Sabeel Ur Rashad Vol 3

Sabeel Ur Rashad Vol 3

سبیل الرّشاد (جلد سوم)

مجلس انصاراللہ کے متعلق خطابات اور ارشادات
Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR

حضرت مرزا طاہر احمد، خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے 21 سالہ دور خلافت میں مجلس انصاراللہ کو مختلف مواقع پر  ہدایات سے نوازا، ان کو مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب نے جمع کرکے مرتب کیا ہے، اس قیمتی مائدہ میں حضور ؒ کی دنیا بھر کی  مجالس انصاراللہ کے اجتماعات سے خطابات اور ان مواقع پر بھجوائے گئے پیغامات بھی ہیں اور خطبات و خطابات میں انصار اللہ کے حوالہ سے فرمودہ نصائح کو بھی جمع کیا گیا ہے۔ مجلس انصاراللہ پاکستان نے اس کتاب کو مرتب کرکے شائع کیا ہے اور اس تفصیلی مجموعہ کے آخرپر انڈیکس بھی شامل کیاگیا ہے۔


Book Content

Page 1

صرف احمدی احباب کے لئے وَقَالَ الَّذِي مَنَ يُقَوْمِ اتَّبِعُونِ أَهْدِكُمُ سَبِيْلَ الرَّشَادِة سبیل الرشاد جلد سوم (المؤمن :۳۹) مشتمل : ارشادات وفرمودات حضرت خلیل مسیح الرابع حمدالله تعالی

Page 2

نام کتاب سبیل الرشاد جلد سوم اکتوبر 2014ء سن اشاعت طبع اول تعداد ایک ہزار

Page 3

سیدنا حضرت مرزا طاہراحمد صاحب الیه مسیح الرابع حمدالله عالی

Page 4

39 52 62 69 83 100 106 162 206 237 269 395 428 437 454 462 478 ix انڈیکس 1982ء کے ارشادات و فرمودات 1983 ء کے ارشادات و فرمودات 1984ء کے ارشادات و فرمودات 1985ء کے ارشادات و فرمودات 1986ء کے ارشادات و فرمودات 1987ء کے ارشادات و فرمودات 1988ء کے ارشادات و فرمودات 1989ء کے ارشادات و فرمودات 1990ء کے ارشادات و فرمودات 1991ء کے ارشادات و فرمودات 1992ء کے ارشادات و فرمودات 1993ء کے ارشادات و فرمودات 1994ء کے ارشادات و فرمودات 1995ء کے ارشادات و فرمودات 1996 ء کے ارشادات و فرمودات 1997ء کے ارشادات و فرمودات 1998ء کے ارشادات و فرمودات 2001 ء کے ارشادات و فرمودات 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18

Page 5

X تفصیلی انڈیکس عناوین صفحہ نمبر 1 1 2 3 4 14 17 33 $1982 کیا آپ اپنے بچوں کی اخلاقی ، روحانی تربیت اور انہیں حقیقی احمدی بنانے کے لئے پوری کوشش اور توجہ کے ساتھ دعا کرتے ہیں؟ انصار اللہ سمیت تمام تنظیمیں جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے گھروں اور ماحول میں خوبصورتی پیدا کریں انصار اللہ تحریک جدید کے دفتر دوم کی طرف توجہ کرے نئی نئی بد رسوم کے خلاف جہاد کا کام میں خصوصیت سے انصار اللہ کے سپر د کرتا ہوں ہمیں لازماً واقفین کی تعداد بڑھانی پڑے گی اور بکثرت بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور عورتوں کو اس میدان میں جھونکنا پڑے گا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کے جو طریق بتائے ہیں ان پر عمل کرنے سے فتح ونصرت لا ز ما قدم چومے گی زعماء انصار اللہ نماز کی یاد دہانی مساجد میں کرانے کی بجائے بے نمازیوں کے گھر گھر جائیں 2 3 5 6 7

Page 6

36 39 39 50 52 52 52 53 54 xi کیا آپ اپنے بچوں کی اخلاقی ، روحانی تربیت کے لئے اور انہیں حقیقی احمدی بنانے کے لئے دعائیں کرتے ہیں $1983 واضح اور یقینی شرعی مجبوریوں کے سوا سلسلہ کے تمام کارکنان کو نمازوں میں پیش پیش ہونا چاہئے ذیلی تنظیمیں ، مہمان نوازی پر مضامین لکھیں جنہیں جلسہ سالانہ سے قبل مساجد 62 62 42 69 69 $1984 میں پڑھایا جائے 8 1 2 انصار خطبہ کے دوران بغیر بولے صفیں پھلانگنے والوں کو روک دیں 2 مجلس انصار اللہ کے اجتماع پر حکومت کی طرف سے پابندی پر تبصرہ 1 1 مجلس انصار اللہ کے اجتماع پر پابندی کی خوشی میں مولویوں کی گندہ دینی کا ذکر جماعتی وذیلی تنظیموں کے اجتماعات پر پابندی کی وجہ سے قوم کی پکڑ کی وعید $1985 ذیلی تنظیمیں ماہانہ ایک اجلاس قیام نماز کے حوالہ سے کریں $1986 عہدیداران ، تقوی کے معیار کو بڑھا کر سلسلے کے اموال خرچ کریں

Page 7

72 73 83 83 87 98 99 100 100 106 xii 2 ہندوستان میں تحریک شدھی میں انصار کو اپنا کر دار ادا کرنے کی تلقین 2 ذیلی تنظیمیں بچوں کی تربیت کی خاطر ماں باپ کی تربیت کا بھی اہتمام کریں $1987 جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہدیداران خدمت دین کے لئے تمام افراد سے کام لیں اور خدام دین کی تعداد بڑھائیں دعوت الی اللہ سے متعلقہ ہر عہد یدار، جماعت کے افراد کو فَصُرُ هُنَّ إِلَيْكَ کے مطابق اپنے ساتھ وابستہ کرے ہر مجلس عاملہ ماہانہ میٹنگ میں تبلیغ کے موضوع کو زیر بحث لائے ذیلی تنظیموں کو بھی جماعت کی انجمنوں کے ساتھ قدم ملا کر آگے بڑھنا چاہئے $1988 اصلاح کرنے والوں کو سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے $1989 واقفین نو کی تعلیم وتربیت کے لئے ذیلی تنظیموں سے استفادے کئے جاسکتے ہیں 106 ہم سب مل کر نسلوں کی نگہداشت کریں تو یہ ان نسلوں پر ایک احسان ہوگا دوسری صدی کی تیاری میں انصار بھی کوشاں ہیں 120 122

Page 8

xiii 4 8 ناظم صاحب انصار اللہ سیالکوٹ کی ایک اچھی روایت پر احباب جماعت کو اپنے خاندانوں کی تاریخ لکھنے کی تحریک انصار سمیت دیگر تنظیموں نے امریکہ میں مساجد کی تعمیر میں خوب قربانی کی ہے ذیلی تنظیموں کو مساجد آباد کرنے کی تحریک ذیلی تنظیمیں ٹھوس منصوبہ بندی کے ذریعہ تربیتی خلا کو پُر کریں گورنمنٹ کی طرف سے ذیلی تنظیموں کے اجتماعات کے انعقاد کی مشروط اجازت پر تبصرہ 123 126 127 136 و آئندہ ہر ملک کی ذیلی تنظیموں کے صدران براہ راست خلیفہ وقت کو جوابدہ ہوں گے 140 10 ذیلی تنظیموں کو پانچ بنیادی اخلاق اپنانے کی خصوصی تلقین $1990 جماعت کو کثرت سے ایسے انصار ملیں گے جو يَنصُرُكَ رِجَالٌ کے تحت 149 162 162 165 167 169 جماعت کی مدد کے لئے متوجہ ہوں گے ذیلی تنظیمیں ، جماعتی لٹریچر کی تقسیم میں اپنا کردار ادا کریں ذیلی تنظیموں کو خدا سے لقاء کی دعائیں مانگنی ہیں ذیلی تنظیمیں قرآن کی تعلیم دیں.وقف عارضی کریں اور اپنے دائرے میں کلاسز کا اہتمام کریں

Page 9

172 173 185 188 χίν دعوۃ الی اللہ جرمنی میں انصار کی کوششوں سے نتائج حوصلہ افزاء ہیں جماعتی ادارے اور تنظیمیں جھوٹ کو ختم کرنے میں اپنی کوششیں تیز کر دیں انصار، خدام، لجنہ سے جو بھی ہجرت کر کے جرمنی آیا ہے اسے لازماً خدا کی طرف ہجرت کرنا ہوگی تمام کام خدا کے فضل سے ہوں گے، اپنا اور اپنے ماتحتوں کے تقویٰ کے معیار کو 7 8 بلند کریں و ربوہ میں ذیلی تنظیموں کے اجتماعات منسوخ کرنے پر تبصرہ 4 5 $1991 202 206 انصار اللہ کو صبر اور رحم کی نصیحت باقیوں سے زیادہ زیب دیتی ہے.انصار ا یسی نصیحتیں کریں کہ لوگوں کے دل نرم پڑ جائیں اور وہ ظالمانہ انتقام کی بجائے رحم 206 کی طرف مائل ہوں عہدے، ذمہ داریاں ہیں.اپنی برتری ظاہر کرنے کے لئے اسے استعمال نہ کریں 208 میرے بوجھ کی فکر نہ کریں اگر کسی کے خلاف شکایت ہے تو مجھے ضرور لکھیں مجلس عاملہ با اخلاق ، بادب، باتمیز افراد پر مشتمل ہو عہد یداران، اپنا ، اپنے کاموں کا اور اپنے طریق کار کا محاسبہ کریں دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہدیداران کو نصائح 210 211 212 223

Page 10

233 234 236 237 237 250 251 252 255 257 263 XV عہدیداران دعوت الی اللہ کو اپنی جان سے ایسے لگا ئیں جیسے غم لگ جاتا ہے 8 عہدیداران اپنے نفوس کا محاسبہ کریں و اپنے دل میں حشر برپا کریں تا اس میں صوراسرافیل پھونکا جا سکے $1992 مسیح کے انصار اور اللہ کے انصار بنا دو مختلف چیزیں نہیں ہیں نَحْنُ أَنْصَارُ اللہ کی لطیف تشریح تمام افراد جماعت دعوت الی اللہ کے لئے منصوبہ بندی کریں ذیلی تنظیمیں خدا کے واسطے اپنی نسل کو صحیح تلاوت سکھا دیں جماعتی عہدے خوف کا مقام ہیں، وہ خدا کے حضور جواب دہ ہیں ذیلی تنظیموں کا کوئی ممبر بے نمازی نہ رہے جس عہدیدار کو جماعت نے چنا اور خلیفہ وقت نے صاد کیا وہ عہدیدار ضرور تائید یافتہ ہے عہدہ امانت ہے اور عہدیدار جب اس امانت کا بوجھ محسوس کرے تو رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا کی دعا کرے ہر ناصر اپنی ذات میں خود مربی بنے اور دوسروں کو اس طرف ترغیب بھی دلائے 268 268 6 7 و اصلاحی کمیٹیوں میں تینوں تنظیموں کو بیک وقت مل کر کوشش کرنی چاہئے

Page 11

269 xvi $1993 2 3 6 7 8 نمازوں کی حفاظت پر تمام تنظیمیں اپنے اپنے ہاں مگر ان ہوں اور بیدار ہوں 269 دنیا بھر کے جماعتی وذیلی تنظیموں کے اجتماعات پر انصار کو قیمتی نصائح 273 مجلس انصار اللہ کوکوشش کرنی چاہئے کہ احمدی نسلوں میں محنت کا احساس پیدا ہو | 288 تربیت واصلاح وارشاد کے حوالہ سے جماعتی وذیلی تنظیموں کے عہدیداران کو نصائح 301 ذیلی تنظیموں کو اجتماعات کے لئے حقیقت پسندانہ پروگرام بنانے کی تلقین دنیا بھر کے جماعتی و ذیلی تنظیموں کے اجتماعات پر اجتماعی نصائح دنیا بھر میں منعقد ہونے والے مختلف اجتماعات کا اعلان اور نصائح پاکستان میں ذیلی تنظیموں کے اجتماعات پر پابندی کی وجہ سے پیدا ہونے والے درد کا فیض ساری دنیا میں عام ہو رہا ہے و تحریک جدید کے دفتر اول اور دفتر چہارم کی ذمہ دار انصار اللہ ہے 9 10 جماعتی و ذیلی تنظیموں کے اجتماعات پر ذکر اللہ کے مضمون کو جاری رکھیں 11 دنیا بھر کے جماعتی و ذیلی تنظیموں کے اجتماعات کی مناسبت سے احباب جماعت کو نصائح 320 323 338 352 358 374 386 395 395 91994 اپنی طبیعت کے تجسستات پر نفرت کی نگاہ ڈالیں 1

Page 12

410 424 428 428 429 430 432 437 437 xvii تمام دنیا کی فتح حسن طلق پر چھنی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں دعا کے بعد سب سے زیادہ قوی ہتھیار حسن خلق کا ہتھیار تھا ذیلی تنظیموں کے افراد اپنے اپنے اجتماعات میں خدا کو راضی کرنے کے لئے دینی اغراض کی خاطر ا کٹھے ہوا کریں $1995 ذیلی تنظیموں کی صحت کے لئے ضروری ہے کہ وہ جماعت کے بدن کا ایک جزو 2 3 بن کر رہیں 2 بعض عہدیداران سلامتی کے دائرہ میں ہیں اور خدا اُن کی حفاظت کر رہا ہے اللہ کا فضل بھی محنتوں کے تقاضے کرتا ہے.کچھ نہ کچھ تو خدا اپنے بندوں سے 3 تھ ہلانے کی توقع رکھتا ہے ساری جماعت کو تبلیغ کے میدان میں جھونکنے کا وقت آگیا ہے $1996 قائدین اور زعماء کو اطاعت کا اپنے منصب کے لحاظ سے ایک حق حاصل ہو گیا ہے اور اس میں ان کی ذات کا کوئی دخل نہیں 1

Page 13

448 454 454 459 461 462 462 476 478 xviii امیر سے مراد ہر وہ شخص ہے جسے کچھ امرسونپا گیا ہے وہ اپنے ماتحتوں سے محبت، شفقت کا سلوک کرے $1997 اس سال یہ فیصلہ کریں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بُرائیوں کے شہر کو چھوڑ کر نیکیوں کے شہر کی طرف حرکت شروع کریں گے دعوت الی اللہ کے کام میں اخلاص سے آگے بڑھیں اور جماعت کی تعداد بڑھائیں خدا تعالی سے تعلق کے نتیجے میں انسان دائمی بقا حاصل کر سکتا.$1998 ہے آئے دن اللہ تعالیٰ اپنے تازہ نشان آپ کو دکھاتا ہے اور اسکے باوجود اگر خدا نخواستہ آپکے قدم ڈگمگائیں تو بہت بڑی محرومی ہوگی انصار اگر اپنی صحت کا خیال نہ رکھیں گے تو جماعت کا کام بھی اچھی طرح نہ $2001 کرسکیں گے رشتہ ناطہ میں کوائف اکھٹے کرنے کے لئے امراء ذیلی تنظیموں سے ضرور مددلیس | 478 2 2 1 2

Page 14

1 $1982 کیا آپ اپنے بچوں کی اخلاقی ، روحانی تربیت اور انہیں حقیقی احمدی بنانے کے لئے پوری کوشش اور توجہ کے ساتھ دعا کرتے ہیں؟ خطبہ جمعہ 8 اکتوبر 1982ء) ایک اور بات یہ ہے کہ آپ کو امراء اور جماعت کے عہدیداران کے حوالہ سے اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا ضروری ہے.امراء اور عہدیداران خلافت کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں.جو بالآخر ساری جماعت کی تنظیم کی ذمہ دار ہے.چنانچہ اس نظام کے کارکنان کی حیثیت سے انہیں خلافت کے نظام سے بعض حقوق عطا کئے جاتے ہیں.وہ اپنے مقام کے لحاظ سے مختلف ہیں.بعض اوقات کسی خاص عہدیدار کے حقوق نہ جانے یا نہ سمجھنے کی وجہ سے مسائل ابھرتے ہیں.لوگوں کو نہ تو اپنے حقوق کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی ان عہد یداروں کے حقوق کا جنہیں بعض کا موں پر مقرر کیا گیا ہو.چنانچہ یہ بہت اہم بات ہے کہ جماعت انگلستان ان سب دوستوں کو بتائے کہ عہد یداران کی کیا حدود ہیں.ان کے حقوق اور فرائض کیا ہیں.اور ان کی کیا حدود ہیں جن پر وہ بطور امیر ،صدر یا کسی اور حیثیت میں مقرر کئے گئے ہیں.اگر آپ اپنے حقوق اور اپنے فرائض سے واضح طور پر آگاہ ہوں تو کسی کو غلط فہمی اور نا اتفاقی کے بیچ ہونے کی جرات نہیں ہوسکتی.ان چیزوں کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ جہالت ہے.جہالت اور تاریکی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.علم روشنی ہے.چنانچہ سب سے پہلے روشنی پھیلانی چاہئے.تا کہ ہر شخص راستہ دیکھ سکے.اس صورت میں ان باتوں کے پھیلنے کا امکان بہت کم ہے کیونکہ بصارت درست ہو تو پھر انسان دوسرے لوگوں سے ٹکرا تا نہیں پھرتا، ماسوا جنگلی انسانوں کے.ایسا ہوتا تو ہے مگر بہت کم.نارمل ذہن رکھنے والے افراد ایک ہی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دوسروں سے ٹکراتے نہیں پھرتے.چنانچہ ساری جماعت کو احمدیت کی روایات کے مطابق اپنے حقوق سے بھی آگاہ ہونا چاہئے اور نظام میں اپنے سے بالا افراد کے حقوق سے بھی.یہاں میں نے بالا افراد کا لفظ بولا ہے.میری مراد اس سے انتظامی طور پر بالا افراد سے ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں تو بعض افراد انتظامی طور پر بالا افراد سے کہیں زیادہ بلند ہونگے.کیونکہ یہ تو دل اللہ تعالیٰ کے خوف اور تقویٰ کا معاملہ ہے کہ کون دراصل بلند مقام پر فائز ہے.تو میں صرف انتظامی طور پر بالا افراد کا ذکر کر رہا ہوں.

Page 15

2 اب میں یہاں پر بعض حقوق کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.اول یہ کہ اگر کسی امیر نے غلطی سے آپ کو کوئی غلط حکم دے دیا ہے اور اگر وہ حکم قرآنی تعلیمات کے منافی نہیں آپ کو اسکی اطاعت کرنی ہے.جیسا میں نے واضح کر دیا ہے اگر وہ حکم قرآن کریم کی تعلیمات کے منافی نہیں تو پھر آپ پر اطاعت فرض ہے.اور اگر کسی آیت قرآنی کی تفسیر میں اختلاف بھی ہو تب بھی آپ نے بات ماننی ہے.کیونکہ یہ آپ کا کام نہیں کہ اسکی تاویل ڈھونڈ کر امیر کی اطاعت نہ کرنے کا بہانہ تلاش کریں." (خطبات طاہر جلد اول صفحہ 189-190) انصار اللہ سمیت تمام تنظیمیں جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے گھروں اور ماحول میں خوبصورتی پیدا کریں (خطبہ جمعہ 29 اکتوبر 1982ء) گھروں کے سلسلہ میں ایک چھوٹی سی بات میں بہر حال کرنا چاہتا ہوں.ویسے تو سارے گھر جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کئے ہیں خدا تعالیٰ کے گھر ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بعض دفعہ یہ بھی مطالبے کرتا ہے اور یاد کرواتا ہے اور بعض دفعہ نہیں بھی کرواتا.جب مومن کے گھر میں کوئی مہمان آتا ہے اور وہ اپنے منہ ملاحظہ کی بجائے خدا کی خاطر اس کو جگہ دیتا ہے تو اس وقت وہ ثابت کرتا ہے کہ ہاں میرا گھر خدا کا گھر ہے.تو یہاں آکر وہ دائرہ مکمل ہو جاتا ہے.ہماری ہر چیز پھر خدا کی ہو جاتی ہے.امتحان کے بعض ایسے ہی دن آنے والے ہیں یعنی جلسہ سالانہ.اس موقع پر آکر حقیقت میں ربوہ کے سارے گھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر بن جاتے ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سارے گھر اللہ کے گھر ہو جاتے ہیں.اس لیے خوب دل کھول کر اپنے گھر نظام جلسہ کو پیش کریں اور اس موقع سے فائدہ اٹھا کر یہ ظاہر کریں کہ مجبورا تو ہم نے مَالِكِ يَوْمِ الدِّين کے حضور پہنچنا ہی ہے اس سے تو ہمیں کوئی مفر نہیں، لازما جانا ہے.اگر اس دنیا میں بھی خدا کو طوعاً ملك يوم الدين (سورة فاتحہ : 4) تسلیم کر لیں گے تو قیامت کے دن اس کی مالکیت سے زیادہ حصہ پائیں گے اور زیادہ رحم کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے.پس اس پہلو سے ربوہ والے اپنے گھروں کو خوب بشاشت کے ساتھ پیش کریں.پہلے بھی کرتے ہیں اس دفعہ اور بھی زیادہ محبت کے ساتھ پیش کریں اور کارکنان بھی اپنی ساری طاقتوں کو مالک یوم الدین کے حضور پیش کر دیں.بے شمار کام ہوتے ہیں اور جو اس وقت ہمارے پاس عملہ مہیا ہے وہ اتنا تھوڑا ہے کہ حقیقت

Page 16

3 میں وہ تقاضے پورے نہیں کر سکتا.محض اللہ کا فضل ہے.ہر دفعہ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح کام ہو گئے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہم بہر حال للہی جماعت ہیں اللہ کی خاطر کام کرتے ہیں وہ اپنے فضل سے فرشتوں کے ذریعہ کام پورے کر دیتا ہے.لیکن خدا کے فضل کو ہم انتہا کی شکل میں اس وقت دیکھتے ہیں.جب ہم اپنی قوتوں کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں جب ہم اپنی قوتوں کو آدھے راستہ میں چھوڑ دیتے ہیں تو پھر خدا کا فضل بھی آدھے راستے تک رہتا ہے.اس لئے ہم کوشش کریں گے کہ جس قدر بھی ممکن ہوطوعی طور پر اپنے وقت کو بھی خدا کے حضور پیش کر دیں.تیسری شکل یہ ہے کہ مہمانوں کے لئے اپنے گھروں کو خوب سجا دیں.جب آپ کے مہمان آتے ہیں تو آپ اپنے گھروں کو خوب سجاتے ہیں.اللہ کے مہمان آئیں گے تو کیا آپ اپنے گھروں کو نہیں سجائیں گے.کیا آپ اپنی گلیوں کو صاف نہیں کریں گے.کیا خدا کی خاطر آپ یہ خیال نہیں رکھیں گے کہ ربوہ کے بعض محلوں میں رات کو چلتے ہوئے گندی نالیوں میں بھی پاؤں پڑ جاتے ہیں.گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں ان سے بد بوئیں بھی اٹھتی ہیں.پس جب آپ اپنے مہمانوں کی خاطر اپنے گھروں کی صفائی کرتے ہیں.تو اب تو خدا کے مہمان آنے والے ہیں.اس لئے اپنے گھروں کی بھی صفائی کریں.اپنی گلیوں کی بھی صفائی کریں.ان ڈھیروں کو بھی دور کرنے کی کوشش کریں.جو بد بو پھیلاتے ہیں.اور اس سلسلہ میں جماعت کی جتنی بھی تنظیمیں ہیں وہ ساری تیزی کے ساتھ عملی توجہ شروع کر دیں.یعنی سکیمیں بھی بنا ئیں اور پھر ان کو عمل میں ڈھالیں انصار الله لجنہ اماءاللہ اور خدام الاحمدیہ یہ ساری تنظیمیں کام کریں اور جلسہ سالانہ کا نظام اسکی عمومی نگرانی کرے.اس کے بعد پھر سجاوٹ کا وقت بھی آئے گا.میرے ذہن میں ایک نقشہ یہ بھی ہے کہ غریب کے مکان کو خوبصورت بھی بنایا جائے اور سجایا بھی جائے لیکن ابھی فورا تو اس کا وقت نہیں.“ خطبات طاہر جلد اوّل صفحہ 247 تا 249) انصار اللہ تحریک جدید کے دفتر دوم کی طرف توجہ کرے خطبہ جمعہ 5 نومبر 1982ء) اس سے پہلے دو دفتروں میں سے ایک دفتر یعنی دفتر اول خدام الاحمدیہ کی خصوصی تحویل میں دے دیا گیا ان معنوں میں کہ وہ چندوں کی طرف خصوصی توجہ کریں.دفتر دوم انصاراللہ کے سپرد کیا گیا کہ وہ اس طرف توجہ کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انصار نے اس میں بڑی محنت سے کام کیا ہے.تیسرا دفتر ، دفتر سوم کسی ذیلی تنظیم کے سپردنہیں کیا گیا.ہو سکتا ہے یہ بھی وجہ ہو اس میں غفلت اور کمزوری کی.تو امید ہے کہ لجنہ اماءاللہ انشاء اللہ تعالی بڑی تیزی کے ساتھ اس طرف توجہ کرے گی اور لجنہ کا تجربہ یہ ہے کہ جب وہ کسی کام کی

Page 17

4 طرف توجہ کرتی ہیں تو ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ مردوں کو شرمندہ کریں اور ان کو پیچھے چھوڑ جائیں.اور بسا اوقات وہ اس میں کامیاب بھی ہو جاتی ہیں.اس لئے مرد بھی کمر ہمت کس لیں.جب وہ دوڑیں گی تو آپ کو بھی دوڑنا پڑے گا.آپ قوام ہیں.آپ کو اپنا وقار اور اپنا مقام قائم رکھنے کے لئے قربانیوں میں لازماً آگے بڑھنا ہو گا.اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے فَاسْتَبِقُوَ الْخَيْراتِ کا ایک بہت ہی حسین منظر ہمارے سامنے آ جائے گا.یعنی جماعت کے تمام حصے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کیلئے دوڑ کر رہے ہوں گے.دنیا انصار کو بلا رہی ہے کہ ہمیں بچاؤ اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم دنیا کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ہر آن بڑھتی ہوئی قربانی پیش کرتے رہیں.خدمت کے نئے نئے میدان ظاہر ہو رہے ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہے ہیں اور دنیا کی طرف سے آپ کو بڑی کثرت کے ساتھ بلا وادیا جارہا ہے.آپ کو جو جماعت احمدیہ کے خدام ہیں، جو جماعت احمدیہ کے انصار ہیں، جو جماعت احمدیہ کی لجنات ہیں.دنیا کے ممالک آپ کو بلا رہے ہیں کہ آؤ اور ہمیں بچاؤ.اگر آپ نے اس آواز پر لبیک نہ کہا تو کوئی اور ایسا کان نہیں ہے جس کے پر دے اس آواز سے لرزنے لگیں اور یہ آواز ان کے دلوں میں ارتعاش پیدا کر دے.اول تو ان کو کوئی بلا نہیں رہا اور اگر بلائے گا بھی تو سننے والے کان نہیں ہیں اور اگر سننے والے کان بھی ہوں تو وہ دل میسر نہیں ہیں جو خدا کی خاطر قربانیوں کے نام پر ہیجان پکڑ جاتے ہیں اور وہ اعضاء میسر نہیں ہیں جو عمل کے لئے بے قرار ہو جاتے ہیں.یہ توفیق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو عطا ہوئی ہے.اس لئے ساری دنیا کے تقاضے آپ نے ہی پورے کرنے ہیں.پس دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان پھیلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ہمیں آگے بڑھنے اور لبيك لبيك اور اللهم لبيك کہنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین" خطبات طاہر جلد اول صفحہ 259-260) نئی نئی بد رسوم کے خلاف جہاد کا کام میں خصوصیت سے انصار اللہ کے سپرد کرتا ہوں انصار اللہ خصوصیت کے ساتھ رضا کارانہ وقف کی طرف توجہ کریں (سالانہ اجتماع انصار اللہ مرکزیہ سے 5 نومبر 1982ءکو افتتاحی خطاب ) اللہ تعالی کا بہت ہی احسان ہے اور اس کی حمد کے گیت گانے چاہئیں کہ وہ جماعت احمدیہ کو مسلسل

Page 18

5 نیکی کے ہر میدان میں پہلے سے آگے ہی آگے بڑھاتا چلا جا رہا ہے.ہمارا ہر اجتماع خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پہلے سے زیادہ با برکت اور زیادہ پر رونق ہوتا ہے اور ہر اجتماع پر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ شامل ہونے والے نئی امنگیں اور نئے ولولے لے کر واپس جاتے ہیں اور ان کا آنے والا سال پچھلے سال سے ہر پہلو سے بہتر ہوتا چلا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کا یہ ایک ایسا زندہ نشان ہے جسے دنیا کی کوئی مخالفت کبھی بھی جماعت احمدیہ سے چھین نہیں سکی.اور کبھی بھی دنیا کی کوئی مخالفت اللہ کی اس نصرت کے نشان کو جماعت احمدیہ سے چھین نہیں سکے گی.ہم انشاء اللہ تعالیٰ اس کے فضل اور اسی کے رحم کے ساتھ اس کی رحمت اور نصرت اور برکتوں کے سایہ تلے آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں گے.اعداد و شمار کے لحاظ سے بعض پہلوؤں سے اگر چہ تعداد میں معمولی سی کمی نظر آتی ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مجموعی لحاظ سے خدا کے فضل سے تعداد میں یعنی آج پہلے دن شامل ہونے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے.مجالس کی تعداد کی شرکت کا جہاں تک تعلق ہے گذشتہ سال سے یہ شرکت کم ہے یعنی 732 کے مقابل پر آج جس وقت رجسٹریشن بند کی گئی اس وقت تک 671 مجالس شریک ہوئی تھیں اور اراکین کی شرکت کے لحاظ سے بھی بہت معمولی یعنی 31 کی کمی ہے لیکن اس کے مقابل پر زائرین جو رجسٹرڈ نہیں ہوئے اور اس تعداد میں شامل نہیں.ان کی تعداد گزشتہ سال سے تقریبا 996 زیادہ ہے.ایک پہلو سے جو معمولی سی کمی واقع ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دوسرے پہلو سے اس کو پورا فرما دیا ہے اور تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور ہمارے دل اس کی رضا پر بہت راضی ہیں.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.جہاں تک سائیکل سواران کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس دفعہ انصار نے نئی منزلیں طے کی ہیں.اس میں بہت سی ایسی مجالس شامل ہوئی ہیں جو اس سے پہلے کبھی شامل نہیں ہوئی تھیں مثلاً جھنگ ،سیالکوٹ ، راولپنڈی.، ملتان اور اوکاڑہ کی مجالس پہلے کبھی سائیکل سوار بھیجنے کی توفیق نہیں پاتی تھیں.اب اللہ کے فضل سے انہوں نے بھی انصار سائیکل سوار وفود یہاں بھیجوائے ہیں.علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کچھ اور منزلیں بھی اس لحاظ سے طے ہوئی ہیں کہ پہلے جو انصار سائیکلوں پر آیا کرتے تھے ان کی اوسط عمر بالعموم چھوٹی ہوتی تھی یعنی خدام کی عمر سے نکل کر جب وہ انصار اللہ میں داخل ہوتے تھے تو قریب کے زمانہ میں وہ اپنے آپ کو اس قابل سمجھتے تھے کہ سائیکل پر سفر کرسکیں.گزشتہ سال خدا تعالیٰ کے فضل سے کچھ دوست نسبتا زیادہ عمر کے بھی سائیکلوں پر تشریف لائے تھے لیکن اس سال ان کوششوں میں بہت نمایاں اضافہ ہوا جو انصار کی جواں ہمتی کا اس لحاظ سے ایک نشان ہے کہ سائیکل سواران میں ایک اسی (80) سالہ بزرگ بھی شامل ہیں.یہ بزرگ مکرم چوہدری عطاء اللہ صاحب ہیں جو خدا تعالیٰ کے فضل سے توفیق پاتے ہوئے بڑی جواں ہمتی کے ساتھ چک 117 چھور ضلع شیخو پورہ سے سائیکل پر ربوہ پہنچے ہیں یہ تو نسبتا نزدیک کا فاصلہ ہے.انصار کے

Page 19

6 ایک جواں ہمت رکن مکرم علی محمد صاحب جن کی عمر 75 سال ہے تھر پارکر سندھ سے 700 میل کا سفر کر کے یہاں پہنچے ہیں.ان کے ساتھ ایک نو مسلم نوجوان ہیں جن کے والدین ابھی تک ہندو ہیں.تھوڑا ہی عرصہ ہوا انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے قبول اسلام کی توفیق پائی ہے.اس سال خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر بھی سائیکل پر آئے تھے ان کو ایسا لطف آیا کہ اب انصار اللہ کے اجتماع پر بھی ساتھ چل پڑے اور اس بزرگ دوست علی محمد صاحب کے ساتھی بن کر پھر تشریف لائے ہیں.انصار کو خدام سے آگے بڑھنا چاہئے پس اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.احمدی بوڑھے دن بدن جوان ہوتے جارہے ہیں.انصار اللہ کے لئے یہ خوشی کی بات ہے اور خدام الاحمدیہ کے لئے ایک لحاظ سے لمحہ فکریہ.بوڑھوں اور جوانوں کا ایک مقابلہ ہے جس میں پہلے تو میں انصار کے ساتھ ہوا کرتا تھا.یعنی چھ مہینے پہلے تک یہی کیفیت تھی کیونکہ میں بھی با قاعدہ مجلس انصاراللہ کا ایک رکن تھا.اگر چہ خدام بھی ہمارے اپنے بھائی اور بچے ہیں لیکن مقابلہ کی اسلامی روح کے پیش نظر میری دلی کوشش بھی یہی ہوتی تھی اور دعا بھی یہی ہوتی تھی کہ انصار آگے بڑھیں لیکن اب تو دونوں میں سانجھا ہو گیا ہوں.اس لئے یہ بہت مشکل ہے کہ ایک کے لئے دوسرے سے زیادہ دعا کروں اب تو یہ حال ہے کہ دونوں میں سے جو جیتے گا اسی کی خوشی ہوگی.آپ کو اپنے اپنے دائرہ میں یہ رشک کا مقابلہ جاری رکھنا چاہئے اور اپنے اپنے دائرہ میں پہلے سے بڑھ کر دعائیں کرنی چاہئیں انصار کی پوری کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اپنے اوپر سے بڑھاپے کا داغ مٹائیں اور جوانوں کو جواں ہمتی سے پھیلنج کریں اور جوانوں کی بھی پوری کوشش ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے ان کو جو صحت اور توانائی نسبتاً زیادہ بخشی ہے.وہ اس کی لاج رکھیں اور بوڑھوں کو آگے نہ نکلنے دیں.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے.ہماری اجتماعی زندگی کے بعض پہلو ایسے ہیں جن میں انصار کو بہر حال خدام پر فوقیت حاصل ہے.وہ عمر کے لحاظ سے جماعت کے ایسے طبقہ میں شامل ہیں جن کو عموماً عبادت کی زیادہ توفیق ملتی ہے.دعاؤں کی زیادہ توفیق ملتی ہے.بعض انصار تو ایسے بھی ہیں جو لیٹے رہتے ہیں کچھ بھی نہیں کر سکتے مگر ان کی دعاؤں میں اتنی قوت اور اتنی شوکت ہوتی ہے کہ وہ لیٹے لیٹے ہزاروں چلنے پھرنے والوں سے آگے نکل جاتے ہیں.ایسے ہی انصار بزرگوں میں سے حضرت مولوی محمد الدین صاحب ایک ہیں جن کی عمر اس وقت سو سال سے کچھ تجاوز کر چکی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم اور نہایت مخلص خدام میں سے ہیں.چار پائی پر پڑے ہوئے ہیں.بولنے کی بھی پوری طاقت نہیں لیکن جب میں پین سے واپس آکر ان سے ملنے گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ تمام عرصہ وہ دعائیں کرتے رہے ہیں.کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے مسجد بشارت سپین کی افتتاحی تقریبات کو کامیاب کرے.نیز فرمایا کہ میرے دل میں یہ حسرت رہی کہ کاش ! میں بھی شامل ہو سکتا

Page 20

7 میں نے کہا آپ کی جگہ خدا تعالیٰ کے فرشتے شامل ہو رہے تھے آپ کی یہ دعائیں قبول ہونے کے منظر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں.اس لئے آپ سے زیادہ اور کون اس تقریب میں شامل تھا پس انصار اللہ میں یسے بھی بزرگ ہیں جو بہت بوڑھے ہیں.بستر پر پڑے ہوئے ہلنے جلنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے.دوسرے لوگ سہارا دیتے ہیں تو حرکت کرتے ہیں.لیکن ان کے دل زندہ اور ہمتیں جوان ہیں.ان کی دعاؤں میں اتنی طاقت ہے کہ وہ عرش کے پائے ہلا دیتی ہیں.غرض اس لحاظ سے انصار اللہ کا یہ کام ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور دعاؤں کی برکت سے بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھیں.بڑھاپے کی کمزوریاں ان کے کام میں جو کمی پیدا کر دیتی ہیں.اس کی کمی کو دعاؤں کی برکت سے وہ پورا کر سکتے ہیں بلکہ پورا کرنے سے بھی زیادہ اپنے دامن کو برکتوں سے بھر سکتے ہیں.میں نے آج خطبہ جمعہ میں تحریک جدید کے سال نو کے آغاز کا اعلان کیا تھا.اور تحریک جدید کے مالی قربانی کے پہلو کوخصوصیت کے ساتھ جماعت کے سامنے رکھا تھا.لیکن تحریک جدید کے نظام میں اور بھی بہت سے پہلو ہیں جو مالی قربانی کے ساتھ پہلو بہ پہلو چلنے چاہئیں.ان میں سے ایک وقف زندگی ہے.خدا کے دین کی خدمت کے لئے رضا کارانہ وقف کریں وقف زندگی سے متعلق میں آج انصار اللہ کوتحریک کرنا چاہتا ہوں.وہ خصوصیت کے ساتھ وقف کی طرف توجہ کریں اس وقت سلسلہ کو خدمت کرنے والوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے.خدمت کے کام پھیل رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہر شعبہ میں کارکنوں کی کمی محسوس ہورہی ہے جو کام اس وقت ہاتھ میں ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے بھی مزید انسانی قوت کی ضرورت ہے لیکن جو کام ابھی تشنہ پڑے ہوئے ہیں.بعض ابھی توجہ طلب ہیں ان کے لئے اور بھی زیادہ کثرت کے ساتھ انصار چاہئیں.سورہ صف کی ان آیات میں جو آپ کے سامنے ابھی تلاوت کی گئی تھیں یعنی من انصاری اِلَى الله.اس میں خدا کی طرف لے جانے والے انصار خدا کی خاطر اپنے نام پیش کرنے والے انصار مراد ہیں.اس میں شک نہیں کہ انصار کے لفظ میں صرف وہی لوگ شامل نہیں جن کی عمر چالیس سال سے زیادہ ہے مَنْ اَنْصَارِي إِلَى اللَّہ کے اس اعلان میں بوڑھے بھی شامل ہیں اور بچے بھی جوان بھی شامل ہیں اور عورتیں بھی غرض زندگی کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے اور عمر کے ہر دور سے تعلق رکھنے والے اس میں شامل ہیں.لیکن انصار کو خصوصیت کے ساتھ میں اس وجہ سے مخاطب ہوں کہ ہماری بعض ضرورتیں فوری طور پر انصار پوری کر سکتے ہیں.ہمارے بہت سے ایسے انصار ہیں جو ریٹائر منٹ کی عمر کو پہنچنے والے ہیں.بہت سے ایسے بھی ہیں جور یٹائر منٹ کو پہنچ چکے ہیں.ان میں سے کئی ایسے بھی ہوں گے جن کو ذریعہ معاش کی کچھ اور صورتیں حاصل ہوگئی ہوں.روزی کمانے کے کچھ نئے رستے میسر آگئے ہوں لیکن کچھ ایسے بھی ہوں گے اور غالباً زیادہ تعداد

Page 21

8 ایسے دوستوں کی ہوتی ہے جن کو ریٹائر منٹ کے بعد کوئی کام نہیں ملتا.پس جن کو کام نہیں ملتا ان کی اس سے زیادہ خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی بقیہ عمر خدا کے دین کی خدمت کے لئے رضا کارانہ طور پر وقف کر دیں ( یہ وقف خصوصی وقف ہے اس لئے یہ رضا کارانہ طور پر ہوگا.اس میں سلسلہ ان کو مالی لحاظ سے کچھ بھی نہیں دے گا.اگر وہ گھر بیٹھے گزارہ کر لیتے ہیں تو مرکز میں آکر بھی گزارہ کر سکتے ہیں.ہاں اگر کوئی مجبور ہو.گھر سے جدا ہو کر وہ علیحدہ خوراک وغیرہ کے انتظام کی سکت نہ پاتا ہو تو اس کے کھانے اور رہائش وغیرہ کے انتظام کی حد تک رعایت دی جاسکتی ہے.مگر بہر حال چونکہ کام بہت بڑھ رہا ہے اس لئے خالص رضا کار واقفین کی بھی ضرورت ہے.) دوسرے وہ دوست جو ملا زمت سے فارغ ہونے کے بعد رزق کے بعض اور رستے پالیتے ہیں.ان کو نئے نئے ذرائع معاش میسر آجاتے ہیں.ان سے میں یہ کہتا ہوں کہ آپ نے زندگی کا ایک بڑا حصہ دنیا کمانے میں صرف کیا.اب یہ چھوٹی سی آزمائش آپ کو در پیش ہے.اب اس قصہ کو ختم کریں.کیا پتہ خدا کی طرف سے کس وقت کسی کو بلا وہ آجائے.اگر چہ عمر کا ایک بڑا حصہ آپ نے مقامی طور پر خدمت کرنے میں گزارا.لیکن با قاعدہ واقف کے طور پر نہیں سلسلہ کے کاموں میں پیش پیش رہ کر خدمت کی توفیق ملی.اس سے انکار نہیں لیکن جو لطف ساری زندگی پیش کر دینے میں ہے وہ لطف اس قسم کی خدمتوں میں میسر نہیں آسکتا.یہ لطف بھی کیا لطف ہے کہ انسان اپنے ہاتھ سے اپنی رضا کی گردن پر چھری رکھ دے.اور وہ پھر اپنا ہاتھ اٹھالے اور سلسلہ سے کہے کہ آپ جس کے ہاتھ میں چاہو یہ چھری پکڑا دو ہم اُف نہیں کریں گے.پس اگر انسان اپنے دل میں کوئی امنگ نہ رہنے دے.کوئی تمنا نہ رہنے دے.وہ یہ فیصلہ کرلے کہ دنیا کی زندگی کے جو مزے لوٹنے تھے وہ لوٹ چکا ہوں اب سب کچھ خدا کیلئے ہے.اس ارادہ اس اخلاص اور اس نیت کیساتھ زندگی پیش کرنے کا ایک الگ لطف ہے اس لئے ایسے انصار جن کو دنیا کے ذرائع معاش میسر ہوں.وہ اگر اپنے دل میں یہ ہمت پاتے ہوں.اگر ان کے حالات اجازت دیتے ہوں.تھوڑے ہی گزارہ کرنے کی توفیق پالیتے ہوں تو ان کو میں یہی کہوں گا کہ یہ بہت بہتر راستہ ہے.وہ اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے پیش کریں اور سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے میں حصہ لیں کیونکہ جتنے زیادہ واقفین اس وقت میسر آئیں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی ہی تیزی کے ساتھ اسلام کو چہار دانگ عالم میں فتح نصیب ہوگی.بیرون ملک جا کر خدمت دین کرسکیں علاوہ ازیں ایسے واقفین بھی چاہئیں جو یہ تو فیق رکھتے ہوں کہ مرکز سے باہر جا کر بھی خدمت دین کر سکیں.یہ بھی اس قسم کا رضا کارانہ وقف ہوگا.اس تحریک سے پہلے بھی بعض دوستوں نے اپنے نام اس سلسلہ میں پیش کئے ہیں.اللہ تعالیٰ کے

Page 22

9 فضل سے یہ ایک ہوا چلی ہے انگلستان میں بھی یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی واپس آیا تو کراچی میں بھی اور یہاں آنے کے بعد پنجاب کی مختلف جماعتوں سے بھی ایسے نام پہنچ چکے ہیں جنہوں نے اسی ارادہ کا اظہار کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی خاطر رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں.چنانچہ بعض دوستوں نے تو یہاں تک اصرار کیا کہ ابھی اس وقت ہمارا وقف قبول کیا جائے اور اسی وقت خدمت سپرد کی جائے.چند دن ہوئے سرگودہا کے ایک دوست تشریف لائے.کہنے لگے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں ابھی تک میر اوقف قبول نہیں ہوا.میں نے کہا ہمیں تو بڑی ضرورت ہے.آپ کو انشاء اللہ کسی جگہ لگا دیں گے.انہوں نے کہا مجھے چین نہیں آئے گا مجھے ابھی لگائیں.اور کوئی کام نہیں تو مجھے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں کلرک لگا دیں.یہ نہیں تو بے شک مدد گار کارکن بنادیں.میں کوئی شکوہ نہیں کروں گا.کوئی سوال نہیں ہو گا کہ مجھے کس آسامی پر لگایا جارہا ہے.پر ابھی لگائیں.ورنہ میرے دل کو چین نصیب نہیں ہوگا.چنانچہ اسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب پاس کھڑے تھے.میں نے ان سے کہا کوئی کام ان کے سپر د کریں.اللہ کے فضل سے انہوں نے اسی وقت کام شروع کر دیا.جس خدمت پر لگایا جائے ،انعام سمجھیں پس ایسے زندہ دل اور ایسے جواں ہمت انصار کی ضرورت ہے.جو ان نیک ارادوں کے ساتھ اپنے نام پیش کریں کہ انہیں جہاں بھی جس شکل میں بھی خدمت کے کام پر لگایا جائے گا وہ اس کو انعام سمجھیں گے.اللہ کی رحمت تصور کریں گے.اگر ادنیٰ سے ادنی کام پر بھی لگایا جائے گا.تب بھی وہ خوش ہوں گے.کہ خدا کے نوکر ہیں اگر کام نہیں بھی ہوگا.ان کا وقت بظاہر ضائع بھی ہو رہا ہو گا تب بھی وہ یہ سمجھیں گے کہ خدا کی خاطر بیٹھے انتظار کر رہے ہیں.اس سے بہتر زندگی اور کیا ہو سکتی ہے.خدا کی خاطر یہ بیکاری بھی ہزار ہا کاموں سے بہتر ہوتی ہے.ملٹن نے اس مضمون کو سمجھا.اس نے اپنے شعر میں اس کو بیان کیا ملٹن وہ شاعر ہے جو آخری عمر میں اندھا ہو گیا تھا ایک ایسا آدمی جس کی فعال زندگی گزری ہو.تمام عمر کاموں میں صرف ہوئی ہو وہ اگر آخری عمر میں اندھا ہو جائے تو اس کے دل کی ایک خاص کیفیت ہوتی ہے.وہ قدم قدم پر بڑا دکھ محسوس کرتا ہے ملٹن میں نیکی بھی پائی جاتی تھی.وہ خدا کا ایک خاص خوف بھی دل میں رکھتا تھا.اس کی محبت بھی رکھتا تھا.چنانچہ اس نے اپنی ایک نظم میں اپنی اس کیفیت کو ظاہر کرتے ہوئے اپنے دل کو اسی طرح تسکین دی اس نے کہا.They also serve who stand and wait کہ اے ملٹن ! تم غم نہ کرو.وہ بھی تو خدمت ہی میں ہوتے ہیں جو کھڑے ہو کر حکم کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں.ہم لوگ تو اس سے کہیں زیادہ عارف باللہ ہیں.وہ تو ایک تصوراتی خدا سے

Page 23

10 محبت کرتا تھا ہم ایک حقیقی خدا کے بندے ہیں ہم ایک ایسے خدا کے بندے اور عاشق اور محب ہیں جو سب حقیقوں سے زیادہ بچی حقیقت ہے پس ہمیں اس سے کہیں زیادہ عاجزی اور گریہ وزاری کے ساتھ اپنے نفوس کو خدا کے حضور پیش کرنا چاہئے اور ایسے لوگ کثرت کے ساتھ اپنے نام پیش کریں جو زندگی کا ایک بڑا حصہ دنیا میں گزار چکے ہیں.ان کے بچے بڑے ہو گئے ہیں.وہ اپنے آپ کو سنبھالنے لگ گئے ہیں کافی ہو گئی دنیا کی خدمت.اب سلسلہ کو ختم کرنا چاہئے اور اللہ کے حضور حاضر ہو کر یہ عہد کریں کہ جو بھی خدمات ان کے سپرد کی جائیں گی وہ ان کو بجالائیں گے اور ذمہ داریوں کو خوشی خوشی اٹھا ئیں گے وہ اپنے آپ کو بڑا ہی خوش قسمت سمجھیں کہ وہ آخری سانس جو لیں گے وہ خدا کی خاطر حاضر ہونے والے انصار کے طور پر سانس لے رہے ہوں گے.نو جوانوں کو آگے لانے میں انصار کا کردار وقف کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ نو جوان آگے آئیں.اس لحاظ سے بھی انصار بہت بڑی خدمت انجام دے سکتے ہیں.کیونکہ انصار عمر کے لحاظ سے جماعت کا وہ گروہ ہے جن کے بچے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے ساتھ محبت رکھتے ہیں ان کے ساتھ خلوص اور عقیدت رکھتے ہیں ماں باپ یا گھر کے بزرگوں کے طور پر ان کا خاص احترام کرتے ہیں.اس لئے انصار کی طرف سے کہی ہوئی بات ان کے دل پر خاص اثر کرتی ہے اس لئے انصار کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں اور عزیزوں خواہ وہ ان کے اپنے بیٹے ہوں یا بھائی یا بہن کے بیٹے ہوں ان کو بار بار نصیحت کریں ان کو یہ باور کرائیں کہ وہ سب سے زیادہ امن کی زندگی وقف کی زندگی ہے.سب سے زیادہ سکینت اور طمانیت کی زندگی وقف کی زندگی ہے.اللہ تعالیٰ واقفین کو کبھی ضائع نہیں کرتا.جو واقفین وفا کے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہتے ہیں ان کو خدا کبھی ضائع نہیں کرتا ان کی اولادوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا دنیا بھی پھر ان کے پیچھے چلی آتی ہے حقیقت یہ ہے کہ اس سے زیادہ طمانیت بخش کوئی زندگی نہیں جو خدا کے دین کی خدمت میں صرف ہورہی ہو.انصار بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں غرض انصار کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں.دنیا کے لحاظ سے ان کو زیور تعلیم سے خوب مڑ تین کریں اور پھر ان سے کہیں کہ اب اپنے نام خدمت دین کے لئے پیش کرو.یہ ایک عمومی تحریک ہے جس میں انصار سلسلہ کی بہت بڑی مدد کر سکتے ہیں.گھر گھر چرچا کر سکتے ہیں اور ایک نئی رو چلا سکتے ہیں تا کہ اس کثرت کے ساتھ واقفین پیش ہوں کہ ہمیں ان میں سے چناؤ کرنا پڑے یہ خیال نہ ہو کہ واقفین کم ہیں بلکہ یہ احساس ہو کہ واقفین زیادہ آگئے ہیں فی الحال ضرورت اتنی نہیں ہے جب تک ہم ان کے لئے جگہ نہ

Page 24

11 بنالیں ان کا وقف قبول نہیں کر سکتے اس کیفیت اور اس شان کے ساتھ جماعت اس سے پہلے وقف کی تحریک میں کئی بار حصہ لے چکی ہے.مجھے یاد ہے قادیان کے زمانہ میں جبکہ ابھی جماعت کی تعداد بھی بہت تھوڑی تھی حضرت مصلح موعود نے آغاز میں وقف کی تحریک کی تو بڑی کثرت کے ساتھ نام آتے تھے ایسی درد بھری درخواستیں لے کر نو جوان آیا کرتے تھے کہ ان کو پڑھ کر دل پگھل جاتا تھا.وہ اپنی ہر چیز نذرانہ کے طور پر لے کر حاضر ہو جاتے تھے.وہ کہتے تھے اے خدا کے خلیفہ ! ہم تیرے حضور حاضر ہیں ہمارا وقف قبول کر.ہم کبھی کوئی شکوہ زبان پر نہیں لائیں گے جو گزارہ دینگے ہم اس کو قبول کریں گے.بعض خطوط میں نے بھی دیکھے ہیں ان کو پڑھتے ہوئے آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے اور دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر جاتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کیسے پیارے عشاق عطا فرمائے ہیں.پس انشاء اللہ الہی دیوانوں کے ذریعہ سے آج دنیا میں انقلاب بر پا ہوگا.فرزانوں کے ہاتھوں تو دنیا بہت ویران ہو چکی اور اب بالکل تباہی کے کنارے پر جا کھڑی ہے.احمدیت کے دیوانوں نے دنیا کو اس تباہی سے بچانا چاہئے.ہمیں ان دیوانوں کی ضرورت ہے پس ہمیں ان دیوانوں کی ضرورت ہے.جو دنیا کی چمک دمک کی پرواہ نہ کریں بلکہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کو رد کر دیں اس کو دھتکار دیں اور کہیں کہ ہم خدا کے بندے ہیں خدا کے حضور حاضر ہوں گے.تیری طرف ہر گز مائل نہیں ہوں گے غرض انصار اللہ کو عمر کے لحاظ سے ایک ایسا مقام حاصل ہے کہ اگر وہ اپنے اپنے ماحول میں خدام کو وقف زندگی کے لئے آمادہ کریں ان کے دلوں میں غلبہ اسلام کے ولولے پیدا کریں.خدمت دین کی امنگیں پیدا کریں.تو یہ بھی ان کی طرف سے بہت بڑی خدمت کے مترادف ہے.بد رسوم کے خلاف جہاد انصاراللہ کے سپرد کرتا ہوں تیسرے نئی نئی بد رسوم کے خلاف جہاد کا کام ہے جسے میں خصوصیت کے ساتھ انصار اللہ کے سپرد کرتا ہوں تحریک جدید کے بہت سے مطالبات میں سے ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ دوست اپنی زندگی کو تفتیش سے بچا کر سادگی کی طرف لے آئیں.دنیا نے آج مختلف زیتوں اور تعیش اور کئی قسم کے لہو ولعب کے سامان ایجاد کر لئے ہیں.اگر انسان ان میں مبتلا ہو جائے یا کوئی قوم یا معاشرہ ان میں مبتلا ہو جائے تو پھر ان سے اپنا دامن چھڑا کر اپنے آپ کو خدمت کے کاموں کی طرف مائل کرنا بہت مشکل کام ہو جاتا ہے اس لئے خدمت اسلام کی جس راہ پر ہم گامزن ہیں اس کا یہ تقاضا ہے کہ حرام تو حرام بعض حلال چیزیں بھی ہم چھوڑ دیں تا کہ وہ معاشرہ پیدا کیا جا سکے جو ہمارے مقصد کے حصول میں محمد ہو.ہر ماحول میں ہر قسم کا پھل دار درخت نہیں لگا کرتا

Page 25

12 بعض جگہ بعض زمینوں میں بعض آب و ہوا میں بعض قسم کے پودے لگتے ہیں.اور نشو ونما پاتے ہیں لیکن بعض دوسری قسم کی آب و ہوا میں وہی پودے چند دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے.پس ایسی قومیں جنہوں نے عظیم الشان کام کرنے ہوں جنہوں نے عظیم الشان خدمات بجالانی ہوں جنہوں نے اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنی ہوں ان کے معاشرہ میں لازما سادگی کی آب و ہوا ہونی چاہئے.ورنہ قیش کی آب و ہوا میں پلنے والے پودے سادگی کی آب و ہوا میں زندہ نہیں رہ سکتے اور سادگی کی آب و ہوا میں پلنے والے نقیش کی آب و ہوا میں زندہ نہیں رہ سکتے پس ہمیں اپنا ایک ماحول پیدا کرنا پڑے گا.اپنی ایک فضا پیدا کرنی پڑے گی.جس ملک میں بھی ہم رہیں اس ملک کی فضا سے اس حد تک مختلف ہوگی اس میں مذہبی اقدار زیادہ ہونگی اس میں سنجیدگی زیادہ ہوگی اس میں سادگی زیادہ ہوگی اس میں زندگی کی لذتوں کے رُخ مختلف ہوں گے.لذتیں تو پھر بھی ہم حاصل کرتے رہیں گے.مگر یہ لذتیں اعلیٰ لذات ہوں گی.یہ وہ لذتیں ہونگی جو قربانی کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہیں جو خدمت کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہیں عظمت کردار کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ لذتیں دنیا کی لذتوں سے بہت زیادہ بالا اور بہت زیادہ فائق ہوا کرتی ہیں.اس لئے کسی بے لذت زندگی کی طرف تو آپ کو نہیں بلایا جارہا.آپ کو زیادہ پاکیزہ زیادہ باقی رہنے والی اور زیادہ عظیم الشان لذتوں کی طرف بلایا جارہا ہے جو آپ کی زندگی پر ایک دفعہ اگر قبضہ کر گئیں تو پھر آپ چاہیں گے بھی تو ان سے نکل کر باہر نہیں جاسکیں گے.نیکیوں میں بھی لذت ہوا کرتی ہے اور بدی کی لذت سے زیادہ ہوا کرتی ہے اس لئے اپنے معاشرہ میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں مرور زمانہ سے جو بدیاں رفتہ رفتہ ہمارے معاشرہ میں داخل ہو گئی ہیں ان کی بیخ کنی کا کام شروع کریں بیاہ شادی پر بعض بد رسوم ہمارے معاشرہ میں داخل ہو رہی ہیں.اسی طرح بے پردگی پھیلتی جارہی ہے اس کے خلاف ایک جہاد کرنا پڑے گا.اسی طرح دنیا کی لذتوں کے حصول کے لئے باہمی دوڑ شروع ہوگئی ہے اور ذوق بگڑ رہے ہیں.یہ دنیا کا حال ہے جو میں بیان کر رہا ہوں.ہماری جماعت اس سے متاثر ہو رہی ہے ہماری جماعت کے لوگ اس قسم کے معاشرہ میں مغلوب ہو جاتے ہیں.یعنی زیادہ وسیع تعداد کے معاشرہ کے اندر تھوڑی تعداد میں رہتے ہیں.لازماً ان پر کچھ اثر پڑتا ہے اور رفتہ رفتہ ہمارے کناروں پر بیماری کا اثر ظاہر ہونے لگ جاتا ہے.قرآن کریم ہمیں اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیتا ہے.فرماتا ہے.اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو.اگر تم اپنی اقدار کو زندہ رکھنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو یعنی بیماری کو باہر جا کر پکڑ واسکو موقع نہ دو.کہ وہ اندر داخل ہو جائے.چنانچہ سرحدوں کی حفاظت میں غفلت کے نتیجہ میں بعض دفعہ بیماریاں اندر اتر آتی ہیں یعنی جلد کی بیماریاں خون میں داخل ہو جاتی ہیں.خون کی بیماریاں گلینڈز میں چلی جاتی ہیں.پھر زیادہ Vital یعنی نہایت اہم گلینڈز میں داخل ہو جاتی ہیں.یہاں تک کہ جب وہ اور زیادہ زندگی کے اندرڈ ویتی

Page 26

13 ہیں تو کینسر بن جاتی ہیں.پس پیشتر اس کے کہ معاشرہ کی خرابیاں ہمارے اندر مزید نفوذ کریں.ہمیں اپنے دفاع کو کناروں پر مضبوط کرنا چاہئے اور اپنی سوسائٹی کو آج کل کے معاشرہ کی برائیوں سے کلیتہ محفوظ کر دینا چاہئے اس ضمن میں بھی مجھے انشاء اللہ تعالیٰ توقع ہے کہ انصار ایک نمایاں کردارا دا کریں گے.ان کی تلقین اور تعلیم کے ذریعہ خدا کے فضل سے نمایاں تبدیلیاں پیدا ہوں گی.جماعت احمد یہ ایک بہت ہی پیاری اور پاکیزہ جماعت ہے.جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ہے.اس میں کمزوریاں تو داخل ہوتی ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن بنیادی طور پر یہ ہیرے جواہرات سے زیادہ قیمتی جماعت ہے.ان کو معمولی سا اشارہ کر دو.تھوڑا سا جگا دو تو یہ بڑی تیزی کے ساتھ اپنے اصل مقام کی طرف واپس لوٹتے ہیں یورپ کے حالیہ دورہ میں مجھے بعض جگہ توجہ دلانے کا موقع ملا.بعض جماعتوں میں بعض کمزوریاں نظر آئیں.میں نے ان کو توجہ دلائی تو انہوں نے بڑی تیزی کے ساتھ اس پر ردعمل دکھایا.حالانکہ مجھے بہت بلند تو قعات تھیں.لیکن بعض جگہ میری توقعات سے بھی بہت بڑھ کر رد عمل ظاہر ہوا اور ہر معاملہ میں تعاون کا ایسا حیرت انگیز نمونہ دکھایا کہ میرا سارا وجود حمد سے بھر گیا اور درود سے بھر گیا.میں نے کہا دیکھو اللہ کی شان ہے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض ہے جس کے عظیم غلام کو ایسی روحانی قوت عطا کی گئی کہ جب وقف زندگی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اس کی طرف منسوب ہونے والے اپنے سارے وجود کو دین کے لئے پیش کر دیتے ہیں اور کچھ بھی باقی نہیں رکھتے ان میں کوئی انانیت باقی نہیں رہتی کمزوریاں ہو جاتی ہیں غفلتیں بھی ہو جاتی ہیں.وقتی طور پر تو میں بھی سو جایا کرتی ہیں لیکن زندہ قوموں کو ذرا سا جگا دو تو بیدار ہو جاتی ہیں بعض دفعہ پہلے سے بھی زیادہ مستعدی کے ساتھ کام کرنے لگ جاتی ہیں.پس یہ اتنا مشکل کام نہیں ہے جو انصار کے سپرد کیا جارہا ہے.یہ تو لہو لگا کر شہیدوں میں داخل ہونے والی بات ہے انصار ذراسی بھی محنت کریں گے تو انشاء اللہ بہت ہی شاندار وسیع گہرے اور دیر پا نتائج پیدا ہونگے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں تو فیق عطا فرمائے.خدا تعالیٰ دن بدن جماعت احمدیہ کو اس اعلیٰ مقصد کی طرف تیزی کیساتھ لے جانا شروع کرے جس کا ہمیں انتظار کرتے ہوئے ایک لمبا عرصہ گذر چکا ہے اب تو دل بے قرار ہے.خدا جلد از جلد فتح کا وہ دن دکھائے.جب ساری دنیا میں حضرت محمد مصطفے کا جھنڈا بلند ہورہا ہو اور دوسرے سارے جھنڈے سرنگوں ہو جائیں." روزنامه الفضل ربوه 2 جون 1983 ء )

Page 27

14 ہمیں لازماً واقفین کی تعداد بڑھانی پڑے گی اور بکثرت بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور عورتوں کو اس میدان میں جھونکنا پڑے گا سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے سالانہ اجتماع انصار اللہ مرکزیہ کے موقع پر 6 نومبر 1982ء کو مجلس انصار اللہ مرکزیہ کی طرف سے دیئے گئے ایک عشائیہ میں سپاسنامہ کے جواب میں درج ذیل ایمان افروز خطاب فرمایا.مغربی قوموں میں یہ رواج ہے کہ ڈنر یعنی رات کے کھانے کے بعد تقاریر ہوتی ہیں.مہمان خاص جس کو مدعو کیا جاتا ہے وہ After dinner یعنی کھانے کے بعد تقریر کرتا ہے لیکن قرآن کریم میں اس کے بالکل برعکس رواج کا پتہ چلتا ہے حضرت یوسف علیہ السلام نے کھانے سے پہلے تقریری فرمائی اور ان کے دو ساتھی قیدیوں کو جن کو تبلیغ کرنا مقصود تھا فرمایا کہ جب تک کھانا نہیں لگتا ہم بیٹھ کر تبلیغی باتیں کرتے ہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی لاہور میں کھانے کے انتظار میں احباب کو مخاطب فرمایا: آج جب انصار نے مجھ سے پوچھا کہ ہم کھانے کے بعد گفتگو کا پروگرام رکھیں یا کھانے سے پہلے تو میرے ذہن میں یہی دومثالیں تھیں جن کے پیش نظر میں نے کہا کہ کھانے سے پہلے رکھ لیں.یورپ اپنے رواج قائم کرتا ہے ہم اپنے رواج قائم کرینگے اس لئے اب ہم کھانے سے پہلے چند منٹ باتیں کرتے ہیں.کھانے سے پہلے تقریر رکھنے میں کئی حکمتیں ہیں ایک تو یہ کہ مقرر کو بھی کھانے کا خیال ہوتا ہے اور سننے والوں کو بھی ہوتا ہے ضرورت سے زیادہ لمبی تقریر نہیں ہوسکتی.دوسرے یہ کہ کسی کو کھانے کے بعد کا خمار نہیں ہوتا اور لوگ پورے ہوش و حواس کے ساتھ تقریریں سنتے ہیں کھانے کے بعد کی تقریروں میں تو سوتے اور جھومتے ہوئے آدمی نظر آجاتے ہیں کھانے سے پہلے کی تقریر میں اس طرح نظر نہیں آسکتے.اور بھی بہت سی حکمتیں ہونگی.لیکن یہ دو میرے ذہن میں آئیں اور میں نے بیان کر دی ہیں.سپاسنامے میں جس سفر کا ذکر کیا گیا ہے.اس کا مرکزی نقطہ وہی ہے جو پہلے بیان کر دیا گیا کہ جو بھی اس سفر میں میسر آیا محض اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ میسر آیا.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ میں کیا اور میری بساط کیا یہ وہی یورپ ہے جہاں کبھی خیمہ لے کر کبھی Haver sack پیچھے رکھ کر میں پھرا کرتا تھا اور انہی گلیوں سے گزرتا تھا لیکن کسی کو پرواہ ہی نہیں تھی کہ کون آیا اور کون گزر گیا.تبلیغی گفتگو کا بھی موقعہ ملتا تھا تو زیادہ سے زیادہ ایک دو تین یا چار کو متوجہ کر سکتا تھا.یہ وہی وجود ہے اس میں کوئی فرق نہیں.لیکن جب اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت کے ساتھ مجھے اس سفر کی تو فیق عطا فرمائی تو بالکل کا یا پلٹ گئی.

Page 28

15 اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی اور ہمت عطا کی.لوگ سمجھتے تھے کہ میں تھک گیا ہوں گا لیکن مجھے تو پتہ ہی نہیں لگتا تھا کہ تھکاوٹ کیا چیز ہے، حالانکہ بعض دفعہ ایسا پروگرام ہوتا تھا کہ بظاہر تھک جانا چاہئے لیکن اس میں کوئی تکلف نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے خود بخود ایک طبعی طاقت پیدا فرما دی تھی جس کے نتیجہ میں تھکاوٹ کا کوئی احساس نہیں رہتا تھا اور ساتھ ساتھ ایسی روحانی غذا ملتی تھی جو درحقیقت ایک توانائی پیدا کر رہی تھی ، جومستغنی کر رہی تھی ہر دوسرے آرام سے مثلا جب ہم جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جلد جلد ہونے والی پاک تبدیلیاں دیکھتے تھے ( پہلے بھی وہ ایک پاک جماعت ہے اس میں کوئی شک نہیں.اس کے باوجو دروحانی ترقی کے میدان میں تو کوئی آخری منزل نہیں ہے ایک منزل کے بعد دوسری دوسری کے بعد تیسری.یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے.) جب احمدی احباب کونئی منزلیں طے کرتے دیکھتے تھے تو دل اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ بھر جاتا تھا.بارہا ایسے نظارے دیکھے ہیں کہ ایسے نوجوان جو پہلے نمازوں میں سست تھے (جیسا کہ بعد میں انہوں نے خود ذکر کیا کہ ہم تو پانچ وقت نمازیں بھی نہیں پڑھا کرتے تھے ) تہجد میں حاضر ہونے لگے.بڑے درد اور کرب کے ساتھ دعائیں کرنے لگے اور دعاؤں کیلئے کہنے لگے اور ان کی دعاؤں کی درخواست یہ نہیں ہوتی تھی کہ ہمیں دنیا ملے.دعا کی درخواست یہ ہوتی تھی کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ دین احمد کے لئے فدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.یہ وہ روحانی غذا ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں ہے.یہ جسم کے انگ انگ کو سہلاتی تھی تسکین پہنچاتی تھی اور نئی طاقت اور توانائی سے بھر دیتی تھی.پھر غیروں کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے اسی قسم کے فضلوں کے نظارے دکھائے بسا اوقات ایسا ہوا کہ پریس کا نفرنس میں بڑی معاندانہ نظروں سے دیکھا گیا بعض اوقات تو وہ اس طرح Cross examine کرتے تھے کہ منہ سے تو نہیں کہتے تھے کہ تم جھوٹ بول رہے ہو مگر سمجھتے یہی تھے کہ جھوٹ بول رہے ہیں.ان کی گفتگو سے ایسا معلوم ہوتا تھا تعداد کے اوپر Criticism کرتے ہر بات جو ہم بیان کرتے تھے اس کو بڑی تنقیدی نظر سے دیکھتے تھے لیکن رفتہ رفتہ رنگ بدل جاتا.دیکھتے دیکھتے ان کی طبیعتیں نرم پڑ جاتی تھیں اور ملائم ہو جاتی تھیں.آنکھوں میں ادب آجا تا تھا اور محبت پیدا ہو جاتی تھی.دوحر بے جو بارہا استعمال کئے گئے دونوں نے ہی ہمیشہ الٹا اثر دکھایا ان کے نقطہ نگاہ سے ایک تو خمینی صاحب کو ہمیشہ نشانہ بنایا جاتا تھا.جب وہ دیکھتے تھے کہ اسلام کی رد سے ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اور اثر پیدا ہورہا ہے تو با قاعدہ ایک محادلے یا مناظرے کی شکل بن جاتی تھی.پریس کانفرنس تو محض نام تھا.پھر وہ خمینی صاحب تک پہنچ جاتے تھے اس کا اللہ تعالیٰ نے جو جواب دینے کی توفیق عطا فرمائی وہ میں انشاء اللہ کل ذکر کروں گا.محض اس غرض سے کہ تا آپ کو معلوم ہو کہ بعض باتوں کا جواب کس طرح دینا چاہئے کیونکہ وہ جواب میں نے مؤثر دیکھا اور یورپ کے ہر ملک میں ہر مجلس میں مؤثر دیکھا ایک بھی ایسی جگہ نہیں جہاں اس

Page 29

16 جواب کو سننے کے بعد بے اطمینانی کا اظہار ہوا ہو.بلکہ ہمیشہ شرمندگی میں سر جھکتے دیکھے ہیں.اسلام عورت کو زیادہ بلند مقام دیتا ہے دوسرے عورت کے مقام کے متعلق پوچھا جاتا اور یہ سوال ہمیشہ عورتوں کی طرف سے ہوتا تھا عورتیں پر یس کی نمائندہ بہت کثرت سے ہوتی ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی شان تھی کہ پریس کی مجلس کے دوران جوابات کے بعد وہ نمائندگان بلند آواز سے اقرار کرنے لگتی تھیں کہ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ اسلام عورت کو زیادہ بلند مقام دیتا ہے.اور پریس کی طرف سے اتنا کھلم کھلا اقرار حیرت میں ڈال دیتا تھا.پریس کانفرنسیں ہی نہیں ہوئیں بلکہ بہت سی ایسی مجالس بھی منعقد ہوئیں جن میں معززین کو بلایا جاتا تھا بے تکلفی سے باتیں ہوتی تھیں اور میں محسوس کرتا تھا کہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ایک پاک تبدیلی پیدا ہو رہی ہے اور یورپ میں ایک خاص ہوا چلی ہے جو دلیل کو سننے کے لئے ان کو آمادہ کر رہی ہے اور ان کے اندر خطرات کے احساس کو بیدار کر رہی ہے.اسی لئے طبیعت میں بڑی فکر پیدا ہوتی تھی کہ ہماری کوششیں اس کے مقابل پر کچھ بھی نہیں ہیں ہمیں لازماً ان کوششوں کو تیز کرنا پڑے گا لا ز ما واقفین کی تعداد بڑھانی پڑے گی اور بکثرت اپنے بوڑھوں، بچوں، جوانوں اور عورتوں کو اس میدان میں جھونکنا پڑے گا.کیونکہ جب مطالبے بڑھ جائیں تو ان کو بہر حال پورا کرنا پڑے گا اور ہمیں پورا کرنا پڑے گا.ہمارے سوا ہے ہی کوئی نہیں ہمیں چنا ہے اللہ تعالیٰ نے ان مطالبوں کو پورا کر نے کیلئے اس احساس کے ساتھ پھر اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرماتا تھا کئی قسم کی سکیمیں ذہن میں داخل فرماتا تھا ان کو بیان کرنے کی توفیق بخشتا تھا اور ان کو قبول کرنے کے لئے جماعت میں ایک رو چلا دیتا تھا.پس یہ چند باتیں ہیں جو میں یہاں مختصر ا عرض کر سکتا ہوں جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا آپ کی بھوک آپ کو یاد کرا رہی ہوگی اور مجھے اگر چہ بھوک تو نہیں ہے لیکن یہ یاد ہے کہ کھانا بہر حال کھانا ہے.باقی باتیں انشاء اللہ کل سہی.میں آپ کا بہت ممنون ہوں آپ نے بڑی محبت کے ساتھ اور بڑے پیار کے ساتھ سلوک فرمایا اب بھی اور اس سے پہلے بھی جب تک انصار سے وابستہ رہا ہوں بہت ہی غیر معمولی تعاون فرمایا ہے.حالانکہ میری کوئی حیثیت نہیں تھی میری کوئی بساط نہیں تھی میں یہاں تھا ہی نہیں جب آپ نے مجھے صدر چنا تھا اس وجہ سے میں اپنے آپ کو بڑا اوپر محسوس کرتا تھا.عمر کے لحاظ سے اگر چہ بوڑھا تو تھا لیکن اپنے آپ کو بوڑھا ماننے کے لئے تیار نہیں تھا اس لئے بھی اوپر ا لگتا تھا کہ بوڑھا بھی بنوں بلکہ بوڑھوں کا صدر بن کے بیٹھ جاؤں اور دوسرے اس لئے کہ مجھ سے پہلے جیسا کہ آپ کو علم ہے میرے بڑے بھائی مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب بہت لمبا عرصہ تک انصار کی صدارت فرماتے رہے ہیں اور مجھے کسی مجلس عاملہ میں بھی

Page 30

17 شامل ہونے کا موقع نہیں ملا.پہلے میں خدام الاحمدیہ کے کاموں میں مصروف رہا.پھر دوسرے کاموں میں مصروف رہا اس لئے بالکل تجربہ نہیں تھا کہ اس مجلس کے کیا آداب ہیں؟ اس کو کس طرح چلانا ہے؟ اس وجہ سے پریشانی تھی مگر حقیقت یہ ہے کہ نام تو لگ جاتے ہیں جس کے ذمہ کام لگایا جاتا ہے.ورنہ جماعت کے کام اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے اور ساری جماعت ایک وجود کے طور پر ہے جو تمام پاک کوششوں میں شامل ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کارکنوں کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے کسی نہ کسی حیثیت سے محض اللہ تعاون فرمایا اور یہ مجلس پہلے سے آگے بڑھتی رہی.ایک دور کا سوال نہیں ہے ہر دور میں یہ مجلس آگے بڑھے گی میں آپ کو یہ بتادیتا ہوں کہ آگے بڑھنا آپ کے مقدر میں لکھا ہوا ہے ہر اگلے دور میں محسوس ہوگا کہ یہ مجلس پچھلے دور سے آگے بڑھ گئی لیکن نہ پچھلوں کا قصور ہوگا نہ اگلوں کی خوبی ، حقیقت یہ ہے کہ جس قوم کے مقدر میں آگے ہی آگے جانا ہے اس نے آگے بڑھنا ہے اس کے لئے کبھی ٹھہرنے کا وقت نہیں آئے گا نہ آپ کیلئے آ سکتا ہے نہ انشاء اللہ تعالیٰ آئیگا.اللہ تعالی ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہمارے اعمال اس راہ میں حائل نہ ہو جائیں کیونکہ جہاں تک تقدیر الہی کا تعلق ہے وہ یہی ہے." روزنامه الفضل ربوہ 8 جون 1983ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کے جو طریق بتائے ہیں ان پر عمل کرنے سے فتح و نصرت لاز ما قدم چومے گی جب انصار جوان ہونے کا ارادہ کرتے ہیں تو خدا کے فرشتے اوپر سے جوانی کا حکم دے دیتے ہیں کہ ہو جاؤ جوان ! مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 7 نومبر 1982 ء سے اختتامی خطاب ) اللہ تعالیٰ کا بے انتہا احسان اور کرم ہے.کہ ہر پہلو سے مجلس انصار اللہ کا یہ اجتماع خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب رہا اور پہلے اجتماع کی نسبت بڑھ کر رہا.افتتاحی تقریر میں میں نے آپ سے یہ گزارش کی تھی کہ اگر چہ چند پہلوؤں سے گذشتہ سال سے یہ اجتماع پیچھے ہے لیکن عمومی طور پر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نمایاں ترقی نظر آ رہی ہے.اس دوران معلوم ہوتا ہے مجلس مرکز یہ نے پھر کچھ کوشش کی ہے اور کچھ اعداد وشمار کی دوبارہ چھان بین کی گئی ہے.اس وقت جو نتیجہ سامنے ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے

Page 31

18 ہر جہت سے ہمارا یہ سال بھی گذشتہ سال سے آگے نکل گیا ہے.چنانچہ بیرون ربوہ پاکستان سے 942 مجالس ربوہ ایک اور بیرون پاکستان سے 9 مجالس یہ کل 952 مجالس شریک ہوئی ہیں.جبکہ گذشتہ سال 842 مجالس شریک ہوئی تھیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے نمایاں ترقی ہے.اس دفعہ باہر سے آنے والوں کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے اور جہاں تک تعدا داراکین کا تعلق ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی نمایاں اضافہ ہے اس سال 700 اراکین زیادہ تشریف لائے ہیں جہاں تک زائرین کا تعلق ہے اس میں خدا کے فضل سے 1138 کا اضافہ ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت میں ایک عمومی بیداری کا رجحان ہے اور عمومی ولولہ اور جماعتی کاموں میں دلچسپی بڑھ رہی ہے کیونکہ جہاں تک انصار کا تعلق ہے لازماً مجلس مرکزیہ کی کوششوں کا اس میں دخل ہوگا اللہ تعالیٰ نے ان کو قبول فرمایا اور پہلے سے بہتر حاضری ہوئی لیکن جہاں تک زائرین کا تعلق ہے یہ جماعت کے عمومی رجحان کا پتہ دیتا ہے پچھلے سال زائرین کی تعداد 3147 تھی اس کے مقابل پر امسال یہ تعداد 4275 ہے.پس اللہ تعالیٰ کا بہت ہی احسان ہے اور ہم امید رکھتے ہیں اس کے فضلوں سے کہ وہ ہمیشہ ہمیں انشاء اللہ پہلے سے آگے بڑھاتا رہے گا.امسال انصار سائیکل سوار زیادہ تعداد میں آئے ہیں جہاں تک سائیکل سواروں کا تعلق ہے.اس میں ہمیں بہت ہی نمایاں کامیابی نصیب ہوئی ہے انصار سائیکل سوار اتنی تعداد میں اور اس کثرت سے پہلے کبھی نہیں آئے تھے ایک دفعہ 1973 ء میں 35 انصار سائیکل سوار آئے تھے اس کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا کیونکہ یہی سمجھا جانے لگا کہ خدام کا کام ہے کہ وہ سائیکلوں پر آئیں انصار نہیں آسکتے.پچھلے سال یہ سلسلہ دوبارہ شروع کیا گیا.گزشتہ سال 82 انصار سائیکلوں پر تشریف لائے تھے اس کے مقابل پر امسال اللہ تعالیٰ کے فضل سے 197 تشریف لائے ہیں ایک سائیکل سوار ممبر انصار اللہ جنہوں نے انعام لیا ہے ان کی عمر ما شاء اللہ اسی سال ہے اور آپ نے دیکھ لیا ہے کہ انعام لینے کے لئے وہ کس طرح دو سیڑھیاں چڑھے تھے.ان کی ہمت کا اندازہ کریں کہ وہ ماشاء اللہ سارا رستہ (117) چک چور ضلع شیخو پورہ تار بوہ ناقل ) سائیکل پر طے کر کے آئے.صرف ربوہ کی چڑہائی پہ آ کر رہ گئے تھے دریائے چناب کے جو دو پل ہیں وہاں ان کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ اب میں سائیکل پر تو جانہیں سکتا پیدل جاؤں یا کسی اور ذریعہ سے پہنچوں.پھر ان کے ساتھیوں نے مدد کی انہوں نے کہا آپ سائیکل پر بیٹھے رہیں ہم آپ کو دھکا دے کے لے جاتے ہیں.چنانچہ ان کو دھکا دیا گیا لیکن سائیکل پر سے نہیں اتر نے دیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی ہمت ہے کیونکہ جو چڑھائی نہیں چڑھ سکتا اس کے لئے پیدل چڑھنا بھی مشکل تھا اس لئے اس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں تھا کہ وہ سائیکل پر بیٹھے رہیں اور دھک دے کر ان کو آگے کیا جائے.

Page 32

19 دوسرے صاحب جو سائیکل پر تشریف لائے تھے انہوں نے تو بہت ہمت کی ہے 75 سال کی عمر ہے اور تھر پارکر سے آئے ہیں اور صرف ایک دن میں انہوں نے 110 میل سائیکل چلایا.ان کے ساتھی جو نسبتاً جوان ہیں ( غالبا 42 سال کی عمر ہوگی ) انہوں نے کل مسجد مبارک میں نماز مغرب کے بعد یہ واقعہ سنایا کہ جب ہم چلنے لگے تو میر اصرف یہی ایک ساتھی تھا اور تھا کوئی نہیں مجھے بڑی فکر پیدا ہوئی میں نے صاف جواب دے دیا کہ میں ان کے ساتھ نہیں جاسکتا پھر میں نے مزید تسلی کی خاطر ان کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ بابا جی کدی گوڈے وچ درد ہوئی اے.وہ کہتے ہیں انہوں نے جواب دیا کدی ہٹی نہیں.ہوئی تے ہوئی ہٹی کدی نہیں یہ تھے دوسائیکل سوار جور بوہ آنے کے لئے تیار بیٹھے تھے اور کوئی تیسرا شامل نہیں ہو رہا تھا.اس پر قائد صاحب ضلع نے اس نوجوان نو مسلم کو جو پچھلے سال بھی آئے تھے اور اس سال خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر بھی سائیکل پر تشریف لائے کھڑے پاؤں کہا کہ آپ تیار ہو جائیں انہوں نے کہا ٹھیک ہے میں حاضر ہوں.تب ان کو ہمت ہوئی ان کو ساتھ لانے کی یہاں تک تو ان کو باباجی کے اوپر باتیں کرنے کا موقع ملا.کہتے ہیں.سو سنار دی اک لوہار دی یعنی سوسنار کی ایک لوہار کی.ان باتوں کے بعد میں نے بابا جی سے پوچھا کہ آپ بتائیں آپ کو رستے میں گھٹنے کی درد نے پھر تکلیف تو نہیں دی.انہوں نے کہا سارے رستے ہوئی نہیں اس کو ہوتی رہی ہے اور اتنی ہوئی ہے کہ اس نے درد کے لئے تیل کی ایک بوتل ساتھ لی اور وہ کہیں جھنگ میں بھول گیا تو سارا رستہ رو تا آیا کہ میری تیل کی بوتل رہ گئی ہے.اللہ کی شان دیکھیں جب خدا کے فضل سے انصار جوان ہونے کا ارادہ کرتے ہیں تو خدا کے فرشتے اوپر سے جوانی کا حکم دے دیتے ہیں کہ ہو جاؤ جوان.اس لئے آپ اپنی ہمتیں جو ان کریں.آپ پر اللہ کے فضل نازل ہوں گے اور ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے گا.کل شام میں نے کھانے کے موقع پر اپنے نہایت مختصر خطاب میں ایک واقعہ سے متعلق وعدہ کیا تھا کہ انشاء اللہ کل اس کے متعلق کچھ عرض کروں گا.وہ واقعہ یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی ہم یورپ میں گئے ہیں.خمینی صاحب ساتھ رہے ہیں.خمینی صاحب کے بارہ میں سوالات کا جواب جہاں تک ثمینی صاحب کا تعلق ہے وہ ایک معزز قوم کے ایک معز ز سردار ہیں.ان کی عزت اور احترام سب پر فرض ہے.جس حد تک ظاہری اخلاق اور معاملات کا تعلق ہے ہمیں ہر قومی سردار کی عزت کرنی چاہئے جہاں تک بعض کمزوریوں کا تعلق ہے.وہ کس قوم میں نہیں ہوتیں.بعض لوگ کئی غلط فیصلے کر دیتے ہیں جن کے نتیجے میں بداثرات پیدا ہو جاتے ہیں.چنانچہ انہی بداثرات کے نتیجے میں یورپ کی پریس کانفرنسوں میں ہر جگہ ثمینی صاحب کا نام لیا گیا.سارے

Page 33

20 یورپ میں اور مغربی ممالک میں یہ بھیا نک تصویر کھینچی جاتی کہ اس وقت انتہائی ظلم ہورہا ہے اتنا شدید ظلم ہورہا ہے کہ گویا شاہ کے زمانے کے مظالم اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور یہ سارا ظلم اسلام کی طرف سے ہو رہا ہے جس کے نمائندہ اس وقت خمینی ہیں.یہ وہ پس منظر ہے جس میں یہ سوال کیا جاتا تھا اور مقصد ان کا یہ تھا کہ اگر ہم خمینی صاحب کے خلاف کوئی کلمہ بولیں تو سارے یورپ کے اخبار اس کو اچھالیں اور کہیں کہ دیکھو! مینی کو Condemn کیا جارہا ہے.اور اگر ہم کچھ نہ کہیں تو سارا یورپ سمجھ لے کہ یہ بھی اسی قسم کا ایک اسلام ہے جو آج ہمارے پاس آ گیا ہے اور ہمیں اس اسلام میں کوئی دلچسپی نہیں جو مظالم کی تعلیم دیتا ہو.یہ وہ مشکل رستہ تھا جس پر وہ مجھے کھینچ کر لانا چاہتے تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے اس کا مؤثر جواب دینے کی توفیق عطا فرمائی.یہ جواب میں اس لئے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں بعض تبلیغی حکمتیں ہیں جن کا آپ کے سامنے کھول کر رکھنا ضروری ہے.اس کا ایک جواب تو میں نے ان کو یہ دیا کہ جب آپ خمینی صاحب پر حملہ کرتے ہیں اور مظالم کی داستان کو اچھالتے ہیں تو آپ یہ فرق نہیں کرتے کہ مسلم قوم اور مسلم لیڈر ایک اور چیز ہے اور اسلام ایک اور چیز ، اسلام ایک مذہب کا نام ہے اس کی ایک تعلیم ہے اس کی طرف منسوب ہونے والے سارے کے سارے اس تعلیم پر ہر پہلو سے کار بند نہیں ہیں.اگر اسلام پر آپ نے حملہ کرنا ہے تو اسلام کی تعلیم کی رو سے حملہ کریں مجھے بتائیں کہ اسلامی تعلیم میں کہاں مظالم کی تلقین کی گئی ہے.کہاں بنی نوع انسان کے حقوق غصب کرنے کی تلقین کی گئی ہے؟ لیکن ایک مسلمان کے کردار کو سامنے رکھ کر جس کو خود آپ نے پینٹ کیا ہے اور ہمیں پتہ نہیں کہ آپ کا بیان کس حد تک درست ہے اور کس حد تک غلط ہے ہم نہیں جانتے کہ اصل واقعات کیا ہیں آپ مجھ سے فتویٰ چاہتے ہیں ان باتوں کے متعلق جن کی آپ نے یک طرفہ تصویر کھینچی ہے اور اسلام کی انصاف کے بارہ میں تعلیم مجھے اس بات سے منع کرتی ہے کہ میں یک طرفہ فتویٰ جاری کروں لیکن اگر سو فیصدی تسلیم بھی کر لیا جائے کہ آپ کا بیان درست ہے وہ نہایت ظالم ہیں انہوں نے اسلام کے نام پر حد سے زیادہ مظالم کئے ہیں تب بھی آپ کو اعتراض کا کوئی حق نہیں آپ اپنی تاریخ کو بھلا کر کس طرح اعتراض کر سکتے ہیں.مذہبی مظالم کے سلسلہ میں یورپ کی ایسی بھیا نک تاریخ آپ کے سامنے کھلی پڑی ہے کہ ایک ملک کی ایک ملکہ نے اپنی تھوڑی سی زندگی کے دور میں پانچ پانچ ہزار معصوم لوگوں کو زندہ آگ میں جلوا دیا اس الزام پر کہ وہ جادوگری کرتی تھیں یعنی ایسی عورتیں جن کے اوپر الزام تھے کہ یہ جادوگر نیاں ہیں.اور وہ پینتی چلاتی انکار کرتی رہیں کہ جادو گری سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہمیں علم ہی نہیں کیہ جادوگری ہوتی کیا ہے؟ اس کے با وجود انہیں جلا دیا گیا میں صرف ایک ملکہ کا ذکر کرتا ہوں جو انگلستان کی ملکہ تھی تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ صرف اس کے زمانے میں پانچ ہزار عورتوں کو زندہ آگ میں جلایا گیا ہے.اس الزام کے نتیجے میں کہ وہ جادوگرنیاں

Page 34

21 تھیں میں نے ان سے کہا کہ پین کی Inquisition کی تاریخ آپ کے سامنے ہے.الزامات کے نتیجے میں عیسائی نے عیسائی پر ایسے ایسے درد ناک مظالم کئے ہیں کہ اس تاریخ کے مطالعہ سے ہی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.آدمی پڑھتے پڑھتے پاگل ہونے والا ہو جاتا ہے کہ ایک انسان کسی دوسرے انسان پر اتنے مظالم کر سکتا ہے؟ پھر جرمنی کی تاریخ آپ کے سامنے پڑی ہے تمام عیسائی مورخین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جرمنی کو تبلیغ کے ذریعے عیسائی بنانے کے لئے چرچ کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں اور اس قوم نے کلینڈ عیسائیت کو رد کر دیا.تب ہم نے تلوار پکڑی اور تلوار کی کاٹ پریز بر دستی ان کو عیسائی بنایا ہے.ایک جرمن بھی از خود عیسائی نہیں ہوا.پس ساری جرمن قوم گواہ ہے کہ آپ نے تلوار کے زور سے ان کو زبردستی عیسائی بنایا ہے.آپ ایک مینی پیش کر رہے ہیں.آپ کے گریبان میں تو ہزاروں خمینی شور مچار ہے ہیں.آپ اس گریبان کی آواز کو کیوں نہیں سنتے آپ کو صرف اسلام کا ایک مینی نظر آ رہا ہے.اور اس مینی کی آواز پر آپ اسلام کو متہم کر رہے ہیں اس لئے آپ کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں.جب تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا تھا.تو ان کی گردنیں جھک جاتی تھیں اور بلا استثنا ایک جگہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی پریس کا نفرنس میں یا مجلس میں جہاں بڑے بڑے رؤسا اور صاحب فکر مدعو ہوا کرتے تھے.یہ سوال کرنے والوں نے پھر کوئی ایسا لفظ بولا ہو.جب میں دیکھتا تھا کہ ان کے سر جھک گئے ہیں اور ان کے پاس کوئی جواب نہیں تو پھر میں اُن کو اصل مقصد کی طرف لاتا تھا.کیونکہ میرا مقصد یہ تو نہیں تھا کہ اسلام کی طرف سے محض ایک فتح کا اعلان کیا جائے.ہمارا مقصد تو دل جیتنا ہے صرف احساس شکست دلا دینا اور تذلیل کرنا نہیں لیکن بعض دفعہ دل جیتنے سے پہلے تکبر توڑ لئے جاتے ہیں.اور احساس شکست پیدا کرنا پڑھتا ہے جو فی ذاتہ مقصد نہیں ہے.اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ کسی طرح وہ اس قابل ہو جائیں کہ ان کے دل تیار ہوں اور ہم اسلام کے لئے ان کو جیتیں جب یہ قدم اٹھ جاتا تھا اور ان کے دلوں کی زمین تیار ہو جاتی تھی تب میں ان سے ایک اور بات کہتا تھا.اسلام ہمیں انصاف کی تعلیم دیتا ہے میں ان سے کہتا تھا کہ آپ دیکھیں اسلامی اخلاق اور آپ کے اخلاق میں کتنا بڑا فرق ہے.آپ کے پاس ایک ثمینی آیا اور آپ نے شور مچاتے مچاتے گلے پھاڑ لئے اور اس ایک مینی کا انتقام آپ اسلام سے لے رہے ہیں ہمارے پاس آپ کے ہزار ہاضمینی ہیں لیکن ہم نے عیسائیت کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا.کیوں نہیں نکالا؟ اس لئے کہ اسلام ہمیں انصاف کی تعلیم دیتا ہے.ہم جانتے ہیں کہ جب وہ مظالم عیسائیت کے نام پر ہورہے تھے تو عیسائیت کا ایک ذرہ بھی قصور نہیں تھا ان جاہلوں کا قصور تھا.ان تاریکی کے بچوں کا قصور تھا جنہوں نے خدا کے ایک پاک مذہب.محبت کے مذہب کو اس قدر ذلیل اور رسوا کیا کہ اس

Page 35

22 22 محبت کے نام پر مظالم کی ایک ایسی تعلیم دی اور مظالم کی تعلیم پر ایسا عمل کر کے دکھایا کہ ساری دنیا کی بہیمانہ تاریخ بھی اس سے شرما جاتی ہے لیکن ہم آپ کے مذہب کا دفاع کرتے ہیں ہم کہتے ہیں خبردار ! عیسائیت کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولنا یہ سچا مذ ہب تھا.اللہ کا مذہب تھا.عیسائیت کا ایک ذرہ بھی اس میں قصور نہیں.ان ظالم لوگوں کا قصور ہے جن کو حق نہیں تھا عیسائیت کی طرف منسوب ہونے کا لیکن وہ منسوب ہوئے.میں نے کہا اسلامی اخلاق اور آپ کے اخلاق میں یہ فرق ہے ہم آپ کی زیادتی کے باوجود آپ کے دل مجروح نہیں کرنا چاہئے.جب ان کو یہ بات بتائی جاتی تھی تو ان کے چہروں کی کیفیت بالکل مختلف ہو جاتی تھی شکست کا جو احساس تھا وہ طمانیت میں بدل جاتا تھا وہ سمجھ جاتے تھے کہ ہاں عیسائیت پر کوئی حملہ نہیں ہوالیکن ساتھ ہی اسلام کی اعلیٰ اخلاقی تعلیم کی برتری بھی از خود ان کے دلوں پر ظاہر ہو جاتی تھی.مخالف کے جواب کا ایک طریق میں یہ واقعہ آپ کے سامنے اس لئے کھول کر رکھ رہا ہوں کہ طریق تبلیغ میں یہ ساری چیزیں ضروری ہیں.بعض دفعہ غیرت کا تقاضا ہوتا ہے کہ جوابی حملہ کیا جائے اگر آپ محض کمز ور دفاع پر یا یک طرفہ دفاع پر رہیں تو آپ اپنے مقصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے.یہی طریق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں سکھایا.جب عیسائیوں نے اسلام پر اور سرور دو عالم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک پر حملے کئے تو آپ نے ان لوگوں کو اچھی طرح لتاڑا.غیرت کا تقاضا تھا کہ سخت جواب دیا جائے اور ان کو بتایا جائے کہ ناپاک حملوں کے نتیجے میں کس طرح دل دکھتے ہیں.اور یہ بتایا جائے کہ تمہاری مثال تو ایسی ہے کہ ”چھاج بولے سو بولے چھلنی کیا بولے“ تم تو اسلام کی چھاج کے مقابل پر چھلنی کی طرح ہو.تم پر تمہاری اپنی زبان میں اتنے خوفناک الزام عائد کئے جا سکتے ہیں کہ جب تم ان کو پڑھو گے اور تمہارا دل زخمی ہو گا تب تمہیں سمجھ آئے گی کہ مصطفے کے غلاموں کا تم نے کس طرح دل دکھایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسلوب جہاد چنانچه اسی طرز جہاد نے ہمیں روشنی عطا فرمائی.اب دیکھیں! آپ کے فن جہاد کا کتنا حیرت انگیز کمال ہے.عیسائیوں کے جواب میں آپ حضرت عیسی پر تو حملہ کر نہیں سکتے تھے.حضرت مسیح کو تو ایک پاک رسول سمجھتے تھے اس لئے ایسا عمدہ اور پیارا طریق اختیار کیا کہ آپ بار ہا مسیح" کو بچاتے رہے اور مسیح کی پاکیزگی بھی بیان فرماتے رہے.لیکن ساتھ ہی یہ بھی بیان فرمایا کہ وہ مسیح جس پر ہم ایمان لاتے ہیں وہ تو

Page 36

23 قرآن والا مسیح ہے جو نہایت پاکیزہ رسول، نہایت نیک، ہر لحاظ سے اچھا اور خدا کا برگزیدہ اور پیارا تھا لیکن وہ می جو تم پیش کر رہے ہو ، وہ یسوع جو تم پیش کر رہے ہو جس کو بائبل خدا کا بیٹا کہتی ہے جس کا ہمارے نزدیک کوئی وجود نہیں مگر تمہارے نزدیک وہ حقیقت ہے تمہاری اپنی بائیبل کی زبان میں وہ ایسا تھا اور وہ ایسا تھا کیسی شان کے ساتھ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنی غیرت اور محبت کا اظہار بھی فرما دیا اور ساتھ ہی قرآن کا بھی دفاع کیا.اور مسیح کا بھی دفاع کیا.یہ ہے جہاد کا وہ اسلوب جو حضرت مسیح موعود نے ہمیں سکھایا ہے اور ہر میدان میں ہمیں اسی اسلوب کے ساتھ نکلنا پڑے گا.یہ وہ بنیادی ہتھیار ہیں جن کے ساتھ لیس ہو کر جب مسلمان نکلتا ہے تو اس کے لئے شکست کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر آپ نے جس طرح دلجوئیاں فرمائیں وہ بھی ہمارا فرض ہے حملے کا جواب حملے سے دینا اور محض دفاع تک محدود نہ رہنا فن حرب میں انتہائی ضروری ہے.مجھے یاد ہے ہمیں بچپن میں ایک دفعہ قادیان میں گنگا دیکھنے کا موقع ملا ( گت کا تو خیر ہم کھیلا بھی کرتے تھے ) گتنے کا مقابلہ دیکھنے کا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو بہت شوق تھا آپ نے صحت کو برقرار رکھنے کی طرف بہت توجہ دلائی.مختلف ذرائع سے بتاتے رہتے تھے کہ گھوڑ سواری سیکھوگت کا سیکھو اور مردانہ کھیلوں میں حصہ لو.آپ نے قادیان میں گنے کو بہت رواج دیا.ایک دفعہ حضور کو خیال آیا کہ یہ جو گتکے باز ہیں یہ صرف قانونی ابیچ بیچ ہی ہیں یا واقعی ان کو دوسروں پر فضیلت بھی حاصل ہو جاتی ہے.چنانچہ آپ نے ایک مضبوط زمیندار جاٹ کو بلایا اور گٹکے کے استاد کو بھی اس کو آپ نے کہا کہ تم تو گنکا جانتے ہو، بڑے ماہر ہو تم نے صرف دفاع کرنا ہے اور اس پر جوابی حملہ نہیں کرنا اس نے صرف حملہ کرنا ہے.آپ دونوں کا مقابلہ کرا کے دیکھتے ہیں کہ کون جیتتا ہے اس جاٹ نے اندھوں کی طرح لاٹھیاں چلانی شروع کیں.اس نے دورو کیں ، چار روکیں ، پانچ روکیں پھر کوئی لاٹھی اس کی ٹانگ پڑی کوئی پیٹ پر پڑی کوئی سر پر آئی لوگ ہنس پڑے کہ دیکھو جی ! گٹکے کا استاد بنا پھرتا ہے اور ایک جاٹ سے ہار گیا ہے اس نے کہا حضور بات یہ ہے کہ گٹکے میں تو حملہ بھی ہوتا ہے اور دفاع بھی ہوتا ہے اگر کسی کو صرف دفاع پر مجبور کیا جائے تو ناممکن ہے کہ وہ صحیح دفاع کر سکے.جب تک اگلے کو یہ خوف نہ ہو کہ مجھ پر بھی پڑے گی اس وقت تک اس کو مارنے کا سلیقہ بھی نہیں ہوتا اور دفاع کے لئے تو ایک آدمی کے ہاتھ باندھے جاتے ہیں تو تھوڑا سا گت کا اس طرح بھی کروادیں کہ اس کو کہیں کہ تم پر بھی پڑے گی پھر میں دیکھوں گا کہ وہ مارنے کیلئے بچتا بھی ہے کہ نہیں.خیر حضور ہنس پڑے.آپ نے فرمایا میں جانتا ہوں تمہاری بات ٹھیک ہے.پس مسلمانوں کے ساتھ پہلے یکطرفہ مقابلہ ہوتا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے اور آپ نے اسلوب بدلا مسلمان بے چارے مجبور تھے.حضرت عیسی علیہ السلام کو نبی مانتے تھے اور وہ یکطرفہ

Page 37

24 حملے پر حملہ کرتے چلے جاتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور امہات المومنین پر نہایت خوفناک گند اُچھالتے تھے اور مقابل پر مسلمان کیا کرتا تھا اُٹھتا تھا اور چاقو مار دیتا تھا.اس طرح دنیا میں اور زیادہ ذلیل ہوتا تھا.لوگ کہتے تھے ان کے پاس کوئی دفاع نہیں ہے.سوائے چاقو کے اور کچھ نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے اور مقابلے کے سارے رنگ بدل دیئے.آپ نے فرمایا میں بھی حملہ کروں گا اور زیادہ شان کے ساتھ حملہ کروں گا اور خدا کے شیروں کی طرح تم پر جھپٹوں گا.تم میرے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کی جرات کرتے ہو؟ کس طرح بیچ کر جاؤ گے مجھ سے پھر ایک اور عجیب منظر ہمارے سامنے آتا ہے.اسلام کا یہ عظیم الشان پہلوان جَرِيٌّ اللهِ فِى حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ تو اس شان کے ساتھ اسلام کے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور امہات المومنین کے انتقام کے رہا تھا.اور پیچھے ایک شور پڑ گیا ان مسلمانوں کی طرف سے جن کے دفاع میں یہ پہلو ان لڑ رہا تھا.انہوں نے کہا کہ تم عیسی پر حملے کرتے ہو.تم فلاں نبی کی بے عزتی کرتے ہو؟ تمہارا کوئی تعلق نہیں اسلام کے ساتھ.یعنی اسلام کے لئے لڑنے والا اور اس شان کے ساتھ جنگ کو نئے اسلوب عطا کرنے والا.اس کی پشت محفوظ نہیں تھی.پیچھے سے اس پر حملے ہورہے تھے وہ مڑتا تھا اور چو کبھی لڑائی لڑتا تھا.ان کو بھی جواب دیتا تھا ، سامنے والوں کو بھی جواب دیتا تھا.دائیں بھی لڑتا تھا اور بائیں بھی لڑتا تھا ساری عمر حضرت مسیح موعود علیہ السلام، اسلام کے مجاہد کے طور پر زندہ رہے اور اسی حالت میں آپ نے جان دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اسلوب جہادکو اختیار کریں پس اس آقا کا نام لیتے ہیں تو اس کے رنگ بھی تو سیکھیں.بڑھا یا کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو مجاہدے کی راہ میں حائل ہو سکے.نبی آخری دم تک لڑتا ہے اور آخری دم تک یہ پیغام دیتا ہے اپنے ماننے والوں کو کہ اسی اسلوب پر چلو گے تو میرے ساتھ وفا کے وعدے پورے ہوں گے ورنہ پورے نہیں ہوں گے.اس لئے تمام انصار کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ وہ مجاہدین اسلام ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے لئے جہاد کے جو طریق بیان فرما دیئے ہیں اور ہمارے سامنے کھول دیئے ہیں ان کو چھوڑ کر ہم نے نہیں لڑنا ان کے دائروں کے اندر رہ کر لڑنا ہے پھر آپ دیکھیں فتح و نصرت لازما آپ کے قدم چومے گی اور اس کے سوا آپ کے مقدر میں کوئی اور چیز نہ ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بظاہر یہ چھوٹے چھوٹے گر ہی وہاں دورے کے دوران میرے کام آئے ہیں جہاں بھی غیروں کے ساتھ اسلام کی طرف سے مقابلے ہوئے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا سکھایا ہوافنِ جنگ ہی تھا جو ہمیشہ میرے کام آیا.پس میں اپنے تجربے کے بعد آپ کو بتا رہا ہوں کہ دنیا میں کسی طرف سے بھی حملہ ہو جوفنون حرب

Page 38

25 حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں سکھا گئے ہیں ان سے باہر نکلنے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں.اس چار دیواری کے اندر رہتے ہوئے ہم عظیم الشان فتوحات حاصل کر سکتے ہیں.مسجد سپین کے افتتاح کے نتیجہ میں ذمہ داریوں کا احساس کریں دوسرا حصہ جس کی طرف میں آپ کی توجہ دلانی چاہتا ہوں.وہ ان ذمہ داریوں سے تعلق رکھتا ہے جو مسجد بشارت ( سپین ) کے افتتاح کے بعد خصوصیت کے ساتھ ہم پر عائد ہوتی ہیں.میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ مسجد بشارت (سپین) کی تعمیر اور اس کا افتتاح ایک عام مسجد کی تعمیر اور ایک عام مسجد کا افتتاح نہیں ہے اور اگر یہی مقصود ہو تو اس کے کوئی بھی معنی نہیں ہیں یعنی کسی جگہ ایک مسجد بنادی جائے اور ساری دنیا میں اپنی فتح کے گیت گاتے پھریں کہ عظیم الشان فتح ہو گئی ، پین فتح ہو گیا.اس سے بڑی بے وقوفی کوئی نہیں ہوگی.جنت الحمقاء میں بسنا اسی کا نام ہے مسجد کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں وہ پورے کرنے پڑیں گے اور وہ عظیم الشان تقاضے ہیں جو بے انتہا سمتوں میں پھیلے پڑے ہیں.مجھ سے پین میں جب یہ سوال ہوا کہ اس مسجد کے بعد آپ اگلی مسجد کہاں بنا ئیں گے اور کب بنائیں گے.؟ تو میں نے کہا کہ آپ کو یہ فکر لگی ہوئی ہے.مگر مجھے تو یہ فکر ہے کہ اس مسجد کے لئے نمازی کہاں سے آئیں گے.میں انشاء اللہ تعالیٰ پہلے پین میں نمازی پیدا کروں گا جب یہ مسجد بھر جائے گی اور اس کی دیوار میں پھٹنے والی ہوں گی تب ہم اس کو بھی وسیع کریں گے اور نئی مسجد میں بھی بنائیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.پس اسی پیغام کے تحت میں نے یورپ کی مجالس اور جماعتوں کے سامنے مختلف پروگرام رکھے اور آپ کے سامنے بھی رکھتا ہوں.غیر ملکی زبانیں سیکھیں اور اس میں مہارت حاصل کریں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ جس قوم کو آپ نے مخاطب ہونا ہے اس قوم کی زبان ہی اگر آپ کو نہ آتی ہو تو آپ مخاطب کس طرح ہوں گے.اس قوم کے کردار کا آپ نے مطالعہ نہ کیا ہو تو آپ کو کیا پتہ لگے گا کہ کس طرح اس قوم کے دل جیتے جا سکتے ہیں اس کی تاریخ کا آپ کو علم ہونا چاہئے.اس کے جغرافیائی حالات کا علم ہونا چاہئے سیاسی رجحانات کا آپ کو علم ہونا چاہئے اور اس ملک کی زبان پر مقدرت حاصل کرنے کے بعد آپ کو وہاں بکثرت مبلغ بھیجنے چاہئیں ایک یا دو یا تین مبلغوں سے تو ملک فتح نہیں ہوا کرتے.آپ کو ایسی پلاننگ کرنی پڑے گی کہ سپین کے ہر حصے میں مستقلاً رابطے کا انتظام ہواو پھر اس زبان میں لٹریچر پیدا کیا جائے.اس زبان کی ضرورتوں کو صوتی آلوں کے ذریعے بھی پورا کیا جائے اور نشر واشاعت کے ذریعے بھی پورا کیا جائے.یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اگر خدا تعالیٰ توفیق نہ دے تو اس کو سرانجام دینا ناممکن ہے.اگر ہم صرف

Page 39

26 سپین پر ہی اپنی ساری قو تیں اور روپیہ صرف کر دیں تب بھی ہماری ضروریات پوری نہیں ہوتیں اس لئے اپنے دماغ سے یہ بات کلیہ نکال دیں کہ کسی جگہ مبلغ بھیج دیا اور ہماری ذمہ داری پوری ہوگئی ہرگز پوری نہیں ہوئی مبلغ تو ایک جرنیل کے طور پر جاتا ہے جس نے وہاں جائزہ لینا ہے اور مختلف امور میں راہنمائی کرنی ہے اس ملک میں بسنے والے احمدیوں کی جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے یہ ہر احمدی کا کام ہے اور ہر احمدی کو اس میں حصہ لینا پڑے گا.فوجیں صرف جرنیلوں سے تو سر نہیں ہوا کرتیں.ایک جگہ جرنیل بھیج دو لیکن کوئی فوج اس کو مہیا نہ کرو گولہ بارود مہیا نہ کرو کوئی Infantry مہیا نہ کرو اور کہو کہ اکیلے جاؤ اور فتح کر لو یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ دنیا میں تو اس کا سوال نہیں پیدا ہوتا مذ ہب کے معاملات میں بھی ایسے نہیں ہوا کرتا.جب موسیٰ علیہ السلام سے ان کی فوج نے یہ کہا تھا کہ جا تو اور تیرا خدا لڑ وہم یہاں بیٹھ رہتے ہیں.تو خدا نے کیا جواب دیا تھا ؟ وہ چاہتا تو اکیلے موسیٰ کے ہاتھ پر بھی سارے علاقے کو فتح کر سکتا تھا.لیکن خدا نے انہیں کہا اچھا! اب بیٹھ رہو بیٹھے رہنے والی قوموں کو میری نصرت نہیں ملے گی تو موسی سے بڑھ کر بھی آپ کوئی مبلغ پیدا کر سکتے ہیں؟ یہ وہ جرنیل تھا جسے خدا نے خود اپنی آنکھوں کے سامنے تیار کیا تھا.جو پیدائش سے بھی پہلے اللہ کے پیار کی نظر میں تھا.وہ جو اللہ کے حکم سے لہروں پر ایک صندوق میں تیرتارہا.اور لہروں کو توفیق نہ ملی اس کو غرق کرنے کی وہ جس کے مقابل پر جب اس دنیا کا سب سے بڑا جبار بادشاہ آیا تو انہیں لہروں میں وہ غرق ہو گیا اور اس کو کوئی چیز بچ نہ سکی جب اس کی قوم نے کہا کہ جا تو اور تیرا خدا کیلے لڑتے پھر واللہ کی تقدیر نے کہا نہیں فتح تمہارے مقدر میں نہیں ہے اس کیلئے تمہیں انتظار کرنا پڑے گا جب تک تم میرے اس جرنیل کی آواز پر لبیک کہنے کیلئے تیار نہیں ہوتے تمہارے مقدر میں کوئی فتح نہیں لکھی جائے گی.چنانچہ وہ چالیس سال تک بھٹکتے رہے اور انکے ساتھ خدا کا یہ بندہ.موسیٰ بھی ویرانوں میں بھٹکتا رہا.پس خدا کی تقدیر کو چھوڑ کر آپ کس طرح ملکوں کو فتح کر سکتے ہیں ؟ ایک جرنیل مہیا کر دینا اور کہنا کہ اب تم اکیلے لڑو اور ہم بیٹھ رہتے ہیں.یہ نہیں ہو سکتا سارے احمدیوں کو اپنی ساری طاقتیں استعمال کرنی پڑیں گی.اور صرف سپین میں نہیں بلکہ ہر ملک میں وسیع پیمانے پر آپ کو اپنی ساری طاقتوں کو اسلام کے لئے جھونکنا پڑے گا.سپین کے لئے وقف عارضی کی تحریک چنانچہ پین کے متعلق تو میں نے یورپ میں یہ تحریک کی کہ ہمارے جتنے احمدی نوجوان ہیں وہ فوری طور پر سپینش زبان سیکھنا شروع کریں جو ریٹائر ہو رہے ہیں وہ وقف عارضی میں اپنے نام لکھا ئیں.یعنی سال بہ سال ریٹائر منٹ کے بعد کا جو وقف ہوتا ہے وقف عارضی سے کچھ مختلف نوعیت کا اس میں اپنے نام پیش کریں اور بتائیں کہ ہم اپنے خرچ پر کتنا عرصہ پین جا کر تبلیغ اسلام کر سکتے ہیں اور جو نام لکھا ئیں وہ ابھی سے

Page 40

27 زبان سیکھنی شروع کریں.پھر چھٹیوں میں وہاں سیر کے لئے جاتے ہیں وہ وہاں تبلیغ بھی کریں.میں نے ان سے کہا کہ پین کی طرف تو آج کل سارے یورپ اور امریکہ کا رجحان ہے اور سیر کے لئے بڑی پیاری جگہ ہے آپ کے لئے تو ایک پنتھ اور دو کاج والا معاملہ ہے اگر آپ تبلیغ اسلام کے لئے نکلیں گے تو سیر پیچھے تو نہیں رہ جائے گی آپ کی سیر میں مزا بہت بڑھ جائے گا.یورپ اور امریکہ تو وہاں اس لئے جاتا ہے کہ روپیہ خرچ کر کے ان کو عیاشی کے نئے نئے رستے دکھائے.اور ان کو ذلیل اور رسوا کرے.وہ تو اس لئے جاتے ہیں کہ تا اہل سپین زیادہ سے زیادہ شیطان کی آغوش میں چلے جائیں اور اس وقت سپین میں جو امن ہے.وہ بھی باقی ندر ہے یہ امر واقعہ ہے اور یہی ہو رہا ہے.چنانچہ وہاں کی مجالس میں جب مجھ سے بے تکلف سوال ہوئے اور ان سے بات ہوئی تو انہوں نے خود بھی یہ خطرہ محسوس کیا کہ امریکن اور مغربی قوموں کا جو Influence ٹورسٹس (Tourists ) یعنی سیاحوں کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے یہ ہمارے اندر بڑی خرابیاں پیدا کر رہا ہے بے حیائی بڑھی ہے اور اس کے علاوہ عیاشی کے نئے نئے ذریعے ہمارے سامنے آرہے ہیں ہم ایک غریب قوم ہیں.ہمارے اندر اس کی توفیق نہیں.جب توفیق سے بڑھ کر عیاشی سامنے آتی ہے تو ہمیشہ کر پشن پیدا ہوتی ہے.ہمیشہ رشوت ستانی داخل ہو جاتی ہے.یہ بے چینیاں میں نے ان کے اندر محسوس کی ہیں.میں نے کہا ایک طرف یہ بے چینیاں پیدا کرنے والے جا رہے ہیں تو دوسری طرف خدا کے بندے بے چینیاں دور کرنے والے بھی جانے چاہئیں.آپ جائیں اور ان کو پاکیزہ معاشرے کی طرف بلائیں آپ جائیں اور ان سے پاکیزہ دوستیاں کریں ان کو بتائیں کہ ہم اسلام کی طرف سے امن اور صلح اور محبت اور آشتی کا پیغام آپ کے لئے لے کر آئے ہیں.مختلف دیہات میں جائیں اور ان تک یہ پیغام پہنچائیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھی Response ہوئی یعنی بڑے جوش و ہوش کے ساتھ وہاں احباب نے وعدے کیے کہ ہم اس کام کے لئے حاضر ہیں جب بھی خدا ہمیں توفیق دے گا ہم اپنی چھٹیاں سپین میں گزاریں گے.لیکن اس کے لئے کچھ نظم و ضبط اور ترتیب کی ضرورت ہے.چنانچہ وہاں میں نے یہ ہدایت دی تھی اور اب تحریک جدید کو یہ ہدایت دیتا ہوں کہ وہ یہاں سے اس پروگرام کو منظم کرے.مثلاً اندلس کی سرزمین ہے اس میں چونکہ اسلام کا زیادہ اثر رہا ہے اس لئے وہاں کے لوگ زیادہ خلیق اور زیادہ محبت کرنے والے ہیں.اور اندلس کی سرزمین ہی میں ہم نے مسجد بنائی ہے وہ کافی وسیع علاقہ ہے وہاں چار یا پانچ صوبے ہیں اور کافی آبادی ہے.اگر تحریک جدید اندلس کے علاقے واقفین کی تعداد معلوم کر کے تقسیم کر دے کہ یہ حصہ جرمنی کے سپرد ہے یہ حصہ سوئٹزر لینڈ کے سپر د ہے، یہ ڈنمارک کے، یہ ناروے کے، یہ سویڈن کے، یہ فرانس کے اور اسی طرح فلاں حصہ انگلستان کے سپرد ہے تو سپین میں بہت جلد اسلام پھیل سکتا ہے.نقشے کے اوپر معین کر دیا

Page 41

28 جائے کہ ہم آپ کو یہ قلعے دیتے ہیں آپ نے سر کرنے ہیں اور مقابلہ ہوگا کہ کون سا ملک پہلے وہاں اسلام کا جھنڈا گاڑتا ہے.یہ سارے واقفین مبلغ وہ ہوں گے جو عارضی طور پر اور طوعی طور پر اپنے نام پیش کر رہے ہوں گے اور سلسلے پر ان کا کوئی بوجھ نہیں ہوگا.واقفین عارضی کو مواد مہیا کیا جائے ان واقفین کی مدد کے لئے یہ سکیم بنائی گئی ہے (یہ بھی اللہ تعالیٰ نے تو فیق عطا فرمائی کہ اس طرف میری توجہ کو پھیرا ) کہ ہمارے پین کے مبلغ جو بہت اچھا بولنے والے ہیں اور خصوصاً ان کے بیٹے منصور احمد صاحب جو نہایت ہی پاکیزہ شستہ سپینش بولتے ہیں اور ان کے اندر خدمت کا بڑا جذ بہ ہے، ( ڈاکٹر ہیں لیکن طوعی طور پر اسلام کی خدمت کرنے کا بہت شوق رکھتے ہیں ) ان کے سپرد یہ کام کر دیا جائے کہ جس طرح یہاں سوال و جواب کی کیسٹ ہوتی ہے اس طرح وہ اپنے تجربے کی روشنی میں سپین کے ماحول کے لئے پانچ یا چھ کیسٹ تیار کریں اور سپینش احمدی اور کچھ دوسرے سپینش دوست اکٹھے ہوں اور اس مجلس میں سوال وجواب ہوں اور مؤثر جواب ریکارڈ کر کے تمام یورپ کے مشنوں کو یہ کیسٹ بھجوا دی جائیں اور ان کے ساتھ ان کا لکھا ہوا ترجمہ بھی جائے.یہ جو واقفین عارضی جائیں گے ان کو زبان سیکھنے میں کچھ وقت لگے گا اور ہماری حالت تو وہی ہے جو غالب نے کہی.عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک کہاں ہم انتظار کریں کہ یہ زبان سیکھیں تب وہاں تبلیغ ہو.اس لئے وہ اپنے ساتھ یہ کیسٹ لے جائیں اور کیسٹ کے شروع میں یہ آواز ریکارڈ ہو کہ ہم آپ کی زبان نہیں جانتے مگر ہمارے دل میں آپ سے باتیں کرنے کے بڑے ولولے ہیں.اس لئے یہ کیسٹ ہیں.آپ ان کو سنیں اور اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہوا تو آپ ہمیں لکھ کر دیں یا کیسٹ میں ریکارڈ کرواد ہیں.ہم اپنے مبلغ کو بھیجیں گے ان کا پتہ یہ ہے اور آپ ان سے براہ راست گفتگو بھی کر سکتے ہیں.پس مختلف موضوعات پر ہسپانوی زبان میں کیسٹ تیار ہوں مسلمان بننے کے طریقے بتائے جائیں.مسلمان بننے کے بعد کی ذمہ داریاں بتائی جائیں.اسی طرح نماز پڑھنے کے طریقے طہارت کے مسائل اور اسلامی معاشرے کے روز مرہ کے مسائل پر مشتمل کیسٹ تیار ہوں اور ان واقفین کے پاس یہ کیسٹ موجود بھی ہوں تا کہ جب کوئی اسلام قبول کرے تو ساتھ ہی اس کو تربیت کا تحفہ بھی پیش کر دیں کہ اب تم پوچھنا چاہو گے کہ اسلام کیا ہے اور اس پر کس طرح عمل ہوتا ہے؟ یہ کیسٹ سن لو.اس میں اسلام کی ساری باتیں آگئی ہیں اس طرح ہم بغیر کسی انتظار کے انشاء اللہ تعالی اوسیع پیمانے پر سپین کے ملک میں تبلیغ کر سکیں گے.جہاں تک دیگر دنیا کا تعلق ہے اس کے متعلق پین کی مجلس شوری میں سکیم طے ہوئی اور ایک ہدایت

Page 42

29 جاری کی گئی.اس پر کہاں تک عمل شروع ہو چکا ہے اس کا ابھی جائزہ لینا باقی ہے اب میں پھر تحریک جدید کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں.اس وقت جو صدر مجلس انصار اللہ ہیں وہی وکیل اعلی تحریک جدید بھی ہیں.وہ سن رہے ہیں.وہ نوٹ کریں گے اور انشاء اللہ ذمہ داری کے ساتھ اس پر عمل درآمد کی کوشش کریں گے.وہ سکیم یہ ہے کہ " سوسالہ جو بلی " منانے سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور کچھ تھے پیش کرنے چاہئیں.خالی نعرے تو خدا تعالیٰ قبول نہیں فرمائے گا.اس کے لئے تو ایسا عمل صالح چاہیئے جو ہماری ” اللہ اکبر“ کی آواز کو رفعت عطا کرے گا.یہ نکتہ قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ تمہارے نیک ارادے اور بلند بانگ دعاوی (خواہ نیتیں بھی اچھی ہوں ) اپنی ذات میں اڑنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ زمین پر پڑے رہتے ہیں.کونسی چیز ان کو اٹھا کر خدا کے عرش تک پہنچاتی ہے؟ وہ تمہارے نیک اعمال ہیں.إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (فاطر:11) جب نیک اعمال کی قوت ان کو نصیب ہوتی ہے تو تم دیکھو گے کہ وہ عظیم الشان طریق پر اڑنا شرع کر دیں گے اور اتنی بلند پروازی اختیار کریں گے کہ وہ آسمان کے کنگروں تک جا پہنچیں گے.یہ ہے وہ مضمون جو قرآن کریم ہمیں سکھا رہا ہے اور بڑا سائنٹیفک مضمون ہے جس طرح آپ ایک بہت اچھا جہاز بنا کے رکھ دیں اور اس میں پٹرول نہ ڈالیں تو وہ بیچارہ یونہی پڑا رہے گا.خواہ کتنی بھی اچھی صنعت ہو.جہاز میں اگر طاقت نہیں ہوگی تو وہ کس طرح اُڑ سکے گا ؟ تو اسلام سائنٹیفک مذہب ہے کہ مختلف حصوں کی ضروریات کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور اپنی اپنی جگہ ہر ایک کی ضروریات کو تسلیم کرتا ہے محض کہانیوں میں بسنے والا مذہب نہیں ہے.پس اسلام کی اس تعلیم کے پیش نظر اگر چہ نعرہ ہائے تکبیر بہت ہی پُر لطف چیز ہیں اور بلند ارادے اور دعاوی اور فتح کے خواب دیکھنا بھی بڑا ضروری ہے کیونکہ اسی کے نتیجے میں منصوبے بنتے ہیں لیکن محض یہ چیزیں تو کافی نہیں.منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے خون کی ضرورت ہے مگر وہ کونسا خون ہے جو ان منصوبوں میں بھرا جائے گا تو وہ زندہ ہوں گے؟ وہ آپ کے اعمال صالح کا یہ خون ہے جب تک آپ اعمال صالحہ کے خون سے ان نیک ارادوں کو نہیں بھرتے ، یہ نیک ارادے زندہ نہیں ہوں گے اور خدا کے حضور قبول نہیں کیے جائیں گے.صد سالہ جشن کس طرح منائیں پس ہم سو سالہ جشن کس طرح منائیں؟ اور اپنے رب کے حضور کیا پیش کریں.بہت سی باتوں میں سے ایک یہ بات میرے پیش نظر ہے کہ ہم یہ عہد کریں کہ کم از کم سوممالک میں تبلیغ کے ذریعے اسلام کا جھنڈا گاڑ دیں گے یعنی احمدیت کے ہر سال کیلئے ہم ایک نیا ملک فتح کرلیں گے.اس کیلئے بھی بہت بڑے منصوبے کی ضرورت

Page 43

30 ہے اور بڑی تیزی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت پڑے گی بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں کی زبان ہمیں نہیں آتی.وہاں بھی کیسٹ کا طریقہ بڑی عمدگی کے ساتھ کام کر سکتا ہے اس کے بعد لٹریچر Follow up کرے گا.ہم انتظار بہر حال نہیں کر سکتے زبان نہیں آتی تو بغیر زبان کے ہی جانا پڑے گا اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے مطابق جو ہتھیار میسر ہیں وہ لے کر نکلنا پڑے گا خدا تعالیٰ یہ تو کہتا ہے کہ تم مری آواز پر لبیک کہو اور جو کچھ ہے حاضر کر دو.مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره:4) ہے جن کی وہ ہم سے توقع رکھتا ہے مگر توفیق سے بڑھ کر کی تو قع ہم سے نہیں رکھتا اس لئے جو کچھ میسر ہے اگر ہم اسے لے کر تبلیغ کے لئے نکل جائیں گے تو مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل آسمان سے نازل ہوگا اور ہر کمی کو پورا کر دے گا.اس سکیم کو اس طرح چلانا ہے کہ تمام ممالک کے سپر د کچھ اور ممالک کئے جائیں.جہاں جہاں جماعتیں قائم ہیں ان کو صرف یہ نہ کہا جائے کہ اپنے ملک میں جماعتیں بڑھائیں.بلکہ تحریک جدید کی طرف سے معین کر دیا جائے.مثلاً ماریشیس ہے.اسے کہا جائے کہ افریقہ کے کسی قریبی ملک میں جہاں وہ جاسکتے ہوں.وہاں انہوں نے احمدیت کا جھنڈا گاڑنا ہے.افریقہ کے ممالک جو دنیا کے کناروں پر ہیں اور جہاں احمدیت قائم ہے.وہ اندر کی طرف حرکت کر سکتے ہیں.شمال کی طرف کمی ہے تو وہاں جاسکتے ہیں فرنچ سپیکنگ افریقہ ( french speaking africa یعنی فرانسیسی بولنے والے افریقی ممالک میں کمزوری ہے تو وہاں داخل ہو سکتے ہیں.اٹالین سپیکنگ افریقہ Africa italian speaking یعنی اٹالین بولنے والے افریقی علاقوں میں کمی ہے تو وہاں داخل ہو سکتے ہیں.اصولی اور عمومی منصوبہ بندی کرنا تحریک جدید کا کام ہوگا پھر تفصیلی منصوبہ وہ ملک تیار کرے گا پھر وہ تحریک جدید کو بھیجے گا اور اس کو منظور کروانے کے بعد ایک اجتماعی مرکزی منصوبہ قائم کرے گا.اس سکیم کے تحت (سوسالہ جوبلی منانے کے لئے ہمارے پاس صرف پانچ چھ سال رہ گئے ہیں.) اگر تین مہینے کے اندر اندر ہم چھلانگ مارنے کیلئے تیار ہو جائیں اور دعائیں کرتے رہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے توقع ہے کہ ہر سال ہمیں نئے نئے پھل ملنے شروع ہو جائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ.منصوبہ کی کامیابی کے لئے دعائیں کریں اس سکیم میں پاکستان کا ایک حصہ دعا کا ہے بڑی کثرت کے ساتھ دعائیں کریں اور بڑی با قاعدگی کے ساتھ دعائیں کریں اتنا گہرا اثر ہوتا ہے دعا کا اور اتنا حیرت انگیز اور معجزانہ اثر ہوتا ہے کہ انسان تصور میں بھی نہیں لاسکتا.اس سفر کے دوران کئی لحاظ سے مجھ پر بہت بوجھ تھا ایک کے بعد دوسری مجلس میں جانا پڑتا تھا اور خیالات کو مجتمع کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا.یہاں تک کہ بعض دفعہ بڑے بڑے اہم خطابات کرنے کیلئے

Page 44

31 چند منٹ بھی میسر نہیں آتے تھے.ادھر ملاقاتیں ختم ہوئیں ادھر جا کر خطاب کیا.میرے پاس تو صرف یہی دعا کا حربہ تھا اور میں سمجھتا تھا کہ یہ اتنا بڑا حربہ ہے کہ اس کے بعد مجھے فکر ہی نہیں رہتی تھی میں دعا کرتا تھا کہ اللہ میاں! تیرے کام کیلئے نکلا ہوں تو نے ہی سکھانا ہے میری اپنی حیثیت ہی کوئی نہیں.وقت ملتا بھی اور توفیق نہ ملتی تو بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا.اس لئے اپنے فضل سے آپ ہی دماغ میں ڈال آپ ہی جواب سکھا ، آپ ہی مضمون روشن فرما اور توفیق عطا فرما کہ ایسی زبان میں ادا کروں کہ لوگ سمجھ سکیں.چنانچہ خدا تعالیٰ کا فضل ہوا اور ایسی مجالس میں بھی جہاں بالکل اچانک خطاب کرنے کا موقع ملا، وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے پاک تبدیلی نظر آئی.چنانچہ ایک ایسی ہی مجلس میں ایک انگر یز آیا ہوا تھا جو بالکل نیا تھا اور اس کو مذہب میں کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں تھی ایک دوست اسے پکڑ کر لے آئے اس نے صرف ایک سوال کیا اور اس سوال کا جو جواب خدا نے مجھے سکھا یا وہ میں نے دیدیا.چند دن ہوئے اس کا خط آیا ہے کہ میں نے ایک ہی سوال کیا تھا اور اس کے جواب سے میرے دل پر اتنا گہرا اثر پڑا ہے کہ مجھے جواب سنتے سنتے یہ یقین ہو گیا تھا کہ یہ کچے لوگ ہیں اس لئے آپ میرے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے قبول حق کی توفیق عطا فرمائے.پس اصل چیز سچائی ہے آپ کے جواب میں سچائی ہونی چاہئے اور سچائی کی توفیق بھی دعا ہی سے ملتی ہے اور سچائی کے حقوق ادا کرنے کی توفیق بھی دعا ہی سے ملتی ہے.پس دعائیں کریں اور کثرت کے ساتھ دعائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے سارے منصوبوں کو کامیاب فرمائے اور ان منصوبوں کی کمزوریوں کو دور فرمائے.نئی نئی راہیں ہم پر کھولے اور ان راہوں پر قدم مارنے کی توفیق بخشے ہر فتح کی اُمید کو ایک حقیقی فتح میں تبدیل کر دے.ہر فتح ونصرت کی خواب کو ایسی بچی تعبیر میں تبدیل کر دے کہ دنیا بھی اس تعبیر کو دیکھنے لگے.صرف خواب بین کو وہ نظارہ نظر نہ آرہا ہو بلکہ دنیا کے سامنے وہ نظارہ نقشوں میں اُبھرتا ہوا دکھائی دے رہا ہو.یہ وہ مقصد ہے جو دعاؤں کے ذریعے سے ہم نے حاصل کرنا ہے اور اگر دردمندانہ دعاؤں کے ساتھ پاکستان کی ساری جماعت کوشش کرے تو ہر ملک جو فتح ہو گا اس میں آپ کا حصہ شامل ہو جائے گا.یہ ٹھیک ہے کہ روپے پیسے کے ذریعے اب ہم مدد نہیں کر سکتے.یہاں کی سکیموں میں تو مدد کر سکتے ہیں اور کریں گے انشاء اللہ.مگر قانون ایسے ہیں کہ ہم اپنا روپیہ باہر نہیں بھجوا سکتے پاکستان اور ہندوستان کے لئے جو پہلے مزے تھے اب وہ نہیں رہے کہ ساری دنیا کا بوجھ پہلے ہندوستان نے اٹھا رکھا تھا پھر پاکستان نے اٹھا رکھا تھا روپیہ باہر بھجوانے میں روکیں پیدا ہو رہی ہیں لیکن کام کے رستے میں روکیں پیدا نہیں ہو رہی ہیں.ہماری تمناؤں اور خواہشوں کے رستے میں روکیں ضرور پیدا ہو جاتی ہیں جہاں تک کام کا تعلق ہے وہ تو جاری ہے.

Page 45

32 32 جتنا روپیہ ہم یہاں سے بھجواتے تھے اس سے سینکڑوں گنا زیادہ روپیہ باہر سے ملنا شروع ہو گیا ہے پس کام تو انشاء اللہ جاری رہیں گے ہمیں صرف یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش! ہم اب بھی روپے کے ذریعے اسی طرح مدد کرتے جس طرح پہلے کیا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ رفتہ رفتہ یہ روکیں بھی دور فرما دے گا اور یہ بھی دعاؤں کے ذریعہ سے ہی ہوگا.انشاء اللہ.ہر مجلس ہر سال ایک گاؤں میں احمدیت کا پودا لگائے.مجلس انصاراللہ ہر اس گاؤں میں احمدیت پہنچانے کی کوشش کرے جہاں احمدیت نہیں ہے جہاں تک پاکستان کی جماعت کا تعلق ہے میں مجلس انصاراللہ کے سامنے خصوصیت سے یہ پروگرام رکھتا ہوں پہلے بحیثیت صدر مجلس انصار اللہ بھی یہ پروگرام آپ کے سامنے رکھا تھا کہ ایک ایسے گاؤں میں احمدیت کو قائم کرنے کی کوشش کریں جہاں پہلے احمدیت قائم نہیں ہے.اگر ہر مجلس ہر سال ایک نئے گاؤں میں احمدیت نافذ کر دے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند سالوں کے اندر اندر اس ملک کی فضا تبدیل ہو جائے گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دشمن بھی منصوبے بناتا ہے اور مکر کرتا ہے.اور اللہ بھی منصوبے بناتا ہے اور ایک مکر کرتا ہے.وَاللهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (آل عمران : 55 ) اور اللہ کا مکر بہتر ہوتا ہے اپنی خوبیوں کے لحاظ سے بھی اور انجام کار بھی وہی غالب آیا کرتا ہے.پس جتنا وہ مکر کر رہے ہیں آپ کو ذلیل اور رسوا کرنے کے لئے اور مٹانے کے لئے اور آپ کی جڑیں اکھاڑنے کے لئے آپ بھی مقابل پر مکر کریں اور وہ مکر کریں جو اللہ کا مکر ہوتا ہے جو خَيْرُ الماکرین کا مکر ہوتا ہے.دیکھتے دیکھتے اللہ کی تائید کے ساتھ یہ ساری بستیاں انشاء اللہ احمدی ہو جائیں گی.یہاں احمدیت کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا.پس وہ جو ہمیں مٹانے کے لئے خواہاں ہیں، یہ ان لوگوں کی خوا میں ہیں جو کبھی پوری نہیں ہوں گی وہی خواب پوری ہوگی جو میرے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب تھی جو آپ کے عاشق کامل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواب تھی.ساری دنیا میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا گاڑا جائے گا.اور دشمن اسلام کی ساری خواہیں نا کام جائیں گی.پوری نہیں ہوں گی اور نا مراد نکلیں گی.اور ہر جگہ ہر بستی ، ہر قریہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جھنڈا گاڑا جائے گا یعنی وہی جھنڈا جو درحقیقت حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہے تمام دشمنان اسلام کی ہر خواب نامراد جائے گی اگر آپ دعائیں کریں گے، آپ احسن تدبیر سے کام لیں گے، اگر آپ برائی کا بدلہ حسن و احسان سے دیں گے اور صبر سے کام لیں گے تو یہی ایک تقدیر ہے جو پوری ہونی ہے.اس کے سوا اور کوئی تقدیر نظر نہیں آتی.اس کیلئے منصوبہ بنائیں.اس کے لئے مجلس مرکز یہ سر جوڑ کے بیٹھے اور معین دیہات تقسیم کر کے آپ کے ذمے لگائیں.اور پھر ضلع وار مقابلے کروائیں اور دیکھیں کہ کون پہلے نئے نئے دیہات میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا جھنڈا گاڑتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 46

33...اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آپ کا حافظ و ناصر ہو جس طرح آپ یہاں سے خوشیاں سمیٹ کر جار ہے ہیں اسی طرح خوشیوں کے ساتھ ہی گھر پہنچیں بلکہ ان خوشیوں کو ہر لحاظ سے برکتیں ملیں اور آپ کی خوشی سے واپسی کی خبریں مل کر ہمارے دل بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کی حمد کے ساتھ اور اس کے نشکر کے ساتھ بھر جائیں." روزنامه الفضل ربوہ 9 جون 1983 ء) زعماء انصار اللہ نماز کی یادد بانی مساجد میں کرانے کی بجائے بے نمازیوں کے گھر گھر جائیں خطبہ جمعہ 19 نومبر 1982ء) "سوال یہ ہے کہ خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ یا دیگر تنظیمیں ان لوگوں کو کس طرح سنبھالیں؟ جب میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ قرآن کریم پہلی ذمہ داری بیرونی تنظیموں پر نہیں ڈالتا.بلکہ پہلی ذمہ داری گھروں پر ڈالتا ہے اور یہ ایک بڑا ہی گہرا اور پر حکمت نکتہ ہے.حقیقت یہ ہے کہ اگر گھر اپنے بچوں کی نماز کی حفاظت نہیں کریں گے تو بیرونی دنیا لاکھ کوشش کرلے وہ اس قسم کے نمازی پیدا نہیں کر سکتی جو گھر کی تربیت کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں.پس میں تمام گھروں کو یہ تلقین کرتا ہوں کہ وہ بڑی ہمت اور جد وجہد کے ساتھ نمازی پیدا کرنے کی کوشش کریں.اور ہمارے ماضی میں جو نیک مثالیں ستاروں کی طرح چمک رہی ہیں ان کی پیروی کریں.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کا نمونہ بہت سی مثالوں میں سے میں ایک مثال اپنے چھوٹے پھوپھا جان حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب کی دیتا ہوں.ان کو نماز سے، بلکہ نماز با جماعت سے ایسا عشق تھا کہ لوگ بعض دفعہ بیماری کے عذر کی وجہ سے مسجد نہ جانے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں، لیکن وہ بیماری کے باوجودمسجد جانے کے بہانے ڈھونڈا کرتے تھے.دل کے مریض تھے اور ڈاکٹر نے بشدت منع کیا ہوا تھا کہ حرکت نہیں کرنی.لیکن اس کے باوجود آپ ایک Wheel Chair میں بیٹھ کر ( پہیوں والی وہ کرسی جس پر بیٹھ کر مریض خود اپنے ہاتھوں سے اس کے پیئے گھماتا ہے ) رتن باغ لاہور میں جہاں نماز میں ہوتی تھیں ، (اس وقت مسجد نہیں تھی اس لئے رتن باغ کے صحن میں نماز میں ہوا کرتی تھیں ) با قاعدگی کے ساتھ وہاں پہنچا کرتے تھے.جب مسجد گھر سے دور ہوگئی تو اپنے گھر کو مسجد بنالیا اور اردگرد کے لوگوں کو دعوت دی کہ تم پانچوں وقت نماز کے لئے میرے گھر آیا کرو.اور مسجد

Page 47

34 کے جس قدر حقوق عائد ہوتے ہیں ، ان سب کو ادا کرتے تھے.یعنی جب انہوں نے یہ اعلان کیا کہ میرا گھر مسجد ہے تو پانچوں نمازوں کے لئے آپ کے گھر کے دروازے کھلے رہتے تھے.صبح کے وقت نمازی آتا تھا تو دروازے کھلے ہوتے تھے.رات کو عشاء کی نماز کے لئے آتا تھا تب بھی دروازے کھلے ہوتے تھے اور دو پہر کو بھی دروازے کھلے رہتے تھے.پھر نمازیوں کے لئے وضو کا انتظام تھا اور دیگر سہولتیں بھی مہیا تھیں.یہ سب کچھ آپ اس لئے کرتے تھے کہ آپ کو نماز با جماعت سے ایک عشق تھا اور یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ کسی حالت میں بھی آپ کی کوئی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے سے رہ جائے.چنانچہ آپ کی اولاد میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز کی بڑی پابندی پائی جاتی ہے.اہل قادیان میں جماعت کا شوق یہ صرف ایک نمونہ ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے.اسی قسم کے ہزار ہا نمونے قادیان میں رہنے والوں کی یادوں میں بس رہے ہونگے.نماز کا اتنا شوق پایا جاتا تھا اور اس کی اتنی تربیت تھی کہ قادیان کے پاگل بھی نمازی رہتے تھے ایسے پاگل جو دنیا کی ہر ہوش گنوا دیتے تھے.وہ نماز پڑھنے کے لئے اکیلے مسجدوں میں پہنچ جایا کرتے تھے.نماز پڑھنے کی عادت ان کی زندگی میں ایسی رچ بس گئی تھی کہ وہ اس سے الگ ہو ہی نہیں سکتے تھے.ایسے ہی ایک راجہ اسلم صاحب ہوا کرتے تھے.جب پاگل پن کی انتہاء ہوگئی تو بیچارے گھر سے باہر چلے گئے.پاگل پن میں جو بھی اندرونہ ہو وہ باہر آجاتا ہے.چونکہ ان پہ نیکی کا غلبہ تھا اس لئے (آخری اطلاع کے مطابق) تبلیغ کے جنون سے غالبا روس کی طرف چلے گئے تھے.پھر انہیں دوبارہ کبھی نہیں دیکھا گیا.اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان پر کیا گزری.لیکن پاگل پن کے انتہا کے وقت بھی پانچوں نمازوں میں مسجد میں آیا کرتے تھے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے اصحاب کو خدا تعالیٰ نے عبادت کے قیام کی جو توفیق بخشی تھی وہ اگلی نسل یعنی تابعین تک بھی بڑی شدت کے ساتھ جاری رہی.اب ہم ایک ایسی جگہ پہنچے ہیں جہاں تابعین اور تبع تابعین کا جوڑ ہے اور اگر ہم نے اس وقت بشدت اپنی نمازوں کی حفاظت نہ کی تو خطرہ ہے کہ آگے بے نمازی پیدا ہونے نہ شروع ہو جائیں.اس لئے ہمیں غیر معمولی جہاد کی روح کے ساتھ نماز کے قیام کی کوشش کرنی چاہیئے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ جہادگھروں سے شروع ہوگا.جلسہ سالانہ کے ایام میں نماز با جماعت کا التزام اب جلسہ سالانہ کے ایام قریب آرہے ہیں اور ربوہ کے گھروں کو خدا تعالیٰ ایک غیر معمولی حیثیت عطا کرنے والا ہے وہ گھر جو نمازی گھر ہیں ان کا فیض دنیا کے کناروں تک پہنچ جائے گا.دور دور سے آنے والے جو لوگ ان کے ہاں ٹھہریں گے وہ ان سے نیک نمونہ پکڑیں گے اور ان آنے والوں میں سے اگر کوئی

Page 48

35 بے نمازی بھی ہوں گے تو یہ گھر ان کو نمازی بنادیں گے.لیکن اس کے ساتھ ایک یہ خطرہ بھی ہے کہ اگر وہ گھر جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ٹھہرتے ہیں، بے نمازی ہوں تو ہو سکتا ہے کہ یہ ان مہمانوں کی عادتیں بھی بگاڑ دیں اور ان کو بھی نمازوں سے غافل کر دیں.اس طرح ان گھروں کی حالتِ بے نمازی بھی زمین کے کناروں تک پہنچ سکتی ہے.یعنی ایک طرف وہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں حاصل کر سکتے ہیں تو دوسری طرف ان رحمتوں سے محرومی کی بھی کوئی حد نہیں رہتی.پس خصوصیت کے ساتھ اپنے گھروں کو اس طرح بھی سجائیں کہ وہ عبادت اور ذکر الہی سے معمور ہو جائیں.جب مہمان آتے ہیں تو ان کے لئے گھروں کو سجایا جاتا اور انہیں زینت بخشی جاتی ہے.میں نے ایک خطبہ جمعہ میں اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ربوہ کو ایک غریب دلہن کی طرح سجانا چاہئے لیکن مومن کی اصل سجاوٹ تو تقویٰ کی سجاوٹ ہے، نماز کی سجاوٹ ہے.خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف:32) میں یہی اشارہ کیا گیا ہے کہ اصل زینت تو وہ ہے جو نمازوں کے ساتھ پیدا ہوتی ہے.نمازیں سنوارو گے تو مسجدیں بھی زینت اختیار کر جائیں گی.لیکن اگر بغیر سنوارے کے نمازیں پڑھو گے تو تمہاری مسجد میں بھی ویران ہو جائیں گی.پس اپنے گھروں کو زینت بخشومہمانوں کے استقبال کی تیاری کرو.اللہ کے ذکر کو گھروں میں بھی کثرت سے بلند کرو اور بار بار بچوں کو بھی اس کی تلقین کرو تا کہ ہر گھر خدا کے ذکر کا گہوارہ بن جائے اور ہر مہمان جو آپ کے ہاں ٹھہرے ، وہ اگر کمزور بھی ہے تو آپ کی مثال سے طاقت پکڑے اور ذکر الہی کی طاقت لے کر یہاں سے واپس لوٹے.ربوہ میں نماز با جماعت کی مساعی کے لئے لائحہ عمل جہاں تک میرا نظری جائزہ ہے میں سمجھتا ہوں ربوہ کی پوری آبادی جمعہ میں بھی حاضر نہیں ہوتی.ربوہ کی آبادی ہمیں معلوم ہے اور جتنے فیصد لوگوں کو مسجد میں پہنچنا چاہئے اتنے یہاں نظر نہیں آتے.چونکہ ہمارا موازنہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا، دوسری سوسائٹیوں سے نہیں ہے بلکہ ہمارے معیار بہت بلند ہیں.ہماری ذمہ داریاں بہت وسیع ، بہت اہم ، بہت گہری اور بہت بھاری ہیں.اس لئے ان کی ادائیگی کے لئے بھی ہمیں اسی قسم کی تیاریاں کرنی پڑیں گی اور نماز کے قیام کے بغیر ہم دنیا کی تربیت کرنے کے اہل نہیں ہو سکتے.اس لئے جمعہ کی نماز میں بھی حاضری کو بڑھانا چاہئے اور اس کے لئے بھی گھروں میں تلقین کرنی پڑیگی.زعمائے انصار اللہ کا فرض صدران محلہ جات اور زعماء انصار اللہ کا فرض ہے کہ بجائے اس کے کہ وہ صرف مسجدوں میں نماز کی تلقین اور یاد دہانی کا پروگرام بنائیں، اگر کوئی ایسے گھر ہیں جو مسجد میں نہیں آتے تو گھروں میں جائیں اور گھر

Page 49

36 والوں سے ملیں اور ان کی منت کریں اور ان کو سمجھائیں کہ تمہارے گھر بے نور اور ویران پڑے ہیں.کیونکہ جو گھر ذکر الہی سے خالی ہے وہ ایک ویرانہ ہے اور جس گھر میں بے نمازی پیدا ہور ہے ہیں وہ تو گویا آئندہ نسلوں کے لئے ایک نحوست کا پیغام بن گیا ہے اس لئے ہوش کرو اور اپنے آپ کو سنبھالو اور نمازوں کی طرف توجہ کرو اس سے تمہاری دنیا بھی سنورے گی اور تمہارا دین بھی سنورے گا کیونکہ عبادت میں ہی سب کچھ ہے.عبادت پر قائم رہو گے تو خدا کے حقوق ادا کرنے والے بھی بنو گے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی بنو گے.پس یہ نصیحت گھروں کے دروازوں تک پہنچانی پڑے گی اور بار بار وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا کا نقشہ پیش کرنا پڑے گا.یعنی جو بھی یہ عہد کرے کہ میں گھروں میں نماز کا پیغام پہنچاؤں گا اور گھر والوں کو تاکید کروں گا اور ان کو ہوش دلاؤں گا کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کریں ، اس کو یہ نیت بھی کرنی پڑے گی کہ میں پختہ عزم اور مستقل مزاجی کے ساتھ یہ کام کروں گا کیونکہ ایسا کہنا تو آسان ہے لیکن اس پر عمل بہت مشکل ہو گا.وجہ یہ کہ چند دنوں کے بعد انسان پر غفلت غالب آجاتی ہے اور وہ اس کام کو جو اس نے شروع کیا ہوتا ہے چھوڑ بیٹھتا ہے.اس لئے اگر نتیجہ حاصل کرنا ہے تو وَ اصْطَبرُ عَلَيْهَا کے مضمون کو پیش نظر رکھنا ہوگا.جب تک خدا تعالیٰ کی اس واضح تلقین کو ہمیشہ مدنظر نہ رکھا جائے کہ نماز کی تلقین میں صبر اور دوام اختیار کرنا چاہیئے اس وقت تک ہم اعلیٰ مقصد کو حاصل نہیں کر سکیں گے." خطبات طاہر جلد اول صفحہ 285-288) کیا آپ اپنے بچوں کی اخلاقی ، روحانی تربیت کے لئے اور انہیں حقیقی احمدی بنانے کے لئے دعائیں کرتے ہیں مجلس انصاراللہ انڈونیشیا کے اجتماع کے موقعہ پر پیغام) ( حضور کا پیغام انگریزی زبان میں تھا جس کا مکمل ترجمہ درج ذیل ہے) پیارے بھائیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکانن ! مجلس انصار اللہ انڈونیشیا اپنا دوسرا سالانہ اجتماع مغربی جاوا Manislor Kuningan میں منعقد کر رہی ہے میری دعا ہے کہ اجتماع کامیاب ہو.اور مجھے اُمید ہے کہ اسے ممبروں کی اخلاقی اور روحانی ترقی کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیا گیا ہوگا.جماعت احمد یہ انڈونیشیا نے مجھ سے انڈونیشیا کے دورہ کی درخواست کی ہے میرے دورہ کی بنیاد اس بات پر ہوگی کہ جماعت انڈونیشیا کس حد تک اپنی موجودہ اخلاقی اور روحانی حالت میں بہتری کی تگ ودو

Page 50

37 کرتی ہے.آپ ایک روحانی مہمان کو اپنے ملک میں بلا رہے ہیں.اس لئے آپ کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے.تیاری سے مراد دلوں کی صفائی ہے.کیا یہ شروع ہو چکی ہے.کیا آپ نے اپنے گھروں کو ٹھیک کرنا شروع کر دیا ہے.کیا جماعت کا ہر ممبر اپنی ذات کی موجودہ حالت کا جائزہ لے چکا ہے.اور کیا اس نے اپنی موجودہ اخلاقی اور روحانی کیفیت کو بہتر بنانا شروع کر دیا.کیا آپ نے اپنے آپ کے لئے جماعت کے لئے اور دورہ کیلئے دعائیں شروع کر دی ہیں.کیا ہر انڈو نیشین احمدی نے پنجگانہ نمازوں کا التزام شروع کر دیا ہے.اور کوئی نادہندہ نہیں رہا.کیا آپ اپنے بچوں کی اخلاقی روحانی تربیت کیلئے اور انہیں حقیقی احمدی بنانے کے لئے پوری کوشش اور مکمل توجہ کے ساتھ دعائیں کرتے رہے ہیں؟ کیا انڈونیشیا میں ہر احمدی اپنا کچھ وقت تبلیغ کے لئے وقف کر رہا ہے؟ آپ کے ملک میں بیعتیں کم ہورہی ہیں.مبلغوں کے کام کے علاوہ تبلیغ کو نظر انداز کیا جارہا ہے معلوم ہوتا ہے کہ ممبران تبلیغ میں کوئی حصہ نہیں لے رہے.اور یہ کام انہوں نے کلیتہ مبلغوں کے حوالے کر رکھا ہے.جب تک ہر احمدی مبلغ نہیں بن جاتا.اور تبلیغ اس کے روز مرہ کا معمول نہیں بن جاتی ہم سارے انڈونیشیا کو جیتنے کا مقصود حاصل نہیں کر سکتے.تبلیغ بے تکی نہیں ہونی چاہئے.اسے پہلے سوچ سمجھ کر باقاعدہ طریقے سے کرنا چاہئے انڈونیشین سوسائٹی کے تمام طبقوں کو مخاطب کرنا چاہئے عمر کے ہر حصہ کے لوگوں اور خصوصاً نو جوانوں کو مخاطب کرنا چاہئے.غیر احمدیوں کو خصوصی سوال و جواب کی محفلوں میں مدعو کرنا چاہئے.تبلیغ کے لئے سمعی و بصری وسائل.پروجیکٹر.ٹیپ ریکارڈر وغیرہ کو استعمال میں لانا چاہئے.ہر جماعت کے لئے ہر سال نئی بیعتوں کی کم از کم تعداد مقرر کی جائے اور ان کی کارکردگی کا ریکارڈ رکھا جائے.ممبران پر تبلیغ کی اہمیت اجاگر کئے بغیر یہ سب کچھ ممکن نہیں.ہم میں سے ہر ایک قرآنی حکم بَلِّغُ مَا أنْزِلَ إِلَيْكَ (مائدہ: 68) کی رو سے اللہ کے سامنے جواب دہ ہے.ممبران کی ٹریننگ کے لئے اختلافی مسائل پر خصوصی اجلاس اور تقاریر منعقد کرائی جائیں ہماری خواتین کو انڈونیشی خواتین میں تبلیغ کرنی چاہئے خشتی کہ بچوں کو بھی اس جدو جہد میں شامل کیا جائے.انہیں پروگراموں میں شامل کرنے سے انشاء اللہ مستقبل کے پر جوش مبلغ تیار ہو نگے.یہ ہیں شرائط میرے دورہ کے لئے.میں آنے کے لئے تیار ہوں اگر آپ انہیں پورا

Page 51

38 کریں یا کم از کم اس سمت میں کوئی قابل ذکر ترقی کریں.اللہ آپ کو اپنی پناہ میں رکھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام دعائیں آپ کے ذریعہ پوری ہوں.اور آپ ان کی خواہشات اور دعاؤں کے مطابق ستاروں کی مانند چمکیں.مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع روزنامه الفضل 26 جنوری 1983 ء) 29-9-82

Page 52

39 $1983 واضح اور یقینی شرعی مجبوریوں کے سوا سلسلہ کے تمام کارکنان کونمازوں میں پیش پیش ہونا چاہئے با جماعت نمازوں کی پابندی میں ہر مقامی جماعت کی مجلس عاملہ اور تنظیم بالکل اسی طرح ذمہ دار ہے جس طرح مرکزی انجمنیں ( خطبہ جمعہ یکم اپریل 1983ء) میں جماعت کو خصوصیت کے ساتھ عبادت کی ادائیگی کی طرف بلانا چاہتا ہوں.اگر چہ بعض پہلے خطبات میں بھی میں نے اس کی طرف توجہ دلائی تھی لیکن یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جب تک بار بار اس کی طرف توجہ نہ دلائی جائے اس وقت تک نہ توجہ دلانے والا اپنے رب کے سامنے اپنی ذمہ داری ادا کر سکتا ہے نہ وہ لوگ صحیح معنوں میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں.جن کو توجہ دلائی گئی ہو.ذکر کا مضمون ایک جاری وساری مضمون ہے اس لئے ہمیں بعض امور کی طرف بار بار توجہ دلاتے رہنا پڑیگا خصوصا نماز پر تو اس کا بہت ہی گہرا اثر پڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف آیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے نماز کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ یہ ہے کہ نماز ایسی چیز ہے جو اگر زور لگا کر اور توجہ کے ساتھ کھڑی نہ کی جائے تو گر پڑے گی.آپ فرماتے ہیں کہ یہ جو بار بار کہا گیا ہے کہ نماز کو کھڑا کرو، کھڑا کرو، کھڑا کرو، اور بڑی کثرت کے ساتھ مختلف طریق پر بیان کیا گیا ، اس سے اس طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ نماز از خود کھڑی نہیں ہوا کرتی.جب بھی تم اس کی طرف سے غافل ہو گئے ، یہ گر پڑے گی.جس طرح ٹینٹ یعنی خیمہ بانس کے سہارے کھڑا ہوتا ہے، اگر بانس نہیں رہے گا تو خیمہ زمین پر آپڑے گا، کمرے کی طرح کی چیز تو نہیں کہ از خود کھڑار ہے.اسی طرح عبادت بھی ایک ایسی چیز ہے جو از خود کھڑی نہیں ہوتی.اس کی طرف بار بار توجہ دلانے کی ضرورت ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ سورۃ فاتحہ کی آیت إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین میں یہی مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ اے خدا ہم کمزور ہیں اور عبادت مشکل کام ہے.ذرا بھی اس سے غافل ہوئے تو اس کا حق ادا کرنے کے اہل نہیں رہیں گے، اس لئے ہر نماز کی ہر رکعت میں ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں التجاء کرتے ہیں کہ ہمیں توفیق بخش کہ ہم نماز کا حق ادا کر سکیں.اس لئے خصوصیت کے ساتھ نماز کی طرف توجہ دلانا ہمارا اولین فرض ہونا چاہئے.سارا نظام اس

Page 53

40 نماز کو ہمیشہ اولیت دے.عبادت کے بغیر حقوق العباد کی ادائیگی کا جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا دوسرے اس لئے بھی اس طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے کہ مذہب کا مقصد ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے.حقوق العباد اس کا دوسرا حصہ ضرور ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عبادت کے بغیر حقوق العباد کی ادائیگی کا جذ بہ بھی پیدا نہیں ہو سکتا.دنیا کی کسی قوم نے کبھی حقوق العباد نہیں سیکھے جب تک کہ اللہ نے نہ سکھائے ہوں صحیح معنوں میں حقوق العباد کی آخری بنیاد میں مذہب میں ہی ملتی ہیں.اس کے سوا تو باقی سب کچھ چھینا جھپٹی اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنا ہے.حقوق العباد کے نام پر ظلم کی تعلیم تو دی گئی ہے لیکن انسان نے کسی کو حقوق العباد نہیں سکھائے جتنی بھی دنیوی تعلیمات ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حقوق العباد حقیقت میں مذہب سے ہی نکلے ہیں اور وہی لوگ حقوق العباد ادا کر سکتے ہیں جو پہلے اللہ کی عبادت کا حق ادا کریں جن کی عبادتیں کمزور پڑ جائیں وہ حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی کمزور پڑ جاتے ہیں.جو حقوق اللہ ادا نہیں کرتے ، وہ جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم حقوق العباد ادا کرتے ہیں.کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان خدا کی عبادت تو نہ کرتا ہو لیکن خدا کے بندوں کے حقوق ادا کر سکے.غفلت کی حالت میں نماز ادا کر نے والوں کے لئے ہلاکت ہے چنانچہ قرآن کریم اس مضمون کو بہت کھول کر بیان کرتا ہے.فرماتا ہے.فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ.الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلاتِهِمْ سَاهُونَ (الماعون : 5-6 ) کہ اگر چہ نماز انسان کے لئے زندگی اور اس کی بقا کا موجب ہے اور اس کو فلاح کی طرف لے جاتی ہے لیکن کچھ نمازیں ایسی ہوتی ہیں جو ہلاکت کا پیغام دیتی ہیں فَوَيْلُ لِلْمُصَلین ہلاک ہو جائیں ایسے لوگ ، ایسے نمازیوں پر لعنت ہو.الذِينَ هُمْ عَنِ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ.جو نمازیں تو پڑھتے ہیں لیکن غفلت کی حالت میں پڑھتے ہیں.اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ نماز کی ذمہ داریوں سے غافل رہتے ہیں.نماز جن تقاضوں کی طرف بلاتی ہے یا جن تقاضوں کی طرف بلانے کے لئے نماز پڑھی جاتی ہے ان سے غافل ہو جاتے ہیں یعنی نہ اللہ کی محبت ان کے دل میں پیدا ہوتی ہے، نہ محض اللہ کام کرنے کی عادت ان کو پڑتی ہے اور نہ وہ حقوق العباد ادا کرتے ہیں، یہ ساری چیزیں نماز کی بنیادی صفات ہیں.چنانچہ ہلاکت والی نماز ادا کرنے والوں کی یہ تعریف بیان فرمائی گئی الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونُ الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُ وُنَ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ (الماعون : 6-8 ) یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کے بنیادی مقاصد سے غافل ہیں.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ ریا کاری کی خاطر نماز پڑھنے لگتے ہیں.اپنے رب کی خاطر

Page 54

41 نہیں پڑھتے.اس طرح نماز کے بنیادی مقصد یعنی اللہ تعالیٰ سے تعلق کے قیام سے محروم رہ جاتے ہیں.اور جو خدا کے ساتھ تعلق قائم کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں ان کی قطعی علامت یہ ہے کہ وہ خدا کے بندوں سے بھی کٹ جاتے ہیں جو خدا کے حقوق ادا نہیں کرتے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ خدا کے بندوں کے حقوق ادا کر سکیں.چنانچہ فرمایا.وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُون کہ یہ لوگ اتنے خسیس ، اتنے کم ظرف ہو جاتے ہیں کہ بنی نوع انسان کی معمولی معمولی ضرورتیں پوری کرنے سے بھی گریز کرنے لگ جاتے ہیں.ان کی حالت یہاں تک ہو جاتی ہے کہ اگر ان کے ہمسائے نے آگ مانگی ہے تو اس سے انکو تکلیف پہنچتی ہے یا تھوڑی دیر کے لئے مثلاً ایک ہنڈیا طلب کی ہے تو اس سے بھی تکلیف پہنچتی ہے.يَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ میں دونوں باتیں پائی جاتی ہیں.ایک یہ کہ خود بھی منع رہتے ہیں اور دوسرے یہ کہ اپنے بچوں کو اور اپنے ماحول کو بھی کہتے ہیں کہ اس نے یہ کیا رٹ لگارکھی ہے، ہمسائی بار بار مصیبت ڈالتی رہتی ہے کہ فلاں چیز دو اور فلاں بھی دو، اس کو یہ چیز ہرگز نہیں دینی.نماز اور عبادت کا خلاصہ پس نماز اور عبادت کا خلاصہ یہ بیان فرمایا کہ اس کے بغیر نہ اللہ سے تعلق قائم ہوتا ہے ، نہ اس کی مخلوق سے اسی لئے بنی نوع انسان کے حقوق کا ذکر عبادت کے بعد کیا جو بیشتر حد تک مِمَّا رَزَقْنهُمُ يُنفِقُونَ کی ذیل میں آجاتے ہیں بلکہ اگر اس کی وہ تعریف کی جائے جو حضر مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے تو بیشتر کالفظ کمزور ہے.حقیقت یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان کے ہر قسم کے حقوق مِمَّا رَزَقْنَاهُمُ يُنفِقُونَ کے تابع ادا ہوتے ہیں.اس کو عبادت کے بعد رکھا ہے اور یہ ترتیب بتارہی ہے کہ دراصل عبادت ہی کے نتیجے میں بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا ہوتی ہے.پیں جہاں تک اعمال کا تعلق ہے مذہب کا خلاصہ عبادت پر آ کر ختم ہو جاتا ہے.غیب کا معاملہ تو ایمانیات سے تعلق رکھتا ہے اور ایمان نہ ہو تو عبادت کی توفیق بھی نہیں مل سکتی.یہ درست ہے لیکن جہاں تک اعمال کا تعلق ہے انکا خلاصہ نماز ہے.نماز قائم ہو تو حقوق اللہ بھی ادا ہوں گے اور حقوق العباد بھی ادا ہوں گے.لیکن اگر یہ نہ رہے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.تقویٰ کا خلاصہ بھی نماز بیان فرمایا گیا ہے.تقویٰ کی جو تعریف بیان فرمائی اس کا خلاصہ اگر نماز ہے تو متقیوں کی زندگی کا خلاصہ بھی نماز ہی بنتا ہے.اس لئے عبادت مومن کی زندگی اور اس کی جان ہے اور مذہب کے فلسفے کی بنیاد اس بات پر ہے کہ انسان اپنے رب سے سچا تعلق عبادت کے ذریعے قائم کرے.تمہیں لازماً عبادتوں کو قائم کرنا پڑے گا اس پہلو سے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، کمزوریاں بھی آتی چلی جاتی ہیں.ایک دفعہ آپ زور

Page 55

42 لگاتے اور کوشش کرتے ہیں تو نماز میں حاضری کا معیار بڑھ جاتا ہے.پھر کچھ عرصے کے بعد نماز گر نے لگتی ہے.پھر زور لگاتے ہیں تو معیار بڑھنے لگتا ہے اور بعض دنوں میں جب زیادہ توجہ دی جاتی ہے تو خدا کے فضل سے مسجدوں کے متعلق احساس ہوتا ہے کہ چھوٹی رہ گئی ہیں.لیکن اس کے بعد پھر خالی برتن کی طرح خلخل کرتے ہوئے چند نمازی رہ جاتے ہیں اور مسجد میں قریباً خالی اس لئے ہمیں اپنے نظام میں لازماً یہ بات داخل کرنی پڑے گی کہ سارا نظام بیدار ہو کر وقتا فوقتا نمازوں کی طرف توجہ دلائے ، ساری جماعت کو جھنجھوڑ دے اور بیدار کر دے اور اسے بتائے کہ نمازوں کے بغیر تم زندہ نہیں ہو اور نہ ہی زندہ رہ سکتے ہو تمہیں لا ز ما عبادتوں کو قائم کرنا پڑے گا ورنہ تمہاری ساری کوششیں بریکا ربے معنی اور لغو ہوں گی.نظام جماعت نماز کی حفاظت کی ذمہ دار ہے یہی وجہ ہے کہ میں نے آغاز خلافت ہی میں آج سے تقریباً چھ ماہ پہلے تمام انجمنوں کو جن میں مرکزی انجمنیں بھی شامل تھیں اور ذیلی انجمنیں بھی شامل تھیں، اکٹھا کر کے جو بنیادی ہدایت دی وہ یہ تھی کہ نماز کی حفاظت ، جس کے لئے جماعت احمد یہ قائم کی گئی ہے ہمارا اولین فرض ہے.ہمارے سارے نظام اس مرکزی کوشش کیلئے غلامانہ حیثیت رکھتے ہیں.اگر یہ نظام او پر آجائیں اور یہ آقا یعنی عبادت کا مقام نیچے ہو جائے تو معاملہ بالکل الٹ ہو جائیگا پھر تو ویسی ہی بات ہو جائے گی کہ کشتی نیچے چلی جائے اور پانی اوپر آ جائے.وہی چیز جو بچانے کا موجب ہوتی ہے وہ تباہی کا موجب بن جاتی ہے.حالانکہ پانی اور کشتی کا تعلق وہی رہتا ہے جوکشتی کے اوپر ہے وہ بھی پانی ہے اور جوکشتی کے نیچے ہے وہ بھی پانی ہے لیکن نسبت بدلنے سے نتیجہ الٹ نکل رہا ہے.یعنی اوپر کا پانی ہلاکت کا موجب بن جاتا ہے اور وہی پانی جب نیچے ہو تو بچانے کا موجب بن جاتا ہے.اس لئے نسبتوں کا درست ہونا ضروری ہے عبادت نظام جماعت کی غلام نہیں ہوگی بلکہ نظام عبادت کا غلام ہو گا ہم بھی زندہ رہیں گے جب نظام جماعت عبادت کا غلام ہوگا.پس میں نے ان تمام انجمنوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ آپ کے جتنے بھی کارکن ہیں ان کی طرف توجہ کریں ہر انجمن کے سربراہ کا فرض ہے، اسی طرح ہر شعبے کے انچارج کا یہ فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ مرکزی نمائندگان سلسلہ اپنا حق اس رنگ میں ادا کر رہے ہیں کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ بنیں.تمام دنیا کی آنکھیں مرکز کی طرف لگی ہوئی ہیں اور مرکز میں بھی جو سلسلہ کے کارکنان ہیں وہ بڑے نمایاں طور پر لوگوں کی نظر کے سامنے نمونہ کے طور پر ہوتے ہیں.اگر یہ لوگ بد اعمالیاں کریں تو ہلاکت کا موجب بن سکتے ہیں اور اگر نیک اعمال کریں تو ان کی نیکیاں عام انسانوں کی نیکیوں کے مقابل پر ان کو کئی گنا زیادہ ثواب پہنچاسکتی ہیں.

Page 56

43 سلسلہ کے کارکنان کو نمازوں میں دوسرے لوگوں کے لئے نمونہ ہونا چاہئے چنانچہ میں نے انہیں جو ہدایت دی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ توجہ کریں میں آپ کو چھ مہینے دیتا ہوں بار بار نصیحت کے ذریعے کوشش کریں کہ تمام کارکنان نماز کے فریضے کی ادائیگی سے پیچھے نہ رہیں سوائے اس کے کہ کوئی بیماری کی وجہ سے مجبور ہو.اسے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت ہے.ٹانگوں کی بیماری ہے یا کمر کی تکلیف ہے یا اسی قسم کی اور کئی تکلیفیں ہوسکتی ہیں کہ انسان دفتر میں تو پہنچ جاتا ہے اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے فرائض بھی ادا کر دیتا ہے لیکن باجماعت نماز کی توفیق نہیں پاسکتا.اس لئے جہاں تک شرعی مجبوریوں کا تعلق ہے ہم ان میں دخل نہیں دے سکتے.لیکن واضح اور یقینی شرعی مجبوریوں کے سوا سلسلے کے سارے کارکنان کو نمازوں میں پیش پیش ہونا چاہئے اور دوسرے لوگوں کیلئے نمونہ بننا چاہئے بہر حال میں نے ذمہ دار احباب سے کہا کہ چھ مہینے کے بعد آپ اپنے انتباہ میں نسبتا زیادہ سنجیدہ ہو جائیں اور کارکنوں کو بلا کر سمجھائیں اور کہیں کہ یہ ٹھیک ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہم تمہیں نمازوں پر مجبور نہیں کر سکتے لیکن جبر نہ ہونے کے دو نقص ہیں.اگر تم پر جبر نہیں تو جماعت احمدیہ پر کیا جبر ہے کہ وہ ضرور بے نمازیوں کو ملازم رکھے اس لئے دوطرفہ معاملہ چلے گا.صرف تم آزاد نہیں ہو جماعتی نظام بھی آزاد ہے وہ آزاد ہے اس معاملے میں کہ جس قسم کے کارکن چاہے رکھے اور جس قسم کے چاہے نہ رکھے.اس کو اختیار ہے اس لئے ہم تمہیں موقع دیتے ہیں کہ تم اپنی نمازیں درست کرو لیکن چونکہ تم آزاد ہو ، ہوسکتا ہے تم یہ فیصلہ نہ مانو.ہم داروغہ نہیں ہیں داروغہ تو اصل میں خدا ہی ہے تم نے بھی اسی کے حضور پیش ہونا ہے اس لئے اگر تم یہ فیصلہ نہیں مان سکتے تو ہم تمہیں کوئی سزا نہیں دیں گے.جزا سزا کا معاملہ اللہ سے تعلق رکھتا ہے لیکن ہم بھی اس بات میں آزاد ہیں کہ تمہارے جیسے کارکنوں کو نہ رکھیں ہماری بعض مجبوریاں ہیں.ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ کی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں اور ساری دنیا کے لئے نمونہ بنا ہے.اگر عبادت سے غافل کارکن مرکز میں بیٹھے ہوں تو وہ دعائیں کرسکیں گے، نہ انکے اندر تقویٰ کا اعلیٰ معیار ہوگا اور نہ ہی وہ صحیح نمونہ بن سکیں گے، بلکہ جماعت کیلئے ہزار مصیبتیں کھڑی کرتے رہیں گے.کجا یہ کہ سارے مرکزی کارکنان عبادتوں کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ان کے مجموعی تقویٰ کے نتیجے میں ایک زبر دست طاقت پیدا ہو اور کجا یہ کہ چند آدمی باقی تمام کارکنوں کا حق ادا کر رہے ہوں اور اکثریت غافل ہو اور جماعت پر بوجھ بنی ہوئی ہو.نمازوں میں سست کارکنان فیصلہ کر لیں اس پہلو سے چھ مہینے کے بعد ذمہ دار افسران نے نماز سے غافل کا رکنوں کو وارننگ دینی تھی لیکن میں خاموشی سے دیکھتا رہا میرے نزدیک اس کام میں غفلت کی گئی ہے اس لئے سال کے بعد پکڑنے کی بجائے ابھی جو تین مہینے باقی ہیں ان میں ایسے کارکن فیصلہ کر لیں کہ انہوں نے سلسلہ کی ملازمت کرنی ہے یا

Page 57

44 نہیں کرنی.یہ بات مجھے اس وقت سے یاد ہے جب میں نے انجمنوں کو اس بارے میں ہدایت دی تھی اور مسلسل یا درہی ہے اور جب بھی میں نمازیوں پر نگاہ ڈالتا ہوں تو یاد آتی رہتی ہے.اس لئے کوئی یہ خیال دل میں نہ لائے کہ میں اسے بھول چکا ہوں.یہ جو فیصلہ ہے اس پر بہر حال عملدرآمد ہوگا اللہ تعالیٰ سلسلے کو بہتر کارکن دے دے گا.انشاء اللہ.مجھے قطعاً کوئی پرواہ نہیں کہ بے نمازی نکل جائیں گے تو ہمارے کام کون کرے گا؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بے نمازی نکلیں گے تو کام بہتر ہوں گے اور آپ کو یقین آئے نہ آئے مجھے اس بات پر کامل یقین ہے کیونکہ خدا کا کلام جھوٹا نہیں ہوسکتا.خدا کا کام خدا کی عبادت کرنے والے ہی ادا کرنے کا حق رکھتے ہیں دوسروں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ یہ کام کریں اور اگر وہ اس کو کریں بھی تو احسن رنگ میں نہیں کر سکتے.جماعتی و ذیلی تنظیموں کی مجالس عاملہ نماز کے قیام کی ذمہ دار ہیں اس لئے میں ساری انجمنوں کو دوبارہ اس امر کی طرف متوجہ کر رہا ہوں اور ساری جماعت کو سنانا چاہتا ہوں کیونکہ آج مشاورت کے لئے پاکستان کی اکثر جماعتوں کے نمائندے یہاں آئے ہوئے ہیں اسی طرح باہر کی دنیا سے بھی نمائندے پہنچے ہوئے ہیں آپ سب کے سامنے یہ بات سنانے میں حکمت یہ ہے کہ آپ بھی اپنی اپنی جگہ اسی طرح جواب دہ ہوں گے.ہر جماعت کی مجلس عاملہ اور تنظیم خواہ وہ ذیلی انجمن کی ہو یا مرکزی انجمن کی بالکل اسی طرح ذمہ دار ہے جس طرح یہ انجمنیں ذمہ دار ہیں.بعض دفعہ عجیب و غریب واقعات سامنے آتے ہیں کہ ایک جگہ خدام الاحمدیہ کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہور ہا ہوتا ہے اور نماز با جماعت کھڑی ہو جاتی ہے لیکن عاملہ کو پرواہ ہی نہیں ہوتی.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اتنے سنجیدہ اور اہم کام میں مصروف ہیں کہ اب ہم نماز سے بالا ہو گئے ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا جب پانی کشتی کے او پر آئے گا تو ہلاک کر دے گا.کیونکہ کشتی میں یہ طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ پانی کو سنبھال سکے.اس لئے آپ نے عبادت کا غلام بنا ہے تو زندگی پانی ہے اگر آپ عبادت کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کریں گے تو لازم ہلاک ہوں گے.اسی طرح بعض دفعہ امراء کے متعلق پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی میٹنگ میں بیٹھے ہوتے ہیں اور بعض اوقات سنجیدہ باتیں نہیں، بلکہ شغل کی باتیں چل رہی ہوتی ہیں اور ادھر نماز ہورہی ہوتی ہے لیکن امراء کوئی پرواہ نہیں کرتے.پس جن باتوں کا مرکز پابند ہے انہی باتوں کی جماعتیں ہر جگہ پابند ہیں.اس لئے آپ کو اس طرف توجہ دینی پڑے گی اور جماعت کے ذمہ دار دوستوں کو بہترین نمونے قائم کرنے پڑیں گے.

Page 58

45 گھر میں نماز پڑھنے کے سلسلہ میں ایک نابینا کا واقعہ جہاں تک نماز با جماعت کا تعلق ہے کجا یہ کہ انسان گھر میں بیٹھا ہوا ہو یا دفتر میں ہو اور مسجد تک نہ جائے اور کجا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اور آپ کی تعلیم کہ ایک اندھا جو دور سے آذان کی آواز سنتا ہے اس کو بھی گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت دینے کے بعد اجازت واپس لے لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تمہیں جماعت کے بغیر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے.واقعہ یوں ہوا کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک نابینا حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ مدینہ کی گلیوں میں ٹھوکریں لگتی ہیں.مختلف حدیثوں میں مختلف تفاصیل ملتی ہیں.کہیں آتا ہے کہ اس نے کہا رات کو جنگلی جانوروں کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور کہیں آتا ہے کہ مجھے ساتھ لے جانے والا کوئی نہیں ہے اس لئے مجھے اجازت دی جائے کہ میں گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کروں.آپ نے اجازت فرما دی.جب وہ اٹھ کر جانے لگا اور ابھی قدم باہر رکھا ہی تھا تو حضور نے اسے واپس بلایا کہ بات سن جاؤ اس نے عرض کی یا رسول اللہ ! کیا بات ہے؟ حضور نے فرمایا هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلوة کہ کیا تمہیں نِدَاءَ بالصلوۃ آتی ہے؟ اس سے مراد اذ ان لے لیں یا تکبیر لے لیں حضور کا مقصد یہ تھا کہ نماز کی طرف بلانے کی آواز تمہارے کان میں پڑتی ہے یا نہیں اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں آواز سنتا ہوں.تو فرمایا پھر جواب دیا کرو تمہیں یہ اجازت نہیں ہے کہ تمہارے کانوں میں آواز پڑے اور اس کے باوجود تم انکار کر دو.اے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلیم دینے کا عجیب طریق تھا اور اتنا لطیف اور پیارا کہ آپ کی باتوں کی تہہ میں جائیں تو حسن ہی حسن نظر آتا ہے اس نابینا آدمی کو یہ تعلیم دی کہ تم آنکھوں سے تو محروم ہولیکن کانوں کو ثواب سے کیوں محروم رکھتے ہو ؟ جن اعضاء کے ذریعے تمہیں خدا کی طرف بلایا جارہا ہے وہاں سے تو لبیک کہ دو.ایک بدقسمتی کے نتیجے میں دوسری بد قسمتی کیوں مول لیتے ہو؟ لے مسلم کی روایت ہے:.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ وَ رَجُلٌ أَعْمَىٰ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ يَقُودُنِي إِلَى الْمَسْجِدِ فَسَأَلَ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَنْ يُرَخِّصَ لَهُ فَيُصَلِّي فِي بَيْتِهِ رَخَّصَ لَهُ فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ فَقَالَ هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلوةِ فَقَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَجِبْ ترجمہ:.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت کی خدمت میں ایک نابینا حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسا آدمی میسر نہیں جو مجھے مسجد تک لے کر جایا کرے.اس لئے مجھے اجازت مرحمت فرمائی جائے کہ میں اپنے گھر میں ہی نماز ادا کر لیا کروں.چنانچہ حضور نے اجازت دے دی لیکن جب وہ اٹھ کر واپس جانے لگا تو حضور نے اسے بلایا اور دریافت فرمایا:

Page 59

46 یہ تھا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا طریق.اور کجا یہ کہ ہر طرف سے اذانوں کی آوازیں آرہی ہوں اور نمازوں کی طرف بلایا جارہا ہو لیکن کارکنان سلسلہ یا ممبران مجلس عاملہ یا سلسلہ کے دیگر کارکنان خاموشی سے سن رہے ہوں جیسے کسی اور کو بلایا جارہا ہے.بہرے کی اور کیا تعریف ہے.صُمٌّ بُكْمٌ عُمى فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (البقرہ : 19) کے روحانی معنی تو یہی ہیں کہ وہ سنتے ہیں اور نہیں سنتے.دیکھتے ہیں اور نہیں دیکھتے اور جو سننے اور دیکھنے کی طاقت سے محروم ہو جائے وہ ہر لحاظ سے بالکل بے معنی جانور کی طرح زندگی بسر کرتا ہے.نہ اس کو بولنے کی طاقت ہے.نہ سمجھنے کی طاقت ہے.اس لئے عبادت کا حق ادا کرنا نہایت ہی اہم ہے.کارکنان سلسلہ کو وارننگ اب میں مضمون کی طرف واپس آتے ہوئے کارکنان سلسلہ سے یہ کہتا ہوں کہ تین مہینے کے اندر اندر یہ فیصلہ کر لیں کہ سلسلے کی ملازمت کرنی ہے یا نہیں.جہاں تک ان کے اس فیصلے کا تعلق ہے اس میں وہ آزاد ہیں.وہ جو فیصلہ بھی کریں ان کی مرضی ہوگی.لیکن اگر وہ عبادت کی خاطر عبادت کریں نہ کہ ملازمت کی خاطر اور اللہ سے تعلق قائم کرنے کی خاطر نماز پڑھیں تو یہی سب اسے اچھا سودا ہے اور سلسلے کو ایسے ہی کارکنوں کی ضرورت ہے.لیکن اگر وہ کسی وجہ سے یہ فریضہ ادا نہیں کر سکتے تو ہمیں احسان کے ساتھ ان کو الگ کرنا ہوگا.ان کی فہرستیں بن جانی چاہئیں اور ان سے معاملہ طے ہو جانا چاہئے.جدائی میں احسان بہر حال ضروری ہے اس لئے ان کے حقوق ان کو ادا ہونے چاہئیں.افہام و تفہیم کیساتھ احسن رنگ میں ان کو کہا جائے کہ ہمیں مجبوری ہے کہ ہم تمہیں علیحدہ کر رہے ہیں.لیکن اس علیحدگی میں تمہیں ثواب ہوگا اس وقت تم سلسلے پر بار بنے ہوئے ہو، پھر سلسلے کا بوجھ ہلکا کر دو گے.پس محبت اور پیار سے سمجھا ئیں.لیکن کوشش کریں کہ ایک بھی آدمی ضائع نہ ہو.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سلسلے کو تو کارکن مل ہی جائیں گے، بلکہ بہتر ملیں گے لیکن وہ کارکن جنہوں نے ایک لمبا عرصہ سلسلے سے تعلق رکھا ہے ہم ان کو کیوں ضائع ہونے دیں.ہمارا فرض ہے کہ پوری کوشش کریں اور ان کو بچائیں.ایک ایک احمدی بنانے کیلئے ہم کتنی محنت کرتے ہیں.تو جو پہلے سے موجود ہوں اور مرکز کے بہت قریب آئے ہوں اور جن کو سلسلہ کی خدمات کی توفیق ملی ہو ان کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے.اس لئے اس معاملے میں بے اعتنائی نہیں کرنی.ہر افسر کا فرض ہے کہ اگر کارکن اور ذرائع سے بات نہیں سنتا تو اپنے پاس بلائیں محبت اور پیار کے ساتھ اس کو سمجھائیں اور جہاں تک ممکن ہو سلسلے کے ہر کارکن کو ضائع ہونے سے بچانے کی کوشش کریں.

Page 60

47 نظام جماعت نماز سے غافل بچوں کو سمجھانے میں مدد کرے دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایسے کارکنان کی اولادیں نماز سے غافل ہورہی ہیں.ہرصورت میں تو نعوذ باللہ ایسا نہیں ہے لیکن اگر سلسلے کے دس فیصدی کارکن بھی ایسے ہوں جن کی اولادیں نماز سے غافل ہیں تو یہ بڑی خطر ناک بات ہے.اور میرے نزدیک ایسے کارکنان کے بچوں کی تعداد جو عملاً نماز سے غافل ہو چکے ہیں اس سے زیادہ ہے اس لئے انکی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے.نظام جماعت کو ان کے بچوں کو سنبھالنے میں ایسے کارکنوں کی مدد کرنی چاہئے لیکن اصل میں تو گھر ہی تربیت کا گہوارہ ہے اور گھر کے معاملے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ باپ اپنی اولادکا ذمہ دار ہے.قرآن کریم نے مختلف رنگ میں بڑے ہی گہرے اثر کرنے والے انداز میں اس مضمون کو پھیر پھیر کر بیان فرمایا ہے.کہیں حضرت اسمعیل علیہ السلام کی مثال دی کہ وہ کس طرح صبح اٹھ کر با قاعدہ اپنے گھر والوں کو نماز کی تعلیم دیا کرتے تھے وہ بڑے صبر کے ساتھ اس پر قائم رہے اور ساری زندگی اس کام سے تھکے نہیں.کہیں یہ فرمایا: لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَانسَهُمْ أَنْفُسَهُمْ ط أُولئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (الحشر : 20) کہ دیکھو! ان بدقسمتوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے ایک دفعہ اللہ کو یا دکیا اور پھر اسے ہمیشہ کے لئے بھلا دیا.فَانسَهُمْ أَنْفُسَهُمُ پس اللہ نے ان کو خود اپنے آپ سے بھلوا دیا.ان کو اپنے نفوس کی اور اپنے اموال کی خبر نہ رہی.ان کو اچھے برے کی تمیز نہ رہی.انسان کے لئے سب سے بڑی ہلاکت انسان کے لئے سب سے بڑی ہلاکت یہ ہوا کرتی ہے کہ اسے اچھے برے کی تمیز نہ رہے اس کو اپنے حقیقی مقصد اور فائدے کا علم نہ ہو اور اسی کا نام پاگل پن ہے.اس کے سوا پاگل پن کی کوئی اور تعریف بنتی ہی نہیں.ہر وہ شخص جو اپنے مفاد کے متعلق نہ جان سکے کہ میرا اصل مفاد کس بات میں ہے وہ ایسی باتیں کرتا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ پاگل ہو گیا ہے.کوئی اپنی جائیداد ضائع کردے یا کوئی ایسی بات کرے کہ لوگ کہیں.بیہودہ حرکت کر رہا ہے اور لوگوں کے سامنےبدنام ہورہا ہو تو وہ بھی پاگل ہے الغرض ہر بات میں پاگل پن کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مفاد سے بے خبر ہو جائے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَانسَهُمْ أَنْفُسَهُم وہ ان لوگوں کو پاگل کر دے گا.ان کو اپنی بھی ہوش نہیں رہے گی.ان کو پتہ نہیں ہوگا کہ کس چیز میں ہمارا فائدہ ہے اور کس میں نہیں ! اس لئے کہ اللہ جو ہر بات کا آخری.Reference ہے اس کو انہوں نے بھلا دیا.اگر خدا سے تعلق جوڑ کر راہنمائی حاصل نہ کی جائے تو

Page 61

48 نہ افراد اپنی راہنمائی کے اہل ہوتے ہیں.نہ قو میں اپنی رہنمائی کی اہل ہوتی ہیں ساری دنیا میں تباہیوں کا جو نقشہ نظر آرہا ہے اس کی وجہ خدا سے لا تعلقی ہے حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کبھی کوئی قوم اپنی عقل پر انحصار کر کے زندہ نہیں رہ سکتی.محض عقل پر انحصار کر کے لوگ ایسی خوفناک غلطیاں کرتے ہیں کہ خود بھی ڈوبتے ہیں اور دوسروں کو بھی لے ڈوبتے ہیں.پس فرمایا فَانسَهُمْ أَنْفُسَهُمُ جب بھی لوگ خدا سے غافل ہوئے اور اس کی عبادت کا حق ادا کرنا چھوڑ دیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ نے ان کو پاگل کر دیا کیونکہ انہوں نے عقل اور رشد کے رچشمے سے منہ موڑ لیا.”پاگل کر دیا“ کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ایسا فعل کیا جس کے نتیجہ میں وہ لازماً اپنی عقلوں کو کھو بیٹھے احمق بن گئے ، بیوقوف ہو گئے.الغرض خدا کی عبادت سے غافل ہونے کی ایک یہ سزا بھی بیان فرمائی.بچوں کی تربیت پر توجہ دیں حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے بچوں کی عبادت کا خیال نہیں کرتے ان کی اولاد میں لازماً ہلاک ہو جایا کرتی ہیں اس لئے وہ اس طرف توجہ کریں اور اپنی اولاد کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل نہ کریں.الغرض اللہ تعالیٰ نے مختلف رنگ میں نصیحت فرمائی ہے اور بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دلائی ہے اس معاملے میں اگر چہ مردوں کو پابند کیا گیا ہے لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جب مرد باہر ہوتا ہے تو عورت اسکی جگہ لے لیتی ہے اور اس پر بھی تربیت کی ایک بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.مرد کو اس لئے ذمہ دار قرار دیا ہے کہ اسے عورت پر قوام بنایا گیا ہے اگر عورت کو ذمہ دار بنایا جا تا تو مرد اس ذمہ داری سے باہر رہ جاتے.مرد کوذمہ دار بنایا تا کہ صرف بچے ہی اس کے تابع نہ رہیں بلکہ عورت بھی تابع رہے اور مرد اس کو بھی پا بند کرے اور اس طرح سارا نظام تربیت کے دائرے کے اندر جکڑا جائے.مائیں نمازی ہوں تو اولا د بھی نمازی ہوتی ہے جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے.میرا تاثر یہ ہے کہ جو مائیں بے نماز ہوتی ہیں.اگر باپ کوشش بھی کریں تب بھی ان کی کوشش اتنا اثر نہیں رکھتی جتنا اس صورت میں کہ جب مائیں نمازی ہوں.اسی لئے قرآن کریم مردوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ سب سے پہلے اپنی عورتوں کی حفاظت کرو اور انکوتر بیت دو چنانچہ حضرت اسمعیل علیہ السلام والی مثال میں بچوں کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ وہ اپنے خاندان کے ہر فرد کو نماز کی تعلیم دیتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی طریق تھا کہ آپ اپنی بیویوں کو نماز کیلئے اٹھاتے تھے پھر بچوں اور دامادوں کو بھی جگایا کرتے تھے.چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق آتا ہے کہ حضور ان کے ہاں گئے اور فرمایا اٹھو نماز کا اور عبادت کا وقت ہو گیا ہے.

Page 62

49 انصار کو بچوں کی تربیت میں بہت محنت کرنی پڑے گی پس ہمیں بھی اپنے گھروں میں یہی اسوہ زندہ کرنا پڑے گا.مرد اپنی بیو یوں کو نماز کا پابند کر یں اور ان سے یہ توقع رکھیں کہ جب وہ خود گھر پر نہ ہوں تو عورتیں ان کے نائب کے طور پر بچوں کی نمازوں کی حفاظت کریں گی.اگر گھروں میں نمازوں کی فیکٹریاں نہ بنیں تو پھر جماعتی تنظیم کی کوششیں پوری طرح کارآمد نہیں ہوسکتیں.خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کو ان بچوں کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے جن کے والدین نماز سے غافل ہوتے ہیں ہزار کوشش کے بعد ان کو وہ پھل ملتا ہے جو گھر میں والدین صرف چند کلمات کے ذریعہ حاصل کر سکتے ہیں جب دیکھیں کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے تو بچے کو بتا ئیں اور نماز کیلئے کہیں چنانچہ لجنہ اماءاللہ کی طرف سے ماؤں کو تاکید ہونی چاہئے اور خاوندوں کی طرف سے بیویوں کو تاکید ہونی چاہئے کہ وہ اس کام میں مدد کریں اور اپنی اولاد کو بچانے کی کوشش کریں.اگر ہم ساری دنیا میں یہ کام کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور احمدیوں کی بھاری اکثریت نماز پر اس طرح قائم ہو جائے کہ جہاں باجماعت نماز پڑھی جاسکتی ہے وہاں لازماً با جماعت نماز پڑھی جارہی ہو اور جہاں باجماعت نمازممکن نہ ہو وہاں انفرادی نماز کا انتظام ہو اس کو تمام شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے توجہ کے ساتھ اور سوز وگداز کے ساتھ ادا کیا جائے تو اسے اتنی بڑی طاقت پیدا ہو جائے گی کہ ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اس جماعت کا مقابل نہیں کر سکیں گی کجا یہ کہ چند دھاگے اللہ تعالیٰ سے ملے ہوئے ہوں اور وہ جو طاقت حاصل کر رہے ہوں وہ ساری جماعت میں بٹ رہی ہو اور کجا یہ کہ ہر شجر کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوں اور ہر شجر کو براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کے پھل لگ رہے ہوں.بڑ کے درخت جب بوڑھے ہو جاتے ہیں.تو ان میں سے بعض کی شاخیں زمین کی طرف جھک جاتی اور جڑیں بن جاتی ہیں اور ایک تنے کی بجائے کئی تنے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں اسی طرح جماعت احمدیہ کو عبادت کے معاملے میں بڑ کا وہ درخت بن جانا چاہئے جس کی ہر شاخ سے جڑیں پھوٹ رہی ہوں اور زمین کی طرف جھک رہی ہوں اور براہ راست زمین سے طاقت لے کر آسمان کی رفعتوں میں اس طرح بلند ہو جائیں کہ ہر ایک کو ہمیشہ ہر حال میں اللہ کی رحمتوں کے الہامات کے کشوف کے اور وحی کے پھل لگ رہے ہوں اور ہر احمدی کو خدا کی تائید حاصل ہورہی ہو.یہ ایک عظیم الشان طاقت ہے دنیا اس کا مقابلہ کیسے کرسکتی ہے.یہ تو اتنی عظیم الشان طاقت ہے کہ نبی جب اکیلا ہوتا ہے تو اللہ سے تعلق کے نتیجہ میں اس کو غالب کیا جاتا ہے اور خدا سے بے تعلق دنیا کو اس ایک کی خاطر مٹادیا جاتا ہے کجا یہ کہ

Page 63

50 دنیا میں خدا سے تعلق رکھنے والے ایک کروڑ آدمی پیدا ہو جائیں ان میں سے ہر ایک اس بات کی ضمانت ہوگا کہ اس جماعت نے لازماً غالب آنا ہے اور تمام مخالفانہ طاقتوں نے لازماً شکست کھانی ہے ان میں سے ایک ایک اس قابل بن جائے گا کہ اس کی خاطر ساری دنیا کو مٹادیا جائے گا اس کو زندہ رکھا جائے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین" خطبات طاہر جلد 2 صفحہ 188-201) ذیلی تنظیمیں ، مہمان نوازی پر مضامین لکھیں جنہیں جلسہ سالانہ سے قبل مساجد میں پڑھایا جائے خطبہ جمعہ 4 نومبر 1983ء) مختلف تنظیموں کی طرف سے مہمان نوازی سے متعلق ایسے واقعات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے تعلق رکھتے ہوں یا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہم نے ان کو دوبارہ اجاگر ہوتے دیکھا ہوان پر مشتمل مضامین کثرت سے پھیلائے جائیں.مساجد میں پڑھے جائیں، بچوں کو سنائے جائیں، چھوٹے چھوٹے مضامین گھروں میں تقسیم کئے جائیں اور یہ ایک سلسلہ چل پڑے کہ مہمان نوازی کیا ہوتی ہے اس میں ہمارے اعلیٰ مقاصد کیا ہیں؟ جب تک ہم انہیں حاصل نہیں کریں گے ہم اس کا حق ادا نہیں کر سکیں گے.جلسہ سالانہ پر بیرون ربوہ انصار کو بطور کارکنان شامل ہونے کی درخواست جہاں تک بیرون ربوہ کی خدمات کا تعلق ہے وہ بھی بہت اہم ہے کیونکہ بہت سارے کاموں کے شعبے ایسے ہیں جن میں ربوہ کے کارکنان مہیا نہیں ہو سکتے کیونکہ اللہ تعالٰی کے فضل سے کام اتنے تیزی سے پھیل رہے ہیں اور آنے والوں کی تعداد مقامی آبادی کی نسبت سے اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ اب یہ مکہ ممكن نہیں ہے کہ ربوہ کے کارکنان ہر قسم کی خدمات خود ہی کر سکیں اس لئے ہمیشہ سے تو نہیں لیکن اب چند سالوں سے بیرون ربوہ کارکنان بھی اپنے آپ کو خدمات کے لئے پیش کرتے ہیں انصار بھی اور خدام بھی.تو انہیں میں مطلع کر رہا ہوں کہ اب وقت بہت تھوڑارہ گیا ہے اس لئے یہ خطبہ سنتے ہی جلد از جلد اپنے نام بھجوانا شروع کر دیں.اندازہ ہے کہ سات سو بیرونی کارکنان کی ضرورت ہوگی.لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ اگر جلسہ پر آنے والوں کی تعداد اسی نسبت سے بڑھے جس طرح ہر سال کم و بیش بڑھتی ہے اور اگر اس نسبت میں اضافہ ہو جائے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اچانک اس تعداد کو بڑھائے تو پھر مزید کارکنوں کی ضرورت پیش آ سکتی

Page 64

51 ہے اس لئے اگر سات سو کی ضرورت ہے تو ہمیں ہزار پر تسلی پانی چاہئے.لہذا انتظامیہ یہ کوشش کرے کہ ہزار بیرونی کارکنان کی فہرستیں مکمل ہو چکی ہوں اور ان کے کام بھی معین ہو چکے ہوں......انصار اللہ ایسی کمیٹیاں بنائے جور بوہ میں گلی محلوں کی صفائی کا جائزہ لیں....میں یہ کہنا بھول گیا تھا کہ صحنوں اور گلیوں کی صفائی کا پہلے انتظام کیا جائے.ان دونوں کو میں بریکٹ کر رہا ہوں کیونکہ بعض دفعہ محن کی صفائی کا مطلب ہوتا ہے گلیوں کا گند اور گلیوں کی صفائی کا مطلب ہے کہ گھر میں گند پڑار ہے.یہ دونوں چیزیں نہیں ہونی چاہئیں.دونوں ایک بیک وقت پیش نظر ر کھ کر اپنا لائحہ عمل تجویز کریں.صحنوں کا گند گلیوں کا گند نہیں بننا چاہئے.اور گلیاں اس لئے نہیں صاف ہونی چاہئیں.کہ آپ کے صحن گندے رہتے ہیں.دونوں چیزیں بیک وقت صاف کرنے کے لئے آپ کو صرف اپنے ذرائع پر انحصار نہیں کرنا بلکہ انتظامیہ کو لازماً اس میں آپ سے تعاون کرنا ہوگا.خدام الاحمدیہ، انصار اللہ ، صدران محلہ کی کمیٹیاں بنیں اور ان باتوں کا خیال کریں کہ وہ لوگ جو گند باہر پھینکیں گے انہیں کیا کرنا چاہئے اور اس گند کو وقت پر وہاں سے دور کرنے کے لئے کیا انتظام ہونا چاہئے.وہ گندی نالیاں جن میں اندھیرے میں مسافروں کے پاؤں پڑ جاتے ہیں اور ان کے کپڑے گندے ہو جاتے ہیں ان کے لئے کیا صورت بنانی چاہئے.کوئی راہ گزر بھی ایسی نہیں ہونی چاہئے جہاں مسافر کے لئے کوئی خطرہ ہو.اِمَامَةَ الا ذی ایمان کا ایک حصہ ہے." خطبات طاہر جلد 2 صفحہ 562-566)

Page 65

52 $1984 انصار خطبہ کے دوران بغیر بولے صفیں پھلانگنے والوں کو روک دیں (خطبہ جمعہ 27 جنوری 1984ء) "خطبہ سے پہلے یہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ ابھی ایک صاحب صفوں کو پھلانگتے ہوئے آگے تک پہنچے جو ممنوع ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نا پسند فرمایا ہے.سوائے اس کے کہ آگے جگہ خالی ہو اور بیچ میں سے بھی جگہیں خالی ہوں اور ان خالی جگہوں سے گزر کر انسان اگلی صف کو پورا کرے.جو پیچھے آنے والوں کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ آگے آنے والوں کو تکلیف دیں اور ان کے کندھوں پر سے گزرتے ہوئے اور ٹھوکریں مارتے ہوئے آگے آئیں لیکن جو دوسرا پہلو ہے وہ اور بھی زیادہ قابل فکر ہے کہ منتظمین نے کوئی ایسا انتظام نہیں کیا ہوا کہ اگر کوئی ایسی حرکت کرے تو بیچ میں بیٹھے ہوئے خدام جن کو معلوم ہو کہ ہمارا یہ کام ہے یا انصار بغیر آواز کے بغیر بولے ان کو روک دیں اور یہ بہت اہم بات ہے.ایک منظم جماعت کے لئے ہمیشہ مستعد رہنا چاہئے اور اس قسم کی چھوٹی چھوٹی خامیوں کی طرف توجہ رکھنی چاہئے." خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 49-50) مجلس انصار اللہ کے اجتماع پر حکومت کی طرف سے پابندی پر تبصرہ (خطبہ جمعہ 26اکتوبر 1984ء) یہ جمعہ اس سال کے اکتوبر کا آخری جمعہ ہے اور حسب روایت اس جمعہ میں جوا کتوبر کا آخری جمعہ ہوتا ہے عموماً تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے اور اگر کسی وجہ سے اس جمعہ میں نہ ہو سکے تو پھر نومبر کے پہلے جمعہ میں یہ اعلان کیا جاتا ہے.قبل ازیں تو اس جمعہ کے ساتھ مجلس انصار اللہ کے اجتماع کا افتتاح بھی اکٹھا ہو جایا کرتا تھا لیکن امسال حکومت نے مجلس انصار اللہ کو تو اجتماع کی اجازت نہیں دی لیکن علما کو جو غیر احمدی علما ہیں ان کو ربوہ میں اکٹھے ہو کر تین دن ، دن رات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام اور بزرگان سلسلہ اور علما سلسلہ کو نہایت گندی گالیاں دینے کی اجازت دی کیونکہ ان کا یہ ایمان ہے حکومت کا کہ اس ملک میں انصاف ہونا چاہئے اور ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انصاف کیا جا رہا ہے اور جس طرح ایک احمدی کی حیثیت ہے اس ملک

Page 66

53 میں اسی طرح صدر پاکستان کی حیثیت ہے تو اس لئے اس بات کو سو فیصدی ثابت کرنے کے لئے وہ یہ رویہ اختیار کرتے ہیں تا کہ کسی قسم کے اشتباہ کا کوئی سوال نہ رہے کہ کس قسم کا انصاف اس ملک میں قائم ہے؟ بہر حال اللہ تعالیٰ سے ہی ہماری ساری امیدیں اور توقعات وابستہ ہیں اور خیر الحاکمین تو وہی ہے.جب اس کے انصاف کا وقت آیا کرتا ہے تو مالکیت کی کنجیاں چونکہ اس کے ہاتھ میں ہیں اس لئے ہر دوسرا انسان انصاف کے مقام سے معزول کیا جاتا ہے اور خدا کی تقدیر جب اپنے ہاتھ میں انصاف لیتی ہے تو پھر کسی کا بس نہیں چلتا کہ اس انصاف کے مقابل پر کوئی بات کہہ سکے.تو ہمیں تو خیر الحاکمین سے ہی توقع ہے کہ وہ انصاف فرمائے گا لیکن دعا ہماری یہی ہے کہ اللہ تعالی اس قوم پر رحم فرمائے." خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 599-600) مجلس انصار اللہ کے اجتماع پر پا بندی کی خوشی میں مولویوں کی گندہ دہنی کا ذکر خطبہ جمعہ 2 نومبر 1984ء) " ایک دفعہ سندھ میں جہاں ہم ہندؤوں میں تبلیغ کرتے ہیں وہاں کا ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا ایک علاقے میں جہاں خدا کے فضل سے بکثرت ہندو مسلمان ہونے شروع ہوئے، کلمہ پڑھنے لگے، شرک چھوڑا.علما کو پتہ چلا تو انہیں بہت غصہ آیا انہوں نے کہا یہ احمدی ہوتے کون ہیں کہ ہندؤوں میں تبلیغ شروع کر دی ہے اور ہندووں کو کلمہ پڑھا رہے ہیں.چنانچہ ایک جماعت اسلامی کے مولوی صاحب ایک گاؤں میں جا پہنچے جس کا نام پھول پورہ ہے اور وہاں کی آدھے سے زیادہ آبادی احمدی ہو چکی تھی اللہ کے فضل سے اور نمازیں پڑھنے لگ گئے تھے اور درود بھیجتے تھے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اور بچے بھی کلمہ پڑھتے تھے نہایت ہی پیاری آواز میں.تو مولوی صاحب وہاں پہنچے اور احمدیوں کے خلاف گندہ دینی شروع کر دی.سٹیج لگایا اور اتنی گالیاں دیں کہ وہ حیران ہو کر تعجب سے دیکھتے رہے کہ ہوا کیا ہے مولوی صاحب کو ہم تو سمجھے تھے کہ اسلام کی باتیں بتا ئیں گے کچھ اپنے مذہب میں آنے کی دعوت دیں گے.یہ تو ان کو گالیاں دے رہے ہے.چنانچہ گاؤں کا نمبر دار تھا وہ بھی ہندو ہی تھا وہ اُٹھ کر کھڑا ہو گیا.اس نے کہا مولوی صاحب! پہلے میری ایک بات سُن لیں اسکے بعد باقی باتیں.بات میں یہ کہنا چاہتا ہو کہ جب یہ لوگ یہاں آئے تھے ہمیں مسلمان بنانے کے لئے تو انہوں نے ہمیں بہت پیاری پیاری باتیں بتائی تھیں، اللہ کا ذکر کرتے تھے محبت سے اور ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے، خدا کے پیار کی باتیں کرتے تھے، اپنے نبی کی پیار کی باتیں کرتے تھے اور کہتے تھے خدا کا کوئی شریک نہیں اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم اس کا بندہ اور رسول ہے اور سب نبیوں سے افضل ہے اور پھر اسلام کے اخلاق کی باتیں

Page 67

54 کرتے تھے کہتے تھے سب بھائی بھائی ہیں، کوئی دشمنی نہیں، کوئی نفرت نہیں تو ان باتوں نے ہمارے دل جیتنے شروع کئے.اگر چہ میں ابھی تک مسلمان نہیں ہوالیکن میرا گاؤں میری آنکھوں کے سامنے مسلمان ہورہا ہے اور میں نے کبھی نہیں روکا کسی کو کیونکہ کوئی ایک بھی ایسی بات نہیں جس پر مجھے اعتراض ہو اس لئے میں نے کوئی دخل نہیں دیا لیکن آج آپ ایک اسلام کا تصور لے کر آئے ہیں اور اس میں آپ گندی گالیاں دے رہے ہیں تو اگر سچائی کی یہی دلیل ہے تو اس نے کہا کر میرالڑ کا میرے پاس ہے میں اس کا دوسری طرف سٹیج لگوا دیتا ہوں اور گالیوں میں اس سے مقابلہ آپ کر لیں لیکن شرط یہ ہے کہ اگر میرا بیٹا جیت گیا تو آپ پھر ہندو ہو جا ئیں اور اگر آپ جیت گئے تو میں اور میرا بیٹا مسلمان ہو جائیں گئے کیونکہ گالیوں کے سوا دلیل ہی کوئی نہیں دے رہے آپ یہ بھی اس کی خوش قسمتی تھی کہ مولوی صاحب نہیں مانے یہ بات ورنہ جس قسم کی زبان استعمال کرتے ہیں بیٹے نے ہار جانا تھا.اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو وہ ربوہ میں انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے اجتماع بند کر کے جس جلسے کی مولویوں کو اجازت دی ہے حکومت نے.اسکی Tape سن لے کوئی.اس قدر گندہ دہنی ہے، اس قدر جھوٹے الزامات اور اتہامات کو آپ ایک طرف چھوڑیں ، حضرت اقدس مسیح مود علیہ الصلوۃ والسلام اور دیگر خلفائے سلسلہ کے متعلق ایسی ناپاک اور ایسی گندی زبان استعمال کی ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ پھول پورہ کا کوئی ہندو بھی اس مقابلہ میں جیت سکے.یہ حالات ہو چکے ہیں! یہاں تک قوم پہنچ رہی ہے اس کو کو نظر نہیں آرہا کہ ہم کہاں چلے گئے ہیں اور کیا ہمارا حال ہو چکا ہے؟" خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 630-631 جماعتی و ذیلی تنظیموں کے اجتماعات پر پابندی کی وجہ سے قوم کی پکڑ کی وعید خطبہ جمعہ 28 دسمبر 1984ء) " اس کے بعد دوسرے درجہ پر ان کا ہاتھ ابھی تک مرکزی تنظیموں پر اٹھ رہا ہے.ربوہ کی مرکزیت کے خلاف وہ سازشیں کر رہے ہیں اور ان سازشوں کے نتیجہ میں ایک ایک کر کے وہ اپنی طرف سے ربوہ کے مرکزی خدو خال کو ملیا میٹ کرتے چلے جارہے ہیں.چنانچہ شروع میں بظاہر معمولی بات تھی لیکن اُسی وقت مجھے نظر آگیا تھا کہ آگے ان کے کیا ارداے ہیں.چنانچہ میں نے وہ لوگ جو خوش فہمی میں کوششیں کر رہے تھے اُن کو بلا کر سمجھایا کہ تم کیوں وقت ضائع کر رہے ہو یہ کام نہیں ہوگا.شروع میں انہوں نے کھیلوں پر ہاتھ ڈالا کہ ربوہ میں کبڈی ہوگی تو عالم اسلام کو خطرہ پیدا ہو جائے گا یعنی ربوہ میں اگر کبڈی ہوئی تو اس سے تمام دنیا میں عالم اسلام کو خطرہ لاحق ہو جائے گا.ربوہ میں اگر باسکٹ بال کا میچ ہوا تو اس سے مسلمانوں کے جذبات

Page 68

55 مجروح ہوں گے اور پھر پتہ نہیں کیا ہو جائے گا.پھر کھیلوں سے یہ آگے بڑھے اور اجتماعات پر ہاتھ ڈالنے شروع کئے کہ لجنہ اماءاللہ کا اجتماع ہوا تو عالم اسلام پر تباہی آجائے گی ، خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہوا تو پتہ نہیں کیا خوفناک حالات دُنیا میں پیدا ہو جائیں گے جس کے نتیجہ میں اسلام نعوذ باللہ من ذلک تباہ ہو جائے گا.بوڑھوں کا اجتماع ہوا تو اس سے ان کو خطرات وابستہ نظر آنے لگے کہ اس اجتماع سے بھی یا وطن ہلاک ہو جائے گا تباہ ہو جائے گا یا عالم اسلام کو نقصان پہنچے گا.یہ فرضی قصے پہلے حکومت کے منشاء کے مطابق حکومت سے سمجھوتے کے مطابق علما ء ایک دم جس طرح برسات میں مینڈک بولنے لگ جاتے ہیں سارے پاکستان میں وہ علماء کا ٹولہ جو حکومت کے ہاتھ میں اس وقت کھیل رہا ہے آلہ کار بنا ہوا ہے وہ ایک دم یہی راگ الاپنے لگ جاتا تھا اور کسی کو شرم نہیں آتی تھی کسی کو حیاء نہیں تھا کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں کہ اطفال کے اجتماع سے دنیا تباہ ہو جائے گی.مستورات کے لجنہ کے اجتماع سے عالم اسلام ہلاک ہو جائے گا یہ کیا با تیں کر رہیں ہیں.لیکن جب شرم اور حیاء اور تمام اعلیٰ اقدار ختم ہو چکی ہوں، جب ذہنی قو تیں مفلوج ہو جائیں، جب حیاء ہی باقی نہ رہے تو پھر انسان ہر قسم کی حرکت کر سکتا ہے.چنانچہ آپ پاکستان کے اخبارات کا مطالعہ کر کے دیکھیں آپ کو ہر موقع پر اچانک اسی قسم کی خبر میں نظر آئی لگ جائیں گی یعنی ایک صبح کو اُٹھیں گے آپ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تمام پاکستان میں ایک خاص طبقہ علماء ایک دم یہ شور مچانے لگ گیا ہے کہ انصار اللہ کا اجتماع نہیں ہوسکتا اور نہ عالم اسلام کو خطرہ ہے.پھر اچانک علماء کو خیال آتا ہے کہ خدام الاحمدیہ کا اجتماع نہیں ہو سکتا ور نہ عالم اسلام کو خطرہ ہے، کبڈی نہیں ہوسکتی ورنہ عالم اسلام کو خطرہ ہے، باسکٹ بال نہیں ہو سکتا ورنہ عالم اسلام کو خطرہ ہے.تو یہ جو سر والا پتے تھے سارے آخر اس کی مرکزی جڑیں تھیں وہاں سے آواز نکلتی تھی تو یہ سب تک پہنچتی تھی اور پھر حکومت کے اخبار تھے.حکومت کے ٹیلی ویثرن اور حکومت کے ریڈیو یہ ساری باتیں اُچھالتے تھے کہ علماء یہ کہہ رہے ہیں تا کہ نفسیاتی طور پر قوم پر یہ اثر پیدا ہو کہ ہاں ایک بہت ہی خطرناک بات ہونے لگی ہے اور حکومت مجبور ہورہی ہے گویا کہ ان لوگوں کی آواز کے سامنے سر جھکانے پر حالانکہ حکومت کی طرف سے یہ باتیں پیدا کی جاتی تھیں اور ہمارے علم میں تھا یہ سب کچھ تو بعض لاعلم بیچارے جب کھیلوں پر پابندی شروع ہوئی تو بعض ہمارے کھلاڑی شوقین بڑے زور کے ساتھ حرکت میں آگئے کہ ہم ڈی سی کے پاس جائیں گے.ہم کمشنر سے ملیں گے.ایک صاحب تو جوش میں آکر اسلام آباد پہنچ گئے مرکزی حکومت کو جھنجھوڑنے کیلئے اور سیکریڑی تعلیم سے ملے بھی.مجھے علم ہوا تو میں ناراض ہوا ان پر.میں نے ان بلایا، میں نے کہا تم کر کیا رہے ہو؟ تمہیں پتہ ہی نہیں کہ کیا واقعات گزرر ہے ہیں کیوں گزر رہے ہیں.ان افسروں کے بیچاروں کے قبضہ میں ہے ہی کچھ نہیں یہ تو His Masters Voice ہیں گوش بر آواز آقا ہیں اور جوان کا آتا ہے وہ خود غلام ہے غیر طاقتوں کا ، وہ ان کی آواز پر کان

Page 69

56 لگائے بیٹھا ہے اور جس طرف ان کے لب ہلتے ہے اسی طرف اس کے لب ملنے لگ جاتے ہیں تو ایک بہت بڑی عالمی سازش کا شکار ہے جماعت احمد یہ تم لوگ کیا حرکتیں کر رہے ہو نہیں کرنے دیتے نہ کرنے دیں کوئی پرواہ نہ کرو دیکھو آگے کیا کرتے ہیں اور کس طرح آگے بڑھتے ہیں؟ پھر اجتماعات پر انہوں نے پابندی لگادی وہی نظر آ رہا تھا کہ یہاں سے شروع کریں گے.سیڑھیاں جس طرح انسان چڑھتا ہے ایک دو تین چاراس طرح اوپر تک پہنچنے لگیں گے.پھر جلسہ سالانہ ان کے لئے خطرہ بن گیا اور اس قدر شور مچایا گیا سارے ملک میں کہ گویا اگر یہ بات حکومت نے نہ مانی تو حکومت تباہ ہو جائے گی.جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ کی اہمیت جلسہ سالانہ اتنا بڑا واقعہ جماعت احمدیہ کا کیا حق ہے کہ جلسہ سالانہ کرے؟ چنانچہ جلسہ سالانہ ختم کر دیا گیا اور آج یہ ہمارا اختتامی خطاب ہونا تھا جلسہ سالانہ پر.آج اٹھائیس ہے اور 26-27-28 کو اختتامی تقریب ہوا کرتی تھی جس میں قرآن کے معارف بیان ہوتے تھے،اسلام کی خوبیاں بیان ہوتی تھیں، غیر مذاہب پر اسلام کی فوقیت بیان ہوتی تھی.یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ایسی باتیں ہوں ،جلسہ سالانہ پر اس کے مقابل پر کیا برداشت کر سکتے ہیں ربوہ کی مساجد جن میں لاؤڈ سپیکر کھلے ہیں یعنی مولویوں کی مساجد اس میں ایسی فحش کلامی ہوتی ہے جمعہ کے دن کہ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ اس سے ربوہ کے رہنے والوں کا حال کیا ہوتا ہے؟ شدید گندی زبان استعمال کی جاتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف، جماعت احمدیہ کے سربراہوں کے خلاف، خلفاء کے خلاف بزرگوں کے خلاف اور اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ تعجب ہوتا ہے کہ اسلام کا نام لینے والے ، اسلام کی طرف منسوب ہونے والے جھوٹ اتنا بول کیسے سکتے ہیں؟ گھر بیٹھے کہانیاں گھڑتے رہتے ہیں اور فخر سے بتاتے ہیں بعد میں مولوی اپنے ساتھیوں کو کہ دیکھا کس شان کا میں نے جھوٹ گھڑا ہے! یہ میں نے گھڑا تھا، کسی اور نے مجھے نہیں بتایا، یہ میرا دماغ چلا ہے اس طرف سارے جانتے ہیں اور اُن کے ماننے والے بھی جانتے ہیں اور سارا ماحول جانتا ہے ، حکومت جانتی ہے کہ محض گند یہ منہ مار رہے ہیں.لیکن جب حکومت خود جھوٹی ہو ، بد کردار ہو چکی ہو، خود مذہب کے نام سے کھیل رہی ہو تو پھر ان لوگوں سے ان کا دل بڑا لگتا ہے.اس قسم کے لوگ قصر شاہی تک دسترس رکھتے ہیں ، وہاں تک رسائی ہو جاتی ہے ان کی ان کے ساتھ باقاعدہ مل کر منصوبے بنائے جاتے ہیں.یہ حال ہو چکا ہے اس ملک کا اور اس حال میں صرف احمدی نہیں پیسا جارہا آپ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سارا ملک پیسا جا رہا ہے.جن حقوق سے انہوں نے آپ کو محروم کیا ہے باقی قوم کو کب وہ حقوق دیتے ہیں ؟ امر واقعہ یہ ہے کہ جس دن سے جماعت احمدیہ کو ووٹ کے حق سے محروم کیا ہے سارا ملک ووٹ کے حق سے محروم ہے.جب جماعت احمدیہ پر پابندی لگائی جاتی ہے کہ تم نے اپنے دفاع میں کچھ نہیں کہنا ہم

Page 70

57 جو مرضی یک طرفہ تمہارے خلاف کہتے چلے جائیں گے تو باقی ملک پر بھی یہی پابندی لگانی پڑتی ہے.پھر کیوں کہ خدا کی تقدیر اسی طرح کام کر رہی ہے کوئی ایسا حق نہیں ہے جو جماعت سے چھینا گیا ہو اور خدا تعالیٰ نے باقی قوم کے پاس وہ حق رہنے دیا ہو.یہی لوگ پھر باقی قوم سے بھی حق چھینے پر مجبور کر دیئے جاتے ہیں.جماعت احمدیہ کے پر لیس اور مطبوعات پر پابندی ابھی کچھ عرصہ پہلے جماعت کے پریس پر پابندی تھی ، جماعت کی کتا ہیں ضبط ہو رہی تھیں قانون بن گیا تھا کہ جماعت احمد یہ اگر اپنے دفاع میں کچھ کہے گی تو اُن کو قید کیا جائے گا ان کو سزا دی جائے گی ، تین سال تک قید بھی ہوسکتی ہے اور جرمانہ بھی ہو سکتا ہے اور کچھ دن کے بعد ہی حکومت اس بات پر مجبور کر دی گئی خدا کی تقدیر کی طرف سے کہ سارے ملک کے خلاف بالکل یہی پابندی لگائے کہ الیکشن کے معاملہ میں ریفرنڈم کے معاملہ میں اگر کوئی بولا تو اس کی جائیدادیں ضبط اسکی عزتیں ضبط، اس کی آزادی ضبط بلکہ اس سے زیادہ سخت زبان میں جماعت احمدیہ کے خلاف استعمال کی گئی تھی پاکستان کے ہر شہری کے حقوق ضبط کر لئے گئے.کوئی چیز اُن کے پاس نہیں رہنے دی گئی.تو اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اللہ کی تقدیر بھی ساتھ ساتھ ایک خاموشی کام کرتی چلی جارہی ہے.جن باتوں سے آپ کو محروم کیا جارہا ہے ان باتوں سے ساری قوم بھی ساتھ محروم ہوتی چلی جارہی ہے، ایک ہی کشتی میں اکٹھے ہو رہے ہیں سارے لیکن فرق صرف یہ ہے کہ کچھ صرف اس لئے ظلم و ستم کے نیچے پیسے جارہے ہیں کہ وہ خدا کا نام لے رہے ہیں اس زمانہ میں، وہ اللہ کی محبت اور اللہ کے رسول کی محبت کی باتیں کرتے ہیں اور باقی قوم کو اس جرم میں سزا دی جارہی ہے کہ وہ خاموشی سے کیوں ان باتوں کو برداشت کرتے ہیں؟ میں تو اس طرح دیکھ رہا ہوں ان حالات کو کہ جماعت احمدیہ کے خلاف ایک ظلم کیا جاتا ہے اور ساری قوم اس وقت خاموش رہتی ہے اور برداشت کر جاتی ہے اور کہتی ہے کہ کوئی حرج نہیں ان کے ساتھ ہی ہو رہا ہے نا اور چند دن کے بعد بعینہ ان کے ساتھ وہ سلوک بلکہ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ وہ سلوک ہونے لگتا ہے.کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے جماعت احمدیہ کو محروم کیا گیا ہو اور قوم کو وہ پھر عطا ہوگئی ہو.آپ دیکھ لیں ایک دو سال کی جو تاریخ ہے اس کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں عملاً یہی سلسلہ چلا ہوا ہے اور اس کے نتیجے پھر بڑے بھیانک ہوں گے اس سے تو کوئی انکار نہیں.جماعت کے متعلق حکومت کا ارادہ اور اللہ تعالیٰ کی منشاء لیکن بہر حال اس وقت دشمن کا ارادہ یہ ہے کہ جماعت احمد یہ کوکلیۂ نہتا کردے، جماعت احمدیہ کے ہاتھ بھی جکڑ دے، جماعت احمدیہ کے پاؤں بھی جکڑ دے اور پاکستان سے جماعت احمدیہ کی مرکزیت کی ساری علامتیں مٹادے.چنانچہ ہر گز بعید نہیں کہ اس سمت میں یہ آگے قدم بڑھائیں مرکزی انجمنوں کے

Page 71

58 خلاف بھی سازش کریں ہر قسم کی اور جماعت کے وجود جماعت کی تنظیم کے خلاف سازش کریں.جہاں تک ان کا بس چلے گا انہوں نے کسی انصاف کے تقاضے کوملحوظ رکھتے ہوئے آپ کے ساتھ کوئی رحم کا سلوک نہیں کرنا.جہاں تک ان کا بس چلے گا انہوں نے ہر انسانی حقوق سے جماعت احمدیہ کو سے محروم کرنے کی مزید کوششیں کرنی ہیں اور یہ سلسلہ آگے تک بڑھانے کا ان کا ارادہ ہے، کہاں تک بات پہنچے گی یہ بھی تفصیل میں بیان نہیں کرتا لیکن مجھے علم ہے کہ ان کے ارادے کیا ہیں اس لئے میں جماعت کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ یہ نہ سمجھ لیا کریں ہر دفعہ کہ ایک ظلم کے بعد ان کے دل ٹھنڈے پڑ چکے ہوں گے.وہ یہ نہ سمجھ لیا کریں کہ ہر دفعہ ایک ستم کے بعد یہ راضی ہو جائیں گے کہ بس اب کافی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ جتنا ظلم کرتے چلے جائیں گے اتنا زیادہ یہ آپ سے خوف محسوس کریں گے.جتنا یہ ظلم کرتے چلے جائیں گے اتنی بیقراری بھی ان کی بڑھتی چلی جائے گی ، بے چینی بھی بڑھتی چلی جائے گی کہ یہ ایک منظم جماعت ہے ہم اس سے بے خوف اب نہیں رہ سکتے اس لئے مزید آگے بڑھیں گے اور چونکہ جماعت صبر اور شکر کے مقام پر فائز ہے اور ان کے سامنے سر جھکانے پر کسی قیمت پر بھی آمادہ نہیں ہے اس لئے اور بھی زیادہ ان کا غیظ و غضب بڑھتا چلا جائے گا.یہ مزید تکلیف محسوس کریں گے کہ ہم نے تو ان کو اتنا دکھ پہنچایا ہے لیکن آگے سے ان لوگوں کا سر ہی نہیں جھک رہا، یہ اسی طرح سر بلند کر کے پھر رہے ہیں گلیوں میں اسی طرح ان کو کامل یقین ہے اپنے خدا پر اسی طرح یہ آسمان کی طرف سے نصرت آنے کے انتظار میں آنکھیں لگائے بیٹھے ہیں.کیوں ان کے ایمان پر حملہ نہیں کر سکے؟ کیوں ان کے عزم کو ہم تباہ نہیں کر سکے؟ کیوں ان کے ولولے ہم نہیں مٹا سکے؟ کیوں آج بھی یہ زندہ ہیں انسانی قدروں کے ساتھ بلکہ ہم سے بہتر انسانی قدروں کے ساتھ یہ زندہ ہیں؟ یہ بات جوں جوں وقت گزرتا چلا جارہا ہے ان کو تکلیف دیتی چلی جارہی ہے اور اسی بد بخت بہو کی طرح جس نے اپنے خاوند سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اپنی ماں کا سر کاٹ کر جب تک نہ دکھاؤ اس وقت تک میں راضی نہیں ہوں گی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جب تک انتہا نہ کر گزریں گے اس وقت تک جماعت احمد یہ ذلیل و رسوا نہیں ہوسکتی.اس وقت تک ہمارے دل کو چین نصیب نہیں ہو سکتا اس لئے اپنے شیاطین کی طرف یہ جاتے ہیں اور مزید بڑے سے بڑے مطالبے اور سے اور مطالبے کرنے شروع کر دیتے ہیں.کہ نہیں ابھی ہمارا دل راضی نہیں ہوا.اب یہ کام اور کرگز روتو ہم راضی ہوں گے، اب یہ کام اور کر دو پھر ہم راضی ہوں گے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے ہاتھ باندھ بھی دیں ، جماعت احمدیہ کو کلیتہ نہتا بھی کردیں تب بھی خدا کے فضل سے جماعت احمد یہ ہی جیتے گی کیونکہ خدا کے شیروں کے ہاتھ کبھی کوئی دنیا میں باندھ نہیں سکا.یہ زنجیریں لاز ماٹوٹیں گی اور لا ز ما ی زنجیریں باندھنے والے خود گرفتار کیے جائیں گے.یہ ایک ایسی تقدیر ہے جسے دنیا میں کوئی بدل نہیں سکتا، کبھی خدا کے ہاتھ بھی کسی نے باندھے ہیں؟ اس لئے خدا والوں کے جب ہاتھ باندھے جاتے ہیں تو عملاً یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ ہم

Page 72

59 خدا کے ہاتھ باندھ سکتے ہیں.اس لئے خدا کے ہاتھ تو کھلے ہیں قرآن کریم اعلان فرمایا رہا ہے کی مَبْسُوطَتَن اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں اس کا دایاں ہاتھ بھی کھلا ہے اور اس کا بایاں ہاتھ بھی کھلا ہے اور کوئی دنیا کی طاقت خدا کے ہاتھوں کو نہیں باندھ سکتی.اس لئے آگے بڑھیں گے پہ ظلموں میں اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ بھی میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے شیر خدا کے فضل سے بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ بھی ان پر غالب آکر رہیں گے.کوئی دنیا میں ان کے ایمان کا سر جھکا نہیں سکتا، کوئی دنیا میں جماعت احمدیہ کے عزم کا سر جھکا نہیں سکتا، کوئی دنیا میں جماعت احمدیہ کے صبر کا حوصلہ تو ڑ نہیں سکتا.بڑھتے رہیں جس حد تک یہ آگے بڑھتے ہیں ہم بھی انتظار میں ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ خدا کی تقدیر بھی حرکت میں ہے خدا کی تقدیر بھی حرکت میں ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جیسا کہ فرماتا ہے: إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وَّاكِيْدُ كَيْدًا) ( الطارق : 18-17 ) یہ بھی کچھ تدبیریں کر رہے ہیں اور میں غافل نہیں ہوں میں بھی تدبیر کر رہا ہوں اور بالآخر یقینا خدا ہی کی تدبیر غالب آئے گی.کب آئے گی کتنی دیر میں آئے گی؟ یہ میں ابھی آپ کو کچھ نہیں کہ سکتا لیکن اتنا میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ جب زیادہ تشویش کے دن آتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلسل مجھے خوشخبریاں عطا فرماتا ہے اور صرف مجھے ہی نہیں بلکہ ساری جماعت کو تمام دنیا میں کثرت کے ساتھ خوشخبریاں ملنی شروع ہو جاتی ہیں.جتنے بھیانک دن آتے ہیں اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے روشنی کے وعدے زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آنے لگتے ہیں.یہ عجیب قسم کے واقعات ہیں جو عام دنیا کے حالات سے بالکل مختلف ہیں.اگر یہ خواہیں نفسیاتی ہوں، اگر یہ خواہیں نفس کے دھوکے ہوں ، یہ کشوف نفس کے دھو کے ہوں تو نفس کی کیفیت تو یہ ہے دنیا کے سارے ماہرین نفسیات جانتے ہیں کہ جتنا زیادہ مایوسی بڑھتی چلی جائے اتنا ہی ڈرانے والی خوا میں آنی شروع ہو جاتی ہیں.جتنا زیادہ انسان تاریکیوں میں گھر جاتا ہے اتنا ہی زیادہ ھولناک مناظر وہ دیکھنے لگتا ہے، غموں کے مارے ہوئے مصائب کے ستائے ہوئے خوفوں میں مبتلا لوگوں کو Hallucination ( فریب خیال ) شروع ہو جاتی ہیں امن کی حالت میں بیٹھے ہوئے بھی ان کو خطرات دکھائی دینے لگتے ہیں.یہ صرف بچوں کی علامت ہوتی ہے کہ انتہائی تاریکی کے وقت میں خدا ان سے روشنی کے وعدے کرتا ہے اور ان کو روشنی کے نمونے دکھاتا ہے.انتہائی تکلیف کے وقت میں بھی خدا تعالیٰ ان کے ساتھ دل آرام باتیں کرتا ہے، ان کے دلوں کو راحت اور اطمینان اور سکون سے بھر دیتا ہے..Friday the 10th بھی چند دن پہلے دو تین دن پہلے کی بات ہے کہ شدید بے چینی اور بے قراری تھی بعض اطلاعات کے نتیجہ میں اور ظہر کے بعد میں ستانے کے لئے لیٹا ہوں تو میرے منہ سے جمعہ جمعہ کے الفاظ

Page 73

60 نکلے اور ساتھ ہی ایک گھڑی کے ڈائل کے اوپر جہاں دس کا ہندسہ ہے وہاں نہایت ہی روشن حروف میں دس چمکنے لگا.اور خواب نہیں تھی بلکہ جاگتے ہوئے ایک کشفی نظارہ تھا اور وہ جو دس دکھائی دے رہا تھا با وجود اس کے کہ وہ اس کے کہ وہ دس کے ہند سے پر دس تھا جو گھڑی کے دس ہوتے ہیں لیکن میرے ذہن میں وہ دس تاریخ آ رہی تھی کہ Friday the 10th اور یہ انگریزی میں میں یہ کہہ رہا تھا.Friday the 10th اور ویسے وہ گھڑی تھی اور گھڑی کے اوپر دس کا ہندسہ تھا.تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کون سا جمعہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نے یہ روشن نشان عطا فرمانا ہے؟ مگر ایک دفعہ یہ واقعہ نہیں ہوا ہر دفعہ یہ ہوا کہ جب بھی شدت کی پریشانی ہوئی ہے جماعت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مسلسل خوشخبریاں عطا فرمائیں.اس سے چند دن پہلے رویا میں اللہ تعالیٰ نے بار بار خوشخبریاں دکھا ئیں اور چار خوشخبریاں اکٹھی دکھا ئیں.جب میں اُٹھا تو اس وقت زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ واسلام کا یہ شعر تھا.غموں کا ایک دن اور چار شادی فَسُبحان الذى اخرى عادى یعنی چار خوشخبریوں کی حکمت یہ ہے، چار دکھانے کی کہ ایک غم پہنچے گا تو خدا تعالیٰ چارخوشخبریاں دکھائے گا اور دشمنوں کو ذلیل کرے گا بہر حال.کیونکہ اس وقت جماعت کی حالت سب سے زیادہ دنیا کی نظر میں گری ہوئی ہے کلیتہ بیچارگی کا عالم ہے، اور کامل بے اختیاری ہے.یہ وقت ہے خدا کی طرف سے خوشخبریاں دکھانے کا اور یہ وقت ہے اُن خوشخبریوں پر یقین کرنے کا.آج جو اپنے خدا کے دیئے ہوئے وعدوں پر یقین رکھتا ہے، آج جس کے ایمان میں کوئی تزلزل نہیں ہے وہی ہے جو خدا کے نزدیک معزز ہے، وہی ہے جس کو دنیا میں غالب کیا جائے گا اور اسے خدا کبھی نہیں چھوڑے گا کیونکہ جو تنزل کے وقت اپنے خدا کی باتوں پر ایمان اور یقین رکھتا ہے اس کے ایمان میں کوئی تزلزل نہیں آتا.اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس کے لئے ایسے کام دکھاتی ہے کہ دنیا ان کا تصور بھی نہیں کر سکتی.پس آج وقت ہے اپنے رب کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے کا ، اپنے رب کے ساتھ پیار کرنے، محبت کا رشتہ مضبوط کرنے کا.آج آپ یقین رکھیں کہ ہمارا خدا ہم سے سچے وعدے کرتا رہا ہے، آج بھی سچا وعدہ کر رہا ہے کل بھی سچے وعدے کرتا رہے گا اور بظاہر دنیا کے نزدیک ہم ذلت کی کسی بھی انتہا تک پہنچ چکے ہوں لیکن تمام عزتوں کا مالک خدا ہمارے ساتھ ہے اور ہمارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا.اس یقین پر حرف نہ آنے دیں اس کی حفاظت کریں کیونکہ آج کا وقت ہی دراصل آپ کے کل کا فیصلہ کرنے والا ہے.اگر آج آپ نے خدا پر اپنے ایمان کو کمزور کر دیا ، اگر آج خدا کے وعدوں پر آپ کو شک پیدا ہونے شروع ہو گئے تو کل اگر تقدیر بگڑی تو آپ اس تقدیر کو بگاڑنے والے ہوں گے اس لئے اپنے یقین کی حفاظت کریں اور جہاں تک.

Page 74

61 آپ کا بس چلتا ہے تدبیر کا بھی ہر طریق اختیار کریں.ایک مومن کے لئے جو خدا تعالیٰ نے منصوبہ پیش فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ ایمان کامل رہے اور خدا کی تقدیر کے اوپر ایک دن بھی بے یقینی پیدا نہ ہوا اور اسکے ساتھ اپنی تدبیر کو بھی انتہاء تک پہنچا دے اس لئے جتنا دشمن جماعت احمدیہ کی مرکزیت پر حملہ کرنے کے لئے کوشش کر رہا ہے یا حملے کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اسی حد تک اس کا جماعت کی طرف سے برعکس رد عمل پیدا ہونا چاہئے.چنانچہ میں نے جماعت کو بار ہا یہ توجہ دلائی کہ جب یہ آپ کی زندگی پر حملہ کر رہے ہیں یہ آپ کو نیست و نابود کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور یہی منصوبے بنا رہے ہیں تو اس کا رد عمل یہ ہونا چاہئے کہ اس قوت کے ساتھ آپ ابھریں اور بڑھیں اور پھیلیں کہ دشمن کلیتہ خائب و خاسر اور نامراد ہو جائے.حسرتوں کے سوا اس کے ہاتھ کچھ نہ آئے.ایک جگہ جماعت کو دباتے ہیں تو دس جگہ آپ پھیل جائیں.ایک احمدی کو شہید کرتے ہیں تو ہزاروں لوگوں کو احمدی بنا ئیں.ایک ملک میں جماعت احمدیہ کی مسجدوں کو ویران کیا جاتا ہے تو ہزاروں ملکوں میں جماعت احمد یہ مسجدیں بنائے.یہ جواب ہے ایک زندہ قوم کا.یہ جواب ہے ایک صاحب ایمان قوم کا.اس لئے میں بار بار جماعت کو تبلیغ کی طرف متوجہ کر رہا ہوں اور خدا کے فضل سے بعض ممالک میں بہت ہی اچھے نتائج پیدا ہورہے ہیں." ( خطبات طاہر جلد 3 صفحہ 769-779)

Page 75

62 $1985 ذیلی تنظیمیں ماہانہ ایک اجلاس قیام نماز کے حوالہ سے کریں خطبہ جمعہ 8 نومبر 1985ء) " نظام جماعت کے مختلف حصوں سے، مختلف تنظیموں سے میرا بڑا گہرا تعلق رہا ہے.بچپن میں اطفال الاحمدیہ میں ، پھر خدام الاحمدیہ میں، پھر انصار اللہ میں اور خصوصاً نماز کے معاملہ میں خدا تعالیٰ مجھے توفیق عطا فرما تارہا ہے کہ ہر جگہ کچھ نہ کچھ کوشش کروں اور میں نے یہ دیکھا ہے کہ ہمارے اچھے سے اچھے کارکن بھی صبر کے لحاظ سے ابھی بہت زیادہ محروم تو نہیں کہنا چاہئے مگر ان میں گنجائش بہت موجود ہے کہ وہ اس حالت کو بہتر کریں.صبران معنوں میں کہ مستقل مزاجی بھی صبر کا ایک حصہ ہے صبر کا مضمون بہت وسیع ہے.تو استقلال کے لحاظ سے بھی بہت کمی واقعہ ہے.ہمارے اچھے اچھے کارکن بھی اچھا کام جوش کے ساتھ چند دن کر لیتے ہیں اور اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ تھک کر چھوڑ دیتے ہیں اور نماز وہ آخری چیز ہے جس سے آپ کو تھکنا چاہئے.مطلب یہ ہے کہ اس میں آپ کو تھکنے کی کوئی گنجائش نہیں.تمام قرآن میں سب سے زیادہ زور نماز پر ہے.قرآن کریم میں زکوۃ سے پہلے صلوٰۃ ہے اور زکوۃ کا مضمون بھی پھر آگے بہت وسعت اختیار کر جاتا ہے، اس کی طرف انشاء اللہ آئندہ توجہ دلاؤں گا لیکن ہر ایمان کے بعد سب سے پہلے صلوٰۃ کا ذکر ہے اور تمام دنیا کے مذاہب میں جہاں کہیں بھی کوئی مذہب آیا ہے.تمام قرآن کریم کے بیان کے مطابق نماز پر ہر نبی زور دیتا رہا ہے.نماز حفاظت کرتی ہے.نماز ایک ساتھ رہنے والا مربی ہے.جس شکل میں بھی کسی قوم نے کبھی خدا کی عبادت کی تھی ہر نبی نے سب سے زیادہ اس عبادت پر زور دیا تھا اور ہے ہی مقصود وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ ) (الذاریات: 57) میں نے تو جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی نہیں کیا سوائے اس کے کہ وہ میری عبادت کریں.اور عبادت کا معراج نماز ہے یعنی عبادت کی جو رسمی شکل ہے ظاہری نماز ہے اور اس کو پھر قائم کر کے پھر اس کو بھرنا ہے ہم نے کئی طریق سے اس پر غور کرنا ہے کہ کس طرح انمیں زیادہ حسن پیدا کرنا ہے، سمجھانا ہے.خود بھی نماز باترجمہ سیکھیں اور بچوں کو بھی سکھلائیں ابھی تو آپ میں سے یعنی شاید آپ کو کبھی خیال نہ آیا ہو لیکن اکثریت ایسی ہے جن کو یہ نہیں پتہ کہ

Page 76

63 میرے بچوں کو نماز ترجمہ کے ساتھ آتی بھی ہے کہ نہیں اور نہ پتہ ہے نہ خیال آیا ہے اور بعض لوگ دوسروں کو ڈھونڈتے ہیں.جن کو خیال آتا ہے وہ کہتے ہیں جی ہمارے پاس کوئی نماز سکھانے کا انتظام نہیں ہے اس لئے ایک مربی بھیجا جائے.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مربیوں کا کام ہے نماز سکھانا اور پڑھانا حالانکہ قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ والدین کا کام ہے.گھر سے شروع کرو اور پھر مستقل مزاجی کے ساتھ نماز کو قائم کر کے دکھاؤ وہاں.یہ عجیب سوال ہوتا ہے میں حیرت سے دیکھتا ہوں اگر تمہیں خود نماز نہیں آتی تو پہلے اپنی فکر کرو، بچوں کی کیا بات شروع کی ہے پہلے خود تو نماز سیکھو اور اگر خود نماز آتی ہے تو مربی کا کیا انتظار کرتے ہو.جو اولین مقصد ہے انسانی تخلیق کا اس مقصد سے محروم ہو رہے ہو محروم رہ رہے ہو اور انتظار کر رہے ہو کوئی آئے گا تو وہ ہمیں سکھا دے گا.اتنے مربی نہ جماعت کے پاس ہیں نہ یہ ممکن ہے کہ مربی دوسرے سارے کام چھوڑ دیں.جتنے ہیں اگر وہ سارے کام دوسرے چھوڑ دیں اور یہی کام شروع کریں تو تب بھی وہ پورے نہیں ہوں گے.اس لئے قرآن کریم بڑا حکیمانہ کلام ہے.وہ واقعاتی بات کرتا ہے خیالی اور فرضی بات نہیں کرتا.یہ ذمہ داری مربی پر نہیں ڈالی بلکہ ہر خاندان کے سربراہ پر ڈال دی ہے کہ تم کوشش کرو تمہاری ذمہ داری ہے.حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق بھی یہی بتایا کہ بڑی خوبیوں کا مالک تھا ، وہ اپنی اولاد کو اپنے اہل وعیال کو مستقل مزاجی کے ساتھ نماز کی طرف توجہ دلاتا رہتا تھا.جماعت احمدیہ کا اہم کام عبادت کو قائم کرنا ہے پس جماعت احمدیہ میں سب سے اہم کام اس وقت عبادت کو قائم کرنا ہے نماز کو نہ صرف قائم کرنا ان معنوں میں کہ ظاہراً کوئی شروع کر دے بلکہ اس کے اندر مغز کو اور روح کو بھرنا ہے اور جب تک بچپن سے نماز کا ترجمہ ساتھ نہ سکھایا جائے اس وقت تک نماز کے معنی انسان نماز پڑھتے وقت اپنے اندر جذب نہیں کر سکتا.ایک غیر زبان ہے ہم سوچتے اپنی زبان میں ہیں اور غیر زبان اگر سیکھ بھی لیں تب بھی عملاً ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ کر رہے ہوتے ہیں.سوائے اس کے کہ بعد میں بہت مہارت پیدا ہو جائے ورنہ شروع میں ہر انسان جو غیر زبان سیکھتا ہے وہ بولتے ہوئے بھی سنتے ہوئے بھی ساتھ ساتھ تیزی سے اس کا ترجمہ کر رہا ہوتا ہے.انسانی کمپیوٹر خدا تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ بعض دفعہ محسوس نہیں ہوتا مگر عملاً یہ ہورہا ہوتا ہے.اس زبان میں پہلی دفعہ خود سوچنا یہ بہت مہارت کے بعد آتا ہے.اسی لئے نماز پڑھنے والوں کی بھی کئی قسمیں اس پہلو سے بن جاتی ہیں کچھ وہ ہیں اور ایک بہت بڑی تعداد ہے جن کو آتا ہی نہیں نماز کا ترجمہ.اب ان کو تر جمہ ہی نہیں آتا تو بیچارے سوچیں گے کیا پھر وہ ہیں جن کو تر جمہ آتا ہے لیکن جب تک پہلے عربی پڑھ کر پھر ساتھ اس کا ظاہر اترجمہ نہ کریں دماغ میں، دھرائیں نہ پوری بات کو.اس وقت تک ان کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ میں کیا کہ رہا ہوں اور جن کو نماز آتی ہے ان میں سے ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اتنا وقت نہیں دیتی.نماز پڑھتے ہیں

Page 77

64 اور بغیر محسوس کئے کہ جو میں نے نماز پڑھی ہے اس کا ترجمہ میں نے محسوس کیا ہے کہ نہیں ، اس میں سے گزر جاتے ہیں اور پھر کچھ اور ہیں جن کو مہارت ہو جاتی ہے ساتھ ساتھ ترجمہ خود بخود جذب ہونے لگ جاتا ہے لیکن ان کی توجہ بکھر جاتی ہے.نماز کے بعد بہت حصے خلا کے رہ جاتے ہیں جہاں توجہ اکھڑ گئی تھی.تو یہ ساری باتیں جو کسل کی حالت ہے اور بہت سی باتیں ہیں، یہ نماز کی کوالٹی پر ، اس کی قسم پر اثر انداز ہوتی رہتی ہے.اس لئے اگر سو فیصدی بھی ایک جماعت نمازی ہو جائے اور پانچ وقت کی نمازی ہو جائے بلکہ تہجد بھی پڑھنا شروع کر دے تب بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے ظاہری نظر سے کہ نماز قائم ہوگئی ہے یا نہیں ہوئی کیونکہ اور بہت سے مراحل ہیں لیکن آغاز بہر حال ترجمہ سے ہوگا یعنی اس کے اندر مغز پیدا کرنے کے لئے ترجمہ پہلے سکھائیں گے تو پھر دیگر امور کی طرف متوجہ کر سکیں گے.نماز بچوں کو سکھانے کے لئے ماں باپ کا ذاتی تعلق ضروری ہے ترجمہ سکھانے کے لئے باہر کی دنیاؤں میں اور بھی بہت سے ذرائع موجود ہیں مثلاً ویڈیو کیسٹس عام ہے آڈیو کیسٹس ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بچوں کو ترجمہ سکھانے کے لئے ماں باپ کا ذاتی تعلق ضروری ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ویڈیوز کے اوپر آپ بنادیں اور ہم اپنے بچوں کو پکڑا دیں گے اور بے فکر ہو جائیں گے کہ ان کو نماز آنی شروع ہوگئی ہے.یہ درست نہیں.عبادت کا تعلق محبت سے ہے اور محض رسمی طور پر ترجمہ سکھانے کے نتیجہ میں عبادت آئے گی کسی کو نہیں.وہ ماں باپ جن کا دل عبادت میں ہو جن کو نماز سے پیار ہو جب وہ ترجمہ سکھاتے ہیں بچے سے ذاتی تعلق رکھتے ہوئے بچہ اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھ رہا ہوتا ہے، ان کے دل کی گرمی کو محسوس کر رہا ہوتا ہے ، ان کے جذبات سے اس کے اندر بھی ایک ہیجان پیدا ہورہا ہوتا ہے.وہ اگر نماز سکھا ئیں تو ان کا نماز سکھانے کا انداز اور ہوگا.چنانچہ بہت سے قادیان کے زمانے میں مجھے یاد ہے بہت سے نیک لوگ اس طرح ماؤں کی گود میں نیک بنے.ان کو ماؤں نے بڑے پیار اور محبت سے نمازیں سکھائی ہیں اور ہمیشہ کے لئے ان کی یادیں ان کے دلوں میں ڈوب گئی ہیں اور جم گئی ہیں وہاں ان کے خون میں بہنے لگی ہیں، ایک فطرت ثانیہ بن چکی ہیں.کجاوہ نمازیں جو اس طرح سیکھی گئی ہوں کجا وہ جو ویڈیو پر آرام سے بیٹھے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور خیال شاید یہ آرہا تھا کہ یہ ختم ہو اور ہم اپنی دلچسپی کا فلاں پروگرام دیکھیں، فلاں ڈرامہ شروع کر دیں، فلاں کھیل دیکھنے لگ جائیں ، دونوں چیزوں میں زمین آسمان کا فرق ہے.اس لئے محض فرضی باتوں کے اوپر اپنے آپ کو خوش نہ کریں.ہر احمدی کو خود نماز کے معاملے میں کام کرنا پڑے گا محنت کرنی پڑے گی ، اپنے نفس کو شامل کرنا پڑے گا، اپنے سارے وجود کو اس میں داخل کرنا پڑے گا ، تب وہ نسلیں پیدا ہوں گی جو نمازی نسلیں ہوں گی خدا کی نظر میں.

Page 78

65 ذیلی تنظیمیں خصوصیت کے ساتھ میری مخاطب ہیں....پس میرا آج کا خطبہ صرف اسی موضوع سے تعلق رکھتا ہے اور جب میں نے کہا جماعت کی تنظیمیں تو خصوصیت سے انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ یہ تینوں میرے سامنے تھیں.جماعت احمدیہ کا اصل بنیادی نظام کا ڈھانچہ تو صدارت یا امارت کا نظام ہے لیکن اس قسم کے کاموں میں جہاں ایک War_footing پر کام کرنے ہوتے ہیں یعنی جیسے ایک عظیم جنگ میں مصروف ہو جائے کوئی قوم ، وہاں تنظیموں کے اندر اگر بانٹ دیا جائے اس کام کو تو زیادہ عمدگی کے ساتھ زیادہ تفصیل کے ساتھ نظر رکھتے ہوئے یہ کام آگے بڑھتے ہیں.اس لئے یہ تین جو نظام ہیں جماعت کی ذیلی تنظیمیں ان سے میں خصوصیت کے ساتھ مخاطب ہوں کہ یہ اپنے اپنے دائرے میں بہت محنت اور بہت کوشش کریں.ماؤں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، بہنوں پر بھائیوں پر یعنی خاندان کے اندر والدہ پر اس لئے کہ وہ جوابدہ ہے آخری صورت میں خدا کے سامنے.یہ خاندانی یونٹ جو ہے یہ کسی نہ کسی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اگر چہ جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے آخری کارخانہ نماز کے قیام کا خاندان ہی ہو گا لیکن اس کارخانے تک پہنچنے کے لئے اسے بیدار کرنے کے لئے ، اسے حرکت دینے کے لئے جماعت کی مختلف تنظیمیں قائم ہیں.پس لجنہ عورتوں کو تو متوجہ کرے اور آخری نظر اس بات پر رکھے کہ اہل خانہ کے اندر نماز کو قائم کرنے کی ذمہ داری اہل خانہ کی ہے اور عورتوں سے کہیں کہ آپ ہم سے سیکھیں اور پھر اپنے بچوں کو سکھائیں.اپنے خاوندوں کو اپنے بیٹوں کو اپنی بیٹیوں کو بار بار پانچ وقت نماز کی طرف متوجہ کرتی رہیں.جو گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں نماز کے وقت اور مسجد قریب ہے یا عبادت کرنے کی جگہ جو بھی ہو وہ قریب ہوعور تیں اٹھا ئیں ان کو کہ ٹھیک ہے کھانا تیار ہوگا لیکن تم نماز پڑھنے جاؤ واپس آؤ پھر آرام سے بیٹھیں گے.بچوں کو تیار کریں اور جو گھر کی بیٹیاں ہیں ان پر نظر رکھیں.والدین میں سے باپ کی اول ذمہ داری ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مگر بیٹیوں کے معاملہ میں باپ کے لئے کچھ مشکلات بھی ہوتی ہیں اس کو یہ نہیں پتہ لگتا کہ کب اس نے پڑھنی ہے کب نہیں پڑھنی اس لئے وہاں جب تک ماں مدد نہ کرے اس وقت تک باپ پوری طرح اپنے فرائض کو ادا نہیں کر سکتا اور بھی بہت سے مسائل ہیں نماز سے تعلق رکھنے والے جو ماں سکھا سکتی ہے.اس لئے لجنہ کا جہاں تک تعلق ہے وہ عورتوں کو سنبھالے اور بچیوں کو سنبھالے اور گھر کے اندران کو طریقے بتائے کہ کس طرح تم نے اپنے گھروں میں نماز کو قائم کرنا ہے یہ بالکل الگ بات ہے.ایک اور بات آپ کے ذہن میں آسکتی ہے وہ یہ کہ لجنہ نماز کی تلقین کرنا شروع کر دے کہ نماز پڑھا کرو میں یہ نہیں کہ رہا

Page 79

66 میں یہ کہہ رہا ہوں کہ لجنہ گھروں میں نماز کو قائم کرنے کے طریقے سمجھائے اور مستورات کو یہ بتائے کہ تم نے کیا مدد کرنی ہے سوسائٹی کی نماز کے قیام کے سلسلہ میں اور پھر یہ رپورٹیں لے کہ وہ کس حد تک نماز کو اپنے گھروں میں قائم کرنے میں کامیاب ہو چکی ہیں یہ ذمہ داری ڈال رہا ہوں.خدام کو نصیحت اور اسی طرح خدام نو جوانوں کو یہ تلقین نہ کریں کہ تم نماز میں آؤ بلکہ یہ تلقین کریں کہ تم خود بھی آؤ اور اپنے بھائیوں کو بھی نماز پر قائم کرو اور اپنے والدین کو بھی نماز پر قائم کرنے کی کوشش کرو کیونکہ بعض جگہ ایسا بھی ہورہا ہے کہ بظاہر الٹ ہو جاتا ہے لیکن ہو رہا ہے بعض بچے مجھے خط لکھتے ہیں نو جوان کہ ہمیں بہت تکلیف ہے، ہمارے والد صاحب نماز نہیں پڑھتے اور ہم بہت سمجھاتے ہیں لیکن وہ باز نہیں آرہے نماز کی ان کو عادت ہی نہیں ہے اس لئے آپ ان کو خط لکھیں.چنانچہ ایک بچے نے بڑے درد سے مجھے خط لکھا اور میں نے پھر واقعہ اس کو خط لکھا اور پھر مجھے بڑی خوشی ہوئی یہ سن کر یعنی وہاں کی امارت کی طرف سے اطلاع ملی کہ اس خط نے اثر دکھایا ہے اور اس نے نماز شروع کر دی ہے خدا کے فضل سے.تو اگر ایسے نو جوان اگر بے قرار ہوں اپنے ماں باپ کو نماز پڑھانے کے لئے تو وہ بھی بڑا کام کر سکتے ہیں اور دعا کے ساتھ مانگیں گے تو اس سے بہت غیر معمولی فائدہ پہنچے گا.دعاؤں کی تحریک کریں گے دوسروں کو تو اس طرح بھی خدا کے فضل سے فائدہ پہنچے گا.انصار سے خطاب انصار کو یہ توجہ دلانی چاہئے اپنے ممبران کو کہ تم اس عمر میں داخل ہو گئے ہو جہاں جواب دہی کے قریب تر جا رہے ہو تم ویسے تو ہر شخص جواب دہی کے قریب تر رہتا ہے ایک لحاظ سے لیکن انصار بحیثیت جماعت کے قریب تر ہیں اپنی جواب دہی کے اور جو وقت پہلے گزر چکا اس کے خلا جو رہ گئے ان کو پر کرنا بھی شروع کریں تو پھر تو اُن کے اوپر دوہرا کام آجاتا ہے.وقت کی ذمہ داریاں پوری کریں اور گزشتہ گزرے ہوئے وقت کے خلا بھی پورے کریں.ان کو اس طرح بیدار کیا جائے بتا کر کہ ان کو فکر پیدا ہوا اپنی.وَلْتَنْظُرُ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ کہو کہ تم پر سب سے زیادہ اطلاق پاتی ہے یہ آیت.تمہیں فکر کرنی چاہئے کل کے لئے تم نے کیا آگے بھیجا ہے اور وہاں غد کے معنی روز قیامت بن جائے گا وہاں غد کے معنی سوال و جواب اور محشر کا وقت بن جائے گا اس لئے ان کو بیدار کریں ہلائیں جگائیں کہیں تم اگر اپنے گھروں میں نماز قائم کئے

Page 80

67 بغیر آنکھیں بند کر گئے تو کتنا حسرتناک انجام ہوگا تمہارا.بے نمازی نسلیں جو اپنے مقصد سے عاری ہیں جن کو خدا نے پیدا کسی اور غرض سے کیا تھا کسی اور طرف رخ اختیار کر چکی ہیں ، وہ پیچھے چھوڑ کر جارہے ہو.کیا رہا تمہارے ہاتھ میں اور خود خالی ہاتھ جارہے ہو وہاں کوئی بھی تمہارے پاس پیش کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں رہا باقی.کیا جواب دو گے خدا کو کہ جو امانت تو نے میرے سپرد کی تھی میں نے ان کو یہ بنایا ہے یہ پیچھے چھوڑ کر آیا ہوں.تو اس رنگ میں بیدار کریں اور پھر یہ عہد کریں اپنا پروگرام ایسا بنا ئیں کہ ان کو سونے پھر اب نہیں دینا.تنظیمیں ہر ماہ ایک اجلاس میں نماز با جماعت کا جائزہ لے کر اپنا محاسبہ کریں تنظیمیں نسبتاً زیادہ بیدار رہ سکتی ہیں اگر وہ ایک معین پروگرام بنالیں کہ ہر ہفتے یا ہر مہینے میں ایک دفعہ اسی موضوع پر بیٹھا کریں ایک مجلس عاملہ کا اجلاس مقرر ہو جائے ہمیشہ کے لئے آج سے جس کا موضوع سوائے نماز کے کچھ نہ ہو.اس دن لجنہ بھی نماز کے اوپر غور کر رہی ہو.خدام بھی نماز پر غور کر رہے ہوں، انصار بھی نماز پر غور کر رہے ہو اور یہ فیصلہ کر لیں ہمیشہ کے لئے کہ اب ہم نے ہر مہینہ کم از کم ایک مرتبہ اس موضوع پر بیٹھنا ہے، غور کرنا ہے اور جہاں حالات ایسے ہیں کہ ہر مہینے نہیں بیٹھ سکتے وہاں دو مہینے مقرر کر لیں ، تین مہینے مقرر کر لیں مگر جہاں مقرر کریں پھر اس پہ قائم رہیں ، اس پر صبر دکھا ئیں اور وہ ہر دفعہ جائزہ لیا کریں کہ کتنے ہمارے Gains ہیں یعنی کتنا ہمیں فائدہ پہنچا ہے اس عرصے میں کتنے نمازی بنائے ، کتنوں کی نمازوں کی حالت ہم نے درست کی ، کتنوں کو نماز میں لطف حاصل کرنے کے ذرائع بتائے اور ان کی مدد کی اور بہت سے پہلو ہیں وہ ان سب پہلوؤں پر غور کیا کریں اور ہر دفعہ اپنا محاسبہ کریں کہ ہم کچھ مزید حاصل کر سکتے ہیں یا نہیں کر سکے.اگر اس جہت سے اس طریق پر وہ کام شروع کریں گے تو امید ہے کہ انشاء اللہ بہت تیزی کے ساتھ ہم اپنے مقصد کی طرف بڑھ رہے ہوں گے.جس کی خاطر ہمیں پیدا کیا گیا ہے اور جب ہم مقصد کی طرف بڑھ جائیں گے اور جب مقصد کو حاصل کر رہے ہوں گے تو پھر فتح ایک ثانوی چیز بن جاتی ہے.عددی اکثریت اور نصرت اور ظفر کے خواب جو آپ دیکھ رہے ہیں اس سے بڑھ کر یہ خواب آپ کے حق میں آپ کی ذاتوں میں پورے ہو چکے ہوں گے.پھر یہ خدا کا کام ہوگا کہ آپ کی حفاظت فرمائے، پھر یہ خدا کا کام ہوگا کہ اس دن کو قریب تر لائے جو ظاہری فتح کا بھی دن ہوا کرتا ہے.جنگ بدر کے موقع پر یہی تو واسطہ دیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو کہ اے خدا! یہ تھوڑی سی جماعت میں نے تیار کی تھی تیری عبادت کرنے والوں کی.میری ساری محنتوں کا پھل ہے یہ اور تو کہتا ہے کہ کائنات کا پھل ہے یہ ، اگر آج یہ لوگ

Page 81

68 مارے گئے تو پھر تیری عبادت کرنے والا دنیا میں کبھی کوئی پیدا نہیں ہوگا.اس قسم کے عبادت کرنے والے آپ بن جائیں تو اللہ کے اس پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں آپ کو بھی پہنچ رہی ہوں گی.وہ خدا کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی اس لحاظ سے زندہ ہے آج بھی وہ دعا آپ کے حق میں خدا کو یہ واسطہ دے گی کہ اے خدا اگر یہ عبادت گزار بندے تیرے ہلاک ہوگئے یا نا کام مر گئ تو پھر کبھی تیری دنیا میں عبادت نہیں کی جائے گی.کیسے ممکن ہے پھر کہ آپ کو وہ فتح اور ظفر کا دن نصیب نہ ہو." خطبات طاہر جلد 4 صفحہ 890-898)

Page 82

69 $1986 عہد یداران ، تقوی کے معیار کو بڑھا کر سلسلے کے اموال خرچ کریں (خطبہ جمعہ 4 اپریل 1986ء) " دوسرا حصہ ہے وہ لوگ جو اموال خرچ کرنے کے ذمہ دار ہیں.یعنی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مختلف کارکن جو خدا کی راہ میں آنے والے اموال کو خرچ کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں.ان میں واقف زندگی بھی ہیں اور غیر واقف زندگی بھی ہیں.پاکستان میں کام کرنے والے بھی ہیں اور باہر کے ملکوں میں بھی.ایسے ممالک میں بھی ہیں جو خدا کے فضل سے بہت خوش حال ہیں اور کم سے کم معیار پر بھی اگر وہاں واقفین رہیں تب بھی ان کی حالت پاکستان میں بسنے والے واقفین کے مقابل پر اعلیٰ سے اعلیٰ معیار سے بھی اونچی ہے اور ایسے ممالک میں بھی ہیں جہاں اتنی غربت ہے، اتنا معیار گرا ہوا ہے کہ بعض دفعہ ایک ہفتہ پہلے جب ہم ان کے وظائف میں اضافہ کا اعلان کرتے ہیں تو اس کے بعد یہ اطلاع آتی ہے کہ اب اس مال کی قیمت یہاں آدھی رہ گئی ہے اور امر واقعہ ایسا ہو چکا ہے کہ چند دن کے اندر اندر جب وظائف میں اضافہ کیا گیا تو وہاں سے اطلاع ملی کہ اب تو یہاں روپے کی قیمت 113 رہ گئی ہے.بہر حال مختلف حالات میں واقفین زندگی ہوں یا غیر واقفین زندگی خدا کی راہ میں اس قربانی کی توفیق بھی پا رہے ہیں اور کچھ بے احتیاطیاں بھی کر رہے ہیں.جو بے احتیاطیاں کرنے والے ہیں ان کو میں متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ بے احتیاطیاں رفتہ رفتہ بد دیانتیوں میں بدل جایا کرتی ہیں.اس لئے اگر آپ بے احتیاطی سے بچیں گے اور شروع میں ہی تقویٰ کے معیار کو بڑھا کر سلسلے کے اموال خرچ کریں گے تو اس کا دہرا فائدہ پہنچے گا.اول یہ کہ آپ خدا تعالیٰ کی نظر میں زیادہ مقبول ٹھہریں گے.آپ کے ذاتی اموال میں بہت برکت ہوگی.آپ کی زندگی کے ہر شعبہ میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا.آپ کی خوشیوں میں برکت بخشے گا، آپ کے ایمان اور خلوص میں برکت بخشے گا اور دوسرا یہ کہ جماعت احمدیہ کے مالی قربانی کے معیار کو آپ اونچا کرنے والے ہوں گے.جماعت کا پیسہ خرچ کرنے والے اور دینے والے کے تقویٰ کا بڑا گہرا تعلق ہے امر واقعہ یہ ہے کہ خرچ کرنے والے کے تقویٰ کا پیسہ دینے والے کے تقویٰ سے گہرا تعلق ہوتا ہے.جہاں خرچ کرنے والوں کا تقویٰ اونچا ہو ، وہاں خدا کی راہ میں قربانی کرنے والوں کا تقویٰ بھی خود بخود

Page 83

70 اونچا ہوتا چلا جاتا ہے.چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ اکثر احمدیت سے باہر چندے مانگنے والوں کی یہی مصیبت ہے.بے شمار روپیہ پڑا ہوا ہے اور بے شمار ایسے دل بھی ہیں جو خدا کی راہ میں خرچ کرنا چاہتے ہیں مگر بد بختی ہے بعض قوموں کی کہ وہاں تقویٰ کے ساتھ خرچ کرنے والے نہیں ملتے.اس لئے دلوں میں گانٹھیں پڑ گئی ہیں.دینے والا ہاتھ کھلتا نہیں ہے کیونکہ وہ جانتا ہے لمبے تجربہ کی بناء پر کہ اس قوم کے لینے والوں نے کبھی دیانت کا مظاہرہ نہیں کیا.لیتے کسی اور نام پر ہیں اور خرچ کسی اور نام پر کرتے ہیں.ان کی شکلیں بتارہی ہوتی ہیں کہ یہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے لوگ نہیں ہیں مانگنے والے ہیں.پس یہ بیماری جب بہت بڑھ جاتی ہے پھر تو قوم کے لئے ایک کوڑھ کی شکل اختیار کر جاتی ہے.لیکن آغاز بھی اگر اس کا ہو تب بھی نقصان پہنچتا ہے اور بالعموم مختلف اتار چڑھاؤ جو دینے والوں کے آپ کو نظر آئیں گے ان کا تعلق خرچ کرنے والوں کے تقویٰ کے اتار چڑھاؤ سے ضرور ہوگا.اس لئے ضروری ہے کہ سلسلہ کے اموال دنیا کے جس گوشہ میں بھی وصول ہو رہے ہیں اور جس کونے میں بھی خرچ کئے جارہے ہیں ، وہاں تقویٰ کے معیار کو دونوں طرف سے اونچا کیا جائے.دینے والوں کے معیار کو ہی نہیں بلکہ خرچ کرنے والوں کے معیار کو بھی اونچا کیا جائے.جماعتی اداروں کے چار شعبے جن میں بے احتیاطی کے آثار ظاہر ہورہے ہیں جو بے احتیاطی کی صورتیں میرے سامنے آ رہی ہیں، مختلف وقتوں میں توجہ بھی دلائی جاتی ہے لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ ضروری ہے کہ خطبہ میں بھی بالعموم ان کی طرف متوجہ کیا جائے.جہاں تک ہمارے مشنر کا تعلق ہے یا پاکستان میں جو ادارے کام کر رہے ہیں ان کا تعلق ہے.تین چار ایسے شعبے ہیں جہاں بے احتیاطی کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.بجلی کا خرچ ہے، ٹیلیفون کا خرچ ہے، مہمان نوازی کا خرچ ہے اور سفر خرچ.یہ وہ چار شعبے ہیں جہاں سے بے احتیاطی شروع ہوتی ہے اور جب یہ بے احتیاطی آگے بڑھ جائے تو پھر بد دیانتی شروع ہو جاتی ہے جو پھر ہر شعبہ پر اثر انداز ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے الا ماشاء اللہ اگر خدا کسی کی پردہ پوشی نہ فرمائے تو میں کہہ نہیں سکتا مگر بظاہر بد دیانتی کی کوئی مثالیں میرے سامنے نہیں آئیں.بہت ہی شاذ کے طور پر بعض جماعت میں واقعات ہوتے ہیں بدیانتی کے مگر وہ ضروری نہیں کہ کارکنان ہی میں ہوں ، چندہ وصول کرنے والوں میں بھی ہوتے ہیں.وہ اتنا تھوڑا ہے کہ وہ ناممکن ہے عملا کہ کسی قوم کے معیار کو اتنا بلند کر دیا جائے کہ ایک فرد بشر بھی کوئی کمزوری نہ دکھائے.کوشش تو ہونی چاہئے مگر بہر حال ایک آئیڈیل ایسا ہے جسے انسان کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتا.جہاں تک عام معیار کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے واضح بددیانتی موجود نہیں ہے لیکن بے احتیاطی کی بد دیانتی ضرور موجود ہے اور وقت ہے کہ ہم اسے سختی کے ساتھ دبائیں.ایک آدمی جو انگلستان بیٹھا ہوایا امریکہ میں بیٹھا ہوا اپنے خرچ پر اپنے گھر فون نہیں کر سکتا اگر اس کو

Page 84

71 یہ سہولت ہو کہ جماعت کے خرچ پر جبکہ کوئی نہیں دیکھ رہا جتنا چاہے فون کر لے اور ہرلمحہ جو گزرتا ہے اس کا فون پر اس کا دل اتنا نہ کٹ رہا ہو کہ جماعت کا اتنا خرچ ہو رہا ہے تو یہاں اس کو میں کہتا ہوں وہ بے احتیاطی جو بددیانتی پر منتج ہو جاتی ہے.خواہ انسان واضح طور پر اس بات کو سوچے یا نہ سوچے لیکن بہترین حل اس کا یہ ہے کہ ہر وہ خرچ جو اپنے طور پر وہ کر سکتا ہے اگر اس خرچ کے وقت اس کو تکلیف ہوتی ہے اور جماعت کے اسی قسم کے خرچ پر تکلیف نہیں ہوتی تو ایسا شخص تقویٰ کے معیار سے گرا ہوا ہے.بجلیاں جل رہی ہیں تو جلتی چلی جا رہی ہیں، پر واہ ہی کوئی نہیں اور بے شمار خرج اس کی وجہ سے ہو جاتا ہے.سردی کے موسم میں گرمی کی ضرورت پڑتی ہے، گیس جل رہی ہے اور بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ جل رہی ہے، کھڑکیاں بھی کھلی ہیں تب بھی کوئی پرواہ نہیں.ان چیزوں کو آپ بے احتیاطیاں کہیں گے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ بے احتیاطیاں بے دردی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں اور بے دردی اور بے حسی اور تقویٰ اکٹھے نہیں رہا کرتے.ایسی بے درد دی اور ایسی بے حسی جو فرق کر کے دکھائے.جماعت کے خرچ میں تو موجود ہو اور ذاتی خرچ میں موجود نہ ہو وہ تقویٰ کے خلاف ہے اور یہ صورت حال بالآخر بد دیانتی پر منتج ہو جاتی ہے.اسی لئے اب ہم نے آڈٹ کے انتظام کو زیادہ منظم کیا ہے اور بہت زور دیا جا رہا ہے کہ ہر جگہ آزاد آڈیٹر یعنی حساب کرنے والے جو جماعتی نظام سے بالکل آزاد ہوں، وہ اپنی رپورٹیں براہ راست مجھے بھجوائیں اور ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی آڈٹ کی رپورٹ پر اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس ملک میں کیا ہو رہا ہے.آڈٹ کے لئے اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا اندرونی نگران مقرر کر رکھا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ایسے مواقع پیش نہیں آنے چاہئیں کہ آڈٹ کے نظام پر اتنا زور دینا پڑے کیونکہ آڈٹ کا نظام حقیقت میں اموال کی صحیح حفاظت یا پوری حفاظت نہیں کر سکتا.کوئی نگران جو بیرونی ہو وہ سچی اور حقیقی حفاظت اموال کی کر ہی نہیں سکتا.خدا تعالیٰ نے تقویٰ کا ایک اندرونی نگران مقرر فرما دیا ہے اور یہ وہ نگران ہے جس کا براہ راست عالم الغیب والشہادہ سے تعلق ہے کیونکہ تقویٰ خدا کی ذات سے پھوٹتا ہے.اس کا مستقل رشتہ ہمیشہ کا ایک رابطہ ہے اپنے رب کے ساتھ.اس لئے اس کو بھی خدا تعالیٰ نے عالم الغيب والشهادة كى صفات عطا فرما دی ہیں.تقویٰ کی آنکھ وہ بھی دیکھ رہی ہوتی ہے جو بیرونی آڈیٹر کو نظر آتا ہے اور وہ بھی دیکھ رہی ہوتی ہے جو بیرونی آڈیٹر کو نظر ہی نہیں آسکتا.ان باریکیوں تک بھی چلی جاتی ہے جو نیتوں کے پردوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں.اس لئے تقویٰ کی بصیرت کو تیز کریں اور اسی کی اپنا نگران بنا ئیں.اگر آپ اس طرح کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کے اموال میں بھی برکت پڑے گی اور جماعت کے اموال میں بھی ہر لحاظ سے برکت پڑے گی.اگر ایک آنہ آپ خرچ کریں گے تو تقویٰ کے ساتھ خرچ کیا جانے والا آنہ ایک آنے کی قیمت نہیں

Page 85

72 دیتا وہ بعض دفعہ لکھوکھہا روپے کی قیمت دے دیتا ہے.یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو اللہ پر ایمان لانے والے ہی سمجھ سکتے ہیں، دنیا دار کو اس بات کی سمجھ ہی نہیں آسکتی اور پھر بے شمار تقویٰ کے نتائج دور رس ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں جو آئندہ نسلوں تک بھی پہنچتے ہیں.اس لئے اس بارے میں جتنی بھی تاکید کی جائے کم ہے کہ خرچ کرنے والے تقویٰ کے معیار پر قائم ہوں اور اگر کسی کی آنکھ کے سامنے ان کے نقائص نہیں بھی آتے تب بھی خدا کا خوف اختیار کریں کیونکہ دنیا کے اموال کھانا بھی ایک بد دیانتی ہے اور مکروہ چیز ہے لیکن وہ مال جو دینے والوں نے پتہ نہیں کس کس پاکیزہ نیت کے ساتھ ، کسی پیار کے ساتھ کس محبت کے ساتھ کیا کیا قربانیاں کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور پیش کیا.اس مال پر منہ مارنا تو نہایت ہی گندی حرکت ہے.عام معیار سے بہت زیادہ گری ہوئی حرکت ہے." ( خطبات طاہر جلد 5 صفحہ 261-265) ہندوستان میں تحریک شدھی میں انصار کو اپنا کردار ادا کرنے کی تلقین (خطبہ جمعہ 22 اگست 1986ء) یہ بھی ایک تحریک ہے جو شدھی کی جس کا مقابلہ ہم بڑی کامیابی سے کر رہے ہیں.لیکن اگر ہندوستان کی حکومت یہ بجھتی ہے کہ اتنے خوفناک حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے جماعت اس طرح پھنس چکی ہے کہ وہ ہماری تحریک کو نظر انداز کر دے گی تو اس خواب و خیال کی دنیا سے باہر آجائیں.کسی قیمت پر بھی اسلام کے خلاف ہونے والے حملے کو جماعت احمد یہ ہر گز نظر انداز نہیں کر سکتی.کہیں بھی یہ حملہ ہو گا کہیں بھی اسلام کو بری آنکھ سے دیکھا جائے گا تو صف اول پر لڑنے کے لئے ہمیشہ جماعت احمدیہ کے خدام اور انصار اور ضرورت پڑی تو مستورات بھی سامنے آئیں گی.ہندوستان میں تحریک شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان اس لئے میں ہندوستان میں شدھی کی تحریک کے خلاف جہاد کا ایک عام اعلان کر رہا ہوں.اور اس وقت ناظر صاحب اعلیٰ بھارت حسن اتفاق سے یہیں موجود ہیں اور ایڈیشنل ناظر صاحب امور عامہ بھی یہاں موجود ہیں اس لئے ان کو اب جلد سے جلد واپس چلے جانا چاہئے مجھ سے ہدایات لے کر اور بڑی تیزی کے ساتھ اتنا نمایاں خدمت کا کام کرنا چاہئے کہ دشمن کی زبان سے اسکی پکار ہم سنے لگیں.دشمن کے قلم سے ان واقعات کو پڑھنے لگیں اور اس کی گونج سارے بھارت میں سنائی دینے لگے.اس شدت کے ساتھ اس

Page 86

73 تحریک کے خلاف جماعت احمدیہ نے انشاء اللہ تعالیٰ مقابلہ کرنا ہے اور باقی ساری دنیا کی جماعتیں جس طرح دعاؤں کے ذریعہ پاکستانی جماعتوں کی مدد کر رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے سہارے ان کو اپنی دعاؤں کے ذریعہ مہیا کرنے میں اپنی پوری سعی کر رہی ہیں اور ہم ان دعاؤں کے اثرات دیکھ بھی رہے ہیں.خدا کے فضل تو ویسے بھی نازل ہونے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ ایک عجیب خاص بندے سے پیار کا سلوک ہے کہ جب ان کاموں میں بھی جن کاموں میں خدا نے بہر حال یہ فیصلے کئے ہوتے ہیں کہ میں ان کو کر کے رہوں گا ان کاموں میں بھی بندہ کہتا ہے کہ اے اللہ ! میں بھی چاہتا ہوں کہ یہ ہو جائے تو وہ اور زیادہ شان کے ساتھ ان کاموں کو کرتا ہے یہ بتانے کے لئے کہ ہاں میں نے تیری آواز کو بھی سنا تیری کوشش کا بھی دخل ہو گیا ہے.جب آپ دھکیل رہے ہوتے ہیں کا رکو تو ایک کمزور اور نا تو ان آدمی اور لنگڑا بھی ہو بے چارہ وہ بھی اگر ہاتھ لگادے تو لوگ یہ تو نہیں کہا کرتے کہ جاؤ بھا گو تمہاری ضرورت نہیں ہے.اگر شرافت ہو، اگر حیاء ہو تو کہتے ہیں ہاں ہاں ہم تمہیں جگہ دیتے ہیں آؤ تم بھی شامل ہو اور تحسین سے اسکو دیکھتے ہیں.اللہ تو سب شکریہ ادا کرنے والوں سے زیادہ شکر یہ ادا کرنے والا ہے.ہر خدمت کرنے والے کو زیادہ احسان مندی کی نگاہ سے دیکھنے والا ہے." خطبات طاہر جلد 5 صفحہ 567-568) ذیلی تنظیمیں بچوں کی تربیت کی خاطر ماں باپ کی تربیت کا بھی اہتمام کریں خطبہ جمعہ 19 دسمبر 1986 ء) اس خطبہ کے لئے جس کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوں میرا ارادہ تھا کہ تربیتی مضمون اختیار کروں کیونکہ بار بار بعض تربیتی پہلو ایسے ہیں جن کا جماعت کو بتانا اور اس کی یاد دہانی کروانا بہت ضروری ہو جاتا ہے.وقتاً فوقتاً مختلف قسم کے مضامین میں چنتا ہوں اور پھر کوشش کرتا ہوں کہ ان کے کچھ پہلوؤں پر اچھی طرح روشنی ڈالوں.کچھ پہلو بچ جاتے ہیں پھر ان کو میں آئندہ کے لئے اٹھارکھتا ہوں اور وقتی ضروریات کے خطبے بھی بیچ میں آتے رہتے ہیں.بہر حال اس مرتبہ میں نے یہی ارادہ کیا تھا کہ تربیت سے متعلق جو عمومی رنگ ہے اس کے او پر میں کچھ بیان کروں گا لیکن اس عرصہ میں پشاور سے ہمارے ایک احمدی مخلص دوست جو خود احمدی ہوئے ہیں.جوانی سے ذرا آگے بڑھ کر درمیان کی جو عمر ہے اس میں اور بڑا عملی ذوق رکھتے ہیں نفسیات ان کا مضمون رہا ہے، جماعتی دینی معاملات میں سوچ بچار پر ان کے نفسیات کے مضمون کا بھی اثر پڑتا رہتا ہے ان کی طرف سے ایک ایسے ہی مضمون سے متعلق خطبہ دینے کے لئے یا جماعت کو عمومی نصیحت کرنے کے لئے مجھے متوجہ

Page 87

74 کیا گیا ہے اور نصیحت کا ایک خاص پہلو ہے جو ان کے پیش نظر تھا.ان کو چونکہ سوچ بچار کی عادت ہے مختلف تربیتی مسائل پر غور کرتے رہتے ہیں اس لئے وہ لکھتے ہیں کہ میں نے جماعتی نظام پر بہت غور کیا اور کرتا رہتا ہوں اور جتنا غور کیا میں حیرت میں ڈوبتا چلا گیا کہ حضرت مصلح موعود کواللہ تعالیٰ نے کیسا عظیم الشان اور کامل تربیتی نظام قائم کرنے کی توفیق بخشی ہے لیکن ایک پہلو ایسا ہے جس کے متعلق میرا ذہن پوری طرح مطمئن نہیں ہو سکا اور بار ہا خیالات میرے دل کو کریدتے رہے کہ یہ پہلو کیوں تشنہ ہے اور وہ ہے پیدائش سے لے کرسات سال کی عمر تک بچوں کو کسی نظام کے سپرد نہ کرنا.وہ لکھتے ہیں کہ انسانی عمر کے جو مختلف ادوار ہیں نفسیاتی لحاظ سے سب سے اہم دور یہ ابتدائی دور ہے اس دور میں بچہ جو سیکھ جائے وہ سیکھ جاتا ہے اور پھر مزید سیکھنے کی اہلیت اس میں پیدا ہو جاتی ہے اور اگر اس دور میں کسی پہلو سے اس کی تعلیم میں تشنگی رہ جائے تو بسا اوقات بڑی عمر میں جا کر وہ قشنگی پوری ہو ہی نہیں سکتی اور وہ پہلو ہمیشہ کے لئے ایک خلا بن جاتا ہے جس طرح بعض دفعہ شیشہ ڈھالتے وقت اندر بلبلے رہ جاتے ہیں اس طرح انسانی دماغ میں بھی بعض علمی پہلوؤں سے بلبلے رہ جاتے ہیں اور یہ بات ان کی درست ہے.بچوں کو چھوٹی عمر میں زبانیں سکھلائیں میں نے بھی جہاں تک مطالعہ کیا ہے بعض سائنسدان تو اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ چھوٹی عمر میں ہی اگر زبان سکھائی نہ جائے اور لمبا خلا مثلاً سات آٹھ سال تک مسلسل خلا چلا جائے تو اس کے بعد بچہ کوئی زبان سیکھ ہی نہیں سکتا.یعنی پھر جتنا چاہیں آپ زور لگا ئیں جتنی چاہیں کوشش کر لیں وہ مستقل خلاء پیدا ہو جائے گا.اسی طرح بعض علوم یا بعض ذوق ایسے ہیں جو بچپن میں پیدا نہ ہوں تو پھر آگے پیدا نہیں ہوتے.تو ان کو یہ خیال آیا کہ کیوں ان کو کسی تنظیم کے سپردنہیں کیا گیا.امر واقعہ یہ ہے کہ اس عمر میں بچے ماں اور باپ کے سپرد ہیں اور اس پہلو سے قرآن کریم بھی روشنی ڈالتا ہے اور احادیث میں بھی کثرت سے اس کا ذکر ملتا ہے.ہاں ان کو اس طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے ، بار بار یاد دہانی کی ضرورت ہے.چند لمحات کے بعد بچے کے کان میں اذان دینا اور دوسرے کان میں تکبیر کہنا یہ ایک بہت ہی عظیم الشان اور گہر احکم ہے اور یہ بتانے کے لئے ہے کہ بچے کی عمر کا ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ہے جو تربیت سے خالی رہے اور کوئی لمحہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق تم جوابدہ نہیں ہو گے.عملاً جب ہم اذان دیتے ہیں تو بچہ تو اس اذان کے لئے جوابدہ نہیں ہے نہ اس تکبیر کے لئے جوابدہ ہے نہ ان باتوں کو سمجھ رہا ہے.ماں باپ کو متوجہ کیا جارہا ہے جوابدہ تم نے پہلے دن سے دینی رنگ میں تربیت کرنی ہے.اگر نہیں کرو گے تو تم جوابدہ ہو گے اس میں اور بھی بہت سی حکمتیں ہیں لیکن ایک بڑی اہم حکمت یہ ہے.

Page 88

75 بچپن میں سات سال کی اہمیت تو قرآن کریم میں جب فرماتا ہے قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا تو اس میں جہاں تک اولاد کا تعلق ہے یہ بچانے کا عمل پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اور اگر سات سال کی عمر خصوصیت کے ساتھ اہمیت رکھتی ہے جیسا کہ سائنسدان کہتے ہیں اور بعض فرق بھی کرتے ہیں بعض سات سال کو کچھ بڑھا دیتے ہیں بعض کچھ کم کر دیتے ہیں لیکن عموماً اس پر یہ اتفاق ہے کہ سات سال کے لگ بھگ عمر بہت ہی اہمیت رکھتی ہے وہاں پہنچ کر بچہ نفسیاتی لحاظ سے پختگی میں داخل ہو جاتا ہے یعنی پختگی کی جانب قدم اٹھانے لگتا ہے تیزی سے اور وہ کچی عمر نفسیاتی جواثر کو قبول کرنے والی عمر ہوتی ہے وہ سب سے زیادہ حساس سات سال سے پہلے پہلے ہی ہے.اس لئے جہاں تک اس کی اہمیت کا تعلق ہے اس سے تو کوئی انکار نہیں ہے لیکن جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو دیکھتے ہیں تو جہاں تک فرائض کا تعلق ہے ان کا آغا ز سات سال کی عمر سے نرمی کے ساتھ ہوتا ہے اور تربیت کا جو ظاہری رسمی دور ہے وہ سات سال کے بعد ہی شروع ہوتا ہے.دس سال کی عمر کے بعد بچوں کو مارنے کی اجازت بھی مل جاتی ہے اور بارہ سال کی عمر کے بعد پھر ان کو اتنا پختہ سمجھا جاتا ہے کہ اب وہ بالکل آزاد ہیں نصیحت کرو لیکن ان پر ہاتھ نہیں اٹھانا.جو کچھ تم نے کرنا تھا تم کر چکے ہو اس خیال سے جماعتی نظام میں اطفال کی عمر سات سال کے بعد مقرر کی گئی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے اس عمر کی یہ اہمیت تو بہر حال ملتی تھی کہ اس کے بعد تربیت رسمی طور پر بھی با قاعدہ شروع کر دی جائے لیکن دوسرے ارشادات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تربیت کا دور پہلے بھی جاری تھا.اس کے کچھ اور پہلو ہیں اور اس دور کے بعد کچھ اور پہلو ہیں.اس نقطۂ نگاہ سے جب ہم مزید غور کرتے ہیں تو بعض اور ایسے ارشادات نظر آتے ہیں جس کا اس مضمون سے تعلق ہے مثلاً بچے کی خیار کی عمر کیا ہے؟ یہ ایک ایسی بحث ہے جو فقہاء میں چل رہی ہے کہ اگر بچے سے یہ پوچھنا ہو کہ تم نے ماں کے پاس رہنا ہے یا باپ کے پاس جانا ہے علیحدگی کی صورت میں تو وہ کون سی عمر ہے.بہت سے فقہاء سات سال کی عمر بتاتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو نو سال یا دس سال کی عمر بتاتے ہیں لیکن سات سال سے کم نہیں کوئی بتاتا ہے.سات سال کا یقینا کوئی تعلق ضرور ہے اور سات سے دس سال کی عمر اس لحاظ بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ یہ ایک موڑ کا دور ہے.سات سال سے پہلے کچا دور ہے اثر پذیر ہونے کا.سات سال کی عمر تک اپنے فیصلے کا کچھ نہ کچھ اختیار بچے کو ہو جاتا ہے، کچھ شعور پیدا ہو جاتا ہے اور اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سات سال کی عمر سے اس کو نصیحت کر کے نمازیں پڑھاؤ.(ابو داؤد كتاب الصلواة حديث نمبر : 417)

Page 89

76 عبادات کے مزے چکھانے شروع کر دو.معلوم ہوتا ہے اس میں یہ فیصلے کی قوت پیدا ہو چکی ہے کہ ہاں میں نے کچھ کرنا ہے.اس لئے اس اختیار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو بتانا شروع کر دو لیکن Passive یعنی ایسے رنگ میں اثر کو قبول کرنا کہ جس میں ارادے کا نمایاں دخل نہ ہو یہ عمر جتنی چھوٹی ہواتنا ہی اس عمل میں زیادہ شدت پائی جاتی ہے.اس لئے جتنا چھوٹا بچہ ہوا تنازیادہ اثر پذیر ہوتا ہے قوت فیصلہ کے ذریعہ نہیں بلکہ طبعی طور پر Instinctive طور پر.وہ جب ماں باپ کو مسکراتے دیکھ رہا ہوتا ہے تو بعض دفعہ ماں باپ کی مسکراہٹ کی ایک جھلک بلا ارادہ اس کی مسکراہٹ میں اس طرح داخل ہو جاتی ہے کہ وہ بڑھاپے تک قائم رہتی ہے.ماں باپ کی باتیں کرنے کا طریق ، ان کے غصے کا اظہار کیسے ہوتا ہے، وہ خوش کیسے ہوتے ہیں.یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو بچہ قبول کر رہا ہے لیکن ارادہ کے ساتھ نہیں کر رہا اور چونکہ ارادے کے ساتھ نہیں کر رہا اس لئے ایک طبعی فطری عمل کے طور پر چیزیں اس کے اندر داخل ہورہی ہیں.جو چیزیں اس دور میں طبعی فطری عمل کے طور پر اس کے اندر داخل ہو جائیں بعد میں ان کو بالا رادہ طور پر ڈھال لینا اور ان کو زیادہ خوبصورت بنادینا یہ ممکن ہے لیکن جو اس عمر میں اس کے اندر داخل ہی نہ ہوئی ہیں وہ خلا ہیں جو پھر بعد میں بھرے نہیں جاسکتے.سات سال سے قبل بچوں کو تنظیموں کے سپرد نہ کرنے کی حکمت اس لئے جب ہم سات سال کی عمر سے پہلے بچے کو تنظیموں کے سپرد نہیں کرتے ہیں تو دوسری حکمتوں کے علاوہ ایک حکمت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادے کو ڈھالنے کے لئے تو اجازت دی ہے اس طرح کیونکہ شریعت میں اپنا ارادہ شامل ہونا ضروری ہے.شریعت میں صرف دوسرے کا ارادہ کافی نہیں ہے.اس لئے جہاں شرعی فرائض یا مناہی آجاتے ہیں وہاں سات سال سے پہلے بچے کو احکام جاری کرنے کی اجازت نہیں ہے.ایسیا حکام جاری کرنے کی اجازت نہیں بچن احکام میں اس کے ارادے کا دخل ہو پس یہ وہ فرق ہے جس کو ملحوظ رکھنا چاہئے.دوسری اہمیت اس بات کو بہت ہے کہ بہت چھوٹی عمر میں بچوں کو ماں باپ کے سوا کسی دوسرے کے زیراثر لانا یہ خود ایک غیر نفسیاتی حرکت ہے.اگر آپ بہت چھوٹی عمر میں بچوں کو ان کے ماں باپ سے علیحدہ کر دیں یا ماں باپ کے متعلق یہ سمجھیں کہ ان کو ان بچوں کی تربیت کا حق نہیں بلکہ اس سے زیادہ کسی تنظیم کو حق ہے تو یہ عملاً اشتراکیت کی طرف ایک نہایت ہی سنگین قدم ہے اور واقعہ اشترا کی نظریہ کے ساتھ اس کا گہرا جوڑ ہے.یعنی ایسا نظریہ جو سطحی اشتراکیوں کا نظریہ نہیں بلکہ جو ان کے فلسفے کی جان ہے اس نظریے کی روح سے اگر آپ دیکھیں تو ان کے نزدیک سوسائٹی بالغ ہی تب ہوگی جب پہلے دن کا بچہ بھی سٹیٹ کے زیر اثر آ جائے.

Page 90

77 - وہ فلسفہ یہ کہتا ہے کہ جب ماں اور باپ بچوں پر اثر ڈالنا شروع کریں ابتدائی عمر میں اس کے بعد سٹیٹ پھر اپنی مرضی میں ان کو پوری طرح ڈھال ہی نہیں سکتی ہے.وہ بھی یہ جانتے ہیں ، اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ابتدائی دور بہت اہمیت رکھتا ہے.اس لئے وہ کہتے ہیں کہ پہلے دن کا بچہ ہی سٹیسٹ کا بچہ ہے ، ماں باپ کا ہے ہی نہیں اور ماں باپ کا ہونا یہ ایک تصور پایا جاتا ہے کہ اس ماں باپ کا بچہ ہے، اس تصور کی جڑ ضرور کاٹنی ہے.اس لئے شادی کا نظام ہی اٹھ جانا چاہئے.یہ ہے ان کی آخری تھیوری یعنی اس نظریے کا آخری قدم.مذہبی سوسائٹی میں جب وہ باتیں کرتے ہیں تو اس طرح پوری تفصیل سے وہ اپنے اس نظریے سے واقف نہیں کرواتے.ان کو یہ ڈر ہے کہ اگر مثلاً پاکستان کے غرباء میں خواہ وہ کتنے ہی غریب کیوں نہ ہوں یہ بتایا جائے کہ بالآخر جب تم کیمونسٹ ہو جاؤ گے اور اشتراکیت کا یہاں قبضہ ہو جائے گا ہم یہ سلوک تم سے کریں گے، تمہارا شادی کا نظام ختم کر دیں گے تمہیں اپنے بچوں کا پتہ بھی نہیں لگنے دیں گے ہسپتالوں میں جا کر بچے کرواؤ گے اور ہسپتالوں کے جو بچے ہیں وہ حکومت اٹھا لے گی.ماں کو فارغ کر کے پھر کارخانے بھیج دیا جائے گا یا جہاں بھی اس کو بھجوانا ہوگا.یہ ایسا بنیادی نظریہ ہے جس کو ٹالا نہیں جاسکتا ہے.جب پوچھا جائے کہ آپ اس پر عمل کیوں نہیں کر رہے تو کہتے ہیں کہ ابھی ہم پختہ نہیں ہوئے ،ابھی اشتراکیت کا بہت سا حصہ ایسا ہے جو عمل کی دنیا میں نہیں ڈھالا گیا ہے کیونکہ ہم ابھی اس کو پوری طرح قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے.لیکن لاز ما آخری قدم یہ اٹھنا ہے ورنہ اس کے بغیر اشتراکیت کا نظام ستحکم نہیں ہوسکتا ہے، اس کے اندر تضادات رہ جائیں گے.تربیت میں والدین کی ذمہ داریاں تو اس پہلو سے بھی دیکھا جائے تو سات سال تک کی عمر کی اہمیت یعنی پہلے دن کے بچے کی اہمیت ان لوگوں کے ذہن میں بھی واضح ہے لیکن اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کلیہ بچوں کو اپنا لویعنی نظام کے سپر د کر دو.ہاں ماں باپ کے اوپر ذمہ داریاں بڑھاتا چلا جاتا ہے اور ان کو بار بار توجہ دلاتا چلا جاتا ہے.اسلام میں چونکہ عائلی نظام ہے اور عائلی نظام کا اس سوشلسٹ تصور سے ایک براہ راست ٹکراؤ ہے، بیک وقت دونوں قائم نہیں رہ سکتے.اس لئے حضرت مصلح موعودؓ جو دین کی گہری فراست رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی تائید اور ہدایت کے تابع خواہ وہ لفظوں میں ہو یا عملاً ہو، اس کے تابع جماعت احمد یہ کیلئے ایک اصلاح کا نظام قائم فرمارہے تھے اور چونکہ آپ کے اوپر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان مقبول دعاؤں کا سایہ تھا جو آپ کی پیدائش سے بھی پہلے کی گئی تھیں اور آپ کی پیدائش سے بھی پہلے ان کی مقبولیت کے متعلق آپ کو کھلے لفظوں میں مطلع کر دیا گیا تھا کہ جس طرح کا تم چاہتے ہو ویسا ہی بیٹا میں تمہیں عطا کروں گا.اس لئے حضرت مصلح موعودؓ سے اس بنیادی معاملہ میں غلطی ہو ہی نہیں سکتی تھی.یہ حکمت تھی سات سال کے بعد بچوں کو نظام

Page 91

78 کے سپرد کرنے کی اس سے پہلے دخل دینے کی اجازت نہ دینے کی اور اس نظام کو جو بڑے گہرے شرعی فلسفے پر مبنی ہے کوئی خلیفہ بھی آئندہ تبدیل نہیں کر سکتا لیکن جو ان کو خلا نظر آ رہا ہے وہ خلا اپنی جگہ موجود ہے اس کی طرف توجہ دلانا خلفاء کا کام ہے اور ماں باپ کو یاد دہانی کروانا جن کے بچے ہیں اور جن کے سپرد ہیں اور جو پوچھے جائیں گے جن کے متعلق قرآن کریم کا حکم ہے قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو آگ کے عذاب سے بچاؤ.تو سوسائٹی ان بچوں سے زیادہ پیار رکھتی ہے زیادہ، ہمدردی رکھتی ہے، زیادہ ان پر حق رکھتی ہے، بہ نسبت ان کے جنہوں نے بچپن کے زمانہ میں بڑی مصیبتیں جھیل کر اور بڑی قربانیاں دے کر اپنی اولا د کو پروان چڑھایا ہے جو ان کے خون سے بنے ہیں ، ان کی ہڈیوں کے حصے ان میں داخل ہوئے ہیں.ان کے عملاً جگر گوشے ہیں ان سے ان کو الگ نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی ذمہ داریوں کی طرف ان کو متوجہ کیا جاسکتا ہے.پھر یہ زمانہ محنت طلب بہت ہے.اس وقت سوسائٹی کی نظر میں جو بچے ہیں چھوٹی عمر کے بچے ان کو تو بچے صرف اس وقت اچھے لگتے ہیں جب وہ تیار ہو کر سج دھج کر باہر نکل آئیں جب وہ بیمار نہ ہوں ، جب وہ ضد نہ کر رہے ہوں ، جب وہ شور نہ مچارہے ہوں، جب کوئی چیز نہ توڑ رہے ہوں اس وقت وہ سوسائٹی کو بڑے پیارے لگتے ہیں.جب ان میں سے کوئی حرکت شروع کر دیں تو دیکھنے والوں کے اچانک تیور بدلنے لگتے ہیں.آپ کے گھر میں بچہ کسی دوست کا آجائے تو آپ دیکھیں آپ کوکتنا پیارا لگے گا اگر وہ بڑ اسجا دھجا اچھی اچھی باتیں کر رہا ہے لیکن جس وقت اس نے آپ کے گلدان پر توڑنے کے لئے ہاتھ ڈالا تو پھر دیکھیں آپ کے تیور کیسے بدلتے ہیں.جس وقت اس کا کوئی فضلہ نکلا، بد بو پھیلی اور پھر اسی حالت میں کرسیوں پر بیٹھنے لگایا کھانے میں ہاتھ ڈال کر اس نے آپ کے کپڑوں سے ملنے کی کوشش کی پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ بچے کیا ہوگا.اس عمر میں بچوں کو غیروں سے سپرد کر دینا جو اتنا حوصلہ ہی نہیں رکھتے کہ ان کے منفی پہلوؤں میں بھی حو صلے کے ساتھ چل سکیں جن میں استطاعت ہی نہیں ہے کہ وہ ان کے تکلیف دہ حصوں کو کشادہ پیشانی کے ساتھ اور مسکراہٹ کے ساتھ برداشت کر سکیں.یہ تو ماؤں کا جگرا ہے کہ رات کو بھی اٹھتی ہیں اور ان کی ہر مصیبت اور ہر تکلیف کے وقت ان کا ساتھ دیتیں اور ان کو صاف ستھرا بناتی.جب وہ تیار ہو کر باہر آجائیں تو ان سے پیار کر لینا یہ تو کوئی اتنی بڑی انسانیت نہیں ہے یہ تو ایک طبعی اور فطری چیز ہے پھول سے بھی تو آپ پیار کر لیتے ہیں.کانٹے سے پیار، یہ ہے امتحان اور اس امتحان پر مائیں پورا اترا کرتی ہیں یا باپ پورا اترتے ہیں کسی حد تک.سوسائٹی اس بات کی اہل ہی نہیں ہے کہ وہ اس حالت میں ان بچوں کو پکڑے.جب شعور کی دنیا میں وہ داخل ہورہے ہو نگے پھر وہ آپ کی دنیا ہو جائے گی پھر آپ بھی شعور کی دنیا میں رہنے والے ہیں آپ ایسی باتیں ان سے کر سکتے ہیں جس کی زبان وہ سمجھیں اور اس زبان میں وہ آپ کو جواب دیں.

Page 92

79 بچوں کی تربیت میں اسلام کا نظام بہت گہرا اور متحلم ہے پس اسلام کا نظام ایک بہت ہی گہرا اور مستحکم نظام ہے اس میں خلا کوئی نہیں ہے لیکن ذمہ داریاں الگ الگ ہیں اور معین کی گئی ہیں.اس لئے جہاں تک اس ضرورت کا تعلق ہے جو ہمارے اس مخلص دوست کو محسوس ہوئی ہے اس سے ایک ذرہ کا بھی مجھے اختلاف نہیں.ہاں جو طرز ان کے ذہن میں ابھری اس سے مجھے اختلاف ہے جس کے دلائل میں نے بیان کئے کہ کیوں اختلاف ہے.لیکن میں ماں باپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ہے خصوصاً ایسے علاقوں میں بسنے والے ماں باپ پر جیسے یہ علاقہ ہے جہاں ہم آج کل بس رہے ہیں اور آج کل زندگی کے دن گزار رہے ہیں ، جیسے یورپ کی اور ریاستیں ہیں، جیسے مشرق بعید کی بعض ریاستیں ہیں جیسے ہندوستان کے بعض علاقے ہیں.ان سب علاقوں میں غیر معمولی طور پر غیر اسلامی قدریں غالب ہیں.سکول جانے کی بچے کی جو عمر ہے وہ سات سال سے پہلے شروع ہو جاتی ہے اور اس عمر میں جو نہایت ہی حساس عمر ہے یعنی چار سال یا ساڑھے چار سے لے کر سات سال کا زمانہ یہ خصوصیت کے ساتھ خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے.جو بچے وہاں ننگے بچوں کو کھیلتے دیکھتے ہیں جنگی لڑکیوں کو نہاتے دیکھتے ہیں اور اس قسم کی بہت سی حرکتیں ناچ گانے.آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ بچے ہیں ان کے اوپر بہت ہی گہرے اثرات مترتب ہورہے ہیں اور بعض دفعہ اس رنگ میں احساسات ان کے ذہنوں کے نقش و نگار بن رہے ہوتے ہیں کہ بعد میں آپ کھرچنے کی کوشش کریں تو زندگی کھرچی جاسکتی ہے مگر وہ نقش و نگار نہیں کھرچے جاسکتے ہیں.مستقلاً انکے نفسیاتی وجود کا ایک حصہ بن چکے ہوتے ہیں جس طرح کسی سانچے میں کوئی چیز پگھلی ہوئی ڈال دی جائے جب وہ جم جائے گی تو پھر توڑی جاسکتی ہے پھر وہ ڈھالی تو نہیں جاسکتی.اس لئے نہایت ہی اہم دور ہے اس دور میں ماں باپ کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے کہ وہ ایسے بداثرات کے مقابل پر بالا رادہ نیک اثرات پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس میں ان کے لئے بہت سے ایسے پہلو ہیں جن پر ان کو خود عمل کرنا پڑے گا.اپنی زندگی کی نہج بدلے بغیر وہ اس عمر میں بچے پر نیک اثر نہیں ڈال سکتے.وہ سنے سے زیادہ دیکھ کر اثرات قبول کر رہا ہے.سن کر بھی کرتا ہے تو لاشعوری طور پر کر رہا ہے.سمجھ کر نہیں کر رہا طبعا فطرتا جس کو Instinct کہتے ہیں Instinct کے ذریعہ جو چیز اس کو اچھی لگ رہی ہے وہ اسے قبول کر رہا ہے اور Instinct کے ذریعہ جو چیز سے بری لگ رہی ہے وہ اس سے دور ہٹ رہا ہے.کھانے کے معاملہ میں آپ دیکھ لیں اس عمر میں آپ بچے کو لاکھ کوشش کریں گے کہ یہ چیز اچھی ہے یہ کھاؤ وہ کہے گا کہ نہیں مجھے نہیں اچھی لگتی لیکن جب وہ سات سال یا اس سے بڑا ہو جائے یا کم و بیش اس عمر کو پہنچے تو پھر وہ بات کو سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں میں کوشش کرتا ہوں اور کچھ دیر کوشش کے بعد اس کو اچھی بھی لگنے لگ جاتی ہے بعض بیوقوف مائیں جو چیز ان کے نزدیک اچھی ہوتی ہیں وہ بچے کو مار مار کے کھلا رہی ہوتی ہیں یہ سوچ ہی نہیں سکتیں کہ یہ

Page 93

80 بہت بھیانک حرکت ہے.بعض دفعہ اس سے ہمیشہ کے لئے نفرت پیدا ہو جاتی ہے بعض دفعہ نفسیاتی بیماریاں ایسی پیدا ہو جاتی ہیں اس لئے ہرگز کبھی ایسی حرکت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے.تو زبردستی کی عمر بہر حال نہیں، پیار کی عمر ہے اور پیار کی عمر بھی ایسی کہ دلکشی کی عمر ہے اگر آپ دلکشی کے ذریعہ سے اس بچے کی فطرت پر اثر انداز ہوں گے تو بچہ اثر کو قبول کرے گا.بھیا نک بن کر آپ اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتے.طوعا و کرها دو ہی پہلو ہیں.اسکو بھیانک بنیں تو دور بھاگے گا ہر اس قدر سے جس کے لئے آپ بھیا نک بن کر کوشش کرتے ہیں اس میں آپ نا کام ہو جائیں گے اور دور بھاگے گا.اس چیز سے جس کی طرف آپ اس کو لانا چاہتے ہیں اس کو پیار ہونا ضروری ہے اور وہ دلکشی سے ہوسکتا ہے زبر دستی کا پیار بھی ممکن ہی نہیں ہے.اس کے لئے ماں باپ کو بڑی ذہانت کے ساتھ اور بیدار مغزی کے ساتھ اپنے بچوں میں اس عمر میں دلچسپی لینی چاہئے.اگر نماز کی محبت پیدا کرنی ہے تو اگر اپنے ماں باپ کو سج دھج کر با قاعدہ پیار کے ساتھ ، سلیقہ کے ساتھ نماز پڑھتے دیکھیں گے تو شروع میں ہی بیشتر اس کے کہ وہ سکول جانے لگیں ان کے دل میں نماز کی محبت پیدا ہو چکی ہوگی اگر بعض اور آداب دیکھیں گے تو ان کے دل میں بھی ان کا پیار پیدا ہو چکا ہوگا.ٹیلیویژن کے پروگرام ہیں ان کے متعلق بہت سی باتیں کہنے والی ہیں وہ بعد میں کسی وقت انشاء اللہ وقت ملا تو کہوں گا.لیکن اس میں بھی اختیار کی باتیں ہیں شروع میں چھوٹی عمر میں آپ ان کو ٹیلیویژن سے نوچ کرا لگ تو پھینک نہیں سکتے لیکن کس حد تک ٹیلیویژن دیکھنے دینا ہے، کیا دیکھنا ہے ان کے ساتھ بیٹھ کر کیا تبصرے کرنے ہیں.کس طرح فطرتا آہستہ آہستہ بعض اچھی چیزوں کا پیار بڑھانا ہے بعض بُری چیزوں سے روکنا ہے.یہ تو ایک بہت ہی گہرا حکمت کا کام ہے بڑی جان سوزی بھی چاہتا ہے اور دماغ سوزی چاہتا ہے اور ان سارے امور میں قرآن کریم اور سنت نبوی نے ہمارے لئے راستے روشن کئے ہوئے ہیں.کوئی ایک بھی راستہ ایسا نہیں ہے ایک بھی ڈنڈی ایسی نہیں جس پر آپ قدم رکھنا چاہیں اور اندھیرے آپ کو ڈرائیں اگر آپ نے قرآن اور سنت کا مطالعہ کیا ہو کیونکہ جہاں بھی اور جس ڈنڈی پر بھی آپ قدم رکھنا چاہیں گے وہاں قرآن اور سنت کی کوئی نہ کوئی مشعل روشن ہوگی وہ آپ کی رہنمائی کر رہی ہوگی.بچوں کی تربیت کے لئے ماں، باپ کی تربیت ضروری ہے تو اس لئے میں نے یہ سوچا کہ چونکہ بہت سے ماں باپ بلکہ اکثر ماں باپ ان باتوں میں خود نا بلد ہیں کہ ان کو کیا کرنا چاہئے اور اس بات کی اہلیت نہیں رکھتے اور بچوں کی تربیت ہم براہ راست کر نہیں سکتے اس لئے اس کا ایک ہی علاج ہے کہ اس عمر کے بچوں کی تربیت کے لئے ماں باپ کی تربیت کی جائے اور اس کے لئے یہ کام ہم تنظیموں کے سپرد کر سکتے ہیں.یہ پروگرام انصار اپنے ہاتھ میں لیں، خدام اپنے ہاتھ میں لیں اور لجنات اپنے ہاتھ میں لیں.ان کا کام یہ نہیں ہے کہ بچوں کے معاملہ میں والدین کے کام میں براہ راست

Page 94

81 دخل دیں بلکہ ایسے پروگرام بنائیں جو جلسوں کی شکل میں بھی ہوں عملی پروگراموں کی شکل میں بھی ہوں اور تربیتی رسالوں اور کتب کی شکل میں بھی ہوں اور ان کا صح نظریہ ہو کہ ہم نے ماں باپ کی تربیت کرنی ہے کہ وہ چھوٹے بچوں کی تربیت کر سکیں اور ایسے پروگرام اس طرح بنانے چاہئیں کہ وہ خشک نہ ہوں ان میں دلچپسی ہو.بعض ماؤں کو اللہ تعالیٰ نے بڑا سلیقہ دیا ہوتا ہے بچوں کی تربیت کا اور وہ گہری نظر کے ساتھ مطالعہ بھی کرتی چلی جاتی ہیں.اس طرح بعض باپوں کو بھی اللہ تعالیٰ خاص شعور بخشتا ہے اور اس قسم کے واقعات تاریخ انبیاء میں بھی پھیلے پڑے ہیں.قرآن کریم نے انبیاء کی جو تاریخ محفوظ کی ہے اس میں یہ واقعات پھیلے پڑے ہیں.اور اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں یہ واقعات پھیلے پڑے ہیں اور خود آپ کے بچپن میں یہ واقعات پھیلے پڑے ہیں آپ اگر اپنے بچپن کی یادیں تازہ کریں کسی دن تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ جب بہت چھوٹے ہوتے تھے تو کن چیزوں نے آپ پر بد اثرات ڈالے تھے اور کن چیزوں نے آپ پر نیک اثرات ڈالے تھے.کون سی چیزیں جن کی یاد میں آج بھی دل مہک اٹھتا ہے اور وہ آپ کے بعض نیکیوں کے ساتھ متعلق ہیں.قرآن کریم جو فرشتے مقرر فرماتا ہے ان کا ایک نہایت ہی لطیف نظام ہماری فطرت کے اندر جاری ہے.ہم اکثر اس کو محسوس نہیں کرتے ہیں اگر آپ بیدار مغزی کے ساتھ ان فرشتوں سے تعلق جوڑنے کی کوشش کریں تو آپ کا تعلق ان سے قائم بھی ہوسکتا ہے.ہر انسان کے اندر کچھ خوبیاں ہیں، کچھ بدیاں ہیں اور ان کی ایک تاریخ اس کے ذہن میں محفوظ چلی آ رہی ہے.اگر اس کو اپنے اندر ڈوبنے کا سلیقہ ہو، عادت ہو سو چنے اور غور کرنے کی تو بسا اوقات یہ ممکن ہے کہ اگر سب نہیں تو اکثر بدیوں کے ساتھ سفر کرتا ہوا بچپن کے اس مقام تک پہنچ سکتا ہے جہاں پہلی دفعہ وہ بدی پیدا ہوئی اور اس کے لئے دل میں کشش پیدا ہوئی ، کیوں ہوئی تھی اور وہ بدی کا فرشتہ جو اس کے ساتھ ہے اس کو شیطان کہا جاتا ہے.پتہ ہے کہ کون سا شیطان تھا کس وقت آیا تھا کس وقت اس نے میرے ذہن کے کس حصہ پر قبضہ کر لیا تھا اور آج تک وہ چل رہا ہے ساتھ اور اسی طرح اس بدی کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور آگے بھاگتا چلا جاتا ہے.تَوزُهُمْ أَذًا ( مریم): 84) آگے بڑھاتا ہے اور اکساتا چلا جاتا ہے اور اسی طرح اگر وہ اپنی نیکیوں کا تجزیہ کرے تو اس کو معلوم ہوگا کہ بچپن میں کسی زمانہ میں کسی خاص چیز کے ساتھ کسی خاص وجہ سے پیار ہو گیا تھا اور وہ وجہ اس کی نیکی کا فرشتہ ہے وہ اس کی اس نیکی کی حفاظت کرتا ہے، ہمیشہ اور اس کے قدم آگے بڑھاتا ہے.اگر آپ Consciously آنکھیں کھول کر ذہن کو روشن کر کے انبیاء کی سیرت اور سنت کا مطالعہ کریں اور پھر خود اپنے واقعات پر غور کریں اور اپنے نفس میں ڈو میں تو آپ کے اندر سے ایک نہایت ہی شاندار مربی رونما ہوگا.آپ کی ذات کے اندر سے وہ شخص پیدا ہوگا جو اللہ کے فضل سے نہایت ہی عمدہ تربیت

Page 95

82 کے طریقے جاننے والا ہوگا اور خدا کے فضل سے عملاً ایک اچھی نسل پیدا کرنے کی اہلیت رکھتا ہوگا لیکن چونکہ بہت سے دوست بدقسمتی سے ان علمی، روحانی ، نفسیاتی سفروں کے قابل نہیں ہوتے ، قابل تو خدا نے سب بنائے ہیں لیکن عادت نہیں پڑی اور غالبا یہ بچپن ہی کا خلا ہے.پہلے سات سال یا چھوٹی عمر میں ان کا ذہن دوسری طرف مائل رہا سطحی چیزوں کی طرف مائل رہا.مثلاً آج کل جو ٹیلیویژن دیکھنے والے جو بچے ہیں ان کا دماغ اس دنیا کی بجائے Space میں زیادہ رہتا ہے.فرضی جن ، فرضی کائنات کے مالک اور قابض لوگ اور فرضی ہتھیاروں کے ساتھ حملہ کرنے والے.اس قسم کی چیزوں میں وہ بسنے لگ گئے ہیں.روز مرہ کے انسانی مسائل سے ان کو الگ کر دیا گیا ہے.شاذونادر بچوں کا کوئی پروگرام دیکھیں گے جن میں انسانی ہمدردی سے تعلق رکھنے والے، انسانی برائیوں سے تعلق رکھنے والے انسانی خوبیوں سے تعلق رکھنے والے، پروگرام اس طرز سے دیئے گئے ہوں کہ بچے کو برائیوں سے نفرت اور خوبیوں سے پیار ہونے لگے.سکول کے سلیبسز میں بھی اس قسم کی نہایت ہی خوفناک تبدیلیاں آچکی ہیں.بچوں کی تربیت پر کتب لکھنے کے لئے تمام تنظیمیں اپنے Pool بنا ئیں اس پہلو سے بھی دیکھیں تو جماعت کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے.بہت باشعور مربیوں کی ضرورت ہے اور چونکہ عملاً واقعہ ایسا ہونا فوری طور پر ممکن نظر نہیں آرہا.جب سچائی کی نظر سے دیکھیں تو اکثر دوستوں کو بدقسمتی سے اس سے محروم پاتے ہیں.اس لئے ان لوگوں کی تربیت کے لئے یعنی ہر فرد بشر کی تربیت کے لئے نظام جماعت کو یہ کام اپنے ہاتھ میں لینا چاہئے.ان میں باشعور لوگ بھی ہوں گے ، ان میں اچھی اور دلچسپ سو چھیں رکھنے والے لوگ بھی ہوں گے.ہر قسم کی عورتیں بھی ملیں گی ، ہرقسم کے مرد بھی ملیں گے.تو اپنی اپنی تنظیم کے Pool بنا ئیں ان کے خیالات، ان کے تجارب کا.وہ کتا بیں بھی لکھیں لیکن پیش نظر ماں باپ ہوں اور ماں باپ پیش نظر ہوں خاص عمر کے بچوں کی خاطر.اس نقطہ نگاہ سے آپ کوشش کریں اور جن ماں باپ تک میری بات ویسے ہی براہ راست پہنچ رہی ہے ان کو انفرادی طور پر بھی اپنی ذمہ داری کو قبول کرنی چاہئے اور بیدار رہنا چاہئے کیونکہ یہ وہ معاملہ ہے جس میں تنظیمیں کوشش تو ضرور کریں گی آپ کی مدد کی لیکن تنظیموں سے نہیں پوچھا جائے گا.آپ سے پوچھا جائے گا اس عمر کے بچوں پر جو نقش آپ نے مرتسم کر دیئے اگر وہ جہنم میں لے جانے والے نقش ہیں تو بچوں ہی سے نہیں آپ سے بھی پوچھا جائے گا اور اگر ایسے نقش مرتسم کر دیئے جو جنت میں رہنے والوں کے نقوش ہوتے ہیں تو آپ بڑے خوش نصیب ہیں کیونکہ آپ کی اولاد در اولاد در اولاد کی نیکیاں بھی آپ کے نام پر ہمیشہ لکھی جائیں گی جو آپ کے درجات کی بلندی کا موجب بنتی رہیں گی." خطبات طاہر جلد 5 صفحہ 836-848)

Page 96

83 $1987 جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہدیداران خدمت دین کے لئے تمام افراد سے کام لیں اور خدام دین کی تعداد بڑھائیں (خطبہ جمعہ 14 اگست 1987ء) " ہمارے امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان اور دیگر عہدیداران کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ مومنوں کے پہلے دو درجات جن کو صف اول اور صف دوئم کے درجے کے مومن قرار دیا جا سکتا ہے ان کا اس آیت میں ذکر ہے.ایک وہ ہیں جو ہر حال میں، ہر مشکل کے وقت بہر حال سابقون میں شامل رہتے ہیں اور خدا کی خاطر ہر مصیبت کے دور میں بھی خدمت دین سے پیچھے نہیں ہٹتے.بہت سے امراء اور عہدیداران ہیں جو ان کے حال پر نظر رکھ کر راضی ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ جو خدمت دین ادا کر رہے ہیں بس یہی کافی ہیں.حالانکہ ایک اور طبقہ بھی ہے جس کا اس آیت میں ذکر فرمایا گیا ہے اور وہ ہے بیٹھ رہنے والوں کا دوسرا طبقہ جو ایمان کے لحاظ سے زخمی نہیں ہوتے حقیقۂ مومنوں کے ساتھ ہی ہیں اور ان سے بھی خدا تعالیٰ حسن سلوک فرمائے گا لیکن وہ ایسا طبقہ ہے جو عملا عظیم قومی جہاد میں شامل نہیں ہے.ایسے لوگ ، بہت سے ایسے منتظمین ہیں چند نہیں بلکہ بہت سے ایسے منتظمین ہیں، جہاں تک میں نے دنیا کی جماعتوں کا جائزہ لیا ہے میرا خیال ہے بدقسمتی سے اکثریت ہمارے منتظمین کی ایسی ہے جو اس دوسرے طبقے کو نظر انداز کر دیتی ہے اور ان پر کام نہیں کرتی.نتیجہ ان کی جماعتوں کی حالت یکساں سی رہتی ہے.یعنی مقامی کوششوں کے نتیجے میں وہ ترقی نہیں کرتی.دیگر حالات تبدیل ہو جائیں بیرونی اثرات کے نتیجے میں ممکن ہے ان میں سے بعض سوئے ہوئے بھی جاگ اٹھیں.یعنی جہاں تک مقامی منتظمین کا تعلق ہے وہ نیم خوابیدہ طبقہ جو ضائع نہیں ہوا مگر جاگ کر قومی جہاد میں حصہ بھی نہیں لے رہا اس کی طرف وہ متوجہ نہیں ہوتے.چنانچہ بعض ایسی جماعتیں ہیں کہ بیسیوں سال سے وہ اسی حالت میں ہیں جو خدا تعالیٰ کی تقدیر سے خود بخو دا چھے لوگ نکل کر آگے آگئے ،خدمت دین میں پیش پیش ہیں انہی کے کام کے مجموعہ کو ہم جماعت کے کام کا مجموعہ قرار دے سکتے ہیں لیکن جو نسبتا کمزور تھے یا خاموش بیٹھ رہنے والے تھے ان کو بیدار کرنے اور صف اول میں شامل کرنے کی کوئی انتظامی کوشش نہیں کی گئی.آج بھی ایسا حال ہے بعض جماعتیں میرے آنکھوں کے سامنے ہیں جن کے امراء مسلسل یہ خیال رکھتے ہیں کہ نسبتا پیچھے رہنے والوں کو محنت کر کے آگے لایا جائے اور ان کو عظیم الشان درجات سے محروم نہ رکھا جائے.چنانچہ دن بدن ان جماعتوں کی حالت پہلے سے بہتر ہوتی چلی جاتی ہے اور جیسا کہ میں نے بیان

Page 97

84 کیا اکثر صورتوں میں پریذیڈنٹ کو یا امیر کو بنے بنائے جو خلصین مل جائیں وہ ان پر راضی رہتا ہے اور خود مخلص بنانا آتا نہیں.اور آج کل ہم جس دور میں سے گزر رہے ہیں ہمیں کثرت کے ساتھ ان دونوں میں سے صف اول کے مومنین کی ضرورت ہے کیونکہ مسائل اور مشکلات بڑھتے جارہے ہیں.کچھ ایسے ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ظاہر ہو چکے ہیں.بہت سے ایسے ہیں جن کی دشمن تیاری کر رہا ہے، جن کی خبریں ہمیں دنیا کے کونے کونے سے موصول ہورہی ہیں.اگر آپ کو یہ اندازہ ہو کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کے لئے کتنے نئے سکول اور کالج اور جامعہ کھولنے کا منصوبہ بن چکا ہے، اس کی شرارت کے جتنے بھی پہلوممکن ہیں ان سب کو مدنظر رکھتے ہوئے تیاری کی جاچکی ہے، اربوں روپیہ دنیا میں خرچ کر کے آئندہ نسلوں میں جماعت احمدیہ کے خلاف زہر پھیلانے اور مشکلات کے بیج بونے کے جو سامان کئے جا رہے ہیں اگر ان کا آپ کو اندازہ ہو تو آپ میں سے جو کمزور ہیں وہ ممکن ہے مایوس ہو جا ئیں.بہت بڑی بڑی طاقتیں ہیں جو اس پر کام کر رہی ہیں اور ایسے دنیا کے ممالک جن میں اس وقت آپ کو امن دکھائی دے رہا ہے ان کے متعلق بھی نہایت ہی خطرناک منصوبے ہیں جو اس وقت زیر عمل ہیں تو ہر جگہ کے امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان اور دیگر کارندوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے کہ آئندہ بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے پیش نظر ہمیں ابھی سے خدمت دین کی صف اول میں کام کرنے والوں کی تعداد کو بڑھانا چاہئے.اس سلسلے میں کچھ نفسیاتی روکیں بھی ہیں جن کا تجزیہ ضروری ہے ورنہ بہت سے امیر اور پریذیڈنٹ صاحبان ایسے ہوں گے جن کو پتا ہی نہیں ہوگا اپنا کہ ہم کیوں یہ کام نہیں کر رہے.کچھ تو جیسا کہ میں نے ایک پہلے خطبہ میں بھی اشارہ کیا تھا اپنی بے وقوفی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ لوگ ہمارے ساتھی ہیں اور کچھ لوگ ہمارے دشمن ہیں یعنی ناجائز طور پر بے وجہ بعض احمد یوں پر اعتماد نہیں کرتے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو ہیں ہمارے مخالفین ان کو ایک طرف چھوڑ دو اور یہ چند لوگ اچھے ہیں یا مخالف نہ بھی سمجھیں تو بدظنی کرتے ہیں.جب ان سے پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں جی! یہاں تو قحط الرجال ہے.کام کرنے والے ملتے ہی کوئی نہیں.قحط الرجال تو نہیں ہے لیکن قحط العقل ضرور ہو سکتا ہے.قرآن کریم بتا رہا ہے کہ قحط الرجال نہیں ہوتا.بہت سے لوگ خاموش بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں تمہیں نظر نہیں آرہے ہوتے.اس دور کی آزمائش نے ہمیں بتا دیا کہ ہمارے ہاں کثرت سے ہیں ایسے لوگ جن میں الرجال بننے کی خاصیت موجود ہے، ان کو اگر صحیح طریق پر آپ آگے لانے کی کوشش کریں تو بہت اچھے اچھے لوگ آپ کے پاس موجود ہیں جن کو آپ نظر انداز کئے بیٹھے ہیں.پس بہت سے امراء ہیں جو بدظنی کرتے ہیں حالانکہ در حقیقت اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو دنیا کے کسی دور میں بھی قحط الرجال نام کی کوئی چیز نہیں ہے.سب سے زیادہ خطرناک دور جسے قحط الرجال کا دور کہا جاسکتا ہے وہ انبیاء کے ظہور کا دور ہوا کرتا ہے.ایک دفعہ تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ ایک شخص کے سوا خدا تعالیٰ

Page 98

85 نے ہر دوسرے انسان کو ر ڈ فرما دیا ہے.ایک وجود ابھرتا ہے اور اس کے اردگر دسارے فساد کی کیفیت دکھائی دیتی ہے.وہ لوگ جو انتہائی ردی حالت میں دکھائی دے رہے ہوتے ہیں وہ وجود ان پر ہاتھ ڈالتا ہے اور ان کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی شروع کر دیتا ہے.يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايته وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِين O (الجمعة: 3) یہ نقشہ ابھر نے لگتا ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جتنا قحط الرجال ممکن ہوسکتا تھا وہ تھا بظاہر لیکن اللہ کی تقدیر نے ثابت کیا کہ خدا کے بہادر بندوں کے سامنے قحط الرجال نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی.جو اللہ پر توکل کرنے والے ہوتے ہیں.دعاؤں سے خدا کی مدد مانگتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ اپنے اموال اور اپنی جانوں سے کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں.ان کو خدا یہ تو فیق بخشتا ہے کہ جہاں مرد نظر نہ آرہے ہوں وہاں سے مرد پیدا کر کے دکھا دیتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ گوبر کے ٹکڑے نظر آتے تھے جن پر ہاتھ ڈال محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور چمکتی ہوئی سونے کی ڈلیوں میں تبدیل فرما دیا.( القصائد الاحمدیہ صفحہ : 3) پس آپ بھی تو اسی کے غلام ہیں، اسی کی محبت کا دعویٰ کرنے والے ہیں ، اسی عظیم وجود کے کام کو آگے بڑھانے کا عہد لے کر اٹھے ہیں.اس لئے جماعت احمدیہ کے افراد کو اگر کوئی امیر یہ کہہ کر رد کرتا ہے کہ یہاں قحط الرجال ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے.اس کے ہاں عقل کا یا ایمان کا قحط ہو سکتا ہے لیکن قحط الرجال نہیں ، اگر قحط الرجال ہوتا نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِكَ تو اس وقت پاکستان کے اکثر احمدی مرتد ہو چکے ہوتے.میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ پوری طرح بے عملی کا شکار ہیں لیکن نسبتیں ہوا کرتی ہیں، یہ دوگر وہ خدا تعالیٰ نے نمایاں طور پر دکھائے ہیں یہ مطلب نہیں کہ ان کے درمیان کوئی اور ٹکڑا ہی نہیں آتا ، درجہ بدرجہ فرق پڑا کرتے ہیں.پس اس وقت میرا جائزہ یہ ہے کہ جماعت، ساری دنیا کی جماعتوں میں، اکثر جماعتوں میں اکثر احمدی ایسے ہیں جو ابھی صف اول کے مجاہد نہیں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ غیر معمولی کام کی گنجائش موجود ہے.اگر آپ ان سب کی تمام صلاحیتوں کو صف اول کی صلاحیتوں میں تبدیل کر دیں تو اتنی بڑی طاقت جماعت احمد یہ بن چکی ہے کہ ساری دنیا کی طاقتیں مل کے بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.یہ طاقتیں خدا نے دیکھیں ہیں تو ہم پر بوجھ ڈالے ہیں، یہ طاقتیں خدا کی تقدیر کو دکھائی گئی ہیں تبھی اتنے بڑے بڑے ابتلاؤں میں سے جماعت کو خدا تعالیٰ نے گزارنا شروع کیا ہے.کمزور، پیچھے ہٹنے والوں پر بھی تھوڑی تھوڑی ذمہ داری ڈالیں پس ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے امرائے جماعت پر اور

Page 99

86 پریذیڈنٹ صاحبان پر یا دیگر عہدیدار خواہ وہ قائد کہلائیں یا زعیم کہلائیں ، جو نام بھی ان کا رکھیں.طریقہ کار یہ ہونا چاہئے کے کچھ پیچھے ہٹنے والے یا کمزور رہنے والے آدمیوں پر تھوڑی تھوڑی ذمہ داریاں ڈالنی شروع کریں.ان کو اپنے ساتھ ملائیں ، ان سے محبت اور پیار کا سلوک کریں ان پر اعتماد کریں.ان سے کہیں یہ یہ کام جماعت کے ہونے والے ہیں چند ہی آدمی ہیں جن پر بار بار بوجھ ڈالے جاتے ہیں خطرہ ہے وہ تھک نہ جائیں ان کی طاقت سے بوجھ بڑھ نہ جائے اس لئے آپ تھوڑ اسا ان کو سہارا دیں.چنانچہ بعض اچھے آدمیوں کے ساتھ بعض کمزور آدمی شامل کئے جائیں، نوجوانوں کو بھی پکڑا جائے اور کچھ نہ کچھ کام دیا جائے.کام اگر دیا جائے اور کوئی کام کرلے تو کسی شخص کا یہ احساس کے میں نے ایک اچھا کام کیا ہے یہ ہی اس کی جزا ہوا کرتی ہے اور آئندہ کام کے لئے طلب دل میں پیدا ہو جاتی ہے.ایک ایسا اہم نفسیاتی نقطہ ہے جس کو بھلا دینے کے نتیجے میں ہم بہت سے ایسے آدمیوں کو ضائع کر دیتے ہیں.کسی آدمی کو پکڑیں اس سے کوئی اچھا سا کام لے لیں اور پھر دیکھیں کہ اس کے اندر کیسی بشاشت پیدا ہوتی ہے اور آئندہ اتنا کام نہیں بلکہ اس سے زیادہ کام کرنے کی صلاحیت اس میں پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح رفتہ رفتہ ترقی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور یہ کام ایسا نہیں ہے کہ ایک دو دن میں ہو.بعض دفعہ مہینوں بعض دفعہ کئی سال چاہئیں لیکن ایسی جماعتیں جو اس طرح اپنے کمزوروں کو طاقتوروں میں تبدیل کرنے کا عزم رکھتی ہیں اور حکمت کے ساتھ منصوبہ بنا کر ان پر کام کرتی ہیں ان کی حالت دن بدن بدلتی چلی جاتی ہے.اللہ کے فضل سے دنیا میں کئی ایسی بڑی بڑی جماعتیں ہیں جو بڑے بڑے صوبوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوگئی ہیں، بڑے بڑے ملکوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوگئی ہیں.اور ایسی کثرت سے جماعتیں ہیں جو ا بھی بیدار نہیں ہوئیں پوری طرح.پس اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ مومنوں میں سے جو القعِدِينَ ہیں ، بیٹھ رہنے والے ان میں اور آگے بڑھنے والوں میں بہت فرق ہے، غیر معمولی فرق ہے.تو اس میں ایک خاص نقطہ ہے جو ہمیں بیان فرمایا گیا ہے جو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.جتنا ان میں فرق ہے اتنا ہی ہم ان کے درجات سے محروم ہورہے ہیں.معلوم یہ ہورہا ہے کہ ہم میں سے جو بہترین کام کرنے والے ہیں وہ نہ کام کرنے والوں سے اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ اگر نہ کام کرنے والوں کے قدم ہم بڑھانے شروع کریں ان کو ساتھ ملانے کی کوشش کریں تو بہت سے درجات سے گزر کر ان کو وہاں تک پہنچنا ہو گا اور جتنے درجات سے وہ گزریں گے اتنا ہی جماعت کو فائدہ ہے.ہر درجے پر وہ جماعت کے لئے کچھ حاصل کرنے والے ہوں گے، ان کی کوششیں ہر مقام پر جماعت کے لئے کوئی پھل پیدا کریں گی.ترقی کی لامتناہی گنجائش موجود ہے یہ بتارہی ہے یہ آیت.اپنے اولین کو دیکھو اور اپنے آخرین کو دیکھو تمہارے اندر پوشیدہ صلاحیتیں موجود ہیں.

Page 100

87 ہر سطح پر جماعتی ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالنے کے منصوبے بننے چاہئیں پس اس نقطہ نگاہ سے دنیا کی ہر جماعت میں با قاعدہ منصوبہ بننا چاہئے ملکی سطح پر بھی ، صوبائی سطح پر بھی اور جماعتی سطح پر بھی اور ایسے لوگ جن کی بہت سے صلاحیتیں ابھی Harness نہیں ہوئیں، ان کے اوپر ذمہ داریوں کے بوجھ نہیں ڈالے گئے ، ان کے متعلق منصوبے بنائے جائیں کہ کس طرح ان کو آہستہ آہستہ جماعت کے غیر معمولی فعال اور خدا کی رضا حاصل کرنے والے وجودوں میں تبدیل کرنا ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ اگر ہم ساری دنیا میں اس منصوبے پر عمل شروع کر دیں تو اس کے غیر معمولی فوائد فوری اگر نظر نہ بھی آئیں تو آئندہ چند سال میں ظاہر ہوں گے اور ہمارے جتنے بھی نیک منصوبے ہیں ان سب میں برکت پڑ جائے گی.منصوبے اچھے جتنے چاہے ہوں اگر اچھے کارکن میسر نہ ہوں تو منصوبے بے معنی ہو جایا کرتے ہیں.اچھے کارکن میسر ہوں مگر تعداد کافی نہ ہو اور منصوبہ زیادہ بوجھ اٹھانے والا ہوتو پھر بھی انسان بہت سی برکتوں سے محروم رہ جایا کرتا ہے.تو جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت اعلیٰ منصوبوں کی کوئی کمی نہیں ہے، جماعت خود ایک نہایت اعلیٰ منصوبہ ہے لیکن کام کرنے والوں کی کمی ہے اور جتنا آپ نے ترقی کی ہے اتنا اس کمی کا احساس زیادہ پیدا ہوا ہے." خطبات طاہر جلد 6 صفحہ 540-549) دعوت الی اللہ سے متعلقہ ہر عہد یدار، جماعت کے افراد کو فَصُرُهُنَّ اليك کے مطابق اپنے ساتھ وابستہ کرے " (خطبہ جمعہ 28 اگست 1987ء) یورپ کے چند ممالک کے اس مختصر دورے میں میں نے خصوصیت سے اس بات پر نظر رکھی کہ جماعت کو جو بار با دعوت الی اللہ کی نصیحت کی جاتی رہی ہے اس کا کس حد تک عملاً اثر ظاہر ہوا ہے.ہالینڈ میں بھی میں نے اسکا جائزہ لیا ، جرمنی میں بھی، ڈنمارک اور سویڈن میں بھی اور اب ناروے آکر بھی ، ملاقاتوں کے دوران بھی اور اس کے علاوہ جماعت سے گفت و شنید کے دوران میں نے اندازہ لگایا کہ ابھی جماعت کی بھاری اکثریت ایسی ہے جو عملاً دعوت الی اللہ کے کام میں مشغول نہیں ہوئی اور اگر یہ کہا جائے کہ پچانوے فیصد جماعت ابھی تک اس کام سے غافل پڑی ہے، عملاً اس کام میں سنجیدگی سے حصہ نہیں لے رہی تو اس میں مبالغہ نہیں ہو گا.بعض ممالک میں ممکن ہے یہ نسبت اور بھی زیادہ خراب ہو مگر جن ممالک میں توجہ شروع

Page 101

88 ہو چکی ہے ان میں بھی بمشکل پانچ فیصد احمدی ایسا ہے جو فی الحقیقت دعوت الی اللہ کا حق ادا کر رہا ہے.اس سلسلے میں کچھ تو میں براہ راست جماعت سے باتیں کرنی چاہتا ہوں اور کچھ امراء اور مربیان اور صدران جماعت اور دیگر عہدیداران کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.خلیفہ وقت کی طرف سے دی گئی ہدایات کو بھلانا نہیں چاہئے جب بھی ایک بات کی ہدایت کی جائے اور تکرار سے کی جائے تو اُسے بھلا دینا جائز نہیں ہے.اس خیال سے کہ اب یہ بات پرانی ہو گئی اور اب ہماری جواب طلبی نہیں ہوگی یہ درست بات نہیں ہے.جواب طلبی کا اسلامی نظام عام دنیاوی جواب طلبی کے نظام سے مختلف ہے.دنیاوی جواب طلبی کے نظام میں تو بعض دفعہ کاغذات داخل دفتر ہو جاتے ہیں، بعض افسروں کو بات بھول جاتی ہے اور انسان ایک نافرمانی کے باوجود پکڑ سے بچ جاتا ہے لیکن اسلام میں جو جواب طلبی کا نظام ہے اس کی رُو سے تو ہر انسان پر فرشتوں کے پہرے بیٹھے ہوئے ہیں.وہ صبح بھی اور شام بھی خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق انسان کے حالات کا جائزہ درج کرتے رہتے ہیں اور کوئی چیز بھی ان سے مخفی نہیں، کوئی چیز بھی ان کی نظر سے اوجھل نہیں اور کوئی ایسی بات بھی نہیں جس کی ان کو یاد دہانی کی ضرورت پڑے.چنانچہ جو اہم امور خدا تعالیٰ نے بندے کو کرنے کے لئے کہے ہیں اُن کا ایک سوالنامہ بھی ساتھ ساتھ تیار ہوتا چلا جا رہا ہے مختلف حالات کے مطابق اور عملاً ہم جو اس کا جواب پیش کرتے ہیں وہ بھی تیار ہوتا چلا جاتا ہے.پس کہنے والا دنیا میں بھول چکا ہو، سنے والا بھول چکا ہو مگر یہ جو خدا تعالیٰ کا آسمانی جواب طلبی کا نظام ہے یہ تو کسی چیز کو نہیں بھولتا اور چونکہ جماعت احمدیہ کا تعلق دنیاوی حکومت سے نہیں بلکہ آسمانی حکومت سے ہے اس لئے یہاں جزا سزا کا نظام بھی آسمانی ہے اگر تو دنیا میں سزا دینی ہوتی کوئی پھر تو جواب طلبی کرنے والے بھول جائیں تو پھر فرق پڑتا اور کئی لوگ سزا سے بچ جاتے.اگر خدا تعالیٰ نے فیصلہ کرنا ہے جزا سزا کا تو پھر دنیا والے جواب طلبی کریں نہ کریں، بھول جائیں تب بھی نہ بھولیں تب بھی عملا کوئی بھی فرق نہیں پڑتا.اس لئے ان امور کو جن کا دین سے تعلق ہو نسبتاً زیادہ سنجیدگی سے دیکھنا چاہئے اور زیادہ کوشش اور جد و جہد اور ذمہ داری کے ساتھ ان کی ادائیگی کی طرف توجہ کرنی چاہئے.یہ دعوت الی اللہ کا پروگرام کوئی معمولی پروگرام نہیں ہے.ہم اگلی صدی کے کنارے پر بیٹھے ہیں اور ساری دنیا کو اسلام میں لانے کا تہیہ کر کے ایک سو سال سے جو کوشش کر رہے ہیں ابھی تک ایک سو سال میں کسی ایک ملک میں بھی واضح اکثریت تو در کنار نصف تک بھی ہم نہیں پہنچ سکے.دسواں حصہ بھی ابھی تک ہمیں کامیابی نہیں ہوسکی کسی ملک میں.تو ساری دنیا کو اسلام میں لانا یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے جو ہمارے کندھوں پر خدا تعالیٰ نے

Page 102

89 ڈالی ہے.اس کے لئے سنجیدگی سے تیاری کرنی ہے اور اس کے سوا اور کوئی حل بھی نہیں ہے کہ ہم میں سے ہر شخص تبلیغ کرے اور مؤثر تبلیغ کرے اور چین سے نہ بیٹھے جب تک اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کی تبلیغ کو پھل نہ لگنے لگ جائیں.عہدیداران دعوت الی اللہ سے متعلق امور نہ بھولیں ان کے بھولنے سے جماعت بھی بھول جائے گی تو جہاں تک عہدیداران کا تعلق ہے ان کو بھولنا نہیں چاہئے ان کی خواہ میں جواب طلبی کروں یا نہ کروں اگر وہ اس بات کو بھول جائیں گے تو جماعت بھی بھول جائے گی.عہد یداروں پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خوب یا درکھیں اور بار بار پلٹ پلٹ کر جماعت کے حالات کو دیکھتے رہیں کہ کس حد تک یہ کام آگے جاری ہے.عموما یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ عہد یداران چند آدمیوں کے نیک کام کو اپنی رپورٹ میں سمیٹتے ہیں اور جس طرح آسٹریلیا کے Obroganees تھے جو خود محنت کر کے چیزا گانے کی بجائے جو قدرت پھل دیتی ہے اس کو سمیٹنے والے لوگ.چنانچہ دنیا میں دو قسم کے رزق حاصل کرنے والے ہیں ایک وہ جو اگاتے ہیں محنت کر کے اور پھر پھل کھاتے ہیں جیسے آج کل متمدن دنیا اکثر یہی کر رہی ہے.فصلیں کاشت کرتی ہے، پھل والے درخت لگاتی ہے اور پھر جتنا محنت کرتی ہے اتنا اس کا پھل کھاتی ہے لیکن کچھ قو میں جیسا کہ آسٹریلیا کے Obroganees تھے یا ہیں اور کچھ اور ممالک بھی ایسے ہیں جن کو Gatherers کہا جاتا ہے وہ صرف سمیٹنے کا کام کرتے ہیں.تو ا کثر منتظمین کام سمیٹ رہے ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے جہاں دو، چار، دس داعی الی اللہ دے دیئے ان کی رپورٹوں کو سمیٹ کر ان کی رپورٹ بڑی مزین ہو جاتی ہے اور خوبصورت ہو جاتی ہے اور یہ تاثر دیتے ہیں مرکز کو کہ گویا ساری جماعت بڑا اچھا کام کر رہی ہے اور دیکھیں اتنا اچھا پھل لگ گیا حالانکہ بعض اوقات جو داعی الی اللہ ہیں ان کو بنانے میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا ان کو سجانے میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا ان کو پہلے سے زیادہ بہتر کرنے میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا لیکن بعض جگہ ہوتا ہے.بعض جگہ جماعت کا سارا نظام ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہوتا ہے، سر پرستی کر رہا ہوتا ہے، ان کے ساتھ مل کر کام کو آگے بڑھا رہا ہوتا ہے.تو وہ صاف نظر آ جاتا ہے.رپورٹ تیار کرنے والوں کو ہدایت تو جہاں تک رپورٹیں سمیٹنے کا تعلق ہے رپورٹیں تو کچھ نہ کچھ سج جاتی ہیں لیکن سمیٹنے والے کی ذمہ داری ادا نہیں ہو جاتی.اس کا کام یہ ہے کہ خود اپنی زمینیں بنائے ،اس کا کام یہ ہے کہ نئی کاشت کی کھیتیاں پیدا کرے، اس کا کام یہ ہے کہ نئے درخت لگائے اور پھر خدا تعالیٰ کے سامنے صاف دل کے ساتھ پیش ہو کہ اے خدا! اس سال میری محنت کا یہ پھل ہے، میں نے کوشش کی تو نے اپنے فضل کے ساتھ مجھے تو فیق عطا فرمائی

Page 103

90 کہ میں نے تیری راہ میں نئے کھیت اگائے ہیں اور تیری راہ میں نئے باغ لگائے ہیں.عہد یداران دعوت الی اللہ کے باغ اور کھیت لگائیں تو دعوت الی اللہ کے باغ اور کھیت لگانے کا کام یہ عہد یداران کا کام ہے اور یہ محض نصیحت سے نہیں ہوتا ، یہ محض یاددہانی سے بھی نہیں ہوتا ، یہ ساتھ لگ کر کام سکھانے سے ہوتا ہے.بعض عادتیں راسخ کرنے سے ہوتا ہے ، بعض لوگوں کو پکڑ کر اپنے ساتھ لگانا اور پھر ان کے ساتھ پیار کا تعلق قائم کر کے ان کے دلوں میں کام کی محبت پیدا کرنا، یہ ایک فن ہے اور اس فن کے متعلق قرآن کریم نے ہمیشہ کے لئے ایک نہایت ہی عمدہ اصولی روشنی ڈالی جس سے استفادہ کرنا چاہئے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر د خدا تعالیٰ نے قوموں کو زندہ کرنے کا کام کیا تھا.وہ قوموں کے نبی تھے بڑے عظیم الشان مقام کے نبی تھے اور خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرے ذریعے میں قوموں کو نئی زندگی عطا کروں گا.بڑے عاجز مزاج تھے.حیران ہوئے کہ اتنا مشکل کام میں کیسے کرسکوں گا.عرض کیا رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْي الموتى (البقره: 221) زندگی تو تو نے ہی بخشنی ہے میں جانتا ہوں میرے ذریعے ہو یا جو بھی تیرا منشا ہے لیکن تو بخشنے والا ہے.میں جانتا تو ہوں کہ تو ان قوموں کو زندہ کر دے گا مگر کیسے کرے گا مجھے بتا تو سہی میرے دل کو تسلی دے.تو خدا تعالیٰ نے وہ راز ان کو سمجھایا کہ زندہ میں کروں گا لیکن تیرے ذریعے کروں گا.فرمایا چار پرندے لے ان کو اپنے سے مانوس کرلے.اپنے لئے ان کے دل میں محبت پیدا کر اور ان کے لئے اپنے دل میں محبت پیدا کر.جب وہ مانوس ہو جائیں تو ان کو چار مختلف سمت کی پہاڑیوں پر چھوڑ دے پھر ان کو آواز دے، دیکھ کس سرعت کے ساتھ وہ تیری آواز کے اوپر اڑتے ہوئے چلے آتے ہیں.یہ نئی زندگی بخشنے کا جو نظام ہے خدا تعالیٰ نے خود حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو سمجھایا اور ہمیشہ کے لئے ہمارے لئے نمونے کے طور پر پیش فرما دیا.عہدیداران، بعض افراد جماعت سے احیائے موتی کا کام لیں پس ہر مربی ، ہر مبلغ ، ہرا میر اور ہر صدر اور ہر متعلقہ عہد یدار کو خواہ وہ سیکرٹری اصلاح وارشاد ہو یا جس حیثیت سے بھی اس کام میں اس کا تعلق ہو اس کو چاہئے کے جماعت کے بعض افراد کو پکڑے اور فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ (البقرہ: 261 ) کے طابع ان کو اپنے ساتھ وابستہ کرے.اپنے ساتھ ملا کر، پیار کا تعلق قائم کر کے ان کی تربیت کرے تھوڑے تھوڑے کام ان کے سپر د کرے پھر ان کو دنیا میں پھیلا دے اور ان کے ذریعے احیائے موتی کا کام لے.اس طرح اپنی توفیق کے مطابق اس کی توجہ کو مرکز بدلتا رہے گا.آج چار یا آٹھ یا دس نو جوان پکڑے ان کی تربیت کی ان کو کام پر لگا دیا پھر دوبارہ کل آٹھ یا دس یا ہیں نوجوان جتنی بھی

Page 104

91 توفیق خدا بڑھاتا چلائے اس کے مطابق ان کو لیا، ان کی طرف توجہ کی.چند مہینے ان کے ساتھ محنت کی ، پیار اور محبت کے ساتھ ان کو طریقے سمجھائے اور جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے پھر وہ اپنا کام خود سنبھال لیں گے.اس طرح ہر وقت پیش نظر پہلے سے بڑھتی ہوئی تعداد رہنی چاہئے.مسلسل ذہن میں یہ بات حاوی رہنی چاہئے کہ میری جماعت میں دعوت الی اللہ کرنے والے پہلے سے بڑھے ہیں کہ نہیں بڑھے؟ کیا میں پہلوں پر ہی راضی ہوں یا میں جان کر عمداً کوشش کر رہا ہوں کہ پہلے سے تعداد بڑھتی چلی جائے.ہر طبقہ فکر سے رابطہ کے لئے الگ الگ ذرائع استعمال کریں پھر اس کے علاوہ یہ امر بھی دیکھنے والا ہے کہ جن لوگوں کو تبلیغ کی جاتی ہے ان میں کتنے طبقات ہیں اور کیا ہر طبقے کی طرف ہم متوجہ ہیں کہ نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بعض اچھی اچھی زمینیں ہیں جو ہمارے ملک میں موجود ہیں ہم ان کی طرف توجہ ہی نہیں کر رہے، جہاں اتفاق سے ایک طرف رُخ ہو گیا بس اسی طرف رخ چل رہا ہے حالانکہ خدا تعالیٰ نے مختلف ممالک میں مختلف قسم کے لوگ پیدا کئے ہیں کچھ باہر سے بھیجے ہیں اور ہر طبقے کے اپنے اپنے حالات ہیں.ہر طبقہ مزاج کے لحاظ سے یکساں مذہبی نہیں.ہر طبقہ اپنی نفسیاتی کیفیت کے لحاظ سے یکساں طور پر ایک نئی دعوت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے.مختلف طریق درکار ہیں، مختلف قسم کے اسلوب چاہئیں تبلیغ میں.چنانچہ آپ جب بھی کسی نئے طبقے کی طرف توجہ کریں گے دوبارہ از سر نو مبلغ کو یا امیر کو جو بھی عہدیدار ہے اس طبقے کو ملحوظ رکھ کر نئی محنت کرنی پڑے گی.جائزہ لینا پڑے گا کہ جن لوگوں کو میں نے دعوت الی اللہ پر مقرر کیا ہے وہ اس طبقے کو مخاطب ہونے کے لئے تیار ہیں کہ نہیں؟ اس کے لئے جائزہ لینا پڑے گا کہ لٹریچر موجود ہے کہ نہیں ؟ کیسٹس موجود ہیں کہ نہیں؟ دیگر معلومات جو گفتگو کے دوران چاہئیں وہ ان لوگوں کو معلوم ہیں کہ نہیں ؟ جس قوم کی طرف ، جس طبقہ انسانیت کی طرف توجہ ہے ان کے حالات کے متعلق یہ لوگ آگاہ ہیں کہ نہیں.یہاں زمیندار ہیں ناروے میں ان کے حالات اور ہیں شہری لوگوں کے اور ہیں ان کی مذہبی کیفیت اور ہے شہری لوگوں کی مذہبی کیفیت اور ہے.پھر یہاں باہر سے آکر بسنے والے ہیں.ان میں عرب ہیں، ان میں سے افریقین ہیں، ان میں ویت نامیز ہیں.ایک بہت بڑا طبقہ ویت نام کا آج کل شمالی علاقوں کی طرف رخ کر رہا ہے.اسی طرح بعض دیگر مہاجرین ہیں مختلف ممالک کے، سیلون کے مہاجرین ہیں، بعض اور ممالک کے مہاجرین ہیں.ان لوگوں کی طرف توجہ کرنا ہے.پھر قیدی ہیں کئی جرموں کے نتیجے میں کئی بغیر جرم کے قید ہو جاتے ہیں.کئی جرم کر کے قید ہوتے ہیں لیکن قید کے دوران ان کے اندر اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے.اس وقت ان کے پاس وقت ہوتا ہے.اُس وقت وہ خاص مزاج رکھتے ہیں نیک باتوں کو سننے اور ان پر عمل کرنے کا.پھر بیمار لوگ ہیں ، ہاسپٹل (Hospital) میں ،غریب لوگ ہیں جن کا یا

Page 105

92 رشتہ داروں کی کمی کی وجہ سے یا بوڑھا ہونے کی وجہ سے کوئی پوچھنے والا نہیں.کئی مسافرا یکسیڈنٹس کا شکار ہو جاتے ہیں.ہر طرف ایسے طبقے پھیلے پڑے ہیں جن کوئی زندگی دینے کا کام آپ کے سپرد ہے اور ہر طبقے کو لو ظ رکھ کر اس کام کو آگے بڑھانا ہوگا.جب اتنے طبقے سامنے آجائیں اور ایک مربی پیش نظر رکھے کہ ہاں ان سب کو مخاطب کرنا میرا کام ہے تو لا زما اس کے اندر Panic پیدا ہوگی ، اس کے اندر خوف و ہراس پیدا ہوگا کہ میرے پاس چار تو گنتی کے آدمی ہیں جو تبلیغ کر رہے ہیں چار یا پانچ ہی تو ہیں جو اپنی رپورٹیں لا کر مجھے دیتے رہتے ہیں ، ان کو میں سب جگہ کیسے استعمال کر سکتا ہوں.اس لئے اگر وہ اپنی زمینوں کی فکر کرے گا تو اس کے لئے لا ز ما اور مزدور حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی.جس طرح زمین کا کام بڑھتا ہے تو مزدوروں کی تلاش بڑھ جاتی ہے زمیندار کو.اس طرح راہ مولیٰ کے مزدور اس کو تلاش کرنے پڑیں گے کیونکہ خدا کی زمینیں بڑھ گئی ہیں.انصار اور دیگر عہدیداران کو خلیفہ وقت کی نصیحت کو معمولی انداز میں نہیں لینا چاہئے پس ایک کام کی طرف عدم توجہ، دوسرے کام کی طرف سے عدم توجہ پر مبذول ہو جاتی ہے.ایک کام کی طرف کما حقہ توجہ کریں تو دوسری توجہ خود بخود بیدار ہوتی ہے.اسی طرح کام ایک دوسرے کو سہارا دے کر آگے بڑھتے ہیں.اس لئے سب سے اہم ذمہ داری کسی ملک کے امیر کی ہے، اس ملک کے مربی کی ہے اور اس ملک کی مجلس عاملہ کی من حیث المجموع ذمہ داری ہے اور متعلقہ عہد یداران کی ہے، اسی طرح خدام ہیں، انصار ہیں.اگر سارے اپنی ذمہ داریوں کو پیش نظر رکھ کر حکمت کے ساتھ مسلسل آگے بڑھیں گے اور جو نصیحت کی جاتی ہے اس کو معمولی سمجھ کے نظر انداز نہیں کریں گے تو دیکھتے دیکھتے جماعتوں کی کایا پلٹ جائے گی.بعض دفعہ سنتے ہیں کہتے ہیں ہاں خلیفہ وقت نے کہہ دیا ہے ٹھیک ہے تھوڑی دیر کے بعد یہ بھی بھول جائے گا ہم بھی بھول جائیں گے.میں تو انشاء اللہ نہیں بھولوں گا کیونکہ مجھے خدایا دکر دیتا ہے، آپ بھولیں گے تو جرم کریں گے.میری تو دن رات کی یہ تمنا ہے ، دن رات کی دل میں ایک آگ لگی ہوئی ہے میں کیسے بھول سکتا ہوں.آج جماعت کی سب سے بڑی ذمہ داری خدا کا پیغام پہنچانا ہے اس لئے اللہ مجھے یاد کراتا رہے گا اور میں یاد رکھوں گا اور یاد آپ کو بھی کراتا رہوں گا لیکن اگر آپ نے غفلت کی وجہ سے اس بات کو بھلایا تو یاد رکھیں آپ خدا کے سامنے جوابدہ ہوں گے.نہ بھولیں نہ بھولنے دیں.آج جماعت کی سب سے بڑی سب سے اہم ذمہ داری خدا کا پیغام دوسروں تک پہنچانا ہے اور اس میں ہم پہلے ہی پیچھے رہ گئے ہیں.کون سا وقت رہ گیا ہے ضائع کرنے کا؟ ہر شخص کو تربیت دیں پیارا اور محبت سے سمجھا کر آگے بڑھا ئیں اور جو ایک دفعہ اس میدان کا سوار بن

Page 106

93 جائے گا وہ پھر آپ کو دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت نہیں رہے گی.یہ کام ہی ایسا ہے دنیا والے جس طرح نشہ کرتے ہیں تو نشہ ان کو سنبھال لیتا ہے اسی طرح تبلیغ کا ایسا کام ہے کہ جو نشے سے بڑھ کر طاقت رکھتا ہے اور تبلیغ کرنے والے کو سنبھال لیتا ہے.داعی الی اللہ پھر داعی الی اللہ ہی بنا رہتا ہے اس کو کسی اور کام میں دلچسپی ہی نہیں رہتی ، بعض داعی الی اللہ تو اپنے گھر کے حالات بھول جاتے ہیں، اپنے خاندانوں کو بھول جاتے ہیں، دن رات ایک کام کی لگن ہو جاتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جب احمدیت تیزی سے پھیلی ہے تو یہ وجہ تھی.ایسے ایسے صحابہ تھے جن کو اپنے تن بدن کی کسی اور چیز کی ہوش ہی نہیں رہتی تھی.دعوت الی اللہ میں مصروف ہوتے تھے تو ہر دوسری چیز بھول جایا کرتے تھے.فَصُرُ هُنَّ إِلَيْكَ کے معنی تعلیم اور تربیت کا کام جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے علمی پہلو سے بڑھ کر محبت اور پیار کے تعلق کے قیام کے ذریعے ہوتا ہے.جس طرح مرغی اپنے پروں کے نیچے لیتی ہے بچوں کو اور وہی اس کی تربیت ہے.جماعت کو اپنے پروں کے نیچے لینے کی عادت ڈالنی پڑے گی عہدیداروں کو اور پروں کے نیچے لے کر پروں میں سمیٹنے کی صرف نہیں، طاقت دے کر پھر آگے چھوڑنے کی ، پھر اڑنے کی مشق کرانے کی ، پھر آزاد زندگی گزارنے کی.یہ ہے وہ تربیت جو دعوت الی اللہ کی تیاری کے لئے ضروری ہے.جس کا راز ہمیں فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ نے بتا دیا کہ اے ابراہیم ! میں تیرے لئے ضرور قوموں کو زندہ کروں گا ،زندہ میں ہی کرتا ہوں لیکن تجھے وہ کرنا ہو گا جو میں تجھے بتاتا ہوں.محبت اور پیار سے پرندوں کو پکڑ اور اپنے ساتھ لگالے اپنی محبت ان کے دل میں پیدا کر اور پھر ان کی تربیت کر پھر دیکھ کس طرح وہ تیری آواز کے تابع وہ سارے کرشمے کر کے دکھا ئیں گے جو تو ان سے توقع رکھے گا.اس سلسلے میں جہاں تک علمی پروگرام کا تعلق ہے ہم اس کے مکمل ہونے کا انتظار نہیں کر سکتے.ایک مربی کو جامعہ میں تربیت دینے کے لئے سات سال لگ جاتے ہیں اور جب وہ نکلتا ہے تو ابھی کچا ہوتا ہے.مختلف میدانوں میں جب اس سے مقابلہ کروایا جاتا ہے تو اس وقت محسوس ہوتا ہے کہ سات سال کی تعلیم کے با وجود بعض دفعہ بڑے نمایاں نمبر حاصل کرنے کے باوجود عملی میدان میں جب پڑتا ہے تو کئی قسم کی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے.وقت پر بات بھول جاتی ہے، گفتگو کا سلیقہ یاد نہیں رہتا، دلیل یاد بھی تھی تو اس وقت الٹی پلیٹی دلیل شروع ہو جاتی ہے جو طریقے اور داؤ کے مطابق نہیں ہوتی.علم ہے مگر استعمال درست نہیں لیتا.کہیں نئے اعتراض آتے ہیں تو آدمی حیران اوسان ہو جاتا ہے کہ اوہو! اس کا جواب تو میں نے کتاب میں پڑھا کوئی نہیں تھا.

Page 107

94 دعوت الی اللہ میں علم کی کمی حائل نہ ہو تو عملاً جو تبلیغ ہے وہ علمی تبلیغ سے کچھ مختلف ہو جایا کرتی ہے اور محض علمی تیاری بھی اگر آپ کی کرائی جائے تو میں نے بتایا ہے Whole Time سات سال کا کورس کرنا پڑے گا.اب کہاں جماعت اتنی توفیق رکھتی ہے، کہاں اتنا صبر ہے ہمیں کہ ہر شخص کے لئے سات سات سال کے کورس کریں اور پھر تو قع رکھیں کہ وہ تبلیغ کرے.لیکن عملاً تجربہ میں اگر فور داخل ہو جائیں اور توکل رکھیں اللہ تعالیٰ پر اور دعا کریں تو اتنے لمبے علم کی ضرورت نہیں ہے.خدا تعالیٰ خود مربی بن جاتا ہے خدا تعالیٰ خود معلم ہو جاتا ہے.ایک داعی الی اللہ اگر خالصہ اللہ اللہ کی محبت میں کام شروع کرتا ہے، اس پر تو کل کر کے کام شروع کرتا ہے تو بسا اوقات خدا اس کی ایسی ایسی حیرت انگیز رہنمائی فرماتا ہے کہ اُسے پتا ہی نہیں ہوتا کہ کس طرح اس کو یہ دلیل ذہن میں آئی اور کس طرح خدا تعالیٰ نے اس کو عظیم الشان غلبہ عطا کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں جہلاء کو بھی اللہ تعالیٰ بڑے بڑے علماء پر غلبہ عطا کر دیا کرتا تھا.اس لئے کہ وہ نیک اور مخلص اور متقی لوگ تھے اپنے علم پر توکل کرنے والے نہیں تھے بلکہ خدا تعالیٰ کے سہارے اس کے فضل پر تو کل کرنے والے تھے اور سارے علموں کا سر چشمہ خدا ہے، وہی گر سکھاتا ہے کہ کیسے تم غالب آؤ.حضرت موسیٰ جب فرعون سے گفتگو کر رہے تھے تو قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ بار بار آپ کی توجہ خدا کی طرف مبذول ہوتی تھی.اللہ تعالیٰ ہی ان کو جوابات سکھاتا چلا جارہا تھا کہ یہ جواب دو، یہ جواب دو، یہ جواب دو.اس لئے وہی خدا ہے ہمارا.وہ آپ کی بھی اسی طرح پرورش کرے گا ، آپ کی بھی اسی طرح سر پرستی کرے گا.اس لئے علم کی کمی کو عذر نہ رکھیں علم کی کمی کا بہانہ لے کر میدان سے نہ بھاگیں.جو کچھ آپ کے پاس ہے وہ خدا کے سپر د کر دیں پھر دیکھیں خدا اپنا حصہ کتنا ڈالتا ہے.یہ بات میں وسیع تجربے کے بعد کہہ رہا ہوں.جو احمدی بھی لاعلمی کے باوجود تبلیغ کے میدان میں کودتے ہیں ہر قسم کے دشمن سے واسطے کے باوجود کبھی بھی خفت محسوس نہیں کرتے کبھی خدا ان کو ذلیل نہیں ہونے دیتا.تبلیغ کے ذرائع جن کو آج کے دور میں استعمال کیا جا سکتا ہے پھر آج کل کے زمانے میں تو بہت سے ایسے نئے ذرائع ایجاد ہو گئے ہیں جس سے تبلیغ کی اہلیت کی کمی یا زبانیں نہ جانے کا نقص بڑی آسانی سے دور ہو جاتا ہے.کیسٹس ہیں ان میں عربی کے سوال جواب کے پروگرام بھی درج ہیں، عربی کے لیکچر بھی درج ہیں مختلف مسائل کے اوپر ، ٹرکش زبان میں کیسٹس ہیں اور دنیا کی افریقین اور دیگر ایشیائی زبانوں اور بعض مغربی زبانوں مثلاً انگریزی ، فریج ، جرمن ان سب

Page 108

95 میں ہمارے پاس کیسٹس موجود ہیں.ویڈیوز بھی ہیں ، آڈیوز بھی ہیں لیکن اکثر مجھے یہ دیکھ کر تجب ہوا کہ مبلغین نے یا جو ملکی عہد یداران تھے اُنہوں نے جماعت میں ان باتوں کی تشہیر نہیں کی ہوئی.بار بار یاد نہیں کرایا کہ ہمارے پاس یہ سب کچھ موجود ہے.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض دفعہ ایک احمدی کا کسی ٹرک (Turk) سے واسطہ پڑتا ہے یا کسی ویت نامی سے یا کسی اور سپینش سے مثلاً واسطہ پڑتا ہے تو مجھے خط لکھتا ہے کہ میں کیا کروں؟ میرے پاس کیسٹس نہیں ہیں، میرے پاس لٹریچر نہیں ہے.اب میرے ساتھ اور کئی آدمیوں کا وقت اس بات میں استعمال ہوتا ہے، میں ضائع تو نہیں کہ سکتا یہ تو اچھی جگہ استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے بغیر بھی اس کا کام چل سکتا تھا اور ہمارا وقت بچ سکتا تھا.اگر مربی نے پہلے سے بتایا ہوا ہوتا کہ یہ کیسٹس تو مرکز ہمیں مدت ہوئی بھیج چکا ہے اور اگر مرکز نے نہیں بھیجی تھی تو مربی کا کام تھا مجھے لکھتا اور بتا تا کہ اس مضمون پر مجھ سے مطالبہ کیا گیا میں نے جائزہ لیا ہمارے پاس کوئی ایسی کیسٹ نہیں حالانکہ مرکز میں یہ انتظام ہے اور سارے ملکوں کو ہدایت ہے کہ اپنی زبان میں جو کیسٹس وہ تیار کرتے ہیں وہ دوسرے ملکوں کو بھجوائیں تا کہ دنیا کے ہر ملک میں ہر زبان کی لائبریری قائم ہو جائے لیکن وہ ہو سکتا ہے اس لئے شکایت نہ کرتے ہوں کہ خود جو کیسٹس بناتے ہیں وہ آگے نہیں بھجواتے.اگر یہ احساس ہو کہ جو ہم نے کام تیار کیا ہے اس سے ساری دنیا استفادہ کرے تو پھر دنیا سے استفادہ کرنے کا حق بھی پیدا ہو جاتا ہے.پھر اگر کوئی نہ ان کو فائدہ پہنچارہا ہو تو خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہم تو بھجوا رہے ہیں باہر سے کوئی کیسٹ ہمیں نہیں ملتی.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ آنکھیں بند ہو جاتی ہیں اس طرف سے.خواہ مخواہ کیوں اتنا بوجھ اُٹھایا جائے کہ پھر اور مصیبت بنی رہے ہر طرف سے پھر مطالبے ہوں گے ، پھر کیسٹ کو Duplicate کروانا ہوگا پھر آگے تقسیم کرانا ہوگا.تو کسی ملک میں کوئی کمزوری نظر آرہی ہے، کسی میں کوئی کمزوری نظر آرہی ہے اور جماعت کو پوری طرح آگاہ نہیں رکھا جا رہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کیا کیا ہتھیار مہیا فرما دیئے ہیں.جہاں استفادہ ہوتا ہے اور جرمنی میں بہت حد تک ہوتا ہے وہاں بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے زیادہ سے زیادہ دس فیصد داعی الی اللہ بنے ہوں گے اس سے زیادہ نہیں.مگر جو کرتے ہیں وہ ایسے ایسے لوگ ہیں جن کو جرمن زبان یا ٹرکش زبان تو کیا اردو بھی نہیں ٹھیک آتی.ایک خط میں اُردو کے ساتھ دس پندرہ پنجابی کے لفظ ملا کے لکھتے ہیں اور حال یہ ہے کہ اللہ ان کو پھل عطا فرما رہا ہے.ان کی تبلیغ کو پھل لگ رہے ہیں بعض ایسے آدمی جن کو کسی چیز کا بھی زیادہ علم نہیں.عربوں کو تبلیغ کر کے ان کو کامیابی کے ساتھ تبلیغ کر کے ان کو احمدی بنا چکے ہیں.بعض ٹرکس (Turks) کو احمدی بنا چکے ہیں.

Page 109

96 تبلیغ میں زبان کا اثر انداز ہونا.....تو ایک عام آدمی جس کو ایک زبان ہی نہیں آتی، اس کو زیادہ دینی علم بھی نہیں ہے اس کو خدا تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرما دی اس لئے کہ اس کا جذ بہ خلوص سچا تھا، اس لئے کہ اس کے دل کے بے قرار تمنا تھی ، اس لئے کہ وہ دعا کرتا تھا اور پھر ایک خوبی جو ہر داعی الی اللہ میں ہونی ضروری ہے وہ اس میں موجود تھی کہ زبان کا میٹھا تھا.علم سارا بیکار ہو جاتا ہے اگر ایک انسان مشتعل مزاج ہو، اگر مغلوب الغضب ہو تو دنیا کے کسی کام کا بھی نہیں رہتا.خصوصا اس وقت جب غیر سے مقابلہ ہواُس وقت تو بہت ہی زیادہ تحمل ہونا چاہئے.اپنے جذبات پر کنٹرول اور حوصلے سے اس کی دشمنی کی بات کو سنا اور پھر محبت اور پیار سے اس کو سمجھا نا اور جواب دینا یہ وہ ایسا ایک سلیقہ ہے تبلیغ کا جو اگر کسی کو آ جائے تو بہت بڑے بڑے عالموں پر وہ حاوی ہوسکتا ہے.تبلیغ میں دماغ سے زیادہ دل جیتنے ہوتے ہیں اس نقطے کو یا د رکھنا چاہئے.جب دل جیت لئے تو تین چوتھائی کام وہیں ختم ہو گیا پھر دماغ جیتنا کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسا عظیم اور ایسا غالب کلام عطا کیا ہے کہ وہ علم کلام بڑوں بڑوں پر غالب آ جاتا ہے.صرف دشمنی کا جذ بہ یا نفرت اس کے درمیان میں حائل ہوتی ہے آپ اگر کسی سے محبت اور پیار سے اس کا دل جیت لیں تو جو باتیں اس کے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کے درمیان حائل تھیں ، وہ دیوار جو بیچ میں کھڑی تھی وہ ختم ہو جاتی ہے.پس اپنی زبان کو سلیقہ دیں، اپنے دل کو سلیقہ دیں.دل میں مٹھاس پیدا کریں اور زبان سے جو بات نکلے وہ دل کی مٹھاس ہو.اپنے اندر عجز اور انکسار پیدا کریں تو پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی دعوت الی اللہ کو کتنی عظیم الشان برکت ملتی ہے.دیکھتے دیکھتے دل فتح ہونے شروع ہو جائیں گے اور سب سے آخر پر لیکن سب سے اہم یہ کہ دعا کی طرف میں پھر متوجہ کرتا ہوں.تبلیغ میں دعا کا کردار دعوت الی اللہ کی ہر منزل پر دعا کی عادت ڈالیں.تبلیغ کے دوران دعا کریں گھر جا کر دعا کریں، اپنے بچوں کو کہیں کہ دعا کرو.اگر آپ اس سنجیدگی کے ساتھ دعوت الی اللہ کی طرف توجہ کریں گے اور اپنا دل بیچ میں ڈال دیں گے، اپنی معصوم اولاد کو بھی ساتھ شامل کریں گے اور جذبے کے ساتھ ان کو کہیں گے کہ خدا کے لئے میری مدد کر و.میرا دل چاہتا ہے مگر میں مجبور اور بے اختیار ہوں میرا بس نہیں چل رہا.پھر دیکھیں کہ خدا ان معصوم بچوں کی دعائیں آپ کے ساتھ شامل کرے گا.کتنی عظیم الشان طاقت پیدا ہو جائے گی آپ کے

Page 110

97 الفاظ میں.آپ قوموں کو فتح کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں لیکن قوموں کو محبت اور پیار کے غالب جذ بے اور دعاؤں کے ذریعے آپ نے فتح کرنا ہے.یہ سلیقے سیکھنے ہیں اور یہ سلیقے اپنی اولا دکو سکھائیں.دیکھتے دیکھتے جماعت کی کایا پلٹ جائے گی نئی زندگی پیدا ہوگی ،نئی روحانیت آپ کو عطا ہوگی.پھر یہ شکایتیں نہیں ہوں گی کہ فلاں احمدی باہر سے آیا تھا اس نے فلاں گندگی شروع کر دی، فلاں باتیں اس نے اختیار کر لیں جماعت کی بدنامی کا موجب بنا.ایسی جماعت جو پھیل رہی ہو چاروں طرف جہاں نئے نئے لوگ داخل ہو رہے ہوں وہاں تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایسا روحانی ماحول پیدا ہو جاتا ہے کہ تربیت کی ضرورت ہی کوئی نہیں پڑتی ، تربیت خدا خود کر نے لگ جاتا ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کے ان باتوں کو آپ پلے باندھیں گے اور یہ نہیں ہو گا کہ میں اگلے سال آؤں تو پھر ویسی ہی حالت میں دیکھوں.بدلتی ہوئی حالتوں میں زندہ قومیں چلا کرتی ہیں، ایک حال پر نہیں کھڑی رہا کرتیں.اس لئے آپ کو ہمیشہ ہر لحاظ سے آگے سے ترقی کرنی چاہئے اور میں جانتا ہوں کہ ایک سال میں ناممکن ہے سوائے اس کے کہ اللہ معجزہ دکھائے ، ناممکن ہے کہ نوے فیصد آدمی جو داعی الی اللہ نہیں وہ داعی الی اللہ بن جائیں لیکن یہ ضرور ممکن ہے کہ داعین الی اللہ کی تعداد دگنی ہو جائے اگر دس تھے تو میں ہو جائیں اگر ہمیں تھے تو چالیس ہو جائیں.پس اپنی توفیق کے مطابق کام کریں آپ کی توفیق سے بڑھ کر میں آپ پر بوجھ نہیں ڈالتا کیونکہ خدا بھی نہیں بوجھ ڈالتا لیکن اگر آپ اپنی توفیق کے مطابق کام کریں تو خدا نے آپ کو بہت بڑے بڑے بوجھ اُٹھانے کے قابل بنایا ہے.اگر خدا نے آپ کو بڑے بوجھ اُٹھانے کے قابل نہ بنایا ہوتا تو ساری دنیا کا بوجھ ہر گز آپ کے کندھوں پر نہ ڈالتا.اپنی عظمت کو سمجھیں، اپنی خوابیدہ قابلیتوں کو سمجھیں ، آپ میں وہ طاقتیں موجود ہیں جنہوں نے دنیا کی تقدیر بدلنی ہے.یہ احساس خود اعتمادی پیدا کریں.پھر جب دعا کے ذریعے اور تو کل کے ذریعے آپ کام کریں گے تو انشاء اللہ عظیم الشان کام آپ دنیا میں کر کے دکھائیں گے.اللہ اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین." خطبات طاہر جلد 6 صفحہ 561-573)

Page 111

98 ہر مجلس عاملہ ماہانہ میٹنگ میں تبلیغ کے موضوع کو زیر بحث لائے خطبہ جمعہ 6 نومبر 1987ء) امراء کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے اور ان کی مجالس عاملہ کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے، سیکرٹریان تبلیغ کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے.صرف ایک دفعہ کی یا دو دفعہ کی نصیحت کافی نہیں ہے.آپ سب جو جماعت کے عہدیدار ہیں ، آپ کا جماعت سے واسطہ روز روز کا پڑنے والا ہے.میں ہر خطبے میں تو اس بات کو چھیڑ نہیں سکتا اور بہت سے مضامین ہیں جن کی طرف توجہ دینی پڑتی ہے.ساری دنیا کے بہت سے مسائل ہیں جن کو باری باری زیر نظر لا کر جماعت کے سامنے رکھنا ہوتا ہے اور نہ میں بار بار یہاں آسکتا ہوں اس لئے جو عہد یدار ہیں وہ ان الزراع میں داخل ہیں جو میرے ساتھ شامل کئے گئے ہیں ان کو مسلسل توجہ کرنی چاہئے.آپ نے دیکھا ہو گا بعض زمیندار خود کھیتوں پر حاضر نہیں رہ سکتے ان کی بڑی بڑی زمینیں ہوتی ہیں.آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن اچھے مینیجر رکھتے ہیں اور اچھے مینیجر پھر ان کی نصیحتوں کو یا درکھتے ہیں جو وہ آکر ہدائتیں دے کر جاتے ہیں ان پر عمل کرواتے ہیں اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دن بدن زمیندارہ کی حالت بہتر ہونی شروع ہو جاتی ہے اور اگر مینیجر کمزور پڑ جائیں یا بات سنیں اور بھلا دیں تو پھر وہ دورے بے کار ہو جاتے ہیں..........یہ مضمون جو ہے یہ ان سب الزراع پر صادق آتا ہے جو کسی ملک کی انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہیں، مجلس عاملہ مرکزیہ ہو یا مقامی مجالس عاملہ ہوں کیونکہ میں نے تمام مجالس عاملہ کی ذمہ داری لگائی ہے کہ ہر مہینے وہ تبلیغ کے موضوع کو ضرور زیر بحث لائیں اور کوئی مجلس عاملہ ایسی نہ ہو جس میں مہینے ایک بار ایجنڈے پر یہ مضمون نہ ہو کہ ہم نے تبلیغ کو زیر نظر لانا ہے اور دیکھنا ہے کہ ہم کیا کوششیں کر رہے ہیں؟ ان کوششوں کا کیا نتیجہ نکلا رہا ہے؟ کتنے نئے احمدیوں کو ہم نے داعی الی اللہ بنا دیا ہے اور ایک نیا اعزاز بخشا ہے داعی الی اللہ بنا کے ان لوگوں میں شامل کر دیا ہے جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور کتنے داعی الی اللہ ہیں جو کمزور تھے یا ان کو طریقہ نہیں آتا تھا ان کو ہم نے طریقے سمجھائے ان کی کمزوری کو دور کیا ان کی مدد کی یہاں تک کہ اللہ کے فضل کے ساتھ وہ پہلے سے بہتر داعی الی اللہ بن گئے.اس قسم کے مضامین پر غور کرنے کے لئے میں نے ہدایت کی تھی کہ ہر مجلس عاملہ ایک دفعہ اسے زیر غور لائے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا.بہت کم ممالک نے سنجیدگی سے اس ہدایت کی طرف توجہ دی ہے اور یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ اگر آپ خلیفہ وقت کی ہدایت ، میں ہوں یا کوئی بھی ہو جو بھی اس منصب پر فائز ہوتا ہے خواہ میرے جیسا کمزور ہی کیوں نہ ہواگر اس کی ہدایات کو آپ نظر انداز کریں یا تخفیف کی نظر سے دیکھیں گے تو آپ سے برکتیں اُٹھ جائیں گی.

Page 112

99 میرا ساری زندگی کا تجربہ ہے یعنی میں تو خلیفہ ابھی چند سال ہوئے بنا لیکن میں نے دو خلافتوں کو دیکھا ہے بڑے غور کے ساتھ اور قریب سے اور میرا ساری زندگی کے تجربے کا نچوڑ یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی ہدایت پر اگر آپ اخلاص کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ توجہ دیں گے خواہ آپ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے تو آپ کے کاموں میں غیر معمولی برکت پڑے گی اور اگر آپ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے بھلا ئیں گے تو پھر آپ کے کاموں میں سے برکت اٹھ جائے گی.جماعت کو اس وقت بڑی تیزی کے ساتھ کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور کثرت کے ساتھ الزراع پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اس لئے اس معاملے کی طرف زیادہ سنجیدگی سے توجہ کرنی چاہئے." ( خطبات طاہر جلد 6 صفحہ 731-733) ذیلی تنظیموں کو بھی جماعت کی انجمنوں کے ساتھ قدم ملا کر آگے بڑھنا چاہئے خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1987ء) اطفال الاحمدیہ کے چندے میں بھی جو اطفال کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے اس میں بھی عمومی طور پر تو ترقی ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جس انجمن کے سپر د اطفال کا چندہ ہے انہوں نے سنتی دکھائی ہے کیونکہ گزشتہ سال سے بعض جماعتوں میں اطفال کے چندوں میں نمایاں کمی ہے جبکہ بالغوں کے چندے میں نمایاں ترقی ہے اس کا مطلب ہے جماعت کا کوئی قصور نہیں ہے جن انجمنوں کے سپرد یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فلاں چندے کو سنبھالیں، فلاں چندے میں جماعت کو آگے لے کر بڑھیں ان انجمنوں کی غلطی ہے، ان مجالس کی غلطی ہے.اس لئے جو ذیلی مجالس تنظیمیں ہیں ان کو بھی جماعت کی انجمنوں کے ساتھ قدم ملا کر آگے کو چلنا چاہئے یعنی جب تک وہ آگے بڑھتی ہیں قدم ملا کے آگے بڑھیں اگر وہ پیچھے رہیں تو پھر بے شک آگے نکل جائیں لیکن پیچھے رہنے کا حق نہیں ہے بہر حال.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ ذیلی انجمنیں جن کے سپر دالگ الگ خدمت کے کام کئے گئے ہیں وہ ان کی طرف نظر رکھیں گی اور پہلے کی نسبت بہتر کام کریں گی." خطبات طاہر جلد 6 صفحہ 880)

Page 113

100 $1988 اصلاح کرنے والوں کو سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 1988ء) "حسنات سے کیا مراد ہے؟ یہ ایک بہت ہی حسین لفظ ہے اور بہت ہی وسیع معنی رکھتا ہے.اس مضمون میں سب سے پہلے تو یہ بات داخل ہے کہ آپ بدیوں کا مقابلہ درشتی اور سختی سے نہیں کر سکتے بلکہ حسن کے ساتھ کر سکتے ہیں.آپ کے اندرکشش ہوگی تو بدیوں کا مقابلہ کرسکیں گے.آپ کے مزاج میں اگر تیزی اور سختی ہوگی اور خشونت پائی جائے گی تو آپ در حقیقت مذکر بننے کے اہل نہیں رہتے.اس لئے جب آپ ان معاشرتی بدیوں کو دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی نیت کو درست کریں اور اپنی نیت میں حسن پیدا کریں اور ان لوگوں کا درد محسوس کریں جو برائیوں کا شکار ہیں.ان لوگوں کے خلاف اگر نفرت دل میں پیدا ہوتی ہے اس نفرت کو دبائیں اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوں.اپنا ذہن اپنے دماغ کے محدود دائرے سے نکال کر دوسرے کے دماغ کے دائرے میں داخل کرنے کی کوشش کریں اور سوچیں کہ وہ کیوں یہ کر رہا ہے کیا عوامل ہیں جس نے ان باتوں پر اس کو مجبور کر دیا ہے، پھر حکمت کے ساتھ رفتہ رفتہ حسن دے کر اس کی بدیوں کے ازالہ کی کوشش کریں.یہ کیسے ہو سکتا ہے اس کی مثالیں میں آگے تفصیل سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.پہلی چیز جو میں بیان کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ جب آپ کسی چیز کو پیدا ہوتے دیکھتے ہیں تو لازم ہے کہ اس کے عوامل پر غور کریں کہ کیوں ایسا ہو رہا ہے؟ ربوہ میں قائد خدام الاحمدیہ کے طور پر بھی رہا ہوں، مختلف جماعتی خدمتوں پر مامور رہا ہوں اور وقف جدید سے تعلق کی وجہ سے سارے پاکستان کے دیہات سے بھی اصلاحی رنگ میں میرا ایک تعلق رہا ہے.اس لئے اپنے تجربہ کی روشنی میں میں بعض باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.کئی قسم کے لوگ مجھے ملیں ہیں اس کام کے دوران.بعض لوگ ہیں وہ کہتے ہیں دیکھوجی ! یہاں آوارگی پھیل گئی ہے، لڑکے اس طرح پھر رہے ہیں اور ان کی طبیعت میں بڑا غصہ اور اشتعال ہوتا ہے، کیا کر رہی ہے جماعت ، کیا حال ہو گیا ہے سب کا، یہ نسلیں تباہ ہوگئی ہیں اور انجمن میں کچھ نہیں ہورہا، وکلاء کچھ نہیں کر رہے، ان کو بس اپنی چائے پینے سے کام ہے اور پتا ہی کچھ نہیں کہ یہاں کیا حال ہو گیا ہے.اس قسم کے تبصرے بھی آپ کو سنائی دیتے ہیں.بعض اس قسم کے لوگ ہیں اس کے برعکس جو برائیوں کو دیکھتے ہیں اور خاموشی سے گھر میں چلے جاتے ہیں اور گھر میں بیٹھ کر یہ باتیں کرتے ہیں کہ معاشرہ خراب ہو رہا ہے، کوئی حال نہیں رہا اور لوگ گندے ہوتے چلے جارہے ہیں.یہ دونوں قسم کے لوگ نصیحت کے لحاظ سے بریکار اور بالکل بے معنی ہیں.

Page 114

101 سب سے پہلی بات اس ضمن میں سوچنے کے لائق یہ ہے کہ پہلے لوگوں کا بھی ان بیماروں سے تعلق کٹ گیا کیونکہ وہ نفرت کا شکار ہو گئے اور دوسری قسم کے لوگوں کا بھی ان بیماروں سے تعلق کٹ گیا کیونکہ وہ اس جد و جہد سے علیحدہ ہو گئے اور اپنے گھروں کے آرام خانوں میں وہ گویا کہ بے نیاز ہو کر بیٹھ گئے کہ وہاں بازاروں میں کیا ہو رہا ہے.پھر ایسے تبصرے بھی آپ کو سنائی دیں گے کہ جی یہ لوگ وہاں بیٹھتے ہیں ، وہاں بیٹھے ہیں مجلسیں لگاتے ہیں اور ایسے تبصرے بھی سنائی دیں گے کہ ان کی مجلسیں تو ڑ دی جائیں ، ان کو ربوہ سے نکال دیا جائے.ان کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے ، ان کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے حالانکہ ایسے تبصرے کرنے والے بسا اوقات متمول لوگ ہوتے ہیں.ان کے گھروں میں ایسی آسائشیں میسر ہوتی ہیں کہ وہ اپنے گھروں میں مجلسیں لگاتے ہیں، راتوں کو دیر دیر تک بیٹھتے ہیں اور ان کے رشتہ دار وہاں اکٹھے ہوتے ہیں، چائے پی جاتی ہے، گیئیں ماری جاتی ہیں، ہر قسم کے تبصرے ہوتے ہیں.ان کو وہ اپنی حالت دکھائی نہیں دے رہی ہوتی اور بازار میں کچھ غریب نوجوان دکھائی دے رہے ہوتے ہیں جو ان کے نزدیک نہایت آوارہ اور غیر ذمہ دار اور بے راہرو ہیں، ان کو کوئی حق نہیں کہ اکٹھے بیٹھیں کہیں.غور کرنا چاہئے ، سوچنا چاہئے کہ آخر کیوں ایسا ہورہا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کو اپنے طبعی دلچسپیوں کے لئے کوئی نکاس کی راہ نظر نہیں آتی.ہر انسان میں ایک جذبہ ہوتا ہے کسی طرح وہ تسکین حاصل کرے لذت حاصل کرے اپنی تھکاوٹ کو دور کرے.اگر کسی کے گھر میں ایک کمرہ ہے، غریب کے گھر میں اور وہیں اس کے ماں باپ اور بہن بھائی رہتے ہیں تو اپنے گھر میں بیچارہ کیسے مجلسیں لگا سکتا ہے.وہ اپنے جیسے غریبوں کو لے کر باہر نکلے گا بازاروں میں کہیں برف والے کے پاس کھڑا ہو جائے گا ، کہیں کباب کی دکان پر ، کہیں کسی مٹھائی کی دکان پر ، پھر وہاں سے گزرتے دیکھے گا عورتوں کو لڑکیوں کو، کچھ پردہ دار ہوں گی کچھ نے بے احتیاطی کی ہوگی پھر ان پر اس کی نظریں پڑیں گی اور اس کی جو تعلیم اور تربیت ہے جو گھروں میں عموماً شروع ہوتی ہے اس کا پس منظر بھی آپ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اکثر ایسے نوجوانوں کے ماں باپ خود تربیت کے محتاج ہوتے ہیں اور معاشرے کی وجہ سے یا اقتصادی کمزوریوں کی وجہ سے یا تو انہوں نے تعلیم ہی حاصل نہیں کی ہوتی یا ایسے گھروں میں پرورش پائی ہوتی ہے جہاں کرختگی روز مرہ کی عادت ہے.خاوند کی بیوی سے بدسلوکی ، بیوی کی خاوند سے بدسلوکی.یہ روز مرہ وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں.تو ایسے گھروں میں پلنے والے ان بچوں کو آپ محض قصور وار قرار دے کر رد کر دیں اور یہ سمجھ لیں کہ ناظر امور عامہ تھانے دار بن کر ہر وقت ان بچوں کے خلاف کاروائیاں کرتا رہے گا یا ان کو خدام الاحمدیہ پکڑ کے بدنی سزائیں دے گی یا اور کئی قسم کی ان کے خلاف تعزیری کاروائیاں کی جائیں گی.یہ درست بات نہیں ہے.آپ کی سوچ ہی بگڑی ہوئی ہے اس صورت میں.اصلاح ہمدردی اور حسن سے پیدا ہوتی ہے قرآن کریم نے یہ فرمایا ہے حسن کے بغیر برائی دور نہیں ہو سکتی اور یہ رد عمل جس کی مثال آپ کے سامنے پیش کی

Page 115

102 ہے یہ حسین رد عمل نہیں ہے یہ ایک ظالم رد عمل ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے.اس لئے سب سے پہلے تو جو تربیت کے ذمہ دار ہیں ان کی تربیت ضروری ہے ان کو خود اپنی تربیت کرنی چاہئے ، اپنے نفس کا محاسبہ کرنا چاہئے اپنے دل کو ٹول کر دیکھنا چاہئے کہ اس قسم کے جب وہ نظارے دیکھتے ہیں تو ان کے دل میں ان بیچارے نو جوانوں کے لئے ہمدردی پیدا ہوتی ہے یا نفرت پیدا ہوتی ہے.اگر نفرت پیدا ہوتی ہے تو وہ لوگ خود بیمار ہیں ان بیچاروں کی کیا اصلاح کریں گے.انصار اللہ کوگھروں میں ویڈیوز وغیرہ کی نگرانی کرنی چاہئے پھر جب آپ دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ ویڈیوز لے کر جاتے ہیں ہندوستان کے گانوں کی فلمیں یا یورپ کی بعض فلمیں اور اکٹھے ہو کر کہیں دیکھتے ہیں تو بعض لوگوں کو آگ لگ جاتی ہے کس قدر تباہی پھیل گئی ہے، اڈے بنے ہوئے ہیں ، امور عامہ کچھ نہیں کر رہی، خدام الاحمدیہ کچھ نہیں کر رہی ، انصار اللہ کچھ نہیں کر رہی، صدران محلہ بے پرواہ ہیں.وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان میں سے جو متمول ہیں ان کے گھروں میں بھی ٹیلی ویژنز ہیں ، ان کے گھروں میں بھی سہولتیں ہیں ، ان کی کمزوریوں پر ان کے حالات نے پردہ ڈالا ہوا ہے، ان کی اقتصادی حالت نے پردہ ڈالا ہوا ہے اور وہ لوگ بھی گھر میں روزانہ ایسی باتیں کرتے ہیں اور ان سے زیادہ کرتے ہیں جن کو کبھی مہینے میں ایک دفعہ کوئی ویڈیومل گئی بیچاروں کو.پھر وہ جب لوگ گزررہے ہوتے ہیں گلیوں سے کہیں سے گانے کی آواز آرہی ہوتی ہے بعض لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں کہ دیکھو جی! یہاں ربوہ میں گانے گائے جارہے ہیں.اور بہت سے ایسے گھر بھی ہیں جو اتنے وسیع ہیں کہ ان کے گھروں سے گانوں کی آوازیں باہر نہیں جاتیں.بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جن کو ایسی نئی قسم کی بجلی کی مصنوعات میسر ہیں کہ کانوں میں اس کی ایک تار کی ٹوٹی دے دی اور کسی کو بھی آواز نہیں جائے گی اپنے آرام سے بیٹھے جو مرضی سنتے رہیں.تو حقیقت پر نظر ر کھے بغیر محض تنقید سے اصلاح نہیں ہوسکتی.یہ ٹھیک ہے کہ گانوں کے اوپر کسی زمانے میں جماعت میں بہت بختی ہوا کرتی تھی اور بعض لوگ ان میں سے ایسے ہیں جن کو قادیان کے وہ زمانے یاد آ جاتے ہیں.وہ کہتے ہیں جی دیکھو! قادیان میں فلاں جگہ گانے کی آواز آئی تھی تو امور عامہ نے یہ کام کیا تھا ان کو گھروں سے نکال دیا تھا، ان کی دکانیں بند کرا دی تھیں لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ کون سا ماحول تھا اور یہ کون سا ماحول ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تربیت یافتہ صحابہ کی نسلیں تھیں جن کے والدین نے اپنے گھروں میں سوائے تلاوت یا پا کیز نظموں کے کچھ بھی نہیں سنا ہوا تھا ان کی نسلیں جب نرمی اختیار کر رہی تھیں تو اس سے بہت اجنبیت پیدا ہوتی تھی ماحول میں اور جو ماحول دوسرا ہندوستان کے معاشرے کا تھا وہ بھی اتنا بد نہیں تھا.اب صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے.ان میں سے بہت سے جو نو جوان آج ہمارے شہروں میں یا محلوں میں آباد ہیں جو احمدی بھی ہیں ان میں

Page 116

103.سے بھاری اکثریت ایسی ہے جنہوں نے اعلیٰ بزرگوں کی تربیت حاصل نہیں کی.ربوہ میں بھی اردگرد سے، صرف اردگرد سے نہیں بلکہ سارے پاکستان سے بلکہ اس سے باہر سے بھی بہت سے ایسے لوگ آباد ہوئے ہیں جا کر جن کا اپنا تربیتی پس منظر بہت کمزور ہے.ایسے لوگ جو مشرقی افریقہ سے وہاں گئے یا انگلستان سے گئے یا اور دوسرے ملکوں سے گئے انہوں نے اپنے ماحول میں اس سے بہت زیادہ گانے سنے، رقص وسرور دیکھے، فلمیں روز مرہ چلتی دیکھیں اور ان کے نزدیک یہ کوئی برائی نہیں تھی.وہ یہ ساری چیزیں نہ سہی ان میں سے کچھ چیزیں لے کر ربوہ پہنچ گئے.پھر جیسا کہ میں نے بیان کیا اقتصادی بدحالی کی وجہ سے بہت سے آراموں سے یہ لوگ محروم ہیں.نہ ان کے گھروں میں پنکھے ہیں ، نہ ان کے گھروں میں علیحدہ بیٹھنے کی جگہیں ہیں ، نہ ان کو اچھا کھانا میسر ہے.ان بیچاروں کی عیاشی کی انتہا یہ ہے کہ اچھا گانا سن لیں اور جب وہ سنتے ہیں تو آپ ان کو ایسی غضب کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ تباہ ہو گئے ہیں یہ لوگ ، ذلیل لوگ ہیں انہوں نے ساری دنیا کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور جماعت احمدیہ کے اوپر داغ لگ گئے ہیں، ان کو زبر دستی جس طرح جلا د گندے عضو کو کاٹ کے پھینکتا ہے ان کو کاٹ کر اپنے معاشرے سے الگ کر دو.یہ غیر حقیقی باتیں ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود ایک تصنع کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور تصنع کی حالت میں سوچ رہے ہیں.ان سب لوگوں کی مجبوریوں اور تکلیفوں پر نظر رکھنا ضروری ہے.وہ تکلیفیں اصل بیماریاں ہیں.وہ ناداری کی حالتیں اصل بیماریاں ہیں.ان معاملات میں آپ ان سے ہمدردی نہ رکھیں اور بیچارے اپنے معصومانہ رنگ میں تھوڑا سا بھی اپنے دل کی تسکین کا سامان پیدا کریں تو آپ غیظ و غضب کا شکار ہو جائیں.یہ ہے اصل بیماری روحانی جو آپ کو لاحق ہے اس لئے سب سے پہلے تو اصلاح کرنے والوں کو اپنے نفس کی اصلاح کرنی چاہئے.انصار اللہ کو نو جوانوں کی آوارگی روکنے کی طرف توجہ دینی چاہئے ایک دفعہ مجھے یاد ہے ربوہ میں میں نے اپنی مجلس عاملہ کو کہا انصار اللہ میں تھا یا خدام الاحمدیہ میں، غالبا انصار اللہ کی بات ہے.میں نے ان سے کہا کہ بہت سارے لڑکے ہیں بیچارے جو آوارگی کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں اور ان کے متعلق روز شکایتیں کرتے ہیں تو کیوں نہ ہم یوں کریں کہ اپنے میں سے ہم اپنی ذمہ داری یہ کر لیں کہ ہم میں سے ہر ایک ایک یا دو یا یا تین کو خصوصیت کے ساتھ اپنا دوست بنانے کی کوشش کرے گا.ان سے وہ تعلق رکھے گا، ان کے مسائل سنے گا، ان کے دکھوں کو اپنانے کی کوشش کرے گا ، اپنا سکھ ان کے ساتھ بانٹنے کی کوشش کرے گا اور دیکھیں تو سہی کہ پھر کیا نظر آتا ہے.چنانچہ ہم میں سے جس نے بھی اس نصیحت پر عمل کیا اس کی اپنی حالت بدل گئی.بعض نے مجھے بتایا کہ بڑے دردناک حالات ہیں.ہم جب اس کے ساتھ بیٹھے چائے پر بلایا اول تو وہ حیران رہ گئے کہ ہمارے تو لوگ منہ پر تھو کا کرتے تھے کہ یہ کون

Page 117

104 خبیث انسان ہے اور یہ اچھا بھلا معزز شریف آدمی یہ اپنے گھر چائے پر بلا رہا ہے.کہتے ہیں اسی احسان کے سلوک نے اس کی حالت بدلی ہے.پھر جب اس کے حالات معلوم کئے تو پتا لگا یہ بہنوں کا حال ہے، یہ فلاں بھائیوں کا حال ہے، ماں باپ کی اس طرح ناچاقی ہے، یہ گھر میں غربت کا ماحول ہے، یہ تنگیاں ہیں.تو بجائے اس کے کہ ایسے شخص سے وہ نفرت کرتے ان کے لئے ان کے دل میں ہمدردی پیدا ہوئی ،محبت پیدا ہوئی ان کے لئے کئی ایسے اقدامات کا موقع ملا جو اپنے کمزور بھائی کے لئے ایک نسبتا متمول بھائی کیا کرتا ہے.حسب توفیق انکی خدمت کی توفیق ملی ان کو اور بعض ایسے نوجوان تھے جن کے متعلق میرے رپورٹیں یہ تھیں کہ یہ اتنے گندے ہو چکے ہیں کہ اس لائق نہیں کہ ان کو ربوہ میں ٹھہر نے دیا جائے.ان کے اندر سے بڑے بڑے پیارے نوجوان پیدا ہونے شروع ہو گئے.پس اصلاح کا جو منبع ہے وہ آپ کا دل ہے.آپ کے دل میں اگر حسن ہوگا تو آپ اصلاح کر سکیں ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے سختی کے ذریعے بدی کو روکنے کا کہیں کوئی حکم نہیں ملتا.ہاں حسن کے ذریعے برائی روکنے کا حکم ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم حسن کی آماجگاہ تھے.ایک حسن کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا جس کو خدا نے یہ طاقت ودیعت کی تھی کہ ہر بدی پر اپنے حسن کی موجوں کے ذریعے غالب آجائے.پس ہم نے اگر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ اختیار کرنا ہے تو خیر ام بننا ہمارے مقدر میں ہے.ہم لازماً خیر ام بنیں گے اور اس سنت کی برکت سے ہم برائیوں پر غلبہ پا جائیں گے لیکن اگر سنت مغرب کی اختیار کریں یا دنیا داروں کی اختیار کریں اور دعوی یہ کریں کہ ہم نے برائیوں کا قلع قمع کرنا ہے تو یہ جھوٹی بات ہے.ایک حمقاء کی جنت ہے جس میں آپ بستے ہیں.اس لئے ان چیزوں کی طرف حکمت سے توجہ کریں اور مزید معلوم کریں کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو ان نسلوں کو تباہ کر رہے ہیں اور ان عوامل کو دور کرنے یا اچھے عوامل کے ذریعے ان کو Replace کرنے یعنی ان کو رفتہ رفتہ اس طرح دور کرنے کی توفیق پائیں کہ اچھی چیز دیں تب بری چیز باہر نکلے.خالی برائیوں کو دور کرنے کا تو کوئی تصور قرآن کریم میں نہیں ہے.خلاؤوں کو بھرنے کا تصور ہے.خلا پیدا کرنے کا کوئی تصور نہیں اور نہ خلا ہوا کرتا ہے دنیا میں حقیقت میں.بدی ہے وہ تب جگہ چھوڑے گی اگر کوئی اور طاقتور چیز اس کی جگہ داخل ہو جائے اور اس کو دھکیل کر باہر نکال دے گی اور قرآن کریم فرماتا ہے.إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ حسن میں یہ طاقت ہے اور حسین چیزوں میں یہ طاقت ہے کہ وہ بدیوں کو دھکیل کر باہر نکال دیں.اس لئے آپ کو ایسی طاقتور خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنی ہوں گی اور ایسے طاقتور حسین ذرائع اختیار کرنے ہوں گے جن کے ذریعے بدیاں لازماً ان جگہوں کو چھوڑ جائیں جہاں آپ کا حسن داخل ہونا شروع ہو جائے.

Page 118

105 مطالبوں کی بجائے اپنے مذاق بلند کریں اس سلسلے میں میں نے کئی قسم کی بدیوں پر غور کیا مثلاً گانا بجانا اور اس قسم کی چیزیں ہیں آپ ساری دنیا میں یہ بات دیکھیں گے یہ صرف مشرق کی بات نہیں، پاکستان کی بات نہیں، ربوہ کی بات نہیں کہ رفتہ رفتہ مذاق بدل رہے ہیں اور مذاق زیادہ مادہ پرستی کی طرف مائل ہورہے ہیں.ایک زمانہ تھا جبکہ ایک شاعر کا کلام ایک انسان کے دل میں وہ جذبات انگیخت کر دیا کرتا تھا جواب عام نغمے بھی نہیں کرتے بلکہ اس کے لئے پاپ میوزک کی ضرورت پیش آتی ہے.مذاق بگڑے ہیں رفتہ رفتہ اور مادیت کی طرف زیادہ میلان ہوتا چلا گیا ہے.مذاق اگر لطیف ہوں تو ایک اچھا کلام ، ایک اچھا ادب پارہ انسان کے دل میں اور دماغ میں ایسا تموج پیدا کر دیتا ہے کہ دنیا میں جو عام میوزک کے شیدائی ہیں، نغموں کے شیدائی ہیں وہ ان لذتوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے.اس لئے مذاق کی صحت کی طرف اور درستی کی طرف توجہ بہت ضروری ہے.اگر آپ جائزہ لیں گے پاکستان کا مثلاً خصوصیت سے تو آپ وہاں بھی یہ محسوس کریں گے کہ پرانی نسلوں کا ادبی معیار بلند تر تھا.جو پہلے زمانے کے لوگ تھے یا بچے پڑھا کرتے تھے ان کے سکولوں میں بھی اور سکولوں سے باہر بھی ایک ادبی ذوق شوق کا ماحول تھا اور شعر و شاعری کا ماحول تھا.وہ شعر و شاعری اس زمانے میں بعض نیک لوگوں کو بہت ہی بری لگا کرتی تھی.وہ سمجھتے تھے پیڑ کے تباہ ہور ہے ہیں شعر و شاعری کی وجہ سے لیکن آج کے ماحول میں اگر دیکھیں تو وہ شعر و شاعری کے ماحول میں پلنے والے لوگ یہ پاپ میوزک کے شیدائیوں کو پاگل سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں یہ تباہ ہورہے ہیں.تو یہ نسبتی چیزیں ہیں اور ان کے عوامل پر آپ غور کریں تو آخری تان اس بات پر ٹوٹے گی کہ معاشرے کا مذاق بعض مطالبے کرتا ہے.اگر آپ نے مذاق کی اصلاح نہ کی اور مطالبوں کی راہ میں کھڑے ہو گئے تو آپ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.مذاق بلند کریں اور مذاق کے مطالبہ پورے کریں.یہ دو چیز میں اکٹھی ہونا ضروری ہے." خطبات طاہر جلد 7 صفحہ 727-733)

Page 119

106 $ 1989 واقفین نو کی تعلیم و تربیت کے لئے ذیلی تنظیموں سے استفادے کئے جاسکتے ہیں خطبہ جمعہ 10 فروری 1989ء) آئندہ صدی کی تیاری کے سلسلے میں ایک بہت ہی اہم تیاری کا تعلق واقفین نو سے ہے.وقف نو کی جو میں نے تحریک کی تھی اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بارہ سو سے زائد ایسے بچوں کے متعلق اطلاع مل چکی ہے جو وقف نو کی نیت کے ساتھ دعائیں مانگتے ہوئے خدا سے مانگے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُن کی خیر وعافیت کے ساتھ ولادت کا سامان فرمایا.یہ چھوٹے چھوٹے بچے آئندہ صدی کے واقفین نو کہلاتے ہیں.اس کے علاوہ اور بھی بہت سے خطوط مسلسل ملتے چلے جارہے ہیں.اس سلسلے میں دو طرح کی تیاریاں میرے پیش نظر ہیں مگر اس سے پہلے کہ میں تیاری کا ذکر کروں میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وقف نو کے لئے جتنی تعداد کی توقع تھی اتنی تعداد بلکہ اس کا ایک حصہ بھی ابھی پورا نہیں ہو سکا اور جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے اس میں پیغام پہنچانے والوں کا قصور ہے.بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں عامۃ الناس تک یہ پیغام پہنچایا ہی نہیں گیا اور جن دنوں یہ تحریک کی گئی تھی اُن دنوں کیسٹ کا نظام آج کی نسبت بہت کمزور حالت میں تھا اور افریقہ کے ممالک، ایسے دیگر ممالک جہاں اُردو زبان نہیں سمجھی جاتی اور بعض علاقوں میں انگریزی بھی نہیں سمجھی جاتی وہاں ترجمہ کر کے کیسٹس پھیلانے کا عملاً کوئی انتظام نہیں تھا.اس وجہ سے وہ جو براہ راست پیغام کا اثر ہوسکتا ہے اُس سے بہت سے احمدی علاقے محروم رہ گئے.بعد ازاں مؤثر رنگ میں اس تحریک کو پہنچانا یہ انتظامیہ کی ذمہ داری تھی مگر بعض جگہ ذمہ داری کو ادا کیا گیا اور بعض جگہ یا ادانہیں کیا گیا یا نیم دلی کے ساتھ ادا کیا گیا ہے.پیغام پہنچا نا صرف کافی نہیں ہوا کرتا کس جذبے کے ساتھ پیغام پہنچایا جاتا ہے، کس محنت اور کوشش اور خلوص کے ساتھ پیغام پہنچایا جاتا ہے.یہ پیغام کے قبول کرنے کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے.مختلف دنیا میں پیغمبر آئے بنیادی طور پر ایک ہی پیغام تھا یعنی خدا کا پیغام بندوں کے نام لیکن جس شان کے ساتھ وہ پیغام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچایا اس شان سے کوئی اور پہنچا نہیں سکا اور جس عظمت اور قدر اور قربانی کی روح کے ساتھ آپ کا پیغام قبول کیا گیا ویسے تاریخ انبیاء میں کسی اور کا پیغام قبول نہیں کیا گیا.اس لئے پیغام پہنچانا کافی نہیں.کس رنگ میں اور کس جذبے کے ساتھ ، کس خلوص کے ساتھ ، کس درجہ محبت اور پیار کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے پیغام پہنچایا جاتا ہے.یہ وہ چیزیں ہیں جو پیغام کی قبولیت یا عدم قبولیت کا فیصلہ کیا کرتی ہیں.اس لئے میری خواہش یہ تھی کم سے کم پانچ ہزار بچے اگلی صدی -

Page 120

107 کے واقفین نو کے طور پر ہم خدا کے حضور پیش کریں.ابھی کافی سفر باقی ہے اس تعداد کو پورا کرنے میں اور دوست یہ لکھ رہے ہیں کہ جہاں تک اُن کا تاثر تھایا میں نے جو شروع میں خطبے میں بات کی تھی اس کا واقعہ یہی نتیجہ نکلتا ہوگا کہ جو اس صدی سے پہلے پہلے بچے پیدا ہو جائیں گے وہ وقف نو میں لئے جائیں گے اور اُس کے بعد یہ سلسلہ بند ہو جائے گا لیکن جس طرح بعض دوستوں کے خطوط سے پتا چل رہا ہے وہ خواہش رکھتے ہیں لیکن یہ سمجھ کر کہ اب وقت نہیں رہا وہ اس خواہش کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے اُن کے لئے اور مزید تمام دنیا کی جماعتوں کے لئے جن تک ابھی یہ پیغام ہی نہیں پہنچا میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ وقف نو میں شمولیت کے لئے مزید دو سال کا عرصہ بڑھایا جاتا ہے اور یہ عرصہ فی الحال دو سال کا بڑھایا جا رہا ہے تا کہ اس پہلی تحریک میں شامل ہو جائے ورنہ یہ تحریک تو بار بار ہوتی ہی رہے گی لیکن وہ خصوصاً تاریخی تحریک جس میں اگلی صدی کے لئے ایک واقفین بچوں کی پہلی فوج تیار ہو رہی ہے اُس کا عرصہ آج تا دو سال تک بڑھایا جارہا ہے.اس عرصے میں جماعتیں کوشش کر لیں اور جس حد تک بھی ممکن ہو یہ فوج پانچ ہزاری تو ضرور ہو جائے اس سے بڑھ جائے تو بہت ہی اچھا ہے.واقفین نو بچوں کے والدین کی ذمہ داریاں بہت سے والدین مجھے لکھ رہے ہیں کہ ان کے متعلق اب ہم نے کرنا کیا ہے؟ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس کے دو حصے ہیں اوّل جماعت کی انتظامیہ کو کیا کرنا ہے اور دوسرا بچوں کے والدین کو کیا کرنا ہے؟ جہاں تک انتظامیہ کا تعلق ہے اُس کے متعلق وقتاً فوقتاً میں ہدایات دیتارہا ہوں اور جو جو نئے خیال میرے دل میں آئیں یا بعض دوست مشورے کے طور پر لکھیں ان کو بھی اس منصوبے میں شامل کر لیا جاتا ہے لیکن جہاں تک والدین کا تعلق ہے آج میں اس ذمہ داری سے متعلق کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں.خدا کے حضور بچے کو پیش کرنا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہے کوئی معمولی بات نہیں ہے اور آپ یا درکھیں کہ وہ لوگ جو خلوص اور پیار کے ساتھ قربانیاں دیا کرتے ہیں وہ اپنے پیار کی نسبت سے اُن قربانیوں کو سجا کر پیش کیا کرتے ہیں.قربانیاں اور تحفے دراصل ایک ہی ذیل میں آتے ہیں.آپ بازار سے شاپنگ کرتے ہیں عام چیز جو گھر کے لئے لیتے ہیں اُس کو باقاعدہ خوبصورت کاغذوں میں لپیٹ کر اور فیتوں سے باندھ کر سجا کر آپ کو پیش نہیں کیا جاتا لیکن جب آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ ہم نے تحفہ لینا ہے تو پھر دکاندار بڑے اہتمام سے اُس کو سجا کر پیش کرتا ہے.پس قربانیاں تحفوں کا رنگ رکھتی ہیں اور اُن کے ساتھ سجاوٹ ضروری ہے.آپ نے دیکھا ہوگا بعض لوگ تو مینڈھوں کو ، بکروں کو بھی خوب سجاتے ہیں اور بعض تو اُن کو زیور پہنا کر پھر قربان گاہوں کی طرف لے کر جاتے ہیں، پھولوں کے ہار پہناتے ہیں اور کئی قسم کی سجاوٹیں کرتے ہیں.انسانی قربانی کی سجاوٹیں اور طرح کی ہیں.انسانی زندگی کی سجاوٹ تقویٰ سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار اور اُس

Page 121

108 کی محبت کے نتیجے میں انسانی روح بن ٹھن کر تیار ہوا کرتی ہے.پس پیشتر اس سے کہ یہ بچے اتنے بڑے ہوں کہ جماعت کے سپرد کئے جائیں گے.ان ماں باپ کی بہت ذمہ داری ہے کہ وہ ان قربانیوں کو اس طرح تیار کریں کہ ان کے دل کی حسرتیں پوری ہوں.جس شان کے ساتھ وہ خدا کے حضور ایک غیر معمولی تحفہ پیش کرنے کی تمنا رکھتے ہیں وہ تمنائیں پوری ہوں.اس سے پہلے جو مختلف ادوار میں واقفین جماعت کے سامنے پیش کئے جاتے رہے اُن کی تاریخ پر نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ کئی قسم کے واقفین ہیں کچھ تو وہ تھے جنہوں نے بڑی عمروں میں ایسی حالت میں اپنے آپ کو خود پیش کیا کہ خوش قسمتی کے ساتھ اُن کی اپنی تربیت بہت اچھی ہوئی ہوئی تھی اور وقف نہ بھی کرتے تب بھی وقف کی روح رکھنے والے لوگ تھے.صحابہ کی اولا دیا اول تابعین کی اولا دا چھے ماحول میں، اچھی پرورش اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اچھی عادات سے سجے ہوئے لوگ تھے.وہ واقفین کا جو گروہ ہے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر پہلو سے زندگی کے ہر شعبے میں نہایت کامیاب رہا.پھر ایک ایسا دور آیا جب بچے وقف کرنے شروع کئے گئے یعنی والدین نے اپنی اولا د کو خود وقف کرنا چاہا.اس دور میں مختلف قسم کے واقفین ہمارے سامنے آئے ہیں.بہت سے وہ ہیں جن کو والدین سمجھتے ہیں کہ جب ہم جماعت کے سپرد کریں گے تو وہ خود ہی تربیت کریں گے اور اس عرصے میں انہوں نے اُن پر نظر نہیں رکھی.پس جب وہ جامعہ میں پیش ہوتے ہیں تو بالکل ایسے Raw میٹریل کے طور پر، ایسے خام مال کے طور پر پیش ہوتے ہیں جس کے اندر بعض مختلف قسم کی ملاوٹیں بھی شامل ہو چکی ہوتی ہیں اُن کو صاف کرنا ایک کار دارد ہوا کرتا ہے.اُن کو وقف کی روح کے مطابق ڈھالنا بعض دفعہ مشکل بلکہ محال ہو جایا کرتا ہے اور بعض بد عادتیں وہ ساتھ لے کر آتے ہیں یعنی بعض باتیں جماعت ویسے سوچ بھی نہیں سکتی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ بعض لڑکوں کو جامعہ میں چوری کے نتیجے میں وقف سے فارغ کیا گیا ہے.کسی کو جھوٹ کے نتیجے میں وقف سے خارج کیا گیا ہے.اب یہ باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اچھے نیک، صالح احمدی میں پائی جائیں کجا یہ کہ وہ واقفین زندگی میں پائی جائیں لیکن معلوم یہی ہوتا ہے کہ والدین نے پیش تو کر دیا لیکن تربیت کی طرف توجہ نہ کی یا اتنی دیر کے بعد اُن کو وقف کا خیال آیا کہ اُس وقت تربیت کا وقت باقی نہیں رہا تھا.بعض والدین سے تو یہ بھی پتا چلا کہ انہوں نے اس وجہ سے بچہ وقف کیا تھا کہ عادتیں بہت بگڑی ہوئی تھیں اور وہ سمجھتے تھے کہ اُس طرح تو ٹھیک نہیں ہوتا وقف کر دو تو آپ ہی جا کر جماعت سنبھال لے گی اور ٹھیک کرے گی.جس طرح پرانے زمانے میں بعض دفعہ بگڑے ہوئے بچوں کو کہتے تھے اچھا اس کو تھانیدار بنوا دیں گے تو یہ جماعت میں چونکہ نیکی کی روح ہے.تھانیداری کا تو خیال نہیں آتا اُن کو لیکن واقف بنانے کا خیال آجاتا ہے حالانکہ تھانیداری سے تو ایسے بچوں کا تعلق ہو سکتا ہے وقف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.بہت بعید کی بات سوچتے ہیں یہ لوگ.وہ تو لطیفہ ہے تھانیداری والا لیکن یہ تو دردناک واقعہ ہے.وہ تو ایک ہنسنے

Page 122

109 والی کہاوت کے طور پر مشہور ہے یہ تو ایک بہت بڑا زندگی کا المیہ ہے کہ خدا کے حضور پیش کرنے کے لئے آپ کو بس گندہ بچہ نظر آیا ہے، ناکارہ محض بچہ نظر آیا ہے جو ایسی گندی عادتیں لے کر پلا ہے کہ آپ اُس کو ٹھیک نہیں کر سکتے.اس لئے یہ جو تازہ کھیپ آنے والی ہے بچوں کی اس میں ہمارے پاس خدا کے فضل سے بہت سا وقت ہے اور اب ہم اگر ان کی پرورش اور تربیت سے غافل رہیں تو خدا کے حضور مجرم ٹھہریں گے اور ہر گز پھر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اتفاقاًیہ واقعات ہو گئے ہیں.اس لئے والدین کو چاہئے کہ ان بچوں کے اوپر سب سے پہلے خود گہری نظر رکھیں اور جیسا کہ میں بیان کروں گا بعض تربیتی امور کی طرف خصوصیت سے توجہ دیں اور اگر خدانخواستہ وہ سمجھتے ہوں کہ بچہ اپنے تابع طبع کے لحاظ سے وقف کے اہل نہیں ہے تو اُن کو دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ جماعت کو مطلع کرنا چاہئے کہ میں نے تو اپنی صاف نیت سے خدا کے حضور ایک تحفہ پیش کرنا چاہا تھا مگر بد قسمتی سے اس بچے میں یہ یہ باتیں ہیں اگر ان کے باوجود جماعت اس کو لینے کے لئے تیار ہے تو میں حاضر ہوں ورنہ اس وقف کو منسوخ کر دیا جائے.پس اس طریق پر بڑی سنجیدگی کے ساتھ اب ہمیں آئندہ ان واقفین نو کی تربیت کرنی ہے.واقفین نو میں اخلاق حسنہ نظر آنے چاہئیں جہاں تک اخلاق حسنہ کا تعلق ہے اس سلسلے میں جو صفات جماعت میں نظر آنی چاہئیں وہی صفات واقفین میں بھی نظر آنی چاہئیں بلکہ بدرجہ اولیٰ نظر آنی چاہئیں.ان صفات حسنہ سے متعلق ، ان اخلاق سے متعلق میں مختلف خطبات میں آپ کے سامنے مختلف پروگرام رکھتا رہا ہوں اور اُن سب کو ان بچوں کی تربیت میں خصوصیت سے پیش نظر رکھیں.خلاصہ ہر واقف زندگی بچہ جو وقف نو میں شامل ہے بچپن سے ہی اُس کو سیچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہئے اور یہ نفرت اُس کو گو یا ماں کے دودھ میں ملنی چاہئے اور باپ کی پرورش کی بانہوں میں.جس طرح ریڈی ایشن کسی چیز کے اندر سرایت کرتی ہے اس طرح سچائی اُس کے دل میں ڈوبنی چاہئے.اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو پہلے سے بہت بڑھ کر سچا ہونا پڑے گا.ضروری نہیں ہے کہ سب واقفین زندگی کے والدین سچائی کے اُس اعلیٰ معیار پر قائم ہوں جو اعلیٰ درجے کے مومنوں کے لئے ضروری ہے اس لئے اب ان بچوں کی خاطر اُن کو اپنی تربیت کی طرف بھی توجہ کرنی ہوگی اور پہلے سے کہیں زیادہ احتیاط کے ساتھ گھر میں گفتگو کا انداز بنانا ہوگا اور احتیاط کرنی ہوگی کہ لغو باتوں کے طور پر یا مذاق کے طور پر بھی وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولیں گے کیونکہ یہ ایک خدا کی مقدس امانت اب آپ کے گھر میں پل رہی ہے اور اس مقدس امانت کے کچھ تقاضے ہیں جن کو آپ نے بہر حال پورا کرنا ہے.اس لئے ایسے گھروں کے ماحول سچائی کے لحاظ سے نہایت صاف ستھرے اور پاکیزہ ہو جانے چاہئیں.

Page 123

110 قناعت کا واقفین نو سے بڑا گہرا تعلق ہے قناعت کے متعلق میں نے کہا تھا اس کا واقفین سے بڑا گہرا تعلق ہے.بچپن ہی سے ان بچوں کو قانع بنانا چاہئے اور حرص و ہوا سے بے رغبتی پیدا کرنی چاہئے اور عقل اور فہم کے ساتھ اگر والدین شروع سے یہ تربیت کریں تو ایسا ہونا کوئی مشکل کام نہیں ہے.دیانت اور امانت کے اعلیٰ مقام تک اُن کو پہنچانا ضروری ہے.مزاح کے اندر پاکیزگی ہونی چاہئے بچپن سے اُن کے اندر مزاج میں شگفتگی پیدا کرنی چاہئے.ترش روئی وقف کے ساتھ پہلو بہ پہلو نہیں چل سکتی.ترش رو واقفین زندگی ہمیشہ جماعت میں مسائل پیدا کیا کرتے ہیں اور بعض دفعہ خطرناک فتنے بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں.اس لئے خوش مزاجی اور اس کے ساتھ حمل یعنی کسی کی بات کو برداشت کرنا یہ صفت بھی واقفین بچوں میں بہت ضروری ہے.یعنی یہ دونوں صفات واقفین بچوں میں بہت ضروری ہیں.مذاق اچھی چیز ہے یعنی مزاح لیکن مزاح کے اندر پاکیزگی ہونی چاہئے اور مزاح کی پاکیزگی دو طرح سے ہوا کرتی ہے.کئی طرح سے ہو سکتی ہے لیکن میرے ذہن میں اس وقت دو باتیں ہیں خاص طور پر.ایک تو یہ کہ گندے لطائف کے ذریعے دل بہلانے اور اپنے یا غیروں کے دل بہلانے کی عادت نہیں ہونی چاہئے اور دوسرے یہ کہ لطافت ہو اُس میں ، مذاق اور مزاح کے لئے ہم لطافت کا لفظ بھی استعمال کرتے ہیں یعنی لطیفہ کہتے ہیں اُس کو.لطیفہ کا مطلب ہی یہی ہے کہ بہت ہی نفیس چیز ہے اور ہر قسم کی کرختگی اور بھونڈھا پن لطافت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ کثافت سے تعلق رکھتا ہے.چنانچہ ہندوستان کی اعلیٰ تہذیب میں جب بھی ایسے خاندانوں میں جہاں اچھی روایات ہیں کوئی بچہ ایسا لطیفہ بیان کرتا تھا جو بھونڈھا ہواُس کو کہا جاتا تھا کہ یہ لطیفہ نہیں ہے یہ کثیفہ ہے.یہ تو بھانڈھ پن ہے.تو بھانڈھ پن اور اچھے مزاح میں بڑا فرق ہے.اس لئے جو مزاح ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی زندگی میں کہیں کہیں نظر آتا ہے کیونکہ اکثر مزاح کے واقعات اب محفوظ نہیں ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کے صحابہ کی زندگی میں وہ مزاح نظر آتا ہے اور خلیفہ اسیح الثانی کی طبیعت میں بھی بڑا مزاح تھا لیکن اُس مزاح کے ساتھ دونوں قسم کی پاکیزگی تھی لیکن بعض ایسے دوستوں کو بھی میں نے دیکھا جنہوں نے مزاح سے یہ رخصت تو حاصل کر لی کہ مزاح میں کبھی وقت گزار لینا کچھ کوئی بری بات نہیں ہے لیکن یہ فرق نہیں کر سکے کہ مزاح کے ساتھ پاکیزگی ضروری ہے.چنانچہ بعض نہایت گندے اور بھونڈے لطیفے بھی اپنی مجلسوں میں بیان کرتے رہے اور بعض لوگوں نے اُس سے سمجھ لیا کہ کوئی فرق نہیں پڑتا حالانکہ بہت فرق پڑتا ہے.اپنے گھر میں اچھے مزاح کو جاری کریں، قائم کریں لیکن برے مزاح کے خلاف بچوں کے دل میں بچپن سے ہی نفرت اور کراہت پیدا کریں.

Page 124

111 یہ چھوٹی سی بات ہے بظاہر اور اس پر میں نے اتنا وقت لیا ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ انسانی زندگی میں خصوصاًوہ زندگی جو تکلیفوں سے تعلق رکھتی ہو، جو ذمہ داریوں سے تعلق رکھتی ہو، جہاں کئی قسم کے اعصابی تناؤ ہوں وہاں مزاح بعض دفعہ بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے اور انسانی ذہن اور انسانی نفسیات کی حفاظت کرتا ہے.غناء کے نتیجے میں غریب سے شفقت پیدا ہوتی ہے غناء کے متعلق میں پہلے بیان کر چکا ہوں، قناعت کے بعد پھر غناء کا مقام آتا ہے اور غنا کے نتیجے میں جہاں ایک طرف امیر سے حسد پیدا نہیں ہوتا وہاں غریب سے شفقت ضرور پیدا ہوتی ہے.غناء کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ غریب کی ضرورت سے انسان غنی ہو جائے.اپنی ضرورت سے غنی ہوتا ہے غیر کی ضرورت کی خاطر.یہ اسلامی غنا میں ایک خاص پہلو ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.اس لئے واقفین بچے ایسے ہونے چاہئیں جو غریب کی تکلیف سے غنی نہ بنیں لیکن امیر کی امارت سے غنی ہو جا ئیں اور کسی کو اچھا دیکھ کر اُن کو تکلیف نہ پہنچے لیکن کسی کو تکلیف میں دیکھ کر وہ ضرور تکلیف محسوس کریں.تلاوت سے بچوں کے دلوں میں محبت الہی کے جذبات اٹھنے چاہئیں جہاں تک اُن کی تعلیم کا تعلق ہے جامعہ کی تعلیم کا زمانہ تو بعد میں آئے گالیکن ابتداء ہی سے ایسے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم کی طرف سنجیدگی سے متوجہ کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں یقینا انشاء اللہ نظام جماعت ضرور پروگرام بنائے گا.ایسی صورت میں والدین نظام جماعت سے رابطہ رکھیں اور جب بچے اس عمر میں پہنچیں جہاں وہ قرآن کریم اور دینی باتیں پڑھنے کے لائق ہوسکیں تو اپنے علاقے کے نظام سے یا براہ راست مرکز کو لکھ کر اُن سے معلوم کریں کہ اب ہم کس طرح ان کو اعلی درجہ کی قرآن خوانی سکھا سکتے ہیں اور پھر قرآن کے مطالب سکھا سکتے ہیں کیونکہ قاری دو قسم کے ہوا کرتے ہیں ایک تو وہ جو اچھی تلاوت کرتے ہیں اور آواز میں اُن کی ایک کشش پائی جاتی ہے اور تجوید کے لحاظ سے وہ درست ادائیگی کرتے ہیں لیکن اُس سے جان نہیں پڑا کرتی.ایسے قاری اگر قرآن کریم کے معنی نہ جانتے ہوں تو وہ تلاوت کے بت تو بنا دیتے ہیں ، تلاوت کے زندہ پیکر نہیں بنا سکتے.وہ قاری جو تلاوت کرتے ہیں سمجھ کر اور اُس تلاوت کے اُس مضمون کے نتیجے میں اُن کے دل پگھل رہے ہوتے ہیں ، اُن کے دل میں خدا کی محبت کے جذبات اُٹھ رہے ہوتے ہیں اُن کی تلاوت میں ایک زائد بات پیدا ہو جاتی ہے جو اصل ہے زائد نہیں.وہ روح ہے اصل تلاوت کی.تو ایسے گھروں میں جہاں واقفین زندگی ہیں وہاں تلاوت کے اس پہلو پر بہت زور دینا چاہئے.خواہ تھوڑا پڑھایا جائے لیکن ترجمہ کے ساتھ مطالب کے بیان کے ساتھ پڑھایا جائے اور یہ عادت ڈالی جائے بچے کو کہ جو کچھ بھی وہ تلاوت کرتا ہے وہ سمجھ کر کرتا ہے.ایک تو روز مرہ کی صبح کی تلاوت ہے اُس میں تو ہو سکتا ہے کہ بغیر سمجھ کے بھی ایک لمبے

Page 125

112 عرصے تک آپ کو اُس کو قرآن کریم پڑھانا ہی ہوگا لیکن ساتھ ساتھ یہ ترجمہ سکھانے اور مطالب کی طرف متوجہ کرنے کا پروگرام بھی جاری رہنا چاہئے.نماز کی پابندی اور نماز کے جو لوازمات ہیں اُن کے متعلق بچپن سے تعلیم دینا اور سکھانا یہ بھی جامعہ میں آکر سیکھنے والی باتیں نہیں اُس سے بہت پہلے گھروں میں اپنے ماں باپ کی تربیت کے نیچے یہ باتیں بچوں کو آ جانی چاہئیں.جماعتی اخبار اور رسائل کا مطالعہ کریں اس کے علاوہ تعلیم میں وسعت پیدا کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور دینی تعلیم میں وسعت کا ایک طریق یہ ہے کہ مرکزی اخبار اور رسائل کا مطالعہ رہے.بدقسمتی سے اس وقت بعض ممالک ایسے ہیں جہاں مقامی اخبار نہیں ہیں اور بعض زبانیں ایسی ہیں جن میں مقامی اخبار نہیں ہیں لیکن ابھی ہمارے پاس وقت ہے اور گزشتہ چند سالوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتوں میں اپنے اپنے اخبار جاری کرنے کے رجحان بڑھ چکے ہیں.تو ساری جماعت کی انتظامیہ کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ جب آئندہ دو تین سال میں یہ بچے سمجھنے کے لائق ہو جائیں یا چار پانچ سال تک سمجھ لیں تو اُس وقت واقفین نو کے لئے بعض مستقل پروگرام، بغض مستقل فیچرز آپ کے رسالوں اور اخباروں میں شائع ہوتے رہنے چاہئیں کہ وقف نو کیا ہے، ہم ان سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ اور بجائے اس کے کہ اکٹھا ایک دفعہ پروگرام ایسا دے دیا جائے جو کچھ عرصے کے بعد بھول جائے.یہ اخبارات چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تربیتی پروگرام پیش کیا کریں اور جب ایک حصہ رائج ہو جائے تو پھر دوسرے کی طرف متوجہ ہوں پھر تیسرے کی طرف متوجہ ہوں.واقفین بچوں کی علم کی بنیاد وسیع ہونی چاہئے.عام طور پر دینی علماء میں یہی کمزوری دکھائی دیتی ہے کہ دین کے علم کے لحاظ سے تو اُن کا علم کافی وسیع اور گہرا بھی ہوتا ہے لیکن دین کے دائرے سے باہر دیگر دنیا کے دائروں میں وہ بالکل لاعلم ہوتے ہیں اور اس نے اسلام کو بہت شدید نقصان پہنچایا ہے.وہ وجوہات جو مذاہب کے زوال کا موجب بنتی ہیں اُن میں یہ ایک بہت ہی اہم وجہ ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کو اس سے سبق سیکھنا چاہئے اور وسیع علم کی بنیاد پر قائم دینی علم کو فروغ دینا چاہئے.یعنی پہلے بنیاد عام دنیا وی علم کی وسیع ہو اُس پر پھر دینی علم کا پیوند لگے تو بہت ہی خوبصورت اور بابرکت ایک شجر طیبہ پیدا ہو سکتا ہے.اس لحاظ سے بچپن ہی سے ان واقفین بچوں کو عام جنرل نالج بڑھانے کی طرف متوجہ کرنا چاہئے یعنی آپ متوجہ خود ہوں تو ان کا علم آپ ہی آپ بڑھے گا یعنی ماں باپ متوجہ ہوں اور بچوں کے لئے ایسے رسائل ، ایسے اخبارات لگوایا کریں، ایسی کتابیں ان کو پڑھنے کی عادت ڈالیں جس کے نتیجے میں ان کا علم وسیع ہو اور جب وہ سکول میں جائیں تو ایسے مضامین کا انتخاب ہو جس سے سائنس کے متعلق بھی کچھ واقفیت ہو ، عام دنیا کے جو آرٹس کے مضامین ہیں لیکن سیکولر مضامین مثلاً معیشت

Page 126

113 ہے، اقتصادیات، فلسفہ، نفسیات اور حساب ، تجارت وغیرہ ایسے جتنے بھی متفرق امور ہیں ان سب میں سے کچھ نہ کچھ علم بچے کو ضرور ہونا چاہئے.علاوہ ازیں پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے کیونکہ سکولوں میں تو اتنا زیادہ انسان کے پاس اختیار نہیں ہوا کرتا یعنی پانچ مضمون، چھ مضمون ، سات مضمون رکھ لے گا بچہ، بعض یہاں دس بھی کر لیتے ہیں لیکن اس سے زیادہ نہیں جاسکتے.اس لئے ضروری ہے کہ ایسے بچوں کو اپنے تدریسی مطالعہ کے علاوہ مطالعہ کی عادت ڈالنی چاہئے.اب یہ چیزیں ایسی ہیں جو ہمارے واقفین زندگی بچوں کے والدین میں سے اکثر کے بس کی نہیں یعنی اُن کو تو میں نصیحت کر رہا ہوں لیکن میں جانتا ہوں کہ بہت سے ایسے ہیں بیچارے افریقہ میں بھی ، ایشیا میں، یورپ، امریکہ میں جن کے اندر یہ استطاعت نہیں ہے کہ اس پروگرام کو وہ واقعہ عملی طور پر اپنے بچوں میں رائج کر سکیں اس لئے یہ جتنی باتیں ہیں یہ متعلقہ شعبوں کو تحریک جدید کے متعلقہ شعبہ کو نوٹ کرنی چاہئیں اور اس خطبے میں جو زکات ہیں اُن کو آئندہ جماعت تک اس رنگ میں پہنچانے کا انتظام کرنا چاہئے کہ والدین کی اپنی کم علمی بھی اور اپنی استطاعت کی کمی بچوں کی اعلی تعلیم کی راہ میں روک نہ بن سکے.چنانچہ بعض جگہوں پر ایسے بچوں کی تربیت کا انتظام شروع ہی سے جماعت کو کرنا پڑے گا.بچوں کی تربیت کے لئے ذیلی تنظیموں سے استفادہ کریں بعض جگہ ذیلی تنظیموں سے استفادے کئے جاسکتے ہیں مگر یہ بعد کی باتیں ہیں اس وقت تو ذہن میں جو چند باتیں آرہی ہیں وہ میں آپ کو سمجھا رہاہوں کہ ہمیں کس قسم کے واقفین بچے چاہئیں.ایسے واقفین بچے چاہئیں جن کو شروع ہی سے اپنے غصے کو ضبط کرنے کی عادت ہونی چاہئے ، جن کو اپنے سے کم علم کو حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے، جن کو یہ حوصلہ ہو کہ وہ مخالفانہ بات سنیں اور حمل کا ثبوت دیں.جب اُن سے کوئی بات پوچھی جائے تو تحمل کا ایک یہ بھی تقاضا ہے کہ ایک دم منہ سے کوئی بات نہ نکالیں بلکہ کچھ غور کر کے جواب دیں.یہ ساری ایسی باتیں ہیں جو بچپن ہی سے طبیعتوں میں اور عادتوں میں رائج کرنی پڑتی ہیں اگر بچپن سے یہ عادتیں پختہ نہ ہوں تو بڑے ہو کر بعض دفعہ ایک انسان علم کے بہت بلند معیار تک پہننے کے باوجود بھی ان عام سادہ سادہ باتوں سے محروم رہ جاتا ہے.عام طور پر دیکھا گیا ہے جب کسی سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو فوراً جواب دیتا ہے.خواہ اس بات کا پتا ہو یا نہ ہو پھر بعض دفعہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ایک بات پوچھی اور جس شخص سے پوچھی گئی ہے اُس کے علم میں یہ تو ہے کہ یہ بات ہونے والی تھی لیکن یہ علم میں نہیں ہے کہ ہو چکی ہے اور بسا اوقات وہ کہہ دیتا ہے کہ ہاں ہو چکی ہے اور واقفین زندگی کے اندر یہ چیز بہت بڑی خرابی پیدا کرسکتی ہے.میں نے اپنے انتظامی تجربہ میں بارہا دیکھا ہے کہ اس قسم کی خبروں سے بعض دفعہ بہت سخت نقصان پہنچ جاتا ہے مثلا لنگر خانہ میں میں ناظم ہوتا تھا تو فون پر پوچھا کہ اتنے ہزار روٹی پک چکی ہے.کہ جی ہاں پک چکی ہے.تسلی ہوگئی.جب پہنچا وہاں تو پتا لگا اس سے کئی ہزار پیچھے ہے میں نے کہا آپ نے یہ کیا ظلم کیا ہے، یہ جھوٹ

Page 127

114 بولا، غلط بیانی کی اور اس سے بڑا نقصان پہنچا ہے کہ نہیں جی جب وہ میں نے یہ بات کی تھی اس سے پہلے ، آدھا گھنٹہ پہلے اتنے ہزار ہو چکی تھی تو آدھے گھنٹے میں اتنی تو ضرور بنی چاہئے تھی یعنی فارمولا تو ٹھیک ہے لیکن واقعاتی دنیا میں فارمولے تو نہیں چلا کرتے.واقعہ ایسی صورت میں یہ بات نکلی کہ وہاں کچھ خرابی پیدا ہوگئی، کوئی آپس میں لڑائی ہوگئی ، گیس بند ہو گئی.کئی قسم کی خرابیاں ایسی پیدا ہو جاتی تھیں تو جس آدھے گھنٹے میں اُس نے کئی ہزار کا حساب لگا یا وہ آدھا گھنٹہ کام ہو ہی نہیں رہا تھا.تو یہ عادت عام ہے.میں نے اپنے وسیع تجربے میں دیکھا ہے کہ ایشیا میں خصوصیت کے ساتھ یہ بہت زیادہ عادت پائی جاتی ہے کہ ایک چیز کا اندازہ لگا کر اُس کو واقعات کے طور پر بیان کر دیتے ہیں اور واقفین زندگی میں بھی یہ عادت آجاتی ہے یعنی جو پہلے سے آئے ہوئے ہیں اور اُن کی رپورٹوں میں بھی بعض دفعہ ایسے نقص نکلتے ہیں جس کی وجہ سے جماعت کو نقصان پہنچتا ہے.اس لئے اس بات کی بچپن سے عادت ڈالنی چاہئے کہ جتنا علم ہے اس کو علم کے طور پر بیان کریں، جتنا اندازہ ہے اُس کو اندازے کے طور پر بیان کریں اور اگر بچپن میں یہ عادت آپ نے نہ ڈالی تو بڑے ہو کر پھر دوبارہ رائج کرنا، بڑی عمر میں رائج کرنا بہت مشکل کام ہوا کرتا ہے کیونکہ ایسی باتیں انسان بغیر سوچے کرتا ہے.عادت کا مطلب ہی یہ ہے خود بخود منہ سے ایک بات نکلتی ہے اور یہ بے احتیاطی بعض دفعہ پھر انسان کو جھوٹ کی طرف بھی لے جاتی ہے اور بڑی مشکل صورتحال پیدا کر دیتی ہے کیونکہ ایسے لوگوں میں سے بہت سے میں نے ایسے دیکھتے ہیں جب اُن سے پوچھا جائے کہ آپ نے یہ کیوں کیا تو بجائے اس کے کہ اُس کی صاف بات بیان کریں کہ یہ ہم سے غلطی ہو گئی ہم نے اندازہ لگایا تھا وہ اپنی پہلی غلطی کو چھپانے کے لئے دوسری دفعہ پھر جھوٹ بولتے ہیں اور کوئی ایسا عذر تلاش کرتے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی.جب اُس عذر کو پکڑیں تو پھر ایک اور جھوٹ بولتے ہیں.خجالت الگ، شرمندگی الگ سب دنیا اُن پہ ہنس رہی ہوتی ہے اور وہ بیچارے جھوٹ پہ جھوٹ بول کے اپنی عزت بچانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں.یہ چیز میں بچپن سے شروع ہوتی ہیں.چھوٹے چھوٹے بچے جب گھر میں پکڑے جاتے ہیں کسی بات پر کہ آپ نے یہ کہا تھا یہ نہیں ہوا اُس وقت وہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور ماں باپ اس کا نوٹس نہیں لیتے.اس کے نتیجے میں مزاج بگڑ جاتے ہیں اور پھر بعض دفعہ ایسے بگڑتے ہیں کہ ٹھیک ہو ہی نہیں سکتے عادتا وہ یہ کام شروع کر دیتے ہیں.تو ایسے واقفین اگر جامعہ میں آجائیں گے تو جامعہ میں تو کوئی اور ایسا جادو نہیں ہے کہ اچانک ان کی یہ پرانے بگڑے ہوئے رنگ اچانک درست ہو جائیں.ایسے رنگ درست ہوا کرتے ہیں غیر معمولی اندرونی انقلابات کے ذریعے.وہ ایک الگ مضمون ہے.ہم ایسے انقلابات کے امکانات کو رد نہیں کر سکتے لیکن یہ دستور عام نہیں ہے.اس لئے ہم جب حکمت کے ساتھ اپنی زندگی کے پروگرام بناتے ہیں تو اتفاقات پر نہیں بنایا کرتے بلکہ دستور عام پر بنایا کرتے ہیں.پس اس پہلو سے بچوں کو بہت گہری تربیت دینے کی ضرورت ہے یعنی جھوٹ

Page 128

115 نہیں ہوا کرتا ایک عادت ہے کہ تخمینے کو ایک اندازے کو حقیقت بنا کر پیش کر دینا.دیانت پر زور دیں پھر عمومی تعلیم میں ان کی بنیاد وسیع کرنے کی خاطر ان کوٹائپ سکھانا چاہئے جو ٹائپ سیکھ سکتے ہوں.اکاؤنٹس رکھنے کی تربیت دینی چاہئے.دیانت پہ جیسا کہ میں نے کہا تھا بہت زور ہونا چاہئے.اموال میں خیانت کی جو کمزوری ہے یہ بہت ہی بھیانک ہو جاتی ہے اگر واقفین زندگی میں پائی جائے اور اُس کے بعض دفعہ نہایت ہی خطرناک نتائج نکلتے ہیں.وہ جماعت جو خالصہ طوعی چندوں پر چل رہی ہے اُس میں دیانت کو اتنی غیر معمولی اہمیت ہے گویا دیانت کا ہماری شہ رگ کی حفاظت سے تعلق ہے.سارا مالی نظام جو جماعت احمدیہ کا جاری ہے وہ اعتماد اور دیانت کی وجہ سے جاری ہے.اگر جماعت میں یہ احساس پیدا ہو گیا خدانخواستہ کہ واقفین زندگی اور سلسلے کے اموال میں کام کرنے والے خود بد دیانت ہیں تو اُن کو جو چندے دینے کی توفیق نصیب ہوتی ہے اس توفیق کا گلا گھونٹا جائے گا اور چاہیں گے بھی تو پھر اُن کو واقعہ چندہ دینے کی توفیق نہیں ملے گی.اس لئے واقفین کو خصوصیت کے ساتھ مالی لحاظ سے بہت ہی درست ہونا چاہئے اور اس لحاظ سے اکاؤنٹس کا بھی ایک گہرا تعلق ہے.جو لوگ اکاؤنٹس نہیں رکھ سکتے اُن سے بعض دفعہ مالی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ بد دیانتی ہوئی ہے اور بعض دفعہ مالی غلطیوں کے نتیجے میں جن کو اکاؤنٹس کا طریقہ نہ آتا ہولوگ بد دیانتی کرتے ہیں اور افسر متعلقہ اُس میں ذمہ دار ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ لوگ جو اموال پر مقرر ہیں اُن کا مالی لحاظ سے دیانت کا معیار جماعت احمدیہ میں اتنا بلند ہے کہ دنیا کی کوئی جماعت بھی اُس کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن خرابیاں پھر بھی دکھائی دیتی ہیں.عمداً بد دیانتی کی مثالیں تو بہت شاذ ہیں یعنی انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں لیکن ایسے واقعات کی مثالیں بہت سی ہیں ، بہت سی سے مراد یہ ہے کہ مقابلہ بہت ہیں کہ جن میں ایک شخص کو حساب رکھنا نہیں آتا، ایک شخص کو یہ نہیں پتا کہ میں دستخط کر نے لگا ہوں تو میری کیا ذمہ داری ہے اس کے نتیجے میں، کیا مجھے دیکھنا چاہئے.جس کو جمع تفریق نہیں آتی اس بیچارے کے نیچے بعض دفعہ بددیانتی ہو جاتی ہے اور بعد میں پھر الزام اُس پر لگتے ہیں اور بعض دفعہ تحقیق کے نتیجے میں وہ بری بھی ہو جاتا ہے بعض دفعہ معاملہ الجھا ہی رہتا ہے پھر.ہمیشہ ایہام باقی رہ جاتا ہے کہ پتا نہیں بددیانت تھا یا نہیں تھا.اس لئے اکاؤنٹس کے متعلق تمام واقفین بچوں کو شروع ہی سے تربیت ہونی چاہئے اور ان کا تب ہی میں نے حساب کا ذکر کیا تھا ان کا حساب بھی اچھا ہو اور ان کو بچپن سے تربیت دی جائے کہ کس طرح اموال کا حساب رکھا جاتا ہے.روزمرہ سودے کے ذریعے سے ان کو یہ تربیت دی جاسکتی ہے اور پھر سودا ان کے ذریعے بھی منگوایا جائے تو اُس سے ان کی دیانتداری کی نوک پلک مزید درست کی جاسکتی ہے.مثلاً بعض بچوں سے ماں باپ سودا منگواتے ہیں تو وہ چند پیسے جو بچتے ہیں وہ جیب میں رکھ لیتے ہیں.بد دیانتی کے طور پر نہیں اُن کے

Page 129

116 ماں باپ کا مال ہے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ پیسے کیا واپس کرتے ہیں.وہ وقت ہے تربیت کرنے کا.اُس وقت اُن کو کہنا چاہئے کہ ایک دھیلہ ایک دمڑی بھی ہو جب سودے کے طور پر منگوائی جائے تو وہ واپس کرنی چاہئے.پھر چاہے دس روپے مانگو دھیلے کی بجائے اُس کا کوئی حرج نہیں لیکن جو دھیلا جیب میں ڈالا جاتا ہے بغیر بتائے کہ جی بچ گیا تھا اس کا کیا واپس کرنا تھا اُس میں آئندہ بد دیانتی کے بیج بو دیئے ہیں، آئندہ بے احتیاطیوں کے بیج بو دیے ہیں.تو قو میں جو بگڑتی اور بنتی ہیں دراصل گھروں میں ہی بگڑتی اور بنتی ہیں.ماں باپ اگر باریک نظر سے اپنے بچوں کی تربیت کر رہے ہوں تو عظیم مستقبل کی تعمیر کر رہے ہوتے ہیں یعنی بڑی شاندار قومیں اُن کے گھروں میں تخلیق پاتی ہیں لیکن یہ چھوٹی چھوٹی بے احتیاطیاں بڑے بڑے عظیم اور بعض دفعہ سنگین نتائج پر منتج ہو جایا کرتی ہیں.تو مالی لحاظ سے اُن کو تقویٰ کی باریک راہیں سکھائیں کہ جتنی باتیں میں کہہ رہا ہوں ان سب کا تقویٰ سے ہی تعلق ہے اصل میں تو تقویٰ کی یہ کچھ موٹی راہیں ہیں جو عام لوگوں کو آتی ہیں کچھ مزید باریک راہیں ہیں اور واقفین کو ہمیں نہایت لطیف رنگ میں تقویٰ کی تربیت دینی چاہئے.نظام جماعت کی اطاعت اور ذیلی تنظیموں سے وابستہ کرنے کی عادت بچپن سے ڈالیں اس کے علاوہ سخت جانی کی عادت ڈالنا، نظام جماعت کی اطاعت کی بچپن سے عادت ڈالنا، اطفال الاحمدیہ سے وابستہ کرنا، ناصرات سے وابستہ کرنا ، خدام الاحمدیہ سے وابستہ کرنا، انصار اللہ جو بعد میں آئے گی لیکن پندرہ سال کی عمر تک خدام کی حد تک تو آپ تربیت کر سکتے ہیں.خدام کی حد تک اگر تربیت ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر انصار کی عمر میں بگڑنے کا امکان شاذ کے طور پر ہی کوئی ہوگا اور نہ جتنی لمبی نالی سے گولی چلائی جائے اتنی دور تک سیدھا رہتی ہے.خدام کی حد تک اگر تر بیت کی نالی لمبی ہو جائے تو خدا کے فضل سے پھر موت تک وہ سیدھا ہی چلے گا انسان.الا ماشاء اللہ.تو اس پہلو سے بہت ضروری ہے کہ نظام کا احترام سکھایا جائے.پھر اپنے گھروں میں کبھی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے نظام جماعت کی تخفیف ہوتی ہو یا کسی عہدیدار کے خلاف شکوہ ہو.وہ شکوہ اگر سچا بھی ہے اگر آپ نے اپنے گھر میں کیا تو آپ کے بچے ہمیشہ کے لئے اُس سے زخمی ہو جائیں گے.آپ تو شکوہ کرنے کے باوجود اپنے ایمان کی حفاظت کر سکتے ہیں لیکن آپ کے بچے زیادہ گہرا زخم محسوس کریں گے.یہ ایساز خم ہوا کرتا ہے جس کو لگتا ہے اس کو کم لگتا ہے جو دیکھنے والا ہے قریب کا اُس کو زیادہ لگتا ہے اس لئے اکثر وہ لوگ جو نظام جماعت سے تبصرے کرنے میں بے احتیاطی کرتے ہیں اُن کی اولادوں کو کم و بیش ضرور نقصان پہنچتا ہے اور بعض ہمیشہ کے لئے ضائع ہو جاتی ہیں.واقفین بچوں کو ناصرف اس لحاظ سے بچانا چاہئے بلکہ یہ سمجھانا چاہئے کہ اگر تمہیں کسی سے کوئی شکایت ہے خواہ تمہاری تو قعات اس کے متعلق کتنی عظیم بھی کیوں نہ ہوں اُس کے نتیجے میں تمہیں اپنے نفس کو ضائع نہیں کرنا

Page 130

117 چاہئے.اگر کوئی امیر جماعت ہے اور اُس سے ہر انسان کو توقع ہے کہ یہ کرے اور وہ کرے اور کسی توقع کو اُس سے ٹھوکر لگ جاتی ہے تو واقفین زندگی کے لئے بہت ضروری ہے کہ اُن کو یہ خاص طور پر سمجھایا جائے کہ اُس ٹھوکر کے نتیجے میں تمہیں ہلاک نہیں ہونا چاہئے.یہ بھی اسی قسم کے زخم والی بات ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے یعنی در اصل ٹھو کر تو کھاتا ہے کوئی عہدیدار اور لحد میں اتر جاتا ہے دیکھنے والا.وہ تو ٹھو کر کھا کر پھر بھی اپنے دین کی حفاظت کر لیتا ہے اور اپنی غلطی سے انسان استغفار تو کرتا ہے لیکن ہلاک نہیں ہو جایا کرتا اکثر سوائے اس کے کہ بعض خاص غلطیاں ایسی ہوں لیکن جن کا مزاج ٹھو کر کھانے والا ہے وہ اُن غلطیوں کو دیکھ کر بعض دفعہ ہلاک ہی ہو جایا کرتے ہیں، دین سے متنفر ہو جایا کرتے ہیں اور پھر جراثیم پھیلانے والے بن جاتے ہیں.مجلسوں میں بیٹھ کر جہاں دوستوں میں تذکرے ہوئے وہاں کہہ دیا جی فلاں صاحب نے تو یہ کیا تھا ، فلاں صاحب نے یہ کیا تھا.ساری قوم کی ہلاکت کا موجب بن جاتے ہیں.تو بچوں کو پہلے تو اس بلا سے محفوظ رکھیں پھر جب بڑی عمر کے ہوں تو اُن کو سمجھائیں کہ اصل تو محبت خدا اور اُس کے دین سے ہے.کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے خدا کی جماعت کو نقصان پہنچتا ہو.آپ کو اگر کسی کی ذات سے تکلیف پہنچی ہے یا نقصان پہنچا ہے تو اُس کا ہر گز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ آپ کو حق ہے کہ اپنے ماحول کے دوستوں کے ایمانوں کو ، اپنے بچوں ، اپنی اولادوں کے ایمانوں کو بھی آپ زخمی کرنا شروع کر دیں.اپنا زخم حوصلے کے ساتھ اپنے تک رکھیں اور اُس کے اندمال کے جو ذرائع با قاعدہ خدا تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں اُس کو اختیار کریں لیکن لوگوں میں ایسی باتیں کرنے سے پر ہیز کریں.آج بھی ایسی باتیں ہو رہی ہیں جماعت میں اور ایسے واقعات میری نظر میں آتے رہتے ہیں.ایک شخص کو کوئی تکلیف پہنچی ہے اور اس نے بعض مخلصین کے سامنے وہ باتیں بیان کیں اور باتیں سچی تھیں اور یہ سوچا نہیں کہ ان مخلصین کے ایمان کو کتنا بڑا اس سے نقصان پہنچ سکتا ہے.بعض واقفین زندگی نے بھی ایسی حرکتیں کیں اُن کو شکوہ ہوا انتظامیہ سے تبشیر سے، کسی سے اور نو احمدی غیر ملکوں کے مخلصین بیچارے ساری عمر بڑے اخلاص سے جماعت سے تعلق رکھتے تھے اُن کو اپنا ہمدرد بنانے کی خاطر یہ بتانے کے لئے کہ دیکھیں جی ہمارے ساتھ یہ ہوا ہے وہ قصے بیان کرنے شروع کئے اور خود تو اُسی طرح بیچ کے واپس چلے گئے اپنے ملک میں اور پیچھے کئی زخمی روحیں پیچھے چھوڑ گئے.اُن کا گناہ کس کے سر پہ ہو گا یہ بھی ابھی طے نہیں ہوا کہ منتظمہ کی غلطی بھی تھی کہ نہیں اور جہاں تک میں نے جائزہ لیا غلطی منتظمہ کی نہیں تھی ، بدظنی پر سارا سلسلہ شروع ہوا.لیکن اگر غلطی ہوتی بھی تب بھی کسی کا یہ حق نہیں ہے کہ اپنی تکلیف کی وجہ سے دوسروں کے ایمان ضائع کرے.پس سچا وفادار وہ ہوا کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کی جماعت پر نظر رکھے اور اُس کی صحت پر نظر رکھے.پیار کا وہی ثبوت سچا ہے جو حضرت سلیمان نے تجویز کیا تھا اور اس سے زیادہ بہتر قابل اعتماد اور کوئی بات نہیں.آپ نے سنا ہے، بارہا مجھ سے بھی سنا ہے، پہلے بھی سنتے رہے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت سلیمان کی

Page 131

118 عدالت میں دو دعویدار ماؤں کا جھگڑا پہنچا.جن کے پاس ایک ہی بچہ تھا بھی ایک گھسیٹ کر اپنی طرف لے جاتی تھی کبھی دوسری گھسیٹ کر اپنی طرف لے جاتی تھی اور دونوں روتی تھیں اور شور مچاتی تھیں کہ یہ میرا بچہ ہے.کسی صاحب فہم کو سمجھ نہیں آئی کہ اس مسئلہ کو کیسے طے کیا جائے.چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی عدالت میں یہ مسئلہ پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو بڑا مشکل ہے طے کرنا کہ کس کا بچہ ہے.اگر ایک کا بچہ ہوا اور دوسری کو دے دیا گیا تو بڑا ظلم ہوگا اس لئے کیوں نہ اس بچے کو دوٹکڑے کر دیا جائے اور آدھا ٹکڑا ایک کو دے دیا جائے اور آدھا ٹکڑا دوسرے کو دے دیا جائے تا کہ نا انصافی نہ ہو.چنانچہ انہوں نے جلاد سے کہا کہ آؤ اور اس بچے کو عین بیچ سے نصف سے دوٹکڑے کر کے ایک ایک کو دے دو، دوسرا دوسری کو دے دو.جو ماں تھی روتی چیختی ہوئی بچے کے اوپر گر پڑی کہ میرے ٹکڑے کر دو یہ بچہ اس کو دے دو لیکن خدا کے لئے اس بچے کو کوئی گزند نہ پہنچے.اُس وقت حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ اس کا بچہ ہے.پس جو خدا کی خاطر جماعت سے محبت رکھتا ہے کیسے ممکن ہے کہ وہ جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے دے اور ایسی باتیں برداشت کر جائے کہ جس کے نتیجے میں کسی کے ایمان کو گزند پہنچتا ہو.وہ اپنی جان پر سب وبال لے لے گا اور یہی اُس کی سچائی کی علامت ہے لیکن اپنی تکلیف کو دوسرے کی روح کو زخمی کرنے کے لئے استعمال نہیں کرے گا.تو واقفین میں اس تربیت کی غیر معمولی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک دفعہ واقعہ نہیں ہوا، دو دفعہ نہیں ہوا بیسیوں مرتبہ پہلے ہو چکا ہے اور اس کے نتیجے میں بعض دفعہ بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے ہیں اور ایک شخص سمجھتا ہے کہ میں نے خوب چالا کی کی ہے خوب انتقام لیا ہے.اس طرح تحریک جدید نے مجھ سے کیا اور اس طرح پھر میں نے اُس کا جواب دیا.اب دیکھ لو میرے پیچھے کتنا بڑا گر وہ ہے اور یہ نہیں سوچا وہ گروہ اُس کے پیچھے نہیں تھا وہ شیطان کے پیچھے تھا.وہ بجائے متقیوں کا امام بنے کے وہ منافقین کا امام بن گیا ہے اور اپنے آپ کو بھی ہلاک کیا اور اپنے پیچھے چلنے والوں کو بھی ہلاک کیا.پس یہ چھوٹی چھوٹی باتیں سہی لیکن غیر معمولی نتائج پیدا کرنے والی باتیں ہیں.بچپن سے ہی اپنے واقفین نو کو یہ باتیں سمجھا ئیں اور پیار اور محبت سے اُن کی تربیت کریں تا کہ وہ آئندہ صدی کی عظیم لیڈرشپ کے اہل بن سکیں.بہت سی باتوں میں سے اب وقت تھوڑا ہے کیونکہ میں نے سفر پہ بھی جانا ہے.واقف زندگی کا وفا سے بہت گہرا تعلق ہے ایک بات میں آخر یہ یہ کہنی چاہتا ہوں ان کو وفا سکھائیں.وقف زندگی کا وفا سے بہت گہرا تعلق ہے.وہ واقف زندگی جو وفا کے ساتھ آخری سانس تک اپنے وقف سے نہیں چمٹتا وہ جب الگ ہوتا ہے تو خواہ جماعت اُس کو سزا دے یا نہ دے وہ اپنی روح پر غداری کا داغ لگا لیتا ہے اور یہ بہت بڑا داغ ہے.اس لئے آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اپنے بچوں کو وقف کرنے کا یہ بہت بڑا فیصلہ ہے اس فیصلے کے نتیجے میں یا تو یہ بچے

Page 132

119 عظیم اولیاء بنیں گے یا پھر عام حال سے بھی جاتے رہیں گے اور ان کو شدید نقصان پہنچنے کا بھی احتمال ہے.جتنی بلندی ہو اتنا ہی بلندی سے گرنے کا خطرہ بھی تو بڑھ جایا کرتا ہے.اس لئے بہت احتیاط سے ان کی تربیت کریں اور ان کو وفا کے سبق دیں.بار بار سبق دیں.بعض دفعہ واقفین ایسے ہیں جو وقف چھوڑتے ہیں اور اپنی طرف سے چالا کی کے ساتھ چھوڑتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب ہم جماعت کی حد سے باہر نکل گئے ، اب ہم آزاد ہو گئے اور اب ہمارا کچھ نہیں کیا جاسکتا.وہ چالا کی تو ہوتی ہے لیکن عقل نہیں ہوتی.وہ چالا کی سے اپنا نقصان کرنے والے ہوتے ہیں.ابھی کچھ عرصہ پہلے میرے سامنے ایک ایسے واقف کا معاملہ آیا جس کی ایسے ملک میں تقرری تھی اگر وہاں ایک معین عرصہ تک وہ رہے تو وہاں کی نیشنیلٹی کا حقدار بن جاتا تھا اور بعض وجوہات سے میں نے اُس کا تبادلہ ضروری سمجھا.چنانچہ جب میں نے اُس کا تبادلہ کیا تو چھ یا سات ماہ ابھی باقی تھے یعنی اُس مدت میں باقی تھے جس کے بعد وہ حقدار بنتا تھا.اُس کے بڑے لجاجت سے اور محبت اور خلوص کے خط آنے شروع ہوئے کہ مجھے کچھ مزید مہلت دے دی جائے یہاں قیام کی اور میں نے وہ مہلت دے دی.بعض صاحب فہم لوگوں نے یہ سمجھا کہ وہ مجھے بیوقوف بنا گیا ہے.چنانچہ انہوں نے لکھا کہ جناب یہ تو چالا کی کر گیا ہے آپ کے ساتھ اور یہ تو چاہتا ہے کہ عرصہ پورا ہو اور پھر آزاد ہو جائے وقف سے پھر اس کو پر واہ کوئی نہ رہے.تو میں نے اُن کو بتایا یا لکھا کہ مجھے سب پتا ہے.آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مجھے علم نہیں کہ کیوں یہ ایسا کر رہا ہے لیکن وہ میرے ساتھ چالا کی نہیں کر رہا وہ اپنے نفس کے ساتھ چالا کی کر رہا ہے.وہ اُن لوگوں میں ہے جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (البقرہ:10) اس لئے میں اس کی ڈور ڈھیلی چھوڑ رہا ہوں تا کہ یہ جو مجھے فطن ہے اور آپ کو بھی ہے یہ کہیں بدظنی نہ ہو.اگر وہ اس قسم کا ہے جیسا آپ سمجھ رہے ہیں اور جیسا مجھے بھی گمان ہے تو پھر وقف میں رہنے کے لائق نہیں ہے.تو بجائے اس کے کہ بدظنی کے نتیجے میں یعنی اس ظن کے نتیجے میں جو بدظنی بھی ہوسکتی ہے اگر یہ ظن غلط ہو تو بدظنی ہے.ہم اُس کو بدلتے پھریں اور اُس کو بچاتے پھریں.اُس کو موقع ملنا چاہئے.چنانچہ وہ حیران رہ گیا کہ میں نے اُس کو اجازت دے دی ہے.پھر اُس نے کہا اب مزید اتنا مجھے مل جائے تو پھر اتنا روپیہ بھی مجھے مل جائے گا.میں نے کہا وہ بھی تم لے لو بے شک اور جب وہ واپس گیا تو اُس کے بعد وہی ہوا جو ہونا تھا.کیسی بیوقوفوں والی چالا کی ہے.وہ بظاہر سمجھ کی بات جو تقویٰ سے خالی ہوا کرتی ہے اُس کو ہم عام دنیا میں چالا کی کہتے ہیں.بچوں کو چالا کیوں سے بچائیں پس اپنے بچوں کو سطحی چالاکیوں سے بھی بچائیں.بعض بچے شوخیاں کرتے ہیں اور چالاکیاں کرتے ہیں اور ان کو عادت پڑ جاتی ہے.وہ دین میں بھی پھر ایسی شوخیوں اور چالاکیوں سے کام لیتے رہتے

Page 133

120 ہیں اور اُس کے نتیجے میں بعض دفعہ اُن شوخیوں کی تیزی خود اُن کے نفس کو ہلاک کر دیتی ہے.اس لئے وقف کا معاملہ بہت اہم ہے.اُن کو یہ سمجھائیں کہ خدا کے ساتھ ایک عہد ہے ہم نے تو کیا ہے بڑے خلوص کے ساتھ اگر تم اس بات کے متحمل نہیں ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ تم واپس چلے جاؤ.ایک گیٹ اور بھی آئے گا جب یہ بچے بلوغت کے قریب پہنچ رہے ہوں گے اُس وقت دوبارہ جماعت ان سے پوچھے گی کہ چاہتے ہو کہ نہیں چاہتے.ایک دفعہ امریکہ میں وہ جو ڈزنی لینڈ میں ایک رائیڈ ایسی تھی جس میں بہت ہی زیادہ خوفناک موڑ آتے تھے، رفتار بھی تیر بھی اُس رائیڈ کی اور اچانک بہت تیزی کے ساتھ مڑتی تھی تو کمزور دل والوں کو خطرہ تھا کہ ممکن ہے کہ کسی کا دل ہی نہ بیٹھ جائے.چنانچہ انہوں نے وارنگز لگائی ہوئی تھیں کہ اب بھی واپس جاسکتے ہو، اب بھی واپس جاسکتے ہو اور پھر آخری ایک وارننگ تھی سرخ رنگ میں کہ اب یہ آخری ہے اب واپس نہیں جاسکو گے.تو وہ بھی ایک گیٹ جماعت میں آنے والا ہے جب ان کے بچوں سے جو آج وقف ہوئے ہیں ان سے پوچھا جائے گا کہ اب یہ آخری دروازہ ہے پھر تم واپس نہیں جاسکتے.اگر زندگی کا سودا کرنے کی ہمت ہے، اگر اس بات کی توفیق ہے کہ اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دو اور پھر کبھی واپس نہ لو.پھر تم آگے آؤ ور نہ تم اُلٹے قدموں واپس مڑ جاؤ.تو اُس دروازے میں داخلے کے لئے آج سے ان کو تیار کریں.وقف وہی ہے جو وفا کے ساتھ تادم آخر قائم رہتا ہے.ہر قسم کے زخموں کے باوجود گھٹتا ہوا انسان بھی اسی راہ پہ بڑھتا ہے واپس نہیں مڑ کرتا.ایسے وقف کے لئے اپنی آئندہ نسلوں کو تیار کریں.اللہ آپ کے ساتھ ہو، اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم واقفین کی ایک ایسی فوج خدا کی راہ میں پیش کریں جو ہر قسم کے ان ہتھیاروں سے مزین ہو جو خدا کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے ضروری ہوا کرتے ہیں اور پھر اُن پر اُن کو کامل دسترس ہو.آمین." خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 83 100t ) ہم سب مل کر نسلوں کی نگہداشت کریں تو یہ ان نسلوں پر ایک احسان ہوگا " خطبہ جمعہ 17 فروری1989ء) سکھیں واقفین زندگی کی بیویوں کے لئے یا واقفین زندگی لڑکوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ یہ سلیقہ کہ کسی سے اس کی توفیق سے بڑھ کر نہ توقع رکھیں نہ مطالبہ کریں اور قناعت کے ساتھ کم پر راضی رہنا سیکھ لیں.اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بتانی چاہتا ہوں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وقف کی ایک تحریک کے ساتھ یہ بھی تحریک فرمائی کہ امیر گھروں کے بچوں کے لئے گھر کے باقی افراد کو یہ قربانی کرنی چاہئے کہ اس کے وقف کی وجہ سے اس کے لئے خصوصیت کے ساتھ کچھ مالی مراعات مہیا کریں اور یہ سمجھیں کہ جتنا مالی لحاظ

Page 134

121 سے اس کو بے نیاز بنائیں گے اتنا بہتر رنگ میں وہ قومی ذمہ داریوں کی امانت کا حق ادا کر سکے گا.اس نصیحت کا اطلاق صرف امیر گھرانوں پر نہیں بلکہ غریب گھرانوں پر بھی ہوتا ہے.ہر واقف زندگی گھر کو یعنی ہر گھر کو جس میں کوئی واقف زندگی ہے آج ہی یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ خدا ہمیں جس معیار پر رکھے گا ہم اپنے واقف زندگی تعلق والے کو اس سے کم معیار پر نہیں رہنے دیں گے یعنی جماعت سے مطالبے کی بجائے بھائی اور بہنیں اور ماں باپ اگر زندہ ہوں اور توفیق رکھتے ہوں یا دیگر قریبی مل کر ایسا نظام بنائیں گے کہ واقف زندگی بچہ اپنے زندگی کے معیار میں اپنے گھر والوں کے ماحول اور ان کے معیار سے کم تر نہ رہے.چنانچہ ایسے بچے جب زندگی کی دوڑ میں حصہ لیتے ہیں تو کسی قسم کے Inferiority Complex یعنی احساس کمتری کے شکار نہیں رہتے اور امانت کا حق زیادہ بہتر ادا کر سکتے ہیں.جہاں تک بچیوں کی تعلیم کا تعلق ہے اس میں خصوصیت کے ساتھ تعلیم دینے کی تعلیم دلوانا یعنی بی ایڈ کروانا.مطلب یہ ہے کہ ان کو استانیاں بنے کی ٹرینینگ دلوانا خواہ ان کو استانی بنانا ہو یا نہ بنانا ہوان کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے.اسی طرح لیڈی ڈاکٹر ز کی جماعت کو خدمت کے میدان میں بہت ضرورت ہے.پھر کمپیوٹر سپیشلسٹ کی ضرورت ہے اور Typist کی ضرورت ہے اور یہ سارے کام عورتیں مردوں کے ساتھ ملے جلے بغیر سوائے ڈاکٹری کے باقی سارے کام عمدگی سے سرانجام دے سکتی ہیں.پھر زبانوں کا ماہر بھی ان کو بنایا جائے یعنی لٹریری نقطہ نگاہ سے، ادبی نقطہ نگاہ سے ان کو زبانوں کا چوٹی کا ماہر بنانا چاہئے تاکہ وہ جماعت کی تصنیفی خدمات کر سکیں.اس طرح اگر ہم سب اپنے آئندہ واقفین نسلوں کی نگہداشت کریں اور ان کی پرورش کریں، ان کو بہترین واقف بنانے میں مل کر جماعتی لحاظ سے اور انفرادی لحاظ سے سعی کریں تو میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ صدی کے اوپر جماعت احمدیہ کی اس صدی کی نسلوں کا ایک ایسا احسان ہوگا کہ جسے وہ ہمیشہ جذ به تشکر اور دعاؤں کے ساتھ یاد کریں گے.آخر پر یہ بتانا ضروری ہے کہ سب سے زیادہ زور تربیت میں دعا پر ہونا چاہئے یعنی ان بچوں کے لئے ہمیشہ دردمندانہ دعائیں کرنا اور ان بچوں کو دعا کرنا سکھانا اور دعا کرنے کی تربیت دینا تا کہ بچپن ہی سے یہ اپنے رب سے ایک ذاتی گہرا تعلق قائم کر لیں اور اس تعلق کے پھل کھانے شروع کر دیں.جو بچہ دعا کے ذریعے اپنے رب کے احسانات کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے وہ بچپن ہی سے ایک ایسی روحانی شخصیت حاصل کر لیتا ہے جس کا مربی ہمیشہ خدا بنا رہتا ہے اور دن بدن اس کے اندر وہ تقدس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے جو خدا سے بچے تعلق کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا اور دنیا کی کوئی تعلیم اور کوئی تربیت وہ اندرونی نقدس انسان کو نہیں بخش سکتی جو خدا تعالیٰ کی معرفت اور اس کے پیار اور اس کی محبت کے نتیجے میں نصیب ہوتا ہے.پس ان بچوں کی تربیت میں دعاؤں سے بہت زیادہ کام لیں.خود ان کے لئے دعا کریں اور ان کو دعا کرنے والے بچے بنائیں.

Page 135

122 میں امید رکھتا ہوں کہ ان ذرائع کو اختیار کر کے انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے سپرد کرنے سے پہلے پہلے ہی یہ بچے ہر قسم کے حسن سے آراستہ ہو چکے ہوں گے اور ایسے ماں باپ بڑی خوشی کے ساتھ اور کامل اطمینان کے ساتھ ایک ایسی قربانی خدا کے حضور پیش کر رہے ہوں گے جسے انہوں نے اپنی توفیق کے مطابق خوب سجا کر اور بنا کر خدا کے حضور پیش کیا ہوگا.اللہ تعالیٰ ہمیں ان اعلیٰ تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین." ( خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 108-110) دوسری صدی کی تیاری میں انصار بھی کوشاں ہیں (خطبہ جمعہ 17 مارچ 1989ء) " جس طرح ہر سال رمضان شریف میں آخری دنوں میں ایک جمعہ آتا ہے جسے ہم جمعۃ الوداع کہا کرتے ہیں اسی طرح احمدیت کی پہلی صدی کے آخر پر آج یہ وہ جمعہ ہے جسے ہم اس صدی کا جمعۃ الوداع کہہ سکتے ہیں.جوں جوں وقت قریب آ رہا ہے دل کی دھڑکنیں تیز تر ہوتی چلی جارہی ہیں اور آج ہی صبح ہالینڈ کے امیر صاحب نے فون پر ایک بات کرنی تھی جو ہالینڈ ہی کے باشندے ہیں انہوں نے بھی بے ساختہ یہ کہا کہ اب تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے تیز رفتار گاڑی پہ بیٹھ کر ہم اگلی صدی میں داخل ہونے والے ہیں.جیسے ہوائی جہاز جب ایئر پورٹ پر اتر رہا ہوتا ہے تو اُس وقت رفتار کا زیادہ احساس ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ جب وہ ہوا میں اُڑ رہا ہو.اس وقت صرف یہی محسوس نہیں ہوتا کہ انسان ایئر پورٹ کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جہاز میں بیٹھا ہوا بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایئر پورٹ بھی بڑی تیزی کے ساتھ اُس جہاز کی طرف بڑھ رہی ہے جس میں مسافر سفر کرتے ہیں.تو اس وقت تو ویسی ہی کیفیت پیدا ہو چکی ہے اور تمام دنیا سے احمدی مردوں، عورتوں اور بچوں کے جو خطوط مل رہے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ تمام دنیا کے احمدیوں کے دلوں میں ایک مقیم ہیجان برپا ہے.سارے ہی بہت تیزی کے ساتھ مختلف رنگ میں اگلی صدی میں داخل ہونے کے لئے تیاریاں کر رہے ہیں اور مختلف ممالک کے لوگ اپنی اپنی زبانوں میں مختلف نفسے بنارہے ہیں جو انصار بھی پڑھ کر ریکارڈ کر کے بھجوا رہے ہیں، خدام بھی بھجوا رہے ہیں، بجنات بھی ، ناصرات بھی اور انگلستان سے متعلق بھی مجھے معلوم ہے کہ یہاں بھی ایسے نغمات تیار کئے گئے ہیں.تو ایسے نغمات کے دن آنے والے ہیں جن میں ہم خدا کی حمد کے ترانے گائیں گے اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود بھیجیں گے اور اسی طرح حمد و ثناء کے ساتھ اور درود پڑھتے ہوئے اور درود کے راگ الاپتے ہوئے اور خدا کی حمد کے گیت

Page 136

123 گاتے ہوئے ہم انشاء اللہ اگلی صدی میں داخل ہوں گے." ( خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 167-168) ناظم صاحب انصار اللہ سیا لکوٹ کی ایک اچھی روایت پر احباب جماعت کو اپنے خاندانوں کی تاریخ لکھنے کی تحریک (خطبہ جمعہ 17 مارچ 1989ء) "میں نے اس سے پہلے اپنے افریقہ کے دورے میں ایک ہدایت دی تھی معلوم نہیں کس حد تک اُس پر عمل ہوا کہ یہ ایک ایسا اچھا خلق ہے اپنے بزرگوں کی نیکیوں کو یا درکھنا اور اُن کے احسانات کو یا درکھ کے اُن کے لئے دعائیں کرنا.اس خلق کو ہمیں صرف اجتماعی طور پر نہیں بلکہ ہر گھر میں رائج کرنا چاہئے.چنانچہ غالباً کینیا کی بات ہے وہاں میں نے ایک کمیٹی بٹھائی کہ وہ سارے بزرگ جو پہلے کینیا پہنچے تھے جنہوں نے آکر یہاں قربانیاں دیں جماعت کی بنیادیں استوار کیں اُن کے حالات اکٹھے کرو ان حالات کو زندہ رکھنا تمہارا فرض ہے ورنہ تم زندہ نہیں رہ سکو گے اور مجھے تعجب ہوا اور بڑا دکھ امیز تعجب ہوا جب میں نے نوجوان نسلوں سے ان کے آبا ؤ اجداد کے متعلق پوچھا تو پتا لگا کہ اکثر کا کچھ پتا نہیں تھا.نام جانتے تھے یہ پتا تھا کہ فلاں زمانے میں کوئی صاحب آئے تھے ، بعضوں کو یہ بھی پتا تھا کہ اُس کی قبر کہاں ہے ، وہ دادا جو کسی وقت آیا تھا یا پڑ دادا جو کسی وقت آیا تھا وہ کہاں چلا گیا بعضوں کو تو یہاں تک علم نہیں تھا چنانچہ میں نے اُن کو بتایا کہ یہ تو بہت عظیم الشان قربانیاں کرنے والے انسان تھے.انہوں نے ہی وہ بنیادیں قائم کی ہیں جن پر آج تم قائم ہو کر اپنے آپ کو ایک بلند عمارت کے طور پر دیکھ رہے ہو.چنانچہ اُس کمیٹی نے بڑا اچھا کام کیا اور ایک عرصے تک میرے ساتھ اُن کا رابطہ رہا اور بعض ایسے بزرگوں کے حالات اکٹھے کئے جو نظر سے اوجھل ہو چکے تھے.اس لئے ہر خاندان کو اپنے بزرگوں کی تاریخ اکٹھا کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور اُس تاریخ کو اُن کی بڑائی کے لئے شائع کرنے کی خاطر نہیں بلکہ اپنے آپ کو بڑائی عطا کرنے کے لئے.اُن کی مثالوں کو زندہ کرنے کے لئے ، اُن کے واقعات کو محفوظ کریں اور پھر اپنی نسلوں کو بتایا کریں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے آباء واجداد تھے.کن حالات میں کس طرح وہ لوگ خدمت دین کیا کرتے تھے، کس طرح وہ چلا کرتے تھے، کس طرح بیٹھا کرتے تھے، اوڑھنا بچھونا کیا تھا، اُن کے انداز کیا تھے؟ مجھے یاد ہے ایک دفعہ سیالکوٹ دورے پر گیا انصار اللہ کا صدر تھا اُن دنوں میرے ساتھ مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب جو اُس زمانے میں انصار اللہ سیالکوٹ کے ناظم تھے وہ بھی ہمسفر تھے یہ مکرم چوہدری شاہ نواز صاحب کے بھائی تھے.تو حسن اتفاق سے

Page 137

124 ہمارا سفر اُن سڑکوں پر ہوا جن سڑکوں پر کسی زمانے میں انہوں نے بچے کے طور پر اپنے والد کو چلتے دیکھا تھا اور نئے احمدیوں کے ساتھ جو قافلہ در قافلہ قادیان کو جایا کرتے تھے.عجیب روح پر ور وہ نظارہ تھا ہما را غالبا تانگہ تھا یا موٹر تھی جو بھی تھا جب اُن سڑکوں سے گزر رہا تھا تو ایک ایک یا داُن کے ذہن میں تازہ ہوتی چلی جارہی تھی.وہ تو بتایا کرتے تھے کہ اگر چہ استطاعت تو تھی لیکن ہمارے ابا جان مرحوم اس بات کی زیادہ لذت محسوس کیا کرتے تھے کہ پیدل قادیان جائیں.چنانچہ گاؤں گاؤں سے چھوٹے چھوٹے قافلے اُس قافلے کے ساتھ ملتے چلے جاتے تھے اور جلوس بنتا چلا جاتا تھا اور کئی لوگ ساتھ پنجابی کے گیت گاتے ہوئے ،صدا ئیں الاپتے ہوئے اُس قافلے کی رونق بڑھا دیا کرتے تھے اور نئی روحانی لذتیں اس کو عطا کیا کرتے تھے.کہتے ہیں میں بھی کئی دفعہ انگلی پکڑ کے ساتھ اس طرح چل رہا ہوتا تھا میرے باقی بھائی بھی.جتنا مزہ اُس زمانے میں اُن جلسوں کا اور قادیان اس طرح پیدل جلوس کی صورت میں جانے کا آیا ویسا اُن کو پھر ساری عمر کبھی مزہ نہیں آیا.مزے تو آئے کئی کئی رنگ کے مزے آئے لیکن وہ بات اپنے رنگ میں ایک الگ بات تھی.تو اُن بزرگوں کی باتیں جس طرح انہوں نے پیار سے کیس اس سے میرا دل بھی بے ساختہ دعاؤں سے بھر گیا اور میں نے سوچا کہ کاش سارے خاندان دنیا کے اسی طرح اپنے بزرگوں کو یا درکھیں اور اپنے بزرگوں کے تذکرے اپنے خاندان میں اپنے بچوں سے کیا کریں.بعض اُن میں سے ایسے بھی ہوں گے جن کو یہ استطاعت ہوگی کہ وہ ان واقعات کو چھپوا دیں کتابی صورت میں لیکن ان کو میں ایک بات کی تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ بسا اوقات ایسے واقعات اکٹھے کرنے والے احتیاط سے کام نہیں لیتے.بعض ایسی روایات بیان کر دیتے ہیں اپنی یادداشت کی غلطی کی وجہ سے جو بعض دوسری روایات سے ٹکرا جاتی ہیں.بعض ایسی باتیں بیان کر دیتے ہیں جو کم عمری کی وجہ سے نا کبھی کے نتیجے میں وہ صحیح پہچان نہیں سکے.واقعہ کسی اور رنگ میں ہوا بات کسی اور رنگ میں کی گئی اور اس بچے نے کچھ اور سمجھ لیا اور وہی بیان کر دیا.تو یقیناً ایسے راویوں کو جھوٹا تو نہیں کہا جاسکتا لیکن غلطی انسان سے ہوتی ہے اور یہ روایتیں ایسی قیمتی اور مقدس ہیں اور جماعت کی ایسی امانت ہے کہ ان میں ہم چھوٹی اور ادنی غلطیاں بھی پسند نہیں کر سکتے اس لئے اگر کسی نے ان بزرگوں کے حالات اس نیت سے چھپوانے ہوں کہ باقی بھی استفادہ کریں تو ان کا اخلاقی اور جماعتی فرض ہے کہ وہ نظام جماعت سے پہلے اس کی اجازت لیں اور علماء ان کتب کو پڑھ کر اچھی طرح اس بات کا جائزہ لے لیں کہ کوئی ایسی بات نہیں جو کسی پہلو سے بھی جماعت کے لئے مضر ہو یا غلط دعوے کئے گئے ہوں یا ضرورت سے بڑھ کر فاخرانہ انداز اختیار کیا گیا ہو جبکہ بڑائیوں کے بیان میں عاجزانہ طریق اختیار کرنا چاہئے.تو کئی قسم کے خطرات لاحق ہوتے ہیں ایسی باتوں میں اس لئے ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے آپ یہ کام کریں اور میں امید رکھتا ہوں کہ اگر اس نسل میں ایسے ذکر زندہ ہو گئے اللہ تعالیٰ آپ کے ذکر کو بھی بلند کرے گا اور آپ یا درکھیں کہ اگلی نسلیں اسی طرح پیار اور محبت سے

Page 138

125 اپنے سر آپ کے احسان کے سامنے جھکاتے ہوئے آپ کا مقدس ذکر کیا کریں گی اور آپ کی نیکیوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی.اسی طرح سلسلہ بہ سلسلہ صدی به صدی ہر جوڑ پر خدا تعالیٰ ایسے انتظام کرتا رہے گا کہ جماعت کے ولولے تازہ ہو جائیں ، جماعت کے عزم بڑھ جائیں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جائیں، نئے حوصلے بلند ہوں اور وہ امانت جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کی ہے اُس کو ہم آدھے راہ میں اپنی غفلتوں کے ساتھ پھر ضائع نہ کر دیں.اللہ کرے کہ ہم اس شان سے اور اس عجز کی شان کے ساتھ اس تو کل سے اور اس تو کل کی شان کے ساتھ اس دعا سے اور اس دعا کی شان کے ساتھ انگلی صدی میں داخل ہوں کہ ہمارا ہر قدم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی راہوں پر آگے بڑھتار ہے اور ایک قدم بھی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہوں سے ہٹ کر آگے نہ بڑھے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین." ( خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 176-178 ) انصار سمیت دیگر تنظیموں نے امریکہ میں مساجد کی تعمیر میں خوب قربانی کی ہے (خطبہ جمعہ 7 جولائی 1989ء) ایک آخری بات جو اپیل کے متعلق میں کہنی چاہتا تھا وہ مسجد واشنگٹن کے لئے اپیل کرنی ہے.مسجد واشنگٹن مرکزی ہونے کی حیثیت سے سب سے زیادہ امریکہ کی جماعت کے لئے لائق توجہ ہونی چاہئے.اب تک جو صورتحال ہے بعض دوسری جگہ مثلاً پورٹ لینڈ میں ، لاس اینجلس میں مساجد بڑی اچھی اچھی بن چکی ہیں لیکن ابھی تک واشنگٹن میں کوئی مسجد نہیں بنی.پھر بہت سے مراکز قائم کئے گئے ہیں گھر خرید کر اور زمینیں خرید کر جن میں عمارتیں موجود تھیں اور ان کو مساجد میں تبدیل کیا گیا ہے.اس دفعہ جب میں امریکہ میں داخل ہوا تھا تو Rochester میں ایک ایسا ہی گھر تھا جو خریدا گیا اور بہت ہی اچھی جگہ پر خوبصورت گھر ہے جس کے ایک حصے کو مستورات کے لئے مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے ایک حصے کو مردوں کے لئے مسجد میں تبدیلی کیا گیا ہے.اس قسم کی بہت سی مساجد امریکہ میں موجود ہے لیکن واشنگٹن میں جو پہلا مشن تھا ( اور بہت پرانی بات ہے) جب وہ مشن بنایا گیا تھا، بہت تھوڑی ضرورت کے پیش نظر بنایا گیا تھا وہ وہیں تک محدود ہے اور اس کے بعد کوئی مسجد اور نہیں بنی.یہ Newjercy اور New York ہے وہاں اللہ کے فضل سے بن گئی ہے.آتی دفعہ شمالی نیو جرسی میں بھی ان کا مرکز میں نے دیکھا ، خدام نے بڑی محنت کر کے اور انصار نے بھی لجنہ نے بھی بڑا خوبصورت بنا دیا ہے اس عمارت کو اور وہاں بھی جماعت کا مرکز قائم ہو گیا ہے.تو واشنگٹن میں ضرورت ہے کیونکہ آپ سب امریکہ سے وہاں اکٹھے ہوتے ہیں اپنے سالانہ

Page 139

126 اجتماعات کے لئے اور سب سے زیادہ ضرورت اگر مسجد کی ہے امریکہ میں تو واشنگٹن میں ہے.اس پہلو سے میں آپ کے سامنے یہ تحریک کرنی چاہتا ہوں کے خدا تعالیٰ نے کچھ انتظام تو فوری طور پر کر دیا ہے یعنی لجنہ اماءاللہ نیو یارک کو تحریک ہوئی کہ وہ اس موقع پر یعنی صد سالہ جشن کی خوشی میں میری پہلی دفعہ یہاں آمد کے موقع پر مجھے تمیں ہزار ڈالر کا چیک پیش کریں تا کہ میں اپنی مرضی سے جہاں چاہوں خرچ کروں.وہ چیک میں نے سوچا کہ سب سے زیادہ مستحق مسجد واشنگٹن ہے کہ اس کے لئے پیش کیا جائے." (خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 468-469) ذیلی تنظیموں کو مساجد آباد کرنے کی تحریک (خطبہ جمعہ 7 جولائی 1989ء) " مساجد کے ساتھ ہماری زندگی ہے یہ میں آپ کو بتاتا ہوں.بچپن سے میرے دل میں خدا نے یہ جذ بہ ڈال رکھا ہے.بے حد محبت مسجد کی عطا کی ہے.میں خدام الاحمدیہ میں تھا سائق تھا، زعیم تھا، مختلف عہدوں پر ترقی کرتا ہوا صدر بنا.انصار اللہ میں گیا لیکن ہمیشہ مجھے اس بات کا جنون رہا کہ جہاں بھی جاؤں مسجد میں بھرنے کی تلقین کروں کیونکہ یہ نظارہ میں برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ ہمارے گھر آباد ہوں اور خدا کے گھر خالی ہوں اس لئے جب مسجدیں بنائیں تو اس بات کو نہ بھولیں کے ان مسجدوں کو بھرنا بھی ہم نے ہے.مسجدیں بنا کر خالی چھوڑنا بہت ہی ایک ویران منظر پیش کرتا ہے، بہت ہی تکلیف دہ بات ہے اور یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ اگر آپ خدا کے گھر بھریں گے تو اللہ آپ کے گھر بھرے رکھے گا.جو خدا کے گھروں کو رونق بخشتا ہے اس کے گھروں کو ضر ور رونق عطا ہوا کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھیں کہ اپنے گھر کی رونق چھوڑ کر مسجد میں رہ جایا کرتے تھے، مسجد کی صفوں میں لیے جایا کرتے تھے بعض دفعہ اور دیکھیں خدا نے کتنی برکت ڈالی ہے آپ سب کے گھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر ہیں.کتنی عظیم الشان برکت ہے ساری جماعت میں.دنیا کے کونے کونے میں خدا تعالیٰ عظیم الشان بابرکت گھر عطا کر رہا ہے جماعت کو.مسجدیں بھی اور مشن ہاؤس بھی اور ذاتی گھر بھی ہم سب کا تو سب کچھ ایک ہی ہے اور ہر چیز جماعت ہی کی ہے.پس اس پہلو سے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مسجدیں بنانے کے ساتھ اگر آپ مسجدیں آباد کرنے کی نیت داخل رکھیں گے اس میں اور پوری وفا کے ساتھ خدا کے گھروں کو آباد کرنے کی کوشش کریں گے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کے گھروں کو ویران نہیں کر سکتی، کوئی دنیا کی طاقت آپ کی رونقیں چھین نہیں سکتی.جو

Page 140

127 اپنی زمینیں لے کر مسجدوں میں حاضر ہو جائے خدا کے حضور پیش کرنے کے لئے کیسے ممکن ہے کہ خدا دنیا کو یہ توفیق دے کہ ان کی زمینیں چھین لے.پس مضمون کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں اس میں آپ کی زندگی کا راز ہے اور زندگی کا سر چشمہ ہے اس بات میں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کی عبادت کے حق ادا کرنے والے اس کے منظور نظر بندے بنیں." خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 471-472) ذیلی تنظیمیں ٹھوس منصوبہ بندی کے ذریعہ تربیتی خلا کو پُر کریں (25 اگست 1989ء) اس ضمن میں مزید غور کرتے ہوئے بعض مشوروں کے دوران میری توجہ اس طرف مبذول ہوئی کہ جماعت کی ٹھوس تربیت کی طرف جتنی توجہ ہونی چاہئے وہ ابھی تک کما حقہ نہیں ہوئی.اس ضمن میں جب میں نے مزید غور کیا تو اس رنگ میں اس بات کو پیش کیا ہی نہیں جاسکتا.امر واقعہ یہ ہے کہ کبھی بھی دنیا میں تربیت کا حق ادا ہو ہی نہیں ہو سکتا.یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے اس کا کوئی کنارہ نہیں ہے.اس لئے ہر مقام پر جب ہم ترقی کی راہوں میں سفر کرتے ہوئے پہنچیں گے تو یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہئے آئندہ بھی ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہئے کہ کوئی مقام بھی ہماری آخری منزل نہیں ہے اور گزشتہ سفر کے نتیجے میں جو سبق ہم نے سیکھے ہیں ان سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے ماضی سے روشنی لیتے ہوئے مستقبل کے لئے ہمیں روشنی تلاش کرنی چاہئے اور مستقبل کے لئے زیادہ بہتر لائحہ عمل طے کرنا چاہئے.اس لئے جب میں نے کہا کہ ہم تربیت کی طرف کما حقہ توجہ نہیں کر سکے تو میری مراد یہ نہیں تھی کہ نعوذ بالله جماعت تربیت سے غافل رہی ہے.میری مراد یہ ہے کہ جب جس منزل پر بھی میں دیکھتا ہوں مجھے بہت سے خلا دکھائی دیتے ہیں.اپنی ذات میں بھی اور اپنے ماحول میں بھی اور میرا یقین اور زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی کامل نہیں ہے اور خدا کی طرف حرکت کرنا ہی کمال ہے اس لئے جماعت کو خدا کی طرف متحرک رکھنے کے لئے اور ہمیشہ جماعت کا قدم آگے بڑھانے کے لئے موثر پروگرام اور نہایت عمدہ پر حکمت منصوبے بناتے رہنا چاہئے اور اس ضمن میں ہر در جے کو لو ظ رکھنا چاہئے.جہاں تک عمومی اخلاقی تعلیم کا تعلق ہے گزشتہ چند سالوں سے میں اپنے خطبات میں اس بات پر زور دیتارہا ہوں لیکن مجھے اپنے ماضی کے تجارب پر غور کرتے ہوئے یہ بات یاد آئی کہ ابھی بنیا دی ٹھوس تربیت

Page 141

128 میں بہت سی کمی موجود ہے اور اگر ہم اپنے دیہات کے احمدیوں اور چھوٹے بچوں اور نو جوانوں کو بھی سامنے رکھیں تو آپ یہ بات معلوم کر کے یقینا دکھ محسوس کریں گے کہ ایک اچھے احمدی مسلمان کا جو معیار ہونا چاہئے علمی اور روزانہ کے دستور کا وہ اس بنیادی سطح پر آپ کوتسلی بخش صورت میں دکھائی نہیں دے گا.ذیلی تنظیموں کو تربیت کے سلسلہ میں ابھی بہت محنت کرنا ہے میں جب سفر کیا کرتا تھا وقف جدید کے سلسلے میں یا خدام الاحمدیہ کے یا بعد میں انصار اللہ کے سلسلے میں تو اکثر میرا رجحان اس طرف ہوا کرتا تھا کہ بجائے اس کے کہ تقریر کر کے اور جوش دلا کے واپس آجاؤں مجالس میں بیٹھ کر پوچھا کرتا تھا کہ آپ کلمہ سنائیں.سورۃ فاتحہ سنائیں اور نماز کا ترجمہ بتا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے حالات سے متعلق کوئی سوال کر دیا.اس دوران مجھ پر یہ ایک انکشاف ہوا کہ اس پہلو سے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور دیگر تنظیموں کو ابھی بہت محنت کرنا باقی ہے اور اسی دوران مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ صحیح تلفظ میں بہت نقائص پائے جاتے ہیں اور سورۃ فاتحہ جن کو آتی بھی ہے یا نماز کا باقی حصہ جن کو از بر بھی ہے وہ بھی صحیح عمدہ تلفظ کے ساتھ اس کو ادا نہیں کر سکتے اور اسی طرح ان کو تر جمہ میں بھی یا تو وقتیں پیش آتی تھیں یا بعض لوگوں کو تر جمہ آتا ہی نہیں تھا.اصل تربیت تو نماز نے کرنی ہے تو اصل تربیت تو نماز نے کرنی ہے.اگر ہم اپنی نمازوں کے لوازمات درست نہ کریں تو با وجوداس کے کہ ہم تعلق باللہ پر زور دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا لطف اٹھا ئیں نماز میں مگر وہ لطف اٹھانے کا جو طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا تھا اس سے غافل رہتے ہوئے ہم ہرگز اس لطف اٹھانے کے متعلق وہ تو قعات نہیں رکھ سکتے جو ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتب میں پڑھے ہوئے تربیت یافتہ متعلم یا ایسے طالب علم کو حقیقی روحانی لذتیں حاصل ہو سکتی ہیں اور یہ ترقیات اس کو نصیب ہو سکتی ہیں.ان کے ساتھ ایک ایسا شخص مقابلہ نہیں کر سکتا جو ان باتوں کے ذاتی علم سے عاری ہوا اور نماز جو وہ پڑھتا ہے اس کے مطالب سے ناواقف ہو اور محض محبت کے نام پر خدا تعالیٰ سے کچھ باتیں کرتا ہو.محبت دونوں صورتوں میں ضروری ہے اس میں کوئی بھی شک نہیں.خواہ ایک بہت ہی بڑا عالم جو نماز کے ایک ایک لفظ کی تہہ تک بھی پہنچ سکتا ہو اور اس کے ہر قسم کے مطالب پر اس کو عبور ہواگر نماز پڑھے اور خدا کی محبت سے عاری ہو تو اس کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا لیکن یہ کہنا کہ صرف محبت کافی ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے طریق سے الگ رہ کر وہ محبت کافی ہو سکتی ہے یہ درست نہیں.کیونکہ محبت بھی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ہم نے سیکھنی ہے اور نماز میں جو آپ نے قرآن کریم کی آیات چنی یا مثلاً

Page 142

129 سورۃ فاتحہ یا اور قرآن کریم کے مضامین اور مطالب سے دعائیں لے کر نماز میں داخل فرما ئیں یا جو تسبیح تحمید ہمیں نماز میں پڑھنے کی ہدایت فرمائی یہ سارے امور محبت الہی پر مبنی تھے اور محبت الہی کے مختلف پہلوؤں کی طرف متوجہ کرنے والے تھے.اس لئے محبت اگر ایک شخص کی انفرادی ہو اور وہ صاحب عرفان نہ ہوتو وہ محبت اس کو بہت زیادہ بلند مقام تک نہیں پہنچا سکتی.محبت کی بھی تو بے شمار منازل ہیں.محبت بھی تو ایک لامتنا ہی چیز ہے.کیسے محبت کرنی ہے یہ ضمون ہے جس کو اگر آپ پیش نظر رکھیں تو قرآن کریم سے صاف پتا چلتا ہے کہ ویسے محبت کرنی ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی.قُل اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُخبكُمُ الله ( آل عمران : 32) اے محبت کے دعویدارو ! اگر تم خدا سے محبت کرنا چاہتے ہو فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله میری طرح کرو جس طرح میں کرتا ہوں تب خدا تم سے محبت کرے گا.یعنی محبت کا جو آخری پھل ہے وہ تمہیں مل جائے گا.خالی ایک طرف کی محبت کے کیا معنی ہیں.اگر جس سے محبت ہے وہ منہ موڑے رکھے اور اس کا وصل نصیب نہ ہو تو یک طرفہ محبت تو صحرا میں آواز میں دینے کے مترادف ہے.اس لئے قرآن کریم کی آیت اتنی کامل ایسی حسین ہے کہ بارہا میں نے اس کا ذکر کیا ہے مگر میں تھکتا نہیں.کیسا عمدہ کلام ہے فرمایا اے خدا کی محبت کے دعویدارو! اگر تم محبت کرنا چاہتے ہوئے تو اے محمد ! ان سے کہہ دے کہ میری طرح کرو اور اس کا کیا نتیجہ ہوگا خدا تم سے محبت کرے گا.کتنا عظیم الشان پھل ہے لیکن اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح محبت نہیں کریں گے تو کچھ نہ کچھ تو خدا کا پیارمل سکتا ہے لیکن اس آیت کا کوئی مومن مصداق نہیں بن سکتا.اس لئے نمازوں کے اوپر مزید گہری توجہ کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہر احمدی بچے ، بڑے کو سو فیصدی نماز کا ترجمہ آنا چاہئے ، اس کے آداب آنے چاہئیں ، نماز کے سلسلے میں جولوازمات ہیں وہ معلوم ہونے چاہئیں اور متعلقہ مسائل معلوم ہونے چاہئیں.اس سلسلے میں ہمارے پاس جو کمی ہے وہ اساتذہ کی ہے.وقف جدید کے معلمین بھی اسی خاطر دیہات میں پھیلائے گئے تھے کہ وہ جا کر اس تربیت کی کمی کو دور کریں گے لیکن ایک تو مشکل یہ ہے کہ خود وقف جدید کے جو معلمین تھے ان کا اپنا معیار اتنا بلند نہیں تھا اور دوسرا یہ کہ وہ بہت ہی تھوڑے ہیں جماعت کی تعداد کے مقابل پر.جماعت کی تعدا د تو اب کثرت سے پھیلتی ہی چلی جارہی ہے اور وقف جدید کے معلمین تو پہلے بھی پورے نہیں آسکتے تھے ایک پاکستان میں ہی آپ دیکھ لیں ہزاروں جماعتوں میں ایک سو سے کم معلمین کس طرح اپنے فرائض ادا کر سکتے ہیں اور ضرورتوں کو پورا کر سکتے ہیں اور دنیا کے اکثر حصوں میں وقف جدید ہے بھی نہیں.ایسے معلم کہاں سے آئیں گے.اس کا ایک حل میرے ذہن میں آیا جس کے متعلق میں نے اپنے مرکز سے آنے والے ناظم وغیرہ کو

Page 143

130 نصیحت کی ہے کہ کیسٹس سے ہم استفادہ کر سکتے ہیں اوراس کمی کو دور کر سکتے ہیں.کیسٹس کے ذریعہ تعلیمی وتربیتی پروگرام جاری کریں اس ضمن میں میں اب اس خطبہ کے ذریعے ساری دنیا کی جماعتوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ کیسٹس میں تربیتی پروگرام اورتعلیمی پروگرام اس طرح بھریں جیسے ایک بالکل چھوٹے بچے اور ان پڑھ کو کوئی چیز کھائی جا رہی ہے اور یہ نہ سوچیں کہ ایک ٹیسٹس میں آپ تیزی سے کوئی مضمون بھر دیں اور توقع رکھیں کے لوگ بار بار سنیں گے بلکہ تھوڑی بات پھیلا کر کریں اور بار بار کریں.یہاں تک کی ایک کیسٹ اگر پوری جماعت کو نہیں سنبھال سکتی تو نہ ہی دو ٹیسٹس لگالیں تین لگا لیں لیکن جو شخص بھی ٹیسٹس سننا شروع کرے ساتھ ساتھ اس کو بات یاد ہوتی چلی جائے.اس کا مضمون ذہن نشین اور دل نشین ہوتا چلا جائے.اس مقصد سے تمام دنیا میں خصوصاً دیہاتی علاقوں میں ٹھوس تربیت کے پروگرام مرتب ہونے چاہئیں اور افریقہ میں ہر زبان میں جو افریقہ میں بولی جاتی ہے اسی طریق سے پیسٹس تیار کئے جائیں یعنی جیسا کہ آپ دیکھ چکے ہیں اس کثرت سے اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقہ میں احمدیت کی طرف رجحان ہوا ہے کہ خوشی اور تشکر کے جذبات کے ساتھ اسی قدر فکر کے جذبات نے بھی دل کو گھیر لیا ہے ان لوگوں کی تربیت ہم کیسے کریں گے.تو میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ یہ نئے زمانے کی ایجادات اسلام کی خدمت کے لئے ہی دراصل انسان کو عطا ہوئی ہیں اس لئے ان سے پورا استفادہ کرنا چاہئے.گزشتہ چند سالوں سے ہم نے افریقہ میں ہر قسم کے جدید آلات جماعتوں کو مہیا کرنے شروع کئے ہوئے ہیں اور ٹیسٹس کے علاوہ ویڈیوز بھی اور آڈیو ویڈیو کے دوسرے جو بھی نئے ذرائع انسان کو عطا ہوئے ہیں ان سے جماعت کو بھی مستفید کرنے کے لئے پروگرام بھی ہیں اور ساتھ ساتھ جس حد تک توفیق مل رہی ہے وہ آلات مہیا بھی کئے جارہے ہیں.تو جہاں تک آڈیو ویڈیو کا تعلق ہے، ویڈیو کے ذریعے پیغام دکھانے کا افریقہ اور بعض دوسرے غریب ممالک میں وہ شاذ کے طور پر استعمال تو ہو سکتے ہیں.چند مجالس میں تو استعمال ہو سکتے ہیں روز مرہ کی زندگی میں وہ کارآمد نہیں ہو سکتے.روز مرہ کی زندگی کے لئے آڈیو ٹیسٹس وہ جن کا صرف سننے سے تعلق ہے تصویر میں ساتھ نہیں ہوتیں بالکل ہلکے چھوٹے چھوٹے ٹیسٹس ریکار ڈرنکل آئے ہیں جو ایک فیملی کی ضرورت کو تو بہت عمدگی سے پورا کر سکتے ہیں لیکن بعض غریب ممالک ایسے ہیں جہاں یہ بھی پوری طرح موجود نہیں اور بڑے بڑے علاقے ہیں جہاں بہت کم آڈیو ٹیسٹس لوگوں کے پاس موجود ہیں.اس لئے جہاں تک ان غریب ممالک کا تعلق ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس نئی تحریک کے نتیجے میں جو میں نے آپ کے سامنے رکھی تھی افریقہ اور ہندوستان کے غریب علاقوں کے لئے ہم ٹیسٹس پر بھی خرچ کریں گے

Page 144

131 اور تربیت کے لئے جو بھی ضرورتیں ہیں وہ انشاء اللہ پوری کریں گے لیکن آڈیو کی ضرورت اس لئے زیادہ ہے کہ اکثریت ان علاقوں کی پڑھنا بھی نہیں جانتی اور معلمین بھجوا کر ان کی تربیت کرنا بہت مشکل ہے.اس لئے جماعتی نظام کے تابع ہر احمدی جماعت کے لئے بالآخر ایک ایسا کیسٹس ریکارڈر مہیا ہو جانا چاہئے جو مضبوط ہو.دیہاتی علاقوں میں چونکہ اس کا استعمال بعض دفعہ نازک نہیں ہوتا بلکہ بختی کے ساتھ کیا جاتا ہے.استعمال میں ملائمت نہیں ہوتی بلکہ سختی پائی جاتی ہے.اس لئے نازک مشینیں ٹوٹ جاتی ہیں اور بڑی جلدی ضائع ہو جاتی ہیں.اس لئے تحریک جدید کے اس شعبہ کو جس نے یہ کام کرنا ہے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ دیہات کی مناسبت سے وہ آلات چنیں جائیں اور ٹھوس آلات ہوں، بڑی آواز والے ہوں تاکہ دیہاتی تربیت کے لئے ایک مسجد میں بچوں کو اور بڑوں کو اکٹھا کر کے ان کی تربیت کے پروگرام بنائے جائیں اور ان سے وہ سب مستفید ہوں.اگر بیک وقت سارے علاقوں میں ہر گاؤں میں ایسی چیزیں مہیا نہ ہو سکتی ہوں جو آہستہ آہستہ ہو جائیں گی انشاء اللہ پھر علاقوں کو چھوٹے چھوٹے حلقوں میں تقسیم کر لیا جائے اور ایک حلقے میں دو تین چار پانچ گاؤں رکھے جاسکتے ہیں اور اس میں ایسا پروگرام رکھا جا سکتا ہے کہ باری باری یہی مشین اپنی لیسٹس کے ساتھ گھومنا شروع کرے.جب ایک پروگرام پہلے دے دیا اور پھر اگلے پروگرام کو شروع کرنے سے پہلے وہی پہلا پروگرام دوسرے راؤنڈ میں شروع کرا دیا.چکر لگا کے واپس پہنچے تو پہلا پروگرام پھر سنایا اور اس کی یاد دہانی کے طور پر اسے پھر دوبارہ سنایا اور اگلے پروگرام کا پہلا سبق دے دیا.چھوٹے چھوٹے پروگرام بنا کر ان کو عام کریں اس ضمن میں ایک بہت اہم بات بتانے والی یہ ہے کہ اتنا Ambitious پروگرام ، اتنا وسیع ولولے والا پروگرام پہلے نہ بنا لیں کہ وہ ہضم نہ ہو سکے لوگوں کو.چھوٹے پروگرام پہلے بنائیں اور ان کو عام کر دیں.اس کے بعد آرام سے بیٹھ کر پھر دوسرا پروگرام سوچیں اور پھر اس کو لیسٹس میں بھر کر پھر مہیا کرنا شروع کریں.ایک نماز سے شروع کریں تو پھر نماز کے بعد اگلے قدم بھی اٹھا ئیں.نماز کے علاوہ روز مرہ کے مسائل جو ایک مسلمان کو معلوم ہونے چاہئیں ان پر تربیتی پروگرام ریکارڈ کئے جائیں.پھر حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات ، آپ کے صحابہ کے حالات پر سادہ چھوٹی چھوٹی باتیں جو ہر عشق کا دعوی کرنے والے کو ضرور معلوم ہونی چاہئیں وہ بیان کی جائیں اور اس طرح یہ جو سال کا بقیہ حصہ ہے اس میں کم سے کم اتنے پروگرام ہمارے تیار ہو جائیں کہ ہم پھر اطمینان سے کہہ سکیں کہ اگلی صدی میں ہم ایک تربیت کا نہایت عمدہ اور قابل عمل پروگرام لے کر داخل ہوئے ہیں.امید ہے اس سلسلے میں جماعتیں جا کر اپنے فرائض کی طرف متوجہ ہوں گی.جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے پاکستان کی جماعتیں چونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خود اپنے بوجھ

Page 145

132 اٹھانے کے قابل ہیں اس لئے میں نے پاکستان کا نام نہیں لیا تھا اس تحریک میں.ایک ہمارے معزز بزرگ ہیں جنہوں نے مجھے توجہ دلائی کہ آپ نے افریقہ اور ہندوستان کے نام تو لے لئے لیکن پاکستان کا نام بھول گئے.اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے ان کی توجہ دلانے سے خیال آیا.ہو سکتا ہے اور دلوں میں بھی یہ خیال پیدا ہو.نعوذ بالله کی ناراضگی کے نتیجے میں نہیں بلکہ خوش اعتقادی کے نتیجے میں یہ بات ہوئی ہے مجھے پورا یقین ہے پورا اعتماد ہے کہ پاکستان کی جماعتیں اللہ کے فضل سے خود کفیل ہیں نہ صرف خود کفیل ہیں بلکہ جب تک حکومت کے قوانین اجازت دیتے تھے وہ دنیا کی جماعتوں کے بوجھ بھی اٹھائے ہوئے تھی.اس لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے بوجھ خود نہ اٹھا سکیں.تو جہاں تک پاکستان کی جماعتوں کا تعلق ہے وہ اللہ کے فضل کے ساتھ اپنی ساری ضرورتیں خود پوری کرتی رہیں گی اور ان ضرورتوں کو وہ خاص طور پر پیش نظر رکھیں گی.قرآن کریم کے تلفظ کی درستگی کے بارے ہدایات قرآن کریم کے متعلق ایک دفعہ پھر میں بتاؤں کہ نماز اس طرح سکھانی شروع کرنی ہے کہ پہلے نماز کے کچھ لوازمات بتائے جائیں اور نماز کا مختصر تعارف کروایا جائے.پھر اس کے بعد کہا جائے کہ اب تیار ہو نماز یاد کرنے کے لئے اور پھر نماز کی ایک ایک سطر یا ایک ایک آیت جو بھی صورت ہو وہ آہستگی سے پڑھ کر سنائی جائے.جو غلطیاں عموماً ان علاقوں میں تلفظ کی پائی جاتی ہیں ان کی طرف ساتھ ہی توجہ بھی دلائی جائے اور متنبہ کیا جائے کہ بعض لوگ " و " کو "ب " پر جاتے ہیں اور "ب" کو " و" بڑھ جاتے ہیں.اسی طرح دوشس میں فرق نہیں کر سکتے اور بھی بہت سے علاقائی تلفظ کے رجحانات ہیں جو روز مرہ قرآن کریم کی تلاوت میں دقتیں پیدا کر دیتے ہیں.تو جس علاقے میں جو تلفظ کی غلطیاں پائی جائیں بتایا جائے کہ ہم نے یہ پڑھایا تھا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، سم اللہ نہیں ہے یا بشم اللہ نہیں ہے.آپ غور سے سنیں اس کو اس طرح ادا کرنا ہے اور جہاں ٹھہرنا ہے وہاں ٹھہر کے بتایا جائے کہ یہاں ٹھہرنا ہے.جہاں نہیں ٹھہر نا وہاں یہ بتایا جائے کہ یہاں نہیں ٹھہرنا اور رفتہ رفتہ آہستگی کے ساتھ خوب اچھی طرح تلفظ سمجھاتے ہوئے ایک دفعہ نماز کے ایک حصے سے گزار دیا جائے پھر کہا جائے کہ اب ہم آہستہ آہستہ اس کی رفتار کو کچھ تیز کریں گے آپ ہمارے ساتھ شامل ہوں.پھر رفتہ رفتہ اس کی رفتار تیز کر کے ان کو بتایا جائے.پھر کچھ دیر کے بعد کہا جائے کہ اب ہم اچھی تلاوت کی آواز کے ساتھ اسی چیز کو دوبارہ پڑھ کے سناتے ہیں.آپ میں اگر کوئی ترنم کا جذ بہ ہے، ترنم کا شوق ہے تو آپ اس آواز کی نقل کی کوشش کریں یا اسی طرز پر پھر اپنی آواز میں جو آپ کو پسند ہے وہ ترنم کے ساتھ نماز کی تلاوت کر کے دیکھیں کم سے کم قرآن کریم کے حصے کی.بلکہ اسی کی ہونی چاہئے باقی کی تو ترنم کی ضرورت نہیں ہے.تو یہ سکھایا جائے.

Page 146

133 یہ پروگرام صبر آزما ہے محنت طلب ہے ، وقت چاہتا ہے پھر اس کے بعد نماز کے ترجمے کی طرف متوجہ ہوں.آہستہ آہستہ اسی طریق پر ترجمہ سکھائیں ، آخر تک پہنچیں، کچھ حکمتیں بیان کریں اور یہ جو کورس ہے یہ کم سے کم دس پندرہ دن تک جاری رہنا چاہئے.یہ ایسا کورس نہیں ہے جو ایک دن میں ختم ہو سکے یا چند دنوں میں بھی ختم ہو سکے.میرا اندازہ ہے کہ اگر اس طریق پر اچھی طرح سمجھا کر پیار کے ساتھ پیسٹس تیار کی جائیں اور روزانہ آدھ گھنٹہ کوئی شخص متوجہ ہو یا وقت دے سکے تو غالباً پندرہ دن کے اندر ہم یہ پہلی منزل طے کر سکتے ہیں.پھر دوسرے حصے میں قرآن کریم کی بعض چھوٹی سورتیں اختیار کر کے ان کو اسی طریق پر آہستگی سے سمجھا سمجھا کر صحیح تلفظ کے ساتھ یاد کروائی جائیں وہ سورتیں اور پھر ان کا ترجمہ پڑھا جائے.ترنم کے ساتھ کسی اچھے قاری سے اس کی تلاوت کروائی جائے اور سمجھایا جائے کہ جب بھی آپ کوئی آیت پڑھتے ہیں تو ہمیشہ مضمون پر نگاہ رکھا کریں کیونکہ ایسے قاری جو مضمون کو بھلا کر قراءت کرتے ہیں ان کی قراءت عموماً مصنوعی سی ایک مشینی آواز کی طرح محسوس ہوتی ہے لیکن جو آیات کے مضمون میں دل ڈالتے ہیں ان کی تلاوت دل سے نکلتی شروع ہو جاتی ہے کیونکہ دل آیات کے مضمون میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے اور اس سے پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف یہ کہ ان کو نئے نئے مطالب نصیب ہوتے رہتے ہیں بلکہ سننے والے بھی اس لذت کو محسوس کرتے ہیں جو دل کی تلاوت میں پائی جاتی ہے دوسری تلاوت میں آنہیں سکتی.تو اس مضمون پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے احباب جماعت کی ، بچوں کی ، بڑوں کی تربیت کرنی چاہئے لیکن یہ خیال نہ کریں کہ آپ کے بڑوں کو سب کچھ آتا ہے اس لئے بچوں کی کلاسیں لگائیں گے.میرا یہ تجربہ ہے کہ ہماری بعض بڑی نسلیں بھی ان چیزوں سے ناواقف ہیں اور جب ہم بچوں کی طرف توجہ کرتے ہیں تو بڑے خالی رہ جاتے ہیں.پھر بعض دفعہ بڑوں کی طرف توجہ کرتے ہیں تو مسجد میں چونکہ اکثر مرد آتے ہیں عورتیں محروم رہ جاتی ہیں اس لئے یہ پروگرام ایسے ہونے چاہئیں جس میں جماعت کا کوئی طبقہ بھی محروم نہیں رہنا چاہئے اور عورتوں کو خصوصیت سے یہ باتیں یاد کرانی اس لئے ضروری ہیں کہ اگر ان کو یاد ہو جائیں تو پھر اگلی نسلوں کی تربیت وہ خود سنبھال سکتی ہیں.بچیوں کو اگر یہ چیزیں یاد ہو جائیں تو آئندہ کی نسل کی حفاظت ہو جائے گی.تو یہ پروگرام صبر آزما ہے، محنت طلب ہے ، وقت چاہتا ہے لیکن اتنا ضروری ہے کہ اس کو ہر پروگرام پر اب اولیت دینی چاہئے.تمام دنیا میں، دنیا کی تمام ایسی زبانوں میں جہاں احمدی موجود ہیں.اس قسم کی تربیت کی لیسٹس تیار ہوں، مقامی لوگوں کی اچھی آواز میں کوئی تلاوتیں سنائی جائیں اور قرآن کریم کی چیدہ چیدہ آیات اور بعض چھوٹی سورتیں حفظ کروائی جائیں اور پھر ان کے مطالب ساتھ بیان کئے جائیں.یہ پروگرام جب آگے بڑھے اور یہ حصہ آپ طے کر چکیں پھر اس طرف متوجہ ہوں یا بعض صورتوں میں بیک وقت

Page 147

134 بھی ایک اور پروگرام ساتھ چلایا جاسکتا ہے جلسے میں اور ٹیسٹس میں بھر کر دیہات میں پہنچائے جائیں.انصار کو خوش الحانی سے تلاوت کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے یہ تجربہ میں نے وقف جدید میں کیا تھا اور اگر چہ تھوڑے پیمانے پر ہوا لیکن اللہ تعالی کے فضل سے جہاں جہاں ہوا اس سے بہت ہی شاندار اور حوصلہ افزا نتائج نکلے.جلسے سے مراد میری یہ ہے کہ ہم عمو ماً جب معلمین کو ، انسپکٹر ان کو یا دیگر جماعتی نمائندوں کو دوروں پر بھجواتے ہیں تو یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اعلیٰ معیاری جلسہ وہاں منعقد کر اسکیں گے اور جماعت پوری طرح اس سے استفادہ کر سکے گی.حالانکہ بہت سے ایسے آپ کے سلسلے کے کارکن ہیں یا خدام اور انصار کے نمائندہ ہیں جن کی اپنی تلاوت اچھی نہیں ہے یا تلاوت صحیح کر سکتے ہیں تو آواز بھونڈی ہے.بے اختیاری ہے بیچاروں کی اس میں اختیار ہی کسی کا کوئی نہیں.جو آپ نے سنے ہوں گے قصے کہ وہ آواز اچھی کرنے والی گولیاں ملتی ہیں بازاروں میں یہ سب جھوٹ اور قصے ہیں محض.آواز اللہ کی طرف انعام ہے، اس کی طرف سے ایک تحفہ.جس بیچارے کو نصیب نہ ہو مجبور ہے.بعض تو میں نے دیکھا تلاوت ایسی خوفناک کرتے ہیں کہ لوگ بھاگتے ہیں اس سے.بد آواز والے موذن کا قصہ وہ آپ نے سنا ہو گا قصہ ایک جگہ کہتے ہیں ایک بہت ہی خوش الحان اذان دینے والا اذان دیا کرتا تھا ہند و آبادی تھی اور اس کا ایسا اثر تھا اس کی آواز کا ایسا جادو تھا کہ جن ہندو گھروں تک وہ آواز پہنچتی تھی وہ اسلام کی طرف مائل ہونے لگ گئے.ایک ہندو ساہوکار کی بیٹی یہ روزانہ سنتی تھی اور اس کی دن بدن حالت بدلتی چلی گئی اور اسلام کی محبت اس کے دل میں بھر گئی.تب اس کے باپ کو خیال آیا کہ اس کا کچھ کرنا چاہئے یہ نصیحتوں سے تو مانے گی نہیں.اس نے اس مؤذن کو بہت سے پیسے دئے کہ میاں تم یہ گاؤں چھوڑ جاؤ اور ایک نہایت ہی بد آواز والے شخص کو پیسے دئے کہ تم یہاں مؤذن بن جاؤ اور چند دن میں ہی دیکھتے دیکھتے اس کا سارا اثر زائل ہو گیا.یہ لطیفہ کے طور پر سنا ہوا ہے قصے کے طور پر لیکن محض قصہ نہیں ہے ان باتوں میں بڑی گہرائی ہے.اس لئے ایسے مربیان یا ایسے معلمین یا الگ دوسرے نمائندگان جو مختلف جماعتوں میں جاتے ہیں ہرگز ضروری نہیں ہے کہ ان کی تلاوت اچھی ہو، ان کی آواز اچھی ہو اور وہ اثر پیدا کرسکیں پھر ان کی تقریر کے انداز بھی الگ الگ ہوں گے اور ایک سلسلے کے عالم کی تقریر کا مقابلہ تو وہ نہیں کر سکتے اور پھر علماء علماء میں بھی فرق ہے.اس لئے ان باتوں کو سوچتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ پورا جلسہ ریکارڈ کراؤں.چنانچہ اس زمانے میں نیا نیا کیسٹ ریکارڈر ایجاد ہوا تھا اس میں میں نے ایک جلسہ بنایا.ایک بہت اچھی تلاوت میں کسی سے نظم پڑھائی پھر ایک مضمون پر خاص موضوع چن کے اس میں تقریر بھر وائی اور

Page 148

135 خیال تھا کہ جب یہ مقبول ہوا اور اس کے اچھے اثرات ہوئے تو پھر مختلف موضوعات پر جلسے بنا دئے جائیں گے.جلسہ، B جلسہ ، C جلسہ کبھی ایک جلسہ ہو جائے اور پھر اگلی دفعہ دوسرا جلسہ اس گاؤں میں ہو جائے اور اگر ترتیب کے ساتھ ہم سارے دیہات کو تقسیم کر لیں نمبروں کے لحاظ سے تو ہر نیا نمائندہ اپنے ساتھ ایک گاؤں میں ایک نیا پروگرام لے کر پہنچ سکتا ہے اور بہت سے ایسے مضامین جو ان دیہاتوں تک نہیں پہنچتے اور جلسے میں بھی سب کو کہاں توفیق ملتی ہے بہت معمولی حصہ ہے جو جلسوں تک پہنچ سکتا ہے.دور دور کی جماعتوں کے لوگ تو بہت بھاری تعداد میں محروم رہ جاتے ہیں پھر جلسے پر آنے والے بھی ہر وقت جلسہ نہیں سنتے.مصروفیات ہیں کئی قسم کی ، پھر وہ جب سن رہے ہوتے ہیں تو تو جہات ادھر ادھر ہو جاتی ہیں.پھر جلسے کی تقریروں کے انتخاب میں مقاصد اور ہوتے ہیں بعض دفعہ اور ٹھوس بنیادی تربیت مسلسل جلسے کی تقریر کا مقصد نہیں ہوتی.یہ پروگرام ہر علاقے کی ضرورتوں کے مطابق ہوں گے تو اس پہلو سے اگر اچھے مضامین کا انتخاب کیا جائے اچھی نظمیں پڑھنے والے کی نظمیں اس میں ریکارڈ کی جائیں اور ایک جلسہ بنا لیا اس کو پہلے پھیلا دیا پھر اس سلسلے میں ایک اور جلسہ بنالیا اور یہ جلسے ہر علاقے کی ضرورتوں کے مطابق مختلف ہوں گے ایک پروگرام ہر جگہ نافذ نہیں ہوسکتا لیکن ایک طرز ضرور نافذ ہوسکتی ہے.تو امید ہے کہ اس پہلو سے بھی جماعتیں متوجہ ہوں گی اور گاؤں گاؤں میں بستی بستی میں ایسے تربیتی اجلاس شروع ہو جائیں گے.جہاں تک تبلیغی اجلاسوں کا تعلق ہے پاکستان جیسے ملک میں یا بعض اور ممالک میں ان پر تو پابندی ہو بھی سکتی ہے کسی حد تک اور دخل اندازی کی جاتی ہے تو تربیت کے پہلو سے بھی کریں گے وہ لیکن إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهَ اکثر دیہات میں اس کی سہولت ہوگی اور میں نہیں سمجھتا کہ اس پروگرام کو نافذ کرنے میں پاکستان جیسے ملک میں بھی کسی قسم کی دقت ہو اور اگر ہو تو جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے قربانی کے میدانوں میں بڑی ثابت قدمی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ہر قسم کے دباؤ کو بڑی مومنانہ جرات اور بہادری سے رد کر رہی ہے اور مقابلوں کے لئے دن بدن اور زیادہ آمادہ ہوتی چلی جارہی ہے.اس لئے یہ پروگرام اپنی ذات میں اتنے مفید اور اتنے گہرے اور ضروری ہیں کہ اگر ان کے نتیجے میں جیسے کہ پہلے جماعت کو قربانی دینی پڑی ہے کہیں کچھ قربانی دینی پڑے تو میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان کی جماعت اس معاملے میں کسی قسم کا تر ددکا اظہار کرے.جہاں تک باقی دنیا کا تعلق ہے جو آزاد دنیا ہے جہاں انسانی قدروں کی حفاظت کی جاتی ہے جہاں انسانی قدروں کی قدر کی جاتی ہے یہ ساری دنیا وسیع پڑی ہے آپ کے سامنے اور احمدیت کے صداقت کے تحت اقدام ہے.احمدیت کی صداقت کے قدموں کے نیچے ہے.تو یہاں تو کسی قسم کی روک کا سوال ہی نہیں

Page 149

136 پیدا ہوتا.کھلے دل کے ساتھ خدا پر توکل کرتے ہوئے حکمت کے ساتھ دعاؤں کے ساتھ آگے قدم بڑھاتے رہیں اور ٹھوس تربیت کا یہ بقیہ سال منادیں اور بقیہ سال نہیں بلکہ اس ساری صدی کو ٹھوس تربیت کی صدی بنانا ہے اور یہ جو آپ کام کریں گے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں اس کے بہت ہی نیک اثرات اور ٹھوس اثرات مدتوں تک نسلاً بعد نسل ظاہر ہوتے چلے جائیں گے اور بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاتے رہیں گے.اور اس کے سوا اب ہمارے لئے اور چارہ بھی کوئی نہیں.کثرت سے غیر معمولی طور پر بڑی تعداد میں قو میں داخل ہو رہی ہیں اور اس سال جو آپ نے نظارہ ردیکھا ہے یہ ایک ابتدائی نشان ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے.ایک نمونہ ہے چھوٹا سا.آئندہ ایک ایک سال میں لکھوکھہا آدمیوں کو قبول کرنے کے لئے آپ نے تیار ہونا ہے.جونئی نسل کے واقفین ہیں ان کو بڑے ہونے میں وقت لگے گا وہ جب انشاء اللہ بڑے ہوں گے تو اپنی ذمہ داریوں کو ضرور سنبھالیں گے لیکن ان کے آنے سے پہلے پہلے جو درمیان میں ایک خلا ہے اس کو ساری جماعت نے مل کر پر کرنے کی کوشش کرنا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور آئندہ صدی کی تمام ذمہ داریوں کو اس شان کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ خدا کی پیار کی نگاہیں ہم پر پڑیں خواہ دنیا ہم سے راضی ہو یا نہ ہو.آمین.( خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 566-576) گورنمنٹ کی طرف سے ذیلی تنظیموں کے اجتماعات کے انعقاد کی مشروط اجازت پر تبصرہ (خطبہ جمعہ 20 اکتوبر 1989ء) اب کچھ دنوں سے کچھ ایسے آثار ظاہر ہونے شروع ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت پنجاب جماعت اسلامی کے اس حد تک زیر اثر نہیں رہی اور کچھ جماعت اسلامی کے پنجہ سے نکلنے کا احساس پیدا ہو رہا ہے.چنانچہ حال ہی میں ربوہ میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کو اور مجلس انصاراللہ مرکزیہ کو جو مرکزی اجتماع منعقد کرنے کی اجازت دی گئی ہے یہ بھی اسی رجحان کی نشاندہی کرنے والی باتیں ہیں.اس سے پہلے ایک لمبے عرصے تک اجتماعات کا انقطاع رہا.اب بھی جو اجازت دی گئی ہے وہ بہت ہی بوجھل دل کے ساتھ اور بے دلی کے ساتھ دی گئی ہے.چنانچہ خدام الاحمدیہ کو یہ تاکید ہے کہ آپ کا اجتماع بیت الاقصیٰ میں ہو اور اس سے باہر کوئی اجتماع نہ ہو اور اس پر بھی پابندی یہ ہے کہ کسی قسم کا لاؤڈ سپیکر استعمال نہ ہو.اب یہ عقل کے خلاف بات ہے کہ پاکستان بھر کے نوجوانوں کا اجتماع ہو اور وہ ایک مسجد کے اندر سما جائے.بیت الاقصیٰ خصوصیت

Page 150

137 کے ساتھ اتنی چھوٹی ہو چکی ہے کے ربوہ کے باشندوں کے لئے بھی پوری نہیں ہوتی اور وہاں اس اجتماع کا سما جانا یہ عقل کے خلاف بات ہے.لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بہتری کی طرف چھوٹا ہی سہی کچھ قدم ضرور ہے.اسی طرح انصار اللہ کے اجتماع کو بھی بڑے لمبے عرصے کے بعد اجازت دی گئی ہے.جہاں تک ہمارا تو کل ہے وہ تو خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے اور جہاں تک ان مظالم کے خلاف فریاد ہے وہ بھی خدا تعالیٰ ہی کے حضور میں ہے اور اگر چہ یہ ایک بہت معمولی سا فرق ہے ایسا فرق نہیں جس کے نتیجے میں دل بے ساختہ ممنون احسان ہونے لگیں.مگر ہمیں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے ، ادنی سے ادنی احسان کو بھی جذ بہ شکر کے ساتھ قبول کرنا چاہئے.اگر چہ یہ احسان ابھی اتنا معمولی ہے کہ عدل کی حدود بھی پوری نہیں کرتا ہے اس لئے صحیح معنوں میں لغوی اعتبار سے اس کو احسان کہنا درست نہیں ہے لیکن وہ جگہیں یا وہ ممالک جہاں سے عدل اٹھ چکا ہو وہاں عدل کا آغاز بھی ایک رنگ میں احسان کا آغاز ہوا کرتا ہے.پس اگر چہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ حکومت پنجاب کا یہ فعل ابھی عدل کے تقاضے پورے کرنے سے بھی بہت پیچھے ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں جو حسن و احسان کی تعلیم دی گئی ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح اپنے غلاموں کی تربیت فرمائی ہے ہمیں اس چھوٹے سے احسان کو بھی نظر تشکر سے دیکھنا چاہئے.اگر چہ یہ ممکن ہی نہیں بلکہ غالب گمان ہے اس جذبہ تشکر کی کوئی قدر نہیں کی جائے گی.اگر چہ حالات یہی بتاتے ہیں کہ اس چھوٹے سے نیک قدم کے بعد یہ خطرہ ہے کہ پھر اس قدم کو واپس کھینچنے کے لئے ایک مہم شروع کی جائے گی اور وہ جماعت احمدیہ کے دشمن جو حکومت کو ڈرا دھمکا کر اپنے خاص ہتھکنڈوں کے ذریعے جماعت احمدیہ سے عدل کا سلوک کرنے سے باز رکھتے ہیں وہ اس معمولی سے اظہار عدل کے بعد ایسی مہم شروع کریں گے جس کے نتیجے میں یہ خطرہ موجود ہے کہ حکومت ان سے مرعوب ہو جائے.لیکن امتثال امر میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع کہ جو شخص بندوں کا ممنون نہیں ہوتا وہ میرا بھی ممنون نہیں ہوتا اس لئے جماعت احمدیہ کو اس پر بھی خدا کے شکر کے علاوہ اس حکومت کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے عدل کی طرف کچھ معمولی سی حرکت کی ہے.اس شکر کے نتیجے میں ان سے تو ہمیں کسی خیر کی توقع نہیں، کسی احسان کی توقع نہیں لیکن چونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اگر میرے شکر گزار بندے بنو گے تو میں تمہیں اسکے نتیجے میں بہت دوں گا.لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم : 8) کا وعدہ اور لَأَزِيدَنَّكُھ میں بڑی شدت کے ساتھ ایک قوت کا اظہار پایا جاتا ہے.لَأَزِيدَنَّكُمْ میں ہوں جو بڑھانے والا ہوں اور میں یقیناً لازماً تمہیں بہت بڑھ چڑھ کر دوں گا اگر تم میرے شکر گزار بندے بنو گے.

Page 151

138 پس چونکہ ہمارے اس جذبہ تشکر میں دراصل خدا کی شکر گزاری کا جذبہ کارفرما ہے اور وہی محرک ہے اسی لئے اس جذ بہ تشکر کے ساتھ جب ہم خدا تعالیٰ کی حمد کے گیت گائیں گے اور اس پر بہت بہت خدا کا شکر ادا کریں گے تو مجھے اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بہت ہی جزا د ینے والا خدا اس جذ بہ تشکر کو بھی قبول فرمائے گا اور اس کی بڑھ چڑھ کر ہمیں جزا عطا فرمائے گا.میں نے مختلف قسم کے فقیر دیکھے ہیں.بعض فقیر ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو آپ زیادہ بھی دے دیں تو ان کے چہرے سے شکر اور خوشی کے جذبات ظاہر نہیں ہوتے.ان کے ماتھے پر سلوٹیں ہی پڑی رہتی ہیں.بعض دفعہ پرانے زمانے میں میں نے دیکھا ہے کسی فقیر کو ایک روپیہ بھی دو اس زمانے میں روپیہ بڑی چیز ہوا کرتا تھا.تو وہ کہتا تھا بس ایہہ دتا اے؟“ یہی تھا تمہارے پاس اور کچھ نہیں تمہارے پاس.اور بعض فقیر ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو ایک معمولی سی چیز بھی دے دو تو وہ فدا ہونے لگتے ہیں، دعائیں دیتے ہیں، اگلی نسلوں کو بھی دعائیں دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں یہ عطا کرے، یہ عطا کرے، تم نے فقیر کا دل خوش کر دیا ہے ایسے فقیر کے لئے سب کچھ دے دینے کو جی چاہتا ہے.اگر انسان کے اندر یہ جذبہ موجود ہے تو یقیناً یہ در اصل خدا تعالیٰ سے ہم میں آیا ہے کیونکہ انسانی فطرت کو خدا تعالیٰ کے مزاج سے ایک ربط ہے.ویسا ہی ربط ہے جیسا ہر خالق کے ساتھ اس کی تخلیق کو ایک ربط ہوا کرتا ہے.کہتے ہیں خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا.اس کا یہ مطلب تو یہ ہر گز نہیں کہ نعوذ باللہ ہم خدا کی صفات میں شریک ہو گئے ہیں اور خدا جیسے ہیں بلکہ اس کا یہ معنی ہے کہ جیسے ہر مصور اپنے مزاج اور اپنے تصور کی انتہائی چھلانگ کے مطابق ایک تصویر بناتا ہے اور اس تصویر کے نقوش اس کے ذہن کے نقوش سے ملتے ہیں.اسی طرح خالق کا اپنی تخلیق کے ساتھ ایک گہرا رابطہ ہے.پس جب اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ میں تمہارے شکر کو قبول کرتے ہوئے تمہیں بہت زیادہ دوں گا تو یہ دراصل اللہ تعالی کے شکر کا انداز ہے اور یہی جذبہ تشکر ہے جو نیک فطرت لوگوں میں پایا جاتا ہے خواہ وہ امیر ہوں خواہ وہ غریب ہوں، خواہ وہ عطا کرنے والے ہوں خواہ وہ فقیر ہوں.جنہوں نے خدا کے اس حسن سے حصہ پایا ہوان کے اوپر تھوڑ اسا احسان بھی بڑے بڑے رنگ جماتا ہے اور وہ جذ بہ تشکر سے مغلوب ہو کر دعائیں دیتے ہوئے اس احسان کو قبول کرتے ہیں.پس خدا کی خاطر اگر ہم خدا کے شکر گزار بندے بنہیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ عطا کرنے والے سے بہت بڑھ کر جس کی عطا کے نتیجے میں کوئی فقیر اس کو دعائیں دیتا ہے، اس کا شکر گزار بنتا ہے اس سے بہت بڑھ کر اللہ تعالیٰ اس جذبے کو قبول فرمائے گا.اس فقیر کی دعاؤں کے نتیجے میں جو دل میں بشاشت پیدا ہوتی ہے اور محبت پیدا ہوتی ہے اور معطلی کے دل میں مزید دینے کی تمنا پیدا ہوتی ہے.اس سے بہت بڑھ کر اتنا بڑھ کر اس سے کوئی نسبت نہیں خدا تعالیٰ اپنے شکر گزار بندوں کو مزید عطا کرنے کے لئے ایک جوش

Page 152

139 رکھتا ہے اور بہت ہی زیادہ حسن و احسان کے ساتھ جذ بہ تشکر کو قبول فرماتا ہے.پس جماعت احمد یہ اگر شکر گزار بنے جیسا کے شکر گزار ہے اور یہ سال تو ہے ہی خدا تعالیٰ کے فضلوں پر اس کے حسن و احسان پر اس کی حمد و ثناء کے گیت گانے کا سال.مگر یہ سال کہنا بھی غلط ہے کہ ہماری تو ساری زندگیاں خدا کے فضلوں کے گیت گاتی ہوئی گزر جائیں تو حق شکر ادا نہیں ہوسکتا مگر خصوصیت کے ساتھ اس بدلتے ہوئے دور کے ابتدائی آثار کو جذ بہ تشکر کے ساتھ قبول کریں اور خدا سے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان آثار کے پیچھے وہ رحمتوں کی بارش لے آئے یہ جن کی ابتدائی نشانیاں معلوم ہوتی ہیں.یہ جذ بہ بھی ہم نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی سیکھا ہے.آپ کے متعلق روایت آتی ہے کہ جب بعض دفعہ لمبے انقطاع کے بعد بادل گھر کے آتے تھے اور بارش کا پہلا قطرہ گرتا تھا تو حضور اپنے رب کی محبت اور پیار میں جذبہ تشکر کے طور پر زبان باہر نکال کر اس قطرہ کو اپنی زبان پر لیا کرتے تھے اور حمد وثنا کے گیت گایا کرتے تھے خدا کی اس رحمت پر.تو بعید نہیں کہ اگر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور آپ کے عشق میں آپ بھی اسی طرح اس احسان کو جو بظاہر احسان بھی نہیں احسان سمجھتے ہوئے اس نیکی کے پہلے قدم کو شکر کے ساتھ قبول کریں گے اور اپنی زبان خدا کے حضور نکال کر اس کی رحمت کے قطرے کے طور پر اس کے حضور پیش کریں گے کہ اے خدا! یہ رحمت کا قطرہ ہماری زبان پر گرے اس لئے کہ پھر اس کے بعد کثرت سے بارش برسنے لگے.تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس جذبہ کو خدا تعالیٰ قبول فرمائے گا.اس مضمون کو بیان کرنے کے لئے میری توجہ آج رات ایک رؤیا کے ذریعے مبذول کروائی گئی.اس رویا میں خدا تعالیٰ نے مجھے یہ دکھایا کہ جماعت احمدیہ کو دراصل خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنا چاہئے اور التجائیں کرنا چاہئے اور نتیجے کے لحاظ سے اپنی دعاؤں پر ہی تو کل کرنا چاہئے.شاید اس کا پس منظر یہ ہو کہ کل مجھے بعض ایسی اطلاعیں ملیں کہ جن کے نتیجے میں معلوم ہوتا تھا کہ ہماری دنیا کی بعض جماعتوں نے حکومت پاکستان پر اخلاقی دباؤ ڈالنے کے لئے غیر معمولی کارروائیاں کی ہیں.پس خدا تعالیٰ نے مجھے رویا میں سمجھایا کہ دنیا کی کاروائیاں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں تم دعاؤں کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق قائم رکھو اور اسے بڑھاؤ اور اسے مضبوط کرو.تو خدا تعالیٰ یقیناً اپنے فضل اور رحم کے ساتھ تمہارے حالات کو تبدیل فرمادے گا اور بے انتہار حمتیں نازل فرمائے گا." خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 682-686)

Page 153

140 آئندہ ہر ملک کی ذیلی تنظیموں کے صدران براہ راست خلیفہ وقت کو جوابدہ ہوں گے (خطبہ جمعہ 3 نومبر 1989ء) "وقت کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں بھی بڑھتی چلی جارہی ہیں اور جہاں تک نظام خلافت کا تعلق ہے بظاہر بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کے نتیجے میں اس کو براہ راست پھیلتے ہوئے کاموں سے واسطہ نہیں رہنا چاہئے اور سلسلہ وار بیچ میں دوسرے واسطوں کو پیدا ہونا چاہئے کیونکہ یہی دنیا کا نظام ہے اور اسی طرح دنیا کے نظام بڑھتے اور پھیلتے ہیں لیکن جماعت احمدیہ میں یہ صورت نہیں ہے.خلافت کے ساتھ نظام کے ہر جز و، ہر شعبہ کا ایک ایسا گہرا براہ راست تعلق ہے کہ یہ تعلق محض نظام جماعت کے شعبوں ہی سے نہیں ان سے پار اتر کر ہر فرد بشر سے بھی جہاں تک ممکن ہے یہ تعلق قائم ہوتا چلا جاتا ہے اور یہ تعلق کے دائرے پھیلتے چلے جاتے ہیں.بظاہر یہ بات نا ممکن دکھائی دیتی ہے اور دنیا کے دانشور جنہوں نے غور اور قریب سے جماعت احمدیہ کا مطالعہ کیا ہے وہ یہی نتیجہ نکالتے ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ یہ ممکن ہوتا چلا جارہا ہے بلکہ اس کی ضرورت اور بھی زیادہ شدت سے محسوس ہورہی ہے.خلافت اور جماعت احمد یہ ایک چیز کے دو نام ہیں ابھی حال ہی میں ایک ایسی کتاب کینیڈا سے شائع ہوئی ہے جس کا میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا.پروفیسر Nino Gultairy نے ایک کتاب لکھی ہے Conscience and Coercion اس میں جماعت احمدیہ کے نظام کا مطالعہ کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے وہ اپنی ذہانت کی وجہ سے بہت گہرائی میں اترے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ خلافت کا جماعت کے ساتھ رابطہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میرے لئے یہ ایک نا قابل یقین چیز تھی کہ مگر میں نے غور سے دیکھا تو یہ نا قابل یقین چیز واقعۂ موجود پائی.وہ کہتے ہیں میرے لئے بہت مشکل ہے کہ میں صحیح معنوں میں بیان کرسکوں جو میں نے دیکھا ہے مگر خلاصہ یہ کہ سکتا ہوں کہ خلافت اور جماعت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور دونوں اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ باہم پیوست ہیں کہ ایک کو دوسرے سے الگ شخصیت کے طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا.اپنے محبت کے تعلق میں، اپنے نظام کے تعلق میں اپنے مسائل کے تعلق میں ایک ہی وجود بن گیا ہے اور اس ضمن میں وہ ایک بہت ہی دلچسپ بات یہ لکھتے ہیں کہ میں نے جب خلافت کے کاموں پر غور کیا تو مجھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ ناممکن چیز ہے یہ نہیں ہوسکتا.لیکن جب میں نے قریب سے دیکھا اور ملاقاتیں کیں تو مجھے پتا لگا کہ واقعہ یہ ناممکن ممکن بنا ہوا ہے.بہت سے احمدیوں سے میں نے سوال کیا کہ آخر یہ کیوں ہوا ہے تو انہوں نے کہا یہ معجزہ ہے اور خدا کی

Page 154

141 ہستی کا ثبوت ہے اور اس بات سے ہمارے یقین زندہ رہتے ہیں اور ایمان تازہ ہوتے ہیں کہ جو چیزیں دنیا کی نظر میں ناممکن ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے جماعت میں ممکن کر دکھائی ہیں.تو وہ لکھتے ہیں کہ جو چیزیں ایک بیرونی نظر سے دیکھی جائیں لَا يَنْحَلُ دکھائی دیتی ہیں ان کا حل جماعت احمدیہ کے نزدیک یہی ہے کہ خدا ایک زندہ ہستی ہے جس کا جماعت سے تعلق ہے اور وہ جماعت کے لئے ناممکن کاموں کو ممکن بناتا چلا جاتا ہے.میں ان کے اس مطالعہ سے بڑا متاثر ہوا کیونکہ میں نے کبھی کسی مستشرق کو بیرونی جائزہ کے سوا گہرائی میں اترتے نہیں دیکھا.بڑے بڑے عالموں کی کتابیں میں نے پڑھی ہیں لیکن ان کے تمام مطالعے سرسری ہوتے ہیں اور جلد سے نیچے نہیں اترتے.اس مصنف نے حیرت انگیز زکاوت کا ثبوت دیا ہے اور معلوم ہوتا ہے ان کے اندر کوئی روحانیت کا مادہ ہے جس کی وجہ سے ان کو خدا تعالیٰ نے اندر اترنے کی بصیرت عطا فرمائی.بالعموم نظام جماعت کا ان کا مطالعہ درست اور قابل اعتماد ہے اور اس پہلو سے یہ کتاب نہ صرف پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے بلکہ غیر از جماعت دوستوں اور غیر مسلموں کو بھی جماعت کا تعارف کروانے کے لئے ایک بہت اچھی کتاب ہے.جہاں تک عقائد کی تفاصیل کا تعلق ہے، جہاں تک اختلافات کا تعلق ہے بہت معمولی بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں انسان چاہتا ہے، دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ اگر یہ اس بارے میں نسبتاً زیادہ تفصیل.گفتگو کر لیتے تو شاید یہ ایک آدھ ستم بھی نہ باقی رہتا لیکن یہ چیزیں تو ہر مصنف کی کتاب میں خواہ وہ کیسا ہی گہرا محقق کیوں نہ ہو پائی جاتی ہے لیکن ان کی کتاب میں سب سے کم پائی جاتی ہیں.اس ذکر کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ جماعت احمدیہ کے ذیلی نظام پر غور کرتے ہوئے میں نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ اس کے روابط میں کچھ تبدیلی پیدا کی جائے اور اس تبدیلی کا رجحان اسی طرف ہے جو میں نے بیان کیا اور جو اس مصنف نے بھی محسوس کیا کہ ہر نظام کے ہر شعبے کا ایک براہ راست واسطہ خلیفہ وقت کے ساتھ پایا جاتا ہے جو کام کے پھیلنے کے باوجو د درمیان میں منقطع نہیں ہوتا اور کسی اور تعلق کا محتاج نہیں رہتا.چنانچہ انہوں نے ایک مثال یہ لکھی کہ جن دنوں میں میں انگلستان آیا ہوا تھا.نیو یارک سے غالباً ایک انجینئر پہنچے ہوئے تھے وہ ایک احمدیہ مسجد کا تفصیلی نقشہ اور اس کی ساری پلان اور مستقبل کے متعلق کیا کیا وہاں ہوگا وہ سب چیزیں لے کر آئے تھے اور انہوں نے ان کو بتایا کہ جب تک ہم خلیفہ وقت کو دکھا کر اس سے تمام تفاصیل منظور نہ کروالیں اور مزید ہدایت نہ حاصل کرلیں ہمیں تسلی نہیں ہو سکتی.اس لئے ہم مجبور ہیں.چنانچہ وہ کہتے ہیں دنیا بھر میں اتنے کام اس طرح ہو رہے ہیں تفصیل کے ساتھ اور یہ سارے ایک ذات میں اکٹھے کیسے ہو سکتے ہیں.چنانچہ اس ضمن میں انہوں نے بات چھیڑی.

Page 155

142 ذیلی تنظیموں میں ایک رخنہ واسطے کی کمی کا رخنہ ہے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کے نظام میں میں نے محسوس کیا ہے کہ ایک رخنہ پیدا ہوا ہے جو واسطے کی کمی کا رخنہ ہے اور وہ اس طرح کہ اب تک مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے دفاتر اور انصار اللہ مرکزیہ کے دفاتر اور لجنہ کے دفاتر ربوہ میں تھے اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ ان معنوں میں مرکز یہ ہیں کہ تمام دنیا کی مجالس کے اوپر وہ نظر رکھتے ہیں اور نظر رکھنی چاہئے ان کو اور ان کے مسائل سے واقف ہیں اور ان کی رہنمائی کر رہے ہیں.میں نے چند سال پہلے یہ محسوس کیا کہ یہ بات درست نہیں ہے.اور بھی بہت سے رخنے وقت کے ساتھ مطالعہ کے نتیجے میں میرے سامنے آنے شروع ہوئے.اول یہ کہ دنیا کے اکثر ممالک کے حالات پیران ذیلی مجالس کے دفاتر کی نہ نظر ہے، نہ ہو سکتی ہے کیونکہ وہ بہت مختصر سا نظام رکھتے ہیں اور جو جماعتیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں ان کے مسائل کی تفاصیل ان کے حالات سے باخبری یہ ایک بہت ہی بڑا کام ہے جس کے لئے بہت گہرے روابط اور مسلسل روابط کی ضرورت ہے اور محض ایک رابطہ کی روکافی نہیں بلکہ مختلف رویں چلنی چاہئیں ہر طرف سے جو رابطے کو ایک مضبوط دھارے کی شکل میں تبدیل کر دیں.خدام الاحمدیہ کے مرکز میں اگر صرف خدام الاحمدیہ کے بعض شعبوں کی طرف سے یا بعض مجالس کی طرف سے اطلاعیں آتی رہیں تو ان کو کچھ پتا نہیں کہ لجنہ میں وہاں کیا ہو رہا ہے.وہاں انصار اللہ میں کیا ہو رہا ہے.وہاں جماعت کے عمومی رجحانات کیا ہیں اور وہ اس بار یک دھارے سے حاصل ہونے والی معلومات کے نتیجے میں ایک نتیجہ اخذ کرتے اور اس کے اوپر بعض احکامات جاری کرتے تو اس کے نتیجے میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوسکتی تھیں جو خرابی دکھائی دی وہ ایک معنی میں خوبی بن گئی.چونکہ روابط کم تھے اس لئے غلط فیصلے بھی کم ہوئے اور بہت کم ایسے مواقع پیش آئے کہ مجالس مرکز یہ نے مختلف ممالک کے بارے میں اپنی ذیلی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے ایسے فیصلے کئے جو بعد میں مشکلات کا موجب بن سکتے.یعنی اول تو فیصلے ہی بہت کم ہوئے مگر جو فیصلے ہوئے ان میں ایسی مثالیں شاذ شاز پیش آتی رہیں.بیرون پاکستان تنظیمیں تحریک جدید کو مشیر سمجھیں اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ تحریک جدید نے خلافت کے سامنے اپیل کی کہ مجلس خدام الاحمد یہ یا مجلس انصاراللہ یا مجلس لجنہ اماءاللہ یہ اپنی ذات میں ایسے فیصلے کر لیتے ہیں ان کو حالات کا پتا ہی کچھ نہیں اور وہ جماعت کے لئے مضر اور نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں.چنانچہ ایک اور راستہ بیچ میں قائم کر دیا گیا یعنی مجالس کے صدران تو وہی رہے لیکن وہ رفتہ رفتہ اس بات کے پابند کر دئے گئے کہ تحریک جدید کو اپنا مشیر سمجھیں اور اس کے نتیجے میں

Page 156

143 ایک انوکھی سی شکل پیدا ہوگئی.تحریک جدید انجمن کا رنگ رکھتی ہے اور نظام جماعت کے اوپر جہاں تک بیرون پاکستان کا تعلق ہے، بیرون ہندوستان یا بیرون بنگلہ دیش بھی شامل کر لینا چاہئے سارے نظام کی ذمہ دار تحریک جدید ہے.لیکن یہاں ذیلی تنظیموں کے ایک قسم کے نائب کے طور پر یا مشیر کے طور پر کام کرنے لگی اور ذیلی تنظیموں میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوا کہ یہ مشیر اتنا طاقتور ہے کہ اس مشیر کو ہم لگام نہیں دے سکتے اور جو مشیر تھا وہ عملاً نگران بن گیا لیکن عملاً نگران اس رنگ میں بنا کہ وکیل التبشیر بھی تفصیل سے ان باتوں پر غور کرنے کے بعد مشورے نہیں دیتا تھا بلکہ ایک دفتری طور پر ایک قسم کی دخل اندازی سی شروع ہوگئی اور دونوں جگہ بے اطمینانی کا احساس بڑھنے لگا.جب اللہ تعالیٰ نے میرے سپرد یہ ذمہ داری فرمائی تو مجھے یہ خیال آیا کہ مرکزی تنظیموں کے وقار کو بحال کرنے کے لئے جب تک یہ دنیا کے قائدین مقرر ہیں ان کو کچھ نہ کچھ اپنی ذمہ داری کا احساس دلایا جائے اور ان سے کہا جائے کہ دنیا سے تعلق رکھو اور رابطے بڑھاؤ اور سفر اختیار کرو اور معلوم تو کرو کہ کیا ہو رہا ہے.اس کے بعد جب اہم فیصلے کرو تو تحریک جدید سے ضرور مشورہ کرو لیکن بالعموم جو ہدایتیں تمہیں خلافت سے ملتی ہیں وہ جاری کرو دنیا میں اور اگر مرکزی کہلانا ہے تو مرکزی بنو.چنانچہ جب انہوں نے مرکزی بننا شروع کیا تو پھر بعض اور خامیاں سامنے آنی شروع ہوئیں.بہت سے ایسے غلط فیصلے ہونے شروع ہوئے جو پہلے کام نہ ہونے کے نتیجے میں نہیں ہوتے تھے.اب جب کام کھل کے ہونا شروع ہوا تو پتا لگا کہ یہ محدود دائرے کی اطلاعیں اور محدود دائرے کی اطلاعات جب مرکز میں پہنچتی ہیں تو مرکزی دماغ ان معلومات پر صحیح فیصلہ کرنے کا اہل نہیں بنتا.اس لئے لازماً اس سارے نظام کو خلافت سے وابستہ کرنا پڑے گا اس طریق پر جس طریق پر دنیا کے باقی نظام وابستہ ہیں اور بیچ سے یہ جو واسطے ہیں یہ ہٹانے پڑیں گے.چنانچہ امسال جلسہ سالانہ کے بعد میں نے مرکز یعنی پاکستان سے آئے ہوئے سلسلے کے مختلف بزرگوں اور انجمن اور تحریک اور بعض ذیلی تنظیموں کے نمائندوں سے مشورہ کیا تو سب کی بالا تفاق رائے یہی تھی کہ اس نظام میں تبدیلی کی شدید ضرورت ہے.دنیا کے صدران مجالس براہ راست خلیفہ وقت کے سامنے جواب دہ ہوں گے چنانچہ آج میں اس تبدیلی کے متعلق اعلان کرنا چاہتا ہوں.نظام میں تبدیلی سے مراد یہ نہیں ہے کہ خدام الاحمدیہ کے نظام اور بحیثیت نظام کے تبدیل کئے جارہے ہیں صرف رابطے میں تبدیلی کا نظام مراد ہے.تو فیصلہ یہ ہے کہ آئندہ سے جس طرح پاکستان کا صدر خدام الاحمدیہ انجمن کامبر بھی ہوتا ہے اور باقی ناظروں کی طرح براه راست خلیفہ وقت کو جوابدہ ہوتا ہے اور اس سے ہدایات لیتا ہے اور اس کے سامنے اپنے مسائل رکھتا ہے اس طرح باقی دنیا کے صدران مجلس خدام الاحمدیہ بھی براہ راست خلیفہ وقت سے تعلق رکھیں اور اپنی مرکزی

Page 157

144 مجالس کا واسطہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے.یہ نظام اس لئے بھی ضروری ہے کہ آگے مجلس خدام الاحمدیہ مثلا یا دوسری مجالس بھی ہیں ان میں تفصیلی طریق کار یہ ہے کہ ایک منتظم بیرون بنایا جاتا ہے اور منتظم بیرون کی اپنی علمی حیثیت یا جماعت سے واسطے کی حیثیت کا کام کے تجربے کی حیثیت بالعموم ایسی نہیں ہوتی کہ وہ تمام دنیا کی مجالس پر جو دن بدن پھیلتی چلی جارہی ہیں اور بڑھتی چلی جارہی ہیں اور قوی تر ہوتی جارہی ہیں ان پر نظر بھی رکھے ان کے حالات سے واقف ہو اور صحیح مشورہ صدر کو دے سکے.اول تو اپنی ذات میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے معلومات کا دھارا تنگ اوپر سے صدر اور مجالس کے درمیان ایک اور واسطہ پڑ جائے جو مجلس بیرون کے سیکرٹری کا واسطہ ہو اس کو مہتم کہا جاتا ہے یا انصار اللہ میں غالباً کوئی اور نام ہے.بہر حال اس بیچارے کو کچھ پتا لگ ہی نہیں سکتا کہ کیا ہو رہا ہے میں نے کیا فیصلے کرنے ہیں.یا تو من وعن ہر رپورٹ کو اسی طرح قبول کرتا چلا جائے گا اور اس میں بعض غلط مشورے آئیں گے تو اس کو پتا نہیں لگے گا کہ اس کو قبول کرنا ہے یا نہیں کرنا.چنانچہ ایسے فیصلے بعض دفعہ ہو گئے غلطی سے کہ ایک ایسا شخص جس کے متعلق خلیفہ وقت کو تو علم تھا کہ وہ ایک بیرونی خطرناک تنظیم کا نمائندہ بن کے جماعت میں داخل کیا گیا ہے لیکن اس کی تفصیل سے تحریک کو بھی علم نہیں تھا.وہ سارے ملک کا صدر منتخب ہو جاتا ہے اور مجلس مرکزیہ کی طرف سے منظوری کی اطلاع چلی جاتی ہے یا جانے لگتی ہے تو علم میں بات آ جاتی ہے.ایسا ایک واقعہ اس زمانے میں ہوا جب میں خود تحریک جدید میں عارضی طور پر وکیل التبشیر کے طور پر کام کر رہا تھا.چنانچہ ایک شخص کے متعلق میرا ذاتی تاثر ( میں دورہ کر کے آیا تھا دنیا کا اپنے ذاتی طور پر کر اس کے متعلق ایسا تھا جب اس کی اطلاع ملی کہ یہ بننے لگا ہے کچھ اہم عہدیدار تو میں نے ذکر کیا حضرت خلیفۃ اسیح الثالث سے.آپ کی معلومات اس سے بہت زیادہ تھیں جو میرا تاثر تھا آپ نے بتایا کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.فوری طور پر تحریری حکم دو کہ یہ کام نہیں ہو گا اور ان کو سمجھاؤ کہ ایسے معاملات میں مشورہ کیا کریں پہلے جو بڑے اہم فیصلے ہیں.اور بعد میں بھی ایسے اکا دکا واقعات ہوتے رہے.تو اس وجہ سے عملاً جو قیادت ہونی چاہئے دنیا کی وہ دنیا کو نصیب نہیں ہے.یعنی خدام الاحمدیہ ، انصار اللہ اور لجنہ کو جو ذاتی حق ہے کہ مرکزی قیادت ان کو حاصل ہو اور خلیفہ وقت براہ راست ان سے تعلق رکھتا ہو ان کے حالات پر نظر رکھتا ہو اس سے وہ محروم ہونے کی وجہ سے کاموں سے محروم رہ گئے ہیں اور إِلَّا مَا شَاءَ اللہ وہ چند مجالس جہاں خلیفہ وقت کا بار بار آنا جانا ہے یا عارضی قیام ہے وہاں خدا کے فضل سے ایک بڑی نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ باوجود اس کے کہ نظام تبدیل نہیں ہوا عملاً ان مجالس نے براہ راست رابطے قائم کئے ہوئے ہیں.اس لئے خدا کے فضل سے وہاں یہ کمزوریاں محسوس نہیں ہو رہیں مگر ایک سو بیس ممالک میں پھیلی ہوئی جماعت میں پھیلی ہوئی تنظیمیں موجودہ نظام کے مطابق تو سنبھالی جا

Page 158

145 ہی نہیں سکتیں.لازماً ہر ملک کی ذیلی تنظیم کو براہ راست خلیفہ سے واسطے کا حق ہے اور اس کا یہ حق بحال ہونا چاہئے.جہاں تک بڑھتے ہوئے بوجھ کا تعلق ہے میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ خود را ہنمائی فرماتا چلا جاتا ہے اور بوجھ ہلکے بھی کرتا چلا جاتا ہے اور کاموں کو آسان کر دیتا ہے.اس سلسلے میں میں نے جب غور کیا تو زندگی کی مثال اپنے سامنے رکھی.میں نے سوچا کہ خدا تعالیٰ نے جو نظام پیدا کئے ہیں وہ اتنے تفصیلی اتنے گہرے ہیں کہ ایک شخصیت کا مرکزی نقطہ یعنی اس کی Consciousness اس کا شعور بیک وقت کس طرح اس سارے نظام کی نگرانی کر سکتا ہے لیکن اس کے باوجود ایسا ہی ہے.زندگی کے ہر جنس کے ہر جز ، میں یہی نظام کارفرما آپ کو دکھائی دے گا کہ مرکزی نقطہ اگر اسے کہیں تو اس کا براہ راست سارے نظام سے واسطہ ہے.اگر اسے دماغ کہیں تو اس کا بھی براہ راست سارے نظام سے واسطہ ہے اور وہ جگہ جہاں دل اور دماغ اکٹھے ہو جا ئیں اس آخری نقطہ کا نام روح ہے اور اس کا بھی سارے نظام سے واسطہ ہے.یہ کیسے ممکن ہے؟ اس بات پر غور کرتے ہوئے مجھے ایک بہت ہی لطیف نقطہ سمجھ آیا.میں نے Conscious Mind (Unconscious Brain Conscious Brain Unconscious Mind کے مسئلے پر غور کیا تو ایک معمہ میرے لئے حل ہو گیا کہ نظام کس طرح جاری ہے اور کس طرح Unconscious Mind بنتا ہے اور کیسے بنتا ہے.شعوری دماغ کی ترقی کے ساتھ لاشعوری دماغ کی ترقی ہوتی ہے چنانچہ مجھے خدا تعالیٰ نے یہ بات سمجھا دی کہ آغا ز زندگی کا Conscious Mind سے ہوا ہے کوئی چیز Unconscious نہیں تھی.پہلی حرکت زندگی نے جو کی ہے وہ Conscious Mind کے ذریعے ہوئی ہے اور جب Conscious Mind نے یعنی ایک آخری احساس جسے ہم شعور کہہ سکتے ہیں اس نے جب ایک نظام مکمل کر لیا اور اس کی نگرانی خوب ایسی کی کہ وہ اپنی ذات میں جاری وساری ہو گیا تو اس کی توجہ پھر اگلے قدم کی طرف خدا نے پھیری اور جو پہلا حصہ تھا اس کو لاشعور دماغ بنا دیا.وہ تھا اسی دماغ کا حصہ لیکن دب کر نیچے اتر آیا اور اس وقت تک یہ واقعہ نہیں ہوا جب تک سو فیصدی اطمینان اور کمال حسن کے ساتھ وہ حصہ نظام کا جاری نہیں ہوا.اس پہلو سے جب میں نے انسانی زندگی پر غور کیا تو میں حیران رہ گیا یہ دیکھ کے کہ زندگی کے وہی شعبے صرف شعور کی طرف منسوب ہیں یا شعور سے تعلق رکھتے ہیں جن میں ابھی درجہ کمال حاصل نہیں ہوا.جو اپنی ذات میں کلیہ آزادانہ جاری وساری ہونے کی صلاحیت اختیار کر چکے ہیں ان کا تعلق بھی دماغ سے ہے مگر لاشعوری دماغ سے رہ گیا شعوری دماغ سے نہیں.تو شعوری دماغ کی ترقی کے ساتھ لاشعوری دماغ کی

Page 159

146 ترقی ہوتی ہے اور یہ ترقی اسی وقت ہوتی ہے جب نظام کا ایک حصہ کامل ہو جائے اور اپنے درجہ کمال کو پہنچ کر مستقل حرکت شروع کر دے اس کے بعد تفصیل سے اس کی نگرانی کی ضرورت نہ رہے.اس نقطہ کا تفصیلی ذکر اس لئے ضروری ہے کہ جماعت احمدیہ میں بھی کام بڑھنے کے ساتھ یہی واقعہ ضرور ہونا ہے اور بعض پہلوؤں سے ہو رہا ہے.اگر آپ چاہتے ہیں کہ خلیفہ وقت کا شعور بغیر زیادہ بوجھ اٹھائے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے تو جن باتوں میں وہ شعوری توجہ کا محتاج ہے ان میں اس کی توجہ پر بوجھ کم کرنے کے لئے اس نظام کو کامل کر دیں اور خودرو بنا دیں.جتنا نظام درجہ کمال کو پہنچتا چلا جائے گا اور خودرو ہوتا چلا جائے گا خلیفہ کی براہ راست توجہ کا محتاج نہیں رہے گا اور اس کی توجہ جو سابق میں تھی یا کئی خلفاء کی توجہ جو سابق میں رہی ان کا مجموعی فائدہ جماعت کو یہ پہنچے گا کہ اپنی ذات میں وہ نظام چل پڑے گا اور الا ما شاء اللہ شعوری دخل کی ضرورت نہیں رہے گی اور پھر وہ شعوری دماغ اور حصوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے آزاد ہوتا چلا جائے گا.اس مسئلے پر غور کرتے ہوئے گزشتہ خطبہ والا مضمون میرے ذہن میں پھر حاضر ہو گیا جب میں نے بیان کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں جو یہ بتایا ہے کہ ہم نے چھ دنوں میں زمین و آسمان کو پیدا کیا اسے مسخر کیا، اس کو کامل کیا اور جب وہ درجہ کمال کو پہنچ گیا اور جاری و ساری ہو گیا پھر ہم عرش پر بیٹھ گئے.تو یہ بھی ویسی ہی ایک مثال ہے.انسانی دائرے میں عرش دماغ کے اس آخری حصے کو کہہ سکتے ہیں آخری نقطہ عروج کہہ سکتے ہیں جس پر روح مسلط ہے اور اس کا عرش بھی اسی طرح بنا ہے.ارب ہا ارب سال کی مسلسل ترقی کے ساتھ رفتہ رفتہ زندگی نے قدم آگے بڑھائے اور ایک نظام کا دائرہ مکمل ہوا تب اس کا اونچا Next قدم قائم ہوا ایک نیا درجہ ظاہر ہوا جو رفعت میں پہلے سے بلند تر تھا اور اس طرح شعوری دماغ اپنے پیچھے ایک نظام کا ایک جلوس چھوڑتا چلا گیا.یہاں تک کہ انسان کے درجے تک پہنچتے پہنچتے یہ اتنا وسیع نظام ہو چکا ہے کہ اگر آپ کو اس نظام کے ایک معمولی سے حصے کے متعلق بھی میں پوری معلومات حاصل کرنے کے بعد بتا نا شروع کروں تو بیبیوں خطبے گزرجائیں گے لیکن وہ ذکر مکمل نہیں ہو گا.حیرت انگیز نظام ہے اور آخر پر ایک ہی دماغ ہے.ایک ہی شعور ہے جو یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب کا آخری نگران ، اور ہے بھی آخری نگران ، لیکن از خود کام ہوتے چلے جارہے ہیں.سارا ہمارا جو نظام ہے پیدائش کا نظام، سانس لینے کا نظام انہظام کا نظام، بے شمار نظام میں گردوں کا کام کرنا اور کئی قسم کے تیز ابوں اور زہروں کو جسم سے نکالنے کا نظام دفاع کے مختلف نظام.ان میں سے ہر نظام کا ہر حصہ اتنا پیچیدہ اور اتنا توجہ کا محتاج ہے کہ ناممکن ہے کہ بغیر توجہ کے یہ خود بخود کام کرے لیکن مجھے یہ بات سمجھ آئی کہ یہ توجہ رفتہ رفتہ ایک ایسے نظم و ضبط کی شکل اختیار کر گئی جس کو ہم غیر شعوری دماغ کہتے ہیں اور اس لمبے عرصے کی کمائی کا نتیجہ ہے کہ

Page 160

147 یہ نظام جاری ہے.یہ سوچتے ہوئے میرا ذ ہن اس طرف منتقل ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کی یہ ایک عظیم الشان دلیل ہے.اگر انسانی زندگی کے تجربہ میں بھی یہ ناممکن ہے کہ لمبے عرصے کی شعوری کوشش کے بغیر کوئی نظام جاری رہ سکے.تو ساری کائنات کا جو نظام چل رہا ہے یہ غیر شعوری کوشش کے بغیر کیسے ہو گیا.اس لئے جو خود بخود چل رہا ہے جس طرح ہمارے جسم میں خود بخود چلنے والا نظام بھی ارب ہا ارب سال پہلے شعوری طور پر چلایا جا رہا تھا اور نہ از خود چلنے کی صلا حیت اس میں پیدا ہی نہیں ہو سکتی تھی.اس طرح ساری کائنات کا نظام بھی جواز خود چلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے بہت ہی لمبے عرصے تک شعوری طور پر چلایا گیا ہے اور اس شعور نے پھر آگے مختلف در جے اختیار کر لئے ہیں اور سلسلہ وار اس کا آخری درجہ خدا سے ملتا ہے اور یہ سلسلہ وار شعوری نظام یا اگر انسانی اصطلاح میں بات کریں تو بعض پہلو سے غیر شعوری بھی کہہ سکتے ہیں اس کو.یہ جو جاری ہوا ان سلسلوں کا نام فرشتے ہیں اور بے شمار فرشتے ہیں جو سلسلہ وار اس کام کو چلاتے چلے جارہے ہیں اور پھر خدا تک ان کا تعلق ہے اور وہ آخری فرشتہ جو اس میدان میں سب سے بلند مرتبہ رکھتا ہے اور خدا سے تعلق رکھتا ہے اس فرشتہ کا نام ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے یا بعض جگہ ذکر ملتا ہے اور تفصیل سے نام نہیں ملتا لیکن یہ ضرور پتا چلتا ہے قرآن کے مطالعہ سے اور حدیث کے مطالعہ سے بھی کہ ایسے فرشتے ہیں جو نظام کی ہر تفصیل کی آخری رپورٹ خدا کے حضور پیش کر رہے ہوتے ہیں.پس نظام کا بڑا ہونافی ذاتہ کوئی چیز نہیں ہے، کوئی بوجھ نہیں ہے.اس نظام کا صحیح ہونا ضروری ہے.اگر نظام صحیح ہو جائے اور چل پڑے تو ساری کائنات کا خدا بھی عرش پر مسلط ہوسکتا ہے اور جانتا ہے اور یقین رکھتا ہے اس کو علم ہے کہ اس کی تفصیلی توجہ کی اس طرح اب ضرورت نہیں ہے وہ نظام اس کی توجہ کی برکت سے آگے چل پڑا ہے اور چلتا رہے گا اور ذیلی توجہ کرنے والے بہت سے پیدا ہو چکے ہیں.اس لئے خدام الاحمدیہ کا نظام ہو ی لجنہ کا یا انصار اللہ کا ان میں ابھی وہ پختگی نہیں آئی وہ روانی نہیں آئی کہ خلیفہ وقت کی ذاتی براہ راست توجہ کے بغیر یہ پوری طرح جاری و ساری ہو سکیں اور اپنی ذات میں Sub Conscious دماغ کے سپرد کئے جاسکیں.خصوصاً وہ علاقے جہاں پہلے ہی رابطے کمزور ہیں ان میں ان کو اپنی کامل روح کے ساتھ جاری کرنے کی ضرورت ہے وہاں لازماً خلیفہ کو اپنی شعوری توجہ کو ان کی طرف منتقل کرنا پڑے گا اور شعوری توجہ کا رابطہ ان سے لمبے عرصے تک رکھنا پڑے گا.تمام ممالک کی مجالس آئندہ سے خلیفہ وقت کو براہ راست رپورٹس بھجوائیں گی پس آج کے اس خطبے کے ذریعے میں یہ اعلان کرتا ہوں کے آئندہ سے تمام ممالک کی ذیلی مجالس کے اسی طرح صدران ہوں گے جس طرح پاکستان کی ذیلی مجالس کے صدران ہیں اور وہ اسی طرح براہ راست خلیفہ وقت کو اپنی آخری رپورٹیں بھجوائیں گے جس طرح پاکستان کے صدران اپنی رپورٹیں بھجواتے

Page 161

148 ہیں.اس کام کو ہلکا اور آسان کرنے کی خاطر میں نے یہ سوچا ہے کہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے شعبہ کے ساتھ ایک شعبہ ذیلی مجالس قائم کیا جائے اور سر دست وہاں مستقل نائب پرائیویٹ سیکرٹری مقرر کرنے کی بجائے انگلستان کی جماعت سے کچھ مستعد احباب جماعت کو چن کر ان کو اس معاملے میں اپنی مدد کے لئے مقرر کروں.وہ ان سب رپورٹوں کا مطالعہ کریں جو اس شعبہ کو موصول ہوتی ہیں اور ان کے متعلق مجھ سے وقت لے کر زبانی مجھ سے گفتگو کیا کریں اور ان خاص باتوں کو Highlight کریں یعنی نمایاں کریں جہاں میری خصوصی توجہ کی ضرورت ہے.پھر میں ان رپورٹوں کی تفصیلات کو بھی پڑھ سکتا ہوں لیکن سر دست اس طرح کام آگے بڑھایا جائے گا اور میں نے یہ سوچا ہے کہ بہت سے ایسے کام ہمیں دنیا میں اب کرنے ہیں جن میں ان تنظیموں کو سب دنیا میں زندہ اور فعال بنانے کی ضروت ہے اور ان کا رابطہ اپنی امارتوں کے ساتھ بہترین بنانے کی ضرورت ہے تا کہ کسی قسم کے رخنہ کا کوئی سوال نہ رہے.بیرون پاکستان ذیلی تنظیموں کے سربراہ آئندہ سے صدر مجلس کہلوائیں گے پس یہ تنظیمیں اپنی امارتوں سے کیا تعلق رکھتی ہیں اور محبت اور ادب اور وفا کا تعلق ہے یا کوئی اور تعلق ہے اس پر بھی میری نظر بھی رہ سکتی ہے اگر ان کی رپورٹیں مجھے مل رہی ہوں اور میں پہچان رہا ہوں کہ ان میں کیا کیا با تیں پیدا ہورہی ہیں، کیار جحانات ہیں.پس آئندہ سے انشاء اللہ تعالیٰ اس طریق پر کام ہوگا تبھی میں نے اس دفعہ ربوہ میں ہونے والے مرکزی اجتماعات کے موقع پر جو انتخاب ہوئے ان میں یہ واضح ہدایت بھیجی تھی کہ آپ اپنے اپنے ملک کے صدر کا انتخاب کریں اور وہاں عمد امرکزی لفظ استعمال نہیں کیا تھا.میں نہیں جانتا کہ ان کو میرا یہ پیغام سمجھ آیا یا نہیں لیکن ہدایت کے مطابق جو جو صدر بھی منتخب ہوئے ہیں وہ پاکستان کے صدران ہیں اور باقی دنیا کے تمام ذیلی تنظیموں کے آخری عہدیداران آج کے بعد صدر مجلس کہلائیں گے.یعنی انگلستان میں صدر مجلس خدام الاحمدیہ انگلستان، صدر مجلس انصاراللہ انگلستان،صدر مجلس لجنہ اماءاللہ انگلستان ہو گا اور اسی طرح باقی دنیا کے ملکوں کا حال ہو گا.اس سلسلے میں میں دعا کی بھی تحریک کرنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ جو قدم اٹھایا ہے یہ صرف لمبے مشوروں کے بعد نہیں بلکہ بہت لمبی دعا کے بعد اور بہت غور کے بعد اور تامل کے بعد اٹھایا ہے اور اس آخری شکل میں جب تک مجھے پوری طرح شرح صدر نصیب نہیں ہوا میں نے اس فیصلے کا اعلان نہیں کیا حالانکہ جلسے پر مشورہ دینے والے کہتے تھے کہ بالکل ٹھیک ہے: در کار خیر حاجت استخاره نیست فوراً اعلان کردیں لیکن میرے دل پہ ابھی ایک بوجھ تھا کہ جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے پوری فراست نصیب نہ ہو جائے اور پوری طرح شرح صدر نہ ملے اور دعاؤں کے ذریعے اس میں خیر نہ طلب کر

Page 162

149 لوں اس وقت تک یہ اعلان نہیں کرنا.تو آپ سے یعنی ساری جماعت سے میری درخواست ہے کہ دعا کے ذریعے میری مدد کریں کہ اللہ تعالیٰ اس فیصلے کو درست اور بابرکت ثابت فرمائے اور کثرت کے ساتھ جماعت اس کی خیر کا پھل کھائے اور نظام جماعت تیزی کے ساتھ اپنی تکمیل کے وہ مراحل طے کرے جس کے بعد نظام کے ہر حصے کو غیر شعوری دماغ کی طرف منتقل کیا جا سکتا ہے اور نظام جماعت کا عرش بلند تر ہوتا چلا جائے گا.یہی وہ نظام ہے جس کے ذریعے ہم مزید رفعتیں حاصل کر سکتے ہیں." (خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 709 تا 720) ذیلی تنظیموں کو پانچ بنیادی اخلاق اپنانے کی خصوصی تلقین (خطبہ جمعہ 24 نومبر 1989ء) " وہ لوگ جو بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں ان کو یہ رجحان پیدا کرنا چاہئے کہ ابتدائی باتوں کی طرف خصوصی توجہ دیں.بعض دفعہ بعض بہت ہی بلند بانگ منصوبے بنانے والے اور بلند بانگ دعاوی کرنے والے ابتدائی باتوں سے بے خبر رہ جاتے ہیں اور وہ چیزیں جو ان کی نظر میں ابتدائی ہیں در حقیقت بنیادی حیثیت رکھنے والی باتیں ہوا کرتی ہیں اور جب تک بنیادیں قائم نہ ہوں کوئی بلند عمارت تعمیر نہیں کی جاسکتی.یہ ایک ایسا قانون ہے جسے کوئی دنیا کا انجینئر کوئی ماہر فن نظر انداز نہیں کرسکتا.قوموں کی تعمیر میں اور میری مراد مذہبی تو میں ہیں مذہبی قوموں کی تعمیر میں دو باتیں بہت ہی بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور انہی کے گرد سارا فلسفہ حیات گھومتا ہے یعنی بندے سے تعلق اور خدا سے تعلق.ان دونوں تعلقات میں اسلام نے بہت ہی وسیع تعلیمات دی ہیں اور بہت ہی بلند منصوبے پیش کئے ہیں لیکن ان منصوبوں پر عمل تبھی ممکن ہے جب ان کے ابتدائی حصوں پر خصوصیت سے توجہ دی جائے اور صبر کے ساتھ پہلے بنیادیں تعمیر کی جائیں پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے توقع رکھی جائے کہ ان بنیادوں پر عظیم الشان عمارتیں تعمیر ہوں گی.جماعت احمدیہ کا جو موجودہ دور ہے یہ غیر معمولی اہمیت رکھنے والا دور ہے اور جیسا کہ میں نے بارہا پہلے توجہ دلائی ہے ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی پہلی صدی سے دور ہورہے ہیں.یعنی زمانے اور وقت کے لحاظ سے دور ہو رہے ہیں لیکن عین ممکن ہے بلکہ قرآن کریم نے اس کی معین پیشگوئی بھی فرمائی ہے کہ زمانے کی دوری پائی جاسکتی ہے، عبور ہو سکتی ہے اگر ا خلاق کو دور نہ ہونے دیا جائے ،اگر اعمال کو دور نہ ہونے دیا جائے.وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعہ: 4) میں یہی تو پیغام ہے اور یہی تو خوشخبری ہے جس کو پورا ہوتے دیکھ کر ہمارے ایمان پھر زندہ ہوئے ہیں.

Page 163

150 پس بہت ہی اہم بات ہے.ہم نے آخرین ہو کر قرآن کریم کی اس پیش گوئی کا مصداق بنتے ہوئے قطعی طور پر یہ دیکھ لیا اور دنیا پر ثابت کر دیا کہ زمانے کی دوری کو اخلاق کی قربت کے ذریعے مٹایا جاسکتا ہے اور نیک اعمال کے نتیجے میں زمانے کے فاصلے ماضی میں بھی طے ہو سکتے ہیں اور مستقبل میں بھی طے ہو سکتے ہیں.پس اس پہلو سے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر صدی کے قدم پر یہ دیکھیں کہ ہمارا قدم پچھلی صدی کے ساتھ ملا ہوا ہے یا نہیں اور ہمارا اخلاقی اور عملی فاصلہ کہیں بڑھ تو نہیں رہا.پس آگے بڑھنا دوطرح سے ہوگا.ایک زمانے میں آگے بڑھناوہ تو ایسی مجبوری ہے جس پر کسی کا کوئی اختیار نہیں اور ایک آگے بڑھنا یہ بھی ہو سکتا ہے جیسے قو میں بظاہر آگے بڑھتی ہیں لیکن بنیادی طور پر انحطاط کا شکار ہو جاتی ہیں.اخلاقی قدروں کے لحاظ سے انحطاط کا شکار ہو جاتی ہیں.وہ آگے بڑھنا تو تنزل کی علامت ہے اس پہلو سے ہم نے آگے نہیں بڑھنا بلکہ واپس جانا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جوسب سے بڑا معجزہ دکھایا ، جوسب سے عظیم الشان کارنامہ کر کے دکھا یا وہ واپسی کا کارنامہ ہے آگے بڑھنے کا کارنامہ نہیں.تیرہ سوسال کے فاصلے حائل تھے.کس طرح ایک ہی جست میں آپ اس زمانے میں جا پہنچے جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا.پس ہر صدی کی زمانی جست کے ساتھ ہمیں ایک واپسی کی جست بھی لگانی ہوگی اور بڑے معین فیصلے اور بڑے قطعی فیصلے کے ساتھ ایسا پروگرام طے کرنا ہوگا کہ جب ہم وقت میں آگے بڑھیں تو اخلاقی اور اعمالی قدروں میں واپس جارہے ہوں.اس پہلو سے اس دور میں جب میں چاروں طرف دیکھتا ہوں تو جماعت کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ اور بھی مسائل بڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس کی رفتار ہر طرف پہلے سے بہت زیادہ ہو چکی ہے.پس بڑی جماعتوں میں رفتار کا پھیلاؤ جہاں مبارک بھی ہے وہاں خدشات بھی پیدا کرنے والا ہے اور فکریں بھی پیدا کرنے والا ہے.اسی طرح بڑی جماعتوں میں نسل پھیلتی ہے تولید کے ذریعے جماعتیں بڑھتی ہیں اس پہلو سے بھی ساتھ ہی تربیتی فکر میں بڑھنے لگتی ہیں.تمام ذیلی تنظیموں کو اپنے تابع کرنے کے فیصلہ کی اصل غرض پس جب میں نے مجلس خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ کو تمام ملکوں میں براہ راست اپنے تابع کرنے کا فیصلہ کیا تو اس میں یہ ایک بڑی حکمت پیش نظر تھی تا کہ میں ان مجالس سے براہ راست ایسے کام لوں جن کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ ہماری تربیتی ضرورتیں پوری ہو سکیں اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ محض خوابوں کے محل تعمیر نہ کریں بلکہ چھوٹے چھوٹے ایسے اقدام کریں جن کے نتیجے میں غریبانہ سر چھپانے کی گنجائش تو پوری ہو.یہ وہ ضرورت ہے جس کے پیش نظر جیسا کہ میں نے بیان کیا مجھے

Page 164

151 151 یہ اقدام کرنا پڑا.اس سلسلے میں میں آج میں دو ابتدائی پروگرام جماعت کے سامنے رکھتا ہوں اور یہ تینوں مجالس خصوصیت کے ساتھ میری مخاطب ہیں ان کو تنظیمی ہدایات انشاء اللہ تعالیٰ پہنچتی رہیں گی اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں، چھوٹے چھوٹے آسان حصوں میں ان کے سپر د عملی پروگرام کئے جائیں گے لیکن جو بنیادی باتیں میرے پیش نظر ہیں وہ میں آپ سب کے سامنے پہلے بھی مختلف حیثیتوں میں رکھتا رہا ہوں آج پھر ان باتوں میں سے بعض کو دہرانا ضروری سمجھتا ہوں.مذہبی قو میں بغیر اخلاقی تعمیر کے تعمیر نہیں ہو سکتیں اور یہ تصویر بالکل باطل ہے کہ انسان بداخلاق ہو اور باخدا ہو اس لئے سب سے اہم بات مذہبی قوموں کی تعمیر میں ان کے اخلاق کی تعمیر ہے اور یہ تعمیر جتنی جلدی شروع ہوا تنا ہی بہتر اور اتنی ہی آسان ہوتی ہے.پس اس پہلو سے لجنہ اماء اللہ نے سب سے ابتدائی اور بنیادی کام کرنے ہیں اور یہی ابتدائی اور بنیادی کام عمر کے دوسرے حصوں میں خدام کے سپر د بھی ہوں گے اور انصار کے بھی سپر د ہوں گے لیکن بنیادی طور پر ایک ہی چیزیں ہیں جو مختلف عمر کے حصوں میں مختلف مجالس کو خصوصیت سے سرانجام دینی ہیں.سچ کی عادت سب سے پہلی بات سچ کی عادت ہے.آج دنیا میں جتنی بدی پھیلی ہوئی ہے اس میں سب سے بڑا خرابی کا عنصر جھوٹ ہے.وہ قو میں جو ترقی یافتہ ہیں جو بظاہر اعلیٰ اخلاق والی کہلاتی ہیں وہ بھی اپنی ضرورت کے مطابق جھوٹ بولتی ہیں، اپنوں سے نہیں بولتی تو غیروں سے جھوٹ بولتی ہیں.ان کے فلسفے جھوٹ پر مبنی ہیں.ان کا نظام حیات جھوٹ پر مبنی ہے.ان کی اقتصادیات جھوٹ پر مبنی ہے.غرضیکہ اگر آپ باریک نظر سے دیکھیں تو اگر چہ بظاہر ان کے زندگی کے کاروبار پر Civilization اور اعلیٰ تہذیب کے ملمعے چڑھے ہوئے ہیں لیکن فی الحقیقت ان کے اندر مرکزی نقطہ جس کے گرد یہ قو میں گھوم رہی ہیں اور ان کی تہذیبیں جن کے اوپر مبنی ہیں وہ جھوٹ ہی ہے لیکن یہ ایک الگ بحث ہے مجھے تو اس وقت جماعت احمدیہ کے اندر دلچسپی ہے اور جماعت احمدیہ کے بچوں کے اوپر خصوصیت کے ساتھ میں نظر رکھتا ہوں اور میرے نزدیک جب تک بچپن سے سچ کی عادت نہ ڈالی جائے بڑے ہو کر سچ کی عادت ڈالنا بہت مشکل کام ہو جاتا ہے اور جیسا کہ میں نے اپنے بعض خطبات میں تفصیل سے بیان کیا ہے سچ بولنا بھی مختلف درجات سے تعلق رکھتا ہے، مختلف مراحل سے تعلق رکھتا ہے اور کم سچا اور زیادہ سچا اور اس سے زیادہ سچا اور اس سے زیادہ سچا اتنے بے شمار مراحل ہیں سچ کے بھی کہ ان کو طے کرنا بالآخر نبوت تک پہنچاتا ہے اور صدیق کے مرحلے سے آگے سچائی کا جو خدا تعالیٰ نے مقام مقرر فرمایا ہے اسی کو نبوت کہا جاتا ہے.ایسا سچا

Page 165

152 کہ جس کا کوئی پہلو بھی جھوٹ کی ملونی اپنے اندر نہ رکھتا ہو لیکن یہ ہیں بڑے اور اونچے اور بلند منصو بے جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے پیش کئے ہیں.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيِّنَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا ه (النساء:70) کتنے عظیم الشان اور بلند منصوبے ہیں لیکن ان کا آغاز سچ سے ہوتا ہے اور کوئی شخص صالح بھی نہیں بن سکتا جب تک وہ سچا نہ ہو.اس لئے بہت ہی اہم بات ہے کہ ہم اپنے بچوں کو شروع ہی سے نرمی سے بھی اور سختی سے بھی سچ پر قائم کریں اور کسی قیمت پر ان کے جھوٹے مذاق کو بھی برداشت نہ کریں.یہ کام اگر مائیں کر لیں تو باقی مراحل جو ہیں قوم کے لئے بہت ہی آسان ہو جائیں گے اور ایسے بچے جو کچے ہوں اگر وہ بعد میں لجنہ کی تنظیم کے سپرد کئے یا خدام الاحمدیہ کی تنظیم کے سپرد کئے جائیں ان سے وہ ہر قسم کا کام لے سکتے ہیں کیونکہ سچ کے بغیر وہ Fiber میسر نہیں آتا وہ تانا بانانہیں ملتا جس کے ذریعے آپ بوجھ ڈال سکتے ہیں یا منصوبے بنا کران کو ان میں استعمال کر سکتے ہیں.جھوٹی قو میں کمزور ہوتی ہیں ان کے اندر اعلیٰ قدریں برداشت کرنے کی طاقت ہی نہیں ہوا کرتی لیکن یہ ایک بڑا لمبا تفصیلی مضمون ہے اس کو آپ فی الحال نظر انداز فرما ئیں.یہ یقین رکھیں کہ حج کے بغیر کسی اعلیٰ قدر کی کسی اعلیٰ منصوبے کی تعمیر ممکن نہیں ہے.اس لئے جماعت احمدیہ میں بچپن سے ہی سچ کی عادت ڈالنا اور مضبوطی سے اپنی اولادوں کو بیچ پر قائم کرنا نہایت ضروری ہے اور جو بڑے ہو چکے ہیں ان پر اس پہلو سے نظر رکھنا اور ایسے پروگرام بنانا کہ بار بار خدام اور انصار اور بجنات اس طرف متوجہ ہوتی رہیں کہ سچائی کی کتنی بڑی قیمت ہے اور کتنی بڑی جماعت کو اس وقت اور دنیا کو جماعت کی وساطت سے ضرورت ہے.پاک زبان کا استعمال کرنا دوسرا پہلوتر بیت کا نرم اور پاک زبان استعمال کرنا اور ایک دوسرے کا ادب کرنا ہے.یہ بھی بظاہر چھوٹی سی بات ہے ابتدائی چیز ہے لیکن جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے وہ سارے جھگڑے جو جماعت کے اندر نجی طور پر پیدا ہوتے ہیں یا ایک دوسرے سے تعلقات میں پیدا ہوتے ہیں ان میں جھوٹ کے بعد سب سے بڑا دخل اس بات کا ہے کہ بعض لوگوں کو نرم خوئی کے ساتھ کلام کرنا نہیں آتا.ان کی زبان میں درشتنگی پائی جاتی ہے.ان کی باتوں اور طرز میں تکلیف دینے کا ایک رجحان پایا جاتا ہے جس سے بسا اوقات وہ باخبر ہی نہیں ہوتے.جس طرح کانٹے دکھ دیتے ہیں اور ان کو پتا نہیں کہ ہم کیا کر رہے ہیں اسی طرح بعض لوگ روحانی طور پر سوکھ کے کانٹے بن جاتے ہیں اور ان کی روز مرہ کی باتیں چاروں طرف دکھ بکھیر رہی ہوتی ہیں،

Page 166

153 تکلیف دے رہی ہوتی ہیں اور ان کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ ہم کیا کر رہے ہیں.ایسے اگر مرد ہوں تو ان کی عورتیں بے چاری ہمیشہ فلموں کا نشانہ بنی رہتی ہیں اگر عور تیں ہوں تو ان مردوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے.یہ بات بھی ایسی ہے جس کو بچپن سے ہی پیش نظر رکھنا ضروری ہے.گھر میں بچے جب ایک دوسرے سے کلام کرتے ہیں اگر وہ آپس میں ادب اور محبت سے کلام نہ کریں.اگر چھوٹی چھوٹی بات پر تو تو میں میں ہو اور جھگڑے شروع ہو جائیں تو آپ یقین جانیں کہ آپ ایک گندی نسل پیچھے چھوڑ کر جانے والے ہیں.ایک ایسی نسل پیدا کر رہے ہیں جو آئندہ زمانوں میں قوم کو تکلیفوں اور دکھوں سے بھر دے گی اور آپ ذمہ دار ہیں اس بات کے.جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچوں نے ایک دوسرے سے زیادتیاں کیں ، سختیاں کیں ، بدتمیزیاں کیں اور آپ نے ان کو ادب سکھانے کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور صرف یہی نہیں بلکہ ایسے بچے پھر ماں باپ سے بھی بدتمیز ہوتے چلے جاتے ہیں اور ماں باپ جن کے جلد بچوں کی تعزیر کے لئے ہاتھ اٹھتے ہیں ان کے بچوں کے پھر ان پر ہاتھ اٹھنے لگتے ہیں.اس روز مرہ کے حسن سلوک اور ادب کی طرف غیر معمولی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہ بھی گھروں میں بچپن ہی میں اگر تربیت دے دی جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی آسانی کے ساتھ یہ کام ہو سکتے ہیں لیکن جب یہ اخلاق زندگی کا جزو بن چکے ہوں، جب ایسے بچے بڑے ہو جائیں تو پھر آپ دیکھیں گے کہ سکول میں جائیں تو کلاسوں میں یہ بچے بدتمیزی کے مظاہرے کرتے شور ڈالتے ایک دوسرے کو تکلیفیں پہنچاتے اور اساتذہ کے لئے ہمیشہ سر دردی بنے رہتے ہیں.یہی بچے جب اطفال الاحمدیہ کے سپر دہوں یا لجنات کے سپر د بچیوں کے طور پر ہوں تو وہاں ایک مصیبت کھڑی کر دیتے ہیں.ان بچوں کی تربیت کرنا بہت مشکل کام ہے اور ہم نے جو تربیت کے بڑے بڑے کام کرنے ہیں وہ ہو ہی نہیں سکتے اگر ابتدائی طور پر یہ مادہ تیار نہ مادہ تیار ہو تو پھر اس کے اوپر جتنا کام آپ کرنا چاہیں، جتنا سجانا چاہیں اتنا سجا سکتے ہیں لیکن وہ مٹی ہی نرم نہ ہو اور اس کے اندر ڈھلنے کی طاقت نہ ہو تو پھر کیسا بڑا صناع ہی کیوں نہ ہو وہ اس مٹی کو خوبصورت شکلوں میں تبدیل نہیں کر سکتا.پس اس پہلو سے نرم کلامی ادب اور احترام کے ساتھ ایک دوسرے سے سلوک کرنا یہ بہت ہی ضروری ہے.بڑے بڑے خطرناک جھگڑے اس صورتحال کی طرف توجہ نہ دینے کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور چونکہ مجھ تک ساری دنیا سے مختلف نزاع کبھی بالواسطہ کبھی بلا واسطہ پہنچتے رہتے ہیں اس لئے میں نے محسوس کیا ہے کہ جب تک بچپن سے ہم اپنی اولا د کو زبان کا ادب نہیں سکھاتے اس وقت تک آئندہ بڑے ہو کر قوم میں ان کے کردار کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتے اور ان کی بد خلقیاں بعض نہایت ہی خطرناک فساد پیدا کرسکتی ہیں.جن کے نتیجے میں دکھ پھیل سکتے ہیں جماعتیں بٹ سکتی ہیں، منافقتیں پیدا ہوسکتی ہیں ، سلسلے سے انحراف کے واقعات ہو سکتے ہیں کیونکہ یہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن کو لوگ معمولی سمجھتے ہیں جن کے اوپر آئندہ

Page 167

154 قوموں کی تعمیر ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں بہت بڑے بڑے واقعات رونما ہو جاتے ہیں.وسعت حوصلہ - تیسری چیز وسعت حوصلہ ہے.بچپن ہی سے اپنی اولاد کو یہ سکھانا چاہئے کہ اگر تھوڑی سی تمہیں کسی نے کوئی بات کہی ہے یا کچھ تمہارا نقصان ہو گیا ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں اپنا حوصلہ بلند رکھو اور یہ حوصلہ کی تعلیم بھی زبان سے نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اپنے عمل سے دی جاتی ہے.بعض بچوں سے نقصان ہو جاتے ہیں، کوئی گھر کا برتن ٹوٹ گیا کوئی سیاہی کی دوات گر گئی ، کھانا کھاتے ہوئے پانی کا گلاس الٹ گیا اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر میں نے دیکھا ہے کہ بعض ماں باپ برافروختہ ہو کر بچوں کے اوپر برس پڑتے ہیں، ان کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں، چیر میں مارتے ہیں اور کئی طرح کی سزائیں دیتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ جن قوموں میں یا جن ملکوں میں ابھی تک ان کا ایک طبقہ یہ توفیق رکھتا ہے کہ وہ نوکر رکھے وہاں نوکروں کے ساتھ تو اس سے بھی بہت بڑھ کر بد سلوکیاں ہوتی ہیں.تو ان جگہوں میں جہاں نوکروں سے بدسلوکیاں ہو رہی ہوں ، ان گھروں میں جہاں بچوں سے بدسلوکیاں ہو رہی ہوں وہاں آئندہ قوم میں بڑا حوصلہ پیدا نہیں ہوسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو اپنے بچوں کی تربیت کی وہ محض کلام کے ذریعے نہیں کی بلکہ اعلیٰ اخلاق کے اظہار کے ذریعے کی ہے.حضرت مصلح موعودؓ جب بچے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک بہت ہی قیمتی مقالہ جو آپ نے تحریر فرمایا تھا اور اس کو طباعت کے لئے تیار فرمایا تھا وہ آپ نے کھیل کھیل میں جلا دیا اور سارا گھر ڈرا بیٹھا تھا کہ اب پتا نہیں کیا ہو گا اور کیسی سزا ملے گی.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا کوئی بات نہیں خدا اور توفیق دے دے گا.حوصلہ اپنے عمل سے پیدا کیا جاتا ہے اور وہ ماں باپ جن کے دل میں حوصلے نہ ہوں وہ اپنے بچوں میں حوصلے پیدا نہیں کر سکتے اور نرم گفتاری کا بھی حو صلے سے بڑا گہرا تعلق ہے.چھوٹے حوصلے ہمیشہ بدتمیز زبان پیدا کرتے ہیں.بڑے حوصلوں سے زبان میں بھی تحمل پیدا ہوتا ہے اور زبان کا معیار بھی بلند ہوتا ہے.پس محض زبان میں نرمی پیدا کرنا کافی نہیں جب تک اس کے ساتھ حوصلہ بلند نہ کیا جائے اور وسیع حوصلگی جماعت کے لئے آئندہ بہت ہی کام آنے والی چیز ہے.اس کے غیر معمولی فوائد ہمیں اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی نصیب ہو سکتے ہیں لیکن وسیع حوصلگی کا یہ مطلب نہیں کہ ہر نقصان کو برداشت کیا جائے اور نقصان کی پرواہ نہ کی جائے.یہ ایک فرق ہے جو میں کھول کر آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اس کے دائرے کے اندر اس کو سمجھ کر ان دونوں باتوں کے درمیان توازن کرنا پڑے گا.نقصان ایک بری چیز ہے.اگر نقصان کا رجحان بچوں میں پیدا ہو تو ان کو سمجھانا اور عقل دینا اور یہ بات ان کے ذہن نشین کرنا بہت ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو چیز میں پیدا فرمائی ہیں وہ ہمارے فائدے کے لئے ہیں اور ہمیں چاہئے کہ چھوٹی سی

Page 168

155 چھوٹی چیز کا بھی نقصان نہ ہو.وضو کرتے وقت پانی کا بھی نقصان نہیں ہونا چاہئے.منہ ہاتھ دھوتے وقت پانی کا نقصان نہیں ہونا چاہئے.برتن دھوتے وقت پانی کا نقصان نہیں ہونا چاہئے.کپڑے دھوتے وقت پانی کا نقصان نہیں ہونا چاہئے.صرف ایک پانی ہی کو لے لیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہماری قوم میں اور بعض ترقی یافتہ قوموں میں بھی نقصان کا کتنا رجحان ہے.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ ٹوٹیاں کھول کر کھڑے ہو جاتے ہیں ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ گرم پانی یا ٹھنڈا پانی جیسا بھی ہے وہ اکثر ضائع ہورہا ہے اور بہت تھوڑا ان کے کام آ رہا ہے.حالانکہ پانی خدا تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت ہے جس کی قدر کرنا ضروری ہے اور قطع نظر اس سے کہ اس سے آپ کا مالی نقصان کیا ہوتا ہے یا قوم کا مجموعی نقصان کیا ہوتا ہے یہ بات ناشکری میں داخل ہے کہ کسی نعمت کی بے قدری کی جائے.تو حو صلے سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ نقصان کی پرواہ نہ کرنے کی عادت ڈالی جائے.یہ دو باتیں پہلو بہ پہلو چلنی چاہئیں.حوصلہ سے مراد یہ ہے کہ اگر اتفاقا کسی سے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس پر برداشت کیا جائے اور اس سے کہا جائے کہ اس قسم کی باتیں ہوتی رہتی ہیں اور جن کے حوصلے بلند ہوں وہ پھر بڑے ہو کر بڑے نقصان برداشت کرنے کے بھی زیادہ اہل ہو جاتے ہیں.بعض دفعہ آفات سماوی پڑتی ہیں اور دیکھتے دیکھتے انسان کی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں.جن کو چھوٹی چھوٹی باتوں کا حوصلہ نہ ہو وہ ایسے موقعوں کے اوپر پھر خدا سے بھی بد تمیز ہو جاتے ہیں اور بے حوصلگی کے ساتھ ایک خود غرضی کا رشتہ ایسا گہرا ہے کہ اس خود غرضی کے نتیجے میں ہر دوسری چیز اپنی تابع دکھائی دینے لگتی ہے.اگر وہ فائدہ پہنچارہی ہے تو ٹھیک ہے ذرا سا بھی نقصان کسی سے پہنچے تو انسان حوصلہ چھوڑ بیٹھتا ہے اور جب بندوں سے بے حوصلگی شروع ہو تو بالآخر خدا سے بھی انسان بے حوصلہ ہو جاتا ہے.اسی لئے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ گر سمجھایا کہ : مَنْ لَمْ يَشْكُرُ النَّاسَ لَا يَشْكُرُ الله ( کنز العمال حدیث نمبر : 6440) کہ جو بندے کا شکر ادا نہ کرنا سیکھے وہ خدا کا کہاں کرسکتا ہے.جو بندے کا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر نہیں کرتا.یہ جو گہر ا فلسفہ ہے یہ ہم روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں.حوصلہ پر بھی اسی بات کا اطلاق ہوتا ہے اسی لئے میں نے کہا تھا کہ یہ معمولی بات نہیں بڑے ہو کر اس کے بہت برے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.وہ نقصان جس میں انسان بے اختیار ہو اس پر صبر کا نام حوصلہ ہے.نقصان کی طرف طبیعت کا میلان ہونا یہ حوصلہ نہیں ہے یہ بے وقوفی ہے، جہالت ہے اور بعض صورتوں میں یہ خود ناشکری بن جاتا ہے.اس لئے بچوں کو جب حوصلہ سکھاتے ہیں تو چیزوں کی قدر کرنا بھی سکھائیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اب یہاں بھی انگلستان میں میں نے دیکھا ہے پانی کا نقصان اور گرمی کا نقصان یہ دو ایسی چیزیں ہیں جو عام قوم میں پائی جاتی ہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی.ہمارے خود پاکستان

Page 169

156 سے یہاں آ کے جو بسنے والے ہیں بے ضرورت ہیٹر جلاتے ہیں.بے ضرورت آگ جلتی رہتی ہے اس کے او پر پھیلی ہو یا نہ ہو عورتیں پرواہ نہیں کرتیں، بے ضرورت پانی بہتے رہتے ہیں.اس سے بہت کم میں انسان اپنی ضرورت کو پوری کر سکتا ہے اور قومی طور پر جو فائدہ ہے وہ تو ہے لیکن بنیادی طور پر ہر انسان کو ان باتوں کی طرف توجہ دینے کے نتیجے میں اپنی اخلاقی تعمیر میں مددملتی ہے اور بچوں کی تربیت میں اس سے بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے.بجلیوں کو دیکھ لیجئے.میں نے دیکھا ہے کہ گھروں میں بے وجہ بجلیاں جلتی چھوڑ جاتے ہیں لوگ.ریڈیو آن کیا ہے یا ٹیلی ویژن آن کیا ہے تو کمرے سے چلے گئے اور خالی کمروں میں بجلیاں بھی جل رہی ہیں، ریڈیو آن ہیں یا ٹیلی ویژن آن ہیں.کئی دفعہ میں اپنے گھر میں اپنے بچوں سے کہا کرتا ہوں کہ ہمارے گھر جن ہیں کیونکہ میں کمرے میں گیا وہاں بجلی جل رہی تھی اور ٹیلی ویژن چلا ہوا تھا.معلوم ہوتا ہے کوئی ایسی غیر مرئی مخلوق ہے جو آ کے یہ کام کر جاتی ہے.انسانوں کو تو زیب نہیں دیتا کہ اس طرح بے وجہ خدا کی نعمتوں کو ضائع کریں.تو بارہا یہ دیکھا ہے تربیت کرنی پڑتی ہے لیکن صبر کے ساتھ بدتمیزی کے ساتھ نہیں اور یہ جو دو باتیں ہیں یہ اکٹھی چلیں گی یعنی حو صلے کی تعلیم اور نقصان سے بچنے کا رجحان.کسی قسم کا قومی نقصان نہ ہواس کے نتیجے میں اندرونی طور پر بھی آپ کی ذات کو ، آپ کے خاندان کو فوائد پہنچیں گے اور بڑے ہو کر تو اس کے بہت ہی عظیم الشان نتائج نکلتے ہیں.وہ لوگ جن کو چھوٹے چھوٹے نقصانوں کی پرواہ نہیں ہوتی جب وہ تجارتیں کرتے ہیں تو اپنی طرف سے وہ حوصلہ دکھا رہے ہوتے ہیں کہ اچھا یہ ہو گیا کوئی فرق نہیں پڑتا ، اچھا وہ نقصان ہوگیا کوئی فرق نہیں پڑتا ہم اور آگے کمالیں گے.یہ جہالت کی باتیں ہیں اچھے تاجر وہی ہوتے ہیں جو چھوٹے سے چھوٹا نقصان بھی برداشت نہ کریں اور حوصلہ کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اپنے نقصان کو آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھیں اور روکنے کی کوشش نہ کریں.غریب کی ہمدردی اور دکھ درد میں شامل ہونے کی عادت چوتھی بات غریب کی ہمدردری اور دکھ دور کرنے کی عادت ہے.یہ بھی بچپن ہی سے پیدا کرنی چاہئے.جن بچوں کو نرم مزاج مائیں غریب کی ہمدردی کی باتیں سناتی ہیں اور غریب کی ہمدردی کا رجحان ان کی طبیعتوں میں پیدا کرتی ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مستقبل میں ایک عظیم الشان قوم پیدا کر رہی ہوتی ہیں.جو خَيْرَ اُمَّةِ بننے کی اہل ہو جاتی ہیں لیکن وہ مائیں جو خود غرضانہ رویہ رکھتی ہیں اور اپنے بچوں کو ان کے اپنے دکھوں کا احساس تو دلاتی رہتی ہیں غیر کے دکھ کا احساس نہیں دلاتی وہ ایک خود غرض قوم پیدا کرتی ہیں جو لوگوں کے لئے مصیبت بن جاتی ہیں.اس لئے انسانی ہمدردی پیدا کرنا نہ صرف نہایت ضروری ہے بلکہ اس کے بغیر آپ اپنے اس اعلیٰ مقصد کو پانہیں سکتے جس کے لئے آپ کو پیدا کیا گیا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے

Page 170

157 كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( آل عمران :111) تم دنیا کی بہترین امت ہو جس کو خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فوائد کے لئے پیدا فرمایا ہے اس لئے ہم اپنی زندگی کا قومی مقصد کھو دیں گے اگر ہم بچپن ہی سے اپنی اولاد کو لوگوں کی ہمدردی کی طرف متوجہ نہ کریں اور عملاً ان سے ایسے کام نہ لیں یا ان کو ایسے کام نہ سکھائیں جس کے نتیجے میں غریب کی ہمدردی ان کے دل میں پیدا ہو اور اس کی لذت یابی بچپن ہی سے شروع ہو جائے.لذت یابی سے مراد میری یہ ہے کہ اگر کسی بچے سے کوئی ایسا کام کروایا جائے جس سے کسی کا دکھ دور ہو تو اس کو ایک لذت محسوس ہوگی.اگر محض زبانی بتایا جائے تو وہ لذت محسوس نہیں ہوگی اور جب تک نیکی کی لذت محسوس نہ ہو اس وقت تک نیکی دوام نہیں پکڑا کرتی اس وقت تک یہ محض نصیحت کی باتیں ہیں.سبق آموز واقعات سنا کر دوستوں کو غریبوں کی ہمدردی کی طرف مائل کریں اس لئے اس کے دو پہلو ہیں ایک تو آپ اپنے بچوں کو اچھی کہانیاں سنا کر سبق آموز نصیحت کر کے یا سبق آموز واقعات سنا کر غریبوں کی ہمدردی کی طرف مائل کریں دکھ والوں کے دکھ دور کرنے کی طرف مائل کریں.ہر وہ شخص جو مصیبت زدہ ہے کسی تکلیف میں مبتلا ہے یہ احساس پیدا کریں کہ اس کی مصیبت دور ہونی چاہئے اس کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.خدمت کا جذبہ ان کے اندر پیدا کریں بلکہ اس کے ساتھ مواقع بھی مہیا کریں.یہاں عام طور پر ایسے مواقع میسر نہیں آتے یعنی روز مرہ کی زندگی میں کیونکہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں امیروں اور غریبوں کے درمیان فاصلے بہت ہیں.یا درمیانے طبقے کے لوگوں کے درمیان اور غریبوں کے درمیان بہت فاصلے ہیں لیکن ہمارے ملکوں میں یعنی غریب ملکوں میں تیسری دنیا کے ملکوں میں تو غریب اور امیر ساتھ ساتھ رہتے ہیں.ہر روز ان کی گلیوں، ان کے بازاروں میں غربت تکلیف اٹھاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور محسوس ہوتی ہے.وہاں تو نہ صرف یہ کہ یہ کام بہت آسان ہے کہ عملاً بچوں کو بچپن ہی سے لوگوں کی تکلیفیں دور کرنے کی عادت ڈالی جائے بلکہ مشکل بھی ہے کہ تکلیفیں اتنی ہیں کہ انسان کے حد استطاعت سے بہت بڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے.ایسے ہی ملکوں کے متعلق غالباً ایسے ہی ماحول میں غالب نے یہ کہا تھا کہ : کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند کس کی حاجت روا کرے کوئی (دیوان غالب صفحه : 330) لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ چونکہ حاجتیں پوری کرنا ہمارے بس سے بڑھ گیا ہے اس لئے ہم

Page 171

158 حاجت پوری کرنا چھوڑ دیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کس کس کی کریں دل یہ چاہتا ہے کہ ہر ایک کی کریں.پس جس کسی کی بھی جتنی حاجت بھی آپ دور کر سکتے ہیں خود بھی کریں اور بچوں سے بھی کروائیں اور بچپن میں اگر اس کی عادت پڑ جائے تو اس کے نتیجے میں بچہ جو لذت محسوس کرتا ہے وہ اس کی نیکی کو دوام بخش دیتی ہے اور پھر بڑے ہو کر خدام الاحمدیہ میں جا کر یا لجنہ کی بڑی عمر کو پہنچ کر پھر ان تنظیموں کو ان میں محنت نہیں کرنی پڑے گی اور بنے بنائے با اخلاق افراد قوم کو میسر آئیں گے جو پھر بڑے بڑے کام کرنے کے لئے اپنے آپ کو مستعد اور تیار پائیں گے.مضبوط عزم اور ہمت آخر پر پانچویں بات آج کے خطاب کے لئے جو میں نے چھنی ہے وہ مضبوط عزم اور ہمت ہے.مضبوط عزم اور ہمت اور نرم دلی اکٹھے رہ سکتے ہیں.اگر یہ ا کٹھے نہ ہوں تو ایسا انسان کمزور تو ہوگا با اخلاق نہیں ہو گا.نرم دلی جب آپ پیدا کرتے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایسا نرم دل انسان اور ایسا نرم خو انسان مشکلات کے وقت گھبرا جائے اور مصائب کا سامنا کرنے کی طاقت نہ پائے.حضرت ابوبکر صدیق اکبر ہمیشہ ہمیش کے لئے تاریخ میں ایک کامل نمونہ کے طور پر پیش کئے جاسکتے ہیں.یہ نمونہ اگر چہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے حاصل کیا مگر آپ کی زندگی میں ایک ایسا مقام آیا جہاں اس خلق نے نمایاں ہو کر ایک ایسا عظیم الشان کردار ادا کیا ہے کہ جس کے نتیجے میں ہمیشہ کے لئے ہم آپ کی مثال دنیا کے سامنے رکھ سکتے ہیں.بے حد نرم خو اور نرم دل ہونے کے باوجود جب اسلام پر آپ کی خلافت کے پہلے دن ہی عظیم مصیبت واقع ہوئی ہے اور مشکلات کا دور شروع ہوا ہے تو وہ شخص جو دنیا کی نظر میں اتنا نرم دل تھا، اتنا نرم خو تھا کہ معمولی سی تکلیف سے ہی اس کے آنسو رواں ہو جایا کرتے تھے.کسی کی چھوٹی سی تکلیف بھی وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا.اتنے حیرت انگیز عزم کے ساتھ ان مشکلات کے مقابل پر کھڑا ہو گیا ہے کہ جیسے سیلاب کے سامنے کوئی عظیم الشان چٹان کھڑی ہو جاتی ہے.ایک ذرہ بھی اس کے سرکنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا.اس طرح حضرت ابو بکر صدیق نے اس وقت اپنے نرم دل سے عظمت کا ایک پہاڑ نکلتا ہوا دکھا یا دنیا کو.شکست نہ کھانے کے عزم کے خلق کی بچپن سے نشو ونما ہو پس نرم دلی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ انسان مشکلات کے وقت کمزور ہو یا بڑھتی ہوئی مشکلات کے سامنے ہمت ہار جائے.پچپن سے یہ خلق پیدا کرنا چاہئے کہ ہم نے شکست نہیں کھانی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ جو فقرہ ہے ایک عظیم الشان فقرہ ہے جو آپ کے اس عظیم خلق پر روشنی ڈالتا ہے کہ:

Page 172

159 ”میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں“ بہت ہی بلند تعلیم ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عظیم خلق پر روشنی ڈالنے والا یہ ایک بہت ہی پیارافقرہ ہے کہ:.”میری سرشت میں نا کامی کا خمیر نہیں پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وابستہ ہونے والوں کی سرشت میں بھی ہرگز ناکامی کا خمیر نہیں ہونا چاہئے اور یہ عزم اور ہمت بچپن ہی سے پیدا کئے جائیں تو پیدا ہوتے ہیں.وہ لوگ جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہمتیں ہار جاتے ہیں.امتحان میں فیل ہو جائیں تو زندگی سے بیزار ہو جاتے ہیں.کوئی زندگی کی مراد پوری نہ ہو تو ان کا سارا فلسفہ حیات ایک زلزلے میں مبتلا ہو جاتا ہے.وہ سوچتے ہیں پتا نہیں خدا بھی ہے کہ نہیں.ان کی چھوٹی سی کائنات تنکوں کی بنی ہوئی ہوتی ہے اور معمولی سازلزلہ بھی اس کی خاک اڑادیتا ہے.اس لئے وہ قو میں جنہوں نے بہت بڑے بڑے دنیا میں کام کرنے ہیں ، عظیم الشان مقاصد کو حاصل کرنا ہے اور عظیم الشان ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے.جن کا مشکلات کا دور چند سالوں سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ صدیوں تک پھیلا ہوا ہے.ہر مشکل کو انہوں نے سر کرنا ہے، ہر مصیبت کا مردانگی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے.ہر زور آور دشمن سے ٹکر لینی ہے اور اس کو نا کام اور نا مراد کر کے دکھانا ہے.ایسی قوموں کی اولادیں اگر بچپن ہی سے عزم کی تعلیم نہ پائیں تو آئندہ نسلیں پھر اس عظیم الشان کام کو سرانجام نہیں دے سکیں گی.اس لئے بہت ہی ضروری ہے کہ جہاں نرم کلام بچے پیدا کریں، جہاں نرم دل بچے پیدا کریں ، جہاں نرم خو اولاد پیدا کریں جو دوسروں کی ادنی سی تکلیف سے بھی بے چین اور بے قرار ہو جائیں اور ان کے دل کسی دوسرے کے دل کے غم سے پگھلنا شروع ہو جائیں اس کے باوجود اس اولا د کوعزم کا پہاڑ بنادیں اور بلند ہمتوں کا ایک ایسا عظیم الشان نمونہ بنادیں کہ جس کے نتیجے میں تو میں ان سے سبق حاصل کریں.یہ وہ پانچ بنیادی اخلاق ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ ہماری تنظیموں کو خصوصیت کے ساتھ اپنے تربیتی پروگرام میں پیش نظر رکھنے چاہئیں.ان پر اگر وہ اپنے سارے منصوبوں کی بناء ڈال دیں اور سب سے زیادہ توجہ ان اخلاق کی طرف کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کا فائدہ آئندہ سو سال ہی نہیں بلکہ سینکڑوں سال تک بنی نوع انسان کو پہنچتا رہے گا کیونکہ آج کی جماعت احمد یہ اگر ان پانچ اخلاق پر قائم ہو جائے اور مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جائے اور ان کی اولادوں کے متعلق بھی یہ یقین ہو جائے کہ یہ بھی آئندہ انہی اخلاق کی نگران اور محافظ بنی رہیں گی اور ان اخلاق کی روشنی دوسروں تک پھیلاتی رہیں گی اور پہنچاتی رہیں گی تو پھر میں یقین رکھتا ہوں کہ ہم امن کی حالت میں اپنی جان دے سکتے ہیں سکون کے ساتھ اپنی جان جان آفریں کے سپر د کر سکتے ہیں اور یقین رکھ سکتے ہیں کہ جو عظیم الشان کام ہمارے سپرد کئے گئے تھے ہم نے جہاں تک ہمیں توفیق ملی ان کو سرانجام دیا.

Page 173

160 نمازوں کی طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے دوسرا پہلو مختصر عبادات کا پہلو ہے.اس سلسلے میں میں بار ہا جماعت کو پہلے بھی متوجہ کر چکا ہوں کہ ابتدائی چیزوں کی طرف بہت ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ان میں سب سے ابتدائی اور سب سے اہم نماز ہے.ہماری نمازوں میں ابھی کئی قسم کے خلا ہیں جو بلند تر منازل سے تعلق رکھنے والے خلا ہیں ان کا میں تفصیل سے ذکر کر چکا ہوں لیکن اب میں آپ کو اس بنیادی کمزوری کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ ہمارے اندر آج کی نسلوں میں بھی بہت سے بچے ایسے ہیں جن کو پانچ وقت نماز پڑھنے کی عادت نہیں ہے.بہت سے نوجوان ایسے ہیں جن کو پانچ وقت نماز پڑھنے کی عادت نہیں ہے.بہت سے بوڑھے ایسے ہیں جن کو پانچ وقت نماز پڑھنے کی عادت نہیں ہے اور یہ بات ہمیں روز مرہ نظر آنی چاہئے اور ہمیں اس سے بے چین ہو جانا چاہئے.تنظیمیں کیوں اس سے بے چین نہیں ہوتیں تنظیمیں کیوں یہ کمزوری نہیں دیکھتیں اور کیوں خصوصیت کے ساتھ ان باتوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتیں.نماز پڑھنا صرف کافی نہیں نماز ترجمہ کے ساتھ پڑھنا بہت ضروری ہے اور نماز کا ترجمہ ہر احمدی کو آنا چاہئے خواہ وہ بچہ ہو ، جوان ہو یا بوڑھا ، مرد ہو یا عورت ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز کا ترجمہ جانتا ہو اور اس حد تک یہ ترجمہ رواں ہو کہ جب وہ نماز پڑھے تو سمجھ کر نماز پڑھے.عبادت کے مضمون میں تو بہت ہی وسیع باتیں ہیں.بہت سی باتیں ہیں جو اپنے اندر پھر اور بہت سی منازل رکھتی ہیں لیکن سب سے بنیادی بات یہی ہے کہ ہم اپنی جماعت کو مکمل طور پر نماز پر قائم کردیں.کسی اور نیکی کی اتنی تلقین قرآن کریم میں آپ کو نہیں ملے گی جتنی قیام عبادت کی تلقین ہے، قیام صلوۃ کی تلقین ہے اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کی تلقین بھی ہمیشہ اس کے ساتھ وابستہ کی گئی ہے.پس قرآن کریم کی تعلیم کی رویہی ہے کہ ہم اپنی عبادات کو کھڑا کر دیں اور اپنے پاؤں پر مضبوطی کے ساتھ ان کو اس طرح مستحکم کر دیں کہ کوئی ابتلا، کوئی زلزلہ، کوئی مشکل ہماری نمازوں کو گرا نہ سکے.اس کے لئے پہلا بنیادی قدم یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک شخص نماز باترجمہ جانتا ہواور نماز پانچ وقت پڑھنے کا عادی ہو اور ساتھ ہی دوسری چیز اس کے ساتھ ملانے والی ضروری ہے کہ صبح تلاوت کی عادت ڈالیں.ہر شخص جو نماز پڑھتا ہے اس کو یہ عادت پڑ جائے کہ کچھ نہ کچھ تلاوت ضرور کرے.یہ بنیاد اگر قائم ہو جائے تو اس کے اوپر پھر عظیم الشان عبادات کی عمارتیں قائم ہوسکتی ہیں.منازل نئی سے نئی بن سکتی ہیں.نئی رفعتیں عبادتوں کو حاصل ہو سکتی ہیں.مگر یہ بنیاد نہ ہوں تو اوپر کی منزلیں بن ہی نہیں سکتیں.ذیلی مجالس کے لئے لائحہ عمل، کوئی فرد بے نمازی نہ رہے اس لئے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنات کو اپنے آئندہ کے پروگراموں میں سب سے زیادہ

Page 174

161 اہمیت اس بات کو دینی چاہئے کہ ان کی مجالس کے اندر ایک بھی فرد نہ رہے جو نماز کا ترجمہ نہ جانتا ہو اور پنجوقتہ نماز پر قائم نہ ہو.باقی ساری باتیں انشاء اللہ رفتہ رفتہ سکھائی جائیں گی.میر اپروگرام یہ ہے کہ تمام مجالس پر اس پہلو سے نظر رکھوں اور ان کی رپورٹوں کو سر دست مختصر بنا دوں.ان سے یہ توقع رکھوں کہ آپ لمبی تفصیلی رپورٹیں مجھے نہ کریں جن سے میں خود براہ راست گزر نہ سکوں بلکہ مجھ تک جو آپ کام پہنچانا چاہتے ہیں وہ مختصر کر دیں اور بجائے اس کے کہ یہ بتائیں کہ آپ نے کتنے پیڑ لگائے اور کتنی محنتیں کیں اور کس طرح ان پودوں کو تناور درختوں میں تبدیل کیا مجھے صرف یہ بتا دیا کریں کہ پھل کتنے لگے.پیڑوں سے مجھے غرض نہیں ہے.تو پھلوں کے لحاظ سے ان پانچ عادات کے متعلق رپورٹ مل جائے کہ آپ نے کتنے احمدیوں میں یہ عادات راسخ کرنے میں کام کیا ہے، کتنے بچوں نے ، بڑوں نے مردوں اور عورتوں نے عہد کیا ہے کہ وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولیں گے اور اس سلسلے میں آپ نے کیا کارروائیاں کی ہیں.سر دست یہ بتائیں صرف یعنی نظر رکھنے کے لئے کیا کارروائیاں کی ہیں.عادتوں کو مزید راسخ کرنے کے لئے کیا کارروائیاں کی ہیں.اتنا حصہ بے شک مزید بھی بتا دیں جو پھلوں کی حفاظت سے تعلق رکھنے والا حصہ ہے.پھل پیدا کریں ، ان کی حفاظت کا انتظام کریں اور وہ حفاظت کی جو کارروائیاں ہیں مختصر وہ اپنی رپورٹ میں بے شک لکھ دیا کریں.دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ پتا لگ جایا کرے کہ عرصہ زیر رپورٹ میں کتنے ایسے احمدی بچے ، بڑے تھے جونماز پنجوقتہ نہیں پڑھتے تھے جن کو آپ نے نماز پنجوقتہ کی عادت ڈالی ہے.کیا کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے اور آپ نے ایک یا دو نمازوں کی عادت ڈالی ہے.صرف یہ تعداد کافی ہے.اگلی رپورٹ میں ان کا ذکر نہ ہو بلکہ مزید جو آپ نے اس میں شامل کئے ہوئے ہیں ان کا ذکر ہو.یا اگر دو پڑھتے تھے اور تین پڑھنے لگ گئے تو ان کا ذکر ہو سکتا ہے اور اسی طرح یہ ذکر ہو کہ کتنے ایسے احمدی تھے جن کو نماز کا ترجمہ نہیں آتا تھا اور ان کو آپ نے کسی حد تک ترجمہ پڑھایا ہے.اس کے بھی مختلف مراحل ہیں.کسی کو تر جمہ شروع کر وا دیا گیا ہے،کسی کا ترجمہ مکمل ہو گیا ہے.تو دوحصوں میں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اتنے ترجمہ پڑھ رہے ہیں اور اتنے ایسے خوش نصیب ہیں جو اگر چہ پہلے ترجمہ نہیں جانتے تھے اور اب ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ان کو تر جمعہ آ گیا ہے.تو یہ چھوٹے چھوٹے کام ہیں ان کی طرف ساری مجالس اپنی ساری توجہ مبذول کر دیں.ان کے علاوہ جو دوسرے کام ہیں سر دست وہ جاری تو رہیں گے مگر ان کو مقابلہ ثانوی حیثیت دیں.اس سے میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی عظیم الشان تعمیر کی ایسی بنیاد یں قائم ہو جائیں گی جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تمام دنیا میں اسلام کی عمارت کو مستحکم اور بلند تر کرنے میں عظیم الشان کارنامے سرانجام دے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین." خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 754-770)

Page 175

162 62 $1990 جماعت کو کثرت سے ایسے انصار میں گے جو يَنصُرُكَ رِجَالٌ کے تحت جماعت کی مدد کے لئے متوجہ ہوں گے (خطبہ جمعہ 12 جنوری 1990ء) " گزشتہ ہفتے کے اندر کچھ ایسی تکلیف دہ خبریں، خصوصیت کے ساتھ دو ایسے اہم خطرات کی نشاندہی ہوئی جن کا تعلق پاکستان سے تھا اور اگر چہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہوا ہے، ایک عاجزانہ رنگ میں ہم دعا کے ساتھ اسباب کو ضرور اختیار کرتے ہیں، میں عموماً ایسے مواقع پر ساری جماعت کو مطلع کرتا رہا ہوں اور بعض کوششوں کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں مگر ان دو مواقع پر خدا کی تقدیر تھی شاید کہ دل اسباب سے اتر گیا اور اچانک دل اسباب کی پیروی سے بیزار ہو گیا.تب میں نے خدا سے عاجزانہ دعا کی کہ اب تو مجھے معاف فرمالیکن میں اسباب کو اختیار نہیں کروں گا اب خالصہ تجھ سے امید ہے اور تجھ سے ہی دعا کرتا ہوں، اپنے فضل سے دعاؤں کے ذریعے اسباب پیدا فرما دے اور ان حالات کو بدل دے.چنانچہ حیرت انگیز طور پر خدا تعالیٰ نے ایسا ہی کیا اور قطعی طور پر کوئی دنیاوی سب اختیار کئے بغیر ایسے حیرت انگیز رنگ میں وہ تکلیفوں کا خوف ٹل گیا بلکہ وہ تکلیفیں جو خوف سے آگے نکل کر عملی شکل میں ظاہر ہو چکی تھیں ان کے شر سے جماعت کے احباب محفوظ رہے اور ایسی اس کے نتیجے میں دل کو خدا تعالیٰ کی طرف سے تسکین نصیب ہوئی کہ جس کی مثال دنیا میں شاذ ہی ملتی ہے.کل بھی اسی قسم کی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے رات رؤیا میں ایک خوشخبری دی اور وہ خوشخبری میں چاہتا ہوں جماعت کو آج بتادوں کیونکہ وہ دراصل جماعت کی ہی خوشخبری ہے.میں نے دیکھا کہ کثرت کے ساتھ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا میں دوسری جگہوں پر بھی لوگوں میں جماعت کی نصرت کی توجہ پیدا ہو رہی ہے اور جس طرح طوفان میں موج در موج لہریں اٹھتی ہیں، اس طرح لکھوکھہا آدمی جن کا جماعت سے تعلق نہیں ہے وہ جماعت کی امداد کے لئے دوڑے چلے آرہے ہیں.یہ نظارہ مسلسل اسی طرح رویا میں دکھائی دیتارہا اور بعض دفعہ بعض ملکوں کی بھی نشاندہی ہوئی اور اس وقت مجھے تعجب بھی ہوا کہ بظاہر تو ان کے ساتھ ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں مثلاً امریکہ کے مغرب سے بھی جو سان فرانسسکو اور لاس اینجلس وغیرہ کا علاقہ ہے.مغربی ساحل ، کیلیفورنیا سٹیٹ ہے جو زیادہ تر مغرب میں شمالاً جنو با چلتی ہے اس طرف سے بھی لاکھوں آدمی جماعت کی مدد کے لئے دوڑے آ رہے ہیں اور باہر کی دنیا سے بھی.مشرق میں بھی یہی نظر آ رہا ہے اور پاکستان میں بھی یہ لہریں اٹھ رہی ہیں.اس نظارے کے بعد جو

Page 176

163 بالعموم ایک تموج کی شکل میں تھا یعنی انسان دکھائی نہیں دے رہے تھے لیکن یوں معلوم ہوتا تھا کہ موج در موج مخلوق خدا جماعت کی مدد کے لئے متوجہ ہو رہی ہے.بلکہ ایک دفعہ یوں لگا کہ جیسے میں کہوں کہ بس کافی ہوگئی بس کرو اتنی ضرورت نہیں.لیکن لہریں پھر اٹھتی ہوئی دوبارہ ساحل سے ٹکرا کر جس طرح چھلک کر باہر آپڑتی ہیں ، اسی طرح میں نے ان کو دیکھا.تو بیک وقت یہ احساس ہونے کے باوجود کہ یہ انسانی مدد ہے ، نظارہ وہ موجوں کا سارہا ، جب رویا سے آنکھ کھلی تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام تغیر کے طور پر میری زبان پہ جاری تھا کہ يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِنَ السَّمَاءِ ( تذکره : 39) کہ تیری نصرت خدا کے ایسے مرد میدان بندے کریں گے جن کو اللہ تعالیٰ خود وحی کے ذریعے اس بات پر آمادہ فرمائے گا.تو میں امید رکھتا ہوں کہ اس نئی صدی کے پہلے سال میں اس رویا کا دکھایا جانا محض کسی عارضی مفاد سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ یہ آئندہ زمانے میں جماعت کی نصرت کا خیال قوموں میں ہر در لہر، موج در موج اٹھے گا اور مختلف ملکوں میں خدا تعالیٰ غیروں کے دل میں بھی جماعت کی تائید میں اٹھ کھڑے ہونے کے لئے ایک حرکت پیدا کرے گا ایک توجہ پیدا فرمائے گا اور کثرت کے ساتھ انشاء اللہ جماعت کو ایسے انصار ملیں گے جو جماعت سے نہ بھی تعلق رکھتے ہوں تو اللہ تعالیٰ کی وحی کے تابع (یعنی وحی بعض دفعہ خفی بھی ہوتی ہے ضروری نہیں کہ الہام کی شکل میں لفظوں میں وہ ظاہر ہو.مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے چلنے والی تحریکات کی روشنی میں) ان کے دل جماعت کی مدد کے لئے متوجہ ہوں گے.اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے دعاؤں پر انحصار بڑھائیں اس رؤیا کے بعد میں خصوصیت سے جماعت کو دعاؤں کی طرف متوجہ کرتا ہوں اور یاد دلاتا ہوں کہ جب بھی وہ اپنے متعلق یا اپنے دوستوں کے متعلق یا جماعت کے متعلق کوئی فکر والی باتیں سنیں یا کوئی تو ہمات ان کے دلوں کو گھیر لیں تو اپنے نفس کا یہ پہلا محاسبہ کیا کریں کہ ان کا خیال کس طرف گیا تھا.مدد ڈھونڈنے کے لئے ان کو کوئی انسان یاد آیا تھا کوئی دنیاوی ذریعہ اختیار کرنے کی طرف توجہ مائل ہوئی تھی یا سب سے پہلے توجہ خدا کی طرف گئی تھی.موحد بندے کی شان یہ ہے کہ توجہ کا اولین مرکز خدا ہوتا ہے ورنہ یہ دنیا ایسی ہے کہ جس میں باتیں ایسی مل جل جاتی ہیں کہ توحید اور شرک کی تفریق آسان نہیں رہتی.خدا کے مومن بندے دعا ئیں بھی کرتے ہیں اور اسباب کو بھی اختیار کرتے ہیں اور بعض غیر بھی جو تو حید کے اعلیٰ مقام پر فائز نہیں ہوتے وہ اسباب کو بھی اختیار کر لیتے ہیں اور دعاؤں کی طرف بھی متوجہ ہو جاتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان ایک فرق ہے اور وہ فرق اولیت کا ہے.مومن کا اول سہارا خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور اس تعلق کے قیام کے لئے جو بندے اور خدا کے درمیان سہارے کی شکل میں ظاہر ہوا کرتا ہے دعا ذریعہ بنتی ہے.یعنی سہارا تو خدا تعالیٰ ہر ایک کا ہے ہی لیکن اس خصوصی مدد کے لئے جو انسان کسی خاص مشکل کے وقت محسوس کرتا ہے کہ مجھے اس کی

Page 177

164 ضرورت ہے اور خدا سے مجھے ملنی چاہئے اس مدد کے لئے دعا ذریعہ بنا کرتی ہے.پس جب بھی آپ مدد چاہتے ہیں تو مدد کے لئے پیغام بھیجا کرتے ہیں.جب بھی آپ مدد مانگتے ہیں تو مدد کے لئے آواز دیا کرتے ہیں تو پہلی آواز خدا کی جانب اٹھنی چاہئے پہلا پیغام خدا کو بھیجا جانا چاہئے.اگر یہ ہے تو پھر آپ موحد بندے ہیں.پھر آپ اسباب کو اختیار کریں تو یہ شرک نہیں ہے بلکہ یہ بھی ایک بجز کا اظہار ہے اور خدا کی اس مالکیت کی عبادت کرنا ہے جو ہر چیز پر حاوی ہے.پس اس پہلو سے آپ کا ایمان یقیناً خالص بن جاتا ہے.آپ کی توحید کے اوپر ایک گواہی ٹھہرتی ہے جو ہر ضرورت کے وقت آپ کے دل سے اٹھ رہی ہوتی ہے اور خدا کے بعد سب سے بڑا گواہ انسان کا اپنا نفس ہی ہے.پس اس پہلو سے اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے دعاؤں پر انحصار بڑھا ئیں اور سب سے زیادہ تو کل دعا پر ہی رکھیں اور دعا کے ذریعے اولین رابطہ اپنے خدا سے کرنے کی عادت ڈالیں.اپنے بچوں کو بھی دعاؤں کی اہمیت سمجھاتے رہیں اور سلیقے بتائیں آج کل جماعت کو تمام دنیا میں جو ضرورتیں در پیش ہیں اور نئے نئے رستے ترقیات کے کھل رہے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ نئے خطرات بھی پیدا ہور ہے ہیں.ایک بڑی عظیم عالمی جدوجہد کی کیفیت ہے، جس میں جماعت اس نئی صدی میں داخل ہوئی ہے اور روز بروز نئے میدان کھلتے رہیں گے اور نئے میدانوں میں ہمارے قدم آگے بڑھتے رہیں گے اس لئے ابھی سے دعاؤں کی عادت خود بھی ڈالیں اور اپنے بچوں کو بھی دعاؤں کی اہمیت سمجھاتے رہیں اور دعائیں کرنے کے سلیقے سکھائیں.اگلی نسل کو دعا پر قائم کرنا بہت ہی ضروری ہے ورنہ ہمارا اگلی نسلوں کے ساتھ سب سے زیادہ اہم پیوند کٹ جائے گا.سب سے زیادہ اہم پیوند جو ہم اپنی اگلی نسلوں کے ساتھ قائم کر سکتے ہیں وہ یہی دعا کرنے کا پیوند ہے.وہ پیوند جو دراصل تو خدا سے لگتا ہے لیکن ہمارا آپس کا تعلق دعا کرنے والی نسل کے طور پر قائم رہنا چاہئے اور ہماری ہر اگلی نسل اسی طرح دعا گو ہونی چاہیئے.اسی طرح دعا پر تو کل رکھنے والی اور یقین رکھنے والی ہونی چاہئے جیسے ہمیں ہونا چاہئے یا ہماری پہلی نسلیں تھیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو فیض ہے، اس کا خلاصہ کبھی بھی ہماری نظر سے اوجھل نہیں ہونا چاہئے.آپ کے تمام فیوض کا مخص ، آپ کے سارے فیض کا منبع اور روح اور اس کا خلاصہ یہی ہے کہ آپ نے خود بھی دعاؤں کے گر سیکھے اور دعاؤں پر انحصار کیا اور جماعت احمدیہ کو بھی دعاؤں کے ذریعے ایک زندہ خدا کے ساتھ ایک ابدی زندہ تعلق رکھنے کا سلیقہ سکھا دیا.پس یہ اگلی نسل کا ہم پر حق ہے جس طرح ہم نے پچھلی نسلوں کا پھل کھایا اور ان سے یہ تربیت حاصل کی اور ان کے اس فیض کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا ایک حیرت انگیز اور عظیم الشان رشتہ قائم ہو گیا.اسی طرح اگلی نسلوں کا ہم پر بھی حق ہے.اپنے بچوں پر رحم کریں اور ان کو آغاز ہی سے دعائیں کرنی سکھائیں اور ان سے دعائیں کروائیں اور پھر

Page 178

165 دعا کا پھل ان کو ملے گا تو ان کی کیفیت کیسے بدل جائے گی.غیر دنیا میں رہتے ہوئے معصوم بچوں کی حفاظت کا اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں.تربیت کی آپ ہزار ترکیبیں کریں ان کو راہ راست پر رکھنے کے ہزار پاپڑ بیلیں مگر اس جیسا مؤثر اور کوئی ذریعہ نہیں کہ آپ ان کو دعا گو بچے بنادیں خدا تعالیٰ سے ان کا ایک ذاتی تعلق قائم کروا دیں اور بچپن ہی سے وہ اپنی دعاؤں کا پھل کھانے لگ جائیں.پس یہ ایک دوسری نصیحت ہے کہ جہاں ہم جماعت کے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں اور اپنے لئے بھی وہاں ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی دعا گو نسلیں بنا ئیں." (خطبات طاہر جلد 9 صفحہ 24-27) ذیلی تنظیمیں ، جماعتی لٹریچر کی تقسیم میں اپنا کردار ادا کریں (خطبہ جمعہ 23 فروری 1990ء) اس سلسلے میں آخری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کو اس کام میں خصوصیت کے ساتھ دلچسپی لینی چاہئے.میں نے اپنے ایک گزشتہ خطبے میں یہ بتایا تھا کہ ہم نے جو لٹریچر شائع کیا ہے وہ الماریوں یا صندوقوں کی زینت بنانے کے لئے نہیں بلکہ تقسیم کے لئے کیا ہے اور ساری دنیا کی جماعتوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ جائزہ لیں کہ ان کے ملکوں میں کون کون سی غیر قو میں آباد ہیں.چنانچہ اس ضمن میں کئی ملکوں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی رپورٹیں مل رہی ہیں اور بہت سے امراء بڑی توجہ کے ساتھ اس ہدایت کی تعمیل میں جائزے لے کر پھر مجھے رپورٹیں بھجوا رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر امراء اس خصوصی کام کو یعنی مشرقی یورپ کی قوموں سے تعلق قائم کرنا اور ان میں احمد یہ لٹریچر تقسیم کرنا، اس کام کو اگر وہ ذیلی تنظیموں سے لیں تو ان کو بھی سہولت ہو جائے گی اور ذیلی تنظیمیں غالباً بہتر رنگ میں یہ کام کرسکیں گی.ایک امیر کے لئے کام لینے کے دو طریقے ہوتے ہیں.ایک تو وہ جماعت کو عمومی ہدایت دے دے اور اس شعبے کے سیکرٹری کو مقرر کر دے کہ تم ان سے رابطے کرو.اس طریق پر سب کام چلتے ہیں لیکن ان کاموں میں ذرا نرمی پائی جاتی ہے.رفتار ذرا کم ہوتی ہے اور جسے انگریزی میں Casual کہا جاتا ہے.آرام آرام سے لوگ بات کو لیتے ہیں اور اتنی زیادہ اہمیت بھی نہیں دیتے.بعض دیتے بھی ہیں لیکن بالعموم کچھ لوگوں کو توفیق مل جاتی ہے لیکن ذیلی تنظیموں کے سپر د اگر خصوصی کام کیا جائے تو نسبتاً زیادہ افراد زیادہ ذمہ داری کے ساتھ اور مہم کی صورت میں کام کرتے ہیں.نئی تبدیلیاں جو ذیلی تنظیموں میں کی گئی ہیں ان میں ایک یہ بھی مقصد تھا کہ اس سے پہلے جو بعض مصلحتوں کی وجہ سے امارتوں سے ذیلی تنظیموں کو بالکل الگ کر دیا گیا تھا، ان کو دوبارہ

Page 179

166 امارتوں کے ساتھ مانوس کیا جائے اور تنظیم کے لحاظ سے اگر سو فیصدی ماتحت نہ بھی کیا جائے تو ان کے روابط ایسے ہو جائیں کہ امراء ان کو اپنا دست و باز سمجھتے ہوئے ان سے بے تکلفی کے ساتھ اور اپنائیت کے ساتھ کام لیا کریں.امیر، ذیلی تنظیموں پر حاوی ہے.وہ تمام تنظیموں کو حکم دے سکتا ہے ایک امیر کا یہ حق ہے کہ ساری جماعت کو حکم دے اور اس حکم کے مقابل پر اگر خدام، انصار یا لبنات نے اگر کوئی حکم دیا ہو تو وہ کوئی حیثیت نہیں رکھے گا خود بخود گر جائے گا.پس اس طریق سے امیر حاوی تو ہے ہی لیکن میں اور رنگ میں بات کر رہا ہوں.امیر کو اس سے پہلے یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ تنظیموں کو بحیثیت تنظیمیں کسی کام پر مامور کرے، لجنہ کو کہے کہ میں تمہارے سپرد یہ کام کرتا ہوں.خدام کو کہے کہ میں تمہارے سپرد یہ کام کرتا ہوں علی ہذا القیاس.لیکن خلیفہ وقت یہ کام کر سکتا ہے.وہ تمام تنظیموں کو یہ حکم دے سکتا ہے کہ تم امیر سے رابطہ کرو اور اپنی خدمات پیش کرو اور امیران خدمات سے استفادہ کرے صدران کو بلائے ان کے ساتھ میٹنگ رکھے اور ان سے کہے کہ تم میرے ساتھ مل بیٹھ کر اب اس کام کو مرتب کرو اور ایک ایسا لائحہ عمل بناؤ جس میں تینوں تنظیمیں اس رنگ میں کام کریں کہ ایک دوسرے کے کام میں مداخلت نہ کرنے والی ہوں یا تصادم نہ کرنے والی ہوں اور اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اس طرح کام کریں کہ تمام وہ میدان جس میں کام کرنا مقصود ہے ان میں کوئی خلاء باقی نہ رہیں بلکہ تمام میدان میں ہر پہلو سے کام شروع ہو جائے.اس ہدایت کو لوظ رکھتے ہوئے تمام دنیا میں امراء کو چاہئے کہ وہ ذیلی تنظیموں سے رابطہ کریں اور ذیلی تنظیموں کو چاہیئے کہ پہل کرتے ہوئے اپنی خدمات فوری طور پر امراء کے سپرد کریں اور ان سے کہیں کہ جولٹریچر جماعت احمد یہ نے گزشتہ چند سالوں میں مختلف زبانوں میں شائع کیا ہے، اس لٹریچر کی تقسیم کے سلسلے میں آپ جس قسم کا پروگرام ہمارے لئے بناتے ہیں ہم اس پر پوری طرح بشاشت کے ساتھ اور پوری تندہی کے ساتھ عمل کریں گے اور پھر اس کی رپورٹیں ذیلی تنظیموں کی طرف سے مجھے ملنی شروع ہوں جس کی نقل امیر کو آئے اور باقی باتوں میں وہ اسی طرح پہلے کی طرح کام کرتے رہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں بہت سے باہر بسنے والے روسیوں کے ساتھ یا مشرقی جرمنوں کے ساتھ ، چیکوسلواکین کے ساتھ یا دوسری قوموں کے ساتھ ہمارے روابط پیدا ہو جائیں گے اور اب تک جو ہوئے ہیں وہ بہت ہی امید افزاء ہیں." خطبات طاہر جلد 9 صفحہ 121-122)

Page 180

167 ذیلی تنظیموں کو خدا سے لقاء کی دعائیں مانگنی ہیں اپنی زبانیں صاف کریں خطبہ جمعہ 30 مارچ 1990) "ہمارے ایک خادم سلسلہ نے خدام الاحمدیہ کے اصلاحی دوروں کے سلسلہ میں حیدر آباد ڈویژن کا اور بعض دوسرے علاقوں کا سفر کیا تو ان کا بڑا تکلیف دہ خط موصول ہوا.انہوں نے لکھا کہ ماحول کو تو میں جانتا ہی ہوں کیا حال ہو چکا ہے؟ مجھے تعجب ہوا کہ بعض دیہاتی احمدی جماعتوں میں بھی زبان کی صفائی کا خیال نہیں ہے.وہ عام روز مرہ گالیاں دینے لگ گئے ہیں.محاورے کے طور پر ہل چلا رہے ہیں تو اور کچھ نہیں تو بیل کو ہی ساتھ گالیاں دیتے جاتے ہیں.کس قدر بے وقوفی ہے؟ کہتے ہیں کہ ایک فرق میں نے ضرور دیکھا کہ اگر باقی معاشرے کی اصلاح کے لئے میں عمر بھی وقف کر دیتا تو کسی نے میری بات نہیں مانی تھی.میں عمر کا چھوٹا ہوں، ان سے نا واقف بھی تھا جن کے پاس پہنچا لیکن جب میں نے ان کو سمجھایا کہ تم ہو کون اور تم سے کیا توقعات ہیں تو ہر ایک نے فوری طور پر مثبت رد عمل دکھایا اور پھر کہتے ہیں کہ میں نے دوروں میں دوبارہ جا کر رابطے کئے تو مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ وہ محض ایک فرضی رد عمل نہیں تھا بلکہ واقعہ ان کے اندر تبدیلیاں پیدا ہورہی تھیں.پس احمدیت کی مٹی میں یہی تو مزہ ہے کہ واقعتہ وہ مٹی ہے جونم ہو تو بہت زرخیر ہے.اس وقت احمدی معاشرے کی اصلاح مشکل نہیں ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان نے دلوں میں ایک ایسی نرمی پیدا کر دی ہے اور وہ ملائمت پیدا کر دی ہے جس کے نتیجے میں جس طرح آپ موم کو جس طرح چاہیں ڈھال لیں، یہیٹی نیکی میں ڈھلنے کے لئے موم کی طرح اثر رکھتی ہے اور بدی میں ڈھلنے کے لئے سخت ہو جاتی ہے.بیک وقت اس مٹی میں یہ دو خصوصیات موجود ہیں.خدا ان خصوصیات کو ہمیشگی کی زندگی دے جس قوم میں یہ خصوصیات پائی جائیں ان کی اصلاح آسان ہو جایا کرتی ہے اور بہت ہی ہوا کے رخ پر چلنے والی بات ہے.چنانچہ قرآن کریم نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں ڈھلنے والی مٹی کی یہ تعریف فرمائی: مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحْمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح:30) یہاں أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّار میں جو سختی بتائی گئی ہے، در اصل کفار کی عادات کے خلاف سختی مراد ہے، کفر کے خلاف سختی ہے.جہاں تک بدی کا تعلق ہے وہ بدی ان کے اوپر اثر ڈالنے کی کوشش کرتی ہے اور نا مراد رہتی ہے.وہ ان کو اپنے رنگ میں ڈھال نہیں سکتی لیکن جہاں مومنوں کے اثر قبول کرنے کا معاملہ ہے.فرمایا رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ وہ نہایت ہی نرم اور بہت ہی تعاون کرنے والے اور جھکنے والے اور ان کے سامنے مٹ جانے والے لوگ ہیں.پس جو کوشش بھی آپ آج جماعت احمدیہ میں اصلاح کی کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے

Page 181

168 فضل سے جماعت احمدیہ کارد عمل عام دنیا کے ردعمل کے مقابل پر ایک بالکل جدا گانہ ردعمل ہے.محض باشعور طور پر محنت کی ضرورت ہے.ذیلی تنظیموں کے عہدیداران کو خدا سے لقاء کی دعائیں مانگنی ہیں پس ہمارے نظام سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی عہدیداران ہیں خواہ وہ خدام الاحمدیہ سے تعلق رکھتے ہوں، لجنہ سے تعلق رکھتے ہوں ، انصار سے تعلق رکھتے ہوں اور نظام جماعت کے دوسرے عہد یداران وہ ان باتوں کا خیال کریں اور اس رمضان میں خصوصیت سے ہر جگہ یہ شعور بیدار کریں کہ ہم نے خدا سے لقاء کی دعائیں مانگنی ہیں اور لقاء کی تیاریاں کرنی ہیں اور اس کی لقاء کی خاطر اپنے گھروں کو سنوارنا ہے.اپنے صحنوں کو جھاڑو دینے ہیں اور اپنی دیواروں کو دھونا اور صاف کرنا اور اپنے فرشوں کو مانجھنا ہے.جس طرح ایک اچھے مہمان اور پیارے مہمان کی تیاری ہر گھر کرتا ہے خواہ وہ غریب ہو، خواہ امیر ہو.ہم نے اپنی توفیق کے مطابق اپنے گھر کو خدا کے لئے سنوارنا ہے تا کہ وہ ایک معزز مہمان کی طرح یہاں نازل ہو.حضور کے تجربات کئی دفعہ اگر وقت نہ بھی ہو اور پتا چلے کہ کوئی شخص بیچارہ تیاری کر کے بیٹھا ہوا ہے تو انسان مجبوراً بھی وہاں چلا جاتا ہے.میں نے سفروں کے دوران دیکھا ہے وقف جدید ، انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ کے دوران میں نے پنجاب میں بڑے سفر کئے ہیں.بعض دفعہ ہمارے دور میں ایک گاؤں نہیں ہوا کرتا تھا اور ان کو پتا ہوتا تھا کہ یہ دورے میں شامل نہیں ہے.گاؤں والے پہنچ جاتے تھے.کہتے تھے کہ جی ہم تو تیاری کر کے بیٹھے ہیں کیا کریں؟ اس میں محبت کا ایک ایسا جذبہ پایا جاتا ہے کہ دوسرے کو بے اختیار کر دیتا ہے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تو جی تیار بیٹھے ہیں تو پھر انسان کیسے کہہ دے اچھا تیار بیٹھے رہو ہم نہیں آسکتے.مجبوراً وقت نکالنا ہی پڑتا ہے کچھ وہاں سے پھر وقت کھینچا، کچھ کہیں سے کھینچ کر لمبا کیا.بہر حال وقت دینا پڑتا ہے تو اگر انسان میں ایسا جذبہ ہے احسان مندی کا ، تو خدا تعالیٰ نے تو ہمیں احسان سکھایا ہے.وہ ہمارے احسان کا بھی خالق ہے.کیسے ممکن ہے کہ آپ خدا کے لئے کچھ تیاری کریں اور خدا کی طرف سے کورا سا جواب مل جائے کہ میرے پاس تمہارے لئے وقت نہیں ہے کہ تم پوری طرح صاف نہیں ہوئے.پس صاف ہونے کی کوشش شروع کر دیں پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح آپ پر اپنی رحمت کا جلوہ دکھاتا ہے وہ جھکا کرتا ہے.آپ میں اٹھنے کی طاقت نہیں ہے اور حقیقت میں معراج بھی خدا کے جھکنے کا ہی نام ہے اور معراج کا جو عرش ہے وہ حقیقت میں انسان کے دل کا عرش ہے.پس آپ لقاء باری تعالیٰ کی تیاری اس طرح تفصیل سے اس مضمون کو سمجھنے کے بعد کچھ نہ کچھ ضرور شروع کر دیں اور آج کے بعد جب رمضان ختم ہو تو دیکھیں کہ آپ نے کتنا خدا کی ذات

Page 182

میں سفر کیا ہے.169 ( خطبات طاہر جلد 9 صفحہ 171-174) ذیلی تنظیمیں قرآن کی تعلیم دیں.وقف عارضی کریں اور اپنے دائرے میں کلاسز کا اہتمام کریں خطبہ جمعہ 11 مئی 1990ء) " دیکھیں قرآن کریم نے بڑے خوبصورت انداز میں سارے امکانات کو کھلا رکھا ہے.یہ نہیں فرمایا کہ مرکز میں پہنچیں وہ لوگ کیونکہ یہ ناممکن ہے.اسلام جو ساری دنیا میں پھیل رہا ہو کیسے ممکن ہے کہ ہر جگہ سے لوگ آکر ایک مرکز اسلام میں پہنچ کر وہاں سے دین سیکھیں.فرمایا : فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمُ طَابِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ - نَفَرَ کا مطلب دو طریق پر سمجھا جاسکتا ہے.ایک تو یہ کہ ان میں سے نظر کر الگ ہو جائیں.کچھ ایسے لوگ ہوں جو جہاں بھی ہیں یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم یہ امتیاز حاصل کریں گے کہ ہم نے دین میں تفقہ حاصل کرنا ہے.پس ظاہری طور پر وہ اپنے مقام کو نہ بھی چھوڑیں تو وہیں جہاں وہ موجود ہیں ان کے لئے تفقہ فی الدین کا انتظام ہونا ضروری ہے.دوسرا ہے نَفَرَ مِنْ كُلِ فِرْقَةٍ کا ظاہری نفر یعنی وفود بن کر با قاعدہ ان میں سے ایک طبقہ سفر اختیار کرے اور وہ سفر خالصۂ دین حاصل کرنے کی غرض سے اختیار کیا جائے تو پیشتر اس کے کہ یہ دین پہنچانے کے لئے لوٹیں ، دین حاصل کرنے کے لئے سفر اختیار کریں.ظاہر بات ہے یہ مسلمان ہیں ورنہ انہوں نے کہیں دین حاصل کرنے کے لئے کیوں پہنچنا ہے اور پھر ذکر ہی وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كافة مومنوں سے شروع کیا گیا ہے.پس اس پہلو سے اس نظام کو وقف عارضی کا نظام بنانا ضروری ہے.ورنہ وقف عارضی سے پوری طرح استفادہ نہیں کیا جاسکے گا اور جو پاکستان کے علاوہ ممالک ہیں.انگلستان ہے یا جرمنی ہے یا ناروے ہے.اس طرح افریقن ممالک ہیں، ہندوستان میں آج کل خدا کے فضل سے کثرت سے تبلیغ ہو رہی ہے اور جوق در جوق بعض جگہ لوگ اسلام یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہو رہے ہیں.ان سب جگہوں میں وقف عارضی کے نظام کو دوبارہ زندہ کرنا بے حد ضروری ہے اور جن ذیلی تنظیموں کے سپر د بھی میں نے یہ کام کیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم دیں وہ وقف عارضی کے نظام کے علاوہ اپنے دائرے میں مختصرا یسی کلاسز کا انتظام کر سکتے

Page 183

170 ہیں.ایسے تربیتی انتظامات جاری کر سکتے ہیں.جن کے نتیجے میں جن لوگوں کو انہوں نے قرآن کریم سکھانا ہے ان میں سے کچھ لوگ پہلے چن لئے جائیں اور ایک جگہ نہیں کہ ضرور لندن ہی بلایا جائے یا ضرور کسی بڑی مرکزی جماعت میں ہی بلایا جائے.جہاں جہاں ممکن ہے وہاں مختصر پیمانے پر تفقہ فی الدین سکھانے کا انتظام کر دینا چاہئے.اس کے لئے آج کل جو ماڈرن Devices ہیں، میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی ، کیسٹس ہیں، ویڈیوز ہیں، چھوٹا چھوٹا تر بیتی لٹریچر ہے اس کو بھی شائع کریں لیکن یہ یاد رکھیں کہ جو ذاتی تربیت فائدہ پہنچا سکتی ہے.وہ محض لٹریچر یا ویڈیوز وغیرہ کے ذریعہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا.یہ متبادل چیزیں ہیں.تیم کا رنگ رکھتی ہیں.قرآن کریم نے جو زور دیا ہے وہ اس بات پر ہے کہ ذاتی تربیت کی جائے اور ذاتی تربیت اسی طرح ممکن ہے کہ کچھ لوگ آئیں.آپ ان کو سکھائیں.ان کو سکھانے کے لئے ان آلات سے مدد بے شک لیں مگر مربی ہونا ضروری ہے کوئی تربیت دینے والا آپ کے لئے ضروری ہے کہ ان کو مہیا کیا جائے اور پھر اس کے تابع آپ ان کو سمجھا کر خواہ تھوڑ اسمجھائیں لیکن کچھ سمجھا کر واپس بھیجیں اور ان کو کہیں کہ یہ تم آگے جاری کر دو.پس قرآن کریم نے جو نظام جاری کیا ہے وہ اس وقف عارضی کے موجودہ نظام سے بھی کچھ مختلف ہے اور بعض اہم پہلوؤں سے مختلف ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اور قرآن کریم کی جو کلاسز کا ہمارے ہاں رواج ہے اس سے بھی مختلف ہے.قرآن کریم کے جو درس جاری کئے جاتے ہیں یا سالانہ کلاسز کا انتظام کیا جاتا ہے اس میں آپ طالب علموں کو بحیثیت طالب علم کچھ سکھانے کی کوشش کرتے ہیں.قرآن کریم کی اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے استاد بنانا ہے.طالب علم نہیں بنانا.اب ان دو باتوں میں بڑا فرق ہے.ایک بچے کو اس غرض سے پڑھایا جائے کہ وہ خود بات سمجھ لے اور اس کی ذات تک اس کو علم حاصل ہو جائے.یہ ایک اور بات ہے لیکن اس نیت سے پڑھایا جائے کہ وہ جا کر دوسروں کو پڑھا جاسکے.یہ ایک بالکل اور بات ہے.ہٹلر کی ایک تجویز اور اس پر تبصرہ چنانچہ میں نے کئی دفعہ ذکر کیا ہے ہٹلر کے ایک جرنیل کی تجویز کا کہ جب جرمنی میں یہ پابندی تھی کہ ایک لاکھ سے زیادہ جرمن فوج نہیں ہو سکتی یعنی جرمن قوم ایک لاکھ سے زیادہ فوج رکھ نہیں سکتی تو اس قابل جرنیل نے یہ تجویز ہٹلر کے سامنے پیش کی کہ بجائے اس کے کہ ہم ایک لاکھ سپاہی پیدا کریں.کیوں نہ ہم ایک لاکھ سپاہی بنانے والے افسر بنادیں تعداد کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا.ایک لاکھ ہی رہے گا لیکن بجائے اس کے کہ ہم شاگرد بنا ئیں.استاد پیدا کرتے ہیں.یہ ترکیب بڑی مشہور ہوئی اور دنیا میں بعد میں بھی بڑے بڑے اس پر تبصرے کئے گئے.چرچل نے اپنی مشہور کتاب میں بھی اس کے متعلق لکھا ہے کہ یہ اس کے دماغ کی ایک حیرت انگیز Brain Wave تھی جس نے ساری جرمن قوم کی کایا پلٹ دی اور ہماری

Page 184

171 آنکھوں کے نیچے حیرت انگیز طور پر اس قوم میں یہ صلاحیت پیدا ہوگئی کہ وہ آخری شکل میں لکھوکھہا بلکہ قریباً ایک کروڑ تک سپاہی پیدا کر سکے ہیں.تو یہ ترکیب جو اس کے دماغ کی Wave بتائی جاتی ہے آج سے چودہ سو سال پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود سکھائی تھی.اور اسی آیت میں اس کا بیان ہے.فرمایا: دیکھو ایسے طالب علم نہ تیار کرو جو علم کو اپنی ذات تک رکھیں اور خود علم حاصل کریں بلکہ ایسے اساتذہ تیار کرو جو تفقه فی الدین حاصل کرنے کے بعد بطور استاد اپنی قوموں کی طرف واپس لوٹ سکیں.اس پہلو سے افریقہ میں ہمیں بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.کئی ایسے ممالک ہیں جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے کثرت کے ساتھ احمدیت پھیلنی شروع ہو چکی ہے اور عیسائیوں میں سے بھی لوگ بڑی کثرت سے اسلام میں داخل ہورہے ہیں اور غیر احمدی مسلمانوں میں سے بھی ، وہاں کے امراء کے لئے ضروری ہے کہ ان میں تحریک کر کے صرف وہاں جا کر تربیت کے لئے اپنے مربیوں کو نہ بھجوائیں.جیسا کہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بھجوا رہے ہیں بلکہ ان میں سے واقفین عارضی لیں اور ان کو یہ کہیں کہ جہاں ہم تمہارے لئے جگہ مقرر کرتے ہیں وہاں آکر دین کو اتنا ضرور سیکھنا ہے کہ تم دوسروں کو سکھا سکو اور پھر اس نظام کو سارا سال جاری رکھیں تا کہ یہ ٹولیاں اولتی بدلتی رہیں آج ایک ٹولی ایک جگہ سے آئی ہے اور جاکے کام میں مصروف ہو گئی.کل ایک دوسری ٹولی آگئی، پرسوں ایک اور ٹولی آگئی ، گویا کہ اس طرح ایک جاری کلاس کا انتظام ہو.اس کے لئے ان کو چاہئے کہ پورا نظام مقرر کریں اس کا بجٹ بنائیں اور مجھے مطلع کریں کہ اس قسم کا نظام ہم نے جاری کیا ہے اور ضروری نہیں ہے کہ ایک جگہ ہو جیسا کہ میں نے قرآن کریم کی آیت سے آپ کو سمجھایا ہے.قرآن کریم نے کسی خاص جگہ کا ذکر نہیں فرمایا اور یہ انسانی سہولتوں اور مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے بیان فرمایا گیا ہے.اس لئے جہاں ممکن ہے.جہاں آپ کو اساتذہ مہیا ہو سکتے ہیں اور کم سے کم محنت سے زیادہ سے زیادہ بہترین انتظام جاری کیا جاسکتا ہے وہاں آپ یہ نظام جاری کریں.ذیلی تنظیمیں ایسا تعلیمی نظام جاری کریں جو سارا سال کام کرتا رہے خدام اور انصار اور لجنات قرآن کریم سکھانے اور نمازیں سکھانے کے اپنے پروگرام میں مضمون کو پیش نظر رکھیں اور وہ بھی ایک تربیتی اور تعلیمی نظام جاری کر دیں جو سارا سال کام کرتا رہے.اس طریق پر جب ہم کام کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ جس کثرت کے ساتھ دنیا میں اسلام پھیلے گا اسی رفتار کے ساتھ ساتھ اسلام کا روحانی نظام متحکم ہوتا چلا جائے گا اور جو شخص بھی اسلام میں داخل ہوگا وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کامل طور پر ایک ایسے نظام کا حصہ بن جائے گا جو اس کو سنبھالنے والا ہوگا اور نئے آنے والوں کو سنبھالنے والا ہوگا.ان کی ذہنی اور علمی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہوگا.ان کی اخلاقی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہوگا اور وہ ایک ٹھوس مستقل نظام کا جزو بن کر ایک عظیم قافلے کے طور پر شاہراہ اسلام پر آگے بڑھنے والے ہوں گے.یہ نہیں ہوگا

Page 185

172 کہ کچھ لوگ داخل ہوئے.رپورٹوں میں ذکر آ گیا.نعرہ ہائے تکبیر بلند ہو گئے اور پھر دوسال چار سال کے بعد نظر ڈال کے دیکھی تو پتا چلا کہ وہ سارے علاقے آہستہ آہستہ عدم تربیت کا شکار ہو کر واپس اپنے اپنے مقام پر چلے گئے ہیں.یہ وہ خطرات ہیں جن کے پیش نظر قرآن کریم نے حیرت انگیز طور پر ایسی خوبصورت نصیحت ہمارے سامنے رکھی ہے کہ مضمون کے ہر پہلو پر نظر ڈالتے ہوئے نہایت ہی عمدہ الفاظ میں کامل احتیاطوں کے ساتھ ایک ایسا مضمون ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے کہ جس کے اندر ہماری ساری تربیتی ضرورتیں پوری ہوتی دکھائی دیتی ہیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان نصیحتوں پر عمل کرے گی اور بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ استحکام کا پروگرام بھی جاری ہو جائے گا." خطبات طاہر جلد 9 صفحہ 262-266) دعوت الی اللہ جرمنی میں انصار کی کوششوں سے نتائج حوصلہ افزاء ہیں خطبہ جمعہ 15 جون 1990) اس دفعہ جرمنی کے سالانہ جلسے میں شرکت کی جو توفیق ملی تو جہاں جماعت کی ترقی سے متعلق بہت سی خوشکن باتیں دیکھنے میں آئیں وہاں سب سے بڑی خوشی کی بات یہ معلوم ہوئی کہ جن احمد یوں نے بھی مشرقی یورپ سے آکر مغربی جرمنی میں بسنے والوں سے رابطے کئے ہیں یا روسیوں سے رابطے کئے ہیں ان کے رابطوں کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت جلدی ان لوگوں میں اسلام میں دلچسپی پیدا ہوئی اور اگر چہ وہ سارے دوست تو جلسے پر آکر ملاقات نہیں کر سکے لیکن جتنوں نے بھی کی ان کو دیکھ کر دل خوشی اور اطمینان سے بھر گیا کہ بہت تیزی کے ساتھ ان میں احمدیت میں دلچسپی پیدا ہور ہی تھی اور جہاں تک جماعت احمدیہ کے دیگر فرقوں سے اختلافی عقائد کا تعلق ہے ان لوگوں کے لئے جماعت احمدیہ کوحق پر سمجھناز را بھی مشکل نہیں.اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اشتراکیت نے ایک لمبے عرصے سے ان کے دلوں کی پٹی صاف کی ہوئی ہے اور اگر چہ وہ خدا سے بھی دور چلے گئے مگر ساتھ ہی لغو اور کہانیوں والے عقائد سے بھی دور چلے گئے اور اب انہیں صرف وہی مذہب مطمئن کر سکتا ہے جو محض دل ہی کو مطمئن نہ کرے بلکہ دماغ کو مطمئن کرے اور جب تک ان کا دماغ مطمئن نہ ہو ان کا دل مطمئن نہیں ہو سکتا.اس لئے جب بھی ان کو سمجھانے کی خاطر کہ جو اسلام تمہیں پیش کیا جارہا ہے یہ تنہا تصور نہیں ہے اور بھی اسلام کے تصورات ہیں اور ہمارے مخالفین ہمیں اس اس وجہ سے یہ یہ سمجھتے ہیں اور جو اختلافی عقائد ہیں ان میں سے چند یہ ہیں.جب بھی یہ بات ان سے کی گئی بے ساختہ انہوں نے کہا کہ اس میں تو کسی دلیل کی کوئی ضرورت ہی نہیں.ہم بغیر تر ڈو کے آپ کی بات سنتے سنتے یہی سمجھ رہے تھے کہ

Page 186

173 یہی معقول اسلام ہے اس کے سوا اسلام کی کوئی صورت نہیں ہے.تو اتنے عظیم الشان تغیرات خدا تعالیٰ نے احمدیت کے ذریعے اسلام کے نفوذ کے پیدا فرمائے ہیں کہ اگر ہم اس پر عملاً خدا تعالیٰ کا شکر ادا نہ کریں تو بڑی سخت بدنصیبی ہوگی.جرمنی میں کچھ نوجوان اور کچھ انصار خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور بعض لجنہ اماءاللہ کی مبرات بھی اس بارہ میں دلچسپی لے رہے ہیں اور ان سب کی کوششوں کے نتائج جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بہت ہی امید افزا ہیں." خطبات طاہر جلد 9 صفحہ 327-328) جماعتی ادارے اور تنظیمیں جھوٹ کو ختم کرنے میں اپنی کوششیں تیز کر دیں (خطبہ جمعہ 7 ستمبر 1990ء) ایک لمبے عرصے سے میں جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ جھوٹ کے خلاف جہاد شروع کریں.دنیا کا کوئی ملک بھی جھوٹ کی عادت کے ساتھ نہ اپنا دفاع کر سکتا ہے نہ کسی پہلو سے بھی دُنیا میں ترقی کر سکتا ہے اور کوئی قوم دُنیا میں ترقی نہیں کر سکتی اگر اس کے اندر جھوٹ کی بیماری موجود ہو اور جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے مذہبی جماعتوں کے لئے تو جھوٹ ایک زہر قاتل کا حکم رکھتا ہے اور ایسی جماعتیں جو جھوٹ میں مبتلا ہوں اور مذہبی جماعتیں ہوں وہ خود بھی ڈوبتی ہیں اور دوسروں کو بھی لے ڈوبتی ہیں کیونکہ اُن پر انحصار کیا جاتا ہے.ان کو خدا تعالیٰ نے راہنمائی کے لئے پیدا کیا ہوتا ہے اس لئے اگر وہ خود جھوٹ کی بیماری میں مبتلا ہو جائیں تو راہنمائی کی تمام صلاحیتوں سے عاری ہو جاتی ہیں.تمام خوبیوں سے رفتہ رفتہ تعلق توڑنا شروع کر دیتی ہیں جو اُن کو نبوت کے نتیجے میں عطا ہوتی ہیں اور تمام بدیوں سے اُن کے روابط بڑھتے چلے جاتے ہیں.پس اس پہلو سے باوجود اس کے کہ اس سے پہلے بھی میں نے بار ہا خطبات میں جھوٹ کے خلاف جہاد کرنے کی تلقین کی تھی مگر اس کی اہمیت کے پیش نظر ایک یا دو یا چار خطبوں کی بات نہیں میں سمجھتا ہوں کہ بار بار جماعت کو اس طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے.جرمنی میں چونکہ پاکستان سے آنے والوں کی تعداد جماعتی لحاظ سے بہت زیادہ ہے اس لئے ایک بُرائی جو اُن کے آنے کے ساتھ جرمنی کے ملک میں سمگل ہوتی ہے وہ جھوٹ ہے.اس میں ہرگز کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ پاکستان کا معیار اپنے گرد و پیش کے معیار کی نسبت بہت بہتر ہے.ہر اخلاقی نقطۂ نگاہ سے، ہر اخلاقی پہلو کے لحاظ سے جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے امتیازی طور پر بہتر ہے لیکن اس کے باوجود یہ کہنا درست نہیں ہے اور یقیناً جھوٹ ہے کہ پاکستان میں بسنے

Page 187

174 والی جماعتوں میں سے جھوٹ کی عادت بالکل متروک ہو چکی ہے اور ختم ہو چکی ہے.بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں علاقائی اثرات کے نتیجے میں جھوٹ عام ہے اور سوائے اُن متقیوں کے جن کی جماعت تھوڑی ہے جو بالا رادہ اپنے آپ کو جھوٹ کی نجاست سے پاک رکھتے ہیں، احمدیوں کے اندر ایک طبقہ ایسا ہے جس میں جھوٹ کی وہ شدت نہ سہی مگر جھوٹ کی ملونی ان کی باتوں میں ضرور پائی جاتی ہے اور سب سے بڑی خطرناک بات یہ ہے کہ روز مرہ کی زندگی میں خواہ وہ جھوٹ نہ بھی بولتے ہوں جب ضرورت پیش آتی ہے تو اس سے پر ہیز نہیں کرتے.اب یہ دو الگ الگ باتیں ہیں لیکن ایک دوسرے کے ساتھ گہرا ربط رکھتی ہیں.وہ سوسائٹی جس میں جھوٹ کی شرم اُٹھ جائے وہاں جھوٹ اس طرح بولا جاتا ہے جیسے زندگی کے سانس لئے جاتے ہیں اور کوئی حیاء نہیں ہوتی اور کوئی روک حائل نہیں ہوتی.ایسے لوگ گھر میں بھی بے تکلف جھوٹ بولتے ہیں، عدالتوں میں بھی جھوٹ بولتے ہیں، دفتروں میں اگر کام نکلوانے ہوں وہاں بھی جھوٹ بولتے ہیں گویا جھوٹ اُن کی فطرت ثانیہ بن چکی ہوتی ہے.ثُلَّةٌ مِنَ الْآخِرِينَ کی وضاحت اس پہلو سے خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کی اکثریت کا ایسا ابتر حال نہیں ہے لیکن جب ضرورتیں پیش آتی ہیں اُس وقت وہ جھوٹ بول دیتے ہیں اور ایسے متقی جو خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ ہر حال میں جھوٹ سے پر ہیز کرتے ہیں اُن کی تعداد تھوڑی ہے.ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ تو ہوتے ہیں لیکن ثُلَّةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ نہیں ہیں (الواقعہ : 40-41) قرآن کریم کے بیان فرمودہ اس حصے کو پیش نظر رکھنا چاہئے.وہ لوگ جو نیکیوں میں بہت سبقت لے گئے اُن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے اولین میں یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تربیت یافتہ لوگوں میں وہ ایک بڑی جماعت تھے اور آخرین میں بھی ایسے لوگ ہوں گے لیکن وہ بڑی جماعت کے طور پر نہیں ہوں گے.نسبت تعداد کے لحاظ سے اُن کی تعداد کے لوگ تھوڑے ہوں گے اور غالب اکثریت قرار نہیں دیا جاسکتا.پس یہ وہ پیشگوئی ہے جسے ہم اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پیشگوئی اس غرض سے تھی کہ تم اس پر اطمینان پا جاؤ.یہ پیشگوئی اس غرض سے تھی کہ ہمیں متوجہ کیا جائے کہ تم جس بلند مقام کے لئے پیدا کئے گئے ہوا بھی تک اُس بلند مقام کو پانہیں سکے اور تم اپنی حالت سے اس لئے غافل نہ رہ جانا کہ تمہیں قرآن کریم نے اولین سے ملانے کی خوشخبری دی ہے.تم اولین سے ملائے تو جاؤ گے لیکن "ثل " کے طور پر نہیں ، ایسی بڑی تعداد میں جیسا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مخلصین اور متقدمین کی جماعت موجود تھی اتنی بڑی تعداد میں تم نسبت کے لحاظ سے نیک رہو

Page 188

175 گے.ہاں درمیانے درجے کے نیک لوگوں میں تم بہت بڑی تعداد میں پائے جاؤ گے.پس یہ پیشگوئی یہ بتانے کے لئے تھی کہ ہم دن بدن اور زیادہ نگران ہوں اور زیادہ توجہ اور کوشش کریں.اپنی درمیانے درجے کی اکثریت کو اول درجے کی اکثریت میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور اس ضمن میں سب سے اہم بات سچائی کا قیام ہے اور جھوٹ سے پر ہیز ہے.اسائیلم میں جھوٹ کا سہارا نہ لیں جھوٹ کے متعلق میں نے کہا کہ بسا اوقات بہت سے احمدی جب ان کو ضرورت پیش آتی ہے تو جھوٹ بول جاتے ہیں.ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو یہاں موجود ہیں.جب انہوں نے جرمنی آنے کے لئے بارڈر کر اس کئے ، جب عدالتوں میں پیش ہوئے ، جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیسے آئے تھے؟ کس طرح داخل ہوئے تھے؟ پاسپورٹ دکھاؤ تو ہر قدم پر ان میں سے بہت سی تعداد ایسی ہے جنہوں نے ضرور جھوٹ بولے ہوں گے کیونکہ عمومی طور پر ملاقات کے دوران جب میں جائزے لیتا ہوں تو مجھے یہ معلوم کر کے سخت شرمندگی ہوتی ہے اور تکلیف پہنچتی ہے کہ اگر چہ میرے سامنے جھوٹ نہیں بولتے اور جھوٹ بول کر اپنے پہلے جھوٹ پر پردہ نہیں ڈالتے لیکن پہلے جھوٹ بولا ہوا ہوتا ہے.اب یہ ایک مثال ہے جس سے آپ کو جھٹ معلوم ہو جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ میں جھوٹ بولا تو جاتا ہے لیکن دوسروں سے بہر حال بہتر ہیں.بعض جگہیں مقرر کی ہوئی ہیں کہ وہاں جھوٹ نہیں بولنا اور یہ بھی ہمارے ملک میں رائج ایک ایسا لغو محاورہ ہے کہ جب آپ کسی سے پوچھیں کہ سچ بول رہے ہو تو کہتے ہیں جی! ” تو اڈے سامنے جھوٹ نہیں بولتا.بھئی جھوٹ تو خدا کے سامنے بولا جاتا ہے یا نہیں بولا جاتا.بندوں کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے.اگر جھوٹ بولو گے تو جہاں بھی بولو گے خدا کے سامنے بولو گے نہیں بولو گے تو جہاں نہیں بولو گے خدا کی خاطر نہیں بولو گے مگر چونکہ یہ رواج ہے اس لئے کچھ تھوڑی بہت حیاء اور شرم تو بہر حال موجود ہے.بعض لوگوں کے سامنے آ کر پھر وہ کہتے ہیں ہم آپ کے سامنے سچی بات کر دیتے ہیں اور بعض دفعہ وہاں بھی کچی بات نہیں کر رہے ہوتے.صرف محاورةُ کہتے ہیں اور کیونکہ ہمارے ملک میں اکثر یہ رواج ہے کیونکہ مجھے اس لئے علم ہے کہ اکثر لوگ وہاں اپنے جھوٹ کو پکا کرنے کے لئے اور بیچ بنا کر دکھانے کے لئے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ جی! آپ کے سامنے ہم جھوٹ نہیں بول سکتے اس لئے یقین کریں کہ جو جھوٹ بول رہے ہیں وہ سچ ہے.جماعتی ادارے اور تنظیمیں جھوٹ کو ختم کرنے کے لئے اپنی کوششوں کو تیز کریں جھوٹ اتنی گہرائی کے ساتھ ہمارے معاشرے میں رائج ہو چکا ہے، راسخ ہو چکا ہے، گہری جڑیں پکڑ چکا ہے کہ ایک دو دفعہ ہلانے سے جھوٹ کا یہ پودا اکھیڑا نہیں جائے گا بارہا مسلسل توجہ کی ضرورت ہے.

Page 189

176 جس طرح آپ اکثر زمیندار ہیں، آپ جانتے ہیں کہ جب کھیتوں میں غیر پودے داخل ہو جائیں اور گہری جڑیں پکڑ جائیں تو ایک یا دو مرتبہ کی کلائی ان کو اکھیڑنے کے لئے کافی نہیں ہوا کرتی.آپ ایک دفعہ محنت کرتے ہیں کلائی کرتے ہیں پھر دوسری دفعہ کرتے ہیں پھر تیسری دفعہ کرتے ہیں اور بظاہر کھیت خالی ہو جاتا ہے لیکن جڑیں موجود ہوتی ہیں، اس لئے چوتھی دفعہ پھر ضرورت پیش آ جاتی ہے.بعض دفعہ چھ چھ مہینے، سال سال محنت کرنی پڑتی ہے اور اگر ماحول میں وہ جڑی بوٹیاں موجودر ہیں تو ایک زمیندار خواہ کتنا ہی مختی کیوں نہ ہو کتنی احتیاط کے ساتھ بھی اپنے کھیت کو ان غلط بوٹیوں سے پاک کرنے والا ہو پھر بھی بار بار ماحول سے اڑ کر اُس کے کھیتوں میں یہ غلط جڑی بوٹیاں جڑ پکڑتی رہتی ہیں.چنانچہ پاکستان کے احمدیوں کا بھی یہی حال ہے.سالہا سال سے جماعت احمدیہ کے مختلف ادارے، جماعت احمدیہ کی مختلف تنظیمیں کوشش کرتی ہیں اور کرتی چلی جارہی ہیں لیکن ماحول کیونکہ بہت گندا اور بیہودہ ہو چکا ہے اس لئے ہر طرف سے جھوٹ داخل ہوتا چلا جاتا ہے اور بہت بڑی محنت کی ضرورت ہے.ان ملکوں میں آنے والے احمدیوں کو وہاں کے مقابل پر ایک فائدہ اور ایک فوقیت حاصل ہے.یہاں اگر وہ دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ جھوٹ کے پودے کو تلف کرنے کی کوشش کریں گے تو چونکہ باہر کے معاشروں میں یعنی مغربی دنیا کے معاشرے میں جھوٹ کی عادت نہیں ہے، بہت اونچے مقامات پر بڑے مقاصد کے لئے یہ جھوٹ بولتے ہیں.روز مرہ کی شہری زندگی میں جھوٹ ایک شاذ و نادرسی چیز ہے.پکے ہوئے مجرم جھوٹ بول دیتے ہیں لیکن عام سوسائٹی جھوٹ نہیں بولتی.وہ واقف ہی نہیں کہ جھوٹ بھی بولا جاتا ہے.ایسے ماحول میں اگر ایک دفعہ آپ کی صفائی ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس بات کی بھاری توقع رکھی جاسکتی ہے کہ لمبے عرصہ تک آئندہ آنے والی نسلوں تک بھی آپ لوگ جھوٹ سے پاک رہیں گے اس لئے یہاں آ کر پناہ لینی ہے تو خدا کی پناہ لیں اور شیطان سے پناہ لیں.ہجرت کرنی ہے تو وہ ہجرت کریں جو اللہ اور رسول کی طرف ہجرت ہوا کرتی ہے اور اس ہجرت میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ جھوٹ کی سرزمین سے ہجرت کر کے سچائی کی زمین میں داخل ہو جا ئیں اور سچائی کی پناہ میں آجائیں.یہ کام بہت مشکل اور محنت طلب ہے اور اس میں یہ کہنا کہ فلاں جماعت کا عہد یدار ہے، فلاں اس حیثیت کا آدمی ہے، فلاں چندے دیتا ہے ، فلاں نمازیں پڑھتا ہے اس لئے جھوٹ نہیں بولتا ہوگا یہ بھی غلط ہے.کیونکہ بعض بُرائیاں بعض نیکیوں کے ساتھ بھی پنپتی رہتی ہیں اور اگر تو بہ نہ کی جائے تو رفتہ رفتہ نیکیوں کو کھا جاتی ہیں.اسی طرح بعض نیکیاں برائیوں کو رفتہ رفتہ زائل کرتی چلی جاتی ہیں اور یہ زندگی کی مستقل جد و جہد ہے.اس لئے یہ کہنا بھی درست نہیں کہ چونکہ فلاں شخص میں فلاں نیکی ہے اس لئے وہ جھوٹ سے پاک اور عاری ہے اور یہ کہنا بھی درست نہیں کہ چونکہ فلاں شخص جھوٹ بولتا ہے اس لئے وہ نمازیں بھی ٹھیک نہیں پڑھتا، اس کا خدمت کرنا بھی بے معنی اور لغو ہے، اس کا چندے دینا بھی بے معنی اور لغو ہے.یہ دونوں انتہا ئیں ہیں جو غلط

Page 190

177 ہیں.مومن کو تقویٰ کے ساتھ کام لینا چاہئے.حقائق کے ساتھ تعلق جوڑنا چاہئے.وہ لوگ جو یہ طعنے دیتے ہیں کہ جی ! فلاں شخص دیکھو.جی نمازیں بظاہر اتنے خشوع سے پڑھتا ہے، چندے دیتا ہے لیکن ضرورت پڑنے پر جھوٹ بول دیا.یہ بھی محض ایک گھٹیا طعنہ آمیزی ہے.ہر چیز کے اپنے اپنے کام ہیں اور اپنے اپنے مقامات ہیں اور زندگی کو اس طرح نہیں کیا جاسکتا کہ یا کلیۂ پاک ہو یا کلیہ ہد ہو.دونوں آمیزشیں ہیں بدی کی اور حسن کی اور پاکیزگی کی یہ ساتھ ساتھ چلتی ہیں.مومن کا کام ہے کہ جد وجہد کرتا چلا جائے.اپنی بدیوں کو کم کرتا چلا جائے اور اپنی نیکیوں کو بڑھاتا چلا جائے.اس حقیقت پسندی کے ساتھ ہمیں اپنی اصلاح کے لئے آگے قدم بڑھانے ہیں اور اصلاح کی اس جستجو میں سب سے پہلے سچ کی جستجو ضروری ہے.اگر برائیاں مٹانی ہیں اور رفتہ رفتہ ہر قسم کی بدیوں سے پاک ہونا ہے تو سب سے پہلا قدم جھوٹ سے پاک ہونے کا قدم ہے.جرمنی منتقل ہونے والوں کو نصیحت اس دفعہ جو لوگ باہر سے تشریف لائے ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کے متعلق مجھے علم ہے کہ جرمنی آگئے ہیں اور انگلستان میں اپنے پیچھے اس طرح جھوٹ کی ایک لکیر چھوڑ آئے ہیں جس طرح سانپ چلتا ہے تو اپنے پیچھے رستے پر ایک لکیر چھوڑ جاتا ہے.ان لوگوں کے نام ظاہر کرنا یہ تو ناجائز اور نامناسب ہے اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ کتنے ہیں؟ لیکن بعض کے جانے کے بعد اُن کے بعض جھوٹ میرے علم میں آئے اور مجھے اس کی تکلیف پہنچی.اس لئے میں نے اسی وقت یہ فیصلہ کر لیا کہ جرمنی کی جماعت میں جو خطبہ دوں گا اس میں سب سے زیادہ اہم نصیحت جھوٹ سے پر ہیز کی نصیحت ہوگی.جھوٹ سے متعلق قرآن کریم نے مختلف مواقع پر جو بڑی شدت کے ساتھ اس سے باز رہنے کی ہدایت فرمائی ہے اس میں سب سے زیادہ زور اس رنگ میں دیا گیا کہ جھوٹ کو شرک کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے.جھوٹ اور شرک کو آپس میں اس طرح جوڑ کر بیان کیا ہے گویا وہ ایک ہی چیز کے دونام بن جاتے ہیں.پس یا درکھیں کہ حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ کی نفسیات ایک شرک کی نفسیات کے مشابہ ہیں.دونوں کی بنیادیں ایک جیسی ہیں.آگے جا کر کچھ رستے بدل جاتے ہیں اور بظاہر اختلافات نظر آتے ہیں.وہاں مختلف شکلیں اختیار کر لیتے ہیں لیکن حقیقت میں جھوٹ اور شرک دراصل ایک ہی جڑ کے دو درخت ہیں اور خصوصیت کے ساتھ شرک خفی تو خالصہ جھوٹ پر پلتا ہے اور جھوٹ شرک پر پلتا ہے.اب آپ دیکھیں کہ آپ نظارہ میں ایک خرگوش کا تصور باندھیں جو گھاس کے ایک چھوٹے سے میدان میں اپنی جگہ سے باہر نکلتا ہے اور اس کے اردگرد جھاڑیاں ہوتی ہیں جب وہ کسی خطرے کو محسوس کرتا ہے، کسی گتے کی آواز سُنتا ہے یا شکاری پرندے کا سایہ پڑتا دیکھتا ہے تو ایک دو چھلانگیں لگا کر کسی جھاڑی میں چھپ جاتا ہے، اس کے چاروں طرف جھاڑیاں ہوتی ہیں اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ یہاں مجھے پناہ ملے گی اور جب تک پناہ کا یقین نہ ہو وہ اس کھلے میدان میں جرات

Page 191

178 کے ساتھ آکر گھاس چر نہیں سکتا.یہی حال جھوٹے کا ہے اور وہ جھاڑیاں جوار دگر دجھوٹ کی جھاڑیاں ہوتی ہیں وہ اُس کی پناہ گاہ بنتی ہیں اور گھاس کے میدان کی مثال اس کی بدیوں کی مثال ہے.ایک جھوٹا شخص جب بُرائیوں میں مبتلا ہوتا ہے تو اسے بھی خطرہ ہوتا ہے کہ وہ پکڑا نہ جائے کیونکہ سزا ہونی ہے لیکن ہر برائی کے وقت اُس کا سہارا جھوٹ ہوتا ہے اور اس کی نیت میں یہ سہارا داخل ہوتا ہے.اگر وہ برائی کے وقت اپنی نیت کا تجزیہ کرے اور یہ سوچے کہ اگر میں پکڑا جاؤں گا تو میں کیا کروں گا.اس وقت دراصل اس کی نیت کی حقیقت اس پر واضح ہو سکتی ہے.لازماً بھاری اکثریت اپنے نفس کو یہ جواب دے گی کہ میں یہ بہانہ بناؤں گا اور وہ بہانہ بناؤں گا.یہ جھوٹ بولوں گا یا وہ جھوٹ بولوں گا جو نسبتاً بیوقوف لوگ ہیں وہ بھی جھوٹ بولتے ہیں اور جو نسبتاً چالاک لوگ ہیں.وہ بھی جھوٹ بولتے ہیں اور دونوں جھوٹ کے سہارے لیتے ہیں.فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ بیوقوف کو سچا بہانہ بنانا نہیں آتا اور چالاک آدمی نسبتاً زیادہ بہتر بہانے بنالیتا ہے لیکن دن بدن جتنی بھی جھاڑیاں اُن کی پناہ گاہیں ہیں وہ سب جھوٹ ہیں.اگر ان کے سامنے یہ سوال در پیش ہو کہ اگر میں پکڑا جاؤں گا تو میں کیا کروں گا ؟ اور جواب یہ ہو کہ میں سچ بولوں گا تو پھر وہ اُس گھاس کے میدان میں چھلانگ لگا کر بے فکر ہو کر وہ گھاس چرنے کی جرات نہیں کر سکتا کیونکہ جھوٹ کی جھاڑیاں اُس سے دُور ہٹ جائیں گی اور اردگرد سے کوئی جھاڑی دکھائی نہیں دے گی اور وہ محسوس کرے گا کہ گویا میں ننگا ہو گیا ہوں اور اگر واقعہ کوئی مجرم اس سے سرزدہو اور وہ پکڑا جائے تو پہلے نیت نہ بھی ہو تو بہت بڑا ابتلاء انسان کو پیش آتا ہے اور اس وقت وہ کہتا ہے اچھا پھر اس دفعہ میں جھوٹ بول لیتا ہوں تو جس شخص کی پناہ جھوٹ ہے اس کی ذات میں خدا کیسے داخل ہو سکتا ہے.خدا تعالیٰ نے تو ہمیں یہ سکھایا کہ اَعُوذُ باللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِیم.میں شیطان رجیم سے اپنے رب کی پناہ مانگتا ہوں اور شیطان رجیم جھوٹ ہے.جھوٹ کی ایک مجسم شکل کا نام شیطان ہے تو ایک طرف تو خدا نے اُسے یہ سکھایا ہو کہ قدم قدم پر یہ دعائیں مانگو میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں.دوسری طرف ہر قدم پر وہ جانتا ہو کہ خدا کی پناہ اُس کے کام نہیں آئے گی.اس کا دل گواہی دیتا ہو کہ یہ فرضی پناہ ہے.اصل پناہ شیطان کی پناہ ہے.ہرطرف سے وہ جھولی کھول کر مجھے اپنی جھولی میں پناہ دینے کے لئے تیار بیٹھا ہے اور کہتا ہے اچھلو! جس طرح ماں بچے کو اٹھانے کے لئے اپنی جھولی پھیلا دیتی ہے اس طرح وہ شیطان کی جھولی کو دیکھتا ہے اور اس میں چھلانگ لگا کر پناہ لینے کی نیت سے جرم کا ارتکاب کرتا ہے.یہ ایک حقیقت ہے اور تیسری دنیا ہو یا کوئی اور دنیا جہاں بھی آپ جائیں گے وہاں آپ کو جھوٹ اور جرم کا یہی رشتہ دکھائی دے گا.اللہ والا بنے کے لئے ضروری ہے کہ جھوٹ کی ان جھاڑیوں کا قلع قمع کیا جائے اور ہر قدم پر یہ فیصلے کئے جائیں کہ اگر مجھ سے کوئی جرم سرزد ہو تو میں نے جھوٹ کی پناہ ہر گز نہیں لینی اور اس فیصلہ کے بعد مجرم کی سزا قبول

Page 192

179 کرنے کے لئے اپنے نفس کو آمادہ کر لینا ہے.ایسی صورت میں بسا اوقات اللہ تعالیٰ مغفرت فرماتا ہے اور ایسا شخص ابتلاء میں ڈالا ہی نہیں جاتا اور اگر ڈالا جاتا ہے تو چونکہ خدا کی خاطر اور توحید کی خاطر وہ ایک سزا کو خوشی سے قبول کرتا ہے.اس کے اندر غیر معمولی پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اس لئے جب تک کہ ارد گرد جھوٹ کی جھاڑیاں ہیں آپ کو علم ہی کوئی نہیں کہ خدا کی پناہ میں آنے کا مطلب کیا ہوتا ہے اور جب تک آپ خدا کی پناہ گاہیں ڈھونڈیں نہیں ، نہ آپ پناہ میں آسکتے ہیں نہ آپ دُنیا کو پناہ میں لا سکتے ہیں.یہ گہرا، مسلسل مضمون ہے.جھوٹوں کو خدا کی پناہ نہیں ملا کرتی اور جھوٹے دنیا کو پناہ نہیں دے سکتے اور خاص طور پر یہ کہ کر کہ ہم انہیں خدا کی پناہ کی طرف بلا رہے ہیں وہ کیسے پناہ دے سکتے ہیں؟ یہ ناممکن ہے.پس اس بات کو معمولی نہ سمجھیں.اس پر غور کریں خدا روز مرہ کی زندگی میں نہیں داخل ہوگا جب تک آپ جھوٹ سے چھٹکارا حاصل نہ کریں اور خدا تعالیٰ کی پناہ کے نشان آپ نہیں دیکھ سکتے جب تک آپ جھوٹ کی پناہ گاہوں سے منہ موڑ نہ لیں اور یہ نشان جھوٹ کی جگہ آپ کو پناہ دینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.یہ کوئی فرضی نشانات نہیں ہیں.یہ ایسے نشانات ہیں جو روز مرہ مومن کی اور سچے مومن کی زندگی میں اُس کے سامنے ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں اور اُس کی ساری زندگی خدا کے سہاروں پر چلتی ہے.خدا کے سہاروں پر ہی اُس کا زندگی کا سفر ہوتا ہے اور خدا کی پناہ گاہوں کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا.یہ وہ تجربہ ہے جو بچے کو نصیب ہوتا ہے اور اس تجربے کے بغیر مومن کی زندگی کا تصور بھی نہیں پیدا ہو سکتا اس لئے میں آپ کو پھر تا کید سے کہتا ہوں کہ جھوٹ سے استغفار کریں اور جھوٹ سے توبہ کریں ورنہ آپ کا خدا سے سچا تعلق قائم نہیں ہو گا.باقی سب با تیں فرضی ہیں.جھوٹ سے تو بہ کریں جھوٹ سے تو بہ کرنا ایک قدم کی تو بہ نہیں ہے، بہت سے قدم اُٹھانے پڑیں گے کیونکہ جب آپ جھوٹ سے تو بہ شروع کریں گے تو ایک جھاڑی کے بعد آپ کو دوسری جھاڑی دکھائی دینے لگے گی.ایک جڑ اکھیڑیں گے تو ایک اور جڑ دکھائی دینے لگے گی.پس آپ میں اکثر چونکہ زمین دار لوگ ہیں آپ اس بات کا ذاتی تجربہ رکھتے ہوں گے کہ کھیتوں کی صفائی کے وقت جب انسان پہلی صفائی کرتا ہے تو ظاہر ہونے والی نظر آنے والی جھاڑیوں کے بعد پھر اُن کے پیچھے چھپی ہوئی دوسری جھاڑیاں اور جڑی بوٹیاں بھی دکھائی دینے لگتی ہیں.ان کی صفائی کرتے ہیں تو پھر کچھ جڑیں سر نکال دیتی ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ ابھی اور کچھ صفائی ہونے والی ہے.صفائیوں کا سلسلہ تو ایک لمبا سلسلہ ہے.ایک چھلانگ میں یہ ساری منازل طے نہیں ہو سکتیں لیکن ایک چھلانگ تو لاز مالگانی ہوگی ، اس کے بغیر اگلی چھلانگ کی تو فیق نہیں مل سکتی اس لئے ہر وہ شخص جو اس رستہ پر

Page 193

180 قدم بڑھانا چاہتا ہے اُس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے لئے نمونے کی ایک بد عادت چن لے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرے.بہت سے اور بھی ایسے محرکات ہیں جو سوسائٹی میں جھوٹ کی مدد کرتے ہیں.جہاں تک عمومی معاشرے کا تعلق ہے اُن سے بھی ہمیں پر ہیز کی ضرورت ہے تا کہ ماحول بھی ایسا بنے جو بچوں کے لئے سازگار ہو جائے.گپیں مارنا بھی جھوٹ کو پیدا کرنے میں محمد بنتا ہے ان بد خصلتوں اور بدعادات میں سے ہمارے ملک میں ایک عادت بیٹھ کر گپیں مارنا ہے اور یہ وہ عادت ہے جو آگے پھر جھوٹ کو پیدا کرنے میں بہت مد بنتی ہے.دوست بیٹھتے ہیں اور پتہ نہیں کہاں سے اُن کو اتنا وقت مل جاتا ہے کہ مجلسیں لگا کر کہیں مارتے ہیں اور جس کو وہ گپ کہتے ہیں اُس کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ جھوٹ نہیں ہے اور چونکہ مشغلے کی باتیں ہوتی ہیں بعض ایسی زمینیں ہوتی ہیں جن کو No Man's Land کہا جاسکتا ہے.وہ دراصل نہ جھوٹ کی زمین ہوتی ہے نہ بیچ کی زمین ہوتی ہے.جتنے لطائف ہیں یا جتنی نا جاتا ہے.ا ا ا ا ا ل ل ا ل ولم کہانیاں ہیں، مجالس کی گپ شپ ہے یہ اسی سے تعلق رکھنے والی چیز میں ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا ذکر مشتبہات کے طور پر فرمایا.آپ نے فرمایا کہ دیکھو! بادشاہوں کی رکھیں ہوا کرتی ہیں جن کی وہ حفاظت کرتا ہے اور اگر اُن رکھوں میں کوئی غیر چلا جائے تو اس کی سزا پاتا ہے.جو خدا تعالیٰ کی حدود ہیں وہ ان رکھوں کا مقام رکھتی ہیں جن سے تجاوز کرنا خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے کا موجب بنتا ہے.فرمایا: الحَلَالُ بَين وَالْحَرَام بین کہ یہ جو خدا کی رھیں ہیں یہ ہمارے لئے حرام ہیں، جو بڑی بڑی کھلی اور واضح رکھیں ہیں ان کی سرحدیں پتا لگ جاتی ہیں کہ کہاں سے شروع ہوتی ہیں.اَلحَلَالُ بَین اور اسی طرح وہ باتیں جن کی خدا نے کھلم کھلا اجازت دے رکھی ہے خاص طور پر ہمیں معلوم ہیں اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے.ان دو کے درمیان کئی ایسی زمینیں ہیں جنہیں مشتبہات کہا جاتا ہے.یعنی جسے آج کل کی فوجی اصطلاح میں No Man's Land کہہ سکتے ہیں یا دو ملکوں کے بارڈرز کے درمیان جو چھوٹا سا علاقہ ، چھوٹی سی سڑک ہوتی ہے جس پر نہ ایک قبضہ کرتا ہے نہ دوسرا قبضہ کرتا ہے.آپس میں سمجھوتے کے نتیجے میں ، وہ بھی No Man's Land ہے.فرمایا: بعض چر وا ہے اپنی بھیڑوں کو No Man's Land میں چراتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی خطرہ نہیں لیکن بھیڑوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر طرف منہ مارتی ہیں اس لئے ہرگز بعید نہیں کہ وہ بھیڑیں بادشاہ کی رکھ میں بھی داخل ہو جائیں اس لئے اپنے اعمال کی نگرانی رکھو.جہاں تم سمجھتے ہو کہ کوئی خطرہ کی بات نہیں واضح طور پر حرام بات نہیں ہے اس لئے کرنے میں حرج نہیں وہاں خطرہ ضرور پیش آتا ہے کیونکہ انسانی فطرت بھیڑوں کی طرح ہر جگہ منہ مارنے کی عادی ہوتی ہے اور جس طرح بھیٹروں کو عقل نہیں ہوتی کہ کہاں منہ مارنا ہے اسی طرح انسان جرموں کے ارتکاب میں بھیڑوں کا سا مرتبہ رکھتا ہے اور

Page 194

181 رفتہ رفتہ عام گھاس کے میدان سے ہٹ کر ہری بھری وہ گھاس نظر آئے جو بادشاہ کی رکھ میں خاص طور پر پائی جاتی ہے تو دل میں حرص پیدا ہو جاتی ہے، لالچ پیدا ہو جاتی ہے اور پھر وہاں منہ مارنے سے انسان اپنے آپ کو روک نہیں سکتا ، اسی طرح گپوں کا حال ہے.یہ کہیں بھی در حقیقت No Man's Land ہیں جو پھر بالآخر جھوٹ میں داخل ہو جاتی ہیں اور گپ کی وجہ سے جھوٹ کی شرم اُٹھتی چلی جاتی ہے اس لئے گپ شپ کی مجالس میں بھی اگر آپ احتیاط نہیں کریں گے اور بار بار اپنے آپ کو غلط بیانی سے اور مبالغہ آمیزی سے روکیں گے نہیں تو لازم ہے کہ آپ چلتے چلتے پھر جھوٹ میں بھی داخل ہو جائیں گے اور اس طرح ایسی ابتدائی صورت میں جھوٹ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے.غیر ذمہ داری کی بات کرنا بھی جھوٹ کی طرف لے جاتا ہے ایک دوسری عادت جو ہمارے ملکوں میں ہے وہ غیر ذمہ داری کی بات کرنا ہے.اُس کے نتیجہ میں بھی انسان بالآ خر جھوٹ بولنے کا عادی ہو جاتا ہے یا بعض دفعہ شرم محسوس کر کے مجبوراً اپنے آپ کو ایک قابل شرم بات سے بچانے کے لئے جھوٹ کی پناہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے اور ایک جھوٹ سے پھر دوسرا جھوٹ، دوسرے جھوٹ سے تیسرا جھوٹ شروع ہو جاتا ہے.غیر ذمہ داری کی مثال یہ ہے کہ آپ نے کسی سے پوچھا فلاں بات ہو گئی ہے؟ تو اُس نے جھوٹ نہیں بولا اندازہ لگایا کہ ہوگئی ہے اور کہہ دیا کہ جی! ہوگئی ہے.آپ جب جستجو کرتے ہیں تو وہ بات نہیں ہوئی ہوتی تو یہاں وہ پھنس جاتا ہے.پھر یہ بتانے کے لئے کہ اُس نے بیچ بولا تھا، بجائے سچ بولنے کے اور یہ کہنے کے کہ مجھ سے غلطی ہوئی تھی ہیں نے اندازہ لگایا تھا.وہ یہ کہتا ہے کہ فلاں شخص نے مجھ سے یہ بات کی تھی اور اس کا یہ مطلب نکلتا تھا.چنانچہ میں نے بیچ بولا ہے، فلاں شخص نے جھوٹ بولا تھا اور اس طرح ایک سے دوسری ، دوسری سے تیسری بات نکلتی چلی جاتی ہے.مجھے بار ہا تجربہ ہوا ہے کہ ایسے لوگ جو غیر ذمہ دارانہ باتیں کرتے ہیں وہ بالآ خر جھوٹ بولنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.بات کو ذمہ داری سے کرنا چاہئے.جتنی بات معلوم ہے اتنی کرنی چاہئے جو معلوم نہیں اس کے متعلق اقرار کرنا چاہئے کہ مجھے معلوم نہیں ہے.یہ تو عمومی معاشرے کی باتیں ہیں جن میں انسان کو احتیاط کرنی چاہئے.پھر لطیفہ گوئی کی خاطر جیسا کہ گپ شپ کی مجالس میں ہوتا ہے چونکہ لطیفہ فرضی بات ہے، ہنسانے کی خاطر کی جاتی ہے اس لئے بعض بچے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ واقعات کی دُنیا میں بھی ہنسانے کے لئے اگر جھوٹ بولا جائے تو وہ لطیفہ ہوگا اور اس بد احتیاطی کی وجہ سے بھی ہمارا بہت سے خاندانوں میں جھوٹ کی عادت پڑ جاتی ہے.ایک نیچے نے آ کے گپ مار دی اور لوگوں میں پہیجان پیدا کر دیا.کچھ دیر کے بعد کہا کہ نہیں نہیں.اصل بات تو یوں تھی اور وہاں لطف اٹھایا اور سارے لوگ ہنس پڑے کہ اس نے خوب شرارت کی تھی.اس کا نام شرارت رکھ دیتے ہیں.کسی شخص پر ہنسانے کے لئے اتنی گندی جھوٹی بات بیان کر دی جو اس غریب نے نہ کی ہو ، لوگ اس پر ہنس

Page 195

182 پڑتے ہیں اور دُہرے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں.ایک تکبر کے اور اپنے بھائی کو حقیر دیکھنے کے، دوسرے جھوٹ بولنے کے یا جھوٹ کی حمایت کرنے کے مرتکب بن جاتے ہیں.تو ہمارے معاشرے میں یہ چھوٹے چھوٹے سے ایسے رجحانات ہیں جو جھوٹ کے مددگار ہوتے ہیں اور جھوٹ کو پالنے میں ان کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے.پس تمام سوسائٹی کی عادات پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے اور ایسا ماحول پیدا کرنا چاہئے جس سے جھوٹ نہ پینے.اس کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص نگران ہو.آپ سب کسی نہ کسی مجلس میں بیٹھتے ہیں خواہ وہ گھر کی ہو یا باہر کی ہو.وہاں جب اس قسم کی باتیں ہوں جن کے متعلق جیسا کہ میں نے مثالیں دی ہیں، جن کے متعلق خطرہ ہے کہ وہ جھوٹ کی افزائش کریں گی تو آپ لوگوں کو سمجھانا چاہئے کہ جی ! یہ درست طریق نہیں ہے اور ایسا شخص جو جھوٹ کا سہارا لے کر مجلس میں ہر دلعزیز بنے کی کوشش کرتا ہے، زیادہ باتونی بنتا ہے، زیادہ ہنساتا ہے تو بجائے اس کے کہ اس کو ہیرو بنایا جائے اس کو Discourage کرنا چاہئے ، اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے.اگر ایسے شخص کی باتوں پر اہل مجلس ہنا بند کر دیں اور کہیں بڑی لغو بات کی ہے.بیوقوفوں والی بات ہے، جھوٹ بول کے تم ہمیں کیا خوش کرنا چاہتے ہو تو ایسے شخص کی ہی حوصلہ شکنی نہیں ہوگی بلکہ سوسائٹی سے جھوٹ کی حوصلہ شکنی ہوگی.بہر حال نگرانی کی ضرورت ہے اور ہر پہلو سے ہر جہت سے نگرانی کی ضرورت ہے.نظامِ جماعت کوسب سے پہلے تو مستعد ہو جانا چاہئے اور وہ لوگ جو جھوٹ بولتے ہیں اور پھر جماعت سے تصدیقیں چاہتے ہیں تا کہ ان کو دنیا کے فوائد پہنچیں، ان کو یہ کھول کر بتا دینا چاہئے کہ اگر ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ تم نے جھوٹ بولا ہے تو ہماری طرف سے تمہیں کسی قسم کا کوئی ٹریفکیٹ نہیں دیا جائے گا، احمدی ہویا نہیں ہو.یہ الگ بحث ہے لیکن ہم جھوٹوں کے مددگار نہیں ہیں اور یہ اعلان کھول کر سب تک پہنچا دینا چاہئے.جب تک یہ وضاحت نہیں ہوئی اس وقت تک جو غلطیاں ہوئی ہیں ان سے اگر صرف نظر کر لیا جائے تو اس خیال سے کہ ایک گندی عادت میں لوگ مبتلا ہو گئے ہیں انہوں نے ٹھوکر کھالی.اُن کے لئے بھی تو بہ کا دروازہ کھلنا چاہئے.اس پہلو سے اگر نظر انداز کر دیا جائے تو ایسا مضائقہ نہیں ہے لیکن تو بہ کی طرف مائل کرنے کے بعد اس بات کا اقرار لے کر کہ آئندہ آپ کسی دینی، دنیاوی منفعت کی خاطر جھوٹ نہیں بولیں گے اور اگر بولیں گے تو پھر ہم سے کسی فیض کی توقع نہ رکھیں.اس صرف نظر کا یہ مقصد نہیں کہ انہوں نے جو جھوٹ بولا ہے جماعت اس کی تصدیق کرے.جماعت نے ہر گز کسی جھوٹ کی تصدیق نہیں کرنی، اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.مطلب یہ ہے کہ جماعتی پہلو سے اس کو سزا نہ دی جائے، اگر پہلے کوئی غلطی ہوگئی ہے اور آئندہ کے لئے کوئی انسان تو بہ کرتا ہے لیکن آئندہ کے لئے سختی سے ایسے لوگوں کا محاسبہ ہونا چاہئے.دوسرا دوستوں کی مجالس کا بھی نگران ہونا چاہئے اور یہ بات اپنے دوستوں میں عادتا کہنی چاہئے یعنی اسے مستقلاً اپنی روز مرہ کی گفتگو میں عادت کے طور پر داخل کر لینا چاہئے کہ جھوٹ کے خلاف باتیں کریں.جھوٹ کے بداثرات کے متعلق

Page 196

183 باتیں کریں.یہ بتائیں کہ کس طرح سوسائٹیاں تباہ ہوئی ہیں.کس طرح ہمارا ملک پاکستان یا ہندوستان یا دوسرے ممالک جھوٹ کی وجہ سے موت کے کنارے تک پہنچے ہوئے ہیں.تمام اخلاقی قدریں تباہ ہوگئی ہیں.کسی پہلو سے سوسائٹی میں امن نہیں رہا.اگر جھوٹ نہ ہو تو رشوت پنپ ہی نہیں سکتی.اگر جھوٹ نہ ہو تو جرائم کے ارتکاب پر کسی قسم کی چھوٹ مل ہی نہیں سکتی.جیسا کہ ہمارے ملک میں موجود ہے.جھوٹ نہ ہوتو لازماً انصاف ملتا ہے جھوٹ نہ ہو تو لاز ما انصاف حاصل ہوتا ہے.یہ جو نا انصافیاں اور ظلم جتنے بھی چل رہے ہیں غریبوں کی جائیدادوں پر قبضے، چوری، ڈاکے، تمام کی بنیا د جھوٹ پر ہے.پس مجالس میں کھول کر ایسی باتیں کرنی چاہئیں اور سمجھانا چاہئے کہ ہمیں ان عادتوں سے پر ہیز کرنا چاہئے.جھوٹ کے معاملے میں گھروں میں بھی جہاد ہونا چاہئے.وہ مائیں یا والدین جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پاک طبیعت رکھتے ہیں ان کو اپنے بچوں پر نظر رکھنی چاہئے اور اس معاملے میں پوری سختی کرنی چاہیئے یعنی سختی سے مراد یہ نہیں کہ ان کو بید مارے جائیں.مراد یہ ہے کہ اگر کوئی بچہ جھوٹ بولتا ہے تو اس سلسلے میں اپنی ناراضگی کا کھلا کھلا اظہار کرنا چاہئے تاکہ بچے کو محسوس ہو کہ اس کی اس حرکت سے والدین کو سخت تکلیف پہنچی ہے اور اس نے اُن سے حاصل ہونے والا پیار کھو دیا ہے.کئی طریق ہیں جن کے ذریعے بچے کو بڑی سختی کے ساتھ پیغام پہنچایا جا سکتا ہے.دوسرے یہ کہ اس ماحول میں پلنے والے بہت سے بچے ایسے ہوں گے جو اپنے والدین یا بہن بھائیوں سے زیادہ سچ بولنے والے ہوں گے کیونکہ میں نے یہ بھی جائزہ لے کر دیکھا ہے کہ انگلستان میں بھی اور یہاں بھی جو بچے شروع میں یہاں آگئے اور یہاں کے ماحول میں پلے بڑھے ہیں، ان میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سچ بولنے کا رجحان اپنی بڑی نسلوں سے زیادہ پایا جاتا ہے.اس لئے میں بچوں کو بھی نگران بنا تا ہوں کہ وہ اپنے والدین اور بڑوں بزرگوں کے نگران بنیں اور جب اُن سے کوئی ایسی بیہودہ حرکت سرزد ہوتی دیکھیں جس سے پتہ لگے کہ وہ جھوٹ کی طرف مائل ہیں یا کھلم کھلا جھوٹ بولتے ہیں تو بچوں کو ان کو سمجھانا چاہئے.یہ خیال دل سے نکال دیں کہ بچے اگر بڑوں کو سمجھا ئیں تو یہ بے ادبی ہوگی کیونکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ نہ صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بزرگوں کو سمجھایا اور دوٹوک باتیں کر کے سمجھایا بلکہ ہر نبی اپنے وقت کے بزرگوں کو سمجھاتا رہا.بچپن سے ہی وہ یہ اسلوب رکھتا ہے کہ وہ بڑوں کو بھی سمجھاتا ہے، چھوٹوں کو بھی سمجھاتا ہے.سمجھانے کے معاملے میں عمر کا تفاوت کوئی حیثیت نہیں رکھتا.پس بعض دفعہ تو بچے کا سمجھانا زیادہ طور پر اثر انداز ہوتا ہے اس لئے آپ کے ہاں ہماری جماعت میں جتنے بچے ہیں اُن کو بھی اس جہاد کا علم اپنے ہاتھوں میں تھام لینا چاہئے اور اپنے گھر میں اپنے بڑوں کو جب وہ جھوٹ بولتا دیکھیں تو اُن کو ٹوکیں، انکو کہیں کہ یہ بہت بُری بات ہے، اسلام کے خلاف ہے، قرآن کی تعلیم کے خلاف ہے، انبیاء کی سنت

Page 197

184 کے خلاف ہے، ایک قسم کی قومی خودکشی ہے، تم جھوٹ بول کر نہ خدا کے رہو گے نہ دنیا کے رہوگے.ایسی سادہ باتیں کہہ کر اگر بچہ بھی اپنے والدین یا بڑوں کو جھوٹ سے پاک رہنے کی ہدایت کرتا ہے تو اس کا بعض دفعہ بہت زیادہ گہرا اثر پڑتا ہے بلکہ بچے کی بات بعض دفعہ بڑے سے بھی زیادہ دل کو کاٹتی ہے اور شرمندہ کرتی ہے.ساری جماعت کو جھوٹ کے خلاف علم جہاد بلند کرنا چاہئے پس ساری کی ساری جماعت کو جھوٹ کے خلاف علم جہاد بلند کرنا چاہئے کیونکہ جماعت احمدیہ کی بقاء کے لئے سچ پر قائم ہونا ضروری ہے.دُنیا میں توحید کے قیام کے لئے سچ کا علم بلند کرنا ضروری ہے.ہمیں تو سچائی کے معاملے میں ساری دنیا کا راہنما بنا ہے.ایسے اعلیٰ اور پاک نمونے ان کے سامنے پیش کرنے ہیں کہ دنیا ہم سے سچ سیکھے اور سچ کی باریک راہیں اختیار کرنا سکھے.ہر مقام پر سچ ہماری پناہ گاہ بنے اور کبھی بھی ہم جھوٹ کی شیطانی پناہ گاہوں کی طرف نہ دوڑیں.یہ تو حید خالص ہے جو زندگی کا پیغام ہے.اگر آپ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو تو حید کے بغیر آپ دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے.دنیا کی کوئی قوم بھی دنیاوی مطالب کے لئے توحید کی حقیقت کو پائے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اور سچائی پر قائم ہوئے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتی.اس لئے یہاں کی وہ مغربی قو میں جو دنیا میں ترقی کر رہی ہیں یہ نسبتا ایک دائرے میں بچی ہیں اور سچائی ہی کی برکت ہے جس کو میں تو حید بھی کہتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک سچ اور توحید ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.اس لئے جو کچھ بھی انہوں نے پایا ہے یہ بھی تو حید ہی کی برکت سے پایا ہے.اگر اپنی زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی یہ تو حید کو اختیار کریں تو دنیا کے لحاظ سے بھی عظیم الشان ترقی اختیار کریں اور دین کے لحاظ سے بھی عظیم الشان ترقی اختیار کریں اس کام کے لئے خدا نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے اس لئے آپ پر دوہرا فرض ہے کہ آپ سچائی میں نہ صرف ان قوموں کے ہم پلہ ہوں بلکہ ان سے آگے نکلیں اور سچائی کی باریک راہیں بھی ان کو دکھائیں اور تقویٰ کے اعلی مقامات کی طرف بھی ان کو بلائیں.یہ بلند اخلاقی مراتب سچائی کے سوا ممکن نہیں ہیں اس لئے ہر جگہ ، ہر ماحول میں ، ہر مجلس میں جھوٹ کے خلاف جہاد کریں اور سچائی کا مقام نہ بھولیں اور یہ نسخہ آزما کے دیکھیں کہ جب سارے سہارے آپ خود بالا رادہ تو ڑ دیتے ہیں، اس لئے کہ یہ شیطانی سہارے ہیں تو اس وقت خدا ضرور آپ کا سہارا بنے گا اور جب خدا سہارا بنتا ہے تو وہ حیرت انگیز طور پر ظاہر ہوتا ہے اور انسان کا دل حیرت انگیز طور پر خدا کے وجود کے یقین سے بھر جاتا ہے.یہ کوئی موروثی یقین نہیں ہوتا بلکہ خود کمایا ہوا یقین ہوتا ہے.جرمن میں سچ بولنے والے نو جوان بھی موجود ہیں جرمنی سے ہی بعض جوانوں نے مجھے کئی دفعہ ایسے خط لکھے ہیں جن سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے فضل سے یہاں بھی سچ پر قائم لوگ ، خدا کے مجاہد بندے موجود ہیں جو ابتلاؤں کے وقت سچ بولتے ہیں، جو

Page 198

185 خطروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ بولتے ہیں.جب اُن کے سامنے دو فیصلے ہوتے ہیں کہ یا جھوٹ کی پناہ لینی ہے یا سچ بول کر سزا پانی ہے یا اس ملک سے واپس چلے جانا ہے.اس قسم کے بعض فیصلے جب ان کو در پیش ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے وہ سچ بولتے ہیں اور پھر وہ حیران ہو جاتے ہیں کہ جن خطرناک نتائج کو قبول کرنے کے ارادے سے انہوں نے بیچ بولا تھا وہ خطرناک نتائج اس طرح ٹل جاتے ہیں جیسے ان کا وجود ہی کوئی نہیں.خدا تعالیٰ غیب سے ان کی حفاظت فرماتا ہے.پس سچ بولنا ہے خواہ خدا لازماً حفاظت فرمائے یا نہ فرمائے ، اس کا نام تو حید ہے.یہ کوئی شرط یا سودا بازی نہیں ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بیچ کی پناہ گا ہیں یقینا کچی ہیں اور انسان بیچ کی پناہ لینے کے نتیجہ میں اکثر صورتوں میں امن میں آجاتا ہے اور جھوٹ کی پناہ گاہیں یقیناً جھوٹی ہیں اور اکثر جھوٹ کی پناہ عارضی ہوتی ہے اور سرسری ہوتی ہے اور فی الحقیقت جھوٹ آپ کو کسی خطرے سے بچا نہیں سکتا کیونکہ جھوٹ کی پناہ بھی جھوٹ ہوا کرتی ہے.پس اگر عقل سلیم اختیار کرنی ہے، گہرے طور پر حالات کا جائزہ لینا ہے تو اس کے سوا چارہ ہی کوئی نہیں.خدا کی خاطر کریں یا بالآ خر اپنی خاطر کریں، بچنا ہے تو سچ کی پناہ گاہوں میں بچ سکتے ہیں.اگر ہلاک ہونا ہے تو پھر جھوٹ کی پناہ گا ہیں آپ کے لئے کھلی پڑی ہیں.بے شک انہیں اختیار کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم پوری گہرائی کے ساتھ اور باریک نظر کے ساتھ سچائی پر قائم ہو جائیں اور بڑے سے بڑے ابتلاء میں بھی کسی جھوٹے خدا کی پناہ میں نہ آئیں اور یہ فیصلہ کریں کہ توحید کے سائے میں مرنا بہتر ہے بہ نسبت جھوٹ کے سائے کی بظاہر زندگی کے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)" خطبات طاہر جلد 9 صفحہ 516-530) انصار،خدام، لجنہ سے جو بھی ہجرت کر کے جرمنی آیا ہے اسے لازماً خدا کی طرف ہجرت کرنا ہوگی خطبہ جمعہ 14 ستمبر 1990ء) " آپ میں سے وہ خواہ نوجوان ہوں یا بوڑھے ہوں ، مرد ہوں یا عورتیں ہوں ، جو ہجرت کر کے یہاں تشریف لائے ہیں ان کو میں مختصراً یہ بات یاد کراتا ہوں کہ آنے سے پہلے اگر نیت کچھ اور تھی بھی.تب بھی اب اپنی نیتوں کو درست کر لیں اور دنیا سے دین کی طرف ہجرت کریں.یہ ہجرت زندگی کے ہر لمحے پر ہوسکتی

Page 199

186 ہے اور وہ ہرلمحہ زندگی کا ایک موڑ بن جاتا ہے جس میں انسان دنیا کی طرف سے رخ پھیر کر دین کی طرف رخ اختیار کر لیتا ہے.پس دعا کریں کہ آپ کو بھی زندگی کا کوئی ایسا ہی لمحہ نصیب ہو جو زندگی کا ایسا موڑ بن جائے جس میں آپ کا رخ دنیا سے ہٹ کر خدا کی طرف ہو جائے اور اگر یہ ہو جائے تو پھر آپ کی ہجرت دنیا وی لحاظ سے بھی کامیاب ہوگی اور دینی لحاظ سے بھی کامیاب ہوگی اور آپ کو زندگی کا مقصد حاصل ہو جائے گا.تو اس پہلو سے انصار کو بھی ، خدام کو بھی اور لجنات کو بھی اپنے ممبروں کو اور ممبرات کو یاد دلاتے رہنا چاہئے کہ ہمیں بالآخر لازماً خدا کی طرف ہجرت کرنا ہے اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر بھی بہر حال ہم خدا ہی کی طرف لوٹیں گے.....انصار اپنے ممبر کو اسفل السافلین معاشرے سے نکل کر خدا کی طرف رجوع کرنے کا سبق دے اَسْفَلَ سَفِلِينَ کا مطلب یہ ہے کہ بد سے بدتر اور بدتر سے بدترین ہوتا چلا جائے گا.یعنی وہ واپس حیوانی خصلتوں کی طرف لوٹ جائے گا.قرآن کریم کے اس بیان کی صداقت ہمیں ان انسانوں کی زندگی میں ملتی ہے جو لذت حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی گندگی پر منہ مارتے ہیں اور جب ان کو عام ان باتوں میں لذت نہیں ملتی جو خدا نے صحت مند لذتیں انسان کے لئے پیدا کی ہیں تو پھر وہ گندگی کو کھودتے کھودتے اور زیادہ غلاظت کی تہہ تک اترنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ جو Drug کے ذریعے ایک قسم کی روحانی لذت حاصل کرنے کا جنون ہے یہ دراصل اسی کوشش کا دوسرا نام ہے اور اس کے علاوہ جنسیات میں جس حد تک انسان اس وقت ارزل ہو چکا ہے اور اَسْفَلَ سَفِلِینَ کی طرف لوٹ چکا ہے اس کا سارا مغربی معاشرہ گواہ ہے لیکن ماضی کی طرف لوٹنا اور حیوانی صفات اختیار کر کے لذت حاصل کرنے کی کوشش کرنا انسان کے کسی کام نہیں آسکتا.وہ دن بدن پاگل ہوتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ لذتیں معنی کھو دیتی ہیں ان کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی.اس کو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ میں کیا کروں.اس پاگل پن میں پھر بہیمانہ تحریکات چلتی ہیں.کئی قسم کے جنون پیدا ہوتے ہیں کئی قسم کی Cults نکلتی ہیں.کہیں چھٹے بجا بجا کر اپنی روح کی تسکین کے سامان کی کوشش کی جاتی ہے کہیں بال بڑھا کر کہیں بال منڈھوا کر، کہیں ایک دوسرے پر ظلم کر کے، کہیں جتھے بنا کر جرم کرنے کے نتیجے میں لذت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.یہ سارے وہی نقوش ہیں جن کے متعلق قرآن کریم نے نشاندہی کی تھی کہ ان نقوش پر چلتے ہوئے تم الٹے پاؤں واپس اونی حالتوں کی طرف لوٹ جاؤ گے سوائے اس کے کہ تم ایمان لے آؤ اور اعلیٰ بہترین عمل اختیار کر واس صورت میں تمہارے لئے ترقی کا ایک لامتناہی سلسلہ کھلا ہوا ہے.پس خدام کو اور لجنات کو اور انصار کو یہ سبق اپنے ہر مبر کو پڑھانے چاہئیں کہ یہ جو مغرب کا معاشرہ

Page 200

187 جس میں آج احمدی دم لے رہے ہیں.یہ اَسْفَلَ سَفِلِینَ کا معاشرہ ہے.ہرطرف سے آپ کو آواز میں پڑیں گی کہ آؤ اور دنیا کی لذتوں میں ہمارا ساتھ دو اور ہمارے ساتھ مل کرواپسی کے وہ سفر اختیار کرو جن کے نتیجے میں ہم حیوانی اور بہیمانہ لذتیں حاصل کر رہے ہیں.دوسری طرف خدا تعالی کی آواز ہے کہ یہ تمہارے تنزل اور ذلتوں کے رستے ہیں پھر خدا کی طرف تمہارا رجوع نہیں ہو سکے گا سوائے اس کے کہ فرشتے ہانک کر تمہیں لے کے جائیں لیکن لذتوں کی طرف نہیں جنموں کی طرف تم ہانکے جاؤ گے اس لئے اس مقام سے واپس لوٹو آگے بڑھوا اور جن مقاصد کی خاطر تمہیں حیرت انگیز طور پر روحانی ترقی دی گئی ہے ، شعور دیا گیا ہے، غیر معمولی طور پر لطافتوں کے ادراک کی طاقتیں عطا کی گئی ہیں لطافتوں کو سمجھنے کی طاقتیں عطا کی گئی ہیں ان پر غور کرو، ان سے سبق سیکھو اور آگے بڑھو اور اپنے خدا کی طرف حرکت کرو اور خدا کی طرف سفر اختیار کرو.یہ سفر اس دنیا میں ہونا ضروری ہے ورنہ پھر اس دنیا میں جا کر یہ سفر اختیار نہیں کیا جاسکتا.یہ وہ بات ہے جو قرآن کریم بار بار آپ کو سمجھاتا ہے یہ بات ہے جو آپ کو خصوصیت سے اپنی نئی نسلوں کو سمجھانی چاہئے کیونکہ جب تک ایک مضبوط فلسفہ ان کی حفاظت نہیں کرے گا وہ دنیا کی ظاہری اور سرسری لذات میں کھوئے جائیں گے.کوئی تنظیم اپنے کسی ممبر کے ساتھ ہمیشہ جڑ کر نہیں رہ سکتی.زندگی کے بہت ہی ایسے مواقع ہیں جن میں انسان تنہا سفر کرتا ہے اور تنظیم کی نظر وہاں تک نہیں پہنچتی تنظیم کی پابندیاں اس کو کسی خاص حالت پر مقید نہیں رکھ سکتی ایسے وقتوں میں جو معاشرے کے غالب اثرات ہیں وہ یقیناً اس کو اپنی طرف کھینچنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں.سوائے اس کے کہ اس کا دل اور اس کا دماغ دونوں مطمئن ہوں کہ یہ معاشرہ گندہ اور ظالم ہے اس کے لئے نقصان دہ ہے اور پوری طرح مطمئن ہوں کہ جو راہ اس نے اختیار کی ہے اس کے پیچھے ایک گہرا فلسفہ ہے، ایک بہت بڑی حکمت ہے.یہ باتیں سمجھنے کے بعد پھر وہ ان کے خطرات سے باہر آ سکتا ہے بشرطیکہ دعا کا بھی عادی ہو، بشر طیکہ وہ قدم قدم پر خدا تعالیٰ سے مدد مانگنے والا ہو اور اسی پر توکل کرنے والا ہو.پس جہاں آپ جھوٹ سے توبہ کر کے خدا کی پناہ میں آئیں گے وہاں اس سفر میں جو یہ دوسرا سفر ہے خدا آپ کا یقیناً ساتھ دے گا اور غیر معمولی طاقت عطا کرے گا.ہر خطرے سے آپ کو بچائے گا اور اس رستے پر ڈال دے گا جوغیر ممنون ہے جو بھی ختم نہ ہونے والا ہے.ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور اس کی توفیق کے بغیر ہم اس دنیا کے حالات بدل نہیں سکتے جس دنیا میں اس وقت یہاں موجود ہیں.اس دنیا کو آج دلائل سے بڑھ کر خدا والوں کی ضرورت ہے.لوگ بارہا مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم تبلیغ کیسے کریں؟ ہم تبلیغ کرتے تو ہیں مگر اثر نہیں دکھاتی.تبلیغ و ہی اثر دکھاتی ہے جو خدا والے کی تبلیغ ہو.جوان تجارب سے گزرا ہوا ہو.جانتا ہو کہ ایک خدا ہے وہ جانتا ہو کہ وہ خدا اس کے ساتھ ہے.بار ہا اس کے پیار اور قرب کے جلوے دیکھ چکا ہو اس کی بات میں وزن ہوتا ہے اس کی بات میں قوت عطا کی

Page 201

188 جاتی ہے اس کی بات میں گہرا اثر رکھا جاتا ہے.پس یہ دو باتیں جو میں نے آپ کو بتائی ہیں ان پر آپ قائم ہو جائیں اور پھر تبلیغ کریں اور درد دل سے تبلیغ کریں.اچھے دوستوں کو تلاش کریں اور ان کے ساتھ تعلقات بڑھائیں کیونکہ تبلیغ کا ایک اور بھی بہت اہم گر ہے جسے آپ کو لازماً سیکھنا چاہئے کہ تبلیغ رستہ چلتے پیج کا چھٹا دینے کا نام نہیں ہے بلکہ بڑی گہری حکمت کے ساتھ ایسی کاشت کا نام تبلیغ ہے جس کی انسان پھر مسلسل حفاظت کرتا ہے جو اس کے اپنے دائرہ اختیار میں ہوتی ہے ورنہ بیج پھیلانا تو کوئی تبلیغ نہیں ہے.آپ دنیا میں زرخیز سے زرخیز علاقے میں بیج پھیلاتے چلے جائیں، پیچھے پیچھے پرندے اس بیچ کو چگتے چلے جائیں گے.جانور اس کو آ کر ضائع کرتے چلے جائیں گے کبھی پانی کا فقدان ہوگا کبھی کسی اور چیز کا نقصان ہوگا اور جو بیج آپ پھیلائیں گے وہ پیچھے سے ضائع ہوتا چلا جائے گا لیکن وہ بیج کام کا بیج ہوا کرتا ہے جسے ایک انسان اپنے کھیت میں اگا تا ہے جو اس کے قبضے میں ہوتا ہے.اس کی حفاظت کرنا جانتا ہے روز اسکی پرورش کرتا ہے اس کے ساتھ مانوس ہو جاتا ہے اس کو اپنے ساتھ مانوس کرتا ہے اور یہی وہ سچی تبلیغ ہے جو پھل دیتی ہے.“ خطبات طاہر جلد 9 صفحہ 536-543) تمام کام خدا کے فضل سے ہوں گے، اپنا اور اپنے ماتحتوں کے تقومی کے معیار کو بلند کریں مجلس انصاراللہ یو کے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر خطبہ جمعہ 21 ستمبر 1990ء) " آج جمعۃ المبارک کے دن مجلس انصار اللہ UK کا سالانہ اجتماع منعقد ہو رہا ہے اور اس میں شرکت کے لئے یورپ کی بعض دوسری مجالس کے نمائندگان بھی تشریف لائے ہوئے ہیں.اسی طرح آج ہی ماریشس کی جماعت کا سالانہ جلسہ منعقد ہورہا ہے اور امیر صاحب ماریشس کا مجھے پرسوں خط ملا ہے جس میں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ چونکہ آپ کا یہ خطبہ براہ راست ماریشس میں سنا جار ہا ہوگا اس لئے ہمارے اس جلسے کو ملحوظ رکھتے ہوئے چند کلمات ہماری جماعت کو مخاطب کر کے بھی کہیں اس سے جماعت کی حوصلہ افزائی ہوگی.جہاں تک جماعتی نظام کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے.اس پہلو سے کہ پاکستان کی جماعتوں سے باہر پہلے وہ نظام جو پاکستان میں یا اس سے پہلے ہندوستان میں رائج تھا وہ تمام دنیا میں اس طرح تفصیل سے رائج نہیں ہوا تھا بلکہ بالعموم دستور یہی تھا کہ جو مرکزی نمائندہ

Page 202

189 بطور مربی کسی ملک میں مقرر کیا جائے وہی امیر ہوا کرتا تھا اور دراصل اسی کی وساطت سے مرکز سے ساری جماعت کا رابطہ رہتا تھا یا بعض صورتوں میں عدم رابطہ کا بھی وہی ذمہ دار بنتا تھا.گزشتہ چند سالوں سے اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی کہ سارے نظام عام کو ہمہ گیر کیا جائے اور جماعت احمد یہ دنیا میں جہاں کہیں بھی پائی جائے ایک ہی نظام کی لڑیوں میں منسلک ہو.ایک ہی اسلوب پر چل رہی ہو اور ملک ملک کا فرق نہ رہے.اس کے ساتھ ہی کچھ عرصہ پہلے ایک یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ صدران مجالس کا تعلق براہ راست خلیفہ وقت سے ہو ނ صدران مجالس مرکز یہ یعنی خدام الاحمدیہ کے صدر اور انصار اللہ کے صدر اور لجنہ کی صدر، یہ تمام دنیا کے صدران نہ ہوں بلکہ ہر ملک کا صدر اپنے ملک کے لحاظ سے جواب دہ ہو اور وہی اس ملک میں آخری ذمہ دار ہو جس کا تعلق براہ راست خلیفہ وقت سے ہو اور اس طرح دنیا میں ہر صدارت کا نظام بھی پاکستان کے صدارت کے نظام سے متوازی جاری ہو جائے اور یہ نہ ہو کہ صدارتیں پاکستان کی صدارت کے تابع ، ان کی وساطت سے خلیفہ وقت سے رابطہ رکھیں.ان دونوں انتظامی تبدیلیوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل.غیر معمولی بیداری پیدا ہوئی اور نشو و نما کے لحاظ سے ایک ایسے دور میں داخل ہوئی ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی امید افزا ہے بہت تیزی کے ساتھ جماعت کے ہر حصے، ہر شعبے اور ہر طبقہ زندگی میں بیداری پیدا ہو رہی ہے.اس کے نتیجے میں ذمہ داریاں بھی بڑھ رہی ہیں اور بعض امراء پر اور بعض صدران پر اتنا بڑا بوجھ پڑا ہے کہ بعض دفعہ وہ پریشان ہو جاتے ہیں اور بعض دفعہ راہنمائی کے لئے مجھے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی کام اس تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور جماعتی معاملات میں دلچسپی لینے والوں کی تعداد اس تیزی سے بڑھ رہی ہے اور پھر نئے نئے پروگرام بھی ملتے چلے جارہے ہیں تو کس طرح ہم ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکیں گے.صرف ملکی سطح ہی پر نہیں بلکہ ملک کے اندر مقامی سطح پر بھی بعض احمدیوں پر جب ذمہ داری ڈالی جاتی ہے تو وہ اس ذمہ داری کے تقاضوں کے خیال سے لرزتے ہیں اور بڑے ہی انکسار اور لجاجت سے خط لکھتے ہیں کہ ہم کیسے اس اہم ذمہ داری کو ادا کر سکیں گے.تو جہاں بیداری عام ہوتی چلی جارہی ہے وہیں بیداری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذمہ داریاں بھی ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہیں.عہدیداران کو دوباتوں کی طرف توجہ اس پہلو سے میں نے سوچا کہ آج دو باتوں کی طرف تمام دنیا کے امراء کو بھی اور صدران کو بھی اور اسی طرح ان تمام عہدیدران کو متوجہ کروں جن دو باتوں پر نظام جماعت کا انحصار ہے اور اسی طرح باقی عہدیداران بھی اس نصیحت میں شامل ہیں.اگر وہ ان باتوں کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر کے ان سے

Page 203

190 منسلک ہو جائیں گے، زندگی بھر ان باتوں سے چھٹے رہیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ ان کے سارے مسائل آسانی سے حل ہوں گے اور جماعت احمدیہ کے نظام کو چلانے کے متعلق کسی قسم کی بلا وجہ کی فکر لاحق نہیں ہوگی.ایک فکر تو وہ ہوتی ہے جو ہر ذمہ دار آدمی کو ذمہ داری کے ساتھ ہی لاحق ہو جاتی ہے.اس کا تعلق تو اس کی زندگی سے ہے.موت تک یہ فکر اس کو دامنگیر رہتی ہے اور ایک فکر وہ ہوتی ہے جو بدانتظامی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.پس میں جس فکر کے دور ہونے کی خوشخبری دیتا ہوں وہ بد انتظامی کے دور ہونے کی فکر سے نجات کی خوشخبری دیتا ہوں.ذمہ داری کے فکر سے نجات کی خوشخبری نہیں وہ اگر میں دوں تو ایک بری خبر ہوگی.تو ہر عہد یدار اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ، ایک فکر میں تو مبتلا ہے اور زندگی بھر مبتلا رہے گا اس کا فکر میں مبتلا رہنا اس کی زندگی کی علامت ہے اور اس کے اس فکر کے بڑھنے کی دعا کرنی چاہئے کم ہونے کی نہیں.لیکن جہاں کام کے بوجھ بڑھنے کے نتیجے میں خلا رہ جاتے ہیں اور عہدیداران کی تربیت کی کمی کی وجہ سے پریشانیاں پیدا ہوتی ہیں وہ فکریں بہر حال دور ہونی چاہیں اور ان کے دور ہونے کے علاج بھی سوچتے رہنا چاہئے اور دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس قسم کی فکروں سے ہمارے تمام عہدیداران کو آزاد کرے.جب تک خدا کا فضل شامل حال نہ ہو ا نتظام چلانا مشکل ہے پہلی بات تو اس مثال کے ساتھ آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو غالباً پہلے بھی بیان کر چکا ہوں اور آپ میں سے کئی نے حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی کتاب میں پڑھی بھی ہوگی.ایک موقعہ پر ان کی والدہ سے ہندوستان کے وائسرائے نے یہ سوال کیا کہ مجھے بتائیں کہ کیا ایک چھوٹے سے گھر کا انتظام چلانا زیادہ مشکل ہے یا ایک ایسی عظیم سلطنت کا انتظام چلانا جس پر سورج نہ غروب ہوتا ہو.تو ان کی والدہ نے بڑے تحمل سے اور بڑی گہری فکر کیساتھ جواب دیا کہ اگر خدا کا فضل شامل حال نہ ہو تو چھوٹے چھوٹے گھر کا انتظام بھی چلایا نہیں جا سکتا چھوٹی سے چھوٹی ذمہ داری کو بھی ادا نہیں کیا جاسکتا اور اگر خدا کا فضل شامل حال ہو جائے تو بڑی سے بڑی سلطنت کا انتظام چلانا بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا ہر پہلو سے آسان ہو جاتا ہے خود بخود چلنے لگتا ہے.تقویٰ کی کتنی گہری بات ہے جو صرف متقیوں کو نصیب ہو سکتی ہے اور ایک عارف باللہ کا کلام ہے اس کے سوا کسی کے ذہن میں ایسا خوبصورت ، ایسا حسین، ایسا حقیقی جواب آہی نہیں سکتا.پس اس بات کو یاد رکھیں کہ جماعتی ذمہ داریاں بڑھنے کے نتیجے میں جہاں آپ کی ذمہ داریاں بڑھتی ہیں وہاں اللہ سے تعلق رکھنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی ذمہ داریاں بڑھتی ہیں اور وہ بندے جو خدا سے پیار کرتے ہیں اور خدا پر انحصار کرتے ہیں ان کے کام خدا خود آسان کر دیتا ہے اور ان کے کام از خودرواں ہو جاتے ہیں اس لئے سب سے بڑی نصیحت یہ ہے کہ کاموں کے بڑھنے کے نتیجے میں آپ خدا سے تعلق بڑھائیں اور اس پر انحصار کریں.اس کا برعکس بہت ہی خطرناک ہے جہاں آپ یہ خیال کریں کہ گویا آپ

Page 204

191 کے زور پر کام چل رہے ہیں وہاں نفسانیت کا ایک کیڑا داخل ہو جاتا ہے جو نیک اعمال کو کھانے لگتا ہے اور وہیں کاموں میں خرابی کی بنیاد میں پڑ جاتی ہیں، خرابی کا آغاز شروع ہو جاتا ہے.اس لئے وہ لوگ جو خدا ہی پر تو کل رکھتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ سارے کام خدا کے فضلوں سے چلیں گے وہ ہمیشہ دعاؤں میں مصروف رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے کام بہتر ہوتے چلے جاتے ہیں اور بہتر ہونے کے نتیجے میں ان کو تکبر کی ٹھوکر نہیں لگتی بلکہ انکسار بڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ پر توکل بڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے محبت بڑھتی ہے.اس کے لئے دل میں تشکر کے زیادہ جذبات پیدا ہوتے ہیں اور اس کے رد عمل کے نتیجے میں پھر خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوتا ہے کہ جو بھی میرا شکر گزار بندہ ہو گا اس کو میں مزید دوں گا.پس سب سے اہم نکتہ یہی ہے جس کو آپ یاد رکھیں، پلے باندھ لیں کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی بھلا ئیں نہیں کہ انتظام خواہ کتنے ہی بڑے اور وسیع تر ہوتے چلے جائیں خدا کے فضل سے چلیں گے اور جولوگ خدا سے تعلق رکھتے ہیں ان کے کام آسان ہو جایا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل سے وہ کام بنادیتا ہے اس لئے اپنا تعلق بڑھائیں اور پھر دعاؤں پر زور دیں اور یا درکھیں کہ جب بھی کوئی مشکل پیش آئے سب سے پہلا خیال دعا کا ہونا چاہئے اور سب سے پہلا سہارا خدا کا ڈھونڈنا چاہئے یہ عادت زندگی بھر آپ کے کام آئے گی اور ہمیشہ آپ کے سارے کام آسان کرتی چلی جائے گی.اللہ سے تقویٰ بڑھانا ہو تو تقویٰ کا معیار بھی بڑھانا چاہئے دوسرا پہلو تقویٰ کا ہے جس کا اسی سے تعلق ہے.اللہ سے تعلق بڑھانا ہو تو تقویٰ کا معیار بھی بڑھانا چاہئے اور اس پر میں بہت دفعہ گفتگو کر چکا ہوں لیکن یہ مضمون اتنا وسیع ہے بلکہ عملاً لا متناہی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح خدا کی ذات لامتناہی ہے اس طرح تقویٰ کا مضمون بھی لامتناہی ہے کیونکہ اس کا خدا کی ذات سے گہرا تعلق ہے.تقویٰ کا تمام تر انحصار اللہ تعالیٰ پر ہے اس لئے متقی کے بلند مراتب اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ تقویٰ کا مضمون بھی پھیلتا چلا جاتا ہے اور وسعت اختیار کرتا چلا جاتا ہے اور اس کی کوئی حد نہیں آتی.اس پہلو سے خواہ لاکھ خطبات بھی دیئے جائیں یہ مضمون اپنی ذات میں ختم ہونے والا مضمون نہیں.عہدیداران واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا کی دعا کرتے رہیں آج میں اسی پہلو سے امراء کو اور دیگر عہدیداران کو ، صدران مجالس ہوں یا دیگر عہدیداران ہوں، ان کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس دعا کو جس کی طرف میں پہلے بھی متوجہ کر چکا ہوں اس کو خصوصیت کے ساتھ اپنا لازمہ بنالیں.اس دعا کے ساتھ چمٹ جائیں اور اس دعا کو اپنے ساتھ چمٹا لیں اور وہ یہ ہے کہ واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا کہ اے خدا! ہمیں متقیوں کا امام بنا.یہ دعا کرتے ہوئے جب وہ اس پر

Page 205

192 غور کریں گے تو اس کے نتیجے میں نئے نئے مضامین ان کو سجھائی دیں گے اور وہ مضامین ان کے کام آسان کریں گے.خاص طور پر اس مضمون کو پیش نظر رکھیں کہ اگر کوئی امیر ہے یا صدر ہے یا جیسا کہ میں نے کہا ہے دوسرا عہد یدار ہے، اس کا کام تب اچھا ہو گا اگر وہ متقیوں کا امام بننے کی دعا بھی کرے گا اور کوشش بھی کرنے گا اور اپنے ماتحتوں کے تقویٰ کا معیار بڑھانے کی کوشش کرے گا.عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ منتظمین یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اگر حسن انتظام سے آراستہ ہوں یعنی ہم میں یہ صلاحیت ہو کہ ہم اچھا انتظام چلا سکیں تو یہی کافی ہے حالانکہ ہرگز یہ کافی نہیں ہے.حسن انتظام اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے لیکن وہ مہرے جن کو اس نے چلانا ہے وہ مادہ جس سے اس نے کام لینا ہے اس کی اپنی صفات ہیں، اپنی حصلتیں ہیں جن کے اچھے ہونے کے نتیجے میں حسن انتظام بہتر پھل لائے گا اور جن کے کمزور ہونے کے نتیجے میں حسن انتظام کو بھی اسی طرح کمزور اور ناقص پھل لگیں گے.ہماری جماعت کا کارکن وہ مادہ ہے جس کا معیار بڑھانا ضروری ہے اگر اس مادے کو تقویٰ نصیب ہو تو اس کے اندرنئی صفات ابھریں گی ، نئی خصوصیات پیدا ہوں گی اور ایک اچھا منظم ایسے مادے سے بہت بڑے بڑے کام لے سکتا ہے.اگر تقویٰ کا معیار گرا ہو تو یہ ایک بوسیدہ اور بریکار مادہ ہوگا جس کے نتیجے میں اچھے سے اچھا حسن انتظام بھی اس پر اچھا عمل نہیں دکھا سکتا اور اچھا نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا.جو بوسیدہ چیز ہے اس کو کہاں تک آپ سنبھال سکتے ہیں جو شکل بھی دیں گے وہ شکل عارضی ثابت ہوگی اور رخنوں والی ہوگی.اس لئے مٹیریل یعنی مادے کا اچھا ہونا بہت ہی ضروری ہے اور یہ دعا ہمیں یہ بات سکھاتی ہے کہ دینی انتظامات میں، دینی معاملات میں ہر امیر ، ہر صاحب عمل کو اپنے ماتحتوں کے تقویٰ کا معیار بڑھانے کی فکر کرنی چاہیئے ورنہ وہ دعا اثر نہیں دکھائے گی جس کے ساتھ اس دعا کی تائید میں نیک اعمال شامل نہ ہوں.یہ وہ عمل صالح ہے جو دعا کو رفعت عطا کرتا ہے.پس ہر دعا کیساتھ عمل صالح کا ایک مضمون بھی چسپاں ہے، اس کے ساتھ وابستہ ہے، اس کو لازم ہے اور اسی عمل صالح کو اختیار کرنا چاہئے جس کے لئے دعا کی جاری ہے.پس تمام امراء اور تمام عہدیداران کی بہت بڑی ذمہ داری ہے اور ان کی اپنی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ جہاں وہ اپنے لئے متقیوں کا امام ہونے کی دعا کریں وہاں اپنے ماتحتوں کا تقویٰ کا معیار بڑھانے کی کوشش کریں اور اس پہلو سے مجھے یہ خلا محسوس ہوتا ہے کہ جماعت کے ہمارے بہت سے منتظمین بھی اس کو براہ راست اپنی ذمہ داری نہیں سمجھتے.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دو الگ الگ باتیں ہیں.ہم ہیں انتظام کے سر براہ اور مربیان یا بعض بزرگ لوگ تقویٰ کے سربراہ ہیں اور گویا یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں حالانکہ جماعت احمدیہ میں جو ایک روحانی جماعت ہے حسن انتظام کو حسن تقویٰ سے الگ کیا ہی نہیں جاسکتا.ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.مومن کی زندگی کے وجود کا تقویٰ ایک دائمی حصہ ہے.اس لئے یہ باطل تصور دل سے بالکل نکال

Page 206

193 دیں کہ آپ منتظم ہیں اور تقویٰ کے نگران اور لوگ ہیں.آپ ہی منتظم ہیں اور آپ ہی تقویٰ کے نگران بھی ہیں اس لئے سب سے زیادہ آپ کی نظر اپنے ماتحت کارکنوں کے تقویٰ پر بھی ہونی چاہئے اور عام افراد جماعت کے تقوی پر بھی ہونی چاہئے اور ہمیشہ اس فکر میں غلطاں رہنا چاہئے کہ میرے دائرہ کار میں جو احمدی بستے ہیں خواہ کسی حیثیت سے بھی ہوں، کسی عمر سے تعلق رکھنے والے ہوں، ان کے تقویٰ کا کیا حال ہے ان پر نظر رکھنی ضروری ہے ان کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے ہمیشہ تجزیاتی نظر اختیار کرنی چاہئے.لیکن تجزیاتی نظر سے مراد تخریبی ،تنقیدی نظر نہیں یا منتقمانہ نظر نہیں اس معاملے میں جماعت کو بار بار نصیحت کی ضرورت ہے.بعض لوگ اپنی خشکی کو نیکی سمجھنے لگتے ہیں اور خشک مزاجی کی وجہ سے کیونکہ وہ بدی کرنے کے اہل ہی نہیں ہوتے ، کیونکہ مزاج ہی بڑا خشک ہوتا ہے اس میں رس ہی کوئی نہیں ہوتا ، اس سے کوئی نچوڑے گا کیا ؟ نہ نیکی نچڑتی ہے نہ بدی نچڑتی ہے اور وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم تقویٰ کے بڑے اعلیٰ معیار پر فائز ہیں اور ان کی علامت یہ ہے کہ ان کی تنقیدی نظر ہمیشہ لوگوں کو چھلنی کرتی رہتی ہے اور کبھی اندرونی نظر سے اپنے آپ کو نہیں دیکھتے اور یہ بھی نہیں دیکھتے کہ میری باتیں کس کو تکلیف پہنچاتی ہیں یا آرام پہنچا رہی ہیں.میں بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے باتیں کر رہا ہوں یا اپنا ایک دبا ہوا جذبہ انتقام پورا کر رہا ہوں اور یہ ظاہر کر رہا ہوں کہ میں بہتر ہوں تم لوگ گندے ہو.ایسے لوگ نیکوں پر بھی تنقید کرتے ہیں یہ بتانے کے لئے جی یہ فلاں بات میں تو نیک ہوگا.آپ کو لگتا ہوگا اندر سے پھولو تو یہ حال ہے اور گویا خدا نے ان کو داروغہ بنایا ہوا ہے.اندر سے پھولنے کا، یہ پھولنے کا لفظ پنجابی ہے لیکن ہے بہت بر حمل اطلاق پانے والا اس لئے میں نے عمداً اس کو استعمال کیا ہے.یعنی کرید کرید کر اندر سے تلاش کر کے قریب سے دیکھ کر معلوم کرنا کہ کون کون سے نقص اس پر دے کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں جو خدا کی ستاری کا پردہ ہے.پس یہ خدا کی ستاری کے پردے کو چاک کر کے اس سے پرے جھانک کر مومنوں کی برائیاں تلاش کرنے والے لوگ ہوتے ہیں.امیر کا منتظم کا ایسی آنکھ سے احتراز ضروری ہے اور ایسی سرشت سے اس کو تو بہ کرنی چاہئے اور اللہ تعالی کی پناہ میں آنا چاہئے.اس کی نظر بالکل اور طریق سے اپنی جماعت کو، اپنے ماتحتوں کو دیکھتی ہے.جیسے ماں اپنے بچے کو دیکھ رہی ہوتی ہے.اس کی نظر میں پیار ہوتا ہے، اس کی نظر میں فکر ہوتا ہے، اس کی نظر جب کسی برائی کو تلاش کرتی ہے تو اس کو گہر اغم لگادیتی ہے ، روگ لگا دیتی ہے اور وہ بے چین ہو جاتا ہے دوسرے کو بے چین نہیں کرتا خود بے چین ہوتا ہے اور اس بے چینی کے نتیجے میں اس کے دل سے جو دعائیں اٹھتی ہیں ان میں ایک عجیب شان پیدا ہو جاتی ہے جو مقبولیت کی شان ہے اور اس کی نصیحت میں اثر پیدا ہو جاتا ہے.پس اس پہلو سے خامیوں پر نظر رکھیں کیونکہ خامیوں کو دور کرنے کی ذمہ داری ہر عہدیدار کی ذمہ داری ہے جو اپنے دائرہ کار میں اثر دکھائے لیکن اس نظر سے جس نظر سے میں نے آپ کو تلقین کی ہے اس نظر سے خامیوں پر نگاہ

Page 207

194 رکھیں اور ان کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہیں اور یاد رکھیں کہ جتنا زیادہ آپ اپنے ماتحتوں کے تقویٰ کے معیار کو بلند کریں گے اتنے ہی عظیم الشان کامیاب منتظم ثابت ہوں گے اور اللہ کی نظر میں آپ کا اپنا مرتبہ بلند ہوگا.اس سلسلے میں ایک اور چیز بھی ہے جو قرآن کریم ہمیں تقویٰ کے معیار کو بڑھانے کے لئے بتاتا ہے.اس کو خصوصیت سے پیش نظر رکھنا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَكُمْ ط (الحجرات : 14) تم میں سب سے زیادہ معزز اللہ کے نزدیک وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو.یہ بات بالکل درست ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز شخص وہی شخص ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو.لیکن یہ بات بھی تو درست ہے کہ جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ متقی ہوگا وہ سب سے زیادہ اللہ کے رنگ ڈھنگ اختیار کرنے کی کوشش کرے گا.پس ہر متقی کا کام ہے کہ تقوی کو عزت دے.کیونکہ تقوی خدا کی نظر میں عزت پاتا ہے.یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جس کو اپنے روزمرہ کے معاملات میں اختیار کرنے کے نتیجے میں جماعت میں تقویٰ کی قدر و قیمت بڑھے گی اور اس سلسلے میں بھی بعض خطرات ہیں جن سے بیچ کر چلنا ضروری ہے.قادیان میں مجھے یاد ہے کہ ہم نے یہ باتیں ورثے میں پائی تھیں یعنی وہ نسلیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کے ساتھ مل کر بڑھی ہیں اور اس ماحول کو انہوں نے پایا ہے.ان کی اپنی کوئی خوبی نہیں تھی مگر صحابہ کی جو تربیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمائی تھی اس کے نتیجے میں یہ روز مرہ کی باتیں تھیں جن کا نصیحت سے تعلق نہیں تھا بلکہ ایک معاشرتی ورثہ تھا اور اس ورثے میں یہ بات شامل تھی کہ عزت کے لائق وہی ہے جو نیک ہے اور اس میں یہ کلاس کا جو فرق ہے یہ بالکل کلیۂ نظر انداز ہو جایا کرتا تھا یعنی مختلف طبقات جو دنیا کی نظر میں یعنی دنیا کے پیمانوں سے بنائے جاتے ہیں اور جن میں دنیاوی وجاہت ، عہدہ، مقام ، مرتبہ، دولت یہ سارے وہ محرکات ہیں جو کسی نہ کسی رنگ میں حصہ لیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں کلاسز کا وجود ابھرتا ہے اور طبقات بنتے ہیں.یہ بھی ایک طبعی روز مرہ جاری رہنے والا سوشل نظام ہے اور اس سے مومن بھی کلیہ بچ ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ ایک نظام ہے جو خود بخود تشکیل پاتا چلا جاتا ہے اور طبقات ابھرتے چلے جاتے ہیں لیکن جہاں تک عزتوں کا تعلق ہے وہاں عزتوں کے معاملے میں مومن ہمیشہ اللہ تعالی کے اس فرمان کو پیش نظر رکھتا ہے کہ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَنفُسِكُمْ (الحجرات : 14) طبقات بے شک ہوں.ہم نے تمہیں شعوب اور قبائل میں بھی تقسیم کیا ہوا ہے اس طرح انسان بھی طبقات میں بٹ جاتا ہے لیکن جہاں تک عزتوں کا تعلق ہے، تم ہمیشہ تقویٰ کو عزت دینا کیونکہ خدا تقولی کو عزت دیتا ہے.اس اصول کو ہم نے قادیان میں اس زمانے میں کارفرما دیکھا جس کا میں نے ذکر کیا ہے اور یہ میں بتانا چاہتا تھا کہ اس کا نصیحتوں سے تعلق نہیں تھا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اخلاقی تربیتی

Page 208

195 ورثہ تھا جو ان نسلوں نے پایا تھا.اس ورثے کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے.اب وہ دور آ گیا ہے جس دور میں اس ورثہ کو دوبارہ بڑھانا چاہئے کیونکہ تمام دنیا میں پھیلنے والی جماعتوں نے یہ ورثہ از خود اپنے آباؤ اجداد سے نہیں پایا.اس لئے میں نے لفظ سرمایہ کاری استعمال کیا.یہ جماعت احمدیہ کا بہت ہی قیمتی سرمایہ ہے اور تعداد کے مقابل پر یہ سرمایہ کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے اس لئے اس سرمائے کو بڑی حکمت کے ساتھ اور بڑی محنت کیساتھ دانش مندی سے بڑھانا چاہئے اور حرکت میں لانا چاہئے.پس امراء اور عہدیداران اگر یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ تقویٰ کو عزت ملنی چاہئے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سرمایہ دوبارہ نشو ونما پانے لگے گا اور جماعت پھر اس پہلو سے بہت ہی متمول ہوتی چلی جائے گی.یہاں تک کہ ہم اس دور کی تمام نسل کو اس پہلو سے اتنا متمول اور غنی کر دیں کہ آئندہ آنے والی نسل پھر شکر کے ساتھ ان کی طرف دیکھے جس طرح ہم نے بڑے ہی شکر کے ساتھ جھکی ہوئی نگاہوں سے اپنی پہلی نسلوں کو دیکھا تھا اور اس بات کو ہمیشہ دل میں جانشین کیا کہ ہم ان کی دولتوں کا سرمایہ حاصل کرنے والی نسل ہیں.ویسا ہی آج کی نسل خدا کرے کہ اس پہلو سے اتنی متمول ہو جائے کہ وہ آئندہ آنے والی تمام نسلوں کو جو ساری دنیا میں کہیں بھی ہوں ان کو یہ سرمایہ عطا کرنے والی نسل بنے اور یہ سرمایہ ان کے ہاتھوں میں چھوڑ کر جانے والی نسل بنے.اس پہلو سے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا بعض خطرات بھی ہوتے ہیں یا ریا کاری بھی بعض دفعہ شروع ہو جاتی ہیں اور تصنعات بھی آجاتے ہیں ، بعض اور بھی کئی قسم کے ایسے خطرات اُبھرتے ہیں جن کی نشاندہی ضروری ہے لیکن اس سے پہلے میں مختصراً آپ کو بتا تا ہوں کہ قادیان کا معاشرہ تھا کیا؟ سشمس الدین کی مثال ایک ایسا عجیب معاشرہ تھا جس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں.وہاں ایک غریب مزدور جو سارا دن محنت کر کے اپنا پیٹ پالتا تھا، بچے تھے تو ان کی نگرانی بھی اسی محنت سے کرتا تھا، وہ بعض دفعہ اپنی نیکی کی وجہ سے ایسی عزت کے مقام پاتا تھا کہ بڑے بڑے دنیاوی طبقات سے تعلق رکھنے والے جھک کر اس سے ملتے تھے ، اس کو محبت اور پیار اور اکرام کی نظر سے دیکھتے تھے.مصافحہ کرتے وقت عزت کے ساتھ مصافحہ کیا کرتے تھے اور دعا کی درخواست کرتے تھے.ایسے فقیر بھی وہاں تھے جن کی بے حد عزت کی جاتی تھی.مجھے یاد آیا ہماری مسجد مبارک کے نیچے سیڑھیاں اترتے ہی بائیں طرف ایک چبوترے کے اوپر شمس الدین مرحوم ایک درویش تھے جو مفلوج تھے اور ان کا گزارا بھیک پر تھا لیکن شاید کم ہی دنیا کے کسی بھکاری نے اتنی عزت پائی ہو جتنی بھائی شمس الدین کی عزت کی جاتی تھی کیونکہ یہ بھی ہمارے معاشرہ کا ورثہ تھا کہ چونکہ وہ نیک انسان تھے اور خدا سے تعلق رکھنے والے انسان تھے اور بھکاری اس رنگ کے نہیں تھے کہ بھیک کی خاطر بیٹھے ہوں.ایک مفلوج

Page 209

196 آدمی بیٹھا تھا جو آئے کبھی عزت اور محبت کے ساتھ کچھ دے جائے تو اس کو دعا دے کر قبول کرتے تھے اور اسی سے چندے بھی دیا کرتے تھے.ان کے اس مقام کا ایک احترام قائم تھا اور بچے بھی جب گزرتے تھے تو بھائی شمس الدین کہہ کے ، سلام کر کے ادب سے جھک کر وہاں سے گزرا کرتے تھے.وہاں بعض پاگلوں کی بھی عزت کی جاتی تھی کیونکہ وہ نیکی کی حالت میں پاگل ہوئے اور پاگل پن کی حالت میں بھی نیکی ساتھ چل رہی تھی اور ان کے ساتھ بھی بڑی محبت اور احترام کا سلوک کیا جاتا تھا.چنانچہ ایک ایسے ہی پاگل تھے جو مجھے یاد ہے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مردانے میں بڑے حق کے ساتھ داخل ہوا کرتے تھے ، ان کا جو مطالبہ ہو وہ وہاں پورا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی.مجلس میں بیٹھتے تھے اپنے رنگ کی باتیں کر کے چلے جایا کرتے تھے اور پاگل پن تو تھالیکن پاگل پن کے ساتھ کچھ نیکی کی حکمت بھی ہوتی تھی.وہ جو ہمارے معاشرے میں مجذوب کا تصور پیدا ہوا ہے وہ غالباً اسی وجہ سے ہوا ہے جو بیرونی معاشروں میں نہیں ملتا.مجذوب کے بعض دفعہ بہت ہی عارفانہ کلمات جاری ہوتے رہتے ہیں مجذوب ایسے پاگل کو کہتے ہیں جو غالباً پاگل ہونے سے پہلے خدا سے تعلق رکھنے والا ہوتا تھا اور اس کی وجہ سے پاگل پن میں بھی اس تعلق کی جزاء اس کو ملتی رہتی ہے اور اس کے منہ سے بعض دفعہ بہت سے عارفانہ کلمات جاری ہوتے رہتے ہیں.جہاں جاہل سوسائٹی ہو وہاں وہ اس نکتے کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پاگلوں کی عزت کرنے لگ جاتے ہیں.ہر فقیر، پاگل ، بے وقوف خواہ وہ گندہی بکنے والا ہو اس کی بھی عزت کرنے لگ جاتے ہیں.کہتے ہیں جی! مجذوب ہے حالانکہ یہ جہالت ہے.ہر شخص مجذوب نہیں ہوا کرتا.مجذوب وہ پاگل ہے جس کے پاگل پن میں بھی خدا کے تعلق کے آثار ظاہر ہوں اور بسا اوقات اس کے منہ سے عرفان کی باتیں جاری ہوتی ہیں جو قرآن و حدیث اور سنت کے مضامین کے مطابق ہوتی ہیں ان سے ٹکرانے والی نہیں.بہر حال جب ایسی سوسائٹی ہو تو جیسے میں نے بیان کیا ہے یہ عزتیں طبقات کے پیش نظر نہیں کی جاتیں بلکہ تقویٰ کے پیش نظر کی جاتی ہیں.وہاں ایسے بھی بزرگ تھے جو ہر لحاظ سے بلند مقام اور مراتب رکھتے تھے، اپنے عہدوں کے لحاظ سے بھی، دنیا کے لحاظ سے بھی.ان کو اس وجہ سے کہ خدا نے ان کو دنیاوی عزت دی ہے حسد کا شکار نہیں بنایا جاتا تھا.تقویٰ کی سوسائٹی کا ایک یہ بھی پہلو ہے جسے پیش نظر رکھنا چاہئے.بعض جہلاء تقویٰ کا یہ مطلب سمجھتے ہیں کہ صرف غریب کی عزت کی جائے اور امیر کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے لیکن متقی وہ ہے جو تقویٰ کی عزت کرتا ہے تقویٰ اگر گودڑی میں بھی دکھائی دے تو وہ اس سے محبت کرے گا اور پیار کرے گا اگر شاہانہ فاخرانہ لباس میں بھی دکھائی دے تب بھی وہ تقوی سے پیار کرے گا نہ گودڑی کے چیتھڑے اسے تقویٰ کی عزت کرنے سے باز رکھ سکیں گے، نہ فاخرانہ لباس کی چمک دمک اس کی نظر میں شامل ہو سکے گی کیونکہ اس کی نظر تقویٰ کی عاشق ہوتی ہے.جہاں بھی دکھائی دے وہ اس کی عزت کرتی ہے.پس یہ تقویٰ کا وہ

Page 210

197 اکرام ہے جو ہم نے اس آیت کریمہ سے سیکھا.جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ انقكُمْ.تمہارا خدا تقویٰ کو عزت دیتا ہے ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ تمہارا خدا تقویٰ کو عزت دیتا ہے.اگر اس خدا سے تمہیں محبت اور تعلق ہے تو تم بھی ہمیشہ تقومی کو عزت دینا.اگر سوسائٹی میں تقویٰ کو عزت دی جائے تو تقوی پنپتا ہے اور بڑی عمدگی سے نشو و نما پاتا ہے جیسے بہار میں پورے جو پہلے مرجھائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہ از خود نئی نئی کونپلیں نکالنے لگتے ہیں.نئے رنگ ان پر ظاہر ہوتے ہیں اسی طرح تقومی کے لئے ایک ماحول کی ضرورت ہے اور یہ ماحول جس کا میں ذکر کر رہا ہوں.یہ تقویٰ کی افزائش میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں جیسا کہ بہار ہو یا برسات ہو تو بعض غلط جڑی بوٹیاں بھی سر نکالنے لگتی ہیں ایسے ماحول میں بعض دفعہ دنیا دار لوگ بھی نیکی کے لبادے اوڑھ کر ذاتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان میں نمائش آجاتی ہے اور وہ تقویٰ کو بعض دفعہ پیسہ کمانے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں.ایسی عورتیں پیدا ہو جاتی ہیں جو پیر بنتی ہیں اور ان کی جو ایجنٹس ہیں وہ مشہور کرتی ہیں کہ فلاں بی بی جو ہے وہ بڑی نیک ہے وہ اتنی تہجد پڑھتی ہے اتنی نمازیں پڑھتی ہے کسی ضرورت کے وقت اس کے دربار میں حاضری دو گے مرادیں پوری ہوں گی.یہ مرض بڑھ کر پھر قبر پرستی تک پہنچ جایا کرتی ہے.ایسے خطرناک اڈوں سے پناہ مانگنی بھی ضروری ہے اور بعض باتیں جو بچے تقویٰ اور دکھاوے کے تقویٰ میں تفریق کرنے والی ہیں ان کو آپ پیش نظر رکھیں.مجھے یاد ہے حضرت مصلح موعود اس معاملے میں بڑی ہی باریک اور نگران نظر رکھتے تھے.اس لئے بعض لوگ جن کی طرف لوگوں کا رجحان ہوتا تھا اس پر وہ سخت رد عمل دکھایا کرتے تھے اور بعض لوگ جن کی طرف لوگوں کا رجحان ہوتا تھا اس پر نہ صرف یہ کہ رد عمل نہیں دکھاتے تھے بلکہ خود بھی ان کو دعاؤں کے لئے لکھتے تھے.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ، حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت مولوی سرورشاہ صاحب ، اسی قسم کے کثرت سے اور بزرگ تھے، حضرت مفتی محمد صادق صاحب، جن کو حضرت مصلح موعود ہر موقعہ پر دعا کے لئے لکھا کرتے تھے اور محبت اور احترام سے پیش آتے تھے اور جہاں تک توفیق ملتی تھی ان کی خدمت بھی کیا کرتے تھے یعنی عام خدمتوں کے علاوہ بھی ان سے محبت اور ہدیے دینے کا تعلق بھی رکھتے تھے لیکن بعض لوگ جو نیکی کے نام پر سر اٹھاتے تھے ان پر وہ اس طرح برستے تھے جس طرح آسمان سے بجلی کڑک کے ٹوٹتی ہے اور بڑے سخت ان کے بارے میں پریشان ہو جاتے تھے.اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی آنکھ اللہ کے نور سے دیکھتی تھی اور آپ جانتے تھے کہ کہاں فتنہ پیدا کرنے والی نیکی ہے جو بظاہر نیکی ہے لیکن حقیقت میں تقویٰ سے عاری ہے اور کہاں سچا تقویٰ ہے.اس کی ایک اور پہچان بھی جو عام نظر سے بھی سامنے آجاتی ہے

Page 211

198 اور وہ یہ ہے.کہ قرآن کریم فرماتا ہے.وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرہ: 4) خدا سے تعلق رکھنے والے جو متقی ہیں ( تقویٰ کی تعریف ہی ہو رہی ہے کہ وہ کیا ہے؟) فرمایا : متقی وہ لوگ ہیں کہ خدا جو ان کو دیتا ہے وہ خدا کی راہ میں آگے جاری کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود کے صحابہ کا نمونہ پس وہ بزرگ جن کا میں نے ذکر کیا جو بچے بزرگ تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پروردہ تھے ان کو ایک ہاتھ سے ملتا تھا تو وہ دوسرے ہاتھ سے لوگوں پر خرچ کیا کرتے تھے.ایک ہاتھ سے ملتا تھا تو دوسرے ہاتھ سے وہ جماعت پر خرچ کیا کرتے تھے.اور ضرورتمندوں کی ضرورت پورا کرنے پر نگران اور مستعد رہا کرتے تھے اور یہ وہ بات تھی جو ان کو عام لوگوں سے جولوگوں کی دولتیں بٹورنے کی خاطر بزرگ بنتے ہیں ان سے ممتاز اور الگ کر دیا کرتی تھی.یہ جو نیک بیبیوں کے اڈے بعض دفعہ بن جاتے ہیں اور غیر احمدیوں میں تو کثرت سے یہ رواج ہے ان میں بھی آپ یہ بات دیکھیں گے کہ یہ نیک بیبیاں چندوں میں پیچھے ہوں گی بلکہ شاید نہ ہی دیتی ہوں اور غریبوں پر خرچ کرنے والی نہیں ہوں گی بلکہ اپنے تقویٰ کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپنا ایک بلند مقام بنا کر گدی بنانے کی کوشش کرتی ہیں اور ایسے نیک مرد بھی ہوتے ہیں یعنی بظاہر نیک مرد اور پھر بعضوں کے ملے جلے حالات بھی ہوتے ہیں.اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا حال ہے، کچھ خرچ کرنے والے بھی ہیں لیکن بعض دفعہ ریا کاری ان کو نقصان پہنچا رہی ہوتی ہے.نیک بنے کا شوق اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی ان سے جھک کر سلام کرتا ہے.ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا حق ہے اور بڑے مزے سے ہاتھوں کو لمبا کر کے اس پہ بوسہ وصول کرتے ہیں اور متقی وہ ہے جو شرم سے غرق ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میرا کوئی حق نہیں ہے اگر یہ شخص میری بدیوں پر نظر ڈالے تو متنفر ہوکر مجھے پیٹھ دکھا کر چلا جائے اور اب ان دونوں کے دل کے معاملات ہیں.اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون متقی ہے اور کون نہیں مگر وہ لوگ جن کوخدا اپنا نور عطا کرتا ہے وہ ظاہری طور پر ثبوت نہ ہونے کے باوجود جانتے ہیں کہ کن میں بچے تقویٰ کی روح ہے اور کن میں بچے تقویٰ کی روح نہیں ہے.اس دوسرے پہلو سے تقویٰ کا معیار بڑھانے کے لئے انکسار کا معیار بڑھانا ضروری ہے.تقویٰ کی جڑیں جتنی گہری ہوں اتنا ہی زیادہ تقویٰ کا درخت نشو و نما پاتا ہے یاد رکھیں کہ تقوی کی جڑیں بھی گہری ہوں اتحادی زیادہ تقوی کا درخت نشو نما پاتا ہے اور تقوی کی جڑیں گہری ہونے کا مطلب انکسار کا بڑھنا ہے.جتنازیادہ کسی شخص میں عارفانہ انکسار ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کی جڑیں زمین میں گہری پیوست ہوں گی اور اتنا ہی زیادہ صحیح معنوں میں اس کا تقویٰ کا درخت نشو ونما پائے

Page 212

199 گا.اس مضمون کو قرآن کریم نے یوں بیان فرمایا: اَصْلُهَا ثَابِتُ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (ابراہیم : 25 ) کہ وہ کلمات طیبہ جو خدا کے کلام کا مظہر ہوا کرتے ہیں ان کی مثال ایسے درختوں کی ہے جن کی جڑیں ثابت ہوں اور جن کی شاخیں آسمان سے باتیں کرنے والی ہوں.یہاں لفظ ثابت استعمال کیا گیا.یہ نہیں فرمایا گیا کہ جڑیں گہریں ہو لیکن اس ایک لفظ ثابت نے دو مضامین بیان کر دیئے کیونکہ بعض درخت جن کی جڑیں گہری ہوں اور کھوکھلی ہوں یعنی اندرونی طور پر بیماریوں کی شکار بھی ہوں وہ ثابت نہیں ہو سکتے اور بعض دفعہ اپنے مادے کے مزاج کے لحاظ سے یعنی قدرت نے مادے کو جو صفت بخشی ہے اس پہلو سے بعضوں کی جڑیں ویسے ہی کمزور ہوتی ہیں.گہری ہوتی ہیں مگر جب آندھی چلتی ہے تو وہ درخت یوں جڑوں سے ٹوٹ کے گر جاتے ہیں اور اگر گہری نہ ہوں اور مضبوط ہوں اور زمین کی سطح پر پھیلی ہوں جیسا کہ عموماً یورپین درختوں میں یہ بات پائی جاتی ہے.تو بڑے بڑے تناور درخت بہت اچھے لہلہاتے ہوئے نشو ونما پاتے ہوئے ہر موسم میں ترقی کرتے ہوئے درخت آندھی کے مقابل پر اس طرح منہدم ہو جاتے ہیں جس طرح بعض دفعہ کھوکھلی جڑوں والے درخت گر جاتے ہیں.پیچھے جب آندھیاں آئیں تو جن پارکوں میں کبھی کسی میں، کبھی کسی میں، ہم سیر پر جاتے رہے ہیں.ان میں جب سیر پہ جانے کا موقعہ ملا تو میں نے تعجب سے دیکھا کہ بہت ہی عظیم الشان درخت جن کا بہت رعب پیدا ہوتا تھا ان کی جڑیں سطحی تھیں اور اکثر درخت جڑوں سے اکھڑے ہوئے ہیں.ان کی جڑیں بھی ساتھ اکھڑی ہوئی ہیں.ان کے او پر لفظ ثابت کا اطلاق نہیں ہوسکتا.کیونکہ ثابت لفظ میں دونوں خوبیاں آجاتی ہیں.ایسی جڑیں جو مضبوط ہوں اور درخت کو تحفظ دیں اور ایسی جڑیں جو گہری ہوں کیونکہ ابتلاء کے وقت اگر وہ گہری نہیں ہوں گی تو ثابت نہیں رہ سکیں گی.اس لئے مضبوط بھی ہوں تو کافی نہیں.پس قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا یہ کمال ہے کہ اس نے تقویٰ کے درخت کی مثال ایسے جڑوں والے درخت کی مثال سے دی ہے جس کی جڑیں ثابت ہوں یعنی مضبوط بھی ہوں اور گہری بھی ہوں اور ابتلاء کی کوئی آندھی انہیں ہلا نہ سکے اور ہر حال میں نشو ونما پانے والے ہوں.جتنی ان کی جڑیں ثابت ہوں گی یعنی مضبوط اور گہری ہوں گی اتنا ہی ان کا تقویٰ مضبوط ہوگا.دراصل یہ تقویٰ کی تعریف ہے یعنی انکساری وہ جو حقیقی اور عارفانہ انکساری ہے اور چھپی ہوئی نیکیاں وہ جو جراثیم کے اثر سے پاک ہیں اور ان کے نتیجے میں ان کے درخت وجود کو ایک مضبوطی اور طاقت ملتی ہے.یہ تقویٰ کی بہترین مثال دی گئی ہے جتنی نیکیاں ان کی چھپی ہوئی ہیں اتنا ہی ان کے درخت کو اللہ تعالیٰ رفعتیں عطا کرتا ہے.ان کی نیکیاں جتنی

Page 213

200 ہے صحت مند ہیں اتنا ہی وہ آزمائشوں کے مقابل پر ثابت قدم ہونے کی استطاعت رکھتے ہیں اور طاقت پاتے ہیں.ایسے درختوں کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر حال میں پھل لگتے رہتے ہیں اور ان کے پھل دائمی ہوتے ہیں.آسمان سے ان کو پھل ملتے ہیں لیکن جڑیں ان کی ان کے انکسار کی وجہ سے چھپی ہوئی ہوتی ہیں اور زمین کے اندر گہری داخل ہو جاتی ہیں اور ان کی گہرائی کا تناسب ان کی بلندی کے ساتھ ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء (ابراہیم: 25) یہ دو متقابل تصویر یں ہیں جن کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے.جتنی ثابت ہوں گی جتنی مضبوط اور گہری ہوں گی اتنا ہی درخت بلند تر ہوتا چلا جائے گا.امراء کو اپنے عہدیداران کی تربیت کرنی چاہئے پس اس پہلو سے ان صفات کی پرورش کرنے کی ضرورت ہے یعنی جس طرح ماں بچوں کی پرورش کرتی ہے.جس طرح ایک زمیندار اپنے درختوں کی پرورش کرتا ہے اور ہر ایسا ذریعہ استعمال کرتا ہے جس سے یہ صفات پیدا ہوں جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں، اسی طرح امراء اور عہدیداران کو اپنے ماتحت عہدیداران کی تربیت کرنی چاہئے اور ان سے معاملات کے درمیان جب ایسی باتیں دکھائی دیں جن سے معلوم ہو کہ بعض پہلوؤں سے ان کے تقویٰ میں کمزوری ہے.بعض دفعہ جذبات سے مغلوب ہو جاتے ہیں، بعض دفعہ کسی شخص سے اس بنا پر حسد کرنے لگتے ہیں کہ اس کو امیر کا زیادہ قرب حاصل ہے اور اس کی کمزوریوں کی تلاش شروع کر دیتے ہیں.بعض دفعہ اپنے مزاج کے اختلاف کی وجہ سے دوسرے کی اچھی بات بھی ان کو بری لگنے لگ جاتی ہے اور مجلس عاملہ میں اس بنا پر پارٹی بازی شروع ہو جاتی ہے بعض دفعہ گروہی تعلقات کی بنا پر مشورے غلط دیئے جاتے ہیں اور جس کے ساتھ زیادہ دوستی ہو اس کی ضرور تائید کرنی ہے.اگر ضرور نہیں تو اکثر صورتوں میں تائید کرنی ہے.اس قسم کی بہت سی بیماریاں ہیں جو جڑوں کو کھانے والی ہیں.ایسے درختوں کی جڑیں بظاہر گہری بھی ہوں تو ثابت نہیں کہلا سکتیں.پس ایک امیر کے لئے ایک صدر کے لئے یا دوسرے منتظم کے لئے اگر وہ اپنا تقویٰ کا معیار بڑھا لے اور خدا کے نور سے دیکھنے لگ جائے یہ باتیں معلوم کرنا ہر گز مشکل نہیں ہے.اس لئے ان باتوں پر وہ جنگی محسوس کرنے کی بجائے ایسے لوگوں کے لئے گہری ہمدردی کے جذبات رکھے ان کی خاطر دکھ محسوس کرے.ینگی اور چیز ہے اور دکھ اور چیز ہے ان دونوں باتوں میں فرق ہے.تنگی کے نتیجے میں بعض امراء پھر بیزار ہونے لگتے ہیں.کہتے ہیں کیا بکواس ہے.کس قسم کے بیہودہ لوگ ہیں اور ان کے دل اچاٹ ہونے لگ جاتا ہے.دکھ کے نتیجے میں ان کے لئے زیادہ فکر ، ان سے زیادہ گہرا تعلق ہونے لگ جاتا ہے.پس تنگی محسوس کرنے کی بجائے ان کے لئے دکھ محسوس کرنا چاہئے.تنگی کو خدا تعالیٰ نے منع فرمایا ہے.جیسا کہ حضرت مسیح

Page 214

01 201 موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہا ما فرمايا: وَلَا تَسْتَمْ عَن النَّاس.(تذکرہ: 197) یہاں تَسْتَم کا جو مضمون ہے یہ تنگی کا مضمون ہے.تکلیف تو تجھے لوگوں کے کثرت سے آنے کے نتیجے میں پہنچے گی.بے وقت تجھ سے مطالبات کرنے کے نتیجے میں لیکن دل میں تنگی نہ پیدا کرنا.ہاں تکلیف کے نتیجے میں جو دوسرے لوازمات ہیں ان سے تو انسان کو مفر نہیں ہے.ان میں دعا کی طرف متوجہ ہونا قربانی کی روح اختیار کرنا، زیادہ انکسار اختیار کرنا اور بہت سی خوبیاں ہیں جو خدا کی خاطر تکلیف اٹھانے کے نتیجے میں خود بخود پیدا ہوتی ہیں.تو اگر تنگی نہ ہو تو وہ خوبیاں پیدا ہوں گی اگر تنگی ہوگی تو وہ خوبیاں ضائع ہو جائیں گی.درخت کی مثال پس جب میں تنگی کہتا ہوں تو اس وسیع مضمون کو پیش نظر رکھ کر یہ الفاظ استعمال کر رہا ہوں کہ امراء کو اور عہدیداران کو چاہئے کہ ماتحتوں میں جب اس قسم کی خامیاں دیکھیں تو تنگی محسوس کرنے کی بجائے ان کے لئے درد محسوس کریں اور ان کو نصیحت کریں اور ان کو اس طرح پرورش دیں کہ گویا ان کے اپنے وجود کی بناءان پر ہے.اس پہلو سے عہد یدار اور امیر درخت کا وہ حصہ بن جاتا ہے جو باہر نکلا ہوا ہے جس کی شاخیں آسمان پر ہیں اور یہ تمام عہدیداران اور کارکن اس کی جڑیں بن جاتے ہیں.پس ایک اور منظر ہمارے سامنے ابھرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر عہدیدار کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کے ماحصل کی بلندی اور جو کچھ وہ خدا کی نظر میں حاصل کرتا ہے اس کی رفعت اس بات پر منحصر ہے یعنی اس بات پر بھی بہت حد تک منحصر ہے کہ ان کے ماتحتوں کا تقویٰ کیسا ہے.اگر وہ متقی ہوں گے اگر وہ پیوستہ ہوں گے اور گہرے ہوں گے اور ثابت کہلا سکتے ہوں گے تو ایسے امیر کا درخت بہت رفعتیں اختیار کرے گا اور اس کے کاموں کو بہترین پھل لگیں گے.پس اس نئی تعریف کی رو سے ، اس نئے زاویہ کی رو سے پھلوں کی تعریف بدل جاتی ہے.یہاں پھلوں سے مراد ہے جماعت کی اجتماعی کوششوں کا پھل جتنا زیادہ جڑیں اچھی ہوں گی اور ان کے تقویٰ پر امیر کی یا دیگر عہدیداران کی نظر ہوگی اسی حد تک ان لوگوں کی اجتماعی کوششیں پھل لائیں گی اور اس کے نتیجے میں امیر چونکہ ان کا نمائندہ ہے اور ان کا ایک Symbol بن جاتا ہے اس لئے اس کی رفعتیں یعنی امیر کی سر بلندی اور اس کی ترقی در اصل ساری جماعت کی سر بلندی اور ساری جماعت کی ترقی ہے.تو اس پہلو سے گہری نظر رکھتے ہوئے اپنے ماحول کی نگرانی کرنی چاہئے.کمزوریوں پر بھی نگاہ رکھنی چاہئے.تقویٰ سے وابستہ ان فتنوں پر بھی نگاہ رکھنی چاہئے جن میں سے بعض کی مثال میں نے دی ہے لیکن اور بھی بہت سے فتنے ہیں جو نیکی کا روپ دھار کر جماعتوں کو شیطانی وساوس میں بھی مبتلا کرتے ہیں اور شیطانی تحریکات کو پھیلانے میں مدد دیتے ہیں ان سب پر نگاہ رکھتے ہوئے اور استغفار کرتے ہوئے اور دعا کرتے ہوئے اگر تمام جماعتی عہدیداران اپنے کام کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کریں گے تو میں ان کو یقین دلاتا

Page 215

202 ہوں کہ کام دراصل خدا ہی نے کرنے ہیں اور وہی بات ہے جس سے میں نے اس خطبے کا آغاز کیا تھا کہ کام خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا خدا کی طرف سے توفیق مل جائے تو ہر بات آسان ہو جاتی ہے.ہر بات پہاڑی ندیوں کی طرح خودرو بڑی طاقت سے بہنے لگتی ہے اور اس کو چلانے کے لئے اس کو جاری کرنے کے لئے بظاہر کسی محنت کی ضرورت نہیں پڑتی.جو محنت اس میں داخل ہوتی ہے وہ ایک طبعی قانون کے طور پر خود بخود اس کام کو آگے بڑھانے میں جذب ہو جاتی ہے اور دیکھنے والا یہی محسوس کرتا ہے کہ خود بہنے والی ایک طاقتور پہاڑی ندی ہے لیکن ان دو باتوں پر اس کا انحصار ہے جو میں نے بیان کی ہیں.اپنے تقویٰ کا معیار بڑھاتے ہوئے خدا پر انحصار کریں اور دعاؤں پر زور دیں اور دعاؤں پر اپنے سب کاموں کی بناء کریں اور پھر اپنے ماتحتوں کے تقویٰ کو بڑھائیں اور ہمیشہ کوشش کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ اگر ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے تو میں یقین دلاتا ہوں کہ ہمارے کام آج جس رفتار سے چل رہے ہیں ان سے سینکڑوں گنا زیادہ رفتار سے اور زیادہ قوت کے ساتھ اور شان کے ساتھ آگے بڑھنا شروع ہوں گے اور آئندہ نسلوں کو ہم ورثے میں جو تقویٰ دیں گے اس کی جزاء ہمیں نصیب ہوتی رہے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے." ( خطبات طاہر جلد 9 صفحہ 547-566) ربوہ میں ذیلی تنظیموں کے اجتماعات منسوخ کرنے پر تبصرہ خطبہ جمعہ 9 نومبر 1990ء) " جہاں تک پاکستان کی موجودہ حکومت کا تعلق ہے بہت سے احمدی اس خیال میں پریشان دکھائی دیتے ہیں اور مجھے خطوط بھی ملتے ہیں کہ یہ وہ حکومت ہے جس میں وہ عناصرا و پر آ گئے ہیں جواحمدیت کے دشمن تھے اور ہیں لیکن جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو حکومت کے سر براہ ہیں اور جو اقتدار پر قابض ہوئے ہیں ان کے اور دعاوی ہمارے سامنے آرہے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ میں اس مضمون کو مختصر بیان کروں، پاکستان کی ذیلی مجالس کے ربوہ میں ہونے والے اجتماعات سے متعلق تازہ صورتحال سے آپ کو مطلع کرتا ہوں.تین چار دن پہلے کی بات ہے کہ Fax کے ذریعے اطلاع ملی کہ ہمارے ضلع کا ڈپٹی کمشنر کوئی غیر معمولی طور پر شریف معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس نے ہماری درخواست پر پہلی دفعہ نہ صرف بغیر کسی تردد کے لجنہ کے اجتماع میں لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت دی بلکہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں بھی لاؤڈ سپیکر کے استعمال کی اجازت دے دی جو عجیب بات تھی اور بظاہر انہونی تھی اور انصار اللہ کے اجتماع میں بھی لاؤڈ سپیکر

Page 216

203 کے استعمال کی اجازت دے دی تو اس لئے ہم فوری طور پر یہ تیاریاں کر رہے ہیں.اس پر مجھے خیال آیا کہ اللہ اس ڈپٹی کمشنر پر رحم کرے، شریف بھی ہے اور سادہ بھی ہے.نہیں جانتا کہ کن حالات میں یہ اجازت دے رہا ہے مگر بہر حال یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ شریف بھی ہے اور بہادر بھی ہے اور خدا کرے یہی بات درست ہو.بہر حال انہوں نے اجازت دیتے وقت اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ اب اگر کوئی تبدیلی ہو تو میں ذمہ دار نہیں ہوں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض سادگی نہیں تھی بلکہ جانتے تھے کہ اس حکم کو تبدیل کروایا جاسکتا ہے.چنا نچہ علماء فوری طور پر سیکرٹری وزارت مذہبی امور مرکزیہ سے ملے اور اس نے ان کو تعجب سے کہا کہ ہیں؟ ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو یہ جرأت کہ احمدیوں کو اپنے اجتماع کے لئے لاؤڈ سپیکر کی اجازت دے دے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ، آپ بھول جائیں اس بات کو ، یہ ناممکن ہے.چنانچہ دو دن بعد ہی جماعت کو تحریری حکم مل گیا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب معذرت کے ساتھ اطلاع کرتے ہیں کہ ان کو اپنا پہلا اجازت نامہ منسوخ کرنا پڑ رہا ہے اور اس کے نتیجے میں پہلے لجنہ کا اجتماع ، انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ اجتماع منعقد نہ کیا جائے اور پھر یہ فیصلہ کیا کہ بغیر لاؤڈ سپیکر کے ہی خدام الاحمدیہ کا اجتماع منعقد کیا جائے.مگر آج ہی Fax ملی ہے کہ دوسرا حکم نامہ یہ ملا ہے کہ صرف لاؤڈ سپیکر کی اجازت ہی منسوخ نہیں کی جاتی بلکہ اجتماع منعقد کرنے کی اجازت بھی منسوخ کی جاتی ہے.اس وجہ سے ربوہ میں بہت ہی بے چینی ہے، تکلیف ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے Fax کے انداز سے ہی کہ احمدی نوجوان جو مقامی ہیں یا باہر سے آئے ہیں، اس وقت بہت کرب کی حالت میں ہیں.ان کو میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہمارے لمبے سفر ہیں.یہ اس قسم کے جو واقعات احمدیت کی تاریخ میں ہورہے ہیں یہ بعض منازل سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ہمارا قیام ان منازل پر نہیں ہے.جو قافلے لمبے سفر پر روانہ ہوتے ہیں انہیں رستے میں مختلف قسم کے ڈاکوؤں ، چوروں ، اُچکوں، بھیڑیوں اور دیگر مخلوقات سے خطرات پہنچتے رہتے ہیں اور تکلیف پہنچتی رہتی ہے لیکن قافلوں کے قدم تو نہیں رُک جایا کرتے.ان کے گزرتے ہوئے قدموں کی گردان چہروں پر پڑ جاتی ہے جو ان کے خلاف غوغا آرائی کرتے ہیں اور شور مچاتے ہیں اور کچھ کاٹنے کی بھی کوشش کرتے ہیں اور تاریخ کی اس گرد میں ڈوب کر وہ ہمیشہ کے لئے نظروں سے غائب ہو جاتے ہیں.ہاں ان مدفون جگہوں کے نشانات باقی رہ جاتے ہیں تو آپ تو لمبے سفر والی قوم ہیں.ایسے لمبے سفر والی قوم ہیں جن کی آخری منزل قیامت سے ملی ہوئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ مسیح اور قیامت آپس میں ملے ہوئے ہیں تو بعض علماء نے یہ سمجھا کہ اس کا مطلب ہے کہ مسیح کے آتے ہی قیامت آجائے گی.بڑی ہی جہالت والی بات ہے.مراد یہ تھی کہ مسیح کا زمانہ قیامت تک ممتد ہوگا.بیچ میں اور کوئی زمانہ نہیں آئے گا.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنی مثال بھی قیامت کے ساتھ اسی طرح دی اور اپنی اور مسیح کی مثال بھی اسی

Page 217

204 طرح دی کہ ہم دونوں اس طرح اکٹھے ہیں جس طرح اُنگلیاں جڑی ہوئی ہیں تو یہ مطلب تو نہیں تھا کہ بیچ میں زمانہ کوئی نہیں آتا.مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ اس وقت تک ممتد ہوگا اور بیچ میں کوئی روک ایسی نہیں جو اس زمانے کو منقطع کر سکے اور پہلے کو دوسرے سے کاٹ سکے تو جس قوم کے اتنے لمبے سفر ہیں وہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تکلیف محسوس کرنے لگے اور دل چھوڑنے لگے یہ بات تو کوئی آپ کو زیب نہیں دیتی.بات یہ ہے کہ اس نئی حکومت نے جب اقتدار سنبھالا اور ان کے ہاتھ میں اقتدار کی تلوار آئی تو کئی طرف سے خوف اور خطرہ کا اظہار کیا گیا لیکن اس حکومت کے سربراہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہم شریف نواز لوگ ہیں ، ہم شرافت کو نواز نے والے ہیں اور شرفاء کو ہم سے ہر گز کوئی خطرہ لاحق نہیں.غالبا ان ہی اعلانات کے اثر میں ایک شریف النفس ڈپٹی کمشنر نے وہ قدم اٹھایا جو اس نے اٹھایا لیکن دوسری طرف احمدیوں کے کانوں میں ایک اور آواز آرہی ہے اور وہ ملانوں کی آواز ہے.وہ کہتے ہیں تم اس آواز سے دھوکہ نہ کھانا، اقتدار کسی کے قبضے میں ہو، ظلم اور تعدی کی تلوار ہمارے ہاتھوں میں ہے اور ہم جب چاہیں جس گردن پر چاہیں یہ تلوار اس پر گرا کر اس کو تن سے جدا کر سکتی ہے تو تم دیکھو کہ یہ تلوار ہمارے ہاتھوں میں آ گئی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں نے اس آواز کو سنا اور اس کی وجہ سے ان کے دلوں پر کئی قسم کے اندیشے قبضہ کر گئے، کئی قسم کے توہمات میں وہ مبتلا ہو گئے اور اس وقت ایسی ہی کیفیت دکھائی دے رہی ہے.میں ان کو اسی مضمون کی ایک اور بات یاد کرانا چاہتا ہوں جس میں جو کچھ بھی میں نصیحت کر سکتا تھا اس کا بہترین خلاصہ بیان ہو گیا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک غزوہ کے موقع پر اپنے غلاموں سے بچھڑ کرا کیلے ایک درخت کے سائے میں آرام فرمارہے تھے کہ آپ کی آنکھ ایک للکار کی آواز سے کھلی.ایک دشمن مسلمانوں سے نظر بچا کر آپ تک پہنچا اور آپ ہی کی تلوار اٹھا کر اس نے آپ کے سر پر سونتی اور کہا کہ اے محمد ابتا اب تجھے میرے ہاتھوں سے اور میری اس تلوار سے کون بچا سکتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اسی طرح اطمینان سے لیٹے رہے اور فرمایا: میرا خدا.(ترمذى كتاب صفة القيامه حدیث نمبر: 2441) کتنی عظیم بات ہے.تمام دنیا میں قیامت تک مومنوں پر آنے والے ابتلاؤں کا ایک ہی جواب ہے جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس وقت اس ظالم کو دیا اور ہمیشہ ہر مؤمن ہر ظالم کو یہی جواب دیتارہے گا اور اگر یہ جواب نہیں دے گا تو اس کے بچنے کی کوئی ضمانت دنیا میں نہیں ہے.پس تم یہ نہ دیکھو کہ آج تلوار کس کے ہاتھ میں ہے تم یہ دیکھو کہ وہ ہاتھ کس خدا کے قبضے میں ہے.وہ باز و کس قدرت کے تابع ہیں جنہوں نے آج تمہارے سر کے اوپر ایک تلوار سونتی ہوئی ہے.یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تلوار پہلے گرے گی مگر ہمارا خدا جانتا ہے اور وہ گواہ ہے کہ تلوار گرانے والوں پر اس کے غضب کی بجلی پہلے نازل ہوگی اور وہ ہاتھ شل کر

Page 218

205 دیئے جائیں گے جو احمدیت کو دنیا سے مٹانے کے لئے آج اٹھے ہیں یا کل اٹھائے جائیں گے.اس تقدیر کو دنیا کی کوئی طاقت تبدیل نہیں کر سکتی.گزند پہنچیں گے تکلیفیں پہنچیں گی.قرآن فرماتا ہے کہ ایسا ہو گا.روحانی اور جذباتی طور پر تم کئی قسم کی اذیتیں پاؤ گے لیکن اگر تم ثابت قدم رہو اور اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے جواب پر ہمیشہ پوری وفا اور توکل کے ساتھ چھٹے رہو کہ اسے تلوار اٹھانے والے دشمن ! جس طرح کل میرے خدا نے خدا والوں کو تیری تلوار سے نجات بخشی تھی اور اپنی حفاظت میں رکھا تھا، آج بھی وہی زندہ خدا ہے.اسی کی جبروت کی قسم کھا کر ہم کہتے ہیں کہ وہی خدا آج ہمیں تمہارے ظلم وستم سے بچائے گا.پس آپ کو اگر ان دعاوی سے تکلیف ہے تو مجھے ان احمدیوں کے اس رد عمل سے تکلیف پہنچی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ نعوذ باللہ من ذلك یہ تلوار اب ان ہاتھوں میں آئی ہے کہ جو ضر ور احمدیت کا سرکاٹ کے رہیں گے.خدا کی قسم ایسا نہیں ہو گا.ہمیشہ ان ظالموں کی مخالفت نے احمدیت کی ترقی کے سامان پیدا کئے ہیں، نئے راستے کھولے ہیں.گزشتہ ابتلاؤں میں ضیاء کے گیارہ سال اس طرح کئے کہ ہر لمحہ اس کی چھاتی پر سانپ لوٹتے رہے مگر احمدیت کی ترقی کو وہ دنیا میں روک نہیں سکا اور آخر انتہائی ذلت کے ساتھ نامراد اور نا کام اس دنیا سے رخصت ہوا.پس تلواروں کے بدلنے سے تمہارے ایمان کیسے بدل سکتے ہیں.اپنے ایمانوں کی حفاظت کرو اور ثابت قدمی دکھاؤ اور اللہ پر توکل رکھو اور یقین کرو کہ وہ خدا جس نے یہ وعدہ کیا ہے کہ میں اور میرے رسول ضرور غالب رہیں گے وہ خدا اور اس کے رسول ضرور غالب رہیں گے اور ضر و ر غالب رہیں گے اور ضرور غالب رہیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ" ( خطبات طاہر جلد 9 صفحہ 674-676)

Page 219

206 $1991 انصار اللہ کو صبر اور رحم کی نصیحت باقیوں سے زیادہ زیب دیتی ہے.انصار ایسی نصیحتیں کریں کہ لوگوں کے دل نرم پڑ جائیں اور وہ ظالمانہ انتقام کی بجائے رحم کی طرف مائل ہوں مجلس انصار اللہ اڑیسہ بھارت کے سالانہ اجتماع منعقد 11-12 مئی 1991ء پر پیغام ) محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم بسم اللہ الرحمن الرحیم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر پیارے برادران مجلس انصار اللہ اڑیسہ (بھارت) السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آل اڑیسہ مجلس انصار الله امسال 11-12 مئی کو منعقد ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو ہر پہلو سے بہت بابرکت بنائے.جماعت اُڑیسہ کو ہندوستان کی جماعتوں میں کئی لحاظ سے اہم مقام حاصل ہے.ایک تو جہاں تک جماعت میر اعلم ہے تعداد کے لحاظ سے ہندوستان کے تمام صوبوں میں تعداد کے لحاظ سے اول نمبر پر ہے.اور ماشاء اللہ دیہات کے دیہات بلکہ بعض قصبات بھی تقریبا پورے کے پورے احمدی ہیں.علاوہ ازیں دوسرا پہلو جو بہت ہی دلربا ہے.اور باقی ہندوستان کی جماعتوں کے لئے ایک نیک نمونہ ہے وہ اس وقت میرے سامنے آیا جب میں نے اس بات کے تفصیلی جائزے لئے کہ ہندوستان کی جماعتوں میں حسب توفیق جماعتی چندوں میں کونسی جماعتیں معیار کے مطابق قربانی میں حصہ لے رہی ہیں اور باقاعدہ ہیں تو یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی کہ اگر چہ اڑیسہ کی جماعت بالعموم غرباء اور معمولی نوکری پیشہ لوگوں پر مشتمل ہے لیکن شرح کے مطابق اور باقاعدہ چندہ دینے کے لحاظ سے سارے ہندوستان میں اس کے برابر اور کوئی نہیں.اور بھی بہت سے امور ہیں جن میں صوبہ اڑیسہ کو اللہ تعالیٰ نے روحانی فضلوں اور انعامات سے نوازا ہے.صوبے میں جہاں یہ سب انعامات ہیں وہاں احمدیت کا سب سے زیادہ کٹر اور متعصب معاند بھی صوبے کی بدقسمتی سے صوبے میں خدا تعالیٰ کے مقدس بندوں کے خلاف زہر افشانی کر رہا ہے اور اب بھی کرتا ہے.جو واردات آپ ہی کے اس صوبے میں گزری ہیں اور ہندوستان میں مسلمانوں پر جو بالعموم سخت ابتلاؤں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے.اگر

Page 220

207 آپ غور کریں تو اس کا آغاز انہی مولوی صاحب کے مباہلہ کے متعلق تالیوں اور شیخیوں کے بعد سے ہے.پس ایسے علماء نا صرف اپنے صوبے کے لئے مصیبت بن گئے ہیں بلکہ سارے ہندوستان کے لئے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو بڑھانے کا موجب بن گئے ہیں.بعض اور صوبوں میں بھی ظالم موجود ہیں.مگر اڑیسہ والے مخالفوں کا اپنا ایک مقام ہے.اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے اور جہالت کی زندگی کور شد کی زندگی میں بدل دے.اور جہالت کی ظالم موت سے بچائے.لیکن اگر ان کے مقدر میں یہ سعادت نہیں تو پھر میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہندوستان کے بے کس اور مظلوم مسلمانوں کو ان کے اعمال اور ظالمانہ رویوں سے نجات بخشے.جماعت احمد یہ کو بھی ایسے قومی ابتلا ؤں میں ثابت قدم رکھے جن میں اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کی طرح وہ بھی ضرور کچھ نہ کچھ تکلیف میں مبتلا کئے جاتے ہیں اور کئے جاتے رہے ہیں.اسی طرح میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحیح رد عمل کے دکھانے اور صراط مستقیم پر مستحکم رہنے کی توفیق عطا فرمائے.اور ظلم کے مقابل پر ظلم کرنے والے نہ ہوں.جہاں آپ احمدیوں اور دیگر مسلمانوں کی تکالیف سے دکھ محسوس کرتے ہیں وہاں غریب ہندو عوام کی تکلیفوں سے بھی دکھ محسوس کریں.صبر اور رحم کرنے والے ہوں اور صبر اور رحم کی تلقین کرنے والے ہوں.اس جہت سے مجلس انصار اللہ اڑیسہ ایک بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتی ہے.انصار اللہ کو صبر اور رحم کی نصیحت باقیوں سے زیادہ زیب دیتی ہے اور وہ خدام کی نسبت زیادہ اہلیت رکھتے ہیں کہ صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں میں بھی قیام امن کی کوشش کریں اور ایسی نصیحتیں کریں کہ دل نرم پڑیں اور لوگ ظالمانہ انتقام کی بجائے رحم کی طرف مائل ہوں اور ہر انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کا خوف پیدا کریں.آپ میں سے جو صاحب اثر ہیں وہ صوبہ کے صاحب اثر لوگوں سے مل کر ان کو نیک نصیحت کریں گویا ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عظیم جہاد میں شامل ہوں.آخر پر میں انصار اللہ اریسہ کو یاد دلاتا ہوں کہ سب تدبیروں سے بڑھ کر موثر تدبیر دعا ہے پس دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے نصرت طلب کرتے رہیں.اور اپنے صوبہ کے لئے بالخصوص مغفرت اور رحم کی دُعا مانگیں.انسان کا انسان سے لڑنا اور ایک دوسرے پر ظلم کرنا اور ایک دوسرے کی تکلیف اور دکھ پر خوشی محسوس کرنا ایک ایسی انسانیت سے گری ہوئی چیز ہے کہ دنیا کا کوئی سچا مذ ہب بھی ایسے لوگوں کو سینے سے نہیں لگا سکتا.صرف یہی نہیں بلکہ جانور بھی دوسرے جانور کی تکلیف سے لذت محسوس نہیں کرتے.پس دعاؤں اور نیک نصیحتوں کے ذریعہ فساد کو امن میں بدلنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہیں.اس علاقہ میں مذہب، قوم ، ملت ، اور انسانیت کا آج سب سے بڑا تقاضا یہی ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو.دکھوں کو راحت میں بدل دے اور اندھیروں کو روشنی میں بدل دے.جس طرح اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کویہ تو فیق عطا فرماتا ہے کہ اپنے مظلوم بھائیوں کو حتی المقدور مدد

Page 221

208 کرتی ہے اور انہیں بے سہارا نہیں چھوڑتی.کاش نفرت کی تعلیم دینے والے ملاں بھی کم سے کم اپنے ساتھ منسلک ہونے والے بھائیوں کی ہی ایسے موقعہ پر مدد کیا کریں.اور ان کو بے سہارا اور بے یار و مددگار نہ چھوڑا کریں.تاکہ ان کے ماننے والے عامتہ المسلمین پر اس آیت کریمہ کا اطلاق ہو جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے متبعین کے بارہ میں نازل ہوئی : ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا (محمد:12) کہ اللہ مومنوں کو بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا اور مشکلات کے وقت اُن کی نصرت فرمائی جاتی ہے.کاش مذہبی رہنما عامتہ المسلمین کو قومی تکلیفوں اور مصائب میں اس طرح بے یارو مددگار نہ چھوڑ میں تا کہ ان پر آیت کریمہ کا یہ حصہ اطلاق پاتا ہوا دکھائی دینے لگے کہ: خدا کرے کہ ہمارے سب مسلمان بھائی اللہ کی ولایت میں آجائیں اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی ان سے وہ سلوک نہ کرے جس کا آیت کے دوسرے حصہ میں ذکر ہے.“ والسلام خاکسار ( دستخط ) مرزا طاہر احمد خلیفہ ایسیح الرابع هفت روزه بدر قادیان 3 اکتوبر 1991ء) عہدے، ذمہ داریاں ہیں.اپنی برتری ظاہر کرنے کے لئے اسے استعمال نہ کریں (خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1991ء) الہی جماعت ایک پاکیزہ جماعت ہے.اس کے سارے معاملات خدا کی خاطر ہوتے ہیں.عہدے ذمہ داریاں ہیں نہ کہ اپنی برتری کو ثابت کرنے کے لئے کوئی شخص انہیں استعمال کرتا ہے.عہد یداری تو ایک بہت ہی بڑا بوجھ ہے.جن لوگوں نے الہی جماعتوں میں مناصب کی حقیقت کو سمجھا ان میں ایسے بھی پیدا ہوئے جیسا کہ حضرت امام مالک جن کو عہدہ قبول نہ کرنے کی سزا کے طور پر کوڑے مارے گئے اور ایسی تکلیفیں دی گئیں کہ بعد میں ان کے ہاتھ شل ہو گئے اور وہ اٹھ نہیں سکتے تھے.اور بھی بہت سے عالم اسلام کے پہلے دور میں جبکہ تقویٰ کا معیار بہت بلند تھا ایسے واقعات نظر آتے ہیں کہ ایک شخص عہدے سے ڈرتے ہوئے تو بہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس عہدے کے لائق نہیں ہوں میرے سپرد نہ کرو اور بادشاہ وقت زبردستی سزادے کر ، بعضوں کو قید کیا گیا ، بعضوں پر کوڑے برسائے گئے ، بعضوں کو اور سزائیں دی گئیں، اور حکماً ان کو مجبور کیا جاتا رہا کہ تم یہ عہدہ قبول کرو.

Page 222

209 کہاں یہ نظام اسلام جہاں عہدے سے خوف پیدا ہوتا ہے اور دل ڈرتے ہیں کہ میں ان ذمہ داریوں کو ادا کر سکوں گا کہ نہیں ، کہاں ان عہدوں کو ڈکٹیٹر شپ قرار دے دینا اور یہ سمجھنا کہ یہ بھی دنیا کے مناصب ہیں جن میں سے ایک منصب پر یہ پر ہ شخص فائز ہو گیا ہے جو مجھے پسند نہیں.یہ باتیں تقویٰ کی روح سے خالی ہیں اور ان کو نظام جماعت میں اب کسی طرح بھی مزید برداشت نہیں کیا جاسکتا.ایک دو ہوں اور اس وقت پکڑا جائے تو بہت بہتر ہے بجائے اس کے کہ یہ عام بیماریاں بن جائیں.اس سلسلے میں میں آپ کو بتاتا ہوں کہ خلیفہ وقت کبھی بھی کسی امیر کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اپنے منصب سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت پر کسی قسم کا ظلم کرے.اگر ایک فرد کی شکایت بھی پہنچے تو اس کی پوری تحقیق کی جاتی ہے اور امیر کو اس بات کے لئے جواب دہ بنایا جاتا ہے اور ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جن میں ایک شخص نے جب مجھ تک شکایت پہنچائی کہ فلاں عہدیدار کی طرف سے خواہ وہ امیر تھا یا وکیل تھا یا ناظر تھا مجھے یہ تکلیف پہنچی ہے تو بلا تاخیر میں نے اپنی تحقیق کروائی ہے جو کالیہ آزاد تحقیق تھی اور بعض لوگوں کو شک ہوتا ہے کہ شاید اس تحقیق میں بھی کسی نے اثر ڈال دیا ہوگا ایسے لوگوں کو بعض دفعہ میں یہاں تک کہتا رہا ہوں کہ تم اپنے نمائندے مقرر کرو جو ساتھ بیٹھیں اور پھر اپنے نمائندوں سے سن کر مجھے بتاؤ کہ کیا ناجائز حرکت ہوئی ہے.جس عہدیدار کے سر پر ایسا زبر دست نظام موجود ہو کہ وہ ذرا بھی راہ راست سے ہے تو اس کی نگرانی کی جائے ، اس کے متعلق تحقیقاتی کمیشن بیٹھیں اور اگر وہ غلطی کرتا ہے تو اس کی پاداش میں اس کو عہدے سے معطل یا معزول کرنا پڑے تو پھر ایسے شخص کوڈ کٹیر کہہ دینا بڑا ظلم ہے.نظام جماعت میں تو کوئی ڈکٹیرا ہو ہی نہیں سکتا.خدمت کرنے والے لوگ ہیں.ایک بے چارہ سیکرٹری مال ہے سوائے اس کے اس کو مشغلہ ہی کوئی نہیں کہ وہ خدا کی خاطر پیسے اکٹھا کرتا پھرے.دنیا جب اپنے پیسے اکٹھے کرنے میں مصروف ہوتی ہے وہ گھر گھر پھرتا ہے ، دروازے کھٹکھٹاتا ہے اور رات کو اپنے حساب کتاب لے کر بیٹھ جاتا ہے.بعض کے بیوی بچے مجھے شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے لئے بھی تو اس کا کچھ رہنے دیں.یہ تو دن رات جماعت کے کاموں میں ہے.بعض ایسے امراء ہیں جن کے بیوی بچے مجھے بتاتے ہیں کہ مدتیں ہو گئیں ہیں ہمارے بچوں نے ان کو نہیں دیکھا.رات کو کام کر کے دیر سے آتے ہیں، صبح جلدی چلے جاتے ہیں اور سوائے نظام جماعت کے ان کا ہے ہی کچھ نہیں.ہمارے تو کسی کام کے نہیں رہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ وہ ان کے اتنے کام کے ہیں کہ ان کو اندازہ ہی نہیں.ان کی برکتیں وہ نسل ہی نہیں بلکہ نسلاً بعد نسل ان کی اولا د پاتی رہے گی اور آسمان سے یہ برکتیں بارش کی طرح ان پر نازل ہوں گی ایسے وفاداروں کو خد اکبھی تنہا نہیں چھوڑا کرتا کبھی بے جزا کے نہیں چھوڑ ا کرتا." (خطبات طاہر جلد 10 صفحہ 727-729)

Page 223

210 میرے بوجھ کی فکر نہ کریں اگر کسی کے خلاف شکایت ہے تو مجھے ضرور لکھیں (خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1991ء) "نظام جماعت تو ایک لاثانی نظام ہے اس کی کوئی مثال دنیا میں نہیں ہے.اس کو چھوٹی ادنی ادنیٰ باتوں سے ذلیل ورسوا نہ کریں.اگر آپ نے اس نظام کی قدر نہ کی تو یہ سوچیں کہ یہ نظام پہلے بھی ایک دفعہ ناقدری کے نتیجے میں اٹھا لیا گیا تھا اب دوبارہ خدا نے آپ کو نعمت دی ہے اور الحمد للہ اس وعدہ کے ساتھ دی ہے کہ یہ نظام اب ہمیشہ رہے گا مگر ناقدری کرنے والوں کو سزا ضرور ملے گی اس لئے احتیاط سے کام لیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.آپ کو نظام جماعت کے تابع رہتے ہوئے امیر ہی کا سوال نہیں کسی بھی عہدیدار سے کوئی شکایت ہوتو وہ مجھے لکھ سکتا ہے.خواہ وہ چھوٹا عہد یدار ہو خواہ وہ بڑا عہدیدار ہواور میں جماعت کو پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ میرے بوجھ کی فکر نہ کریں.اگر مجھ تک تکلیف دہ باتیں نہ پہنچیں تو مجھے تکلیف ہوگی لیکن ہوں کچی یہ شرط ہے اگر تقویٰ کے خلاف کوئی جھوٹی باتیں پہنچیں گی تو پھر لازماً ایسے شخص کو سزا دی جائے گی.وہ دہرا جرم کرتا ہے.خلیفہ وقت کو دھوکا دیتا ہے اور خدا کے نظام سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے.کچی شکایت ہو.بچے طریق پر پہنچے جس کے خلاف شکایت ہے اس کی معرفت بھجوائی جائے اس کی نقل مجھے بھجوادی جائے.پھر دیکھیں لازماً کارروائی ہوگی لیکن کارروائی وہ ہوگی جو تقویٰ تقاضا کرتا ہے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے حق میں ضرور ہوگی حالانکہ بالکل غلط بات ہے.بعض دفعہ ایسے ایسے ظالمانہ الزام عہدیداروں پر لگائے جاتے ہیں کہ پہلا خط پڑھ کر تو پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے کہ اچھا جماعت میں ایسے ایسے خوفناک عہدیدار بھی ہیں.جب تحقیق کی جاتی ہے تو بات برعکس نکلتی ہے.شکایت کنندہ ظالم نکلتا ہے.اب میں نے اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر فیصلے کرنے ہیں.شکایت کنندہ کے دل کی حالت کو دیکھ کر تو فیصلے نہیں کرنے جب میں فیصلہ کرتا ہوں تو پھر بعض دفعہ وہ کہہ دیتا ہے.بعض دفعہ دل میں رکھتا ہوگا کہ لو جی خلیفہ کے پاس بھی انصاف نہیں لیکن میں آپ کو ایک اور بات بتا تا ہوں کہ خلیفہ کوئی ڈکٹیرہ نہیں ہے کیونکہ خلیفہ کے اوپر سب سے زیادہ مقتدر اور طاقتور ہستی بیٹھی ہوئی ہے جو ہر وقت اس کی نگرانی کرتی ہے." (خطبات طاہر جلد 10 صفحہ 730-731)

Page 224

211 مشتمل ہو مجلس عامله با اخلاق، با ادب، با تمیز افراد پرمش (خطبہ جمعہ 11 اکتوبر 1991ء) ایک اور ہدایت ساری دنیا کی جماعتوں کو یہ دینی چاہتا ہوں کہ جہاں تک میں نے جھگڑوں اور فتنوں کی تاریخ کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے ایک سبب ہر جگہ موجود دکھائی دیا ہے کہ جب بھی کوئی بدا خلاق آدمی مجلس عاملہ میں آجائے تو اس سے ضرور فتنے پیدا ہوتے ہیں.ایسا شخص جس کی زبان میں تیزی ہے جو طبعا بدخلق آدمی ہے اور پرواہ نہیں کرتا کہ اس کی بات سے کسی کا دل کہتا ہے.اپنے ساتھی کے ساتھ ادب اور احترام سے گفتگو کرنے کی بجائے کڑوی بات پتھر کی طرح مارتا ہے.بعض لوگ اس کا نام سچائی قرار دیتے ہیں کہ دیکھو جی ! ہم تو سچی بات کریں گے.ہم تو رکھیں گے نہیں.یہ سچی بات نہیں ہے یہ بد تمیزی ہے.سچ بولنے میں اور سچ بولنے میں فرق ہوا کرتا ہے.ایک با اخلاق انسان سچ بات کہتا ہے مگر حتی المقدور کوشش کے ساتھ کہ کسی کو دکھ نہ پہنچے اور جو بچ کے نام پر بد تمیزیاں کرتے ہیں وہ بچے ہوتے بھی نہیں ہیں.یہ بھی میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب ان کا جائزہ لیا جاتا ہے تو بیچ کے نام پر بڑے بڑے جھوٹ بول جایا کرتے ہیں.بدخلق انسان سے بچیں اور چونکہ مجالس عاملہ کا انتخاب جماعت کرتی ہے اس لئے جماعت کو اپنے انتخاب کے وقت اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے.جو شخص اپنی روزمرہ کی گفتگو میں با ادب نہیں ہے اور زبان کا کرخت ہے اور چھوٹی چھوٹی بات پر بھڑک اٹھتا ہے ایسے شخص کو اگر آپ مجلس عاملہ میں منتخب کر کے لائیں گے تو اس مجلس عاملہ کا تقدس باقی نہیں رہے گا اور اس کے نتیجے میں صدر یا امیر یا دوسرے عہد یداروں کے لئے بھی شرمندگی کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں اور ساری جماعت کو بھی وہ فتنوں میں ملوث کر سکتا ہے.امرائے جماعت کو میری یہ نصیحت ہے کہ وہ جائزہ لیں اگر ان کی عاملہ میں یا ان کے ماتحت جماعتوں کی عاملہ میں کوئی بدخلق لوگ داخل ہو گئے ہیں تو مجھے لکھیں تا کہ پیشتر اس سے کہ کوئی فتنہ پیدا ہو، وہ خودا ابتلاء میں پڑیں یا دوسروں کو ابتلاء میں ڈالیں ان کو ان عہدوں سے سبکدوش کر دیا جائے.اگر مجالس عامله با اخلاق ، با ادب با تمیز افراد جماعت پر مشتمل ہوگی تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایسی مجالس کوفتوں کا ڈر نہیں ہوا کرتا." (خطبات طاہر جلد 10 صفحہ 809-810)

Page 225

212 عہدیداران، اپنا، اپنے کاموں کا اور اپنے طریق کار کا محاسبہ کریں خطبہ جمعہ 15 نومبر 1991ء) اب میں اس مضمون کی طرف لوٹتا ہوں جو میں نے گزشتہ جمعہ میں شروع کیا تھا یعنی دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں حکمت عملی کو اختیار کرنا کیونکہ قرآن کریم نے ہمیشہ دعوت الی اللہ کے مضمون کے ساتھ حکمت پر زور دیا ہے اور اس کے علاوہ صبر پر زور دیا ہے.میں نے گزشتہ خطبہ میں یہ عرض کیا تھا کہ میں آئندہ انشاء اللہ عہدیداران منتظمین اور امراء کو مخاطب کرتے ہوئے ان کو سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ قرآن کریم کی تعلیم کی رو سے ان پر کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.پس دُعا کے بعد سب سے بڑی ذمہ داری ہے اور حکمت کا خلاصہ اور حکمت کی روح ہے کہ دعا کے ذریعہ کام شروع کیا جائے تمام امراء اور عہد یداران جن کا اس دعوت الی اللہ کے کام سے تعلق ہے ان کو میں دوبارہ تاکید کرتا ہوں کہ بہت دُعائیں کیا کریں اپنے لئے بھی اور اپنے تابع دوسرے خدمت دین کرنے والوں کے لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو حکمت کے اعلی گوہر عطا فرمائے اور قرآن کریم ایک مومن سے جیسی حکمت کا تقاضا کرتا ہے ویسی حکمت اپنے فضل سے خود آپ کو عطا فرمائے اور آپ کی تبلیغ کارگر ہو، ثمر دار ہو، اور محض ایک کوشش نہ ہو بلکہ ایک نتیجہ خیز کوشش ہو.اس سلسلہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ قول ہمیشہ یادرکھنا چاہئے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.اس کے مختلف معانی ہیں.بہت ہی عارفانہ کلام ہے لیکن ایک معنی یہ بھی تو ہے کہ جو درخت پھل نہ دے وہ بنجر ہی کہلائے گا خواہ آپ اس کی کیسی ہی خدمت کریں.کیسی اس کی آبیاری کریں.دیکھنے میں وہ سرسبز وشاداب ہی کیوں نہ دکھائی دے لیکن اگر پھل سے عاری ہے تو وہ درخت کاٹے جانے کے لائق ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی.پس اپنے تبلیغی کاموں کو حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ پھلوں سے جانچیں اور پھلوں سے جانچنے کے لئے ایک تو پھلوں کی مقدار، تعداد دیکھنی ضروری ہے.اگر کوششیں بڑھتی چلی جارہی ہیں ،خرچ بڑھ رہے ہیں، آپ محنت کر رہے ہیں ، ساری جماعت بظاہر مستعد دکھائی دیتی ہے، فائلوں کے منہ بھرے ہوئے ہیں، رپورٹوں میں صفحات کے صفحات تبلیغی کارروائیوں پر مشتمل ہیں لیکن جب نتیجہ تک پہنچتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہی گنتی کے چند آدمی جو پہلے تھے ویسے ہی اس سال بھی ہیں ویسے ہی اس سے پہلے تھے تو درخت کو پھل سے پہچاننے کی کیوں کوشش نہیں کرتے.عہدیداران اپنا محاسبہ کریں پس سب سے پہلا کام عہدیداران کا یہ ہے کہ اپنا اور اپنے کاموں کا اور طریق کار کا محاسبہ کریں اور بڑی گہری اور تفصیلی نظر سے دیکھیں کہ وہ اب تک کیا کیا ذرائع استعمال کر چکے ہیں اور کب سے وہ ذرائع

Page 226

213 استعمال کر رہے ہیں اور ان ذرائع کے نتیجہ میں کہیں کوئی پھل بھی لگا ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو ضروری نہیں کہ وہ ذرائع بریکار سمجھے جائیں بلکہ استعمال کرنے والوں پر بھی نظر کرنی پڑے گی اور بھی بہت سے ایسے اسباب ہیں جن کا ذرائع کے استعمال سے تعلق ہے اور ہر سطح پر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ جو ان ذرائع کو استعمال کر رہا ہے وہ ذاتی طور پر خود کیا ہے وہ دعا گو ہے بھی کہ نہیں اور اس کی ذاتی توجہ پورے اخلاص کے ساتھ اور انہماک کے ساتھ ان کاموں کی طرف ہے بھی کہ نہیں؟ پس ذرائع کی چھان بین ان کی جانچ پڑتال، ذرائع کو استعمال کرنے والوں کے حالات اور ان کی جانچ پڑتال پھر ان کی اپنی صلاحیتوں کا جائزہ اور یہ دیکھنا کہ ہر شخص اپنی صلاحیت کے مطابق ہتھیار استعمال کر رہا ہے کہ نہیں.یہ ایک اتنا وسیع مضمون ہے کہ اسی پر اگر عہدیداران توجہ دیں تو ان کو معلوم ہوگا کہ یہ ایک دو دن کی بات نہیں ہے.مسلسل توجہ اور محنت کا تقاضا کرنے والا معاملہ ہے لیکن اس معاملہ میں میں کچھ باتیں مزید وضاحت سے رکھنی چاہتا ہوں کیونکہ اس قسم کی نصیحتیں میں بار ہا کر چکا ہوں اور وہ پیسٹس بھی سب جماعتوں میں پہنچائی گئی ہیں لیکن چونکہ اکثر ممالک پر اثر نہیں پڑا اس لئے میرا بھی تو یہ کام ہے کہ میں محاسبہ کروں اور دیکھوں کہ میرے اختیار کردہ ذرائع میں کیا نقص رہ گئے تھے اور دوبارہ میں پیش کروں تو کیا نئی بات پیدا کر کے پیش کروں کہ وہ باتیں جو پہلے پھل نہ لا سکی تھیں اب پھل لے آئیں.جماعت احمدیہ کی زمین الحمد لله زرخیز ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جماعت کی زمین بحیثیت مجموعی زرخیز ہے اور گزشتہ چند سالوں میں جماعت نے مجموعی حیثیت سے تبلیغ میں جو نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ اس بات پر تو گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ نصیحتیں سب بے کار نہیں گئیں اور محنت ضائع نہیں گئی بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ ان کوششوں کو پھل ضرور لگایا ہے لیکن کتنی زمینیں ایسی ہیں جنہوں نے بیج کو بڑھا کر واپس کیا ہے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے.مجموعی طور پر اضافہ تو ہوا ہے اور غیر معمولی اضافہ ہوا ہے لیکن ہر جگہ نہیں ہوا.بہت سے ایسے علاقے ہیں جو مثلا ترقی یافتہ ہیں.یورپ اور امریکہ اور اسی طرح کے ترقی یافتہ ممالک جاپان ہے اور ان ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ کے درمیان کے ممالک جو کچھ تیسری دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، کچھ دوسری دنیا سے کچھ پہلی دنیا سے یعنی ان کے مختلف طبقات مختلف زمانوں میں بس رہے ہیں ان کے حالات کا بھی آپ جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ اکثر ممالک میں ابھی تک ان ذرائع کے نتیجہ میں کوئی نمایاں کامیابی نہیں ہوئی لیکن جہاں ہوئی ہے ان کا میں نے جائزہ لیا ہے تو معلوم ہوا ہے کہ جہاں اخلاص اور محنت کے ساتھ امیر اور اس کے ساتھ شامل ٹیم نے واقعہ پوری لگن سے کام کیا ہے وہاں یہ بیان کردہ ذرائع کارگر ثابت ہوئے ہیں.اس لئے ذرائع کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے.بار بار ان کو یاد کرانے کی ضرورت ہے بار بار مختلف ذرائع استعمال کرنے کے طریق سمجھانے کی ضرورت ہے.ان خامیوں پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے جن کے نتیجہ میں

Page 227

214 بعض دفعہ محنتیں بے کار چلی جاتی ہیں اور درخت ثمر دار نہیں ہوتے.عہدیداران، دبے ہوئے مضامین کو نکال کر خود بھی سنیں اور دوسروں کو بھی سنائیں یہ جونشو ونما کا مضمون ہے یہ ساری کائنات کی ترقی کا خلاصہ ہے اور کائنات پر غور کرنے سے خواہ وہ زندگی کے وجود سے پہلے کی کائنات ہو یا زندگی کے وجود کے بعد کی کائنات ہو، انسان کو بہت سے حکمتوں کے موتی ملتے ہیں اور انسان کو اپنی روحانی انفرادی اور جماعتی ترقی کے لئے بہت سے گر ہاتھ آتے ہیں.پس ان سب مضامین پر غور کے نتیجہ میں جو باتیں اللہ تعالیٰ مجھے عطا فرما تا رہتا ہے مختلف مواقع پر میں انہیں بیان کرتا رہا ہوں اور بلاشبہ یوں گھنٹے کی وہ نصیحتیں ہیں جو مختلف کیسٹس میں یا ویڈیوز وغیرہ میں موجود ہیں لیکن دیتی چلی جارہی ہیں.وہ باتیں کہی جاتی ہیں لیکن جماعت کی بھاری اکثریت کے سامنے وہ نہیں آتیں اور ان کے اندر جو نشو و نما کی صلاحیتیں ہیں انہیں تحریک نہیں ملتی.اس لئے میں یہ زور دیتارہا ہوں کہ جو عہد یداران ہیں وہ صرف اس بات پر اکتفا نہ کریں کہ میری باتیں سمجھ کر آگے دوستوں تک پہنچا ئیں بلکہ یہ کوشش کریں کہ ان دبے ہوئے مضامین کو نکالیں اور حتی المقدور کوشش کریں کہ وہ احمدی احباب جو دعوت الی اللہ کا جذبہ رکھتے ہیں ان کو یہ چیزیں سنائی جائیں.مجلس عاملہ کے ممبران بھی سنیں اور بار بار سنیں کیونکہ سننے کے نتیجہ میں کچھ تو ان کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نئے طریق کار معلوم ہوں گے اور کچھ ان کے اند رخود تحریک پیدا ہوگی.ہرانسان جو ایک کام کا ارادہ کرتا ہے اور کسی مضمون کو پڑھتا ہے نئے علم کے نتیجہ میں اُسے روشنی کا احساس ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھے روشنی مل گئی مگر یہ نہیں جانتا کہ روشنی کا سفر لا متناہی ہے.ایک روشنی کے بعد آگے بھی روشنی ہوا کرتی ہے اس روشنی کے بعد پھر اور بھی روشنی ہوتی ہے.وہ لوگ جو خوابوں میں جاگتے ہیں ان کو بھی جاگنے کا ایک احساس تو ضرور ملتا ہے اور وہ شعور حاصل کرتے ہیں کہ جا گنا اس کو کہتے ہیں لیکن جب سچ مچ جاگتے ہیں تو وہ کوئی اور قسم کا شعور ہوا کرتا ہے اور جاگنے کے بعد کچھ عرصے تک آنکھیں ملتے رہنے کے وقت جو جاگ کی کیفیت ہے وہ تبدیل ہو جاتی ہے.جب پانی کے چھینٹے پڑتے ہیں اور مستعدی کے ساتھ انسان باہر آتا ہے.پھر جب گھر سے نکل کر باہر دھوپ میں قدم اُٹھاتا ہے تو اس کی جاگنے کی کیفیت میں ایک نیا نور پیدا ہو جاتا ہے.پھر روزمرہ کی زندگی میں حصہ لیتے ہوئے بہت سی باتیں غفلت کی حالت میں دیکھی جاتی ہیں اور جب انسان کو اندرونی طور پر جاگنے کی توفیق ملتی ہے تو ہر قدم پر اس کو ایک نئی روشنی محسوس ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اب میں جاگا ہوں اور جب انسان معرفت کے مزید درجے حاصل کرتا ہے تو بعض اوقات بڑے بڑے صوفیاء نے آخر وقت یہی محسوس کیا کہ ہم جاگے ہی نہیں تھے بلکہ ایک نسبتی کیفیت تھی.چنانچہ میر درد نے ایک شعر میں بڑی حسرت سے اس معرفت کا یوں اعلان کیا کہ : وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

Page 228

215 تو خواب اور افسانوں کی حقیقتیں فی ذاتہ تو یہ حقیقتیں نہیں ہیں لیکن اکثر ہماری حقیقتیں جن کو ہم حقیقت سمجھ رہے ہوتے ہیں ان کی اپنی حیثیت خواب اور افسانے کی ہوتی ہے.یہ عمومی کیفیت ہے اس لئے انسان کو کسی مقام اور کسی مرتبے پر جا کر پورے یقین اور وثوق کے ساتھ یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ میرا روشنیوں کا سفر تمام ہوا اور مجھے سب کچھ حاصل ہو گیا.یہ بجز کا مقام ہے جو انسان کی تعلیم و تربیت کرتا ہے.دُنیا میں کوئی سفر بھی حقیقی بجز کے بغیر ممکن نہیں اور کوئی سفر بھی روشنی کے بغیر ممکن نہیں ، تو میں عہدیداران سے عاجزانہ طور پر یہ درخواست کرتا ہوں کہ جو کچھ اس مضمون پر ان کو سمجھایا گیا ہے وہ خود بھی سنیں اور توجہ سے سنہیں اور پھر اپنے نفس کا محاسبہ کریں اور اسی طرح جن لوگوں کو وہ اس کام میں شامل کرنا چاہتے ہیں.جن لوگوں کے دلوں میں تحریک پیدا کرنا چاہتے ہیں انہیں اپنی زبان میں سُنانے کی بجائے میری زبان میں سُنائیں.یہ کوئی بے وجہ تفاخر کے نتیجہ میں میں ہر گز نہیں کہہ رہا.ایک ایسی حقیقت ہے جس کو کہنا میرے لئے دشوار ہے کیونکہ میری ذات سے تعلق رکھتی ہے لیکن اس کے باوجود اپنے حیاء کے جذبات کو قابو کر کے ایک فرض ادا کرنے کے طور پر کہہ رہا ہوں کہ خلیفہ وقت کو جو باتیں خدا تعالیٰ دینی کاموں سے متعلق سمجھاتا ہے ان کو کہنے کے انداز بھی عطا کرتا ہے اور ان باتوں میں جیسی گہری سچائی ہوتی ہے ویسی دوسرے کی باتوں میں جگہ جگہ کہیں کہیں تو ہوسکتی ہے مگر بالعموم ساری باتوں میں ویسی سچائی نہیں آسکتی اور ویسا اثر نہیں پیدا ہو سکتا.دوسرے سننے والا ہمیشہ بات کے نتیجہ میں اثر قبول نہیں کیا کرتا بلکہ بسا اوقات کہنے والے کے اثر کے نتیجہ میں اثر قبول کیا کرتا ہے اور یہ ایک ایسا انسانی فطرت کا راز ہے جسے سمجھے بغیر آپ خدمت دین کا حق ادا نہیں کر سکتے.خلیفہ وقت کی نصیحت دوسری نصیحتوں سے زیادہ مؤثر ہوتی ہے کلام الہی کا اپنا ایک اثر ہے.اُسے لاکھ اپنی زبان میں سمجھانے کی آپ کوشش کریں جب تک کلام الہی کے حوالے سے وہ بات نہ سمجھائی جائے وہ اثر نہیں پیدا ہو سکتا.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کا ایک اثر ہے جو 1400 سال سے زائد عرصہ گزرا وہ کم ہونے میں ہی نہیں آتا وہ ایسی طاقت ہے جو ہمیشہ کی زندگی رکھتی ہے اور ایسا کلام ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ہے.اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کے بعد اگر کوئی زندہ کلام ہے تو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے اور آپ کی برکت سے اور آپ کی غلامی میں پھر یہ طاقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نصیب ہوئی اور اسی لئے میں ہمیشہ زوردیتا رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام خصوصاً ملفوظات کی طرف جماعت کو توجہ کرنی چاہئے.جیسی زندگی بخش طاقت اس زمانے کے مریضوں کے لئے اور کمزوروں اور حیفوں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصیحت میں ہے ویسی کہیں اور نہیں دیکھی گئی.چند فقرے پڑھنے کے بعد ہی انسان جھر جھری لے

Page 229

216 کر بیدار ہو جاتا ہے اور ان مضامین کو پڑھنے کے باوجود جن کے متعلق پہلے علم ہوتا ہے کہ کیا ہیں پھر بھی ہمیشہ نئی روشنی ملتی ہے، ہمیشہ نئی روحانی لذتیں عطا ہوتی ہیں.تو کہنے والے کی بات کس نے کہی یہ اس لئے بھی اثر کرتی ہے کہ اس کا ایک مرتبہ اور مقام ہے جو اپنے دل کو بھاتا ہے.اپنے دل کو پیارا لگتا ہے اور پیار کے نتیجہ میں بات میں زیادہ اثر پیدا ہو جاتا ہے اور دوسرے یہ کہ جو کہنے والے خدا کے زیادہ قریب ہیں ان کی باتیں بھی خدا کے زیادہ قریب ہوتی ہیں اور ان میں اثر بھی نسبتاً زیادہ ہوتا ہے.پس ہر خلیفہ کے وقت میں جو اس زمانے کے حالات ہیں ان کے متعلق جو خلیفہ وقت کی نصیحت ہے وہ لازماً دوسری نصیحتوں سے زیادہ مؤثر ہوگی.اس تعلق کی بناء پر بھی اور اس وجہ سے بھی کہ خدا تعالیٰ نے جو ذمہ داری اس کے سپرد کی ہوتی ہے خود اس کے نتیجہ میں اس کو روشنی عطا کرتا ہے.خلیفہ وقت کی باتوں کو تخفیف کی نظر سے نہ دیکھیں پس پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ ان حکمت کی باتوں کو سمجھیں اور انہیں تخفیف کی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ حتی المقدور کوشش کریں کہ پرانے دبے ہوئے ریکارڈ سے ان ٹیسٹس کو یا ویڈیوز کو یا تحریروں کو نکالیں اور اگر ساری جماعت کو یکدفعہ ان باتوں سے روشناس نہیں کرا سکتے کیونکہ یہ بہت مشکل کام ہے میں جانتا ہوں، میں نے ہر میدان میں عملی کام کر کے دیکھے ہوئے ہیں کہنا آسان ہے کرنا اتنا آسان نہیں ہوا کرتا مگر یہ ضروری ہے کہ ہر مشکل سے مشکل کام بھی کچھ نہ کچھ ضرور کیا جاسکتا ہے.پس میں یہ تقاضا نہیں کرتا کہ یہ ساری باتیں آنا فانا کر دکھائیں مگر آپ کے پروگرام میں ان کو ایک اہمیت حاصل ہونی چاہئے.آپ کے پروگرام میں ان کو ایک اولیت نصیب ہونی چاہئے اور اس کے نتیجہ میں پھر ہر وقت جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ کتنے احباب جماعت تک جو تبلیغ کے کاموں میں متعلق ہو رہے ہیں یہ باتیں خلیفہ وقت کی آواز میں اسی کی زبان سے پہنچائی جا چکی ہیں.اب اس کے لئے ایک نظام مقرر کرنا پڑے گا امیر کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ تمام ذمہ داریاں ادا کرنے کے علاوہ ہر وقت اس قسم کے تفصیلی مضامین کی بھی نگرانی کرے لیکن آخری نگرانی بہر حال اُسے کرنی ہے.جہاں امیر کی آنکھ غافل ہوئی وہاں ہر طرف اندھیرا ہو جائے گا اس لئے امیر کے لئے ضروری ہے کہ ایسا نظام مقرر کرے کہ اس کے مددگار اور اس کے نصیر پید اہوں اور جب میں یہ کہتا ہوں تو معا قرآن کریم کی وہ آیت پھر ذہن میں اُبھرتی ہے کہ وہ دعا اس موقعہ پر بہت ہی ضروری ہے.عہد یداران اس دعا کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کریں رَبِّ ادْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطنًا نَصِيرًا (بنی اسرائیل : 81) کیونکہ اس دُعا کا تعلق ظاہری سفر سے بہت زیادہ

Page 230

217 روحانی سفر سے ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کور وحانی سفر میں جو مدارج عطا ہونے تھے ان مدارج سے تعلق ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ہر مرحلہ جو طے ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیر کے ذریعہ طے ہوتا ہے اور محض اپنی کوشش سے طے نہیں ہوتا.پس اس دُعا کے ساتھ جب امراء اور دیگر عہدیداران اپنے کام کا آغاز کریں گے اور منصوبہ بندی کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ان کونئی روشنی نصیب ہوگی.ان کو نئے مددگار ملیں گے اور یہ محض ایک عقلی استدلال نہیں ہے بلکہ تجربے کی بات ہے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر دعا پر اخلاص کے ساتھ پورا انحصار ہو، یقین کے ساتھ انحصار ہو تو روزمرہ کے صرف طبعی مددگار نہیں ملتے بلکہ ایسے مددگار ملتے ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ یقین دلاتا ہے کہ یہ دعا کا نتیجہ ہیں.ایسے مددگار جو پہلے غافل تھے وہ جاگ اُٹھتے ہیں.ایسے لوگ مد دکو آ جاتے ہیں جن کے متعلق انسان کو توقع ہی نہیں تھی اور نصیر کا مضمون دن بدن شہادت کی دنیا میں ظاہر ہوتا ہے.گویا اللہ تعالیٰ کے فیض اور اس کا فضل نصیر کا روپ دھار دھار کر غیب سے وجود میں آجاتا ہے اور واقعہ آپ ان مددگاروں کو دیکھتے ہیں اور پھر وہ مددگار جو خدا کی طرف سے عطا ہوتے ہیں ان میں سلطانیت پائی جاتی ہے.یہ ایک بہت ہی گہرا اور عظیم مضمون ہے جو قرآن کریم کی اس دعا نے ہمیں سمجھایا کہ دنیا کے مددگار ضروری نہیں کہ اپنی مدد میں طاقت بھی رکھتے ہوں اور ان کی مدد کو غلبے کی ضمانت نصیب ہومگر اس دعا کے نتیجہ میں جو مددگار ملتے ہیں ان کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ تم نے سُلْطَنَّا نَصِيرًا مانگے تھے اور تمہیں سُلْطنًا نَصِيرًا ہی عطا ہوئے ہیں اور اس طرح تم پہچان لو کہ جو کچھ تمہیں ملا ہے تمہیں دعا کے نتیجہ میں ملا ہے.سلطان کا مطلب ہے غالب، بادشاہ کو بھی سلطان کہتے ہیں جس میں طاقت ہو، جو کرنا چاہے وہ کر دکھائے ، جس میں دلیل بھی ہو معقولیت بھی ہو.سلطان بہت عظیم لفظ ہے.پس ایسے نصیر ملیں گے جو استدلال کی قوت رکھتے ہوں گے.جن میں غلبے کی صلاحیت موجود ہوگی جو جیسا چاہیں وہ کر کے دکھا سکتے ہوں گے.ایسے مددگار اگر حاصل کرنے ہیں تو اس سفر کے آغاز میں بھی یہ دعا کریں اس سفر کے دوران بھی یہ دعائیں کیا کریں.محاسبہ کرنے کا طریق محاسبہ کرتے وقت بہت سی باتوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا.مثلا سفر سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس وقت آپ کس مقام پر کھڑے ہیں تمام حالات کا جائزہ لینا اور اور یہ دیکھنا کہ ہم کون کون سے ذرائع استعمال کر رہے ہیں یہ محاسبے کے لئے ضروری ہے لیکن اس کو حقیقت کی نظر سے دیکھنا ہوگار پورٹوں کی زبان میں نہیں پڑنا

Page 231

218 بلکہ واقعہ جانچنا ہے، دیکھنا ہے، پرکھنا ہے کہ جو کچھ ہونا چاہئے وہ ہو بھی رہا ہے کہ نہیں اور کتنا ہورہا ہے.اب کہنے کو تو سب کام کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ جو جو ذرائع ہمارے اختیار میں تھے ہم نے پورے کر لئے ہم نے خطوط لکھے ہم نے تمام احباب جماعت کو بار بار متوجہ کیا ، ان کو بتایا کہ لٹریچر کے ذریعے ، دوسرے ذرائع سے تعلقات بڑھا کر، دعوتیں کر کے، ویڈیو دکھا کر ، آڈیوسنا کر اس طرح تم تبلیغ کر وہم سب کچھ کر چکے ہیں لیکن نتیجہ ابھی نہیں نکلا.تو جو سب کچھ کر چکے ہیں ان میں پہلے دیکھنا یہ ہے کہ وہ کر بھی چکے ہیں کہ نہیں.اس چیز نے آگے جا کر عملی جامہ پہنا بھی ہے کہ نہیں لیکن جو سیکرٹری تبلیغ ہے جب وہ یہ لکھ دیتا ہے تو اپنی رپورٹ میں ہمیں مطلع کر دیتا ہے کہ ہم نے سب ذرائع اختیار کر لئے حالانکہ یہ درست بات نہیں ہے.اگر سیکرٹری تبلیغ کھیت کے کنارے پر جا کر دیکھے کہ وہاں پانی پہنچا بھی تھا کہ نہیں تو اس کو معلوم ہوگا کہ وہ سب زبانی جمع خرچ تھا.جہاں یہ باتیں عمل میں ڈھلنی چاہئیں وہاں یہ باتیں ہی رہیں اور عملاً کچھ بھی نہیں ہوایا ہوا تو ایک دو کے سوا کسی نے کچھ نہیں کیا اور پھر جس نے جس طرح کیا اس پر نظر رکھنا یہ ایک بہت وسیع مضمون ہے.آج کے خطبہ میں تو اس کو بیان کرنا ممکن نہیں ہوگا.لیکن آئندہ انشاء اللہ اگر کوئی اور مضمون ایسا نہ ہوا جس کو پہلے بیان کرنا ضروری ہو تو میں اس کو مزید تفصیل سے آپ کے سامنے رکھوں گا.دعوت الی اللہ کے لئے بار بار مجلس عاملہ کا اجلاس بلا میں سر دست میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ امراء کو ان باتوں کی روشنی میں اور جومزید باتیں میں ان کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں ، نئے سرے سے اس سارے کام کو ترتیب دینا چاہئے.مجلس عاملہ کی ایک میٹنگ کافی نہیں ہے.بار بار ایسی میٹنگز بلانی پڑیں گی.اگر ہنگامی طور پر چند دن کی رخصتیں لے کر بھی سب کو اکٹھا دن رات بیٹھنا پڑے تو ایسا کریں لیکن مقصود یہ پیش نظر ہوگا کہ ہم نے اپنی گزشتہ حالت پر راضی نہیں رہنا کیونکہ بہت بڑا کام ہے جو ہمیں کرنا ہے اور اگر ہم نہیں کریں گے تو ہم خوابوں میں بس رہے ہوں گے اور اگر اس حالت میں ہم نے جان دے دی تو پھر میر درد کا یہ شعر ہم پر بھی صادق آئے گا.وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا پس اس خواب کو حقیقت میں بدلنا ہے.یہ مقصد ہے اس کے لئے عزم کی ضرورت ہے.اس کے لئے ایک چیلنج کو قبول کرنے کی ضرورت ہے اس فیصلے کی ضرورت ہے کہ ہم نے بہر حال تبدیلی کرنی ہے اور اس یقین کی ضرورت ہے کہ جو جماعت آپ کو میسر ہے اس میں اس بات کی صلاحیت موجود ہے، ہر احمدی میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ ایک سے دو اور دو سے چار ہو.بیج خراب نہیں ہیں.بیج صحیح استعمال نہیں ہور ہے یا جس طرح ان میں بعض دفعہ پڑے پڑے بوسیدگی سی پیدا ہو جاتی ہے.ایسی کیفیت ہوگی لیکن بیجوں میں اُگنے کی صلاحیت ضرور موجود ہے.

Page 232

219 دعوت الی اللہ کے لئے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کارلائیں....اس لئے جاگئیں اور بیدار ہوں اور یقین کریں کہ خدا تعالیٰ نے جیسے دنیا کے نظام میں اکثر بیجوں میں پھولنے پھلنے کی صلاحیت رکھی ہوتی ہے، اکثر انسانوں کو یہ صلاحیت بخشی ہے کہ وہ صحیح طریق اختیار کریں تو خدا ان کو اولاد عطا کرے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت بھی گزشتہ انبیاء کی جماعتوں کی طرح بالعموم یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ پھولے پھلے اور دنیا میں ایک انقلاب عظیم برپا کر دے اور اتنے وقت میں کرے کہ اس انقلاب کے دوران وہ آپ بیمار نہ ہو چکی ہو.وہ امتیں جن کو پھل دیر سے لگتے ہیں ، بہت لمبے عرصے بعد لگتے ہیں ان کی نشو و نما بعض دفعہ ایسے ذرائع سے ہوتی ہے جو ان کے اختیار میں ہی نہیں ہوتے.خدا کی تقدیر کا وعدہ ہے کہ میں غالب آؤں گا اور غالب کروں گا تو زمانے کے حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ اکثریت ان کے ساتھ ہو جاتی ہے مگر ضروری نہیں کہ ان کے اندر صلاحیتیں باقی رہی ہوں.ضروری نہیں کہ وہ صالح لوگ رہیں.بہت سی فتوحات ایسی بھی ہوتی ہیں جبکہ امتیں بیمار ہو چکی ہوں اور پھر فتح - نصیب ہوتی ہے.حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی قوم جب تک کمزور اور محدود تھی با صلاحیت تھی.اس میں ایسے لوگ تھے اور بڑی کثرت سے تھے جنہوں نے وحدانیت کو ہمیشہ زندہ رکھا، وحدانیت سے چمٹے رہے، وحدانیت کا علم بلند رکھا اس کی خاطر قربانیاں دیں ، خدا کی توحید پر قائم رہے.ان کا ذکر سورہ کہف میں اصحاب الکہف کے ذکر میں ملتا ہے لیکن جب عیسائیت سے روم فتح ہوگیا تو ایسی حالت میں فتح ہوا کہ تثلیث پھیل چکی تھی.اب سوال یہ ہے کہ فتح کا وعدہ تو خدا نے پورا کر دیا کیونکہ وہ مسیح سے وعدہ تھالیکن وہ ایک بیمار فتح تھی.اس کے نتیجہ میں یہ نہیں کہ دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا.میں پہلے بھی اس مضمون پر روشنی ڈال چکا ہوں کہ کچے مذاہب بگڑنے کے باوجود بھی بہت سی صلاحیتیں زندہ رکھتے ہیں اور کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ بچے مذاہب خواہ بگڑ چکے ہوں ان کے غلبے سے دنیا کو فائدہ نہ پہنچا ہو.ایک جہت سے نہ ہو دوسری جہت سے پہنچ جاتا ہے مگر مذہب کا جو اصل اعلیٰ مقصد ہے وہ حاصل نہیں ہوتا اور ہر مذہب کا اعلیٰ مقصد تو حید کا قیام ہے.پس عیسائیت کی بڑی بدنصیبی ہے کہ ایسی حالت میں فتح پائی جبکہ تو حید بالعموم ہاتھ سے جاتی رہی تھی اور بہت تھوڑے تھے جو تو حید پر قائم تھے.پس صرف یہ بحث نہیں ہے کہ آپ میں بڑھنے اور پھلنے پھولنے کی صلاحیت ہے بلکہ اس صلاحیت کو اس تیزی سے استعمال کریں کہ آپ کی روحانی صلاحیتیں ، ابھی زندہ ہوں اور ان میں نقص نہ پیدا ہو چکے ہوں.اگر بیمار حالت میں آپ کو ترقی نصیب ہو تو اس ترقی کا کوئی نمایاں فائدہ نہیں ہے.کچھ نہ کچھ فائدہ تو ضرور ہوگا لیکن اعلیٰ مقاصد میں آپ نا کام ہو چکے ہوں گے اس لئے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ترقی کی رفتار کا اقدار کی حفاظت سے ایک گہرا تعلق ہے.بہت دیر تک اگر قوموں کو ترقی نہ

Page 233

220 ملے تو بعض دفعہ آہستہ آہستہ زنگ لگنے شروع ہو جاتے ہیں اور غیر معاشروں سے وہ مغلوب ہونے لگ جاتے ہیں.اس لئے معاشرے کے اندر ایک طاقت پیدا ہونی چاہئے اور وہ تعداد کے بڑھتے رہنے سے ہوتی ہے.وہ طاقت جواس یقین کے ساتھ پیدا ہوتی ہے کہ ہم غالب آرہے ہیں اسکے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اقدار کی بھی حفاظت ہوتی ہے ورنہ دیر تک ترقی نہ ملنے کے نتیجہ میں یا سست روی کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ جو کچھ انسان نے حاصل کیا ہے وہ بھی ہاتھ سے جانے لگتا ہے اور قومیں روحانی لحاظ سے تنزل اختیار کرنا شروع کر دیتی ہیں.آج روحانی بقا کے لئے تیزی سے آگے بڑھنا ضروری ہے پس بہت سے ایسے محرکات ہیں، بہت سی ایسی وجوہات ہیں جن پر نظر رکھتے ہوئے میں یقین رکھتا ہوں کہ ہماری روحانی بقا کے لئے آج تیز رفتاری سے آگے بڑھنا ضروری ہے.آج ہمیں ایسے ممالک چاہئیں جہاں جماعت احمدیہ غالب آکر ایک غالب معاشرہ دنیا کے سامنے پیش کر سکے ورنہ اپنے معاشرے کی صحت پر ہی نئی نسلوں کو یقین نہیں رہے گا.بہت سے ایسے لوگ ہیں جن سے گفتگو ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں ٹھیک ہے احمدیت اچھی ہوگی مگر وہ کون سی جگہ ہے جہاں احمدیت نے دنیا کی حالت تبدیل کر کے ایک پُرامن معاشرہ پیش کیا ہو جس کے نتیجہ میں ہم کہہ سکیں کہ ہاں یہ تجر بہ باقی دنیا کے لئے بھی لائق تقلید ہے.ایسا کوئی ملک ہمیں نظر نہیں آتا.بستیاں کچھ دکھائی دیں گی مگر ایسی بستیاں جن پر غیر معاشرے کے غلبہ کی وجہ سے اچھی چیز میں بُری چیز کی ملاوٹ ہے اور کوئی بھی ایسی بستی نہیں دکھائی جاسکتی جس کو ہم کہہ سکیں کہ ہاں یہ خالصہ احمدی معاشرے کی نمائندہ ہے کیونکہ اس پر احمدیت ہی اثر انداز ہوئی ہے اور باقی اثرات سے اس بستی کو بچایا گیا ہے.یہ غلبہ کے نتیجہ میں ہوا کرتا ہے.پس مجھے ایک کوڑی کی بھی دلچپسی سیاسی غلبہ میں نہیں مگر اس بات میں دلچسپی ہے کہ احمدیت کو تمدنی اور معاشرتی غلبہ نصیب ہو اور اس کا ایک تعلق سیاسی غلبہ سے ضرور ہے خواہ سیاست کی آپ کو ایک کوڑی کی بھی پرواہ نہ ہو.آپ کو ملکوں میں تمدنی غلبے حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور عددی اکثریت کے بغیر یہ غلبہ حاصل ہو نہیں سکتا.اس لئے اور باتوں کے علاوہ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم تیزی کے ساتھ پھیلنا ، پھولنا، پھلنا بڑھنا شروع کر دیں اور ہر ملک میں ایک انقلابی تبدیلی واقع ہو.پس امراء کو چاہئے اور ان کے ساتھ دوسرے خدمت کرنے والوں کو چاہئے کہ اس مضمون کی اہمیت کو تو سمجھیں.بہت ہی اہم مضمون ہے.امریکہ ہو یا یورپ کے دیگر ممالک وہاں اس کثرت سے اسلام کی دشمن قدریں بڑھ رہی ہیں اور نئے عزائم لے کر اسلام پر حملہ کرنے کے لئے منصوبے بنائے جارہے ہیں.ایسی حالت میں کہ جب آپ کمزور ہیں اتنے کمزور ہیں کہ آپ کا معاشرہ اپنی ذات میں اپنی حفاظت کی اندورنی طاقت بھی نہیں رکھتا تو کہاں تک آپ یہ مقابلہ

Page 234

221 کر سکتے ہیں.دعاؤں اور مسلسل محنت کے ذریعہ کچھ نسلوں کو آپ سنبھال سکتے ہیں مگر آپ کے ماحول میں اردگرد جو لوگ رہتے ہیں وہ آپ سے بحیثیت قوم متاثر نہیں ہو سکتے.انفرادی طور پر ہو سکتے ہیں مگر کونسا ملک ہے جہاں یہ کہا جا سکے کہ احمدی معاشرہ غالب آ گیا ہے اور وہ ایک مثال بن گیا ہے اور تمام ملک کے باشندوں کی نظریں اس معاشرے کی طرف اٹھ رہی ہوں جب تک یہ واقعہ نہیں ہوتا ہماری تمدنی اور معاشرتی قدروں کی کوئی ضمانت نہیں ہے.اس لئے یورپ کے ممالک میں خصوصیت کے ساتھ احمدیت کو ایک جھرجھری لے کر بیدار ہونا چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ بظاہر وہ بیدار ہیں لیکن ابھی خواب میں ہیں.نئے ارادوں کے ساتھ اٹھنا چاہئے اور نئے عزم کے ساتھ نئے منصوبے بنانے چاہئیں اور دعائیں کرتے ہوئے اس سفر کا آغاز کرنا چاہئے جس کا اکثر جگہ آغاز بھی نہیں ہوا.بہت ہی طمانیت کے ساتھ اور بہت ہی خود اعتمادی کے ساتھ بعض یورپ کے امراء مجھے لکھتے ہیں کہ الحمد للہ خدا کے فضل سے آپ کی دعاؤں سے اس سال ہمیں 70 بیعتیں ملی ہیں جبکہ گزشتہ سال مثلاً 55 تھیں اور میں کہتا ہوں اللہ رحم کرے میری دعائیں اگر ایسی ہی ہیں تو اللہ میرے اوپر بھی رحم کرے.میں تو دعائیں کرتا ہوں کہ ہزاروں لاکھوں میں تبدیل ہوں اور مجھے یہ کہہ رہے ہیں کہ تمہاری دعاؤں سے 70 ملی ہیں.میں کہتا ہوں اللہ مجھے معاف کرے یہ کیسی دعائیں ہیں جو نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذلِكَ ایسی نا مقبول ہیں مگر دعائیں بھی اس وقت قبول ہوتی ہیں جب دعا ئیں جن کے لئے کی جاتیں ہیں وہ صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کریں.یہ یاد رکھیں کہ اولاد کے حق میں بھی دعائیں نہیں لگا کرتیں اگر اولا دان کو قبول کرنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو اور اسے تمنا ہی نہ ہو.یہ خدا تعالیٰ کی تقدیر کا ایک عجیب مضمون ہے جس میں فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْ مِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرُ (الکہف: 30) کا مضمون خدا کی تقدیر میں ہر جگہ صادق آتا ہے.ہر شخص کی اپنی تمنا اور خواہش کا اس کی زندگی کا رخ ڈھالنے میں ایک گہرا تعلق ہے اور محض دوسرے کی دعا ئیں کارگر ثابت نہیں ہوتیں جب تک وہ خود ان دعاؤں کے رخ پر چلنے کی تمنا پیدا نہ کرے.ہوائیں ضرور سفر میں محمد ہو جایا کرتی ہیں.سمندری سفروں میں بھی اور دنیا کے عام سفروں میں بھی ہوائی جہازوں کی بھی ہوائیں مدد کرتی ہیں.اور موٹروں کی بھی مدد کرتی ہیں.پیدل چلنے والوں کو بھی مدد کرتی ہیں لیکن جو ہوا کے مخالف چل رہا ہو اس کی کیسے مدد کر سکتی ہیں.اس لئے دعاؤں کا مضمون بھی ہواؤں سے ایک نسبت رکھتا ہے.دعاؤں کی قبولیت کے لئے دعاؤں کے رخ پر سفر کرنا ضروری ہے پس یا درکھیں کہ آپ کے حق میں آپ کی اپنی دعائیں یا میری دعائیں یا ان بزرگوں کی دعائیں

Page 235

222 جو ہم سے پہلے گزر گئے اور بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے دعائیں کرتے کرتے انہوں نے جان دی تبھی مقبول ہوں گی جب آپ ان دعاؤں کے رخ پر سفر کرنے کے ارادے کریں گے اور ارادے بھی نہیں کریں گے بلکہ جب ان ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشش کریں گے تو پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی رفتار کو کس طرح غیر معمولی الہی تائید حاصل ہوتی ہے.پس یہ ستر اسی ، سو دو سو یورپ اور امریکہ اور کینیڈا کی اطلاعات ایسی تکلیف دہ ہیں کہ دل حیران ہو جاتا ہے کہ ان کو کیا ہو گیا ہے؟ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ کوئی حیثیت ہی نہیں ہے اور کیوں یہ یقین نہیں کرتے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے چند افراد چند اور آدمی پیدا کر رہے ہیں تو باقی افراد کیوں بانجھ پڑے ہیں.وہ بانجھ نہیں ہیں آپ نے ان کیلئے وہ ماحول نہیں پیدا کیا جس میں وہ نشو و نما پا سکتے ہیں ان کی اتنی تربیت نہیں کی ، ان کی مدد نہیں کی ، ان کے مسائل پر پورا غور نہیں کیا.یہ جائزہ نہیں لیا کہ آپ کس طرح تبلیغ کر رہے ہیں، اس میں کیا کیا نقص رہ گئے ہیں؟ کون سے ذرائع اختیار کرنے چاہئیں تھے جو نہیں کئے ، کون سے ذرائع ہیں جن کا ذکر کاغذوں میں تو ملتا ہے لیکن عمل کی دنیا میں ناپید ہیں.ان سے جائزوں کے بغیر جس کو میں محاسبہ کا نام دے رہا ہوں آپ کے سفر کا آغاز ہو ہی نہیں سکتا.آخری نصیحت پس آج کے خطبہ میں آخری نصیحت یہی ہے کہ آپ محاسبہ کریں اور منصوبہ بنانے سے پہلے خوب اچھی طرح معلوم کر لیں کہ ساری جماعت میں کہاں کہاں کیا کیا کیفیت ہے، کس صلاحیت کے لوگ ہیں؟ کون سے ایسے ہیں جو تبلیغی لحاظ سے نشو و نما کی صلاحیت اس حد تک رکھتے ہیں کہ آپ انکو تھوڑ اسا بھی سمجھا ئیں اور ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھائیں تو وہ چل سکتے ہیں؟ کتنے ایسے ہیں جو بھی اس معیار سے نیچے ہیں اور ان کی صلاحیتیں مخفی ہیں ابھی ان پر زیادہ محنت اور کام کی ضرورت ہے.ہر پہلو سے یہ جائزے لے کر جب آپ مکمل طور پر اپنی پہچان کر لیں گے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں تو اس کا نام محاسبہ ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ محاسبہ ہی کا دوسرا نام روشنی ہے.ہر سفر کے آغاز سے پہلے اگر اندھیروں کا سفر ہو تو روشنی کی ضرورت ہے اور محاسبہ آپ کو روشنی عطا کرتا ہے.اگر اپنا محاسبہ کئے بغیر آپ سفر کریں گے تو آپ ٹھوکریں کھائیں گے.آپ کو پتہ نہیں چلے گا کہ کس رخ پر جانا ہے اور وہ سفر اگر طے بھی ہو تو بڑی مصیبت اور مشکل سے طے ہوگا لیکن تیز رفتاری سے ہرگز نہیں.روشنی مل جائے تو اندھیروں کا سینہ چیرتے ہوئے وہ آگے آگے بڑھتی ہے اور آپ کو ساتھ لئے لئے جس رفتار سے آپ چاہیں آپ کو آگے بھگائے پھرتی ہے اور بہت قوت اور یقین اور حو صلے کے ساتھ آپ پر خطر را ہوں کے بھی سفر کر سکتے ہیں کیونکہ آپ کو خطرات دور سے دکھائی دیتے ہیں.پتا لگتا ہے کہاں کوئی جانور ہے، کہاں کوئی پتھر ہے، کہاں کوئی گڑھا ہے، کہاں سٹرک کا کنارہ ہے، کہاں جھاڑیاں

Page 236

223 ہیں ، کہاں قدم رکھتے ہیں کہاں نہیں رکھنے؟ یہ باتیں محاسبہ سے ملتی ہیں.پس دعا کے بعد جو ہمیشہ اولیت رکھتی ہے اور ہمیشہ اولیت رکھے گی اور پھر ساتھ ساتھ چلے گی آپ کو تبلیغ کا سفر کرنے سے پہلے اپنا محاسبہ کرنا چاہئے.جن جن باتوں کی میں نے نشاندہی کی ہے ان میں بھی محاسبہ کریں اور پھر اس محاسبہ کے بعد منصوبہ بنانے میں اگلا قدم کیا ہونا چاہئے اس کی کچھ تفاصیل انشاء اللہ میں آئندہ خطبہ میں بیان کرونگا اور میں امید رکھتا ہوں کہ تمام ممالک کے امراء اور ان کے ساتھی ، ان کی مجالس عاملہ خواہ ان کا شعبہ اصلاح وارشاد سے تعلق ہو یا نہ ہو وہ سارے اپنی زندگی کا اعلیٰ مقصد یہ بنالیں گے کہ ہم نے تبلیغی نقطہ نگاہ سے جماعت میں ایک انقلاب برپا کر دینا ہے ایک نئی فضا پیدا کرنی ہے، نئی زمین بنانی ہے، نیا آسمان بنانا ہے کیونکہ اس بوسیدہ زمین اور بوسیدہ آسمان میں تو ہمارے سفر طے نہیں ہو سکتے جس میں آج ہم سانس لے رہے ہیں.ہماری صلاحیتوں کی اکثریت بریکار بیٹھی ہوئی ہے.ہم کو خدا تعالیٰ نے نشو و نما کی جو طاقتیں دی ہوئی ہیں ان کو پنپنے کے لئے جس ماحول کی ضرورت ہے ابھی وہ میسر نہیں ہے." خطبات طاہر جلد 10 صفحہ 889-903) دعوت الی اللہ کے سلسلہ میں جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہدیداران کو نصائح خطبہ جمعہ 22 نومبر 1991ء) " گزشتہ خطبہ میں میں نے ذکر کیا تھا کہ آئندہ انشاء اللہ دعوت الی اللہ کے مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے نسبتاً زیادہ تفصیل کے ساتھ امرائے جماعت ، صدران اور عہدیداران کو ہدایات دوں گا.اس مضمون کا براہ راست تعلق تو عہد یداران سے ہی ہے کہ انہیں کس طرح کام کروانا چاہئے.خطبہ کے لئے میں نے اسے اس لئے چنا ہے کہ یہ کام تو میں بڑی دیر سے کرتا چلا آ رہا ہوں اور جہاں جہاں جس جس ملک میں دورے پر گیا ہوں وہاں ہمیشہ اس موضوع پر کسی نہ کسی جگہ ضرور خطاب کیا ہے اور عہدیداران کو بٹھا کر تفصیل سے سمجھانے کی کوشش کی ہے، جماعتی عہد یداران کو بھی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیداران کو بھی کہ انہیں دعوت الی اللہ کا کام کیسے کرنا چاہئے لیکن اس کے باوجود وہ نتیجہ پیدا نہیں ہوا جس کی مجھے لازماً توقع تھی.ہر ملک کا ایک حال نہیں.بعض ممالک میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری توقعات سے بھی بڑھ کر نتیجے ظاہر ہوئے کیونکہ جن لوگوں کو مخاطب کر کے میں نے بات کی انہوں نے تقویٰ کے ساتھ انکساری کے ساتھ ، اپنے آپ کو بڑا اور عظمند سمجھتے ہوئے نہیں بلکہ عاجز بندوں کی طرح نصیحت کو سنا اور اس پر دیانتداری سے عمل کی کوشش کی اور اپنی انا کو

Page 237

224 بیچ میں حائل نہیں ہونے دیا.میں جب یہ کہتا ہوں تو مراد یہ نہیں کہ باقی سب نے ایسا کیا ہے بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ خدا کے فضل سے اگر جماعت کے تمام عہدیداران نہیں تو بھاری اکثریت متقی ہے اور ان کی انا کچلی جاتی ہے تو وہ خدمت کے لئے آگے آتے ہیں لیکن اس کے باوجود انا کے بہت سے مخفی پہلو ہیں جو کسی نہ کسی رنگ میں انسان کے کاموں میں بھی اور اس کی سوچوں میں بھی حائل ہوتے رہتے ہیں اور جہاں تک میں نے غور کیا ہے سوائے انبیاء کے کسی کی انا ہمیشہ کے لئے کلیۂ کچلی نہیں جاتی اس لئے میں جب یہ کہتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں ان کو نعوذ باللہ ادنی سمجھتا ہوں یا تقویٰ کے خلاف باتوں میں ملوث دیکھتا ہوں بلکہ یہ ساری جماعت کے لئے ایک عام نصیحت ہے کہ اپنی انا سے ہمیشہ خبر دار ہیں.وہ دب جاتی ہے لیکن مٹتی نہیں اور موقع کی تلاش میں رہتی ہے.اس کا حال جراثیم کی طرح ہے صحت مند انسان کے جسم میں بھی وہ جراثیم اس کے خون میں دوڑ رہے ہوتے ہیں لیکن انہیں موقعہ نہیں ملتا کہ وہ نشو نما پاسکیں کیونکہ صحت مند جسم ان کو دبا کر رکھتا ہے اور اجازت نہیں دیتا کہ وہ سراٹھائیں لیکن حقیقت میں کامل طور پر اگر کسی کی انا مری ہے تو حضرت اقدس محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم کی ہی انا ہے کیونکہ آپ نے انا کا نام ہی شیطان رکھا ہے اور شیطان کے متعلق فرمایا کہ ہر انسان کی رگوں میں دوڑ رہا ہے.اس کی نسوں میں دوڑ رہا ہے.اس کے وجود کے اندر شامل ہے.اس پر کسی نے سوال کیا کہ یارسول اللہ آپ کے اندر بھی شیطان ہے.آپ نے فرمایا ہاں ہے لیکن مسلمان ہو چکا ہے ( ترمذی کتاب الرضاع حدیث نمبر : 1091) تو انسانی فطرت کے اندر یہ جو سر اٹھانے کا اور کسی نہ کسی رنگ میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کا فطری جذ بہ ہے اسی کا نام حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان رکھا ہے اور آپ کا یہ فیصلہ قرآن پر مبنی ہے کیونکہ قرآن نے سب سے پہلے شیطان کا جو تعارف کرایا ہے وانا نیت کے سر اٹھانے والے ایک وجود کے طور پر پیش فرمایا ہے اَنا خَيْرٌ مِّنْهُ (الاعراف : 13 ) کی آواز شیطان کی طرف منسوب فرمائی تو در حقیقت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں بیرونی شیطان بھی ہوں گے اور ہوتے ہیں.انسانی شکلوں میں بھی اور اس کے علاوہ بھی ممکن ہیں لیکن ایک شیطان جو محقق ہو چکا ہے جس کے متعلق ہمیں آخری دربار سے آخری فیصلہ مل گیا ہے وہ انسانی فطرت کے اندر اس کی انانیت ہے.انا نیت سے پاک عہدیداران نصیحتوں سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں پس وہ عہدیداران جوانا نیت کو کچلنے میں زیادہ اعلیٰ مقامات پر فائز ہوتے ہیں وہ ہمیشہ فصیحتوں سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن صرف یہی ایک روک نہیں ہے جو حائل ہے.انسانی فطرت کے اندر بات سن کر اثر کو قبول کرنے کا مادہ بھی ہے اور بات سننے کے کچھ عرصہ بعد اس کو بھلا دینے کا مادہ بھی ہے اسی لئے قرآن کریم نے بار بار اور بار بار اور بار بار نصیحت کا حکم دیا ہے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو مذکر کہنے کا

Page 238

225 مطلب یہ ہے کہ یہ ان کی مستقل صفت بن چکی تھی یعنی آج یا کل یا کبھی کبھی اتفاقی نصیحت کرنے والے نہیں تھے بلکہ ہمیشہ کی زندگی میں ہر مشغلے میں نصیحت ان کے وجود کا حصہ بن گئی تھی اور آپ کی ذات میں وہ نصیحت ایسی شامل ہو چکی تھی کہ خدا نے خود آپ کا مذکر ہمیشہ کا دائمی نصیحت کرنے والا نام رکھ دیا.پس اس لئے بھی نصیحت کی ضرورت پڑتی ہے.ضروری نہیں کہ انا نیت کا ہی کوئی شعبہ سراٹھارہا ہو.انسانی غفلت ہے، کمزوریاں ہیں جو نصیحت کو سن کر ان کو بھلا دینے کی طرف انسان کو مائل کر دیتی ہیں.پس اس پہلو سے جب میں عہد یدار ان کو نصیحت کرتا ہوں یا ان کے متعلق بعض دفعہ یہ تبصرے کرتا ہوں تو ان کی دل آزاری ہرگز مقصود نہیں.میں امید رکھتا ہوں وہ تمل سے سنیں گے اور یہ واقعاتی تبصرے ہیں.ان سے مفر نہیں یعنی ان کو بیان کئے بغیر بات پوری کھلے گی نہیں.واقعہ یہی ہے کہ میں کہتا چلا جاتا ہوں اور پیچھے سے باتیں بھلائی چلی جاتی ہیں اور یہ سلسلہ بڑی دیر سے جاری ہے.چنانچہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ساری جماعت کو وہ باتیں سمجھاؤں کیونکہ ساری جماعت کو اگر علم ہو کہ ہمارے متعلق یہ توقعات ہیں.یہ ہمیں لائحہ عمل دیا جارہا ہے تو اگر عہدیداران کبھی غافل بھی ہوں تو جماعت ان کو بیدار کرے گی اور جماعت کے علم میں براہ راست آئے گا کہ ہم سے کیا توقعات ہیں اور ہمیں ان توقعات کو پورا کرنے کے لئے کیا مدددی جارہی ہے یا کی مدددی جانی چاہیئے.عہدیداران کو جماعتی معلومات کا ہونا بہت ضروری ہے اس ضمن میں پہلی بات تو میں یہ سمجھانی چاہتا ہوں کہ معلومات کی کمی خود بہت بڑے نقصان کا موجب بنتی ہے.اب جو خطبے میں دوں گا مجھے امید ہے کہ اس کے نتیجہ میں فائدہ پہنچے گا کیونکہ معلومات عام ہوں گی لیکن جو نصیحتیں میں کرتا رہا ہوں ان کو جماعت تک پہنچایا نہیں گیا اور جماعت کی بھاری اکثریت ان سے غافل ہے.ان کو علم ہی نہیں کہ کیا توقعات تھیں ، کس طرح ان توقعات کو پورا کرنے کے لئے میرے ذہن نے نقشے بنائے اور کس طرح میں نے احباب جماعت کو عہدیداران کو سمجھانے کی کوشش کی؟ معلومات کی کمی کا یہ حال ہے کہ اکثر احباب جماعت کو جو ترقی یافتہ ممالک میں رہتے ہیں اور مستعد ہیں اور جہاں ذرائع ابلاغ بہت ہی اعلیٰ درجے کے اور ہر شخص کو مہیا ہیں ، وہاں بھی عام باتوں کا بھی احباب جماعت کو علم نہیں ہے.مثلاً ان کا اگر کوئی دوست بنتا ہے جو بلغارین زبان بولنے والا ہے تو وہ گھبرا کر مجھے خط لکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا بلغارین زبان میں بھی کوئی لٹریچر موجود ہے.بعض دفعہ عربی کے متعلق پوچھتے ہیں کہ کوئی کیسٹ ہو، کوئی ابتدائی معلومات کی کتابیں ہوں تو ہمیں بتائی جائیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو یہ پتہ ہی نہیں کہ جماعت اس وقت تک لٹریچر کی تیاری میں اور آڈیو ویڈیو سامانوں کی تیاری میں کس حد تک آگے جا چکی ہے اور کیا کیا چیزیں مہیا ہو چکی ہیں؟ اگر کثرت کے ساتھ یہ معلومات بہم پہنچائی جائیں اور جماعت کے اخبارات ورسائل میں بار بار یہ بیان کی جائیں اور عہدیداران کے ذریعہ بھی اعلان کروائے جائیں.کبھی کبھی چھوٹے چھوٹے

Page 239

226 بروشرز ، چھوٹے چھوٹے خوبصورت پمفلٹ شائع کر کے ان میں بھی تمام احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا جائے کہ ہمارے پاس یہ یہ چیزیں بھی ہیں.کبھی آپ کو ضرورت ہو تو ان کو استعمال کر کے دیکھیں اور اس کے نتیجہ میں آپ کے لئے تبلیغ کی راہیں آسان ہوں گی.خدا کے فضل سے اس وقت تک اتنی زبانوں میں لٹریچر تیار ہو چکا ہے کہ خود وہ لوگ جن کی زبانوں میں لٹریچر ہے وہ جب دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں اور بعض ایسے مخالفین جو اس سے پہلے جماعت کے شدید مخالف تھے انہوں نے جب جماعت کی بعض نمائشوں میں اس لٹریچر کو دیکھا تو بڑے زور کے ساتھ گواہی دی کہ وہ سب جھوٹے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ تم مسلمان نہیں ہو کیونکہ اسلام کی اتنی خدمت اور ایسے احسن رنگ میں اسلام کی خدمت کبھی کسی کو دنیا میں اس کی توفیق نہیں ملی.ان کی مراد اس زمانہ سے ہے نعوذ باللہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کو شامل کر کے تو یہ نہیں کہتے، تو کبھی کا لفظ جب بھی کبھی بولتے ہیں تو مراد یہ ہے کہ ہمارے علم میں ہمارے موجودہ زمانہ میں ہم نے کسی اور کو نہیں دیکھا کہ ایسی خدمت کرتا ہو.اسی طرح مختلف Embassies ہیں ان کے نمائندے مختلف ممالک میں جا کر احمدی لٹریچر کو دیکھتے ہیں تو غیر معمولی طور پر دلچسپی لینے لگ جاتے ہیں.لیکن اس سلسلہ میں لاعلمی کی جو کوتاہیاں ہیں ان کا آغاز خود امیر جماعت یا عہدیداران سے ہے مثلاً ان کو سرسری علم تو ہے کہ ہمارے پاس رشین زبان میں قرآن کریم کے تراجم موجود ہیں لیکن یہ نہیں پتہ کہ ایک ہیں دو ہیں، تین یا چار ہیں کسی کو دے بھی سکتے ہیں کہ نہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو پارسل گئے وہ کھل کر کسی جگہ لگ گئے اور مزید تفصیل سے دلچسپی نہیں لی گئی کہ ان کو آگے استعمال بھی کرنا ہے کہ نہیں.پس معلومات سرسری بھی ہوا کرتی ہیں اور گہری بھی اور گہری معلومات کا تعلق ذاتی دلچسپی سے ہے.مثلاً اگر مجھے کوئی کتاب آئے تو بعض دفعہ میرا دل چاہتا ہے کہ فوراً جماعت کے صائب الرائے لوگوں کو، دانشوروں کو یہ کتاب ضرور پہنچائی جائے.ایسی صورت میں بعض دفعہ ان کی فوٹو کا پیز کروا کر امراء کو بھجوائی جاتی ہیں.بعض اور دانشوروں کو بھجوائی جاتی ہیں کیونکہ مجھے اس میں دلچسپی ہے اور اس بات میں دلچسپی ہے کہ جماعت کے زیادہ سے زیادہ دوستوں کو بعض امور کا علم ہو اور ان کے اندر جستجو کا شوق ہو لیکن اگر ایک امیر اس میں دلچسپی نہیں لیتا تو اس کی معلومات سرسری رہیں گی.اگر وہ دلچسپی لے گا تو مثلاً جب اس کو پتہ چلا کہ آج ہمارے پاس روسی زبان میں قرآن کریم کا تحفہ آیا ہے تو وہ کہے گا کہ کتنے ہیں.اس سے فائدہ کس طرح اٹھانا ہے.بعض Russians کی تلاش کی جائے وہ ہیں کہاں؟ ان کو پہنچانے کا انتظام کیا جائے.معلوم کیا جائے کہ ان پر کیا تاثرات پیدا ہوتے ہیں لیکن چونکہ بات وہیں ختم کر دی گئی اس لئے مزید معلومات حاصل نہیں کی گئیں.پھر اچانک مجھے خط ملا ( میں مثالیں دے رہا ہوں نام نہیں لوں گا) کہ آپ نے ہدایت کی تھی کہ

Page 240

227 Embassador کو بلاؤ دعوت دے کر اور نمائش دکھاؤ اور ان سے رابطے پیدا کرو ہم نے روسی ایمبسڈ رکو بلایا اس نے بہت خوشی سے دعوت کو قبول کیا لیکن ہمیں بہت شرمندگی ہوئی کہ جب اس نے قرآن کریم خریدنے کی خواہش ظاہر کی اور ہم نے دیکھا تو ایک ہی نسخہ تھا جو لائبریری کے لئے تھا اور اس کے سٹاف نے بھی بڑی دلچسپی لی لیکن ہم نے ان کو پتے لکھ دیئے ہیں کہ کہاں سے منگوائے جاسکتے ہیں.اب یہ تو کوئی بات ہی نہیں.بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ جب آپ دعوت دیتے ہیں تو آپ کو کم سے کم یہ توقع تو کرنی چاہئے کہ جو چیز دکھا ئیں گے جس کی وہ زبان ہے اس میں وہ اگر کسی لٹریچر میں دلچسپی لے گا کسی کتاب میں دلچسپی لے گا تو مانگے گا بھی تو سہی اور اگر نہ بھی مانگے تو کچھ نہ کچھ تو اس کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے آپ کو زائد ضرور رکھنا چاہئے تو معلومات کی کمی اور معلومات میں دلچسپی کی کمی دونوں عملاً ایک ہی نتیجہ پیدا کرتے ہیں اور وقت کے اوپر وہ ضرورت کی چیز کام نہیں آسکتی.پس معلومات پہنچانی ہیں مگر اس طرح نہیں جیسے سر سے بوجھ اتارا جائے ایک دفعہ ایک لسٹ شائع کر کے اگر آپ ساری جماعت میں تقسیم کرا دیں تو یہ معلومات پہنچانا میرے نزدیک نہیں ہے کیونکہ میں معلومات ان باتوں کو کہتا ہوں جن میں وہ دلچسپی پیدا ہو، جن کو انسان استعمال کر سکتا ہو ورنہ وہ معلومات جو عمل کی سطح پر ذہن کے سامنے حاضر نہ رہیں وہ رفتہ رفتہ لاشعور میں دینی شروع ہو جاتی ہیں اور ایسے ہی ہے جیسے نہ ہوں پس معلومات پہنچانا اور بیدار مغزی کے ساتھ ان کو لوگوں کے پیش نظر رکھنا اور اس طریق پر الٹتے پلٹتے رہنا کہ انسانی ذہن جو نیند کا عادی ہے وہ کچھ دیر کے لئے تو بیدار ہو اور اتنی چیز اس کے سامنے ہو جتنی اس کے اندر سمجھنے کی صلاحیت ہے.پس ٹکڑوں ٹکڑوں میں معلومات پہنچانا اور پھر ان کی پیروی کرنا ، ان کا تتبع کرنا اور معلوم کرنا کہ اس سے کیا فائدہ ہوا.کسی نے ان چیزوں کو استعمال بھی کیا کہ نہیں.یہ ایک مسلسل نظام ہے جو باقاعدہ منصوبے کے تحت چلنا چاہئے اور اگر سیکرٹری تبلیغ کو خود اس بات کی استطاعت نہیں ہے.بعض دفعہ جماعتیں ایسا آدمی چن دیتی ہیں جس کو واقعہ اس شعبہ کے لئے کوئی خاص استطاعت نہیں ہوتی.تو اول تو امراء کا کام ہے کہ وہ خود ساتھ مل کر اسے سمجھا کر تربیت دیں اور رفتہ رفتہ ان باتوں کے قابل بنائیں اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو ان کے ساتھ بعض خصوصی کاموں کے لئے سپیشلسٹ یعنی تخصیص کے ماہر نائبین مقرر کر دیں ، مددگار مقرر کر دیں اور کسی کے سپرد ایک کام کر دیا جائے کسی کے سپر د دوسرا کام کر دیا جائے.جماعتوں کی مجبوریاں بھی ہیں.انتخاب کے وقت محض کسی خاص شعبے کی صلاحیت کو مد نظر نہیں رکھا جا سکتا اس شخص کی دلچسپی کو بھی تو پیش نظر رکھنا پڑے گا اور اس کا تقویٰ کے ساتھ تعلق ہے.جس شخص کواللہ تعالیٰ کا زیادہ خوف ہے، خدا کے لئے دل میں زیادہ محبت ہے.جماعتی کاموں میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے.اس کی ذہنی اور قلبی صلاحیتیں تو اس کے اختیار کی بات نہیں لیکن جماعت دیکھتی ہے کہ یہ لوگ ہیں جو خدمت کرنے والے ہیں ان کے نام وہ چنتی ہے اور یہی ہے جو

Page 241

228 قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ ذمہ داریاں سپرد کرتے وقت تقویٰ دیکھا کرو.لیکن ان کے نیچے ایسی ٹیم بنائی جاسکتی ہے جو پہلے مستعد نہیں لیکن ان کو مستعد بنانا مقصود ہو اور ان کی صلاحیتوں سے پورا پورا استفادہ کرنا مقصود ہو.ایسے لوگ مہیا کر کے ان کے سپرد کئے جاسکتے ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ عہد یداران میں براہ راست یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ٹیم بنائیں.میں ان کے لئے بعض نو جوانوں کو تلاش کرتا ہوں.ذاتی طور پر ان کو سمجھاتا ہوں ،سکھاتا ہوں اور پھر ان کے سپر د کر دیتا ہوں اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کو ٹیم ملتی ہے جس سے پھر وہ بہت عمدہ کام لینا شروع کر دیتے ہیں.شعبہ اصلاح وارشاد کو معلومات اکٹھی کرنے کے لئے نائبین بنانے چاہئیں پس معلومات کے سلسلہ میں سیکرٹری اصلاح وارشاد کو ایسے Specialist نائبین مہیا کرنے چاہئیں جن کے سپر د مختلف شعبے ہوں مثلاً معلومات مہیا کرنا اور معلومات کو گردش میں رکھنا اور معلومات کے سلسلہ میں وسعت نظر پیدا کرنا صرف یہ نہیں دیکھنا کہ فلاں اعداد و شمار مہیا ہو گئے اور ہم نے پہنچا دیئے ہیں بلکہ آگے بڑھ کر یہ سوچنا کہ ان باتوں کو پہنچانے کا مقصد کیا ہے اگر ہمارے پاس Bulk of stock نہیں ہے.اگر ہم دلچسپی پیدا ہونے کے نتیجہ میں ان کی طلب کو پورا نہیں کر سکتے تو ان معلومات کو مہیا کرنے کا کیا فائدہ ؟ اس لئے طلب بیدار کرنا اور طلب کو پورا کرنے کے سامان مہیا کرنا یہ اس مخصوص نائب کا کام ہے جو سیکرٹری کے ساتھ اس کام کے لئے متعلق ہو.اس کو مرکز سے بار بار خط و کتابت کرنی پڑے گی.مرکز سے کر تو سکتا ہے لیکن اصل طریق یہ ہے کہ اپنے ہیڈ کوارٹر سے اپنے ملک کے متعلقہ شعبہ سے وہ تعلق قائم کرے اور جو ملک کا سیکرٹری ہے وہ مرکز سے براہ راست تعلق قائم کرے اور ان سے کہے کہ ہم نے یہ یہ معلومات مہیا کی ہیں.فلاں فلاں کتب کے بارہ میں تعارف کرایا ہے.ان کو استعمال کرنے کے ڈھنگ سکھائے ہیں اور ہمارے پاس صرف دو موجود ہیں.اب طلب شروع ہوگی تو ہم کیا کریں گے اس لئے ہمیں اتنی ضرور بھجوا دیجئے.اسی طرح رفتہ رفتہ ان کے لئے جگہیں بھی مہیا کرنی ہونگی.کہاں کتا بیں رکھی جائیں کس طرح ان کو سلیقے سے رکھا جائے کہ وقت کے اوپر آسانی سے نکالا جا سکے.کام شروع کیا جائے تو جتنا کام سمٹتا ہے اتنا آگے بھی بڑھتا ہے اور معاشرے اسی طرح ہمیشہ ارتقا پذیر ہوتے ہیں.جتنا زیادہ آپ کام سمیٹنے کی کوشش کریں گے آپ فارغ نہیں ہوں گے بلکہ کام بڑھے گا اور کام بڑھے گا تو پھر آپ کو اور آدمیوں کی ضرورت ہوگی اسی لئے میں نے پہلے خطبہ میں ہی یا دوسرے میں یہ نصیحت کی تھی کہ ایک بہت اہم دعا قرآن کریم نے ہمیں سکھائی ہے اس کو ہرگز نہ بھولیں.خود بھی کرتے رہیں اور اپنے نائین کو یا متعلقہ عہد یداران کو بھی سمجھاتے رہیں کہ رَبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ

Page 242

229 وَاجْعَلْ لِي مِن لَّدُنْكَ سُلْطنًا نَّصِيرًا (بنی اسرائیل :81) اس کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا! ہم جب تیرے نزدیک اس لائق ہوں کہ اعلیٰ مرتبے تک پہنچیں اور تو ہمیں اس اعلیٰ مرتبے میں داخل فرما دے تو وہاں ٹھہرائے رکھنا تو مقصود نہیں ہے.ہم تجھ سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ تو مزید اگلے درجے کی طرف ہمارے قدم بڑھائے گا اور ایک ہی مرتبے پر نہیں ٹھہرے رہیں گے.اَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ کے ساتھ ہی یہ عرض کیا وَ أَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ سچائی کے ساتھ اس مقام پر پہنچا اور سچائی کے ساتھ اس سے نکال لے اور ایک اور اعلیٰ مقام تک پہنچا دے اس کے لئے مددگار کی ضرورت ہے.یہ وہ مضمون ہے جو قرآن کریم نے سمجھایا ہے.وَ اجْعَلْ لِي مِن لَّدُنْكَ سُلْطنًا نَّصِيرًا - روحانی مراتب ہوں یا علمی مراتب ہوں یا دنیاوی کوششوں کے ذریعہ حاصل ہونے والے مراتب ہوں سب جگہ ایک سُلْطنًا نَّصِيرًا کی ضرورت ہے جو ہر شخص کو پیش آتی ہے.انبیاء کو بھی پیش آتی ہے.انبیاء کے روحانی مراتب کے لئے ان کو جبرائیل سُلْطنًا نَّصِيرًا کے طور پر عطا کیا جاتا ہے روح القدس عطا کی جاتی ہے اور دین کے دیگر مشاغل ہیں اور دیگر مقاصد کو پورا کرنے کے لئے فرشتوں کے علاوہ انسانی فرشتے بھی مہیا کئے جاتے ہیں اور ان کے لئے ابو بکر اور عمر اور عثمان علی پیدا کئے جاتے ہیں.تو آپ کو بھی سُلطنًا نَّصِيرًا کی بہر حال ضرورت ہے اور سُلْطنًا نَّصِيرًا اندرونی بھی ہوتا ہے اور بیرونی بھی.اندرونی طور پر تو چند مثالیں میں نے دیں.بیرونی طور پر خدا تعالیٰ غیروں کے دلوں میں بھی اپنے پاک بندوں کی مدد کے لئے تحریک فرما دیتا ہے اور اچانک ضرورت کے وقت ایسی جگہ سے مدد گار مہیا ہو جاتے ہیں جن کے متعلق انسان وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا تو اس مضمون کو صرف دعا کے طور پر ادا نہیں کرنا بلکہ اس کی حکمت کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا ضروری ہے.عہدیداران کو بھی سلطان نصیر مہیا کریں پس آپ جب کسی عہدیدار کو تیار کرتے ہیں تو رفتہ رفتہ اس کو سُلْطنًا نَّصِيرًا مہیا کریں یا اس میں یہ صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کریں کہ نو جوانوں میں سے بعض دفعہ ایسے بوڑھوں میں سے بھی بہت بڑے مددگار مل جاتے ہیں جو ریٹائر ہو گئے ہیں، اپنے کاموں سے فارغ ہوگئے ہیں اور ان کو زندگی کا کوئی اور مشغلہ در پیش نہیں اور اگر جماعت ان سے فائدہ نہ اٹھائے تو وہ ضائع ہوکر رفتہ رفتہ ایک بیکاری کی زندگی میں خدا کے حضور حاضر ہوں گے اور کوئی مومن پسند نہیں کرتا کہ یہ بے کاری کی حالت میں اپنے رب کے پاس جائے.پس ایسے بوڑھے جو فارغ ہوں ان میں بعض دفعہ خدا تعالیٰ یہ تحریک پیدا فرماتا ہے اور یہ بھی دعاؤں

Page 243

230 کے نتیجہ میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں تا کہ آخری سانس تک خدمت کا موقع ملے تو ان سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے.سُلطناً نَّصِيرًا پیدا کرنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ان کے لئے بھی یہ نصرت ہے جن سے خدمت لی جاتی ہے اور سلطنا نصِيرًا کی یہ دعا دو طرفہ کام کرتی ہے کیونکہ وہ لوگ جن کو پہلے دین کی خدمت کی عادت نہیں جب رفتہ رفتہ ان سے خدمت کی جاتی ہے تو ان کے اندر سے ایک نیا شعور پیدا ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں تو اب زندگی کا پتہ چلا ہے اس سے پہلے تو غفلت کی حالت میں وقت ضائع کیا اور ان کو زندگی کا لطف آنے لگ جاتا ہے.اپنے سے کام لینے والوں کو دعائیں دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ دین کی مدد کر رہے ہوتے ہیں اور دین ان کی مدد کرتا ہے اور ان کے اندر بھی وہ روحانی ترقی کا سفر شروع ہو جاتا ہے جس کا اس دعا میں ذکر موجود ہے.تو تبلیغ کرنے کے لئے جب آپ کام شروع کریں گے.لٹریچر کے ساتھ جماعت کو متعارف کرائیں گے.آڈیو اور ویڈیو کے ساتھ جماعت کو متعارف کرائیں گے تو لازماً اس کے نتیجہ میں یہ کام بڑھے گا اور کام بڑھے گا تو اس کام کو سمیٹنے کے لئے مددگار بھی چاہئیں اور کچھ خرچ بھی چاہئے اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت پیش آئے گی.مثلاً میں نے دیکھا ہے جب ہم کہتے ہیں کہ آڈیو ویڈیو سے جماعت کو متعارف کرایا جائے.ان کو بار بار بتایا جائے کہ ہمارے پاس کیا نئی چیز آئی ہے اور کیا پہلی ایسی چیزیں ہیں جن سے آپ فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو طلب شروع ہو جاتی ہے اور اس طلب کو پورا کرنے کے لئے جو مناسب مشینیں ہیں وہ موجود نہیں ہوتیں.جب تک آڈیو ویڈیو اچھے طریق پر وسیع پیمانے پر پیدا کرنے اوران کو بڑھانے کا انتظام نہ ہو اس وقت تک ایک خلا ر ہے گا.معلومات بھی پہنچیں گی.طلب بھی پیدا ہو جائے گی لیکن طلب کو پورا کرنے کے لئے اگلا قدم نہیں اٹھا سکتے.اس کے لئے الگ ٹیمیں بنانے کی ضرورت پڑتی ہے.یو کے میں سلطان نصیر مہیا ہورہے ہیں چنانچہ یہاں انگلستان کی مثال آپ کے سامنے ہے جب سے میں یہاں آیا ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بھی پروفیشنل کو جوفن کا ماہر ہو اس کے وقت کی اجرت دے کر ہمیں اپنے کاموں کو سرانجام دینے کے لئے رکھنا نہیں پڑا.ایسے نوجوان آگے آئے جن کا اس شعبہ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا.غلطیاں بھی ہوئیں مگر رفته رفته سیکھا، رفتہ رفتہ نئے نئے آلے بنی نئی ایجادات ان کو مہیا کی گئیں اور اب خدا کے فضل سے یہ شعبہ بہت ترقی کر چکا ہے اور بہت ہی اعلیٰ سطح کی صلاحیتیں حاصل کر چکا ہے.یہاں تک کہ پھر آڈیو کے بعد ویڈیو کو الگ کیا گیا.اس کے لئے ایک الگ شعبہ قائم ہوا اور اس نئے شعبہ میں خدا کے فضل سے حیرت انگیز ترقی ہوئی.نئے نئے رستے انہوں نے تلاش کئے ، نئے نئے آلے ان کو مہیا کئے گئے یا انہوں نے طلب کئے تو

Page 244

231 رفتہ رفتہ یہ سب کام بڑھتا چلا جارہا ہے، پھیلتا چلا جارہا ہے.سلطنًا نَّصِيرًا مہیا ہورہے ہیں.ان کی ضرورتیں بھی پوری ہورہی ہیں لیکن جماعت کے اوپر کوئی الگ بوجھ نہیں ہے.شعبہ کو بناتے وقت تھوڑی سی محنت کرنی پڑتی ہے.اس کے بعد انسان بے فکر ہو کر عمومی نگرانی کرتا ہے.پہلے بھی میں نے بارہا جماعت کو سمجھایا ہے کہ تخلیق کائنات کے متعلق قرآن کریم نے جو مضمون بیان کیا ہے اس پر غور کرو.چھ دنوں میں ساری کائنات کو پیدا کر کے اس کو درجہ کمال تک پہنچا دیا اور جب سب نظام خود کار آلوں کی طرح چل پڑا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ (الاعراف : 55) پھر خدا تعالیٰ عرش پر مستوی ہو گیا یعنی جس طرح جائزہ لینے کے لئے ، آفاقی نظر سے دیکھنے کے لئے کوئی بلند مقام پر فائز ہواور صرف یہ دیکھ رہا ہو کہ کیسے چل رہا ہے یا اگر کہیں کوئی رخنہ پیدا ہوتو اس کے لئے سزا دینے والا یا روکنے والا یا کمی پوری کرنے والا جو نظام مقرر ہے وہ مستعد ہے کہ نہیں.وہ کر کے پھر اور آسمانوں کی تخلیق کے لئے (خدا تعالیٰ کے متعلق یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وقت مل گیا لیکن ) تو جہات فارغ ہوگئیں اور تو جہات کے فارغ ہونے کا محاورہ قرآن کریم نے خود بیان فرمایا ہے.سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَيُّهَ الثَّقَلُنِ (الرحمان:32) اے دو بڑی بڑی وسیع طاقتو اور بھاری لوگو! ہم تمہارے لئے فارغ ہوں گے.خدا کے لئے فراغت کے معنی ویسے تو نہیں ہوتے جیسے ہمارے لئے ہوتے ہیں لیکن بہر حال لفظ فراغت قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے لئے بھی استعمال فرمایا تم استوای عَلَى الْعَرْشِ سے مراد میں یہی سمجھتا ہوں کہ ایک اچھا منتظم جب ایک کام کو چلا کر اور جاری کر کے روز روز کے کاموں کے دھندوں سے نجات حاصل کرلے اور انسانی سطح پر فارغ کے جو معنی ہیں ان معنوں میں نسبتی طور پر فارغ ہو جائے تو اس کو پھر اور کاموں کی طرف متوجہ ہونے کا وقت مل جاتا ہے اور اس طرح نظام ہمیشہ ارتقاء پذیر رہتا ہے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.مومن رسمی طور پر نہیں بلکہ اوامر اور نواہی میں گہرائی میں جا کر حق ادا کرتا ہے امراء کو بھی اس مضمون کو سمجھنا چاہئے سب عہدیداران کو سمجھنا چاہئے.بات سن کر اتنی سی بات پر عمل کر کے رسمی طور پر اس بات کا حق ادا کیا، گہرائی میں جا کر اس بات کا حق ادا نہ کیا ان دو باتوں میں فرق ہے.مومن وہ ہے جو رسمی طور پر حق ادا نہیں کرتا بلکہ اوامر اور نواہی میں گہرائی میں جا کر حق ادا کرتا ہے اور جو لوگ علم میں ڈوب کر اس کو سمجھتے ہیں، اس کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں ان کا علم ترقی کرتا ہے اس علم کے ذریعہ ان کو نئے نئے فوائد حاصل ہوتے رہتے ہیں.بہر حال یہ مضمون بعض باتوں کے کچھ تھوڑ اسا زیادہ تفصیل میں چلا گیا ہے.اصل مضمون کی طرف واپس آتے ہوئے میں عرض کرتا ہوں کہ عہدیداران کو ، خصوصاً امراء کو معلومات

Page 245

232 مہیا کرنے کے نظام کو بہتر بنانا پڑے گا اور خود دلچسپی لینی ہوگی اور گہری ذاتی دلچسپی لیں گے تو ان کو نئے نئے خیالات آئیں گے، نئی نئی تجویز میں سوجھیں گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالآخر ایک نہایت عمدہ خود کار نظام کی طرح تبلیغ کا یہ شعبہ چل پڑے گا اور پھر وہ دوسری طرف توجہ کر سکیں گے.معلومات پہنچانے کی طرح حاصل کرنا بھی ضروی ہے معلومات کے سلسلہ میں معلومات پہنچانے کی طرح معلومات حاصل کرنا بھی بہت ضروری ہے.اس سے پہلے میں نے معلومات حاصل کرنے کے متعلق بعض باتیں سامنے رکھی تھیں.اب ایک عملی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جب ہم کہتے ہیں کہ آپ جائزہ لیں کہ کتنے احمدی نو جوان، بوڑھے ، مرد، عورتیں تبلیغ میں دلچسپی لیتی ہیں تو ہمیں لٹیں آجاتی ہیں اور بڑی بڑی لمبی لسٹیں ہوتی ہیں.بعض ملکوں سے ہزاروں کی لسٹیں آتی ہیں.پاکستان سے ۷۰ ہزار کے قریب ایک لسٹ آئی تھی یا ایک لسٹ کی کئی قسطیں آئی تھیں جس سے پتہ چلا کہ گویا پاکستان میں اتنے احمدی دعوت الی اللہ کے کام میں دلچپسی رکھ رہے ہیں اور انہوں نے اپنے نام بھی لکھوائے ہیں.افریقہ کے ممالک سے، یورپ کے ممالک سے بھی نسبتا چھوٹی چھوٹی فہرستیں مگر آتی ضرور ہیں.اگر یہ فہرستیں واقعہ درست ہیں تو اس کے نتیجہ میں جو نتیجہ خیز کام ہونا چاہئے وہ تو موجودہ نتائج کے مقابل پر سینکڑوں گنا زیادہ ہونا چاہئے لیکن ایسی بات نہیں ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ معلومات حاصل کرنے کا انداز بھی سطحی ہے جس طرح معلومات پہنچانے کے انداز میں بھی گہرائی چاہئے معلومات حاصل کرنے کے انداز میں بھی گہرائی چاہئے اور با مقصد کام ہونا چاہئے.اب فہرستیں آپ اکٹھی کر لیں اور ان کو کسی جگہ کاغذوں کے نیچے غرق کر دیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے.رسمی طور پر آپ کے سر سے بوجھ اتر گیا.آپ نے مرکز کی ہدایت کو پورا کر دیا مگر وہ ہدایت کس کام آئی ہمیشہ اپنے ذہن کو اس بات پر مستعد رکھا کریں کہ وہ نتیجے کی تلاش کیا کرے.صرف نتیجہ پیدا کرنے کے ذرائع کی تلاش نہ کرے بلکہ نتیجے پر دھیان رکھے.اگر نتیجہ نہیں نکلتا تو پھر قابل فکر بات ہے کوئی نہ کوئی مرض لاحق ہے یا کوشش کرنے والے میں نقص ہے یا اس شخص میں نقص ہے ان لوگوں میں نقص ہے جن کے لئے کوشش کی جاتی ہے مگر نتیجہ اگر نہیں نکلتا تو تسکین سے بیٹھنے کا کوئی حق نہیں رہتا.دعاؤں میں کمی ہے تو اس طرف توجہ دی جائے.اپنے کام میں طریق کار میں کچھ نقائص موجود ہیں تو ان کو ڈھونڈا جائے.یہ معلومات کا جو سلسلہ ہے اس میں معلومات حاصل کرنے کا بھی ایک جز ہے اور اس میں بھی گہرائی یا سطحی انداز پائے جاتے ہیں.گہرائی سے میری مراد یہ ہے کہ جب آپ معلوم کرتے ہیں کہ کتنے آدمی تبلیغ میں دلچسپی لے رہے ہیں یا دلچسپی لینے کا وعدہ کرتے ہیں تو پھر فوری طور پر ان کی اگر روزانہ نہیں تو ہفتہ وار یا پندرہ روزہ نگرانی کا کام ساتھ ہی شروع کر دیا جائے ، ان سے رابطے ہوں ، ان کے پاس مرکزی عہدیداران

Page 246

233 پہنچیں یا ان کے نمائندے پہنچیں ، ان سے ملاقاتیں کریں.ان سے معلوم کریں کہ آپ نے جو یہ وعدہ کیا تھا اسے پورا کرنے کے کیا انداز ہیں، کیا طریق اختیار کئے گئے ہیں، اب تک کے تجارب کیا کہتے ہیں آپ نے کس طرح کام کو آگے بڑھایا ہے اگر اس طرز پر وہ چھان بین شروع کریں گے تو معلوم ہوگا کہ فہرست میں جو اکثر نام درج ہیں وہ فرضی سے ہیں یعنی نام حقیقی تو ہیں لیکن اس حقیقت میں کوئی گہرائی نہیں.ایک سطحی پن ہے کاغذ کی سطح پر نام درج ہوئے اور وہیں ٹھہر گئے.عمل کی دنیا میں ان ناموں نے کوئی روپ نہیں دھارا، کوئی شکل اختیار نہیں کی ، اس لئے وہ نام سطحی رہ جاتے ہیں." خطبات طاہر جلد 10 صفحہ 905-916) عہد یداران دعوت الی اللہ کو اپنی جان سے ایسے لگا ئیں جیسے غم لگ جاتا ہے خطبہ جمعہ 29 نومبر 1991ء) " پس دعوت الی اللہ سے متعلق تمام عہدیداران کو خواہ وہ منتظم ہوں ، ناظم ہوں ،سیکرٹری ہوں یا امراء ہوں ، میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے دل کا پہلے جائزہ لیں کہ کیا آپ نے اس کام کو اپنی جان کے ساتھ اس طرح لگا لیا ہے جیسے غم لگ جایا کرتے ہیں جیسے لگن لگ جاتی ہے جیسے عاشق کو عشق کھانے لگ جاتا ہے.کیا ایسی کیفیت آپ کی اس پروگرام سے متعلق پیدا ہوئی ہے یا نہیں؟ یا کچھ نہ کچھ اس قسم کی کیفیت آپ محسوس کرتے ہیں یا نہیں اگر نہیں تو پھر ابھی یہ کام آپ کے بس میں نہیں.آپ کو اپنا کچھ اور تعلق دین کے کاموں سے اور دین کے کاموں کے اپنی تکمیل تک پہنچنے کے معاملہ سے بڑھانا پڑے گا.یہ تعلق بڑھے گا تو کام آگے چلے گا.اگر یہ تعلق نہیں بڑھے گا تو سب چیزیں وہیں کی وہیں کھڑی رہ جائیں گی.جہاں پہلی حالت میں تھیں اور یہی عموماً ہوتا ہے.پس لگن کے نتیجہ میں جستجو اور تبع پیدا ہونا چاہئے اور اگر یہ نہیں ہے تو اسی حد تک آپ کے دل کی لگن میں اور اس کے تعلق میں کمی ہے.آگے پھر اس کام کو کرنا کس طرح ہے؟ کام تو اتنا زیادہ ہے کہ اس سلسلہ میں فوری طور پر کسی کے لئے ممکن نہیں ہے کہ ہر دعوت الی اللہ کرنے والے تک پہنچ کر اس کی کیفیات کا جائزہ لے، اس کے پروگراموں کا جائزہ لے ، وہ پروگرام کس طرح چلا رہا ہے.ان باتوں کا جائزہ لے.یہ کام لمبا ہے لیکن اس کا آغاز ہونا چاہئے اور اگر آغاز درست ہو جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ رفتہ رفتہ یہ کام سنبھالا جائے گا.“ خطبات طاہر جلد 10 صفحہ 923-924)

Page 247

234 عہدیداران اپنے نفوس کا محاسبہ کریں (خطبہ جمعہ 6 دسمبر 1991ء) دعوت الی اللہ سے متعلقہ عہد یداران ہر داعی الی اللہ کا کھاتہ بنائیں انفرادی طور پر نظر رکھنے کا کام چونکہ بہت مشکل کام ہے یعنی اگر کسی کو شوق ہوان کاموں کا تو اس کے لئے مشکل تو نہیں لیکن وقت کی مجبوری ہے اور ایک سیکرٹری دعوت الی اللہ یا سیکرٹری اصلاح وارشاد جو ایک بڑے ملک کے مرکزی عہدے پر فائز ہے اس کے لئے الگ الگ ممکن ہی نہیں ہے کہ تفصیلاً ہر ایک کے معاملات پر اس طرح گہری نظر رکھے جس طرح میں بیان کر رہا ہوں تو اس سلسلے میں میری تجویز یہ ہے کہ مقامی سیکرٹریان کی تربیت کی جائے ، ان کو سمجھایا جائے اور ان کو یہ بتایا جائے کہ تم جو ہمیں رپورٹیں بھیجتے ہو کہ ہمیں پتا لگ جائے اتنے لوگ دعوت الی اللہ کر رہے ہیں یہ کوئی طریق نہیں ہے.تم ہر دعوت الی اللہ کرنے والے کا کھاتہ بناؤ، اس کا ایک رجسٹر رکھو اور اس سے ہر ہفتہ رپورٹ لیا کرو اور بوجھ نہ ڈالو بلکہ ہلکے طریق پر پوچھ لیا کرو کہ کیا اس دفعہ کوئی تجربہ ہوا، کوئی کام ہوا کہ نہیں؟ اگر زیادہ بوجھ ڈالو گے، زیادہ مطالبے شروع کر دو گے تو وہ بھاگنا شروع ہو جائے گا تم سے اس لئے پیار محبت سے ہلکا ہلکا یاد دہانی کرواتے رہو اور اس کے کوائف کا ہر ہفتے اندراج کرو اور اس طرح ہر شخص پر باقاعدہ کھا نہ بننا چاہئے کہ اندراج کرنے کے بعد پھر ایک ایسا خانہ رکھو جس پر یہ درج کرو کہ ان معلومات سے میں نے کیا فائدہ اٹھایا ہے یا ان معلومات کو حاصل کرنے کے بعد شخص متعلقہ کو کیا فائدہ پہنچایا ہے؟ اگر یہ نہیں کرو گے تو پھر ان کاغذی اندراجات کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہوگی.ایسے اندراجات سے دفتر کے دفتر سیاہ ہو جایا کرتے ہیں اور ایسے اندراجات فائلوں میں دب کر نظر سے اوجھل ہو جاتے ہیں.لکھنے والا سمجھتا ہے کہ میں نے فرض ادا کر دیا مگر اس فرض کی ادائیگی کا فائدہ کوئی نہیں پہنچتا.پس مومن کے وقت کی بڑی قیمت ہے.فضول کاموں سے اس کو بچنا چاہئے یعنی اپنے کاموں کو فضول نہیں ہونے دینا چاہئے.یہ بھی تو اس کا مطلب ہے.پس ہر کام کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول کرنی چاہئے.میرے ذہن میں جو نقشہ ہے وہ یہ ہے کہ مثلاً اگر میرے سپرد کئے جائیں چند دا عین الی اللہ.میں ان سے ہر ہفتے رابطہ رکھوں گا ان سے پوچھوں گا کہ بتاؤ تم نے کیا کیا ؟ کچھ نہیں کیا تو ان کو بعض مشورے دے دوں گا کہ اچھا یہ کر کے دیکھ لیں، فلاں چیز آزما لیں.یہ پوچھ لوں گا مثلا کہ آپ کے کوئی دوست آپ کے پاس آتے جاتے ہیں، ان کے پتے مجھے دے دیں میں ان کو کچھ لڑ پچر بھجوا دیتا ہوں.ہوسکتا ہے آپ کے اور ان کے درمیان ایک شرم حائل ہو لیکن جب میں بھیجوں گا تو وہ شرم ٹوٹ جائے گی وہ خود آپ سے پوچھنا شروع کر دیں گے.یہ ایک مثال ہے ایسی اور بہت سی باتیں سوچی جاسکتی ہیں اور ہر شخص کے حالات کے مطابق الگ الگ بات ذہن میں آسکتی ہے.تو پہلی بات تو یہ کہ رابطے کے معاً بعد سیکرٹری کو یہ بتانا چاہئے کہ اسے اس

Page 248

235 رابطے کے نتیجے پر غور کرنا چاہئے.اس کے اندراجات کرنے چاہئیں اور یہ سوچنا چاہئے کہ میں اب اس سے کیا فائدہ اٹھاؤں گا اور کس طرح کسی کو فائدہ پہنچاؤں گا.پھر اس اندارج کے بعد اپنا لائحہ عمل درج کریں کہ فلاں داعی الی اللہ ہے اس کی یہ رپورٹ ہے یا چند ہفتوں سے میں دیکھ رہا ہوں یہ حالت ہے.میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس طریق پر اسے عملاً بیدار کیا جا سکتا ہے اور فعال بنایا جا سکتا ہے.پھر اس کا فرض ہے کہ اس کے متعلق اپنے بالا افسر کو بھی رپورٹ کرے.بجائے اس کے کہ یہ کہے کہ جی دعوت الی اللہ کا کام ہو رہا ہے اس کو تفصیل سے بتائے کہ میں نے اس اس رنگ میں فلاں فلاں شخص میں دلچسپی لی ہے اب تک جو مجھے وقت مل سکا ہے اس میں میں انفرادی طور پر اتنوں کی طرف توجہ کر چکا ہوں اور یہ مسائل میرے سامنے آئے ہیں، اس طرح میں نے ان کا حل تجویز کیا ہے.اگر آپ اس سے بہتر مجھے کوئی طریق بتا سکتے ہیں تو میری راہنمائی کریں.غرضیکہ انفرادی رابطہ اور انفرادی رابطے کے نتیجے میں معلومات جو حاصل ہوں ان پر مزید غور اور معین لائحہ عمل بنانا یہ سیکرٹری اصلاح وارشاد کا کام ہے اور اس رنگ میں میں سمجھتا ہوں کام کرنے والے شاید دنیا میں ہی کوئی نہ ہوں کیونکہ جہاں تک میری معلومات ہیں مجھے ایک لمبا عرصہ تجربہ ہوا ہے مختلف عہدوں میں سلسلے کی خدمت کرنے کا اور تبلیغ کے متعلق میں ہمیشہ گہری نظر سے جائزہ لیتارہا ہوں.میں نے کبھی آج تک اپنی زندگی میں کسی سیکرٹری تبلیغ کو اس طرح فعال نہیں دیکھا.سیکرٹری مال بہت فعال ہوتے ہیں.انہوں نے تو ساری جماعت کا بوجھ سر پہ اٹھایا ہوتا ہے ، دوڑے پھرتے ہیں ان کو تو ہوش ہی نہیں رہتی.بعض ایسے ہیں جو صبح دفتر سے جا کر سیدھا اپنے مال کے دفتر پہنچتے ہیں اور بعض دفعہ گھر بارہ بارہ بجے تک نہیں آئے تو اس لئے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھ لیا ہے.اپنی جان سے لپٹا لیا ہے اس ذمہ داری کو.ان کو چین نہیں مل سکتا جب تک اس کو ادا نہ کریں.دعوت الی اللہ کے کام میں ابتدائی کام کی ابھی بہت ضرورت ہے.ابھی زمین تیار کرنے کی ضرورت ہے جس طرح زمین کے اوپر ہل چلائے جاتے ہیں، اس کو نرم کیا جاتا ہے ، گھاس پھوس سے اس کو پاک کیا جاتا ہے،سہاگے پھیرے جاتے ہیں سو کام ہیں کرنے والے.ابھی جماعت کی دعوت الی اللہ کی زمین پر اس طرح محنت کی ضرورت ہے.اگر ایک دفعہ امراء اور متعلقہ عہدیداران اس رنگ میں محنت کر لیں گے تو بعد میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس زمین میں بہت پیداوار ہوگی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے بڑی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں.ان کو کام کا طریقہ سکھاؤ ایک دفعہ رستہ چلنا بتا دو.تھوڑا سا انگلی پکڑ کے ساتھ لے جانا پڑے گا.ایک دفعہ وہ چل پڑے تو پھر دوڑنے لگیں گے انشاء اللہ.پھر وہ آپ کی انگلیاں اس لئے نہیں پکڑیں گے کہ آپ ان کو چلائیں ہو سکتا ہے کہ اس لئے پکڑیں کہ آپ ان کے ساتھ تیز چلیں اور میں نے دیکھا ہے کہ جب بیداری پیدا ہوتی ہے تو جماعت میں اس قسم کے عظیم الشان نمونے ظاہر ہوتے ہیں." خطبات طاہر جلد 10 صفحہ 954-957)

Page 249

236 اپنے دل میں حشر برپا کریں تا اس میں صوراسرافیل پھونکا جاسکے ( خطاب اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی 12 مئی 1991ء) " پس خدام الاحمدیہ ہو یا انصار اللہ ہو یا لجنہ اماء الله ، ان کے ناصحین ، ان کے عہد یداریا جماعت کے عمومی عہد یدار ہوں آپ کو اس وقت بُرے لگتے رہیں گے جب تک آپ کے دل میں بُرے بُرے نام موجود ہیں.اپنے دل کے بُرے ناموں کو مٹادیں، اپنے دلوں کے بتوں کو پاش پاش کردیں، اپنے اندر عاجزی پیدا کریں، اپنے اندر نیکی کی محبت پیدا کریں ، اپنے دل سے ایک ناصح اٹھائیں ، دل میں ایک حشر برپا کریں جس میں صور اسرافیل پھونکا جائے.وہ صور پھونکا جائے جس کے نتیجے میں نئی زندگی عطا ہوتی ہے.تب خدا تعالیٰ آپ کو اپنے اندر ایک عظیم روحانی انقلاب پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا.اس کے بغیر آپ دنیا کی اصلاح نہیں کر سکتے.کیسے دنیا کی پولیوشن دور کریں گے جبکہ آپ گندی رسمیں، بیہودہ باتیں ، گھٹیا کمینی با تیں ( جن سے عام انسانیت کو بھی شرم آتی ہے ) سمیٹے اور سنبھالے ہوئے جہازوں میں سفر کرتے اور کہیں جائز اور کہیں ناجائز بارڈر پار کرتے ہوئے آپ ایک ملک میں داخل ہوتے ہیں اور ان کی فضا کو گندہ کرنے لگتے ہیں.یہ کون سی شرافت ؟ اس کا کس نے آپ کو حق دیا ہے؟ یہ حرکتیں کر کے آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کیسے منسوب ہو سکتے ہیں.ہرگز نہیں.خدا کا خوف کریں ، سوچیں! یہ اچھی باتیں نہیں ہیں.خصوصاً گھروں میں جو گھٹیا باتیں ہو کر ، کمینے جھگڑتے چلتے ہیں اس کے نتیجے میں ماحول پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے.کئی سوشل ورکرز ہیں جو واقعی سچی انسانی ہمدردی کے ساتھ آنے والوں کی مدد کرتے ہیں.ان میں سے ایک خاتون ایک دفعہ مجھے ملیں.بہت بے چین تھیں کہ عجیب قسم کے کچھ لوگوں سے پالا پڑتا ہے.بہت چھوٹی چھوٹی باتوں میں ملوث ہوتے ہیں اور دل کو تکلیف پہنچتی ہے کہ کیوں یہ اپنے لئے بھی ایک آزار بنائے بیٹھے ہیں اور دنیا کے لئے بھی آزار بنے ہوئے ہیں." مشعل راه جلد 3 صفحه 495-496)

Page 250

237 $1992 مسیح کے انصار اور اللہ کے انصار بنا دو مختلف چیزیں نہیں ہیں نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ کی لطیف تشریح خطبہ جمعہ 7 فروری 1992ء) "سب سے اول اور سب سے آخر حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی ہیں.تمام پیشگوئیاں جن میں احمد کی پیشگوئی بھی شامل ہے اول طور پر حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہی ہیں.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کے متعلق یہ پیشگوئی ہے اور آپ کی صفات کا ذکر ہے تو ان معنوں میں نہیں کہ صرف آپ کے لئے یہ مخصوص تھیں اور کسی اور کے لئے نہیں بلکہ ان معنوں میں کہ یہ تمام پیشگوئیاں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلاموں کے لئے ہیں اور جو صفات حسنہ بیان ہوئیں وہ بھی آپ کے غلاموں پر صادق آتی ہیں لیکن آخرین کے پل کے ذریعہ، آخرین کے رابطے کے ذریعہ جسے سورۃ جمعہ نے ہمارے سامنے رکھا آپ کو اولین سے ملایا گیا ہے اور ملانے کے معانی یہ تو بہر حال نہیں لئے جا سکتے کہ ایک وقت میں یا ایک جگہ پر اکٹھے ہو جائیں گے.نہ ہم جگہ کے لحاظ سے، نہ ہم وقت کے لحاظ سے ان اولین میں شامل ہو سکتے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں بار ہا فرمایا گیا.پس ملنے کی ایک ہی صورت ہے اور وہ صفات کے ذریعے ملنے کی صورت ہے، اخلاق کے ذریعے ملنے کی صورت ہے ، کردار کے ذریعے ملنے کی صورت ہے اور لگن کے ذریعے ملنے کی صورت ہے.پس یہی وہ مضمون ہے جو سورہ صف میں اس رنگ میں بیان فرمایا گیا کہ اولین پر تو ضرور صادق آیا لیکن آخرین پر بھی صادق آئے گا اور لازم تھا کہ صادق آتا کیونکہ اس کے بغیر آخرین کو اولین سے ملایا جانا ممکن نہیں.قرآن میں بیان روحانی تجارت کا ذکر ہوں.فرمایا: پس اس وضاحت کے ساتھ اب آپ اس تر جمہ کو پیش نظر رکھیں جو میں آپ کے سامنے پڑھ کرسنا تا يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا هَلْ اَدْلُكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيَّكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ 0 اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! کیا میں تمہیں ایک تجارت کی اطلاع نہ دوں.ایک تجارت کی خبر نہ دوں جو تمہیں دردناک عذاب سے بچائے گی.دنیا کی کوئی تجارت ایسی نہیں جو کسی کو دردناک عذاب سے بچا

Page 251

238 سکے.پس تجارتوں کے دور میں جبکہ دنیا کی توجہ بیع کی طرف ہو اس وقت ایک ایسی تجارت کی خوشخبری دینا جو ہر قسم کے درد ناک عذاب سے نجات کی ضمانت دیتی ہو ایک بہت عظیم الشان خوشخبری ہے فرمایا وہ کیسے ہوگا ؟ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَ رَسُولِهِ یہ تجارت اس طرح کی جاتی ہے کہ تم اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور پھر اُس کی راہ میں اپنے اموال اور اپنی جانوں کا جہاد کر و یعنی اس تجارت کو تم اس طرح پاؤ گے کہ تم خدا پر ایمان لاؤ گے اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ گے اور خدا اور اس کے رسول کی راہ میں اپنے اموال کا بھی جہاد کرو گے اور اپنی جانوں کا بھی جہاد کرو گے.ذلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ اگر تمہیں پتا ہو کہ اس تجارت کے کیسے کیسے فوائد ہیں اگر تم اس تجارت کی حقیقت سے آگاہ ہو جاؤ تو تمہیں سمجھ آئے گی کہ یہ تجارت تمہارے لئے ہر دوسری چیز سے بہتر ہے.ذلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ.یہ ایسی تجارت ہے جس میں بھلائی ہی بھلائی ہے اور کوئی نقصان کی بات نہیں.اِنْ كُنتُم تَعْلَمُونَ کا یہ بھی معنی لیا جا سکتا ہے کہ کاش تمہیں علم ہوتا ، کاش تم سمجھ سکتے اگر تم سمجھ سکتے تو ضرور یہ بات مان لیتے کہ اس تجارت میں بہت بڑے فوائد ہیں اور کچھ فوائد خدا اس کے بعد گن کر بتاتا ہے.فرمایا: يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ.اس تجارت کا ایک بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ خدا تمہارے گناہوں سے مغفرت کا سلوک فرمائے گا.کون انسان ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ میں گناہ گار نہیں ہوں ؟ جو گناہ گار نہیں تھے وہ بھی استغفار ہی کرتے رہے.سب سے بڑھ کر معصوم اور قطعی طور پر معصوم حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی.آپ کا بھی لمحہ لمحہ استغفار میں گزرا.پس وہ لوگ جو حقیقہ گناہوں میں ڈوبے پڑے ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی نہ کسی گناہ میں ملوث نہ ہو جاتے ہوں ان کے لئے کتنی بڑی خوشخبری ہے.فرمایا تم اس تجارت میں لگ جاؤ تو ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے گناہوں سے صرف نظر فرمائیں گے اور انہیں بخش دیں گے.پر وَيُدْخِلُكُمْ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ اور ایسی جنتوں میں تمہیں داخل کریں گے جہاں نہریں بہتی ہوں.تمہارے قدموں تلے نہریں بہہ رہی ہوں.وَمَسْكِنَ طَيِّبَةً اور بہت ہی پاکیزہ گھر میسر ہوں.فِي جَنَّتِ عَدْنِ.ایسی جنتوں میں جو ہمیشگی کی جنتیں ہیں کوئی عارضی مقام نہیں ہے، کوئی ایسا گھر نہیں ہے جو آج لیا اور کل بیچ دیا آج ملا اور کل کسی نے باہر نکال دیا بلکہ ایسا گھر ہے جو ہمیشگی کا ہے اور کوئی اس میں سے تمہیں باہر نہیں نکال سکے گا.ذلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ اے کہتے ہیں عظیم کامیابی یعنی یہ مقصد حاصل ہو جائے کہ انسان کے گناہ بخشے جائیں، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو، اسے پیشگی کی جنتیں عطا ہو جائیں تو اسی کا نام فوز عظیم ہے.یہ فوائد ہیں جو اس تجارت سے ہیں جس کا اوپر

Page 252

239 ذکر کیا گیا لیکن ان فوائد کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے سے ہے.یعنی آخرت سے ہے.دور کے فوائد ہیں اگر چہ وہ دور ہر انسان کے قریب بھی ہے.کوئی نہیں جانتا کہ کس وقت وہ مر کر خدا کے حضور حاضر ہو جائے گالیکن جو لوگ اس دور میں مگن رہتے ہیں ان کو وہ دنیا جو مرنے کے بعد نصیب ہوتی ہے بہت دور دکھائی دیتی ہے.پس پہلے وہ فوائد بیان کئے جو حقیقی ہیں، جو اصلی ہیں جو لا زما نصیب ہوں گے اور ہمیشہ کے لئے ہوں گے اور اولیت ان ہی کو ملنی چاہئے لیکن پھر دنیا کے فوائد کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ تمہیں جو برکتیں اس جہاد سے نصیب ہوں گی وہ صرف مرنے کے بعد نہیں ہوں گی بلکہ اس دنیا میں اپنی آنکھوں سے،اپنے جیتے جی تم اُن برکتوں کو دیکھ لو گے اور وہ کیا ہیں فرمایا: وَ أُخْرَى تُحِبُّونَهَا اور ایک دوسری بڑی کامیابی تم کو یہ نصیب ہو گی جو تم دل و جاں سے چاہتے ہو اس سے تمہیں محبت ہے یعنی نَصْرُ مِنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبُ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں نصرت عطا ہوگی اور فتح تمہارے قریب لائی جائے گی.وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مومنوں کو بشارت دے دو کہ ایسا ہوگا اور ضرور ہوکر رہے گا.روحانی تجارت كُونُو اَنْصَارُ اللہ کے حکم میں مضمر ہے اب یہاں نَصْرُ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ کی جو خوشخبری ہے اسی کی تفصیل سورۃ النصر میں ہمیں یوں ملتی ہے: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًاتی کہ وہ وقت یاد کرو جب تم خدا کی نصرت اور فتح کو دیکھو گے.جب نصرت اور فتح تمہیں عطا کی جائے گی اور اس شکل میں کہ فوج در فوج لوگ خدا کے دین میں داخل ہورہے ہوں گے اور فرمایا کہ مومنوں کو سب سے زیادہ اس چیز سے محبت ہے.ہر وقت وہ چاہتے ہیں کہ ایسا ہو کاش ہم اپنی آنکھوں سے فتح کا وہ دن دیکھ لیں تو فرمایا جس تجارت کی طرف ہم تمہیں بلا رہے ہیں اس تجارت کے دائمی فائدے تو ہیں ہی جو لا ز ما نصیب ہوں گے لیکن تم تو چاہتے ہو کہ مرنے سے پہلے فتح اور نصرت کا دن بھی دیکھ لو.اگر یہی تمہاری تمنا ہے، اسی مقصد سے تمہیں دلی محبت ہے تو فرمایا جو تجارت کرنے کے لئے ہم تمہیں ہدایت دے رہے ہیں وہ تجارت کرو.اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ وہ نصرت اور فتح ضرور عطا فرمائے گا اور یہ یقین دلانے کے لئے فتح کو قریب لا کر دکھایا گیا کہ اگر چہ آخری زمانہ میں فتح دور دکھائی دے گی اور بظاہر ناممکن ہو گا کہ کوئی دور اور ہوگا ایک نسل اپنی آنکھوں سے اس فتح کو دیکھ نے لیکن اگر اس تجارت میں مگن ہو جائے جس تجارت کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے تو اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ اس فتح کو قریب کیا جائے گا.وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ مومنوں کو

Page 253

240 بشارت دو اعلان عام کردو کہ خدا کے فضل کے ساتھ یہ ساری نعمتیں تمہیں عطا ہونے والی ہیں.اس کے بعد فرماتا ہے.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ - جس تجارت کا ذکر گزرا ہے اس تجارت کے لئے اپنے آپ کو وقف کردو.كُونُوا اَنصارَ اللهِ تم خدا سے نصرت چاہتے ہو تو خدا کی نصرت تو کرو جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ نصرت کے لئے خدا کے حضور حاضر کر دو یعنی اپنی سب طاقتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نصرت کرو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تمہاری نصرت فرمائے گا.یہ وہ مضمون ہے جو انسان اپنی ساری زندگی کے روز مرہ تجربہ میں دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے اگر کوئی شخص اپنا سب کچھ آپ کے حضور پیش کر دے تو فطری تقاضا ہے کہ آپ اپنا سب کچھ اس کو پیش کرنا چاہیں لیکن جب میں فطری تقاضا کہتا ہوں تو مرادان لوگوں کا فطری تقاضا ہے جن کی فطرت سلیم ہو ، جن کی فطرت پر میل نہ پڑ گئی ہو، جو وہی فطرت رکھتے ہوں جس فطرت پر پیدا کئے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر انسان کو صحیح سچی فطرت پر پیدا کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنی صورت پر انسان کو پیدا کیا ہے.پس یہ جو مضمون ہے کہ اللہ کی فطرت پر انسان پیدا کئے گئے اس مضمون سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اگر آپ کی فطرت صحیح ہو اور اس میں دنیا کی ملونی کی وجہ سے گندگی شامل نہ ہو گئی ہو تو خدا تعالیٰ آپ سے جو سلوک کرے گا اسے پہچاننے کے لئے اپنے نفس کو پہچانیں.جو سلوک آپ خدا تعالیٰ سے چاہتے ہیں یہ دیکھیں کہ آپ وہ سلوک لوگوں سے کس صورت میں کیا کرتے ہیں اور لوگ وہ سلوک آپ سے کب کیا کرتے ہیں.پس اپنے نفس کو پہچاننے کے ذریعہ تم خدا کو پہچان سکو گے اور خدا تعالیٰ سے تعلقات کو درست کر سکو گے.پس یہ وہی مضمون ہے جو بیان فرمایا گیا پہلے فرمایا کہ نصرت تمہیں ضرور عطا ہوگی اگر تم وہ تجارت کرو جس کی طرف تمہیں بلایا جا رہا ہے لیکن ساتھ ہی یہ فرمایا گیا کہ اس تجارت کے لئے شرط ہے کہ خدا کی خاطر مسیح کے انصار بنو.جو لفظی ترجمہ ہے وہ یہ ہے مَنْ أَنْصَارِی اِلَى اللهِ کہ اللہ کے مسیح نے کہا کہ کون ہے جو میرے انصار بنیں اللہ کے لئے.تو مراد یہ ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام تو آخری زمانہ میں ظاہر ہونے والا مسیح جو مسیح مہدی ہوگا.حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو تمام دوسرے ادیان پر غالب کرنے کے لئے آئے گا تمہیں اس کا انصار ہونا پڑے گا اور انصار بھی دل و جان کے ساتھ جو کچھ تمہارے حضور ہے، تمہارے پاس ہے اس کے حضور حاضر کرنا ہو گا اپنی جان کے تھے بھی پیش کرنا ہوں گے.اپنے اموال کے بھی تھے پیش کرنا ہوں گے اور دن رات یہ گن لگانی ہوگی کہ ہم جس طرح بھی بس چلے اور جو کچھ بھی ہمارا اختیار ہے ہم نصرت دین کے لئے اپنے آپ کو ناصر بنادیں اور خدا کی راہ میں ہم جو کچھ بھی خدمت کر سکتے ہیں وہ بجالائیں.

Page 254

241 انصار اللہ میں ایک دائمی حالت کا ذکر ہے انصاراللہ میں ایک دائمی حالت کا ذکر فرمایا گیا ہے.اگر نصرت طلب کی جائے تو نصرت وقتی بھی ہو سکتی ہے لیکن صحیح ناصری کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے وقتی نصرت طلب نہیں کی تھی.چند قربانیوں کی طرف نہیں بلایا تھا اُس نے کہا تھا کہ.مَنْ اَنْصَارِی اِلَی اللہ کون ہے جو اللہ کی خاطر میرا مددگار بنتا ہے اور یہاں انصار سے مراد ہے ساری زندگی کے لئے مددگار بنا رہنا کسی عارضی مدد کے لئے پیش نہ کرنا بلکہ ہمیشہ کے لئے خادموں کی فہرست میں شامل ہو جانا.چنانچہ اس مضمون کو سمجھتے ہوئے انہوں نے یہی جواب دیا که نَحْنُ أَنْصَارُ اللہ ان کے جواب میں یہ نہیں تھا کہ ہاں ہم اللہ کے لئے تیرے مددگار بنتے ہیں بلکہ وہ اس مضمون کو خوب سمجھ گئے تھے کہ مسیح کا مددگار بنا اور اللہ کامددگار بنا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.پس مسیح نے تو خوب وضاحت کر دی کہ اللہ کی خاطر میرے مددگار بنو.جواب میں انہوں نے کہا نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ - ہاں ہم حاضر ہیں ہم اللہ کے مددگار ہیں، ہمیشہ اللہ کے مددگار رہیں گے تو مضمون ایک ہی ہے لیکن اختصار کے ساتھ بیان فرمایا گیا اور یہ بتایا گیا کہ دونوں باتیں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.مسیح کے انصار اور اللہ کے انصار بنا دو مختلف چیزیں نہیں ہیں پس مسیح مہدی کے انصار بننا اور اللہ کے انصار بننا یہ دو مختلف چیزیں نہیں ہیں.فرمایا کہ جب تم تجارت کرو گے اور اس رنگ میں تجارت کرو گے تو پھر یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ ضرور تمہارا مددگار ہوگا اور وہ فتح جو تمہیں دور دکھائی دیتی ہے وہ تمہارے قریب لائی جائے گی.یہ وہ مضمون ہے جسے جماعت احمدیہ کو خوب اچھی طرح سمجھ کر اس پر عمل درآمد کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئیے اس کے بغیر ہم اگلی سورۃ میں دی گئی خوشخبری کے اہل نہیں ہوسکیں گے اور وہ سب سے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ مسیح محمدی جب یہ اعلان کرے گا کہ میرے انصار بنو تو اس شان کے ساتھ اس کی آواز پر لبیک کہا جائے گا کہ خدا تعالیٰ سورہ جمعہ میں گواہی دیتا ہے کہ وہ لوگ جو آئندہ زمانے میں ظاہر ہونے والے مسیح کے انصار بنیں گے ان کو اولین سے ملایا جائے گا اور ان کو ایک ہی مقام پر جمع کر دیا جائے گا یعنی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین غلاموں کے ساتھ ان کو اکٹھا کر دیا جائے گا.پس کتنا بڑا انعام ہے، کتنی بڑی خوشخبری ہے جو آپ کے لئے ، جو آخرین کی جماعت میں مقدر ہو چکی ہے جس کا قرآن کریم میں بڑی وضاحت کے ساتھ ذکر موجود ہے اور وہ طریق کار بھی بتا دیا گیا جس طریق پر آپ نے مسیح کی نصرت کرنی ہے اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ آپ کی نصرت فرمائے گا اور آپ کو بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے کی توفیق بخشے گا.

Page 255

242 تمام ذیلی تنظیمیں ایسی منصوبہ بندی کریں کہ ہر احمدی کے دل میں خدمت کا جذبہ پیدا ہو جائے اس ضمن میں میں بہت سے خطبات پہلے بھی دے چکا ہوں اور ان خطبات میں میں نے جماعت کی تنظیموں کو نصیحت کی تھی کہ آپ اس کام کو اس طرح مرتب کریں، اس طرح منصوبہ بندی کے ساتھ بجالائیں کہ تمام احمدی جن کے دل میں خدمت کا کچھ بھی جذبہ ہے وہ اس نظام سے وابستہ ہو جائیں اور اس سے استفادہ کریں اور پھر اس کی نگرانی رکھیں اور حتی المقدور کوشش کے ساتھ اس کام کو آگے بڑھانا شروع کریں.میں نہیں جانتا کہ منتظمین نے یا اصلاح وارشاد کے سیکرٹریوں یا دعوت الی اللہ کے سیکرٹریوں نے کس حد تک اس طرف توجہ کی یا امراء نے اپنے فرائض کو اچھی طرح سمجھ کر انہیں بجالانے کی کوشش کی.تمام دنیا کی جماعتوں میں مختلف رد عمل ہوں گے.کہیں کوئی امیر زیادہ مستعد ہیں کہیں کوئی امیر ذاتی طور پر دعوت الی اللہ سے قلبی تعلق رکھتے ہیں ایسی جگہوں میں یقیناً خدا کے فضل سے اچھے نتائج نکلے ہوں گے لیکن بہت سی ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں امراء کے پاس یا وقت نہیں ہے یا مزاج اور دماغ نہیں ہے کہ ان باتوں کو سن کر اس طرح ان پر عمل درآمد کریں یا بعض دفعہ ان کو ایسے مدد گار میسر نہیں ہوتے جو ان کی باتوں کوشن کر توجہ کریں اور ان کی مدد کریں.عہدیداران کو رَبِّ اذ خلنی کی دعا پڑھنے کی تلقین پس اس لئے میں نے ان خطبات کے آخر پر دعا کی طرف توجہ دلائی تھی کہ تمام عہد یداران جوان نصیحتوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں وہ خدا تعالیٰ سے دعا کے ذریعہ یہ مدد مانگیں کہ : رَبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَ اجْعَل لّي مِن لَّدُنْكَ سُلْطنًا نَصِيرًا (بنی اسرائیل: ۸۱) کہ اے میرے اللہ ! مجھے اس اعلیٰ مرتبہ اور اس اعلیٰ مقام پر فائز فرما.مجھے اس اعلیٰ مقصد کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما اَدْخِلْنِى سے مراد مجھے داخل کر دے.مُدْخَلَ صِدْقٍ ، سچائی کے ساتھ کس میں داخل کر دے؟.یہاں مراد یہ ہے کہ اس مقام محمود کی طرف لے جا.اس اعلیٰ مرتبہ پر پہنچا دے جس کا تو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرماتا ہے اور آپ کی غلامی میں اس کا کچھ نہ کچھ فیض ہمیں بھی میسر آنا ہے.ساتھ ہی میں نے توجہ دلائی کہ اس دُعا کا انجام یہ بیان فرمایا گیا اور آخرت پر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ وَ اجْعَلْ لِّي مِن لَّدُنْكَ سُلْطنًا نَّصِيرًا - میں کامیابی کی طرف کوئی بھی قدم کامیابی کے ساتھ اُٹھا نہیں سکتا جب تک مجھے تیری طرف سے کوئی مدد میسر نہ ہو جو سلطان ہو جو غالب آنے کی طاقت رکھتا ہوا یسا مددگار مجھے ضرور مہیا فرما کہ اس کے بغیر میر اسفرطے نہیں ہو سکتا تو یہاں بھی ایک نصیر کا ذکر ہے.پس اللہ تعالیٰ

Page 256

243 کی نصرت کرنے کے لئے بھی ایک نصیر کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ نصیر ملکوتی طاقتوں سے تعلق رکھنے والا نصیر ہے.اگر چہ دنیا میں بھی یہ نصیر میسر آتے ہیں اور بارہا ہم نے ان دعاؤں کے نتیجہ میں انسانوں کو ان معنوں میں نصیر بنتے دیکھا ہے جن معنوں میں قرآن کریم میں اس کا ذکر ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اول طور پر یہاں ملکوتی طاقتیں مراد ہیں یہاں جبرائیل کی طرف اشارہ ہے اور جبرائیل کے تابع جتنی قوتیں انسان کو.نیکی کی طرف لے جاتی ہیں اور اندھیروں سے نکالتی ہیں ان سب طاقتوں سے مدد مانگنے کی ایک التجا ہے جو اس دُعا میں کی گئی ہے.پس خدا تعالی کی نصرت کرنے کے لیے بھی خدا تعالیٰ سے نصرت مانگنی پڑے گی.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا مضمون آپ دیکھیں ہر جگہ پھیلا پڑا ہے.زندگی کا کوئی شعبہ نہیں ہے جو اس دعا کے اثر سے باہر ہو.ہر احمدی نصرت کے لئے اللہ سے نصرت طلب کرے تو پہلی نصیحت میری آپ کو بھی یہی ہے جیسا کہ تمام عہدیداران کو کی تھی کہ بحیثیت احمدی ہر شخص کا کام ہے کہ وہ نصرت کے لئے تیار ہو اور نصرت کے لئے ہر وقت اللہ سے نصرت طلب کرے.ایک نصرت آغاز میں ہوگی اس کے نتیجہ میں آپ کو نصیر یا انصار بنایا جائے گا.اور ایک نصرت اس کے بعد آئے گی جو اس کے نتیجہ میں ظاہر ہوگی اس مضمون کو آپ سمجھیں تو خدا تعالیٰ کی دو صفات کے مضمون کو آپ سمجھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ اول بھی ہے اور آخر بھی ہے.پہلا بھی ہے اور سب سے بعد بھی ہے یعنی خدا کے بغیر کوئی برکت والی بات شروع ہو ہی نہیں سکتی اور جب آپ شروع کرتے ہیں تو ہر نیک انجام جو ظاہر ہوتا ہے ہر نیک نتیجہ جو نکلتا ہے اس میں بھی آپ خدا تعالیٰ کا تصور دیکھتے ہیں اور بالآخر خدا کو اپنی جزا دینے کیلئے آخر پر منتظر پاتے ہیں.پس نصیر بننے کے لئے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بار بار یہ دعا مانگنی ضروری ہے کہ اے خدا ہمیں نصیر عطا فرما یعنی روحانی طور پر ہمارے دلوں کو طاقت بخشنے والا ، ہمارے دماغوں کو اس صبح پر چلانے والا ، ہماری سوچوں کو روشن کرنے والا ، ہماری کوششوں میں برکت ڈالنے والا، ایسا نصرت کرنے والا عطا فرما جو سلطان ہوجس میں یہ طاقت ہو کہ جب کسی کی مدد کرے تو اس کی مدد کامیابی اور قوت کے ساتھ کرے اور اس مدد کا نیک نتیجہ ظاہر ہو.ہر فرد بشر تبلیغ کرے پس آج کے خطبہ میں اور شاید اس کے بعد بھی ایک دو اور خطبوں میں میں جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے ہر فرد بشر کو جو احمدیت سے تعلق رکھتا ہے براہ راست یہ پیغام دیتا ہوں کہ آپ تبلیغ کریں اور تبلیغ اس

Page 257

244 طرح کریں جس طرح قرآن کریم میں ذکر فرمایا گیا ہے اور اس کی تفصیل میں کچھ اور باتیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اس آیت میں جو عمومی تصویر کھینچی گئی ہے اسے ہم اُردو میں اس طرح پیش کر سکتے ہیں کہ تن من دھن کی بازی لگا دو اپنا سب کچھ اس راہ میں جھونک دو کچھ بھی باہر نہ رکھو.یہ وہ چیز ہے جولگن سے تعلق رکھتی ہے جیسے کسی چیز کی لولگ جاتی ہے، کسی چیز سے انسان کو عشق ہو جائے.وہ کیفیت ہے جو بیان فرمائی گئی ہے اور یہ ایک مضمون نگاری نہیں بلکہ فی الحقیقت ہے یہی معنی ہیں اور اس کے سوا کوئی اور معنی نہیں بنتے ہیں جو اس آیت میں بیان فرمائے گئے کیونکہ عشق کے بغیر انسان نہ تو اپنا مال پیش کر سکتا ہے نہ جان پیش کر سکتا ہے.کوئی پاگل تو نہیں ہو گیا کہ کسی کو اپنا سب کچھ دے دے، مال بھی دے دے اور جان بھی دے دے.کن معنوں میں انصار بنا جائے یہ مضمون عشق سے تعلق رکھتا ہے اگر انسان محبت میں پاگل ہوتب ہی وہ ایسی حرکت کرتا ہے ورنہ کوئی سر پھرا تو نہیں کہ بے وجہ کسی کو اپنا مال بھی دے دے اپنی جان بھی اس کے حضور حاضر کر دے جب فرمایا: مَنْ اَنْصَارِي اِلَى اللهِ.تو دراصل کن معنوں میں انصار بنا تھا اس کا نقشہ پہلے ہی کھینچا گیا ہے اور اس کے بعد مسیح کا یہ پیغام دیا گیا تا کہ انسان خوب اچھی طرح سمجھ لے کہ جب میں نے خدا کی راہ میں مسیح کے انصار میں داخل ہونا ہے تو مجھ سے کیا توقع کی جاتی ہے.ناصر بنا کس کو کہتے ہیں؟ پہلے خوب سمجھایا گیا پھر مسیح کا دعویٰ پیش کیا گیا پھر مسیح موسوی کی قوم کا جواب پیش کیا گیا اور عملاً یہ صلائے عام دی گئی کہ اے محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموا مسیح موسوی سے اس کی قوم نے جو محبت اور عشق کا سلوک کیا تھا کیا تم مسیح محمدی سے اس سے بڑھ کر محبت اور عشق کا سلوک نہیں کرو گے؟ اگر مسیح موسوی کے غلاموں نے بڑی شان کے ساتھ اور بڑی عاجزی کے ساتھ اور کامل خلوص اور صدق کے ساتھ خدا کی خاطر مسیح کے حضور اپنے اموال اور جانیں پیش کر دیئے تھے تو کیا تم بھی ایسا نہیں کرو گے یہ وہ سوال ہے جو اس میں مضمر ہے، اس میں شامل ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ ایک عشق کا نظارہ ہے.حضرت مسیح کے انصار کی کیفیت حضرت مسیح کے انصار کے حالات پر آپ نظر ڈالیں تو واقعہ یوں لگتا ہے جیسے وہ دیوانے ہو گئے.ایک وہ کیفیت تھی جب حضرت مسیح صلیب کی آزمائش سے ابھی گزرے نہیں تھے.اس کیفیت میں آپ بعض دفعہ ان کے متعلق ایسے تبصرے بھی کر دیتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے ایمان میں کوئی جلا نہیں تھی ، کوئی خاص شان نہیں تھی ، ایسے بھی تھے جنہوں نے دنیا کی لالچ میں میسیج پر لعنت بھیج دی.ایسے بھی تھے

Page 258

245 جنہوں نے اپنی جان بچانے کی خاطر مسیح کو سولی پر لٹکوانا گوارا کر لیا لیکن میں بعد کی بات کر رہا ہوں.جب مسیح نے قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا تو اس وقت ان کے اندر ایک عظیم الشان انقلاب بر پا ہوا ہے اور وہی انصار جو ڈرے ڈرے، چھپے چھپے کمزور دکھائی دیتے تھے انہوں نے پھر اتنی عظیم الشان قربانیاں پیش کی ہیں کہ تاریخ نبوت میں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے سوا آپ کو کہیں ایسی عظیم الشان قربانیاں دکھائی نہیں دیں گی.تین سوسال کے عرصہ پر پھیلی ہوئی ایسی دردناک قربانیاں ہیں اور ایسی مستقل مزاجی رکھنے والی قربانیاں ہیں کہ جن میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی کبھی کوئی کمزوری نہیں آئی ایک نسل بھی بعض دفعہ قربانیاں کرتے ہوئے تھک جاتی ہے اور یہ پوچھنا شروع کر دیتی ہے کہ کب خدا کی مدد آئے گی؟ کب ہمارے دن بدلیں گے؟ لیکن مسیح کی دعوت پر جن لوگوں نے نَحْنُ اَنْصَارُ اللہ کہا کہ ہم انصار اللہ ہیں انہوں نے اس وعدہ کا حق ادا کر دیا اور جانیں دیں، جانوروں کے سامنے ڈالے گئے ، درندوں کے سامنے ڈالے گئے ، لوگ بڑے بڑے تھیٹر ز میں اور تماشہ گاہوں میں بیٹھے ہوتے تھے اور ان کے سامنے پنجروں سے بھوکے شیر یا بیل یا اور قسم کے خوفناک جانور حضرت مسیح کے غلاموں پر چھوڑے جاتے تھے کیونکہ وہ دنیا کی خاطر دین کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے.ان کو پہلے ڈرایا جاتا تھا اور ان کی عاقبت کے بارہ میں خوب اچھی طرح خبر دار کر دیا جا تا تھا بار باران کو سمجھایا جاتا تھا کہ تو بہ کر لو اور مسیح کو چھوڑ واور ہمارے خداؤں کے سامنے سر جھکاؤ دور نہ تمہارا یہ انجام ہوگا.یہ ساری باتیں سننے کے بعد یقین کرنے کے بعد وہ یہی کہا کرتے تھے.کہ ہم مسیح کو کبھی نہیں چھوڑیں گے جو چاہو کر لو اور اس کے نتیجہ میں پھر ان پر بڑے بڑے ابتلاء آئے ان کی سچائی کو طرح طرح سے آزمایا گیا اور یہ جو باتیں میں بیان کر رہا ہوں یہ حقیقت ہے اور اس میں کوئی بھی افسانہ نہیں یہ تاریخی حقائق ہیں کہ ان ایمان لانے والوں کمزوروں اور بھوکوں کو تماشہ گاہوں میں میدان کی طرف سے نکالا جاتا تھا اور دوسری طرف سے بھو کے شیروں یا بھیڑیوں یا اور درندوں کو چھوڑا جاتا تھا اور وہ آنا فانا ان کو چیر پھاڑ کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا کرتے تھے ان کی ہڈیوں کو جھنجھوڑتے تھے ان کے گوشت کو کھاتے اور ان کے خون کو پیتے تھے اور سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھتا تھا اور خوشی سے نعرے لگائے جاتے تھے کہ یہ مسیح کے ایک اور ماننے والے کو ہم نے اس بد انجام کو پہنچایا یہ ایک نسل کی بات نہیں دو نسل کی بات نہیں ایک سو سال میں کئی نسلیں گزر جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آئے ہوئے ابھی ایک سوسال ہوئے ہیں اور آپ دیکھیں کہ ہماری چوتھی پانچویں نسل بلکہ چھٹی نسل تک میں نے ایک خاندان میں گن کر دیکھے تھے اور یہ چھ نسلیں ایک سوسال کے اندراندر پیدا ہوگئی ہیں تو تین سو سال تک کتنی نسلیں ہیں جنہوں نے کامل وفا کے ساتھ اس عہد کو نبھایا ہے اور سیح ناصرتی سے وفا کی ہے.یہ مطلب ہے انصار اللہ بنے کا لیکن میں بعض دفعہ تعجب سے اور دُکھ سے دیکھتا ہوں کہ پاکستان سے بعض احمدی لکھ دیتے ہیں کہ اب تو حد ہوگئی کہ اب اور کتنی مدت تک خدا ہم سے انتظار کروائے

Page 259

246 گا؟ اتنی تکلیفیں پہنچ گئیں خدا کی مدد کیوں نہیں آتی.کیوں نقتے نہیں بدلتے ، کیوں دشمن ہلاک نہیں ہوتا ؟ میں حیرت سے دیکھتا ہوں اور میرا دل خون ہو جاتا ہے ان باتوں کو سن کر کے تم نے مسیح مہدی سے وعدہ کیا ہے کہ ہم اپنی جان مال عزت سب کچھ پیش کر دیں گے اور جو اپنی جان دے دے اس کو پھر اس سے کیا غرض کہ میرے بعد کیا ہوگا یا میں کیا دیکھتا ہوں اور کیا نہیں دیکھتا.انصار اللہ جب کہہ دیا تو سب کچھ خدا کے سپر د کر دیا مسیح محمدی کی طرف منسوب ہو کر سو سال نہیں صرف ایک نسل کی تکلیف برداشت کرتے ہوئے تم ہمت ہار دو تو کیا تمہیں زیب دیتا ہے کہ مسیح محمدی کے انصار ہونے کا دعوی کرو.پس اس سورۃ الصف میں ہمارے لئے ایک پوری تاریخ کھول کر بیان فرما دی گئی ہے ہمارا کیا کردار ہونا چاہئے ، کن کن قربانیوں کی اللہ تعالیٰ ہم سے توقع رکھتا ہے کس عہد و پیمان کی ہم سے توقع رکھتا ہے اور پھر سابق مسیح کی طرف اشارہ کر کے پوری مسیحیت کی تاریخ کھول کر ہمارے سامنے رکھ دی اور بتایا کہ اس راہ میں یہ یہ ابتلاء آئیں گے، یہ یہ مشکلات پیش ہوں گی.ایک نسل کی فتح کا سوال نہیں ، دو نسلوں کی فتح کا سوال نہیں تمہاری فتح کا زمانہ لمبا بھی ہو سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ایک وعدہ فرما دیا اور وہ وعدہ فَتْح قریب کا وعدہ ہے.یہ وہ پہلو ہے جو میں آپ کے سامنے خوب اچھی طرح کھولنا چاہتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بارہا اس مضمون کو کھول کر بیان فرمایا ہے کہ اگر چہ مجھے مسیح ناصری سے تشبیہ دی گئی لیکن محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے میری تکلیفیں بھی کم کی گئی ہیں اور اسی نسبت سے تمہاری تکلیفیں بھی کم کی گئی ہیں.اسلامی نکتہ نگاہ سے انصار اللہ کے معنی فرمایا اگر محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت نہ ہوتی تو میں بھی روئے صلیب ضرور دیکھتا کیونکہ میں واقعہ مسیح کا مثیل ہوں لیکن اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے اور آپ کی دعاؤں کی برکت سے ہماری آزمائشوں کو چھوٹا بھی کر دیا اور آسان بھی فرما دیا ہے.پس آپ نے اس مضمون کو بھی خوب کھول کر بیان فرمایا کہ اگر چه سیح کو تین سو سال کے بعد غلبہ عطا ہوا تھا اس لئے اگر مجھے اور میری جماعت کو بھی تین سو سال میں غلبہ عطا ہو تو کوئی تعجب یا اعتراض کی بات نہیں لیکن میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ہمارے غلبے کی مدت کو کم کر دیا جائے گا.وہ زمانہ جو قربانیوں کا زمانہ ہے وہ چھوٹا کر دیا جائے گا اور جزا کے زمانہ کو لمبا کر دیا جائے گا.پس فتح قریب نے یہاں یہ وعدہ کیا ہے کہ اے محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامو! اگر تم یہ وعدہ پورا کرو اس تجارت کی طرف آجاؤ جس کی طرف ہم تمہیں بلاتے ہیں تو خدا تعالیٰ تمہاری فتح کے دن قریب کر دے گا اور تمہیں تین سو سال کے انتظار کی زحمت نہیں اٹھانی پڑے گی.

Page 260

247 پس اس وجہ سے میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ بات ایک معنوں میں ہمارے اختیار میں ہے.بظاہر ہمارے اختیار میں کچھ بھی نہیں لیکن جن شرطوں کے ساتھ ہمیں خدا تعالیٰ نے دعوت الی اللہ کے لئے ہمیں بلایا ہے اُن شرطوں کو پورا کرنا فی الحقیقت ہر انسان کے اختیار میں ہے ان معنوں میں اختیار میں ہے کہ اگر وہ خدا سے نصرت طلب کرتے ہوئے یہ عہد کرے کہ اے خدا ! میں تیری راہ میں ناصر بننا چاہتا ہوں.میں انصار اللہ میں شامل ہونا چاہتا ہوں تو پھر ضرور ہر انسان کے بس میں اور اختیار میں ہے کہ وہ خدا کے انصار میں ان معنوں میں شامل ہو جائے جن معنوں میں قرآن کریم نے یہ تفصیل بیان فرمائی ہے اور اگر ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری نصرت کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے قریب کر دیا جائے گا تمہاری فتح کے دن قریب کر دیے جائیں گے اور تمہیں اتنے لمبے انتظار کی زحمت گوارا نہیں کرنی ہوگی.پس جماعت احمدیہ کی ہر نسل جو گزر رہی ہے وہ ایک امکانی حالت سے گزر رہی ہے اور وہ امکانی حالت فتح کی طرف بلا رہی ہے.اگر ساری جماعت وہ کوشش کرے جس کا اس سورۃ میں ذکر ہے تو لاز ما تمام دنیا کی فتح کا سہرا ایک نسل کے سر بھی لکھا جا سکتا ہے.مسیح محمدی کے صحابہ کی کیفیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جن لوگوں نے نصرت کا وعدہ کیا وہ تعداد میں بہت تھوڑے تھے لیکن اس کثرت سے ان کو پھل لگے کہ دیکھتے ہی دیکھتے احمدیت کا پودا صرف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان سے باہر کے ممالک میں بھی نصب ہو چکا تھا اور صحابہ کی ایک بڑی جماعت پیدا ہوئی جس کی نسل میں سے اکثر احمدی آج دنیا میں موجود ہیں.میں نے تبلیغ کے ذریعہ پھیلاؤ کا جو جائزہ لیا ہے میں آپ کو یقین سے بتا سکتا ہوں کہ جس کثرت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں تبلیغ ہوئی اور جس کثرت سے جماعتیں اس زمانہ میں پھیلی ہیں اس کا عشر عشیر بھی کبھی بعد میں نہیں ہوا.تمام صحابہ ثمر دار شجر تھے وہ شجر طیبہ بن چکے تھے جن سے ہر حالت میں پھل کے وعدے کئے گئے ہیں جن کے متعلق قرآن کریم اعلان فرماتا ہے کہ وہ زمین میں مضبوطی کے ساتھ پیوستہ ہیں لیکن شاخیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور ہر موسم میں ان کو پھل لگتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کثرت سے ایسے صحابہ خطا ہوئے جو طیب درختوں کی صورت میں لہلہاتے رہے.پھولتے پھلتے رہے اور ہر موسم میں ان کو پھل لگتے رہے.اب جب میں قادیان گیا تو بہشتی مقبرہ میں گھوم پھر کے کتبات پڑھتا تھا ان میں سے بہت سے ایسے کتبات تھے جن سے مجھے یاد آجاتا تھا کہ ہاں میں نے بھی ان کو دیکھا ہوا ہے اس شکل وصورت کے تھے.یہ وہ بزرگ صحابی تھے جو اس زمانے میں سادہ سے کپڑوں میں عام لباس میں غریبانہ چال کے ساتھ چلتے تھے

Page 261

248 اور ہم وہم بھی نہیں کر سکتے تھے کہ خدا کے حضور ان کا کتنا بڑا مرتبہ اور مقام ہے لیکن خدا نے ہمیں یہ سعادت عطا فرمائی تھی کہ ان پاک چہروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے.پس ان قبروں پر گزرتے ہوئے دعا ئیں بھی کرتا تھا اور اپنی سعادت پر خدا کا شکر بھی ادا کرتا تھا.میں آپ کو بتاتا ہوں کہ یہ وہ صحابہ نہیں جن کا انصار کی جماعت میں قرآن کریم میں ذکر موجود ہے.یہ وہ ہیں جنہوں نے آخرین کو اولین سے ملایا تھا اور خدا نے ان سے اپنے وعدے پورے کئے.اتنی بڑی مخالفت کا طوفان تھا کہ آج پاکستان میں جو مخالفت ہو رہی ہے اُس مخالفت کے سامنے اس مخالفت کی کوئی بھی حیثیت نہیں.ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں ملاں پھرے اور ہندوستان سے لے کر عرب ممالک کے آخر تک انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف عناد اور دشمنی کی ایک آگ لگا دی اور بڑے فخر سے یہ اعلان کئے کہ ہم نے تمام دنیا میں اس شخص کے خلاف ایسی نفرت پیدا کر دی ہے کہ ایک آگ بھڑک رہی ہے جو اس کو خاکستر کر کے رکھ دے گی.تمام دنیا کے علماء نے اس کو دنیا کا بدترین انسان قرار دے دیا اور یہ فتویٰ دیا کہ اس کو مارنا، لوٹا قتل کرنا اس کی اولا دو جان ، عزت پر ہاتھ ڈالنا سب کچھ خدا کے نزدیک جائز ہے بلکہ باعث ثواب بن گیا ہے.اس کو اور اس کے ماننے والوں کو جس کے بس میں آئے جس طرح لوٹے ، مارے، کوٹے ، جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے.یہ دین کا فتویٰ ہے کہ اگر کوئی ایسا کرے گا تو خدا کے حضور بڑی عزت پائے گا.اس قسم کی آگ تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چاروں طرف بھڑ کائی گئی.اس آگ کو گلزار بنانے والے وہ صحابہ تھے جگہ جگہ ابراہیمی طیور تھے جو پیدا کئے گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کے ساتھ خدا نے اپنے سارے وعدے پورے کئے ورنہ آج آپ یہاں نہ ہوتے.آج آپ ہندوستان میں بھی نہ ہوتے کہیں آپکا وجود ممکن نہیں تھا کیونکہ جس قسم کی مخالفت اور ملیا میٹ کر دینے والی نفرتیں پھیلا دی گئی تھیں وہ ایسی نفرتیں تھیں کہ یوں لگتا تھا کہ نظریں لوگوں کو کھا جائیں گی.ان واقعات کو آپ پڑھیں جن مشکلات سے احمدی اس زمانہ میں گزرے ہیں تو آج بھی دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کس طرح ان معصوموں کو کتنی بڑی بڑی تکلیفیں دی گئیں لیکن جب خدا نے فتح قریب فرمایا تو اس زمانہ کے لحاظ سے جو فتح ہوئی وہ بہت بڑی فتح تھی.احمدیت کا ان خطروں سے بچ کر سلامت گزر جانا اور خزاں کے دور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کثرت سے اشجار طیبہ عطا ہونا یعنی ایسے درخت عطا ہونا جو پھولنے پھلنے والے ہوں اور جن کو دنیا میں کوئی کاٹ نہ سکے ، برباد نہ کر سکے ، کوئی ان کو بے ثمر نہ بنا سکے.یہ نصرت کا وعدہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پورا ہوا.اب آپ کو نصرت کے دوسرے دور میں داخل کر دیا گیا ہے.اس دوسری صدی نے نصرتوں کا اور فتوحات کا ایک نیا باب کھولا ہے اور اس صدی کے سر پر کھڑے ہونے والوں کی ایک مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صدی کے سر پر کھڑے ہونے والے بزرگ صحابہؓ سے ملتی ہے اور یہ دور کئی معنوں میں نئی برکتیں

Page 262

249 لے کر دوبارہ آپ کے سامنے آیا ہے.انصار کا حق ادا کرنے سے سورۃ نصر میں بیان فتوحات جلد ملیں گی پس اگر آپ انصار ہونے کا حق ادا کریں گے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے.جان مال عزت جو کچھ بھی ہے خدا کے حضور پیش کریں گے اور ایک لگن لگالیں گے ، ایک دھن سر پر سوار کر لیں گے کہ ہم نے ضرور احمدیت کو فتح یاب کرنا ہے اور دعوت الی اللہ کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں کثرت سے لوگوں کو داخل کرنا ہے تو پھر نصرت کا وہ وعدہ جس کا سورہ نصر میں ذکر ہے کہ فوج در فوج لوگ داخل ہوں گے اس وعدے کو آپ اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھیں گے اور اگر ہم ان نصیحتوں پر عمل کریں جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھی ہیں اور اس خلوص اور وفا کے ساتھ عمل کریں جس کی توقع کی جاتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہرگز بعید نہیں کہ اس صدی میں ہی تمام دنیا پر اسلام غالب آ جائے.اس صدی کے آخر تک تو ہم میں سے شائد ہی کوئی پہنچے یعنی اگر ان میں سے پہنچے تو وہ بچے پہنچیں گے کہ جو میری بات کو سنیں بھی تو سمجھ نہیں سکتے.لیکن اس صدی میں کیا ہوگا ہم اپنی زندگیوں میں یہ ضرور دیکھ سکتے ہیں اگر ہم اپنی کوشش کو انتہا تک پہنچادیں اور جیسا کہ اس مضمون کا حق ہے منصوبہ بنا ئیں.صرف جماعتی منصو بہ نہ بنا ئیں بلکہ انفرادی منصوبے بنائیں ، دعائیں کریں، جد و جہد کریں، دن رات اس کام میں اپنے دل کو لگائیں اور اپنے ذہنوں کی سب سے بڑی فکر یہ بنالیں تو مجھے یقین ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہر جگہ عظیم الشان انقلاب رونما ہونے شروع ہو جائیں گے اور ہم صرف وعدوں پر نہیں جئیں گے بلکہ ان وعدوں کو پورا ہوتے دیکھ لیں گے جیسے بعض دفعہ برسات آنے سے پہلے ہوائیں چلتی ہیں جو بتا دیتی ہیں کہ برسات آنے والی ہے پس آپ صرف ان ہواؤں کو ہی نہیں دیکھیں گے بلکہ پھر برسات کے ابتدائی چھینٹوں کو بھی دیکھ لیں گے اور کوئی بعید نہیں کہ بعض جگہ کے ملکوں میں وہ زور سے برستی ہوئی بارش کو بھی پالیں اور ایسا بعض جگہ ہونا شروع ہو چکا ہے.پس دنیا کے سب احمد یوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مقام اور مرتبہ کو سمجھیں.مسیح محمدی کے ذریعہ انصار اللہ کا نیا دور گزشتہ جمعہ میں ان سعادتوں کا جو میں نے ذکر کیا تھا.اس کے متعلق مجھے خطوط آرہے ہیں اور احمدی جائز طور پر خدا کے حضور سر بسجود ہیں کہ ان کا ذکر قرآن کریم میں اس رنگ میں فرمایا گیا اور یہ عظیم سعادت انہیں نصیب ہوئی کہ دنیا کو جمع کرنے کی بعض نئی صورتیں بھی انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں.میں ان کو بتا تا ہوں کہ یہ سعادت تو ہمیں اللہ کی طرف سے نصیب ہو گئی لیکن اس سعادت کے پیچھے جو سعادتیں کثرت کے ساتھ ہماری منتظر ہیں ان کی طرف چل کر جانا ہوگا.وہ ایسی سعادتیں نہیں کہ آپ کسی وقت پیدا ہو

Page 263

250 جائیں اور اتفاقاً وہ سعادتیں آپ تک پہنچ جائیں.وہ ایسی سعادتیں ہیں کہ جن کی طرف چل کر جانا ہوگا.کچھ پھلوں کو لینے کے لئے ہاتھ بڑھانا ہوں گے، کچھ تو کوشش کرنی ہوگی اس کوشش اور جدوجہد کی طرف میں آپ کو بلاتا ہوں اور آخر پر انہی الفاظ میں بلاتا ہوں جن الفاظ میں مسیح ناصری نے اپنے ماننے والوں کو خدا کی راہ میں قربانیاں کرنے کے لئے بلایا تھا اور جو دراصل مسیح محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز تھی جو آغاز میں مسیح ناصری کے ذریعے اٹھائی گئی.میسیج ناصرٹی کے ذریعہ جو انصار پیدا ہونے تھے ان کو تمام دنیا کو ایک جگہ جمع کرنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی تھی لیکن مسیح محمدی کے ذریعے انصار اللہ کا جو نیا دور چلنا تھا ان کو تمام دنیا کی فتوحات کی بشارتیں دی گئی ہیں.پس انہی الفاظ میں میں آپ کو پھر مسیح محمدی یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں اس منصب پر فائز ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے جس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے فائز فرمایا ہے اور آپ کو خدا کی طرف نصرت کے لئے بلاتا ہوں اور یہ اعلان کرتا ہوں.مَنْ اَنْصَارِی إِلَى اللهِ کون ہے جو میرے انصار کی جماعت میں داخل ہو اللہ کی خاطر یعنی مسیح موعود علیہ السلام کے انصار کی جماعت میں اللہ کی خاطر داخل ہو.اسی اسلوب میں اسی طرز میں ، انہی اداؤں کے ساتھ جن اداؤں کا قرآن کریم میں ذکر فرمایا گیا ہے.اگر آپ سچے دل سے اس آواز پر لبیک کہیں گے تو میں آپ کو فتح قریب کی خوشخبری دیتا ہوں اور کوئی نہیں ہے جو اس خوشخبری کو ٹال سکے.آمین" خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 89-103) تمام افراد جماعت دعوت الی اللہ کے لئے منصوبہ بندی کریں خطبہ جمعہ 14 فروری 1992ء) "دعوت الی اللہ کرنے والوں میں بڑی عمر کے لوگ بھی ہیں چھوٹے بچے بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں، مرد بھی ہیں، کالج کی پڑھنے والی لڑکیاں بھی ہیں اور کام کرنے والے لوگ ہیں ، ہر ایک کے حالات مختلف ہیں ، ہر ایک کا علم مختلف ہے ، ہر ایک کو مختلف وقتوں میں مختلف دنوں میں وقت میسر آتے ہیں اور ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو کسی مرکزی کلاس میں شامل ہو ہی نہیں سکتے لیکن نیک ارادہ رکھتے ہیں.ان سب کو میری نصیحت یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے تو دعا کریں، دو نفل پڑھیں.اللہ تعالیٰ سے مدد چاہیں اور خدا سے یہ عرض کریں کہ اے خدا! تو جانتا ہے کہ ہمارے پاس بہت ہی معمولی ذرائع ہیں اور ہمیں ہر لحاظ سے کمزوری کا احساس ہے اپنی بے بسی کا احساس ہے.اس لئے آج ہم تیری خاطر منصوبہ بنانے کے لئے بیٹھے ہیں تو ہمیں روشنی عطا فرما اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ جو منصوبہ بنائیں تیری رضا کو حاصل کرنے والا ہو اور جو منصوبہ بنائیں

Page 264

251 وہ ثمر دار بنے اس کو پھل ملیں اور پھل لگنے تک جو محنت مجھے کرنی چاہئے مجھے اس محنت کی توفیق بھی عطا فرما.یہ دعا کر کے دو نفل پڑھ کے اگر کوئی شخص منصوبہ بنانے کے لئے بیٹھے گا تو یقیناً اس کے بعد وہ کام شروع ہو جائے گا اکثر دعوت الی اللہ کرنے والے جو غافل ہیں وہ اس لئے ہیں کہ نہ وہ دعا کرتے ہیں نہ سنجیدگی سے اپنی ذات کے لئے کوئی منصوبہ بناتے ہیں.آپ کے علم میں مختلف طبقات کے احمدی ہوں گے آپ ان پر نظر ڈال کر دیکھ لیں، اپنے نفس کا بھی جائزہ لے کر دیکھیں آپ کو معلوم ہوگا کہ دعوت الی اللہ کی خواہش تو پیدا ہوئی لیکن عملاً ٹھوس کام کرنے کی طرف بہتوں نے پہلا قدم بھی نہیں اُٹھایا.تعلقات کے دائرے ہیں وسیع سوشل رابطے موجود ہیں لیکن یہ سمجھ نہیں آتی کہ دعوت الی اللہ کیسے کریں گے؟ سکول جانے والے بچے ہیں ، بچیاں ہیں اگر وہ چاہیں تو اپنے دائرے میں تبلیغ کی توفیق مل سکتی ہے مگر کیسے کریں اس کی ان کو سمجھ نہیں آتی اس لئے باہر سے جو پیغام ان کو ملتے ہیں کہ تبلیغ کرو، وہ کوئی نتیجہ نہیں پیدا کر سکتے.پس ہر شخص کو بیٹھ کر جیسا کہ میں نے کہا ہے دعا کرنے کے بعد اپنا منصو بہ خود بنانا چاہئے مثلاً ایک سکول کی بچی جب کاغذ لے کر بیٹھے گی تو پہلے تو خالی دماغ کے ساتھ اس کو سمجھ نہیں آئے گی کہ کیا لکھوں، کیسے منصوبہ بناؤں؟ یہ جو بے بسی کا احساس ہے یہ کچھ دیر رہے گا پھر وہ سوچے گی اور غور کرے گی تو کہے گی اچھا! میری فلاں فلاں سہیلیاں ہیں، فلاں جس ہے اس کے ساتھ میرے اچھے تعلقات ہیں تو میں ان کو کوئی لٹریچر دے دیتی ہوں ان کو گھر پر دعوت پر بلا لیتی ہوں.اپنے امام صاحب کو یا کسی اور بزرگ سے درخواست کرتی ہوں کہ میں اپنی سہیلیوں کو یا اپنی مس وغیرہ کو دعوت پر بلانا چاہتی ہوں آپ اگر تشریف لا سکیں یا آپ کی بیگم میں یہ صلاحیت ہو کہ ان سے گفتگو کرسکیں تو وہ آجائیں یا پھر لجنہ سے درخواست کر سکتی ہے غرضیکہ اس کے منصوبے کا آغاز ہو جائے گا.پھر آگے منصوبہ کیسے بڑھے اس سلسلہ میں جب میں یہ مضمون آگے بڑھاؤں گا تو اس بچی کو جس کے متعلق میں سوچ رہا ہوں کہ وہ اس طرح کاغذ لے کر منصوبہ بنانے کیلئے بیٹھے گی اور چھوٹوں بڑوں سب کو کئی قسم کے اور خیالات، کئی قسم کے ایسے طریق معلوم ہوں گے جن کے ذریعہ وہ خدا کے فضل سے اپنے لئے چھوٹا سا منصوبہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے." خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 111-112) ذیلی تنظیمیں خدا کے واسطے اپنی نسل کو صحیح تلاوت سکھا دیں خطبہ جمعہ 6 مارچ 1992ء) " تلاوت کی عادت ڈالنی چاہئے.ہر بچے کو آپ جب تلاوت کی عادت ڈالنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ اکثر بچوں کو تلاوت کرنی ہی نہیں آتی اور وہ جو میں کئی سال سے انصار خدام

Page 265

252 لجنہ کے پیچھے پڑا ہوا ہوں کہ خدا کے لئے اس طرف توجہ کرو.اس نسل کو کم از کم صحیح تلاوت تو سکھا دور نہ ہم خدا کے حضور پوچھے جائیں گے اور ہماری اگلی نسلوں کی بے اعمالیاں بھی ہم سے سوال کریں گی.ان تینوں تنظیموں کے عہدیداروں کو اس دوران تجربہ ہو جائے گا کہ کس حد تک ہم نے ان نصیحتوں پر عمل کیا ہے اور ہر گھر کو پتا چل جائے گا کہ کس حد تک انہوں نے ان خدمت کرنے والوں سے خود اپنی بھلائی کی خاطر تعاون کیا ہے لیکن مجھے افسوس ہے کہ اس پہلو سے بہت سے خلا ہیں." ( خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 175) جماعتی عہدے خوف کا مقام ہیں، وہ خدا کے حضور جواب دہ ہیں (خطبہ جمعہ 28 اگست 1992 ء ) بعض دفعہ لوگ جب اسی مکر میں مبتلا ہوتے ہیں تو بعض دفعہ نظام جماعت سے بھی مکر شروع کر دیتے ہیں اور چالاکیوں سے کام لیتے ہیں اور عہدوں کو عزت کا ذریعہ بنا لیتے ہیں حالانکہ جماعتی عہدے جو ہیں وہ تو خوف کا مقام ہیں، اتنی بڑی ذمہ داری کسی پر عائد ہو جس میں وہ خدا کے سامنے جوابدہ ہو، اس کو خود آگے بڑھ کر مانگ کر قبول کرنا یا تو انسان کے کردار کی بہت بڑی عظمت ہے یا بہت بڑی بیوقوفی ہے.عظمت والی بات تو صرف حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی تھی کہ آپ نے اس امانت کو قبول کر لیا جو خدا نے نازل فرمائی لیکن مانگی نہیں تھی قبول کرنے میں بھی بڑی عظمت تھی لیکن عہدوں کو لالچ میں مانگ کر سوال کر کے یا چالاکیاں کر کے عہدے لینا یہ عظمت نہیں ہے یہ انتہائی بیوقوفی ہے.اس لئے بیوقوفی ہے کہ اگر آپ کے اوپر ایک ذمہ داری ڈالی جائے تو اس ذمہ داری ڈالنے کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے پھر آپ سے غفلت ہوتی ہے تو آپ اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! ہم نے تو تیری خاطر یہ قبول کیا تھا ہمیں تو کوئی شوق نہیں تھا.تو نے یہ ذمہ داری ہم پر ڈال دی ہے اب ہم سے مغفرت کا سلوک فرما، ہماری پردہ پوشی فرما، غلطیاں ہو جاتی ہیں صرف نظر فرما، تو ایسے شخص کی دعا قبول ہوتی ہے خدا اس کی کمزوریوں سے صرف نظر فرماتا ہے مگر جو شوخی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور اپنی عزت کی خاطر جو بے معنی بات ہے کیونکہ عہدوں میں کوئی عزت نہیں لیکن وہ سمجھتا ہے کہ جماعت کا عہدہ ہے میں سیکرٹری مال بن جاؤں یا امیر مقرر ہو جاؤں تو میری بڑی شان ہو جائے گی جو اس سرسری نظر سے، بیرونی نظر سے عہدوں کو دیکھتا ہے اور آگے بڑھ کر ان کو قبول ہی نہیں کرتا بلکہ شاطرانہ چالوں کے ذریعہ یہ انتظام کرتا ہے کہ عہدہ اس کو ملے، ایسا شخص سوائے اس کے کہ اپنے لئے عذاب سہیڑ رہا ہو، عذاب خرید رہا ہو اس کے سوا اس کو کوئی بھی فائدہ نہیں لیکن نظام جماعت میں بعض

Page 266

253 معاملات ایسے ہیں ، بعض جگہیں ایسی ہیں جو ان باتوں میں دیر سے بدنام ہیں، بعض بستیاں ایسی ہیں جہاں ہیں ہیں سال سے یہ جھگڑے چلے ہوئے ہیں کہ عہدے پر کون سادھڑ ا قابض ہو اور جتنی تدبیریں چاہیں آپ اختیار کر لیں جتنے کمیشن چاہیں بھجوا د میں مجال ہے کہ وہ لوگ ٹس سے مس ہوں.جب انتخاب کرواتے ہیں دوسرے فریق کی طرف سے شکائتوں کی طومار شروع ہو جاتی ہے اور یہ لکھنے لگ جاتے ہیں کہ جی ! فلاں نے دھوکہ دیا، فلاں نے دھوکہ دیا ، فلاں نے دھوکہ دیا یہ انتخاب بے معنی ہے اور اگر کوئی لوکل دھو کہ نظر نہ آئے تو آنے والے پر الزام لگاتے ہیں کہ جی آپ نے جو ناظر بھیجا تھا ناں وہ بڑا حریص تھا.وہ فلاں کی روٹی کھا گیا ہے.اس لئے اس کے حق میں اُس نے یہ انتظام کروایا.میں نے ایسی جماعتوں کی اصلاح کی بہت کوشش کر کے دیکھی ہے لیکن میری بس نہیں گئی اس وقت میری نظر اس آیت کریمہ پر پڑی کہ جس کو خدا گمراہ قرار دے دے ہوتا کون ہے اس کو ٹھیک کرنے والا.ان کی گمراہی ان کے مکر سے وابستہ ہے.ان لوگوں نے نظام جماعت کو کھیل بنایا اور جھوٹی عزتوں کے حصول کا ذریعہ بنایا اور چالبازیوں سے عہدوں کو حاصل کرنے کی کوشش کی پس ان کے لئے خدا کا فیصلہ یہ ہے کہ ان کے لئے کوئی ہدایت نہیں ہے جب تک یہ اس بدبختی سے باز نہیں آتے ، جب تک جماعت کے عہدے کو ایک ذمہ داری نہیں سمجھتے جس کا اُٹھانا بہت بڑی ہمت کا کام ہے دعا اور خوف اور انکسار کے ساتھ اگر انسان اس لئے قبول کرے کہ اگر میں نہیں کروں گا تو پھر کون کرے گا اس وقت ایسا شخص بری الذمہ ہو جاتا ہے.اس پر کوئی حرف نہیں آتا اس کا کسی جماعتی عہدہ کو قبول کرنا ہی بہت بڑی قربانی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ جزا پائے گا لیکن ووٹوں میں چالاکیاں جیسا کہ بعض رپورٹیں آتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے سارا سال چندہ نہیں دیا لیکن جن کی خواہش کوئی عہدہ قبول کرنے کی ہوتی ہے وہ اپنے ساتھیوں کے چندے اکٹھے کرتے پھرتے ہیں اور انتخاب سے کچھ دیر پہلے وہ سارے سال کا بقایا اکٹھا کر کے سارے روپے سیکرٹری مال کے حضور پیش کر دئیے جاتے ہیں.اس سے رسید لی جاتی ہے.پھر انتخاب کا وقت آتا ہے اس وقت وہ رسید صدر انتخاب کے حضور پیش کر دیتے ہیں کہ دیکھ لیجئے چندہ پورا ہو گیا.شروع سے آخر تک ساری کارروائی ہی شرارت ہے، ظلم ہے وہ چندہ کیسا جو خدا کے نام پر دیا جارہا ہے اور دیا بتوں کو جا رہا ہے ایسا ذلیل اور مکروہ چندہ تو اُن لوگوں کے لئے عذاب کا موجب بنے گا نہ کہ اُن کے لئے کسی ثواب کا باعث ہوگا اور بُت اُن کا وہ شخص ہے جس کی خاطر انہوں نے ووٹ بنوانے کے لئے سارے سال کا بقایا پیش کیا اور اس میں بھی بہت سی مخفی چالاکیاں ہیں جن پر میری نظر پڑتی ہے تو میں حیران رہ جاتا ہوں لیکن مجبوری ہے.اس کی زیادہ تفصیل سے چھان بین کی نہیں جاسکتی.بعض ایسے آدمی میرے علم میں ہوتے ہیں جن کو بہت زیادہ چندہ دینا چاہئے اگر وہ خدا کی خاطر چندہ دیتے تو اُن کا بقایا دس ہزار بنتا لیکن انہوں نے جس بت کی خاطر چندہ دیا ہے وہ تو ہر بیان کو قبول کرے گا وہ تو یہ چاہے گا ووٹر بن جائے سہی، کم سے کم دے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ

Page 267

254 وہ خدا کی خاطر تو دیا ہی نہیں جارہا، نقصان اگر ہے تو جماعت کا ہے.اس کو کیا فرق پڑتا ہے اس کو تو صرف ووٹ ملتا ہے.پھر وہ اس بات میں بھی بعض دفعہ مدد کرتا ہے کہ جی ! تمہارا بنتا ہی اتنا ہے اور اگر سیکرٹری مال کہے کہ تمہارا زیادہ بنتا تھا تو اُس کے ساتھ جھگڑا کریں گے کہ تم انکم ٹیکس کے انسپکٹر لگے ہو تمہیں کیا پتا.جھوٹ کا الزام لگاتے ہو چپ کر کے لے لوجو دیا جاتا ہے یہی تھا جو بنتا تھا یہی دیا جارہا ہے.شروع سے آخر تک دھوکہ ہی دھوکہ اور فساد ہی فساد Exercise ہے اور یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کسی کو پتا نہیں چل رہا.جب رپورٹیں آتی ہیں تو چاہے وہ امریکہ سے آرہی ہو یا پاکستان کے کسی گاؤں سے آرہی ہو ان رپورٹوں پر پتلی سے جھلی ہے فلم ہے دھوکوں کی اس کے آر پار صاف دھوکہ دکھائی دے رہا ہوتا ہے.جب فہرستیں دیکھتا ہوں تو حیران ہو جاتا ہوں کہ ان لوگوں نے کتنا ظلم کا سودا کیا ہے.پیسے ضائع کر دیئے اور شیطان کے حضور ڈالے نام خدا کا لیا.پھر دوسرے لوگ ہیں وہ یہ شکوے شروع کر دیتے ہیں کہ جناب آپ لوگوں کے نزدیک مال کی قیمت ہے تقویٰ کی کوئی قیمت نہیں ہے.یہ نظام جماعت ہے جس میں چندے لے کر ووٹ بنتے ہوں، پیسے وصول کر کے ووٹ بنتے ہیں خواہ کوئی نماز پڑھتا ہے یا نہیں پڑھتا.اُن کا اعتراض اگر بنیادی طور پر فی ذاتہ درست بھی ہو تب بھی اُن کی طرف سے دراصل یہ دھوکہ بازی ہے کیونکہ سارا سال جس بھائی نے نماز نہیں پڑھی اس کے لئے اُن کا دل بے چین نہیں ہوا.سارا سال جس بھائی نے تقویٰ کے اوپر قدم نہیں مار اس کے لئے ان کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی، کوئی کوشش نہیں کی نظام جماعت کو اس وقت اطلاع نہیں کی جب ان کی اصلاح کا وقت تھا اب الیکشن کے موقع پر ان کے تقویٰ کی راہ سے ہٹ جانے کا خیال ان کو کیسے آگیا؟ الیکشن کے موقع پر ان کی بے نمازیاں کیوں اُن کو چھنے لگیں صاف ظاہر ہے کہ تکلیف اپنے منتخب نہ ہونے کی یا اپنے کسی ساتھی کے منتخب نہ ہونے کی ہے نہ کہ کسی کی بے راہ روی کی تو تقویٰ کی راہیں بڑی باریک ہیں اور یہ مکر جو ہے یہ ہر چیز میں چلتا ہے نیکی کے نام پر بھی چلتا ہے.کھلی کھلی بدی کے طور پر تو مکر چلتا ہی ہے لیکن بڑے بڑے نیک ناموں پر مکر چل رہا ہوتا ہے.پس جماعت کے عہدوں کو ، جماعت کے نظام کو جو لوگ جھوٹی عزتوں کا ذریعہ بناتے ہیں ان کے لئے میں قرآن کریم کے الفاظ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ من كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا (فاطر: 11) یادرکھو جس کو عزت چاہئے ، اللہ ہی کے پاس عزت ہے اس کے سوا آپ کو کوئی عزت نصیب نہیں ہوسکتی.خدا کے نظام سے دھوکہ کر کے ، فریب کاریوں کے ذریعہ ، نظام کی جڑیں کھوکھلی کر کے اور مسلسل دھڑے بازیوں میں مبتلا ہو کر اگر آپ عزت چاہتے ہیں تو کوئی عزت نہیں ملے گی.عزت کیسے ملے گی؟ فرمایا اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (فاطر : 11)

Page 268

255 کتنا پیارا صاف ستھرا پاکیزہ بیان ہے اور عزتیں حاصل کرنے کا کیسا عمدہ طریق بیان فرمایا.فرمایا.اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ اب پہلے تو اپنی نیتوں کو پاک صاف کر کے بات کرو.وہی بات خدا کے ہاں قبول ہوگی اور اس کی درگاہ میں قبولیت پائے گی جو طیب ہو.طیب ایسی بات کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کی دور کی بھی ملونی نہ ہو.ادنی سی بھی ملونی نہ ہو صاف نیت سے بات کی گئی ، پاک لفظوں میں بیان کی گئی نہایت ہی خوبصورت مہکتے ہوئے انداز میں سچائی کے ساتھ وہ بات پیش کی گئی نیت بھی پاک تھی ، طرز بیان بھی پاک اور بالآخر اس کا انجام بھی پاک تھا اس کو کہتے ہیں کلمہ طیبہ.فرمایا طیبہ ہے جو خدا تک پہنچتا ہے عزت کے حصول کے لئے وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ اور اس کلمہ کو اونچا کرنے کے لئے عمل صالح کی ضرورت ہے صرف منہ کی پاک با تیں نہ ہوں بلکہ نیک اعمال ان باتوں کو تقویت دے رہے ہوں ان پروں کو توانائی بخشیں کہ وہ پر چل تو سکیں.پروں میں طاقت ہی نہ ہو تو وہ کیسے پرواز کریں گے.پس کلام کو جو پاکیزہ ہو ایک پرندے کی طرح پیش فرمانا جس میں اُڑنے کی سکت ہے مگر وہ نیک اعمال سے طاقت لیتا ہے.اگر نیک اعمال نہیں ہیں تو کلمہ طیبہ میں اڑنے کی طاقت نہیں ہوگی.فرمایا یہی وہ طریق ہے جس کے ذریعہ تم عزتیں حاصل کرتے ہو.عزتیں ساری اللہ کے پاس ہیں اور عزت کا سوال وہاں تک کیسے پہنچتا ہے فرمایا.نیک باتوں کے ذریعہ، پاکیزہ باتوں کے ذریعہ ، ایسی پاک باتوں کے ذریعہ جن کو اعمال صالحہ طاقت بخشتے ہوں.پس اگر جماعت کا کوئی عہدیدار اپنی سچائی اور پاکیزگی کی وجہ سے ہر دلعزیز بنا ہو ، اگر اُس کے نیک اعمال انتخاب کے وقت پیش نظر ہوں تو یقیناً جو وہ مقام پا گیا ہے وہ عزت کا مقام ہے وہ یقیناً ایسا مرتبہ ہے جو اُس کے لئے آسمان سے نازل ہوا ہے." خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 601-605) ذیلی تنظیموں کا کوئی ممبر بے نمازی نہ رہے (خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1992ء) اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا تصور اگر صحیح ہو تو انسان کے دل و دماغ پر اتنی قوت کے ساتھ قبضہ جمائے گا کہ اس کی کوئی اور مثال دنیا میں دکھائی نہیں دے گی اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو اگر عارف باللہ کے حالات پر غور کیا جائے تو عارف باللہ کے آئینے سے دکھائی دے سکتی ہے.روز مرہ کی زندگی میں عام انسان اس حقیقت کا تصور بھی نہیں کرسکتا.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ بتایا جاتا ہے، احادیث میں لکھا

Page 269

256 ہے کہ جب آپ نماز نہیں بھی پڑھ رہے ہوتے تھے تو دل نماز میں اٹکا ہوتا تھا.یہ وہی کیفیت ہے جو میں نے بیان کی ہے کہ خدا کے حضور با قاعدہ حاضری دینے کا تصور اتنا پیارا لگتا تھا اور اس سوچ میں آپ گم رہتے تھے کہ کب میں جاؤں گا اور کیا کیا با تیں اُس با قاعدہ نماز کی حالت میں کروں گا اور پانچ وقت نہیں پانچ وقت سے زیادہ مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حضور با قاعدہ حاضر ہوتے تھے لیکن تعلق کا یہ عالم تھا اور خدا کی عظمت کا وہ ایک عظیم اثر آپ کے دل پر ایسا متسلط تھا، قائم ہو چکا تھا کہ ہر روز کی بار بار کی ملاقات بھی اُس اثر میں کمی پیدا نہیں ہونے دیتی تھی ، اس جذبے کو ہلکا نہیں کر سکتی تھی بلکہ دن بہ دن جہاں تک آپ کی عبادات کا حال درج ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعلق بڑھتا ہی گیا اور دل نمازوں میں ہی انکا رہا.پس یہ ایک ایسی چیز نہیں ہے جو صرف بیان کرنے سے آ جائے یہ دل کے اندرونی تجربے کا نام ہے اور دل کا اندرونی تجربہ حاصل کرنے کے لئے محنت کرنی پڑے گی اور صحیح طریق پر صحیح رخ پر قدم اٹھانے پڑیں گے.اسی لئے میں کوشش کرتا ہوں کہ جیسے بچے کو ہاتھ پکڑ کر چلایا جاتا ہے، جماعت کو بار بار نماز کے متعلق ہاتھ پکڑ پکڑ کر چند قدم چلا کر دکھاؤں کہ اس طرف نماز کا رُخ ہے، ایسی نماز جہاں نصیب ہوتی ہے اور اس طرح ادا کی جاتی ہے.پس وہ لوگ جو نمازوں میں سست ہیں ، بہت بڑے محروم ہیں.اُنہوں نے اپنی زندگیاں ضائع کر دیں اور آئندہ کے لئے بھی اُن کو کچھ حاصل نہیں ہوسکتا.خصوصیت کے ساتھ جماعت جرمنی کو اس امر کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور تمام ذیلی تنظیموں کو بھی اس بات پر مستعد ہو جانا چاہئے کہ اُن کا کوئی ممبر بھی بے نمازی نہ رہے اور جہاں تک افراد کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے یہ بات رکھی ہے.نماز کے وقت آپ اگر صرف یہ کوشش کر لیں کہ نماز میں کوئی ایک حالت آپ کو ایسی نصیب ہو جائے کہ خدا تعالیٰ سے بات کرتے ہوئے آپ کے دل میں تموج پیدا ہو، ایک تحریک پیدا ہو جیسے کسی پیارے سے جب آپ ملتے ہیں تو اُس کی بعض باتیں یا درہ جاتی ہیں.اُن ملاقاتوں کے بعض لمحات ایسے دل پر نقش ہو جاتے ہیں کہ ہمیشہ انسان اُن کی سوچوں سے ہی لطف اندوز ہوتا رہتا ہے.نماز میں بھی کچھ اسی قسم کی کیفیات پیدا ہونی ضروری ہیں.وہی نماز میں زندہ ہیں جو دل میں حرکت پیدا کردیں، جو ایک ایسا تموج پیدا کر دیں جس کی لہریں دیر تک باقی رہیں اور آپ کے دل و دماغ میں اُن کے نغمگی گونجتی رہے، اُن کا ترنم آپ کو لطف پہنچاتا رہے." (خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 640-641)

Page 270

257 جس عہدیدار کو جماعت نے چنا اور خلیفہ وقت نے صاد کیا وہ عہد یدار ضرور تائید یافتہ ہے (خطبہ جمعہ 27 نومبر 1982ء) " تیسرے درجے پر وہ امراء ہیں جن کی سپر د جماعتوں کی ذمہ داری کی جاتی ہے.جہاں تک امراء کا تعلق ہے اُن کی حیثیت دو طرح سے ہے.ایک حیثیت وہ ہے جس میں اُس علاقے کے عوام نے اس خیال سے اُن کو منتخب کیا کہ وہ امین ہیں اور ایک اس لحاظ سے کہ اُس انتخاب پر خلیفہ وقت نے صاد کر دیا.پس اگر چہ خدا تعالیٰ کے تقرر کے لحاظ سے واسطہ در واسطہ پڑ چکا لیکن جس خلیفہ کو خدا نے عملاً منتخب فرمایا اُس کا بھی صاد ہو گیا اور پوری عوام کا صاد بھی ہو گیا جن کی نمائندگی نے پہلے خلیفہ چنا تھا اس لئے امارت کو بھی ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور امین پر جو امانت کا بوجھ ڈالا جاتا ہے بڑا مقدس بوجھ ہے اور اسی تقدس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ امراء کو اپنے فرائض سرانجام دینے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے.بعض دفعہ بعض جاہل علاقوں میں عہدوں کو براہ راست عزت کا ذریعہ سمجھا جانے لگتا ہے اور جس طرح سیاست میں کسی منصب کو عزت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، اسی طرح اُن جماعتی اور دینی عہدوں کو بھی بعض لوگ عزت کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور عزت کے حصول کے لئے کوشاں رہتے ہیں اور عزت کے حصول کی خاطر عہدے سنبھالتے ہیں اور ان کے پیچھے بعض دفعہ اُن کے خاندان کے، اُن کے تعلق والوں کے جتھے بن جاتے ہیں.اگر چہ جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلسل اس بات پر نگاہ رہتی ہے کہ کسی قسم کا کوئی پروپیگینڈا عہدوں کے انتخاب کے وقت نہ ہولیکن بعض دفعہ بغیر پرو پیگنڈے کے بھی یعنی ایسے پروپیگنڈے کے بغیر بھی جو ذمہ دار عہدیداران کو سنائی دے عملاً پروپیگنڈے کا رنگ ہوتا ہے.بعض برادریاں بعض عہدوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں، بعض دوستوں کے جتھے بعض عہدوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بظاہر ایک ایسے شخص کو امین بنایا جاتا ہے جس کو خدا کی جماعت نے منتخب کیا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں نیتیں بھی بگڑ جائیں وہاں خواہ وہ انتخاب جماعت کا ہو یا خواہ اُس پر خلیفہ وقت صاد کر دے،اسے خدا کی تائید حاصل نہیں رہتی.پس یہاں پہنچ کر مضمون ایک اور فضاء میں داخل ہو جاتا ہے.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہر عہدے دار جس کو جماعت نے چنا اور جس پر خلیفہ وقت نے صاد کیا ، وہ عہرے دار ضرور تائید یافتہ ہے اور ضرور امین ہو گا.جہاں تک خلیفہ وقت کا تعلق ہے اس مضمون پر حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت عمدہ روشنی ڈالی ہے.جب یہ سوال اٹھایا گیا کہ ایک خلیفہ بھی تو غلطی کر سکتا ہے اور بھی کچھ باتیں اُس زمانے میں کی گئیں جو دراصل اہل پیغام کی طرف سے ایک مخفی پرو پیگنڈے کی صورت میں جاری وساری تھیں اور سوسائٹی

Page 271

258 میں پیشگوئیاں کی جارہی تھیں.حضرت خلیفہ امسیح الاول نے اس مضمون پر جو خطبات دیئے اُن میں اس حصے پر روشنی ڈالی.آپ نے فرمایا دیکھو میں خدا کو جواب دہ ہوں اور تم لوگ مجھے جواب دہ ہو.جب میرے علم میں تمہاری غلطی آتی ہے تو میں پکڑوں گا اور یہ نہ سمجھو کہ میں کسی پکڑ سے بالا ہوں.جب خدا نے یہ سمجھا کہ میں اس لائق نہیں رہا تو وہ مجھے اٹھا سکتا ہے.پس خدا کا عدل دنیا سے واپس بلا لینا ہے نا کہ اس دنیا میں کسی کو اختیار دینا کہ وہ خلیفہ وقت کو منصب سے ہٹا دے.پس جہاں خدا تعالی کی پکڑ ہے وہاں اور بھی امور ہیں جو کارفرما ہیں.خدا تعالیٰ ضروری نہیں کہ ہر غلطی پر ایسی پکڑ کرے تو اُس کے نزدیک ایسے شخص کا بلانا ضروری ہو جائے.نہ یہ مطلب ہے کہ ہر خلیفہ وقت جس کی موت واقع ہو اُس نے کوئی غلطی کی تھی جو اللہ تعالیٰ نے واپس بلا لیا اس لئے یہاں غلطی سے اس مضمون میں اپنے دماغ میں الجھنیں نہ پیدا کر دیں.ہر شخص نے مرنا ہے.موت غلطی کی علامت نہیں ہے مگر یہ مضمون حضرت خلیفہ مسیح الاول بیان فرمار ہے ہیں.وہ یہ ہے کہ تم کسی خلیفہ کو معزول نہیں کر سکتے صرف خدا ہے جو معزول کر سکتا ہے اور خدا کا عدل یہ ہے کہ وہ اُس کو واپس بلانے کا فیصلہ کر لے گا.پھر یہ معاملہ اس کے ہاتھ میں ہے کیوں بلایا گیا ہے؟ دوسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کی نظر صرف کمزوریوں پر نہیں ہوتی بعض دوسرے پہلوؤں پر بھی ہوتی ہے اور بعض دفعہ وہ مہلت بھی دیتا ہے، بخشش کا بھی سلوک فرماتا ہے اس لئے نہ بلانے کا بھی یہ مطلب نہیں بنتا کہ وہ شخص غلطی سے پاک ہے.غلطیاں ہو سکتی ہیں اور استغفار کا مضمون بھی جاری رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نظر جہاں کمزوریوں پر پڑتی ہے وہاں بعض خوبیوں پر بھی پڑتی ہے.اُن کے امتزاج کے نتیجے میں کچھ فیصلے ہور ہے ہوتے ہیں اور کچھ بخشش اور کچی تو بہ کے نتیجے میں بھی خدا تعالیٰ کی تقدیر بن رہی ہوتی ہے یا کسی کے خلاف بگڑ رہی ہوتی ہے.یہ مضامین وہ ہیں جن کا ملاء اعلیٰ سے تعلق ہے.بندے اور اللہ کے درمیان جو قصے چلتے ہیں، جو رشتے بنتے ہیں یا بگڑتے ہیں اُن پر انسان کی نظر نہیں پڑ سکتی اس لئے اس کو خدا تعالیٰ پر ہی رہنے دینا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر توکل رکھنا چاہئے.جو بھی فیصلہ ہو گا وہ درست ہو گا لیکن جہاں بندوں کے رشتے آپس میں بن جائیں وہاں بہت سی باتیں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں.بعض دفعہ ایک بخشش کا معاملہ سامنے آتا ہے لیکن انسان کو یہ اختیار ہوتا ہے کیونکہ جس سے بخشش کی توقع ہے وہ امین ہے وہ مالک نہیں ہے.خلیفہ وقت پر اعتما درکھیں وہ خدا کی طرف سے حفاظت یافتہ ہے پس اس پہلو سے میرا تعلق جو جماعت میں عہدیداروں سے ہے اس میں بعض دفعہ جب مجھے تختی کرنی پڑتی ہے تو اس سختی سے بھی درگزر کرنی چاہئے کیونکہ وہ میری بے اختیاری کی علامت ہے.میرے دل کی سختی کی علامت نہیں وہ بے اختیاری یہ ہے کہ میں مالک نہیں ہوں امین ہوں.اللہ تعالیٰ نے کچھ ذمہ داریاں ڈالی ہیں اُن کو جس حد تک میں سمجھتا ہوں جس طرح ادا ہونی چاہئے اسی طرح ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں.

Page 272

259 غلطیاں ہیں تو خدا کی پکڑ کے نیچے ہوں اور اُسی سے معافی کا طلب گار ہوں.درست فیصلے ہیں تو خدا ہی کی خاطر ہیں اس لئے جہاں تک جماعت کے زاویے سے دیکھنے کا تعلق ہے اُس کو خلیفہ وقت پر اعتماد رکھنا چاہئے اور توکل رکھنا چاہئے کہ وہ خدا کی طرف سے اس حد تک ضرور حفاظت یافتہ ہے کہ کوئی ایسی بڑی غلطیاں نہیں کرے گا جنہیں خدا درست نہ فرمادے جن کا جماعت کو نقصان پہنچے کیونکہ اگر ایسا ہو تو پھر خدا تعالیٰ پر بھی اُس کا حرف آتا ہے.اللہ تعالیٰ نے جس شخص کو مہلت دی ہوئی ہے اور اپنی حفاظت کے تابع رکھتے ہوئے خدمت کا موقع دیا ہے اُس سے ایسی غلطیاں نہیں ہونے دیتا جو اس کے نظام کو بگاڑ دیں.پس ایسے وہ وقت ہیں جن کے متعلق حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روشنی ڈالی کہ اگر خدانخواستہ ایسا خطرہ ہو تو خدا تعالیٰ جب چاہے واپس بلا سکتا ہے مگر جماعت کو خلافت کی چھتری کے نیچے یہ حفاظت ضرور ہے کہ ایسی غلطیاں جو عارضی یا معمولی نوعیت کی ہوں جن سے نظام کے بگڑنے کا خدشہ نہ ہو ایسی غلطیوں سے اللہ تعالیٰ چاہے تو درگز رفرمائے لیکن ایسی غلطیاں جو نظام کو بگاڑنے کے خطرہ رکھتی ہوں اُن کو یا تو خدا تعالیٰ ضرور اُن کی اصلاح فرمادے گا اور خود سمجھا دے گا اُس شخص کو جس سے غلطی ہوئی اور وہ اپنے غلط فعل کو کالعدم کر دے گا.یا پھر اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے متعلق یہ فیصلہ فرمائے کہ مزید اس امانت کا اہل نہیں رہا تو اسے واپس بلا سکتا ہے مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا امارتوں اور دیگر امین داروں کی نگرانی میں میں چونکہ مالک نہیں ہوں یا کوئی بھی خلیفہ مالک نہیں ہے اس لئے اُس کے اختیارات محدود ہیں انہی محدود اختیارات کے تابع وہ فیصلے کرتا ہے لیکن اُس کے سامنے جواب دہ نہیں.جس طرح وہ ہر لمحہ خدا کے سامنے جواب دہ رہتا ہے جو اُن کی جواب طلبی کرتا ہے یعنی خلیفہ وقت.ہر وقت خدا کے سامنے جوابدہ ہے.جماعت خلیفہ وقت کے سامنے جوابدہ ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے جو امانت خلیفہ وقت کے سپر دفرمائی ہے وہ آگے مختلف دائروں میں جماعت کے مختلف عہد یداروں کے سپرد کی جاتی ہے اور اُن سے جو جواب طلبی ہے وہ دوانسانوں کے درمیان ہے اور اُس میں محدود علم کی بنا پر کئی لوگ بچ جاتے ہیں اور محدود علم کی بنا پر کئی لوگ سزا پاتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ وہ سزاوار نہ ہوں.انسانی معاملات میں اس قسم کی غلطیوں کی گنجائشیں رہتی ہے مگر نگرانی ضروری ہے اور اسی نگرانی کی طرف میں آج آپ کو اس لئے متوجہ کرنا چاہتا ہوں.حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ امین اگر خیانت کرے تو اُس کی خیانت سب سے زیادہ خطر ناک خیانت ہے اور اُس سے سب سے زیادہ باز پرس ہوگی.پس جتنے جماعت میں امیر ہیں وہ بھی اس حدیث کے تابع ہیں اور جتنے دوسرے عہدے دار ہیں جو امراء کے تابع ہیں وہ بھی اس حدیث کے تابع ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے فرمودات سے پتا چلتا ہے کہ اس مضمون کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ انسانی زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہے کوئی ایک

Page 273

260 بھی ایسا پہلو نہیں جو اس سے بچ گیا ہو.چھوٹے سے چھوٹا عہدیدار بھی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے تابع اپنی زندگی گزارتا ہے جو امین بنایا گیا ہے اور اس لحاظ سے امانت کا حق ادا کرنا ضروری ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ عہدیدار امین بنیں جماعت کو جب میں بعض ہدایتیں دیتا ہوں، نصیحتیں کرتا ہوں تو ان نصیحتوں کو سن کر اُن پر کیسے عمل کیا جاتا ہے یہ عمل کا انداز ہر شخص کی امانت کا آئینہ بن جاتا ہے.بہت سے امراء ہیں جب وہ اس نصیحت کو سنتے ہیں وہ اُس کو اپنی جماعت میں جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں.نصیحت سے مراد نظام جماعت سے تعلق میں جو نصیحتیں ہیں جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پوری دیانت داری سے وہ چاہتے ہیں کہ اُس ہدایت کا حق ادا ہو جائے بعض ایسے ہیں جو سنتے ہیں اور غفلت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پوری توجہ نہیں کرتے اور بعض ایسے ہیں جو کچھ دیر کے وقت توجہ کرتے ہیں اُس کے بعد چھوڑ دیتے ہیں مختلف حالتوں میں جماعت پائی جاتی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر ساری جماعت کے تمام عہدیداران اس حد تک امین بن جائیں جس حد تک اللہ تعالیٰ امانت کا تصور ہمارے سامنے پیش فرماتا ہے اور امانت کے مضمون کو قرآن اور احادیث کھول رہے ہیں.اس حد تک امین بن جائیں جس حد تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک نمونے سے ہمیں امانت کا مضمون سمجھ آتا ہے تو دنیا میں اس دور میں جماعت احمدیہ کی ترقی سینکڑوں گنا تیز رفتار سے چل سکتی ہے.وہ انقلاب جو صدیوں دور دکھائی دیتے ہیں وہ ہمیں دروازے پر کھڑے دکھائی دینے لگیں گے.ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ عہدیدار امین بنیں.اس پہلو سے امانت کی ذمہ داری بہت بڑی ہے اور اس پہلو سے ہماری امانت در اصل تمام بنی نوع انسان سے تعلق رکھتی ہے.اگر ہم جماعت کے عہدیداران جن پر کسی پہلو سے بھی کوئی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اگر حقیقہ امین بن جائیں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ انقلاب جو دوسو سال کے بعد دکھائی دے رہا ہے وہ دیکھتے دیکھتے ہماری زندگیوں کے محدود دائروں میں ہی آسکتا ہے.پس تمام بنی نوع انسان جو اُس روحانی انقلاب سے پہلے مرجاتے ہیں وہ ساری نسلیں جو دنیا میں ضائع ہو جاتی ہیں اُن کی امانت کا گویا ہم نے حق ادا نہ کیا.پس یہ وہ اہم پہلو ہے جس کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں بعض ایسی باتوں کا اعادہ کرتا ہوں جن کو میں بار بار بیان کر چکا ہوں اور میں دوبارہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ آپ امانت کا حق ادا کریں.سفروں کے دوران بہت سے ایسے نمونے دکھائی دیتے ہیں.میں جماعتوں سے ملتا ہوں دوست وہاں بعض اپنے مہمانوں کو بھی لے کر آتے ہیں، ملاقاتیں ہوتی ہیں تبلیغ کی باتیں ہوتی ہیں دیگر دنیا کے مسائل پر گفتگو ہوتی ہے تو ساتھ ساتھ جماعت کا نقشہ بھی سامنے اُبھرتا رہتا ہے.ساتھ ساتھ یہ بھی پتا چلتا چلا جاتا ہے کہ کس جماعت میں کون امیر کتناذ مہ دار ہے؟ کون سے عہد یدار اپنے کام کی طرف توجہ کر رہے

Page 274

261 ہیں ، کون سے غافل ہیں اور یہ مضمون کسی کوشش کے بغیر خود بخو دنظروں کے سامنے اس طرح اُبھرتا ہے جیسے کوئی منظر آنکھوں کے سامنے آ جائے اور بغیر کسی خاص کوشش کے اس منظر کے پہلو ، اُن حصوں میں نمایاں ہوتے ہیں جہاں اُن کو ہونا چاہئے.جب آپ کسی جگہ سیر کرتے ہوئے کسی منظر پر نگاہ ڈالتے ہیں تو دوہی چیزیں ہیں جو آپ کی نظر کو پکڑتی ہیں ورنہ بعض اتنے وسیع مناظر ہیں کہ ممکن نہیں ہے کہ اُس کے ہر حصے پر آپ نظر کو ٹکائیں اور پھر غور کریں کہ یہاں کیا ہے اور وہاں کیا ہے اور وہاں کیا ہے؟ لیکن دو حصے فورا آنکھ پر از خود روشن ہو جاتے ہیں.ایک حسن کا حصہ ہے اور ایک بد زیبی کا، بدصورتی کا حصہ ہے.منظر میں جہاں کوئی بدصورتی ہوگی یا وہ ایک دم آنکھوں کے سامنے آئے گی، جہاں کوئی غیر معمولی حسن پایا جائے گا وہ ایک دم آنکھوں کے سامنے آئے گا.پس جماعتوں کو دیکھتے ہوئے بھی اسی قسم کے تجربے ہوتے ہیں کہ خود بخود جماعت کے حسن بھی کھل کر آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں اور خود بخود جماعت کی کمزوریاں بھی بڑی واضح طور پر آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہیں.جماعت کی کمزوریوں کا تعلق عہد یدار ان کی امانت سے ہے جن کمزوریوں کی طرف میں توجہ دلانے لگا ہوں.یہ اکثر جماعتوں میں موجود ہیں اور بہت کم ایسی جماعتیں ہیں جو ان کمزوریوں سے صاف پاک ہیں اور ان کمزوریوں کا تعلق عہد یداروں کی امانت سے ہے.مثلاً جب میں سفر کرتا ہوں یا کرتا رہا ہوں تو ایک چیز میرے سامنے آتی ہے خصوصیت کے ساتھ کہ جماعت نے اشاعت کے سلسلے میں جو خدمات سرانجام دی ہیں اُن خدمات کو نہ جماعت کے سامنے لانے کی سچی کوشش کی گئی ہے، نہ غیروں کے سامنے لانے کی بچی کوشش کی گئی ہے.دنیا کی جماعتوں کو شاید یہ علم نہیں کہ گزشتہ آٹھ سال میں جو ہجرت کے آٹھ سال یہاں گزرے ہیں اتنا اس کثرت سے اتنی زبانوں میں لٹریچر شائع ہوا ہے کہ جماعت کے گزشتہ سو سال میں اس کثرت سے دنیا کی زبانوں میں لٹریچر شائع نہیں ہوا.یہ کوئی نعوذ باللہ گزشتہ سو سال پر فضیلت کے رنگ میں بیان نہیں کر رہا.لٹریچر کی بنیاد تو وہی ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رکھی ہے اور بعد میں آپ کے خلفاء نے رکھی سلسلے کے بزرگوں نے کام کئے لیکن وہ ذرائع مہیا نہیں تھے جن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے ساری دنیا میں مختلف زبانوں میں احمدیت کا پیغام اور قرآن وسنت کا پیغام پہنچایا جا سکتا ہو.خدا تعالیٰ نے ہجرت کے انعام کے طور پر ہمیں وہ ذرائع مہیا فرمائے اور اس کثرت سے جماعت کا لٹریچر دنیا کی مختلف زبانوں میں طبع ہوا ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی بلکہ گزشتہ سو سال میں سارے عالم اسلام کی کوششوں سے اتنا لٹریچر مختلف زبانوں میں شائع نہیں ہوا جتنا خدا کے فضل سے چند سالوں میں جماعت احمدیہ کو شائع کرنے کی توفیق ملی ہے مگر اس لٹریچر کی اشاعت کا کیا فائدہ؟

Page 275

262 شعبہ اشاعت کے نگرانوں کو جماعت کے تمام لٹریچر کا علم ہونا چاہئے اگر آج بھی جس دور میں لٹریچر تیار ہو رہا ہے آج کے احمدیوں کو بھی پورا علم نہ ہو کہ کیا ہے؟ اور جہاں تک غیروں کا تعلق ہے جن سے اُس لٹریچر کا تعلق ہے اُن تک وہ نہ پہنچے.اس سلسلے میں سب سے بڑی غفلت اُس سیکرٹری کی ہے جس کے سپر داشاعت کا کام ہے.جب بھی مجھے موقع ملا ہے میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ سیکرٹریوں کو پتا ہی نہیں کہ اُن کا کام کیا ہے؟ ایک ٹیسٹ ہے جو میں آپ سب امراء کے سامنے رکھتا ہوں جو دنیا میں میری آواز سن رہے ہیں، بعد میں سنیں گے یا پڑھیں گے کہ وہ کسی وقت اپنے سیکرٹری اشاعت کو بلا کر اس سے پہلے کہ وہ تیاری کرلے موجودہ حالت کا اندازہ کرنے کی کوشش کرے تو اُن پر بات کھل جائے گی.ان سے وہ پوچھیں کہ بتاؤ کہ جماعت کا کون کون سا لٹریچر، کن کن زبانوں میں شائع ہوا ہے، تمہارے پاس کچھ فہرست ہے اُس کی.تمہارے علم میں ہے کہ کیا ہے اور تمہارے پاس وہ کہاں ہے اور کتنا ہے، کتنے رسائل شائع ہوتے ہیں، کتنا لٹریچر ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب اور نظام سلسلہ کی کتب سے تعلق رکھتا ہے، اُس کے تراجم کس زبان میں ہے اور اُن کو جماعت میں اور غیروں میں رائج کرنے کے لئے تم نے کیا کوشش کی ہے.کیا تمہیں پتا ہے کہ یہاں ہمارے ملک میں کتنی زبانیں بولنے والے موجود ہیں؟ کبھی تم نے سوچا ہے کہ آج میرے پاس کوئی احمدی آئے اور کہے کہ مجھے بوسنیا کا ایک نمائندہ ملا ہے میں اُس کو کچھ پیش کرنا چاہتا ہوں تو میں کیا پیش کروں گا.کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر کوئی آ کر یہ کہے کہ اٹلی کا باشنده میرا دوست بنا ہے مجھے بتاؤ کہ میں اُس کو کیا دوں.تم نے غور کیا ہے کوئی شخص تمہارے پاس آئے کہ میں کوریا کے دوست کو لے کر آیا ہوں اُس کو پیش کرنے کے لئے بتائیے آپ کے پاس کیا ہے غرضیکہ دنیا کی بڑی بڑی قومیں اور بڑی بڑی مختلف زبانیں ایسی ہیں جن کو تبلیغ کے سلسلے میں استعمال کرنا ضروری ہے ورنہ زبانوں کے بغیر کس طرح آپ پیغام پہنچا سکتے ہیں.اور ان زبانوں میں اگر بول چال کی اہمیت نہیں ہے تو کم سے کم تحریر ہی پیش کر سکیں.اگر گفتگو نہیں ہے تو تحریر بہت سی باتیں ہو جاتی ہیں کئی گونگے ہیں جو بیچارے بول نہیں سکتے لیکن لکھنا سیکھ لیتے ہیں.تو زبان نہیں تو تحریر ہی سہی لیکن تبلیغ کا بہر حال کام ہونا ضروری ہے، پیغام پہنچانا ضروری ہے مگر اکثر لٹریچر ایسا ہے جن کے متعلق سیکرٹری اشاعت کو پتا ہی نہیں ہے.وہ ہے کیا اور کہاں پڑا ہوا ہے اور کب سے آیا ہوا ہے، کس نے چھپوایا تھا؟ اُس کی جو قیمت ہم نے دینی ہے یا دے دی ہے کہ نہیں.جب چھ مہینے سال کے بعد دو تین دفعہ امراء کو لکھا جاتا ہے تو پھر اطلاع ملتی ہے کہ یہ اتنا لٹریچر ہمیں ملا تھا ، فروخت اتنا ہوا ہے اور باقی اتنا پڑا ہوا ہے.یہ بھی نہیں پتا کہ کہاں پڑا ہوتا ہے.جب ایک چیز کسی کے سپرد کی جاتی ہے تو اُس کے مختلف پہلو ہیں جو اس کے ذہن میں فوراً ابھرنے چاہئیں.مثلاً ایک اشاعت کا سیکرٹری جس کو بنایا جاتا ہے اُس کو فوری طور پر یہ پتا کرنا چاہئے کہ کتنی کتا بیں ہیں جن کا میں ذمہ دار ہوں، کتنے رسائل

Page 276

263 ہیں جن کا میں ذمہ دار ہوں ، وہ جگہ میرے پاس کون سی ہیں جہاں میں ان کو رکھوں گا کس سلیقے سے مجھے اُن کو ترتیب دینا چاہئے.یہ سوچ آتے ہی سب سے پہلے وہ ان کاموں میں مصروف ہو جائے گا.ایک شخص کو سیکرٹری اشاعت بنایا ہے اس کے بعد ہو سکتا ہے اس کے بعد مہینہ بھران محنتوں میں لگ جائے.یہ معلوم کرے کہ نہ کوئی ہمارا کمرہ ہے جہاں اسٹاک رکھا جاسکتا ہے، نہ کتابوں کو خوبصورتی کے ساتھ دکھانے کا کوئی انتظام موجود ہے، نہ کوئی اسٹاک رجسٹر ہے جس میں درج ہو یہ کتا بیں کب، کہاں سے آئی تھیں اور ہم نے اُس کی قیمت کسی کو ادا کرنی بھی ہے کہ نہیں ، نہ اُس کو یہ پتا ہو کہ ان کتابوں کو آگے پھر شائع کرنے کا طریق کیا ہے؟ بہت وسیع کام ہے لیکن اکثر سیکرٹری اشاعت بالکل غافل ہیں اُن کو علم ہی کوئی نہیں اور نہ امراء ان کو اس طرح بلا کر جواب طلبی کرتے ہیں، نہ اُن سے وہ پوچھتے ہیں، اس لحاظ سے امیر بھی اپنی امانت کا حق ادا نہیں کرتے.میں نے ایک مثال جو رکھی ہے اس کو اور زیادہ آگے بڑھا کر دکھاتا ہوں پھر آپ کو پتا چلے گا کہ کتنے کام ہیں جو جماعت میں ہونے والے ہیں اور ایک ایک کام کو جب آپ نظر کے سامنے رکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ کتنی بڑی ذمہ داری ہے دنیا میں ایسی جماعت سے تعلق رکھنا جسے قرآن کریم میں اخَرِيْنَ (الجمعہ: 4) قرار دیا جسے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو تمام دنیا میں دوسرے ادیان پر غالب کرنا ہے.یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے.یہی وہ مضمون ہے جس کے پیش نظر خدا تعالیٰ نے سارے مسلمانوں کو بحیثیت ایک جماعت کے خلیفہ قرار دیا ہوا ہے." خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 843-850) عہدہ امانت ہے اور عہدیدار جب اس امانت کا بوجھ محسوس کرے تو رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا کی دعا کرے خطبہ جمعہ 27 نومبر 1992ء) ہر عہد یدار کو اس خیال سے محنت کرنی چاہئے کہ میری ذمہ داری ہے اور کوئی دن مجھ پر ایسا نہ گزرے کہ میں اس ذمہ داری کے کسی ایک حصے کو ادا نہ کر رہا ہوں.اس لگن سے جب عہد یدار کام شروع کر دیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کام آسان ہو جاتے ہیں.ایک دن کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا پھر دوسرے دن کا بوجھ ہلکا ہو گا، پھر تیسرے دن کا بوجھ ہلکا ہوگا رات کو جب وہ تہجد کے لئے اٹھے گا تو یہ دعا کرے گا کہ وقفة رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وقفت

Page 277

264 قلة وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (البقره: 287) اے خدا ! ہم نے تیرے لئے بوجھ اٹھائے ہیں ہم پر جو تو بوجھ ڈالتا ہے ایسے بوجھ نہ ہوں جن کو اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو.اس مضمون کی دعا کو دل کی گہرائی سے کرنے کے نتیجہ میں انسان سمجھ سکتا ہے اُس کے بغیر نہیں سمجھ سکتا.وہ شخص جس نے دن بھر محنت کی ہو اور پھر رات کو یہ دعا کرتا ہے اُس پر دعا کا حقیقی مضمون روشن ہوتا ہے.وہ یہ نہیں سمجھ رہا ہوتا کہ خدا مجھ پر ایسی ذمہ داری ڈال دے گا جس کی مجھ میں طاقت ہی نہیں ہے.وہ اس رنگ میں اس دعا کا مفہوم سمجھتا ہے کہ اے خدا میرے بوجھ تو نے ہلکے کرنے ہیں مجھ میں تو کوئی طاقت نہیں ہے.جو تو نے بوجھ ڈالے ہیں اُس کی طاقت بھی عطا کر.یہ مراد ہے اس دعا سے.ج رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو میں کام نہیں کرتا وہ میرے سر سے ٹالتا چلا جا.اگر یہ مطلب ہوتو ہر انسان دنیا کا سب سے نکما انسان بن کر مرے گا کیونکہ انسان کو عادت ہے کام کو ٹالنے کی.مراد یہ ہے کہ اے خدا میں نے کر کے دیکھا ہے یعنی جان ماری ہے اور میں جانتا ہوں کہ مجھ میں طاقت نہیں ہے پس تو تو طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالنے والا نہیں ہے، میری طاقت بڑھا، یہ اس دعا کا مفہوم ہے اللہ تعالیٰ پھر طاقت بڑھاتا چلا جاتا ہے اور میرا تجربہ ہے ساری زندگی کا کہ کبھی یہ دعا نا مقبول نہیں ہوتی ، رونہیں کی جاتی ہے.اگر اس کے مضمون کا حق ادا کرتے ہوئے اس کو سمجھتے ہوئے آپ یہ دعا کرتے ہیں تو خدا دعا ضرور سنتا ہے، ضرور آپ کو طاقت عطا فرماتا ہے آپ کے مدد گار مہیا کرتا ہے.دنیا کے حالات میں تبدیلیاں پیدا کرتا ہے، آپ کی وہ دلی خواہشات جو اُس کی خاطر دل میں پیدا ہوئی ہیں اُن کو پورا کرنے کی کوشش فرماتا ہے.پس ایک عہد یدار جب اپنی امانت کا حق ادا کرنا چاہے تو دو ہی رستے ہیں.ایک یہ کہ وہ اپنی امانت کو سمجھے کہ ہے کیا؟ اُس کا احاطہ کرے.اُس کی تفاصیل کا اُس کو علم ہونا چاہئے اور پھر وہ ہر اس چیز پر ہاتھ ڈالے جس کی اُس میں طاقت ہے.خواہ تدریجا ڈالے مگر چھوڑے نہ رکھے.ایک بھی پہلو اُس کی امانت کا ایسا نہ ہو جسے وہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے.ایک دم میں نہیں اٹھتی تو رفتہ رفتہ اٹھائے لیکن اٹھائے ضرور.جب کوئی امانت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے اُس کا بوجھ محسوس ہوتا ہو اُس وقت یہ دعا کرے کیونکہ بغیر بوجھ محسوس کئے جو دعا کی جاتی ہے.اے خدا! ہمارے بوجھ ٹال دے ہم میں طاقت سے بڑھ کر بوجھ ہے، یہ فرضی اور خیالی باتیں ہیں اس دعا کا حقیقت سے ، خدا کی قبولیت سے تعلق قائم نہیں ہوتا.جب بھوکا روٹی مانگتا ہے تو اُس کی آواز اور ہوتی ہے اور بغیر بھوک کے آپ روٹی کی طلب کریں آواز میں فرق ہوگا زمین آسمان کا فرق ہو گا تبھی خدا تعالیٰ نے دعا کے ساتھ مضطر کی شرط لگادی ہے کہ جب میں مضطر کی آواز سنتا ہوں تو اُس کی آواز کو قبول کرتا ہوں.ایک عہدے کا اضطراب یہ ہے کہ وہ کام پر ہاتھ ڈالے اُس کا بوجھ محسوس کرے جانتا ہو کہ اکیلا

Page 278

265 اُس سے یہ کام ہونا نہیں ہے اور کوشش ضرور کرے تب وہ خدا کے حضور عاجزانہ گرے اور کہے کہ اے خدا تو طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالنے والا نہیں ہے اور مجھ پر بھی وہ بوجھ ڈال جس کی طاقت عطا فرما تا چلا جائے.جب اس طرح محسوس کر کے دعا کی جائے گی تو غائب سے ایسے ہاتھ تو دیکھے گا جو غائب کا ہاتھ نہیں رہے گا بلکہ ظاہر ہو گا اور اُس کے بوجھ اٹھائے گا اور اُس کے بوجھوں کو ہلکا کر دے گا اور وہ اپنے کاموں کو پہلے سے زیادہ بڑھ کر روانی اور عمدگی کے ساتھ اور سلاست کے ساتھ ادا کرنے کی اہلیت اختیار کرتا چلا جائے گا." خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 856-858) ہر ناصر اپنی ذات میں خود مربی بنے اور دوسروں کو اس طرف ترغیب بھی دلائے خطبات جمعہ 29 مئی 1992 ء ) " اب ضرورت ہے کہ اس جماعت کو خود اپنی تربیت کی طرف توجہ کرنے پر آمادہ کیا جائے.اس بارے میں ان کو سمجھایا جائے کہ سب سے اچھی تربیت وہی ہوتی ہے جو انسان خود کرے.جس کے دل میں ایک مربی پیدا ہو جائے ، جس شخص کو یہ محسوس ہو کہ میرے سپر د بڑے بڑے کام ہو چکے ہیں اور میں کرنا شروع کر چکا ہوں لیکن میرے اندر پوری استطاعت نہیں ہے، میں پوری طرح ان کا موں کا اہل نہیں ہوں تبلیغ کرتا ہوں لیکن میرا دینی علم کمزور ہے، نیکی کی تعلیم دیتا ہوں لیکن بنیادی کمزوریاں ہیں.عبادت کی طرف سے غافل ہوں یا نماز پڑھتا ہوں تو ترجمہ نہیں جانتا.لوگ مجھ سے پوچھیں گے کہ نماز کیا ہے تو میں کیا سمجھاؤں گا.یہ وہ سوالات ہیں جو خود بخود ایک مبلغ کے دل میں پیدا ہوتے رہتے ہیں اور اس سفر کا ایک لازمی حصہ ہیں.پس اب ضرورت ہے کہ جماعت کو اس اہم شعبے کی طرف متوجہ کیا جائے یعنی خود اپنی تربیت کا شعبہ اور جماعت کو سمجھایا جائے کہ باہر کا مربی ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک انسان کے اپنے دل میں ایک مربی نہ پیدا ہو جائے.اپنی علمی کمزوری کی طرف توجہ ہو اور دل اس بات پر بار بارز ور لگائے اور اپنی ذات میں آپ سے احتجاج کرے اور کہے کہ مجھے کچھ بتاؤ میں کیا کروں.میرے لئے کچھ کرو کیونکہ مجھے موجودہ حالت پر چین نہیں آتا.دل کا یہ کام ہے، دل کی زبان بظاہر گونگی ہے علمی لحاظ سے تفاصیل میں نہیں جاتا لیکن بہت ہی پیارا کام ہے جو یہ کرتا ہے.مچلتا ہے، بیقراری کا اظہار کرتا ہے، مطالبے کرتا ہے خواہ وہ بالکل سادہ ستھرے، خواہ معمولی زبان میں مطالبے ہوں یا زبان نہ بھی ہو تو ان کے مطالبوں کا مطلب سمجھ آ جاتا ہے.چھوٹے بچے جن کو بولنا نہیں آتا جب وہ اپنی ماؤں سے مطالبے کرتے ہیں تو زبان سے تو نہیں کیا کرتے وہ اپنے چھوٹے سے بستر پہ تڑپتے ہیں، ٹانگیں مارتے ہیں، روتے ہیں، چیتے ہیں.ماں کا کام ہے سمجھے اور جب تک وہ سمجھ نہ

Page 279

266 جائے وہ بچے اپنی ضد نہیں چھوڑتے اپنا مطالبہ نہیں چھوڑتے.پس دل کا یہی حال ہے.عقل اگر ماں باپ کا مقام رکھتی ہے، عقل زبان رکھتی ہے، عقل سمجھتی ہے اور سمجھانا جانتی ہے.تو دل بھی اپنی زبان رکھتا ہے اور اپنے طور طریق ہیں جن کے ذریعہ یہ دوسرے کو بات سمجھا دیا کرتا ہے.اور دل کے سمجھانے کے طریق ایک معصوم بچے کی طرح اس کی بے چینی اور بیقراری ہے.پس ایک انسان جسے اپنی کمزوری کا احساس ہو اور وہ احساس بے چینی میں بدل جائے.اس احساس کے نتیجے میں وہ نہ دن کو چین پائے نہ رات کو چین پائے وہ ضرور کچھ نہ کچھ دماغ کو آمادہ کر کے چھوڑے گا کہ وہ اس کے لئے کچھ کرے.پس وہ لوگ جو علمی ترقی کرتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی مدرسے میں تعلیم پائیں.بہت سے ایسے احمدی میرے علم میں ہیں جنہوں نے خود اپنی تربیت کی ہے اس لئے کہ ان کا دل پہلے تڑپا تھا، ان کے دل نے اس بات کو محسوس کیا تھا کہ جو مقام اور مرتبہ مجھے عطا ہوا ہے اس کے مطابق مجھے علم نہیں ہے اور اس لحاظ سے میں پیچھے رہ گیا ہوں.چنانچہ اس وجہ سے ان کے دلوں میں شوق پیدا ہوئے انہوں نے از خود منتیں کیں، خود پڑھنا شروع کیا ، اپنی کمزوریوں کو دور کیا ، اگر دلائل میں کمزور تھے تو دلائل کی طرف توجہ کی غرضیکہ مربی دل میں پہلے پیدا ہوتا ہے.تب انسان حقیقت میں علمی اور دینی تربیت حاصل کرتا ہے.اگر دل سے وہ مطالبہ نہ پیدا ہو دل سے کسی چیز کی تڑپ کی آواز سنائی نہ دے تو باہر سے لاکھ کوشش کی جائے ایسے شخص پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا.انصار کی تربیتی کلاسز میں حاضری کم ہونے کی وجوہات معلوم کریں خدام الاحمدیہ کی تربیتی کلاسز لگا کرتی ہیں، انصار اللہ بھی کرتے ہیں، لجنہ بھی ، کتنے ہیں جوان میں آتے ہیں؟ کتنے فائدہ اٹھاتے ہیں؟ وہ چند گنتی کے لوگ جن کے دل میں پہلے سے ہی احساس ہوتا ہے کہ ضرورت ہے.جب آواز پہنچتی ہے کہ ایسا انتظام ہو گیا ہے تو وہ شوق سے مزے سے اس میں حصہ لیتے ہیں لیکن وہ لوگ جن کے دل میں مربی پیدا نہیں ہوتا ان تک لاکھ آواز میں پہنچائی جائیں ، ہر خطبے میں اعلان ہو بلکہ ہر نماز میں بھی اعلان کیا جائے تو ایسے لوگ جن کے دل کے اندر سے طلب پیدا نہیں ہوتی وہ سنی ان سنی کر کے وہاں سے گزر جاتے ہیں اور ان کو کوئی پیغام نہیں ملتا.کوئی فیض ان کو نہیں ملتا.پس میں جب کہتا ہوں کہ جماعت سپین کو اب یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ اپنے اندر مربی پیدا کرو.تبلیغ کے جو کام شروع کئے ہیں اس کے دوران جو خامیاں ہمیں نظر آئی ہیں کسی باہر سے آنے والے نے وہ خامیاں تمہیں نہیں بتانی تبلیغ کے دوران تمہیں خود معلوم ہوگا تم سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ کس علمی کمی کو تم نے محسوس کیا ہے، کس دینی تربیت کی کمی کو تم نے محسوس کیا ہے.یہ احساس ایک ایسا احساس ہے جسے ان مٹ بنانا ضروری ہے کیونکہ ایسا احساس تو ہر شخص کو کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ بعضوں کے احساس آئے اور مٹ گئے جیسے ریت پر لکھی ہوئی تحریریں ہوا کرتی ہیں.آج آندھی ایک طرف سے چلی ہے ایک

Page 280

267 سمت کی لہریں ڈال گئی ہے.دوسری دن دوسری سمت سے چلی ہے ان لہروں کو بدل کر اس نے ان کا رُخ بدل دیا نئی سمت کی لہریں بن گئیں.کبھی جھکڑ اس طرح چلتے ہیں کہ کچھ بھی باقی نہیں رہتا کھڑی سی بن جاتی ہے.تو ایسا شخص جو نیک نصیحتوں کو اس طرح قبول کرتا ہے جیسے ریت ہواؤں کے اثر کو قبول کرتی ہے اس کی قبول کرنے کی صلاحیت کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوتا ، وہ بغیر شک کے مٹ جایا کرتی ہے لیکن بعض ایسے لوگ ہیں جن کو ایک چھوٹی سی بات بھی اس طرح گہرا اثر کر جاتی ہے کہ ان کے دل کی ان مٹ تحریر بن جایا کرتی ہے.ان کی زندگیاں اس پیغام سے پھر ہمیشہ فائدہ اٹھاتی رہتی ہیں اور ہمیشہ تبلیغ ہوتی رہتی ہے.بڑے لوگوں کے واقعات پڑھیں بڑے لوگوں کے واقعات آپ پڑھیں ، ان کی زندگیوں کے سرگزشت خواہ خود انہوں نے لکھی ہو یا کسی نے لکھی ہو ان کو پڑھ کر دیکھیں آپ کو بسا اوقات یہ معلوم ہوگا کہ ایک انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے بڑا مرتبہ عطا کیا جب اس سے پوچھا جائے کہ بتاؤ کس چیز نے تمہیں اتنی لمبی اور اتنی مسلسل ایک ہی سمت میں جاری و ساری محنت پر آمادہ کیا.تو وہ سوچ کر تمہیں یہ بتائے گا کہ فلاں وقت یہ واقعہ ہوا تھا، میں بچہ تھایا میری اتنی عمر تھی ، میں نے یہ نظارہ دیکھا تھا اور وہ پیغام ایسا میرے دل پر نقش ہوا کہ پتھر کی لکیر بن گیا اور ہمیشہ اس نے مجھے آئندہ میرے نشو و نما کے زمانے میں میرا مقصد یاد کرایا، میرا رخ معین کیا اور مجھے اس محنت پر آمادہ کرتا رہا اس کی طاقت بخشتار ہا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل کے ساتھ اس مقام پر پہنچایا ہے.پس ایسے دل پہلے بنا ئیں جو ان تحریکات کو جو وقتا فوقتاً آپ کے دل میں ضرور اٹھتی ہیں اور ہر مبلغ کے دل میں اٹھتی ہیں ، ان کو مستقل کر دے، ان کو دائمی بنا دے، اس بات کی ضمانت دے کہ یہ نیک تحریکات جو آپ کے دل میں اٹھتی ہیں وہ ضائع نہیں جائیں گی.چنانچہ فرشتوں کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اُن میں ایک یہ بات بھی ہے کہ فرشتے جب نیکی کی تحریک کرتے ہیں تو بعض دل ہیں جو ان کو قبول کر لیتے ہیں اور پھر ہمیشہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.بعض دل ہیں جو متاثر ہوتے ہیں اور پھر ان کو بھول جاتے ہیں.اور وہ وقتی طور پر ایک لذت کو محسوس کرتے ہیں لیکن وہ دائمی لذت نہیں.میں امید رکھتا ہوں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نیکی کی طرف کئی ٹھوس اقدام کرنے کی توفیق بخشی ہے وہاں اس ضروری قدم کی طرف بھی آپ متوجہ ہوں گے.آپ میں سے ہر ایک خودا اپنی تربیت کی کوشش کرے گا اور اپنی تربیت کی کوشش میں وہ جماعت سے جس حد تک مدد ممکن ہے طلب کرے گا.یہ نہیں ہوگا کہ مربی پیچھے پھرتا رہے کہ تم اس سے یہ بات حاصل کرو، وہ بات حاصل کرو بلکہ شاگر دمر بی کے پیچھے پھرے اور کہے مجھے وقت دو میں نے یہ بھی تم سے سیکھنا ہے اور یہ بھی سیکھنا ہے." خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 367-370)

Page 281

268 اصلاحی کمیٹیوں میں تینوں تنظیموں کو بیک وقت مل کر کوشش کرنی چاہئے (خطبہ جمعہ 1 مئی 1992 ء) " تربیت کا جہاد بھی اور تبلیغ کا جہاد بھی اور تبلیغ کے جہاد کا معیار براہ راست تربیت کے جہاد کے معیار سے متعلق ہے.جتنا تربیت کا جہاد بلند معیار کا ہو گا اتنا ہی تبلیغ کا معیار از خود بلند ہوتا چلا جائے گا اس لئے ہر ملک میں نظام جماعت کی طرف سے اور طرز کی اصلاحی کمیٹیاں بنی چاہئیں.یعنی اس بات کا انتظار کرنے والی نہیں کہ جیسے مکڑی جالے میں بیٹھ کر انتظار کرتی ہے کہ کوئی بے وقوف مکھی پھنسے تو اس کے مارنے کا انتظام کیا جائے صرف ایسے بیماروں کو ان کی طرف منتقل نہ کیا جائے کہ جن کے متعلق فیصلہ ہو کہ ان کو اب کیا سزادی جائے بلکہ کمیٹی کا فرض ہو کہ وہ یہ نظر رکھے کہ آثار کے لحاظ سے کس خاندان میں کمزوریاں آ رہی ہیں.کن کی بچیاں بے پرواہ ہوتی چلی جارہی ہیں، کن کے لڑکے باہر کی طرف رُخ کر چکے ہیں اور جماعت سے محبت کی بجائے ان کا تعلق رفتہ رفتہ کٹ کر غیروں سے محبت کی طرف منتقل ہورہا ہے، ان لوگوں پر نظر رکھ کر ان کو پیار اور محبت سے واپس لانا بہت زیادہ آسان ہے بہ نسبت اس کے کہ جب معاملہ حد سے گزر جائے اور بدیاں کسی میں سرایت کر جائیں اس وقت ان بدیوں کو نوچ کر جسم سے باہر نکال پھینکنا بڑا مشکل ہے.تو اس آیت پر غور کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ اب ضروری ہے کہ تمام دنیا میں جماعتیں اس غرض سے اصلاحی کمیٹیاں قائم کریں کہ جو بیماریوں کی پیش بندیاں کرنے والی ہوں.اس سلسلہ میں ایک مرکزی اصلاحی کمیٹی ہر امیر کے تابع کام کرے گی اور ان کو اختیار ہے اور حق ہے اپنے اپنے دائرے میں مجلس خدام الاحمدیہ مجلس انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ سے وہ پورا پورا فائدہ اُٹھا ئیں.وہ اگر مناسب سمجھیں تو بعض معاملات کو خدام کی معرفت طے کریں، بعض کو لجنات کی معرفت طے کریں بعض جگہ تینوں کو بیک وقت کوشش کرنی پڑے گی.ایک خاندان کا معاملہ ہے وہاں نیک اثر ڈالنے کے لئے خدام کو بھی حرکت دینی ہوگی، انصار کو بھی اور لجنات کو بھی اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ اگر آپ یہ کام شروع کریں گے تو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ آپ کے حق میں ضرور پورا ہو گا کہ آپ کی وجہ سے تو میں بچائی جائیں گی.آپ کی وجہ سے اگر جماعتیں بچائی جائیں گی تو یہی جماعتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قوموں کو بچانے کی اہل قرار دی جائیں گی اور جب تک وَاَهْلُهَا مُصْلِحُونَ کا عمل جاری ہے خدا تعالیٰ کے عذاب کی تقدیر نہیں اُترے گی." خطبات طاہر جلد 11 صفحہ 310-311)

Page 282

269 $1993 نمازوں کی حفاظت پر تمام تنظیمیں اپنے اپنے ہاں نگران ہوں اور بیدار ہوں (خطبہ جمعہ 23 اپریل 1993ء) "نماز کی حفاظت سب سے بڑی اور اہم نصیحت ہے جو میں آپ کو کر سکتا ہوں.مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان ہو یا تمام دنیا کی مجالس خدام الاحمدیہ ہوں، مجالس انصار اللہ ہوں، لجنہ اماءاللہ ہوں یا جماعت کا نظام، وہ سارے اس وقت میرے مخاطب ہیں اور اس تربیتی کلاس کو سامنے رکھ کر اس سے استفادہ کرتے ہوئے میں سب کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ سب سے زیادہ زور نمازوں کی حفاظت پر دیں، سب تنظیمیں اپنے اپنے ہاں نگران ہوں اور بیدار ہوں.نماز کی حفاظت کا تعلق ذیلی تنظیموں کے ساتھ حفظوا میں ایک اور پیغام بھی ہے یہ اجتماعی حکم ہے اور حفظوا کا مطلب ہے ایک دوسرے کی بھی حفاظت کر و صرف اپنی نماز کی حفاظت نہ کرو اور اپنی نماز سے حفاظت طلب نہ کرو بلکہ بحیثیت جماعت تم ایک دوسرے کی نماز کے معاملے میں حفاظت کرو.یہ وہ مضمون ہے جس کا براہ راست تعلق تنظیموں کے ساتھ بھی ہے اور انفرادی طور پر بھی ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ہمسائے کی ، اپنے اردگرد، اپنے ماحول کی حفاظت کر....تنظیمیں نماز بارے خطبات کی آڈیو یا ویڈیو کیسٹس مساجد میں سنائیں بچہ پس اس پہلو سے ایک نماز کے تعلق میں میں ایک اور بات کہنی چاہتا ہوں کہ نماز کی نصیحت بھی کریں اور جن کو آپ نصیحت کرتے ہیں اُن پر زیادہ اثر پیدا کرنے کے لئے کوشش کریں کہ خلیفہ وقت کی براه راست آواز میں ہی یہ نصیحتیں اُن کو پہنچیں.اس سلسلے میں جو نمازوں پر خطبات دیئے گئے ہیں مختلف وقتوں میں اگر اُن کی آڈیو یا وڈیو کیسٹس حاصل کر کے تنظیموں کے ذریعے انتظام ہو کہ محض مسجد میں ہی اُن کو بلا کر نہ سنائی جائیں بلکہ کوشش کی جائے کہ مختلف ایسا گھروں میں انتظام ہو اور اُن کے سپرد یہ کام ہو کہ اپنے ماحول میں رہنے والے احمدیوں کو وہاں بلائیں اور اُن کو وہ دکھا دیں.اگر سلیقے اور ترتیب کے ساتھ یہ کام ہو اور یہ تسلی ہو جائے کہ جماعت کی بھاری اکثریت ایک دفعہ خود خلیفہ وقت کی آواز میں نماز کی اہمیت کے متعلق خطبات کو سنتی ہے، اُن نصیحتوں سے واقف ہوتی ہے تو وہ دیکھیں گے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اُس کا ایک بہت نمایاں اثر ہوگا

Page 283

270 اور اُن کے کام آسان ہو جائیں گے.نصیحت والی باتیں عہدیداران پہلے اپنی ذات میں پیدا کریں دوسری بات اسی تعلق میں یہ ہے کہ خود اپنی ذات میں وہ باتیں پیدا کریں جن سے آپ کی نصیحت میں زیادہ طاقت پیدا ہو.تمام تفصیلی محرکات تو میں بیان نہیں کرسکتا، وجوہات جن سے یہ طاقت پیدا ہوتی ہے.لیکن ایک چیز جو میں بارہ بیان کر چکا ہوں اور وہ مرکزی نقطے کی حیثیت رکھتی ہے.وہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمۃ للعلمین ہونا نصیحت کے لئے رحمت ضروری ہے کوئی نصیحت جو رحمت سے عاری ہوگی.وہ اثر نہیں دکھا سکتی ہے.بعض دفعہ قرآن کریم کی آیت پڑھتے ہوئے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا کا کلام ہے مان تو لیتے ہیں مگر یہ بات ٹھیک دکھائی نہیں دیتی.وہ بات یہ ہے کہ فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذكرى ( الاعلى : 10) نصیحت کر ضرور نصیحت فائدہ دے گی.پس بعض لوگ سوچتے بھی ہوں گے مگر مجھ سے بھی کئی دفعہ پوچھتے ہیں کہ قرآن کریم نے لکھا ہے سر ادب سے جھکتا ہے ضر ور صحیح ہو گا مگر ہم تو نصیحتیں کرتے ہیں کوئی فرق نہیں پڑتا.ایک دفعہ میں نے پہلے بھی ایسے لوگوں کو سمجھایا تھا یعنی خطبے کے ذریعے ، اب میں پھر سمجھتا ہوں کہ فَذَكِّرُ انْ نَفَعَتِ الذِکری میں خصوصیت سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرمایا گیا.عام نصیحت نہیں ، مطلب یہ کہ ہر شخص کی نصیحت اثر نہیں دکھاتی.بعض نصیحتوں سے لوگ بد کتے ہیں اور بھاگتے ہیں اور الٹی منافرت پیدا ہوتی ہے.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا اے محمد ، اے میرے بندے! جس نے مجھ سے تربیت کے انداز سیکھے ہیں، تو نصیحت کر میں تجھے یقین دلاتا ہوں کہ تیری نصیحت کبھی بیکا نہیں جائے گی.اس لئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کا منبع رحمت تھی.وہ نصیحت جو رحمت کے منبع سے پھوٹتی ہو وہ کبھی بیکار نہیں جاسکتی.وقتی طور پر اگر بے اثر دکھائی بھی دے تو کچھ عرصے کے بعد اُس کا اثر ضرور ظاہر ہوگا.مائیں جب بچوں کو نصیحت کرتی ہیں اُس کا اور اثر ہوا کرتا ہے.مقابلہ ایسے باپ جواکثر باہر رہتے ہیں اور بچوں سے براہ راست تعلق نہیں اُن کی نصیحت کا اور اثر ہوتا ہے، دوسرے رشتہ داروں کی نصیحت کا اور ہے ، گلی میں چلتے پھرتے کسی شخص کی نصیحت کا اور اثر ہے اور اثر میں کمی یا زیادتی کا مرکزی نقطہ رحمت میں کمی یا زیادتی ہے.اگر ایک شخص میں محبت پائی جاتی ہو، پیار پایا جا تا ہو، جوکسی شخص کو نصیحت کرے در ددل کے ساتھ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اس شخص کو نقصان پہنچ رہا ہے.اس کی تکلیف میں شامل ہو تو ایسا شخص اگر بُرائی میں اس طرح گھیرا گیا ہے کہ اُس کی نصیحت کو نہیں مان سکتا.تب بھی اُس کے دل میں ایک زخم سا لگ جائے گا.اُس کو ایک پریشانی سی لاحق ہو جائے گی کہ اُس نے مجھ سے نیک بات کہی تھی اور میں عمل نہیں کر سکتا.یہ دکھ

Page 284

271 خود اس کے لئے نصیحت بن جایا کرتا ہے.آج نہیں تو کل اُس کے دل میں ضمیر کے کچو کے اتنا زخم پہنچا دیتے ہیں کہ وہ مزید برداشت نہیں کر سکتا اور اُس کو لازماً ان سے بچنے کے لئے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی پڑتی ہے.ذیلی تنظیموں کے نمائندے خشک نصیحت نہ کریں.یہ فائدہ کی بجائے نقصان پہنچاتی ہے پس خدام الاحمدیہ کے عہدیدار ہوں یا دوسرے جماعتی عہد یدار یا دوسری ذیلی تنظیموں کے نمائندے یاد رکھیں خشک نصیحت بریکار چیز ہے اور خشک نصیحت بعض دفعہ فائدے کی بجائے نقصان پہنچا دیتی ہے، نفرتیں پیدا کر دیتی ہے.اپنی نصیحت کو پہلے پہچانیں.اُس کا تجزیہ کریں اور غور کریں کہ آپ کیوں کر رہے ہیں؟ مجھے بھی خدام الاحمدیہ کے مختلف عہدوں پر خدمت کرنے کا موقع ملا ہے مجھے یاد ہے کئی دفعہ مجھ سے بھی غلطی ہوا کرتی تھی.کسی ایسے کو نصیحت کی خدام الاحمدیہ کی نمائندگی میں جو مر تبہے اور مقام میں اور عمر میں ، میرے رشتہ داروں میں یا دوسرے، مجھ سے بڑا ہوتا تھا اور وہ اگر تحقیر سے دیکھ کر اُس کو ر ڈ کر دیتا تھا تو یہ احساس ہوتا تھا کہ اس کا میں تو کچھ بھی نہیں کر سکتا اور بعض دفعہ خیال آتا تھا کہ اُس کو نیچا دکھایا جائے.پکڑ کے کسی بڑے سے شکایت کر کے مجبور کیا جائے.یہ خیال ایک باطل خیال ہوا کرتا تھا.جوں جوں تجر بہ بڑھا اور عمر بڑھی تو یہ احساس نمایاں طور پر پیدا ہونے لگا کہ وہ حالت ایک غفلت اور گناہ کی حالت تھی جس میں انسان نے اپنی نصیحت نہ سننے والے کے خلاف ایک قسم کی رعونت اختیار کی بظاہر اس کو رعونت کا طعنہ دیا مگر جب دل میں یہ جذ بہ پیدا ہوا کہ میں اس کا سر نیچا کر کے دکھاؤں گا.یہ کون ہوتا ہے؟ نظام جماعت کی بات نہ مانے.میں نمائندہ ہوں نظام کا ، اسے میری عزت کرنی چاہئے تھی.وہیں نصیحت اثر سے بریکار ہو جائے گی اور آئندہ بھی اس میں کوئی پھل نہیں لگے گا کیونکہ وہاں اپنے نفس کی رعونت نے سراٹھا لیا اور اُس نصیحت پر قبضہ کر لیا ہے.نصیحت رحمت سے بندھی ہونی چاہئے پس نصیحت رحمت سے باندھی جانی چاہئے ، اس کی جڑیں رحمت میں پیوستہ ہونی چاہئیں.رحمت کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی نصیحت سے تو غم پیدا ہو، غصہ پیدا نہ ہو اور قرآن کریم کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں، سیرت نبوی کا مطالعہ ہر پہلو سے کر کے دیکھیں ، اشارہ بھی کہیں آپ کو ایک جگہ بھی حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یہ نظر نہیں آئے گا کہ آپ نے غصے اور تحقیر کے ساتھ نصیحت نہ سنے والوں کا بدلہ اتارنے کی تمنا کی ہو، اُن کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہو.گہرے غم کا ذکر ملتا ہے اور اتنے گہرے غم کا قرآن کریم میں اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے: لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: 4) اے محمد! تو اپنے وجود کو ہلاک کر لے گا کہ اس غم میں کہ وہ ایمان نہیں لا ر ہے یہ ظالم.

Page 285

272 پس نصیحت غیروں پر جن کی آنکھیں بند ہوں ، جن کے دلوں پر ، کانوں وغیرہ پر مہریں لگ چکی ہوں.وہ بعض دفعہ نصیحت نہیں سنتے مگر اس لئے کہ نصیحت کے دروازے بند ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی نصیحت کی کمزوری کی طرف اشارہ نہیں ہے.بلکہ خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمُ (البقرہ:8) کے مضمون نے ہمیں یہ سمجھا دیا کہ بعض کان نصیحت سننے کے لئے بند ہیں، بعض دل انہیں قبول کرنے کے لئے اندر سے اس طرح بند ہو گئے ہیں کہ آمْ عَلَى قُلُوبِ اقْفَالُهَا ( محمد :25) گویا اُن کے دلوں کے اندر کچھ تالے تھے، جو اُنہوں نے اوپر ڈال رکھے ہیں.تو ایسی کیفیت والے لوگ مستثنی ہوں گے لیکن مراد یہ نہیں ہے کہ نصیحت کا اثر نہیں.نصیحت اُن رستوں سے داخل نہیں ہونے دی جاتی جو رستے نصیحت کے لئے مقرر فرمائے گئے ہیں.پس نصیحت کا کوئی قصور نہیں مگر بنیادی بات جو میں سمجھانی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں پر بھی نظر ڈالتے ہوئے بھی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طیش میں نہیں آتے تھے.نصیحت کی ہے، مقابل پر صرف یہ نہیں کہ اُس کو رد کیا گیا ہے بلکہ سخت سزا دی گئی ہے، سخت اذیتیں پہنچائی گئی ہیں.زبان سے بھی ، ہاتھ سے بھی اور دیگر ذرائع سے بھی شدید اذیت میں مبتلا کیا گیا ہے.اس جرم میں کہ ہمیں کیوں نصیحت کی اور ہر ایسے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رد عمل رحمت کا رد عمل تھا اور طائف کا واقعہ دیکھ لیجئے کہ طائف کے ایک سنگلاخ پہاڑی علاقے میں ، جہاں تک میں سمجھتا ہوں جو چٹانوں کا پہاڑی علاقہ تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نصیحت کے لئے گئے اور جواب میں اُس علاقے کے سردار نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے گلیوں کے چھو کرے لونڈے لگا دیئے.اُن کی جھولیوں میں پتھر تھے، زبانوں میں گندی گالیاں تھیں، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں اپنے شہر سے ایسے نکالا ہے کہ سر سے پاؤں تک لہولہان ہو چکے تھے اور دل زخموں سے بھرا ہوا تھا.بیان کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ چلنا اس لئے مشکل تھا کہ جوتی میں اپنے ہی خون کا کیچڑ سا بن گیا تھا.چلتے ہوئے پاؤں پھسلتا تھا.ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس فرشتے بھیجے اور فرمایا کہ اگر تو چاہتا ہے تو خدا غضبناک ہے ان کی حالت پر اور اگر تو چاہے تو وہ فرشتے جو اس پہاڑ کے فرشتے ہیں ان دو پہاڑوں کے درمیان وادی سی ایک جگہ میں واقعہ تھا شہر.ان پہاڑوں کو اکٹھا کر دیں گے اور ہمیشہ کے لئے یہ بستی نابود ہو جائے گی یعنی مراد ہے کہ ایسا خوفناک زلزلہ آ سکتا ہے خدا کے ایسے فرشتے جو زلزلے کی طاقتوں پر مامور ہیں اُن کو اللہ اجازت دے تو ہمیشہ کے لئے یہ بستی نابود ہو جائے گی.اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ذرا بھی غصے کا رد عمل ہوتا تو اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ اے اللہ ! ان کو ہلاک کر دے، زندہ رہنے کے لائق نہیں.بعض روایات میں ایک لمبی دعا ملتی ہے.ایک یہ بھی دعا ملتی ہے کہ اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُون بعض روایات میں اس دعا کا تعلق بدر یا احد کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے.مجھے اس وقت بھی یاد نہیں لیکن ایک اور جنگ کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے.لیکن حضرت مصلح موعودؓ

Page 286

273 نے اس تعلق میں بھی اس دعا کا ذ کر کیا تھا.چنانچہ میں نے تحقیق کروائی تو پتا چلا کہ یہی دعا اس طائف کے موقع پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی یعنی اے خدا یہ جانتے نہیں ہیں اس لئے ان کو معاف فرما، اس لئے درگز رفر مالیکن میری التجا یہ ہے کہ احد قومی میری قوم کو ہدایت دے دے، ہلاک نہ کر.پس ایسے غم کی حالت میں جبکہ انسان کے دل کی کیفیت پر نظر ڈال کر اُس کی خاطر خدا غضبناک ہو رہا ہو.اُس وقت بندے کا رحم، بندے کے عفو کا سلوک اللہ تعالیٰ کے غضب کو رحمت میں تبدیل فرما دیتا ہے.اُس وقت جو دعا اٹھتی ہے وہ اُس قوم کے لئے رحمت بن جایا کرتی ہے.پس نصیحت اس جذبے سے کریں کہ جس کے لئے آپ نصیحت کرتے ہیں اگر وہ نہیں سنتا تو آپ کو دکھ محسوس ہو، آپ کا دل غم سے بھر جائے.پس اس موقع کے لئے قرآن کریم کی وہ آیت سامنے آکھڑی ہوتی ہے.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة که مدد مانگو صبر کے ساتھ اور صلوۃ کے ساتھ.پس آپ نے اگر نصیحتیں کرنی ہیں اور نصیحتوں کے ذریعے دنیا میں ایک عوض انقلاب بر پا کرنا ہے.تو پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے رحمت کے ساتھ نصیحت کریں جب بھی نصیحت میں غصہ شامل ہو جایا کرے اپنی نصیحت تھوک دیا کریں کیونکہ وہ نصیحت زہریلی نصیحت ہے.کوئی اثر نہیں دکھائے گی.اُس سے سوسائٹی اور بھی گندی ہو جائے گی یہ ایسی نصیحت ہوگی جیسے کسی کو کہا جائے او چل چھوکری اب حیا کر.بے حیاؤں کی طرح پھر رہی ہے.دو پٹہ تو سر پر رکھ، ایک یہ کہنے کا انداز ہے اور ایک کہنے کا یہ انداز ہے کہ کسی ایسی بچی کی حالت پر انسان کا دل کڑھے اور اُس میں رحم کا جذ بہ پیدا ہو، اُسے سلیقے اور پیار کے ساتھ سمجھایا جائے کہ بی بی یہ اچھی چیز ہے کہ انسان اپنے سر کو ڈھانپ کر رہے یہ ہمارے معاشرے کی اچھی خوبی ہے.ان کی حفاظت کرو." خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 311-318) دنیا بھر کے جماعتی وذیلی تنظیموں کے اجتماعات پر انصار کو قیمتی نصائح (خطبہ جمعہ 30 اپریل 1993ء) " آج خدا کے فضل کے ساتھ دنیا کی بعض جماعتوں میں یا اجتماعات منعقد ہورہے ہیں یا مجالس شوری اور ایک مجلس شوری کل بھی ہوگی.اس سلسلہ میں مجھے متعلقہ جماعتوں کی طرف سے خصوصیت سے یہ پیغام ملا ہے کہ اگر آج کے جمعہ میں ہمارا ذکر کرتے ہوئے کچھ نصائح ہو جا ئیں تو ہم ممنون ہوں گے.ان میں سے ایک تو صوبہ سرحد ہے جس کا سب سے پہلے پیغام ملا تھا پھر یوگنڈا ہے.ان دونوں جگہوں میں

Page 287

274 جلسہ سالانہ منعقد ہو رہا ہے ، صوبہ سرحد کی جماعتوں کا تو چوتھا جلسہ سالانہ ہے اور یوگنڈا میں بھی جلسہ سالانہ ہے.جماعت جرمنی میں مجلس شوری ہورہی ہے اور مجلس اطفال الاحمدیہ ضلع اٹک کا سالانہ تربیتی اجتماع ہورہا ہے.کل سے جماعت سپین کی مجلس شوری پیدر و آباد میں شروع ہوگی.تو دوحصے ہیں ایک اجتماعات کا اور ایک شوری کا.سب سے پہلے میں اجتماعات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بعض نصیحتیں اُن احباب اور خواتین اور بچوں کو کرنی چاہتا ہوں جو ان اجتماعات پر جمع ہوئے ہیں اور اسی حوالے سے دنیا بھر کی جماعتوں کو بھی وہی نصیحتیں ہیں اور اس کے بعد انشاء اللہ مجلس شوری سے متعلق چند اہم بنیادی امور پیش کروں گا.جن آیات کی (مریم 60-66) میں نے تلاوت کی ہے ان کا تعلق تربیت سے ہے اور تربیت کے ایک ایسے حصہ سے ہے جس کا قوموں کی زندگی اور بقا سے تعلق ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفَ أَضَاعُوا الصَّلوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوتِ وہ نیک لوگ تھے جنہوں نے اپنے پیچھے بعض ایسی اولادیں چھوڑیں.جنہوں نے نماز کو ضائع کر دیا.وَاتَّبَعُوا الشَّهَوتِ اور شہوات کی اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے لگے.فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا پس وہ عنقریب ضرور اس کا بد نتیجہ یا کی صورت میں دیکھیں گے.ہاں وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو نیک لوگوں کی اولاد ہوئے اور پھر خود بھی تو به کی یعنی از سرنو ایمان لائے اور اپنے ایمان کو تازہ کیا.وَعَمِلَ صَالِحًا اور نیک اعمال کرتے ہوئے زندگی گزاری.فَأُولَبِكَ يَدْخُلُونَ الجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا یہ لوگ جنت میں داخل کئے جائیں گے اور ان کے اعمال میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی یعنی اعمال کی جزا میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی.جَنَّتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدَ الرَّحْمَنُ عِبَادَهُ بِالْغَيْبِ.یہ پیشگی کی جنتیں ہیں ان جنتوں کا وعدہ رحمن خدا نے غیب سے اپنے بندوں سے فرمایا ہے.اِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَاتِيًّا.اور یقیناً اللہ کا وعدہ ضرور لایا جاتا ہے.مراد یہ ہے کہ جب خدا ایک وعدہ کر لیتا ہے تو جس سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ اس معاملہ میں بے اختیار اور بے بس ہو جاتا ہے اور خدا نے ضرور وعدہ پورا کر کے اس کے سامنے حاضر کر دینا ہے.پس یہ جنتیں ایسی ہیں گویا ز بر دستی ان میں داخل کیا جائے گا.یعنی خواہش تو ہر انسان کی ہوگی لیکن خواہش کرنے والے سے زیادہ اللہ کو ان کو جنتوں میں داخل کرنے کا شوق ہوگا.یہ مضمون ہے جو ماتا کے ذریعہ بیان فرما دیا گیا یعنی میزبان کو مہمان سے بڑھ کر مہمان کی عزت افزائی کا شوق ہے اور تمنا ہے اور وہ ضرور اس تمنا کو پورا کر کے رہے گا.اس سلسلہ میں لفظ یا خاص توجہ کا محتاج ہے اس لئے میں نے وہاں اس کا ترجمہ نہیں کیا بلکہ یہ ذکر کیا کہ ایسے

Page 288

275 لوگ جو نیک لوگوں کی اولاد ہوں مگر نمازوں کو ضائع کر دیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی شروع کر دیں وہ ضرور بالآخر غیا تک پہنچتے ہیں.غیا کا ایک ترجمہ ”الضلال“ ہے یعنی گمراہی گویا ان کا گمراہی کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے پھر ہے ” الخیب“ وہ ضرور نا کامی کا منہ دیکھتے ہیں.پھر اس کا ترجمہ ہے الانهماك في الجہل بے وقوفی اور جہالت میں وہ اپنا وجود کھو دیتے ہیں یعنی کامل طور پر بے وقوفی اور جہالت کے ہو رہتے ہیں ، جہالتوں میں غرق ہو جاتے ہیں.پھر ہے الہلاک اور ہلاک ہو جاتے ہیں.پس وہ قومیں جن کا آغاز مذہبی ہو اور جن کا آغاز اللہ کے حضور تقویٰ کے ساتھ شروع ہوا ہو.ان لوگوں کی اولادیں اگر نماز سے ہٹ جائیں اور نفسانی خواہشات کی پیروی شروع کر دیں تو یہ وہ انجام ہیں ، جن تک وہ ضرور پہنچیں گے.اگر ہم آئندہ نسلوں کے نگران بنے تو پھر ہمیں کوئی خطرہ نہیں اس دور میں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہم نے جماعتوں کے حالات کا جہاں تک مطالعہ کیا ہے اور غور کیا ہے.یہ آیت ہر پہلو سے بلا شبہ صادق آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے.واقعہ یہ ہے کہ نیک لوگ جو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ خود ایمان لاتے ہیں اور سچائی کو قبول کرتے ہیں وہ شاذ و نادر کے طور پر ضائع ہوتے ہیں ورنہ ان کی بھاری اکثریت کامل وفا کے ساتھ آخر تک اس پیغام کے ساتھ چمٹی رہتی ہیں اور وہ ہرلحہ نیکیوں اور تقویٰ میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں ان کے ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں کبھی آپ نے نہیں دیکھا ہوگا کہ انبیاء کی جماعتیں خود ضائع ہو گئی ہوں.ہاں جب انبیاء کی جماعتیں گزر جاتی ہیں اور ان کی جگہ نئی نسلیں آجاتی ہیں تو وہاں سے خطرات شروع ہوتے ہیں.پس قرآن کریم نے یہاں قومی بقا کا فلسفہ بیان فرمایا ہے اور ان خطروں سے متنبہ کیا ہے جن کے نتیجہ میں قومیں بالآخر تنزل، جہالت، گمراہی اور جہل اور ہلاکت کا شکار ہو جایا کرتی ہیں.پس وہ تمام جماعتیں جو آج ان اجتماعات میں تربیت کی غرض سے حاضر ہورہی ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے اور وہ تمام جماعتیں بھی جو اس خطبہ کو سن رہی ہیں، ان کو میں خصوصیت کے ساتھ اس آیت کے مضمون کی طرف متوجہ کرتا ہوں، ہمیں یعنی اس صدی کے سر پر کھڑے ہوئے لوگوں کو ایک نئے زمانے کے پہینچ کا سامنا ہے.ہم ایسے جوڑ پر کھڑے ہیں جہاں ایک نسل ہی نہیں بلکہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل بھی تقریباً گزر چکی ہے.صحابہ کا زمانہ ختم ہوا اور شاذ کے طور پر برکت کے لئے دیکھنے کو ملتے ہیں اور وہ کبار تابعین جو صحابہ کے تربیت یافتہ تھے وہ بھی اکثر گزرچکے ہیں اور تابعین کا وہ گروہ باقی ہے جو چھوٹی عمر کا تھا اور ابھی اللہ کے فضل سے تابعین کا ایک طبقہ دنیا کی تمام جماعتوں میں نہیں تو بہت سی جماعتوں میں پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے اور ان سے بڑی توقع اور امید ہے کہ انشاء اللہ وہ نیکی کی اعلیٰ روایات کو اگلی نسلوں میں جاری کریں گے.یہ وہ

Page 289

276 خطرناک جوڑ ہے جو دوصدیوں کا بھی جوڑ ہے اور نسلاً بعد نسل تیسرا جوڑ بنتا ہے اور اس جوڑ کی اگر ہم نے حفاظت کی اور ان آیات کے مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اپنی آئندہ نسلوں کے نگران ہوئے تو انشاء اللہ تعالیٰ پھر ہمیں کوئی خطرہ نہیں.صلوۃ کی حفاظت کے متعلق بھی میں ذکر کر چکا ہوں.آئندہ بھی انشاء اللہ اس مضمون پر روشنی ڈالوں گا.شہوات کے مضمون کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے میرا خیال ہے کہ آئندہ انشاء اللہ تربیتی خطبات دوں گا.آج محض یہ ذکر ہی کافی ہے کہ یہ دو خطرات کے نشان ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ہمارے سامنے کھول کر بیان فرما دیا ہے اور تنبیہ کر دی ، اب آگے ہم پر ہے کہ ہم چاہیں تو تنبیہ کو نظر انداز کر کے اپنے لئے ہلاکت کی راہ اختیار کر لیں خواہ اس تنبیہ سے فائدہ اٹھائیں اور راہ راست پر قائم رہیں.اس ضمن میں بہت سی ایسی نصیحتیں کی جاسکتی ہیں جن کے پیش نظر جماعتیں اپنی نسلوں کی حفاظت کرتی ہیں اور سارا قرآن کریم اس مضمون سے بھرا پڑا ہے لیکن میں نے آج خصوصیت کے ساتھ ایک آیت کو چنا ہے تا کہ اس مضمون کو کچھ آگے بڑھاتے ہوئے اس آیت کی روشنی میں آپ کو نصیحت کروں کہ کیسے نئی نسلوں کی حفاظت کی جاتی ہے.تربیت کی جان صفات الہیہ ہیں قرآن کریم نے جو بہت سے ذرائع بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک ذریعہ ذکر کا ہے.وہ لوگ جو اپنے آبا و اجداد کا ذکر زندہ رکھتے ہیں ان کے آباؤ اجداد کی عظیم خوبیاں نسلاً بعد نسل قوموں میں زندہ رہتی ہیں اور لوگ جو اللہ کا ذکر زندہ رکھتے ہیں صفات الہیہ قوموں میں منتقل ہوتی رہتی ہیں اور تربیت کی جان صفات الہیہ ہے.پس اس پہلو سے اگر ہم اپنی آئندہ نسلوں کی ویسی ہی تربیت کرنا چاہتے ہیں جیسی پہلی نسلوں کی ہم نے دیکھی اور پہلی نسلوں نے ہماری کرنے کی کوشش کی، تو ایک مرکزی نصیحت کا نکتہ جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اس کو پلے باندھ لیں اور اس پر دل و جان سے عمل کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكْرِكُمْ أَبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا (البقره: 201) کہ جب تم مناسک حج سے فارغ ہو جایا کرو تو فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَ كُمْ پھر تم اللہ کا ویسے ہی ذکر کیا کرو جیسے تم اپنے آباء کا کرتے ہو او أَشَدَّ ذِكْرًا بلکہ اس سے بھی بہت بڑھ کر ذکر.حج کے وقت یوں معلوم ہوتا ہے جیسے انسان خدا کی گود میں ہے اور ہر طرف سے نیکیوں نے اس کو گھیرا ہوتا ہے.حج سے فارغ ہونے کے بعد پھر دنیا میں واپس لوٹتا ہے اور اس وقت خطرات درپیش ہوتے ہیں، ان خطرات سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ نصیحت فرمائی ہے کہ ذکر الہی پر زور دو اسی طرح ذکر کرو جس

Page 290

277 طرح تم اپنے آباء کا ذکر کرتے ہو.جب ایک نسل جو صحابہ کی نسل ہے وہ گزر جاتی ہے تو اگلی نسل میں ایک قسم کا ویسا ہی ماحول پیدا ہوتا ہے جیسے حج سے باہر آگئے ہوں ، جیسے دوبارہ زمانے کے خطرات کے سامنے ان نسلوں کو پیش کر دیا گیا ہو.اس وقت بھی یہی مضمون کارفرما ہوگا اور حفاظت کا یہی ایک طریق ہے جو کارآمد ثابت ہوسکتا ہے کہ ذکر میں پناہ لو.ذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ کا مضمون سمجھنے کے لائق ہے.دنیا میں جتنی قو میں ہیں وہ اپنی اعلیٰ روایات کی حفاظت اپنے قومی ہیروز اور بزرگوں کا ذکر کر کے کیا کرتی ہیں.اگر قوموں کی تاریخ سے ان کے آباء کا ذکر مٹا دیا جائے اور فراموش کر دیا جائے تو وہ قو میں اپنی تمام روایات کو بھول کر ان رستوں کو کھو دیں گی جن روایات پر چلتے ہوئے ان کے آباء نے بعض رستوں پر قدم مارے تھے اور ترقیات ان کو نصیب ہوئی تھیں.پس ذکر کا مضمون آئندہ نسل کی تربیت کے ساتھ ایک بہت گہرا تعلق رکھتا ہے یہاں جو ذِكْرِكُمْ بَاءَ كُھ فرمایا گیا ہے.اس میں مثال تو دنیا کے ذکر کی دی ہے لیکن مذہبی تعلق میں نصیحت ہے اس لئے ہمیں ذکرِ كُمْ آبَاءَكُمْ کی وہ تشریح کرنی ہوگی جو قرآنی آیات کے مطابق ہے اگر دنیا کی قوموں سے کہا جائے کہ تم اس طرح ذکر کرو جس طرح تم اپنے آباء کا ذکر کرتے ہو تو اُن کے ذہن میں مختلف قومی ہیرو ابھریں گے مگر جب مذہبی دنیا میں گفتگو ہو تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرمایا گیا ہو اور آپ کے غلاموں کو مخاطب فرمایا گیا ہو تو ذِكرِكُمْ آبَاءَكُمْ کا مضمون ایک اور رنگ اختیار کر جاتا ہے یہ ذکر ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء کا ذکر ملتا ہے، ابراہیم کا ذکر ماتا ہے، نوح کا ذکر ملتا ہے.آدم کا ذکر ملتا ہے اور ابراہیم کے بعد نسلاً بعد نسل ان اولا دوں کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے اپنے آباء کے ذکر کی حفاظت کی تھی.اپنے بزرگ آباء کے حوالے سے اپنی اعلیٰ روایات زندہ رکھو پس یہ ذکر اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ اس طرح مل جاتا ہے جیسے دو چیزیں ایک دوسرے میں پیوست ہو کر یک جان ہو جائیں اور ایک کا دوسرے سے فرق نہ رہے تو اپنے بزرگ آباء کے حوالے سے اپنی اعلیٰ روایات کو زندہ رکھو اور ذکر الہی میں اور بھی زیادہ شدت اختیار کر جاؤ.چنانچہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نصیحت کا یہی طریق تھا.بزرگوں کے حوالے سے، نیک لوگوں کے حوالے سے نصیحت فرمایا کرتے تھے اور بزرگ آباء کے ذکر کو تفاخر میں شمار نہیں فرماتے تھے بلکہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے.چنانچہ ایک موقع پر جب آپ کی دوازواج مطہرات میں کچھ اختلاف ہوا اور ایک نے دوسری کو طعنہ دیا کہ تم تو یہو دن ہو، یہودی نسل سے ہو.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور

Page 291

278 جب شکایت کی گئی تو آپ نے فرمایا.تم کیوں غم کرتی ہو تمہیں یہ جواب دینا چاہئے تھا کہ میرا خاوند بھی خدا کا رسول ہے اور میرے باپ دادے بھی خدا کے رسول تھے، ( ترمذی کتاب المناقب حدیث نمبر : 3829 ) تم مجھے کیا طعنہ دیتی ہو.یہ ذِکرِكُمْ آبَاءَكُمْ کی ایک مثال ہے یعنی بزرگوں کا ذکر جن کا تعلق خدا سے باندھا گیا ہو.تفاخر میں داخل نہیں ہے اور مومنوں کو یہی زیب دیتا ہے کہ ایسا ہی ذکر کیا کریں اور وہ ذکر خود بخود خدا کی طرف لے جاتا ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کے انداز میں آپ کو بڑے بڑے نامور عرب لوگوں کا کہیں کوئی ذکر دکھائی نہیں دے گا، کہیں کوئی ذکر نہیں ملے گا.وہ بڑے بڑے عرب را ہنما اور ہیرواور بڑے بڑے سردار جن کے ذکر سے عربی شاعری آئی پڑی ہے ان کا کوئی ذکر آپ کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے آپ کو نہیں ملتا.اُن آباء کا ذکر ملتا ہے جن کا قرآن کریم میں ذکر موجود ہے جن کا خدا سے تعلق تھا اور وہ ذکر لازما اللہ کے ذکر کی طرف لے جاتا ہے اَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا بن جاتا ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب خدا تعالیٰ کے ذکر پر خطاب فرمایا کرتے تھے تو بعض دفعہ اتنا جوش پیدا ہو جاتا تھا کہ ایک موقع پر جبکہ خدا تعالیٰ کی صفات جلال و جمال کا ذکر فرمارہے تھے تو منبر کانپنے لگا جس پر آپ کھڑے تھے اور روایت کرنے والے روایت کرتے ہیں کہ ہمیں ڈر تھا کہ یہ منبر اس جوش کے ساتھ ٹوٹ جائے گا لرزتے لرزتے یہ منبر ٹوٹ کر زمین پر جاپڑے گا اور ہمیں ڈر تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو گر کر چوٹ (مسند احمد حدیث نمبر : 5351) نہ آجائے.تو یہ آشَدَّ ذِكْرًا کا مضمون ہے جو حدیث سے ہمیں سمجھ آتا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے سمجھ آتا ہے کہ جب خدا کا ذکر آئے تو وہ ساری روح پر قبضہ کرلے اور انسان کے وجود میں ایک غیر معمولی شان اور جلال پیدا ہو جائے.اس کا وجود خدا کے ذکر سے لرزنے لگے اور ماحول کولرزہ براندام کرے.ایسی ریڈیائی لہریں پھیلا دے کہ جن تک وہ لہریں پہنچیں وہ بھی ان سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوکر اسی ذکر کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں.یہ ہے جو آشَدَّ ذِكْرًا کا مضمون ہے.اس کا جماعت احمدیہ کی موجودہ نسلوں کی تربیت کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے.اپنے بزرگ آبا واجداد کا ذکر اگلی نسلوں کے سامنے کرتے رہوتا اگلی نسلیں اس معیار پر قائم ہوسکیں میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے ایسے بزرگ آباؤ اجداد جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں یا آپ کے بعد خلافت اولی یا خلافت ثانیہ میں بیعتیں کی تھیں اور غیر معمولی دینی ترقیات حاصل کیں ، غیر معمولی قربانیاں دیں اور ان کا ذکر اگلی نسلیں بھول رہی ہیں اور ان کے ماں باپ بھی اس ذکر کو

Page 292

279 زندہ نہیں رکھتے نیچے وہ کتابوں کے پھول بنتے جارہے ہیں اور کتابیں بھی ایسی جن کو کم لوگ پڑھتے ہیں.پس یہ انداز جو ہے زندہ رہنے کا انداز نہیں ہے قرآن کریم نے ہمیں زندگی کا جو راز سمجھایا ہے اس کی رو سے آپ کو اپنے آباؤ اجداد کے ذکر کو لاز مازندہ رکھنا ہوگا.چنانچہ گزشتہ چند سالوں میں میں نے جماعتوں کو بار بار نصیحت کی کہ وہ سارے خاندان جن کے آباؤ اجداد میں صحابہ یا بزرگ تابعین تھے، اُن کو چاہئے کہ وہ اپنے خاندان کا ذکر خیر اپنی آئندہ نسلوں میں جاری کریں مگر افسوس ہے کہ ابھی تک کما حقہ توجہ نہیں دی گئی.مجھے سے جو خاندان ملنے آتے ہیں.ان بچوں سے جب میں پیار کی باتیں کرتا ہوں تو بسا اوقات یہ بھی پوچھا کرتا ہوں کہ تمہارے دادا کا نام کیا ہے؟ تمہارے نانا کا نام کیا ہے؟ پس وہ ابوامی یا ممی ڈیڈی تک ہی رہتے ہیں اور آگے نہیں چلتے.یہ بہت ہی خطرناک بات ہے.ماں باپ بھی سنتے ہیں تو اُن کے چہرے پر ہوائیاں نہیں اڑتیں بلکہ ہنس پڑتے ہیں کہ دیکھو جی اس کو تو اپنے نانا کا نام نہیں پتا ، اپنے دادا کا نام نہیں پتا.یہ کوئی لطیفہ تو نہیں.یہ تو المیہ ہے یہ تو بہت ہی درد ناک بات ہے ان کو تو یہ بات دیکھ کر لرز جانا چاہئے تھا کہ جن کے ذکر کو زندہ رکھنا حقیقت میں ضروری ہے جو آئندہ اُن کے اخلاق کی حفاظت کرے گا ان کے ذکر سے تو یہ لوگ غافل ہیں ان کو پتا ہی نہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد کون تھے، کیا ہوئے.انہوں نے دین کی خاطر کیا کیا قربانیاں کیں؟ پس پہلے ذِكْرِكُمْ آبَاءَ كُھ کے مضمون سے بات شروع کریں اور ان نیک لوگوں کے ذکر کو اپنی اپنی مجالس میں زندہ کریں.اپنی اپنی قوموں میں اُن کے ذکر کو زندہ کریں اور پھر ہر خاندان میں اس ذکر کو زندہ کریں.پھر جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے یہ ذکر لاز ما ذکر الہی میں تبدیل ہوگا کیونکہ ان کے ذکر کی تو جان ہی اللہ کے تعلق میں ہے.یہ وہ پاک نسلیں ہیں جو خدا کی ہو چکی تھیں ان کا خدا کے ساتھ کوئی تشخص دکھائی نہیں دیتا.اب حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کی بات کریں تو ان کے آباؤ اجداد ، خاندان، قومیت کا کسی قسم کا کوئی تصور ذہن میں نہیں آتا.ایک ایسا پاک آسمانی شہر راہ دکھائی دیتا ہے جو کلیۂ خدا کا ہو چکا تھا اور اُس نے اپنے خون کے ایک ایک قطرہ سے اپنی وفا ثابت کی ہے.اس کو ذِكُرِكُمْ آبَاءَكُم کہتے ہیں یعنی مذہبی اصطلاح میں آباء کا ذکر کرنا اور یہ ذکر تو خدا پر ختم ہوتا ہے اور خدا کے علاوہ اس ذکر کی حقیقت کوئی نہیں رہتی ، ذکر بنتا ہی نہیں.ان بزرگوں کا ذکر کر کے ناممکن ہے کہ خدا یاد نہ آئے.پس ان معنوں میں آپ اپنی اگلی نسلوں کی تربیت کریں مجھے پتا ہے کہ تربیت کے لئے بہت سی تقریریں ہوں گی ، مضامین لکھے جائیں گے نصیحتیں ہوں گی مگر ایسی تقریریں اور ایسی نصیحتیں جو علمی لحاظ سے کوشش کر کے تیار کی گئی ہوں اگر ان میں دل نہ ہو تو بے اثر ہوتی ہیں، کوئی اثر پیدا نہیں کرتیں.تقریر میں اثر پیدا کرنے کے لئے ایک لگن چاہئے جس میں ایک انسان کا سارا وجود اس مضمون میں شامل ہو جائے جو وہ پیش کر رہا ہے اس کے بغیر زبان میں اثر پیدا نہیں ہوسکتا اور یہ وہ ذکر ہے جو میں بتا رہا ہوں کہ اس ذکر کے

Page 293

280 ساتھ کوئی زبان بھی اثر کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی.کسی لمبی چوڑی تیاری اور محنت کی ضرورت نہیں ہے.صرف تاریخ کے اپنے ان اوراق کو کھولیں اور دیکھیں تو سہی کہ پہلے لوگ کیسے تھے اور کیا تھے؟ کن کن خاندانوں کے بزرگ کن کن قربانیوں کے بعد احمدیت میں داخل ہوئے اور احمدیت میں داخل ہونے کے بعد انہوں نے کیا کیا قربانیاں دیں، کس طرح وفا کے اعلیٰ نمونے دکھائے ، کس طرح آخری سانس تک وہ خدا کے ہور ہے اور خدا ہی کی خاطر وہ جیئے اور خدا ہی کی خاطر مرے.یہ وہ لوگ ہیں جن کے ذکر کو زندہ کرنا ضروری ہے.یہ وہ لوگ ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جو بے وفائی نہیں کیا کرتے.شاذ کے طور پر بہت ہی کم ارتداد کے کچھ نمو نے ان نسلوں میں ملتے ہیں اور وہ بھی اس وجہ سے کہ ان کے اندر دین داخل ہی نہیں ہوا تھا.دنیا کی خاطر یا کسی اور دھو کے میں آکر وہ دین میں داخل ہوئے ، خالی آئے اور خالی واپس چلے گئے لیکن بہت کم مثالیں ہیں.بھاری مثالیں وہ ہیں جو آخر وقت تک باوفا ر ہے اور ثابت قدم رہے لیکن آگے نسلوں میں آپ کو وہ بات یا دکھائی نہیں دیتی یا بعض نسلیں دین سے سرک کر دور ہٹ چکی ہیں اور کوئی رابطہ نہیں رہا.پس آج ضرورت ہے کہ ان کو کھینچ کر واپس لایا جائے اور ان کو خدا کی طرف واپس لانے کے لئے بہترین طریق اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھا دیا ہے ان سے خالی خدا کی بات کر کے دیکھیں ان میں کوئی دلچسپی نہ ہوگی.کئی ایسے لوگ ہیں جن سے میرا رابطہ ہو چکا ہے یعنی صوبہ سرحد کے دورے کرتا رہا ہوں، بنگلہ دیش کے دورے کرتا رہا ہوں اور سیالکوٹ وغیرہ کی ایسی کئی دیہاتی جماعتیں ہیں وہاں دوروں پر میں نے رابطہ کر کے دیکھا ہے کہ جو خشک سے ہو چکے ہوں، جن کے دل بجھ چکے ہوں، جن میں ولولہ باقی نہ رہا ہو.ان سے براہ راست خدا کے متعلق باتیں کریں، نصیحت کریں کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن اگر ان کو یہ بتائیں کہ تمہارا باپ فلاں تھا اور یہ یہ کیا کیا کرتا تھا.تمہارے باپ نے احمدیت کے لئے یہ قربانیاں دیں تو ان کی آنکھوں میں ایک شمع سی جلنے لگتی ہے، اچانک ایک جان پیدا ہو جاتی ہے، انہاک پیدا ہو جاتا ہے اور اس ذکر کے ساتھ پھر اللہ کے ذکر کی طرف ان کو منتقل کریں تو وہ بڑے شوق اور ذوق کے ساتھ آپ کے ساتھ قدم بہ قدم آگے بڑھتے ہیں.پس خدا تعالیٰ نے ان مردہ دلوں کو زندہ کرنے کا ایک راز ہمیں سکھا دیا ہے.صوبہ سرحد میں احمدیت صوبہ سرحد میں خصوصیت کے ساتھ ایسی بہت سی نسلیں پھیلی پڑی ہیں اور پنجاب میں اور بنگال میں اور اس طرح بعض دوسرے ممالک میں بھی موجود ہیں مثلاً یوگنڈا ہے جس میں آج اجتماع ہو رہا ہے وہاں بڑے بڑے، دین کے لئے عظیم الشان قربانی کرنے والے، خدمت دین میں منہمک رہ کر زندگی گزارنے والے وجود تھے اور ان کی تاریخ سے یوگنڈا کی تاریخ روشن ہے لیکن آگے اولا دیں یا ٹھنڈی پڑ گئیں یا کسی وجہ سے پیچھے ہٹ گئیں اور بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے جماعت سے تعلق کلیۂ تو ڑ لیا، بعض ایسے ہیں جو ایسا تعلق

Page 294

281 رکھ رہے ہیں جو گویا نہ ہونے کے برابر ہے لیکن جب بھی ان سے رابطہ ہوا ہے اُن کے آبا ؤ اجداد کے ذکر سے ان کو واپس آنے کی نصیحت کی ہے تو خدا کے فضل سے نیک اثر پیدا ہوا ہے یوگنڈا کے دورہ کے وقت بھی ، کینیڈا کے دورہ کے وقت بھی ایسے خاندان مجھے ملے کہ جب ان کے آباء کا ذکر کیا گیا تو ایک دم آنکھیں چمک اُٹھیں اور ایک ذاتی تعلق پیدا ہوتا ہوا دکھائی دے رہا تھا اور پھر احمدیت کے ساتھ تعلق ساتھ ساتھ قائم ہوتا چلا گیا تو یہ ایک گر ہے جو قرآن نے ہمیں سکھایا ہے اسے استعمال کریں پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی آئندہ نسلوں کی اعلیٰ اقدار کی حفاظت ہوگی اور وہ اقدار جو مٹ چکی ہیں انہیں از سرنو زندہ کیا جا سکے گا.مثال کے طور پر میں نے صوبہ سرحد کے بعض بزرگوں کے نام پیش نظر رکھے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دفعہ صوبہ سرحد کے بزرگوں کا خصوصیت سے ذکر فرمایا اور یہ بیان کیا کہ ان کے علم کے مطابق کوئی اور ایسا صوبہ، کوئی اور ایسا ملک نہیں جس میں صوبہ سرحد کی طرح بڑے لوگوں نے احمدیت کی طرف توجہ کی ہو اور جس کثرت کے ساتھ صوبہ سرحد میں بڑے بڑے لوگوں نے احمدیت کی طرف توجہ کی ہے اور خدمت دین میں اعلیٰ نمونے قائم کیے ہیں حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں کہ اس کی کوئی اور مثال دکھائی نہیں دیتی.اس مضمون کو پکڑتے ہوئے میں آج بعض مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ خصوصیت سے صوبہ سرحد جہاں یہ اجتماع ہورہا ہے ان کو اپنے آباء کا ذکر سن کو خوشی ہو اور طبیعت میں ولولہ پیدا ہو اور وہ اپنی آئندہ نسلوں کو بتائیں کہ ہم کون تھے اور ہماری زندگی کا پانی کن پاک چشموں سے پھوٹا تھا جو رفتہ رفتہ اب دریا بنتا چلا جارہا ہے.بعض چھوٹے چھوٹے خاندان پھیلتے پھیلتے اب اس طرح پھیل چکے ہیں کہ سب دنیا میں پھیل چکے ہیں اور مستحکم ہو چکے ہیں.تو اس رنگ میں اس ذکر خیر سے میں امید رکھتا ہو کہ ان کے اندر ایک نئی زندگی پیدا ہوگی اور آج میں نے یہ جو گاؤن پہنا ہوا ہے یہ بھی خصوصیت سے اس وجہ سے پہنا ہے کہ یہ صوبہ سرحد کا گاؤن ہے.میں نے سوچا کہ ان کو سرحد کی تاریخ یاد کراتے ہوئے گاؤن بھی وہ بہنوں جو ان کو دکھائی دے کہ یہ ہمارے ملک کا ہے اور زیادہ اپنائیت محسوس ہو.اب میں حضرت مصلح موعود " کا یہ اقتباس آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں آپ فرماتے ہیں.اس صوبہ میں ( یعنی صوبہ سرحد میں ) بڑے بڑے خاندانوں کے لوگ احمدی ہوئے ہیں.پنجاب کے احمدیوں میں اس قسم کا اثر ورسوخ رکھنے والے ہزار میں سے ایک بھی نہیں ( یہ دیکھیں، کتنا فرق نمایاں آپ نے دکھایا ) لیکن صوبہ سرحد میں ہر سواحمد یوں میں سے ایک دوا ایسے ہیں جو چوٹی کے خاندانوں میں سے ہیں.پنجاب میں تو کوئی ایک دو ہو گئے جیسے نواب محمد علی خان صاحب رئیس یا ملک عمر علی صاحب ہیں مگر صوبہ سرحد میں خاندانی وجاہت اور اثر و رسوخ رکھنے والے کئی ہیں.مثلاً صاحبزادہ عبدالقیوم صاحب کے بھائی بہت بڑے خاندان میں سے ہیں ( مراد حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب سے ہے جو صاحبزادہ عبدالحمید

Page 295

282 صاحب، صاحبزادہ عبدالسلام صاحب، صاحبزادہ عبدالرشید صاحب کے اور ان کے بہنوں بھائیوں کے والد تھے اور صوبہ سرحد کا بہت ہی معزز خاندان تھا اور ان کے نیک اثرات بڑی مدت تک سارے علاقے پر قائم رہے اور اس خاندان کی عزتیں رہیں.اللہ بہتر جانتا ہے کہ پھر کیوں اور کیا ادبار آیا کہ بظاہر بچے مخلص بھی ہیں لیکن پھر بھی وہ اثر ورسوخ باقی نہیں رہا کوئی اندرونی کمزوری ایسی ہوگئی جس کے نتیجہ میں یہ رسوخ مٹ گئے ورنہ اللہ تعالیٰ نیک اثرات کو مٹنے نہیں دیا کرتا جب تک انسان کے اندر کوئی خامیاں نہ پیدا ہو جائیں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کیا ہوا لیکن ان کو کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے بزرگ نیک آباء کی اعلیٰ رسموں کو مضبوطی.دوبارہ اختیار کریں اور زندہ کریں اور پھر دیکھیں کہ دنیوی اثر خود بخود غلاموں کی طرح پیچھے چلا آئے گا.دنیا وی اثر کی خاطر نہیں کرنا بلکہ قرآنی بیان کے مطابق اُن آباء کے ذکر کو زندہ کرنا ہے جن کا ذکر قرآن زندہ فرماتا ہے وہ ذکر زندہ کرنا ہے جو ذکر الہی کی طرف لے جاتا ہے اور پھر أَشَدَّ ذِكْرًا بن کر خدا کی یاد میں منتقل ہو جاتا ہے.دنیا کے اثرات اور دنیا کے رسوخ تو پھر غلاموں اور لونڈیوں کی طرح پیچھے پیچھے چلتے ہیں انہوں نے تو آنا ہی ہے." پھر فرماتے ہیں کہ " اسی طرح دلاور خان صاحب ہیں، محمد ا کرم صاحب ہیں، محمد اکبر صاحب ہیں، احیاء الدین صاحب ہیں (یہاں جنرل احیاء الدین مراد ہیں)، محمد علی خان صاحب ہیں، ملک عادل شاہ صاحب ہیں، امیر اللہ خان صاحب ہیں، عبدالحمید صاحب والے ہیں.گویا چند سواحمدیوں میں سے ایک درجن کے قریب ایسے احمدی ہیں جو بھاری اثر و رسوخ رکھنے والے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں اس نسبت کے لحاظ سے باقی ہندوستان میں با اثر خاندانوں میں سے کم احمدی ہوئے ہیں." (الفضل قادیان 9 دسمبر 1944 ء) احمدیت کی صوبہ سرحد میں تاریخ، جماعت احمدیہ کے آغاز کے ساتھ اکٹھی شروع ہوتی ہے پہلے صحابی جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر 1889ء میں بیعت کی اور لدھیانہ کی بیعت میں شامل ہوئے ان کا نام حضرت مولوی ابوالخیر عبداللہ صاحب تنگے براہ تھا.یہ تنگے براہ جگہ کا نام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی نہ صرف بیعت لی بلکہ ان کو آگے بیعت لینے کی اجازت دی اور اپنا نمائندہ مقررفرمایا کہ میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ میری نمائندگی میں میری بیعت لوگوں سے لیا کرو.ان کے آگے کوئی اولاد نہیں تھی اور اس میں یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص احسان تھا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے روحانی اولا د کثرت سے عطا فرما دی اور جسمانی اولاد کی کمی اس طرح پوری ہوگئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اور آپ کی روحانی اولاد کے درمیان ایک واسطہ بن گئے.دیگر صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ

Page 296

283 الصلوۃ والسلام میں خان بہادر قاضی عبد القادر خان صاحب پشاور شہر کا ذکر بھی اہمیت رکھتا ہے.آپ نے 25 اگست 1889ء میں بیعت کی.بیعت لدھیانہ میں تو شامل نہیں ہوئے لیکن اسی سال بیعت کر لی.قاضی محمد حسن صاحب ” خان العلماء جو پشاور شہر کے رئیس تھے اور وزیر افغانستان رہے ہیں ان کے یہ پوتے تھے.خان بہادر قاضی عبد القادر خان ان کی اولاد کے متعلق ہمیں علم نہیں کہ کہاں گئی ، کیا ہوا؟ یہ سرحد کی جماعتوں کا کام ہے کہ ان کو تلاش کریں.پھر حضرت مولانا غلام حسن خان صاحب پشاوری ہیں جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے خسر تھے.حضرت قاضی عبد الرحمن صاحب محلہ باقر شاہ پشاور ، حضرت مولانا غلام حسین خان صاحب کی بیعت 18 مئی 1890ء کی ہے اور حضرت قاضی عبد الرحمن کی بیعت 28 دسمبر 1890 ء کی ہے.پھر حضرت سید احمد شاہ صاحب میر بادشاہ صاحب پشاور ہیں.انہوں نے 20 فروری 1892 ء کو بیعت کی.پھر سید الشہداء حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں.آپ نے دسمبر 1900ء میں بیعت کی.پھر حضرت مولوی حبیب اللہ صاحب بانڈی ڈھونڈاں ایبٹ آباد بیعت اکتوبر 1901ء پھر حضرت مولوی محمد یحیی صاحب دیپ گراں ہزارہ بیعت 1902 ء ، یہ ڈاکٹر سعید احمد صاحب جو لاہوری جماعت کے موجودہ امیر ہیں ان کے والد تھے.پھر قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی ، ڈاکٹر قاضی مسعود احمد صاحب جو آج کل شکاگو میں ہیں ان کے والد ہیں اور ان کی نسل بھی اللہ کے فضل سے احمدیت پر مضبوطی سے قائم ہے اور اکثر نیکیوں میں آگے آگے ہے.پھر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب ہیں جن کو شیر خدا کا لقب عطا ہوا.انہوں نے مئی 1902ء میں بیعت کی تھی.پھر مکرم امیر اللہ خان صاحب صحابی آف اسماعیلہ.ان کی اولاد میں ایک کے سوا باقی سب خدا کے فضل سے مخلص احمدی ہیں.ہمارے بشیر احمد خان رفیق صاحب جو امام صاحب کہلاتے ہیں ان کی بیگم کے دادا تھے.دیگر بزرگان جن کی اولاد مخلص احمدی ہے یا اکثریت اللہ کے فضل سے اچھی مخلص احمدی ہے ان میں قاضی محمد شفیق صاحب ہیں، حضرت مولوی محمد الیاس صاحب ہیں جو ڈاکٹر حامد اللہ خاں صاحب کے دادا اور بشیر احمد خان رفیق صاحب کے نانا تھے ، خان بہادر دلاور خان صاحب کا ذکر ہو چکا ہے، صاحبزادہ ہاشم جان صاحب مجد دی ان کی ایک ہی بیٹی ہے وہ خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور بڑی مخلص احمدی ہیں.مرزا غلام حید ر صاحب ہمارے مرزا مقصود احمد صاحب وغیرہ کے والد تھے، یہ مشہور خاندان ہے.کرنل صاحبزادہ احمد خانصاحب ساکن مٹھا ضلع مردان، صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب بازید خیل منشی محمد دانش مند خانصاحب جو بشیر رفیق خان صاحب کے والد تھے ( فوت ہو چکے ہیں )، مکرم محمد اکرم خان صاحب درانی ، ان کے بیٹے محمد باشم خان صاحب کے بیٹے کی شادی چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی بیٹی سے ہوئی تھی.فقیر محمد خان صاحب ایگزیکٹیو انجینئر خان بہادر محد علی خان صاحب بنگش آف کو ہاٹ ، مکرم محمد خواص خانصاحب آف رشکی جو ڈاکٹر

Page 297

284 سعید خانصاحب کے والد تھے، عبد القیوم خان صاحب آف شیخ محمدی ، قاضی محمد جان صاحب آف ہوتی ، آدم خان صاحب جو سابق امیر ضلع مردان تھے، اب بھی خدا کے فضل سے زندہ اور بہت ہی مخلص فدائی دین کا علم رکھنے والے بزرگ ہیں.صوفی غلام محمد صاحب آف ڈیرہ اسماعیل خان صاحب، ان کی اولاد یہاں انگلستان میں موجود ہے.صاحبزادہ عبداللطیف صاحب آف ٹوپی جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.ان کے علاوہ اور بھی بہت سے ہیں جن کی اولاد کا تعلق یا خلافت احمدیہ سے کٹ کر لاہوری جماعت سے ہو گیا یا سرکتے سرکتے وہ جماعت احمدیہ کے دائرہ سے باہر نکل گئے.ان بزرگوں کی ایک لمبی فہرست ہے اور اس وقت وقت نہیں کہ میں وہ ساری فہرست پیش کر سکوں.بہت سے ایسے بھی ہیں جن کا ہماری تاریخ میں ذکر نہیں ملتا لیکن صوبہ سرحد کے سفر کے دوران جب میری بڑے بڑے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں تو انہوں نے خود یہ تسلیم کیا اور بتایا کہ ان کے والد مخلص احمدی تھے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق ، سیاسی وجوہ کی بناپر مخفی رکھتے تھے اور جہاں تک ان کے عقائد کا تعلق ہے وہ نہ صرف احمدی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے.بعض ایسے بزرگ ہیں جو زندہ ہیں اور بڑے بڑے سیاسی مناصب پر پہنچے ہوئے ہیں ان کا نام لینا مناسب نہیں کیونکہ ان کے والد اپنی نیکی کے باوجود شرماتے تھے تو وہ تو پھر اور بھی زیادہ خفت محسوس کریں گے اور گھبرائیں گے کہ ہمیں کیوں احمدیت کی طرف منسوب کر دیا گیا مگر پرائیویٹ مجالس میں ذکر کرنا چاہئے وہی رستہ ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے.ساری دنیا میں ذِكُرُكُمْ آبَاءَ كُمُ کا سلسلہ جاری ہو جائے آباء کے ذکر سے خدا کے ذکر کی طرف ان کو منتقل کر دیں.آباء کا ذکر کرتے ہوئے ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھیں اور ذکر اللہ میں جا کر اپنی آخری منزل تک پہنچیں اور وہاں اپنے سفر کا اختتام کریں.یہ وہ طریق ہے جس سے ہم بہت سی کھوئی ہوئی اعلیٰ اقدار کو واپس لے سکتے ہیں، دوبارہ اختیار کر سکتے ہیں اور قوموں کی زندگی کا راز اس میں ہے اور قرآن کریم کی اس آیت نے بہت گہرا نفسیاتی نکتہ بیان فرمایا ہے.جس کا قوموں کے عروج اور زوال سے بڑا گہرا تعلق ہے.پس یوگنڈا ہو یا صوبہ سرحد کی جماعتیں ہوں یا پنجاب کی یا بنگلہ دیش کی جماعتیں ہوں یا ہندوستان وغیرہ دنیا میں اور جہاں جہاں بھی احمد یہ جماعتیں ہیں جن میں پہلی نسل کا تعلق صحابہ یا تابعین سے تھا وہ خصوصیت سے میرے پیش نظر ہیں ان کے علاوہ بھی جہاں تک میں نے نظر ڈالی ہے مثلاً افریقہ کے بعض ممالک میں ایسے بزرگ بھی ہیں جنہوں نے نہ صحابی دیکھا نہ تابعی سے تربیت حاصل کی مگر اخلاص میں غیر معمولی ترقی کر گئے اور اپنے علاقے میں اخلاص اور قربانی کی عظیم الشان مثالیں قائم کر گئے ہیں جو زندہ جاوید ہوں گی اور ایسے علاقوں میں ان سے بات چلانی چاہئے.

Page 298

285 پس تمام دنیا کی جماعتوں کو احمدی بزرگوں کی یادوں کو تازہ کرنے کی مہم چلانی چاہئے اور تمام تربیتی اجلاسوں میں ان کے ذکر خیر کو ایک لازمی حصہ بنا دینا چاہئے.سب سے زیادہ زور اس بات پر ہونا چاہئے کہ آنے والی نسلوں کو اپنے بزرگ آباؤ اجداد کے اعلیٰ کردار اور اعلیٰ اخلاق کا علم ہو.ان کی قربانیوں کا علم ہو اور ان کا ذکر کریں تو ان کا دل پچھلے اور ان کی محبت اللہ کی محبت میں تبدیل ہونے لگے.جن بزرگوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں سے بعض ایسے ہیں بلکہ بہت سے ایسے ہیں کہ ان کا ذکر جب آپ پڑھتے ہیں تو خواہ آپ کا ان سے کوئی خونی رشتہ نہ بھی ہو آپ کا دل ان کی محبت میں اچھلنے لگتا ہے.پس جن کا خونی رشتہ ہے ان کے اوپر تو ان کی مثالیں بہت گہرا اثر کریں گی.پس اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ قرآن کریم کے بیان فرمودہ اس اہم تربیتی نکتہ کو اچھی طرح سمجھ کر ذہن نشین کر کے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں اور ساری دنیا میں ذِكُرِكُمْ آبَاءَكُمْ کا ایک سلسلہ جاری وساری ہو جائے جو لازماً أَوْ أَشَدَّ ذِكْرً ا پر ختم ہو یعنی اللہ کے زیادہ شدید، زیادہ پُر جوش، زیادہ محبت والے ذکر پر اس کا انجام ہو." ہفت روزہ قادیان 3 جون 1993 صفحہ 3 تا 8) مجلس انصار اللہ کوکوشش کرنی چاہئے کہ احمدی نسلوں میں محنت کا احساس پیدا ہو (خطبہ جمعہ 7 مئی 1993ء) اب تو خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں ہر جمعہ کسی نہ کسی جماعت میں کوئی نہ کوئی ایسی تقریب منعقد ہورہی ہوتی ہے کہ ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس جمعہ پر ہماری تقریب کا بھی یا افتتاح کیا جائے یا اس کا ذکر ضرور ہو جائے.شروع شروع میں دل رکھنے کی خاطر مجبوراً ایسا کرنا پڑے گا مگر بالآخر یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جسے ادا کرنا میری طاقت سے باہر ہو جائے گا.واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعتیں روز بروز ترقی کر رہی ہیں چند سال پہلے تک دنیا بھر میں جماعتوں کی جو تعداد تھی اب اس سے تقریباً ڈیڑھ گئی ہو چکی ہے اور جماعتوں کے بڑھنے کے ساتھ اس قسم کی تقریبات میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے پھر جماعتی تقریبات ہیں.مجالس کی تقریبات ہیں جو انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ ، اطفال الاحمدیہ وغیرہ وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے شروع میں تو دلداری کی خاطر اور شوق بڑھانے کے لئے ان خواہشات کو ضرور پورا کرنا ہوگا.آج مجلس انصاراللہ یوالیس اے کی طرف سے یہ درخواست ملی ہے کہ کل یعنی ہفتہ کے روز سے ہمارا سالانہ اجتماع شروع ہو رہا ہے اور ساتھ ہی مجلس شوریٰ بھی ہوگی اس موقع پر ہمارے لئے خصوصی پیغام

Page 299

286 دیں.پہلا خصوصی پیغام تو یہی ہے کہ اللہ مبارک فرمائے اور کثرت کے ساتھ انصار کو اس میں شمولیت کی اور اس اجتماع سے استفادہ کی توفیق بخشے.اجتماع میں شمولیت سے ایک رونق سی پیدا ہو جاتی ہے، دلوں میں ولولے سے اٹھتے ہیں اور انسان دو تین دن کے عرصہ میں ہی وقتا فوقتا بلکہ ساتھ یہ ساتھ ایمان میں ترقی کرتا ہوا محسوس کرتا ہے اور اجتماع کے دوران دلوں کی جو کیفیت ہوتی ہے اگر وہ سارا سال رہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت بہت تیزی کے ساتھ ترقی کرے گی.پس میری نصیحت یہی ہے کہ ان کیفیات کی حفاظت کیا کریں، یہ مقدس امانتیں ہیں جو آپ کو جماعتی اجتماعات کے موقع پر عطا ہوتی ہیں خواہ وہ جلسہ سالانہ ہو یا دیگر ذیلی تنظیموں کی تقریبات ہوں سب احمدیوں کا یہ تجربہ ہے کہ دلوں میں غیر معمولی طور پر ایک تموج پیدا ہو جاتا ہے اور انسان اپنے آپ کو پہلے سے بہت زیادہ جماعت کے قریب پاتا ہے اور نیکیوں کے قریب پاتا ہے تو ان کی حفاظت کے لئے اس تموج کی حفاظت ضروری ہے.بعض نیکیاں ایسی ہیں جو انسان کو سنبھال لیتی ہیں اور حفاظت کرتی ہیں ، بعض نیکیاں ایسی ہیں جن کی حفاظت کرنی پڑتی ہے تب وہ حفاظت کرتی ہیں ایسی نیکیوں میں سے قرآن کریم نے نماز کی مثال دی ہے جیسا کہ میں نے گذشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا کہ حفظوا عَلَى الصَّلَواتِ (البقره: 239) تم نماز کے ساتھ ایسا سلوک کرو کہ تم نماز کی حفاظت کرو اور نماز تمہاری حفاظت کر رہی ہو.پس بہت سی ایسی نیکیاں ہیں جو حفاظت چاہتی ہیں اور مسلسل حفاظت چاہتی ہیں اور اس کے نتیجہ میں آپ کو ان کی طرف سے بھی مسلسل حفاظت ملے گی اور اس کا آخری تعلق دل کے جذبہ سے ہے اور ولولہ سے ہے اگر ولولہ جھاگ کی طرح اٹھے اور جھاگ کی طرح بیٹھ جائے.دو تین دن کے اندر سمٹ کرو ہیں جو لانی دکھائے اور وہیں ختم ہو جائے تو ایسے ولولہ سے مستقل فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا.پس میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر ایسے اجتماع کے وقت ہر فرد کو جو حصہ لے رہا ہو اس کو کچھ نہ کچھ فیصلے کرنے چاہئیں اور ان فیصلوں کی حفاظت کرنی چاہئے.ہر اجتماع کے موقع پر ہر شخص اگر یہ سوچے کہ میں نے جولذت پائی تھی اسے ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے کیا طریق ہے تو ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان نمازوں میں باقاعدہ ہو جائے.اجتماع کا نماز کے ساتھ جو تعلق ہے اس پر جتنا بھی زور دیا جائے کم ہے اجتماع کا نماز کے ساتھ جو یہ تعلق ہے اس پر جتنا بھی زور دیا جائے کم ہے.واقعہ یہ ہے کہ اگر اجتماع اللہ کی خاطر نہیں اور جو سرور آپ حاصل کر رہے ہیں وہ خدا کی خاطر نہیں تو اس اجتماع کا ولولہ ایک جھوٹا ولولہ ہے اس کو زندہ رکھنے کی ضرورت بھی کوئی نہیں ایسے اجتماع کا ولولہ تو ہر میلے پر پیدا ہوتا ہے بلکہ بعض میلوں پر جانے والے جانتے ہیں کہ ان کو دینی اجتماعات کے مقابل پر میلوں میں شامل ہونے کا بہت زیادہ مزا آرہا

Page 300

287 ہے.پس سب سے پہلے میری نصیحت یہ ہے کہ اپنے اس ولولے کا تجزیہ کریں اور دیکھیں کہ آپ کو خدا کے قرب کی وجہ سے لذت آئی تھی، نیکیوں کے قریب ہونے کے نتیجہ میں لذت ملی تھی یا محض اس لئے کہ ایک ہنگامہ تھا ایک رونق تھی ، اچھی نظمیں پڑھی گئیں.اچھی تقریریں ہوئیں اور ایک ذہنی لطف اٹھا کر آپ اپنے گھروں کو واپس لوٹے اگر قرب الہی کا احساس ہے اگر یہ احساس ہے کہ نیک لوگوں کی مجلس میں بیٹھ کر دن رات نیکی کی باتیں کر کے بہت مزا آیا ہے تو پھر لازماً اس جذبہ کی حفاظت ہونی چاہیئے اور یہ حفاظت نماز کر سکتی ہے اور کوئی چیز نہیں کر سکتی کیونکہ نماز میں روزانہ پانچ دفعہ آپ کو بار باران ولولوں کا اعادہ کرنا ہوتا ہے، پانچ مرتبہ خدا کے حضور حاضر ہونا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کرنا ہوتا ہے، ان تعلقات کو دن بدن بہتر بناتے چلے جانا ہے اگر ایسا ہو تو نمازیں زندہ رہتی ہیں.ایک معنی حفاظت کا یہ بھی ہے کیونکہ حفاظت کا شعور اور توجہ سے گہرا تعلق ہے ،غفلت اگر ہو تو حفاظت نہیں رہتی.میرا زندگی بھر کا یہ تجربہ ہے کہ نمازوں میں اگر ہمیشہ کوئی نہ کوئی نئی بات پیدا کرنے کی کوشش نہ کی جائے تو نمازوں سے انسان پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتا کیونکہ پانچ وقت کی نماز جہاں ایک نعمت ہے وہاں ایک پہلو سے اس میں ایک خطرہ بھی مضمر ہے جو چیز بار بار اسی طرح ویسے ہی جذبات کے ساتھ کی جائے اس سے طبیعت میں اکتاہٹ پیدا ہو جاتی ہے، اس سے غفلت پیدا ہو جاتی ہے، اس سے نیندسی آنے لگتی ہے اور انسان کوشش کرتا ہے کہ رسمی طور پر اس چیز سے گزر جاؤں اور پھر اپنے دلچسپ مشاغل کی طرف لوٹوں.یہ جو انسانی کیفیت ہے یہ اس بات کی مظہر ہے اور قطعی شہادت دے رہی ہے کہ آپ نے نماز کی حفاظت نہیں کی کیونکہ آپ نماز سے غافل ہو رہے ہیں اور جب آپ نماز سے غافل ہورہے ہوں تو حفاظت ہو ہی نہیں سکتی.حفاظت کا مضمون ہمہ وقت بیداری کا مضمون ہے حفاظت کا مضمون بتاتا ہے کہ اپنی نماز میں ہمیشہ ایسا تنوع پیدا کرتے چلے جائیں کہ اس میں ایک تازگی پیدا ہو، ایک لذت پیدا ہو، نماز سے ایک نیا تعارف حاصل ہو اور وہ جا گا ہواشعور نماز کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں پھر نماز آپ کی حفاظت کرتی ہے.اجتماع کے موقع پر خواہ وہ کیسا ہی اجتماع ہو جماعت کا کہہ لیں یا ذیلی تنظیموں کا، انسان کو ان باتوں پر غور کرنے اور ان تجارب کے نتیجہ میں کچھ مستقل فیصلے کرنے کا ایک موقع ضر وریل جاتا ہے.یوالیس اے مغربی تہذیب کی سب سے بلند و بالا چوٹی ہے میرا یہ مشورہ ہے کہ یونائیٹڈ سٹیٹس میں جو اجتماع ہو رہا ہے وہاں خصوصیت کے ساتھ اس ریزولیوشن کی ضرورت ہے، یہ عہد باندھنے کی ضرورت ہے کہ ہم روز مرہ خدا کے قریب ہونے کی کوشش کریں گے کیونکہ خدا کے قریب ہونے کی کوشش تو ہر جگہ ضروری ہے لیکن بعض جگہ یہ زندگی اور موت کا بہت زیادہ مسئلہ بن جاتی ہے.ایسے غریب معاشرے جہاں خدا سے بد کانے اور دور ہٹانے کے سامان کم ہیں وہاں غفلت کے نتیجہ میں

Page 301

288 فوری ہلاکت واقع نہیں ہوا کرتی.غفلت کی حالت میں آپ رہ بھی سکتے ہیں کیونکہ اتنے لٹیرے نہیں ہیں ، اتنے ڈا کو نہیں ہیں اس لئے خطرات کم ہیں لیکن یونائٹیڈ سٹیٹس مغربی تہذیب کی سب سے بلند و بالا چوٹی ہے اور مغربی تہذیب میں مذہب کو نکال کر جو بدیاں پائی جاتی ہیں وہ تمام خدا سے دوری کی بدیاں ہیں.ان بدیوں کی پہچان یہ ہے کہ انسان خدا سے جتنا دور ہو اتنا ہی مادیت میں لذت پاتا ہے اور خدا کے قرب سے گھبراتا ہے.جتنا وہ اپنی لذت گاہوں کے قریب جاتا ہے خدا کے تصور سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور ان لذتوں کا ایسا عادی ہو جاتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں پھر خدا کا قرب تکلیف دینے لگتا ہے.بعض باتیں رفتہ رفتہ ہو رہی ہوتی ہیں اور آپ کو پتا بھی نہیں لگتا کہ ہم سرکتے سرکتے کہاں جا پہنچے ہیں اور آگے ہمارا رخ کس طرف ہے.اپنے بچوں پر نظر رکھیں میں نے پہلے ایک دفعہ مثال دی تھی کہ اپنے بچوں پر نظر رکھ کر دیکھیں کہ ٹیلی ویژن پر وہ پروگرام دیکھ رہے ہوں اور ان کے کان میں آواز پڑے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے نماز پڑھو تو ان کے چہرے پر جور د عمل ہے اس کا مطالعہ کر کے دیکھیں بعض ایسے ردعمل ہوں گے کہ جو پڑھ کر والدین کے ہوش اڑ جانے چاہئیں کیونکہ وہ ان کی قطعی ہلاکت کی خبر دے رہے ہوں گے وہ وہاں سے ایسی بیزاری سے اٹھیں گے کہ کیا عذاب ، کیا مصیبت ڈالی ہوئی ہے.ہم جب کوئی پروگرام دیکھ رہے ہوتے ہیں تو آواز پڑ جاتی ہے کہ اٹھو جی نماز پڑھو یہ کرو تو وہ کرو.یہ رد عمل بعض دفعہ دبا ہوا صرف اداؤں سے معلوم ہوتا ہے بعض دفعہ لفظوں سے ظاہر ہو جاتا ہے اور ایسے بچے انتظار کرتے ہیں کہ جب بھی ماں باپ کے دائرہ اثر سے باہر جائیں تو پھر اپنی مرضی کے رستے تلاش کریں اپنی مرضی کی دلچسپیوں میں حصہ لیں اور یہ جو ہلاکت ہے یہ سب سے زیادہ مغرب میں ہماری نسلوں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہی ہے اور یہ وہ ہلاکت ہے جو سب سے زیادہ امریکہ میں پل رہی ہے اور وہاں سے پھر باقی ممالک کو ایکسپورٹ ہوتی ہے.نئی دنیا نے تفتیش کے جتنے ذرائع ایجاد کئے ہیں ان کی پیداوار کی سب سے بڑی منڈی امریکہ ہے اس منڈی سے یہ مال ہول سیل خرید کر پھر غیر ممالک کو بھیجا جاتا ہے.میں نے یہ بات جو چند لفظوں میں بیان کی ہے اس پر آپ غور کر کے دیکھیں تو تمام تفاصیل میں یہ بات درست نکلے گی.پس امریکہ جیسے ملک میں رہتے ہوئے جب آپ اجتماعات منعقد کرتے ہیں، انصار کے ہوں یالجنہ کے یا کسی اور کے تو دیکھنا یہ ہے کہ ان اجتماعات سے آپ کو باقی رہنے والا کیا فائدہ حاصل ہوا.تمام دوسری تقریریں جو مختلف موضوعات پر ہیں وہ اچھی ہوں گی لیکن سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکہ میں رہتے ہوئے اخلاقی قدروں کو جو خطرات درپیش ہیں، ہماری آئندہ نسلوں کو جو خطرات درپیش ہیں ان کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہوئے سب سے زیادہ زیر بحث لایا جائے اور اس کے متعلق ذرائع اختیار

Page 302

289 کئے جائیں تدبیریں سوچی جائیں ان پر دائما عمل کرنے کے منصوبے بنائے جائیں اور پھر وقتا فوقتا جائزہ لینے کا انتظام بنایا اور نافذ کیا جائے.یہ سارے انتظامات جن کا میں ذکر کر رہا ہوں ان کا خلاصہ وہی ہے جو میں بیان کر چکا ہوں کہ قرب الہی کی کوشش کی جائے اور نمازوں کو قائم کیا جائے اور نمازوں کو قائم کرنے میں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا نماز میں ایسی لذت پیدا کرنا ضروری ہے یا نماز سے ایسا تعلق باندھنا ضروری ہے کہ دیگر تعلقات اس کے مقابل پر پیچ ہو جائیں.یہ اعلیٰ مقصد جب تک حاصل نہیں ہوتا نمازی محفوظ نہیں ہے کیونکہ اس کی نمازیں محفوظ نہیں ہیں اور یہ اعلیٰ مقصد حاصل کرنے میں بڑی جدو جہد کی ضرورت پڑتی ہے.اس ضمن میں جو خطرات مغرب کی دنیا میں ہیں وہ مشرقی دنیا سے بہت ہی زیادہ بھیا نک ہیں کیونکہ دو طرح کے فتنے یہاں بے دھڑک گھر گھر میں داخل ہو چکے ہیں اور ہر گھر میں وہ کھیل کھیل رہے ہیں اور کوئی ان کو روکنے والا نہیں ہے.مغربی آزادی کے تصور کا ایک خطر ناک فتنہ ان فتنوں میں سے ایک مغربی آزادی کا تصور ہے.ایسا غیر متوازن تصور ہے کہ اگر آپ اس کا تجزیہ کر کے دیکھیں تو آپ کو حیرت ہوگی کہ کیسا جاہلانہ خیال ہے لیکن ہماری نسلوں کو اسی جاہلانہ خیال سے مذہب سے دور پھینکا جاتا ہے.ان ممالک میں اور خصوصاً امریکہ میں جب بچہ جوان ہورہا ہو یا بیٹی بڑی ہورہی ہو اور بلوغت کی عمر کو پہنچ رہی ہو تو اس کے سکول کی طرف سے اس کے گرد و پیش کی طرف سے اس کے دوستوں کی طرف سے اس کو پیغام ملتا ہے کہ مبارک ہو اب تم آزاد ہورہے ہو.اے بچواب تم آزادی کے قریب پہنچ رہے ہو اور اس عمر میں داخل ہور ہے ہو کہ تمہیں اپنے ماں باپ کی اقدار کی پیروی کرنے کی ، مذہبی اقدار کی پیروی کرنے کی اخلاقی قدروں کی پیروی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.یہ ساری فرسودہ باتیں ہیں.اس وقت تک یہ تم پر لازم ہیں جب تک تم ماں باپ کے گھر میں رہنے کے پابند ہو جب تک ان کو کچھ اختیار ہے کہ تمہاری اخلاقی تعمیر میں کچھ کوشش کریں.اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ گئے اب تم آزاد ہو جس کے ساتھ چاہو راتیں بسر کرو جو چاہو گند کرو جس قسم کے ٹیکے لگوانے ہیں لگواؤ یہ دنیا چند روزہ ہے جیسے عیش کرنے ہیں عیش کر لو تمہیں اب کوئی پوچھ نہیں سکتا کوئی روک نہیں سکتا تم مادر پدر آزاد ہو.اب مادر پدر آزاد ہونے کا جو یہ محاورہ ہے یہ اردو کا محاورہ ہے اور اس زمانہ میں بنا تھا جب مادر پدر آزاد ہوتا ہی کوئی نہ تھا کوئی قسمت کا مارا کہیں آزاد ہو جا تا ہوگا لیکن یوں لگتا ہے جیسے پیشگوئی کی گئی تھی اور یہ پیشگوئی سب سے زیادہ امریکہ پر صادق آ رہی ہے.وہاں پر بچہ بلوغت سے پہلے بھی مادر پدر آزاد ہونے کی کوشش کرتا ہے، نہ ماں کا اثر رہے نہ باپ کا اثر رہے اور معاشرہ اس کو یہ دھوکہ دیتا ہے اور شیطان اس کے کانوں میں یہ بات پھونکتا ہے کہ تم آزاد ہو اب تمہیں ان پابندیوں کی کیا ضرورت ہے.

Page 303

290 اس آواز کا جھوٹ اور فریب ایک اور آواز سے ظاہر ہوتا ہے جو ساتھ ہی کانوں میں پڑتی ہے اور وہ قانون کی آواز ہے.وہ آواز یہ کہتی ہے کہ دیکھو جو بلوغت سے پہلے انسانوں کے بنائے ہوئے قانون تو ڑا کرتے تھے ان کی سزا کم ہوا کرتی تھی ان میں تم پوری طرح ذمہ دار نہیں تھے.لیکن اب تم ایسی عمر کو پہنچ رہے ہو کہ خبر دار جوتم نے کبھی قانون سے باہر قدم رکھا.ہمارے بنائے ہوئے قوانین یعنی انسانی قوانین کو اتنی طاقت ہے اتنی عظمت ہے کہ اب بلوغت کی عمر کے بعد ان کو توڑنے کا بھی کبھی تصور نہ کرنا ورنہ پہلے اگر تمہیں قتل کے الزام میں وقتی معمولی سزائیں دی جاتی تھیں (اگر قتل ثابت ہو جائے تو ) کیونکہ بالغ عمر کونہیں پہنچے تھے.لیکن اب اگر قتل کرو گے تو عمر قید بھی ہو سکتی ہے اور بعض ریاستوں میں پھانسی بھی لگ سکتی ہے تو یہ ایک اور آواز اٹھ رہی ہے عمر وہی ہے وہی عمر کی ایک لکیر ہے جس سے قدم دوسری طرف جانے والا ہے خدا کے قانون کے مطابق ان قوموں کا یہ پیغام ہے کہ اے وہ بچے جو اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ رہے ہو مبارک ہو تم خدا کی خدائی سے آزاد کئے جاتے ہو.اخلاقی قیود کے متعلق ان کو پیغام ہے کہ اے بچو! جو اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ رہے ہو.تمہیں مبارک ہو کہ ہر قسم کی اخلاقی قدروں سے ہم تمہیں آزاد کرتے ہیں.معاشرتی اور تمدنی طور پر ان کو یہ پیغام ملتا ہے کہ اے بچو! جو اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ رہے ہو تم ماں باپ رشتے داروں ، پرانی خاندانی اور روایتی قدروں سے آزاد کئے جاتے ہو.تو اب ان باتوں کی پیروی کی کوئی ضرورت نہیں ہے جو چاہو کرتے پھرو اور قانون کی طرف سے یہ پیغام ہے کہ ہاں انسان کے بنائے ہوئے ہمارے ملک کے جو قوانین ہیں خبر دار جو ان کو ٹیڑھی نظر سے دیکھا.عمر ایک ہی ہے پیغام دو ہیں اسی کا نام دجل ہے اسی کا نام دھوکہ بازی ہے اگر بلوغت کی عمر کا تقاضا ذمہ داری تک کی عمر کو پہنچنا ہے.تو دونوں طرف برابر یہی پیغام ملنا چاہئے تھا دونوں آواز میں یکساں اور ہم آہنگ ہونی چاہئے تھیں اور ملک کے بڑے بڑے جو با اثر لوگ ہیں یا سکولوں کالجوں میں جو اساتذہ وغیرہ ہیں اور جو بچوں پر اثر رکھتے ہیں ان سب کو یہی کہنا چاہئے کہ دیکھو تم انسانی قانون کی زد میں آرہے ہو ا خلاقی قانون کی زد میں بھی پہلے سے بڑھ کر ہو.مذہبی قانون کی زد میں بھی پہلے سے بھی بڑھ کر ہوا اگر تم سچے ہو تو جس چیز کو تم سچائی سمجھتے ہو اس پر تمہیں پہلے سے بہت زیادہ ذمہ داری سے عمل کرنا ہو گا اس سے غرض نہیں ہے کہ تم عیسائی ہو یا مسلمان ہو یا ہندو یا سکھ ہولیکن تم اس سچائی کو جس کو تم نے قبول کر رکھا ہے سچائی سمجھ کر قبول کر رہے ہو.پس اعلیٰ انسانی قدروں کا تقاضا ہے، بالغ نظری کا تقاضا ہے کہ تم پہلے سے بڑھ کر ان چیزوں کی قدر کرو لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے بالکل بر عکس دو الگ الگ پیغام دنیا کو دیے جارہے ہیں.اجتماع کے موقع پر آپ کو یہ سوچنا چاہئے کہ آپ کس ملک میں ہیں اور اس ملک کے خطرات کیا کیا ہیں اور ان کی نشاندہی کرنی چاہئے اور یہ جو پیغام امریکہ کیلئے ہے یہی پیغام ساری مغربی دنیا کے لئے ہے بسا اوقات میں مشرقی ممالک کی خرابیوں کا ذکر کر کے ان کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتا ہوں اب مغربی دنیا میں ہونے والے اجتماع کے حوالے

Page 304

291 سے میں سمجھتا ہوں کہ آج کے خطبہ کو زیادہ تر اسی دائرہ میں محدود رکھنا چاہئے کہ مغربی دنیا میں اس احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو جو مختلف قسم کے چیلنج مل رہے ہیں، مختلف قسم کے خطرات درپیش ہیں ان کے متعلق ہمیں کس طرح جوابی کارروائی کرنی چاہئے.طریقہ کار جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہی ہے کہ خدا کی طرف واپس جانا ہوگا ، یہی خلاصہ ہے جو میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ اللہ کے بغیر کوئی حفاظت نہیں اور اللہ تک پہنچنے کے لئے نماز سے بہتر کوئی وسیلہ نہیں ہے.خدا کو دیکھنے کا اپنے اندراحساس پیدا کرو ان دو باتوں کے علاوہ اب میں تفصیل سے یہ بتارہا ہوں کہ خطرات کی نشاندہی کریں کیونکہ قرآن کریم نے ہمیں پہلے سے متنبہ کر رکھا ہے کہ شیطان ایسی اطراف سے، ایسی سمتوں سے ایسے لباس میں حملے کرتا ہے کہ تم اس کو دیکھ نہیں رہے ہوتے.پس دو ہی وجود ہیں جن کے متعلق قرآن کریم نے اس قسم کے لفظ استعمال کئے ہیں کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور تم اُسے نہیں دیکھ رہے.ایک خدا ہے جس کے متعلق بار بار ہمیں بتایا گیا کہ دیکھوتم نہ بھی دیکھ رہے ہو تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے تم اس سے غافل نہ رہنا اور دوسری طرف انتہا پر یہ بتا دیا گیا کہ شیطان بھی تمہیں دیکھ رہا ہے اور تم اسے نہیں دیکھ رہے یعنی اکثر آنکھیں بند کر لیتے ہو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس لئے تم جو مرضی کرتے پھرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ شعور پیدا کرو، خدا کو دیکھنے کا اپنے اندر احساس پیدا کرو، اپنی فکر کی نظر سے، اپنے جذبات کی نظر سے تم بھی خدا کو دیکھنے کی کوشش کرو اور اس پہلو سے جتنی رؤیت بڑھے گی اتنا زیادہ تم حفاظت میں آتے چلے جاؤ گے.دوسری طرف شیطان کو دیکھنے کی کوشش کرو سمجھو کہ وہ کس طرف سے حملہ آور ہوتا ہے عام دنیاوی زبان میں یہ ایسا ہی مضمون ہے کہ تمہیں پتا ہونا چاہئے کہ تمہارے حفاظت کے سامان کہاں واقع ہیں، کہاں تمہاری بندوقیں، کہاں تمہارے ہتھیار ، کہاں تمہارے ساتھ کے مددگار، کون سے مضبوط قلعے ہیں جن میں تم محفوظ ہو سکتے ہو وغیرہ وغیرہ اور دوسری طرف یہ پتا ہونا چاہئے کہ تمہاری کمزوریاں کون کون سی ہیں ، کہاں سے دشمن حملہ کر سکتا ہے.نقب کہاں سے لگ سکتی ہے کیسے ڈا کہ پڑ سکتا ہے کون سے غفلت کے ایسے لمحات ہیں جن میں عام طور پر انسان سو جاتا ہے اور دشمن بیدار ہو جاتا ہے تو مضمون یہی ہے جو بیان ہوا ہے لیکن مذہبی اصطلاحوں میں وہ باتیں کی گئی ہیں.پس آپ کو شیطان کے متعلق نگاہ رکھنی چاہئے کہ کہاں سے حملہ آور ہو گا ان باتوں کی نشان دہی کرتے ہوئے میں نے ایک مثال دی ہے ایک آپ پر اور آپ کی نسلوں پر حملہ کرے گا کہ تم بالغ ہو چکے ہو آزاد ہو خدا کا قانون اب تمہیں پابند نہیں کر سکتا تمہاری خاندانی روایات کی اب کوئی قیمت نہیں رہی جو چاہو کرتے پھرو.یہ جھوٹ ہے جس کے متعلق بچوں کو سمجھانا ضروری ہے یہ ایسا جھوٹ ہے جس کے متعلق بہت چھوٹی عمر سے بچوں متنبہ کرنا ضروری ہے اور سمجھا کر ان کو ہم خیال بنانا ضروری ہے ورنہ اگر پہلے سے ہی ان کی ذہنی تیاری آپ نے نہ کی تو وہ ہاتھ

Page 305

292 سے نکل چکے ہوں گے پھر وہ ان کی بات مانیں گے اور آپ کی رڈ کردیں گے کیونکہ غیر کی بات میں ان کے نفس کی تمنائیں ساتھ شامل ہیں.غیر وہ باتیں کرتا ہے جس کی طرف نفس کا رجحان اور بہاؤ ہے انسان اس طرف جانا چاہتا ہے جس طرف بلایا جارہا ہے اور دوسری طرف وہ ہے جہاں جانا نہیں چاہتا یعنی مشکل کام ہے.بے لذت کام ہے ایک بوجھ ہے طبیعت پر اور جذبات کی کئی قسم کی قربانی کرنی پڑتی ہے.پس خلاصۂ ہماری تربیت کے مسائل یہی ہیں ان پر مزید تفصیل کے ساتھ نظر رکھنا اور ہر سوسائٹی کی طرف سے جو خطرات در پیش ہیں ان کو پیش نظر رکھ کر پیش بندی کرنا اور سوراخوں کو بند کرنا یہ رابطوا (ال عمران : 201) کے تحت قرآنی تعلیم ہے جس کے بڑے وسیع معنی ہیں.خطرات کی نشاندہی کرو اور ان کے داخل ہونے کے سوراخوں کو بند کرلو یہ بھی پیغام ہے کہ جن جن ملکوں میں تم رہتے ہو اور جن جن سوسائٹیوں میں تم بستے ہو وہاں کے خصوصی خطرات کی نشاندہی کرو اور ان سوراخوں کو بند کر لو جہاں سے وہ خطرات داخل ہوا کرتے ہیں جیسے چوہوں کے بلوں کو بند کیا جاتا ہے جیسے ان سوراخوں کو بند کیا جاتا ہے جہاں سے سانپ بچھو داخل ہو جایا کرتے ہیں اسی طرح انسانی اخلاقی دنیا کا حال ہے یہ واقعہ جانور ہیں جو آیا کرتے ہیں.فرضی باتیں نہیں ہیں اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ شیطانی نظام کن معنوں میں کس طرح وسعت پذیر ہے.کہ ہر حال میں کسی نہ کسی طرح انسان تک پہنچ جاتا ہے.اللہ بہتر جانتا ہے کہ کوئی ایسا شیطان ظاہری طور پر الگ وجود ہے بھی یا نہیں یا ہر شیطان انسان کے نفس میں ہی ہے ان بحثوں سے الگ یہ بات قطعی ہے کہ شیطان ہے ضر ور خواہ وہ خون میں دوڑ رہا ہو یا با ہر سے حملے کر رہا ہو اس کے حملے دکھائی دیتے ہیں اور نظر آتے ہیں اس کے وسوسے انسان ہر روز سنتا ہے اور ہر روز اکثر ان کے حق میں جواب بھی دے دیتا ہے، ہر قسم کے وسو سے جو نیکی سے بدی کی طرف کھینچتے ہیں وہ آنکھ کھلنے سے شروع ہو کر رات آنکھ لگنے تک جاری رہتے ہیں اور پھر آنکھ لگنے کے بعد بھی وہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے کہ جو لوگ بد وساوس کا شکار رہتے ہیں بری تمنائیں پالتے ہوئے دن بسر کرتے ہیں آنکھ لگنے کے بعد نیند کے بعد بھی ان کی خواہیں اسی مضمون کی چلتی ہیں.وہ جو دن کے وقت کچھ کمی رہ گئی تھی وہ خوابوں کی دنیا میں پوری ہو جاتی ہے خواہ وہ خواہیں یا در ہیں یا نہ رہیں لیکن یہ ایک طے شدہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جیسی سوچیں لے کر انسان سوتا ہے ویسی ہی اس کو خوا میں بھی آتی رہتی ہیں اور پہلے جو شعوری پیغام ملا کرتے تھے اب وہ پیغام تحت الشعور میں ملنے شروع ہوتے ہیں اور بعض دفعہ وہ زیادہ خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ تحت الشعور کے پیغام اور زیادہ پوشیدہ ہو جاتے ہیں.جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ شیطان وہاں سے حملے کرتا ہے جہاں سے تم دیکھ نہیں رہے.پس دن کے جو خیالات ہیں ان میں انسان کسی حد تک واقف ہوتا ہے کہ ہاں مجھے بدی کا پیغام ملا 600

Page 306

293 ہے بدی کی طرف میرا رجحان ہوا ہے لیکن ان باتوں کو سوچتے سوچتے جب آپ سو جاتے ہیں تو سوتے ہوئے تحت الشعور میں جو ہلچل مچتی ہے اور تمنائیں آپ کو خاص سمتوں میں روانہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں آپ کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے.آپ نیند سے بظاہر بڑے مزے سے آنکھیں ملتے ہوئے بیدار ہوتے ہیں اور ایک نیا دن شروع کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ بعض دفعہ رات کے بھوت اس نئے دن میں بھی آپ کا تعاقب کر رہے ہوتے ہیں، ساتھ چل رہے ہوتے ہیں اور وہ دکھائی نہیں دیتے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے نفس میں بعض بدیاں کرنے کے فیصلے ہو چکے ہوتے ہیں.لاشعوری طور پر ہو چکے ہوتے ہیں اور آپ کو پتا بھی نہیں ہوتا کہ میرے نفس نے رات کیا فیصلے کئے ہیں.لیکن آئندہ جب آپ کو آزمایا جاتا ہے تو وہ رات کے فیصلے دن کے فیصلے بن جاتے ہیں.پھر آپ شعوری طور پر وہی حکم مانتے ہیں جو آپ کا لاشعور آپ کو دے رہا ہے.پس یہ بہت ہی گہرا مسئلہ ہے جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھا ہے کہ شیطان وہاں سے حملے کرتا ہے جہاں سے دکھائی نہیں دیتا.مومن کا کام ہے کہ ان جگہوں کی نشان دہی کرے ، ان کو پہچانے اور ان کے مقابل پر مستعد رہے اور تمام دفاعی منصوبے بنائے اور حکمت کے ساتھ ان تمام سوراخوں کو بند کرے جہاں سے سانپ بچھو اور دیگر موذی جانور داخل ہوا کرتے ہیں.شادی کا امریکی قانون بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو مغرب میں عام ہوتی جارہی ہیں لیکن امریکہ میں وہ بنتی ہیں اور وہیں سے اکثر باقی دنیا کو وہ برآمد کی جاتی ہیں ان میں ایک Pregnancy and Birth out of Wedlock ہے اس کو میں نے انگریزی میں بیان کیا ہے مطلب یہ ہے کہ ایسے بچے پیدا ہونا جن کو مذہبی قانون کی طرف سے پیدا ہونے کا کوئی حق نہیں ہے میں نے مذہبی قانون اس لئے کہا ہے کہ دنیا میں بہت سے مذاہب ہیں خواہ ان کا تعلق خدا سے ٹوٹ بھی چکا ہو وہ بھی جب با قاعدہ اپنی شادی بیاہ کی رسوم کے مطابق میاں بیوی کو ملاتے ہیں تو ہر مذہب کی رو سے وہ بچے جائز ہیں اور ان کا حق ہے.پس خواہ وہ خدا سے بے تعلق بھی ہو چکے ہوں یہ اللہ کی رحمت عامہ ہے کہ اس نے یہ حق ساری دنیا کے مذاہب کو یا روا جات کو یا قوانین کو دے رکھا ہے مذاہب کے علاوہ بھی وہ تمام رواج ، تمام قوانین ، تمام رسمیں، جن کی رو سے مرد اور عورت کو میاں بیوی قرار دیا جاتا ہے اس کے بعد جو بھی اولاد پیدا ہوتی ہے مذہب کی نظر میں یعنی خدا کی نظر میں وہ جائز اور درست ہے.اس کے لئے ضروری نہیں کہ اسلامی طریق پر شادی ہو یا کسی ہندوانہ طریق پر مذہبی بنیادی قانون جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھا ہے یہی ہے کہ ہر قوم میں اپنے رسم و رواج کے مطابق جو شادیاں ہوتی ہیں ان کی اولا د درست ہے ، اولا د درست سے مراد یہ ہے کہ اولاد کا پیدا ہونا ایک تسلیم شدہ قانون حق ہے.

Page 307

294 امریکہ ایک وہ ملک ہے جہاں بدنصیبی سے اس حق کی سب سے زیادہ خلاف ورزی ہو رہی ہے ایک موقع پر میں نے اعداد و شمار پڑھے تو میں حیران رہ گیا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ واقعۂ طبیعت لرز اٹھی کہ ان اعداد وشمار کی رو سے امریکہ میں ہر سال پیدا ہونے والے بچوں میں 33 فیصد نا جائز بچے ہیں یعنی کسی قانون کی رو سے بھی ان کو پیدا ہونے کا حق نہیں ملتا خواہ وہ ریڈ انڈین کا قانون ہو یا عیسائیت کا ہو کوئی بھی ہو.دنیا کا قانون ہو تو ان کو گو یا کسی مذہب نے ، کسی رواج نے کسی قانون نے دنیا میں آنے کا کوئی حق نہیں دیا اور یہ بد رسم اب امریکہ میں ایک وبا کی صورت میں چل پڑی ہے اور اس کو کوئی جرم ہی نہیں سمجھا جاتا.سوال یہ ہے کہ اگر جرم نہ سمجھا جائے تو کیا یہ بچے جائز ہوں گے.جہاں تک رسم ورواج کا تعلق ہے خدا نے آزادی دی ہے.ان کی رو سے خواہ وہ کیسے ہی رسم و رواج ہوں جب بھی شادی ہوگی وہ جائز اولاد ہوگی لیکن اگر کسی رسم ورواج کی پیروی نہیں کی جارہی، کھلی آزادی ہے یعنی لڑکا اور لڑکی آپس میں ایک ایسا تعلق قائم کرتے ہیں جس کو معاشرے نے تسلیم نہیں کیا تو اس کے نتیجہ میں جو اولاد ہے اس کو ہم ناجائز اولاد کہتے ہیں.اگر ہر سال کسی ملک کا تیسرا حصہ بچے ناجائز اولاد بن رہے ہوں تو تین سال چار پانچ سال دس سال کے اندراندازہ یہ لگایا جاسکتا ہے کہ ساری قوم کا خون ایک دفعہ گندا ہو چکا ہے اور یہ کئی بار ہو چکا ہے.اللہ بہتر جانتا ہے ایک پہلو تو یہ ہے جس کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں.عفت اور عصمت کی طرف آپ کو امریکہ میں خصوصیت کے ساتھ واپس آنا ہوگا اور اس کے لئے بہت وسیع جد وجہد کرنی ہوگی.ایسی جدوجہد جو جماعتی حدود کے اندر محدود نہ رہے بلکہ اچھل کر باہر سوسائٹی میں نکلے انصار اللہ کے لئے ایک بہت اچھا موقع ہے کیونکہ خدام اس قسم کی جدو جہد اگر شروع کریں تو ان کے اپنے لئے خطرات لاحق ہیں.کئی ایسے مواقع ہوتے ہیں.جہاں عورتوں کو بھی سمجھانا پڑتا ہے ماں باپ کے پاس جانا پڑتا ہے ایک مہم چلانی ہے جس میں تعلقات اس نوعیت کے ہیں کہ بڑی عمر کے لوگ زیادہ بہتر رنگ میں اس مہم کو چلا سکتے ہیں اس لئے انصار اللہ کو میرا دوسرا پیغام یہ ہے کہ یہ بات جس کی نشان دہی میں نے کی ہے اس سوراخ سے ساری اعلیٰ قدروں کو خطرہ ہے کیونکہ یہ دراصل اس بات کا پیغام ہے کہ آپ کی اگلی نسل کو کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں رہی اور ان کی زندگی خالصہ لذت طلبی کے لئے وقف ہو گئی ہے اور اتنا زیادہ آگے بڑھ چکے ہیں کہ ان کو کسی بات کا خوف نہیں رہا ، کوئی ذمہ داری نہیں رہی، کوئی جواب دہی نہیں ہے جو چاہیں کریں اور معاشرہ اس کو قبول کر لے گا.ایسی صورت میں آئندہ کی ساری نسلوں کے تباہ ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ Single parents ایک والد یا والدہ بچوں کی دیکھ بھال کرے اور نا جائز اولاد کی صورت میں محض والدہ کے سپر د ہو جاتا ہے اور اس نے ہی اس کی دیکھ بھال کرنی ہے اور جیسی حالت میں وہ پیدا ہوا ہے وہ ماں اس کو اخلاقی تعلیم دے بھی نہیں سکتی.وہ اس عصمت کی طرف بلا ہی نہیں سکتی اور ایسے بچے شروع ہی سے ہاتھ سے نکلے ہوئے ہیں.

Page 308

295 یہاں ضمناً میں آپ کو یہ بات بھی بتادوں کہ جہاں تک میں نے قرآن کریم کا یا سنت کا مطالعہ کیا ہے حق کے لحاظ سے خدا کی نظر میں اور اسلام کی نظر میں ہر بچہ برابر ہے اور معاشرہ اس کو اس کے بنیادی انسانی حق سے اس لئے محروم نہیں کر سکتا کہ وہ نا جائز اولاد ہے.ناجائز کا تعلق ماں باپ سے ہے، ناجائز کا تعلق اس معاشرے اور سوسائٹی سے ہے جس نے وہ نا جائز کام سامنے ہونے دیا ہے لیکن جو اولاد پیدا ہوتی ہے وہ بے قصور ہے کیونکہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور فطرت سے مراد اللہ کی فطرت ہے.قرآن کریم میں کہیں آپ کو یہ فرق دکھائی نہیں دے گا کہ فلاں قسم کا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور فلاں قسم کا بچہ فطرت پر نہیں پیدا ہوتا.اس لئے اس بنیادی بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے.میں اس لئے سمجھا رہا ہوں کہ بعض دفعہ بعض احمدی میاں بیوی جس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم نے فلاں جگہ سے بچہ مانگا ہے.اگر وہ بچہ وہ نکلا جس کی ولدیت ہی جائز نہیں تو پھر ہم کیا کریں گے.ہمارے لئے یہ درست ہے کہ نہیں ، تو میں ایسے میاں بیوی ہوں یا دوسرے لوگ ہوں، ان سب کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ قرآن نے ہر بچے کو ایک برابر آزادی دی ہے اور انسانی قدروں میں برابر حقدار قرار دیا ہے اور ہر بچے کی عزت نفس قائم فرمائی ہے جو اس کے عزت نفس پر حملہ کرتا ہے وہ جہالت سے کرتا ہے اور وہ خدا کے مقابل پر کھڑا ہوتا ہے اس لئے ہر بچہ معصوم ہے اس بات کو پلے باندھ لیں ہرگز ایسی سوچیں نہ سوچیں یا ایسا رویہ اختیار نہ کریں جس سے خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں ظاہر ہونے والے بچے ، خواہ وہ اس کے قانون کے مطابق ہوں یا قانون کے خلاف ہوں مختلف طرح کے سلوک کے محتاج سمجھے جائیں.انسان قدروں میں سب برابر کے شریک ہیں پھر وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى (فاطر :19) کا قانون ہے کہ ایک بوجھ اٹھانے والے کا بوجھ دوسری جان پر نہیں ڈالا جائے گا.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقره: 287) خدا کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا، تو وہ بچہ جو معصوم پیدا ہوا ہے اس بے چارے پر ماں باپ کا بوجھ کیوں ڈالا جائے.جس نے گناہ کیا ہے وہی کمائے گا اور جو بے توفیق ہے جس کو یہ بھی اختیار نہیں ہے کہ میں دنیا میں آؤں یا نہ آؤں.اس معاملہ میں اس کا کوئی دخل ہی نہیں ہے اس کو خدا کیسے پکڑ سکتا لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کے اعلان کے بعد اس کی پکڑ اور اس کا مواخذہ ہو ہی نہیں سکتا لیکن معاشرے پر یہ ذمہ داری ہے کہ آئندہ ان کو واقعہ با خدا بنانے کی کوشش کریں.اگر ان کے ساتھ اچھا سلوک ہو ان سے رحمت کا سلوک ہو ان کی تربیت کی طرف توجہ ہو تو یہ لوگ باخدا بن سکتے ہیں.ہمیں دو طرح کی جدوجہد کرنی ہوگی.ہے.

Page 309

296 مجالس انصاراللہ کو منصوبے بنانے چاہئیں اول : اس برائی کی بیخ کنی کے لئے خصوصاً مغربی ممالک میں مجالس انصار اللہ کو منصوبے بنانے چاہئیں اور حتی المقدور کوشش کرنی چاہئے کہ احمدی نسلوں میں عفت کا احساس پیدا ہو اور اس برائی کی جڑیں اکھیڑی جائیں کیونکہ اگر اس برائی کی جڑیں نہ اکھیڑی گئیں تو یہ برائی اپنے انتقام پر آمادہ ہوئی بیٹھی ہے.اس برائی سے ایسی بیماریاں جنم لے چکی ہیں جو ان بچوں کو ناحق دنیا میں داخل کرنے والوں کو اس دنیا سے نکالنے کا انتظام کریں گی.یہ خدائی انتقام ہے اور AIDS کے ذریعہ اس انتقام کی داغ بیل ڈالی جا چکی ہے اور دن بدن اس کے خطرات بڑھ رہے ہیں لیکن جہاں تک میرا اندازہ ہے یہ بیماری غالبا اس صدی کے آخر پر آخری دو تین سالوں میں تیزی کے ساتھ پھوٹے گی اور بہت بڑے پیمانے پر ان مجرموں کو ہلاک کرے گی.پس اس بات کو بھی پیش نظر رکھیں تو جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ انسان کو ہلاکت سے بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے.پھر اس کوشش کا ایک فائدہ یہ ہے کہ چونکہ یہ کوشش معاشرہ میں چاروں طرف کی جارہی ہوگی اس لئے احمدیوں کے محفوظ ہونے کے زیادہ امکانات پیدا ہو جاتے ہیں.وہ لوگ جو باشعور طور پر اپنے گردو پیش کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ خود محفوظ ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کے خود ہلاک ہونے کا کم خطرہ ہے تو ایک یہ خطرہ ہے جس کی میں نشاندہی کر رہا ہوں کہ یہ بیماری بہت تیزی کے ساتھ پھیلتی چلی جارہی ہے اور وبائی شکل اختیار کر رہی ہے اور اس کی روک تھام کے لئے وہ تمام اقدام کرنے ہوں گے جو اسلامی معاشرے نے پہلے سے کر رکھے ہیں.قرآنی تعلیم نے پہلے سے ہی ایک منصوبہ بنا رکھا ہے.اس منصو بہ پر عمل درآمد کا منصوبہ آپ نے بنانا ہے.منصوبہ پہلے سے ہی موجود ہے.عورت اور مرد کے متعلق جو فاصلے ڈال رکھے گئے ہیں جو اخلاقی تعلیم دی گئی ہے، اپنی سجاوٹ کس کے سامنے ظاہر کرنی ہے اور کس کے سامنے نہیں کرنی اور دوسرے ایسے ہی قوانین مثلا شراب کی منا ہی ہے، بے پر دعورت اور مرد کی مجالس کا اکٹھے لگانا اور بے حیائی کے ساتھ گفتگو کرنا بے حیائی کے لباس میں رہنا وغیرہ وغیرہ.یہ ایک لمبا منصوبہ ہے جو قرآن کی پیش کردہ تہذیب اور قرآن کے پیش کردہ تمدن میں پہلے سے موجود ہے.آپ نے اس منصوبے پر نظر رکھ کر یہ منصوبہ بنانا ہے کہ اس کو دوبارہ رائج کیسے کرنا ہے.یہ بڑا مشکل کام ہے.نصیحت کا کام بہت مشکل ہے اس میں غیر معمولی حکمت کی ضرورت ہے ایک پردہ کے متعلق ہی آپ گفتگو کر کے دیکھ لیں.آپ کو کیسے کیسے جواب ملیں گے ایک دفعہ اسلام آباد پاکستان کے متعلق مجھے اطلاع ملی کہ وہاں خواتین پر دے میں زیادہ بے احتیاط ہوتی چلی جارہی ہیں

Page 310

297 تو میں نے ربوہ پیغام بھجوایا کہ تمام اطراف سے کوشش کریں صرف لجنہ کا کام نہیں.نظارت اصلاح وارشاد، خدام الاحمدیہ، انصار اللہ وغیرہ سب مل کر مجموعی طور پر ایک مہم چلائیں اور اپنی بہنوں کو سمجھا ئیں.اپنی بچیوں کو بتائیں کہ اس میں کیا کیا خطرات ہیں.پردہ کے متعلق میں نے یہ معتین نہیں کیا کہ ضرور برقعہ پہنا جائے مگر یہ بتانا کہ بہت سے خطبات میں عمومی روشنی میں ڈال چکا ہوں.پر دہ اور بے پردہ ان دونوں کے درمیان ایک فرق ہے اور وہ برقعہ یا برقعہ کا نہ ہونا نہیں ہے.وہ فرق ایک رجحان کا فرق ہے اور صاف پہچانا جاتا ہے.ایک لڑکی بعض دفعہ برقعہ میں بھی بے پرد ہوتی ہے اور دوسری لڑکی عام لباس میں بھی پردہ دار ہوتی ہے تو میں نے ان کو سمجھایا کہ جورجحان ہے وہ دراصل حقیقت میں پردے سے آزادی کا رجحان ہے باقی بہانے ہیں کہ ہم برقعہ نہیں پہن سکتے جو نظر آ رہا ہے وہ تو خطرات ہیں کہ ایک معاشرہ سے متاثر ہو کر سوسائٹی اس کے سامنے سجدہ ریز ہو چکی ہے یا اس سوسائٹی کے بعض لوگ سجدہ ریز ہو چکے ہیں اور پھر وہ بہانے ہیں کہ جی برقعہ میں بھی تو لوگ بے حیاء ہوتے ہیں ان کو پہلے آپ کیوں نہیں روکتے.ہماری طرف آتے ہیں اور ہم یہن بھی نہیں سکتے اور اس قسم کی دوسری باتیں.تو میں نے ان کو سمجھایا کہ آپ بات وہ پیش کریں جس کا کوئی حقیقی جواب نہ ہو.پردے کی روح کو قائم کرنے کا جہاد ہے اور ماں باپ کو سمجھائیں کہ اپنی بچیوں کو جب آپ کالجوں میں بے پرد بھیجتے ہیں اور اسی طرح وہ ہیں جس طرح باقی معاشرہ ہے تو ان کو خطرات ہیں.اس کے نقصان ہوں گے.اس مہم کے جواب میں جو تلخ باتیں پیغام پہنچانے والوں کو سننی پڑی ہیں اس کی تلخیاں با قاعدہ مجھ تک بھی پہنچتی تھیں اور یوں لگتا تھا جیسے انتقام لیا جا رہا ہے کہ اصلاح کی کوشش کیوں کی جارہی ہے تو ایک ہی پہلو جو پردے کا پہلو ہے اس کے لئے اگر آپ جد و جہد کریں گے تو آپ کو پتا چلے گا کہ کتنے صبر کی ضرورت ہے.ہرا چھی بات کے جواب میں ایک بری بات آپ کو سنی پڑے گی کیونکہ جو شخص یہ فیصلہ کر چکا ہو کہ میں نے دنیا کی لذت یابی میں کسی دوسری قدر کی پرواہ نہیں کرنی.میں نے اپنے مزے کی زندگی ضرور بسر کرنی ہے.کون ہوتا ہے میری آزادی کو روکنے والا ؟ جب آپ اس کی بھلائی کی باتیں اس سے کہتے ہیں تو وہ غصہ کرتا ہے.وہ ناراض ہوتا ہے وہ آگے سے بھڑکتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میری آزادی پر بھی حملہ کیا گیا اور میری عزت پر بھی ہاتھ ڈالا گیا.مجھے سمجھانے والا یہ ہوتا کون ہے؟ پس نصیحت کا کام بہت ہی مشکل کام ہے اور جتنا مشکل کام ہے اتنی ہی زیادہ حکمت اور سلیقے کی ضرورت ہے.بات کہنے کے انداز میں فرق ہو جاتا ہے.پس یہ نہیں ہے کہ محض ایک پیغام ہے جو آپ نے آگے پہنچا دینا ہے.یہ سوال پیدا ہو گا کہ کیسے پہنچایا جائے کن لفظوں میں بات کی جائے کیا براہ راست پیغام پہنچایا جائے یا کسی اور ذریعہ سے پہنچایا جائے.مثلاً ایک بچی کو آپ کسی ایسی حالت میں دیکھتے ہیں اور خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ یا لجنہ کی طرف سے اس کو یا ماں باپ کو پیغام مل جاتا ہے کہ آپ کی بچی فلاں حالت میں

Page 311

298 دیکھی گئی تو کیا آپ کا خیال ہے کہ اس سے فائدہ ہوگا، ہرگز نہیں.بچی بھی بھڑ کے گی ، ماں باپ بھی بھڑکیں گے، غصہ پیدا ہوگا اور نظام کے خلاف منافرت کی ایک مہم چلائی جائے گی وہ کہیں گے کہ تم پہلے اپنی بچیاں سنبھالو.ہم نے تمہاری بیٹیاں بھی دیکھی ہوئی ہیں.فلاں یہ کرتا پھرتا ہے اور فلاں یہ کرتا پھرتا ہے اور جواندر ہو رہا ہے وہ سب کچھ ہمیں پتا ہے.یہ جوابی حملے کے ٹکسالی جملے ہیں.یہ ضرور سننے پڑتے ہیں تو اصلاح کی مہم چلانا کوئی معمولی بات نہیں ہے اس میں غیر معمولی حکمت کی ضرورت ہے اور غیر معمولی صبر کی بھی ضرورت ہے.حکمت سے اگر منصو بہ بنایا جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے فائدہ پہنچتا ہے.ماں باپ کو سمجھاتے وقت محبت اور ہمدردی اور گہرے درد کے ساتھ علیحدگی میں کہنا ہوگا چنانچہ میں کوشش کرتا ہوں کہ جب بھی مجھے کسی گھر کے متعلق معین اطلاع ملے کہ فلاں گھر ہے اس میں یہ خرابیاں پیدا ہورہی ہیں تو مختلف ذرائع سے ان کو سمجھا کر کہ یوں آپ نے کوشش کرنی ہے ان کو تاکید کرتا ہوں کہ اس ذریعہ سے فلاں ذریعہ سے اس احتیاط کے ساتھ اس گھر کو سنبھالنے کی کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ الاماشاء اللہ اتنا حیرت انگیز طور پر مثبت نتیجہ ظاہر ہوتا ہے کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے.عش عش کر اٹھتا ہے کلام الہی کی سچائی پر، جس میں فرمایا گیا کہ فَذَكَرُ إِن نَّفَعَتِ الذِّكرى (الأعلى: 10 ) نصیحت کر اور یا درکھ کہ اگر نصیحت حقیقی ہو اور سچی ہو، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت جیسی ہو تو وہ ضرور فائدہ دے گی.پس بہت بڑی مہم ہے جو ہمارے سامنے ہے اور مغربی معاشرے کی صرف ایک ہی برائی میں نے ابھی بتائی ہے.بہت سے ایسے رجحانات ہیں جو سخت مہلک ہیں.بعض ان میں سے بڑے ہیں، بعض چھوٹے ہیں لیکن بڑے اور چھوٹے ایک قسم کی مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں.ان کی ایک قبیل ہے، ایک خاص طرز کی وہ بداخلاقیاں ہیں جو ایک دوسرے کو طاقت دیتی ہیں اور دیکھنے میں بعض دفعہ بظاہر ایک چھوٹی سی علامت ظاہر ہوتی ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے یا جس شخص میں ظاہر ہورہی ہیں وہ سمجھتا ہے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے.میں نے دیکھا ہے جب نوجوان بچیاں یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم نے بد کنا ہے اور قوانین یا اخلاقی قدروں سے باہر نکلنا ہے تو ان کے بالوں کے انداز میں اور ان کے کپڑوں کے انداز میں چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہوتی ہیں اور ہر نظر اس کو پہچان سکتی ہے.اگر آپ ان کے ماں باپ کو یہ کہیں کہ اس کے بال ایسے تھے تو ماں باپ بھڑک کر کہیں گے تم اس کے بالوں کے متعلق کچھ کہنے والے کون ہوتے ہو؟ اس کا حق ہے جس طرح مرضی رکھے.آپ کہیں اس کے کپڑے ایسے تھے تو کہتے ہیں تم کون ہوتے ہو ایسا کہنے والے.اپنی بیٹیوں کے کپڑے سنبھالو.خبردار جو ہماری بیٹیوں کے کپڑوں پر بات کی.یہ سمجھانے کا طریقہ نہیں ہے.علامتیں کچی ہیں.انہوں نے جو پیغام دیا وہ ضرور سچا ہے لیکن ماں باپ کو سمجھاتے وقت محبت اور ہمدردی اور

Page 312

299 گہرے درد کے ساتھ علیحدگی میں ان کو کہنا ہو گا کہ آپ اپنی بچیوں کی حفاظت کریں ہمیں تکلیف ہوتی ہے.آپ کا فکر ہے ، آپ کو صدمہ پہنچے گا اور صرف ایک نہیں اور کئی انداز ہیں.پھر ساتھ اس کے لئے دعائیں کرنے کی بڑی ضرورت ہے.یہاں اجتماعات پر بھی مجھے بعض نوجوان خدام ایسے ملتے ہیں جو جماعتی کاموں میں نئے نئے شامل ہورہے ہوتے ہیں لیکن کسی کے کان میں بند الٹکا ہوتا ہے اور کسی کا آگے سے بٹن کھلا ہوتا ہے اور خاص طور پر بال دکھائے جار ہے ہیں اور امریکہ میں تو یہ بھی رواج ہے کہ اگر چھاتی پر بال نہ ہوں تو وگ لگ گئے ہیں.نئی قسم کے وگ بن گئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ مردانگی کی ایک خاص علامت ہے.مردانگی کی علامت کیا ہے اور کس کے لئے ہے؟ معصوم بچیوں کے لئے ہے.ایک پیغام ہے کہ ہم حاضر ہیں.ایک پیغام ہے کہ ہم تمہیں اُکسانے کے لئے بھی حاضر ہیں.اب دیکھنے میں ایک چھوٹا سائندا ہے.دیکھنے میں ایک بٹن کھلا ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے لیکن یہ سارے شیطان کے وہ بھیس ہیں جہاں شیطان عام آدمی کو دکھائی نہیں دیتا لیکن اگر پہچاننے والی نظر ہو تو اس کو صاف دکھائی دیتا ہے.اب ایسے شخص کو آپ کہہ دیں گے کہ جی ! تم نے بندا پہنا ہوا ہے.وہ کہے گا.تم پاگل ہو تمہاری مرضی ہے جو مرضی کرتے پھرو میں تو پہنوں گا.بٹن کھلا ہے تو تمہیں کیا تکلیف ہے تم بھی کھول لو.ایسے جواب دیں گے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ جن احمدی بچوں کو میں نے پیار سے درد کے ساتھ سمجھایا ہے وہ ضرور سمجھتے ہیں.جماعت احمدیہ اگر متقیوں کی نہیں تو متقیوں کا دل رکھنے والی جماعت ضرور ہے احمد یوں میں ایک خوبی ہے وہ خوبی یہ ہے کہ انہوں نے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کیا ہے.وقت کے امام کو مانا ہے اس لئے نیکی کی قبولیت کا جذبہ پیدا ہو چکا ہے.اس جذبہ سے جیسا فائدہ آپ اٹھا سکتے ہیں دنیا میں اور کوئی اصلاح کرنے والا ایسا فائدہ نہیں اٹھا سکتا کیونکہ یہ جماعت اگر متقیوں کی نہیں تو متقیوں کا مزاج رکھنے والی جماعت ضرور ہے.ایسی جماعت ہے جس کی فطرت کے اندر تقویٰ کا مادہ گوندھا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس عبارت پر میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.فرماتے ہیں نصیحت کرنا اور بات پہنچانا ہمارا کام ہے.یوں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس جماعت نے اخلاص اور محبت میں بڑی نمایاں ترقی کی ہے.بعض اوقات جماعت کا اخلاص، محبت اور جوشِ ایمان دیکھ کر خود ہمیں تعجب اور حیرت ہوتی ہے اور یہاں تک کہ دشمن بھی تعجب میں ہیں.ہزار ہا انسان ہیں جنہوں نے محبت اور اخلاص میں تو بڑی ترقی کی ہے مگر بعض اوقات پرانی عادات یا بشریت کی کمزوری کی وجہ سے دنیا کے امور میں ایسا وافر حصہ لیتے ہیں کہ پھر دین کی طرف سے غفلت ہو جاتی ہے......." یہ ہے تذکرہ اس کو کہتے ہیں الہی سمجھانے کا رنگ، پیار اور محبت کے ساتھ ان کے دلوں کو پسمائیں، ان کو مائل کریں، ان کی خوبیوں پر نظر رکھیں، ان کا اعتراف کریں اور پھر ان خوبیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے

Page 313

300 نیکیوں کی طرف ان کو بلائیں.ان خوبیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کو بدیوں سے باز رکھنے کی کوشش کریں.اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: "ہمارا مطلب یہ ہے کہ بالکل ایسے پاک اور بے لوث ہو جاویں کہ دین کے سامنے امور دنیوی کی حقیقت نہ سمجھیں" یہ ہے وہ آخری فیصلے کی طاقت جو ہماری تقدیر کا فیصلہ کرے گی.اگر ہم انفرادی طور پر اور قومی طور پر یہ مزاج پیدا کرلیں کہ جب بھی دنیا کا مقابلہ دین سے ہوگا دنیا ہارے گی اور دین ضرور جیتے گا تو پھر اس قوم کو دنیا کی کوئی طاقت مار نہیں سکتی.یہ زندگی کا وہ راز ہے جس کے ساتھ آپ چمٹ جائیں تو ہمیشہ کی زندگی پانے والے بن جائیں گے.فرماتے ہیں: اور قسم قسم کی غفلتیں جو خدا سے دوری اور مہجوری کا باعث ہوتی ہیں وہ دور ہو جاویں.جب تک یہ بات پیدا نہ ہواس وقت تک حالت خطر ناک ہے اور قابل اطمینان نہیں کیونکہ جب تک ان باتوں کا ذرہ بھی وجود موجود ہے تو اندیشہ ہے اور ایک وبدہ لگی رہتی ہے کہ کسی وقت یہ باتیں زور پکڑ جاویں اور باعث حبط اعمال ہو جاویں.جب تک ایک قسم کی مناسبت پیدا نہیں ہوتی تب تک حالت قابل اطمینان نہیں ہوتی." ( ملفوظات جلد 5 صفحہ 605) میں سمجھتا ہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس طرح فرمایا ہے جماعت میں تقوی، نیکی ، حسن کا مادہ موجود ہے.اس وقت اگر نصیحت کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا انداز اختیار کرتے ہوئے نصیحت کریں تو اُن کو بہت کچھ فائدہ حاصل ہوسکتا ہے.بہت سے پد کے اور دور جاتے ہوئے احمدی نوجوان یا اُن کے والدین واپس آسکتے ہیں اور آج کل جب کہ ٹیلی ویژن کے ذریعہ تمام دنیا میں خطبات نشر ہور ہے ہی.اطلاعیں پیل رہی ہیں کہ جماعت میں پہلے سے بڑھ کر ولولہ پیدا ہو گیا ہے.بڑے جوش اور شوق کے ساتھ بڑے بھی اور چھوٹے بھی کثرت سے آتے ہیں اور اسی ذکر پر اب میں اس بات کو ختم کرتا ہوں کیونکہ اب کثرت سے شکوے آ رہے ہیں کہ پہلے آپ ہمارے متعلق باتیں کیا کرتے تھے.ہم کیا کرتے ہیں؟ کس طرح دیکھتے ہیں؟ کیا ہوتا ہے؟ بڑا مزا آیا کرتا تھا.اب ایک دو خطبوں سے آپ نے ذکر نہیں کیا تو شکوہ دور کرنے کے لئے دو باتیں بتا دیتا ہوں ایک تو ایک شخص نے بتایا کہ شوق کا یہ حال ہے کہ بچے بھی بڑی سنجیدگی سے جمعہ کا انتظار کرتے اور اپنے پروگراموں کو اس کے مطابق ڈھالتے ہیں.اس نے کہا کہ میں نے ایک گھر میں فون کیا تو بچے سے کہا کہ کیا حال ہے؟ اس نے کہا ماں باپ تو ابھی آئے نہیں مگر کل کیونکہ جمعہ ہے اور صبح جلدی خطبہ سننا ہے.( یہ امریکہ کی بات ہے ) اس لئے میرا چھوٹا بھائی ابھی سوچکا ہے اور میں فوراً سونے جار ہا ہوں.میرے پاس زیادہ باتوں کا وقت نہیں ہے تو اب اس بچے کو پتا تھا کہ صبح جلدی

Page 314

301 اٹھنا ہے اور خطبہ سننا ہے.یہ علامت ہے کہ خدا نے نصیحت کے لئے ان لوگوں کو ہمارے قریب کر دیا ہے.اس وقت فائدہ اٹھائیں اس وقت نصیحت سے ان کو ہمیشہ کے لئے اپنا بنا لیں.دوسرے جرمنی سے ایک خاتون کا خط آیا کہ میں اپنے بچے کی ایک پیاری سی ادا بتاتی ہوں کہ ایک خطبہ کے موقع پر غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے تو میرا بچہ ٹیلی ویژن کی طرف دوڑا اور جیب سے رومال نکال رہا تھا.میں نے کہا یہ کیا کر رہے؟ تو اس نے کہا کہ میں آنسو پونچھنے جارہا ہوں.پس یہ جونئی نسل ہے یہ ٹیلی ویژن کے ذریعہ خطبات کی برکت سے ایک عجیب انقلابی دور میں داخل ہو چکی ہے.یہاں سے نصیحتیں شروع کریں، ان کو اپنائیں ، ان کو اسلامی قدروں کے قریب کریں اور جو بڑے نسبتا نرم ہو رہے ہیں لیکن پہلے سخت دل تھے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو نصیحت کریں تو میں یقین رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت جرمنی کم سے کم پہلے اپنے تمدن اور معاشرے کو اسلامی بنانے میں کامیاب ہو جائے گی اور اگر ایسا ہوگا تو باقی جرمنی کے لئے بھی امید ہوسکتی ہے ورنہ امید کا کوئی پہلو باقی نظر نہیں آتا." خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 343-362) تربیت و اصلاح و ارشاد کے حوالہ سے جماعتی و ذیلی تنظیموں کے عہد یداران کو نصائح (خطبہ جمعہ 28 مئی 1993ء) اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آج مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کا سالانہ اجتماع شروع ہو رہا ہے اور یہ چودھواں سالانہ اجتماع ہے.اس کے ساتھ ہی آج مجلس انصاراللہ عزیز آباد کراچی کا بھی ایک اجتماع ہورہا ہے اور انہوں نے فیکس کے ذریعے یہ درخواست کی ہے کہ اس اجتماع میں ہمیں بھی مخاطب کریں اور ہمیں بھی پیش نظر رکھیں.اللہ تعالیٰ نے جمعہ کا خاص تعلق جماعت احمدیہ سے رکھ دیا ہے اور جمعہ کے لفظ میں جتنے بھی جمع ہونے کے مفاہیم شامل ہیں، جتنے معنی بھی جمع کے پائے جاتے ہیں آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ پر وہ پوری طرح اطلاق پا رہے ہیں.مواصلاتی سیارے کے ذریعہ تمام عالم کے احمدیوں کو خطبہ کے ذریعہ اکٹھا کر دیا ہے یہ وہ جماعت ہے جسے پیشگوئیوں کے مطابق پہلوں سے ملایا گیا ، یہ وہ جماعت ہے جس میں تمام

Page 315

302 عالم کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے وہ صلاحیتیں عطا فرمائی گئیں اور آسمان سے وہ قوت بخشی گئی.جس کے نتیجے میں یہ عظیم الشان کام حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ عاجز غلام اور دیوا نے سرانجام دیں گے.یہ وہ جماعت ہے جسے ہر جمعہ تمام عالم کے احمدیوں کو ایک خطبے کے نیچے جمع کرنے کے سامان کئے گئے اور اسی طرح اور بھی بہت سی جمیعتیں اس جمعہ میں شامل کر دی گئی ہیں.ایک وقت میں مختلف ممالک میں جو اجتماع ہورہے ہیں یہ تو ناممکن تھا کہ میں اُن سب میں شرکت کر سکتا لیکن اب اس انتظام کے ذریعے جو خدا تعالیٰ نے مواصلاتی سیاروں کے ذریعے ہمیں عطا فرمایا ہے بیک وقت سب دنیا اس پروگرام میں شامل ہے اور بیک وقت ہم دوسروں کے پروگراموں میں بھی شامل ہو رہے ہیں.ایم ٹی اے کے ذریعہ خلافت سے براہ راست دنیا کے احمدیوں کا رابطہ قائم ہو گیا ہے یہ جو اللہ تعالیٰ نے نعمت عطا کی ہے.اس کے متعلق مجھے پہلے تصور نہیں تھا کہ اس کے اتنے عظیم الشان فوائد ظاہر ہوں گے.پہلا تو خیال صرف پاکستان کے مظلوموں ، محروموں اور مجبوروں کی طرف جاتا تھا اور یہی خیال تھا کہ اُن سے رابطوں کے انتظامات ہو جائیں گے اور اُن کی پیاس بجھنے کے خدا تعالیٰ ایسے سامان فرمائے گا وہ جو دیر سے محرومی میں زندگی بسر کر رہے تھے.کچھ تشنگی مٹے گی ، کچھ پیاس بجھے گی لیکن بعد میں جب عالمی اثرات ظاہر ہونا شروع ہوئے اور مختلف خطوط کے ذریعے یا عملاً باہر سے آنے والے دوستوں کی زبانی سن کر جو حالات معلوم ہوئے ہیں.اُس سے پتا چلتا ہے کہ محض پاکستان کا سوال نہیں تمام دنیا کے لئے آج یہ ایک اشد ضرورت تھی کہ خلافت سے براہ راست تمام دنیا کی جماعتوں کا رابطہ قائم ہو اور یہ رابطہ جمعہ اور خطبوں کے بغیر اور کسی طریق پر ممکن نہیں تھا.اب جرمنی میں جب سے آیا ہوں مختلف احباب سے اور خاندانوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں اور مجھے یہ معلوم کر کے تعجب ہوا کہ جرمنی کے احباب جماعت اور خواتین اور بچوں نے سیٹلائٹ کے ذریعے رابطے کے متعلق ایسے تاثرات بیان کئے ہیں جن کے متعلق میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جرمنی کو بھی اتنی ضرورت در پیش ہو سکتی تھی.یہاں میں بار بار آتا رہا اور میرا یہی خیال تھا کہ میرا آپ سب سے مسلسل اور بار بار ہونے والا رابطہ قائم ہے لیکن جو خاندان ملنے کے لئے آئے انہوں نے بتایا کہ سال میں ایک دفعہ یا دو دفعہ رابطے سے وہ بات پیدا نہیں ہو سکتی تھی اور پھر تمام جماعت کو تو فیق بھی نہیں ملا کرتی تھی وہ ہر ایسے موقع پر حاضر ہو.یہ بھی توفیق نہیں ملتی تھی کہ انہماک سے آپ کی باتوں کو سنیں اور اُس کے اثر کو پورا سال قائم رکھیں.بہت سے ایسے افراد نے مجھے بتایا جن میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی کہ ہم نے تو اب نمازیں شروع کی ہیں اس سے پہلے جو نماز سے تعلق تھاوہ ایک سرسری سا تعلق تھا لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تعلق مضبوط ہوتا چلا جارہا

Page 316

303 ہے.بعض نے یہ کہا کہ ہم اب احمدی ہوئے ہیں.اس سے پہلے کا زمانہ جہالت میں گزرا ہے تو یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کسی بندے کا کمال نہیں ہے بلکہ غیر معمولی خدا کا فضل اور اُس کا غیر معمولی احسان ہے اُس کی ایک ایسی تقدیر ہے جو جاری ہوئی ہے جس کا ہمیں کوئی گمان میں نہیں تھا.اللہ تعالیٰ ان رابطوں کو بڑھاتا رہے اور مضبوط تر کرتا چلا جائے.ایک سے زیادہ رابطے قائم کرنے کے سامان فرمائے اور اس طرح جماعت کی عالمگیر تربیت کی توفیق عطا ہو.پاکستان میں ایم ٹی اے کی برکات اس ضمن میں بعض پاکستان سے آنے والے خطوط کے اقتباس میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جس سے آپ کو اُن لوگوں کے جذبات کا اندازہ ہوگا جن سے کئی سال ہوئے ملاقات نہیں ہو سکی.ایک دن میں روزانہ بیسیوں خط ملتے ہیں یہ تو ناممکن ہے کہ سارے کے سارے خطوط کے مضامین سے جماعت کو آگاہ کرسکوں.لیکن دو تین نمونے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.سیٹلائٹ کے ذریعے براہ راست خطبات سننے کی غرض سے، ڈش انٹینا وغیرہ لگوانے کی غرض سے احباب غیر معمولی قربانی ، محبت اور شوق سے حصہ لے رہے ہیں.ایک ضلع کے ایک گاؤں کی بچیوں کی شادی ایسے گاؤں میں ہوئی جہاں ڈش انٹینا کا انتظام نہیں تھا جبکہ اُن کے اپنے میکے میں یہ انتظام تھا تو وہاں جاتے ہی ان بچیوں نے سب سے پہلا یہ کام کیا کہ شادی کے تمام تحائف خرچ کر کے ڈش انٹینا کا انتظام کرایا اور اُن کا اپنا اس قربانی کے بعد تاثر یہ تھا جو خوشی شادی کی اس بات سے ہوئی ہے اس کے بغیر خوشی کا کوئی تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا.پس احمدی بچیوں کے اندر بھی ایک ذاتی لگن پیدا ہوگئی ہے اور دلہنیں اپنے تحفے بیچ بیچ کر یا روپے پیش کر کے اس رابطے کا انتظام کر رہی ہیں اور ہمیشہ جو اطلاعیں ملتی ہیں اُن سے پتا چلتا ہے کہ دن بدن زیادہ دیہات میں اور دیہات میں ایک سے زیادہ رابطوں کے سامان پیدا کئے جارہے ہیں.ایک دلچسپ اقتباس ایک جماعت کی طرف سے ایک خاتون نے خط لکھا ہے، اُس کا اقتباس ہے.اب اللہ کے فضل سے ہمارے گاؤں میں جو ڈش انٹینا لگا ہے وہ ایک آدمی نے اپنے گھر لگوایا ہے اور وہ انٹینا بہت بڑا ہے پہلے تو سنا تھا کہ ہم سب اُن کے گھر میں جا کر خطبہ سنا کریں گے پھر انہوں نے یہ اعلان کروایا میں نے ایک ایسا پرزہ لگایا ہے کہ جس سے گاؤں کے ہر گھر میں بغیر انٹینا کے ٹیلی ویژن رابطہ قائم ہو گیا ہے.وہ لکھتی ہیں کہ اُس کے نتیجے میں نہ صرف احمدی بلکہ خدا کے فضل سے کثرت سے غیر احمدی بھی اپنے گھروں میں بیٹھے خطبہ سنتے ہیں اور وہ غلط فہمیاں جو ہم ہزار کوشش سے دور نہیں کر سکتے تھے وہ ہر خطبے کے موقع پر از خود دور ہوتی چلی جارہی ہیں.فاصلے مٹ رہے ہیں اور لوگ قریب تر آ رہے ہیں لیکن لکھتی ہیں کہ سب سے زیادہ قابل رحم حالت گاؤں کے مولویوں کی ہے وہ جس گلی سے گزرتے ہیں آپ کی آواز آ رہی ہوتی ہے اور اُن

Page 317

304 کے لئے ممکن نہیں ہے کہ کوئی ایسا راستہ تلاش کریں جہاں آپ کے خطبے کی آواز نہ آ رہی ہو.اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ اُن کے ظلموں کا انتقام اُن سے کیا لیتا.پس حقیقت میں یہ ظلموں کا انتقام تو ہے لیکن اصل انتقام تو تب ہوگا جب حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والا انتقام پاکستان کے علماء سے لیا جائے گا.وہ جو آپ کی جان کے دشمن تھے وہ آپ کے جانثار دوست بن گئے ، وہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کے پیاسے تھے اپنا سارا خون آپ پر نچھاور کرنے کے لئے ترساں رہتے تھے.وہ یہ بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ کو ایک کانٹا بھی چبھ جائے اور اُس کے بدلے اُن کی جان بچ جائے بلکہ ایک موقع پر ایک شہید ہونے والے سے جب پوچھا کہ بتاؤ اس وقت تمہارے دل کی کیا کیفیت ہے؟ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے تمہاری جگہ محمد رسول اللہ آج یہاں ہوتے اور تمہاری جان بچ جاتی.اُس نے بڑی حقارت سے اُن کو دیکھ کر کہا کہ تم کیا کہہ رہے ہو خدا کی قسم ! میں اپنی جان بچانے کے لئے تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ ایک چھوٹا سا کانٹا بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چبھ جائے.(سیرت الحلبیہ جلد3 صفحہ 170 مطبع بیروت ) یہ حقیقی انتقام ہے محض تذلیل کوئی انتقام نہیں.تذلیل کے جذبات سے جماعت احمدیہ کوکلیۂ مبرا ہو جانا چاہئے اصل انتقام محبت اور رحمت کا انتقام ہے ، گالیاں سن کر دعا دینے کا انتقام ہے اور یہی وہ محمد کی انتقام ہے جس نے دنیا کی تقدیر بدلنی ہے.پس اس انقلاب کے لئے اپنے دلوں کو تیار کریں اپنے دل میں پاک تبدیلیاں پیدا کریں.نفرت کا جواب محبت سے دینا سیکھیں پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ تعالی تمام دنیا حضرت اقدس محمد رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں اکٹھی ہو جائے گی.ایک اور اقتباس ہے جیکب آباد سے خاتون ھتی ہیں.ڈش انٹینا ایجاد کرنے والے کے لئے جتنی دعائیں ہم پاکستانی احمدی کرتے ہوں گے دنیا کا کوئی فرد نہیں کرتا ہوگا.یہ محض اللہ تعالیٰ کا خاص فضل واحسان ہے کہ ہمارے دلوں کی بے چینی اور کرب کافی حد تک دور ہو گیا ہے.خصوصاً جو ہم ربوہ سے بھی کافی دورالفضل کے ذریعے خطبات بھی کبھی وقت پر نہیں ملتے تھے ڈاک والوں کا دل چاہے چار پانچ اخبار ا کٹھے کر کے دیئے.آگے پیچھے کی تاریخوں کا اخبار ملنے سے بڑی کوفت ہوتی تھی.آپ کو دیکھنے اور ملنے کی آرزو دل میں گھٹی رہتی تھی.محترمہ امہ الباری صاحبہ کا یہ شعر ہر وقت میرے دل میں رہتا تھا کہ: بے بسی دیکھو کیسٹ سے انہیں سنتے ہیں سامنے میز پر تصویر پڑی رہتی ہے اب تو جمعہ والا دن عید کا دن لگتا ہے یہ تفصیل ان کیفیات کی تمام تر بیان کرنی ممکن تو نہیں ہے مگر میں چند نمونے احباب جرمنی کے سامنے اس لئے رکھ رہا ہوں کہ اس قربانی میں سب سے بڑا حصہ جماعت احمد یہ جرمنی کو دینے کی توفیق ملی

Page 318

305 ہے.پس وہ لوگ جو ڈش انٹینا والوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں وہ لوگ جو جسوال برادران کے لئے دعائیں کرتے ہیں.اُن کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ جماعت احمدیہ جرمنی کو بھی اپنی دعاؤں میں خاص طور پر یاد رکھیں کیونکہ بہت بڑی قربانی اس جماعت نے پیش کی اور میرے فکر دور کر دیے جب مجھے یہ پیغام بھیجا کہ آپ اس پروگرام کو جاری رکھیں جتنا خرچ ہوتا ہے جماعت احمد یہ جرمنی اُسے پیش کرے گی اور ہر گز ہم اس معاملے میں قدم پیچھے نہیں ہٹا ئیں گے.جو خرچ ہوتا ہے کرتے چلے جائیں اس پروگرام کو ہمیشہ جاری رکھیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل جماعت جرمنی پر ہمیشہ جاری رکھے ، ان کی نیک قدریں بڑھائے ، ان کی برائیوں کو دور کرتا چلا جائے ، پہلے سے بہتر حال میں ان کو اپنے قریب تر کرتا چلا جائے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے اپنے فضلوں کا وارث بنائے.مجھے تو یہ وہم پیدا ہورہے تھے کہ وقتی جوش نہ ہو ، وقتی شوق نہ ہو، پاکستان کے وہ احمدی دوست جور بوہ میں ہوں یا با ہر ہوں اُن کو دیر سے ملنے کی خواہش تھی اس شوق سے کہیں چند دن آئیں اور پھر یہ رابطے کٹ جائیں.جب اس بات کا میں نے خطبے میں اظہار کیا تو بہت احتجاجی خطوط ملے اور بعض نے کہا کہ آپ کو اندازہ نہیں ہے کہ یہاں کیا کیفیت ہے؟ یہاں تو ہر خطبے کے بعد پیاس بڑھ جاتی ہے کم نہیں ہوتی اور اگلے خطبے کے انتظار میں دن گزارتے ہیں یہ جو جذبہ ہے، کیفیت ہے یہ بنانی کسی بندے کے بس کی بات نہیں ہے.یہ محض آسمان کی تقدیر ہے جو رحمت بن کر آسمان سے اتر رہی ہے.دلوں کے اندر ایسی پاک تبدیلیاں کرنا محض اللہ کا کام تھا.پس جب وہ خط پڑھتے ہوئے جن کا میں نے ذکر کیا ہے.مجھے حسرت کا وہ شعر یاد آ گیا کہ: حقیقت کھل گئی حسرت تیرے ترک محبت کی تجھے تو وہ پہلے سے بڑھ کر یا د آتے ہیں پس بجائے اس کے کہ یہ رشتے کم ہوں یہ مضبوط تر ہوتے چلے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ جماعت کے دلوں کو اسی طرح محبت کے رشتوں میں مضبوطی سے باندھے رکھے کیونکہ جماعت نام ہے محبت کے رشتوں میں بندھے ہونے کا اور جمعہ کی یہ برکت ہمیں دلوں کو باندھنے کی صورت میں ملی ہے خدا اس برکت کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے.متینوں ذیلی تنظیموں کے تنظیمی امور کا تذکرہ اب میں تنظیمی امور سے متعلق مجلس خدام الاحمدیہ، مجلس انصار اللہ اور مجلس لجنہ اماء اللہ سے مخاطب ہوتا ہوں جو باتیں میں اب آپ سے کہوں گا اُن کا تعلق طریق کار سے ہے اور میں نے محسوس کیا ہے کہ اس کی بہت ضرورت ہے کہ بار بار اس موضوع پر خطبات دیئے جائیں اور جماعت کو سمجھایا جائے کہ کام کرنا کیسے ہے؟ جوش اور ولولہ اور شوق اور محبت تو محض ایندھن ہیں اس ایندھن کی طاقت کو استعمال کیسے کرنا ہے؟ یہ کیس

Page 319

306 ایجاد کرنے سے ہوتا ہے ورنہ جاہل قوموں کے پاس بھی بڑی بڑی طاقتیں ہیں، ترقی یافتہ قو میں اُن سے طاقت لے کر اپنے کل پرزے چلاتی ہیں اُن کو توفیق نہیں ملتی.پس نظام جماعت کا تعلق بھی ایک ترقی یافتہ مشین یا ترقی یافتہ کل سے ہے جو روحانی نظام کو جاری وساری کرتی ہے ، روحانی نظام کو چلاتی ہے، اس کل پرزے کو چلانے کا سلیقہ آنا چاہئے.یہ کارخانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ لفظ استعمال فرمایا کہ یہ کارخانہ ہے جو خدا تعالیٰ نے جاری فرمایا ہے پس خدا نے بہترین، جدید ترین کارخانہ تو عطا فرما دیا اسے چلانے کے لئے سلیقہ بھی تو چاہئے.اگر طاقت ہو اور کارخانہ موجود ہو اور سلیقہ موجود نہ ہو.تب بھی کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.میں نے جب مجالس عاملہ سے انٹرویو لئے تو میں نے محسوس کیا کہ بہت سی باتوں میں ابھی علم کی کمی نقصان پہنچا رہی ہے اور جماعت میں جتنی کام کی طاقت ہے اُس سے پوری طرح فائدہ نہیں ہورہا.اس ضمن میں نظام جماعت سے متعلق بھی میں نے گزشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا بعض شعبوں کو نمایاں پیش نظر رکھتے ہوئے نصیحتیں کی تھیں کہ ان شعبوں میں اس طرح کام ہونا چاہئے.بعض دنیا کی جماعتوں نے اُن باتوں کو سمجھا اور اللہ کے فضل کے ساتھ اچھا جواب دیا، عملی جواب دیا اور ایسی رپورٹیں ملیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ اُن میں اب کام کا سلیقہ پیدا ہو چکا ہے لیکن بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ پوری طرح خبر نہیں پہنچی.پس اگر وہ بات نہیں سنتے تو التفات دگنا ہونا چاہئے ، بار بار مجھے کہنا ہوگا.مجلس خدام الاحمدیہ کے حوالے سے جو باتیں میں کروں گا اُن کا تعلق محض دیگر تنظیموں سے ہی نہیں جماعت احمدیہ کی انتظامیہ سے بالعموم بھی ہے تمام اس لحاظ سے میرے مخاطب ہیں.جب کسی احمدی کے سپرد کوئی عہدہ کیا جاتا ہے تو سب سے پہلا اُس کا فرض ہے کہ اُس عہدے کو پہچانیں.معلوم تو کرے کہ وہ عہدہ ہے کیا ؟ کل اور پرسوں جو ملاقاتیں ہوئیں تنظیموں سے باتیں ہوئیں.اُن سے مجھے اندازہ ہوا کہ باوجوداس کے کہ جرمنی کی جماعت خدا کے فضل سے بہت ترقی یافتہ جماعت ہے یعنی خدمت کے کاموں میں پیش پیش ہے لیکن مجالس عاملہ کو خود اپنا شعور نہیں ہے اور مجلس عاملہ کے ہر مبر کو خود اپنی ذات میں دائرہ کا رکا پتا نہیں اور یہ پتا نہیں کہ کام کا آغاز کیسے کرنا ہے؟ تعلیم و تربیت کے سیکرٹری سے پوچھیں کہ آپ نے کیا کیا.میں تو ر پورٹوں میں ذکر کرتا ہوں یا کرتی ہوں.میں نے اتنے دورے کئے فلاں جگہ ہم گئے اور یہ کام کیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ تربیتی مسائل اور تعلیمی مسائل بہت گہرے، بہت وسیع ہیں اور جس شخص کے سپرد یہ کام کیا جاتا ہے جب تک وہ مسائل کی کنہ سے واقف نہ ہو جائے ، اُن کی تہہ تک نہ اتر جائے ، وہ تفصیل سے یہ نہ دیکھے کہ مسائل ہیں کیا اور کہاں کہاں کیا کیا مسائل ہیں؟ اُس وقت تک وہ حقیقت میں خدمت کا حق ادا نہیں کر سکتا.خواہش بھی ہو گی ، شوق بھی ہوگا ، وقت بھی قربان کر رہا ہو گا لیکن نتیجہ نہیں نکلے گا.نتیجہ نکلنے کے لئے ایک سلیقہ چاہئے، نتیجہ نکلنے کے لئے حکمت چاہئے ، قرآن کریم نے ہر جگہ جہاں بھی دعوت الی اللہ کا ذکر فرمایا ہے وہاں

Page 320

307 حکمت کے مضمون کو بیان فرمایا ہے.حکمت کا ایک معنی ہے منصوبہ بندی.حکمت کا ایک تقاضا یہ ہے کہ کام شروع کرنے سے پہلے خوب جانچا جائے ، دیکھا جائے ماحول کو خوب پہچانا جائے.یہ معلوم کیا جائے کہ کوئی چیز کہاں پڑی ہوئی ہے؟ ، کون سے رستے معین ہو سکتے ہیں؟ کہاں کہاں ٹھوکر میں ہیں؟ ، پوری طرح جائزے کے بغیر ، پوری طرح اعداد و شمار اکٹھے کئے بغیر، کوئی منصوبہ کار فرما نہیں ہوسکتا ، کوئی منصوبہ بن ہی نہیں سکتا.اب تربیت کے متعلق مثلاً میں نے جب پوچھا تو پتا چلا کہ اتنے سرکر دیئے گئے ہیں جماعت کو کہ فلاں فلاں خرابیاں ہیں ان کو دور کرو.سوال یہ ہے کہ یہ خط جن کو ملتے تھے ، انہوں نے آگے حرکت کی بھی کہ نہیں ، کتنوں پر اس کا اثر پڑا.کون کون سی مجالس کس کس کمزوری میں مبتلا ہیں اور کون کون سی مجالس کس کس نصیحت کی محتاج ہیں؟ یہ وہ باتیں ہیں جو تفصیلی جائزے کے بغیر معلوم ہو ہی نہیں سکتیں.تربیت کا کام کرنے سے پہلے اپنا زیروپوائنٹ مقرر کریں اس لئے سب خدمت کرنے والوں کو میری نصیحت یہ ہے کہ سب سے پہلا قدم یہ اٹھائیں بلکہ قدم اٹھانے سے پہلے کہنا چاہئے.قدم اٹھانے سے پہلے یہ کام کریں کہ اپنا زیرو پوائنٹ مقرر کریں.جس منزل سے سفر شروع کیا ہے اُس منزل کی تشخیص کریں.اُس کی تفصیل سے آگاہ ہوں جب میں یہ کہتا ہوں تو آپ کو غالباً کئی مہینے اس تشخیص کے لئے درکار ہوں گے لیکن یہ وقت کا ضیاع نہیں ہے.اس کے بغیر کام حقیقت میں ہو ہی نہیں سکتا.مثلا تربیت والا سیکرٹری یا تربیت والی سیکرٹری خواہ مجلس سے تعلق رکھتے ہوں یا جماعت سے تعلق رکھتے ہوں.جب تک جماعت کے حساب سے ہر جماعت کے متعلق اُن کو یہ علم نہ ہو کہ کتنے مرد، کتنی عورتیں، کتنے بچے نماز با قاعدہ پڑھتے ہیں؟ کتنے ہیں جن کو نماز کے الفاظ صحیح یاد ہیں؟ کتنے ہیں جن کو نماز کا ترجمہ یاد ہے؟ اور نماز کے معاملے میں کیا کیا غفلتیں پائی جاتی ہیں.کون سے ایسے مسائل ہیں جن سے وہ آگاہ نہیں ہیں اور کس حد تک ان معاملات میں ان کی تربیت کی ضرورت ہے.کتنے خدام یا انصار یا بچے ایسے ہیں جن کو مساجد تک رسائی ہے اور وہ کسی نہ کسی نماز میں مسجد میں پہنچ کر نماز پڑھ سکتے ہیں؟ کتنے ایسے ہیں جن کے پاس کوئی باجماعت نماز پڑھنے کا انتظام نہیں ہے؟ وغیرہ وغیرہ.یہ سارے امور ایسے ہیں جن کی تفصیلی چھان بین کئے بغیر کوئی سیکرٹری تربیت اپنے فرائض کو سرانجام نہیں دے سکتا.سرکلر بھجوانے کے ساتھ عملی طور پر بھی سمجھا ئیں بجائے اس کے کہ یہ سرکر بھیجا جائے کہ آپ نماز میں ٹھیک کریں.وہ سرکلر جس کے پاس جائے گا اُس کو سلیقہ نہیں ہو گا کہ کام کیسے کرنا ہے؟ وہ سرکلر دیکھے گا اور اپنی میز پر کسی جگہ رکھ دے گا یا کہیں اعلان کر دے گا کہ نمازیں پڑھا کرو.یہ اعلان تو چودہ سو سال پہلے سے ہو چکا ہے کہ نمازیں پڑھا کرو.اس کی کیا اطلاع

Page 321

308 مسلمانوں کو اب تک نہیں پہنچی.اعلان سے کیا فائدہ ؟ اس اعلان کو نظر انداز کرنے والوں کی کمزوریوں کو پہچانا جائے.اُن بیماریوں کی تشخیص کی جائے جن کے نتیجے میں اس الہی اعلان کے سامنے لوگ سر تسلیم خم نہیں کر رہے، استجابت نہیں ہو رہی.اپنی طرف سے تو یہ چاہتے ہیں کہ جب دعا مانگے خدا قبول کر لے لیکن جب خدا کی آواز کانوں میں پڑتی ہے نماز کی طرف آؤ، نماز کی طرف آؤ تو وہ آواز بہرے کانوں پر پڑتی ہے، ایسے مرجھائے ہوئے دلوں پر پڑتی ہے جن میں قبول کرنے کی صلاحیت نہیں.یہ بیماریاں دور ہوں گی تو پھر نماز قائم ہوگی.اس کے بغیر کیسے قائم ہو سکتی ہے اور جب تک جماعت وار تشخیص نہ ہو، مجلس وار تشخیص نہ ہو کہ کس کس جماعت میں، کس کس مجلس میں کیا کیا کمزوریاں ہیں؟ کیوں ایسی کیفیت ہے اُس وقت تک صحیح علاج تجویز ہی نہیں ہو سکتا.اب میں یہاں جانتا ہوں کہ جرمنی کے حالات میں بعض خاص علاقے ایسے ہیں جہاں پاکستان کے بعض علاقوں کے لوگ آئے ہوئے ہیں اور وہ اپنے علاقوں میں بھی بعض روحانی بیماریوں میں مبتلا تھے.تربیت کے ضمن میں بعض علاقوں میں نماز کی کمزوری پائی جاتی تھی ، بعضوں میں زبان کی کمزوری ہے، زبان کے تلخ ہیں ، بدتمیزی سے بات کرتے ہیں، جلدی غصے میں آتے ہیں ، گالی دینے کی طرف میلان ہے اور ہر وہ حرکت کرتے ہیں زبان سے جو تعلقات کو کاٹنے والی ہے اور یہ عادتیں اُن میں راسخ ہوتی ہیں.ایسے علاقوں کے لوگ بھی یہاں آئے ہوئے ہیں جو ہل چلاتے وقت روزانہ اپنے بیلوں کو بھی اتنی گندی گالیاں دیتے ہیں کہ اگر بیلوں کو پتا لگ جائے کہ کیا ہو رہا ہے تو وہ بغاوت کر دیں، اپنے پاؤں تلے اُن کو روند ڈالیں لیکن وہ معصوم ہیں اُن کو پتا نہیں کہ ہم سے کیا ہو رہا ہے؟ انسان سے جب سلوک کرتے ہیں تو وہ جماعت جس نے عالمگیر جماعت بنا ہے جس نے ساری جماعت کو ایک ہاتھ پر جمع کرنا ہے وہاں اگر ایسی زبان استعمال ہورہی ہو جو دلوں کو کاٹ رہی ہو جو دھکے دے رہی ہو، جو بد تمیزی کی اور بداخلاقی کی زبان ہو.تو وہ جماعت کو بھی منتشر کر دے گی کجا یہ کہ غیروں کو اپنی طرف سمیٹیں تو چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں لیکن بہت گہرے اثرات والی باتیں ہیں.ایسی تربیت کیسے ممکن ہے جس تربیت سے پہلے بیماری کا علم ہی نہ ہو.کام کو پہچانیں اس سے کام بڑھے گا پس سیکرٹری تربیت کا صرف ایک کام آپ پیش نظر رکھیں تو دیکھیں کتنا پھیلتا چلا جارہا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک انسان کے بس کی بات ہی نہیں لیکن سیکرٹری تربیت کی اپنی روزمرہ زندگی کی مصروفیات کو دیکھیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ سرکلر دے کر فارغ ہو کر بیٹھ گیا اُس کو پتا ہی نہیں کہ اُس نے اور کیا کرنا ہے؟ کام پہچانیں گے تو کام بڑھے گا اور جو کاموں کو پہچاننے کی عادت رکھتے ہیں اُن کے کام بڑھتے ہی رہتے ہیں اور محض دعا اور فضل الہی سے سمیٹتے ہیں.جب کام بڑھتے ہیں تو پھر کچھ اور اس کے نتیجے میں برکتیں خود بخود پیدا

Page 322

309 ہوتی ہیں.میں نے یہاں مجلس عاملہ سے جب گفتگو ہوئی اُن کو انگلستان کی مثال دی.جب میں وہاں آیا تھا تو گنتی کے چند آدمی تھے جن کو کام کرنے والے سمجھا جاتا تھا.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں کہیں تو مبالغہ نہیں ہوگا.ایسے نوجوان، بوڑھے اور بچے پیدا ہو چکے ہیں جو کسی نہ کسی نیک کام میں جماعت کے ساتھ باندھے گئے ہیں اور دن رات خدمتوں میں مصروف ہیں.یہ جسوال برادران ہمارے ہاتھ آئے ہیں.یہ انہی لوگوں میں سے نکل کے آئے ہیں.جہاں کام بڑھیں وہاں خدمت گار بھی خدا تعالیٰ بڑھا دیتا ہے.جہاں کام نہ ہو وہاں پہلے خدمت گاروں کو بھی نیند آنے لگتی ہے.وہ بھی بیزار ہو کر اور تھک کر کاموں میں دلچپسی چھوڑ دیا کرتے ہیں.تو برکت کے لئے کام کا بڑھانا ضروری ہے، مددگار ہاتھ خدا تعالیٰ عنایت کیا کرتا ہے.پس جب آپ کام بڑھائیں اور ساتھ یہ دعا کریں کہ اے خدا! ہمیں اپنی جناب سے سلطان نصیر عطا فرما تو پھر دیکھیں آپ کے کاموں میں کیسے برکت پڑتی ہے.ہر طرف سے آپ کو مددگار میسر آنے شروع ہوں گے اور وہ مددگار میسر آئیں گے جو خدا کی خاطر آپ کے ساتھ کام کریں گے اور یہ نقطہ یا د رکھنے کے لائق ہے.دعا یہ ہے کہ اے خدا! تو اپنی جناب سے سلطان نصیر عطا فرما.رَبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلُ لي مِن لَّدُنكَ سُلْطَنَا نَصِيرًا (بنی اسرائیل : 81 ) دینی کاموں میں خدا کی طرف سے سُلْطنًا نَّصِيرًا کا ملنا نہایت ضروری ہے.اگر آپ اپنے تعلقات کے نتیجہ میں مددگار لیں گے تو ہرگز بعید نہیں کہ جب آپ ٹھو کر کھا ئیں تو آپ کے ساتھی بھی سب ٹھوکر کھا جائیں ، ہرگز بعید نہیں کہ ایک جتھا بن جائے، بظاہر نیکی کے کام ہو رہے ہوں لیکن وہاں در حقیقت ذاتی تعلقات کے نتیجے میں بنے ہوئے جتھے ہوں.ایک کو کام سے ہٹا یا باقی نے کہا ہم بھی پھر کام نہیں کرتے.تو یہ تو نفس کی بیماریاں ہیں، یہ کام کرنے والے نہیں ہیں، کام کرنے والے وہی ہیں جو اللہ سے عطا ہوتے ہیں اور دعا کے نتیجے میں ملتے ہیں، اللہ کی خاطر کام کرتے ہیں.وہ لوگ ٹھوکروں سے آزاد ہیں، کوئی ابتلاء اُن کو ہاتھ نہیں لگا سکتا.اُن کی جوتیوں تک بھی ابتلاؤں کے ہاتھ کی پہنچ نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ خدا والے ہیں خدا کی خاطر آتے ہیں اور اس سے قطع نظر کہ مام جماعت نے ان کے ساتھ کیا کیا اور کیوں کیا؟ وہ اللہ سے اپنا تعلق نہیں توڑتے ، خدمت میں ہمیشہ اپنے نظام آپ کو بیلوں کی طرح جوتے رکھتے ہیں.مجالس کی ضرورتوں کو سمجھ کر منصوبہ بنا کر کام کریں پس یہ کام کرنے والے چاہئیں لیکن یہ پیدا اس طرح ہوں گے جس طرح میں نے بیان کیا.حکمت کے ساتھ ،سلیقے کے ساتھ ، پہلے اپنے کام کو سمجھیں ، صور تحال کا تفصیلی جائزہ لیں اور پھر معین ہر جماعت پر یا ہر مجلس پر نظر رکھیں کہ وہاں کیا کیا ضرورتیں ہیں ؟ بجائے اس کے کہ اندھے سرکلر بھیج دیں کہ فلاں بات یوں ہو

Page 323

310 جائے اور اس کے بعد انتظار کریں کہ یوں ہو گئی ہوگی اور پھر رپورٹوں میں میرا وقت بھی ضائع کریں.ایسی باتیں کریں جو نشانے پر بیٹھنے والی ہوں.میں نے دیکھا، مجھے شکار کا شوق رہا ہے کہ ڈار میں اگر بغیر نشانہ لئے آپ فائز کرتے ہیں تو بہت کم اتفاق ہوتا ہے کہ کوئی پرندہ ہاتھ آئے لیکن ایک پرندہ بھی بیٹھا ہوا گر نشانہ لے کر ماریں گے تو وہ ہاتھ آئے گا.پس کام ایسا کریں کہ نشانہ ہوا اور نشانے کے سامنے کوئی پرندہ بھی ہو.پتا ہو کہ کون سامنے بیٹھا ہوا ہے اور اُس کے لئے تفصیلی جائزے کے بغیر یہ مکن نہیں ہے آپ کو دکھائی تو دے.Kassal میں کیا ہو رہا ہے، Kalfroa میں کیا ہو رہا ہے، ہیمبرگ میں کیا ہورہا ہے، وہاں خدام کیا کرتے ہیں ، کون کون سی بیماریوں میں مبتلا ہیں، کون گندے کا روباروں میں مبتلا ہے، کون جتھے بنا کر غنڈا گردی کروارہا ہے؟ وغیرہ وغیرہ.یہ سب تربیت کی باتیں ہیں.جن پر نظر نہ رکھنے کے نتیجے میں بعض دفعہ فساد بڑھ جاتا ہے، جب قتل ہو جاتے ہیں تو پھر اطلاع دی جاتی ہے کہ جماعت احمدیہ میں بھی ایسا واقعہ ہو گیا ہے.دل کٹ جاتا ہے، اُس پس منظر کو سوچ کر جس میں ایک لمبے عرصے سے ایک ظالم اور قاتل تیار ہو رہا تھا اور جماعت نے کوئی نظر نہیں رکھی.وہ نگران جو تربیت سے تعلق رکھتے ہیں خواہ وہ خدام الاحمدیہ کے ہوں، لجنہ کے ہوں ،انصار کے ہوں، جماعت کے ہوں.وہ اگر ہوش مندی سے کام کر رہے ہوں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی بیماری بڑھ کر پھٹنے کے مقام تک جا پہنچی ہو اور اُن کو پتا نہ لگے.جب پھوڑا پھٹ پڑے جب بد بودار پیپ بہہ نکلے تب وہ اطلاعیں دیں کہ یہ واقعہ ہو گیا ہے.پس باشعور ہو کر کام کریں خدا تعالیٰ مومنوں سے جس حکمت کے تقاضے کرتا ہے اُس حکمت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کریں تو پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کے کاموں میں کتنی برکت پڑتی ہے.یہ جتنے خدام میرے سامنے اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں اللہ کے فضل سے بہت بھاری اجتماع ہے.جماعت جرمنی میں جب میں آغاز میں آیا تھا تو ہمارا جماعتی اجلاس مسجد فرینکفورٹ کے کونے میں ہوا تھا.باقی مسجد خالی پڑی تھی.اب آپ کے ایک کونے میں مسجد فرینکفورٹ آ جاتی ہے لیکن جتنی برکت ہے اتنی کام کی ذمہ داریاں نبھی تو بڑھ گئی ہیں.اتنی زیادہ تفصیلی جائزے کی ضرورت ہے اور گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ جماعت میں کون کون سی کمزوریاں ہیں ان کو کیسے دور کرنے کی کوشش کی جائے.اب مثلا اگلا قدم لیتے ہیں.سیکرٹری تربیت اپنے ساتھ سلطان نصیر تیار کرے.جب ایک سیکرٹری تربیت جائزہ لیتا ہے تو سب سے پہلے تو یہ محسوس کرے گا کہ میں اس کام کے لئے کافی نہیں ہوں.میرے دو ہاتھ اتنے بڑے کام نہیں کر سکتے.میں نے دنیا میں اپنے اور بھی کام کرنے ہیں.جتنا وقت میں جماعت کے لئے نکال سکتا ہوں، دیتا ہوں.اُس کے باوجود یہ ناممکن ہے کہ میں ہر مجلس یا ہر جماعت کی تفصیلی نگرانی کر سکوں.اس وقت وہ دعا اُس کے کام آئے گی جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ اے

Page 324

311 خدا! اپنی جناب سے سلطان نصیر عطا فرما اور پھر جب نظر ڈالے گا تو سلطان نصیر دکھائی دینے لگیں گے.ایسے کارکن اُس کے سامنے آئیں گے جو پہلے اُس سے دین کی خدمت میں کوئی مقام نہ بنا سکے.بطور خادمِ دین کے اُن کا شمار نہیں ہوتا لیکن جب پیار اور محبت سے، دعا کے بعد اُن کے سر پر ہاتھ رکھا جائے ، اُن کو کہا جائے ہمیں تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو اللہ کی تحریک کے نتیجہ میں وہ مدد کے لئے تیار ہوتے ہیں اور اس طرح ہر شعبے کی ٹیم بنی شروع ہو جاتی ہے.ایک ہاتھ ایک نہیں رہتا بلکہ اُس کے ساتھ دس ، پندرہ ، ہیں ایسے مخلصین اکٹھے ہو جاتے ہیں جو اُس کام میں اُس سیکرٹری کے مددگار بن جاتے ہیں.پھر وہ سنبھالتے ہیں مختلف ریجنز بنا کر سنبھالتے ہیں، مختلف علاقوں کو آپس میں تقسیم کر کے یا جو بھی طریقے کا رہو، آپس میں ایک دوسرے کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں اور مل کر پھر وہ ایک تفصیلی جائزہ تیار کرتے ہیں.جو چارٹوں کی صورت میں اُن کے دفتر کے سامنے آویزاں رہتا ہے.اُن سے جب پوچھو آپ کی جماعت میں تربیتی لحاظ سے نماز کس جگہ ہے؟ تو وہ فوری طور پر بتا سکتے ہیں کہ فلاں علاقے میں نماز کی یہ کیفیت ، فلاں علاقے میں یہ کیفیت ہے، فلاں میں یہ ہے.جب ہم نے چارج لیا تھا تو سو میں سے پچاس یا ستر تھے جونماز پڑھا کرتے تھے اب اتنے مہینے کی کوششوں سے ہر مہینے میں ہم نظر رکھ رہے ہیں.خدا کے فضل سے پانچ اور دس اور میں اس طرح شامل ہوتے ہوتے اب تقریباً ساری جماعت نماز با جماعت شروع کر چکی ہے.آپ بے شک پانی گرنے دیں گھبرائیں نہیں اور نہ اُس طرف دیکھیں اب.وہ جو وہاں تماشہ ہور ہا ہے اس کی کوئی قیمت نہیں ہے جو یہاں باتیں آپ سن رہے ہیں ان میں قیمت ہے.اس لئے اصل یہ تربیت ہونی چاہئے آپ کی کہ کچھ بھی ہو جائے جو وہاں کے منتظمین کا کام ہے کہ وہ سنبھالیں.جب چھوٹی سی بات کے اوپر سب گردنیں موڑ موڑ کر ایک واقعہ کی طرف دیکھنے لگ جاتے ہیں.ایک آواز پر کان دھرتے ہیں تو کان تو دو ہی ہیں.اچھی آواز کو چھوڑ کر ایک بے معنی آواز کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.یہ جو طریق کا رہے حکمت کا طریق نہیں ہے، مومنانہ طریق نہیں ہے نظم وضبط پیدا کریں.مجھے یاد ہے ایک واقعہ تاریخ میں پڑھا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ نے ہاتھی کا کھیل دیکھا.ساتھ اس کے، اردگر داس کے سپاہی بھی کھڑے تھے اور ایک راجپوتوں کا دستہ بھی آیا ہوا تھا.مغل بادشاہ کا ہاتھی مست ہو گیا اور وہ مختلف سمتوں میں دوڑنے لگا جب وہ اُس کے اپنے سپاہیوں کی طرف دوڑا تو تتر بتر ہوئے اور گھبرا کے پیچھے ہٹ گئے.جب راجپوتوں کی طرف بڑھا تو اُن میں ایک نے بھی پیچھے قدم نہیں اٹھایا اور تیار تھے کہ جس کے اوپر سے ہاتھی گزر جائے بے شک گزر جائے.اس کیفیت کو دیکھ کر بادشاہ کو یہ سبق ملا فوجی تربیت کے لحاظ سے ہم اس ملک سے ابھی بہت پیچھے ہیں جس کو ہم فتح کر چکے ہیں.پس احمدیوں کو نظم وضبط اور اعلیٰ کردار کا ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ کوئی بھی افراتفری ہو کوئی واقعہ ہو.جن کا تعلق ہے وہ نظر ڈالیں.باقیوں کو

Page 325

312 کوئی پروانہ ہو کہ کیا ہو رہا ہے؟ پس ایک وقتی انحراف کے بعد دوسرے مضمون کی طرف جانا پڑا.سال کا اکٹھا پروگرام دینے کے بجائے ٹکڑوں ٹکڑوں میں پروگرام دیں اب اصل مضمون کی طرف پھر واپس آتا ہوں.جب تربیت کے متعلق یہ معلوم کر لیا کہ کس مجلس یا کس جماعت میں تربیت کی کیا کیا خرابی ہے؟ تو اکٹھا سارے سال کا پروگرام دینا بے فائدہ ہوتا ہے.اگر آپ سارے سال کا پروگرام ساری جماعتوں کو اکٹھا بھیج دیں گے تو وہاں کے کام کرنے والوں کی اکثر صورتوں میں صلاحیت ہی نہیں ہوگی کہ وہ کام کو اجتماعی طور پر سمجھ سکیں اور خوداس کوٹکڑوں ٹکڑوں میں بانٹ کر اتنا کام کریں جتنا اُن کی طاقت میں ہے.وہ گھبرا جاتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ اتنے بڑے کام ہم نے کرنے ہیں اتنے آدمیوں کو نمازی بنانا ہے، اتنوں کی زبان درست کرنی ہے، اتنوں کے تعلقات ٹھیک کرنے ہیں، اتنے آزاد منش لوگوں کی آوارہ گردیاں ٹھیک کرنی ہے، اتنوں پر یہ نظر رکھنی ہے، اتنوں پر وہ نظر رکھنی ہے، اتنے بڑے کام ، ہم نے اور بھی تو کام کرنے ہیں.یہ رد عمل ہوتا ہے جو طبعی نفسیاتی ردعمل ہے جو ہر انسان میں پیدا ہوتا ہے.ان کو پتا نہیں کہ کام کیسے کرنا ہے؟ اس لئے وہ سیکرٹری جس نے ایک ٹیم بنائی ہے، جس نے سلیقے کے ساتھ کام کا تجزیہ کیا ہے؟ اس کا کام یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے کام معین طور پر مختلف مجالس کے سپر د کرے.ہر مجلس کے سپر دایسا کام کرے کہ جو مجلس والے جانتے ہوں کہ ہمیں دیکھ کر یہ بتا رہا ہے.ان کو محسوس ہو کہ ہم نظر آ رہے ہیں اس وقت.اُن کو پتا ہو کہ فلاں فلاں کمزوری ہمارے اندر پائی جاتی ہے اور ہمیں جو کہا جارہا ہے کہ اتنے آدمیوں میں سے اتنوں میں یہ کمزوریاں ہیں اس کو دور کرو تو یہ ایک معین پیغام ہے.نمازی بنانے کے ساتھ سلیقہ بھی سکھائیں پھر یہ نہیں کہنا کہ بے نمازیوں کو نمازی بناؤ بلکہ اُس کا سلیقہ بھی سکھانا ہے.یہ بھی بتانا ہے کہ کس طرح یہ کام کرنا ہے اور پھر معین وقت دینا ہے کہ ایک مہینے میں تم محنت کر کے ہمیں اپنے نتیجے سے مطلع کرو.جیسے مثال دے رہا تھا کہ ایک مجلس میں سو میں سے 70 نمازی ہیں اگر.تو اُن سے یہ درخواست کی جائے کہ ایک مہینہ محنت کرو اور 70 کو 75 بناؤ ،80 بناؤ، 90 بناؤ جتنی توفیق ہے لیکن معین طور پر پانچ یا چھ یا سات یا آٹھ یا دس ہیں آدمیوں کو پیش نظر رکھ لو.اور اُن کو مختلف انصار یا مختلف خدام یا مختلف ممبرات لجنہ کے سپر د کرو اور اس سپردگی کی ہمیں اطلاع کرو.ہمیں بتاؤ کہ کس بیمار کو کس صحت مند کے سپر د کیا گیا ہے؟، کیا ہدایتیں دی گئی ہیں، کس طرح کام کر رہے ہیں، کس طرح ان کے اندر نیکی کے بیج ڈال رہے ہیں؟ یا اُن کے اندر ولولہ پیدا کر رہے ہیں.جب یہ بات ہوگی تو فورا یہ بھی خیال آئے گا.جب ہم میدان کارزار میں کسی سپاہی کو بھیجتے ہیں تو ہتھیار بھی تو دینے چاہئیں.پھر سیکرٹری کو یہ بھی خیال آئے گا تربیت کے متعلق خصوصا نماز کی اہمیت سے متعلق

Page 326

313 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایسے ایسے اعلیٰ اقتباسات ہیں.اُن میں سے ایک دو چن کر میں کیوں نہ بھیج دوں.ایسی احادیث نبویہ ہیں جن سے نماز کی غیر معمولی اہمیت انسان پر روشن ہوتی ہے اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے زیادہ دلوں میں کوئی بات تبدیلی پیدا نہیں کر سکتی یعنی قرآن کے بعد وہ قرآن کی ہی باتیں ہوا کرتی ہیں تو ان معنوں میں کہہ رہا ہوں کہ قرآن کا پیغام جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچاتے ہیں تو اُس سے زیادہ اثر کسی اور چیز کا نہیں ہوتا.پھر وہ ایسی حدیثوں کو بھی تلاش کریں گے جن میں دلوں میں انقلاب بر پا کرنے کی طاقتیں موجود ہیں.وہ سوچیں گے کہ یہ یہ حدیثیں لکھ کے دیں لیکن اکٹھی کتابیں نہ بھیجیں، لمبی مضمون نگاریاں کام نہیں دیا کرتیں.وہ لوگ جو تربیت کے محتاج ہیں لمبی تقریریں پڑھنے کا وقت ہی نہیں ہوا کرتا.اس لئے وہ ایک دو چھوٹی چھوٹی باتیں بھجوائیں ، چھپوا کر یا کمپیوٹر میں ڈال کر کا پیاں بنوالیں اور اپنے مقابل کے سیکرٹری تربیت کو یہ سمجھائیں کہ معین طور پر ایسی ٹیم تیار کرو جس کے سپر د ایک ایک آدمی ہو یا کسی میں زیادہ طاقت ہے تو دود و آدمی ہوں.آئندہ مہینہ وہ جومحنت کریں اُن میں یہ یہ فصیحتیں کریں انہیں اس طرح سمجھانے کی کوشش کریں اور پھر معین نتیجے سے مطلع کریں.فلاں فلاں شخص نے اللہ کے فضل سے نماز شروع کر دی ہے، فلاں فلاں شخص بدگمانی کرتا تھا اُس نے وعدہ کیا ہے کوشش شروع کر دی ہے، فلاں شخص میں یہ کمزوریاں تھیں وہ ان سے باز آ گیا ہے.فلاں میں رجحان تھا کہ گندی مجالس میں جائے ، شراب کی مجلسوں میں بیٹھے ، ان سے بداثر کو قبول کرے.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن مجالس سے اس نے اجتناب شروع کر دیا ہے.یہ رپورٹیں ہیں جو حقیقی ہیں جو کوئی معنی رکھتی ہیں.طاقت کے مطابق کسی کے سپر داتنا کام کریں جتنا وہ سمیٹ سکتا ہو اور ہر مہینے کا کام سپرد کرتے وقت اس آیت کریمہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ اللہ تعالیٰ انسان پر اُس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا اور یہی دعا ہمیں سکھاتا ہے کہ اے خدا! ہم سے ایسا ہی سلوک فرما.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ( البقرہ: 287) کا اعلان ہے کہ ہرگز خدا کسی جان پر اُس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا.اور پھر دعا یہ سکھا دی رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ (البقرہ: 287) اے خدا تو ایسے ہی کیا کرتا ہے مگر پھر بھی ہماری دوبارہ یہ التجا ہے کہ ہم پر ایسے بوجھ نہ ڈالناجو ہم اٹھا نہ سکیں ، جو ہماری کمر توڑ دیں.تو یہ بنیادی نکات ہیں تربیت کے ان دو آیات میں عظیم الشان قوموں کی اصلاح کے راز بیان فرما دیئے گئے ہیں اور بڑے کاموں کو آسان کرنے کے طریق سکھا دیئے گئے ہیں.پس اُتنا اتنا کام ایک وقت میں کسی مجلس کے کسی عہدیدار کے سپر د کریں جتنا وہ سمیٹ سکتا ہو، سنبھال سکتا ہو، جس کا وہ بوجھ اٹھا سکتا ہو، جس بوجھ کو اٹھا کروہ منزل تک پہنچا سکتا ہو اور پھر گرانی رکھیں اس وقت تک اگلے کام

Page 327

314 نہ دیں جب تک یہ کام نہ ہو جائیں.کہتے چلے جائیں، کہتے چلے جائیں، کہتے چلے جائیں، نہ تھیں پوچھتے رہیں اور معین پوچھیں کہ فلاں بات میں بتاؤ کیا نتیجہ نکلا، کوئی بہتری ہوئی کہ نہیں.جب دیکھیں کہ ایک طرف سے بالکل جواب نہیں آرہا تو اُن مشکل لوگوں کو اُن کے کھاتے سے نکال دیں، اُن کے لئے اور تدبیر سوچیں اور جو دوسرے ہیں جن کی طرف توجہ ابھی نہیں ہوئی اُن میں سے کچھ ان کے سپر د کر یں.جب میں کہتا ہوں اصرار کے ساتھ کام کے پیچھے پڑے رہیں.چھوڑنا نہیں تو ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ جو مثبت جواب دے ہی نہیں رہا اُسی کے ساتھ سر ٹکراتے رہیں اور اپنا وقت جو کسی اور جگہ بہتر مصرف میں کام آ سکتا تھا اُس کے اوپر ضائع کرتے چلے جائیں بلکہ مراد میری یہ ہے کہ معقول حد تک ایک آدمی کو سمجھائیں اور جب وہ آپ کی طاقت سے باہر دکھائی دے تو اسی اصول کے تابع کہ اللہ تعالیٰ کسی کی طاقت سے بڑھ کر اُس پر بوجھ نہیں ڈالتا.آپ اپنے بوجھ کو مقامی سیکرٹری مرکزی سیکرٹری کی طرف منتقل کریں اور کہیں کہ ہم اب ان سے ہاتھ کھینچ رہے ہیں ہمارے بس کے لوگ نہیں ہیں.آپ سے جو کچھ ہو سکتا ہے آپ کر لیں اور ہمیں موقع دیں اب ہم اپنی توجہ دوسری طرف پھیریں.اس طرح آپس میں افہام و تفہیم کے ذریعے ایک حصے کو پکڑا اُس کو ٹھیک کیا.دوسرے کی طرف منتقل ہوئے اُس کو سنبھالا، اس پر وقت صرف کیا.اس بات سے بالکل نہ گھبرائیں کہ نتائج جلدی ظاہر نہیں ہور ہے.نتائج خواہ تھوڑے ظاہر ہوں ،معین اور ٹھوس نتائج ظاہر ہونے چاہئیں.وہ لوگ جو مجھے لکھتے ہیں کہ ہم نے نصیحت کی بڑا اثر ہوا.مجھے پتا لگ جاتا ہے کہ کتنا اثر ہوا ہے؟ اگر اثر ہوا ہوتا تو اعداد و شمار بتاتے.یہ بتاتے کہ اتنے آدمی یہ تھے اب یہ بن گئے ہیں.یہ کہ دینا کہ بہت اچھی تقریر ہوگئی ، بہت اثر ہوا.اس سے کیا فائدہ ہوا.ادھر اثر ہوا ادھر مٹ گیا اور جب مجلس سے الگ ہوئے تو بھول بھال گئے کہ کیا سن کے آئے تھے؟ اثر وہ ہوتا ہے جو قائم رہے جسے انسان محفوظ کر لے.اپنے دلوں میں، اپنے دماغ میں، اپنے اعمال میں، ہمیشہ کے لئے اُن کو سجا کے رکھے، اُن تبدیلیوں کی قدر کرے،خدا سے استقامت مانگے ، اس کو اثر کہتے ہیں.پس یہ اثر تو تفصیلی توجہ سے ہوگا اور مستقل توجہ سے پیدا ہوگا.پس میں امید کرتا ہوں کہ اس طریق پر باقی سیکر ٹریاں بھی اپنے اپنے کام کریں لیکن اس کے ساتھ پیدا ہونے والی ضرورتوں کو بھی پیش نظر رکھیں.وہ ضرور تیں کئی قسم کی ہوسکتی ہیں.مثلا تربیت کے معاملے میں یہ ضرورت پیش ہو سکتی ہے کہ آپ امارت کی طرف یا صدارت کی طرف وہ چند مشکل آدمی منتقل کر دیتے ہیں اُن کا کام یہ نہیں ہے کہ رپورٹ پڑھ کر پھر کہہ دیں کہ اچھا یہ لوگ ہاتھ سے گئے.اُن کا کام یہ ہے کہ جائزہ لیں ان لوگوں پر اور کون کون سے اثر رکھنے والے لوگ ہیں.جماعت جرمنی میں اور کون ہیں جن سے ان کا تعلق ہے.پیچھے سے یہ کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں.کیا ایسے ہیں کہ ان کے ماں باپ کا کوئی اثر ہو جو پیچھے رہ گئے ہوں یا اور رشتہ داروں کا کوئی اثر ہو.کیا ان میں کوئی ایسا ہے جو براہ راست ان کو اگر خلیفہ وقت کی طرف

Page 328

315 سے یا اُس کے کسی نمائندے کی طرف سے چٹھی جائے تو طبیعت میں شرمندگی پیدا ہو اور زیادہ توجہ کرے.تو اس تمام جائزے کے بعد ایک نیا لائحہ عمل اُن کے لئے تیار ہو گا.اس لائحہ عمل کی روشنی میں بھاری امید ہے کہ کچھ اور لوگ جو پہلے اثر کو قبول نہیں کرتے تھے.نیک اثر کو قبول کریں گے، پاک تبدیلیاں دکھائیں گے، یہ اتنا وسیع کام ہے اور اتنی مسلسل محنت چاہتا ہے کہ کوئی سیکرٹری تصور کر لے کہ میرا کام ہے کیا ؟ مجھ پر کیا ذمہ داری ہے؟ تو اگر وہ دعا پر ایمان نہ رکھتا ہو، اللہ کی مدد پر تو کل نہ کرتا ہو تو وہ سمجھے گا کہ میں اس لائق ہی نہیں کہ میں اس کام کو سرانجام دے سکوں.وہ سمجھے گا کہ میرا دیانت دارانہ فرض یہ ہے کہ استعفیٰ دے دوں، یہ کام میرے بس سے باہر ہے.لیکن یاد رکھیں کہ کام آپ کے بس سے باہر نہیں ہے.وہی اصول جو میں نے بیان کیا ہے لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا وہ ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ اے جماعت احمد یہ ! تمام دنیا کے انسانوں کو تم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا ڈالنا ہے اور یہ کام تمہارے بس میں ہے اگر تمہارے بس میں نہ ہوتا تو میں تمہارے سپرد نہ کرتا.تم آخرین کی وہ جماعت ہو جن سے تمام دنیا کی امیدیں وابستہ کر دی گئی ہیں.میں جانتا ہوں کہ تم میں کیا صلاحیتیں ہیں؟ اور اگر تم اُن صلاحیتوں کو بروئے کار لا ؤ، دعاؤں سے کام لو، حکمت اور تدبیر سے کام لو تو یہ کام تمہارے بس میں ہے.اس یقین کے ساتھ تم نے آگے قدم بڑھانا ہے اور اس یقین کے نتیجے میں جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں جیسا کہ میں بیان کر رہا ہوں.حکمت کے ساتھ ، آنکھیں کھول کر، ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہوئے اُن ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کرنا ہے اور جیسا کہ میں نے بار بار بیان کیا ہے.دعا کے بغیر حقیقت میں کسی قدم میں بھی برکت نہیں پڑسکتی.پس لازما ساتھ ساتھ ہر عہدیدار کو اپنے لئے بھی دعا کرنا ہوگی اور جن نائبین سے اُس نے کام لینا ہے اُن کے لئے بھی دعائیں کرنی ہوں گی.شعبه اصلاح وارشاد و دعوت الی اللہ کو زریں نصائح اب دیکھئے کہ ایک شعبہ ہے اصلاح وارشاد کا یا دعوت الی اللہ کا.اُس شعبے میں بہت کام کی ضرورت ہے اور اب تک بھاری تعدا د احباب جماعت جرمنی کی اور خواتین جرمنی کی ایسی ہے جن کو دعوت الی اللہ کا سلیقہ ہی معلوم نہیں.ان کو پتا ہی نہیں کہ دعوت الی اللہ کس طرح کرتے ہیں؟ اور اُس کے لئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے؟ دعوت الی اللہ کے لئے جو شخصیت میں جذب چاہئے، قوت جاذ بہ چاہئے ، دعوت الی اللہ کے لئے شخصیت میں جو اللہ تعالیٰ کے قرب کی علامتیں ہونی چاہئیں.دعوت الی اللہ کے لئے بات بیان کرنے کا جو سلیقہ چاہئے ، دعوت الی اللہ کے لئے اس شخص کی زبان سے واقفیت جس کو آپ دعوت کر رہے ہیں، اُس کی جو ضرورت ہے.دعوت الی اللہ کے لئے جس صبر کی ضرورت ہے، جس حکمت کی ضرورت ہے، یہ ایک بہت وسیع

Page 329

316 کارخانہ ہے اور ہر انسان میں مختلف صلاحیتوں کو بیدار کرنا ہوگا اور اُن کے اوپر کا ٹھی ڈالنی ہوگی اُن صلاحیتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کے لئے مسخر کرنا ہوگا.اتنا بڑا کام سیکرٹری دعوت الی اللہ کا ہے لیکن جب اُس سے پوچھا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ اُس کو یہ بھی نہیں پتا کہ اب تک جماعت احمد یہ اس ضمن میں کیا لٹریچر شائع کر چکی ہے اور کیا کیا چیزیں اُس کے کام کی موجود ہیں جن سے وہ فائدہ نہیں اٹھا رہا.کام کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ اس سے بھی اُس کو پوری واقفیت نہیں ہوتی اور یہ جائزہ ہی نہیں لیتا کہ ہر مجلس، ہر جماعت میں معین طور پر کون کون ہے جو دعوت الی اللہ کر رہا ہے اور کن کن کو پیغام پہنچا رہا ہے.اُس میں اپنی صلاحیتیں کیا ہیں؟ اُس کے پاس مناسب لٹریچر بھی ہے کہ نہیں؟ اور اگر نہیں ہے تو کس نے اُس کو مہیا کرنا ہے یہ سارے سوالات ایسے ہیں جن کا کوئی جواب لوگوں کو پتا نہیں ہوتا اور عہدے سنبھالے ہوئے ہیں اپنی شان کی خاطر نہیں ، خدمت کی خاطر.اُن کی نیتوں پر حملہ نہیں کرتا.اکثر وہ ہیں جو اخلاص کے ساتھ ذمہ داری سے یہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں لیکن یہ بوجھ اٹھانے کی صلاحیت اُن میں اس لئے موجود نہیں کہ اپنی صلاحیتوں کو بیدار نہیں کر سکے، صلاحیتیں تو ہیں لیکن صلاحیتوں کو پہچان نہیں سکے.ان صلاحیتوں کو خود اپنی ذات میں مسخر نہیں کر سکے.پس وہ ساری صلاحیتیں جو خوابیدہ صورت میں آپ کے اندر پائی جاتی ہیں اُن کو بیدار کرنا ہو تو دعا اور حکمت کے ساتھ ، محنت کے ساتھ ایک ایک صلاحیت کو بیدار کرنا ہوگا اور وہ ٹیم مؤثر طور پر بنانی ہوگی جو دن بدن پھیلتی چلی جائے.اس وقت جو آثار مجھے دکھائی رہے ہیں، معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت جلد جلد اب عظیم انقلابات جماعت کے حق میں رونما ہونے والے ہیں، بہت جلد جلد بہت بڑی بڑی تبدیلیاں پیدا ہونے والی ہیں ، تو میں فوج در فوج انشاء اللہ نظام جماعت احمدیہ میں اور اس نظام کے رستے سے اسلام میں داخل ہوں گی اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں سر رکھنے کے لئے والہانہ طور پر آگے بڑھیں گی کیونکہ ساری برکتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں سے ہیں.یہ وہ قدم ہیں جس سر پر پڑیں اُس سر کے لئے سب سے بڑی سعادت ہو سکتے ہیں اور جب میں یہ کہتا ہوں تو اس میں ادنیٰ بھی مبالغہ نہیں ہے.تمام مجالس، جماعت ہیں اور انہوں نے سلطان نصیر بن کر میری مدد کرنی ہے پس میں ایسے حالات دیکھ رہا ہوں ، ایسی تبدیلیاں دنیا میں دیکھ رہا ہوں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت تیزی کے ساتھ اب قو میں جماعت احمدیہ میں داخل ہونے والی ہیں اور جب میں دیکھتا ہوں تو اُس کے مقابل پر جو ہم نے تیاریاں کی ہیں اُن پر نظر پڑتی ہے تو میں لرز اٹھتا ہوں مجھے اپنی کمزوری کا احساس ہوتا ہے، اُس ذمہ داری کے تصور سے میں کانپ اٹھتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے میرے عاجز کندھوں پر ڈالی ہے، میں اُس

Page 330

317 سے دعا کرتا ہوں کہ تو مجھے تو فیق بخش مجھے ہرگز یہ طاقت نہیں لیکن تو کل رکھتا ہوں، یقین کرتا ہوں اگر تو نے مجھے پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے تو درست ڈالی ہوگی لیکن میں اپنے نفس پر خود غالب نہیں آسکا، میں خود کمزور ہوں، مجھے خود اپنی صلاحیتوں کو تیرے حضور مسخر کرنے کا طریقہ معلوم نہیں.تو میری نصرت فرما اپنی جناب سے تو سلطانِ نصیر عطا فرما.پس ساری جماعت کو اس طرح بیدار کر دے، اِس طرح ولولے اُن کے دلوں میں پیدا کر دے کہ ارتعاش پیدا ہو جائے.یہ عظیم پانی جو سب دنیا میں جگہ جگہ جھیلوں کی صورت میں موجود ہے، بحرمواج کی صورت میں موجیں مارنے لگے اور عظیم انقلاب دنیا میں برپا کرنے کا موجب بنے.اس وقت انقلابات کے آثار بڑی تیزی سے ظاہر ہو رہے ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ عنقریب انشاء اللہ لاکھوں کی تعداد میں ہر سال جماعت میں لوگ داخل ہوں گے ، اُن کو سنبھالنا کیسے ہے؟ اُن کی تربیتی ضرورتوں کو کیسے پورا کرنا ہے؟ اُن کو باخدا کیسے بنانا ہے؟ یہ وہ کام ہیں جو سب سے زیادہ جماعت احمدیہ کے لئے چیلنج بنے ہوئے ہیں اور جب تک ہر فرد کی ہم تربیت نہ کریں اُس وقت تک اس ذمہ داری کو ادا نہیں کر سکتے.ہماری تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ ایک ایک آدمی کے سپرد آنے والوں میں سے اگر سوسو بھی کئے جائیں تب بھی یہ نسبت شائد کم ہو اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے.پس آنے والوں کی تربیت کے لئے اپنے نفوس کو تیار کریں، اپنے گھر صاف کریں، اپنے گھروں کو صفات الہی اور ذکر الہی سے سجائیں اور ہر شخص اپنا جائزہ لے کہ مجھ پر جو ذمہ داریاں عائد ہونے والی ہیں جن آنے والوں کو میں نے سنبھالنا ہے، جن کی میں نے تربیت کرنی ہے.جن کو آگے نشو ونما کے طریق سکھانے ہیں، جن کو بڑھنا، پھولنا اور پھلنا بتانا ہے کہ کیسے ہوا کرتا ہے؟ مجھے اگر یہ باتیں معلوم نہیں ہوں گی تو یہ میں کیسے کروں گا ؟ اپنے گھر پر نظر رکھے، اُن نسلوں پر نظر رکھے، جو وہ آگے بھیجنے والا ہے تا کہ آئندہ نسلوں کی ضرورتیں بھی اسی گھر سے پوری ہوں یہ وہ کام ہیں جن کا تصور کر کے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ وہ کام ہے جس میں مجالس نے للہی سلطان نصیر بن کر میری مدد کرنی ہے اور ساری مجالس دراصل جماعت ہی ہے.اگر جماعت من حیث الجماعت اُن ذمہ داریوں کو پورا کرے جن کی طرف میں نے نشاندہی کی ہے.اس سلیقے سے کام کریں جس کا میں نے تذکرہ کیا ہے تو وہ کام جو آپ کو مشکل دکھائی دیتے ہیں.آسان ہونے شروع ہو جائیں گے، دن بدن آسان سے آسان تر ہوتے چلے جائیں گے میں نے بار ہا تجربہ کیا ہے کہ ایک کام جوا چانک لگتا ہے کہ سر پر پہاڑ آپڑا ہے اور ایک نہیں دو تین مختلف سمتوں سے بعض پہاڑ لگتے ہیں، سر پر آپڑنے کے لئے تیار.جب دعا کرتا ہوں اور عاجزی سے خدا کے حضور اپنے آپ کو پیش کر دیتا ہوں تو وہ سارے پہاڑ روئی کے دھنکے ہوئے پہاڑ دکھائی دیتے ہیں جن کا کوئی وزن نہیں.خود بخود ہلکے ہو جاتے ہیں اللہ کے فرشتے ان کو اٹھاتے ہیں اور سارے کام سلیقے سے خود بخود ہونے لگتے ہیں.ساری دنیا میں جو نظام

Page 331

318 جماعت از خود پانی کی طرح بہہ رہا ہے خاموشی سے جاری وساری ہے.وہ نظام کی خوبیاں جو آپ جماعت جرمنی میں ملاحظہ کر رہے ہیں ، جماعت یو کے میں ملاحظہ کر رہے ہیں، یونائیٹڈ سٹیٹس میں ملاحظہ کر رہے ہیں جو کینیڈا میں ملاحظہ کر رہے ہیں، جو پاکستان اور بنگلہ دیش اور برما اور دیگر ممالک میں اور جاپان وغیرہ میں ملاحظہ کر رہے ہیں.یہ محض اللہ کا احسان ہے، خدا کا فضل ہے، دعاؤں کے نتیجے میں کاموں کو آسان کر کے جاری فرما دیتا ہے اور جاری کام یوں لگتا ہے کہ از خود چل رہے ہیں حالانکہ خدا کے فرشتے اُن کے پیچھے لگے ہوتے ہیں، خدا کے فرشتے اُن کو جاری وساری رکھنے کے ذمہ دار بن جاتے ہیں.پس اس طرح اگر آپ دعا ئیں کر کے ہسلیقے سے اپنے کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے درخت وجود کو بے انتہا برکتوں والے پھل لگیں گے.ہر سال کثرت کے ساتھ آپ میں اللہ کا تقویٰ رکھنے والے ایسے بزرگ اولیاء پیدا ہونے لگیں گے جن کی دعائیں جماعت کے لئے مزید مددگار بنیں گی ، جن کے وجود خدا نما ہو جائیں گے.جن کو دیکھنا صداقت کو قبول کرنے کے مترادف ہوگا.اُن کی نیکی کی برکت سے آپ کو بہت سے پھل لگیں گے جن سے آج آپ محروم ہیں.مہینے میں ایک آدمی کو بہتر انسان بنا دیں تو آپ نے نجات پالی پس سارا زور اس بات پر دیں کہ متقی اللہ سے تعلق رکھنے والے انسان پیدا کریں اور یہ پیدا کرنا بہت محنت چاہتا ہے، بہت صبر چاہتا ہے، سلیقہ چاہتا ہے، دعاؤں کا تقاضا کرتا ہے، محنت کے ساتھ ایک ایک کر کے کام کرنا شروع کریں اگر آپ مہینے میں ایک آدمی کو بہتر انسان بنا دیتے ہیں ،اگر اُس کی کمزوریاں دور کرتے ہیں، اُس کے لئے خیرات اور نیکیوں کی دعائیں کرتے ہیں اور ہر کمزوری کے بجائے ایک خوبی اُس کے دل میں سجا دیتے ہیں.تو سمجھیں کہ آپ نے نجات پالی.آپ خدا کے حضور نجات یافتہ شمار کئے جائیں گے لیکن ایک نہیں ، دو نہیں آپ نے تو لاکھوں کو تبدیل کرنا ہے ، اُن لاکھوں نے پھر کروڑوں ، اربوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں.یہ وہ بڑا کام ہے جو اس صدی کے آغاز میں ہم نے اس سلیقے سے کرنا ہے کہ آنے والی صدی ہمیں نمونے کے طور پر دیکھے اور ہمارے بتائے ہوئے رستوں پر ہماری چال کے ساتھ ، ہماری اداؤں کے ساتھ چلے اور ہر چلنے والا عملاً آپ کو دعائیں دے رہا ہو.جنہوں نے پہلے آکر ان کو چلنے کے سلیقے سکھائے.کارکنان کو درود پڑھنے کی تلقین یہی وہ مضمون ہے جو درود شریف میں دراصل کار فرما ہے.حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جب بھی ہم دل کی گہرائیوں سے درود پڑھتے ہیں تو اس درود کا تعلق کسی ایسی نیکی سے ہوتا ہے جو

Page 332

319 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے نتیجے میں آپ کو عطا ہوتی ہے.اگر اس درود کا تعلق کسی نیکی سے نہ ہو تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ درود محض منہ کی باتیں ہیں کوئی حقیقت نہیں.سارا دن کوئی درود رشتا رہے اگر جذ بہ احسان کے ساتھ یہ درود زبان سے نہ اٹھے اگر اس کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ایسے احسان کے ساتھ نہ ہو جو حسن بن کر اُس کی ذات میں جاری ہو گیا ہو.تو یہ درود ایک فرضی بات ہے اور یہی وہ درود ہے جو آپ کے لئے آگے آنے والی نسلیں پڑھا کریں گی اگر آپ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات پر نظر رکھتے ہوئے اپنی ذات پر اُن کو جاری کرتے ہوئے محسوس کرتے ہوئے یہ دیکھ کر کہ اس ازلی و ابدی آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہمیں بطور احسان ہمیں نیکی ملی ہے اگر وہ نہ ہوتے تو ہم میں یہ بات نہ ہوتی.پھر درود پڑھیں گے تو وہ درود ایسا درود ہوگا جو آپ کی ذات میں آئندہ جاری ہو جائے گا.آپ کی نیکیاں اسی طرح اگلی آنے والی نسلیں دیکھیں گی اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل جو پاک تبدیلیاں کرنے کی صلاحیتیں آپ کو عطا ہوئی ہیں.تبدیلیاں جب جہاں بھی کہیں بھی دنیا میں واقع ہوں گی.وہ تبدیلیاں اُن تبدیلیوں کا فیض پانے والا خواہ زبان سے کہے یا نہ کہے.عملاً اُس کے اعمال آپ پر درود بھیج رہے ہوں گے.دعاؤں سے بوجھل کام بھی آسان ہو جاتے ہیں پس یہ وہ کام ہیں جو ہم نے کرنے ہیں بوجھل سہی ، بھاری سہی مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر دعائیں کرتے ہوئے عجز وانکساری کے ساتھ ، حوصلہ اور توکل رکھتے ہوئے بڑے سے بڑے کام پر بھی آپ ہاتھ ڈالیں گے تو آسان کر دیا جائے گا.حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے غلاموں کو بتایا تھا تم میرے کاموں پر تعجب کرتے ہومگر میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر رائی کے برابر بھی تم میں ایمان ہو تم پہاڑوں کو اپنی طرف بلاؤ گے تو دیکھو گے پہاڑ تمہاری طرف چلے آتے ہیں.مسیح کی قوم اُن پہاڑوں کو اپنی طرف بلانے میں ناکام رہی.اے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامو! اے عاشق محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامو! تم آپ کے بھیجے ہوئے آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق آئے ہوئے مسیح کی غلامی کا دعوی کرتے ہو خدا کی قسم اگر تم تو کل رکھتے ہوئے اور ایمان کے جذبے کے ساتھ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے پہاڑوں کو اپنی طرف بلاؤ گے تو ضرور پہاڑ تمہاری طرف آئیں گے.تم دنیا میں عظیم انقلاب بر پا کر سکتے ہو تم بڑی سی بڑی روکوں کو خاک کی طرح رستوں سے اڑا سکتے ہو لیکن اپنی صلاحیتوں کو پہچانو.جانو کہ تم کون ہو؟ کن سے وابستگی سے تم کو طاقت نصیب ہوگی.کس سلیقے اور حکمت کے ساتھ، مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرنے ہوں گے ایسا کرو گے تو تمہارے کام آسان ہو جائیں گے، تمہارے کام بو جھل محسوس نہیں ہوں گے.ایسے کام جو دعا کے ساتھ ، تو کل کے ساتھ، اللہ اور رسول کی محبت میں کئے جاتے ہیں، وہ بوجھ نہیں بنا کرتے ، بوجھ محسوس ہوتے ہیں اُن

Page 333

320 لوگوں کو جو باہر سے دیکھتے ہیں ، جو وہ کام کرتے ہیں اُن کے لئے کام آسان ہوتے چلے جاتے ہیں.وہ سارا دن کام کرتے ہیں اور نہیں تھکتے ، دیکھنے والے حیران ہوتے ہیں کہ کیوں نہیں تھکتے.اس لئے کہ وہ کام اپنی ذات میں لمحہ بہ لحہ اُن کو جزا دے رہے ہوتے ہیں ، اُن کو طاقت بخش رہے ہوتے ہیں.پس میں جب کاموں کی تفصیل بیان کرتا ہوں تو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں.میں تجربے سے آپ کو بتا تا ہوں کہ دعا اور حکمت اور سلیقے کے ساتھ آپ ہر جگہ اپنی اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کریں گے تو مشکل سے مشکل کام بھی آپ کے لئے آسان کر دئیے جائیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے اور آپ کی وساطت سے یہ پیغام تمام دنیا کی جماعتوں اور مجالس کو پہنچ رہا ہے جن جن کانوں تک یہ آواز جائے دوسروں سے سننے والوں سے سنیں اُن کو میں خدا اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ ان باتوں کو ضائع نہ کریں اپنے پلے باندھیں.ان پر عمل شروع کریں اور دعا کرتے ہوئے آگے قدم بڑھا ئیں.بہت سے پھل ہیں جو آپ کا انتظار کر رہے ہیں.خدا کی رحمت نے اُن کو پکا دیا ہے.آپ نے جھولیاں آگے کرنی ہیں وہ پھل ٹوٹ ٹوٹ کر آپ کی جھولیوں میں گریں گے.جھولیاں تو آگے کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو تو فیق عطا فرمائے.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ دعا ہے.ہاں میں بھول گیا تھا.یہ افتتاح کے مضمون کی وجہ سے مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ خطبہ ہورہا ہے آج ، اور خطبہ ثانیہ بھی ہو گا.اس لئے کسی اور دعا کی ضرورت نہیں.خطبہ کے بعد نماز جمعہ ہوگی اُس میں انشاء اللہ تعالیٰ سب دعا ئیں ہو جائیں گی." خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 401-423) ذیلی تنظیموں کو اجتماعات کے لئے حقیقت پسندانہ پروگرام بنانے کی تلقین خطبہ جمعہ 13 اگست 1993ء) " ان تمام اجتماعات سے متعلق میں ایک مرکزی بات جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں یہ سب تربیتی اجتماعات ہیں اور آج کل جبکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت دنیا میں بکثرت پھیل رہی ہے اور رفتار تیز تر ہوتی چلی جارہی ہے تربیت کی طرف پہلے سے زیادہ گہری نظر کے ساتھ اور مستقل مزاجی کے ساتھ توجہ دینی ہوگی.مجھے بچپن سے مختلف قسم کے تربیتی اجتماعات میں شامل ہونے کی بھی توفیق ملتی رہی اور وہ اجتماعات منعقد کروانے کی بھی توفیق ملتی رہی.مختلف جماعتی ذمہ داریوں میں یہ تجربے اطفال الاحمدیہ سے لے کر انصار

Page 334

321 اللہ تک کی عمر تک دراز ہیں.میں نے ایک بات جو ہمیشہ محسوس کی اور اس کی وجہ سے طبیعت میں اطمینان نہیں ہو سکا کہ اجتماعات پوری طرح فائدہ مند ہیں بھی کہ نہیں، وہ یہ تھی کہ اجتماعات میں ضرورت سے زیادہ پروگرام بھر دیئے جاتے تھے اور کوشش کی جاتی تھی کہ تین دن میں سب کچھ پڑھا دیں.قرآن کریم کا کورس،حدیث کا کورس، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کا کورس ، نماز میں یاد کروانا، تبلیغ کے گر بتانا تبلیغ کی مرکزی آیات بتانا، اعتراضات کے جواب سکھانا ، یہ ناممکن ہے.ہو ہی نہیں سکتا کہ تین دن یا پندرہ دن کے اجتماع میں بھی یہ ساری باتیں اچھی طرح بچوں کے ذہن نشین کرادی جائیں.پھر وہ سرسری سے امتحان ہوتے تھے اور پھر انعامات تقسیم ہو گئے اور سب نے جبّذا کہا اور چھٹی ہو گئی.کچھ دن کے بعد جب آپ ان بچوں سے جا کر پوچھیں کہ کچھ یاد بھی ہے تو شاید ہی کوئی ہوگا جسے یاد ہوگا اور وہی ہو گا جسے پہلے ہی یاد تھا.اجتماع کے بعد اس تین دن کے تیزی کے ساتھ گھوٹنے والے پروگراموں میں بچوں کو کچھ بھی یاد نہیں رہتا.ہاں ایک روحانی لذت ضرور ہوتی ہے.اجتماع میں شمولیت کی برکت ضرور عطا ہوتی ہیں.اس لئے اجتماع کو بے فائدہ کہنا تو یقیناً غلط ہے مگر پروگرام اس ذہانت سے ترتیب نہیں دیئے جاتے کہ تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ استفادہ ہو سکے.تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ پروگرام نہیں بلکہ کم سے کم پروگرام رکھنے چاہئیں.یہ دو چیزیں ایک دوسرے سے ضد رکھتی ہیں تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ پروگرام کم سے کم افادہ کریں گے یعنی فائدہ پہنچائیں گے اور کم سے کم پروگرام جن کو بڑی محنت کے ساتھ اور عقل کے ساتھ تیار کیا گیا ہو اور بار بار رواں کروایا جائے تو یہ پروگرام بہت گہرا فائدہ پہنچا سکتے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کو سال بھر کا Home Task دیا جائے.ہمارے ہاں سکولوں میں بھی استاد سمجھتے تھے کہ ایک گھنٹے کی پڑھائی یا چالیس منٹ کی پڑھائی کافی نہیں ہے.اس لئے وہ گھر کا کام دیا کرتے تھے.یورپ میں یہ رواج بہت زیادہ ہے.جتنا کام وہاں دیا جا تا تھا اس سے بہت زیادہ کام یورپ میں گھر پر دیا جاتا ہے.تمام یو نیورسٹیاں یہی کرتی ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جب تک بچہ گھر جا کر خود ذمہ داری اور توجہ سے ان باتوں کو سمجھنے اور پڑھنے کی کوشش نہیں کرے گا.اس وقت تک محض کلاس کا پڑھا ہوا کافی نہیں ہے.ساری دنیا کے اجتماعات کو حکمت سے بھر دیں عقل کے مطابق کام کریں تین دن کے جو اجتماعات ہیں ان میں تو بچے کو زائد وقت ملتا ہی نہیں.ناممکن ہے کہ وہ رات گیارہ بجے تک مصروف رہے اور پھر صبح چار بجے اس کو تہجد پر بھی اٹھانا ہوا اور بیچ میں وہ گھر کے کام کی تیاری بھی کرے اس لئے حقیقت پسندی بہت ہی ضروری چیز ہے.ساری دنیا کے اجتماعات کو حکمت سے بھر دیں، عقل کے مطابق کام کریں، یہ بات یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا

Page 335

322 (البقرہ: 287) اللہ تعالیٰ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا.اس لئے آپ اگر اجتماع میں شامل ہونے والے یا تربیتی کلاسز پر آنے والے بچوں پر یا بڑوں پر ان کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالیں گے تو ایک قسم کی خدائی کا دعوی کرنے والی بات ہے.جو جھوٹی خدائی ہے کیونکہ سچا خدا تو بوجھ نہیں ڈالتا.یہ جھوٹے خدا ہی ہیں جو اپنی بے وقوفی سے بوجھ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.میں نے لفظ تو بہت سخت بولالیکن جو آخری تجزیہ ہے وہ یہی بنتا ہے.انسان جب بھی خدا کی صفات سے ہٹ کر قدم اٹھاتا ہے تو عملاً ایک قسم کا جھوٹا خدا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اگر چہ وہ بالا رادہ نہ بھی ہو اگر بالا رادہ ہوتو وہ شرک ہے اور بہت بڑا گناہ ہے لیکن اگر غفلت کی حالت میں نا سمجھی میں کیا جائے تو شرک تو نہیں مگر شرک کے نقصانات ضرور رکھتا ہے کیونکہ انسان کو غیر اللہ سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.صفات باری تعالیٰ سے ہٹ کر آپ جو بھی کام کریں گے اس میں فائدے سے محروم رہ جائیں گے.اس لئے تربیتی اجتماعات کو اس رنگ میں ترتیب دیں کہ جو کچھ وہاں پڑھائیں اس میں صرف نمونہ دیں اور وہ نمونے اتنے پکا دیں اور اس محبت سے پڑھائیں کہ وہ نمونے ذہن نشین بھی ہوں اور دلنشین بھی ہوں.ان سے پیار ہو جائے.مثلاً اگر آپ ساری نماز نہیں پڑھا سکتے تو سورہ فاتحہ پڑھائیں اور اتنا پڑھائیں اور اس طرح بار بار پڑھائیں کہ اس کے معانی سے محبت ہو جائے اور اس کا مضمون ذہن میں نقش ہو جائے وہ یاد ہو اور اس طرح یاد ہو کہ پڑھنے کے ساتھ ذہن کو ترجمہ نہ کرنا پڑے بلکہ عربی الفاظ کے ساتھ ساتھ ہی وہ ترجمہ ذہن میں نقش ہو.ایک انسان کو جب سورۃ فاتحہ سے محبت پیدا ہو جاتی ہے تو باقی نماز کے لئے سورۃ فاتحہ رستہ صاف کرتی ہے اور صراط مستقیم کا ایک یہ مطلب ہے.سورہ فاتحہ میں وہ صراط مستقیم ہے جس پر ایک دفعہ ڈالا جائے تو انسان کے قدم وہاں رکتے نہیں ہیں کہ جہاں تک ہاتھ پکڑ کر لے گئے وہاں جا کر کھڑے ہو گئے بلکہ صراط مستقیم وہ صراط ہے جس کا سلسلہ انبیاء" تک چلتا ہے.صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحہ : 7) حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک دراز ہیں.وہ سارے سفر جو آپ نے صراط مستقیم میں روحانیت کے طے کئے ہیں اور جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں بھی آیا ہے جو میں نے ابھی پڑھ کر سنائی ہے.وہ صراط مستقیم وہی ہے جس کا سورہ فاتحہ میں ذکر ملتا ہے.اجتماعات پر تین دن پڑھانے کے بعد مجالس کو اس سے آگے Take Over کرنے کا کہیں پس سورۃ فاتحہ پر زور دیں اور بہت محنت کے ساتھ، عقل کے ساتھ ، محبت کے ساتھ ذہن نشیں کرائیں ، دل نشین کرائیں تو پھر عبادت کے جو باقی حصے ہیں وہ سورہ فاتحہ ہاتھ پکڑ کر آپ ہی آگے چلا دے گی.پھر Home Task کے طور پر ان کو دیں.ان کو کہیں کہ یہ ہم نے تمہیں یہاں سکھایا ہے.باقی

Page 336

323 نماز تمہیں نہیں آتی اب تم گھروں کو جاؤ، تو جہاں جہاں بھی خدام الاحمدیہ کی تنظیم ہے یا انصار اللہ کی تنظیم ہے یا جماعتی تنظیم ہے ( اس کے تابع اگر انتظام ہو رہا ہے تو ان کو وہ ہدایت کریں کہ ان کو Take Over کرلو.ہم نے اتنا پڑھا کر بھیج دیا ہے آگے تم سنبھا لو اور اس سے آگے نگرانی میں پڑھانا یہ مقامی طور پر تمہارا کام ہوگا.اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تین دن کا جو پروگرام ہے وہ ایک سال تک بھی ممتد ہو سکتا ہے وہ تخم ریزی ہے جو آپ ان تربیتی اجتماعات میں کر سکتے ہیں جس سے آگے نشو ونما ہوسکتی ہے مگر آپ نے اگر چند دنوں میں درخت کھڑے کرنے کی کوشش کی تو سارے درخت مر جائیں گے.وہ جڑ نہیں پکڑ سکتے ، بیج لگانے کی کوشش کریں اور تربیتی نقطہ نگاہ سے بھی بیج کی حد تک رہیں.عبادتوں کے قیام سے متعلق ایسی تلقین اور عبادت کے آداب سے متعلق ایسی تلقین کہ اس سے محبت پیدا ہو اور زبردستی نماز پر بلانے کی ضرورت نہ پڑے بلکہ اجتماع میں شوق پیدا ہو جائے اور خود بخو دلوگ نمازوں پر قائم ہو جائیں.تھوڑا حصہ اپنے پیش نظر رکھیں اور اس تھوڑے کو دائمی بنانے کی کوشش کریں.اگر آپ دعا کے ساتھ یہ کام کریں گے اور دعا کی اہمیت بھی دلوں میں جاگزیں کریں گے تو یہ جو چند دنوں کے پروگرام ہیں یہ اللہ کے فضل کے ساتھ ان کی ساری نسل کے پروگرام بن سکتے ہیں، اس پوری صدی کا پروگرام بن سکتا ہے.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ ان سارے اجتماعات کے لئے اگر پہلے لمبے چوڑے پروگرام مقرر کئے بھی جاچکے ہوں تو میری اس مختصر ہدایت کی روشنی میں حقیقت پسندانہ پروگرام بنائیں اور جیسا کہ میں نے کہا ہے وہی کوشش کریں کہ یہ پروگرام جاری ہو جائیں، سارے سال کے لئے شامل ہونے والوں کو فائدے پہنچا ئیں اور جب یہ آئندہ کلاس میں آئیں تو ان کی کیفیت بدل چکی ہو.اس سے بھی اگلے درجے کے طالب علم آپ تک پہنچیں.اللہ تعالیٰ ہمیں معنی خیز پروگراموں کو خدا کی عطا کردہ توفیق کے مطابق بہت ہی زیادہ فائدہ مند بنانے کی ہمت عطا فرمائے.(آمین)" ( خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 609-612) دنیا بھر کے جماعتی و ذیلی تنظیموں کے اجتماعات پر اجتماعی نصائح (خطبہ جمعہ 15 اکتوبر 1993) " گزشتہ جمعہ پر تل کا مضمون بیان کرتے ہوئے میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ مرنا ہی مشکل نہیں.زندہ ہونا بھی بہت مشکل ہے بلکہ مرنے سے زیادہ مشکل ہے.اس سلسلہ میں مضمون کو آگے بڑھانے سے پہلے آج پھر کچھ اجتماعات کا اعلان کرنا ہے.

Page 337

324 جو اجتماعات کل سے شروع ہو چکے ہیں اور آج بھی جاری ہیں غالباً میرے آج کے اس خطبہ کے بعد جو وہاں شام کے قریب کسی وقت سنا جائے گا یہ اجتماع ختم ہوں گے ان میں مجلس انصاراللہ کے اجتماعات، بہاول نگر، رحیم یارخان، اوکاڑہ ، جہلم اور نواب شاہ ضلع کے ہیں.یہ سب کل 14 اکتوبر سے شروع ہوئے ہیں اور آج ختم ہوں گے.یہ ساری وہ مجالس ہیں جن میں مختلف وقتوں میں دوروں کی توفیق ملتی رہی بہت سے ایسے چہرے ہوں گے جو ابھی بھی انصار اللہ کے مختلف عہدوں پر فائز ہوں گے.وہ مقامات جہاں پر اجتماعات ہور ہے ہیں وہ بھی اکثر میری نظر میں ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے فضل کے ساتھ ان مقاصد کو پورا کر نے کی توفیق عطا فرمائے جن مقاصد کے پیش نظر یہ اجتماعات ہوتے ہیں.خدام الاحمدیہ کے اجتماعات جو کل سے شروع ہوئے ان میں ضلع گوجرانوالہ، نارووال، گجرات، راولپنڈی ،لودھراں، پشاور کے اجتماعات ہیں.پشاور کا اجتماع اگر چہ ضلعی ہے لیکن دوسرے اضلاع سے بھی خدام شرکت کر رہے ہیں اس لئے عملاً یہ صوبائی بھی بن گیا ہے.جو اجتماع آج سے شروع ہو رہے ہیں ان میں مجلس انصار اللہ ضلع اٹک، خدام الاحمدیہ ضلع نواب شاہ اور ڈرگ روڈ کراچی کے اجتماعات ہیں.اسی طرح مجلس خدام الاحمدیہ ضلع نوشہرو فیروز کا اجتماع بھی 15 اکتوبر سے ہی شروع ہو رہا ہے اور کل ختم ہوگا.جو اجتماع کل سے شروع ہوں گے ان کے ذکر کے متعلق بھی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے اس میں مجلس انصار اللہ ضلع بدین اور گجرات (پاکستان) کے اجتماع ہیں اور اسی طرح مجالس انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ آل آندھر اہندوستان کے سالانہ اجتماعات 16 سے شروع ہو کر 17 اکتوبر تک جاری رہیں گے.ساری جماعت کو نصائح میں خدام ، انصار ، لجنات اور اطفال پیش نظر ہوتے ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا ہر اجتماع پر الگ الگ نصیحتوں کی نہ تو ضرورت ہے نہ عملاً ان کا کوئی فائدہ ہے کیونکہ جو نصیحتیں ساری جماعت کو کی جاتی ہیں ان میں خدام، انصار، لبنات ، اطفال سب پیش نظر ہوتے ہیں.ان نصیحتوں پر کان نہ دھرنا اور الگ نصیحتوں کا مطالبہ کرنا یہ تو ایک بے معنی سی بات ہے.اس پر تو وہی لطیفہ صادق آتا ہے جیسا کہ شاید پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ ایک میراثی اپنی بہن سے ملنے گیا اور پنجاب میں یہ رواج ہے کہ جو بھائی اپنی بہن سے ملنے جاتا ہے وہ پنیاں لے کر جاتا ہے وہ بے چارہ کبڑا تھا اور بہن کے گلہڑ نکلے ہوئے تھے.گٹھلیاں سی دونوں طرف تھیں بہن نے جب دیکھا کہ بھائی خالی ہاتھ آیا ہے تو مذاق کے طور پر اس نے کہا کہ بھائی اپنیوں کی یہ گھڑی جو تم نے اٹھا رکھی ہے اتار کر مجھے پکڑا دو یعنی اس کے کبڑا ہونے کی طرف اشارہ تھا اور مذاق تھا کہ تم خالی ہاتھ آئے ہو ، ہاتھ میں تو کچھ نہیں ہے.شاید تم نے پیٹھ کے اوپر یہ پنیوں کی گٹھڑی اٹھا رکھی ہے.بھائی میراثی تھا اس نے فوراً جواب دیا کہ ”پہلے اگلیاں تے لنگائے“

Page 338

325 یعنی جو پہلے گلے میں انکی ہوئی ہیں وہ تو پہلے کھاؤ پھر دوسری پنیوں کا مطالبہ کرنا تو جب بھی مجھ سے بار بار نصیحتوں کا مطالبہ ہوتا ہے تو ذہن اس لطیفے کی طرف چلا جاتا ہے.وہ لطیفہ تو محض مذاق ہے لیکن جو میں کہ رہا ہوں یہ حقیقت ہے وہ نصیحتیں جو پہلے کی جائیں اگر وہ گلے میں انکی رہ جائیں اور دل تک نہ اتریں یا کانوں میں پھنس جائیں اور ذہن میں نہ جائیں تو ایسی نصیحتوں کا فائدہ کوئی نہیں اور ایسی نصیحتیں سننے والا مزید کے مطالبے کا حق نہیں رکھتا.پس میں خطبات میں جو کچھ کہتا ہوں وہ بہت ہے بلکہ بعض دفعہ دل پر یہ بوجھ پڑتا ہے کہ اتنا زیادہ کہہ دیا گیا ہے کہ ابھی شاید جماعت میں اس یہ سب کچھ کو اٹھانے کی طاقت نہیں ہے لیکن بار بار دہرا کر کچھ تسلی ہوتی ہے کہ جو باتیں ضرورت سے زیادہ محسوس ہوئی ہوں، بار بار کہنے سے دل نشین ہو جائیں گی اور اس سے رفتہ رفتہ جماعت کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق ملے گی.مرنے سے پہلے مرجاؤ میں زندگی اور موت سے متعلق جو مضمون بیان کر رہا تھا اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ موت سے زندگی زیادہ مشکل ہے اور روحانی زندگی کے متعلق تو یہ سو فیصد درست ہے کہ زندہ ہونا زیادہ مشکل ہے، زندہ ہونے کی تمنا بھی مشکل ہے اور یہ خیال کہ ہر انسان یہی چاہتا ہے کہ میں بدیوں سے چھٹکارا حاصل کروں اور نیکیوں کی طرف حرکت کروں.یہ محض ایک خوش فہمی ہے.ایک روحانی کیفیت کا نام ہے،اس میں حقیقت نہیں ہے.عملاً جب میں نے غور کیا تو صوفیاء کا ایک مقولہ میرے ذہن میں آیا جو صوفیاء کو بہت پسند ہے کہ مُوْتُوا قَبْلَ أَن تَمُوتُوا کہ مرنے سے پہلے مر جاؤ.اس سلسلہ میں مجھے خیال آیا کہ احادیث میں مجھے یاد نہیں کہ کبھی حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہو جہاں تک میں نے تلاش کیا ہے یا کروایا ہے مجھے ایسی کوئی حدیث دکھائی نہیں دی لیکن قرآن کریم میں یہ ذکر ضرور ملتا ہے کہ جب خدا اور اس کے رسول تمہیں زندہ کرنے کے لئے بلائیں تو استجیبوا (الانفال: 25) اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کا جواب دو اور زندہ ہونے کے لئے آگے بڑھو.پس موت کا نہیں زندگی کا ذکر ہے اور انبیاء موت سے زندہ کرنے کے لئے آتے ہیں اور اس زندگی کو دراصل دوسرے صوفیاء نے موت کا نام دے دیا ہے کیونکہ وہ زندگی موت سے بھی زیادہ دوبھر ہے جن باتوں کی طرف بلایا جاتا ہے وہ گویا مرجانے کے مترادف ہے.پس اپنے اپنے ان تعلقات پر اگر آپ غور کریں جن تعلقات نے آپ کو خدا کے مقابل پر کسی اور بدی کا غلام بنا رکھا ہے تو پھر آپ کو بات کی کچھ سمجھ آئے گی کہ ان تعلقات سے چھٹکارا حاصل کرنا تو الگ رہا ان تعلقات سے چھٹکارے کی گہری تمنا کا پیدا ہونا بہت مشکل کام ہے.

Page 339

326 حضرت یوسف کی مثال قرآن کریم نے اسی لئے حضرت یوسف کو ایک عظیم الشان مثال کے طور پر پیش فرمایا ہے.حضرت یوسف کی طرح کے واقعات لاکھوں، کروڑوں اربوں دنیا میں ہورہے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہوں گے جو چاہتے ہوں گے کہ اس بدی میں مبتلا نہ ہوں جس بدی کی طرف ان کو بلایا جاتا ہے اور سمجھتے ہیں کہ بدی ہے بے اختیار ہو جاتے ہیں اور ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم مجبور ہیں، بے اختیار ہیں ہم کوشش تو کرتے ہیں مگر چھٹکارا نصیب نہیں ہوتا.قرآن کریم نے اس نفسیاتی بیماری کو خوب کھول کر ایک مثال کی صورت پیش فرما دیا.فرمایا ایک یوسف بھی تو تھا جس کے پیچھے ایک ایسی عورت پڑی تھی جس میں خود ذاتی طور پر رعنائیاں تھیں ،حسن کا کمال تھا، جذب تھا اور یہی مضمون ہے جس کی طرف اس میں اشارہ ملتا ہے کہ اس نے بھی ارادہ کیا اور اس نے بھی ارادہ کیا یا خواہش کی.حضرت یوسف کے متعلق فرمایا کہ خواہش کی یا کر لیتے اگر اللہ تعالیٰ یہ نہ کر دیتا.تو حضرت یوسف کی خواہش کے متعلق یہ شرط پیش کر دی کہ خواہش ہو سکتی تھی.بھاری امکان تھا طبعی تقاضے تھے مگر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو گیا.میں نے جو یہ کہا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ زلیخا کو ایک خوبصورت، دلکش عورت کے طور پر پیش کرتا ہے.اس کا استنباط اسی سے ہوتا ہے کہ حضرت یوسف“ کے دل میں اس کی طرف جھکنے کا طبعی طور پر امکان موجود تھا اور بڑا قوی امکان موجود تھا.اتنا قوی کہ جس کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ گویا ارادہ کر لیا لیکن اللہ کا فضل حائل ہوا اور اللہ کے فضل نے حضرت یوسف کو اس ظلم کا شکار ہونے سے بچالیا.وہ کیوں ہوا؟ اس مضمون کو کھولتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے ایک دعا کی.پہلے اپنے نفس پر غور کیا اور غور کرنے کے بعد یہ دعا کی کہ اے خدا! جس طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں میں نفس کے تجزیہ کے بعد اس یقین تک پہنچا ہوں کہ مجھے قید ہونا زیادہ محبوب ہے یہ نسبت اس کے کہ میں اس بدی کا شکار ہو جاؤں.اس سے یہ مزید استنباط بھی ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ کرنا درست نہیں ہے کہ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام نے ارادہ کر لیا تھا.مراد یہ ہے کہ ارادے کے تمام محرکات موجود تھے.اگر خدا کا خاص فضل اس شخص پر نازل نہ ہوا ہوتا اور اللہ کی خاص قدرت نے اس کو پاک نہ کیا ہوتا تو وہ ضرور ارادہ کر لیتا لیکن یہ دعا حائل ہوگئی ہے اور یہ دعا بتاتی ہے کہ ارادہ نہیں تھا کیونکہ فرماتے ہیں کہ مجھے تو قید ہونا زیادہ منظور ہے.اب یہ عجیب بات ہے کہ خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگی جائے کہ اے اللہ مجھے قید زیادہ منظور ہے عام حالات میں تو انسان کہتا ہے کہ اے اللہ مجھے بچالے.یہ کیوں مطالبہ کرے کہ مجھے ایک اور مشکل میں ڈال دے.اس مضمون پر غور کرنے سے کچھ اور باتیں سامنے آتی ہیں.اول یہ کہ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام

Page 340

327 کی یہ دعا اس وقت کی دعا ہے جبکہ ان کی شرارت بڑھتے بڑھتے ایک ایسی سازش میں تبدیل ہو چکی تھی جس کے نتیجہ میں آپ کو جیل سامنے دکھائی دے رہی تھی اور جانتے تھے کہ انہوں نے مجرم بنا کر مجھے جیل خانے بھجوادینا ہے.یہ ایک احتمال تھا.اس احتمال کی صورت میں آپ نے اپنے دل کو ٹو لا ایک طرف وہ کشش تھی جو ایک طبعی کشش تھی اور دوسری طرف خوف حائل تھا کہ اگر میں اس گناہ میں مبتلا نہ ہوا تو پھر یہ سزا ملے گی.ان دونوں متفرق سمتوں کے دباؤ کے نیچے آکر پھر دل نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں بچنا چاہتا ہوں اس وقت کی دعانا مقبول ہو ہی نہیں سکتی.پس وہ لوگ جو تبتل چاہتے ہیں ان کے لئے یہ ایک عظیم مثال ہے.تقتل سے پہلے نفس کا تنبل ہونا ضروری ہے.تقبل کا اصل مطلب بدیوں سے نجات حاصل کرنا ہے ور نہ ظاہری تبتل ممکن نہیں ہے اور جہاں تک دوسری حکمتوں کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ اے میرے بندے! تو تو قربانی کے لئے تیار ہے میں تجھے جیل سے بھی بچاتا ہوں لیکن بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ اس بدی کے پیچھے ایک بہت بڑا حسن پوشیدہ تھا.جیل میں جانے سے ہی ترقیات کے وہ تمام دروازے کھلے ہیں جن کے متعلق ویسے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا.لیکن اس مشکل کے رستے سے اللہ تعالیٰ نے فراخی کے رستے کھول دئے اور حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کو اس عظیم مقام تک پہنچایا جہاں پہنچانا مقدر تھا لیکن حضرت یوسف کی دعا اس میں مددگار بن گئی.پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو مثالیں محفوظ فرمائی ہیں ان کی دنیا پر آپ غور کر کے دیکھیں انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے.عظیم کلام ہے جس کے اندر اپنی سی ایک دنیا ہے، اپنے قانون چل رہے ہیں اور ایک بات کو دوسری بات سے گہرا ربط ہے.پس تبتل کا مضمون ہم پر ظاہر ہو گیا کہ اگر تبتل کرنا ہے تو تجمل بہت مشکل کام ہے.مرنے سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ انسان جس چیز سے چمٹارہتا ہے اس سے علیحد گی عملاً موت دکھائی دیتی ہے.پس یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جہاں زندگی کی ہر تمنا موت دکھائی دے رہی ہے.ایک دفعہ کا مرنا نہیں ہے.بار بار کا مرنا ہے لیکن زندہ ہونے کی خاطر اور زندہ ہونے کی تمنا کے رستے میں یہ باتیں روک ہیں.تو تمنا ہی نہیں اٹھتی.یہ تمنا دعا سے اٹھ سکتی ہے دعا کے نتیجے میں بیدار ہو سکتی ہے ورنہ سوئی پڑی رہے گی.اس حصے کی طرف میں بعد میں آؤں گا پہلے میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ تبتل کہاں سے کہاں ہوگا جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ تقبل کا اصل میں مطلب ہے بدیوں سے نجات حاصل کرنا.بدیوں سے تعلق توڑنا ، یہ تعلق دو طرح سے ٹوٹ سکتا ہے ایک یہ کہ بدیاں دھکا دے دیں.حالات ایسے پیدا ہوجائیں کہ انسان مجبور اور بے اختیار ہو جائے کوئی رستہ باقی نہ رہے ایسی صورت مثلا یوں پیدا ہوتی ہے کہ کسی کا محبوب مرجائے تو ایسا سخت دھکا لگتا ہے کہ انسان دنیا سے ہی بیزار ہو جاتا ہے.کسی ماں کا پیارا بیٹا فوت ہو جاتا ہے، کسی کی ساری جائیداد بر باد

Page 341

328 ہو جاتی ہے گھر بار کو آگ لگ جاتی ہے یا ڈا کولوٹ کر لے جاتے ہیں.ساری عمر کی کمائی ہاتھ سے جاتی رہتی ہے.ایسے موقع پر تجل کے لئے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں لیکن یہ تبتل اصل میں وہ تجل نہیں ہے جس کی طرف قرآن کریم بلا رہا ہے.اس تبتل کے نتیجہ میں کئی قسم کی باتیں ہوسکتی ہیں.مثلاً جب انسان کو ایک دھکا لگتا ہے گہرا صدمہ پہنچتا ہے تو بعض دفعہ انسان ایسی صورت میں خدا کی طرف جانے کی بجائے انسانوں کی طرف مائل ہوتا ہے.ضروری نہیں کہ دنیا کے اس دھکے کے نتیجہ میں ضرور خدا ہی کا خیال آئے وہ اور زیادہ دنیا کی چیزوں کی طرف گرتا ہے.بعض دفعہ ایسا آدمی ہوش گنوا بیٹھتا ہے، پاگل ہو جاتا ہے.اس طرح اپنا تعلق توڑتا ہے کہ ہوش بھی جاتے رہتے ہیں.اس مضمون میں ایک اندرونی ربط ہے اصل میں وہ تعلق جو ٹوٹ نہ سکے وہ غالب آچکا ہو اس کو انسان بھلائے تو بھول سکتا ہے ورنہ ٹوٹ نہیں سکتا.تبتل ان لوگوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے جو غیر اللہ سے منہ موڑتے ہیں پس ایسا شخص جو کسی ایسی چیز سے محبت کرتا ہے گویا وہ اس کا معبود بن چکی ہے اس سے علیحد گی ممکن نہیں.ایسی مائیں جو عملاً اولاد کی پرستش کر رہی ہوتی ہیں جب وہ اولاد ہاتھ سے جاتی رہتی ہے تو اس لئے پاگل ہوتی ہیں کہ ہوش اور اولاد کی یاد اور اولاد کا تعلق ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں.موت کے سوا علیحدگی ممکن نہیں پس ذہن میں موت آجاتی ہے اور اسی کو پاگل پن کہتے ہیں.پس یہ تبتل جو دنیا کے دھکے کے نتیجے میں پیدا ہو لازم نہیں کہ خدا کی طرف دھکیلے مگر خدا کی طرف بھی دھکیل سکتا ہے.اس لئے بعض لوگ جو کہتے ہیں فلاں شخص کو صدمہ پہنچا اور وہ بہت بزرگ بن گیا ہے.درویش بن گیا ہے لوگ اس کے پاس دعاؤں کے لئے جاتے ہیں لیکن وہ جو درویش ہے اس کی کیفیت میں اور اس درویش کی کیفیت میں جس نے خدا کی خاطر تعلق توڑے ہوں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے.بعض دفعہ لوگ اس کو بت تو بنا لیتے ہیں لیکن وہ بت حقیقت میں خدا کے حضور سجدہ ریز نہیں ہوتا.دنیا سے مجبوری کا تعلق کاٹنے کے بعد جو دھکے کھا کر آتا ہے اس کو اگر اللہ تعالیٰ اپنی درگاہ میں جگہ دے دے تو احسان ہے لیکن اس سے وہ محبت پیدا نہیں ہوسکتی جواللہ تبتل کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور للہی تبتل انہی لوگوں کے دل میں پیدا ہوتا ہے جو ہر موقع پر خدا کوترجیح دے کر غیر اللہ سے منہ موڑتے ہیں اور تعلق قطع کرتے ہیں.اس سلسلہ میں حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی مثال میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے اسے احسن القصص بیان فرمایا.میں شروع میں جب پڑھا کرتا تھا تو حیران رہ جاتا تھا کہ یہ قصہ آخر ایسا احسن کیا ہے لیکن جوں جوں غور کیا تو اس بات کی سمجھ آتی گئی کہ تبتل کے مضمون میں ایک عظیم الشان قصہ ہے.قرآن کریم جب قصہ کہتا ہے تو حقیقت کو قصہ بتاتا ہے پس قرآنی اصطلاح میں ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس پر جتنا غور کریں انسان حیران ہوتا چلا جاتا ہے.پس بے انتہا تعلق ہو اور بے انتہا تعلق کے سارے محرکات موجود ہوں

Page 342

329 اور خوف بھی بے انتہا ہو ، خوف کے سارے موجبات دوسری طرف موجود ہوں اور انسان کا دل بیچ سے پہلے یہ فیصلہ کرے کہ نہ میں خوف سے ڈروں گا نہ میں اپنے ذاتی تعلق کی حرص میں غلط فیصلہ کروں گا میں جس کا ہوں اسی کا ہو چکا ہوں.اسی سے مدد مانگتا ہوں اسی کی طرف جھکتا ہوں اور اسی سے چاہتا ہوں کہ وہ مجھے اس صورت حال سے بچالے.پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے کسی شان کے ساتھ اس دعا کو قبول فرمایا اور ہر بدی سے بہتری کی ایک صورت پیدا فرما دی اور ترقیات کا عظیم سلسلہ شروع کیا ہے.پس اس پہلو پر غور کر کے اپنی بدیوں پر نظر ڈال کر یہ فیصلہ کریں کہ آپ کس حد تک ان سے علیحدہ ہونے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.جب کشتی نوح کا مطالعہ کرتا ہوں تو بعض دفعہ عبارتوں سے خوف آتا ہے، بعض دفعہ دل لرزتا ہے کہ ہیں ! یہ بھی ہے اور یہ بھی ہے اور یہ بھی وہ ایسا مقام ہے جس سے کلیۂ علیحدگی کا حکم ہے ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ بھی میری جماعت میں سے نہیں ہے، وہ بھی میری جماعت میں سے نہیں ہے.اس تعلیم کو آپ پڑھیں اور پڑھنے کے بعد ہر فقرے پر ٹھہر میں اور غور کریں کہ آپ کو اس سے ڈرتو نہیں لگ رہا اور آپ کو یہ دو بھر اور بوجھل تو نہیں معلوم ہور ہا اگر ہے تو وہیں خوف کا مقام موجود ہے.جولوگ تبتل کر چکے ہیں اور ہر پہلو سے تجل کر چکے ہیں ان کے لئے یہ تحریر آسان ہو چکی ہے وہ پڑھتے ہوئے بے خوف گزر سکتے ہیں اور ان کے دل میں کوئی خدشہ نہیں ہوگا کہ اوہو! میں تو یہاں بھی مارا جارہا ہوں، یہاں بھی مارا جا رہا ہوں اور یہاں بھی مارا جارہا ہوں.میں اس تحریر کے چند نمونے محض اندازہ لگانے کی خاطر آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ آپ کو اندازہ لگانے میں آسانی ہو کہ تل ہے کیا اور کس حد تک آپ ان پہلوؤں میں تبتل اختیار کر چکے ہیں فرمایا.کشتی نوح میں ہماری تعلیم یہ مت خیال کرو کہ ہم نے ظاہری طور پر بیعت کر لی ہے.ظاہر کچھ چیز نہیں خدا تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے اور اسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا دیکھو میں یہ کہہ کر فرض تبلیغ سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ گناہ ایک زہر ہے اس کو مت کھاؤ.خدا کی نافرمانی ایک گندی موت ہے.اس سے بچو.." پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآنی محاورہ ہی اختیار فرمایا ہے بچنے کو موت نہیں کہا بلکہ زندگی کہا ہے.دوسرے معنوں میں وہ بھی کہا جا سکتا ہے یہ غلط نہیں مگر میں بتارہا ہوں کہ یہاں بعینہ زندگی کی طرف بلانے کے لئے نافرمانی کوموت قرار دیا ہے.دعا کرو تا تمہیں طاقت ملے جو شخص دعا کے وقت خدا کو ہر ایک بات پر قادر نہیں سمجھتا بجز وعدہ کی مستثنیات کے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے"

Page 343

330 کتنے ہیں جو آسانی سے جھوٹ چھوڑ سکتے ہیں؟ یہ سوال ہے جو میں نے پہلے اٹھایا تھا اس کی مثال دے رہا ہوں بکثرت لوگ جھوٹ کی کسی نہ کسی عادت میں مبتلا ہیں، کوئی بڑا جھوٹ بولتا ہے کوئی چھوٹا جھوٹ بولتا ہے، کوئی روز مرہ جھوٹ بولتا ہے، کوئی اس وقت جھوٹ بولتا ہے جب بچنے کا کوئی اور ذریعہ دکھائی نہ دے اور جھوٹ کے سوا کوئی اور سہارا دکھائی نہ دے، کوئی معمولی ابتلاؤں میں جھوٹ بولتا ہے، کوئی انتظار کرتا ہے اور جب کوئی بہت بڑا ابتلا آ جائے تو وہاں جھوٹ بولتا ہے.یہ سارے پھسلنے کے مقامات ہیں اور ہر حالت میں جھوٹ سے پر ہیز یہ تبتل ہے اس کی تمنا پیدا ہو جائے اور پھر انسان یہ فیصلہ کر کے دعا کرے کہ میں نے جھوٹ نہیں بولنا اور اس کے نتیجہ میں ہر قسم کے بدنتائج قبول کرنے کے لئے تیار بیٹھا ہوں.یہ یوسفی دعا بنے گی اس کے سوا اس دعا کی کوئی اہمیت نہیں.پس جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو جی ! بڑی دعا کرتے ہیں لیکن بدیاں چھٹ نہیں رہیں.جھوٹ کی عادت ہے مصیبت ہے بار بار چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر مبتلا ہو جاتے ہیں وہ اپنے نفس پر غور کریں ان کو وہاں جواب ملے گا کہ وہ اس سے بچنا نہیں چاہتے وہ ادنیٰ حالتوں سے بچنے کی خواہش رکھتے بھی ہوں تب بھی جب وہ بڑے مقامات پر غور کر کے دیکھیں گے تو اگر وہ بچے ہیں تو ان کا دل ان کو بتا دے گا کہ تم فلاں جگہ جا کر جھوٹ سے پر ہیز کی طاقت نہیں رکھتے.اس وقت انسان اپنے ضمیر کو جھنجھوڑے اور فیصلہ کرے کہ میں جو دعا کے لئے ہاتھ پھیلا رہا ہوں اور میرا دل مجھے کسی اور طرف لے کر جارہا ہے یہ کونسی دعا ہے.اس میں کوئی سچائی نہیں وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ (فاطر: 11 ) وہ عمل صالح جو دعا کوقوت بخشا ہے اور کلام کو اونچا کرتا ہے وہ پہلا عمل یہ نیت کا عمل ہے.اپنے اندرونے کو قطعی طور پر اپنے سامنے رکھ کر انصاف اور تقویٰ سے فیصلہ کریں کہ آپ اس بدی کو چھوڑنا چاہتے ہیں کہ نہیں چاہتے اور پھر دعا کریں پھر دیکھیں وہ دعا کس طرح قبول ہوتی ہے.کوئی تیر ایسا نشانے پر نہیں لگ سکتا جس طرح اس شخص کی د عالگتی ہے جو اپنے نفس کو صاف اور ستھرا کر کے کلیۂ خدا کے لئے ہو کہ اللہ ہوکر قبلہ رخ ہو جائے اور اپنا رخ خدا کی طرف پھیر دے اور پھر یہ کہے کہ اے خدا! میں تیرا ہو چکا ہوں مگر میں مجبور ہوں میں خوفزدہ ہوں کہ کہیں غیر مجھے اچک نہ لے غیر مجھے اپنا نہ لے، یہ دعا جب آپ کریں گے تو ہو نہیں سکتا کہ وہ نا مقبول ہو کبھی ایسی دعانا مقبول نہیں ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.".....اور فریب کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے......" کتنے ہیں جو فریب دہی سے کلیۂ پاک ہیں ہر حالت میں، ہر مشکل کے وقت انسان کا دماغ فریب کی طرف ضرور جاتا ہے.ایک ٹیکس کی چوری ہے ایک تجارت کے معاملہ میں نفع کی تمنا ہے.ایک مکان بیچنے کی خواہش ہے ایک لڑکی جو بیمار ہے اس کی شادی کرنے کی تمنا ہے.ہرایسی حالت میں جس میں انسان کی

Page 344

331 زندگی روز مرہ آزمائشوں میں پڑتی ہے وہاں آپ کو فریب کا ایک درندہ چھپا ہوا دکھائی دے گا ہر ایسے گوشے میں وہ ” پلنگ“ ہے.جن کا میں نے پچھلی دفعہ ذکر کیا تھا کہ ”شاید که پلنگ خفته باشد ، غور کرنا یہاں حملہ کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی چیتا تیار بیٹھا ہے اور وہاں دماغ ضرور فریب کی طرف مائل ہوتا ہے.یہ خیال کہ وہ اس طرف جاتا نہیں ہے.یہ درست نہیں ہے.نیک کا دماغ بھی کسی نہ کسی عذر کی طرف جاتا ہے اور بد کا دماغ بھی جاتا ہے نیک کا دماغ جب جاتا ہے تو پھر وہ اپنے آپ کوٹو لتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ نہیں.میں نے یہ کام نہیں کرنا اور بد فریب دہی کی وہ باتیں لذت کے ساتھ سوچتا ہے اور اس لذت میں گم ہو کر اپنے آپ کو یہ Compliments دے رہا ہوتا ہے، اپنی یہ تعریف کر رہا ہوتا ہے کہ مجھ سے زیادہ کون ہوشیار ہوگا.میں نے یہ ترکیب سوچ لی ہے اور یہ ترکیب سوچ لی ہے.یہی فریب کا ایک فطری رجحان ہے جو تمام گناہوں سے پہلے انسان کے دل میں جنم لے چکا ہوتا ہے.جتنے بھی گناہ ہیں ان کی تعریف آپ جو چاہے کر لیں لیکن ہر انسان گناہ کے وقت دل میں جانتا ہے کہ یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ جسے میں کھلم کھلا منظر عام پر پیش کروں اور اس پر فخر کروں.یا سزا کا خوف مانع ہو جائے گا یا اپنی Reputation یعنی دنیا کے سامنے جو اپنی شان بنا رکھی ہے اس کے داغدار ہونے کا خیال مانع ہو جائے گا.پس اس وقت انسان ضرور فریب کی بات سوچتا ہے کہ میں اس طرح بچوں گا اور اس طرح بچوں گا.یہ طریق اختیار کروں گا اور یہ طریق اختیار کروں گا اگر پکڑا گیا تو یہ کہوں گا اور یہ ساری باتیں فریب کے مضمون سے تعلق رکھتی ہیں یعنی ہر جگہ ایک ایسا بندھن ہے جس کو توڑے بغیر آپ خدا کی طرف جاہی نہیں سکتے.تو دعا کس طرح کریں گے کہ اے اللہ ! مجھے فریب سے بیچا اور وہ دعا کام کیا آئے گی جہاں اپنے آپ کو آپ نے فریب سے باندھ رکھا ہے، ہر ابتلا کے وقت ایک جھوٹے خدا کی پناہ مانگ رہے ہوتے ہیں اور دعا کر رہے ہیں اور کردار ہے ہیں کہ اے اللہ ! ہم فریب سے نجات چاہتے ہیں ہمیں بخش دے.دعا کا مضمون دعا کا مضمون کوشش کے بعد یا کوشش کے ساتھ شروع ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں ہر وہ کوشش جو دعا کے برعکس سمت میں جارہی ہے آپ کی دعا کو نا کام کر دیتی ہے سوائے اس کے کہ ایک اور لطیف مقام تک انسان پہنچ جائے جہاں خوب دل کو ٹول کر دیکھے کہ مجھے برائی سے نفرت بھی ہے اور میں واقعۂ فیصلہ کر رہا ہوں کہ میں اس سے بچنا چاہتا ہوں اس وقت عجز کی ایک اور کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور انسان خدا کے حضور عرض کرتا ہے کہ اے اللہ ! معاملہ میری کوشش کی حد سے آگے جاچکا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا جائے تو میں اس برائی میں ہمیشہ مبتلا رہوں گا.میں عادی بن گیا ہوں ایسے ہی گناہوں میں ملوث لوگوں کی مثال Drug Addicts کی سی ہے.وہ لوگ جو Drugs وغیرہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں

Page 345

332 بسا اوقات کچھ عرصہ کے بعد ان کی اس Drug Addiction کے بدنتائج ان کو دکھائی دے رہے ہوتے ہیں.محسوس ہورہے ہوتے ہیں اور بار بار بھنا بھنا کر وہ کوشش کرتے ہیں کہ نجات مل جائے لیکن پوری طرح اس کے غلام بن چکے ہوتے ہیں.ایسی صورت میں اگر واقعہ یہ دعا کی جائے کہ اے خدا مجھے نجات بخش دے تو ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرمادے کہ اس کی کوشش میں طاقت پیدا ہو جائے.اس کو ایسے ذرائع میسر آجائیں کہ وہ واقعہ Drug Addiction سے دور ہٹ کر کسی اور طرف رخ اختیار کرے یا واقعہ اس سے وہ ذرائع چھین لئے جائیں جن کے ذریعے وہ Drug Addiction میں مبتلا ہوتا ہے.دونوں صورتیں ہیں.دعا کے نتیجہ میں بعض دفعہ ایک بدی پر آمادہ انسان جو بدی پر تیار بیٹھا ہولیکن دل کی آخری گہرائی میں خلوص کی کوئی رمق باقی ہو اور خدا سے یہ دعا کرے کہ اے خدا! میں ارادہ کئے بیٹھا ہوں لیکن دل نہیں چاہتا کہ تیری رضا کے خلاف کوئی لذت حاصل کروں.اس لئے تو میری مددفر ما اور اس بدی کو مجھ سے ٹال دے تو بسا اوقات ایسا ہوگا کہ خدا تعالیٰ اس کے رستے میں اور گناہ کے رستے میں کوئی طبعی روک پیدا کر دے گا.چاہتے ہوئے بھی مجبور ہو جائے گا.پس نیتوں کا خلوص ہے جہاں سے تبتل کا مضمون شروع ہوتا ہے پہلے دل کے تعلقات کو بدیوں سے توڑیں یا توڑنے کا قطعی ارادہ کرلیں پھر اللہ سے دعا مانگیں تو پھر انشاء اللہ تعالٰی آپ کو ہر برائی سے تبتل اختیار کرنے یعنی علیحدگی اختیار کرنے کے امکانات روشن ہو جائیں گے.دنیا کی خواہش حقیقتاً غیر اللہ کی محبت بن جاتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں " جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے" یعنی ہر وقت اس پر دنیا سوار ہے یہ بھی ملے وہ بھی ملے.اکیلا اس کو غیر اللہ کی محبت نہیں قرار دیا لیکن ساتھ ایک اور علامت بیان فرما دی جس کے نتیجہ میں دنیا کی خواہش حقیقتا غیر اللہ کی محبت بن جاتی ہے فرمایا " اور آخرت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا" جو شخص دنیا کی خواہش رکھتا ہے کہ جو ایک فطری چیز ہے اور ساتھ آخرت کا مضمون بار بار اس کے سامنے آتا ہے وہ آخرت کا تصور اس کی دنیا کی خواہش کو معتدل کر دیتا ہے.بعض دفعہ آخرت کا تصور دنیا کی خواہش کو اس حد تک معتدل کر دیتا ہے کہ انسان میں ایک استغناء پیدا ہو جاتا ہے میری خواہش تو ہے کہ یہ چیز مل جائے گناہ نہیں ہے لیکن آخرت کے تصور کے بعد پھر انسان یہ بھی کہتا ہے کہ میری خواہش تو ہے مگر نہ ملے تو کوئی بات نہیں.اللہ ملے تو بہت ہے اللہ کی رضا چاہئے اگر رضا کے مطابق ہے تو ملے ورنہ نہ ملے.یہ بھی ایک قسم کا تل ہے.یعنی دنیا سے تعلق رکھنے کے باوجود بے تعلقی کا ایک ایسا انداز جو انسان کو غنی کر دے، بے پروا

Page 346

333 کر دے، ہو جائے تو ٹھیک ہے نہ ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا.اللہ راضی رہے یہ وہ مقام ہے جہاں سے پھر خدا کی طرف حرکت مثبت طور پر شروع ہو جاتی ہے پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیسا متوازن بیان فرمایا ہے کہ و شخص جو دنیا کی لالچ میں پھنسا ہوا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتاوہ میری جماعت میں سے نہیں ہے، جو شخص در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا.وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے..." ہر ایسا موقع جہاں دین کا ایک مفاد ہو اور اس کے مقابل پر دنیا کا کوئی مفاد ہو وہاں انسان بار یک نظر سے غور کرے کہ دین کے مفاد کو ترجیح دے گا یا دنیا کے مفاد کو ترجیح دے گا.یہ بہت ہی مشکل مضمون ہے کیونکہ بڑے بڑے سمجھدار اور بڑے بڑے عالم لوگ بھی اس مضمون پر ضرور ٹھوکر کھا جاتے ہیں کیونکہ ہمیشہ کیلئے ایک گہری نظر کے ساتھ اپنے نفس کے محاسبے کی عادت ڈالنا حقیقت کو پانے کے لئے ضروری ہے.بعض دفعہ بعض ایسے لوگ جنہوں نے زندگیاں وقف کی ہوئی ہوتی ہیں ان کے افسران کی طرف سے ان سے کوئی سختی کا معاملہ کیا جاتا ہے یا جس جگہ ان کی تقرری ہوئی ہوتی ہے ان کی بے اعتنائی کی وجہ سے وہ دل برداشتہ ہوتے ہیں.ایسی صورت میں جب وہ ایسے لوگوں سے نظام کے متعلق باتیں کرتے ہیں جن کا نظام کے ساتھ براہ راست تعلق نہیں ہے وہ اپنے دل کے دکھ ان کے سامنے بیان کرتے ہیں اور اس طرح کچھ تسکین پاتے ہیں.تو وہ اس وقت یہ نہیں سوچ رہے ہوتے کہ ہم نے دین کو دنیا پر نہیں بلکہ دنیا کودین پر مقدم کر لیا ہے کیونکہ جب کسی شخص کے سامنے ایک ایسی بات بیان کی جائے جس کے نتیجہ میں ان لوگوں کے متعلق بُرا اثر پڑے جو دین کو چلانے پر مامور کئے گئے ہیں تو لازماً اسی حد تک دین سے دل برداشتہ ہو جاتا ہے انسان کے دل میں دین کا احترام اٹھ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ انسان دین اور دین والوں سے دل برداشتہ ہونے لگتا ہے لیکن اس کے مقابل پر جو شخص بیان کر رہا ہے اس کے لئے ہمدردی پیدا ہوتی ہے، اس سے تعلق بڑھتا ہے.اس کے گرد ایک گروہ بننا شروع ہو جاتا ہے اور ایک چھوٹا سا جھوٹا خدا وہاں جنم لے لیتا ہے.اب یہ جو مضمون ہے اس کو اگر آپ گہرائی سے سمجھیں اور جماعت احمدیہ میں اٹھنے والے فتنوں کی تاریخ پر اس کو چسپاں کر کے دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ یہ مضمون کس حد تک بار بار اطلاق پاتا ہے اور بڑے بڑے ہوشمند ٹھوکر کھاتے رہتے ہیں.کسی سے شکوہ ہے اور اگر وہ شکوہ دین کے معاملہ میں ہے تو اس کے لئے قرآن کریم نے ایک ہی رستہ بتایا ہے کہ إِنَّمَا اَشْكُوا بَنِی وَ حُزنِي إِلَى اللهِ (يوسف : 87) تنبل کا مضمون بہت ہی باریک مضمون ہے یہ دعا یہاں بھی بہت زور کے ساتھ صادق آتی ہے.ایسا شخص جو اپنے آپ کو خدا کی خاطر پیش کئے ہوئے ہے اگر دنیا کی ہمدردی سے اس لئے باز رہتا ہے کہ وہ ڈرتا ہے کہ ان لوگوں کے دین کو نقصان نہ پہنچے

Page 347

334 جائے تو ایسا شخص لازماً خدا کی طرف جھکے گا اور اس کا دنیا سے تبتل ہوگا اور تعلق کا قدم اللہ کی طرف آگے بڑھے گا.پس تبتل کا مضمون بہت ہی باریک مضمون ہے.بڑی لطافت کے ساتھ ، گہری نظر کے ساتھ اتر کر دیکھنا پڑتا ہے.مثالیں سامنے رکھ کر ان پر غور کریں تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ کس طرح بار بار آپ نے اللہ سے تتل کیا ہے اور غیر اللہ کی طرف جھک گئے ہیں.جب ہمیشہ دین غالب رہے گا اور دین کے مفادات غالب رہیں گے تو سچا مظلوم بھی دین سے بددل کرنے کے خیال سے ایسی نفرت کرے گا جیسے اس کو آگ میں پھینکا جا رہا ہو.وہ اپنی ذات میں ان باتوں کو دیا جائے گا تاکہ خدانخواستہ کوئی اور بھی ہلاک نہ ہو جائے.ایسا شخص پھر ہلاک نہیں ہوا کرتا جو دوسروں کی ہلاکت کا موجب نہ بنے وہ خود کبھی ہلاک نہیں کیا جاتا.جو دوسروں کو ہلاکت سے بچانے کیلئے اپنے نفس پر ایک ہلاکت طاری کر لیتا ہے اللہ کے فضل کا ہاتھ ضرور اس کی طرف بڑھتا ہے اور اسے ضرور اٹھاتا ہے اور بلند مقامات کی طرف لے کر جاتا ہے.مگر دنیا کی ہمدردیاں لینے کی خاطر دنیا سے اپنے دکھ پھولنے والے نہ ادھر کے رہتے ہیں نہ ادھر کے رہتے ہیں اور ان کی وجہ سے بہت لوگ ٹھو کر کھاتے ہیں اور بہت بہت ابتلا اور فتنے بنتے ہیں اور جب ان کو سمجھایا جائے تو کہتے ہیں کہ واقعہ درست ہے.میں درست واقعات کی بات کر رہا ہوں.جھوٹ کی بات نہیں کر رہا، بہتان کی بات نہیں کر رہا.جھوٹ اور بہتان باندھ کر دین اور دین والوں سے متنفر کرنا تو بہت بڑا گناہ ہے اور بہت بڑے عذاب کا تقاضا کرتا ہے.میں نفس کے دھوکے میں مبتلا ہونے والوں کی بات کر رہا ہوں جو بیچ دیکھتے ہیں، واقعہ درست ہے جس کے خلاف ان کو شکایات ہے لیکن یہ نہیں سوچتے کہ میری دین کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ میں آپ نقصان اٹھا جاؤں اور کسی اور کی ٹھوکر کا موجب نہ بنوں.یہ کچی مامتا جس کی مثال حضرت سلیمان کے فیصلے کی صورت میں ہمیں دکھائی دیتی ہے.سچی ممتا دوعورتوں کا آپس میں جھگڑا ہوا.دو عورتوں کے بہت پیارے دو بچے تھے.ایک کا بچہ مر گیا تو وہ مامتا میں ایسی پاگل ہوئی کہ اس نے کہا کہ میں تو بچے کے بغیر رہ نہیں سکتی.چنانچہ اس نے دوسری عورت کا بچہ اس سے چھین لیا اور اسے اپنا بنا لیا.دونوں عورتیں جھگڑ رہی تھیں اور کسی کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیسے فیصلہ کریں.حضرت سلیمان کی عدالت میں ان کو پہنچایا گیا.بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت سلیمان نے جب دونوں طرف کی باتیں سنیں تو فیصلہ فرمایا کہ آسان بات تو یہی ہے کہ اس بچے کے دوٹکڑے کر دیئے جائیں.آدھا ایک کو دے دیا جائے اور آدھا دوسری کو دے دیا جائے.کیونکہ ہم تو عالم الغیب نہیں.ہمیں نہیں پتا کہ کس کا ہے.پس یہ ناممکن ہے کہ ایک کو محروم کر کے دوسری کو دیا جائے.ہوسکتا ہے کہ وہ جسے محروم کیا جائے وہی کچی ماں ہواس لئے ایک ہی علاج ہے کہ اس کو دوٹکڑے کر دیا جائے.جس کا بچہ تھا اس کی چھینیں نکل گئیں.اس نے واویلا

Page 348

335 شروع کر دیا اور کہا کہ میں جھوٹی تھی یہ بچہ اس کا ہے اس کو دے دو.وہ برداشت نہیں کر سکتی تھی کہ اس کے بچے کے دوٹکڑے کئے جائیں اور حضرت سلیمان" کی یہی حکمت تھی جس کی وجہ سے وہ غیر معمولی طور پر صاحب حکمت مشہور ہوئے انہوں نے کہا کہ میں سمجھ گیا ہوں کہ کس کا بچہ ہے.جو رورہی تھی کہ میرا بچہ نہیں ہے اس کو بچہ پکڑا دیا.پس وہ جو سچی محبت کرنے والے ہیں وہ برداشت نہیں کر سکتے کہ جس چیز سے محبت ہے.اس کو نقصان پہنچے.” میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا“ کا یہ مضمون ہے.ہر فیصلے کے وقت میں یہ سوچوں گا کہ میرے دین کو نقصان ہورہا ہے یا مجھے نقصان ہورہا ہے.اگر دین کو نقصان ہو رہا ہے تو اپناہ نقصان انسان خوشی سے قبول کر لے یہ تبتل ہے اور یہ تبتل لازماً اسے خدا کی گود تک پہنچائے گا.یہ ناممکن ہے کہ ایسا انسان خدا کی محبت کے بغیر پھر زندہ رہ سکے یا خدا کی محبت اسے قبول نہ کرے اور خدا کی محبت کی حالت میں جان نہ دے.پس یہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرما ر ہے ہیں کہ ” جو شخص در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا اب دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کاکلام کتنا گہرا اور کتا محتاط اور کتا فصیح و بلیغ ہے.اس موقع پر در حقیقت کا لفظ عمد أسوچ کر داخل کیا گیا ہے محاورۃ نہیں فرمایا میری بیعت کرتے وقت سب کہتے ہیں کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا لیکن در حقیقت کتنے ہیں جو ر کھتے ہیں یار رکھنے کی تمنا رکھتے ہیں.پس فرمایا جو شخص در حقیقت دین کو دنیا پر مقدم نہیں رکھتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.جو شخص پورے طور پر ہر ایک بدی سے اور ہر ایک بد عملی سے یعنی شراب سے اور قمار بازی سے ( یعنی جوئے سے ) بدنظری سے اور خیانت سے، رشوت سے اور ہر ایک ناجائز تصرف سے تو بہ نہیں کرتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے“.نیتوں کو پاک صاف کرو اب یہ تو تحریر اکثر دلوں پر بہت بوجھل ہے کیونکہ ہر بدی اگر اپنی انتہا میں نہیں تو کسی نہ کسی صورت میں ، کسی نہ کسی شکل میں انسان کے اعمال میں نہیں تو اس کے دل میں پنپ رہی ہوتی ہے، اس کی نیتوں میں داخل ہوتی ہے، تمنا بن چکی ہوتی ہے اور اگر کوئی چیز انسان کے اور اس کی بدی کی راہ میں حائل ہے تو خواہش کی کمی نہیں ، بے اختیاری حائل ہوتی ہے.بہت سے معصوم ایسے ہیں جو مجبور ہیں، بے اختیار ہیں ، ان کی بدی تک پہنچ نہیں ہوتی.پہنچ ہو اور پھر نہ کریں تو یہ نیکی ہے اور اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں.یہ ساری چیزیں ایسی ہیں کہ اگر تمہاری نیتوں میں داخل رہیں تو تم کبھی تبجبل اختیار نہیں کر سکتے.نیتوں کو پاک صاف کرو، نیتوں کی گہرائیوں سے جڑوں کو اکھیڑ کر پھینک دو.پھر دعا کروتو پھر دیکھو

Page 349

336 کہ کس طرح نیکی اسی سرزمین میں جڑیں پکڑتی ہے جہاں پہلے بدیاں پنپ رہی تھیں.فرمایا: " ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے" ہمارے کتنے جوڑے ہیں جن کی زندگیاں اسی لئے برباد ہوئیں کہ کہیں خاوند بیوی سے خیانت کر رہا ہے کہیں بیوی خاوند سے خیانت کر رہی ہے اور یہ خیانت کئی طرح سے ہو سکتی ہے.حقوق کی ادائیگی میں کمی ، چوری چھپے کچھ تعلقات قائم رکھنا یا ایک ملکیت کو دوسرے کے سپرد کر دینا.یہ تفاصیل بیان کرنے کا موقع نہیں مگر انسان کے زندگی کے دائروں میں میاں بیوی کے تعلقات کا دائرہ بھی بہت وسیع دائرہ ہے اور اس دائرہ میں ہر قسم کی خیانت کے مضمون بار ہا جگہ پا جاتے ہیں.ان موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ قول پیش نظر رکھ کر غور کریں کہ: ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے" جب دین کی تخفیف دیکھو تو اس مجلس سے الگ ہو جاؤ پھر بعض لوگ اپنے تعلقات کو نہیں توڑ سکتے.ایک شخص ایسی مجلسوں میں بیٹھتا ہے جہاں دین پر طعن آمیزی ہورہی ہوتی ہے تخفیف کی نظر سے فیصلوں کو دیکھا جاتا ہے.کبھی خلیفہ وقت کے کبھی امیر کے، کبھی کسی اور عہدیدار کے کبھی صدر مجلس خدام الاحمدیہ کے فیصلہ کو، کبھی دوسرے عہدیداران کے فیصلوں کو تخفیف کی نظر سے دیکھا جاتا ہے یعنی اس پر مذاق اڑایا جاتا ہے.کہا جاتا ہے کہ جی! دیکھو یہ باتیں ہورہی ہیں.کیا فضول بات ہے، کیا معنی رکھتی ہے، کئی قسم کے تمسخر کے فقرے کسے جارہے ہوتے ہیں اور ایسی مجلس میں بعض لوگ جا کر بیٹھتے ہیں اور اس مجلس سے علیحدہ نہیں ہوتے.قرآن کریم نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ جب دین کی تخفیف کو دیکھتے ہو تفصیل بیان نہیں فرمائی ، ہر قسم کی تخفیف اس میں شامل ہے تو اس وقت تک اس مجلس سے الگ ہو جایا کرو جس وقت تک یہ مضمون جاری ہے.یہ بہت ہی وسیع حو صلے کی تعلیم ہے.یہ نہیں فرمایا کہ مستقلاً ان سے قطع تعلق کر لو.کیونکہ اگر ہر بدی پر فورا پورا قطع تعلق اختیار کر لیا جائے تو پھر ایسے لوگوں کی اصلاح کیسے ممکن ہوگی.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ نیک ہیں وہ کلیہ ایک مکمل الگ سوسائٹی بن جائیں اور ان کا بدوں کے ساتھ کسی قسم کا اٹھنا بیٹھنا نہ ہو.قرآن کریم نے کس حکمت کے ساتھ اس مضمون کو بیان فرمایا کہ جب تک وہ مجلس بد ہے اس مجلس میں تم نے نہیں بیٹھنا.اگر اس میں بیٹھو گے تو تم بے غیرت ہو گے اور اگر تم بیٹھو گے تو تمہیں نقصان پہنچ سکتا ہے، ہاں جب وہ مجلس بدیوں سے پاک ہو چکی ہو اور رنگ اختیار کر چکی ہو پھر بے شک ان میں واپس جایا کرو اور ملا کر تا کہ تمہاری نیکی کا اثر ان پر پڑے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:..وشخص مخالفوں کی جماعت میں بیٹھتا ہے اور ہاں میں ہاں ملاتا ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے

Page 350

337 اب صرف بیٹھنے کو منع نہیں فرمایا.فرمایا ایسی حالت میں بیٹھتا ہے کہ بے غیرت بنتا ہے.ہاں میں ہاں ملانا لفظا ہی نہیں بلکہ خاموش رہنے کے نتیجہ میں بھی ہوا کرتا ہے.اسے حدیث تقریری کہتے ہیں یعنی ایک انسان ایک بد بات کو سن رہا ہے اور اس کے خلاف کھل کر یا اپنے ماضی الضمیر کو، اپنے دل کی بات کو بیان نہیں کرتا یا چپ کر کے بیٹھا رہتا ہے تو ایسا شخص عملاً اس میں شامل ہو جاتا ہے.پس ہاں میں ہاں ملانے سے مراد یہ ہے کہ ایسی مجالس میں جہاں دین کو تخفیف یعنی حقارت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہو اور دین پر مذاق اڑائے جار ہے ہوں تو ایسا شخص جو وہاں سے نہیں اٹھتا اور عملاً ان کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے.فرمایاوہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.پھر فرمایا " ہر ایک زانی، فاسق ، شرابی ، خونی چور، قمار باز ، خائن، مرتشی ، غاصب، ظالم، دروغ گو، جعلساز اور ان کا ہمنشین " یعنی ایسے لوگوں کے ساتھ جو عملاً موید بن چکا ہوتا ہے.یہ جانتے ہوئے کہ یہ بدیاں ہیں پھر بھی ان کے ساتھ تعلقات ایسے بڑھا لیتا ہے کہ دراصل ان سے استفادہ کر رہا ہوتا ہے.یہاں ہم نشین سے مرادا تفاقایا کچھ دیر کیلئے کہیں بیٹھنے والا یا ساتھ پھرنے والا مراد نہیں ہے.ہم نشین ایک محاورہ ہے جیسے شرابیوں کے ہم نشین ہوتے ہیں وہ ان کے ساتھ کچھ کھا پی بھی لیتے ہیں اگر نہ بھی پیتے ہوں تو اس مجلس کا لطف اٹھارہے ہوتے ہیں تو ہم نشین کا مطلب ہے کہ جو ان کی ان سب بدیوں میں کسی نہ کسی رنگ میں یا مؤید ہوتے ہیں یا ان کا لطف اٹھارہے ہوتے ہیں، یہ مجلسیں ان کو اچھی لگ رہی ہوتی ہیں.تبھی وہ ان میں اٹھنا بیٹھنا اپنا ایک مستقل شعار بنا لیتے ہیں.زندگی کا حصہ بن جاتا ہے.فرمایا وہ سب میری جماعت میں سے نہیں ہیں.پھر فرمایا: اور اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے تو بہ نہیں کرتا اور " خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے" یہاں اس پہلے مضمون کے ساتھ تہمتیں لگانے کا جوذ کر ملا دیا ہے یہ قابل غور بات ہے کیونکہ میں نے تہمتیں لگانے والوں کے حالات پر جہاں تک غور کیا ہے اور کافی مختلف قسم کے ایسے حالات سامنے آتے ہیں تو ان پر غور کا موقع ملتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ ہر تہمت لگانے والا خود کسی بدی میں مبتلا ہوتا ہے اور تہمت لگانا اس بدی کو چھپانے یا اس بدی کا جواز ڈھونڈنے کے نتیجے میں ہوتا ہے.ایک آدمی جو کسی خاص گناہ میں ملوث ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ کوئی اور شخص ایسا پاکباز ہے جس کی سوسائٹی میں عزت اور قدر ہے تو وہ اگر دیکھتا ہے کہ ایسے شخص پر تہمت کا موقع مل گیا ہے یعنی حالات کے نتیجہ میں ممکن ہے کہ لوگ اس بات کو قبول کر لیں کہ یہ شخص تبھی اس بدی میں مبتلا ہے تو وہ ضرور وہاں تہمت لگائے گا اور عملاً اس سے یہ بتانا ہوتا ہے کہ دیکھو جی ! یہ لوگ سب یہ کر رہے ہیں اور ہم پر باتیں کر رہے ہیں.عورتیں کہہ دیتی ہیں کہ وہ دیکھو جی پر دے میں کیا کیا کرتی ہے اور میری بے پردگی پر اعتراض ہے اور اس کی اپنی ادا ئیں دیکھو کیا ہیں.ہر تہمت کے پیچھے ایک

Page 351

338 احساس کمتری ضرور ہوتا ہے.ہر تہمت کے پیچھے احساس کمتری ہوتا ہے ی ناممکن ہے کہ کوئی شخص احساس کمتری سے پاک ہواور تہمتیں لگانے کا عادی ہو.میرے اس بیان کو آپ اپنے تجربہ پر اطلاق کر کے دیکھ لیں.آپ کو ہر تجربہ کی روشنی میں ان تہمت لگانے والوں میں کوئی نہ کوئی ایسی کمزوری نظر آئے گی جس پر عملا پردہ ڈالنے کے لئے اور جواز مہیا کرنے کی خاطر وہ معصوموں کو الزامات سے چھیدتے ہیں اور ان کے دل زخمی کرتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان تمام بدیوں کا ذکر کرنے کے بعد جو یہ فرمایا کہ " اپنے بھائیوں اور بہنوں پر تہمتیں لگانے والا جو اپنے افعال شنیعہ سے تو بہ نہیں کرتا اور خراب مجلسوں کو نہیں چھوڑتا.وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.یہ سب زہریں ہیں تم ان زہروں کو کھا کر کسی طرح بچ نہیں سکتے اور تاریکی اور روشنی ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی...کیا ہی خوش قسمت وہ لوگ ہیں جو اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں اور اپنے دلوں کر ہر ایک آلودگی سے پاک کر لیتے ہیں اور اپنے خدا سے وفاداری کا عہد باندھتے ہیں ( وفاداری کا یہ عہد تبتل کے بعد ہے اس سے پہلے نہیں ہوسکتا ) کیونکہ وہ ہرگز ضائع نہیں کئے جائیں گے ممکن نہیں کہ خدا ان کو رسوا کرے کیونکہ وہ خدا کے ہیں اور خدا ان کا وہ ہر ایک بلا کے وقت بچائے جائیں گے " کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ : 18-20) خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 787-804) دنیا بھر میں منعقد ہونے والے مختلف اجتماعات کا اعلان اور نصائح خطبہ جمعہ 22 اکتوبر 1992ء) حسب سابق اس خطبہ کا آغاز بھی مختلف ممالک میں مختلف جماعتی اجتماعات کے ذکر سے کرتا ہوں.مجلس انصار اللہ ضلع اسلام آباد (پاکستان) کا تربیتی اجلاس کل سے شروع ہے اور آج اختتام پذیر ہوگا.مجلس خدام الاحمدیہ بنگلہ دیش کا سالانہ اجتماع بھی شروع ہے جو 22 سے 23 اکتوبر تک جاری رہے گا.آج مجلس انصار اللہ ضلع سیالکوٹ اور ضلع لودھراں مجلس انصار اللہ بیت التوحید لاہور کے سالانہ اجتماعات ہورہے ہیں.آج اور کل لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ یاد گیر (ہندوستان) اور لجنہ اماءاللہ کیرالہ کا صوبائی اجتماع اور

Page 352

339 اسی طرح مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کا سولہواں اور اطفال الاحمدیہ بھارت کا پندرھواں سالانہ اجتماع آج 22 اکتوبر سے شروع ہو رہا ہے.خدام الاحمد یہ بھارت کا سالانہ اجتماع تو دراصل بہت پرانا ہے.جب سے خدام الاحمدیہ کا آغاز ہوا ہے وہ قادیان بھارت ہی سے ہوا تھا.اس لئے تعجب ہے کہ انہوں نے اپنا سلسلہ کیوں کاٹ لیا جبکہ پاکستان کی جماعتوں نے یہ گنتی اسی وقت سے شروع کر رکھی ہے جب سے کہ خدام الاحمدیہ کا آغاز ہوا تھا.بھارت کا جو اجتماع ہے وہ بہر حال اسی وقت سے شروع ہونا چاہئے جب سے کہ خدام الاحمدیہ کا اعلان کیا گیا تھا.اگر وہ یہ سمجھتے ہوں کہ بھارت ملک کا الگ اجتماع اب ہو رہا ہے تو وہ پھر چند سال کی گنتی ہے.جب میں نے یہ اعلان کیا کہ ایک مرکزی صدر کی بجائے مختلف ممالک کے اپنے اپنے صدران ہوں گے تو اس حساب سے پھر ان کا یہ اجتماع اس وقت سے شمار ہونا چاہئے.بہر حال یہ سولہواں نہیں ہے اس سے بہت پرانا یہ اجتماع چل رہا ہے.لجنہ اماءاللہ پنجاب ( ہندوستان ) کا سالانہ اجتماع کل بروز ہفتہ شروع ہوگا جماعت احمد یہ ٹرینیڈاڈ ٹوباگو کا جلسہ سالانہ پرسوں 124اکتوبر کومنعقد ہورہا ہے.اس سلسلہ میں صرف ایک دو باتیں خاص طور پر کہنا چاہتا ہوں اول تو مجلس خدام الاحمدیہ بنگلہ دیش اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت ہی فعال مجلس ہے اور میری توقعات سے بہت بڑھ کر مخلص اور فدائی خدام اس مجلس میں ہیں.بہت سخت گھمبیر حالات میں جبکہ ہر طرف سے خطرات نے ان کو گھیر رکھا تھا اور تعداد بہت تھوڑی تھی انہوں نے بڑی جوانمردی کے ساتھ اور بڑی ہمت اور اخلاص اور توکل کے ساتھ وقت گزارے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے ساتھ ساتھ اس کے پھل بھی عطا کئے.اللہ تعالیٰ ان کی روایات کو بھی ہمیشہ زندہ رکھے اور پہلے سے بڑھ کر ان کو خوبیوں میں بڑھائے اور دنیا بھر کے خدام کو اس پہلو سے اپنے اپنے ملک میں بھی اور دنیا میں بھی مثالی بنادے.سیالکوٹ کو دنیا بھر میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے جہاں تک مجلس انصار اللہ سیالکوٹ (پاکستان) کا تعلق ہے.میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سیالکوٹ کو دنیا بھر میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے.جماعت احمدیہ کے آغاز پر گورداسپور کے علاوہ جس ضلع نے سب سے زیادہ احمدیت کی خدمت کی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہا ہے وہ ضلع سیالکوٹ تھا اور اس پہلو سے خدا تعالیٰ نے بھی اس ضلع کے احمدیوں پر اتنے فضل نازل فرمائے کہ آج ساری دنیا میں ان بزرگوں کی اولادیں اپنے باپ دادا کی خدمات کا وہ پھل کھا رہی ہیں اور ان خاندانوں کو اتنی حیرت انگیز ترقیات ہوئی ہیں کہ انسان حیرت سے دیکھتا ہے کہ کس ضلع سے لوگ اٹھے ہیں اور کس طرح ساری دنیا پر پھیل گئے اور دینی دنیاوی ہر لحاظ سے بڑی بڑی عظمتیں حاصل کیں.بڑے بڑے مقامات حاصل کئے اور آئندہ

Page 353

340 ان خاندانوں نے دوسری جگہ پر پھیل کر خدمت کے جھنڈے بلند کئے اور ابھی بھی دنیا کی اجتماعی خدمات میں سیالکوٹ کے احمدیوں کی نسلوں کی خدمات کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے اس کے بعد کیا ہوا.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کیا بنی اور کیا بگڑی کہ انہوں نے دین کی ان خدمات میں دلچسپی کم کر دی ( میں منہ موڑنے کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا ) دنیا کے دھندوں میں زیادہ مشغول ہو گئے دین پر سیاست کو ترجیح دینے لگے.خاندانی رقابتوں اور شراکتوں میں مبتلا ہو گئے اور دنیا کی ذلیل ذلیل نمبر داریوں میں اپنی عزتیں شمار کرنے لگے اور چوہدراہٹ کا وہ بگڑا ہوا تصور جس نے ایک لمبا عرصہ تک پنجاب پر قبضہ کئے رکھا تھا وہ ان خاندانوں کے سروں میں سما گیا اور اس کے بعد پھر وہ سارا وقار کھو بیٹھے.سیالکوٹ کی جماعتیں صف اول میں شمار ہونے کی بجائے ب سے پیچھے جا پڑیں اور اب وہ ماضی کی یادگار میں ہی رہ گئی ہیں جیسے کھنڈرات رہ جایا کرتے ہیں.ان میں کم ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان پرانی اقدار کو زندہ رکھنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں.اب کچھ عرصہ سے یہ احساس بیدار ہو رہا ہے انصار اللہ سے میں خصوصیت سے مخاطب ہوں انصار اللہ سے میں خصوصیت سے مخاطب ہوتا ہوں کہ آپ کے اس دنیا میں تھوڑے دن رہ گئے ہیں اگر چہ خدام انصار سے پہلے بھی مر سکتے ہیں، اطفال بھی خدام سے پہلے مر جاتے ہیں لیکن بالعموم جب ہم ایک گروہ کی بات کرتے ہیں تو انصار کے اس دنیا میں رہنے کے دن خدام اور اطفال کے مقابل پر تھوڑے ہیں.ان تھوڑے دنوں میں خدمت کی جتنی توفیق ہے وہ حاصل کرلیں.کھوئی ہوئی روحانی اقدار کو از سرنو حاصل کرنے کی جس حد تک کوشش ہے آپ اگر یہ کوشش کریں تو آپ کے نیک اثرات آپ کی نوجوان نسل پر بھی اور چھوٹی نسلوں پر بھی پڑیں گے اور میری ہمیشہ سے یہ دعا رہی ہے اور تمنا رہی ہے اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی کہ سیالکوٹ کو اللہ تعالیٰ وہ مرتبہ اور مقام عطا فرمائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانے میں ان کو عطا ہوا تھا.پس ان کھوئی ہوئی اقدار کو از سر نو حاصل کریں اور پھر چھٹ جائیں.حرز جان بنا لیں اور نہ چھوڑیں جب تک کہ خدا کا بلاوانہ آجائے.یعنی اس دنیا میں رہتے ہوئے جب تک زندہ ہیں ان اعلیٰ اور بزرگ اقدار سے چمٹے رہیں.اسی میں ان کی زندگی ہے اسی میں ان کی دنیا ہے.اسی میں دین ہے.جب سے وہ وباپڑی ہے جس کا میں نے ذکر کیا.سیالکوٹ کی جماعتوں کا نہ دین رہا نہ دنیا رہی ، آپس میں پھٹ گئے ،عزتیں اور وقار مٹ گئے.اس ضلع میں وہ لوگ جو پہلے جماعت احمدیہ پر زبانیں دراز کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے جن پر جماعت کا ایک عظیم رعب طاری تھا ان لوگوں نے اٹھ اٹھ کے ان لوگوں کو بھی گالیاں دیں.مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بھی زبانیں دراز کیں اور ہر طرح سے گند اچھالے تو یہ کوئی زندہ رہنے کے آثار نہیں ہیں.زندہ رہنے کے اسلوب نہیں ہیں اگر زندہ رہنا ہے تو شان کے

Page 354

341 ساتھ زندہ رہیں.ہٹ کر اور گر کر اور دنیا کے سامنے بچھ کر زندہ رہنے کے انداز موت سے زیادہ مشابہ ہیں زندگی سے کم.باقی سب جماعتیں اور خدام اور انصار اور لجنات بھی اس امر کو یاد رکھیں کہ اسی میں زندگی کا راز ہے کہ انسان دین کو دنیا پر مقدم رکھے.جس دن آپ نے دنیا کو دین پر مقدم کرنا شروع کیا وہی دن آپ کے ہلاکت کے سفر کا آغاز ہوگا.پھر آپ کا ہر قدم تنزل کی طرف اٹھے گا.اس لئے ہمیشہ اس بنیادی نکتے کو یاد رکھیں اور یہی تنبل کا مضمون ہے جو میں بیان کر رہا ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی ایک جملے میں آپ کو ہمیشہ کے لئے تجبل کا راز سمجھا دیا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.چھوڑنے کا نہیں فرمایا.مقدم رکھنے کا فرمایا ہے.ہندوستان کی جماعتوں کے لئے بھی یہی پیغام ہے.ہندوستان کی لجنہ اماءاللہ سے متعلق میں یہ ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ خدا کے فضل سے بہت اچھی لجنہ ہے.بہت بیدار ہے،خدمات میں مردوں سے پیچھے نہیں بلکہ بسا اوقات آگے نکل جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ان بجنات کو بھی اپنے فضل کے ساتھ ہمیشہ نیکیوں پر قائم رہنے اور آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرما تا رہے.گزشتہ خطبہ میں میں نے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے یہ عرض کیا تھا کہ قرآن کریم نے حضرت یوسف کے قصے کو بہترین قصہ قرار دیا.بہت ہی حسین ، بہت ہی دلکش.شروع میں تو مجھے تعجب ہوتا تھا لیکن میں نے جتنا غور کیا مجھے اس قصے کا حسن اور زیادہ نمایاں اور جاذب نظر ہو کر دکھائی دینے لگا.اس پر میرے ایک پرانے بزرگ استاد نے مجھے توجہ دلائی ہے کہ یہاں اَحْسَنَ الْقَصَصِ (یوسف: 4) فرمایا گیا ہے اَحْسَنَ القَصص نہیں فرمایا.قصہ کی جمع قصص ہوتی ہے اور القصص سے مراد قصہ نہیں بلکہ تبع کرنا ہے جستجو کرنا اور اسی قسم کا مضمون ہے، قصے کا بیان کہا جاسکتا ہے ان کا میرے دل میں بڑا احترام ہے.میں جانتا ہوں کہ وہ علوم عربیہ پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں لیکن اس سلسلہ میں معذرت کے ساتھ ان کا یہ مشورہ قبول کرنے سے قاصر ہوں.اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل علم نے جہاں یہ بات بھی لکھی ہے جو میرے سامنے پیش کی گئی وہاں اس بات پر بھی زور دیا اور بڑی واضح قطعی گواہیاں پیش کیں کہ سورہ یوسف میں جہاں اَحْسَنَ الْقَصَصِ فرمایا گیا ہے.وہاں بہترین قصہ مراد ہے اور اس کے دلائل پیش کئے.مثلاً انگریزی ڈکشنری میں سب سے زیادہ اہم اور مستند کتاب Lane ہے.Lane جہاں اور معنے بیان کرتا ہے وہاں یہ بھی لکھتا ہے کہ اَحْسَنَ الْقَصَص میں لفظ قصص قصے کا متبادل ہے کیونکہ یہ Substantive ہے اور عربی لغت سے یہ ثابت ہے کہ بعض دفعہ Substantive کو اسم کے متبادل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے.پس یہاں اس کا ترجمہ قصہ کرنا نا جائز نہیں لیکن اس سے بہت بڑھ کر ایک بہت ہی بزرگ صاحب فہم اور صاحب عرفان عالم دین حضرت علامہ امام راغب کی گواہی ہے.میں تو علامہ امام راغب کے علم سے جتنا

Page 355

342 استفادہ کرتا ہوں اتنا ہی ان کی محبت میرے دل میں بڑھتی جاتی ہے اور درود میں میں ان کو بھی آل میں شامل کرتا ہوں کیونکہ قرآن کریم کے الفاظ پر جتنی گہری نظر ڈال کر انہوں نے وہ کتاب لکھی ہے جسے مفردات امام راغب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس کی کوئی اور نظیر سارے عالم اسلام میں پیش نہیں کی جاسکتی.بہت گہری نظر سے مطالعہ کیا اور قرآن سے گواہیاں نکالیں اور جو بات بیان کی اس کی قرآن سے ایسی ٹھوس شہادت پیش کی ہے کہ کسی عالم کو پھر اس کے مقابل پر زبان کھولنے کی جرات نہیں ہوسکتی.یہ ایک لمبی بحث ہے آپ اس میں فرماتے ہیں.وَالقَصَص الاخبار المتَتَبَّعَة يعنى قصص ان خبروں کو بھی کہتے ہیں جن کی پیروی کی جائے.پس قصص یعنی تنتبع کے نتیجہ میں جو اخبار ہاتھ آتی ہیں ان کو بھی نقص کہا جاتا ہے.انقَصَصُ الْحَقُّ ( آل عمران : 63 ) کہ دیکھیں قرآن کریم نے فرمایا انقصصُ الْحَقُّ حق کے بیان کرنے کا طریق مراد نہیں ہے بلکہ حق کے تعلق میں قصے مراد ہیں.پھر فرماتے ہیں قرآن کریم نے فرمایا.نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ القصص کہ اس نے قصے بیان فرمائے یہاں قصص نہیں فرمایا ” بیان کرنے کا طریق بیان فرمایا تو مراد ہو ہی نہیں سکتا.پس ثابت ہوا کہ قرآن لفظ قصص کو قصہ کے متبادل بھی استعمال کرتا ہے.پھر اس آیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں.نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَص کہ ہم تیرے سامنے بہترین قصہ بیان کر رہے ہیں، سب سے زیادہ حسین قصہ بیان کر رہے ہیں.پس ان مثالوں میں جہاں قصص قصہ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے حضرت امام راغب نے اس آیت کریمہ کو بھی شامل کر لیا ہے.یہ میں اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ یہ بزرگ عالم جن کا میں نے ذکر کیا ہے یہ تو ہمیشہ بلاتر دو جب بھی ان کے ذہن میں کوئی ایسا خیال آئے کہ جس کی طرف مجھے متوجہ کرنا ہو یہ ضرور متوجہ فرماتے ہیں اور ان کا بڑا احسان ہے کہ اس معاملہ میں کسی جھوٹے خوف میں یا جھوٹے ادب میں مبتلا نہیں ہوتے لیکن بہت سے ایسے علماء ہیں جو سمجھتے ہوں کہ میں نے غلط بات کہی ہے لیکن دل میں اس وجہ سے چھپا جاتے ہیں کہ شاید ادب کا غلط تصور ہے یا اس وجہ سے چپ ہو جاتے ہیں کہ میرے تقویٰ کا غلط تصور ہے اور ڈرتے ہیں کہ میں برا مناؤں گا.ان سب کے علم میں یہ بات آجانی چاہئے کہ یہ ترجمہ درست ہے غلط نہیں ہے اگر چہ بعض علماء لفظ نقص کا دوسرا معنی بھی لیتے ہیں جو غلط نہیں لیکن بہت بڑے بڑے علماء کے نزدیک یہ بھی درست ہے.گزشتہ خطبہ میں میں نے یہ گزارش کی تھی کہ صوفیاء کا ایک بہت ہی مشہور مقولہ ہے مُوتُوا قَبْلَ أَنْ تَمُوتُوا.میں نے احادیث میں تلاش کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کہیں یہ فرمایا ہے تو میرے علم میں ایسی کوئی حدیث تو نہیں آئی جس میں یہ فرمایا ہو کہ سُؤتُوا قَبْلَ أَنْ تَمُوتُوا.لیکن ایک اور حدیث میں اس مضمون کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ احسن رنگ میں یوں پیش فرمایا ہے: يأَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إِلَى اللهِ قَبْلَ أَن تَمُوتُوا کہ اے بنی نوع انسان ! اللہ تعالیٰ کے حضور تو بہ اختیار کرو

Page 356

343 پیشتر اس سے کہ تَمُوتُوا - تم مرجاؤ.بادروا بالاعمال الصالحة قبل ان تشغلوا اور اعمال صالحہ بجالانے میں جلدی کرو پیشتر اس کے کہ تم دوسری باتوں میں مشغول کر دیئے جاؤ.ابن ماجہ کتاب اقامة الصلوۃ حدیث نمبر : 1017) دوسری باتوں میں مشغول کر دئے جانے کا جو مضمون ہے یہ مزید وضاحت طلب ہے.اس میں بہت ہی گہری حکمت کا بیان ہے.اگر انسان اعمال صالحہ کی بجا آوری میں جلدی نہیں کرتا تو ایسے مواقع بسا اوقات ہاتھ سے کھوئے جاتے ہیں اور پھر ہاتھ نہیں آیا کرتے.ہر انسان کے اندر تبدیلی کا ایک وقت آتا ہے.دل سے ایک موج اٹھتی ہے جو نیکی کی موج ہوتی ہے.اس وقت وہ کہتا ہے کہ میں یوں کردوں اور یوں کر دوں.قرآن کریم کے مطالعہ کے وقت احادیث کے مطالعہ کے وقت ، بزرگوں کے اقوال خصوصاً حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ملفوظات سے بار ہادل میں ایسی لہریں اٹھتی ہیں کہ میں اپنے کو یہ کرنے پر آمادہ پارہا ہوں.میرا دل چاہتا ہے میں ایسا ہو جاؤں وہ وقت اس نیک ارادے کو عمل میں ڈھال دینے کا ہے اور اگر انسان جلدی نہ کرے تو یہ وقت ضرور ہاتھ سے چلا جاتا ہے، وہ کیفیت مدام نہیں رہتی اسی طرح رمضان المبارک میں بھی ایسے وقت آتے ہیں، ایسی راتیں آتی ہیں جب انسان کا دل چاہتا ہے کہ سب کچھ خدا کے حضور حاضر کر دے اور اس وقت ہمت نہیں ہوتی کہ اس خواہش پر عمل پیرا ہو سکے.عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں رمضان گیا اور نیک ارادے بھی اس کے ساتھ رخصت ہوئے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قَبْلَ أَنْ تَشْغَلُوا جو فرمایا تو مراد یہ ہے کہ نیک کاموں کے علاوہ ایسے مشاغل میں مبتلا ہو جاؤ جو تمہیں نیک کاموں سے غافل کر دیں، جن کی وجہ سے تمہارے نیک مواقع ہاتھ سے جاتے رہیں.تَشْغَلُوا میں ایک اور بھی تنبیہہ ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر تمہیں مصیبتوں میں مبتلا فرمادے، ہم ایسے گورکھ دھندوں میں پڑ جاؤ جو تمہارے لئے تکلیف کا موجب بنیں اور پھر نیک اعمال کی طرف لوٹنے کی تم میں صلاحیت ہی نہ رہے.تشغلوا میں مرضیں بھی آجاتی ہیں ایک صحتمند انسان عبادت کا جیسا حق ادا کر سکتا ہے بیمار نہیں کر سکتا لیکن اگر انسان صحت کے ہوتے ہوئے عبادت سے غافل رہے تو بسا اوقات ایسے انسان میں ایسی بیماریاں آجاتی ہیں کہ وہ پھر عبادت کے لائق ہی نہیں رہتا یہ مضمون بڑا وسیع ہے.ہر نیکی کی راہ میں کوئی نہ کوئی بیماری حائل ہو سکتی ہے.پس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قَبْلَ أَن تَشْغَلُوا کہہ کر احتمالی بیماریوں کا بھی ذکر فرما دیا احتمالی حادثات کا بھی ذکر فر ما دیا اور کئی قسم کے گورکھ دھندے جو انسان کو گھیر لیتے ہیں اور انسان ان میں مبتلا ہو جاتا ہے ان کا بھی ذکر فر ما دیا اور اس بنیادی فطرت انسانی کا بھی ذکر فرما دیا کہ ہر انسان کی زندگی میں ایسے لحات آتے ہیں جب وہ اپنے آپ کو نیک ارادوں پر تیار پاتا ہے اس وقت وہ ارادہ اگر عمل میں نہ ڈھلے تو وقت ہاتھ سے جاتا رہتا ہے.

Page 357

344 پس اس پہلو سے تُوبُوا إِلَى اللهِ قَبْلَ أَنْ تَمُوتُوا کا مضمون جو دراصل تبتل سے تعلق رکھتا ہے اس کے یہ سارے پہلو بھی ہمارے سامنے آگئے.یعنی تبجبل ہر اس موقع پر اختیار کیا جاسکتا ہے.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے دل میں ایک روحانی تحریک پیدا ہورہی ہو.اس طرح زیادہ آسانی کے ساتھ ٹکڑ اٹکڑا اتل کی توفیق مل سکتی ہے.جب دل میں ایک نیکی کی لہر دوڑی اس حصہ پر عمل کر لیا کیونکہ وہ عمل کرنے کا سب سے زیادہ آسان موقع ہے کہ دل کی ہوائیں اور دل کے مزاج اس نیکی کو اختیار کرنے کے مطابق چل رہے ہیں، ان کے مخالف نہیں چل رہے.اس پہلو سے تبتل کو اختیار کرنے کے طریق ہمیں سمجھا دیئے گئے کہ اگر تم زور اور کوشش کے ساتھ تنبتل اختیار کرنے کی کوشش کرو گے یعنی بعض بدیاں چھوڑ کر نیکیوں کی طرف آنے کی کوشش کرو گے تو ممکن ہے کہ تمہیں توفیق نہ ملے.ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ایسے وقت تم پر ضرور آئیں گے جب نیکی کی طبعی تحریک دل میں پیدا ہورہی ہے اس وقت تبتل اختیار کر لینا ورنہ تَشْغَلُو اور نہ وہ بیماریاں جن سے بیچ کر خدا کی طرف آنے کی ہم تمہیں ہدایت کر رہے ہیں وہ تمہیں گھیر لیں گی ہم ان میں مشغول ہو جاؤ گے پھر تمہارا بچ نکلنا مشکل ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تبتل کے مضمون پر فرماتے ہیں." اللہ تعالیٰ کو واحد سمجھتا ہے ( یعنی انسان جو اللہ تعالیٰ کو واحد سمجھتا ہے ) پھر دوسرے سے بھی تعلق رکھتا ہے تو تو حید کہاں رہی؟ ایک نہ رہا کچھ اور بھی اس کے ساتھ پیدا ہو گئے ) یا خدا تعالیٰ کو رازق مانتا ہے مگر کسی دوسرے پر بھی بھروسہ کرتا ہے یا دوسرے سے محبت کرتا ہے یا کسی سے امید اور خوف رکھتا ہے تو اس نے واحد کہاں مانا ؟ غرض ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ کو واحد ماننے سے تو حید حقیقی متحقق ہوتی ہے مگر یہ اپنے اختیار میں نہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی ہستی پر کامل یقین سے پیدا ہوتی ہے." پھر فرماتے ہیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحه : 347-349) اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے.ہم بار بار اپنی جماعت کو اس پر قائم ہونے کے لئے کہتے ہیں کیونکہ جب تک دنیا کی طرف سے انقطاع ( یعنی تبتل.علیحدگی ) اور اس کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہو کر اللہ تعالیٰ کے لئے فطرتوں میں طبعی جوش اور محویت پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ثبات میسر نہیں آسکتا.( ملفوظات جلد چہارم صفحہ: 33) یہ بہت ہی گہرا مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا.فرمایا: اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے محویت سے مراد ہے خدا کے لئے خالص ہونا.اس کا لفظی ترجمہ تو ہے اس میں کھوئے جانا.خدا تعالیٰ میں کھوئے جانے کی ضرورت ہے اور یہ کیسے حاصل ہوسکتا ہے جب تک

Page 358

345 دنیا کی طرف سے انقطاع نہ ہو یعنی پہلی منزل اس کی یہ ہے کہ دنیا سے انسان کا ٹا جائے.اگر کانا نہیں جاتا تو اس کا پیوند خدا تعالیٰ کی ذات میں لگ نہیں سکتا جب تک کہ صفات سیئہ سے اس کا تعلق کا نانہیں جاتا اور دنیا کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہو کر اللہ تعالیٰ کیلئے فطرتوں میں طبعی جوش اور محویت پیدا نہیں ہوتی.دو محبتیں بیک وقت برابر نہیں پل سکتیں ایک محبت کو ضرور غالب ہونا ہے جب دنیا کی محبت غالب رہے گی اور جب تک دنیا کی محبت غالب رہے اللہ تعالیٰ کی محبت جڑ نہیں پکڑ سکتی.پس آپ جب بھی محبت کے مضمون پر غور کریں گے تو مشکل یہ پیش آئے گی کہ یہاں ایک جڑ کا سوال نہیں بیسیوں ،سینکڑوں، ہزاروں جڑیں ہیں جنہوں نے ہمیں غیر اللہ کی محبت میں باندھ رکھا ہے، غیر اللہ کی محبت کی زمین میں ہم پیوست ہیں.بعض لوگوں کی جڑیں ہلکی ہیں اور اوپر ہیں اور بعض زلازل بعض آندھیاں ان کی جڑیں اکھیڑنے میں ان کی مدد کرتی ہیں.غم پڑتے ہیں، مصائب وارد ہوتے ہیں اور ان درختوں کی جڑیں جو زمین میں پیوستہ تھیں ان سے الگ ہو جاتی ہیں.پھر اللہ فضل فرمائے تو خدا تعالیٰ کی محبت کی زمین میں وہ دوبارہ پیوست ہو سکتی ہیں لیکن بعضوں کی جڑیں گہری ہوتی ہیں.جو بھی ابتلاء آتے ہیں، جیسی کیسی نصیحت کی جائے وہ اسی طرح اس زمین میں گہری پیوست رہتی ہیں تو فرمایا کہ جب تک پہلے یہاں سے جڑیں اکھیڑو گے نہیں اللہ کی محبت میں وہ جڑیں لگ نہیں سکتیں جب ایک دفعہ اکھیڑی جائیں تو پھر کیا ہوتا ہے فطرتوں میں طبعی جوش پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ ایک ایسا شخص جس کی جڑیں اکھڑ جائیں اس کی بقاء کا زمانہ بہت تھوڑا ہے وہ جتنی جلدی ممکن ہو ان جڑوں کو دوبارہ اسی زمین میں پیوست کرنے کی کوشش کرتا ہے.یہی پودوں کا حال ہے جو پورے ہواؤں اور آندھیوں سے اکھڑ کر اپنے اصل موطن سے الگ ہو جاتے ہیں اپنی جگہوں سے جدا ہو جاتے ہیں جہاں بھی ہوا انکو ٹھہراتی ہے وہاں وہ فوری طور پر جڑیں زمین پر پھینکنے کی کوشش کرتے ہیں تو فرمایا کہ دنیا سے جڑیں اکھیڑو تو پھر ایک طبعی جوش پیدا ہوگا کہ کہیں تو جڑیں لگیں.پھر خدا کی ذات میں محویت کا معاملہ آسان تر ہو جائے گا تم خود بخود چاہو گے کہ دنیا سے کاٹے گئے، خدا تو ملے اور کم سے کم اس مجبوری کے پیش نظر ہی تمہیں اللہ تعالیٰ میں محو ہونے میں مدد ملے گی.اس کے بغیر ثبات میسر نہیں آسکتا.جڑوں کے اکھڑنے کا جو مضمون میں نے اب بیان کیا ہے اس کا ثبات سے تعلق ہے.جڑیں پیوستہ ہوں تو ثبات آتا ہے اور جب تک انسان خدا تعالیٰ کی ذات میں محو نہ ہونیکیوں پر ثبات اس لئے نہیں آسکتا کہ دنیا کی زمین میں اگر جڑیں گہری پیوست ہوں تو نیکیاں شاخوں پر صرف عارضی بہار کے سرسری اثر کے طور پر دکھائی دیتی ہیں.جڑیں فیصلہ کرتی ہیں کہ اس درخت نے کیا بنا ہے اور کیسے رہنا ہے اور کوئی نیکی وہاں ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی جب تک کہ جڑیں اس کی تائید نہ کریں.پس جب تک انسان کی محبت کی جڑیں اللہ تعالیٰ کی ذات میں پیوستہ نہیں ہو جاتیں اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ تمہاری نیکیوں

Page 359

346 کو ثبات میسر نہیں آسکتا.ہم نے روز مرہ دیکھا ہے کہ ایک انسان نیکیوں کو اختیار کرتا ہے پھرا کھڑ جاتا ہے پھر اختیار کرتا ہے پھر اکھڑ جاتا ہے.ہر وقت اس دغدغہ میں اس کا وقت گزرتا ہے کہ کیا کروں، کس طرح اپنی نیکیوں کو ثبات بخشوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا حل پیش فرما دیا کہ اس کا حل محبت الہی میں ہے.ہر محبت کے مقابل پر محبت الہی کا ایک موقع ہے جس جس محبت میں تم دنیا سے تعلق کاٹ کر اللہ تعالیٰ کی محبت اختیار کرو گے تو لازما و ہیں تمہاری ان نیکیوں کو ثبات مل جائے گا جن کا اس مضمون سے تعلق ہے.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر خدا میں گم اور محو ہو گئے تھے کہ آپ کی زندگی کے تمام انفاس اور آپ کی موت محض خدا تعالیٰ کے لئے ہو گئی تھی اور آپ کے وجود میں نفس مخلوق اور اسباب کا کچھ حصہ باقی نہیں رہا تھا ( یہ کامل تقتل ہے ) اور آپ کی روح خدا کے آستانہ پر ایسے اخلاص سے گری تھی کہ اس میں غیر کی ریویو آف ریلیجنز - جلد اول صفحہ : 178) ایک ذرہ آمیزش نہیں رہی تھی " تقبل کا مضمون اپنی انتہاء تک پہنچا ہوا ہے تقبل کا یہ مضمون اپنی انتہا تک پہنچا ہوا ہے اس سے آگے کا تقتل ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تعلق میں اس کی محبت میں ہر دوسرا تعلق بالکل کالعدم ہو جائے بلکہ عدم ہو جائے اور اس کا کچھ بھی باقی نہ رہے.جو شخص اپنے نفس سے کامل طور پر کاٹا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلے نفس کا ذکر فرمایا ہے، کامل طور پر اپنے نفس سے کانٹا گیا مخلوق اور اسباب سے کاٹا گیا.امر واقع یہ ہے کہ مخلوق اور اسباب سے کٹنے سے پہلے نفس سے کٹنا ضروری ہے یہ یاد رکھیں.مخلوق اور اسباب کے تعلق کی جڑیں نفس کے اندر ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عرفان کی بہت ہی گہری بات فرمائی ہے اور بڑی حکمت سے اس ترتیب کو قائم فرمایا ہے.فرماتے ہیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نفس سے کاٹے گئے.اپنی ذات سے کالے گئے اور اس کے نتیجہ میں لازم تھا کہ مخلوق اور اسباب کا کچھ حصہ آپ میں باقی نہ رہے تب ایسا ہوا کہ آپ کی روح خدا کے آستانہ پر ایسے اخلاص سے گری کہ اس میں غیر کی ایک ذرہ آمیزش نہیں رہی تھی.اس کے بعد کی جو دنیا ہے اس میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نفس سے بھی ایک تعلق پیدا ہوا.مخلوق سے بھی ایک تعلق پیدا ہوا اور اسباب سے بھی ایک تعلق پیدا ہوا مگر کیوں؟ اس لئے کہ اللہ نے فرمایا کہ وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ دیکھو میرے بندے تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے.پس وہ قطع تعلق ایک نئے تعلق میں تبدیل ہوگئی جو اللہ کی طرف سے ملا اور یہی مضمون خلق سے تعلق اور اسباب کے ساتھ تعلق پر بھی برابر حاوی ہے اور برابر اطلاق پاتا ہے.گویا آپ کا ہر تعلق رضائے باری تعالیٰ کے تابع ہوکر ایک

Page 360

347 نئی روح کے ساتھ قائم ہوا ہے اور اسی حد تک قائم ہوا.جس حد تک خدا نے چاہا کہ یتعلق قائم ہو.پس نفس کے تعلق میں اور مخلوق کے تعلق میں اور اسباب کے تعلق میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایک کامل مثال بن گئے جس حد تک آپ اپنے نفس کا لحاظ رکھتے تھے اور دوسروں کے نفوس کا لحاظ رکھتے تھے وہ ایک خاص تفریق جو اپنے نفس اور غیروں کے درمیان کی جاتی تھی.وہ تجتل کی ایک بہت ہی اعلیٰ مثال ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان تعلقات کو ایک نئی روح ملتی ہے، نئی روشنی عطا ہوتی ہے.ویسا ہی اگر ہم کریں اور ویسا ہی اسباب سے تعلق رکھیں جیسا حضرت اقدس محمد رسول اللہ نے اسباب سے تعلق توڑنے کے بعد پھر دوبارہ خدا کی خاطر قائم فرمایا ہے.نجات کا آخری ذریعہ تو یہی اس دنیا میں نجات کا آخری ذریعہ بلکہ پہلا اور آخری ذریعہ ہے اس سے بہتر نجات کی کوئی اور تعریف ممکن نہیں دنیا بھر کے مذاہب میں آپ تلاش کرلیں مگر یہ تعریف جو تبتل اور پھر دوبارہ تعلق کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر غور کرنے کے بعد ہمیں سمجھ آتی ہے اس سے بہتر نجات کی کوئی اور تعریف ممکن نہیں ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو یوں بیان فرمایا ہے.وَمَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ( الاحزاب : 72 ) تم نجات کی راہیں پوچھ رہے ہو ہم تمہیں فوز عظیم کی راہ بتاتے ہیں.تم نجات کی کیا باتیں کرتے ہو ہم نجات کی ایسی راہ بتاتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر نجات ممکن نہیں ہے اور وہ نجات خدا اور محمد رسول اللہ کی متابعت میں ہے.اللہ کی اطاعت کرو.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اس میں ساری نجات ہے.پس میں جو نجات کا مضمون اس کے ساتھ باندھ رہا ہوں تو اپنی طرف سے نہیں بلکہ قرآن کریم نے واضح طور پر اس کو نجات ہی کے مضمون کے طور پر پیش فرمایا ہے.اب میں آپ کے سامنے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلہ اللہ علیہ وسلم کے تجبل کی چند مثالیں رکھتا ہوں یہ تو ایک بہت ہی وسیع مضمون ہے اور بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں مگر چند ایسی مثالیں جن سے آپ کو یہ مضمون سمجھنے میں آسانی ہوگی جو میں نے چینی ہیں.ایک نصیحت کے طور پر بخاری.کتاب الرقاق باب قَوْل النَّبِيِّ صَلَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ.یہ عنوان حضرت امام بخاری نے باندھا ہے.حضرت ابن عمرؓ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھوں کو پکڑا اور فرمایا تو دنیا میں ایسا بن جا گویا تو پردیسی ہے یا راہ گزر مسافر ہے.( بخاری کتاب الرقاق حدیث نمبر :5932) ی تل کی وہ تعریف ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر سب سے زیادہ صادق آئی اور اس

Page 361

348 کی روشنی میں ہم اس مضمون کو زیادہ بہتر رنگ میں سمجھ سکتے ہیں.ترمذی.کتاب الزھد میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر سور ہے تھے جب اٹھے تو چٹائی کے نشان پہلو مبارک پر نظر آئے.ہم نے عرض کیا.اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کے لئے نرم سا گدیلہ نہ بنادیں.اگر ایک نرم سا گدیلہ ہم آپ کے لئے بنا دیں تو کیا اچھا نہ ہو؟ آپ نے فرمایا: مجھے دنیا اور اس کے آراموں سے کیا تعلق؟ میں اس دنیا میں اس شتر سوار کی طرح ہوں جو ایک درخت کے نیچے ستانے کے لئے اترا اور پھر شام کے وقت اس کو چھوڑ کر آگے چل کھڑا ہوا.( نرمندی کتاب الذهد حدیث نمبر : 2299) یہ عجیب مثال ہے.آپ سفر کرتے ہیں تو آپ کو بہت سی چیزیں اچھی بھی لگتی ہیں.سفر کی مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چیزوں کا پسند آنا منع نہیں ہے.آرام کی بھی ضرورت پڑتی ہے.کئی سایہ دار اشجار راہ میں آپ کی مہمانی کے لئے آپ کو آرام پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرما رکھے ہیں.لیکن سفر کی حالتوں پر غور کر کے دیکھیں وہ سب تعلقات عارضی دکھائی دیتے ہیں اور انسان کسی جگہ اپنی منزل بنا کر ٹھہر نہیں جایا کرتا.اچھے مقامات بھی آتے ہیں، برے مقامات بھی آتے ہیں، سبزہ زاروں میں چشمے بھی بہہ رہے ہوتے ہیں میٹھے پانی بھی مہیا ہوتے ہیں.صحراؤں میں پیاس کی تلخیاں بھی برادشت کی جاتی ہیں اور کئی قسم کی مصیبتیں ہیں لیکن ایک مسافر جب ان سے گزرتا ہے تو نہ تکلیفیں ہمیشہ کے لئے اس کو مغلوب کر دیتی ہیں یا مایوس کرسکتی ہیں، نہ عارضی لذتیں اس کے قدم تھام سکتی ہیں.وہ سمجھتا ہے کہ یہ لذتیں بھی عارضی ہیں یہ میرا اصل مقام نہیں ہے اور یہ تکلیفیں بھی آئیں اور چلی گئیں مگر میری منزل تو کہیں اور ہے.پس ہمیشہ منزل کا خیال اس کے دامنگیر رہتا ہے اور سفر کے تعلقات کبھی بھی دائمی نہیں بن سکتے.اور مجھے یاد ہے بچپن میں چونکہ مجھے پہاڑوں پر جانے کا بہت شوق تھا.ہمالہ کے خوبصورت پہاڑوں پر جو ایک بہت وسیع سلسلہ ہے جب بھی جاتا تھا اور جب سکول کی چھٹیوں کے دن ختم ہورہے ہوتے تھے اور واپس جانا ہوتا تھا تو مجھے بہادر شاہ ظفر کا یہ شعر یاد آ جاتا تھا اور اکثر ان جگہوں پر بیٹھ کر یہ شعر گنگنا کر میں بہت لذتیں محسوس کرتا تھا اور وہ شعر یہ ہے کہ جو چمن سے گزرے تو اے صبا تو یہ کہنا بلبل زار سے کہ خزاں کے دن بھی قریب ہیں نہ لگانا دل کو بہار سے دنیا میں ایک مسافر کی طرح رہو پس انسان کے لئے خواہ خوبصورت جگہیں ہوں یا تکلیف دہ جگہیں ، بہار کے موسم ہوں یا خزاں کے موسم ہوں ، پیغام واحد یہی ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے کہ نہ وقتی آرام

Page 362

349 تمہیں متکبر کر دیں اور جھوٹی ملکیت کی تمنائیں تمہارے دلوں میں پیدا کریں اور نہ عارضی تکلیف دہ مقامات تم پر نفسیاتی لحاظ سے غالب آکر تمہیں مایوس کر دیں اور تم سمجھو کہ تمہارا سب کچھ ہاتھ سے جاتارہا.مسافر کی طرح رہو گے تو آرام کی زندگی کے ساتھ بھی تمہارے تعلقات درست رہیں گے اور تکلیف کی زندگی کے ساتھ بھی تمہارے تعلقات درست رہیں گے.پھر حضرت سہیل بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا.اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسا کام بتائیے کہ جب میں اسے کروں تو اللہ تعالیٰ مجھ سے محبت کرنے لگے اور باقی لوگ بھی مجھے چاہنے لگیں.بڑا مشکل سوال ہے.انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ایسا کام کروں کہ اللہ محبت کرے تو دنیا سے تعلق توڑنا پڑے گا اور ایسا کام کروں کہ دنیا مجھے چاہنے لگے تو گویا اللہ سے تعلق توڑنا پڑے گا.کتنا مشکل سوال تھا جو بظاہر کیا گیا لیکن جواب دیکھیں.کیس عارفانہ کیسا عظیم جواب ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.دنیا سے بے رغبت اور بے نیاز ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرنے لگے گا اور یہی فعل تمہارے لئے لوگوں کی محبت بھی پیدا کر دے گا.یہ فرمایا جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس کی خواہش چھوڑ دو تو لوگ تجھ سے محبت کرنے لگیں گے.(ابن ماجہ کتاب الذهد حدیث نمبر : 4092) کتنا حیرت انگیز عارفانہ جواب ہے.اس کو پڑھ کر عقل ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتی ہے کہ کیسا برجستہ جواب اللہ تعالیٰ نے فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھایا ہے جو اس سوال کے دونوں پہلوؤں پر برابر اطلاق پاتا ہے اور ایک ہی نیکی ہے جس کے اجر کے طور پر اللہ بھی محبت کرتا ہے اور بندے بھی محبت کرتے ہیں.ہمارے تعلقات کے جتنے بھی دائرے ہیں، دنیا میں جتنے فساد ہیں ان کی جڑ دنیا کی محبت اور اس رنگ میں محبت ہے کہ دوسرے کے مال پر حرص کی نگاہیں پڑتی ہیں جو اپنا حق نہیں ہے وہ لینے کی تمنا دل میں پیدا ہوتی ہے.اگر کسی شخص کو کامل یقین ہو جائے کہ اس شخص کو میری وجاہت میں، میرے اموال میں، میری اچھی چیزوں میں ایسی دلچسپی ہرگز نہیں کہ انہیں اپنا لے، اس حد تک دلچسپی ہے کہ یہ چیزیں زیادہ ہوں تو یہ خوش ہو.ایسے شخص سے لازماً وہ شخص محبت کرے گا جس کو اس کی طرف سے اسی کی طرح کا کامل اطمینان نصیب ہو اور کامل بے خوفی عطا ہو جائے.دراصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ مسلم ہی کی یہ تعریف فرمائی ہے اور انسان کا اسلام کامل ہو نہیں سکتا جب تک اس سے دنیا بے خوف نہ ہو جائے اور تمام دنیا کو اس کی طرف سے حقیقت میں سلامتی کا پیغام نہ پہنچے.یہ کیسے ممکن ہے اس کا یہی طریق ہے کہ دنیا کی محبت دل پر اس طرح سرد ہو جائے کہ جو کسی کی ملکیت ہے وہ اس کو مبارک رہے اور اس کو حاصل کرنے کی کوئی تمنا کوئی خیال دل میں پیدا نہ ہو اور جہاں تک اللہ کی ذات کا تعلق ہے دنیا کا وجود اس کے سامنے ایک مردار کے طور پر دکھائی دے اور

Page 363

350 خدا تعالیٰ کی محبت ایک زندہ محبت کے طور پر ہمیشہ اس کے دل پر غالب کر ایک قضاء ہے جو آسمان پر قائم ہے میں نے دیکھا ہے کہ ہماری جماعت میں بھی بہت سے اختلافات، بہت سے خاندانی مسائل اس نصیحت پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں ہیں.بہت سے ایسے خطوط مجھے ملتے ہیں ، بہت سے ایسے مقدمات قضاء میں جاتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ایک باپ نے آنکھیں بند کیں تو اولا د جائیدادوں پر ایک دوسرے سے لڑ پڑی.بعض ایسے مقدمے میرے سامنے ہیں جو بیس پچیس سال سے مسلسل چل رہے ہیں اور کسی طرح کسی فیصلے سے ہر فریق کو اطمینان حاصل ہوتا ہی نہیں.بہنیں بھائیوں سے لڑ پڑی ہیں ، بھائی بہنوں سے لڑ رہے ہیں.آگے ان کے بچے ان اختلافات کو لے دوڑے ہیں اور مسلسل سردردی کا سامان یہاں تک کہ بالآخر مجھے جراحی کا عمل کرنا پڑا اور فیصلہ کرنا پڑا کہ اب چاہے اس کو انصاف سمجھو یا نا انصافی سمجھو قضاء کے اس آخری فیصلے پر عمل کرو تو جماعت کے ساتھ رہو گے ورنہ جماعت سے کاٹے جاؤ گے اور کئی ایسے ہیں جنہوں نے یہ تجل معکوس اختیار کر لیا کہ جماعت کو چھوڑ دیا.اللہ سے منہ موڑ لیا، دنیا کو دین پر مقدم کر لیا لیکن وہ حرص نہ چھوڑی جو دوسرے کے مال پر نظر رکھنے کی حرص ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس کی خواہش چھوڑ دو.یہاں یہ بھی نہیں فرمایا کہ حق ہے یا نہیں ہے یہ بحث نہیں اٹھائی.فرمایا کہ خدا سے محبت ایسی تام ہو جائے اور خدا کی خاطر دنیا ایسی حقیر دکھائی دینے لگے کہ تم میں ایک عظیم احسان کا جذبہ پیدا ہو جائے.اللہ کی خاطر جب دنیا سرد ہوتی ہے تو انسان بعض دفعہ اپنے حق کو دوسرے کے قبضہ میں دیکھے تب بھی وہ اس کو چھوڑ دیا کرتا ہے اور اللہ کی خاطر یہ قبول کر لیتا ہے کہ اگر یہی بات ہے تو ٹھیک ہے خدا میرا رازق ہے.تم جتنا مجھ سے چھینو گے اس سے بہت زیادہ عطا کر دے گا.اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حق کے لئے جدو جہد نہیں کرنی چاہئے مگر جہاں جدو جہد کی حد ختم اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کی حد سے متصادم ہونے کا خطرہ ہو وہاں یہی حکم ہے کہ وہاں قدم روک لو اور خدا کی خاطر اپنے نقصان کو برداشت کر جاؤ.اگر خدا غالب ہے اور میں ،اور ملکیتیں مغلوب ہیں تو ہر ایسے موقع پر جہاں یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ حق چھوڑ وں یا نہ چھوڑوں خدا کا تعلق ہی فیصلہ کن ثابت ہوتا ہے.پھر اگر انسان اللہ کی خاطر ہرحق چھوڑنے پر اپنے آپ کو آمادہ کرلے تو یہ سچا تجبل ہے جو اس کی زندگی کے ہر عمل میں کارفرما رہے گا اور جہاں بھی ایسا مقام آئے جہاں ایک چیز سے علیحدگی ، دوسری چیز کو اختیار کرنے کے فیصلے کرنے پڑتے ہیں وہاں انسان ہمیشہ صحیح فیصلہ کرے گا.میں نے تو دیکھا ہے کہ لوگ بہنوں کے حق مار جاتے ہیں اور ان کو وراثتوں سے محروم کر دیتے

Page 364

351 ہیں.ابھی پرسوں مجھے ایک بچی کا بڑا دردناک خط ملا ہے.اچھے کھاتے پیتے بھائی ہیں، ماں باپ جائیداد چھوڑ کر گئے اور اس غریب بہن کو جس بیچاری کے آٹھ دس بچے بھی ہیں.خاوند غریب ہے ، ان کی دیکھ بھال نہیں کر سکتا، چھوڑا ہوا ہے اور خود عیش و عشرت کی زندگی میں مبتلا ہیں اور بہن کا حق ان کے مال میں داخل ہے.قرآن کریم فرماتا ہے وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ (الدريت : 20) کہ خدا سے تعلق رکھنے والے جو نیک لوگ ہیں ان کا تو یہ حال ہے کہ جو ان کا مال ہے اس میں بھی سائل اور محروم کا حق ہوتا ہے.اس کا ایک معنی یہ بھی ہے لیکن وہ کیسے لوگ ہیں جو سائل اور محروم کا حق چھین کر اپنے مال میں داخل کرتے ہیں وہ مومن نہیں کہلا سکتے.پس قضاء جو فیصلے کرے جب بھی کرے اس پر عمل درآمد کی کسی کو توفیق ملے یانہ ملے لیکن ایک قضاء ہے جو آسمان پر قائم ہے اس قضاء کے فیصلوں اور اس کی تنفیذ سے کوئی دنیا میں بچ نہیں سکتا.اس لئے میں ساری جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر کسی کا حق ان کے مال میں شامل ہے تو اس حق کو الگ کر دیں.وہ جہنم کا ٹکڑا ہے جو ان کے پیٹ میں جاچکا ہے جب تک وہ اس پیٹ میں ہے وہ سارے نظام کے لئے جہنم اور آگ پیدا کرنے کا موجب بنا رہے گا اور قیامت کے دن وہ پکڑ میں جائیں گے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبتل کی جو صحیح تعریف فرمائی ہے اس کے پیش نظر سب سے پہلی بات یہ کریں کہ اپنے اموال میں اپنی جائیدادوں میں، اپنی ملکیتیوں میں سے سب غیر کے حقوق نکال دیں اور پھر اپنے اموال پر غیروں کے حقوق خود قائم کریں اور خدا کی خاطر مال سے بے رغبتی کے نمونے دکھائیں.یہ جو دوسرا قدم ہے یہ احسان کا قدم ہے.اگر دنیا پر انسان کی محبت ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور خدا کی محبت باقی رہ جاتی ہے تو پھر جہاں بھی کوئی محروم نظر آئے گا.جہاں بھی سائل دکھائی دے گا، جہاں بھی کوئی تکلیف میں مبتلا شخص سامنے آئے گا انسان خدا کی خاطر اس کے لئے ضرور کچھ نہ کچھ خدمت کی کوشش کرتا ہے.بہنوں کا حق تو ایک ایسا عظیم حق ہے کہ حضرت عمرہ کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک عورت کی مثال ان کے سامنے بیان کی گئی کہ وہ اپنے بھائی کی مدح میں گیت کہتے ہوئے تھکتی نہیں.مسلسل کہتی چلی جاتی ہے اور ہمیشہ اس کی تعریف میں رطب اللسان رہتی ہے تو حضرت عمر نے اس سے پوچھا کہ یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے.یہ کیا دیوانگی ہے کہ ایک شخص کے ذکر سے تم تنگ ہی نہیں آ رہی ، تھک ہی نہیں رہیں.اس نے کہا آپ کو پتا نہیں میرا بھائی کیسا تھا.وہ تو ایسا تھا کہ میرے ماں باپ کی وفات کے بعد آدھی جائیداد برابر بانٹ کر میرے سپرد کر دی.ابھی اسلام کی وراثت کا نظام نہیں آیا تھا.یہ اس وقت کی بات ہے اور میرا خاوند عیش وعشرت میں مبتلا عیاش، غیر ذمہ دار ، اس نے وہ ساری جائیداد ضائع کر دی.میرے بھائی کو پتا چلا.پھر اس نے اپنی جائیداد آدھی کی اور آدھی میرے سپرد کر دی.وہ کہتی ہے سات دفعہ اس طرح ہوا ہے، سات دفعہ

Page 365

352 میرے خاوند نے اس نیک بھائی کی جائیداد ضائع کی اور سات دفعہ اس نے پاک کمائی میں سے آدھا کر کے میرے سپرد کر دیا کہ لوتم تکلیف میں نہ رہو.یہ ذکر سن کر حضرت عمر کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور آپ نے صاد فر ما دیا کہ ہاں تم ٹھیک کرتی ہو.اس بھائی کا حق ہے کہ اس کی حمد کے گیت گائے جائیں.پس بہن بھائی کا جو اصل تعلق ہے وہ تو یہ ہے کہ انسان اپنی بہنوں کی خاطر کوشش کرے.اگر ویسا نہیں بن سکتا جیسا وہ بھائی تھا تو کچھ نہ کچھ تو بہنوں کی رعایت رکھے.کجا یہ کہ ان کے مال کھا کر بیٹھا ہو اور اس کی اولا د نازوں کے ساتھ پل رہی ہو اور بہن کے بے چارے بچے بھوکے مر رہے ہوں تو تنبل کے مضمون کو آپ جتنا سمجھیں گے اتنا ہی آپ بہتر انسان بنتے چلے جائیں گے.تبتل سب سے پہلے نیتوں میں ہوتا ہے.جب نیتوں کے تبتل میں دنیا کی کوئی قیمت آپ کے سامنے نہیں رہے گی تو پھر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ کسی کا حق ماریں اور اس کے بعد پھر لازماً خدا بھی آپ سے محبت کرے گا اور بنی نوع انسان بھی ضرور آپ سے محبت کریں گے.یہ وہ مضمون ہے جس کو سمجھنے کے بعد میں امید رکھتا ہوں کہ اگر جماعت عمل کرے تو انشاء اللہ تعالیٰ اس کے لئے ترقیات کی بہت راہیں کھلیں گی اور ہمارا معاشرہ ایک انتہائی حسین اور جاذب نظر معاشرہ بن جائے گا جس کی کوئی اور مثال دنیا میں دکھائی نہیں دے گی." (خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 805-821) پاکستان میں ذیلی تنظیموں کے اجتماعات پر پابندی کی وجہ سے پیدا ہونے والے درد کا فیض ساری دنیا میں عام ہو رہا ہے (خطبہ جمعہ 29 اکتوبر 1993ء) " انصاراللہ کل سے جو اجتماعات شروع ہیں وہ مجلس انصار اللہ ضلع راولپنڈی کا اجتماع ہے جو 28 را کتوبر سے شروع ہوا ہے اور آج ختم ہوگا.انصار اللہ سٹوٹ گارڈ جرمنی ریجن کا اجتماع ہے جو 30 /اکتوبر کو ہورہا ہے.جماعت احمدیہ پین کا نواں جلسہ سالانہ آج شروع ہو رہا ہے کل 30 اکتوبر تک جاری رہے گا.لجنہ اماءاللہ بنگلہ دیش کا سالانہ اجتماع 31 اکتوبر کو منعقد ہو گا.لجنہ اماء اللہ ساؤتھ افریقہ کا آٹھواں سالانہ اجتماع 31 اکتوبر کو ہو رہا ہے.ہندوستان کے جنوبی صوبوں تامل ناڈو ، آندھرا پر دیش ، کیرالہ اور کرناٹک کی ساؤتھ ریجنل سالانہ کانفرنس 31 اکتوبر سے یکم نومبر تک منعقد ہوگی.خدام الاحمدیہ پاکستان کا سالانہ اجتماع جو 21 تا 23 اکتوبر ہونا تھا جس کی حسب توقع اجازت نہیں

Page 366

353 ملی.توقع تو عموماً اچھی چیز کی لگائی جاتی ہے مگر وہاں خدام الاحمدیہ کو بھی اور دیگر جلسہ یا اجتماع کرنے والی مرکزی تنظیموں کو اب عادت پڑ چکی ہے کہ انکار میں جواب آئے گا.اس لئے توقع امید کی شکل میں نہیں بلکہ مایوسی کی شکل میں ہوتی ہے اور معلوم ہے کہ وہ کیا جواب دیں گے؟ اس سلسلے میں میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں که مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان ہو یا انصار الله بالجنہ اماءاللہ انکو اپنی مسلسل کوششوں میں ناکامی سے مایوس نہیں ہونا چاہئے.امر واقعہ یہ ہے کہ جلسہ سالانہ جب سے انہوں نے بند کیا اور ساتھ ہی ذیلی تنظیموں کے اجتماعات بند کئے.یہ انہی پابندیوں کا فیض ہے جو ساری دنیا اب اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ عالمی اجتماعات اور عالمی جلسوں کی صورت میں دیکھ رہی ہے اس لئے یہ قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں.بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ ایک انسان کو ایک ایسی نیکی کا پھل ملتا ہے جسے کرنے کی توفیق ملتی ہے بعض دفعہ ایک نیکی نہ کرنا اس درد کی وجہ سے بہت بڑا ثواب بن جاتا ہے جس نیکی کی راہ میں کوئی مجبوری حائل ہو اور انسان کا دل بے قرار ہو کہ میں وہ نیکی کروں لیکن مجبور نہ کر سکے بعض ایسی بھی صورتیں ہوتی ہیں کہ ایسی نیکیوں کا ثواب کی ہوئی نیکیوں سے بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایک الہی اشارے کے تابع عمرے اور حج کی نیت سے مکے کی طرف روانہ ہوئے ، ساتھ آپ کے جاں نثاروں کا ایک بڑا قافلہ تھا اور حدیبیہ کے میدان پر جا کر آپ کو روک دیا گیا.وہ واقعہ بار بار جماعت کے سامنے پیش کیا جا چکا ہے.اس کی تفصیل میں میں نہیں جاتا لیکن یہ یاد دلاتا ہوں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ عنہم کی رائے اور اجتماعی رائے کے خلاف اللہ کی رائے کو ترجیح دی یعنی اللہ کے منشاء کو ترجیح دی اور باوجود اس کے کہ بشدت صحابہ کا اصرار تھا کہ ہم جانیں فدا کر دیں گے مگر یہ حج ضرور ہو گا یا یہ عمرہ ضرور ہو گا لیکن آنحضور نے رضائے باری تعالیٰ کو فوقیت دی اور یہی ہونا تھا.آپ سے اس کے سوا کوئی کسی قسم کی توقع رکھی نہیں جاسکتی اور تمام صحابہ کی رائے کو رد کر دیا.اس کے نتیجے میں وہ عمرہ اور حج جو نہیں ہو سکے تھے ان کی جزا قرآن کریم میں ایسی بیان ہوئی ہے کہ جب سے دنیا بنی ہے کسی مقبول حج کسی مقبول زیارت کی ایسی جزاء نہیں دی گئی.فرمایا کہ لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا (الفتح: 3) - اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تیرے اس فعل سے ایسا راضی ہوئے ہیں کہ تو نے ہماری خاطر ایک نیکی سے محرومی اختیار کر لی یعنی نیکی کا فلسفہ یہ ہے کہ خدا کی خاطر کوئی چیز کی جائے اور اسی فلسفے کی طرف دراصل توجہ دلائی گئی ہے خدا کی خاطر کسی نیکی سے رک جانا بعض دفعہ اس سے بھی بڑی نیکی بن جاتی ہے چنانچہ فرمایا کہ ہم تجھ سے یہ سلوک کرتے ہیں کہ تیسر ا صرف ماضی کی غلطیاں ہی یا بشری کمزوریوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ایسی صورتیں

Page 367

354 جن سے تجھے تکلیف پہنچی ہو وہی معاف نہیں کی جاتی بلکہ آئندہ ہمیشہ کے لئے تمام غلطیاں معاف کی جارہی ہیں.اتنی بڑی جزا ایک ایسی نیکی کی ہے کہ جو کی نہ جاسکی.لیکن دنیا کی نظر میں جو نیکی نہ کی جاسکی اگر نیتوں میں خدا ہی خدا ہو اور اس نیکی سے روکنا بھی خدا ہی کی خاطر ہو تو عملا یہ نیکی شمار ہو جاتی ہے.درد کا فیض ساری دنیا میں عام ہو رہا ہے پس مجلس خدام الاحمدیہ ہو یا انصار الله یا دوسری ذیلی تنظیمیں یا صدر انجمن جو اپنے جلسوں کی درخواستیں دیتی چلی جارہی ہے اور ہر دفعہ مایوسی ہوتی ہے.پاکستان کی ایسی تمام مرکزی تنظیموں کو میں متوجہ کرتا ہوں آپ کی نیکی رائیگاں نہیں گئی.آپ جن جلسوں اور اجتماعات سے محروم کئے گئے ہیں یہ آپ کے محرومی کے نتیجے میں درد کا فیض ہی ہے جو ساری دنیا میں عام ہورہا ہے.ایک جلسہ سالانہ پر کتنے احمدیوں کو توفیق ملا کرتی تھی حاضر ہونے کی اور ایک اجتماع پر کتنے احمدیوں کو حاضر ہونے کی توفیق ملا کرتی تھی.اب دیکھیں ہر جمعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے آٹھ دس گنا زیادہ احمدیوں کو بیک وقت مرکزی خطابات سنے کا موقع مل رہا ہے اور اسی طرح دیگر اجتماعات کا حال ہے لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال آیا کہ میں ان کو ایک ترکیب سوجھاؤں کہ اگر مجلس خدام الاحمدیہ، انصار اللہ، لجنہ اماءاللہ پاکستان کو یہ توفیق ہو تو جس طرح جرمنی کے خدام نے اپنے خرچ پر اپنے اجتماع کو ساری دنیا کا اجتماع بنایا تھا اس طرح آپ بھی کوشش کر لیں.اگر توفیق ہوان دنوں میں ہم یہاں آپ کی طرف سے سالانہ اجتماع بنا دیا کریں گے اور آپ ویڈیو بنا کر اپنے ان مقررین کی جن کو آپ کو شامل کرنا چاہتے ہیں، خواتین تو نہیں ہوسکیں گی مگر باقی ہو سکتے ہیں.وہ بھیج دیا کریں، چند ویڈیو آپ کی چلیں گی ایک مرکزی تقریر میں کر دیا کروں گا.اس طرح آپ کا سالانہ اجتماع بجائے اس کے کہ آپ کو ہر دفعہ یہ خیال ہو کہ نہیں ہوا، ڈپٹی کمشنر نے روک دیا ہے، پھر یہ کہنے کی بجائے آپ کہیں گے کہ ایک ڈپٹی کمشنر کیا ہزار ڈ پٹی کمشنر بھی اس اجتماع کو روک نہیں سکتے جو خدا کی اجازت سے کیا جارہا ہو جسے اللہ کی تائید حاصل ہو.وہ ایک شہر کا، ایک ملک کا اجتماع نہ ہو بلکہ ساری دنیا کا اجتماع بن جائے.پس آپ کے اجتماع اس طرح ساری دنیا میں عام ہو جائیں گے اور ابھی بھی اللہ کے فضل سے دیگر اجتماعات کے ذکر میں، میں نے آپ کا ذکر بھی کر دیا ہے تو میرے نزدیک آپ بھی ان اجتماعات کی فہرست میں شامل ہیں دیگر انصار اللہ اور لجنہ بھی اسی طرح شامل ہیں.عالمی بیعت کے بعد تین ماہ نو مبائعین کی تربیت کی طرف بھر پور توجہ دیں ان سب کو میری ایک نصیحت یہ ہے کہ اس دفعہ جلسہ سالانہ پر عالمی بیعت کے بعد میں نے نصیحت کی تھی کہ آپ اگلے تین ماہ تربیت کی طرف توجہ دیں.میرے خیال میں مجھے نہیں یاد کہ اس سے پہلے کبھی

Page 368

355 جماعت کی طرف سے بیعت کرنے والوں کے لئے اس قسم کی سکیم کا آغاز کیا گیا ہو.تمام دنیا میں مسلسل با قاعدہ منصوبے بنا کر ساری جماعتیں نو مبائعین کو اپنے اندر جذب کرنے اور ان کی تألیف قلب کے لئے پروگرام بنائیں اور ان کی تربیت کریں.اب جبکہ یہ وقت تقریبا ختم ہو چکا ہے.جور پورٹیں مل رہی ہیں ان سے اندازہ ہوا ہے کہ اس طرح عالمی بیعت کی تحریک ایک الہی تحریک تھی خدا کے فضل سے یہ تحریک بھی غیر معمولی طور پر برکت پاگئی ہے اور محسوس ہوا ہے کہ اس کی شدید ضرورت تھی.اس لئے یقینا یہ اللہ تعالی کی تائید سے ہی دل میں تحریک ڈالی گئی اور از خود پیدا ہونے والا کوئی خیال نہیں ہے.جن تجربات کی اطلاعیں ملی ہیں ان کو پڑھ کر جہاں بے حد خوشی ہوئی وہاں افسوس بھی ہوا کہ کاش پہلے ہم اس طرف توجہ کرتے تو بہت سے لاکھوں میں احمدی ہونے والی جماعتیں رفتہ رفتہ ضائع نہ ہو جاتیں.شدّت سے محسوس ہوا کہ جو بیعت کرتے ہیں ان کی تربیت کا تو آغاز ہوتا ہے.یہ سمجھ کر کے احمدی ہو گئے ان کو اپنے حال پر چھوڑ دینا بہت بڑا ظلم ہے کیونکہ ہر ملک میں مختلف قسم کی رسوم رائج ہیں، مختلف قسم کی مذہبی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، چھوٹے چھوٹے مسائل میں بھی اور بڑے بڑے مسائل میں بھی جب تک با قاعدہ مستقل رابطہ کر کے ان کی تربیت کا انتظام نہ کیا جائے، بعض غلطیاں ایسی جڑ پکڑ جاتی ہیں کہ پھر ان کا اکھیڑنا مشکل ہو جاتا ہے.چنانچہ جب میں غانا دورے پر گیا تھا تو بعض پرانی جماعتوں میں جہاں پیدائشی طور پر کثرت سے احمدی موجود تھے.وہاں بھی ایسی پرانی بعض بدر سمیں پائی گئیں جن کے متعلق مجھے حیرت ہوئی کہ پہلے کیوں نہیں ان کو اکھیڑا گیا لیکن اس طرح وہ گہری ان کے اندر داخل ہو چکی تھیں اور احمدیت میں رہتے ہوئے ان کی جڑوں کو قائم رہنے دیا گیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ ان کے ساتھ مجھے بھی بہت سرکھپائی کرنی پڑی، بہت سمجھانا پڑا اور بڑی مشکل سے پھر آخر وہ پرانے فرسودہ خیال ان کے دلوں سے نکالے.تو ابھی جو دورے کئے گئے ہیں ان کی طرف سے رپورٹیں مل رہی ہیں کہ ہم تو لرز گئے یہ دیکھ کر کہ اگر ہم ان کو چھوڑ دیتے تو ان جماعتوں بے چاروں کا بنا کیا تھا؟ ایمان تو لے آئے لیکن بعض بدر میں ، بعض بیوقوفوں والے خیالات ، بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کو دین میں ایسی اہمیت دینا، جن کی دین میں گنجائش ہی کوئی نہیں.وہ ابھی تک اسی طرح تھے یعنی یہ خیالات ، یہ بدر سمیں، یہ پست چھوٹی چھوٹی باتوں کو اہمیت دینے کے رجحان ، یہ اسی طرح موجود تھے.چنانچہ ان مہمات کے نتیجے میں اللہ کے فضل سے حیرت انگیز کامیابیاں ہوئی ہیں ان علاقوں کی کایا پلٹ گئی ہے.پھر میں نے یہ تحریک کی تھی کہ آئمہ کو اور ان کے لیڈروں کو اپنے پاس بلائیں اور ان کو سکھا ئیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے یہی طریق تربیت کا سکھایا ہے کہ کیوں نہیں ہر علاقے سے جہاں اسلام پھیلتا ہے ایک فرقہ مرکز میں نہیں پہنچتا.پہنچنا چاہئے ، وہاں پہنچیں.تفقہ فی الدین حاصل کریں اور پھر واپس

Page 369

356 لوٹیں.ظاہر ہے کہ یہ ایمان لانے والوں پر صادق آنے والا کلام ہے، غیروں سے تو خطاب نہیں کیا جا رہا.قرآن کریم نے تو چودہ سو سال پہلے خوب کھول کر سمجھا دیا تھا.جہاں جہاں اسلام پھیلے گا اس پر اطمینان نہ کر لینا ، لازم ہے کہ ان کے نمائندے مرکز میں پہنچیں اور تربیت حاصل کریں اور پھر واپس جا کر اپنی قوم کو دین سکھائیں.اس پہلو سے یہ سلسلہ بھی اللہ کے فضل سے بہت سے ممالک میں جاری ہوا اور بہت ہی نیک نتائج اس کے ظاہر ہوئے لیکن جہاں جہاں ابھی یہ کام نہیں ہو سکے.ذیلی تنظیمیں تربیت کے معاملے میں جماعتوں کا ہاتھ بٹائیں میں ذیلی تنظیموں کو خصوصیت سے متوجہ کرتا ہوں کہ وہ تربیت کے معاملے میں جماعتوں کا ہاتھ بٹائیں اور اپنے امراء کو پیشکش کریں اور جو حصہ امراء تربیت کے سلسلے میں ان کے سپرد کریں اس میں وہ آگے بڑھ کر شوق سے حصہ لیں اور اپنے اجتماعات میں لازماً نو مبائعین کو ضرور شامل کیا کریں اور ان کی تربیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے اوپر ذمہ داریوں کے بوجھ ڈالنے شروع کریں.جو شروع میں شائد بوجھ لگیں پھر بہت ہلکے محسوس ہوں گے اور ان کو نظام کا با قاعدہ حصہ بنائیں اگر اس طرح آپ انجذاب کا کام کریں گے یعنی جذب کرنے کا انتظام کریں تو دیکھتے دیکھتے یہ ایک صالح خون کی طرح آپ کے پاک وجود کا حصہ بن جائیں گے.اگر ایسا نہیں کریں گے تو نظام از خود ان کو دھکا دے کر باہر نکالے گا جو وجو د نظام میں ہضم نہ ہو سکے، جذب نہ ہو سکے.اگر اسے نظام باہر نہ نکالے تو وہ نظام فاسد ہو جاتا ہے.یہی قرآن کریم سے روحانی نظام سے متعلق پتا چلتا ہے اور یہی جسمانی نظام کا حال ہے جو سب دنیا ویسے ہی جانتی ہے.ہم جو چیز کھاتے ہیں اس کا صالح حصہ ہمارے خون میں جاتا ہے، جذب ہوتا ہے، ہمارے وجود کا حصہ بنتا جاتا ہے، جو چیز فساد کا موجب بن سکتی ہے نظام جسمانی کے لئے خلل کا موجب بن سکتی ہے، اس میں خرابی پیدا کر سکتی ہو، اس کو وہ تمام اعضاء جو خدا تعالیٰ نے اس غرض کے لئے قائم فرمائے ہیں.باہر نکال دیتے ہیں اور اگر وہ باہر نکالنے کا سلسله از خود نہ ہو تو سارا نظام جسمانی فساد ہو جاتا ہے.پس یہ بھی ضروری ہے کہ جب آپ تربیت کرتے ہیں ان میں سے جو صالح اور قائم رہنے والے اور پاک طینت لوگ ہیں وہ از خود آپ کے وجود کا مستقل حصہ بنتے چلے جائیں گے اور وہ جو کجی رکھتے ہیں اور غلطی سے جلد بازی میں آگئے ، وہ اسی تربیت کے دوران آپ سے آرام سے الگ ہو جائیں گے اور آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ کون آپ کا ہے اور کون آپ کا نہیں ہے اور جتنے الگ ہوں گے ان کے بدلے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان سے بہتر زیادہ صالح ، ان سے زیادہ پیار کرنے والے اور زیادہ قربانی کرنے والے لوگ میں تمہیں دوں گا اور کثرت سے دوں گا.

Page 370

357 نو مبائعین کو نظام جماعت کا حصہ بنا کر دم لیں.پس اس تربیت کے نظام کو اگر پوری طرح عملی جامہ نہیں پہنایا گیا تو یہ نہ سمجھیں کہ تین مہینے ہو چکے ہیں اس لئے بات آئی گئی ہوگی.یہ بات اس وقت تک آئی گئی نہیں ہوگی جب تک کہ سب نو مبائعین کی تربیت کا کام اس حد تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ جاتا کہ وہ با قاعدہ نظام کا حصہ بن جائیں اور اس ضمن میں ، میں یہ جماعتوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ جیسے کہ میں نے کہا ہے کہ ذیلی تنظیموں سے استفادہ کریں اور کچھ ان پر ذمہ داریاں ڈالیں اور پھر وہ مستقل اس کام کو جاری رکھیں.اس کے لئے ایک مرکزی ٹیم الگ بنادیں جو تبلیغی کاموں سے علاوہ خالصہ اسی کام کے لئے وقف رہے کیونکہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ جن لوگوں کو تربیت کے لئے خدا تعالیٰ مقرر فرمانا چاہتا ہے ان کا ایک الگ گروہ کے طور پر ذکر فرمایا ہے.کیوں نہ ہر قوم سے ایک ایسا فرقہ مرکز میں نہیں آتا جو خالصہ تربیت کے کام کرتا ہے یا کرے گا.پس میں سمجھتا ہوں کہ تربیت کا نظام تین مہینے کے لئے تو ہنگامی نظام تھا، تین مہینے کے بعد سارا سال بلکہ سالہا سال ہمیشہ کے لئے یہ قرآن کا بیان فرمودہ جاری نظام بن جائے جس کو ہم اس طرح اختیار کر لیں کہ نظام جماعت کا ایک اٹوٹ انگ ہو جائے ، نا قابل جدا حصہ بن جائے.نظام جماعت میں نئے آنے والوں کی تربیت کے لئے ایک الگ شعبہ اس رنگ کا قائم ہو جائے جو پہلے نہیں تھا.اصلاح و ارشاد تو ہے تربیت کے سیکرٹری بھی ہیں ، تربیت کے مختلف عہدے موجود ہیں لیکن میں جس بات کا ذکر کر رہا ہوں وہ خصوصیت سے نو مبائعین کے حوالے سے کر رہا ہوں اور اس پہلو سے ہمیں اب مستقلاً ایسے شعبے کے قیام کی ضرورت ہے اور اعلیٰ پیمانے پر اس نظام کو جاری کرنا ضروری ہے کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اللہ کے فضل کے ساتھ اب ہماری تبلیغی کوششوں کو کثرت سے پھل لگنے والے ہیں.یہ گزشتہ سال جو واقعہ ہوا ہے کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے.یہاں آئندہ زمانوں کے حالات کا ایک پیش خیمہ ہے، آئندہ کیا ہونے والا ہے اس کی خوشخبری دینے والا واقعہ تھا.پس اللہ کی تائید کی ہوائیں لوگوں کو احمدیت میں داخل کرنے کے لئے چل پڑی ہیں.انہیں سنبھالنے کی تیاری کرنا انتہائی ضروری ہے ورنہ یہ لوگ خود بھی نقصان اٹھائیں گے جو بغیر تربیت کے پڑے رہیں گے اور آپ کو بھی نقصان پہنچائیں گے اور آپ کے اندر بھی غلط رسمیں جاری کریں گے ، اسلام سے ہٹی ہوئی عادات اپنے ساتھ لے کر آئیں گے اور کئی قسم کی بدیاں ہیں جو ان کے ساتھ داخل ہو جائیں گی.اس لئے لازم ہے کہ نئے آنے والوں کو پہلے Quarantine میں رکھا جائے ان کی تربیت کی جائے ، ان کے جراثیم دھوئیں جائیں ان کو ہر قسم کے گند سے صاف کیا جائے اور پاک صالح وجود بنا کر نظام جماعت کا حصہ بنایا جائے.خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 823-829)

Page 371

358 تحریک جدید کے دفتر اول اور دفتر چہارم کی ذمہ دارانصار اللہ ہے خطبہ جمعہ 5 نومبر 1993) " آج میں تحریک جدید کے سالِ نو کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.1934 ء سے جب سے تحریک جدید قائم ہوئی ہے آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس پر 59 سال پورے ہوتے ہیں اور اب تحریک جدید ساٹھویں سال میں داخل ہو رہی ہے اور اسی حساب سے آج ہم دفتر اول کے ساٹھویں سال میں داخل ہوں گے.دفتر دوم میں 49 سال پورے ہو چکے ہیں اور دفتر دوم اب خدا تعالیٰ کے فضل سے پہچاسویں سال میں داخل ہو گا.دفتر سوم کے 28 سال پورے ہو چکے ہیں اور انتیسویں میں داخل ہورہا ہے دفتر چہارم کے آٹھ سال پورے ہو چکے ہیں اور اب خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نویں سال میں داخل ہورہا ہے.1946 ء سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے مختلف دفاتر خصوصیت کے ساتھ مختلف تنظیموں کے سپر د کئے تھے.چنانچہ 1946 ء میں دفتر اول کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے انصار اللہ کے سپر دفرمایا اور بعد ازاں دفتر دوم کو 18 / جنوری 1950ء کو خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا.آپ کے الفاظ یہ تھے : تحریک جدید دفتر دوم کی مضبوطی کا کام اس سال میں نے خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا ہے.“ دفتر سوم کے متعلق میں نے 1982ء میں یہ اعلان کیا تھا کہ یہ کام میں خصوصیت سے لجنہ اماءاللہ کے سپر د کرتا ہوں اور دفتر چہارم کو کسی اور ذیلی تنظیم کی خصوصی تحویل میں دینے کا تو کوئی اعلان نہیں ہوا لیکن چونکہ یہ آخری دفتر تھا اور اس میں زیادہ تر بچے شامل تھے.اس لئے یہ خود بخودانصار اللہ کے ساتھ ہی منسلک ہو گیا کیونکہ انصار اللہ کی تربیت میں بچوں کی تربیت بھی خصوصیت سے داخل ہے.بہر حال اگر پہلے با قاعدہ اعلان نہیں بھی ہوا تو اس اعلان کے ذریعہ میں اسے بھی انصار اللہ کے سپرد کرتا ہوں.نو مبائعین کو تحریک جدید کے چندے میں شامل کرنے کی ذمہ داری متعلقہ ذیلی تنظیموں کی ہے 1970 ء میں حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے ایک اور بھی تحریک فرمائی اور وہ یہ تھی کہ نومبائعین کو تحریک جدید میں شامل کرنے کی ذمہ داری انصار اللہ پر ہوگی.اس پہلو سے یہ اعلان آج کے حالات میں تو ایک غیر معمولی اہمیت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت بڑی تعداد میں نئے احمدی بن رہے ہیں.لاکھوں کی تعداد میں غیر قوموں سے غیر مذاہب سے احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں اور یہ رفتار آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ اور بھی زیادہ تیزی کے ساتھ ترقی کرے گی اور بڑھتی چلی جائے گی.اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ انصار اللہ پر یہ ساری ذمہ داری عائد کرنا شاید ان کی طاقت سے بڑھ کر ہو.اس لئے مناسب

Page 372

359 یہی ہوگا کہ اس میں اتنی ترمیم کر لی جائے کہ آئندہ سے نو مبائعین کو تحریک جدید کے چندے میں شامل کرنے کی ذمہ داری ان تنظیموں کی ہوگی جن تنظیموں کے افراد جماعت میں داخل ہوتے ہیں مثلاً اگر خواتین اور بچیاں داخل ہو رہی ہیں تو لجنہ کا کام ہوگا کہ ان کو تحریک جدید میں شامل کرے.اگر 40 سال سے اوپر کے دوست شامل ہو رہے ہیں تو انصار کا کام ہوگا اور اگر 15 اور 40 کے درمیان ہیں تو وہ خدام الاحمدیہ کا کام ہو گا.اطفال الاحمدیہ کو حسب سابق بے شک انصار اپنے ساتھ رکھیں لیکن اس میں ایک فرق ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ بچے جو اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں با قاعدہ داخل نہیں ہوتے.وہ لڑکے ہوں تو خدام الاحمدیہ کے سپر د ہوتے ہیں اور اگر بچیاں ہوں تو لجنہ کے سپر د ہوتی ہیں.انصاار اللہ کے سپر دوہ بچے ہیں جو ابھی اطفال الاحمدیہ میں شامل نہیں ہوئے اس لئے اس تفریق کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ وضاحت کر دینی ضروری ہے کہ انصار اللہ کے سپر دوہ بچے ہوں گے جو اطفال الاحمدیہ کی تنظیم سے کم عمر کے بچے ہیں یعنی پیدائش کے بعد سے لے کر سات سال کی عمر تک جب تک کہ وہ اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں داخل نہیں ہو جاتے.اطفال الاحمدیہ کی تنظیم میں داخل ہونے کے بعد وہ با قاعدہ مجلس خدام الاحمدیہ کے سپر د ہو جاتے ہیں.اس لئے اگر پہلے کوئی ایسا اعلان ہوا تھا جس سے غلط فہمی ہو گئی ہو تو اسے کالعدم سمجھیں نئی صورتحال یہ بنی ہے کہ دفتر اول جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا.مجلس انصار اللہ کی ہی خصوصی ذمہ داری رہے گی.اسی طرح دفتر دوم مجلس خدام الاحمدیہ کی ذمہ داری رہے گی اور دفتر سوم لجنہ اماءاللہ کی خصوصی ذمہ داری رہے گی.جہاں تک دفتر چہارم کا تعلق ہے یہ انصار اللہ کے سپرد ہے لیکن اس کے ساتھ یہ وضاحتیں کی جارہی ہیں کہ جو چھوٹے بچے ہیں وہ انصار اللہ کے سپر د اور جو باقاعدہ اطفال کی تنظیم میں داخل ہو چکے ہیں.وہ مجلس خدام الاحمدیہ کے سپر داور تمام نو مبائعین جو لاکھوں کی تعداد میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ داخل ہورہے ہیں اور ہوتے چلے جائیں گے.وہ اپنی اپنی عمر کے لحاظ سے متعلقہ تنظیم کا حصہ ہوں گے اور ان کے سپر دہوں گے.یہ بہت وسیع کام ہے اور بہت ہی اہمیت رکھتا ہے.جماعتی و ذیلی اجتماعات کی تفصیل اس سلسلہ میں کچھ بیان کرنے سے پہلے میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ آج بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر میں مختلف اجتماعات ہورہے ہیں اور جو شروع ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں ، آج ہورہے ہیں یا پہلے سے شروع ہیں یا کل شروع ہوں گے ان سب کو ان کے زمانے کے لحاظ سے اکٹھا کر کے میں آج ان کے متعلق اعلان کرتا ہوں کیونکہ ان سارے اجتماعات میں شمولیت کرنے والے اس بات کا شوق سے انتظار

Page 373

360 کرتے ہیں کہ ان کا نام میری زبان پر جاری ہو اور ساری دنیا کے احمدی اس نام کو سن کر ان کو اپنی دعا میں شامل کرلیں.سب سے پہلے کل سے شروع ہونے والے وہ اجتماع جو آج تک جاری ہیں اور آج غالبا اس خطبہ کوسن کر وہ اختتام پذیر ہوں گے ان میں جماعت احمدیہ ضلع اوکاڑہ کا جلسہ سالانہ ہے جو کل سے شروع ہوا ہے.مجلس انصار اللہ ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع راجن پور کے سالانہ اجتماعات بھی کل سے شروع ہوئے ہیں.یہ تینوں آج انشاء اللہ تعالیٰ اختتام پذیر ہوں گے.آج مجلس انصار اللہ بنگلہ دیش کا اجتماع شروع ہو رہا ہے.اسی طرح لجنہ اماء اللہ ضلع سرگودھا کا اجتماع ہو رہا ہے.یہ آج اس رنگ میں ہمارے ساتھ افتتاح میں شامل ہو جائیں گے یا ہم ان کے ساتھ شامل ہو جا ئیں گے.Brong Ahafo یہ غانا کا ایک ریجن ہے.وہاں کی تمام جماعتوں کا جلسہ سالانہ آج 5 نومبر سے شروع ہو رہا ہے اور کل اختتام پذیر ہوگا.اڑیسہ ہندوستان کی بجنات کا صوبائی اجتماع آج 5 / نومبر سے شروع ہو رہا ہے، یہ ے نومبر تک جاری رہے گا.مجالس انصار اللہ کولون ریجن جوسن کا سالانہ اجتماع کل 6 رنومبر کو منعقد ہوگا اور Wanwal Ovu (ونوالیوو) جزیرہ نجی کی جماعتوں کا جلسہ سالانہ 6 نومبر سے شروع ہو رہا ہے.دو دن جاری رہے گا اور 7 نومبر کو اختتام پذیر ہوگا.ان تمام اجتماعات کے لئے آج کا خطبہ ہی پیغام ہے ان سب نے اپنے اپنے لئے خصوصی پیغام کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے.ان کا پیغام وہی ہے جو آج خطبہ کا موضوع ہے اور میں پہلے ہی اعلان کر چکا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے تمام افراد جو کسی نہ کسی تنظیم سے منسلک ہیں ان کے سپر دتحریک جدید کے چندوں کی خصوصی ذمہ داری ڈالی گئی ہے، یہ سب اس وقت میرے مخاطب ہیں، ان اجتماعات میں شامل ہونے والے اور ان مجالس سے تعلق رکھنے والے دنیا بھر کے سارے احمدی افراد اس وقت میرے مخاطب ہیں اور آپ سب کے لئے پیغام یہ ہے کہ امسال تحریک جدید کو ہر پہلو سے کامیاب بنانے کے لئے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو احسن رنگ میں ادا فرما ئیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بہترین توفیق عطا فرمائے.جہاں تک مالی رپورٹ کا تعلق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ 61 ملکوں کی جور پورٹس آ چکی ہیں ان کے مطابق جماعت احمد یہ عالمگیر کے وعدہ جات سال 93-92ء میں 4 کروڑ 85 لاکھ 39 ہزار 242 روپے تھے اور وصولی 4 کروڑ 87 لاکھ 21 ہزار 425 روپے ہے.یہ رپورٹ پاکستانی روپوں میں مرتب ہوئی تھی جس کا اسٹرلنگ پاؤنڈ میں متبادل یہ ہے کہ تمام دنیا کے چندہ دہندگان جو 61 عالمی جماعتوں سے تعلق

Page 374

361 رکھتے ہیں ان کی طرف سے 10 لاکھ 87 ہزار 836 پاؤنڈ کے وعدے موصول ہوئے تھے اور وصولی اللہ کے فضل سے 10 لاکھ 91 ہزار 919 پاؤنڈ ہوئی ہے.اس ضمن میں میں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے اب ملکوں کے لحاظ سے جماعتوں کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے اور گزشتہ سال 135 ممالک میں جماعتیں قائم ہو چکی تھیں.بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں چندوں کے لحاظ سے ابھی تربیت مکمل نہیں ہوئی.تربیت تو کبھی کسی لحاظ سے مکمل نہیں ہوا کرتی لیکن مطلب یہ ہے کہ اتنا آغاز بھی نہیں ہوا کہ وہ ہر چندے کو پہچان لیں اور اس میں شمولیت اختیار کریں.اس لئے نئے ممالک میں اس وقت تک میری ہدایات یہی تھیں کہ چندہ عام کی طرف ان کو لایا جائے اور شرح بھی بے شک نسبتاً ہلکی رکھی جائے.عام طور پر وہ احمدی جو خدا کے فضل سے احمدیت میں جذب ہو جاتے ہیں اور ثبات قدم اختیار کر جاتے ہیں ان کو کم از کم 1/16 ہر مہینے دینا ہوتا ہے یا جب بھی آمد ہو اس کا 1/16 دینا ہوتا ہے لیکن جو کمزور ہیں یا مالی لحاظ سے جن پر ذمہ داریاں ہیں اگر وہ مجھے لکھیں تو میں نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ اپنی توفیق کے مطابق جتنا بھی وہ خوشی سے دے سکتے ہیں وہ قبول کیا جائے گا.آغاز میں نو مبائعین کو صرف چندے کی عادت ڈالیں نئے ملکوں کی جماعتوں کے متعلق یہ عمومی ہدایت ہے کہ جو لوگ ان کی تربیت پر مامور ہیں وہ شروع میں ان کو صرف چندے کی عادت ڈالیں اور شرح پر زیادہ زور نہ دیں کیونکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب چندوں کا آغاز فرمایا تھا تو اس وقت کوئی شرح مقرر نہیں فرمائی تھی بلکہ یہ اعلان فرمایا تھا ہر شخص اپنے اخلاص اور توفیق کے مطابق جس حد تک کوشش کر سکتا ہے مالی جہاد میں شمولیت کی کوشش کرے اور اپنے اوپر کچھ فرض ضرور کر لے لیکن جب فرض کرے تو اس میں پابندی ضرور اختیار کرے.یہی پالیسی نئی جماعتوں کے لئے تھی اور ہے یعنی جہاں ابھی پوری طرح نظام جماعت گہرے طور پر مستحکم نہیں ہوا، وہاں کی جماعتیں جن لوگوں کے سپرد ہیں وہ وہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اسی نصیحت کے مطابق ان سے چندہ ضرور لیں لیکن شرح مقرر نہ کریں اور حسب توفیق جس نے جو چندہ دینا ہو خواہ وہ ایک پیسہ ہو وہ اپنے اوپر فرض کر لے اور پھر وہ ضرور ادا کرے.جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ساری جماعتوں کا بجٹ لازماً بن جائے گا اور ساتھ ہی تحریک جدید کے متعلق ان کو کچھ نہ کچھ سنانا شروع کر دیں کیونکہ چندہ عام کے بعد سب سے زیادہ اہم تحریک جو عمومی طور پر جماعت کے لئے جاری فرمائی گئی ہے وہ تحریک جدید کا چندہ ہے.کیونکہ اس کا تعلق ساری دنیا میں اشاعت اسلام سے ہے اور خالصہ اس اعلیٰ مقصد کے لئے وقف ہے پس آج جو میں یہ نئی ہدایت دے رہا ہوں اسے دنیا بھر کی جماعتیں اچھی طرح سمجھ لیں.جہاں پہلے چندے کے معاملہ میں نرم روی اختیار کرتے ہوئے آہستہ آہستہ دل موہ کر نئے احمدیوں کو چندوں سے واقفیت کرائی جاتی تھی اور

Page 375

362 ان کو آہستہ آہستہ ان باتوں کا عادی بنایا جاتا تھا ان کے لئے یہ نئی ہدایت ہے کہ تحریک جدید کے چندے کو بھی اب وہ اس میں شامل کر لیں اور چاہے کوئی کتنی تھوڑی رقم بھی ادا کرنا چاہے اس کو اس طرح قبول کر لیں کہ تحریک جدید کے لئے جو کم سے کم معیار ہم نے مقرر کیا ہوا ہے.مثلاً پاکستان میں اگر وہ 24 روپے ہے پا12 روپے (مجھے یاد نہیں) لیکن جتنا بھی ہے، کم سے کم جو معیار مقرر کیا ہوا ہے اس کے متبادل اگر کوئی ایک شخص چندہ نہیں دے سکتا تو دو تین چار پانچ کو، پورے خاندان کو اس چندے میں شامل کر لیں.سال میں ایک دفعہ دینا ہے اگر اس طرح ایک دفعہ دینے کی عادت پڑ جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے آئندہ بہت برکت پڑتی ہے.تحریک جدید کی وجہ سے جماعت کے دوسرے چندوں میں بھی اضافہ ہوا ہے مجھے یاد ہے کہ تحریک جدید کے چندے کے آغاز کے بعد جماعت کے دوسرے چندوں پر بھی غیر معمولی اثر پڑا تھا کیونکہ اس سے پہلے کوئی ایسی تحریک نہیں تھی کہ چھوٹے بچے کم سنی میں چندوں میں شامل ہوتے.ہر کمانے والا چندہ دیتا تھا اور بسا اوقات اس چندے سے ان کی بیویاں بھی ناواقف رہتی تھیں بچے بھی ناواقف رہتے تھے بلکہ جہاں تربیت کی کمی تھی وہاں بیویاں چونکہ خود قربانی نہیں کرتی تھیں اس لئے بعض بیویاں خاوندوں کی قربانیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تھیں اور اپنی اولاد کے دل میں بھی اس سلسلہ میں وسو سے پیدا کیا کرتی تھیں، نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ اس کا بعض علاقوں میں بھاری نقصان پہنچا اور اچھے مخلص قربانی کرنے والے والد کے بچے ماں کے اس اثر کے نیچے رفتہ رفتہ سرکتے ہوئے جماعت سے دور ہونے لگے کہ بیوی کی پیار کی نظر اس پیسے پر ہوتی تھی جو خاوند اس کے ہاتھ پر رکھتا تھا اور پریشانی اور گھبراہٹ کی نظر اس پیسے پر ہوتی تھی جو وہ جماعت کو پیش کرتا تھا.چونکہ بیوی کو شامل کرنے کی کبھی کوئی کوشش ہی نہیں کی جاتی تھی اس لئے چندہ دینے سے جو لطف حاصل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے اس سے وہ بیویاں بیچاری محروم رہیں اور اس زمانہ میں یہ نقصان سب سے زیادہ ہوا ہے.پھر بچے بھی ہاتھ سے نکل گئے لیکن تحریک جدید کے آنے کے بعد حیرت انگیز طور پر جماعت کے مالی نظام کو تقویت ملی کیونکہ خواتین اس میں شامل ہونا شروع ہوئیں اور ایک دفعہ اگر خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے تو اس سے اتنا لطف آتا ہے اور آئندہ مالی قربانی کے لئے انسان کو اس طرح طاقت ملتی ہے کہ جتنا دیتا ہے آئندہ اس سے زیادہ دینے کی کوشش کرتا ہے.ایک چندہ دیتا ہے تو دوسرے چندوں میں بھی ادا ئیگی کی تمنا پیدا ہو جاتی ہے پس اس پہلو سے تحریک جدید نے ایک غیر معمولی اہم خدمت سر انجام دی ہے اور اسی لئے میں دنیا کی ساری جماعتوں میں تحریک جدید کو رائج کرنے کی ہدایت دے رہا ہوں.نئی جماعتوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی اللہ کی راہ میں چندہ دینے کی عادت پڑے گی خواہ وہ بالکل معمولی رقم ہو.یہ بحث نہیں ہے کہ کتنی ہے، اتنی معمولی بھی ہو کہ عام دنیا کی نظر میں اس کی کوئی قیمت نہ

Page 376

363 ہو لیکن جو شخص معمولی رقم سے بھی قربانی شروع کرتا ہے یہ ہمارا تجربہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ اسے مزید قربانی کی توفیق ضرور ملتی ہے اور مزید نیکیوں کے لئے اس کا حوصلہ بڑھتا ہے.پس اس پہلو سے تحریک جدید کو جو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ ساری دنیا کی جماعتوں کی طرف سے رپورٹیں آنی ضروری ہیں اور کچھ نہ کچھ شامل کرنے کی کوشش شروع ہو جانی چاہئے.ہمارے مال کا جو مرکزی نظام ہے اس کا فرض ہے کہ 1 6 جماعتوں کے علاوہ ، وہ جماعتیں جن کی رپورٹیں نہیں آئیں لیکن وہاں نظام جماعت قائم ہے ان کو بار بار توجہ دلائیں اور ان سے کہیں کہ آپ کی وجہ سے ایک خفت ہوئی ہے.وہ رپورٹ جو شامل نہیں ہوئی اس کا ذکر بھی نہیں آیا اور قربانی کے لحاظ سے جماعت کا عمومی تاثر مجروح ہوا ہے.پس آپ کو چاہئے کہ وقت کے اوپر اپنی رپورٹیں بھجوایا کریں اور وہ ممالک جن کی جماعتیں ابھی تک شامل نہیں ہوئیں ان کو شامل کرنے کے لئے ابھی سے با قاعدہ یاد دہانی کی جدوجہد شروع کر دیں اور جو بھی نظام وہاں مقرر ہے اس کو استعمال کریں اگر وہ ممالک ابھی بعض دوسرے ممالک کے پروں کے نیچے ہیں اور ان سے تربیت حاصل کر رہے ہیں تو ان ممالک کو توجہ دلائیں کہ وہ ان نئے ممالک میں خصوصیت سے قربانی کی روح پیدا کرنے اور اسے بڑھانے کی کوشش کریں.سبقت فی الخیرات کے معنی جہاں تک آپس کی دوڑ کا تعلق ہے میں اس کا اس لئے ذکر کیا کرتا ہوں کہ استباق ف الخيرات ، قرآن کریم نے ہمارا نصب العین مقرر فرمایا ہوا ہے.سبقت فی الخیرات کا مطلب ہے.اچھی چیزوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا، یہ بہت اہم پہلو آپ کے پیش نظر رہنا چاہئے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں سے کبھی کسی مذہب نے اپنے متبعین کے لئے یہ نصب العین مقررنہیں کیا.اس پہلو سے اسلام ایک حیرت انگیز استثنائی شان رکھتا ہے.جس میں دنیا کا کوئی اور مذہب شریک نہیں.اچھے سے اچھے مختلف نصب العین یعنی Mottos مقرر کئے جاسکتے ہیں کہ ہم تمہارے سامنے یہ مقصد رکھتے ہیں اسے حاصل کرنے کیلئے دوڑ لگاؤ اور کوشش کرو.یہ نصب العین ! سوچیں کہ زندگی کے ہر دائرے پر حاوی ہو گیا ہے.ہر اچھی بات میں ہر نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر و.حیرت انگیز دوڑ ہر وقت جاری ہے، ہر گھر میں ہے، ہر وجود کے اندر اس کا احساس موجود ہے اور انسانی زندگی نیکیوں کے لحاظ سے سینکڑوں ہزاروں حصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے.پس کوئی بھی نیکی ہو جہاں کسی اور شخص کو آپ ایک اچھا کام کرتا دیکھیں وہاں یہ تحریک دل میں پیدا ہونی چاہئے کہ میں اس معاملہ میں اس سے آگے بڑھوں اور یہ انفرادی تحریک جب اجتماعی تحریک میں بدلتی ہے تو نیکیوں کا ایک سمندر بلکہ مو اج سمندر بن جاتا ہے یعنی اس جوش کے ساتھ لہریں اٹھتی ہیں اور اتنا حیرت انگیز ہیجان پیدا ہو جاتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر ہر ایک

Page 377

364 دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہے.یہ خوبصورتی آپ کو اسلام کے سوا اور کہیں دکھائی نہیں دے گی.جماعتوں کا نام لینے کا مقصد دوسروں میں مسابقت کی روح پیدا کرنا اور ان کے لئے دعا کی درخواست ہوتا ہے پس اس معاملہ میں بھی آپ کو یہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جب میں اعلان کرتا ہوں کہ فلاں جماعت فلاں سے آگے نکل گئی یا اس وقت بڑی جماعتوں کا یہ حال ہے تو اس کا ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ باقی جماعتوں کو تحریک ہو کہ وہ ان سے آگے نکلنے کی کوشش کریں اور ایک دوسرا بڑا مقصد یہ ہے کہ ان کے لئے دعا کی تحریک ہو اور دعا کی تحریک بھی دو پہلو رکھتی ہے.جو سبقت لے گئے ہیں ان کے لئے یہ دعا ہو کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی نیکیوں کی سبقتیں قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کے لئے یہ دعا کہ اگر ان کی پوری صلاحیتیں استعمال نہیں ہو ئیں تو اللہ تعالیٰ انہیں پوری صلاحیتیں استعمال کرنے کی توفیق بخشے.پھر وہ اگلوں سے آگے نکل جائیں تو پھر اللہ کا فضل ہے.پس میں نے یہ دعا نہیں کہی کہ ان کے لئے یہ دعا کرو کہ پہلوں سے آگے نکل جائیں کیونکہ ان کے لئے تو پہلے آپ یہ دعا کر چکے ہیں کہ اللہ انہیں سبقتیں قائم رکھنے کی توفیق بخشے.اس طرح تو دعا میں تضاد پیدا ہو جائے گا.میں نے یہ دعا کہی ہے کہ باقیوں کے لئے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی پوری صلاحیتیں کماحقہ استعمال کرنے کی توفیق بخشے.ہر ایک کے اندر Potentials ہوتے ہیں جو ا بھی استعمال نہیں ہوئے ہوتے.پھر اللہ کی شان ہے، اللہ کا فضل ہے جس کو چاہے وہ سبقت عطا فرما دے.پھر وہ آگے نکل جائیں تو وہ بھی آپ کی دعا کا فیض پانے والی ہوں گے.پہلے اگر اپنی سبقت کو سلامت رکھیں اور محفوظ رکھیں تو وہ بھی آپ کی دعا کا فیض پانے والے ہوں گے.اللہ کرے کہ اس پہلو سے یہ اعلان جو میں کرنے لگا ہوں یہ جماعت میں نیکیوں کو بڑھانے اور نیکیوں کو ہر طرف فروغ دینے کا سبب بنے.جماعتوں میں سبقت لے جانے کا ذکر گزشتہ مرتبہ جب میں نے اعلان کیا کہ عام چندوں میں جرمنی پاکستان کو پیچھے چھوڑ گیا ہے تو پاکستان کو بہت تکلیف پہنچی تھی لیکن اب میں اہلِ پاکستان کو خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ کے فضل کے ساتھ خدا تعالیٰ نے ان کو تحریک جدید میں حسب سابق دنیا میں سب سے آگے رہنے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور کوئی ملک ان سے یہ جھنڈا نہیں چھین سکا.ان کے چندوں کا کل مجموعہ 2 لاکھ 91 ہزار 199 پاؤنڈ بنتا ہے.جرمنی کی جماعت دوسرے درجہ پر کچھ عرصہ سے چلی آرہی ہے لیکن فاصلہ کم کر رہی ہے اس لئے میں پاکستان کی جماعتوں کو پھر متنبہ کر دیتا ہوں کہ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہیں دی گئی.یادرکھ لینا کہ ان کا فاصلہ بہت تھوڑا رہ گیا ہے

Page 378

365 وہ 2 لاکھ 44 ہزار 440 تک پہنچ گئے ہیں.اللہ کرے کہ پاکستان کو اور زیادہ آگے بڑھنے کی توفیق ملے اور جرمنی کو اپنی پوری صلاحیتیں استعمال کرنے کی توفیق ملے اور پاکستان کی جو صلاحیتیں استعمال نہیں ہوئیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی بروئے کار لانے کی توفیق عطا فرمائے.امریکہ مالی قربانی میں مسلسل آگے آرہا ہے اگر چہ مجھے یہ یقین ہے اور امیر صاحب امریکہ گفتگو کے دوران مجھ سے اس معاملہ میں متفق رہتے ہیں کہ ابھی امریکہ کی بہت سی ایسی صلاحیتیں ہیں جو خوابیدہ حالت میں ہیں اور اگر وہ ساری بروئے کار آ جائیں اور جاگ اٹھیں تو ہوسکتا ہے کہ امریکہ دنیا میں سب سے آگے نکل جائے مگر سر دست امریکہ کو تیسرا درجہ حاصل ہے.اگر چہ وقف جدید میں یہ اول آچکا ہے لیکن تحریک جدید میں 1 لاکھ 35 ہزار 704 پاؤنڈ چندہ دے کر یہ تیسرے نمبر پر ہے.یو کے جماعت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ قربانیوں میں مسلسل ترقی کر رہی ہے اور بڑا متوازن قدم ہے.ان کا چندہ 1 لاکھ 15 ہزار پاؤنڈ تھا اور یہ چوتھے نمبر پر ہیں.کینیڈا بھی اپنی پانچویں پوزیشن کو برقرار رکھے ہوئے ہے.73 ہزار 14 7 پاؤنڈ ان کا چندہ تھا.انڈونیشیا میں اللہ کے فضل سے جلد جلد ترقی ہو رہی ہے اور خدا کے فضل سے وہ مختلف چندوں میں بڑی باقاعدگی سے حصہ لیتے ہیں اور مسابقت کی رو سے وہ پہلے سے زیادہ اپنے سے اگلوں کے قریب ہوتے چلے جا رہے ہیں.ان کا چندہ 53 ہزار 119 پاؤنڈ ہے.جاپان کی جماعت بہت چھوٹی ہے لیکن مالی قربانیوں میں ماشاء اللہ بہت ہی نمایاں کردار ادا کرنے والی ہے.ان کا چندہ 22 ہزار 544 تھا اور ساتویں پوزیشن ہے.ماریشس کی جماعت بھی بڑی ہوشمندی کے ساتھ آگے قدم بڑھا رہی ہے.19 ہزار 190 پاؤنڈ چندہ دے کر آٹھویں پوزیشن حاصل کی.ہندوستان میں غربت بہت ہے اور اگر چہ جماعت کی تعداد کینیڈا ، انڈونیشیا، جاپان وغیرہ سے بہت زیادہ ہے لیکن غربت کی وجہ سے ان کا چندہ صرف 17 ہزار 536 پاؤنڈ تھا اور یہ بھی ان کے حالات کے لحاظ سے اللہ کے فضل سے بہت کافی ہے.سوئٹزر لینڈ چھوٹی جماعت ہونے کے باوجود تحریک جدید کے چندے میں غیر معمولی مقام رکھتی ہے.کل عالمی چندے کے لحاظ سے ان کی دسویں پوزیشن ہے یعنی 16 ہزار 628 پاؤنڈ لیکن جب فی کس قربانی کی بات کریں تو سوئٹزر لینڈ کی جماعت دنیا میں سب سے آگے نکل گئی ہے.سوئٹزر لینڈ میں 5,16,628 پاؤنڈ صرف 102 چندہ دہندگان نے دیئے ہیں.مجھے اس پر یہ شبہ پڑا تھا کہ شاید انہوں نے بچوں کو شامل نہ کیا ہوتا کہ ان کا فی کس چندہ بڑھ جائے.اس لئے فون پر اچھی طرح تسلی کروائی اور امیر جماعت سے تصدیق کی ہے کہ اس چندے میں عورتیں بچے ، نہ کمانے والے سارے شامل ہیں.اس پہلو سے 102 حصہ لینے والوں کی اوسط 163 پاؤنڈ فی کس چندہ دہندہ بنتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حیرت انگیز طور پر غیر معمولی اونچا مرتبہ رکھتی ہے.جاپان جو پہلے اول ہوا کرتا تھا اس دفعہ سوئٹزر لینڈ نے کوشش کر کے انہیں پیچھے چھوڑا ہے.گزشتہ

Page 379

366 سال جب میں نے جاپان کے متعلق اعلان کیا تھا تو سوئٹزرلینڈ کی طرف سے احتجاج آئے تھے کہ نہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ہم آگے ہیں لیکن تحقیق کر کے یہی پتا چلا تھا کہ سوئٹزر لینڈ پیچھے رہ گیا ہے تو اس دفعہ انہوں نے کچھ زیادہ ہی غیرت دکھائی ہے اور زور لگا کر جاپان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے.جاپان کے اوپر اور بھی بہت سارے چندوں کی ذمہ داریاں ہیں جو سوئٹزرلینڈ پر نہیں ہیں.ہر چندے میں وہ اپنی تعداد کے لحاظ سے زیادہ قربانی کرنے والے ہیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس موقع پر ان کو چشم پوشی سے کام لینا چاہئے اور سوئٹزرلینڈ کو بے شک آگے رہنے دیں کیونکہ اس دفعہ مسجد کی تعمیر کا جو چندہ ان پر ڈالا گیا ہے وہ بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے.اگر انہوں نے سوئٹزر لینڈ کو پیچھے چھوڑنے کی خاطر وہاں توفیق سے بڑھ کر حصہ لیا تو دوسرے چندے متاثر ہو جائیں گے.اس لئے قربانی کا جو معیار اب ہے اسے بے شک اتنا ہی قائم رکھیں لیکن مسجد کی تعمیر کے لئے وہ خصوصیت سے توجہ دیں.وہاں زمین سب سے مہنگی ہوتی ہے لیکن اللہ کے فضل کے ساتھ ٹوکیو کے پاس ایک بہت اچھی زمین مل گئی ہے اور ان کو فوری طور پر جتنا قرض درکار تھا وہ مہیا کر دیا گیا ہے.امید ہے خدا کے فضل سے وہ سودا ہو چکا ہوگا.بقیہ تین سال انہوں نے قرض بھی واپس کرنا ہے اور مسجد اور مشن کی عمارت بھی خود بنانی ہے.بیلجیئم کی جماعت بھی اللہ کے فضل سے تیز قدموں سے آگے بڑھ رہی ہے.تبلیغ کے میدان میں بھی جیسا کہ میں نے پہلے اعلان کیا تھا ماشاء اللہ انہوں نے توقع سے بڑھ کر چابک دستی دکھائی ہے اور ہوشیاری سے کام کیا ہے، دعاؤں سے کام لیا ہے اور خدا نے پھل بھی خوب دیئے.مالی لحاظ سے بھی یہ جماعت ترقی کر رہی ہے.ان کی اوسط 129 فی کس ہے اور پیجیم کے حالات کے لحاظ سے یہ بہت اچھی اوسط ہے.ان کا تیسرا نمبر ہے.امریکہ کی اوسط 68 پاؤنڈ بنتی ہے اور ان کا نمبر چوتھا ہے.فرانس کی اوسط 60 پاؤنڈ ہے اور ان کا پانچواں نمبر ہے.ان کے علاوہ جو چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں جن میں چندہ دہندگان تھوڑے ہیں اس لئے ان کو شامل نہیں کیا گیا.ان میں سے تھائی لینڈ ، فلسطین، کوریا، گوئٹے مالا، لیتھوانیہ کی اوسطیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بہتر ہیں.افریقہ کی قربانیاں موازنے کی فہرستوں میں اب تک آپ نے شاید سوچا ہو کہ افریقہ کا نام نہیں آیا.افریقہ میں غربت بہت زیادہ ہے اور بہت سے ممالک ایسے ہیں جو شدید اقتصادی بدحالی کا شکار ہیں لیکن اخلاص میں کمی نہیں ہے.اگر ان کا نام ان فہرستوں میں نہیں آیا جن فہرستوں میں بڑے بڑے چندے دینے والے ملکوں کا ذکر ہوا ہے تو اس میں افریقہ کا قصور نہیں لیکن مالی قربانی کی طرف توجہ کا جہاں تک تعلق ہے اس کا اندازہ آپ کو اس بات سے ہو جائے گا کہ اپنی قربانی میں فی صد اضافہ کرنے کے لحاظ سے دنیا بھر میں سب سے آگے زیمبیا ہے جو افریقہ کا ملک ہے اور تیسرے نمبر پر غانا ہے، یہ بھی افریقہ کا ملک ہے، پھر ساتویں نمبر پر گیمبیا آتا ہے اور

Page 380

367 دسویں نمبر پر تنزانیہ.پس وہ پہلی دس جماعتیں جنہوں نے سال گزشتہ میں جواب ختم ہو رہا ہے، اپنے پچھلے چندے سے غیر معمولی اضافے کے ساتھ حصہ لیا تھا ان میں چارا فریقین ممالک کو خدا کے فضل سے جگہ ملی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ اس امتیاز کو وہ آئندہ بھی قائم رکھیں گے اور باقی افریقن ممالک جن کا ذکر نہیں ملا وہ بھی انشاء اللہ تعالی ، اللہ کے فضل کے ساتھ کم سے کم تناسب کے لحاظ سے آگے بڑھنے کی فہرستوں میں شامل ہو جائیں گے.میں یہاں دعا کا یہ اعلان بھی کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ افریقہ کے اقتصادی حالات کو بہتر بنانے کے لئے حسب توفیق کوشش کر رہی ہے اور مختلف قسم کی ایسی سکیمیں جاری ہیں جن کے ذریعہ افریقہ کی اقتصادی حالت کو اس نقطۂ نگاہ سے بہتر بنایا جا رہا ہے کہ وہاں کا پیسہ وہاں سے نکل کر باہر نہ جائے بلکہ باہر سے پیسہ وہاں خرچ ہو اور پھر وہیں استعمال ہوا اور جو کچھ منافعے ملیں ان کو دوبارہ افریقہ کی بہبود کے لئے ہی استعمال کیا جائے.جب میں افریقہ کے دورہ پر گیا تھا تو میں نے جماعت کی طرف سے ان سے یہ وعدہ کیا تھا اور کہا تھا کہ میں جماعت عالمگیر کی طرف سے آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ وہ دور جو آپ کے خون چوسنے کا دور تھا جماعت احمد یہ اس کا رخ پلٹے گی اور کم سے کم ایک عالمگیر جماعت ضرور ایسی پیدا ہو چکی ہے جو آپ کی خدمت کے لئے آگے آ رہی ہے اور جو باہر سے پیسہ افریقہ میں بھیجے گی بجائے اس کے کہ افریقہ کا پیسہ نکال کر باہر بھجوائے تو دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں پہلے سے بڑھ کر ان کی اقتصادی حالت کو بھی بہتر بنانے کی توفیق ملے، ہزار لاکھ دوسرے ایسے ذرائع ہیں جن تک ہماری دسترس نہیں ، ہم پہنچ ہی نہیں سکتے انہیں خدا تعالیٰ اپنے فضل سے افریقہ کے لئے مسخر فرمادے اور ان ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے ان کی اقتصادی حالت کو بہتر کر دے.اب میں ان آیات کا ترجمہ کرتا ہوں جن کی میں نے تلاوت کی تھی کیونکہ اس میں مالی قربانیوں کا فلسفہ بیان ہوا ہے اور مالی قربانیوں سے متعلق نصیحتیں فرمائی گئی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الشَّيْطَنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْهُ وَفَضْلاً کہ دیکھو! شیطان تمہیں غربت سے ڈراتا ہے اور فحشاء کا حکم دیتا ہے.ان دو چیزوں کا کیا تعلق ہے پہلے اس پر غور فرمائیں.جب حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک جدید کا اعلان فرمایا تو ایک طرف یہ اعلان فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی خاطر مالی قربانی میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لو.ساری دنیا میں تبلیغ کا جال پھیلانا مقصود ہے اس لئے تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لو اور ساتھ ہی فرمایا کہ ہر قسم کی فحشاء سے بچو، دنیا کے ہر قسم کے عیش وطرب کے سامانوں سے احتراز کرنے کی کوشش کرو.یہاں تک کہ جو تم پر جائز ہے اس میں بھی محض اس حد تک حصہ لو جتنا بہت ضروری ہو.حلال کو حرام تو نہیں فرمایا لیکن فرمایا کہ حلال سے پورا استفادہ نہ کرو کیونکہ تمہیں خدا کی

Page 381

368 خاطر روپے کی ضرورت ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ جو قو میں فحشاء میں مبتلا ہوں ان سے مالی قربانی کی توفیق چھین لی جاتی ہے.فحشاء کا مطلب ہے دنیا کی لذتوں میں حصہ لینے کی دوڑ میں انسان ایسی بدرسمیں اختیار کر جائے جو پھیلنا شروع ہو جائیں جو وبائی رنگ اختیار کر لیں اور کھلم کھلا بدیوں کی دوڑ شروع ہو جائے.اب آپ دیکھیں کہ جہاں کھلم کھلا بدیوں کی دوڑ ہو وہاں الا ما شاء اللہ ہمیشہ انسان کی کمائی اس کی ضرورتیں پوری کرنے سے پیچھے رہ جاتی ہے.دل چاہتا ہے کہ میں اس ماڈل کی کارلوں ، دل چاہتا ہے کہ میں اس قسم کے نئے وڈیوز خریدوں.اس قسم کے عیش و عشرت میں حصہ لوں اور ایسی ایسی سیر میں کروں وغیرہ وغیرہ.اور شراب و کباب اور ناچ گانے کی تو کوئی حد ہی نہیں ہے.جتنا بھی زیادہ ہو اتنا ہی یہ لوگ اس میں مزید مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں.تو جن قوموں کو یہ نتیں پڑ جائیں اور ان کے ہاں ان باتوں کو زیادہ اہمیت دی جائے ان کے بجٹ ہمیشہ ان کی ضرورت سے پیچھے رہ جاتے ہیں.پھر وہاں چوری چکاری ہوتی ہے، ڈاکے ڈالے جاتے ہیں.Drug Addiction کے ذریعہ Crime بڑھتے ہیں اور ساری سوسائٹی دکھوں میں مبتلا رہتی ہے.قرض لے لے کر اپنا مستقبل تباہ کرتے ہیں اور اپنے حال کو اچھا بنانے کے لئے اپنے مستقبل کو داؤ پر لگا دیتے ہیں.پس یہ وہ مضمون ہے جس کو قرآن کریم نے ایک فقرے کے اندر بیان فرمایا ہے کہ شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے لیکن فحشاء کی دعوت دیتا ہے.کتنی بڑی منافقت ہے، کتنی بڑی شیطانی ہے، جب تم خدا کی راہ میں خرچ کرنے لگتے ہو تو ایک طرف تمہیں فقر سے ڈراتا ہے لیکن دوسری طرف فحشاء کی دعوت دے کر تمہارے فقر کا انتظام کرتا ہے اور اس بات کو پکا کر دیتا ہے کہ تم ہمیشہ اقتصادی لحاظ سے بد سے بدتر حال تک پہنچتے چلے جاؤ.پس فحشاء اور فقر کا یہ رشتہ قرآن کریم نے حیرت انگیز باریک نظر سے بیان فرمایا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب مالی قربانی کی تحریک فرمائی تو فحشاء کی ہر قسم سے بچنے کی تلقین کے علاوہ زندگی کے جو جائز مزے تھے ان میں بھی کمی کرنے کی تلقین فرمائی.عورتوں سے کہا زیور پہننا تمہاری ضرورت ہے تمہیں اجازت ہے مگر خدا کی خاطر زیور بنانا اگر کم کر دو اور چندے بڑھا دو تو اور بھی اچھی بات ہے.امیروں سے کہا کہ تم نعمتیں استعمال کرو مگر خدا کی خاطر اپنے کھانوں میں تکلفات کم کر دو، اپنے کپڑوں میں تکلفات کم کردو، اپنی روز مرہ کی سیر و تفریح میں تکلفات کم کر دو، ہر جگہ سے بچت کرو تا کہ خدا کی راہ میں خرچ کیا جائے اور جہاں تک خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے کے ساتھ غربت کا خوف ہے اس کی اللہ تعالیٰ نفی فرماتا ہے.فرماتا ہے شیطان جھوٹ بولتا ہے.جن باتوں کی شیطان تعلیم دیتا ہے ان میں غربت کا حقیقی خطرہ ہے لیکن خدا جس جگہ خرچ کرنے کی طرف تمہیں بلاتا ہے.اس میں خدا اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ تم غریب نہیں ہو گے، پہلے سے بہتر حال میں جاؤ گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا الله تم

Page 382

369 سے مغفرت کا بھی وعدہ فرما رہا ہے اور فضل کا وعدہ بھی.اس تعلق میں فضل کا مطلب یہ ہے کہ جتنا تم کما کر حاصل کرنے کے حقدار بنے ہو تو اس سے زیادہ تمہیں دے گا.اللہ تعالیٰ جب فضل فرماتا ہے تو عام حالات میں جتنا کمانا ہوتا ہے اس کی توقع سے بڑھ کر تمہیں عطا فرما دیتا ہے.مغفرت کا مفہوم مغفرت کا تعلق فحشاء سے ہے.فرمایا جو کچھ کمزوریاں تم سے لاحق ہوگئی ہیں اگر تم خدا کی خاطران سے بچو گے تو خدا مغفرت کا وعدہ فرماتا ہے.ان کا نقصان تمہیں نہیں پہنچے گا اور جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرو میں مالوں میں کمی نہیں کروں گا بلکہ اضافہ کروں گا اور یہ ایک گہری حکمت کی بات ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے فقر اور فحشاء کی نسبت اگر آپ غور کریں تو یہ بہت ہی حکمت کا کلام ہے.اسی طرف اللہ تعالیٰ اس میں توجہ دلاتا ہے کہ يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاءُ دیکھو! خدا جس کو چاہے حکمت عطا کرتا ہے.میں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحکمت کے لئے چن لیا ہے- يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ (الجمع : 3) یہ ان کو تعلیم بھی دیتا ہے اور حکمت بھی بتا تا ہے تو دیکھو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کیسی پیاری پیاری حکمت کی باتیں تم تک پہنچائی جا رہی ہیں.وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ لیکن ہم جانتے ہیں کہ عقل والوں کے سوا کسی نے نصیحت نہیں پکڑنی.عقل اور حکمت کا کیا تعلق ہے صاحب عقل ہی حکمت سے فائدہ اٹھایا کرتے ہیں.جن کو عقل نہ ہو ان کے لئے تو حکمت کی باتیں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتیں.وہ اس سے منہ موڑ کر دوسری طرف چلے جاتے ہیں.ایک عقل ہے جو انسان کی اندرونی صفت ہے اور ایک حکمت ہے جو باہر سے پیغام بن کر اس کے ذہن پر یا دل پر اترتی ہے تو فرمایا کہ جس طرح آنکھ اگر روشنی دیکھنے کی اہلیت رکھے تو روشنی اس کو فائدہ پہنچاتی ہے، ایک اندھے کو تو روشنی فائدہ نہیں پہنچایا کرتی ، اس طرح حکمت سے استفادہ کے لئے جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے تمہیں عطا کی جارہی ہے.تمہارے اندر بھی عقل کا ایک نور ہونا چاہئے.وہ ہے تو تم حکمت سے فائدہ اٹھاؤ گے.فرمایا: وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَو نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ أَنْصَارِ کہ دیکھو ! تم جو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو یا خرچ نہیں بھی کر سکتے مگر خرچ کی تمنا رکھتے ہو، نذرمان رکھی ہے کہ مجھے توفیق ملے تو میں یہ بھی خدا کی راہ میں خرچ کروں.اس کی کیا جزاء ہے؟ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تمہارے

Page 383

370 مال بڑھائے گا.یہاں سب سے اعلیٰ سب سے افضل اور سب سے پاکیزہ جزا بیان فرمائی ہے.فرمایا ہے: فَاِنَّ اللهَ يَعْلَمُہ یاد رکھو! اللہ جانتا ہے.جس محبوب کی خاطر ،جس پیارے کی خاطر تم قربانی دے رہے ہو اس کی اس پر نظر ہے اس سے زیادہ اور اس سے بڑھ کر اور جزاء ہو ہی نہیں سکتی.آپ اگر کسی پیارے کے لئے کچھ خرچ کریں اور اس کو پتا نہ لگے تو بے چین رہتے ہیں جب تک کہ اس کی نظر میں بات نہ آ جائے.پنجابی میں کہتے ہیں کہ دستے پتر دامنہ کیہ چمنا مائیں بھی کہتی ہیں کہ اگر بیٹے کو پتا ہی نہیں لگا کہ کس نے منہ چوما ہے تو کیا فائدہ چومنے کا.جہاں تک اپنے اظہار محبت کا تعلق ہے چومنا ایک طبعی فعل ہے لیکن اس کے مقابل پر بھی تو ایک جواب چاہئے.پس اللہ فرماتا ہے کہ تم اگر خدا کی خاطر کرو گے تو تمہارے لئے سب سے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ اللہ کو پتا ہے.کوئی قربانی کسی اندھیرے میں کسی وقت رات کو دنیا کی نظر سے الگ ہو کر ، چھپ کر تم خدا کی راہ میں کرتے ہو اور کرتے خدا کی خاطر ہو تو اسے پتا لگ گیا ہے تمہیں پھر اور کیا چاہئے.وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ أَنْصَارِ میں انصار کا کردار پس چندہ دینے والے کے لئے سب سے بڑی جزاء اللہ کی رضا ہے جو اس کے علم سے حاصل ہوتی ہے.فرمایا وہ تو اللہ جانتا ہے وَ مَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ اَنْصَارٍ لیکن جو لوگ ظلم کرنے والے ہیں ان کے لئے کوئی مددگار نہیں.اب یہ بھی ٹھہر کر غور کرنے والی بات ہے.یہاں ظلم کرنے والے اور مددگار کا کیا تعلق تھا؟ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو خدا کی راہ میں چندہ دینے سے ڈرتے ہیں وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہوتے ہیں اور بظاہر اپنا پیسہ بچارہے ہیں لیکن کسی مشکل اور کسی مصیبت کے وقت کوئی ان کے کام نہیں آئے گا لیکن جو خدا کی خاطر خرچ کرنے سے ڈرتے نہیں ہیں اور اپنی جانوں پر ظلم نہیں کرتے بلکہ اپنی جانوں پر رحم کرتے ہوئے خدا کی خاطر خرچ کرتے ہیں ان کو ضرور انصار مہیا ہوں گے.پس یہ ایک خوشخبری ہے جو بظاہر نفی کے رنگ میں بیان فرمائی گئی ہے.مطلب ہے کہ وہ لوگ جو ظلم کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو پھر خدا کی طرف سے کوئی مددگار نصیب نہیں ہوگا.لیکن تم جو کرتے ہواس کی ایک جزا تو یہ بیان کر دی گئی کہ اللہ جانتا ہے.وہ تمہیں پیار سے دیکھ رہا ہے.دوسرے اس کی یہ جزا بیان کر دی گئی کہ جب بھی تم مشکل میں پڑو گے.جب بھی کوئی مصیبت واقع ہوگی یا تمہیں کسی مدد کی ضرورت ہوگی تو اللہ جو جانتا ہے کہ تم نے اس کی خاطر قربانیاں دی تھیں وہ تمہارے لئے انصار پیدا فرمائے گا.ایسے انصار بھی بعض دفعہ مقرر ہو جاتے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا کہ جن پر خدا الہام کرتا ہے وحی کے ذریعہ ان کو بتاتا ہے کہ فلاں کو ایک مدد کی ضرورت ہے.چنانچہ آج بھی میں دیکھتا ہوں کہ کئی دفعہ کسی ضرورت مند کے لئے جو کسی اور کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا اللہ تعالیٰ رویا میں کسی

Page 384

371 کو ہدایت فرماتا ہے کہ اس کو ایک چیز کی ضرورت ہے اور بعض دفعہ پھر مجھے وہ خطوط پہنچتے ہیں کہ ایک شخص ایسی رؤیا دیکھتا ہے کہ فلاں شخص کو فلاں چیز کی ضرورت ہے اور واقعہ وہ ضرورت مند ہوتا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ اس کی ضرورت کو پورا کرنے کا سامان فرما دیتا ہے تو انصار کا مضمون جو ہے وہ محض اتفاقاً دنیا میں مددگار کا مضمون نہیں ہے بلکہ ایسے مددگار کا مضمون بیان ہو رہا ہے جو اللہ کی طرف سے مقرر فرمائے جاتے ہیں اور بعض دفعہ ان کو الہاما اور وحی کے ذریعہ آپ کی تائید پر کھڑا کیا جاتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مدد پر بھی سینکڑوں ہزاروں ایسے افراد مامور فرمائے گئے جن کو خدا نے وحی کے ذریعہ فرمایا کہ اس شخص کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہو.پس وَ مَا لِلظَّلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارِ اپنی جان پر ظلم کرنے والے وہ بیچارے ظالم ہی ہیں جن کے لئے کوئی انصار مہیا نہیں کئے جاتے.اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَتِ فَنِعِمَّا هِيَ اگر تم کھل کر صدقات دو تو یہ بھی اچھی بات ہے کیونکہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرُتِ (البقرہ:149) کے مضمون کے ساتھ اس کا تعلق ہے.جب تم اعلان کرتے ہو کہ فلاں آگے نکل گیا اور فلاں آگے نکل گیا تو یہ اعلان تبھی کر سکتے ہو کہ اس نے بتایا ہو کہ میں ہوں اور میں نے اتنا دیا ہے تو یہ کھلم کھلا اعلانیہ دینے والی بات ہے.فرمایا یہ بھی بہت اچھی بات ہے.وَإِنْ تُخْفُوْهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ.لیکن اگر تم چھپاؤ اور خدا کے محتاج بندوں پر مخفی ہاتھ سے خرچ کرو تو یہ خود تمہارے لئے بہتر ہے پہلی بات فَنِعما کہہ کر یہ بیان فرمائی کہ ساری سوسائٹی کے لئے ، ساری قوم کے لئے ، سارے نظام کے لئے یہ بات بہتر ہے کہ کھلم کھلا بھی نیکیاں کی جائیں تا کہ دوسروں کو تحریک ہو لیکن جہاں فرمایا مخفی ہاتھ سے دو وہاں فرمایا تمہارے لئے بہتر ہے.خطرہ ہے کہ اگر تم اعلانیہ ہی خرچ کرتے رہے تو تمہارے دلوں پر زنگ لگ جائیں گے، خطرہ ہے کہ تمہاری نیتوں میں فتور آ جائے گا.تم خدا کی خاطر خرچ کرنے کی بجائے اپنی انا کو مطمئن کرنے کے لئے ، اپنی ریاء کی خاطر خرچ کرنے لگو گے، کیسی مکمل تعلیم ہے.اگر صرف خرچ کی تعلیم ہی میں ان چند آیات کا موازنہ ساری دنیا کے مذاہب کی تعلیم سے کر کے دیکھ لیں تو آپ کو اسلام سے بہتر بلکہ اس کے قریب آتی ہوئی بھی کوئی اور تعلیم دکھائی نہیں دے گی.نہایت کامل، ہر پہلو پر نہایت باریک نظر ڈالنے والی تعلیم ہے.فرمایا وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَأْتِكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَيْرٌ اس کی جزا جیسا کہ ظاہر ہے یہی ہونی چاہئے تھی اور یہی بیان ہوئی ہے کہ تمہارے نفس کے اندر مخفی بدیاں ہیں.اگر تم چھپا کر صرف خدا کے علم میں لا کر کوئی نیکی کرتے ہو تو وہ ان مخفی بدیوں کو کاٹتی ہے، اس کا گہرا تعلق ان بدیوں سے ہے.پس ایک انسان جس کو اپنی نیکی کی کہیں سے کوئی جزاء نہ ملے یہاں تک کہ

Page 385

372 Recognition ہی کوئی نہ ہو، کوئی پہچانے ہی نہ تو اس کا دل لازماً خدا کی طرف دیکھے گا، خدا ہی کی طرف نظر ر کھے گا اور اس کی ایک جزا اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ تمہارے اندر جومخفی بدیاں پلتی رہتی ہیں اللہ ان بدیوں کو نیکی کی اس ادا کے ذریعہ دور فرما دے گا.فرمایا.وَ اللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ اللہ ان سب باتوں سے واقف ہے جو تم کرتے ہو.لَيْسَ عَلَيْكَ هُدُهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ تَشَاءُ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تم پر ان کو ہدایت دینا ان معنوں میں فرض نہیں ہے کہ زبردستی ان کو ہدایت پہنچا کر چھوڑ اور نہ تم اپنا فرض ادا نہیں کر سکتے.تمہارا کام ہے ہدایت پہنچاؤ اور بہترین رنگ میں پہنچا نا تم نے اگر یہ کام مکمل کر دیا تو تمہارا فرض ختم ہو جاتا ہے.وَلكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ.حقیقت یہ ہے کہ انسان کا کام صرف پہنچانا ہی ہوتا ہے.اصل ہدایت اللہ تعالیٰ عطا فرمایا کرتا ہے.آپ اچھی سے اچھی بات اچھے سے اچھے رنگ میں کسی کے سامنے پیش کر دیں.اگر خدا اس مخاطب کو اس لائق نہ سمجھے کہ وہ ہدایت پا جائے تو آپ کی ساری باتیں بریکار جائیں گی.ایک پتھر پر جتنی مرضی موسلا دھار بارش بر سے، وہ بنجر کا بنجر رہے گا.پس یہ خدا فیصلہ کرتا ہے کہ کون ہدایت سے فائدہ اٹھائے گا اور کون نہیں اٹھائے گا.فرمایا : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تیرا کام اتنا ہے کہ تو ان کو ہدایت دیتا چلا جا.وَلكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَنْ تَشَاءُ اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا ہدایت عطا فرمائے گا وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِانْفُسِكُمْ یا د رکھو تم ان نصیحتوں پر عمل کرتے ہوئے جو خرچ کرتے ہو یا خرچ کرو گے تو عملاً خدا کو فائدہ نہیں پہنچار ہے.خدا پر احسان نہیں رکھ رہے، لِاَنفُسِكُم امر واقعہ یہ ہے کہ یہ ہر حال میں تمہارے اپنے لئے ہی ہے.غریب کی مدد کو احسان نہ سمجھیں اس میں یہ مضمون بھی بیان ہو گیا ہے کہ جب تم کسی غریب کو بھی دیتے ہو تو یہ نہ سمجھا کرو کہ تم نے بڑا بھاری احسان کر دیا ہے کہ اس کی ضرورت پوری کی.خدا نے جو یہ وعدہ فرما دیا کہ جب تم غریب کو دو گے اس کے بدلے تمہاری برائیاں دور کی جائیں گی تو عملاً تم نے اپنے اوپر احسان کیا ہے.غریب کی تو ایک مادی ضرورت پوری ہوئی ہے تمہاری ایک روحانی اور دائمی ضرورت پوری کی گئی ہے.پس اس پہلو سے دیکھو تو خدا کا احسان ہے کہ اس نے اس نیکی کو قبول فرمالیا ہے اور اس کے نتیجہ میں تم نے غریب کو جتنا فائدہ پہنچایا اس سے بڑھ کر اپنی جان کو پہنچایا.جماعت کا چندہ دیا ہے تو تب بھی جو برکتیں دنیا اور آخرت میں چندہ دینے والے کو عطا ہوتی ہیں وہ اتنی زیادہ ہیں کہ اس کے مقابل پر اس چندے کا فائدہ کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا.

Page 386

373 چنانچہ اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ که اے محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامو! آپ کے تربیت یافتہ لوگو! ہم جانتے ہیں کہ تم کسی اور مقصد کے لئے نہیں، کسی فائدہ کے لئے نہیں محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ کرتے ہو.کیسی عمدہ یاد دہانی فرمائی گئی، ساتھ ساتھ فائدے بھی بیان فرما رہا ہے، ساتھ یہ بھی فکر ہے کہ کہیں فائدے ہی ان کا متاع ، ان کا مقصد، ان کا مطمع نظر نہ بن جائیں.جو فائدے بیان کئے جاتے ہیں کہیں دل ان فائدوں میں نہ اٹک جائے.فرمایا یہ فائدے زائد فائدے ہیں.جو سچے مومن بندے ہیں جن کی تربیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے ان کی ہرگز ان فائدوں پر نظر نہیں ہے.یہ اللہ کی طرف سے فضل کے طور پر عطا ہونے کے وعدے ہیں.ان کی نظر صرف اللہ کی رضا پر ہے اور اس توقع کے ساتھ کہ تم ایسے ہی رہو گے ہم تم سے مزید یہ وعدہ کرتے ہیں کہ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرِ يُوَفَ اِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ کہ جو کچھ تم خرچ کرو گے وہ سارا تمہیں واپس کر دیا جائے گا.وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ تم پر اس معاملہ میں ظلم یعنی کمی نہیں کی جائے گی.جب عربی میں منفی مضمون اس طرح بیان ہوتا ہے تو یہ مراد نہیں ہوتا کہ جتنا تم نے خرچ کیا ہے پورا پورا دے دیا جائے گا وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ کا مطلب ہے کہ اتنا زیادہ دیا جائے گا کہ کسی ظلم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.جتنا تم خرچ کرتے ہو وہ تمہیں لوٹایا جائے گا اور اس سے زیادہ دیا جائے گا، اس سے زیادہ دیا جائے گا، یہاں تک کہ کوئی کمی نہیں کی جائے گی.یہ جو عربی محاورہ ہے کہ نفی کے رنگ میں احسان یا مثبت پہلو کو بیان کیا جاتا ہے.اس کی روشنی میں اس کا یہ مطلب بنے گا کہ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ تمہارے لئے یہ وہم و گمان کرنا بھی مشکل ہو جائے گا کہ گویا کسی پہلو سے تم سے کمی کی گئی ہے.ہر پہلو سے تمہیں توقع سے بڑھ کر عطا ہوگا.پس میں امید رکھتا ہوں کہ دنیا میں جماعت کے مالی نظام میں حصہ لینے والے بھی ان نصیحتوں کو پیش نظر رکھیں گے اور وہ جو اس مالی نظام میں کارندے بنے ہوئے ہیں ، خدمت گار ہیں وہ بھی ان باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے خدمتیں کریں گے اور جن کو اس معاملہ میں خدمت کی تو فیق ملتی ہے ان کے حق میں تو ان سب چندہ دہندگان کی جزا لکھ دی جاتی ہے جو ان کی تحریک سے چندے ادا کرتے ہیں.پس ایک سیکرٹری مال اپنے آپ کو مظلوم نہ سمجھے کہ مجھے دھکے کھانے پڑتے ہیں، جگہ جگہ دروازے کھٹکھٹانے پڑتے ہیں.دن رات مصیبت پڑتی ہے اور پھر لوگ آگے سے باتیں کرتے ہیں.ان کو یا درکھنا چاہئے کہ ان کی جزا بھی تو بہت زیادہ ہے.جتنے لوگ ان کی تحریکات کو سن کر محض رضائے باری تعالیٰ کی خاطر انفاق کرتے ہیں.خدا کی راہ میں خرچ

Page 387

374 کرتے ہیں ان سب کا چندہ ان کے لئے بھی جزا بن جاتی ہے جن کی تحریک پر دیا جاتا ہے اور دینے والے کی جزاء کم نہیں کی جاتی.وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ کا ایک یہ بھی مفہوم ہے.کسی کی جزا بھی کم نہیں کی جائے گی.دینے والے کو توقع سے بھی بہت بڑھ کر دیا جائے گا اور تحریک کرنے والے کو بھی اس سب ثواب میں شریک کر دیا جائے گا.پس اللہ تعالیٰ ہمارے مالی نظام کو اسی طرح پاک اور شفاف رکھے.ہمیشہ رضائے باری تعالیٰ کی خاطر خرچ کریں اور اللہ کی طرف سے فضل کے طور پر جو وعدے ہیں وہ ہم پر اسی طرح نازل ہوتے رہیں.ہم سے پہلوں نے جو خرچ کئے تھے ان کا پھل ہم کھا رہے ہیں اور مالی لحاظ سے وہ خاندان جن کے آباء واجداد نے قربانیاں دی تھیں کہیں سے کہیں پہنچ گئے ہیں.پس یا درکھیں کہ آج جو خرچ کریں گے کل ان کی نسلیں بھی اسی طرح خدا کے فضلوں کی وارث بنائی جائیں گی مگر خدا کے لئے اس خاطر نہ کریں.محض رضائے باری تعالیٰ کی خاطر خرچ کریں.اسی میں ساری برکتیں ہیں اور یہی سب سے بڑی جزا ہے." خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 843-862) جماعتی وذیلی تنظیموں کے اجتماعات پر ذکر اللہ کے مضمون کو جاری رکھیں خطبہ جمعہ 19 نومبر 1993ء) " آج چونکہ ذکر کے موضوع پر انشاء اللہ تعالیٰ خطبات کا آغاز ہوگا.گزشتہ کچھ جمعہ میں بھی میرا یہی ارادہ تھا لیکن وقت نہیں مل سکا دوسری باتوں میں سارا خطبے کا وقت گزر گیا.اس سے پہلے کہ میں اس مضمون کو شروع کروں.جس کے عنوان کے طور پر یہ آیت کریمہ میں نے پڑھی ہے.میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت احمدیہ بیلجیئم کا دوسرا جلسہ سالانہ کل 20 نومبر سے شروع ہو رہا ہے اور دودن جاری رہ کر 21 کو اختتام پذیر ہو گا.اسی طرح مجالس انصار اللہ ویسٹ کوسٹ ریجن یونائیٹڈ سٹیٹ کا امریکہ کا سالانہ اجتماع بھی کل سے شروع ہو رہا ہے اور 21 نومبر تک جاری رہے گا.مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ گوئٹے مالا 20 اور 21 نومبر کو عورتوں کے حقوق پر اجتماع منعقد کر رہے ہیں.یہ ایک نیا انداز اختیار کیا ہے انہوں نے ، جو برا نہیں کہ اپنے اجتماعات کا ایک عنوان بھی رکھ لیا ہے، جو خصوصیت کے ساتھ اس موضوع پر تقریریں ہوں گی یا نیک نمونے دکھائے جائیں گے.جماعت ہائے احمد یہ ہندوستان بھی 21 نومبر کو دوسرا نیشنل یوم تبلیغ منارہی ہیں.مکرم ناظر صاحب دعوت و تبلیغ نے خصوصیت سے اس موقع پر کچھ کہنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا.چونکہ ذکر کا مضمون چل رہا ہے اس لئے ذکر کے حوالے سے جو نصیحتیں ہوں گی وہ ساری آپ سب کو جن کا میں نے نام لیا ہے اسی طرح ہیں جس طرح باقی دنیا کی جماعتوں کو ہیں.لیکن ان مواقع پر جبکہ مختلف

Page 388

375 لوگ مرد و خواتین اکٹھے ہوں گے تو خصوصیت سے ذکر سے متعلق ان کو تربیت دینا بھی آپ کا فرض ہے.یعنی ذکر کا مضمون سن کر جو طبیعتوں میں طبعی طور ایک پر شوق پیدا ہو گا.دلوں میں ہیجان پیدا ہوں گے.ان کوطریقہ سکھانا اور یہ بتانا کہ کس طرح ذکر کے مضمون کو آپ بعد میں جاری رکھیں اور آگے جا کے دوسروں کو بھی سمجھا ئیں.یہ موضوع ان اجتماعات کا خاص طور پر مقرر کر لیں.....مجلس انصاراللہ ویسٹ کوسٹ یو کے کو پیغام....مجلس انصار اللہ ویسٹ کوسٹ ریجن یو ایس اے کو خصوصیت سے یہ پیغام ہے کہ جیسا کہ آیت کریمہ میں آپ نے سن لیا ہے اَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَيِنُ الْقُلُوبُ تو خبر دار ذکر الہی سے ہی دل اطمینان پاسکتے ہیں اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے.آپ امریکہ ، ایک ایسے ملک میں کام کر رہے ہیں، یارہ رہے ہیں.جہاں اس کے بالکل برعکس ایک نعرہ ہے جو بلند کیا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تمام کوششیں اس نعرہ کو سچا ثابت کرنے کے لئے وقف ہیں کہ خبردار دنیا کی پیروی ہی میں تمہیں سکون ملے گا اور ساری طمانیتیں دنیا کمانے میں ہیں اور دنیا کی لذتیں حاصل کرنے میں ہیں.تو ان دونوں نعروں کا کتنا فرق ہے.ایک قرآن کا نعرہ ہے وہ آسمان کا نعرہ ہے اور جو امریکہ کا نعرہ ہے وہ زمین کا نعرہ ہے.لیکن یہ نعرہ ایسا ہے جس کے جھوٹ سارے ملک میں ظاہر وباہر ہیں.کوئی دل نہیں ہے جو وہاں طمانیت پاسکا ہو.دولتوں کے انبار لگے پڑے ہیں.عیش وعشرت کے سارے سامان مہیا ہیں.جتنے بھی انسان سوچ سکتا تھا یا بنا سکتا تھا.وہ امریکہ کے قدموں میں پڑے ہیں لیکن ہر دل بے قرار ہے، ہر دل بے چین ہے جتنے زیادہ ڈرگ میں چین ڈھونڈ نے والے امریکہ میں ہوں گے شاید کسی ملک میں اتنے کم ہوں.جتنے پاگل خانے ان لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو بے اطمینانی کے نتیجے میں پاگل ہوئے ہیں.یعنی ساری زندگی کی بے چینیوں نے ان کو پاگل بنا دیا ہے.جتنے پاگل خانے امریکہ میں آباد ہیں ساری دنیا میں کہیں آباد نہیں.اتنے زیادہ کہ ان پاگل خانوں میں چونکہ وہ سمانہیں سکتے ان سے زائد بچے ہوئے پاگل وہ (Old People Home) میں بھی چلے گئے، آرام گاہوں میں بھی پہنچ گئے.اور ابھی تک پاگل زیادہ ہیں اور جگہیں کم ہیں.اور نفسیات کے ماہرین نے جو تجزیہ کیا ہے وہ بتاتے ہیں کہ یہ سارے پاگل وہ ہیں جو زندگی کی بے اطمینانی سے پاگل ہوئے ہیں.جو دنیا کا سب سے زیادہ امیر ملک، جو دنیا کو امن دینے کا دعویٰ کر رہا ہے.اس کے اپنے گھر امن سے خالی پڑے ہیں.اپنے سینے اجڑے ہوئے ہیں.تو آپ ان کو بتا ئیں اور خصوصیت سے ان اقوام کو جو صدیوں سے مظلوم ہیں اور اب وہ کسی طرح طمانیت کی تلاش کر رہی ہیں.ان کو سمجھائیں کہ Infriorty Complex یعنی احساس کمتری میں کہیں طمانیت نہیں ملے گی آپ کو.انتقام میں کوئی طمانیت نہیں ہے.دنیا کی لذتوں کی

Page 389

376 پیروی میں کوئی طمانیت نہیں ہے اگر طمانیت ہے تو ذکر اللہ میں ہے.یہ مضمون جوں جوں آگے بڑھے گا اور کھلتا چلا جائے گا آپ کو نہ صرف سمجھ آئے گی بلکہ دل کی گہرائیوں تک یہ یقین اتر جائے گا کہ قرآن کا یہ دعویٰ سب دعوؤں سے سچا ہے کہ اس دنیا میں طمانیت سوائے ذکر الہی کے اور کسی طرح نصیب نہیں ہو سکتی.اجتماعات پر عورتوں کے حقوق پر بھی تقاریر ہوں مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ گوئٹے مالا نے جو عورتوں کے حقوق پر اجتماع رکھا ہے.یہ مشترکہ اجتماع ہونے کے لحاظ سے اس میں ایک خاص، ایک دلچسپی کی بات پیدا ہوگئی ہے.یعنی عورتیں ہی صرف عورتوں کے حقوق کی بات نہ کریں بلکہ مرد بھی عورتوں کے حقوق کی بات کریں.اس کا اگلا قدم پھر یہ ہونا چاہئے کہ مردوں کے حقوق پر بھی دونوں اجتماع اکٹھے ہوں یعنی صرف ایک طرف کی باتیں نہ ہوں ، دوسری طرف کی بھی باتیں ہوں.جیسا کہ میں نے پہلے کئی مرتبہ بیان کیا ہے.دنیا کی تاریخ میں وہ پہلا مرد جس نے عورتوں کے حقوق کی باتیں کی ہیں وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور وہ باتیں فرمائی جو آپ سے پہلے کبھی کسی نے نہیں فرمائیں اور نہ آئندہ زمانوں میں کبھی کوئی پیدا ہوسکتا ہے جو عورتوں کے حقوق کے متعلق ایسی پیاری تعلیم دے سکے.تعلیم تو آسمان سے اتری اللہ نے نازل فرمائی لیکن جس دل پر نازل فرمائی وہ دل پہلے ہی عورتوں کے لئے ایک حسین اسلوب رکھتا تھا.ایک حسین انداز تھا.پس حضرت خدیجہ سے جو آپ کو حسن سلوک تھا وہ تعلیم کے بعد کب ہوا ہے، وہ تو پہلے کا تھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ سے وحی کے نزول سے بہت پہلے شادی کی اور وہ سارا دور جو آپ کے حسن سلوک کا ہے اس دور میں اور تعلیم کے بعد کے دور میں کوئی فرق نہیں ہے.یہ ایک حیرت انگیز ثبوت اس بات کا ہے کہ وہ دل جس پر آسمان سے نور اُترا تھا وہ مجسم نور تھا اور کوئی ایک ذرہ بھی عورت کے حقوق کی ادائیگی میں آپ نے کمی نہیں فرمائی.ورنہ حضرت خدیجہ اس حوالے میں بعد میں بات کرتیں کہ اللہ نے یہ فرمایا اب مجھے یہ حقوق دو، وہ حقوق دو، زیادہ کرو، وہ تو ہمیشہ ممنون رہیں کہ اس سے زیادہ احسان کرنے والا خاوند دنیا میں کسی کو عطا نہیں ہوسکتا.پس وہ وجود جس نے عورتوں کے لئے نا صرف تعلیم دی بلکہ اس کا دل مجسم عورت کے حقوق کے لئے ایک تعلیم تھا.الہی تعلیم نے اس کے حسن کو اور ابھارا ہے لیکن کردار کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار عورت کے لئے پہلے بھی ویسا ہی نمونہ تھا.پس اس پہلو پر غور کرتے ہوئے مردوں کو چاہئے ، جیسا کہ خدام الاحمدیہ گوئٹے مالا کو بہت اچھا خیال آیا ہے کہ عورتوں کے حقوق کی باتیں اپنی مجالس میں کیا کریں.اپنے اجتماعات میں، اپنے جلسوں میں یہ نہ ہو کہ عورتوں کی طرف سے مطالبے ہوں کہ ہمارے حقوق غصب کئے جار ہے ہوں اور پھر آپ کو اس کے اوپر کچھ کہنا پڑے اور عورتوں کو چاہئے کہ وہ مردوں کے حقوق کی باتیں اپنی مجالس میں کیا کریں اور اپنے اجتماعات

Page 390

377 میں اور جلسوں میں عورتوں کو سکھائیں کہ انہوں نے کیا حقوق ادا کرنے ہیں اور اس طرح ایک بہترین معاشرہ پیدا ہو جائے گا.حقوق کی طلب ایک نفسیاتی رجحان پیدا کر دیتی ہے اس سے جھگڑے بھی پیدا ہوتے ہیں اس سے سرکشیاں بھی پیدا ہوتی ہیں اور اس کے نتیجے میں بعض دفعہ انسان اپنے جائز حقوق سے زیادہ مانگنے لگ جاتا ہے.تا کہ گفت وشنید میں کچھ تو ہاتھ آئے اور جھوٹ شامل ہو جاتا ہے مطالبوں میں لیکن جہاں حسن و احسان کا اظہار کرتے ہوئے ادا ئیگی کی باتیں کی جائیں.مالک خود یہ کہے کہ میں تمہیں یہ بھی دینا چاہتا ہوں، یہ بھی دینا چاہتا ہوں، یہ بھی دینا چاہتا ہوں.اس کے نتیجے میں کوئی جھوٹ شامل نہیں ہوسکتا.وہ اتنا ہی دینے کی باتیں کرے گا جتنا دل آمادہ ہے اور مد مقابل پھر یہ نہیں سمجھتا کہ میر احق کم دیا گیا ہے.وہ احسان کے نیچے دیتا ہے اور کہتا ہے کہ نہیں اتنا نہ کریں مجھے اتنا ہی کافی ہے.اور یہ روز مرہ کی زندگی میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں.وہ مالک یا کام لینے والے جو حسن ہوتے ہیں ان کے تابع جن لوگوں کو کیا گیا ہے وہ ہمیشہ کوشش کر کے ان کے حق سے زیادہ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو ان کو دیا جاتا ہے وہ سمجھتے ہیں یہ بہت زیادہ ہے یہ احسان ہے.تو یہ بہترین رشتہ جو ایک نظام میں ایسا حسن پیدا کر سکتا ہے جو دنیاوی نظام میں متصور ہی نہیں ہو سکتا، سوچا ہی نہیں جاسکتا.یہ اسلام کے اندر ممکن ہے کیونکہ اسلامی تعلیم اس کی گنجائش رکھتی ہے.عدل کے لحاظ سے بھی پوری ہے اور احسان کے لحاظ سے بھی پوری ہے اور ایتاء ذی القربی کے لحاظ سے بھی پوری اور کامل ہے.تو یہ بھی مجھے خیال آیا کہ اس حوالے سے بھی یعنی لجنہ اماء اللہ اور مجلس خدام الاحمدیہ کے مشترکہ حوالے سے آئندہ ایسے بھی مضامین زیر نظر رہنے چاہئیں.جن میں عورتیں مردوں کے حقوق کی باتیں کریں اور مرد عورتوں کے حقوق کی.ذکر الہی ، اطمینان قلب کا ذریعہ ہوتا ہے...آیات کریمہ جو میں نے تلاوت کی ہیں.وہ سورۃ الرعد سے آیت 29 اور 30 لی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَبِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللهِ " وہ لوگ جو ایمان لائے اور جن کے دل اللہ کے ذکر پر طمانیت پا گئے.یعنی تسکین مل گئی.آلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَبِنُ القُلُوبُ خبر دار سنو.اللہ ہی کے ذکر سے دل تسلی پایا کرتے ہیں.الَّذِینَ أمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلحت وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے.طوبی لھم ان کے لئے بہت ہی قابلِ رشک مقام ہے ایسا مقام جو ممتاز کر دیتا ہے ان کو دوسروں سے خوبی جن معنوں میں جس طرح بولا جاتا ہے اس سے بعض دفعہ یہ شبہ پڑتا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ خوشخبری لیکن خوشخبری کے مقام پر بولا جاتا ہے.لیکن لفظ کا مطلب خوشخبری نہیں.طاب کہتے ہیں ایک چیز نتھر کر اوپر صاف ستھری ہو جائے.تو

Page 391

378 ایسا مقام جو بالا ہو اور نظر کے نمایاں اور ممتاز ہو جائے اور قابل رشک ہو.بہت پاکیزہ ہو.اس مقام، اس مرتبے، اس شان کو طوبی کہا جاتا ہے.وَحُسْنُ مَابِ اور بہت ہی خوب صورت دکش جگہ لوٹنے کی ہے.پہلی بات ان آیات میں یہ قابل غور ہے کہ ان دونوں آیات کا تعلق کیا ہے.جہاں تَطْمَين القُلُوبُ والی بات فرمائی گئی.وہاں اس کے سوا کوئی جزا بیان نہیں ہوئی.جہاں عَمِلُوا الصّلِحُتِ کی بات ہوئی وہاں ایک جزا بیان ہوئی ہے.جو لگتا ہے کہ بہت ہی شان دار جزاء ہے تو ان دونوں کا آپس میں تعلق کیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ الَّذِینَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمُ کی جو آیت ہے.دوسری آیت اس کے بدل کی حیثیت رکھتی ہے یعنی آمَنُوا دونوں میں مشترک ہے اور ذکر اللہ اور عمل صالح یہ دوا لگ الگ چیزیں اُمَنُوا کے تعلق سے بیان ہوئیں ہیں.اس میں بہت سے مضامین بیان ہوئے ہیں.ایک آپ کی توجہ کے لئے میں خصوصیت سے یہ ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ ذکر کا ایک جھوٹا تصور جو مسلمان صوفیاء میں رواج پا گیا.اس کی یہ آیت نفی کرتی ہے.بعض صوفیاء یہ مجھتے ہیں یا سمجھتے رہے مختلف زمانوں میں کہ اللہ کے ذکر کے بعد انسان دوسرے اعمال سے بے نیاز ہوتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ بعض صوفی فرقوں میں یہ تصور بھی جگہ پا گیا کہ ذکر اللہ کرو اور نمازوں سے مستثنی ، ذکر اللہ کرو اور بنی نوع انسان کی خدمت سے مستی ، ذکر اللہ کر ومختلف گوشوں میں چلے جاؤ اور دنیا سے تعلق کاٹ لو یہی ذکر اللہ کا مفہوم ہے.قرآن کریم نے ان دو آیتوں کو اوپر نیچے رکھ کر ایک خاص ترتیب سے اس مضمون کی کلیپ نفی فرما دی.فرمایا ہم جس ذکر اللہ کی بات کر رہے ہیں کہ وہ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ عطا کرتا ہے وہی ذکر اعمالِ صالحہ میں ڈھلتا ہے اور یہ ناممکن ہے کہ ذکر سچا ہو اور اعمال صالحہ نہ رہیں یا اعمالِ صالحہ سے انسان مستغنی ہو سکے تو تکرار کے ساتھ فرمایا الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بذِكْرِ الله اور الذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ یہ عملاً ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.اور ذکر الہی سے ایک مزید بات یہ بیان فرما دی.اعمالِ صالحہ کا تو ہر جگہ ذکر ملتا ہے قرآن کریم میں، ایمان کے بعد ذکر کے بعد جب اعمال صالحہ کا ذکر ملا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ذکر اعمالِ صالحہ کو ایک نیا حسن عطا کر دیتے ہیں ذکر کے بغیر جو اعمال صالحہ ہیں ان میں وہ جان نہیں پڑتی وہ غیر معمولی حسن پیدا نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں خو بی لَهُمُ انہیں کہا جا سکے.تو یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ تم ایمان لاؤ اور اللہ کا ذکر کرو پھر تمہیں طمانیت نصیب ہوگی اور طمانیت کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر جاؤ.طمانیت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ دنیا کی جدوجہد سے آزاد ہو جاؤ گے جہاد سے مستغنی ہو جاؤ گے.اس کے با وجود تمہیں ضرور جہاد کرنا ہو گا اس کے باوجود تمہیں دنیا کے تمام مشاغل میں حصہ لینا ہو گا لیکن ہر دنیا کے تعلق میں ذکر الہی دلوں پر غالب رہے گا اور جب ذکر الہی غالب رہے گا تو تمہارے اعمالِ صالحہ کو ایک نیا حسن عطا

Page 392

379 ہو جائے گا.ایک نئی شان عطا ہو جائے گی اور اس کے نتیجے میں طوبٰی لَهُمْ ایک ایسا مرتبہ عطا ہوگا جو سب دوسرے مرتبوں سے ممتاز ہے.ایک قابلِ رشک حالت عطا ہو جائے گی.وَحُسْنُ مَابِ اور تم واپس جس ٹھکانے کی طرف لوٹو گے وہ بہت ہی حسین ٹھکانہ ہے.بہت ہی خوب صورت مقام ہے.یعنی مرنے کے بعد جس کی طرف تمہیں لوٹا یا جائے گا.ذکر اللہ کو انسانی زندگی کے تمام اعمال میں ایک غیر معمولی فوقیت حاصل ہے تو ذکر اللہ کو ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے.ذکر اللہ کو ایک انسانی زندگی میں تمام اعمالِ صالحہ میں ایک غیر معمولی فوقیت حاصل ہے اور اسی مضمون کو قرآن کریم ایک دوسرے رنگ میں بیان فرماتا ہے.عبادت کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے کہ وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ اللہ کا ذکر اَكْبَرُ ہے.حالانکہ عبادت بھی تو ذکر ہے اور یہ خیال کر لینا کہ عبادت کم تر ہے اور عبادت کے باہر ذکر زیادہ ہے.یہ اس کا مطلب درست نہیں ہے.اس کے بہت سے اور بھی معنی ممکن ہیں لیکن اس موقع پر میں یہ سمجھنا چاہتا ہوں.کہ وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَر کہہ کے یاد کرایا کہ خالی عبادت کا ظاہر کچھ حیثیت نہیں رکھتا.عبادت کرو اور ظاہری طور پر تمام ارکان ادا کرو اور عبادت کا خیال رکھو.تمام الفاظ جو پڑھے جاتے ہیں وہ پڑھے جائیں ، تمام دعائیں جو کی جاتی ہیں کی جائیں لیکن اگر ذکر اللہ اس پر غالب نہ رہا تو عبادت میں وہ شان پیدا نہ ہوگی.پس جب آپ سورۃ فاتحہ پڑھتے ہیں تو اس طرح بھی مضمون کو ادا کر سکتے ہیں.جس طرح ایک قاری کسی مضمون کو پڑھ رہا ہے اور اس کے ذہن میں وہ مطلب آ رہا ہے ساتھ ساتھ اور اس طرح بھی ادا کر سکتے ہیں کہ اس مطلب کے ساتھ ساتھ کہ دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی لہریں دوڑنے لگیں.دل ان لہروں کے نتیجہ میں یا جھومنے لگیں یا بعض دفعہ تھر تھرانے لگتے ہیں خدا کے رعب سے اور خدا کے عشق سے.تو اگر دلوں میں تموج پیدا نہیں ہوتا اور آپ نماز پڑھتے چلے جاتے ہیں.تو وہ نماز یقینا نسبتا کم درجہ کی ہے لیکن وہ نماز جس پر ذکر اللہ غالب آجائے وہی اکبر ہے وہ سب سے بڑی عبادت ہے.پس اور معنی ہیں لیکن یہ معانی لازم ہیں اس کے ساتھ اس لئے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ عبادت جو با قاعدہ کی جاتی ہے اس کو چھوڑ دو اس سے بہتر باہر کا ذکر ہے.اس عبادت کے اندر ذکر الہی نہایت ضروری اس عبادت کو زندہ کرنے کے لئے ضروری ہے.لغت میں ذکر کے معنی اب ذکر کے تعلق میں چند اور باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں پہلے تو میں ابتدائی طور پر جو مختلف

Page 393

380 اہل علم نے ذکر کے متعلق اپنے تصور پیش کئے ہیں یا صوفیاء اولیاء اللہ نے جن کو ذکر کے تجارب ہوئے انہوں نے اپنے تجربہ کی رو سے ذکر کا ایک مضمون سمجھا ہے.اہل لغت نے ذکر کے کیا معنی لئے کیا کیا معانی سمجھے یہ باتیں میں ابتداء آپ کے سامنے رکھتا ہوں.پھر انشاء اللہ تعالیٰ آیات قرآنی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے حوالے سے ذکر کے مضمون کو واضح کرتا چلا جاؤں گا.اہل لغت لکھتے ہیں ذَكَرَ الشَّيْءَ ذِكْرًا وَ ذكرًا وَ ذِكْرًا وَتَذْكَارًا ، حَفِظَهُ یعنی ذَكَرَ کا ایک مطلب ہے کسی چیز کو یاد کرنایا گھوٹہ لگا کر حفظ کرتے ہیں.اس کے لئے عرب لفظ ذكر استعمال کرتے ہیں.اس نے ایک چیز کو یاد کر لیا جس طرح قرآن کریم یاد کیا جاتا ہے جس طرح بچے کتابیں یاد کرتے ہیں.تو ذکر اللہ اس حوالے سے کیا معنی رکھے گا.اس حوالے سے ذکر اللہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اس طرح بار بار ذہن نشین کرتے چلے جاؤ کہ جہاں بھی ان سے ملتا جلتا مضمون ہو از خود وہ یاد آ جائیں.جو حافظ قرآن ہوں جن کو اچھی طرح قرآن کریم حفظ ہو جب بھی کوئی آیت سے ملتا جلتا مضمون سامنے آتا ہے اچانک وہ آیت ذہن میں ابھر آتی ہے یہ حفظ ہے تو اللہ کو حفظ کرنے کا کیا مطلب ہے.اللہ کو حفظ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات حسنہ پر ایسا غور ہو کہ موقع اور محل کے مطابق جس صفت کا کسی ایسی چیز سے تعلق ہو کہ آپ مشاہدہ کر رہے ہوں یا سن رہے ہیں یا دیکھ رہے ہیں یا محسوس کر رہے ہیں.اچانک اللہ تعالیٰ کی صفت کا وہ پہلو آپ کے سامنے ابھر آئے.ان معنوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے اللہ کا ذکر کیا ہے.پھر ذکر کا مطلب ہے جَرَى الشَّى عَلى لِسَانِكَ یعنی ذکر اس بات کو کہتے ہیں جو زبان پر جاری ہو.ذکر اللہ کا مطلب یہ ہے کہ صرف یاد آ جانا کافی نہیں بلکہ اس یاد کو بیان کرنا ضروری ہے اور جگہ جگہ آپ کی مجالس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر چلنا چاہئے تبھی وہ ذکر بنے گا.یعنی خاموش ذکر بھی ذکر ہی ہے لیکن زبان سے جاری ہونا بھی ذکر کے مضمون میں داخل ہے.پس اللہ اگر ذہن میں ہے اللہ اگر دل میں ہے تو اس کا زبان پر جاری ہونا ایک طبعی اور ضروری امر ہے.پس اپنی مجالس میں اپنی روز مرہ کی گفتگو میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ضرور کیا کریں اور یہ وہ ذکر ہے جو نماز کے باہر کا ذکر ہے.کیونکہ نماز میں تو آپ جاتے ہی خدا تعالیٰ سے باتیں کرنے کے لئے ہیں.اپنے گھروں میں ہر وقت مختلف مواقع پر، سیر و تفریح میں یا گھر میں بیٹھے ہوئے یا دفتر یا دنیا کے کاموں میں یا تجارتی گفتگو میں یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اگر اللہ آپ کو یاد ہو تو زندگی کے کسی موقعے میں ایسا اتفاق ہو کہ خدا سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو یعنی اس موقع پر خدا کی کوئی خاص صفت یاد نہ آسکے، ہو ہی نہیں سکتا اس لئے ساری زندگی ذکر سے بھری ہوئی ہے.اگر آپ محسوس کریں اور اس حوالے سے تلاش کیا کریں اور تلاش تبھی آپ کر سکیں گے اگر ذہن میں موجود ہے.

Page 394

381 ذکر کے معنی صفات باری تعالیٰ کو یاد کرنا ہے پس صفات باری تعالیٰ پر غور کرنا اور اسے یاد کرنا اور قرآن اور حدیث کے حوالے سے اس مفہوم کو سمجھنا یہ ذکر کے پہلے معنی ہوں گے یعنی حفظ کرنا اللہ کو اور اس کے طبعی نتیجے کے طور پر پھر خدا تعالیٰ زبانوں پر جاری ہونا شروع ہو جائے گا اور ایسے لوگ جن کو خدا حفظ ہو جائے.وہ لازما اس کا ذکر کرتے ہی رہتے ہیں.حافظ قرآن دیکھ لیں جہاں اچھے حافظ قرآن ہوتے ہیں.بات بات پر ان کو آیتیں یاد آتی ہیں.بات بات پر وہ بیان کرتے ہیں دیکھو فلاں آیت میں یہ لکھا ہوا ہے.پس اس پہلو سے خدا کو حفظ کریں اور خدا کا ذکر کیا کریں.پھر ذَكَرَ الشَّيْءَ اسْتَحْضَرَهُ یعنی کوشش کر کے ذہن میں کسی چیز کولانا یہ بھی ذکر کہلاتا ہے.کوئی چیز آپ کو یاد آ رہی ہوتی ہے جیسے کوئی چیز آپ کے ذہن میں تھی اس وقت اچانک سامنے نہیں آتی.تو آپ سوچتے ہیں بعض دفعہ آپ ما تھا بجاتے ہیں.ٹھہر ٹھہر وایک بات مجھے یاد آ رہی ہے.کوشش کر کے اس کو کھینچ کر لے آتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق کہ اگر خود بخود بھی وہ ذہن میں نہ ابھرے تو چونکہ دل اٹکا ہوا ہو اس لئے دل چاہے کہ وہ بات آپ کو یاد آئے جو اللہ سے اس تعلق کو جوڑ دے اور کوشش کر کے خدا کے ذکر میں ان باتوں کو تلاش کرنا جو موقع اور محل کے مطابق ہوں یہ بھی ذکر الہی ہے اور اس میں محنت کرنی پڑتی ہے.بعض لوگ بھول جاتے ہیں وہ بعض دفعہ علامتیں بنا لیا کرتے ہیں یادر کھنے کے لئے اور اس لئے ذکر کے معنوں میں وہ گانٹھ بھی آتی ہے جو لوگ رو مال میں دے لیتے ہیں یا کپڑے میں دے لیتے ہیں تا کہ اس گانٹھ سے وہ بات یاد آ جائے جس کی خاطر وہ گانٹھ دی گئی تھی.لیکن وہ بات بھی ان کو یاد آتی ہے جن کے ذہن میں گانٹھ کے ساتھ اس کا تعلق قائم رہتا ہے اور نہ بعض لوگ تو گانٹھوں پر گانٹھیں دیتے جاتے ہیں.ایک شخص تھا اس کو کسی نے دیکھا اس کا رومال سارا گانٹھوں سے بھرا پڑا تھا.ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک گانٹھیں ہی گانٹھیں چل رہی تھیں.اس نے کہا تمہیں کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا یہ جو گانٹھ میں نے جو دی ہے ناں پہلی اس لئے دی تھی کہ ایک میں بات بھول جاتا ہوں میری بیوی نے مجھے کچھ کہا تھا تو میں نے گانٹھ دے دی کہ مجھے یاد آ جائے تو اس نے کہا پھر وہ دوسری گانٹھ اس نے کہا مجھے گانٹھ کا یاد نہیں رہتا کہ کیوں دی تھی.تو وہ دوسری گانٹھ میں نے اس لئے دی تھی کہ پہلی گانٹھ یاد آ جائے.اور اسی طرح تیسری اور چوتھی اور پانچویں.تو اگر اللہ سے تعلق نہ ہو اور خدا سے اتنی واقفیت نہ ہو کہ فورابات یاد آ جائے تو آپ جتنی مرضی گانٹھیں دے لیں تو وہ گانٹھیں ہی رہ جائیں گی.مگر یہ ذکر کا آخری مقام ہے.اگر اور کچھ نہیں تو کچھ گانٹھیں ہی دے لیا کریں یا درکھنے کے لئے.کچھ فیصلے کر لئے کریں کہ فلاں بات جب ہوگی تو میں اللہ کو یاد کروں گا.مثلاً کھانا کھانا ہے، پانی پینا ہے، اچھی مزے کی چیز حاصل کرنا ہے.آرام کے وقت اور کوئی نعمت کا

Page 395

382 میسر آ جانا ، تجارت میں کامیابی وغیرہ وغیرہ.یہ گانٹھیں ہیں.ان لوگوں کے لئے گانٹھیں ہیں جو عام طور پر ان چیزوں سے گزرتے ہیں اور خدا کو یاد نہیں کرتے کچھ تو ہیں جن کو یاد آتا ہی چلا جاتا ہے.تو آغاز اس سے کریں کہ ان چیزوں کو گانٹھیں بنائیں اور خدا کے ذکر کے لئے بہانے بنالیں اور پھر روزانہ دیکھا کریں کہ گانٹھ کر وہ بات یاد آئی بھی تھی کہ نہیں اس طرح کوشش کر کے آپ دوسرے حصے میں داخل ہو جائیں گے جس کا میں نے ذکر کیا ہے کہ کوشش کر کے بات یاد کرنا اور یہ اہلیت رکھنا کہ یاد آ جائے.اس سے پھر اللہ تعالی نسبتا زیادہ یاد آنا شروع ہوگا اور پھر اس مقام میں داخل ہو جائیں گے کہ جہاں خدا حفظ ہونا شروع ہو جائے گا یعنی از بر ہو جائے گا.خود بخود بغیر کوشش کے اور جب اس مقام پر پہنچتے ہیں تو پھر آپ کثرت سے اللہ کا زبان سے بھی ذکر کرنے لگتے ہیں اور دل سے یہ پھوٹتا ہے اور خود بخود ظاہر ہوتا ہے اور تمام ماحول اس ذکر سے لذت یاب ہوتا ہے.کیونکہ آپ کو جو دل کی کیفیات ہیں وہ بیان کرنے کے لئے دل ہی سے طاقت ملتی ہے.ایک جذبہ پیدا ہوتا ہے اور وہ ذکر جو ہے وہ لوگوں کے لئے پسندیدہ ہوتا ہے.اس کے بغیر جوذ کر الہی ہے.وہ کسی پر اثر نہیں کرسکتا.چنانچہ آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں اگر ان تجارب سے آپ نہ گزرے ہوں اور آپ کسی دہریہ کو کہیں کہ خدا ہے تو آپ کی آواز میں بھی جان ہی نہیں ہوگی.اس بے چارے نے کہاں سے قبول کرنا ہے.کہتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ اگر دلیل مانگی تو کیا دوں گا از خود فطری جوش سے بات نہیں نکلتی اور چونکہ خدا حفظ نہیں ہوتا اس لئے اس کی تائید میں کوئی دلیل بھی یاد نہیں رہتی.جن تجارب کا میں نے ذکر کیا ہے اس میں سے آپ گزریں تو ہر تجربہ جس میں خدا تعالیٰ کی کوئی صفت آپ نے سوچی آپ کے حالات پر صادق آئی آپ نے اس سے لطف اٹھایا.خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت بن جاتی ہے.آپ کی زندگی کا ہر واقعہ جس نے خدا یاد دلایا وہ اللہ کے حق میں ایک دلیل ہے.اور آپ کو اس معاملے میں پھر دنیا میں کوئی شکست نہیں دے سکتا تو ذکر کوزبان سے جاری کرنے سے پہلے جو تمام مرحلے ہیں.ان کی طرف آپ کو متوجہ رہنا چاہئے.ذکر کے تعلق میں بزرگوں کے اقوال اب میں بعض ذکر کے تعلق میں بعض دوسرے بزرگوں کے اقوال پیش کرتا ہوں.کچھ نئے پہلو اس سے آپ کے ذہن میں آجائیں گے.علامہ قشیری نے ذکر کے متعلق اپنی ایک کتاب میں مختلف بزرگوں کے، صوفیاء کے حوالے اکٹھے کئے ہیں.اور وہ مختلف بزرگوں کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں اور اپنے تجربوں کے لحاظ سے بھی ذکر کے مختلف پہلو بیان کرتے ہیں."سئل الواسطي عن ذكر فقال الخروج من ميدان الغفلة الى فضاء المشاهدة على غلبة الخوف و شدة الحب" یہاں لفظ میں نے فَضَاءُ پڑھا ہے فضاء بھی پڑھا جاسکتا ہے.فضاء کا مطلب ہے کھلی ہوا اور

Page 396

383 فضاء کا مطلب ہے وہ کھلی جگہ جو جنگلوں اور جھاڑیوں کے درمیان اچانک ایک کھلے سے میدان کے طور پر ابھرتی ہے تو چونکہ اس پر کوئی اعراب نہیں ہیں اس لئے دونوں طرح مضمون بہر حال ٹھیک سمجھ آ جاسکتا ہے.واسطی سے جب پوچھا گیا کہ ذکر کیا ہے تو کہتے ہیں انہوں نے جواب دیا الخروج من میدان الغفلة.انسان غفلت کے میدان میں پڑا رہتا ہے.وہاں سے نکل کر اگر وہ مشاہدہ کے میدان میں آ جائے یا مشاہدہ کی فضا میں داخل ہو جائے.تو اس کے نتیجے میں، مگر اس کے ساتھ شرطیں ہیں کچھ عـــلـــى غلبة الخوف و شدة الحب.یہ واقعہ اس طرح ہو کہ دل پر اللہ کا خوف غالب ہو اور دل پر اللہ کی محبت بھی غالب ہو.بیک وقت خوف اور محبت دل پر غلبہ کر جائیں اس حالت میں جب وہ غفلت کے میدان سے نکل کر مشاہدہ کے میدان میں یا مشاہدہ کی فضا میں داخل ہوتا ہے اس کا نام ذکر ہے.تو یہ زبان آپ سمجھے کہ نہیں کیا کہنا چاہتے ہیں.اس پر غور کریں اور سمجھیں کہ یہ بزرگ صوفی کہ جنہوں نے زندگیاں گزاری ہیں.ذکر الہی کو سمجھنے میں ، اس پر غور کرنے میں، اس میں مصروف رہ کر.انہوں نے اپنی زندگیوں کے خلاصے کچھ نہ کچھ بیان کئے ہیں.اور یہ باتیں قابل غور ہیں.غفلت کے میدان سے مراد یہ ہے کہ میدان تو دونوں زندگی کے میدان ہی دراصل ہیں.دوالگ الگ میدان نہیں ہیں.زندگی کے میدان میں آپ غفلت کی حالت میں بھی آپ وقت گزار سکتے ہیں.آپ کو کچھ پتہ نہیں کہ گردو پیش میں کیا ہورہا ہے کیوں ہورہا ہے آپ تنہا ہیں اس میدان میں کہ اچانک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو شعور عطا ہوتا ہے.اور آپ مشاہدہ کے میدان میں داخل ہوتے ہیں.جو باتیں ابھی میں نے پہلے آپ سے کیں تھیں وہ دراصل مشاہدہ کے میدان کی باتیں تھیں.کھانا تو آپ روز کھاتے ہیں.ذکر کے بعد بھی کھائیں گے تو میدان تو وہی رہا مگر ایک غفلت کی حالت میں کھانا تھا اور ایک شعور کی حالت میں.جب شعور کی حالت میں کھاتے ہیں تو کھانے کے ساتھ ایک اور تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور وہاں اللہ تعالیٰ یاد بھی آتا ہے اللہ تعالیٰ کا خوف بھی دل میں بڑھتا ہے اور اس کے نتیجے میں کئی قسم کے آپ انسانیت کے راز سیکھ لیتے ہیں.ایک بزرگ کے متعلق آتا ہے.کہ ان کے پاس کچھ مرید بیٹھے ہوئے تھے.اتنے میں ایک لڈوؤں کا ٹوکرا آیا تو ٹوکرا ان کو پیش کیا گیا تو انہوں نے سب میں وہ لڈو بانٹے اور ایک لڈو خود بھی اٹھالیا.مریدوں نے مزے سے جلدی جلدی سے وہ لڈو کھا لئے.ختم ہو گئے سارے، ٹوکرا ہی ختم ہو گیا اور ان کے ہاتھ میں وہ لڈو اسی طرح پکڑا ہوا تھا اور وہ ایک ایک دانہ کھا رہے تھے اور کھاتے تھے اور پھر غور میں مبتلا ہو جاتے تھے.یہ مراد نہیں ہے کہ ہر کھانے والا اسی طرح کھائے مگر بعض دفعہ بعض خاص کیفیتیں تعلق باللہ کی انسان پر اس طرح غالب آ جاتی ہیں کہ اس طرح کھانے میں بھی مزہ آتا ہے.اور ایک خاص مزہ آتا ہے.تو ایک شاگرد نے عرض کیا ہم تو لڈو کھا گئے ، مزے کئے ، آپ ایک ہی کو پکڑ کے بیٹھے ہوئے ہیں.دانہ دانہ کھا رہے ہیں یہ کیا ہو

Page 397

384 رہا ہے.تو انہوں نے کہا کہ میں سوچ رہا ہوں ساتھ ساتھ کہ یہ جو لڈو ہے اس میں جو میدا استعمال ہوا تھا.وہ کیسے بنا تھا؟ مجھے خیال آتا ہے کہ او ہوا ایک کوئی زمیندار کسی جگہ علی السویرے اٹھ کے جبکہ ابھی دنیا آرام کر رہی تھی.موسم سردی کا تھا یا گرمی کا نکلا.اور اس نے ایک بل اٹھایا ساتھ اپنے بیلوں کو جوتا اور دیگر آلات لے کر وہ کھیتوں کی طرف روانہ ہوا.اس نے وہاں محنت کی گندی جڑی بوٹیوں کو اکھاڑ کر باہر پھینکا اور اس محنت کے وقت اس کو کیا پتا تھا کہ خدا تعالیٰ اس سے یہ کام کیوں لے رہا ہے اس کو کیا پتہ تھا کہ اس محنت کے پھل کا ایک دانہ میرے منہ میں بھی آئے گا لیکن وہ ایک غفلت کی حالت میں کام کر رہا تھا.لیکن میں نے سوچا کہ او ہو یہ تو خدا تعالیٰ نے جو تسخیر کائنات کی ہے وہ اس طرح کی ہوئی ہے کہ بے تعلق دور دراز کے لوگ کچھ کام کر رہے ہیں اور انسان کو پتا ہی نہیں کہ دراصل وہ اس کی خدمت کر رہے ہیں.چنانچہ اس نے محنت کی اور پھر میں نے سوچا کہ او ہو یہ ہل تو لکڑی سے بنا ہو گا اور ساتھ اس کے لوہے کا پھل بھی ہوگا اور بیل بھی آخر کہیں سے آئے ہیں.ان پر بھی محنتیں ہوئی ہیں.تو اس سے پہلے ایک ترکھان تھا جو محنت کر رہا تھا.اس نے لکڑی کو خاص طور سے کاٹا اور پھر مجھے خیال آیا کہ او ہو اس لکڑی سے پہلے ایک لکڑ ہارا بھی تو ہوگا.اس نے جا کے جنگل سے وہ لکڑی کائی ہوگی اور وہ پھر جنگل کیسے ہوگا.کہتے ہیں ایک دانہ تو ختم ہو گیا لیکن یہ مضمون تو جاری تھا پھر ایک اور دانہ پھر اور دانہ اور اس طرح مضمون سے مضمون نکلتا چلا گیا اور پھر میٹھا بھی بنا ہے اس کے بعد، پھر گھی بھی آیا ہے کہیں سے، پھر وہ کڑاہ ، جس میں حلوائی نے وہ لڈو بنائے اور پھر وہ نظام تجارت جس کے ذریعے چیزیں بکیں اور دوکان دار تک پہنچی اور پھر آگے آئیں اور پھر وہ کاغذ جن میں لیٹے گئے یا ٹوکرے جنہوں نے بنائے.تو کہتے ہیں یہ مضمون تو ایک لا متناہی مضمون تھا.اور اس مضمون کا جو مجھے مزہ آ رہا تھا وہ اس لڈو میں کہاں ہے.تو لڈو کا مزہ تو جب اللہ کی یاد میں تبدیل ہوا ہے تو ایک حیرت انگیز لطف اس میں پیدا ہو گیا تو یہ ہے مشاہدے کی فضا یعنی جب صوفیاء بات کرتے ہیں کہ غفلت کی فضاء سے ، میدان سے نکلو اور مشاہدے کے میدان میں داخل ہو تو مراد یہ ہے کہ میدان تو وہی ہے یہ دو میدان نہیں ہیں.اسی میدان میں ہوش آ جاتی ہے اور ہوش آتے آتے انسان وہ چیزیں دیکھنے لگتا ہے جو پہلے ہی موجود تھیں اس کو نظر نہیں آرہیں تھیں.اور پھر غلبہ خوف اور شدت حب اس کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.بظاہر یہ لگتا ہے کہ عبارت کا مطلب ہے کہ اس کے ساتھ دوسرے میدان میں داخل ہو حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ہوش آنے کا نتیجہ ہی خوف ہے.جس چیز کو خطروں سے آگا ہی نہ ہو.وہ بے خوف ہوتا ہے.اس کو کیا پتا کہ آگے میرے لئے کیا پڑا ہوا ہے.جب اس کو بتایا جائے کہ کیا ہے اور کیا کیا ہلاکتوں کے سامان اس کا انتظار کر رہے ہیں تو ہوش اڑ جاتے ہیں.تو لاعلمی بھی ایک قسم کی بہادری پیدا کرتی ہے جو جہالت کی بہادری ہے وہ بچی بہادری نہیں ہے.تبھی بعض تو میں شراب پی

Page 398

385 کر لڑا کرتی ہیں اور ویسا نہیں لڑا جاتا.ہمارے ہندوستان میں بعض غیر مسلم قو میں لڑائی سے پہلے ضرور شراب پیا کرتی تھیں.کیونکہ شراب کے نشے میں آکر ان کو اپنے خطروں کا پتہ نہیں لگتا تھا کہ خطرے کیا کیا ہیں اور وہ بس ایک دھکے کے ساتھ زور سے داخل ہو جاتے تھے میدانِ جنگ میں جتنے مارے گئے مارے گئے.بعد میں ہوش آتی تھی کہ کیا واقعہ ہو گیا ہے.تو اس لئے علم کے نتیجے میں خوف پیدا ہوتا ہے تو جب آپ ذکر کریں گے تو پھر پتا لگے تو کہ او ہو ان باتوں سے میں تو غافل رہا ہوں.ان میں مجھ سے کوتاہیاں ہوئی ہیں اور ان معاملوں میں میں مجرم بن رہا ہوں اور دوسری طرف علم محبت پیدا کرتا ہے.جب اللہ کے حوالے سے آپ زندگی گزارتے ہیں.تو آپ کے دل میں بے پناہ محبت اس وجود کی پیدا ہوتی ہے جس نے آپ کی خاطر یہ سب کچھ کیا ہے.تو جب واسطی نے یہ کہا کہ غفلت کے میدان سے مشاہدے کے میدان میں نکلو تو بالکل درست کہا ہے.اور یہ ایک محض سہانا ایسا کلام نہیں جس طرح صوفی اپنے دکھاوے کے لئے بنالیتے ہیں گھڑ لیتے ہیں ایک صاحب تجر بہ صاحب مشاہدہ کا کلام ہے.ذوالنون مصری کہتے ہیں:.مَنْ ذَكَرَ اللهَ تَعَالَى ذِكْرًا عَلَى الْحَقِيقَةِ نَسِيَ فِي جَنْبِ ذِكْرِهِ كُلَّ شَيْءٍ وَ حَفِظَ اللَّهِ تَعَالَى عَلَيْهِ كُلَّ شَيْءٍ وَ كَانَ لَهُ حِفْظًا عَنْ كُلَّ شَيْءٍ اس کا ترجمہ اب میں پڑھ دیتا ہوں لیکن اس مضمون کو انشاء اللہ آئندہ خطبے میں بیان کروں گا.وقت نہیں رہا.ذوالنون مصری کہتے ہیں کہ جس نے اللہ تعالیٰ کو یا دکیا فی الحقیقت ذکر کیا.وہ ذکر ہر دوسری یا د کو مٹادیتا، یعنی لا الہ کا مضمون اس کو تب سمجھ آتا ہے جب الا اللہ کی حقیقت پر غور کرے اور جب اللہ کی حقیقت پر فی الواقعہ غور کرتا ہے تو تب وہ محسوس کرتا ہے کہ ارد گرد کوئی بھی باقی نہیں رہا.سب مٹ گئے وہ اکیلا وہی اور خدا رہ گیا ہے اور اللہ اس کے لئے ہر چیز پر اس کا محافظ بن جاتا ہے.جب غیر اللہ کے سہارے ٹوٹ گئے ، کوئی رہا ہی نہیں میدان میں جس کو پکارے جس کو آواز دے تو پھر اس کی حفاظت کا سارا ذمہ خدا تعالیٰ کے اوپر ہو جاتا ہے." خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 883-901)

Page 399

386 دنیا بھر کے جماعتی و ذیلی تنظیموں کے اجتماعات کی مناسبت سے احباب جماعت کو نصائح خطبہ جمعہ 26 نومبر 1993ء) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں :."ذکر کے مضمون میں جہاں میں نے گزشتہ خطبہ کو ختم کیا تھا اس سے آگے آج انشاء اللہ مضمون کو چلاؤں گا لیکن اب جیسا کہ روز مرہ کا ایک رواج بن چکا ہے اور ایک مجبوری بھی ہے کیونکہ دنیا میں جو مختلف اجتماعات ہو رہے ہوتے ہیں ان کی طرف سے ایسی خواہش کے اظہار ملتے ہیں کہ ہمارا ذکر خیر بھی اس مجلس میں چلے تا کہ سب دنیا سے ہمیں دعائیں ملیں.پس اس پہلو سے اگر تھوڑا سا وقت ہر جمعے پر ان کے ذکر میں خرچ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں.اللہ تعالیٰ ان سب اجتماعات کو جن کی میں آگے فہرست پڑھتا ہوں اور ان کی تفصیل بیان کروں گا اپنے فضل کے ساتھ اپنے ذکر کی آماجگاہ بنادے.آج خصوصیت سے ان اجتماعات کے لئے یہ دعا کرنی چاہئے کہ یہ ساری مجلسیں اللہ کے ذکر کی مجلسیں بن جائیں اور آئندہ بھی ہمارے اجتماعات ہمیشہ ذکر کے لئے خالص ہو جایا کریں.ذکر کے سلسلہ میں میں خصوصیت سے یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں اور یہی مضمون میرے خطبے کا ہو گا کہ سب سے اہم ذکر عبادت کا قیام ہے یعنی اس نماز کا قیام ہے جس کو قرآن کریم نے بیان فرمایا اور جس کو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پاک سیرت میں جاری کر کے دکھایا ہے.سب سے اعلیٰ ، سب سے افضل ، سب سے بہتر ذکر وہی ہے اور اگر یہ نہ ہو تو باقی ذکر کی پھر کوئی قیمت نہیں رہتی، کوئی اہمیت نہیں رہتی پس نمازوں پر بہت زور دیں.اجتماعات کے لئے دعا وہ اجتماعات جو آج ہونے ہیں یا کل شروع ہوں گے.ان سے پہلے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے ایک یادداشت دی ہے کہ گزشتہ خطبے پر تین اجتماعات کا ذکر نہیں ہو سکا تھا چونکہ ان کی طرف سے شکوہ آتا ہے اس لئے بہتر ہے کہ ان کا نام آج لے دیا جائے خواہ اجتماعات پہلے ہو چکے ہوں.پس مجالس انصاراللہ ضلع سکھر ، قصور اور ساہیوال کے یہ تین سالانہ اجتماعات تھے جن کا ذکر رہ گیا تھا.مجلس انصار اللہ ضلع مظفر گڑھ کا ایک روزہ سالانہ اجتماع آج 26 نومبر کو منعقد ہورہا ہے.مجلس انصار اللہ ہیمبرگ کار یجنل سالانہ اجتماع کل منعقد ہوگا.مجلس خدام الاحمدیہ سری لنکا کا سالانہ اجتماع پرسوں 28 نومبر کو منعقد ہو گا.اس کے علاوہ آج مانچسٹر میں لجنہ اماءاللہ کی بھی کوئی میٹنگ ہے یا اجتماع ہے انہوں نے بھی

Page 400

387 اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ان کو بھی دعا میں یا درکھیں.نماز کے فوائد جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبے میں بیان کیا تھا کہ جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” وَلَذِكْرُ : اللهِ اَكْبَرُ (ط : 46) کہ اللہ کا ذکر اکبر ہے.اس سے بعض صوفیاء نے اور بعض مفسرین نے یہ مطلب بھی نکالا ہے کہ نماز کے مقابل پر اللہ کا ذکر جو ساری زندگی پر پھیلا پڑا ہو وہ اکبر ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے.یہ آیت میں آپ کے سامنے دوبارہ پڑھ کر سناتا ہوں اور اس کی ترتیب سے آپ خود ہی سمجھ جائیں یا سمجھ جانا چاہئے کہ یہاں نماز کے ذکر کا تذکرہ چل رہا ہے نماز سے باہر کا نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتُبِ وَاَقِمِ الصَّلوةَ ( : 46) اس میں سے پڑھ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ جو تجھ پر وحی کی جا رہی ہے مِنَ الْكِتُبِ وَاَقِمِ الصَّلوةَ اور سب سے اہم مضمون کتاب میں نماز کے قیام کا مضمون ہے.اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ.نماز کے فوائد میں سے یہ دو فوائد ہیں کہ نماز فحشاء سے روکتی ہے اور منکر سے روکتی ہے.اب یہ دو منفی صفات ہیں جن کا ذکر ہے اگر یہیں بات ختم سمجھی جائے اور نماز کے علاوہ کسی اور بات کا ذکر شروع ہو جائے تو گویا نماز کا مقصد صرف بعض چیزوں سے روکنا ہے بعض فوائد عطا کرنا نہیں ہے.نماز تمہیں ذکر عطاء کرتی ہے یہ غلط نہی پیدا ہونی ہی نہیں چاہئے کیونکہ قرآن کے بیان کا انداز یہ ہے کہ نماز فحشاء سے روکتی ہمنکر سے روکتی ہے.وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ لیکن سب سے بڑا فائدہ نماز کا یہ ہے کہ تمہیں ذکر عطا کرتی ہے اور ذکر ان سب چیزوں سے بڑا ہے.اس میں ایسی ترتیب ہے جس کا تعلق اسی مضمون سے ہے جو میں پہلے بیان کرتا آیا ہوں یعنی پہلے تبتل الی اللہ ہوتا ہے پھر ذکر چلتا ہے.فحشاء کے ساتھ اگر تعلق جڑا رہے اور ناپسندیدہ باتیں دل میں جمی رہیں تو پھر ذکر اللہ کا کیا سوال پیدا ہو گا ؟ پس فرمایا کہ نماز پہلے تمہیں پاک صاف کرتی ہے تمہارے زنگ دھوتی ہے جس طرح قلعی گر کو برتن دیئے جاتے ہیں تو پہلے وہ تیزاب سے اس کے گند اُتارتا ہے اور جب وہ اس قابل ہو جائیں کہ قلعی کو قبول کریں تو پھر قلعی کا رنگ جمایا جاتا ہے.پس یہ قرآن کریم کا طر ز بیان ہے اس سے یہ معنی نکالنا کہ گویا نماز کے ذکر کو چھوڑ کر نماز سے باہر کے ذکر کی بات شروع ہو گئی ہے اور وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَر کہہ کر بیان فرمایا کہ نماز تو بری باتوں سے روکے گی لیکن جب نماز

Page 401

388 سے فارغ ہو جاؤ گے اور پھر ذکر کرو گے تو وہ بہت بڑی بات ہے.قرآن کریم کی جو آیات میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی ہیں ان میں بھی یہی مضمون ہے کہ ذکر کا تعلق نماز سے ہے.حضرت موسیٰ علیہ الصلواۃ والسلام کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى ) تجھے میں نے چن لیا ہے.پس غور سے اس بات کو سن جو تجھ پر وحی کی جارہی ہے.لا إِنَّنِي أَنَا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى یقیناً میں ہی وہ خدا ہوں جو ایک ہی ہے لَا إِلَهَ إِلَّا آنا میرے سوا اور کوئی خدا نہیں کوئی معبود نہیں ” فَاعْبُدُني “ پس میری عبادت کر.وَاَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِی اور نماز کو قائم کر.میری عبادت کر اور نماز کو میرے ذکر کے لئے قائم کر.پس عبادت کا تو مقصد ہی ذکر کا قیام ہے اور اگر ذکر نہ ہو تو عبادت ایک خالی کھوکھلا برتن رہ جاتا ہے.پس وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ کا تعلق قیام صلوۃ سے ہے اور جملہ عبادات سے ہے لیکن ذکر الہی نماز میں تب نصیب ہو گا اگر پہلے اپنے دل کو فحشاء اور منکر سے پاک کر لیں.یہ وہ مضمون ہے جس کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اسے خوب غور سے سمجھ کر پھر نماز کو قائم کرنا چاہئے.ذکر الہی کیسے قائم ہوتا ہے اب آپ دیکھیں کہ اگر نماز پڑھتے وقت ایک انسان کا قلبی تعلق بے ہودہ باتوں سے جڑا رہا ہو.وہ کہیں سے دامن چھڑا کر آیا ہے لیکن دل وہیں انکا ہوا ہے تو عبادت میں ذکر الہی کیسے قائم ہوسکتا ہے.چند فقرے منہ سے وہ نکالے گا تو پھر ذہن ان چیزوں کی طرف لوٹ جائے گا جہاں دل اٹکا پڑا ہے.کہیں پیاروں کی یاد آئے گی، کہیں تجارت کے مسائل اس کے ذہن کو اپنی طرف کھینچ لیں گے، کہیں کوئی ٹیلی ویژن کے پروگرام اس کو اپنی طرف مائل کر لیں گے، کہیں کوئی کھیلیں یا اور دلچسپیوں کے مشاغل، سیر و تفریح کی باتیں اسے اپنی طرف مائل کر لیں گی اور کھینچ لیں گی.تو ذکر الہی کا بیچارے کو کہاں سے موقع ملے گا.ذکر الہی کا مضمون تو یہ ہے کہ ہر حالت میں انسان کا دماغ اس حالت سے چھلانگ لگا کر اللہ کے ذکر کی طرف مائل ہو جائے اور قرآن کریم نے ذکر کا مضمون اسی طرح بیان فرمایا ہے.الَّذِيْنَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيْمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ (ال عمران : 192) وہ زمین و آسمان کو دیکھتے ہیں اس کی سیر کرتے ہیں اس کے حسن سے لذت یاب ہوتے ہیں لیکن

Page 402

389 اس طرح کہ ذہن ان چیزوں کو دیکھ کر خدا کی طرف دوڑتا ہے اور دل اللہ کی طرف اچھلتا ہے اور ہر بات سے ان کو اللہ یاد آنے لگ جاتا ہے.پھر راتوں کو سوتے ہوؤں کا نقشہ یہ کھینچا.تَتَجَافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا (السجدہ : 17 ) کہ ان کے پہلو نیند کی لذتوں کے باوجود بستروں سے الگ ہو جاتے ہیں.کس حالت میں الگ ہوتے ہیں يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا اپنے رب کو وہ پکار رہے ہوتے ہیں ، خوف کے ساتھ بھی اور طمع کے ساتھ بھی.تو ذکر الہی ساری زندگی پر حاوی ضرور ہے لیکن مراد یہ ہے کہ زندگی کا ہر شغل، زندگی کا ہر مشغلہ، زندگی کی ہر دلچسپی اللہ کی طرف ذہن کو مائل کر دے اور دل اس طرح اس طرف اچھلے جس طرح بچہ ماں کی چھاتیوں کی طرف دودھ کے لئے اچھلتا ہے لیکن یہ مراد نہیں ہے کہ یہاں ذکر ختم ہو جائے گا اور یہی ذکر کافی ہے.یہ ساری چیزیں نماز کی تیاری کے لئے ہیں اگر یہ ماحول قائم ہوگا تو پھر نماز میں ذکر ہو سکے گا ورنہ نہیں ہوگا اور نماز میں یوں لگے گا کہ عارضی طور پر ہم ان دنیا کی لذتوں سے چھٹی لے کر آئے ہیں اور یہاں سلام پھیرا وہاں اللہ میاں کو سلام اور واپس دنیا میں مائل.لیکن خدا نے جس دنیا کا نقشہ کھینچا ہے وہاں دنیا کا ہر مشغلہ خدا کی طرف پھینک رہا ہے، انسان کو اس کی طرف کھینچ رہا ہے، اس کی طرف منتقل کر رہا ہے.ذکر الہی کے معنی ذکر الہی سے متعلق جو مختلف صوفیا نے سمجھا، یا کہا، یا اس کے مطابق تعلیم دی اس کا مختصر ذکر کرنے کے بعد پھر میں حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے قرآن میں بیان فرمودہ ذکر کی تعریف کروں گا اور آپ کو سمجھاؤں گا کہ حقیقی ذکر کیا ہے؟ لیکن اس سے پہلے اہل لغت نے جو قرآن کی مختلف آیات کو دیکھ کر ذکر کے معانی بیان کئے ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ذکر کے معنی ہیں شہرت ، نماز، دعا، قرآن کی تلاوت ، تسبیح، شکر ، اطاعت، اللہ کی حمد و ثنا ، شرف اور عزت.جیسا کہ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ اِنَّهُ لَذِكْرُ نَكَ وَلِقَوْمِكَ (الزخرف: 45) دیکھ یہ باتیں تیری قوم کی عزت و شرف کے لئے ہیں وغیرہ وغیرہ.یہ تو ہیں مختلف تراجم جو ذ کر کے مختلف محل اور موقع کے مطابق کئے گئے ہیں لیکن اس سے بات پوری طرح سمجھ نہیں آسکتی.صرف ترجمے سننے سے تو آپ کو کچھ مضمون سمجھ نہیں آئے گا.اب میں آپ کے سامنے پہلے صوفیاء اور دیگر بزرگان امت کے حوالے سے ذکر کے اس مضمون کو پیش کرتا ہوں جو انہوں نے سمجھا اور اس پر عمل کیا اور اس پر لوگوں کو عمل کی طرف بلایا لیکن اس سے پہلے میں آپ کو بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ بہت سے ایسے ذکر کرنے والے فرقے پیدا ہوئے جو ذ کر کے مفہوم کو پوری

Page 403

390 طرح سمجھ نہ سکے یا آغاز میں خالصہ اللہ کے ذکر کا ایک سلسلہ جاری کیا گیا لیکن بعد میں آنے والے اس مضمون سے غافل ہو کر رسم و رواج کے پابند ہو کے رہ گئے اور ذکر کا حلیہ بگاڑ دیا گیا.ان سب فرقوں پر اسی آیت وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ کا اثر معلوم ہوتا ہے.آیت کریمہ میں جوفر مایا گیا ہے وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ کہ اللہ کا ذکر اکبر ہے تو اس سے بعض صوفیاء نے یہ سمجھ لیا کہ نماز جو ہے وہ نسبتا معمولی حیثیت کی چیز ہے اگر ذکر میں مشغول ہو جاؤ تو پھر نماز کی ضرورت باقی نہیں رہتی.چنانچہ ظلم کی حد ہے کہ ایسے فرقے بھی ایجاد ہوئے جنہوں نے امت کو نمازوں سے تائب ہونے کی تلقین کی اور کہا کہ دن رات ذکر میں مصروف رہو نماز کی کوئی ضرورت نہیں یعنی حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ذکر ایجاد کرنے کی کوششیں کی گئیں اور وہی مضمون ان پر صادق آیا کہ ماں سے زیادہ چاہے پیچھے کٹنی کہلائے.“ آنحضرت سے ذکر سیکھیں ذکر حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھنا ہے جن کو اللہ نے مجسم ذکر قرار دیا ہے یعنی ایسا وجود ہے جس کے وجود میں اور ذکر میں فرق کوئی نہیں رہا.ایک ہی چیز کے دو نام بن گئے ہیں جس طرح لوہا مقناطیس بن جاتا ہے اسے لوہا بھی کہہ سکتے ہیں اور مقناطیس بھی کہہ سکتے ہیں.لوہا جب آگ میں پڑ کر سرخ ہو جاتا ہے اور آگ کی حرارت کو اپنا لیتا ہے تو آگ اور لو ہے میں فرق کوئی نہیں رہتا.پس قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم جسم ذکر الہی تھے.پس ذکر سیکھنا ہے تو آپ سے سیکھیں اور آپ نے قیام نماز پر اتنا زور دیا ہے کہ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ہمیشہ نماز میں اٹکا رہتا تھا ایک نماز اور دوسری نماز کے درمیان ہر وقت دل میں یہ تمنا تھی کہ پھر میں دوبارہ مسجد میں با قاعدہ نماز کے لئے جاؤں اور اسی کیفیت میں راتوں کو اٹھتے تھے اور بعض دفعہ راتیں اس طرح جاگ کر گزاری ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حکماً آپ کو روکا کہ اتنی عبادت نہ کیا کرو کچھ کم کر لو اور بدلتے ہوئے وقتوں کے لحاظ سے کبھی کچھ زیادہ کر لی لیکن آرام کے لئے بھی وقت رکھو.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ کر اس کے حوالے کے بغیر جب بھی قرآن کریم پر غور ہوگا تو وہاں دھو کے کا امکان ہے جو بعض دفعہ واضح اور بعض دفعہ یقینی ہو جایا کرتا ہے پس میں جو مثالیں دوں گا اس سے یہ مراد نہیں کہ قرآن کریم نے یہ ذکر پیش کئے تھے.قرآن کریم نے وہی ذکر پیش کئے ہیں جو ہمیں سنت حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتے ہیں.ان کے سواذ کر کی کوئی حقیقت نہیں ہے مگر بعض ایسے بزرگ تھے جنہوں نے وقت کی ضرورت کے لحاظ سے بعض دفعہ ذکر کو عام لوگوں کے لئے آسان بنانے کے لئے کچھ ترکیبیں سوچیں.میں سمجھتا ہوں ان پر حرف نہیں ہے وہ خود بزرگ تھے.نیک

Page 404

391 لوگ تھے اگر سوچ میں یا سمجھ میں کوئی غلطی ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے لیکن ان کے ذہن میں غالباً ایسے ن مسلم تھے جن پر عبادت آسان نہیں تھی.پس آغاز میں انہوں نے عبادت سے تو نہیں روکا ہوگا.میں ہرگز یقین نہیں کر سکتا کہ ان سلسلوں کے جو بانی مبانی تھے انہوں نے عبادت کے مقابل پر ذکر پیش کیا ہو گا لیکن عبادت کا چسکا پیدا کرنے کے لئے ، عبادت سے تعلق جوڑنے کے لئے ، انہوں نے ذکر کی بعض ایسی صورتیں پیش کیں جس سے عامۃ الناس کو ذکر میں دلچسپی پیدا ہو جائے اور اس کے نتیجے میں پھر عبادت میں بھی لذت آنی شروع ہو جائے مگر بعد میں آنے والوں نے ان باتوں کو بگاڑ لیا.....دعا اور ذکر میں فرق....یعنی بعض لوگ جو مجسم ذکر الہی بن جاتے ہیں ان کے دل کی ہر دھڑکن ، ان کی ہر خواہش دعا بن جایا کرتی ہے اور دعا اور ذکر میں یہ فرق ہے.اس فرق کو خاص طور پر پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ذکر ہے محبوب کی یاد اور وہ خالصہ محبت سے تعلق رکھنے والی بات ہے اور سوال سے مراد یہ ہے کہ اپنے قریبی پر جس پر اعتماد ہو، جس پر انسان کو یہ بھروسہ ہو کہ ہاں میرا قریبی ہے اس کے پاس انسان مشکل کے وقت جائے اور کہے کہ اب میری ضرورت پوری کرو اور ایک شخص ایسا بھی ہے جو محبت میں ایسا غرق ہو جاتا ہے کہ کسی چیز کو مانگنے سے عار کرتا ہے، عار رکھتا ہے یا سمجھتا ہے کہ محبت کے اعلیٰ آداب کے خلاف ہے کہ میں مانگوں.ایسی سوچ وقتی طور پر تو درست قرار دی جاسکتی ہے اور فائدہ بھی ہوتا ہے لیکن یہ کہنا کہ یہ اعلیٰ درجہ کا تعلق ہے یہ بھی درست نہیں ہے.صوفیانہ ٹوٹکے کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو اس نے عشق میں ترقی کر لی ہے کہ اب یہ سوال کی حاجت نہیں رکھتا.تو ایسے شخص کو اگر آپ نے ہر سوال کرنے والے سے افضل قرار دیا تو تمام انبیاء سے اس کو افضل ماننا پڑے گا کیونکہ قرآن کریم نے ہر نبی کے ذکر میں اس کی دعا لکھی ہوئی ہے.پس سب سے زیادہ دعا کرنے والے اور خدا سے طلب کرنے والے حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تھے.اس لئے جب اس قسم کی حدیثیں زیر بحث آئیں تو ان کو ٹوٹکے نہیں بنانا چاہئے.ان سے ایسے نتیجے نہیں اخذ کرنے چاہئیں جو قرآن اور سنت انبیاء کے خلاف ہوں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ ایسا شخص جو ذکر الہی میں ایسا ڈوب جاتا ہے کہ اس وقت اس کیفیت سے نکل کر کچھ مانگنے کو دل نہیں چاہ رہا ہوتا اور یا دوسرے معنوں میں یہ کہنا چاہئے کہ وہ شخص جو ہر وقت ذکر الہی میں ڈوبا رہتا ہے خواہ وہ سوال کرے یا نہ کرے اللہ اس کا نگران بن جاتا ہے لیکن یہ مراد نہیں ہے کہ یہ حدیث دعا کرنے کے خلاف ہے.قرآن کریم دعا کے مضمون سے بھرا پڑا ہے.دعا کے بغیر تو اللہ کی چوکھٹ تک رسائی ممکن نہیں ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : 78)

Page 405

392 کہ ان سے کہہ دے اللہ کو تمہاری کیا پر واہ ہے اگر تمہاری دعا نہ ہو.پس دعا کے مضمون کے یہ حدیث مخالف نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ذکر الہی محبت کے نتیجے میں ان کی زندگی پر چھا جاتا ہے اور ایسی کیفیت میں اگر ان کو دعا کا وقت میسر نہ بھی آئے اور دعا کی طرف ان کی واضح توجہ نہ بھی پھرے تب بھی اللہ کے ہاں وہ محفوظ لوگ ہیں.اللہ خود ان کی نگرانی کرتا ہے خودان کی حاجت روائی فرماتا ہے.اسی حدیث کے اسی مضمون کے متعلق ایک اور حدیث بخاری کتاب الرقاق باب التواضع میں ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں یہاں دعا کے بغیر ہی خدا کے تعلق کی ایک دائمی کیفیت بیان ہو رہی ہے جو ذکر الہی میں مصروف رہتا ہے وہ دوست بن جاتا ہے اور جب دوست ہو جائے تو ضروری تو نہیں ہوا کرتا کہ دوست مانگے تو دو اس کا تعلق رحمانیت سے ہو جاتا ہے.چنانچہ عبادالرحمن کا جو مضمون قرآن کریم میں بیان ہوا ہے یہ وہی ہے جو احادیث میں بیان ہو رہا ہے کہ یہ لوگ رحمن خدا کے بندے بن جائیں وہ مانگیں تو ضرور ملتا ہے اور بھی ملتا ہے.لیکن نہ مانگیں تب بھی ملتا ہے یہ مراد ہے.یہ مراد نہیں کہ رحمن کے بندے ہو کر رحیم سے اپنا تعلق کاٹ لیتے ہیں بلکہ رحمانیت کی صفت میں ڈوب جاتے ہیں اس لئے اگر نہ بھی مانگیں تب بھی اللہ تعالیٰ ان کو دے دیتا ہے اور بعض دفعہ تو خود پتا ہی نہیں ہوتا کہ ہم نے مانگنا کیا ہے.انسان کو چاروں طرف سے مختلف خطرات درپیش ہوتے ہیں.ایسی حالت میں اس کو خطرات در پیش ہیں اس کو پتا ہی نہیں کہ کہاں سے، کس خطرے نے حملہ کرنا ہے، کہاں دشمن چھپا ہوا ہے، کل کی اسے خبر نہیں.وہ مانگے گا کیسے؟ تو ذکر الہی کے تعلق میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک راز ، ایک بہت ہی قیمتی خزانہ عطا کر دیا کہ ضروری نہیں کہ تم مانگو تو تمہیں دیا جائے.تم اللہ کے ذکر میں ڈوبے رہو، پھر تمہیں یہ بھی نہیں پتا ہوگا کہ کیا مانگنا ہے اور کب مانگنا ہے تب بھی اللہ تعالیٰ تمہیں دے رہا ہوگا.پس دعا سے ذکر کا مضمون افضل ہے یہ بات بہر حال قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے.دوسرے جہاں جہاں بھی قرآن کریم میں دعا کا ذکر ملتا ہے وہاں ہر جگہ مانگنے کے معنوں میں نہیں.وہاں پیار سے اللہ کے ذکر کے معنوں میں بھی دعا کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے آیت پڑھی تھی.تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا یہاں جو مضمون ہے وہ عاشق کا مضمون بیان ہوا ہے.یہ نہیں کہ آنکھ کھلتے ہی مانگنے لگ جاتے ہیں کہ اے اللہ میاں یہ بھی دے، وہ بھی دے.مراد یہ ہے کہ اللہ کی محبت میں آنکھیں کھلتی ہیں.کروٹیں بدلتے ہوئے بستروں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں.ان کے پہلو آرام گاہوں کو چھوڑ دیتے ہیں.وہ اللہ کو پکارتے ہوئے اٹھتے ہیں.دعا کا معنی صرف مانگنا نہیں پکارنا بھی ہے اور یہ اعلیٰ معنی ہے پس ذکر اور دعا یہاں ایک ہی

Page 406

393 جگہ اکٹھے ہو جاتے ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں میرا بندہ جتنا میرا قرب، اس چیز سے جو مجھے پسند ہے اور میں نے اس پر فرض کر دی ہے، حاصل کر سکتا ہے اتنا کسی اور چیز سے حاصل نہیں کرسکتا.اس میں ذکر کے تمام جھوٹے طریقوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا گیا.اللہ فرماتا ہے کہ میں کسی سے محبت اس لئے نہیں کرتا کہ وہ میرا نام لیتا رہتا ہے میں سب سے زیادہ محبت اس شخص سے کرتا ہوں جو سب سے زیادہ میرے احکامات کی پیروی کرتا ہے.شریعت پر چلنے والا ہے.وہ شریعت جو میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بن گئی وہی سچا ذکر ہے اسی میں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں ملیں گی.خدا تعالیٰ کے قرب کے ذریعے حاصل ہوں گے.پس جو چیز مجھے پسند ہے اور میں نے اس پر فرض کر دی ہے جو وہ کرتا ہے وہ مجھے سب سے زیادہ پیارا لگتا ہے اور نوافل کے ذریعے سے میرا بندہ میرے قریب ہو جاتا ہے.فرائض لازم ہیں اس کے بغیر قرب کا کوئی سوال ہی نہیں ہے نوافل اس قرب کو آگے بڑھانے والے بنتے ہیں.فرماتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں اور جب میں اس کو اپنا دوست بنالیتا ہوں تو اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے.اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے یعنی میں ہی اس کا کار ساز ہوتا ہوں اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں پس اس کیفیت میں مانگنے کی نفی نہیں ہے فرمایا نہ بھی مانگے تب بھی میں اس سے یہ سلوک کرتا ہوں لیکن جب مانگتا ہے تو اور بھی زیادہ پیار سے اس کو دیتا ہوں اور زیادہ بڑھا کر دیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یادر ہے کہ بندہ تو حسن معاملہ دکھلا کر اپنے صدق سے بھری ہوئی محبت ظاہر کرتا ہے مگر خدا تعالیٰ اس کے مقابلہ پر حد ہی کر دیتا ہے اس کی تیز رفتار کے مقابل پر برق کی طرح اس کی طرف دوڑتا چلا آتا ہے اور زمین و آسمان سے اس کے لئے نشان ظاہر کرتا ہے اور اس کے دوستوں کا دوست اور اس کے دشمنوں کا دشمن بن جاتا ہے اور اگر پچاس کروڑ انسان بھی اس کی مخالفت پر کھڑا ہو تو ان کو ایسا ذلیل اور بے دست و پا کر دیتا ہے جیسا کہ ایک مرا ہوا کیڑا اور محض ایک شخص کی خاطر کے لئے ایک دنیا کو ہلاک کر دیتا ہے اور اپنی زمین و آسمان کو اس کے خادم بنا دیتا ہے اور اس کے کلام میں برکت ڈال دیتا ہے اور اس کے تمام در و دیوار پر نور کی بارش کرتا ہے اور اس کی پوشاک میں اور اس کی خوراک میں اور اس مٹی میں بھی جس پر اس کا قدم پڑتا ہے ایک برکت رکھ دیتا ہے اور اس کو نا مراد ہلاک نہیں کرتا اور ہر ایک اعتراض جو اس پر ہواس کا آپ جواب دیتا ہے وہ اس کی آنکھیں ہو جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی

Page 407

394 زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور اس کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ دشمنوں پر حملہ کرتا ہے.وہ اس کے دشمنوں کے مقابل پر آپ نکلتا ہے اور شریروں پر جو اس کو دکھ دیتے ہیں آپ تلوار کھینچتا ہے.ہر میدان میں اس کو فتح دیتا ہے اور اپنی قضا و قدر کے پوشیدہ راز اس کو بتلاتا ہے.غرض پہلا خریدار اس کے روحانی حسن و جمال کا جوحسن معاملہ اور محبت ذاتیہ کے بعد پیدا ہوتا ہے.خدا ہی ہے.پس کیا ہی بدقسمت وہ لوگ ہیں جو ایسا زمانہ پاویں اور الیسا سورج ان پر طلوع کرے اور وہ تاریکی میں بیٹھے رہیں.“ ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 225) یہ ذکر جیسا کہ واضح ہے حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا ذکر چل رہا ہے جب فرماتا ہے وہ اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ دشمنوں پر حملہ کرتا ہے تو معاً قرآن کریم کی اس آیت کی طرف توجہ منتقل ہوتی ہے.وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللهَ رَى (الانفال: 18) اے محمد ! تو نے دشمن پر کنکریوں کی مٹھی نہیں پھینکی ، جب تو نے پھینکی.وہ اللہ تھا جس نے پھینکی اور دوسری جگہ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (الفتح: 11) کہ کرصحابہ پر جو ہاتھ تھا اے اللہ کاہاتھ قراردے دیا.پس ذکر الہی وہی ہے جو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اللہ سے سیکھا اور خدا تعالیٰ کی ہدایت کے تابع اپنی ذات میں جاری کر کے دکھا دیا اسی ذکر کو پکڑیں اسی میں ساری کامیابی ہے وہی خدا سے دوستی بنانے کا ایک وسیلہ بنتا ہے اس کے سوا ساری ذکر کی باتیں محض افسانے اور کہانیاں ہیں اور ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے." (خطبات طاہر جلد 12 صفحہ 903-920)

Page 408

395 $1994 اپنی طبیعت کے تجستات پر نفرت کی نگاہ ڈالیں ( دنیا بھر کے جماعتی و ذیلی تنظیموں کے اجتماعات کی مناسبت سے نادر اور قیمتی نصائح) (خطبہ جمعہ 8 اپریل 1994ء) " آج کے خطبے کے ساتھ بعض اجتماعات کا اعلان بھی کرنا ہے جو مختلف دنیا کے ممالک میں اس وقت منعقد ہورہے ہیں.سب سے پہلے تو مجلس خدام الاحمدیہ ضلع میر پور آزاد کشمیر کی طرف سے اطلاع ہے کہ ان کا خدام کا اجتماع اور مجلس اطفال الاحمدیہ ضلع سرگودھا اور مجلس انصار اللہ ضلع جھنگ کا سالانہ اجتماع کل یعنی گزشتہ روز سے شروع ہے اور آج انشاء اللہ بروز جمعہ اختتام پذیر ہو گا.مجلس خدام الاحمدیہ فرانس کا آٹھواں سالانہ اجتماع آج 8 را پریل سے شروع ہو رہا ہے اور انشاء اللہ دو دن جاری رہے گا اسی طرح مجلس انصار اللہ فرانس کا اجتماع بھی خدام ہی کے ساتھ شامل کر لیا گیا ہے.اس کے علاوہ جماعت احمد یہ آئیوری کوسٹ کا ( Cote De lvore اس کو کہتے ہیں ) ان کا تین روزہ سالانہ جلسہ آج 8 اپریل سے شروع ہو رہا ہے اور دس اپریل تک جاری رہے گا.چونکہ آج فرانسیسی بولنے والے ممالک کے اجتماعات کی اکثریت ہے اس لئے انہیں اپنی ٹوٹی پھوٹی فرانسیسی زبان ہی میں میں مبارک باد دیتا ہوں.Je vous souhaite beaucoup de succes a l'occasion de votre Jalsa.اس کے بعد گوئٹے مالا ہے.گوئٹے مالا میں ایک بہت ہی عظیم الشان اجتماع منعقد کیا جا رہا ہے جس کا تعلق چاند سورج گرہن کی پیش گوئی سے ہے.اور اس سلسلے میں انہوں نے بہت عمدہ ملک گیر انتظامات کئے ہیں کہ کثرت کے ساتھ نمائندگان وہاں پہنچیں اور سارے گوئٹے مالا کو اطلاع ہو جائے کہ آج سے سوسال پہلے ایک عظیم الشان پیش گوئی اپنی انتہائی شان اور غیر معمولی چمک دمک کے ساتھ پوری ہوئی، جو پیش گوئی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس وقت سے تیرہ سو سال پہلے اپنے مہدی کی نشانیوں کے طور پر بیان فرمائی تھیں.پس ان سب اجتماعات کو میں اپنی طرف سے اور عالمگیر جماعت احمدیہ کی طرف سے السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکا تہ اور مبارک باد کا تحفہ پیش کرتا ہوں.

Page 409

396 حضرت مسیح موعود کی بعثت کے چار مقاصد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا اور یہ آپ کا ارشاد الحکم جلد نمبر 6 نمبر 29 صفحہ 5.17 /اگست 1902 ء سے لیا گیا ہے.آپ نے فرمایا: ”ہماری جماعت کی ترقی بھی تدریجی اور گزرے یعنی کھیتی کی طرح ہوگی اور وہ مقاصد اور مطالب اس پیج کی طرح ہیں جو زمین میں بویا جاتا ہے اور وہ مراتب اور مقاصد عالیہ جن پر اللہ تعالیٰ اس کو پہنچانا چاہتا ہے ابھی بہت دور ہیں.وہ حاصل نہیں ہو سکتے جب تک وہ خصوصیت پیدا نہ ہو جو اس سلسلہ کے قیام سے خدا کا منشاء ہے.توحید کے اقرار میں بھی خاص رنگ ہو.تبتل الی اللہ ایک خاص رنگ کا ہو.ذکر الہی میں ایک خاص رنگ ہو اور حقوق اخوان میں خاص رنگ ہو.“ اس میں وہ چار مقاصد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں جن کے حصول کے بغیر جماعت احمد یہ اپنی بعثت کی غرض کو پورا نہیں کر سکتی اور ان میں سے پہلے تین مقاصد کو ایک ایک احمدیہ کر کے میں نے اپنے خطبات کا موضوع بنایا.سب سے پہلے ایک سلسلہ توحید باری تعالیٰ“ کے موضوع پر خطبات کا شروع ہوا.پھر اس کے بعد اسی ترتیب سے تبتل الی اللہ کی باری آئی.اور تبتل الی اللہ کے موضوع پر بھی ایک سلسلہ خطبات کا جاری رہا.پھر آج سے پہلے تیسرے نمبر پر ذکر الہی میں ایک خاص رنگ ہو کے موضوع پر میں نے جماعت کو مخاطب کیا اور جس حد تک بن پڑا بڑی تفصیل سے اور گہرائی میں جا کر ذکر الہی کے موضوع کو جماعت پر خوب روشن کیا.حقوق اخوان آج اب آخری سلسلے کی باری آئی ہے یعنی حقوق اخوان ، میں بھی خاص رنگ ہو.یعنی یہ تمام باتیں جب پوری ہو جائیں.توحید کا خالص اقرار ہی نہیں بلکہ تو حید کو اپنے رگ و پے میں سمو دیا جائے اور ہماری زندگی میں توحید سرایت کر جائے پھر اللہ کی طرف تبتل ہو اور دنیا سے انقطاع کر کے خالصہ خدائے واحد کی طرف رجوع ہو پھر اس کے نتیجے میں ذکر الہی میں انسان بہت ترقی کرے.جب یہ تینوں منازل طے کر لے تب وہ اس قابل ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان کے حقوق ادا کر سکے.اس کے بغیر بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے کا کسی انسان سے کوئی تصور نہیں باندھا جاسکتا، کوئی امید وابستہ نہیں کی جاسکتی.پس اب میں حقوق اخوان سے متعلق آپ کے سامنے بعض بنیادی امور رکھتا ہوں لیکن اس سلسلے میں جو ذہنی ترتیب میں نے دی ہے وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے جماعت احمدیہ کو آپس میں ایک دوسرے

Page 410

397 محبت اختیار کرنے کی تلقین کی جائے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے.کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی یہی تعلیم ہے کہ اسلام پہلے گھر سے شروع ہوتا ہے.اسلام جو حقوق مسلمانوں کے دوسرے مسلمان بھائیوں کے لئے مقرر فرماتا ہے ان حقوق کی ادائیگی کے بغیر بنی نوع انسان کی بھلائی کا دعوی کرنا بالکل بے سود اور بے معنی ہوگا.پس حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جو رحمۃ للعالمین تھے جہاں تمام بنی نوع انسان کے لئے اور تمام جہانوں کے لئے مبنی بر رحمت تعلیم دی اسی طرح آپ نے بلکہ اس سے پہلے تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی طرف متوجہ فرمایا اور دراصل اس طرح امت مسلمہ کو تمام بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے کے لئے تیار کرنا مقصود تھا.پس اس سنت کے مطابق میں نے پہلے ایسی احادیث چھنی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایسے اقتباسات چنے ہیں جن میں جماعت کو آپس کے تعلقات سے متعلق نصیحتیں ہیں اور ان کو بتایا گیا ہے کہ کون کون سے امور ہیں جن کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں.کون کون سے تعلقات کے مقاصد ہیں جنہیں وہ حرز جان بنائے رکھیں یعنی اپنی جان کی طرح اپنے سینے سے لگائے رکھیں.یہ مقصد اگر جماعت کے اندر حاصل ہو جائے تو پھر تمام بنی نوع انسان کو جماعت کا فیض خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بلا تمیز مذہب وملت ، قوم اور رنگ و نسل عام طور پر پہنچے گا اور اس ذریعے سے ہم انشاء اللہ تعالیٰ اپنے اعلیٰ مقاصد یعنی تمام بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے.عمومی تعلقات اور باہمی معاملات عمومی تعلقات اور باہمی معاملات میں اخلاق سے متعلق جیسی پیاری تعلیم حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے غلاموں کو عطا فرمائی ہے آپ تمام بنی نوع انسان کے مذاہب پر نظر ڈال کر دیکھ لیں، اول سے آخر تک نظر دوڑائیں، آپ کو حقیقت میں ایسی پیاری تعلیم اتنے حسین انداز میں کوئی اور نبی دیتا ہوا دکھائی نہیں دے گا.حالانکہ یہ امر واقعہ ہے کہ ہر نبی نے ویسی ہی تعلیم دی ، اس سے ملتی جلتی تعلیم دی اور سب کے مقاصد بنیادی طور پر ایک تھے مگر جیسا کہ آپ اس تعلیم کو خود حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے الفاظ میں سنیں گے ، آپ کا دل گواہی دے گا کہ سب تعلیم دینے والوں میں سب سے آگے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہیں.آپ کا انداز بیان بہت ہی دلنشین ہے.آپ کی بات تقویٰ کی گہرائی سے اٹھتی ہے اور گہرا دل پر اثر کر جاتی ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا اور یہ ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرماتے تھے مومن دوسرے مومن کے لئے مضبوط عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو تقویت دیتا ہے اور مستحکم بناتا ہے آپ نے اس مفہوم کو واضح کرنے کے لئے اپنی

Page 411

398 انگلیوں کی کنگھی بنائی اور اس طرح اس عمارت کی گرفت کے مضبوط ہونے کی طرف اشارہ فرمایا.(یوں کنگھی بنائی اور مضبوط ہاتھوں سے یوں تھام کر بتایا کہ مومن اس طرح ایک دوسرے میں پیوستہ ہوتے ہیں اور اس طرح ان کے اندر باہمی طاقت پیدا ہوتی ہے ).پس تمام کامیابیوں کی جڑ یہ اتحاد ہے جس کی طرف حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے زبان سے بھی نصیحت فرمائی اور ہاتھ کے اشارے سے بھی مضمون کو خوب کھول دیا.(بخاری کتاب الصلوۃ باب تشبيك الاصابع في المسجد) ہر وہ مومن جو ایک دوسرے سے تعلقات میں ایسی مضبوطی رکھتا ہے جیسے ایک ہی انسان کے دو ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتی ہیں وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مقاصد کی پیروی کرنے والا ہے.جو ایسی طرز اختیار کرتا ہے کہ انگلیاں باہم پیوست ہونے کی بجائے ایک دوسرے کو کاٹنے لگیں اور ایک دوسرے کے مخالف ہو جائیں اس کا حقیقت میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے تعلق کاٹا جاتا ہے.پس ہر وہ حرکت جو جماعت کی اجتماعیت کو طاقت بخشے، اجتماعیت کو مضبوط تر کرے، وہی حرکت ہے جو سنت نبوی کے تابع ہے.ہر وہ حرکت خواہ وہ قول ہو یا فعل ہو اس مضمون کے مخالف ہو، وہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت کے مخالف بات ہے.پس اب سے اس بات کو سننے کے بعد اپنی زبانوں پر بھی نگاہ رکھیں ، اپنے اعمال اور افعال پر بھی نگاہ رکھیں ، اپنے تعلقات کو اس حدیث کے تابع کر دیں تا کہ جماعت احمد یہ متحد ہو کر پھر تمام بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ یعنی حمد مصطفیٰ کے ہاتھ پر اکٹھا کرنے کی سعی کر سکے.ایک اور حدیث مسلم کتاب البر سے لی گئی ہے یہ حضرت نعمان بن بشیر کی روایت ہے، فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا.مومنوں کی مثال ایک دوسرے سے محبت کرنے میں، ایک دوسرے پر رحم کرنے اور ایک دوسرے سے مہربانی سے پیش آنے میں ایک جسم کی سی ہے.جس کا ایک حصہ اگر بیمار ہو تو اس کی وجہ سے سارا جسم بیداری اور بے چینی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے.(مسلم کتاب البر والصلة باب تراحم المومنين وتعاطفهم وتعاضدهم) بہت ہی پیاری مثال ہے اور ایک ایسی مثال ہے، جسے ہر انسان اپنی ذات کے حوالے سے بہترین رنگ میں سمجھ سکتا ہے.ایک انسان کے پاؤں کی انگلی کے کنارے پر بھی درد ہو، ناخن کا آخری حصہ بھی بے چین ہو، تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے.بعض دفعہ ایسے مریض میں نے دیکھے ہیں، جن کے پاؤں کی انگلی کے ایک کونے میں کوئی گہرا زخم ہے، وہاں ٹیں اٹھتی ہے، بعض دفعہ بغیر زخم کے بھی ٹیس اٹھتی ہے اور ساری رات وہ سو نہیں سکتے.وہ بے قرار ہو کر آتے ہیں کہ اس بیماری نے ہمیں مصیبت میں ڈال رکھا ہے حالانکہ وہ پاؤں کی انگلی کا ایک کنارہ ہے.اور اگر ایسا ناسور ہو جائے کہ اسے کاٹ پھینکنا پڑے تو ساری روح بے چین ہو

Page 412

399 جاتی ہے اور انسان ہزار کوشش کرتا ہے، لاکھ جتن کرتا ہے کہ کسی طرح کوئی ایسا حکیم، کوئی ایسا ڈاکٹر ، کوئی ایسا قابل طبیب میسر آ جائے جو ہماری انگلی کو کاٹنے سے بچالے.پس یہ وہ کیفیات ہیں جو ہر انسان جانتا ہے، روز مرہ کے تجربے میں داخل ہے.اور اس سے اچھی مثال مسلمانوں کو ایک دوسرے سے ہمدردی کی دی جاہی نہیں سکتی اس سے اچھی مثال کسی انسان کے تصور میں آہی نہیں سکتی.زیادہ سے زیادہ لوگ مثالیں دیتے ہیں بچوں کے پیار کی یا دوسرے محبت کے رشتوں کی.مگر امر واقعہ یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر اور کوئی مناسب حال مثال مسلمانوں کی اجتماعی شکل کے اوپر چسپاں ہونے والی نہیں دی جاسکتی.پاکستانی احمدیوں پر ظلم ہونے کی وجہ سے دنیا کی جماعتوں میں بے چینی پھیل جاتی ہے اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا جماعت احمد یہ عالمگیر پر ایک احسان ہے اور اس احسان میں وہ تمام دنیا کی دوسری جماعتوں سے ممتاز ہے اور وہ لوگ جو فراست رکھتے ہیں ان کے لئے حق کی پہچان کے لئے ایک بڑی دلیل ہے کہ اگر پاکستان میں کسی ایک جگہ بھی کسی احمدی پر ظلم ہوتا ہے تو تمام دنیا کی جماعتوں میں بے چینی پھیل جاتی ہے.افریقہ کی ایسی دور دراز جماعتیں جہاں جدید ذرائع کی سہولتیں بھی نہیں پہنچیں.نہ سڑکیں ہیں، نہ تار ہے، نہ ٹیلیفون ہے، نہ دیگر آرام ہیں.جنگل کی بے آرامی میں وہ لوگ زندگی بسر کرتے ہیں مگر جب ان کو یہ اطلاع ملتی ہے کہ ہمارے بھائیوں میں سے کسی پر کسی ملک میں کہیں ظلم ہوا ہے تو شدید بے چین ہو جاتے ہیں اور پھر ان کی طرف سے مجھے خط آنے لگتے ہیں، مجھ سے ہمدردیاں کرتے ہیں، دعائیں دیتے ہیں.کہتے ہیں اللہ کرے کہ جلد جماعت کے ان مظلوموں کی تکلیف دور ہو.جب کسی تکلیف کے دور ہونے کی خبر ملتی ہے تو بجلی کی لہروں کی طرح خوشیوں کی ایک برقی روسی دوڑ جاتی ہے اور ہر طرف سے ایک مسرت کا احساس ہونے کی اطلاعیں بھی ملنے لگتی ہیں چنانچہ ہمارے اسیرانِ راہِ مولا جب آزاد ہوئے ہیں تو میں نے تو شروع میں اشارہ ہی ٹیلی ویژن پر اس کا اعلان کیا تھا مگر جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے فر است عطا فرمائی ہے وہ خاص انداز کو دیکھ کر سمجھ گئے کہ یہی خوشخبری ہو گی کہ جماعت احمدیہ کے پرانے اسیر آزاد ہوئے ہوں گے.اس کا دکھ ان کو زیادہ تھا اور یہ ان کا دریافت کر لینا اس پہلی بات پر بھی روشنی ڈال رہا ہے کہ ان کی گہری محبت تھی ، گہرا تعلق تھا، اس غم میں مبتلا رہتے تھے.جب دیکھا کہ میں نے کہا کہ ایک بہت بڑی خوشخبری میں جماعت کو دینے والا ہوں تو انہوں نے یقین کر لیا کہ یہ وہی خوشخبری ہوگی اور پھر اس پر ایسی مسرت کا اظہار کیا ہے کہ اپنے قریبیوں ، عزیزوں، رشتے داروں کی بعض خوشیوں پر بھی اس طرح عالم گیر مسرت کا اظہار نہیں ہوا، نہ ہو سکتا ہے بلکہ چھوٹے گاؤں میں بھی خوشیاں جب پہنچتی ہیں تو اس قدر مسرت نہیں ہوتی.بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ ہم نے تو عیدیں منائی ہیں آپ تو کہتے تھے کہ عید کے بعد ایک عید بعد میں آئے گی دو مہینے دس دن کے بعد.ہم نے تو یہ عید دیکھ لی اور عید پر عید یہ ہر روز عید بن چکی ہے.ایسا نشہ ہے

Page 413

400 اس خوشی کا کہ بچے بڑے سب اس میں مگن ہیں.ایک مستی کا عالم طاری ہے.پس یہ ثبوت ہے کہ آج حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سچی غلام آپ کی طرف منسوب ہونے کا حق رکھنے والی جماعت اگر ہے تو وہ عالمگیر جماعت احمد یہ ہے کیونکہ یہ نشانی جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے غلاموں کی اور سچے مومنوں کی بیان فرمائی ہے یہ آج جماعت احمدیہ کے سوا دنیا کی کسی اور جماعت پر اس طرح چسپاں نہیں ہوتی.تمام مسلمانوں کی مثال ایک مومن کی ذات سے ہے بوسنیا کے مظلوموں کا جیسا م جماعت احمدیہ نے کیا ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ یہ اندرونی تربیت اس پختگی کو پہنچ چکی ہے کہ جماعت کے دائرے سے چھلک کر عام مسلمانان عالم کی ہمدردی میں تبدیل ہو چکی ہے اور یہی وہ رخ ہے جس کی طرف جماعت کو میں بہت کوشش کے ساتھ دن بدن آگے بڑھا رہا ہوں تا کہ یہ چار مقاصد جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائے ہیں، یہ پورے ہوں تو ہم اس بات کے لئے پوری طرح مستعد اور تیار ہو جائیں گے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فیض آج ہمارے ہاتھوں تمام دنیا میں بانٹا جائے اور تمام دنیا کو ہم ایک امتِ واحدہ میں تبدیل کر دیں، اور یہ ضروری تھا کہ ہم پہلے خود ایک ہو جاتے اور مبارک ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ آثار ظاہر ہو چکے ہیں کہ ہم ایک امت واحدہ بن چکے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ وہ گہری ہمدردی رکھتے ہیں جس کا ذکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا.ایک اور حدیث ہے جو بخارى كتاب المظالم باب لا يظلم المسلم المسلم - لی گئی ہے.حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا.مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے.نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے.یعنی اس کی مدد کے لئے ہمیشہ تیار رہتا ہے.جو شخص اپنے بھائی کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کا خیال رکھتا ہے.جو شخص کسی مسلمان کی تکلیف اور بے چینی کو دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف اور بے چینی کو دور کرتا ہے.جو شخص کسی کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن پر وہ پوشی فرمائے گا.یہ حدیث ترتیب میں پہلی حدیث کے بعد ہی آنی چاہئے تھی اور اس کا ایک طبعی نتیجہ ہے.وہ شخص جو خود تکلیف میں مبتلا ہو وہ چین پاہی نہیں سکتا جب تک اس تکلیف کو دور نہ کرے.اور کوئی شخص اپنے وجود کے کسی حصے پر خود ظلم نہیں کر سکتا.اس کے لئے بہت مشکل ہے کہ بعض دفعہ ضرورت کے وقت بھی اپنے جسم کو تکلیف پہنچائے.اگر کانٹا نکالنا ہو اور اس کے لئے سوئی چھوٹی پڑے تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں اور اکثر ہم میں سے جانتے ہیں کہ انسان کتنی کتنی احتیاطوں سے اس سوئی کی نوک کو زخم کے منہ میں داخل کرتا ہے تا کہ اس

Page 414

401 کی نوک پر آ جائے اور بغیر تکلیف کے وہ باہر نکل آئے.اور ذراسی بے احتیاطی ہو تو انسان تڑپ اٹھتا ہے.پس مومن کو جب یہ ذاتی تجربہ حاصل ہو گیا اور تمام مسلمانوں کی جماعت کی مثال ایک مومن کی ذات سے دے دی گئی تو اس کا طبعی نتیجہ یہ ہے کہ دوسرے مومن پر انسان ظلم کا تصور بھی نہیں کر سکتا.جیسے اپنے بدن کو انسان تکلیف نہیں پہنچا سکتا اسی طرح اپنے بھائی کو اگر وہ تکلیف پہنچائے تو وہ سچا مومن نہیں ہوسکتا.وہ اس مثال کی حدوں سے باہر جاپڑے گا جو مثال حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مومنوں کی جماعت یعنی اپنے بچے حقیقی غلاموں کی جماعت کے متعلق دی ہے.پس یا درکھیں اول تو یہ توقع ہے، یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو آپ سے توقع ہے کہ آپ اپنے کسی بھائی کو کسی نوع کا دکھ نہیں پہنچا ئیں گے.پہنچائیں گے“ کی نصیحت میں ایک اور بات ہے، آپ کو یہ توقع ہے کہ ” پہنچا سکتے نہیں ہیں کیونکہ اس معاملے میں آپ بے اختیار ہیں.ہر بھائی آپ کے بدن کا جزو بن چکا ہے جو تکلیف آپ اس کو پہنچائیں گے وہ آپ کو محسوس ہوگی اور جو تکلیف مجبورا پہنچانی پڑے وہ ضرور محسوس ہوتی ہے.مثلا بعض دفعہ انگلی کاٹنی پڑتی ہے اور میں ذاتی تجربے سے اس بات کا گواہ ہوں کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ قول سو فیصد بعینہ سچا ہے کیونکہ بعض دفعہ جب ایسی کاروائی کرنی پڑے کہ ایک شخص کو اس کے مسلسل ظلم کی وجہ سے جماعت سے کاٹ کر الگ پھینکنا پڑے تو اسی طرح تکلیف پہنچتی ہے جیسے اپنے بدن کے کسی عضو کو کاٹ کر باہر پھینکنا پڑے.پس سیہ وہ مثال ہے جو آپ کے اوپر کامل طور پر صادق آنی چاہئے اور پہلی توقع یہ ہے کہ آپ اپنے بھائی پر ظلم کر ہی نہیں سکتے کیونکہ وہ تو آپ کا جزو بدن بن چکا ہے.دوسری یہ کہ اگر وہ تکلیف میں مبتلا ہو تو اس سے بے نیاز ہو کر آرام نہیں کر سکتے.جہاں جو تکلیف آپ کے سامنے آئے اور دور کرنے کے لحاظ سے آپ کی حد میں ہو، آپ کی پہنچ میں ہو، آپ ضرور کوشش کریں.اور اس پہلو سے بھی میں بہت مطمئن ہوں.اگر چہ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جماعت میں جو ظلم کرتے ہیں اور دوسروں کے حق بھی چھینتے ہیں ،اگر چہ ایسے لوگ بھی ہیں جو تکلیف دور کرنے کی بجائے تکلیف پہنچانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، ان کے شر سے جماعت محفوظ نہیں رہتی مگر ایسے لوگ وہ ہیں جن کو رفتہ رفتہ تقدیر الہی نتھار کر ایک طرف کرتی چلی جارہی ہے اور رفتہ رفتہ وہ ننگے ہو کر جب سامنے آتے ہیں تو وہ اپریشن کرنا پڑتا ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے.مگر اس اپریشن کی دو قسمیں ہیں یہ میں آپ کو اچھی طرح سمجھا دوں.ایک قسم یہ ہے کہ اپنا جزو بدن کانا جارہا ہے، ایک قسم یہ ہے کہ غیر آپ کے بدن میں داخل ہے اور اس حد تک غیر اور تکلیف دہ ہے کہ آپ اسے نکال باہر پھینکنے میں راحت محسوس کرتے ہیں، دکھ محسوس نہیں کرتے.

Page 415

402 جماعت میں جراحی کا عمل پس دو قسم کے لوگ ہیں جن کو بالآخر جماعت سے باہر نکالنا پڑتا ہے.ایک وہ جو شریر ہیں جو فساد رکھتے ہیں اور فساد کرتے ہیں وہ لوگ جن کا حقیقت میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور آپ کی جماعت یعنی جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں رہتا بلکہ وہ بیرونی شریر ہیں جو جماعت میں گھس کر : فتنہ پردازیوں سے کام لیتے ہیں اور محض ایک لبادہ اوڑھ رکھا ہے.ایسے لوگوں کو نکالنے کا دکھ نہیں ہوتا بلکہ جماعت، جس کو وہ تکلیف پہنچارہے ہوتے ہیں ان کی راحت کے خیال سے دل کو راحت پہنچتی ہے اس لئے فرضی طور پر ایک بات اس رنگ میں نہیں کہنی چاہئے کہ گویا بہت اچھی بات کہی جارہی ہے خواہ حقیقت سے اس کا تعلق نہ ہو.پس میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ بات کرتے وقت احتیاط کی جائے کہ حقیقت کے دائرے سے وہ بات باہر نہ نکلے.پس ہرا اپریشن کا دکھ نہیں پہنچتا.بعض جراحی کے عمل ایسے ہیں جن سے حقیقتاً راحت محسوس ہوتی ہے اور اس راحت کو محسوس کرنے میں مجھے بھی کوئی شرم محسوس نہیں ہوئی.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ فتنہ پرداز اس جرم کی حد کو پہنچ چکا ہے کہ جس کے بعد یہ ہمارا جزو بدن نہیں رہا بلکہ غیر ہے جو اندر داخل ہو کر ان کو جو جزو بدن ہیں تکلیف پہنچا رہا ہے.پس جب ایک شیشے کا ٹکڑا پاؤں میں سے کھینچ کر باہر نکالا جائے، جب کہ ایک کانٹا نکالا جائے ، جب کوئی دبی ، چھپی ہوئی گولی اندر سے نکال کر باہر کی جائے تو کبھی تکلیف نہیں پہنچتی.یہ جھوٹ ہوگا اگر آپ یہ کہیں کہ ہمارے بدن سے ایک چیز نکلی اور ہمیں بڑا دکھ پہنچا.راحت محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس سارے ماؤف حصے کو چین آجاتا ہے جہاں اس بیرونی چیز نے ایک مصیبت بپا کر رکھی تھی.دکھ ان کا ہوتا ہے جو بعض دفعہ غلطیوں کا شکار ہو جاتے ہیں.بنیادی طور پر وہ جماعت احمدیہ کا ہی جزو ر ہتے ہیں.جماعت سے نکالنا ان کو بے قرار کر دیتا ہے، ان کی زندگیاں ان پر اجیرن ہو جاتی ہیں وہ جزو بدن ہی ہیں.لیکن بعض مجبوریوں کے پیش نظر بعض ایسی غلطیوں کے پیش نظر جن کو نظام جماعت نظر انداز نہیں کر سکتا.کیونکہ وہ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہوتا ہے، انہیں جب نکالنا پڑتا ہے یا انہیں جب سزا دینی پڑتی ہے تو حقیقتا ایسی ہی تکلیف محسوس ہوتی ہے جیسے اپنے کسی بدن کے حصے کو انسان سزا دینے پر مجبور ہو جائے.ضرورت مندوں کو سنبھالیں اور ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کریں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرماتے ہیں، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور اسے بے یارومددگار نہیں چھوڑتا.تکلیف دور کرنا ایک الگ بات ہے.بے یار و مددگار نہ چھوڑنا ایک اور بات ہے.یعنی کئی لوگ آپ کو اپنی سوسائٹی میں ایسے دکھائی دیں گے جن کے پاس کوئی کام نہیں ہے، جو کئی قسم کی روز مرہ کی زندگی

Page 416

403 کی بقا کی جدوجہد میں تکلیفیں اٹھا رہے ہیں اور بظاہر وہ آپ سے الگ ہیں.لیکن اگر ساری جماعت کو ان کی تکلیف کا احساس نہ ہو اور اپنے بے یار و مددگار بھائیوں کی مدد کے لئے ذہن بے چین نہ ہو اور بے قرار نہ ہو تو پھر اس حدیث کا پورا اطلاق ان پر نہیں ہو گا.مسلمانوں کا حصہ تو ہیں کیونکہ وہ دکھ نہیں پہنچاتے اور واضح کھلا کھلا دکھ اگر کسی کو پہنچ جائے تو مدد بھی کرتے ہیں، ایکسیڈ مٹھو جائے یا اور بیماری کی تکلیف ہو تو کوشش کرتے ہیں کہ وہ دور کی جائے لیکن میں اس سے اگلے مقام کی بات کر رہا ہوں جس کی طرف حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اشارہ فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ تم میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کا کوئی ناصر، کوئی معین ، کوئی مددگار نہیں ہے.وہ اکیلے اپنی زندگی کی جدو جہد میں مخالف طاقتوں سے لڑ رہے ہیں اور مدد چاہتے ہیں.مگر ہو سکتا ہے ان کی غیرت کا تقاضا ہو وہ آپ کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائیں.تلاش کریں ایسے لوگوں کو ، نظر رکھیں ان پر ، اور جو خدا تعالیٰ نے آپ کو صلاحتیں بخشی ہیں، ان صلاحیتوں سے ان کو بھی حصہ دیں.اگر ایک ہے جو تجارت کرنا نہیں جانتا اور آپ میں سے ایسا ہے جو تجارت کے فن سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالا مال کیا گیا ہے، خوب اچھی طرح اسے تجارت کے داؤ پیچ آتے ہیں اور وہ اللہ کے فضل سے ان سے بہترین استفادہ کر رہا ہے تو اس کا اس حدیث کی رو سے یہ فرض ہو گا کہ وہ نظر دوڑائے ، ایسے لوگ جو ان باتوں سے نا آشنا ہیں اور ضرورت مند ہیں، نہ ان کو نوکریاں مل رہی ہیں ، نہ کوئی اور کام میسر ہیں، ان کو اپنے ساتھ لگائیں، پیار کے ساتھ رفتہ رفتہ ان کو سنبھالیں اور اپنے پاؤں پر کھڑا کریں.یہ جو نصیحت ہے اس ضمن میں ایک احتیاط کی بھی ضرورت ہے اور ضروری ہے کہ آپ کو جس راہ پر چلایا جائے اس کے گڑھوں سے بھی واقف کیا جائے.اس راہ پر چلتے ہوئے جو چورا چکے ان راہوں پر ڈا کے ڈالتے ہیں ان سے بھی واقفیت کرائی جائے ورنہ آپ آنکھیں بند کر کے یہ قدم اٹھا ئیں تو نقصان کا بھی خطرہ ہے.بعض لوگ اپنی بعض بد عادتوں کی وجہ سے اس حالت کو پہنچتے ہیں کہ ان کی مدد کرنا بھی نقصان کا سودا ہے.اور ان کو اگر آپ اپنی تجارت میں شامل کریں گے تو ہر گز بعید نہیں کہ آپ کو شدید نقصان پہنچا دیں.بعض لوگوں کو آرام سے زندگی بسر کرنے کی عادت ہو چکی ہوتی ہے.قرض لے کر وہ بے تکلفی سے کھاتے ہیں اور ان کو احساس نہیں ہوتا کہ جس بھائی سے وہ قرض لیا ہے اس کی بھی ضرورتیں ہیں.بعض تو بے حد مجبور ہیں، معمولی ضرورت کا قرض لیتے ہیں اور بے اختیار ہیں کہ واپس نہیں کر سکتے.ایسے بھائیوں کا فرض ہے جنہوں نے ان کو قرض دیا ہو کہ حتی المقدور ان سے نرمی کریں اور کوشش کریں کہ وہ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر ان کے بوجھ اتارسکیں ، ان کے قرض اتار سکیں.لیکن اگر نہیں ، تو معاف کرنے کا بھی سوچیں.لیکن یہ اور طبقہ ہے.ایک ایسا طبقہ ہے جس کا ہاتھ قرض میں کھلا ہوتا ہے اس کی روز مرہ کی زندگی کی ضرورت جس قناعت کے طریق سے پوری ہو سکتی ہے وہ نہیں پورا کرتے.وہ ایسا کھلا ہاتھ رکھتے ہیں جس کا خدا تعالیٰ نے ان کو حق نہیں دیا ہوا.

Page 417

404 ان کی معاشی حالت کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ ہاتھ روک کر جنگی ترشی کے ساتھ گزارہ کریں، اپنے بچوں کا خیال ھیں، اپنے مستقبل بنانے کی کوشش کریں.اس کی بجائے وہ کھلے ہاتھ خرچ کر کے یوں لگتا ہے جیسے بہت امیر کبیر لوگ ہیں ایسے لوگ تجارت کے لائق نہیں ہوتے.ایسے لوگوں کی جب تک اصلاح نہ کی جائے اس وقت تک اگر ان کو تجارتوں میں آپ شامل کریں گے تو یہ آپ کو بھی نقصان پہنچائیں گے اس لئے جو کھلے دل کے تاجر ہیں ان کو یہ احتیاط لازم ہے کہ اگر کسی بھائی کی مدد کریں تو اس کی اخلاقی قدروں پر نظر ڈالیں.اس کی صلاحیتوں پر نظر ڈالیں اور اس ضمن میں قرآن کریم کا ایک راہنما اصول ہمارے سامنے رہنا چاہئے.قرآن کریم نے جہاں یتامی کی خبر گیری کی تعلیم دی ہے وہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر ایسے یتامی ہوں جن کا مال بحیثیت قوم کے تمہارے سپرد ہو یعنی ان کے ماں باپ فوت ہو چکے ہیں ، وہ چھوٹی عمر کے ہیں اور ان کے اموال ہیں جو قوم کے قبضے میں ہیں یعنی قوم کی طرف سے جو بھی نگران مقرر کئے گئے ہیں ان کے قبضے میں ہیں فرمایا وہ مال ان کو اس وقت تک نہیں لوٹا نا جب تک ان میں رشد کے آثار نہ دیکھو، جب تک انہیں یہ سلیقہ نہ آجائے کہ خود اپنے مال کی کیسے حفاظت کی جاتی ہے.بہت ہی عظیم الشان گہرا اقتصادی بقا کا اصول ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے.مراد یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ مال ان کا ہے وہ کہہ سکتے ہیں تم کون ہوتے ہو ہمارے مال پر تسلط سے ہمیں روکنے والے.فرمایا کہ تم ان کو کہہ سکتے ہو کہ ہم تو کچھ نہیں لیکن ہمارا خدا تمہیں اس تصرف سے اس لئے روکتا ہے کہ تم اس بات کے اہل نہیں ہو.اس لئے قوم کو یہ حق دے دیا ہے کہ اپنے بے وقوفوں کے مال پر ، ان کے اپنے مال پر بھی ان کو تصرف نہ کرنے دو جب تک رشد کے یعنی عقل اور فہم کے آثاران میں نہ دیکھو.جب تک تربیت کر کے ان کو اس لائق نہ بنا دو کہ وہ خود اپنے مال کی حفاظت کر سکیں.پس اگر وہاں یہ اصول ہے تو جہاں آپ اپنا مال دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ نے کا ارادہ رکھتے ہوں، خواہ وہ نیک نیتی سے رکھتے ہوں، وہاں یہ احتیاطیں بدرجہ اولی لازم ہیں اگر ان احتیاطوں میں آپ نے پورے انہماک سے کام نہ لیا تو ایسے لوگ پھر نقصان بھی پہنچادیں گے اور پھر ا کثر ایسے لوگ ناشکرے بھی رہتے ہیں.آپ ان کی مدد کریں گے، آپ ان کے سپرد کام کریں گے، کچھ پیسے کھا جائیں گے، کچھ تجارت کے مال کا نقصان پہنچا جا ئیں گے اور بعد میں باتیں بنائیں گے کہ ہمارا اس نے کھا لیا ہے.ہم نے اس کی خاطر اتنی محنت کی ، ہم نے اس کے لئے ایسے ایسے ٹھیکے حاصل کئے اور آخر پر نتیجہ نکلا یہ کہ ہمیں دھکے دے کر باہر نکال دیا.عمر بھر کی بدنامی آپ کے ساتھ لگی رہے گی.یہ تو درست ہے کہ اگر خدا کی خاطر آپ ایسا کریں گے، گرے پڑوں کو سہارا دینے کے لئے ایسا کریں گے تو آخرت کا اجر تو آپ کا یقینی ہے لیکن مومن کو تو ” في الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ “ کی دعا کی تعلیم دی گئی ہے.یہ سکھایا گیا ہے کہ محض ایسے کام نہ کرو کہ آخرت میں جن کا اجر دیکھو، ایسے کام کرو اور ایسے نیک پھلوں کی دعائیں کرو کہ اس دنیا میں بھی تمہیں

Page 418

405 حاصل ہوں اور تمہارے لئے فائدہ مند ہوں اور آخرت میں تو بہر حال اس سے بہت زیادہ فوائد تمہارے انتظار میں تمہاری امانت رکھیں گے.وہ کام گویا آپ کے نیک اجر کے امین بن جاتے ہیں.گرے پڑے لوگوں کی بحالی کے لئے کوشاں ہوں تو ان معنوں میں میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے میں سے گرے پڑے ایسے لوگوں کی بحالی کے لئے کوشاں ہوں جو کسی بد عادت کی وجہ سے نہیں بلکہ بعض ایسی مجبوریوں یا حادثات کے نتیجے میں ایک حال کو پہنچ گئے ہیں.محض کچھ کچھ پیسے دے کر ان کو زندہ رکھنا ان کی عزت نفس کے خلاف ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب تک آپ ان کو خود اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں کر لیتے وہ سوسائٹی کا ایک معزز جزو نہیں بن سکتے.آپ کے نزدیک معزز ہو بھی جائیں تو ان کا اپنا ضمیر ان کو ہمیشہ ملامت کرتا رہے گا.اس لئے ان کے وقار اور ان کی عزت نفس کی حفاظت کی خاطر کوشش کریں کہ وہ کسی رنگ میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں لیکن اس رنگ میں کوشش نہ کریں کہ خود تو کھڑے نہ ہوسکیں ، آپ کو بھی لے ڈوبیں اور آپ کو بھی اس حال کو پہنچادیں جس حال کو وہ بدنصیب آپ پہنچے ہوئے ہیں.پس ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھ کر جس حد تک ممکن ہے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اس نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کریں کہ آپ اپنے بے یارومددگار بھائی کو بے یار و مددگار نہ چھوڑیں..بھائی کی ضروریات کا خیال رکھنے والے کی ضروریات کا اللہ تعالی کفیل ہو جاتا ہے پھر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا جو شخص اپنے بھائی کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت کا خیال رکھتا ہے." اور یہ بھی ایک ایسا ارشاد ہے جو سو فیصدی قطعیت کے ساتھ تجربے میں درست دکھائی دیتا ہے.اگر کوئی شخص محض اپنی ضروریات کی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے اور ہر وقت اس کے ذہن پر یہ دباؤ ہے کہ میری فلاں ضرورت پوری نہیں ہوئی ،فلاں ضرورت پوری نہیں ہوئی، وہ خود بھی دعائیں کرتا ہے نیک ہونے کی وجہ سے، اور بسا اوقات مجھے بھی دعاؤں کے لئے لکھتا ہے، اور اس کی تمام شخصیت کھل کر میری آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے کیونکہ اس کا فکر اس کا ہم و غم صرف اپنی ذات کے لئے ہے.ایک اور قسم کا احمدی بھی ہے جو اپنے لئے بھی دعا کے لئے لکھتا ہے،اپنے بعض دوسرے مجبور بھائیوں کے لئے بھی دعا کے لئے لکھتا ہے اور فکر کرتا ہے کہ اس کو یہ تکلیف ہے، اس کو یہ تکلیف ہے اس کے لئے بھی دعا کریں، اس کے لئے بھی دعا کریں.اس کی شخصیت بھی کھل کر میرے سامنے آ جاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی غلامی کے دائرے میں شمار ہونے کے زیادہ لائق ہے کیونکہ وہ دوسروں کی فکر میں رہتا ہے.اور بعض ایسے ہیں جو پھر اس فکر کو بھی بڑھا کر دین کی فکر کو اتنا اپنے اوپر

Page 419

406 غالب کر لیتے ہیں کہ بعض دفعہ ان کے خطوں میں کسی اپنی ذاتی کسی دوست کی ضرورت کا بھی کوئی ذکر نہیں ملتا.ہر وقت یہ فکر ہے کہ دین کی یہ ضرورت پوری ہو، دین کی وہ ضرورت پوری ہو، جماعت کی تربیت میں کمزوری ہے، اللہ تعالیٰ توفیق بخشے کہ ہم اس کمزوری کو دور کرسکیں.تبلیغ میں یہ کمزوری ہے اور دیگر مسائل جماعت کے یہ ہیں پس ایسے لوگوں کے خط ان مشکلات کے ذکر سے بھر پور ہوتے ہیں جو ان کی ذات سے تعلق نہیں رکھتیں.ایسے لوگ کیا گھانا کھانے والے ہیں؟ کیا ان کا سودا نقصان کا سودا ہے؟ جن کو اپنی ہوش نہیں باقی ہر چیز کی گویا ہوش ہے.اپنے بھائیوں کی ہے، دین کے کاموں کی ہے، دین پر پڑنے والی مصیبتوں کی ہے، گویا اپنی ذات پر، اپنے عزیزوں پر مصیبت ہی کوئی نہیں.حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ گھانا کھانے والے نہیں ہیں.کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی مسلمان کی تکلیف اور بے چینی دور کرتا ہے بلکہ جوشخص اپنے بھائی کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے وہاں سے بات شروع فرمائی ہے، اس کی ضرورت کا خیال رکھتا ہے، جو شخص اپنے بھائی کی تکلیف اور بے چینی کو دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف اور بے چینی کو دور کرتا ہے.تو یہ امر واقعہ ہے اور میں اپنے ذاتی وسیع تجربے سے آپ کو بتاتا ہوں یعنی جماعت احمدیہ کے ساتھ جو میرا وسیع تعلق ہے اور ساری دنیا کے جماعت کے حالات پر کسی نہ کسی رنگ میں نظر رکھتا ہوں کہ ایسے لوگ جو اپنے بھائی کی ضرورت میں مگن رہتے ہیں ، ان کا خیال رکھتے ہیں، جو جماعتی ضروریات کی خاطر اپنی ضروریات کو بھلا بیٹھتے ہیں اللہ تعالیٰ کبھی ان کو بھلاتا نہیں.ان کی سب ضروریات کا خود خیال رکھتا ہے اور بسا اوقات دعا کے لئے ہاتھ اٹھنے سے پہلے وہ ان کی ضروریات کو دعا سمجھ کر قبول فرمالیتا ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کر دیتا ہے.پس بہت ہی محفوظ زندگی ہے ایسے مومن کی جس کا نقشہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس نصیحت میں کھینچا ہے اس سے بہتر اور کیا تصور ہو سکتا ہے کہ آپ خدا کے بندوں کی ضرورتوں میں مگن رہیں.آپ کی طاقت تو کم ہے آپ تو وہ سب ضرورتیں پوری نہیں کر سکتے لیکن آپ کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے آپ کی پشت پر وہ دنیا کا خالق و مالک کھڑا ہو جائے جس کی طاقت میں ہر چیز ہے اس سے اچھا بھی کوئی سودا ہوسکتا ہے؟ کتنا عمدہ، کیسا پیارا، کیسا نفع بخش سودا ہے کہ اپنی ادنی طاقتوں کو آپ نے خدا کے بندوں کے لئے وقف کر دیا یا خدا کی جماعت کی ضروریات کے لئے وقف کر دیا اور اس کی طاقتیں حاصل کر لیں جو تمام طاقتوں کا سر چشمہ ہے.پس بہت ہی عظیم الشان نصیحت ہے یہ.اس پر کان دھر میں اور اس سے فائدہ اٹھا ئیں کیونکہ یہ سو فیصدی سچی بات ہے آپ کی ساری تکلیفوں کے حل ہونے کا راز اس میں پوشیدہ ہے.فرماتے ہیں جو شخص کسی مسلمان کی تکلیف اور بے چینی کو دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف اور بے چینی کو دور کر دیتا ہے.جو شخص کسی کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن پردہ پوشی کرے گا.

Page 420

407 جس طرح اپنی پردہ پوشی کرتے ہو غیر کی بھی پردہ پوشی کرو پردہ پوشی کا مضمون بھی اسی طرح بدن سے تعلق رکھتا ہے جیسا کہ باقی سب امور جو میں نے بیان کئے ہیں ایک بدن کی مثال سے تعلق رکھتے ہیں.ایک انسان جب دیکھتا ہے کہ کسی جگہ سے وہ بے پرد ہو رہا ہے تو فورا بے اختیار اس کا ہاتھ اپنے اس قمیص کی طرف یا اس کپڑے کی طرف جائے گا جو ننگے بدن کو ڈھانپ نے اور بعض دفعہ بجلی کی سرعت سے، بغیر سوچے سمجھے، از خود ہاتھ حرکت کرتا ہے.احساس ہو سہی کہ کہیں سے میں نگا ہو رہا ہوں اور اپنے جرموں پر بھی اور اپنی کمزوریوں پر بھی پردہ ڈالنے کے لئے تو انسان اتنی اتنی کوششیں کرتا ہے کہ بعض دفعہ وہ کوششیں دھوکہ دہی تک پہنچ جاتی ہیں.شرم سے اپنی کمزوریوں کو دور کرنا اور ان پر پردہ ڈالنا اور بات ہے لیکن دھو کہ وہی کی خاطر، جو نہیں ہے، وہ دکھانا وہ اور چیز ہے.تو پردہ پوشی بعض دفعہ بے احتیاطی کے ساتھ کی جائے، اور انسان کا ضمیر عموما اس معاملے میں انسان کو بے احتیاطی پر مجبور کر ہی دیتا ہے، تو وہ دکھاوے پر منتج ہو جاتی ہے، وہ منافقت پر منتج ہو جاتی ہے، اتنا گہرا مادہ انسان کے اندر اپنے ننگ اور عیوب کو ڈھانپنے کا فطر تا ودیعت کیا گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب میں نے تمہیں ایک بدن قرار دے دیا، جب تم سے مجھے یہ توقعات ہیں کہ ایک جسم کی طرح اپنے تمام بھائیوں سے سلوک کرو گے جس طرح ایک جسم کے ہر عضو سے تمہاری روح تمہارا دماغ، تمہارا شعور سلوک کرتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ جس طرح اپنی پردہ پوشی کرتے ہو غیر کی بھی پردہ پوشی کرو.اور پردہ پوشی کے مضمون میں اس دنیا کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ قیامت کا ذکر فرمایا ہے.ضرورتیں پوری کرنے کے مضمون کا جہاں تک تعلق ہے وہاں یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ضرورتیں پوری کر دیے گا.پردہ پوشی کے تعلق میں اس دنیا کا ذکر ہی کوئی نہیں قیامت تک بات پہنچا دی.یہ اس بات کی گہری اور قطعی دلیل ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ، اللہ کے نور سے کلام کرتے تھے اور یہ حدیث یقیناً کچی حدیث ہے.کیونکہ ایک عام باتیں کرنے والا انسان، عام نصیحت کرنے والا انسان از خود اس موقع پر یہی کہے گا کہ تم کسی کی پردہ پوشی کر و خدا تمہاری یہاں پردہ پوشی کرے گا.اچانک اس بات کو اٹھا کر قیامت تک پہنچا دینا اس میں ایک گہری حکمت ہے.باقی تمام ضرورتوں کا تعلق دنیا سے ہے اور قیامت کی پردہ پوشی کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا کی پردہ پوشی اس میں شامل ہے لیکن بہت سے ایسے ہیں جن کے عیوب اس دنیا میں نگے نہیں ہوں گے مگر قیامت کے دن ضرور ننگے کئے جائیں گے.پس آخری پردہ پوشی وہی ہے جو قیامت کے دن ہوگی اور قیامت کے ذکر میں دنیا کی پردہ پوشی کو حضرت اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بھلا نہیں دیا، نظر انداز نہیں فرمایا ، بلکہ فرمایا ہے کہ وہ دن جب کہ دنیا میں سب ڈھکے

Page 421

408 ہوئے پر دے اگر خدا چاہیئے گا تو اتار دیے جائیں گے اور ہر ڈھکے ہوئے بدن کو نگا بدن دکھایا جائے گا اس دن تمہاری بھائی کی پردہ پوشی تمہارے کام آئے گی.اور خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہارے عیوب کا پردہ بن کر تمہاری کمزوریوں کے سامنے آکھڑی ہوگی.اگر وہاں پردہ پوشی ہے تو اس دنیا میں لازما ء ہے یہ اس کے اندر شامل بات ہے.کیونکہ وہ دنیا جس نے یہاں کسی کا ننگ دیکھ لیا، قیامت کے دن دوبارہ دیکھے نہ دیکھے ، باخبر تو ہو گی مگر وہ پردہ پوشی اس مضمون کا انتہائی مقام ہے.تم نہ یہاں ننگے کئے جاؤ گے.نہ وہاں ننگے کئے جاؤ گے.اتنی عظیم الشان خوشخبری ہے اور سب سے زیادہ دنیا اس بات سے غافل ہے.اپنے بھائی کے عیوب کو تلاش کرنا جس کے خلاف قرآن کریم کی واضح نصیحت موجود ہے، ہدایت ہے وَلَا تَجَسَّسُوا “ ہرگز تجسس اختیار کر کے اپنے بھائیوں کی کمزوریاں نہ پکڑا کرو اس سے کلیۂ غافل بلکہ آگے بڑھ کر کمز ور یاں تلاش کرتے ، ان کے متعلق باتیں کرتے ،سوسائٹی میں وہ خبریں پھیلاتے اور خاص طور پر عورتوں میں یہ بیماری ہے اور مردوں میں بھی ہے.کسی کا خط نہ پڑھو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے پردہ پوشی کے مضمون کو تو درجہ کمال تک پہنچا دیا ہے.جب میں نے یہ ذکر کیا کہ باقی انبیاء کی نصیحتیں دیکھ لیں اور مقابلہ کر کے دیکھیں تو بعض غیر مذاہب والے جب بات کو سنتے ہیں یا سنیں گے تو وہ سمجھتے ہوں گے کہ شاید اپنے نبی کی تعریفیں تو ہر ایک کرتا ہی ہے.مگر جب میں مضمون بیان کر رہا ہوں اس پر دیانتداری سے غور تو کر کے دیکھیں کوئی ایسی مثال تو نکال کے دکھائیں کہ کسی دنیا کے نمی نے پردہ پوشی کے مضمون کو اس شان سے بیان کیا ہو اور اس تفصیل سے بیان کیا ہو اور اس گہری حکمت اور فراست سے بیان کیا ہو.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر جوتعلیم اتری ہے اس نے اس کے سارے پہلوؤں کو ڈھانپ لیا ہے.”.لَا تَجَسَّسُوا فرمایا کہ ذکر کرنا تو بعد کی بات ہے ، نظر ہی نہ ڈالو، تلاش ہی نہ کرو.تمہارے سامنے اگر کسی کی کمزوری آ جاتی ہے تو اس سے بھی آنکھیں بند کرنے کی کوشش کرو.بعض معاملات میں اس کی اجازت نہیں ہے اس کا ذکر بھی ضروری ہے لیکن وہ میں بعد میں کروں گا.عام طور پر جو بھائیوں کی کمزوریاں ہیں ان کے متعلق یہ تعلیم ہے اور اس ضمن میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے تعلیم کو اس حد تک آگے بڑھا دیا ہے کہ وہ زمانہ جب کہ خط وکتابت کا رواج ہی نہیں تھا، شاذ کے طور پر لوگ خط لکھا کرتے تھے، اس وقت یہ تعلیم دی کہ کسی کا خط نہ پڑھو.حالانکہ یہ مضمون آج کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے اور آج بھی بہت بے وقوف اور متجسس لوگ ایسے ہیں جو چوری ایک دوسرے کے خط پڑھتے ، پھر ان کو احتیاط سے کھولتے اور اسی طرح بند کرتے ہیں اور بتاتے ہیں گویا ہمیں

Page 422

409 پتہ نہیں لگا اور گھر میں بہو بیٹیوں کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں.بعض لوگ گھر میں کسی کی بیٹی آ جائے تو یہ دیکھنے کے لئے کہ اپنے ماں باپ کو کیا لکھتی ہے یا اس کے ماں باپ اس کو کیا لکھتے ہیں وہ اس کے خطوں کو اس طرح خفیہ خفیہ کھولتے اور اس کے ارادوں کو معلوم کرتے ہیں حالانکہ یہ شدید گناہ ہے.ایسی بات ہے جیسے جہنم کی آگ اپنی آنکھوں کے لئے مانگی جائے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بڑی تنبیہ کے ساتھ اس بات سے منع فرمایا ہے.آج کل ایک ایسی چیز بھی ایجاد ہو چکی ہے جو اس زمانے میں نہیں تھی مگر خط کا مضمون اس پر بھی حاوی ہے اور وہ ٹیلیفون ہے.بعض لوگ بڑی عمر کو پہنچ جاتے ہیں لیکن ایسے بیوقوف اور بیمار ہوتے ہیں کہ ان کو مزہ ہی اس بات میں آتا ہے، یہی چسکا بنایا ہوا ہے زندگی کا ، کہ گھر میں بیٹھے لوگوں کے فون سن رہے ہیں اور یورپ میں تو ایسے لوگ ہیں جن کا پیشہ ہی یہ بن چکا ہے کہ بعض آلات کے ذریعہ وہ لوگوں کے ٹیلیفون سنتے ہیں.چنانچہ انگلستان میں ایک مشہور واقعہ ہوا جس کے ساتھ سارے ملک میں بڑی دیر تک شور پڑا رہا کہ ایک شہزادی کے ٹیلی فون کو ایک ظالم آدمی نے اسی طرح بعض خاص آلات کے ذریعے سننا شروع کیا، اس کی ریکارڈنگ کی، اس ریکارڈنگ کو اخبارات کے سامنے بیچا اور اس بے چاری کی ، اس طرح اس کی بدی اور فطری کمزوری کی تشہیر کی اور انہوں نے ٹیلیفون کال کی بڑی قیمت مقرر کر دی کہ یہ پیسے دو گے تو پھر تمہیں ہمارا وہ ٹیلیفون نمبر ملے گا جہاں تم کچھ دیر کے لئے وہ ریکارڈنگ سن سکو گے جو اس شہزادی نے اپنے طور پر کسی سے کی تھی.اور پتہ لگا کہ اتنا زیادہ کالوں کا رجحان تھا کہ وہ فون بار بار ” ڈراپ کر جاتا تھا.اور بڑی بڑی رقمیں خرچ کر کے ، لوگ چسکے لینے کے لئے ، اس پرائیویٹ گفتگو کو سنتے تھے.تو دیکھیں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے انسان کے ذاتی امور کی حرمت کو کس شان سے بیان فرمایا ہے.کیسی پاکیزہ سوسائٹی کو جنم دیا ہے جس کا تصور آج چودہ سو سال بعد بھی ، ایسے ملک میں بھی موجود نہیں جو اپنے آپ کو سویلائزیشن کے بلند ترین مقام پر بیان کرتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ ڈیما کریسی اور انسان کے ذاتی حقوق کے جیسے ہم علم بردار ہیں ایسے دنیا میں اور کوئی نہیں اور امر واقعہ بھی یہ ہے کہ دنیا کی نسبتوں سے جیسا انگلستان کو ڈیما کریسی کے او پر فخر کاحق ہے ویسا دنیا میں اور کسی قوم کو نہیں ہو سکتا.لیکن اس کے باوجود نفسی آزادی اور نفسی حق کی حفاظت کا وہ تصور وہاں نہیں ملتا جو چودہ سو سال پہلے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا اور اس میں جیسا کہ میں نے خط کے تعلق سے بیان کیا ہے ٹیلیفون کال ، الگ بیٹھ کر باتیں کرنا یہ ساری چیزیں شامل ہو جاتی ہیں.ہر تجسس سے آپ کو روکا گیا ہے اور ساتھ یہ نصیحت فرمائی گئی ہے کہ اگر سن لوتو پھر اپنے تک رکھو پھر پردہ دری نہ کرنا.جہاں یہ خوشخبری دی ہے کہ اگر تم پردہ پوشی کرو گے تو اللہ قیامت کے دن تمہاری پردہ پوشی فرمائے گا وہاں اس میں یہ تنبیہ بھی شامل ہے کہ اگر پردہ دری کرو گے تو قیامت کے دن

Page 423

410 تمہاری پردہ پوشی کی کوئی ضمانت نہیں ہے.اور جس کی قیامت کے دن پردہ دری ہوگی اس کی دنیا میں بھی پردہ دری ہوتی ہے.اپنی طبیعت کے مجسات پر نفرت کی نگاہ ڈالیں پس اس بہت ہی پاک اور گہری نصیحت کو اپنے معاشرے کی اصلاح کے لئے غیر معمولی اہمیت دیتے ہوئے اختیار کریں اگر آپ ان چند نصیحتوں کو اختیار کریں جن کا میں نے ذکر کیا ہے اور ایسی بہت سی ہیں جن کا بعد میں انشاء اللہ اس خطبات کے سلسلے میں ذکر آتا رہے گا تو آپ اپنے معاشرے کو جنت نشان معاشرہ بنا سکتے ہیں.اپنی طبیعت کے تجسّسات پر نفرت کی نگاہ ڈالیں.ان کو چھوڑ دیں، یہ کمپنی لذتیں ہیں، ان سے کوئی فائدہ نہیں ، ان سے گھروں کے امن اٹھ جاتے ہیں، ایک بھائی کو اپنے بھائی پر اعتماد باقی نہیں رہتا، ایک بہو کو اپنے خسر یا اپنی ساس پر اعتماد نہیں رہتا.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سارے میری جستجو میں ہیں، اس طرف لگے ہوئے ہیں کہ کسی طرح میری کوئی مخفی بات کسی کے علم میں آ جائے.چنانچہ یہ ہوتا ہے اور اس حد تک ہوتا ہے کہ بعد میں جب مقدمات چلتے ہیں تو بعض دفعہ مجھے لکھا جاتا ہے کہ ہم نے خود اس بہو کا خط پکڑا ہوا ہے اس میں یہ بات لکھی ہوئی تھی اب بتائیں ہمارا رویہ درست ہے کہ نہیں.ان کو میں کہتا ہوں تمہارا رویہ تم جو کچھ کہو ایک شیطانی رویہ تھا.تمہیں کوئی حق نہیں تھا کہ اپنی بہو کے ایسے خط کو پڑھو اور کوئی حق نہیں ہے کہ اب اسے عدالتوں میں یا میرے سامنے پیش کرو.پس حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نصیحتوں کو غیر معمولی اہمیت دیں آپ کی چھوٹی چھوٹی نصیحتوں میں بھی قیامت تک کے لئے بنی نوع انسان کی امن کی ضمانتیں دی گئی ہیں اس ضمانت کے نیچے آجائیں، اسی کا سایہ ہے جو امن بخشے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے." (الفضل انٹر نیشنل 6 مئی 1994ء) تمام دنیا کی فتح حسن خلق پر مبنی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں دعا کے بعد سب سے زیادہ قوی ہتھیار حسن خلق کا ہتھیار تھا مجلس انصار اللہ یوایس اے کے اجتماع میں شاملین کو نصائح ) (خطبہ جمعہ 13 مئی 1994ء) ایک اجتماع مجلس انصار اللہ یوایس اے کا ہے جو تیرھواں سالانہ اجتماع ہے.کل چودہ مئی سے شروع ہو رہا ہے اور پندرہ مئی کو اختتام پذیر ہو گا.اور ایک جماعت احمدیہ ملتان کے واقفین نو کی تربیتی کلاس

Page 424

411 ہے.ان سب کو عمومی طور پر میرا پیغام وہی ہے جو میں خطبے میں سب جماعت کو دے رہا ہوں اور اس خطبے میں بھی اسی سلسلے میں چند اور باتیں کروں گا.جن آیات کی میں نے تلاوت کا ہے ان کو ترجمہ یہ ہے کہ اور اللہ کی عبادت کرو اور لَا تُشْرِكُوْابِه شَيْئًا اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھہراؤ.وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا اور والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرو.و بِذِي الْقُرْبی اور اقرباء کے ساتھ بھی، اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بھی اور یتیموں کے ساتھ بھی اور مسکینوں کے ساتھ بھی وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبى اور وہ پڑوی جو قرب میں رہتے ہوں.اس کے مختلف معانی کئے گئے ہیں مگر ایک معنی یہ میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں وَالْجَارِ ذِي الْقُربى اور وہ پڑوسی جو قریب میں رہتے ہوں.وَالْجَارِ الْجُنُبِ اور وہ پڑوسی جو پہلو میں رہتے ہیں مگر ویسے رشتہ دار نہیں وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ اور ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے لوگوں کے لئے وَابْنِ السَّبِیلِ اور رستہ چلتے یعنی مسافروں کے لئے وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ اور جن پر تمہارے ہاتھوں کو غلبہ عطا ہوا ہو.ان سب سے حسن سلوک کرو إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْر یاد رکھو اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والے اور اترانے والے شخص کو پسند نہیں فرما تا.اترانے والا اس کو کہتے ہیں جو چھوٹی سی بات پر اچھلنے لگ جائے اور فخر کے ساتھ دکھاوا کرنے لگے.فرمایا فَخُورَ فخر کرنے والے اور اترانے والے شخص کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرما تا الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وہ لوگ جو بخل سے کام لیتے ہیں اور بخل ہی کا حکم بھی دیتے ہیں.وَيَكْتُمُونَ مَا اشْهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِیہ اور جو خدا نے ان پر فضل فرمائے ہوئے ہیں وہ انہیں لوگوں سے چھپاتے ہیں تاکہ کہیں مانگ نہ بیٹھے.بتاتے نہیں ہیں کہ انہیں خدا نے کیا کچھ عطا کیا ہوا ہے.انکساری کی بناء پر نہیں بلکہ اس خوف کی وجہ سے نہیں بتاتے کہ لوگوں کو پتہ لگا کہ ہمارے پاس کیا کچھ ہے تو کہیں مانگ نہ بیٹھیں.وَاعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا اور کافروں کے لئے ہم نے ایک ذلت والا عذات مقرر کر رکھا ہے یا تیار کر رکھا ہے.یہ جو آیات ہیں ان کے مضمون پر میں احادیث کے حوالے سے روشنی ڈالوں گا.عبادت خالصہ اللہ کے لئے ہو عمومی طور پر ان کا تعارف یہ کرواتا ہوں کہ اللہ کی عبادت جس میں شرک کا شائبہ بھی نہ ہو یہ بنیادی تعلیم ہے.وہ عبادت جو خالصہ اللہ کے لئے ہو اور شرک سے کلیۂ پاک اور صاف ہو وہ انسانی تعلقات کو قائم

Page 425

412 کرنے کی تلقین کرتی ہے.پس وہ عبادت گزار جو دنیا سے تعلقات کاٹ کر ایک طرف ہو جائیں وہ حقیقت میں واحد خدا کی عبادت کرنے والے نہیں بلکہ کسی اور ذات کی عبادت کرتے ہوں گے اللہ کی عبادت کرنے والا جو شرک سے پاک ہو اس کی یہ صفات ہیں اور ان صفات سے اس کی عبادت کا خلوص پہچانا جائے گا کیونکہ جو عبادت انسان خدا کے حضور کرتا ہے اس پر دنیا تو گواہ نہیں ہے اس کے دل کی کیفیت ہے.وہ خالصتا اللہ کے لئے ہے کہ نہیں ، شرک سے پاک ہے کہ نہیں.یہ سارے وہ معاملات ہیں جن کا رخ خدا کی طرف ہے اور اللہ دیکھ رہا ہے اور بندے کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہورہا ہے لیکن ایسے لوگوں کی کچھ علامات ایسی ہیں جو بندے بھی دیکھ سکتے ہیں.اور ان علامتوں کو دیکھ کر ان کو معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ خالص عبادت کرنے والا غیر مشرک ہے جس نے اپنے وجود کو تمام تر اللہ کے لئے کر دیا یہ وہ لوگ ہیں جن کی صفات بیان ہو رہی ہیں.والدین سے احسان کا سلوک کریں سب سے پہلے فرمایا وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا کہ والدین سے احسان کا سلوک کرو.والدین ایک قسم کے رب بن جاتے ہیں کیونکہ والدین کے ذریعے انسان دنیا میں آتا ہے اور خدا تعالیٰ کے بعد سب سے پہلے والدین ہی کا ذکر ضروری تھا اور یہی کیا گیا ہے لیکن والدین کو ایسے مرتبے پر رکھا ہے جہاں فرمایا ان کے ساتھ احسان کا سلوک کرو.خدا تعالیٰ کا جہاں تک معاملہ ہے خدا تعالیٰ کے ساتھ احسان کا سلوک ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کے احسان ہم پر حاوی ہیں اور اس میں ایک بہت لطیف مضمون یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر چہ ماں باپ تمہیں پیدا کرتے ہیں مگر احسان اللہ کا ہے جب تم ان کے ساتھ حسن سلوک کرو تو ایسا کرو کہ تمہاری طرف سے وہ احسان ان کی طرف رواں ہونے والا ہو.ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ دعا کرو ان کے لئے کہ اے خدا! ان سے یہ سلوک فرما اور یہ سلوک فرما: كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًا جس طرح انہوں نے بچپن میں میری تربیت فرمائی اور میری پرورش کی.لیکن وہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ والدین کا احسان ہے.احسان تو ہے اس کا انکار نہیں یہ نہ غلطی سے سمجھیں کہ نعوذ بالله من ذلك قرآن كريم والدین کے احسان کی نفی فرمارہا ہے.جس سیاق و سباق میں بات ہو رہی ہے وہاں مضمون ہے کہ احسان اللہ ہی کا ہے اور تخلیق کے جو ذرائع اس نے پیدا فرمائے ہیں ان کے ذریعے ایک چیز پیدا ہوتی ہے اور وہ احسان کی خاطر ماں باپ ایسا نہیں کرتے.اب آپ دیکھ لیں جو آج کل کی دنیا میں ماں باپ کے سامنے بچے سر اٹھاتے ہیں اور بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں ان میں ایک یہ بات بھی ہوتی ہے کہ تم نے کون سا ہم پر احسان کیا ہے.تم نے شادی کی تھی اپنی لذتوں کی خاطر ، اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے.ہم نے تو پیدا ہونا ہی تھانہ ہوتے تو پھر تمہیں تکلیف پہنچتی.ہم پر کوئی احسان نہیں.یہ ایک ایسی بات ہے جو حقیقی ہے.میرے سامنے

Page 426

413 بعض دفعہ مغربی دنیا میں بعض لوگوں نے ذکر کیا کہ یہاں بچے ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں اور بعض دفعہ خطوں میں مشرق سے بھی بعض احمدی لکھتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے سر پھر گئے ہیں وہ بدتمیزی سے باتیں بھی کرتے ہیں کہ تم نے ہمیں پیدا کیا تمہارا کیا احسان ہے.یہ جو مضمون ہے یہ پھر آگے بڑھتا ہے.پھر ایسے سرکش خدا پر بھی ایسی ایسی باتیں کرنے لگ جاتے ہیں مگر واقعہ یہ ہے کہ ماں باپ کو پیدا کرتے ہیں تو احسان کی نیت سے پیدا نہیں کرتے اس میں کوئی شک نہیں لیکن اللہ جب پیدا فرماتا ہے تو احسان کے ساتھ پیدا فرماتا ہے.ماں باپ مستغنی نہیں ہیں یعنی اگر ان کے بچے نہ ہوں تو ان میں کمزوری واقع ہوتی ہے لیکن خدا مستغنی ہے اگر وہ بندوں کو پیدا نہ کرے یا یکسر مٹا دے تب بھی وہ اپنی حمد میں، اپنی ذات میں ہر دوسری چیز سے مستغنی رہے گا.پس یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا لازما احسان ہے اپنی مخلوق پر لیکن دوسرے لوگ جو چیزیں پیدا کرتے ہیں ان کا ان پر ان معنوں میں احسان نہیں جیسے خالق کا مخلوق پر احسان ہوا کرتا ہے تو فرمایا مگر تم نے ان سے احسان کا سلوک کرنا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ جو نسل پیچھے رہ رہی ہے وہ اس سے جو آنے والی نسل ہے مستغنی ہو جایا کرتی ہے اور احسان کے بغیر اس سے تعلقات کا حق ادا نہیں ہوسکتا.ماں باپ کبھی بھی بچوں سے مستغنی نہیں ہو سکتے لیکن بچے ماں باپ سے مستغنی ہو سکتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ ، پیچھے رہ گئے چھوڑ و پرے، ہماری زندگیاں ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اور ان کو بوجھ محسوس کرتے ہیں.پس وہ لوگ جو ماں باپ کی ان قربانیوں کو بھول جاتے ہیں جو چاہے وہ اپنے نفس کی تسکین کی خاطر ہی کرتے ہیں.مگر بہر حال قربانیاں ہیں اور بعد کی خدمتوں کو بھول جاتے ہیں ان کو توجہ دلائی کہ تم اگر احسان مند نہیں ہونا چاہتے تو احسان کرو کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تمہاری خاطر تکلیفیں بہر حال اٹھائی ہیں.چنانچہ ماں کے ذکر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو کتالمبا عرصہ وَهُنَّا عَلَى وَهْنٍ ایک تکلیف کے بعد دوسری تکلیف اٹھاتے ہوئے تمہیں ماؤں نے اپنے بیٹوں میں پالا ہے اور یہاں تک کہ تمہاری پیدائش ہوئی پھر اس کے بعد تمہارے لئے تکلیفیں اٹھاتی رہیں تو اللہ احسان کا انکار نہیں فرما رہا مگر ایک نفسیاتی انداز ہے گفتگو کا جو بہت ہی گہرا اور انسانی فطرت سے مطابقت رکھتا ہے.بجائے یہ کہنے کے کہ اے بچے ، اے لڑکے تو اپنے ماں باپ کا احسان یاد کر اور وہ بدلے اتار.امر واقع یہ ہے کہ ماں باپ کے احسان کے بدلے اتر ہی نہیں سکتے نہ خدا کے احسان کے اتر سکتے ہیں فرمایا اگر تو بوجھ محسوس کرتا ہے تو احسان کر کیونکہ اسی میں تیری بہتری اور تیری بھلائی ہے اور یہ سارے احسانات جن کا بعد میں ذکر آئے گا یہ اللہ کے احسان کی یاد میں ہی کئے جار ہے ہیں.اللہ کے بے شمار احسانات ہیں ان کا بدلہ خدا سے تو آپ اتار نہیں سکتے.اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندوں پر احسان کرو اگر تم احسان مند ہو اور یہ ہمیں خدا کا احسان اتارنے کی کوشش کرنے میں

Page 427

414 ایک رستہ بتا دیا.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے پوچھے گا یہ بات جو میں بیان کر رہا ہوں یہ حقیقت ہے یہ کوئی ملمع کاری نہیں بلکہ حضرت اقدس محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم نے انہی معنوں میں اس مضمون کو کھول کر ہمارے سامنے رکھا.جب کہ فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں سے ناراضگی کا اظہار فرمائے گا اور اس رنگ میں ان سے باتیں کرے گا کہ دیکھو جب میں بھوکا تھا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا، جب میں گھر میں مجھے گھر مہیا نہ کیا.ہر دفعہ بندہ یہ سن کر کہے گا کہ اے خالق و مالک ! میں محتاج ہوں تو محتاج نہیں.تو کب پیا سا تھا جب کہ میں نے تجھے پانی نہیں پلایا تو کب بھوکا تھا جب میں نے تجھے کھانا نہیں کھلایا.تو ہر دفعہ اللہ یہ جواب دے گا جب میرا ایک بندہ پیاسا تھا اور تو نے اسے پانی نہیں پلایا تو تو نے مجھے پانی نہیں پلایا.جب میرا ایک غریب بندہ بھوکا تھا اور تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تو گویا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا.اللہ کی عظمتوں کا کوئی حساب نہیں ہے وہ بھی اپنے لئے عاجزی کے رنگ ڈھونڈھ لیتا ہے حالانکہ ہر قسم کے عجز سے پاک ہے.تو اس آیت میں یہی مضمون ہے کہ اصل تو خدا کا احسان ہے مگر خدا کا احسان تم خدا پر اتار نہیں سکتے.خدا کے احسان کی یاد میں میرے بندوں سے احسان کا سلوک کرو اور ان میں سب سے پہلے ماں باپ کا حق ہے.سب سے پہلے سر فہرست ماں باپ کو بیان فرمایا.اب ماں باپ سے متعلق بد قسمتی سے آج کل جو نیا زمانہ ہے اس میں ان کی طرف کم سے کم توجہ رہ گئی ہے.مشرق میں بہت سی جگہوں پر ابھی تک یہ قدریں باقی ہیں لیکن مغرب میں تو تیزی سے یہ اعلیٰ قدریں ملتی جارہی ہیں اور مشرق میں بھی ایسے درناک اور تکلیف دہ واقعات سامنے آتے رہتے ہیں کہ نئی نسلیں اپنے ماں باپ کے تقاضے پورے نہیں کرتیں.یہ وہ مسائل ہیں جو جماعت احمدیہ کے سامنے بھی وقتا فوقتا آتے رہتے ہیں اور یہ مسائل ایسے ہیں جو ایک طرف کے نہیں دوسرے طرف کے بھی ہیں اور ان دونوں کے درمیان توازن رکھنا بے حد ضروری ہے.یہ بات سمجھا کر پھر میں چند احادیث آپ کے سامنے رکھوں گا.تو ازن اس لئے کہ ماں باپ کے احسان کے نام پر بعض دفعہ بچے ماں باپ کی طرف اتنا جھکتے ہیں کہ بیوی بچوں سے انصاف کے تقاضے بھول جاتے ہیں مگر ان کو یہ یاد نہیں رہتا کہ اللہ تعالیٰ نے احسان کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور احسان نا انصافی پرمبنی ہو ہی نہیں سکتا.اس راز کو سمجھیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ماں باپ سے احسان کرو لیکن ماں باپ سے احسان یہ اجازت نہیں دیتا کہ کسی اور سے نا انصافی کرو کیونکہ کوئی احسان نا انصافی کی بنیاد پر قائم نہیں ہوسکتا.اگر بیوی سے نا انصافی کی بنیاد پر ماں باپ کا احسان قائم ہوتا ہے تو اس آیت کریمہ کے مضمون کو جھٹلانے کے بعد رد کرنے کے بعد ایسا ہوسکتا ہے اس کے بغیر نہیں ہوسکتا.

Page 428

415 عدل کا حکم پہلے ہے پھر احسان کا یا درکھیں احسان اور عدل کا یہ جو تعلق ہے یہ قرآن کریم نے بار ہا کھولا ہے اور تمام تعلیمات میں یہ تعلق بہت نمایاں ہو کر دکھائی دیتا ہے.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَائِ ذِي الْقُرْبى اللہ پہلے عدل کا حکم دیتا ہے پھر احسان کا حکم دیتا ہے.جس نے عدل نہیں کیا اس نے احسان نہیں کیا اور احسان کے بعد پھر ایتاء ذی القربیٰ کا مقام ہے یعنی اس طرح دو جیسے وہ تمہارے اپنے ہوں اور وہاں احسان کا لفظ ہی بے تعلق دکھائی دینے لگے.تو اس لئے میں سمجھا رہا ہوں کہ اکثر مجھے اس قسم کے خط ملتے رہتے ہیں کبھی بچیوں کی طرف سے، کبھی ماں باپ کی طرف سے، کبھی لڑکوں کی طرف سے اور وہ پھر چھتے ہیں کہ ماں باپ کے حق میں کیا بات داخل ہے.ابھی پاکستان سے ایک نواحمدی خاتون کا خط بھی ملا ہے وہ بھتی ہے کہ ماں باپ کے احسان پر قرآن کریم نے بہت زور دیا ہے یعنی ان کے حقوق ادا کرنے پر بہت زور دیا ہے اور میری احمدیت ان پر اتنی شاق گزر رہی ہے کہ بعض دفعہ مجھے لگتا ہے کہ شاید ماں باپ کا حق ادا نہیں کر رہی اور گناہ کر رہی ہوں.ان کو تو میں نے سمجھانے کا خط لکھا ہے تاریخ کے حوالے سے.اس ماں کے حوالے سے جس نے اپنے بچے کے اسلام پر اتنی تکلیف محسوس کی تھی کہ ایک موقع پر اس نے کہا اے بیٹے میں تجھے اپنا دودھ نہیں بخشوں گی.میں حسرت کے ساتھ مروں گی اور ہمیشہ ہمیش کے لئے ترے دل پر یہ داغ لگا ر ہے گا کہ میں نے ماں سے بدسلوکی کی تھی اور مجھ سے ناراض گئی.الفاظ یہ نہیں تھے مگر مضمون یہی تھا جو ماں نے ادا کیا.اس وقت اس کے بیٹے نے کیسی حکمت کی بات کی اور کیسی عقل کی اور کیسی عارفانہ بات کی.اس نے کہا تو مجھے بہت پیاری ہے کوئی اور چیز دنیا میں مجھے اتنی پیاری نہیں مگر ایک یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میرا خدا.پس اگر تو کہتی ہے کہ اللہ اور رسول کو تیری خاطر چھوڑ دوں اور یہ ڈراوادیتی ہے کہ میں اس حالت میں مروں گی کہ تیرے گناہ نہیں بخشوں گی تو پھر اے ماں ! میرے سامنے سو جانیں تیری سسکتی ہوئی نکل جائیں مگر میں خدا کی قسم محمد رسول اللہ اور اپنے خدا کو نہیں چھوڑوں گا.یہ ہے حفظ مراتب کا معاملہ.اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ.ہر دوسرا تعلق اس کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتا.وبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا اب جو کچھ کر واللہ کی خاطر کرو کیوں کہ ہر شریک کی نفی ہو چکی ہے.ہر خاطر کی نفی ہو چکی ہے.اللہ کی خاطر کرو اور سب سے پہلے یاد رکھو کہ اللہ تمہیں والدین سے احسان کے سلوک کی

Page 429

416 ہدایت فرماتا ہے.اب احسان کا سلوک جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جائے گا اور بہت ہی بار یک توازن ہے جو آپ کو لازما اختیار کرنا ہو گا.اگر ماں اس بات پر راضی ہے کہ آپ دوسروں سے عدل کا سلوک نہ کریں تو پھر آپ کا ماں سے راضی ہونا یا ماں کو راضی رکھنا فرض نہیں ہے بلکہ اگر آپ عدل کو قربان کر کے ایسا کریں گے تو خدا سے بے وفائی کر کے ایسا کریں گے.لیکن دوسری طرف یہ بھی حکم ہے کہ ماں باپ چاہے زیادتیاں کرتے چلے جائیں ان کے سامنے اُف نہیں کرنی.ایسی صورت میں ماں باپ کی زیادتیاں برادشت کریں.وہ جتنے طعنے دیں، جس قدر سخت کلامی کریں آپ اف نہ کریں کیونکہ خدا کی خاطر آپ یہ برداشت کر رہے ہیں لیکن کسی کی حق تلفی نہیں کرنی.اس کے برعکس دوسری صورت بھی ہے کہ ماں باپ کو ایک ردی کی چیز کے طور پر پھینک دیا جاتا ہے اور بیوی بچوں کے ساتھ ایک انسان عیش وعشرت کی زندگی بسر کرتا ہے.یہ بھی نہ صرف عدل کے تقاضوں کے بالکل مخالف ہے بلکہ ایک بہت بڑا گناہ بن جاتا ہے.یہ صورت حال ہے اس کو باریک توازن کے ذریعے درست حالت میں رکھنا ایک بڑامشکل کام ہے.لیکن اگر آپ غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ اصل معاملہ حسنِ خلق یا بداخلاقی کا ہے.وہ لوگ جن کے اخلاق درست ہوں وہاں یہ مسائل اٹھتے ہی نہیں ہیں.جن کے اعلیٰ اخلاق ہوں وہاں تو اس بات کا کوئی واہمہ بھی پیدا نہیں ہوسکتا کہ کوئی بیٹا ماں اور بیوی کے حقوق کے درمیان یہ جنگ لڑ رہا ہو کہ کس کو کیا دوں اور کس سے کیسا سلوک کروں.وہاں تو ہر آدمی ایک دوسرے پر فدا ہورہا ہوتا ہے، ایک دوسرے کے لئے قربانی کر رہا ہوتا ہے.چنانچہ ماں باپ کے علاوہ ایک دوسری لسٹ لمبی سی ہے ان کا بھی خیال رکھنا ہوگا.مائیں، بہوئیں با اخلاق ہوں تو ان کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں پس میں نے جہاں تک ان حالات کا جائزہ لیا ہے مجھے ہر دفعہ بنیادی بیماری اخلاق کی کمزوری دکھائی دیتی ہے جہاں مائیں مثلاً اچھے اخلاق کی ہوں اور بہوئیں بھی اچھے اخلاق کی وہاں مل جائیں وہاں دونوں طرف سے ایسے ایسے پیارے فدائیت کے خط آتے ہیں کہ دل کی گہرائیوں سے از خود دعائیں اٹھتی ہیں اور ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ سبحان اللہ کیسی پیاری بہو اور کیسی پیاری ساس ہے کہ اپنے خطوں میں الگ الگ ایک دوسرے کی تعریفیں ، ان کے لئے دعائیں، انہوں نے ہمارا دل راضی کر دیا.بہوئیں لکھتی ہیں کہ ہمیں تو بعض دفعہ لگتا ہے وہ ہماری ماں سے زیادہ پیار کرنے والی ہے اور ساسیں لکھتی ہیں کہ ہماری بیٹیوں نے کب ہماری ایسی خدمت کی تھی جیسی یہ بہو کر رہی ہے.یہ تو بیٹیوں سے بڑھ گئی ہے.پس جہاں حسن خلق ہو وہاں نا انصافیوں کا تو وہم و گمان بھی باقی نہیں رہتا.احسان سے معاملہ ایتاء ذی القربیٰ میں داخل ہو جاتا ہے اور دنیا میں انسان کو جنت مل جاتی ہے.پس میری یہ کوشش ہے اور میں لمبے عرصے سے یہ کوشش کر رہا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے بنیادی اخلاق درست ہو جائیں تو ہمارے تمام معاشرتی اور باہمی لین دین کے

Page 430

417 مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے.بنیادی طور پر حق خلق ہے جو حقیقت میں قوموں کو زندہ کیا کرتا ہے اور حق خلق ہی ہے جو دنیا پر غالب آیا کرتا ہے دلائل اور مسائل سے دنیا نہیں جیتی جاتی.دلائل اور مسائل سے تو بعض دفعہ فساد بڑھتے ہیں.لیکن حسن خلق سے گھر بھی جیتے جاتے ہیں اور گلیاں بھی جیتی جاتی ہیں اور شہر بھی جیتے جاتے ہیں اور ملک بھی جیتے جاتے ہیں.تمام دنیا کی فتح حسن خلق پر مبنی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں دعا کے بعد سب سے زیادہ قوی ہتھیار حسن خلق کا ہتھیار تھا.پس گھریلو مسائل ہوں یا تمدنی مسائل ہوں یا مذہبی مسائل ہوں جماعت احمدیہ کو ایسے اعلیٰ اخلاق اختیار کرنے چاہئیں کہ جن کے نتیجے میں جن کو لوگ مسائل کہتے ہیں وہ دکھائی نہ دیں، مسائل اٹھیں ہی نہ.کیونکہ اعلیٰ اخلاق کے آدمی کے سامنے مسائل گھلتے رہتے ہیں جیسے غالب کہتا ہے.پر تو خلد سے ہے شبنم کی فنا کی تعلیم اس طرح بد ا خلاقیاں اور مسائل ایک اعلیٰ اخلاق کے چہرے کے سامنے از خود گھل جاتے ہیں پس وہ اعلیٰ اخلاق ہیں جن کو محمد رسواللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.پڑوسی کے حقوق حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بخاری میں حضرت ابن عمرؓ کی یہ حدیث درج ہے.ابن عمرؓ، حضرت عائشہ سے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبریل ہمیشہ مجھے پڑوسی سے حسن سلوک کی تائید کرتا آرہا ہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ کہیں وہ اسے وارث ہی نہ بنادے.پڑوسی کے ساتھ اتنا حسن سلوک کہ فرمایا مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آئندہ کبھی آئے تو وارث ہونے کی تعلیم بھی دے دے کہ پڑوسی کو خدا تعالیٰ نے تمہارے اموال میں وارث قرار دے دیا ہے اور یہ وہ رشتہ ہے جس میں مذہب کا اور خون کا کوئی تعلق نہیں ہے.قرآن کریم میں فرمایا وَ الْجَارِ ذِي الْقُرْبى جو قریبی ہیں اقرباء پڑوسی ہیں ان کا بھی خیال رکھنا ہے.لیکن جو بے تعلق ہیں ان کے ساتھ بھی برا برحسن سلوک کرنا ہے.پس یہ وہ مضمون ہے جس کو مغرب میں بہت کم سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہاں پڑوسی بعض دفعہ اس طرح ساتھ ساتھ رہتے ہیں کہ سالہا سال گزر جاتے ہیں اور کسی کو یہ بھی خبر نہیں ہوتی.وہ کون ہے کہاں سے آیا.پھر چلا گیا تو کہاں چلا گیا اور لوگ یہ بات پسند بھی نہیں کرتے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس رنگ میں پڑوسی سے تعلق کی ہدایت فرمائی ہے اس کے پیش نظر یہ تعلقات اجنبی ہونے کی بجائے پسندیدہ ہو سکتے ہیں اور ان پڑوسیوں میں بھی جو اسلام کی روح سے نا آشنا ہیں ان میں بھی اسلام کے حسن کے ذریعہ ان کے دلوں کو فتح کیا جا سکتا ہے.آنحضور نے ایک موقعہ پر ہدایت فرمائی کہ بہتر ہے کہ ایک عورت اپنے شور بے کو ذرا لمبا کر لے یعنی کھانا

Page 431

418 پکارہی ہے تو تھوڑ اسا اور پانی ڈال لے تاکہ ہمسائے کو بھی کچھ پہنچا سکے.اب یہ ایک فطری بات ہے کہ اگر آپ پڑوسی کے معاملات میں ویسے دخل دیں اور کھڑے ہو کے اس سے باتیں کرنا شروع کریں تو کم سے کم انگریز مزاج تو اس کے خلاف بھڑ کے گا اور بالکل پسند نہیں کرتا کہ آپ جاتے اس کو چھیڑیں، اسے سلام دعا کریں اور کھڑے ہو کر بعض دفعہ باتیں کرنے کی کوشش کریں یا پوچھنے لگ جائیں تم کون ہو لیکن اگر اسے کوئی تحفہ پہنچا دیں کہ آج ہمارے گھر میں یہ پکا ہے اور ہم نے چاہا کہ تمہیں بھی شریک کریں تو ہر گز اس کے خلاف کوئی بدرد عمل نہیں ہوگا.بلکہ غیر معمولی طور پر ایسے لوگ متاثر ہوتے ہیں.پڑوسی سے تعلقات قائم کرنے کی مثال مجھے جرمنی سے ایک خاتون نے خط لکھا جن کے ہمسایوں سے بہت اچھے قریبی مراسم مضبوط ہونے لگ گئے ، قرار پا گئے اور اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ایک موقع پر کوئی چیز انہوں نے پکائی تو اپنے ہمسائے کو بھیجوا دی یہ کہہ کر کہ یہ ہمارا پاکستانی طرز کا کھانا ہے.میں نے سوچا کہ آپ کو بھی کھلائیں.اتنا متاثر ہوا.وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسے واقعات بھی اس دنیا میں ہو سکتے ہیں.یہ خود گھر پر چل کر شکر یہ ادا کرنے کے لئے آیا اور پھر تبلیغ کی ساری باتیں سنیں ، دلچسپی لی ، کتابیں مانگیں اور اب پورا تبلیغ کا سلسلہ اس کے ساتھ شروع ہو چکا ہے.تو جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا گھر بھی اعلیٰ خلق سے جیتے جائیں گے.دنیا بھی اعلیٰ خلق سے ہی جیتی ہے جائے گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طریق ہمیں سمجھائے ہیں وہ ضرور دلوں کو فتح کرنے والے ہیں.پھر حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے، خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے.آپ سے پوچھا گیا یا رسول اللہ ! کون مومن نہیں ہے.آپ نے فرمایا وہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں اور اس کے اچانک واروں سے محفوظ نہ ہو.اب یہ جو بات ہے یہ آج کل ایک بیماری بن گئی ہے کہ پڑوسیوں سے جھگڑے اور یہ بیماری مغرب میں زیادہ نہیں پائی جاتی، مشرق میں زیادہ پائی جاتی ہے اور یہاں بھی جو پڑوسیوں کے جھگڑے ہیں الا ما شاء اللہ کبھی کبھی دوسرے پڑوسیوں سے بھی جھگڑے چلتے ہیں مگر اس کی وجہ کچھ اور تعصبات ہوتے ہیں روز مرہ کی زندگی میں انگلستان میں یا جرمنی میں پڑوسی پڑوسی سے جھگڑتا نہیں کوئی واسطہ ہی نہیں رکھتا اس کی اپنی دنیا ہے اس کی اپنی دنیا ہے.جہاں جھگڑے چلیں گے وہاں عام طور پر ریس ازم یا اس قسم کے بعض دوسرے عناصر ہیں جو عمل دخل دکھاتے ہیں ورنہ عام طور پر جھگڑے نہیں چلتے.ہمارے ملک میں جہاں پڑوسی سے حسن سلوک کا رجحان بھی پایا جاتا ہے وہاں جھگڑنے کا بھی رجحان پایا جاتا ہے اور بعض دفعہ پڑوسیوں میں بڑی سخت تو تو ، میں میں ہوتی ہے.لاہور میں تو ایک دفعہ ایک محلے میں میں گیا تھا بچپن میں ، تو وہاں پتہ چلا کہ پڑوسیوں کے جھگڑے کئی کئی دن بعض دفعہ مہینوں چلتے ہیں اور وہ گالیاں دے دے کر ایک دوسرے کو پھر پرات الٹ کے عورتیں چلی جایا.

Page 432

419 کرتی تھیں کہ اب ہم دوبارہ آئیں گی تو پرات الٹ کے پھر تمہیں باقی گالیاں دیں گی.ہمارے ملک خدا بخش صاحب جو ملک عطاء الرحمن صاحب کے والد ہیں ان کے ہاں میں گیا تھا ایک دفعہ بچپن میں ، جب میں کالج میں پڑھتا تھا تو ان کے پڑوس میں یہ قصے چل رہے تھے میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے تو میں حیران رہ گیا میں نے کہا یہ کیا ہو گیا انہوں نے کہا یہ تو روز مرہ کی بات ہے یہ تو کوئی حیرانی کی بات ہی نہیں سارا محلہ اس طرح چل رہا ہے، تو یہ بدیاں بھی ہیں.حسن سلوک کرنے کا جو مادہ ہے اگر وہ نہ رہے تو بدی میں تبدیل ہو جایا کرتا ہے.بے تعلقی بے تعلقی میں ہی رہتی ہے اس لئے نہ حسن نہ قبیح.نہ خوبی نہ برائی.مگر وہ تو میں جو اپنی خوبیوں کی حفاظت نہیں کرتیں وہ خوبیاں پھر بدیوں میں تبدیل ہو جایا کرتی ہیں.پس اگر آپ نے حسن سلوک نہ کیا تو اس حدیث کی نصیحت کے یا انذار کے نیچے آپ آئیں گے.فرمایا وہ مومن نہیں خدا کی قسم وہ مومن نہیں.پوچھا گیا کون؟ تو فرمایا وہ جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں اور اچانک حملوں سے محفوظ نہ ہو.حضرت انس سے روایت ہے صحیح بخاری کتاب الایمان میں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا.تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک حقیقی مومن نہیں بن سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے.احادیث میں بیان اقرباء کے حقوق جس طرح قرآن کریم کا مضمون اقرباء سے شروع ہو کر پھر پھیلتا چلا جا رہا ہے احادیث میں بھی اقرباء کے ذکر بڑی عمدگی اور گہرائی اور تفصیل کے ساتھ ہیں اور پھر درجہ بدرجہ تعلقات کے پھیلاؤ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نصیحتوں کا فیض بھی پھیلتا چلا جاتا ہے.فرمایا کوئی مومن حقیقی مومن نہیں بن سکتا.اس مرتبہ اس کی یہ تشریح فرمائی جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے.یہ ایک ایسی چھوٹی سی نصیحت ہے جس سے بڑی نصیحت ممکن ہی نہیں ہے.انسانی تعلقات کو درست کرنے کے لئے اس چھوٹی سی بات میں تمام انسانی مصالح بیان فرما دئیے گئے ہیں ایک طرز فکر کا ذکر ہے اگر تم اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرو جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو تو اس کی عزتیں تم سے محفوظ ہوگئیں اس کے مال تم سے محفوظ ہو گئے اس کے تمام حقوق تمہارے ہاتھوں میں اسی طرح محفوظ ہوں گے جس طرح اس کے اپنے ہاتھوں میں ہیں.اتنی عظیم الشان تعلیم ہے کہ تمام دنیا کے انسانی روابط میں خواہ وہ انفرادی سطح پر ہوں یا ملکی اور تمدنی سطح پر ہوں تمام دنیا کے مسائل کا حل اس اصلاحی مشورے میں داخل ہے کہ تم دوسروں کے لئے وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اب تمام دنیا میں جوملکی سیاست چل رہی ہے اس میں کہاں اس بات کو داخل ہونے کی گنجائش ہے وہ اپنے لئے کچھ اور پسند کرتے ہیں دوسرے کے لئے کچھ اور پسند کرتے ہیں.

Page 433

420 رشتے داروں میں بھی یہی حال ہو رہا ہے یہاں تک کہ بعض دفعہ مشورہ بھی مانگا جائے تو مشورہ دینے والا امین نہیں رہتا.ایسا مشورہ دیتا ہے کہ جو کسی اپنے عزیز کو نہیں دے سکتا اور ایسی نگا ہیں دوسروں پر ڈالتا ہے جو اپنے کسی عزیز پر نہیں ڈال سکتا.پس یہ وہ نصیحت ہے کہ گہرائی کے ساتھ اس کے مضمون کو سمجھنے کے بعد اپنانے سے ہمارا معاشرہ حقیقتا جنت کا نشان بن سکتا ہے.ہماری تمام بداخلاقیوں کو دور کرنے کا راز اس نصیحت میں ہے تمام حسن خلق اختیار کرنے کا راز اس نصیحت میں ہے کہ جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے متعلق حضرت عبداللہ بن ابی طوفہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کا اپنا ملنے جلنے کا انداز کیا تھا.فرماتے ہیں کہ تکبر نام کو بھی نہیں تھا نہ آپ ناک چڑھاتے نہ اس بات سے برا مناتے اور بچتے کہ آپ بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ چلیں.بعض لوگوں میں یہ عادت ہوتی ہے کہ کوئی غریب ساتھ چل رہا ہو تو اس سے کچھ فاصلہ رکھتے ہیں اور کئی دفعہ روزہ مرہ زندگی میں ہم نے دیکھا ہے ہمیشہ سے ہی ایسے واقعات دیکھنے میں آتے رہتے ہیں کہ بھرے بازار میں اگر کوئی امیر چل رہا ہو اور غریب اس کے ساتھ چل پڑے تو وہ اپنی اداؤں سے، اپنے انداز سے ایک فاصلہ بناتا ہے تا کہ دیکھنے والا محسوس کرے کہ ہم ایک نہیں ہیں اور اس طرح اس سے بات کرتا ہے کہ وقتی طور پر بات کرے اور کسی طرح پیچھا چھوٹے یہ اپنی راہ لے اور یہ جو فاصلے ہیں یہ ضروری نہیں کہ دور ہٹ کر بنائے جائیں انسانی انداز میں یہ فاصلے پائے جاتے ہیں اور دیکھنے والے صاحب فہم انسان کو دکھائی دیتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا مرتبہ اور مقام دیکھیں اور ایک صحابی کا جس نے بڑی باریک نظر سے آپ کے معاملات کو دیکھا ہے یہ بیان سنیں فرماتے ہیں آپ بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ اس طرح چلتے تھے کہ ان کے ساتھ چلنے کو کبھی آپ نے اپنی شان کے منافی نہیں سمجھا.مل جل کر ان کے ساتھ چلا کرتے تھے ایک ہو کر چلا کرتے تھے اور ان کے کام آتے تھے اور ان کی مدد کرتے تھے بے سہارا عورتوں اور مسکینوں اور غریبوں کی مدد کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہتے اور اس میں خوشی محسوس کرتے تھے.اب یہ جو آخری پہلو ہے اس حدیث کا یہ بہت ہی اہم ہے.نیکیاں یا اس قسم کے اخلاق جن کا ذکر کیا جا رہا ہے یہ دو طرح سے اختیار ہو سکتے ہیں اول چونکہ خدا نے فرمایا چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایسا کیا اس لئے ہمیں کرنا چاہئے لیکن طبیعت پر باررہتا ہے.اگر طبیعت پر بارہتا ہے تو پھر آپ نے سنت پوری نہیں کی اگر محمدرسول اللہ کی سنت پر چلنا ہے تو پھر اپنے کمزور بھائیوں سے ایسا ذاتی تعلق پیدا کریں کہ ان کی مدد سے آپ کے دلوں میں خوشی پیدا ہوتی ہو اور اس سے لطف آتا ہو اور اگر یہ ہو جائے تو آپ کی نیکی کی حفاظت کے لئے اس سے بڑا ضامن اور کوئی نہیں.ہر وہ نیکی جو کوفت پیدا کرتی ہے جس سے تھکاوٹ ہو یا بیزاری ہو وہ نیکی نہ افراد میں زندہ رہتی ہے نہ قوموں

Page 434

421 میں زندہ رہا کرتی ہے.نیکی وہی زندہ رہتی ہے جس کے ساتھ ایسا ذاتی تعلق ہو کہ نیکی کے بعد لطف آئے.پس ہرانسان اس پہلو سے خود غرض ہے.وہ غرض کے بغیر کوئی چیز نہ اختیار کرسکتا ہے نہ کسی چیز کو ہمیشہ کے لئے اپنا سکتا ہے.وقتی طور پر بعض مجبوریوں کے پیش نظر ، بعض اصولوں کی خاطر ایک انسان طبیعت کے خلاف کام بھی کر لیتا ہے مگر ہمیشہ وہ نیکیاں اس کے ساتھ نہیں رہتیں جب تک اس کے دل کا جزو نہ بن جائیں جب تک ان نیکیوں سے پیار نہ پیدا ہو جائے اور ان نیکیوں کے کرنے سے دلوں میں ایک طبعی بشاشت پیدا نہ ہو.پس یہ صحابی بڑے ہی زیرک انسان تھے جنہوں نے سیرت کو بیان کیا ہے اور گہرائی سے بیان کیا ہے.محسوس کیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جب خدمت کرتے تھے تو کوئی طبیعت پر بوجھ نہیں ہوتا تھا بلکہ خوشی کا احساس نمایاں تھا.اس سے لطف آ رہا ہے کہ آہا کتنا اچھا موقع ملا میں اپنے غریب بھائی کے کام آ رہا ہوں.شادی کی بدترین دعوت پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے متعلق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ شادی کی بدترین دعوت وہ ہے جس میں امراء کو بلایا جائے اور غرباء کو چھوڑ دیا جائے.اب ہمارے ملک میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ دن بدن یعنی پاکستان کی بات میں کر رہا ہوں اور اس طرح اور بھی بہت سے ملکوں میں یہ رواج ہے اور یورپ میں تو اس بات کا تصور ہی نہیں کہ اپنے تعلقات کے دائرے سے ہٹ کر بھی کسی کو دعوتوں میں بلایا جائے مگر ہمارے ملکوں میں بھی یعنی نسبتا غریب ملکوں میں یہ رواج اب زور پکڑ رہا ہے کہ امراء کی دعوتیں اتنی اونچی سطح پر اٹھتی ہیں کہ وہاں کسی غریب کو چہرہ دکھانے کی بھی مجال نہیں.اور اگر غریب رشتہ دار بھی ہوں تو ان سے انحراف کیا جاتا ہے کہ کہیں ہمارے لئے شرمندگی کا موجب نہ بنیں اور امیروں کی دعوتیں الگ ہیں ان کے اندر ہی عیش وعشرت کے الگ ہیں اور غریبوں کی دعوتیں الگ ہیں غریبوں کی دعوتوں میں امیر نہیں جاتے اور امیروں کی دعوت میں غریبوں کو بلایا نہیں جاتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرماتے ہیں " شادی کی بدترین دعوت " اور اکثر ایسا شادی بیاہ کے موقع پر ہوتا ہے فرمایا شادی کی بدترین دعوت وہ ہے جس میں امراء کو تو بلایا جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے اور اس کے ساتھ ایک عجیب بات فرمائی اور " جو شادی کی دعوت کو قبول نہ کرے وہ اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان ہے " اب یہ ایک وسیع مضمون کا ایک ٹکڑا ہے اور اگر اس کو پہلے مضمون کے تعلق کے ساتھ جوڑ کر نہ سمجھیں تو بات سمجھ میں نہیں آئے گی.بیسیوں مرتبہ آپ نے بھی شادی کی دعوت کو کسی مجبوری سے قبول نہیں کیا ہوگا اور جہاں تک اپنے قریبیوں ، دوستوں، عزیزوں کی شادی کی دعوت کا تعلق ہے وہ تو آپ شوق سے جاتے ہیں انتظار کرتے ہیں کہ آپ کو دعوت نامہ آئے بعض دفعہ نہ بھی آئے تو چلے جاتے ہیں.پھر کن دعوتوں کا ذکر ہے یہ

Page 435

422 اصل میں غریب دعوتوں کا ذکر ہے امراء کے مقابل پر غریبوں کا ذکر چلا ہے فرمایا ہے بدنصیب اور بد بخت ہیں وہ شادیاں جن میں بلانے والے غریبوں کو نہ بلائیں اور صرف امیروں کو بلائیں اور پھر جب غریب اپنی شادیوں پر ان کو بلائیں تو یہ وہاں نہ جائیں کہ یہ غریبوں کی شادی ہے اس لئے شادی بیاہ کے موقع پر میں نے جماعت کو نصیحت کی تھی اور اب وہ غالباً چھپ کر تمام دنیا میں پہنچ چکی ہوگی اس میں یہ بات بطور خاص داخل کی تھی کہ امیروں کو خاص طور پر غریبوں کی شادی میں پہنچنا چاہئے بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اور ان کی بچیاں جو بھی اس بات کے لئے وقت نکال سکیں وقت سے پہلے وہاں جائیں اور ان کے گھروں کو صاف ستھرا کریں ان کو تیار کریں ان کی کمیاں دور کریں کھانا پکانے وغیرہ میں ان کی مدد کی جائے اور جو چیزیں وہ نہیں خرید سکتے وہ اپنی طرف سے خرید کر ان میں داخل کریں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر وہ جائیں اور ان کی غربت کو دیکھیں کیونکہ محض نصیحت سے انسان کا دل حقیقت میں پگھل نہیں سکتا لیکن آنکھیں جب دیکھتی ہیں ایک حالت کو تو پھر ضرور پکھاتا ہے.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جو نصیحتیں فرمائی ہیں بہت ہی گہری، بہت ہی دیر پا اور دور کا اثر رکھنے والی ہیں کیونکہ حقیقت ہے کہ جب ایک غریب آپ کی شادیوں میں آئے گا اس کے کپڑوں کو آپ دیکھیں گے اور پھر اگر کوئی انسانیت ہو اور وہ عورتیں جو آپس میں پہلے یہ جھگڑ رہی تھیں کہ میرے کپڑے ایسے تھے اور تیرے کیسے ہو گئے جو گھر میں بچیاں شکوے کرتی ہیں کہ میری فلاں بہن کے تم نے اچھے بنادیے اور مجھے کیوں نسبتا خراب بنا کے دیے وغیرہ وغیرہ یہ جاہلانہ سطحی با تیں ہیں سب مٹ جائیں گی کیونکہ جب ایک غریب کو پرانے کپڑوں میں دیکھیں گی اگر انسانیت ہے تو دل پگھلیں گے اور شرمندگی کا احساس ہوگا اور اپنے آپ کو وہ لوگ مجرم سمجھیں گے کہ ہمارے اتنے تعلقات تو تھے واقفیت تو تھی کہ ہم نے ان کو بلایا ہے لیکن کیوں یہ خیال نہ کیا کہ ان کے لئے بھی اچھے کپڑے بنادیے جاتے.اور پھر جب غریب کی شادی پر آپ جائیں گے تو پھر آپ کو محسوس ہوگا کہ کیا کیا مسائل ہیں شادیوں کے.کہاں اپنے حال میں ڈوبے ہوئے امراء جن کے دماغ میں صرف یہ ہے کہ تین لاکھ سے کم میں شادی نہیں ہوتی پانچ لاکھ سے کم میں شادی نہیں ہوتی دس لاکھ سے کم میں شادی نہیں ہوتی کہاں وہ جو دو چار ہزار میں شادی کی کوشش کر رہے ہیں اس نے بچوں کے لئے بھی غریبانہ کچھ بنا کے دینا ہے جو مہمان آنے والے ہیں ان کے لئے بھی کچھ پیش کرنا ہے تو یہ مسائل سوائے اس کے حل نہیں ہو سکتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے آپ کے اخلاق سیکھے جائیں.کسی دوسرے سے نہیں خود آپ سے آپ کے اخلاق سیکھے جائیں اور وہ یہ حدیثیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبانی بھی اور آپ کے کردار کی زبانی بھی آپ کے اخلاق ہمارے سامنے رکھتی ہیں.فرمایا شادی کی بدترین وہ مثال ہے کہ غریبوں کو نہ بلا ؤ اور جب غریب تمہیں بلائیں تو تم اگر نہ جاؤ گے تو خدا اور رسول کی نافرمانی ہوگی.

Page 436

423 غلاموں سے سلوک پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا اپنے غلاموں سے سلوک ، غلاموں سے مراد یہ ہے ادنیٰ غریب بندوں سے سلوک ایک ایسے معاشرے میں جس کے اخلاق آپ نے درست فرما دیئے تھے.اس معاشرے میں بھی وہ ایک تعجب انگیز سلوک تھا حیرت سے نگاہیں اس پہ اٹھ رہی تھی اور اس سے میری مراد وہ واقعہ ہے جو ظاہر بن حرام کے ساتھ پیش آیا.ظاہر بن حرام ایک دیہاتی تھا جو نہایت ہی بدصورت اور مکر وہ صورت اور اس کے علاوہ اس کے کپڑے بھی گندے، دیہاتی کھیتوں میں کام کرنے والے کے جسم میں سے پسینے کی بدبو بھی آتی تھی اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے بہت پیار تھا جب بھی آتا تھا کوئی تھوڑی سی سبزی، کوئی ایک گاؤں گا پھل تحفہ اٹھا کر لے آیا کرتا تھا.ایک دفعہ وہ کھڑا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ کسی نے پیار سے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے ہیں اور اس نے حیرت سے پوچھا اور اس نے اپنا جسم ساتھ رگڑنا شروع کیا پہچاننے کی غرض سے گویا پہچان پارہا ہے کہ کون ہے اور ساتھ ساتھ باتیں کرتا جاتا تھا کہ یہ ہو گا وہ ہو گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اسی طرح اپنے ہاتھوں سے اس کی آنکھیں بند کئے پاس کھڑے رہے اور وہ منہ سے بولا نہیں جسم رگڑ تا رہا گویا پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے اور مقابلہ پیار کا اظہار جس طرح بعض دفعہ آپ نے دیکھا ہو گا بچے ماؤں سے لپٹ کے رگڑتے ہیں اپنے آپ کو.بعض دفعہ بلی کے بچوں کو آپ نے پیار سے دیکھا ہوگا بستر میں گھس کے وہ اپنے بدن کو خوب رگڑتے ہیں پیار سے.یہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ شروع کیا ہوا تھا اور آپ خاموش کھڑے اس کے نخرے برداشت کرتے رہے یہاں تک کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہ اعلان کیا کہ ہے کوئی غلام خرید نے والا.میں ایک غلام بیچتا ہوں.تب اس نے آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے عجز کے ساتھ یہ کہا یا رسول اللہ ! اس بدصورت، بے قیمت انسان کو کون خریدے گا.آپ نے فرمایا دیکھو میرا خدا، آسمان کا خدا تمہارا خریدار ہے.محمد بیچ رہا ہے یہ غلام.ان بندوں کو کیا پتہ کہ تمہاری کیا قیمت ہے میرے اللہ کے نزدیک تمہاری بہت قیمت ہے اور پھر اس نے بتایا.یا رسول اللہ یہ کیسے ممکن تھا کہ میں آپ کو پہچان نہ لیتا.مجھ سے یہ پیار کا سلوک اور کر کون سکتا تھا.ایک ہی تھا اور وہ محمد مصطفی تھے.پس میں جانتا تھا اور میں سوچتا تھا کہ اس سے بہتر اور کون سا موقع مجھے میسر آئے گا کہ اپنے بدن کو آپ کے پاک بدن سے رگڑوں.پس ایک طرف غربت تھی جس میں سے بدبو بھی اٹھ رہی تھی جو بدصورتی کا مظہر تھی ہر دنیا کے لحاظ سے برائی اس میں پائی جاتی تھی ایک طرف حسن و خوبی کا وہ پیکر کہ اس سا کوئی پیکر کبھی ایسا حسین پیدا نہیں ہوا تھا یہ امتزاج تھا اعلیٰ اور ادنی کا.اس طرح خدائی بندوں سے ملتی ہے.اس طرح خدا کے مظہر دنیا میں خدا کے پیار اور محبت کو خدا کے بندوں میں منتقل کیا کرتے ہیں.آپ ایسا ہونے کی کوشش کریں اگر اپنے اخلاق آپ

Page 437

424 نے محمد رسول اللہ سے سیکھے اور ویسے بنانے کی کوشش کی تو آپ تو کیا آپ کے غلاموں کا بھی خدا خریدار بن جائے گا، تمام دنیا پر آپ کے دل حکومت کریں گے یعنی محمد مصطفیٰ کی حکومت جاری ہوگی.اور یہی ایک ذریعہ ہے اپنے معاشرے کو درست کرنے کا.اپنے شہروں کی گلیوں کو.اپنے شہروں کو ، اپنے علاقوں اور اپنے ملکوں کو.تمام دنیا کا حسن آج اس ایک بات سے وابستہ ہے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے غلام محمد رسول اللہ کے بچے اور حقیقی غلام بن جائیں اور آپ کے احسان کا جادوسب دنیا کے دلوں پر چلنے لگے.خدا کرے کہ الفضل انٹر نیشنل 10 جون 1994 ء) ایسا ہی ہو.آمین." ذیلی تنظیموں کے افراد اپنے اپنے اجتماعات میں خدا کو راضی کرنے کے لئے دینی اغراض کی خاطر ا کٹھے ہوا کریں (خطبہ جمعہ 4 نومبر 1994ء) " میں آج مجلس انصاراللہ یو.کے کے تین روزہ سالانہ اجتماع سے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجلس انصاراللہ یو کے کا تین روزہ سالانہ اجتماع اسلام آبادیوں کے سے شروع ہورہا ہے........ہاں تو میں عرض کر رہا تھا کہ آج مجلس انصاراللہ یو کے کا تین روزہ سالانہ اجتماع اسلام آباد میں ہو رہا ہے اور ان کی طرف سے یعنی صدر صاحب انصار اللہ کی طرف سے گذشتہ ہفتہ دس دن سے مسلسل مجھ پر دباؤ رہا ہے کہ میں اسلام آباد جا کر وہ افتتاح کروں اور مسلسل میں اس کا انکار کرتا رہا ہوں.لیکن وہ بھی ماشاء اللہ دھت کے پکے ہیں.اچھے دعا گو ثابت ہوں گے.مگر میں نے واضح طور پر عرض کیا بار بار کہ یہ نہیں ہو گا پھر بھی ماشاء اللہ انہوں نے اپنی اس نیک کوشش کو ترک نہیں کیا اور یہ جو انہوں نے ضد لگائی تھی دراصل وہی وجہ ہے جو میں خصوصیت سے ان کی بات کا انکار کرتارہا ہوں.میرا سابقہ دستور ہے جو سب مجالس کے علم میں ہے کہ یو.کے میں جتنے بھی ذیلی مجالس کے اجتماعات ہوتے ہیں انکا افتتاح میں امیر صاحب یو کے سے کرواتا ہوں اور اگر وہ نہ ہوں تو ہمارے امام صاحب جو نائب امیر بھی ہیں.اور دوسری تقریبات میں حصہ لیتا ہوں.تو اول تو میں کسی وجہ سے اس دستور کو بدلنا نہیں چاہتا تھا ورنہ ہر مجلس کی طرف سے مجھ پر یہی دباؤ ہوگا اور یہی مطالبہ ہوگا کہ انصار اللہ کے اجتماع میں آپ نے اس دستور کو بدلا ہے تو ہمارے معاملہ میں کیوں یہ سوتیلے پن کا سلوک ہے.ایک تو یہ وجہ تھی.

Page 438

425 دوسرے یہ کہ ان کا اصرار اس لئے تھا کہ وہ مجھ سے زیادہ اپنے اجتماع کی حاضری بڑھانا چاہتے تھے.اور یہ اطلاع دے بیٹھے تھے سب کو کہ ضرور جمعہ سے پہلے پہنچ جائیں کیونکہ خلیفہ ایسے افتتاح کریں گے.یہ درست ہے کہ اگر کسی مجلس میں خلیفہ اسح شامل ہوں پہلے بھی یہی رہا ہے آئندہ بھی یہی رہے گا تو ظاہر بات ہے کہ اس اجتماع کی حاضری بڑھ جاتی ہے.لیکن اسے حاضری کو بڑھانے کا ذریعہ بنا کر سالانہ رپورٹ کا معیار بڑھانا یہ جائز نہیں ہے.خدام کی حاضری ہو، لجنات کی ہو یا انصار کی ہو وہ سال بھر کی کوششوں کا آئینہ دار ہونی چاہئے.اگر تمام سال کوشش کر کے مجلس انصاراللہ میں ایک مستعدی پیدا کر دی جائے اور جماعت کے کاموں میں حصہ لینے کا ذوق شوق بڑھایا جائے اور اس طبعی جوش اور ولولے کے نتیجے میں لوگ کثرت سے اجتماعات میں شامل ہوں تو اچھی بابرکت بات ہے اور قابل تحسین ہے.مگر یہ نہ ہو تو خلیفہ وقت کو ذریعہ بنا کر اس دن کی حاضری بڑھانا یہ کوئی نیک ، اچھی بات نہیں ہے.اس لئے وہ سمجھیں یا نہ سمجھیں یہ بات میں اشارہ ان کی دل آزاری کئے بغیر سمجھانے کی کوشش کرتا رہا مگر وہ بات پہنچی نہیں.اس لئے اب میں ساری دنیا کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ یہ ایک طبعی بات ہے کہ اگر کوئی شخص جو کسی بڑے علاقے سے تعلق رکھتا ہو کہ اس کی خاطر لوگ آئیں اس کے آنے پر لوگوں کا آنا ایک طبعی بات ہے اس کا کوئی نقصان نہیں ہے.مگر کسی ایک دن اس کو بہانہ بنا کر اپنی حاضری بڑھا لینا یہ اچھی کارکردگی کی علامت نہیں ہے.اس لئے انصار ہوں یا لجنات ہوں یا خدام ہوں ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھیں کہ سالانہ تربیت کے معیار کو بڑھا ئیں یہاں تک کہ کسی ایک شخص کی خاطر نہیں بلکہ روزمرہ کی تربیت کے نتیجے میں، دینی اغراض کی خاطر، تمام ذیلی تنظیموں کے ممبر خدا کو راضی کرنے کے لئے دینی اغراض کی خاطر ا کٹھے ہوا کریں.یہ جو خلیفہ وقت کے ساتھ تعلق ہے یہ بھی ایک دینی غرض ہے مگر ان دونوں باتوں میں فرق ہے.روز مرہ کی تربیت کے نتیجے میں جو دین سے وابستگی پیدا ہوتی ہے وہ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس بات کی محتاج نہیں رہتی کہ کون آ رہا ہے اور کون نہیں آ رہا.اس وقت تو حالت یہ ہو جاتی ہے کہ ہم تو بن بلائے بھی جانے کی کوشش کریں گے اور واقعہ ایسا ہوتا ہے جیسا کہ ایک مصرعہ میں یہ کہا گیا ہے کہ : ان پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے بلانے کا محتاج نہ رہے انسان.جب دینی مقصد کا کوئی اجتماع ہو تو اس میں ذوق وشوق سے لوگوں کا حاضر ہونا ایک دینی تقاضا ہے.پس یہ وجہ ہے میں وضاحت کر رہا ہوں.انہوں نے جو وعدہ کیا تھا انصار سے، ان کی طرف سے عہد شکنی کوئی نہیں ہوئی ان کو اس بات پر ملزم نہ کیا جائے.اپنی طرف سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آخر وقت تک جو ممکن تھا انہوں نے کوشش کر دیکھی مگر یہ میری مجبوری تھی جس کی وجہ سے وہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی.

Page 439

426 مجلس انصار اللہ یو.کے میں عمومی طور پر مجھے توقع ہے کہ بیداری پیدا ہوئی ہے.اور اس بیداری کا ایک اظہار اس اجتماع میں ایک مجلس سوال و جواب کو داخل کر کے جس میں غیر از جماعت اور غیر مسلموں کو بلایا جارہا ہے یہ اس نیک طریق پر کیا جارہا ہے اس توقع پر کہ انشاء اللہ اس کے نتیجے میں بیعتیں بھی ہوں گی.اور اس معاملے میں اللہ تعالیٰ جماعت جرمنی کو جزا دے سارے یورپ کے لئے وہ نمونہ بنی ہوئی ہے.چنانچہ صدر صاحب انصار اللہ نے جب اس خصوصی اجلاس کو عام دستور سے ہٹ کر، جو یہاں کا دستور تھا ، انصار اللہ کے اس اجتماع میں شامل کرنے کی درخواست کی تو خود ہی یہ کہا کہ جرمنی کو دیکھ کر ہمارے دل میں بھی جوش پیدا ہوا ہے کہ ہم بھی ایسے اجتماعات اپنے سالانہ اجتماع کا ایک مستقل جزو بنا لیں.تو اچھی بات ہے اللہ تعالیٰ ان کو اس کی جزاء دے اور زیادہ سے زیادہ غیر مسلموں کو خصوصیت سے اور غیر احمدی مہمانوں کو بھی اس میں شامل ہونے کی توفیق بخشے.انصار اللہ کی ذمہ داریاں باقی تنظیموں سے زیادہ ہیں انصار اللہ کی جو ذمہ داریاں ہیں وہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں باقی ساری مجالس سے زیادہ ہیں.اس کے متعلق میں تفصیلی گفتگو نہیں کرنا چاہتا کیونکہ آج تحریک جدید کے نئے سال کے آغاز کے اعلان کا دن ہے.صرف دو تین نکتے جو پہلے بھی عرض کر چکا ہوں وہ آپ کو یاد دلاتا ہوں.انصار کی عمر وہ عمر ہے جس کے بعد کسی اور مجلس میں شامل نہیں ہونا بلکہ دوسری دنیا کی طرف رخصت ہونا ہے.اس لئے جو دینی کاموں میں کمزوریاں رہ گئی ہیں ان کو دور کرنا اور ان کا ازالہ کرنا جس حد تک ممکن ہے انصار کو کرنا چاہئے کیونکہ پھر اس کے بعد دوبارہ یہاں واپس نہیں آنا.اور اس پہلو سے خدام اور دوسرے ذیلی شعبوں سے مجلس انصار اللہ کو زیادہ مستعد ہونا چاہئے اور زیادہ ان کے دل پر بوجھ پڑنا چاہئے.انبیاء کا سب کا یہی حال رہا ہے.جوں جوں عمر بڑھتی ہے اور بڑھاپے کی عمر میں وہ داخل ہوتے ہیں کام کی ذمہ داریاں ان پر بڑھتی چلی جاتی ہیں اور پہلے سے زیادہ محنت اٹھاتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے متعلق بھی یہی روایتیں ہیں کہ آخری ایام میں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی شخص غروب ہوتے ہوئے سورج پر نظر کرتے ہوئے جب کہ ابھی منزل دور ہو بہت تیزی سے قدم اٹھاتا ہے اور بار بار توجہ کرتا ہے کہ کہیں دن غروب نہ ہو جائے.اس کیفیت سے آپ نے آخری عمر میں کاموں کے بوجھ زیادہ بڑھالئے اور زیادہ اس احساس کے ساتھ کہ جو کچھ بھی اب مجھ سے ممکن ہے میں کرلوں ، ان کی ذمہ داریاں ادا فرمائیں.پس انصار کا ایک یہ پہلو ہے جو پیش نظر رہنا چاہئے.انصار اللہ کی ذمہ داریوں میں نیلی تمام نسلوں کی تربیت کی ذمہ داری ہے دوسرا یہ کہ انصار کی ذمہ داریوں میں طبعی طور پر ان سے پہلی تمام نسلوں کی ذمہ داریاں داخل ہیں.

Page 440

427 بچوں کی تربیت میں بھی انصار سب سے اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں، خواتین کی تربیت میں بھی انصار سب سے اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں اس میں بالعموم نفس کی ملونی کا خطرہ باقی نہیں رہتا.اس پہلو سے مجلس انصار اللہ کو مستعد بھی ہونا چاہئے اور اپنی ذیلی تنظیموں کی تربیت پر بھی نظر رکھنی چاہئے.تربیت کے لحاظ سے ذمہ داری ادا کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خدام الاحمدیہ کے انتظام میں دخل دیں ، لجنہ کے انتظام میں دخل دیں.بلکہ گھر کے بڑوں کے طور پر، ایک معزز شہری کے طور پر جس حد تک نیک نصیحت کے ذریعے وہ اپنی سے نچلی نسلوں کی تربیت کے کام سرانجام دے سکتے ہیں ان کو دینے چاہئیں." الفضل انٹر نیشنل 23 دسمبر 1994 ء)

Page 441

428 $1995 ذیلی تنظیموں کی صحت کے لئے ضروری ہے کہ وہ جماعت کے بدن کا ایک جزو بن کرر ہیں (خطبہ جمعہ 26 مئی 1995ء) اللہ تعالیٰ نے بڑا احسان کیا ہے کہ جماعت جرمنی ہر پہلو سے ہر شعبہ کے لحاظ سے ترقی کی طرف تیزی کے ساتھ رواں دواں ہے اور ذیلی تنظیمیں اپنے اپنے مقام اور مرتبہ کو سمجھتے ہوئے عمومی طور پر جماعت کا ایک صحت مند جز بنی ہوئی ہیں اور ان کی اپنی صحت کے لئے ضروری ہے کہ وہ جماعت کے بدن کا ایک جز بن کر رہیں اس سے الگ اپنی کوئی شخصیت نہ بنا بیٹھیں جیسے ایک بدن کے اندر کوئی بیرونی شخصیت پیدا ہو جاتی ہے.یہ اس لئے ضروری ہے کہ اگر ایک بدن کا کوئی عضو یا کسی عضو کا کوئی حصہ اپنا الگ تشخص بنا بیٹھے تو اسی کا نام کینسر ہوا کرتا ہے اور یہ کینسر پھر باقی بدن کو بھی کھا جاتا ہے.اسی لیے نظام جماعت کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مسلمان کی تعریف فرمائی ہے وہی صادق آئے تو یہ نظام زندہ رہے گا ورنہ ختم ہو جائے گا.آپ نے فرمایا مومن ایسے بھائی بھائی ہیں کہ گویا ایک بدن کے عضاء ہیں اور بدن میں اگر پاؤں کی انگلی کے کنارے پر بھی کوئی تکلیف پہنچے تو سارا بدن بے چین ہو جاتا ہے.اس لئے مجلس خدام الاحمدیہ ہو یا مجلس انصار الله یا مجلس لجنہ اماءاللہ یا ذیلی تنظیمیں یا اور کئی قسم کے ذیلی گر وہ ہوں جو خدمت دین کے لئے بنائے جاتے ہیں وہ ہمیشہ یادرکھیں کہ وہ ایک بدن کا حصہ رہ کر ہی زندہ رہ سکتے ہیں اور ایک بدن کا حصہ رہ کر ہی دوسرے بدن کے لئے خوشخبری کا پیغام بنتے ہیں ورنہ اگر انہوں نے اپنا الگ تشخص قائم کرنے کی کوشش کی تو باقی سب بدن کے لئے نحوست اور لعنت کا پیغام بن جائیں گے.جرمنی کی ذیلی تنظیمیں الحمد للہ بدن کا حصہ ہیں اس پہلو سے مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے اور دلی اطمینان کے ساتھ میں کہہ سکتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے اگر شروع میں کبھی کچھ ذیلی گروہوں کی طرف سے سر اٹھانے کے رجحانات پیدا بھی ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یکسر مٹادیا ہے.اور میں سمجھتا ہوں وہ رجحانات بھی لاعلمی یا غلط فہمی کی وجہ سے ہوئے تھے عدم تربیت کا نتیجہ تھے ، دلوں میں کوئی ایسی بھی نہیں تھی کہ وہ ایک مستقل خطرہ بن جاتے.پس الحمد اللہ اس وقت جماعت جرمنی ایک ہاتھ کے نیچے اس طرح اکٹھی ہے جس طرح اسلام کا تصور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا ہے.سب ایک ہی بدن کا حصہ ہیں، ایک دوسرے کی خوشی کو محسوس

Page 442

429 کرنے والے، ایک دوسرے کے غم سے تکلیف اٹھانے والے اور مجلس خدام الاحمدیہ اس پہلو سے مبارکباد کی مستحق ہے کہ اگر چہ ایک بہت بڑی اور فعال جماعت ہے جو جماعت احمد یہ جرمنی کے بدن کا سب سے بڑا حصہ ہے کیونکہ یہاں نو جوانوں کی تعداد دوسروں کے مقابل پر باقی دنیا کی جماعتوں سے زیادہ ہے، اس کے باوجود انہوں نے اپنے بجز اور انکساری کے مقام کو خوب سمجھا ہے اور کبھی اشارہ بھی کوئی ایسی بات ظاہر نہیں ہونے دی جس سے خودسری کی بو آتی ہو.پس اس نہج پر آگے بڑھتے رہیں اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو اور بو اجتماعی برکتیں آپ کو نصیب ہوں.برکتیں ہیں ہی وہی جو اجتماعیت سے حاصل ہوتی ہیں ورنہ انفرادیت تو دراصل موت کا پیغام ہے.انفرادیت نظام کے بھرنے کو کہتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ترکیب اجزاء ہی سے زندگی بنتی ہے اور جب ترکیب اجزا منتشر ہونے لگتی ہے تو اس کا نام موت ہے.تو اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ کی ابدی زندگی عطا فرمائے ، روحانی لحاظ سے آپ کی صحت دن بدن بہتر سے بہتر ہوتی چلی جائے اور جماعت کا پہلے سے بڑھ کر ایک فعال حصہ بن سکیں." الفضل انٹر نیشنل 7 جولائی 1995ء) بعض عہدیداران سلامتی کے دائرہ میں ہیں اور خدا ان کی حفاظت کر رہا ہے خطبہ جمعہ 2 جون 1995ء) " جو اچھا ہے آپ کی نظر میں چاہے کمزور بھی ہوا گر تقو کی رکھتا ہے اور خدا کی سلامتی کی تعریف میں داخل ہوتا ہے.تمام برکتیں ایسے عہدیداران سے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو سپرد کیا ہوا ہے کیونکہ انکے گرد خدا کی سلامتی کا دائرہ ہے جو ان کی حفاظت کر رہا ہے ، ان کے گرد دخدا کی سلامتی کی ایک فصیل ہے جو ان کو ہر خطرے سے بچائے ہوئے ہے.پس ایسے لوگ جب نظام جماعت میں کام کرتے ہیں تو ان کے کاموں میں بھی وہی سلامتی کی برکتیں ملتی ہیں.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ تو دنیا داری ہے جو آپ لوگ چندوں پر زور دیتے ہیں.چندہ نہ دیا جائے یا کمزوری دکھائی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ووٹ نہیں دے سکتے.یہ بھی دراصل ان کا تکبر ہے.اور وہ یہ نہیں سمجھتے کہ جب وہ چندہ دیتے ہیں تو اللہ کو اس کی کوئی حرص نہیں ہے.دواصول پیش نظر رکھنے چاہیں.اللہ اگر چاہتا تو اپنے نظام کو بھی بندے کی احتیاج سے اس طرح بھی کلیۂ پاک کر سکتا تھا.کہ کسی سے چندہ کی ضرورت پیش نہ آئے جو جہاں سے چاہتا ہے اور جیسے چاہتا ہے اپنے نظام کی ضرورتیں پوری فرما سکتا ہے.پھر چندے کا نظام کیوں ہے.اس لئے کہ سپردگی کا امتحان ہے اور بغیر اس امتحان میں کامیاب ہوئے کوئی شخص سلامتی میں داخل نہیں ہو سکتا.سپردگی میں جان بھی ہے اور مال بھی." الفضل انٹر نیشنل 14 جولائی 1995 ء)

Page 443

430 اللہ کا فضل بھی محنتوں کے تقاضے کرتا ہے.کچھ نہ کچھ تو خدا اپنے بندوں سے ہاتھ ہلانے کی توقع رکھتا ہے عہد یداران کو اپنے ساتھ ٹیم بنا کر کام کرنے کی نصیحت ) (خطبہ جمعہ 22 ستمبر 1995ء) " ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جس دور میں مسیح موعود علیہ السلام نے کام شروع کیا تھا اور جس دور میں مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ سے غیر معمولی نشانات پاتے ہوئے حیرت انگیز انقلابات کی بنیاد رکھی تھی.پس میں سمجھتا ہوں کہ ہر صدی کے بعد یہ موسم آیا کریں گے اور ان معنوں میں دین کی تجدید ہوا کرے گی لیکن خلیفہ، خلیفہ ہی ہوگا مجدد نہیں ہوگا.خدا تجدید کیا کرے گا.کیونکہ وہ موسم جب خدا کے بڑے بڑے عظیم مقرب بندے پیدا ہوتے ہیں اور بڑے کام شروع کرتے ہیں ان موسموں میں بھی ایک برکت پڑتی ہے ان میں دہرائے جانے کی طاقت ہوتی ہے.پس جس طرح تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے یعنی برے معنوں میں دہرائے جانے کی طاقت ہوتی ہے.اس طرح اللہ کے فضل سے میں سمجھتا ہوں کہ اچھی تاریخ بھی اپنے آپ کو دہراتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ دور اسی طرح برکتیں لے کے آ رہا ہے جس طرح پہلے لے کے آیا تھا.اس لئے ہمیں اس غلط فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ بے وقوفی ہوگی اگر ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں کہ ہمیں خدا بڑے بڑے کاموں کی توفیق بخش رہا ہے.بخش تو رہا ہے لیکن کیوں بخش رہا ہے اس لئے کہ موسم وہ آگیا ہے جس موسم میں خدا کے فضلوں نے پھل لگانے ہی لگانے ہیں.جب پھلوں کے موسم آتے ہیں تو جڑی بوٹیوں کو بھی پھل لگ جاتے ہیں، گھاس بھی پھل دار ہو جاتے ہیں کانٹے دار جھاڑیاں بھی پھل دار ہو جاتی ہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے یہ جو موسموں کو دہرایا ہے اس میں اگر چہ محض اللہ کا فضل ہے لیکن ساتھ ایک قانون یہ بھی رکھا ہے کہ تمہیں کچھ نہ کچھ تو ہاتھ ہلانا ہو گا کچھ تو کوشش کرنی ہوگی اگر تم کچھ نہیں کرو گے تو یہ موسم آ کے گزر جائے گا اپنے پھل اپنے ساتھ لے جائے گا پھر وہ ان کو جھاڑ دے گا یا بوسیدہ ہو جائیں گے یا مٹی میں مل جائیں گے اور تمہارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا.پس یہ درست ہے کہ ہماری محنت نہیں ہے محض اللہ کا فضل ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ اللہ کا فضل بھی محنتوں کے تقاضے کرتا ہے اور کچھ نہ کچھ تو ہاتھ ہلانے کی توقع خدا اپنے بندوں سے رکھتا ہے.اگر وہ اتنا بھی نہیں کریں گے کہ اس کے فضلوں کو سمیٹ سکیں تو ان فضلوں سے محروم رہ جاتے ہیں.پس اس پہلو سے اب پھل اتنے ہو چکے ہیں اور اتنے بڑھ رہے ہیں کہ سمیٹنے والے ہاتھوں کی بڑی ضرورت ہے..

Page 444

431 سندھ میں ہمیں زمیندارے کا موقع ملا ہے مجھے خود ذاتی طور پر حضرت خلیفتہ اسیح ثالث نے اپنے حصہ کا نگران بنایا ہوا تھا تو وہاں سندھ میں میں نے دیکھا ہے ہمیشہ جب پھل کا وقت آتا ہے تو مقامی زمیندار جو پھل کاشت کرتے ہیں وہ سنبھال نہیں سکتے.اس لئے وہ تھر سے مزدور آتے ہیں اور بہت زیادہ آدمیوں کی ضرورت درپیش ہوتی ہے جو آ کے پھر فصلوں کو سنبھالتے ہیں اگر نہ سنبھالیں گے تو ساری فصلیں ہاتھ سے نکل جاتی ہیں.پس جب پھل زیادہ ہوں تو مزدوروں کی بھی ضرورت پیش آتی ہے اور زیادہ مزدور چاہئیں.ہمیں بھی خدا کی راہ کے مزدوروں کی ضرورت ہے اور اس طرف میں جماعت کو بلا رہا ہوں کہ اس مزدوری کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دو.تم میں جو بھی استطاعت ہے انکساری کے ساتھ وہی استطاعت لے کر جماعت کی خدمت میں حاضر ہو جاؤ اور جماعت کے عہدیداران جن شرائط کے ساتھ میں نے کام لینے کی اجازت دی ہے ان شرائط کو لوظ رکھتے ہوئے ان مزدوروں کو سمیٹیں ، ان کے سپر د کام کریں اور جتنا آپ ان پر کام ڈالیں گے دیکھنا کہ ان کی استطاعت بڑھتی چلی جائے گی.یہ جو مضمون ہے رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا یہ اس کو اگر صحیح معنوں میں سمجھ جائیں تو گرد و پیش پر نظر ڈالیں تو پھر آپ کو گر دو پیش کے معنے بھی اور طرح دکھائی دیتے ہیں.وہ شخص جس کو آرا چلانا نہیں آتا جس کو تعیسی سے کام لینا نہیں آتا بسا اوقات جب لکڑی کا کام کرتا ہے یا اینٹ پتھر کا کام کرتا ہے تو اپنی انگلیاں کاٹ لیتا ہے.لیکن کچھ مزدور ہیں جو بے چارے کچھ نہیں سمجھ رہے ہوتے وہ صرف مستریوں کے مددگار بن کے کام کر رہے ہیں، کوئی لکڑیاں پکڑا رہا ہے ، کوئی اینٹ پتھر اٹھا اٹھا کے لا رہا ہے.لیکن یہ بات بھولنی نہیں چاہئے کہ وہ لوگ جو معمار ہیں یا نجار ہیں وہ بھی پہلے مزدور ہی تھے.وہ بھی اسی طرح پتھر ڈھو کر لایا کرتے تھے یا لکڑیاں پکڑایا کرتے تھے یا کیل کانٹے ہاتھ میں دیا کرتے تھے.لیکن جب تھوڑا تھوڑا ان پر کام ڈالا گیا تو دیکھتے دیکھتے وہ بڑے بڑے ماہر مستری بن گئے.اور بعض دفعہ انہی مزدوروں میں سے ان سے بہت بہتر مستری بن جاتے ہیں جنہوں نے ان کو کام سکھایا ہو.تو آئیں گے تو آپ مزدور کے طور پر ، خدا کی راہ کے مزدور کے طور پر.یہی بہت بڑی عزت ہے لیکن اللہ آپ ہی میں سے پھر ہر قسم کے معمار اور نجار پیدا کرے گا، ہر قسم کے ماہرین پیدا کرے گا جو آگے کام سنبھالنے کی استطاعت حاصل کریں گے جن کی طاقت کے مطابق کام کرنے کے نتیجے میں ان کی طاقتیں بڑھائی جائیں گی." خطبہ ثانیہ میں تشہد کے بعد حضور انور نے فرمایا: صدر صاحب انصار اللہ سوئزرلینڈ بشیر احمد صاحب طاہر کی طرف سے یہ فیکس موصول ہوئی ہے کہ اس خطبے میں ہمارے لئے بھی دعا کی درخواست کر دیں.آج نماز جمعہ کے بعد ہمارا چوتھا سالانہ اجتماع شروع ہو رہا ہے.اللہ ان کے اس اجتماع میں برکت ڈالے اور کثرت کے ساتھ ان میں کامیاب داعی الی اللہ پیدا

Page 445

432 فرمائے ، یعنی سلطان نصیر عطا کرے" الفضل انٹر نیشنل 10 نومبر 1995ء) ساری جماعت کو تبلیغ کے میدان میں جھونکنے کا وقت آگیا ہے ( کینیڈا کے دسویں سالانہ اجتماع انصار اللہ کے موقعہ پر خطبہ جمعہ 16اکتوبر 1995ء میں زرین ہدایات) ایک تو مجلس انصار اللہ کینیڈا کا دسواں سالانہ اجتماع کل سات اکتوبر سے شرو ہو رہا ہے جو تین دن جاری رہے گا اور ۹ اکتوبر کو بروز سوموار یہ اجتماع ختم ہوگا.دوسرے ناروے کا جلسہ سالا نہ ہورہا ہے اور چونکہ ان کا اصرار تھا کہ میں خود وہاں پہنچ کر اس جلسے میں شمولیت اختیار کروں اور یہاں کی مصروفیات کے باعث مجھے مجبوراً اس پیش کش کو رد کرنا پڑا یعنی اس کو قبول نہ کر سکا اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آج اس خطبہ میں ان کا بھی کچھ ذکر ہو، ان سے بھی کچھ مخاطب ہوں.جہاں تک انصار اللہ کینیڈا کا تعلق ہے یہ انصار اللہ کینیڈا کی مجلس، کینیڈا کی عمومی تصویر سے کچھ مختلف نہیں ہے.کینیڈا ایک قسم کے تضادات کا مجموعہ ہے.بعض پہلوؤں سے خدا کے فضل سے نمایاں خوبیاں بھی موجود ہیں اور بعض پہلوؤں سے کچھ ایسی کمزوریاں ہیں جو احمدیت کے آج کل کے موسم کے شایان شان نہیں ہیں.اگر خزاں کے موسم میں پتے زرد ہوں تو ہر درخت کے پتے زرد ہوتے ہیں ہاں اگر کچھ اجنبی بات معلوم ہوتی ہے تو یہ کہ کوئی درخت سرسبز بھی ہوتے ہیں اور بہار میں اگر درختوں کے پتے زرد ہو جا ئیں تو یہ اجنبی بات ہے.جماعت کینیڈا مخلص ہے، مالی قربانی میں بھی پیش پیش ہے، عموماً ان کے اندر اصلاح کا جذبہ بھی ہے، اجتماعی کاموں میں شوق سے حصہ لیتے ہیں مگر تبلیغ کی طرف نہیں آتے.ایک آدھ آدمی کے سپر د کام کیا اس سے بھی اس رنگ میں کوتاہیاں ہو گئیں کہ اس کے بنائے ہوئے آدمی جماعت کو بالعموم قبول نہ رہے کچھ بنیادی خامیاں دکھائی دی گئیں اور اس کے بعد معاملہ ختم.حالانکہ دنیا کی سب جماعتوں میں تبلیغ کے لحاظ سے اتنی بیداری ہے کہ وہ زمینیں جو بالکل بنجر دکھائی دیتی تھیں ان میں بھی نشو و نما شروع ہوگئی ہے.اس لئے میں نے کہا کہ بہار کا موسم ہے اور اس موسم میں خزاں اجنبی دکھائی دیتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی توقعات کے بالکل برعکس ہے.آپ تو فرماتے ہیں: بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر آج تمام دنیا کی جماعتوں کی تصویر بنا ہوا ہے اور یہ

Page 446

433 تصویر ان کی ذات میں زندہ ہوگئی ہے.پاکستان جیسے ملک میں جہاں احمدیت کے خلاف مظالم کی حد ہوگئی اور تبلیغ کی راہ میں ہر ممکن روک کھڑی کر دی گئی وہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی شعر صادق آ رہا ہے کہ ؎ بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں تو وہ کینیڈا کا بوستاں کیوں سب سے الگ ہے.یہ قابل فکر بات ہے.ان کو اس طرف سنجیدگی سے توجہ کرنی چاہئے.اگر ایک صحت مند وجود میں ایک چھوٹا سا بھی نقص ہو تو وہ نمایاں دکھائی دیتا ہے.اس لئے اگر دوسرے پہلوؤں سے بے چاری کمزور ، مری پٹی جماعت ہوتی تو شاید یہ بات اتنی نمایاں دکھائی نہ دیتی.کیونکہ بعض جھاڑ ایسے ہیں، بعض درخت ایسے ہیں بہار کے موسم میں بھی جن کا رنگ زرد ہی ہوتا ہے بے چاروں کا.اور اس کو اردو میں اس طرح مثال کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ کسی نے پوچھا میاں روتے کیوں ہو تو اس نے کہا میری شکل ہی ایسی ہے.بعض بے چارے پودوں کی شکل ہی خزاں رسیدہ ہوتی ہے.اگر ایسی بات ہوتی تو میں نمایاں طور پر محسوس نہ کرتا.ان کی شکل تو ایسی نہیں جیسا وہ بن کے دکھا رہے ہیں.ہاں بعض جماعتوں میں جہاں آغاز ہے تربیت کا ابھی پوری طرح بیداری نہیں ہوئی وہاں ہر طرف زردی کے آثار ہیں مگر یہاں سبزی کے بیج میں زردی بہت ہی بری دکھائی دیتی ہے.ایسا داغ ہے جو اور زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے.اس لئے میں جماعت کینیڈا کو اور مجلس انصار اللہ کو خصوصیت سے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ کچھ ہوش کرین اگر جلدی اس بیماری کو دور نہ کیا تو یہ بیماریاں پھر پھیلنے لگتی ہیں.اور خاص طور پر ایسے موسم میں جب سب دنیا کے مزاج سے الگ ایک مزاج بنالیا گیا ہو تو اس وقت یہ بیماری بعض دوسری خوبیوں کو بھی کھا جاتی ہے اس لئے فکر کرنی چاہئے.جلد از جلد اپنی صحت کی طرف توجہ دیں.ایک دو کی بحث نہیں ساری جماعت کو تبلیغ کے میدان میں جھونک دینے کا وقت آ گیا ہے.اور اس کے پھر جو تازہ شیریں پھل ملیں گے وہ ساری جماعت کے لئے زندگی کا موجب بنیں گے.وہ روحانی لحاظ سے پھل ہیں یعنی ان کو ویسے تو نہیں کھا سکتے آپ.مگر وہ پھل ایسے ہیں جن کی شرینی کا لطف تو اٹھا سکتے ہیں.ان کی خوشبو، ان کی لذت سے فیض یاب ہو سکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جماعت میں ایک نئی تازگی پیدا ہو جاتی ہے، نیا حوصلہ آتا ہے.جہاں جہاں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے دعوت الی اللہ کے کام کئے ہیں ان کے مردے بھی جی اٹھے ہیں.وہ لوگ جن کے متعلق جماعت کو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ ان میں کوئی روحانی زندگی کے آثار ہیں.بس سانس زندہ تھے مگر کوئی ایسے آثار نہیں تھے جس سے ان میں حرکت دکھائی دے، ان سے توقعات کی جاسکیں.مگر جور پورٹیں آتی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ جہاں جہاں بھی کوئی داعی الی اللہ بن گیا ہے اس کی کایا پلٹ گئی ہے.اور یہی حال ہے جرمنی میں خدا کے فضل سے وہ بے چارے جو تربیت کے لحاظ

Page 447

434 سے بہت ہی پسماندہ اور محتاج تھے ، ایسی جماعتوں سے آئے تھے جہاں لمبے عرصے سے ان کی تربیت نہیں کی گئی یا کی گئی تو انہوں نے اس کو رد کر دیا، جب داعی الی اللہ بنے ہیں تو ان کی کایا ہی پلٹ گئی ہے خدا کے فضل سے.اپنے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں جن پر ان کی نظر ہے پھر ان کے لئے بھی کرتے ہیں جو ان کی جھولی میں پھل کے طور پر گرادئے گئے.پس بہت ہی قابل فکر بات ہے جماعت کینیڈا کو اس میں خاص توجہ دینی چاہئے.انصاراللہ کے بعد اگلی زندگی کا سفر ہے اور انصار اللہ کی تو عمرایسی ہے کہ اب اس کے بعد پھر دوسری دنیا کا سفر ہی ہے نا.اکا دکا تو اطفال بھی اٹھ جاتے ہیں اور خدام بھی اٹھ جاتے ہیں.مگر بطور جماعت کے انصار کے پر لی طرف کوئی اور جماعت نہیں ہے جس میں شامل ہو جائیں گے.اطفال کی جماعت بڑی ہوتی ہے، خدام میں داخل ہو جاتی ہے.ناصرات کی جماعت بڑی ہوتی ہے لجنہ میں چلی جاتی ہے.خدام کی جماعت بڑی ہوتی ہے انصار اللہ میں داخل ہو جاتی ہے.انصار کی جماعت ہزار سال کی بھی ہوگی تو اگلی دنیا میں جائے گی.تو بحیثیت جماعت ان کا انجام دوسری دنیا کے سفر میں ہے.تو جہاں دوسری دنیا کا سفر بالکل صاف سر پر کھڑا دکھائی دے رہا ہو، وہ سٹیشن ہی وہی ہے جہاں آگے گاڑی ٹھہرنی ہے، تو پھر اور زیادہ فکر کی ضرورت ہے.ایسے وقت میں تو انسان کو اگر ساری عمر میں کچھ نہیں بھی کیا تو کوشش کرنی چاہئے کہ کچھ اتنی کمائی کرلے کہ خدا کے حضور حاضر ہو تو کچھ پیش تو کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام فرماتے ہیں اے بے خبر بخدمت فرقاں کمر به بند زاں پیشتر که بانگ برآید فلاں نماند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شعر ہے یا کسی اور کا.مجھے اس وقت قطعی طور پر تو یاد نہیں مگر میرے ذہن پر تو یہی تاثر تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام ہی کا شعر ہے.مگر شعر کا مضمون تو بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کا ہے اس میں قطعی شک کوئی نہیں کہ اے بے خبر قرآن کی خدمت پر اپنی کمرکس لئے ” زاں پیشتر اس وقت سے پہلے کہ بانگ برآید کی آواز سنائی دے، ایک آواز بلند ہو ” فلاں نماند وہ نہیں رہا، وہ نہیں رہا یعنی اس دنیا سے اٹھ گیا ہے.تو انصار اللہ کی عمر تو یہ یہ بانگیں سنے کی عمر آ گئی ہے جو ان کے جانے کے بعد دوسروں کو سنائی دے گی.مگر اگر اچھے کام یہاں کر لیں گے، خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے محنت کریں گے، کچھ زادراہ بنالیں گے تو آسمان سے بھی تو ایک بانگ اٹھے گی جہاں اللہ تعالیٰ یہ فرمائے گایا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّة اے میرے مطمئن نفس یعنی میری

Page 448

435 ذات سے مطمئن ہونے والے پیارے آجا، لوٹ کے میری طرف آجا رَاضِيَةً مَرْضِيَّة “ تو مجھ سے راضی ہے میں تجھ سے راضی ہوں.تو دو قسم کی بانگیں ہیں جو بہر حال انجام کے وقت سنائی دیتی ہیں.ایک جانے والوں کے لئے پیچھے اٹھتی ہے اور ایک جانے والوں کے استقبال میں آسمان سے اترے گی.تو اس آواز کے لئے کیوں اپنے آپ کو تیار نہیں کرتے.اور ایسا تیار کریں کہ جن کو آپ اپنی دعوت الی اللہ کے نتیجے میں خدا کا قرب عطا کرنے میں ایک بہانہ بن چکے ہوں وہ آج کی یاد میں ہمیشہ آپ کو دعائیں دینے لگیں.محض فلاں نماند کی آواز میں نہ اٹھیں بلکہ یہ آواز میں اٹھیں کہ کاش وہ رہتا اور ہم چلے جاتے.وہ ایسا پاک وجود تھا کہ اس کے جانے سے خلا پیدا ہو گیا ہے.تمام دنیا کے انصار کے لئے پیغام پس انصار اللہ خواہ کینیڈا کے ہوں خواہ دنیا میں کسی جگہ کے ہوں ان کو خصوصیت کے ساتھ اس اپنی حیثیت کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ بحیثیت جماعت وہ ایک مرنے والی جماعت ہے یعنی مادی طور پر مرنے والی مگر اس طرح مریں کہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو چکے ہوں تو تب ان پر موت آئے.مر کے جانا یعنی ہمیشہ کی موت کو قبول کر لینا یہ کوئی شعور کی بات نہیں، عقل کی بات ہے، یہ بہت نقصان کا گھاٹے کا سودا ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کہ انصار اللہ دنیا میں ہر جگہ میرے اس پیغام کو غور سے سنیں گے، سمجھیں گے اور اپنے اندر اور اپنے میں سے جو کمز ور تر ہیں ان کے اندر نئی زندگی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.دعوت الی اللہ کی اہمیت اور سب سے اچھا زندگی پیدا کرنے کا ذریعہ دعوت الی اللہ ہے.دعوت الی اللہ کام ایسا ہے کہ جو دونوں طرف نفع بخش ہے.جو بلاتا ہے اس کو بھی زندہ کرتا ہے، جس کو بلایا جاتا ہے وہ بھی زندہ ہو جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ سب سے زیادہ زندہ کے سپرد یہ کام کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے متعلق فرمایا کہ یہ بلانے والا جب بلائے تا کہ تمہیں زندہ کرے تو اس کی آواز پر لبیک کہا کرو.پس زندگی یعنی روحانی زندگی ایک ایسی عظیم چیز ہے کہ جب یہ عطا کی جاتی ہے تو جس کو عطا کی جاتی ہے اس کی طرف سے عطا کرنے والے کو بھی ایک فیض ملتا ہے، وہ اور بھی زیادہ زندہ ہو جاتا ہے، اور جو زندہ ہو وہی زندگی بخش سکتا ہے غیر زندہ کو توفیق نہیں ملتی.پس وہ لوگ جو محنت کرتے ہیں اور پھل نہیں پاتے جب وہ دعائیں کرتے ہیں،فکر کرتے ہیں

Page 449

436 ان کے اندر تربیت کے لحاظ سے بھی ایک مربی بیدار ہو جاتا ہے، ایک دعائیں کرنے والا بزرگ ان کے نفس میں سے پیدا ہوتا ہے اور ہر پہلو سے وہ پہلے سے زندہ تر ہونے لگتے ہیں.پس میں امید رکھتا ہوں جماعت مجموعی صرف انصار اللہ ہی نہیں آج کے اس دور کے ہم ترین تقاضے کو پورا کریں گے اور دعائیں مانگتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو تبلیغ کے میدان میں جھونک دیں گے." الفضل انٹر نیشنل 24 نومبر 1995ء)

Page 450

437 $1996 قائدین اور زعماء کو اطاعت کا اپنے منصب کے لحاظ سے ایک حق حاصل ہو گیا ہے اور اس میں ان کی ذات کا کوئی دخل نہیں خطبہ جمعہ 14 جون 1996 ء) " گزشتہ خطبات میں جرمنی کے سفر کے دوران بھی اور بعد ازاں بھی میں نے جماعت کو امارت کی عزت اور احترام کی طرف توجہ دلائی اور جماعت کو نصیحت کی کہ اپنی اطاعت میں محبت اور خلوص کا رنگ پیدا کریں کیونکہ یہی کچی اور حقیقی اطاعت ہے جو انسان کو ابتلاؤں سے بچاتی ہے.اگر محض میکانیکی یعنی میکینیکل اطاعت ہو تو ایسی اطاعت بعض دفعہ ٹھوکر کے مقام پر انسان کو سہارا نہیں دے سکتی اور معمولی عذر پر بھی انسان اپنی اطاعت کا تعلق توڑ کر خودسری کی طرف مائل ہو جاتا ہے.یعنی جہاں محبت اور ادب کے رشتے ہوں وہاں یہ دونوں رشتے اطاعت کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کے اندر ایک وارفتگی سی پیدا کر دیتے ہیں ، ایک ایسا رجمان جس کے بعد انسان اطاعت کی سختیوں کو برداشت کرنے کا اہل ہو جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ماں کو جو تربیت میں مرتبہ اور مقام حاصل ہے اتنا کسی اور رشتے کو نہیں کیونکہ ماں کی سختیاں بسا اوقات رد عمل کے بغیر بچہ جھیلتا ہے.اور جہاں ردعمل دکھاتا ہے وہاں ماں کا کوئی قصور ہوا کرتا ہے.وہ ماں جو فطری تقاضے پورے کرتی ہے، بچوں سے پیارا اور محبت کے تعلق قائم رکھتے ہوئے ان کی اصلاح کا خیال رکھتی ہے اس ماں کے بچے تختی کے وقت بھی دکھ تو محسوس کریں گے، بغاوت نہیں کریں گے.پس جہاں جماعت کو میں نے توجہ دلائی ہے وہاں اب بھی امراء کونصیحت کرنا چاہتا ہوں بلکہ ہر جماعتی عہد یدار کو کہ اس نے اگر خدمت لینی ہے اور اطاعت کے اعلیٰ نمونے دیکھنے ہیں تو خود اس کے لئے لازم ہے کہ اول وہ اطاعت کا اعلیٰ نمونہ بنے.یعنی اپنے سے بالا پر اس کی نظر رہے اور وہ بہترین اطاعت کا ایک نمونہ بن جائے.اور دوسرے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اطاعت کا حکم ہے آپ کے لئے اگر ہے تو اس کے تابع ہی ہے مگر اس کے ہم مرتبہ نہیں ہوسکتا.گو منطقی نقطہ نگاہ سے ہم کہہ دیتے ہیں کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں آپ کے مقرر کردہ امراء کی اور غلاموں کی اطاعت بھی داخل فرما دی گئی ہے.اس لئے ان سب امراء کو جو نظام جماعت کے نمائندہ ہیں یا صدر ہیں یا قائدین ہیں یا زعماء ہیں بالجنہ کی صدرات ہیں ان سب کو اطاعت کا اپنے منصب کے لحاظ سے ایک حق حاصل ہو گیا ہے اور اس

Page 451

438 میں ان کی ذات کا کوئی عمل دخل نہیں.یہ نصیحت جہاں میں کر رہا ہوں وہاں یہ بھی سمجھانا چاہتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ سب سے زیادہ اہم ترین اطاعت کا حکم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے لئے ہے اور آپ کی ذات کے حوالے سے پھر آگے یہ حکم پھیلا ہے.مگر آپ کے متعلق بھی قرآن کریم نے متنبہ فرمایا کہ اگر تجھے وہ رحمت کا دل نہ دیتے جو ہر وقت ان پر جھکا رہتا ہے، ہر وقت ان کے خیال میں مگن رہتا ہے ، ان کی تکلیف تجھ پر مصیبت بن جاتی ہے ” عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ “ جو دکھ اٹھاتے ہیں تجھے بھی مصیبت پڑ جاتی ہے.اگر یہ نہ ہوتا اس قسم کی کیفیات تو تیرکی اعلیٰ عظمت اور تیرے متعلق خدا تعالیٰ کے اعلیٰ فرمان بھی ان کو اکٹھے نہ رکھ سکتے.اس لئے کہ تو تو صحت مند ہے یہ سارے صحت مند نہیں.اور جو اعلیٰ صحت اطاعت کے لئے درکار ہے جو ہر ٹھوکر سے بالا ہو جاتی ہے، ہر ابتلاء سے ثابت قدم گزرتی ہے وہ ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی.اور وہ صحابہ اکرام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں قریب تر رہتے تھے ان کا ایک الگ مرتبہ تھا.ان کے متعلق اس آیت میں ہرگز یہ نہیں فرمایا گیا کہ لَوْ كُنتُ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ (آل عمران: 160 ) انہوں نے تو رہنا ہی تھا ساتھ.ان پر تو یہ مضمون صادق آتا تھا کہ ”ہمیں تو راہرووں کی ٹھوکریں کھانا مگر جانا، یعنی محبوب کی گلیوں میں.اس لئے قرآن کریم کی ہر آیت کو اس کے موقع محل کے مطابق چسپاں کرنا چاہئے.لیکن ایک بڑی جماعت ایسی تھی جو تربیت میں وہ مرتبہ نہیں رکھتی تھی.وہ ہر لمحہ دلداری کے محتاج تھے اور دلداری کے رستوں سے وہ رفتہ رفتہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آتے رہے، قریب تر ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ پھر اس مرتبے اور مقام پر پہنچے کہ جس کے متعلق قرآن کریم نے ان کے ثبات قدم کی گواہیاں دیں.پس وہ جو مضمون ہے وہ عمومی تربیت کا مضمون ہے کہ جو امیر مقرر ہو اور خاص طور پر جو خدا تعالیٰ کی طرف سے امیر مقرر ہو اس کے اوپر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.انسانی فطرت کو نظر انداز کر کے محض اس وجہ سے کہ اللہ نے اسے مامور بنا دیا ہے وہ یہ سمجھے کہ اب ہر شخص کا فرض ہے میری اطاعت کرے اور اطاعت میں حد کمال کو پہنچ جائے مگر میں بس صرف ما مور بن کر بیٹھا رہوں گا میرا کام اطاعت قبول کرنا ہے اس سے بڑھ کر نہیں.یہ درست نہیں ہے.یہ فطرت انسانی کے خلاف بات ہے.اور قرآن فطرت کے مطابق ہے.ایک زعیم انصار اللہ بھی محدود پیمانے پر مامور ہے جس کی اطاعت کرنالازمی ہے اور قرآن یہ بھی بتانا چاہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام میں جو اطاعت کے بے مثال نمونے تم دیکھتے ہو اس میں تم ان کے لئے جتنی بھی دعائیں کرو بے شک کر دمگر یا درکھو کہ اس کا اصل کریڈیٹ ، اس کا اصل سہرا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر ہے.کیونکہ آپ نے اپنے پیار، محبت ،مغفرت عفو اوران کی خاطر تکلیفیں اٹھا کر خود ایک مقام پیدا کر لیا.اور ایک ایسا مقام پیدا کیا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفات نہیں ہوتیں تو ان میں جو نمونے تم دیکھتے ہو وہ نظر نہ آتے.پس یہ ان کی ذاتی خوبی نہیں.یہ

Page 452

439 اطاعت بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کا ہی ایک عکس ہے.تو یہ آیت کریمہ ہمیں اس طرف بھی متوجہ کر رہی ہے کہ ہر وہ شخص جو مامور ہے کسی پہلو سے خواہ محدود دائرے میں ہو، ایک زعیم بھی جو انصاراللہ کا زعیم ہے وہ بھی محدود دائرے میں ایک مامور ہے، ایک زعیم بھی جو خدام الاحمدیہ کا زعیم ہے وہ بھی تو اپنے دائرے میں اور محدود دائرے میں ایک مامور ہے.تو ہر شخص جس کا حکم مانا جائے اسے مامور کہا جاتا ہے یعنی اس کی بات مانی جائے گی.ان معنوں میں نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کوئی منصب ماموریت عطا فرمایا ہے جو انبیاء کو دیا جاتا ہے، یہ الگ مضمون ہے.مگر مامور کا عام معنی یہی ہے کہ اپنے دائرے میں صاحب اختیار ہو، صاحب امر ہو.اس پہلو سے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہوا سے یا درکھنا ہوگا کہ جن لوگوں پر مامور ہے ان کے دل جیتنے میں لازماً محنت کرنی ہوگی اور ان کے طبعی فطری تقاضے پورے کرنے ہوں گے.پس وہ امیر جو امیر بن کر یہ اہم اور بنیادی نکتہ نظر انداز کر دیتا ہے وہ بے وقوف بھی ہوگا اور ایک قسم کا اس میں تکبر بھی پایا جائے گا.بیوقوف اس لئے کہ جو مرکزی نکتہ قرآن کریم نے بار بار سمجھایا جس کے بغیر امارت مکمل ہو ہی نہیں سکتی اسے نظر انداز کر بیٹھا ہے.اور تکبر ان معنوں میں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن یہ فرماتا ہے کہ اگر یہ صفات تجھ میں نہ ہوتیں تو انہوں نے بھاگ جانا تھا، اپنے متعلق وہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ مجھ میں بھی نہ ہوں تو فرق کوئی نہیں پڑتا انہوں نے مانی ہی ماننی ہے.اگر وہ مانتے ہیں تو پھر تمہاری وجہ سے نہیں بلکہ عمومی نظام جماعت کی برکت سے مانتے ہیں اور وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر مانتے ہیں.وہ دہرے ثواب کماتے ہیں اور تم مجرم بن جاتے ہو.کسی عہدے پر فائز ہونا معمولی امر نہیں اس کے گہرے تقاضے ہیں جنہیں پورا کرنا ضروری ہے پس کسی امارت پر فائز ہونا کوئی معمولی امر نہیں ہے، اس کے بہت گہرے تقاضے ہیں ، انہیں لازماً پورا کرنا ہوگا.مگر جہاں تک نافرمانی والے کا تعلق ہے اس کا یہ عذر کبھی قبول نہیں ہوسکتا کہ چونکہ اس نے مجھے سے حسن سلوک نہیں کیا تھا اس لئے میں نافرمانی کا حق رکھتا ہوں.یہ بات بھی یا درکھیں.قرآن کریم نے ان کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اگر سختی کی وجہ سے دور ہٹے ہوں ہرگز یہ حق تسلیم نہیں کیا کہ ان کو ہٹنے کا حق تھا.ان کی ایک نفسیاتی کمزوری بیان فرمائی ہے.ورنہ جو اطاعت کا اعلیٰ حق ہے اس میں کسی شخص کی ذاتی کمزوری یا ذاتی صفات کا کوئی بھی دخل نہیں ہونا چاہئے.اطاعت کے زاویے سے دیکھیں یعنی مطیع کے زاویے سے دیکھیں تو پھر یہ مضمون یوں نکلے گا کہ مطیع کو اگر اس کا مطاع یعنی جس کو امر کا اختیار دیا گیا ہے باوجود اس کے کہ اس کے ساتھ حسن سلوک نہیں کرتا اپنے دائرہ اختیار میں حکم دیتا ہے تو مطیع کا فرض ہے کہ لازما قبول کرے.اور یہ عذر نہیں رکھے کہ چونکہ اس نے مجھ سے حسن سلوک نہیں کیا اس لئے میں حق رکھتا ہوں کہ اس کی اطاعت سے باہر چلا جاؤں.یہ حق قرآن کریم نے کہیں بھی کسی کو نہیں دیا.

Page 453

440 جہاں تک مومن کا تعلق ہے ان کی ایک ہی آواز بیان فرمائی ہے جو حضرت محمد رسول اللہ کی آواز کے تابع اٹھی اور یک جان ہو کر اٹھی ہے اور یہ آواز تھی سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ المصير (البقره:286) ہمیں تو اس کے سوا کچھ نہیں پتہ.ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی.جوسنا اس پر عمل کیا."سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ “ اور سننے اور اطاعت ہی میں اے رب ہمیں تیری غفران کی حرص ہے.ہم جو سنتے ہیں اور اطاعت کرتے ہیں تو اس غرض سے نہیں کہ جس کی اطاعت کرتے ہیں اس سے کوئی فیض ہمیں پہنچے گایا اس کی محبت بذات خود ہمارا مطبع نظر ہے.یہ سب کچھ تو اس لئے ہے کہ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا تا کہ تو ہم سے مغفرت کا سلوک فرمائے.وَالَيْكَ الْمَصِير ہم نے آخر تیرے حضور پہنچنا ہے.سارا حساب کتاب تیرے حضور پیش ہوگا.تو سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کا مضمون ایک وہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے خدا تعالیٰ کی جانب رخ سے ہمیں معلوم ہوا.جب خدا کی طرف اپنا رخ فرمایا تو ہر وہ شخص جو اللہ کی طرف سے تھا اس کے متعلق یہ اعلان ہوا ہے سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ہمارا اور کوئی کام نہیں ہے.لیکن جہاں جس کو مامور بنایا گیا ہے اس کے رخ سے دیکھیں تو اسے سمع اور اطاعت کی روح پیدا کرنے کے لئے اپنی جان کی قربانی کرنی پڑتی ہے.اپنے آرام کو قربان کرنا پڑتا ہے.وہ تمام نفسیاتی تقاضے پورے کرنے پڑتے ہیں جن کے نتیجے میں پھر یہ ایسی جماعت پیدا ہو.تو ایک طرف سے مضمون کو دیکھا جائے تو مضمون بعض دفعہ بگڑ جاتے ہیں اور غلط استدلال پیدا ہو جاتے ہیں اور لوگ غلط استدلال کے نتیجے میں خود اپنی ہلاکت کا موجب بن جاتے ہیں.اب یہی صورت حال اگر آج کل کے حالات پر جو جماعتوں میں رونما ہوتے رہتے ہیں چسپاں کر کے تفصیل سے دیکھیں تو آپ کے سامنے یہ مسئلہ خوب کھل کے آجائے گا.ایک امیر ہے جو اپنی رحمت اور شفقت کے تقاضے پورے نہیں کرتا.ذاتی تعلقات کو محض اس لئے نہیں بڑھا تا کہ خدا کی خاطر اب وہ مجبور ہے اور برداشت اور حوصلہ پیدا نہیں کرتا اور اس فکر میں نہیں رہتا کہ جس طرح بھی ممکن ہے مجھ سے محبت اور احسان کے رشتوں میں یہ لوگ باندھے جائیں.وہ امیر اپنی جماعت میں ویسی اطاعت کے نمونے نہیں دیکھ سکتا.ناممکن ہے.بلکہ بسا اوقات وہاں ٹھوکر کے واقعات کثرت سے دکھائی دیں گے.چھوٹی سی بات ہوئی اور لوگ ناراض ہو کے بھاگ گئے.امیر سے نہیں بھاگے اپنی عاقبت سے بھاگ گئے.اپنی آخرت تباہ کر لی.لیکن اس صورت میں دونوں یکساں ذمہ دار نہیں ہیں تو کم سے کم کچھ نہ کچھ ذمہ داری دونوں پر عائد ہوتی ہے.برابر کا لفظ کہنا مشکل ہے اللہ بہتر جانتا ہے.بعض دفعہ ایک ذمہ داری کسی پر کم کسی پر زیادہ مگر ذمہ دار دونوں ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے.ان لوگوں کی بدنصیبی ہے جو ایسے امیر کی امارت میں ہیں جو ان سے رحمت اور شفقت کا سلوک نہیں کرتا.اور اس امیر کی بھی بدنصیبی ہے جو کرتا بھی ہو تو کچھ خودسروں کا امیر بنایا گیا ہے کیونکہ بعض دفعہ یہ امیر کے

Page 454

441 قصور کی وجہ سے خودسری نہیں آتی بعض جماعتوں میں کچھ گٹھلیاں بن جاتی ہیں.کچھ شریروں کی گٹھلیاں جن کا شغل ہی یہ رہتا ہے کہ کچھ ایک گروہ یہاں بنالیا ایک گروہ وہاں بنالیا اور تاک میں رہتے ہیں کہ امیر سے جو بھی ہو جب بھی کوئی غلطی ہو اس کو پکڑیں اور بلند آواز سے کہیں کہ یہ دیکھو یہ حرکتیں کر رہا ہے ہم اس کے ساتھ نہیں چل سکتے.موقع ملے تو دھمکیاں بھی اس کو دیں.ایسے ظالموں کی کینسر کی گٹھلیاں بھی کئی جگہ موجود ہیں اور جہاں یہ موجود ہیں وہاں امیر کو ہم نے بدل بدل کے دیکھ لیا.انتہائی رافت کرنے والا ، شفقت کرنے والا امیر بھی بھیجیں تو اس کے ساتھ وہی بدتمیزی کا سلوک ہوگا بلکہ بعض دفعہ نسبتاً سخت امیر کے سامنے یہ لوگ جھک جاتے ہیں.اور بعض دفعہ اس نیت سے سخت امیر مقرر کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ لوگ نیکی اور شفقت اور رحمت کی زبان سے بالکل نابلد ہو جاتے ہیں.ان کو پتہ ہی نہیں یہ زبان ہوتی کیا ہے.وہ دوسری زبان کسی حد تک سمجھتے ہیں.کوئی مضبوط امیر کو جو بد تمیزیاں برداشت نہ کرے اور آگے سے اسی طرح دوٹوک جواب دے سکے تو وہ ماحول تو نہیں ہے جو اسلامی ماحول ہے اس کو تو میں ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا.مگر بیماروں کی دنیا میں صحت مند قانون چلا بھی تو نہیں کرتے.وہاں پر یہ مضمون صادق آتا ہے جیسی روح دیسے فرشتے.روح ہی بد ہے تو فرشتے بھی تو ویسے ہی سخت گیر ہوں گے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو جہنم کے تعلق میں بیان فرمایا ہے.کہتا ہے جہنم کے فرشتے بھی بڑے سخت گیر ہیں.کوئی رحم نہیں جانتے.وہ جہنمی چیختے چلاتے رہتے ہیں کہ اے جہنم کے داروغے ہمارے لئے خدا سے کچھ مانگ.وہ کہتا ہے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اور ان کی سخت گیری جو ہے وہ اٹل ہے اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی.تو جیسی روح ویسے فرشتے کا مضمون محض محاورہ نہیں.قرآن سے ثابت ہے کہ جیسے جیسے لوگ ہوں ویسے ویسے ہی فرشتے ان پر مسلط کئے جاتے ہیں.چنانچہ مرتے وقت کے فرشتے آتے ہیں.جو نیک لوگوں کے فرشتے ہیں وہ ان کے لئے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں ان کو محبت اور پیار سے تیار کرتے ہیں اپنے رب کے حضور حاضر ہونے کے لئے.اور خوش خبریاں دیتے ہیں کہ تم ایک تکلیف کے مقام سے ایک آرام کے مقام کی طرف منتقل ہورہے ہو.اور جو سخت گیر فرشتے ہیں وہ ان لوگوں پر آتے ہیں جو ظالم ہیں.ساری عمر انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کئے ہوں.ان کو کہتے ہیں خود اپنی جانیں نکال کر باہر لاؤ.اب اس قسم کا سخت منظر ہے کہ اس کو قرآن کریم میں پڑھتے ہوئے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.تو اس لئے کہ کہنا کہ بعض دفعہ لوگ سخت گیر مزاج کے مستحق ہو جاتے ہیں یہ قرآنی مضامین سے مختلف نہیں مگر اسے مثالی ماحول بہر حال نہیں کہا جا سکتا.مثالی ماحول تو وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو اور آپ نے اپنی تمام زندگی میں اطاعت کو قائم کرنے میں جو نمونے دکھائے ہیں ان نمونوں کی پیروی کر رہا ہو.اگر سو فیصد نہیں تو کوشش ضرور ہو کہ ویسے نمونے پیدا ہوں.جہاں یہ صورت حال ہو وہاں حضرت مسیح موعود کی جماعت میں یہ خوبی ہے کہ وہ

Page 455

442 پھر اپنی جان بھی ایسے امیروں سے نچھاور کرنے لگتی ہے.صدر ہو خدام الاحمدیہ کا، قائدہ ہو، زعیم ہو ان سب سے قطع نظر اس کے کہ ان کا کوئی رشتہ کوئی دوستی کا تعلق کچھ مزاج میں ہم آہنگی ہے کہ نہیں وہ لوگ گہری محبت کا سلوک کرتے ہیں.ان کا خیال رکھتے ہیں.ان کی ہر بات کو قبول کر کے ہر پہلو سے اس پر عمل درآمد کی کوشش کرتے ہیں.پس اس پہلو سے جماعت کی تاریخ میں بہت سی بڑی بڑی جماعتوں کی ایسی مثالیں ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کسی ایک امیر نے ایسا سلوک کیا تو آج تک ان جماعتوں کو اسی امیر کا فیض نصیب ہو رہا ہے اور اس کی نیکیوں کا پھل آج تک کھا رہے ہیں.اس کے لئے دعائیں نہ کریں تو ان کی بے پرواہی ہے، ناشکری ہے.مگر جو شخص نیک روایات پیچھے چھوڑ جائے ، جس نے عرق ریزی کے ساتھ اور اپنا خون بہا کر محنت کر کے وہ پاکیزہ ماحول بنایا ہو جو بہترین اسلامی ماحول ہے جس میں امیر اپنے ماتحتوں پر فدا اور ماتحت اپنے امیر پر فدا ، اس کی رضا پر نظر رکھنے والے ہوں یہ ماحول پھر بعض دفعہ نسلاً بعد نسل ان لوگوں پر احسان کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ بعض شریر اس کو بدلنے کی کوشش کریں ،اس کے مزاج کو بگاڑ دیں.پس یہ وہ بار یک باتیں ہیں جن میں سے ہر بات پر نظر رکھنی ہوگی.اطاعت کیا ہے جماعت کو سمجھنا چاہئے کہ ہمارا دائرہ اختیار کیا ہے.اطاعت کہتے کس کو ہیں.اور یہ یا درکھنا چاہئے کہ اطاعت تو اصل وہ ہے کہ مرضی کے خلاف ہو اور جان کی قربانی پیش کرنی پڑے.امیر، بحیثیت امیر جماعت کے تصور میں نہیں وہ بھی ، جو بھی جس کو خدا نے کسی حکم پر فائز فرمایا ہو، جس دائرے میں بھی ہو ، اس سے غلطی بھی ہو جاتی ہے تو اس غلطی کو نظر انداز کر کے اپنے اطاعت کے فرائض میں کوئی رخنہ نہ پیدا ہونے دیں.اور اس مضمون کو یا درکھیں کہ میں اپنی جان، مال، عزت اور وقت کو قربان کرنے کے لئے ہمیشہ تیار ہوں گا.یہ اطاعت کا وہ مضمون ہے جس کو حضرت مصلح موعودؓ نے اس عہد کی صورت میں ہمیں سمجھایا کہ اطاعت محض خشک اطاعت کا نام نہیں ہے کہ مرضی کی بات ہو تو اطاعت کرو، جہاں تکلیفیں اور آزمائشیں سامنے آئیں وہاں اطاعت سے پیچھے ہٹ جاؤ.جان ، مال عزت اور وقت کو قربان کرنے کے لئے تیار رہوں گا.بعض لوگوں کو تو میں دیکھا ہے کہ یہ بھی لکھتے ہیں اس امیر نے لمبی باتیں کیں ، ہمارا وقت ضائع کیا.فلاں بات کی ہمارا وقت ضائع کر دیا.اگر وہ ٹھیک ہے تو میرا فرض ہے کہ اس امیر کو سمجھاؤں.اور اگر اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے تو وہ سرزنش کا سزاوار ہو گیا ہے.لیکن آپ کا یہ کام نہیں کہ امیر پر روز مرہ اٹھ کر ایسی باتیں کریں تم مجلسوں میں لمبی باتیں کرتے ہو ہمارا وقت ضائع کرتے ہو، بلایا ہے کوئی خاص بات بھی نہیں تھی.یہ دل کی بد تمیزیاں ہیں.ان کو حقوق قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ماتحت کے حقوق ہیں.ماتحت کا حق ہے تو امیر پر ہے کہ ان

Page 456

443 کے حقوق کا خیال رکھے لیکن ماتحت اس قسم کی باتیں خود نہیں کہا کرتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے غلاموں کا اتنا خیال تھا کہ نماز سے بڑھ کر اور کون سا لمحہ ہے جو آپ کے دل کو اپنی طرف کھینچ رہا ہومگر ایک بچے کے رونے کی آواز آپ کو نماز چھوٹی کرنے پر مجبور کر دیتی تھی.اس خیال سے کہ اس کی دردناک آواز اس کی ماں کے دل پر کیا اثر کرتی ہوگی نماز جلدی کر دی.لیکن کہیں ہم نے نہیں سنا کہ مائیں چیخ اٹھی ہوں کہ اے خدا کے رسول تجھے نمازوں کی فکر پڑی ہوئی ہے ہمارے بچے رور ہے ہیں اور تجھے پرواہ ہی کوئی نہیں.یہ جہالت تھی اگر ہوتی.لیکن یہ شان محمد مصطفیٰ ہے کہ ایسا موقع آنے کا سوال ہی نہیں پیدا بھی ہوا.وہ شخص جو دوسروں سے بڑھ کر ان کی تکلیفوں کا خیال رکھتا ہو اس کے اوپر جائز حملہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ تم نے بے پرواہی کی ہے.اور اس پہلو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی میں ایک مرتبہ بھی کسی مسلمان کو یہ کہنے کا حق نہیں ملا کہ آپ نے ہم سے بے پرواہی کی اس کے نتیجے میں ہم سے یہ واقعہ ہو گیا.کیونکہ آپ سب کی ضرورتوں پر اپنی ضرورتوں قربان کر دیا کرتے تھے اور اس حد تک کرتے تھے کہ تعجب ہوتا ہے کہ انسان میں اتنی طاقت کیسے ہے، ناممکن دکھائی دیتا ہے.بعض دفعہ بعض چیزیں اچھی بھی لگتی ہیں لیکن انسان اس حد تک ان پر عمل کر ہی نہیں سکتا جب تک اس کے سارے نظام کے اندر ، اس کے اندرونی نظام کے اندر گہری تبدیلیاں واقع نہ ہوں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض کردار ایسے ہیں جن کو دیکھ کر ان کی عظمت کی وجہ سے سر سے ٹوپی گرتی ہے.اتنے بلند ہیں.مکارم الاخلاق پر آپ کو فائز کیا گیا ہے.اس لئے یہ بھی درست ہے کہ ہم پر لازم ہے کہ ان کی پیروی کریں لیکن یہ کہنا بھی جائز نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ کیا تھا تم نے تو بالکل ویسا نہیں کر کے دکھایا.اخلاق کے مضمون میں اور انصاف کے مضمون میں ایک فرق ہے.انصاف کے تقاضے اگر امیر پورا نہیں کرے گا تو مجھ پر لازم ہے کہ میں اس کو پکڑوں لیکن قربانی کے وہ نمونے نہ دکھا سکے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائے ہیں تو صرف یہ نظر ہوگی کہ کوشش کرتا ہے کہ نہیں.اسے نصیحت تو کی جاسکتی ہے کہ تم یہ بھی تو کر سکتے تھے.اس طرح بھی دل جیت سکتے تھے.یہ قربانی ، اس قربانی کا مظاہرہ کر سکتے تھے مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسے سرزنش کی جائے اور سختی کی جائے کیونکہ دوالگ الگ مضمون ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف فرائض کی دنیا تک نہیں رہے.آپ کا قدم احسان کی طرف بلند ہوا ہے اور احسان سے ایتاء ذی القربیٰ میں جا کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ بلندیوں میں آپ کا وجود ہماری نظر کی رسائی سے بھی آگے نکل چکا ہے.اس لئے ہر ایسی کوشش جو آپ کی سنت کے مطابق ہے وہ بھی تجزیہ کے لحاظ سے مختلف مراتب رکھتی ہے.بعض جگہ وہ کوشش فرض میں داخل ہے.بعض جگہ وہ کوشش نوافل میں داخل ہے.لیکن نوافل کہہ کہ اسے نظر انداز کرنے والا بھی فرض کو نظر انداز کر رہا ہے.اب بظاہر اس بات میں تضاد

Page 457

444 ہے لیکن کوئی تضاد نہیں ہے.ایک فرائض کی دنیا ہے اس میں امیر کا فرض ہے کہ ان سب تقاضوں کو پورا کرے جو امیر کے اوپر لازماً عائد ہوتے ہیں اور جماعت کے ایک خاص رنگ کا سلوک جس کی تفصیل میں آپ کو بتاؤں گا اس طرح وہ سلوک کرے اور کسی سے کوئی امتیاز نہ کرے لیکن کس حد تک وہ ان کی بد تمیزیوں کو برداشت کرے گا ، کس حد تک ان کے دکھوں پر شکوہ نہ کرتے ہوئے دعا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے ان کی مدد چاہے یہ وہ احسان والا مضمون ہے جس کے متعلق ہر شخص کے اپنے اپنے حالات ہیں ، اپنی اپنی صلاحتیں ہیں.ان صلاحیتوں کے علاوہ ہر شخص کا پس منظر الگ الگ ہے، اس کا خاندان الگ الگ ہے.جس خاندان میں وہ پل کر بڑا ہوا ہے اس کے روز مرہ کے معاملات کے طریق اس پر اثر انداز ہیں، اس کی طبیعت پر ایک چھاپ لگ گئی ہے.یہ خیال کر لینا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا حوالہ دے کر اچانک اس کو نرم رو بنا دو گے یہ ممکن نہیں ہے.لیکن اگر وہ یہ کہے کہ میں چونکہ سخت رو ہوں اور میں نے اپنے ماں باپ سے یہ سختیاں سیکھی ہوئی ہیں اس لئے مجھے حوالہ نہ دوسنت کا یہ اس کی فرض ناشناسی ہوگی بلکہ گستاخی اور بدتمیزی ہوگی.اس کا صرف یہ کام ہے کہ وہاں میں نے سن لیا ، میں ادب کرتا ہوں ، احترام کرتا ہوں جو تم نے حوالہ دیا ہے بہت بڑا ہے.میری مجال نہیں ہے کہ اس کے خلاف کچھ کہہ سکوں مگر تم بھی دعا کرو میں بھی کوشش کروں گا کہ آئندہ اس پہلو سے بہتر نمونہ دکھاسکوں.نظام جماعت کی حفاظت اور اس کے استحکام و بقا کے لئے حسن واحسان کے تقاضے پورے کرنا ضروری ہے پس جو جو فرائض جس جس پر عائد ہوتے ہیں ، جو جو حسن واحسان کے تقاضے جس جس پر عائد ہوتے ہیں ان کی کوشش کرنا اور دیانتداری سے کوشش کرنا نظام جماعت کی حفاظت کے لئے اور اس کے استحکام کے علاوہ اس کی بقاء اور ہمیشہ ہمیش کے لئے جاری رکھنے کے لئے بڑا ضروری ہے، بہت ضروری ہے.یہ باریک پہلو ہیں جن کے اندر نظام جماعت کی جان مضمر ہے.ان باریک پہلوؤں سے نظر اٹھائیں گے تو اسی حد تک نظام جماعت بیمار پڑنا شروع ہو جائے گا.اس کے اندر ایسی کمزوریوں کی علامتیں ظاہر ہو جائیں گی جو رفتہ رفتہ پھر ایسے نظاموں کو پارہ پارہ کر دیا کرتی ہیں.تو میں جن باتوں کی طرف آپ کو توجہ دلا رہا ہوں ان کو معمولی نہ سمجھیں.میری نظر آئندہ لمبے عرصے تک ہے.میری یہ تمنا ہے کہ جماعت احمد یہ ان اعلیٰ اخلاق پر اور ان اقدار پر اتنی مضبوطی سے قائم ہو جائے کم سے کم ان اقدار پر جو نظام جماعت کے لئے لازم ہے کہ پھر ہم اطمینان کی حالت میں اپنی جانیں خدا کے حضور سپر د کر سکیں.ہم کہہ سکیں کہ اے خدا جہاں تک ہم میں طاقت تھی ، جہاں تک کوشش تھی ہم نے تیرے نظام کو زندہ رکھنے کے لئے اپنی زندگیوں کی قربانیاں پیش کر دی ہیں.اور ہم خوشی سے تیرے حضور آرہے ہیں یہ کہتے ہوئے ، جانتے ہوئے کہ یہ جماعت اب ایک نسل میں

Page 458

445 تباہ ہونے والی جماعت نہیں رہی.نسلاً بعد نسل ان کی خوبیاں تیرے قائم کردہ آسمانی نظام کی حفاظت کے لئے ہمیشہ قربانیاں پیش کرتی رہیں گی.یہ وہ روح اور جذبہ ہے جس کی خاطر میں آپ کو یہ باتیں سمجھا تا ہوں اور ان کی آزمائش کا وقت آپ پر روزانہ آتا ہے اور اس وقت اگر آپ بیدار مغزی سے اپنے حالات کا جائزہ لیں.یہ نہ دیکھیں کہ آپ کتنی دفعہ کامیاب ہوئے ہیں، کتنی دفعہ نا کام ہوئے ہیں تو اس وقت تک آپ کو یہ باتیں سننے کے باوجود بھی عمل کی توفیق نہیں مل سکتی.روز مرہ اپنی زندگی سے حالات میں ان کو جاری کر کے دیکھیں.عہد یدار کسی کے گھیرے میں نہ آئیں.....میں مثال دے رہا ہوں کہ یہ جو مضمون ہے کہ ایک صاحب اقتدار کولوگ گھیرے میں لے لیتے ہیں یہ ایک دائمی مضمون ہے.تمام دنیا کی تاریخ پر اس کا برابر اطلاق ہوتا ہے اور اس تاریخ کا محض سیاست سے تعلق نہیں.اقتصادیات سے بھی تعلق ہے اور دوسرے انسانی زندگی کے دائروں سے بھی تعلق ہے.جہاں کسی آدمی کو بڑا ہوتے دیکھیں وہاں پرانے رشتے یاد آجاتے ہیں.پرانے تعلقات کے حوالے سے انسان اس کے گردا کٹھا ایک جمگھٹ شروع دیتا ہے.یہاں تک کہ ایک دفعہ مجھے یاد ہے مجھے اس پہ ہنسی بھی بہت آئی مگر واقعہ ہے جو انسانی فطرت کی کمزوری کو ظاہر کرنے کے لئے دلچسپ ہے.ایک احمد نگر کی خاتون تھیں ان کے بیٹے نے ذکر کیا کہ ضیاء الحق صاحب کا یہ حال ہے دیکھو ذرا اخلاق.میری ماں نے فون کیا تو فون ہی نہیں اٹھایا اس پر اور ہونے ہی نہیں دیا حالانکہ وہ بھی ارائیں ہم بھی ارائیں.اب ارائیں کا رشتہ اور وہ بھی جالندھر کے نہ بھی جالندھر کے تھے یہ اتنا پکا ہو گیا کہ پہلے ساری عمر تو ضیاء کا خیال آیا ان کو ، وہ حکومت پر آیا تو آرا ئینت جاگ اٹھی اور اس خیال سے اس کے گردا کٹھے ہونے لگ نہیں گئے.یہ گر دا کٹھے ہونے والے بعض دفعہ بہت ہی خطرناک نتیجے پیدا کرتے ہیں.اور جماعت میں یہ نہیں ہونے دینا چاہئے کسی قیمت پر بھی.اگر آپ کے گرد کچھ لوگوں نے ایسا گھیراؤ کر لیا جو آپ کو جماعت سے الگ کردیں ان معنوں میں کہ جماعت کے تمام تاثرات ان سے فلٹر ہوکر آپ تک پہنچیں.اور براہ راست جماعت میں یہ اعتماد نہ رہے کہ آپ ان کے اسی طرح برابر ہیں اور ان کے خلاف اسی طرح بات سننے کے لئے تیار ہیں جیسے ان کی بات سنتے ہیں تو پھر آپ کی امارات اسی حد تک کمزور پڑ جائی گی.اس لئے بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے.کچھ لوگوں نے جنہوں نے خدمتیں کرنی ہیں انہوں نے اکٹھے ہونے ہی ہونا ہے.لیکن اب یہ آپ کا کام ہے کس کو اکٹھے کرنا ہے.کس کو اکٹھے اپنے گرد جمع نہیں ہونے دینا اور اگر ہوتے ہیں تو اس کو اپنے مرتبے اور مقام پر رکھیں.ان کی مجال نہیں ہونی چاہئے کہ آپ کے ان معاملات میں دخل انداز ہوں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے سپر د فرائض منصبی کے طور پر کئے ہیں.ایسی صورتوں میں صرف یہ جماعت کے دوسرے افراد کا تعلق نہیں.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ بیویوں کے زیر اثر آجاتے ہیں.اور فرائض ہیں امارت کے یا

Page 459

446 صدارت کے اور بیوی کے جو تعلقات ہیں دوسری عورتوں سے وہ تعلقات اس کے فرائض منصبی پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں.وہ یہ بتلاتی ہے فلاں جو عورت ہے نا اس کا خاوند تو بہت بے ہودہ ہے اور وہ ایسا ہے یا فلاں عورت جو ہے وہ بیچ میں سے آپ کو پسند نہیں کرتی.فلاں ماحول میں یہ باتیں ہورہی ہیں.وہ کچے کانوں والا خاوند ، وہ زنخوں کی طرح اپنے فیصلے پر چلنے کی بجائے اپنی بیوی کے تابع چلتا ہے جب کہ یہ دلداری اور اخلاق نہیں ہیں.یہ بزدلی اور نامردی ہے.اور صرف یہی نہیں بلکہ نظام جماعت سے بے وفائی ہے.کسی عورت کا کوئی کام نہیں ہے کہ جس منصب پر اس کا خاوند فائز ہوا ہے اس منصب سے تعلق میں کسی طرح بھی اس پر اثر انداز ہو.سوائے مغفرت رحم اور شفقت کے.یہ الگ مضمون ہے.شفقت اور رحمت اور مغفرت کی استدعا کرنا یہ تو بالکل اور بات ہے مگر پولیٹیکل Issue بنا لینا اس کو کہ چونکہ میرا خاوند ایک مامور ہے کسی منصب پر اس لئے میں اس کو بتاؤں کہ فلاں اچھا ہے، فلاں برا ہے، فلاں یوں کرتا ہے ، فلاں یوں کرتا ہے.یہ باتیں بالکل ناجائز ہیں، کسی قیمت پر قبول نہیں ہونی چاہئیں.اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ میں نے جو اپنی بیوی سے تعلق رکھا ہمیشہ صرف ایک دفعہ ایک واقعہ ہوا کہ حضرت خلیفتہ اسیح نے کچھ ناراضگی کا اظہار کیا مجھ پر تو میری بیوی کے دل پر چوٹ لگی تو اس نے کچھ لفظ کہے.اس دن میں نے ان کو کہہ دیا کہ آج کے بعد پھر یہ نہیں ہوگا.کبھی ہوا تو تم سے کاٹا جاؤں گا اور خلیفہ وقت کا ہو کے رہوں گا.چاہے وہ مجھے جوتیاں ماریں چاہے مجھے غلام رکھیں مجھے تمہاری محبت پسند نہیں ہے اس غلامی کے بدلے جس پر تمہارے الفاظ کا منفی اثر میں نے دیکھا ہے.وہ دن اور موت کا دن ایک دفعہ بھی کبھی ساری عمر انہوں نے میرے فرائض کے تعلق میں کبھی اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی.میں صدر خدام الاحمد یہ رہا، میں وقف جدید میں رہا، میں انصار اللہ میں بھی رہا اشارہ یا کنا یہ بھی انہوں نے مجھے کبھی کوئی بات نہیں کہی اور یہی حال ہمارے گھر کے ماحول کا تھا ہمارے نوکروں ، ہمارے بچوں کا.عہد یدارلوگوں کی باتوں میں نہ آئیں بعض دفعہ لوگ ایسے بے وقوف ہیں اور ایسے کچی فطرت کے لوگ ہوتے ہیں، کچھی عادتوں کے کہ وہ اپنی عادتیں دوسرے کی طرف اس طرح منتقل کر دیتے ہیں.ایک لکھنے والے نے مجھے لکھا کہ وہ جو ساری عمر آپ کے گھر نو کر رہی ہے وہ آپ کے اوپر چونکہ اثر انداز ہو جاتی ہے باتیں کر کے اس لئے آپ نے بعضوں کے متعلق اچھی رائے قائم کرلی ہے بعضوں کے متعلق نہیں.اس بے چاری کا تو یہ حال ہے کہ اس کے داماد کو میں نے جماعت سے خارج کیا اور مجال نہیں کہ اشارہ بھی کبھی کوئی زبان پہ حرف لائی ہو.وہ جانتی ہے اس کی تربیت میرے گھر میں ہوئی ہے اس کو پتہ ہے کہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ جماعتی معاملات میں اسے زبان کھولنے کی اجازت دی جائے گی.پس یہ میں اس لئے مثالیں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ میں ان تجربوں

Page 460

447 سے گزرا ہوا ہوں.میں جانتا ہوں کہ یہ کوششیں ہوتی ہیں اور مہلک ہوتی ہیں.اور جو لوگ پھر قریبی بن جائیں،مصاحب بن کے رہیں جماعت میں ، وہ سارے تقویٰ کا نظام بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں.کیونکہ پھر لوگوں کی نظر اللہ پر نہیں بلکہ ان کو خوش کرنے پر ہوتی ہے.یہ کوئی معمولی مصیبت نہیں ہے یہ تو ایک عذاب ہے جو امیر یا عہدیدار سہیڑ لے گا اگر وہ لوگوں کی باتوں میں آئے اور لوگوں کی باتیں سنے.یہ درست ہے کہ اگر نہ بھی سنیں گے تو الزام تو لگنے ہی ہیں جیسا کہ میں نے اپنے متعلق بتایا ہے الزام لگانے والے نے لگا دیا.مگر اس الزام تراشی سے تو محمد رسول اللہ کو بھی الگ نہیں رکھا گیا، میری کیا حیثیت ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی لوگ بد تمیزی سے زبانیں دراز کرتے ہیں اذن ہے یہ تو.یہ تو کان ہے لوگوں کی باتیں سنتا ، ان پر عمل کرتا.فرمایا ” اذن خیر لکم اذن تو ہے مگر اچھی باتوں کا اذن ہے.جہاں تمہاری بھلائی دیکھتا ہے اس کا کان جھک جاتا ہے اس طرف قبول کر لیتا ہے.جہاں برائی کا سوال ہے وہاں سوال ہی نہیں، ہرگز ممکن نہیں کہ آپ اس رسول کو اذن “ کہہ سکیں کسی پہلو سے بھی.ہر بات کی تحقیق کرتا ہے، جائزہ لیتا ہے، انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے، پھر تسلیم کرتا ہے ورنہ سنی سنائی باتوں کو نہیں مانتا.تو خیر کے حق میں سنی سنائی بھی قبول کر لیتا ہے.جہاں بھلائی پہنچنی ہو وہاں ضروری نہیں کہ پہلے سو فیصدی ثابت ہو جائے کہ اتنا اچھا ہے اس لئے اس کو انعام دیا جائے.کسی نے اچھا کہا تو انعام کے لئے طبیعت کھل گئی اور انعام کا سلسلہ جاری بھی ہوگیا.یہ اذن خیر ہے.کسی نے کسی کی بھلائی کی اچھی بات کہی تو فور ادل پر قبول کر لیا کیونکہ اس سے پہلے ہی محبت ہے اور تعلق ہے.یہ نظام جو ہے اذن کا یہ ثبت اور منفی دونوں صورتوں میں انسانی زندگی میں جاری ہے.تو بعض لوگ اُذُنْ سَيِّئَة ہوتے ہیں أُذُنٌ خَیر کی بجائے.یعنی برائی کے کان ہو جاتے ہیں اور بھلائی کے کان نہیں رہتے.ایسے لوگوں کو پھر جتنی بھی آپ برائیاں پہنچائیں گے وہ قبول کرتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ برائی کی بات سننا ان کا چسکا بن جاتا ہے اور اس عادت نے محض نظام پر بعض دفعہ برے اثر نہیں ڈالے بلکہ اکثر گھروں کے امن کی تباہی کی یہی وجہ بنتی ہے.اگر گھر کے بڑے، خاوند یا بیوی یا ساس یا سر یا ماں باپ جس حیثیت سے بھی آپ ان کو دیکھیں ان کے اندر یہ عادت ہو کہ برائی سنیں اور اسے قبول کریں اور اسے قبول کرنے میں لطف اٹھا ئیں اور یہ سمجھیں کہ اب ہمیں فلاں کے خلاف ایک بات ہاتھ آگئی ہے.یہ جو ہاتھ آنے والا مسئلہ ہے اور یہ مزہ کہ ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ فلاں میں کیا برائی ہے یہی انسانی زندگی میں ایک تباہی مچادیتی ہے انسانی زندگی کا امن لوٹ لیتی ہے.مگر نظام جماعت میں تو اگر داخل ہوگی تو اس کے بہت ہی بداثر پیدا ہوں گے اور دیر تک ، دور تک اس کے اثرات جائیں گے.اس لئے ہم نے اگر نظام جماعت کی حفاظت کرنی ہے تو ان باتوں کا خیال رکھنا ہوگا." الفضل انٹرنیشنل 26 جولا ئی 1996ء)

Page 461

448 امیر سے مراد ہر وہ شخص ہے جسے کچھا مر سونیا گیا ہے وہ اپنے ماتحتوں سے محبت ، شفقت کا سلوک کرے (خطبہ جمعہ 21 جون 1996ء) " پس یہ وہ مضمون ہے جو ہر صاحب امر کے لئے سمجھنا ضروری ہے وہ جب کسی سے پیار کرتا ہے اپنے ماتحتوں پر جھکتا ہے تو اس کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی نہیں آنا چاہئے کہ میں ان پر اس لئے جھک رہا ہوں کہ یہ میری تائید کرنے والے لوگ ہیں.اس لئے جھک رہا ہوں کہ یہ میرا عشیرہ ہے، میرے اقر بین ہیں کیونکہ اقربین سے تو بات شروع ہوئی تھی.فرمایا ان کو تو ڈرادے تو مانیں گے حق پر چلیں گے حق پر قائم رہیں گے تو پھر تیری رحمت ان پر ہوگی ورنہ تیرا ان سے کوئی تعلق نہیں.پس وہ امیر جو اس وجہ سے بعض لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں کہ وہ ان کے زیادہ قریب ہیں ان کے حق میں باتیں کرنے والے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ جو بھی میں کہوں گا اس کی تائید میں اٹھ کھڑے ہوں گے وہ جانتے نہیں کہ توحید کے مضمون کے یہ بات خلاف ہے.اور جو بات بھی توحید کے برخلاف ہو وہ خدا تعالیٰ کے نظام میں کہیں بھی کوئی مقام نہیں رکھتی.وہ نظام اللہ نے ہمیں عطا فرمایا ہے اس میں ہر پہلو کا توحید سے تعلق ہے.پس باریک راہیں ہیں مگر ان باریک راہوں کا اختیار کرنا ضروری ہے کیونکہ جماعت کے تقویٰ کی زندگی ان راہوں سے وابستہ ہوچکی ہے.ان راہوں کو چھوڑ دیں گے تو آپ بھی کبھی نیک انجام نہیں ہو سکتے ، آپ کے مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.پس ہرا میر کے لئے ہر آیات سے میں نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہتا ہوں لازم ہے کہ جھکے اور رحمت کے ساتھ سب لوگوں سے انکساری کے ساتھ ، بجز کے ساتھ تعلق قائم کرے.اپنے مرتبے کا خیال نہ کرے.اس کا مرتبہ بڑا ہے تو محض اس لئے کہ خدا نے اسے ایک مقام پر فائز کیا ہے.مگر جس مقام پر فائز کیا ہے اس مقام کا تقاضا یہ ہے کہ وہ خود نیچے اتر آئے.اب یہ خود نیچے اترنے والا مضمون ہے.یہ واخفض جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ“ سے نکلتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ان پر خوب روشنی ڈال رہی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق روایات اور کثرت سے روایات بتاتی ہیں کہ آپ مومنوں کے لئے ایسی شفقت رکھتے تھے اور ایسے منکسر المزاج تھے کہ اگر رستہ چلتے کسی عورت نے بھی آواز دی تو کھڑے ہو جایا کرتے تھے.پوری توجہ سے اس کی بات سنتے تھے.ایک غلام اور بے حیثیت آدمی کبھی آپ کو مدد کے لئے کہتا تھا تو اٹھ کر اس کے ساتھ چل پڑا کرتے تھے.ایک یتیم بچہ کبھی آپ کو بلاتا تھا تو آپ اس کے ساتھ روانہ ہو جایا کرتے تھے.حیرت انگیز وجود تھا جس کی نہ رفعتیں ہماری پہنچ میں ہیں نہ اس کی خدا کے حضور پستیاں ہماری پہنچ میں ہیں.دونوں طرف کے کنارے ہماری عقل کے دائرے سے باہر ہیں.

Page 462

449 لیکن وہ ایسا ہی تھا جس کو خدا نے ساتویں آسمان سے بھی بلند کر دیا.جب وہ جھکا تو ان لوگوں پر جھک گیا جو پستیوں کی انتہا تک پہنچے ہوئے تھے.مومنوں پر بھی جھکا اور غیروں پر بھی جھکا.لیکن مومنوں کے متعلق تو اس کے دل کی کیفیت ہی اور تھی.یہ وہ حقیقت ہے جو مصطفوی حقیقت ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی جان ہے.پس اس پہلو سے ہرا میر کا کام ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں سے نرمی اور محبت اور بجز کا سلوک کرے اور ان کی خاطر نہیں بلکہ محض اللہ کی خاطر.ان کی خاطر تو کرے گا مگر ان کی خاطر خدا کی خاطر.اب یہ ایک اور سلسلہ بیچ میں داخل ہو جاتا ہے.بندوں سے پیار ہے بندوں کی خاطر مگر بندوں سے بندوں کی خاطر جو پیار ہے اس کا آغاز اللہ کے پیار سے ہوا.اور یہ وہ مضمون ہے جسے قرآن کریم کی ایک اور آیت بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرما رہی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی که محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عظیم الشان وجود ہیں دنی“ وہ خدا کی طرف بڑھا اور اتنا قریب ہو گیا کہ اس سے زیادہ قرب الہی ممکن نہیں رہا.اتنے قرب کے باوجود وہ ٹھہر نہیں گیا.فتدلی“ پھر وہ نیچے اترا اور بنی نوع انسان کو اس قرب ، اس عظیم ذات کے لئے بلانے کے لئے نیچے اترا.وہ عظمتیں اور رفعتیں جو اس نے اپنے رب سے حاصل کیں اپنے آپ تک محدود نہیں رکھیں بلکہ اس کی خاطر اس کے بندوں میں تقسیم کرنے کے لئے وہ رحمتیں بانٹنے کے لئے نیچے اترا اور اس کی مثال ایسی ہوگئی "كَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى جیسے دو قوسیں ہوں یعنی کمانیں جن کا ایک ہی وتر ہو ، ان کے درمیان ایک ہی تنی ہو.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کما نہیں کس شکل کی ہو سکتی ہیں؟ عام طور پر اس کی جوشکل بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک طرف کمان نیچے سے آرہی ہے اوپر کی طرف ایک اوپر سے کمان اتری ہے اللہ کی محبت کی اور بیچ میں ایک ہی وتر ہے.وہ تنی ایک ہی ہے.یہ مضمون بھی بہت باریک اور لطیف ہے لیکن میں جو سمجھتا ہوں وہ اس سے مختلف ہے.اس کو غلط نہیں سمجھتا کیونکہ قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں.مگر میرے نزدیک ان دونوں کمانوں کا رخ ایک ہی طرف ہے.یعنی ان کا جو بیچ کا دھاگہ یاتنی ہے اس سے ایک کمان محمد رسول اللہ کی کمان اور ایک خدا کی کمان ہے وہ اس طرح ایک سمت میں ہیں کہ ناممکن ہے کہ محمد رسول اللہ کی کمان چلے اور خدا کی کمان میں حرکت نہ آئے.ناممکن ہے کہ اللہ کی کمان کو کھینچا جائے اور وہ پہلی کمان اس کے ساتھ حرکت میں نہ آئے کیونکہ دونوں کا ایک ایسا گہرا اٹوٹ رشتہ قائم ہو چکا ہے کہ جب ایک کو کھینچا جائے دوسری کھینچ جاتی ہے جب دوسری کو کھینچا جائے تو پہلی کھینچ جاتی ہے اور اس تنی سے جو تیر نکلتا ہے وہ بیک وقت محمد رسول اللہ کی طرف سے نکلا ہوا تیر بھی ہوتا ہے اور اللہ کی طرف سے نکلا ہوا تیر بھی ہوتا ہے.اس تفسیر کی تائید کرنے والی میرے نزدیک وہ آیت کریمہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَ اللَّهَ رَمَى اگر کمانوں کو بر عکس سمت میں رکھا جائے تو وہ دونوں کا چلایا ہوا

Page 463

450 تیرا ایک دوسرے کی طرف جائے گا.اگر تیرے چلانے کا مضمون اس سے نکالا جائے تو سوائے اس کے ممکن ہی نہیں کہ جو نقشہ میں نے ذہن میں رکھا اور آپ کے سامنے پیش کیا اسے قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کی تائید میں سمجھا جائے تو بات یہ بنے گی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کمان سے چلا ہوا ہر تیر اللہ کی کمان سے چلا ہوا تیر تھا.اللہ کی کمان سے جو تیر چلتا تھا محمد رسول اللہ کی وساطت سے چلتا تھا.پس اس پہلو سے دن فتدلی کا مضمون یہ بنا کہ اتنا وہ قریب ہو گیا کہ جس سے زیادہ ممکن نہیں تھا اور ” تدلی“ پھر وہ جھک گیا اور اس جھکنے کے نتیجے میں وہ ” قاب قوسین ہو گیا.اب قوسین کا مضمون یہاں ایک اور معنے اختیار کر جاتا ہے.فرماتا ہے انسانیت کے ساتھ اس کا تعلق اس کے جھکنے کے نتیجے میں خدا کے تعلق کے ساتھ ایسا مدغم ہو گیا کہ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا.اس کی بشریت نور ہو گئی ،اس کا نور بشریت بن گیا.پس اس پہلو سے وہ بندوں پر جب جھکا ہے تو خدا کا نور بن کر اپنے ہم جنسوں پر تو جھک گیا اور اس کی بشریت نے وہ علاقہ قائم کر دیا.جیسے ایک تنی دو کمانوں کے درمیان علاقہ بن جاتی ہے.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنی نوع انسان پر جھکنا ان کی خاطر تھا مگر خدا کی خاطر ان کی خاطر ہوا.یہ وہ مشکل فقرہ جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیا اس کی تشریح ہے.ورنہ بندے کی خاطر بھی ایک انسان رحمت کا سلوک کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے ذاتی شفقت سے لوگوں پر اسی طرح جھکا کرتے تھے.مگر جب ”نور علی نور“ ہوئے تب کیفیت بدل گئی.اس کے بعد ہر رافت ، ہر شفقت، ہر رحمت خدا کے تعلق سے اوپر سے اترا کرتی تھی.اور بنی نوع انسان سے آپ کی محبت کو الہی محبت کی تائید حاصل ہوگئی.اور آپ کی الہی محبت بنی نوع انسان کی محبت میں تبدیل ہونے لگی.یہ وہ پہلو ہے جو امارت کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھا ہے اور اسی پہلو کو ہر صاحب امر کو سمجھنا ضروری ہے.امیر سے مراد ہر وہ شخص ہے جسے کوئی امر سونیا گیا ہے میں جب امیر کہتا ہوں تو ہر گز مراد یہ نہیں کہ محض وہ امیر جوملکوں یا شہروں یا محلوں کے بنائے جاتے ہیں.امیر سے مراد ہر وہ شخص جسے کچھ بھی امر سونپا جائے اور خدا کی خاطر سونپا جائے اور خدا کے نام پر سونیا ، جائے.اس کی تربیت کے لئے یہ مضامین ہیں جو قرآن کریم نے ہم پر کھولے ہیں.فرمایا کہ تم امیر ہومگر اب یاد رکھنا کہ اللہ کی خاطر جس طرح محمد رسول اللہ ان پر جھک گئے تھے جن کے سرخدا کی خاطر ان کے سامنے جھکائے گئے تھے تم بھی ان پر جھک جانا اور ان کی خاطر نہیں ، للہ.کیونکہ ان کی خاطر جھکو گے تو تمہارے اندر شرک کے شائبہ داخل ہو جائیں گے.شرک کے خطرات تمہیں ہو سکتا ہے واقعتہ ہلاک کردیں کیونکہ جب بھی انسان کسی سے رحمت کا تعلق رکھتا ہے یہ خطرہ موجود رہتا ہے کہ اس کے نتیجے میں جو پیار اور محبت کا سلوک اس سے کیا جاتا ہے وہ ان دونوں کو ایسے رشتوں میں باندھ دے کہ خدا کا مضمون بیچ میں سے غائب ہو جائے.اسی

Page 464

451 لئے قرآن کریم نے ہمیں خوب اچھی طرح وضاحت کے ساتھ یاد کرایا.میرے وہ بندے جو میری خاطر بنی نوع انسان کی خدمت کرتے ہیں اور ان سے محبت کا سلوک کرتے ہیں جب ان کا شکر یہ ادا کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شَكُورا کہ کیا کر رہے ہو ہم تو خدا کی خاطر تم سے پیار کر رہے تھے تم شکریے ادا کر کے ہمارے پیار کو کیوں میلا کرتے ہو.ہمیں تم سے کسی خیر کی توقع نہیں.یعنی توقع سے مراد یہ ہے کہ چاہتے نہیں ہیں کہ تم ہم سے کوئی سلوک کرو، ہماری نیکی محض اس کی خاطر تھی جس کی ہماری نیکی پر نظر ہے.اسی سے ہم پیار چاہتے ہیں.اسی کی رضا تلاش کرتے ہیں.پس شکریے ادا کر کے ہماری نیکی کومیلا نہ کر دینا.اور پھر قرآن کریم نے اسی مضمون کو ایک دوسری جگہ یوں فرمایا لَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ تو اس وجہ سے کسی پر احسان نہ کر کہ اس کے بدلے میں تجھے زیادہ دیا جائے گا.پس نہ ان کی نیت میں کچھ زیادہ لینا شامل ہوتا ہے نہ ان کی نیت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ خدا کی رضا کی بجائے کسی اور خاطر ان پر جھکیں.اور جب کلیتہ خدا کی خاطر جھکتے ہیں تو ان کا احسان ، ان کا شکریہ، ان کا تشکر بجائے دل کو ایک غذا دینے کے لئے اندر ایک قسم کا ایک زلزلہ طاری کر دیتا ہے کہ یہ کیا ہو گیا.ہم تو بہت بالا قیمت چاہ رہے تھے.ہم نے تو اپنے اللہ کی خاطر یہ کیا تھا.ان کے شکریے کہیں ہمارے نفس کو موٹا نہ کر دیں.تو واقعتا ان کے دل پر ایک زلزلے کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور وہ گھبراتے ہیں اور لازم نہیں کہ وہ اس بات کو ظاہر کریں.مگر قرآن کریم نے ان کی زبان سے ظاہر کیا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس سوسائٹی میں ہمیشہ یہ نہیں ہوا کرتا تھا کہ ہر وہ شخص جس کا شکریہ ادا کیا جائے وہ آگے سے انہی الفاظ میں جواب دیا کرتا تھا.بعض باتیں ایسی ہیں جوصحابہ کے دل میں وارد ہوتی تھیں اور اللہ کے پیار کی نظر ان پر پڑتی تھی اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر روشن کر دیا کرتا تھا کہ اے میرے پاک غلام ، غلام کامل تو نے آگے بھی دیکھو کیسے کیسے پیارے غلام پیدا کر دیئے ہیں.تیرے ہی رنگ میں رنگین ہیں.ان کا شکریہ ادا کیا جائے تو ان کا دل آواز میں دیتا ہے کہ نہ نہ ہمارا شکر یہ ادانہ کر و و ہم تو محض خدا کی خاطر ایسا کرتے تھے.پس اگر وہ خدا کی خاطر ہی یعنی ہر صاحب امر خدا کی خاطر اپنے ماتحتوں سے پیار اور محبت کا سلوک کرتا ہے تو ان کے شکریے کی نہ تو اسے توقع ہوتی ہے اور نہ اسے پرواہ ہوتی ہے.جب توقع نہیں تو اس کے بر کس پہلو بھی ہے اور وہ ہے پر واہ بھی کوئی نہیں.اس لئے کہ اگر جب ذاتی تعلق ان سے نہیں تھا جس کی خاطر ان پر رحمت کی جارہی تھی تو اللہ سے اگر وہ دور ہیں گے تو یہ شفقت کرنے والا اسی حد تک ان سے دور ہٹ جائے گا اور ان کی اس بارے میں کچھ بھی پرواہ نہیں کرے گا کہ وہ اس سے کیسا پیار کا تعلق رکھتے تھے.بے انتہا محبت اور فدائیت کا اظہار کرنے والے بھی جب ایسی روش اختیار کرتے ہیں جس سے خدا ناراض ہو تو جن کو

Page 465

452 پیار دیا جاتا ہے ان کو اس بات کی کوڑی کی بھی پرواہ نہیں رہتی کہ یہ تو مجھ سے محبت کرنے والا تھا.وہ اسی طرح جیسا کہ خدا کی آنکھ انہیں دیکھتی ہے انہیں ناراضگی سے دیکھتا ہے اور ان کے چھوڑ کے چلے جانے کی ادنیٰ بھی پر واہ نہیں کرتا.پس تو حید کا یہ مضمون بالآخر تو کل پر منتج ہو جاتا ہے.چنا نچہ قرآن کریم اس کے بعد فرماتا ہے فَإِنْ عَصَوكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيٌّ مِمَّا تَعْمَلُونَ تمہیں کیوں وہم ہو گیا ہے کہ میں تم پر رحمت سے جھکا ہوا تھا اس لئے کہ تم مجھے ذاتی طور پر پیارے لگتے ہو.وہ تو اللہ کی خاطر تھا.اگر تم خدا کی نافرمانی کرو گے یہاں عصول میں محمد رسول اللہ پیش نظر ہیں.لیکن آپ کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے.اس کے سوا کوئی اور نافرمانی ممکن ہی نہیں کہ انسان حضرت محمد رسول اللہ سے نافرمانی کرے اور وہ آپ کی نافرمانی ہو، خدا کی نہ ہو.اس مضمون کو قرآن بھی کھول چکا ہے بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس مضمون کو کھول چکے ہیں.اس لئے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ، مزید دلائل پیش کرنے کی ضرورت نہیں.ایک مسلمہ غیر مبدل حقیقت ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ کی نافرمانی لازماً خدا کی نافرمانی ہے اور اس کے سوا اس نافرمانی کو کوئی اور معنے نہیں پہنائے جاسکتے.”فــان عـصـوك“ میں اس لئے مخاطب " تجھے کہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے کہ آپ لوگوں پر جھک رہے تھے ، آپ لوگوں سے رحمت کا سلوک فرما رہے تھے، یہ گواہی دینا مقصود ہے کہ محمد رسول اللہ کی رافت ، آپ کی شفقت اللہ کی خاطر تھی ، ان کی خاطر نہیں تھی.فرمایا پس جب یہ تیری نافرمانی کریں تو ان کی پہلی اطاعتوں کی، ان سے پہلے تعاون کی کچھ بھی پرواہ نہ کر.تو کہہ دے میں تم سے بیزار ہوں.تم یہ جوحرکتیں کر رہے ہو یہ میرے محبوب آقا کی مرضی کے خلاف ہیں اس لئے تم بھی میری مرضی کے خلاف ہو گئے ہو.اگر ایسا کرو گے تو ان کے چھوڑ جانے کا تمہیں کوئی بھی غم نہیں ہونا چاہئے.وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ جب تو یہ کرے تو یاد رکھ اللہ جو عزیز ہے، اللہ جو رحیم ہے، جو غالب اور بزرگی والا ہے ، جو بار بار رحم فرمانے والا ہے اس پر تو کل رکھ.وہ تجھے کبھی نہیں چھوڑے گا.کیونکہ جس سفر کا آغاز توحید سے ہوا، جس کا بنی نوع انسان سے تعلقات کا آغاز اس طرح ہوا کہ خدا کی خاطر لوگوں کو ڈرا دھمکا کر دور کر دیا، جو قریب آئے ان کو بھی جب بھی وہ خدا سے دور ہوئے اپنی ذات سے دور کر دیا جب یہ سلوک ہو تو پھر تو کل علی اللہ کا ایک لازمی نتیجہ ہے.اس کے سوا کوئی نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا.پس ہر وہ صاحب امر جو اس اسلوب پر چل پڑے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو اپنالے اس کوئی بھی خطرہ نہیں.وہ جب سزا دے گا تو خدا کی خاطر دے گا ، جب تعلق بڑھائے گا تو خدا کی خاطر بڑھائے گا اور ان لوگوں کو اس تعلق کی پرواہ نہ کرنایا نہ کرنا اس کی نظر میں کوئی بھی حقیقت نہیں رکھے گا.اور یہ وہ امارت ہے جو غیر متزلزل ہے کیونکہ اس کلیتہ اللہ تعالیٰ کی تائید حاصل ہوگی.اور جیسا کہ میں نے پہلے

Page 466

453 بھی کہا ہے کہ اس امارت کا تعلق ایک چھوٹے سے معمولی افسر کے حکم سے بھی ہو جو کسی خاص معین کام پر مامور کیا گیا ہے.اگر اس کی نافرمانی کرو گے تو یاد رکھو یہ سلسلہ آخر خدا تک پہنچے گا.اور جہاں تک اس شخص کی ذات کا تعلق ہے اس سمجھنا چاہئے کہ بڑے بڑے لوگ جو میرے سامنے جھک رہے ہیں اس میں میری تو کوئی بڑائی نہیں ، میری تو کوئی بھی حیثیت نہیں ، خدا کی خاطر میری طرف جھک رہے ہیں.پس اسے مزید خدا کے حضور جھکنا چاہئے.اور پھر نا فرمانی کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہئے." الفضل انٹر نیشنل 9 اگست 1996 ء )

Page 467

454 $1997 اس سال یہ فیصلہ کریں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بُرائیوں کے شہر کو چھوڑ کر نیکیوں کے شہر کی طرف حرکت شروع کریں گے (خطبہ جمعہ 7 فروری 1997ء) " پس رمضان مبارک نے آپ کو عبادت کے گر سکھا دیئے ہیں.اگر آپ نے خود نہیں سیکھے تو سیکھنے والوں کو دیکھا ضرور ہے.کوئی مسلمان گھر شاذ ہی ایسا ہو جہاں کوئی بھی عبادت نہ کی جارہی ہو رمضان میں جہاں کوئی بھی روزہ رکھنے والا نہ ہو.اگر ایسا ہے تو وہ بعید نہیں کہ آج اس جمعہ الوداع میں بھی حاضر نہ ہوئے ہوں اس لئے ان تک تو نہ میری آواز پہنچے گی نہ وہ میرے مخاطب ہیں.میں ان سے بات کر رہا ہوں جن کے سینے میں کچھ ایمان کی اس رمق کو ہمیشہ پیار کی نظر سے دیکھا ہے ایک چنگاری تو روشن ہے ایک امید تو ہے پس میں ان سے مخاطب ہوں جن کے سینے میں یہ امید کی چنگاری روشن ہے.ابھی تک اگر راکھ تلے دب بھی گئی ہے تو اندر یہ کوئلہ ابھی جل رہا ہے اور زندہ ہے.پس اس پہلو سے آپ کو میں متوجہ کرتا ہوں کہ رمضان کی یہ برکتیں جولوگوں نے جو دن کو عبادت کرتے تھے راتوں کو نہیں اٹھا کرتے تھے ان برکتوں نے انہیں راتوں کو اٹھنا بھی سکھا دیا انہیں خدا کے حضور وہ اطاعت اور فرمانبرداری کی توفیق بخشی جو عام دنوں میں نصیب نہیں تھی.رمضان میں گنا ہوں سے بچنے کی ایک بہت بڑی توفیق عطا فرمائی جو وقت کے لحاظ سے مشروط ہی سہی مگر توفیق ضرور ملی.وہ لوگ جو اپنی بدعاتوں کو چھوڑنے پر کسی طرح آمادہ نہیں ہوتے یا چھوڑنے کی طاقت نہیں رکھتے ایک محدود وقت کے لئے جو سحری سے لے کر افطار تک چلتا ہے مجبور ہوتے ہیں ان باتوں سے رکے رہتے ہیں تو رمضان نے سہارا دیا ہے رمضان نے آپ کو نیکی کے کاموں پر چلنے کے لئے وہ سوٹا مہیا کر دیا جس کی ٹیک لگا کر آپ رفتہ رفتہ آگے بڑھ سکتے ہیں اسے چھوڑ نہ دیں بالکل ، لوھوں لنگڑوں کی طرح پھر وہیں نہ بیٹھ رہیں جہاں بیٹھے ہوئے اپنی عمر ضائع کی.بغیر نماز کے انسان مردہ ہے اس لئے آج پر وگرام بنا ئیں اور فیصلہ کریں.اس پانی کو اکٹھا کرنا ہے اس سے فیض حاصل کرنا ہے.اس لئے میں معین طور پر آج نئے آنے والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ وہ نماز کے

Page 468

455 متعلق ایک فیصلہ کریں.ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ بغیر نماز کے انسان مردہ ہے اس میں کوئی بھی جان نہیں.یہ وہم ہے کہ ایک نماز یا ایک جمعہ کی نماز یا ایک رات کا قیام ان کی تمام عمر کے خلاء کو پر کرسکتا ہے.آئندہ آنے والے خلاء پر کیا کرتا ہے پچھلے نہیں کیا کرتا.پچھلوں سے بخشش ہوتی ہے لیکن جو زندگی کی روح اترتی ہے وہ آئندہ آنے والے دنوں پر اترا کرتی ہے.پس اگر آئندہ نہیں اتری تو پچھلی بخشش بھی نہیں ہوگی یہ وہم ہے صرف.اگر بخشش ہے تو لاز م رمضان کے بعد زندگی میں ایک نمایاں پاک تبدیلی ہونا ضروری ہے اس کے بغیر بخشش کا تصور ہی محض ایک بچگانہ تصور یا ایک احمق کی خواب ہے.انصار اللہ ہر ناصر کونماز پڑھنی سکھلائے پس اپنے لئے ایک لائحہ عمل بنا ئیں نمازیں پڑھنے کی طرف متوجہ ہوں.اگر آپ کو نماز پڑھنی آتی نہیں تو اپنے کسی بھائی ، اتھی سے پتہ کریں.انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ، بجنات اس طرف توجہ کریں ان سب لوگوں تک جہاں تک ممکن ہے پہنچنے کی کوشش کریں اور ان سے کہیں کہ اگر تم نے کچھ سبق سیکھنے ہیں طریقے معلوم کرنے ہیں ہم حاضر ہیں مگر کچھ نہ کچھ نما ز ضرور شروع کرو.اگر چہ پانچ وقت کی نماز فرض ہے مجھے کوئی حق نہیں کہ میں کہوں کچھ نہ کچھ مگر میں جانتا ہوں کہ انسان کمزور ہے اور اللہ تعالیٰ بھی جانتا ہے کہ انسان کمزور ہے اسی لئے اس نے کچھ اس قسم کی رعایتیں دے رکھی ہیں کہ حسب توفیق آگے بڑھو تھوڑا تھوڑا نیکی کی طرف آگے بڑھنا شروع کرو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پھر اللہ تعالیٰ خود تمہاری طرف زیادہ تیزی سے آگے بڑھے گا.تو یہ مراد نہیں کہ نعوذ باللہ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ پانچ نمازیں فرض ہیں مگر آپ ایک ہی پڑھا کریں.میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر پانچ کسی صورت نہیں پڑھ سکتے تو خدا کے لئے ایک تو پڑھیں.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے پانچ وقت کا کھانا میسر نہیں تو چوبیس گھنٹے میں ایک وقت کی روٹی تو مل جائے ، یہ مراد نہیں کہ پانچ وقت کی ضرورت نہیں ہے.پس آپ اور کچھ نہیں اول تو پانچ کے لئے کوشش کریں یہ عہد کر لیں کہ ہم نے نماز ضرور پڑھنی ہے.نماز میں شروع میں خالی رہیں گی رفتہ رفتہ بڑھیں گی.یہ خیال غلط ہے کہ نماز پڑھتے ہی آپ عرش معلی کی سیر میں کرنے لگ جائیں گے.یہ عمر بھر کی محنت ہے ایک دم تو گندم کے بیج بھی نہیں بھرا کرتے.سارا سال چھ مہینے کم سے کم محنت ہوتی ہے تو آخر پر جا کر ان کے اندروہ دودھ بنتا ہے جو پھر گندم میں تبدیل ہو جاتا ہے.تو آپ کو محنت کرنی ہوگی اور رفتہ رفتہ عبادت کے وہ خوشے نکلیں گے آپ کے دل سے، خدا جن کو دودھ سے بھر دے گا اور وہ دودھ ہے وہ آپ کے لئے روحانی رزق پیدا کرے گا.پس یقین رکھیں کہ لازماً ایک خدا ہے جس نے آپ کو پیدا کیا ہے آپ کو بے فکر کی حالت میں مزید زندگی نہیں گزارنی چاہئے.یہ جہالت ہے لاعلمی ہے اور یاد رکھیں مرنا ضرور ہے اب کون کہہ سکتا ہے کہ اگلے

Page 469

456 رمضان سے پہلے ہم سب لوگ زندہ رہیں گے.لازماً ہم میں سے وہ معین لوگ موجود ہیں جو اس وقت اس خطبے میں حاضر ہیں مگر بعید نہیں کہ ان کو اگلا خطبہ بھی نصیب نہ ہو ، بعید نہیں کہ اگلے مہینے کے خطبے نصیب نہ ہوں یا نماز میں نصیب نہ ہوں اگلے سال کی بات تو بہت دور کی بات ہے.پس اس پہلو سے خدا تعالیٰ نے جو یہ توجہ دلائی شروع میں کہ تم نے مرنا ہے، پیش ہونا ہے یہ خیال آپ کو تقویت بخشے گا نیکی کے ارادے کرنے میں آپ کی مدد کرے گا.جب موت کا وقت آجائے گا پھر کچھ نہیں ہو سکے گا اور سب پر آنا ہے.عبادت سے دوسری نیکیاں نصیب ہوتی ہیں اس لئے وہ لوگ جو دنیا کی زندگی سے خوش ہیں وہ سوچ کرتو دیکھیں کہ جب موت کا وقت آئے گا تو ایسی بے قراری ہوگی کہ کچھ پیش نہیں جائے گی.وہ چاہیں گے کہ ہم واپس ہوں تو پھر کچھ کریں لیکن اللہ اس خیال کو رد فرما دے گا ار یہ ساری زندگی ہاتھ سے نکل جائے گی اور دار الجزاء آگے لامتناہی سامنے کھڑا ہوگا تو مرنے سے پہلے کچھ کرو.اور موت کا نہ دن معین ہے نہ وقت معین ہے اس لئے اپنی زندگی کو عبادت کے ساتھ ساتھ دوسری نیکیاں ضرور نصیب ہوتی ہیں.اس لئے جب آپ نمازیں پڑھتے ہیں تو نمازوں کے ساتھ بنی نوع انسان کی ہمدردی میں خرچ کرنے کی بھی توفیق ملتی ہے دوسری نیکیوں کی بھی توفیق ملتی ہے.یہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان ایک قدم خدا کی طرف جاتا ہے تو خدا دس قدم آتا ہے.چل کر جاتا ہے تو اللہ دوڑ کر اس کی طرف آتا ہے اس سے یہ مراد ہے کہ ہر طرف سے پھر خدا آنے لگتا ہے.آپ نے نماز پڑھی تو اللہ تعالیٰ آپ کو دس اور نیکیوں کی توفیق بخش دیتا ہے جن کے ذریعہ خدا کا قرب حاصل ہوتا ہے اور ہر نیکی پھر آگے نیکیوں کے بچے دیتی چلی جاتی ہے.تو انسانی زندگی میں ایک انقلاب آنا شروع ہو جاتا ہے.ایسا شاذ کے طور پر ہوتا ہے کہ یہ انقلاب اچانک آئے اور کسی کی کایا پلٹ جائے کہ گویا اچا نک نیا وجود پیدا ہو گیا ہے.ایسا بھی ہوتا ہے مگر بہت شاذ کے طور پر.قاعدہ کلیہ یہی ہے کہ آپ نیکی کا ایک فیصلہ کر لیں اور پورے عزم کے ساتھ اس پر قائم ہو جائیں اور خدا سے اقرار کریں کہ اے میرے خدا میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں تیرے حضور آگے بڑھنے کی کوشش کروں گا.تیرے حضور سر جھکانے کی کوشش کروں گا.اپنی رضا کو تیری رضا کے تابع کرنے کی کوشش کروں گا.میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ مرنے سے پہلے اس حال میں تجھ تک پہنچوں کہ پھر آگ میرا انتظار نہ کر رہی ہو بلکہ تیری رضا میرا انتظار کر رہی ہو.نیکیوں کی طرف آنے کا فیصلہ لیلۃ القدر سے کم نہیں یہ فیصلہ ہے جو آج آپ کی تقدیر بدل دے گا.یہ فیصلہ ہے جسے نصیب ہو جائے اسے لیلۃ القدر بھی

Page 470

457 مل گئی.اس کی ساری زندگی کے خلاء پر ہو جائیں گے اور آئندہ اگر چند دن بھی زندہ رہیں گے تو پچھلی زندگی کی ساری بدیوں کو وہ دن دھو دیں گے.خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جو ہمیں یہ خوشخبری دی ہے کہ اگر ایسے وقت میں بھی تمہیں توفیق مل جائے تو بہ کی کہ موت کا وقت قریب پہنچا ہو اور نیکی کی طرف بڑھتے ہوئے تم نیکیوں کے شہروں میں ابھی پہنچے نہیں ابھی گھسٹ گھسٹ کے جار ہے ہو تو خدا تعالیٰ تم سے یہ سلوک فرمائے گا کہ تمہاری پچھلی زندگی کی ساری سڑک جو بہت لمبی ہے اسے چھوٹا کر دے گا.اور نیکی کی سڑک جس کی طرف تم بڑھ رہے تھے وہ یوں لگے گا جیسے تم اس منزل کے قریب پہنچ گئے ہو اور جس طرف سے آرہے تھے بدیوں کی زندگی بہت دور دکھائی دے گی جسے بہت پیچھے چھوڑ آئے ہو.یہ مضمون ہے.اس وقت وقت نہیں ہے پوری تفصیل حدیث پڑھ کر اس کا بیان کرنے کا لیکن خلاصہ کلام یہی ہے کہ جو خلاء میں اللہ انہیں نظر انداز فرما دیتا ہے اور تبدیلی کے بعد کے چند دن کو اس کے پچھلے تمام خلاؤں کو بھرنے کے لئے فیصلہ کر دیا ہے.اس حال میں جان دیتا ہے گویا اس نے ساری عمر نیکیاں کرتے ہوئے ہی جان دی ہے.آج مستقبل تبدیل کرنے کے فیصلہ کا دن ہے پس ماضی سے جہاں تک تعلق ہے اتنا ہی تعلق ہے لیکن ماضی سے یہ تعلق تب قائم ہو گا اگر مستقبل تبدیل ہوگا اس کے بغیر نہیں.پس آج مستقبل تبدیل کرنے کا فیصلہ کر کے اٹھیں اور لازم کر لیں اپنے لئے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور اس کے لئے وضو کرنا ہوگا اور بعضوں کو غسل کرنا ہوگا.وضو میں انسان کے کچھ اعضاء دھوئے جاتے ہیں اور انسان پاک ہو کر اللہ کے حضور حاضر ہوتا ہے اور عبادت کے لئے لازم ہے کہ وضو کرے اور وہ جن کا سارا بدن کسی ایسے جذبے سے ملوث ہو گیا ہو جس کا دھونا ضروری ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فسل کرو.تو عبادت کا فیصلہ محض اکیلا کافی نہیں ، آپ یہ بھی غور کریں کہ آپ کو غسل بھی کرنے ہیں آپ کو وضو بھی کرنے ہیں.پس یہ سوچیں کہ پیچھے کون سی بدیاں ہیں جنہوں نے آپ کو خدا سے ہٹا رکھا ہے، دنیا کی طرف توجہ مبذول کرو رکھی ہے.ان بدیوں پر نظر ڈالیں اور ایک غسل تو بہ کریں.فیصلہ کریں کہ ہم نے اب ان بدیوں سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کر لینا ہے یہ فیصلہ ہے جو زندگی بدلا کرتا ہے.اور عبادت کے فیصلے سے پہلے یہ فیصلہ ضروری ہے کیونکہ کوئی عبادت بھی اگر فسل ضروری ہو تو غسل کے بغیر قبول نہیں ہوتی.اگر وضوضروری ہو تو وضو کے بغیر نہیں ہوتی اور اس نکتہ کو سمجھنا بہت لازم ہے.غسل سے ظاہری غسل بھی مراد ہے مگر فی الحقیقت بغیر اندرونی غسل مراد ہے.وضو سے ظاہری وضو بھی مراد ہے مگر فی الحقیقت ایک اندرونی وضو مراد ہے.تم اپنے روز مرہ کے اعضاء جو دکھائی دے رہے ہیں کم سے کم ان کو پاک صاف رکھو.یہ مضمون ہے وضو کا مضمون اس کو بھی سمجھ لیجئے.آپ جب باہر نکلتے ہیں تو لازم تو نہیں کہ آپ اندرونی حسوں کو جو دکھائی نہیں دے رہے جن پر

Page 471

458 کپڑے پڑے ہوئے ہیں ان کو بھی رگڑ کر صاف کر کے پھر باہر نکلیں.جو زیادہ پاک لوگ ہیں ، جو فطرتا صفائی پسند ہیں وہ قطع نظر اس کے کہ کچھ دکھائی دیتا ہے کہ نہیں اندرونی صفائی ضرور کرتے ہیں.لیکن جو یہ نہیں کر سکتے کم سے کم جاتے جاتے اپنا مونہہ تو صاف کر لیتے ہیں اور بازو، ہاتھ یہ جو داغ نظر آنے والی چیزیں ہیں ان کو ستھرا کر کے باہر نکلتے ہیں.تو پہلا جو فیصلہ ہے وہ یہ ہے کہ کم سے کم اتنا تو کرو کہ دنیا تمہارے اندر وہ داغ نہ دیکھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کے غلاموں کی شان کے منافی داغ ہیں.وہ حرکتیں تو نہ کرو جن کے نتیجے میں تمہارے چہروں کے داغ ، اسلام کے داغ بنتے ہوئے دکھائی دیں.دنیا یہ سمجھے کہ پتا نہیں کہاں سے یہ لوگ آئے ہیں ایسی گندی عادتیں، ایسی بے ہودہ حرکات اپنے ہاتھوں کو دھوؤ.یعنی ان سے حرام کمائی کھانے کے تصور بھی قریب نہ پھٹکنے دو، اپنے ہاتھوں کو ظلموں سے بچاؤ یہ یہ ہاتھوں کا وضو ہے.اپنے چہرے کو جو تو جہات کا چہرہ ہے اسے پاک وصاف کرو.غلط تو جہات نہ کرو.پاک چیزوں کی طرف توجہ رکھو.یہ وضو ہے جو اس پاک تبدیلی کے لئے ضروری ہے اور پھر غسل کی تو فیق اگر ملے اور وہ لازما ملنی چاہئے تو کم سے کم اسلام میں داخل ہوتے وقت ایک غسل تو بہر حال ضروری ہوا کرتا ہے اور وہ نسل ہر انسان کو کرنا ہوگا اور آج کا دن ڈوبے نہ جب تک آپ یہ غسل نہ کر لیں.یہ فیصلہ کریں کہ ہم نے اپنے بدن کو پاک صاف کر کے خدا کے حضور پیش کرنا ہے.گند لے کر حاضر نہیں ہونا.بُرائیوں کے شہر سے نیکیوں کے شہر کی طرف حرکت شروع کر دیں اگر اچھی مجلس ہو تو وہاں صاف ستھرا ہونا ضروری ہے تبھی قرآن کریم نے فرمایا خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ كم مسجدوں میں جاتے تو ہو مگر زینت لے کر جایا کرو، پاک لوگوں کی مجلس ہے وہ ، خدا والوں کی صحبت میں جا رہے ہو اس لئے نہ صرف صاف ستھرے ہو کے بلکہ سچ کر جایا کرو تو تفصیلی مضامین ہیں جو تبدیلی یعنی روحانی تبدیلی کو پیدا کرنے کے لئے سمجھنے ضروری ہیں.کہ چٹکیوں میں تبدیلیاں نہیں ہوا کرتیں اور محض نمازیں پڑھ جانے سے بھی تبدیلیاں نہیں ہوں گی.یہ سارے مضامین سمجھیں اور اس سال یہ فیصلہ کریں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ برائیوں کے شہر کو چھوڑ کر نیکیوں کے شہر کی طرف حرکت شروع کر دیں گے.پھر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ جس حال میں تم جان دو گے خدا کے حضور مقبول انجام ہوگا اور خدا کی رضا پر جان دو گے مگر لازما نیکیوں کی طرف حرکت کرنا ہے چاہے گھسٹتے ہوئے کرتے چلے جاؤ.ایسا شخص جس کی مثال آپ نے دی وہ ہے جس کی جان نکل رہی ہے، جسم میں طاقت نہیں ،موت کے نرغے میں مبتلا ہے اور پھر بھی گھٹنوں کے بل اور کہنیوں کے بل کوشش کر رہا ہے کہ دم نکلے تو خدا کے پاک لوگوں میں نکلے یہ وہ نظارہ ہے جس کے بعد یہ ناممکن ہے کہ اللہ تعالی اسے معاف نہ فرمائے.پس یہ کیفیت اپنے اوپر طاری کریں تو یہ جمعتہ الوداع آپ کے لئے ایک اور معنے میں جمعۃ الوداع

Page 472

459 بنے گا.یہ بدیوں کے لئے وداع کا جمعہ بن جائے گا.نیکیوں کے لئے نہیں.ان معنوں میں وداع نہیں رہے گا کہ آپ نے آج پڑھا اور چیٹھی ہوئی اور پھر اگلے سال تک آپ کو کسی جمعہ یا نیکی کی توفیق نہ ملی.یہ جمعۃ الوداع آپ کی بدیوں کو وداع کرنے کا جمعہ بن جائے گا.ہر اس چیز کو وداع کرنے کا جمعہ بن جائے گا جو اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے.ہر اس چیز کے استقبال کا جمعہ بن جائے گا جو خدا کو پسند ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے." الفضل انٹرنیشنل 28 مارچ 1997 ء ) دعوت الی اللہ کے کام میں اخلاص سے آگے بڑھیں اور جماعت کی تعداد بڑھائیں نو مبائعین کو مجلس انصار اللہ کا حصہ بنائیں) خطبہ عیدالفطر 9 فروری 1997ء) "عبادت کے بعد اپنی ذات میں انسان نہیں ٹھہرا کرتا.ہر خدا کا عابد بندہ دوسروں کو اس خدا کی طرف بلانے لگتا ہے جس نے اس کو ایک بقا عطا فرمائی ہے، ایک آب بقا پلا دیا ہے اپنے وصل کا.پس یہ وہ مضمون ہے جس میں جرمنی کا ذکر دو پہلوؤں سے کرنا ہے.اول یہ کہ مسلسل سالہا سال سے یورپ ہی کے لئے نہیں بلکہ دنیا کی باقی جماعتوں کے لئے بھی جرمنی کی جماعت تبلیغ میں ایک اعلیٰ نمونہ بن چکی ہے.بکثرت اس میں داعی الی اللہ پیدا ہوئے ہیں اور ایسے جو کم علم ہونے کے باوجود، زیادہ شعور نہ رکھنے کے باوجود پھر بھی تبلیغ کے میدانوں میں اللہ کے ذکر کے ساتھ اس پر توکل کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو پھل بھی ایسے عطا کرتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.بڑے بڑے علماء بھی ان سے متاثر ہو جاتے ہیں.جن کی زبانیں وہ نہیں جانتے ان کو اشاروں میں تبلیغیں کرتے ہیں اور ان کے اشارے ہی ان کی سمجھ میں آنے لگتے ہیں.ان کو اس دفعہ ٹارگٹ بہت بڑا ملا ہے.جرمنی کی جماعت نے جو اپنے تبلیغ کے جوہر دکھائے تو اس کے نتیجہ میں لازماً پھر ان سے توقعات بھی بڑھنی شروع ہوئیں.گذشتہ سال تمہیں ہزار ، سال کی بیعتوں کا ان کو ٹارگٹ ملا تھا اور اس دفعہ دگنے سے بھی زیادہ کر دیا گیا اور ان سے کہا کہ ہم آپ سے اب ستر ہزار کی توقع رکھتے ہیں تو شروع میں تو تھوڑ اسا کا نپے تھے وہ اور خط مجھے ایسے ہی آئے تھے کہ ڈر گئے ہیں.میں نے کہا پہلے کونسا آپ نے اپنی کوششوں سے کیا تھا ؟ آگے بڑھیں ، اللہ سے توقع رکھیں اور محنت کریں.آگے اس کی مرضی ہے.کوئی ایسا حساب تو نہیں کہ زبردستی گردن پر ہاتھ ڈال کے وصول کیا جائے گا.ہاں اگر آپ

Page 473

460 اخلاص سے یہ کام کریں گے اور زیادہ لوگوں کو شامل کر دیں گے تو اللہ چاہے تو اس سے بھی زیادہ مل سکتے ہیں.بالکل کوئی فکر کی بات نہیں.دعا کریں، اخلاص سے آگے بڑھیں اتنا ہی کام ہے آپ کا اور چونکہ پہلے آپ کا اخلاص قبول ہو چکا ہے اس لئے میں توقع رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی خدا کی درگاہ میں یہ اخلاص مقبول ہوگا.چنانچہ ان کی رپورٹ کے مطابق اب تک ستر ہزار وہ انہوں نے ٹارگٹ جس حساب سے میں نے انکو کہا تھا عین اس کو اس طرح انہوں نے بنایا ہے کہ ستر ہزار نہیں بلکہ ستر ہزار چھ سوٹارگٹ بنایا ہوا ہے ان کو میں نے فارمولا دیا تھا کہ اس فارمولے پر کام کریں اس کا جواب ستر ہزار پورانہیں اتر استر ہزار چھ سو آ گیا ہے.تو انہوں نے چھ سو کی بیخ بھی ساتھ لگائی ہوئی ہے مگر اب تک ان کو دس ہزار بیعتوں کی توفیق مل چکی ہے خدا کے فضل سے اب اس عرصہ میں جس میں گزشتہ جلسہ سالانہ کے بعد بہت سی اور بھی تو جہات ہمارا وقت مانگ رہی تھیں جماعتوں کو میں نے کہا تھا کہ شروع کے تین مہینے تو آپ تربیت پر زور دیں اور تربیتی جلسے کریں ، یہ انتظام کریں کہ سب نئے آنے والے نظام جماعت کا حصہ بن جائیں ان میں خدام لاحمد یہ قائم ہو، انصاراللہ قائم ہو، لجنہ قائم ہو اور وہ پختہ ہو جائیں ان کے اندر ہی نائب عہد یدار بننے شروع ہو جا ئیں.تو تین ماہ سے بلکہ کچھ زیادہ عرصہ ان کا انہیں کاموں پر صرف ہوا ہے.پس باقی عرصہ کے اندر خدا تعالیٰ کے فضل سے جو تین ماہ سے کچھ زائد بنتا ہے ان کو خدا تعالیٰ نے دس ہزار انعامات آسمان سے عطا فرمائے ہیں.تو دعا میں یا درکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو برکت دے، ان کو تھکنے نہ دے اور ہمیشہ وہ اس راہ میں آگے سے آگے قدم بڑھاتے رہیں.لیکن باقی جماعتوں کو بھی میں اس کے ساتھ ہی نصیحت کرتا ہوں کہ یہ عید بھی ضرور منا ئیں کیونکہ دشمن یہ دعوے کر بیٹھا ہے کہ جماعت کی تعداد کم ہوگی.وہ تو بڑھنی ہی بڑھتی ہے اور ہمیشہ بڑھتی ہے مگر اس سال کو خاص طور پر ان دعاؤں کے ساتھ معمور کر دیں اس سال کو اپنی دعاؤں سے یہ رونق بخشیں کہ ہر پہلے سال سے بڑھکر خدا تعالیٰ تبلیغ کے پھل ہمیں عطا فرمائے اور اس کثرت سے پھل نازل ہوں کہ دشمن کے دل بیٹھنے لگیں.ان کے پتے پانی ہو جائیں دیکھ کر کہ یہ کیا ہورہا ہے؟ یہ وہ عظیم نشان ہے جو جب سورج کی طرح روشن ہو کر چھکے گا تو میں امید رکھتا ہوں کہ بہت سے مظلوم لا علم لوگ جو ان ظالموں کے پیچھے لگ کر اپنی زندگیاں برباد کر رہے تھے وہ بڑی تیزی کیساتھ احمدیت کی طرف متوجہ ہوں گے اور انشاء اللہ احمدیت کی تبلیغ کا سلسلہ پہلے سے ہمیشہ زیادہ تر تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھتا رہے گا خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.(آمین ) ( خطبات طاہر عیدین صفحہ 291 تا 293 )

Page 474

461 ہے خدا تعالی سے تعلق کے نتیجے میں انسان دائمی بقا حاصل کر سکتا.(خطاب سالانہ اجتماع مجلس انصار الله یو کے 22 مارچ 1997ء بمقام اسلام آباد تلفورڈ) " حضور انور نے انصار کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور تعلق باللہ پر زور دیا کہ خدا تعالی سے تعلق کے نتیجہ میں انسان دائمی بقا حاصل کر سکتا ہے.حضور نے فرمایا کہ دنیا بڑی تیزی سے ہلاکتوں کی طرف بڑھ رہی ہے.آج صرف جماعت احمدیہ ہی خدا کی وہ آخری جماعت ہے جس کے ساتھ اس دنیا کی بقا وابستہ ہے اور جماعت کی بقا اس کے افراد کے ساتھ وابستہ ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہر فر د جماعت اللہ تعالی کے ساتھ سچا اور حقیقی تعلق قائم کرے کیونکہ وہی ایک ذات ہے جو ابدی اور باقی رہنے والی ہے اور جسے کبھی فنا نہیں.اس سے تعلق کے نتیجہ میں آپ ہمیشہ کی زندگی پا جائیں گے اور اس بات کے اہل ہوں گے دوسروں کو زندگی بخش سکیں.(الفضل انٹر نیشنل 14اپریل 1997 ء)

Page 475

462 $1998 آئے دن اللہ تعالیٰ اپنے تازہ نشان آپ کو دکھاتا ہے اور اسکے باوجود اگر خدانخواستہ آپکے قدم ڈگمگائیں تو بہت بڑی محرومی ہوگی (خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء بر موقع سالانہ اجتماع انصار الله جرمنی، بمقام باد کر وٹس ناخ ، جرمنی ) یہ آیات(البقرہ 208 تا 210) جن کی آج میں نے اس جمعہ میں تلاوت کی ہے جمعہ کے پیش نظر بھی اور مجلس انصار اللہ کے اجتماع کے پیش نظر بھی ان آیات کا انتخاب کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضَاتِ اللہ جو اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اللہ کی رضا کی نگاہوں کی خاطر وَاللَّهُ رَءُوفٌ بالعِبَاد اور اللہ اپنے بندوں پر بڑی شفقت فرمانے والا ہے.يَآتِهَا الذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِى السّلْمِ كَافةً اے لوگو جوایمان لائے ہوفرمانبرداری کے دائرے میں تمام تر داخل ہو جاؤ.وَلَا تَتبَعُوا خُطُواتِ الشيطن اور شیطان کے نقوش قدم کی پیروی نه كرو إنهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ یقیناوہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے.فَاِنْ زَلَلْتُمْ اس کے باوجود اگر تمہارے قدم ڈگمگا جائیں اور تم پھسل جاؤ بعد اس کے کہ کھلے کھلے نشانات تم تک آچکے ہوں فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ تو خوب جان لو کہ اللہ بہت غالب اور بزرگی والا اور بہت حکمت والا ہے.ان آیات میں جو طرز بیان ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ خدا کی مرضی کو چاہنے والے لمحہ لمحہ اس کا انتظار کرتے ہیں.مرضات کا لفظ جمع ہے اسے محض رضا کہنا کافی نہیں.اگر چہ رضا بھی جمع کے مضمون یا معنوں میں بعض دفعہ استعمال کی جاتی ہے مگر میرے نزدیک مرضات کا استعمال واضح طور پر یہ بتا رہا ہے کہ لمحہ لمحہ اس کی رضا کی نظروں کی خاطر اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں.یہ بہت عظیم کلام ہے جو خاص طور پر انصار اللہ کے لئے ایک بہت بڑی نصیحت ہے.انصار اللہ وہ خدا کے بندے ہیں جو عمر کے ایسے گروہ میں داخل ہو چکے ہیں جہاں سے پھر خدا ہی کے حضور پیشی ہے اس کے بعد اور کوئی مقام نہیں.پس کتنے سانس باقی ہیں کہ انہیں غیر اللہ کی خاطر لو گے.جتنے بھی سانس نصیب ہیں وہ سارے کے سارے اللہ کی رضا کی خاطر اس طرح پیش کر دینے چاہئیں کہ گویا اپنی جان بیچ ڈالی.یہی وہ وقت ہے جب آپ توجہ کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحے لمحے پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کیا واقعہ آپ کی زندگی کا ہرلمحہ اللہ کی رحمت کا اور اس کی رضا کا انتظار کر رہا ہے کہ نہیں.پشرِی نَفْسَہ کے بعد باقی اپنا تو کچھ بچتا نہیں جو کچھ ہے وہ گویا بیچ ڈالا اور سودا یہ ہے کہ جب

Page 476

463 بھی خدا کی نظر پڑے محبت کی نظر پڑے.اس کی خاطر جب اپنی جان بیچ ہی ڈالی تو رہا کیا باقی ، اختیار تو کوئی نہیں اور اگر یہ نہیں تو پھر آپ نے اپنی زندگی کا مقصد پورا نہ کیا.پس اگر چہ اس آیت کا اطلاق تمام مومنوں پر جو شعور رکھتے ہیں کسی بھی عمر کے ہوں ان پر ہوتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انصار اللہ پر اس کا اطلاق بہت زیادہ شدت کے ساتھ ہوتا ہے.صحابہ رسول ہر وقت انحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے کا شوق رکھتے تھے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانے میں بہت سے صحابہ تھے جو یہی کیا کرتے تھے کہ لمحہ لحہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا انتظار رہتا تھا کہ اب کوئی ایسی بات کہیں جو ہمارے لئے از دیا دایمان کا موجب بنے یا اس آیت کے اطلاق کے طور پر میں یہ کہوں گا کہ شاید ہماری کسی ادا پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پیار کی نگاہیں ہم پر پڑیں اور جیسا کہ میں نے احادیث کا مطالعہ کیا ہے بکثرت ایسے صحابہ تھے جو خصوصیت کے ساتھ رسول اللہ کی محبت کی نظر کی تلاش میں آپ کے سامنے بیٹھا کرتے تھے شاید کوئی ایسی ادا ہو جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پیار سے دیکھ لیں.تو وہ لوگ جو خدا کی خاطر ہمیشہ اس انتظار میں رہتے ہیں یا خدا کے پیار کی نظروں کے لئے ہمیشہ اس انتظار میں رہتے ہیں ان پر پھر اللہ تعالیٰ پیار کی نظریں ڈالا بھی کرتا ہے.یہ خوشخبری ہے جو اس کلام میں مضمر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم بھی جانتے تھے کہ کون کون آپ کی پیار کی نظروں کا خواہاں ہے اللہ تو بہت زیادہ جانتا ہے.پس اگر اپنی باقی زندگی ایسے حال میں صرف کریں کہ آپ کو یہ امیدر ہے، یہ انتظار رہے کہ کبھی تو کوئی ایسی بات ہم سے ظہور ہو کہ خدا کے پیار کی ہم پر نظر پڑے.تو یاد رکھیں کہ یہ بعید نہیں ہے.جس کی اپنے رب سے یہ توقع ہے اللہ ان توقعات کو پورا کرنا جانتا ہے.توفیق بھی وہی دیا کرتا ہے.پس اس پہلو سے حقیقت میں سلم یعنی مقام امن، وہ فرمانبرداری کا دائرہ جس کو سلم کا گیا ہے جس کو دوسرے معنوں میں مقام امن ، مقام محبت سرائے ما بیان کرتا ہوں.پس يَأَيّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السّلْم كَافةً پس اے لوگو جو ایمان لائے ہو اس مسلم یعنی خدا کی محبت کے امن کے دائرے میں تمام تر داخل ہو جاؤ.گافہ کے دو معنے ہیں.ایک یہ کہ ہر داخل ہونے والا یہ دیکھے کہ اس کا کوئی دامن کا حصہ باہر تو نہیں رہا وہ پورے کا پورا خدا کی محبت کے امن کے دائرے میں داخل ہو چکا ہے کہ نہیں کیونکہ ایک ذرہ بھی اس کا اس دائرے سے باہر رہا تو وہ خطرے میں ہے.دوسرے گاف سے مراد یہ ہے کہ تمام مومن چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں وہ سارے کے سارے داخل ہوں تا کہ مومنوں کی ایک جماعت خدا تعالیٰ کی محبت کی طالب بن کر اپنی زندگی بسر کرے اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشَّيْطن ایسے لوگ جو اس محفوظ دائرے میں آجائیں گے ان کے لئے

Page 477

464 وو ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ شیطان کے قدموں کی پیروی کریں.پس اگر چہ یہ ایک زائد بات معلوم ہوتی ہے.اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو“ مگر یہ حقیقت میں اس کا نتیجہ ہے کہ ایسا کرو گے تو تمہیں یہ تو فیق نصیب ہوگی کہ جو خدا کے محبت کے دائرے میں بیٹھا ہے اس کے لئے ممکن ہی کیسے ہے کہ وہ باہر نکل کر شیطان کے قدموں کی پیروی کرے.یہ دو متضاد باتیں ہیں بیک وقت ہو ہی نہیں سکتیں.ماں کی طرح بچوں کو سنبھالیں اور شیطان کے متعلق فرمایا إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبین" جہاں بھی تم نے اسے موقعہ دیا کہ تمہیں پھسلائے جان لو کہ وہ ضرور تمہیں ہلاکت میں مبتلا کرے گا کیونکہ وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے.تو اس واضح تنبیہ کے بعد کسی مومن کے لئے یہ امکان ہی باقی نہیں رہتا کہ وہ خدا کی محبت کے دائرے سے باہر کوئی سانس لے کیونکہ وہ جانتا ہے جب شیطان کو موقع ملا وہ اسے اچک لے گا.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے مرغی کے پروں کے نیچے اس کے چوزے آجایا کرتے ہیں.وہ تو نکل کے باہر بھی جاتے ہیں اور ادھر ادھر پھرتے ہیں لیکن اللہ کی پناہ میں جو ایک دفعہ آ جائے ، اس کی رحمت کے پروں کے نیچے آجائے وہ نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا.لیکن مرغی کے چوزوں کو بعض انسانوں سے زیادہ سمجھ ہے.جب خطرہ درپیش ہو، کسی چیل کا سایہ دیکھیں جو سر پر منڈلا رہی ہو تو وہ دوڑ کر اپنی ماں کے پروں کے نیچے آجاتے ہیں اور وہیں اپنا امن دیکھتے ہیں.اور یہ حقیقت ہے کہ چیل باوجود اس کے کہ بہت خونخوار ہے اور چوزے پر ذرہ بھی رحم نہیں کرتی اور جانتی ہے.کہ مرغی کی اس کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں مگر پھر بھی اسے یہ جرات نہیں ہوتی کہ اس کے پروں کے اندر سے اس کا بچہ نوچ لے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ فطرت بخشی ہے کہ وقت پر جب اسے اپنے عزیزوں کے نقصان کا اپنے پیاروں کے نقصان کا خطرہ ہو تو انسان بھر جاتا ہے اور سب سے زیادہ ماں بھرتی ہے اور مختلف Naturalist جن کو کہتے ہیں یعنی جانوروں کی زندگی کا مطالعہ کرنے والے، بتاتے ہیں کہ بظاہر کمزور نظر آنے والی مائیں بھی ایسے موقعوں پر ایسا بھرتی ہیں مثلاً شیرنی کہ اس کے مقابل پر بہت بڑے بڑے شیر بھی ڈر کے بھاگ جایا کرتے ہیں.تو سوچیں کہ ایک مرغی کے بچے کو اگر یہ امن نصیب ہو تو وہ جو اللہ کے پیارے ہیں ان کو کیسا امن نصیب نہیں ہوگا.مگر وہ چوزہ جو باہر رہ جائے، جو سمجھے کہ کوئی ایسی بات نہیں ، وہ ضرور اچکا جاتا ہے.، چیل اس پر جھپٹتی ہے اور اس کو اڑا لے جاتی ہے.تو آپ لوگ مرغی کے چوزوں سے تو زیادہ عقل دکھا ئیں.اول تو خدا کی پناہ میں آکر شیطان کے ہر خطرے سے آپ بچ سکتے ہیں اور بچیں گے اور لازماً بچیں گے لیکن اگر یہ بے پرواہی ہوئی ، اس دائرے سے باہر نکل کر اپنی قسمت آزمائیں گے تو جان لیں کہ یقینا آپ کی قسمت ہلاک شدہ لوگوں کی قسمت ہے.جو نہی

Page 478

465 آپ نے یہ آزمائش کی اس آزمائش میں آپ مارے جائیں گے.پس قرآن کریم نے انهُ لَكُمْ عَدُوّ مبین کہہ کے بتا دیا کہ وہ تو تاک میں بیٹھا ہے.شیطان کو تو ذرہ بھی تم نے موقع دیا تو وہ تمہیں اچک کے لے جائے گا.پس اس پہلو سے اپنی ساری زندگی کی ، اپنے لحد لحد کی حفاظت ضروری ہو جاتی ہے.فَإِنْ زَلَلْتُم اگر تم ڈگمگائے بعد اس کے کہ کھلے کھلے نشان تمہارے پاس آچکے ہیں فَاعْلَمُوا أَن اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ تو جان لو کہ اللہ تعالیٰ بہت غالب حکمت والا اور بزرگی والا ہے.احمدیوں کے لئے اس میں خصوصیت سے یہ سبق ہے کہ ان کے پاس اس کثرت سے اس دور میں نشان آئے ہیں کہ ان کے ڈگمگانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا.آئے دن اللہ تعالیٰ اپنے تازہ نشان آپ کو دکھاتا ہے اور اس کے باوجوداگر خدانخواستہ آپ کے قدم ڈگمگا ئیں تو بہت بڑی محرومی ہوگی.ان آیات کی تشریح کے طور پر میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ایک حدیث اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.سنن الترمذی سے یہ حدیث لی گئی ہے.انس بن مالک سے روایت ہے کہ عہد نبوی میں دو بھائی تھے ان میں سے ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور حاضر رہتا تھا، میں نے خصوصیت سے اس لئے یہ حدیث چنی ہے کہ بعض لوگوں کے ذہن میں صرف ابو ہریرہ کا نام آتا ہے کہ گویا وہی رہتے تھے مسجد میں.ابو ہریرہ تو دن رات وہیں رہتے تھے باہر نکلتے ہی نہیں تھے مگر بکثرت ایسے صحابہ تھے جو جتنا بھی ان کو وقت میسر ہو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں رہا کرتے تھے اور ابو ہریرہ کے علاوہ بھی بعض ان میں سے ایسے تھے جنہوں نے اپنا روز مرہ کا کام چھوڑ دیا تھا.یعنی بظاہر سکتے تھے کچھ کمانے والے نہیں تھے.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں ایک بھائی حاضر رہتا تھا اور دوسرا کام میں مصروف رہتا تھا.کام کرنے والے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے اپنے بھائی کی شکایت کی کہ مجھ اکیلے پر ہی بوجھ ڈالا ہوا ہے.ہر وقت یہ آپ کے پاس بیٹھا رہتا ہے اور میں اکیلا گھر چلانے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہوں.آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا "لعَلكَ تُرزَقُ به “ کیا خبر عین ممکن ہے کہ تجھے جو رزق عطا کیا جا رہا ہے اس کے سبب سے ہو.بہت عظیم الشان ایک ستر وابستہ ہے اس حدیث میں، ایک ستر چھپا ہوا ہے اور وہ سب خدمت دین کرنے والوں کے لئے اور ان کے خاندانوں کے لئے ہے اور اسی طرح ان واقفین زندگی کے لئے ہے جنہوں نے کلیہ اپنے آپ کو خدا کے حضور پیش کر دیا ہے.بہت سے ان کے خاندان والے، رشتہ دار یہ سمجھتے ہونگے کہ ہم ان پر احسان کر رہے ہیں ، ہم نے ان کے بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں ، ان کے بیوی بچوں کا خیال رکھتے ہیں اور اسی طرح آج جماعت جرمنی میں بکثرت ایسے بڑے اور بچے اور جوان اور عورتیں ہیں جن کو اپنے گھروں کی ہوش نہیں اور جو

Page 479

466 کلیۂ دین کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں واقعہ ان میں سے بعض کے بھائی یا اقرباء سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی خدمت کر رہے ہیں گویا کہ ہم نے ان کے بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں.حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس فرمان کو پلے باندھ لو کہ تمہیں کیا پتہ کہ تمہارے رزق میں ان کی وجہ سے برکت ہے.اگر یہ دین کی خدمت چھوڑ دیں تو پھر دیکھنا کہ تمہارا کیا حال باقی رہ جاتا ہے.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان جیسا اس وقت سچا تھا ویسا ہی آج بھی سچا ہے.بعینہ اپنی پوری شان کے ساتھ آج کے زمانے کے خدمت کرنے والوں پر بھی اور ان کے رشتہ داروں پر بھی اطلاق پاتا ہے.پس يَشرِی نَفْسَهُ میں یہ سارے لوگ داخل ہیں جنہوں نے اپنی جانیں بیچ ڈالیں.اللہ تعالیٰ ان کو یقین دلا دے اور ان کے اعزاء اور اقرباء کے دماغ میں وہ ہم تک بھی نہ گزرے کہ ان کی وجہ سے ان کے خاندانوں کو کوئی نقصان پہنچ رہا ہے.حضرت مسیح موعود کی تشریحات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی آیت کی مختلف تشریحات پیش فرماتے ہیں، مختلف تحریروں میں آپ نے مختلف پہلوؤں پر زور دیا ہے.مثلاً فرمایا ” یعنی انسانوں میں سے وہ اعلی درجہ کے انسان ہیں جو خدا کی رضا میں کھوئے جاتے ہیں.اپنی جان بیچ دی تو باقی کیا رہا ان کے پاس.وہ دنیا سے غائب ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی یاد میں کھوئے جاتے ہیں وہ اپنی جان بیچتے ہیں اور خدا کی مرضی کو مول لیتے ہیں.یہ مول لیتے ہیں بہت پیارا اظہار ہے.یعنی فرمایا کہ جیسے سودا کرنے والے کو جو وہ خرچ کرتا ہے اس کے نتیجے میں وہ سودا دیا جاتا ہے جس کی خاطر وہ خرچ کرتا ہے.تو مول لیتے ہیں سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنی رضا سے ان کو تمتع فرمائے کیونکہ گویا انہوں نے اس کی رضا خرید لی.اب اللہ سے تو کوئی ویسے سودا نہیں کر سکتا، اس کی رضا خریدی نہیں جاسکتی مگر جب وہ خود کہے کہ کون ہے جو میری رضا خرید نے والا ہے اور کچھ لوگ اس کے جواب میں آگے بڑھیں اور کہیں ہم ہیں تیری رضا خریدنا چاہتے ہیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس ادعا سے پیچھے ہٹ جائے وہ لازماً اپنی رضا ان کو عطا فرماتا ہے.وہ اپنی جان بیچتے ہیں اور خدا کی مرضی کو مول لیتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمت ہے ایسا ہی وہ شخص جو روحانی حالت کے مرتبے تک پہنچ گیا ہے خدا کی راہ میں فدا ہو جاتا ہے.اب مول لینا جو ہے یہ فدا ہونے سے ورے ورے نہیں ہو سکتا.فرمایا " جو شخص روحانی حالت کے مرتبے تک پہنچتا ہے خدا کی راہ میں فدا ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام دکھوں سے وہ شخص نجات پاتا ہے جو میری راہ میں اور میری رضا کی راہ میں جان کو بیچ دیتا ہے اور جانفشانی کے ساتھ اپنی اس حالت کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ خدا

Page 480

467 کا ہے.' جانفشانی عمر بھر کرنی پڑتی ہے.جان جو بیچی جاتی ہے کوئی ایک لمحے کا سود انہیں ساری زندگی کا سودا ہے.مرتے دم تک، آخری سانس تک جو جان بیچی ہے اب بیچنے والے کی نہیں رہی.پس یہ کوئی ایسا سودا نہیں جو اچانک کسی بکری کو کسی کے پاس بیچ دیا تھوڑا سا صدمہ اگر ہوا بھی تو اس کے بعد چھٹی کر لی.یہ تو ایک ایسی جان کا سودا ہے جولمحہ لمحہ جینے والی جان ہے اور لحہ لمحہ مرنے والی جان ہے.ہزار موتیں اسے خدا کی خاطر قبول کرنی ہونگی اور ہزار زندگیاں ہر موت کے بدلے اسے ملیں گی.پس یہ ہے مَن يُشْرِی نَفْسَه کہ جو اپنے نفس کو اللہ کی خاطر بیچ دیتا ہے.فرمایا " جانفشانی کے ساتھ اپنی اس حالت کا ثبوت دیتا ہے".یہ نہیں کہ ایک دفعہ بیچ دیا اور بات ختم ہوگئی.بہت سے واقفین زندگی ہم نے دیکھے ہیں جنہوں نے کسی خاص لمحہ عشق میں اپنی جان کو خدا کے سپر د کر دیا اور اس کے بعد چھٹی کر لی.پھر ساری عمر ایسی حرکتیں کرتے رہے جو جان بیچنے والے نہیں کیا کرتے.اللہ تعالیٰ ایسوں کو پکڑتا ہے اور لازماً ان کا بدانجام ہوتا ہے.کبھی بھی وہ اس حالت میں نہیں مرتے کہ گویا جان بیچنے والے تھے.تو جان کا سودا تو پہلے کا ہے اور اس سودے کے حق میں ثبوت بعد میں مہیا ہوتے ہیں.ساری زندگی مہیا ہوتے رہتے ہیں." اس حالت کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ خدا کا ہے اور اپنے تمام وجود کو ایک ایسی چیز سمجھتا ہے جو طاعت خالق اور خدمت مخلوق کے لئے بنائی گئی ہے ".اب ایک اور پہلو بھی خدا کی خاطر جان بیچنے کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے کھول دیا.فرمایا کہ وہ خدا کی خاطر جان بیچتا ہے تو خدا کی مخلوق کی خاطر بھی بیچتا ہے.خدا کی خاطر اس کا جان بیچنا تو شاید بعض نگاہوں کو دکھائی نہ دے مگر اس کی مخلوق کی خاطر جو جان بیچتا ہے وہ تو سب کو دکھائی دیتا ہے، ساری مخلوق اس پر گواہ ہو جاتی ہے.اور اس بات پر بھی گواہ ہو جاتی ہے کہ وہ ان سے فائدے کی خاطر کچھ نہیں کرتا کیونکہ وہ فائدہ اٹھاتا نہیں.وہ جب شکر یہ ادا کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہمارا شکر یہ ادا نہ کرو.ہم تو رضائے باری تعالیٰ کی خاطر یہ کام کر رہے ہیں.تم شکر یہ ادا کرتے ہو تو ہمیں کوفت ہوتی ہے.ہم نے تو اپنا سودا اللہ سے کیا ہے.تو یہ دعویٰ محض دعویٰ نہیں رہتا لمحہ لمحہ اس دعوے کا ثبوت ان کی زندگی مہیا کرتی ہے.وہ جب بنی نوع انسان کی خدمت کرتے ہیں تمام بنی نوع انسان گواہ ہو جاتے ہیں کہ یہ اپنی خاطر خدمت نہیں کر رہے تھے ہم سے کچھ لینے کی خاطر خدمت نہیں کر رہے تھے بلکہ اللہ سے کچھ لینے کی خاطر خدمت کر رہے تھے تو محض دعوئی ، دعوی نہیں رہتا بلکہ ایک قطعی ثبوت اس کی تائید میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے جس کو رد نہیں کیا جاسکتا.اور پھر حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق ہیں ایسے ذوق وشوق اور حضور دل سے بجالاتا ہے

Page 481

468 کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینے میں اپنے محبوب حقیقی کو دیکھ رہا ہے ".اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کو آپ غور سے پڑھا کریں تو پھر آپ کو ان ارشادات کی لطیف باتیں سمجھ آ سکتی ہیں.اپنے تمام وجود کو سر سے پاؤں تک ، تمام وجود کو، جو جان بیچتا ہے وہ اس میں سے کچھ بھی نہیں رکھتا." جو طاعت خلق اور خدمت خلق اور خدمت مخلوق کے لئے بنائی گئی ہے".پھر حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق ہیں یعنی انسان کو اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی صلاحیتیں بخشی ہیں ان تمام صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے وہ اللہ کے دین اور اس کی مخلوق کی خدمت کرتا ہے اور ہر ایک کی صلاحیتیں الگ الگ ہیں مگر جس چھا بڑے میں جو کچھ ہو گا وہی تو بیچے گا.پس ایک غریب انسان بھی اسی طرح اپنا سب کچھ بیچنے والا بن جاتا ہے جس طرح ایک امیر انسان اپنا سب کچھ بیچنے والا بن جاتا ہے.توفیق تو اس کی اپنی بنائی ہوئی نہیں، توفیق تو اللہ تعالیٰ سے حاصل ہوتی ہے.پس مِما رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کا یہ معنی ہے کہ جو کچھ وہ بیچتا ہے وہ وہی کچھ ہے جو ہم نے اس کو دیا تھا اس میں سے پھر کچھ اپنے لئے نہیں رکھتا تمام تر پیش کر دیتا ہے.پس اگر کسی کی قسمت میں کسی کے مقدر میں ایک کھوٹی کوڑی بھی ہو یعنی کچھ بھی نہ ہو تو اپنا خالی دامن لے کر اس میں خدا کی محبت اور تمناؤں سے جھولی بھر کر بظاہر خالی دامن میں اپنی محبت اور نیک تمناؤں کی جھولی اٹھائے ہوئے خدا کی خدمت میں حاضر ہو جاتا ہے وہ بھی وہی ہے جس نے سب کچھ بیچ دیا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں " ایسے ذوق وشوق اور حضور دل سے بجالاتا ہے".میں نے جو یہ کہا تھا تمنا ئیں اور محبتیں لے کے حاضر ہوتا ہے یہ اس کا ترجمہ ہے، حضور دل سے بجالاتا ہے اس کا دل تمام تر یہ چاہتا ہے کہ جس حد تک خدمت ممکن ہے میں کروں." گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینے میں اپنے محبوب حقیقی کو دیکھ رہا ہے".اس کی فرمانبرداری کا ایک شیشہ اس کے سامنے ہے اور اس میں اسے اپنی ذات دکھائی نہیں دیتی وہ محبوب دکھائی دیتا ہے جس کی خاطر اس نے اپنی ساری زندگی کو ایک نئی صورت میں ڈھال دیا." اور ارادہ اس کا خدا تعالیٰ کے ارادے سے ہم رنگ ہو جاتا ہے ".جو اللہ کا ارادہ وہی اس کا ارادہ، جو مالک کا ارادہ وہی غلام کا ارادہ." اور تمام لذت اس کی فرمانبرداری میں ٹھہر جاتی ہے ".اب یہ لفظ " ٹھہر جاتی ہے " قابل غور ہے.فرمایا کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا میں ایسی لذت نہیں ملتی کہ جو آئے اور چلی جائے وہ لذت اس کے دل میں پناہ گزین ہو جاتی ہے.وہ لذت ایسی ٹھہرتی ہے کہ پھر جانے کا نام نہیں لیتی.پس وہ سب لوگ مستثنی ہیں جو کبھی اللہ کی رضا میں محبت پاتے ہیں، مزہ دیکھتے ہیں اور کبھی نہیں دیکھتے.بہت سے ایسے انسان ہیں، کثرت سے ایسے انسان ہیں جو اللہ کی رضا سے کبھی نہ کبھی تو ضرور لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اپنی

Page 482

469 جان نہیں بیچی ہوتی اس لئے وہ محبت آ کر ٹھہر نہیں جاتی ، آئی اور چلی گئی اور دوسری لذتیں پھر اس کی جگہ اپنا ٹھکانہ دل میں بنا لیتی ہیں اور اس طرح وہ خدا کے بندے جو جان بیچنے والے ہیں دوسرے بندوں سے ممتاز ہو کر الگ ہو جاتے ہیں.یہ ایک بہت گہری حقیقت ہے جس کی طرف میں آپ کو خصوصیت سے متوجہ کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے یہ حقیقت بیان کر کے ہماری آنکھوں سے پردے اٹھا دیئے ہیں.ہم میں سے بکثرت ایسے ہیں جنہوں نے کبھی نہ کبھی اللہ کی رضا کے نتیجے میں دل کو لذت سے معمور ہوتے ہوئے دیکھا ہے.بعض ایسے ہیں جن کے بدن پہ جھر جھری طاری ہو جاتی ہے جب وہ خدا کے کسی خاص انعام پر غور کرتے ہیں یا کسی خاص مصیبت سے اللہ تعالیٰ ان کو نجات بخشتا ہے تو واقعہ ان کے دل میں اللہ کا پیار ایک لذت بن کے اترتا ہے لیکن ٹھہرتا نہیں.آیا اور چلا گیا اور پھر دنیا کی لذتیں دل میں قرار پکڑ لیتی ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک ایک لفظ قابل توجہ ہے."تمام لذت اس کی فرمانبرداری میں ٹھہر جاتی ہے".اب کوئی دنیا کا چوٹی کا ادیب بھی ایسی تحریر نہیں لکھ سکتا کہ ہر ہر لفظ با معنی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فصاحت و بلاغت سچائی پر مبنی ہے ایک لفظ بھی بے حقیقت نہیں، کوئی لفظ نہیں جو سچائی سے نور یافتہ نہ ہو.اور یہی سچائی ہے جو آپ کی تحریروں کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر رہی ہے." اور تمام اعمال صالحہ نہ مشقت کی راہ سے بلکہ تلذذ اور احتظاظ کی کشش سے صادر ہونے لگتے ہیں".جب دل میں خدا کی محبت کا لطف ٹھہر جاتا ہے تو اس لطف کو بڑھانے کی خاطر، اس کو ہمیشہ اپنا راہنما بنانے کی خاطر ویسے ہی لطف کے لئے وہ کوشش کرتے ہیں اور انسان جولذت کے لئے کوشش کرتا ہے وہ مشقت نہیں ہوا کرتی.ہماری جتنی عبادتیں، جتنی خدمتیں مشقت کا رنگ رکھتی ہیں وہ لذت سے محروم ہیں.کوئی چیز جس میں لذت ساتھ ساتھ حاصل ہو رہی ہوا سے مشقت نہیں کہا جا تا.دنیا کا ادنیٰ دوکاندار بھی دیکھیں کتنی محنت کر رہے ہیں، اپنے تھوڑے سے پیسے کمانے کی خاطر لیکن چونکہ ان پیسوں میں مزہ آ رہا ہے اس لئے دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ بڑی مشقت ہے.ان کی بلا سے ان کو ذرہ بھی اس میں مشقت محسوس نہیں ہوتی.کوئی شخص جو صبح اٹھتا ہے، دوکان کھولتا ہے، کوئی بنیا دیکھیں ،سوچیں ذرا وہ رات کے بارہ بجے تک حساب نہی کرتا رہتا ہے اگر اس کو آپ جا کے ہمدردی کریں ، کہیں میاں بس کرو تھک گئے ہو گے دو پہر ہوگئی ہے اب آرام کرو تو کیسی کڑی نظروں سے تمہیں دیکھے گا کہ جاؤ جاؤ اپنی راہ لو مجھ کو میرے حال پہ رہنے دو مجھے مزہ آرہا ہے اس چیز میں اور مزے کے بغیر وہ کام کر ہی نہیں سکتا.تو فرمایا، " اعمال صالحہ نہ مشقت کی راہ سے بلکہ تلذذ اور احتظاظ کی کشش سے صادر ہونے لگتے ہیں ".تمام اعمال صالحہ میں ان کو اللہ کی رضا کا مزہ دکھائی دے رہا ہوتا ہے، مزہ محسوس ہو رہا ہوتا ہے اور وہ اس

Page 483

470 وجہ سے خود بخود صادر ہونے لگتے ہیں." یہی وہ نقد بہشت ہے".یہ نقد بہشت " یہ اب قابل غور بات ہے سودا نقد انقدی ہے.یہ نہ سمجھو کہ اس دنیا میں تو نہیں ملی اور اگلی دنیا میں مل جائے گی.اللہ ادھار نہیں رکھتا وہ بہشت جو خدا کی محبت کی اعلی لذات کی بہشت ہے وہ تو نقد انقدی تمہیں اس دنیا میں ملتی ہے.یہی وہ نقد بہشت ہے جو روحانی انسان کو ملتا ہے اور وہ بہشت جو آئندہ ملے گا وہ درحقیقت اسی کی اظلال و آثار ہے".اس دنیا میں جس نے بہشت دیکھ لی اس کا ظل ہے ایک جو اخروی زندگی میں ملے گا.آثار ہیں اس کے یعنی اسکے گویا سائے ہیں جیسے نقش قدم انسان چھوڑتا ہے تو قدم تو نہیں ہوتا مگر گزرے ہوئے قدم کے لئے اس کا نقش قدم را ہنمائی کر رہا ہوتا ہے.تو اگلی دنیا میں جو بہشت ہوگا وہ یہ بہشت تو نہیں ہوگا جو یہاں حاصل ہے کیونکہ اس سے بہت زیادہ بلند ہے مگر جسے اسی دنیا میں یہ اللہ کی محبت کی لذت کا بہشت نصیب ہو جائے اور یہ نقد انقد سودا ہے جو ا سے مل جائے وہ ہے جو کامل یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ اب جب بھی میں مرا مجھے اسی بہشت کے سائے کے طور پر بہت اعلیٰ چیز میں نصیب ہوگی جن کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا.اب دنیا میں جتنے بھی مذہب کی معرفت بیان کرنے والے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بعد گزرے ہیں ان میں سے کسی کی ایسی تحریر نکال کے دکھاؤ.یہ بد بخت ملاں ایک ایسے عارف باللہ کے پیچھے پڑ کے کیوں اپنی آخرت خراب کرتے ہیں، اس کے متعلق بد کلامی کرتے ہیں جو ہمیں اللہ کی محبت کی راہیں کھول کھول کر دکھا رہا ہے.فرمایا ”جس کو دوسرے عالم میں قدرت خداوندی جسمانی طور پر متمثل کر کے دکھلائے گی.اظلال و آثار جو ہیں وہ جسمانی طور پر متمثل نہیں ہوا کرتے کسی چیز کا سایہ ہے تو سایہ ہی ہوگا اصل تو نہیں ہو سکتا.فرمایا یہ وہ سائے نہیں.خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ اُس دنیا میں اس دنیا کی جنت کو متمثل کر کے دکھائے گی وہ واقعتا نظر آنے والی محسوس ہونے والی ،سونگھنے والی خوشبوؤں سے معطر، مزوں سے بھری ہوئی جنت حقیقت کا روپ اوڑھ لے گی اور وہ حقیقت جو ہے اس کی تفصیل بیان نہیں کی جا سکتی کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ کوئی آنکھ ایسی نہیں جس نے وہ جنت دیکھی ہو، کوئی کان ایسا نہیں جس نے اس جنت کا بیان سنا ہو.پس حقیقت میں وہ جو کچھ بھی ہے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر اس دنیا کی جو خدا کی محبت کی لذتیں ہیں وہ اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی خاطر انسان تمام دنیا کو ایک طرف پھینک دیتا ہے اور ان کو قبول کرتا ہے ان لذتوں کی شدت کا یہ اثر ہے کہ ہر دوسری لذت بیچ ہو جاتی ہے تو اس سے لاکھوں کروڑوں گنا بڑھ کر جو لذت آئندہ مقدر ہے اس کا تصور باندھا جائے.وہ اگر اور کچھ نہیں تو ان لذتوں کی خاطر ہی اپنی دنیا کو بدلومگر اگر اس دنیا میں جنت نصیب نہ ہوئی تو ان لذتوں کی خاطر جو کچھ بھی کرو گے وہ سب بے کار جائے گا.یہ پیغام ہے جس کو آپ کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے.

Page 484

471 عموماً بعض لوگ سختی کر کے بھی محنت کر کے بھی بظاہر اگلی دنیا کمانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں.بعض ایسے مشقت کرنے والے ہیں جن کے کھڑے کھڑے ٹانگیں سوکھ جایا کرتی ہیں جو ہاتھ اونچا کرتے ہیں تو ہاتھ شل ہو جاتے ہیں مگر حاصل کچھ نہیں ہوتا کیونکہ مرنے کے بعد کی جو زندگی ہے وہ ان کو ملے گی جن کو ان چیزوں میں گہری لذت ملتی ہے جو ایک لذت کے خیال سے مصیبت اٹھاتے ہیں ان کو نہیں مل سکتی.اس اقتباس کے بعد جو یہ رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ 131 132 سے اقتباس لیا گیا تھا اب اسی رپورٹ سے میں ایک اور اقتباس آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرماتے ہیں : " یعنی خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے اور اس کے عوض میں خدا کی مرضی خرید لیتا ہے وہی لوگ ہیں جو خدا کی رحمت خاص کے مورد ہیں.غرض وہ استقامت جس سے خدا ملتا ہے اس کی یہی روح ہے جو بیان کی گئی جس کو سمجھنا ہو سمجھے".(رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ 188) اب استقامت کے متعلق، وہ کیا چیز ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اب وقت چونکہ تھوڑا رہ رہا ہے اس لئے مجھے نسبتاً جلدی گزرنا ہوگا.اللہ کے بندے جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں".یہ تحریر ہے جلد نمبر 4 صفحہ 29 ، 6 اگست 1900 ء کی." اللہ کے بندے جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں ان کے ساتھ وہ رافت اور محبت کرتا ہے.چنانچہ خود فرماتا ہے وَاللهُ رَءُوفٌ بالعِبَادِ کہ اللہ اپنے بندوں پر یا خالص بندوں پر بہت مہربان ہے یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیتے ہیں اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں قربان کرنا، اپنے مال کو اس کی راہ میں صرف کرنا اس کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں".پس وہ ساری دنیا کی جماعتیں جو قربانی کے اس عظیم دور میں داخل ہو چکی ہیں اور ان جماعتوں میں اللہ تعالیٰ نے جماعت جرمنی کو بھی ایک مقام عطا فرمایا ہے ان کے لئے اس تحریر میں یہ سبق ہے کہ جتنی بھی قربانی دیں اس قربانی کو اللہ تعالیٰ کی رافت کا حصہ سمجھیں محض اللہ کا احسان سمجھیں کہ خدا ان کو یہ توفیق دے رہا ہے اور بھولے سے بھی دل میں یہ خیال نہ گزرے کہ شاید ہم کچھ کر رہے ہیں خدا کی خاطر ، خدا کی خاطر ہویا خدا کے لئے بنی نوع انسان کی خاطر ہو ، دونوں صورتوں میں خدمت اپنی ذات میں اعزاز ہے اور اسی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نقد سودا بیان فرما رہے ہیں.ہر خدمت اپنی ذات میں اپنی جزاء ہے اور جزاء پر انسان کسی پر احسان نہیں رکھا کرتا جس کو جزا ہل رہی ہو ساتھ ساتھ وہ کیسے کسی گردن پر احسان رکھ سکتا ہے." اپنے مال کو اس کی راہ میں صرف کرنا اس کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں مگر جو لوگ دنیا کی املاک و جائیداد کو اپنا مقصود بالذات بنا لیتے ہیں وہ ایک خوابیدہ نظر سے دین کو دیکھتے ہیں "."دنیا کی املاک

Page 485

472 و جائیداد کو اپنا مقصود بالذات بنا لیتے ہیں".دنیا کمانے سے تو احتر از ممکن ہی نہیں ہے اگر اور کچھ نہیں تو خدا کی راہ میں یا بنی نوع انسان کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے ہی انسان دنیا کمائے گا اور جس کی نیت یہ ہو کہ وہ مجھے اتنا ملے کہ میں زیادہ سے زیادہ اللہ اور اس کے دین کی اور اس کے بندوں کی خدمت کرسکوں وہ اس دنیا کی کمائی کو بالذات نہیں سمجھتے یعنی یہ کمائی ہے.ہے تو ہے نہیں تو نہ سہی اللہ کی مرضی.اگر اللہ کی مرضی پر نگاہیں ہیں تو خدا تعالیٰ اگر چاہے تو ان کو سب کچھ چھین کر اس ابتلاء میں بھی آزما سکتا ہے کہ جب ان سے سب کچھ چھین لیا جائے تو دیکھیں ان کے چہرے پر یا ان کے دل پر ملال تو نہیں آجاتا.جو اللہ کی خاطر جو کچھ ان کے پاس ہے فدا کرتے رہتے ہیں وہ زیادہ فدا تو نہیں کر سکیں گے مگر جو کچھ تھوڑا بہت ان کے پاس بچ جائے گا وہی پیش کرتے رہیں گے.اس کے برعکس بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ جب کشائش سے آزماتا ہے تو اس وقت وہ کچھ نہ کچھ خدا کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں اور جب ان پر مالی تنگی کے دن آتے ہیں تو اجازتیں لیتے ہیں کہ اب ہمیں توفیق نہیں رہی.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو مضمون پیش فرما رہے ہیں اس کے مطابق دنیا بالذات نہیں ہوتی.اصل میں اللہ کی رضا حاصل کرنا اور اس کی خاطر اس کا دیا ہوا خرچ کرنا ہے.پس اگر اس نے کم کر دیا تو کم میں سے دو.اگر زیادہ دیا ہے تو زیادہ میں سے دو.یہ وہ لوگ ہیں جن کا دین دنیا پر مقدم رہتا ہے.فرمایا: " ایسے لوگ دین کو ایک خوابیدہ نظر سے دیکھتے ہیں".یہ خوابیدہ نظریں بھی ہر انسان پہچان سکتا ہے.کم سے کم اپنی خوابیدہ نظر کو پہچاننے کی انسان میں صلاحیت ضرور موجود ہے.دینی امور جتنے بھی اسکے گردو پیش واقع ہو رہے ہیں وہ ان کو ایک اتفاقاً حادثاتی طور پر ساتھ ساتھ چلنے والے امور سمجھتا ہے، براہ راست اس کا دل ان امور میں نہیں ہوتا.احمدیت ترقی کر رہی ہے ، لوگ نیک بنتے چلے جارہے ہیں ، سب میں قربانی کی روح بیدار ہورہی ہے اسے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ سارے میرے لئے خدا تعالیٰ کی نعمتیں ہیں.ہر بات جو میں ایسی سنتا ہوں جو دین کی ترقی کی ہے وہ میرے دل میں بے انتہا لذت پیدا کرتی ہے.سبحان الله، بسم اللہ کہتے ہیں کہ اچھا یہ ہورہا ہے مگر براہ راست دل پر وہ لذت کی کیفیت طاری نہیں ہوتی جیسی اپنی تجارت کے چمکنے کے نتیجے میں ان کے دل پر ایک لذت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اگر کوئی ان کو خبر سنائے کہ جو روپیہ تم نے فلاں جگہ لگایا تھا وہ ایسا ہوا کہ تجارت میں کہ وہ بہت بڑھ چکا ہے.دنیا میں ایسے حادثات ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں بعضوں کی معمولی تجارتیں بھی ایک دم چمک اٹھتی ہیں.اگر وہ ایسا دیکھیں تو دیکھیں ان کا دل اس بات کو کبھی بھی خوابیدہ نظر سے نہیں دیکھے گا ، بے انتہا خوشیوں سے بھر جائے گا، لذتیں دل میں سمائی ہی نہیں جائیں گی.اتنا گہرا اثر پڑے گا اس خبر کا کہ اگر اس کو احمدیت کی کامیابیوں کی خبر کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھیں تو وہ کچھ بھی باقی نہیں رہے گی.پس یہ بہت لطیف

Page 486

473 باتیں ہیں جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چند لفظوں میں بیان کرتے ہیں.اب جب میں نے سمجھا دیا تو پھر دوبارہ سنیں اس تحریر کو تو معلوم ہوگا کہ خوابیدہ نظر کیا معنے رکھتی ہے." مگر جولوگ دنیا کی املاک و جائیداد کو اپنا مقصود بالذات بنا لیتے ہیں وہ ایک خوابیدہ نظر سے دین کو دیکھتے ہیں.مگر حقیقی مومن اور صادق مسلمان کا یہ کام نہیں ہے.سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کر دے".جب تک زندگی باقی ہے ان سب چیزوں کو وقف کر دے." تا کہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو".جن لوگوں کے حق میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ان کو حیات طیبہ عطا ہوئی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کی زندگی کا لمحہ محہ موت تک خدا کی راہ میں وقف رہتا ہے.یہ یادداشتیں، براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 21 تا 30 ، پیغام صلح صفحہ 48 سے یہ عبارت لی گئی ہے.پھر فرمایا "اے ایمان والو! خدا کی راہ میں اپنی گردن ڈال دو اور شیطانی راہوں کو اختیار مت کرو.جیسا کہ کلام الہی سے میں نے یہ ثابت کر کے دکھایا تھا کہ اور کا لفظ بظاہر ایک زائد بات کا تقاضا کر رہا ہے مگر حقیقت میں پہلی بات ہی کی تشریح ہے.بعینہ اسی رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ عبارت ہے کہ ” اے ایمان والو خدا کی راہ میں اپنی گردن ڈال دو.گردن دو طرح سے ڈالی جاتی ہے.ایک بیل جس کے اوپر، جس کی گردن میں خدمت کا جو اڈالا جاتا ہے وہ بیل جس کو عادت پڑ چکی ہوتی ہے جب جو ا اٹھا کر زمیندار اس کی طرف چلتا ہے گردن پر ڈالنے کے لئے تو میں نے خود دیکھا ہے ایسے بیلوں کو وہ سر نیچے کر دیتے ہیں اور وہ بیل زمنیدار کو بہت پیارے ہوتے ہیں اور کچھ بیل ایسے ہیں جو سینگ مارتے ہیں اور بڑی مشکل سے ان کو قابو کرنا پڑتا ہے رسی کے پھندے ان کے سینگوں پر ڈالنے پڑتے ہیں اور ایک آدمی ایک طرف سے گھسیٹ رہا ہے دوسرے نے جا کر جو اڈال دیا.تو یہ سلوک تو نہ کرو اپنے اللہ سے.اس کے بیل ہو اس کے لئے اپنی جان بیچ ڈالی اور گردن جو اکے لئے خم نہ کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں خدا کی راہ میں اپنی گردن ڈال دو.ایک یہ معنی ہیں.دوسرا ذبح ہونے کے لئے گردن ڈال دو جیسے حضرت اسماعیل نے اپنی گردن ڈالی تھی.تو یہ دونوں طریق ایسے ہیں جن میں آپ اپنی جان کے ذریعے اس بات کا اقرار کر رہے ہونگے کہ میں نے یہ جان بیچی ہوئی ہے میری نہیں رہی.اس کے بعد " اور شیطانی راہوں کو اختیا ر مت کرو" کا یہ مطلب ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ ایسا گردن ڈالنے والا احتمالاً بھی شیطان کی راہ اختیار کر سکتا ہے.مراد یہ ہے کہ وہ الگ بات ہے، یہ اور بات ہے.شیطانی راہیں اختیار کرنے والے اور لوگ ہیں اور یہ بالکل اور لوگ ہیں.اگر شیطان سے بچنا ہے تو گردن ڈالنا ضروری ہے.لازم ہے کہ خدا کے سامنے اپنی گردن ڈال دو."شیطان تمہارا دشمن ہے " وہی آیت کریمہ ہے جو میں نے پہلے پڑھی تھی اسی کا تشریحی ترجمہ ہے

Page 487

474 جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں.فرماتے ہیں " اس جگہ شیطان سے مراد وہی لوگ ہیں جو بدی کی تعلیم دیتے ہیں ".اب یہ خیال نہ گزرے کہ کوئی خیالی شیطان ہے جس سے ہر آدمی سمجھتا ہے میں بچا ہوا ہوں.اس کے گردو پیش ، اس کے ماحول میں ، اس کو برے کاموں کی طرف بلانے والے وہ شیطان ہیں.پس جس نے اپنی گردن خدا کی راہ میں دے رکھی ہو وہ ان کی باتیں کب سنے گا وہ ان کو مردود کر کے اپنی طرف سے ہٹادے گا ایسے لوگوں کی دوستی کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ سب کچھ تو خدا کے حضور انہوں نے پیش کر رکھا ہو اور اس میں سے حصہ مانگ رہے ہوں.ایسے ہی لوگوں کے لئے اَعُوذُ باللهِ منَ الشيطن الرجیم کا کلام ہمیں سکھایا گیا کہ تلاوت سے پہلے ضرور پڑھ لیا کرو کیونکہ جب تلاوت کرتے ہوتو گویا خدا کے ہو جاتے ہو اور شیطان کوشش کرے گا کہ تمہارا کوئی حصہ بھی خدا کے فضل سے باہر رہ جائے اور یہ اسے ایک لے.پس وہ لوگ زندہ آپ کے ارد گرد پھرتے ہیں ، آپ ان کو جانتے ہیں، دیکھتے ہیں، ان سے مراسم رکھتے ہیں جو خدا کی مرضی کے خلاف بھی آپ کو تعلیمیں دیتے ہیں، کہتے ہیں یہ جھوٹ بولوتو یہ فائدہ ہو جائے گا یہاں پیسہ لگاؤ خواہ پیسہ لگانا حرام ہو اس سے فائدہ پہنچے گا اس طرح رزق کماؤ.یہ حقائق ہیں روز مرہ گزرنے والے حقائق ہیں، کوئی فرضی باتیں نہیں ہیں.آپ ان کو دیکھتے ہیں اور پہچانتے نہیں.پس جس نے خدا کی راہ میں اپنی گردن ڈالی ہو وہ ضرور پہچانے گا.اس آئینہ میں اپنے آپ کو دیکھیں اور خود اپنا اپنا جائزہ لیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں، "جو شخص اپنے وجود کو خدا کے آگے رکھ دے نہ اس کی گردن اپنی رہی نہ اس کے پاؤں کے ناخن اپنے رہے کچھ بھی باقی نہ رہا.اور اپنی زندگی اس کی راہوں میں وقف کر لے اور نیکی کرنے میں سرگرم ہو، سو وہ چشمہ قرب الہی سے اپنا اجر پائے گا.ایسے شخص کو قرب الہی کے سرچشمے سے پلایا جائے گا جس کو ہم کوثر کہتے ہیں یہ وہی کوثر ہے اللہ کے قرب کا سر چشمہ، جس کو یہ سر چشمہ نصیب ہو جائے اسے ایک آب حیات اور آب بقامل گئی.ایسے شخص پر کبھی موت وارد نہیں ہوا کرتی.اور ان لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم ہے".جن پر سے موت اٹھالی گئی ہو، جن کو ہمیشہ کی بقاء کا وعدہ دے دیا گیا ہو یعنی خدا کی طرف سے ان لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم." یعنی جو شخص اپنے تمام قویٰ کو خدا کی راہ میں لگا دے اور خالص خدا کے لئے اس کا قول اور فعل اور حرکت اور سکون اور تمام زندگی ہو جائے اور حقیقی نیکی کے بجالانے میں سرگرم رہے تو اس کو خدا اپنے پاس سے اجر دے گا اور خوف اور حزن سے نجات بخشے گا.یادر ہے کہ یہی اسلام کا لفظ کہ اس جگہ بیان ہوا ہے دوسرے لفظوں میں قرآن شریف میں اس کا نام استقامت رکھا ہے" میں نے عرض کیا تھا کہ پہلے جو لفظ استقامت گزرا ہے اس کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ

Page 488

475 والسلام کے الفاظ ہی میں آپ کے سامنے پیش کروں گا.پس اس اقتباس کے بعد میں اس خطبہ جمعہ کو ختم کروں گا.فرمایا ” دوسرے لفظوں میں قرآن شریف میں اس کا نام استقامت رکھا ہے جیسا کہ وہ یہ دعا سکھلاتا ہے.اھدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ صِراطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم ، یعنی ہمیں استقامت کی راہ پر قائم کر اور ان لوگوں کی راہ جنہوں نے تجھ سے انعام پایا.ان لوگوں کی راہ استقامت کی راہ تھی جو انبیاء تھے اور ان لوگوں کی راہ استقامت کی راہ تھی جو صدیق تھے جو کامل وفا کے ساتھ اپنے انبیاء کے پیچھے چلتے رہے اور ان لوگوں کی راہ استقامت کی راہ پر تھے جو اس قافلے کے پیچھے پیچھے آرہے تھے مگر تھے اسی قافلے کا حصہ.وہ آگے تو نہ بڑھ سکے مگر پہلوں کی قدموں کی خاک چومتے ہوئے اسی راہ پر انہوں نے اپنی زندگی ختم کی.فرمایا یہ ہے استقامت کی راہ.دعا کا ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں یہ ہے " ہمیں استقامت کی راہ پر قائم کر ، ان لوگوں کی راہ جنہوں نے تجھ سے انعام پایا اور جن پر آسمانی دروازے کھلے.واضح رہے کہ ہر ایک چیز کی وضع استقامت اس کی علت غائی پر نظر کر کے کبھی جاتی ہے".اب یہ بہت گہرا کلام ہے جسے لازماً سمجھائے بغیر آپ کو سمجھ نہیں آئے گی."ہر ایک چیز کی وضع استقامت اس کی علت غائی پر نظر رکھ کے سمجھی جاتی ہے ".استقامت کے لئے پہلے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس چیز کا مقصد کیا تھا، اس کے بنانے کا مقصد کیا تھا، اس کی استقامت اس مقصد کے مطابق ڈھالی جائے گی یعنی اس کی استقامت کی صلاحیتیں جو اس کا مقصد تھا اس کے مطابق بنائی جانی ضروری ہیں.انسان کے وجود کی علت غائی یہ ہے کہ نوع انسان خدا کے لئے پیدا کی گئی ہے.پس انسانی وضع استقامت یہ ہے کہ جیسا کہ وہ اطاعت ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ایسا ہی درحقیقت خدا کے لئے ہو جائے".پیدا کرنے کی غرض یہ تھی کہ ہمیشہ خدا کی عبادت کرے، ہمیشہ اس کی پیروی کرے.اگر اس غرض کے مطابق وہ ہو جاتا ہے تو یہ اس کی استقامت ہے.محض راہ کی تکلیفوں کو برداشت کرنا استقامت انام نہیں ہے.یہ تشریح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہمیں بتلا رہی ہے کہ اگر ہم عبادت کی خاطر پیدا کئے گئے تھے تو ہماری استقامت کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا سارا وجود عبادت کی خاطر خاص ہو جائے اور کلیۂ اللہ کا ہو جائے.اور جب وہ اپنے تمام قومی سے خدا کے لئے ہو جائے گا تو بلا شبہ اس پر انعام نازل ہوگا جس کو دوسرے لفظوں میں پاک زندگی کہہ سکتے ہیں.صِراطَ الذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم ميں أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم کا ترجمہ ہے.تو یقیناً اس پر انعام نازل ہوگا.اب انعام کا عام معنی یہ لیا جا تا ہے کہ اس کوکئی قسم کی نعمتیں ملیں گی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ معنے نہیں فرما ر ہے " جس کو دوسرے لفظوں میں پاک

Page 489

476 زندگی کہہ سکتے ہیں".یعنی انعام سے مراد ہی پاک زندگی ہے.جب خدا کی طرف سے پاک زندگی مل گئی تو یقین کرو کہ یہ انعام ہے اور اگر پاک زندگی نہیں ملی اور دنیا کی نعمتیں ملی ہیں تو محض اس دھو کے میں مبتلا نہ رہنا کہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے جس نے ثابت کر دیا کہ آپ صراط مستقیم پر قائم تھے.پس پاک زندگی اصل مقصود ہے ، اصل مطلوب ہے اگر پاک زندگی ہم سب کو نصیب ہو جائے تو یہی زندگی کا وہ مقصد ہے جو ہم نے پالیا پھر ہم یہ کہتے ہوئے جان جان آفریں کے سپر د کر سکتے ہیں کہ فُرْتُ بِرَبِّ الكَعْبَةِ خدا کی قسم میں رب کعبہ کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میں کامیاب ہو گیا.اللہ ہمیں یہ کامیابی عطا فرمائے.الفضل انٹر نیشنل 3 جولائی 1998ء) انصا را گر اپنی صحت کا خیال نہ رکھیں گے تو جماعت کا کام بھی اچھی طرح نہ کر سکیں گے خصوصی ملاقات ممبران عاملہ انصار اللہ و ناظمین جرمنی بر موقع سالانہ اجتماع 1998ء) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجلس انصار اللہ کی عمومی صحت دیکھ کر فرمایا کہ آپ میں سے کئی انصار صحت کے لحاظ سے fit نظر نہیں آتے.آپ کو اپنی صحت کا بے حد خیال رکھنا چاہئے.حضور اقدس نے فرمایا کہ میں 4 میل سیر کرتا ہوں کم از کم دو میل کی سیر سے تو شروع کریں." حضور نے فرمایا کہ آپ کے لئے ہلکی ورزش کی بھی بے حد ضرورت ہے جسم کے ہر حصے کی علیحدہ علیحدہ ورزش ہوتی ہے.حتی کہ ہاتھ کی انگلیوں اور اسی طرح پاؤں کے ٹخنوں کی ، پنڈلیوں کی.پنڈلیوں کے متعلق حضور اقدس نے فرمایا کہ اس کو دوسرا دل کہتے ہیں اور یہ خون کے دوران کو نیچے سے اوپر کی طرف pump کرنے کا کام کرتی ہیں اور پنڈلیوں کو مساج کے ذریعہ بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے.مزید فرمایا کہ اگر آپ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھیں گے تو آپ جماعت کا کام بھی اچھی طرح نہیں کر سکیں گے اور آپ اچھے صحت مند ہونے کے سبب جماعت کو زیادہ وقت دے سکیں گے.مزید حضور اقدس نے خوراک کے متعلق ہدایات سے نوازا.فرمایا کہ متوازن خوراک استعمال کیا کریں.مچھلی اور مرغی کا گوشت زیادہ استعمال کریں او فرمایا کہ گائے کا گوشت کھانے سے پر ہیز کریں.چھوٹی عمر کے بکرے کا گوشت کھا ئیں Red Meat کا استعمال کم کردیں.White Meat استعمال کریں یعنی چکن اور وہ بھی چھوٹی عمر کے سبزیاں بھی اچھی ہیں.

Page 490

477 انسانی جسم میں Filling میں بے حد مفید ثابت ہوتی ہیں اور فرمایا کہ Oil کا ستعمال کم کر دیں." (ماہنامہ الناصر نومبر 2000ء) اس مجلس کی رپورٹنگ ماہنامہ الناصر مئی، جون 1998 ء نے یوں کی ہے تمام انصار کو صحت مند اور چاک و چوبند رہنا چاہئے.اس ضمن میں آپ نے بعض زریں نصائح سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ متوازن غذا کے ساتھ ہلکی پھلکی ورزش بھی جسم کو صحت مند اور توانا رکھنے کے لئے ضروری ہے.آپ نے فرمایا کہ ہر ناصر کو روزانہ سوائے کسی اشد مجبوری کے صبح کی سیر کرنی چاہئے اور کم از کم 2 میل پیدل چلنا چاہئے آپ نے فرمایا میں روزانہ 4 میل پیدل چل کر سیر کرتا ہوں.ایک مشہور محق برنارڈ شا سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی لمبی عمر اور اچھی صحت کا کیا راز ہے تو اس نے کہا کہ سرکوٹھنڈا ر کھنے اور پاؤں کو گرم رکھنے میں ہے.یعنی بلا وجہ غصہ نہ کرنا اور پیدل چلنا.روزانہ پیدل چلنا ایک شخص کی زندگی میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا ہے.ایک تحقیقی جائزے نے یہ ثابت کیا ہے کہ جو لوگ ہر روز دو میل پیدل چلتے ہیں خواہ بہت ہی سست رفتاری ہی سے ہے.تو بھی ان کے مرنے کے امکان میں تقریباً 50 فیصدی کمی واقع ہوئی ہے.رپورٹ بیان کرتی ہے کہ بالکل پیدل نہ چلنے والے لوگوں میں ان کی نسبت جو دن میں کم از کم 2 میل پیدل چلتے تھے ہر طرح کے کینسر کے باعث مرنے کا امکان 25 گنا زیادہ تھا.ایک طبی جائزے نے یہ بھی ثابت کیا کہ عمر رسیدہ لوگوں کو پیدل چلنے کے لئے حوصلہ افزائی کرنا ان کی صحت کو بہتر بنا سکتا ہے." (ماہنامہ الناصر جرمنی جولائی 1998ء)

Page 491

478 $2001 رشتہ ناطہ میں کوائف اکٹھے کرنے کے لئے امراء ذیلی تنظیموں سے ضرور مددلیس (خطبہ جمعہ 2 مارچ 2001ء) اب میں بتاتا ہوں کہ ہم نے جو اقدامات کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ امراء کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ذیلی تنظیموں خصوصاً انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ سے ضرور مدد لیں اور رشتہ ناطہ کے شعبہ کی فائلیں بنائیں، شادی کے قابل تمام لڑکوں اور لڑکیوں کے مکمل کوائف اکٹھے کریں.اگر اپنے طور پر لوگوں کے کوائف بھیجوانے کا انتظار کرتے رہیں گے تو اکثر لوگوں میں یہ خرابی پائی جاتی ہے کہ لڑکوں کے کوائف تو نہیں بھیجتے ، وہاں تو اپنی مرضی کرتے ہیں زبر دستی.اور لڑکی کے بھیج دیتے ہیں.یعنی لڑکوں کی شادی کرانے کے وہ ذمہ دار اور لڑکیوں کی شادی کرانے کی جماعت ذمہ دار.یہ تو تِلْكَ إِذا قِسْمَةٌ ضِيزى يه تونا مناسب تقسيم - ر ہے.خدا کا خوف کریں لڑکیوں کے کوائف جہاں بھیجتے ہیں لڑکوں کے بھی کوائف بھیجیں اور دونوں کے متعلق اگر جماعت بیک وقت غور کرے تو بہت بہتر رشتے تجویز کر سکتی ہے".(الفضل انٹر نیشنل 16اپریل 2011ء)

Page 492

479 آؤٹ آیا انڈیکس سبیل الرشاد جلد سوم مرتبہ مکرم عبدالمالک صاحب آڈیٹر یعنی حساب کرنے والے جماعتی نظام سے بالکل آزاد ہوں اصلاح اپنے اعمال کی نگرانی رکھو.180 اموال میں خیانت کی جو کمزوری ہے یہ بہت ہی بھیا نک ہو جاتی ہے.71 اسلام اسلام تو سائنٹفیک مذہب ہے.اصلاح کرنے والوں کوسب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرنی اسلام کا نظام ایک بہت ہی گہرا اور مستحکم نظام ہے.چاہئے.115 29 79 100 ساری دنیا میں اسلام کولانا یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے.88 اصلاحی کمیٹیاں قائم کریں جو کہ بیماریوں کی پیش بندیاں کرنے امین والی ہوں.اخلاق 268 امین پر جو امانت کا بوجھ ڈالا جاتا ہے بڑا مقدس بوجھ ہے.257 زیادہ سے زیادہ عہدیدار امین بنیں.260 انفرادیت تو دراصل موت کا پیغام ہے.انفرادیت نظام بکھیر نے مذہبی قو میں بغیر اخلاقی تعمیر کے تعمیر نہیں ہو سکتیں.151 انفرادیت اطاعت اطاعت.سب سے زیادہ اہم ترین اطاعت کا حکم حضرت محمد صلی کو کہتے ہیں.اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے.438 انصار الله جو اطاعت کا اعلیٰ حق ہے اس میں کسی شخص کی ذاتی کمزوری یا ذاتی انصار کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلوائیں.439 429 80-66-32-10 مفاد کا کوئی بھی دخل نہیں ہونا چاہئے.اطاعت تو اصل وہ ہے کہ مرضی کے خلاف ہو اور جان کی قربانی انصار اللہ کونو جوانوں کی آوارگی روکنے کی طرف توجہ دینی چاہئے.پیش کرنی پڑے.اعمال جہاں تک اعمال کا تعلق ہے ان کا خلاصہ نماز ہے.442 41 103 انصار اللہ کوصبر اور رحم کی نصیحت باقیوں سے زیادہ زیب دیتی ہے.207-206

Page 493

480 تحریک جدید کے دفتر اول اور چہارم کی ذمہ دار انصار اللہ ہے.بچپن سے ہی سچ کی عادت ڈالنا....نہایت ضروری ہے.152 358 بچوں اور خواتین کی تربیت میں بھی انصار اللہ سب سے اچھا کردار پاگل پن ادا کر سکتے ہیں.پ.پھ 427 پاگل پن کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مفاد سے بے خبر ہو ایک زعیم انصار اللہ ہی محدود پیمانے پر مامور ہے، جس کی اطاعت جائے.کرنالازمی ہے.انصار اللہ کے لئے ورزش کی اہمیت.انسان 438 پرده پوشی 47 476 جو شخص کسی کی پردہ پوشی کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کے دن پردہ پوشی کرے گا.406 اللہ تعالیٰ نے اپنی صورت پر انسان کو پیدا کیا.240 جس طرح اپنی پردہ پوشی کرتے ہو غیر کی بھی پردہ پوشی کرو.407 314 اگر تم پردہ دری کرو گے تو قیامت کے دن تمہاری پردہ پوشی کی کوئی اثر وہ ہوتا ہے جو قائم رہے جسے انسان قبول کرے.انسان جب بھی خدا کی صفات سے ہٹ کر قدم اٹھاتا ہے تو عملاً ضمانت نہیں ہے.ایک قسم کا جھوٹا خدا ہونے کی کوشش کرتا ہے.322 پھل خدا تعالیٰ سے تعلق کے نتیجے میں انسان دائمی بقا حاصل کر سکتا ہے.درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.افراد 409 212 460 جب پھلوں کے موسم آتے ہیں تو جڑی بوٹیوں کو بھی پھل لگ نارمل ذہن رکھنے والے افراد ایک ہی مقصد حاصل کرنے کے لئے جاتے ہیں.ت.430 دوسروں سے ٹکراتے نہیں پھرتے.1 تربیت بدر سوم بد رسوم کے خلاف جہاد.بچین ذیلی تنظیمیں بچوں کی تربیت کی خاطر ماں باپ کی تربیت کا بھی اہتمام کریں.11-4 بچے کی عمر کا ایک لحہ بھی ایسا نہیں ہے جو تر بیت سے خالی رہے.73 74 سات سال کی عمر تک اپنے فیصلے کا کچھ نہ کچھ اختیار بچے کو ہو تربیت کا جو ظاہری رسمی دور ہے وہ سات سال کے بعد ہی شروع جاتا ہے.75 ہو جاتا ہے.75 بہت چھوٹی عمر میں بچوں کو ماں باپ کے سوا کسی دوسرے کے زیر بچوں کی تربیت کے لئے ماں باپ کی تربیت ضروری ہے.80 76 جو تربیت کے ذمہ دار ہیں ان کی اپنی تربیت ضروری ہے.102 اثر لانا...غیر نفسیاتی حرکت ہے.بچوں کی تربیت کے لئے ماں باپ کی تربیت ضروری ہے.80 سب سے زیادہ زورتر بیت میں دعا پر ہونا چاہئے.121

Page 494

481 امراء کواپنے ماتحت عہدیداران کی تربیت کرنی چاہئے.200 تقتل ہر اس موقع پر اختیار کی جاسکتا ہے جب خدا تعالیٰ کی طرف سب سے اچھی تربیت وہی ہوتی ہے جو انسان خود کرے.265 سے دل میں ایک روحانی تحریک پیدا ہورہی ہو.جتنا تربیت کا بلند معیار ہوگا اتناہی تبلیغ کا معیار از خود بلند ہوتا چلا تقتل سب سے پہلے نیتوں میں ہوتا ہے.جائے گا.344 352 تاریکی 268 تحریک جدید تنظیموں کو دفاتر کی تقسیم.انسانی زندگی سجاوٹ تقوی سے ہوتی ہے.جہالت اور تاریکی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.1 تقوی تبلیغ 3 107 تبلیغ کا ایسا کام ہے جو نشے سے بڑھ کر طاقت رکھتا ہے.93 عہدیداران تقویٰ کے معیار کو بڑھا کر سلسلے کے اموال خرچ کریں تبلیغ کے ذرائع.تبلیغ وہی اثر دکھاتی ہے جو خد ا والے کی تبلیغ ہو.تبلیغ بے تکی نہیں ہونی چاہیئے.94 187 بے دردی اور بے حسی اور تقویٰ اکٹھے نہیں رہا کرتے.37 تقوی خدا کی ذات سے پھوٹتا ہے.ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ کی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں.ہر متقی کا کام ہے کہ تقویٰ کو عزت دے.43 تنظیمیں 69 71 71 196-194 ہمیشہ یا درکھنا چاہئے کہ تمہارا خدا تقوی کو عزت دیتا ہے.197 تقویٰ کی جڑیں جتنی گہری ہوں اتنا ہی زیادہ تقویٰ کا درخت 198 ذیلی تنظیمیں ماہانہ ایک اجلاس قیام نماز کے حوالہ سے کریں.62 نشو ونما پاتا ہے.ذیلی تنظیموں کو بھی جماعت کی انجمنوں کے ساتھ قدم ملا کر آگے اپنے تقویٰ کا معیار بڑھاتے ہوئے خدا پر انحصار کریں.202 بڑھنا چاہئے.تنظیموں کے سپر دتعمیر اخلاق کا کام.29 99 تلاوت 151 ایسے گھروں میں جہاں واقفین زندگی ہیں وہاں تلاوت کے اس ظیمیں اپنے اپنے ہاں نگران ہوں اور بیدار ہوں.پہلو پر بہت زور دینا چاہئے.ذیلی تنظیموں کے نمائندے یا درکھیں خشک نصیحت بے کار چیز ہے.تلاوت کی عادت ڈالنی چاہئے.111 251 271 جہالت تبل جہالت اور تاریکی ایک ہی چیز کے دونام ہیں.تبتل کا اصل مطلب ہے بدیوں سے نجات حاصل کرنا.بدیوں جھوٹ سے تعلق توڑنا.327 سب سے بڑا خرابی کا عنصر جھوٹ ہے.نیتوں کا خلوص ہے جہاں سے تبتل کا مضمون شروع ہوتا ہے 332 کوئی قوم دنیا میں ترقی نہیں کر سکتی اگر اس کے اندر جھوٹ کی 151

Page 495

482 بیماریاں موجود ہوں.173 جماعت احمدیہ میں سب سے اہم کام عبادت کو قائم کرنا ہے.63 اگر جھوٹ بولو گے تو جہاں بھی بولو گے خدا کے سامنے بولو گے.جماعت احمدیہ کا تعلق دیناوی حکومت سے نہیں بلکہ آسمانی حکومت 175 سے ہے.88 جھوٹ کی سرزمین سے ہجرت کر کے سچائی کی زمین میں داخل جماعت کی سب سے بڑی ذمہ داری خدا کا پیغام پہنچانا ہے.92 ہوجائیں.جھوٹ کو شرک کے ہم پلہ قرار دیا گیا ہے.176 جماعت احمدیہ کو.....وسیع علم کی بنیاد پر قائم دینی علم کو فروغ دینا 177 چاہئے.112 ساری کی ساری جماعت کو جھوٹ کے خلاف علم جہاد بلند کرنا جو خدا کی خاطر جماعت سے محبت رکھتا ہے، کیسے ممکن ہے کہ وہ جما چاہئے.جھوٹ کی پناہ گاہیں یقیناً جھوٹی ہیں.184 عت کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے دے.185 خلافت اور جماعت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.118 140 جھوٹ اور بہتان باندھ کر دین اور دین والوں سے متنفر کرنا جماعت احمدیہ میں بچپن سے ہی سچ کی عادت ڈالنا...نہایت تو بہت بڑا گناہ ہے.جماعت 334 ضروری ہے.152 سب سے بنیادی بات یہی ہے کہ ہم اپنی جماعت کو مکمل طور پر نماز ساری جماعت کو احمدیت کی روایات کے مطابق اپنے حقوق سے پر قائم کر دیں.بھی آگاہ ہونا چاہئے.جماعت احمد یہ ایک بہت ہی پیاری اور پاکیزہ جماعت ہے.13 160 1 مذہبی جماعتوں کے لئے جھوٹ ایک زہر قاتل کا حکم رکھتا ہے.173 نماز کی حفاظت جس کے لئے جماعت احمدیہ قائم کی گئی ہے.ہمارا ساری کی ساری جماعت کو جھوٹ کے خلاف علم جہاد بلند کرنا 42 چاہئے.184 اولین فرض ہے.جماعت احمدیہ پر کیا جبر ہے کہ وہ ضرور بے نمازوں کو ملازم رکھے.الہی جماعت ایک پاکیزہ جماعت ہے.اس کے سارے 43 معاملات خدا کی خاطر ہوتے ہیں.208 جماعت کے ذمہ دار دوستوں کو بہترین نمانے قائم کرنے پڑیں اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جماعت کی زمین بحیثیت مجموعی زرخیز گے.44 ہے.213 جماعت احمدیہ کو عبادت کے معاملہ میں بڑ کا وہ درخت بن جانا خدا کے فضل سے اگر جماعت کے تمام عہدیداران نہیں تو بھاری چاہئے.جماعت احمدیہ کے حقوق سلب کرنے کا نتیجہ.جماعت صبر اور شکر کے مقام پر فائز ہے.جماعت احمدیہ کا ایمان ، عزم اور صبر.49 اکثریت متقی ہے.57-56 224 حضرت مسیح موعود کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے بڑی صلاحیتیں عطا 58 فرمائی ہیں.234 59 بحیثیت جماعت تم ایک دوسرے کی نماز کے معاملے میں حفاظت

Page 496

کرو.483 چنده 269 جماعت احمدیہ کا فرض ہے کہ جماعت کو ہلاکت سے بچانے کے چندہ دینے والے کیلئے سب سے بڑی جزاء اللہ تعالیٰ کی رضا ہے.لئے ہر ممکن کوشش کرے.296 جماعت احمدیہ کو آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے کی تلقین چندہ کے متعلق شرح کم کرنے کی جازت لینا.370 472 کی جائے.جماعت میں جراحی کا عمل.396 402 خاندان خ جماعت کو سمجھنا چاہئے کہ ہمارا دائرہ اختیار کیا ہے.اطاعت کہتے ہر خاندان کو اپنے بزرگوں کی تاریخ اکٹھا کرنے کی طرف متوجہ ہونا کس کو ہیں.442 چاہئے.جماعت احمدیہ ہی خدا کی وہ آخری جماعت ہے جس کے ساتھ اس خدا تعالیٰ 123 دنیا کی بقاوابستہ ہے.جڑ 461 سارے علموں کا سر چشمہ خدا ہے.95 خدا ایک زندہ ہستی ہے جس کا جماعت سے تعلق ہے.141 ایک ایسا شخص جس کی جڑیں اکھڑ جائیں اس کی بقا کا زمانہ بہت اپنے خدا کی طرف حرکت کرو اور خدا کی طرف سفر اختیار کرو.187 تھوڑا ہے.چچ حوصلہ حوصلہ اپنے عمل سے پیدا کیا جاتا ہے.345 اس دنیا کو آج دلائل سے بڑھ کر خدا والوں کی ضرورت ہے.187 جو لوگ خدا سے تعلق رکھتے ہیں ان کے کام آسان ہو جایا کرتے ہیں.191 154 خدا تعالیٰ کے بغیر کوئی برکت والی بات شروع ہو ہی نہیں سکتی.وہ نقصان جس میں انسان بے اختیار ہو اس پر صبر کا نام حوصلہ ہے.243 155 خدام الاحمدیہ حقوق اگر آپ اپنے حقوق اور فرائض سے واضح طور پر آگاہ ہوں تو کسی کو خدام الاحمدیہ تحریک جدید کے دفتر اول کی ذمہ داری.80.7.6.3 359 غلط فہمی اور نا اتفاقی کے بیج بونے کی جرات نہیں ہو سکتی.تحریک جدید دفتر دوم خدام الاحمدیہ کی ذمہ داری.ساری جماعت کو احمدیت کی روایات کے مطابق اپنے حقوق سے جو خدام الاحمدیہ کا زعیم ہے وہ بھی تو اپنے دائرے میں اور ایک بھی آگاہ ہونا چاہئے.حقوق العباد کی آخری بنیادیں مذہب میں ہی ملتی ہیں.1 40 عبادت ہی کے نتیجے میں بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا ہوتی ہے.41 محمد ود دائرے میں ایک مامور ہے.خالق خالق کا اپنی تخلیق کے ساتھ گہرا رابطہ ہے.439 138

Page 497

خلافت.خلافت اور جماعت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.140 484 ذمہ داری ذ، ر، ز کمزور افراد پر بھی تھوڑی تھوڑی ذمہ داری ڈالیں.درخت رویا درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.212 خلیفہ رابغ کی رویا.دعا س ،ش 85 162 سچائی کے حقوق ادا کرنے کی توفیق بھی دعا ہی سے ملتی ہے.31 سائیکل سفر کے وفود.سب سے زیادہ زورتربیت میں دعا پر ہونا چاہئے.121 سچائی دعا پر اپنے سب کاموں کی بناء کریں.سب تدبیروں سے بڑھ کر موثر تد بیر دعا ہے.202 سچائی کی توفیق بھی دعا سے ملاتی ہے.207 سیچوں کی علامت.کام کرنے والے وہی ہیں جو اللہ سے عطا ہوتے ہیں.دعا کے بیچ بولنا بھی مختلف درجات سے تعلق رکھتا ہے.نتیجہ میں ملتے ہیں.309 6-5 31 565 59 151 کوئی شخص بھی صالح نہیں بن سکتا جب تک وہ سچا نہ ہو.152 دعا کے بغیر حقیقت میں کسی قوم میں بھی برکت نہیں پڑ سکتی.315 جھوٹ کی سرزمین سے ہجرت کر کے سچائی کی سرزمین میں داخل دعوت الی اللہ دعوت الی اللہ کا پروگرام کوئی معمولی پروگرام نہیں ہے.دعوت الی اللہ کے متعلق امور نہ بھولیں.88 89 176 185 ہوجائیں.سچ کی پناہ گا ہیں.یقینا سچی ہیں.سلسلہ تقویٰ کے معیار کو بڑھا کر سلسلے کے اموال خرچ کریں.69 جھوٹ اور شرک دراصل ایک ہی جڑ کے درخت ہیں.77 دعوت الی اللہ کے متعلق امور نہ بھولیں ، ان کے بھولنے سے شرک 89 93 جماعت بھی بھول جائے گی.داعی الی اللہ تو اپنے گھر کے حالات بھول جاتا ہے.دنیا ایک احمدی کو شہید کرتے ہیں تو ہزاروں لوگوں کو احمدی بنا ئیں 61 دنیا کے سب احمدیوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مقام اور مرتبے کو شادی سمجھیں.249 بدنصیب اور بد بخت ہیں وہ شادیاں جن میں بلانے والے غریبوں بیماروں کی دنیا میں صحت مند قانون چلا بھی تو نہیں کرتے.441 کو نہ بلائیں.جماعت احمدیہ ہی خدا کی وہ آخری جماعت ہے جس کے ساتھ دنیا کی بقا وابستہ ہے.461 مستقل مزاجی بھی صبر کا ایک حصہ ہے.422 62

Page 498

485 عورت ع ، غ اسلام عورت کو زیادہ بلند مقام دیتا ہے.عبادت جو لوگ اپنے بچوں کی عبادت کا خیال نہیں کرتے.ان کی اولادیں لازماً ہلاک ہو جایا کرتی ہیں.عبادت میں ہی سب کچھ ہے.عبادت ایسی چیز ہے جو از خود کھڑی نہیں ہوتی.عہدیداران امراء اور عہدیداران خلافت کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں.1 عہد یداران دعوت الی اللہ کے باغ اور کھیت لگا ئیں.90 عہدیداران بعض افراد جماعت سے احیائے موتی کا کام لیں.90 48 عہدیداران کو خلیفہ وقت کی نصیحت کو معمولی انداز میں نہیں لینا 36 چاہئے.92 39 امراء کو اپنے ماتحت عہدیداران کی تربیت کرنی چاہئے.200 عبادت کے بغیر حقوق العباد کی ادائیگی کا جذ بہ بھی پیدا نہیں ہو سکتا.عہدے ذمہ داریاں ہیں نہ کہ اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے.40 208 عبادت کے بغیر نہ اللہ سے تعلق قائم ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی مخلوق عہدیداران اپنا اور اپنے کا موں کا اور اپنے طریقہ کار کا محاسبہ ہے.41 کریں.212 عبادت نظام جماعت کی غلام نہیں ہوگی بلکہ نظام عبادت کا غلام خدا کے فضل سے اگر جماعت کے تمام عہدیداران نہیں تو بھاری ہوگا.42 اکثریت متقی ہے.خدا کا کام خدا کی عبادت کرنے والے ہی ادا کرنے کا حق رکھتے چالا کیاں کر کے عہدے لینا یہ عظمت نہیں ہے.ہیں.44 زیادہ سے زیادہ عہدیدار امین بنیں.224 252 260 439 جماعت احمدیہ میں سب سے اہم کام عبادت کو قائم کرتا ہے.63 کسی امارت پر فائز ہونا کوئی معمولی امر نہیں ہے.سارا مالی نظام جو جماعت احمدیہ کا جاری ہے وہ اعتماد اور دیانت کی امیر کا فرض ہے کہ ان سب تقاضوں کو پورا کرے جو امیر کے اوپر وجہ سے جاری ہے.علم سارے علموں کا سر چشمہ خدا ہے.115 95 لازماً عائد ہوتے ہیں.444 امیر سے مراد ہر وہ شخص ہے جسے کچھ بھی امرسونپا جائے.450 عاملہ جماعت احمدیہ کو وسیع علم کی بنیاد پر قائم دینی علم کو فروغ دینا با اخلاق ، با ادب ، باتمیز.چاہئے.عجزه 112 غلام آپ نے عبادت کا غلام بننا ہے تو زندگی پانی ہے.211 44 بڑائیوں کے بیان میں عاجزانہ طریق اختیار کرنا چاہئے.124 غلط نہی اگر آپ اپنے حقوق اور فرائض سے واضح طور پر آگاہ ہوں تو کسی کو

Page 499

486 غلط فہمی اور نا اتفاقی کے بیج بونے کی جرات نہیں ہو سکتی.1 کارکن فیصلہ کر لیں کہ انہوں نے سلسلہ کی ملازمت کرنی ہے یا غناء غناء کے نتیجے میں غریب سے شفقت پیدا ہوتی ہے.111 فرشتے ف 43 نہیں کرنی.ہماری جماعت کا کارکن وہ مادہ ہے جس کا معیار بڑھانا ضروری ہے.192 گ ، گھ ہرانسان پر فرشتوں کے پہرے بیٹھے ہوئے ہیں.88 گھر قوم ق،ک اللہ کے ذکر کو گھروں میں کثرت سے بلند کرو.35 اگر کوئی گھر ایسے ہیں جو مسجد میں نہیں آتے تو گھروں میں جائیں ہمیں ہر قومی سردار کی عزت کرنی چاہئے.25-19 اور گھر والوں سے ملیں.دنیا میں کوئی قوم اپنی عقل پر انحصار کر کے زندہ نہیں رہ سکتی.48 جو گھر ذکر الہی سے خالی ہے وہ ایک ویرانہ ہے.36-35 36 جھوٹی قو میں کمزور ہوتی ہیں.کوئی قوم دنیا میں ترقی نہیں کر سکتی اگر اس کے اندر جھوٹ کی بیماری اپنے گھر میں اچھے مزاح کو جاری کریں.152 گھر میں نماز پڑھنے کے سلسلہ میں ایک نابینا صحابی کا واقعہ.45 موجود ہو.110 173 اپنے گھروں میں کبھی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے نظام جو قومیں فحشاء میں مبتلا ہیں ان سے مالی قربانی کی تو فیق چھین لی جماعت کی تخفیف ہوتی ہو.جاتی ہے.116 368 اپنے گھروں کو صفات الہی اور ذکر الہی سے سجائیں.317 وہ قو میں جو اپنی خوبیوں کی حفاظت نہیں کرتیں.وہ خوبیاں پھر بدیوں میں تبدیل ہو جایا کرتی ہیں.قحط الرجال 419 لجنہ اماء الله ل لجنہ گھروں میں نماز کو قائم کرنے کے طریقے سمجھائے.66 دنیا کے کسی دور میں بھی قحط الرجال نام کی کوئی چیز نہیں ہے.84 تحریک جدید دفتر سوم لجنہ اماءاللہ کے سپرد.خدا کے بہادر بندوں کے سامنے قحط الرجال نام کی کوئی چیز نہیں 358 ہوتی.قرآن کریم قرآن کریم سکھلانے کے طریق.قناعت قناعت کا واقفین سے بڑا گہرا تعلق ہے.کارکن 85 132 110 مومن مومن کی زندگی کے وجود کا تقوی ایک لازمی حصہ ہے.192 مومن کے وقت کی بڑی قیمت ہے.مجذوب 234 مجذوب وہ پاگل ہے جس کے پاگل پن میں بھی خدا سے تعلق کے تمام کارکن نماز کے فریضے کی ادائیگی سے پیچھے نہ رہیں.43 آثار ظاہر ہوں.196

Page 500

487 محاسبه ہر اچھی بات میں ہر نیکی میں دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش عہدیداران اپنا اور اپنے کاموں اور اپنے طریقہ کار کا محاسبہ کریں کرو.مرد 213 نیت 363 مرد اپنی بیویوں کو نماز کا پابند کریں.مزاح مزاح کے اندر پاکیزگی ہونی چاہئے.مسائل 49 110 سب سے پہلے اپنی نیت کو درست کریں.نماز 100 ہمیں غیر معمولی جہاد کی روح کے ساتھ نماز کے قیام کی کوشش کرنی چاہئے.34 اصل زینت تو وہ ہے جو نمازوں کے ساتھ پیدا ہوتی ہے.35 مسائل سوائے اس کے حل نہیں ہو سکتے کہ آنحضرت سے آپ کے نماز کے قیام کے بغیر ہم دنیا کی تربیت کرنے کے اہل نہیں اخلاق سیکھے جائیں.422 ہو سکتے.نماز کی تلقین میں صبر اور دوام اختیار کرنا چاہئے.35 36 39 اس ملک میں جماعت احمدیہ کی مسجدوں کو ویران کیا جاتا ہے تو نماز کی طرف توجہ دلانا ہمارا اولین فرض ہے.ہزاروں ملکوں میں جماعت احمدیہ مسجدیں بنائے.61 نمازوں کے بغیر تم زندہ نہیں ہواور نہ ہی زندہ رہ سکتے ہو.42 گھر میں نماز پڑھنے کے سلسلہ میں ایک نابینا صحابی کا واقعہ.45 ناشکری ن نماز میں تھکنے کی کوئی گنجائش ہے.یہ بات ناشکری میں داخل ہے کہ کسی نعمت کی بے قدری کی جائے تمام قرآن میں سب سے زیادہ ذکر نماز پر ہے.نصیحت 155 نماز سکھلانا پڑھانا والدین کا کام ہے.نماز کا ترجمہ سیکھنے کی اہمیت.62 62 64.63 63 صرف ایک دفعہ یا دو دفعہ کی نصیحت کافی نہیں.98 اپنی بھائیوں اور والدین کو بھی نماز پر قائم کرنے کی کوشش کریں.نصیحت کے لئے رحمت ضروری ہے.270 سے باندھی کرنی نصیحت رحمت سے باندھی جانی چاہئے اس کی جڑیں رحمت میں اصل تربیت تو نماز نے کرنی ہے.271 نمازوں کے اوپر مزید گہری توجہ کی ضرورت ہے.66 128 129 پیوستہ ہونی چاہئے.محض نصیحت سے انسان کا دل حقیقت میں نہیں پگھل سکتا.422 سب سے بنیادی بات یہی ہے کہ ہم اپنی جماعت کو مکمل طور پر نماز نیکی پر قائم کردیں.160 بہت سی ایسی نیکیاں ہیں جو حفاظت چاہتی ہیں اور مسلسل حفاظت وہ لوگ جو نمازوں میں ست ہیں بہت بڑے محروم ہیں.257 چاہتی ہیں.286 نماز کی حفاظت سب سے بڑی اور اہم نصیحت ہے.269

Page 501

488 نماز سے ایسا تعلق باندھنا ضروری ہے کہ دیگر تعلقات اس کے ہ.ھ.۶.یے مقابل پر بیچ ہو جائیں.289 ہدایات وہ نماز جس پر ذکر اللہ غالب آجاتے ہیں وہی اکبر ہے.379 خلیفہ وقت کی طرف سے دی گئی ہدایات کو بھلانا نہیں چاہئے.88 بغیر نماز کے انسان مردہ ہے اس میں کوئی بھی جان نہیں.455 ہلاکت نظام انسان کے لئے سب سے بڑی ہلاکت یہ ہوا کرتی ہے کہ اسے بہت ضروری ہے کہ نظام کا احترام سکھایا جائے.116 اپنے گھر میں کبھی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے نظام جمات کی تخفیف ہوتی ہو.116 وہ لوگ جو نظام جماعت سے تبصرے کرنے میں بے احتیاطی کرتے ہیں ان کی اولادوں کو کم و بیش ضرور نقصان پہنچتا ہے.نظام جماعت میں تو کوئی ڈکٹیٹر ہو ہی نہیں سکتا.نظام جماعت تو ایک لاثانی نظام ہے.116 209 210 والدین و ماں باپ بچوں سے کبھی مستغنی نہیں ہو سکتے.وفادار 413 سچا وفا دار وہ ہوا کرتا ہے جو خدا تعالی کی جماعت پر نظر رکھے اس کی صحت پر نظر رکھے.وقف زندگی کا وفا سے بہت گہرا تعلق ہے.وقف نو 117 118 خدا کے حضور بچے کو پیش کرنا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہے.107 دیانت اور امانت کے اعلی مقام تک ان کو پہنچانا ضروری ہے.110 اچھے بُرے کی تمیز نہ رہے.47

Page 502

489 بخاری.امام.عبد اللہ بن مسعودؓ.بہادر شاہ ظفر اسماء اشخصیات اشاریہ سبیل الرشاد جلد سوم عائشة جبریل.347 خدا بخش ملک.348 عطاء الرحمن ملک.محمد صلی اللہ علیہ وسلم 348 انس 372-353-348 عبداللہ بن ابی طوفہ -401-400-398-394-393-391-390-389 برنارڈ شا.-380-367-424-421-420-410-408-407 ظاہر بن حرام.محمد صلی اللہ علیہ وسلم 406-405-403-402 بشیر احمد طاہر ( صدر انصار اللہ سوئٹزرلینڈ ).45-32-24-23-22-13 اسماعیل.-174-167-158-150-139-137-108-104 ضیاء الحق (صدر پاکستان ) 131-128-125-122-46-252-246-245-244 عبدالسلام.صاحبزادہ.417 417 419 419 465-419 420 477 423 431 473 445 282 80 5 241-239-237-236-224-215-205-204-300 عطاء اللہ چوہدری.319-318-316-315-313-278-277-271 سال بزرگ سائیکل سوار.سہیل.رض خدیجہ.واسطی.موسی.ابوہریرہ.حضرت مسیح موعود.نعمان بن بشیر ابن عمر 270-263-259-255 ابراہیم علیہ السلام.349 352-351 میر درد.عبدالرشید صاحبزادہ.93-90 218-214 281 376 علی محمد تھر پار کر کے 75 سالہ بزرگ سائیکل سوار.6-19 385-383 منصور احمد.ڈاکٹر 388 465-421-418-392 469-396 398 ابوبکر.عمر.عثمان - علی.416 مالک.امام.28 229 229 229 229 208

Page 503

490 ابراہیم.277 شمس الدین.درویش.نوح.آدم.محمد الدین.حضرت مولوی.277 277 6 بشیر احمد مرزا.شیر علی مولوی.سرورشاہ مولوی.عیسی.219 محمد شفیق قاضی.ماٹن.9 محمد الیاس.نصرت مولوی.موسی.94-26 حامد اللہ خاں.ڈاکٹر.فرعون.یوسف.زلیخا.بشیر الدین مرز امحمود احمد غلام رسول را جیکی محمد صادق مفتی.94 441-330-327-326-14 دلاور خان.خان بہادر.ہاشم جان محمد.صاحبزادہ.326 غلام حیدر مرزا.197-23 مقصود احمد مرزا.197 احمد خان.کرنل صاحبزادہ.197 281 سیف الرحمن.صاحبزادہ.محمد دانش مند منشی.عمر علی ملک.سلیمان.محمد اسلم.چوہدری ( ناظم انصار اللہ ).عبدالقیوم.صاحبزادہ.شاہ نواز.چوہدری.محمد علی خان.نواب.نینوگا ٹیری.پروفیسر.عبدالحمید صاحبزادہ.ابوبکر عبدالطیف شہید.ہٹلر.سلمان.چرچل.راغب.امام.ظفر اللہ خان چوہدری.118-117 محمد اکرم درانی.123 محمد ہاشم خان.281 فتح محمد سیال.چوہدری.123 281 140 فقیر محمد خان.محمد علی خاں.بنگش بہادر.محمد خوامی خان.281 عبد القیوم خان آف شیخ محمدی عبدالقیوم خان.آف 158 محمد جان.قاضی.283-281-279 آدم خان (امیر مردان ) 170 غلام محمد صوفی.335-334 عبدالطیف آف ڈیوٹی.صاحبزادہ.ڈیوٹی.صاحبزادہ.170 امتہ الباری ناصر.(ایم ٹی اے کے متعلق شعر ) 342-141 190 حسرت (شعر) جسوال برادران.196-195 196 197 197 283 283 283 283 283 283 283 283 283 283 283 283 283 283 283 283 284 284 284 284 284 305 305 309-305

Page 504

491 خمینی.محمد یوسف فاروقی.قاضی.مبارک احمد.مرزا.21-20-19-15 سید احمد شاہ.حضرت.283 17 حبیب اللہ.حضرت مولوی.محمد سکی ،حضرت مولوی.بشیر احمد رفیق (امام مسجد لندن ) 283 سعید احمد.ڈاکٹر (امیر لاہوری جماعت) عیسی.مسعود احمد قاضی.یسوع.محمد عبد اللہ خاں.نواب.اسلم ، راجہ.دلاور خاں.محمد اکرم.محمد اکبر.احیاء الدین.جنرل.محمد علی خان.عادل شاہ ، ملک.امیر اللہ خان.عبدالحمید خاں.ابوالخیر عبداللہ.حضرت مولوی.عبدالقادرخان.خان بہادر قاضی.محمد حسن.قاضی.غلام حسن پشاوری.حضرت.بشیر احمد مرزا.عبدالرحمن قاضی.غلام حسین خان.مولانا.23-22 محمد سرور شاہ.283 23 33 34 282 282 282 282 282 282 282 282 282 283 283 283 283 283 283 283 283 283 283 283

Page 505

مقامات 492 بدین.324 آیا برما.318 آزاد کشمیر.آسٹریلیا.آندھراپردیش.آئیوری کوسٹ.395 89 بنگلا دیش (بنگال ( 143-280-284-318-339-360 بوسینیا.352 بہاولنگر.395 بيلجيئم 400-262 324 374-366 اٹک.اٹلی.اُڑیسہ.274 پ.پھ 262 پاکستان 55-53-32-31-30-18 100-77-70-69-57-142-139-135-132- 360-207-206 131-129-105-103-232-202-189-188- 445 183-176-173-169-162-155-148-147-143- 338-296-55 324-318-308-305-304-303-302-296- 283 269-254-248-245433-421-415-399- 365-364-362-354-353-352-339-338- 399-366-232-171-132-130-123-113-106-30 283 پشاور.73 پشاور کے صحابہ 324-284-283 پنجاب 136-168-280-281-284-324-339-340 احمد نگر.اسلام آباد.اسما عیلیہ.افریقہ.افغانستان.امریکہ (یو.ایس.اے) 254-222-220-212-162-125120-113-70-27 -287-285-410-375-374-366-365-318 پورٹ لینڈ.300-299-294-293-289-288 پیڈ رو آباد.27 پھول پورہ.اندلس.انڈونیشیا.انگلستان (یوکے.لندن) 365-36 تامل ناڈو.177-169-155-148-141-122-103-70-27-20-9-1 تنگے براہ.461-426-424-418-409-365-318-309-284-230-183 تھر پارکر.اوکاڑہ.ایبٹ آباد.ایشیاء.بازید خیل.بانڈی ڈھونڈ واں.360-30-5-4 283 114-113 ٹرینڈاڈ.تنزانیہ.تھائی لینڈ.283 ٹوپی.283 ٹوکیو.125 274 54-53 352 282 6 339 367 366 284 366

Page 506

34 366 روس.زیمبیا.سیش 493 318-312 95-87-27-21 چچچ جاپان.جرمنی.56-236-185-184-177-175-173-172-170 سان فرانسسکو.306-305-169-366-365-318-315-314 ساؤتھ افریقہ.433-429-304-302-301-274-310-308 ساہیوال.162 352 386 352-274-266-28-27-26-25-21-6 -354-352-476-471-466-462-459-437- -428-426-418-364 سرحد - (خیبر پختونخواه ) 284-283-282-281-280-274-273 395-360-9 386 386 431-53 431-366-365 87-27 340-339-338-280-123 91 283 284 5 273-272 278-91 366-360-355 360 395-366-27 310 366 324 395-5 سرگودھا.304 سری لنکا.جہلم.جھنگ.جیکب آباد.چک نمبر چہور.چیکوسلوا کی.حدیہ 5_117 5 165 353 سندھ.سوئٹزرلینڈ سویڈن.حیدر آباد.166 سیالکوٹ.دیو سیلون.دیپ گراں.283 شکا گو.ڈزنی لینڈ.ڈنمارک.ڈیرہ اسماعیل خان.ڈیرہ غازی خان.راجن پور.راولپنڈی.ربوہ.رز 120 شیخ محمدی.87-27 شیخوپورہ.284 360 360 352-324-5 طائف.عرب.غانا.فيق 34-19-18-5-3-2 نجی.104-103-102-101-100-54-52-51-50-35 فرانس.-305-304-303-302-297-148-142-137-136-105 فرینکفرٹ.رحیم یارخان.رشکی.324 283 فلسطین.قادیان.

Page 507

45 284-283 386 410 395 324 432-169-91-87 324 324 125 141-125 0-9 126-125 91 122-87 283 348 494 مل بینہ.مردان.مظفر گڑھ.ملتان.میر پور.208-195-194-124-102-64-34-23-11 339-247 386 310 310 نارووال.ناروے.نوابشاہ.324-301-9 352 366-262 نوشہرہ فیروز.360 نیوجرسی.283 نیویارک.واشنگٹن.352-338 162 قصور.کریگ کاسل.کالفرور.کراچی.کرنا ٹک.کوریا.کولون.کوہاٹ.کیرالہ.کیلی فورنیا.کینیڈا.140-222-281-365-432-433-434 ویت نام.ہالینڈ.ہزارہ.ہمالیہ.ہندوستان.(بھارت) 207-206-190-188-183-143-132-130-110-102-79-72-31 385-374-365-360-352-341-339-338-324-248-247- 284 386-310 338 28-26-25-20-19-16-14-9 ہوتی.ہیمبرگ.یار گیر.یورپ.یوگینڈا.459-426-321-222-221-220-212-118-113-102-87-79 284-281-280-274-273 123 324 324 339 395-376-374-366 367-366 162-125 338-33-14 283-282 338-324 366 365-188 386 283 کینیا.گجرات.گوجرانوالہ.گورداسپور.گوئٹے مالا.گیمبیا.ل لاس اینجلس.لاہور.لد ہیانہ.لودھراں.لیتھوانیہ.من ماریشس.مانچسٹر.مٹھا.

Page 507