورت ہے.سب سے اہم بات اس سلسلے میں ہمارے اپنے پاک نمونے ہیں.چالیس سال کی عمر کے بعد آخرت کی فکر ہونی چاہئے انصار اللہ کی عمر چالیس سال سے شروع ہوتی ہے.گویا انصار اللہ کی عمر میں انسان اپنی پختگی کی عمر کو پہنچ جاتا ہے اور سوچ میں گہرائی پیدا ہو جاتی ہے.اور جب یہ صورت ہو تو اس عمر میں پھر آخرت کی فکر بھی ہونی چاہئے اور یہی ایک ایسے شخص کا ، ایک ایسے مومن کا رویہ ہونا چاہئے جس کو اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو، یقین ہواور تقویٰ میں ترقی کرنے کے لئے اس کی کوشش ہو تو پھر اس کی یہ سوچ ہونی چاہئے کیونکہ ایک احمدی نے اپنے عہد میں، عہد بیعت میں اس بات کا اقرار کیا ہوا ہے کہ اس نے تقویٰ میں ترقی کرنی ہے، تمام اعلیٰ اخلاق اپنانے ہیں ، اس لئے اس کو تو عمومی طور پر اور اس پختہ عمر میں خاص طور پر یہ سوچ اپنے اندر بہت زیادہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ انصار اللہ ہیں.ایک ایسی عمر ہے جو نَحْنُ أَنْصَارُ اللہ کا اعلان کرتے ہیں.ان کو تو ہر وقت یہ بات اپنے پیش نظر رکھنی چاہئے.عہد بیعت کا خلاصہ عہد بیعت کا خلاصہ کیا ہے؟ شرک سے اجتناب کرنا، جھوٹ سے بچنا لڑائی جھگڑوں اور ظلم سے بچنا،
274 سبیل الرشاد جلد چہارم خیانت سے بچنا، فساد اور بغاوت سے بچنا، نفسانی جوش کو دبانا، پانچ وقت نمازوں کی ادائیگی کرنا، تہجد کی ادا ئیگی کی طرف توجہ دینا، استغفار دعاؤں اور درود کی طرف توجہ دینا، تسبیح و تحمید کرنا تنگی اور آسائش ہر حالت میں خدا تعالیٰ سے وفا کرنا، قرآن شریف کے احکامات پر عمل کرنا، تکبر نخوت سے پر ہیز کرنا، عاجزی اور خوش خلقی کا اظہار کرنا ، ہمدری خلق کا جذبہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے اندر پیدا کرنا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کامل اطاعت کا جوا اپنی گردن پر ڈالنا.یہ ہے خلاصہ شرائط بیعت کا.پس اگر غور کریں تو یہ باتیں ایک انسان میں تقویٰ میں ترقی کا باعث بنتی ہیں.اور یہ کم از کم معیار ہے جس کی ایک احمدی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توقع فرمائی ہے.اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا یہی مقصد تھا کہ ایک انسان میں یہ چیزیں پیدا کی جائیں اور انسان آپ کی بیعت میں آکر تقویٰ میں ترقی کرے.آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ " خدا تعالیٰ نے مجھے اس لئے مامور کیا ہے کہ تقویٰ پیدا ہو اور خدا تعالیٰ پر سچا ایمان جو گناہ سے بچاتا ہے پیدا ہو.خدا تعالی تاوان نہیں چاہتا بلکہ سچا تقویٰ چاہتا ہے" ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 100 مطبوعہ ربوہ) تقوی میں ترقی کر کے آئندہ نسلوں کے لئے پاک نمونہ قائم کرنے والا بنیں پس یہ تقویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے.تقویٰ وہ ہے جو دل کی آواز ہو، جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے دل سے اٹھنے والی آواز ہو.یہ عبادتیں، شرک سے پر ہیز یا ان باتوں پر عمل جو انسان کے اعلیٰ اخلاق کا اظہار ہیں یہ سب کسی قسم کی چٹی، جرمانہ یا تاوان سمجھ کر نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ سے پیار کے تعلق کی وجہ سے ہو.ایمان کا وہ مقام ہو جس کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِينَ آمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (البقرۃ: 166 ) اور جولوگ ایمان لانے والے ہیں ان کی محبت سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ہی ہوتی ہے.اور اللہ تعالیٰ سے محبت میں ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ ایمان میں ترقی کرتے ہیں اور ایمان میں ترقی تقویٰ میں ترقی کا باعث بنتی ہے.پس ہمارے انصار اللہ کی بھی اور ہماری لجنہ اماءاللہ کی بھی یہ ایک ذمہ داری ہے کہ تقویٰ میں ترقی کر کے ہم آئندہ نسلوں کے لئے وہ پاک نمونہ قائم کرنے والے بن جائیں جو ہماری نسلوں کی روحانی زندگی اور روحانی ترقی کی ضمانت بن جائے.عورت اور مرد ہر ایک پر اپنے اپنے دائرے میں بعض فرائض اور ذمہ داریاں ہیں جن کا پورا کرنا دونوں کا فرض ہے اور اس کے لئے لائحہ عمل، اس کے لئے ایک گائیڈ لائن ( Guideline) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شرائط بیعت کی صورت میں ہمارے سامنے رکھ دی ہے، اس پر ہر وقت غور ہونا چاہئے.اس کا خلاصہ میں نے بیان کر دیا ہے.
سبیل الرشاد جلد چہارم 275 نَحْنُ أَنْصَارُ اللہ کا قرآن میں ذکر اور اس کا فلسفہ نَحْنُ أَنْصَارُ الله کا نعرہ کیوں لگایا گیا تھا.قرآن کریم میں ہمیں دو جگہ اس کا ذکر ملتا ہے، ایک سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ امَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران : 53) پس جب عیسی نے ان میں انکار کا رجحان محسوس کیا تو کہا کہ کون اللہ کی طرف بلانے میں میرے انصار ہوں گے تو حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے انصار ہیں.ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں اور تو گواہ بن جا کہ ہم فرمانبردار ہیں.جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے کہ جب حضرت عیسی علیہ السلام نے یہ دیکھا کہ انکار اور کفر میں یہ لوگ بڑھتے چلے جارہے ہیں تو پھر آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں اللہ کے دین کے لئے پکار رہا ہوں اور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں.تمہاری بقا اسی میں ہے کہ مجھے قبول کرو اور اللہ کی پہچان کرو اور اس کے حکموں پر چلنے کی کوشش کرو.آگے بڑھو اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس دین کو اختیار کرو.اور پھر ان میں سے جو چند حواری تھے وہ آگے آئے اور انہوں نے جب نَحْنُ اَنْصَارُ اللَّهِ کہا تو یہ دعا بھی کی کہ رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّهِدِينَ (آل عمران:54 ) کہ اے ہمارے رب! جو کچھ تو نے اُتارا ہے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں اور ہم اس رسول کے متبع ہو گئے ہیں.پس تو ہمیں گواہوں میں لکھ لے.رسول کی اتباع کیا ہے؟ اس سے کئے گئے عہد کو پورا کرنا ، اس کی لائی ہوئی تعلیم پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش کرنا، اس تعلیم کی سچائی پر کامل ایمان ہونا.اور پھر ہم دیکھتے ہیں اس کا دوسرا ذ کر سورۃ الصف میں ملتا ہے.یہاں فرمایا کہ: يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ كَمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيْنَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ فَامَنَتْ طَائِفَةٌ مِّنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ فَأَيَّدْنَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِين.(الصف: 15) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کے انصار بن جاؤ، جیسا کہ عیسی بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کہ کون ہے جو اللہ کی طرف رہنمائی کرنے میں میرے انصار ہوں.حواریوں نے کہا ہم اللہ کے انصار ہیں.پس بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لے آیا اور ایک گروہ نے انکار کر دیا.پس ہم نے ان لوگوں کی جو ایمان لائے ان کے دشمنوں کے خلاف مدد کی تو وہ غالب آگئے.پس غلبہ ایمان لانے والوں کا ہوا اور یہی ان کا مقدر ہوتا ہے اور یہی الہی جماعتوں کا مقدر ہے.جو ایمان لاتے ہیں وہی غلبہ حاصل کرتے ہیں.یہاں حضرت عیسی کے حواریوں کی مثال دے کر ہمیں یہ توجہ دلائی ہے کہ اے مسلمانو ! اللہ تعالیٰ کے انصار بن جاؤ.جب مسیح موعود کا دعوی ہو تو تم بھی ایمان لانے والے گروہ میں شامل ہو جانا، انکار کرنے والے گروہ میں شامل نہ ہونا.پس اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ آج ہمیں
276 سبیل الرشاد جلد چہارم اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے والے گروہ میں شامل فرمایا ہے.تو پھر اب ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کی مکمل پیروی کریں تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کالا یا ہوا دین دنیا میں پھیلا سکیں.اپنے ایمانوں کو مضبوط کریں اور اپنی نسلوں میں وہ ایمان پیدا کریں اور کرنے کی کوشش کریں جن سے آگے پھر انصار اللہ کی جاگ لگتی چلی جائے.ایک کے بعد دوسرا مددگار پیدا ہوتا چلا جائے.اور اس کی جاگ تبھی لگ سکتی ہے جب ہم اپنے عہد بیعت کو سامنے رکھیں اور اس کی ہر شیق کے نمونے اپنی اولادوں کے سامنے پیش کرنے والے بن جائیں تبھی یہ نَحْنُ أَنْصَارُ اللہ کا نعرہ جاری رہے گا.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کے کچھ عرصہ یا نسلوں بعد تو اللہ تعالیٰ پر ایمان اور تعلیم کی پیروی ختم ہوگئی تھی ، جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا.اس کا ذکر ہو چکا ہے کہ بادشاہوں کے عیسائی ہونے کے ساتھ ہی وہ آزادی تو مل گئی لیکن کچھ عرصے بعد موحدین کی جو تعداد تھی وہ کم ہوتے ہوتے تقریباً ختم ہو گئی.اللہ تعالیٰ جو واحد و یگانہ ہے اس کی ذات تو پیچھے چلی گئی اور اللہ تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ اور اللہ تعالیٰ کا رسول ظالمانہ طور پر خدا تعالیٰ کے مقابلے پر لا کر کھڑا کر دیا گیا.لیکن مسیح محمدی کے ماننے والوں نے تو حید کے قیام اور اس کو اپنی نسلوں میں جاری رکھنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے اور وہ روحانی غلبہ حاصل کرنا ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے.یعنی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بنانا ہے.خدا تعالیٰ کے پیغام کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے اور جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے دنیا میں پھیلانے کا اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اہتمام فرمایا ہے، اس پیغام کو مسیح اور مہدی کے انصار بن کر دنیا میں پھیلانا ہے.اور پھر اپنے تک ہی محدود نہیں رکھنا بلکہ اپنی اولاد کے دل میں بھی اس دین کی عظمت کو اس طرح قائم کرنا ہے کہ ان میں سے نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کا نعرہ لگانے والے پیدا ہوتے چلے جائیں اور یہ تعداد پھر بڑھتی چلی جائے یہاں تک کہ دنیا پر اسلام کا ایک نئی شان کے ساتھ غلبہ ہم دیکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو پہلی چیز اپنی شرائط بیعت میں ہمارے سامنے رکھی ہے وہ شرک سے اجتناب ہے.(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 159.اشتہار تکمیل تبلیغ 12 جنوری 1889ء.ضیاء الاسلام پر لیس ربوہ) مسیح موسوی کے حواریوں کا جو اثر تھا اس معیار تک قائم نہیں رہا جہاں نسلاً بعد نسل وہ موحدین پیدا کرتے چلے جاتے ، اس لئے کچھ عرصے کے بعد ان کی نسلیں شرک کے پھیلانے کا باعث بن گئیں.اس لئے کہ انہوں نے تعلیم پر عمل نہیں کیا اور ان کے ایمانوں میں کمزوری پیدا ہوتی چلی گئی.اس لئے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق آہستہ آہستہ کم ہو گیا اور دنیا داری ان کا مقصود اور مطلوب ہوگئی.پس مسیح محمدی کے غلاموں نے خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق کو نہ اپنی ذات میں کم ہونے دینا ہے نہ اپنی نسلوں میں کم ہونے دینا ہے، ورنہ پہلے حواریوں کی طرح یا ان کی نسلوں کی طرح ایمانی کمزوری پیدا ہوتے ہوتے شرک کی حالت پیدا ہو جائے گی.اور اب دیکھ
277 سبیل الرشاد جلد چہارم لیں جو دوسرے مسلمان ہیں ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو مسلمان کہلانے کے باوجود قبروں اور پیروں اور اس قسم کے شرکوں میں مبتلا ہوئے ہوئے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں جنہوں نے ہمیں حقیقی اسلامی تعلیم بنا کر اس قسم کے شرکوں سے محفوظ رکھا.فرض نماز ادا کرنے کے لئے بچوں کی بچپن سے تربیت ونگرانی کی ضرورت ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں اعلیٰ اخلاق اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں ہر احمدی کو اور جماعت میں شامل ہونے والے کو یہ فرمایا کہ اگر میری بیعت میں آنا چاہتے ہو تو شرک سے بچنے کے بعد یہ عہد کرو کہ بلا ناغہ پنج وقت نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتے رہو گے.پس ہمیں دیکھنا ہے کہ خدا نے نمازوں کے بارے میں کیا حکم دیا ہے.سورۃ فاتحہ میں فرمایا ایاک نَعْبُدُ کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی دعا سکھائی کہ تیرے حکم کے مطابق تیری عبادت کرنے کے لئے تیری مدد کی ضرورت ہے.اس کے بغیر ہم کچھ نہیں.اس لئے اِيَّاكَ نَسْتَعِيْن ، تجھ سے مدد بھی مانگتے ہیں.پس جب ایک عاجزی کے ساتھ عبادت کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد مانگنے کی طرف توجہ رہے گی تو پھر نماز کا يُقِيمُونَ الصَّلوةَ (البقرة : 4 ) کا حکم بھی سامنے آ جائے گا اور پھر نمازوں کے قیام کے نمونے قائم ہوں گے.یعنی پانچ وقت نمازوں کے اوقات میں نمازوں کی ادائیگی کی طرف توجہ ہوگی.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے.حفِظُوْا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلوةِ الْوُسْطَى ، وَقُوْمُوا لِلَّهِ قَنِتِيْن (البقرة:239) کہ نمازوں اور خصوصاً درمیانی نماز کا خیال رکھو.پس نمازوں کا خیال رکھنا اور اس کی نگرانی کرنا ایک مومن پر فرض ہے.اور خاص طور پر وہ نماز جو ہمارے کاموں کے دوران، ہماری مصروفیات کے دوران ، ہماری تھکاوٹ اور نیند کے اوقات میں آتی ہے.اس کا خیال رکھنا خاص طور پر ضروری ہے.اب اس ایک حکم میں ہی تمام نمازوں کی حفاظت کا حکم آ گیا ہے.ہر شخص کے لئے اس کی صلوۃ الوسطی کی حفاظت اسے عمومی طور پر نمازوں کی طرف متوجہ رکھے گی.اور پھر نمازوں کی یہ حفاظت نہ صرف ایک مومن کے لئے اس کے ایمان میں اضافے کا باعث بنے گی بلکہ نمازوں کا حق ادا کرتے ہوئے نمازوں کی ادائیگی اس کی نسل کے لئے پاک نمونہ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اولا دکو بھی دعاؤں کا وارث بناتے ہوئے ان کے نیک مستقبل کی حفاظت کا سامان بھی کرتی چلی جائے گی.نمازوں کا حق ادا کرنا کیا ہے؟ بہت سے لوگ جو خاص طور پر انصار اللہ کی تنظیم میں پہنچے ہوئے ہیں نمازیں تو پڑھنے والے ہیں لیکن ان کی اولادیں ان سے نالاں ہیں.اپنی نمازوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی نمازوں کی نگرانی بھی ماں باپ کا فرض ہے.لیکن اس فرض کے ادا کرنے کے لئے بچوں کی بچپن سے تربیت اور نگرانی کی ضرورت ہے.بچپن میں جب اہمیت کا نہ بتایا جائے تو بچہ جب جوانی کی عمر میں قدم رکھتا ہے خاص طور پر لڑ کے تو پھر ان پر بعض والدین ضرورت سے زیادہ بخشتی کرتے ہیں.کئی بچے مزید بگڑ جاتے
278 سبیل الرشاد جلد چہارم ہیں.پھر ماں باپ کو شکوہ ہوتا ہے کہ بچے بگڑ رہے ہیں.پھر بعض دفعہ ایسی صورت ہوتی ہے کہ نمازوں کی ادا ئیگی میں تو بظاہر باپ بڑا اچھا ہوتا ہے لیکن بیوی اور بچوں کے ساتھ اس کے سلوک کی وجہ سے بچے نہ صرف باپ سے دور ہٹ جاتے ہیں بلکہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے باپ کو اس کی نمازوں نے اتنا خشک مزاج اور سخت طبیعت کا کر دیا ہے اور وہ نمازیں پڑھنے سے انکاری ہو جاتے ہیں.یا اگر انکاری نہیں ہوتے تو نہ پڑھنے کے سو بہانے تلاش کرتے ہیں.نمازوں کی حفاظت اور اس کا حق ادا کرنے کی معانی پس نمازوں کی حفاظت اور اس کا حق ادا کرنا یہ بھی ہے کہ ایسی نمازیں ادا ہوں جو ہر قسم کے اخلاق کو مزید صیقل کرنے والی ہوں.بیویوں کے بھی حقوق ادا ہورہے ہوں اور بچوں کے بھی حقوق ادا ہور ہے ہوں.چالیس سال کی عمر جیسا کہ میں نے کہا بڑی پختگی کی عمر ہے لیکن اس عمر میں اگر ہم جائزے لیں تو بہت سے ایسے لوگ نکل آئیں گے جو اپنی نمازوں کی بھی حفاظت نہیں کرتے.اپنے فرائض کو ادا نہیں کر رہے ہوتے.تو پھر اپنے بچوں سے کس طرح امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ نیکیوں پر قائم ہوں.یا ان کی کیا ضمانت ہے کہ وہ احمدیت کے ساتھ جڑے رہیں گے.انصار کو تہجد کا قیام التزام سے کرنا چاہئے ہم اپنے شہداء کا ذکر سنتے ہیں.ایک چیز خصوصیت سے ان میں نظر آتی ہے.عبادت اور ذکر الہی کی طرف توجہ.جس طبقہ کے لوگ بھی تھے ان کی اس طرف توجہ تھی.اور اپنے بچوں سے انتہائی پیار کا تعلق اور ان کو دین سے جوڑے رکھنا.اور بچوں پر بھی ان کی باتوں کا ایک نیک اثر تھا.پس یہ وہ لوگ ہیں جو انصار اللہ ہونے کا حق ادا کرنے والے ہیں.پس میں پھر انصار اللہ سے کہتا ہوں کہ اگر وہ انصار اللہ کا حق ادا کرنے والے بننا چاہتے ہیں تو اپنی نمازوں اور اپنی عبادتوں کی نہ صرف خود حفاظت کریں بلکہ اس کا حق اپنی نسلوں میں عبادت کرنے والے پیدا کر کے ادا کریں.پھر آپ نے اپنی شرائط بیعت میں اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ فرائض نمازوں کے ساتھ تہجد اور نوافل کی طرف بھی توجہ دو.پینسٹھ ستر سال کی عمر کو پہنچ کر تو شاید ایک تعداد تہجد پڑھتی بھی ہو اور ان کو خیال بھی آجاتا ہو.لیکن انصار کی جو ابتدائی عمر ہے اس میں بھی تہجد کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یقیناً ایک تعداد ہے جو تہجد کا التزام کرنے والی ہے.بلکہ خدام میں بھی ہیں.لیکن انصار میں یہ تعداد ا کثریت میں ہونی چاہئے.انصار اللہ کا نام جو چالیس سال سے اوپر کی مردوں کی تنظیم کو دیا گیا ہے اور جو پیغام نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کے اعلان میں ہے وہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر غیر معمولی قربانی پیش کرنے کے لئے بھی تیار ہیں.اور دین کے قیام کے لئے ہم اپنی ہر کوشش اور ہر
279 سبیل الرشاد جلد چہارم صلاحیت اور ہر ذریعہ بروئے کار لانے کے لئے تیار ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں فرمایا ہے کہ دین کا پھیلاؤ تو دعاؤں کے ذریعے سے ہونا ہے.تبلیغ کے ساتھ ساتھ دعاؤں نے ایک بہت بڑا کردار ادا کرنا ہے.پس دعاؤں کی طرف ایک خاص جوش کے ساتھ ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے.انصار اللہ کی عمر ایک تو پختہ عمر ہے اس میں عارضی اور جذباتی کوششوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنے مستقل جائزے لیتے ہوئے اس حق کو ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کا ادا کرنا ہم پر فرض ہے.دعاؤں کا حق ، نمازوں اور نوافل کے ذریعے ہی صحیح طور پر ادا ہوسکتا ہے.انصار اللہ کی تنظیم میں شامل ہر شخص کو قرآن کی تلاوت ہر صورت میں روزانہ کرنی ہے پھر آپ نے فرمایا کہ ایک احمدی قرآن شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا.قرآن حکیم کی حکومت قبول کرنے کے لئے اس سے ایک خاص تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ کے اس کلام کو روزانہ پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے.پس انصار اللہ کی تنظیم میں شامل ہر شخص اس بات کی پابندی کرے کہ میں نے قرآن کریم کی تلاوت ہر صورت میں روزانہ کرنی ہے.اسی طرح لجنہ ہے، خواتین ہیں، ان کا بھی فرض ہے.یہ حکم صرف انصار اللہ کے لئے نہیں ہے.جماعت کے ہر فرد کے لئے ہے اور خاص طور پر وہ لوگ عورتیں اور مرد جنہوں نے اگلی نسلوں کو سنبھالنا ہے ان پر خاص فرض ہے کہ اپنے نمونے قائم کریں اور روزانہ تلاوت کریں.پھر اس کا ترجمہ بھی سمجھنا ہے.تو جہاں ہم میں سے ہر ایک اس وجہ سے اپنے علم میں اضافے اور برکات سے فیض یاب ہونے کے سامان کر رہا ہوگا وہاں یہ پاک نمونہ اپنے بچوں کے سامنے پیش کر کے انہیں بھی خدا تعالیٰ کے اس کلام سے تعلق جوڑنے کا سامان کر رہا ہوگا.یہ شرائط بیعت کا خلاصہ جو میں نے بیان کیا ہے، جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر میں یہ ایک احمدی کا کم از کم معیار ہے اور انصار اللہ کو تو ان باتوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اسی طرح ہماری عورتیں ہیں وہ گھر کی نگرانی کی حیثیت سے اسی طرح اپنے بچوں کی تربیت کی ذمہ دار ہیں جیسے مرد بلکہ مردوں سے بھی زیادہ.کیونکہ بچے کی ابتدائی عمر جو ہے ماں کے قرب میں اور اس کی گود میں گزرتی ہے.سکول جانے والا بچہ ہے.وہ بھی گھر میں آ کر ماں کے پاس ہی اکثر وقت رہتا ہے.تو ماؤں کی بھی بہت بڑی ذمہ داری ہے.اگر ماؤں کی اپنی دینی تربیت ہے.ان کو خود دین کا علم ہے تو بچے ایسے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں جہاں اگا دُگا استثناء کے علاوہ عموماً بچوں کو دین سے گہرا لگاؤ ہوتا ہے.ایسی ہی عورتوں کے متعلق ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض عورتیں بسبب اپنی قوت ایمانی کے مردوں سے بڑھی ہوئی ہوتی ہیں.فضیلت کے متعلق مردوں کا ٹھیکہ نہیں.جس میں
سبیل الرشاد جلد چہارم 280 ایمان زیادہ ہوا وہ بڑھ گیا.خواہ مرد ہو خواہ عورت.شرائط بیعت میں مرد اور عورت دونوں مخاطب ہیں ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 268 مطبوعہ ربوہ) تو ہماری تو ہر عورت کو یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.مرد اور عورت میں ایک دوڑ ہو.دونوں طرف سے نیکیوں میں آگے بڑھتے چلے جانے کی ایک کوشش ہو.جب یہ صورت پیدا ہو جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ دیکھیں گے کہ نئی نسل کس طرح خدا تعالیٰ کے قریب ہوتی چلی جائے گی.یہ شرائط بیعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے بیان فرمائی ہیں ان میں یہ تخصیص کوئی نہیں ہے کہ یہ مردوں کے لئے ہیں اور عورتوں کے لئے نہیں.بلکہ ہر دو اور ہر طبقے کے لئے ہیں.پس جو بھی ان نیکیوں پر قدم مارنے والا ہو گا وہ خدا تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والا بن کر اپنی دنیا و عاقبت سنوار لے گا اور اپنے بچوں اور اپنی نسلوں کی حفاظت اور تقویٰ پر چلنے کے سامان کر لے گا.پس عورتوں کو بھی ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.بچوں کی تربیت میں مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لئے دعا کرتے ہوئے اگلی نسل کی تربیت میں بھر پور کوشش کرنی چاہئے.مرد یا عورت جو بھی اپنے فرض کو ادا نہیں کرے گا وہ اپنے عہد کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے پوچھا جائے گا.اللہ تعالیٰ ہم سب کو عہد پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس زمانے کے امام کے ساتھ سچا اور حقیقی وفا اور اطاعت کا تعلق پیدا ہو اور ہم آپ کی توقعات اور تعلیمات پر عمل کرنے والے ہوں.اور ہماری ایک کے بعد دوسری نسل تو حید کے قیام اور عبادتوں کے معیار قائم کرنے کی بھر پور کوشش کرتی چلی جائے.آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: یہ بھی یاد رکھو کہ اگر تم مداہنہ سے دوسری قوموں کو ملؤ، یعنی کمزوری دکھاتے ہوئے اپنے مذہب چھپاتے ہوئے کسی قسم کے احساس کمتری کی وجہ سے اگر تم ملوتو فرمایا کہ تو کامیاب نہیں ہو سکتے“.یعنی کبھی کمزوری نہیں دکھانی چاہئے نہ اپنا دین چھپانا چاہئے نہ اپنی دینی تعلیم پر کسی قسم کی شرمساری ہونی چاہئے.بلکہ تبلیغ کے میدانوں میں تبلیغ بھی کھل کر کرنی چاہئے.کیونکہ اسی سے کامیابی ملنی ہے.فرمایا " خدا ہی ہے جو کامیاب کرتا ہے.اگر وہ راضی ہے تو ساری دنیا ناراض ہو تو پرواہ نہ کرو.ہر ایک جو اس وقت سنتا ہے یاد رکھے کہ تمہارا ہتھیار دُعا ہے اس لئے چاہئے کہ دعا میں لگے رہو.یہ یا درکھو کہ معصیت اور فسق کو نہ واعظ دور کر سکتے ہیں اور نہ کوئی اور حیلہ".گناہ اور برائیاں جو ہیں، بدعملیاں جو ہیں ان کو نصیحتیں دور نہیں کر سکتیں.خود انسان کے اندر ایک احساس پیدا ہو اور پھر دعا ہو تو اس سے دور ہو جاتی ہیں.اور اپنی نسلوں کے لئے بھی آپ دعا کر رہے ہوں گے تو اس سے بھی ان کی اصلاح ہو جاتی
281 سبیل الرشاد جلد چہارم ہے.اس کے لئے ایک ہی راہ ہے اور وہ دُعا ہے.خدا تعالیٰ نے یہی ہمیں فرمایا ہے.اس زمانہ میں نیکی کی طرف خیال آنا اور بدی کو چھوڑ نا چھوٹی سی بات نہیں ہے.یہ انقلاب چاہتی ہے اور یہ انقلاب خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور یہ دُعاؤں سے ہوگا.ہماری جماعت کو چاہئے کہ راتوں کو رو رو کر دعائیں کریں.اس کا وعدہ ہے ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن : 61 ).عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ دعا سے مراد دنیا کی دُعا ہے.وہ دنیا کے کیڑے ہیں.اس لئے اس سے پرے نہیں جا سکتے.اصل دُعا دین ہی کی دُعا ہے ".اور ایک دوسری جگہ یہ بھی آتا ہے کہ اور اصل دین دُعا میں ہے.فرمایا لیکن یہ مت سمجھو کہ ہم گناہگار ہیں یہ دُعا کیا ہوگی اور ہماری تبدیلی کیسے ہو سکے گی.یہ غلطی ہے".اس بارے میں ایک جگہ یہ بھی فرمایا ہوا ہے کہ گناہ اس میل کی طرح ہے جو کپڑوں پر ہوتی ہے اور دھونے سے دور کی جاتی ہے.پس گناہ کوئی مستقل چیز نہیں ہے.گناہ کو دھویا جاسکتا ہے.اگر ارادہ ہو اور دعاؤں کی طرف توجہ ہو تو صاف کیا جا سکتا ہے.فرمایا " بعض وقت انسان خطاؤں کے ساتھ ہی ان پر غالب آسکتا ہے ".گناہوں پر انسان غالب آجاتا ہے اس لئے کہ اصل فطرت میں پاکیزگی ہے."دیکھو پانی خواہ کیسا ہی گرم ہو لیکن جب وہ آگ پر ڈالا جاتا ہے تو وہ بہر حال آگ کو بجھا دیتا ہے اس لئے کہ فطرتا برودت اس میں ہے".ٹھنڈے کرنے کی جو اس کی خصوصیت ہے وہ اس پانی کی ہے."ٹھیک اسی طرح پر انسان کی فطرت میں پاکیزگی ہے.ہر ایک میں یہ مادہ موجود ہے.وہ پاکیز گی کہیں نہیں گئی.اسی طرح تمہاری طبیعتوں میں خواہ کیسے ہی جذبات ہوں رو کر دعا کرو گے تو اللہ تعالیٰ دور کر دے گا" ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 133-132 مطبوعہ ربوہ) اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی سربلندی کے لئے دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیتے ہوئے اپنے لئے اور اپنی نسلوں کے لئے دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسلام کے پیغام کو ہم جرات کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ اس کے نیک نتائج بھی پیدا فرمائے.“ خطبات مسرور جلد 8 صفحہ 505-515) مجلس انصاراللہ بر طانیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر صحابہ کا دلچسپ اور دلنشین انداز میں تذکرہ اختتامی خطاب مورخہ 3اکتوبر 2010ء بمقام اسلام آبادٹلفورڈ تشہد ، تعود اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا: اس وقت میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کچھ روایات پیش کروں گا جو رجسٹر
282 سبیل الرشاد جلد چہارم روایات صحابہ میں سے میں نے لی ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے مقام پر بھی روشنی پڑتی ہے اور ان صحابہ کی پاک فطرت اور دین کی حقیقت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام جاننے کی جستجو کا بھی پتہ چلتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کی رہنمائی فرمائی اس میں یہ باتیں بھی آئیں گی.حضرت میاں محمد ابراہیم صاحب جو میاں محمد بخش صاحب گوجرانوالہ کے بیٹے تھے اور جو پیدائشی احمدی تھے، یہ کہتے ہیں کہ لاہور میں حضرت اقدس کا ایک لیکچر ہوا.میں بمع والد صاحب کے گیا.حضور ایک مکان کے برآمدے میں تقریر کر رہے تھے.آگے ایک بڑا صحن تھا جو بالکل بھرا ہوا تھا.باہر مخالفین از حد شور مچا رہے تھے اور اندر امینیٹیں اور روڑے پھینک رہے تھے.لوگوں کو اندر آنے سے روکتے تھے.میں اور والد صاحب تقریر سننے کے لئے بیٹھ گئے.دوران تقریر میں میں نے دیکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی ران پر ہاتھ مارتے تھے اور بعض اوقات ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے.میں نے اپنے والد صاحب کو کہا کہ حضرت اقدس اس طرح تقریر کر رہے ہیں جیسے پہلوان کشتی لڑتے ہیں.یہ انبیاء کا کام نہیں.( یہ اعتراض ان کے دل میں پیدا ہوا) تو والد صاحب نے اس وقت حافظ محمد لکھو کے والے کا یہ شعر پڑھا.پنجابی کا شعر ہے بولن لگے اڑ کر بولے، پٹاں تے ہتھ مارے.( یعنی جب بولتا ہے تو زبر دست بولتا ہے اور رانوں پر ہاتھ مار کر بولتا ہے.تو ان کے والد صاحب کہنے لگے تم جس بات پر اعتراض کر رہے ہو یہ تو حضور کی صداقت کا نشان ہے.اس پر میں خاموش ہو گیا اور گھر میں آکر احوال الآخرۃ میں سے وہ شعر دیکھا.بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اعتراض اور وسوسے دل میں پیدا ہو جاتے ہیں لیکن جن کو خدا تعالیٰ بچانا چاہتا ہے ان کو فوراً دور کرنے کے انتظام بھی فرما دیتا ہے.اب ان کے والد صاحب کو یہ شعر یاد تھا فوراً انہوں نے بیان کر دیا.سو یہ سوچنا کہ اس زمانہ کے لوگ کم علم تھے درست نہیں.بڑی تحقیق کے بعد وہ لوگ بیعت میں شامل ہوتے تھے.یا خوابوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کی تسلی کراتا تھا تو وہ لوگ بیعت میں شامل ہوتے تھے.حضرت میاں میراں بخش ٹیلر ماسٹر کی بیعت کے لئے ازالہ اوہام باعث بنی پھر حضرت میاں میراں بخش صاحب ولد میاں شرف الدین صاحب ٹیلر ماسٹر تھے یہ روایت کرتے ہیں کہ میں جب دوکان سے اپنے گھر کی طرف جاتا تھا تو راستے میں اپنے بھائی غلام رسول سے ملا کرتا تھا.ان کے ساتھ سلسلے کی باتیں ہوتی رہتی تھیں.میں چونکہ مخالف تھا اس لئے ان کو جھوٹا کہا کرتا تھا لیکن جب گھر آکر سوچتا تو نفس کہتا کہ کورا ان پڑھ ہے.(بالکل ان پڑھ ہے) مگر اس کی باتیں لا جواب ہیں.ایک دفعہ میرے بھائی نے مجھے کچھ ٹریکٹ دیئے ، کچھ لٹریچر دیا، پمفلٹ دیئے جو میں نے پڑھے.ان کا مجھ پر گہرا اثر ہوا اس پر میں نے خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا شروع کر دی.ایک رات خواب میں دیکھا کہ میں اپنی چار پائی سے اٹھ کر
سبیل الرشاد جلد چہارم 283 پیشاب کرنے گیا ہوں مگر دیکھتا ہوں کہ باری کھلی ہے ( یعنی کھڑ کی کھلی ہے.) میں حیران ہوا کہ آج کھڑ کی کیوں کھلی ہے.میں جب باری کی طرف گیا تو دیکھا کہ ایک بزرگ ہاتھ میں کتاب لئے پڑھ رہے تھے.میں نے سوال کیا کہ یہ کون سی کتاب ہے جو آپ پڑھ رہے ہیں انہوں نے جواب دیا یہ کتاب مرزا صاحب کی ہے اور ہم تمہارے لئے ہی لائے ہیں.جب انہوں نے کتاب دی تو میں نے کہا کہ یہ تو چھوٹی سختی کی کتاب ہے؟ میں نے ان کے ٹریکٹ دیکھے ہیں وہ بڑی سختی کے ہوتے ہیں.وہ بزرگ بولے کہ مرزا صاحب نے یہ کتاب چھوٹی سختی کی چھپوائی تھی اس پر میری آنکھ کھل گئی.کہتے ہیں کہ میں نے خیال کیا کہ شاید میں دعا کر کے ان خیالات میں سویا تھا پر انہی کا اثر ہے.مگر جب میں ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے اپنے گھر کی طرف آیا تو غلام رسول کی دُکان پر ایک شخص بیٹھا ہوا ایک کتاب پڑھ رہا تھا.میں نے کہا یہ کون سی کتاب ہے جو پڑھ رہے ہو.میاں غلام رسول نے اس کے ہاتھ سے یہ کتاب لے کر میرے ہاتھ میں دے دی اور کہا کہ تم جو کتاب مانگتے تھے یہ کتاب آپ کے لئے ہی میں لایا ہوں یہ آپ لے لیں.میں نے کتاب کو دیکھ کر کہا کہ کتاب رات خواب میں مجھے مل چکی ہے.اس پر میں نے ازالہ اوہام کے دونوں حصوں کو غور سے پڑھا اور اپنے دل سے سوال کیا کہ کیا اب بھی تمہیں کوئی شک وشبہ باقی ہے؟ میرے دل نے جواب دیا کہ اب کوئی شک وشبہ باقی نہیں،اس لئے میں نے بیعت کا خط لکھ دیا.حضور ایدہ اللہ نے فرمایا: تو یہ لوگ تھے جن میں سعادت تھی اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت بھی مانگتے تھے.اور پھر اللہ تعالیٰ ان کی رہنمائی بھی فرماتا تھا اور یہ نظارے ہمیں آج بھی بہت سی جگہوں پر نظر آتے ہیں.پھر یہی روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس بیٹھے تھے تو میری موجودگی میں وہاں ایک عیسائی لڑکا آ گیا.اس نے ایک کاغذ پر کچھ اعتراضات لکھے ہوئے تھے اور دل میں یہ بات رکھی ہوئی تھی کہ اگر حضرت صاحب نے ان کے اعتراض کا بغیر دکھنے کے جواب دے دیا تو میں ان کو سچا سمجھوں گا.چنانچہ جب حضرت اقدس سیر کو تشریف لے گئے ، میں بھی ساتھ تھا.دوران سفر حضرت اقدس نے ایک تقریر کی جو بالکل اس کے جوابات پر مشتمل تھی.جب حضور واپس تشریف لائے تو اس لڑکے نے مسجد اقصیٰ میں میری موجودگی میں بیان کیا کہ واقعی میرے سوالات کے جوابات حضور کی تقریر میں آگئے ہیں.مسیح موعود کا چہرہ ایسا خوبصورت ہے کہ اس پر نور برستا رہتا ہے پھر ایک روایت یہ کرتے ہیں کہ اس زمانہ میں یہ بات عام مشہور تھی کہ حضرت اقدس کو نعوذ باللہ کوڑھ کی بیماری ہے.اور اب تک مخالفین احمدیت اس قسم کے بھی بیہودہ اعتراضات کرتے چلے جاتے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ میں قادیان سے واپس گوجرانوالہ آیا ہی تھا کہ ایک شخص امام الدین نامی درزی جسے لوگ اس کے بُرے افعال کی وجہ سے پھٹکا کہا کرتے تھے، وہ دوڑتے دوڑتے میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ جس کا تو
284 سبیل الرشاد جلد چہارم مرید ہے وہ تو کوڑھا ہے.اس کے ہاتھ کی انگلیاں گل چکی ہیں اور وہ ہر وقت برقعہ پہنے رکھتا ہے.میں نے کہا میں ابھی قادیان سے آ رہا ہوں، اس شخص کا چہرہ تو ایسا خوبصورت ہے کہ ہر وقت اس پر نور برستا رہتا ہے تم کو یہ کس نے بات بتائی ہے.حضور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ بہر حال یہ تو مخالفین کا شیوہ ہے اور کوئی دلیل ہاتھ نہیں آتی تو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں.پھر ایک روایت ہے حضرت حکیم عبدالرحمن صاحب ولد حضرت حکیم اللہ دتہ صاحب گوجرانوالہ کی ، جنہوں نے 1904ء میں بیعت کی تھی.کہتے ہیں کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اپنے والد صاحب کو احمدی پایا ہے.میرے والد صاحب تین سو تیرہ صحابہ کی فہرست میں شامل ہیں.وہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے خواب میں دو جنگلے دیکھے.لوگوں سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آج قیامت کا دن ہے اور تمام مخلوقات اکٹھی ہو رہی ہیں.یہ سن کر میں بھی جنگلے کی طرف گیا.دروازے میں داخل ہوا تو بعض لوگوں نے کہا کہ پہلے بائیں طرف جاؤ.جو بھی ادھر سے ہو کر آئے گا اسے دائیں طرف جانے کی اجازت مل سکتی ہے.میں اسی طرف گیا تو دیکھا کہ حضرت مرزا صاحب کا دربار لگا ہوا ہے اور بے شمار مخلوق پاس موجود ہے.میں نے ملاقات کی، ملاقات کے بعد مجھے اجازت دی گئی کہ اب آپ دائیں طرف جاسکتے ہیں.میں بڑا خوش ہوا اور پھر نیند سے بیدار ہو گیا.آسمان پر تارے ٹوٹنا حضرت مسیح موعود کی آمد کی علامت ہے بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ یہاں ایک مولوی علاؤالدین صاحب ہوا کرتے تھے.ان کی یہاں قریب ہی ایک مسجد بھی ہے.میرے والد صاحب ان کے پاس پڑھا کرتے تھے.ایک دن عشاء کے وقت وضو کرتے کرتے میرے والد صاحب نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ مولوی صاحب آج کل آسمان سے تارے بہت ٹوٹتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے.مولوی صاحب نے کہا کہ امام مہدی آنے والا ہے.آسمان پر اس کی آمد کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں.والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ چند دن بعد میں نے حضرت اقدس کا ذکر سنا اور قادیان جا کر بیعت کر لی.واپس آکر مولوی صاحب کو بھی کہا کہ میں نے تو بیعت کر لی ہے، آپ کا کیا خیال ہے؟ مگر وہ خاموش ہو گئے.تھوڑی دیر بعد آہستہ سے بولے کہ میاں بات تو سچی ہے مگر ہم دنیا دار جو ہوئے.کہتے ہیں کہ میں تقریباً دس سال کا تھا کہ میرے والد صاحب مجھے قادیان لے گئے اور قادیان کے ارد گرد سیر کرائی.جب ہم مسجد نور کے پاس پہنچے جو کہ ابھی بنی ہوئی نہیں تھی ، غالباً بنیادیں رکھی گئی تھیں.فرمایا کہ میاں ہم پہلے پہلے جب حضرت اقدس کے ساتھ آیا کرتے تھے تو بالکل جنگل تھا.ہم حضور کے لئے کپڑا بچھا دیا کرتے تھے.حضور وہاں بیٹھ جاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے اس وقت آپ لوگ یہاں کائی اور سر کنڈ اد یکھتے
سبیل الرشاد جلد چهارم 285 ہیں ، ایک وقت یہاں خوب رونق ہوگی.میر مہر غلام حسین صاحب روایت کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم دونوں بھائی بازار میں جارہے تھے.تمام بستی ہندوؤں کی تھی ایک بوڑھے شخص کو ہم نے قرآن پڑھتے سنا.جب ہم واپس آئے تو پھر بھی وہ پڑھ رہا تھا.میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ شخص پکا مسلمان اور بے دھڑک آدمی ہے جو ہندوؤں کی بستی میں قرآن پڑھ رہا ہے.کہتے ہیں کہ بیعت کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دیکھی تو پتہ لگا کہ یہ وہی شخص تھا جس کو میں نے خواب میں قرآن پڑھتے دیکھا تھا.حضرت عیسی آسمان پر اور حضرت محمد زمین پر مدفون ہیں حضرت مہر غلام حسین صاحب ہی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص بنام رحیم بخش صاحب قوم درزی ان کی مسجد میں آیا کرتا تھا.آکر کہنے لگا کہ مولوی صاحب! آج طبیعت بہت پریشان ہے.میں نے اس کی وجہ پوچھی تو بیان کرنے لگا کہ حامد شاہ ایک فرشتہ اور باخدا انسان ہے اور مسلمان ان کی تعریف کرتے ہیں.آج بہت غلطی ہوئی ہے.آج انہوں نے اپنے ماموں عمر شاہ کو کہا ہے کہ ماموں جان آپ کا حضرت ابن ان سے بہت مریم کے بارہ میں کیا خیال ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ بیٹا! میرا تو یہی مذہب ہے کہ وہ زندہ آسمان پر ہیں کسی زمانے میں امت محمدیہ کی اصلاح کے لئے آئیں گے.شاہ صاحب نے کہا کہ ماموں صاحب! آج سے آپ میرے امام نہیں ہو سکتے.کیونکہ یہ عقیدہ مشرکانہ ہے کہ ایک انسان کو حیبی و قیوم اور لازوال مانا جائے.دوسری بات یہ ہے کہ سید و مولیٰ سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عقیدہ سے بڑی ہتک ہوتی ہے کہ وہ تو زمین میں مدفون ہوں اور حضرت عیسی آسمان پر اٹھائے جائیں.عمر شاہ نے اس پر کہا کہ اچھا بیٹا ، آپ آگے کھڑے ہوا کریں اور میں پیچھے پڑھا کروں گا.میں نے یہ بات سنتے ہی کہا کہ مولوی صاحب! میں نے مان لیا کہ مسیح مرگیا ہے.اگر مسیح زندہ ہیں تو توحید میں بڑا فرق آتا ہے.آپ یہ مت خیال کریں کہ احمدی ہوں، میں ابھی تک احمدی نہیں مگر مرزا صاحب کی بات ضرور سچی ہے.میں کبھی گوارا نہیں کر سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتک کی جائے.مولوی صاحب نے میرے منہ کے آگے ہاتھ رکھ دیا.میں نے کہا مولوی صاحب! کیوں روکتے ہو؟ مولوی صاحب نے کہا کہ اگر آپ کا عقیدہ ہو گیا ہے کہ مسیح مر گیا تو اتنا جوش و خروش دکھانے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے کہا مولوی صاحب ! مسجد سے نکلتے ہی منادی کرتا چلا جاؤں گا کہ اگر حضرت عیسی آسمان پر ہیں تو محمد رسول اللہ کی ہتک ہے.میں نے جاتے ہی اپنے والد صاحب کو سمجھایا اور میرا بڑا بھائی غلام حسین جو عارف والے کا امیر جماعت ہے وہ دونوں جل کر آگ بگولہ ہو گئے اور میرا نام دجال اور ملعون وغیرہ رکھا.مجھے یہ خیال آیا کہ کل جمعہ پر مولویوں وغیرہ کا حملہ ہو گا.میں نے رات کے وقت اس احمدی کو جس کو ہم نے مسجد سے روکا تھا ایک نوکر
286 سبیل الرشاد جلد چہارم کے ذریعہ بلایا.میں نے اسے پوچھا کہ کیا مرزا صاحب نے وفات مسیح پر کوئی دلیل بھی دی ہے یا یوں ہی کہہ دیا ہے.اس نے کہا نہیں آیات پیش کی ہیں.میں نے حیران ہو کر کہا کہ ہم دن رات قرآن پڑھتے ہیں اور ہمیں معلوم نہیں کہ یہ کیا بات ہے.ایک ہی آیت ہمیں بتا دو.اس نے ساتویں پارے کی آیت فـــلـــمـــا تَوَفَّيْتَنِی بتادی.میں نے کہا اب میری تسلی ہو گئی ہے.اب کوئی مولوی میرا مقابلہ نہ کر سکے گا.فجر کے وقت مولوی غلام حسین صاحب اور مولوی فیض دین صاحب اور دو تین آدمی میرے بھائی کے ہمراہ آئے.میں مسجد کے دروازے میں کھڑا تھا کہ یہ جا پہنچے.مولوی غلام حسین نے کہا کہ مسیح کے آپ کیوں دشمن ہو گئے ہیں.میں نے کہا کہ مولوی صاحب! میں نے کیا دشمنی کی؟ وہ کہتے کہ آپ کا بھائی کہتا ہے کہ یہ مسیح کی موت کا قائل ہو گیا ہے.میں نے کہا مولوی صاحب کیا کریں وہ تو خود اپنی موت کا اقرار کر رہا ہے اور آپ کی مثال مدعی ست گواہ چست کی ہے.مولوی صاحب نے کہا کہاں لکھا ہے؟ میں نے کہا قرآن میں.وہ کہتے ہیں مگر کون سا قرآن؟ جو مرزا صاحب نے بنا دیا ہے؟ میں نے کہا مولوی صاحب ذرا ہوش سے بولیں.خدا پر حملہ کر رہے ہیں.کیونکہ وہ تو فرماتا ہے کہ میرے قرآن کی کوئی مثل نہیں لاسکتا اور یہ کہہ رہے ہیں کہ قرآن مرزا صاحب نے بنا دیا ہے.کہنے لگے کہاں لکھا ہے؟ میں نے ساتویں پارے کی آیت پڑھی.کہتے ہیں مگر ہم تمہیں ایک ہی گر بتاتے ہیں کہ ان بے ایمانوں کے ساتھ بات نہ کی جائے یعنی احمدیوں کے ساتھ بات نہ کی جائے.بلکہ نظر کے ساتھ نظر ملائی جائے تو بھی اس کا اثر ہو جاتا ہے.میں نے کہا مولوی صاحب! سچائی کا اثر ویسے ہی ہوا کرتا ہے.مولوی صاحب واپس ہو کر چلے گئے.میرا بھائی جو مخالف تھا وہ نیروبی میں چلا گیا.میں نے بیعت کر لی.والد صاحب اور بیوی کو بھی سمجھا لیا.گویا سب کو سمجھا لیا.بھائی کو نیروبی میں جا کر سمجھ آئی.وہ دس ماہ کے بعد واپس چلے آئے اور آتے ہی بیعت کر لی.اب خدا کے فضل سے ہمارے محلے میں سوڈیرھ سو افراد احمدی ہیں.بھائی صاحب کی واپسی پر والد صاحب میر حامد شاہ صاحب اور بھائی صاحب قادیان گئے وہ جب واپس آئے تو ہم چار آدمی تبلیغ کرتے کرتے پیدل چل پڑے اور دستی بیعت کی.حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ کئی سعید روحیں جو ہیں جو خوف کی وجہ سے چپ ہیں.آج بھی اگر یہ پاکستان میں اس قانون کو ہٹاد میں اور احمدیوں کو آزادی سے تبلیغ کرنے دیں تو انشاء اللہ احمد بیت میں داخل ہو جائیں گی.ایک ایمان افروز واقعہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میری بیوی، بڑا بھائی اس کی بیوی قادیان گئے.ہم نے ایک مکان کرائے پر لیا ہوا تھا رات کو ہم اس مکان میں رہتے تھے.دن کو ہماری مستورات اور بچے حضرت صاحب کے مکان میں رہتے تھے اور ہم مہمان خانہ میں.میرے بھائی کی لڑکی کی آنکھیں بچپن سے ہی بیمار رہتی تھیں.چونکہ وہ لڑکی
سبیل الرشاد جلد چہارم 287 حضرت صاحب کے پاس رہتی تھی.حضرت صاحب نے اپنے ایک خادم کے ساتھ اس لڑکی کو بھیجا اور فرمایا کہ مولوی صاحب کو جا کر کہو کہ کچھ اس لڑکی کی آنکھوں میں دوائی ڈال دیں (حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب خلیفہ اول) چنانچہ مولوی صاحب نے کچھ چیز ڈالی پھر عمر بھر اس لڑکی کی نظر خراب نہیں ہوئی.سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود کی آمد اور ایمان افروز واقعات حضرت سید نذیر حسین شاہ صاحب آف گھٹیالیاں نے 1904ء میں بیعت کی تھی.یہ کہتے ہیں کہ جب حضرت اقدس سیالکوٹ تشریف لے گئے تو گھٹیالیاں میں چونکہ احمدیت کے متعلق ایک رو پیدا ہو چکی تھی اس لئے یہاں کے سترہ اٹھارہ آدمی گئے تھے اور قریباً سب نے بیعت کر لی تھی.بیعت کا واقعہ یوں ہے کہ جس روز حضرت اقدس نے سیالکوٹ جانا تھا ہم اس سے ایک روز پہلے گئے تھے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب پانچ سات روز پہلے گئے ہوئے تھے.اور حضرت مولوی نورالدین صاحب غالباً ایک دن پہلے گئے تھے کیونکہ میں نے ان کو مسجد میں دیکھا تھا.ہم لوگ چوہدری محمد امین صاحب کے ڈیرہ پر اترے ہوئے تھے اور وہ سخت دہر یہ تھا.مگر چونکہ ہمارے اس کے ساتھ تعلقات تھے، ہم اس کے پاس ٹھہرا کرتے تھے.وہ حضرت خلیفہ اول کے پاس اپنے اعتراضات لے کر گئے.جب واپس آئے تو چوہدری شاہ دین صاحب نے انہیں پوچھا کہ بتاؤ مولوی نور الدین صاحب سے مل آئے؟ ( یہ دیکھیں کس طرح تبلیغ کیا کرتے تھے انہوں نے کہا کہ مذہبی مناظرے کی شطرنج میں دوسرا چالا یہ شخص چلنے ہی نہیں دیتا.(حضرت خلیفہ اول کے بارہ میں کہا کہ جب میں کوئی بات کرتا ہوں یہ دوسری چال مجھے چلنے ہی نہیں دیتا.بالکل بند کر دیتا ہے.) نیز کہا کہ آج مجھے خدا پر ایمان ہو گیا ہے.حضرت خلیفہ اول کی وجہ سے خدا پر ایمان ہو گیا تھا.چونکہ اسی روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد آمد تھی.اس لئے عصر کے وقت ہی تمام شہر کے معززین اور مضافات کے لوگ جوق در جوق سٹیشن پر جانے لگے.ہم بھی پہنچ گئے.حضور کی گاڑی شام کے وقت سٹیشن پر پہنچی.اور جس ڈبے میں حضور تھے اسے کاٹ کر را جیکی سرائے کے پاس لے جایا گیا.حضور ایک فٹن پر سوار ہوئے.دورویہ قطاروں میں الگ کھڑے تھے اور پولیس گشت کر رہی تھی.حضرت صاحب کے ساتھ ایک شخص لیمپ لے کر کھڑا تھا اور کہتا تھا کہ یہ مرزا صاحب ہیں.بعد میں وہ شخص مجھے ملا اور چونکہ احمدی ہونے کی وجہ سے واقفیت ہوگئی وہ حکیم عطاء محمد صاحب تھے.کہتے ہیں کہ وہاں مولوی عبد الکریم صاحب نے جمعہ کی نماز پڑھائی.میں بالکل حضرت صاحب کے پاس کھڑا تھا اور حضور ہی کی طرف میری توجہ تھی.جمعہ کے بعد حضور کے لئے کرسی بچھائی گئی، حضور تشریف فرما ہوئے اور سورۃ فاتحہ کی تفسیر کی.جس وقت حضور سورۃ فاتحہ پڑھ رہے تھے میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ بالکل بھولی بھالی شکل کا انسان ہے یہ تقریریں ان کی طرف منسوب کی جاتی ہیں ان کی نہیں ہرگز ہوسکتیں.مگر جب حضور نے تقریر فرمائی تو میر اشک رفع ہو گیا.کہتے ہیں کہ اس تقریر میں حضرت نے فرمایا کہ لوگ خدا تعالیٰ
288 سبیل الرشاد جلد چہارم سے دعائیں کرتے ہیں کہ وہ رب العالمین ہے، مالک یوم الدین ہے اور چاہتے ہیں کہ گمراہی کے ازالہ کا اللہ کوئی علاج کرے.مگر جب اللہ تعالیٰ نے علاج کا سامان کیا ہے تو لوگ منکر ہورہے ہیں.کیا خدا تعالیٰ ظالم ہے کہ ایک تو امت گمراہ ہو رہی ہو اور دوسرے ان میں ایک دجال کو بھیج کر انہیں اور گمراہ کرے؟ یہ سوچتے نہیں.اس تقریر کا لوگوں پر اس قدر اثر ہوا کہ بے شمار مخلوق نے بیعت کی.مجھے چوہدری اللہ دتہ صاحب نے کہا کہ بیعت کرو کیا دیکھتے ہو؟ ان کی تحریک سے میں نے دستی بیعت کر لی.اس سے پہلے میں حضرت اقدس کی ہر مجمع میں تائید کرتا تھا مگر ابھی تک بیعت نہیں کی تھی.ہاں ایک بات یاد آئی جب حضرت صاحب فٹن پر سوار ہوئے تو ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا اس نے کہا یہ منہ جھوٹے کا نہیں.میرے منہ سے حضرت صاحب کو دیکھ کر بے اختیار یہ کلمہ نکلا کہ اس نے کبھی آسمان کو نہیں دیکھا ہوگا.حضرت صاحب کی نظر اس وقت بھی نچی تھی.نظریں ہمیشہ نیچی رکھتے تھے، انہوں نے کہا کہ اس کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اتنی نظریں نیچی رکھتے ہیں کبھی آسمان نہیں دیکھا ہوگا.ایک دفعہ حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی گئی کہ حضور! مکان کے نیچے خلقت بے شمار جمع ہے.حضور کو دیکھنا چاہتی ہے.حضور نے کھڑکی میں سے چہرہ مبارک باہر نکالا.مخلوق اس قد رٹوٹ پڑی کہ قریب تھا کہ کئی لوگ دب کر مر جائیں.اس پر حضور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ حضور چہرہ مبارک اندر کر لیں ورنہ کوئی حادثہ ہو جائے گا.چنانچہ حضور نے چہرہ اندر کر لیا.چوہدری حاکم دین صاحب میانوالی خانوالی کی 1902ء کی بیعت ہے.روایت کرتے ہیں کہ میرا بھائی احمدی تھا اور مولوی تھا.ہم حیران ہوتے تھے کہ اس کو کیا ہو گیا، پہلے موحد بنا اب احمدی ہو گیا.ہمیں اس سے بڑی نفرت ہوگئی.وہ ہمیں سمجھاتا رہا.قلعہ صوبہ سنگھ میں مولوی فضل کریم صاحب بھی سمجھانے کے لئے آتے مگر ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی.پھر ایک مناظرہ ہوا.احمدیوں کی طرف سے رحیم بخش عرضی نویں پچھو کے کا تھا اور غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی شاہ محمد آف قلعہ میاں سنگھ تھا.غیر احمدی مولوی صرف رفع الی اللہ کو ہی پیش کرتا تھا مگر احمدی قرآن کریم کی کئی آیتیں پڑھ کر استدلال کرتا تھا.اس وقت ہمیں سمجھ آئی کہ یہ لوگ بھی مسلمان ہیں.اس سے پہلے ہم احمدیوں کو عیسائیوں کی طرح سمجھتے تھے.وہاں ہی میں نے احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھی.راستہ میں سوچا.پھر بھائی کے ساتھ قادیان گئے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مولویوں کا جھوٹا پروپیگنڈا جیسا کہ میں نے کہا ہمیشہ ہر وقت چلتا رہتا ہے.اب دیکھیں کہ انہوں نے تحقیق کا کیا ذریعہ ڈھونڈا.جستجو ہو، نیک فطرت ہو تو آدمی ہر ذریعہ تلاش کرتا ہے.انہوں نے یہ کہا.کہتے ہیں کہ میں تحقیق کرنے کے لئے پہلے اس شخص کے پاس گیا جو چوڑھوں کا با دشاہ کہلاتا ہے یعنی جو کام کرنے والے ہیں ، خاکروب ہیں.وہ خود تو موجود نہ تھا اس کا بالکہ ملا جو بوڑھا ہو چکا
289 سبیل الرشاد جلد چہارم تھا یعنی اس کا نائب.اس سے میں نے پوچھا کہ مرزا صاحب کی ابتدائی زندگی کے بارہ میں آپ کو کوئی واقفیت ہے؟ اس نے کہا پہلے تو نور علی نور تھا.بڑی عبادت کیا کرتا تھا.مگر اب اسے غلطی لگ گئی ہے.پھر ایک اور فقیر سے پوچھا کہ کیا آپ احمدی ہیں؟ کہنے لگا نہیں.میں نے کہا کیوں؟ کہنے لگا مجھ پر مرزا صاحب کے رشتہ داروں نے دعویٰ کیا تھا کہ جہاں یہ رہتا ہے یہ مکان اس کا نہیں ہے.میں نے مرزا صاحب کو ہی صفائی میں طلب کر لیا.مرزا صاحب نے عدالت میں کہہ دیا کہ یہ غریب فقیر ہے ، مکان اس کے پاس ہی رہے تو کیا حرج ہے؟.اس پر مکان مجھے مل گیا.مرزا صاحب کے رشتہ دار ان پر بڑے خفا ہوئے.کہتے ہیں اس پر میں نے اس فقیر سے کہا کہ پھر بھی تجھ پر مرزا صاحب کی سچائی نہیں کھلتی ؟ کہنے لگا بات یہ ہے کہ جو شرطیں لگاتا ہے اس پر چلنا مشکل ہے.شرائط بیعت بڑی مشکل ہیں.کہتے ہیں کہ ان دونوں فقیروں کی باتوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ جوشخص پہلے نور علی نور تھا اب وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا.اس پر میں نے بیعت کر لی اور پھر کئی دفعہ حضور کی زندگی میں قادیان گیا اور سیالکوٹ لیکچر کے موقع پر بھی گیا.چوہدری عبداللہ خان کی بیعت چوہدری عبداللہ خان صاحب دانہ زید کا ، ان کی بیعت 1902ء کی ہے یہ لکھتے ہیں کہ 1902ء میں یہاں گرمی کے موسم میں دو مولوی آئے.ایک فضل کریم صاحب مرحوم قلعہ صوبہ سنگھ کے اور دوسرے عبدالحی.موخر الذکر نے حضرت صاحب کے خلاف ایک کتاب بھی لکھی تھی یہ کفر کی حالت میں ہی مرا ہے.مگر مولوی فضل کریم صاحب میرے ساتھ ایمان لائے تھے.یہ دونوں مولوی صاحب ایک رات میرے پاس ٹھہرے.میں نے حضرت صاحب کے متعلق ان سے دریافت کیا.پہلے مولوی فضل کریم صاحب بولے اور کہا کہ وہ کافر ہیں.میں نے کہا کہ تحقیقات کے بغیر کا فر کہنا ٹھیک نہیں ہے.پھر مولوی عبدالحی صاحب بولے اچھا دوکاندار تو ضرور ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کہا کہ وہ دوکاندار تو ضرور ہیں.میں نے کہا کہ اگر وہ دوکاندار ہوتے تو وہ چیز پیش کرتے جسے ہر شخص خوشی سے لیتا ہے.ایسا مہنگا سودا پیش نہ کرتے جسے کوئی لیتا ہی نہیں ہے بلکہ الٹی مخالفت ہو رہی ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بھی ہر ایک کو اپنی اپنی دلیل سوجھتی ہے اور بڑی اچھی دلیل ہے یہ.تو اس واقع کے بعد میرے دل میں بہت تحریک ہوئی اور میں تحقیقات کرتا رہا جنوری یا فروری 1903 میں مولوی فضل کریم صاحب یہاں تشریف لائے میں نے ان کو علیحدگی میں حضرت صاحب کی بابت پوچھا.انہوں نے جواب دیا کہ جس طرح وہابی لوگوں کو لوگ نا پسند کرتے تھے مگر وہ سچے نکلے.ایسے ہی گو آج کل مرزا صاحب کی مخالفت کی جارہی ہے مگر آخر یہ بچے ہی نکلیں گے.اس پر میں نے کہا کہ پھر آپ بیعت کیوں نہیں کر لیتے.انہوں نے کہا کہ مخالفت بہت ہوگئی ہے.میں نے کہا میں زمیندار ہوں ، اپنی روزی کما کر کھاتا ہوں اور آپ حکیم ہیں اس لئے آج ہی ہمیں بیعت کا خط لکھنا.
سبیل الرشاد جلد چہارم 290 چاہئے.چنانچہ ہم نے بیعت کا خط لکھ دیا.جمعہ کا دن تھا میں نے یہاں اعلان کر دیا کہ میں نے حضرت مرزا صاحب کی بیعت کرلی ہے اور مولوی صاحب نے قلعہ میں اعلان کیا اور پھر مخالفت ہوتی رہی.حضرت محمد شاہ کا بیعت کا دلچسپ واقعہ حضرت محمد شاہ صاحب ابن عبداللہ شاہ صاحب آف لدھیانہ لکھتے ہیں کہ میرا پہلے یہ خیال تھا کہ جو سید ہیں ان کو کسی دوسرے کی بیعت کرنے کی ضرورت نہیں.ہمارا مقام اس سے گرتا ہے.تو کہتے ہیں کہ کچھ مدت تک اسی خیال میں پختہ رہا.لیکن جب بھی کسی مجلس میں حضرت مرزا صاحب کا ذکر ہوتا.اگر تعریفی رنگ میں ہوتا تو دلچسپی سے سنتا اور جس مجلس میں مخالفت ہوتی اس مجلس میں بیٹھنا نا گوار گزرتا.قائل تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لیکن جو سید کا ایک ٹائٹل لگا ہوا تھا، اس کی وجہ سے انا زیادہ بڑھ گئی تھی.کہتے ہیں اس مجلس میں نہ بیٹھتا تھا.اٹھ کر چلا جاتا.آخر ایک روز کسی کے منہ سے بے پیر اور بے مرشد سن کر جو کہ کسی اور کو کہہ رہا تھا خیال آیا کہ بے پیر اور بے مرشد تو ایک گالی ہے اور میں خود بھی بے پیر اور بے مرشد ہوں.سید تو ہوں لیکن میرا کوئی پیر نہیں اور مجھے کوئی پیر مانے کو تیار نہیں.کیا سید مستی ہیں؟ خود ہی بعض گدی نشینوں کا خیال آکر کہ بعض بڑے بڑے بزرگ گزرے ہیں اور سید تھے.انہوں نے بھی بعض غیر سید بزرگوں کی بیعت کر کے فیض حاصل کیا تھا.تو بہر حال کہتے ہیں ہمیں بھی اپنی جگہ فکر رہنے لگا لیکن کم علمی اور جہالت کی وجہ سے کسی سے دریافت نہ کیا.لیکن ایک مقصد دل میں رکھ کر بعض اچھے آدمیوں سے اپنے مقصد کے پورا ہو جانے کے واسطے کچھ ورد پوچھنے اور کرنے شروع کر دیئے.اور مقصد یہی تھا کہ مرشد کامل اور سید مل جاوے.چنانچہ کافی عرصے تک چلوں اور وردوں کی دھن لگی رہی اور کرتا رہا.قبرستانوں میں، دریاؤں میں، کنوؤں پر اور پہاڑوں میں، بزرگوں کے مزاروں پر، غرضیکہ راتوں کو بھی خفیہ جگہوں پر جا جا کر چالیس چالیس دن چلے گئے.یعنی کہ ایک شوق تھا، لگن تھی کہ بہر حال کسی پیر و مرشد کو میں نے تلاش کرنا ہے.کچھ نہ بنا.آخر ایک روز مایوس ہوکر لیٹ گیا اور سو گیا.نیند میں ایک بزرگ کو دیکھا اس نے تسلی دی کہ بیٹا تمہیں جو مرشد ملے گا وہ سب کا مرشد ہوگا.اس کے ہوتے ہوئے سب پیر اور مرشد مات ہو جائیں گے.یہ نظارہ دیکھ کر دل کو تسلی ہوگئی اور یقین ہو گیا کہ مرشد کامل انشاء اللہ مل جاوے گا.آخر شروع 1905 ء میں ایک رات میں نے دیکھا کہ ایک وسیع میدان ہے جو کہ بالکل صاف اور پاکیزہ کیا گیا ہے جیسے ایک بہت بڑا جلسہ گاہ ہو.نہایت صاف اور اس میں ایک سٹیج اونچی اور بادشاہوں کے لائق جس کی تعریف میرے جیسے کم علم سے نہیں ہوسکتی ، تیار ہے.مجھ کو یہ شخص کہہ رہا ہے کہ یہاں آج کل نبیوں علیہم الصلوۃ والسلام کا اجتماع ہے.اور رسول کریم یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آج اپنے پیارے بیٹے کو تخت پر بٹھانے آئیں گے.تو میں خوشی میں اچھلتا ہوں اور نہایت تیزی سے دوڑتا ہوا اس میدان میں سٹیج کے عین قریب سب سے پہلے ہانپتا ہوا اور سانس پھولا ہوا پہنچ گیا.تھوڑی دیر
سبیل الرشاد جلد چہارم 291 کے بعد وہ میدان کھچا کھچ نورانی شکل کے لوگوں سے بھر گیا.معا سب کی نظریں اوپر کی طرف کو دیکھنے لگیں.میں نے بھی اوپر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہوائی جہازوں کی طرح جھولے نہایت نفیس بنے ہوئے جھولے جیسے ہیں اور ان میں کسی میں ایک مرد ایک عورت یا دو عورتیں اور کسی میں فقط عورتیں یا فقط مرد آسمان سے نہایت آرام سے اترتے ہیں.مجھے خود بخود معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ فلاں نبی ہے اور یہ فلاں نبی ہے اور بہت سی امہات المؤمنین بھی مثلا مائی صاحبہ حوا، مائی صاحبہ ہاجرہ، مریم اور بی بی فاطمہ وخدیجہ رضی اللہ تعالی عنھن سب تشریف لے آئیں.اور جب سب انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اور امہات المومنین آکر اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے اور اسی طرح انتظار ہونے لگا کہ جیسے جمعہ کے روز قادیان شریف میں مسجد اقصیٰ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا انتظا ر لوگ کرتے ہیں.اور بعض دفعہ آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہنے لگتے ہیں کہ باپ بیٹا آتے ہی ہوں گے.کافی دیر کے بعد ایک جھولا اترا جو کہ سب جھولوں سے زیادہ سجا ہوا تھا.اس میں جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اتر کر سٹیج پر جو دو کرسیاں ساتھ ساتھ پڑی تھیں تشریف فرما ہوئے.پہلے مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حضرت مرزا صاحب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے السلام علیکم کہا.اور پہلی افتتاحی تقریر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور فرمایا کہ میں اپنے بیٹے کو اپنے سب نبیوں کے سامنے جس کے متعلق پہلے سے آپ لوگوں کو خبر میں دی جاچکی ہیں، تخت پر بٹھاتا ہوں.پھر حضرت مرزا صاحب مسیح موعود علیہ السلام نے تقریر فرمائی.اس وقت مجھے سید کی حقیقت معلوم ہوئی اور حضرت صاحب کو دیکھا کہ جو وہی لدھیانے کے سٹیشن والے ہی مرزا صاحب تھے.دوسرے روز سب سے پہلے بیعت کا خط لکھ دیا.ہزاروں ہزار برکتیں نازل ہوں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اوران کی اولاد پر.حضرت را جیلی کا واقعہ بیعت حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی جنہوں نے 1897ء میں بیعت کی تھی اور 1899ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت ہوئی.وہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو میں نے ایک عربی قصیدہ سنایا.مسجد مبارک میں مغرب کی نماز کے بعد چھت پر میں قصیدہ سنانے لگا.جب میں نے وہ شعر پڑھا جس میں میں نے اسلام کے علماء جو سلسلہ احمدیہ کے مخالف اور دشمن تھے ، ان کو مخاطب کرتے ہوئے شعر کہا تھا.جس کا یہ مطلب ہے کہ کیا تم اپنی حماقت سے اپنے دجال کی تائید کرتے ہو؟ عیسی کی حیات کے ذریعہ؟ جو زندوں کا تو نہیں البتہ مُردوں کا سردار ہے.حضرت صاحب نے جب یہ شعر سنا تو آپ نے اس شعر کو بہت ہی پسند فرمایا اور فرمایا کہ یہ شعر بہت ہی اچھا ہے.عجیب تڑپ تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو اونچا کرنے کے بارے میں کوئی بات سنتے تھے تو اس پر انتہائی پسندیدگی کا اظہار فرمایا کرتے تھے.اور کہتے ہیں کہ کہا اس کو دوبارہ پڑھو اور بار بار
292 سبیل الرشاد جلد چہارم سناؤ.چنانچہ خاکسار نے اس شعر کو پھر دہرا کر پڑھا.اس کے بعد یہ شعر مجھے اب تک یاد ہی رہتا ہے اور جب میں اسے پڑھتا ہوں تو وہ سماں اور منظر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس کا میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.اور اس پیارے مسیح کی فرقت کے باعث طبیعت ایک حزن و غم اور حسرت بھی محسوس کرتی ہے.سو یہ شعر بھی میرے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یادگاروں میں سے بطور ایک یادگار کے ہے.پھر حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب ابن مکرم شیخ با بو جمال الدین صاحب روایت کرتے ہیں کہ میرے والد صاحب نے 1898 ء کے قریب حضرت اقدس کی بیعت کی تھی.وہ دمیلی میں سٹیشن ماسٹر تھے.جہلم کے پاس ایک جگہ ہے.وہاں ایک شخص نے حضرت اقدس کا ذکر کیا.انہوں نے پختہ ارادہ کرلیا کہ قادیان جا کر اس شخص کو ضرور دیکھنا ہے.چنانچہ وہ رخصت لے کر گوجرانوالہ آئے اور یہاں سے قادیان گئے.بغیر کسی دلیل کے حضرت اقدس کا چہرہ دیکھ کر ہی وہ ایمان لے آئے.صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں.يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُّوحِي عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَاءِ کا ایک نظارہ حضرت میاں ابراہیم صاحب ابن مکرم محمد بخش صاحب روایت کرتے ہیں کہ میں نے سب سے پہلے حضرت اقدس کو اس وقت دیکھا جبکہ حضور جہلم تشریف لے جارہے تھے ، واپسی پر بھی دیکھا تھا.پھر لاہور 1904ء میں، پھر 1905ء میں قادیان گیا.قادیان جانے سے پہلے مجھے ایک خواب آئی تھی جس کا مفہوم یہ تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ والد صاحب گھر سے باہر گئے ہوئے ہیں اور گھر میں صرف میں اور میری چھوٹی ہمشیرہ ہیں.دیکھا کہ دو آدمی دروازے پر آئے ، دستک دی اور آواز دی میں نے باہر نکل کر دروازہ کھولا.وہ دونوں میری درخواست پر اندر تشریف لے آئے.میں نے دیکھا کہ ہمارے گھر کے صحن میں ایک دری اور تین کرسیاں بھی پڑی ہوئی ہیں اور سامنے ایک میز بھی پڑی ہوئی ہے.میں نے ان کرسیوں پر بٹھا دیا اور چھوٹی ہمشیرہ کو کہا کہ ان کے لئے چائے تیار کرو.وہ کو ٹھے پر ایندھن لینے کے لئے گئی.ابھی وہ سیٹرھیوں پر ہی تھیں کہ ایک سیاہ رنگ کا اچھے قدوقامت کا سانڈ اندر آ گیا.بڑا سارا بیل اور ان آدمیوں کو دیکھ کر فور اواپس ہو گیا.اور سیڑھیوں پر چڑھنے لگا.میں نے شور ڈال دیا کہ میری ہمشیرہ کو مار دے گا.شور سن کر پہلے سیاہ داڑھی والے مہمان اٹھنے لگتے ہیں مگر سرخ داڑھی والے نے کہا کہ چونکہ یہ کام آپ نے میرے سپرد کیا ہوا ہے اس لئے میرا کام ہے.چنانچہ وہ گئے.میں بھی پیچھے ہو لیا.ہمشیرہ دیوار کے ساتھ لگ گئی.اور اسے کچھ خراشیں لگی ہیں مگر زخم نہیں لگا.ہم اوپر چلے گئے.سانڈھ ہماری مغربی دیوار پر انجن کی شکل میں تبدیل ہو گیا.اور دیوار پر آگے پیچھے چلنے لگا.کہتے ہیں جب دیوار کے آخری کونے پر پہنچا تو اس پر مہمان نے سوٹا مارا اور پیچھے کی طرف گر کر چور چور ہو گیا.ہم واپس آگئے اور وہ مہمان پھر کرسی پر بیٹھ گئے اور چائے پی.مجھے بھی انہوں نے پلائی.
سبیل الرشاد جلد چہارم 293 چائے پینے کے بعد کچھ دیر وہ بیٹھے رہے، باتیں کرتے رہے پھر کہنے لگے، برخوردار! ہمیں دیر ہوگئی ہے اجازت دو تا کہ ہم جائیں.میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے بتا ئیں تو سہی کہ آپ کون ہیں تا میں اپنے والد صاحب کو بتا سکوں.میری اس عرض پر وہ دونوں خفیف سے مسکرائے.کالی داڑھی والے نے کہا کہ میرا نام محمد ہے اور ان کا نام احمد ہے.میں نے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا کہ پھر مجھے کچھ بتائیں.انہوں نے عربی زبان میں ایک کلمہ کہا جو مجھے یاد نہیں مگر اس کا مفہوم جو اس وقت میرے ذہن میں تھا وہ یہی تھا کہ تیری زندگی کے تھوڑے دن بہت آرام سے گزریں گے.پھر میں نے مصافحہ کیا.انہوں نے کہا کہ اپنے باپ کو میرا السلام علیکم کہ دینا.وہ باہر نکل گئے.میں نے ان کو رخصت کیا.ان کے جانے کے بعد خواب میں ہی میرے والد صاحب آگئے.میں نے سارا واقعہ سنایا.وہ فورا باہر نکل گئے.اتنے میں میری نیند کھل گئی جس کا باعث یہ ہوا کہ میرے باپ نے مجھے آواز دی کہ اٹھ کر نماز پڑھو.کہتے ہیں میں نے اپنے والد صاحب کو یہ خواب سنائی.اس دن جمعہ تھا.جمعہ کے وقت میں نے منشی احمد دین صاحب اپیل نولیس کو یہ خواب سنائی انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں خود لکھ کر یا مجھ سے لکھوا کر بھیج دی اور چند روز بعد کہا کہ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ جلسے پر اس لڑکے کو ساتھ لے آؤ.چھوٹی عمر تھی ان کی ، خواب دکھائی تھی اللہ تعالیٰ نے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اس لڑکے کو ساتھ لے آؤ.چنانچہ جلسے پر میں گیا.جب ہم مسجد مبارک میں گئے تو دو تین بزرگ بیٹھے تھے.ہم نے ان سے مصافحہ کیا ، اتنے میں حضرت اقدس مسیح موعود تشریف لے آئے.ہم کھڑے ہو گئے مصافحہ کیا پھر حضور بیٹھ گئے.منشی احمد دین صاحب نے عرض کی کہ حضور ! یہ وہ لڑکا ہے جسے خواب آئی تھی.حضور نے مجھے گود میں بٹھا لیا اور فرمایا کہ وہ خواب سناؤ.چنانچہ میں نے وہ خواب سنائی.پھر اندر سے کھانا آیا.حضور ر نے کھایا اور دوستوں نے بھی کھایا.اور جب حضرت اقدس کھانا کھا چکے تو تبرک ہمارے درمیان تقسیم کر دیا.ہم نے وہاں بیٹھے ہی کھایا.میرے والد صاحب نے عرض کی کہ مجھے کوئی متبرک دیں.اللہ تعالیٰ اس طرح بھی بچوں کو خوا ہیں دکھاتا ہے.اس زمانہ میں بھی بعض چھوٹی عمر کے بچے خوا ہیں دیکھتے ہیں.حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحب ابن مکرم شیخ بابو جمال الدین صاحب روایت کرتے ہیں کہ میں جب دسویں کلاس میں پڑھتا تھا تو حضرت اقدس کے مکان کے ارد گرد ہمارا پہرہ ہوا کرتا تھا.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ہم پہرہ دے ہی رہے تھے کہ ہم نے حضرت اقدس کی وفات کی خبر سنی.حضور کے زمانہ میں جب ہم پہرہ دیتے تھے تو ہمارے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہوا کرتی تھی.میاں فیروز دین صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت میر ناصر نواب صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور یہ جو نانبائی ہے یہ روٹیاں پر الیتا ہے.حضور خاموش
294 سبیل الرشاد جلد چہارم رہے.دوسرے دن پھر عرض کیا.حضور خاموش رہے.تیسرے دن پھر عرض کیا.آپ نے فرمایا: میر صاحب یہ تو ایک روٹی کے لئے دو دفع دوزخ میں جاتا ہے، ایک دفعہ نکالنے کے لئے اور ایک دفعہ لگانے کے لئے ،اس سے بڑھ کر میں اس کو کیا سزا دوں گا ؟ اگر کوئی اور اس سے اچھا آپ کو ملتا ہے تو آپ لے آئیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو بھی ایمان اور ایقان میں بڑھائے اور یہ لوگ جن کی روایات ہیں یقیناً ان کی نسلیں بھی یہ واقعات سن رہی ہوں گی.ہوسکتا ہے کچھ یہاں موجود بھی ہوں.اللہ تعالیٰ ان کو اخلاص و وفا میں بڑھاتا چلا جائے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی دعاؤں کے وارث ہم بھی اور ہماری آئندہ آنے والی نسلیں بھی بنتی چلی جائیں.اور جلد سے جلد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے جو غلبہ اسلام کی مہم ہے اس کو بڑی شان سے کامیاب اور پورا ہوتے ہوئے دیکھیں.“ " الفضل انٹرنیشنل 22 اکتوبر 2010ء) آپ کی ہر حرکت وسکون خلیفہ کے تابع ہونی چاہئے (ماہنامہ انصاراللہ ربوہ کی اشاعت کے پچاس سال پورے ہونے پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی پیغام) پیارے انصار بھائیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ مجلس انصار اللہ پاکستان ماہنامہ انصار اللہ کی اشاعت کے پچاس سال پورا ہونے پر ایک خصوصی شمارہ شائع کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے با برکت فرمائے اور قارئین پر اس کے نیک اثرات مرتب فرمائے.اس موقع پر میں آپ کو چند باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.جماعت کی ذیلی تنظیموں کے نظام میں انصار اللہ کی تنظیم ایسی ہے جس کے ممبران اپنی اس عمر کو پہنچ جاتے ہیں جس میں انسان کو اپنی زندگی کے انجام کے آثار نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں اور بڑی تیزی سے اس انجام کی طرف قدم بڑھتے چلے جاتے ہیں.اور اس انجام کا خوف اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ خالص ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور جھکے اور اس کا قرب چاہے.اس کا ایک ذریعہ نماز ہے جسے تمام عبادتوں میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے.گزشتہ دنوں ہم رمضان کے مہینے سے گزرے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ان دنوں میں کمزوروں میں بھی ایک خاص تبدیلی پیدا ہوئی ہوگی اور نمازوں کی طرف ہر کسی نے توجہ دی ہوگی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو عبادت کا مغز قرار دیا ہے.اس میں سب دُعائیں آجاتی ہیں.اگر کلمہ طیبہ مسلمان
سبیل الرشاد جلد چہارم 295 ہونے کا زبانی اقرار ہے تو نماز اس کی عملی تصویر ہے.پس میری پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ نمازوں میں با قاعدگی اختیار کریں اور اپنی آئندہ نسلوں کیلئے نیک نمونہ قائم کریں.دوسری بات قرآن کریم کی تلاوت، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ ہے.ہر مرتبہ پڑھنے سے نئے نئے معنی کھلتے ہیں.یہ مطالعہ جہاں آپ کو معرفت میں بڑھائے گا وہاں اس سے آپ کے بچوں کیلئے بھی ایک نیک نمونہ قائم ہوگا اور آپ کا یہ علم دعوت الی اللہ کے میدان میں بھی آپ کا مددگار ثابت ہوگا.تیسری بات دین کی خاطر مالی قربانیوں کی طرف توجہ دینا ہے.میں نے صف دوم کے انصار کو نظامِ وصیت میں شامل ہونے کی طرف توجہ دلائی تھی.ہر مجلس کی سطح پر اس کیلئے کوشش ہونی چاہئے.اس نظام میں شامل ہونے والوں کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دُعائیں کی ہیں.اسی طرح دوسری مالی تحریکات بھی ہیں.ان میں بھی حصہ لیں اور اس حوالے سے اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم انصار اللہ ہونے کا حق میں سے اپنا کہ انصار اللہ کا ادا کر رہے ہیں؟ انصار اللہ کا ایک اور اہم کام خلافت سے وابستگی اور اُس کے استحکام کیلئے کوشش کرنا ہے.جماعت اور خلافت ایک وجود کی طرح ہیں.افراد جماعت اس کے اعضاء ہیں تو خلیفہ وقت دل و دماغ کے طور پر ہیں.کیا کبھی ایسا ممکن ہوا ہے کہ انسانی دماغ ہاتھ کو کوئی حکم دے اور ہاتھ اُسے رڈ کر کے اپنی مرضی کے مطابق حرکت کرے.اگر آپ اس تعلق کو سمجھ جائیں اور اگر یہ سوچ ہر ایک میں پیدا ہو جائے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی فرد جماعت اپنے فیصلوں اور اپنے علمی نکتوں اور اپنے عملوں پر اصرار کریں.پس آپ کی ہر حرکت و سکون خلیفہ وقت کے تابع ہونی چاہئے.انصار اللہ کو ہمیشہ یا درکھنا چاہئے کہ آپ کے عملی نمونے اور پاک تبدیلیاں دوسری تنظیموں اور افراد جماعت سے بڑھ کر ہونی چاہئیں.ہمارے بڑوں نے انصار اللہ ہونے کا حق ادا کیا اور بے نفس ہو کر دین کی خاطر قربانیاں کیں تو آج ہمارا فرض ہے کہ ایک جہد مسلسل اور دُعاؤں کے ساتھ اپنے پیچھے آنے والوں کیلئے نیکی کے راستے ہموار کرتے جائیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت کو پلے باندھ لیں.آپ فرماتے ہیں کہ : بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اندر سچی تبدیلی اور خوف خدا اپنے دل میں پیدا کرے اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی میں ایک پاک نمونہ کر کے دکھاوے.اگر یہ نہیں تو پھر بیعت سے کچھ فائدہ نہیں.“
سبیل الرشاد جلد چهارم 296 اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی زندگیاں اس نہج پر چلانے والے ہوں.آمین والسلام خاکسار (دستخط ) مرزا مسرور احمد خلیفة اصیح الخامس (ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اکتوبر 2010ءصفحہ 9-8) شہدائے لاہور نے حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب جیسی روح کا مظاہرہ کرتے ہوئے استقامت کی لازوال تاریخ رقم فرمائی (سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ کا ماہنامہ انصار اللہ ربوہ کے شہدائے لاہور نمبر 2010ء کے لئے خصوصی پیغام ) ”پیارے قارئین! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ”ماہنامہ انصار اللہ ربوہ کی شہدائے لاہور کے بارہ میں ایک خصوصی شمارہ شائع کرنے کی کوشش، وقت کی ضرورت اور بڑا مبارک کام ہے.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور اس کی اشاعت ہر لحاظ سے بہت مفید اور با برکت ثابت ہو.اللہ کرے کہ یہ قارئین کے ایمان اور اخلاص میں ازدیاد اور تقویت کا باعث ہو.آمین ہماری جماعت میں شہادتوں کا یہ سلسلہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی قربانیوں اور راہِ مولیٰ میں جان کے نذرانے پیش کرنے کے اُن پاک نمونوں کی متابعت ہے جن کا قرآنی پیش گوئی وَ آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوبِهِمْ کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہونا مقدر تھا تا کہ یہ امر اس بات پر ایک بین ثبوت ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے اور آپ کی جماعت ایک سچی جماعت ہے.اسی طرح حضور علیہ السلام نے اپنے عہد مبارک میں سید الشہداء کی شہادت کے ذکر میں یہ فرمایا تھا کہ : ” مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے کیونکہ جس خدا نے بعض افراد جماعت کو یہ توفیق دی کہ نہ صرف مال بلکہ جان بھی اس راہ میں قربان کر گئے ، اس خدا کا صریح یہ منشاء ہوتا ہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی روح رکھتے ہوں.“ (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد : 20 صفحہ:70)
297 سبیل الرشاد جلد چہارم چنانچہ گزشتہ مہینوں میں لاہور کی ہماری دو مساجد میں نمازیوں پر جب اندھا دھند گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی تو وہاں بھی احمدیت کے جاں نثاروں نے حضرت شہزادہ عبد اللطیف صاحب جیسی روح کا مظاہرہ کیا اور جانوں کی اجتماعی قربانی پیش کر کے استقامت کی لازوال تاریخ رقم کی.ان کی یہ قربانی یقیناً جماعت میں جانوں کی اجتماعی قربانی کی ایک منفر د مثال ہے.ان سب کا ذکر خیر آپ میرے خطبات میں سن ہی چکے ہیں.یہاں مختصراً اتنا ہی کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے ان شہداء کو بہت سی عظیم الشان خوبیوں سے متصف کیا تھا.نمازوں کا اہتمام، تلاوت میں باقاعدگی ، خلافت سے محبت اور اخلاص و وفا، بچوں کی نیک تربیت اور اس پہلو سے ان کی مسلسل نگرانی جیسے اوصاف ان سب شہداء میں نمایاں طور پر پائے جاتے تھے.وہ دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے.اپنے ماتحتوں اور ساتھ کام کرنے والوں سے حسن سلوک اور خوش اخلاقی سے پیش آنا ، غریبوں سے ہمدردی، تمام رشتوں کا خیال رکھنا، ان کے بنیادی اخلاق کا حصہ تھا.یقیناً ان میں سے ہر ایک اپنے عہد کو پورا کرنے والا ایک روشن اور چمکدار ستارہ تھا.یہ لوگ ہمیں بھی عشق و وفا کے لہلہاتے کھیتوں کی طرف لے جانے والے ہیں.دشمن نے ایک مذموم سازش کی اور اپنے زعم میں احمدیوں سے ان کا دین اور ایمان چھینا چاہالیکن اس کا یہ خواب پورا نہ ہوسکا.ہم نے تو یہ نظارے دیکھے کہ باپ کے شہید ہونے پر نو دس سالہ بیٹے کو ماں نے یہ نصیحت کر کے مسجد بھجوایا کہ بیٹا وہیں کھڑے ہو کر جمعہ پڑھنا جہاں تمہارا باپ شہید ہوا تھا تا کہ یہ بات تمہارے ذہن میں رہے کہ موت ہمیں ہمارے عظیم مقاصد کے حصول سے خوفزدہ نہیں کر سکتی.پس جس قوم میں ایمان کی دولت سے لبریز ایسے بہادر بچے اور مائیں ہوں اس قوم کی ترقی کو کوئی دشمن اور دنیاوی طاقت روک نہیں سکتی.مخالفین اور دشمنان احمدیت کے ظالمانہ فعل اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ دعاؤں سے اور دلائل سے جماعت احمدیہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے.یہی وجہ ہے کہ دشمن کی ہر قسم کی مذموم حرکتوں کے باوجود احمدیت ہر جہت اور ہر سُو پھیلتی چلی جارہی ہے.سانحہ لاہور کے بعد بھی کئی سعید فطرت لوگوں نے بیعتیں کی ہیں.اس واقعہ نے جماعت کے ایمانوں کو مضبوطی بخشی ہے.جماعت میں عبادات، خلافت سے عشق و وفا ، باہم محبت اور اتحاد کا جذبہ پہلے سے بہت بڑھا ہے.ساری جماعت نے شہداء کی فیملیوں کی تکلیف اور غم کو جس طرح اپنے دلوں میں محسوس کیا ہے اور مجھے لکھ لکھ کر اس کا اظہار بھی کیا ہے یہ سوائے ایمان کی دولت کے نصیب نہیں ہوسکتا اور روئے زمین پر جماعت احمدیہ کے علاوہ آپ کو کہیں اس کی نظیر نہیں مل سکتی.پس یہ شہادتیں ہمیں ایمان و اخلاص اور وحدت و یگانگت کے جو سبق سکھا گئی ہیں اُن کو اگر ہر احمدی ہمیشہ اسی طرح اپنے اندر زندہ رکھے تو ہمارے شہداء اور ان کی قربانیاں بھی زندہ رہیں گی اور جماعت کو بھی اس سے ایک نئی زندگی ہمیشہ ملتی چلی جائے گی.
298 سبیل الرشاد جلد چہارم یہ شہداء تو بلا شبہ دائی زندگی اور اپنے خدا کی طرف سے ابدی جنتوں کے حقدار اور وارث ٹھہرے ہیں.ان شہیدوں کا خون انشاء اللہ رنگ لائے گا اور ان عظیم قربانیوں سے جماعت کیلئے ترقی کی نئی سے نئی شاہراہیں وجود میں آئیں گی.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر احمدی اپنے عہد بیعت کو نبھاتے ہوئے اپنے اندر وہ انقلاب عظیم پیدا کرنے کی کوشش کرے جو اسے اللہ تعالیٰ کا مقرب بنا دے اور یہی وہ روحانی انقلاب ہے جو زمانے کے منادی ہم میں پیدا کرنا چاہتے تھے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین والسلام خاکسار ( دستخط ) مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس (ماہنامہ انصار اللہ شہدائے لا ہور نمبر دسمبر 2010ء)
299 $ 2011 کے ارشادات و فرمودات سبیل الرشاد جلد چہارم باب نہم
سبیل الرشاد جلد چہارم 300 صف دوم کے انصار ڈیوٹیوں کے دوران اپنے خدام کو نہ بھولیں • ہر سطح کا عہدیدار انصاف کے تقاضوں کو خدا کا خوف رکھتے ہوئے پورا کرے ذیلی تنظیمیں میری باتوں کی جگالی کرواتی رہیں جماعتی عہد یدار دنیاوی عہد یدار نہیں بلکہ خادم ہے اگر عہدیدار ہی مطالعہ کرلیں تو 70 فیصد انصار مطالعہ مکمل کرنے والے ہو جائیں احمدیت کیا چیز ہے؟ اس کا پیغام کیا ہے؟ اپنی اولاد کی تربیت کی فکر کریں ان پر معاشرے کے غلط رنگ نہ چڑھنے دیں
سبیل الرشاد جلد چہارم 301 صف دوم کے انصار ڈیوٹیوں کے دوران اپنے خدام کو نہ بھولیں " حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 22 اپریل 2011ء میں فرمایا.یہ بھی بتا دوں کہ اس زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص و وفا میں بڑھے ہوئے بہت سے لوگ ہیں اور وہ اگلی نسلوں میں بھی یہ روح پھونک رہے ہیں.میں نے ایک دفعہ پاکستان کے احمدیوں کے لئے اس فکر کا اظہار کیا تھا کہ لاہور کے واقعہ کے بعد خدام یا شاید صنف دوم کے انصار بھی جو جماعتی عمارتوں اور مساجد میں ڈیوٹی دیتے ہیں، اُن میں سے بعض کے متعلق یہ اطلاع ہے کہ ایک لمبا عرصہ ڈیوٹی دینے کی وجہ سے اُن کی طرف سے تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے یا عدم دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے، اس لئے اس طرف توجہ کی ضرورت ہے یا نظام کو کچھ اور طریقے سے اس بارہ میں سوچنے کی ضرورت ہے.تو یہ بات جب صدر خدام الاحمدیہ پاکستان نے اپنے خدام تک پہنچائی تو مجھے خدام کی طرف سے، پاکستان کے خدام کی طرف سے اخلاص و وفا سے بھرے ہوئے کئی خطوط آئے کہ ہم اپنے عہد کی نئے سرے سے تجدید کرتے ہیں.نہ ہم پہلے تھکے تھے اور نہ انشاءاللہ آئندہ بھی ایسی سوچ پیدا کریں گے کہ جماعتی ڈیوٹیاں ہمارے لئے کوئی بوجھ بن جائیں.آپ بے فکر رہیں.اسی طرح عورتوں کے خطوط آئے کہ ہمارے بھائی یا خاوند یا بیٹے اپنے کاموں سے آتے ہیں تو فوراً جماعتی ڈیوٹیوں پر چلے جاتے ہیں اور ہم بخوشی انہیں رخصت کرتی ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکیلے رہ کر بھی کسی قسم کا خوف نہیں.پس یہ اخلاص و وفا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے جوشِ ایمان کی وجہ سے ہے.اس بارہ میں یہ بھی یا درکھیں کہ ان فرائض اور ڈیوٹیوں کے دوران اپنے خدا کو کبھی نہ بھولیں.نمازیں وقت پر ادا ہوں اور ڈیوٹی کے دوران ذکر الہی اور دعاؤں سے اپنی زبانوں کو تر رکھیں.ہماری سب سے بڑی طاقت خدا تعالیٰ کی ذات ہے.ہمیں جو مددملنی ہے وہ خدا تعالیٰ سے ملنی ہے.ہماری تو معمولی سی کوشش ہے جو اُس کے حکم کے ماتحت ہم کر رہے ہیں.جو کرنا ہے وہ تو اصل میں خدا تعالیٰ نے ہی کرنا ہے.پس جب خدا تعالیٰ سے چمٹ جائیں گے تو خدا خود دشمن سے بدلہ لے گا.اُس کے ہاتھ کو روکے گا.پس دعاؤں میں کبھی سست نہ ہوں اور پھر ان عبادتوں اور دعاؤں اور ذکر الہی کا اثر عام حالت میں بھی عملی طور پر ہر ایک کی شخصیت سے ظاہر ہورہا ہو تو تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بتائے ہوئے معیار کو پاسکتے ہیں" خطبات مسرور جلد 9 صفحہ (203)
سبیل الرشاد جلد چہارم 302 ہر سطح کا عہدیدارانصاف کے تقاضوں کو خدا کا خوف رکھتے ہوئے پورا کرے حضور انور نے 22 اپریل 2011 ءکو خطبہ جمعہ میں فرمایا." میں عہدیداران جماعت سے بھی یہ کہوں گا کہ وہ خلافت کے حقیقی نمائندے تبھی کہلا سکتے ہیں جب انصاف کے تقاضوں کو خدا کا خوف رکھتے ہوئے پورا کرنے والے ہوں.کسی بھی عہدیدار کی وجہ سے کسی کو بھی ٹھو کر لگتی ہے تو وہ عہدیدار بھی اُس کا اُسی طرح قصور وار ہے کیونکہ اُس نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی امانت کا حق ادا نہیں کیا.اگر اُس کی غلطی کی وجہ سے ٹھوکر لگ رہی ہے اور جان بوجھ کر کہیں ایسی صورت پیدا ہوئی ہے تو بہر حال وہ قصور وار ہے اور امانت کا حق ادا نہ کرنے والا ہے.پس ہر احمدی کو چاہے وہ کسی بھی مقام پر ہو، ہمیشہ یہ سمجھنا چاہئے کہ میں نے اپنے عہد بیعت کو قائم رکھنے کے لئے ، اپنے ایمان کو قائم رکھنے کے لئے ہر حالت میں صدق اور تقویٰ کا اظہار کرتے چلے جانا ہے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والا بن سکوں " (خطبات مسرور جلد 9 صفحہ 207) ذیلی تنظیمیں میری باتوں کی جگالی کرواتی رہیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 23 ستمبر 2011 ء بمقام گروس گیرا ؤ جرمنی میں لجنہ اماءاللہ جرمنی اور مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے اجتماعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا." اس اجتماع میں دونوں طرف تقریباً نصف جماعت کی حاضری تو تھی.اگر حاضر ہونے والوں کی اکثریت اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے والی بن جائے تو جو انقلاب دنیا کی اصلاح کا حضرت مسیح موعود دلانا چاہتے تھے اور جو انقلاب اُن کی جماعت کو لانا چاہئے اُس میں یہ لوگ مددگار بنے کا کردار ادا کرنے والے ہوں گے.اکثریت میں نے اس لئے کہا ہے کہ یقیناً ایسے بھی بیچ میں بیٹھے ہوتے ہیں جو زیادہ اثر نہیں لیتے ، لیکن جنہوں نے اثر لیا ہے، اپنے جائزے لئے ہیں، مجھے خطوط لکھے ہیں وہ بھی یادرکھیں کہ اگر آپ ان باتوں کی بنگالی نہیں کرتے رہیں گے، اگر ذیلی تنظیمیں میری طرف سے کہی گئی باتوں کی ہر وقت جگالی نہیں کرواتی رہیں گی تو پھر کچھ عرصہ بعد یہ باتیں، یہ جوش ، یہ شرمندگی کے جو اظہار ہیں یہ ماند پڑنے شروع ہو جاتے ہیں.
303 سبیل الرشاد جلد چہارم پس ذیلی تنظیمیں یا درکھیں کہ اگر حقیقت میں اجتماع میں شامل ہونے والوں اور ایم.ٹی.اے کے ذریعے سے سننے والوں پر دنیا میں کہیں بھی کوئی اثر ہوا ہے تو یہ لوہا گرم ہے اس کو اُس مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں جس مزاج کو پیدا کرنے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو بھیجا ہے" خطبات مسرور جلد 9 صفحه 475-476) جماعتی عہد یدار د نیا وی عہد یدار نہیں بلکہ خادم ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 30 ستمبر 2011ءکو خطبہ جمعہ میں فرمایا." پس کامیابی نتیجہ ہے سنتے ہی اطاعت کرنے کا.اللہ اور رسول کے نام پر جو احکامات دیئے جائیں ان کو سنتے ہی اطاعت کرنے کا نتیجہ کامیابی ہے.اور یہ سنا اور اطاعت کرنا اُن تمام باتوں کے لئے ہے جن کے کرنے اور نہ کرنے کا قرآن کریم میں ذکر ہے.مثلاً قرآن کریم فرماتا ہے کہ اپنی امانتوں کا حق ادا کرو.آپ کی امانتیں آپ کی ذمہ داریاں ہیں.ایک ذمہ داری جس طرح پڑتی ہے انسان اسے ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے.امانتیں جو آپ کے سپرد کی گئی ہیں وہ بھی اُسی طرح کی ذمہ داری ہے جن کے کرنے کا آپ کو حکم ہے.عہد یدار ہیں تو اُن کا جماعت کے لئے وقت دینا اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنا.افراد جماعت کے حقوق کی ادائیگی کی کوشش کرنا، یہ امانتیں ہیں.ایک ( جماعتی ) عہد یدار کوئی دنیاوی عہدیدار نہیں ہے جس نے طاقت کے بل پر اپنے کام کروانے ہیں بلکہ وہ خادم ہے.حدیث میں بھی آتا ہے کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے.( الجامع الصغیر حرف السين صفحہ نمبر 292 حدیث نمبر 4751 دار الكتب العلمية بيروت 2004ء) پس اس خدمت کے جذبے کو بڑھانے کی ضرورت ہے.تبھی جو خدمت، جو امانت آپ کے سپرد ہے آپ اُس کا حق ادا کر سکتے ہیں.میرے پاس جب بعض لوگ آکر یہ کہتے ہیں کہ میرے پاس فلاں فلاں عہدہ ہے تو میں عموماً یہ کہا کرتا ہوں کہ یہ کہو کہ فلاں خدمت میرے سپرد ہے.دوسرا تو بیشک عہد یدار کہے لیکن خود اپنے آپ کو خادم سمجھنا چاہئے اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے خدمت کا موقع دیا ہوا ہے.کیونکہ عہدہ کہنے سے سوچ میں فرق پڑ جاتا ہے.ایک بڑے پن کا احساس زیادہ ہو جاتا ہے، بڑے پن کا احساس
304 سبیل الرشاد جلد چہارم اس طرح کہ دماغ میں ایک افسرانہ شان پیدا ہو جاتی ہے، جبکہ عہد یدار، جماعتی عہد یدار ایک خادم ہوتا ہے اور جب عہد یدار اپنی امانتوں کے حق ادا کر رہے ہوں گے تبھی وہ خلافت کے، خلیفہ وقت کے حقیقی مددگار بن رہے ہوں گے.عہد یداروں کی عزت اور احترام افراد جماعت پر یقینا فرض ہے.لیکن وہ یہ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ اُن کی ، افراد جماعت کی ، خلافت احمدیہ سے وابستگی ہے اور کسی عہدیدار کے حکم کی نافرمانی کر کے وہ خلیفہ وقت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے.پس ہر سطح کے عہدے داروں کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کے حق صحیح طور پر ادا کرنے کی کوشش کریں.ہر عہدیدار کا رکھ رکھاؤ، بول چال، عبادت کے معیار دوسروں سے مختلف ہونے چاہئیں، ایک فرق ہونا چاہئے " خطبات مسر و رجلد 9 صفحه 490-491) اگر عہد یدار ہی مطالعہ کر لیں تو 70 فیصد انصار مطالعہ مکمل کرنے والے ہو جائیں اراکین نیشنل مجلس عاملہ و مقامی مجالس ناروے کو مطالعہ کتب کے حوالہ سے جائزہ لینے کی تلقین یکم اکتوبر 2011ء کو نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ ناروے کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی.دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دریافت فرمانے پر قائد عمومی نے بتایا کہ ہماری مجالس کی تعداد 12 ہے اور انصار کی تعداد 214 ہے.حضور انور نے فرمایا جب آپ کی رپورٹس میں با قاعدگی نہیں ہے، آپ کو اپنی مجالس کی طرف سے بھی رپورٹس با قاعدہ موصول نہیں ہوتیں تو پھر آپ نے کیا کرنا ہے.آپ کو تمام مجالس کی طرف سے رپورٹس آنی چاہئیں.مجالس کو یاد دہانی کروائیں.دس مجالس تو آپ کی اوسلو میں ہیں.جمعہ پڑھنے عہد یدار آتے ہیں جمعہ پر یاد کروا سکتے ہیں.مجالس کے دورے کر کے یاد کروا سکتے ہیں.یاد کروانا تو کوئی مسئلہ نہیں رہا.آپ کے جو نائب صدران ہیں وہ مجالس کے دورے کریں اور توجہ دلائیں.آپ کی مجلس تو ایک چھوٹی مجلس ہے.اچھا کام کر کے ایک مثالی مجلس بن سکتی ہے.حضور انور نے فرمایا کہ بعض بڑی مجالس یہ کہتی ہیں کہ اگر چھوٹی مجالس کوعلم انعامی کے مقابلہ میں شامل کریں گے تو یہ اپنی تعداد کم ہونے کے لحاظ سے سب کچھ کر لیں گے اس لئے ان کا علیحدہ معیار ہونا چاہئے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ کی مجلس چھوٹی ہے.آپ کا معیار تو بہت اونچا
سبیل الرشاد جلد چہارم 305 ہونا چاہئے.آپ ہر چیز صرف رسمی طور پر نہ چھوڑیں.انشاء اللہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بھر پور کوشش کریں.آپ کام کریں گے، کوشش کریں گے تو خدا تعالیٰ آپ کے کام میں برکت ڈالے گا.یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.نا ئب صدر اول نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی ذمہ داری زعماء سے رابطہ رکھنا ہے.حضور انور نے فرمایا کہ مجالس کی میٹنگز میں جایا کریں اور ان کو توجہ دلایا کریں کہ اپنی رپورٹس بر وقت بھیجا کر یں.نا ئب صدر صف دوم نے بھی اپنے کام کی رپورٹ پیش کی.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنا لائحہ عمل پڑھیں اور دیکھیں کہ کیا کیا کام آپ کے سپر د ہیں.صرف عہدہ پر راضی نہ ہوں بلکہ کام کیا کریں.کتنے انصار سیر کرتے ہیں ، کتنے ورزش کرتے ہیں ، سائیکل چلاتے ہیں ، انصار کو اس طرف توجہ دلائیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ کے ناروے میں تو بڑے خوبصورت علاقے ہیں انصار سیر کریں اور مضامین لکھیں.ان میں مقابلہ ہو اور انعام دیا جائے.قائد تعلیم سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا کہ کیا پروگرام بنایا ہے؟ قائد تعلیم نئے بنے تھے حضور انور کی خدمت میں صدر صاحب نے رپورٹ پیش کی کہ ماہانہ ایک کتاب کا مطالعہ رکھا ہوا ہے اور ہم نے بھی وہی کتاب رکھی ہے جو جماعت کی طرف سے مقرر کی گئی ہے.جماعت کی طرف سے اکتوبر میں گورنمنٹ انگریزی اور جہاد.نومبر میں ایک غلطی کا ازالہ اور دسمبر میں ”پیغام صلح ، مقرر کی گئی ہیں.حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ پہلے یہ جائزہ لیں کہ آپ کی نیشنل مجلس عاملہ کے ممبران نصاب کا مطالعہ کرنے والے ہیں.پھر آپ کی مقامی مجالس عاملہ ہیں ان کا جائزہ لیں کہ ان مجالس کی عاملہ کے سب ممبران مطالعہ کرنے والے ہیں اور مطالعہ مکمل کر لیا ہے.اگر آپ کے عہدیدار ہی مطالعہ کر لیں تو 70 فیصد انصار تو ویسے ہی ہو جائیں گے جو مطالعہ مکمل کرنے والے ہوں گے.حضور انور نے فرمایا انصار میں جو مضمون نویسی کا مقابلہ ہے اس کے لئے آپ کو مواد بھی مہیا کرنا پڑے گا.کتب بتانی پڑیں گی.اس بارہ میں کمال یوسف صاحب سے مدد لیں.قائد تربیت نو مبائعین نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت ایک نو مبائع ناصر ہیں
سبیل الرشاد جلد چہارم جن سے رابطہ ہے.306 حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تین سال کا عرصہ اس لئے ہے تا کہ اس میں ایک نو مبائع کی اس حد تک تربیت ہو جائے کہ وہ نظام جماعت میں سمویا جائے.اسے چندوں کا پتہ ہو اور باقی نظام کا پتہ ہو اور اس طرح ہو جائے جس طرح وہ پرانا احمدی ہے.لیکن اب تو جو پرانے احمدی ہیں ان میں سے ایک حصہ خود نمازوں میں کمزور ہے، چندوں میں کمزور ہے ، شرح کے مطابق ادا ئیگی نہیں ہے.آپ نے نو مبائع کی تربیت اس طرح کرنی ہے کہ اس کو پتہ ہونا چاہئے کہ تین سال بعد میں نے جماعتی نظام کا مکمل حصہ بن جانا ہے اور Main Stream میں چلے جانا ہے.قائد تبلیغ نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اختلافی مسائل تیار کر کے داعیان الی اللہ کو سکھانے کے لئے ایک نصاب بنایا ہے.حضور انور نے فرمایا لیف لیٹس ، فلائرز تقسیم کرنے کا انصار اللہ نے کیا پروگرام بنایا ہے.ناروے کی پانچ ملین آبادی ہے.جو چھوٹے ممالک ہیں ان میں تو دس فیصد آبادی تک پیغام پہنچنا چاہئے اور اس میں کم از کم تین فیصد تو آپ انصار کا حصہ ہونا چاہئے.حضور انور نے فرمایا جو بوڑھوں کے لئے گھر ہیں وہاں جائیں ، بوڑھوں کے پاس جائیں ان سے واقفیت بڑھے گی ان میں بھی تقسیم کریں.قائد تجنید نے بتایا کہ ہماری مکمل تجنید 214 ہے.صف اول کے 126 انصار ہیں اور صف دوم کے 88 ہیں اور بارہ مجالس ہیں.حضور انور کے دریافت فرمانے پر قائد تجنید نے بتایا کہ ہم نے اپنی تجنید اس طرح مکمل کی ہے کہ پہلے قائدین کو بھجوائی تھی.انہوں نے Update کر کے بھیجی ہے.قائد ایثار سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ خدمت خلق کا کیا پروگرام بنایا ہے.قائد ایثار نے بتایا کہ گزشتہ نو ماہ میں اولڈ پیپلز ہاؤس کے تین چار دورے کئے ہیں.بوڑھوں کو تحائف دیئے ہیں.عید پر بھی تحائف دیئے تھے.حضور انور نے فرمایا آپ کو خدمت کرنے کے مختلف راستے نکالنے چاہئیں.قائد اشاعت نے بتایا کہ انصار اللہ کا پہلا شمارہ نکالا ہے اب دوسرے شمارہ پر کام ہورہا ہے.رسالہ کا نام انصار اللہ ہے.قائد مال کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ مجالس سے
307 سبیل الرشاد جلد چهارم Data اکٹھا کریں.کون کون سے انصار ہیں.کتنی کتنی عمریں ہیں.اور ان میں سے کتنے کمانے والے ہیں.جو اپنی آمد نہیں بتا رہے وہ اتنا لکھ دیں کہ اپنی آمد کے مطابق دے رہے ہیں.آپ کا کام اپنا Data اکٹھا کرنا ہے اور جماعت کی مدد کرنا ہے اور اپنا Data جماعت کو مہیا کرنا ہے.جماعت کے ڈیٹا پر انحصار کرنا درست نہیں ہے بلکہ آپ اپنا علیحدہ Data بنائیں اور کوائف تیار کریں.حضور انور نے چندے کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ چندے کا معاملہ سچائی کے ساتھ ہونا چاہئے.اصل چیز فگر ز ( Figures) نہیں ہے بلکہ روح ہے جس کے ساتھ چندہ دینا ہے اور خدا کی رضا کی خاطر دینا ہے.ٹیکس سمجھ کر نہیں دینا.قائد تربیت نے ایک جائزہ فارم حضور انور کی خدمت میں پیش کیا جس میں جائزہ کے لئے ہر ناصر سے بعض سوالات پوچھے گئے تھے.اس فارم میں پہلا سوال یہ تھا کہ کیا روزانہ پانچوں نمازیں باجماعت پڑھتے ہیں؟ اس پر حضور انور نے فرمایا اس سوال کے الفاظ سوچ کر ایسے بنائیں جو بلا وجہ دلوں میں بے چینی پیدا نہ کریں.قائد تعلیم القرآن وقف عارضی کے کام کا جائزہ لیتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا سال میں کم از کم دس فیصد انصار وقف عارضی کریں.پھر آہستہ آہستہ تعداد بڑھائیں.بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی طرف توجہ کریں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ انصار کوحضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی توجہ دلائی تھی داڑھی صرف اس لئے نہیں رکھنی کہ عہدیدار ہیں اور جب عہدہ سے فارغ ہوئے تو داڑھی بھی ختم ہوگئی.بلکہ احساس ہونا چاہئے اور داڑھی رکھنی ہے تو باقاعدہ رکھیں.مجلس عاملہ کے ایک ممبر نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ حضور کو مسجد کیسی لگی ہے.حضور انور نے فرمایا مسجد بہت خوبصورت اور اچھی ہے.دنیا کے لوگ اس کی تعریف کر رہے ہیں.اصل چیز اس کی آبادی ہے.(ماہنامہ انصار اللہ اپریل 2012 ، صفحہ 18 تا 21 )
سبیل الرشاد جلد چہارم 308 احمدیت کیا چیز ہے؟ اس کا پیغام کیا ہے؟ صرف احمدیت ہی حقیقی اسلام کو امن و محبت کے مذہب کے طور پر پیش کرتی ہے احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے جماعتی و ذیلی تنظیموں کو نصیحت جرمنی میں نو مبائعین کی ایک محفل میں مورخہ 18اکتوبر 2011ء کو ایک لبنانی احمدی دوست نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ اب جرمن قوم میں مذہب کی طرف اور اسلام کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے.تو ان لوگوں تک اسلام کا صحیح پیغام پہنچانے کے لئے ہمیں کیا طریق اختیار کرنا چاہئے؟ اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اگر جرمن قوم کا مزاج بدل رہا ہے اور ان کا اسلام ، مذہب یا احمدیت کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اب خدا تعالیٰ کی مرضی ہے کہ ہم جرمنوں تک احمدیت کا پیغام پہنچائیں.اسی لئے میں نے جماعت کو اور ذیلی تنظیموں کو کہا تھا کہ احمدیت کا پیغام پھیلانے کے لئے سب سے پہلے صرف لوگوں کو اتنا بتائیں کہ احمدیت کیا چیز ہے؟ احمدیت کا پیغام کیا ہے؟ صرف احمدیت ہی وہ مذہب ہے جو کہ دنیا میں حقیقی اسلام اور امن و محبت کو پیش کرتا ہے.اگر یہ پیغام لوگوں تک پہنچ جاتا ہے تو پھر اگلا قدم یہ ہے کہ ہم بتائیں کہ یہ پیغام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے.تو اس طرح سے لوگوں کو آپ کا پیغام سننے میں دلچسپی پیدا ہو گی.اور احمدیت کا پیغام سمجھیں گے.اور جب یہ ہو جائے تو پھر آپ کی ذمہ داری بھی مزید بڑھ جاتی ہے.الفضل انٹر نیشنل 6 جنوری 2012ء) اپنی اولاد کی تربیت کی فکر کریں ان پر معاشرے کے غلط رنگ نہ چڑھنے دیں سالانہ اجتماع انصار الله جرمنی 2011 ء کے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا پیغام پیارے انصار بھائیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مکرم صد ر صاحب انصار اللہ جرمنی نے سالانہ اجتماع کے لئے مجھ سے پیغام بھجوانے کی درخواست کی ہے.اس موقع پر میں آپ کو تربیت اولاد کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.جس کا بہترین طریق یہ ہے کہ خود
309 سبیل الرشاد جلد چہارم اپنا نیک نمونہ ان کے سامنے پیش کریں اور ان کے لئے دعائیں کریں.حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ہیں.بعض لوگوں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ اولاد کے لئے کچھ مال چھوڑنا چاہئے.مجھے حیرت ہوتی ہے کہ مال چھوڑنے کا تو ان کو خیال آتا ہے.مگر یہ خیال ان کو نہیں آتا کہ ایسے لوگ اولاد کے لئے مال جمع کرتے ہیں اور اولاد کی صلاحیت کی فکر اور پر واہ نہیں کرتے.وہ اپنی زندگی ہی میں اولاد کے ہاتھ سے نالاں ہوتے ہیں اور اس کی بداطواریوں سے مشکلات میں پڑ جاتے ہیں اور وہ مال جو انہوں نے خدا جانے کن کن حیلوں اور طریقوں سے جمع کیا تھا آخر کار بدکاری اور شراب خوری میں صرف ہوتا ہے.اور وہ اولاد ایسے ماں باپ کے لئے شرارت اور بدمعاشی کی وارث ہوتی ہے.اولاد کا ابتلاء بہت بڑا ابتلا ہے.اگر اولاد صالح ہو تو پھر کس بات کی پرواہ ہوسکتی ہے.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے.وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِين (الاعراف: 197) یعنی اللہ تعالیٰ آپ صالحین کا متولی اور متکفل ہوتا ہے.اگر بد بخت ہے تو خواہ لاکھوں روپیہ اس کے لئے چھوڑ جاؤ وہ بدکاریوں میں تباہ کر کے پھر قلاش ہو جائے گی.اور ان مصائب اور مشکلات میں پڑے گی جو اس کے لئے لازمی ہیں.جو شخص اپنی رائے کو خدا تعالیٰ کی رائے اور منشاء سے متفق کرتا ہے وہ اولاد کی طرف سے مطمئن ہو جاتا ہے اور وہ اسی طرح پر ہے کہ اس کی صلاحیت کے لئے کوشش کرے اور دعائیں کرے...اولاد کے لئے اگر خواہش ہو تو اس غرض سے ہو کہ وہ خادم دین ہو ( ملفوظات جلد 4 صفحہ : 443-445) یورپ کے ماحول میں بہت سے والدین اپنی اولاد کے متعلق متفکر اور پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ اولا دتو ہے لیکن نا فرمان ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی معاشرہ میں روز مرہ کی زندگی بہت آسان اور سہولیات سے پر ہے.جو تربیت کا زمانہ ہوتا ہے اس وقت غفلت برتی جاتی ہے اور جب ہاتھ سے نکلنے لگتی ہے تو اس وقت بے بسی کی کیفیت ظاہر کرتے ہیں.مومن تو آسائش کے وقت بھی خدا تعالیٰ کی یاد اور اس کی نعمتوں کے شکر سے غافل نہیں ہوتے.اس لئے اپنی اولاد کی تربیت کی فکر کریں اور ان پر معاشرے کے غلط رنگ کبھی نہ چڑھنے دیں.انہیں تقویٰ کے رنگوں سے مزین کریں.انہیں نمازوں کا عادی بنائیں.روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دلاتے رہیں.ان کی نیکیوں اور دین کی خدمت کی باتیں آپ کے لئے فخر کا باعث ہونی چاہئیں.اگر آپ منتقی اور دیندار اولاد چھوڑ جائیں تو یہی وہ متاع ہے جو آخرت میں بھی آپ کے کام آئے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس جو ابھی آپ نے سنا ہے اس کو سامنے رکھ کر اپنی
سبیل الرشاد جلد چہارم 310 زندگیوں کا جائزہ لیں اور اپنی اصلاح اور اولاد کی نیک تربیت پر دھیان دیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی تو فیق دے.آپ کے اجتماع کو ہر لحاظ سے کامیاب کرے اور تمام شاملین پر اس کے نیک اثرات مرتب فرمائے.آمین والسلام خاکسار ( دستخط ) مرزا مسرور احمد خلیفه امسیح الخامس (ماہنامہ انصار اللہ نومبر 2011 ، صفحہ 9-10)
311 & 2012 کے ارشادات و فرمودات سبیل الرشاد جلد چہارم
سبیل الرشاد جلد چہارم 312 یہ انصار کا بھی کام ہے کہ وہ اپنے نمونے آنحضرت کے اعلیٰ خلق کے مطابق کریں عہد یدار مسجد میں حاضر ہونا شروع ہو جا ئیں تو مسجدوں کی رونقیں بڑھ جائیں گی پیچھے ہٹے لوگوں کا جائزہ لے کر کیٹیگری (Category) بنائیں قائدین کو دوسروں کے لئے نمونہ ہونا چاہئے ہر سطح کی ذیلی تنظیموں اور مرکزی عہدیداروں کو بھی میں کہتا ہوں کہ اپنے جائزے لیں انصار حقیقی رنگ میں اپنی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے انصار اللہ بنیں وقف عارضی کیا کریں انصار اللہ اچھا کام کر رہی ہے مگر میں ان سے اور کام چاہتا ہوں فارغ انصار وقف عارضی کریں اور دوسروں کو قرآن کریم پڑھائیں انصار اللہ کو جماعتی نظام کے ساتھ مل کر رشتہ ناطہ کے مسائل حل کرنے چاہئے
سبیل الرشاد جلد چہارم 313 یہ انصار کا بھی کام ہے کہ وہ اپنے نمونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ خلق کے مطابق کریں 5 فروری 2012ء کو بنگلہ دیش کے جلسہ سالانہ پر ایم ٹی اے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ براہ راست حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا.اسی طرح بے شمار خلق ہیں جو آپ میں پائے جاتے ہیں، وقت کی کمی کی وجہ سے بیان نہیں ہو سکتے.کوئی خُلق بھی لے لیں.اُس میں آپ کا اسوہ آسمانوں کو چھوتا ہوا نظر آئے گا.کیا آج کل کے دین کے نام نہاد علماء یا دوسروں پر کفر کے فتوے لگانے والوں میں یہ اخلاق ہیں ؟ ان لوگوں سے تو ہمسائے بھی محفوظ نہیں.جماعت احمدیہ کے افراد تو آئے دن بعض ملکوں میں اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ اُن کے ہمسائے انہیں کس طرح ان تکلیفوں میں مبتلا کر رہے ہیں.بنگلہ دیش میں بھی یہ صورتحال ہے اور وہاں لوگوں کو اس کا تجربہ ہے.بہر حال یہ تو اُن کے عمل ہیں جو بگڑی ہوئی قوم ہیں.وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے زیر اثر پورے ماحول کو ہی گندہ کر دیا ہے.لیکن ہم جو مسیح محمدی کو ماننے والا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ہمیں اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو پہلے سے بڑھ کر اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ دنیا کو بتاسکیں کہ آج ہم حُبّ پیمبری کا صرف نعرہ لگانے والے نہیں ہیں، بلکہ اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے بھی ہم ہی ہیں.دنیا کو بتائیں کہ یہ اعلیٰ اخلاق اور اسوہ رسول پر چلنے کا ادراک ہمیں زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق نے دیا ہے.پس آؤ اور اس غلام صادق کے دامن سے جُڑ جاؤ تا کہ دنیا اور آخرت سنوار نے والے بن سکو.یہ بنگلہ دیش کے رہنے والے نوجوانوں کا بھی کام ہے، انصار کا بھی کام ہے اور خواتین کا بھی کام ہے کہ اپنے نمونے اس اعلیٰ خلق پر قائم کرنے کی کوشش کریں جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے قائم فرمایا.پورے جماعتی نظام کو ایک مہم کی صورت میں پہلے اپنی اصلاح کرنے اور پھر اس پیغام کو ملک کے کونے کونے میں ہر شخص تک پہنچانے کی ضرورت ہے.اپنے ہم وطنوں پر ثابت کر دیں کہ آج ہم ہی سب سے زیادہ حضرت خاتم الانبیاء حمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے ہیں.یہی وہ پیغام ہے جس کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے.پس آگے بڑھیں اور اس زمانے کے امام کو ماننے کا حق ادا کریں.مصلحتوں اور سوچوں میں نہ پڑ جائیں.دشمن جو احمدیت کو ختم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا آخری زور لگا رہا ہے یہ تو انشاء اللہ تعالیٰ کبھی کامیاب نہیں ہوگا.یہ آخری زور ہے اور اس کے بعد انشاء اللہ تعالٰی اس کی موت ہے.احمدیت کا پھیلنا الہی تقدیر ہے.یہ لوگوں کے منصوبے سے بھی ختم نہیں ہو سکتا.لیکن اگر آپ نے اس تقدیر کا حصہ بنا ہے تو اپنے
314 سبیل الرشاد جلد چہارم عمل اور دعاؤں سے اس کا حصہ بننے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو جلسے کی برکات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان برکات کو ہمیشہ اپنے دلوں میں قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.اس جوش اور جذبے کو جو اس وقت آپ کے دلوں میں بھرا ہے، ہمیشہ قائم رکھے اور جو ذمہ داریاں آپ کے ذمہ اس زمانے کے امام نے لگائی ہیں، اُن کو پورا کرنے کا ہمیشہ حق ادا کرتے چلے جانے والے ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کو دشمن کے ہر شر اور ہر حملے سے محفوظ رکھے.آپ کے گھروں میں آپ کی ہر آن حفاظت کے سامان پیدا فرما تارہے.آپ اور آپ کی نسلوں میں ایمان اور ایقان میں اضافہ فرماتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ جلد وہ دن دکھائے جب ہم احمدیت کی فتوحات اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے ہوں" (آمین) (الفضل انٹرنیشنل 25 مئی 2012ء) ہر تنظیم کے عہد یدار مسجد میں حاضر ہونا شروع ہو جائیں تو مسجدوں کی رونقیں بڑھ جائیں گی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 30 مارچ 2012ء کو خطبہ جمعہ میں جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہد یداروں کو مخاطب ہو کر فرمایا.عہدیدار خاص طور پر نمازوں کی باجماعت ادا ئیگی میں اگر سستی نہ دکھا ئیں کیونکہ ان کی طرف سے بھی بہت ستی ہوتی ہے، اگر وہی اپنی حاضری درست کر لیں اور ہر سطح کے اور ہر تنظیم کے عہدیدار مسجد میں حاضر ہونا شروع ہو جائیں تو مسجدوں کی رونقیں بڑھ جائیں گی اور بچوں اور نو جوانوں پر بھی اس کا اثر ہوگا ، اُن کو بھی توجہ پیدا ہوگی.ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ کسی کا رتبہ کسی عہدے کی وجہ سے نہیں ہے.دنیا کے سامنے تو بیشک کوئی عہدیدار ہو گا، اور اُس کا رتبہ بھی ہو گا لیکن اصل چیز خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ہے اور وہ اس ذریعے سے حاصل ہوگا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز معراج ہے.اس معراج کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے.پس پہلے عہد یدار اپنے جائزے لیں اور پھر اپنے زیر اثر بچوں، نوجوانوں اور لوگوں کو اس طرف توجہ دلائیں.ہماری کامیابی اُسی وقت حقیقت کا روپ دھارے گی جب ہر طرف سے آوازیں آئیں گی کہ نماز کے قیام کی کوشش کرو.ورنہ صرف یہ عقیدہ رکھنے سے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے ، یا قرآن کریم کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہے، یا تمام انبیاء معصوم ہیں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہی مسیح و مہدی ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی تھی، تو اس سے ہماری کامیابیاں نہیں ہیں.ہماری کامیابیاں اپنی عملی حالتوں کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے میں ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دی.جس میں سب سے زیادہ اہم نماز
315 سبیل الرشاد جلد چہارم کے ذریعے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے.ورنہ ہمارا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ شرک نہیں کروں گا.شرک تو کر لیا اگر اپنی نمازوں کی حفاظت نہ کی.اللہ تعالیٰ نے تو حکم دیا ہے کہ نمازیں پڑھو.نمازوں کے لئے آؤ.اگر نمازوں کی حفاظت نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ نماز کی جگہ کوئی اور متبادل چیز تھی جس کو زیادہ اہمیت دی گئی تو یہ بھی شرک خفی ہے" (الفضل انٹر نیشنل 20 اپریل 2012ء) پیچھے ہٹے لوگوں کا جائزہ لے کر کیٹیگری (Category) بنائیں کہ وہ کیوں پیچھے ہٹے ہوئے ہیں کس وجہ سے ان کا اعتماد ختم ہوا ہے.ان کو قریب لانے کے لئے سعی کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 2 جولائی 2012ء کو امریکہ کی نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ کے ساتھ میٹنگ میں درج ذیل ہدایات فرمائیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کے بعد نائب صدر مجلس انصار اللہ سے ان کے سپرد کاموں کے بارہ میں دریافت فرمایا جس پر نائب صدر صاحب نے بتایا کہ پیچھے ہٹے ہوئے لوگوں سے رابطہ کر کے ان کو قریب لانا ان کے ذمہ ہے.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ پیچھے ہٹے ہوئے ہیں ان کی کیٹگری (Category) بنائیں.بعض عہدیداران سے ناراض ہو کر پیچھے ہٹے ہوں گے.بعض کسی اور وجہ سے ہٹے ہوں گے.سارا جائزہ لیں کہ کیا وجہ ہے کہ ان کا اعتماد ختم ہوا.یہ کیوں پیچھے ہٹے ہیں ہر ایک کا انفرادی جائزہ لیں پھر ان کو قریب لائیں.ان کے قریب لانے کیلئے ایسے لوگوں کو مقرر کریں جن کی وہ عزت و احترام کرتے ہیں.نائب صدر صف دوم سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کتنے انصار ورزش کرتے ہیں.سائیکل چلاتے ہیں یا پیدل سیر کرتے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ ہر مجلس کا Data اکٹھا کریں کہ کتنے ورزش کرنے والے ہیں اور سائیکل چلانے والے یا پیدل چلنے والے ہیں.سال میں دو تین دفعہ Walk آرگنائز کرلیا کریں.ایک نائب صدر صاحب نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وہ انصار کی ویب سائٹ آرگنائز کرتے ہیں.قائد عمومی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دریافت فرمانے پر بتایا کہ ہماری 68 مجالس ہیں اور ان میں سے صرف ایک مجلس ست ہے باقی 67 مجالس اپنی رپورٹ ریگولر بھجواتی ہیں.انصار کی مجموعی تعداد 2602 ہے.جب مجالس سے رپورٹس آتی ہیں تو قائدین اور صدر صاحب ان رپورٹس پر اپنا تبصرہ دیتے
316 سبیل الرشاد جلد چہارم ہیں.ریجنل ناظمین بھی اپنے ریمارکس دیتے ہیں.پھر یہ ریمارکس زعماء مجالس کو بھجوائے جاتے ہیں.قائد تبلیغ نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ امسال انصار اللہ کے تحت پانچ نئے احمدی ہوئے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ داعیان الی اللہ کی کوئی پیشل ٹیم ہے یا کسی کی ذاتی کوششوں کے نتیجہ میں یہ لوگ احمدی ہوئے ہیں.اس پر قائد تبلیغ نے بتایا کہ ذاتی رابطوں کے نتیجہ میں ان لوگوں نے بیعت کی ہے.قائد مال نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 2602 انصار ہیں اور ہمارا سالانہ بجٹ 3,98000 ڈالرز ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی کہ جو فارغ ہو چکے ہیں.ریٹائر ہو چکے ہیں ان کے ماہانہ چندہ کے لئے اپنی مجلس شوری میں معاملہ رکھ کر کوئی رقم معین کریں.قائد تعلیم القرآن نے بتایا کہ آن لائن کلاسز لی جارہی ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو انگلش سپیلنگ انصار نو مبائعین ہیں.ان کے لئے تعلیم القرآن کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد ہے.بیشک نو مبائعین کے قائد ان کیلئے کام کر رہے ہیں مگر آپ کی اپنی ذمہ داری ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ واقفین عارضی کے نظام کو مضبوط بنائیں اور اس میں نئے آنے والے اسائیلم سیکر ز کو بھی شامل کریں.آڈیٹر مجلس انصار اللہ نے بتایا کہ وہ ہر سہ ماہی آؤٹ کرتے ہیں اب جلسہ کے بعد سینٹر کا آڈٹ کرنا ہے.قائد تربیت نو مبائعین نے بتایا کہ 43 نو مبائعین تھے.اب 38 رہ گئے ہیں باقی پانچ تین سال کی حد عبور کر چکے ہیں اور جماعتی نظام کا حصہ بن گئے ہیں.جو اس وقت زیر تربیت ہیں ان میں سے بعض Active ہیں.تبلیغ بھی کرتے ہیں اور تربیتی پروگراموں میں شامل ہوتے ہیں.مجالس میں سیکرٹریان تربیت کے ان لوگوں سے رابطے ہیں.قائد تجنید نے بتایا کہ انصار کی تجنید 2602 ہے.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عام طور پر تجنید اور مال کا فگر ایک جیسا نہیں ہوتا.آپ گراس روٹ لیول پر آر گنائز کریں اور اپنی تجنید کا ایک دفعہ پھر جائزہ لیں.قائد ایثار نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہم ضرورتمندوں کیلئے میڈیکل کیمپس اور بلڈ ڈونیشن (Blood Donation) کے ذریعہ مدد کرتے ہیں.ان کو ادویات بھی فراہم کرتے ہیں.خوراک بھی مہیا کرتے ہیں اور احمدی احباب کو کمپیوٹر ٹریننگ دیتے ہیں اور ان کو انٹرویو وغیرہ کیلئے تیار کرتے ہیں.قائد صحت جسمانی نے بتایا کہ انصار کو تلقین کی ہے کہ وہ سائیکل کا استعمال کریں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ نائب صدر صف دوم کے ساتھ مل کر اپنا پروگرام ترتیب دیں.قائد تعلیم نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے مطالعہ کیلئے کتب مقرر کی ہوئی ہیں اور سال میں دو مرتبہ امتحان بھی لیتے ہیں جس میں سے 26 سے 32 فیصد انصار حصہ لیتے ہیں.حضور انور نے
سبیل الرشاد جلد چہارم 317 ہدایت فرمائی کہ ایک تو اس تعداد کو بہتر کریں اور دوسرے کتاب شرائط بیعت بھی اپنے نصاب میں رکھیں اور کوشش کریں کہ 80 فیصد انصار امتحان میں شریک ہوں اور اس ٹارگٹ کو حاصل کریں.قائد تربیت نے بتایا کہ ہم انصار کو نمازوں کی طرف توجہ دلا رہے ہیں.اس پر حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ جو ایک دو نمازوں میں آرہے ہیں ان کو توجہ دلائیں کہ زیادہ میں آئیں.اور جو با قاعدہ پانچ نمازیں ادا کر رہے ہیں ان کو توجہ دلائیں کہ تہجد ادا کریں.نوافل ادا کریں اور اپنی توجہ خدا کی طرف رکھیں.قائد تحریک جدید نے بتایا کہ تحریک جدید کے چندہ میں 9لاکھ ڈالر انصار اللہ کی طرف سے شامل تھا اور 54 فیصد انصار اللہ کی شمولیت تھی.(الفضل انٹرنیشنل 7 ستمبر 2012ء) قائدین کو دوسروں کے لئے نمونہ ہونا چاہئے حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ نے 17 جولائی 2012ء کو بیت السلام کینیڈا میں اراکین مجلس انصار اللہ کینیڈا کے ساتھ میٹنگ میں شمولیت فرمائی اور تمام شعبوں کا جائزہ لیا.قاعد عمومی نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہماری مجالس کی تعداد 75 ہے جن میں سے 45 مجالس با قاعدہ اپنی رپورٹ بھجواتی ہیں.حضور انور نے فرمایا باقی مجالس کو بھی Active کریں اور رپورٹ کے لئے یاد دہانی کروایا کریں.حضور انور نے فرمایا حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے کہا تھا کہ جب ایک خادم 40 سال کی عمر میں ہوتا ہے تو بڑا Active ہوتا ہے اور جب 41 ویں سال میں داخل ہوتا ہے تو پتہ نہیں کیوں اس کے ذہن میں آجاتا ہے کہ اب کوئی کام نہیں کرنا.اسی لئے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے انصار کی صف دوم بنائی تا کہ خدام سے انصار میں آنے والے خدام پہلے کی طرح Active رہیں.صف دوم کے نائب صدر سے حضور انور نے پروگرام کے بارہ میں دریافت فرمایا کہ انصار کی سیر ،سائیکلنگ اور کھیلوں وغیرہ کے لئے کیا پروگرام بنایا ہے.ان کی سیر کا مقابلہ کروادیا کریں.نائب صدر دوم نے بتایا کہ 17 انصار مختلف جگہوں سے سائیکلوں پر آئے تھے.حضور انور کے دریافت فرمانے پر قائد عمومی نے بتایا کہ انصار کی تجنید 3589 ہے اور ہمیں مجالس سے آن لائن سسٹم کے تحت رپورٹ موصول ہوتی ہیں.حضور انور نے فرمایا ہر قائد کو اپنے اپنے شعبہ کی رپورٹ پر تبصرہ کرنا چاہئے.علاوہ اس تبصرہ کے جو صدر صاحب کی طرف سے جاتا ہے.یہ تبصرے جائیں گے تو مجالس کو کام میں بہتری پیدا کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوگی.
سبیل الرشاد جلد چہارم 318 قائد تعلیم نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے نصاب میں قرآن کریم اور حدیث کا حصہ بھی ہے.اس کے علاوہ مطالعہ کتب میں گزشتہ چھ ماہ میں لیکچر لاہور تھا اب آئندہ کے لئے لیکچر سیالکوٹ ہے.جو انگریزی زبان سمجھتے ہیں ان کو نصاب انگریزی زبان میں دیا گیا ہے اور پھر اس نصاب کا با قاعدہ امتحان لیا جاتا ہے.حضور انور کے دریافت فرمانے پر قائد تعلیم نے بتایا کہ انصاراللہ کی طرف سے 296 پیپر آئے تھے.اس پر حضور انور نے فرمایا اپنی تمام مجالس کی عاملہ کو سب سے پہلے شامل کریں.عاملہ شامل ہوگی تو پھر دوسرے بھی شامل ہوں گے.مجلس، ریجن، ہر لیول (Level) پر عاملہ کے ممبران امتحان میں شامل ہوں، ہر مجلس میں شامل ہوں تو یہ تعداد آپ کی ہزار تک پہنچ سکتی ہے.آپ کی مجالس کی تعداد 72 ہے تو ایک ہزار پچاس سے زائد تو آپ کی عاملہ کے ممبران ہی ہو جائیں گے.حضورا نور نے فرمایا آپ نے ایسے قائدین کو کیوں رکھا ہوا ہے جو خود بھی نمونہ نہیں ہیں.اس طرح عاملہ کے ممبران بھی امتحان میں شامل نہیں ہوئے.عاملہ کے سب ممبران اور عہد یداروں کو تو دوسروں کے لئے نمونہ بننا چاہئے.قائد تربیت کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ نمازوں، نوافل اور تہجد کی طرف انصار کو توجہ دلائیں.اسی طرح انتظامی باتوں کی طرف بھی توجہ دلائی جائے.بعض گھروں میں نظام کے بارہ میں باتیں ہوتی ہیں.گھروں کی شکایتوں سے اس بات کا پتا چل جاتا ہے کہ نظام کے بارہ میں باتیں ہوتی ہیں کہ فلاں امیر اچھا تھا.فلاں اچھا نہیں ہے، یا فلاں عہدیدا را ایسا ہے تو ان سب باتوں پر آپ کو زور دینا چاہئے.حضور انور نے فرمایا میں جو خطبات دیتا ہوں ان میں حالات کے مطابق نصائح کرتا ہوں اور ت ہدایات دیتا ہوں تو یہ آپ کے لائحہ عمل کا حصہ ہونے چاہئیں.حضور انور نے فرمایا گھروں کے ماحول سے باخبر رہیں.بڑوں کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ توجہ دلاتے رہیں.اللہ تعالیٰ نے مسلسل نصیحت کرتے چلے جانے کا حکم دیا ہے.اس کا اثر ہوتا ہے.حضور انور نے فرمایا آپ یہاں پیں ویج (Peace Village) میں اپنا زعیم اعلیٰ بنائیں، آپ لائحہ عمل نہیں پڑھتے اپنا دستور نہیں پڑھتے.اپنا زعیم اعلیٰ بنا ئیں.نماز فجر اور عشاء کی حاضری کے بارہ میں حضور انور نے دریافت فرمایا کہ بیت الذکر میں کتنے انصار آ جاتے ہیں.قائد تربیت نے بتایا کہ دو تین صفیں ہوتی ہیں اس پر حضور انور نے فرمایا اس میں ویلج (Peace Village) میں مثال قائم نہیں کریں گے تو دوسری مجالس میں کس طرح ہوگا.نمازوں وغیرہ پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.حضور انور نے فرمایا کہ یہاں جو برگر کھان وغیرہ ملتے ہیں ، میں نے سنا ہے کہ خلیفہ مسیح الرابع
319 سبیل الرشاد جلد چہارم کی طرف منسوب کیا کہ جو جھٹکے کا گوشت ہے اس پر بسم اللہ پڑھو اور کھا جاؤ.یہ کہاں لکھا ہے.آپ نے ہرگز یہ نہیں فرمایا.آپ نے تو یہ کہا تھا کہ ذبح کرتے ہوئے ہر جگہ خون نکالا جاتا ہے اور غیر اللہ کا نام لے کر ذبح نہیں ہوتا.اس لئے خدا تعالیٰ کا نام لو اور کھا لو.تو اس بارہ میں بھی تربیت کی ضرورت ہے، انصار کو تربیت کرنی چاہئے.غلط بات نہ منسوب کی جائے.حضور انور نے فرمایا کہ اب برگر وغیرہ میں جہاں چکن فرائی ہورہا ہوتا ہے وہاں اسی تیل میں سور بھی فرائی ہور ہا ہوتا ہے تو پھر ایسی جگہوں پر نہ کھائیں.چکن کھانا جائز ہے لیکن یہ نہیں کہ اس میں سور کی یا کسی ایسی ہی چیز کی مداخلت ہو.قائکہ دعوت الی اللہ نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس سال ابھی تک انصار کے ذریعہ ایک بیعت ہوتی ہے.ہم نے 18 ہزار فلائر ز تقسیم کئے ہیں.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ فرانس چھوٹا سا ملک ہے انہوں نے دولاکھ سے زائد فلائز تقسیم کر دیئے ہیں.قائد دعوت الی اللہ نے بتایا کہ ہم نے قرآن کریم کی نمائش پر کام کیا ہے.سات بک اسٹال لگائے ہیں.بہت سے لوگ آئے.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ بھی جائزہ لے لیا کریں کہ سب مل کر کوشش کریں تو شاید اس کا زیادہ اچھا اثر ہو.قائد دعوت الی اللہ نے بتایا کہ امسال جلسہ پر 322 مہمان انصار کے ذریعہ آئے.455 انصار کے رابطے ہیں.قائد تربیت نومبائعین نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ تین سال کے آٹھ انصار نومبائعین سے تربیتی رابطہ ہے.حضور انور نے دریافت فرمایا ان کی ٹرینینگ کا سپیشل پروگرام کیا ہے؟ اس پر قائد تربیت نومبائعین نے بتایا کہ نومبائعین سے ریگولر رابطہ ہے ، اس پر حضور انور نے فرمایا جہاں جہاں نو مبائعین ہیں اس علاقہ کے مربی سے بھی رابطہ کروائیں.اسی طرح مختلف علاقوں میں بھی ایسے لوگ ہونے چاہئیں جونو مبائعین سے با قاعدہ رابطہ میں ہوں.حضور انورنے فرمایا ہر مجلس میں آپ کی ٹیم کے ممبرز ہونے چاہئیں جو رابطہ رکھیں.قائد تعلیم القرآن نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ بیوت الذکر میں کلاسز جاری ہیں.حضور انور نے فرمایا امریکہ نے Online کلاسز شروع کی ہیں.اس میں آپ لوگ بھی شامل ہو سکتے ہیں.حضور انور نے فرمایا ایسے بوڑھے جن کو پڑھانا آتا ہے انہیں کہیں کہ وقف عارضی کریں، مختلف جماعتوں میں جا کر بچوں کو پڑھایا کریں.قائد مال نے بتایا کہ گزشتہ سال 3589 انصار میں سے 1934 نے چندہ دیا.اس سال پہلے چھ ماہ میں 1600 انصار نے چندہ ادا کیا ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا جو انصار نہیں کماتے ، ان کا ذریعہ آمد کوئی
سبیل الرشاد جلد چہارم 320 نہیں ان کو کہیں کہ جتنا چندہ دے سکتے ہیں دے دیں.سب کو بتائیں کہ چندہ کوئی Tax نہیں ہے.ایک قربانی ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے دی جاتی ہے.جو چندہ دینے میں ست ہیں یا نہیں دیتے ان کو اعتماد میں لائیں اور مختلف پراجیکٹ اور پروگرام وغیرہ بتائیں کہ اس میں خرچ ہوتا ہے.کوشش کریں کہ جو نہیں شامل ان کو شامل کریں.قائد تحر یک جدید کو ہدایت دیتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ یہ خیال رکھیں کہ جو انصار کماتے ہیں اور وہ چندہ عام نہیں دیتے لیکن چندہ تحریک جدید ادا کرتے ہیں تو ان کا یہ چندہ تحریک جدید ، چندہ عام میں جانا چاہئے کیونکہ چندہ عام لازمی ہے اور لازمی چندہ کی ادائیگی پہلے ضروری ہے.ہر کام حکمت سے کرنے کی ضرورت ہے.قائد تجنید نے بتایا کہ انصار کی تجنید 3589 ہے.حضور انور نے فرمایا کہ انصار کا اپنا نظام ہے.آپ اپنا کام گراس روٹ لیول (Grass Root Level) پر کریں اور اپنی تجنید بنائیں جماعت سے یہ تجنید لے لینا ، درست نہیں.ہر حلقہ کا ، ہر مجلس کی تعداد کا آپ کو علم ہونا چاہئے اور آپ کو یہ انفارمیشن (Information ) آپ کی انصار کی مجالس سے آنی چاہئیں نہ کہ جماعتی نظام کی طرف سے.اپنی تجنید گراس روٹ لیول پر جائزہ لے کر خود بنا ئیں.حضور انور نے فرمایا اگر کوئی اسائیلم سیکر ز ہے تو جماعتی نظام سے پوچھ کر پھر اپنی تجنید میں شامل کریں.جماعتی نظام اپنی تحقیق کر کے آپ کو بتادے گا.آڈیٹر کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ ہر بل چیک کیا کریں اور مجالس کے آؤٹ بھی کیا کریں.میٹنگ میں نائب قائدین بھی موجود تھے.حضور انور نے ان سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ نائب قائدین کے لئے بھی وہی ہدایت ہے جو میں نے قائدین کو دی ہے.(الفضل انٹر نیشنل 19اکتوبر 2012ء) ہر سطح کی ذیلی تنظیموں اور مرکزی عہدیداروں کو بھی میں کہتا ہوں کہ اپنے جائزے لیں.ہر تنظیم کے عہدیدار اپنی عبادتوں کے معیار کو ہی بہتر کر لیں اور مسجدوں کو آباد کرنا شروع کر دیں تو مسجدوں کی آبادی دو تین گنا بڑھ سکتی ہے 10 اگست 2012 ء رمضان المبارک میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ذیلی تنظیموں کو مخاطب ہوکر فرمایا کہ:
321 سبیل الرشاد جلد چہارم " ان دنوں میں ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر ہر سطح کے ذیلی تنظیموں کے بھی اور مرکزی عہدیداروں کو بھی میں کہتا ہوں کہ اپنے جائزے لیں.واقفین زندگی کو بھی اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور عمومی طور پر ہر احمدی کو تو ہے ہی کہ جب ہم نصیحت کرتے ہیں تو خود ہماری اپنی زندگیوں پر بھی اُن کے اثرات ظاہر ہوں.اگر ایک عام مسلمان کا یہ فرض ہے، ایک عام مومن کا یہ فرض ہے اور وہ اس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ نیکیوں کو پھیلائے اور برائیوں کو روکے تو جو لوگ اس کام کے لئے مقرر ہیں اُن کا تو سب سے زیادہ فرض بنتا ہے اور یہ فرض پورا بھی اُس وقت ہوگا جب ہماری اپنی نیتیں بھی صاف اور پاک ہوں گی.جب خود ہر حکم پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش ہوگی.اگر عہد یداروں کے عبادتوں کے معیار بھی صرف رمضان میں بہتر ہوئے ہیں اور عام دنوں میں نہیں تو وہ بھی قول وفعل میں تضا در کھتے ہیں اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے.میں اکثر مختلف میٹنگوں میں عہدیداران کو یہ توجہ دلاتا ہوں کہ اگر ہر سطح پر اور ہر تنظیم کے عہد یدار اپنی عبادتوں کے معیار کو ہی بہتر کر لیں اور مسجدوں کو آباد کرنا شروع کر دیں تو مسجدوں کی جو آبادی ہے وہ موجودہ حاضری سے دو تین گنا بڑھ سکتی ہے.پس اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے باقی احکامات ہیں.اُن کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تو اس سے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں.پھر اسی طرح جیسا کہ میں نے کہا دوسرے احکام ہیں ان پر عمل ضروری ہے.قرآن کریم کا ایک پر حکم یہ بھی ہے کہ انصاف کو اس طرح قائم کرو کہ اپنے خلاف بھی گواہی دینی پڑے یا اپنے پیاروں والدین اور قریبیوں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دو.اگر جائزے لیں تو ہم میں عموماً وہ معیار نظر نہیں آتے.پس ایک طرف تو ہم دعاؤں کی قبولیت کے نشان مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے بندوں میں شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں اور پھر گواہی کے وقت راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح اپنے قریبیوں کو مجرم ہونے سے بچالیں.بلکہ بعض دفعہ کوشش ہوتی ہے کہ ہم اور ہمارے قریبی بچ جائیں اور دوسرے کو کسی طرح ملزم بنا دیا جائے.بعض دفعہ عہدیداروں کے متعلق یہ شکایات بھی آجاتی ہیں، مجھے لکھنے والے لکھتے ہیں کہ آپ نے توجہ دلائی ہے کہ جماعت میں فلاں فلاں عہدیدار کے متعلق یہ شکایت ہے یا بعض دفعہ جلسوں وغیرہ میں بعض کمزوریوں کی طرف نشاندہی کی جاتی ہے تو بجائے اس کے کہ وہ عہد یدار یا متعلقہ شعبہ جو ہے یا مجموعی طور پر جس کو بھی کہا جائے اپنی اصلاح کرے، اس بات کی تحقیق شروع کر دیتے ہیں کہ یہ شکایت کس نے کی ہے؟ حالانکہ اُن کا یہ کوئی مقصد نہیں ہے.تمہیں تو چاہئے تھا کہ اس پر غور نہ کرو کہ شکایت کس نے کی ہے؟ تمہارا اس سے کوئی کام نہیں.اگر یہ کمزوری ہے تو دور کرو اور اگر نہیں ہے تو پھر بھی استغفار کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ناکردہ گناہوں کی سزا سے بھی بچائے اور پھر جو صیح رپورٹ ہے وہ دے دی جائے کہ اصل حقیقت اس طرح
322 سبیل الرشاد جلد چہارم ہے.باقی یہ میرا کام ہے کہ شکایت کرنے والے کو کس طرح جواب دینا ہے یا جواب دوں کہ نہ دوں؟ اگر بغیر نام کے کوئی شکایت کرتا ہے تو وہ تو ویسے بھی قابل توجہ نہیں ہوتی.اُس کی جماعت میں کوئی پذیرائی نہیں ہوتی.بہر حال یہ بات عہد یداروں سے اپنے عہدوں اور اپنی امانتوں کے پورا کرنے کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے سپر د جو یہ کام کیا ہے اُس کو صحیح طرح نبھا ئیں اور اسی طرح کچی گواہی کا تقاضا ہے کہ وہ اصلاح کی طرف توجہ دیا کرے، نہ کہ شکایت کنندہ کی تلاش کرنے کی طرف.اگر شکایت کرنے والے کا نام میں نے بتانا ہوگا تو خود ہی بتا دوں گا اور اکثر بتا بھی دیا کرتا ہوں.لیکن یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس صورت میں پھر بعض دفعہ شکایت کرنے والے پر زمین تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ بھی تقوی سے دور بات ہے.یہ پھر امانتوں اور عہدوں کی صحیح ادائیگی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر ، احکامات پر صحیح عمل نہیں ہے.پس اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنا ہے تو ہر معاملے میں، ہر سطح پر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق چلانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے الفضل انٹر نیشنل 31 اگست 2012ء) آپ انصار حقیقی رنگ میں اپنی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے انصار اللہ بنیں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے مزید شکر گزار بنیں.استغفار کرتے ہوئے اپنے ایمانوں کو مضبوط کریں مجلس انصار اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے آخری روز مورخہ 7 اکتوبر 2012 ءکو طا ہر ہال بیت الفتوح لندن میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے انصار سے خطاب کرتے ہوئے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." اس وقت میرے سامنے آپ جو انصار بیٹھے ہیں، آپ میں سے بہت سوں کے باپ دادا نے احمدیت قبول کی ہوگی اور کئی نسلوں سے آپ میں احمدیت چلی آرہی ہے.بہت سے ایسے بھی ہوں گے جن کو تمھیں چالیس سال پہلے احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.اُن کی نسلیں بھی پیدائشی احمدی ہیں.اسی طرح مسلسل یہ سلسلہ چل رہا ہے.ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے لوگ احمدیت میں شامل ہوتے ہیں.اور اب تو لاکھوں کی تعداد میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہورہے ہیں.یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں کا نتیجہ ہے کہ آپ کی جماعت نے ترقی کرنی ہے، بڑھنا ہے.پس ہر احمدی جو چاہے کئی
323 سبیل الرشاد جلد چہارم نسلوں سے احمدی ہے یا نیا شامل ہونے والا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کا ایک نشان ہے.لیکن اب جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ واقعات کثرت سے ہوتے ہیں.لاکھوں کی تعداد میں جماعت میں لوگ شامل ہوتے ہیں اور پھر شامل ہونے والے اپنے واقعات بھی بیان کرتے ہیں کہ کس طرح اُن کو شامل ہونے کی تحریک پیدا ہوئی، کیا وجہ ہوئی اُن کے احمدیت قبول کرنے کی.اس کے بعد اُن میں کیا تبدیلیاں پیدا ہوئیں.اور جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں جلسہ کی دوسرے دن کی تقریر میں جماعت کی ترقی کا یہ ذکر ہوتا ہے اور اُن میں مختلف لوگوں کے واقعات بھی میں بیان کرتا ہوں.اب ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوگئی ہے، اس کثرت سے مختلف لوگوں کے یہ واقعات آتے ہیں کہ ایک تقریر میں ان کا احاطہ کرنا مشکل ہوتا ہے.جب میں یہ واقعات پڑھتا ہوں تو بعض اوقات دل کی عجیب کیفیت ہو جاتی ہے کہ کیسے کیسے لوگ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل فرما رہا ہے اور اُن میں کس طرح تبدیلیاں پیدا فرما رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھ کر دل حمد سے بھر جاتا ہے.نئے شامل ہونے والوں کے ایمان اور ایقان کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کتنی جلدی ان لوگوں نے کتنی ترقی کی ہے اور بڑی تیزی سے مزید ترقی کی منازل طے کرتے چلے جار ہے ہیں.نومبائعین کے ایمان افروز واقعات کا حسین تذکرہ بہر حال میں نے سوچا کہ آج اُس کیفیت میں آپ لوگوں کو بھی شامل کرنا چاہئے جو ان کے واقعات دیکھ کر ہوتی ہے.جس کے لئے یہی طریق ہو سکتا ہے، جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ کو آج شامل کروں اور مختلف اوقات میں مختلف مجالس میں ان کا ذکر کیا جاتا رہے جو ہر ایک کے لئے از دیا ایمان کا باعث بنتے ہیں.انڈیا سے سروتر اجماعت جو گجرات میں ہے، اُس کے صدر اصغر بھائی صاحب لکھتے ہیں کہ جب سے وہ بیعت کر کے جماعت میں داخل ہوئے ہیں، مخالفین ہر طرح سے اُن کو تنگ کرتے رہتے ہیں.جہاں اُن کی بیٹی کی شادی ہوئی تھی اُن لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ یہ احمدی ہو گئے ہیں تو ان پر زور ڈالا کہ احمدیت چھوڑ بیٹی کے سسرال والوں نے شہر کے بڑے بڑے علماء کو اکٹھا کیا.( انڈیا میں بھی بہت زیادہ مخالفت شروع ہو چکی ہے ) اور رات میٹنگ بٹھا کر کہا کہ یا تو احمدیت چھوڑ دو یا لڑکی کو اپنے ساتھ واپس لے جاؤ.موصوف نے مخالفین کا مقابلہ کیا اور بڑی دلیری سے کہا کہ بیشک میری بیٹی واپس بھیج دو لیکن میں احمدیت نہیں چھوڑ سکتا.وہیں رات کو بیٹھ کر طلاق لکھی گئی اور لڑکی کو طلاق دے کر صبح اپنے ماں باپ کے ساتھ بھیج دیا گیا.یعنی ایک رات بھی یہ شادی نہیں چلی.یہ اپنی بیٹی کو لے آئے لیکن اپنے ایمان پر کسی قسم کی آنچ نہیں آنے دی اور ثابت قدم رہے.یہ اُن لوگوں کے لئے بھی سبق ہے جو بعض پرانے احمدی ہیں.ذراذراسی بات پر ، رشتوں پر کوشش ہوتی
سبیل الرشاد جلد چہارم 324 ہے کہ ہماری بات مان لی جائے اور لڑکیوں کے معاملے میں خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑا واضح طور پر فرمایا ہے کہ اپنی لڑکیاں غیر احمدی کو نہیں دینیں........پر اعجاز احمد صاحب مبلغ سلسلہ بورکینا فاسو لکھتے ہیں کہ شہر دو گو کے ایک نو مبائع پارے اور میں صاحب ہیں جو کہ مستری کا کام کرتے ہیں.انہوں نے دو شادیاں کی ہوئی ہیں.انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی ہمارے لوکل مشنری زویرے اسماعیل سے کر دی.احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے وہ وہابی تھے.انہوں نے اپنی مسجد میں جا کر اعلان کیا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا رشتہ جماعت احمدیہ کے مشنری سے کر دیا ہے اور ان کی بیٹی کا نکاح بھی احمد یہ مسجد میں ہی ہوگا.اس لئے وہ سب کو دعوت دینے کے لئے آئے ہیں.اس کے علاوہ یہ بھی کہا کہ وہ امام مہدی جس کا انتظار ہے آچکے ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.جب مولویوں نے اُن کی یہ بات سنی تو انہوں نے کہا کہ تو نے اپنی بیٹی کا رشتہ کافر سے کر دیا ہے.اس لئے تو بہ کرو اور اپنی بیٹی کا رشتہ وہاں نہ کرو.ایک زمانہ تھا جب مسلمانوں کو وہاں افریقہ میں کوئی پو چھا نہیں کرتا تھا لیکن اب کئی سالوں سے، کچھ عرصے سے مختلف عرب ممالک، مسلم ممالک اپنے لوگوں کو بھیجتے ہیں جن کا صرف اس بات پر زور ہوتا ہے کہ احمدی کا فر ہیں، جماعت میں شامل نہ ہوں اور اکثر جگہ کافی مہم چل رہی ہے.لیکن بہر حال اس سے لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا.تو کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا اس لئے تو بہ کرو اور اپنی بیٹی کا رشتہ وہاں نہ کرو.اس پر ادریس صاحب وہاں سے چلے آئے اور کچھ عرصے بعد جب اُن کی بیٹی کی شادی ہوگئی تو اُن کی دوسری بیوی کے والدین نے اپنی بیٹی کو گھر بلا لیا.بیٹی کو انہوں نے کچھ نہیں بتایا کہ کس سلسلہ میں انہوں نے اس کو گھر بلایا ہے.کیونکہ لڑکی کے والدین اور مولوی صاحبان آپس میں بات کر چکے تھے.اس لئے انہوں نے اور میں صاحب کو بلا یا اور کہا کہ ہماری تین شرائط ہیں.تم سب کے سامنے یہ اقرار کرو کہ نعوذ باللہ امام مہدی علیہ السلام جھوٹے ہیں.نمبر دو اعلان کرو کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں اور وہ دوبارہ آئیں گے.نمبر تین یہ کہ تم نے اپنی بیٹی جو احمد یہ مشنری کو دی ہے، اُس کو واپس بلا ؤ.یہ تین شرطیں پوری کرو گے تو تمہیں تمہاری بیوی واپس دے دیں گے.اس پر اور میں صاحب نے سبحان اللہ کہا اور واضح طور پر بتا دیا کہ وہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتے اور کہا کہ وہ حق کو تسلیم کر چکے ہیں اور اس کے لئے جتنی بھی قربانیاں دینی پڑیں وہ تیار ہیں.اس کے بعد اور لیں صاحب نے بیوی کے والدین سے بات کرنا چاہی مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ جو ہمارے مولویوں کا فیصلہ ہے وہی ہمارا فیصلہ ہے.اس پر وہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر گھر چلے آئے لیکن احمدیت پر قائم رہے.مفیض الرحمن صاحب مبلغ سلسلہ بوسنیا لکھتے ہیں کہ ایک دوست سماجو مفتی صاحب Samajo) (Muftich کو جب جماعت کا پیغام پہنچا تو موصوف جماعتی سینٹر میں آئے اور جماعتی تعلیم کے بارے میں استفسار کرتے رہے.دورانِ گفتگو ان کی نظر ( وہاں میری تصویر لگی ہوئی تھی ) اُس پر پڑتی تھی.انہوں نے
325 سبیل الرشاد جلد چہارم دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ جب اُن کو تعارف کروایا گیا تو کہنے لگے کہ ان سے ملاقات ہو سکتی ہے؟ اُن دنوں میں چونکہ جلسہ جرمنی کی آمد تھی.موصوف جلسہ جرمنی میں تشریف لائے ، وہاں جلسہ میں شامل ہوئے.جلسہ کے سب مقررین کی بھی اور میری بھی تقریریں سنیں.وہاں مجھے ملے بھی، دیکھتے رہے اور بڑے جذباتی ہوتے رہے.اور یہ بھی کہتے رہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیوں رورہا ہوں اور اس جلسہ پر بیعت کر کے پھر جماعت میں داخل ہو گئے.چودہ سال سے نماز اور اسلامی شعار سے بالکل دُور تھے حالانکہ پہلے مسلمان تھے.لیکن الحمد للہ اب احمدیت میں داخل ہونے کے بعد ان تمام شعار کے پابند ہیں اور پابندی کرتے ہیں.حقیقت میں ید انقلاب ہے جو احمد بیت لاتی ہے اور ہر احمدی کو یہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے اور تبھی ہم ، جوانصار اللہ کی عمر کے ہیں، انصار اللہ بھی کہلا سکتے ہیں کہ اگر اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کریں اور اخلاص و وفا کے اعلیٰ نمونے دکھانے والے ہوں.پھر اسی طرح لکھتے ہیں کہ ایک اور دوست حسن صاحب کو احمدیت کا پیغام ملا تو دو تین مرتبہ احمدیت کے بارے میں گفتگو کے بعد موصوف نے بیعت کر لی.اُن کا کہنا ہے کہ اس وقت اسلامی معاشرے میں ایک مثبت تبدیلی کی ضرورت ہے جو صرف احمدیت میں نظر آتی ہے.موصوف چونکہ کتب کی فروخت کا کاروبار کرتے ہیں اس لئے انہوں نے اپنے بک سٹال پر جماعتی کتب بھی رکھی ہوئی ہیں اور خود بھی تبلیغی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں.صدر صاحب نیوزی لینڈ لکھتے ہیں کہ نومبر 2011 ء میں جماعت احمد یہ نیوزی لینڈ کو یہاں کے مقامی ماؤری (Maori) باشندوں میں سے پہلی بیعت حاصل ہوئی.اس دوست میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام احمدیت قبول کرنے کے بعد ایک بڑی نمایاں تبدیلی آئی ہے.یہ دوست بیعت سے قبل بد قسمتی سے اپنے مخصوص ماحول کی وجہ سے پر تشد د طبیعت کے مالک تھے.چنانچہ اسی وجہ سے گھر یلو تشدد کے باعث اُن کا معاملہ پولیس کے پاس چلا گیا اور ان کے ماضی کی وجہ سے قوی امکان یہی تھا کہ انہیں جیل ہو جائے گی.اُن کی اہلیہ جو کہ جماعت میں کافی دلچسپی لیتی ہیں، انہوں نے کہا کہ اگر احمدیت کچی ہے تو پھر تمہیں سزا سے بچ جانا چاہئے.اس ضمن میں انہوں نے مجھے بھی دعا کے لئے لکھا.اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر انہیں جیل سے محفوظ رکھا.ان کی اہلیہ نے ابھی تک بیعت نہیں کی تاہم ان کے جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے ان کے قبیلے کے باقی لوگوں کے احمدیت قبول کرنے کا امکان ہے.ایک تو یہ بہت بڑا بریک تھرو Break) Through ہوا ہے، لیکن انشاء اللہ وہاں کے یہ مقامی باشندے جو ماؤری کہلاتے ہیں جب کثیر تعداد میں احمدی ہوں گے تو اُس علاقے میں انشاء اللہ ایک بہت بڑا بریک تھرو ہو گا.اس قبیلے کے بعض ایلڈرز (Elders) نے جماعتی وفد کے دورے کے موقع پر ہمارے ساتھ نماز بھی پڑھی.کیونکہ اُن کے ایک
سبیل الرشاد جلد چہارم 326 بزرگ نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ پیس پرافٹ (Peace Prophet) کے لوگ اُن کے ماؤری کا وزٹ کرنے آئیں گے.تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی اُن کو تیاری کروائی ہوئی ہے.عرفان احمد صاحب مبلغ ٹو گو لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں میں تبلیغی پروگرام کے دوران ہمیں ایک بزرگ ملے جنہوں نے 1958ء میں غانا میں احمدیت قبول کی تھی.اس کے بعد اُن کا رابطہ بالکل ختم ہو گیا تھا لیکن دل سے احمدی تھے.جب ہم وہاں پہنچے تو انہوں نے اپنے تمام حالات بتائے.پروگرام کے بعد اس علاقے کے مولویوں نے اکٹھے ہو کر اُن کو بلایا اور دھمکی دی کہ وہ ہرگز یہاں احمدیت نہیں آنے دیں گے.انہوں نے کہا کہ میں ہمیشہ سے احمدی ہوں اور یہاں کا رہنے والا ہوں.آج کے بعد یہاں احمدیت کی ترقی کے لئے کام کروں گا.اُس کے بعد سے بڑے ایکٹو (Active) ہو گئے.ٹوگو ریجن ہا ہو (Haho) کے ایک گاؤں کمپیوے (Kpeve) میں تبلیغ کی گئی.یہ گاؤں مشرکوں کا ہے.تبلیغ کے نتیجے میں 164افراد نے احمدیت قبول کی.حسب معمول مخالفین نے وہاں جا کر ان کو جماعت سے بدظن کرنے کے لئے غلط باتیں کرنی شروع کر دیں اور اُن سے کہا کہ یہ لوگ کافر ہیں.ان کو قبول کر کے تم دوزخ میں چلے جاؤ گے.سامان کی گاڑیاں بھر کر گاؤں میں آئے اور لالچ دی کہ جماعت کو چھوڑ دو تو یہ سب سامان دے دیں گے.ایک خوبصورت مسجد بنا کر دیں گے.گاؤں والوں نے باوجود غریب ہونے کے سب کچھ ٹھکرا دیا اور کہا کہ ہم زمین پر نماز پڑھ لیں گے.ہمیں ایمان کی جو روشنی احمدیت نے دی ہے اُس کو ہر گز نہیں چھوڑیں گے.اس کے بعد مخالفین نے امام کو لالچ دیا کہ اگر تم ہماری طرف آ جاؤ تو ہم تم کو 35000 فرانک ماہانہ دیں گے.اُس نے جواب دیا کہ مجھے میرے کھیت سے جو ملتا ہے وہی کافی ہے.مجھے آپ کے پیسوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے.آخر مخالفین تمام تر کوششوں کے بعد ناکام لوٹ گئے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں پوری جماعت قائم ہے اور نظام کے ساتھ قائم ہے.لوگ پوری طرح اُس میں شامل ہیں.بین کے مبلغ عارف محمود صاحب لکھتے ہیں کہ تو کپوئے (Tokpoe) میں جماعت کا قیام آج سے چار سال قبل ہوا.یہاں جماعت کی ایک مسجد بھی ہے جو کہ چند سال قبل تعمیر کی گئی تھی.اس سال رمضان المبارک میں اس گاؤں کے احمدی اور نو مبائع افراد کی تعلیم و تربیت اور دیگر جماعتی پروگرام کے لئے امیر صاحب کی اجازت سے مدرسہ احمد یہ پوبے سے پاس ہونے والے طلباء میں سے ایک طالبعلم اکبوز وسلیمان Agbozo Souleman) کو بھجوایا جو یکم رمضان سے لے کر عید تک یہاں رہا.اس طالبعلم نے مجھے بتایا کہ مورخہ میں رمضان کو شام پانچ بجے ایک گاڑی ہماری مسجد کے پاس آ کر رکی اور اُس میں سے ایک عربی شخص انترا اور اُس نے اس طالبعلم سے پوچھا کہ اس مسجد کا امام کون ہے؟ سلیمان نے جواب دیا کہ میں ہی
327 سبیل الرشاد جلد چہارم مسجد کا امام ہوں.اس طرح باتیں کرتے کرتے وہ سلیمان کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا اور اندر سے مسجد کو دیکھا اور سلیمان سے کہا کہ وہ سعودی عرب سے ہے اور مکہ مکرمہ کے قریب ہی اُس کا شہر ہے.وہ یہاں کام کے سلسلے میں آیا ہوا ہے اور اس نے چودہ ہزار فرانک سیفا نکال کر سلیمان کو دیئے اور کہا کہ کل عید ہے.میں چاہتا ہوں کہ آپ ان پیسوں سے کچھ خرید کر غریبوں میں تقسیم کر دیں.اس پر سلیمان نے اُس سے کہا کہ جماعتی سطح پر ہم نے انتظام کیا ہوا ہے اور ہم احمد یہ جماعت ہے ہیں.ہم ہر بات اور کام کی تفصیل اپنے ریجن کے مشن ہاؤس کو دیتے ہیں اور وہ امیر کے ذریعے سے خلیفہ اسی کو رپورٹ بھجواتے ہیں.یہ کہتے ہیں کہ وہ جو عرب تھا اس آدمی نے شاید غور سے اُن کی بات نہیں سنی اور اپنی بات کرتا گیا کہ کس طرح اسلام کی خدمت کی جا سکتی ہے اور وہ کر بھی رہا ہے.( خود بتا تا رہا کہ میں کس طرح اسلام کی خدمت کرتا ہوں ) کہتے ہیں اسی اثناء میں جو اُس کا ڈرائیور تھا اُس نے پوچھا کہ امیر کون ہے اور یہ خلیفہ کیا ہے؟ اُس کی بات سن کر وہ آدمی بھی تھوڑا سا چونکا اور پوچھا کہ مسجد کن کی ہے؟ سلیمان نے بتایا کہ احمدی مسلمانوں کی ہے.اُس نے پھر استفسار کیا کہ مسجد کن کی ہے؟ سلیمان نے کہا کہ بتایا تو ہے کہ یہ مسجد احمدی مسلمانوں کی ہے.جس پر وہ آدمی غصہ سے بولا کہ احمدی مسلمانوں کی نہیں ، احمدی کافروں کی کہو، کیونکہ یہ لوگ کافر ہیں.پاکستان میں ان کو گورنمنٹ نے کافر قرار دیا ہوا ہے.( یعنی یہ فتوے اب سعودی عرب میں بھی پاکستان سے آتے ہیں ).سعودی عرب میں ہم نے بھی ان کے حج پر پابندی لگا رکھی ہے.یہ دہشتگرد ہیں اور اسلام سے باہر ہیں.اس پر سلیمان نے کہا کہ مسلمان یا کافر ہونے کا تو خدا ہی جانتا ہے کہ یہ کون ہے.اتنی دیر میں اس گاؤں کے کچھ اور افراد بھی آگئے.اُن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سلیمان نے مزید کہا کہ یہ سب لوگ بت پرست تھے.ان کو جماعت احمدیہ نے تبلیغ کی اور ان کو قرآن کی تعلیم دی جارہی ہے.اُنہیں نماز پڑھنے کا طریق سکھایا گیا ہے.یہ سب احمدی جماعت نے کیا ہے؟ کیا کوئی کا فرایسا کر سکتا ہے؟ اور یہ لو اپنے چودہ ہزار فرانک سیفا اور جس اسلام کی تم خدمت کرنا چاہتے ہو، وہ اس گاؤں میں نہیں ہے.اس پر وہ آدمی بولا کہ اگر تم مسجد پر محمد یہ مسجد“ لکھ دو تو میں آپ کو اور بھی پیسے دینے کو تیار ہوں.سلیمان نے کہا کہ جو خزانہ تعلیمات کی صورت میں ہم کو جماعت احمدیہ سے ملا ہے، وہ ہمارے لئے کافی ہے.(اول تو یہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں تھا لیکن بہر حال اُس کی جو نیت تھی وہ اور تھی ، اس لئے انہوں نے انکار کر دیا ).پھر وہ آدمی سلیمان کو دوسرے لوگوں سے ذرا فاصلے پر لے گیا.نوجوان سمجھ کے اُس نے سوچا کہ اس کو لالچ دو اور کہا کہ اگر تم احمدیت چھوڑ دو تو میں آپ کی ہر طرح کی مدد اور خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں.بلکہ آپ کا ماہانہ الا ونس بھی مقرر کر دوں گا اور اس کے علاوہ بھی آپ کو وہ کچھیل جائے گا جس کا تم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا.اس پر سلیمان نے کہا کہ میں جماعت کے لئے یہاں وقف عارضی پر آیا ہوں اور جو تعلیم اور ایمان کی دولت مجھے احمدیت سے ملی ہے، وہ کافی ہے.اور اس طرح وہ شرمندہ ہو کے
328 سبیل الرشاد جلد چہارم واپس چلا گیا.سید کریم صاحب انچارج علاقہ کھمم آندھرا (انڈیا) لکھتے ہیں کہ مخالفین جب اپنی کوششوں میں ناکام رہے تو انہوں نے آخر میں ایک پلان بنایا کہ دیہاتی لوگ غریب ہوتے ہیں ان کو کچھ پیسے دیئے جائیں تو وہ احمدیت چھوڑ کر ہماری طرف مائل ہو سکتے ہیں.چنانچہ انہوں نے اس جائیداد میں سے جو گورنمنٹ کی طرف سے وقف بورڈ کے تحت مسلمانوں کے لئے رکھی جاتی ہے کچھ زمین صدر صاحب جماعت احمد یہ کھمم اور ان کے بھائی شیخ کریم صاحب کو دینے کی کوشش کی اور ساتھ ہی ان کو ضلع میں ایک بڑا عہدہ دینے کی بھی پیشکش کی.اس زمین کی قیمت پچاس لاکھ روپے تھی.( انڈیا کی بات ہے.) اس پر صدر صاحب نے اُن مخالفین احمدیت کو جواب دیا کہ ایمان کو دولت سے خریدنا چاہتے ہو؟ کتنے آدمیوں کو خریدو گے؟ آپ کی اس پچاس لاکھ کی جائیداد سے میں اللہ کے عذاب سے کس طرح بچ سکتا ہوں جو مجھے امام وقت کے انکار کی وجہ سے ملے گا.اس طرح مخالفین کے ساتھ صدر صاحب کی پانچ گھنٹوں تک بحث ہوتی رہی اور آخر میں اُن سے کہا کہ آپ لوگ سمجھتے ہوں گے کہ دیہاتی لوگ غریب ہوتے ہیں.اس لئے لالچ وغیرہ دے کر اُن سے سب کچھ کر وایا جا سکتا ہے.آپ غلطی پر ہیں.سچائی کے ساتھ مقابلہ مت کرو اور یہاں سے چلے جاؤ اور آئندہ ہمارے پاس کبھی نہ آنا.یہ کہہ کر ان کو وہاں سے بھگا دیا.اٹلی میں ایک نو مبائع نصر العامری صاحب بیان کرتے ہیں کہ سب سے بڑی چیز جو مجھے احمدیت میں آکر ملی ہے وہ شجاعت ہے، بہادری ہے.میں سر اُٹھا کر مولویوں کے پاس جاتا ہوں اور انہیں کہتا ہوں کہ ان باتوں کا جواب دیں لیکن کوئی میرے سوالوں کا جواب نہیں دے سکتا.کئی مولوی میرے گھر میں بھی آئے اور بعض عرب ممالک سے یہاں دورے پر آئے تو انہیں بھی مجھے احمدیت سے تائب کرنے کے لئے میرے گھر لایا جاتا رہا لیکن صرف وفات مسیح کے مسئلہ میں ہی وہ لا جواب ہو گئے.موصوف نہایت گداز طبیعت کے مالک ہیں.بڑی نرم طبیعت ہے اور بہت مخلص ہیں.بات بات پر آبدیدہ ہو جاتے ہیں.قبل ازیں تبلیغی جماعت سے منسلک تھے اور احمدیت قبول کرنے کے بعد ان میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی ہے.اپنے گھر کی دیواروں پر بیعت کی قبولیت کے جو خطوط میری طرف سے گئے ہوئے تھے وہ بھی انہوں نے فریم کر کے لگائے ہوئے ہیں.اب بعض باتیں بظاہر بڑی چھوٹی لگتی ہیں لیکن جب ایسے لوگوں کو دیکھو جو بالکل دیہات میں ہیں، جن کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں.جن میں نیا نیا ایمان داخل ہوا ہے وہ جب اپنی ہر بات کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر منتج کرتے ہیں تو بہر حال یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ایک انقلاب ہے جو اُن کی طبیعتوں میں پیدا ہوا.اسی طرح کا ایک واقعہ ٹیچی مان غانا کا ہے.یہاں ایک جگہ ہے اوفوری کروم (Oforikrom) یہاں ایک مخلص احمدی سعید
329 سبیل الرشاد جلد چہارم عیسی رہتے ہیں.ایک دن وہ اپنے زرعی فارم پر کام کرنے گئے.کام کرنے کے دوران نماز کا وقت ہو گیا تو کام چھوڑ کر نماز پڑھنے چلے گئے.نماز سے واپس آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ درخت کی ایک بڑی شاخ اُس جگہ پر گری پڑی ہے جہاں وہ نماز سے پہلے کام کر رہے تھے اور اچانک گری تھی.اگر نماز پڑھنے نہ جاتے تو وہ درخت کی شاخ اُن کی موت کا بھی باعث بن سکتی تھی.اس بات نے اُن کے ایمان میں اضافہ کیا کہ دیکھو نماز کی وجہ سے میری جان بچ گئی.اسی طرح بعض نا مساعد حالات میں الہی حفاظت کے واقعات ہیں.بینن کے جگو ریجن کے اجتماع کا انعقاد جینگو (Japango) جماعت میں کیا گیا جو ایک نو مبائع جماعت ہے.دورانِ اجتماع جو گو شہر سے کچھ مولوی اپنے کارندوں کے ساتھ ڈنڈے اور لاٹھیاں لے کر مسجد میں آگئے کہ ہم احمدیوں کو مار بھگائیں گے، اُن کا اجتماع نہیں ہونے دیں گے.یہ بالکل نئے احمدی جوشِ ایمان سے لبریز تھے.بالکل نئے احمدی تھے لیکن بہر حال اُن میں ایمان تھا.کہتے ہیں مخالفین کو دیکھ کر اپنے لوکل مشنری سے کہنے لگے کہ آپ مسجد کے اندر چلے جائیں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح حملہ کرتے ہیں.چنانچہ وفد کی صورت میں مخالفین کو سمجھانے لگے.پہرہ دینے لگے جب کہ مخالفین اُن کی بات سننے کو تیار نہ تھے.آخر لوکل مشنری صاحب ہی آگے بڑھے کہ بتاؤ کہ کس آواز اور پیغام کو تم روکنا چاہتے ہو.افریقنوں میں کم از کم یہ عقل اور شعور ہے جو آپ کو آجکل کے پاکستانی ملاں میں نظر نہیں آئے گا.کہتے ہیں کہ تم ہمیں کس بات سے روک رہے ہو.اس وقت کا جو امام ہے وہ پیغام دیتا ہے کہ تو حید الہی پر قائم ہو جاؤ اور اکٹھے ہو کر اسلام کا جھنڈا اور آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اور جھنڈا بلند کرو.کیا تم اس آواز کو روک دینا چاہتے ہو جو قرآن کریم کی تصدیق کرتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شاہد ہے اور عین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آیا ہے.معلم صاحب کی گفتگو کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا اثر ہوا.اور ایک ایک کر کے اُن میں سے لوگ جانے شروع ہو گئے اور مولوی صرف اکیلے ہی رہ گئے.امیر صاحب ٹوگو بیان کرتے ہیں کہ متحجہ احمد صاحب Motidia Ahmad) نو مبائع ہیں.یہ آما تو (Amato) کے رہنے والے ہیں.انہوں نے ( جماعت احمدیہ آماتو کے ) جلسہ نومبائع کے دوران گواہی دی کہ وہ بیس سال سے مسلمان ہیں اور اب تک انہیں نہ تو صحیح نماز پڑھنی آتی ہے اور نہ ہی اسلام کے بارے میں کچھ معلوم تھا.کیونکہ مولوی کو صرف پیسے سے پیار ہوتا ہے.تعلیم دینے اور شادی بیاہ عقیقہ وغیرہ کے موقع پر پیسے کا لالچ ہوتا ہے حتی کہ جنازہ پڑھانے کی بھی فیس ہے.اس کے بغیر مولوی جنازہ نہیں پڑھاتے.لیکن خدا کے فضل سے دو سال پہلے جب سے احمدی ہوا ہوں احمدی معلم اور مبلغین نے جس رنگ سے تربیت کی ہے، اُس کی وجہ سے اب مجھے اسلام کے بارے میں بہت سی معلومات ملی ہیں اور اب میں ایک داعی الی اللہ کے طور
سبیل الرشاد جلد چہارم 330 پر کام کرتا ہوں.خدا کے فضل سے پنجوقتہ نمازی ہونے کے ساتھ ساتھ تہجد بھی ادا کرتا ہوں.اور جو بیس (20) سال میں نے احمدیت کے بغیر گزارے اُس پر خدا کے حضور معافی مانگتا ہوں.پھر لائبیریا کے مبلغ ناصر صاحب لکھتے ہیں کہ چھ ماہ قبل ہم نے ایک ایسے گاؤں میں تبلیغ کا پروگرام بنایا جو ایک مشکل جگہ پر واقع ہے اور کوئی گاڑی وہاں پر پہنچ نہیں سکتی.تقریبا پانچ چھ کلومیٹر پیدل چلنا پڑا.راستے میں ایک دریا پڑتا ہے جس کو عبور کرنے کے لئے چند لکڑیاں آپس میں باندھ کر مقامی ساخت کا ایک پل بنایا گیا.نئے آدمی کے لئے اس پر سے گزرنا بھی کافی مشکل کام ہے.دریا عبور کر کے جب ہم اس گاؤں میں پہنچے تو سب سے پہلے امام سے ملے اور اس کو درخواست کی کہ ہم آپ لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں اور احمدیت کا پیغام سنانا چاہتے ہیں.چنانچہ اس نے سارے لوگوں کو جمع کیا.خاکسار نے ایک لمبی تقریر کے بعد اُن کو احمدیت میں شمولیت کی دعوت دی.انہوں نے سوال کیا کہ ہم پہلے بھی مسلمان کہلاتے ہیں اور احمدی بھی مسلمان ہیں تو شمولیت سے کیا فرق پڑے گا.کہتے ہیں میں نے اُن کو اُن کی سمجھ کے مطابق بتایا.وہ اتنے پڑھے لکھے لوگ تو نہیں تھے لیکن وہاں افریقہ میں فٹ بال کا بڑا شوق ہے.تو انہوں نے ان کو اسی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ فٹ بال کے کھلاڑی ہیں اور آپ کو کوئی اچھا فٹ بال کلب شمولیت کی دعوت دے تو آپ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ میں تو پہلے ہی فٹ بال کا کھلاڑی ہوں.میں کیوں آپ کے کلب میں شامل ہوں.آپ اکیلے کھلاڑی کچھ نہیں کر سکتے، کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے جب تک کسی اچھی ٹیم میں شمولیت اختیار نہ کریں.اس وقت احمدیت اسلامی میدان میں بہترین ٹیم ہے اور زمانے کا امام اس کو لے کر چل رہا ہے.اس مثال سے وہ بہت محظوظ ہوئے اور سب نے امام سمیت جماعت میں شمولیت کا اعلان کیا.کہتے ہیں خاکسار نے اس وجہ سے کہ نئے احمدی ہیں اگر چندہ کا کہا تو ان میں کہیں ڈوری نہ پیدا ہو جائے یا یہ نہ کہیں کہ صرف پیسے کے لئے آیا ہے تو میں نے چندہ کا وہاں ذکر نہیں کیا.کہتے ہیں کہ کچھ دنوں کے بعد وہ امام صاحب سارے گاؤں کا چندہ لے کر خود مربی صاحب کے پاس شہر میں آگئے کہ جب وہ احمدی نہ تھے اُس وقت بھی شہر کی دوسری مسجد میں جا کر چندہ دیتے تھے.اور اب جبکہ ہم نے احمدیت قبول کر لی ہے تو چندہ ہم یہاں ادا کیا کریں گے.تب سے وہ ہر ماہ بغیر توجہ دلائے با قاعدہ چندہ لاتے ہیں اور واپس جا کر ان کو رسیدیں بانٹتے ہیں.اب یہ اگست کا چندہ لے کر آئے ہیں اور انہوں نے کہا کہ آپ موسم برسات میں بالکل وہاں آنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ راستے میں بہت پانی ہے اور میں چندہ دینے کے لئے اپنے کپڑے اتار کر پانی سے گزر کر آیا ہوں.تو یہ لوگ اتنی محنت اور تر ڈد کرتے ہیں.پھر محمود احمد صاحب مبلغ سلسلہ نائیجیر یا لکھتے ہیں کہ ہم ایک نئی جماعت گوئی (Goye) میں ایم ٹی اے کے لئے ڈش لگانے گئے.جب ہم ڈش لگا چکے تو اُس وقت ایم ٹی اے پر جلسہ سالانہ کینیڈا کی کاروائی جاری
331 سبیل الرشاد جلد چہارم تھی اور مجھے لکھتے ہیں کہ آپ وہاں بیٹھے ہوئے تھے.اس گاؤں میں ٹی وی (TV) کے اوپر یہ پہلا پروگرام تھا جو آ رہا تھا، جس میں میری موجودگی میں وہاں کینیڈا کا جلسہ ہو رہا ہے.نومبائعین نے ایم ٹی اے پر اُسے دیکھا.جب سارے گاؤں کے نو مبائع ایم ٹی اے دیکھنے کے لئے جمع ہو گئے تو اس گاؤں کے چیف الحاجی موسیٰ ابوبکر نے میری طرف اشارہ کیا کہ یہ شخص یہ چہرہ جھوٹا نہیں ہو سکتا.اور اللہ کے فضل سے اُس نے کہا کہ ہمیں خوشی ہورہی ہے کہ ہم نے بچے امام کو مانا ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکتیں ہیں جن کا اللہ تعالیٰ اظہار کرواتا ہے.اکبر احمد صاحب امیر جماعت نائیجر لکھتے ہیں کہ نائیجر کے برنی کونی شہر سے گیارہ کلومیٹر کے فاصلے پر راڈاڈ وا(Radadaoua) ایک چھوٹا سا گاؤں ہے.اس گاؤں کے باسیوں نے علاقے میں سب سے پہلے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی.وہابی مولوی اس گاؤں پہنچے اور احباب جماعت سے کہا کہ احمدی تو مسلمان ہی نہیں ہیں.ان کا تو قرآن بھی اور ہے.یہ مولوی ایک گروپ کی شکل میں وہاں پہنچے.بڑے بڑے جبہ پہنے ہوئے تھے.عربی بول کر اور قرآنی آیات پڑھ پڑھ کر سادہ لوح احباب کو بہکانے کی کوشش کر رہے تھے.یہ سادہ لوح احباب جن کو بیعت کئے سات آٹھ سال ہو گئے ہیں.جماعتی پروگراموں میں با قاعدہ شامل ہوتے ہیں.چندہ دیتے ہیں.اُن کے بچے وغیرہ نماز سیکھ چکے ہیں.وہ ان مولویوں کی باتیں سن کر پریشان ہوئے کہ وہ کیا کریں.بہر حال دل میں خیال پیدا ہوا کہ پھر سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے.کہتے ہیں اسی گاؤں کے رہنے والے ایک دوست عثمان صاحب نے بتایا کہ یہ سب سن کر اُن کو بہت دکھ ہوا.وہ کہتے ہیں کہ میں نے رات دعا کی کہ اے اللہ! تو خود میری رہنمائی فرما.اگر جماعت احمد یہ جھوٹی ہے تو خود مجھے اس سے بچا اور اگر جماعت سچی ہے تو کل مجھے پیسے ملیں.( یہ عجیب شرط لگائی انہوں نے ).تو کہتے ہیں کہ عثمان صاحب کہتے ہیں کہ اگلے دن صبح میں اپنے دو دوستوں کے ساتھ گھر سے کام کے لئے نکلا.سڑک پر جارہا تھا کہ سڑک کے کنارے ایک کالا پلاسٹک کا لفافہ پڑا ہوا ملا جسے اُٹھا کر میں نے دیکھا تو وہ پیسوں سے بھرا ہوا تھا.اُس میں دس دس ہزار فرانک کے کئی نوٹ تھے.کہتے ہیں کہ میرے ہاتھ میں حسب معمول ریڈیو بھی تھا.( ریڈیو وہاں کے لوگوں کا رواج ہے.ہاتھ میں رکھتے ہیں ) خاص طور پر گاؤں کے لوگ خبریں یا مختلف پروگرام بڑی دلچسپی سے سنتے ہیں.کہتے ہیں عین اُس وقت ریڈیو پر اعلان ہورہا تھا کہ کسی کا پیسوں سے بھر ا لفافہ کہیں گر گیا ہے.اگر کسی کو ملے ( یہ نشانیاں بتائیں) تو وہ ریڈیو اسٹیشن آ کر دے دے.عثمان صاحب کہتے ہیں کہ میرے دوست میرے پیچھے پڑ گئے کہ اس کو کھولو اور پیسے تقسیم کرتے ہیں.تو میں نے اُن سے کہا کہ نہیں ، ہرگز نہیں.یہ میرے ربّ العزت کا جواب ہے کہ جماعت احمد یہ سچی ہے.کیونکہ رات میں نے دعا کی تھی اور خدا نے میری دعا قبول کر کے میرے ایمان کواحمد یت پر مضبوط کیا.بی رقم امانت ہے اسے
332 سبیل الرشاد جلد چہارم میں واپس لوٹاؤں گا.( پیسے تو ملے لیکن یہ دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے دیئے کہ اب ایمان داری کا بھی آگے امتحان شروع ہوتا ہے).چنانچہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنا سائیکل پکڑا اور کوئی شہر آ کر یہ رقم ریڈیو کے ڈائریکٹر کولوٹا دی.ڈائریکٹر نے عثمان صاحب سے کہا کہ آپ تھوڑی دیر کے لئے رکیں.وہ بندہ جس کے پیسے ہیں وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے.تھوڑی دیر کے بعد وہ لوگ آئے جن کی رقم تھی.انہوں نے رقم گنی جو ایک ملین فرانک سے زائد تھی.اور وہ پوری تھی.اس کے بعد انہوں نے کچھ رقم عثمان صاحب کو بطور انعام کے دینا چاہی جسے عثمان صاحب نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میرا انعام اللہ تعالیٰ نے مجھے دے دیا ہے.مجھے ان پیسوں کی ضرورت نہیں.اور خدا کے فضل سے اس واقعہ کے بعد اس گاؤں کے جو احباب جماعت ہیں، ان کے ایمانوں میں مزید اضافہ ہوا ہے.محمد احمد راشد صاحب مبلغ جر منی لکھتے ہیں کہ ایک جرمن سائمن گلہر (Simon Geelhaar) نامی نوجوان نے بیعت کی.یہ اس سے قبل بھی مسلمان تھے.ان کی جب خاکسار سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ میں نے جب اسلام قبول کیا تو میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ سارے مسلمان ملت واحدہ ہیں لیکن بعد میں مجھے علم ہوا کہ یہاں تو بہت سارے فرقے ہیں.اب مجھے کیسے پتہ چلے کہ کون حق پر ہے؟ کہتے ہیں کہ اس پر میں نے عرض کیا کہ اگر آپ صدق دل سے دعا کریں تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ کی رہنمائی کرے گا.انہوں نے دو تین دن ہی دعا کی تھی کہ ان کو دو مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی.وہ کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام اُن کو نہیں آتا تھا.اس زیارت کے دوران یہ نام بآسانی زبان پر آنا شروع ہو گیا.نیز اس زیارت کے نتیجے میں اُن کے دل میں ایک نور پیدا ہوا اور اُن کو ایک طمانیت ملی کہ احمدیت ہی سچا اسلام ہے.یہ دوست گزشتہ عید کے روز خاکسار کے پاس آئے اور نماز عید ادا کی.اپنی خواب میں دو مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ کر بیعت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا.اور اللہ کے فضل سے بیعت کی.فضل مجوکہ صاحب پرتگال سے لکھتے ہیں کہ پرتگال میں مقیم مراکش کے ایک دوست از نین رضوان صاحب نے خاکسار سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ مشن میں آنا چاہتے ہیں.چنانچہ انہیں مشن کا ایڈریس دیا گیا اور وہ مشن تشریف لائے.انہوں نے بتایا کہ وہ ایک سال سے ایم ٹی اے العربیہ دیکھ رہے ہیں اور وہ سو فیصد مطمئن ہیں اور بیعت کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ انہیں بیعت فارم دیا گیا جس کو انہوں نے پڑھا اور پُر کر دیا.از نین رضوان صاحب نے احمدیت کی طرف راغب ہونے کے متعلق دوخواب بتائے.کہتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ ایک سال قبل جب ایم ٹی اے العربیہ پر اَلحِوَارُ الْمُبَاشَر کا پروگرام دیکھ رہاتھا اور پروگرام کے آخر میں پڑھے جانے والے اقتباس کے متعلق بتایا گیا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے تو تب
333 سبیل الرشاد جلد چہارم انہیں پتہ چلا کہ امام مہدی علیہ السلام آچکے ہیں.چنانچہ انہوں نے جستجو کی اور باقاعدگی سے دلچسپی.پروگرام دیکھنے لگ گئے.انہوں نے بتایا کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ دشمن مسلمانوں کے بہت قریب پہنچ گیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے فرما رہے ہیں کہ اِنْهَضُوا لِلْحِهَادِ، إِنْهَضُوا لِلْحِهَادِ.کہ جہاد کے لئے اُٹھ کھڑے ہو، جہاد کے لئے اُٹھ کھڑے ہو.کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنتا ہوں تو میں خواب میں فوراً اُٹھ کھڑا ہوتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ میں ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کروں گا.اس کے بعد میں بیدار ہو گیا اور میرا دل زورزور سے دھڑک رہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اس کی تعبیر ڈالی کہ میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بیعت کر کے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کر سکتا ہوں.دوسرے خواب کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ آسمان پر بادل کے دو بڑے ٹکڑے ہیں.اُن میں سے ایک ٹکڑا سفید رنگ کا ہے اور دوسرا سیاہ رنگ کا.سیاہ رنگ کے بادل کے بڑے ٹکڑے کے پیچھے سیاہ رنگ کا ایک چھوٹا ٹکڑا بھی ہے،سفید بادل کا ٹکڑا اور سیاہ بادل کا بڑا ٹکڑا ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں.پھر سفید رنگ کا بادل، سیارہ رنگ کے بادل سے ٹکراتا ہے اور سیاہ رنگ کا بادل ریزہ ریزہ ہو کر غائب ہو جاتا ہے.پھر سفید بادل بڑے ٹکڑے کو شکست دینے کے بعد سیاہ بادل کے چھوٹے ٹکڑے کی طرف بڑھتا ہے تو سفید بادل جس میں لوگ سوار ہیں سے ، آواز آتی ہے کہ اس سے نہیں ٹکرانا، یہ رضوان ہے اور یہ ہم میں شامل ہو جائے گا.اُزنین رضوان صاحب نے بتایا کہ خواب کے بعد میرے دل میں شدید تڑپ پیدا ہوگئی کہ میں جلد از جلد حضرت امام مہدی علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہو جاؤں.علاحسین صاحب عراق کے رہنے والے ہیں.یہ لکھتے ہیں کہ جب سے میں نے بیعت کی ہے، مجھے ہر طرح کے امن وسلامتی اور سکون کا احساس ہو رہا ہے اور خدا تعالیٰ پر ایمان وایقان میں بھی اضافہ ہوا ہے.اور یہ احساس ہوتا ہے کہ نہ صرف خدا تعالیٰ نے میرے گناہ بخش دیئے ہیں بلکہ اپنی محبت اور قرب میں بڑھایا ہے اور اب میں خدا تعالیٰ کی معیت میں ہوں اور میرے تمام اعضاء میں خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت محسوس ہوتی ہے اور دین اسلام کی صداقت خوب کھل گئی ہے.پھر یہ مجھے لکھ رہے ہیں کہ آج سے دو سال قبل میں نے رمضان کے آخری عشرے کے دوران خواب میں آسمان اور زمین کے درمیان پگڑی والے ایک شخص کو دیکھا تھا جس کی پگڑی کے اوپر سفید رنگ کے پر کے مشابہ کوئی چیز ہے.اس شخص کا بڑا رعب ہے اور وہ فی البدیہہ طور پر اونچی آواز میں شعر یا نظم پڑھ رہا ہے جو میں سن رہا ہوں اور اپنے آپ میں ایسی گرمجوشی تسلی اور امن محسوس کرتا ہوں جس کا بیان ناممکن ہے.میں اپنے دل سے اس کے اشعار سن رہا ہوں، نہ ظاہری کانوں سے.اس شخص کے الفاظ اور عبارتیں کان میں ایسی پڑ رہی تھیں جیسے ٹھنڈا پاکیزہ پانی ہوتا ہے اور جو کلام میں
334 سبیل الرشاد جلد چہارم اس بزرگ امام سے سنتا ہوں اس جیسا کلام میں نے پہلے کبھی نہیں سنا ہو گا.ایسے لگتا ہے جیسے میں اُسے پیتا جا رہا ہوں.در حقیقت میرا دل سن اور دیکھ رہا ہوتا ہے اور سیراب ہوتا ہے حتی کہ میری آنکھیں آنسوؤں سے امڈ آتی ہیں اور وہ الفاظ میرے نفس، روح، عقل اور دل پر گہرا اثر کرتے ہیں اور میرے جسم کے ہر ذرے میں رچ بس جاتے ہیں.جب میں بیدار ہوتا ہوں تو انہیں یاد کر کے لکھنا چاہتا ہوں، جو یہ الفاظ تھے.آثَرْتُ الجَمَالَ عَلَى الْجَمَالِ أَنْتَ رُوْحِيْ وَرَاحَتِي تَعَالَ حَبِيْبِي یہ اس پیارے شخص کے لمبے قصیدے سے چند جملے مجھے یادر ہے.مجھے خیال گزرا کہ شاید وہ بزرگ حضرت علی ہیں.پھر خیال آیا کہ جو پگڑی اس بزرگ نے پہنی ہوئی تھی وہ غیر معروف تھی اور پگڑی کے اوپر والا طرہ غیر معروف تھا.یعنی اس کی گردن دائیں طرف کو جھکی ہوئی تھی اور اُن کے الفاظ بہت خوبصورت اور اس طرح محبت سے معمور تھے کہ میں کبھی اُن کو بھلا نہیں سکتا.بہر حال اس خواب کے قریباً ایک ہفتے کے بعد میں ایک دن ٹی وی پر مختلف چینل تلاش کر رہا تھا کہ اچانک آٹو میٹک سرچ پر لگا کر نے چینل کی تلاش کی تو اچانک مجھے ٹی وی سے آواز آئی کہ لَقَدْ أُرْسِلْتُ مِنْ رَّبِّ كَرِيمٍ رَحِيْمِ عِنْدَ طُوْفَانِ الضَّلَالَ (یعنی میں رب کریم ورحیم کی طرف سے ضلالت کے اس طوفان کے زمانے میں بھیجا گیا ہوں ).اس پر مجھے بڑا جھٹکا لگا اور میں جلدی سے ٹی وی کی طرف لپکا اور ایک چینل پر ایک شخص کی تصویر دیکھی جس کے نیچے لکھا تھا الْإِمَامِ الْمَهْدِى وَالْمَسِيحِ الْمَوْعُود اور مندرجہ بالا الفاظ پڑھے جارہے تھے.یہ دیکھ کر میں اپنے جذبات پر کنٹرول کھو بیٹھا اور اونچی آواز سے رونے لگا.خدا کی قسم ! میں ہفتہ بھر روتا رہا اور جب بھی وہ تصویر ٹی وی پر آتی یا وہ اشعار سنتا تو اپنے گزشتہ گناہوں کی وجہ سے سر پیٹنے لگتا.اب دن رات میر اشغل ایم ٹی اے کا دیکھنا ہو گیا جیسے کسی کو فائنل میچ کا انتظار ہوتا ہے.اور رونے کے آثار میرے منہ پر واضح ہوتے.یتی کہ بعض لوگ مجھ سے پوچھنے لگتے کہ کیا تم رو کر آئے ہو؟ انہوں نے مجھے لکھا کہ کئی دفعہ خواب میں میں نے آپ کو بھی دیکھا.تو بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر اُس کو نظر آئی.تو یہ چند واقعات جومیں نے آپ کے سامنے پیش کئے ہیں.یہ جہاں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق ہونے پر یقین کامل پیدا کرتے ہیں، وہاں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق تسبیح تحمید اور استغفار کی طرف بھی زیادہ سے زیادہ توجہ پھیرنے والے ہونے چاہئیں.یہ سن کر صرف الحمد للہ اور ماشاء اللہ پڑھنا کافی نہیں ہوگا.یا صرف عارضی طور پر محفوظ ہونا ہی کافی نہیں ہوگا.جہاں ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اُس کی تسبیح کرتے ہوئے ، اُس کی حمد کرتے
335 سبیل الرشاد جلد چهارم ہوئے اور استغفار کرتے ہوئے جذب کرنے والے ہوں اور ایمان میں ترقی کرنے والے ہوں، وہاں ان نئے آنے والوں کے لئے نمونہ قائم کرنے والے بھی بنیں.جیسا کہ واقعات سے ظاہر ہے بیشک بہت سے ایسے ہیں جن کی رہنمائی اللہ تعالیٰ نے فرمائی اور اُن کے ایمانوں کو مضبوطی بخشی لیکن لاکھوں آنے والوں میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں جو علمی دلیلوں اور زمانے کے حالات دیکھ کر ایک مصلح کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے احمدی ہوئے ہیں یا احمدیت میں شامل ہوئے ہیں.انہوں نے ہمارے نمونے بھی دیکھنے ہیں جو پہلے احمدی ہیں.پس آپ جو انصار اللہ کہلاتے ہیں حقیقی رنگ میں اپنی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے انصار اللہ بنیں اور بننے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر اُس کی حمد کرتے ہوئے مزید شکر گزار بنیں.استغفار کرتے ہوئے اپنے ایمانوں کو مضبوط کریں اور نئے آنے والوں کے لئے اور اسی طرح اپنے لئے بھی مضبوطی ایمان اور ہر قسم کے شرور سے بچنے کی دعا کریں.اور یہاں میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ انصار کی عمرکو پہنچ کر عاقبت کی زیادہ فکر ہونی چاہئے لیکن افسوس ہے کہ بعض ایسے بھی ہیں جو بجائے اس فکر کے معاشرے میں بے سکونی کا ذریعہ بن رہے ہیں.اُن کے گھروں میں بھی بے سکونیاں ہیں اور گھروں سے باہر معاشرے میں بھی جھگڑوں کی وجہ سے بے سکونیاں پیدا ہورہی ہیں.پس اس طرف بھی ایسے لوگوں کو توجہ دینی چاہئے.جب بچے جوان ہو جائیں یا جوانی کی عمر میں قدم رکھ رہے ہوں تو اُن کے لئے ہمیں انصار کی عمر کو پہنچے ہوئے لوگوں کو تو نمونہ بننا چاہئے.ان کے لئے بھی استغفار کرنی چاہئے تاکہ مسیح موعود کی قبولیت کا انعام جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے گھروں میں آیا ہے اُس کا فیض اگلی نسلوں میں بھی جاری رہے.اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا کے حصول کی توفیق عطا فرمائے" وقف عارضی کیا کریں الفضل انٹر نیشنل 14 دسمبر 2012ء) 2012 ء کو امریکہ کے دورہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمد یہ امریکہ کی میٹنگ میں نیشنل سیکرٹری تعلیم القرآن نے جب اپنی رپورٹ حضور انور کی خدمت میں پیش کی تو حضور نے فرمایا.انصار اللہ کے ممبرز کو کہیں کہ وقف عارضی کیا کریں یہ لوگ فارغ ہوتے ہیں " الفضل انٹر نیشنل 7 ستمبر 2012ء)
سبیل الرشاد جلد چہارم 336 انصار اللہ اچھا کام کر رہی ہے مگر میں ان سے اور کام چاہتا ہوں نو مبائعین کی تربیت کا مطلب ان کو اپنے اندرسمونا اور جماعت کا حصہ بنانا ہے.مورخہ 10 دسمبر 2012ء کو بیت السبوح میں اراکین مجلس عاملہ انصار اللہ جرمنی کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میٹنگ منعقد ہوئی جس میں حضور انور نے قائد عمومی سے مجالس کی تعداد اور ان کی طرف سے موصول ہونے والی رپورٹس کے بارہ میں دریافت فرمایا.جس پر قائد عمومی نے بتایا کہ ہماری 241 مجالس ہیں.امسال پانچ مجالس کا اضافہ ہوا ہے.نومبر 2012 ء کی رپورٹس مجالس کی طرف سے آنے والی ہیں.لیکن اکتوبر 2012ء میں 234 مجالس کی طرف سے رپورٹس موصول ہوئی ہیں.ہر ماہ قریباً اتنی ہی مجالس با قاعدہ رپورٹس بھجواتی ہیں.حضورانور کے دریافت فرمانے پر قائد عمومی نے بتایا کہ جن مجالس سے رپورٹس موصول نہیں ہوتیں ان کو یاد دہانی کرواتے ہیں.خط لکھتے ہیں.ناظم علاقہ سے رابطہ کر کے پتہ کرتے ہیں اور فون پر بھی یاد دہانی کرواتے ہیں.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ ان مجالس کو بار بار یاد دہانی کروائیں جو اپنی رپورٹس نہیں بھجواتیں.پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ہر مجلس کی رپورٹس پر قائدین اپنے اپنے شعبہ کی کارکردگی پر تبصرہ کر کے اس مجلس کو بھجوائیں.اس طرح مجلس کو ہر رپورٹ کا جواب دیا جانا چاہئے.قائد تربیت نے حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ انصار کی مجموعی تعداد 4070 ہے جن میں سے صف اول کے 1416 اور صف دوم کے 2656 ہیں.صف اول میں سے اسی (80) کے قریب ایسے انصار ہیں جو نمازوں میں بے قاعدہ ہیں.صف دوم کے انصار میں سے پندرہ سولہ سو با قاعدہ نمازیں ادا کرتے ہیں.قائد تربیت نے بتایا کہ انصار کو حضور انور کے خطبات سننے کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہے.حضور انور کے دریافت فرمانے پر قائد تربیت نے بتایا کہ تمام مجالس میں انصار اللہ کی مجالس عاملہ کے ممبران کی تعداد 1903 ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا اگر مجالس عاملہ کے تمام ممبران نماز ادا کرنے والے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ عاملہ کے علاوہ باقی دو ہزار میں سے چھ صد با قاعدہ نمازیں پڑھنے والے ہیں.اگر دوسروں میں سے زیادہ پڑھنے والے ہیں تو پھر عاملہ میں سے پڑھنے والے کم ہیں.آپ کو یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے.جو کمزور انصار ہیں ان کو توجہ دلاتے رہیں.اور رابطے رکھیں.جو بوڑھے ہورہے ہیں ان کو یہ بھی بتائیں کہ پتہ نہیں کب موت آجانی ہے، زندگی کم ہورہی ہے.خدا زیادہ یاد آنا چاہئے.حضور انور نے فرمایا کہ خطبات سننے کے بعد نمازوں کی حاضری کتنی بڑھی ہے.یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے.تمام مجالس اپنی اپنی جگہ اس کا جائزہ لیں.صرف جائزہ ہی نہیں لینا بلکہ عملی طور پر کام کرنا ہے اور خطبات سننے والوں کی تعداد بھی بڑھنی چاہئے.اور نمازوں میں حاضری بھی بڑھنی چاہئے.
337 سبیل الرشاد جلد چہارم حضور انور نے فرمایا: تربیت کے کام کی طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے.اجلاسات میں جھگڑا ہو جاتا ہے یا کسی نے کسی کو گالی دے دی.ایسا کیوں ہوتا ہے.یہ تربیت کی کمی ہے.اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.اسی طرح انتخابات میں تقویٰ سے کام لینے کی ضرورت ہے.کسی بھی عہدیدار کے حق میں جانبداری نہیں ہونی چاہئے.ان سب چیزوں کی طرف شعبہ تربیت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے.تقویٰ کا معیار بلند ہونا چاہئے.قائد تجنید سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا تجنید گھر گھر جا کر کرتے ہیں یا زعماء بنا کر بھجوادیتے ہیں.اب جو نئے اسائیلم والے آئے ہیں ان کو شامل کریں.تجنید کا چندے کی ادائیگی سے تعلق نہیں.جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے اس کو شامل کریں.جب تک آپ شامل نہیں کریں گے اس کی تربیت نہیں کر سکتے.پہلے اس کو شامل کریں، پھر اس کو اپنے قریب لائیں اور باقاعدہ اپنے نظام کا حصہ بنائیں.حضورانور نے فرمایا کہ آپ اپنی تجنید نیشنل سیکرٹری مال کی رپورٹ کے مطابق نہیں بنا سکتے کہ اتنے انصار چندہ دیتے ہیں لہذا وہی ہماری تجنید ہے.جو چندہ دینے والوں کی تعداد ہے.اگر یہ دونوں برابر ہوجائیں تو اس کا مطلب ہے کہ تجنید غلط ہے یا پھر تقویٰ کا معیار سو فیصد ہو گیا ہے.اس لئے گراس روٹ لیول پر جا کر اپنی تحجنید مکمل کریں.بہت سارے آپ کو ایسے انصار بھی ملیں گے جو تجنید میں شامل نہیں ہیں اور چندہ کے نظام میں بھی شامل نہیں ہیں.قائد ایار نے بتایا کہ ہم وقار عمل کرواتے رہتے ہیں.اس پر حضور نے فرمایا انصار بھی چیریٹی واک کریں.برطانیہ میں انصار ، خدام دونوں اپنی اپنی کرتے ہیں.یہاں کے انصار ، خدام دونوں علیحدہ علیحدہ وقت میں علیحدہ علاقوں میں کر سکتے ہیں.مثلاً خدام فرینکفرٹ میں اور انصار ہیمبرگ میں کر سکتے ہیں.فرمایا: اگر بڑی عمر کے لوگ چیریٹی واک کریں تو اس کا بہت اچھا اثر ہوگا.ان کو جیکٹس دیں اور جیکٹس کے اوپر چیریٹی واک کا لوگو ہو.اتنی (80) سال کی عمر کے بزرگ اگر واک کریں تو اس کا بہت اچھا اثر ہو گا.فرمایا : خدام اور انصار نے اپنی اپنی چیریٹی واک کے لئے علیحدہ علیحدہ جگہ کا انتخاب کرنا ہے.برلن (Berlin) میں کر سکتے ہیں.دوسرے چھوٹے چھوٹے شہروں میں کر سکتے ہیں اور جو آمد ہے اس کا اسی (80) فیصد لوکل چیریٹیز کو دیں اور باقی بیس فیصد بے شک ہیومینٹی فرسٹ کو دے دیں.فرمایا: اگر چیریٹیز کے لئے رقم اکٹھی کرنے کا رواج نہیں ہے تو یہاں اس رواج کا تعارف کروائیں اور پھر چیریٹیز کے لئے رقم اکٹھی کریں اور باقاعدہ ایک پروگرام کا انعقاد کر کے یہ رقم مختلف چیر بیٹیز کو دیں.اس چیز کا تو تعارف یہاں کروائیں.پریس اور میڈیا کو بھی Invite کریں.قائد ایثار نے بتایا کہ امسال ہم نے 93 درخت لگائے ہیں.اس پر حضور انور نے فرمایا: آپ درخت لگانے کی تعداد بڑھائیں.انصار اللہ یوکے کا اس سال دو ہزار درخت لگانے کا پروگرام ہے.آپ کے یہاں
سبیل الرشاد جلد چہارم 338 241 مجالس ہیں، ہر مجلس کم از کم ایک ایک لگائے تو 241 درخت ہو جائیں گے.حضور انور نے فرمایا: 241 مجالس میں سے ہر مجلس سے آپ کا وفد میئر کے پاس جائے اور اجازت لے.اجازت نہ ملے تو آپ کا فرض ادا ہو گیا.اصل بات یہ ہے کہ جماعت کا تعارف ہو.جو درخت لگانے ہیں وہ انصار اپنے علیحدہ علیحدہ اور خدام اپنے علیحدہ لگا سکتے ہیں.اس طرح درخت بھی زیادہ لگیں گے اور تعارف بھی بڑھے گا.حضورانور نے فرمایا: سڑکیں صاف کرنا اچھی بات ہے.ان کو کم از کم یہ پتہ لگ جائے کہ جماعت احمد یہ یہ کام کرتی ہے.تعارف کے بعد ہی تبلیغ کے میدان کھلتے ہیں.جو غلط تاثر مسلمانوں کے خلاف ہے وہ دور ہو جاتا ہے.حضور انور نے فرمایا: اپنے تبلیغی میدان کو بڑھائیں.وسعت دیں اور مجالس کو تاکید کریں کہ پودے لگائیں.اس کا آپ کا اچھا اثر پڑے گا اور غلط فہمیاں دور ہوں گی.حضور انور نے فرمایا کھڑ کی لگا رہے ہیں روشنی کے لئے تو اذان کی آواز بھی سن لیں.قائد تعلیم نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہر سہ ماہی کا نصاب مقرر ہے اور امتحان لیا جاتا ہے.جو امتحان لیا گیا ہے اس میں 1497 انصار کے پرچے واپس آئے ہیں.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ صف اول کے انصار نے زیادہ حصہ لیا ہو گا.حضور انور نے فرمایا صف دوم کے انصار کو بھی اس طرف لے کر آئیں کہ وہ امتحان میں حصہ لیں.اصل یہ ہے کہ حصہ لینے والوں کی تعداد بڑھائیں.اس طرح زیادہ سے زیادہ انصار نصاب کا مطالعہ کریں گے اور ان کا علم بھی بڑھے گا....قائد تعلیم القرآن کو مخاطب ہوتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ وقف عارضی کی طرف توجہ دیں اور انصار وقف عارضی کر کے قرآن کریم پڑھائیں.تلفظ ٹھیک کروائیں، انصار جو فارغ ہیں ان سے وقف عارضی کروائیں.مختلف جگہوں پر پندرہ دنوں کے لئے جا کر کام کریں.شعبہ تبلیغ کے ساتھ مل کر طے کریں.وقف عارضی کے دوران لیف لیٹس بھی تقسیم کریں.وقف عارضی کر کے تقسیم کریں.تعلیم القرآن کلاسز ، تجوید کلاسز اور ترجمۃ القرآن کلاسز کا اجراء ہو.حضورانور نے فرمایا: اسی طرح قرآن کریم کے سیمینار کروائیں اور یہ بات بھی اپنے جائزہ میں رکھیں کہ انصار روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے ہوں.اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے.قائد تبلیغ نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ امسال اب تک 41 بیعتیں کروائی ہیں اور ان کا تعلق چھ قوموں، البانین، جرمن، تیونس، گرد، پاکستان اور بنگلہ دیش سے ہے.ان 41 نومبائعین میں سے جو انصار ہیں وہ انصار کے شعبہ تربیت نو مبائعین کے پاس ہیں اور باقی جو لجنہ وغیرہ ہے وہ لجنہ کے انتظام کے
339 سبیل الرشاد جلد چہارم تحت ہے.حضور انور نے فرمایا: نو مبائعین کی اس رنگ میں تربیت کریں کہ وہ نظام کا فعال حصہ بن جائیں.سال 2013ء میں ہمارا یہ پروگرام ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر سیمینار کریں گے.Life of Muhammad ایک ہزار کی تعداد میں تقسیم کریں گے اور تحفہ قیصریہ بھی تقسیم کریں گے.اسی طرح تبلیغی میٹنگز اور تبلیغی سال کا بھی پروگرام ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا ٹھیک ہے کریں.قائد مال نے حضور انور کے استفسار پر اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ چندہ دینے والے انصار کی تعداد 3674 ہے اور ہمارا سالانہ چندہ چار لاکھ ، 88 ہزار 963 یورو ہے.116 یورو فی کس سال کا ہے.ہم ایک فیصد شرح پر چندہ لیتے ہیں.لیکن ابھی اس میں کافی گنجائش ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ لوکل سیکرٹریان کو توجہ دلاتے رہیں اور اس طرح آپ کے چندہ میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے.قائد صحت جسمانی نے بتایا کہ ہم نے فٹبال ٹورنا منٹ کروایا تھا اس میں 145 مقامی مہمان آئے تھے.اس پر حضور انور نے فرمایا : اولڈ پیپل ہوم (Old People Home) کو کرایہ خرچ کر کے لے آتے وہ خوش ہو جائیں گے کہ ہمیں لے آئے ہیں.دو وین کرایہ پر لینی پڑیں گی تو لے لیں.کیا فرق پڑتا ہے.ان کو لے کر آیا کریں.اس طرح ان سے ایک رابطہ اور تعلق پیدا ہو جائے گا.پھر ان کو پڑھنے کے لئے لٹریچر وغیرہ بھی دیا جاسکتا ہے.قائد ربیت نومبائعین نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت جرمن ، تیونس،سر بیا وغیرہ کے نومبائعین زمیر تر بیت ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کی تربیت کا یہ مطلب ہے کہ ان کو اپنے اندر سموئیں.کام دیں اور ان کو یہ احساس ہو کہ یہ جماعت کا حصہ ہیں.ان کی زبان جاننے والے ان کے ساتھ لگائیں.تربیت اس طرح کریں کہ آپ کے ساتھ مجھ جائیں اور اتنی تربیت کر دیں کہ تین سال میں جماعت کی مین سٹریم (Main Stream) کا حصہ بن جائیں اور پاکستانی احمدیوں سے اگر ان کے کوئی شکوک وشبہات ہیں تو وہ دور ہو جائیں.بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی غیر تربیت یافتہ پاکستانی احمدی کے رویہ سے نالاں ہوتے ہیں.قائد تحر یک جدید نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں چار لاکھ یورو کا ٹارگٹ ملا تھا وہ ہم نے پورا کر دیا.اس پر حضور انور نے فرمایا آپ مزید آگے بڑھ سکتے ہیں.قائد وقف جدید کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ پیسوں کی بجائے تعداد بڑھانے کی طرف توجہ دیں اور زیادہ سے زیادہ انصار کو چندہ کے نظام میں شامل کریں.کوئی محروم نہ رہے....قائد اشاعت نے بتایا کہ ہم باقاعدہ اپنا رسالہ ”الناصر“ نکال رہے ہیں.
سبیل الرشاد جلد چہارم 340 آڈیٹر کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ مرکز کے علاوہ مجالس کا بھی حساب چیک کیا کریں.اگر خود نہیں جاسکتے تو انسپیکٹر زکو بھجوایا کریں.زعیم اعلی فرینکفرٹ نے بتایا کہ یہاں ہماری 14 مجالس ہیں.ہم دورہ جات کر کے رابطہ کرتے ہیں.حضور انور نے فرمایا آپ جو اجلا سات کرتے ہیں جرمن زبان میں بھی کیا کریں.ایک نہ ایک پروگرام، تقریر جرمن زبان میں ضرور ہو.اگر اجلاس میں شامل ہونے والے اتنی فیصد جرمن ہیں تو پھر اسی فیصد جرمن زبان میں پروگرام ہونے چاہئیں.جو جر من احمدی ہیں ان سے یہ تقاریر کروالیا کریں.اس طرح ان کی اپنی تربیت بھی ہوگی اور ان کی زبان میں بھی پروگرام ہوں گے.تین اراکین خصوصی نے بتایا کہ ہمارے سپر مختلف کام ہیں.جو بھی صدر صاحب انصار اللہ ہمارے سپرد کرتے ہیں وہ کام ہم بجالاتے ہیں.معاون صدر نے بتایا کہ ہم دورہ جات کرتے ہیں.امسال 37 مجالس کے دورہ جات کئے ہیں.معاون صدر اور مجلس عاملہ کے ممبران نے مل کر اب تک 191 مجالس کے دورے کئے ہیں.نائب صدر صف دوم نے بتایا کہ جو خدام سے انصار میں شامل ہوں ان کو خط لکھ کر خوش آمدید کہتے ہیں.جو بھی ہمارا لائحہ عمل ہے اس کا سرکلر بھجواتے ہیں.وصیت کی طرف توجہ دلاتے ہیں تبلیغ کی طرف توجہ دلاتے ہیں.حضورانور نے فرمایا سائیکل چلانے کی طرف بھی توجہ دلاتے رہیں.تھوڑے ہیں جو چلاتے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ سیر کا موضوع دے کر سال میں دو مضمون بھی لکھوا لیا کریں.جو جر من احمدی ہیں ان کو زیادہ سے زیادہ Involve کریں اور سب کو Active کریں اور نظام کا فعال حصہ بنائیں.آخر پر حضور انور نے فرمایا: انصار اللہ اچھا کام کر رہی ہے مگر میں ان سے اور کام چاہتا ہوں.الفضل انٹر نیشنل 25 جنوری 2013ء) فارغ انصار وقف عارضی کریں اور دوسروں کو قرآن کریم پڑھائیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 15 دسمبر 2012ء کو جرمنی میں نیشنل مجلس عاملہ، مبلغین ، ریجنل ولوکل امراء اور ذیلی تنظیموں کے صدور کے ساتھ میٹنگ میں عہدیداران کو نہایت اہم اور زریں ہدایات سے نوازا.صدر صاحب انصار اللہ جرمنی کو مخاطب ہو کر فرمایا.بزرگ انصار مساجد کی تعمیر کے لئے فنڈ ز generate کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے صدر صاحب انصار اللہ سے دریافت فرمایا کہ انصار اللہ کتنا تعاون کرتے ہیں؟ انصار اللہ تو سب سے زیادہ کمائی کرنے والے ہیں.صدر انصار اللہ نے بتایا کہ ان کی طرف سے پچھلے
341 سبیل الرشاد جلد چہارم سال ساڑھے چھ لاکھ کی وصولی ہوئی تھی.اس دفعہ ہمارا پلان ہے کہ ایک ملین یور و جمع کروائیں گے.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک ملین یوروز کم از کم ٹارگٹ ہے.آپ اس کو بڑھا بھی سکتے ہیں.آپ کی ایک percentage بوڑھوں کی ایسی ہے جو کام نہیں کرتی اور سوشل الاؤنس لیتی ہے اور خرچ کچھ نہیں کرتے.اپنے پیسے بچاتے ہیں.سوشل الاؤنس لیتے ہیں اور خرچہ کوئی نہیں سوائے اس کے کہ کوئی زبر دستی ناخلف بچے چھین لیں.اس کے علاوہ کمانے والے اور کام کرنے والے انصار کی بھی اچھی خاصی percentage ہے جو معیاری چندہ ادا کر سکتی ہے.اس کیلئے ایک سکیم بنائیں کہ کس طرح آپ مساجد کی تعمیر کیلئے فنڈز generate کر سکتے ہیں.خدام الاحمدیہ اور لجنہ کو بھی چاہئے کہ اپنی سکیم بنا ئیں.سٹال لگائیں یا پھر کچھ اور پروگرام رکھیں.ایسے انصار جو فارغ ہیں ان کو کہیں کہ جا کر مارکیٹ میں بیٹھیں.ہفتہ میں دو دن سٹال لگائیں.ان کی انکم ہو اور وہ جمع کروائیں.آپ تجربہ کر کے دیکھیں اور ان سالوں سے جو انکم ہو وہ مسجد فنڈ میں جائے.چاہے وہ تھوڑی ہی کیوں نہ ہو.ایک احساس تو ہوگا کہ ہم حصہ ڈال رہے ہیں.صدر صاحب انصار اللہ نے عرض کیا کہ ایک بات سامنے آئی ہے کہ جن جماعتوں میں مساجد بن جاتی ہیں ان کی طرف سے چندہ میں کمی آجاتی ہے.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ توجہ دلائیں، احساس پیدا کریں.دو چار مقرر ایسے پیدا کریں جو تقریر کرسکیں.ان جماعتوں میں ان مقررین کو بھیجا کریں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پاکستان میں دو تین ایسے لوگ ہیں جو چندہ اکٹھا کرنے کے حوالہ سے سارے پاکستان میں جماعتوں کو mobilize کرتے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک تو جماعتوں کے اندر اعتماد پیدا کریں.ان سے پیار اور محبت سے بات کریں.ان کو یہ realize کروائیں کہ یہ اخراجات genuine ہیں.مجھے بھی لوگ لکھتے رہتے ہیں اور بعض اپنے تحفظات کا اظہار بھی کرتے ہیں.جب یہ اعتماد قائم ہو جائے گا تو پھر آپ کو چندے بھی آنا شروع ہو جائیں گے.اللہ کے فضل سے اس کے باوجود کہ لوگوں کو شکوے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی چندے دیتے ہیں.لیکن آپ اس میں محبت اور پیار سے مزید بہتری پیدا کر سکتے ہیں.ذیلی تنظیمیں بھی مرکز سے اجازت حاصل کر کے مرکزی کتب شائع کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ یہ جو Pathway to Peace کتاب ہے جس میں چار پانچ مختلف ایڈریسز ہیں اور جو خطوط میں نے سربراہانِ مملکت کو لکھے تھے وہ بھی اس میں شامل ہیں.انصار اللہ یو کے نے یہ کتاب از خود پانچ ہزار کی تعداد میں تقسیم کی ہے اور اب انصار اللہ یو کے از خود آٹھ ہزار کی تعداد میں یہ کتاب چھپوا رہی ہے اور پھر یہ قسیم بھی کریں گے.اسی طرح یہاں بھی انصار اللہ کو کرنا چاہئے.
سبیل الرشاد جلد چہارم 342 حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صدر صاحب انصار اللہ سے دریافت فرمایا کہ جو مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی نے فلائرز (Flyers) تقسیم کئے ہیں اس میں انصار اللہ نے کیا کام کیا ہے؟ صدر صاحب مجلس انصار الله جرمنی نے بتایا کہ انہوں نے دو لاکھ کی تعداد میں فلائر ز تقسیم کئے ہیں.حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ نے کم تقسیم کئے ہیں.آپ خود بھی سکیم بنایا کریں.اب انصار اللہ یو کے کو نہ تو میں نے کہا تھا اور نہ امیر صاحب یو کے نے کہا تھا کہ Pathway to Peace کو پرنٹ کرواؤ اور تقسیم کرو.انہوں نے خود ہی سکیم بنائی ہے اور پرنٹ کروائی ہے.جماعت پر بوجھ نہیں ڈالا.اسی طرح آپ کو بھی کرنا چاہئے.بہت سارا لٹریچر ہے جس کا بوجھ جماعت پر ڈالتے ہیں کہ آپ شائع کروا ئیں.ذیلی تنظیموں کا بھی کام ہے کہ با قاعدہ اجازت حاصل کر کے یہ مرکزی کتابیں خود بھی شائع کروایا کریں اور پھر تقسیم بھی کیا کریں.اب آپ کو کچھ active ہونا پڑے گا.انصار وقف عارضی کریں اور قرآن کریم پڑھائیں نیشنل سیکرٹری تعلیم القرآن و وقف عارضی سے مخاطب ہوتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ انصار اللہ کے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو فارغ بیٹھے ہیں اور کوئی کام نہیں.ان میں سے جن کو قرآن کریم آتا ہے وہ وقف عارضی کریں اور اپنی جماعتوں کو قرآن کریم پڑھایا کریں.معلمین اور مربیان تو یہاں اتنے نہیں ہیں کہ ہر سینٹر میں موجود ہوں اس لئے ہر سینٹر میں weekend پر قرآن کریم پڑھانے کیلئے انصار وقف عارضی کریں تو کافی مدد ہو جائے گی.اور جو انصار فارغ بیٹھے ہیں ان کی مصروفیت بھی ہو جائے گی.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ تعلیم القرآن کی کیا سکیم ہے؟ اس پر سیکرٹری تعلیم القرآن ووقف عارضی نے بتایا کہ نصاب کے مطابق قرآن کلاس کا انعقاد ہورہا ہے اور اس کلاس میں 25 سے 30 لوگ شامل ہوتے ہیں.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اس کی زیادہ publicity کریں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کرنے کی کوشش کریں.اس کا اعلان جماعتوں کو دیں اور چھوٹی جماعتوں کے صدر ان کو دیں کہ وہ اپنی مسجدوں سینٹرز میں اعلان کریں اور اسی طرح ذیلی تنظیموں کو بھی دیں.اس میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کرنے کی کوشش کریں اور proper فالواپ (follow up) کریں.انصار اللہ کو جماعتی نظام کے ساتھ مل کر رشتہ ناطہ کے مسائل حل کرنے چاہئیں اس کے بعد سیکرٹری رشتہ ناطہ کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ
343 سبیل الرشاد جلد چہارم رشتہ ناطہ کیلئے ایک مرکزی طور پر بھی کمیٹی ہونی چاہئے اور ایک مقامی طور پر بھی.اسی طرح ریجنل لیول پر بھی ہو.کمیٹی میں ذیلی تنظیموں کے صدر شامل ہونے چاہئیں.لجنہ کی صدر بھی شامل ہوں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ لجنہ کے اندر رشتہ ناطہ کا کوئی شعبہ نہیں ہے اور نہ لجنہ کو کوئی اختیار ہے.اسی طرح سیمینار (Seminar) منعقد کرنے کا اختیار نہ لجنہ کو ہے اور نہ خدام الاحمدیہ کو اور نہ ہی انصاراللہ کو ہے.جو بھی کرنا ہے وہ جماعتی طور پر ، مرکزی طور پر ہونا چاہئے اور اگر ریجنل سطح پر کرنا ہے تو ریجنل امراء کے تحت ہونا چاہئے.الفضل انٹر نیشنل 8 فروری 2013ء) اس میٹنگ کی رپورٹ کا کچھ حصہ اگلے ہفتہ کے الفضل انٹر نیشنل میں شائع ہوا جس میں فرمایا.انصار اللہ والے ہر اس شخص کو تجنید میں شامل کریں جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے نیشنل جنرل سیکرٹری صاحب، ذیلی تنظیمیں جس میں خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ شامل ہیں ان سب کا فرض ہے کہ کوئی بھی شخص جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے خواہ وہ چندہ دیتا ہے یا نہیں ، نمازیں پڑھتا ہے یا نہیں آپ نے اس کو اپنی تجنید میں شامل کرنا ہے.اور اُس کے بعد ذیلی تنظیموں کا بھی کام ہے اور سیکرٹری تربیت کا بھی کام ہے کہ اُن کی تربیت کر کے اُن کو قریب لائیں.جب تک وہ خود انکار کر کے اپنے آپ کو جماعت سے باہر نہیں نکالتے تب تک آپ نے اس کو تجنید میں سے نہیں نکالنا.یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ سیکرٹری مال، یا قائد مال کی یا پھر ہمہتم مال کی اپنی جو تجنید ہے یا جو اس کے پاس انفارمیشن ہیں وہ جماعتی تجنید کے Data کے ساتھ ٹیلی (tally) کر رہی ہو.یہ دونوں بہر حال مختلف ہوں گے اور ہونے چاہئیں کیونکہ تجنید ہمیشہ زیادہ ہوتی ہے اور چندہ دہندگان کی تعداد کم ہوتی ہے.اگر یہ دونوں ایک جیسے ہیں تو پھر آپ کا ریکارڈ درست نہیں ہے.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ انصار الله، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کا کام ہے کہ وہ اپنے تجنید کے شعبہ کو فعال کریں.اسی طرح جنرل سیکرٹری صاحب تمام جماعتوں میں اور حلقوں میں اپنے متعلقہ سیکرٹری کو کہیں کہ وہ اس بات کا جائزہ لیں کہ مختلف جگہوں پر جو شخص بھی عید پڑھنے آتا ہے.کمزور سے کمزور ایمان والا بھی سال میں کم از کم عید تو پڑھ لیتا ہے.اگر وہ جماعت احمدیہ کی مسجد میں عید پڑھنے آتا ہے اور نیا چہرہ ہے تو اس سے پوچھیں کہ کیا آپ احمدی ہیں؟ اگر وہ کہتا ہے کہ وہ احمدی ہے تو پھر ا سے کہیں کہ ہم نے تجنید میں شامل کر دیا ہے.آپ اپنا پتہ اور دیگر معلومات دے دیں.چندہ دینا یا نہ دینا علیحدہ بات ہے.لیکن یہ تو بتاؤ کہ اگر تم سے رابطہ کرنا ہو تو کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس طرح تجنید میں شامل کر کے پھر اُسے جماعت کے قریب لائیں.
سبیل الرشاد جلد چہارم 344 عہد یداران سن کر اس پر عمل بھی کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام عہدیداران کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: عہدیداران اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، نمازیں پڑھیں ، مسجدیں آباد کریں.یہاں خطبات سننے کی طرف کافی توجہ ہے لیکن اس پر عمل بھی کریں.صرف یہ نہ کہیں کہ فلاں واقعہ بڑا اچھا لگا بلکہ اس پر عمل بھی کریں.اسی طرح اور بھی تربیتی پہلو ہیں اگر اُن سب کو مد نظر رکھیں تو عہد یدار ہی انقلاب لانے والے بن جائیں گئے الفضل انٹر نیشنل 15 فروری 2013ء) انصار اللہ کو جماعتی نظام کے ساتھ مل کر رشتہ ناطہ کے مسائل حل کرنے چاہیئے سیکرٹری رشتہ ناطہ کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ رشتہ ناطہ کیلئے ایک مرکزی طور پر بھی کمیٹی ہونی چاہئے اور ایک مقامی طور پر بھی.اسی طرح ریجنل لیول پر بھی ہو.کمیٹی میں ذیلی تنظیموں کے صدر شامل ہونے چاہئیں.لجنہ کی صدر بھی شامل ہوں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ لجنہ کے اندر رشتہ ناطہ کا کوئی شعبہ نہیں ہے اور نہ لجنہ کو کوئی اختیار ہے.اسی طرح سیمینار منعقد کرنے کا اختیار نہ لجنہ کو ہے اور نہ خدام الاحمدیہ کو اور نہ ہی انصاراللہ کو ہے.جو بھی کرنا ہے وہ جماعتی طور پر ، مرکزی طور پر ہونا چاہئے اور اگر ریجنل سطح پر کرنا ہے تو ریجنل امراء کے تحت ہونا چاہئے.الفضل انٹر نیشنل 8 فروری 2013ء)
سبیل الرشاد جلد چہارم باب یازده 345 & 2013 کے ارشادات و فرمودات
سبیل الرشاد جلد چہارم 346 آنحضرت اور حضرت مسیح موعود کی محبت کی وجہ سے داڑھی رکھ لیں • عہدیداران کی داڑھی ہونی چاہئے ذمہ داریوں کو پورے دل، نیک نیتی انتہائی درجہ کی ایمانداری سے کرنے کی کوشش کریں نوجوانوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا جواب ذیلی تنظیمیں دیں مجلس عاملہ کا ہر ممبر سال میں ایک بیعت کروائے ذیلی تنظیموں کے چندوں کا بقایا دار ذیلی تنظیم اور جماعت کا عہدیدار نہیں بن سکتا انصار کی نمازوں کا ریکارڈ رکھیں • قرآن کریم جاننے والے انصار، وقف عارضی کے دوران کلاسز لیں انصار اللہ کی تنظیم لائبریری میں قرآن کریم رکھوائے
سبیل الرشاد جلد چہارم 347 آنحضرت اور حضرت مسیح موعود کی محبت کی وجہ سے داڑھی رکھ لیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیت الرحمن ویلنسیا (سپین) میں مورخہ 30 مارچ 2013 ء کو اراکین مجلس عاملہ انصار اللہ فرانس کے ساتھ میٹنگ ہوئی.یہ وفد فرانس سے مسجد بیت الرحمن کے افتتاح کے موقع پر سپین آیا تھا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے صدر صاحب انصار اللہ فرانس کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ پہلے پرانی ہدایات پر تو عمل کر لیں.پھر نئی ہدایات لیں.انصار اللہ کو تبلیغ کی طرف توجہ دینی چاہئے.آپ اپنے لئے سو بیعتوں کا ٹارگٹ رکھیں.فرانس کے بارڈر کا وہ حصہ جو سپین کے ساتھ لگتا ہے اُس علاقہ میں کام کریں اور باقاعدہ منصوبہ بنا کر کام کریں.حضور انور نے فرمایا کہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ خادم جب تک وہ چالیس سال کا ہوتا ہے جو ان رہتا ہے اور سارے کام بڑی چستی سے کرتا ہے جب 41 ویں سال میں قدم رکھتا ہے اور انصار اللہ میں چلا جاتا ہے تو اپنے کام میں بھی ست ہو جاتا ہے.حضور انور نے فرمایا آپ اپنے انصار کو Active کریں ، فعال بنائیں اور انہیں انصار اللہ کے بارہ میں تفصیل سے بتائیں اور ” نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ “ کے معانی بتا ئیں تا کہ انہیں علم ہو کہ ہم کون ہیں اور ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں.قائد عمومی نے بتایا کہ فرانس میں انصار کی تعداد 180 ہے اور ہماری پندرہ مجالس ہیں اور نیشنل مجلس عاملہ کے ممبران کی تعداد 19 ہے.حضور انور نے فرمایا.تمام قائدین اپنے اپنے شعبہ کو دیکھیں اور اپنے اپنے لائحہ عمل کے مطابق کام کو آگے بڑھائیں.آپ کی انصار کی کل تجنید 180 ہے اور 19 تو آپ کی نیشنل عاملہ کے ممبران ہیں.اگر ایک ایک ممبر 10 انصار کو بھی سنبھالے اور انہیں فعال کرے اور ارادہ کرے کہ ہر ممبر کو ہر چیز میں involve کرنا ہے تو آپ کی مجلس انصار اللہ دنیا کی ایک مثالی اور آئیڈیل (Ideal ) مجلس انصاراللہ بن سکتی ہے.پھر ان کے سپر دمختلف علاقے کریں تو بہت اچھا کام ہوسکتا ہے تو اس طرح آپ ان کو مستعد کر سکتے ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ صدر مجلس نے جو لائحہ عمل بنایا ہوا ہے آپ سب اس پر عمل کریں اور پختہ ارادہ اور عزم سے کام کریں تو خدا تعالیٰ آپ کے کام میں برکت ڈال دیتا ہے.حضور انور نے فرمایا کہ دوروں کے دوران میں مختلف ممالک کی مجالس عاملہ انصار اللہ کو ہدایات دیتا ہوں اور وہ اخبار الفضل میں رپورٹس میں شائع ہوتی ہیں.آپ وہ بھی پڑھا کریں.یہ سب مجالس انصار کے لئے ہوتی ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ انصار اللہ کی عمر ایسی ہے کہ جنہوں نے داڑھیاں نہیں رکھی ہوئیں ان کو تھوڑی
348 سبیل الرشاد جلد چہارم تھوڑی داڑھیاں رکھ لینی چاہئیں.حضور انور نے فرمایا آپ نے جو عہد یدار رکھنے ہوں ، اُن کا انتخاب کیا کریں جن کی داڑھیاں ہوں ، سوائے اس کے کہ قحط الرجال ہو، داڑھی والا آپ کو کوئی مل ہی نہ رہا ہو.حضور انور نے فرما یا کم از کم جو اسلامی شعار ہیں ظاہر ا تو نظر آنے چاہئیں باقی باطن کو تو خدا جانتا ہے.حضورانور ایدہ اللہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ سے بھی داڑھی رکھنے کی طرف توجہ دلائی.حضور انور نے فرمایا.ایک مخالف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کہا کہ آپ کا دعوی تو نبوت کا ہے.لیکن آپ کے پیر و داڑھی بھی نہیں رکھتے.اس پر آپ نے فرمایا.مولوی جی ! افسوس، آپ کا تو داڑھی کی طرف خیال ہے اور ہمارا ایمان کی طرف ہے جب ان میں ایمان پختہ ہو جائے گا تو داڑھی بھی رکھ لیں گے.کیونکہ جب یہ دیکھیں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک تھی اور ہمارے پیشوا کی بھی داڑھی ہے تو خود بخو دا پنی داڑھی رکھ لیں گے.حضور انور نے فرمایا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت کی وجہ سے داڑھی رکھ لیں.آپ محض محبت کی وجہ سے داڑھی رکھیں گے تو آپ کی ان دونوں مبارک وجودوں سے بہت زیادہ محبت بڑھے گی.صدر صاحب مجلس نے بتایا کہ 40 فیصد انصار کی داڑھیاں موجود ہیں.اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو باقی ہیں ان کی بھی ہونی چاہئیں.اور خصوصاً مجلس عاملہ کے ہر ممبر اور عہدیدار کی داڑھی ہونی چاہئے.ہر ایک کو اسلامی شعار کا خیال ہونا چاہئے.قائد تعلیم سے حضور انور نے دریافت فرمایا.آپ نے سالانہ امتحان میں کونسی کتاب رکھی ہوئی ہے؟ جس پر سیکرٹری تعلیم نے بتایا ”پیغام صلح ہے.حضور انور نے فرمایا آپ کی 19 ممبران کی نیشنل مجلس عاملہ ہے آپ نوٹ کر لیں کہ ہر عاملہ کا ممبر امتحان میں شامل ہو.پھر مجالس کی عاملہ ہیں.ہر مجلس کی عاملہ کا ہرممبر امتحان میں شامل ہو.اگر کسی ممبر کی طرف سے پرچہ کا جواب نہیں ملتا تو اس سے پوچھیں اور follow up کریں.الفضل انٹر نیشنل 19 اپریل 2013ء) عہد یداران کی داڑھی ہونی چاہئے 7 اپریل 2013ء کو نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمدیہ پین میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.صدر جماعت کے لئے داڑھی رکھنا بہت ضروری ہے.جو دونوں صدر یہاں بیٹھے ہیں نوٹ کر سوائے اس کے کہ کسی کو کوئی بیماری ہے، الرجی ہے تو وہ زیر و نمبر کی مشین ہی استعمال کر لے.بہر حال عہدیداران کی داڑھی ہونی چاہئے.اس طرف سب توجہ دیں.الفضل انٹرنیشنل 10 مئی 2013ء)
سبیل الرشاد جلد چهارم 349 عہدیداران انصاف کے ساتھ اپنے عہدوں اور تفویض کردہ کاموں کو سرانجام دیں ہر عہدیدار کی کسی بھی قسم کی کمزوری جماعت کو متاثر یا بدنام کر سکتی ہے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 12 اپریل 2013ء کو خطبہ جمعہ میں تشہد، تعوذ سورۃ فاتحہ اور سورۃ النساء کی آیت 59 کی تلاوت کے بعد فرمایا.اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپر د کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو.یقیناً بہت ہی عمدہ ہے جو اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے.یقینا اللہ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے.یہ سال جیسا کہ تمام جماعتیں جانتی ہیں، جماعت میں انتخابات کا سال ہے.ہر تین سال بعد انتخابات ہوتے ہیں.امراء، صدران اور دوسرے مختلف عہدیداران کے انتخابات کئے جاتے ہیں.بعض جماعتوں میں یہ انتخابات شروع بھی ہو چکے ہیں.بڑی جماعتوں میں جو مجالس انتخابات منتخب ہوتی ہیں ، ان کے انتخابات ہو رہے ہیں.یہ مجالس انتخاب پھر اپنے عہدیداران کا انتخاب کرتی ہیں.بہر حال جماعت کے انتظامی ڈھانچے کو صحیح رنگ میں چلانے کے لئے جہاں یہ انتخابات ضروری ہیں، وہاں اس کام کو احسن رنگ میں آگے بڑھانے کے لئے عہدوں کا حق ادا کرنے کے لئے صحیح افراد کا انتخاب بھی بہت ضروری ہے.اور یہ ایسا اہم امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس امر کی طرف مومنین کو توجہ دلائی ہے اور تفصیل سے بیان فرمایا ہے کہ تمہیں کس قسم کے عہدیداران منتخب کرنے چاہئیں اور عہدیداروں کو توجہ دلائی کہ صرف عہدے لینا کافی نہیں بلکہ اس کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے اور حق ادا نہ کرنے کی صورت میں تم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے نتے ہو.بہترین شخص کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کریں یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے، اس میں اس بات کی وضاحت فرمائی گئی ہے.اس آیت میں پہلی ذمہ داری رائے دہی کا حق ادا کرنے والوں کی ہے کہ عہدہ ایک امانت ہے اس لئے تمہاری نظر میں جو بہترین شخص ہے اُس کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرو.ووٹ دینے سے پہلے یہ جائزہ لو کہ آیا یہ اس عہدہ کا اہل بھی ہے کہ نہیں.جس کے حق میں تم ووٹ دے رہے ہو یا ووٹ دینا چاہتے ہو وہ اس عہدہ کا حق ادا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہےیا نہیں ؟ جتنی بڑی ذمہ داری کسی کے سپرد کرنے کے لئے آپ خلیفہ وقت کو مشورہ دینے کے لئے جمع ہوئے ہیں ، اتنی زیادہ سوچ بچار اور دعا کی ضرورت ہے.یہ نہیں کہ یہ شخص مجھے پسند ہے تو اُسے
350 سبیل الرشاد جلد چہارم ووٹ دیا جائے.یا فلاں میرا عزیز ہے تو اُسے ووٹ دیا جائے.یا فلاں میرا برادری میں سے ہے، شیخ ہے، جٹ ہے، چوہدری ہے، سید ہے، پٹھان ہے، راجپوت ہے، اس لئے اُس کو ووٹ دیا جائے.کوئی ذات پات عہد یدار منتخب کرنے کی راہ میں حائل نہیں ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ جواب طلبی صرف عہد یدار کی نہیں کرتا کہ کیوں تم نے صحیح کام نہیں کیا.بلکہ ووٹ دینے والے بھی پوچھے جائیں گے کہ کیوں تم نے رائے دہی کا اپنا حق صحیح طور پر استعمال نہیں کیا.ووٹ ڈالنے سے قبل دعا کریں اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں یہ فرمایا کہ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا.کہ اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور گہری نظر رکھنے والا ہے.یہ ووٹ ڈالنے والوں کے لئے بھی ہے کہ اگر تمہیں کسی کے بارے میں صحیح معلومات نہیں تو خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے خدا! تیری نظر میں جو بہترین ہے، اُسے ووٹ ڈالنے کی مجھے تو فیق عطا فرما.اور نیک نیتی سے کی گئی اس دعا کو خدا تعالیٰ جو سمیع و بصیر ہے، وہ سنتا ہے.فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بصیر بھی ہے.اُس کی تمہارے عملوں پر گہری نظر ہے.خدا تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا.وہ دلوں کی پاتال تک سے واقف ہے.پس جب مومنین کی جماعت خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہوئے عہد یدار منتخب کرتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ مومنین کا مددگار بھی ہو جاتا ہے.جماعتی نظام میں تو ہماری یہ روایت ہے کہ ہر کام سے پہلے ہم دعا کرتے ہیں، دعا سے کام شروع کرتے ہیں.انتخابات سے پہلے بھی دعا کروائی جاتی ہے.اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے رہنمائی لیتے ہوئے انتخابات کی کارروائی کی جائے تو اللہ تعالیٰ پھر اپنے فضلوں اور برکتوں سے نوازتا ہے.کثرت رائے کا احترام کرنا چاہئے پس ہر ووٹ دینے والا اپنے ووٹ کی، اپنے رائے دہی کے حق کی اہمیت کو سمجھے.ہر قسم کے ذاتی رجحانات یا ذاتی پسندوں اور ذاتی تعلقات سے بالا ہو کر جس کام کے لئے کسی کو منتخب کرنا چاہتے ہیں ، اُس کے حق میں اپنی رائے دیں.پرانے احمدی تو جانتے ہیں، نئے آنے والوں پر بھی واضح ہونا چاہئے ، نو جوانوں پر بھی واضح ہونا چاہئے کہ انتخابات میں رائے دی جاتی ہے.حتمی فیصلہ خلیفہ وقت کی طرف سے ہوتا ہے.بعض دفعہ کسی کے حق میں کثرت کے باوجود بعض وجوہات کی بنا پر دوسرے کو ( عہد یدار ) بنا دیا جاتا ہے.یہ بھی واضح ہو کہ بعض مقامی عہدیداروں کے انتخابات کی حتمی منظوری اگر ملکی امیر دیتا ہے تو اُسے قواعد اس کی اجازت دیتے ہیں.کثرتِ رائے سے اختلاف کا وہ حق رکھتا ہے لیکن امراء کو کثرتِ رائے کا عموماً احترام کرنا چاہئے اور یہ بات نوٹ کر لیں ، خاص طور پر انگلستان اور یورپ کے ممالک اور امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا کے ممالک کہ مقامی انتخابات میں قواعد نیشنل امیر کو اجازت دیتے ہیں کہ اگر وہ تبدیلی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے.
351 سبیل الرشاد جلد چہارم لیکن جن ملکوں کے میں نے نام لئے ہیں، اس دفعہ کے الیکشن کیلئے اگر کوئی تبدیلی کرنی ہوگی تو اس کے لئے بھی مجھ سے پہلے پوچھنا ہو گا.یہاں سے منظوری لیں گے.امراء خود تبدیلی نہیں کریں گے.باقی پاکستان یا بھارت یا جو دیگر ممالک ہیں، وہ حسب قواعد مقامی انتخابات کے لئے منظوری کی کارروائی کر سکتے ہیں اور ہر ملک کی جو نیشنل عاملہ ہے اور بعض اور عہدیداران جو ہیں، اُن کی بہر حال یہیں مرکز سے منظوری لی جاتی ہے.خلیفہ وقت سے منظوری لی جاتی ہے.اس آیت میں تُؤَدُّوا الا منتِ إِلَى أَهْلِهَا (النساء: 59) کہا گیا ہے.یہ عہدیداران کے لئے بھی ہے.بعض عہدے یا بعض کام ایسے ہیں جو بغیر انتخاب کے نامزد کر کے سپرد کئے جاتے ہیں.مثلاً سیکرٹری رشتہ ناطہ ہے، اس کا عہدہ ہے یا خدمت ہے یا بعض شعبوں میں بعض لوگوں کو کام تفویض کئے جاتے ہیں تو امیر جماعت یا صدر جماعت یا متعلقہ سیکر ٹری اگر کسی کو ایسے کام دیتے ہیں تو صرف ذاتی پسند اور تعلق پر نہ دیا کریں بلکہ افرادِ جماعت کا تفصیلی جائزہ لیں اور یہ جائزہ لے کر پھر اُن میں سے جو بہترین نظر آئے اُسے کام سپرد کرنا چاہئے ور نہ یہ خویش پر وری ہے اور اسلام میں نا پسند ہے.لیکن اگر کوئی اپنے کسی دوست یا عزیز کو کوئی کام سپر د کرتا ہے اور اُس کی بظاہر اس کام کے لئے لیاقت بھی ہے تو پھر بعض لوگ جن کو اعتراض کرنے کی عادت ہے وہ بلا وجہ یہ اعتراض کر دیتے ہیں کہ اس نے اپنے قریبی کو فلاں عہدہ دے دیا.اُن کو یہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے.کسی عہد یدار کا کسی امیر کا عزیز ہونا یا قریبی ہونا کوئی گناہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے اُس شخص کو خدمت سے محروم کر دیا جائے.یہ بات میں نے اس لئے واضح کر دی کہ بعض لوگوں کی طرف سے اس طرح کے اعتراض آ جاتے ہیں.عہد یداران انصاف کے ساتھ اپنے کاموں کو سرانجام دیں پھر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں عہدیداروں کو فرمایا ہے کہ اَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ کہ انصاف کے ساتھ اپنے عہدوں اور تفویض کردہ کاموں کو سرانجام دو.اگر عدل نہیں ہوگا، انصاف نہیں ہوگا ، خویش پروری ہوگی یا قرابت داری کا لحاظ رکھا جائے گایا ایک کارکن سے ضرورت سے زیادہ باز پرس اور دوسرے سے بلا ضرورت صرف نظر ہوگی تو انصاف قائم نہیں رہ سکتا.اور جب انصاف قائم نہ ہوتو پھر کام میں برکت نہیں پڑتی ، پھر اچھے نتائج کے بجائے بدنتائج نکلتے ہیں.اسی طرح صرف کام کرنے والوں کا ہی معاملہ نہیں ہے بلکہ ہر فر د جماعت کے ساتھ انصاف پر مبنی تعلقات ہونے چاہئیں اور فیصلے اُس کے مطابق ہونے چاہئیں.یہ نہیں کہ فلاں شخص فلاں کا دوست ہے یا فلاں کا عزیز ہے یا فلاں خاندان کا ہے تو اُس سے اور سلوک اور دوسرے سے اور سلوک.اگر یہ باتیں ہوں تو یہ چیزیں پھر جماعت میں بے چینی پیدا کرتی ہیں.اسی طرح جب خلیفہ وقت کی طرف سے رپورٹ کے لئے کہا جائے تو پھر رپورٹ بھی صحیح ہونی چاہئے کہ حکم تو نَحْكُمُوا بِالْعَدْل کا ہے.
352 سبیل الرشاد جلد چہارم لیکن خلیفہ وقت کو اگر غلط رپورٹ ہوگی تو خلیفہ وقت سے بھی غلط فیصلہ ہو جائے گا اور غلط فیصلہ کروا کر اُسے بھی اپنے ساتھ گنہ گار بنا رہے ہوں گے اور خود تو خیر بن ہی رہے ہوں گے.پس ہمیشہ جماعتی کاموں میں ان چیزوں کو مد نظر رکھنا چاہئے.ہر کام، ہر خدمت جو دی جائے، اُس کو انتہائی سوچ بچار کر اور ایمانداری سے ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پس عہدے کوئی بڑائی نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری ہے.دعاؤں کے ساتھ اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ سمیع ہے، وہ تمہاری دعاؤں کو سنتا ہے، خاص طور پر جب خدا تعالیٰ کے حکموں پر پورا اترنے کی دعائیں کی جائیں تو اللہ تعالیٰ کی مدد ضرور شامل حال ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ جس طرح رائے دینے والے پر ، ووٹ دینے والے پر گہری نظر رکھنے والا ہے، اُسی طرح عہد یدار پر بھی اُس کی گہری نظر ہے.اگر اپنی ذمہ داری نہیں نبھائیں گے، اگر عدل اور انصاف سے فیصلے نہیں کریں گے ، اگر اپنے کاموں کو اُن کا حق ادا کرتے ہوئے نہیں بجالائیں گے تو پھر خدا تعالیٰ جو ہر چیز کو دیکھ رہا ہے ، وہ فرماتا ہے پھر تم پوچھے بھی جاؤ گے.تمہاری جواب طلبی ہوگی.پس یہ ہر اس شخص کے لئے بہت خوف کا مقام ہے جس کے سپر د کوئی نہ کوئی خدمت کی جاتی ہے.لوگوں کو عہدوں کی بڑی خواہش ہوتی ہے.لیکن اگر اُن کو پتہ ہو کہ یہ کتنی بڑی ذمہ داری ہے اور اس کا حق ادا نہ کرنے پر خدا تعالیٰ کی ناراضگی بھی ہو سکتی ہے اور اس کی گرفت بھی ہوسکتی ہے تو ہر عہد یدار سب سے بڑھ کر ، دوسروں سے بڑھ کر دن اور رات استغفار کرنے والا ہو.عہدیدار منظوری آنے کے بعد بندھن میں بندھ جاتا ہے ہر عہدیدار کو یاد رکھنا چاہئے کہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد یا عہدہ کی منظوری آجانے کے بعد وہ آزاد نہیں ہو گیا.بلکہ ایسے بندھن میں بندھ گیا ہے جس کو نہ نبھانے کی صورت میں یا اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں کے مطابق نہ بجالانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لینے والا بھی ہوسکتا ہے.ہر عہد یدار نے ہر فر د جماعت کا حق بھی ادا کرنا ہے اور جماعت کا مجموعی طور پر بحیثیت جماعت بھی حق ادا کرنا ہے.کیونکہ ہر عہد یدار کو یہ سوچنا چاہئے کہ میں ایک جماعتی عہدیدار ہوں اور کسی بھی قسم کی میری کمزوری جماعت کو متاثر کر سکتی ہے یا جماعت کے نام کو بدنام کرنے والی ہو سکتی ہے.اس لئے اُسے یہ حق بھی ادا کرنے والا ہونا چاہئے اور پھر اپنے نمونے قائم کرتے ہوئے دینی حقوق کے ساتھ ساتھ دنیاوی حقوق کی بھی مثال قائم کرنی چاہئے.یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ میرا ذاتی معاملہ ہے، ہمیں اس میں جو مرضی کروں.جماعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں، اس لئے مجھے آزادی ہے جو چاہوں میں کروں.ہر عہدیدار کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اُس کی ذات بھی اب ہر معاملے میں جماعتی مفادات کے تابع ہے.پس یہ سوچ ہے جو ہر عہدیدار کو پیدا کرنی چاہئے اور ایسی سوچ رکھنے والوں کو ہی حق رائے دینے والوں
353 سبیل الرشاد جلد چہارم کو یا ووٹ دینے والوں کو منتخب کرنا چاہئے.یا دوسرے لفظوں میں جن کا تقویٰ کا معیار بلند ہو انہیں عہد یدار بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر ہمارا دعویٰ اس زمانے کے امام کو مان کر تقویٰ کے معیاروں کو بلند کرنے کا ہے، اپنے ذمہ کی گئی امانتوں کا دوسروں سے بڑھ کر حق ادا کرنے کا یہ دعوی ہے تو ہمیں بہت فکر سے اپنی جماعتی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہوگا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِيْنَ هُمْ لا مَنتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَعُونَ (المؤمنون: 9) اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں کا خیال رکھتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہر ایک کو اپنے اپنے دائرے میں سامنے رکھنے کی ضرورت ہے.اپنے سپرد کی گئی امانتوں کو سرسری طور پر ادا نہیں کرنا بلکہ گہرائی میں جا کر تمام باریکیوں کو سامنے رکھ کر اپنے کام سرانجام دیتے ہیں.پس منتخب کرنے والوں کو بھی ایسے لوگوں کو منتخب کرنا چاہئے جو اپنے کاموں میں سنجیدہ ہوں اور منتخب شدہ لوگوں کو بھی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ذمہ داریوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا جو عہد کیا ہے سب سے زیادہ اُس کی پابندی عہدیداران کو کرنی چاہئے ، چاہے وہ کسی بھی سطح کے عہدیدار ہوں.عہدے کی خواہش اسلامی تعلیم کے خلاف ہے عہدے یا خدمت کرنے کی خواہش کا جذبہ تو جیسا کہ میں نے کہا بہت رکھتے ہیں حالانکہ عہدے کی خواہش تو ہونی بھی نہیں چاہئے.یہ تو ویسے ہی اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.اگر خدمت کا جذبہ ہے اور اس کی خواہش ہے تو پھر جو خدمت سپرد کی جائے یا کوئی عہدہ سپرد کیا جائے تو پھر خدمت کرنے والوں کو عہد یداروں کو یا درکھنا چاہئے کہ اپنے تمام عہد پورے کئے بغیر کام نہیں ہو سکتا.اور عہد کس طرح پورے ہوں گے؟ اور کس معیار سے پورے ہوں گے؟ اور کیا معیار اس کا ہونا چاہئے؟ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : خدا تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے.( یعنی آیت کریمہ ) وَالَّذِينَ هُمْ لِامْتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رعُون...جوصرف اپنے نفس میں یہی کمال نہیں رکھتے جونفس امارہ کی شہوات پر غالب آگئے ہیں اور اس کے جذبات پر اُن کو فتح عظیم حاصل ہو گئی ہے بلکہ وہ حتی الوسع خدا اور اُس کی مخلوق کی تمام امانتوں اور تمام عہدوں کے ہر ایک پہلو کا لحاظ رکھ کر تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنے کی کوشش کرتے ہیں اور جہاں تک طاقت ہے اُس راہ پر چلتے ہیں" ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 207 ) فرمایا: " لفظ ”راعون جو اس آیت میں آیا ہے جس کے معنی ہیں رعایت رکھنے والے.یہ لفظ عرب کے محاورہ کے موافق اُس جگہ بولا جاتا ہے جہاں کوئی شخص اپنی قوت اور طاقت کے مطابق کسی امر کی باریک راہ پر
354 سبیل الرشاد جلد چہارم چلنا اختیار کرتا ہے اور اس امر کے تمام دقائق بجالانا چاہتا ہے.(یعنی باریک ترین پہلو بجالانا چاہتا ہے ).اور کوئی پہلو اس کا چھوڑنا نہیں چاہتا.پس اس آیت کا حاصل مطلب یہ ہوا کہ وہ مومن جو...حتی الوسع اپنی موجودہ طاقت کے موافق تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارتے ہیں اور کوئی پہلو تقوی کا جو امانتوں یا عہد کے متعلق ہے، خالی چھوڑنا نہیں چاہتے اور سب کی رعایت رکھنا اُن کا ملحوظ نظر ہوتا ہے اور اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ موٹے طور پر اپنے تئیں امین اور صادق العہد قرار دے دیں“.( اپنے آپ کو امین سمجھیں یا وعدے پورے کرنے والا قرار دے دیں بلکہ ڈرتے رہتے ہیں کہ در پردہ اُن سے کوئی خیانت ظہور پذیر نہ ہو.پس طاقت کے موافق اپنے تمام معاملات میں توجہ سے غور کرتے رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ اندرونی طور پر اُن میں کوئی نقص اور خرابی ہو اور اسی رعایت کا نام دوسرے لفظوں میں تقویٰ ہے" (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 208-207) پھر آپ فرماتے ہیں." خلاصہ مطلب یہ کہ وہ مومن جو اپنے معاملات میں خواہ خدا کے ساتھ ہیں، خواہ مخلوق کے ساتھ بے قید اور خلیج الرسن نہیں ہوتے بلکہ اس خوف سے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک کسی اعتراض کے نیچے نہ آجاویں اپنی امانتوں اور عہدوں میں دُور دُور کا خیال رکھ لیتے ہیں اور ہمیشہ اپنی امانتوں اور عہدوں کی پڑتال کرتے رہتے ہیں اور تقویٰ کی دُور بین سے اُس کی اندرونی کیفیت کو دیکھتے رہتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ در پردہ اُن کی امانتوں اور عہدوں میں کچھ فتور ہو.اور جو امانتیں خدا تعالیٰ کی اُن کے پاس ہیں جیسے تمام قومی اور تمام اعضا ءاور جان اور مال اور عزت و غیرہ ان کوحتی الوسع اپنی بپابندی تقویٰ بہت احتیاط سے اپنے اپنے محل پر استعمال کرتے رہتے ہیں اور جو عہد ایمان لانے کے وقت خدا تعالیٰ سے کیا ہے کمال صدق سے حتی المقدور اُس کے پورا کرنے کے لئے کوشش میں لگے رہتے ہیں.ایسا ہی جو امانتیں مخلوق کی اُن کے پاس ہوں یا ایسی چیزیں جو امانتوں کے حکم میں ہوں، اُن سب میں تابمقدور تقویٰ کی پابندی سے کار بند ہوتے ہیں.اگر کوئی تنازع واقع ہو تو تقویٰ کو مد نظر رکھ کر اُس کا فیصلہ کرتے ہیں.گو اس فیصلہ میں نقصان اُٹھالیں..." فرمایا...انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقوی کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے.تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوش نما خط و خال ہیں.اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قومی اور اعضاء ہیں، جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قو تیں اور اخلاق ہیں.ان کو جہاں تک طاقت ہو، ٹھیک ٹھیک محلتِ ضرورت پر استعمال کرنا اور نا جائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق العباد کا بھی لحاظ رکھنا، یہ وہ طریق ہے کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے.اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا
355 سبیل الرشاد جلد چہارم ہے.چنانچہ لِبَاسُ التَّقوى قرآن شریف کا لفظ ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے.اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے.یعنی اُن کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بمقدور کار بند ہو جائے." (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 208 تا210 ) پس جب تک تقویٰ کے معیار اونچے نہیں ہوں گے، اُس وقت تک اپنی امانتوں اور عہدوں کا حق ادا نہیں ہو سکتا.یہ امانتیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ، خدا تعالیٰ کی بھی ہیں اور بندوں کی بھی.اور ایک عہدیدار خاص طور پر دونوں طرح کی امانتوں کا امین متصور ہوتا ہے اور ہے.پس میں پھر افراد جماعت کو ، جنہوں نے اپنے عہدیدار منتخب کرنے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے ، اُن کے حق میں رائے دیں جو دونوں طرح کی امانتوں اور عہدوں کا حق ادا کرنے والے ہوں.اور یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب ہر طرح جماعت کا تقویٰ کا معیار بھی بلند ہو.جب ہر ووٹ دینے والے کا تقویٰ کا معیار بلند ہو گا تبھی یہ حالت ہوگی.پس جماعت کے ہر فرد کو اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے معیاروں کو بلند کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.عہدیدار جیسا کہ میں نے کہا، افراد جماعت نے منتخب کرنے ہیں اور افراد جماعت میں سے منتخب ہونے ہیں، اس لئے وہ چند خوبیاں جو ہم میں سے ہر ایک میں بحیثیت مومن ہونی چاہئیں اور خاص طور پر عہد یداروں میں ہونی چاہئیں، اُن کا میں ذکر کر دیتا ہوں.عہدوں کی پابندی کی بات ہے تو سب سے پہلے اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اگر جماعت میں عہدوں کی پابندی کا معیار بلند ہوگا تو عہدیداروں کا عہدوں کی پابندی کا معیار بھی بلند ہوگا.بندوں کے حقوق میں سے جن کی ادائیگی میں کمزوری ہے، وہ اپنے معاہدوں کو پورا نہ کرنا ہے یعنی معاہدوں کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے حقوق ادا نہیں ہوتے.اس کے لئے اگر اپنے پرختی بھی برداشت کرنی پڑے تو برداشت کر لینی چاہئے.یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے اور حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.بہت سے کاروباری معاہدے ہوتے ہیں، اعتراض کرنے والے دوسرے پر تو فوراً اعتراض کر دیتے ہیں لیکن اپنے معاملات صاف نہیں ہوتے جس سے معاشرے میں فساد کے حالات پیدا ہو جاتے ہیں.اسلام ایک امن پسند دین ہے، ایک امن پسند مذہب ہے.جتنا زیادہ اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے، اتنا ہی مسلمانوں میں بدعہدی اور فتنہ و فساد کی مثالیں پائی جاتی ہیں.اور معاشرے میں رہنے کی وجہ سے اس کا اثر ہم احمد یوں پر بھی پڑ رہا ہے.
سبیل الرشاد جلد چہارم عہد کی اہمیت 356 عہد صرف باہر کے کاروباری عہد نہیں ہیں، بلکہ ہر جگہ کے عہد ہیں، باہر بھی اور اندر بھی.گھر یلو سطح پر بھی.میاں بیوی کی شادی کا بندھن ہے، یہ بھی ایک معاہدہ ہے.اس میں ایک دوسرے کو دھوکہ دیا جاتا ہے.بعض لوگ جماعتی کاموں کو بڑے احسن رنگ میں انجام دیتے ہیں، کئی دفعہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، لیکن گھروں کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہوتے.یہ بھی اپنے عہدوں سے روگردانی ہے، یا اُن کی پابندی سے روگردانی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل گرفت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا.( بنی اسرائیل: 35) یعنی ہر عہد کی نسبت یقیناً ایک نہ ایک دن جواب طلبی ہوگی.اللہ تعالیٰ نے نیک آدمی کی یہ نشانی بتائی ہے صحیح مومن کی یہ نشانی بتائی ہے کہ وَالمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوْا (البقره:178) جب وہ عہد کریں تو اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں.پس ہر احمدی نے اگر اپنے نیک عہدیدار منتخب کرنے ہیں تو ہر سطح پر اپنے بھی جائزے لینے ہوں گے کہ کس حد تک وہ خود اپنے عہدوں کو پورا کرنے والے ہیں.کس حد تک وہ خود اپنی امانتوں کا حق ادا کرنے والے ہیں.......عہدیدار جماعتی اموال کو احتیاط سے خرچ کریں....پھر عہدیدار کی ایک خصوصیت یہ ہونی چاہئے کہ جماعتی اموال کو خاص طور پر بہت احتیاط سے خرچ کریں.کسی بھی صورت میں اسراف نہیں ہونا چاہئے.اسی لئے خاص طور پر وہ شعبے جن پر اخراجات زیادہ ہوتے ہیں اور اُن کے بجٹ بھی بڑے ہیں، انہیں صرف اپنے بجٹ ہی نہیں دیکھنے چاہئیں بلکہ کوشش ہو کہ کم سے کم خرچ میں زیادہ سے زیادہ استفادہ کس طرح کیا جا سکتا ہے.مثلا ضیافت کا شعبہ ہے لنگر کا شعبہ ہے یا جلسہ سالانہ کے شعبہ جات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لنگر اب دنیا میں تقریباً ہر جگہ پھیل چکا ہے.اور جلسہ سالانہ کا نظام بھی دنیا میں پھیل چکا ہے.ہر دو شعبوں کے نگرانوں کو بہت احتیاط کی ضرورت ہے.اگر بجٹ میں گنجائش بھی ہو تو جائزہ لے کر کم سے کم خرچ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہی امانت کے حق ادا کرنے کا صحیح طریق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مال کے آنے کی یا اُس کی فراوانی کی کوئی فکر نہیں تھی ہیچ خرچ کرنے والوں کی فکر تھی.پس امراء اور متعلقہ عہد یداران اس بات کا خاص خیال رکھیں.عہد یدارلغویات سے پر ہیز کریں پھر ایک عہدیدار کی ایک خصوصیت یہ ہونی چاہئے ، گو کہ ہر مومن کی یہ نشانی ہے لیکن جن کے سپر د جماعتی ذمہ داریاں کی جاتی ہیں اُن کا سب سے بڑھ کر یہ کام ہے کہ لغویات سے پر ہیز کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (المؤمنون : 4) یعنی مومن وہ ہیں جو لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں.اور
357 سبیل الرشاد جلد چہارم مومنین میں سے جو بہترین ہیں اُن کا معیار تو بہت بلند ہونا چاہئے کہ وہ ہر طرح کی لغویات سے اپنے آپ کو بچائیں.نہ فضول گفتگو ہو، نہ ایسی مجلسیں ہوں جن میں بیٹھ کر ہنسی ٹھٹھا کیا جا رہا ہو.بعض عہدیداران بھی ہوتے ہیں جو آپس میں بیٹھتے ہیں اور دوسروں کے متعلق باتیں کر رہے ہوتے ہیں.ہنسی ٹھٹھا کیا جارہا ہوتا ہے.پس ان سے بچنا چاہئے.اور نہ ہی ایسی مجلسوں میں عہدیداروں کو شامل ہونا چاہئے جہاں دینی روایات کا خیال نہ رکھا جار ہا ہو......عہد یدار غصہ کو دبانے والا ہو..عہد یدار کی خاص طور پر ایک خوبی یہ بھی ہونی چاہئے کہ كَاظِمِينَ الْغَيْظَ ( آل عمران : 135) غصہ پر قابو ہو.اللہ تعالیٰ نے یہ خاص حکم دیا ہے کہ بیشک بعض دفعہ بعض حالات میں غصہ کا اظہار ہو جاتا ہے لیکن غصہ کو دبانے والے ہوں.جہاں جماعتی مفاد ہو گا، وہاں بعض دفعہ اصلاح کی غرض سے غصہ دکھانا بھی پڑتا ہے.لیکن ذرا ذراسی بات پر غصہ میں آنا اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی عزت کا خیال نہ رکھنا یہ ایک عہد یدار کے لئے کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے، نہ ہونا چاہئے.بلکہ ایک اچھے عہد یدار کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سامنے رکھنا چاہئے کہ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا (البقرة : 84) کہ لوگوں سے نرمی سے، ملاطفت سے، بشاشت سے ملو.اگر عہد یداروں کے ایسے رویے ہوں تو بعض جگہوں سے عہد یداروں کے متعلق جو شکایات ہوتی ہیں وہ خود بخود ختم ہو جا ئیں.عہد یدار ماتحتوں سے حسن سلوک کریں پھر ایک عہدیدار کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ اُس کا اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ حسنِ سلوک ہو.جماعت کے عہدے کوئی دنیاوی عہدے تو نہیں ہیں کہ افسران اور ماتحت کا سلوک ہو.ہر شخص جو جماعت کی خدمت کرتا ہے چاہے وہ ماتحت ہو، ایک جذبے کے تحت جماعت کے کام کرتا ہے.پس افسران کو اور عہدیداران کو اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کرنا چاہئے.اگر غلطی ہو تو پیار سے سمجھائیں، نہ کہ دنیاوی افسروں کی طرح سختی سے باز پرس ہو.ہاں اگر کوئی اس قدر ڈھٹائی دکھا رہا ہے کہ جماعتی مفاد کو نقصان پہنچ رہا ہے تو پھر اس کو مناسب طریق سے جو بھی تنبیہ ہے وہ کریں یا باز نہیں آتا تو پھر اس سے کام نہ لیں.بالا افسران کو اطلاع دیں.بیشک فارغ کر دیں.لیکن ایسی فضا پیدا نہیں ہونی چاہئے کہ بلا وجہ دفتروں میں یا کام کرنے والی جگہوں پر گروہ بندی کی صورتحال پیدا ہو جائے.
سبیل الرشاد جلد چہارم 358 عہدیدار کی ایک خوبی تواضع اور عاجزی ہے عہد یداروں میں اعلیٰ اخلاق کے اوصاف میں سے مہمان کی عزت کا وصف بھی ہونا چاہئے.یہ بھی ایک اعلیٰ خلق ہے.ہر شخص جو عہد یدار کو ملنے آتا ہے، اُس کے دفتر میں آتا ہے، اُس سے عزت و احترام سے ملنا چاہئے اور عزت و احترام سے بٹھانا چاہئے.یہ بہت ضروری چیز ہے.اگر دفتر میں آیا ہے تو کھڑے ہو کر ملنا چاہئے.یہ اخلاق منتخب عہدیداران کے لئے بھی ہیں اور مستقل جماعت کے کارکنان کے لئے بھی ضروری ہیں.اس سے عزت بڑھتی ہے، کم نہیں ہوتی.پھر عہد یداروں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت تواضع اور عاجزی بھی ہے.اور یہ عاجزی ایک احمدی کو بھی ، عمو ماً عام آدمی کو بھی اپنی فطرت کا خاصہ بنانی چاہئے.لیکن ایک عہد یدار کو تو خاص طور پر اپنے اندر تواضع اور عاجزی پیدا کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا (بنی اسرائیل: 38) کہ اور تم زمین میں تکبر سے مت چلو.ایک عام انسان کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں.تو جو لوگ خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی خدمات پیش کر رہے ہوں اُن کے لئے ایک لمحہ کے لئے بھی خدا تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں ہو سکتا.پس اس خصوصیت کو ہمارے تمام عہدیداروں کو زیادہ سے زیادہ اپنانا چاہئے اور ہر ملنے والے سے انتہائی عاجزی سے ملنا چاہئے.عہد یدار عدل سے کام لیں پھر یہ بھی خاص طور پر وہ عہدیدار جن کے سپر دفیصلوں کا کام ہے، لوگوں کے درمیان صلح صفائی کروانے کا کام ہے، اصلاحی کمیٹیاں ہیں یا قضاء ہے یا درکھیں کہ یہ جو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اِعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائدة: 9).انصاف کرویہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے.اس کو یا درکھنا چاہئے.پس ہر فیصلہ انصاف پر ہونا چاہئے.بعض دفعہ بعض فیصلے میرے سامنے آتے ہیں، ہمیں نے دیکھا ہے کہ گہرائی میں جا کر اُس پر غور نہیں ہوا ہوتا.اس طرح جن کے متعلق فیصلہ کیا گیا ہوتا ہے اُن میں بے چینی پیدا ہو جاتی ہے.جو فیصلہ کیا گیا ہے اگر اُس کے بارے میں شریعت کا کوئی واضح حکم ہے جس کی بنیاد پر فیصلہ کیا ہے تو پھر وہ واضح طور پر لکھا جانا چاہئے کہ شریعت کا کیونکہ یہ حکم ہے اس لئے اس کی رُو سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے.خاص طور پر قاضیوں کو اس کا خیال رکھنا چاہئے.پھر یہ بھی ضروری ہے کہ جن علاقوں میں خاص طور پر ضرورتمند اور غرباء ہیں اُن کا خیال رکھا جائے اور اپنے وسائل کے مطابق اُن کی دیکھ بھال کرنا بھی متعلقہ امراء اور عہدیداران کا کام ہے.اس بارے میں یہ ضروری نہیں کہ درخواستیں ہی آئیں.خود بھی جائزے لیتے رہنا چاہئے.یہ امراء اور صدر ان کے فرائض میں داخل ہے.
سبیل الرشاد جلد چہارم 359 عہد یدار کا اپنا قول وفعل ایک ہو ایک بہت بڑی ذمہ داری ہر امیر کی، ہر صدر جماعت کی ، ہر عہدیدار کی تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ( آل عمران: 111) ہے کہ نیکی کی ہدایت کرنا اور بدی سے روکنا.پس تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر کو ہمیشہ ہر عہد یدار کو یادرکھنا چاہئے اور یہ اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ہر عہد یدار خود اپنا جائزہ لیتے ہوئے اپنے قول و فعل کو ایک نہیں کرتا.اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا نہیں کرتا.تقویٰ کے اُن راستوں کی تلاش نہیں کرتا جن کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے.اور تقویٰ کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ صرف چند نیکیاں بجالانا یا چند برائیوں سے رکنا، یہ تقویٰ نہیں ہے.بلکہ تمام قسم کی نیکیوں کو اختیار کرنا اور ہر چھوٹی سے چھوٹی برائی سے رکنا، یہ تقویٰ ہے.پس یہ معیار ہیں جو حاصل کر کے ہم نیکیوں کی تلقین کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے بن سکتے ہیں اور امانت کا حق ادا کرنے والے بن سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ افراد جماعت کو بھی ، تمام عہدیداران کو بھی ، جو منتخب ہو چکے ہیں یا منتخب ہونے والے ہیں، اور منتخب ہو کر آئیں گے اور مجھے بھی اپنی امانتوں اور عہدوں کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے." (الفضل انٹر نیشنل 3 مئی 2013ء) جو ذمہ داری آپ کو سونپی گئی ہے اسے اپنے پورے دل، پوری جان، نیک نیتی انتہائی درجہ کی ایمانداری اور متانت سے پورا کرنے کی کوشش کریں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 16 جون 2013ء کو مجلس شوری انگلستان کے افتتاحی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے عہد یداران کو یوں نصیحت فرمائی.اللہ تعالیٰ نے ان آیات قرآنی (ال عمران 160-161) میں شوری کی اہمیت اور لوگوں سے حسن معاملہ کرنے کا مضمون بیان فرمایا ہے نیز اس سلسلہ میں کچھ ہدایات بھی دی ہیں.ان آیات میں اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُس نے اپنی خاص رحمت کا سلوک فرماتے ہوئے تیرے دل میں تمام مخلوق کے لیے نرمی اور شفقت کا خاصہ رکھ دیا ہے.یقینا اگر آپ کا دل سخت گیر ہوتا تو لوگ اس طرح آپ کے ارد گرد محبت و عقیدت کے ساتھ ہرگز جمع نہ ہوتے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے بھی آگاہ فرما دیا کہ آپ کے متبعین غلطیاں بھی کریں گے اور پھر آپ کے پاس معافی کے خواستگار ہوتے ہوئے بھی آئیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم
سبیل الرشاد جلد چہارم 360 کو رحم کا سلوک فرماتے ہوئے انہیں معاف کر دینا چاہئے.اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں سے انتظامی معاملات میں مشورہ کرنا چاہئے.اور ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ایسے لوگ جن سے ماضی میں غلطیاں ہوئیں ان کا مشورہ بالکل تسلیم ہی نہ کیا جائے یا ان پر غور ہی نہ کیا جائے.حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ بظاہر تو یہ ہدایات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی ہیں لیکن درحقیقت یہی ہدایات خلیفہ وقت کے لیے بھی اور پھر جماعتی عہدیداران کے لیے بھی ہیں.اس لیے وہ تمام عہدیداران جن کے نام الیکشن میں پیش کیے گئے ہیں یا جن کی منظوری میری طرف سے آئے گی انہیں اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ وہ اپنے ماتحت عہدیداران اور دیگر ممبران جماعت احمدیہ سے محبت، شفقت، لحاظ اور احترام سے پیش آئیں.حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ ضمنی طور پر میں یہ بھی ذکر کرتا چلوں کہ ضروری نہیں کہ جن لوگوں کو اس الیکشن میں کسی خاص عہدے کے لیے سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں انہیں کی منظوری میری طرف سے دی جائے.حضور انور ایدہ اللہ نے جماعت احمدیہ میں عہدہ کی حقیقت اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر عہدیدار کو یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ جماعت میں بنیادی طور پر ہر عہدہ ایک 'امانت' ہے.اور امانتوں پر پورا اترنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات موجود ہیں....تمام عہدیداران کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اس امانت کا حق ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں جو ان کے سپرد کی گئی ہے.اور امانت کا حق ادا کر نے کا طریق یہ ہوتا ہے کہ جو بھی ذمہ داری آپ کو سونپی گئی ہے اسے اپنے پورے دل اور پوری جان، نیک نیتی ، انتہائی درجہ کی ایمانداری اور متانت سے پورا کرنے کی کوشش کریں.اس لیے ہر عہد یدار کا نمونہ ایسا ہو کہ وہ اپنے وقت کو قربان کرنے کے لیے ہر دم تیار رہے اور ہر دم اپنے کاموں کو بہتر طور پر کرنے کے لیے سوچ اور تدبیر میں لگار ہے.یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوسروں سے شفقت سے پیش آنے کے حکم کے مخاطب صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نہیں تھے بلکہ وہ تمام لوگ بھی یکساں طور پر اس ارشاد کے مخاطب ہیں جنہیں ذمہ داریوں کا امین ٹھہرایا گیا ہے.آج احمدی ہی وہ لوگ ہیں جو اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کا دعویٰ رکھنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی پوری کوشش بھی کرتے ہیں کہ ہم اس دعوی کو سچا ثابت کرنے والے بنیں.ہم وہ لوگ ہیں جو یہ خواہش رکھتے ہیں کہ نظام جماعت احمدیہ کلی طور پر اللہ تعالیٰ کے احکامات کے تابع چلنے والا ایک نظام ہو.لہذا یہ تمام باتیں تقاضا کرتی ہیں اور جیسا کہ میں پہلے ذکر بھی کر آیا ہوں کہ وہ تمام افراد جنہیں عہدہ کی ذمہ داری سونپ کر ایک لحاظ سے امین ٹھہرایا گیا ہے انہیں لوگوں کے ساتھ شفقت ، محبت اور احترام کے ساتھ پیش آنا چاہئے.انہیں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ ان کے دل نرم اور ممبرانِ
361 سبیل الرشاد جلد چہارم جماعت احمدیہ کی محبت سے پُر ہوں.وہ اپنے ماتحتوں یا اپنے سٹاف سے صرف نرمی اور محبت کا سلوک ہی نہ کرتے ہوں بلکہ ان کی چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال رکھنا بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہو.ان کے دل اس قدر صاف اور شفیق ہوں کہ لوگ ان کی طرف محبت سے کھنچے چلے آئیں اور وہ بھی انہیں سینے سے لگانے والے ہوں.کجا یہ کہ ان کے اخلاق لوگوں کو دور بھگانے والے بنیں.کیونکہ اگر ان کے دلوں میں سختی ہوگی تو وہ اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کرنے سے قاصر رہیں گے جس کے نتیجہ میں احمدی ایک عجیب سے تذبذب کا شکار ہونے لگیں گے.اور چند عہدیداران کے ناروا سلوک کی وجہ سے بعض احمدی نہ صرف یہ کہ مایوس ہوں گے بلکہ آہستہ آہستہ نظام جماعت سے بھی ہٹتے چلے جائیں گے.یہ بھی ممکن ہے کہ اس وجہ سے وہ جماعت سے ہی قطع تعلقی اختیار کر لیں اور خلیفہ وقت کے بارے میں ایک غلط تاثر اپنے ذہنوں میں رکھ لیں.چنانچہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ممبران جماعت سے حسنِ سلوک نہ رکھنے کی وجہ سے بہت گہرے منفی اثرات پیدا ہو سکتے ہیں.میری طرف سے منظور شدہ ہر جماعتی عہدیدار کو لازما یہ پہلو پیش نظر رکھنے چاہئیں.مزید برآں وہ تمام لوگ جو عہد یدار تو نہیں لیکن آج بحیثیت نمائندہ مجلس شوریٰ یہاں موجود ہیں اور کوئی نہ کوئی جماعتی خدمت بجا لاتے ہیں ان پر بھی لازم ہے کہ وہ بھی کام کرتے ہوئے ان امور کو پیش نظر رکھیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے.ٹیم بنا کر کام کریں حضور انور ایدہ اللہ نے ٹیمیں بنا کر کام کرنے کی حکمت بیان فرماتے ہوئے ہر کامیابی کا دار ومدار دعا کو قرار دیا.نیز فر مایا کہ با قاعدہ طور پر مقرر کیے جانے والے جماعتی عہد یداران کو رضا کاران کی ٹیمیں بنا کر کام کرنا چاہئے.اس سے نہ صرف یہ کہ وہ ان کے کاموں میں معاون و مددگار ہوں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کام کرنے والوں کی ایک کھیپ تیار ہوتی جائے گی جو مستقبل میں جماعتی ذمہ داریوں کو سنبھالنے والے ہوں گے.پھر اس ٹیم کا مقصد صرف یہی نہ رہ جائے کہ اس نے حکم کی تعمیل میں کام کرنا ہے بلکہ کام لینے کے ساتھ ساتھ عہدیداران کو یہ بھی چاہئے کہ وہ گاہے بگاہے اپنی ٹیم کے ممبران سے تبادلہ خیال کریں، مختلف کاموں میں مزید بہتری لانے کے لیے ان سے مشورہ کریں اور جب آپس میں تبادلہ خیال ، سوچ بچار اور مشورہ کر لینے کے بعد ایک حتمی لائحہ عمل طے پا جائے تو پھر اس تمام عمل کے سب سے ضروری پہلو کونظر انداز نہ ہونے دیں یعنی یہ کہ آپ نہایت عجز و انکسار اور مستقل مزاجی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں لگ جائیں کہ اللہ تعالیٰ ہر اس تدبیر میں جو آپ نے اپنے مفوضہ امور کی انجام دہی کے لیے سوچی ہے برکت عطا فرما دے.ہمیں کسی ایسے عہد یدار کی ضرورت نہیں جو نماز ادا نہیں کرتا....حضور انور ایدہ اللہ نے جماعتی عہدیداران کو عبادت کے معیار کو بلند کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے
362 سبیل الرشاد جلد چہارم فرمایا کہ آپ سب کو ہمیشہ یہ یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور توکل صرف اور صرف دعا کے ذریعے ہی پیدا ہوتا ہے.جہاں دعائیں اللہ تعالیٰ پر ہمارا ایمان اور تو کل بڑھاتی ہیں وہاں یہ اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت کو کھینچ لاتی ہیں.لہذا جماعتی عہدیداران پر یہ امر فرض اور لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے دعاؤں اور اس کی عبادات میں اپنے آپ کو فنا کر دیں.ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی میں باقاعدگی اختیار کرنے والے ہوں.بعض اوقات مجھے جماعتی عہدیداران کے قریبی عزیزوں بلکہ بعض اوقات ان کی بیویوں.معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ وہ بہت سا جماعتی کام کرتے ہیں لیکن وہ فرض نماز میں ادا نہیں کرتے.یاد رکھیں ! ہمیں ایسے کسی جماعتی عہدیدار کی ضرورت نہیں جو نماز ادا نہیں کرتا کیونکہ کسی بھی جماعتی عہد یدار کی بنیادی خصوصیت یہ ہونی چاہئے کہ وہ تمام نمازیں باقاعدہ ادا کرنے والا ہو اور اس بات کی ہر ممکن کوشش کرنے والا ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو جائے اور اس کا خدا تعالیٰ کی ذات سے ایک پختہ تعلق پیدا ہو جائے.ہمیں ایسے عہد یداران کی قدر ہے جو اس بات پر یقین کامل رکھتے ہیں کہ جماعتی ترقی کا دارو مدار دعاؤں پر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر اس کی مدد کسی بندے کے شامل حال ہو جائے تو کوئی ہستی اسے کامیابی اور فتح حاصل کرنے سے روک نہیں سکتی.اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ اگر کوئی بندہ خدا تعالیٰ کی نصرت سے بے بہرہ ہو تو چاہے وہ کتنا ہی ذہین یا چالاک کیوں نہ ہو ترقی اور کامیابی کسی بھی صورت اس کا مقدر نہیں بن سکتی.عہدیداران کے تمام تر کام ایمانداری اور خلوص پر مبنی ہوں حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ ہر فرد واحد چاہے وہ نیشنل عاملہ، ریجنل عاملہ یا کسی بھی لوکل عاملہ میں شامل ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کے تمام تر کام ایمانداری اور خلوص پر مبنی ہوں.اور وہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہوئے اسی سے مدد چاہنے والا ہو.یہ وہ گر ہیں جن سے کامیابی بھی ملتی ہے اور انسان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو سمیٹنے والا بھی بن جاتا ہے الفضل انٹر نیشنل 25 اکتوبر 2013ء) نو جوانوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا جواب ذیلی تنظیمیں دیں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 16 راگست 2013ء میں فرمایا کچھ دن ہوئے ، دینی تربیتی امور کا ایک جائزہ اتفاق سے ایک عہد یدار کے ساتھ باتوں باتوں میں میرے سامنے آیا.اُس کے بعد پھر میں نے اُن سے تحریری رپورٹ بھی منگوائی.اس کو دیکھ کر مجھے خیال ہوا کہ بعض امور ایسے ہیں جن پر مجھے کچھ کہنا چاہئے.جماعت کا ایک طبقہ جو ہے، اُس کو اس کی ضرورت ہے اور اسی طرح کچھ ایسی باتیں ہیں جن کی عہدیداروں کو بھی ضرورت ہے.یہ امور جس طرح یہاں کی جماعت
363 سبیل الرشاد جلد چہارم کے لئے اہم ہیں اسی طرح دنیا کی دوسری جماعتوں کے لئے بھی اہم ہیں.یا نئی نسل اور اُن افراد کے لئے بھی ان کا جاننا ضروری ہے جو زیادہ ایکٹو (active) نہیں ہیں، زیادہ تر جماعتی کاموں میں involve نہیں ہیں.یہ ایسے امور ہیں کہ جن کو عموماً کھول کر بیان نہیں کیا جاتا.یا مربیان اور عہد یداران افراد جماعت کے سامنے اس طرح احسن رنگ میں ذکر نہیں کرتے جس طرح ہونا چاہئے.جس کی وجہ سے بعض ذہنوں میں، خاص طور پر نو جوانوں میں سوال اُٹھتے ہیں لیکن وہ سوال کرتے نہیں.اس لئے کہ جماعتی ماحول یا اُن کا عزیز رشتے دار یا والدین ان سوالوں کو برا سمجھیں گے یا وہ کسی مشکل میں پڑ جائیں گے.حالانکہ چاہئے تو یہ کہ مربیان اور مبلغین سے سوال کر کے یا عہد یداروں سے جو علم رکھتے ہیں اُن سے سوال کر کے، یا اپنی ذیلی تنظیموں کے عہدیداروں سے سوال کر کے پوچھیں.خدام الاحمدیہ اور لجنہ سے تعلق رکھنے والوں اور تعلق رکھنے والیوں کا اپنی اپنی متعلقہ ذیلی تنظیموں سے اس طرح تعلق ہونا چاہئے کہ آسانی سے سوال کر سکیں تا کہ معلومات میں بھی اضافہ کریں اور کوئی شکوک و شبہات ہیں تو وہ بھی دور کریں یا مجھے بھی لکھ سکتے ہیں.بعض لوگ مجھے دوسرے ملکوں سے بھی اور بعض دفعہ یہاں سے بھی لکھتے ہیں اور انتہائی ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے لکھتے ہیں تو اُن کے سوالوں کے جواب دیئے بھی جاتے ہیں.بہر حال یہ بات بھی سامنے آئی کہ بعض عہدیدار بھی اپنے فرائض اور دائرہ کار کے بارے میں تفصیل نہیں جانتے اور اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا نہیں کرتے.جو باتیں میں بیان کرنے لگا ہوں اس میں ایک پہلو تو عقیدے اور اُس کے بارے میں علم سے تعلق رکھتا ہے.کیونکہ ہمیں علم ہونا چاہئے کہ ہم کیوں کسی عقیدے پر قائم ہیں اور اسی طرح بعض باتیں جو ہمیں کرنے کے لئے کہا جاتا ہے، جن کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے، اُن کے بارے میں بھی علم ہو کہ کیوں ہمیں کہا جاتا ہے اور کیوں یہ ایک احمدی مسلمان کے لئے ضروری ہے؟ اس میں مالی قربانی ہے، اس بارے میں لوگ تفصیل جاننا چاہتے ہیں.دوسرے اس تعلق میں عہدیداران کی بعض انتظامی ذمہ داریاں ہیں اُن کو کس طرح نبھانا ہے اور کس حد تک اختیارات ہیں.بہر حال اس تعلق میں ان دو باتوں کی طرف میں مختصر توجہ دلاؤں گا.ذیلی تنظیمیں دور ہٹے لوگوں سے رابطہ کر کے ان کے شکوک و شبہات دور کریں پہلی بات تو یہ ہے جو عقیدے سے تعلق رکھتی ہے اور ایک احمدی کے لئے اس کا جاننا ضروری ہے.عموماً اس کا بیان تو ہوتا بھی رہتا ہے لیکن اُس توجہ سے نہیں ہوتا یا اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے نہیں ہوتا کہ ہمارے اپنے لوگوں کی بھی تربیت کی ضرورت ہے.عام طور پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ایک پیدائشی احمدی ہے، اُسے علم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض کیا ہے اور آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے؟ نئے آنے والوں کو تو اس کا اچھی طرح علم ہوتا ہے.پڑھ کر تحقیق کر کے آتے ہیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا جو اتنے زیادہ ایکٹو (active) نہیں ہیں، اجتماعات پر نہیں آتے ، بعض جلسوں پر بھی نہیں آتے اور ہر ملک میں
364 سبیل الرشاد جلد چہارم ایسے لوگ موجود ہیں، چاہے تھوڑی تعداد ہو، ایک تعداد ہے جس کی طرف ہمیں فکر سے توجہ دینی چاہئے اور اس کے لئے خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کی تنظیموں کو بھی اپنے پروگرام بنا کر اس پر کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے.اسی طرح جماعتی نظام بھی ایسے لوگوں کو دھتکارنے کے بجائے یا یہ کہنے کے بجائے کہ ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی انہیں قریب لانے کی کوشش کرے.سوائے اُن کے جو کھل کر کہہ دیتے ہیں کہ میرا تمہارے سے کوئی تعلق نہیں ہے.لیکن ایسے لوگوں کے بارے میں بھی جو جماعت کا main جماعتی نظام،main stream ہے، اُس کو چاہئے کہ ذیلی تنظیموں کو ان لوگوں کی معلومات دے دیں، کیونکہ بعض بڑی عمر کے عہد یداران کے سخت رویے کی وجہ سے بھی لوگ ایسے جواب دے دیتے ہیں.ذیلی تنظیمیں ان کے ہم عمر یا کچھ حد تک ہم مزاج لوگوں کے ذریعہ سے اُن کی اصلاح کی طرف توجہ دے سکتی ہیں.اور جہاں یہ طریق اپنایا گیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیابی بھی ہوئی ہے.بعض جگہ بعض سیکر ٹریان تربیت ایسے بھی ہیں جنہوں نے تربیت کے لئے ایسے لوگوں کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے پروگرام بنائے اور اس کا اچھا اور بڑا خاطر خواہ اثر ہوا.بڑی اچھی response ان لوگوں سے ملی.بہر حال کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہم نے حتی الوسع ہر احمدی کو ضائع ہونے سے بچانا ہے.یہ ہر عہدیدار کی ذمہ داری ہے، ہر مربی کی ذمہ داری ہے اور ہر سطح پر ذیلی تنظیموں اور جماعتی نظام کی ذمہ داری ہے.اس اصولی بات کے بعد جو پہلی بات میں کرنا چاہتا ہوں ، وہ جیسا کہ میں نے کہا، ہر احمدی کو پتہ ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض کیا ہے؟ اور یہ کہ آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے؟ اس کے لئے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ہی میں بیان کروں.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : " مجھے بھیجا گیا ہے تا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے حالانکہ اب یہ سلسلہ سورج کی طرح روشن ہو گیا ہے اور اس کی آیات و نشانات کے اس قدرلوگ گواہ ہیں کہ اگر اُن کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو اُن کی تعداد اس قدر ہو کہ رُوئے زمین پر کسی بادشاہ کی بھی اتنی فوج نہیں ہے“.فرمایا کہ : ” اس قدر صورتیں اس سلسلہ کی سچائی کی موجود ہیں کہ ان سب کو بیان کرنا بھی آسان نہیں.چونکہ اسلام کی سخت توہین کی گئی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی توہین کے لحاظ سے اس سلسلہ کی عظمت کو دکھایا ہے." ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 9.ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) اور یہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کی بات نہیں ہے بلکہ آپ آنحضرت صلی
سبیل الرشاد جلد چہارم 365 اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں اور قرآن شریف کی سچائی کو دنیا میں قائم کرنے کے بارے میں اپنے لٹریچر میں، اپنی کتب میں، اپنے ارشادات میں جس طرح روشنی ڈال گئے ہیں ، وہ آج بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور قرآن شریف کی سچائی کو دشمنوں پر ثابت کر رہا ہے.اسلام کی حقیقی تعلیم کھول کر بیان کریں.میں نے مختلف موقعوں پر مختلف مثالیں دی ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی پہلوؤں کو غیروں کے سامنے بیان کیا جائے تو کس طرح وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اگر یہی سیرت ہے، یہی تعلیم ہے تو ہم غلطی پر تھے.کچھ عرصہ ہوا اپنی کسی تقریر میں کینیڈا کے ایک مخالف اسلام کی میں نے مثال دی تھی جس نے ڈینش اخباروں کے کارٹون بھی اپنے رسالے میں ، اپنے اخبار میں شائع کئے تھے.اُس نے جب اس دفعہ دورے میں وہاں میری بات سنی ہے اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں اُسے علم ہوا تو وہ اپنے اخبار میں یہ لکھنے پر مجبور ہوگیا کہ امام جماعت احمدیہ کی بات سن کر مجھے حقیقت کا علم ہوا ہے اور اپنی غلطی کا اعتراف کیا.اسی طرح گزشتہ خطبہ میں میں نے بتایا تھا کہ امریکہ میں ایک بڑے سیاستدان نے جمعہ کے حوالے سے غلط قسم کا پروگرام اپنے ریڈیو میں دیا یا با تیں کیں.اس پروگرام کو سننے والوں کی تعداد بھی بہت بڑی ہے، لاکھوں میں ہے.اس پر جمعہ کی اہمیت اور حقیقت قرآنِ کریم کی رُو سے کیا ہے؟ اس بارہ میں ہمارے ایک احمدی نوجوان نے اپنا آرٹیکل لکھا، ویب سائٹ پر دیا.پھر اس شخص کو لکھا گیا.یہ وہاں کا بڑا پولیٹیکل لیڈر ہے، مشہور آدمی ہے کہ تم نے غلط کہا ہے، اب ہمیں بھی ریڈیو پر وقت دو.چنانچہ اس نے وقت دیا.یہ بہر حال اُس کی شرافت تھی اور ہمارے ایک احمدی نوجوان نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ریڈیو پر جمعہ اور اُس کے حوالے سے قرآن کے تقدس کے بارے میں بات کی تو اُس نے یہ تسلیم کیا کہ میری غلطی تھی اور اس پروگرام کو بھی لاکھوں افراد نے سنا.اور یہ سب بھی اعتراف کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ہی ہمیں حقیقی اسلامی تعلیم کا پتہ چلتا ہے.پس یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو ہمیں بتایا، ہمیں حقیقت سے آشکار کیا ، اسی وجہ سے ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لئے بھیجا تھا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام دنیا پر روشن کریں، قرآن کریم کی تعلیم کو حقیقت کو آشکار کریں.ذیلی تنظیمیں نو جوانوں کو بتا ئیں کہ ہم حضرت مسیح موعود کو کیوں مانتے ہیں پس اس وجہ سے جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ اسلام کی عظمت اور قرآنِ کریم کی عظمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور وقار دنیا میں دوبارہ آپ کے ذریعہ سے قائم ہورہا ہے.پس کوئی وجہ نہیں کہ ہم کسی بھی وجہ سے کسی احساس کمتری کا شکار ہوں اور نوجوانوں کو اس بارے میں حوصلہ رکھنا چاہئے.جہاں
سبیل الرشاد جلد چہارم 366 جہاں بھی نوجوان ایکٹو (active) ہیں اللہ کے فضل سے مخالفین کا منہ بند کر رہے ہیں.ނ پھر ہم میں سے ہر ایک کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننا کیوں ضروری ہے.تیرہ چودہ سال کے بچے بھی یہ سوال کرتے ہیں اور والدین اُن کو صحیح طرح جواب نہیں دیتے.اس بارے میں میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ہی بیان کر دیتا ہوں.یہ ایک تفصیلی ارشاد ہے.اس کو ذیلی تنظیمیں بعد میں اس کے حصے بنا کر سمجھانے کے لئے استعمال کر سکتی ہیں اور اس.مزید رہنمائی بھی لے سکتی ہیں.ایک موقع پر بعض مولویوں نے آپ سے سوال کیا کہ ہم اب نمازیں بھی پڑھتے ہیں.روزے بھی رکھتے ہیں.قرآن اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بھی لاتے ہیں تو پھر ہمیں آپ کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ: دیکھو جس طرح جو شخص اللہ اور اُس کے رسول اور کتاب کو ماننے کا دعوی کر کے اُن کے احکام کی تفصیلات مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوۃ، تقویٰ طہارت کو بجا نہ لاوے اور اُن احکام کو جو تزکیۂ نفس، ترک شر اور حصول خیر کے متعلق نافذ ہوئے ہیں چھوڑ دے وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے ".مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے لیکن یہ ساری نیکیاں نہ بجالائے، برائیوں کو نہ چھوڑے، نیکیوں کو اختیار نہ کرے تو فرمایا کہ وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے." اور اُس پر ایمان کے زیور سے آراستہ ہونے کا اطلاق صادق نہیں آ سکتا.اسی طرح سے جو شخص مسیح موعود کو نہیں مانتا یا ماننے کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ بھی حقیقت اسلام اور غایت نبوت اور غرض رسالت سے بے خبر محض ہے".یعنی کہ اُس کو پتہ ہی نہیں کہ نبوت کی کیا ضرورت ہے؟ کیا اغراض ہیں؟ " اور وہ اس بات کا حقدار نہیں ہے کہ اُس کو سچا مسلمان، خدا اور اُس کے رسول کا سچا تابعدار اور فرمانبردار کہہ سکیں کیونکہ جس طرح سے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قرآن شریف میں احکام دیئے ہیں اسی طرح سے آخری زمانہ میں ایک آخری خلیفہ کے آنے کی پیشگوئی بھی بڑے زور سے بیان فرمائی ہے اور اُس کے نہ ماننے والے اور اُس سے انحراف کرنے والوں کا نام فاسق رکھا ہے.قرآن اور حدیث کے الفاظ میں فرق ( جو کہ فرق نہیں بلکہ بالفاظ دیگر قرآن شریف کے الفاظ کی تفسیر ہے ) صرف یہ ہے کہ قرآنِ شریف میں خلیفہ کا لفظ بولا گیا ہے اور حدیث میں اسی خلیفہ آخری کو مسیح موعود کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے.پس قرآن شریف نے جس شخص کے مبعوث کرنے کے متعلق وعدے کا لفظ بولا ہے اور اس طرح سے اس شخص کی بعثت کو ایک رنگ کی عظمت عطا کی ہے وہ مسلمان کیسا ہے جو کہتا ہے کہ ہمیں اُس کے ماننے کی ضرورت ہی کیا ہے؟" فرمایا کہ : " خلفاء کے آنے کو اللہ تعالیٰ نے قیامت تک لمبا کیا ہے اور اسلام میں یہ ایک شرف اور خصوصیت ہے کہ اُس کی تائید اور تجدید کے واسطے ہر صدی پر مجدد آتے رہے اور آتے رہیں گے.دیکھو
سبیل الرشاد جلد چہارم 367 اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تشبیہ دی ہے" یہاں مجدد کے بارے میں پھر بعض دفعہ لوگ غلطی کھا جاتے ہیں کہ اگر آتے رہیں گے تو کون ہوں گے؟ اس بارے میں ایک تفصیلی خطبہ میں پہلے دے چکا ہوں.اُس سے بھی نوٹس لئے جاسکتے ہیں کہ خلفا ء ہی مجدد ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بڑی وضاحت سے بیان بھی فرما چکے ہیں.جماعت کے لٹریچر میں بھی یہ سب کچھ موجود ہے.فرمایا: " دیکھو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تشبیہ دی ہے جیسا کہ گما کے لفظ سے ثابت ہوتا ہے.شریعت موسوی کے آخری خلیفہ حضرت عیسی تھے جیسا کہ خود وہ فرماتے ہیں کہ میں آخری اینٹ ہوں.اسی طرح شریعت محمدی میں بھی اس کی خدمت اور تجدید کے واسطے ہمیشہ خلفاء آئے اور قیامت تک آتے رہیں گے.اور اس طرح سے آخری خلیفہ کا نام بلحاظ مشابہت اور بلحاظ مفوضہ خدمت کے مسیح موعود رکھا گیا.اور پھر یہی نہیں کہ معمولی طور سے اس کا ذکر ہی کر دیا ہو بلکہ اُس کے آنے کے نشانات تفصیلا گل کتب سماوی میں بیان فرما دیئے ہیں.بائبل میں، انجیل میں، احادیث میں اور خود قرآن شریف میں اس کی آمد کی نشانیاں دی گئی ہیں اور ساری قومیں، یہودی ، عیسائی اور مسلمان متفق طور سے اس کی آمد کے قائل اور منتظر ہیں.اس کا انکار کر دینا کس طرح سے اسلام ہوسکتا ہے.اور پھر جبکہ وہ ایک ایسا شخص ہے کہ اُس کے واسطے آسمان پر بھی اللہ تعالیٰ نے اُس کی تائید میں نشان ظاہر کئے اور زمین پر بھی مجزات دکھائے.اُس کی تائید کے واسطے طاعون آیا اور کسوف و خسوف اپنے مقررہ وقت پر بموجب پیشگوئی عین وقت پر ظاہر ہو گیا.تو کیا ایسا شخص جس کی تائید کے واسطے آسمان نشان ظاہر کرے اور زمین الوقت کہے وہ کوئی معمولی شخص ہوسکتا ہے کہ اُس کا ماننا اور نہ ماننا برا بر ہو اور لوگ اُسے نہ مان کر بھی مسلمان اور خدا کے پیارے بندے بنے رہیں؟ ہر گز نہیں." فرمایا: " یا درکھ کہ موعود کے آنے کی گل علامات پوری ہوگئی ہیں.طرح طرح کے مفاسد نے دنیا کو گندہ کر دیا ہے.خود مسلمان علماء اور اکثر اولیاء نے مسیح موعود کے آنے کا یہی زمانہ لکھا ہے کہ وہ چودھویں صدی میں آئے گا.فرمایا: " اس قدر متفقہ شہادت کے بعد بھی جو کہ اولیاء اور اکثر علماء نے بیان کی.اگر کوئی شبہ رکھتا ہو تو اُسے چاہئے کہ قرآن شریف میں تدبر کرے اور سورۃ النور کو غور سے مطالعہ کرے.دیکھو جس طرح حضرت موسیٰ سے چودہ سو برس بعد حضرت عیسی آئے تھے اسی طرح یہاں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودھویں صدی ہی میں مسیح موعود آیا ہے.اور جس طرح حضرت عیسی سلسلہ موسوی کے خاتم الخلفاء تھے اسی طرح ادھر بھی مسیح موعود خاتم الخلفاء ہوگا " ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 551 ، 552 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ )
سبیل الرشاد جلد چہارم 368 یعنی آپ نے فرمایا کہ میں آئندہ ہزار سال کا خلیفہ ہوں اور جو بھی اب آئے گا آپ کی متابعت میں ہی آئے گا.ہر احمدی، حضرت مسیح موعود کی کتب کا مطالعہ کرے.پس جن پیشگوئیوں کے مطابق جو قرآن کریم اور حدیث میں واضح ہیں، مسیح موعود نے چودھویں صدی میں آنا تھا ، وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی ہیں.پس ہر احمدی کو چاہئے کہ آپ کی کتب کو پڑھے.انگریزی دان جو ہیں یا جن کواردوزبان نہیں آتی ان کے لئے دوسرے ملکوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف زبانوں میں اتنا لٹریچر موجود ہے کہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد اور آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے اس بارے میں وضاحت سے موجود ہے.اپنے عقیدے کو مضبوط اور پختہ کرنے کی ہر ایک کو ضرورت ہے.اعتراض کرنے والوں کے اعتراضوں کے جواب دیں.خود تیاری کریں گے تو علم بھی حاصل ہوگا اور اعتراضوں کے جواب بھی تیار ہوں گے.ذیلی تنظیمیں خطبہ سننے اور سنانے کی طرف متوجہ ہوں اس کے لئے بھی علاوہ اس کے کہ ہر شخص خود کرے، جماعتی نظام کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی اپنے پروگرام بنانے چاہئیں کہ کس طرح ہم اس بارے میں ہر فرد تک یہ تعلیم پہنچا دیں کہ آپ کی بعثت کی غرض کیا ہے اور آپ کو ماننا کیوں ضروری ہے؟ یہ تو عقیدے کی بات ہوگئی جو میں نے کر دی ہے.دوسری بات تربیت کی ہے اور وہ افراد جماعت کا خلافت کے ساتھ تعلق ہے.خلافت کے ساتھ تعلق میں آج کل اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے کا بھی ایک ذریعہ دیا ہوا ہے.اسی طرح alislam ویب سائٹ ہے.پس ان سے بھی جوڑنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے.ہر احمدی کو ، نوجوان کو، مرد ہو عورت ہو جوڑنے کی کوشش کریں اور نظام جماعت کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے.مخلصین اور با وفا مخلصین کی بہت بڑی تعداد ہے جو بڑی کوشش سے آتے ہیں اور یہاں مسجد میں آ کر بھی خطبہ سنتے ہیں اور دنیا میں مختلف جگہوں پر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بھی سنتے ہیں اور باقاعدگی سے سنتے ہیں، بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جو مجھے لکھتے ہیں کہ دو تین دفعہ سنتے ہیں.لیکن ایک ایسی تعداد ہے جو نہیں سنتی.یہاں یو کے (UK) میں ہی ایسے لوگ ہیں جو خطبات نہیں سنتے اور نہ ہی دوسرے پر وگرام دیکھتے ہیں بلکہ وہ بعض پروگراموں میں شامل بھی نہیں ہوتے.ایک جماعت میں کافی تعداد میں لوگوں نے خلاف تعلیم سلسلہ بعض حرکتیں کیں جس کی وجہ سے مجبوراً اُن پر کچھ پابندیاں عائد کی گئیں.جب مزید تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اُن میں سے اکثریت ایسی ہے جو خطبات نہیں سنتے ، یا جن کا جماعت میں زیادہ تر actively آنا جانا نہیں ہے،
369 سبیل الرشاد جلد چہارم نہ جماعتی پروگراموں میں شامل ہوتے ہیں لیکن جماعت کے ساتھ تعلق کیونکہ اُن کے خون میں تھا اس لئے جب اُن پر پابندیاں لگیں ، اُن کو تھوڑی سی سزادی گئی تو پریشان بھی ہو گئے اور انتہائی فکر اور درد سے مجھے معافی کے خط بھی لکھنے لگ گئے.بعض مجھے ملے بھی تو اُس وقت بھی روتے تھے.اگر وہ صرف دنیا دار ہی ہوتے تو یہ حالت نہ ہوتی.پس ایسے بھی ہیں جو دنیا کے کاروباروں کی وجہ سے لا پرواہ ہو جاتے ہیں اور جب اُنہیں توجہ دلائی جاتی ہے تو پھر انہیں شرمندگی کا احساس بھی ہوتا ہے اور توبہ واستغفار بھی کرتے ہیں اور آئندہ سے جماعت سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں.ذیلی تنظیمیں ہر فرد کا خلافت سے ذاتی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں پس یہ یاد دہانی کروانا اور نگرانی بھی رکھنا یہ جو جماعتی نظام ہے،سیکر ٹریان، مبلغین اور ذیلی تنظیمیں ہیں ، ان سب کا کام ہے کہ خلافت سے ہر فرد کا ذاتی تعلق پیدا کروانے کی کوشش کریں.دلوں میں خلافت سے تعلق اور وفا کو جو پہلے ہی ہے اجاگر کرنے کی کوشش کریں.جب اُن کو سمجھایا جائے تو یہ لوگ مزید نکھر کے سامنے آتے ہیں.اگر کوئی گرد پڑ بھی گئی ہو تو وہ جھڑ جاتی ہے.کیونکہ جب کوئی تعزیر کی جاتی ہے تو اُس وقت اس وفا کا شدت سے اظہار ہوتا ہے.اگر تربیت کا شعبہ مستقل خلیفہ وقت سے رابطے کی تلقین کرتا رہے اور خطبات اور جلسوں اور سارے پروگراموں کو دیکھنے کی طرف توجہ دلاتے رہیں تو جہاں خلافت سے مزید تعلق مضبوط ہوگا، وہاں تربیت کے بھی بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.ذیلی تنظیمیں لازمی چندوں کی ادائیگی کے لئے اپنے ممبران کو تلقین کریں پھر اگلی بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں ، وہ افراد جماعت پر چندوں کی اہمیت واضح کرنا ہے.یادرکھیں اور یہ بات عموماً میں سیکرٹریان مال سے کہا بھی کرتا ہوں کہ لوگوں کو یہ بتایا کریں کہ چندہ کوئی ٹیکس نہیں ہے بلکہ ان فرائض میں داخل ہے جن کی ادائیگی کا اللہ تعالی نے قرآن شریف میں متعدد جگہ حکم فرمایا ہے.ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَأَطِيْعُوا وَأَنْفِقُوْا خَيْرًا لا نُفُسِكُمْ وَمَنْ يُوْقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَه إِنْ تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ، وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيْم (التغابن: 17 - 18 ) پس اللہ کا تقوی اختیار کرو جس حد تک تمہیں توفیق ہے اور سنو اور اطاعت کرو اور خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہے.اور جونفس کی کنجوسی سے بچائے جائیں تو یہی ہیں وہ لوگ جو کامیاب ہونے والے ہیں.اگر تم اللہ کو قرضہ حسنہ دو گے تو وہ اسے تمہارے لئے بڑھا دے گا.اِنْ تُقْرِضُوْا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمه وه اسے
370 سبیل الرشاد جلد چہارم تمہارے لئے بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت قدرشناس اور بردبار ہے.پس ان آیات سے واضح ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنا ایک مومن کے لئے انتہائی ضروری ہے.وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں جو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور فرمایا کہ تمہارا خدا کی راہ میں خرچ کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کو قرض دیا ہے اور اللہ تعالیٰ وہ ہستی ہے جو بندے کو اُس کی قربانی کے بدلے میں کئی گنا بڑھا کر لوٹاتی ہے.اور لوگ ایسے متعدد واقعات مجھے لکھتے ہیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کی راہ میں چندہ دیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں کئی گنا بڑھا کر لوٹا دیا.اس بارے میں کئی دفعہ میں مختلف واقعات بھی بیان کر چکا ہوں.اللہ تعالیٰ تو غنی ہے اور بے نیاز ہے، اُس کو ہمارے پیسے کی ضرورت نہیں.اصل میں تو ہمیں پاک کرنے کے لئے ہمارے اطاعت کے معیار دیکھنے کے لئے ، ہمیں تقویٰ کی راہوں کی تلاش کرتا دیکھنے کے لئے ، ہمارے مال کی قربانی کے دعوئی کے معیار کو دیکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اُس کی راہ میں خرچ کرو، اُس کے دین کے پھیلانے کے لئے ، بڑھانے کے لئے خرچ کرو.پس ہر احمدی کو اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم چندہ کیوں دیتے ہیں؟ اگر کسی سیکرٹری مال یا صدر جماعت کو خوش کرنے کے لئے ، یا اُس سے جان چھڑانے کے لئے چندہ دیتے ہیں تو ایسے چندے کا کوئی فائدہ نہیں.بہتر ہے نہ دیا کریں.اگر دوسرے کے مقابل پر آ کر صرف مقابلے کی غرض سے بڑھ کر چندہ دیتے ہیں تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں.غرض کہ کوئی بھی ایسی وجہ جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے علاوہ چندہ دینے کی ہو، وہ خدا تعالیٰ کے ہاں رڈ ہو سکتی ہے.پس چندہ دینے والے یہ سوچیں کہ خدا تعالیٰ کا اُن پر احسان ہے کہ اُن کو چندہ دینے کی توفیق دے رہا ہے ، نہ کہ یہ احسان کسی شخص پر اللہ تعالیٰ پر یا اللہ تعالیٰ کی جماعت پر ہے کہ وہ اُسے چندہ دے رہے ہیں.پس ہر چندہ دینے والے کو یہ سوچ رکھنی چاہئے کہ وہ چندے دے کر خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنے کی کوشش کر رہا ہے.الہی جماعتوں کے لئے مالی قربانی انتہائی اہم چیز ہے.اس لئے میں نے تمام جماعتوں کو یہ کہا ہے کہ نو مبائعین اور بچوں کو وقف جدید اور تحریک جدید میں زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کی کوشش کریں، چاہے ایک پیسہ دے کر کوئی شامل ہوتا ہو، تا کہ انہیں عادت پڑے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں....پس سیکر ٹریان مال کو اس طریق پر افراد جماعت کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے کہ جب مالی قربانی ہو تو تقویٰ اور ایمان پختہ ہوتا ہے.اسی طرح مربیان کو بھی اس بارے میں جب بھی موقع ملے نصیحت کرنی چاہئے.اس کے لئے مسلسل توجہ کی ضرورت ہے.پس ہر سطح پر سیکر ٹر یان مال کو فعال ہونے کی ضرورت ہے.سیکرٹریان مال کا کام ہے کہ اپنی ذمہ داری نبھائیں اور ہر فرد تک اُن کی ذاتی approach ہو.یہ نہیں کہ ذیلی تنظیموں کے سپرد کر دیا جائے کہ ذیلی تنظیمیں اس میں مدد کریں.ذیلی تنظیمیں صرف اس حد تک مدد
371 سبیل الرشاد جلد چہارم کریں گی کہ وہ اپنے ممبران کو تلقین کریں.اس سے زیادہ سیکرٹریانِ مال کی مدد ذیلی تنظیم کا کام نہیں ہے.ذیلی تنظیمیں اپنے ممبران کو توجہ دلا سکتی ہیں کہ سیکرٹریان مال سے تعاون کریں اور چندے کی روح کو سمجھیں.بہر حال چندے کی روح کو سمجھانا تو ذیلی تنظیموں کا کام ہے.لیکن سیکرٹریانِ مال اس بات سے بری الذمہ نہیں ہو جاتے کہ ہم نے ذیلی تنظیموں کو کہا تو انہوں نے ہماری مدد نہیں کی.یہ ذمہ داری اُن کی ہے اور انہی کو نبھانی پڑے گی.سیکرٹریان مال کا کام ہے کہ ہر مقامی سطح پر ، ہر گھر تک پہنچنے کی کوشش کریں.اب تو فون ہیں، دوسرے ذریعے ہیں ، سواریاں ہیں.یہاں یورپ میں تو اور بھی زیادہ بڑے وسائل ہیں.پاکستان میں ایسے سیکرٹریان مال بھی تھے جو دن کو اپنا کام کرتے تھے اور پھر شام کے وقت کام ختم کر کے رات کو گھروں میں پھرتے تھے.بڑے شہر ہیں، کراچی ہے لاہور ہے سائیکل پر سوار ہیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہے ہیں اور نصیحت کر رہے ہیں، اس طرف توجہ دلا رہے ہیں.تو یہاں تو اب بہت ساری سہولتیں آپ کو میسر ہیں اور پھر بھی کام نہیں کرتے.بلکہ بعض سیکرٹریان مال کی یہاں بھی مجھے شکایات پہنچی ہیں کہ ان کے اپنے چندے معیاری نہیں ہیں.اگر اپنے چندے معیاری نہیں ہوں گے تو دوسروں کو کیا تلقین کر سکتے ہیں.اور پیار اور نرمی سے یہ کام کرنے والا ہے.مالی قربانی کی اہمیت واضح کریں.بعض سخت ہو جاتے ہیں.ایک دفعہ کوئی انکار کرتا ہے تو دوسری دفعہ جائیں، تیسری دفعہ جائیں، چوتھی دفعہ جائیں لیکن ماتھے پر بل نہیں آنا چاہئے.دینے والے بھی یہ یا درکھیں کہ کسی شخص کو یہ زعم نہیں ہونا چاہئے کہ شاید اُس کے چندے سے نظامِ جماعت چل رہا ہے اور اس لئے سیکرٹری مال بار بار اُس کے پاس آتا ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ کبھی مالی تنگی نہیں آئے گی اور کام چلتے رہیں گے.انشاء اللہ تعالی.ہاں آپ کو فکر تھی تو اس بات کی تھی کہ مال کا خرچ جو ہے وہ صحیح رنگ میں ہوتا ہے کہ نہیں؟ ( ماخوذ از رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 319) اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ خرچ حتی الوسع صحیح طریقے پر ہو.بعض جگہ خرچ میں لا پرواہی ہو تو توجہ بھی دلائی جاتی ہے.جماعت میں آڈٹ کا نظام بھی اس لئے قائم ہے.اور پھر یہ امیر جماعت کی بھی ذمہ داری ہے کہ اخراجات پر گہری نظر رکھے.یہ نہیں کہ جو بل آیا اُس کو ضرور پاس کر دینا ہے.آڈٹ کے نظام کو فعال کرے اور اس طرح فعال کرے کہ آڈیٹر کو آزادی ہو کہ جس طرح وہ کام کرنا چاہتا ہے اپنی مرضی سے کرے.اُس کو پورے اختیار دیئے جائیں.خرچ کے بارے میں میں بتادوں کہ ایم ٹی اے کا ایک بہت بڑا خرچ ہے اور ایم ٹی اے کے لئے مد تربیت کے لحاظ سے علیحدہ تحریک بھی کی جاتی ہے.گو کہ اب اخراجات اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ صرف اتنی رقم سے تو ایم ٹی اے کے خرچ نہیں چل سکتے.تو جو جماعت کا باقی مجموعی بجٹ ہے اُس میں سے بھی رقم خرچ کی جاتی ہے کیونکہ ساری دنیا میں ایم ٹی اے کے لئے ہمارے چار پانچ سیٹیلائٹ کام کر رہے ہیں.تو اس
372 سبیل الرشاد جلد چہارم طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے.لوگوں کو توجہ کرنی چاہئے.اگر جلسے کے دوسرے دن کی تقریر کو غور سے سنیں ، جو یہاں یو کے (UK) میں میں کرتا ہوں تو ہر ایک کو پتہ چل جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے پیسے میں کتنی برکت ڈالی ہوئی ہے اور کس طرح کام کی وسعت ہو رہی ہے اور کس طرح کام کا پھیلاؤ ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر سال اس پیسے کو کتنے پھل لگا رہا ہے اور کس طرح لگارہا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سب اخراجات احباب جماعت کی مالی قربانیوں سے ہوتے ہیں افضل انٹرنیشنل 30 اگست 2013ء) مجلس عاملہ کا ہر ممبر سال میں ایک بیعت کروائے مورخہ 25 ستمبر 2013ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سنگا پور، انڈونیشا، ملائشیا ، تھائی لینڈ، فلپائن اور برما کے اراکین مجالس عاملہ انصار اللہ سے باری باری تمام ملکوں کی مجالس کا جائزہ لیا اور ہدایات فرمائیں.سب سے قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تھائی لینڈ کی عاملہ انصار اللہ کے ممبران سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کی ساری عاملہ نے انصار اللہ کا دستور اساسی پڑھ لیا ہے.حضور انور نے فرمایا: آپ سب پڑھیں ، عاملہ کا ہر ممبر پڑھے، اگر اس کا تھائی زبان میں ترجمہ نہیں ہوا تو اس کا ترجمہ کریں.ہر قائد کو علم ہونا چاہئے کہ اُس کے سپر د جو شعبہ ہے، اُس کی کیا ذمہ داریاں ہیں.کیا کام ہیں.ہر ایک اس کے مطابق اپنے پروگرام بنائے.فلپائن اور میانمار (برما) کے ممبران کو بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہی ہدایت فرمائی کہ آپ کی عاملہ کے ہر ممبر کو، ہر قائد کو انصار اللہ کا دستور اساسی پڑھنا چاہئے.برما کو یہ بھی ہدایت فرمائی کہ اپنے دستور اساسی کا برمی زبان میں ترجمہ بھی کروائیں.انڈونیشیا، سنگا پور اور ملائشیا کی مجالس عاملہ انصار اللہ کے قائدین سے بھی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا کہ کیا آپ سبھی نے اپنا دستور اساسی پڑھ لیا ہے.حضور انور نے فرمایا عاملہ کا ہرممبر پڑھے.عاملہ کے ہر ممبر کو اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ اس کی کیا ڈیوٹی ہے.صدر صاحب مجلس انصاراللہ سنگا پور کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: آپ لندن سے انصار اللہ کا کانسٹی ٹیوشن (Constitution) منگوائیں اور ہر عاملہ مہر اپنے شعبہ کے فرائض پڑھے اور اس کے مطابق ہر شعبہ اپنا پلان (Plan) بنائے اور آپ اپنے ہر قائد کو Active کریں اور فعال بنائیں.صدر صاحب انصار اللہ ملائشیا کو حضور انور نے فرمایا کہ آپ کے سب قائدین بھی کانسٹی ٹیوشن کو پڑھیں.اس میں ہر شعبہ کے لئے گائیڈ لائن (Guide.line) ہے.ہر قائد کو علم ہونا چاہئے کہ اس کی ڈیوٹی
سبیل الرشاد جلد چہارم 373 کیا ہے.سب پڑھیں اور اس کے مطابق اپنے شعبہ کی پلانگ (Planning) کریں.صدر صاحب انصار اللہ انڈونیشیا نے بتایا کہ ہمارا سالانہ اجتماع امسال نومبر میں ہو رہا ہے.امسال صدر مجلس انصار اللہ کا انتخاب بھی ہے اس کی اجازت کے لئے لکھا ہے.اس پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ امیر صاحب انڈونیشیا عبدالباسط صاحب آپ کا انتخاب کروائیں گے.سنگاپور کے صدر صاحب سے بھی حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ کی ٹرم کب ختم ہو رہی ہے.صدر صاحب انصار اللہ نے بتایا کہ پہلی ٹرم ہے جو اس سال مکمل ہورہی ہے.حضور انور نے ہدایات فرمائی کہ حسن بصری صاحب مبلغ انچارج سنگا پور آپ کا انتخاب کروائیں گے.ملائشیا کے صدر مجلس انصار اللہ نے بتایا کہ ملائشیا میں امسال صدر مجلس انصار اللہ کی دوسالہ ٹرم ختم ہورہی ہے اور اس سال انتخاب ہے اور موجودہ صدر کی یہ تیسری ٹرم ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ایک صد ردودو سال کی تین ٹرم تک جا سکتا ہے یعنی چھ سال تک.اس کے بعد انتخاب میں اس کا نام پیش نہیں ہوسکتا، نیا صدر منتخب ہوگا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: نئے صدر کی ایک ٹرم کے بعد اگر لوگ پسند کریں کہ سابقہ صدر دوبارہ آئے تو اس ایک ٹرم کے بعد سابقہ صدر دوبارہ منتخب ہو سکتا ہے اور اُس کا نام صدارت کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے.سابقہ صدر کو چوتھی ٹرم دیئے جانے کے حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نائب صدر مجلس کے تحت میٹنگ میں اگر مجلس عاملہ یہ تجویز دے کہ صدر نے بہت اچھا کام کیا ہے اس کو چوتھی ٹیم کے لئے موقع دیا جائے تو یہ معاملہ خلیفتہ اسیح کی خدمت میں اجازت کے لئے پیش ہوتا ہے.پھر یہ خلیفتہ اسیح کا اختیار ہے کہ منظوری دے یا نہ دے.حضور انور نے فرمایا بہتر یہی طریق ہے کہ تین ٹرم پوری ہونے کے بعد نیا صدر نتخب ہو حضور انور ایدہ الہ تعالی نے ایک اصولی دایت دیتے ہوئے فرمایا کہ تمام ذیلی تنظیمیں انصار، خدام اور لجنہ براہ راست مجھ سے رابطہ کریں گی.یہ تینوں ذیلی تنظیمیں براہ راست خلیفتہ اسیح کے ماتحت ہیں اور جماعت کی Main Stream کا حصہ بھی ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جب ذیلی تنظیموں کا قیام فرمایا تھا تو آپ نے ذیلی تنظیموں کے قیام کا یہ مقصد بیان فرمایا تھا کہ اگر جماعت کا نظام کمزور ہو اور ذیلی تنظیمیں یا کوئی بھی ایک ذیلی تنظیم فعال ہو تو جماعت ترقی کرتی رہتی ہے.اگر ذیلی تنظیمیں مستعد اور فعال نہ ہوں لیکن جماعتی نظام
374 سبیل الرشاد جلد چہارم Active ہو تو تب بھی جماعت آہستہ آہستہ آگے بڑھتی رہتی ہے.لیکن اگر جماعتی نظام بھی فعال ہو اور ذیلی تنظیمیں بھی فعال اور مستعد ہوں تو پھر جماعت کئی گنا تیزی سے ترقی کرتی ہے اور جماعت کا قدم غیر معمولی طور پر آگے بڑھتا ہے.حضور انور نے فرمایا: تینوں ذیلی تنظیمیں اپنی ماہانہ رپورٹس براہ راست مجھے بھجوایا کریں.لندن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں تینوں ذیلی تنظیموں کے شعبے ہیں، ان کے آفسز ہیں جو سارا ریکارڈ رکھتے ہیں اور رپورٹس پر با قاعدہ حضور انور کی ہدایات بھجوائی جاتی ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انڈونیشیا کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ انڈونیشیا میں تین ہزار سے زائد جزائر ہیں.آپ تبلیغ کے لئے ایسے چھوٹے جزیروں کا انتخاب کریں جہاں مخالفت نہیں ہے.ایک جزیرہ کا انتخاب کرلیں اور وہاں مضبوط جماعت قائم کریں.اسی طرح ایسے جزائر جہاں عیسائیوں کی آبادی زیادہ ہے اور مولویوں کا اثر نہیں ہے وہاں بھی تبلیغ کے پروگرام بنا ئیں اور با قاعدہ پلاننگ کر کے کام کریں.حضور انور نے فرمایا جو انصار اللہ کا چندہ نہیں دیتے وہ جماعت کی مجلس عاملہ کے ممبر ز بھی نہیں بن سکتے اور نہ ہی مجلس انصار اللہ کی عاملہ کے ممبرز بن سکتے ہیں.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے صدر صاحب مجلس انصار اللہ سنگا پور کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ اپنا پروگرام بنا ئیں اور جماعت کی نیشنل مجلس عاملہ اپنا پروگرام بنائے.اگر کوئی پروگرام اجتماعی طور پر کرنا ہے تو با قاعدہ اپنی رپورٹس میں ذکر کریں کہ خدام، انصار اور جماعت نے مل کر اکٹھا یہ پروگرام کیا ہے.لیکن ذیلی تنظیموں کے اپنے علیحدہ پر وگرام بھی ہونے چاہئیں.حضور انور نے فرمایا: اگر مجلس انصار اللہ اپنا کوئی پروگرام بنارہی ہے.اپنے کسی جلسہ کا پروگرام ہے یا اجتماع کا پروگرام ہے تو پروگرام بناتے ہوئے یہ دیکھیں کہ جماعت کے پروگرام سے Clash نہ ہو.اگر جماعت کے پروگرام سے متصادم ہے تو پھر جماعتی پروگرام کو اولیت ہوگی.آپ اپنا پروگرام کسی اور تاریخ میں رکھ لیں.حضور انور نے فرمایا مثلاً آپ نے کسی گاؤں یا چھوٹے علاقہ میں اپنا تبلیغ کا پروگرام رکھا ہے.دوسری طرف اسی علاقہ میں جماعت نے بھی اپنا پروگرام بنایا ہوا ہے تو پھر جماعت کا پروگرام ہوگا ، آپ کا نہیں.آپ سب جماعت کے پروگرام میں شامل ہوں گے.حضور انور نے فرمایا کہ پروگراموں کے لئے دن معین کرنے کا طریق یہ ہے کہ سال کے شروع میں امیر
سبیل الرشاد جلد چہارم 375 صاحب نیشنل صدر صاحب جماعت کے ساتھ مل کر ایک کیلنڈر بنالیں جس میں باہمی مشورہ کے ساتھ جماعتی پروگرام اور ذیلی تنظیموں کے پروگرام کے دن بھی معین ہو جائیں.پروگرام معین کرتے ہوئے پہلے جماعت کے پروگرام آرگنائز (Organize) ہوں گے اس کے بعد باقی دنوں میں ذیلی تنظیموں کے پروگرام معین کر لیں.حضور انور نے فرمایا: جو بھی بڑی جماعتیں ہیں یو کے وغیرہ انہوں نے یہ کیلنڈر (Calendar) بنائے ہوئے ہیں.صرف سینٹرل لیول پر نہیں بنائے بلکہ لوکل لیول پر بھی بنائے ہوئے ہیں اور ہر گھر میں یہ کیلنڈر دیا ہوا ہے.انصار ، خدام اور لجنہ کا ہر مر جانتا ہے کہ ہمارا پروگرام کب ہے، انصار کا پروگرام کس دن کیا ہے؟ خدام کا کب ہے اور لجنہ کا کب ہے اور کیا پروگرام ہے.ہر ماہ ، ہر ایک کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ کیا پروگرام ہیں.ملائشیا کے صدر مجلس انصار اللہ نے بتایا کہ ہمارے 171 انصار ہیں اور اس تعداد کا پچاس فیصد موصی ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ آپ اپنی تعداد اور بڑھائیں اور آئندہ سال تک یہ تعداد ایک ہزار ایک سو اکہتر تک لے جائیں اور پھر اسی نسبت سے اضافہ کرتے رہیں.میانمار (برما) کی مجلس عاملہ انصار اللہ کے ایک ممبر نے بتایا کہ ہم حضور انور کا خطبہ جمعہ با قاعدہ اردو زبان میں سنتے ہیں اور تبلیغ کے حوالہ سے بتایا کہ صدر صاحب جماعت کی طرف سے انصار، خدام اور لجنہ کو با قاعدہ تبلیغ کا ٹارگٹ دیا جاتا ہے.حضور انور نے فرمایا جو جماعتیں Active ہیں وہ صرف تبلیغ کا ہی ٹارگٹ نہیں دیتیں بلکہ تحریک جدید اور وقف جدید کا ٹارگٹ بھی دیتی ہیں.جماعتی طور پر ان تحریکات میں جو چندہ لیا جاتا ہے وہ علیحدہ ہے.ذیلی تنظیمیں اس کے علاوہ اپنا ٹارگٹ پورا کرتی ہیں.جماعت یو کے نے لجنہ اماءاللہ یوکے کو دولاکھ پچاس ہزار پاؤنڈ کا ٹارگٹ دیا تھا.میں نے بڑھا کر تین لاکھ پچیس ہزار کر دیا جو لجنہ یو کے نے پورا کر دیا.صدر صاحب مجلس انصاراللہ انڈونیشیا نے بتایا کہ 3200 رانصار تحریک جدید چندہ کے نظام میں شامل ہیں.اس پر حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا آپ اپنی تجنید درست کریں اور اپنے سب انصار کو چندہ کے نظام میں شامل کریں.آپ کے انصار کی تعداد تو ہیں ہزار تک ہونی چاہئے.حضور انور نے صدر صاحب انصار اللہ ملائشیا کو فرمایا کہ آپ کی گیارہ مجالس ہیں.ہر مجلس کی عاملہ کا ہر ممبر سال میں ایک بیعت کروائے تو آپ کی سال میں 133 بیعتیں ہو جائیں گی.یہی ہدایت انڈونیشیا، سنگا پور اور باقی ممالک کے لئے بھی ہے کہ ہر مجلس کی عاملہ کا ہر مہر سال میں کم از کم ایک ایک بیعت کروائے.حضور انور نے فرمایا کہ تھائی لینڈ والے اور فلپائن والے بھی اب منظم ہو کر کام کریں.
376 سبیل الرشاد جلد چہارم صدر صاحب انصار اللہ ملائشیا نے عرض کیا کہ ملائشیا میں جو پاکستانی احمدی ہیں ان میں بہت سے چندہ ملائشیا میں ادا نہیں کرتے بلکہ پاکستان میں ادا کرتے ہیں.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ایک تو کوئی پاکستانی احمدی نہیں ہے.احمدی، احمدی ہے خواہ کسی بھی ملک کا ہو، دوسرے جو پاکستان سے ملائشیا آر ہے ہیں وہ آپ کے لئے مثال نہیں ہیں.باقی جہاں تک چندہ کی ادائیگی کا سوال ہے تو اس کے لئے اصول یہ ہے کہ جو شخص جہاں بھی رہتا ہے اور جہاں مقیم ہے اور آمد بھی ہورہی ہے تو وہیں اپنے قیام کے علاقہ میں، جماعت میں چندہ دیتا ہے.اگر ملائشیا میں آمد ہو رہی ہے تو پھر ملائشیا میں ہی چندہ دینا ہوگا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صدر صاحب انصار اللہ ملائشیا کو ایک انتظامی ہدایت فرمائی کہ ایسے احباب کی جو ملائشیا میں رہتے ہوئے چندہ پاکستان میں ادا کر رہے ہیں ایک جائزہ فہرست پیش کی جائے.میٹنگ میں نو مبایع کے حوالہ سے بات ہوئی تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نومبایع تین سال کے لئے ہوتا ہے اس کے بعد جماعت کی Main Stream میں آجاتا ہے.اگر وہ تین سال میں مستعد اور فعال نہیں ہو سکا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پروگرام اور کوششیں منظم نہیں ہیں.حضور انور نے فرمایا ہر نئے آنے والے کو آپ نے جماعت کی Main Stream میں لانا ہے.ملائشیا کے ممبران نے بتایا کہ آجکل ملائشیا میں ایک مسئلہ بنا ہوا ہے.مولویوں نے کہا ہے کہ غیر مسلم، عیسائی اللہ کا لفظ استعمال نہیں کر سکتے اور کورٹ نے بھی اسی طرح کا فیصلہ دیا ہے.اس پر پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا جب قرآن کہتا ہے کہ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا الله» (آل عمران : 65) کہ اے اہل کتاب! ” اُس کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کریں“.پس جب قرآن کریم کہتا ہے کہ سب مذاہب اللہ کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں تو پھر مسلمان کس طرح کہتے ہیں کہ عیسائی، غیر مسلم نہیں حضور انور نے فرمایا کہ عیسائیوں کو قرآن کریم کی یہ آیت بتا ئیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ حق دیا ہے کہ اللہ کا لفظ استعمال کرو.تو پھر وہ آگے خود ہی اس معاملہ کو اٹھائیں.الفضل انٹرنیشنل 18اکتوبر 2013ء)
سبیل الرشاد جلد چہارم 377 ذیلی تنظیموں کے چندوں کا بقایا دار ذیلی تنظیم اور جماعت کا عہد یدار نہیں بن سکتا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 120اکتوبر 2013ء کو نیشنل مجلس خدام الاحمدیہ آسٹریلیا کی میٹنگ کے دوران ہدایت دیتے ہوئے فرمایا ”جو شخص ناصر ہو یا خادم ہو اگر اپنی اپنی ذیلی تنظیم کے چندوں کا بقایا دار ہے تو وہ نہ ذیلی تنظیم کا عہد یدار بن سکتا ہے اور نہ ہی جماعت کا عہد یدار بن سکتا ہے“.الفضل انٹرنیشنل 13 دسمبر 2013ء) انصار کی نمازوں کا ریکارڈ رکھیں 20 اکتوبر 2013 ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ آسٹریلیا کو ہدایات دیتے ہوئے سب سے پہلے قائد عمومی سے حضور انور نے مجالس کی تعداد کے بارہ میں دریافت فرمایا قائد عمومی نے بتایا کہ انصار اللہ کی 14 مجالس ہیں اور سب کی طرف سے با قاعدہ رپورٹس آتی ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ ان کی ساری رپورٹس پڑھ کر، ٹیلی فون پر نہیں بلکہ لکھ کر تبرہ بھجوایا کریں.ہر رپورٹ پر تبصرہ ہونا چاہئے یہ ضروری ہے.قائد مال نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ انصار کی تعداد 411 ہے اور ہمارا کل سالانہ بجٹ 92 ہزار ڈالرز ہے.حضور انور نے فرمایا: بعض انصار تو بہت اچھا کمانے والے ہیں اس لئے آپ کا چندہ اس سے بہت بڑھ سکتا ہے اور دو گنا بھی ہوسکتا ہے.قائد تبلیغ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بیعتوں کے بارہ میں دریافت فرمایا جس پر قائد تبلیغ نے بتایا کہ انصار اللہ نے آٹھ بیعتیں کروائی ہیں.حضور انور نے فرمایا ان سے مستقل رابطہ رکھیں اور ان کی تربیت کر کے باقاعدہ نظام جماعت کا حصہ بنائیں.حضور انور نے فرمایا: اپنا سال کا چھپیں تمہیں بیعتوں کا ٹارگٹ رکھیں اور پھر کوشش کر کے اس ٹارگٹ کو حاصل کریں.آسٹریلیا میں مختلف اقوام آباد ہیں.ان میں تبلیغ کے لئے منصوبہ بندی کریں اور بیعتیں کروا ئیں.آپ کوشش کر کے اس ٹارگٹ سے زیادہ بیعتیں بھی حاصل کر سکتے ہیں.قائد تربیت نے بتایا کہ انہیں ابھی کام سنبھالے نو ، دس ماہ کا عرصہ ہوا ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ
378 سبیل الرشاد جلد چہارم آپ نے اس نو، دس ماہ کے عرصہ میں کیا کام کیا ہے.موصوف نے عرض کیا کہ تمام مجالس کو تربیت کا پروگرام بھجوایا ہے اور ہدایت دی ہے کہ اس پر عمل کریں.حضور انور نے فرمایا: کیا آپ کے پاس یہ ریکارڈ ہے کہ کتنے انصار با قاعدہ نمازیں ادا کرتے ہیں.اس پر موصوف نے عرض کیا کہ 411 انصار میں سے 272 انصار با قاعدہ نمازیں ادا کرتے ہیں.باقی با قاعدہ نہیں ہیں.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ سب کو باقاعدگی سے پانچوں نمازیں ادا کرنی چاہئیں.انصار کی عمر ایسی ہوتی ہے کہ سب کو نمازوں کی ادائیگی میں باقاعدہ ہونا چاہئے.قرآن کریم کی تلاوت کی طرف توجہ ہونی چاہئے اور روزانہ تلاوت ہونی چاہئے.MTA پر خطبات سننے کی طرف توجہ ہونی چاہئے.حضورانور نے فرمایا کہ انصار کو تبلیغ کا پروگرام بنا کر دیں اور ان کولٹر بچر دیں اور ان کو باہر نکا لیں.یہ اپنے رابطے کریں.تعلقات بنائیں اور تبلیغ کریں اب احساس کمتری سے باہر نکلیں اور کام کریں.حضور انور نے فرمایا: آپ کہتے ہیں کہ 40 ہزار لیف لیٹس انصار نے تقسیم کیا ہے.اس میں سے 20 ہزار تو ایک آدمی نے کر دیا ہے باقی سب نے مل کر بیس ہزار کیا ہے.حضور انور نے فرمایا: مجلس انصار الله یو کے نے کتاب Life of Muhammad پچاس ہزار کی تعداد میں تقسیم کی ہے اور اسی طرح کتاب World Crisis and the Pathway to Peace چالیس ہزار کی تعداد میں تقسیم کی ہے.انہوں نے یہ کتاب بڑی تعداد میں شائع کروائی ہے اور پھر با قاعدہ منصوبہ بندی کر کے اسے تقسیم کیا ہے.حضور انور نے فرمایا انصار اللہ کے نام سے چیریٹی واک ہونی چاہئے.اسی طرح یہاں پودے لگانے کا شوق ہے.حکومت کے متعلقہ محکمہ سے، انتظامیہ سے با قاعدہ بات کر کے پھر درخت لگائیں، پودے لگائیں اور اسی طرح دوسرے خدمت خلق کے کام کریں.جب پریس اور میڈیا کے ذریعہ آپ کے انسانی خدمت کے اور فلاح و بہبود کے کام سامنے آئیں گے تو اسلام کا ایک اچھا اور خوبصورت چہرہ ان لوگوں کے سامنے آئے گا اور ان کو اسلام پر دوسرے انتہاء پسندوں کے رویہ کی وجہ سے جو اعتراضات ہیں وہ دور ہوں گے.اس لئے جب آپ مختلف چیریٹی آرگنا ئز یشنز کو رقوم کے چیک پیش کریں تو باقاعدہ ایک تقریب کر کے دیں اور میڈیا والوں کو بھی بلائیں اور دوسری لوکل انتظامیہ بھی ہو.یہ ایسا اس لئے نہیں ہے کہ ہم کوئی احسان کر رہے ہیں.بلکہ صرف اس لئے ہے کہ اسلام کی جو بھیانک تصویر بنی ہوئی ہے اور جو خصوصاً میڈیا نے بنائی ہوئی ہے وہ ختم ہوتی ہے.یہ کوئی دکھاوا نہیں ہے.بلکہ نیک نیتی سے اسلام کا حسین چہرہ غیروں کے سامنے پیش کرنا ہے.حضور انور نے فرمایا چیریٹی واک سے اور ڈونیشن سے آپ جور قوم اکٹھی کریں اس میں سے 30 فیصد
سبیل الرشاد جلد چہارم 379 ہیومینیٹی فرسٹ کو دیں اور 70 فیصد لوکل چیریٹیز کو دیں.اس سے آپ کا تعارف بڑھے گا اور تبلیغ کا ذریعہ بنے گا اور اسلام کی غلط تصویر کا تصور زائل ہوگا.حضور انور نے فرمایا: آپ سب انصار کو توجہ دلائیں کہ اپنے گھروں میں اپنے بچوں کی نگرانی کریں کہ نمازیں پڑھ رہے ہیں.قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں.مسجد میں ان کو اپنے ساتھ لائیں تا کہ ان کو مسجد آنے کی عادت پڑے.ان کو دین کا علم سکھائیں اور ان کی تربیت کریں.قائد تعلیم القرآن و وقف عارضی کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا وقف عارضی کی سکیم بنائیں.سال میں دو تین دفعہ وقف عارضی کریں.انصار وقف عارضی کے دوران بچوں کی کلاسیں لیں اور ان کو قرآن کریم پڑھائیں اور دینی معلومات پڑھائیں.اسلام کی بنیادی باتیں بتائیں.حضور انور نے فرمایا: اس بارہ میں آپ کو مسلسل کوشش کرنا پڑے گی.بار بار کی یاددہانی اور Follow Up کرنا پڑے گا.حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں یہ رپورٹ پیش کی گئی کہ یہاں آسٹریلیا میں چائنیز کی بڑی تعداد ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا : ہمارے پاس چائنیز لٹریچر موجود ہے.کتاب Pathway to Peace کا بھی چائنیز زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے.چائینیز لٹریچر لندن سے منگوائیں، سنگا پور سے بھی جائزہ لے لیں.ان کے پاس بھی چائنیز لٹریچر موجود ہے اور چائنیز کو دیں.جو عرب لوگ ہیں ان کو عربی میں لٹریچر دیں.جو دوسری قومیں ہیں ان کو ان کی زبانوں میں دیں.حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ بعض کتابوں کی قیمتیں آپ نے زیادہ رکھی ہوئی ہیں.مثلا کتاب Pathway to Peace آپ پانچ ڈالر میں دے رہے ہیں.یہ دو ڈالر میں دیں.اصل چیز پیغام پہنچانا ہے.پیسے کمانا نہیں ہے.نائب صدر صف دوم نے حضور انور کے استفسار پر بتایا کہ انصار کی سائیکلنگ تو کم ہوتی ہے لیکن دوسری کھیلیں ہوتی ہیں.حضور انور نے فرمایا: بوڑھے اپنے آپ کو بوڑھا نہ سمجھیں ، 40 سال کے بعد ضروری نہیں کہ آپ بوڑھے ہو جائیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا تھا کہ ایک خادم چالیس سال تک خدام میں بڑی مستعدی سے کام کرتا ہے تو پھر پتہ نہیں کہ انصار میں آکرست کیوں ہو جاتا ہے تو اس بارہ میں آپ سوچیں اور اپنا جائزہ لیں.الفضل انٹر نیشنل 13 دسمبر 2013ء)
سبیل الرشاد جلد چہارم 380 قرآن کریم جاننے والے انصار، وقف عارضی کے دوران بچوں اور نو جوانوں کی کلاسز لیں مورخہ 3 نومبر 2013ء کو اراکین مجلس عاملہ انصار اللہ نیوزی لینڈ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.مجلس عاملہ کی میٹنگ میں قائد عمومی سے مجالس کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا.قائد عمومی کو مجالس کے سمجھنے میں مشکل پیش آئی.اس پر حضور انور نے فرمایا آپ اپنا انصار اللہ کا کانسٹیٹیوشن پڑھیں تا کہ آپ کو علم ہو کہ مجالس کیا ہوتی ہیں اور مجالس سے کیا مراد ہے.حضورانور نے فرمایا: مجلس انصار اللہ عاملہ کے تمام ممبران کو اپنا کانسٹیٹیوشن پڑھنا چاہئے.ہر ایک کو پتہ ہونا چاہئے کہ اس کے شعبہ کے کیا کیا کام ہیں.پھر اس کے مطابق ہر قائد اپنا پر گرام اور لائحہ عمل بنائے.قائد تعلیم نے حضور انور کے دریافت فرمانے پر بتایا کہ ہم نے اپنے سلیبس میں، انصار کے مطالعہ اور امتحان کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ”نشان آسمانی مقرر کی ہوئی ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا کیا مجلس عاملہ انصار اللہ کے تمام ممبران نے پڑھ لی ہے اور کیا دوسرے سب انصار نے پڑھ لی ہے.آپ کے تو گل 72 انصار ہیں.باقاعدہ جائزہ لیا کریں اور Follow Up کیا کریں کہ کس کس نے مطالعہ کر لیا ہے.جس نے نہیں کیا اس کو توجہ دلائیں.قائد مال نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مجلس انصاراللہ کے ممبران میں سے کمانے والے انصار کی تعداد 27 ہے.جو نہیں کماتے ان میں سے بھی بعض حسب توفیق ادا کر دیتے ہیں اور بعض ادا نہیں کرتے.اس پر حضور انور نے فرمایا بس توجہ دلا دیا کریں.قائد تربیت نو مبائکین نے بتایا کہ اس وقت ایک نو مبائع ناصر زیر تربیت ہے.قائد تربیت نے نومبائع کی مدت کے بارہ میں دریافت فرمایا کہ کتنا عرصہ ایک شخص نو مبائع رہتا ہے.اس پر حضور انور نے فرمایا: تین سال تک رہتا ہے اس کے بعد اسے جماعت کے نظام کا باقاعدہ حصہ بننا چاہئے پھر وہ نو مبائع نہیں رہے گا.قائد ایثار کو حضور انور نے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ با قاعدہ پروگرام بنا کر انصار ہسپتال کا وزٹ کیا کریں اور Old People's Home بھی جایا کریں مریضوں اور بوڑھے لوگوں سے ملیں.ان کا حال پوچھیں اور رابطہ اور تعلق پیدا کریں.جاتے ہوئے کوئی پھل، پھول وغیرہ ساتھ لے جائیں اس طرح دوستی بنا ئیں اور پھر آہستہ آہستہ یہ بات جماعت کے تعارف اور پیغام پہنچانے کا موجب بنے گی.
381 سبیل الرشاد جلد چہارم قائد تعلیم القرآن و وقف عارضی کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ پہلے اپنا کانسٹیٹیوشن پڑھیں.72 لوگوں کو قرآن کریم پڑھنا آنا چاہئے.اس کا جائزہ لیں اور پھر جن کو قرآن کریم پڑھنا نہیں آتا اُن کو قرآن کریم پڑھانے کا انتظام کریں.دوسرے یہ کہ ایسا پروگرام بنائیں کہ انصار وقف عارضی کریں.جن انصار کو قرآن کریم پڑھنا آتا ہے وہ وقف عارضی کے دوران اور ویسے بھی بچوں اور نوجوانوں کی کلاسز لیں اور ان کو قرآن کریم پڑھائیں.اس طرح ان کے ذمہ یہ کام بھی لگائیں کہ وہ مختلف مقامات میں جا کر لٹریچر تقسیم کریں اور تبلیغ کریں اور رابطے کریں اور اپنے تعلقات بنا ئیں.قائد تبلیغ نے بتایا کہ گزشتہ تین سال میں ہماری بیعتیں دس بارہ کے قریب ہیں.اس پر حضور انور نے فرمایا کہ تبلیغ کا اچھا پروگرام بنائیں.اپنے پرانے ٹیکسالی طرز کے پروگراموں کو چھوڑمیں اور تبلیغ کے لئے نئے راستے تلاش کریں.جو چھوٹے ٹاؤن ہیں اور دیہات ہیں وہاں جائیں، رابطے کریں، تعلقات بنائیں، پمفلٹس تقسیم کریں.اس طرح سکیم بنا کر کام کریں.قائد وقف جدید کوحضور انور نے فرمایا کہ انصار بھی چندہ وقف جدید کے لئے اپنا ٹارگٹ رکھیں اور پھر اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.آڈیٹر کو حضور انور نے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ حسابات دیکھیں اور اکاؤنٹس چیک کیا کریں.قائد اشاعت سے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا آپ کوئی رسالہ نکالتے ہیں جس پر موصوف نے بتایا کہ ہم رسالہ انصارالدین شائع کرتے ہیں.حضور انور نے فرمایا سب انصار کو دیا کریں تا کہ وہ اسے پڑھیں.حضور انور نے فرمایا یہ بھی بتائیں کہ کتنے ہیں جو MTA دیکھتے ہیں.کتنے ہیں جو میرے خطبات اور خطابات سنتے ہیں.معین کر کے Facts & Figures کے ساتھ جواب دیں.ہر انصار کو MTA دیکھنا چاہئے اور خطبات سننے چاہئیں.اس کا باقاعدہ جائزہ لیں اور جو کمزور ہیں ان کو توجہ دلائیں.قائد تحریک جدید نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ 72 میں سے 63 ممبران نے تحریک جدید کا چندہ دیا ہے.ہما را چندہ کا ٹارگٹ 4300 ڈالرز تھا.اس میں سے 98 فیصد ہم نے وصول کر لیا ہے اور باقی بھی جلد وصول کر لیں گے.حضور انور نے نائب صدر انصار صف دوم کوفر مایا کو انصار کا پیشل پروگرام ہونا چاہئے.سائیکلنگ ہو، میراتھن واک ہو، دوسری روزمرہ کی سیر ہو.
سبیل الرشاد جلد چہارم 382 حضور انور نے فرمایا قائد صحت جسمانی بھی واک آرگنائز کر سکتے ہیں اور نا ئب صد رصف دوم اس میں مدد کر سکتا ہے.چیریٹی واک ہوتی ہے اس میں انصار حصہ لے سکتے ہیں.الفضل انٹر نیشنل 3 جنوری 2014ء) انصار اللہ کی تنظیم لائبریری میں قرآن کریم رکھوائے 11 نومبر 2013 ء کو نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمد یہ جاپان کی میٹنگ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ منعقد ہوئی.اس دوران حضور نے زعیم انصار اللہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: زعیم انصار اللہ نے اس موقع پر عرض کیا کہ ہم نے پانچ قرآن کریم جاپان کی مختلف لائبریریوں میں رکھے ہیں.حضورانو نے فرمایا: خدمت خلق کے کاموں کے ذریعہ اخبارات اور میڈیا، پریس میں جو پروجیکشن ہوتی ہے اس سے جماعت کا تعارف بڑھتا ہے اور آجکل کے حالات میں یہ پروجیکشن ضروری ہے تا کہ اسلام کا حسین چہرہ لوگوں کے سامنے آئے اور اسلام کی ایک منفی تصویر جو ان کے دولوں میں ہے وہ ختم ہو.الفضل انٹر نیشنل 7 فروری 2014ء)
383 $2014 کے ارشادات و فرمودات سبیل الرشاد جلد چہارم باب دوازدہم
سبیل الرشاد جلد چهارم 384 عہد یداروں میں ایک اہم خلق شفقت اور ہمدردی ہونا چاہئے افراد جماعت کی عملی اصلاح کے لئے ذیلی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے • جماعتی وذیلی تنظیموں کے عہد یداران ، خلیفہ وقت کی باتوں کو ہمیشہ سامنے رکھیں تا افراد جماعت کی عملی اصلاح میں اپنا کردار بھر پور طور پر ادا ہو عہد یدار دلوں میں خلافت کے بارے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات دور کرے تمام عہدیداران پہلے اپنے جائزے لیں نیشنل عہدیداران اپنے خولوں سے باہر کر آئیں اور اپنے آپ کو افسر نہ سمجھیں
سبیل الرشاد جلد چهارم 385 عہد یداروں میں ایک اہم خلق شفقت اور ہمدردی ہونا چاہئے لجنہ اماءاللہ برطانیہ نے 18-19 جنوری 2014ء کو عہد یداران کا دوروزہ ریفریشر کورس منعقد کیا جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے شرکت فرما کر عہد یدارن کو نصائح فرمائیں: حضور نے فرمایا: ایک اور اہم خلق جو تمام جماعتی عہدیداروں میں ہونا چاہئے وہ شفقت اور ہمدردی ہے.جماعتی عہد یدار ہونے کی حیثیت سے آپ کو اپنے ماتحتوں اور جماعت کے دوسرے افراد کے ساتھ محبت، نرمی اور رحم دلی کے ساتھ پیش آنا چاہئے.آپ کے دلی محبت اور شفقت کے جذبات دوسروں کو آپ کے اور بھی قریب کر دیں گے اور اس سے جماعتی کاموں کی طرف بھی کشش پیدا ہوگی اور اس طرح ان کا جماعت سے تعلق بھی الفضل انٹر نیشنل 25 اپریل 2014ء) مضبوط ہوگا." افراد جماعت کی عملی اصلاح کے لئے ذیلی تنظیموں کو اپنا کر دار ادا کرنا چاہئے عملی اصلاح پر خطبات کا جو سلسلہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے شروع فرمایا ان میں سے 10 جنوری 2014ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا " گزشتہ دو جمعوں سے پہلے میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے خطبات کی روشنی میں چند خطبے عملی اصلاح کے بارے میں دیئے تھے اور بعض اسباب بیان کئے تھے جو عملی اصلاح میں روک کا باعث بنتے ہیں اور یہ بھی ذکر ہوگیا تھا کہ اگر ہم نے من حیث الجماعت اپنی عملی اصلاح کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں تو ان روکوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے.اور یہ بات بھی واضح کر دی گئی تھی کہ عمل کے متعلق ہماری روکیں عقائد کی روکوں سے زیادہ سخت ہیں.اس حوالے سے آج میں مزید کچھ کہوں گا.حضرت مسیح موعود کی بعثت کا مقصد بندے کا خدا سے تعلق جوڑنا اور اعمال کی اصلاح ہے ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مشن اور بعثت کا مقصد صرف عقائد کی اصلاح کرنا نہیں تھا.آپ نے واضح فرمایا ہے کہ بندے کا خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنا اور اعمال کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے اس چیز کے لئے آپ تشریف لائے ہیں.بندے کا ایک دوسرے کے حق ادا کرنا بھی ایک
386 سبیل الرشاد جلد چہارم مقصد ہے اور یہ سب باتیں اعمال پر منحصر ہیں.نیک اعمال بجالا کر خدا تعالیٰ کا بھی حق ادا ہوتا ہے اور بندوں کا بھی حق ادا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا تھا، پہلے بھی میں کئی دفعہ یہ چیزیں بیان کر چکا ہوں.فرمایا کہ "یاد رکھو کہ صرف لفاظی اور لسانی کام نہیں آ سکتی جب تک کہ عمل نہ ہو." ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 48.ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 249.ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) پھر ایک موقع پر فرمایا: " اپنے ایمانوں کو وزن کرو.عمل ایمان کا زیور ہے.اگر انسان کی عملی حالت درست نہیں ہے تو ایمان بھی نہیں ہے." پس اگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن میں کارآمد ہونا ہے.آپ کے مقصد کو پورا کرنے والا بنا ہے تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم میں سے ہر ایک اپنی عملی اصلاح کی روکوں کو ڈور کرنے کی بھر پور کوشش کرے.کیونکہ یہ عملی اصلاح ہی دوسروں کی توجہ ہماری طرف پھیرے گی اور نیچے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کی تکمیل میں ممد و معاون بن سکیں گے.پس ہمیں سوچنا چاہئے کہ اس کے حصول کے لئے ہم نے کیا کرنا ہے؟ کیونکہ ہمارے غالب آنے کا ایک بہت بڑا ہتھیار عملی اصلاح بھی ہے.ہماری اپنی اصلاح سے ہی ہمارے اندر وہ قوت پیدا ہوگی جس سے دوسروں کی اصلاح ہم کر سکیں گے.ہمارے غالب آنے کا مقصد کسی کو ماتحت کرنا اور دنیاوی مقاصد حاصل کرنا تو نہیں ہے.بلکہ دنیا کے دل اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لاکر ڈالنا ہے.لیکن اگر ہمارے اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ہے تو دنیا کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہماری باتیں سنے.پس ہمیں اپنی عملی قوتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور پھر مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم رہنے کی ضرورت ہے.خود دوسروں سے مرعوب ہونے کی بجائے دنیا کو مرعوب کرنے کی ضرورت ہے آجکل جبکہ دنیا میں لوگ دنیا داری اور مادیت سے مرعوب ہو رہے ہیں ہمیں پہلے سے بڑھ کر اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.اور یہ نظریں رکھتے ہوئے اپنے آپ کو دنیا کے رعب سے نکالنے کی ضرورت ہے.اور دنیا کو بھی ان شیطانی حالتوں سے نکالنے کی ضرورت ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے ہم بن سکیں اور دنیا کی اکثر آبادی بن سکے.لیکن اس کے راستے میں بہت سی روکیں ہیں.اس کے لئے ہم نے اپنے اندر ایسی طاقت پیدا کرنی ہے کہ ان روکوں کو دُور کر سکیں.ہمیں دنیا کے مقابلے کے لئے بعض قواعد تجویز کرنے ہوں گے جو ہم میں سے ہر ایک اپنے اوپر لاگو کرے اور پھر اُس کی پابندی کرے.اس کے لئے ہمیں اپنے نفسوں کی قربانی دینی ہوگی اور ایک ماحول پیدا کرنا ہوگا.جب تک ہمیں یہ حاصل نہیں ہوتا ، ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.دنیا کی سمٹ جانے سے الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ بڑائی گھر گھر پہنچ گئی ہے جیسا کہ میں گزشتہ ایک خطبہ میں بتا چکا ہوں.آجکل دنیا سمٹ کر قریب تر ہوگئی ہے.گویا ایک شہر بن
387 سبیل الرشاد جلد چهارم گئی ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے ایک محلہ بن گئی ہے.ہزاروں میل دور کی برائی بھی ہر گھر میں الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ پہنچ گئی ہے اور ہر ملک کی جو خواہ ہزاروں میل دور ہے، اچھائی بھی ہر گھر تک پہنچ گئی ہے.مجموعی لحاظ سے ہم دیکھیں تو برائی کے پھیلنے کی شرح اچھائی کے پھیلنے کی نسبت بہت زیادہ تیز ہے.پھر جیسا کہ میں پہلے بھی کئی موقعوں پر ذکر کر چکا ہوں اچھائی اور برائی کا معیار بدل گیا ہے.ایک چیز جو اسلامی معاشرے میں برائی ہے، دنیا دار معاشرے میں جواب تقریباً لا مذہب معاشرہ ہے، اس میں وہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو ہم بُرائی سمجھتے ہیں.یہ ان کے نزدیک بہت معمولی سی چیز ہے بلکہ اچھائی سمجھی جانے لگی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مثال دی ہے کہ مغربی معاشرے میں ناچ کا رواج ہے.یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں تو اتنا عام نہیں تھا یا کم از کم اس کے لئے خاص جگہوں پر جانا پڑتا تھا.آجکل تو ٹی وی اور انٹرنیٹ نے ہر جگہ یہ پہنچا دیا ہے اور بعض گھروں میں ہی تفریح کے نام پر ناچ کے اڈے بن گئے ہیں.اور بعض گھریلو فنکشنز پر بھی یہ ناچ وغیرہ ہوتے ہیں.خاص طور پر شادیوں کے موقع پر تفریح اور خوشی کے نام پر بیہودہ ناچ کئے جاتے ہیں.ایک احمدی گھر کو اس سے بالکل پاک ہونا چاہئے.اس پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے.بہر حال میں حضرت مصلح موعود کے حوالے سے بات کر رہا تھا کہ آپ نے فرمایا کہ اب مغربی ملکوں میں ناچ کا رواج ہے مگر پہلے اسے لوگ برا سمجھتے تھے.اب آہستہ آہستہ اسے لوگوں نے اختیار کرنا شروع کر دیا.پہلے عورت مرد ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر نا چھتے تھے.پھر ایک دوسرے کے قریب منہ کر کے ناچنے لگے اور پھر یہ فاصلے کم ہونے لگے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 432 خطبه فرمودہ 3 جولائی 1936 مطبوعہ ربوہ ) جیسا کہ میں نے کہا کہ اب تو ناچ کے نام پر بیہودگی کی کوئی حد نہیں رہی.ننگے لباسوں میں ٹی وی پر ناچ کئے جاتے ہیں.یہ کیوں پھیلا ؟ صرف اس لئے کہ برائی پھیلانے والے باوجود دنیا کے شور مچانے کے کہ یہ برائی ہے، برائی پھیلانے پر استقلال سے قائم رہے اور دنیا کی باتوں کی کوئی پروا نہیں کی.آخر ایک وقت میں یہ کامیاب ہو گئے.اب تو پاکستان جو مسلمان ملک ہے اُس کے ٹی وی پر بھی تفریح کے نام پر ، آزادی کے نام پر بیہودگیاں نظر آتی ہیں، نگ نظر آتا ہے.گویا برائی اپنے استقلال کی وجہ سے دنیا کے ذہنوں پر حاوی ہو گئی ہے.پس اس کے مقابلے پر آنے کے لئے بہت بڑی منصوبہ بندی اور قربانی کی ضرورت ہے.اگر یہ نہ ہوئی تو پھر ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.پس بہت سوچنے اور غور کرنے اور محنت کرنے کی ضرورت ہے.اُن چیزوں کو اپنانے کی ضرورت ہے جن کو اپنا کر ہم یہ روکیں دُور کر سکتے ہیں.جن کو استعمال میں لا کر ہمارے اندر یہ روکیں دور کرنے کی طاقت پیدا ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے ہم برائیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں.اس کے حصول کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے عمدہ رنگ میں وضاحت فرمائی ہے کہ اگر عملی اصلاح کے لئے یہ باتیں انسان میں
سبیل الرشاد جلد چهارم 388 پیدا ہو جا ئیں تو تبھی کامیابی مل سکتی ہے اور یہ تین چیزیں ہیں.نمبر ایک قوت ارادی.نمبر دو صحیح اور پور اعلم.اور نمبر تین قوت عملی.لیکن اصل بنیادی قو تیں دو ہیں.قوت ارادی اور قوت عملی.جو چیز ان دونوں کے درمیان میں رکھی گئی ہے یعنی صحیح اور پور اعلم ہونا، یہ دونوں بنیادی قوتوں پر اثر ڈالتی ہے.علم کا صحیح ہونا قوت عملی پر بھی اثر ڈالتا ہے اور قوت ارادی پر بھی اثر ڈالتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 440 خطبه فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوعہ ربوہ ) بہر حال پہلے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ قوت ارادی اور قوت عملی ہی دو بنیادی چیزیں ہیں جو عملی اصلاح پر اثر انداز ہوتی ہیں.اس کے لئے ہمیں قوت ارادی کو زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے.اور قوتِ عملی کے نقص کو دور کرنے کی ضرورت ہے.ہمارا ارادہ اگر کسی برائی کو روکنے کا مضبوط ہوتو تبھی وہ برائیاں رک سکتی ہیں اور ارادے کی مضبوطی اُس وقت کام آئے گی جب عمل کرنے کی جو قوت ہے، ہمارے اندر جو طاقت ہے، اُس کی جو کمزوری ہے اُس کو دُور کریں ، اُس کے نقص کو دور کریں.اس کے بغیر اصلاح نہیں ہوسکتی.اس پہلو سے جب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ ہماری قوت ارادی کیسی ہے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جہاں تک ارادے کا تعلق ہے اس میں بہت کم نقص ہے کیونکہ ارادے کے طور پر جماعت کے تمام یا اکثر افراد ہی تقریباً یہ چاہتے ہیں کہ ان میں تقویٰ اور طہارت پیدا ہو.وہ اسلامی احکام کی اشاعت کر سکیں.اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کا قرب حاصل کر سکیں.حضرت مصلح موعود نے اس کی وضاحت یوں فرمائی ہے کہ یہ باتیں ثابت کرتی ہیں کہ ہماری قوت ارادی تو مضبوط ہے اور طاقتور ہے پھر بھی نتائج سی نہیں نکلتے تو پھر یقینا دو باتوں میں سے ایک بات ہے.یا تو یہ کہ عمل کے لئے حقیقی قوت ارادی جو چاہئے ، اتنی ہمارے اندر نہیں ہے لیکن عقیدے کی اصلاح کے لئے جتنی قوت ارادی کی ضرورت تھی وہ ہم میں موجود تھی.اس لئے عقیدے کی تو اصلاح ہوگئی لیکن عملی اصلاح کے لئے چونکہ قوت ارادی کی ضرورت تھی، وہ ہم میں موجود نہیں تھی ، اس لئے ہم اعمال کی اصلاح میں کامیاب نہیں ہو سکے.اور پھر یہ بھی مانا پڑے گا کہ ہماری عبودیت میں بھی کچھ نقص ہے.خدا تعالیٰ کی یہ بندگی جس کا ہم دعوی کرتے ہیں اُس میں بھی کچھ نقص ہے اور اس وجہ سے قوت عملی مفلوج ہو گئی ہے اور قوت ارادی کے اثر کو قبول نہیں کر رہی.یعنی ہماری عمل کی قوت مفلوج ہوگئی ہے اور قوت ارادی کا اثر قبول نہیں کر رہی.یا ان باتوں کو قبول کرنے کے لئے جن معاونوں کی یا جن مددگاروں کی ضرورت ہے اُن میں کمزوری ہے.اس صورت میں ہم جب تک قوت متاثرہ یا عملی قوت کا یا اثر لے کر کسی کام کو کرنے والی قوت کا علاج نہ کر لیں کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.مثلاً ایک طالبعلم ہے، وہ اپنا سبق یاد کرتا ہے مگر یاد نہیں رکھ سکتا.اُس کا جب تک ذہن درست نہیں کر لیا جاتا اُس وقت تک اُسے خواہ کتنا سبق دیا جائے ، کتنی ہی بارا سے یاد کروایا جائے یا بیاد کرانے کی کوشش کی جائے ، وہ اُسے یاد نہیں رکھ سکے گا.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 436, 435 خطبه فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوعہ ربوہ )
سبیل الرشاد جلد چهارم 389 عملی اصلاح کے طریق بہرحال عملی طریق بھی جو ہے وہ پریشان کر دیتا ہے اور اگر اُس صحیح طریق کو اپنایا نہ جائے تو کامیابی نہیں ملتی.پس جو عملی طریق کسی کام کرنے کے لئے تجویز ہوا ہے، دماغ کو بھی اُس کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے، اس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں.پس ہمیں اپنی عملی اصلاح کی حالتوں کے لئے بھی اس طرف دیکھنا ہوگا.ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری نیکی کے ارادے دماغ کے اس حصے پر کیوں اثر نہیں کرتے جس پر اثر ہونے کے نتیجہ میں عملی اصلاح شروع ہو جاتی ہے.ہمیں ان روکوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اس رستے میں حائل ہوتی ہیں.پھر دیکھنا ہوگا کہ ہمارے عبودیت کے معیار کیا ہیں؟ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہماری عملی کوشش میں نیک نیتی اور اخلاص و وفا کتنا ہے.پس دو قسم کی روکیں ہیں جو عملی اصلاح کے راستے میں حائل ہوتی ہیں.ایک قوت ارادی میں کمزوری اور دوسری قوت عملی میں کمزوری.لیکن جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے ان کے درمیان میں ایک اور صورت بھی عملی اصلاح میں کمی کی ہے اور وہ ہے علمی طور پر کمزوری.یہ دونوں طرف اپنا اثر ڈالتی ہے.ہم عملی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ ارادہ بھی علم کے مطابق چلتا ہے اور عمل بھی علم کے مطابق چلتا ہے.اس کی مثال یوں ہے کہ اگر کسی انسان کو یہ معلوم نہ ہو کہ ایک ہزار کا لشکر اس کے مکان پر حملہ آور ہونے والا ہے بلکہ صرف اس قدر جانتا ہو کہ کسی نے حملہ کرنا ہے اور ہو سکتا ہے ایک دو آدمی ہوں تو اُس کے لئے وہ تیاری کرتا ہے.لیکن اگر اُسے یہ علم ہو کہ حملہ آور ایک ہزار ہیں تو پھر اُس کی تیاری اُس سے مختلف ہوتی ہے.پس علم کی کمی کی وجہ سے نقص پیدا ہو جاتا ہے اور علم کی صحت قوت ارادی کو بڑھا دیتی ہے.اسی طرح بعض دفعہ انسان کسی چیز کو اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور اُسے ہلکی سمجھتا ہے لیکن وہ بھاری ہوتی ہے، اُٹھا نہیں سکتا.لیکن جب ایک دفعہ اندازہ ہو جائے کہ یہ بھاری ہے تو پھر زیادہ قوت صرف کرتا ہے، زیادہ طاقت لگاتا ہے، اُٹھانے کا طریق بدل لیتا ہے تو پھر اُس کو اُٹھا بھی لیتا ہے.پس کوئی زائد طاقت اُس میں دوسری دفعہ نہیں آئی بلکہ صحیح علم ہونے کی وجہ سے اور صحیح طریق پر طاقت کا استعمال اُس نے کیا تو اس میں کامیاب ہو گیا.پس اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی صلاحیت تو موجود ہے.جب اُس صلاحیت اور طاقت کا استعمال صحیح ہو تو آسانی سے کام ہو جاتا ہے یا بہتر رنگ میں کام ہو جاتا ہے اور یہ علم کی وجہ سے ہوتا ہے.اگر صلاحیت کا صحیح استعمال نہ ہو تو عام معاملات میں بھی نقصان پہنچ جاتا ہے.پس یہاں اسی اصول کو عملی صلاحیت کے استعمال اور عملی کمزوری کو دور کرنے کے لئے لگانے کی ضرورت ہے.اور اس کے لئے اپنے علم کو وسیع کرنے کی.ضرورت ہے تا کہ اُس کے مطابق صحیح طاقت کا استعمال کر کے اپنی کمزوریوں پر غالب آیا جا سکے.
سبیل الرشاد جلد چہارم قوت موازنہ کی اہمیت 390 حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بات یہ بھی بیان فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک انسان میں ایک قوت مواز نہ رکھی ہے جس سے وہ دو چیزوں کے درمیان مواز نہ کر سکتا ہے.جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ فلاں کام کرنے کے لئے اتنی طاقت درکار ہے.اور کیونکہ ساری طاقت انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ دماغ میں محفوظ ہوتی ہے.اس لئے پہلی دفعہ جب ایک کام نہ ہو، جیسے وزن اُٹھانے کی مثال دی گئی ہے، وزن نہ اُٹھایا جا سکے تو پھر انسان دماغ کو مزید طاقت بھیجنے کے لئے کہتا ہے اور اس طاقت کے آنے پر چیز اُٹھانے میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے.اور یہ قوت موازنہ بھی علم کے ذریعہ آتی ہے.خواہ اندرونی علم ہو یا بیرونی علم ہو.اندرونی علم سے مراد مشاہدہ اور تجربہ ہے اور بیرونی علم سے مراد باہر کی آوازیں ہیں جو کان میں پڑتی ہیں.جیسے باہر کے کسی حملے کی مثال دی گئی تھی.باہر کے حملے سے ہوشیار کرنے کے لئے باہر کی آواز میں انسان کو ہوشیار کرتی ہیں.لیکن یہ جو وزن اُٹھانے کی مثال دی گئی تھی، اس کے لئے قوت موازنہ نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ پہلے یہ وزن نہیں اُٹھایا گیا تو اس لئے کہ تم اسے کم وزن سمجھتے تھے،اگر مثلاً دس کلو تھا تو پانچ کلو مجھتے تھے اور تھوڑی طاقت لگائی تھی.اب اسے اُٹھانے کے لئے دس کلو کی طاقت لگاؤ تو اُٹھا لو گے.اس اصول کو اگر سامنے رکھا جائے تو جب انسان اس لائحہ عمل کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو قوت موازنہ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ مجھے اپنی جد و جہد کے لئے کس قدر طاقت کی ضرورت ہے.بعض دفعہ صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے انسان اعمال کی اصلاح نہیں کر سکتا.اور قوت موازنہ عدم علم کی وجہ سے اُسے صحیح خبر نہیں دیتی کہ اس کی عملی اصلاح کے لئے کس قدر طاقت کی ضرورت ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 438, 437 خطبه فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوعہ ربوہ ) پس قوت موازنہ انسان کو ہوشیار کرتی ہے اور یہی ہے جو عدم علم کی وجہ سے اُسے غافل بھی کرتی ہے.قوت مواز نہ بھی تبھی ہوگی جب کسی چیز کا علم ہو جائے.اگر علم ہوگا تو ہوشیار کرے گی کہ اس کو اس طرح استعمال کرو.علم نہیں ہوگا تو انسان وہ کام نہیں کر سکتا.اور پھر اسی عدم علم کی وجہ سے یا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے انسان سے گناہ سرزد ہوتے ہیں.چنانچہ ایک بچہ جب ایسے لوگوں میں پرورش پاتا ہے جو گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں یا مستقل ہی مرتکب رہتے ہیں، ہر وقت اُن کی مجلسوں میں یہ ذکر رہتا ہے کہ جھوٹ کے بغیر تو دنیا میں گزارہ نہیں ہوسکتا تو بچے کے ذہن میں یہ خیال آ جاتا ہے کہ اس زمانے میں جھوٹ کے بغیر کامیابی حاصل ہو ہی نہیں سکتی.اسائیلم سیکر زلمبی اور جھوٹی کہانی نہ بنائیں یہاں میں اس بات کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں جو اسائلم لینے والے آتے ہیں، وہ پتا نہیں
سبیل الرشاد جلد چہارم 391 کیوں، اکثریت کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہو گئی ہے کہ لمبی کہانی بنائے بغیر اور جھوٹی کہانی بنائے بغیر ہمارے کیس پاس نہیں ہوں گے.حالانکہ کئی مرتبہ میں کہہ چکا ہوں کہ اگر مختصر اور صحیح بات کی جائے تو کیس جلدی پاس ہو جاتے ہیں.ایسی کئی مثالیں میرے سامنے ہیں.کئی لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ انہوں نے سچی اور مختصری بات کی ہے اور چند دنوں میں کیس پاس ہو گیا.اس کے لئے تو یہی کافی ہے کہ دماغی ٹارچر اب اُن سے برداشت نہیں ہوتا.جہاں ہر وقت اپنا بھی دھڑ کا ہے اور اپنے بچوں کا بھی دھڑ کا ہے.بہت ساری پریشانیاں ہیں.سکول نہیں جاسکتے ، سکولوں میں تنگ کئے جاتے ہیں تو اس طرح کی بہت ساری چیزیں ہیں.اسی بات پر اکثریت جو کیس ہیں وہ پاس ہو جاتے ہیں.پس سچائی پر قائم رہنا چاہئے اور پھر خدا تعالیٰ پر توکل بھی کرنا چاہئے.یہ جھوٹی کہانیاں جب بچوں کے سامنے ذکر ہوں کہ ہم نے حج کو یہ کہانی سنائی اور وہ سنائی تو پھر بچے بھی یہی سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بولنے میں کوئی گناہ نہیں ہے.اگر جھوٹ نہ بولتے تو شاید ہمارا کیس پاس نہ ہوتا یا ہمیں فائدہ نہ پہنچ سکتا.یہ تصور پیدا ہو جاتا ہے کہ جھوٹ ہی ہے جو تمام ترقیات کی چابی ہے.یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ آجکل بھلا کون ہے جو سچ بولتا ہے.تو یہ سب باتیں بچوں کے ذہنوں میں اپنے بڑوں کی باتیں سن کر پیدا ہوتی ہیں.اور پھر اُن کا علم یہیں محدود ہو جاتا ہے کہ جھوٹ بولنا ایسی بُری بات نہیں ہے.اور نتیجہ کیا ہوگا پھر ؟ نتیجہ ظاہر ہے کہ بڑے ہو کر جہاں جہاں بھی ایسے بچے کو جھوٹ بولنے کا موقع ملے گا وہ اپنی قوت موازنہ سے فیصلہ چاہے گا تو قوت موازنہ اُسے فوراً یہ فیصلہ دے دے گی کہ خطرہ زیادہ ہے، جھوٹ بول لو، اس میں کوئی حرج نہیں.اسی طرح غیبت ہے.اگر بچہ اپنے ارد گر د غیبت کرتے دیکھتا ہے کہ تمام لوگ ہی غیبت کر رہے ہیں تو بڑا ہو کر اس کے سامنے جب غیبت کا موقع آتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے غیبت کی تو مجھے فائدہ پہنچے گا تو قوت موازنہ اُسے کہتی ہے، تمہارے اردگرد تمام غیبت کرتے ہیں اگر تم غیبت کر لو تو کیا حرج ہے.گویا گناہ تو ہے لیکن اتنا بڑا گناہ نہیں.اس بارے میں گزشتہ ایک خطبہ میں بات ہو چکی ہے کہ اصلاح اعمال میں ایک بہت بڑی روک یہ ہے کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ بعض گناہ بڑے ہیں اور بعض چھوٹے گناہ ہیں اور ان کو کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے.اور پھر ان گناہوں کو جب ایک دفعہ انسان کر لے تو چھوڑنا مشکل ہو جاتا ہے.یہاں انسان میں قوتِ موازنہ تو موجود ہوتی ہے مگر اس غلط علم کی وجہ سے جو اُ سے ماحول نے دیا ہے، وہ انسان کو اتنی طاقت نہیں دیتی جس طاقت کے ذریعہ سے وہ گنا ہوں پر غالب آ سکے.جیسے کہ وزن اُٹھانے کی مثال بیان کی گئی تھی.کمزور طاقت ایک وزن کو اُٹھا نہ سکی لیکن جب دماغ نے زیادہ وزن اُٹھانے کی طاقت بھیجی تو وہی ہاتھ اُس زیادہ وزن کو اُٹھانے کے قابل ہو گیا.لیکن اگر انسان کی قوت موازنہ یہ حکم دماغ کو نہ بھیجتی تو وہ وزن نہ اُٹھا سکتا.اسی طرح گناہوں کو مٹانے میں بھی یہی اصول ہے.گناہوں کو مٹانے کی طاقت انسان میں ہوتی ہے لیکن جب گناہ سامنے آتا ہے اور قوتِ مواز نہ یہ کہہ دیتی ہے کہ اس گناہ میں
سبیل الرشاد جلد چهارم 392 حرج کیا ہے کہ چھوٹا سا، معمولی سا تھ گناہ ہے جب کہ اس کے کرنے سے فائدہ زیادہ حاصل ہوگا تو دماغ پھر گناہ کو مٹانے کی طاقت نہیں بھیجتا.وہ جس مرجاتی ہے یا ہم کہہ سکتے ہیں کہ قوت ارادی ختم ہو جاتی ہے اور گناہ سرزد ہو جاتا ہے.گویا اصلاح اعمال کے لئے تین چیزوں کی مضبوطی کی ضرورت ہے.علم کی زیادتی قوت ارادی کا حصہ ہوتی ہے ایک قوت ارادی کی مضبوطی کی ضرورت ہے، ایک علم کی زیادتی کی ضرورت ہے اور ایک قوت عملیہ میں طاقت کا پیدا کرنا ، یہ بھی ضروری ہے.یہ بھی یادر ہے کہ علم کی زیادتی در حقیقت قوت ارادی کا حصہ ہوتی ہے کیونکہ علم کی زیادتی کے ساتھ قوت ارادی بڑھتی ہے.یا کہہ سکتے ہیں کہ وہ عمل کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے.ان سب باتوں کا خلاصہ یہ بنے گا کہ عملی اصلاح کے لئے ہمیں تین چیزوں کی ضرورت ہے، پہلے قوت ارادی کی طاقت کہ وہ بڑے بڑے کام کرنے کی اہل ہو.علم کی زیادتی کہ ہماری قوت ارادی اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتی رہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے اور صحیح کی تائید کرنی ہے اور اُس پر عمل کرنے کے لئے پورا زور لگانا ہے.غفلت میں رہ کر انسان مواقع نہ گنوا دے.تیسرے قوت عملیہ کی طاقت کہ ہمارے اعضاء ہمارے ارادے کے تابع چلیں.بدار ا دوں کے نہیں ، نیک ارادوں کے اور اُس کا حکم ماننے سے انکار نہ کریں.یہ باتیں گناہوں سے نکالنے اور اعمال کی اصلاح کا بنیادی ذریعہ ہیں.اپنی قوت ارادی کو ہمیں اُس زبر دست افسر کی طرح بنانا ہوگا جو اپنے حکم کو اپنی طاقت اور قوت اور اصولوں کے مطابق منواتا ہے اور کسی مصلحت کو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دیتا.ہمیں چھوٹے بڑے گناہوں کی اپنی من مانی تعریفیں بنا کر اپنے او پر غالب آنے سے روکنا ہو گا.صحیح علم ہمیں اُن ناکامیوں سے محفوظ رکھے گا جو قوت مواز نہ کی غلطیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں جس کی مثال میں دے چکا ہوں کہ جس مرجاتی ہے.چھوٹے اور بڑے گناہوں کے چکر میں انسان رہتا ہے اور پھر اصلاح کا موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے.اور بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ عدم علم کی وجہ سے قوت ارادی فیصلہ ہی نہیں کر سکتی کہ اُسے کیا کرنا ہے یا کیا کرنا چاہئے.اسی طرح جب قوت عملیہ مضبوط ہو گی تو وہ قوت ارادی کے ادنیٰ سے ادنی اشارے کو بھی قبول کرلے گی.حضرت مصلح موعود نے ایک نکتہ یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ یہاں یہ یا درکھنا چاہئے کہ قوت عملیہ کی کمزوری دو طرح کی ہوتی ہے.حقیقی اور غیر حقیقی.غیر حقیقی تو یہ ہے کہ قوت تو موجود ہو لیکن عادت وغیرہ کی وجہ سے زنگ لگ چکا ہو اور حقیقی یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے کے عدمِ استعمال کی وجہ سے وہ مردہ کی طرح ہوگئی ہو اور اُسے بیرونی مدد اور سہارے کی ضرورت پیدا ہو گئی ہو.غیر حقیقی مثال ایسے شخص کی ہے جسے طاقت تو یہ ہو کہ من بوجھ اُٹھا سکے، چالیس کلو وزن اُٹھا سکے لیکن کام کرنے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے جب اُسے بوجھ اُٹھانے کا کہو تو اُسے گھبراہٹ چھٹڑ جاتی ہے، پریشانی شروع ہو
393 سبیل الرشاد جلد چہارم جاتی ہے.ایسا شخص اگر اپنی طبیعت پر دباؤ ڈالے گا تو پھر بوجھ اٹھانے کے قابل ہو جائے گا اور اُس میں کامیابی حاصل ہو جائے گی.اور حقیقی کی مثال یہ ہے کہ دیر تک کام نہ کرنے کی وجہ سے انسان میں کام کرنے کی طاقت ہی باقی نہیں رہتی اور اُس میں دس بیس سیر سے یا کلو سے زیادہ وزن اُٹھانے کی طاقت نہیں رہتی.تو ایسے شخص کو زائد وزن اُٹھوانے کے لئے مددگار دینا ہو گا.اُس کی اصلاح کے لئے اُس کی قوتِ ارادی کو بڑھانے کے لئے اور اُس کی قوت عملی کو بڑھانے کے لئے پھر کچھ اور طریقے اختیار کرنے ہوں گے.غرض جب طاقت کا خزانہ موجود نہ ہو تو اُس وقت بیرونی ذرائع استعمال کرنے پڑتے ہیں تا کہ کام کو پورا کیا جاسکے.یہی حال اعمال کی اصلاح کا ہے اور مختلف لوگوں کے لئے مختلف علاجوں کی ضرورت ہے.ایک ہی علاج ہر ایک کے لئے نہیں ہے.بعض کے لئے قوت ارادی پیدا کرنے کی ضرورت ہے.بعض کے لئے قوت عملی پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور بعض کے لئے اس صورت میں جبکہ بوجھ زیادہ ہو، اُن کی طاقت اور برداشت سے باہر ہو، بیرونی مدد کی ضرورت ہے.ذیلی تنظیمیں اپنا کردار ادا کریں (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 441 خطبه فرموده 10 جولائی 1936 مطبوعہ ربوہ ) اُس وقت معاشرے کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے، جماعت کو اپنا کردارادا کرنا پڑتا ہے، ذیلی تنظیموں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے.پس ہمیں اپنی عملی اصلاح کے لئے ان باتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، ان باتوں کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اپنی قوتِ ارادی کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، قوت عملی کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں اور ہماری جو صلاحیتیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے جو طاقتیں ہمیں دی ہیں وہ زنگ لگ کے ختم نہ ہو جائیں.اس کی مزید وضاحت انشاء اللہ تعالی آئندہ میں کروں گا.آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات پیش کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ " اللہ تعالیٰ سے اصلاح چاہنا اور اپنی قوت خرچ کرنا یہی ایمان کا طریق ہے." ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 92.ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) پس اللہ تعالیٰ سے اصلاح چاہنا ، اپنی قوتِ ارادی کو دعا کے ذریعہ سے مضبوط کرنا ہے اور قوت کا خرچ کرنا، قوت ارادی اور قوت عملی کا اظہار ہے.جب یہ اظہار اعلیٰ درجہ کا ہو جائے تو یہی ایمان ہے اور پھر بندہ ہر کام خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کرتا ہے اُس کی رضا کے حصول کی طرف توجہ رہتی ہے.پھر آپ نے ایک جگہ فرمایا: " تم صرف اپنا عملی نمونہ دکھاؤ اور اس میں ایک ایسی چمک ہو کہ دوسرے اُس کو قبول کر لیں." ( ملفوظات جلد 1 صفحہ 116.ایڈیشن 2003 ، مطبوعہ ربوہ )
394 سبیل الرشاد جلد چہارم کیونکہ جب تک اس میں چمک نہ ہو ، کوئی اس کو قبول نہیں کرتا.جب تک تمہاری اندرونی حالت میں صفائی اور چمک نہ ہوگی ، کوئی خریدار نہیں ہوسکتا.جب تک تمہارے اخلاق اعلیٰ درجہ کے نہ ہوں، کسی مقام تک نہیں پہنچ سکو گے.پس عملی حالتوں کی درستی کے لئے بہت محنت اور مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہر احمدی اپنے احمدی ہونے کے مقصد کو پورا کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ہم اپنے آپ کو حقیقی مسلمان بنا سکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے." الفضل انٹر نیشنل 31 جنوری 2014ء) جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہدیداران، خلیفہ وقت کی باتوں کو ہمیشہ سامنے رکھیں تا افراد جماعت کی عملی اصلاح میں اپنا کردار بھر پور طور پر ادا ہو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے عملی اصلاح پر خطبات ارشاد فرمائے ان میں سے مؤرخہ 24 جنوری 2014ء کے خطبہ جمعہ میں جماعتی و ذیلی تنظیموں کو بھی مخاطب فرمایا آپ فرماتے ہیں: " گزشتہ دو خطبات میں اس بات کا تفصیل سے ذکر ہوا اور یہ ذکر ہونے کی وجہ سے ہم پر یہ بات واضح ہوگئی کہ عملی اصلاح کے لئے تین باتیں انسان میں پیدا ہو جائیں تو عملی اصلاح جلد اور بہتر طور پر ہوسکتی ہے.یعنی قوت ارادی کا پیدا ہونا جو دین کے حوالے سے اگر دیکھی جائے تو ایمان میں مضبوطی پیدا کرنا ہے.دوسرے علمی کمی کو دور کرنا.اور تیسرے قوت عملی کی کمزوری کو دور کرنا.جیسا کہ میں نے کہا آج میں بعض اور پہلو بیان کروں گا جن کو حضرت مصلح موعود نے تفصیل سے بیان کیا ہے، اس میں سے کچھ کچھ پوائنٹ میں لیتا ہوں.لیکن اس بارے میں آج جو باتیں ہوں گی اس کے لئے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے مربیان، ہمارے علماء اور ہمارے وہ عہدیداران اور امراء جن کو نصائح کا موقع ملتا ہے یا جن کے فرائض میں یہ داخل ہے اور ان عہد یداروں میں ذیلی تنظیموں کے عہدیدار بھی شامل ہیں، خاص طور پر ان باتوں کو سامنے رکھیں تا کہ جماعت کے افراد کی عملی اصلاح میں اپنا کردار بھر پور طور پر ادا کرسکیں.اس بارے میں بہت سی باتیں میں جماعت کے سامنے وقتاً فوقتاً پیش کرتا رہتا ہوں اور ایم ٹی اے کی نعمت کی وجہ سے جماعت کے افراد جہاں کہیں بھی ہیں اگر وہ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے رابطہ رکھتے ہیں تو میری باتیں سن لیتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے
395 سبیل الرشاد جلد چہارم فضل سے اُن پر اثر بھی ہوتا ہے یا کم از کم اچھی تعداد میں لوگوں پر اثر ہوتا ہے.لیکن مربیان، امراء اور عہدیداران کا کام ہے کہ اپنے پروگرام اس نہج سے رکھیں کہ یہ پیغام اور اس بنا پر بنائے ہوئے پروگرام بار بار جماعت کے سامنے آئیں تا کہ ہر احمدی کے ذہن میں اُس کا دائرہ عمل اچھی طرح واضح اور راسخ ہو جائے.پس یہ بہت اہم چیز ہے جسے اُن سب کو جن کے سپر دذمہ داریاں ہیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے.اصلاح کے ذرائع کا جو سب سے پہلا حصہ ہے، جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے وہ قوت ارادی کی مضبوطی ہے.یا دوسرے لفظوں میں ایمان ہے جس کے پیدا کرنے کے لئے انبیاء دنیا میں آتے ہیں اور وہ انبیاء تازہ اور زندہ معجزات دکھاتے ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہماری جماعت کے پاس تو اللہ تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات کا اتنا وافر حصہ ہے کہ اتنا سامان کیا ، اس سامان کے قریب قریب بھی کسی اور کے پاس موجود نہیں.اور اسلام کے باہر کوئی مذہب دنیا میں ایسا نہیں جس کے پاس خدا تعالیٰ کا تازہ بتازہ کلام، اُس کے زندہ معجزات اور اُس کی ہستی کا مشاہدہ کرانے والے نشانات موجود ہوں، جو انسانی قلوب کو ہر قسم کی آلائشوں سے صاف کرتے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت سے لبریز کر دیتے ہیں.احباب جماعت کو احمدیت کے بارے میں مسائل کا علم ہو لیکن با وجود اس ایمان کے اور باوجود ان تازہ اور زندہ معجزات کے پھر کیوں ہماری جماعت کے اعمال میں کمزوری ہے؟ اس کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خیال کا یہ اظہار فرمایا ہے کہ وجہ یہ ہے کہ سلسلہ کے علماء، مربیان اور واعظین نے اس کو پھیلانے کی طرف خاص توجہ نہیں دی.حضرت مصلح موعود کی یہ بات جس طرح آج سے بیچتر ، چھہتر سال پہلے میچ تھی، آج بھی صحیح ہے اور اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے.اور جوں جوں ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانے سے دُور جا رہے ہیں، ہمیں اس طرف مکمل planning کر کے توجہ کی ضرورت ہے.پس آپ کا یہ فرمانا آج بھی قابلِ توجہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ وفاتِ مسیح پر جس شد ومد سے تقریریں کرتے ہیں یا معترضین کے اعتراضات پر حوالوں کے حوالے نکال کر اُن کے یعنی اُن معترضین کے بزرگوں کے جو اقوال ہیں، معترضین کے سامنے ہم پیش کرتے ہیں اور اُن کا منہ بند کر دیتے ہیں.اتنی کوشش جماعت کے افراد کے سامنے جماعت کی صحیح تعلیم پیش کرنے کی نہیں ہوئی یا کم از کم علماء کی طرف سے نہیں ہوتی.جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے لوگ تو مل جائیں گے جو وفات مسیح کے دلائل جانتے ہوں یا مولوی کے اعتراضات کے منہ توڑ جواب دے سکتے ہوں.یہاں بھی آپ دیکھیں کہ بعض چینلز پر یا انٹرنیٹ پر مولوی جو اعتراض کرتے ہیں اُن کے جواب اور بعض دفعہ بڑے عمدہ اور احسن رنگ میں جواب ایک عام احمدی بھی دے دیتا ہے.مجھے بھی بعض لوگ ٹی وی کے حوالے سے اپنی گفتگو
سبیل الرشاد جلد چهارم 396 کے بارے میں رپورٹ بھجواتے ہیں اور اپنے جوابات بھی لکھتے ہیں اور اُن کے جواب بھی اکثر اچھے اور علمی ہوتے ہیں.پس اس لحاظ سے تو ہم ہتھیاروں سے لیس ہیں مگر ایسے لوگ بہت کم ملیں گے جنہیں یہ علم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ کو کس رنگ میں پیش کیا ؟ آپ نے معرفت اور محبت الہی کے حصول کے کیا طریق بتائے ؟ اُس کا قرب حاصل کرنے کی آپ نے کن الفاظ میں تاکید کی؟ خدا تعالیٰ کے تازہ کلام اور اُس کے معجزات و نشانات آپ پر کس شان سے ظاہر ہوئے؟ (ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحہ 451-450 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10 جولائی 1936 مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ ) اس لئے بعض دفعہ ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ ایک شخص وفات مسیح کا تو قائل ہوتا ہے، اُس کی دلیل بھی جانتا ہے.ماں باپ کی وراثت میں اُسے احمدیت بھی مل گئی ہے لیکن ان باتوں کا علم ہونے کے باوجود، کہ یہ سب کچھ جانتا ہے، دوسری طرف ان باتوں کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ایمانی کمزوری پیدا ہو جاتی ہے جو بھی میں نے کیں کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت یا خدا تعالیٰ کے تازہ کلام کے معجزات ونشانات یا قرب حاصل کرنے کے طریق ،اس کا علم نہیں ہوتا اس لئے کمزوری پیدا ہو جاتی ہے.ایمان بھی ڈانوا ڈول ہونے لگتا ہے اور عملی کمزوریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں.پس بیشک وفات مسیح کے مسئلے میں تو ایک شخص بڑا اپکا ہوتا ہے لیکن اس مسئلے کے جاننے سے اُس کی عملی اصلاح نہیں ہوسکتی.اس لئے اس پہلو سے جماعت میں بعض جگہ کمزوری نظر آتی ہے.پس جب تک ہماری جماعت کے علماء ، مربیان اور وہ تمام امراء اور عہدیداران جن کے ذمہ جماعت کے سامنے اپنے نمونے پیش کرنے اور اصلاح کے کام بھی ہیں ، اس بات کی طرف ویسی توجہ نہیں کرتے جیسی کرنی چاہئے اور جماعت کے ہر فرد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے مقصد کے ساتھ جوڑنے کی کوشش نہیں کرتے جو کوشش کرنے کا حق ہے، اُس وقت تک جماعت کا وہ طبقہ جو قوت ارادی کی کمزوری کی وجہ سے عملی اصلاح نہیں کر سکتا ، جماعت میں کثرت سے موجود رہے گا.عبادات میں مستقل مزاجی ہو ہمیں اس بات کو جاننے کی ضرورت ہے اور جائزے کی ضرورت ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں یہ شوق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں.رمضان میں ایک مہینہ نہیں یا ایک مرتبہ اعتکاف بیٹھ کر پھر سارا سال یا کئی سال اس کا اظہار کر کے نہیں بلکہ مستقل مزاجی سے اس شوق اور لگن کو اپنے اوپر لاگو کر کے، تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب مستقل طور پر حاصل ہو، ہم میں سے کتنے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ پیار کا سلوک کرتے ہوئے دعاؤں کے قبولیت کے نشان دکھاتا ہے، اُن سے بولتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان
سبیل الرشاد جلد چهارم 397 کر یہ معیار حاصل کرنا یا حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہر احمدی کا فرض ہے.پس اسلام کے احیائے نو کا یہی تو وہ انقلاب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیدا کرنے کے لئے آئے تھے.اگر واقع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام ہر ایک کو معلوم ہو اور آپ کی بعثت کے مقصد کو پورا کرنے کی ہر ایک میں تڑپ ہو، اگر ہمیں پتا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر کتنے عظیم نشانات دکھائے اور آپ کے ماننے والوں میں سے بھی بے شمار کو نشانات سے نوازا تو ہم میں سے ہر ایک اُس مقام کے حصول کی خواہش کرتا اور اس کے لئے کوشش کرتا جہاں اُس سے بھی براہ راست یہ نشان ظاہر ہوتے اور اُسے نظر آتے.قوتِ ایمان میں وہ جلاء پیدا ہو جاتی جس کے ذریعہ سے پھر ایسی قوت ارادی پیدا ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے ایک خاص جوش پیدا کر دیتی ہے.پس اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نشانات جن کا اظہار اللہ تعالیٰ آج تک فرماتا چلا آ رہا ہے ہمارے دلوں میں ایک جوت جگانے والا ہونا چاہئے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے آپ علیہ السلام اور اپنے اور آپ کے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کے طفیل آپ کے ہر اُسوہ کو اپنے اوپر لاگو کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُس مقام پر پہنچ جائیں جہاں اللہ تعالیٰ ہم سے ایک خاص پیار کا سلوک کر رہا ہو.دینی امور میں نقل کرنی چاہئے ہم دنیا وی چیزوں میں تو دوسروں کی نقل کرتے ہیں.کسی کی اچھی چیز دیکھ کر اُس کو حاصل کرنے کی خواہش کرتے ہیں یا کوشش کرتے ہیں اور پھر اس کے لئے کئی طریقے بھی استعمال کرتے ہیں ، اور اس معاملے میں ہر ایک اپنی سوچ اور اپنی پہنچ کے مطابق عمل کرنے کی یا نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے.کوئی کسی کا مثلاً اچھا ، خوبصورت جوڑا ہی پہنا ہوا دیکھ لے، سوٹ پہنا ہوا دیکھ لے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اُس کو بھی مل جائے اور اس کے پاس بھی ایسا ہی ہو.کوئی کوئی اور چیز دیکھتا ہے تو اُس کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے.اب تو ٹی وی نے دنیا کو ایک دوسرے کے اتنا قریب کر دیا ہے کہ متوسط طبقہ تو الگ رہا، غریب افراد بھی یہ کوشش کرتے ہیں کہ میرے پاس زندگی کی فلاں سہولت بھی موجود ہونی چاہئے اور فلاں سہولت بھی موجود ہونی چاہئے.ٹی وی بھی ہو میرے پاس اور فریج بھی ہو میرے پاس کیونکہ فلاں کے پاس بھی ہے.وہ بھی تو میرے جیسا ہے.یہ نہیں سوچتے کہ اگر فلاں کو یازید کو یہ چیزیں اُس کے کسی عزیز نے تجھے لے کر دی ہیں تو مجھے اس بات پر لالچ نہیں کرنا چاہئے.فوراً یہ خیال ہوتا ہے کہ زید کے پاس یہ چیز ہے تو میرے پاس بھی ہوا اور پھر قرض کی کوشش ہو جاتی ہے.یا بعض لوگوں کو اس کام کے لئے بعض جگہوں پر امداد کی درخواست دینے کی بھی عادت ہوگئی ہے.بیشک جماعت کا فرض ہے کہ اپنے وسائل کے اندر رہتے ہوئے ضرورتمند کی ضرورت پوری کرے
398 سبیل الرشاد جلد چهارم لیکن درخواست دینے والوں کو ، خاص طور پر پاکستان، ہندوستان یا بعض اور غریب ممالک بھی ہیں ، اُن کو جائز ضرورت کے لئے درخواست دینی چاہئے اور اپنی عزت نفس کا بھی بھرم رکھنا چاہئے.اسی طرح ذرا بہتر معاشی حالت کے لوگ ہیں تو دیکھا دیکھی وہ بھی بعض چیزوں کی خواہش کرتے ہیں نقل کرتے ہیں.کسی نئے قسم کا صوفہ دیکھا تو اُس کو لینے کی خواہش ہوئی.نئے ماڈل کے ٹی وی دیکھے تو اُس کو لینے کی خواہش ہوئی یا اسی طرح بجلی کی دوسری چیزیں یا اور gadget جو ہیں وہ دیکھے تو اُن کو لینے کی خواہش ہوئی.یا کار میں قرض لے کر بھی لے لیتے ہیں.ضمناً یہ بھی یہاں بتا دوں کہ آجکل دنیا کے جو معاشی بدحالی کے حالات ہیں اُن کی ایک بڑی وجہ بنکوں کے ذریعہ سے ان سہولتوں کے لئے سُود پر لئے ہوئے قرض بھی ہیں.سو د ایک بڑی لعنت ہے.جب چیزیں لینی ہوں تو یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ اُن کو کہاں لے جائے گا.بہر حال یہ چیزیں خریدنا یا سود پر قرض دینا ہی ہے جس نے آخر کار بہتوں کو دیوالیہ کر دیا.بہر حال نقل کی یہ بات ہو رہی تھی کہ لوگ دنیاوی باتوں میں نقل کرتے ہیں اور اس کے حصول کے لئے یا تو عزت نفس کو داؤ پر لگادیتے ہیں یادیوالیہ ہو کر اپنی جائیداد سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں.یعنی دنیاوی باتوں کی نقل میں فائدے کم اور نقصان زیادہ ہیں.لیکن دین کے معاملے میں نقل اور ویسا بننے کی کوشش کرنا جیسا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانے میں ہمارے سامنے نمونہ پیش فرمایا ہے، بلکہ ہم میں سے تو بہت سوں نے اُن صحابہ کو بھی دیکھا ہوا ہے جنہوں نے قرب الہی کے نمونے قائم کئے.لیکن اُن کی نقل کی ہم کوشش نہیں کرتے جبکہ نقصان کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے اور فائدہ بھی ایسا ہے جس کو کسی پیمانے سے ناپانہیں جاسکتا.پس کیا وجہ ہے کہ ہم اس نقل کی کوشش نہیں کرتے جو نیکیوں میں بڑھانے والی چیز کی نقل ہے.صاف ظاہر ہے کہ یا تو ہمیں ان چیزوں کا بالکل ہی علم نہیں دیا جاتا جس کی وجہ سے احساس پیدا نہیں ہوتا یا اتنا تھوڑا علم اور اتنے عرصے بعد دیا جاتا ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنے تازہ بتازہ نشانات آج بھی دکھا رہا ہے.نتیجہ ہماری اس طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جبکہ دنیاوی چیزوں کے لئے ہم آتے جاتے ٹی وی پر ، اخبارات پر دس مرتبہ اشتہارات دیکھتے ہیں اور دماغ میں بات بیٹھ جاتی ہے کہ میں نے کسی نہ کسی ذریعہ سے یہ چیز لینی ہے، حاصل کرنی ہے.اور اگر کسی کو سمجھایا جائے یا کوئی ویسے ہی کہہ دے کہ جب وسائل نہیں ہیں تو اس چیز کی تمہیں کیا ضرورت ہے؟ تو فوراً جواب ملتا ہے کہ کیا غریب کے جذبات نہیں ہوتے ، کیا ہمارے جذبات نہیں ہیں، کیا ہمارے بچوں کے جذبات نہیں ہیں کہ ہمارے پاس یہ چیز ہو.لیکن یہ جذبات کبھی اس بات کے لئے نہیں ابھرتے کہ الہامات کا تذکرہ سن کر یہ خواہش پیدا ہو کہ ہمارے سے بھی بھی خدا تعالیٰ کلام کرے.ہمارے لئے بھی خدا تعالیٰ نشانات دکھائے اور اپنی محبت سے ہمیں نوازے.اس سوچ کے نہ ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے علماء ، ہمارے مربیان ، ہمارے عہد یداران
سبیل الرشاد جلد چہارم 399 اپنے اپنے دائرے میں افراد جماعت کے سامنے اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول کی کوشش کے لئے بار بار ذکر نہیں کرتے ، یا اُس طرح ذکر نہیں کرتے جس طرح ہونا چاہئے ، یا اُن کے اپنے نمونے ایسے نہیں ہوتے جن کو دیکھ کر ان کی طرف توجہ پیدا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے صحابہ کا بار بار ذکر کر کے اس بارے میں اُن بزرگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور نشانات کے واقعات بھی شدت سے نہیں دہرائے جاتے اور یہ یقین پیدا نہیں کرواتے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کو کسی خاص وقت اور اشخاص کے لئے مخصوص نہیں کر دیا بلکہ آج بھی اللہ تعالیٰ اپنی صفات کا اظہار کرتا ہے.اگر بار بار ذکر ہو اور یہ تعلق پیدا کرنے کے طریقے بتائے جائیں ، اگر اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدوں کا ذکر کیا جائے تو بچوں ، نو جوانوں میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ خدا تعالیٰ نے ہماری دعا کیوں قبول نہیں کی.اللہ تعالیٰ سے تعلق کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے.پھر دعا کی قبولیت کے فلسفے کی بھی سمجھ آ جاتی ہے اور نشانات بھی ظاہر ہوتے ہیں.پس یہ بات عام طور پر بتانے کی ضرورت ہے کہ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق سے جڑ کر اللہ تعالیٰ سے قرب کا تعلق پیدا کیا جاسکتا ہے.نشانات صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات یا زمانے تک محدود نہیں تھے یا مخصوص نہیں تھے بلکہ اب بھی خدا تعالیٰ اپنی تمام تر قدرتوں کے ساتھ جلوہ دکھاتا ہے.پس نیکیوں کو حاصل کرنے کی تڑپ اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کی تڑپ ہماری جماعت میں عام ہو جائے تو ایک بہت بڑا طبقہ ایسا پیدا ہو سکتا ہے جو گناہ کو بہت حد تک مٹادے گا.گناہ کو مکمل طور پر مٹانا تو مشکل کام ہے، اس کا دعویٰ تو نہیں کیا جا سکتا لیکن بہت حد تک گناہ پر غالب آیا جا سکتا ہے.یا اکثر حصہ جماعت کا ایسے لوگوں پر مشتمل ہوگا اور ہوسکتا ہے جو گناہوں پر غالب آ جائے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 453-452 خطبہ جمعہ بیان فرموده 10 جولائی 1936 مطبوع فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ ) عہدیداران کو اپنے اپنے دائرہ میں اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے پس اس کے لئے ہمارے مربیان اور امراء اور عہدیداران کو اپنے اپنے دائرے میں اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ بتا کر اصلاح کرنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کواللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آپ کی کامل پیروی کرنے والے خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں گے اور ایسے لوگوں کی اکثر دعاؤں کو خدا تعالی سنتا ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت میں ایسے لوگ ہیں اور مجھے لکھتے بھی رہتے ہیں.ایسے لوگوں کے بعض واقعات کا مختلف وقتوں میں ذکر بھی ہوتا رہتا ہے اور میں بھی بیان کرتا رہتا ہوں.ایسے لوگوں کے واقعات جن کی نقل کرنی چاہئے پس ایسے واقعات ہیں جو نقل کی تحریک پیدا کرنے والے ہونے چاہئیں نقل اگر کرنی ہے تو ایسے
سبیل الرشاد جلد چهارم 400 واقعات کو سن کر اپنے اوپر بھی یہ حالت طاری کرنے کے لئے نقل کرنی چاہئے تا کہ خدا تعالیٰ سے قرب کا رشتہ قائم ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ: دنیا میں جس قدر قومیں ہیں کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا جو جواب دیتا ہو اور دعاؤں کو سنتا ہو.کیا ایک عیسائی کہ سکتا ہے کہ میں نے یسوع کو خدا مانا ہے.وہ میری دعا کو سنتا اور اس کا جواب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں.بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے جس نے کہا.اُدْعُونِی اسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن: 61) تم مجھے پکارو میں تم کو جواب دوں گا اور یہ بالکل سچی بات ہے.کوئی ہو جو ایک عرصہ تک سچی نیت اور صفائی قلب کے ساتھ ( یہ چیز اہم ہے جو فرمایا ایک عرصہ تک سچی نیت اور صفائی قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہو وہ مجاہدہ کرے اور دعاؤں میں لگا رہے.آخر اس کی دعاؤں کا جواب اُسے ضرور دیا جاوے گا.“ ( ملفوظات جلد دوم صفحہ 148.ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) پس یہ باتیں بار بار جماعت کے سامنے بیان کی جائیں تو یقینا اس میں طاقت پیدا ہو سکتی ہے.یا جماعت کے ایک بھاری حصے میں یہ طاقت پیدا ہو سکتی ہے اور اُس کی قوت ارادی ایسی مضبوط ہوسکتی ہے کہ وہ ہزاروں گنا ہوں پر غالب آ جائے اور اُن سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائے اور اللہ تعالیٰ سے ایک ایسا تعلق پیدا ہو جائے جو بھی ڈانواڈول ہونے والا نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا یہی مقصد تھا کہ انسانیت کو گناہوں سے بچایا جائے اور اللہ تعالیٰ سے ایک ایسا تعلق پیدا ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کی رضا ہر چیز پر مقدم ہو جائے.عبادت سے بچنے کے بہانے تلاش کرنے کی بجائے یا فرض سمجھ کر جلدی جلدی ادا کرنے کی بجائے ، جس طرح کہ سر سے، گلے سے ایک بوجھ ہے جو اتارنا ہوتا ہے، اُس طرح اتارنے کی بجائے ایک شوق پیدا ہو.عملی تبدیلی کے واقعات میں اس وقت آپ کے سامنے چند مثالیں بھی پیش کر دیتا ہوں کہ احمدیت نے کیا عملی تبد یلی لوگوں میں پیدا کی؟ ہمارے مبلغ قرغزستان نے لکھا ہے کہ ایک بزرگ احمدی مکرم عمر صاحب، انہوں نے 10 رجون 2002ء کو بیعت کی تھی.اٹھاون برس اُن کی عمر ہے.پیدائشی مسلمان تھے لیکن کمیونسٹ نظریات کے حامی تھے.انہوں نے بیعت کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار ان الفاظ میں کیا.کہتے ہیں کہ جس دن خاکسار نے بیعت کے لئے خط لکھا وہ دن در حقیقت میری زندگی کا ایک یادگار دن تھا اور میں اُس دن کو اپنی ایک نئی پیدائش سے تعبیر کرتا ہوں.اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سے قبل میں ہر طرح کی دینی جماعتوں کے پاس گیا،
401 سبیل الرشاد جلد چہارم مگر میری زندگی میں کوئی خاص تبدیلی واقع نہ ہو سکی ، جبکہ بیعت کے بعد میری زندگی میں حقیقی روحانی انقلاب بر پا ہو گیا تھا.بیعت سے پہلے نماز میرے لئے ایک بالکل اجنبی چیز تھی.مگر آج یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پنجوقتہ نماز میری زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے.اور تہجد میں ناغہ کرنا میرے لئے ایک امر محال ہے اور آج میرا دل اس یقین سے پُر ہے کہ جب انسان سچائی کی تلاش میں نکل پڑتا ہے تو اُس کی منزل اُسے ضرور مل جاتی ہے اور اُسی منزل پر پہنچ کر ہی اُس کی حقیقی روحانی تربیت ہوتی ہے اور اسے ترقی نصیب ہوتی ہے اور یہی وقت دراصل اُس کی قلبی تسکین کا وقت ہوتا ہے.تو یہ انقلابات ہیں جولوگوں میں، نئے آنے والوں میں پیدا ہورہے ہیں.پھر ہمارے مشنری کو تو نو، افریقہ سے لکھتے ہیں کہ اور یسو صاحب آرمی میں لیفٹینٹ کی پوسٹ پر تعینات ہیں.2013ء میں انہوں نے بیعت کی.وہ اپنی قبولیت احمدیت کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ میری پیدائش مسلمانوں کی عید کے دن ہوئی تھی.تو میرے مشرک باپ نے دائی سے کہا کہ اس کا مسلمانوں کا نام رکھو.وہاں افریقہ میں یہ رواج ہے کہ جس دن پیدا ہو اُس دن کا نام رکھ دیتے ہیں یا اُن خصوصیات کی وجہ سے بعض نام رکھے جاتے ہیں.تو کہتے ہیں بہر حال عید والے دن میں پیدا ہوا، باپ تو میرا مشرک تھا لیکن مسلمانوں کی عید ہورہی تھی.میرے باپ نے کہا کہ اس کو مسلمان بنانا ہے اس کا مسلمان نام رکھو کیونکہ یہ عید کے دن پیدا ہوا ہے.چنانچہ کہتے ہیں بچپن میں میں نے کچھ عرصہ مسجدوں کا رخ کیا مگر ایک دن جمعہ کی نماز کے بعد واپس آ رہا تھا تو چوٹ لگ گئی.خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے آ رہا ہوں تو ٹھوکر لگنے کا تو سوال ہی نہیں کہ میں گروں اور چوٹ لگ جائے یا کسی بھی ذریعہ سے چوٹ لگے تو اس خیال سے کہ خدا کی عبادت کے بعد بھی ٹھو کر لی تو پھر عبادت کا فائدہ کیا؟ کہتے ہیں میں اسلام کو چھوڑ کر عیسائی ہو گیا اور کبھی ایک چرچ میں جاتا، کبھی دوسرے چرچ میں، اور عیسائیت میں بھی فرقے بدلتا رہتا.کہتے ہیں میرے مسائل اور بڑھ گئے یہاں تک کہ بیوی سے بھی جھگڑا ہو گیا، سکون برباد ہو گیا.ہر وقت پریشانیوں میں گھرا رہتا تھا.کہتے ہیں میرے والدین اور بزرگ تھے.انہوں نے ہمارے گھر یلو مسائل سلجھانے کی کوشش کی ، بہت میٹنگیں ہوئیں ، پنچائتیں ہوئیں صلح کروانے کی ہر کوشش ہوئی لیکن بیکار، بے فائدہ.ان حالات میں جماعت کے داعی الی اللہ، محمد صاحب اُن کو ملے.کہتے ہیں اُن کو میرے حالات کا علم ہوا تو کہنے لگے تم نے تمام نسخے آزما لئے.مسلمان ہوئے ، عیسائی ہوئے ، مسائل بڑھتے رہے ، مسائل حل نہیں ہوئے.گھر یلو طور پر بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی.پنچائتی طور پر بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی فائدہ نہیں.اب تمہیں میں ایک نسخہ بتا تا ہوں.یہ نسخہ آزماؤ اور دیکھو پھر کیا نتیجہ اُس کا نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ دعا کرو.کیونکہ ہمارے مذہب کی سچائی کا نشان یہ ہے کہ اس کے ماننے والوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.تم بھی اپنے لئے دعا کرو اور میں بھی تمہارے لئے دعا کرتا ہوں
سبیل الرشاد جلد چہارم 402 کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمہاری بیوی کے درمیان صلح اور حسن سلوک قائم کر دے اور جب یہ قائم ہو جائے گا تو کیونکہ میں نے تمہیں دعا کے لئے کہا ہے، کیونکہ خالص ہو کر تم نے دعا مانگنی ہے اور میں خود بھی تمہارے لئے دعا کروں گا.کیونکہ میں یہ کہ رہا ہوں اس لئے جب یہ بات صحیح ہو جائے گی ، جب تمہارے مسائل حل ہو جائیں گے تو پھر یاد رکھو کہ یہ ہمارے امام کی صداقت کا نشان ہوگا.چنانچہ کئی دن اس نے دعا کی.موصوف کہتے ہیں کہ ان دعاؤں کے نتیجہ میں ایک ایک کر کے میرے سارے مسائل حل ہونے لگے اور بیوی سے بھی صلح ہوگئی.کہتے ہیں کہ یہی راہ اصل اسلام کی راہ ہے جس میں خدا ملتا ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں.اب میری کایا پلٹ گئی ہے اور کہا کہ یہ سب مسیح موعود، امام الزمان علیہ السلام کی صداقت کا نشان ہے اور آپ کے ماننے میں نجات ہے.اور اب وہ احمدی ہیں.یہ اُن احمدیوں کے لئے بھی سبق ہے جو اپنے آپ کو پرانے احمدی خاندانوں سے منسوب کرتے ہیں لیکن اُن کے گھروں میں بے چینیاں ہیں.اور بعض گھر بے چینیوں سے بھرے پڑے ہیں، مسائل میرے سامنے آتے ہیں کہ خاوند بیوی کے حقوق نہیں ادا کرتا، بیوی خاوند کے حقوق نہیں ادا کرتی.ایمان میں پختگی پیدا کر کے عملی اصلاح کی کوشش کریں، اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں تو پھر یہ مسائل خود بخو دھل ہو جاتے ہیں.یہ بھی طریقہ ہر ایک کو آزمانا چاہئے.اپنی اناؤں کو چھوڑ کر اپنے دلوں میں جو پہلے ایک سوچ بنالی ہوتی ہے کہ اس نے یہ کہا اور میں نے یہ کہنا ہے.اُس نے یہ کہنا ہے اور میں نے یہ کہنا ہے.اس بات کو ختم کر کے خالصہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے تبھی اللہ تعالیٰ پھر صحیح راستے دکھاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کی تائیدات کے نشانات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اللہ تعالیٰ ہمیں اس زمانے میں بھی دکھاتا ہے اُن کے بارے میں بھی بتا دوں.ٹیچی مان(Techiman) گھانا کے ہمارے سرکٹ مشنری ہیں.کورا بورا ان کا گاؤں ہے.کہتے ہیں کہ وہاں ایک نواحمدی جبریلا صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہ کاشت کا موسم ہے.میرے غیر مسلم بُت پرست والد نے مجھے بتوں کے حضور حاضر ہونے اور نذرانہ پیش کرنے کا کہا ہے تا کہ ان کی برکت سے میری یام (Yam) کی فصل اچھی ہو جائے اور خوب پھل آئے (یام وہاں کی ایک خاص فصل ہے.لوگ کھاتے ہیں ، ویسے تو یہاں بھی ملتا ہے ).تو معلم لکھتے ہیں کہ جب میں نے اُسے کہا کہ ان بتوں سے باز ہی رہو اور والد کو بھی باز رکھو.نیز اُسے دعائے استخارہ سکھائی تو خدا کے فضل سے جب کٹائی کا وقت آیا تو اس نوجوان کی یام کی فصل بہت اچھی ہوئی اور اُس کے والد کی نسبت اُس کی فصل کو اور زیادہ اچھا پھل لگا.والد مشرک تھا اُس کی نسبت اس کی فصل بہت بہتر تھی.اس کے والد نے یہ نشان دیکھ کر اُسے کہا کہ میرے بیٹے کا جو خدا ہے وہ سچا خدا ہے.پھر جو بُت اُس کے پاس موجود تھے وہ سارے جلا دیئے.تو یہ وہ ایمان کی مضبوطی
403 سبیل الرشاد جلد چهارم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے سے نواحمد یوں میں پیدا ہورہی ہے.پھر ہمارے ایلڈوریٹ (Eldoret) کینیا کے مبلغ ہیں.مسجد کے احاطے میں اُن کا جو دفتر تھا وہاں کسی طرح مخالف احمدیت نے داخل ہو کر جو اصل میں تو پہلے ملازم تھا اور وہاں اُس کا آنا جانا تھا.بہر حال کچھ ناراضگیاں ہو گئیں اور اُس کو فارغ کیا گیا تو اُس نے داخل ہو کر چھت کی جو سیلنگ (ceiling) ہوتی ہے اُس میں وہ دوائی ، وہ نشہ آور ڈرگز رکھ دیں جو ممنوعہ ہیں.اور پولیس کو رپورٹ کر دی کہ یہاں احمدی مبلغ رہتا ہے اور اسلام کی تبلیغ کا تو یہ بس ایک بہانہ ہے.اصل میں تو یہ ڈرگ کا کاروبار کرتا ہے.اس پر پولیس نے اپنی کارروائی کرتے ہوئے دفتر پر چھاپا مارا اور جب اُس کی بتائی ہوئی جگہ چھت میں سے کھولی تو وہاں سے دوائی حاصل ہو گئی.بہر حال پولیس کو سب کچھ بتایا گیا کہ یہ کسی مخالف نے شرارت کی ہے لیکن پولیس نے کچھ نہیں سنا اور انہوں نے کہا ہم تو اپنی کاروائی کریں گے.ہمارے مشنری کو پولیس سٹیشن لے گئے اور حوالات میں بند کر دیا.اگلے دن کیس عدالت میں پیش ہوا تو جج نے کیس سننے کے بجائے تاریخ دے دی.خیر انہوں نے مجھے بھی یہاں اطلاع کی تو اُن کو میں نے دعائیہ جواب بھی دیا.پھر دوبارہ پیشی ہوئی تو کہتے ہیں جب میں جاتا اور کٹہرے میں جج کے سامنے پیش ہوتا تھا تو مج بڑے غور سے مجھے دیکھتا تھا اور اُس کے بعد gentleman sit down کہہ کے وہ مجھے بٹھا دیتا تھا اور وکیلوں کو اگلی تاریخ دے دیتا تھا.کہتے ہیں عدالت میں حاضر ہونے کی تاریخ سے دو دن قبل صبح کی نماز کے بعد جب بہت فکر پیدا ہوئی تو میں نے دعا کی.قرآن شریف کی تلاوت کرنے لگا تو دل میں خیال آیا کہ قرآن سے نیک فال نکالی جائے تو سوچا کہ قرآن کو کھولتے ہیں جس لفظ پر نظر پڑے گی اُس میں کوئی پیغام ہوگا.جب دیکھا تو اس آیت پر نظر پڑی کہ يَنَارُ كُونِي بَرْدًا وَّسَلَمًا عَلى إِبْرَاهِيمَ (الانبیاء (70) اس سے دل کو تسلی ہوئی کہ پیغام تو اچھا ہے.خیر کہتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد میں ڈاکخانہ سے ڈاک لینے گیا تو وہاں میرا خط بھی اُس میں اُن کو آیا ہوا تھا جس میں میں نے یہ لکھا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور حفاظت میں رکھے اور منافقین کو اپنے منصوبوں میں نا کام کرے اور جماعت کو ہر ابتلاء سے بچائے اور مزید ترقیات دے.کہتے ہیں یہ خط پڑھنے کے بعد اور یہ ( آیت) دیکھنے کے بعد میرے دل میں مینیج کی طرح یہ گڑھ گیا کہ اب ضرور اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور چند احباب کو بھی میں نے یہ خوشخبری سنادی کہ اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے.چنانچہ کہتے ہیں جب میں عدالت میں حاضر ہوا تو حسب سابق جج نے مجھے بٹھا دیا اور وکیلوں سے بات کرنے کے بعد مجھے کہا کہ تم آزاد ہو.جاؤ اور اپنا کام کرو.تمہارے خلاف کوئی کیس نہیں.پس اگر ایمان مضبوط ہو تو اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین ہوتا ہے.اور انسان صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی طرف دیکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ پھر نشان دکھاتا ہے.یہی باتیں ہیں، یہ جہاں اپنا ایمان مضبوط کرتی ہیں، اپنی
سبیل الرشاد جلد چهارم 404 عملی حالت کو درست رکھتی ہیں وہاں دوسروں کے لئے بھی مضبوطی ایمان کا باعث بنتی ہیں.پس یہ چیز ہے جو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.عملی قوت عملی اصلاح کے لئے دوسری چیز جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے وہ علمی قوت ہے یا علم کا ہونا ہے.اس بارے میں پہلے ذکر ہو چکا ہے، دوبارہ بتا دوں کہ غلطی سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ کچھ گناہ بڑے ہوتے ہیں اور کچھ گناہ چھوٹے ہوتے ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن گناہوں کو انسان چھوٹا سمجھ رہا ہوتا ہے وہ گناہ اُس کے دل و دماغ میں بیٹھ جاتا ہے.اگر زیادہ ہیں تو جو زیادہ گناہ ہیں وہ دل و دماغ میں بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ تو کوئی گناہ ہے ہی نہیں.چھوٹی سی بات ہے یا ایسا معمولی گناہ ہے جس کے بارے میں کوئی زیادہ باز پرس نہیں ہو گی.خود ہی انسان تصور پیدا کر لیتا ہے.(ماخوذ از خطبات محمود جلد 17 صفحه 453 خطبہ جمعہ بیان فرمود و 10 جولائی 1936 مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ) اسائیلم سیکرز ،غلط بیانی سے کام نہ لیں ابھی گزشتہ خطبوں میں شاید دو ہفتے پہلے ہی میں نے توجہ دلائی تھی کہ اسائلم سیکر ز جو ہیں، وہ بھی یہاں آ کر جب غلط بیانی کرتے ہیں اور اپنا کیس منظور کروانے کے لئے جھوٹ کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو حقیقت میں وہ اپنا کیس خراب کر رہے ہوتے ہیں.اور نہ صرف اپنا کیس خراب کر رہے ہوتے ہیں بلکہ جماعت کی ساکھ پر بھی حرف آرہا ہوتا ہے.لیکن مجھے کسی نے بتایا کہ خطبہ کے بعد یہاں سے ایک اسائکم سیکر وکیل کے پاس گیا اور وکیل صاحب بھی احمدی ہیں.وہ بھی شاید خطبہ سن رہے تھے.اور وکیل شاید کوئی جماعتی خدمت بھی کرتے ہیں.اُس وکیل نے اس اسائکم لینے والے کو کیس تیار کرتے ہوئے غلط بیانی سے بعض باتیں لکھ دیں کہ یہ غلط باتیں بیچ میں ڈالنی پڑیں گی.حالانکہ ان کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا.اور مؤکل کو کہہ دیا کہ اس کے بغیر کیس بنتا ہی نہیں.پھر تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا.اس لئے ایسی غلط بیانی کرنا ضروری ہے.حالانکہ میں نے واضح طور پر بتایا تھا کہ کسی غلط بیانی اور جھوٹ سے کام نہیں لینا اور احمدیوں پر ظلموں کے واقعات تو ویسے ہی اتنے واضح اور صاف ہیں اور اب دنیا کو بھی پتا ہے کہ اس کے لئے کسی وکیل کی ہشیاری اور چالا کی اور جھوٹ کی ضرورت ہی نہیں رہتی.عہدیداران جھوٹ سے بچنے کی تلقین کریں پس مربیان کو بھی اور عہدیداران کو بھی بار بار جھوٹ سے بچنے کی تلقین کرنی ہوگی.بار بار یہ ذکر کرتے چلے جانا ہوگا کہ کوئی گناہ بھی بڑا اور چھوٹا نہیں ہے.گناہ گناہ ہے اور اس سے ہم نے بچنا ہے.ہر جھوٹ جھوٹ ہے اور اس جھوٹ کے شرک سے ہم نے بچنا ہے.اگر اپنا تعلق خدا تعالیٰ سے مضبوط ہے تو پھر فکر کی ضرورت
405 سبیل الرشاد جلد چہارم نہیں.نشان ظاہر ہوں گے اور انسان پھر دیکھتا ہے.لیکن تلقین کرنے والوں کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اُن کی اپنی حالت بھی ایسے معیار کی ہو جہاں وہ اپنی قوت ارادی کے اعلیٰ معیاروں کی تلاش میں ہوں.اور عملی طور پر بھی اُن کے عمل اور علم میں مطابقت پائی جاتی ہو.اس زمرہ میں شمار نہ ہوں جو کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں.بہر حال جماعتوں کو بار بار درسوں وغیرہ میں ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے اور عملی حالت بہتر کرنے کے لئے علمی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے توجہ دلانے کی ضرورت ہے.پس اگر ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں کام شروع کر دے تو ایک واضح تبدیلی نظر آ سکتی ہے.اس زمانے میں جبکہ علم کے نام پر سکولوں میں مختلف برائیوں کو بھی بچوں کو بتایا جاتا ہے ہمارے نظام کو بہت بڑھ کر بچوں اور نو جوانوں کو حقیقت سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے.ماں باپ کو اپنی حالتوں کی طرف نظر کرتے ہوئے اُس علم کے نقصانات سے اپنے آپ کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے جو بچوں کو علم کی آگاہی کے نام پر بچپن میں سکول میں دیا جاتا ہے.ماں باپ کو بھی پتا ہونا چاہئے تا کہ اپنے آپ کو بھی بچائیں اور اپنے بچوں کو بھی بچائیں.یہاں بہت چھوٹی عمر میں بعض غیر ضروری باتیں بچوں کو سکھا دی جاتی ہیں اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اچھے برے کی تمیز ہو جائے.جبکہ حقیقت میں اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی بلکہ بچوں کی اکثریت کے ذہن بچپن سے ہی غلط سوچ رکھنے والے بن جاتے ہیں.کیونکہ اُن کے سامنے اُن کے ماں باپ کے نمونے یا اُس کے ماحول کے نمونے برائی والے زیادہ ہوتے ہیں ، اچھائی والے کم ہوتے ہیں.پس مربیان ، عہد یداران، ذیلی تنظیموں کے عہدیداران، والدین، ان سب کو مل کر مشترکہ کوشش کرنی پڑے گی کہ غلط علم کی جگہ صحیح علم سے آگاہی کا انتظام کریں.سکولوں کے طریق کو ہم روک نہیں سکتے.وہاں تو ہم کچھ دخل اندازی نہیں کر سکتے.لیکن گندگی اور بے حیائی کا فرق بتا کر، بچوں کو اعتماد میں لے کر اپنے عملی نمونے دکھا کر ماحول کے اثر سے بچا سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو احسن رنگ میں اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا الفضل انٹر نیشنل 14 فروری 2014ء) فرمائے." ہر تنظیم کے عہدیدار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بعض دلوں میں خلافت کے بارے پیدا ہونے والے شکوک وشبہات دور کرے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 31 جنوری 2014 ء کے خطبہ جمعہ میں عملی اصلاح کے مضمون کو جا ری رکھتے ہوئے عہدیداران کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف یوں توجہ دلائی: خلافت کا صحیح فہم و ادراک پیدا کرنا بھی مربیان کے کاموں میں سے اہم کام ہے.اور پھر عہد یداران
406 سبیل الرشاد جلد چهارم کا کام ہے کہ وہ بھی اس طرف توجہ دیں.بعض ایسی مثالیں بھی سامنے آجاتی ہیں کہ کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت نے یہ غلط کام کیا اور یہ غلط فیصلہ کیا یا فلاں فیصلے کو اس طرح ہونا چاہئے تھا.بعض قضا کے فیصلوں پر اعتراض ہوتے رہتے ہیں.یا فلاں شخص کو فلاں کام پر کیوں لگایا گیا ؟ اس کی جگہ تو فلاں شخص ہونا چاہئے تھا.خلیفہ وقت کی فلاں فلاں کے بارے میں تو بڑی معلومات ہیں، علم ہے، اور فلاں شخص کے بارے میں اُس نے باوجود علم ہونے کے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں.اس قسم کی باتیں کرنے والے چند ایک ہی ہوتے ہیں لیکن ماحول کو خراب کرتے ہیں.اگر مربیان اور ہر سطح کے عہدیداران ، پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں، ہر تنظیم کے اور جماعتی عہدیداران اپنی اس ذمہ داری کو بھی سمجھیں تو بعض دلوں میں جو شکوک وشبہات پیدا ہوتے ہیں، کبھی پیدا نہ ہوں.خاص طور پر مربیان کا یہ کام ہے کہ انہیں سمجھا ئیں اور بتائیں کہ تمام برکتیں نظام میں ہیں.اللہ تعالیٰ تو جب کسی قوم پر لعنت ڈالنا چاہتا ہے تو نظام کو اٹھا لیتا ہے.پس جب یہ باتیں ہر ایک کے علم میں آجائیں گی تو بعض لوگ جن کو ٹھو کر لگتی ہے وہ ٹھو کر کھانے سے بچ جائیں گے.ایسا طبقہ چاہے وہ چند ایک ہی ہوں ہمیشہ رہتا ہے جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہےاور ادھر ادھر بیٹھ کر باتیں کرتا رہتا ہے کہ خلیفہ خا تو نہیں ہوتا، وہ بھی غلطی کر سکتا ہے، جیسا کہ عام آدمی غلطی کر سکتا ہے، ٹھیک ہے.لیکن حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس کا بڑا اچھا جواب دیا ہے.اور یہ جواب جو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے دیا، ہر وقت اور ہر دور کے لئے ہے.اگر خلافت برحق ہے، اگر خلافت پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ انعام دیا گیا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خلفاء جن امور کا فیصلہ کیا کرتے ہیں ہم ان امور کو دنیا میں قائم کر کے رہتے ہیں." الفضل انٹر نیشنل 21 فروری 2014ء) تمام عہدیداران پہلے اپنے جائزے لیں عہد یداران اپنے آپ کو اولوالامر سمجھ کر اپنی اطاعت کروانے کے اس وقت تک حقدار نہیں جب تک خلافت کی کامل اطاعت اپنے اوپر لاگو نہیں کرتے اور تاویلیں کرنے سے پر ہیز نہیں کرتے ا حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 06 جون 2014 ء جرمنی میں فرمایا: اونٹ میں اطاعت کا سبق یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی موعود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی.جہاں بھی اور جس معاملے میں بھی ہمیں رہنمائی کی ضرورت ہو، کسی بات کو سمجھنے کی ضرورت ہو.قرآن کریم میں بیان فرمودہ حکمت کے موتیوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہو یا ان کی تلاش ہو تو ہمیں
407 سبیل الرشاد جلد چهارم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس فرستادے کی کتب اور ارشادات مل جاتے ہیں جو ہمارے مسائل حل کرتے ہیں.یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں جمعہ پر اکثر ہم دوسری رکعت میں پڑھتے ہیں.سورۃ غافیہ کی یہ آیات پڑھی جاتی ہیں.ان میں پہلی آیت جو میں نے پڑھی ہے یعنی أَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلقت.کیا وہ اونٹوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے پیدا کئے گئے ؟ اس کی جو تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے وہ اپنی گہرائی اور خوبصورتی اور علم وعرفان اور پھر عملی حالت پر منطبق کرنے کا ایک عجیب اور جدا نقشہ کھینچتی ہے.آپ علیہ السلام نے اس آیت سے نبوت اور امامت کی اطاعت کے مسئلہ کو حل فرمایا ہے اور نبوت اور امامت کے ساتھ جڑنے والوں کے لئے جو بنیادی چیز ہے یعنی اطاعت اور کامل اطاعت اس کو آپ نے ایل یعنی اونٹ کے لفظ سے یا اونٹوں کے لفظ سے جوڑ کر وضاحت فرمائی ہے.بظاہر یہ عجیب سی بات لگتی ہے کہ اونٹوں اور نبوت اور امامت کی اطاعت کا کیا جوڑ ہے لیکن جس طرح کھول کر آپ نے تشریح فرمائی ہے اس سے اس جوڑ کا حیرت انگیز ادراک ہمیں بھی حاصل ہوتا ہے.آپ کی تفسیر پہلے پیش کرتا ہوں.فرماتے ہیں کہ " قرآن شریف میں جو یہ آیت آئی ہے اَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ (الغاشيه : 18) یہ آیت نبوت اور امامت کے مسئلہ کو حل کرنے کے واسطے بڑی معاون ہے.اونٹ کے عربی زبان میں ہزار کے قریب نام ہیں اور پھر ان ناموں میں سے ایل کے لفظ کو جو لیا گیا ہے اس میں کیا ستر ہے؟ کیوں الی الحمل بھی تو ہوسکتا تھا؟ حمل بھی تو اونٹ کو کہتے ہیں.فرمایا کہ اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جمل ایک اونٹ کو کہتے ہیں اور اہل اسم جمع ہے.یہاں اللہ تعالیٰ کو چونکہ تمدنی اور اجمالی حالت کا دکھانا مقصود تھا اور حمل میں جو ایک اونٹ پر بولا جاتا ہے یہ فائدہ حاصل نہ ہوتا تھا اسی لئے اہل کے لفظ کو پسند فرمایا.اونٹوں میں ایک دوسرے کی پیروی اور اطاعت کی قوت ہے.دیکھو اونٹوں کی ایک لمبی قطار ہوتی ہے اور وہ کس طرح پر اس اونٹ کے پیچھے ایک خاص انداز اور رفتار سے چلتے ہیں اور وہ اونٹ جو سب سے پہلے بطور امام اور پیشرو کے ہوتا ہے وہ ہوتا ہے جو بڑا تجربہ کار اور راستہ سے واقف ہو.پھر سب اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے برابر رفتار سے چلتے ہیں اور ان میں سے کسی کے دل میں برابر چلنے کی ہوس پیدا نہیں ہوتی جو دوسرے جانوروں میں ہے.جیسے گھوڑے وغیرہ میں.گویا اونٹ کی سرشت میں اتباع امام کا مسئلہ ایک مانا ہوا مسئلہ ہے.اس لئے الله تعالى نے اَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الإِبل کہہ کر اس مجموعی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے جبکہ اونٹ ایک قطار میں جا رہے ہوں.اسی طرح پر ضروری ہے کہ تمدنی اور اتحادی حالت کو قائم رکھنے کے واسطے ایک امام ہو.یہ پہلی بات نہیں یا د رکھنی چاہئے.اس سے مطابقت کے لئے تمدنی اور اتحادی حالت قائم رکھنے کے لئے ایک امام ہو.” پھر یہ بھی یادر ہے کہ یہ قطار سفر کے وقت ہوتی ہے.پس دنیا کے سفر کو قطع کرنے کے واسطے جب تک
408 سبیل الرشاد جلد چهارم ایک امام نہ ہوانسان بھٹک بھٹک کر ہلاک ہو جاوے.دنیا کا بھی جو زندگی کا سفر ہے اس میں ایک امام ہونا ضروری ہے جو صحیح رہنمائی کرتار ہے.پھر اونٹ زیادہ بارکش اور زیادہ چلنے والا ہے.اس سے صبر و برداشت کا سبق ملتا ہے.پھر اونٹ کا خاصہ ہے کہ وہ لمبے سفروں میں کئی کئی دنوں کا پانی جمع رکھتا ہے.غافل نہیں ہوتا.پس مومن کو بھی ہر وقت اپنے سفر کے لئے تیار اور محتاط رہنا چاہئے اور بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے“.فرمایا کہ انظر کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دیکھنا بچوں کی طرح نہیں ہے بلکہ اس سے اتباع کا سبق ملتا ہے کہ جس طرح پر اونٹ میں تمدنی اور اتحادی حالت کو دکھایا گیا ہے اور ان میں اتباع امام کی قوت ہے.اسی طرح پر انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ انتباع امام کو اپنا شعار بناوے.کیونکہ اونٹ جو اس کے خادم ہیں ان میں بھی یہ مادہ موجود ہے.كَيْفَ خُلِقَتْ میں ان فوائد جامع کی طرف اشارہ ہے جو اہل کی مجموعی حالت سے پہنچتے ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحہ 394-393 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) خلافت جیسے انعام کی قدر کریں پس اس زمانے میں جب اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود کو بھیجا اور ہمیں پھر انہیں ماننے کی توفیق بھی عطا فرمائی اور پھر آپ کے بعد خلافت کے جاری نظام سے بھی نوازا.ہمیں اس انعام کی قدر کرنی چاہئے اور اس روح کو سمجھنا چاہئے جو خلافت کے نظام میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جو میں مفہوم بیان کر رہا ہوں کہ میرے نام پر افراد جماعت سے بیعت لینے والے افراد آتے رہیں گے.(ماخوذ از الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306) یعنی خلافت آپ کی نیابت میں آپ کے نام پر بیعت لے گی.جب آپ کے نام پر بیعت لی جارہی ہے تو پھر خلافت کی بیعت اور اطاعت کی کڑی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جا کے ملتی ہے.پس یہ جو اقتباس میں نے پڑھا ہے اس میں نبوت اور امامت کا جو تعلق آپ نے ایل کی خصوصیات کے ساتھ جوڑا ہے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ کے بعد خلافت کے جاری نظام سے جڑے رہنے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے والوں کی روحانی بقا اور ترقی ہے اور یہ ضمانت ہے.اس میں جماعت کی ترقی اسی صورت میں ہے جب ہم خلافت کے نظام سے جڑے رہیں گے.اسی میں شیطانی حملوں سے بچنے کے سامان بھی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام تمہاری ڈھال ہے.(الصحيح البخارى كتاب الجهاد والسير باب يقاتل من وراء الامام ويتقى به حدیث 2957) پس اس ڈھال کے پیچھے رہو گے تو بچت کے سامان ہیں اور ڈھال کے پیچھے رہنا یہی ہے کہ کامل اطاعت کرو.اپنی لائنوں پر چلو.اس قطار میں چلو جو تمہارے لئے مقرر کر دی گئی ہے.اس سے ذرا باہر نکلے تو بھٹکنے کا خطرہ ہے گنے کا خطرہ ہے.
409 سبیل الرشاد جلد چہارم پھر اطاعت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی یا درکھنا چاہئے کہ وَمَنْ أَطَاعَ أَمِيرِي فَقَدْ أَطَاعَنِي وَ مَنْ عَصَى أَمِيْرِي فَقَدْ عَصَانِي (مندابی داؤد الطیالسی جلد دوم صفحه 736 حدیث 2554 مطبوعہ دار الكتب العلمیۃ بیروت 2004ء) اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت امیر کے بارے میں اور بھی بہت سے ارشادات ہیں.اسی طرح قرآن کریم میں بھی متعدد جگہ اطاعت اور فرمانبرداری کے حکم دیئے گئے ہیں.اس لئے کہ یہی ایک راز ہے جو جماعتی ترقی کے لئے جاننا ضروری ہے.ہر اس شخص کے لئے جاننا ضروری ہے جو جماعت سے منسلک ہے.پس اس بات کو سمجھنے کی افراد جماعت کو بہت زیادہ ضرورت ہے.خاص طور پر آجکل کے دور میں جبکہ آزادی کے نام پر ان غلط خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ کیوں ہم پابندیاں کریں؟ کیوں ہمارے پر پابندیاں عائد ہوتی ہیں؟ کیوں ہمیں بعض معاملات میں آزادی نہیں؟ ایک احمدی مسلمان کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ اسلام نے ہر جائز آزادی اپنے ماننے والوں کو دی ہے.اور جتنی آزادیاں اسلام میں ہیں شاید ہی کسی دوسرے مذہب میں ہوں بلکہ اس کے مقابلے میں نہیں ہیں.لیکن بعض حدود جو قائم کی ہیں وہ انسان کے اپنے اخلاق کی درستی کے لئے ، روحانی ترقی کے لئے اور جماعتی پیجہتی کے لئے اور جماعتی ترقی کے لئے قائم کی گئی ہیں اور ان کے اندر رہنا ضروری ہے.عہدیداران جائزے لیں.کیا وہ خلافت کے ہر حکم کی بلا چوں و چرا تعمیل کرتے ہیں؟ یہاں میں عہدیداروں کو بھی کہوں گا کہ اگر جماعتی ترقی میں ممدومعاون بننا ہے اور عہدے صرف بڑائی کی خاطر نہیں لئے گئے.اپنے اظہار کی خاطر نہیں لئے گئے.اپنی انا کی تسکین کی خاطر نہیں لئے گئے تو اطاعت کے مضمون کو سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہر سطح کے عہدیداروں کو ہے.اگر عہد یدار اس مضمون کو سمجھ جائیں تو افراد جماعت خود بخود اس کی طرف توجہ کریں گے.اور ہر سطح پر اطاعت کے نمونے ہمیں نظر آئیں گے.ہمیں اونٹوں کی قطار کی پیروی کرتے ہوئے سب نظر آئیں گے.ایک رخ پر چلتے ہوئے نظر آئیں گے.امام کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے چلتے ہوئے نظر آئیں گے.پس امیر بھی، صدر بھی اور دوسرے عہدیدار بھی پہلے اپنے جائزے لیں کہ کیا ان کی اطاعت کے معیار ایسے ہیں کہ ہر حکم جو خلیفہ وقت کی طرف سے آتا ہے اس کی بلا چون و چرا تعمیل کرتے ہیں یا اس میں تاویلیں نکالنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں.اگر تاویلیں نکالتے ہیں تو یہ اطاعت نہیں.روایات میں ایک واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا آتا ہے.جب گلی میں چلتے ہوئے آپ کے ایک صحابی عبد اللہ بن مسعود نے بیٹھ جاؤ کی آواز سنی اور بیٹھ گئے.آواز سن کر یہ نہیں کہا کہ یہ حکم تو اندر مسجد والوں کے لئے ہے بلکہ آواز سنی اور بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے مشکل سے
410 سبیل الرشاد جلد چهارم قدم قدم مسجد کی طرف بڑھنا شروع کیا.کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ یہ آپ کو کیا ہوا ہے جو اس طرح گھسٹ رہے ہیں.آپ نے یہی جواب دیا کہ اندر سے مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ تو میں بیٹھ گیا.پوچھنے والے نے کہا کہ یہ حکم تو اندر والوں کے لئے تھا.آپ نے جواب دیا مجھے اس سے غرض نہیں کہ یہ اندر والوں کے لئے ہے یا باہر والوں کے لئے یا سب کے لئے.میرے کان میں اللہ کے رسول کی آواز پڑی اور میں نے اطاعت کی.پس یہی میرا مقصد ہے.(ماخوذ از سنن ابی داؤد كتاب الجمعة باب الامام يكلم الرجل في خطبته حديث 1091) پس یہ معیار ہیں اطاعت کے جو ہمیں حاصل کرنے کی ضرورت ہے.بعض عہد یدار خلیفہ وقت سے جو کوئی ہدایت آتی ہے تو اس پر عمل بھی کر لیتے ہیں لیکن بڑے انقباض سے، نہ چاہتے ہوئے یہ عمل کرتے ہیں.اور نہ چاہتے ہوئے عمل کرنا کوئی اطاعت نہیں ہے.اطاعت وہی ہے جو فوری طور پر کی جائے.اپنی رائے رکھنا کوئی بُری بات نہیں ہے.لیکن جب کسی معاملے میں خلیفہ وقت کا فیصلہ آ جائے کہ یوں کرنا ہے تو پھر اپنی رائے کو یکسر بھلا دینا ضروری ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں بعض معاملات میں اپنی رائے رکھتا ہوں اور اپنی طرف سے دلیل کے ساتھ خلیفہ اسی کو اپنی رائے پیش کرتا ہوں لیکن اگر میری رائے رڈ ہو جائے تو کبھی مجھے خیال بھی نہیں آیا کہ کیوں یہ رد ہوئی ہے یا میری رائے کیا تھی.پھر میری رائے وہی بن جاتی ہے جو خلیفہ وقت کی رائے ہے.پھر کامل اطاعت کے ساتھ اس حکم کی بجا آوری پر میں لگ جاتا ہوں جو خلیفہ وقت نے حکم دیا تھا.ما خوف از حیات بشیر مؤلفہ شیخ عبد القادر صاحب سابق سود اگر مل صفحه 323-322 مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ ) حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : غستال کی طرح اپنے آپ کو امام کے ہاتھ میں دو.(ماخوذ از خطبات نور صفحہ 131) جس طرح مردہ اپنے آپ کو ادھر ادھر نہیں کر سکتا ، حرکت نہیں کر سکتا، اس کو نہلانے والا اس کو حرکت دے رہا ہوتا ہے.(ماخوذ از خطبات نورصفحہ 131 مطبوعہ ربوہ ) اسی طرح کامل اطاعت والے کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو امام کے ہاتھ میں دیدے اور جب یہ معیار ہوگا تو تبھی عہد بیعت نبھانے والے بن سکیں گے تبھی اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے اطاعت کے معیاروں کو حاصل کرنے والے بن سکیں گے.پس ہم میں سے ہر ایک کو جس نے بیعت کا عہد کیا ہے نہ صرف یہ سوچ پیدا کرنی ہوگی بلکہ اپنے عمل سے اس کا ثبوت دینا ہو گا.اپنے نمونے نئے آنے والوں کے لئے بھی اور اپنی اولادوں کے لئے بھی قائم کرنے ہوں گے.نوجوانوں کو بھی اپنے نمونے بڑوں کو دکھانے کی ضرورت ہے، یعنی بڑے اپنے نمونے قائم کریں جو ان کے بچے اور نو جوان دیکھیں اور سیکھیں اور سب سے بڑھ کر یہ معیار اوپر سے لے کر نیچے تک ہر عہد یدار کو دکھانا ہوگا ، قائم کرنا ہوگا.یہاں بعض ذہنوں میں کبھی کبھی یہ سوال اٹھتا ہے.اگر وہ باتیں سیح ہیں.
411 سبیل الرشاد جلد چهارم میں سوال کی بات کر رہا ہوں جو مجھ تک پہنچے ہیں اگر یہ باتیں صحیح ہیں کہ یہ سوال اٹھانے والے اٹھاتے ہیں کہ کامل اطاعت شاید نقصان دہ ہے.اور ایسے لوگوں کی یہ سوچ شاید اس لئے ہے جو کامل اطاعت کو نقصان دہ سمجھتے ہیں کہ یہاں جرمنی میں ہٹلر نے اپنا ہر حکم منوایا اور ڈکٹیٹر بن کر رہا اس لئے دوسری جنگ عظیم میں یہ تصور ہے، یہ تاثر ہے کہ اس وجہ سے ہماری یعنی جرمنی کی شکست بھی ہوئی.ان کو نقصان اٹھانا پڑا سیکی اٹھانی پڑی.خلافت اور ڈکٹیٹر شپ میں فرق میں یہاں ہر احمدی اور ہر نئے آنے والے اور ہر نو جوان پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ امامت اور خلافت اور ڈکٹیٹر شپ میں بڑا فرق ہے.خلافت زمانے کے امام کو ماننے کے بعد قائم ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق قائم ہوئی ہے اور ہر مانے والا یہ عہد کرتا ہے کہ ہم خلافت کے نظام کو جاری رکھیں گے.دین میں کوئی جبر نہیں ہے.جب اپنی خوشی سے دین کو مان لیا تو پھر دین کے قیام کے لئے اس عہد کو نبھانا بھی ضروری ہے جو خلافت کے قیام کے لئے ایک احمدی کرتا ہے اور جو قومی یکجہتی کے لئے وحدت کے لئے ضروری ہے.خلافت کی اطاعت کے عہد کو اس لئے نبھانا ہے کہ ایک امام کی سرکردگی میں خدا تعالیٰ کی حکومت کو دنیا کے دلوں میں بٹھانے کی مشترکہ کوشش کرنی ہے.دوسرے مسلمان جو ہیں وہ بغیر امام کے ہیں اور جماعت احمدیہ کی کوششیں جو ہیں وہ خلافت سے وابستہ ہو کر ہو رہی ہیں.یہ سب کوششیں جو خلافت سے وابستہ ہو کر ہو رہی ہیں ان کی کامیابی کے نتائج بتا رہے ہیں کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کے ساتھ (حقیقی تعلیم دوسرے مسلمانوں کے پاس بھی ہے لیکن اسلام کی حقیقی تعلیم کے ساتھ ) ان نتائج کا حصول، کامیابی کا حصول خلافت کی لڑی میں پروئے جانے کی وجہ سے ہے.پھر خلافت کا مقصد حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھر پور توجہ دینا ہے.ان حقوق کو منوانا اور قائم کرنا اور مشترکہ کوشش سے ان کی ادائیگی کی کوشش کرنا ہے.دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے لئے افراد جماعت میں یہ روح پیدا کرنا ہے.ان کو توجہ دلانا ہے کہ دین بہر حال دنیا سے مقدم رہنا چاہئے اور اسی میں تمہاری بقا ہے.اس میں تمہاری نسلوں کی بقا ہے.یہ ایک روح پھونکنا بھی خلافت کا کام ہے.توحید کے قیام کے لئے بھر پور کوشش یہ بھی خلافت کا کام ہے.جبکہ دنیا وی لیڈروں کے تو دنیاوی مقاصد ہیں.ان کا کام تو اپنی دنیاوی حکومتوں کی سرحدوں کو بڑھانا ہے.اس کی ان کو فکر پڑی رہتی ہے.ان کا کام تو سب کو اپنے زیر نگیں کرنا ہے.دنیا میں آپ دیکھیں اپنے ملکوں کی حدوں سے باہر نکل کر بھی دوسرے ملکوں کی آزادیوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں چاہے وہ ڈکٹیٹر ہوں یا سیاسی حکومتیں ہوں.دنیاوی لوگوں کا تو یہ کام ہے.ان کا کام تو جھوٹی اناؤں اور عزتوں کے لئے انصاف کی دھجیاں اڑانا ہے جو ہمیں مسلمان دنیا میں بھی اور باقی دنیا میں بھی نظر آتی ہے.
سبیل الرشاد جلد چہارم 412 کون سا ڈکٹیٹر ہے جو اپنے ملک کی رعایا سے ذاتی تعلق بھی رکھتا ہو.خلیفہ وقت کا تو دنیا میں پھیلے ہوئے ہر قوم اور ہر نسل کے احمدی سے ذاتی تعلق ہے.ان کے ذاتی خطوط آتے ہیں جن میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہوتا ہے.ان روزانہ کے خطوط کو ہی اگر دیکھیں تو دنیا والوں کے لئے ایک یہ نا قابل یقین بات ہے.یہ خلافت ہی ہے جو دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کی تکلیف پر توجہ دیتی ہے.ان کے لئے خلیفہ وقت دعا کرتا ہے.کون سا دنیا وی لیڈر ہے جو بیماروں کے لئے دعائیں بھی کرتا ہو.کون سا لیڈر ہے جو اپنی قوم کی بچیوں کے رشتوں کے لئے بے چین اور ان کے لئے دعا کرتا ہو.کون سا لیڈر ہے جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر ہو.حکومت بیشک تعلیمی ادارے بھی کھولتی ہے.صحت کے ادارے بھی کھولتی ہے.تعلیم تو مہیا کرتی ہے لیکن بچوں کی تعلیم جو اس دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی فکر صرف آج خلیفہ وقت کو ہے.جماعت احمد یہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکر خلیفہ وقت کو رہتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں.ان کی صحت کی فکر خلیفہ وقت کو رہتی ہے.رشتے کے مسائل ہیں.غرض کہ کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفہ وقت کی نظر نہ ہو اور اس کے حل کے لئے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو.اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو.میں بھی اور میرے سے پہلے خلفاء بھی یہی کچھ کرتے رہے.خلیفہ مسیح کے سپر د کاموں کی تفصیل ا میں نے ایک خاکہ کھینچا ہے بے شمار کاموں کا جو خلیفہ وقت کے سپر د خدا تعالیٰ نے کئے ہیں اور انہیں اس نے کرنا ہے.دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں میں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لئے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو.یہ میں باتیں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کوئی احسان ہے.یہ میرا فرض ہے.اللہ تعالیٰ کرے کہ اس سے بڑھ کر میں فرض ادا کرنے والا بنوں.کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ خلافت اور دنیاوی لیڈروں کا موازنہ ہو ہی نہیں سکتا.یہ ویسے ہی غلط ہے.بعض دفعہ دنیا وی لیڈروں سے باتوں میں جب میں صرف ان کو روزانہ کی ڈاک کا ہی ذکر کرتا ہوں کہ اتنے خطوط میں دیکھتا ہوں لوگوں کے ذاتی بھی اور دفتری بھی تو حیران ہوتے ہیں کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے.پس کسی موازنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.معروف کی تعریف بعض لوگوں کی اس غلط نبی کو بھی دور کر دوں گو کہ پہلے بھی میں شرائط بیعت کے خطبات کے ضمن میں
سبیل الرشاد جلد چهارم 413 اس کا تفصیلی ذکر کر چکا ہوں کہ ہر احمدی خلیفہ وقت سے اس کے معروف فیصلہ پر عمل کرنے کا عہد کرتا ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ معروف کی تعریف انہوں نے خود کرنی ہے.ان پر واضح ہو کہ معروف کی تعریف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دی ہے.یہ پہلے ہی تعریف ہو چکی ہے.معروف فیصلہ وہ ہے جو قرآن اور سنت کے مطابق ہو.جس خلافت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق علی منهاج النبوة قائم ہونا ہے، اس طریق کے مطابق چلنا ہے جو نبوت قائم کر چکی ہے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق یہ دائمی بھی ہے جو آپ کے کام کو آگے چلانے کے لئے ہے وہ قرآن وسنت کے منافی یا خلاف کوئی کام کر ہی نہیں سکتی اور یہی معروف ہے.معروف سے یہاں یہ مراد ہے.پس اطاعت کے بغیر دوسروں کے لئے اور کوئی راستہ نہیں ہے.یا پھر قرآن وسنت سے جو اختلاف کرنے والے ہیں یہ ثابت کریں کہ خلیفہ وقت کا فلاں فیصلہ یا فلاں کام قرآن وسنت کے منافی ہے.یہاں یہ بھی بتا دوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا ہے کہ خلفاء راشدین کے فیصلے اور عمل اور سنت بھی تمہارے لئے قابل اطاعت ہیں.ان پر چلو.(سنن ابی داؤد كتاب السنة باب في لزوم السنة حديث 4607) پس یہ ثابت کرنے کے لئے کہ فیصلے غلط ہیں پہلے بہت کچھ سوچنا ہوگا.جماعت میں رہتے ہوئے اگر کوئی بات کرنی ہے تو پھر ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے خلیفہ وقت کولکھنا ہوگا.لکھنے کی اجازت ہے.ادھر اُدھر باتیں کرنے کی اجازت نہیں.یہاں سے وہاں بیٹھ کر غلط قسم کی افواہیں پھیلانے کی اجازت نہیں ہے.تا کہ اگر سمجھنے والے کی سمجھ میں غلطی ہے تو خلیفہ وقت اس کو دور کر سکے اور اگر سمجھے کہ اس غلطی کو جماعت کے سامنے بھی رکھنے کی ضرورت ہے تو تمام جماعت کو بتائے.جماعت جب بڑھتی ہے تو منافقین بھی اپنا کام کرنا چاہتے ہیں.حاسدین بھی اپنا کام کرتے ہیں.خلافت سے کچی وفا یہ ہے کہ ان کے منصوبوں کو ہر سطح پر نا کام بنائیں اور خلافت سے جو بعض بدظنیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں.ایک ایمان افروز واقعہ حضرت مولوی شیر علی صاحب کا ایک واقعہ ہے جو قرآن کریم کا ترجمہ انگلش میں کرنے کے لئے لندن آ رہے تھے تو بمبئی سے غالبا ان کی روانگی تھی.وہاں پہنچے تو جمعہ کا دن آ گیا.جماعت نے درخواست کی کہ آج جمعہ ہے آپ جمعہ پڑھا ئیں.قادیان سے آئے ہیں بزرگ ہیں صحابی ہیں ہم بھی آپ سے کوئی فیض پالیں.نہ جماعت والے آپ کو جانتے تھے، نہ کبھی دیکھا تھا، نہ آپ کسی کو جانتے تھے.آپ نے خطبہ دیا کہ دیکھو تم مجھے جانتے نہیں ہو.بعضوں نے مجھے دیکھا بھی نہیں ہوا.تم نے مجھے جمعہ کے لئے کھڑا کر دیا.آج اپنا امام بنا دیا.اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اگر امام نماز پڑھاتے ہوئے کوئی غلطی کرے تو تم نے سبحان اللہ کہہ دینا ہے
سبیل الرشاد جلد چہارم 414 اگر امام اس سبحان اللہ پر اپنی اصلاح کر لیتا ہے تو ٹھیک ہے.اگر وہ اصلاح نہیں کرتا، اسی طرح اپنے عمل جاری رکھتا ہے تو تمہارا کام کامل اطاعت کرتے ہوئے اس کے ساتھ اٹھنا اور بیٹھنا ہے.تمہارا کوئی حق نہیں بنتا ہے کہ تم اپنے طور پر نماز پڑھنی شروع کر دو.اسی طرح تم نے بیٹھنا ہے اسی طرح اٹھنا ہے اسی طرح جھکنا ہے.پس آگے انہوں نے فرمایا کہ جب عارضی امامت میں اطاعت کا یہ معیار ہے اس کی اتنی پابندی ہے تو خلیفہ وقت کی بیعت میں آ کر جو تم عہد کرتے ہو اور خوشی سے عہد کر کے خود شامل ہوتے ہو، اس میں کس قدر اطاعت ضروری ہے.جبکہ تم نے خود سوچ سمجھ کر یہ بیعت کی ہے.پس یا درکھیں عہد بیعت پورا کرنے کے لئے اطاعت انتہائی اہم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قد ر ا طاعت کی ضرورت ہے.مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے.اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے بڑوں اس کے اطاعت ہو ہی نہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے.بڑے بڑے تو حید کا دعویٰ کرنے والے جو ہیں وہ بھی اطاعت سے بعض دفعہ باہر نکل جاتے ہیں بت بنا بیٹھتے ہیں.فرمایا: ” کوئی قوم قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کریں.پھر فرماتے ہیں کہ اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ نے حکم دیا ہے.پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اس میں یہی تو سر ہے.اللہ تعالیٰ تو حید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں کی جاسکتی جب تک اطاعت نہ کی جاوے.( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد دوم صفحہ 247 - 246 تفسیر سورة النساء زیر آیت 59 الحکم جلد 5 نمبر 5 مورخہ 10 فروری 1901 ، صفحہ 1 کالم 3-2) تاریخ اسلام میں ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ نے کامل اطاعت کی وجہ سے اپنی گردنیں کٹوانے سے بھی دریغ نہیں کیا اور چند سالوں میں دنیا میں اسلام کو پھیلا دیا تو یہ اطاعت کی وجہ تھی.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جنگوں سے اسلام پھیلا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ تبلیغ بھی انہوں نے کی.اگر کہیں جنگوں کا سامنا ہوا تو دشمن کی کثرت اور تعدا د اور حملے انہیں اپنے کام سے روک نہیں سکے.اطاعت کی روح ان میں تھی تو کثیر دشمن کے سامنے بھی اگر ضرورت پڑی تو کھڑے ہو گئے اور اس کے مقابلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کے ماننے والوں نے اطاعت کا نمونہ نہ دکھا کر چالیس سال تک اپنے آپ کو انعام سے محروم رکھا.پس اگر ترقی کرنی ہے تو اس
415 سبیل الرشاد جلد چہارم زمانے کا جو جہاد ہے جو اپنی تربیت کا جہاد ہے اور پھر وہ جہاد ہے جو تبلیغ کے ذریعہ ہونا ہے خلیفہ وقت کے پیچھے چل کے ہونا ہے اس کی پابندی کرنی ہو گی.اسی طرح عمل کرنا ہو گا جس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایل یعنی اونٹوں کی مثال سے واضح فرمائی ہے.اپنی فطرت ثانیہ اطاعت کو بنانا ہوگا بلکہ ہر چیز پر اطاعت امام کوفوقیت دینی ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہی تفسیر کی روشنی میں بات مزید آگے بڑھاتا ہوں کہ ہلاکت سے بچنے اور بھٹکنے سے بچنے کے لئے اپنی اطاعت کو اطاعت کے اعلیٰ معیاروں پر رکھنے کی ضرورت ہے.خلافت کے ساتھ جڑ کر ہی صبر کے ساتھ مشکلات میں سے گزرا جاسکتا ہے.یہ بھی آپ نے فرمایا جو مشکلات میں سے گزر سکتے ہیں تو صبر کے ساتھ مشکلات میں سے خلافت کے ساتھ جڑ کر ہی گزرا جاسکتا ہے.مخالفین احمدیت جتنا بھی ہمیں دبائیں گے.ہمیں اپنے زعم میں جتنا بھی دبانے کی کوشش کریں گے، مشکلات میں ڈالیں گے، اپنے زعم میں ہمیں ختم کرنے کی آخری کوششیں کریں گے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے باوجود ہماری منزلوں کی طرف انشاء اللہ تعالیٰ لے جاتا چلا جائے گا.لیکن شرط یہی ہے کہ اطاعت اور کامل اطاعت.آج ہم دیکھتے ہیں دوسرے مسلمان بیشک قرآن وسنت کو ماننے اور عمل کا دعویٰ کرتے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا لیکن ہمیں ان میں صبر اور برداشت نظر نہیں آتی.سوائے اسلام کو بدنام کرنے کے اور کیا کام یہ لوگ کر رہے ہیں.پس یہ آج صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا ہی طرہ امتیاز ہے کہ صبر اور برداشت کے ایسے نمونے قائم کر رہے ہیں جو قابل رشک ہیں.تکلیفوں کو برداشت کرنے کے ایسے نمونے دکھا رہے ہیں جو کہ دور اول کے مسلمانوں میں نظر آتے ہیں.اور وَآخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بهم (الجمعة: 4) کا مضمون اس زمانے کے لئے واضح ہو جاتا ہے.پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اونٹ سفر کے لئے پانی جمع رکھتا ہے.اس بات سے غافل نہیں ہوتا کہ میں نے ضرورت کے وقت پانی کی کمی کو کس طرح پورا کرنا ہے.پانی جمع رکھتا ہے تا کہ ضرورت کے وقت وہ پانی کام آئے.آپ نے فرمایا کہ مومن کو بھی ہر وقت سفر کے لئے تیار اور محتاط رہنا چاہئے.اور یہ تیاری اور احتیاط کس طرح ہوگی؟ یہ زادِ راہ کے ساتھ ہے.زادِ راہ رکھنے سے ہوگی.اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا مومن بھی اس دنیا میں مسافر کی طرح ہے اور بہترین زاد راہ مومن کے لئے تقویٰ ہے.(ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 394 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ )
سبیل الرشاد جلد چهارم 416 ہم اپنے اعمال اور عبادتوں کو وہ رنگ دیں جو ہمارے لئے زادراہ ثابت ہو اعمال کو اور اپنی عبادتوں کو وہ رنگ ہمیں دینے کی ضرورت ہے جو ہمارے لئے بہترین زادِ راہ ثابت ہوں.اس زمانے کے امام کو مان کر روحانی پانی ہمیں میسر آ گیا.اس کو سنبھالنا اور اس سے فائدہ اٹھانا اب ہمارا کام ہے.پس اس حقیقت کو بھی ہر احمدی کو سمجھنے کی ضرورت ہے.کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ جو کامل اطاعت کے ساتھ امام وقت کی باتوں کو سنتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں اور یہی باتیں ہیں جو پھر خلافت کے انعام سے بھی فیض پانے والا بناتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خلافت کے فیض سے فیض پانے والے وہی بتائے ہیں جو عمل صالح کرنے والے ہیں ، عبادت کرنے والے ہیں، تو حید کو قائم رکھنے والے ہیں.اور یہی وہ لوگ ہیں جو تقویٰ پر چلنے والے کہلاتے ہیں.پس ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ خلافت میں کبھی دنیاوی مقاصد ہو سکتے ہیں یا خلافت کا مقصد بھی دنیاوی مقاصد کی طرح ہے یا دنیا داروں کی طرح ہے.دنیاوی مقاصد حاصل کرنے والوں کا روحانیت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا.وہ تو تمام دنیاوی ساز وسامان کے ساتھ بھی بسا اوقات کامیاب نہیں ہوتے.ان کے دنیاوی مقاصد پورے نہیں ہوتے.کامیابی تو وہی ہے ناں جو آخری فتح مل جائے.وہ ان کو حاصل نہیں ہوتی.لیکن خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والوں اور تقویٰ پر چلنے والوں کا مقصد دنیاوی ہار جیت نہیں ہے بلکہ کامل اطاعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا اور تقویٰ میں بڑھنا ہوتا ہے.ہمارا مقصد خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کرنا ہے.کوئی ذاتی نفع رسانی نہیں ہے.تو حید کا جھنڈا لہرانا ہے.ہم نے دنیا کے دل جیت کر دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہے.اسی مقصد کے لئے ہمارے تبلیغی پروگرام ہیں اور دوسرے پروگرام ہیں.اس کے حصول کے لئے ہماری دعاؤں کی طرف توجہ ہے اور ہونی چاہئے.پس خلافت تو ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے کام کر رہی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا اس کے لئے اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خلافت ہے کیا؟ اور یہ بات اسی وقت سمجھ آئے گی جب کامل اطاعت پر یقین پیدا ہو گا.کوئی جتنا جتنا بھی اپنے آپ کو عالم مدبر یا مقر رسمجھتا ہے، اگر اطاعت نہیں ہے تو نہ ہی جماعت احمدیہ میں اس کی کوئی جگہ ہے، نہ ہی اس کا یہ علم اور عقل دنیا کو کوئی روحانی فائدہ پہنچا سکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فقرے کو ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اتباع امام کو اپنا شعار بناوے.پس جب مکمل طور پر خلیفہ وقت کی پیروی اور اطاعت اختیار کر لیں گے.خلیفہ وقت کی طرف سے ملنے والی ہدایات اور حکموں پر عمل کریں گے اور ان کی تو جیہیں اور تاویلات نکالنی بند کر
417 سبیل الرشاد جلد چهارم دیں گے تو علم بھی اور عقل بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتے ہوئے ثمر آور ہوگی اور پھل پھول لائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تفسیر پر بنیاد رکھتے ہوئے جب ہم باقی آیات جو میں نے تلاوت کی تھیں ان کو بھی دیکھیں تو مزید معانی کھلتے ہیں کہ روحانی آسمان کی بلندیوں کو بھی انسان اُسی وقت چھو سکتا ہے جب أَطِيعُوا اللَّهَ َواَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأَوْلِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (النساء:60) کے مضمون کو سمجھیں.اور جیسا کہ میں نے کہا عہدیداران اپنے آپ کو اولی الامر سمجھ کر اپنی اطاعت کروانے کے اس وقت تک حقدار نہیں کہلا سکتے جب تک خلافت کی کامل اطاعت اپنے اوپر لاگو نہیں کرتے اور تاویلیں کرنے سے پر ہیز نہیں کرتے.بلکہ خلیفہ وقت کے ہر لفظ کو اپنے لئے قابل اطاعت سمجھ کر اس پر عمل کریں.عہد یداران کو رپورٹ کے حوالہ سے زرین نصائح بعض دفعہ بعض معاملات تحقیق کے لئے جب بھیجے جائیں تو پہلی یہ کوشش ہوتی ہے کہ یہ پتا کرو کہ شکایت کس نے کی ہے.بجائے اس کے کہ یہ دیکھا جائے کہ وہ بات سچ ہے یا غلط ہے.اگر تحقیق میں سچائی ہے تو اس کے لئے اس کا مداوا ہونا چاہئے اس کا حل ہونا چاہئے اور جو بھی کمی ہے اس کو پورا ہونا چاہیئے اور غلط ہے تو پھر رپورٹ دے دی جائے کہ غلط ہے کسی نے یونہی بات کر دی.تحقیق بعد میں کی جاتی ہے، پہلے اس شخص کا پتا کھوج لگانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کون ہے وہ یا کون نہیں ہے.اس سے کسی عہد یدار کو غرض نہیں ہونی چاہئے کہ کس نے شکایت کی ہے کس نے اطلاع دی ہے.آپ کا کام یہ ہے کہ جور پورٹ بھیجی جائے ، رپورٹ کے لئے کوئی بات بھیجی جائے اس پر تحقیق کریں اور اطلاع دیں.جہاں خلیفہ وقت کے کسی حکم کی واضح طور پر سمجھ نہ آئے جیسا کہ پہلے بھی میں نے کہا ہے وہاں یہ کہنے کی بجائے کہ اس کا یہ مطلب ہے اور وہ مطلب ہے مجھ سے لکھ کر پوچھیں کہ اس بات کی مزید وضاحت چاہئے ہمیں یہ واضح نہیں ہوئی.اس بات کا کیا مطلب ہے.اسی طرح ہر فرد جماعت کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ کامل اطاعت کرے.جب ہر ایک کامل اطاعت کرے گا تو روحانی بلندیوں کی طرف ہمارے قدم انشاء اللہ بڑھیں گے.یہی اس آیت کا مطلب ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب روحانی بلندیوں پر جاؤ گے تو ایمان بھی اس طرح مضبوط ہوں گے جس طرح پہاڑ مضبوطی سے زمین میں گڑھے ہوئے ہیں اور اس روحانی عروج اور مضبوطی ایمان کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم زمین پر اسلام کا پیغام لے کر پھیل جاؤ گے.تمہاری ترقی انشاء اللہ تعالیٰ مشرق میں بھی ہوگی اور مغرب میں بھی ہوگی.یورپ بھی تمہارا ہوگا اور ایشیا بھی.امریکہ بھی تمہارا ہوگا اور افریقہ بھی.آسٹریلیا میں بھی حقیقی اسلام کا جھنڈا لہرائے گا اور جزائر میں بھی " الفضل انٹرنیشنل 27 جون 2014ء)
سبیل الرشاد جلد چهارم 418 نیشنل عہدیداران کو اپنے خولوں سے باہر آنے کی ضرورت ہے.وہ باہر نکلیں اور اپنے آپ کو افسر نہ سمجھیں بلکہ خادم سمجھ کر جماعت کی خدمت کریں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ 20 جون 2014ء جرمنی کے جلسہ کے انتظامات پر تبصرے کے بعد عہد یداران کو مخاطب ہوکر فرمایا اب میں بعض باتیں وہ بھی کرنا چاہتا ہوں جو ہمیں اپنے جائزوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہیں.جہاں ہمیں اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہئے اور ہوتے ہیں کہ وہ کس کس طرح اپنی تائیدات اور نصرت کے نظارے دکھاتا ہے وہاں ہمیں اس بات کی بھی فکر ہونی چاہئے کہ کہیں ہم میں سے کسی ایک کی بھی کوئی ایسی حرکت یا ہماری شامت اعمال اسے ان فضلوں کا حصہ بننے سے محروم نہ کر دے.دوسروں کو تو عموماً خوبیاں نظر آتی ہیں لیکن ہمیں اپنی کمی اور خامیوں کی طرف بھی نظر رکھنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ کس طرح ہم اپنی حالتوں اور اپنے کاموں کو بہتر کر سکتے ہیں.خاص طور پر عہد یداران اور ان میں سے بھی خاص طور پر نیشنل عاملہ کے عہدیداران اور مرکزی کارکنان کو اس جائزے کی ضرورت ہے...نیشنل عہد یداروں کو اپنے خولوں سے باہر آنے کی ضرورت ہے.وہ باہر نکلیں اور اپنے آپ کو افسر نہ سمجھیں بلکہ خادم سمجھ کر جماعت کی خدمت کریں.اپنے اندر یہ سوچ پیدا کریں.اللہ تعالیٰ ان سب کو تو فیق دے اور جو بھی کامیابیاں جماعت کو مل رہی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے موصوف ومنسوب کریں.عاجزی اور انکساری اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری میں بڑھنے کی کوشش کریں.اللہ کرے کہ سب عہد یداروں میں یہ روح پیدا ہو جائے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پہلے سے بڑھ کر جذب کرنے والے ہوں" الفضل انٹر نیشنل 11 جولائی 2014ء)
سبیل الرشاد جلد چہارم اشاریه و سبیل الرشاد جلد چہارم مرتبہ: مکرم ریاض محمود باجوہ صاحب ارشادات اجتماعات ہمارے اجتماع کا مقصد آخرت کی طرف جھکنا اور خدا تعالیٰ کا خوف پیدا کرنا ہے انصار الله اللہ کے انصار بن جاؤ انصار اللہ کو پانچ باتوں کی طرف توجہ دینے کی ہدایت ۱۲ ۳ ۱۵ انصار والدین کو سمجھائیں کہ لڑکیوں کی شادی میں تاخیر نہ کریں ۵۷ انصار کا جماعت میں کردار بندے اور خدا کا درست تعلق انصار اللہ کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے ۶۸ اپنے گھر میں سلوک مثالی ہو انصار عبادتوں اور حسن سلوک کے اعلیٰ معیار قائم کریں نحن انصار اللہ کا نعرہ لگانے سے قبل اس کے معانی پر غور کریں انصار بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دیں انصار وصیت کے نظام کی طرف جلدی بڑھیں پچاس فیصد انصار ایسے ہوں جن کے ہاں الفضل آتا ہو انصار بوڑھے اور کمزور لوگوں کا وزٹ کریں ۴۸ ۴۹ ۵۲ ۱۶ ۷۹ ۹۸ ۱۱۲ انصار اللہ وصیت کرنے کے بعد ذیلی تنظیم کا چندہ بھی دیں ۱۳۶ انصار کے بچے نماز میں اور قرآن پڑھنے والے ہوں جہاں جماعت نہیں وہاں مجلس انصار اللہ قائم ہوسکتی ہے ۱۳۷ ۱۴۸ ۱۸ انصار اللہ کی اہم ذمہ داری نئی نسل کی تربیت ہے ۱۵۵ تمام عمر کے انصار سے انصار اللہ تنظیم کام لے ۲۱ اللہ تعالیٰ جماعت کو ایسے لوگ عطا کرتا رہے گا جو نحن انصار الله کانعرہ لگانے والے ہوں گے شادی بیاہ پر انصار کو مردوں کی طرف Serve کرنا چاہئے ۳۵ دستور اساسی کے مطابق کام کریں انصار اپنے گھروں کی نگرانی کریں دستور اساسی کا مطالعہ کریں ۳۷ ۳۹ ۱۵۹ انصار اللہ کا بہت بڑا کام خلافت کی حفاظت کرنا اور بیوی بچوں میں اطاعت کی روح پیدا کرنا ہے صحابہ کی فدائیت کے نمونے آپ انصار اللہ نے دکھلانے ہیں ۱۶۸
سبیل الرشاد جلد چہارم ۴۰ سال سے اوپر ہر ناصر کے دل میں اللہ کا خوف پہلے سے زیادہ ہو مسجدیں گی تو کی چیریٹی واکس مسجد میں آباد ہوں گی تو جماعت کی عمومی روحانی حالت ترقی کرے گی ۲۴۱ ۱۷۰ انصار اللہ اپنے وعدے خود پورے کریں مرکز پر انحصار نہ کریں ۱۷۸ لوگوں کے ذہن بدلنے میں چیریٹی واکس اہم کردار ادا کرتی ہے اہم ذمہ داری پنجوقتہ نمازوں کا قیام ۱۸۷ انصار اللہ کے عہد کو معمولی نہ سمجھیں یہ ایک بہت بڑا عہد ہے ۲۱۶ حضور انور کی اصولی ہدایت انصار اللہ کو اللہ کی عبادت کا حق ادا کرنے والا ہونا چاہئے صحابة رسول حقیقی معنوں میں انصار اللہ تھے شرائط بیعت پر پورا اترنے والا ہی انصار کہلانے کا حق انصار کو دوسروں کے لئے نمونہ ہونا چاہئے دینی علوم کے حصول کی طرف توجہ کریں ۲۲۵ ۲۲۷ ۲۲۶ ۲۲۹ ۲۴۵ جب میں ایک بات مجلس انصار اللہ کو کہتا ہوں تو وہ سب کے لئے ہوتی ہے انصار وقف عارضی میں حصہ لیں ہد رسومات سے متعلق ہدایات کی پابندی کروائیں نحن انصار اللہ کا قرآن میں ذکر اور اس کا فلسفہ انصار کو تہجد کا قیام التزام سے کرنا چاہئے آپ کی ہر حرکت و سکون خلیفہ کے تابع ہونی چاہئے ۲۵۲ ۲۵۳ ۲۵۹ ۲۷۳ ۲۷۶ ۲۹۲ خلافت خلافت سے وابستگی میں ہی آپ کی زندگی اور بقا ہے خلافت کے ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھو خلیفہ وقت کے خطبات کو با قاعدہ سنیں یہ خیال کہ خلیفہ اسی کو کوئی بات بتا نا تکلیف دہ ہوگا شیطانی خیال ہے ۱۵۹ ۱۸۰ ۱۴ ۲۰ ۷۶ ۸۹ خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق دینی و دنیاوی حسنات پانے کا ذریعہ ۱۶۳ حضورانور کا پیغام برموقع خلافت جو بلی ۲۷ مئی ۲۰۰۸ء دعا ۲۰۷ ہمارے بڑے بڑے عظیم الشان کاموں کی کنجی دعا ہی ہے ۱۰۴ ووٹ ڈالنے سے قبل دعا کریں دعوت الی اللہ ۳۵۰ ۱۴۰ انصار اپنے نمونے آنحضرت کے اعلیٰ خلق کے مطابق کریں ۳۱۳ دیہاتوں میں دعوت الی اللہ کی طرف توجہ دیں آنحضرت اور حضرت مسیح موعود کی محبت کی وجہ سے داڑھی رکھ لیں تبلیغ اس وقت تک بارآور نہیں ہو سکتی جب تک قول وفعل میں انصار اللہ کی نمازوں کا ریکار ڈرکھیں ۳۴۵ ۳۷۵ انصار اللہ کی تنظیم لائبریری میں قرآن کریم رکھوائے ۳۸۰ جماعتیں جماعت جرمنی سے حضرت خلیفہ المسیح الرابع خوش گئے م یکسانیت نہ ہو تبلیغ کا ایک بڑا ذریعہ مساجد کی تعمیر ہے ۲۲۱ ۲۲۳ ذیلی تنظیمیں ذیلی تنظیموں کا قیام حضرت مصلح موعودؓ کا جماعت پر بڑا احسان ہے ۲۲
سبیل الرشاد جلد چہارم ذیلی تنظیمیں بدعات پھیلانے والوں کا جائزہ لے کر سد باب کی کوشش کریں ذیلی تنظیمیں خطبہ سننے اور سنانے کی طرف متوجہ ہوں ۳۶۰ ۳۶۶ دور ہٹے احمدیوں کو قریب لانے کی ذمہ داری ذیلی تنظیموں کی ہے ذیلی تنظیموں کے چندوں کا بقایا دار ذیلی تنظیم اور جماعت کا عہد یدار ذیلی تنظیمیں چندہ وقف جدید اور چندہ دہندگان میں اضافہ کریں ۵۶ ۷۵ نہیں بن سکتا عہدہ ۳۷۵ ذیلی تنظیمیں خوشی کے مواقع پر مساجد کی تعمیر میں چندہ دینے کی تلقین کریں عہدہ ایک امانت ہے اس کی حفاظت کریں ۱۰۷ کسی کو عہدہ کی خواہش نہیں کرنی چاہئے.عہدہ خوف پیدا کرتا ہے ذیلی تنظیموں کا نظام بیاہ شادیوں پر نظر رکھے ذیلی تنظیمیں بھی دعوت الی اللہ کے پروگرام بنا ئیں جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہدیدار لغو حرکات چھوڑ دیں ذیلی تنظیمیں نو جوانوں کو ہنر سکھلا کر بریکاری کا خاتمہ کریں ۱۰۸ ۱۱۵ ۱۵۲ ۱۶۴ ذیلی تنظیموں کے قیام کا مقصد جماعت کے ہر طبقے کو جماعتی کاموں میں مصروف کرنا ہے ۱۹۴ عہدہ قومی امانت ہے اس کا حق ادا کرو عہدہ کو فضل الہی سمجھ کر قوم کا خادم بن کر خدمت کریں خدمت اور عہدہ بھی ایک عہد ہے عہدیداران عہد یداران کے خلاف گھروں میں باتیں نہ کریں ایسے پروگرام بنا ئیں جس سے قربانیوں کے معیار بلند ہوں ۱۹۹ عہد یدار کے پاس اگر کوئی معاملہ آئے تو وہ امانت ہے ۳۰ ۶۱ ۶۴ ذیلی تنظیمیں اپنے معاملات میں براہ راست خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں بالا عہد یدار کے خلاف بات کرنا فتنہ پیدا کرنے کے مترادف ہے ۸ ۲۰۵ عہد یدار برائی کی تشہیر نہ کریں پاکستان میں ذیلی تنظیموں کے اجتماعات میں رکاوٹ کا ذکر اور عہدیداران کو غصہ کی عادت ترک کرنی ہوگی اجتماعات کی اہمیت کا بیان ذیلی تنظیمیں میری باتوں کی جگالی کرواتی رہیں ۳۰۰ عہد یداران خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں کسی کے خلاف جلدی سے رائے قائم نہ کریں ۶ 11 ۲۳ ۲۴ ۲۵ ذیلی تنظیمیں بھی مرکز سے اجازت حاصل کر کے مرکزی کتب شائع کریں محبت اور پیار سے حکم دیں ۳۳۹ نظام جماعت کا احترام پیدا کریں نو جوانوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالات کا جواب ذیلی تنظیمیں دیں ما تحت عہدیداروں کو استخفاف کی نظر سے نہ دیکھیں ۲۷ ۲۸ ۲۹
سبیل الرشاد جلد چہارم خلاصہ ہدایات بابت عہدیداران ہر فرد کوخوش آمدید کہیں اور اٹھ کر ملیں نیکیوں اور عبادتوں کو پہلے اپنے گھروں میں رائج کریں رشتہ داروں اور احباب جماعت میں فرق نہ کریں ۳۱ ۴۰ ۳۶ خدا تعالیٰ سے مدد طلب کریں اور اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کریں عہد یدار کو ووٹ دینے کا طریق ۵۹ ۶۰ ڈیوٹی دینے والے عہدیداران اپنے اندر برداشت پیدا کرنے کی کوشش کریں خادم بنیں تو مخدوم کہلائیں گے وحدانیت اور امن کے قیام کی کوشش کریں غیبت اور بدظنی سے بچیں عہد یداران کی داڑھی ہونی چاہئے ۱۹۱ ۲۱۲ H ۲۱۶ ۲۵۹ ۳۴۶ عہد یدار منظوری آنے کے بعد بندھن میں بندھ جاتا ہے ۳۵۰ عہد یداران اور احباب جماعت ایک دوسرے کیلئے دعا کریں ۶۲ عہد یدار جماعتی اموال کو احتیاط سے خرچ کریں عہد یداران مربیان کا ادب و احترام اپنے دل اور لوگوں کے دلوں عہدیدار غصہ کو دبانے والا ہو میں پیدا کریں عہد یدار مسکراتے چہرہ کے ساتھ احباب کو ملیں عہد یداران اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں جماعتی وقار کے خلاف ہر بات عہدیداران کو بتا ئیں عہد یداران خدمت کیلئے مقرر کئے گئے ہیں ۶۶ ۶۷ ΔΙ ۸۶ M ماتحتوں سے حسن سلوک کریں عدل سے کام لیں قرآن کریم ۳۵۴ ۳۵۵ ۳۵۵ ۳۵۶ ہر احمدی اپنے بچوں کو قرآن پڑھانے کی فکر کرے کامیاب وہی ہے جو قرآن کریم کے تحت چلتا ہے م م 3 3 3 عہدیداران کو تعزیر یا فتہ افراد سے تعلق رکھنے میں احتیاط کرنا چاہئے قرآن کریم خوش الحانی سے پڑھنا چاہئے ۹۶ عہدیداران کو نظام جماعت کی اہمیت اور اس کی اطاعت کے بارے میں حضور انور کی زریں نصائح میاں بیوی کے جھگڑوں میں عہدیداران کا کردار عہدیداران جماعتی اموال کو خرچ کرنے سے پہلے منصوبہ بندی کریں انصاف سے کام لیں بیوی بچوں سے اچھا سلوک کریں سکیورٹی پر کھڑے خدام سے اپنی چیکنگ کروائیں ۱۲۲ ۹۲ ۱۸۳ ۱۸۵ JAY ١٩٠ انصار اللہ میں بھی ابھی سو فیصد تلاوت قرآن کریم کرنے والے نہیں قرآن کریم کی تلاوت کی عادت ڈالیں ۴۷ 1+1 صحت تلفظ اور ترجمہ قرآن کے لئے ذیلی تنظیمیں بھی کام کریں ۲۰۳ ۴۲ ZA قیادتیں قیادت تعلیم القرآن کی ذمہ داریاں قائدین انصار کو کانسٹی ٹیوشن مہیا کریں بنا تمام قائدین اپنی اپنی سکیم بنا کر مجلس عاملہ میں ڈسکس کریں ۱۵۴ قائدین کو دوسروں کے لئے نمونہ ہونا چاہئے ۳۱۷
۲۹۰،۲۸۰ ۲۵ ۶۹ ۲۳۹،۶۸ ۲۴۰،۴۲ ۶۸،۳۹ ۲۹۱ ۳۲۲ ۳۳۱،۳۳۰ ۳۲۱ ۳۲۲ ۳۲۴ ۲۸۳ ۶۹ ،۴۴ ۳۲۶ ۲۹۰ ۲۸۶ ۲۸۴،۲۸۳ ۳۲۳ ۲۸۳ ۲۸۶ ۳۲ سبیل الرشاد جلد چهارم مجلس عاملہ ہر ممبر نظام وصیت میں شامل ہو جنوری سے ہی نئے سال کا پلان بنا کر کام کیا کریں ۵۳ ۵۸ شخصيات ابراہیم ، میاں ، ابن میاں محمد بخش ابن عمر کانسٹی ٹیوشن کے مطابق عاملہ بنائیں اور ہر قائد کو اس کے فرائض ابوایوب انصاری سے آگاہ کریں ZA ابوذرغفاری مطالعہ کتب اور امتحانات میں اراکین مجلس عاملہ کو شامل کریں ۹۳ ابوسعید خدری نیشنل مجلس عاملہ انصار اللہ کو ہدایات مجلس عاملہ کا ہر ممبر سال میں ایک بیعت کروائے مشوره ۱۶۲ ۳۷۰ ابو موسی اشعری ابو ہریرة احمد دین منشی مشورہ ایک امانت ہے اور لیس صاحب آف دوگو ( بورکینا فاسو ) از نین رضوان (مراکش) نظام سلسلہ اصغر بھائی.صدر جماعت سروتر ا ( انڈیا ) اعجاز احمد مبلغ بورکینا فاسو واقفین نو کو نظام کا احترام سکھایا جائے اکبوز و سلیمان (بین) نومبائعين امام الدین درزی نو مبائعین کو نظام جماعت میں ضم کریں ۱۰۲ انس بن مالک نومبائعین کے ایمان افروز واقعات کا حسین تذکره ۳۲۳ تا ۳۳۵ او فوری کروم (اٹلی) جمال الدین، شیخ بابو حاکم دین، چوہدری ، میانوالی خانوالی حامد شاہ سید میر حسن صاحب ( بوسنیا ) رحیم بخش درزی رحیم بخش.عرضی نویس زور لے اسماعیل لوکل مبلغ ( بورکینا فاسو )
۲۸۳ ۲۸۰ ۲۸۹ ۲۸۷ ،۲۸۶ ۳۳۰ } } } ۲۹۱ ۲۸۴ ۳۰۳ ۳۲۷ ۳۳۰ ۲۹۱،۲۹۰ ۳۲۳ ۲۸۸ ۲۸۰ ۳۲ ۶۴۲۵ ۳۲۲ ۳۲۹ ۲۸۰ ۳۲۸ ۲۹۱ ۲۸۵ غلام حسین ، مهر غلام رسول غلام رسول را جیکی ، مولانا فضل کریم ، مولوی فضل مجوکہ.پرتگال فیروز دین ، میاں فیض دین.مولوی کریم سید کیم آندھرا انڈیا ۳۳۰ ۳۲۷ ۳۲۲ ۲۸۵ کمال یوسف متیجہ احمد.ٹوگو محمد احمد راشد مبلغ جر من محمد اسماعیل، شیخ محمد امین.چوہدری محمد شاہ.لدھیانہ مح لکھو کے ، حافظ محمود احمد.نائیجریا محمود احمد ملک معاویہ، حضرت معقل بن یسار مفیض الرحمان - مبلغ بوسنیا موسیٰ ابوبکر ، الحاجی نائیجریا میراں بخش ، میاں ٹیلر ماسٹر ناصر صاحب - مبلغ لائبیریا ۲۸۶ ۳۲۴ ۹۶،۸۲ ۲۶ ناصر نواب سید میر نذیر حسین ،سید گھٹالیاں ۶۸ ≤ ۲۸۷ ۲۸۲ ۲۸۵ ۲۹۵،۲۹ 11 = ۲۸۷ ۳۳۰،۳۲۹ ۳۲۴ ۲۸۵ ۳۳۱ ۲۸۲ ۲۸۳ G ۶۹ ۲۸۳ ۲۸۴ سبیل الرشاد جلد چہارم سائمن گلہر.جرمن نو مبائع سعید عیسی سما جوصاحب بوسنیا شاہ دین چوہدری شاہ محمد ، مولوی ، قلعہ میاں سنگھ عارف محمود مبلغ بینن عامر حضرت عائشہ، حضرت عبادہ بن صامت عبدالحئی ،مولوی عبدالرحمن ولد حکیم اللہ دتہ گوجرانوالہ عبدالکریم سیالکوٹی ،مولانا عبداللطیف شہزادہ سید عبد الله عبداللہ خان، چوہدری، داتہ زید کا عثمان صاحب.نائیجریا عرفان احمد.مبلغ ٹوگو عطا محمد، حکیم علا حسین.عراق علاؤالدین، مولوی عمر شاہ عمر و بن مره عوف بن مالک غلام حسین ، عارف والا غلام حسین ، مولوی
۳۲۴ ۳۲۶ ۳۷۳،۳۷۰ ۳۸۰،۱۵۴ ۱۵۲ ۳۲۷ تو کپوئے (بین ) ٹیچی مان (غانا) تھائی لینڈ جاپان جینگو (بین) جرمنی ۴،۳ ، ۹۶،۹۴،۳۸، ۱۷۹،۱۷۸،۱۵۹،۱۵۵،۹۸، ۱۸۷ ۳۴۰،۳۳۸،۳۳۴،۳۲۳،۳۰۶،۲۵۶،۱۹۱ ۳۲۷ ۲۹۰ 1+1 ۳۲۹ ۲۶۷ ،۱۹۰ ۱۴۰ ۳۴۶،۳۴۵ ۱۰۴ ۱۳۹ ۳۲۵ ۳۷۷ ،۳۷۲،۳۷۱،۳۷۰،۱۳۷ ۱۰۲ ۲۸۵ ۱۴۸ ۱۴۸ ۳۴۵،۵۸ ۳۳۸،۳۳۵ ٣٧٣,٣٧٠ جگو (بین) و میلی ڈنمارک را ڈاڈ او( نائیجر ) ربوه سالومن آئی لینڈز سپین سٹاک بالم سڈنی (آسٹریلیا ) سعودی عرب سویڈن سیالکوٹ صودا (نجی) فنجی فرانس فرینکفرٹ فلیائن ۳۲ ۹۶،۸۲ سبیل الرشاد جلد چہارم نصیر العامری.اٹلی نعمان بن بشیر مقامات ۳۷۷ ،۳۷۵،۳۴۸ ،۱۴۰ ۲۶۵ ۲۷۹ ۳۷ ۳۲۷ ۳۴۸،۳۲۳،۳۱۳،۲۱۴،۲۱۳٬۹۳ ۳۷۱،۳۷۰،۱۳۸ ۳۰۲،۱۰۷ ۴۰،۳۸ آسٹریلیا آک لینڈ آئرلینڈ اسلام آباد (تلفورڈ) افریقہ اما تو امریکہ انڈونیشیا اوسلو باد ہومبرگ (جرمنی) برطانیہ ۲۷۹،۲۶۷ ،۲۴۷ ، ۲۲۵ ،۲۰۳،۲۰۰،۱۹۱،۱۶۸ ،۱۴ ۳۷۶،۳۷۳،۳۵۷ ،۳۴۰،۳۳۵ ۲۲۴ ۳۷۰ ۳۱۱ ۳۳۶ ۲۲۶،۲۱۶،۱۵۹ ۳۴۹،۱۶۳،۱۳۹،۱۱۹ ،۱۰۴ ۳۴۹،۱۳۹،۱۱۰ ۳۳۰ ۳۲۴ ZA برلن بھارت پاکستان پرتگال پوبے (بین) تنزانیہ
<^ ۲۸۰ ۲۸۱،۲۸۰ یوگنڈا احوال الآخره ازالہ اوہام کتابیات اخبار الفضل پاکستان ۲۴۶،۹۸ اخبار الفضل انٹر نیشنل ۹۸ رسالہ الناصر.جرمنی ۹۸ رسالہ انصار اللہ ربوہ ( وصیت نمبر، پچاس سالہ خصوصی اشاعت اور شہدائے لاہور نمبر پر حضور انور ایدہ اللہ کے پیغامات) ۲۹۴۲۹۲،۷۹ ۳۰۴ ٣٠٣ ۱۵ ۳۷۷ ،۳۴۱ ۳۳۹ ٣٠٣ ۳۳۷ ۱۵۱ ٣٠٣ ۳۳۷ ۲۰۹،۲۰۸ رسالہ انصار اللہ ناروے ایک غلطی کا ازالہ اخبار بدر قادیان پاتھ دے ٹو ہیں پیغام صلح تحفہ قیصریه توضیح مرام گورنمنٹ انگریزی اور جہاد لائف آف محمد اخبار وکیل.امرتسر ۲۸۶،۲۸۲،۱۹۰ ۳۲۴ ۱۲ ۳۳۰ ۳۴۸،۳۲۸،۳۱۴ ۹۳ ۹۲،۸۶ ۷۶ ۲۸۵ ۱۰۲ ۳۰۰ ۳۲۸ ۲۵۱ ۳۷۷ ،۳۷۲ ۱۱۴ ۱۱۲ ۱۰۴ ۲۲۱ ۲۵۵ ۳۷۴،۳۷۳،۳۷۱،۳۷۰ ۳۷۳ ۳۰۲،۱۰۵ ۲۸۴،۱۱۹ ۳۷۸،۳۲۳،۱۵۰ ۳۴۵ ۱۶۲،۱۵۹،۳۹ ۳۳۵ ۳۴۸،۳۰۷،۳۷ سبیل الرشاد جلد چہارم قادیان کمپیوے (لوگو) کیم الہ (بھارت) کوئی شہر ( نائیجر ) کینیڈا کینیا ( مشرق افریقہ) گھٹالیاں گوتھن برگ (سویڈن) گروس گیراؤ (جرمنی) گوئی ( نائیجریا ) لائبیریا لندن ماریشس مالمو مدینہ مشرقی جرمن ملائیشیا میانما (برما) ناروے نیروبی ( کینیا ) نیوزی لینڈ ویلنسیا (سپین) ہالینڈ ہمبرگ