Sabeel Ur Rashad Vol 2

Sabeel Ur Rashad Vol 2

سبیل الرّشاد (جلد دوم)

مجلس انصاراللہ کے متعلق خطابات ، ارشادات اور فرمودات
Author: Hazrat Mirza Nasir Ahmad

Language: UR

UR

حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے مجلس انصار اللہ کے متعلق خطابات، ارشادات اور فرمودات کا یہ مجموعہ  ہے۔ دراصل جولائی 1940ء میں مجلس انصارا للہ کی بنیاد رکھنے سے لیکرمجلس انصاراللہ کو خلفائے احمدیت کی توجہ اور رہنمائی میسر ہے تا تعلیم قرآن وحکمت، تبلیغ اور خدمت خلق سے دین و انسانیت کی نصرت کا سفر جاری رہے اور مجلس انصاراللہ کے ممبران اپنے عمدہ ذاتی نمونہ، اور تربیت اولاد کے فریضہ کو احسن ترین رنگ میں بجا کر جماعتی ترقی کی رفتار میں اضافہ کرنے والے ہیں۔ زیر نظر مجموعہ میں انصاراللہ کے اجتماعات اور تربیتی کلاسز سے خطابات کو شامل کرکے ایک ضخیم و مفید مجموعہ تیار کیا گیا ہے جس کے آخر پر تفصیلی انڈیکس بھی موجود ہے۔


Book Content

Page 1

محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں Majlis Ansarulah CELEBRATING 75 1940-2015 | YEARS سبیل الرشاد جلد دوم (اضافہ جات کے ساتھ ) شتل خطابات، ارشادات اور فرمودات حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحم اللہ تعالیٰ

Page 2

صرف احمدی احباب کے لئے کی وَقَالَ الَّذِي آمَنَ يُقَوْمِ اتَّبِعُوْنِ أَهْدِكُمْ سَبِيلَ الرَّشَادِنَ سبیل الرشاد لالتهـ جلد دوم (اضافہ جات کے ساتھ ) (المؤمن:۳۹) شتل خطابات، ارشادات اور فرمودات حضرت خلیفہ این اثاث رحم اللہ تعالی

Page 3

نام کتاب سن اشاعت طبع اول سبیل الرشاد جلد دوم $2006 تعداد اشاعت طبع دوم تعداد اشاعت 1000 20 رفروری 2015 ء (اضافہ جات کے ساتھ ) 1000

Page 4

iii پیش لفظ طبع ثانی اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق تیرھویں صدی ہجری کے آخر اور چودھویں صدی کے ابتدائی زمانہ میں احیاء دین اور تعلیم کتاب و حکمت کی غرض سے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعود اور مہدی موعود بنا کر بھیجا.الہی منشاء کے مطابق آپ کی وفات (1908ء) کے بعد خلافت علی منہاج النبوت کا نظام پھر سے جاری ہوا جس نے دور خلافت راشدہ کی یاد تازہ کر دی.جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے جولائی 1940 ء میں مجلس انصار اللہ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد تعلیم قرآن و حکمت، دعوت الی اللہ اور خدمت خلق سے دین حق کی نصرت ، اپنے عمدہ نمونہ اور تربیت اولاد کے ذریعہ جماعت کو ترقی کے میدان میں آگے بڑھانا تھا.اس مقصد کے حصول کے لئے خلفائے احمدیت مسلسل راہنمائی فرماتے رہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ایسے ہی راہنما ارشادات پر مشتمل سبیل الرشاد جلد اول جون 1996 ء میں اور حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کی ہدایات پر مشتمل جلد دوم طبع اول 2006ء میں شائع ہوئی.سبیل الرشاد کی جلد دوم کے طبع اول میں حضرت خلیفتہ المسح الثالث" کے مجلس انصاراللہ مرکز یہ کے سالانہ اجتماعات یا تربیتی کلاسز کے خطابات کو شامل کیا گیا تھا.زیر نظر سبیل الرشاد جلد دوم کے طبع ثانی میں حضرت خلیفۃ اسیح الثالث" کے 17 سالہ دورِ خلافت کے دوران خطبات وخطابات میں انصار اللہ سے متعلق بیان فرموده ارشادات و فرمودات پر مشتمل قریباً یکصد صفحات بطور ضمیمہ شامل کئے جارہے ہیں.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے اپنے ان ارشادات میں جہاں انصار اللہ کو جانے والوں کے قائمقام پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی وہاں تربیت کی ذمہ داری بھی ان پر ڈالی کہ وہ اپنے ماحول کو بداثرات سے محفوظ رکھیں.آپ نے انصار کو دینی کتب کی خرید کے لئے کلب بنانے اور گھروں میں فیملی کلاسز جاری کرنے کی تحریک فرمائی.انصار کو قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے ، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ اپنانے اور مسابقت فی الخیر کی روح اُجاگر کرنے اور تربیت کا ماحول پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی.جہاد کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انسانوں کی خدمت بھی جہاد فی سبیل اللہ ہے.حضور نے

Page 5

iv ربوہ میں درخت لگانے کا کام بھی انصار اللہ کے سپرد کیا.آپ نے ہر قدم پر دعا کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا." آج دنیا کو ضرورت ہے اس رحمتہ للعالمین کے جاں نثاروں کی جو دنیا کی بہتری کے لئے اپنی زندگیاں قربان کر رہے ہوں.ہمارا جو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں ویسے تو ہر کام ہی ، ہر منصوبہ ہی ، ہر کوشش اور ہر جد وجہد ہی بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہے لیکن ان تمام کوششوں اور ان تمام تدابیر کے علاوہ اس وقت دنیا کو ہماری دعاؤں کی بڑی ضرورت ہے." ( خطبات ناصر جلد اول صفحہ 589) خاکسار اس سلسلہ میں تعاون کرنے والے جملہ احباب کا ممنون ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.آمین مجلس انصار الله.کے لئے یہ امر باعث سعادت ہے کہ انصار اللہ کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر انصار کے لئے قیادت اشاعت کو سبیل الرشاد جلد دوم کی طباعت ثانی کا موقع مل رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس کتاب کو ہر لحاظ سے بہت بابرکت اور نافع الناس بنائے اور جملہ انصار کو عموماً اور عہدیداران کو خصوصاً اس سے کماحقہ استفادہ کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 6

V عرض ناشر طبع دوم آج دل اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز اور شکر سے لبریز ہے کہ وہ سبیل الرشاد جلد دوم کی طبع ثانی کی اضافہ جات کے ساتھ اشاعت کی توفیق دے رہا ہے.ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ ایڈیشن اول میں سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ان خطابات کو شامل کیا گیا تھا جو مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماعات یا تربیتی کلاسز پر آپ نے فرمائے.طبع ثانی میں انصار اللہ سے متعلق آپ کے اُن فرمودات اور ارشادات کو بھی شامل کیا جا رہا ہے جو آپ نے اپنے 17 سالہ دور خلافت میں اپنے خطبات جمعہ میں بیان فرمائے.اس کے لئے خطبات ناصر ، خطابات ناصر اور خطبات نکاح سے استفادہ کیا گیا ہے.طبع ثانی میں طبع اول کے صفحات کو قائم رکھا گیا ہے تا کسی جگہ حوالہ دیتے وقت صفحہ نمبر وہی رہے جو طبع اول میں ہے اور اضافہ جات کو بطور ضمیمہ افادہ عام کے لئے پیش کیا گیا ہے تاہم طبع اول میں پروف کی اغلاط درست کر دی گئی ہیں، حوالہ جات کو بہتر کیا گیا ہے اور آیات قرآنیہ و احادیث اور تمام عربی عبارات پر اعراب لگائے گئے ہیں تا قاری کو عربی پڑھنے میں آسانی رہے.نیز اشاریہ اور انڈیکس بھی تفصیل سے ترتیب دے دیا گیا ہے تا حوالہ یا کوئی ارشاد ڈھونڈ نے میں آسانی رہے.اللہ تعالی انڈیکس تیار کرنے والے ضمیمہ کے ارشادات کی تلاش اور پروف ریڈنگ میں تعاون کرنے والے تمام احباب کو اپنی جناب سے بہترین جزاء عطا فرمائے.بالخصوص مکرم نذیر احمد خادم صاحب دُعا اور شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے بہت محنت اور توجہ کے ساتھ پروف ریڈنگ کی.فجزاهم الله تعالى احسن الجزاء یہ علمی تحفہ قیادت اشاعت کی طرف سے 2015ء کی پہلی کاوش ہے جو ڈائمنڈ جوبلی ( DIAMOND JUBILEE) کا مبارک سال ہے.اللہ تعالیٰ ہماری اس کوشش کو قبول فرمائے اور انصار کے لئے افادہ کا موجب بنائے.آمین

Page 7

vi انصار ہر ایک کو معرفت کے مقام پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں انصار اللہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور تربیت کا پروگرام بنائیں اور ہر ایک کو معرفت کے مقام پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں.ٹھیک ہے ہر ایک نے اپنی استعداد اور اپنی قوتوں کے مطابق اس معرفت کو حاصل کرنا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ ہمارا ہر بچہ جو اپنے دائرہ استعداد کے اندر اپنے کمال کو نہیں پہنچتا وہ مظلوم ہے اور ہمارے اوپر اس کی ذمہ داری آتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کو ادا کریں.اللہ تعالی ہماری نوجوان نسل کو اور نئے آنے والوں کو یہ توفیق دے کہ وہ اپنے مقام کو سمجھیں جس طرح ایک اُبلنے والی دیگ جس کے اہلنے میں کچھ وقت لگتا ہے ایک دیگ جو اہل رہی ہے وہ بعض دفعہ آدھے گھنٹہ میں یا گھنٹے میں اس درجہ حرارت کو پہنچتی ہے لیکن اُس اُبلتی ہوئی دیگ میں دو قطرے ٹھنڈے پانی کے ڈالو تو ایک سیکنڈ میں اُبلنے لگتی ہے.اسی طرح ہمارے اندر بھی خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار کی اتنی گرمی ہونی چاہئے کہ اس کے مقابلے میں اُبلتے ہوئے پانی کی کوئی گرمی نہ ہو.باہر سے آنے والے ہمارے اندر شامل ہوتے ہیں یا ہماری جو نوجوان نسل ہے جب وہ بڑی ہو کر اپنی پہنی اور روحانی بلوغت کو پہنچتی ہے تو جس طرح ایک سیکنڈ یا اس کے ہزارویں حصے میں ٹھنڈے پانی کا قطرہ ابلنے لگتا ہے (جو اُبلتی دیگ میں ڈالا جائے ) اور حرارت کے بلند درجے کو پہنچ جاتا ہے اسی طرح یہ بھی خدا کی محبت اور پیار میں انتہائی طور پر گداز ہو جائیں.( خطبات ناصر جلد ششم صفحہ 25-26)

Page 8

vii پیش لفظ طبع اول خلافت ثالثہ کے بابرکت دور میں جہاں اللہ تعالیٰ کے بہت سے وعدے پورے ہوئے وہاں ہم نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور نشانات کو آسمانوں سے بارش کی طرح نازل ہوتے دیکھا.حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی پیدائش کی خبر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ” إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامِ نَافِلَةٌ لَّكَ“ کے الفاظ میں دی.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ممکن ہے کہ اس کی یہ تعبیر ہوکہ محمود کے ہاں لڑکا ہو کیونکہ نافلہ پوتے کو بھی کہتے ہیں.“ ( تذکره صفحه ۵۱۹) حضرت مصلح موعود نے جہاں جماعت احمدیہ میں خلافت کے استحکام کی ایک طویل جدو جہد فرمائی اور کامیابی حاصل کی وہاں آپ نے آنے والے خلیفہ کو یہ بھی خوشخبری دے دی.میں ایسے شخص کو جس کو خدا تعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر کھڑا ہو جائے گا....اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکرلیں گی تو ریزہ ریزہ ہو جائیں گی.“ (خلافت حقہ اسلامیہ صفحہ ۱۷) ۹ نومبر ۱۹۶۵ء کو جب وہ وجود مسعود خلافت پر متمکن ہوا تو دنیا نے اس کو ایک نئے روپ میں دیکھا.آپ نے خلافت پر متمکن ہوتے ہی جماعت احمدیہ کو یہ خوشخبری سنائی.میں جماعت احمدیہ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ آئندہ چھپیں تمہیں سال جماعت احمدیہ کے لئے نہایت اہم ہیں کیونکہ دنیا میں ایک روحانی انقلاب عظیم پیدا ہونے والا ہے.میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کون سی خوش بخت قو میں ہوں گی جو ساری کی ساری یا ان کی اکثریت احمدیت میں داخل ہوں گی اور وہ افریقہ میں ہوں گی یا جزائر میں یا دوسرے علاقوں میں لیکن میں پورے وثوق اور یقین کے ساتھ آپ کو کہہ سکتا ہوں کہ وہ دن دور نہیں جب دنیا میں ایسے ممالک اور علاقے پائے جائیں گے جہاں کی اکثریت احمدیت کو قبول کرلے گی.“ ( روزنامه الفضل ربوه ۹ جنوری ۱۹۶۶ء) ۱۹۷۴ ء کے پُر آشوب دور میں جب جماعت احمدیہ کے مخالفین کو پس پردہ حکومتوں کی حمایت حاصل تھی اور دنیوی آنکھ دیکھ رہی تھی کہ یہ جماعت اپنی زندگی کی آخری چکی کب لیتی ہے اور حاکم وقت جماعت احمدیہ کے ہاتھوں میں کشکول پکڑوانے کے دعوے کر رہے تھے.اس ابتلاء اور آزمائش کے موقع پر آپ نے غم زدہ اور زخم خوردہ احمد یوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.

Page 9

viii فرماتے ہیں: د مسکراؤ مسکراؤ اور مسکراتے چلے جاؤ کسی ماں نےایسا بچہ نہیں جنا جو ہماری مسکراہٹیں چھین سکے آپ کے دل میں احباب جماعت کے لئے جو پیار و محبت کا سمندر موجزن تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے دنیوی لحاظ سے وہ تلخیاں جو دوستوں نے انفرادی طور پر محسوس کیں وہ ساری تلخیاں میرے سینے میں جمع ہوتی تھیں.ان دنوں میں مجھ پر ایسی راتیں بھی آئیں کہ میں خدا کے فضل اور رحم سے ساری ساری رات ایک منٹ سوئے بغیر دوستوں کے لئے دعا کرتا رہا ہوں.“ (جلسہ سالانہ کی دعائیں صفحہ ۹۷) خلیفہ وقت کے دل میں احباب جماعت کے لئے اور احباب کے دلوں میں خلیفہ وقت کے لئے محبت کا جو جذ بہ موجزن ہوتا ہے اُس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” خلیفہ وقت کے دل میں اللہ تعالیٰ احباب جماعت احمدیہ کے لئے اس قدر شدید محبت پیدا کرتا ہے کہ دنیا اس کا اندازہ نہیں کر سکتی اور جماعت کے دل میں اس کے لئے ایک ایسی محبت پیدا کرتا ہے جو دنیا کی عقل کو حیران کرنے والی ہو اور جب ان دو محبتوں کی آگ اکٹھی ہوتی ہے تو سارے وجود غائب ہو جاتے ہیں اور سارے مل کے ایک وجود بن جاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک طرف ایک وہ دل ہوتا ہے کہ جماعت کے ہر فرد کے دکھ میں برابر کا شریک اور ان کی پریشانیوں میں برابر کا حصہ دار.انسان کے ساتھ پر یشا نیاں لگی ہوئی ہیں اس لئے آپ میں سے ہر شخص کسی نہ کسی وقت ضرور پریشان ہوا ہو گا اور آپ میں سے ہر شخص یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ آپ ایک کی پریشانی نے آپ کو کتنا پریشان کیا.وہ اس پریشانی کے وقت کس قدر پریشان ہوا.تو وہ دل جو ہر پریشان دل کے ساتھ اسی طرح پریشان ہوا اور جس نے ہر دُ کھ اٹھائے جانے والے بھائی کے ساتھ ویسا ہی دُکھا اٹھایا اس دل کی کیا کیفیت ہوگی.“ (کتاب ہذا صفحه ۷۲-۷۳) آپ نے بنی نوع انسان کی عزت اور احترام کو قائم کرنے کے لئے جہاں خود جد و جہد کی وہاں جماعت احمدیہ کو یہ لائحہ عمل دیا کہ LOVE FOR ALL HATRED FOR NONE محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں.خدا اور اس کے رسول اور قرآن کی محبت آپ کی روح کی غذا تھی.اس محبت کو تمام بنی نوع انسان میں پیدا کرنے کے لئے آپ ساری زندگی سرگرم عمل رہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: " حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات وصفات، آپ کی انسانی خدمات ، آپ کا احسان اور وہ حسن جو خدا نے آپ کے اندر پیدا کیا وہ اس بات کا شاہد ہے کہ جب کوئی چیز محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی صفت یا خوبی کے یا آپ کے کسی حسن و احسان یا آپ کے کسی نور کے مقابلہ میں آئے گی تو دھتکار دی جائے گی.قرآن کریم نے کہا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ تو.

Page 10

ix کے احسانوں کو گنا چا ہو تو نہیں گن سکو گے.بارش کے قطرے گنے جاسکتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کے احسانات اور اس کی نعمتوں کو نہیں گنا جا سکتا.خدا تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک وجود ہم پر احسان کرنے کے لئے ، خدا کے حسن کے جلوے اپنی زندگی میں ہمیں دکھانے کے لئے مبعوث کیا تھا.“ (کتاب ہذا صفحه ۲۵۱) پھر قرآن کریم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: " قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے.اس لئے اس سے پیار کریں..قرآن کریم کی عظمت کو ہم نے خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا.قرآن کریم کی عظمتوں کو اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کیا.ہم نے قرآن کریم کی مٹھاس اپنی زبان سے چکھی.اس کی سریلی آواز کو ہمارے کانوں نے سنا.اس کی نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی خوشبو کو ہمارے ناکوں نے سونگھا.ہمارے سارے حواس اس کی عظمت کے قائل اور اس کی بڑائی کے مداح ہیں.اس کو ہم نہیں (کتاب ہذا صفحه ۲۵۰) حضرت خلیفہ المسح الثالث" نے اپنے دور خلافت میں جماعتی اور ذیلی تنظیموں کو تیز تر کرنے کے لئے ہدایات فرما ئیں اور مجلس انصار اللہ کو اپنی ذمہ واریوں اور فرائض کی طرف بار بار توجہ دلائی کہ اللہ اور رسول اور قرآن کریم کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کریں.کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت کریں.اُن کا مطالعہ کریں کہ چھوڑ سکتے.“ آئندہ آنے والے ہزار سال کے لئے ضروری علوم اور پیدا ہونے والے مسائل کا حل ان میں بیان ہوا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث" کے انصار اللہ سے متعلق خطابات اور ارشادات کو مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب نے سبیل الرشاد جلد دوم کے نام سے ترتیب دیا ہے جسے مجلس انصار اللہ شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے خدا کرے کہ تمام انصاراس روحانی مائدہ سے استفادہ کرنے کی توفیق پائیں.وباللہ التوفیق! خاکسار

Page 11

X قرآن کریم سیکھنا اور سکھانا انصار اللہ کی ذمہ داری ہے "انصار اللہ کو آج میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے طوعی اور رضا کارانہ چندوں کی ادائیگی میں مست ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو چست ہو جانے کی توفیق عطا کرے) لیکن مجھے اس کی اتنی فکر نہیں جتنی اس بات کی فکر ہے کہ آپ ان ذمہ داریوں کو ادا کریں جو تعلیم القرآن کے سلسلہ میں آپ پر عائد ہوتی ہیں.قرآن کریم کی تعلیم کے سلسلہ میں آپ پر دو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ایک ذمہ داری تو خود قرآن کریم سیکھنے کی ہے اور ایک ذمہ داری ان لوگوں ( مردوں اور عورتوں ) کو قرآن کریم سکھانے کی آپ پر عائد ہوتی ہے کہ جن کے آپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق راعی بنائے گئے ہیں.آپ ان دونوں ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جلد تر ان کی طرف متوجہ ہوں ہر رکن انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کی ذمہ داری اُٹھائے کہ اس کے گھر میں اس کی بیوی اور بچے یا اور ایسے احمدی کہ جن کا خدا کی نگاہ میں وہ راعی ہے قرآن کریم پڑھتے ہیں اور قرآنِ کریم کے سیکھنے کا وہ حق ادا کرتے ہیں جو حق ادا ہونا چاہئے اور انصار اللہ کی تنظیم کا یہ فرض ہے کہ وہ انصار اللہ مرکزیہ کو اس بات کی اطلاع دے اور ہر مہینہ اطلاع دیتی رہے کہ انصار اللہ نے اپنی ذمہ داری کو کس حد تک نبھایا ہے اور اس کے کیا نتائج نکلے ہیں" ( خطبات ناصر جلد دوم صفحہ 564)

Page 12

صفحہ لا ۳۹ ۵۳ ۸۱ ۹۱ ۱۱۹ ۱۴۵ ۱۷۳ ۱۹۱ ۱۹۵ ۲۱۱ ۲۲۱ xi فهرست عناوین طبع اول نمبر شمار عنوان فرموده 1 افتتاحی خطاب ۲۸ اکتوبر ۱۹۶۶ء اختتامی خطاب ۳۰ /اکتوبر ۱۹۶۶ء کراچی کے اجتماع سے خطاب ے جولائی ۱۹۶۷ء افتتاحی خطاب ۲۷ /اکتوبر ۱۹۶۷ء اختتامی خطاب ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۷ء ۶ افتتاحی خطاب ۲۵ /اکتوبر ۱۹۶۸ء 2 اختتامی خطاب ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۸ء افتتاحی خطاب ۲۴ اکتوبر ۱۹۶۹ء ۹ اختتامی خطاب ۲۶ اکتوبر ۱۹۶۹ء 1.افتتاحی خطاب ۲۳ اکتوبر ۱۹۷۰ء 11 اختتامی خطاب ۲۵ اکتوبر ۱۹۷۰ء ۱۲ افتتاحی خطاب ۱۵ اکتو برا ۱۹۷ء ۱۳ | اختتامی خطاب ۱۷ راکتو برا ۱۹۷ء ۱۴ افتتاحی خطاب ۱۷/ نومبر ۱۹۷۲ء

Page 13

۲۳۵ ۲۵۹ ۲۷۵ ۲۹۷ ۳۱۹ ۳۳۳ ۳۵۵ ۳۶۹ ۳۸۹ ۳۹۳ ۴۰۱ ۴۱۱ ۴۲۳ ۴۴۱ ۴۵۵ xii ۱۵ اختتامی خطاب ۱۹/ نومبر ۱۹۷۲ء ۱۶ افتتاحی خطاب ۹ نومبر ۱۹۷۳ء ۱۷ اختتامی خطاب ۱۱/ نومبر ۱۹۷۳ء ۱۸ اختتامی خطاب ۱۱ را پریل ۱۹۷۶ء ۱۹ افتتاحی خطاب ۲۸ /اکتوبر۱۹۷۷ء ۲۰ اختتامی خطاب ۲۱ افتتاحی خطاب ۲۲ اختتامی خطاب ۳۰/اکتوبر۱۹۷۷ء ۲۷ اکتوبر ۱۹۷۸ ۲۹ /اکتوبر ۱۹۷۸ء ۲۳ | افتتاحی خطاب ۲۶/اکتوبر ۱۹۷۹ء ۲۴ اختتامی خطاب ۲۸ اکتوبر ۱۹۷۹ء ۲۵ | افتتاحی خطاب ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۰ء ۲۶ اختتامی خطاب ۲ نومبر ۱۹۸۰ء ۲۷ کراچی کے اجتماع سے خطاب ۲۱ / اگست ۱۹۸۱ء ۲۸ افتتاحی خطاب ۲۹ اختتامی خطاب ۳۰ / اکتوبر ۱۹۸۱ء یکم نومبر ۱۹۸۱ء

Page 14

نمبر شمار xiii فہرست عناوین ضمیمہ طبع دوم عنوان 1965 صفحہ 1 3 6 حضرت مسیح موعود نے دعا کی.اے میرے رب ! مجھے انصار دے تا کہ تیرے کام 473 بخیر وخوبی چلائے جاسکیں دوستوں کو ماہنامہ انصار اللہ کی خریداری کی طرف توجہ کرنی چاہئے 474 ذیلی تنظیموں کے سپر د جو کام ہے ان کو بجالانے میں وہ بہترین رضا کا رثابت ہوں 474 جہاں جماعت قائم ہے وہاں ذیلی تنظیمیں اپنی مجلس قائم کریں ذیلی تنظیموں کے اچھے اور خوشکن نتائج سے حضرت مصلح موعود کا نام زندہ رہے گا 1966 ذیلی تنظیمیں فرائض کو چھوڑ کر نوافل کی طرف متوجہ نہ ہو 7 جماعتوں میں قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام مجلس انصاراللہ کے سپرد کرتا ہوں 8 ذیلی تنظیمیں خلیفہ وقت کے اعضاء ہیں و عہدیداران نظام کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ پورا تعاون کریں 9 $ 1967 10 دنیا کو اس وقت ہماری دعاؤں کی بڑی ضرورت ہے 475 476 477 477 483 484 486

Page 15

xiv 11 توحید خالص کو اپنے نفسوں اور اپنے ماحول میں قائم کریں 12 رسالہ ماہنامہ انصار اللہ کو پڑھیں اس سے فائدہ اٹھائیں $ 1968 13 ربوہ کی صفائی ستھرائی کے لئے وقار عمل میں انصار بھی شامل ہوں 14 اسلام کے استحکام کے لئے ایمان کا تقاضا ہے کہ تم انصار اللہ بنو 15 تحریک جدید دفتر دوم کی ذمہ داری انصار اللہ کے سپرد کرتا ہوں 16 رسالہ انصار اللہ ایک تربیتی رسالہ ہے 17 مسابقت فی الخیر کی روح اُجا گر کر نے کیلئے ذیلی تنظیموں کو قائم کیا گیا ہے 487 488 489 489 490 491 491 18 ذیلی تنظیمیں جس ماحول کے لئے اپنے رسالے شائع کرتی ہیں اس ماحول میں ان کا 492 پہنچنا ضروری ہے $ 1969 19 قرآن کریم سیکھنا اور سکھانا انصار اللہ کی ذمہ داری ہے 20 انصار اللہ بحیثیت مجلس اپنے اندر ایک فعال زندگی پیدا کرے 21 ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات میں تمام مجالس کی نمائندگی ضروری ہے 22 اجتماعات پر تقریری پروگرام حالات و معمول کے مطابق بنائیں 494 494 497 498 23 جماعت احمدیہ میں مختلف تنظیمیں تمکین دین اور خوف کو امن میں بدلنے کے سامان 499 پیدا کرنے کیلئے بطور ہتھیار کے ہیں اور یہ ہتھیا رخلیفہ وقت کے ہاتھ میں ہوتا ہے

Page 16

501 502 507 509 509 510 512 512 513 514 515 516 517 XV $ 1970 24 انصار اللہ کو ہر قدم پر دعا کرنے کی تلقین 25 انصار اللہ کو تحریک جدید کے حوالہ سے ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں 26 تربیت کی ذمہ داری انصار کی ہے 27 ہمدردی مخلوق انصار اللہ کا بھی کام ہے 28 انصار ماحول کو بداثرات اور گندی باتوں سے محفوظ رکھیں $ 1971 29 اپنے رب سے تعلق کی پختگی انصار اللہ کی عمر سے بھی تعلق رکھتی ہے $ 1972 30 انصار اللہ ، ربوہ کے ہر شہری کے لئے ورزش کا انتظام کروائے 31 سستی دکھلانے والے عہدیداران کو عہد یداران رہنے کا کوئی حق نہیں انصار کو اجتماعات کے موقع پر تسبیحات پڑھنے کی تلقین 33 انصار اللہ کا رومال 34 جوانوں کے جوان یعنی انصار ، ماہنامہ انصار اللہ میں دلچسپی لیں $ 1973 احیائے دین اور قیام شریعت کی بھاری ذمہ داری عہد یداران پر عائد ہوتی ہے 36 اجتماعات کے موقعوں پر طہارت ظاہری و باطنی کا خیال رکھنا چاہئے

Page 17

xvi 37 ذیلی تنظیمیں اپنے اپنے زیر انتظام تین تین کمروں پر مشتمل گیسٹ ہاؤس غیر ملکی 517 مہمانوں کے لئے بنوائیں $ 1974 518 518 38 بڑی عمر کے احمدیوں کو زندگی وقف کرنی چاہئے 39 سائیکل سوار واقفین عارضی کی ضرورت ہے $ 1975 40 انصار اللہ اپنے ہاں تربیتی ماحول پیدا کریں اور اپنے گھروں میں اسلامی صداقتوں 519 کا ذکر کرتے رہیں 41 جلسہ سالانہ کے لئے انصار، خدام ربوہ کو صاف ستھرا کر دیں $ 1976 42 ربوہ میں درخت لگانے کا کام آج میں انصار اللہ کے سپر د کرتا ہوں 43 انصار اللہ سمیت تمام انجمنیں اور تنظیمیں خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں $ 1977 524 525 526 44 جماعتی ادارے یا ذیلی تنظیمیں اہم امور پر توجہ دلانے کے لئے خطبات میں مجھے 527 درخواست کرتی ہیں 45 ماہنامہ انصار اللہ صرف انصار اللہ کے لئے نہیں بلکہ اس میں کوئی کام کی بات ہے تو 528 بچوں کے علم میں بھی لائی جائے

Page 18

xvii $ 1978 46 جلسہ سالانہ کے لئے وقار عمل میں انصار بھی شامل ہوں 529 47 جلسہ سالانہ پر مزدوروں اور نانبائیوں سے رابطہ کرنے کے لئے امراء انصار جیسے 529 قابل اعتماد کو بھجوائیں 48 ربوہ سے باہر کی جماعتیں انصار کو بطور رضا کا رجلسہ پر ربوہ بھجوائیں 49 احباب، مجلس انصار اللہ کی شائع کردہ کتب کا مطالعہ کیا کریں 530 531 50 بعض انصار کو بھی بنیادی مسائل کا علم نہیں.ان کو اس طرف توجہ دینی چاہئے $ 1979 51 انصار اللہ سمیت تمام تنظیموں نے احمدی بچوں کو ضائع ہونے سے بچانا ہے 52 انصار اللہ کی ذمہ داری دعا اور تربیت پہلو بہ پہلو چلتے ہیں 531 533 533 53 انصار اللہ کے اجتماع میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہو.ہمارے یہ اجتماع ذہنی اور 535 اخلاقی تربیت کے لئے منعقد ہوتے ہیں 54 جلسہ میں زیادہ سے زیادہ انصار ، خدام، اطفال کو آنے کی تلقین 55 انصار، خدام اور اطفال جلسہ سالانہ پر رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کریں 56 انصار، خدام مل کر ربوہ کو غریب دلہن کی طرح سجا دیں 536 537 537 57 ایمان باللہ ، یوم آخرت پر ایمان اور عمل صالح کی لطیف تشریح اجتماعات پر خطبہ 538 جمعہ اجتماع کا ہی حصہ ہوتا ہے

Page 19

xviii $ 1980 58 انصار دینی کتب کی خرید کے لئے کلب بنائیں اور گھروں میں فیملی کلاسز جاری 545 کریں 59 انسانوں کی خدمت بھی جہاد فی سبیل اللہ ہے 60 جلسہ سالانہ پر ربوہ کی صفائی کے لئے انصار، خدام، اور لجنہ خصوصی توجہ دیں $ 1981 61 انصار کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو اسلامی بنائیں 62 ذیلی تنظیموں کو اجتماعات کی تیاری کے لئے زریں ہدایات 63 جماعت احمدیہ کا بنیادی مقام عجز وانکسار کا مقام ہے 64 انصار اجتماع کے دن دعاؤں اور عاجزی کے ساتھ گزاریں $1982 65 زندگی اور بقا کے لئے ضروری ہے کہ جانے والوں کے قائم مقام پیدا ہوں اپنے نفسوں کو اور اپنے اہل کو خدا تعالیٰ کے غضب سے بچاؤ 547 547 549 552 559 561 563 563

Page 20

سبیل الرشاد جلد دوم 1 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحم اللہ تعالی کا افتاحی خطاب فرموده ۲۸ را خاء۱۳۴۵ بهش ۲۸ اکتوبر۱۹۶۶ء بمقام احاطه دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز بیدر بوہ ربوه ۲۸ / اکتوبر ۱۹۶۶ء.سیدنا حضرت خلیفۃ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالی مجلس انصاراللہ مرکز یہ خلیفۃالمسیح کے گیارہویں سالانہ اجتماع کا افتتاح فرمانے کے لئے ٹھیک تین بجے سہ پہر مقام اجتماع میں تشریف لائے.تلاوت قرآن کریم کے بعد جو مکرم حافظ مسعود احمد صاحب سرگودھا نے کی.حضور نے کھڑے ہو کر جملہ انصار سے ان کا عہدد ہروایا.اس کے بعد فرمایا: آج میں پرانا طریق بدل کر پہلے افتتاحی دعا کرواؤں گا اور بعد میں چند باتیں اپنے دوستوں کے سامنے بیان کروں گا.انشاء اللہ.ہمیں خاص طور پر یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس اجتماع کو بہت ہی بابرکت کرے اور ہم مطمئن قلوب کے ساتھ گھروں کو واپس جائیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَيِنُ الْقُلُوبُ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے نتیجہ میں ہی انسانوں کے دل اطمینان حاصل کرتے ہیں.سو اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا کرے کہ ہم ہمیشہ ہی خصوصاً اجتماع کی گھڑیوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں گزار نے والے ہوں اور اس رنگ میں اس کا ذکر کرنے والے ہوں کہ وہ ہم سے خوش اور راضی ہو جائے اور اپنی رضا کی خلعت سے ہمیں نوازے اور اپنی رحمتوں کی چادر ہمارے اوپر ڈالے اور اپنی مغفرت کی چادر میں ہماری تمام کمزوریوں کو چھپالے اور ہم جو نہایت ہی کمزور اور نا تواں ہیں ہمیں خود اپنی طرف سے قوت اور طاقت عطا کرے کہ ہم اس کی توحید کے قیام اور اسلام کی اشاعت میں کامیاب کر دار ادا کر سکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں سچے مسلمان اور حقیقی احمدی بنائے.(اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت ایک لمبی اور پرسوز دعا کی ) اس کے بعد حضور نے اپنی تقریر شروع فرمائی.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.بحیثیت افراد جماعت انصار اللہ کی ذمہ داریاں اس وقت میں چند متفرق باتیں انصار اللہ کے کاموں کے متعلق اپنے دوستوں سے کہنا چاہتا سورة الرعد آیت ۲۹

Page 21

2 سبیل الرشاد جلد دوم ہوں.انصار اللہ کے ذمہ دو قسم کے کام ہیں.ایک کام بحیثیت افراد جماعت - جماعت کی ذمہ داریوں کو دوسروں کی نسبت بہتر رنگ میں ادا کرنے کی ذمہ داری ہے اور دوسرا کام اس تنظیم کے لحاظ سے بحیثیت انصار - انصار اللہ کی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی ذمہ داری ہے.بحیثیت افراد جماعت جو ہماری ذمہ داریاں ہیں ان میں سے کچھ صدرانجمن احمدیہ کی تنظیم سے تعلق رکھتی ہیں، کچھ تحریک جدید کی تنظیم سے تعلق رکھنے والی ہیں اور کچھ کا واسطہ وقف جدید کے ساتھ ہے.تحریک جدید کی اہمیت کو سمجھیں تحریک جدید کے سال نو کا اعلان میں نے آج خطبہ جمعہ میں کیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت تحریک جدید کی اہمیت کو سمجھے تو اس سے بہت زیادہ قربانی (مالی بھی اور جانی بھی ) پیش کرے جتنی کہ وہ اس وقت پیش کر رہی ہے.۱۹۳۴ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کا اجراء کیا تو حضور نے شروع میں فرمایا.میں ایک سکیم جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.اسوقت جماعت نہایت نازک دور میں سے گزر رہی تھی.تمام گروہ اور فرقے خواہ ان کا تعلق اسلام سے تھا یا دیگر مذاہب سے وہ مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے یا سیاسی تنظیموں سے انکا تعلق تھا، اکٹھے ہو کر جماعت کے خلاف برسر پیکار تھے اور ان میں سے بعض تو یہ دعوی کر رہے تھے کہ ہم اس چھوٹی سی جماعت کو کلیۂ نیست و نابود کر دیں گے.نیست و نابود تو دنیا سے وہی جماعت ہوا کرتی ہے جسے نیست و نابود کرنے کا آسمان پر اللہ تعالیٰ فیصلہ کرتا ہے.وہ جماعتیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے قائم کرتا ہے وہ اپنی قدرتوں سے ان کی حفاظت بھی کیا کرتا ہے.غرض نیست و نابود ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن جماعت کو ان فتنوں سے محفوظ رکھنے اور ان فتنوں کے نتیجہ میں جو دکھ اور تکلیف جماعت کو پہنچ سکتی تھی ان سے بچانے کیلئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بہت سی باتیں سوچیں اور انہیں جماعت کے سامنے رکھا.اُس وقت دنیا میں ہندوستان کے علاوہ کم ہی ایسے مقامات تھے جہاں جماعت کا پاؤں مضبوطی سے قائم ہو چکا تھا لیکن اس سکیم کے نتیجہ میں ان چند سالوں میں ( قریباً ۳۲ سال اس سکیم کے اجراء کو ہوئے ہیں اور قوموں کی زندگی میں یہ کوئی لمبا عرصہ نہیں سمجھا جاتا ) اللہ تعالیٰ نے درجنوں ملکوں میں جماعت کو بڑی طاقت وقوت اور اثر و رسوخ عطا کیا ہے.اور جیسا کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے جو پھل ہم نے آج تک اس تحریک سے چکھے ہیں اور جنہیں ہم کھا رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کی لذت اپنے اندر لئے ہوئے ہیں کہ وہ کسی دنیوی درخت کے پھل نہیں ہو سکتے.وہ جنت ہی کے درخت تھے جو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے زمین پر بھیجے اور

Page 22

سبیل الرشاد جلد دوم حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے اس دنیا میں لگائے.3 بعض ملک تو ایسے ہیں کہ وہ اپنی تعداد کے لحاظ سے یا بعض جگہ اپنی مالی قربانیوں کے لحاظ سے پاکستان کی جماعت احمدیہ کا مقابلہ کر رہے ہیں اور اگر ہم چوکس و بیدار نہ ہوئے.اگر ہمارے دل میں یہ خواہش ٹھنڈی نہ پڑ گئی کہ ہم نے کسی اور جماعت کو اپنے سے آگے نہیں نکلنے دینا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنا مسیح ہمارے درمیان پیدا کیا تھا اور اگر ہم دوسروں کو آگے بڑھنے دیں تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہم یہ ثابت کر رہے ہوں گے کہ ہم نے اس نعمت کی وہ قدر نہیں کی جو قدر ایک مومن کو خدا تعالیٰ کی کسی نعمت کی کرنی چاہئے.اس وقت میں جماعتوں سے تحریک جدید کی مالی قربانیوں کے متعلق وعدے بھی لینا چاہتا ہوں.کچھ افراد کے وعدے تو میرے پاس پہنچ چکے ہیں اور ان وعدوں میں حضرت مصلح موعودؓ کی ہر دوازواج ( جو میری مائیں ہیں ) کے وعدے شامل ہیں.انہوں نے سب سے سبقت کی ہے اور جب میں جمعہ پڑھا کر اندر گیا تو اس وقت ان کے وعدے مجھے مل گئے.پھر کراچی کی جماعت کا بھی ایک وعدہ پچاس ہزار روپیہ کا ہے.جزاکم اللہ ! لیکن ان کا سال رواں کا وعدہ ۸۰ ہزار روپے کا ہے.انہوں نے یہ لکھا ہے کہ یہ ہماری پہلی قسط ہے زیادہ تفصیل کے ساتھ ہم واپس جا کر لکھیں گے.میں امید کرتا ہوں کہ جب انکی تفصیل مجھے پہنچے گی تو وہ ۸۰ ہزار روپے کے لگ بھگ نہیں ہوگی بلکہ نوے ہزار یا ایک لاکھ کے لگ بھگ ہوگی.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے دفتر دوم اس طرف پوری توجہ نہیں کر رہا.وہ احمدی جو تحریک جدید کے دفتر دوم میں شامل ہوئے ہیں اگر حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش کے مطابق اپنی ایک ماہ کی آمد کا ۵/ ۱ حصہ تحریک جدید کے لئے ادا کریں تو ان کے وعدے دولاکھ نوے ہزار کی بجائے پانچ لاکھ تک ہو سکتے ہیں.اور میں سمجھتا ہوں کہ اُن کے دلوں میں تڑپ تو ضرور ہوگی کہ وہ حضور کی اس خواہش کو پورا کرنے والے ہوں لیکن سستی اور غفلت کے نتیجہ میں وہ ابھی تک ایسا نہیں کر سکے-۲۲ سال گزر چکے ہیں.۲۳ ویں سال یہ غفلت اور سستی دور ہونی چاہئے اور دفتر دوم کے وعدے پانچ لاکھ تک ضرور پہنچ جانے چاہئیں.دفتر اول ایک ایسا دفتر ہے جس کی آمد دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے اور کم ہوتی جانی چاہئے کیونکہ جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے اڑھائی ہزار احمدی جنہوں نے دفتر اول میں حصہ لیا تھا وفات پاچکے ہیں اور اڑھائی ہزار باقی ہیں.یعنی دفتر اول میں حصہ لینے والوں کا پچاس فیصدی اس دنیا سے گزر گیا ہے اور جیسا کہ میں نے کہا تھا ان کی جگہ دفتر سوئم نے لینی ہے.اس وقت اصل بار دفتر دوم پر ہے.ان کو اس طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے.اس وقت حال یہ ہے کہ باہر کے ممالک ہم سے مبلغین کا بھی مطالبہ کر رہے

Page 23

4 سبیل الرشاد جلد دوم ہیں اور کتب اور رسالوں کا بھی جو ہم شائع کر چکے ہیں یا شائع کر رہے ہیں بڑی کثرت سے مطالبہ کر رہے ہیں.اگر اس وقت ہم نے ان کی روحانی پیاس کو سیر نہ کیا تو جیسا کہ آپ دیکھتے ہیں کہ اگر جسمانی پیاس کسی شخص کو ہو اور اسے پانی نہ ملے تو کچھ دیر کے بعد وہ پیاس خود بخود بجھ جاتی ہے.کہیں ایسا نہ ہو کہ ان لوگوں کی پیاس بجھ جائے اور ان کی توجہ اسلام سے پھر ہٹ جائے.پس یہ وقت ہے کہ ہم ان کی پیاس کو سیر کرنے کی کوشش کریں.قرآن کریم کے جو تراجم اور تفاسیر مختلف زبانوں میں کی گئی ہیں وہ بھی ان زبانوں کے جاننے والوں کے ہاتھ میں دیں اور وہ ممالک جن کی زبانوں میں ابھی تک قرآن کریم کے تراجم اور تفاسیر نہیں ہوئیں ان زبانوں میں بھی زیادہ سے زیادہ تراجم اور تفاسیر شائع کریں.اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہم اپنے عمل سے یہ ثابت کر رہے ہوں گے کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس دعوی میں بچے نہیں تھے کہ تمام ادیانِ عالم پر اسلام کو غالب کرنے کے لئے آپ کی بعثت ہوئی ہے اور آپ کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر انسان کے دل میں گاڑ دے.پس اس کی طرف بہت جلد توجہ کرنی چاہئے.اس وقت بے شک آپ پہلی قسط ہی وعدوں کی لکھوائیں لیکن اس وقت کم از کم بڑی بڑی جماعتیں ضرور اپنے وعدے لکھوا دیں.حضور نے اس دوران فرمایا.اگر احمدی زمیندار فصل بونے سے پہلے یہ دعا کریں کہ اے خدا! اگر ہماری فصل پچھلے سال سے زیادہ ہو جائے.مثلاً گندم اگر پچھلے سال سے زیادہ ہو تو زائد گندم میں سے نصف تیری راہ میں خرچ کریں گے تو اس سے ان کی فصلوں میں بڑی برکت پیدا ہو جائے گی.اسی طرح ربوہ کی جماعت کی طرف سے وعدہ پیش ہونے پر فرمایا : ربوہ کی جماعت نے گزشتہ سال سے پانچ ہزار روپیہ زیادہ کا وعدہ کیا ہے.گزشتہ سال ان کا وعدہ ۴۸ ہزار روپیہ کا تھا اور اس سال ان کا وعدہ ۵۳ ہزار روپیہ کا ہے.اس وعدہ میں وہ رقم شامل نہیں جو حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے آئی تھی.یعنی ساڑھے بارہ ہزار روپے جو حضرت مصلح موعود ادا فرمایا کرتے تھے اور اب بھی انشاء اللہ ملا کریں گے.کیمبل پور (اٹک) کی جماعت کے وعدہ کے پیش ہونے پر فرمایا : کیمبل پور (اٹک) اور میانوالی میں جماعتوں کی تعداد اور افراد کی تعداد کو بڑھانے کی کوشش نوٹ : حضور کے اس ارشاد پرمخلصین جماعت نے انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی اپنے وعدے پیش کئے.ان وعدوں کی میزان اللہ تعالیٰ کے فضل سے پانچ لاکھ دس ہزار روپیہ تک پہنچ گئی.الحمد للہ

Page 24

سبیل الرشاد جلد دوم کرنی چاہئے.اس کے بعد سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا: قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کی تحریک 5 سال رواں میں میں نے دو بڑی تحریکیں جماعت کے سامنے رکھی ہیں.ان میں سے ایک قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کی تحریک ہے.جب تک ہم جماعت کے ہر فرد کو قرآن کریم کے مطالب سے متعارف نہیں کروا دیتے ہم قرآن کریم کی ساری برکات سے بحیثیت جماعت کس طرح حصہ لے سکتے ہیں؟ کچھ جماعتوں نے اس کی طرف خاص توجہ دی ہے اور اس کے نتیجہ میں اس تحریک کے وہاں بڑے اچھے نتائج نکل رہے ہیں.بعض جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے ایک لمبے عرصہ تک اس کی طرف توجہ دی اور پھر سستی اختیار کر لی.بعض جماعتیں ایسی ہیں کہ جن کا دل تو چاہتا ہے لیکن وہاں کوئی انتظام نہیں اور آخر میں شاید دو چار جماعتیں ایسی بھی ہوں جن کی توجہ ابھی تک اس طرف نہیں ہوئی اور ان کا دل بھی نہیں چاہتا.سب جماعتوں کو سنبھالنا ہمارا فرض ہے اگر آپ خود بحیثیت جماعت قرآن کریم کی وہ قدرنہ کریں جو قد رقرآن کریم کی کرنی چاہئے تو اللہ تعالیٰ آپ سے بحیثیت جماعت پوری طرح خوش کیسے ہو سکتا ہے.جن جماعتوں میں قرآن کریم پڑھانے کا انتظام نہیں یا جن جماعتوں کی اس طرف توجہ ہی نہیں ان کے لئے بہر حال باہر سے انتظام کرنا پڑے گا اور باہر سے انتظام دوطریق پر کیا جا سکتا ہے.ایک یہ کہ با تنخواہ معلم وہاں رکھیں اور دوسرے یہ کہ وقف عارضی کے وفود یکے بعد دیگرے بغیر وقفہ کے وہاں پہنچتے رہیں.ایک جماعت میں ہم نے وقف عارضی کا ایک وفد بھیجا.میں سمجھتا ہوں وہ جماعت سمجھدار تھی انہوں نے اس خیال سے کہ اس وفد کے بعد دوسرا وفد آئے گا پھر تیسرا وفد آئے گا.انہوں نے اپنے بچے جو ایک غیر معلم کے پاس پڑھ رہے تھے اٹھالئے اور انہیں وفد کے سپر د کر دیا.پندرہ دن کے بعد وہ وفد واپس آ گیا اور چونکہ ہمارے پاس زیادہ آدمی نہیں تھے اس لئے ہم وہاں دوسرا وفد نہ بھجوا سکے.ایک مہینہ کے بعد جب ہمارا دوسرا وفد وہاں پہنچا تو انہوں نے کہا اب ہم اپنے بچے آپ سے نہیں پڑھوائیں گے.پہلے ہم نے اپنے بچے فلاں مولوی صاحب کے پاس سے اٹھوا لئے تھے اور اب بڑی مشکل سے بڑی منتیں کر کے اور بڑی خوشامد کے بعد ہم نے ان کو اس بات پر تیار کیا ہے کہ وہ ہمارے بچوں کو پڑھا ئیں.یا تو ایک مستقل سلسلہ وفود کا ہمارے پاس آئے یا ایک مستقل معلم ہمیں دیا جائے تب ہم اپنے بچوں کو آپ سے پڑھوا سکتے ہیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں میں ایک خواہش اور جذ بہ ضرور ہے کہ ان کے

Page 25

6 سبیل الرشاد جلد دوم بچے قرآن کریم پڑھیں لیکن وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا مستقل انتظام ہونا چاہئے اس لئے قرآن کریم کے پڑھانے کا منصو بہ اور وقف عارضی کی سکیم پہلو بہ پہلو چلتی ہیں.اگر کم از کم پانچ ہزار واقفین عارضی ہوں تو ہم ایک حد تک جماعتوں کو سنبھال لیں گے.گو پھر بھی ہر جماعت میں ہمارا وفد نہیں جا سکے گا.یعنی ایسا نہیں ہو سکے گا کہ کسی جماعت میں ہمارا وفد مستقل طور پر سارا سال رہے.اس وقت تک ہمیں ایک دو کم ایک ہزار واقفین ملے ہیں یہ بھی ایک اچھی خاصی تعداد ہے لیکن یہ تعداد ہماری ضرورت کو پورا نہیں کرتی.یا تو جماعت ہمیں مستقل معلم دے یا مستقل طور پر ایسا انتظام کرے کہ اتنے واقفین عارضی ہمیں مل جائیں کہ یکے بعد دیگرے واقفین عارضی کا وفد ان جماعتوں میں بیٹھا ر ہے.واقفین عارضی اپنا کھانا خود پکائیں واقفین عارضی کے لئے ہم نے یہ ضروری شرط لگائی تھی کہ وہ اپنے کھانے کا یا کوئی اور بوجھ اس جماعت پر نہ ڈالیں جس میں وہ بھیجے جائیں.لیکن بعض واقفین عارضی نے ہمارے ساتھ اس سلسلہ میں تعاون نہیں کیا.اسی طرح بہت سی جماعتوں نے بھی اس سلسلہ میں ہمارے ساتھ تعاون نہیں کیا اور اس طرح ہمارے لئے ایک بڑی مشکل پیدا کر دی ہے.جب آپ کا امام کہتا ہے کہ میں ایسے آدمی بھیج رہا ہوں جن کو تم نے کھانا نہیں کھلانا تو پھر کیوں آپ انہیں کھانا کھلاتے ہیں.آپ کی عزت امام کا کہا ماننے میں ہے کسی کو کھانا کھلانے یا نہ کھلانے میں نہیں.اسی طرح اگر کسی گاؤں میں واقفین عارضی کا کوئی وفد جاتا ہے تو اس کے اراکین کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنا کھانا خود پکائیں جماعت پر اس کا بوجھ نہ ڈالیں.میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کوئی ہرج نہیں کہ اگر گاؤں والے کہیں آپ ابھی آئے ہیں ہم ایک وقت یا دو وقت کے کھانے کا انتظام جماعت کی طرف سے کر دیتے ہیں اس عرصہ میں آپ اپنا انتظام کر لیں.لیکن یہ نہ تو ان کا حق ہے نہ اس میں ان کے لئے برکت ہے اور نہ یہ چیز ان کی عزت بڑھانے والی ہے کہ امام تو یہ کہے کہ ان کو کھانا نہیں کھلانا اور وہ انہیں مجبور کریں کہ ہم نے ضرور تمہیں کھانا کھلانا ہے.اس وقت سوال یہ ہے کہ یا تو قرآن کریم کی عزت کو قائم رکھا جائے اور یا آپ کی عزتوں کو قائم رکھا جائے.ظاہر ہے کہ جب آپ کی عزت آپ کی غلطی کی وجہ سے قرآن کریم کی عزت سے ٹکرائے گی تو بہر حال آپ کی عزت قائم نہیں رہے گی.لیکن آپ کو سوچنا ہی یہ چاہئے کہ ہماری عزت اسی میں ہے کہ خلیفہ وقت نے جو اپنا منشاء ظاہر کیا ہے اس کے مطابق ہم کام کریں.اس طرح قرآن کریم کی عزت بھی قائم رہے گی اور آپ کی عزت بھی بڑھے گی.

Page 26

سبیل الرشاد جلد دوم 7 پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو واقفین عارضی آئیں وہ اس عہد کے ساتھ آئیں کہ چاہے کچھ ہو ہم نے اپنے کھانے کا بار اس جماعت پر نہیں ڈالنا جس میں ہماری ڈیوٹی لگائی گئی ہے.اور دوسرے، جماعتوں خصوصاً دیہاتی جماعتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک آدھ وقت کے کھانے کے علاوہ وفودکو کھانا نہ کھلائیں.جس جگہ سے مجھے یہ اطلاع ملتی ہے کہ وہاں کی جماعت نے وفود کو کھانا کھلایا ہے ( بہت سی جگہیں ایسی بھی ہیں جنہوں نے وفود کو کھانا کھلایا ہو گا لیکن مجھے ان کا علم نہیں ) تو میرا دل نہیں چاہتا کہ میں وہاں دوبارہ واقفین عارضی کا وفد بھیجوں - کیونکہ جو جماعت اس سلسلہ میں میرے ساتھ تعاون کے لئے تیار نہیں اس کا یہ حق نہیں کہ اس میں واقفین عارضی کے وفود بھیجے جائیں.اس لئے آپ یہ عہد کر کے یہاں سے اٹھیں اور اپنے علاقے میں بھی ہر ایک کو کہہ دیں کہ جب واقفین عارضی کا وفد وہاں آئے تو ان کو کھانا نہیں کھلایا جائے گا.جماعت کا یہی مطالبہ ہے.خلیفہ وقت کا یہی حکم ہے ، خلیفہ وقت کے حکم کی آپ کیوں خلاف ورزی کرتے ہیں.اس طرح ہمارے کام میں روک پیدا ہوتی ہے اور قرآن کریم کے علوم کے رواج کے لئے جو سکیم ہم نے تیار کی ہے اس میں رخنہ پیدا ہوتا ہے.اصل مقصد آپ کا اور آپ میں سے ہر ایک کا یہ ہے کہ قرآن کریم کے معارف سے جماعت کا ہر فرد واقف ہو جائے اور قرآن کریم کے نور سے ہر سینہ اور دل منور ہو جائے.ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ( جو غلط ہیں ) آپ کرتے ہیں اور ان کے نتیجہ میں قرآن کریم کے نور کے راستہ میں آپ ایک دیوار حائل کر دیتے ہیں.میری درخواست ہے کہ آپ مہربانی فرما کر آئندہ ایسی حرکت نہ کریں ورنہ ہمارے کام میں ہرج واقع ہوتا ہے اور جو واقفین آئیں وہ آپ روٹی پکائیں.وہ اگر پندرہ دن کچی روٹی بھی کھا لیں گے تو کیا ہرج ہوگا.نسخہ میں بتا دیتا ہوں کہ تھوڑی روٹی کھائیں اور زیادہ چبا کے کھائیں تو کچی روٹی بھی آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی.ایک دفعہ جب ہماری فرقان بٹالین کشمیر کے محاذ پر لڑ رہی تھی تو میں سرائے عالمگیر گیا جو ہمارا میں کیمپ (Base Camp) تھا.معلوم نہیں کیا وجہ ہوئی لیکن وہاں جاتے ہی مجھے سوء ہضم کی بڑی خطر ناک قسم کی شکایت پیدا ہوگئی معدہ اور انتڑیوں میں تعفن پیدا ہو گیا.میرا دل نہ چاہا کہ میں اپنے لئے پر ہیزی کھانا تیار کرواؤں.بلکہ میں نے عہد کیا کہ جو دال روٹی عام جوانوں کے لئے پکتی ہے میں بھی وہی کھاؤں گا اور اس کیمپ کو یہ تکلیف نہیں دوں گا کہ مجھ بیمار کے لئے یا کسی اور بیمار کے لئے کوئی علیحدہ کھانا تیار کرے.میں نے ایک چوتھائی اپنی خوراک کا کھایا اور ہر لقمہ کو اتنی دفعہ چبایا کہ اس کا منہ میں رکھنا میرے لئے مشکل ہو گیا.اس طرح وہ لقمہ خود بخود ز بر دستی حلق کے رستہ پیٹ میں جانے کی کوشش کرتا تھا اور اس میں وہ کامیاب ہو جاتا تھا.منہ کے اندر روٹی کا ایک قسم کا شور بہ سا بن جاتا تھا اور اس کا نتیجہ

Page 27

8 سبیل الرشاد جلد دوم یہ ہوا اللہ تعالیٰ ہی فضل کرنے والا ہے ) کہ بارہ گھنٹے کے اندر اندر میری تکلیف آدھی رہ گئی اور ۲۴ گھنٹے کے اندراندروہ دور ہوگئی.حالانکہ میں نے وہاں کوئی خاص دوائی بھی استعمال نہیں کی تھی.صرف یہی نسخہ استعمال کیا تھا جو میں نے ابھی آپ کو بتایا ہے.پس اگر کوئی شخص اپنے لئے کچی روٹی پکاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کہیں اس کا میرے پیٹ پر بُرا اثر نہ ہو تو اس کا علاج یہ ہے کہ نسبتا کم کھایا جائے اور عام عادت کے مقابلہ میں لقمہ کو بہت زیادہ چبایا جائے تو وہ منہ میں پورا لیکوئڈ (Liquid) بن جائے یعنی مائع کی شکل اختیار کر جائے.اس طرح معدہ اس کو بڑی جلدی ہضم کر لیتا ہے خواہ وہ کچا ہی کیوں نہ ہو.کوئی عادت نہ ڈالیں پس ہمیں ایک تو ہر قسم کے ماحول میں زندگی گزارنے کی عادت ڈالنی چاہئے بڑوں کو بھی اور بچوں کو بھی.یعنی یہ عادت ڈالنی چاہئے کہ ہمیں کوئی عادت نہ پڑے.میں نے اپنی عمر میں بڑی چائے پی ہے لیکن مجھے چائے پینے کی کبھی عادت نہیں پڑی یعنی جب چاہوں میں کئی کئی دن تک چائے پینا چھوڑ دیتا ہوں اور اس کا مجھے کوئی احساس نہیں ہوتا.ایک دفعہ ایک چیز کے متعلق مجھے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ شاید اس کی مجھے عادت پڑ گئی ہے اور وہ دودھ ہے.تین سال کی بات ہے میں نے خیال کیا کہ دودھ پینا چاہئے دودھ پینا اچھا ہوتا ہے.چنانچہ میں نے رات کو دودھ پینا شروع کیا.ایک دو ماہ کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اگر مجھے دودھ نہ ملے تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی چیز ملی نہیں.اس پر میں نے دودھ پینا چھوڑ دیا اور سال بھر اسے چھوڑے رکھا.اب کبھی کبھی پی لیتا ہوں غرض کسی چیز کی عادت نہیں ڈالنی چاہئے.اچھی کچی ہوئی روٹی کی بھی عادت نہیں ڈالنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سادگی کا تو یہ حال تھا کہ آپ بٹالہ تشریف لے جاتے تھے تو غالبا اس زمانہ میں چند آ نے اپنے نوکر کو دیتے تھے کہ جا کر روٹی کھا آؤ اور خود تنور کی ایک روٹی منگوا لیتے تھے جو شاید ان دنوں ایک پیسہ یا دو پیسہ کی آجاتی تھی اور تھوڑا سا دہی منگوا لیتے تھے اور اس دہی سے روٹی کھا لیتے تھے.ورنہ سفر ہمارے لئے مصیبت بن جائے اور اگر سفر مصیبت بن جائے تو جیسا کہ میں نے آج ہی بتایا ہے ایک قسم کا مجاہدہ خدا تعالیٰ کی راہ میں سفر کرنا بھی ہے اس مجاہدہ سے ہم محروم رہ جاتے ہیں.اپنی صحت کا خیال جب ہم رکھ سکتے ہوں رکھنا چاہئے لیکن اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو ایسے بنایا ہے کہ اگر انسان کھانا یہ سوچ کر کھائے کہ میں نے اسے خوب چبا کر کھانا ہے اور کھانا خوب چبا کے کھایا جائے تو انسان کو سخت چیز بھی ہضم ہو جاتی ہے.آپ اگر اپنے ہاتھ سے روٹی پکا ئیں گے تو وہ اس روٹی سے خراب نہیں ہوگی جو جیل میں ایک مہینہ پچیس دن ہمیں ملی.وہ آٹا کیا تھا میرے خیال میں کئی سو آدمی کئی سال تک ریسرچ کریں اور ان کو بتایا نہ جائے کہ وہ کیا ہے تو انہیں

Page 28

9 سبیل الرشاد جلد دوم اس کا پتہ نہیں لگ سکتا.اس کی ایک خصوصیت یہ تھی.آپ خود اندازہ کر لیں کہ وہ کیا چیز تھی.رمضان کا مہینہ آیا تو گھر سے ہمیں گھی آتا تھا ہم پر اٹھے پکواتے تھے.اگر یہ پراٹھا باقاعدہ اس طرح پکایا جائے یہ جیسے عام طور پر پکایا جاتا ہے اور پھر اسے ایک آدھ گھنٹہ پلیٹ میں رکھا جائے تو سارا کبھی نیچے چلا جاتا تھا اور سوکھی روٹی اوپر رہ جاتی تھی.عجیب قسم کا وہ معجون تھا.واللہ اعلم کس چیز سے وہ بنا ہوا تھا.لیکن وہاں بھی میرے دل میں یہ غیرت پیدا ہوئی کہ ہم چوری کر کے یا ڈاکہ مار کے یا کوئی قتل کر کے جیل میں نہیں آئے.ہم تو خدا کے نام پر یہاں آئے ہیں اس لئے ڈاکٹر کا بھی احسان نہیں لینا.ڈاکٹر ہمیں بہت اچھا ملا ہوا تھا وہ روزانہ پوچھتا تھا کہ میاں صاحب کوئی تکلیف ہو تو بتائیں.اور جیل کے ڈاکٹر کو بڑے اختیارات ہوتے ہیں اگر وہ زردہ پلاؤ بھی لکھ دے تو جیل والوں کو دینا پڑتا ہے.وہ بلا ناغہ مجھ سے پوچھتا تھا اور میں بلا ناغہ یہ جواب دیتا تھا کہ کسی چیز کی ضرورت نہیں کیونکہ میں نے عہد کیا ہوا تھا کہ کھانے پینے کا خیال تو ویسے ہی فضول ہے اگر مجھے دوائی کی ضرورت پڑی تو میں نے وہ بھی اس ڈاکٹر سے نہیں لینی.چنانچہ جیل میں ایک دفعہ میرا پیٹ خراب ہو گیا.اس وقت میں نے ایک تو چبانے کا نسخہ استعمال کیا دوسرے پودینہ کا استعمال.اگر پودینہ مل جائے اور وہ خوب دھلا ہوا ہو اس پر کوئی گند وغیرہ نہ ہو.اگر ا اس کی دو پتیاں ہر لقمہ میں ڈال کر کھائی جائیں اور انہیں خوب اچھی طرح چبایا جائے تو یہ سوء ہضم کا بہترین علاج ہے.اس میں ایسے اجزاء موجود ہوتے ہیں جو تعفن کو بھی دور کرتے ہیں اور معدہ کو بھی ٹھیک کرتے ہیں.بیماریوں کا سستا علاج اس سے ضمناً ہمیں یہ بھی پتہ لگا کہ ڈاکٹر عام مریضوں پر بھی جو تین تین سو پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار روپیہ خرچ کروا دیتے ہیں یہ بڑا ظلم ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے تحریک جدید کے خطبات میں ہی ایک جگہ فرمایا ہے کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ دنیا کی اکثر بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج ایک دھیلے یا ایک پیسہ سے ہو سکتا ہے.اب قیمتیں چڑھ گئی ہیں.تو دھیلے اور پیسہ کی بجائے آنہ اور دونی کر لیں لیکن اس وقت آنہ دونی کی بجائے پانچ سو یا ہزار روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک والوں کی اکثریت ایسی ہے جو ڈاکٹر کے پاس جا ہی نہیں سکتی اور اگر ایک دفعہ چلی جائے تو پھر ساری عمر قرض سے نجات حاصل نہیں کر سکتی اس لئے وہ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہی نہیں.نتیجہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص بیمار ہو اور اس کو دوا نہ ملے تو اس کی طبیعت میں بڑی بے چینی دود ھیلے کا ایک پیسہ، ۴ پیسے کا آنہ، دو آنے کی ایک دونی اور ۱۶ / آنے کا ایک روپیہ

Page 29

10 سبیل الرشاد جلد دوم پیدا ہوتی ہے اور وہ سوچتا ہے اور کڑھتا ہے کہ میں کس ملک میں پیدا ہوا ہوں.یہاں تو کسی بیمار کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا حالانکہ اس کی اپنی اقتصادی حالت اور استعداد کے مطابق بغیر کوئی بار ڈالے اس کا علاج کیا جا سکتا ہے.بہت سارے نسخے تو انسان کو خود یا د ہونے چاہئیں کہ ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت ہی نہ پڑے اور بیماری بھی چلی جائے.لیکن اصل علاج تو دعا ہے.ہم میں سے بہتوں نے بڑے عجیب نظارے دیکھے ہیں بلکہ ہزاروں نے ایسے نظارے دیکھے ہوں گے کہ بعض دفعہ بڑے خطر ناک مریض بھی صرف دعا سے اور مٹی کی چٹکی سے یاد ھیلے کی دوائی سے اچھے ہو جاتے ہیں.عرب صحابہ کی قربانیاں بہر حال ہمیں یہ عادت نہیں ڈالنی چاہئے کہ ہم گاؤں میں زندگی نہیں گزار سکتے.ہم خود کھانا پکا کر زندہ نہیں رہ سکتے.اگر ہم میں یہ عادت ہو تو ہم دین کے کام کس طرح کریں گے.ہمارے بزرگ اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمتیں ہوں اُنہوں نے تو اپنی زندگیاں اس طرح بنائی ہوئی تھیں کہ وہ کھانا پیٹ میں ڈالنے کی بجائے پیٹ کے باہر پتھر باندھ کر کئی کئی دن گزار دیتے تھے اور یہ صحت کو قائم رکھنے کا نتیجہ ہے اور یہ اس بات کا بھی نتیجہ ہے کہ انہوں نے کوئی بُری عادت نہیں ڈالی تھی.یہ صحیح ہے کہ جب تک ستھری اور صاف چیز ملے.مومن کو صاف اور ستھری چیز ہی استعمال کرنی چاہئے.لیکن جب صاف اور ستھری چیز نہ ملے تو جو چیز بھی ملے اسی پر زندہ رہنے کی کوشش کرنی چاہئے.جب عرب لوگ صحراؤں میں سے گزرتے تھے اور ہمارے بڑے پایہ کے صحابہ بھی بعض موقعوں پر اس گروہ میں شامل ہوتے تھے تو وہ ایسے علاقوں میں سے گزرتے تھے جہاں پینے کا پانی نہیں ملتا تھا.اللہ تعالیٰ نے اونٹ کی کوہان کے پاس ایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ وہ کئی دن تک کا پانی اپنے لئے محفوظ رکھتا ہے.کو ہان کے ساتھ ایک مشکیزہ سا خدا تعالیٰ نے بنایا ہوا ہے اس میں اونٹ پانی جمع رکھتا ہے اور اس کا جسم اس میں سے حسب ضرورت پانی لیتا رہتا ہے.عرب لوگ جب پانی نہیں ملتا تھا تو اونٹ ذبح کر کے اس کے اس مشکیزہ کا پانی جس میں پتہ نہیں کیا کچھ ملا ہوا ہوتا تھا نکال کر پی لیتے تھے.اگر وہ یہ کہتے کہ ہمیں جب تک صاف چشموں کا پانی نہ ملے ہم نے سفر نہیں کرنا تو آج بجائے اس کے کہ مسلمان قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کو اپنے پاؤں کے نیچے پامال کر کے تاریخ میں ہمیں دنیا کے حاکم نظر آتے وہ حکومتیں عرب کو مٹا چکی ہوتیں.پہلے تو وہ اس لئے خاموش تھیں کہ وہ بجھتی تھیں کہ یہ علاقہ ہمارے زیرنگیں ہے لیکن جب عرب ایک دفعہ اُٹھے اور اسلام کے نام پر اٹھے.خدا تعالیٰ کے نام پر اُٹھے اگر اس وقت ان کے اندر اس قسم کی خاص ذہنیت پیدا نہ ہو جاتی یا اس قسم کے جسم انہوں نے نہ بنائے

Page 30

سبیل الرشاد جلد دوم 11 ہوتے تو وہ مٹ چکے ہوتے.حضرت خالد کا واقعہ جب شام میں زبر دست جنگ ہوئی ہے اس وقت حضرت خالد عراق میں تھے.وہاں انہیں یہ حکم ملا کہ نصف فوج لے کر فورا شام پہنچو.اس سفر میں حضرت خالد ایک ایسے صحرا میں سے گزرے جہاں کئی دن تک نہ تو انہیں کوئی آبادی ملی نہ کوئی چشمہ ملا نہ کنواں.انہوں نے اونٹوں کے اس محفوظ پانی پر گزارا کیا.کچھ پانی تو انہوں نے اپنے ساتھ مشکیزوں میں رکھا ہوا تھا لیکن جب وہ ختم ہو گیا اور پانی کی ضرورت پڑی تو انہوں نے اونٹوں کے جسموں کے ان مشکیزوں سے پانی نکال کر پیا اور شام پہنچ گئے.اس کا ان کی صحتوں پر بھی کوئی بُرا اثر نہ پڑا.اور غالباً اس لئے نہ پڑا بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یقیناً اس لئے نہ پڑا کہ ایک تو وہ یہ کام خدا تعالیٰ کے نام پر کر رہے تھے اور دوسرے وہ ساتھ ساتھ دعا بھی کر رہے تھے.وہ اس وقت اپنے رب کو کہتے ہوں گے کہ اے ہمارے رب ! تو نے بہترین پانی مسلمان کے لئے پیدا کیا ہے لیکن اگر تیری راہ میں ہمیں گندہ پانی بھی پینا پڑے تو ہم اس پر بھی راضی ہیں.اس نیت کے ساتھ اور اس ذہنیت کے ساتھ انہوں نے وہ سفر کئے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر برکتیں نازل کیں اور فتوحات کے دروازے آسمان سے ان پر کھولے اور اللہ تعالیٰ کے ہزاروں فرشتے کشتیوں اور ٹرے میں فتوحات لئے ان کے پاس پہنچے.کیونکہ جن لوگوں کے ساتھ ان کا مقابلہ تھا ان پر آدمی فتح نہیں پاسکتے تھے جب تک کہ آسمانی افواج ان کے شامل حال نہ ہوتیں اور جب تک ان کی یہ نیت نہ ہوتی کہ ہم خدا تعالیٰ کے لئے ہر قسم کا دُکھ اور تکلیف برداشت کر سکتے ہیں حالانکہ وہ اتنے باغیرت تھے کہ دنیا کے لئے وہ کوئی ذلت برداشت نہیں کر سکتے تھے.اگر کوئی بادشاہ بھی انہیں کہتا تو وہ ایسا نہ کرتے.عرب کا ایک مشہور قصہ عرب کا ایک مشہور قصہ ہے.کسی قبیلہ کا سردار تھا.وہ اپنی مجلس میں بات کر رہا تھا کہ کیا کوئی مجھے سے بھی زیادہ باغیرت ہے.کسی نے کہا فلاں شخص ہے.اس کے گھرانے میں بڑی غیرت ہے.چنانچہ اس سردار نے اس شخص کو اور اس کے ساتھ اس کی ماں کو بلایا اور جب اس کی ماں مکان کے اندر گئی تو اس نے اپنی بیوی یا ماں سے کہا تم اس سے کہنا کہ کوئی معمولی سا کام کر دو.چنانچہ اس نے اسے کوئی معمولی سا کام کرنے کو کہا تو اس نے شور مچا دیا کہ ہماری بے عزتی ہو گئی.باہر جب اس کے بیٹے نے آوازسنی تو اس نے اسی سردار کی تلوار جو خیمے میں لٹکی ہوئی تھی لے کر اس کا سر قلم کر دیا.

Page 31

سبیل الرشاد جلد دوم 12 خدا کی خاطر ہر کام کیلئے تیارر ہیں غرض دنیا کے لئے یا دنیا والوں کی خاطر ہمیں کسی قسم کی ذلت و بے عزتی برداشت نہیں کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ باعزت اپنے ان بندوں کو ہی بنایا ہے جو اس کی طرف جھکتے ہیں اور اپنی ساری عزتوں کو اسی سے حاصل کرتے ہیں کیونکہ وہی سرچشمہ ہے سب عزتوں کا لیکن خدا تعالیٰ کی خاطر تو ہمیں ہر کام کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے.اور جب تک ہم یہ کام نہیں کر سکتے ہم قرآن کریم نہیں پڑھا سکتے.ایک موٹی مثال ہے.اگر ہمارا کوئی نو جوان یا کوئی بڑی عمر کا آدمی (اس وقت میرے سامنے انصار ہی بیٹھے ہیں ) اس بات کا عادی نہ ہو یا ذہنی طور پر جو اس بات کے لئے تیار نہ ہو کہ ہمیں جہاں بھی بھیجا جائے یا جہاں بھی ہم جائیں گے ہم ہر قسم کی تکلیف اور گندگی کو برداشت کریں گے.ہم اپنی عادت کے خلاف چیزیں کھائیں گئے لباس پہنیں گے اور کپڑے اوڑھیں گے کیونکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کے کپڑے اتنے میلے ہو جائیں کہ آپ اپنے گھروں میں اتنے میلے کپڑوں میں نہ رہ سکیں تو ہم قرآن کریم پڑھانے کی مہم کیسے جاری رکھ سکتے ہیں.ہمیں روزانہ نہانے کی عادت ہے اور پھر کپڑے صاف رکھنے کی بھی عادت ہے لیکن قادیان میں خدام الاحمدیہ کے اجتماعوں میں ہمیں ہر قسم کا کام کرنا پڑتا تھا.نیا نیا کام تھا، محنت زیادہ کرنی پڑتی تھی.ان دنوں میں جب بعض اوقات ہم گھر جاتے تھے تو گردوغبار کی وجہ سے ہماری شکلیں نہیں پہچانی جاتی تھیں.ہمارے جسم پر ایک ایک انچ مٹی چڑھی ہوئی ہوتی تھی اور ہمارے کپڑے بہت گندے ہوتے تھے.لیکن اس وقت ہمیں بھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ یہ بھی کوئی چیز ہے اور اگر کوئی چیز ہے تو ایسی ہے جسے خدا تعالیٰ کے سامنے اپنی زبان پر لاتے ہوئے ہمیں شرم آتی ہے.ایسا آدمی جو اتنی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتا عملاً اپنے رب کو کہہ رہا ہوتا ہے کہ اے میرے پیدا کرنے والے ! تو نے مجھ پر ان گنت نعمتیں کی ہیں لیکن میں تیری خاطر دس دن یا پندرہ دن یا ایک مہینہ اپنی عادت کے خلاف نہیں گزار سکتا.عملاً ہم یہ کہہ رہے ہوتے ہیں.لیکن ذرا سوچو تو سہی کہ اگر یہی فقرہ ہماری زبان پر آجائے.تو ہمیں کتنی شرم محسوس ہوگی.مجھے تو اس کا خیال کر کے ہی شرم محسوس ہوتی ہے.صحیح معنوں میں واقفین عارضی چاہیں غرض ہمیں واقفین عارضی چاہئیں اور ایسے واقفین عارضی چاہئیں جو صحیح معنی میں واقفین ہوں اور جہاں انہیں قرآن کریم پڑھانے کے لئے جانا ہے وہ ایسی جماعتیں ہوں جو نظام کی اطاعت کرنے والی ہوں.اور اپنے اوپر بلا وجہ ان کا بوجھ نہ لینے والی ہوں ، ورنہ دو2 وفد وہاں جائیں گے یا چار وفد جائیں گے یا چھ وفد جائیں گے اور پھر وہ کوئی بہانہ آپ ہی سوچیں گے اور کہیں گے اب یہاں وفد کی کوئی.

Page 32

13 سبیل الرشاد جلد دوم ضرورت نہیں.مہربانی فرما کر اب کوئی اور وفد یہاں نہ بھیجیں.اور اصل مطلب یہ ہوگا کہ جتنی مہمان نوازی ہم کر سکتے تھے وہ کر چکے ہیں.اب ہم میں مزید مہمان نوازی کرنے کی طاقت نہیں.پس ایک تو جماعتیں واقفین عارضی کو کھانا نہ کھلا ئیں واقفین اپنا کھانا خود پکائیں.اور آپ واقفین دیں.اگر تو اللہ تعالیٰ مجھے کوئی ایسی مشین دے دیتا کہ میں ضرورت کے مطابق انسان بنانے اور انہیں تیار کرنے کے بعد جماعتوں میں بھیج دیتا تو میں آپ سے واقفین عارضی کا مطالبہ نہ کرتا لیکن ایسا نہیں ہوا.جیسا یہ کام میرا ہے ویسا ہی آپ سب کا بھی ہے.اور آپ میں سے کون ہے جو اس وقت کھڑا ہو کر کہے میرا دل نہیں چاہتا کہ جماعت کو قرآن کریم پڑھایا جائے.میرے نزدیک انہیں جاہل رکھنا چاہئے اور انہیں قطعاً قرآن کریم نہیں پڑھانا چاہئے.ہم میں سے نہ تو کوئی اپنی زبان سے یہ بات کہہ سکتا ہے نہ سوچ سکتا ہے اور نہ اس کے دماغ میں یہ بات آ سکتی ہے.ایک احمدی کیلئے یہ بات بالکل ناممکن ہے.اور جب یہ بات ہو تو جو مطالبہ ہماری دماغی کیفیت اور جماعت کی ضرورت کر رہی ہے وہ پورا کرنا چاہئے.پس ایک ہزار آدمیوں سے کام نہیں بنے گا.ابھی سال کے ختم ہونے میں کئی مہینے باقی ہیں.میں نے شروع میں ہی کہا تھا کہ ممکن ہے اس سال پورے پانچ ہزار واقفین نہ ملیں بلکہ پہلے تو خیال تھا کہ شاید ایک ہزار واقفین بھی نہ ملیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار دے دیئے.اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر بڑی بڑی جماعتیں وہ شہری ہوں یا قصباتی ہوں یا دیہی ہوں ، اس طرف توجہ دیں تو وہ پانچ ہزار کی تعداد بآسانی پوری کر سکتی ہیں.سارے کام اللہ کے فضل سے ہوتے ہیں بعض لوگوں کو یہ خیال ہوتا ہے اور وہ دل میں حجاب محسوس کرتے ہیں کہ ہم زیادہ پڑھے ہوئے نہیں اس لئے ہم جا کر کیا کریں گے.میں ایسے لوگوں کو کہتا ہوں کہ ہمارے واقفین عارضی کے بہت سے وفود ایسے بھی ہیں یعنی جو اسوقت تک کام کر چکے ہیں جو بالکل پڑھے ہوئے نہیں تھے اور انہوں نے بڑا ہی اچھا کام کیا ہے.اس لئے اگر آپ اس نیت سے جائیں گے کہ آپ اپنے زورِ بازو سے وہاں کچھ کام کر کے دکھا سکیں گے تو پہلے دن ہی آپ ناکام ہوں گے.لیکن اگر آپ اس احساس کے ساتھ جائیں گے کہ ہم میں ذاتی طور پر کوئی طاقت نہیں، ہم میں کوئی علم نہیں، ہم میں کوئی خوبی نہیں، ہماری زبانوں میں کوئی تا ثیر نہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل ہمارے شامل حال نہ ہو ہم کوئی کام نہیں کر سکتے تو ضرور آپ کامیاب ہوں گے.بعض اوقات اللہ تعالیٰ ان پڑھ لوگوں کو بھی باریک در بار یک باتیں سمجھا دیتا ہے.قادیان کی بات ہے کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر لاہور سے کچھ طالب علم گئے ان میں ایک بی اے کا غیر احمدی

Page 33

14 سبیل الرشاد جلد دوم طالب علم بھی تھا.وہ آپس میں بحث کر رہے تھے.بحث کے دوران ہمارے بی اے کے ایک احمدی طالب علم کو جواب نہ آیا تو وہ وہاں سے اٹھا اور کہنے لگا میں کسی مولوی کو لے آتا ہوں.وہ ساتھ والے کمرہ میں گیا وہاں ایک زمیندار جماعت ٹھہری ہوئی تھی.اس میں ایک زمیندار احمدی دوست تھے.اب وہ فوت ہو چکے ہیں وہ نمبردار تھے اور اچھا سفید لباس پہنتے تھے اور سفید پگڑی پہنتے تھے.ان کی خوبصورت داڑھی اور لباس دیکھ کر وہ نوجوان ان کے پاس گیا.اس نے حلیہ دیکھ کر یہ سمجھا کہ یہ کوئی مولوی صاحب ہیں اور کہا.اس طرح ہم بی اے کے دو طالب علم آپس میں بحث کر رہے تھے مجھے ایک سوال کا جواب نہیں آیا.آپ وہاں آ کر وہ سوال سمجھا دیں.چنانچہ وہ دوست وہاں گئے اور انہوں نے غیر احمدی طالب علم کو ایسا جواب دیا کہ وہ خاموش ہو گیا.اور آپ کو پتہ ہے کہ وہ کتنا پڑھے ہوئے تھے.وہ بالکل ان پڑھ تھے اور دستخط کرنا بھی نہیں جانتے تھے.تو اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں ہے.وہ تو آپکے دل کو دیکھے گا، آپ کی نیتوں پر اسکی نگاہ ہوگی آپکی ذہنی کیفیت اسکے سامنے ہوگی اور اسکے مطابق وہ آپ سے سلوک کرے گا.واقفین عارضی نے جو اچھا کام کیا ہے اس میں سو فیصدی بلا استثناء ان لوگوں کا کام اچھا ہے جنہوں نے دعاؤں پر زور دیا ہے.وہ پڑھے ہوئے تھے یا ان پڑھ تھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑا.واقفین عارضی میں بڑے پڑھے ہوئے بھی گئے.ان میں کئی ایم اے پاس تھے.ایم.اے پاس وہ بھی گئے جن کے کام کا بہت اچھا نتیجہ نکلا.اور ایم اے پاس وہ بھی گئے جن کے کام کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا.اور بالکل ان پڑھ وہ بھی گئے جو صرف سیر کر کے آگئے ہیں.لیکن یہ لوگ ہیں بہت کم.شاذ کی طرح ہیں.اس سے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے.لیکن ایسے لوگ ہیں ضرور.اور پھر ایسے ان پڑھ بھی گئے ہیں جنہوں نے اپنی کیفیت کو دیکھ کر اور اپنے علم کو دیکھ کر دعاؤں پر زور دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے کام کا بڑا اچھا نتیجہ پیدا کر دیا.پس آپ اس خیال سے گھبرائیں نہیں کہ آپ زیادہ پڑھے ہوئے نہیں.اگر آپ زیادہ دعا گو ہیں، اگر آپ اپنے رب کی طرف زیادہ توجہ کرنے والے ہیں، اگر آپ اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل اور کامل بھروسہ رکھنے والے ہیں تو آپ یقیناً کامیاب ہوں گے.غرض زمیندار دوست بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آگے آئیں.اس عرصہ میں میں سمجھتا ہوں سو فیصدی نہیں تو ۸۰ فیصدی وفود کی رپورٹ یہ تھی جو انہوں نے عرصہ پورا ہو جانے کے بعد زبانی بیان کی ، یا انہوں نے تحریری رنگ میں ارسال کی کہ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے دوسروں کو کوئی فائدہ پہنچایا ہے یا نہیں لیکن ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اس عرصہ میں بہت فائدہ پہنچا.ہمیں بڑی دعاؤں کا موقع ملا.ہمیں خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھنے کا موقع ملا.غرض ایک طرف تو قرآن کریم پڑھانے کی طرف سو فیصدی توجہ دیں.دوسرے قرآن کریم

Page 34

15 سبیل الرشاد جلد دوم پڑھانے کے لئے ہمیں جتنے واقفین کی ضرورت ہے اتنے واقفین دیں.اگر خدا تعالیٰ نے مجھے زندگی دی تو اس وقت تک میں آپ کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ ساری جماعت کو قرآن کریم نہ پڑھا لوں.انشاء اللہ العزیز.اور جب تک آپ ضرورت کے مطابق واقفین نہ دینے لگ جائیں.میں آپ کو جھنجھوڑتا رہوں گا.بجائے اس کے کہ میں آپ کو زیادہ تنگ کروں.آپ پر ناراض ہوں اور آپ کو جھنجھوڑ وں اور پھر آپ واقفین دیں.آپ پہلے ہی واقفین دے دیں.تاہم سب مل کر آرام کے ساتھ اپنے کام میں مشغول ہو جائیں.پڑھے ہوئے کی دو تعریفیں ہیں.ایک پڑھا ہوا وہ ہے جس کو انسان نے پڑھایا ہو.اور ایک پڑھا ہوا وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے پڑھایا ہو.اور جس کو خدا تعالیٰ نے پڑھایا ہو.وہ اس شخص کی نسبت جسے کسی انسان نے پڑھایا ہو.زیادہ پڑھا ہوا ہے.پس جب آپ خدا تعالیٰ کے شاگرد بننے کی نیت سے روانہ ہوں گے.تو اللہ تعالیٰ آپ کے اس بھروسہ کو ضائع نہیں کرے گا.آج میں نے کافی باتیں کر دی ہیں.میرا دل تو نہیں چاہتا کہ میں آپ کے پاس سے اٹھ کر جاؤں.لیکن اور بھی کام ہیں جو میں نے کرنے ہیں.اور پھر کچھ بیمار بھی ہوں.اگر ہو سکا تو انشاء اللہ پروگرام کے علاوہ بھی اس اجتماع میں حاضر ہوں گا.ورنہ پروگرام کے مطابق ایک تو میری تقریر ہے ہی.اس تقریر میں میں ایک بنیادی مسئلہ بیان کرنا چاہتا ہوں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 35

سبیل الرشاد جلد دوم انصار کے دو کام انصار اللہ کے ذمہ دوستم کے کام ہیں.ایک کام بحیثیت افراد جماعت.جماعت کی ذمہ داریوں کو دوسروں کی نسبت بہتر رنگ میں ادا کرنے کی ذمہ داری ہے اور دوسرا کام اس تنظیم کے لحاظ سے بحیثیت انصار.انصار اللہ کی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کی ذمہ داری ہے.بحیثیت افراد جماعت جو ہماری ذمہ داریاں ہیں ان میں سے کچھ صدرانجمن احمدیہ کی تنظیم سے تعلق رکھتی ہیں، کچھ تحریک جدید کی تنظیم سے تعلق رکھنے والی ہیں اور کچھ کا واسطہ وقف جدید کے ساتھ ہے.سبیل الرشاد جلد دوم صفحه (2) 16

Page 36

سبیل الرشاد جلد دوم 17 سید نا حضرت خلیفۃالمسیح الثالث" کا انتقامی خطاب ! سید مورخه ۳۰ اکتوبر ۱۹۶۶ ء ساڑھے گیارہ بجے قبل دو پہر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے گیارہویں سالانہ اجتماع سے جو اختتامی خطاب فرمایا.اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تشهد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ تلاوت فرمائیں.إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِىَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَعُوْنَ نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍن وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ.اس کے بعد فر مایا.جس بنیادی مسئلہ کے متعلق میں اپنے دوستوں سے کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء دنیا میں اس لئے مبعوث ہوتے رہے ہیں کہ وہ ان لوگوں پر جو ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کی ہدایتوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کے لئے تیار ہو جائیں، خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں کھولیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے اصول ان کو بتا ئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کا انہیں وارث بنائیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ، اعلیٰ اور ارفع تھے.جو کتاب اللہ تعالیٰ نے آسمان 1 سوره حم السجدہ آیات ۳۱ تا ۳۴

Page 37

18 سبیل الرشاد جلد دوم سے آپ پر نازل کی وہ تمام دنیا کے لئے اور تمام ملکوں کے لئے اور تمام زمانوں کے لئے ہے.جو قوت قدسیہ جو روحانی تا شیروں کی قوت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی وہ نہ ختم ہونے والی اور نہ مرنے والی ہے.قیامت تک آپ کے فیوض جاری ہیں اور قیامت تک جو چاہیں آپ کے چشمہ سے سیر ہو کر روحانیت کا پانی پی سکتے ہیں اور آپ کے فیوض کے حصول کے بعد ان راہوں پر گامزن ہو کر جو آپ نے دنیا کو بتا ئیں ، اپنے مولی ، اپنے پیدا کرنے والے، اپنے رب کی رضا کو اور اس کی خوشنودی کو حاصل کر سکتے ہیں.یہ آیات جو میں نے ابھی پڑھی ہیں ان میں اسی بنیادی مسئلہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے.اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا وہ لوگ جو اپنے قول اور اپنے فعل سے اس دعوے کا اظہار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مقدس ذات اور ان صفات کاملہ کے ساتھ ، اُن صفاتِ حسنہ کے ساتھ جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خود کو پیش کیا ہے ، وہ اللہ ہمارا رب ہے.اس نے ہمیں پیدا کیا.وہی ہماری ربوبیت کرنے والا ہے.جو جسمانی اور روحانی قوی اور استعدادیں اس نے ہمیں دی ہیں اگر اس کی ربوبیت ہمارے شاملِ حال نہ ہو تو ہم ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے.وہ خود ہمارے ہاتھ کو پکڑتا ہے.ہمیں اپنی تربیت میں لیتا ہے اور جس غرض کے لئے اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اُس غرض کو اپنے فضل سے اس طرح پورا کر دیتا ہے کہ ہمیں وہ اپنا کامل اور نیک اور محبوب بندہ بنادیتا ہے کیونکہ انسانی پیدائش کی غرض ہی یہ ہے کہ انسان خدا کا بندہ بن جائے.تو اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جولوگ اپنے قول اور اپنے فعل سے اس دعویٰ کا اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو جس صورت اور جس رنگ میں قرآن کریم میں انسان کے سامنے پیش کیا گیا ہے.وہ اللہ ہمارا پیدا کرنے والا اور ہماری ر بوبیت کرنے والا ، ہمیں کامیابی تک پہنچانے والا ہے.پھر وہ اِسْتَقَامُوا.فطرتِ صحیحہ کی اس آواز پر استقامت کے ساتھ قائم رہتے ہیں اور مستقیم الفطرت بنے رہتے ہیں.ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ یہ فطری ہئیت کہ بندہ، بندہ ہے اور رب ، رب ، اس فطرت صحیحہ پر وہ قائم رہیں اور یقین رکھیں کہ خود وہ کچھ بھی نہیں.تو فرمایا کہ جو لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس قسم کا دعوی کرتے ہیں.ہمارا ان کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے کہ ہم دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ محض زبانی دعویٰ

Page 38

19 سبیل الرشاد جلد دوم نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے اور اس عزم کے ساتھ ہے کہ خواہ کچھ ہو جائے ہم استقامت کا نمونہ دنیا کے سامنے ظاہر کریں گے.اگر ہم اپنے رب کی راہ میں پیسے جائیں اور غبار بنادیے جائیں.اگر مخالفت کی آندھیاں ہمارے غبار کو اڑا کے دنیا میں اس طرح منتشر کر دیں کہ ہمارا کوئی ذرہ بھی کسی کو نظر نہ آئے ، تب بھی ہم اس مقام عبودیت سے ہٹیں گے نہیں.یہ کیفیت ان لوگوں کے دلوں کی ہے اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں تمہیں بتاؤں گا کہ یہ اپنے دعوئی میں بچے ہیں.تو فرمایا ان کے اوپر ابتلا نازل ہوں گے.اور وہ امتحانوں میں ڈالے جائیں گے.دشمن اُن کو اس رنگ میں پیسے گا ان کو یہ نظر آ رہا ہو گا کہ خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت کے بغیر اُن کی کامیابی تو کیا ان کا زندہ رہنا بھی ممکن نہ رہے گا.اُس وقت ان کی یہ حالت ہوگی کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کو تسلی نہ دیں تو وہ مایوسی سے ہی مر جائیں.تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے میں انہیں اس قسم کے ابتلاؤں سے گزاروں گا.اور جب یہ حالت ہو جائے گی کہ دنیا کی کوئی تدبیر اور سلسلہ باقی نہ رہے گا.دنیا کے سارے سہارے ٹوٹ جائیں گے.تب میں آسمان پر فرشتوں سے کہوں گا زمین پر اتر و اور میرے بندوں کو سہارا دو - تتتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ اُس وقت آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے اور اُن سے کہیں گے کہ یہ تو ایک حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا تمہیں چھوڑ چکی ہے.یہ بھی ایک صداقت ہے کہ دنیا کا کوئی سہارا تمہارے پاس نہیں رہا.اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ اگر صرف دنیا پر نگاہ کی جائے تو تمہاری ناکامی ، تمہاری ذلت تمہاری موت ، تمہارا نیست و نابود ہو جانا یقینی ہے.لیکن اس کے باوجود تم تسلی رکھو کہ دنیا کی کوئی طاقت تمہیں مٹا نہیں سکتی.کیونکہ ہمیں آسمان سے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے اور اس غرض سے بھیجا ہے کہ تمہیں بشارت دیں کہ ڈرو نہیں خدا کے فرشتے تمہارے ساتھ ہیں.پھر فرمایا کہ ہما را ابتلا اس قسم کا ہوگا.ہمارا امتحان یہ رنگ اختیار کرے گا کہ دنیا کی ہر چیز اُن سے چھین لی جائے گی یا خطرے میں پڑ جائے گی.اس وقت آسمان سے فرشتوں کا نزول ہوگا.اور وہ انہیں کہیں گے وَلَا تَحْزَنُوا غم مت کرو ان چیزوں پر جو تمہارے ہاتھ سے نکلی جا رہی ہیں.اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جو تم کھوؤ گے اس سے بہتر تم پاؤ گے.اگر ایک چیز تم سے چھینی جائے گی اگر ترقی کا ایک موقع تم ضائع کر دو گے.اگر سکونِ دنیوی اور اطمینان زندگی تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا.تو اس سے بہت بڑھ کر تمہیں دیا جائے گا.اس لئے جو ہاتھ سے گیا ہے اس پر غم کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ابشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ

Page 39

20 سبیل الرشاد جلد دوم جن جنتوں کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے.خدا کا وہ وعدہ پورا ہو کر رہے گا.خوف اور حزن کی بجائے خوش ہوا ور خوشی سے اچھلو کہ خدا تعالیٰ نے تم سے جو وعدے کئے ہیں.وہ بہت ہی بلند اور ارفع ہیں اور اتنے وسیع ہیں ، اتنے خوبصورت ہیں، اتنے حسین ہیں ، اتنے پائیدار اور ابدی ہیں کہ دنیا کا ان کے ساتھ کوئی مقابلہ ہی نہیں.اس لئے خوف کا مقام نہیں کیونکہ تمہاری تمام کمزوریوں کے با وجود دنیا کی کوئی طاقت تمہیں مٹا نہیں سکتی.اور دنیا کا تمہارے ہاتھ سے نکل جانا تمہیں اس لئے غمگین نہیں کر سکتا کہ جو تم سے امتحان کے رنگ میں لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں انعام کے رنگ میں دیا جائے گا.اور وہ فرشتے ان سے کہیں گے نَحْنُ اَولِیؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے متکفل ہیں کہ تم میرے ان بندوں کو یہ بتا دو کہ اس دنیا میں بھی فرشتے ان کے دوست ہیں اور ولی ہیں اور منہ اور اخروی زندگی میں بھی وہ ان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے.کیونکہ ان کی دوستی خدا کے حکم سے وفا کے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھے ہوئے ہے.جس طرح اس دنیا میں وہ فرشتے ان کے ولی ہیں.آخرت میں بھی وہ ان کے دوست اور ولی ہوں گے.پھر فرمایا وَ لَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي اَنْفُسُكُم الله تعالیٰ مومن کو اس مقام پر کھڑا کر دیتا ہے کہ اس کے دل کی خواہش ہی وہ ہوتی ہے جو نیک اور صالح ہو.اور وہ پوری ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو دنیا میں دکھ کیوں پہنچتے ہیں، اذیتیں انہیں کیوں اٹھانی پڑتی ہیں ؟ آپ نے اس اعتراض کا کیا ہی لطیف جواب دیا ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ تم کہتے ہو کہ خدا کے بندوں کو خدا کی راہ میں کیوں تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں.تم ان سے تو جا کے پوچھو کہ وہ کیا سمجھتے ہیں.جو تمہاری نگاہ میں تکلیف اور ایذا ہے ان کی نگاہ اور ان کے احساس میں وہی لذت اور سرور ہے.اس لئے تمہارا یہ اعتراض ہی غلط ہے.کیونکہ وہ بندہ خدا اسے دُکھ اور ایذ انہیں سمجھ رہا.وہ تو کہتا ہے کہ دنیا بجھتی ہے کہ وہ مجھے ایذا دے رہی ہے.مگران کی ایذا دہی کے نتیجہ میں جولذت اور سرور مجھے مل رہا ہے اس سے تو دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ اس سے دس گنا ، اس سے ہیں گنا ، اس سے سو گنا اس سے ہزار گنا اس سے بے شمار گنا اذیت دیں اور دکھ پہنچا ئیں تا موجودہ لذت سے بے شمار گنا

Page 40

21 سبیل الرشاد جلد دوم لذت میں حاصل کروں - وَلَكُمُ فِيهَا مَا تَشْتَهِىَ اَنْفُسُكُمُ ہر وہ خواہش جو تم کرو گے اس دنیا میں بھی اور اس کے بعد اخروی زندگی میں بھی وہ تمہیں دی جائے گی اور جیسا کہ قرآن کریم کی تعلیم ہمیں بتاتی ہے، اس مقام پر پہنچ کر مومن بندہ کے دل میں ہی خواہش پیدا ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مجھے مل جائے.اور اس کی خواہش اور دلی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اگر اور جب خدا تعالیٰ کی رضا مجھے مل جائے تو اس میں تو اتنی لذت اور اتنا سرور اور اتنا سکون اور اتنا آرام ہے کہ دنیا کے تمام آرام اس کے چھوٹے سے حصہ پر بھی قربان.یہ ایک ایسا مقام مومن کو ملتا ہے کہ اس کی ہر خواہش پوری ہوتی ہے کیونکہ اس کی ہر خواہش نیک خواہش ہوتی ہے.وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَعُونَ جو تمنا بھی تم کرو اور جس کسی چیز کے حصول کا تم ارادہ کرو وہ تمہیں مل جائے گی.اسی مضمون کی آگے جا کر یوں وضاحت فرمائی - نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ اور یہ بڑا ہی پیارا مضمون ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یہ سلوک جو تمہارے ساتھ کیا جا رہا ہے.جس نے تمہاری تمام تکالیف کو یکسر مٹا کے تمام لذتوں کو تمہارے لئے جمع کر دیا ہے.یہ غفور اور رحیم خدا کی طرف سے بطور مہمان نوازی کے ہے.اس میں اس طرف اشارہ کیا کہ دنیا کے سارے گھروں کو چھوڑ کر تم نے خدا کے گھر کو پسند کیا.دنیا کی تمام راہوں کو ترک کر کے ان راہوں پر چلنا تم نے قبول کیا جو بظاہر تنگ تھیں ، جو بظا ہر کھر دری تھیں جو بظاہر تکلیف دہ تھیں مگر تمہیں وہی خدا کی رضا تک پہنچانے والی تھیں.دنیا کے سارے دروازوں کو تم نے ٹھکرا دیا.اور خدا کے در پر تم نے دھونی رمائی اور وہاں آ کر بیٹھ گئے.کیسے ہو سکتا ہے کہ اس شخص کو اللہ تعالیٰ چھوڑ دے.جس نے اس کی خاطر دنیا کو چھوڑا تھا اور دنیا کے تمام دروازوں کو ٹھکرا دیا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے میرے در کو باقی تمام دروں پر ترجیح دی اور میرے ہو کر میرے دروازے پر بیٹھ گئے.اب میری طرف سے ہمیشہ کے لئے تمہارے لئے ایک مہمانی کا سامان پیدا کیا جا رہا ہے.نُزُلًا مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ اور اس مہمانی کا سامان پیدا کرتے ہوئے تمہاری خطاؤں اور غفلتوں پر میں اپنی مغفرت کی چادر ڈال دوں گا.پس یہ خیال نہ کرنا کہ خدا معلوم ہماری ان کوتاہیوں اور غفلتوں اور سرکشیوں کو معاف بھی کیا جاتا ہے یانہیں.کیونکہ جب تم میرے ہو گئے تو تمہارے سارے گناہوں اور غفلتوں اور سستیوں پر میری مغفرت کی چادر ڈال دی گئی اور تمہیں معاف کر دیا گیا.اور چونکہ تم نے بار بار کوشش کی کہ تم میری راہ کو نہ چھوڑو.اور میرے در سے علیحدہ نہ رہو.شیطان نے تم پر بار بار حملہ کیا کہ تمہیں گمراہ کر دے.اور تم نے

Page 41

سبیل الرشاد جلد دوم 22 بار بار اس کا مقابلہ کیا.اور تم میری خاطر شیطان سے ساری عمر جنگ کرتے رہے.تو اب میں بھی بطور رحیم خدا کے اپنا فضل تم پر بار بار کرتا چلا جاؤں گا.اور میری یہ مہمانی کبھی ختم نہیں ہوگی.یہ وہ مقام ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کے طفیل حاصل کیا اور یہ وہ مقام ہے جو امت محمدیہ میں ہزاروں لاکھوں انسان گزشتہ چودہ سوسال میں حاصل کرتے رہے.اور یہ وہ مقام ہے کہ جب مسلمان اپنے خدا کو اور اپنے رسول کو ، اپنے قرآن کو بھول گئے اور انہوں نے قرآن کو مہجور کے طور پر بنا دیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دنیا میں مبعوث فرمایا اور ان رحمتوں اور ان فیوض کے دروازے از سر نو کھول دیئے.جن فیوض اور رحمتوں کو ہمارے پیارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی طرف لے کر آئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے بھی یہی وعدہ کیا کہ جو لوگ تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام کی حقیقت کو سمجھنے اور قرآن کریم کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور پھر اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالیں گے تو اسی کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے گا.جیسا کہ صحابہ سے سلوک کیا گیا تھا کیونکہ وہ بھی مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِینَ کی تصویر تھے.سو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے جو تمنا کی اور ان کا جوا رادہ اور خواہش تھی.وہ دَعَا الى الله “ کی ہی خواہش تھی.ماتدعون وہ خدا کی طرف بلانے والے تھے.خالص تو حید کو قائم کرنے والے تھے.اور مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَعَمِلَ صَالِحاً ان کے نفس میں جو خواہش پیدا ہوتی تھی وہ یہی تھی کہ ایسا عمل کریں جو خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ہو.اور جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہمیں حاصل ہو جائے.اور ان کا مقام یہ تھا کہ ہم نے اپنی گردنیں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اور بغیر کسی ریزرویشن (Reservation) کے اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکا دی ہیں.جس طرح وہ چاہے ہم سے سلوک کرے ہم نے اپنے مقامِ عبودیت کا عرفان حاصل کر لیا ہے.اب ہمارا کوئی مطالبہ نہیں.ہم خدا کے تھے اور آج ہم علی وجہ البصیرت کہتے ہیں.کہ ہم خدا کے ہیں، خدا کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں.جس حالت میں اور جس طور پر اس دنیا میں یا اُخروی زندگی میں وہ ہمیں رکھے.ہم اس کی رضا پر راضی رہیں گے.یہ مقام جیسا کہ صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاصل کیا اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں نے بھی حاصل کیا.اور اس کے نتیجہ میں جیسا کہ صحابہ نبی اکرم

Page 42

23 سبیل الرشاد جلد دوم صلی اللہ علیہ وسلم پر آسمان سے فرشتے نازل ہو کر مصیبت کے وقتوں میں انہیں یہ کہتے رہے کہ مایوس نہ ہونا ہم تمہارے ساتھ ہیں.اسی طرح صحابہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر فرشتے نازل ہوتے تھے اور کہتے تھے.تمہیں کیا خوف اور تمہیں کیا غم تمہارے ساتھ تو خدا ہے اور خدا تعالیٰ نے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ تمہارے ساتھ ہے تمہارے پاس فرشتوں کی ایک فوج بھیج دی ہے.جن لوگوں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں ان سے مکالمہ مخاطبہ، رؤیا اور کشوف کا ایک سلسلہ جاری ہو جاتا ہے.صحابہ کرام پر مکالمہ ومخاطبہ اور رؤیا اور کشوف کا سلسلہ بڑی کثرت سے جاری تھا.لیکن انہوں نے اپنے مقام کو بھی سمجھا ہوا تھا.وہ ان چیزوں کو اس وقت تک ظاہر نہیں کرتے تھے جب تک اسلام کا اس میں فائدہ نہ دیکھیں چنانچہ حضرت عمرؓ جیسے انسان کے متعلق صرف تین یا چار ایسی باتیں احادیث میں آتی ہیں.ممکن ہے کہ ایک آدھ اور بات بھی کتب میں مل جائے.لیکن عام طور پر تین یا چار باتیں ہی ہیں جن کا کتب میں ذکر آتا ہے اور وہ ساری کی ساری وہ ہیں جن کا اُس وقت ساری قوم اور امت مسلمہ سے تعلق تھا.ایک دفعہ آپ نے ایک مہم پر ایک فوج بھجوائی.خطبہ جمعہ کے وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس فوج کا نظارہ دکھایا.اس فوج کا کمانڈر غلطی کر رہا تھا.آپ نے فرمایا پہاڑ کی طرف پہاڑ کی طرف.لوگ حیران تھے کہ انہیں کیا ہو گیا ہے.خطبہ پڑھ رہے ہیں اور کمانڈر کا نام لے کر کہتے ہیں کہ پہاڑ کی طرف جاؤ ، پہاڑ کی طرف جاؤ.بعد میں آکر اس کمانڈر نے بیان کیا کہ میں غلطی کر رہا تھا.مجھے آسمان سے یہ آواز آئی کہ پہاڑ کی طرف جاؤ.پہاڑ کی طرف جاؤ.تب ہم ادھر ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے اس طرف ہمیں فتح دی.لیکن چونکہ یہ بزرگ اپنے اس تعلق قرب کا اظہار لوگوں میں کرنا پسند نہیں کرتے تھے (جیسا کہ آگے جا کر میں ذرا تفصیل سے بیان کروں گا ) سوائے اس کے کہ ایسی باتوں کا بتایا جانا قومی مصالح کے پیش نظر ضروری ہو.اس لئے ایسے واقعات کا ذکر کتب میں کم پایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام پر فرشتوں کا بڑی کثرت سے نزول ہوا کرتا تھا.وہ انہیں بشارتیں دیتے تھے.وہ وحی والہام کے ذریعہ سے ان کے دلوں کو تقویت پہنچاتے تھے.وہ لوگ فرشتوں کے ذریعہ سے سچے رؤیا اور کشوف دیکھنے والے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں بھی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشارت دی تھی.بڑی کثرت سے ایسے لوگ پائے جاتے تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ اب

Page 43

سبیل الرشاد جلد دوم 24 بھی بڑی کثرت سے پائے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا تھا.إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ) نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک اور بشارت یہ بھی دی کہ يَنصُرُكَ رَجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِّنَ السَّمَاءِ ) وہ لوگ جو دنیا چھوڑ کر.دنیا کے آرام کو ترک کر کے اپنے نفسوں اور اپنے اموال کے ساتھ تیری مدداور نصرت کو آئیں گے.ہم ان پر اپنا یہ انعام کریں گے کہ نُوحِی إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ آسمان سے ان پر وحی نازل ہوا کرے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں خدا تعالیٰ نے اس گروہ کو اپنا جلال ظاہر کرنے کے لئے اور اپنی قدرت دکھانے کے لئے پیدا کرنا اور پھر ترقی دینا چاہا ہے.تا دنیا میں محبت الہی اور تو بہ نصوح اور پاکیزگی اور حقیقی نیکی اور امن اور صلاحیت اور بنی نوع کی ہمدردی کو پھیلا دے سو یہ گروہ اس کا ایک خالص گروہ ہوگا.اور وہ انہیں آپ اپنی روح سے قوت دے گا اور انہیں گندی زیست سے صاف کرے گا اور ان کی زندگی میں ایک پاک تبدیلی بخشے گا.وہ جیسا کہ اس نے اپنی پاک پیشن گوئیوں میں وعدہ فرمایا ہے.اس گروہ کو بہت بڑھائے گا اور ہزار ہا صادقین کو اس میں داخل کرے گا.وہ خود اس کی آبپاشی کرے گا اور اس کو نشو ونما دے گا.یہاں تک کہ ان کی کثرت اور برکت نظروں میں عجیب ہو جائے گی اور وہ اس چراغ کی طرح جو اونچی جگہ رکھا جاتا ہے دنیا کی چاروں طرف اپنی روشنی کو پھیلائیں گے اور اسلامی برکات کے لئے بطور نمونہ کے ٹھہریں گے.وہ اس سلسلہ کے کامل متبعین کو ہر یک قسم کی برکت میں دوسرے سلسلہ والوں پر غلبہ دے گا.اور ہمیشہ قیامت تک ان میں سے ایسے تذکرہ صفحه ۶۲۳ ایڈیشن چہارم تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه ۶۸۱

Page 44

سبیل الرشاد جلد دوم لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کو قبولیت اور نصرت دی جائے گی.25 پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بھی جو میں نے ابھی تلاوت کی ہیں.اور ان کے علاوہ دوسری جگہ بھی یہ وعدہ فرمایا ہے کہ آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں قیامت تک ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے کہ جو اپنے مقام عبودیت اور مقام نیستی کو پہچانتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کو اور اس کے قرب کو حاصل کریں گے.اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان پر نازل ہوتے رہیں گے.دنیا کا ہر خوف ان کے دلوں سے مٹا دیا جائے گا.اور دنیا کا کوئی حزن ان کے قریب بھی نہیں پھٹکے گا.اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے مطابق جماعت احمد یہ میں بھی صحابہ کرام کی مانند اور صحابہ سے ملنے والے لوگ کثرت سے پیدا کئے جائیں گے.جن پر آسمانی فرشتوں کا نزول ہو گا.اور وہ اللہ تعالیٰ سے ہر آن اور ہر دم بشارتیں حاصل کرنے والے ہوں گے یہ مقام جب کسی قوم کو حاصل ہوتا ہے تو بہت سے فتنے بھی اس کے سامنے آتے ہیں.اور بہت سے خطرات بھی اسے پیش آتے ہیں.اور ان کی طرف ہی میں خاص طور پر اپنے دوستوں اور بھائیوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.پہلا فتنہ تو ایسے موقع پر یہ پیش آتا ہے کہ جب دنیا یہ دیکھتی ہے کہ ایک شخص اکیلا کھڑا ہوا اور اس نے ایک بہت بڑا دعویٰ کیا.ساری دنیا نے پہلے تو اس کی مخالفت کی.اور پھر ایک وقت میں مجبور ہوئی کہ اس کے ساتھ شامل ہو جائے.تو ایسے وقتوں میں بہت سے جھوٹے مدعیانِ نبوت بھی کھڑے ہو جاتے ہیں.چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوے سے معا قبل آپ کو نظر آئے گا کہ کوئی جھوٹا مدعی نبوت عرب میں پیدا نہیں ہوا تھا.لیکن جب عرب والوں نے دیکھا کہ ایک شخص اکیلا کھڑا ہوا تھا.اور اس نے خدا تعالیٰ کے نام پر ایک آواز کو بلند کیا.دنیا نے اس کی مخالفت کی.لیکن دنیا کی مخالفت کے باوجود وہ کامیاب ہو گیا.تو ان کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ خدا تعالیٰ کے نام پر آواز کو بلند کرنے کے نتیجہ میں خواہ وہ جھوٹی آواز ہی کیوں نہ ہو.انسان کامیاب ہو جایا کرتا ہے.چنانچہ آپ کے بعد بہت سارے مدعیان نبوت پیدا ہو گئے اور ایک وقت میں خصوصاً حضرت خلیفہ اول ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں مدعیانِ نبوت کا ایک عظیم فتنہ بپا ہوا جس کا سر آپ نے خدا تعالیٰ کے فضل سے کچلا.اور اگر آپ لوگ حضرت ابوبکر کی خلافت کے زمانہ کی تاریخ تفصیل سے دیکھیں.آپ کے دل میں بڑی محبت کے مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحه ۱۶۵-۶۶ اطبع دوم

Page 45

سبیل الرشاد جلد دوم جذبات پیدا ہوں گے.آپ کو وہ مقام حاصل تھا جو ان آیات میں بیان کیا گیا ہے.26 تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو کوئی خوف نہیں تھا ، کوئی حزن نہیں تھا.خدا تعالیٰ کے شیر کی مانند آپ ان فتنوں کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے.ان کا مقابلہ کیا.ذرا بھی کمزوری نہیں دکھائی.مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لشکر باہر بھجوایا تھا بڑے بڑے صحابہؓ نے بھی اسے واپس بلانے کا مشورہ دیا تھا لیکن آپ نے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر کو باہر بھجوایا ہو.اور آپ کا خلیفہ ابوبکر اسے واپس بلا لے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب خدا تعالیٰ نے کہا کہ امتی اور ظلی نبی کی حیثیت میں تمہیں مبعوث فرماتے ہیں کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل ہونے کی حیثیت میں جو مقام آپ نے حاصل کیا ہے.وہ ظلیت میں پہلے انبیاء سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ پہلے انبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل ظل نہیں تھے.تو اس کے بعد دنیا میں بہت سارے مدعی نبوت پیدا ہو گئے.کچھ جماعت میں بھی پیدا ہو گئے اور مدعیان نبوت کا پیدا ہونا ایک بہت بڑا فتنہ ہے.بعض بد بخت اور بدقسمت انسان اس وقت ٹھو کر بھی کھا جاتے ہیں.ہماری جماعت کے بھی دو چار یا پانچ دس ایسے لوگ ہیں جنہوں نے ٹھوکر کھائی.بہر حال ایک تو یہ ابتلا آتا ہے کہ بہت سے مدعیانِ نبوت پیدا ہو جاتے ہیں.اور بعض کمزور ایمان والوں کی ٹھوکر کا موجب بنتے ہیں.اس لئے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے.اور اسی طرح دفاع کرنے کی ضرورت ہے.جس طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا.یعنی اپنے زمانہ کے حالات کے مطابق بہترین تدبیر اختیار کی.تدبیریں بدل جاتی ہیں لیکن ان کی روح نہیں بدلا کرتی.اسی اخلاص کے ساتھ ، اسی درد کے ساتھ اسی جوش کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے جس اخلاص، درد اور جوش کے ساتھ حضرت ابو بکر نے اس فتنہ کا مقابلہ کیا.یہ زمانہ تلوار کا نہیں.ہمارے سارے مقابلے قلم سے ہیں.ہمارے سارے مقابلے تحریر سے ہیں.ہمارے سارے مقابلے دلائل اور براہین سے ہیں.اور دراصل تو ہمارے سارے مقابلے عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ ہیں.یہ حربے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیئے ہیں.چوکنا رہ کر اور بیدار رہ کر اس قسم کے فتنوں کا جماعت کو مقابلہ کرنا چاہئے.جب بھی ضرورت پیش آئے اور جہاں بھی ضرورت پیش آئے.

Page 46

سبیل الرشاد جلد دوم دوسرا خطره جو ایسی الہی جماعت کو پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا 27 کی کیفیت پیدا ہو جانے کے بعد بھی پاؤں پھسلنے کا امکان باقی رہتا ہے کیونکہ شیطان اپنے تمام وساوس کے ساتھ ایسے شخص پر حملہ آور ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اپنے مقام سے پھسل جائے.شیطان نے تو ا خدا تعالیٰ سے یہی کہا تھا نا کہ جو تیرے قریب آئے گا اس کو پرے ہٹانے کی اجازت دے دے اور اللہ تعالیٰ نے کہا تھا ٹھیک ہے تو اپنا زور لگا لے.لیکن جو واقعہ میں میرے ہیں.وہ تیرے کبھی نہیں ہوں گے.تیرے وہی ہوں گے جو حقیقتاً میرے نہیں بنے.ایک حد تک انہوں نے میرا قرب حاصل کیا.لیکن وہ میرے کامل بندے نہیں بن سکتے.جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَا الَّذِى أَتَيْنَهُ ابْتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَنُ فَكَانَ مِنَ الْغُوِيْنَ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَلكِنَّةَ اَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَونَهُ ) یعنی سننے والوں کو اس شخص کے حالات بھی پڑھ کر سناؤ.جس کو ہم نے اپنے نشانات کا ایک خلعت عطا کیا تھا.اس نے ہماری راہ میں مجاہدہ کیا اور ہم نے اپنے وعدہ کے مطابق اس مجاہدہ کا اسے انعام دیا.اور ہم نے اس پر فرشتوں کا نزول کرنا شروع کر دیا.گو اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہے.اور وہ دلوں کو جانتا ہے.لیکن چونکہ لوگوں کو غلطی لگنے کا امکان تھا.چونکہ لوگوں کے پھسلنے کا امکان تھا.اس لئے جب ظاہر بین نگاہ نے اس کو رَبُّنَا اللہ کہتے اور اپنے دعوئی پر استقامت سے قائم ہوتے ہوئے دیکھا.اور خدا تعالیٰ کی راہ میں بظاہر قربانیاں کرتے ہوئے دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا چلو! اس سے باتیں کرو.لیکن چونکہ حقیقی عبودیت اور نیکی ایسے شخص کے دل میں پیدا نہیں ہوئی تھی اس لئے فَانسَلَخَ منها - خدا تعالیٰ نے جو خلعت اس کو پہنایا تھا اس نے اس کی بجائے اور کپڑے پہننے چاہے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے اپنے انعام کو واپس لے لیا.انسلخ کے اصلی معنے یہ ہیں کہ اِنسَلَخَ مِنْ ثِيَابِهِ - تَجَرَّدَ - اس نے کپڑا اتار دیا.اور ننگا ہو گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَانْسَلَخَ مِنْهَا یعنی ہم نے اپنی آیات اور نشانات اور الہام اور کشوف اور رؤیا کے ذریعہ ایک 1 سورہ اعراف آیت ۱۷۶-۱۷۷

Page 47

28 سبیل الرشاد جلد دوم خلعت اس کو عطا کیا گیا تھا.مگر اس نے اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے لباس التقومی کو اتار کر لباس نمائش، لباس فخر اور لباس تکبر پہننا چاہا تو چونکہ لِبَاسُ التَّقوی کے ہوتے ہوئے دوسرے لباس نہیں پہنے جا سکتے.اس لئے اس نے خدا تعالیٰ کے عطا کر دہ خلعت کو اتار دیا.اور تکبر کا جو چولہ تھا وہ پہن لیا.نخوت کا چولہ اس نے اپنے اوپر ڈال لیا.جب اس کے دل کی یہ حالت ہوئی تب شیطان کو پتہ لگا کہ یہ تو نیک بندہ نہیں ہے.پہلے تو ڈر کے مارے شیطان اس کے پاس نہیں جاتا تھا.لیکن جب شیطان نے اس کی فَانْسَلَخَ مِنْهَا کی کیفیت دیکھی تو اس نے کہا او ہو غلطی ہو گئی.اس کو پہلے ہی شکار کر لینا چاہئے تھا.تب شیطان نے کیا کیا ؟ فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطن شیطان نے اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیا.فَكَانَ مِنَ الْغُوِيْنَ اور اس تباہی اور ہلاکت کے گڑھے میں اس نے جا پھینکا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا کہ اگر ہمیں یہ بات پسند ہوتی کہ ظاہری تقویی کافی ہے تو ہم ایسے لوگوں کا حقیقی روحانی رفع کر دیتے.لیکن ہمیں یہ بات پسند نہیں ہے.ہمیں تو حقیقی نیکی ، حقیقی تقوی پسند ہے.اس لئے ہم ایسے لوگوں کا رفع نہیں کیا کرتے - وَلكِنَّةَ اخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ ایسے لوگ زمین کی طرف جھک جاتے ہیں اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں.ایسے لوگوں کا جو نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والے ہوں.اللہ تعالی کی نگاہ میں رفع روحانی نہیں ہوا کرتا.یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو ایک وقت تک ظاہری لحاظ سے نیکی اور تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ دوسروں کو ابتلاء سے بچانے کی خاطر ان کی ظاہری نیکیوں کو دیکھتے ہوئے بھی باوجود اس کے کہ وہ ان کے حالات کو جانتا ہے ان کے ساتھ ایک حد تک فرشتوں کے ذریعہ محبت اور پیار کا سلوک بھی ظاہر کرتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتا ہے کہ ابدی تعلق اس شخص کا میرے ساتھ نہیں ہے.اس لئے یہ میری ابدی رحمتوں کا وارث نہیں ہو گا.چنانچہ اس علم الغیب اور حقیقی علم کے نتیجہ میں دنیا پھر یہ نظارہ دیکھتی ہے کہ اس شخص نے روحانی چونے کو اتارا اور دنیوی خوبصورت لباس کو پسند کیا.تب وہ خدا تعالیٰ کے دروازہ سے دھتکارا گیا اور شیطان کی گود میں جا بیٹھا.پس یہ مقام خطرہ کا مقام ہے.خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کی لعنت اور اس کے قہر کا مورد ہو جانا ، کوئی ایسا انسان جس میں ذرہ بھر بھی عقل ہو.ایک لحظہ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتا.ظاہری نمود اور نمائش کی خاطر حقیقی خوشیوں کو چھوڑ دینا انتہائی بدبختی ہے.ایسے لوگ جن سے اللہ تعالیٰ محبت کا اظہار کرے جب تک انجام بخیر نہ ہو جائے ہر وقت خوف سے گھومتے رہتے ہیں کہ ہماری کسی کوتا ہی یا غفلت یا شامت اعمال کے نتیجہ میں کہیں اللہ تعالیٰ کا غضب ہم پر نازل نہ ہو.جیسا کہ میں

Page 48

سبیل الرشاد جلد دوم آگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض حوالے 29 آپ کو پڑھ کر سناؤں گا.کہ آپ نے کس رنگ میں ان چیزوں پر کتنی روشنی ڈالی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.چنانچہ بلغم کو الہامات ہوتے تھے مگر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے کہ لَوْ شِتُنَا لَرَفَعَنه ثابت ہوتا ہے کہ اس کا رفع نہیں ہوا تھا.یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور میں وہ کوئی برگزیدہ اور پسندیدہ بندہ ابھی تک نہیں بنا تھا.یہاں تک کہ وہ گر گیا.ان الہامات وغیرہ سے انسان کچھ بن نہیں سکتا.انسان خدا کا بن نہیں سکتا جب تک کہ ہزاروں موتیں اُس پر نہ آویں اور بیضہ بشریت سے وہ نکل نہ آئے.“ میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اردو ادب میں ایک نئے محاورہ بیضہ بشریت سے نکل آنا کا اضافہ کیا ہے.اور یہ بڑا ہی لطیف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انسان کی بشریت کو ایک انڈے سے مشابہ قرار دیا ہے.اور فنافی اللہ کے مقام کو وہ مقام بتایا ہے.جب انڈے میں سے بچہ باہر نکل آتا ہے.پھر اس خول کے ساتھ اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہتا.وہ اس میں واپس جا ہی نہیں سکتا.پس جب تک انسان کی روحانیت اُس مقام تک نہ پہنچ جائے کہ اس کا گند اور گناہ کی طرف ارتداد اور واپس لوٹ جانا عملاً نا ممکن ہو جائے اُس وقت تک وہ حقیقی معنی میں خدا تعالیٰ کے نزدیک برگزیدہ نہیں بنتا، تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ الہام رؤیا اور کشوف کوئی چیز نہیں.ان پر فخر اور ناز نہیں کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں یہ بتایا ہے کہ الہام وغیرہ سے یہ پتہ نہیں لگتا کہ انسان واقعہ میں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ایسا بن گیا ہے کہ اس کا انجام بخیر ہو.پس ایک عقلمند کے لئے ہر وقت مقام خوف ہے.سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر انسان کس طرح اس ابتلاء اور امتحان سے حفاظت اور کامیابی کے ساتھ نکل سکتا ہے.اس تعلق میں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں دو اصولی باتیں بیان کی ہیں.ایک یہ کہ اپنے آپ کو یا اپنوں کو کبھی بھی نیک نہ سمجھو اور نہ نیک قراردو - لا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ 1 احکام ۳۰ را پریل ۱۹۰۱ء بحوالہ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول، صفحه ۲۸۶ سورة النجم آیت ۳

Page 49

30 سبیل الرشاد جلد دوم اور دوسرے یہ کہ خواہ تم روحانیت میں کتنے ہی بلند مقام تک کیوں نہ پہنچ جاؤ.ہمیشہ یہ سمجھو کہ روحانیت کی جو چادر ہمیں پہنائی گئی ہے.وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی پہنائی گئی ہے.اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ایک لحظہ کے لئے بھی ہم سے جدا ہو جائے تو روحانیت کی یہ چادر بھی فوراً ہم سے جدا ہو جائے گی ، تو ہر چیز مستعار ہے.جب تک کہ انجام بخیر نہ ہو جائے اور انسان ابدی رحمتوں کے دروازہ میں داخل نہ ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :.دد کبھی یہ دعویٰ نہ کرو کہ میں پاک صاف ہوں.جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمْ کہ تم اپنے آپ کو مزکئی مت کہو.وہ خود جانتا ہے کہ تم میں سے متقی کون ہے.جب انسان کے نفس کا تزکیہ ہو جاتا ہے تو خدا اس کا متولی اور متکفل ہو جاتا ہے اور جیسے ماں بچے کو گود میں پرورش کرتی ہے اسی طرح وہ خدا کی گود میں پرورش پاتا ہے.اور یہی حالت ہے کہ خدا تعالیٰ کا نور اس کے دل پر گر کر کل دنیاوی اثر وں کو جلا دیتا ہے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر محسوس کرتا ہے.لیکن ایسی حالت میں بھی اُسے ہرگز مطمئن نہ ہونا چاہئے کہ اب یہ طاقت مجھ میں مستقل طور پر پیدا ہوگئی ہے اور کبھی ضائع نہ ہوگی.جیسے دیوار پر دُھوپ ہو تو اس کے یہ معنے ہر گز نہیں ہوتے کہ یہ ہمیشہ ایسی ہی روشن رہے گی.اسی پر لوگوں نے ایک مثال لکھی ہے کہ دیوار جب دھوپ سے روشن ہوئی تو اس نے آفتاب کو کہا کہ میں بھی تیری طرح روشن ہوں.آفتاب نے کہا کہ رات کو جب میں نہ ہوں گا تو پھر کہاں سے تو روشنی لے گی ؟ اسی طرح انسان کو جو روشنی عطا ہوتی ہے وہ بھی مستقل نہیں ہوتی.بلکہ عارضی ہوتی ہے اور ہمیشہ اُسے اپنے ساتھ رکھنے کے لئے استغفار کی ضرورت ہے.انبیاء جو استغفار کرتے ہیں اس کی بھی یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ ان باتوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کو خطرہ لگا رہتا ہے کہ نور کی چادر جو ہمیں عطا کی گئی ہے.ایسا نہ ہو کہ وہ چھن جاوے...کوئی نبی جس قدر زیادہ استغفار کرنے والا ثابت ہو گا اُسی قدر اس کا درجہ بڑا اور بلند ہوگا.لیکن جس کو یہ حالت حاصل نہیں تو وہ خطرہ میں ہے اور ممکن ہے کہ کسی وقت اس سے وہ چا در حفاظت کی چھین لی جاوے.کیونکہ نبیوں کو بھی وہ مستعار طور پر ملتی ہے.اور وہ پھر سوره النجم آیت ۳۳

Page 50

سبیل الرشاد جلد دوم استغفار کے ذریعہ سے مدامی طور پر رکھتے ہیں.بات یہ ہے کہ اصل انوار تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں.اور نبی ہو یا کوئی اور سب خدا سے انہیں حاصل کرتے ہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ.” میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبر اور فخر نہ کرے.نہ علمی ، نہ خاندانی ، نہ مالی.جب خدا تعالیٰ کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جوان ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے.وہ آسمان سے ہی آتی ہے اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے.آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جب تک سورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے نہ آئے.اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظلمت کو دور کرتی ہے اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے آسمان ہی سے آتی ہے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ ، ایمان ، عبادت ، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے.اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے ، وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دُور کر دے.پس کچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشئی محض سمجھے اور آستانہ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے.اور اس نور معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتا ہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لئے ایک قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے.پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت اور کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے تو اس پر تکبر اور ناز نہ کرے.بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اور بھی ترقی ہو..میں یہ سب باتیں بار بار اس لئے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی اُسے دوبارہ قائم کرے.“ 31 ملفوظات حضرت مسیح موعود جلد چہارم صفحه ۹۶-۹۷ ملفوظات حضرت مسیح موعود جلد چہارم صفحه ۲۱۳ - ۲۱۴

Page 51

سبیل الرشاد جلد دوم قرآن کریم کی اس آیت میں 32 جس کو میں نے ابھی پڑھا ہے.جس ابتلاء اور اللہ تعالیٰ کی جس ناراضگی کا بیان ہے اس سے بچنے کا طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے انسان اپنے نفس اور اپنے نفس کی تمام خواہشات اور ارادوں پر ایک موت وارد کرے اور عاجزانہ راہوں کو وہ اختیار کرے.اور استغفار کے ذریعہ اپنے رب سے قوت حاصل کرے.اور ہمیشہ یہ سوچتا ر ہے اور ہمیشہ اس بات پر قائم رہے کہ مجھے روحانی انوار میں سے جو بھی ملا ہے وہ میری کسی ذاتی خوبی کے نتیجہ میں نہیں ملا بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں وہ مجھے ملا ہے اور دینے والے میں یہ طاقت بھی ہے کہ اگر میں اس کو ناراض کر دوں تو وہ ان انوار کو مجھ سے چھین بھی لے.تو اللہ تعالیٰ کی پناہ میں اور استغفار کے ذریعہ ہمیں اپنی زندگیوں کے دن گزار نے چاہئیں کہ جو ، ان حدود کو پھلانگتا ہے وہ اپنے لئے بڑے خطرات مول لیتا ہے.پھر ایک اور خوف اور تشویش اس جماعت کو رہتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ سوچتے ہیں کہ ہم تو اپنی زندگیاں مقام فنا اور مقام نیستی پر قائم رہتے ہوئے گزار دیں گے.محض خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ.لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں آنے والی نسلیں یا بعد میں شامل ہونے والے، خدا تعالیٰ کی ان عظیم روحانی نعمتوں کا عرفان نہ رکھنے کی وجہ سے ان سے محروم ہو جائیں.پس اس خیال سے ہمیشہ وہ پریشان رہتے ہیں اور اس کوشش میں رہتے ہیں کہ خدا کے فضل سے انہوں نے جو حاصل کیا ہے.خدا کرے کہ ان کی نسلیں بھی اس کی وارث ہوں.جماعتی لحاظ سے اس مقام کو قائم رکھنے کے لئے انتہائی جدوجہد کی ضرورت ہے اور جماعت احمدیہ کو کبھی بھی اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے.اس کے لئے علاوہ اور باتوں کے د و اصولی باتیں بہت ضروری ہیں اوّل یہ کہ اپنی نسلوں کو اور بعد میں شامل ہونے والوں کو ہمیشہ اس طرف متوجہ کرتے رہنا چاہئے کہ تمام برکات اور تمام خوبیوں اور تمام رحمتوں اور ہر قسم کی خیر کو صرف قرآن کریم سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے.نئے آنے والوں اور نئے پیدا ہونے والوں کے دلوں میں قرآن کریم کے لئے انتہائی محبت کا پیدا کرنا ہمارے لئے ضروری ہے.اگر خدانخواستہ ہم ایسا نہ کر سکے تو پھر کچھ اور قو میں خدا تعالیٰ کھڑی کرے گا.جو اسلام اور احمدیت کے جھنڈے کو بلند کرنے والی ہوں گی.اور ہماری وہ نسلیں جن کے

Page 52

33 سبیل الرشاد جلد دوم متعلق ہم یہ خواہش رکھتے ہیں کہ روحانی نعماء بھی ان کو ورثہ میں ملیں ، ہمارے روحانی ورثہ سے محروم کر دی جائیں گی.اسی لئے میں جماعت کو بار بار اس طرف متوجہ کر رہا ہوں کہ قرآن کریم خود بھی سیکھو اور قرآن کریم دوسروں کو بھی سکھاؤ.اور اپنے بچوں کے سینوں کو قرآن کریم کے نور سے منور کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتے رہو.اور دوسری چیز اس کے لئے عاجزانہ دعائیں ہیں کہ ہماری تمام تدبیریں اور ہماری تمام کوششیں اور ہماری ہر قسم کی جدوجہد بے سود اور بے فائدہ ہے اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے ساتھ شامل نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو عاجزانہ دعائیں ہی جذب کرتی اور کھینچتی ہیں.پس عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ قرآن کریم کے علوم کو اپنی نسلوں کے دلوں میں قائم کرو اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہوئے قرآن کریم کی روشنی کچھ اس طرح ان کے گرد ہالے کی شکل میں قائم کر دو کہ خدا کے فرشتوں کو جس طرح آپ قرآنی انوار میں لیٹے ہوئے نظر آتے ہیں محض خدا کے فضل سے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے فرشتے آپ کی نسلوں کو اور نئے آنے والے آپ کے بھائیوں کو انوار قرآنی میں لیٹے ہوئے پائیں.اور خدا کے حضور جا کے یہ عرض کریں کہ اے خدا تیرے وہ بندے جو پہلے آئے تھے انہوں نے بھی تیرے فضل سے ایک نورانی مقام حاصل کیا اور تیری محبت کی وجہ سے تجھے خوش کرنے کی خاطر قرآن کریم کو پہنچانے کی وجہ سے انہوں نے قرآن کریم کے انوار کو نئے آنے والوں میں بھی قائم کیا ہے اور ان کی نئی نسلیں بھی ان انوار سے محروم نہیں.نئے آنے والوں پر بھی وہ رحمتیں اور فضل اور برکتیں نازل کر جو تو پہلوں پر کر رہا ہے.اب دیر ہوگئی ہے میں مختصراً دو اور خطروں کے متعلق کچھ بتاؤں گا.اور وہ یہ ہے کہ جب ایسی الہی جماعت دنیا میں قائم ہوتی ہے خدا تعالیٰ کے انبیاء کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں.تو بعض لوگ اس جماعت میں ایسے بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو دعاؤں کے ذریعہ آمد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ہم دعاؤں پر زور دے رہے ہیں.اور جماعت سے کہہ رہے ہیں کہ دعائیں کرو، دعائیں کرو، دعا ئیں کرو ہم کچھ چیز نہیں ہو ، خدا سے مانگو، خدا سے مانگوتو چونکہ شیطان کا کام ہے فتنہ پیدا کرنا.وہ دعاؤں کی اس فضا میں بھی فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس وسواس کے وسوسہ کے نتیجہ میں ایسے دعا گو پیدا ہو جاتے ہیں.جو دعاؤں کے ذریعہ آمد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.دعا گو پارٹیاں بن جاتی ہیں.جو جماعتی اتحاد میں رخنہ پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں.یا درکھنا چاہئے کہ

Page 53

سبیل الرشاد جلد دوم دعاؤں کو حصول زر کا ذریعہ بنانا تو ایک لعنت ہے 34 یہ کوئی خوبی تو نہیں.دعا کا مزہ تو یہ ہے کہ غیر اللہ سے انسان آزاد ہو گیا.اور صرف خدا پر توکل کرنے لگا ، خدا تعالیٰ ہی اس کا والی اور وارث ہوا اور اس کا متکفل بنا، اس کا دوست ہوا اور اس کو دینے والا ہوا.تو دعا کا نام لے کر دعا گو بن کر اور اس دعویٰ کے بعد کہ سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے ہی پیش کرنی ہیں.بندوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا اور فانیوں کے حضور تہی دامانی کا رونا رونا اس سے بڑی لعنت اور کیا ہوسکتی ہے.اس لئے ۱۹۳۹ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جماعت کو بڑی سختی کے ساتھ اس بات کی طرف متوجہ کیا تھا.آپ نے فرمایا کہ.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت میں بعض خواب بینوں نے اپنی خوابوں اور دعاؤں کو آمد کا ذریعہ بنایا ہوا ہے.اور وہ آنوں بہانوں سے لوگوں سے سوال بھی کرتے رہتے ہیں.جس شخص کو اللہ تعالیٰ بندوں سے مانگنے پر مقرر کر دیتا ہے وہ تو ایک عذاب ہے.ایسے شخص کی خوا ہیں بھی یقیناً ابتلا کے ماتحت ہوسکتی ہیں.انعام کے طور پر نہیں.“ ,, پس جماعت کو ایسے دعا گو سے بچتے رہنا چاہئے اور اس قسم کے فتنہ کو شروع ہی میں دبا دینا چاہئے.یہ بھی یا درکھیں کہ الہی جماعتوں میں ہی ایسے لوگ پیدا ہوتے اور پیدا ہو سکتے ہیں.کیونکہ جو لوگ خدا کو بھول گئے ، دعا کو بھول گئے ، ان کو دعا کا کچھ پتہ ہی نہیں.ان میں ایسے لوگ نہیں پیدا ہو سکتے.وہ تو مذاق کریں گے اور کہیں گے دوڑ جاؤ یہاں سے تم یہاں کیا کرنے آئے ہو.لیکن جو جماعت دعا پر زور دینے والی ، دعاؤں کے نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والی ہو، اس کے بعض لوگ کمزوری کے نتیجہ میں ایسی حرکت بھی کر سکتے ہیں.اور جماعت کے بعض کمز ور لوگ ان سے متاثر بھی ہو سکتے ہیں.پس حال، دعا اور سچی خوابیں دنیا کمانے کے لئے نہیں.بڑا ہی خوش قسمت ہوگا وہ انسان جو اس دنیا سے اس حالت میں رحلت کرے کہ خدا تعالیٰ اسے کہے میں نے تجھے دنیا میں دنیوی اور روحانی ابتلاؤں اور امتحانوں میں ڈالا لیکن تو ہر امتحان میں کامیاب رہا.اب تو مستحق ہے کہ میری ابدی رضا کو حاصل کرے.الفضل ۸/ نومبر ۱۹۳۹ء صفحه ۸

Page 54

سبیل الرشاد جلد دوم 35 ایک اور خطرہ جو الہی جماعتوں کو پیش آتا ہے یہ ہے کہ بعض دفعہ بعض لوگ اپنی خوابوں اور کشوف ورؤیا کے نتیجہ میں چھوٹی چھوٹی گڈیاں بنانے کی کوشش کرتے ہیں.اس قسم کے فتنے سے بھی بچتے رہنا چاہئے اور ذرا بھی کوئی ایسی چیز نظر آئے تو اُسے دبا دینا چاہئے.جس جماعت میں خلافت راشدہ قائم ہو.اس جماعت کے کسی فرد کو کسی دوسرے سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ ڈھارس دی ہے کہ امام ایک ڈھال ہوتا ہے اور اس کے پیچھے سے لڑا جاتا ہے.جو تیر پڑے گا.وہ امام کے سینے پر پڑے گا.پھر آپ کس چیز سے گھبراتے ہیں.آپ بے خوف ہو جائیں اور بے خوف ہو کر دینی کام کریں.اور پھر بے خوف ہو کر ان فتنوں کو چاہے وہ چھوٹے نظر آئیں یا بڑے کچلنے کی کوشش کیا کریں اور یا درکھیں کہ خلافت حقہ میں اس قسم کی کسی گڈی کی اسلام نے نہ اجازت دی ہے اور نہ اُسے تسلیم کیا ہے.۱۹۴۰ء میں اس قسم کا ایک فتنہ جماعت میں پیدا ہوا تھا.اس کا ذکر کرتے ہوئے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.اُن کے اندر خود پسندی اور خودستائی تھی.اور اپنی ولایت بگھارتے پھرتے تھے.لوگوں سے کہتے تھے ہم سے دعائیں کراؤ.حالانکہ خلافت کی موجودگی میں اس قسم کی گدیوں والی ولایت کے کوئی معنے ہی نہیں خلفاء کے زمانہ میں اس قسم کے ولی نہیں ہوتے.نہ حضرت ابو بکر کے زمانہ میں کوئی ایسا ولی ہوا، نہ حضرت عمر یا حضرت عثمان یا حضرت علیؓ کے زمانہ میں.ہاں جب خلافت نہ رہی تو اللہ تعالیٰ نے ولی کھڑے کئے کہ جو لوگ ان کے جھنڈے تلے جمع ہوسکیں انہیں کر لیں.تا قوم بالکل ہی تتر بتر نہ ہو جائے.لیکن جب خلافت قائم ہو اُس وقت اس کی ضرورت نہیں ہوتی.“ پس خلافت کی موجودگی میں ایسی ولایت کا وسوسہ دراصل کبر اور اباء ہے.اور شیطانی وسوسہ ہے.جہاں بھی پیدا ہوا سے کچل دینا چاہئے.آخر میں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں- آپ فرماتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ ولی اللہ بنا ہی مشکل ہے بلکہ اس مقام کا سمجھنا ہی دشوار ہوتا روز نامه الفضل ۱۶ رجون ۱۹۴۰ء صفحه یم

Page 55

سبیل الرشاد جلد دوم ہے کہ یہ کس حالت میں کہا جاوے گا کہ وہ خدا کا ولی ہے.انسان انسان کے ساتھ ظاہرداری میں خوشامد کر سکتا ہے اور اس کو خوش کر سکتا ہے.خواہ دل میں ان باتوں کا کچھ بھی اثر نہ ہو.ایک شخص کو خیر خواہ کہہ سکتے ہیں.مگر حقیقت میں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ خیر خواہ ہے یا کیا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ تو خوب جانتا ہے کہ اس کی اطاعت و محبت کس رنگ سے ہے.پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ فریب اور دغا نہیں ہوسکتا.کوئی اس کو دھوکا نہیں دے سکتا.جب تک بچے اخلاص اور پوری وفاداری کے ساتھ یک رنگ ہو کر خدا تعالیٰ کا نہ بن جا وے کچھ فائدہ نہیں.“ 36 خلاصہ میری اس تقریر کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ میں تیرے ذریعہ سے تیرے فیوض کو جاری کر کے اور اس قوت قدسیہ کے اثر کے نتیجہ میں جو میں نے تجھے عطا کی ہے ایک ایسی جماعت پیدا کروں گا جو میرے قرب اور میری رضا کو حاصل کریں گے.میں ان سے خوش ہوں گا اور وہ مجھ سے راضی ہوں گے.اور اللہ تعالیٰ نے عملاً ایسی جماعت پیدا کی.ہم ان کے روحانی رازوں سے تو واقف نہیں.کیونکہ وہ راز ان کے اور ان کے رب کے درمیان تھے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے جو سلوک کیا وہ ہمیں بتا تا ہے کہ واقعتا وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس کے پیارے اور محبوب تھے.اور یہ وہ لوگ تھے جو ڈر ڈر کر اپنی زندگیوں کو گزارا کرتے تھے.کیونکہ وہ یہ جانتے تھے کہ ہمیں روحانی رفعت میں سے جتنا حصہ بھی ملا ہے.وہ ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں نہیں محض اللہ تعالیٰ کے فضل کے طور پر ہے اور ایک رنگ میں بطور مستعار کے ہے.اور دینے والا جب تک چاہے دیتا رہے اور جب چاہے ہم سے واپس لے لے.پس ہر آن اور ہر لحظہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے رہتے اور اپنی مغفرت چاہتے رہتے اور اس سے عاجزانہ دعائیں کرتے رہتے کہ اے خدا ایک دفعہ اپنے قرب اور رضا کی روشنی عطا کرنے کے بعد شیطانی اندھیروں میں ہمیں دھکیل نہ دینا.اور بہت سے تھے جن کی ان دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے قبول کیا اور ان کا انجام بخیر ہوا.پھر امت محمدیہ میں یہ سلسلہ جاری رہا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ جیسی ایک جماعت پیدا کی.اور جیسا کہ اُس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ فرمایا تھا.آپ کے گرد ایسے لوگ اکٹھے ہو گئے.جنہوں نے واقعتا اور حقیقی معنی میں اپنے پر فنا طاری کی اور اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیا.اور ملفوظات جلد سوم صفحه ۵۹۵

Page 56

37 سبیل الرشاد جلد دوم صحابہ کی طرح ان کا بھی یہی حال تھا کہ وہ اپنے رب سے خوش تھے اور ان کا رب ان سے راضی تھا.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ الہی جماعتوں کے لئے بعض فتنے اور امتحان بھی پیدا کئے جاتے ہیں.اور مومن کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے مقام فنا نیستی اور لاشئی اور محض مسلوب ہونے کی حقیقت کو ہمیشہ یادر کھے.اور کھولے نہیں.اور جب کبھی بھی اس قسم کے فتنے پیدا ہوں اور جہاں بھی اس قسم کے فتنے پیدا ہوں وہاں دلیری کے ساتھ ان فتنوں کو ان طریقوں پر کچلیں جو اسلام نے اور قرآن کریم نے ہمیں بتائے ہیں اور ڈرے نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے انہیں ایسی ڈھال عطا فرمائی ہے جو ان کی حفاظت کرنے والی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ توفیق عطا کرے کہ ہم ہمیشہ اس کی رحمت کے سایہ میں زندگی گزارنے والے ہوں.اور خدا تعالیٰ محض اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ ہم جو انتہائی طور پر کمزور ہیں.ہم جو انتہائی طور پر گنہگار ہیں ، ہم جو انتہائی طور پر بے طاقت ہیں ، ہم جو انتہائی طور پر لاعلم ہیں ، وہ اپنی قوتوں اور طاقتوں اور علم اور نور سے ہماری مدد کرتا رہے اور ہمیں اس مقصد میں کامیاب کرے.جس مقصد کے لئے اس نے ہمیں انفرادی طور پر اور جس مقصد کے لئے اس نے جماعت کو بحیثیت جماعت پیدا کیا ہے.اور قائم کیا ہے اور کھڑا کیا ہے.کہ اس کے فضلوں اور رحمتوں کے بغیر ہم میں اپنی کوئی طاقت نہیں ہے.آب انصار اللہ کا میں عہد دُہراؤں گا.آپ میرے ساتھ شامل ہوں.اور پھر دعا ہو گی.میری دُعا ہے کہ جہاں بھی ہوں ، جہاں بھی آپ رہیں ، حضر میں بھی اور سفر میں بھی ، اللہ تعالیٰ کے فرشتے آپ کے ساتھ ہوں اور خدا تعالیٰ کے ملائکہ آپ کا ساتھ کبھی نہ چھوڑیں.وہ آپ کے دلوں کی ڈھارس آپ کے خوفوں کو دور کرنے والے، آپ کو حزن سے بچانے والے ، آپ کونور کی راہوں پر چلانے والے، آپ کی انگلی پکڑ کر آپ کو خدا تعالیٰ کے قدموں میں جابٹھانے والے ہوں.اس کے بعد حضور نے انصار اللہ کا عہد دہرایا.اور دُعا فرمائی.روز نامه الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۶۷ ، صفحہ ۷-۱۲)

Page 57

سبیل الرشاد جلد دوم 38 خدا کے فرشتے تمہارے ساتھ ہیں ہمیں آسمان سے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے اور اس غرض سے بھیجا ہے کہ تمہیں بشارت دیں کہ ڈرو نہیں خدا کے فرشتے تمہارے ساتھ ہیں.پھر فرمایا کہ ہمارا ابتلا اس قسم کا ہو گا.ہمارا امتحان یہ رنگ اختیار کرے گا کہ دنیا کی ہر چیز اُن سے چھین لی جائے گی یا خطرے میں پڑ جائے گی.اس وقت آسمان سے فرشتوں کا نزول ہو گا.اور وہ انہیں کہیں گے وَلَا تَحْزَنُوا غم مت کرو اُن چیزوں پر جو تمہارے ہاتھ سے نکلی جارہی ہیں.اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جو تم کھوؤ گے اس سے بہتر تم پاؤ گے.اگر ایک چیز تم سے چھینی جائے گی اگر ترقی کا ایک موقع تم ضائع کر دو گے.اگر سکونِ دنیوی اور اطمینانِ زندگی تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا.تو اس سے بہت بڑھ کر تمہیں دیا جائے گا.اس لئے جو ہاتھ سے گیا ہے اس پر غم کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ابشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ سبیل الرشاد جلد دوم صفحه 19)

Page 58

سبیل الرشاد جلد دوم 39 سیدنا ضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا افتتاحی خطاب تقریرے جولائی ۱۹۶۷ء بر موقع اجتماع مجلس انصاراللہ کراچی تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: ۸/ نومبر ۱۹۶۵ء کے بعد یہ پہلا اجتماع ہے، انصار اللہ کراچی کا.جس میں میں شامل ہو رہا ہوں اور جس کے افتتاح کے لئے اس وقت میں کھڑا ہوا ہوں.انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ اور بعض دوسری تنظیمیں جو جماعت احمدیہ کے اندر جاری کی گئی ہیں ان کا مقصد یہ نہیں کہ ہم کبھی کبھی اکٹھے ہو کر بعض دوستوں سے خدا تعالیٰ کی باتیں سنیں.بعض باتوں سے حظ اٹھائیں.اور پھر اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں اور سمجھیں کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا ، کر لیا.ذیلی تنظیموں کی غرض ان تنظیموں کی غرض یہ ہے کہ ہم کچھ کرنے کے لئے سیکھیں، یہ نہیں ہے کہ کچھ سنیں اور کچھ سیکھیں اور پھر کچھ کریں نہ.پس عمل میں تیزی پیدا کرنے کے لئے عمل کو صراط مستقیم پر قائم رکھنے کے لئے عمل میں اسلامی روح کو زندہ رکھنے کے لئے ان تنظیموں کو قائم کیا گیا ہے.جس کا مطلب یہ ہوا کہ ساری تنظیمیں ایسی ہیں جن کا تعلق باتوں سے کم اور کام سے زیادہ ہے.لیکن بعض مجالس انصار اللہ کی اور خدام الاحمدیہ کی بھی یہ سمجھنے لگ گئی ہیں کہ تربیتی جلسے کرنا یا سالانہ اجتماع منعقد کرنا ان کے لئے کافی ہے.اور اگر وہ ایسا کر لیں تو کسی اور چیز کی انہیں ضرورت نہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ جو نوجوان خدام الاحمدیہ کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے.اپنے اجتماعوں اور دوسرے اجلاسوں میں سیکھنے کے بعد پورا عمل کر لیتے ہیں.تب بھی ان کا کام ختم نہیں ہوتا.کیونکہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ، لجنہ اماءاللہ ہر ستہ تنظیمیں ( بعض دوسری تنظیمیں بھی ہیں ان کا ذکر اس وقت میں چھوڑتا ہوں ) خاص اور محدود دائرہ کے اندر کام کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں.اور وہ خاص اور معتین دائرہ جو ہے وہ اس لئے معین کیا گیا ہے.کہ جب اس دائرہ کے اندر کام کرنے کی ہمارے نوجوان اور بڑی عمر والے تربیت حاصل کر لیں گے اور توفیق پائیں گے کہ اس کام کے اہل ہوں گے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی توفیق بھی پائیں گے.تو بڑے دائرہ کے اندر جو احمدیت کا دائرہ عمل ہے اس میں وہ اچھا کام کریں گے.

Page 59

سبیل الرشاد جلد دوم ذیلی تنظیموں کو جماعتی ذمہ داریوں کے نباہنے کے لئے تیار کرنا ہے 40 تو درجہ بدرجہ ہم نے سوچا تھا کہ ہم چھوٹے دائرہ کے اندر کچھ بنیں گے.اور اس محدود دائرہ کے اندر کچھ عمل کریں گے.اور ہم اُمید رکھیں گے کہ اس کے نتیجہ میں اس قابل ہو جائیں گے کہ جو جماعت کے فرائض ہیں اُن کو بہتر طریق پر نبھا سکیں.لیکن ہم نے کیا یہ! کہ خدام الاحمدیہ نے خدام الاحمدیہ کے دائرہ عمل میں ، انصار اللہ نے انصار اللہ کے دائرہ عمل میں (عمل کے میدان میں ) وہ کچھ بھی نہ کیا جو محدود - دائرہ کے اندر ان کو تربیت کے طور پر کرنا چاہیئے تھا.تیار کرنا تھا بڑی ذمہ داریوں کو نبا ھنے کے لئے اور اس کا نتیجہ ایک اور بھی نکلا اور وہ یہ کہ بعض بڑی عمر کے ہمارے دوست اور بعض نوجوان بچے اپنے دائرہ میں کام کرنے کے بعد سمجھنے لگ گئے کہ احمدیت کے سب فرائض ہم نے پورے کر دیئے.اب کوئی اور ذمہ داری باقی نہیں رہتی کہ جس کو کرنے کی ہمیں ضرورت ہو.یعنی جو چیز ان کو تربیت دے کر اس قابل بنانے کے لئے جاری کی گئی تھی کہ وہ جماعت کی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگیں اور نبا ھنے کے قابل ہو جائیں انہوں نے اس کو ہی سب کچھ سمجھ لیا.اور اس چیز کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ وہ وسیع دائرہ میں داخل ہو کر وسیع ذمہ داریوں کو پورے انہماک اور پوری توجہ اور پوری تندہی اور پوری قربانی کے ساتھ ادا کریں.یہ چونکہ میرا پہلا موقع ہے.انتخاب خلافت کے بعد انصار کو مخاطب کرنے کا اس لئے آج میں اس پہلے موقع پر آپ کو اچھی طرح جھنجھوڑ دینا چاہتا ہوں کہ آپ کا کام، کام کرنا ہے.نہ باتیں کرنا ، اور نہ باتیں سننا آپ کا کام ہے.اسی طرح جس طرح خدام الاحمدیہ کا کام، کام کرنا ہے.باتیں سننا اور باتیں بنانا اور باتیں کرنا نہیں ہے.آپ اپنے دائرہ میں پورے انہماک کے ساتھ ، پورے حسن اور خوبی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھا ئیں.اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے نتیجہ میں اس بات کی تو فیق عطا کرے کہ جو جماعتی ذمہ واریاں اس نے آپ کے کندھوں پر ڈالی ہیں.ان کو ادا کر سکیں.اور اس ادا ئیگی کے نتیجہ میں آپ اسے خوش کر سکیں.اگر آپ خدام، خدام الاحمدیہ اگر آپ انصار، انصار اللہ کی ذمہ واریوں کو ادا کرتے ہیں لیکن جماعتی ذمہ واریوں سے عدم تو جہی برتتے ہیں تو آپ کا خدا آپ سے خوش کبھی نہ ہوگا.یہ یاد رکھیں.ایسا کبھی نہیں کرنا چاہیئے.کیا کرتے آپ؟ خدام الاحمدیہ کا کام جو ہے وہ فی نفسہ آپ کا کام نہیں ہے.خدام الاحمدیہ کا کام اس غرض سے لیا جاتا ہے تا جو آپ کی زندگی کا ایک احمدی کی حیثیت میں مقصد ہے.اس کو پوری طرح پورا کر سکیں آپ.اگر آپ نے اس مقصد کو حاصل نہیں کرنا ہے تو اس کام کے لئے اپنے وقت کو اور اپنے پیسے کو اور اپنے آرام کو قربان کیوں کر رہے

Page 60

41 سبیل الرشاد جلد دوم ہیں آپ.احمق ہیں پورے اگر آپ نے انصار اللہ کی ذمہ واریوں کو نباہ کر جماعت کی ذمہ داریوں کو نہیں نباہنا ہے.اور اس بات پر راضی ہو جانا ہے کہ ہم نے انصار اللہ کی ذمہ واریاں نباہ لی ہیں.ہمیں کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں.تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ جیسا بیوقوف کوئی نہیں کیونکہ جس کام کے لئے آپ کو تیار کیا گیا تھا اگر واقعی میں آپ تیار ہو گئے تو وہ کام ہونا چاہئے.اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ گلاس یہ کہے کہ مجھے ریت کے ذروں سے تم نے اکٹھا کیا اور بھٹی میں تم نے مجھے جلایا اور ایک گلاس بنا دیا.میری زندگی کا مقصد پورا ہو گیا.اب پانی بیچ میں ڈال کے میں کسی کو پینے نہیں دوں گا.کیونکہ جو کچھ میں نے حاصل کرنا تھا وہ کر لیا.وہ گلاس انسان کے کس کام کا اور اس گلاس نے اپنے وجود کا مقصد پہلے حاصل کر لیا.اپنی قوم کو بھی چھوڑا - ریت کے ذروں سے شیشے کے ذرے علیحدہ ہوئے.اپنے آرام کو بھی چھوڑا کہ بھٹی میں اسے جلنا پڑا اور پھر وہ نہ انسان کے کام آیا اور نہ اس کے وجود کا مقصد پورا ہوا.تو اس قسم کے کانچ کے گلاس بنے کی کوشش نہ کریں بلکہ وہ برتن بننے کی کوشش کریں جو خدا تعالیٰ کی محبت سے لبریز ہو.وہ آلہ نہیں جو محبت کے ساتھ خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لے اور اپنا کام جو وہ کرنا چاہتا ہے اس آلہ سے لے- اگر آپ یہ کر لیں تو آپ نے اپنی زندگی کا مقصد پالیا.اور اگر آپ یہ سمجھیں کہ ہم خدام الاحمدیہ کے ممبر ہیں.اور ہم نے اپنے دائرہ میں اپنی محدود ذمہ واریوں کو نباہ لیا ہے.یا اگر آپ یہ سمجھیں کہ ہم انصار اللہ سے تعلق رکھنے والے ہیں اور جماعت کے بزرگ کہلاتے ہیں.لیکن ہماری ذمہ واری اتنی ہے کہ انصار اللہ کے محدود اور معین اور چھوٹے سے دائرہ کے اندر جو کچھ ہم نے کرنا ہے وہی کرنا ہے.اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا ہے.اور وہ ہم نے کر لیا ہے.تو آپ کا وجود ایک ناقص وجود ہے.وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کی حفاظت کے لئے فرشتے آسمان سے نازل ہوں.وہ وجو دترک کر دیا جاتا ہے.اس وجود پر شیطان حملہ آور ہوتا ہے.وہ وجود تو اپنی اور دنیا کی تباہی کا باعث بنتا ہے.وہ دنیا کو فائدہ پہنچانے کا کبھی باعث نہیں بنا کرتا.پس جو تربیت کا میدان ہے.اسے تربیت کا میدان سمجھیں اور اس نیت کے ساتھ ، اس خلوص کے ساتھ ، اس جذ بہ کے ساتھ تربیت حاصل کریں تا احمدی کی حیثیت سے جو ذمہ واری آپ پر پڑتی ہے.آپ اس کو ادا کر سکیں.اور کما حقہ ادا کر سکیں.اور اس طریق پر آپ ادا کر سکیں کہ آپ کا رب آپ پر خوش ہو.تا آپ اس کی رضاء کی جنتوں میں داخل ہونے والے ہوں.لیکن اگر آپ نے اس محدود دائرہ کے اندر کام کر کے کچھ سیکھا.تو تکبر اور نخوت کا سبق سیکھا.اگر آپ نے کچھ سیکھا تو اباء اور استکبار کا سبق سیکھا.تو لعنت ہے آپ کی اس تنظیم پر ، اور لعنت ہے آپ کے اس سبق پر جو آپ نے حاصل کیا.

Page 61

سبیل الرشاد جلد دوم 42 پس جس مقصد کے لئے اس تنظیم کو اس تنظیم کے جاری کرنے والے نے جاری کیا تھا.اس مقصد کو سمجھنے کی کوشش کرو اور جس مقصد کے حصول کے لئے آپ کو آپ کے رب نے پیدا کیا اور توفیق دی ہے کہ آپ ایک احمدی سپاہی کی حیثیت میں ، آپ ایک خادم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت میں ، آپ ایک عاشق خدا کی حیثیت میں زندگی کے دن گزاریں.ان حیثیتوں میں اپنی زندگی کے دن گزار نے والے ہوں.لیکن اگر (آپ چھوٹے یا بڑے مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ سارے میرے مخاطب ہیں ) کوئی انصار اللہ کا اجتماع ہو جائے.اور انصار یہ سمجھیں کہ انصار کی ذمہ واریاں نبھا لیں اور بس.اگر خدام الاحمدیہ یہ سمجھتے ہیں کہ خدام الاحمدیہ کے چند معمولی ابتدائی کام کر لئے تو اپنی زندگی کا مقصد حاصل کر لیا.تم نے اپنی زندگیوں کو تباہ کر لیا.اگر یہ سوچا تو پس اپنی زندگیوں کی ، اپنی اوقات عزیزہ کی حفاظت کے لئے تیار ہو جاؤ.تم کو خدا تعالیٰ نے دنیا میں انقلاب عظیم بپا کرنے کے لئے پیدا کیا ہے.جب تک تم یہ انقلاب عظیم دنیا میں بپا نہیں کر لیتے اس وقت تک تمہیں چین سے بیٹھنا نہیں چاہئیے.ور نہ احمدیت کی طرف منسوب ہونا بے معنی ہے.اور یہ دعویٰ کرنا کہ خدا نے ایک رسول مبعوث فرمایا.خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے فرزند جلیل کو دنیا کی طرف بھیجا ایک خاص مقصد کے پیش نظر.ہم اس پر ایمان تو لے آئے.مگر ہم نہ اس کے انصار بننے کے لئے تیار اور نہ اس کے خادم بننے کے لئے تیار - آپ کا ایسا ایمان کیا کام آئے گا ؟ حقیقی مقصد پس جو حقیقی مقصد ہے آپ کی زندگی کا احمدی کی حیثیت میں اسے سمجھنے ، اس کی معرفت کے حصول اور اس کی حقیقت کو پہچانا جو ہے اُس کے لئے تیاری کریں.اور کوشش کریں اور پھر جو اس سلسلہ میں آپ سمجھیں اس پر عمل کریں.پھر آپ اس دائرہ کی اُن سرحدوں پر پہنچیں گے جہاں سے احمدیت کا دائرہ شروع ہوتا ہے.آپ کا یہ بڑا دائرہ جو ہے اس کے اندر چھوٹے چھوٹے دائرے ہیں.جب آپ ابتدائی کام کرنے کے بعد اپنے دائرے کی سرحدوں پر پہنچتے ہیں تو یہ سمجھا جاتا ہے.یہ توقع رکھی جاتی ہے.یہ دعائیں کی جاتی ہیں کہ آپ بڑے دائرہ میں داخل ہو کر اپنی ذمہ واریوں کو نبھائیں گے.لیکن اگر آپ اس سرحد پر پہنچ کر اصل مقصد کی طرف پیٹھ کر لیں اور اپنے مرکزی نقطہ کی طرف منہ کر لیں جو محدود دائرہ کا مرکزی نقطہ ہے.تو آپ کا ہونا نہ ہونا برا بر.آپ کا احمدیت میں داخل ہونا یا اس کا مخالف ہونا یہ بھی برابر.احمدیت کو آپ سے کیا فائدہ پہنچا؟ یا احمدیت سے آپ نے کیا حاصل کیا ؟ نہ خدا کا پیار ملا.

Page 62

43 سبیل الرشاد جلد دوم نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت اور شفقت آپ کو نصیب ہوئی.نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور بشارتوں کے آپ حامل ہوئے.پھر کیوں آپ آئے یہاں؟ کیوں تم نے اپنی زندگیوں کو خراب کیا ؟ کہ دنیا کے عیش اور آرام میں چند دن گزار لیتے.اگر چہ یہاں سے مرنے کے بعد ابدی جہنم میں آپ کو ڈالا جاتا لیکن اس صورت میں کہ نہ اس دنیا کا آپ نے چین حاصل کیا ، اور نہ اس دنیا کی نعمتیں پائیں.بڑی غلطی پر ہوں گے آپ اگر آپ ایسا کریں.اپنی ذمہ واریوں کو سمجھیں تو اپنی ذمہ واریوں کو علی وجہ البصیرت سمجھیں.باتیں کرنا ، باتیں سننا آپ کا کام نہیں ، باتیں اپنے دائرہ کے اندرسننا اس نیت کے ساتھ کہ اس پر عمل کریں.یہ آپ کا فرض ہے ، اس عزم کے ساتھ ، اس عزم صمیم کے ساتھ کہ ہمیں کسی اور مقصد کے لئے تیار کیا جا رہا ہے.جب آپ یہ تربیت حاصل کر لیں تو اس مقصد کے حق کو ادا کریں کیونکہ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو پہلی تربیت بے سود اور بے فائدہ ہے.جو شخص نہایت اچھے دماغ کا انسان ایٹم کی ریسرچ میں جاتا ہے اور ریسرچ کے میدان میں رات دن مصروف رہنے کے بعد وہ نئی سے نئی ایجاد کرتا ہے.اور فارمولے بناتا ہے اور اس کا دماغ روشن ہوتا ہے اس میدان میں اور قوم اس پر بے دریغ روپیہ خرچ کر رہی ہوتی ہے ، اس امید کے ساتھ کہ جب یہ اپنے علم کو کمال تک پہنچائے گا تو ہم کو فائدہ پہنچے گا لیکن وہ بندہ خدا جب اپنے علم کو کمال تک پہنچا چکتا ہے تو اپنے باپ کی دس ایکڑ زمین پر جا کے ہل چلانا شروع کر دیتا ہے.پیسہ ملتا ہے اب اس کو ! تو ویسے نہ کریں.آپ میں سے ہر ایک کی رائے یہی ہوگی کہ بڑا احمق ہے جو ایسا کرتا ہے اور واقعی ایسا ہی ہے بڑا ہی احمق ہے وہ شخص ! لیکن سوچنے کی تو یہ بات ہے کہ کہیں آپ بھی تو ویسے ہی احمق نہیں ہیں کہ آپ کو تیار کیا گیا تھا ایک خاص کام کے لئے.ایک حد تک جب آپ تیار ہوئے تو جس غرض کے لئے آپ کو تیار کیا گیا تھا وہ آپ بھول گئے کہ کس غرض کے لئے تیار کیا گیا تھا ؟ قرآن کریم کو سیکھو آپ پیدا ہوئے ہیں غلبہ اسلام کے لئے.اگر آپ اپنے ایمان میں بچے ہیں آپ کو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ قرآن کریم کو سیکھو تو تمہیں اس میں نصیحت حاصل کرنے کی باتیں بھی ملیں گی اور تمہاری عزت اور شرف کے سامان بھی وہاں ملیں گے.اِنَّ فِى هذا لذكرى قرآن کریم میں ذکری ہے.

Page 63

سبیل الرشاد جلد دوم 44 ڈگری کا لفظ ذکر سے بھی زیادہ اچھے معنوں میں ہے.کسی چیز کو زیادہ نمایاں کرنے کے لئے اور اس کی برکت کو زیادہ ظاہر کرنے کے لئے بولا جاتا ہے.تو قرآن کریم نے یہ دعوی کیا اِنَّ فِى هذا لذكری کہ قرآن کریم میں ذکر کے سامان موجود ہیں.نصیحت کے بھی اور شرف اور بزرگی کے بھی.اس لئے جو شخص قرآن کریم سے یہ چیز حاصل کرنا چاہے وہ کرسکتا ہے.سوال پیدا ہوتا تھا کہ اے خدا! ہم حاصل تو کر سکتے ہیں لیکن تیرے عاجز بندے ہیں.تو خود ہی بتا کہ ہم کیسے اس ڈگری کو ، اس نصیحت کو عزت کے سامان کو حاصل کر سکتے ہیں.تو ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے تین باتیں بیان کیں.جس میں وہ تین باتیں نہ ہوں.وہ قرآن کریم سے نہ نصیحت حاصل کر سکتا ہے، اور نہ قرآن کریم اس کی عزت اور اس کے شرف کو بڑھانے کا موجب ہوسکتا ہے.پہلی بات یہ ہے کہ لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْب - ذكری تو ہے.لیکن صرف اس شخص کے لئے جو فکر اور تد بر کرنے والا دل رکھتا ہو.اب میں نے آپ کو بڑوں کو بھی اور چھوٹوں کو بھی بار بار جھنجھوڑا ہے.اور اس طرف متوجہ کیا ہے کہ اگر تم اپنی زندگی کا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہو.اگر تمہارے دل میں یہ خواہش ہے کہ غلبہ اسلام کے دن جلد تر آجائیں تو قرآن کریم کی طرف توجہ کرو.لیکن اس میں آپ سنتی دکھا رہے ہیں لیکن قرآن یہ کہتا ہے کہ اس سستی کے نتیجہ میں تمہیں وہ برکت نہیں مل سکتی جو قرآن دینا چاہتا ہے دنیا کو.نہ تمہیں وہ کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.جو قرآن کے طفیل سے حاصل کر سکتے ہو.تو پہلی چیز یہ بتائی لِمَنْ كَانَ لَهُ قَلْبٌ جس کا فکر ، غور اور تدبر کرنے والا دل ہے.اس کے لئے یہ ذکر ی ہے.لیکن چونکہ انسان انسان میں بڑا فرق ہے.بعض کی قوتیں اور استعداد میں تھوڑی ہیں.بعض کی بہت زیادہ ہیں.بعض ہیں سیڑھی چڑھ سکتا ہے.وسعت آسمانی کی طرف کوئی دوسو سیٹرھیاں چڑھ سکتا ہے، کوئی ہزار کوئی دس ہزار پھر ایک وہ بھی پیدا ہوا.جو ساتوں آسمانوں کو پھلانگتا ہوا آگے نکل گیا ہے.صلی اللہ علیہ وسلم تو اگر صرف فکر اور تدبر کرنے والا دل رکھتا ہے.لیکن چونکہ ایسا نہیں تھا.کسی نے اتنا اوپر اٹھنا تھا کسی نے اتنا کسی نے اتنا اپنے طور پر کسی اور کو احتیاج نہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرما یا وُ الْقُى السَّمْعَ جہاں تک تم پہنچ سکتے ہو.تم پہنچو.اس سے آگے کے لئے ان لوگوں کی تلاش کرو جو تم سے زیادہ بلند ہو چکے ہیں.اور ان کی باتوں کو سنو کیونکہ وہ تمہارے معلم بنائے گئے ہیں.القى السَّمعَ جو توجہ سے کان دھرتا ہے.ایسے شخص کی طرف جس کا فکر اور تدبر اس سے زیادہ ہے.اس سلسلہ میں بڑی مشکل پڑ جائے گی.کیونکہ بیسیوں آدمی کھڑے ہو جائیں گے کہ ہم ہیں زیادہ عالم قرآن اور وہی جھگڑے شروع ہو جائیں گے جو

Page 64

سبیل الرشاد جلد دوم 45 دوسرے فرقوں میں ہمیں نظر آتے ہیں.لیکن تم خوش قسمت قوم ہو.تم کو اللہ تعالیٰ نے ایسا وجود بھی دیا ہے.جس کے مقام پر آسمان سے اس نے شہادت نازل کی ہے.اور وہ خلیفہ وقت کا وجود ہے.صرف ایک وجود ہے جماعت کے اندر خلافتِ راشدہ میں پہلے بھی اور اب بھی جس کے متعلق قرآن کریم یہ دعویٰ کرتا ہے.ہم بناتے ہیں.اس مقام تک ہم پہنچاتے ہیں.خلیفہ بنا نا خدا کا کام ہے خلیفہ بنانا خدا کا کام ہے.بندوں کا کام نہیں اور جو حالات کو جانتے ہیں.ان کو پتہ ہے کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ جنہیں ہم کہتے ہیں.اگر ان کا داؤ چلتا جو اپنے آپ کو انتظامی لحاظ سے بڑا اچھا سمجھتے تھے.یہ کرتا دھرتا مولوی محمد علی صاحب وغیرہ تو مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کبھی خلیفہ نہ بناتے.لیکن اس وقت ان کا دماغ اس طرف گیا کہ جو زیادہ قرآن جانتا ہے.اس کو بنا دو خلیفہ تا کہ اکٹھے ہو جائیں.جب دوسری خلافت کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی نعمت ہے کہ بہت ساتھ کے ساتھ تو ڑتا چلا جاتا ہے.جو شخص اس طرح کا زیادہ قرآن جاننے والا نہیں تھا.جو ایک بچہ تھا جس کے متعلق انہوں نے یہ کہا تھا کہ اس کے ہاتھ میں خلافت گئی ہے.اور چند دنوں کے بعد یہ جماعت تباہ ہو جائے گی.خدا نے کہا کہ یہ بچہ ہو گا کیونکہ اپنے ماں باپ کے گھر ایسے زمانہ میں پیدا ہوا کہ آج ایک بچے کی عمر رکھتا ہے.لیکن میں بچہ نہیں ہوں.یہ ایک کمزور ہستی ہے.مگر میری ہستی کمزور نہیں.یہ تم جو بڑے بڑے مد بر بنے ہوئے ہو.اور مضمون لکھتے ہو.اور کتا بیں لکھی ہیں اور ریو یو آف ریلیجنز میں اپنی علمیت کا تم نے مظاہرہ کیا ہے.کیا ہوگا !! مگر میرے علم کا مقابلہ تو نہیں کر سکتے تم.میں اس کو بٹھا دیتا ہوں منصب خلافت پر تا دنیا اس یقین پر پہنچے کہ خلیفہ خدا بنایا کرتا ہے.ورنہ یہ مشتبہ ہو جائے.جب تیسری خلافت کا وقت آیا.اس وقت ایک اور سلسلہ شروع ہو گیا.میں نے تنہائی میں بڑا سوچا ہے کہ اگر انسان کے ہاتھ میں خلافت کا دینا ہوتا تو میں آخری آدمی تھا جس کو یہ منصب ملتا.ایک عاجز انسان کوئی اہمیت نہیں رکھتا.نہ کسی کی نظر میں کسی قسم کی مقبولیت رکھنے والا ہے.اور خدا نے چپ کر کے پکڑا مجھے اور بٹھا دیا ( خلافت کے منصب پر ) خلیفہ پر اعتراض کرنا کسی انسان کا کام نہیں ہر انتخاب خلافت کے بعد آسمان کی فضا میں یہ آواز گونج رہی ہوتی ہے خدا کی کہ ” مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے یہ عاری ہیں سارے.حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں.جیسی روح کو کسی ماں نے نہیں جنا مگر زبان سے یہ نکلتا ہے کہ یونس بن متی سے زیادہ مجھے

Page 65

46 سبیل الرشاد جلد دوم فضیلت نہ دو.یہ وہ مقام تھا جس کو آپ اپنے لئے پسند کرتے تھے.عاجزی کا مقام ، اور خدا نے آپ کو یہ دکھا یا نظارہ - کہ کون جیتے اس عاجزی کے مقابلے میں کہ جبریل کو کہا ٹھہر جاؤ یہاں.آگے نہیں تم نے بڑھنا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دروازہ کھل گیا.اور آپ اس دروازہ میں داخل ہوئے اور آگے نکل گئے.تو ایک وہ مقام ہوتا ہے.جس کو خدا کا ایک بندہ اپنے لئے پسند کرتا ہے.وہ عاجزی کا ہی مقام ہوتا ہے.ایک وہ منصب ہے جس پر خدا تعالیٰ اس بندے کو بٹھا دیتا ہے.اس کو اس پر طعن کرنا یا اس پر اعتراض کر نا یا اس کے متعلق کسی قسم کا وہم کرنا.اس شیطان اور ابلیس لعین کا کام ہے.کسی انسان کا کام نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعر ہم پڑھتے ہیں عاجزی کے.طبیعت پر یشان ہوتی ہے جس کو جس وقت تک کہ سمجھ نہ آئے مثلاً ہے کرم خا کی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں“ مولوی لوگ کیا اعتراض کر سکتے ہیں ؟ اس پر جو مولوی ہوتا ہے وہ اعتراض کرتا ہے.ایک شخص کو تم نے اپنا نبی بنا لیا.وہ تو کہتے ہیں کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں.ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عاری یہی ہے نہ ؟ تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو وہ مقام ہے جو آپ نے اپنے لئے پسند کیا تھا تو میرے لئے اپنا یہی مقام کافی ہے.مجھے اس سے بلندی کی ضرورت نہیں مجھے یہاں رکھ اور مجھ سے خوش ہو جا تو میں راضی.آپ نے کہا تھا.تکیه بر زور تو دارم ورنه من ہمچو خاکم بلکہ زاں ہم کمترے کہ میں اپنے وجود کو دیکھتا ہوں کہ مٹی کا ایک ذرہ جو ہے اس سے بھی کم مایہ ہوں ، مٹی کے ایک ذرہ سے بھی.لیکن یہ اس وقت کا ہے جب آپ کو یہ مقام مل گیا.جس مقام پر ٹو نے کھڑا کیا ہے.مجھے وہاں طاقت کی ضرورت ہے.میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں تو ذره خاکی سے بھی کم تر.اس واسطے جب تک تجھ پر میرا بھروسہ نہ ہو.میرا کام نہیں چل سکتا.بیسیوں شعر سینکڑوں نثر کی عبارتیں ہیں.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے لئے جو پسند کرتے تھے انہیں وہ کہتے چلے گئے.آپ نے فرمایا کہ میں گوشہ تنہائی میں پڑا تھا.بڑا خوش تھا کہ ایک طرف پڑا ہوں.نہ دنیا مجھے جانتی ہے اور نہ مجھے اس سے سروکار ہے.اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوں.تب خدا تعالیٰ نے زبر دستی مجھے گوشہ عافیت سے جس کو میں گوشہ عافیت سمجھتا تھا.باہر نکالا اور کہا کہ میں نے تجھے اپنا رسول بنایا ہے.جا! اور لوگوں کو مخاطب کر جا کے.اور مخاطب کر ایسے الفاظ میں کہ ساری دنیا تیری مخالف ہو جائے گی، تجھے گالیاں دینے لگے گی.تیرے قتل کے منصوبے بنا ئیں گے.تجھ پر

Page 66

47 سبیل الرشاد جلد دوم جھوٹے مقد مے کریں گے.جب تیرے پاس ایک پیسہ بھی نہ ہو گا عملاً لاکھوں روپے جمع کریں گے.نا کام کرنے کی ہر تد بیر اور ہر منصو بہ سوچیں گے اور جب ان تمام تدابیر اور منصوبوں کا نتیجہ نکل سکے گا تو دنیا یہ دیکھے گی کہ سب طاقتوں کا سر چشمہ اور منبع ہمارے رب کی ذات ہے ، تو نبوت کے بعد الہی سلسلہ میں صرف ایک وجود ایسا ہوتا ہے اپنی ساری عاجزی اور کم مائیگی اور نیستی کے باوجود جس کو وہ حقیقتاً اپنے دل میں محسوس کر رہا ہوتا ہے کہ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی شہادت ہوتی ہے کہ جو جس منصب پر پہ فائز ہے وہ میری طرف سے عطا کردہ ہے.اس کے مقابلہ میں بتاؤ کون ہے جو کہے کہ خدا تعالیٰ کی یہ فعلی شہادت ثابت کرتی ہے کہ جس منصب کا میں زبانی دعوی کر رہا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.کوئی ثابت نہیں.نہ قرآن کریم سے اس کا ثبوت ملے نہ حدیث سے اس کا ثبوت ملے.قرآن کریم سے نصیحت حاصل کرو اس وقت اصل مضمون میرا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ اگر تم قرآن کریم سے نصیحت حاصل کرنا چاہتے ہو اور عزت کے ان سامانوں سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو جو اس نے تمہارے لئے پیدا کئے ہیں تو فکر و تدبر کے بعد اس شخص کی آواز پر کان دھر و جو تم سے زیادہ جانتا ہے.تم زیادہ نہیں جانتے.ہم میں سے ہر شخص یہ نہیں کہ سکتا کہ صرف ایک ہی مجھ سے زیادہ جانتا ہے لیکن تم میں سے کسی کے متعلق خدا کی یہ فعلی شہادت نہیں ہے کہ وہ اس منصب پر کھڑا ہے لیکن یہ کہتا بھی ہے.اس واسطے آپ کے لئے ضروری ہے کہ اس کی باتوں پر کان دھریں.ورنہ قرآن کہتا ہے کہ قرآن سے تم فائدہ نہیں حاصل کر سکتے.اور تیسری چیز یہ بتائی وَ هُوَ شَهِيدٌ که نه فکر و تدبر ، نہ تعلیم نہ علم سیکھنا تمہیں فائدہ دے گا.جب تک عمل سے تم یہ گواہی نہ دو گے کہ جو تم نے سیکھا اور اسے سچ سمجھ کے سیکھا.اور اس کو اس لئے سیکھا کہ تم اس پر عمل کرو گے.پس محض سننا محض غور کرنا محض فکر کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچنا کافی نہیں جب تک انسان یہ عزم نہ کر لے اور اپنی زندگی میں اس عزم کو پورا کرے کہ ہم نے روحانی دنیا میں کرنے کے لئے جو کچھ سیکھا ہے اس کے مطابق ہم کرتے بھی ہیں.اگر ہم نہیں کرتے تو غور کرنا بھی اور سننا بھی بے معنی ہے.بالکل بے معنی اور وقت کا ضیاع ہے.قرآن کریم میں ہر قسم کی خیر و برکت ، عزت اور بزرگی کے سامان ہیں تو قرآن کریم میں ہر قسم کی خیر اور برکت ، ساری نصائح، ہر قسم کی عزت اور بزرگی اور شرف کے سامان ہیں.لیکن ملتے انہیں ہیں جو پہلے خود غور کرتے ہیں پھر وہ سیکھتے ہیں دوسروں سے.اور پھر اس

Page 67

48 سبیل الرشاد جلد دوم پر عمل کرتے ہیں.جب تک یہ تین باتیں اکٹھی نہیں ہوتیں.تو قرآن تمہیں فائدہ نہیں دے سکتا ہے.پس قرآن سے فیوض حاصل کرنے کے لئے ان تین باتوں کو اختیار کرو.اگر تم ان تین باتوں کو اختیار نہیں کرو گے تو ان ذمہ داریوں کو تم کیسے نبھاؤ گے.جو انصار اللہ نے تم پر ڈالی ہیں اور جماعت احمدیہ نے تم پر ڈالی ہیں.خلاصہ کلام یہ کہ قرآن نے تم پر (ذمہ داریاں) ڈالی ہیں.قرآن کریم تو بڑی عجیب کتاب ہے.اس میں جہاں اگر پہلے رحمت کا ایک دروازہ کھولا تھا تو ایک ہزار ایک دروازہ اب کھول دیا ہے، رحمت کا انسان کے سامنے.مگر ایک ہزار ایک ذمہ داریاں بھی ہمارے کندھوں پر ڈال دی ہیں.اب ایک مثال دے دیتا ہوں.اور وہ موازنہ مذاہب کی مثال ہے تا آپ کو پتہ چلے کہ جو کتاب آپ کو دی گئی ہے.وہ کس قدرشا ندار ہے.حقوق العباد کس طرح ادا کر نے چاہئیں ہر ایک مذہب جو دنیا کی طرف آیا اس نے یہ دعویٰ کیا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ لوگوں کو بتاؤں کہ حقوق اللہ کیسے ادا کئے جاتے ہیں اور حقوق العباد کس طرح ادا کر نے چاہئیں.سارے مذاہب اس میں برابر کے شریک ہیں.اسلام نے بھی یہ دعویٰ کیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی دعویٰ ہے.سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اسلام میں اور پہلے مذاہب میں کیا فرق ہے؟ اس فرق کو ظاہر کرنے کے لئے اور ثابت کرنے کے لئے میں پھر حقوق اللہ کی ادائیگی کا ذکر کروں گا.اور وہ بھی بڑے اختصار سے.قرآن کریم نے مؤثر اور قائل کر دینے والے دلائل کے ساتھ ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات میں سے ہر صفت اس کے بندے پر بہت سی ذمہ داریاں عائد کرتی ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ کی ذات کی ذمہ واری کا حق جو ہے وہ حقوق اللہ میں سے ہے نہ اس کا حق یہ ہے کہ ہم اس کو واحد لاشریک جانیں اور یہ سمجھیں کہ وہ ہمارا محبوب اور تمام صفات حسنہ سے متصف اور تمام بُری باتوں سے پاک اور منزہ ہے.ایک ذمہ داری ہے ذات باری کی.صفات باری میں سے ہر ایک صفت بیسیوں ، سینکڑوں، ہزاروں ذمہ داریاں ہم پر عائد کرتی ہے.اگر یہ صحیح ہو اور یقینا یہ صحیح ہے تو پھر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ موسی" اپنی قوم کے سامنے تمیں صفات الہی کو پیش کرتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے سامنے قریباً ستر سے زائد خدائی صفات کو پیش کرتے ہیں.جس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں رحمت کے بہت سے زیادہ دروازے کھولے وہاں ذمہ واریاں بھی بہت ڈال دیں

Page 68

سبیل الرشاد جلد دوم کیونکہ ہر صفت کی ذمہ واری انسان کے اوپر پڑتی ہے.ہر نیکی اللہ تعالیٰ کی صفت سے مشابہت اختیار کرنے کا نام ہے 49 دراصل جتنے گناہ ہیں وہ کسی نہ کسی صفت کو توڑنے یعنی اس کی ذمہ واری نہ نباہنے یا اس میں کسی قسم کے شرک کرنے سے پیدا ہوتے ہیں اور ہر نیکی جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی صفت سے مشابہت اختیار کرنے کا نام ہے، اس کے بغیر کوئی نیکی نہیں.ساری کی ساری نیکیاں جو اسلام بتا تا ہے وہ اس معنی میں نیکیاں ہیں کہ ان کو اختیار کرنے سے تَخَلَّقُ بِاَخْلَاقِ اللہ پیدا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات سے انسان مشابہت اختیار کر لیتا ہے مثلاً بہت ساری نیکیاں ایسی ہیں جن کا رب کے ساتھ تعلق ہے اور بعض کا اس فقرہ کے، رب کی جو شان ہے.رب العالمین ، ان کے ساتھ تعلق ہے.مثلاً کسی جاندار کو دکھ نہ پہنچاؤ.انسان کو نہیں.اس سے بڑھ کر یہ کہ کسی چیز کی بھی خواہ وہ غیر جاندار ہو اس کی حق تلفی نہ کرو.بڑا عجیب مذہب ہے اسلام - جاندار ہو یا غیر جاندار اس کے جو حقوق ہیں ان کو تلف نہیں کرنا ایک لقمہ بھی ضائع نہ ہو مثال اس کی یہ ہے ، چھوٹی سی مثال دیتا ہوں کہ جو کھانا گھر میں پکتا ہے.اسلام کہتا ہے کہ تم پر اس کا حق ہے تم اس حق کو پورا کرو.اور پور اس طرح کرو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کہ اپنی پلیٹ میں اتنا سالن نہ ڈالو کہ ایک لقمہ بھی بچے ورنہ گنہ گار ہو جاؤ گے.کیونکہ لقمے کا کھانے کا یہ حق تھا کہ اس کو ضائع نہ کیا جائے.اللہ تعالیٰ نے یہ حق پیدا کیا ہے کھانے کا.جو گھر میں پکتا ہے وہ ضائع نہیں ہوگا.اور اگر آپ اس کو ضائع کرتے ہیں تو حق غیر جاندار کا جس کو آپ نے اپنی ہنڈیا میں گھر میں کئی گھنٹے آگ پر رکھا ہے.اس کا حق قائم ہے.اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجاتے ہیں ، آپ حق تلفی کے نتیجہ میں.یہ تو چھوٹی سی مثال ہے.ہر چیز کو آپ لے لیں.اس کے حقوق اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں.کتنا وسیع ہے یہ مضمون جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر حق کے قیام کے بعد جس کی ادائیگی ہوگی.وہ رحمت ہے آپ کے لئے.تو جتنی رحمتوں کے دروازے اسلام نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے نتیجہ میں ایک مسلمان پر کھولے ہیں.اس کا شاید ہزارواں حصہ بھی ان رحمتوں کے دروازے نہیں کھولے دوسری قوموں پر جو ہم سے پہلے گزری تھیں.تو قرآن کریم سیکھنا ہے.اس روشنی میں جو خلافت کی روشنی ہے.خلافت کی روشنی اور خلیفہ وقت کی روشنی بات یہ ہے کہ ایک ہے خلافت کی روشنی ، ایک ہے خلیفہ وقت کی روشنی.خلیفہ وقت تو ایک انسان

Page 69

50 سبیل الرشاد جلد دوم ہے اس کی زندگی جو ایک دن ہے یا ایک سال ہے یا دس سال ہے ( جتنا خدا کو علم ہے ) وہ ختم ہو جاتی ہے.لیکن یہ سمجھنا مثلاً آج کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی خلافت کی روشنی بجھ گئی.یہ غلط ہے.یہ ابھی ابھی جو روشنی ہے خلافت کی روشنی مثلاً اس روشنی میں ہمیں یہ بھی نظر آیا تھا کہ جن کے دلوں میں خلافت سے بغض تھا ان کو شرمندہ کر دیا آپ نے.تو یہ روشنی قیامت تک نہیں مل سکتی.ویسے تو ان کو لتاڑا ہے.جو غیر مبائعین بنے ہیں کیونکہ رہتی دنیا تک انسان اس روشنی سے نور حاصل کرتا رہے گا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ایک فانی انسان ہونے کی حیثیت میں فنا کا جامہ پہن کر دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن جو نور اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا تھا.وہ قیامت تک اندھیرے میں نہیں بدل سکتا.جو نور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کے منصب پر قائم کرنے کے بعد دیا تھا.وہ نور قیامت تک پھیکا نہیں پڑ سکتا.محو نہیں ہوسکتا وہ تو نور رہنے والا ہے.اسی طرح یہ خلافت چلتی رہے گی.ایک کے بعد دوسرا خلیفہ آتا رہے گا.لیکن خلافت روشنی کو زیادہ روشن کرتی چلی جائے گی.اس کو اندھیرے میں کوئی تبدیل نہیں کر سکے گا.قرآن کریم کا نور خلافت سے وابستگی سے ہی حاصل کر سکتے ہیں تو قرآن کریم کا نور خلافت سے وابستگی اور خلافت کے بتائے ہوئے طریقہ کے نتیجہ میں آپ حاصل کر سکتے ہیں.دوسروں سے بھی حاصل کر سکتے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ ”نہیں حاصل کرتے نہیں حاصل کر سکتے لیکن ان کے پاس سند کوئی نہیں.سند ایک ہی آدمی کے پاس ہے.تو خلافت سے وابستگی کا نعرہ لگاتے ہیں.خدام الاحمدیہ میں بھی ہم اپنا آپ پیش کر رہے ہوتے ہیں.انصار اللہ میں بھی.لیکن ہم پر یہ بھی تو فرض ہے کہ نعرے کا بھی کوئی حق ہے.ہم پر خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہوا کہ جس چیز کا نعرہ لگا رہے ہو اس کی حقیقت کو بھی سمجھیں.محض نعرہ بازی کسی کام نہیں آ سکتی.تو اس وقت خلاصہ میری ساری تقریر کا یہ ہے کہ باتیں کرنے یا با تیں سننے کے لئے محض آپ کی تنظیم کو قائم نہیں کیا گیا.آپ کی تنظیم کو.اے میرے انصار بھائیو! اس لئے قائم کیا گیا تھا کہ آپ نیکی کی باتیں اپنے محدود دائرہ کے اندر اس نیت سے سنیں گے کہ ان پر عمل کر کے آپ وہ روحانی طاقت حاصل کر لیں گے.جس روحانی طاقت کی آپ کو اس بڑے دائرہ کے اندر ضرورت ہے.جو احمدیت کا دائرہ ہے اور جس طاقت کے حصول کے بغیر ان ذمہ داریوں کو صحیح طور پر نیا ہنا عقلاً ممکن نہیں.تو ہر تنظیم کا جو غیر مادی ایک وجود ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہر وجود کے کچھ حقوق ہیں اور کچھ

Page 70

سبیل الرشاد جلد دوم 51 اس کے نتیجہ میں ذمہ واریاں پیدا ہوتی ہیں.تو ہر تنظیم کے کچھ حقوق ہیں آپ پر ، ان حقوق کو سمجھو اور ادا کرو.خلافت کے منشاء کے خلاف اپنی منشاء کو ان تنظیموں پر ٹھونسنے کی کوشش نہ کرو کہ وہ ہاتھ جو زوائد کو ان کے سر پر رکھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے وہ کاٹ دیا جائے گا.آخر میں میں دعا کے لئے پھر تحریک کرتا ہوں کیونکہ سفر پر جانا ہے.آپ دوستوں سے دور، اس لئے اداسی کا باعث بن جاتی ہے کہ آپ میں رہنے کی عادت بھی ہے اور پھر اس کی وجہ سے بہت زیادہ پیار بھی ہے، ویسے تو ان کا بھی حق ہے جو دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں.لیکن ان کو بھی عادت پڑ گئی ہے دور رہنے کی اور مجھے بھی عادت پڑ گئی ہے ان سے فاصلے پر رہنے کی.تو بڑے ہی اداس دل کے ساتھ صبح ہمارا جہاز جو ہے وہ پرواز کرے گا.لیکن جس مقصد کے لئے پرواز ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ نیک ہے.خدا کرے اور آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی وہ نیک مقصد ہو.اور اس نیک مقصد کے حصول کے لئے میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ مجھے کوئی طاقت نہیں جب تک آسمان مجھے وہ طاقت نہ عطا کرے، جو مجھے چاہیئے میں اس کو حاصل نہیں کر سکتا.اسلئے جہاں میں دعا کرتا ہوں آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے نازل ہوں.اور وہ ہر شیطان سے ہمیں محفوظ رکھے اور ان شیطانی حملوں سے جو ان اقوام کے اوپر ہو چکے ہیں اور جن کے زخموں سے وہ تلملا رہے ہیں.ان زخموں کے مندمل ہونے کی دوا ہماری عقلیں تجویز کر سکیں.اور اللہ تعالیٰ اس دوا میں برکت ڈالے اور ان اقوام کو صحت عطا کرے، قبل اس کے کہ وہ ایسی موت مر ہیں.( غیر مطبوعہ )

Page 71

سبیل الرشاد جلد دوم 52 ذیلی تنظیموں کی غرض ان تنظیموں کی غرض یہ ہے کہ ہم کچھ کرنے کے لئے سیکھیں، یہ نہیں ہے کہ کچھ نہیں اور کچھ سیکھیں اور پھر کچھ کریں نہ.پس عمل میں تیزی پیدا کرنے کے لئے عمل کو صراط مستقیم پر قائم رکھنے کے لئے عمل میں اسلامی روح کو زندہ رکھنے کے لئے ان تنظیموں کو قائم کیا گیا ہے.جس کا مطلب یہ ہوا کہ ساری تنظیمیں ایسی ہیں جن کا تعلق باتوں سے کم اور کام سے زیادہ ہے.لیکن بعض مجالس انصار اللہ کی اور خدام الاحمدیہ کی بھی یہ سمجھنے لگ گئی ہیں کہ تربیتی جلسے کرنا یا سالانہ اجتماع منعقد کرنا ان کے لئے کافی ہے.اور اگر وہ ایسا کر لیں تو کسی اور چیز کی انہیں ضرورت نہیں حالانکہ حقیقت اس کے برعکس یہ ہے کہ جو نوجوان خدام الاحمدیہ کے دائرے کے اندر رہتے حنا ہوئے.اپنے اجتماعوں اور دوسرے اجلاسوں میں سیکھنے کے بعد پورا عمل کر لیتے ہیں.تب بھی ان کا کام ختم نہیں ہوتا.کیونکہ خدام الاحمدیہ اور انصار الله، لجنہ اماءاللہ ہرست تنظیمیں ( بعض دوسری تنظیمیں بھی ہیں ان کا ذکر اس وقت میں چھوڑتا ہوں ) خاص اور محدود دائرہ کے اندر کام کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں.اور وہ خاص اور معتین دائرہ جو ہے وہ اس لئے معین کیا گیا ہے.کہ جب اس دائرہ کے اندر کام کرنے کی ہمارے نو جوان اور بڑی عمر والے تربیت حاصل کر لیں گے اور توفیق پالیں گے کہ اس کام کے اہل ہوں گے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی توفیق بھی پائیں گے.تو بڑے دائرہ کے اندر جو احمدیت کا دائرہ عمل ہے اس میں وہ اچھا کام کریں گے.( سبیل الرشاد جلد دوم صفحه 39)

Page 72

سبیل الرشاد جلد دوم 53 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحم اللہ تعالی کا فتاحی خطاب فرموده ۱/۲۷ خاء۱۳۸۸ هش ۲۷ اکتو بر ۱۹۶۷ء بمقام احاطه دفاتر مجلس انصار اللہ مرکز یہ ربوہ حضرت خلیفہ مسح الثالث رحم اللہ تعالیجب مٹی پر تشریف فرماہوئے تو فرمایا.دعا ہے کہ اے ہمارے پیارے رب ! تو نے محض اپنے فضل سے اس بات کی توفیق دی ہے کہ ہم تیرے اس پیارے بندے، تیرے مسیح کو شناخت کریں اور اس طرح ہمارا شمار تیرے انصار میں ہونے لگا ہے.تو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر کہ ہمیں توفیق ملے کہ ہم واقعی اور حقیقی معنے میں تیرے انصار بن جائیں.اور تیری مدداور تیری الفت ہمیشہ ہمارے شامل حال رہے.دعا کر لیں.دعا کے بعد حضور پر نور نے تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائی اور فرمایا.ہمارا یہ دعویٰ ہے اور یہ دعوی حقیقتا تو ہر احمدی کا ہے.لیکن حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت احمدیہ میں بڑی اور پختہ عمر والوں کی تنظیم کو قائم کر کے اس کا نام بھی انصار اللہ رکھا تا کہ دُہرا احساس اس عمر میں پیدا ہو کہ ہما را مقام اس دنیا میں انصار اللہ کا مقام ہے.تو ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ ہم انصار اللہ ہیں.یہ دعوی کوئی معمولی دعوی نہیں ہے بلکہ بڑی ہی اہمیت کا حامل اور بڑی ہی ذمہ داریوں کا حامل یہ دعویٰ ہے.جو لوگ حقیقی معنی میں اللہ کے انصار بن جائیں.ان کی شناخت قرآن کریم نے بتائی ہے اور وہ یہ ہے کہ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصَرُوا اللهَ يَنْصُرُكُمْ وَيُتَيْتُ أَقْدَامَكُمْ اگر تم حقیقی معنی میں اللہ کے انصار بن جاؤ گے.تو اسکے نتیجہ میں دو باتیں ظاہر ہوں گی.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کو آسمانوں سے اترے گا اور اتر تارہے گا.اور دوسرے یہ کہ ایک دفعہ حقیقی معنے میں اس کے انصار بن جانے کے بعد تمہاری ثبات قدم میں کوئی لغزش پیدا نہ ہوگی.اور تم ہمیشہ ہر آن اپنے فعل، اپنے عمل، اپنے قول سے یہ ثابت کرتے رہو گے کہ واقع میں تم اس کے انصار ہو.اللہ تعالیٰ کی مددکئی رنگ میں ظاہر ہوتی ہے.جب ہم مصیبتوں میں یا ابتلاؤں میں یا دُکھوں میں مبتلا ہوں اور ہم اس کے حضور جھکیں اور گڑگڑائیں اور عاجزی کریں اور زاری کریں تو وہ ہماری دعاؤں کو سنتا اور اپنی مددکو ہم پر نازل کرتا ، اور ہمارے دُکھوں اور پر یشانیوں کو دور کرتا ہے.یہ ایک طریق ہے 1 سوره محمد آیت ۸

Page 73

سبیل الرشاد جلد دوم 54 اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہونے کا.ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس میدان میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اور غیر محد ودفضل نازل ہور ہے ہیں.ایسے ایسے رنگ میں وہ ہماری مدد کو آتا ہے.کہ انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے.اور اس کا دل اپنے رب کی حمد سے معمور ہو جاتا ہے.اگر میں صرف اپنی ذات سے تعلق رکھنے والی یعنی جو کسی نہ کسی رنگ میں مجھ سے تعلق رکھتی ہیں ، نصرتیں بیان کرنے لگوں تو سمندر کا پانی اگر سیا ہی ہو تو وہ بھی خشک ہو جائے.اور ان نصرتوں اور ان فضلوں کو میں بیان نہیں کر سکوں گا.میں بعض مثالیں دے دیتا ہوں تا کہ دوست یہ سمجھنے کے قابل ہو جا ئیں کہ اس وقت میرا مدعا کیا ہے.ایک احمدی بہن کی دولڑکیاں ہی تھیں.ابھی کوئی لڑکا پیدا نہیں ہوا تھا.وہ اپنے رب سے دعائیں کر رہی تھی کہ اے خدا ہمیں ایک لڑکا دے.ہر احمدی ماں اور باپ یہ دعا خاص کرتے ہیں کہ وہ نیک ہو.وہ خادم دین ہو.وہ تیرے انصار میں سے ہو.شیطان کے شر سے محفوظ رہنے والا ہو.وغیرہ وغیرہ ایک رات (۷ جون ۱۹۶۶ ء ) میں اس نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ خواب میں تشریف لائے ہیں اور اس بہن نے انہیں کہا کہ میری خواہش ہے کہ میرے اولا دنرینہ ہو.حضور دعا کریں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے کہا کہ گومیں بھی دعا کروں گا لیکن تم میاں ناصر احمد کو دعا کے لئے لکھو.چنانچہ اگلے دن صبح اٹھ کر اس نے مجھے خط لکھا کہ میں نے یہ خواب دیکھی ہے.آپ میرے لئے دعا کریں.تو وہ بھی دعا کرتی رہیں.اور ان کا خاوند بھی دعا کر رہا ہوگا.اور اس کے عزیز بھی کرتے رہے ہوں گے اور جن کو اس نے کہا.اور میں نے بھی اس کے لئے دعائیں کیں.چند روز ہوئے اس کے خاوند کا مجھے یہ خط ملا.اور یہ تاریخ اس دوسرے خط سے ہی میرے ذہن میں حاضر ہوئی.کیونکہ سینکڑوں خطوط میں روزانہ پڑھتا ہوں دعائیں بھی کرتا ہوں.لیکن سارے خطوط ذہن میں محفوظ تو نہیں رہتے.بھول جاتا ہے انسان.میں بھی بھولا ہوا تھا.تو اس کے خاوند نے چند روز ہوئے لکھا کہ اس طرح میری بیوی نے خواب دیکھی تھی اور صبح اٹھ کر اس نے آپ کو دعا کے لئے لکھا تھا.اب آپ خوش ہوں گے.یہ سن کر کہ اس کے بعد پہلا بچہ جو ہمارے ہاں ہوا ہے وہ لڑکا ہی ہے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کو صحت والی زندگی دے اور یہ عام دعائیں جو انسان کرتا ہے اپنے بچوں کے لئے وہ لکھی ہوئی تھیں.ایک خط افریقہ سے آیا.ہمارے ایک مقامی احمدی ہیں.انہوں نے لکھا کہ میرے ہاں چھ لڑکیاں ہیں اور اولا دنرینہ کوئی نہیں، عمر کافی ہو گئی ہے.آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں لڑکا بھی عطا کرے

Page 74

55 سبیل الرشاد جلد دوم اور اس کے بعد جو بچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دیا وہ لڑکا تھا.تو افریقہ میں کئی ہزار میل دور بیٹھے ہوئے اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہونا کہ میں دعا کے لئے وہاں لکھوں پھر اللہ تعالیٰ کا اس دعا کو قبول کر لینا ، اور ان چھ لڑکیوں کے بعد اس کولر کا عطا کرنا یہ ایک ایسی نصرت ہے کہ اس کا دل اپنے اللہ کی محبت سے اور اس کی حمد سے معمور ہو گیا ایک طرف.اور دوسری طرف سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ساتھ اس کی عقیدت پہلے سے کہیں بڑھ گئی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ ایک ایسی جماعت پیدا کر دی ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ فضل کر رہا ہے.اور اس طرح ہم ایک دوسرے کے لئے جو دعائیں کرتے ہیں.وہ سنتا ہے اور تسکین قلب کے سامان - پیدا کرتا ہے.تو سینکڑوں ہزاروں مثالیں اس قسم کی قبولیت دعا کی بیان کی جاسکتی ہیں.ہر موقع پر ، ہر مقام سے ، یہاں بھی ، امریکہ میں بھی ، انگلستان میں بھی اور یورپ میں بھی اور افریقہ کے سارے ملکوں میں اور نبی میں اور آسٹریلیا میں ، جہاں احمدی ہیں وہاں ، فلپائن میں ، جہاں جہاں بھی احمدی ہیں.ان کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی برادری بنا دیا ہے.کہ جو برا دری حقیقی معنی میں اس وقت تک ہمیں نظر آتی ہے.انصار اللہ کی برادری ہے اور اللہ تعالیٰ جماعت کی دعاؤں کو ایسے رنگ میں قبول کرتا ہے کہ وہاں ہزار ہا میل پر بیٹھے ہوئے وہ حیران ہوتے ہیں اور احمدیت کی برکت سے ہزاروں لاکھوں ایسے ہیں جنہوں نے پہلی دفعہ اپنے رب کو شناخت کیا ہے.وہ بڑی قدرتوں والا اور طاقتوں والا اور دنیا اور اس کی ہر چیز اس کے قبضہ اور تصرف میں ہے.جس طرح وہ چاہتا ہے اسی طرح اس دنیا میں ہوتا ہے.ابھی چند دن ہوئے.ہماری چھوٹی پھوپھی جان حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے ایک منذر خواب دیکھی.یا کوئی نظارہ دیکھا.وہ تو انہوں نے مجھے نہیں لکھا.بہر حال مجھے لکھا کہ آپ دعا کریں اور دعا کی تحریک کریں.اور صدقہ دیں.اتفاقاً جس جمعہ کو مجھے وہ خط ملا.اس جمعہ کو چار پانچ روز ہو چکے تھے.ان کے ایک نواسے کی بیماری جسے انفیکشن تھی.اور بخار جو تھا وہ کم ہوتا ہی نہ تھا.ہرقسم کی دوائیں جو آج موجود ہیں وہ اس کے اوپر استعمال کی جا چکی تھیں لیکن بخار میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا.حتی کہ یہ بھی نہیں کہ دو ڈگری کم ہو جائے.وہ روزانہ ۱۰۵ کا ہوتا تھا.جس کے بعد سے وہ بہت پریشان تھیں.تو میں نے جمعہ میں بھی اس عزیز بچہ کے لئے دعا کی تحریک کی.اس شام میں انہیں وہاں ملنے بھی گیا.اس کو دیکھا.وہاں بھی اس کے لئے دعا کی.اور میں نے اس کی والدہ کو کہا کہ دیکھو کل صبح تک اس کا بخار اتر جائے ورنہ میں تمہاری خبر لوں گا.اس رنگ میں میں نے اس سے بات کی اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ کل صبح اس کا بخار اتر گیا.اور اب وہ بالکل خیریت سے ہے.کمزوری کچھ رہتی ہے.تو میری طبیعت میں یہ

Page 75

سبیل الرشاد جلد دوم 56 بھی ایک بشاشت پیدا ہوئی کہ اس دن دو دعاؤں کی تحریک کی گئی تھی.ایک میں نے اپنے متعلق دوستوں کو کی تھی کہ جو انذار کا پہلو ہو.وہ اللہ تعالیٰ ٹال دے وہ پہلو تو نمایاں نہیں تھا.نہ پتہ لگ سکتا ہے اس مادی آنکھ کو کہ وہ کیا پہلو تھا.وہ کس طرح ٹلایا نہیں ٹلا - وَالله اَعْلَمُ.ہم اپنے رب پرامید رکھتے ہیں کہ وہ بھی ٹل گیا.لیکن ساتھ ایک ایسی دعا کی گئی جو نظر آ رہا تھا کہ پوری ہو گئی.مادی آنکھ نے بھی دیکھا اور آنکھ نے محسوس کیا کہ بچہ کے لئے دعا کی گئی تھی.جس کو کئی روز سے شاید پانچ دن سے بھی زیادہ ۱۰۵ سے کم بخار نہیں ہوتا تھا.اس رات اللہ تعالیٰ نے میری اور آپ کی دعاؤں کو قبول کر کے بخار کو اتار دیا.اس سے میرے دل میں یہ بشاشت پیدا ہوئی کہ دو دعائیں کی گئیں تھیں.ایک ظاہر اپوری ہو گئی تھی.دوسری نظر نہیں آ سکتی اس لئے امید رکھتے ہیں کہ وہ دعا بھی اللہ تعالیٰ نے قبول کر لی اور جو بھی بلا تھی.اور پریشانی تھی.وہ اللہ تعالی نے ٹال دی - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ - تو ایک نصرت تو اللہ تعالیٰ کی اس رنگ میں نازل ہوئی ہے اور اس کثرت سے نازل ہو رہی ہے کہ صرف اس نصرت کے شکر کے طور پر اگر ہم اپنی - زندگیوں کے باقی سانس اس کی حمد میں گزاریں تب بھی اس کی حمد کا حق ادا نہیں ہوسکتا.دوسرے رنگ میں جو اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہوتی ہے.وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر فیصلہ کیا کہ وہ دنیا میں دوبارہ اسلام کو غالب کرے گا.اور اپنے اس فیصلہ کے نفاذ کے لئے اس نے اپنے ایک بندے کو جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد میں سب سے بلند مقام اور ارفع مقام رکھتا تھا.اسے مبعوث کیا اور مامور کیا اور اس کے گرد ایک چھوٹی سی جماعت اس نے جمع کر دی.جو آج قریباً سو سالہ ترقیات کے بعد بھی اپنی تعداد میں دنیا کی آبادی کے لحاظ سے چھوٹی سی جماعت ہے.اور ایک غریب سی جماعت ہے.اور ایک کم مایہ کی جماعت ہے.اور ایک ایسی جماعت ہے جس کے پاس کوئی سیاسی اقتدار نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ نے کہا.میں اس جماعت اس ذرہ ناچیز کو اپنے ہاتھ میں لوں گا اور اس کے ذریعہ سے دنیا میں اسلام کو غالب کروں گا اور پھر اس نے ایک طرف اس جماعت کو یہ توفیق دی کہ وہ اس کی راہ میں قربانیاں دیں اور دیتے چلے جائیں اور دوسری طرف آسمان سے فرشتوں کو نازل کیا.اور ان سے کہا کہ جماعت کی حقیر قربانیوں کی طرف نگاہ نہ کرنا.بلکہ میرا فیصلہ جو آسمانوں پر ہو چکا ہے.زمین پر اس کو نازل کرو.چنانچہ ہماری حسین قربانیوں کا جو نتیجہ اس وقت تک نکلا ہے.اگر ہم آنکھیں کھول کر اس نتیجہ پر غور کریں تو ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ ان اچھے نتائج کا ہماری قربانیوں کے ساتھ کوئی تناسب ہی نہیں بلکہ قربانیاں اتنی حقیر ہیں.اور نتائج بڑے شاندار نکل رہے ہیں.آج بھی میں نے جمعہ میں بتایا تھا کہ تحریک جدید کی فوج نے ۳۴ ء سے لے کر ۴۴ ء تک

Page 76

57 سبیل الرشاد جلد دوم دس سال کی جو قربانیاں دی تھیں اتنی بڑی دنیا میں اور اتنے بڑے اموال کے مقابلہ پر چند لاکھ کی حقیقت ہی کیا ہے.ان حقیر قربانیوں کے نتیجہ میں جو اپنے فضل اور نصرتیں نازل کیں انکی ایک شکل یہ ہے کہ ۴۴ء کے بعد غیر ممالک میں ایسی جماعتیں پیدا ہونی شروع ہو گئیں جو اخلاص رکھنے والی اور ایثار کا نمونہ دکھانے والی ، اپنے رب کی معرفت رکھنے والی اور اسکی راہ میں اپنی ہر چیز قربان کرنے والی تھیں.اور مالی میدان آج ۳۰ لاکھ کے قریب انکی (سالانہ ) قربانیاں ہیں.اس میں سے ہم نکال دیں گے وہ امداد جو گورنمنٹ کی طرف سے سکولوں کو دی جاتی ہے.تب بھی بڑی قربانی ہے جو وہ دے رہے ہیں.تو وہ دس سالہ قربانی جو ہے، وہ ممکن ہے (ممکن ہے کیونکہ اس وقت اعداد و شمار میرے سامنے نہیں ) لیکن ممکن ہے کہ دس سال کی مجموعی قربانی اس سال کی بیرونی ممالک کی قربانی سے کم ہو.تو جو دس سال میں پھیلا کر آپ نے مالی قربانی دی تھی.اور اپنے مالوں کا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے قدموں میں لا رکھا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت ڈالی کہ وہ اموال جب غیر ممالک میں تبلیغ اسلام پر خرچ ہوئے.تو اس کے نتیجہ میں ایسی جماعتیں پیدا ہو گئیں کہ ان جماعتوں کی مجموعی قربانی آج ایک سال کی ، ان دس سال کے اموال سے زیادہ ہے.تو کتنی بڑی برکت ہے جو ہمیں نظر آ رہی ہے ، اتنی بڑی نصرت ہے ، اس کی جوان قربانیوں کے شامل حال رہی.وہ لوگ جن کو یہ خیال بھی نہیں آ سکتا تھا کہ کوئی اسلامی گروہ یہاں آ کر اسلام کی تبلیغ کرے گا.جب وہ اپنے اموال کو دیکھتے تھے جب وہ اپنے سیاسی اقتدار کو دیکھتے تھے.جب وہ عیسائیت کی اشاعت کے لئے اپنی قربانیوں کو دیکھتے تھے.جانی بھی اور مالی بھی تو وہ سمجھتے تھے کہ ہم فاتح ہو جائیں گے.اور عیسائیت کو ساری دنیا میں غالب کر دیں گے.پھر اللہ تعالیٰ نے ایسی ہوا چلائی جس کا ذکر میں نے اپنے اس مضمون میں بھی کیا ہے کہ خواب تو یہ دیکھ رہے تھے کہ افریقہ سارے کا سارا مسیح کے قدموں میں گر جائے گا.خواب تو وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ ہندوستان میں اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو دیکھنے کی خواہش کرے گا تو اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکے گی.کیونکہ ہندوستان میں کوئی مسلمان باقی نہیں رہے گا سب عیسائی ہو جائیں گے.اور خواب تو وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ مکہ پر خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا لہرائے گا.لیکن آسمان کے خدا نے کہا کہ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا.میں نے اپنے مسیح کو بھیجا اور اس لئے بھیجا کہ وہ دلائل کے ساتھ اس صلیب کو توڑ دے جس نے مسیح کی ہڈیوں کو تو ڑا اور آپ کے جسم کو زخمی کیا تھا.اور دلائل کے ساتھ جیسا کہ بتایا گیا تھا.اس صلیب کو تو ڑ دیا گیا ہے اور خود عیسائی اس بات کو ماننے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ مسیح صلیب پر نہیں مرے.اور اس پر بہت سی کتابیں لکھی جا رہی ہیں.ابھی چند

Page 77

58 سبیل الرشاد جلد دوم روز ہوئے مجھے امام بشیر کا خط ملا کہ ایک نئی کتاب انگریزی میں شائع ہوئی ہے جس کے مصنف نے اپنی اس کتاب میں ثابت کیا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرے.تو خود عیسائی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کی تصدیق کر رہے ہیں اور اس کے لئے کتب لکھ رہے ہیں.اور اس میں ہمارا اتنا دخل نہیں جتنا کہ ہمارے رب کی نصرت اور ملائکہ کے نزول کا دخل ہے.دلوں کو بدل رہا ہے.ایسے شواہد وہ خود دنیا کے سامنے لا رہے ہیں کہ وہ لوگ اس بات کو ماننے پر مجبور ہو رہے ہیں کہ صلیب ٹوٹ چکی.کیونکہ اگر مسیح صلیب پر نہیں مرے تو کفارہ کا مسئلہ ختم ہو گیا کہ وہ قربانی جس کے اوپر ان کے مذہب کی بنیاد تھی.وہ تو دی ہی نہیں گئی جب دی ہی نہیں گئی تو لوگوں کے گناہ کیسے معاف ہو گئے.عیسائیت مرجاتی ہے اور صلیب پر نہ مرنے اور مسیح کے طبعی موت مرجانے سے عیسائیت مرجاتی ہے.تو صلیب پر وہ نہیں مرے خود وہ اس کے قائل ہو گئے ہیں اور کفارہ اور تثلیث اور الوہیت مسیح.اور ہم تو مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں یہ ہے کہ کوئی بچہ بغیر باپ کے بھی پیدا ہو جائے لیکن وہ نہیں مانتے اور اس بات کا خود پادری انکار کر رہے ہیں.جیسا کہ ابھی ذکر کیا تھا.ایک پادری نے اپنے کسی لیکچر یا مضمون میں یہ لکھ دیا کہ میں الوہیت مسیح اور مسیح کے بن باپ ہونے کا وغیرہ وغیرہ ، جس طرح ان کے بنیادی عقائد سمجھے جاتے ہیں میں ان کا قائل نہیں ہوں.اور وہ اچھا بھلا پادری ہے.اس پر انہوں نے بڑا شور مچایا.اور پادریوں نے ایک کمیشن بھی بٹھایا ہے.کچھ اخباروں میں کچھ خطوط بھی اس کے متعلق لکھے گئے.تو اس نے پھر جواب میں لکھا.جو اخباروں میں چھپ گیا اور اس میں اس نے لکھا کہ اگر تم لوگ جو میرے پیچھے پڑے ہوئے ہوایسے پادریوں کی تلاش کرو گے.جو ورجن برتھ (VIRGIN BIRTH) میں اور تثلیث میں اور فلاں میں اور فلاں میں جو ان کے عقائد ہیں ان میں یقین رکھتا ہو گا.اور ان پر ایمان رکھتا ہو گا.تو میں تمہیں بتا تا ہوں کہ تمہیں پادری کوئی نہیں ملے گا یعنی سارے پادری اب ان عقائد کو چھوڑ چکے ہیں اور یہ حقیقت بھی ہے.میں نے آج خطبہ میں بھی بتایا تھا کہ پادری اتنے گندے الزام مسیح علیہ السلام پر لگا رہے ہیں کہ انسان زبان پر لانہیں سکتا.اور پھر اپنی طرف سے نہیں لگا رہے.ایک پادری نے لکھا ہے کہ انجیل کی فلاں فلاں آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسیح بڑے گندے اخلاق کا مالک تھا.تو وہ جو ایک وقت میں خدا بنایا گیا.وہ جو ایک وقت میں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں کھڑا کیا گیا اور اس کے ماننے والی دنیا نے یہ کہا کہ اللہ کا نام مٹا کر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو ملیا میٹ کر کے ہم مسیح کی عزت کو دنیا میں قائم کریں گے.اور اس کی الوہیت کو دنیا میں قائم کریں گے.وہ سب دعوے ہوا میں اُڑ گئے.اور وہی بات پوری ہوئی.جو ہمارے رب نے کہی تھی.تو یہ ایک میدان

Page 78

سبیل الرشاد جلد دوم 59 ہے.جس میں اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہوتی ہے.اور ہم اس کے بھی بے شمار مظاہرے اور جلوے ہمیشہ دیکھتے رہتے ہیں اور بھی بہت سے میدان ہیں.جن میں اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیں نظر آتی ہے اور جب ہم اللہ تعالیٰ کے اس پیار کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سر جھک جاتے ہیں اور ہماری روح پکھل کر آستانہ الوہیت پر بہنے لگتی ہے اور ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ اس خواہش میں دیوانہ ہورہا ہوتا ہے کہ وہ خدا کی راہ میں قربان ہو جائے.جب تک یہ جذ بہ جماعت میں قائم ہے.اس وقت تک ہم واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی انصار اللہ ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت یہ ثابت کر رہی ہے کہ ہم انصار اللہ ہیں کیونکہ اس کی نصرت ہمارے شامل حال ہوتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعویٰ کیا کہ جو میری مدد کرے گا میں اس کی مدد کے لئے آؤں گا.تو جس کی مدد کے لئے اللہ تعالیٰ آسمانوں سے آئے اور اس کے فرشتے نازل ہوں اس کے متعلق قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں ہم حتمی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ واقع میں حقیر ہونے کے باوجود، کم مایہ ہونے کے باوجود، کمزور ہونے کے باوجو د غفلتوں کے باوجود جو کچھ انہوں نے خدا کے حضور پیش کیا تھا اُس نے وہ قبول کر لیا.کیونکہ اگر وہ قربانیاں نہ ہوتیں تو یہ جماعت انصار اللہ نہ بنتی اور اگر یہ انصار اللہ نہ ہوتی.تو خدا تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت اس کے شامل حال نہ ہوتی.چونکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اس کے شامل حال ہے.اس لئے ہم اس نتیجہ پر پہنچنے کے لئے مجبور ہیں کہ واقع میں خدا کی نگاہ میں یہ جماعت انصار اللہ کی جماعت ہے.- یہ تو تھی انصار اللہ کی شناخت - اب میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.انصار اللہ کی ذمہ داریوں پر - جب اللہ تعالیٰ اپنا کوئی مامور دنیا میں مبعوث فرماتا ہے تو اس کا زمانہ تین حصوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے.ایک زمانہ ہوتا ہے بنیا دوں کو مضبوط کرنے کا.اس وقت بنیادیں قائم کی جا رہی ہوتی ہیں.پھر دوسرا زمانہ آتا ہے.ان بنیادوں پر روحانی قلعوں کی تعمیر کا اور پھر تیرا زمانہ آتا ہے.ان روحانی قلعوں کو خوبصورت بنانے اور کنسالیڈیشن (Consolidation) کا اور ان کے فیوض کو ساری دنیا میں قائم رکھنے کی جد و جہد کا.قائم کرنے کی جد و جہد اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے.اور قائم رکھنے کی جد و جہد پھر شروع ہو جاتی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے پر جب نگاہ ڈالیں.یعنی اسلام کی نشاۃ اولیٰ پر تو اس زمانہ میں بھی ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک مسلمانوں کی تعداد تھوڑی تھی.پہلے عرب کے لئے بنیا دیں مضبوط کی گئیں پھر خود سا را جزیرہ نما عرب جو تھا وہ بطور بنیاد کے بن گیا.اور وہاں دنیا میں جو اسلام کے قلعے تعمیر ہوئے تھے.ان کی بنیادوں کی مضبوطی کے سامان پیدا کئے گئے اس کے بعد پھر ایسا زمانہ آیا کہ وہ

Page 79

60 سبیل الرشاد جلد دوم روحانی قلعے ساری دنیا میں بننے شروع ہوئے اور معروف دنیا کے چپہ چپہ پر اللہ تعالیٰ کا گھر جو تھا.وہ بن گیا اور اس کے فیوض اور برکات سے اللہ تعالیٰ کے گھر سے اللہ یاد آیا.جب اللہ یا د آیا.تو اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد اور نصرت کے جلوے اپنی رحمت کے نشان انہیں دکھانے شروع کئے اور خدا تعالیٰ کی محبت ساری دنیا کی اقوام میں پیدا ہو گئی اور پھر اس محبت کو قائم رکھنے کی جو جد و جہد تھی وہ شروع ہوگئی.تین صدیوں تک اسلام جو تھا.وہ اپنے عروج پر رہا اور پھر اس کے بعد قائم رکھنے کی جدو جہد تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ تک رہی، لیکن کمزور ہوتی چلی گئی.جیسا کہ پہلے بتایا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں چھوٹے چھوٹے چراغ اسلام کے ہمیں جلتے نظر آتے تھے.اور کچھ آپ کی بعثت کے وقت کے قریب کے زمانہ میں بجھ گئے.وہ اولیاء فوت ہو گئے اور کچھ نے ٹھو کر کھائی اور وہ وجود جو اسلام کی روشنی پھیلانے والے تھے.اندھیرا پھیلانے کا موجب ہو گئے اور بہت تھے جن کی روشنیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چاند میں گم ہو گئیں اور آپ کے وجود کا وہ ایک حصہ بن گئے اور اس طرح ابدی حیات کو انہوں نے حاصل کر لیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مجھے وعدے دیئے ہیں غلبہ اسلام کے متعلق وہ تین صدیوں کے اندر اندر پورے ہو جائیں گے.جس کا مطلب یہ ہے کہ تین صدیوں کے اندر اندر ہی یہ تینوں زمانے ہیں.بنیادوں کے رکھنے اور انہیں مضبوط کرنے کا زمانہ ، روحانی قلعوں کی تعمیر کا زمانہ اور روحانی قلعوں کی حفاظت کا زمانہ اپنے عروج اور اس کے بعد کا زمانہ جو ہے.وہ تین صدیوں کے اندر اپنے کمال کو پہنچ جائے گا.جو حفاظت کا زمانہ ہے.وہ تو پھر آگے چلتا ہے.قیامت تک جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ وعدے ہیں وہ چلے گا.یہاں تک کہ انسان پھر اپنے رب کو بھول جائیں گے اور اس دنیا کی صف لپیٹ دی جائے گی.یہ ایک مستقل مضمون ہے.میں اس کی تفصیل میں تو ابھی نہیں جاتا.بہر حال ان تین زمانوں کا ان تین صدیوں کے اندراندر ضروری نہیں کہ تین صدیاں ہوں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود وضاحت سے فرمایا ہے.اس سے زیادہ زمانہ نہیں ہو گا.ہوسکتا ہے کہ دوسوسال کے اندر، ہوسکتا ہے کہ تین سو سال کے اندر، ہوسکتا ہے کہ سوا دو سو سال، اڑھائی سوسال کے اندر بھی یہ تینوں زمانے آجائیں.میں سمجھتا ہوں کہ جو بنیا دیں مضبوط کرنے کا زمانہ تھا.وہ ختم ہو رہا ہے اور روحانی قلعوں کی تعمیر کے زمانہ میں ہم داخل ہورہے ہیں.ان بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے

Page 80

61 سبیل الرشاد جلد دوم اموال ، عزتیں ، آرام اور سکون اور صحابہ مسیح موعود علیہ السلام کے خون کو استعمال کیا گیا ہے.اسی طرح تابعین کی ایک جماعت تھی.جنہوں نے مالی قربانیاں دیں.جنہوں نے جانی قربانیاں دیں جنہوں نے اپنی عزت کی قربانیاں دیں.جنہوں نے اپنے وقت کی قربانیاں دیں.جنہوں نے اپنی خواہشات کی قربانیاں دیں ہر قسم کی قربانیاں انہوں نے دیں تا کہ ان قلعوں کی تعمیر مضبوط بنیادوں پر ہو سکے.جو آج اللہ تعالیٰ دنیا میں روحانی طور پر کرنا چاہتا ہے.اب ہم اس زمانہ میں داخل ہو رہے ہیں.جب ان بنیادوں پر روحانی قلعوں کو تعمیر کیا جائے.اور یہ زمانہ جس میں بنیا دوں پر قلعوں کو تعمیر کیا جاتا ہے.اس لحاظ سے بڑا اہم ہے کہ ہمیں پہلے کی نسبت بہت زیادہ اموال کی ضرورت پڑے گی.ہمیں پہلے کی نسبت بہت زیادہ اوقات کی ضرورت پڑے گی.ہمیں پہلے سے زیادہ بہت زیادہ عزتوں کی قربانی کی ضرورت پڑے گی.ہمیں پہلے سے زیادہ سکون اور آرام کی قربانیوں کی ضرورت پڑے گی اور ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ جان کی قربانی کی ضرورت پڑے گی اور اس وقت انصار اللہ کا بڑا فرض یہ ہے کہ وہ خودان قربانیوں کو دینے کے لئے تیار ہو جائیں اور تیار رہیں اور اگلی نسل کو تیار کریں کہ وہ یہ قربانیاں اپنے رب کے حضور پیش کریں.اگر ہم نے اس زمانہ میں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے.وہ قربانیاں خدا کے حضور پیش کر دیں.جن کا آج کا وقت مطالبہ کر رہا ہے.تو میں امید رکھتا ہوں اپنے رب سے کہ وہ اگلے پچپیں تھیں سال کے اندر اس سے زیادہ فتوحات اسلام کو عطا کرے گا.کہ ہماری آنکھ تو ہمیشہ ہی حیرت سے خدا کے فضلوں کو دیکھتی ہے.دنیا کی آنکھ بھی حیرت سے خدا کے فضلوں کو دیکھنے لگے گی.اور اس بات کے تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گی کہ بڑا ہی عظیم تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ روحانی فرزند جس نے یہ دعوی کیا تھا کہ میرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ دنیا میں اسلام کو غالب کرے گا.پس اس زمانہ کی نزاکت کو سمجھیں اور اس زمانہ کی آواز کو سنیں اور اس زمانہ میں اسلام جو مطالبہ کر رہا ہے.اس مطالبہ کو پورا کرنے کے لئے ہر دم تیار ہوں.اگر ہم ایسا کریں اور اگر ہم خدا کرے کہ اس کی نگاہ میں انصار اللہ بنے رہیں.تو پھر میں اپنے رب پر کامل یقین رکھتے ہوئے بڑی ہی خوشیاں اور فتوحات مستقبل قریب میں دیکھ رہا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ اعلیٰ تو یہ ہیں - اَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مؤْمِنِينَ اگر اس پختہ ایمان پر ہم قائم رہیں اور ایمان کی علامت اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بیان کی ہے کہ لَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا.ایک یہ کہ تدبیر میں کمی نہ ہو.قربانیاں دینے میں غفلت کو اختیار نہ کیا کرو جہاں ایثار کے نمونے دکھانے ہوں.وہاں سستی نہ دکھائی جائے اور تدبیر کو کمال تک پہنچانے سوره آل عمران آیت ۱۴۰

Page 81

62 سبیل الرشاد جلد دوم کے بعد کوئی ضرر پیدا نہ ہو.بلکہ آدمی یہ سمجھیں کہ ہم نے جو کچھ ہم سے ہو سکا کر دیا اور جو نتیجہ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں نکلے.اس نتیجہ کے مقابلہ میں ، ان شاندار فتوحات کے مقابلہ پر یہ قربانیاں کوئی چیز نہیں.کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ نتیجہ نہ نکلے.اللہ تعالیٰ کہتا ہے لَا تَحْزَنُوا کہ پھر غم نہ کرنا.کیونکہ میری نصرت ان تمام خامیوں اور کمزوریوں کو دور کر دے گی اور وہ نتیجہ نکل آئے گا جو ضرورت کے مطابق انتہائی خرچ کے بعد نکلنا چاہئے تھا.انتہائی تدبیر اپنی طاقت کے مطابق تو تم نے کر دی لیکن ضرورت وقت کے مطابق وہ نہیں تھی.تو یہ جو فرق ہے تمہاری طاقت تمہاری استعداد اور ضرورت وقت کا اس فرق کو میں اپنی نصرت سے پورا کروں گا اور تمہیں پھر اس سکیم پر قائم رہنا چاہئے.کہ انتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ که اگر ایمان کے وہ نمونے دکھاؤ گے.جو میں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں تم دکھاؤ.تو غالب تم نے ہی آنا ہے.دنیا کی ساری طاقتیں مل کے بھی اس الہی فیصلہ کو بدل نہیں سکتیں.اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اسلام کو غالب کرے.ہماری عقل نہیں سمجھ سکتی کہ کیسے غالب کرے گا.لیکن ہماری عقل نے تو ۹۱ - ۱۸۹۰ء میں کب سمجھا تھا کہ ہمیں اتنی طاقت حاصل ہو جائے گی جواب ہے.گزشتہ قریباً ۹۰-۱۰۰ سال میں جماعت نے جس رنگ میں جس طور سے ترقی کی ہے.اس وقت کی عقل انسانی اس کو سمجھ آ سکتی تھی ؟ ہر گز نہیں.اس وقت ایمان بالغیب وہ چند افراد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گرد جمع ہوئے تھے.ایمان بالغیب لائے تھے.ان کو یہ پختہ یقین تھا کہ نتیجہ ہماری نظر سے اوجھل ہے.اور ہماری آنکھ وہاں تک نہیں پہنچ سکتی نہ ہماری جد و جہد وہاں تک پہنچ سکتی ہے.لیکن خدا نے کہا اس لئے نتیجہ وہ نکلے گا.پھر ہم نے اس ایک آواز کو جس کی طرف شاید پہلے دن کسی ایک نے بھی توجہ نہ کی تھی.ساری دنیا میں گونجتے دیکھا اور لاکھوں آدمیوں نے اس آواز کو پہچانا غیر معمولی حالات میں مخالف حالات میں اور اس پر ایمان لائے اور ان کے دل اس نفس پر اس وجود پر قربان ہونے کے لئے تیار ہو گئے جس کی وہ آواز تھی اور دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں رہا کہ جہاں احمدیت پہنچ نہیں گئی اس سفر کے دوران ہی بعض جگہ مجھ سے سوال کیا گیا تھا.کہ آپ کی جماعت کی تعداد کتنی ہے تو میں ان کو تفصیل سے یہ بتا تا تھا کہ تعداد بے معنی ہے.ہم اس وقت کم و بیش تین ملین یعنی تمیں لاکھ ساری دنیا میں ہوں گے.کچھ اوپر شاید ہوں.لیکن جو چیز ہمیں تسلی دلانے والی ہے اور جو چیز ہماری صداقت پر ایک گواہ ہے.وہ یہ ہے کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ میں خدا کی طرف سے مامور ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری مدد کرے گا.اس کے بعد سے ہر سورج جو چڑھا اس سورج کی آنکھ نے جماعت کو پہلے سے زیادہ تعداد میں اور پہلے سے زیادہ مضبوط دیکھا.کوئی ایک دن بھی تو ایسا نہیں.کہ ہم اسے پہلے دن سے

Page 82

63 سبیل الرشاد جلد دوم کمزور نظر آئے ہوں اور ہر روز سورج کی آنکھ نے ایک تعداد میں زیادہ اور اس کے کام میں زیادہ مضبوط جماعت پر نگاہ ڈالی اور اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ ہے کہ وہ تدریجی ترقی دیتا چلا جاتا ہے.جب تک کہ اس کی جماعت اپنے عروج کو نہیں پہنچ جاتی.اس لئے تم ہماری تعدا د کو نہ دیکھو جو اللہ تعالیٰ کا ہم سے سلوک ہے.اس پر نگاہ رکھو.اور کیسے تم کہہ سکتے ہو کہ ہم غالب نہیں آئے.یہ ایک حقیقت ہے نا ؟ ؟ ؟ کہ ہر روز جو سورج چڑھتا ہے.وہاں وہ ہمیں پہلے دن کی نسبت سے زیادہ اور مضبوطی میں مستحکم پاتا ہے.اسی نسبت سے وہ ساری انسانیت کو جو ہمارے مقابل پر ہے.تعداد میں کم اور اس سے کام میں بھی کم پاتا ہے.کیونکہ جو ہمیں ملا.وہ ان سے چھین لیا گیا.جو لوگ ہم میں شامل ہوں گے.وہ ان میں سے کم ہو گئے.اور جتنی طاقت ہماری بڑھ گئی اتنی طاقت ان کی کم ہو گئی.جیسا کہ ابھی میں نے بتایا ہے.انہوں نے دعوی کیا تھا کہ افریقہ عیسائیت کی گود میں ہے.اب سوال ہی کوئی نہیں یعنی شبہ کوئی نہیں.ان کے دماغ میں تھا یہ انیسویں صدی کے آخر کی بات ہے.جب عیسائیوں نے اپنی کا نفرنس میں یہ دعوی کیا تھا کہ افریقہ جو ہے وہ تو عیسائیت کو مل چکا ہے.اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی اور اب یہ حال ہے کہ اپنی ہی کا نفرنس میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ حالات یہ ہو گئے ہیں کہ اگر ایک شخص عیسائیت کو قبول کرتا ہے.تو اس کے مقابلہ میں دس اسلام کو قبول کرتے ہیں اور خدا کے فضل سے وہ دن بھی آنے والا ہے.جب کوئی شخص بھی عیسائیت کو قبول نہیں کرے گا اور دس نہیں بلکہ دس ہزار ، دس لاکھ اسلام کے اندر داخل ہو رہے ہوں گے کیونکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڑی کثرت سے آسمان سے فرشتوں کا نزول ہو کے ہمارے لئے راہ ہموار کر رہا ہے.اس راہ پر چلنا ہمارا کام ہے.فرشتوں نے راہ ہموار کر دی ہے.ہم نے دیکھنا ہے کہ ہم ان راہوں پر اب گامزن ہوتے ہیں کہ نہیں یہ ہماری آج کی ذمہ داری ہے.یہ دوسرے دور کی ذمہ داری ہے.میں سمجھتا ہوں.کہ پہلے دور کی ذمہ داریاں دوسرے دور کی ذمہ داریوں سے زیادہ تھیں.لیکن بعض لحاظ سے دوسرے دور کی ذمہ داریاں پہلے دور سے بہت زیادہ ہیں.کیونکہ دوسرے دور میں وسعت ہے.اور وسعت میں بہت سی کمزوریوں کے پیدا ہو جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے.کمزوریوں سے بچتے رہنا اور وسعت کے مطابق کام کی وسعت قربانیوں کی وسعت اس کے مطابق قربانیاں دیتے چلے جانا خدا کی راہ پر یہ پہلے سے زیادہ مشکل ہو گا.کیونکہ کچھ کمزور ہوں گے.تربیت کے لحاظ سے ان کو اپنے ساتھ چلانا.یہ نہیں ہو سکتا کہ ہماری جماعت کا ایک قدم تو آسمان پر ہے اور دوسرا تحت الثریٰ میں ہے.پھر ہم کیسے چلیں گے.ایک کم سے کم معیارا خلاص وصدق وصفا کا جو الہی جماعتوں میں ہونا چاہئے وہ ہر احمدی بڑے اور چھوٹے مرد اور عورت میں پیدا ہو جانا چاہئے.اس کے

Page 83

64 سبیل الرشاد جلد دوم بغیر ہم اپنی ذمہ داریوں کو نباہ نہیں سکتے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ انصار اللہ کا یعنی جو تنظیم کے لحاظ سے انصار اللہ ہیں.ان کا بہت بڑا فرض ہے یہ کہ وہ جہاں اپنے نفس کی اصلاح پر بروقت اور ہر آن کوشاں رہیں.وہاں وہ ہر وقت یہ بھی دیکھتے رہیں کہ اگلی نسل جو ہے.جو ان کے بچے ہیں.چھوٹے بھائی ہیں جن کے وہ گارڈین (GUARDIAN) ہیں.جن کے داعی ، اللہ تعالیٰ نے انہیں مقرر کیا ہے.وہ بھی اس کم سے کم مقام سے نیچے نہ گریں.کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ بلند سے بلند مقام تک وہ پہنچیں تا کہ ہم اس دوسرے دور کی ذمہ داریوں کو کما حقہ پورا کر سکیں، تا کہ اس دور میں جو روحانی اسلامی قلعے تعمیر ہونے ہیں ، دنیا کے چپہ چپہ پر وہ روحانی قلعے ہماری زندگیوں میں تعمیر ہو جائیں.اُن کا پورا حصہ تعمیر ہو جائے اور ہم خوشی اور بشاشت کے ساتھ اس دنیا کو چھوڑیں کہ ہماری قربانیوں کو اللہ تعالیٰ نے قبول کر لیا ہے اور ہم نے اسلام کی فتوحات کو ایک حد تک اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.( غیر مطبوعہ )

Page 84

سبیل الرشاد جلد دوم 65 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحم اللہ تعالیٰ کا انتقامی خطاب فرموده ۲۹ را خاء۱۳۸۸اهش ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۷ء بمقام احاطه دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ ربوه ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۷ء سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفتہ امسح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے بارہویں سالانہ اجتماع میں جو اختتامی تقریر ارشاد فرمائی.اس کا متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس وقت میں اپنے بھائیوں کو بعض اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.جو ذمہ داریاں کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انصار اللہ کی مجلس پر ڈالی تھیں.آپ نے ۱۹۴۳ ء ہی میں اس طرف مجلس انصار اللہ کو توجہ دلائی تھی اور مجلس خدام الاحمدیہ کو بھی کہ ان تنظیموں کے معرض وجود میں لانے کا باعث یہ ہے کہ حضور چاہتے ہیں کہ اس طرح جماعت میں پوری بیداری پیدا ہو جائے اور بیداری قائم رہے.ہر دو تنظیموں نے ایک حد تک تو خوش کن کام کیا ہے لیکن جہاں تک جماعتی بیداری کا تعلق ہے ہم ابھی تک اس بات میں سو فیصدی کامیاب نہیں ہوئے.اس اجتماع پر ہی صرف ۳۱۰ مجالس کے نمائندے تشریف لائے ہیں حالانکہ مغربی پاکستان میں اس وقت سات آٹھ سو سے زیادہ مجالس قائم ہیں.ہر ضلع کی ہر مجلس کا کم از کم ایک نمائندہ اجتماع پر ضرور آنا چاہئے.اس لئے کہ اگر ہماری تنظیم کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جماعت کو ہر وقت بیدار رکھا جائے تو یہ ضروری ہے کہ تمام مجالس بلکہ اگر ہو سکے تو تمام احمدی مرکز سے پختہ تعلق رکھیں.مرکز سے پختہ تعلق اس طرح رکھا جاتا ہے کہ ایک تو زیادہ سے زیادہ دوست زیادہ سے زیادہ اوقات پر مرکز میں جمع ہوں.اپنے دوستوں سے ملیں جو نظام چلانے پر مقرر ہیں.ان سے ملیں تبادلہ خیال کریں.اپنی مقامی ضروریات اور مشکلات کو ان کے سامنے رکھیں اور اگر کسی جگہ کمزوری پائی جاتی ہو تو اُسے با ہمی مشورہ سے دور کرنے کی کوشش کی جائے.بیداری کے قیام کے لئے دوسری اہم چیز یہ ہے کہ جو رسالے اور اخبار مرکز سے شائع ہوتے

Page 85

66 سبیل الرشاد جلد دوم ہیں.وہ کثرت سے پڑھے جائیں.میں سمجھتا ہوں کہ ہر احمدی کے کان میں وہ باتیں پڑنی چاہئیں کہ جن کی اشاعت مرکز سے ہوتی ہے.مرکزی اخبار اور رسالوں میں ایک تو کچھ اسپلیں کی جاتی ہیں مثلاً بتایا جاتا ہے کہ بعض جماعتیں اپنے وعدوں کے مطابق اور اپنی ذمہ داریوں کے مطابق چندے نہیں دے رہیں یا بعض جگہوں پر مساجد نہیں ہیں وہاں مساجد ہونی چاہئیں یا بعض جگہ تربیت کے کام میں سستی ہے.وہاں اس طرف توجہ ہونی چاہئے.اگر جماعت کو یہ پتہ ہی نہ لگے کہ کس جگہ کس قسم کا نقص یا خامی واقع ہوگئی ہے تو وہ اُسے دور کرنے کی طرف متوجہ کیسے ہو سکتے ہیں.اسی طرح اگر جماعت اپنے اخبار اور رسالوں کو نہ پڑھے تو انہیں کیسے علم ہو کہ اللہ تعالیٰ کس رنگ میں اور کس کثرت کے ساتھ اپنی رحمتیں جماعت احمد یہ پر نازل کر رہا ہے اور رحمتوں کی اس بارش کے نتیجہ میں ہم پہ جو پہلی اور عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اور اس کا شکر بجالانا ہے.لیکن اگر احباب جماعت کو ان رحمتوں کا علم ہی نہ ہو.تو حمد اور شکر بجالانے کی ان پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ کیسے بجالائیں گے.میرے اس دورہ کے نتیجہ میں جو پچھلے دنوں میں نے یورپ کا کیا تھا.جماعت احمدیہ نے خدا تعالیٰ کے بے شمار فضلوں اور رحمتوں کو دیکھا یعنی جنہوں نے دیکھا جنہوں نے اخبار پڑھے، ہمارے اخبار میں بھی ان تمام رحمتوں کا ذکر اس رنگ میں نہیں آسکا جس رنگ میں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہم پر ہوا.ابھی پرسوں ہی امام کمال یوسف نے مجھے ۱۶۴ تراشے اخباروں کے بھیجے ہیں.صرف ڈنمارک کی ان اخباروں کے تراشے ہیں جن میں مسجد نصرت جہاں کے افتتاح کی خبریں شائع ہوئیں.یا انہوں نے ایڈیٹوریل لکھے یا نوٹ دیئے یا مضامین لکھے اس سلسلہ میں.اور انہوں نے لکھا ہے کہ یہ تراشے صرف یہاں کے اخباروں کے ہیں.وہ کہتے ہیں میں نے چرچ کی ہر بلیٹن دیکھی تو نہیں.لیکن میرا یہ اندازہ ہے کہ چرچ کی ہر بلیٹن نے ہماری مسجد کے افتتاح کا ذکر کیا ہے.اس پر نوٹ لکھے ہیں.اب یہ ساری باتیں ہمارے اخباروں میں نہیں آئیں.لیکن جتنی باتیں ہمارے اخبار میں آئی ہیں.اس کے نتیجہ میں بھی ہمارے دل میں اپنے رب اور پیدا کرنے والے کے لئے حمد اور شکر کے جذبات پیدا ہونے چاہئیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم ساری عمران رحمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے رہیں تب بھی ہم حمد اور شکر کا حق ادا نہیں کر سکتے.بعض نادان یہ خیال کر سکتے ہیں کہ جو رحمتیں اور جو فضل اور جو برکات سماوی اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں نازل کیں وہ کسی ایک شخص پر تھیں.یہ خیال بالکل غلط ہے.اللہ تعالیٰ کی وہ ساری رحمتیں جماعت احمدیہ پر تھیں.ساری جماعت ایک جان ہو کر اور ایک وجود بن کر خدا تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں

Page 86

67 سبیل الرشاد جلد دوم لگی ہوئی تھی.اللہ تعالیٰ نے جماعت کی دعاؤں کو سنا اور جماعت پر اپنی رحمت کی بارش نازل کی.کسی ایک فرد واحد پر نہیں اور اس رحمت کے نزول کے بعد جماعت پر یہ فرض عائد ہو جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد پہلے سے کہیں زیادہ کرنے لگے اور اس کا شکر بجالائے تاکہ مزید رحمتوں کا نزول آسمان سے ہم پہ ہوتا رہے لیکن اگر جماعت کو ان چیزوں کا علم ہی نہ ہو تو حمد اور شکر کے جذبات کیسے پیدا ہوں گے.تو جماعت میں بیداری قائم رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جماعت کا ہر فرد بڑا بھی اور چھوٹا بھی.مرد بھی اور عورت بھی.جماعت کے اخبار اور رسالوں کو پڑھنے کی عادت ڈالے یا جو نہیں پڑھ سکتے.ان کو سنانے کا انتظام کیا جائے.جب تک جماعت کے دوستوں کو یہ پتہ ہی نہیں لگے گا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں اور فضلوں کے نزول کے ساتھ ترقیات کی راہوں پر کس طرح کس تیزی کے ساتھ اور بلندیوں کی کس سمت میں ہمیں لے جا رہا ہے.ہم اس کا شکر بجا نہیں لا سکتے.یہ ممکن ہی نہیں ہے ہمارے دلوں میں وہ جذ بہ ہی نہیں ہوسکتا.تو جماعت کو بیدار رکھنے کے لئے مرکز کے اخباروں اور رسالوں کا پڑھنا ضروری ہے اور ان اخباروں اور رسالوں کو پڑھنا اور پڑھوانا یہ انصار اللہ کی ذمہ داری ہے.یہ ذمہ داری انصار اللہ پر ہے کہ انہوں نے جماعت کو بیدار رکھنا ہے.انہوں نے جماعت کو بیدار رکھنا ہے تو جس وقت آپ یہاں سے تشریف لے جائیں.ہر ضلع کے نمائندے تو آئے ہوئے ہیں.ضلعی نظام اس بات کی طرف خاص توجہ دے کہ ہر احمدی کو ان فضلوں اور رحمتوں کی واقفیت ہوتی رہے جو اللہ تعالیٰ جماعت پر ہمیشہ نازل کرتا رہا ہے اور کرتا چلا جا رہا ہے.بیداری پیدا کرنے کے لئے یا جماعت کو بیدار کرنے کے بعد بیداری قائم رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر فرد واحد مرکز اور خلافت سے پختہ وابستگی رکھے.خلافت سے وابستگی رکھنے کا جب میں کہتا ہوں تو میری مراد کیا ہے.اس پر تفصیل کے ساتھ میں کچھ باتیں بیان کرنے کے بعد بتاؤں گا.بہر حال جماعت میں بیداری پیدا کرنے کے لئے اور بیداری قائم رکھنے کے لئے مرکز میں کثرت سے آنا.مرکز کے اخبارات کو کثرت سے پڑھنا اور خلافت اور مرکز سے وابستگی رکھنا یہ ضروری ہے اور اس کے لئے ہمیں بہر حال جد و جہد کرنی پڑے گی اور جد و جہد رہنی چاہئے.کیونکہ یہ ہمارا فرض ہے.ہما راحق ہے.ہم پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے.جماعت میں بیداری پیدا کرنے کے لئے وقف عارضی بھی بہت بڑا ذریعہ بنا ہے.اس وو وقت تک کئی ہزار احمدی وقف عارضی پر جاچکے ہیں اور اس طرح انہوں نے جماعت میں بیداری پیدا کرنے کے لئے بڑی کوشش اور بڑی جدو جہد اور بڑی دعائیں کی ہیں.انہوں نے دعا کرنے میں لذت

Page 87

سبیل الرشاد جلد دوم 68 اور سرور کو محسوس کیا اور دعا کرنے کی عادت ان میں پیدا ہوئی اور انہوں نے اس چیز کو پہچانا کہ ہمارا رب بڑا ہی پیار کرنے والا ہے.اگر ہم عاجزی کے ساتھ اس کے حضور جھکیں گے تو وہ ہماری باتوں کوسنتا ہے اور ان کو قبول کرتا ہے یا جو باتیں ہمارے لئے مفید نہ ہوں اور وہ قبول نہ کرنا چاہے اس سلسلہ میں جب وہ رڈ کرتا ہے تو ساتھ ہی کسی اور پہلو سے ہمارے دلوں کے لئے تسکین کے سامان پیدا کر دیتا ہے.وقف عارضی کی طرف بھی مجلس انصار اللہ کو خاص توجہ دینی چاہئے.انصار اللہ میں بھی جیسا کہ خدام میں پڑھے لکھے بھی ہیں، ان پڑھ بھی ہیں جو وفود گئے ہیں ان میں جو کامیاب ہوئے ہیں اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو خاص طور پر ان دنوں میں محسوس کیا ہے.ان میں پڑھے لکھے بھی شامل تھے.اور ان پڑھ بھی ساتھ تھے اور استثنائی طور پر بعض وفود نا کام بھی ہوئے ہیں، ناتجربہ کاری کی وجہ سے.بعض دوستوں کو پتہ ہی نہیں لگا کہ ہم نے کس طرح کام کرنا ہے اور ان ناکامیوں میں پڑھے لکھے بھی شامل ہیں اور ان پڑھ بھی شامل ہیں.اس واسطے یہ خیال کر لینا کہ جو دوست پڑھے لکھے نہیں وہ یہ کام نہیں کر سکتے.یہ درست نہیں ہے.کیونکہ بیسیوں سینکڑوں ان پڑھ احمدی دوست ایسے ہیں جو وقف عارضی کے پندرہ دن بڑی محبت اور اخلاص کے ساتھ دوسری جگہوں میں گزار چکے ہیں.انہیں یہ معلوم ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ نے کس رنگ میں جماعت کی خدمت لی اور ان کے دل خدا کی حمد سے معمور ہیں.تو بیداری پیدا کرنے اور بیداری قائم رکھنے کی جو ذمہ داری مجلس انصار اللہ پر ہے، اُس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ مجلس انصار اللہ کے اراکین زیادہ سے زیادہ وقف عارضی کے منصوبہ میں شامل ہوں اور کم از کم سال میں دو ہفتے تو خالصہ اللہ اور اس کے دین کے لئے وقف کریں.اس کے علاوہ مجلس انصار اللہ پر یہ فرض بھی عائد کیا گیا تھا کہ وہ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت جماعتی کاموں کے لئے دیں اور اس کی طرف بھی آپ دوست اپنے اپنے مقامات پر توجہ دیں اور ایسا پروگرام بنائیں کہ ہر رکن مجلس انصار اللہ روزانہ کچھ وقت دین کی راہ میں خرچ کرے.ایک دوسرے کو ملیں.وعظ ونصیحت کریں.قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کی طرف توجہ دیں تربیت اور اصلاح وارشاد کے بہت سے ایسے کام ہیں جو ہم کر سکتے ہیں.انصار اللہ کو روزانہ کچھ کام دینا چاہئے.جس طرح ہم روزانہ نمازیں پڑھتے ہیں جس طرح بعض دوستوں کو اللہ تعالیٰ چندوں کے علاوہ روزانہ کچھ نہ کچھ خرچ کرنے کی توفیق دیتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بھی ہر ایک کو عادت ڈالنی چاہئے.چاہے آپ ایک دھیلہ روزانہ دیں.ایک دھیلہ روزانہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے نکالیں یعنی یہ نہیں کہ پہلی تاریخ کو جب تنخواہ ملی تو مہینہ کی ساری رقم ( جو خرچ کرنا تھی ) نکال لی یا مہینہ کے آخر پر دکانداروں نے اپنے

Page 88

69 سبیل الرشاد جلد دوم اخراجات کے لئے دکان سے رقم نکالی تو اس میں سے وہ رقم نکال لی.بلکہ یہ عادت ڈالنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں روزانہ کچھ دیں.تاکہ دن کے چوبیس گھنٹوں میں بھی اس قربانی کے نتیجہ میں جو بظاہر حقیری ہوگی.اگر خدا کرے وہ قبول ہو جائے ایک بڑی برکت ڈالی جائے.تو جماعت میں زندگی پیدا کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہمارے اپنے اندر زندگی کے نمایاں آثار ظاہر ہو رہے ہوں اور ہر مقام پر کسی کو یہ پوچھنے یا یہ بتانے کی ضرورت نہ ہو کہ یہاں مجلس انصار اللہ قائم ہے بلکہ ہمارے کام ، ہماری تدابیر جو ہم اس مقام پر اختیار کریں اور ہماری دعائیں جو ہم کر رہے ہوں ، ہر آنے والے کو ہماری طرف متوجہ کریں اور وہ سمجھیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی یاد میں محور ہتے ہوئے اس کی حمد کرتے رہتے ہیں اور اس کی مخلوق پر ، ہر موقع پر احسان کرتے ہیں اور ان کے خیر خواہ ہیں اور ان کے غم خوار ہیں اور ان کے مددگار ہیں اور کسی جگہ بھی اگر دکھ اور تکلیف اور پریشانی انہیں نظر آئے تو جس حد تک طاقت ان میں ہے وہ اس دُکھ تکلیف اور پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اگر آپ اس رنگ میں کام کریں تو آپ دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں.پھر وہ لوگ جو اس وقت ہماری بات سننے کے لئے تیار نہیں آپ کی باتیں سنیں گے اور جب وہ آپ کی باتیں سنیں گے تو اللہ تعالیٰ ان میں سے بہتوں کی ہدایت کے سامان بھی پیدا کر دے گا.تو ایک زندہ جماعت اور ایک زندہ مجلس کی حیثیت میں ہمیں اپنی زندگیوں کے دن گزار نے چاہئیں اور اپنے نفس کی اصلاح اور انہیں اپنے چھوٹوں بڑوں اور اپنی اولا داور ان لوگوں کی جو ہمارے زیر اثر ہیں ان کی تربیت کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے.اس کے لئے قرآن کریم کا پڑھنا پڑھانا بہت ضروری ہے.قرآن کریم کی طرف اگر ہم اتنی توجہ دیں جتنی ہمیں دینی چاہئے ، اگر قرآنی انوار سے حصہ لینے کی ہم وہ کوشش اور جدوجہد کریں جو ہمیں کرنی چاہئے ، اگر قرآنی مطالب سیکھنے میں ہم میں اس قسم کا انہماک پیدا ہو جائے جو انہماک پیدا ہونا چاہئے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم پہلے سے بھی کہیں زیادہ جذب کرنے والے ہو جائیں گے.قرآن کریم بڑی برکتوں والی کتاب ہے.قرآن کریم میں دنیا کی تمام بھلائیاں اور نیکیاں پائی جاتی ہیں.خیر ہی خیر ہے اور ہر قسم کی خیر اس میں ہے اور اس سے باہر کوئی خیر نہیں.یہ ایک حقیقت ہے دنیا اسے سمجھے یا نہ سمجھے.ہم اسے پہچانیں یا نہ پہچا نہیں.مگر یہ ایک ایسی صداقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا.قرآن کریم دنیا میں ایک جنت کو قائم کرنے کے لئے اور پیدا کرنے کیلئے نازل ہوا تھا.لیکن مسلمان اس کو بھول گئے اور جنت کی بجائے انہوں نے اپنے لئے دوزخ کے سامان پیدا کر لئے.تکلیف کے سامان پیدا کر لئے.تنزل کے سامان پیدا کر لئے.بے عزتی کے سامان

Page 89

70 سبیل الرشاد جلد دوم پیدا کر لئے.ہر قسم کے دُکھ اور پریشانی کے سامان پیدا کر لئے.اگر قرآن کریم کو مضبوطی کے ساتھ پکڑا جاتا.اگر قرآن کریم کے انوار سے اپنے سینوں کو منور رکھا جاتا.اگر قرآن کریم کے احکام پر کار بند رہا جاتا.اگر قرآن کریم کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالا جاتا.اگر قرآن کریم کا ایک عملی نمونہ بن کر اس دنیا میں زندگی گزاری جاتی.تو ہماری وہ حالت نہ ہوتی جو آج ہمیں نظر آ رہی ہے.اب اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرما کے ہمارے کانوں میں یہ آواز ڈالی اور ہمارے دلوں میں اسکو گاڑ دیا کہ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِی القرآن اگر تم کسی قسم کی خیر اور بھلائی حاصل کرنا چاہتے ہو تو قرآن کریم کی طرف متوجہ ہو جاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایک اور زبردست تنبیہ بھی کی ہے جس کو پڑھ کے انسان کانپ اٹھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ یہ بتایا کہ.مَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي نَبْتَلِيْهِ بِذُرِّيَّةٍ فَاسِقَةٍ مُلْحِدَةٍ يَمِيْلُوْنَ إِلَى الدُّنْيَا وَلَا يَعْبُدُ وَنَنِي شَيْئًا اور آپ نے اس کا یہ ترجمہ فرمایا کہ.” جو شخص قرآن سے کنارہ کرے گا.ہم اس کو ایک خبیث اولاد کے ساتھ مبتلا کریں گے.جن کی ملحدانہ زندگی ہوگی.وہ دنیا پر گریں گے اور میری پرستش سے ان کو کچھ بھی حصہ نہ ہوگا.یعنی ایسی اولاد کا انجام بد ہوگا اور تو بہ اور تقویٰ نصیب نہیں ہوگا.پس اگر آپ اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچنا چاہتے ہیں اور اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی اولا دذریہ فاسقہ ملحدہ نہ ہو جو دنیا کی طرف مائل اور اپنے رب کو بھولنے والی ہو تو آپ کے لئے یہ ضروری ہے کہ جہاں آپ خود قرآن کریم کو سیکھیں وہاں اپنی اولاد کو قرآن کریم سکھائیں اور قرآن کریم ان کو پڑھا ئیں.میں نے تعلیم قرآن کریم کی ایک سکیم، ایک منصوبہ جاری کیا تھا.جماعت نے ایک حد تک تو اس کی طرف توجہ دی ہے.لیکن مجھے ابھی پوری تسلی نہیں کیونکہ میں نے یہ سوچا تھا اور اس کے مطابق میں نے یہ دعائیں کی تھیں کہ اے خدا تو ہمیں توفیق عطا کر کہ ہم تین سال کے اندر اندر ہر احمدی کو قرآن کریم پڑھا دیں ،سکھا دیں.ایک سال تو قریباً گزر گیا ہے.اس سال میں جتنی ہم نے ترقی کی ہے.اس سے مجھے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تین سال کے اندراندراپنے اس مقصد کے حصول میں نا کام رہیں.پس اس موقع پر میں پھر اپنی جماعت کو اور خصوصاً مجلس انصار اللہ کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں ریویو بر مباحثه چکڑالوی و بٹالوی صفحه ۵ حاشیه روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱۳

Page 90

71 سبیل الرشاد جلد دوم کہ اپنے گھروں میں ہر قیمت پر قرآن کریم سکھانے کا انتظام کرو.اور پوری کوشش کرو کہ آپ کی اولاد میں سے یا وہ لوگ جو خدا تعالیٰ نے آپ کے ماتحت کئے ہیں.ان میں سے ایک فرد بھی ایسا نہ رہے کہ جو قرآن کریم پڑھنا نہ جانتا ہو.اس کا ترجمہ نہ جانتا ہو.اور موجودہ زمانہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تفسیر سے واقف نہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھائی ہے.اس میں شک نہیں کہ ہر شخص اپنی قوت اور استعداد کے مطابق علم حاصل کرتا ہے لیکن جس حد تک کسی میں اللہ تعالیٰ نے یہ استعداد رکھی ہے کہ وہ قرآن کریم کے معانی کو سمجھ سکے اور اس کے انوار سے حصہ لے سکے.اس استعداد کی حد تک اُسے قرآن کریم سمجھ لینا چاہئے اور اس کے انوار میں حصہ دار بن جانا چاہئے.اس کے بغیر ہم وہ زندگی نہیں گزار سکتے جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے کہ گزاریں اور اس کے بغیر ہمیں وہ کامیابیاں حاصل نہیں ہو سکتیں جن کا میابیوں کے وعدے اللہ تعالیٰ نے ہم سے کئے ہیں.ہماری جو بھی کامیابیاں ہیں اور جو بشارتیں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے جماعت کو دی ہیں.وہ بشارتیں اس وقت ہی پوری ہو سکتی ہیں جب کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق قرآن کریم کو پڑھنے والے اور اس کو سمجھنے والے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہوں.اگر آج جماعت احمدیہ قرآن کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنے لگ جائے اور ہمارے اند رکوئی خامی اور نقص باقی نہ رہے تو بہت جلد دنیا اسلام کی طرف متوجہ ہوا اور اپنے ربّ کو پہچاننے لگے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار ان کے دلوں میں پیدا ہو جائے اور آپ کے لئے درودان کی زبانوں پر جاری ہو جا دے.تو قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے کا انتظام اس حد تک مکمل ہو جانا چاہئے کہ اگلے دوسال کے اندر اندر ہم اپنے مقصد کو حاصل کر لیں.مغربی پاکستان کے رہنے والے بھی اور مشرقی پاکستان کے رہنے والے بھی اور اس کے لئے آپ اپنے اپنے مقامات پر جا کر کوئی منصو بہ تیار کریں.کیونکہ جب تک انسان کسی منصوبہ کے ماتحت کام نہ کرے اس وقت تک وہ کامیاب نہیں ہوا کرتا.بہت سے دوست اخلاص رکھتے ہیں اور وہ ارادہ کرتے ہیں کہ فلاں کام شروع کر دیں گے اور کچھ دن اس طرح گزر جاتے ہیں اور جب وہ اس کام کو شروع کرتے ہیں تو وہ ادھورا ہوتا ہے کیونکہ کوئی منصو بہ نہیں ہوتا.پس ہر ایک کو آپ میں سے اپنے اپنے مقام پر جا کر جائزہ لینا چاہئے.کچھ جائزہ تو پہلے لیا جا چکا ہے لیکن جہاں جائزہ نہیں لیا گیا وہاں جائزہ لینا چاہئے کہ کون کون قرآن کریم نہیں پڑھ سکتا اور ان کو قرآن کریم پڑھانے کا انتظام کیا جائے.

Page 91

سبیل الرشاد جلد دوم 72 بعض ایسی مجالس ہو سکتی ہیں جہاں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو قرآن کریم پڑھا سکے.میرے علم میں بھی بعض ایسے مقامات ہیں جہاں کوئی ایسا شخص نہیں جو اس جماعت کو قرآن کریم پڑھا سکے.جس حد تک مجھے علم ہے.میں کوشش کرتا ہوں کہ وقف عارضی کے زیادہ سے زیادہ وفود وہاں بھجوائے جائیں.لیکن جہاں بھی آپ اپنی کوشش سے یہ نتیجہ نہ نکال سکیں اور سمجھیں کہ آپ کے پاس ایسے سامان نہیں کہ تمام جماعت کو قرآن کریم پڑھایا جا سکے.وہ آپ ہمیں لکھیں ہم انشاء اللہ تعالی مرکز کی طرف سے وہاں قرآن کریم پڑھانے کا انتظام کریں گے.لیکن آپ میں سے کم از کم ہر شخص یہ عہد اپنے دل میں کر کے یہاں سے جائے کہ وہ اس بات میں اپنی پوری کوشش کرے گا کہ اس کی جماعت کا ہر فرد قرآن کریم پڑھنے لگ جائے اور قرآن کریم کا ترجمہ جاننے لگ جائے اور جس حد تک ممکن ہو قرآن کریم کی وہ تفسیر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں ملی ہے اس سے اُسے واقفیت حاصل ہو جائے.اب میں ایک اور ضروری بات کے متعلق اپنے دوستوں کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ میں نے ایک دو دفعہ پہلے بھی بتایا ہے کہ جب مجھ سے کو پن ہاگن ( ڈنمارک) کے بارہ پادریوں کے وفد نے یہ سوال کیا کہ جماعت احمدیہ میں آپ کا مقام کیا ہے؟ تو میں نے انہیں جواب دیا تھا کہ میرے نزدیک تمہارا یہ سوال درست نہیں کیونکہ میرے نزدیک جماعت احمدیہ اور میں ایک ہی وجود کے نام ہیں.چونکہ ہمارا وجود ہی ایک ہے اسلئے آپ کا یہ سوال درست نہیں ہے کہ جماعت میں میرا مقام کیا ہے.آپ کا سوال تو تب درست ہوتا اگر میرا وجود اور ہوتا اور جماعت کا وجود اور ہوتا.جب میں نے یہ جواب دیا تو اس کا مطلب کیا تھا.میں ذرا تفصیل میں جانا چاہتا ہوں.ہم یہ اعتقا در کھتے ہیں اور ہمارا اس پر یقین اور ایمان ہے کہ جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ نے نظام خلافت کو قائم اور جاری کیا ہے اور وہ خود جماعت میں خلیفہ کو مقرر کرتا ہے.یعنی انتخاب کے وقت لوگوں کی رائے کا نتیجہ ظاہر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کا نتیجہ ظاہر ہوتا ہے اور خلیفہ وقت کے دل میں اللہ تعالیٰ احباب جماعت احمدیہ کے لئے اس قدر شدید محبت پیدا کرتا ہے کہ دنیا اس کا اندازہ نہیں کر سکتی اور جماعت کے دل میں اس کے لئے ایک ایسی محبت پیدا کرتا ہے جو دنیا کی عقل کو حیران کرنے والی ہو اور جب ان دو محبتوں کی آگ اکٹھی ہوتی ہے تو سارے وجود غائب ہو جاتے ہیں اور سارے مل کے ایک وجود بن جاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک طرف ایک وہ دل ہوتا ہے کہ جماعت کے ہر فرد کے دکھ میں برابر کا شریک اور ان کی پریشانیوں میں برابر کا حصہ دار.انسان کے ساتھ پریشانیاں لگی ہوئی ہیں اس لئے آپ میں سے ہر شخص کسی نہ کسی وقت ضرور پریشان ہوا ہو گا اور آپ میں سے ہر شخص یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ آپ ایک کی

Page 92

73 سبیل الرشاد جلد دوم پریشانی نے آپ کو کتنا پریشان کیا.وہ اس پریشانی کے وقت کس قدر پریشان ہوا.تو وہ دل جو ہر پریشان دل کے ساتھ اسی طرح پریشان ہوا اور جس نے ہر دُ کھ اٹھائے جانے والے بھائی کے ساتھ ویسا ہی دُکھ اٹھا یا اس دل کی کیا کیفیت ہوگی اور دوسری طرف اس شخص کے دل میں یہ خیال بھی پیدا ہوتا ہے کہ لاکھوں آدمی مجھے پیار دے رہے ہیں.ان لاکھوں کے پیار کا میرا ایک دل کیسے صحیح جواب دے سکے گا.ہر وقت وہ خوف میں رہتا ہے کہ کہیں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے کہ ہر ایک کو پیار کے مقابلہ میں ویسا پیار نہ ملے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو.تو ایک طرف وہ جماعت کے ہر فرد کے دُکھوں میں شریک اور اس کی پریشانیوں میں وہ حصہ دار اور دوسری طرف وہ پھر بھی ہر وقت لرزاں اور ترساں کہ اتنے دلوں میں خدا نے جب میرا پیار پیدا کر دیا تو اتنے دلوں کو اس پیار کے مقابلہ میں ویسا ہی پیار جو میرا فرض ہے وہ کیسے میں ادا کروں گا.میں سمجھتا ہوں یعنی جو میرا ذاتی احساس ہے کہ جو بھی خلفاء گزرے ہیں یقیناً ان کے دلوں کی بھی یہی کیفیت ہو گی.سب سے زیادہ خوف انکے دلوں میں ہر وقت یہ رہتا ہوگا کہ اس محبت کا جواب جس محبت کے ساتھ ملنا چاہئے وہ میں دے سکوں گا یا نہیں.اس کے لئے بڑی دعائیں کرتا ہوں.بڑی عاجزی کرتا ہوں.اور میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ شروع سے ہی اور پہلے دن سے ہی اللہ تعالیٰ نے میرے دماغ میں یہ ڈالا کہ تم نے دعا ئیں صرف ان لوگوں ہی کے لئے نہیں کرنی جنہوں نے تمہیں دعا کے لئے لکھا ہو یا دعا کیلئے زبانی کہا ہو بلکہ یہ دعا بھی کرو کہ ہر وہ شخص جسے دعا کیلئے لکھنا چاہئے تھا اور اس نے نہیں لکھا یا جس کو ویسے ہی لکھنے کا خیال نہیں آیا یعنی اس پر کوئی الزام نہیں.وہ کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں لکھ سکا.اے اللہ تعالیٰ تو ان سب کی مرادوں کو پورا کر اور اگر وہ پریشان ہیں تو ان کی پریشانیوں کو دور فرما.اپنی طرف سے یہ دل یہ کوشش کرتا ہے کہ دونوں طرف کی محبت یکجان اور ایک جسم کی طرح بنی رہے ہمیشہ.اور چونکہ خلیفہ وقت کا وجود میرے ایمان کے مطابق اور جماعت کا وجود ایک ہی وجود ہے.اس لئے خلیفہ وقت کو کبھی یہ خیال نہیں آ سکتا کہ وہ اپنی کوئی بزرگی آپ پر قائم کرے.کوئی بزرگی نہیں.سب سے زیادہ احساس خدمت اس دل میں پیدا ہوتا ہے اور سب سے زیادہ احساس اپنی بے بضاعتی اور کم مائیگی اور نیستی کا اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے.ایک خادم، ایک خادم آپ لاکھوں کو اللہ تعالیٰ نے دے دیا.کتنی ذمہ داری اس پر ڈال دی.اگر آپ کی دعا ئیں اس کے شامل حال نہ ہوں.اگر آپ کی محبت اُسے ملتی نہ رہے تو وہ اپنی ان ذمہ داریوں کو نہیں نبھا سکتا تو اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کر دیے کہ آپکے دل میں بھی اُس نے محبت پیدا کر دی اور جیسا کہ میں نے بتایا ان دو محبتوں کی آگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو وجود نہ رہے.جماعت اور خلیفہ وقت ایک وجود بن گیا.تو بزرگی کس پر بڑائی اور برتری کس پر.

Page 93

74 سبیل الرشاد جلد دوم اپنے وجود پر ؟ احمقانہ خیال ہو گا یعنی اگر کوئی شخص آج یہاں کھڑا ہو کر کہے کہ میں اپنے آپ سے بڑا ہوں تو آپ کہیں گے ادھر آؤ.ذرا باہر چلو.تمہیں کسی ڈاکٹر کے پاس لے جائیں کہ تم پاگل ہو گئے ہو.تو چونکہ ایک وجود بن جاتا ہے اس لئے جماعت میں کوئی بزرگی نہیں.بزرگیاں سب جماعت کو حاصل ہیں جو خدا نے دی ہیں کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی برگزیدہ اور چنیدہ جماعت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نیابت میں ہی خلافت ملی نا! اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ ” میرے وجود کی سرسبز شا خو!“ تو جس کو اس کی نیابت میں کوئی مقام ملا ہے وہ سارے ایک ہی وجود کی سرسبز شاخیں ہیں بہر حال جماعت اور خلیفہ ایک ہی وجود ہے اور میں ایسے محسوس کرتا ہوں اور اس کے لئے میں قسم کھانے کے لئے بھی تیار ہوں کہ یہ ایک ہی وجود ہے.دونوں طرف محبت کے دریا ہیں جو بہتے چلے جا رہے ہیں اور یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے ہماری طاقت اور قدرت میں یہ چیز نہیں.اس نے ہی فضل کیا اور تمام جماعت کو بشمولیت خلیفہ وقت ایک وجود بنا دیا.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور کسی کو کسی پر کوئی برتری حاصل نہیں لیکن بعض نادان جب دیکھتے ہیں اور وہ آدھی چیز دیکھتے ہیں یعنی جماعت کا پیار تو دیکھتے ہیں مگر خلیفہ وقت کا پیار نہیں دیکھتے تو ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ہم بھی بزرگ بنیں اور اس پیار کا حصہ لیں اور یہ ہلاکت کی راہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں اس کا بھی ذکر کیا ہے.مثلاً چراغ دین جمونی مرتد ہوا اور اس نے بہت سے دعوے کئے.ان سب دعوؤں کے متعلق تو میں اس وقت کچھ کہنا نہیں چاہتا کیونکہ ان کا میرے مضمون سے تعلق نہیں.لیکن ایک یہ بھی تھا کہ وہ اپنے آپ کو جماعت میں ایک بزرگ ہستی سمجھنے لگ گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے متعلق یہ لکھتے ہیں کہ.”اس نے جماعت کے تمام مخلصوں کی تو ہین کی کہ اپنے نفس کو ان پر مقدم کر لیا“ کتنے پیار کا اظہار ہے اس فقرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے جماعت کے لئے اور کس قسم کی تنبیہ ہے اس شخص کے لئے جس کو اللہ تعالیٰ نے اصلاح اور تو بہ کا موقع نہیں دیا.لیکن بہت ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اصلاح اور توبہ کا موقع دے دیتا ہے.پس اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہو کہ اپنی دعاؤں کی قبولیت کے نتیجہ میں اگر وہ یہ سمجھتا ہو اور یا بعض کشوف اور رؤیا اس کو ہوں.بیچے یا غلط.اور ان کی وجہ سے وہ کوئی ایسا وجود بن گیا ہے کہ جس کو جماعت پر مقدم رکھنا چاہئے.تو وہ ہلاکت کی راہ پر چل رہا ہے.اس کو اپنی فکر کر لینی چاہئے.کوئی شخص اس مقدس اور برگزیدہ جماعت میں ایسا نہیں جس کو

Page 94

75 سبیل الرشاد جلد دوم جماعت پر مقدم رکھا جا سکے.اس جماعت کا پیار وہی حاصل کرے گا جو خدا کے فرمودہ کے مطابق اس کی راہ میں اور جماعت کی خدمت میں عاجزانہ راہوں کو اختیار کرے گا اور اپنے لئے کسی بزرگی کسی بڑائی اور کسی محبت کے حق کا حقدار نہیں سمجھے گا.جماعت اللہ تعالیٰ کے مخلصوں کی جماعت ہے.اس دنیا میں جو دنیا میں غرق ہے، اس دنیا میں جسے اپنے مالوں سے اتنی محبت ہے کہ وہ ایک دھیلہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں.اس دنیا میں جو دنیا کی عزتوں اور وجاہتوں اور اقتدار کے پیچھے پڑی ہوئی ہے اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو پیدا کیا اور ان لوگوں میں سے نکالا.اور ان کو اکٹھا کر دیا اور ان کو ایک وجود بنا دیا اور پھر خدا نے کہا کہ میں اپنے مخلصین کے اس گروہ کو جو ایک وجود کا حکم رکھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود کے درخت کی سرسبز شاخیں ہیں.ان پر اپنی رحمتوں کو بے حد اور بے انتہا نازل کروں گا اور وہ اپنے وعدوں کا سچا ہے اور اپنے وعدوں کو پورا کر رہا ہے.جب ہم اس کے فضلوں کو آسمان سے نازل ہوتے دیکھتے ہیں، جب ہم اپنی حقیر کوششوں کے نتیجہ میں بہترین نتائج نکلتے دیکھتے ہیں تو ہم میں سے ہر ایک کا دل اپنے رب کی محبت سے لبریز ہو جاتا ہے.ہمارے دماغ اس وقت یہ نہیں سوچتے کہ کون ان کا حقدار ہے اور کس کی وجہ سے یہ فضل نازل ہوئے ہیں.جماعت اس کی حقدار اور جماعت کی وجہ سے اور جماعت کی قربانیوں کی قبولیت کے نتیجہ میں یہ فضل نازل ہو رہے ہیں.کسی شخص کو کسی اور پر بزرگی حاصل نہیں اور نہ اس کو جماعت برداشت کر سکتی ہے.بہتوں نے بزرگ بننا چاہا تو جماعت سے نکال دیئے گئے یا نکل گئے.ایک نذیر احمد برق ہی ہیں.جماعت کے کچھ لوگ انہیں جانتے ہوں گے.ان کو بھی بڑی خوا میں آنی شروع ہوئیں اور دعوئی ان کا یہ ہے کہ پتہ نہیں کتنے لاکھ سچی خوا ہیں اور کتنے لاکھ قبولیت دعا کے نشان اللہ تعالیٰ نے ان کو دیئے ہیں اور حال ان کا یہ ہے کہ آپ میں سے اگر کوئی شخص ان کو دیکھے تو پہلا رد عمل دل پر یہ ہوگا کہ ان کے متعلق نفرت کے جذبات پیدا ہو جائیں گے.یعنی خدا تعالیٰ کی تائید حاصل نہیں نا.وہ اس مخلص جماعت کے دلوں میں اپنی محبت پیدا نہیں کر سکے.اور ان کی خوابوں کا یہ حال ہے کہ انہوں نے خطوط کے ذریعہ جماعت کے بعض بزرگ دوستوں کو یہ لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے لکھنے والے ( نذیر احمد برق ) کو یہ خبر دی ہے کہ ۱۲ / جنوری ۱۹۶۴ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ وفات پا جائیں گے.اور ان کے بعد فلاں شخص خلیفہ مقرر ہوگا.جو دو سال کے بعد فوت ہو جائے گا.پھر فلاں شخص خلیفہ ہو گا.جو اتنے سالوں کے بعد فوت ہو جائے گا.اس کے بعد خدا تعالیٰ مجھے اس زمانہ کا مجدد اور امتی اور نبی اور مہدی اور عیسی اور پتہ نہیں کیا کچھ بنا کر دنیا کی طرف نازل کرے گا.اور پھر کئی ہزار سال تک

Page 95

76 سبیل الرشاد جلد دوم میری حکومت اس دنیا پر قائم رہے گی.جب ہمیں پتہ لگا کہ اس نے اس قسم کے خطوط بعض احمدی دوستوں کو لکھے ہیں.تو طبعا جس کو پتہ لگتا اس کو یہ فکر ہوتی کہ ایسے پاگلوں کے ساتھ بعض جنونی بھی ہوتے ہیں.ہم نے خاص طور پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی حفاظت کا بھی انتظام کیا.ہمیں فکر بھی ہوئی اور وہاں بھی آدمی بھیجے.تو جھوٹے کی باتیں خدا تعالیٰ بچی نہیں کیا کرتا.چنانچہ ۱۲ جنوری ۱۹۶۴ء آ یا اور گزر گیا.ساتھ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ خدا نے مجھے یہ بھی کہا ہے کہ فلاں زمیندار کی لڑکی کے ساتھ میری شادی ہو جائے گی.ان کو بھی کہا کہ تم بڑے دیوث آدمی ہو.اس قسم کی پیشگوئیاں یہ کر رہا ہے اور اتنی باتیں اس کی غلط ہوگئی ہیں.اس لیئے تم اس کی طرف توجہ نہ دینا.ان کو ہم نے سنبھالنے کی کوشش کی.تو اس کے بعد یعنی اس قسم کے آدمیوں کے دماغ اس طرح ڈھیٹ ہوتے ہیں کہ دو تین مہینے جب گزرے تو پھر اس قسم کا ایک اور خط لکھا کہ یہ میری اجتہادی غلطی تھی اب مجھے پتہ لگا ہے کہ ۱۲ جنوری ۱۹۶۴ء نہیں بلکہ ۱۲ جنوری ۱۹۶۵ء کو یہ واقعہ ہونا ہے.پھر ۱۲ / جنوری ۱۹۶۵ء بھی گزر گیا.اور اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایک ہاتھ پر جمع کر دیا.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ خلیفہ وقت کا وصال ایک قیامت کا نمونہ ہوتا ہے.اس قیامت کے وقت اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کی گرمی آسمان کی طرف سے ہماری طرف نازل کی جس نے ہر دل کو گرما دیا اور پھر محض اپنے فضل سے نہ اس لئے کہ مجھ میں کوئی خوبی تھی ، اس نے میرے ہاتھ پر ساری جماعت کو اکٹھا کر دیا.میرے دل کو بھی بدل دیا ، میرے دماغ کو بھی بدل دیا اور آپ سب کو ایک ہاتھ پر پھر اکٹھا کر دیا.اب اس نے دیکھا کہ جس شخص کا میں نام لے رہا تھا وہ تو ہوا نہیں.کوئی اور ہو گیا ہے.تو اس واسطے اب دو سال جو مرنے کے مقرر کئے ہوئے تھے اس کا انتظار کیا کرنا ابھی اعلان کر دو.پھر یہ اعلان کر دیا کہ یہ ساری میری اجتہادی غلطیاں تھیں.جن کے میں نے نام لئے تھے کہ وہ خلیفہ ہوں گے.وہ میرے ہی صفاتی نام ہیں.اور میں اب اعلان کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفہ، نبی ، مہدی ، عیسی اور پتہ نہیں اور کیا کچھ بنا دیا ہے اور اب قیامت تک میری حکومت رہے گی.نہ وہ چیز نہ وہ بات نہ دلوں میں خدا کے تصرف سے وہ محبت ، نہ اس کے دل میں اور نہ دوسروں کے دل میں.دو چار نادان ہیں جو اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں.اور وہ ان کے ساتھ اپنی زندگی کے دن گزار رہا ہے.لیکن دعوی اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہزاروں ، لاکھوں نشانات اس کے ذریعہ دنیا میں ظاہر کئے ہیں.جو پتہ نہیں کس نے دیکھے.ہم نے تو نہیں دیکھے.اور بعض سادہ قسم کے مخلص احمد یوں کو بھی بعض دفعہ اس نے دھوکہ دیا.ویسے وہ بڑا ہوشیار آدمی ہے.بھانپ لیتا ہے.ایک دفعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سندھ کے دورہ پر گئے.وہاں کے ایک بڑے مخلص احمدی دوست کو کہنے

Page 96

77 سبیل الرشاد جلد دوم لگا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تمہیں ترقی مل جائے گی.اس نے سنا تھا کہ اس سال وہاں بڑا اچھا کام ہوا ہے.اور رپورٹیں اچھی گئی ہیں، اس نے اپنا ایک اندازہ لگا لیا تو جب حضور تشریف لے گئے.کام دیکھا بڑے خوش ہوئے.کام بڑا اچھا ہوا تھا اُس سال تو ان کو اور ترقی دے دی.دیکھا میں کتنا بڑا بزرگ ہوں میں نے تمہیں پہلے بتا دیا تھا اور جو بات پوری نہ ہو، جیسا کہ میں نے بتایا وہ ڈھٹائی سے کہہ دیتا ہے کہ یہ میری اجتہادی غلطی ہے.جھوٹا ثابت کر کے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ذلیل کرنا چاہتا ہے.بہر حال شروع میں نذیر احمد برق جماعت سے باہر نہیں گیا.وہ جماعت میں ہی رہا.یہاں تک کہ اس کی بد قسمتی سے اُسے جماعت سے خارج کر دیا گیا.ویسے اس میں بڑی ظاہر داری پائی جاتی ہے.اس نے ایک دعا پارٹی بنائی ہوئی ہے اور یہ بات مشہور کی گئی تھی کہ اس کی روحانیت کی وجہ سے اس کی مجلس میں بعض لوگوں کو حال پڑ جاتا ہے.حالانکہ دوست جانتے ہیں کہ حال بعض دفعہ پنجابی عشقیہ نظمیں پڑھنے کی وجہ سے بھی بعض پنجابی جاننے والوں کو بھی پڑ جاتا ہے.لیکن میں نے بتایا ہے کہ مخلصین جماعت نے اس کی طرف توجہ نہیں کی.غرض اس جماعت میں خلیفہ وقت کا کوئی علیحدہ وجود نہیں ہے بلکہ خلیفہ وقت اور جماعت ایک ہی وجود ہے اور یہ ایک حقیقت ہے جس پر میرا ایمان بھی ہے اور آپ کا بھی ایمان ہونا چاہئے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرما دیا ہے کہ میرے وجود کے درخت کی سرسبز شاخوتو خلیفہ کا علیحدہ وجود نہ رہا.جماعت اور خلیفہ ایک ہی درخت یعنی روحانی درخت بن گیا.کبھی کسی خلیفہ نے اپنی بزرگی دوسروں پر ظاہر نہیں کی.نہ اس نے کبھی اپنی بزرگی جتائی ہے.اور نہ کبھی اس کے دل میں اس کا خیال ہی پیدا ہوا ہے.وہ تو اپنی اس ذمہ داری کے فکر میں ہی ہمیشہ رہتا ہے جو اس پر ڈال دی گئی ہے اور وہ بہت بھاری ذمہ داری ہے.وہ ہر وقت اس فکر میں رہتا ہے کہ کہیں میں اپنے رب کو ناراض نہ کر دوں.اس کی ایک طرف دن رات یہ دعائیں ہوتی ہیں کہ اے میرے خدا تو نے میرے جیسے کم مایہ انسان پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے.اب تو ہی اپنے انتخاب کی لاج رکھے اور اپنی رحمتوں کو نازل کر اور وہ ترقیاں ہمیں عطا کر جن کے وعدے تو نے کئے ہیں اور پھر اتنی کثرت سے اپنی رحمتوں کو ہم سب پر مجھ پر اور آپ پر جو ایک ہی وجود ہیں یعنی احمدیت کا وجود نازل کرتا ہے کہ کوئی ایک شخص ان پر فخر نہیں کر سکتا.اب تازہ واقعہ میرے یورپ کے سفر کا ہے.ساری جماعت نے دعائیں کیں.کوئی آپ میں سے کھڑا ہو جائے اور کہے کہ جتنی کامیابی ہوئی ہے.وہ صرف میری دعا کے نتیجہ میں ہی ہوئی ہے.جماعت کیا ہے تو ہم کہیں گے.پاگل ہو تم.ساری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے ایک وجود بنایا ان کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کی.ان کے دلوں میں یہ جذ بہ پیدا کیا کہ وہ دعائیں کریں پھر اس نے ان کو دعاؤں کی توفیق دی.اور ان کی

Page 97

78 سبیل الرشاد جلد دوم دعاؤں کو قبول بھی کر لیا.میری اور آپ کی دعائیں ایک ہی شکل میں آسمان پر پہنچیں اور قبول ہوئیں.گزشتہ ایک خطبہ میں جب میں نے بعض منذر خواہیں دوستوں کے سامنے بیان کیں اور بتایا کہ اس قسم کی خوا ہیں بعض دوستوں نے دیکھی ہیں تو میرا یہ خطبہ یورپ بھی پہنچا.ہمارے ایک مبلغ نے کہا کہ جب میں نے جماعت میں دعا کے لئے تحریک کی تو وہاں کے ایک مقامی احمدی باشندے نے کہا.تحریک کی کیا ضرورت ہے.آپ کو صرف یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کیا بات ہے اس سے زیادہ بات کہنے کی ضرورت نہیں.ہما را دل خود بخود دعا کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ دنیا میں جہاں بھی احمدی ہیں اس شخص کے لئے دعاؤں میں لگ جاتے ہیں.میں تو خدا تعالیٰ کے ان فصلوں کو دیکھ کر مرنے کے قریب ہو جاتا ہوں.اور سوچتا ہوں کہ میں ان فضلوں کا کس طرح شکر ادا کروں گا.پھر یہ چیز دیکھ کر میرے دل میں یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ میں کوئی چیز ہوں.بلکہ میرے دل میں یہ احساس شدت اختیار کر جاتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں.اللہ تعالیٰ مجھ پر فضل اور رحم کر رہا ہے.میں اس کا شکر کس طرح بجالاؤں گا.میں اس پیاری جماعت کی خدمت کس طرح بجالا سکوں گا جو میرے ہی جسم کے اعضاء ہیں.گوجس حد تک اللہ تعالیٰ نے مجھے تو فیق عطا کی ہے میں تدبیر کے ذریعہ بھی اور دعا کے ذریعہ بھی جو کچھ کر سکتا ہوں جماعت کے لئے کرتا ہوں.اور تدبیر ہمارے پاس ہے کیا ؟ نہ ہمارے پاس مال ہے.نہ ہمارے پاس اقتدار ہے- ہمارے پاس کوئی چیز بھی نہیں.لیکن ایک بڑی قیمتی چیز اس نے ہمیں عطا کی ہے اور وہ دعا ہے اور میں دعا کے ذریعہ ہر وقت ساری جماعت کے لئے اور ہر فرد جماعت کے لئے جو کچھ کر سکتا ہوں ، کرتا ہوں.لیکن پھر بھی میرے دل میں ہر وقت یہ احساس زندہ اور بیدار رہتا ہے کہ جماعت کے لئے مجھے جو کچھ کرنا چاہئے تھا.وہ میں نے نہیں کیا.میں ہر وقت انہبی فکروں میں رہتا ہوں.میں آج آپ کو کھلے الفاظ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ آپ خدا تعالیٰ کی برگزیدہ جماعت ہیں.جو شخص آپ پر اپنی بزرگی کو ٹھونسنا چاہتا ہے.وہ آپ کی توہین کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں وہ اس قسم کا گناہ کرتا ہے جو نا قابل معافی ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ اگر اس نے جماعت سے اپنی تقصیر کی معافی نہ مانگی تو اللہ تعالیٰ کی لعنت اس پر ہو گی.تو اس مقدس وجود کا جو جماعت احمدیہ کا ہے یہ بزرگ مقام خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہے.وہ جماعت جو خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے والی - زاری سے اس کے سامنے دعا کرنے والی.ہر وقت اللہ تعالیٰ کی حمد میں مشغول رہنے والی اور اس کی راہ میں مالی اور جانی قربانیاں دینے والی ہے اور سب کچھ دینے کے بعد یہ سمجھنے والی ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں.اور ہم نے کچھ بھی نہیں کیا.اس لئے جو فضل ہم پر ہو رہے ہیں ان میں ہماری کسی کوشش کا دخل

Page 98

79 سبیل الرشاد جلد دوم نہیں.محض اللہ تعالیٰ اپنے فضل ہم پر نازل کر رہا ہے.اور جب تک ہم اس مقام پر قائم رہیں وہ فضل نازل کرتا رہے گا اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس جماعت کو ایک لمبے عرصہ تک اس کی توفیق دیتا چلا جائے گا کہ وہ بحیثیت جماعت اس مقام پر قائم رہے.اس میں شک نہیں کہ درخت کی کچھ ٹہنیاں خشک ہو جاتی ہیں.لیکن بحیثیت جماعت یہ درخت زندہ اور ہرا اور سرسبز رہے گا.اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا اس طرح وارث ہوتا چلا جائے گا جس طرح آج وارث ہو رہا ہے.تو یہ جماعت کا مقام ہے اور جماعت کے اس مقام کے نتیجہ میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے جماعت پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ایک ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے انتہائی محبت اور پیار اور اخوت کا سلوک کریں کیونکہ کبھی آپ نے نہیں دیکھا کہ ایک ہاتھ چھری پکڑ کر دوسرے کو کاٹنے لگ گیا ہو.کبھی آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ درخت کی ایک ٹہنی دوسری ٹہنی کو کاٹنے لگ گئی ہو.ہاں کسی درخت کی خشک ٹہنی میں کلہاڑا لگاتے ہیں تو وہ دوسری ٹہنی کو کاٹ دیتی ہے.لیکن اس درخت کی اپنی کوئی سرسبز ٹہنی کسی دوسری ٹہنی کو کا ٹانہیں کرتی.بلکہ وہ ٹہنیاں ایک دوسرے پر سایہ کرتی ہیں.ایک دوسرے کے پتوں کو سورج کی تمازت سے بچانے کی کوشش کرتی ہیں.بعض دفعہ ہواؤں کی تندی سے بچانے کی کوشش کرتی ہیں.اگر چہ درخت میں عقل نہیں ہوتی مگر اللہ تعالیٰ کا جو فعل ہمیں درختوں کے معاملہ میں نظر آ رہا ہے.اس سے ہم یہی نتیجہ نکالتے ہیں.ہوائیں چلتی ہیں.بہت سی ٹہنیاں دوسری ٹہنیوں کے لئے بطور ڈھال کے بن جاتی ہیں.وہ خود ٹوٹ جاتی ہیں مگر دوسروں کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن جس درخت کی میں مثال دے رہا ہوں وہ اس قسم کی زندگی اور احساس اور شعور نہیں رکھتا جو ہم انسان رکھتے ہیں.ہم جو شعور رکھنے والے انسان ہیں.ہمیں کس طرح اور کتنی کوشش کے ساتھ ایک دوسرے سے اخوت کا اظہار کر کے اس کے دکھوں کو دور کرنے اور مصائب سے اُسے بچانے کی کوشش کرنی چاہئے.اس کی غم خواری کرنی چاہئے.اس سے ہمدردی کرنی چاہئے.اگر ترقی کی کوئی راہیں ایسی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان راہوں کے کھولنے کی توفیق دی ہو تو ہمیں بشاشت کے ساتھ ان راہوں کو کھول دینا چاہئے.اور سب کو مل کر دنیا میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اور آسمان کی رفعتوں کے حصول کے لئے جد و جہد اور دعائیں کرنی چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس روحانی درخت کو دنیا میں اس لئے قائم کیا ہے کہ اس کی شاخیں آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جائیں اور اپنی وسعت میں ساری دنیا کو گھیر لیں اور تمام بنی نوع انسان اس درخت کے سایہ تلے جمع ہو جائیں اور اپنے اللہ کو پہچانے لگیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے لگیں.خدا کرے کہ ہماری زندگی محض اس کے فضل سے ہمیشہ قائم پر ہے.

Page 99

سبیل الرشاد جلد دوم 80 اب ہم دعا کر لیتے ہیں.سب دوست سب احمدی بھائیوں کے لئے دعا کیا کر یں خصوصاً ان بھائیوں کے لئے جن سے انہیں کوئی تکلیف پہنچی ہو.جن سے انہیں کوئی رنجش پیدا ہوئی ہو.پھر ان لوگوں کے لئے بھی دعائیں کریں جو دنیا میں بطور انسانیت کی طرف منسوب ہونے والے کے بس رہے ہیں.پھر آج کل غلبہ اسلام کے لئے خاص طور پر دعائیں کرنی چاہئیں.میں نے بتایا تھا کہ عیسائی عقائد دلوں سے باہر نکال کر پھینک دیئے گئے ہیں.اور یہ ہماری کوشش کے نتیجہ میں نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو نازل کیا تھا.اور انہوں نے عیسائی عقائد لوگوں کے دلوں سے نکال کر باہر پھینک دیئے.اب وہ تختی خالی ہے.خدا کرے کہ غیر اللہ کی بجائے اللہ تعالیٰ کا نام اس پر ثبت ہو جائے.اللہ کے سوا اور کوئی معبود ان سینوں میں داخل نہ ہو.اللہ تعالیٰ فضل کرے کہ ان کے سینے اپنے اللہ جو رب ہے ، رحمان ہے ، رحیم ہے، مالک یوم الدین ہے، اس کی محبت سے اور اس کے نور سے بھر جائیں اور وہ اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھنے لگیں اور اپنے اس مقصد کے مطابق خدا کے لئے اپنی زندگیوں کو گزار نے والے ہوں.ہمارے بھائی ڈاکٹر عبدالسلام کے متعلق چند دنوں میں یہ فیصلہ ہونے والا ہے کہ انہیں ایک بہت بڑا اعزاز دیا جائے یا نہ دیا جائے.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس بھائی کو دنیوی نعمتوں سے بھی نوازتا رہے.اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل ، ذہن ، سمجھ اور مہارت اتنی عطا کی ہے کہ جہاں وہ بہتوں کے لئے قابل رشک ہیں وہاں وہ بہتوں کے لئے حسد کے قابل بھی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں حاسدوں کے حسد سے بچائے اور ہمارے نزدیک جو ان کا حق ہے.خدا کرے کہ اس کے نزدیک بھی وہ حق ان کا ہو وہ حق انہیں مل جائے اور دنیا والے اس کی راہ میں روک نہ بنیں.سب سے ضروری دُعا تو اسلام کے غلبہ کی ہے.باقی دعا ئیں جو میں نے بتائی ہیں وہ بھی ضرور کریں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی آپ کو اپنی حفاظت اور امان میں رکھے اور ہر قسم کے دکھوں اور پریشانیوں سے محفوظ رکھے یا اگر وہ اس دکھ اور پریشانی سے آپ کا امتحان لینا چاہے تو خود آپ کو یہ توفیق عطا کرے کہ آپ اس امتحان میں کامیاب ہوں اور اس طرح اس کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوں اور خدا کرے کہ وہ نور جو آسمان سے ہمارے لئے نازل ہوا تھا.ہمارے دل ، ہمارے سینے ، ہمارے دماغ اور ہماری آنکھیں اور ہمارے دوسرے حواس ہمیشہ اس نور سے منور رہیں اور دنیا کے لئے اور دنیا کی نگاہ میں ہم ایک نور مجسم بن جائیں تا دنیا اس نور کے حسن کو اور اس کو حاصل کرنے کے بعد جو وہ احسان ان پر کرتا ہے اس کو پہچاننے اور اس میں حصہ دار بننے کی کوشش کرے.غیر مطبوعہ )

Page 100

سبیل الرشاد جلد دوم 81 سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعلی کا افتاحی خطاب فرموده ۲۵ را خاء۱۳۸۹ هش ۲۵ اکتو بر ۱۹۶۸ء بمقام احاطه دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے تیرہویں سالانہ اجتماع کا افتتاح کرتے ہوئے مورخہ ۲۵/اکتوبر ۱۹۶۸ء جو خطاب فرمایا تھا.اس کا متن ذیل میں افادہ احباب کے لئے درج کیا جاتا ہے.سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک مقصد کے لئے مبعوث کئے گئے تا کہ آپ اسلام کا نور تمام دنیا میں پھیلائیں اور اس نور کو دنیا کے سب اندھیروں پر غالب کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی دعویٰ کیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ.اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی ہے کہ میں دنیا میں یہ اعلان کروں کہ اسلام کا نور تمام دنیا میں پھیل جائے گا اور اس کو پھیلنے سے کوئی طاقت روک نہیں سکے گی.آپ فرماتے ہیں : یہ لوگ یا درکھیں کہ ان کی عداوت سے اسلام کو کچھ ضر ر نہیں پہنچ سکتا.کیڑوں کی طرح خود ہی مر جائیں گے مگر اسلام کا نور دن بدن ترقی کرے گا.خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اسلام کا نور دنیا میں پھیلاوے...اگر طاقت ہے تو خدا تعالیٰ کی ان پیشگوئیوں کو ٹال کر دکھلاؤ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ.اس زمانہ میں جو مذہب اور علم کی نہایت سرگرمی سے لڑائی ہو رہی ہے.....یقیناً سمجھو کہ اس لڑائی میں اسلام کو مغلوب اور عاجز دشمن کی طرح صلح جوئی کی حاجت نہیں بلکہ اب زمانہ اسلام کی روحانی تلوار کا ہے جیسا کہ وہ پہلے کسی وقت اپنی ظاہری مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۲۵۵ طبع دوم

Page 101

سبیل الرشاد جلد دوم 82 73 طاقت دکھلا چکا ہے یہ پیشگوئی یاد رکھو کہ عنقریب اس لڑائی میں بھی دشمن ذلّت کے ساتھ پسپا ہو گا اور اسلام فتح پائے گا.آپ فرماتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ گند ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.“ اس کا مطلب سمجھنے کے لئے ہمیں قرآن کی طرف رجوع کرنا ہے.جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے نور سے دو چیزیں مراد ہیں ایک قرآن کریم کا نور.ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اللہ تعالیٰ سورۃ شوری میں فرماتا ہے کہ قرآن کریم ایک ایسا نور ہے جو سب سے سیدھے راستہ کی طرف انسان کی رہنمائی کرتا ہے.ایسے راستہ کی طرف جو انسان کو اگر وہ اس راستہ کو اختیار کرے اللہ تعالیٰ کا مقرب بنا دیتا ہے اور انسان کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتا ہے اور انسان کو یہ توفیق عطا کرتا ہے کہ وہ اللہ کے نور سے منور ہو جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.وَلَكِنْ جَعَلْنَهُ نُورًا کہ ہم نے قرآن کریم کو نور بنایا ہے اور اس کے ذریعہ سے صداقت کی سب راہوں کو منور کیا ہے اور اس کے ذریعہ سے انسان کو یہ توفیق عطا کی ہے کہ وہ اس کی ہدایتوں پر چل کر اللہ تعالیٰ کے نور سے حصہ لے اور وہ جونور کا سر چشمہ اور سراپا نور ہے اس کا مظہر بن کر دنیا میں ایک نورانی وجود کی شکل میں ظاہر ہو اور دنیا کی اصلاح کی توفیق پائے اور اسے اس بات کی توفیق ملے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت پانے والا اور اللہ تعالیٰ سے رحمتیں حاصل کرنے والا ہو اور اس کے فضلوں کا وارث بنے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَامِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا یعنی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس قرآن کریم پر بھی جو ایک نور کی شکل میں ہم نے اتارا ہے.قرآن کریم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بہت سی آیات میں نور قرار دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بڑی تفصیل کے ساتھ اس مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ابدی نور کی شکل میں دنیا میں ظاہر ہوئے.اللہ تعالیٰ سورۃ مائدہ میں فرماتا ہے.1 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۴ ۲۵ مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۷ طبع دوم سوره شوری آیت ۵۳ سورہ تغابن آیت ۹

Page 102

سبیل الرشاد جلد دوم 83 قَدْ جَاءَ كُم مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَكِتُبٌ مُّبِينٌ) جَاءَكُمْ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تو نور اترا ہے اور ایک روشن کتاب آ چکی ہے یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نور قرار دیا گیا ہے اور قرآن کریم کو بھی نور قرار دیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سورۃ احزاب میں سراجاً منيراً کا فقرہ آیا ہے کہ ایک چمکتا ہوا سورج بنا کر اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے.ایک ایسا سورج جو رات کے اندھیروں میں چھپتا نہیں بلکہ دنیا کو ابدی طور پر منور کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اور وہی شخص خدا کی نگاہ میں منور ہوتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے حصہ لیتا ہے اور آپ کے فیوض اور برکات پاتا ہے.دنیا میں اب کوئی شخص بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا وارث نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ ایک پختہ تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قائم نہ کرے اور آپ کے فیوض سے حصہ نہ لے.اس مضمون میں تو اس وقت میں نہیں جاؤں گا یہ ایک مستقل مضمون ہے.وہ کون سی راہیں ہیں جن پر چل کر اللہ تعالیٰ انسان کو یہ توفیق عطا کرتا ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک پختہ تعلق قائم کرے اور آپ کے فیوض اور آپ کی برکات سے حصہ لینے والا ہو.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بشارت دی که كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ ہر برکت کا سر چشمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے اور مبارک وہی ہے جو اس چشمہ سے برکت کا پانی پئے.جو اس چشمہ پر نہیں آتا وہ گدلا پانی تو پی سکتا ہے، ایسا پانی جو برکتوں اور رحمتوں اور فضلوں کا پانی نہیں اور اس پیاس کو نہیں بجھا سکتا جو قرب الہی کے حصول کی پیاس اللہ تعالیٰ نے انسان کو لگائی ہے.قرآن کریم نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ قرآن بھی نور ہے اور اس میں اس قد ر ز بر دست صداقتیں بیان ہوئی ہیں کہ کوئی باطل عقیدہ ان کے خلاف ٹھہر نہیں سکتا اور علوم جدیدہ کے ہتھیار اس کے مقابل پر گند اور نا کارہ ہیں لیکن اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی بتایا کہ اس نور کا مقابلہ کرنے کے لئے شیطانی اندھیرے اپنا پورا زور لگا ئیں گے اور ہمیں یہ بھی بتایا کہ جس شخص کا سینہ اللہ تعالیٰ ، اسلام کے نور کے لئے کھول دے اور اسے علی نور من ربہ اپنے رب کے نور کا حامل بنائے ایسا شخص اس دوسرے شخص کی طرح نہیں ہو سکتا جس نے اسلام کے نور سے نور حاصل نہیں کیا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم ہدایت کی راہوں پر اس وقت چل سکتے ہو جب تم قرآن کریم کے نور سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے اپنی ہدایت کی راہوں کو منور کرو.يَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمُشُونَ بِہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ تمہارے لئے ایک نور مقدر کر سوره مائده آیت ۱۶ تذکره صفحه ۳۵ ایڈیشن چهارم سورة حديد آیت ۲۹

Page 103

84 سبیل الرشاد جلد دوم دے گا جس کی مدد سے تم ہدایت کی اور قرب الہی کی راہوں پر چل سکو گے لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ شیطان اور شیطانی اندھیرے.طاغوتی ظلمات خاموشی کے ساتھ نہیں رہ سکتیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ.حقیقی طاقت جو نورانی قدرت کے مقابلہ میں کسی کو حاصل ہو سکتی ہے وہ تو حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ ایسا ممکن نہیں لیکن زبانی دعوے اور زبانی اظہار اور بیان تو بہر حال کیا جا سکتا ہے یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے یہ کوشش کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھا دیں.گالیوں کے ساتھ ، بد زبانی کے ساتھ ، تہمتیں لگا کر ، غلط باتیں بیان کر کے ، غلط استدلال کر کے، عقل کے غلط استعمال سے، سائنس کے غلط استعمال سے فلسفے کی بودی اور ادھوری دلیلوں کے ساتھ ، اس قسم کے حربے تو ضرور استعمال ہوں گے اور بہت سے بد بخت اور بدقسمت ان اندھیرے حربوں کے نتیجہ میں نور سے محروم بھی ہو جائیں گے لیکن ایک وقت میں اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرے گا کہ وہ ساری دنیا میں اسلام کے نور کو پھیلائے اور جب اللہ تعالیٰ یہ فیصلہ کرے گا تو پھر طاغوتی طاقتیں اسلام کے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہوسکیں گی.اور جو منکر ہیں وَاللهُ مُتِمُّ نُورِ ؟ اس وقت اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہی جاری ہوگا اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کا اتمام کرے گا اس کو کامیابی کے ساتھ ساری دنیا میں پھیلا دے گا اور اسلام کی غرض پوری ہو جائے گی اور وہ غرض یہ ہے کہ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي ) جب تک اللہ تعالیٰ کا نور پورے طور پر دنیا میں غالب نہیں آتا اس وقت تک اسلام جن نعمتوں کو بنی نوع انسان کے لئے لے کر آیا ہے اس مقصد میں وہ کامیاب نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں جب وہ آئے گا اللہ تعالیٰ اپنے نور کو متم کرنے والا ہے اور اس طرح پر یہ صداقت ظاہر ہوگی اسلام کی اور قرآن کریم کی کہ اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمُ نِعْمَتِي ) دنیا اس کی اکثریت جو ہے وہ اسلام کے نور سے منور ہوگی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض اور برکات کے نتیجہ میں ان نعمتوں کو حاصل کرے گی جن نعمتوں کو سوائے اسلام کے کسی اور ذریعہ سے حاصل نہیں کیا جا سکتا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی یہ غرض ہے کہ اسلام کو تمام دنیا میں غالب کیا جائے ، قرآن کریم کے انوار ساری دنیا میں پھیلائے جائیں اور بنی نوع انسان کے دل میں قرآن کریم کی محبت پیدا کی جائے تا کہ وہ اس نور کو حاصل کرے جس کے نتیجہ میں وہ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر چل کر اس کی محبت اور اس کے قرب کو حاصل کر سکے.اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید محبت 3 1 سورة الصف آیت ۹ 2 سورۃ الصف آیت ۹ سوره مائده آیت ۴ سوره مائده آیت ۴

Page 104

85 سبیل الرشاد جلد دوم بنی نوع انسان کے دل میں پیدا ہو اور ایک محسن اعظم کی حیثیت سے دنیا آپ کو پہچاننے لگے اور آپ پر درود بھیجنے کے نتیجہ میں اور آپ کے اسوہ کو اپنانے کی وجہ سے اور آپ کے نقش قدم پر چلنے کی وجہ سے یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں اور ان فضلوں اور ان رحمتوں کے وارث بنیں جو پہلی امتیں اس قسم کی نعمتوں کی وارث نہیں بن سکتیں.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ اس اتمام نعمت اور اس اتمام نور سے پہلے ایک عظیم جنگ اندھیرے اور روشنی کے درمیان ، ظلمت اور نور کے درمیان ہونی ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.دو لیکن جو صادق اور اس کی طرف سے ہیں وہ مر کر بھی زندہ ہو جایا کرتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل کا ہاتھ ان پر ہوتا ہے اور سچائی کی روح ان کے اندر ہوتی ہے اگر وہ آزمائشوں سے کچلے جاویں اور پیسے جائیں اور خاک کے ساتھ ملائے جائیں اور چاروں طرف سے ان پر لعن طعن کی بارشیں ہوں اور ان کے تباہ کرنے کے لئے سارا زمانہ منصوبے کرے تب بھی وہ ہلاک نہیں ہوتے.کیوں نہیں ہوتے ؟ اس سچے پیوند کی برکت سے جو ان کو محبوب حقیقی کے ساتھ ہوتا ہے.خدا ان پرسب سے زیادہ مصیبتیں نازل کرتا ہے مگر اس لئے نہیں کہ تباہ ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ تا زیادہ سے زیادہ پھل اور پھول میں ترقی کریں ہر یک جو ہر قابل کے لئے یہی قانون قدرت ہے کہ اوّل صدمات کا تختہ مشق ہوتا ہے.اسی طرح وہ حقیقی کسان (اللہ تعالیٰ ) کبھی اپنے خاص بندوں کو مٹی میں پھینک دیتا ہے اور لوگ ان کے اوپر چلتے ہیں اور پیروں کے نیچے کچلتے ہیں اور ہر یک طرح سے ان کی ذلت ظاہر ہوتی ہے تب تھوڑے دنوں کے بعد وہ دانے سبزہ کی شکل پر ہو کر نکلتے ہیں اور ایک عجیب رنگ اور آپ کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں جو ایک دیکھنے والا تعجب کرتا ہے.یہی قدیم سے برگزیدہ لوگوں کے ساتھ سنت اللہ ہے کہ وہ ورطۂ عظیم میں ڈالے جاتے ہیں لیکن غرق کرنے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ تا وہ ان موتیوں کے وارث ہوں کہ جو دریائے وحدت کے نیچے ہیں.اور وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں لیکن اس لئے نہیں کہ جلائے جائیں بلکہ اس لئے کہ تا خدا تعالیٰ کی قدرتیں ظاہر ہوں.اور ان سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور لعنت کی جاتی ہے اور وہ ہر طرح سے ستائے جاتے ہیں اور دکھ دیئے جاتے اور طرح طرح کی بولیاں ان کی نسبت بولی جاتی ہیں اور بدظختیاں بڑھ

Page 105

سبیل الرشاد جلد دوم جاتی ہیں یہاں تک کہ بہتوں کے خیال و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ وہ سچے ہیں بلکہ جو شخص ان کو دکھ دیتا اور لعنتیں بھیجتا ہے وہ اپنے دل میں خیال کرتا ہے کہ بہت ہی ثواب کا کام کر رہا ہے.پس ایک مدت تک ایسا ہی ہوتا رہتا ہے....پس وہ صبر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ امر مقدرا اپنی مدت مقررہ تک پہنچ جاتا ہے تب غیرت الہی اس غریب کے لئے جوش مارتی ہے.اور ایک تحتی میں اعداء کو پاش پاش کر دیتی ہے.سو.86 اول نوبت دشمنوں کی ہوتی ہے اور اخیر میں اس کی نوبت آتی ہے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند کے طور پر مبعوث فرمایا ہے اور اس زمانہ میں یہ مقدر کیا کہ اشاعت اسلام کی کوششوں کے نتیجہ میں محبت اور پیار کے ساتھ ساری دنیا کے دل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتے جائیں.اور اپنے کلام سے مجھے کلیم بنایا اور اپنی محبت کی چادر مجھ پر ڈال دی.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا وہ کلام جو مجھ پر نازل ہوا وہ اس قسم کا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ آپ کے الہامات ، پیشن گوئیاں اور کشوف اور وحی وہ خدا کا کلام ہے.ایک کلام جس نے معجزہ کی طاقت دکھلائی اور اپنی قوی کشش ثابت کی.غیب کے بیان کرنے میں وہ بخیل نہیں نکلا بلکہ ہزار ہا امور غیبیہ اس نے ظاہر کئے اور ایک باطنی کمند سے مجھے اپنی طرف کھینچا اور ایک کمند دنیا کے سعید دلوں پر ڈالی اور میری طرف ان کو لایا اور ان کو آنکھیں دیں جن سے وہ دیکھنے لگے اور کان دیئے جن سے وہ سننے لگے اور صدق وثبات بخشا جس سے وہ اس راہ میں قربان ہونے کے لئے تیار ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں اپنی جماعت کے متعلق یہ فرمایا ہے کہ وہ لوگ خلوص نیت کے ساتھ اشاعت اسلام اور غلبہ اسلام میں شریک ہونے کے لئے میرے اردگرد جمع ہوئے ہیں.وہی ہیں جن پر اللہ نے ایک کمند پھینکی اور انہیں اپنی طرف اور اپنے اس عاجز بندہ کی طرف کھینچا اور یہ جو سعید دل ہیں، سعید فطرت ہیں ، سعید روحیں ہیں کہ جو میرے اردگرد جمع ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی ذات اور صفات کی معرفت کے حصول کے لئے آنکھیں بخشی ہیں اور وہ عرفان کے مقام پر کھڑے ہیں ان کا تعلق اپنے رب کے ساتھ ظنی باتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ یقینی طور پر وہ اپنے پیدا کرنے والے اللہ کی قدرتوں کو پہچانتے ہیں اور یہ علمی معرفت اور شناخت نہیں بلکہ علی وجہ البصیرت ان کا مشاہدہ ہے کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے اور اس کی زندہ قدرتوں کو ہم اپنے وجودوں میں مشاہدہ کرتے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ نے ایسے کان دیئے ہیں جو قرآن کریم کی آواز کوسن سکتے اور سمجھ سکتے ہیں انوار الاسلام صفحه ۵۱-۵۲ روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۵۲-۵۳ -

Page 106

87 سبیل الرشاد جلد دوم اور اللہ تعالیٰ نے ان کی روح کو ایسا صدق و ثبات بخشا ہے کہ اگر ساری دنیا مل کر ان کو کچلنے اور مار ڈالنے کے لئے تیار ہو تو وہ اپنی حقیر جان کی قربانی پیش کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور کسی قسم کی ہچکچاہٹ کے بغیر اپنا سب کچھ ، اپنی جان بھی خدا کی راہ میں قربان کر دیتے ہیں.یہ اس محمد مکی ابراہیم کی اولاد ہے.یہ اُس محمد کی ابراہیم کے اسماعیل ہیں کہ جب ان سے جان کی قربانی بھی مانگی جائے تو وہ یہی کہتے ہیں جو خدا کی مرضی ہو وہ پوری ہو، یہ جان بھی اس نے دی تھی اس کے حضور حاضر ہے اور جان کو چھوڑ کر جو چھوٹی نعمتیں انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی ہیں انہیں تو ہر وقت قربان کرنے کے لئے یہ سعید جماعت تیار رہتی ہے.اس سعید روح کو، جماعت احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کے ذریعہ بہت سی بشارتیں ملیں ، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاما یہ بشارت دی اور آپ نے اسے ہمارے سامنے ان الفاظ میں رکھا.آپ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.“ اس میں اللہ تعالیٰ نے بشارت یہ دی ہے کہ جماعت احمدیہ کو قرآن کریم کا نور عطا کیا جائے گا.اور قرآن کریم کے حقانی دلائل کی معرفت اور علم انہیں بخشا جائے گا اور قرآن کریم کے دلائل وہ دنیا کے سامنے اسی رنگ میں اور مؤثر طور پر پیش کریں گے کہ ان کے سامنے علوم جدیدہ ٹھہر نہیں سکیں گے.ان کے لئے ایک ایسا نور مقدر کیا جائے گا کہ جس کے سامنے کوئی ظلمت ٹھہر نہیں سکتی اور پھر یہ قرآنی دلائل ہی انہیں نہیں ملیں گے بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض اور برکات کے نتیجہ میں آسمانی نشان بھی انہیں دیئے جائیں گے اور انہیں آسمانی نشانوں میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند ہوں گے اور ورثہ میں اس فنا فی الرسول ہونے کے نتیجہ میں جو تو فیق وہ اپنے رب سے پائیں گے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانوں میں سے ہی انہیں نشان عطا کئے جائیں گے.اور یہ دلائل اس قدر ز بر دست اور یہ آسمانی تائیدات اس قدر قوی ہوں گی کہ ساری دنیا ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گی اور نتیجہ یہ ہو گا کہ ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی لیکن قبل اس کے کہ ایسا ہو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آ ئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا تجلیات الہیہ صفحه ۲۱ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۹

Page 107

سبیل الرشاد جلد دوم 88 دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ خوشخبری دیتے ہوئے اور ہمارے دلوں کو ڈھارس وو دیتے ہوئے فرماتے ہیں : یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ پیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعوی بیعت میں صادق اور کون کا ذب ہے.وہ جو کسی ابتلاء سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی.اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کیلئے اچھا تھا.مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قو میں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا اُن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی اور وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے یہ بشارتیں اپنے وقت پر ضرور پوری ہوں گی.اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر یہ مقدر کر دیا ہے کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آئے.اسلام کے ہر دو انوار سے ساری دنیا کے سب اندھیرے نور سے بدل جائیں اور بنی نوع انسان اپنے پیدا کرنے والے رب اور اس کے نور کو پہچانے لگیں اور اپنے محسن اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے دل میں شدید محبت پائیں اور اس محبت سے مجبور ہو کر وہ قرآن کے گرد بھی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی عاشقانہ اور بے تابانہ دنیا کیلئے اور دنیا کی تربیت کے لئے قربانیاں دیتے چلے جائیں.یہ آسمانوں پر مقدر ہے اور یہ ہو کر رہے گا اور اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو سعید ارواح عطا کرے گا اور نیک دل دے گا اور ان کے سینوں کو اپنے نور سے منور کرے گا اور ایک شدید محبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے دلوں میں پیدا کرے گا.اور ہر قسم کی قربانیاں وہ اس کی راہ میں ہمیشہ پیش کرتے رہیں گے مگر کسی اپنی خوبی کے نتیجہ میں نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق یہ فرمایا ہے کہ.تجلیات الهیه صفحه ۲۲ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۹ الوصیت صفحه ۱۳-۱۴ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۹

Page 108

سبیل الرشاد جلد دوم 89 88 " میں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا اور میں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا اور میں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں.یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا.پس اُس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مُشتِ خاک کو اس نے با وجود تمام بے ہنریوں کے قبول کیا.تو اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کے مخلصین کو قبول تو کرتا ہے اور کرتا رہے گا لیکن جماعت کے دل میں کبھی تکبر اور فخر کے جذبات پیدا نہیں ہونے چاہئیں اور جب ان کا آقا اپنے رب کے حضور ایک مزدور کی حیثیت میں ایک نالائق اور بے ہنر مزدور کی حیثیت پیش کر رہا ہے تو ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعہ ہم اپنی کم مائیگی اور بے ہنری کو بیان کر سکیں.پس عاجزانہ راہوں کو ہمیشہ اختیار کرتے رہوا اور شیطان کے ایسے حربوں سے اپنے نفوس کو بچاؤ جن کے نتیجہ میں انسان تکبر جیسی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے اور ہر خیر جو تم سے صادر ہو ہر نیکی جسے کرنے کی تم توفیق پاؤ اسے اپنے نفس کی طرف منسوب نہ کرو بلکہ اپنے رب کے فضلوں کی طرف منسوب کرو اور اگر تم ان عاجزانہ راہوں کو ہمیشہ اختیار کرتے رہو گے تو یاد رکھو کہ دنیا کی کوئی طاقت اسلام کے غلبہ کے دن کو دور نہیں کر سکتی وہ دن تو مقدر ہو چکا آسمانوں پر.وہ دن تو ضرور چڑھے گا اس زمین پر دنیا کے اندھیرے اس سورج کو طلوع ہونے سے روک نہیں سکتے.لیکن اللہ تعالیٰ ہم سے کچھ قربانیاں چاہتا ہے تاکہ ہم اس کے فضلوں کے وارث بنیں.ہمیں گالیاں دی جاتی ہیں ، طعنہ زنی کی جاتی ہے، استہزاء اور تحقیر سے نام لئے جاتے ہیں، دیواروں پر ہمارے خلاف گندے فقرے لکھے جاتے ہیں.کیا دیواروں پر لکھے گئے یہ فقرے ہماری اس بنیادکو کمزور کر سکتے ہیں جس بنیاد کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کیلئے دنیا میں کھڑا کیا ہے.وہ بنیاد کمزور نہیں ہو سکتی اس لئے کہ اس بنیاد پر اسلام کے محل تیار ہونے ہیں.اس میں ساری دنیا نے پناہ لینی ہے.شیطان سے حفاظت کیلئے ان محلوں کا بنایا جانا ضروری ہے.یہ وہ محل ہیں جہاں سے اس روشنی نے طلوع کرنا ہے جس نے ساری دنیا میں اسلام کے نور کو پھیلانا ہے.جس نے ساری دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی اشاعت کرنی ہے اور جہاں سے ساری دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات اور فیوض کا انتشار ہونا ہے.ان محلات کی بنیادوں کو ہوا میں بکھرے ہوئے گندے فقرے یا دیواروں پر لکھی گئی گندی عبارتیں کمزور نہیں کر سکتیں.یہ تو مقدر ہے.ہمارے دلوں کو دکھ دیا جا سکتا ہے، ہمارے جسموں کو زخمی کیا جاسکتا ہے لیکن خدا کی تقدیر کو نہیں بدلا جا سکتا ہے.یہ تقدیر تو اٹل ہے ، اسلام کا غلبہ تو ضرور ہونا ہے.دہریت جتنا مرضی ہے زور لگا ا تجلیات الہیہ صفحه ۲۳ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه۴۱۰

Page 109

سبیل الرشاد جلد دوم 90 لے.عیسائیت جو چاہے کر لے.جہالت اور اندھیرا پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کریں یہ کامیاب نہیں ہو سکتے.بڑھے گا نور ہی.غالب آئے گا اسلام ہی اور فتح انشاء اللہ ہو گی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان قربانیوں کو دینے کیلئے تیار رہیں جو آپ کا خدا آپ سے چاہتا ہے تا کہ آپ ان برکتوں اور فیوض کے بھی وارث بنیں جو ان قربانیوں کے بعد آپ کو ملنے والی ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.( غیر مطبوعہ )

Page 110

سبیل الرشاد جلد دوم 91 سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث رحم اللہ تعالی کا اختتامی خطاب ج فرموده ۱/۲۷ خاء۱۳۸۹ بهش ۲۷ /اکتوبر ۱۹۶۸ء بمقام احاطه دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کے اختتام پر مورخہ ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۸ء کو جو خطاب فرمایا تھا.اس کا متن ذیل میں افادہ احباب کے لئے درج کیا جاتا ہے.سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِلَ وَعَلَيْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَإِنْ تُطِيْعُوهُ تَهْتَدُوا وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَاغُ الْمُبِينُ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِى لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْفَسِقُونَ..اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور بتایا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کھول کر الہی احکام اور شریعت کے ارشادات کو دُنیا کے سامنے پیش کریں.اور مومنوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان احکام کی بجا آوری میں اطاعتِ کاملہ کا نمونہ دکھلاویں.اور اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ دیا کہ اگر تم کامل اطاعت کا نمونہ دکھاؤ گے تو ان راہوں کی طرف تمہیں ہدایت دی جائے گی جن پر چل کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جاسکتی سورة النور آیات ۵۵-۵۶

Page 111

92 سبیل الرشاد جلد دوم ہے اور یہ بھی وعدہ دیا گیا کہ اگر کامل اطاعت کا نمونہ دکھاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری بشری کمزوریوں کے پیش نظر خلافت حقہ کا نظام تم میں جاری کرے گا اور ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کا تعلق پختہ اور کامل طور پر اپنے رب سے ہوگا.وہ اپنے اور تمہارے رب کے منشاء کے مطابق تمہاری راہنمائی کرتے رہیں گے اور تمہیں سہارا دیتے رہیں گے، تمہاری غفلتوں ، سُستیوں اور کوتاہیوں کو دُور کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور ان نیک اعمال کی طرف رہنمائی کرتے رہیں گے جو حالاتِ حاضرہ کا تقاضا ہوں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو بہت سے احکام دیئے ہیں ان میں سے ایک حکم تو یہ ہے کہ ہم ملکی قوانین کا احترام کریں اور حکومت وقت کے ساتھ تعاون کریں.یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی بنیاد اسلامی احکام کے مطابق ہے (یعنی اطاعت قانون اور حکومت وقت سے تعاون ) گو ظاہر میں اس کا تعلق سیاست سے ہے اس لئے ہمیشہ ہم پر یہ آوازے گئے جاتے رہے ہیں کہ تم خوشامدیوں کی جماعت ہولیکن ایسے آوازے کسنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ ہم دنیا سے کوئی محبت اور پیار نہیں رکھتے لیکن ہمیں اس بات پر علی وجہ البصیرت قائم کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی منشاء اور مرضی کے مطابق ہم اپنی زندگیوں کو گزاریں خواہ دنیا جو مرضی سمجھے جو مرضی کہے.اس لئے ہر فرد جماعت کا فرض ہے کہ وہ ملکی قانون کا احترام کرے اور ہر جائز اور معروف کام میں حکومت وقت کے ساتھ پورا پورا تعاون کرے ، کسی قسم کے فتنہ کا باعث نہ بنے.امن اور صلح اور آشتی کی فضا جیسا کہ دنیا کی ہر عقلمند حکومت اپنے ملک میں قائم کرنا چاہتی ہے.اس امن اور صلح کی فضا کو قائم کرنے کے لئے حکومتِ وقت کے ساتھ پورا پورا تعاون کرے.جو ایسا نہیں کرتا وہ شاید دنیا کے ایک حصہ کو خوش کر سکے لیکن یقیناً وہ اپنے رب کو ناراض کرنے والا ہوگا.پس ہم حکومت سے تعاون اور قانون کی پابندی اس لئے کرتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں کہتا ہے کہ ایسا کرو ورنہ میں تم سے ناراض ہو جاؤں گا اور اللہ کی ناراضگی کی ہمیں زیادہ پروا ہے بہ نسبت ان ناراضگیوں کے جن کا اظہار بعض دُنیا داروں کی طرف سے ہوتا ہے.ایک دوسرا حکم جو اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت کے بنیادی حکم کے تحت ہمیں ملا ہے (ایسے سینکڑوں احکام ہیں.میں اس وقت ان میں سے دو یا تین کو ئوں گا ) اپنے نفوس کی تربیت اور اپنے بچوں اور خاندان اور اپنے ماحول کی تربیت ہے.جب اللہ تعالیٰ کے مامور کا زمانہ گزر جاتا ہے تو وہ طاقتیں جو خدا تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 112

93 سبیل الرشاد جلد دوم خلاف اباء اور حصہ اور غضب رکھتی ہیں وہ مجھتی ہیں کہ پہلی نسل ہم سے بچ گئی اور دوسری بھی بچ گئی اب تیسری نسل پر حملہ آور ہو کر اس مقصد میں الہی تحریک کو نا کام کرو جس مقصد کے لئے اسے کھڑا کیا گیا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے بعض گھروں میں بدعات اور رسوم رائج ہورہی ہیں.مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ میری ڈاک میں بعض دفعہ اس قسم کا سوال بھی ہوتا ہے کہ تعویذ اور گنڈے کرنے جائز ہیں یا نہیں ؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تربیت میں ایک حد تک کمی آگئی ہے ان گھرانوں میں.کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارا سارا تو کل اور ہمارا سارا بھروسہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے ، وہی ہمارا سہارا ہے اور اس نے ہمیں ہماری ہر ضرورت اور کمزوری کے وقت سہارا دینے کے لئے جن راہوں کو جن طریقوں کو تجویز کیا ہے وہی طریقے صحیح اور درست ہیں اور ان سے ادھر اُدھر ہونا خدا کے غضب کا موجب بن جاتا ہے.احکامِ شریعت کی پوری پابندی اور سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع ہمارے لئے ضروری ہے.ہماری بیویوں کے لئے ضروری ہے ، ہمارے بچوں کے لئے ضروری ہے.ہمارے ماحول کے لئے ضروری ہے اور یہ ذمہ داری زیادہ تر جماعت کے اس گروہ پر پڑتی ہے جو عمر کے لحاظ سے انصار کہلاتے ہیں.جماعتی نظام میں بھی انہیں کا اثر اور نفوذ زیادہ ہوتا ہے.بڑی عمر کے ہوتے ہیں.زیادہ تجربہ والے ہوتے ہیں.تربیت یافتہ ہوتے ہیں.یہ تو صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دوسرے کی گمراہی تمہیں تکلیف نہیں پہنچا سکتی اگر آپ ہدایت پا جائیں.لیکن اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ نے ان تمام احکام کی اللہ کے فضل اور اس کی توفیق سے بجا آوری کی طاقت اور توفیق حاصل کی اور ان احکام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کے بچوں کی اور آپ کے ماحول کی ذمہ داری آپ پر ڈالی گئی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپ میں سے ہر ایک کسی نہ کسی رنگ میں راعی کی حیثیت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ تم سے جواب طلبی کرے گا کہ اس ذمہ داری کو تم نے کس رنگ میں اور کس طور پر نبھایا.تو جو شخص بچوں کی تربیت سے غافل ہے یا جو شخص اپنی تربیت سے غافل ہے اور اس قسم کی باتیں گھر میں کرنے کا عادی ہے جس کے نتیجہ میں بچوں کے دلوں سے خدا اور اس کے رسول کی محبت آہستہ آہستہ مٹتی چلی جائے اور نظام کے خلاف باتیں کرنے کی اسے عادت پڑ جائے تو خود کو بھی خراب کیا اور اگلی نسل کو بھی خراب کیا.خدا کے سامنے جب آپ جائیں گے اور وہ آپ سے پوچھے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق اور میرے حکم کے ماتحت تم نے اس ذمہ داری کو کیسے نبھایا تو کیا جواب دیں گے آپ؟ پس تربیت کی طرف خاص توجہ دیں اور اپنے ماحول کو نیک اور پاک اور ہر قسم کی گندگی اور ہر قسم کی ناپاکی سے صاف بنانے کی کوشش کریں.جب تک آپ کا ماحول اور آپ کا گھر پاک نہیں ہو گا، آپ کا لباس تقوی گندگی کی چھینٹوں

Page 113

سبیل الرشاد جلد دوم سے محفوظ نہیں رہ سکتا.تیسری بات 94 جو میں ذرا تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں وہ نظام خلافت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پہلے انبیاء کی جماعتوں میں بھی ان لوگوں کے حالات کے مطابق رائج کیا تھا اور جسے اسلام میں بھی اللہ تعالیٰ نے قائم کیا اور ایک وعدہ اور بشارت کے رنگ میں قائم کیا.اللہ تعالیٰ نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ جیسے اور جس رنگ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اُمت میں خلفاء کا نظام قائم کیا گیا تھا اسی رنگ میں اور اسی طور پر اُمتِ مسلمہ میں بھی خلفاء کا ایک نظام قائم کیا جائے گا جو خلیفہ اور مجد دہوں گے.آیت استخلاف میں خلافت کا یہ وعدہ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر مجدد بھیجا کرے گا جو اس کے دین کی تجدید کیا کریں گے.یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم سے زائد کوئی بات نہیں کی آپ نے جو بھی کہا ہے وہ قرآن کریم کے اصول کی اور قرآنِ کریم کے اجمال کی تفسیر اور تفصیل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اور جو لوگ وحی ولایت عظمیٰ کی روشنی سے منور ہیں وہ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ “ کے گروہ میں داخل ہیں اُن سے بلاشبہ عادت اللہ یہی ہے کہ وقتا فوقتا دقائق مخفیہ قرآن کے ان پر کھولتا رہتا ہے اور یہ بات ان پر ثابت کر دیتا ہے کہ کوئی زائد تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز نہیں دی بلکہ احادیث صحیحہ میں مجملات واشارات قرآن کریم کی تفصیل ہے سو اس معرفت کے پانے سے اعجاز قرآن کریم ان پر کھل جاتا ہے اور نیز ان آیات بینات کی سچائی ان پر روشن ہو جاتی ہے جو اللہ جل شانہ فرماتا ہے جو قرآن کریم سے کوئی چیز باہر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں یہ فرمایا کہ امت محمدیہ میں ہمیشہ ایک مطہر گروہ پیدا ہوتا رہا، ہوتا رہتا ہے اور ہوتا رہے گا.اور اس مطہر گروہ کو قرآن کریم کے اس وعدہ کے مطابق کہ لَّا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ اللہ تعالیٰ وقت کی ضرورتوں کے مطابق قرآن کریم کے مخفی خزائن اور اسرار میں سے بہت سے اسرار اور بہت سی روحانی دولت عطا کرتا رہے گا.پھر وہ علی وجہ البصیرت اس بات پر قائم ہو جائیں گے کہ جس طرح نئی نئی باتیں قرآن کریم کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھاتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو مطہرین کے سردار تھے ان کو ہم سے بہت زیادہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے معارف اور دقائق الحق مباحثہ لدھیانہ صفحہ ۷۹ روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۸ سورۃ واقعہ آیت ۸۰

Page 114

95 سبیل الرشاد جلد دوم سکھایا کرتا تھا اور آپ نے جو بھی فرمایا وہ قرآن کریم کی تفسیر ہی ہے.قرآن کریم سے زائد کوئی بات آپ نے نہیں کی.اس وقت حوالہ تو میرے پاس نہیں لیکن مجھے یاد پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد دوسری جگہ بھی وضاحت کے ساتھ اس بات کو بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول اور ہر ارشا د قرآن کریم کی تفسیر ہی ہے جیسے آپ کا ہر فعل اور عمل قرآن کریم ہی کی تفسیر ہے.جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب پوچھا گیا تو آپ نے کہا اگر آپ کے اخلاق معلوم کرنا چاہتے ہو تو قرآن کریم پڑھ لو.قرآن کریم نے جو کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کر دکھایا.تو آپ کے اخلاق تو قرآن کریم میں تحریر ہیں کیونکہ آپ کے افعال اور اعمال عین قرآن کریم کے مطابق ہیں ان سے باہر نہیں.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجد د آیا کرے گا یہ قرآن کریم کی کس آیت کی تفسیر ہے پھر ہمیں اس حدیث کے صحیح معنی معلوم ہوں گے ورنہ ہم غلطی کھا جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متعدد بار اور بڑی وضاحت اور تفصیل سے بیان کیا ہے کہ یہ حدیث قرآن کریم کی آیت استخلاف کی ایک تفسیر ہے.اس آیت میں بہت سی باتیں بیان کی گئی ہیں اور متعدد سلسلہ ہائے خلافت کا ذکر ہے اور ایک بات کی تفسیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کی کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجد د دین پیدا ہو گا.اس لحاظ سے اگر آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا بغور مطالعہ کریں تو آپ یہ دیکھیں گے کہ جہاں بھی آپ نے تجدید دین پر کوئی بحث کی یا کوئی نکتہ بیان کیا وہاں اس نکتہ کو بیان کرتے ہوئے آپ نے خلافت کا ضرور ذکر کر دیا.(إِلَّا مَا شَاءَ الله ) تو آپ نے اپنی ساری بحث میں وضاحاً بھی اور اشارہ بھی یہ بتایا ہے کہ خلافت اور تجدید دین ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور یہ وعدہ جو دیا گیا ہے کہ ہر صدی کے سر پر مجد د آئے گا وہ آیت استخلاف کے وعدے کا ایک حصہ ہے.آیت استخلاف میں اس وعدہ سے زیادہ وعدہ دیا گیا ہے یعنی مختلف شکلوں میں خلافت کے قیام کا وعدہ ہے.ایک شکل وہ ہے جس کا ذکر اس حدیث میں ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر ارشادات میں جو دوسری شکلیں خلافت کی ہیں ان پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے.خلافت کے معنی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ : خلیفہ کے معنے جانشین کے ہیں جو تجدید دین کرے.نبیوں کے زمانہ کے بعد جو تاریکی پھیل جاتی ہے اس کو دور کرنے کے واسطے جو ان کی جگہ آتے ہیں انہیں

Page 115

سبیل الرشاد جلد دوم " 96 خلیفہ کہتے ہیں.پس خلیفہ کے معنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جانشین کے ہیں جو ضرورت کے وقت تجدید دین کی خاطر آئے اور ان میں صحیح رُوح اسلامی پیدا کرے اور بدعات کو اسلام سے باہر نکال کر پھینک دے اور ایسے سامان پیدا کرے اُمت مسلمہ کے لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بن سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آیت استخلاف میں جو گما“ کا لفظ ہے اور جو مِنكُم“ کا لفظ ہے اس کو اس آیت کے معنی سمجھنے کے لئے ایک بنیادی اہمیت دی ہے.آپ نے فرمایا ہے کہ وعدہ یہ دیا گیا ہے کہ جس رنگ میں جس طور پر اُمّتِ موسویہ میں خلافت کا نظام قائم کیا گیا تھا اسی رنگ میں اسی میں اُمتِ مسلمہ میں خلافت کا نظام قائم کیا جائے گا.میں پہلے دو تین ایسے حوالے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پڑھنا چاہتا ہوں جن میں آپ نے یہ بتایا ہے کہ اُمتِ موسویہ کی خلافت اور اُمت محمدیہ کی خلافت میں مماثلت تامہ پائی جاتی ہے.آپ ان حوالوں کو غور سے سنیں اور پھر اس کے بعد میں بعض باتیں تفصیل سے بیان کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : یعنی خدا تعالیٰ نے اس اُمت کے مومنوں اور نیکو کاروں کے لئے وعدہ فرمایا ہے کہ انہیں زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے پہلوں کو بنا یا تھا یعنی اسی طرز اور اسی طریق کے موافق اور نیز اسی مدت اور زمانہ کے مشابہ اور اُسی صورت جلالی اور جمالی کی مانند جو بنی اسرائیل میں سُنت اللہ گزر چکی ہے اِس اُمت میں بھی خلیفے بنائے جائیں گے اور ان کا سلسلہ خلافت اُس سلسلے سے کم نہیں ہو گا جو بنی اسرائیل کے خلفاء کے لئے مقرر کیا گیا تھا اور نہ ان کی طرزِ خلافت اس طرز سے مبائن اور مخالف ہوگی جو بنی اسرائیل کے خلیفوں کے لئے مقرر کی گئی تھی.مماثلت تامہ کا اشارہ جو كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ سے سمجھا جاتا ہے صاف دلالت کر رہا ہے کہ یہ مماثلت مدت ایامِ خلافت اور خلیفوں کی طرزِ اصلاح اور طر ز ظہور سے متعلق ہے.سوچونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل میں خلیفتہ اللہ ہونے کا منصب حضرت موسی سے شروع ہوا اور ایک مدت دراز تک نوبت به نوبت انبیاء بنی اسرائیل میں رہ کر آخر چودہ (سو ) برس کے پورے ہونے تک حضرت عیسی ابن مریم پر یہ سلسلہ ختم ہو ا....پس جبکہ قرآن کریم نے صاف صاف بتلا دیا کہ ملفوظات جدید ایڈیشن جلد ۲ صفحه ۶۶۶

Page 116

97 سبیل الرشاد جلد دوم خلافت اسلامی کا سلسلہ اپنی ترقی اور تنزل یا اپنی جلالی اور جمالی حالت کی رُو سے خلافت اسرائیلی سے بکلی مطابق و مشابه و مماثل ہو گا اور یہ بھی بتلا دیا کہ نبی عربی امی ، مثیل موسی ہے تو اس ضمن میں قطعی اور یقینی طور پر جتلایا گیا کہ جیسے اسلام میں سر دفتر الہی خلیفوں کا مثیل موسی ہے جو اس سلسلہ اسلامیہ کا سپہ سالار اور بادشاہ اور تخت عزت کے اول درجے پر بیٹھنے والا اور تمام کا مصدر اور اپنی رُوحانی اولاد کا مورث اعلیٰ ہے صلی اللہ علیہ وسلم.ایسا ہی اس سلسلہ کا خاتم با عتبار نسبتِ تامہ وہ مسیح ابن مریم ہے جو اس اُمت کے لوگوں میں سے بحکم ربی مسیحی صفات سے رنگین ہو گیا ہے.اسی مضمون کو بیان فرماتے ہوئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلہ خلافت میں اول درجہ کا مقام رکھتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنا نا چاہتا ہوں تو خلیفہ اللہ صحیح معنی میں اور نیچے اور کامل طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ذات ہے اور کسی کی نہیں.اس لئے آپ کو خلافت عظمی حاصل ہے اور اسی لئے آپ ہی مجد داعظم ہیں.مجد داعظم سوائے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کوئی نہیں.لیکچر سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : پس ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لئے ایک مجد داعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے.اور آپ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا.ساری دُنیا کو تاریکی اور ظلمت سے نکال کر ٹور کی طرف لانے کا کام سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی نے نہیں کیا.پہلے انبیا ء اپنے اپنے زمانہ اور اپنی اپنی قوموں کی طرف مبعوث ہوئے.جہاں تک اللہ تعالیٰ نے انہیں تو فیق دی اور ان قوموں کو بھی جن کی طرف وہ مبعوث ہوئے تھے تو فیق دی ایک محدود وقت اور زمانہ میں ایک خاص قوم کو انہوں نے ظلمات شیطانی سے نکالا اور ان کی استعداد کے مطابق انوار ربانی سے منور کیا مگر ایک ہی شخص دنیا میں پیدا ہوا ہے.صلی اللہ علیہ وسلم جو ساری دُنیا کی طرف مبعوث ہوا اور اب قیامت تک کے لئے جو مجد دیتِ عظمی کے مقام پر قائم اور فائز رہے گا اور ساری دُنیا کو تاریکی اور ظلمت سے نکال کر اللہ تعالیٰ ازالہ اوہام از اله او ہم طبع اول صفحہ ۶۶۸-۶۷۳، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۶۰-۴۶۳ لیکچر سیالکوٹ صفحه ۴ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۰۶

Page 117

سبیل الرشاد جلد دوم 98 کے ٹور کی طرف کھینچ کر لانے کا کام اس مجد داعظم کے سپرد ہے اور اسی لئے وہ مجد داعظم ہے.تو آب خلافتِ عظمیٰ اس سلسلہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے اپنے رنگ میں محدود وقت کے لئے اور بنی اسرائیل کے لئے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اللہ تعالیٰ کے مجد داور خلیفہ تھے لیکن ساری دُنیا میں ایک ہی مجد داعظم تھا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.مماثلت تامہ کے متعلق جو آیت استخلاف میں گما کے لفظ میں پائی جاتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : اگر اس مماثلت سے مماثلتِ تامہ مراد نہیں تو کلام عبث ہوا جاتا ہے کیونکہ شریعتِ موسوی میں چودہ سو برس ۱۴۰۰ تک خلافت کا سلسلہ ممتد رہا.نہ صرف تین ۳ برس تک اور صد ہا خلیفے روحانی اور ظاہری طور پر ہوئے نہ صرف چار اور پھر ہمیشہ کے لئے خاتمہ.پھر آپ فرماتے ہیں.کیا کسی نیک دل انسان کی ایسی رائے ہوسکتی ہے کہ وہ حضرت موسی علیہ السلام کی نسبت تو یہ اعتقا در کھے کہ بلا شبہ ان کی شریعت کی برکت اور خلافت راشدہ کا زمانہ برابر چودہ سو برس تک رہا لیکن وہ نبی جو افضل الرسل اور خیر الانبیاء کہلاتا ہے اور جس کی شریعت کا دامن قیامت تک ممتد ہے اس کی برکات گویا اس کے زمانہ تک ہی محدود ہیں اور منکم کے لفظ سے یہ جتانا بھی منظور ہے کہ پہلے بھی وہی لوگ خلیفے مقرر کئے گئے تھے کہ جو ایمان دار اور نیکو کار تھے اور تم میں سے بھی ایمان دار اور نیکو کار ہی مقرر کئے جائیں گے.پھر آپ فرماتے ہیں : بلکہ اس جگہ مع حفاظتِ ظاہری، حفاظت فوائد و تا شیرات قرآنی مُراد ہے اور وہ موافق سنت اللہ کے تبھی ہو سکتی ہے کہ جب وقتا فوقتا نائب رسول آویں جن میں ظنی طور پر رسالت کی تمام نعمتیں موجود ہوں اور جن کو وہ تمام برکات دی گئی ہوں جو نبیوں کو دی جاتی ہیں جیسا کہ ان آیات میں اس امر عظیم کی طرف اشارہ ہے اور وہ یہ ہے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ شہادت القرآن صفحه ۱۹ روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۲۴ شہادت القرآن صفحه ۲۲ - ۲۴ ، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۰-۳۳۳

Page 118

سبیل الرشاد جلد دوم 99 66 امَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُ وَنَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَالِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ - پھر آپ فرماتے ہیں : ہم کب کہتے ہیں کہ مجد داور محدث دُنیا میں آکر دین میں سے کچھ کم کرتے ہیں یا زیادہ کرتے ہیں بلکہ ہمارا تو یہ قول ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد جب پاک تعلیم پر خیالات فاسدہ کا ایک غبار پڑ جاتا ہے اور حق خالص کا چہرہ چھپ جاتا ہے تب اُس خوبصورت چہرہ کو دکھلانے کے لئے مجد داور محدث اور روحانی خلیفے آتے ہیں.مجد دوں اور روحانی خلیفوں کی اس اُمت میں ایسے ہی طور سے ضرورت ہے جیسا کہ قدیم سے انبیاء کی ضرورت پیش آتی رہی ہے.اس سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نبی مرسل تھے اور ان کی توریت بنی اسرائیل کی تعلیم کے لئے کامل تھی.لیکن باوجود اس کے بعد توریت کے..66 صدہا ایسے نبی ، بنی اسرائیل میں سے آئے کہ کوئی نئی کتاب ان کے ساتھ نہیں تھی.“ پھر فرماتے ہیں : چنانچہ توریت کی تائید کے لئے ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی بھی آیا جن کے آنے پر اب تک بائیبل شہادت دے رہی ہے.پھر اسی مماثلت تامہ کے ذکر میں آپ فرماتے ہیں: خدا نے تم میں سے بعض نیکو کارایمان داروں کے لئے یہ وعدہ ٹھہرا رکھا ہے کہ وہ انہیں زمین پر اپنے رسول مقبول کے خلیفے کرے گا انہیں کی مانند جو پہلے کرتا رہا ہے.یہ تو ظاہری طور پر بشارت ہے مگر جیسا کہ آیات قرآنیہ میں عادت الہیہ جاری ہے اس کے نیچے ایک باطنی معنے بھی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ باطنی طور شہادت القرآن صفحه ۲۸ / روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۸ شہادت القرآن طبع اوّل روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۳۹ تا ۳۴۱

Page 119

سبیل الرشاد جلد دوم پر ان آیات میں خلافتِ روحانی کی طرف بھی اشارہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک خوف کی حالت میں کہ جب محبت الہیہ دلوں سے اُٹھ جائے اور مذاہب فاسدہ ہر طرف پھیل جائیں اور لوگ رو بہ دُنیا ہو جا ئیں اور دین کے گم ہونے کا اندیشہ ہوتو ہمیشہ ایسے وقتوں میں خدا رُوحانی خلیفوں کو پیدا کرتا رہے گا کہ جن کے ہاتھ پر رُوحانی طور پر نصرت اور فتح دین کی ظاہر ہو اور حق کی عزت اور باطل کی ذلّت ہو، تا ہمیشہ دین اپنی اصلی تازگی پر عود کرتا رہے اور ایماندار ضلالت کے پھیل جانے اور دین کے مفقود ہو جانے کے اندیشہ سے امن کی حالت میں آجائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 100 كَمَا کی تفسیر لکھتے ہوئے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اُمت میں جس قسم کے ، جس رنگ کے ، جس زمانہ تک، جن وقتوں کی تحدید کے ساتھ خلفاء پیدا ہوتے رہے بالکل اسی طرح امت محمد یہ میں پیدا ہوں گے.امت موسویہ کے خلفاء کی تاریخ پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو وہاں ہمیں کئی قسم کے خلفاء نظر آتے ہیں.ایک وہ سلسلۂ خلافت جو چودہ خلفاء پر مشتمل ہے جن کے پہلے اور اپنی اُمت میں بڑے خلیفہ اور مجدد حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے اور جن کے چودھویں اور سب سے آخری خلیفہ اور مسجد دحضرت مسیح علیہ السلام تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ امت محمدیہ میں بھی اس قسم کی خلافت اور تجدید دین جاری رہی ہے یعنی اس نقطہ نگاہ سے ایک ایسا سلسلہ اُمتِ محمدیہ میں پیدا ہوا جس سلسلہ تجدید دین کے مجد داعظم جنہیں خلافتِ عظمی حاصل تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور آپ کے بعد پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر تھے اور حضرت ابوبکر کو ایک کامل مشابہت حضرت یوشع بن نون سے تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد پہلے خلیفہ ان تیرہ خلفاء کے سلسلہ میں پیدا ہوئے اور آپ نے بڑی تفصیل کے ساتھ اس مشابہت پر بحث کی ہے.حضرت ابو بکر کی حضرت یوشع بن نون کے ساتھ تھی اور پھر آپ نے فرمایا کہ آخر میں میں ہوں اور میری مشابہت کا ملہ حضرت مسیح ناصری سے ہے.اور آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب ایک سلسلہ لمبے عرصہ پر ممتد ہو ( چودہ سو سال پر ) تو ہر ایک کڑی کو لے کر تفصیلی بحث کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں کیونکہ تاریخ نے ان واقعات کی تفصیل کو محفوظ نہیں رکھا.لیکن خُدا کی حکمتِ کاملہ نے پہلی کڑی کی تاریخی براہین احمدیہ طبع اول روحانی خزائن جلد اصفحه ۲۵۹ - ۲۶۰ حاشیه

Page 120

101 سبیل الرشاد جلد دوم تفصیلات کو محفوظ رکھا اور آخری کڑی کی تاریخی تفصیلات کو بھی محفوظ رکھا.یعنی یوشع بن نون کے متعلق بھی ہمیں تفصیلی حالات معلوم ہیں اور حضرت مسیح ناصرٹی کے متعلق بھی تفصیلی حالات ہمیں معلوم ہیں.اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی تفصیلی حالات ہمیں معلوم ہیں جو آپ کے صحابہ اب بھی زندہ ہیں انہوں نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھا جو دیکھا اور جو ان کے بعد آنے والی نسل ہے ان کے سامنے بھی بار بار یہ تفصیل آتی ہے اور اس تفصیل کو جاننے والے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کن رنگوں میں اور کس طریق پر.ایک کامل مشابہت حضرت مسیح علیہ السلام سے رکھتے ہیں.وہی حالات آپ کی زندگی پر گزرے جو حالات حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی پر گزرے.میں تفصیل میں جانا نہیں چاہتا.اور آپ نے فرمایا ہے کہ اس سلسلۂ خلافت اور اس سلسلہ مسجد دین کا میں آخری خلیفہ ہوں سب سے آخر پر آنے والا.میرے بعد اس سلسلہ میں کوئی مجد د پیدا نہیں ہوگا.بشمولیت ہمارے مجد داعظم اس سلسلہ کے خلفاء چودہ تھے اور چودہ کا عددمیں نے پورا کر دیا.اور آپ نے ایک جگہ فرمایا کہ جس طرح وہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت مسیح ناصرٹی تک جو آپ کے آخری خلیفہ تھے تیرہ خلفاء پیدا ہوئے جن میں سے پہلے بارہ حضرت موسی علیہ السلام کی قوم سے تعلق رکھتے تھے اور تیرھواں بے باپ پیدا ہونے کی وجہ سے آپ کی قوم کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ ان کے باپ بنی اسرائیل میں سے نہیں تھے.اسی طرح امت محمدیہ کے تیرہ خلفاء میں سے پہلے بارہ اسی مشابہت گما کی وجہ سے قریش میں سے ہوئے اور ضروری تھا کہ تیرھواں قریش میں سے نہ ہوتا اور نہ مماثلت قائم نہ رہتی اور وہ میں ہوں موعود مسیحیت کا دعویٰ کرنے والا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سلسلہ کے آخر میں خود کو قرار دیا ہے.اس سلسلہ میں بہت سے حوالے ہیں یہاں چند کو میں نے منتخب کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : ایسا ہی سلسلہ محمدیہ کی خلافت کا آخری خلیفہ جو مسیح موعود سے موسوم ہے سلسلہ موسویہ کے آخری خلیفہ سے جو حضرت عیسی بن مریم ہے مشابہت رکھے.پھر آپ اسی کتاب میں لکھتے ہیں : اس سلسلہ مساوات سے لازم آیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام اسلام کے مسیح موعود سے جو شریعت اسلامیہ کا آخری خلیفہ ہے مشابہت رکھتے ہیں.تحفہ گولڑویہ صفحہ ۶۲ طبع اول رُوحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۱۹۱ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۶۲ روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۹۲

Page 121

سبیل الرشاد جلد دوم پھر آپ فرماتے ہیں : چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ حسب وعدہ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ آخری خلیفہ اس امت کا حضرت عیسی علیہ السلام کے رنگ میں آئے گا.پھر اسی کتاب میں فرماتے ہیں : اور مماثلت کی پہلی بنیاد ڈالنے والا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہے اور مماثلت کا آخری نمونہ ظاہر کرنے والا وہ مسیح خاتم خلفاء محمد یہ ہے جو سلسلہ خلافت محمد یہ کا سب سے آخری خلیفہ ہے.102 پھر آپ حضرت موسی کی شریعت اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اور مکمل شریعت جو قرآن کریم کی شکل میں ظاہر ہوئی پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک شریعتِ موسویہ دوسری شریعت محمد یہ.اور ان دونوں سلسلوں میں تیرہ تیرہ خلیفے مقرر کئے ہیں.“ پس اس واسطے آخری خلیفہ کے ہم کوئی اور معنی نہیں کر سکتے سوائے اس کے جو اس کے ظاہری معنی ہیں کیونکہ آپ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد اس سلسلہ میں صرف تیرہ خلیفے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی اس سلسلہ میں صرف تیرہ خلیفے ہیں اور میں آخری ہوں.تو معلوم ہوا کہ اس آخری کے اور کوئی معنی نہیں ہو سکتے اور اس سلسلۂ خلافت میں کسی اور کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اب میں کچھ حوالے اس ضمن میں اور پڑھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحفہ گولڑویہ میں فرماتے ہیں : جس آیت سے دونوں سلسلوں یعنی سلسلۂ خلافتِ موسویہ اور سلسلہ خلافت محمدیہ میں مماثلت ثابت ہے یعنی جس سے قطعی اور یقینی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سلسلہ نبوت محمدیہ کے خلیفے سلسلہ نبوت موسویہ کے مشابہ و مماثل ہیں وہ آیت یہ ہے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ تو ہمیں ماننا پڑتا ہے تحفہ گولڑو یہ صفحہ ۶۸ روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۰۲ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۵۷ روحانی خزائن جلد ۷ ۱ صفحه ۱۸۳ ا تحفہ گولڑ و یه صفحه ۶۳ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۹۲

Page 122

سبیل الرشاد جلد دوم جو ان دونوں سلسلوں کے خلیفوں میں مماثلت ضروری ہے اور مماثلت کی پہلی بنیاد ڈالنے والا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہے اور مماثلت کا آخری نمونہ ظاہر کرنے والا وہ مسیح خاتم خلفائے محمد یہ ہے جو سلسلۂ خلافت محمدیہ کا سب سے آخری خلیفہ ہے.پھر آپ فرماتے ہیں (یہ بھی اسی کی وضاحت ہے ): ’اور پھر خدا نے محمد کی سلسلہ کے خلیفوں کو موسوی سلسلہ کے خلیفوں سے مشابہت دے کر صاف طور پر سمجھا دیا کہ اس سلسلہ کے آخر میں بھی ایک مسیح ہے اور درمیان میں بارہ خلیفے ہیں تا موسوی سلسلہ کے مقابل پر اس جگہ بھی چودہ کا عدد پورا ہو.( یعنی بشمولیت حضرت موسیٰ اور رسولِ اکرم مجد واعظم صلی اللہ علیہ وسلم ) 103 پس اس سلسلۂ خلافت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چودھویں خلیفہ کی کوئی گنجائش نہیں اگر آپ کو شامل کیا جائے تو پندرھویں خلیفہ کی اس سلسلہ خلافت میں کوئی گنجائش نہیں.پھر آپ فرماتے ہیں: اور جس حالت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ٹھہرے اور نیز سلسلہ خلفا ء آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیلِ سلسلہ موسیٰ علیہ السلام قرار پایا جیسا کہ نص صریح اس پر دلالت کرتی ہے.پس واجب ہوا کہ سلسلہ محمد یہ ایک ایسے خلیفہ پر ختم ہو کہ وہ مثیلِ عیسی علیہ السلام ہو وے جیسا کہ سلسلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت عیسی علیہ السلام پر ختم ہوا تا کہ یہ دونوں سلسلے با ہم مطابق ہو جائیں اور تا کہ وعدہ مماثلت اِس سلسلہ کے خلیفوں کا اور اُس سلسلہ کے خلیفوں کا پورا ہو جائے جیسا کہ امر مماثلت گما کے لفظ سے ظاہر ہے جو آیت میں موجود ہے.3 66 پھر آپ فرماتے ہیں : اور پھر ماسوا اس کے سورۃ مرسلات میں ایک آیت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرب قیامت کی ایک بھاری علامت یہ ہے کہ ایسا شخص پیدا ہو جس سے رسولوں کی حد بست ہو جائے (یہاں آپ نے فرمایا ہے کہ یہاں رسولوں سے مُراد اس سلسلہ کے خلفاء ہیں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں جو مجد داعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفہ گولڑو یہ طبع اول صفحه ۵۶-۵۷ روحانی خزائن جلد۷ اصفحه ۱۸۳ تحفہ گولڑو یہ طبع اوّل صفحه ۲۳ روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۱۲۳ تا ۱۲۴ ا ترجمه خطبہ الہامیہ طبع اول صفحه ۵۱-۲ ۵ روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۹۱-۹۲

Page 123

سبیل الرشاد جلد دوم بعد تیرہ ہیں جن میں سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور جن کے آخر میں اور چودھویں اور آخری اور چودہ کے عدد کو پورا کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.آپ فرماتے ہیں.) یعنے سلسلہ استخلاف محمد یہ کا آخری خلیفہ جس کا نام مسیح موعود اور مہدی معہود ہے ظاہر ہو جائے اور وہ آیت یہ ہے وَإِذَا الرُّسُلُ أُقتَتُ یعنے وہ آخری زمانہ جس سے رسولوں کے عدد کی تعیین ہو جائے گی یعنی آخری خلیفہ کے ظہور سے قضاء وقدر کا اندازہ جو مرسلین کی تعداد کی نسبت مخفی تھا ظہور میں آ جائے گا.......اور اس جگہ خلفائے سلسلہ محمدیہ کی تعیین مطلوب ہے.گویا یوں فرماتا ہے وَإِذَا الْخُلَفَاءُ بُيّنَ تَعْدَادُهُمْ وَحُدِدِ عَدَدُهُمُ بخَلِيفَةٍ هُوَاخِرًا لُخُلَفَاءِ الَّذِي هُوَ الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ فَإِنَّ اخِرَ كُلِّ شَيْيٍّ يُعَيِّنُ مِقْدَارَ ذَالِكَ الشَّيْيُّ وَتَعْدَادَهُ فَهَذَا هُوَ الْمَعْنَى وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتُ - پھر آپ فرماتے ہیں کہ : لَا وَلِيَّ بَعْدِى إِلَّا الَّذِي هُوَ مِنِّي وَعَلَى عَهْدِى 104 میرے بعد کوئی ایسا ولی اور مقرب اور مجدد دین اور خلیفہ پیدا نہیں ہو گا جو مجھے چھوڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض حاصل کر سکے اور مجھ سے علیحدہ بھی رہے اور مقام قرب اور مقام مجد دیت حاصل کر سکے کیونکہ میں عین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدہ کے مطابق امت محمدیہ کے آخری خلیفہ کی حیثیت سے آیا ہوں.ہم جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے مجد دین کی تاریخ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ایک خصوصیت نمایاں طور پر سب میں موجود ہے جو یہ ہے کہ کسی مجد دنے کسی پہلے مجدد سے اس رنگ میں فیض حاصل نہیں کیا کہ اس نے دعوی کیا ہو کہ فلاں مجدد کے فیض اور برکت سے میں نے اس مقام اطاعت رسول اور فنا فی الرسول کو حاصل کیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ایسا ارفع اور اعلیٰ ہے کہ آپ کے فیض سے کوئی باہر نہیں رہ تحفہ گولڑ و یه صفحه ۹۱ روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۴ ۲۴ - ۲۴۵ خطبہ الہامیہ طبع اول صفحه ۳۵ روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۷۰

Page 124

.105 سبیل الرشاد جلد دوم سکتا.جو شخص کسی قسم کی رُوحانی برتری کو حاصل کرے گا یا کسی روحانی مقام یا قرب کے مقام کو پائے گا یا اللہ تعالیٰ کی رضاء اور اس کی محبت کو حاصل کرے گا اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پختہ تعلق قائم کرے.اس واسطے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخص کے متعلق بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض حاصل کئے بغیر کسی رُوحانی مقام کو حاصل کیا.اس کے بغیر نہ وہ صالح بن سکتا ہے، نہ صدیق بن سکتا ہے ، نہ وہ شہید بن سکتا ہے ، اور نہ ولی بن سکتا ہے، نہ وہ ائمہ کا درجہ حاصل کر سکتا ہے ، نہ وہ علماء ربانی کا مقام پاسکتا ہے.کسی قسم کا روحانی درجہ حاصل نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جو بارہ خلفاء ہوئے ان میں سے کسی نے اپنے سے پہلے خلیفہ یا مجد د سے فیض حاصل کر کے یہ مقام قرب حاصل نہیں کیا ، نہ کسی پہلے مجدد کے طفیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پائی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض پہلے مجد دین سے علمی لحاظ سے جو بعض غلطیاں ہو گئی تھیں بعد میں آنے والے مجد دنے اس غلطی کی نشان دہی کی اور اسے دُور کیا.آپ کو ایسی بہت سی مثالیں ملیں گی.تو جس مجدد کی علمی غلطی کو کوئی دوسرا مجد د دُور کر رہا ہے اس سے کامل تعلق اطاعت تو اس کا نہیں ہو سکتا اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے فلاں پہلے مجد د سے کامل تعلق پکڑا اور پھر محبت رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم اور مقام مجددیت کو حاصل کیا.اس رنگ میں وہ مختلف تھے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چونکہ فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول کا ایک کامل اور حقیقی اور سچا تعلق عطا ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف سے.یعنی ایک طرف اللہ میں کامل فنائیت اور دوسری طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کامل فناء - یعنی آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کامل متبع ، کامل فرماں بردار اور کامل امتی تھے.اس لئے خدا تعالیٰ نے یہ انتظام کیا کہ وہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا روحانی دریا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اس دُنیا میں تمام بنی نوع انسان کو روحانی طور پر سیراب کرنے کے لئے جاری کیا گیا تھا اس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خادم رسول کی حیثیت سے دُنیا میں پوری اشاعت کی غرض سے مختلف نہروں میں ڈال دیا.یہ روحانی آب حیات محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی کا ہے ،صرف اس کا جو برتن ہے وہ بدلا ہے.دیکھو نہر کا اپنا تو کوئی پانی نہیں ہوتا.دریا کا ہی پانی ہے جو اس کا سر چشمہ ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا کوئی پانی نہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وہ سارا پانی ہے.تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ٹھاٹھیں مارتا ہوا دریا اب بھی جاری ہے مختلف نہروں کی شکل میں.کیونکہ یہ مقد رتھا کہ اس آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ اشاعت اسلام کے ایسے سامان پیدا کرے

Page 125

سبیل الرشاد جلد دوم 106 گا کہ ساری دُنیا میں قرآنِ کریم کے حقائق اور معرفت کی باتیں اور تاثیرات قدسیہ پھیل جائیں اور ہر قوم اور ہر ملک اور ہر نسل کو اللہ تعالیٰ کا یہ روحانی پانی ( جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے بھیجا گیا ) یہ آب زلال محمد سیراب کرے.اس کے لئے ضروری تھا کہ مختلف نہروں میں اس کو ڈالا جاتا.اب وہ پانی ان نہروں میں ڈال دیا گیا ہے.یہ انتظام بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی ماتحت آپ کے ایک عظیم روحانی فرزند کے ذریعہ کیا گیا ہے کیونکہ مغایرت کوئی نہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بعد اب اس قسم کا کوئی ولی نہیں پیدا ہو گا جس قسم کے مجھ سے پہلے پیدا ہوتے رہے ہیں اور وہی ولی اور مجد دبن سکے گا جو اپنے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اللہ کا عشق اس نمونہ کے مطابق پیدا کرے گا جو میں اس کے سامنے رکھتا ہوں.اور جو اُن انوار قرآنی اور فیوض و برکات محمد سے حصہ لے گا جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے میرے ذریعہ سے روشن کئے اور جاری کئے ہیں.مجھ سے پرے اور ڈور رہ کر اور مجھ سے پختہ تعلق قائم کئے بغیر کوئی شخص بھی مقام ولایت نہیں پا سکتا.پس نئی صدی کے سر پر پہلے مجددین کی طرح کسی نئے مجدد کی آمد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پہلے مجد داور نوعیت کے آتے رہے ہیں.آنے والے ، امام مہدی کے ظل ہوں گے.آپ نے یہ بھی فرمایا ہے اور اسے اچھی طرح کان کھول کرسُن لو کہ چودھویں صدی کا بھی میں ہی مجد دہوں اور پندرھویں صدی کا بھی میں ہی مسجد دہوں اور سولہویں صدی کا بھی میں ہی مجد دہوں اور سترھویں اور اٹھارویں اور اُنیسویں اور بیسویں صدیوں کا بھی میں ہی مسجد دہوں کیونکہ میں صرف صدی کا ہی مجد د نہیں بلکہ اس آخری ہزار سال کا میں ہی مجد د ہوں.پس نئی صدی کے سر پر نئے مجد د کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.آپ اگر صرف صدی کے سر کے مجد د ہوتے تو بعض لوگ یہ سوال کر سکتے تھے کہ جو صدی آ رہی ہے اس کے سر پر کون مجد د ہو گا.پس جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گویا یوں فرمایا ہے کہ نئی صدی آ رہی ہے اور حسب فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نئی صدی کے سر پر ایک مجدد بھی ہو گا لیکن وہ کوئی اور نہیں ہوگا وہ میں ہی ہوں گا.آپ لیکچر سیالکوٹ میں فرماتے ہیں : پھر ہزار پنجم کا دور آیا جو ہدایت کا دور تھا.یہ وہ ہزار ہے جس میں

Page 126

107 سبیل الرشاد جلد دوم ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور خُدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر تو حید کو دوبارہ دنیا میں قائم کیا...ساتواں ہزار ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام الزمان اس کے سر پر پیدا ہوا اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظن کے ہو کیونکہ اس ہزار میں آب دُنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے مسیح موعود کہلاتا ہے.وہ مجد دصدی بھی ہے اور مجد دالف آخر بھی.“ پس اس آخری ہزار کے سر پر امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیدا ہوئے اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظل کے ہو، چونکہ اس ہزار میں دُنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے.آپ نے کہا کہ یہ صرف میرا دعوی نہیں ، ہر نبی اس بات پر شہادت دیتا ہے اور یہ امام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجد دصدی بھی ہے اور مجدد الف آخر بھی.پورے ہزار سال کا مجد د ہے.اس واسطے کوئی شخص یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ پندرھویں صدی کے سر پر مجد دنہیں ہوگا یا سولہویں صدی کے سر پر کوئی مجد دنہیں ہو گا لیکن جو شخص یہ کہتا ہے کہ پندرھویں، سولہویں ، سترھویں یا اٹھارھویں صدی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور مجد د ہوگا وہ غلط کہتا ہے اور حضرت مسیح موعود کو جھٹلاتا ہے.وہ آپ کی جماعت کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا.اب یہ ایک سلسلہ مجد دین ہے جس کے متعلق آیت استخلاف میں گما کا لفظ اشارہ کر رہا ہے.جن چودہ خلفاء کی تحدید اور تعیین اُمتِ موسویہ میں کی گئی تھی جن کے سر پر حضرت موسیٰ“ تھے اور جن کے بعد آپ کے تیرہ خلفاء - اس مشابہت کے نتیجہ میں ایک سلسلہ چودہ خلفاء کا پیدا ہونا ضروری تھا جس کے سر پر ہمارے افضل الرسل ، خاتم النبيين محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور جس کے آخر میں مسیح موعود علیہ السلام ہیں.اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر یہ سلسلہ مجد دین ( جس کا مذکورہ حدیث میں ذکر ہے ) جس کی تعداد چودہ تھی اور جس سلسلہ کے مجد داعظم اور آخری خلیفہ کے درمیان بارہ خلفاء تھے وہ سلسلۂ خلافت تو ختم ہو گیا.اس وجہ سے بھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صرف ایک صدی کے مجد د کی حیثیت میں نہیں بلکہ دنیا کی زندگی کے آخری ایک ہزار سال کے مجد د ہونے کی حیثیت میں مبعوث ہوئے.اس سلسلہ میں آنے والی ہر صدی کے سر پر سوائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کوئی مجد د پیدا نہیں ہو گا.آپ ہی لیکچر سیالکوٹ صفحه ۶ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۰۸

Page 127

سبیل الرشاد جلد دوم مجد دہوں گے.لیکن یہ گما“ کی ایک تشریح ہے.گما کی ایک دوسری تفسیر کے مطابق خلافتِ راشدہ کی ایک دوسری شاخ 108 کا وعدہ دیا گیا ہے.دراصل چودہ کا یہ سلسلہ خلفاء ومجد دین اور خلافتِ راشدہ ایک ہی سلسلۂ خلافت ہے جو آگے دو حصوں میں تقسیم ہو گیا.خلافتِ راشدہ کی ایک شاخ تو چودہ مجد دین کی ہے (بشمولیت مجد داعظم صلی اللہ علیہ وسلم ) - اور خلافت راشدہ کی دوسری شاخ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے آنے والے خلفاء راشدین ومجددین اور آپ کے بعد آنے والے خلفاء راشدین و مجددین ( جو آپ کے ظل کے طور پر مبعوث ہوں گے ) پر مشتمل ہے.پس خلافتِ راشدہ دوحصوں میں منقسم ہوگئی ایک وہ خلفاء اور مجددین جو چودہ مجددین کی شاخ میں منسلک ہوئے کیونکہ سارے خلافتِ راشدہ کا حصہ ہیں اور ایک وہ خلفاء راشدین جو اس سلسلہ میں منسلک نہیں ہوئے اور اس سے باہر رہے لیکن ہیں وہ بھی خلفاء راشدین.جیسے مثلاً حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علی رضوان اللہ علیہم یا مثلاً وہ قدرت ثانیہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہزار سالہ مجددیت کے زمانہ میں ظاہر ہونی تھی.تو یہ ایک دوسری شاخ خلافتِ راشدہ کی ہے جو چلی آرہی تھی.اور چلی جا رہی ہے.پس گما“ کے لفظ میں جس خلافت کا وعدہ دیا گیا ہے اس کا پہلا سلسلہ (جیسا کہ میں نے بتایا ہے ) دوشاخوں میں منقسم ہو جاتا ہے.ایک وہ سلسلہ جو چودہ پر مشتمل ہے جس کے پہلے امت محمدیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مجد داعظم کی حیثیت سے ، اور جس کے آخر میں مسیح موعود علیہ السلام ہیں.فانی فی محمد کی حیثیت میں.دراصل آپ کے رتبہ اور مقام کا انحصار ہی اس فنافی محمد پر ہے.لوگ سمجھتے نہیں اور خواہ مخواہ اعتراض پیدا ہو جاتا ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کامل طور پر فنا ہو کر آپ ہی کا نام محمد اور احمد نہ پاتے تو آپ کو یہ مقام حاصل نہ ہوتا کہ اگلے ہزار سال کی مجد دیت آپ کو دے دی جاتی.یہ سب فیض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.جھوٹا ہے وہ شخص جو یہ کہے کہ میں نے آپ کے فیض سے باہر خُدا کی محبت اور فیوض کو پایا اور وہ بھی سچ نہیں کہتا جو ہماری طرف اس بات کو منسوب کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ان پر بھی رحم کرے.ہم اس کامل یقین پر قائم ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض پہلے بھی جاری تھے ( آپ کی بعثت سے بھی ) اور آپ کی بعثت کے بعد بھی جاری رہے اور رہیں گے قیامت تک.

Page 128

109 سبیل الرشاد جلد دوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد بھی خلافت راشدہ کا سلسلہ جاری رہے گا جیسا کہ آپ نے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے.آپ فرماتے ہیں: د غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے.(اللہ تعالیٰ ) (۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے.(۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کرتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی.اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں.اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نابود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَةِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا یعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پیر جما دیں گے (یعنی آیت استخلاف کے وعدہ کو پورا کیا اور آیت استخلاف میں انجمن کا وعدہ نہیں ہے خلافت کا وعدہ ہے سوائے عزیز و! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالی دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلا دے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے (آب دیکھو نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت میں ” قدیم سے سنت اللہ کے مطابق کسی انجمن کو خلیفہ اور جانشین بنایا گیا نہ کسی اور نبی کی جماعت میں یہ قدیم سے سنت اللہ ہمیں نظر آتی ہے ) اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پر یشان

Page 129

سبیل الرشاد جلد دوم نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.110 پس پہلے سلسلۂ خلافت کی دو شاخوں کا میں نے اس وقت ذکر کیا ہے ایک پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور ایک کی طرف اختصار سے اشارہ کیا ہے یعنی (۱) چودہ خلفاء کا وہ سلسلہ جس کے سر پر بطور سردار اعظم اور افضل الرسل مجد داعظم کی حیثیت سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور جس کے آخر میں مسیح موعود علیہ السلام جس کا اپنا وجود ہی کوئی نہیں.اس لئے ہم لوگوں کو سمجھانے کے لئے بعض دفعہ عظیم روحانی فرزند بھی کہہ دیتے ہیں ، موعود مسیح اور معہود و مہدی بھی کہہ دیتے ہیں.لیکن سچی بات یہ ہے کہ انسان کی زبان میں وہ لفظ ابھی نہیں بنا کہ ہم اس مقام کو بیان کر سکیں جس فنافی محمد کے مقام کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پایا اور کامل فتا اپنے وجود پر طاری کی آپ کا اپنا وجود ہی باقی نہ رہا سارا وجود سارے اخلاق سارے جذبات اور ساری قوتیں اور استعدادمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہوگئیں تمثیلی زبان میں آپ ہی دنیا میں دوبارہ نازل ہوئے بروز کے رنگ میں.یہ تمثیلی زبان ہے کسی کو اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ تمثیلی زبان کا رواج ساری دُنیا میں پایا جاتا ہے اور اسی لئے پایا جاتا ہے کہ بعض باتوں کی حقیقت کے اظہار کے لئے الفاظ نہیں ملتے اس لئے مثال دے دی جاتی ہے.دوسرے خلافت راشدہ کی وہ دوسری شاخ ہے جو ان بارہ سے مختلف ہے.یعنی خلفاء راشدین میں سے بعض پہلی شاخ کا حصہ بن گئے اور چودہ میں شامل ہو گئے اور بعض ایسے ہیں جو ان چودہ خلفاء کے سلسلہ میں شامل نہیں اور خلافت راشدہ کی دوسری شاخ ہم انہیں کہیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے بعد آپ کے نظل کے طور پر آنے والے خلفاء اسی سلسلہ کی کڑی ہیں.پس خلافت راشدہ تو قائم ہے حسب وعدہ آیت استخلاف ، مگر خلافت راشدہ کا یہ ایک دوسر ا سلسلہ اور دوسری شاخ ہے.کچھ کڑیاں پروئی گئیں کچھ آئندہ پروئی جائیں گی.جب تک خدا چاہے گا یہ سلسلہ اپنی کڑیوں کے لحاظ سے بڑھتا چلا جائے گا.پھر آیت استخلاف میں خلافت کے ایک دوسرے سلسلہ کا وعدہ بھی دیا گیا ہے جو پہلی دوشاخوں سے مختلف ہے.ہے تو یہ خلافت حلقہ ہی لیکن ہم نے ایک اصطلاح بنائی تھی اس لئے اس کو ہم خلافتِ راشدہ نہیں کہتے گور شد سے وہ بھی بھری ہوئی ہے ہم اسے خلافت ائمہ کہیں گے اور خلافت کا یہ الوصیت صفحہ ۶ - ے روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۴ - ۳۰۵

Page 130

111 سبیل الرشاد جلد دوم سلسلہ جو ہے اس کی رُو سے امت محمدیہ میں سینکڑوں ہزاروں بلکہ لاکھوں خلفاء پیدا ہوئے جیسا کہ اُمّتِ موسویہ میں سینکڑوں ہزاروں خلفاء پیدا ہوئے ، کچھ انبیاء کے نام سے اور کچھ ربانی علماء کے نام سے آئے.پس گما“ جو آیت استخلاف میں ہے یہ گما“ ہم سے ایک دوسرا وعدہ بھی کرتا ہے اور وہ یہ کہ جس طرح اُمتِ موسویہ میں اللہ تعالیٰ کے ہزاروں نیک بندے خلیفہ کی حیثیت میں یعنی نائب رسول کی حیثیت میں رسول ہی کا کام کرنے والے پیدا ہوئے اسی طرح اُمت محمدیہ میں سینکڑوں ہزاروں ایسے خدا کے بزرگ بندے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پانے والے پیدا ہوں گے جو اسلام کے چہرہ کو روشن رکھیں گے اور جیسا کہ ایک ایک وقت میں اُمتِ موسویہ میں چار چار سو نائب اور خلیفہ بھی پیدا ہوئے اس کے مقابلہ میں چونکہ امت محمدیہ کا دائرہ وسیع ہے، ہو سکتا ہے کہ امت موسویہ کے چارسو کے مقابلہ میں ایک ہی وقت میں چار ہزار بزرگ پیدا ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام کی حیثیت میں اور آپ کی نیابت میں آپ کا کام کریں.اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ظاہر ہوگی.پس یہ بھی گما کے لفظ میں ایک وعدہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر بھی بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند حوالے میں اکٹھے پڑھ دوں گا.آپ بھی اس پر غور کریں میں بھی بعد میں مختصر طور پر نتیجہ نکالوں گا.آپ فرماتے ہیں: و جس حالت میں خدا تعالیٰ شریعت موسوی کی تجدید ہزار ہا نبیوں کے ذریعہ سے کرتا رہا ہے اور گو وہ صاحب کتاب نہ تھے مگر مجد دشریعت موسوی تھے یہ امت خیر الامم ہے قَالَ اللهُ تَعَالَى - كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس امت کو خداتعالی بالکل گوشتہ خاطر عاطر سے فراموش کر دے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ وعدہ دے چکا ہے کہ اس دُنیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفے پیدا کرے گا.آیت استخلاف میں یہ وعدہ دیا قیامت تک اس کو قائم کرے گا یعنی جس طرح موسیٰ کے دین میں مدت ہائے دراز تک خلیفے اور بادشاہ بھیجتا رہا ایسا ہی اس جگہ بھی کرے گا اور اس کو معدوم نہیں ہونے دے گا.فرمایا : پس یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے دائمی خلیفوں کا وعدہ دیا تا وہ ظلمی طور سورة آل عمران آیت -111 مکتوبات حضرت مسیح موعود بنام حاجی محمد ولی اللہ صاحب ۳۰ / دسمبر ۱۸۸۴ء مشموله مکتوبات احمد جلد ششم حصہ اوّل صفحه ۱۰

Page 131

112 سبیل الرشاد جلد دوم پر انوار نبوت پا کر دُنیا کو ملزم کریں اور قرآن کریم کی خوبیاں اور اس کی برکات لوگوں کو دکھلاویں.یہ بھی یادر ہے کہ ہر ایک زمانہ کے لئے اتمام حجت بھی مختلف رنگوں سے ہوا کرتا ہے اور مجد دوقت ان قوتوں اور ملکوں اور کمالات کے ساتھ آتا ہے جو موجودہ مفاسد کا اصلاح پانا ان کمالات پر موقوف ہوتا ہے.اگر صرف.بنی اسرائیل کے نبیوں اور مرسلوں اور محدثوں پر ہی نظر ڈالی جائے تو ان کی کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ چودہ سو برس کے عرصہ میں یعنی حضرت موسی سے حضرت مسیح تک ہزار ہا نبی اور محدث اُن میں پیدا ہوئے جو خادموں کی طرح کمر بستہ ہو کر تو ریت کی خدمت میں مصروف رہے...آپ کوئی سوچنے والا سوچے کہ جس حالت میں موسی کی ایک محدود شریعت کے لئے جو زمین کی تمام قوموں کے لئے نہیں تھی اور نہ قیامت تک اس کا دامن پھیلا ہوا تھا خدا تعالیٰ نے یہ احتیاطیں کیں کہ ہزار ہانبی اس شریعت کی تجدید کے لئے بھیجے اور بار ہا آنے والے نبیوں نے ایسے نشان دکھلائے کہ گویا بنی اسرائیل نے نئے سرے سے خدا کو دیکھ لیا تو پھر یہ اُمت جو خیر الامم کہلاتی ہے اور خیر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے لٹک رہی ہے کیونکر ایسی بد قسمت سمجھی جائے کہ خدا تعالیٰ نے صرف تمیں برس اس کی طرف نظر رحمت کر کے اور آسمانی انوار دکھلا کر پھر اس سے منہ پھیر لیا کیا اُس کریم خدا سے ایسا ہو سکتا ہے جس نے اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ کے مفاسد دُور کرنے کے لئے بھیجا تھا.ہم یہ گمان کر سکتے ہیں کہ پہلی امتوں پر تو خدا تعالیٰ کا رحم تھا اس لئے اُس نے توریت کو بھیج کر پھر ہزار ہا رسول اور محدث توریت کی تائید کے لئے اور دلوں کو بار بار زندہ کرنے کے لئے بھیجے لیکن یہ امت مور دغضب تھی اس لئے اس نے قرآن کریم کو نازل کر کے ان سب باتوں کو بھلا دیا اور ہمیشہ کے لئے علماء کو ان کی عقل اور اجتہاد پر چھوڑ دیا.لیکن دین اسلام کے طالبوں کے لئے وہ انتظام نہ کیا.گویا جو رحمت اور عنایت باری حضرت موسی کی قوم پر تھی وہ اس امت پر نہیں ہے.انسان نہایت ضعیف اور ہمیشہ تقویت ایمان کا محتاج ہے اور اس راہ میں اپنے خود ساختہ دلائل کبھی کام نہیں آ سکتے جب تک تازہ طور پر معلوم نہ ہو کہ خدا موجود ہے.ہاں جھوٹا ایمان جو بدکاریوں کو روک نہیں سکتا نقلی اور عقلی طور پر قائم

Page 132

113 سبیل الرشاد جلد دوم رہ سکتا ہے.اور اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ دین کی تکمیل اس بات کو مستلزم نہیں جو اس کی مناسب حفاظت سے بکنی دستبردار ہو جائے...یہ یادر ہے کہ مجد دلوگ دین میں کچھ کمی بیشتی نہیں کرتے ہاں گمشدہ دین کو پھر دلوں میں قائم کرتے ہیں اور یہ کہنا کہ مجد دوں پر ایمان لا نا کچھ فرض نہیں خدا تعالیٰ کے حکم سے انحراف ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَالِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (سورة النور: 56) یعنی بعد اس کے جو خلیفے بھیجے جائیں پھر جو شخص اس کا منکر رہے وہ فاسقوں میں سے ہے.اب خلاصہ اس تمام تقریر کا کسی قدر اختصار کے ساتھ ہم ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ دلائل مندرجہ ذیل سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بات نہایت ضروری ہے کہ بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس اُمت میں فساد اور فتنوں کے وقتوں میں ایسے مصلح آتے رہیں جن کو انبیاء کے کئی کاموں میں سے یہ ایک کام سپر د ہو کہ وہ دینِ حق کی طرف دعوت کریں اور ہر یک بدعت جو دین سے مل گئی ہو.اس کو دُور کریں اور آسمانی روشنی پاکر دین کی صداقت ہر ایک پہلو سے لوگوں کو دکھلا دیں اور اپنے پاک نمونہ سے لوگوں کو سچائی اور محبت اور پاکیزگی کی طرف کھینچیں.دلائل مذکورہ دینے کے بعد آپ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس اُمت کے لئے خلافت دائمی کا صاف وعدہ فرماتا ہے.اگر خلافت دائمی نہیں تھی تو شریعت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہہ دینا کیا معنی رکھتا تھا.چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف واولی ہیں ، ظلی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ ر ہے.......اور پھر یہ آیت خلافت ائمہ پر گواہ ناطق ہے وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ انَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصُّلِحُونَ کیونکہ یہ آیت صاف صاف پکار رہی ہے کہ اسلامی خلافت دائمی ہے اس لئے کہ يَرِثُهَا کا لفظ دوام کو چاہتا ہے.وجہ یہ ہے کہ اگر آخری نوبت فاسقوں کی ہو تو زمین کے وارث وہی قرار پائیں گے نہ کہ صالح.اور سب کا شہادت القرآن طبع اوّل صفحه ۳۰ - ۳۱ روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۴۲ تا ۳۴۵ سورۃ الانبیاء آیت ۱۰۶ 2

Page 133

سبیل الرشاد جلد دوم وارث وہی ہوتا ہے جوسب کے بعد ہو.پھر اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ نے ایک مثال کے طور پر سمجھا دیا تھا کہ میں اسی طور پر اِس اُمت میں خلیفے پیدا کرتا رہوں گا جیسے موسی کے بعد خلیفے پیدا کئے تو دیکھنا چاہیئے تھا کہ موسی کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا.تو پھر کیونکر ہو سکتا تھا کہ حضرت موسی کے خلیفوں کا چودہ سو برس تک سلسلہ ممتد ہو اور اس جگہ صرف تمہیں برس تک خلافت کا خاتمہ ہو جاوے.“ اور دوسری جگہ آپ نے فرمایا ہے کہ.114 اُمّتِ موسویہ میں ہزار ہا خلفاء اس سلسلہ میں پیدا ہوئے ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی بھی ہوتا تھا جو تجدید دین کے لئے آتا تھا مثلاً جب موسی علیہ السلام کی اُمت پھیل گئی تو اس زمانہ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا یا ان کی تربیت کرنا بڑا مشکل تھا.تو جب بنی اسرائیل مختلف علاقوں میں پھیل گئے اور مختلف قبائل اور گروہوں میں تقسیم ہو گئے تو ان کو خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ اور بشارت کے مطابق سنوارنا تھا.ایسی حالت میں چار چار سونبی کی بھی ضرورت پیدا ہوئی.جتنے کی ضرورت تھی اور جس رنگ میں ضرورت تھی خدا نے جو وعدہ کیا تھا وہ اُس نے پورا کیا کیونکہ وہ سچے وعدوں والا ہے.آپ فرماتے ہیں:.برائے خدا سوچو کہ اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ ہمیشہ قیامت تک تم میں روحانی زندگی اور باطنی بینائی رہے گی اور غیر مذہب والے تم سے روشنی حاصل کریں گے اور یہ روحانی زندگی اور باطنی بینائی جو غیر مذہب والوں کو حق کی دعوت کرنے کے لئے اپنے اندر لیاقت رکھتی ہے یہی وہ چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں خلافت کہتے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ محضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا سلسلہ جاری ہے مگر آپ میں سے ہو کر اور آپ کی مُہر سے.اور فیضان کا سلسلہ جاری ہے کہ ہزاروں اس اُمت میں سے مکالمات اور مخاطبات کے شرف سے مشرف ہوئے اور انبیاء کے خصائص ان میں موجود ہوتے رہے ہیں.سینکڑوں بڑے بڑے بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۲ تا ۳۵۵ شہادت القرآن طبع اوّل صفحه ۳۷ - ۳۸، روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۵

Page 134

سبیل الرشاد جلد دوم 115 ایسے دعوے کئے.چنانچہ حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہی کی ایک کتاب فتوح الغیب ہی کو دیکھ لو.“ پھر آپ نے تحفہ گولڑویہ میں یہ فقرہ بھی لکھا ہے جسے پڑھ کر بڑی لذت آتی ہے.وہاں بحث یہ ہے جہاں سے میں نے یہ فقرہ لیا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی کہ پہلی تین صدیاں انتہائی بزرگی ، تقدس اور تقرب الہی پانے والوں کی ہوں گی اور اسلام اپنی روحانیت کے کمال کو پہنچا ہوا ہوگا لیکن پھر اس کے بعد ایک تنزل کا دور آئے گا جو ہزار سالہ دور ہے اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصطلاح میں اس دور کو نیج اعوج کا زمانہ کہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں اس غیرت کی وجہ سے جو اسلام کے لئے آپ کو تھی اور اس شدید محبت کی وجہ سے جو آپ کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھی یہ خیال پیدا ہوا کہ معترض یہ اعتراض کرے گا کہ پہلی تین صدیوں کے بعد پھر اندھیرا چھا گیا یہ کیا ہوا ، اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض آتا ہے تو آپ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ.گو دوسرے فرقوں کی نسبت درمیانی زمانہ کے صلحائے امت محمد یہ بھی با وجود طوفانِ بدعات کے ایک دریائے عظیم کی طرح ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا ہے کہ آیت استخلاف میں ”گما“ کے لفظ کے ساتھ ایک اور سلسلہ خلافت کا وعدہ بھی کیا گیا ہے اور یہ دوسرا سلسلۂ خلافت ہے کیونکہ پہلے دو سلسلہ ہائے خلافت در اصل ایک ہی سلسلہ کی دوشاخیں ہیں ان کو میں نے خلافت راشدہ کا نام دیا ہے یہی نام میرے خیال میں زیادہ مناسب ہے.تو ایک تو خلافت کا وہ سلسلہ ہے جو دو شاخوں پر مشتمل ہے اور جسے میں خلافتِ راشدہ کا نام دیتا ہوں.ایک دوسری خلافت کا وعدہ ہے جو خلافت ائمہ ہے.اس کا وعدہ بھی گما کے لفظ میں ہے کہ جس طرح حضرت موسی علیہ السلام کی اُمت سے یہ وعدہ کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کو اس رنگ میں پورا کیا کہ حضرت موسی کی اُمت کو اپنے مذہب اور ہدایت اور تورات سے دُور جانے سے بچانے کے لئے حسب ضرورت ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی پیدا کئے اسی طرح اُمتِ محمدیہ سے یہ وعدہ ہے کہ وہ اُمت محمدیہ میں قرآن کریم کے انوار کی شمع کو روشن رکھنے کے لئے ہر زمانہ میں ، ہر ملک میں ، ہر قریہ اور شہر میں ایسے لوگ پیدا کرتا اخبار الحکم ۷ ارا پریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۸ کالم ۳، ملفوظات جلد سوم صفحہ ۲۴۹ تحفہ گولڑو یہ طبع اول صفحہ ۸۱ روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۲۲۶

Page 135

116 سبیل الرشاد جلد دوم رہے گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء اور اس دوسرے سلسلہ خلافت کی کڑیاں ہوں گے.وہ دنیا کو صحیح قرآنی تفسیر کی طرف بلانے والے ہوں گے اور اسلام کے چہرہ کو روشن رکھنے والے ہوں گے اور یہ وہ نجوم ہیں جن کا وعدہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو دیا ہے اور ان کی کثرت بھی اُن نجوم کی کثرت کی طرح ہی ہے جو آسمان پر ہمیں چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں.پس اس سلسلہ خلافت میں دو یا چار یا بارہ کا سوال نہیں ، ہزاروں لاکھوں ہیں جو امت محمد یہ میں پیدا ہوں گے اور اسلام کے چہرہ کو روشن رکھیں گے اور ان کی مثال نجوم کی مثال ہے اور ان کی تعداد کی کوئی حد بست نہیں.خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنے پیدا ہو گئے اور کتنے پیدا ہوں گے.جیسا کہ اُمّتِ موسویہ میں ہزار ہا اس قسم کے خلفاء پیدا ہوئے.اسی طرح امت محمدیہ میں ہزار ہا بلکہ لکھوکھا، شاید کروڑ ہا اس قسم کے خلفاء پیدا ہوں کیونکہ امت محمدیہ اپنی وسعت مکانی اور وسعت زمانی میں اُمتِ موسویہ سے بہت بڑھ کر ہے.ایک سوال رہ جاتا ہے کہ اس دوسری قسم کے خلفاء کا رشتہ اور تعلق پہلی قسم کے خلفاء سے کیا ہے کیونکہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر ایک ہی وقت میں یہ خلفاء پیدا ہو گئے تو کہیں انار کی تو نہیں ہو جائے گی.یعنی ہر ایک اپنی چلائے تو اس کے متعلق اسلام نے ہمیں یہ بتلایا ہے کہ پہلا سلسلہ تو وہ ہے کہ جس سلسلہ کا خلیفہ اپنے وقت کے تمام خلفاء کا سردار ہوتا ہے اور وہ اس کے اجزاء ہوتے ہیں.یہ کہنا کہ حضرت ابو بکر کے زمانہ خلافت میں حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ، حضرت علی اور دوسرے بزرگ صحابہ میں رشد و ہدایت نہیں تھی غلط ہے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں وہ تمام بزرگ صحابہ جن میں سے بعض کو بعد میں خلافت ملی گوا کثر کو نہیں ملی اس دوسرے وعدہ کے مطابق جس کا میں نے اب آخر میں ذکر کیا ہے اُمتِ محمد یہ کے خلفاء کے زمرہ میں ہی تھے.وہ مصلح اور ائمہ تھے مگر وہ شریعت کے استحکام اور اشاعتِ قرآن کی مہم میں خلیفہ وقت کی مدد کر نے والے تھے اور خلافت کے ماتحت تھے.اگر خلافتِ راشدہ سے اپنا تعلق قطع کر لیتے تو وہ خدا کی نگاہ میں خدا سے دُور ہو جاتے اور تمام برکتیں اُن سے چھین لی جاتیں جیسا کہ ان لوگوں سے برکتیں چھین لی گئیں جنہوں نے ظاہری طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے تعلق کا اظہار کیا لیکن حضرت ابوبکر سے علیحدہ ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی بات نہیں مانتے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانتے تھے ہم.آپ ہم میں نہیں رہے تو ہم آزاد ہو گئے.بعض ایسا کہنے والے بھی تھے.لیکن ساری برکتیں ان سے چھین لی گئیں.آج ان کے ناموں سے بھی آپ واقف نہیں.لیکن اس دوسرے سلسلہ کے خلفاء أمّت صلحاء امت ، ائمہ اُمت ، خلافتِ راشدہ کے ماتحت ہوتے ہیں.اگر اس سے اپنا رشتہ قطع کر لیں تو

Page 136

سبیل الرشاد جلد دوم 117 بلعم باعور بن جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کا ان سے تعلق قطع ہو جاتا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے آ جاتے ہیں.لیکن جب تک ان کا رشتہ قائم رہتا ہے خلافت راشدہ کا خلیفہ ان تمام کا سردار ہوتا ہے اور بڑا خوش قسمت ہے وہ خلیفہ وقت جس کے ماتحت دوسروں کی نسبت زیادہ اس دوسرے سلسلہ کے خلفاء وائمہ موجود ہوں کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی طاقت دی ہے، ایسے ہتھیار دیئے ہیں جو بعض دوسروں کو نہیں دیئے.اسی لئے ایک موقع پر حضرت علیؓ کو یہ کہنا پڑا جس وقت کسی نے اعتراض کیا تو آپ نے کہا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خدا نے میرے جیسے انسان دیئے تھے اور مجھے تمہارے جیسے انسان دیئے ہیں.تو یہ سلسلۂ خلافت تو ہزاروں خلفاء پر مشتمل ہے لیکن جب تک خلافت راشدہ کسی شکل میں رہے یا رہی یہ ہزاروں خلفاء، خلیفہ راشد کے ماتحت ہوں گے پہلے سلسلۂ خلافت کی ایک شاخ تو جو بعد نبی مقبول صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ خلفاء ومجد دین پر مشتمل تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ختم ہو گئی.اگلی صدی کے مجدد کی ہر ایک کو تلاش کرنی چاہئے لیکن ہر آنے والی صدی کے سر پر جو شخص مجدد کی تلاش میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( جو آخری ہزار سال کے مجدد ہیں ) کے علاوہ کوئی ایسا چہرہ دیکھتا ہے جو آپ کے خلیفہ کا نہیں ، آپ کے خلل کا نہیں ، وہ بچے مجد د کا چہرہ نہیں دیکھتا لیکن پہلے سلسلۂ خلافت کی دوسری شاخ اور وہ بھی خلافتِ راشدہ کا حصہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اظلال کی شکل میں جا رہی ہے.آپ فرماتے ہیں تم ایمان کی اور اعمالِ صالحہ کی شرط پوری کرتے رہنا، تمہیں قدرت ثانی کے مظاہر یعنی خلافت راشدہ کا اللہ تعالیٰ قیامت تک وعدہ دیتا ہے.خدا کرے کہ محض اسی کے فضل سے جماعت عقائد صحیحہ اور پختہ ایمان اور طیب اعمال کے اُوپر قائم رہے تا کہ اس کا یہ وعدہ قیامت تک جماعت کے حق میں پورا ہوتا رہے اور جب تک یہ سلسلہ خلافت جاری رہے گا اور قائم رہے گا وہ ہزاروں لاکھوں خدا کرے کہ کروڑوں خلفاء جو دوسرے سلسلۂ خلافت میں منسلک ہیں یعنی سلسلۂ خلافت ائمہ، میں خلیفہ راشد کے ماتحت ہوں گے اور اس کی اطاعت میں اپنا فخر سمجھیں گے اور اس کی اطاعت سے ہر برکت اور فیض حاصل کریں گے.وہ اس حقیقت پر قائم ہوں گے اور ان کو ان کا رب سمجھا دے گا کہ جو شخص وقت کے امام کو پہچا نتا نہیں اور اس سے روگردانی کرتا ہے وہ اللہ کے حکم سے روگردانی کرنے والا ہے.پس اے میرے عزیز بھائیو! جو مقامات قرب تمہیں حاصل ہیں اگر انہیں قائم رکھنا چاہتے ہو اور روحانیت میں ترقی کرنا چاہتے ہو تو خلیفہ وقت کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا کیونکہ اگر یہ دامن چھوٹا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن چھوٹ جائے گا کیونکہ خلیفہ وقت اپنی ذات میں کوئی شے

Page 137

118 سبیل الرشاد جلد دوم نہیں اسے جو مقام بھی حاصل ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا مقام ہے نہ اس میں اپنی کوئی طاقت نہ اس میں اپنا کوئی علم.پس اس شخص کو نہ دیکھو اس کرسی کو دیکھو جس پر خدا اور اس کے رسول نے اس شخص کو بٹھا دیا ہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے جس خلافتِ راشدہ کے وقت میں جتنے زیادہ خلفاء اس دوسرے سلسلہ کے ہوں گے یعنی سلسلہ خلافت ائمہ کے جو مضبوطی کے ساتھ اس کے دامن کو پکڑے ہوئے ہوں گے اور جن کے سینہ میں وہی دل جو خلیفہ وقت کے سینہ میں دھڑک رہا ہے دھڑک رہا ہوگا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ ان کو طاقت بخشتی رہے گی.آپ کے رُوحانی فیوض سے وہ حصہ لیتے رہیں گے، اتنا ہی زیادہ اسلام ترقی کرتا چلا جائے گا اور دُنیا میں غالب آتا چلا جائے گا اور غالب رہتا چلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کے فضلوں کو انسان حاصل کرتا چلا جائے گا.لیکن جو شخص خلافت راشدہ کے دامن کو چھوڑتا اور خلافت راشدہ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے ، اُس شخص پر خدا تعالیٰ اپنی حقارت کی نظر ڈالتا ہے اور وہ اس کے غضب اور قہر کے نیچے آ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ایسا سامان پیدا کرے کہ ہم میں استثنائی طور پر بھی کوئی ایسا بد قسمت پیدا نہ ہو.اب میں دُعا کر وا دیتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اللہ تعالیٰ ان تمام وعدوں کو آپ کے اور آپ کی نسلوں کے وجود میں پورا کرے جو اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آپ کو اُمتِ مسلمہ کے افراد ہونے کی حیثیت میں دیئے ہیں.اللہ تعالیٰ ہر طرح آپ کا حافظ و ناصر ہو.اپنے نفسوں کے شر سے بھی آپ کو محفوظ رکھے اور دوسرے کے نفسوں کے شر سے بھی آپ کو محفوظ رکھے.فرشتوں کا پہرہ آپ پر ہمیشہ رہے.خدا اور اس کے فرشتوں کی محبت کے بول آپ کے کانوں میں ہمیشہ پڑتے رہیں.آپ کی آنکھیں اس کے نور سے ہمیشہ منور رہیں.آپ کے سینے اس کی قدوسیت سے ہمیشہ تزکیہ حاصل کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر رنگ میں آپ کے ساتھ ہو اور آپ کے ساتھ رہے.آمین روزنامه الفضل ربوہ سالانہ نمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۳ تا ۱۲)

Page 138

سبیل الرشاد جلد دوم 119 سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہتعالیٰ کا افتاحی خطاب فرموده ۲۴ را خاء ۱۳۴۸ هش ۲۴ را کتوبر ۱۹۶۹ء بمقام احاطه دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے انصاراللہ مرکزی کے چودہویں سالانہ اجتماع کے موقع پر مورخ ۲۴ را خاء ۱۳۴۸اهش ( ۲۴/اکتوبر۱۹۶۹ء) کو جو افتتاحی تقریر فرمائی تھی.اس کا مکمل متن درج ذیل ہے.قرآن کریم کی تلاوت اور نظم کے بعد سید نا حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.دوست اب دعا کر لیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس اجتماع کو ہر لحاظ سے با برکت کرے، دینی لحاظ سے بھی اور دنیوی لحاظ سے بھی.اللہ تعالیٰ دوستوں کو یہاں پر نیک باتیں سننے اور پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ ہمیں سعی مشکور کی توفیق عطا فرمائے.ہماری عاجزانہ کوششوں کو قبول کرے اور ان میں جو کمزوریاں اور خامیاں رہ جائیں اُنہیں اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لے اور ہم اپنی زندگیوں میں غلبہ اسلام کی ان بشارتوں کو پورا ہوتے دیکھ لیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں دی گئی ہیں.اس کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کرائی.حضور کی اقتداء میں انصار نے عہد دُہرایا اور پھر عطائے علم انعامی کے بعد حضور نے تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ھے در دلم جو شد ثنائے سرورے میں اپنی بھی یہی کیفیت پاتا ہوں.اس وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام اور آپ کی سیرت کے بعض پہلوؤں کو بیان کر کے ان کے نتیجہ میں ہماری جماعت پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ان کی طرف آپ دوستوں اور بھائیوں کو متوجہ کروں گا.جب سے کہ انسان اس دُنیا میں پیدا ہوا ہے.انسانوں میں صاحب اقتدار بادشاہ یا ڈکٹیٹر یا صدر بنتے رہے ہیں.بعض اچھے تھے.بعض بُرے تھے.بعض نے اپنے اور اپنے خاندان کے ذاتی مفاد کی خاطر بادشاہت کی اور رعایا کا خیال نہ رکھا.ایک اور گروہ تھا جس نے ایک حد تک بادشاہ ہونے اور اقتدار کے جو اصول تھے ان کو بنایا.اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا اور خلق خدا کی بھلائی کی کوشش کرتے

Page 139

120 سبیل الرشاد جلد دوم رہے.لیکن کوئی بھی صاحب اقتدار ایسا پیدا نہیں ہوا جس کا مقام اس قدر بلند ہو کہ جس قدر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بلند مقام تھا.اور پھر جس نے اس طرح انسانیت کی خدمت کی ہو.اور اخوت اور دوستی میں زندگی کے دن گزارے ہوں جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی نوع انسان کی خدمت اور اخوت اور دوستی میں اپنے دن گزارے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت اور عظمت کو دلوں میں پیدا کرنے کے لئے قرآن کریم میں بہت سی ، بظاہر دنیوی نگاہ میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے.اور ہمیں یہ سمجھایا گیا ہے کہ ان چھوٹی باتوں میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت اور احترام اور آپ کی عظمت کا خیال رکھنا ہے ورنہ خدا تعالیٰ کے نزدیک تمہارے وہ اعمال جو دُنیا اور خود تمہارے نزدیک اعمال صالحہ ہیں وہ ضائع ہو جائیں گے مثلاً سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس عظمت کو دلوں میں بٹھانے کے لئے یہ حکم دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر بن بُلائے نہ جایا کرو.اگر کھانے پر بلایا جائے تو وقت سے پہلے باتوں کے شوق میں وہاں نہ پہنچ جایا کرو.اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد وہاں بیٹھے نہ رہا کرو اور ان ذرا ذرا سی باتوں میں بھی اس بات کا خیال رکھو کہ تمہاری وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور آپ کی ازواج کو اپنی مائیں سمجھو.(1) پھر فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بڑھ بڑھ کر باتیں نہ کیا کرو.لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ " یعنی اپنی آواز کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے بلند نہ کیا کرو اور ادب کے ساتھ ، دھیمی آواز کے ساتھ بات کرو جب بات کرو.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شور نہ کرو جس طرح کہ تم آپس میں باتیں کرتے ہوئے ایک دوسرے کی آواز کے مقابلہ میں اپنی آوازوں کو اونچا کرتے ہو اور اونچی آواز سے بولتے ہو.اگر تم ایسا کرو گے تو تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں گے.کیونکہ جولوگ رسول کے سامنے اپنی آواز کو دبا کر رکھتے ہیں وہی تقویٰ پر پورا اُترتے ہیں.پھر فرمایا کہ گھر کے باہر کھڑے ہو کر آواز دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوکسی حاجت کے بیان کرنے کے لئے بلایا نہ کرو.کیونکہ اگر تم سمجھو تو یہ شاید دنیا کے عام طریق کے مطابق تو صحیح ہو لیکن جہاں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کا تعلق ہے یہ حماقت اور کم عقلی ہے.تمہاری خیر سورة الحجرات آیت ۳ سوره الحجرات آیت ۴ - ۵

Page 140

سبیل الرشاد جلد دوم 121 اور تمہاری بھلائی اسی میں مضمر ہے کہ آواز میں نہ دیا کرو بلکہ انتظار کیا کر و جب آپ باہر تشریف لائیں تو پھر ادب سے اپنامد عابیان کیا کرو اور اپنی حاجت پیش کیا کرو.اس قسم کی اور بہت سی آیات ہیں جن میں چھوٹی چھوٹی باتوں میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام اور آپ کی عزت کا اور آپ کے احترام کا خیال رکھنا ہے اس لئے کہ کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا جو پیدا کرنے والے رب کی نگاہ میں اتنا محبوب ہو جتنا آپ ہیں اور جس کو اس قدراختیار اور قدرت اور بادشاہت عطا کی ہو جس قدر کہ آپ کو عطا کی گئی ہے.ان تفاصیل کے علاوہ اصولی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو بڑی وضاحت کے ساتھ اور بڑے زور کے ساتھ اس آیہ کریمہ میں بیان فرمایا گیا ہے.ط قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمُ * وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ قُلْ أَطِيْعُوا اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ ، فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْكَفِرِينَ ) اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان آیات میں اس طرف متوجہ کیا کہ تمہاری فطرت میں میں نے اپنی محبت کا خمیر رکھا ہے.اور تم جانو یا نہ جانو.تمہارا وجود اور تمہاری روح جو ہے وہ اس تڑپ میں ہے کہ کسی طرح پیدا کرنے والے رب کے ساتھ اس کا زندہ اور حقیقی تعلق پیدا ہو جائے.لوگ اپنے پیدا کرنے والے رب کے محبوب بن جائیں.اس فطرتی تقاضا کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کیا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمہارے اندر مبعوث کر دیا ہے اگر تم اللہ تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں پاتے ہو اور اگر تمہاری فطرت یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرے تو اے میرے پیارے رسول ! تو ان سے کہہ دے کہ اس کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ میری کامل اتباع کرو اور میری ہر بات مانو اور میری اطاعت کرو.میرے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کر دو اور میری حکومت اور بادشاہت کا جوا اپنی گردنوں پر ڈالو.اگر تم ایسا کرو گے - يُخبكُمُ الله - تمہاری فطرت کی پکار جو ہے اس کا تقاضا جو ہے وہ پورا ہوگا یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت تمہیں حاصل ہو جائے گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ، اس کوشش میں یا آپ کی اطاعت کی اس جدو جہد میں اگر کوئی خامی رہ جائے گی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت جو تمہارے دلوں میں ہے اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس خامی کو دور کر دے گا 1 سورة آل عمران : ۳۲-۳۳

Page 141

122 سبیل الرشاد جلد دوم اور اپنی مغفرت سے تمہیں ڈھانپ لے گا اور تمہارے گناہ جو ہیں وہ چھپ جائیں گے لیکن اگر تم ایسا نہیں کرو گے فان تَوَلَّوْا تو تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ سب سے اعلیٰ اور ارفع اور احسن اور بہترین نعمت جودی جاسکتی تھی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود ہے.اگر تم ناشکری کرو گے تو تمہیں یادرکھنا چاہئے کہ "إن الله لا يُحِبُّ الْكَافِرِینَ“ ناشکری کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت اور پیار نہیں کیا کرتا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل اتباع ضروری ہے کیونکہ یہ انسان کے لئے اللہ تعالیٰ کا محبوب بننے کا ذریعہ ہے.اس سے بھی بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ * ط اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ.اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے مقام کے لحاظ سے یہ اجازت دی کہ تو میری مخلوق اور میرے بندوں کو اپنا بندہ اور غلام کہ کر پکاراور ان کو آواز دے اور اُن سے یہ کہہ دے کہ اے میرے ( یعنی محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بند و اور غلامو! ) اگر تم نے اپنے نفسوں پر کوئی زیادتی کی ہو.تم سے گناہ ہوئے ہوں.تم سے غلطیاں سرزد ہوئی ہوں.تمہارے کام میں خامیاں رہ گئی ہوں.کوششوں میں نقائص رہ گئے ہوں یا کمزوریاں واقع ہوگئی ہوں یا روحانی طور پر بغاوت کے خیالات پیدا ہوتے ہوں ، ناپاکی سے کبھی پر ہیز نہ کیا ہو، غرض ہزاروں قسم کے گناہ ہیں کہ جن میں انسان ملوث ہوتا ہے اور جن کے نتیجہ میں انسان پر ناپاکی کا داغ لگ جاتا ہے مگر ہر قسم کا داغ میری غلامی کی وجہ سے دور ہو جائے گا.لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحَمَةِ اللهِ الله تعالیٰ کی رحمت سے مایوس مت ہو کیونکہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا طوق اپنی گردن میں ڈال لیتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا وارث بن جاتا ہے.فرماتے ہیں : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیہ کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے.آپ قل یعِبَادِی کے لفظ سے یہ ظاہر کیا کہ دیکھو یہ میرا پیارا رسول.دیکھو برگزیدہ بندہ کہ کمال طاعت سے کس درجہ تک پہنچا کہ اب جو کچھ میرا ہے وہ اس کا ہے.جو شخص نجات چاہتا ہے وہ اس کا غلام ہو جائے یعنی ایسا اس کی اطاعت میں محو ہو جائے کہ 0 سورة الزمر آیت ۵۴

Page 142

سبیل الرشاد جلد دوم 123 گویا اس کا غلام ہے تب وہ گو کیسا ہی پہلے گنا ہوگا تھا بخشا جائے گا.“ پھر فرماتے ہیں : ” اور اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص اپنی نجات چاہتا ہے وہ اس نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے غلامی کی نسبت پیدا کرے یعنی اس کے حکم سے باہر نہ جائے اور اسکے دامن طاعت سے اپنے تئیں وابستہ جانے جیسا کہ 66 غلام جانتا ہے تب وہ نجات پائے گا." اسی طرح آپ فرماتے ہیں : اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ ماحصل اس آیت کا یہ ہے کہ جو لوگ دل و جان سے تیرے یا رسول اللہ (آپ) کے غلام بن جائیں گے اُن کو وہ نور ایمان اور محبت اور عشق بخشا جائے گا کہ جو ان کو غیر اللہ سے رہائی دے گا اور وہ گنا ہوں سے نجات پا جائیں گے اور اسی دنیا میں ایک پاک زندگی ان کو عطا کی جائے گی اور نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے وہ نکالے جائیں گے.اس کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے اَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِی - یعنی میں وہ مُردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں.“ پھر آپ فرماتے ہیں : سو ہم اپنے خدائے پاک و ذوالجلال کا کیا شکر کریں کہ اس نے اپنے پیارے نبی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور پیروی کی توفیق دے کر اور پھر اس محبت اور پیروی کے روحانی فیضوں سے جو سچی تقوی اور بچے آسمانی نشان ہیں کامل حصہ عطا فرما کر ہم پر ثابت کر دیا کہ وہ ہمارا پیارا برگزیدہ نبی فوت نہیں ہوا بلکہ وہ بلند تر آسمان پر اپنے ملیک مقتدر کے دائیں طرف بزرگی اور جلال کے تخت پر بیٹھا ہے.66 پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس قسم کی بادشاہت اور سرداری عطا فرمائی تھی کہ اس کو ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے ، سب سے زیادہ مناسب ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے دائیں طرف بلند آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۹۰-۱۹۱ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۱۹۳-۱۹۴ تریاق القلوب صفحه ۵ - ۶ روحانی خزائن جلد نمبر ۵ اصفحه ۱۳۸

Page 143

سبیل الرشاد جلد دوم 124 آسمان پر بزرگی اور جلال کے تخت پر بیٹھے ہیں.یہ وہ بادشاہ ہے جو ہمارا بادشاہ ہے.یہ وہ ہمارا آتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے انتہائی پیار کے نتیجہ میں عطا کیا ہے اور جسکی اطاعت میں نجات اور جسکی محبت کو اللہ تعالیٰ کی محبت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور ہمارے اوپر اس بادشاہ نے یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ.كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ 166 کہ تم میں سے ہر ایک شخص اپنے دائرہ اثر و رسوخ میں بطور راعی کے ہے.اور تم میرے اور میرے خدا کے سامنے جواب دہ ہو گے کہ تم نے اپنی اس ذمہ داری کو کس طرح اور کیسے نباہا.اس مقام کے لحاظ سے جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جو بھی تمہارے حلقہ اثر ونفوذ میں ہیں.ان میں سے ہر ایک کا یہ خیال رکھنا کہ وہ آوارہ ہو کر ان زنجیروں کو نہ تو ڑ دے جو رسول کی محبت اور اطاعت کی زنجیریں اس کے پاؤں میں ڈالی گئی ہیں.اس طوق سے اپنی گردن کو نہ نکالے جو طوق کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس محسن اعظم کے احسان کی رسیوں سے بن کر اسکے گلے میں ڈالا گیا ہے.ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم خود بھی اور اپنی نسلوں کو بھی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی زنجیروں میں ہمیشہ جکڑے رکھیں اور رائی ہونے کا حق ادا کریں کیونکہ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو جیسا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے ہم آپ کے سامنے بھی اور خدا تعالیٰ کے سامنے بھی جواب دہ ہوں گے.اس وقت احمدیت کے لحاظ سے ہم جس زمانے سے گزر رہے ہیں اس کی دو نمایاں خصوصیات ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہماری ذمہ داریاں پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کامیابیاں بخشیں اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرداری اور با دشاہی کا جھنڈا دنیا کے کونے کونے میں گاڑنے کی توفیق عطا ہوئی ہے.کچھ لوگ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھیڑیں بن کر ہمارے حلقہ میں آئیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اُن کا راعی بنادیا ہے اور کچھ لوگ اس طرف متوجہ ہو رہے ہیں.بہت ہی بڑا کام ہے جو ہم نے کرنا ہے.اتنا بڑا کام ہے کہ سوچیں تو انسانی ذہن پریشان ہو جاتا ہے.کیونکہ وہ ایک طرف اپنی کمزوری کو دیکھتا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے اس عظیم حکم کو دیکھتا ہے.سوائے اس کے کوئی چارہ نظر نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ میں فنا ہو کر ایک نئی زندگی پانے کی خواہش پیدا ہو تا کہ ہم وہ ذمہ داری نباہ سکیں جو ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہے.پس ایک طرف کام دن بدن بڑھتا چلا گیا ہے اور ہم اسلام کے آخری فتح اور غلبہ کے زمانے حیح بخاری کتاب النكاح المراة راعية في بيت زوجها جلد ۲ صفحہ ۷۸۳

Page 144

125 سبیل الرشاد جلد دوم کے بہت قریب آچکے ہیں اور دوسری طرف ہماری وہ نسل جو احمدیت میں پیدا ہوئی ہے وہ احمدیت کی قدر و قیمت کو کماحقہ نہیں پہچانتی.ان کی ذمہ داری بھی بطور راعی ہونے کے ہمارے کندھوں پر ہے.یہ دونوں ذمہ داریاں بڑی عظیم ہیں.ان دونوں ذمہ داریوں کو نیا ہے بغیر ہم اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کو حاصل نہیں کر سکتے.یہ بڑا ہی خوف کا مقام ہے.ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کے حضور گڑ گڑاتے رہنا چاہئے کہ اے خدا! ایک مشکل کام تو نے ہمارے سپر د کر دیا.ایک تنگ راہ ہے جس میں سے گزرنے کا ارشاد ہوا ہے.ہمارے دل حاضر ، ہماری جانیں حاضر ! لیکن بسا اوقات ہمارے جسم ہمارا ساتھ نہیں دیتے.بسا اوقات ہمارے ماحول کے اثرات ہمیں اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں.بسا اوقات شیطانی وساوس ہمارے دلوں کو کریدنے لگتے ہیں اور ہمیں تیری یاد سے غافل کر دیتے ہیں اور تیری طرف سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو بھلا دیتے ہیں.ہم تیرے کمزور بندے ہیں اگر تو ہماری انگلی پکڑ کر نہیں چلائے گا تو ہم کامیابی کی اس شاہراہ پر بشاشت کے ساتھ آگے ہی آگے نہیں بڑھ سکیں گے.پس اے ہمارے آقا ! ہماری کوتاہیوں پر نظر نہ کر ، ہماری غفلتوں کو نظر انداز کر دے، آگے بڑھ اور ہمارے ہاتھ کو پکڑ اور تو جس منزل تک ہمیں پہنچانا چاہتا ہے وہاں تک ہمیں خود لے جا.جو شخص عذاب کی ماہیت اور کیفیت سے واقف ہی نہیں وہ تو بے ڈر ہوتا ہے لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کو پہچانتا ہے اور جس کے دل میں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور آپ کی عزت واحترام کا عرفان اُسے حاصل ہو جاتا ہے یا جسے اس بات کا یہ علم ہوتا ہے کہ اگر میں اپنے رب سے ذرا بھی دور ہوا یا میری محبت اور میری غلامی میں ذرا بھی فرق آیا تو خدا تعالیٰ کے قہر کا جلوہ مجھے ہلاک اور نیست و نابود کر ڈالے گا.وہ شخص ان حالات میں کیسے اطمینان پاسکتا ہے.پس جہاں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم سردار اور بادشاہوں کا بادشاہ ہمیں ملا ہے وہاں ہم پر جو ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں وہ بھی معمولی نہیں.ہم میں سے ہر ایک کو اسی شہنشاہ نے راعی قرار دیا ہے.اور ہم پر یہ ذمہ داری ڈالی ہے کہ جس جس حلقہ میں تمہارا اثر و رسوخ ہے اس حلقہ کے متعلق تم ذمہ دار ہو کہ میری محبت کی زنجیریں کٹنے نہ پائیں.میرے حسن واحسان کا جو طوق گردنوں میں ہے وہ گردنیں اس سے منگی نظر نہ آئیں کیونکہ اس ننگ میں شیطان کی تصویر نظر آئے گی.اس وقت میں اپنے دوستوں اور بھائیوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عظیم مقام حاصل ہوا ہے.جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ وہ خدائے واحد و یگانہ کی دائیں طرف عظمت و جلال

Page 145

126 سبیل الرشاد جلد دوم کے تخت پر بیٹھے ہوئے ہیں.اس صاحب عظمت و جلال کے سلاسل اور غلامی کے طوق جو ہیں نہ وہ ہماری گردنوں سے ٹوٹیں اور نہ وہ ہمارے ماحول سے دور ہوں بلکہ ہمارے بچے ، ہمارے بھائی ، ہماری عورتیں ، ہمارے ساتھ تعلق رکھنے والے ، ہمارے خادم اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں خادم دیئے ہیں.خادم تو دراصل کوئی نہیں.ہم میں سے ہر ایک ہی خادم ہے.بہر حال جس طرح بھی دنیا ان کو یاد کرتی ہے وہ ہمارے اثر کے نیچے ہیں.اُن کے دلوں میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پیدا کرنی چاہئے اور انہیں اس یقین پر قائم کرنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ہی میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہے.جو آدمی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ مقام نہیں دیتا اور آپ کی یہ عظمت نہیں سمجھتا ، آپ کے لئے اس جلال کو تسلیم نہیں کرتا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے تو ایسے شخص کے لئے موت اور ہلاکت مقدر ہے.بڑی ذمہ داری ہے جو اس مقام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہے.لیکن یہ عظیم بادشاہ ہمیں دو اور پیرایوں میں بھی نظر آتا ہے.ایک پیرا یہ آپ کے محسن اعظم ہونے کا ہے جس کو ہم انتہائی طور خدمت گزار کا نام بھی دے سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر بھی قرآن کریم میں فرمایا ہے.فرماتا ہے: فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا.اگر وہ اس عظیم الشان کلام پر ایمان نہ لائیں تو شاید تو ان کے غم میں شدت افسوس کی وجہ سے اور عظیم مجاہدہ کے نتیجہ میں اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال دے.فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ) اس میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو بتایا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تمہارے لئے محبت اور احسان کے اس قدر جذبات پائے جاتے ہیں کہ آپ کو کوئی لمحہ کل نہیں.ہر وقت آپ اس فکر میں رہتے ہیں کہ ہر حاجت مند کی حاجت کو پورا کیا جائے اور سب سے اہم اور ضروری تو روحانی حاجتیں ہیں اور روحانی حاجتوں کو پورا نہیں کیا جا سکتا جب تک انسان کے دل میں ایمانی بشاشت پیدا نہ ہو.پس آپ جسے دیکھتے کہ میں تو لوگوں کو خدائے واحد و یگانہ کی طرف بلاتا ہوں لیکن یہ لوگ میری آواز کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اس طرح اپنے لئے دوزخ کے سامان پیدا کر رہے ہیں تو کتنی درد پیدا ہوتی تھی آپ کے دل میں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان احسان فراموشوں پر احسان کرنے کی کوشش سورۃ الکہف آیت ۷ سورہ فاطر آیت ۹

Page 146

سبیل الرشاد جلد دوم 127 کرتے ہوئے اپنی جان کو ہلاک کر دیں گے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ کے دل کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے.سورہ تو بہ میں فرمایا ہے : لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ ) اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ فرمایا ہے کہ ایک عظیم بادشاہ کہ کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا تھا جو اس قسم کا بادشاہ بن سکتا وہ تمہیں عطا ہوا.لیکن اس کی فطرت کو تو دیکھو کتنی حسین ہے کہ وہ خود کو تمہارے جیسا ایک انسان سمجھتا ہے اور اس اعلان کو جو میں نے اس کے منہ سے کروایا تھا.إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ.کسی لمحہ بھولنا نہیں اور عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ یعنی اس کے دل کی یہ کیفیت ہے کہ ذراسی بھی تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اسے شاق گزرتی ہے اور وہ تمہارے لئے خیر و برکت کو پسند کرتا اور وہ تمہارے لئے ہر خیر و برکت کا بھوکا ہے اور مومنوں کے ساتھ انتہائی طور پر محبت کرنے والا اور تمام بنی نوع انسان پر ہمیشہ کرم کرنے والا ہے.مومنوں سے محبت کرتا ہے.اس لئے کہ صرف مومن ہی سے محبت کی جا سکتی ہے کیونکہ محبت کرنے کے لئے ہمرنگ ہونا ضروری ہے اور جو مومن نہیں ہوتا وہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمرنگ نہیں ہوتا اس لئے ان کے حق میں ” عَزِیزٌ عَلَيْهِ مَاعَيْتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ“ کہنا تو درست ہو گا لیکن ان سے محبت نہیں ہو سکتی.کیونکہ دوستی نہیں ہے.مشابہت نہیں ہے.تمام بنی نوع انسان سے کہا کہ دیکھو ہمارا یہ بندہ تمہیں ذراسی تکلیف ہوا سے درد ہوتی ہے تمہارے لئے.ذراسی خیر و برکت کا امکان ہو یہ کوشش کرتا ہے کہ تم اس خیر و برکت کے حصہ دار بنو.آپ کی اعلیٰ قوتوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کیلئے آپ پر جو تعلیم نازل کی ہے اس میں تمام بنی نوع انسان کی تکالیف اور ان کے دکھ درد کا مداوا کیا گیا ہے.میں جب یورپ کے سفر پر تھا تو مجھے ایک ایسی جگہ تقریر کرنے کا موقع ملا جہاں بہت سے ہندو وغیرہ جمع تھے.چند منٹ کے لئے میں نے اُن سے خطاب کرنا تھا.میں نے اُن سے کہا کہ دیکھیں آپ اسلام پر ایمان نہیں رکھتے.آپ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سچا نبی نہیں سمجھتے لیکن کتنا عظیم ہے وہ انسان کہ جس نے پھر بھی تمہارا خیال رکھا ہے.اس نے اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر یہ تعلیم دی کہ بدظنی نہیں سورۃ تو به آیت ۱۲۸ سورہ حم السجدۃ آیت ۷

Page 147

سبیل الرشاد جلد دوم 128 کرنی.اس نے یہ نہیں کہا کہ کسی مسلمان کے خلاف بدظنی سے کام نہیں لینا بلکہ کسی بھی انسان کے خلاف بدظنی سے کام نہیں لینا.اس نے یہ کہا کہ کسی پر اتہام نہیں لگا نا لیکن اس نے یہ نہیں کہا کہ کسی مسلمان پر اتہام نہیں لگانا.اس نے یہ کہا ہے کہ کسی ہندو اور سکھ پر بھی اتہام نہیں لگانا.کسی عیسائی اور یہودی پر بھی اتہام نہیں لگانا.اس طرح میں نے بہت سی مثالیں دیں.پھر میں نے کہا کہ تمہارے جذبات کا کتنا خیال رکھا ہے.اُس نے کہا ہے کہ جو شخص اپنی جہالت کے نتیجہ میں تمہیں گالی دے.تمہیں تمہارے خدا کو گالی دے اس کے جذبات کا بھی خیال رکھنا ہے.اس کو جواب میں گالی نہیں دینا کیونکہ اس کے جذبات کو اس سے تکلیف پہنچے گی.اس میں بہت سی حکمتیں بھی ہیں لیکن ایک عظیم حکمت یہ بھی ہے.غرض میں نے ان کو کہا کہ یہ آپ کا محسن ہے مگر آپ اس کو پہچانتے نہیں.اس کا اتنا احسان ہے آپ پر کہ آپ تو غفلت میں ہوتے ہومگر وہ آپ کی طرف سے حفاظت کر رہا ہوتا ہے.کہتا ہے کہ کسی کے خلاف بدظنی نہیں کرنی.بے شک وہ خدا اور اس کے رسول کو نہیں مانتا لیکن خدا تعالیٰ نے اس کو میری حفاظت میں رکھا ہے.اس لئے بدظنی کا تیر اس پر نہیں چلے گا.ایک دوسری طرف سے اتہام لگانے والا آتا ہے، جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا خیال ہوتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہر دروازے پر موجود پاتا ہے اور آپ سے یہ آواز سنتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا بندہ ہے بے شک مجھے نہیں مانتا بلکہ اپنے پیدا کرنے والے رب کو بھی نہیں پہچانتا لیکن مجھے خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ میں اس کی حفاظت کروں.اس لئے کہ اس دروازے پر مجھے لا کر کھڑا کر دیا جس دروازے سے داخل ہو کر اس انسان کو تکلیف پہنچ سکتی تھی.یہ تو تھا تکلیفوں سے بچانا.آپ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کو تکلیف نہیں پہنچانی اور فرمایا کہ مسلمان تو ہوتا ہی وہ ہے جس کے ہاتھ یا زبان سے کسی دوسرے مسلمان کو تکلیف نہ پہنچے.دوسری جگہ فرمایا کہ کسی انسان کو تکلیف نہیں پہنچانی.تیسری جگہ فرمایا کہ کسی بھی مخلوق کو تکلیف نہیں پہنچانی یعنی جانداروں تک کو بھی تکلیف نہیں پہنچانی - اس بات پر آپ نے یہاں تک زور دیا کہ آپ نے فرمایا کہ ایک کنچنی کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے معاف کر دیا تھا کہ ایک کتا جو پیاس کی وجہ سے بے چین تھا اس نے اس کے لئے پانی کا انتظام کیا تھا.اس سے ہمیں یہ سبق دیا کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق کو دُکھ نہیں پہنچا نا بلکہ دُکھ کو دور کرنے کے لئے اپنی ہمتوں اور اپنے عزم کو کام میں لانا ہے اور جو ہو سکتا ہو اور جو بھی اختیار میں ہو اس کے مطابق ہر آدمی کے دکھ درد کو دور کرنے کے لئے اپنی کوشش کو ، اپنے اختیار کو، اپنے عزم کو ، اپنے اموال کو ، اپنی توجہ کو اور اپنے اثر و رسوخ کو اور اپنی وجاہت کو اور اپنی عزت کو کام میں لانا چاہئے.

Page 148

سبیل الرشاد جلد دوم 129 پھر فرمایا کہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لئے خیر و برکت کا بھوکا ہے اور اس طرح ہر وہ بھلائی جو انسان کو پہنچ سکتی تھی وہ اسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اُسے پہنچا دی.تب ہی تو یہ اعلان کیا گیا: اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ جذبات اور آپ کے یہ اخلاق اور آپ کی یہ قوتیں اور استعدادیں تھیں جو پہلے قرآن کریم کی متحمل ہوئیں اور پھر آپ نے قرآن کریم کو انتہا ء تک پہنچایا.ہر قسم کی بھلائی اور نیکی اور خیر و برکت کا سامان اس میں رکھ دیا گیا.کوئی بھی خیر و برکت و بھلائی ایسی نہیں جو اس میں نہ ہو اور اسے کسی دوسری جگہ تلاش کرنے کی ضرورت پڑے مثلاً اقتصادی معاملات میں بظاہر وہ دین سے تعلق نہیں رکھتے.لیکن حقیقتا دین ہی سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ خود ہمارے اس محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "كَادَ الفَقْرُاَنُ يَكُونَ كُفراً غربت جو ہے اس کے نتیجہ میں بسا اوقات اللہ تعالیٰ سے دوری کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں.شروع میں دل میں کدورت پیدا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ سے شکوہ پیدا ہوتا ہے.حکمتیں معلوم نہیں ہوتیں.جو سامان ہیں ان کا علم نہیں ہوتا.بعض دفعہ جنہوں نے کوشش کرنی ہوتی ہے وہ غفلت برت رہے ہوتے ہیں اور انسان کے دل میں اپنے رب کے لئے بدظنی پیدا ہو جاتی ہے.اب اسلام کی اقتصادی تعلیم پر میں خطبات دے رہا ہوں.اس سلسلہ میں پچھلے چند ہفتوں میں بہت سے سمجھ دار پڑھے لکھے غیر احمدی بھائیوں سے باتیں ہوئی ہیں.میں جب ان کو بتا تا ہوں کہ اسلام نے اس طرح انسان کی عزت کو قائم کیا ہے اور اس کے حقوق کو قائم اور اس کی ضرورتوں کو پورا کیا ہے.پہلے انسانی حقوق کو قائم کیا اور پھر اس کی ضرورتوں کو پورا کیا اور دنیا کا کوئی انسانی نظام اس قسم کا نہیں ہے جس قسم کا یہ اسلامی اقتصادی نظام ہے.چنا نچہ بلا استثناء سب کو مانا پڑتا ہے کہ یہ درست ہے لیکن ایک خلش ہے جو دراصل اپنی کمزوری کا نتیجہ ہے وہ باقی رہ جاتی ہے اور کبھی بلا استثناء مجھ سے یہی سوال کرتے ہیں.ٹھیک ہے اتنا حسین نظام ہمیں اور کہیں نہیں ملتا کہ جس نے کوئی حق بھی نہ چھوڑا ہو جسے قائم نہ کیا ہو اور اس کے پورا کرنے کا انتظام نہ کیا ہو.لیکن وہ کہتے ہیں کہ آپ ہمیں بتائیں کہ اس کو کون چلائے گا.پھر مجھے ان کو یہ سمجھانا پڑتا ہے کہ آسمان سے فرشتوں نے آکر یہ کام نہیں کرنا.میں نے اور آپ نے یہ کام کرنا ہے اور پہلی کمزوری تو یہ ہے کہ سورة المائدہ آیت ۴ الجامع الصغیر صفحه ۷۴

Page 149

سبیل الرشاد جلد دوم 130 آپ لوگ قرآن کریم پر غور نہیں کرتے.بعض سمجھ دار لوگ دنیوی لحاظ سے بڑے پڑھے لکھے انہیں یہ احساس ہے کہ ہم سے بڑی غفلت ہوئی ہے کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد سے قرآن کریم نہیں پڑھا.ایک موقعہ پر جب میں نے اس طرح کہا کہ آپ لوگ قرآن کریم پر غور کریں تو مجھے یاد ہے کہ ایک بڑے اچھے سمجھ دار وکیل کہنے لگے کہ ہم تو مشکل سے ناظرہ پڑھ سکتے ہیں ترجمہ نہیں آتا.غور کیسے کریں گے.میں نے اُن سے کہا کہ یہ آپ کی پہلی ذمہ داری ہے کہ آپ قرآن کریم کو سیکھیں پھر دوسری قسم کی ذمہ داری جو ہے اس کے ادا کرنے کا سوال پیدا ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے انسانی معاشرہ میں ہر انسان کی عزت نفس اور اس کا شرف اور مرتبہ قائم کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک زبان سے یہ کہلوایا: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ میں تمہارے جیسا انسان ہوں اور تم میرے جیسے انسان ہو.حالانکہ اپنی قوتوں ، استعدادوں اور کمالات کے لحاظ سے کوئی انسان آپ کا ہم پلا نہیں.جس رنگ میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان قوتوں کی نشو ونما کو کمال تک پہنچانے کی توفیق دی اس قسم کی توفیق ہمیں کہیں اور نظر نہیں آتی یہی وجہ ہے اور یہی حقیقت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان کی ہے کہ ہماری بصیرت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی دائیں طرف عظمت اور جلال کے تخت پر بیٹھا ہوا دیکھتی ہے.کوئی ایسی خبر اور خوبی نہیں جو قرآن کریم میں بیان ہونے سے رہ گئی ہو.اور کوئی اور جگہ نہیں جہاں سے یہ خیر و خوبی ہمیں مل سکتی ہو اور یہی ہدایت ہے جس میں سے ہمیں سب کچھ مل سکتا ہے اور اس کو ہمیں چھوڑ نا نہیں چاہئے.لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو اس حقیقت کو پہچانتے اور اس یقین پر قائم ہیں کہ سوائے اس تعلیم پر عمل کرنے کے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے ہاتھ میں دی ہے کسی خیر اور برکت کو کامل طور پر حاصل نہیں کر سکتے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بات کا اتنا احساس تھا اور آپ کا اپنے ماحول میں دوسروں سے اتنا حسین سلوک تھا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.میں آپ کی سوانح میں سے چند مثالیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فارسی نظم جو ابھی پڑھی گئی ہے.میں نے تو ان کو شروع میں کہا تھا کہ اگر آپ مجھ سے پوچھتے تو میں آپ کو یہی نظم پڑھنے کو کہتا.اتفاق سے انہوں نے یہی نظم پڑھ دی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقام کے سورہ حم السجدۃ آیت ۷

Page 150

سبیل الرشاد جلد دوم بیان میں کہ بادشاہ ہونے کے باوجود آپ بنی نوع انسان کے محسن اور خدمت گذار تھے فرمایا: خواجه و مر عاجزاں را بندہ بادشاہ , بیکساں چا کرے آں ترتمہا کہ خلق از وے بدید کس ندیده در جہاں از مادرے 131 کہ بادشاہ ہے لیکن اپنی زندگی میں عاجز لوگوں کا مسکین لوگوں کا بندہ اور خادم نظر آتا ہے.بادشاہ ہے لیکن جن کا کوئی سہارا نہیں اور جو بے کس ہیں ان کی خدمت میں لگا ہوا ہے.اس کے احسان اور اس کی محبت کا یہ عالم ہے کہ بنی نوع انسان نے اس کی محبت کے جو مظاہر دیکھے کسی بچے نے اپنی ماں سے بھی ایسی شفقت اور محبت حاصل نہیں کی.بادشاہ ہونے کے باوجو دلوگوں سے ایک ماں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے.بادشاہ بھی لیکن کوئی معمولی بادشاہ نہیں بلکہ ایسا بادشاہ جو خدائے عرش کے دائیں عظمت اور جلال کے تخت پر بیٹھا ہوا ہے یعنی ایسی بادشاہت کا مالک ہے کہ جو خدا تعالیٰ کے دائیں جلال کے تخت پر قائم ہوئی ہے.اس بادشاہت کا مالک ہے لیکن حال یہ ہے کہ بے کس اور عاجز انسان کے ساتھ ایک خدمت گزارا اور ایک محسن کا سلوک ہے.نسائی میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن اوفی بیان کرتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت تھی کہ بیوہ اور مسکین کے ساتھ ان کا کام کرنے چل کھڑے ہوتے اور ان کے کام کر دینے میں آپ کوئی عار محسوس نہ کرتے.اسی طرح ابوداؤد میں ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک عورت تھی جس کے دماغ میں کچھ فتو ر تھا.آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ محم محمد تم سے کچھ کام ہے فرمایا جہاں کہو چل سکتا ہوں.وہ آپ کو ایک کو چہ میں لے گئی اور وہیں بیٹھ گئی اور آپ بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئے اور جو کام تھا انجام دے دیا.پھر بیہقی میں آتا ہے کہ جبش سے جو ایک دفعہ مہمان آئے تھے صحابہ نے چاہا کہ وہ ان کی خدمت گذاری کریں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روک دیا اور فرمایا کہ انہوں نے میرے دوستوں کی خدمت کی ہے اس لئے میں خود ان کی خدمت گزاری کا فرض انجام دوں گا - براہین احمدیہ حصہ اول دیباچه روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 18 بحوالہ سیرت النبی جلد دوم صفحه ۱۳۴۳ ز شبلی مرحوم ابوداؤد کتاب الادب بحوالہ سیرت النبی جلد دوم از شبلی مرحوم شرح شفائے قاضی عیاض بحوالہ بیہقی وسیرت النبی جلد دوم صفحه ۱۳۴۲ ز شبیلی مرحوم

Page 151

سبیل الرشاد جلد دوم 132 ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوئے.ابھی تکبیر نہیں ہوئی تھی کہ ایک دیہاتی (بد و) آیا مگر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو عظمت دی تھی اور آپ کا جو مقام تھا جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس لحاظ سے آپ سے انتہائی عزت و احترام سے پیش آنا چاہئے لیکن اُس کی ابھی اتنی تربیت نہیں ہوئی تھی.وہ آیا اور اس وقت جبکہ آپ نماز پڑھانے لگے تھے ، آپ کا دامن پکڑ کر کہنے لگا میرا ذرا سا کام رہ گیا ہے.ایسا نہ ہو کہ میں بھول جاؤں.پہلے اس کو کر دو ( معلوم ہوتا ہے پہلے کر وائے تھے ) آپ اس کے ساتھ فوراً مسجد سے باہر نکل آئے اور اس کا کام انجام بھی اس نے کچھ کام کہ دے کر پھر نماز ادا کی.طائف کے کفار جنہوں نے مکی زندگی میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے انتہائی طور پر ظالمانہ سلوک کیا تھا.دشمنی کا کوئی ایسا موقع ان کو نہیں ملا کہ انہوں نے آپ کی دشمنی نہ کی ہو.انہوں نے آپ پر پتھراؤ کر کے آپ کے جسم کو بھی زخمی کیا.آپ کو گالیاں دی گئیں.شہر کے او باش آپ کے پیچھے لگائے گئے.دنیوی نقطہ نگاہ سے جو ذلت کے سامان پیدا کئے جا سکتے تھے وہ انہوں نے اپنی طرف سے کئے تھے.خدا کا کرنا کیا ہوا ہے کہ ۹ھ میں اسی طائف کا ایک وفد آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں اُتارا اور بہ نفس نفیس ان کی مہمانی کے فرائض انجام دیئے.پس یہ وہ محسن اعظم ہے جو بطور آقا کے ہمیں ملا ہے اور جس کے متعلق ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ اس کے ہر اسوہ کی پیروی کرنا تمہارے لئے ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حکم دیا تو اس کے دو پہلو ہیں.ایک اس تعلیم کے مطابق زندگیاں گزارنا جو کامل اور مکمل کتاب قرآن مجید نے دی ہے اور دوسرے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ کی رُو سے آپ کی اتباع میں زندگی گزارنا کیونکہ آپ نے اس کامل اور مکمل تعلیم پر جس رنگ میں اپنی زندگی میں عمل کیا ہے اس کے مطابق اس کے معنی سمجھنا اور اپنی زندگی گزارنا ضروری ہے.یہ خدمت کا جذ بہ ہر اس شخص کے دل میں پیدا ہونا چاہئے جس دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے.یہ خدمت جو ہے یتیم کی مسکین کی ، انجان کی ، ان پڑھ کی اور جاہل کی جو آپ کے متعلق آداب سے ابوداؤ د کتاب الادب و بخاری کتاب الصلواة مختصراً بحوالہ سیرۃ النبی جلد دوم ۳۴۳ مسلم و ابوداؤ د بحوالہ سیرت النبی جلد دوم صفحه ۳۴۲ 3 سورۃ الاحزاب : ۲۲

Page 152

133 سبیل الرشاد جلد دوم بھی واقف نہیں جیسے بدو کی مثال آچکی ہے.اگر یہ جذبہ نہیں تو ہم نے اپنے آقا کے مقام کو نہیں پہچانا اور یہ مقام نہ پہچاننے کی وجہ سے آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل نہیں کیا.اپنی زندگی پر وہ رنگ نہیں چڑھایا جو رنگ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں نظر آتا ہے.اس وقت دنیا عزت کی بھوکی ہے.اس وقت دنیا میں یہ جو نیا معاشرہ اور نئی ناپاکیاں دنیا میں پیدا ہو گئی ہیں.ان کے نتیجہ میں انسان، انسان کی عزت کرنا بھول گیا ہے.کسی کو کوئی ذرا سا عہدہ مل جائے تو وہ غریب آدمی کی طرف نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتا.یہ تو کیا ( اس بڑے آدمی کا ) ایک معمولی چپڑ اسی جھاڑیں دے کر بعض دفعہ کسی کو واپس کر دیتا ہے اور اس سے ملنے ہی نہیں دیتا.اور مسلمان کہلاتے ہوئے یہ کام کیا جاتا ہے.وہ مسلمان جس کو یہ کہا گیا تھا کہ تمہارا آقا وہ ہے جو اپنی زندگی میں یہ نمونہ دکھائے گا.إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ" اور تم پر یہ ثابت کرے گا کہ تمہارے نفوس میں سے ایک رسول پیدا کیا ہے.( بعض اور مثالیں ہیں ان میں اس چیز کی وضاحت ہو جائے گی ) اس وقت ہمارے ملک میں جہاں تک میں نے غور کیا ہے سب سے پہلی ضرورت شرف انسانی کا قیام ہے.میں سمجھتا ہوں کہ وہ انسان جس کی سارے لوگ عزت واحترام کرتے ہوں کچھ عرصہ بھوکا رہ کر گزارہ کر سکتا ہے.لیکن وہ شخص جس کا پیٹ بھرا ہوا ہے لیکن اس کو عزت اور احترام اور شرف کا مقام نہیں دیا گیا وہ سکون کی زندگی نہیں گزار سکتا.وہ بے اطمینان رہے گا.وہ بے چین رہے گا.اس کی بے چینی کی کیفیت ہوگی.وہ سکون اور وہ اطمینان جو اسلام اس معاشرہ میں پیدا کرنا چاہتا ہے وہ اس میں تو نہیں پیدا ہو گا.پس اولیت اس وقت اس بات کو حاصل ہونی چاہئے کہ ہر ایک آدمی کو اس کا انسانی شرف اس کو مل جائے اور وہ اس رنگ میں ملے جس رنگ میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ سے لوگوں کو حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا کیونکہ آپ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں.میں نے لاہور میں اپنے وکلاء سے کہا تھا کہ وہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتباع کرتے ہوئے آپ کے اسوہ پر چلتے ہوئے کم از کم پانچ ایسے آدمیوں سے دوستی قائم کریں اور ان کی عزت اور احترام اور ان کے شرف اور مرتبہ کا اظہار اسی رنگ میں کریں جس رنگ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا.اور تعلق ہر ایک آدمی سے روا رکھنا ہے ، ضروری نہیں کہ وہ مسلمان ہی ہو.لیکن بہر حال یہ تو مسلمان ہیں.مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے ہیں.اسلام کا نام ان کے ساتھ لگا ہوا ہے.پس غریبوں کے ساتھ تم دوستی اور حسن سلوک روا رکھو یہ ان کا حق ہے کہ ان کو شرف انسانی ملے

Page 153

134 سبیل الرشاد جلد دوم اور ان کی عزت کی جائے کیونکہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ شخص جو چیتھڑوں میں ملبوس ہے اسی قسم کا انسان ہے جس نے پانچ سوروپے گز کے کپڑے کا سوٹ پہن رکھا ہے.خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بحیثیت انسان دونوں برابر ہیں.ان میں کوئی فرق نہیں ہے.ہر دو کی ایک جیسی عزت اور شرف ! اور ہر دوا گر اپنے خدا سے دور ہو جائیں تو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ایک جیسے نفرت کے جذبات کے مورد! لیکن اگر چیتھڑوں میں ملبوس انسان اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس کو عزت کی جھلک نظر آتی ہے اور اگر پانچ سوروپے گز کے کپڑے کا سوٹ پہنے والا انسان اس انسانی شرف کو قائم نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اُسے غضب کی چہکار نظر آئے گی.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اس یقین سے ایمان لائے ہیں کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند ہیں اور آپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ صحیح اسلام جو ہر قسم کے گرد و غبار سے محفوظ ہو دنیا میں قائم کریں اور ہم نے آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر یہ عہد کیا ہے کہ ہم آپ کے انصار کی حیثیت سے آپ کے اس مشن کو جیسا کہ آپ چاہتے ہیں یا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے دنیا میں قائم کریں گے اور اس کو پھیلائیں گے اور اس کو کامیاب کرنے کی کوشش کریں گے.پس کوئی احمدی اگر کروڑ پتی بھی ہے تو اس کی ایک غریب سے زیادہ عزت نہیں ہے کیونکہ عزتیں دوہی ہیں جو اسلام نے ہمیں بتائی ہیں.ایک انسان کا شرف اور دوسر ا تقویٰ کا احترام.اس کے علاوہ تو اسلام نے انسان کی کوئی اور عزت ہمیں بتائی نہیں.نہ کہیں دیکھی نہ پڑھی.انسان کے شرف کو اس نے قائم کیا.اور پھر خود انسان کو کہا کہ ایک اس سے بھی بڑھ کر شرف مقدر ہے.اگر چاہیں تو اس شرف کو حاصل کر لیں اور وہ یہ ہے.إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقُكُمْ 0 خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کا شرف میں نے انسان میں قائم کیا ہے.ایک دوسرے سے عزت سے پیش آؤ اور تقویٰ کا شرف میں نے اپنی آنکھ میں قائم کیا ہے.اگر تم تقویٰ کے لباس میں ملبوس ہو گے تو میں تمہارے ظاہری لباس کو نہیں دیکھوں گا.اس صورت میں تم میری نگاہ میں عزت کا مقام حاصل کرو گے.تم میری رضا اور میری جنتوں کو پاؤ گے.ان ہر دو شرف کے علاوہ کسی اور شرف کے متعلق تو میں نے کہیں نہیں پڑھا.ہمارے لئے ہر دوشرف کا حصول اور پھر ان کا قیام ضروری ہے.اس وقت میں شرف انسانی کی بات کر رہا ہوں.ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ اس شرف انسانی کو قائم کرے جو قرآن کریم کی اس آیہ کریمہ پرمبنی ہے: «إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ“ تمہارا بھی اتنا ہی شرف انسانی ہے جتنا شرف انسانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.یہ صحیح سورة الحجرات آیت ۱۴

Page 154

135 سبیل الرشاد جلد دوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر ٹھہرے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں اور استعدادوں اور قابلیتوں کو آپ نے اس رنگ میں نشو و نمادی اور اس کے نتیجہ میں ان رفعتوں کو حاصل کیا کہ جن رفعتوں تک کوئی دوسرا انسان نہیں پہنچ سکا.یہ درست ہے.پس آج دنیا عزت اور شرف کی پیاسی ہے.آج دنیا اپنا حق سب سے پہلے اس رنگ میں مانگتی ہے کہ جو شرف خدائے واحد دیگا نہ نے قائم کیا تھا.لوگ کہتے ہیں کہ ان کے حقوق انہیں ملنے چاہئیں اور میرے ساتھ عزت اور احترام کا سلوک ہونا چاہئے ، میرے ساتھ عزت کا معاملہ چاہئے.یہ ایک بڑا ہی اہم فرض ہے ، حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوۂ کے مطابق جو ہم احمدیوں پر عائد کیا گیا ہے.میرا دل کرتا ہے کہ آپ میں سے ہر ایک کو پکڑوں اور پکڑ کر جھنجھوڑوں اور بیدار کروں اور آپ کے دل میں یہ بات ڈالوں کہ ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ یہ اس کی ذمہ داری ہے.جسے آپ کو ادا کرنا چاہئے ورنہ آپ اپنے مشن میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتے.شہروں میں میں نے دیکھا ہے کہ ہماری تبلیغ کا بڑا زور چند امراء پر خرچ ہو جاتا ہے.آج کا امیر إِلَّا مَا شَاءَ الله - جس پر خدا تعالیٰ نے خاص فضل کیا ہو دنیوی لحاظ سے گلے گلے تک گند کے اندر پھنسا ہوا ہے.اس کو اس گندگی سے نکالنا آسان کام نہیں ہے لیکن اس کے مقابلے میں اگر ہم یہی مثال دیں کہ آج کا غریب اور مسکین اور بے سہارا بے شک دینی اور دنیوی لحاظ سے گندہ اور میلا ہے.لیکن دنیوی لحاظ سے ٹخنے کے اوپر اس کا گند نہیں آیا.زیادہ سے زیادہ گندگی ہے تو اس کے گھٹنوں تک آگئی ہوگی.اس کو اس گندگی سے باہر نکال لینا کہیں زیادہ آسان ہے بجائے اس کے کہ ایک امیر کو اس کی گندی گردن سے کھینچ کر باہر نکالنے کی کوشش کریں.غریبوں کا سہارا بنیں.اُس کے محسن بنیں ، اس کے غم خوار بنیں.اُس کے ہمدرد بنیں.اس پر شفقت کرنے والے بنیں اس کے کام آئیں.اس کی تکلیفوں کو دور کریں، ان کے دکھوں کا مداوا نہیں.اس کو یہ نظر آ رہا ہو کہ عقیدہ میرا اس سے اختلاف ہے لیکن میں اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ میرا ہمدرد اور خیر خواہ ہے.پھر وہ آپ کی بات سُنے گا.اسلام نے ہمیں یہ تو نہیں کہا کہ کسی آدمی کے دل میں زور سے نور بھر دیا جائے.نہیں.ہمارے پاس زبر دست دلائل ہیں جو اسلام کے حق میں دیئے گئے ہیں.آسمانی تائیدات ہیں.دعائیں ہیں.کوئی شخص اگر آپ کے شہر میں بیمار ہے.اور بیماری ایسی ہے کہ اس کا علاج کوئی نہیں.ڈاکٹروں نے اس کو لاعلاج مریض قرار دے دیا ہے.اگر آپ کے دل میں اس شخص کی سچی ہمدردی اور حقیقی خیر خواہی پیدا ہو جائے اور آپ بے چین ہو جائیں اس کی ہمدردی اور خیر خواہی میں اور اس جذبہ کے ساتھ رات کو اُٹھ کر اس کے لئے دعا کریں کہ اے خدا! میرا تو بھائی ہے لیکن تیرا تو بندہ ہے.میرے دل

Page 155

136 سبیل الرشاد جلد دوم میں اس شخص کے لئے جب اتنی ہمدردی اور خیر خواہی پیدا ہوئی ہے تو تیری رحمت کی تو کوئی انتہا نہیں ہے تو اپنے فضل سے اپنے اس بندے کو شفا عطا فرما اور اپنی رحمتوں کے جلوے دکھا تا کہ وہ تیری قدرتوں کو پہچاننے لگے.بسا اوقات آپ کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ قبول کرے گا اور آپ کے اس نشان کے ساتھ اس کو اس طرف متوجہ کرے گا کہ جو اسلام احمدیت پیش کر رہی ہے وہی سچا اسلام ہے.اور وہی حقیقی اسلام ہے.اور وہی زندہ اسلام ہے.جس کے فیوض اور برکات اور تائیدات کو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں.لیکن اگر آپ کے دل میں آپ کے بھائی کے لئے وہ ہمدردی نہیں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے لئے اسوہ حسنہ ہیں.کیونکہ اگر اسوہ حسنہ ہوتے تو آپ ان کی پیروی کرتے.صرف یہاں نہیں بلکہ جب آپ واپس جائیں تو ساری جماعت کو کہیں کہ مسکینوں کا سہارا بنو.ان کا ہاتھ پکڑو، ان سے ہمدردی کرو، ان کے دکھوں کو دور کرنے کی کوشش کرو.ان کے ساتھ عزت واحترام سے بات کرو.کیونکہ شرف انسانی کا یہ مرتبہ اللہ تعالیٰ نے اُسے بھی عطا فرمایا ہے.اور یہ اس کا حق ہے کہ تم اس کو ادا کرو.انسان کے جو حقوق قرآن کریم نے قائم کئے ہیں ان کو ادا کر سکتے ہو تو ادا کرو اگر ادا کروا سکتے ہو تو ادا کر واؤ.اگر بالکل مجبور ہو تو اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی تکلیفیں دور کر دے.میں نے کراچی میں احباب کو یہ ہدایت کی تھی کہ بعض بیچارے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ جن کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے دُکھ کا علاج کیا ہے یا وہ دنیا کے ماحول کو دیکھ کر ڈرتے ہیں کہ جن کے پاس کام ہے کہیں ذلیل کر کے نکال نہ دے.اب تو مال کا نقصان ہے پھر عزت پر بھی زخم آئے گا.پس اس وجہ سے گھبراتے ہیں.میں نے احباب کو یہ ہدایت کی تھی کہ اگر آپ کو کوئی ایسا آدمی ملے تو آپ اس کو کہہ دیا کریں چلو میرے ساتھ.میں تمہاری سفارش کرتا ہوں مثلاً وہاں انجینئر ز اور ڈاکٹرز وغیرہ اثر و رسوخ والے ہیں.اگر وہ کسی غریب اور بے کس آدمی کی اس طرح سفارش کرا دیں تو وہ اس بات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا کہ مثلاً ایک انجینئر ہے ڈیڑھ دو ہزار روپے تنخواہ لے رہا ہے مگر احمدی ہونے کی وجہ سے یہ میرے ساتھ ایک ایسے افسر کے پاس جانے کو تیار ہو گیا ہے جس کو یہ جانتا اور پہچانتا ہی نہیں.آخر کوئی بات تو ہے اس طرح اگر ہم لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں تو پھر وہ ہماری بات سننے کے لئے تیار ہو جائیں گے.پھر جب آپ اس کے سامنے اسلام کی وہ حسین تعلیم پیش کریں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے.تو اس پر ضرور اثر ہو گا.پھر وہ ہماری زندگیوں میں تازہ بتازہ خدائے قادر و توانا کی قدرتوں اور اُس کی رحمتوں کے نشان دیکھے گا تو کہے گا کہ یہ

Page 156

137 سبیل الرشاد جلد دوم تو وہ قوم ہے جن سے اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے پھر اس کے دل میں نور ایمان پیدا ہو گا ، پھر اس کے دل میں بشاشت ایمانی پیدا ہوگی.پھر وہ بشاشت کے ساتھ علی وجہ البصیرت اس یقین پر کہ یہی ایک سچا اور حقیقی اسلام ہے ، آپ کے ساتھ شامل ہو جائے گا اور جب وہ اس طرح علی وجہ البصیرت احمدیت کو قبول کرے گا تو پھر اگر ساری دُنیا اس کی مخالفت شروع کر دے وہ اس کی پروا نہیں کرے گا وہ احمدیت کو نہیں چھوڑے گا کیونکہ اس کا وہی حال ہو گا جو حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید کا ہوا تھا کہ بادشاہ کہہ رہا تھا کہ میں آپ کو اور بھی زیادہ عزت دوں گا.آپ احمدیت کو چھوڑ دیں لیکن انہوں نے کہا.مجھے ایک نور مل گیا ہے مجھے اللہ تعالیٰ کی محبت مل گئی ہے.میں تمہاری اس دنیا کو کیا کروں.میری تو اگر ایک ہزار جان بھی ہوتی تو قربان کر دیتا.حدیثوں میں شہید کا یہی مقام آتا ہے.پس جب انسان سمجھ کر اور یقین کے ساتھ کسی صداقت کو قبول کرتا ہے تو پھر وہ ثابت قدم رہتا ہے.پس یہ یقین اور ایمان کی یہ پختگی ہماری احمدیت کی نسل میں پیدا ہونی چاہئے.ویسے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم میں یہ صدق وثبات پایا جاتا ہے.اس میں شک نہیں لیکن جن کے اندر یہ خوبی نہیں پائی جاتی ان کی ہمیں فکر کرنی چاہئے.غرض دوسری ذمہ داری حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اسوہ حسنہ کے نتیجہ میں ہم پر یہ عائد ہوتی ہے کہ آپ ایسے محسن تھے کہ خدمت گزاری میں کوئی شخص آپ کا مقابلہ نہ کر سکا.آپ کے دل میں ہر وقت یہ تڑپ رہتی تھی کہ کسی شخص کو بھی دکھیا نہ دیکھوں.کسی شخص کو دینی و دنیوی لحاظ سے آگ میں پڑا ہوا نہ پاؤں.جہاں تک ممکن ہو سکے ان کے دکھ کا علاج اور درد کا مداوا کروں.جہاں تک ہو سکے ان کے لئے خیر و برکت اور بھلائی کے سامان پیدا کروں.پس یہ وہ اسوہ حسنہ ہے جس کے نتیجہ میں بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ بھولنی نہیں چاہئے.تیسری چیز آپ کی زندگی میں ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ آپ سے اچھا دوست انسان نے کبھی نہیں دیکھا.اس میں شک نہیں کہ دوستی بھی بڑی نعمت ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ایک یہ قوت بھی رکھی ہے کہ وہ اچھا دوست ثابت ہو سکتا ہے.عربی لٹریچر میں ایک حکایت بیان ہوئی کہ ایک شخص اپنے بچے سے کہا کرتا ہے کہ جو دوست تم بنا رہے ہو یہ تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے.یہ مطلب پرست ہیں.اور تمہیں دھوکا دیں گے.روز ہی باپ اس کو یہ نصیحت کرتا رہتا تھا آخر ایک دن تنگ آ کر بیٹے نے باپ سے کہا کہ پھر آپ مجھے بتائیں کہ اچھا دوست کون اور کس قسم کا ہوتا ہے.باپ نے کہا کہ اچھا میں تمہیں بتا تا ہوں کہ کون دوست اچھا ہوتا ہے.چنانچہ ایک دن باپ اپنے بیٹے کو لے کر رات کے بارہ بجے ایک مکان پر پہنچا اور وہاں جا کر دروازے پر دستک دی لیکن اندر سے آواز آئی کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا

Page 157

سبیل الرشاد جلد دوم 138 میں فلاں آدمی ہوں.اس کے بعد خاموشی طاری ہو گئی.پانچ ، دس ، پندرہ ، ہیں ، پچیس منٹ گزر گئے مگر کوئی باہر نہ نکلا.لڑکے نے باپ سے کہا آپ کا دوست بھی کیا اچھا آدمی ہے کہ باہر ہی نہیں نکلتا.ایسے ہی دوست ہوا کرتے ہیں.باپ نے کہا صبر کرو تمہیں ابھی پتہ لگ جاتا ہے.چنانچہ وہ باہر نکلا ، پورا ہتھیار بند.زرہ پہنا ہوا.گو دلگایا ہوا.تلوار لٹکائی ہوئی.ہاتھ میں نیزہ پکڑا ہوا اور دوسرے ہاتھ میں تین چار تھیلیاں اشرفیوں کی پکڑی ہوئی اور باہر نکل کر کہنے لگا کہ جب میں نے تمہاری آوازی سنی اور تم نے مجھے اپنا نام بتایا تو میں نے سوچا کہ اس بے وقت آنے کا یا تو یہ مطلب ہے کہ کوئی تمہارا دشمن ہے اور تم اس سے لڑنا چاہتے ہو اور میری مدد کی تمہیں ضرورت ہے.یا یہ مطلب ہے کہ تمہیں فوری طور پر پیسے کی ضرورت پڑ گئی ہے.اس لئے مجھے جو دیر ہوئی کہ میں نے سوچا کہ اگر تمہیں میری جان کی ضرورت ہے تو مجھے دیر نہیں کرنی چاہئے کہ پہلے تم سے جا کر واقعہ پوچھوں اور پھر آ کر ہتھیار باندھوں.پہلے ہی میں ہتھیار باندھ کر باہر نکلتا ہوں اور اگر تمہیں پیسے کی ضرورت ہے تو یہ اشرفیوں کی تین چار تھیلیاں لایا ہوں.یہ تم لے جاؤ.چنانچہ باپ نے بیٹے سے کہا کہ دوست ایسے ہوتے ہیں.یہ تو ایک انسان تھا جس کی دوستی بھی محدود اور دوستی کے نباہنے کے لئے جس کے وسائل بھی محدود، جس کی عقل بھی محدود، جس کے اخلاق بھی محدود اور بہت سے زاوئیے جن پر زنگ لگا ہوا ہوتا ہے.ہمیں ہمارے رب نے فرمایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں میں تمہیں دوست دیتا ہوں اور تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم اس دُنیا میں آپ کے اُسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے اس طرح دینی و دنیوی دوستیوں کو نباہنا.دوستیاں پیدا کرنا یہ ایک ملکہ ہے.اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ ملکہ اس لئے دیا ہے کہ ہم اس کو استعمال کریں اور پھر اس ملکہ کے نتیجہ میں جو دوستی پیدا ہوا سے اس طرح نبھایا جائے جس طرح ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے دوستی کو نبھایا تھا.ایک طرف ایک شخص اتنا عظیم آقا اور سردار اور دوسری طرف اتنا محسن اور رحم اور کرم کرنے والا.اور تیسری طرف اتنا اچھا دوست ، اتنا اچھا دوست کہ کسی نے ایسا اچھا دوست کبھی دیکھا ہی نہیں.پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں فرمایا کہ میں تمہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا دوست دیتا ہوں.ایک تو اس کی دوستی کو نباہنا.تم پر دوستی نبھانا فرض ہو جائے گا اور دوسرے اپنی دوستیوں کو اس رنگ میں نباہنا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غلاموں سے دوستی نبھائی تھی.غلام ہی تھے نا ؟ قُلْ لِعِبَادِی میں سب کو غلام بنا دیا تھا اور اس غلامی سے نجات کو وابستہ کر دیا اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک بہترین دوست کے پیرا یہ ہی میں نظر آتے ہیں.

Page 158

139 سبیل الرشاد جلد دوم قرآن کریم نے ایک طرف یہ کہا کہ مومن بھائی بھائی ہیں دوستانہ برادری جو ہے وہ رشتہ کی برادری تو نہیں ہے.مومن بھائی بھائی کہا تو یہ دوستی کا بھائی چارہ ہے.اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ کہلوایا کہ ”اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ" پس سب سے پہلے بھائی یا دوست ہونے کا مقام قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان فرمایا ہے.اور آپ کی زندگی میں یہ جلوہ بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے.چند مثالیں میں اس وقت دے دیتا ہوں پھر اس سے جو سبق ہمیں حاصل کرنا چاہئے اس کی طرف میں آؤں گا.وہ جس کو ایک ایسا مقام عطا کیا گیا کہ اس کے نتیجہ میں روحانی دنیا میں ایک عظیم انقلاب پیدا ہوا اور اس دنیا میں ایک قیامت بپا ہوئی.روحانی طور پر جو مردہ تھے ، آپ کی دعاؤں کے طفیل وہ زندہ ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے لطیف پیرایہ میں اس پر روشنی ڈالی ہے.میں اس کو مختصراً بیان کر دیتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے طفیل ایک قیامت برپا ہوئی اور روحانی مُردے دُنیا میں زندہ ہوئے.جب وہ ایک دوست کے رنگ میں بات کرتا ہے تو اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہیں.آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے جبکہ وہ عمرہ کرنے کی اجازت لے کر جا رہے تھے فرمایا: يَا أَخِي اِشْرِ كُنَا فِي دُعَائِكَ وَلَا تَنْسَنَا کہ اے بھائی! اپنی نیک دعاؤں میں ہمیں بھی یا درکھنا بھول نہ جانا.اب میں ساری مثالیں ایسی دوں گا جن سے دوستی کے حقوق ادا ہوتے ہیں.بہترین دوست جس شکل میں اپنی دوستانہ زندگی کے دن گزار رہا ہوتا ہے ان کی مثال سامنے آ جاتی ہے.ایک صحابی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غزوہ پر بھجوایا.ان کے گھر میں کوئی اور مرد نہیں تھا اور ان کی عورتوں کو دودھ دوہنا نہیں آتا تھا.اس کام پر آپ نے کسی اور کو نہیں لگایا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر جاتے اور دودھ دوہ کر ان کو دے آتے.ایک بدوی صحابی جو آپ کی صحبت میں رہتے تھے اور ایمان اور اسلام میں ترقی کر رہے تھے.اس کی روحانی نشو ونما کی وجہ سے بڑی خوشی محسوس ہوتی تھی اور آپ کے دل میں اس کے لئے ایک دوستانہ جذبہ پایا جاتا تھا.ان کا نام زاہر تھا.ایک دفعہ گاؤں سے شہر میں آئے.جو چیزیں لائے تھے ان سورة الحجرات آیت ال ۱۱ مسند احمد بن حنبل جلد کے صفحہ ۷۹ امطبوعہ دارالمعارف مصر ايضا طبقات ابن سعد جلد۳ ابن سعد حصہ ششم صفحه ۲۱۳ بنت جناب بحوالہ سیرت النبی جلد دوم صفحه ۱۳۴۳ ز شبلی مرحوم

Page 159

140 سبیل الرشاد جلد دوم کو بازار میں فروخت کر رہے تھے.اتفاقاً حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں سے گزر ہوا.آپ خاموشی کے ساتھ اس کے پیچھے جا کر کھڑے ہو گئے اور ان کو اپنی گود میں جھا مار کے پکڑ لیا.انہوں نے پوچھا.کون ہے؟ چھوڑ دو مجھے.یہ کہتے ہی جب پیچھے نگاہ کی تو وہاں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے پایا.یہ دوستی کا تعلق تھا جس کا آپ نے اظہار کیا.فوری طور پر رد عمل یہ ہوا کہ انہوں نے اپنے جسم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کے ساتھ اور بھی زیادہ رگڑ نا شروع کر دیا.پھر آپ نے اس سے دوستی کا جو بے تکلف تعلق تھا اس کا اظہار اس طرح فرمایا کہ وہ بازار میں کھڑے ہوئے تھے.آپ نے فرمایا یہ غلام ہے کون خریدتا ہے اس غلام کو.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھ جیسے غلام کو جوشخص خریدے گا نقصان اُٹھائے گا.میں اس کے کیا کام آؤں گا.ان کی زندگیاں کس قدر بے نفس تھیں یعنی محبوب محمد ، محبوب خدا اور اپنے نفس کا یہ حال ہے کہ غلام بنیں دوستانہ محبت کا اظہار تھا.لیکن کہا غلام ہی ہوں.لیکن بے فائدہ اور نکما غلام.مجھے کوئی خرید کر کیا کرے گا.یہ نہیں کہا کہ مجھے آپ نے غلام کیسے بنا دیا.بلکہ یہ کہا کہ ہوں تو میں غلام ہی مگر نکما اور بالکل بے برکت غلام ہوں.مجھ سے کسی نے کیا فائدہ اٹھانا ہے.پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے فرمایا کہ خدا کے نزدیک تمہارے دام زیادہ ہیں- جب آپ مجلس میں بیٹھتے تھے تو بڑا ہی بے تکلف دوستانہ ماحول ہوتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی جو آپ کے عظیم روحانی فرزند تھے.آپ کی مجلس میں بھی بڑا ہی بے تکلف ماحول ہوتا تھا.آپ کی مجلس دوستوں کی مجلس کی طرح ہوتی ، البتہ آپ کے صحابہ ادب کا دائرہ جانتے تھے اس سے وہ بہر حال باہر نہیں نکلتے تھے لیکن بہر حال بے تکلفی تھی آپس میں کوئی تکلف نہیں تھا.اور یہ اسی تصویر کا عکس تھا جو تصویر کہ ہمیں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتی ہے.چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے پہل ہجرت کر کے مدینہ میں آئے تو لوگ بڑی کثرت سے آپ کے پاس آتے تھے اور بہت سے ایسے ہوتے تھے جو آپ کو پہچانتے نہیں تھے.جب وہاں پہنچتے تو دیکھتے کہ بے تکلف ماحول ہے، کسی قسم کی تصنع نہیں.سارے لوگ دوستوں کی طرح وہاں بیٹھے ہوئے ہیں.ایک دفعہ لوگ آئے اور انہوں نے پہچانا نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں.اور سمجھے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ شاید رسول اللہ ہیں اور وہ آ کر اُن سے مصافحہ کرتے رہے اور کسی کو اس طرف توجہ نہیں ہوئی کہ پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آ کر مصافحہ کرتے ہیں اور پھر دوسروں سے.ان کو بتا ہی دیں.لیکن اللہ تعالیٰ کی اپنی شان ہے.کچھ دیر کے بعد سورج کی شعاعیں حضرت نبی شمائل ترمذی بحوالہ سیرۃ النبی جلد دوم صفحہ ۳۹۷

Page 160

سبیل الرشاد جلد دوم 141 اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑنے لگیں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر اتاری اور آپ پر سایہ کیا.تب ان نئے آنے والوں نے سمجھا کہ اس بے تکلف مجلس میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون تھے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کون تھے.ایک آپ کی عادت یہ بھی تھی اور یہ بھی بے تکلف دوستانہ تعلقات پر مبنی ہے.کسی سے ملنے کے وقت ہمیشہ پہلے خود سلام اور مصافحہ فرماتے.کوئی شخص جھک کر آپ کے کان میں کچھ بات کہتا تو اس وقت تک اس کی طرف سے رخ نہ پھیر تے جب تک وہ خود منہ نہ ہٹالے.مصافحہ میں بھی یہی معمول تھا یعنی کسی سے ہاتھ ملاتے تو جب تک وہ خود نہ چھوڑ دے اُس کا ہاتھ نہ چھوڑتے.بہت سے مواقع پر دینی خدمات جس طرح ہم وقار عمل مناتے ہیں صحابہ کرام کو بھی کرنی پڑتی تھیں وہ بھی ایک بے تکلف مجلس ہوا کرتی تھی مدینہ میں جب آپ تشریف لائے تو سب سے پہلے وقار عمل مسجد نبوی کی تعمیر کے سلسلہ میں کئے گئے اس مسجد کی تعمیر میں دیگر صحابہ (اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہمیشہ انہیں حاصل رہے ) کی طرح خود حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس شریک ہوتے تھے.اپنے دست مبارک سے اینٹیں اٹھا اٹھا کر لاتے تھے.صحابہ عرض کرتے تھے کہ ہماری جانیں قربان آپ کیوں زحمت فرماتے ہیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے ان کا شکریہ ادا کر دیتے لیکن اپنے کام میں لگے رہتے.ایک سفر پیش آیا.آپ اور آپ کے صحابہ سفر پر گئے.کھانا پکانے کا وقت ہو گیا.سامان ساتھ تھا.گو بعض دفعہ کھجوروں پر بھی گزارہ کر لیا جاتا تھا لیکن یہاں ایسا موقع نہیں تھا.چنانچہ کھانا پکانے کا انتظام ہونے لگا.صحابہ نے اپنے ذمہ کام بانٹ لیا.کوئی چولہا جلانے لگا.کوئی کچھ اور کام کرنے لگا.انہوں نے مختلف کام آپس میں بانٹ لئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چو لہے میں آگ جلانے کے لئے لکڑیاں چاہئیں.یہ کام میں کروں گا.آپ کے صحابہ نے عرض کیا یہ کام حضور کے خدام کر لیں گے.آپ تکلیف نہ کریں.آپ نے آگے سے فرمایا ہاں سچ ہے تمہارے دل میں یہی جذبہ محبت ہے کہ میں کام نہ کروں اور میری جگہ تم کام کرو.لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ میں تم سے اپنے کو ممتاز کروں.حضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں گیا.بخاری کتاب الجرت بحوالہ سیرت خاتم النبیین جلد دوم صفحہ ۷ از قمر الانبیاء ابوداؤ دوترمذی بحوالہ سیرت النبی جلد دوم صفحه ۲۹۳ مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحه ۱۸۷ بحوالہ سیرت النبی جلد دوم ۳۳۴ زرقانی جلد ۴ صفحه ۳۰۶ بحواله سیرت النبی جلد دوم صفحه ۳۳۴

Page 161

142 سبیل الرشاد جلد دوم دیکھا کہ کچھ غریب مہاجر ا کٹھے حلقہ باندھے باتیں کر رہے ہیں.میں علیحدہ ایک طرف جا کر بیٹھ گیا.یعنی اُن غریب مہاجروں کے پاس نہیں بیٹھا.ان کو دل میں کچھ خیال آیا ہوگا.اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے.چاروں طرف دیکھا جہاں وہ مہاجرین بیٹھے ہوئے تھے وہاں جا کر بیٹھ گئے.یہ دیکھ کر میں اپنی جگہ سے اُٹھا اور آپ کے پاس جا کر بیٹھ گیا.اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( ان کی وجہ سے ممکن ہے ان کے جذبات کو ٹھیس لگی ہو ) کہ فقراء مہاجرین کو بشارت ہو کہ وہ دولتمندوں کے مقابلہ میں مظلوم فقرا مہاجرین ان امراء سے چالیس سال پہلے اللہ تعالیٰ کی جنت میں داخل ہوں گے.غرض یہ چند ایک دوستانہ سلوک اور پیار کے نمونے ہیں جو اس وقت میں نے آپ کے سامنے رکھے ہیں.ان سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ بہترین دوست جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے کہ انتہائی بلند مقام اور ہر قسم کی عزت اور فضیلت کا سرچشمہ ہونے کے باوجود آپ نے خدمت گزاری اور دوستی میں اپنے دن گزارے.ایک تو ہمیں شکر گزار بندے کی حیثیت میں آپ پر ہمیشہ درود بھیجتے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ پر ہمیشہ اپنی رحمتیں نازل کرتا رہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی آپ کی زندگی کے ثبوت کے لئے دنیا میں آپ کے وہ خدام پیدا کرتا ہے جو آپ کے اسوہ پر چلنے والے اور آپ کی تعلیم کو سمجھ کر آگے اس کی تبلیغ واشاعت میں لگے رہنے والے ہوں اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو دوستی کا یہ ملکہ یا قوت عطا کی ہے.اس کو ضائع نہ کریں بلکہ اس کو کام میں لائیں.اگر آپ اس طرح کے پانچ دس دوست پیدا کریں تو یہ سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا.آج جو وست بنے گا کل کو بھائی بن جائے گا اور دوست کی کرسی خالی ہو جائے گی.اس پر آپ کو کسی اور کو بٹھانا پڑے گا.یہ سلسلہ چلتا رہے گا.اگر آپ اس طرح دوستیاں پیدا کریں اور اسی طرح ان کو نباہنے کی کوشش کریں جس طرح حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبھایا تھا.کہ وہ جو رتبہ میں اور فضیلت میں آپ سے کہیں نیچے تھے ان کو بھی ایک لحظہ کے لئے یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ ان دو دوستوں میں کوئی فرق ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائے اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر اسوہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہماری زندگی کا جو مقصد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے خود ہی قرار دے دیا ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں داخل ہو کر اسلام کی تعلیم اور اسلام کے احکام اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو ساری دنیا میں قائم کریں گے اور اسلام کو اللہ تعالیٰ ہماری نکوۃ باب فضل الفقراء بروایت صحیح مسلم ( بحوالہ سیرت النبی جلد دوم صفحه ۳۷۲)

Page 162

143 سبیل الرشاد جلد دوم کوششوں اور اپنے فضل کے نتیجہ میں اور اپنی بشارات کے مطابق غالب کرے گا اور دوسرے مذاہب اور دوسرے بد مذاہب اور بے مذہب جماعتیں جو ہیں ان سب کو اسلام اپنے حسن و احسان کے رستے کے اندر اس طرح لپیٹ لے کہ وہ آزادی کے خواہاں ہی نہ رہیں.بلکہ دل کے ساتھ اس نعمت عظمیٰ کی قدر کرنے لگ جائیں اور اس کی بھی جس کے طفیل یہ نعمت عظمی انسان کو ملی.صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( غیر مطبوعہ )

Page 163

سبیل الرشاد جلد دوم انحضرت کی عزت ، احترام اور عظمت کا خیال رکھنا ہر احمدی کا فرض ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت اور عظمت کو دلوں میں پیدا کرنے کے لئے قرآن کریم میں بہت سی ، بظاہر دُنیوی نگاہ میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے.اور ہمیں یہ سمجھایا گیا ہے کہ ان چھوٹی باتوں میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت اور احترام اور آپ کی عظمت کا خیال رکھنا ہے ورنہ خدا تعالیٰ کے نزدیک تمہارے وہ اعمال جو دُنیا اور خود تمہارے نزدیک اعمال صالحہ ہیں وہ ضائع ہو جائیں گے مثلاً سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس عظمت کو دلوں میں بٹھانے کے لئے یہ حکم دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر بن بلائے نہ جایا کرو.اگر کھانے پر بلایا جائے تو وقت سے پہلے باتوں کے شوق میں وہاں نہ پہنچ جایا کرو.اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد وہاں بیٹھے نہ رہا کرو اور ان ذرا ذراسی باتوں میں بھی اس بات کا خیال رکھو کہ تمہاری وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور آپ کی ازواج کو اپنی مائیں سمجھو.سبیل الرشاد جلد دوم صفحه 120) 144

Page 164

سبیل الرشاد جلد دوم 145 سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث رحم اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب فرموده ۱/۲۶ خاء ۱۳۴۸ هش ۲۶ اکتوبر ۱۹۶۹ء بمقام احاطہ دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پیدائش انسانی کی غرض یہ ہے کہ انسان کا ایک زندہ تعلق اپنے قا در و توانا اور تی وقیوم خدا سے قائم ہو جائے.اس کے لئے نمونہ کی ضرورت تھی کہ وہ کس قسم کا تعلق ہے جو اللہ اپنے بندہ سے چاہتا ہے کہ اس سے پیدا کرے اور اس کے بعد کس قسم کا سلوک اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے کرتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل جس قدر بھی انبیاء آئے ان کی بعثت کی غرض بھی یہی تھی لیکن چونکہ انسانیت ابھی اپنے ارتقاء کے کمال کو نہیں پہنچی تھی اس لئے قرآن کریم کے کچھ حصے ان قوموں کو دیئے گئے تھے.بے شک ان انبیاء کو اپنی قوموں کے لئے ایک اچھا نمونہ بنایا گیا تھا لیکن وہ نمونہ ہر لحاظ سے کامل اور مکمل نہیں تھا بلکہ ایک نامکمل خوبصورت نمونہ ان کے سامنے رکھا گیا تھا اور ان سے یہ امید کی گئی تھی کہ وہ اپنی استعداد اور طاقت اور نشو و نما کے اس مقام کے لحاظ سے جہاں تک وہ پہنچے تھے اس نمونہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں پھر انسان اپنی روحانی ارتقاء کے بلند تر درجہ پر پہنچا اور اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں ایک کامل اور مکمل اور ارفع اور اعلیٰ اور نہایت ہی حسین اور خوبصورت نمونہ دیا گیا اور کہا گیا کہ اس نمونہ کے مطابق تم اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنو.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کے حسن اور نور کے جلوے اپنے کمال میں انسان کو دکھائے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک کامل اور مکمل اور اکمل نمونہ اور اسوہ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا.اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننا پیدائش انسانی کی غرض ہے اور اللہ تعالیٰ جن صفات سے متصف ہے ان کا بیان بڑی تفصیل سے قرآن کریم میں موجود ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنی اس پاک تعلیم میں بتایا ہے کہ میں اللہ وہ ذات ہوں جو تمام صفات حسنہ سے متصف اور

Page 165

146 سبیل الرشاد جلد دوم ہر قسم کے عیبوں اور نقائص سے پاک اور منزہ ہوں.ان صفات میں سے بعض صفات ائم الصفات کہلاتی ہیں اور بعض وہ صفات ہیں جو اُم الصفات کے دائرہ کے اندر کسی نہ کسی صفت سے تعلق رکھتے ہوئے انسان پر اپنا جلوہ دکھاتی ہیں.ام الصفات قرآن کریم کے بیان کے مطابق چار ہیں جن کا ذکر سورۃ فاتحہ میں آیا ہے یعنی اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے، وہ رحمان ہے ، وہ رحیم ہے، وہ مالک یوم الدین ہے.رب العالمین کا یہ مفہوم قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھا ہے کہ اس نے ہر مخلوق کو پیدا کیا اور اس کو وہ مادی وجود دیا جو ہمیں نظر آتا ہے.گھوڑے کو بھی اس نے پیدا کیا.سور کو بھی اس نے پیدا کیا ، درختوں کو بھی اس نے پیدا کیا ، جمادات کو بھی اس نے پیدا کیا.فرشتوں کو بھی اس نے پیدا کیا.زمین کے ذرہ ذرہ کا وہ خالق یعنی پیدا کرنے والا ہے اور رب العالمین کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ وہ صرف پیدا کرنے والا ہی نہیں بلکہ وہ اپنی مخلوق کی پرورش کرنے والا ہے اور اس پرورش کے لئے جن سامانوں کی ضرورت تھی ان کا متکفل وہ خود ہے.ساری قو تیں اس نے مخلوق کو اس کے مناسب حال عطا کیں.گھوڑے کو جسم کی خوبصورتی ، اس کی چال کی خوبصورتی اور تیز رفتاری کی خوبصورتی عطا کی اور ایک درخت کو اپنی جگہ پر قائم رہتے ہوئے انسان کو شیریں پھل کھلانے کا حسن دیا.ہر ایک مخلوق کو وہ دیا جیسا وہ بنانا چاہتا تھا.انسان کو اللہ ، رب العالمین نے وہ تمام قو تیں اور صلاحیتیں اور قابلیتیں اور استعداد میں عطا کیں جن سے وہ صحیح طور پر کام لے کر اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا مظہر بن سکتا ہے.جتنی بھی انسانی قوتیں یا صلاحیتیں ہیں وہ اس کو اس لئے دی گئی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنے.تیسرے معنی رب العالمین کے یہ ہیں کہ اس نے صرف پیدا ہی نہیں کیا.اس نے صرف نشو ونما کے سامان ہی پیدا نہیں کئے بلکہ اگر اس کی ربوبیت اس عالمین سے ایک لمحہ کے لئے بھی معدوم ہو جائے تو وہ فنا ہو جائیں.ہر چیز کا وہی سہارا ہے کوئی ذرہ اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتا جب تک اس کی ربوبیت کا جلوہ ہمیشہ، بغیر کسی وقفہ کے ، لگا تار اور مسلسل اس پر جلوہ فگن نہ رہے.اس کو ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ انسان کو ایسے نظارے دکھاتا ہے کہ ایک سیکنڈ کے لئے اس کی ربوبیت کا تعلق مخلوق سے نہیں رہتا اور مخلوق فنا ہو جاتی ہے.کبھی متکبر انسان نے شام کے وقت اپنے باغ کا جائزہ لیا اور خوش ہوا کہ اس کی محنت کا شمر بڑا اچھا نکلا ہے ، کل صبح ہم اکٹھے ہوں گے اور اس پھل کو توڑیں گے، انہوں نے مشورے کئے کہ ہم ان لوگوں کو جن کے حقوق اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں ان کے حقوق ادا نہیں کریں گے اور ایسا انتظام کریں

Page 166

147 سبیل الرشاد جلد دوم گے کہ ان پھلوں کو اکٹھا کرنے کے وقت حقدار لوگ وہاں جمع نہ ہوں.ان مشوروں کے بعد وہ خوشی خوشی رات کو سوئے لیکن صبح جس وقت وہ باغ میں پہنچے تو وہاں انہوں نے یہ دیکھا کہ رات کے کسی حصہ میں رب العالمین کا تعلق اس باغ سے قائم نہیں رہا اور اب نہ وہاں کوئی پھل تھا، نہ پیتے تھے اور نہ درخت تھے.سب چیزوں پر ایک فنا طاری ہو گئی تھی.کبھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ دکھایا کہ کھیت ہرے بھرے ہیں اور زمیندار یہ دیکھ کر خوش ہیں کہ ہماری محنت کا پھل جلد ملنے والا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک منٹ کے لئے اپنی ربوبیت کا تعلق ان کھیتوں سے ہٹالیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری مخلوق نے جب خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ان چیزوں کو نہ پایا تو ایک منٹ میں اس نے ایک زبردست حملہ آور کی طرح ان پر یلغار کی اور ایک منٹ کے اندر سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں کھیت ختم کر کے رکھ دیئے.ساری کھیتیاں زمین کے ساتھ لگ گئیں اور ایک دھیلہ کا بھی فائدہ زمیندار کو نہ پہنچا.قرآن کریم نے اسی لئے کہا تھا کہ ءَ أَنْتُمْ تَزْرَعُونَةً أَمْ نَحْنُ الزُّرِعُونَ ) کیا تم ان کھیتوں کو اُگاتے ہو یا ہم انہیں اُگاتے ہیں.تم ان کھیتوں کو نہیں اُگاتے بلکہ میری ربوبیت کا تعلق ان کھیتوں کی پرورش کرتا اور انہیں اس قابل بناتا ہے کہ تم ان سے فائدہ اٹھاؤ.اللہ تعالیٰ نے بیسیوں سینکڑوں مثالیں قرآن کریم میں ایسی دی ہیں جن میں ہمیں یہ سبق دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہر چیز کی بقا اور اس کے قیام کے لئے ایک سہارے اور ستون کا کام دے رہی ہے.وہ ستون نکل گیا تو چھت زمین پر آ رہے گی اور وہ چیز فنا ہو جائے گی ، ہلاک ہو جائے گی ، برباد ہو جائے گی ، تباہ ہو جائے گی ، بے نتیجہ اور بے ثمر ہو جائے گی.غرض ربوبیت کے معنی میں یہ بھی ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو خلق کیا یعنی پیدا کیا.جہاں اس نے اسے قوتیں اور استعدادیں دیں وہاں ہر وقت یہ ربوبیت ہر مخلوق کا سہارا ہے.ربوبیت کا مینہ بغیر وقفہ کے اور تسلسل کے ساتھ مخلوق پر برستا ہے تب وہ باقی رہتی اور قائم رہتی ہے اگر اللہ تعالیٰ کے فیضان کی یہ بارش ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصہ کے لئے بھی مخلوق سے جدا ہو جائے.مخلوق اس فیضان کی بارش سے محروم ہو جائے تو سوائے ہلاکت اور فنا کے اور کوئی چیز نہیں.سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ اے انسان تیرے لئے میرا تجھے پیدا کرنا میری عطا کردہ قوتیں اور صلاحیتیں ہی کافی نہیں بلکہ یہ قو تیں اور صلاحیتیں ( میں اب جسمانی ذہنی اخلاقی اور روحانی قوتیں کہوں گا.یہ چار قسم کی قو تیں ہیں جو ہمیں نظر آتا ہے کہ انسان کو دی گئی ہیں ) جو 10 سورۃ الواقعہ آیت ۶۵

Page 167

148 سبیل الرشاد جلد دوم تمہیں دی گئی ہیں.اے انسان تیری ان قوتوں اور صلاحیتوں کی نشو و نما جس طرح کہ میں چاہتا ہوں ہو نہیں سکتی جب تک کہ میں ان کی نشو ونما کے سامان تیری کسی کوشش اور عمل کے بغیر پہلے ہی سے نہ کر دوں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت انسان اور حیوان وغیرہ سب جانوروں پر جلوہ فگن ہوتی ہے اور قبل اس کے کہ کوئی ضرورت ان کو پیش آئے اس ضرورت کو پورا کرنے کے سامان وہاں انہیں نظر آتے ہیں.بچہ پیدا ہوتا ہے.پیدائش کے وقت کون ساعمل ابھی اس نے کیا ہوتا ہے.وہ اس دنیا میں ایک گھبراہٹ بے چینی اور چینوں کے ساتھ آتا ہے اور ابھی کسی قسم کا ( نہ اچھا نہ بُرا ) عمل اس نے نہیں کیا تھا لیکن ادھر اس کی پیدائش ہوئی اور ادھر اس کی ماں کی چھاتیوں میں اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے دودھ پیدا کر دیا.اگر بوقت پیدائش بچہ کی غذا مہیا نہ کی جاتی تو پھر کوئی بچہ اس دنیا میں زندہ نہ رہ سکتا.نہ انسان کا بچہ، نہ گھوڑے کا بچہ، نہ شہد کی مکھی کا بچہ، نہ تیتر اور فاختہ اور دوسرے جانوروں کے بچے زندہ رہ سکتے.پیدائش کے وقت بچہ کے لئے دودھ یا دوسری غذا کا سامان مہیا کیا گیا ہے حالانکہ عمل کی تو ابھی ابتدا نہیں ہوئی.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں رحمان ہوں.میں تمہارے عمل کرنے سے بھی پہلے تمہاری بقا اور تمہارے قیام کے لئے جن سامانوں کی ضرورت تھی وہ میں نے مہیا کر دیئے اور میرا یہ جلوہ ہر جاندار دیکھ رہا ہے.پھر فرمایا کہ میں رحیم ہوں اگر انسان کو جسے اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے یہ یقین نہ ہو کہ عام حالات میں اغلب یہ ہے کہ میری کوششوں کا دنیوی نتیجہ وہ نکلے گا جو میں چاہتا ہوں تو نری مایوسی ہوتی اور اس کی زندگی بالکل بیکار ہوتی.وہ اس دنیا میں زندہ نہ رہ سکتا.آخر ایک زمیندار کس امید پر اپنے گھر کے کمروں سے، اپنے کوٹھے سے دانے نکال کر کھیت میں جا کر پھینک دیتا ہے.وہ یہ دانے اسی امید پر ہی پھینکتا ہے کہ ہمارا خدا رحیم ہے اور اس سلسلہ میں جو میری کوشش ہو گی اللہ تعالیٰ اپنی رحیمیت کے جلوہ سے اسے با شمر کرے گا اور میرے اعمال ضائع نہیں ہوں گے.قرآن کریم نے متعدد جگہ بتایا ہے کہ میری طرف رجوع کرو اس طرح تمہارے اعمال محفوظ رہیں گے جو لوگ رجوع کرنے والے نہیں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں گرفت کرنے میں دھیما ہوں میں تمہیں موقع دیتا ہوں اور میں اپنی گرفت سے تمہیں اس لئے محفوظ نہیں رکھتا کہ تم میری نگاہ میں روحانی لحاظ سے بڑے خوبصورت اور حسین ہو بلکہ میں تمہیں مہلت اس لئے دیتا ہوں کہ شاید تمہیں کسی وقت عقل آئے اور تم دوری کو قرب سے بدلنے کی کوشش کرو.بہر حال مہلت دینے اور گرفت جلد نہ کرنے میں ایک اور حکمت ہے.لیکن بدلہ دینے کی جو صفت ہے یہ ایک عام صفت ہے.رحیم کے حقیقی معنی یہ ہیں کہ انسان جو نیک کام کرے اللہ تعالیٰ ان کا بدلہ بہتر رنگ میں عطا کرتا ہے ویسے بالواسطہ تمام کوششیں اور ان کے نتائج اس سے تعلق رکھتے ہیں.دنیا میں نیکیاں کی جائیں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہوں کو تلاش کیا

Page 168

149 سبیل الرشاد جلد دوم جائے اور اس کی محبت کے حصول کے لئے انتہائی کوشش اور مجاہدہ کیا جائے.یہ سب کوششیں اسی صفت سے تعلق رکھتی ہیں لیکن کوئی کوشش بالواسطہ اس سے تعلق رکھتی ہے اور کوئی کوشش دور کا چکر کاٹ کر بلا واسطہ اس سے تعلق رکھتی ہے لیکن رحیم کے حقیقی معنی یہی ہیں کہ وہ نیک اعمال کا بہترین بدلہ دیتا ہے یعنی وہ اعمال جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کئے جائیں اللہ تعالیٰ ان کا بہترین بدلہ دیتا ہے.اسلام نے تو اپنی پر حکمت تعلیم سے دنیا کے ہر عمل کو ایسا بنا دیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا جاتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کے منہ میں اس نیت سے لقمہ ڈالتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے تم اپنی بیویوں سے حسن سلوک کرو.اس طرح ایک تو دنیوی تعلق محبت کے مطالبے بھی پورے ہو گئے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ اس کو ثواب بھی دے دے گا.تو دنیا کا ہر کام اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اور اس کی ہدایت کے مطابق کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی نظر میں دین ہی کا کام ہے.پس رحیم کے اصل معنی یہ ہیں کہ جو نیکیاں بجالائی جائیں ان کا وہ اجر دیتا ہے.انسان کی کمزوری کے نتیجہ میں نیکیاں بجالانے میں دو خامیاں اور نقص پیدا ہو جاتے ہیں.ایک نقص بیچ میں یہ رہ جاتا ہے کہ ایک شخص اپنی طرف سے پوری کوشش کرتا ہے لیکن کوئی شیطانی وسوسہ آ جاتا ہے، کوئی دنیوی دباؤ آ پڑتا ہے اور نیکی کا رنگ خلوص اور اخلاص کا نہیں رہتا.کوئی داغ پڑ جاتا ہے جیسے پھلوں میں سے سیب پر آپ نے دیکھا کہ اندر سے ٹھیک ہوتا ہے مگر اس پر داغ پڑ جاتا ہے اور وہ داغی ہو جاتا ہے.یہی حال دوسرے پھلوں کا ہے.اعمال صالحہ کا بھی یہی حال ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا ہوا ہے.تو رحیمیت کے معنی میں ایک پردہ پوشی بھی پائی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ وعدہ کیا ہے اور ہمیں یہ تسلی دلائی ہے کہ اگر تم اخلاص نیت سے کام کرو گے تو اس قسم کے نقائص اور عیب اور داغ اگر رہ جائیں گے تو میں اپنی مغفرت کی چادر میں انہیں لپیٹ لوں گا.بعض دفعہ تمہیں پتہ بھی نہیں ہو گا.کہ میری رحمت کو تم کس طرح حاصل کر رہے ہو.اور میں ان کو ایک خالص، بے عیب اور بے داغ نیکی کے طور پر قبول کروں گا اور پھر اس کا بدلہ دوں گا.غرض رحیمیت میں مغفرت کا مفہوم بھی آتا ہے.نیکیاں بجالانے میں دوسر انقص انسان کی کمزوری کے نتیجہ میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان ایک کوشش کرتا ہے لیکن یا تو اس کی قوتوں میں کمزوری ہوتی ہے یا اُسے پورے اسباب اور ذرائع میسر نہیں آتے اور اس لحاظ سے اس کی کوشش کامل اور مکمل نہیں ہوتی اور چونکہ کمال مجاہدہ نہیں ہوتا اس لئے اس کے لئے نیکی کے ثمرہ اور ثواب کے کمال کا حصول عام حالات میں ممکن نہیں.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں رحیم ہوں میں تمہیں تمہاری کوششوں کو کمال تک پہنچانے میں خود مددکروں گا.غرض رحیمیت کا یہ مفہوم بھی

Page 169

سبیل الرشاد جلد دوم 150 ہے کہ خدا تعالیٰ مدد کرتا ہے تا کہ انسانی کوشش اپنے کمال کو پہنچ جائے اور اس کے نتیجہ میں وہ اس کے فضلوں کو حاصل کرے.چوتھی صفت اللہ تعالیٰ کی امہات الصفات میں سے یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مالک یوم الدین ہے.مالک کا ایک مفہوم رب العالمین کے اندر بھی پایا جاتا ہے.اور وہ مفہوم یہ ہے کہ ملکیت تامہ اور تصرف تام اور قدرت تام خدا تعالیٰ کو حاصل ہے یعنی اس کے تصرف سے اور اس کی ملکیت سے اور اس کی قدرت سے کسی رنگ اور کسی زاویہ سے بھی کوئی چیز باہر نہیں ہے اور اس مفہوم کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی کا کوئی حق اس پر نہیں ہے.کوئی شخص یہ نہیں کہ سکتا کہ اے میرے رب ! تیرے پر میرا فلاں حق تھا جو تم نے نظر انداز کر دیا.وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اے میرے پیارے رب تیرے پر میرے جتنے حقوق تھے وہ سب تو نے بڑی اچھی طرح ادا کر دیئے.کیونکہ مخلوق کا کوئی حق اپنے خالق پر نہیں.اس نے اسے پیدا کیا ہے اور جو کچھ اسے دیا گیا ہے وہ سب اسی کی دین ہے اور اس کا اپنی مخلوق پر ہر قسم کا قادرا نہ تصرف ہے.مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ جزا سزا کے دن ، جزا دیتا ہے یا جو لوگ سزا کے مستحق ہیں ان کو وہ سزا دیتا ہے یہ محرومی ہے مالک یوم الدین کا اصل تعلق جزا سے ہی ہے.سزا تو اللہ تعالیٰ کے حسن سلوک اور جزا کی نفی ہے.مالک ہونے کے لحاظ سے جس کو چاہے وہ بخش دے اور جس کو چاہے وہ پکڑ لے.کسی کا اس پر کوئی حق نہیں ہے.مالک اور بادشاہ کی حیثیت سے جس کے قبضہ قدرت اور تصرف تام میں ہر چیز ہے وہ ان کے ساتھ سلوک کرتا ہے.مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ کے سلوک کے روشن تر جلوہ کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے ایک یہ کہ جس کو جزا مل رہی ہوا سے کامل یقین اور شہو ر ہو یعنی اس کے سامنے وہ چیز بالکل عیاں ہو.کوئی اشتباہ نہ ہو کہ یہ جزا مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہی ہے اور دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی جزا اس کثیف اور مکدر دنیا میں اپنا پورا جلوہ نہیں دکھا سکتی.یہ تو اسباب کی دنیا ہے یہاں ہر چیز خدا تعالیٰ کی مخلوق کے پردوں میں چھپی ہوئی ہے مثلاً یہ روشنی جو اس وقت ہے یہ سورج تو نہیں دے رہا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طاقت ہے جو ہمارے لئے روشنی پیدا کر رہی ہے لیکن سورج کو اس مادی اور اسباب کی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنی اسی قوت کے لئے بطور نقاب کے رکھا ہے.پھر مینہ آسمان سے نہیں برستا بلکہ آسمان سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بارش ہو رہی ہوتی ہے لیکن اس کے اوپر ایک نقاب ہے جو بارش کے رنگ میں نظر آتا ہے.مگر جب کامل جزا ہو تو یہ نقاب اٹھنی چاہئے ورنہ اس جزا کا کمال ظاہر نہیں ہو سکتا.اور یہ دونوں چیزیں انسان کو اس جہاں میں میسر نہیں آ سکتیں کیونکہ یہ اسباب کی دنیا ہے یہاں تو بہر حال مادی اصول چلیں گے جو خدا تعالیٰ نے بنائے

Page 170

151 سبیل الرشاد جلد دوم ہیں اور دوسرے یہ کہ یہاں انسان اللہ تعالیٰ کے اس طرح روشن چہرے کو نہیں دیکھ سکتا.جس طرح وہ اُس جہان میں دیکھے گا.جن لوگوں پر خدا تعالیٰ یہاں گرفت کرتا ہے ان کے متعلق ( کتنے دہریے ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ اتفاق کی بات ہے کہ ہمارے بچہ پر گرفت آ گئی وہ بے وجہ ہے اور اتفاق سے ہے.وہ یہ نہیں کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس امتحان میں ڈالا ہے اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ میں تمہیں مصیبت میں ڈالتا ہوں اگر تم اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ کہو گے تو تمہاری یہ مصیبت کسی نہ کسی رنگ میں ٹل جائے گی.اور تم بہت بڑے انعاموں کا وارث بنو گے.غرض چونکہ یہ اس دنیا کی حجاب در حجاب زندگی ہے اس لئے جب اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے تو بہت سارے انسان اس غضب کو پہچانتے نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی نعمتیں نازل ہوتی ہیں تب بھی کچھ لوگ دعائیں کرتے رہتے ہیں.قرآن کریم میں ذکر ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو خدا سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں یہ نعمت ملے ہمیں یہ نعمت ملے.اگر بچہ نہ ہو تو وہ دعائیں کرتے ہیں کہ ہمیں بچہ ملے، اگر غربت ہو تو وہ دعائیں کرتے ہیں کہ انہیں دولت ملے وغیرہ وغیرہ اور جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی دعاؤں کو سن کر ان کے لئے ایک امتحان کا سامان پیدا کرتا ہے اور جس کا کوئی بچہ نہیں ہوتا اُسے بچہ دے دیتا ہے اور جس کے پاس دولت نہیں اُسے غیب سے دولت مل جاتی ہے تو پھر وہ کہتا ہے کہ یہ دولت تو میں نے اپنی قوت بازو سے حاصل کی ہے یا وہ کہتا ہے کہ فلاں فلاں بڑے با اثر اور بڑا رسوخ رکھنے والے دوست ہیں ان کی سفارشوں کی وجہ سے مجھے یہ دولت ملی ہے اور وہ بھول جاتا ہے کہ یہ چیز ہم نے خدا سے مانگی تھی اور اللہ تعالیٰ نے ہی غیب سے یہ سامان پیدا کئے ہیں.پس اس دنیا میں جہاں تک یہ احساس ہے کہ مجھے یہ نعمت اللہ سے اور صرف اللہ سے ملی ہے اور کوئی اور چیز میرا سہارا نہیں بن سکتی تھی ، میرا مربی نہیں بن سکتی تھی ، میرا معطی نہیں بن سکتی تھی ، میرا محسن نہیں بن سکتی تھی.یہ چیز کھل کر اور روشن ہو کر سامنے نہیں آتی کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور خود اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس کا جلوہ روشن ہو کر سامنے آجائے.اللہ تعالیٰ کا جلوہ بھی پردوں میں ہی نظر آ سکتا ہے.اس دنیا میں وہ روشن ہو کر نظر نہیں آ سکتا.اس لئے اصل جلوہ اس صفت مالکیت کا تو حشر کے دن ہوگا جب سب حجاب اٹھ جائیں گے اور ہر ایک کو پتہ لگ جائے گا کہ میرے اوپر اللہ کے غضب کی نگاہ ہے اور یہاں پر مجھ پر اللہ تعالیٰ کی رضا کی نگاہ ہے مجھے سعادت عظمی ورثہ میں ملی ہے یا شقاوت عظمی مجھے ورثہ میں ملی ہے.جو کچھ اُسے ملے گا وہ اس کے متعلق یقین رکھے گا کہ یہ خدا کی طرف سے مجھے ملا ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کے حسن کے جلوے دیکھے گا تو کوئی حجاب بیچ میں نہیں ہو گا.حجاب جو ہیں وہ دور ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ کو

Page 171

152 سبیل الرشاد جلد دوم کوئی مخلوق دیکھ تو نہیں سکتی لیکن یہ حجاب اس رنگ میں دور ہو جائیں گے اور اس طور پر اور اس حد تک دور ہو جائیں گے کہ کوئی شبہ دل میں باقی نہیں رہے گا کہ جو دور سے بھی حُسن کی کرنیں میرے احساس تک پہنچ رہی ہیں وہ حسن اللہ تعالیٰ کی ذات کا ہے ایک ذرہ بھر اس میں اشتباہ نہیں لیکن اس دنیا میں بھی محدود طور پر اللہ تعالیٰ کی اس مالکیت کے جلوے انسان دیکھتا ہے.وہ لوگ جو فنا فی اللہ ہو جاتے ہیں یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کے اخلاق کا رنگ پورے طور پر اپنے اخلاق میں ظاہر کرتے ہیں اور اللہ کے لئے ایک موت اسی دنیا میں اپنے پر وارد کر کے اپنے رب کریم سے ایک حقیقی اور نئی زندگی حاصل کرتے ہیں وہ اس اسباب کی دنیا میں بھی کشوف اور دوسرے روحانی تجربات میں اس دنیا کی جھلک دیکھ پاتے ہیں جس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا حسن روشن ہو کر سامنے آئے گا اور انسان کے دل سے ہر قسم کے شک اور شبہ کو دور کر دے گا.خدا تعالیٰ کے یہ بندے مالکیت باری تعالیٰ کے جلوے اس دنیا میں دیکھتے ہیں.ہر ایک نہیں دیکھ سکتا.امت محمدیہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان روحانی کے طفیل ہزاروں لاکھوں انسانوں نے اس فنا کے مقام کو حاصل کیا جو بقا کے بے شمار جلوے اپنے اندر رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو اس رنگ میں دیکھا کہ کوئی شک اور شبہ ان کے دل میں نہیں رہا کہ یہ لذت اور سرور جو مجھے مل رہا ہے اس کا منبع اور سر چشمہ سوائے ذات باری کے اور کوئی نہیں.اس یقین کامل کے نتیجہ میں اگر دنیا نے ایسے لوگوں کو آریوں سے چیر نا چاہا تب بھی ان کے دل میں کوئی شک اور شبہ پیدا نہیں ہوا.انہوں نے کہا تم اپنی مادی آری سے میرے مادی جسم کو چیر دو.لیکن وہ لذت اور سرور روحانی جو میرے رب نے مجھے عطا کیا ہے وہ یہ لوہے کی آریاں مجھ سے چھین نہیں سکتیں.آریاں ان پر چل رہی تھیں اور وہ لذت اور سرور کے سمندر میں نہا ر ہے تھے.کسی کے لئے آگ جلائی گئی تا اس آگ میں اسے جلا کر راکھ کر دیا جائے اور جس کو اس آگ میں پھینکا جا رہا تھا اس کے دل کے خیالات یہ تھے کہ میرے رب نے محض اپنے فضل سے مجھ سے پیار کیا ہے اور میرے کان میں بڑے پیار سے مجھے کہا ہے کہ اس آگ سے مجھے مت ڈراؤ.یہ آگ تو میری بلکہ میرے غلاموں کی بھی غلام ہے.یہ سرور اور لذت ہر احمدی کو بھی حاصل نہیں.لیکن احمد یوں میں ہزاروں ہیں (اب تو شاید لاکھوں ہوں ) جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس عظیم روحانی جدو جہد سے جس کے نتیجہ میں آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظیم روحانی جد و جہد سے جس کے نتیجہ میں آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں اس طرح گم ہوئے کہ خدا نے دنیا کو کہا کہ اس میں اور اُس میں اب کوئی فرق نہیں رہا.ان کے طفیل ہم نے اس مقام کو حاصل کیا ہے لیکن

Page 172

153 سبیل الرشاد جلد دوم بہر حال یہ حجاب کی دنیا ہے.مثلاً اگر مجھے کوئی لذت حاصل ہے تو آپ اسے سمجھ ہی نہیں سکتے اور نہ میں بیان کر سکتا ہوں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ جب اس دنیا میں اللہ تعالیٰ بطور مالک ہونے کے بے حجاب حسن کا ایک جلوہ ( دنیا کے لحاظ سے یعنی جس کی دنیا متحمل ہو سکتی ہے ) کسی پر ظاہر کرتا ہے تو وہ اس کو بیان نہیں کر سکتا.جو لذت اور جو سرورا سے ملتا ہے، جو محبت اپنے رب کے لئے اُسے پیدا ہوتی ہے وہ الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی لیکن ایک حد تک یہ جلو ہ اس دنیا میں ظاہر ہو جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہم اس کی صفات کو سمجھنے نہ لگیں ان کا ہم علم حاصل نہ کریں ، ان کا عرفان ہمیں حاصل نہ ہو.اس کے لئے قرآن کریم پر تدبر کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کی تقریروں اور تحریروں اور جو کچھ انہوں نے بیان کیا ان پر غور کرنا چاہئے تب جا کر ہر انسان اپنی اپنی استعداد کے مطابق ان صفات کے متعلق عرفان اور معرفت کو حاصل کرے گا.یہ صحیح ہے کہ ہر شخص نے اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کے عرفان کو حاصل کرنا ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہر انسان پر بالعموم اور ہر احمدی پر بالخصوص یہ فرض ہے کہ اپنی استعداد کے مطابق جس حد تک وہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا عرفان حاصل کر سکے کرے اور اس کے لئے انتہائی جد و جہد اور کوشش کرے اور محنت کرے یہ اس کا اولین فرض ہے کیونکہ اپنی استعداد اور قوت کے مطابق صفات باری کا مظہر بننا اس کی پیدائش کی علت اور وجہ ہے اسی لئے وہ پیدا کیا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ باتیں ہمارے اوپر کھول کر بیان کر دی ہیں.اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک نمونہ ہمارے سامنے رکھا گیا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء کے مقابلہ میں اس قسم کی ربوبیت رکھتے تھے یعنی اس صفت کے اس طور پر مظہر تھے کہ دنیا کا کونہ کو نہ اس ربوبیت کی آنکھ سے چھپا نہیں رہا.آپ عرب میں پیدا ہوئے اور آپ کی جسمانی آنکھ عرب کے لوگوں پر ہی پڑ رہی تھی لیکن آپ کی جو روحانی بصیرت تھی وہ امریکہ کے ایباور بجینز (Aborigines) یعنی ریڈ انڈین پر بھی پڑ رہی تھی.وہ افریقہ کے حبشیوں پر بھی پڑ رہی تھی اور جزائر کے رہنے والوں پر بھی پڑ رہی تھی ، چنگیز خاں کی اولاد پر بھی پڑ رہی تھی.ایشیا یعنی عرب اور دوسرے ممالک پر بھی وہ نگاہ پڑ رہی تھی اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نے آپ کو وہ تعلیم دی کہ اگر آج ہم اس نقطہ نگاہ سے دنیا کے مختلف ممالک اور روشن اور تاریک خطوں پر نگاہ ڈالیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کریں کہ ان کی کیا اُلجھنیں ہیں.کیا مسائل ہیں جن کے حل کی آج انہیں ضرورت

Page 173

154 سبیل الرشاد جلد دوم ہے.ہم غور کریں اور صحیح فکر اور تدبر کے نتیجہ میں معلوم کریں کہ مثلاً آج امریکہ کے حبشیوں کے یہ مسائل ہیں جب تک یہ حل نہ ہوں انہیں ان کے حقوق نہیں ملیں گے اور پھر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ کے اُسوہ کو مخاطب کریں.آپ کی روحانیت کو ہم مخاطب کریں.آپ کے اس بلند مقام کو مخاطب کریں کہ اے ہمارے محبوب آقا تجھے خدا نے ہر مقام اور ہر زمانہ کے لئے ربوبیت عالمین کا ایک اسوہ بنا کر بھیجا تھا.اب اس زمانہ میں ، اس ملک میں اور اس قوم میں اس قسم کی ربوبیت کی ضرورت ہے اور وہ مل نہیں رہی تو آپ کی روحانیت ہمیں بتائے گی کہ میری نگاہ اس وقت بھی اپنے ان غلاموں پر پڑی تھی.میں نے بیان کیا تھا کہ قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا کی ایک تفسیر یہی ہے کہ جب تک تعلق غلامی نہ ہو اللہ تعالیٰ کا فیض حاصل نہیں ہو سکتا تو اسی معنی میں میں لے رہا ہوں.کہ ان غلاموں پر جو تیرہ چودہ سوسال کے بعد پیدا ہوئے اور مصیبتوں میں گرفتار ہوئے اس وقت بھی آپ کی نگاہ روحانی طور پر ان پر پڑی تھی اور آپ نے ان کی صحیح ربوبیت کا انتظام اپنی تعلیم میں کردیا تھا اور فرمایا تھا کہ یہ میری تعلیم کا ایک حصہ ہے اگر میری تعلیم کے اس حصہ پر عمل کیا جائے تو ان کی تکالیف دور ہو جائیں گی ان کی اُلجھنیں سلجھ جائیں گی ان کے حقوق ان کو مل جائیں گے.تو آج کے زمانہ میں امریکہ میں بسنے والے ایا اور تجینز (Aborigines) اور حبشیوں پر بھی اس انسانِ کامل کی نگاہ پڑی جس کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین کر کے ربوبیت تامہ کا مظہر اتم بنایا تھا.ہر ملک، ہر گوشہ اور ہر زمانہ پر اس انسانِ کامل کی روحانی نگاہ پڑی.اور ان کے حقوق کو قائم کرنے اور ان کی ادائیگی کے سامان پیدا کرنے کے لئے تعلیم دی پھر ہمیں یہ حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ آج دوسری طرف کیوں جاتے ہیں جب کہ وہ مسلمان کہلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی اس صفت ربوبیت عالمین کے مظہر اتم ہیں.جس طرح اللہ تعالیٰ کی ربوبیت زمان و مکان سے بالا ہو کر ہر خطہ اور ہر وقت کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ربوبیت عالمین ( جسے قرآن کریم نے رحمۃ للعالمین کے نام سے پکارا ہے ) نے بھی قیامت تک کے لئے انسان کی ساری ضرورتوں کو پورا کرنے اور سارے حقوق کی ادائیگی کے سامان پیدا کرنے کے ذرائع مہیا کر دیئے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اللہ تعالیٰ کی اس ام الصفات میں سے پہلی صفت کے بھی مظہر اتم نظر آتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں.مثال کے طور پر ہم صحابہ کو لیتے ہیں.آپ نے ہر لحاظ سے، ہر زاویہ سے اور ہر پہلو سے صحابہ کرام کی کامل اور مکمل سورہ زمر آیت ۵۴

Page 174

سبیل الرشاد جلد دوم 155 ربوبیت کر دی تھی.یہ تو آپ کے فیضان کی ایک ظاہری مثال ہے.ویسے روحانی مثال تو ساری دنیا کے لوگ ہیں جیسا کہ میں نے پہلی مثال میں بتایا ہے لیکن تاریخ اس پر شاہد ہے کہ کس طرح آپ نے صحابہ کرام کو وحشی انسانوں سے ایک انمول ہیرا بنا دیا پھر ان کو مختلف پہلوؤں سے کٹ (Cut) کیا جیسا کہ ہیرے کو کیا جاتا ہے.اور پھر ان کو اس طرح پالش کیا کہ جس طرف سے بھی انسان کی نگاہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان تربیت یافتہ لوگوں پر پڑی، اس کی آنکھیں چندھیا گئیں کیونکہ ربوبیت کے نتیجہ میں ان میں سے ایک عظیم روشنی نکل رہی تھی.خلاصہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض و برکات اور روحانی تا شیریں اور آپ کی ہدایت و تبلیغ کل دنیا اور کل عالموں کے لئے قرار پائی اور اس کا اثر صحابہ میں بڑے نمایاں طور پر ہمیں نظر آتا ہے.اللہ تعالیٰ کی اُم الصفات میں سے دوسری صفت رحمان کو قرار دیا گیا تھا یعنی اس نے بغیر کسی عمل کے اور بغیر کسی ظاہری استحقاق کے انسان کو اپنی نعماء دیں ، حق تو کسی کا نہیں بنتا لیکن اللہ تعالیٰ نے خود ہی رحم کر کے یہ کہا ہے کہ اگر تم یہ کام کرو گے تو میں تمہارے ساتھ ویسا ہی سلوک کروں گا جیسا کہ گویا تمہارا یہ حق تھا.پس انسان کا کوئی حق تو نہیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے کہا کہ میں تم سے سلوک اسی طرح کروں گا کہ جیسے تم نے حق کو قائم کر لیا ہو.لیکن استحقاق حق سے قبل بے شمار نعماء کی ضرورت تھی ورنہ انسان عمل ہی نہ کر سکتا.اگر یہ سورج نہ ہوتا.سورج اتنے فاصلہ پر نہ ہوتا جتنے فاصلہ پر وہ اب ہے.اگر یہ زمین نہ ہوتی.اگر یہ زمین اس زاویہ پر اپنے محور کے گرد گھوم نہ رہی ہوتی اور اس رفتار سے سورج کے گرد نہ چل رہی ہوتی جس رفتار سے وہ اب چل رہی ہے.اگر چاند نہ ہوتا اور چاند کا زمین سے اتنا فاصلہ نہ ہوتا جتنا فاصلہ اس کا اب ہے.پھر چاند کی وہ روشنی نہ ہوتی جو ہمیں نظر آتی ہے.وہ کبھی بڑھ رہی ہے اور کبھی کم ہو رہی ہے.پھر ایک دو سطح کی راتیں آتی ہیں.ان میں یہ روشنی بالکل غائب ہو جاتی ہے.تو.اس دنیا میں اپنے قومی کی نشو و نما کرنے کے امکان کا سوال نہیں بلکہ اس زمین پر زندگی ہی نہ رہتی.پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی پیدائش سے قبل یہ ساری نعمتیں دیں تو اجر کے طور پر نہیں.بلکہ عمل سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کے جوش میں اپنی جاندار مخلوق خصوصاً انسان کے لئے وہ نعمتیں بنائی ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنے اپنے دائرہ میں (حیوان اپنے دائرہ میں اور انسان بحیثیت نوع اپنے دائرہ میں ) جسمانی اور دوسری ترقیات کر سکتا ہے اور روحانی ترقی کرتے کرتے اس بلند مقام پر پہنچ سکتا ہے کہ اس انسان کی عقل بھی وہاں پہنچنے کے بعد ششدر و حیران رہ جاتی ہے اور وہ کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھ پر کتنا فضل کیا تھا.ہماری عقل اس جلوہ کو دیکھنے سے پہلے اس جلو ہ کو Grasp نہیں کر سکتی

Page 175

156 سبیل الرشاد جلد دوم اسے پہچان نہیں سکتی.اس کی معرفت تامہ حاصل نہیں کر سکتی.لیکن اللہ تعالیٰ ہمیں وہاں تک پہنچا دیتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے مظہر اتم تھے اور قرآن کریم نے اس صفت میں آپ کے مظہر اتم ہونے کو بڑے عجیب پیرا یہ میں اس طرح بیان کیا ہے کہ لَا أَسْلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا میں تم پر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کتنا بڑا احسان کر رہا ہوں لیکن یہ احسان اجر کے طور پر نہیں کہ تم نے کوئی کام کیا تھا اور میں اس کا بدلہ تمہیں دے رہا ہوں.میرے سارے کام، میرے سارے احسان ، میرے سارے تعلقات، میری ساری ہمدردیاں اور غمخواریاں اور میرا دکھوں کو دور کرنا ، میرا حقوق کو قائم کرنا اور حقوق دینا اور دلوانا اجر کے طور پر نہیں یعنی تم نے کوئی کام نہیں کیا تھا کہ میں اس کے بدلہ میں تم سے یہ سلوک کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفت رحمان کے مظہر اتم تھے اور اس صفت رحمان کے مظہر اتم ہونے کا نتیجہ تھا (میں نے بتایا تھا کہ بہت ساری نعمتیں ہیں جو تفصیلی طور پر دی گئی ہیں لیکن اب جو میں بیان کرنے لگا ہوں یہ اصولی طور پر ہے ) کہ اصولی طور پر صفت رحمانیت کے مظہر ہونے کی حیثیت میں دو ایسی عظیم نعمتیں آپ نے انسان کو عطا کی ہیں کہ ان کی کوئی قیمت اس مادی دنیا میں نہیں ہے ایک قرآن کریم جیسی عظیم نعمت اور دوسرے اپنے اسوہ جیسا عظیم نمونہ.یہ دنیا کے سامنے رکھا.کیا کام کیا تھا دنیا نے کہ اس کے اجر کے طور پر یہ نعمتیں اسے ماتیں.آپ نے اتنی عظیم تعلیم اور اتنا حسین نمونہ دنیا کو دیا کہ اکثر دنیا تو اسے سمجھتی نہیں لیکن جو لوگ سمجھتے ہیں وہ بھی حیران و پریشان رہتے ہیں کہ کیا اتنے اعلیٰ درجہ کے اخلاق دنیا میں ظاہر ہو سکتے تھے جو اس وقت ظاہر ہوئے جب خدائے رحمان نے اپنی رحمانیت کے جلوے اور اس کا عرفان اپنے ایک محبوب بندے پر کیا اور اس کے نتیجہ میں اسے اپنی اس صفت کا مظہر اتم بنایا اور آپ کی روحانی قوتوں نے اس قدرنشو ونما میں کمال حاصل کیا کہ آپ قرآن کریم کی تعلیم کے وصول کرنے کے متحمل ہو گئے اور آپ اس قابل ہو گئے کہ اس کے مطابق آپ اپنی زندگی کو ڈھال کر ایک بہترین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں.پس آپ کی رحمانیت کے نتیجہ میں یعنی اس صفت الہیہ کے مظہر اتم ہونے کے نتیجہ میں ہم نے اللہ تعالیٰ سے قرآن جیسی نعمت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ جیسا حسین جلوہ دنیا کے سامنے پیش کیا.ان اُم الصفات میں سے تیسری صفت رحیم کی صفت ہے جس کا مطلب جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ ہے کہ اعمال کو ضیاع سے بچانے والا اور پہلے یہ تسلی دینے والا کہ جب تم عمل کرو گے تو تم میری رحیمیت سورة انعام آیت ۹۱ سورة انعام آیت ۹۱

Page 176

سبیل الرشاد جلد دوم 157 کے جلوے دیکھو گے.نیک اعمال کا بدلہ دینا اس کے اصل معنی ہیں اور اسی کے اندر مغفرت اور نصرت کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے یعنی اعمال میں جو نقص رہ جائے رحیم خدا اپنے فضل سے اس کو ڈھانپ لیتا ہے.اگر کوشش کامیاب ہوتی نظر نہ آئے ، وہ نامکمل رہتی نظر آئے تو اللہ تعالیٰ اس کو کامیاب کر دے گا.مثلاً اگر کسی چیز کے حصول کے لئے سو 100 اکائیاں کوشش کی ضرورت تھی اور انسان نے کوشش کی ، بڑا مجاہدہ کیا اور اٹھانوے یعنی دو کم سوا کائیاں اس نے پوری کر دیں اور اس کوشش کے باوجود اسے کمی نظر آ رہی ہے کیونکہ دوا کائیوں کی کمی ہے.تب خدائے رحیم جلوہ دکھاتا ہے اور اس دو کی کمی کو پورا کر دیتا ہے تا کہ تدبیر اپنے کمال کو پہنچ جائے.یہ سب باتیں رحیم کے معنی کے اندر پائی جاتی ہیں.یہی چیز ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نظر آتی ہے.بنی نوع انسان کی کوششوں میں جو غفلت اور کی اور نقص اور داغ اور بُرائی نظر آ سکتی تھی اس کے متعلق آپ نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ لے کر انسان کو کہا لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا یعنی اگر تم میری اتباع کرو گے تو یہ داغ چھپائے جائیں گے وہ دنیا کو نظر نہیں آئیں گے تمہیں بھی نظر نہیں آئیں گے اور اللہ تعالیٰ بھی یہی ظاہر کرے گا ، گو اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں لیکن چونکہ وہ رحیمیت کا جلوہ اس طرح ظاہر کرتا ہے اس لئے وہ بھی یہی ظاہر کرے گا کہ گویا اس کی نگاہ سے بھی تمہارا یہ داغ چھپا ہوا ہے اور تمہارے ساتھ بڑا پیاراور محبت کا سلوک کرے گا.یہ جلوہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم میں بھی نظر آتا ہے اور آپ کا جو سلوک صحابہ کے ساتھ تھا اس میں بھی یہ جلوہ نظر آتا ہے.رحیمیت کے جو جلوے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام نے اس وقت دیکھے اور پھر دیکھنے والوں نے آج تک دیکھے اور قیامت تک دیکھتے چلے جائیں گے ان کے نتیجہ میں جو نعمت عظمی دیکھنے والوں نے حاصل کی وہ ثبات قدم تھا.جس شخص کو یہ یقین ہو کہ میرے اعمال ضائع نہیں ہوں گے ، جس کو یہ یقین ہو کہ اگر کوئی خامی رہ گئی ، اگر کوئی نقص رہ گیا ، اگر میری کوشش پر کوئی داغ پڑ گیا تو اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ اگر میری نیت میں فتور نہ ہوا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی میں نے کامل اتباع کی تو یہ نقص دور کر دیا جائے گا، یہ داغ چھپا دیا جائے گا.اور جس شخص کو یہ یقین ہو کہ بے شک میں کوشش تو کروں گا لیکن آخرمیں انسان ہوں.اس لئے ہو سکتا ہے کہ میں اپنی کوشش اور تدبیر کو اس کمال تک نہ پہنچا سکوں.جس کمال تک پہنچنے کے بعد نتیجہ نکلا کرتاہے تو اللہ تعالیٰ فضل کرے گا اور میری اس کمی کو دور کر دے گا.ہم میں سے اکثر زمیندار ہیں اور زمینداروں کے لئے اس کی موٹی مثال یہ ہے کہ ایک شخص گندم اُگانے کے لئے بڑی سوره زمر آیت ۵۴

Page 177

158 سبیل الرشاد جلد دوم کوشش سے اپنے کھیت میں ہل چلاتا ہے.بڑی کوشش سے زمین کو ہموار کرتا ہے ، اچھا بیج مہیا کرتا ہے اور اس میں بوتا ہے پھر اس کو پوری کھا د دیتا ہے.اب بھی بہت سے کنوئیں بیلوں سے چلنے والے موجود ہیں اور عام طور پر گرمیوں میں بھی اور سردیوں میں بھی زمیندار راتوں کو بھی جاگتا ہے اور کھیت کو پانی دیتا ہے.آج کل گندم کا جو بیج بویا جاتا ہے اس کو پانچ چھ پانیوں کی ضرورت ہوتی ہے.زمیندار وقت پر پہلا پانی دیتا ہے پھر فلائی کرتا ہے پھر وقت پر دوسرا پانی دیتا ہے اور فلائی کرتا ہے پھر وقت پر تیسرا پانی دیتا ہے پھر نلا ئی کرتا ہے پھر وقت پر چوتھا پانی دیتا ہے اور فلائی کرتا ہے پھر وہ بیمار ہو جاتا ہے اور پانچواں پانی نہیں دے سکتا.تو دیکھو اس نے ایک تدبیر کی.کوشش کی.مجاہدہ کیا لیکن چونکہ وہ تدبیر کوشش اور مجاہدہ اپنے کمال کو نہیں پہنچا اس لئے نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کی گندم جل جائے گی.خشک ہو جائے گی.بالیوں میں دانہ نہیں پڑے گا.لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض اور برکات کے نتیجہ میں رحم کرنا چاہتا ہے.اور اس سے محبت اور پیار کا سلوک کرنا چاہتا ہے تو جس وقت پانچویں پانی کا وقت آتا ہے تو وہ بادلوں کو کہتا ہے میرے اس بندہ نے خلوص نیت کے ساتھ اور اس ارادہ کے ساتھ کہ میں اس کو جو دولت دوں گا اُسے وہ میری راہ میں خرچ کرے گا یہ کھیت اُگائے تھے ، اُس نے اپنی طرف سے بڑی کوشش کی تھی اور اس کی کوشش مثلا نوے تک پہنچ گئی تھی لیکن اب وہ مجبور ہو گیا ہے اور مزید کوشش نہیں کر سکتا.جس کے نتیجہ میں کامل نا کامی کا اسے سامنا ہوگا.کیونکہ تد بیر مکمل ہو تو کامیابی ہوتی ہے اگر گندم کو آخری دو پانی نہ ملیں تو پوری کی پوری ناکامی ہو جائے گی.یہ نہیں کہ زمیندار کو 2/3 گندم مل جائے گی بلکہ اسے ایک دانہ بھی نہیں ملے گا کیونکہ دانے پڑنے سے پہلے ہی سارے پودے خشک ہو گئے.اللہ تعالیٰ بادلوں کو کہتا ہے کہ جاؤ اور میرے اس بندہ کے کھیتوں پر بارش برساؤ کیونکہ میں اس کی تدبیر کو اپنی رحیمیت کے جلوہ سے مکمل کرنا چاہتا ہوں تا اسے ثواب ملے.یہ محض فلسفہ نہیں بلکہ دو سال ہوئے مشرقی افریقہ میں ہماری ایک چھوٹی سی دیہاتی جماعت ہے انہوں نے حکومت سے کچھ زمین حاصل کی.اس علاقہ میں بہت سارے بنجر علاقے پڑے ہیں اور غالباً حکومت بنجر زمینیں ایسے لوگوں کو کنٹریکٹ (Contract) یالینز پر دے دیتی ہے جو انہیں آباد کرنا چاہیں.بہر حال ہماری اس جماعت کے افراد نے کچھ بنجر زمین حکومت سے حاصل کی.اور اس کے حصول میں بڑی محنت کی.پھر بڑی محنت سے جھاڑیاں اور درخت کاٹے اور اسے کاشت کے قابل بنایا اس کے بعد انہوں نے بڑی محنت کی اور فصل بونے کے لئے زمین تیار کی.پھر انہوں نے نئی امریکن مکئی کے بیج حاصل کئے یہ کئی بڑی موٹی ہوتی ہے اور چھلی (بھٹہ) میں دانے پر دانہ چڑھا ہوا ہوتا ہے.پنجابی میں ایک محاورہ ہے ” جب پڑ

Page 178

سبیل الرشاد جلد دوم 159 جانا.اس چھلی (بھٹہ ) کے دانوں میں بھی جب پڑے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ دانے ایک دوسرے کے اوپر چڑھے ہوتے ہیں.بہر حال انہوں نے مکئی کا بہت عمدہ بیج اس زمین میں بویا.اُن کی کوشش یہیں تک تھی کیونکہ وہ علاقہ بارانی ہے اور اللہ تعالیٰ کے عام رحم کے جلووں کے نتیجہ میں بارشیں ہوتی رہتی ہیں لیکن جس وقت ملکی کو بھٹے لگنے کا وقت آیا تو خشک سالی شروع ہوگئی اور بارش نہ ہوئی.انہوں نے خود بھی دعا کی اور مجھے بھی دعا کے لئے لکھا اور کہا ہم نے بڑی محنت کی ہے.ہماری پہلی فصل ہے اور بچوں، جوانوں اور بوڑھوں ، عورتوں اور مردوں سب نے اس کوشش میں حصہ لیا ہے اور اس میں جماعت کا فائدہ تھا لیکن اب ہمیں نظر آتا ہے کہ ہماری اس کوشش کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا تو ہمیں بہت مایوسی ہوگی آپ ہمارے لئے دعا کریں.خیر وہ بھی دعا کرتے رہے اور میں بھی دعا کرتا رہا اور اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور صرف اسی علاقہ میں بارش ہوئی ، باقی ارد گرد کا سارا علاقہ اسی طرح خشک سالی کا شکار رہا اور لوگوں کی فصلیں خراب ہو گئیں ، لیکن دعا کے نتیجہ میں اس علاقہ میں بارش ہوئی اور پھر وقت پر بارش ہوتی رہی اور اس کے نتیجہ میں فصل بہت اچھی ہوئی.اسی مکئی کی چھٹی (بھٹہ ) اتنی بڑی تھی کہ اتنی بڑی چھاتی میں نے کبھی نہیں دیکھی.ایک دن ایک پارسل مجھے آیا.جس میں عرق کی بوتل جتنی کوئی چیز تھی جو بڑی سخت تھی اور وہ کسی غیر ملک سے آیا تھا جو دوست وہ پارسل لائے میں نے ان کو کہا کہ اسے ایک طرف رکھ دو.اس وقت مجھے یہ خیال ہی نہ آیا کہ اتنا بڑا پارسل کہاں سے آ سکتا ہے.وہ بڑا وزنی پارسل تھا.نماز کا وقت قریب آ رہا تھا اور مجھے بھوک بھی لگی ہوئی تھی.میں کام سے اُٹھا اور کھانے کی میز پر چلا گیا اور ابھی میں میز پر بیٹھا ہی تھا کہ مجھے خیال آیا کہ یہ کہیں مکئی کی چھٹی (بھٹہ ) ہی نہ ہو.جوان لوگوں نے مجھے بھجوائی ہو جو مجھ سے دعائیں کروارہے تھے کیونکہ مجھے وہاں سے اطلاع آ گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے فضل کر دیا ہے اور بارشیں ہوگئی ہیں میں تو اس فضل کے دیدار کا بھوکا تھا.میں نے کھانا چھوڑا اور جا کر وہ پارسل کھولا.میں نے دیکھا کہ اس پارسل میں ایک چھتی ہے جو اتنی بڑی ہے کہ یہاں بڑی سے بڑی چھلی (بھٹہ ) جو میں نے دیکھی ہے.وہ اس سے قریباً ڈیڑھ گنا بڑی تھی اور پتہ نہیں اس میں کتنے سو دانے تھے جو ایک دوسرے کے اوپر چڑھے ہوئے تھے.غرض انسان کی کوششوں میں جو کمی رہ جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کی رحیمیت اس کمی کو پورا کرتی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے یہ اُسوہ رکھا ہے کہ صحابہ کے اعمال میں جو کمی رہ جاتی تھی اس کو آپ اپنی دعاؤں اور مادی ذرائع سے امداد کے ذریعہ پورا کرتے تھے.اور اپنی امت کے لئے آپ نے ایسے اصول وضع کئے ہیں کہ مثلاً ایک شخص (میں آج کل اقتصادیات سے متعلق مضمون بیان کر

Page 179

160 سبیل الرشاد جلد دوم رہا ہوں اس لئے مثال بھی اسی قسم کی دے رہا ہوں) میں اتنی طاقت دی کہ اس کا بچہ دسویں جماعت تک کوشش کرے اور پڑھ سکے اس کے بعد اس کی تدبیر ختم ہو جاتی ہے کیونکہ اس بیچارے کے پاس سامان موجود نہیں لیکن اسلامی تعلیم نے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں کہ وہ بچہ اپنی کوشش کو انتہا تک پہنچا کر پی ایچ ڈی (.Phd) بلکہ اس کے بعد کے امتحان بھی دے اور دنیا کے چوٹی کے سائنس دانوں میں سے ہو جائے.یہ تعلیم رحیمیت کا ایک جلوہ ہے لوگوں کو یہ کہا کہ اگر تم میرا پیار حاصل کرنا چاہتے ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کرنا چاہتے ہو تو یہ رحیمیت کے جلوے جو میرے وجود میں دنیا کو نظر آ رہے ہیں میرے اسوہ کی اتباع کر کے یہی صفات اپنے اندر بھی پیدا کرو تا کہ میرے فیوض روحانی قیامت تک دنیا میں جاری رہیں اور میری برکات کے زندہ نظارے دنیا دیکھتی رہے.صحابہ میں تمہیں نظر آیا کہ ان کے جو نقائص تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دور کیا حالانکہ ان کا کوئی اجر نہیں تھا.لیکن جیسا کہ میں نے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی صفت کے متعلق بیان کیا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صفت رحیمیت کے مظہر ہونے کی وجہ سے یہ سمجھ لیا کہ انہوں نے کام کیا ہے اور آپ نے ان کا اجر دیا ہے اور ان کے ایمان کو قبول کیا گیا.بعض لوگ ایمان لاتے ہیں وہ بڑا پختہ عقیدہ رکھتے ہیں لیکن عمل میں کمزور ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا ایمان قبول ہو گیا حالانکہ ایمان اپنی کوشش سے قبول نہیں ہوا کرتا.ایمان اللہ تعالیٰ کے فضل سے قبول ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے تدبیر اور دعا ہر دو کی ضرورت ہے.صحابہ کرام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت رحیمیت کے مظہر ہونے کی وجہ سے جو بنیادی نعمت اس دنیا میں ملی وہ ثبات قدم اور استقلال تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کی نعمت کو پالینے کی اہلیت ان میں پیدا ہو گئی.ثبات قدم اور استقلال کے یہی معنی ہیں اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ صحابہ کو صرف یہ ایک نعمت ہی نہیں ملی بلکہ اس کے نتیجہ میں ان میں یہ اہلیت پیدا ہوگئی کہ وہ ہر قسم کی نعمت اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل کر لیں.کیونکہ تدبیر اور دعا کو بہر حال کمال تک پہنچانا ضروری ہے.اور یہ ثبات قدم اور استقلال کے بغیر ممکن نہیں ہے اور ثبات قدم اور استقلال جیسی عظیم نعمت صحابہ کرام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حاصل ہوئی.پھر آپ مالکیت یوم الدین کے بھی مظہر بنے اس کا ایک ظاہری نتیجہ تو ہمیں فتح مکہ کے دن نظر آیا کہ اس دن آپ کا سلوک اپنوں اور غیروں سے اس شخص کا سانہیں تھا جو اجرت پر کام کرنے والے کا ہوتا ہے.مثلاً اس کے کارخانہ دار کا کوئی مزدور ہو اور اس نے اس کی جزا دینی ہو یا جس نے عمل ایسے کئے ہیں

Page 180

سبیل الرشاد جلد دوم 161 کہ ان کے مقابلہ میں اسے ضرور سزا ملے.سزا دینا تو ایک حج کا کام ہے نا !...ایک حج کے سامنے اگر گواہیاں ایسی ہوں کہ کسی شخص نے دوسرے کا مال لوٹا ہے تو وہ مال واپس دلواتا ہے کیونکہ وہ مالک نہیں بلکہ وہ ایک عدل کرنے والا منصف اور حج ہے.لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مالکیت یوم الدین کی صفت کے مظہر ہونے کا جلوہ فتح مکہ کے دن عام لوگوں نے بھی بالکل واضح طور پر سامنے دیکھا.آپ کا اس دن اپنوں کے ساتھ یہ سلوک تھا کہ آپ نے ان لوگوں کو کہ جن کی تلواریں اسلام کے حق میں میانوں سے نکلیں اور ان سے خون ٹپک رہا تھا ان کو تو اموال نہیں دیئے.بلکہ اموال آپ نے دوسروں میں تقسیم کر دیئے.بعض بے وقوفوں کو جن کا ایمان پختہ نہ تھا اس کی سمجھ نہ آئی اور انہیں اس پر اعتراض پیدا ہو گیا حالانکہ انہوں نے اپنا کوئی حق صحیح معنی میں قائم ہی نہیں کیا تھا.کوئی شخص نہ خدا پر اپنا حق قائم کر سکتا ہے اور نہ اس شخص کے اوپر اپنا حق قائم کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر اتم تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہا.تم تو بھول میں ہو میں نے اپنے ماننے والے متبعین مخلصین کے درمیان بڑی پیاری تقسیم کی ہے.ان میں سے ایک حصہ کو میں نے ان کی ضرورتیں دیکھ کر دنیوی اموال دیئے اور دوسرے گروہ کو ان کے دلوں میں اپنی محبت دے کر میں نے انہیں اپنی صحبت اور اپنا وجود دے دیا.معترض کا اعتراض سن کر مخلصین بڑے پریشان ہوئے وہ بڑے بے چین ہوئے ان کے اوپر گویا ایک موت وارد ہوئی.اور ان کی یہ خواہش تھی کہ کاش اس بات کے سننے سے پہلے ہی وہ مرجاتے.کسی بیوقوف نے کیا بُر افقرہ اپنے منہ سے نکالا ہے حالانکہ اس بیوقوف نے وہ فقرہ اپنے منہ سے اس لئے نکالا تھا کہ اللہ تعالی یہ بتانا چاہتا تھا کہ میرا یہ بندہ ( نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) میری صفت مالکیت کا مظہر ہے.اس کا سلوک اپنے صحابہ کے ساتھ ایک عدل کرنے والے اور منصف اور حج کا نہیں بلکہ اس کا سلوک ایک با دشاہ اور قادر اور مالک کا سلوک ہے.آپ نے دشمنوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بھی ایک عدل کرنے والے کا سلوک نہیں تھا.آپ نے انہیں وہ حق نہیں دیا جو ان کی غفلتوں اور بد اعمالیوں اور ایذاء دہانیوں کا دنیا کے لحاظ سے بنتا تھا.دنیا کے لحاظ سے ان کا حق تو یہ تھا کہ ان کی گردنیں اڑا دی جاتیں اور اگر ان پر کچھ رحم کیا جاتا تو ان کو غلام بنا کر مدینہ میں لے جایا جا تا.ان کے اموال لوٹ لئے جاتے ، اُن کے بچوں اور عورتوں کو بھی غلام بنا لیا جاتا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت یوم الدین کے مظہر کے طور پر مکہ کے میدان میں کھڑے ہوئے تھے.آپ نے اپنے دشمنوں کو جن کے حقوق کچھ اور تھے وہ اس بات کا حق رکھتے تھے اور سزاوار تھے کہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور قہر کا جلوہ دیکھیں اکٹھا کیا اور یہ منادی کی

Page 181

سبیل الرشاد جلد دوم 162 كم لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ میں آج خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت یوم الدین کا مظہر ہونے کی حیثیت میں اپنی بادشاہت اور مالکیت کا اعلان اس رنگ میں کرتا ہوں کہ تمہارے سارے قصوروں کو معاف کرتا ہوں.آج تمہیں تمہاری بداعمالیوں کی سز انہیں دی جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صفت مالکیت یوم الدین کے مظہر ہونے کا نتیجہ صحابہ کرام کو یہ ملا کہ انہیں اسی دنیا میں ہی صفات باری کی معرفت اور ذات باری سے محبت عطا کی گئی.اس سے بہتر اور کوئی جزا نہیں ہوسکتی تھی.جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ذاتی محبت پیدا ہو جائے اور جو روحانیت اور عقل کے لحاظ سے تمام صفات باری کو سمجھنے لگے اور ان کا عرفان رکھے اُس کے لئے اس سے زیادہ اور کیا نعمت ہو سکتی ہے.یہ اس سعادت عظمی کی جھلک ہے جو انسان حشر کے دن دیکھنے والا ہے لیکن اس کو بھی ہم سعادت عظمیٰ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی محبت جب دل میں موجزن ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا عرفان ہو جس کے نتیجہ میں یہ ذاتی محبت پیدا ہوتی ہے اور اس کے حسن اور اس کے احسان کی معرفت انسان پالے اور حق الیقین کے ساتھ یہ جانے کہ اصل حسین حسن کا منبع اور اصل محسن.احسان کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اسی سے ہمیں ہر چیز لینی چاہئیے اور اس سے ہمیں ہر چیز ملے گی.اس سے بڑھ کر اور کیا نعمت ہو سکتی ہے.غرض نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امہات الصفات کے مظہر اتم تھے اور باقی صفات کے بھی مظہر تھے اور اس وجہ سے انسان تا قیامت آپ کے فیوض اور برکات سے حصہ لیتا رہے گا.صحابہ کرام کو اور پھر بعد میں آنے والوں کو قیامت تک کے لئے اللہ اور اس کے رسول کا یہ حکم ہے کہ جس طرح میرا یہ پیارا میری صفات کا مظہر بنا تم بھی اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس کے اسوہ کو سامنے رکھتے ہوئے میری صفات کا مظہر بننے کی کوشش کرتے رہنا کہ اس کے بغیر تمہیں حقیقی فلاح اور حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ سورۃ فاتحہ میں مذکورالہی صفات کی تفسیر کرنے کے بعد یہ لکھا ہے کہ ہماری جماعت کا اولین فرض ہے کہ وہ ان چار صفات کا رنگ اپنے اندر پیدا کرے.اور آپ نے دوسری جگہ مختصراً اس مضمون کو بیان کیا ہے.میں بھی شاید اس وقت مختصراً ہی بیان کروں گا کیونکہ کافی دیر ہو چکی ہے.جہاں آپ نے جماعت کو تاکید کی ہے وہاں آپ فرماتے ہیں کہ اگر آپ لوگ جو میری جماعت میں شامل ہوئے ہو یہ چار صفات اپنے اندر قائم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو آپ اس دعا کے پڑھنے میں سراسر جھوٹے ہوں گے جو آپ پانچ وقت ہر روز نماز میں پڑھتے ہیں کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ آپ نے فرمایا

Page 182

سبیل الرشاد جلد دوم 163 ہے کہ جماعت کو بحیثیت جماعت اور افراد جماعت کو بحیثیت افراد اس قسم کا نمونہ اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کا اپنی زندگیوں میں ظاہر کرنا چاہئیے کہ ان کی ہمدردی کا میدان اتنا وسیع ہو کر تمام چرند اور پرند اور کل مخلوق اس میں آ جائے.یہ حکم ہے ہمیں ربوبیت کے مظہر بنے کا اور اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے اس کی حفاظت کرنے کے لئے.) ربوبیت عالمین سے جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا کوئی مخلوق باہر نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کی ربوبیت کی ہے.اُس نے سور کی بھی ربوبیت کی ہے.اس نے ہر ذرے کی ربوبیت کی ہے اور وہ ہر وقت ربوبیت کر رہا ہے.وہ اس ربوبیت سے غافل نہیں ہے کیونکہ اللہ کی اگر نعوذ باللہ یہ ممکن ہوتا اور ایسا ہو جاتا تو ایک لحظہ کی غفلت اس عالمین کی ہلاکت پر منتج ہوتی.اس کے نتیجہ میں ساری مخلوق ہلاک ہو جاتی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ عالمین کی ربوبیت کر رہا ہے تم بھی خدا تعالیٰ کی اس صفت کے مظہر بنتے ہوئے دوسروں کی ربوبیت کرو.تم بھی اپنی استعداد کے مطابق اس کی کل مخلوق کی ربوبیت کرو، جس میں چرند اور پرند اور انسان سب شامل ہیں بلکہ وہ مخلوق بھی شامل ہے جو اس معنی میں زندہ نہیں جس معنی میں چرند پرند اور انسان زندہ ہیں.تمہاری ہمدردی ، تمہاری غم خواری اور تمہارے احسان کا دائرہ اتنا وسیع ہونا چاہئے کہ وہ ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہو جس طرح کہ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارے اندر رحمانیت کی صفت بھی جلوہ گر ہونی چاہئے.جس کے نتیجہ میں جاندار مخلوق کی ہمدردی تمہارے اندر خاص طور پر پائی جائے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اسوہ ہمارے سامنے رکھا.ذرا ذراسی چیز کو ہم دیکھتے ہیں تو عجیب محبت دل میں پیدا ہوتی ہے، عجیب حسن اس جگہ نظر آتا ہے مثلاً فرمایا ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے مسخر کی گئی ہے اس لئے تم حسب ضرورت جانوروں کا گوشت کھا سکتے ہو.تم جانداروں کی جان لے سکتے ہو.یعنی جو جانور حلال کئے گئے ہیں ان کی جان لے سکتے ہو.اس لئے فرمایا تم بسم اللہ پڑھ کر اس کی جان لو.بسم اللہ پڑھ کر اس کا گوشت کھاؤ.کیونکہ تمہارا کوئی حق نہیں تھا کہ تم اس کی جان لیتے.اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کے جلوہ سے تمہیں اس کی اجازت دی ہے لیکن تم دو چیزوں کا خیال رکھو ایک تو یہ کہ تم نے بلاضرورت کسی جانور کی جان نہیں لینی.کئی لوگ محض شو (Show) کے لئے متعدد جانور ذبح کر دیتے ہیں.عرب لوگ اونٹ کا گوشت استعمال کرتے تھے.اب دوسو مہمان ہیں ان کے لئے ایک اونٹ کافی ہے لیکن میزبان یہ بتانے کے لئے کہ میں بڑا امیر ہوں دوسو مہمانوں کے لئے ہیں اونٹ ذبح کر دیتے تھے یا ایک ایک مہمان کے لئے ایک ایک اونٹ ذبح کر دیتے تھے.ایسا کرنے کی اجازت اسلام نے نہیں دی کیونکہ کسی جاندار کی جان لینا اتنا

Page 183

164 سبیل الرشاد جلد دوم ہی حرام ہے جتنا کسی درخت کو کاٹنا حرام قرار دیا گیا ہے.اسلام نے ہر چیز کی حفاظت کی ہے.اور پھر ساتھ ہی ہمیں یہ کہا کہ جب تم اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اور ہمارے اس حکم کے ماتحت کہ ہر چیز تمہارے لئے مسخر کی گئی ہے کسی جاندار کی جان لو تو ایک تو اس کی جان لینے میں اس کو دکھ نہ پہنچے یعنی کم سے کم تکلیف میں تم اس کی جان لے لو اور دوسرے تمہارے کسی ایسے جذ بہ کا اظہار نہ ہو کہ تمہارے دل میں اس کی جان کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے اور جاندار کے دُکھ کا تمہیں احساس نہیں ہے ، گویا جاندار کو اس کی جان لینے سے جو دُ کھ پہنچتا ہے اس کا احساس یا د دلایا ہے.اس طرح آپ نے فرمایا کہ جو پالتو جانور ہیں ان میں بہت سارے بندھے ہوئے ہوتے ہیں تم ان کو تیر سے یا شکار کے دوسرے آلات سے نہ مارو.گویا ایک ہرن پر ضرورت پوری کرنے کے لئے تیر چلانے کی اجازت دی لیکن اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے گھر کی پالتو بھیڑ یا بکری پر تیر چلانے کی اجازت نہیں دی بلکہ اس سے منع کیا.اس لئے کہ پہلے ایک مجبوری تھی اور اس مجبوری کی وجہ سے ہرن کو انسان کی خاطر دو چار منٹ بدنی اذیت میں رہنے دیا گیا کیونکہ تیر چلایا گیا ، اس کے لگا ہے ضروری نہیں کہ اس کی جان فوری طور پر نکل جائے.ہاں بعض دفعہ تیر سر میں سے نکل جاتا ہے یا دل میں جا لگتا ہے اور جان جلد نکل جاتی ہے.لیکن کبھی تیر ایسی جگہ لگتا ہے کہ جان جلد نہیں نکلتی ، پچاس یا سو گز کے فاصلہ پر وہ ہرن ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو کہا کہ جلدی جا کر اس کو ذبح کر دو.غرض تیر لگنے اور ذبح کرنے کے درمیان جو چند منٹ تھے اتنے عرصہ کے لئے ہرن کو اذیت پہنچانے کی اجازت دی.پھر اللہ تعالیٰ ایک دوسرے حکم میں فرماتا ہے کہ میں تمہیں اس کی اجازت بھی نہ دیتا لیکن چونکہ میں نے تمہیں ساری مخلوق سے افضل بنایا ہے اور تمہارے لئے ان چیزوں کو مسخر کیا ہے اس لئے میں تمہیں یہ اجازت دیتا ہوں کہ تم اگر اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کسی جانور کو دو ایک منٹ کے لئے بدنی اذیت میں ڈالو تو تمہیں گناہ نہیں ہو گا لیکن فوراً جا کر ذبح کرو.مگر اتنے تھوڑے عرصہ کے لئے بھی میں تمہیں بھیڑ کو اذیت میں ڈالنے کی اجازت نہیں دیتا.کیونکہ تمہارا کام اس کے بغیر بھی چل سکتا ہے اس لئے تیر پالتو جانوروں پر نہیں چلانا.یا شکار کا جو آ لہ ہے.وہ پالتو جانوروں پر استعمال نہیں کرنا.اسلام نے اس سے بڑی سختی سے منع کیا ہے.پس دیکھو خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوق کا کتنا خیال رکھا ہے اور ہمیں یہ کہا ہے کہ تم بھی میری صفت رحمانیت کے مظہر بنو.اگر تم بھی میری طرح میری مخلوق کا خیال رکھو گے تو تم میری محبت کو پاؤ گے تم میری رضا کو حاصل کرو گے تم ایسی سعادت عظمی کو پاؤ گے کہ جس کا تصور بھی اس دنیا میں نہیں ہوسکتا.لیکن اگر تم میری ان صفات کا مظہر نہیں بنو گے تو یہ تمہاری بدقسمتی ہے.

Page 184

سبیل الرشاد جلد دوم 165 پھر آپ نے فرمایا کہ ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کا مظہر بنے اور اپنی نوع سے ہمدردی کرے اور تمام حقوق کی ادائیگی کی ذمہ داری ہے.اصل میں اس وقت جماعت احمدیہ میں یہ ذہنیت پیدا ہونی چاہئے کہ تمام حقوق کی ادائیگی کی ذمہ داری ہم پر ہے.اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے جو حقوق قائم کئے ہیں.اگر ہم پر ان میں سے کوئی حق کسی کا ہے تو وہ حق ہمیں ادا کرنا چاہئے اور اگر کسی اور پر اس کا حق ہے اور وہ ادا نہیں کرتا تو جس حد تک ممکن ہے ہمیں حق کی ادائیگی کر وانے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر ہماری یہ ذہنیت ہو اور اس کے مطابق ہمارا عمل ہو تو اخلاق کا یہ پہلو دنیا کو کھینچ کر تمہاری طرف لے آئے گا.کتنے عظیم حقوق ہیں، کتنے حسین حقوق ہیں جو اسلام میں ایک انسان کے مقرر کئے گئے ہیں لیکن انسان نے اپنی بدقسمتی سے انہیں پامال کیا.ان حقوق کو سمجھتا ہی کوئی نہیں اور جو لوگ سمجھتے ہیں اگر ان پر کسی انسان کا کوئی حق ہے تو وہ اسے ادا کرنے کی سعی نہیں کرتے اور اگر حق دلوانے کا سوال ہے تو وہ اس طرف توجہ نہیں کرتے.کہنے والے یہ کہہ دیتے ہیں کہ کون اپنی بے عزتی کروائے اور یہ نہیں سمجھتے کہ اصل بے عزتی تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کیا کرتا ہے.اگر اس کے بندے اس کے قائم کر دہ حق کے ادا کر نے کی تلقین کرنے کے نتیجہ میں ہماری بے عزتی کرتے ہیں لیکن اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہمیں عزت اور پیار کی جھلک نظر آتی ہے تو اس پیار کی جھلک پر تو دنیا کی ساری عزتیں قربان کی جاسکتی ہیں اور ساری بے عزتیاں سہنے کے لئے انسان تیار ہو جاتا ہے ایک آدھ تو کوئی چیز ہی نہیں.غرض یہ ذہنیت ہماری جماعت میں پیدا ہونی چاہئے کہ ہم نے تمام بنی نوع انسان کے وہ حقوق ادا کرنے ہیں اگر ہمارے ذمہ ہیں.ادا کروانے ہیں اگر ایسا کرنا ہماری استطاعت میں ہے، اپنی طرف سے پورا زور لگا دینا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے حضور ہم بری الذمہ ہیں.پھر اگر اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت بھی ایک اور رنگ میں جوش میں آئے تو جہاں آکر ہماری تدبیر ختم ہو گئی تھی وہاں اللہ تعالیٰ کے فرشتے آ کر تد بیر کر نے لگیں گے اور لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کے سامان پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے.یہی حال مالکیت یوم الدین کی صفت کے مظہر ہونے کا ہے.ہماری ساری جماعت کی یہ ذہنیت ہونی چاہئے کہ جہاں کوئی ایسا فعل ہوا ہو جس پر کوئی اجر مترتب ہونا چاہئے تو اس اجر سے کام کرنے والے کو محروم نہیں ہونے دینا چاہئے.جہاں تک خدا تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے اس نے کہا ہے کہ گو مجھ پر کسی کا کوئی حق نہیں لیکن میں تمہارے عمل کی وجہ سے یہ سمجھ لوں گا کہ تم نے کوئی حق قائم کر لیا ہے لیکن انسان کی تو یہ حیثیت نہیں ہے.اس پر تو بہر حال حق قائم ہو جاتا ہے.ایک مزدور کسی کا رخانہ میں اتنا کام کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے کارخانہ دار کو بیس روپے کا فائدہ ہوتا لیکن کارخانہ دار اس مزدور کو تین ، ساڑھے تین یا چار

Page 185

سبیل الرشاد جلد دوم 166 روپے سے زیادہ اجرت دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا.اگر چار روپے سے اس مزدور کے سارے حقوق ادا ہو جائیں تب تو ٹھیک ہے وہ کارخانہ دار باقی روپے اپنے پاس رکھ لے لیکن اگر اس رقم سے اس مزدور کے حقوق ادا نہیں ہوتے ، اگر اس کا پیٹ اس سے نہیں بھرتا ، اگر اس کا تن نہیں ڈھانپا جا سکتا، اگر بیماری کے وقت اس کا ٹھیک طور پر علاج نہیں ہوسکتا ، اگر اس کے بچوں کی صحیح پرورش اور تعلیم کا صحیح انتظام نہیں ہو سکتا تو پھر اس کا حق مارا جا رہا ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کا رخانہ دار کو جا کر سمجھائیں کہ مزدور کی جو اجرت ہے وہ اسے پوری پوری ملنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صفت مالکیت کے مظہر ہونے کے نتیجہ میں جو نعمت ہمیں ملی ہے وہ ہمیں دکھانی چاہئے.اب میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں.جو کچھ میں آپ سے کہنا چاہتا تھا وہ مختصراً میں نے کہہ دیا ہے.اب بہت دیر ہو گئی ہے اس لئے میں تقریر کو زیادہ لمبا نہیں کرنا چاہتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عربی زبان میں ہمیں سمجھانے کے لئے ایک عجیب سبق دیا ہے اور ہماری سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں اسی عربی عبارت کا ترجمہ چھپ چکا ہے.اس عبارت میں وہ تمام مطالبات اور ذمہ داریاں بیان کر دی گئی ہیں جو روحانی طور پر جماعت احمدیہ پر عائد ہوتی ہیں میں وہ عبارت آپ کو پڑھ کر سنا دیتا ہوں.میں اس عبارت کا خلاصہ پہلے بیان کر دیتا ہوں تا آپ اس بات کو پوری طرح سمجھ سکیں کہ اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے.تمام عالمین کا وہ رب ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نیکیوں کا بھی رب ہے کیونکہ نیکی بھی عالم سے تعلق رکھتی ہے اور بدیوں کا بھی وہ ربّ ہے.کبھی اس کا جلوہ ایک رنگ میں نظر آتا ہے اور کبھی دوسرے رنگ میں.دنیا میں بدی ہوتی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کی ربوبیت جاری رہتی ہے.آخر اللہ تعالیٰ نے ابو جہل کی بھی تو ربوبیت کی ہے جب تک اس کی اجل مقدر نہیں آئی اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی ربوبیت سے باہر تو نہیں پھینک دیا تھا.جب تک وہ زندہ رہا نہ صرف خدا تعالیٰ نے خود اسکی ربوبیت کی اور اس کی زندگی اور اس کی بقا کے سامان کئے بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہا کہ تم میرے مظہر اتم ہو اس لئے تم نے بھی اس کے ساتھ اسی طرح سلوک کرنا ہے جس طرح میں نے اس کے ساتھ سلوک کیا ہے.چنانچہ فتح مکہ سے پہلے بھی آپ نے اس سے اسی رنگ میں سلوک کیا.غرض جب بدی دنیا میں چھائی ہوئی ہوتی ہے اور نیکی چھپی ہوئی ہوتی ہے اور کہیں ظاہر ہو کر نظر نہیں آ رہی ہوتی.اس وقت کی دنیا کا بھی اللہ رب ہے.کیونکہ وہ بھی عالمین میں سے ایک عالم ہے گناہ، بدی ، ناپاکی ، تاریکی ، اندھیرے اور ظلمات کا عالم.اور اللہ تعالیٰ اس عالم کا بھی رب ہے کیونکہ وہ رب العالمین ہے.پھر ایک دوسرا دور اللہ تعالیٰ لاتا ہے اور وہ نیکی ، پاکیزگی ، محبت، پیار، اخوت، ہمدردی ، حسنِ

Page 186

167 سبیل الرشاد جلد دوم سلوک اور احسان کا دور ہے.اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی ہر چیز قربان کر دینے اور خدا تعالیٰ کے لئے ایثار دکھانے کا دور ہے.خدا تعالیٰ کے بندوں پر بھی اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جانے کا دور ہے.اس قسم کی بے شمار نیکیاں ہیں جو نمایاں ہو کر دنیا کے سامنے آتی ہیں اور وہ ایک عالم بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے یعنی جو بدی کا عالم تھا اس کا بھی وہ ربّ ہے اور جو نیکی کا عالم ہے اس کا بھی وہ رب ہے.یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان کیا ہے اور پھر فرمایا ہے کہ بدی کے عالم کو نیکی کے عالم میں تبدیل کرنے کے لئے رب العالمین ایسے لوگ پیدا کرتا ہے جو بدی کو کلیۂ مٹا کر نیکی کی حکومت کو اس جگہ قائم کرتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مطلب یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد وہ لوگ ہیں.ایک فساد بپا تھا اور اب بھی ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کا عالم ہے فساد اندھیرے ظلمتیں، دشمنیاں، غفلتیں ، سستیاں ، بد اعتقادیاں، بد اعمالیاں، لوٹ کھسوٹ، ظلم اور حقوق کی پامالی وغیرہ وغیرہ کتنے اندھیرے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت کچھ تو چُھٹ گئے اور بہت سے ابھی باقی رہتے ہیں.ان ظلمات کو دور کرنا.ان اندھیروں کی بجائے اللہ تعالیٰ کے نور سے اس دنیا کو منور کرنا.یہ جماعت احمدیہ کا کام ہے.میں نے مضمون ذرا سادہ الفاظ میں مختصراً واضح کر دیا ہے تاجب میں عبارت پڑھوں تو آپ اس کو سمجھتے چلے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنے قول رب العالمین میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اسی کی طرف سے ہے اور اس زمین پر جو بھی ہدایت یافتہ جماعتیں یا گمراہ اور خطا کارگر وہ پائے جاتے ہیں وہ سب عالمین میں شامل ہیں.کبھی گمراہی ، کفر، فسق اور اعتدال کو ترک کرنے کا ” عالم بڑھ جاتا ہے، یہاں تک کہ زمین ظلم وجور سے بھر جاتی ہے اور لوگ خدائے ذوالجلال کے راستوں کو چھوڑ دیتے ہیں.نہ وہ عبودیت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور نہ ربوبیت کا حق ادا کرتے ہیں.زمانہ ایک تاریک رات کی طرح ہو جاتا ہے اور دین اس مصیبت کے نیچے روندا جاتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ ایک اور عالم“ لے آتا ہے تب یہ زمین ایک دوسری زمین سے بدل دی جاتی ہے اور ایک نئی تقدیر آسمان سے نازل ہوتی ہے اور لوگوں کو عارف ( شناسا ) دل اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے ناطق (گویا) زبانیں عطا ہوتی ہیں.پس وہ اپنے نفوس کو سورة الروم آیت ۴۲

Page 187

168 سبیل الرشاد جلد دوم خدا تعالیٰ کے حضور ایک پامال راستہ کی طرح بنا لیتے ہیں.اور خوف واُمید کے ساتھ اس کی طرف آتے ہیں.ایسی نگاہ کے ساتھ جو حیا کی وجہ سے نیچی ہوتی ہیں.اور ایسے چہروں کے ساتھ جو قبلہ حاجات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور بندگی میں ایسی ہمت کے ساتھ جو بلندی کی چوٹی کو دستک دے رہی ہوتی ہے.ایسے وقتوں میں ان لوگوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے.جب معاملہ گمراہی کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے اور حالت کے بدل جانے سے لوگ درندوں اور چو پاؤں کی طرح ہو جاتے ہیں تو اس وقت رحمت الہی اور عنایت از لی تقاضا کرتی ہے کہ آسمان میں ایسا وجود پیدا کیا جائے جو تاریکی کو دور کرے اور ابلیس نے جو عمارتیں تعمیر کی ہیں اور خیمے لگائے ہیں انہیں منہدم کر دے.تب خدائے رحمان کی طرف سے ایک امام نازل ہوتا ہے تا کہ وہ شیطانی لشکروں کا مقابلہ کرے اور یہ دونوں ( رحمانی اور شیطانی ) لشکر برسر پیکار رہتے ہیں اور ان کو وہی دیکھتا ہے جس کو دو آنکھیں عطا کی گئی ہوں ، یہاں تک کہ باطل کی گردنوں میں طوق پڑ جاتے ہیں اور امور باطلہ کی سراب نما دلیلیں معدوم ہو جاتی ہیں.پس وہ امام دشمنوں پر ہمیشہ غالب اور ہدایت یافتہ گروہ کا مددگار رہتا ہے ، ہدایت کے علم بلند کرتا ہے اور پر ہیز گاری کے اوقات و اجتماعات کو زندہ کرنے والا ہوتا ہے.یہاں تک کہ لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ اس نے کفر کے سرغنوں کو قید کر دیا ہے اور ان کی مشکیں کس دی ہیں اور اس نے جھوٹ اور فریب کے درندوں کو گر فتار کر لیا ہے اور ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں اور اس نے بدعات کی عمارتوں کو گرا دیا ہے اور ان کے گنبدوں کو توڑ پھوڑ دیا ہے اور اس نے ایمان کے کلمہ کو اکٹھا کر دیا ہے اور اس کے اسباب کو منظم کر دیا ہے.اس نے آسمانی سلطنت کو مضبوط کیا ہے اور تمام رخنوں کو بند کر دیا ہے.اس نے اس ( سلطنت ) کی شان بہتر بنا دی ہے اور اس کے معاملات کو درست کر دیا ہے اور اس نے بے قرار دلوں کو تسکین دی ہے.جھوٹ پھیلانے والی زبانوں کو خاموش کر دیا ہے.اور تاریک دلوں کو روشن کر دیا ہے اور بوسیدہ سلطنت کی تجدید کی ہے.خدائے کارساز ایسا ہی کرتا رہتا ہے.یہاں تک کہ اندھیرا اور گمراہی جاتی رہتی ہے اور اس وقت دشمن اپنی ایڑیوں پر پسپا ہو جاتے ہیں اور جو خیمے انہوں نے گاڑے ہوتے ہیں ان کو ( خود ہی ) سرنگوں کر دیتے ہیں اور جو

Page 188

169 سبیل الرشاد جلد دوم گر ہیں انہوں نے ڈالی ہوتی ہیں انہیں خود کھولتے ہیں.تمام جہانوں میں سب سے زیادہ عالی مرتبہ اور مخلوقات میں سے سب سے زیادہ حیرت انگیز وجود نبیوں اور رسولوں اور خدا کے نیک اور صدیق بندوں کا ہوتا ہے کیونکہ وہ سب دوسرے لوگوں پر فوقیت رکھتے ہیں.نیک صفات کے پھیلانے اور ظلم وستم کے دور کرنے اور عادات کے سنوارنے میں اور اپنوں اور بیگانوں کے لئے نیک ارادے رکھنے میں ، راست بازی اور سلامتی کے پھیلانے میں ، بدی اور تباہی کی جڑ اکھاڑنے میں ، نیکی کی تلقین کرنے اور بُرے کاموں سے منع کرنے میں ، بُری خواہشات کو چو پاؤں کی طرح دھتکارنے میں ، پروردگار عالم کی طرف رخ کرنے میں ، نئے اور پرانے مال سے قطع تعلق کرنے میں، پوری قوت اور مکمل تیاری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر قائم رہنے میں ، جمع کر دہ لشکروں اور اکٹھی کی ہوئی جماعتوں کے ساتھ شیطان کی ذریت پر حملہ کرنے میں ، محبوب کی خاطر دنیا کو ترک کرنے ، اس کے شاداب مقامات سے کنارہ کشی کرنے اور اس کے پانیوں اور چراگاہوں سے ترک وطن کرنے کی طرح الگ ہو جانے میں اور بارگاہ الہی میں اپنی گردن جھکانے میں وہ دوسروں پر فوقیت لے جاتے ہیں.یقیناً یہ ایسی قوم ہے کہ ان کی آنکھوں میں نیند ایسی حالت میں آتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں ( محو ) اور قوم کے لئے دعا کرنے میں مصروف ہوتے ہیں.دنیا داروں کی نظر میں تو دنیا نہایت خوبصورت ہے اور خوش رنگ ہے.لیکن نیک لوگوں کی نظروں میں وہ میلے سے بھی زیادہ گندی ، اور مُردار سے بھی زیادہ بد بودار ہوتی ہے.وہ اپنی ساری توجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور صدق دل سے وہ اس کی طرف پوری طرح جھک جاتے ہیں اور جس طرح گھر کی بنیاد یں بنائے جانے والے طاقوں اور برآمدوں پر تقدم رکھتی ہیں.اسی طرح مذکورہ بزرگ ہستیاں اس دنیا میں ہر طبقہ کے نیک لوگوں پر تقدم رکھتی ہیں اور مجھے ( کشفاً ) دکھایا گیا ہے کہ زمین میں بھی اور بلند پایہ آسمانوں میں بھی ہمارے نبی محمد مصطفے جن پر ہر قسم کی برکت، رحمت اور سلامتی نازل ہو.ان سب سے اکمل، افضل اور اغرف ہیں اور تمام لوگوں میں سے سب سے زیادہ بد بخت وہ لوگ ہیں جنہوں نے آپ پر زبان درازی کی اور نکتہ چینی اور عیب جوئی کرتے ہوئے آپ پر

Page 189

170 سبیل الرشاد جلد دوم حملہ آور ہوئے حالانکہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کے پوشیدہ رازوں سے آگاہ نہیں.کئی ایسے لوگ ہیں جن پر زمین میں تو لعنت کی جاتی لیکن آسمان میں اللہ تعالی ان کی تعریف کرتا رہتا ہے اور اسی طرح کئی لوگ ہیں جو اس دنیا میں تو صاحب عظمت سمجھے جاتے ہیں.لیکن قیامت کے دن وہ ذلیل ہوں گے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج میں آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر کے داخل ہوئے ہیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سپر د جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کام ہیں ان کو بڑی وضاحت سے بغیر کسی اشتباہ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں ایک جگہ بیان کر دیا ہے اور آپ سے یہ توقع رکھی ہے کہ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام بن کر آپ کی اتباع میں اب قیامت تک کے لئے آپ اور آپ کی نسلیں ان ذمہ داریوں کو بشاشت کے ساتھ اپنے کندھوں پر اٹھا کر اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ اسی شاہراہ پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں گے.جو اس کے قرب اور اس کی رضا اور اس کی جنتوں تک پہنچاتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.ہم عاجز بندے ہیں اور میں نے ذاتی طور پر قرآن کریم ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور آپ کے ارشادات پر غور کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات پر غور کیا.اور علیٰ وجہ البصیرت اس بات پر قائم کیا گیا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ معزز وہ ہے جو زیادہ تند ہی کے ساتھ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتا ہے اور اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا.جس نے اپنے نفس پر یا اپنے علم پر یا اپنی قوتوں پر یا اپنی قابلیت اور استعداد پر بھروسہ کیا اس نے خود کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سے محروم کر لیا.جو لوگ صاحب تجربہ ہیں وہ تو سمجھ جائیں گے اور جو صاحب تجربہ نہیں ان کو سمجھانا میرے لئے بھی مشکل ہے.وہ غیب پر ایمان لے آئیں کیونکہ بہت سی باتیں ایمان بالغیب سے تعلق رکھتی ہیں.حقیقت یہی ہے کہ صرف عاجزی ہی اللہ تعالیٰ کو پیاری ہے اور نیستی سے ہی وہ محبت رکھتا ہے جو اس میں گم ہو جاتا ہے وہ اس کی صفات کے بہت سے جلوے دیکھتا ہے اور ہمیشہ اسی کی گود میں اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے.ہم دعا کریں گے کیونکہ وہ عظیم ذمہ داریاں جو ہم پر ڈالی گئی ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمتوں اور فضلوں کے بغیر ہم پوری نہیں کر سکتے.اور وہ عظیم فضل انتہائی عاجزی کے بغیر ہمیں حاصل نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور عقل دے اور اللہ تعالیٰ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے کی ہمیں توفیق دے اور اللہ تعالیٰ اس حقیقت کو ہمیشہ ہمارے سامنے رکھے، اسے ہم کبھی نظر انداز نہ کریں کہ ہم اپنی ذات میں تفسیر سوره فاتحه صفحه ۹۲ تا۶ ۹ ترجمه عربی عبارت اعجاز مسیح صفحه ۱۲۷ تا ۱۳۵

Page 190

171 سبیل الرشاد جلد دوم کوئی قابلیت، کوئی علم ، کوئی خوبی ، کوئی حسن اور احسان کی کوئی قوت نہیں رکھتے.ہم لاشئی محض ہیں.اس کا فضل جب قوت دیتا ہے تو ہم طاقتور بن جاتے ہیں.اور جب وہ ہمیں علم دیتا ہے اور ہمارا معلم بن جاتا ہے تو عالمانہ اور محققانہ باتیں ہمارے منہ سے نکلتی ہیں.جب وہ ہمارا مربی بنتا ہے تو ہمارے اخلاق اچھے ہو جاتے ہیں.جب وہ معطی بنتا ہے تو انسان مٹی کو ہاتھ لگاتا ہے تو وہ سونا بن جاتی ہے.بہتوں کے متعلق آپ نے سنا ہوگا کہ جس چیز کو بھی وہ ہاتھ لگاتے ہیں وہ مٹی بن جاتی ہے اور بہت سے ایسے بھی دیکھے ہوں گے کہ جس چیز کو بھی انہوں نے ہاتھ لگا یا وہ مٹی بن گئی.اللہ تعالیٰ یہی بتاتا ہے کہ میں ہی معطی ہوں مجھے چھوڑ کر تم کون سی چیز حاصل کرو گے.غرض وہ تعلق جس کے بغیر ہم اپنی ذمہ داریاں نباہ نہیں سکتے.خدا کرے وہ زندہ تعلق ہمارے رب سے پیدا ہو جائے اور خدا کرے کہ حشر کے دن جب ہم خدا کے حضور پیش ہوں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار سے ہم دھتکارے نہ جائیں بلکہ معصوم اور کمزور بچوں کی طرح اللہ کی محبت ہمیں اٹھا کر اس گروہ میں شامل کر دے کہ جس کے اوپر اس نے سعادت عظمی کے شامیانے لگانے ہیں.اللہ پر ہی ہم سب کا بھروسہ ہے.اب میں عہد دہراؤں گا.پھر دعا کراؤں گا.اور جب ہم سب مل کر دعا کر لیں گے.تو اس کے بعد میں آپ سے السلام علیکم کہوں گا.اللہ تعالیٰ ہر جگہ اور ہر حالت میں آپ کا حافظ و ناصر ہو.آپ کا مربی بنے.آپ کا ہادی ہوا اور آپ کا معطی اور محسن رہے.اس کے بعد حضور نے عہد دہر وایا اور اس کے بعد فرمایا: ابھی آپ دوستوں نے کھانا کھانا ہے یہاں سے دعا کے بعد آپ ہال میں جہاں کھانا کھلانے کا انتظام ہے جا کر کھانا کھائیں گے اور منتظمین جو ہیں وہ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مجھے اطلاع دے دیں.میں نمازیں جمع کرا دوں گا کیونکہ بہت سے دوست باہر جانے والے ہیں.جب آپ کھانے سے فارغ ہو کر مسجد مبارک میں آئیں گے تو نماز کھڑی ہوگی اور نمازیں ( ظہر وعصر ) جمع ہوں گی.میرے اندازہ کے مطابق نماز کا وقت سوا دو اور اڑھائی بجے کے درمیان کوئی وقت ہوگا.بہر حال جب آپ کھانے سے فارغ ہو کر آ جائیں گے.کچھ دیر پہلے یا بعد میں آپ دوستوں کا انتظار کروں گا ) تو میں نمازیں اکٹھی کروا دوں گا.اب دوست دعا کر لیں.اس کے بعد حضور نے احباب سمیت لمبی اور پر سوز دعا کرائی اور اس کے بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کہہ کر دوستوں کو اپنے اپنے گھروں کو جانے کی اجازت مرحمت فرمائی.( غیر مطبوعہ )

Page 191

سبیل الرشاد جلد دوم 172 نبی کریم کو ایک مکمل کامل اور اعلیٰ نمونہ اور اسوہ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے پیدائش انسانی کی غرض یہ ہے کہ انسان کا ایک زندہ تعلق اپنے قادر و توانا اور تی و قیوم خدا سے قائم ہو جائے.اس کے لئے نمونہ کی ضرورت تھی کہ وہ کس قسم کا تعلق ہے جو اللہ اپنے بندہ سے چاہتا ہے کہ اس سے پیدا کرے اور اس کے بعد کس قسم کا سلوک اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے کرتا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل جس قدر بھی انبیاء آئے ان کی بعثت کی غرض بھی یہی تھی لیکن چونکہ انسانیت ابھی اپنے ارتقاء کے کمال کو نہیں پہنچی تھی اس لئے قرآن کریم کے کچھ حصے ان قوموں کو دیئے گئے تھے.بے شک ان انبیاء کو اپنی قوموں کے لئے ایک اچھا نمونہ بنایا گیا تھا لیکن وہ نمونہ ہر لحاظ سے کامل اور مکمل نہیں تھا بلکہ ایک نامکمل خوبصورت نمونہ ان کے سامنے رکھا گیا تھا اور ان سے یہ اُمید کی گئی تھی کہ وہ اپنی استعداد اور طاقت اور نشو ونما کے اس مقام کے لحاظ سے جہاں تک وہ پہنچے تھے اس نمونہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں پھر انسان اپنی روحانی ارتقاء کے بلند تر درجہ پر پہنچا اور اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں ایک کامل اور مکمل اور ارفع اور اعلیٰ اور نہایت ہی حسین اور خوبصورت نمونہ دیا گیا اور کہا گیا کہ اس نمونہ کے مطابق تم اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنو.سبیل الرشاد جلد دوم صفحہ 145-146)

Page 192

سبیل الرشاد جلد دوم 173 اسم الله سیدناحضرت خلیفہ مسیح الثالث حمہ اللہ تعالی کا فتاحی خطاب فرموده ۱/۲۳ خاء۱۳۴۹ بهش ۲۳ اکتوبر ۱۹۷۰ء بمقام احاطه دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ سیدنا حضرت خلیفہ مسح الثالث رحمہ اللہ تعلی نے مجلس انصاراللہ مرکز یہ کے پندرھویں سالانہ اجتماع کے موقع پر ۲۳ را خاء ۱۳۴۹ بهش مطابق ۲۳ اکتوبر ۱۹۷۰ء کو جو بصیرت افروز افتتاحی خطاب فرمایا درج ذیل ہے: غلبہ اسلام کے عظیم کام کے لئے بنیادی ذمہ واری اگلی نسل کی تربیت ہے حضور اقدس نے تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: غلبہ اسلام وہ عظیم کام ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کا قیام کیا ہے.اس عظیم کام کا تعلق صرف ایک نسل سے نہیں ہے بلکہ نسلاً بعد نسل کئی نسلوں سے اس کا تعلق ہے اور یہ حقیقت بڑی عظیم ذمہ واریاں ہر اُس نسل پر جس کے بعد ایک نئی نسل آنے والی ہو ڈالتی ہے.بنیادی ذمہ واری تو اگلی نسل کی تربیت ہے اور اس تربیت کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے اندر خود مربی کی صفات ہوں.جوشخص متقی نہیں اور جس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک زندہ اور پختہ تعلق نہیں ہے ، جو ایک عاجز خادم اور مزدور کے طور پر خود کو نہیں سمجھتا جو عاجزانہ راہوں کو اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو حاصل نہیں کرتا وہ آنے والی نسل کی تربیت نہیں کر سکتا.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا.اب یہاں آنے والی نوجوان نسل کی تربیت کی ذمہ واری پہلوں پر ہے اور اس تربیت کے لئے خود کو تیار کرنے کی ذمہ واری بھی ان پر ہے اور یہ ضروری ہے کہ وہ خود متقی بہنیں اور خود اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کر کے اس کی رحمتوں کے وارث بنیں.وہ فلسفیانہ طور پر اپنے رب پر ایمان نہ لا رہے ہوں بلکہ وہ اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ کی زندہ قوتوں اور طاقتوں کا مشاہدہ کرنے والے ہوں.اگر وہ ایسے ہوں تب ہی اور صرف تب ہی وہ آنے والی نسل کی تربیت کر سکتے ہیں.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان وعدوں کو دُہرایا جو قرآن کریم میں امت مسلمہ کو دیئے گئے ہیں.بنیادی طور پر قرآن کریم نے ایک ہی شرط رکھی ہے اور وہ ایمان کی پختگی اور ہمہ گیری ہے یعنی انسان کے سارے نفس کو ایمان نے اپنے احاطہ

Page 193

سبیل الرشاد جلد دوم 174 میں لے لیا ہو اور اس ایک بنیادی شرط کے ساتھ بڑے عظیم وعدے دیئے ہیں.اور قرآن کریم نے بڑی تفصیل کے ساتھ ان باتوں پر روشنی ڈالی ہے.اس وقت میں دو اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لے کر یہ بتاؤں گا کہ قرآن کریم کی کن بنیادی باتوں کو ان میں دہرایا گیا ہے اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق رکھنے کے سلسلہ میں آپ پر کیا ذمہ واری عائد ہوتی ہے اور کس طرح قرآن کریم ہی کی تعلیم ، قرآن کریم ہی کے وعدے اور بشارتیں ہیں جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہماری زبان میں سہل طریقے پر کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ”خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے.ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں.ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے.ایمان دنیا کی ملونی سے پاک ہو اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چار بنیادی باتوں کا ذکر کیا ہے.ایک یہ کہ ایمان ایسا ایمان ہو جس میں دنیا کی ملونی نہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَامِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمُ كِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِهِ کہ اے وہ لوگو! جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہو.اگر تم اپنے اس دعوی میں بچے ہو تو اتقو الله تم ایسے اعمال بجالا ؤ، ایسی زندگی گزارو، اپنے نفس پر کچھ اس طرح فنا طاری کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق تمہاری ڈھال بن جائے اور اس رنگ میں امنو ابرسُولِه تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ اور آپ کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر رکھو.يُؤْتِكُمْ كِفَلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِهِ تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں کا دُہر اوارث تمہیں بنائے گا.یہ دُہرا تو نسبتی چیز ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ پہلے انبیاء کی امتوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتوں کا وارث بنایا تھا.ان کے مقابلہ میں تمہیں کہیں زیادہ اجر ملے گا اس لئے کہ جو کتاب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں سے لیکر ہماری طرف آئے ہیں.وہ ایک کامل اور مکمل کتاب ہے.پہلے انبیاء کی تعلیمیں اور شریعتیں اپنے زمانہ کے نقص الوصیت روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۰ سورۃ حدید آیت ۲۹

Page 194

175 سبیل الرشاد جلد دوم اور ارتقاء کی کمزوری کی وجہ سے کامل نہیں تھیں اور نہ ہو سکتی تھیں.تو چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کامل اور مکمل شریعت دی گئی ہے اس لئے وہ لوگ جو آپ پر ایمان لائیں گے اور آپ کی لائی ہوئی ہدایت کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزاریں گے اللہ تعالے پہلوں کے مقابلہ میں ان سے کہیں زیادہ رحمت کا سلوک کرے گا.اس واسطے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رحمت کا سلوک اس طرح ہوگا کہ ایک ایسا نو ر تمہیں دیا جائیگا کہ جس کی روشنی میں تم زندگی گزارو گے.دنیا میں بغیر روشنی کے انسان راہ راست پر نہ چل سکتا ہے اور نہ قائم رہ سکتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ آپ میں سے بہتوں کو رات کے اندھیروں میں سفر کرنے کا موقع ملا ہوگا اور بہت سے راتوں کو سفر کرنے والے راہ گم کر جاتے ہیں.راہ کے نشان ان کو صحیح طور پر پستہ نہیں لگتے اور وہ راستہ بھٹک جاتے ہیں اور بعض دفعہ تو وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ ہی نہیں سکتے.بعض دفعہ کچھ دور جانے کے بعد پھر ان کو پتہ لگتا ہے کہ ہم غلط راہ پر آگئے ہیں.جو راہ دس کوس کی تھی اس کی بجائے ان کو ہیں کوس چل کر اپنی منزل تک پہنچنا پڑتا ہے اس طرح پر ایک کمزوری واقع ہوتی ہے، فرمایا کہ تمہیں ایسا نور ملے گا جس کے ساتھ مغفرت بھی ہوگی.اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے گا کہ تمہاری کمزور یاں اللہ تعالے کی مغفرت کے نیچے چھپ جائیں گی اور تمہارا نور جو تمہیں عطا ہوا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے شعلہ زن ہوکر ( کیونکہ وہی حقیقی نور ہے ) تمہاری راہوں کو اس طرح روشن کر دے گا کہ تمہیں اپنے راستہ سے بھٹکنے کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہے گا اور تم اپنے رب کے حضور پہنچ جاؤ گے.کیونکہ تم میں سے ہر فردِ واحد کی جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے اس کی منزل یہی ہے ، اس کا مقصود یہی ہے کہ وہ اس زندگی میں اپنی استطاعت کے مطابق روشن راہوں کو جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ روشن کی گئی ہیں اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کے قرب کو ، اس کی رضا کو حاصل کرے.تو یہاں ایمان کے بعد پھر تقویٰ کا ذکر اور پھر حقیقی ایمان کا ذکر ہمیں بتاتا ہے کہ ایمان حقیقی وہی ہوتا ہے جس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہ ہو.اور اس اقتباس میں اس بات کو ہماری زبان میں سہل طریق پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ظاہر کیا ہے.ایمان نفاق سے آلودہ نہ ہو پھر آپ فرماتے ہیں : ” اور وہ ایمان نفاق یا بز دلی سے آلودہ نہ ہو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.کہ منافق کہتے ہیں کہ مَّا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا کہ جو اللہ اور اُس کے رسول نے ہم سے وعدے کئے ہیں وہ جھوٹے ہیں وہ پورے نہ سورۃ احزاب آیت ۱۳

Page 195

176 سبیل الرشاد جلد دوم ہوں گے.منافق اللہ کی راہ میں وہ قربانیاں دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا جو ایک مومن کو دینی چاہئیں.اس لئے کہ اللہ تعالے کی بشارتوں پر اس کو ایمان نہیں ہوتا اور وہ یہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دیتا ہے کہ جو وعدے ہم سے کئے گئے ہیں اور جن کے لئے ہم سے قربانیاں مانگی جارہی ہیں وہ پورے نہیں ہوں گے اس لئے ہمیں قربانی دینے کی ضرورت نہیں ہے.اگر کسی شخص کو یہ کہا جائے کہ اگر تم فلاں کام کرو تو میں تمہیں ایک ہزار روپیہ دونگا.اب اگر وہ سمجھے کہ دعدہ کرنے والا جھوٹا ہے تو وہ یہ کام نہیں کرے گا.کام کرنے کے لئے مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے اور چونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ اگر میں نے یہ کام کر بھی لیا تب بھی یہ وعدہ پورا نہیں ہوگا اور وہ شخص مجھے ہزار روپیہ نہیں دے گا اسلئے وہ اس کام کو نہیں کرے گا.سومنافق اللہ تعالے پر ایمان نہیں رکھتا، نہ اس کے وعدہ پر اور نہ اس کی بشارتوں پر ایمان رکھتا ہے.ایک شخص کے کان میں اللہ تعالیٰ نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہ کہتا ہے کہ میری راہ میں قربانی دو تو میری جنت میں جاؤ گے.اگر واقعہ میں وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے تو وہ ساری دنیا کو چھوڑ دے گا اور دنیا کی پروا نہیں کرے گا اور وہ کہے گا کہ یہ خدا کا وعدہ ہے اور وہ بچے وعدوں والا ہے جو چیز اس سے مانگی گئی ہے وہ اس کے مقابلہ میں جس کا وعدہ کیا گیا ہے بالکل حقیر ہے.یہ ایسی ہی بات ہے کہ اگر کسی سے یہ کہا جائے کہ دو پیسے مجھے دے دو.میں تمہیں ایک روپیہ دونگا.اور وہ کہے میں نہیں دیتا.ایسا جواب کوئی جاہل یا کم عمر ہی دے سکتا ہے.مثلاً بچہ ہے کئی دفعہ جنسی میں باپ اپنے بچہ کو کہتا ہے کہ آ نہ جو تم نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے.یہ مجھے دے دو.میں تمہیں روپیہ دونگا وہ کہے گا کہ نہیں.اس کا ایسا کرنا کم عمری اور جہالت کی وجہ سے ہوگا.سو اس قسم کے طرز عمل کا ایک منبع تو جہالت ہے اور دوسرا کم عمری ہے.اسی طرح اللہ تعالئے وعدہ کرتا ہے اور منافق جس کے دل میں نفاق ہوتا ہے شیطان کا سایہ اس کے سر پر ہوتا ہے ، اس کی رگوں میں شیطان کی ظلمات دوڑ رہی ہوتی ہیں ، اس وعدہ پر یقین نہیں رکھتا.خدا وعدہ کر رہا ہوتا ہے کہ تھوڑا سا دے دو میں بہت کچھ دوں گا تو منافق اس بچے کی طرح جس کو علم نہیں ہوتا کہتا ہے کہ میں نہیں دیتا.منافق اپنے طرز عمل سے دنیا میں یہ اعلان کرتا ہے کہ خدا اور اس کے رسول کے وعدے جھوٹے ہیں وہ پورے نہیں ہوں گے.ہر وہ شخص جس کا ایمان کمزور ہے اور وہ اللہ تعالے کو اس قدر قادر و توانا نہیں سمجھتا جس قدر کہ وہ ہے اور اس قدر با وفا اور وعدے کا سچا نہیں سمجھتا جو اللہ تعالیٰ ہے وہ کہتا ہے میں قربانی نہیں دیتا.اللہ کہتا ہے کہ اس دنیا میں جسمانی تکالیف اٹھاؤ.یہ دنیا عارضی ہے یہ عمر بہت چھوٹی ہے.زیادہ سے زیادہ اسی سال کا کوئی ہوگا.میرے خیال میں میرے سامنے شاید ہی کوئی اسی سال کا بیٹھا ہو.ورنہ ساٹھ ستر سال کی عمر میں انسان کو پتہ لگ جاتا ہے کہ میرا تعلق اس دنیا سے ۸۰

Page 196

177 سبیل الرشاد جلد دوم کمزور ہورہا ہے اور یہ کہ میں اُس دنیا کی طرف جا رہا ہوں.اگر اس کو آخرت پر ایمان ہو اور اللہ تعالے کے وعدوں پر ایمان ہو تو یہ اتنی چھوٹی سی عمر ہے کہ آخرت کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں.اللہ تعالیٰ انسان سے کہتا ہے کہ اس چھوٹی سی عمر میں تم کو میری خاطر اگر تکلیف اٹھانی پڑے تو اٹھاؤ میں تمہیں ابدی حیات اور ابدی مسرتیں دکھاؤں گا.منافق کہتا ہے کہ اللہ کے وعدے جھوٹے ہیں.نہ اُخروی زندگی ہے اور نہ اللہ کے وعدے پورے ہوں گے.اس پر اس کا ایمان نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس چیز کا یہاں ذکر کیا ہے کہ وہ ایمان نفاق سے آلودہ نہ ہو “ ہر احمدی کو پھر ایک زندہ خدا پر یقین کرنے کے لئے اکٹھا کیا گیا ہے.یعنی وہ پیدا احمدی ہوا ہے یا وہ باہر سے آ کر داخل ہوا ہے.منافق والا ہما را عمل نہیں ہونا چاہئے ، نہ ہما را دعوی ایسا ہونا چاہئے ، نہ ہمارا اعلان ویسا ہونا چاہئے.پکے ایمان والا ہما را دعوئی اور اعلان ہونا چاہئے.خدا کہتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد میں تمہارے ذریعہ سے اسلام کو ساری دنیا پر غالب کر دوں گا.خدا تعالیٰ کی خاطر قربانی خدا تعالے یہ کہتا ہے کہ وہ چیزیں جو میں نے تمہیں دی ہیں اب میں تم سے مانگتا ہوں.میں اسے تمہاری طرف سے قربانی سمجھوں گا اور اس سے بڑا بدلہ دوں گا تو تم اس بات پر اس وعدہ پر اس بشارت پر ایمان لاؤ.منافق جو سمجھتا ہے میں ویسا نہیں.میرا وعدہ جھوٹا نہیں ہے.میں سچے وعدوں والا ہوں.جومیں کہتا ہوں وہ پورا کرتا ہوں.مجھے قدرت ہے کہ جو کہوں میں وہ پورا کر دوں.کیونکہ بے وفا آگے دو قسم کے ہیں.ایک وہ جو بدنیت ہوتے ہیں اور شیطان کے چیلے ہوتے ہیں ، جب وہ وعدے کرتے ہیں اسی وقت ان کی نیت ہوتی ہے کہ وہ انہیں پورا نہیں کریں گے.لیکن ایک بے چارہ انسان وہ بھی ہوتا ہے جو خلوص نیت کے ساتھ وعدہ کرتا ہے.اس کے حالات بدل جاتے ہیں وہ وعدہ پورا کر ہی نہیں سکتا.مثلاً کوئی زمیندار ہے اس نے کسی کو دس ہزار روپے دینے کا وعدہ کا کیا لیکن ژالہ باری ہوئی اس کی فصلیں خراب ہو گئیں.اب جو اس نے فصل آنے پر وعدہ پورا کرنا تھا وہ اسے پورا کر ہی نہیں سکتا.نیت میں فتور نہیں تھا.طاقت میں فتور ہے.لیکن اللہ تعالے کو تو سب طاقت ہے اس میں کوئی کمزوری نہیں وہ سب طاقتوں کا مالک اور سب قوتوں کا مالک ہے بلکہ سب طاقتوں اور قوتوں کا وہی سر چشمہ ہے.انسان کو یا کسی دوسری مخلوق کو جو طاقت جسمانی یا ذہنی یا علمی یا روحانی ملی ہے وہ اس نے دی ہے.گھر سے تو کچھ نہ لائے.کون کہہ سکتا ہے کہ میں پیدائش کے وقت اپنے ساتھ یہ چیزیں سمیٹ کر لایا تھا.پیدائش کے وقت تو اسے اپنی بھی ہوش نہیں تھی.چیخ مار کر تو وہ دنیا میں داخل ہوا تھا اور بے سہارے وہ اپنا بچپنا بھی نہ گزار سکتا

Page 197

178 سبیل الرشاد جلد دوم تھا.بے سہارے کے تو وہ جوانی بھی نہیں گزار سکتا.اگر کسی نے پڑھنا ہے تو استاد کا سہارا چاہئے.پہلے ماں باپ کا سہارا تھا جو لگا ہی رہتا تھا زندگی بھر.پھر استاد کا سہارا ہے.پھر دوستوں کا سہارا ہے، پھر جتھے کا سہارا ہے.یہ اللہ تعالیٰ نے تدبیریں پیدا کی ہیں.لیکن ایک وہ شخص ہے جو تد بیر کوتد بیر سمجھتا ہے، اللہ تعالے کی عطا سمجھتا ہے.تد بیر کو خدا نہیں سمجھتا.تو انسان کی طرح یا مخلوق کی طرح اللہ تعالے ناقص نہیں ہے، اپنی قوت اور طاقت کے اندر اور اپنے متصرف بالا رادہ ہونے کے لحاظ سے ساری طاقتوں کا منبع اور سر چشمہ وہی ہے.خدا کہتا ہے میں تمہیں یہ دوں گا.منافق کہتا ہے اللہ تعالیٰ نہیں دے سکتا یا دینا نہیں چاہتا یا وہ اللہ تعالے کی پاک ذات کی نیت پر حملہ کرتا ہے یا اس کی طاقت پر حملہ کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اور جو عظیم وعدے میرے ذریعہ سے آج تم سے کئے گئے ہیں وہ تبھی پورے ہو سکتے ہیں جب تمہارے ایمان میں نفاق نہ ہو اور تم اس قسم کے نہ ہو زبان کے لحاظ سے یا قول کے لحاظ سے یا فعل کے لحاظ سے یا فکر کے لحاظ سے کہ تم یہ سمجھو کہ اللہ تعالے وعدہ دیتا ہے مگر پورا نہیں کرتا.یہ تو منافقوں کا اعلان ہے.مومن کا اعلان تو نہیں.الغرض مومن کا ایمان نفاق سے آلودہ نہیں ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اے میری جماعت خدا نے مجھے کہا ہے کہ میں تمہیں بتا دوں گا کہ تمہارا ایمان نفاق سے آلودہ نہیں ہونا چاہئے.نتیجہ آگے نکلتا ہے وہیں میں اکٹھا نکالوں گا.ایمان بزدلی کی آلودگی سے منزہ نہ ہو اسی طرح ایمان بزدلی سے آلودہ نہ ہو.بزدلی شرک ہے جو شخص اللہ کے علاوہ کسی اور سے ڈرتا ہے وہ مشرک ہے.جو شخص دوسرے کی دولت سے خائف ہے کہ وہ اپنی دولت کا استعمال کر کے خدا کی منشاء کے خلاف میرا نقصان کر دے گا یا جو شخص دوسرے کے جتھے سے خوف کھاتا ہے یا جو شخص دوسرے کے شور مچانے سے خوف کھاتا ہے.ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں کہ جب چاروں طرف سے دوسرے شور مچاتے ہیں مرزائی کا فر ، مرزائی کا فر تو وہ ڈر جاتے ہیں.مرزائی کا فر کی آواز تمہارے کان میں خدا تعالے کی زبان سے نہیں پڑی اور جو کسی غیر اللہ کی زبان سے آواز نکل رہی ہو اس سے تمہیں خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے.آخر یہ دھمکیاں ، یہ فتوے یہ منصوبے یہ جوش و خروش آج تو نہیں پیدا ہوا اسی سال پہلے سے یہ شروع ہیں.اسی سالہ کفر کے فتوؤں کا نتیجہ پتہ ہے کیا نکلا؟ پہلا نتیجہ تو یہ نکلا کہ اسی سالہ گالیوں اور کفر کے فتوؤں نے ہمارے چہروں سے مسکراہٹیں نہیں چھینیں.ہم آج بھی اس طرح ہشاش بشاش ہیں.ہمارے مسکراتے چہرے ہیں.ہماری بشاشت ہم سے کون چھین سکتا ہے.جو شخص اپنے رب کی نگاہ میں پیار دیکھتا ہے وہ مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا، چاہے ساری دنیا اس کی مخالفت پر کمر بستہ کیوں نہ ہو اسی سالہ شور و غوغا نے ہم ۸۰ ۸۰

Page 198

179 سبیل الرشاد جلد دوم سے قوتِ احسان نہیں چھینی.بڑا اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.آپ کو بڑی حمد کرنی چاہئیے.قریباً اسی سال سے مخالفین جو منہ میں آتا ہے ہمارے خلاف کہہ جاتے ہیں.اور وہی لوگ جن کے منہ میں جو آتا ہے ہمارے خلاف کہہ جاتے ہیں ، جب ان کو ضرورت پڑتی ہے تو وہ ہمارے پاس آ جاتے ہیں اور ہم مسکراتے چہروں سے ان کی مدد کرتے ہیں.ظفر علی خاں مرحوم اخبار زمیندار کے جو ایڈیٹر تھے وہ شروع سے ہی ہمارے مخالف تھے.ٹھیک ہے.یہ دل کا معاملہ ہے، اگر نہیں سمجھ میں آیا تمہارا حق ہے مخالفت کرو.لیکن ہمارا بھی حق ہے کہ ہم تم پر احسان کریں.ساری عمر زمیندار اخبار میں جو کچھ دل میں آیا وہ ہمارے خلاف لکھتے رہے.جب وہ بوڑھے ہوئے تو ، ( اللہ تعالیٰ نے دنیا کو ایک سبق دینا تھا ) وہ بیمار ہو گئے.جب وہ بیمار ہوئے تو ان کے بچوں نے ان کا خیال رکھنا چھوڑ دیا.اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ مری میں تھے.مری میں ہی ظفر علی خاں تھے.آپ کو جب پتہ لگا تو آپ نے اپنے ڈاکٹر کو کہا کہ روزانہ جا کر ان کو دیکھا کرو.جس دوائی کی ضرورت ہو خواہ وہ کتنی مہنگی ہو ان سے قیمت نہیں لینی.مجھ سے پیسے لے کر جایا کرو اور دوائی خرید ا کرو اور وہ دوائی استعمال کراؤ.اور ایسی تو سینکڑوں ہزاروں مثالیں ہیں.خلافت نے بھی یہی کیا اور ہمارے بزرگ احمدیوں نے بھی یہی کیا.جب مخالف اور ضر ر اور ایذا پہنچانے والا انسان ضرورت کے وقت ان کے پاس آیا.اور وہ جائز طریقہ سے اس کی ضرورت پوری کر سکتے تھے یا کروا سکتے تھے تو انہوں نے کی.تو اسی سالہ مخالفت نے اور شور نے اور گالیوں نے ہم سے قوتِ احسان نہیں چھپنی.میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ اللہ تعالے کا بڑا فضل ہے.پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی تمہیں گالی دیتا ہو اور تم مقابلہ میں گالی دیتے ہو تو تم نے اپنا بدلہ لے لیا تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا.لیکن اگر تم گالی کا جواب گالی سے نہیں دیتے تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے تم پر درود بھیجتے ہیں.ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ حکم دیا کہ گالیاں سن کر دعا دو تو بڑا احسان کیا ہم پر.اس کے معنی یہ ہیں کہ جب تمہیں گالیاں دی جائیں تو یہ کوشش کرو کہ تم بدلہ نہ لو بلکہ اللہ تعالے کے فرشتوں کا درود تمہیں حاصل ہو اور ان کی دعائیں تمہیں حاصل ہوں.تو کتنی دعائیں ہمیں دلا دیں.سیاری عمر فرشتوں کی دعا ئیں ہمارے ساتھ ہیں.کیونکہ گالی سن کر ہم گالی نہیں دیتے.ہمیں اتنی طاقت نہیں تھی کہ ہم وہ نتیجہ نکال سکتے.جو ہماری اشاعت اسلام کی کوشش کا اس وقت نکل رہا ہے.افریقن نومسلموں کا اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق سات ہزار میل دور ہے ایک علاقہ.میں مغربی افریقہ کی بات کر رہا ہوں.وہ کبھی یہاں نہیں آ الا ماشاء الله شاید کبھی کوئی آیا ہوا اور وہ بھی اب.اتنا بڑا فاصلہ ہے ان کے اور ہمارے درمیان.نہ مرکز کو انہوں نے دیکھا ، نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی.نہ ان کو اردو

Page 199

180 سبیل الرشاد جلد دوم آتی ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب سے ہی فائدہ اٹھا سکیں اور روشنی حاصل کریں اور نہ مرکز کی اور خلافت کی برکات سے حصہ اتنا لے سکتے تھے.وہ اتنی دور بیٹھے ہوئے تھے کہ ہم وہاں تک نہیں پہنچ سکے.وہ ہمارے تک نہیں آ سکے.مگر اللہ تعالیٰ نے آسمان پر فرشتوں کی فوجوں کو کہا کہ تم ان کے پاس جاؤ اور ان کے دلوں میں تبدیلی پیدا کر و.جب میں گیا ہوں ،میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے.وہ عجیب میرا مشاہدہ اور تجربہ اور احساس تھا.میرے سامنے بارہ ہزار آدمی بیٹھا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خوشی ان کے جسموں سے اور ان کی رُوح سے پھوٹ پھوٹ کر باہر نکل رہی ہے.ان کی کیفیت کا یہ عالم تھا کہ بو ( سیرالیون ) میں جب ہم پہنچے وہ فری ٹاؤن Capital سے ایک سوستر میل دور ہے.وہاں ہمارا سکول بھی ہے.اور ہمارا مشن بھی ہے اس کے گرد ہماری جماعتیں بھی بہت ہیں.انہوں نے اس لاج ( رہائش گاہ میں جہاں ہم نے ٹھہر نا تھا جھنڈیاں بھی لگائی ہوئی تھیں اور روشنی کے اتنے قمقمے تھے کہ ہمارے ساتھیوں کو اور مجھے بھی احساس ہوا کہ کچھ ضرورت سے زیادہ خرچ کر گئے ہیں.اسراف کا پہلو شائد زیادہ ہو گیا ہے.ہم میں سے کسی نے ایک ذمہ وار آدمی سے پوچھا کہ آپ نے یہاں بہت زیادہ قمقمے کیوں لگا دیئے ہیں.اس کی کیا ضرورت تھی.اس رنگ میں انہوں نے بات کی.آگے جو اس نے جواب دیا وہ بڑا پیارا تھا وہ کہنے لگے کہ ہمارے دلوں میں چراغاں ہو رہا ہے ہم اپنے درودیوار کو اس سے کس طرح محروم رکھ سکتے ہیں.یہ چیز ان کے دلوں میں کس نے پیدا کی.ہم تو وہاں جانہیں سکے.ہم بڑی دیر کے بعد پہنچے بڑے تھوڑے پہنچے وہ یہاں آ نہیں سکتے تھے.سوائے اس کے کہ جو ہم میں شامل نہیں.ہر ایک یہ تسلیم کرے گا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے کام کیا ہے اور پھر وہ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق اور فدائی ہیں میں نے یہ بھی وہاں غور کیا کہ احمد بیت کی محبت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کا عشق اور خلافت کے ساتھ ان کی وابستگی در اصل اس لئے ہے کہ اگر چہ حمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے نہ حُسن سے وہ واقف تھے نہ احسان سے اور نہ اللہ تعالے کی عظمت و جلال سے لیکن جب وہاں احمدیت گئی تو احمدیت نے ان کی زندگیوں میں پہلی دفعہ رب کریم کا ان سے تعارف کروایا.اس پاک ذات کا جو تمام صفات حسنہ سے متصف اور تمام قدرتوں کا سرچشمہ ہے اُن لوگوں سے تعارف کروایا جو تو ہم پرستی اور جادو ٹونے پر یقین رکھتے تھے.عیسائیت یہ چیز ان کے دلوں سے نہیں نکال سکی لیکن احمدیت نے جا کر یہ چیز ان کے دلوں سے نکال دی.احمدیت نے اللہ تعالیٰ کو جیسا کہ قرآن کریم نے اسے پیش کیا ہے ان کے سامنے پیش کیا.اللہ کی معرفت انہوں نے حاصل کیا اور اس احسان کے نیچے وہ دب گئے کہ چھوٹی سی جماعت تھی چند آدمی یہاں آئے ، تکلیفیں برداشت کر کے آئے ، نہ ان کو سیاست

Page 200

181 سبیل الرشاد جلد دوم سے کوئی پیار، نہ ہماری دولت سے کچھ لگاؤ اور ہماری خاطر انہوں نے قربانیاں دیں اور کتنی قیمتی یہ چیز ہمارے ہاتھ میں پکڑا دی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا یہ عمل تو لینے کے قابل ہے.اگر چہ جان دینے سے ملے اور حقیقت یہی ہے کہ اس بات کی قدر ان کے دل میں ہے کہ وہ قیمتی ہیرا جنس کے مقابلہ میں انسان کی جان کی بھی کوئی قیمت نہیں احمدیوں کے ذریعہ ہمیں مل گیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خالی یہ کہ دینا کہ ہم محمدرسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے کافی نہیں ہے جب تک ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا نہیں ہو جاتے ہم نجات نہیں پاسکتے.آپ کے اسوۂ حسنہ پر عمل نہ کرنا اور زبان سے ایسا کرنے کا دعوے کر دینا، اگر کوئی احمدی ایسا کرتا ہے تو اس کے یہ کسی کام نہیں آئے گا.اسوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا ضروری ہے اور یہی ایمان ہے.اتنا حسن کہیں اور کسی اور جگہ آپ کو نظر نہیں آئے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا احسان کیا کہ چودہ سو سال گزر گئے اور پتہ نہیں کتنی اور صدیاں آئیں گی.ہر صدی پر احسان کیا آپ کی قوت قدسیہ نے آپ کے افاضہ روحانیہ نے.مجد دنا یجیر یا عثمان بن فودی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صدی سے پہلی صدی میں نائیجیریا میں ایک مجدد پیدا ہوئے.عثمان بن فودی ان کا نام ہے.وہ بھی ایک عاشق تھے خدا اور اس کے رسول کے.عثمان بن فودی نائیجیریا میں کیوں پیدا ہوئے ، اس لئے کہ آپ کا پیار اور ہمدردی بنی نوع انسان کے کسی خاص قطعہ یا زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں تھی.بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمدردی نے تمام بنی نوع انسان کو اور تمام زمانوں کو اپنے احاطہ میں لیا ہوا ہے.جہاں جہاں ضرورت پڑی آپ کے افاضہ روحانی نے بنی نوع انسان کی ہمدردی کے جوش میں وہاں وہاں اپنے روحانی فرزند پیدا کئے جنہوں نے ان لوگوں کی اصلاح کی اور ان کے لئے دین و دنیا کے اخلاص کے دروازے کھولے.چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور آپ کا احسان جماعت احمدیہ کے ذریعہ ان کے پاس پہنچا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم ترین روحانی فرزند ہیں پیار کیا اور آپ کے سلسلہ کے ساتھ اور آپ کے خلفاء کے ساتھ پیار کیا.سیرالیون کے ایک سابق نائب وزیر اعظم ہیں.اب تو حکومت بدل گئی وہ Opposition میں آگئے ہیں.یہ تو سیاست میں ہوتا ہی ہے.لیکن اس سے قبل جو حکومت تھی اس میں وہ نائب وزیر اعظم تھے.اب وہ مسلم کانگرس کے پریذیڈنٹ ہیں.وہ بہت پیچھے پڑے کہ ہم نے ضرور Reception دینی ہے.میں نے اپنے مبلغوں کو کہا تھا کہ ملاقاتیں کرنی ہیں ، دعائیں کرنی ہیں.حالات دیکھنے ہیں.سکیمیں بنانی ہیں.مشورے کرنے ہیں.لہذا ایک ملک میں ایک

Page 201

182 سبیل الرشاد جلد دوم ریسیپشن (Reception) کافی ہے.وہاں جو لوگ آئیں گے ان سے ملاقات ہو جائے گی.دوسری ریسیپشن ایک ملک میں نہ رکھو.انہوں نے کہا کہ اتنا تعلق رکھنے والا ہے یہ شخص اور اتنا گھائل ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت سے کہ ہمارے یہ بہت پیچھے پڑ گیا ہے.اس کی پیشکش کو ماننا چاہئے ور نہ اس کی دل شکنی ہوگی.میں نے کہا کہ اچھا ایک جگہ رکھ لو.اس موقع پر وہ کھڑے ہوئے.انہوں نے اپنی تقریر شروع ہی یہاں سے کی کہ میں احمدی نہیں ہوں لیکن آپ کو بھی پتہ ہے اور مجھے بھی پتہ ہے کہ اس صدی کے شروع میں لوگ اسلام کا نام لیتے ہوئے شرماتے تھے اور ہم اب اپنی گرد نہیں فخر سے اونچی کر کے اسلام کا نام لیتے ہیں.اور یہ احمدیت کی بدولت ہے.یہ لوگ یعنی احمدی مبلغین آئے اور انہوں نے ہماری فضا کو بدل دیا تو چونکہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دین موجزن و منعکس ہوتے دیکھا اس لئے پیار کیا ، اور اسی لئے جماعت سے پیار کیا ، اسی لئے خلافت سے پیار کیا.تو یہ وعدے جو ہمیں دیئے گئے ہیں ہم نے منافقوں کی طرح یہ نہیں کہنا کہ خدا اپنے وعدے کا سچانہیں ہے.خدا تعالیٰ کے وعدے تو ہم نے اپنی زندگیوں میں بچے ہوتے دیکھ لئے اور وہ جو اگلا زمانہ ہے وہ بڑی تیزی کے ساتھ اسلام کے آخری غلبہ کی طرف رواں دواں ہے، تو دنیا جب عدم علم کی وجہ سے کچھ اور بجھتی ہے، ہمارے دل میں ان کے لئے زیادہ رحم پیدا کرتی ہے، غصہ نہیں پیدا کرتی ، نفرت نہیں پیدا کرتی ، دشمنی نہیں پیدا کرتی ، کسی فرد واحد کے ساتھ دشمنی ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے.ہاں ہم بدی سے ، ہم بُرائی سے ، ہم گند سے دشمنی کرتے ہیں ، اس کو ہم مٹانا چاہتے ہیں.چونکہ ہم مومن ہیں اس لئے منافقانہ نعرہ نہیں لگا سکتے اور چونکہ ہم مومن ہیں اس لئے بزدلا نہ نعرہ نہیں لگا سکتے.میں نے ان کے چہروں پر اس قسم کی خوشی دیکھی کہ انسان بیان نہیں کرسکتا.میں ایک روز سوچ میں پڑ گیا اور میں نے یہ دعا کی کہ اے خدا یہ مسئلہ مجھے سمجھا کہ ان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ یہ اتنے زیادہ خوش ہوں.پھر میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے ڈالا اور میں نے تقریر میں کہا کہ تم اپنی جگہ اس لئے خوش ہو کہ تاریخ احمدیت میں پہلی بار اور تمہاری زندگیوں میں پہلی بار وہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے محبوب روحانی فرزند تھا ، مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام، اس کا خلیفہ تمہارے اندر آیا ہے، تم نے اس کی باتیں سنیں ، تم نے اسے دیکھا، تم نے اس کی برکات سے حصہ لیا، تم اپنی جگہ خوش اور تمہیں خوش ہونا چاہئے ، آج تمہارے لئے خوشی کا دن ہے اور میں بھی خوش ہوں بہت ہی خوش ہوں.اس وجہ سے کہ آج سے قریباً اسی سال پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم روحانی فرزند نے جب اللہ تعالیٰ کا حکم پا کر اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو قائم کرنے کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو تمام بنی نوع انسان ۸۰

Page 202

183 سبیل الرشاد جلد دوم کے دلوں میں بٹھانے کے لئے ایک دعوے کیا اور ایک آواز بلند کی اس وقت وہ اکیلی آواز تھی.آپ حیران ہوں گے کہ بہت ساروں کے ذہن میں نہیں ہوگا کہ جب دوسو علماء نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کفر کا فتوے الگایا تو آپ نے اس وقت ایک شخص سے بھی بیعت نہیں لی تھی یعنی آپ یکہ و تنہا تھے اور اس وقت کے جو دوسو علماء تھے چوٹی کے انہوں نے کفر کا فتوے الگایا.میں نے انہیں کہا کہ اس اکیلی آواز پر ساری دنیا کی طاقتیں اکٹھی ہو گئیں اور مجتمع ہو گئیں.اس اکیلی آواز کو خاموش کرنے کے لئے.لیکن وہ خاموش نہیں رہ سکی.میں تمہاری آوازوں میں اس آواز کی بازگشت سُن رہا ہوں اور اس لئے میں خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے کئے تھے وہ پورے کئے.پختہ ایمان جو ہے اس کے بعد دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوسکتا کہ پتہ نہیں اللہ تعالٰی وعدے پورے کرے گا یا نہیں.جس کے دل میں ایسا خیال پیدا ہوتا ہے وہ منافق ہے.ایمان لانے کے بعد یہ خیال پیدا نہیں ہونا چاہئیے کہ پتہ نہیں کہ خدا کے مقابل پر کوئی مادی طاقت جیتے گی یا شکست کھائے گی.خدا کے مقابلہ میں کون جیت سکتا ہے.بلا وجہ تو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں نہیں کہا.فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِايَتِى ثَمَنًا قَلِيلًا ) کہ تم انسانوں میں سے کسی انسان سے خوف نہ کھاؤ.صرف مجھ سے ڈرو اور اس بات سے ڈرو کہ میں تم سے ناراض نہ ہو جاؤں.اگر تمہارے دل میں یہ خشیت رہی ، اگر تم نے اپنی سی کوشش کی کہ میری ناراضگی مول نہ لو تو پھر میں تمہارے ساتھ ہوں گا.میں تمہیں اپنی گود میں بٹھا لوں گا.پھر وہ کونسا انسان ہے جس کی طاقت میں ہے کہ اس شخص پر حملہ کرے جو خدا تعالیٰ کی گود میں بیٹھا ہے.فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ تمہیں لوگوں سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے.ایک ہستی ہے اس کی خشیت دل میں پیدا کرو، اس کا خوف دل میں پیدا کرو، یہ خوف نہیں کہ وہ ضرر پہنچانے والی ہستی ہے بلکہ یہ خوف کہ جو فائدہ وہ پہنچانے والی ہے اس سے ہم محروم نہ ہو جائیں.ہماری کسی گندگی کی وجہ سے ، ہماری کسی غفلت کے نتیجہ میں وہ ہمیں اپنی گود سے اتار کر نیچے نہ رکھ دے.(اس موقعہ پر حضور اقدس نے اپنی دونوں باہوں کو پھیلا کر بتایا ) ہمارے لئے تو یوں اس نے اپنی باہوں کو کیا ہوا ہے.ہم اس کی باہوں کے حلقے میں ہیں.کون سی دنیا کی طاقت ہے کہ جو یہ حلقہ تو ڑ کر ہمارے تک پہنچ سکے.کوئی نہیں پہنچ سکتا.تم بزدلی سے آلودہ نہ ہو.اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں پیدا کرو : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں سمجھانے کے لئے فرمایا ہے کہ مومن بزدل نہیں ہوا کرتا.جو خدا سے تعلق رکھتا ہے، جس کا خدا پر توکل ہے ، جس نے خدا سے طاقت لینی ہے ، جس نے سوره مائده آیت ۴۵

Page 203

184 سبیل الرشاد جلد دوم خدا تعالیٰ سے قوتِ احسان کو پانا ہے وہ کسی سے ڈر کیسے سکتا ہے؟ وہ تو اسی آیت پر عمل کرے گا.فَلَا تَخْشَوْا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ جو شخص یہ کہے کہ خدا سے نہ ڈرو ہم سے ڈرو تو وہ قرآن کریم پڑھ لے اور اپنے متعلق آپ ہی فیصلہ کر لے کہ وہ کس دماغ کا آدمی ہے.ہمیں کچھ کہنے کی بھی ضرورت نہیں.ہمیں تو یہ حکم ہے کہ کسی انسان سے نہیں ڈرنا کسی انسان کا خوف دل میں نہیں لانا، کسی کی خشیت پیدا نہیں کرنی سوائے اللہ تعالیٰ کی خشیت کے.ہم تو اللہ تعالیٰ سے خوفزدہ ہیں.ہم تو ہر وقت کا نپتے رہتے ہیں.جب ہم اپنی عاجزی کو دیکھتے ہیں ، جب ہم اپنی کم مائیگی کو دیکھتے ہیں ، جب ہم اپنی کم علمی کو دیکھتے ہیں، جب ہم ان ذمہ واریوں کو دیکھتے ہیں جو بڑی عظیم بھی ہیں جو ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں.ہم محسوس کرتے ہیں کہ محض اپنی طاقت یا علم یا دولت یا قربانی یا ایثار کے نتیجہ میں ہم یہ دولت سنبھال نہیں سکتے.اُس وقت ہم خوف سے کانپنے لگ جاتے ہیں.جب ہم اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو دیکھتے ہیں.جب ہم اس کی صفت غنا پر نظر ڈالتے ہیں کہ اس کو تو کسی کی احتیاج نہیں ، ہم ہی اس کے محتاج ہیں.تو ہمارے دل میں بڑا خوف پیدا ہوتا ہے کہ کہیں ہم اپنی کوتاہی کے نتیجہ میں اس سے دور نہ جا پڑیں.وہ ہم سے ناراض نہ ہو جائے.یہ خشیت اور یہ خوف تو ہمارے دل میں ہے لیکن وہ ہمارا پیارا اور محبوب ہمیں کہتا ہے کہ مجھے چھوڑ کر کسی اور کی خشیت تمہارے دل میں پیدا نہ ہو.اب ہم خدا تعالیٰ کے حکم کو مانیں ، ہم قرآن کریم پر عمل کریں یا لوگوں کے جو نعرے ہیں ان سے خوف زدہ ہو جائیں.ایک مومن تو ایسا نہیں کر سکتا.ہم عاجز بھی ہیں ، کمزور بھی ہیں.ہم اثر ورسوخ بھی نہیں رکھتے.نہ ہمارے پاس اقتدار ہے نہ حکومت ہے نہ اس کی خواہش رکھتے ہیں.بع د مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا ہمیں ان ملکوں سے کیا ! ہم تو اس دنیا کے ملک کی ہوس نہیں رکھتے.یہ جذبہ ہے جس نے افریقہ میں اثر کیا.یہ جذبہ ہے جو ساری دنیا پر اثر کرے گا.میں ان کو کہتا تھا کہ پچاس سال سے ہم تمہارے اندر کام کر رہے ہیں.کئی سو سال ہوئے عیسائی تمہارے پاس آئے.پادریوں نے یہ دعوی کیا تھا کہ ہم خداوند یسوع مسیح کی محبت کا پیغام لے کر تمہارے پاس آئے ہیں.یہ ہم تسلیم کرتے ہیں اور تم بھی تسلیم کرتے ہو کہ ان پادریوں کی صفوں کے پیچھے یورپین اقوام کی جو فوجیں تمہارے ملک کے اندر داخل ہوئی تھیں اور ان کے ساتھ جوتو ہیں تھیں.ان سے پھول نہیں جھڑے تھے.ان سے گولے بر سے تھے اور انہوں نے جو تمہارا حلیہ کیا.اس کے متعلق مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.یورپین اقوام افریقنوں کی ہر نعمت چھین کر اپنے ممالک میں لے گئیں یہ ایک حقیقت ہے ، وہاں نائیجیریا کے سربراہ مملکت یعقو بو گوون کو بھی میں نے کہا.اس وقت

Page 204

185 سبیل الرشاد جلد دوم مجھے نائیجیریا میں پہنچے ہوئے دو تین دن ہوئے تھے.میں نے جو دو تین دن مشاہدہ کیا ، اُس کے متعلق اسے کہا کہ تمہارے ملک اور قوم میں آکر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں ( اور کل میں نے ایک احمدی سے اس کا ذکر بھی کیا تھا کہ میں نے گوون سے یہ ذکر کیا تھا ) کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہر ایک نعمت سے نوازا تھا اور ان یورپین اقوام نے خدا کی ہر نعمت کو تم سے چھین لیا اور اسے وہ اپنے ملکوں میں لے گئے.وہ مجھے کہنے لگے."How ture you are.How true you are." یہ کتنی سچی بات آپ کہہ رہے ہیں.تو یہ ایک حقیقت ہے.اور میں انہیں کہتا تھا کہ ہمیں یہاں آئے ہوئے پچاس سال ہو گئے ہیں.پہلے ہم نے تھوڑے پیمانہ پر کام کیا.پھر وہ بڑھا اور کافی بڑھا.ہم باہر سے پیسہ لائے اور تمہارے ملکوں پر خرچ کیا.تمہارے ملکوں سے پیسہ کمایا، تھوڑ انہیں کمایا بڑا کمایا.کا نو کے ہمارے مشن نے کوئی پندرہ بیس ہزار پونڈ سے زیادہ Save کیا ہوا تھا.ہمیں ہزار پونڈ ہو تو چار لاکھ روپیہ ہوتا ہے.ان کو ہدایت کی گئی کہ ساری کی ساری رقم اس Health Centre پر خرچ کر دو.اور اس سے ایک نہایت خوبصورت ہسپتال بن گیا.عوام کو بھی پتہ ہے، حکومتوں کو بھی پتہ ہے.تو میں نے انہیں کہا تمہاری دولت میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں.جو کماتے ہیں تمہارے اوپر خرچ کر دیتے ہیں.جو کسی اور جگہ سے ہمارے احمدی کما رہے ہیں.وہ بھی لا کر تمہارے اوپر خرچ کر دیتے ہیں، تو تمہیں پتہ ہے کہ ہماری للچائی ہوئی نظر تمہاری دولت پر نہیں پڑی.نہ ہم اقتدار کے بھوکے ہیں.ہمیں کیا ملکوں سے ہمیں کیا تاجوں سے ہمیں کیا ان ملکوں کے سر براہوں سے.ہم تو خادم پیدا ہوئے ہیں اور اسی میں ہماری لذت، اور اسی میں ہماری نجات ہے اور یہ چیز ان پر بڑا اثر کرتی تھی.پہلے تو خاموش احساس تھا، کچھ نیم بیدار احساس تھا تو میں اس کو جھنجھوڑتا تھا.میں ان کو پورا بیدار کرتا تھا.میں ان کو بتاتا تھا کہ یہ زندگی کی حقیقت ہے.تمہیں سمجھنا چاہئیے.ہم تمہارے بھائی بھی ہیں.ہم تمہارے خادم بھی ہیں.ہم تمہارے برابر بھی ہیں.یہ چیز ان کو آج تک کسی نے نہیں دی.یعنی عیسائیت وہاں کئی سو سال رہی ہے.انہوں نے مساوات کا نام نہیں لیا.پادری بھی اپنے آپ کو سب کچھ سمجھتا تھا اور وہاں کے عوام کو کچھ نہیں سمجھتا تھا.وہ پیار کے بھو کے ہیں.میں نے ان کو کہا کہ وہ جو پیرا مونٹ پرافٹ تھا ( پیرامونٹ ان کا محاورہ ہے ) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوسب سے بڑے نبی تھے.خاتم الانبیاء اور افضل الانبیاء تھے.ان کے منہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ کہلوایا.قُلْ إِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِثْلُم کہ تم دنیا میں یہ منادی کر دو کہ میں بھی تمہارے جیسا انسان ہوں اور تم بھی میرے جیسے انسان ہو.انسان ہونے کے لحاظ سے میری برتری نہیں ہے.ہم برابر ہیں.میں نے انہیں کہا کہ وہ شخص جو خدا تعالیٰ کا سب سے زیادہ محبوب اور تمام انبیاء سے افضل تھا اس کے منہ سے قرآن کریم نے یہ کہلوایا.تو وہ انبیاء جو آپ کے ماتحت تھے اور آپ سے چھوٹے تھے.جیسے حضرت موسیٰ

Page 205

سبیل الرشاد جلد دوم حضرت عیسی علیہما السلام وہ یا ان کے ماننے والے کس طرح تم سے برابری کا دعوی کر سکتے ہیں.اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرنے کا خدائی فیصلہ 186 احمدیت نے آج پھر تمہیں برابر قرار دے دیا.پہلے زمانہ میں بھی برا بر قرار دیا.وہ بھی میں مثالیں دیتا تھا.حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اور دوسروں کی رضوان اللہ علیھم اجمعین.لیکن ایک تنزل کا دور بھی آیا.ہمیں آنکھیں بند کر کے حقائق کا انکار نہیں کرنا چاہئے ،ٹھیک ہے.لیکن وہ دور تنزل کا ختم ہو گیا.اب خدا نے فیصلہ کیا ہے کہ اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرے.اس محبت اور مساوات اور ہمدردی اور خیر خواہی کے پیغام کے ذریعہ ، تو میں نے انہیں کہا کہ اب تمہیں آئندہ کوئی حقارت اور نفرت سے نہیں دیکھے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اس ندا کو دوبارہ دنیا میں پھیلا یا گیا ہے کہ سب انسان برابر ہیں.کوئی شخص اب تم سے نفرت نہیں کرے گا.اب گزر گیا تم سے نفرت کرنے کا زمانہ.اب تو اسلام کا سورج طلوع ہو چکا ہے گو نصف النہار تک نہیں پہنچا لیکن طلوع ہو چکا ہے.صبح صادق نمایاں ہو چکی ہے.سورج نکل آیا ہے.اب خدا تعالیٰ نے احمدیت اور اسلام کے ذریعہ تمہاری عزتوں اور تمہارے احترام کا انتظام کر دیا ہے.تمہیں اب حقارت اور نفرت سے کوئی نہیں دیکھے گا.یہ اعلان آپ تبھی کر سکتے ہیں کہ جبکہ آپ کے دل میں یہ ایمان پختہ ہو کہ لوگوں سے نہیں ڈرنا اور صرف اللہ سے ڈرنا ہے.افریقہ کے دورہ کے بعد اسی مارشل لاء کے ایک بہت بڑے افسر کو میں ملا تو بڑے حیران ہو کر مجھ سے پوچھنے لگے کہ یعقو بو گوون نے آپ کو ملاقات کے لئے وقت دے دیا تھا.تو میں نے انہیں کہا کہ خالی ملاقات کا وقت ہی نہ دیا تھا وہ تو میرے ساتھ اس طرح ملے جس طرح اپنے گھر کا ایک بچہ ہو.تو ان کے واسطے حیرانی تھی، اس واسطے کہ ایک دنیا کا رعب اور وجاہت اسے حاصل تھی اور اسے مغرور ہونا چاہیے تھا کیونکہ امریکہ کے خلاف اور یورپ کی مداخلت کے خلاف اس نے خانہ جنگی جیتی تھی.لیکن میرے ساتھ وہ مغرور نہیں تھا.میرے ساتھ تو بچہ کی طرح ملا.میرے ساتھ اس کا پیار کا طریق اتنا تھا کہ میں نے اس کی آزمائش کی.جب ہماری ملاقات ختم ہوئی تو میں نے کہا کہ میں آپ سے معانقہ کرنا چاہتا ہوں تو وہ آ کر مجھ سے لپٹ گیا.میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ میرے اس فقرہ کا اثر اس پر کیا ہوتا ہے.اگر وہ جھینپا، اگر اس میں جھجک پیدا ہوئی تو میں یہ سمجھوں گا کہ یہ تکلفاً اور رسمی طور پر میرے ساتھ باتیں کر رہا ہے.لیکن اگر رسمی باتیں نہ ہوئیں اور واقعی اس کے دل میں میرا پیار یا عزت خدا تعالیٰ نے قائم کی تو اس کا رد عمل میرے فقرہ پر کچھ اور ہوگا.تو وہی ہوا جو میری خوشی کا باعث تھا.یعنی وہ خود مجھ سے آ کر لپٹ

Page 206

187 سبیل الرشاد جلد دوم گیا.پھر انہوں نے میری ملاقات کے متعلق غیر ممالک کے اپنے سارے ایمبسیڈ رز(Ambassadors) کو Brief کیا.چنانچہ سوئٹزر لینڈ کے ایمبسیڈ ( AMBASSADOR) نے ہمارے مبلغ چوہدری مشتاق احمد سے ذکر کیا.انہوں نے کوئی بات کی تو ایمبسیڈر نے کہا مجھے پتہ ہے ہماری حکومت نے ملاقات کی اطلاع دی ہے اور ہمیں یہ بھی کہا ہے کہ دنیا ہمارے خلاف یہ جھوٹ بول رہی ہے کہ خانہ جنگی جو ہوئی وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کی جنگ تھی.حالانکہ یعقو بوگوون جو عیسائی ہے اس نے ایک مسلمان امام سے دعا کروائی اور اس سے پانچ دن پہلے وہ آرچ بشپ آف ویسٹ افریقہ سے ملا تھا.اس نے اس کو دعا کے لئے نہیں کہا تھا کیونکہ وہ غیر ملکی تھا.تو اس نے کہا کہ اس جنگ میں مسلمان اور عیسائی ایک تھے اور غیر ملکی مداخلت دوسری طرف تھی.یہ مسلمانوں اور عیسائیوں کی جنگ نہیں تھی.اب میں مثال دے رہا ہوں کہ یعقو بو گوون دنیوی لحاظ سے بڑا عظیم انسان ہے.اپنے ملک کا لیڈر ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بڑا طاقتور ہے، بڑے ٹھنڈے دماغ کا آدمی ہے.اس نے بڑے صبر اور تحمل سے کام لیا اور کوشش کی کہ کم سے کم خوں ریزی ہو اور اب جنگ کے بعد بھی وہ لوگ جو ان سے لڑ رہے تھے وہ ان سے محبت اور پیار کا سلوک کر رہا ہے.لیکن اس کی دنیوی برتری سے میں تو مرعوب نہیں ہوا اور نہ آپ کو ہونا چاہئے ، نہ ہمارے مبلغ ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں خدا نے یہ کہا ہے کہ کسی کی خشیت اور کسی کا خوف تمہارے دل میں نہیں ہونا چاہئے سوائے ایک ذات کے جو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہ ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اے میری جماعت اگر تمہارا ایمان اس قسم کا ہوا کہ اس میں دنیا کی ملونی نہ ہوئی اور نفاق سے آلودہ نہ ہوا اور بزدلی سے آلودہ نہ ہوا اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں.اس کے اندر کامل اطاعت ہوئی جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے.قرآن کریم میں بہت سی اور بھی آیات ہیں لیکن میں نے ایک لی ہے اس میں بھی کافی دیر ہوگئی ہے.فرمایا: اطِيْعُوا اللهَ وَالرَّسُوْلَ وَمَن يُطع اللهَ وَرَسُولَهُ ) وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ ) اسی طرح فرمایا: وَاَطِيْعُوا اللهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوا نیز فرمایا : أطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولى الأمر مِنْكُمْ 6 سوره آل عمران آیت ۳۳ سوره نساء آیت ۱۴ سوره نساء آیت ۷۰ سورۃ المائدہ آیت ۹۳ سورة النساء آیت ۶۰

Page 207

188 سبیل الرشاد جلد دوم بیسیوں سینکڑوں آیات ہیں لیکن اس آیت کو اس لئے میں نے انتخاب کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہ ہو.تو اطاعت کے کسی درجہ سے جو شخص چاہتا ہے کہ محروم نہ ہو اس کو ہر وقت چوکس اور ہوشیار رہنا پڑے گا.کیونکہ جوشخص چوکس اور ہوشیار نہیں رہتا وہ کسی وقت غفلت سے اطاعت سے خارج ہو جائے گا.قرآن کریم نے بھی یہ کہا ہے کہ اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہ ہو.میں نے شروع میں کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قرآن کریم کی تعلیم ہی ہمارے سامنے پھر از سر نو رکھ رہے ہیں اور وہ عظیم بشارتیں اور عظیم تعلیم ہے.قرآن کریم یہاں یہ فرماتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو وَاعْمَلُوا اور ہر وقت ہوشیار ہو کہیں ایسا نہ ہو شیطان کا کوئی داؤ لگ جائے اور کسی ایک پہلو سے بھی تم اطاعت سے باہر نکل جاؤ.ہر وقت بیدار اور ہوشیار اور چوکس رہو تا کہ تمہاری اطاعت کسی درجہ پر محرومی کا رنگ اختیار نہ کر لے.اگر تمہارا ایمان ایسا ہی پختہ ہو گا تو خدا کا وعدہ دیکھو کتنا عظیم اور حسین ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ بشارت دی ہے اور کہا ہے کہ جماعت کو یہ سنا دو کہ ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں.اور خدا فرماتا ہے کہ وہ ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے.یہ قرآن کریم کا محاورہ ہے.دسویں سورۃ کے شروع میں کہ ظاہری و باطنی قرب اور پاکیزگی جو ہے اس کو عربی محاورہ میں قدم صدق“ کہتے ہیں یعنی اندرونی طور پر بھی پاک اور بیرونی طور پر بھی پاک.تو فرمایا کہ بیرونی پاکیزگی کا دراصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ انسان اس دنیا میں اکیلا تو نہیں ، اس کا ملاپ ہوتا ہے دوسروں سے.اس کا اپنا خاندان ہے، بچے ہیں، بزرگ ہیں، ہمسائے ہیں ، محلہ والے ہیں، شہر ہے، دنیا ہے ، ہر سطح پر اس کے ملاپ ہوتے ہیں تو بیرونی پاکیزگی کا دراصل مطلب یہ ہے کہ جہاں بھی غیر کے ساتھ ملاپ ہوا وہ پاک اثر اپنا اس کے اوپر چھوڑتا ہے، باقی تو اس کی تفصیل ہے.تو جسم بھی بیرونی چیز ہے وہ پاک ہونا چاہیئے.اگر گند لگا ہوا ہو گا تو بد بو آئے گی.اگر وہ اس کی استطاعت کے مطابق پروا نہیں کرے گا تو اس کے اوپر اچھا اثر نہیں چھوڑے گا.اس لئے ہم کہتے ہیں کہ کپڑے پاک رکھو لیکن اصل بنیادی چیز یہ ہے کہ جہاں اس کا غیر کے ساتھ ملاپ ہوا ہے وہاں وہ پاک اور نیک اثر ڈالتا ہے.یہ ہے ظاہری پاکیزگی.اور باطنی پاکیزگی کا یہ مطلب ہے کہ جہاں اس کا ملاپ ہوا اپنے رب کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ بھی یہی دیکھتی ہے کہ میرا یہ بندہ پاک اور مطہر ہو کر میرا قرب حاصل کرنے کے لئے آیا ہے تو چونکہ وہ پاک ہے اور نا پاک سے وہ تعلق قائم ہی نہیں کرتا.پس اللہ تعالیٰ باطنی پاکیزگی پسند کرتا ہے اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے اور ظاہری اقَدَمَ صِدق (یونس آیت ۳)

Page 208

سبیل الرشاد جلد دوم 189 پاکیزگی کا تعلق اس سے ہے کہ اس نے جو فیض حاصل کیا ہے.اپنے رب سے اسے وہ آگے پہنچا تا ہے.اگر وہ ظاہری طور پر پاکیزہ نہیں یعنی جب وہ ملاپ کرتا ہے دوسروں سے تو ان پر پاک اثر نہیں چھوڑ تا تو وہ خدا کا بندہ کیسے ہوا ، خادم کیسے بنا.اس نے پھر دوسروں کے لئے ایثار کیسے کرنا ہے.تو قدم صدق کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے نزدیک وہ اس کا ایسا بندہ ہے کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو باطنی پاکیزگی کے ساتھ آتا ہے اور جب وہ غیر سے ملاپ کرتا ہے تو وہ پاک اور مطہر اثر کئے بغیر رہ نہیں سکتا.ہماری زندگی کا مقصد اگر یہ چیز آپ میں پیدا ہو جائے تو آپ بڑی جلدی دنیا کے دل جیت لیں گے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے.پھر میں آپ کو سمجھانے کے لئے کہتا ہوں.کئی نئے آئے ہیں.کئی کم علم ہیں کہ ہماری زندگی کا مقصد یہ نہیں کہ ہم کچھ بن جائیں.ہماری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا جلال اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا میں قائم ہو جائے.جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم غالب آئیں گے تو ہمارا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہمیں کوئی دنیا کی ہوس یا لالچ ہے یا ہم اقتدار چاہتے ہیں یا مال و دولت چاہتے ہیں.ہمارا تو یہ محاورہ ہے کہ ہم غالب آئیں گے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ وعدے جو اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں وہ جماعت کے حق میں پورے ہوں گے.اور وہ یہ وعدہ نہیں کہ مرزا عبدالحق یا مرزا ناصر احمد کو کچھ ملے گا.وہ وعدہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا مل جائے گی.تو یہ وہ غلبہ ہے جس کے لئے ہم کوشش کر رہے ہیں.جس کے لئے ہم مجاہدہ کر رہے ہیں ، جس کے لئے ہم جد و جہد کر رہے ہیں ، جس کے لئے ہم عاجزانہ قربانیاں پیش کر رہے ہیں ، جس کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کی محبت کے متلاشی ہیں ، جس کی وجہ سے ہم یہ ہر وقت چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہو جائے.جس کے لئے ہم اس امید میں زندگی گزار رہے ہیں کہ ہمیشہ اس کی نگاہ میں ہمیں پیار ملے.ایک دوسرا اقتباس بھی ہے جس میں ایسے نکات تھے کہ جس پر میں تفصیلی روشنی ڈالنا چاہتا تھا.وہ میں صرف پڑھ دیتا ہوں کہ اس کا تسلسل جو چھپا ہے سامنے آ جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قوے سے ظہور پذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے اور کوئی چیز نہ اس سے باہر ہے اور نہ اس کے تصرف، سے نہ اس کی خلق سے.نسیم دعوت صفحه اروحانی خزائن جلد ۱۹صفحه ۳۶۳

Page 209

سبیل الرشاد جلد دوم 190 یہ وہ خدا ہے جس کی محبت میں ہم مست اور جس کی ناراضگی کے خوف سے ہم لرزاں اور ترساں رہتے ہیں اور اس خدائے واحد دیگا نہ اور قدوس اور مالک اور خالق اور تمام طاقتوں کے سر چشمہ کو ہم نے اپنی کوششوں یا اپنی کسی خوبی کے نتیجہ میں حاصل نہیں کیا.اس حقیقت پر ہم ہمیشہ قائم رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اُس پاک محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے.اس زندہ خدا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضہ روحانی کے طفیل ہم نے پایا.وہ ہم سے کلام بھی کرتا ہے.وہ ہمیں زندہ نشان بھی دکھلاتا ہے.اس پیارے کی آواز سن کر اور اس کی طاقتوں اور قوتوں کا مشاہدہ کر کے ، اسے چھوڑ کر ہم غیر کی طرف کیسے جا سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی ہمیں اپنی پناہ میں رکھے اور اس مقام پر وفا کے ساتھ اور صدق کے ساتھ قائم رہنا بھی مشکل ہے.جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے شامل حال نہ ہو.اچھا اب میں اجازت چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو ان تمام برکات سے نوازے جو اللہ کا ذکر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کی باتیں سن کر انسان کو حاصل ہوتی ہیں.اس لئے یہ اجتماع انصار اللہ کا منعقد کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی اور آپ پر بھی بڑا ہی رحم اور کرم فرمائے اور ہمیں اپنی حفاظت اور امان میں ہمیشہ رکھے.ہم ایک کمزور اور بڑے ہی عاجزا اور کم علم اور کوئی طاقت نہ رکھنے والے بچوں سے بھی زیادہ کمزور ہیں.ایک بچہ جو ہم سے زیادہ طاقت رکھتا ہے ہم اس سے بھی زیادہ کمزور ہیں.اللہ تعالیٰ ہی ہما را سہارا اور پناہ ہے وہ ہمیں اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے.اللھم آمین.(ماہنامہ انصار اللہ.اکتوبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۱۶-۳۳) نیم دعوت صفحہ ۱.روحانی خزائن جلد ۹ صفحه ۳۶۳

Page 210

سبیل الرشاد جلد دوم 191 انصار اللہ کےسالانہ اجماع پر سیدنا حضرت خلیفہ اصبح المال رحمہ اللہ تعلی کا پر معارف اور بصیرت افروز اختتامی خطاب ۲۵ را کتوبر ۱۹۷۰ء ظاہری اور باطنی پاکیزگی کی دو علامتیں ہیں ایک خدا تعالیٰ کے ساتھ ہمکلامی کا شرف دوسرے فوق العادت نشانوں کا ظہور، غلبہ اسلام کے لئے ضروری ہے کہ نہ صرف ہم خود بلکہ ہماری آئندہ نسلیں بھی ان دونوں انعاموں کی مورد بنی رہیں.حضور کا یہ خطاب کسی اخبار و رسالہ میں شائع نہیں ہوا.اور نہ ہی اس کا کیسٹ مل سکا ہے.اس لئے روز نامہ الفضل سے خلاصہ ذیل میں دیا جا رہا ہے.حضور رحمہ اللہ نے اپنے روح پرور اختتامی خطاب میں (جس کا سلسلہ نزلہ اور زکام کی شدید تکلیف اور نا سازی طبع کے باوجود قریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا ) اس امر پر بہت ہی پُر معارف اور بصیرت افروز انداز میں تفصیل سے روشنی ڈالی کہ قدم صدق یا بالفاظ دیگر ظاہری اور باطنی صفائی کی کیا علامتیں ہیں اور ان سے ہر احمدی کو ہی نہیں بلکہ احمدی کی ہر آئندہ نسل کا متصف ہونا کیوں ضروری ہے؟ حضور رحمہ اللہ نے قرآنِ مجید کی آیات اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پر معارف ارشادات کی روشنی میں واضح فرمایا کہ جس انسان کو پختہ اور ہمہ گیر ایمان نصیب ہونے کے نتیجہ میں ظاہری اور باطنی صفائی میسر آ جاتی ہے.خدا تعالیٰ اپنے ایسے بندے کو دو عظیم الشان انعاموں سے نواز تا ہے ان میں سے ایک ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اتباع کی برکت سے خدا تعالیٰ کے ساتھ ہمکلامی کا شرف اور دوسرے ایسے مومن بندے کے ذریعہ فوق العادت نشانوں کا ظہور.حضور نے ان دونوں انعاموں پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کے بعد مزید واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہمیش جاری رہنے والے افاضہ محمدیہ کے طفیل امت محمدیہ کے افراد کو ہر زمانہ میں ہمکلامی کے شرف سے مشرف رکھنے اور ان کے ذریعہ فوق العادت نشانوں کا ظہور جاری رکھنے کے لئے قرآن مجید میں مومنوں کو دو عظیم الشان بشارتیں دی ہیں.ایک بشارت تو قیام خلافت کے وعدہ پر مشتمل ہے جو سورۃ النور کی آیت ۵۶ میں مذکور ہے اور دوسری بشارت مومنوں پر نزول ملائکہ کے وعدہ پرستی پرمشتمل ہے جس کا

Page 211

192 سبیل الرشاد جلد دوم ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ حم السجدہ کی آیت اس میں فرمایا ہے.اس موقع پر حضور نے خلافت اور مجد دیت کے باہمی تعلق پر بھی بہت بصیرت افروز پیرائے میں روشنی ڈالی اور واضح فرمایا کہ مجد دخلیفہ نہیں ہوتا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کے صرف ایک حصہ میں کام کرتا ہے برخلاف اس کے ہر خلیفہ مجد دبھی ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے کاموں میں آپ کا نائب ہوتا ہے اور وہ آپ کے افاضۂ روحانیہ کی برکت سے دین کی ساری ضرورتوں کو پورا کرتا ہے.حضور نے آخر میں واضح فرمایا کہ احباب جماعت کا جن کے کندھوں پر اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کی عظیم ذمہ داری ڈالی گئی ہے یہ فرض ہے کہ وہ پختہ اور ہمہ گیرایمان پر ہمیشہ قائم رہیں اور اس درجہ ظاہری اور باطنی پاکیزگی حاصل کریں کہ خدا تعالیٰ انہیں اپنی ہمکلامی اور فوق العادت نشانوں کے ظہور سے ہمیشہ ہی نواز تار ہے.پھر احباب جماعت کا اور بالخصوص انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ وہ خود ہی ان ہر دو انعاموں کے وارث نہ بنیں بلکہ ان کی آئندہ نسلیں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اتباع کی برکت سے ان انعاموں کی وارث بنتی چلی جائیں یہاں تک کہ اسلام ساری دُنیا میں غالب آ جائے.حضور نے فرمایا ، سوال یہ نہیں ہے کہ افاضہ محمد کی جاری ہے یا نہیں وہ تو جاری ہے اور جاری رہے گا سوال یہ ہے کہ افاضہ محمد مکی کے ہم بھی وارث ہیں یا نہیں.ہم میں سے ہر شخص کو ہمیشہ اس کوشش میں لگا رہنا چاہئے کہ وہ اور اس کی نسلیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی اور اتباع کے نتیجہ میں افاضہ محمد سمی کی وارث بنی رہیں تا خدا تعالیٰ ہمیشہ ہی ہمیں بھی اور ہماری نسلوں کو بھی اپنی ہمکلامی اور فوق العادت نشانوں کے ظہور سے نوازتا رہے.ہمارا اولین فرض یہ ہے کہ ہم دُنیا اور اس کی رنگینیوں کی طرف جو ان ہر دو عظیم الشان خدائی انعاموں کے بالمقابل ثمن قلیل کی حیثیت رکھتی ہیں کبھی راغب نہ ہوں اور خدا تعالیٰ کے اس قرآنی حکم پر کہ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُ وَ بِايْتِي ثَمَنًا قَلِيلًا پختی سے کار بندر ہیں.اس نہایت درجہ بصیرت افروز خطاب کے شروع میں حضور نے احباب کو ایک نہایت اہم امر کی طرف توجہ دلائی.حضور نے یہ واضح کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق جماعت کو روز افزوں ترقی دیتا چلا آ رہا ہے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کا سلوک یہ ہے کہ وہ ہمیں ترقیات پر ترقیات سے نوازتا چلا آ رہا ہے تو پھر ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ غلبہ اسلام کے ضمن میں اپنی کوششوں کو ہرلمحہ اور ہر آن تیز سے تیز تر کرتے چلے جائیں.ہمارا ہر قدم ہمیشہ آگے ہی کی طرف اٹھے نہ کہ پیچھے کی طرف.ہمیں ہمیشہ یہ سورۃ المائدہ آیت ۴۵

Page 212

193 سبیل الرشاد جلد دوم کوشش کرنی چاہئے کہ ہر سال خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے اجتماعات میں شرکت کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے نہ یہ کہ اس میں کمی ہو.اگر ہر میدان میں ہمارا قدم آگے کی طرف نہیں اُٹھے گا.تو پھر ہمیں خدائی برکات کیسے حاصل ہوں گی.حضور نے فرمایا کہ بعض اوقات چند ایک کی غلطی کی وجہ سے دوسروں کو بھی سزا بھگتنی پڑتی ہے.پچھلے سالوں میں خدام الاحمدیہ ایک بڑے نازک دور سے گزری ہے یہ دور ۱۹۶۶ء میں ختم ہوا.اُس وقت اجتماع میں شامل ہونے والی مجالس کی تعداد گرتے گرتے صرف ۱۰۱ رہ گئی تھی.سو گویا خدام الاحمدیہ بجائے ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے پیچھے کی طرف جارہی تھی.اللہ تعالیٰ تو جماعت کو ترقی دے رہا تھا لیکن اس کا ایک عضو ننزل کی طرف جا رہا تھا.خدا نے میری توجہ اس طرف پھیری کہ اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جسمانی رشتہ کی ضرورت نہیں ، روحانی رشتہ مضبوط ہونا چاہئے.چنانچہ بہت دعاؤں کے ساتھ میں نے ایک سادہ، بے نفس اور عشق کا جذبہ رکھنے والے نوجوان کو جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جسمانی تو نہیں روحانی تعلق مضبوط تھا خدام الاحمدیہ کا صدر مقرر کیا.خدا تعالیٰ نے اس مخلص نو جوان کو کام کرنے کی توفیق دی چنانچہ امسال اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدام کے اجتماع میں شرکت کرنے والوں کی تعداد ۱۰۱ سے بڑھ کر ا ۴۰ تک پہنچ گئی.خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ایسا حسین جلوہ دکھایا کہ دل اس کی حمد سے لبریز ہو گیا.پھر مجھے فکر ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے خدام الاحمدیہ پر تو اتنا بڑا فضل کیا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ انصار اللہ والے پیچھے رہ جائیں چنانچہ میں نے انہیں بھی توجہ دلائی کہ وہ آگے قدم بڑھانے کی کوشش کریں.اب تازہ رپورٹ یہ ہے کہ امسال خدام کی ۴۰۱ مجالس کے بالمقابل انصار اللہ کے اجتماع میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۴۶۵ مجالس انصار اللہ نے حصہ لیا ہے.اس طرح مجالس انصار اللہ نے مسابقت کی رُوح سے کام لیا ہے.آئندہ خدام کو چاہئے کہ وہ ۴۶۵ کی تعداد سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں.اُدھر انصار اللہ کو چاہئے کہ وہ خدام سے آگے بڑھیں اور اس طرح روح مسابقت سے کام لیتے ہوئے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں آگے ہی آگے قدم بڑھاتے چلے جائیں.علاوہ ازیں حضور نے آئندہ نسلوں کی صحیح تربیت کے ضمن میں انصار اللہ کوان کی نہایت اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ اگر دیکھا جائے تو خدام کی تربیت اس لحاظ سے انصار کے ذمہ ہے کہ اکثر و بیشتر خدام انصار کے اپنے بیٹے ہیں اور اسلام نے ہر باپ کو اپنے بیٹے بیٹیوں کی تربیت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے.بعض باپ یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ اولاد کی تربیت کے وہ خود ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ یہ

Page 213

194 سبیل الرشاد جلد دوم ذمہ داری خدام الاحمدیہ کی تنظیم کی ہے کہ وہ نوجوانوں کی تربیت اور اصلاح کا فریضہ انجام دے.حضور نے انصار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا یہ خیال ہرگز درست نہیں ہے.پہلی اور اصل ذمہ داری تو باپ کی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی تربیت کا ہر طرح خیال رکھے.اس لئے انصار اللہ کے رکن ہونے کی حیثیت میں بطور باپ اپنے اپنے بیٹوں کی تربیت آپ کی ذمہ داری ہے.تربیت اولاد کی اہمیت واضح کرتے ہوئے حضور نے مزید فرمایا کہ جولوگ لمبا عرصہ احمدیت میں رہے ہیں اور انہیں براہِ راست تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا ہے ، آئندہ نسلوں کی تربیت کرنے کا بوجھ زیادہ تر ان پر ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے زمانہ میں اسلام کا جو غلبہ انقلا.عظیم کی صورت میں ظاہر ہوا اس کی جان وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم ہی تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست تربیت یافتہ تھے.بعد میں وہ نئی نسلوں کی اس رنگ میں تربیت کرتے چلے گئے کہ نئی نسلیں بھی غلبہ اسلام کے لئے قربانیاں دیتی چلی گئیں.اس کے ثبوت میں حضور نے جنگ یرموک کے موقع پر صحابہ کرام اور ان کے زیر اثر نئی نسلوں کے تربیت یافتہ نوجوانوں کی قربانیوں اور ان کے سنہری کارناموں کا بہت ہی مسحور کن انداز میں ذکر فرمایا اور انصار اللہ کونئی نسلوں کی تربیت کے ضمن میں ان کی ذمہ داریوں کی طرف بہت پُر اثر انداز میں توجہ دلائی.حضور کی اِس رُوح پرور اور بصیرت افروز تقریر نے جو قریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی احباب پر وجد کی کیفیت طاری کر دی اور اس کے دوران انہیں علوم و معارف اور حقائق و دقائق سے اپنی جھولیاں بھرنے کے انمول مواقع میسر آئے.فالحمد للہ.روزنامه الفضل ربوه ۲۷ اکتوبر ۱۹۷۰ء)

Page 214

سبیل الرشاد جلد دوم 195 سیدنا حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہتعالی کا افتاحی خطاب فرموده ۱۵ را خاء ۱۳۵۰ بهش ۱۵ راکتو برا۱۹۷ء بمقام احاطہ دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز سید ربوہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ ۱۵ر اخاء ۱۳۵۰اہش (مطابق ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۱ ء ) کو مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کا افتتاح کرتے ہوئے جو تقریر فرمائی تھی.اس کا مکمل متن درج ذیل ہے.تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے یہ آیہ کریمہ پڑھی.لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ.اور پھر فرمایا.یہ جگہ اجتماع انصار اللہ کے لئے تنگ ہو گئی ہے.اس لئے منتظمین نوٹ کریں کہ آئندہ سال انشاء اللہ کسی اور جگہ اجتماع ہوگا.موازنہ اجتماع خدام الاحمدیہ واجتماع انصار الله : تعداد کے لحاظ سے خدام الاحمدیہ آگے ہے اور مجالس کے لحاظ سے انصار اللہ آگے ہے.انصار کے اس اجتماع میں ۴۵۲ مجالس شامل ہوئی ہیں اور خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں ۴۲۸ مجالس شامل ہوئی تھیں.خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں تین ہزار سے زائد اراکین تھے اور انصار اللہ کے اس اجتماع میں - قریباً چوبیں چھپیں سوانصار شامل ہوئے ہیں.خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں ان خدام کی نسبت جو انصار اللہ کے اجتماع میں شامل ہوئے ہیں انصار زیادہ شامل ہوئے تھے اور انصار اللہ کے اجتماع میں ان انصار کی نسبت جو خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں شامل ہوئے تھے خدام کم شامل ہوئے ہیں.پس خدام کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہئے.شاید کسی کے کان میں نیکی کی کوئی ایسی بات پڑ جائے جس سے وہ فائدہ اٹھا سکے.سورة البلد آیت ۵

Page 215

سبیل الرشاد جلد دوم 196 اس وقت انصار اللہ کے اجتماع میں جو چہرے میرے سامنے ہیں ، انہیں دیکھ کر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب انصار اللہ کو دوائی ، الموسوم به "مابل ( محافظ اجساد باذن الله ) کی ضرورت پڑ گئی ہے.( جو میری نظر ظاہری طور پر دیکھ رہی ہے.واللهُ أَعْلَمُ میرا یہ قیافہ درست ہے یا نہیں ) اس کی رو سے چالیس اور پچپن کی درمیانی عمر کے انصار کم ہیں اور پچپن سے زائد عمر کے انصار زیادہ ہیں.اس کی ایک وجہ تو یہ ہے (اور یہ خوشی کی بات ہے ، گھبرانے کی نہیں ) کہ پیچھے سے جو نسل آ رہی ہے ، ان کی تعداد زیادہ ہے کیونکہ ہماری رفتار ترقی پہلے سے زیادہ تیز ہورہی ہے.ہمارے بچوں کی پیدائش کی رفتار بھی زیادہ تیز ہے.روزانہ کی ڈاک میں جو مجھ سے نام رکھوائے جاتے ہیں وہ بھی دس ، پندرہ کے قریب ہوتے ہیں اور سارے دوست تو مجھ سے نام نہیں رکھواتے.اس واسطے ہم امید رکھتے ہیں کہ اس سے بہر حال انصار اللہ کی تعداد آئندہ پانچ سات سال میں بڑھ جائے گی.البتہ بیچ میں وقفہ آیا ہے.لیکن چونکہ یہ تیزی بہر حال قائم رہنی ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ ، اس واسطے یہ فرق بڑھتا چلا جائے گا.مسابقت کی روح : ایک اور لحاظ سے نمایاں فرق پیدا ہو گیا ہے.ایک زمانہ وہ بھی تھا.آپ میں سے جو بڑی عمر کے دوست ہیں شاید انہیں یاد ہو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو کئی خطبے دینے پڑے تھے کہ جو عمر رسیدہ ہیں یعنی خدام کے ماں باپ انہیں خدام الاحمدیہ کو مالی امداد دینی چاہئے.کیونکہ اس وقت خدام الاحمدیہ کی مالی حالت بہت کمزور تھی.چنانچہ بڑے لمبے عرصہ تک تو میں نے خدام الاحمدیہ کا بجٹ ہی نہیں بنوایا تھا.غالباً ۱۹۴۲ء کی بات ہے مرزا منور احمد صاحب شہید ( انہوں نے امریکہ میں میدان تبلیغ میں وفات پائی ہے ) کو قائد مال یا جو بھی خدام الاحمدیہ میں اس وقت عہدہ کہلاتا تھا.اس پر مقرر کیا گیا تو دس پندرہ دن کے بعد وہ میرے پاس آگئے اور کہنے لگے کہ آپ نے مجھے اس عہدہ پر مقرر کر دیا ہے.اور بجٹ کوئی نہیں ہے.بجٹ تو ضرور ہونا چاہئے.غرض انہوں نے بڑی لمبی چوڑی تقریر کی.ان سے رشتہ داری بھی تھی اور وہ میرے بے تکلف ساتھی بھی تھے.میں ان کی بات سنتا رہا.جب وہ اپنی بات ختم کر چکے تو میں نے انہیں کہا کہ تم پچھلے آٹھ دس مہینے کی اصل آمد اور خرچ کا گوشوارہ بنالا ؤ پھر میں تمہاری بات کا جواب دوں گا.دوسرے دن وہ مغرب کے قریب پہنچے اور آ کر کہنے لگے.مجھے سمجھ آ گئی.میں نے کہا کیا سمجھ آئی.کہنے لگے میں نے جب گوشوارہ بنایا تو شکل یہ بنی کہ جس مہینے خدام الاحمدیہ کو خرچ کرنا پڑا چار سور و پیہ تو اس مہینے خدام الاحمدیہ کی کم و بیش ( پانچ دس روپے کا فرق کوئی ایسی بات نہیں ) چارسو مہتمم مال

Page 216

197 سبیل الرشاد جلد دوم روپے آمد ہوگئی اور اگلے مہینے بارہ سور و پیہ خرچ کرنا پڑا یعنی تین گنا زیادہ تو بارہ سوروپے آمد ہوگئی.پس جتنا خرچ ہوتا ہے اتنا اللہ تعالیٰ دے دیتا ہے.اس واسطے بجٹ بنانے کی ضرورت نہیں.چنانچہ میری گھبراہٹ دور ہو گئی.مگر جس طرح انہیں گھبراہٹ پیدا ہوتی تھی.مجھے بھی بسا اوقات کم مائیگی کا سوچ کر بڑی پریشانی اٹھانی پڑتی تھی.ہم لوگ یعنی اس زمانے کے نوجوان حضرت صاحب کی خدمت میں لکھتے تھے.چنانچہ اس کے متعلق حضرت صاحب نے کئی خطبات پڑھے ہیں.لیکن اس سال خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں جو بجٹ پیش کیا گیا ہے وہ اڑھائی لاکھ روپے کا ہے اور جو آپ کے سامنے بجٹ رکھا جائے گا وہ صرف بہتر ہزار روپے کا ہے.پس بڑا فرق پیدا ہو گیا ہے اور اس کی یہی وجہ ہے کہ پیچھے سے جو پود آ رہی ہے وہ تعداد کے لحاظ سے بھی زیادہ ہے اور مالی وسعت کے لحاظ سے بھی.پس اللہ تعالیٰ نے تعداد میں برکت ڈالی اور مال میں برکت ڈالی اور خدام آگے نکل گئے.میرا خیال ہے کہ ۱۹۴۲ء میں ایسے احمدی نوجوان جو خدام الاحمدیہ کے رکن تھے اور جن کو ہزار دو ہزار روپے تنخواہ ملتی تھی وہ گنتی کے دو ایک ہوں گے.اب میرا خیال ہے کہ اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ایسے نوجوان ہیں جن کی تنخواہ اس وقت ہزار دو ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے.پس اللہ تعالیٰ نے مال میں بھی برکت ڈالی جو ہمارے لئے ایک نشان ہے اور ایک تازیانہ بھی ہے آپ کے لئے اور میرے لئے بھی جو عمر میں بڑے ہو گئے ہیں کہ ہم کیوں پیچھے رہیں.جن کو ہم بچے کہتے ہیں ان کو ہم آگے کیسے نکلنے دیں گے.کوشش تو یہی ہونی چاہئے.خواہش بھی یہی ہونی چاہئے.ویسے نو جوان فی الدنیا آگے نکلیں تو ہمارے لئے خوشی کا باعث ہے ( اور ان کو نکلنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ان پر بڑا فضل ہے اور ہم پر بھی لیکن جب ہمارا یعنی چالیس سال سے بڑی عمر والوں کا ان کے ساتھ مقابلہ ہو تو پھر ہماری خواہش یہی ہونی چاہئے کہ نوجوان بھی ترقی کریں لیکن ہم ان سے زیادہ ترقی کر جائیں.ہماری خواہش نہیں ہونی چاہئے کہ ان کے اندر کمزوری پیدا ہو جائے.بلکہ ہمارے دل میں یہ خواہش پیدا ہونی چاہئے کہ وہ جتنی اور زیادہ ترقی کر سکتے ہیں کریں.خدا تعالیٰ ان کو اور بھی زیادہ ترقی دے.ہمیں ان سے بھی زیادہ ترقی دے.بہر حال جب آپ اپنے بجٹ پر غور کریں گے تو اس چیز پر بھی آپ غور کریں اور کوئی ایسی صورت نکالیں کہ آپ ان سے پیچھے نہ رہیں.آج میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان نہیں کروں گا اس واسطے کہ ابھی وقت نہیں آیا.رمضان کی وجہ سے یہ اجتماع پہلے ہو گئے ہیں.انشاء اللہ اس مہینے کا جو آخری خطبہ ہو گا.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور زندگی رکھی تو میں اس وقت تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کر دوں گا.

Page 217

سبیل الرشاد جلد دوم 198 انسانی قومی کی چار اقسام: آج میں چند باتیں آپ سے کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا اور احسن تقویم کی پیدائش کے نتیجہ میں اصولی طور پر اسے چار قسم کی قوتیں اور استعداد میں دی گئیں.ایک جسمانی طاقت ہے یہ بھی ایک ایسی قوت ہے جو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے.مثلاً ایک طاقت ہے تیز دوڑنے کی.ایک شخص آگے نکل جاتا ہے اور دوسرے پیچھے رہ جاتے ہیں.ایک طاقت ہے کشتی کرنے کی ، ایک طاقت ہے تیراندازی کی ، ایک طاقت ہے بندوق چلانے کی.چنانچہ تیراندازی کی جو طاقت ہے.جس وقت وہ اپنے نشو و نما کے کمال پر پہنچی تو ایک محاصرے کے وقت دشمن نے اپنی فصیلوں کے اوپر تھوڑے سے مٹھی بھر مسلمانوں پر رعب ڈالنے کے لئے آدمی ہی آدمی کھڑے کر دیئے اور جبہ پوش عیسائی پادری ( شام کے علاقے کی بات ہے ) آگئے اور وہ جوش دلا رہے تھے کہ ماروان کو چھوڑ نا نہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت خالد بن ولید کے دماغ میں یہ عجیب بات ڈالی.انہوں نے تیراندازوں کو بلایا اور کہا کہ جو لوگ فصیلوں پر کھڑے ہیں ان کی آنکھ کا نشانہ لو.آنکھ کا نشانہ ! چنانچہ انہوں نے تیر چلانے شروع کئے تو ایک ہزار آدمی کی آنکھ نکال دی.پس یہ ایک قوت ہے.جسے اللہ تعالیٰ ہی نشو ونما دیتا ہے.یہ عجیب نشان ہے.ادھر حضرت خالد بن ولید کے دل میں یہ ڈالا کہ تیر اندازوں کو یہ حکم دو ادھر فرشتوں سے کہا کہ ان کے تیر پکڑ لو اور دشمن کی آنکھ میں گھسیڑ دو.آج تیر کے مقابلے میں بندوق کا نشانہ لینا نسبتاً آسان ہے.مگر اتنے فاصلے پر سے بندوق سے بھی آنکھ نہیں نکالی جا سکتی.اور اتنے وقت میں ایک ہزار آدمی کی آنکھ تو نہیں نکالی جا سکتی.بڑے اچھے نشانہ والا ہو تو پھر بھی شاید دو تین فیصد نشانہ ٹھیک بیٹھتا ہے اول تو وہ بھی مشکل ہے.پس یہ ایک طاقت ہے.انسان کو تیر چلانے کی قوت دی گئی ہے یہ ایک استعداد ہے جو انسان کو ملی ہے.پھر ذہنی استعداد ہے اور اپنی ذہنی استعداد کی بناء پر کوئی کسی طرف نکلتا ہے اور کوئی کسی طرف نکلتا ہے.اس کے اندر بھی اللہ تعالیٰ نے بڑا تنوع پیدا کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خلق کی کثرت اللہ تعالیٰ کی وحدت پر دلیل قائم کرتی ہے.ہر چیز میں ایک تنوع ہے.اس طرح نہیں جس طرح لوگ موٹر میں بناتے ہیں اور ایک ہی سانچے کے اندر ہزاروں لاکھوں نکل آتی ہیں کیونکہ انسان اور اس کی کوشش محدود ہے لیکن اللہ تعالیٰ تو غیر محدود ہے.اس کا ہر فعل دوسرے سے مختلف ہے.اور وہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ - O کی شان رکھتا ہے.اس کی قدرت کا ہر جلوہ ایک نئی شان کے ساتھ سورة الرحمن آیت ۳۰

Page 218

199 سبیل الرشاد جلد دوم ظاہر ہوتا ہے.مثلاً انسانی ذہن ہے.جس طرح جسموں کی شکلیں آپس میں نہیں ملتیں اسی طرح ذہن بھی آپس میں نہیں ملتے.ہر ایک ذہن کی اپنی خاصیت ہے اور اسی پر بنیا د رکھ دی.انسانی معاشرہ کی (ایک مستقل مضمون ہے.اس وقت میں تفصیل میں نہیں جاؤں گا) بہر حال ذہنی قومی اور استعدادیں ہیں.پھر اخلاقی قومی اور استعدادیں ہیں اور پھر روحانی قومی اور استعدادیں ہیں.66...قومی میں تدریجی نشو و نما : اللہ تعالیٰ نے قانون یہ بنایا کہ تدریجا ترقی ہوگی.ہر قوت تدریجا نشو ونما کرے گی.مثلاً پیج ہے.یہ بھی ایک قوت ہے مگر یہ تدریجاً نشو و نما کرتا ہے.ایک بچہ کے قولی بھی تدریجی ترقی کرتے ہیں.یہ نہیں کہ آج بچہ پیدا اور کل کو یونیورسٹی میں پروفیسر لگ جائے.یہ تدریجی نشو و نما محنت کو چاہتی ہے اور لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ “ میں اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے کہ انسان کو ہم نے رہین محنت بنایا ہے.( ہر خلق کے اندر ہر جگہ ہمیں یہی نظر آتا ہے ) کہ انسان کی جو بھی قوت ہے، جب تک محنت نہ کی جائے.اس کی نشو ونما نہیں ہو سکتی.دراصل نشو و نما نام ہی ہے صحیح راہ پر محنت کرنے کا.تا کہ ہر قوت کے اندر ترقی پیدا ہو.زور اور طاقت پیدا ہو.روشنی اور حسن پیدا ہو.مثلاً بچہ پیدا ہوتا ہے.اس وقت بچہ تو محنت نہیں کر رہا ہوتا لیکن اس کے ماں باپ محنت کر رہے ہوتے ہیں.اگر امیر خاندان ہے تو اس کے نوکر اس بچے کے لئے محنت کر رہے ہوتے ہیں.وہ راتوں کو جاگتے اور ان کے بچوں کا کام کرتے ہیں.خود ہم نے اپنے بچوں کو صاف کیا ہے.بچے بیمار ہو گئے ہیں.دس پندرہ منٹ کے بعد دست آ رہے ہیں اور یہ چیزیں انسانی زندگی کے ساتھ لگی ہوئی ہیں.ماں باپ کو ہر قسم کی محنت کرنی پڑتی ہے.اس محنت کے بغیر بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے نشو و نما کرنا تو کجا زندہ بھی نہیں رہ سکتا.اس کی بقاء ہی ممکن نہیں.صحیح نشو و نما کے لئے سخت محنت کی ضرورت : پس اگر چه نشو و نما کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے.لیکن بقاء یعنی سالمیت کے بغیر تو نشو و نما نہیں ہو سکتی.نشو و نما کا پہلا مطالبہ ہی یہ ہے کہ زندہ رکھا جائے.دوسرا مطالبہ نشو ونما کا یہ ہے کہ صحت کے ساتھ زندہ رکھا جائے اور تیسرا مطالبہ نشو و نما کا یہ ہے کہ صحیح طریقے پر مدد دی جائے.یا اپنی مدد کی جائے.یہ دونوں طرح سے ہے.جو آدمی بڑا ہو جاتا ہے.وہ خود اپنی مدد کر رہا ہوتا ہے."وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حق“ اسی لئے کہا گیا ہے.یعنی تیرے نفس کا بھی تیرے پر حق ہے.فرمایا.خدا تعالیٰ نے تجھے جو قو تیں اور استعدادیں دی ہیں ان کی صحیح اور کامل نشو و نما کے لئے تو انتہائی جد و جہد اور محنت کر اور اس میں

Page 219

200 سبیل الرشاد جلد دوم قانون تدریج کو مد نظر رکھ.مثلاً بچہ پیدا ہوتا ہے اور وہ شروع میں ایک خاص عمر تک ایسا ہوتا ہے کہ غیر اس کے لئے محنت کر رہے ہوتے ہیں اور پھر ایک ایسی عمر میں سے گزرتا ہے جس میں وہ اور دوسرے مل کر محنت کر رہے ہوتے ہیں.اگر استاد اچھا محنت کرنے والا نہیں ہے.تب بھی اس کی نشو ونما نہیں ہوگی.اگر بچے کو پڑھائی کی طرف توجہ نہیں ہے تب بھی نشو و نما نہیں ہوگی.پس انسان پر ایک ایسا زمانہ آتا ہے کہ جب صحیح اور کامل نشو ونما کے راستے پر آگے بڑھنے کی حرکت کے لئے اپنی محنت اور دوسرے کی محنت ملنی ضروری ہے.ورنہ نشو ونما نہیں ہوگی.اس کے بعد جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاتا ہے تو پھر وہ ایک ایسی جگہ پہنچتا ہے کہ نہ صرف اپنے لئے بلکہ وہ دوسرے کے لئے بھی محنت کر رہا ہوتا ہے اور اسلامی معاشرے میں تو ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ دوسرے کی مدد کرے.پس محنت ! محنت !! محنت !!! یعنی پوری جدو جہد ضروری ہے.محنت کا صحیح نتیجہ نکلنے کے متعلق قرآن کریم کی رہنمائی: لیکن انسان کا دماغ یہ سوچ کر چکرا جاتا ہے.وہ کہتا ہے میں کمزور ہوں.اگر میں پوری محنت کروں تب بھی وہ نتیجہ نہیں نکل سکتا.جو نکلنا چاہئے یا جو نتیجہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ نکلے.صحیح نتیجہ نکالنے کے لئے قرآن کریم نے بہت ساری باتیں بتائی ہیں.ایک یہ ہے کہ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى ، فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرى.کہ جو آدمی قربانی دے اور قربانی دینے کے بعد اس کا سر بلند نہ ہوغرور اور تکبر میں بلکہ وہ اپنی بساط کو سمجھتا ہو اور اس کی گردن خدا تعالیٰ کے حضور جھکی رہے اور سوائے خدا تعالیٰ کے اپنے لئے کوئی سہارا نہ پائے اور نہ محسوس کرے اور نہ کسی اور کی طرف توجہ کرے.فرما یا اغطی اس نے قربانی دی اور پھر وَاتَّقی اس نے غرور نہیں کیا.بلکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ چمٹا رہا اور اسی کو اپنا سہارا سمجھا اور اس کے بغیر کوئی چیز ممکن الحصول ہی نہ سمجھی.وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی اور جہاں بھی اس نے کوئی اچھی چیز پائی وہ لے لی " كَلِمَةُ الْحَقِّ ضَالَّهُ الْمُؤْمِنِ“ اسی آیت کی تشریح و تفسیر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے.پھر فرمایا فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْری.اگر تم محنت کرو گے تو وہ جو محنت کی ذمہ داری ہے اس میں تمہارے لئے آسانی اور سہولت کے سامان پیدا کر دئیے جائیں گے اور تم کامیاب ہو جاؤ گے پھر تمہیں اللہ تعالی کی مدد ملے گی.سورۃ اللیل آیت ۶ تا ۸

Page 220

201 سبیل الرشاد جلد دوم پس محنت ضروری ہے اور محنت کے لئے اللہ تعالیٰ کا فضل ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے حصول کے لئے اپنی طرف سے انتہائی قربانی اور پھر انتہائی قربانی کے بعد انتہائی انکساری ضروری ہے.کیونکہ اتقی ہی کا نتیجہ صَدَّقَ بالحُسنی ہے اس لئے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ کوئی دوسرا شخص میرے دماغ سے اچھا دماغ نہیں رکھتا یا اس کے منہ سے کوئی اچھی بات نہیں نکل سکتی.جہاں بھی آدمی نیکی کی بات دیکھے اس کا نفس اس کے لینے میں حائل نہ ہو.بلکہ وہ اسے لے لے تب اللہ تعالیٰ محنت کا پھل پورا دیتا ہے اور یُسر کے سامان پیدا کر دیتا ہے مگر یہ سب کچھ محنت.محنت اور محنت پر منحصر ہے.خلیفہ وقت اور جماعتی قربانیاں : خلیفہ وقت کا کام ہے وہ جماعت سے محنت کرواتا ہے.دوست ایک قربانی دیتے ہیں تو وہ ان سے ایک بڑی قربانی کا مطالبہ کر دیتا ہے.چنانچہ اس وقت اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل ہے کہ پچھلے چند سالوں میں اتنا Momentum ( مومینٹم ) یعنی غلبہ اسلام کی شاہراہ پر ہماری جو حرکت ہے اس میں اتنی شدت پیدا ہوگئی ہے کہ انسان حیران ہو جاتا ہے.میں نے فضل عمر فاؤنڈیشن کو بھی کہا تھا کہ میں نے سوچا اور مجھے تمہارے متعلق فکر پیدا ہوئی کیونکہ آج سے قریباً چھ سال پہلے فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک کی گئی تھی اور جماعت نے اس پیار کے نتیجہ عمر میں جو انہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے تھا.وہ پیار جو انہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مہدی مسعود ( جو دراصل ایک ہی وجود ہے ) کے ساتھ ہے اور وہ پیار جو انہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اس کے نتیجہ میں انہوں نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایک کمزور اور غریب جماعت نے دوسری مالی ذمہ داریوں کے علاوہ قریباً ۳۳ لاکھ روپیہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے سپر د کر دیا لیکن اس کے بعد فضل عمر فاؤنڈیشن کی حرکت جماعتی حرکت سے بہت پیچھے رہ گئی.تاہم فضل عمر فاؤنڈیشن نے مالی لحاظ سے ایک نمایاں کام یہ کیا ہے کہ لائبریری کی عمارت بنوا دی ہے.لیکن ان چار سالوں میں اس عمارت پر جو رقم خرچ کی گئی ہے.اس کے مقابلہ میں صدر انجمن احمدیہ نے (میں تحریک جدید اور دوسرے اداروں کو نہیں لیتا ) اس سے چار پانچ گنا زیادہ پیسہ خرچ کر کے عمارتی لحاظ سے جماعتی ضرورتوں کو پورا کیا ہے.غرض فاؤنڈیشن نے اس (لائبریری کی عمارت) کے علاوہ کوئی اور نمایاں کام نہیں کیا.میں نے اس کے متعلق کرنل عطاء اللہ صاحب سے پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ مجھے خود یہ خیال آیا اور مجھے فکر پیدا ہوا ہے.ہم سوچ رہے ہیں آپ ہماری رہنمائی کریں.میں نے کہا میری پہلی رہنمائی یہ ہے کہ آپ سر جوڑیں اور دعائیں کریں اور سوچیں پھر میرے پاس آئیں جو خدا تعالیٰ میرے ذہن میں ڈالے گا وہ میں بتا دوں گا.

Page 221

سبیل الرشاد جلد دوم 202 اس وقت فضل عمر فاؤنڈیشن کے متعلق میں نے جو کہنا تھا وہ کہہ چکا ہوں.آپ کے سامنے یہ بات اس لئے رکھ رہا ہوں کہ جس دن فضل فاؤنڈیشن شاہراہ غلبہ اسلام پر حرکت میں آئی تھی.اس کی نسبت بہت زیادہ حرکت جماعت کے دوسرے اداروں میں پیدا ہو چکی ہے.مثلاً پچھلے سال نصرت جہاں آگے بڑھو کے لئے جس مال کی ضرورت تھی اس کی خاطر میں نے ” نصرت جہاں ریزرو فنڈ جاری کیا چنانچہ اس مالی تحریک کے علاوہ وصیت کے چندے، عام چندے، تحریک جدید کے چندے، وقف جدید کے چندے ، خدام الاحمدیہ کے چندے، انصار اللہ کے چندے اور لوکل جماعتوں کے چندے تھے اور پھر ان کے علاوہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے ۳۳ لاکھ روپے دے کر دوست بظاہر تھکے ہوئے تھے.مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی تھی اور خود رہنمائی فرمائی تھی کہ تم جماعت سے قربانی لو.میری یہ قوم بشاشت سے قربانی دیتی چلی جائے گی.چنانچہ وہ لوگ جو دنیا کی نگاہ میں تھکے ہوئے سمجھے جاتے تھے.انہوں نے فضل عمر فاؤنڈیشن سے کہیں زیادہ مال نصرت جہاں ریز روفنڈ میں دے دیا.خدا تعالیٰ سے تجارت اور غیر معمولی برکت : جس وقت مال آتا ہے تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ دنیا میں ہر قسم کے ذہن ہوتے ہیں مسلمانوں میں بھی تاجرانہ ذہن پایا جاتا ہے.بنیا ہو نا صرف ہندو کی اجارہ داری نہیں ہے مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بڑے تاجرانہ ذہن رکھتے ہیں.ایسے تاجرانہ ذہنوں کو فکر پڑ گئی کہ پیسہ آ گیا ہے اس کو تجارت میں لگنا چاہئے ورنہ یہ بڑھے گا نہیں.میرے پاس ایک سے زیادہ دوست آئے.انہوں نے کہا کہ روپیہ جمع ہے اسے تجارت میں لگائیں.آج کل بعض کمپنیاں اچھی ہیں اگر وہ مل جائیں اور ان میں پیسہ تجارت میں لگایا جائے تو دس فیصد تک نفع مل جاتا ہے.میں نے ان کی بات سنی (میں ہر ایک کی بات آرام سے سنتا ہوں ) اور مسکرا کر کہا کہ جس ہستی سے میں تجارت کر رہا ہوں.مجھے امید ہے کہ وہ مجھے دس فیصد سے کہیں زیادہ نفع دے گا.میں تو اس سے ۳۰۰ فیصد نفع کی امید لگائے بیٹھا ہوں.اس لئے اگر آپ ۳۰۰ فیصد سے زیادہ نفع کسی اور جگہ سے لے دیتے ہیں تو پھر ہم تھوڑا سا پیسہ وہاں بھی لگا دیں گے.مگر یہاں ۳۰۰ فیصد کون دیتا ہے خیر وہ تو ہوا.جماعت سے میں نے کہا تھا کہ خرچ کر دینا ہے.افریقہ میں بھی یہی کہا تھا.لیکن مجھے پتہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تجارت کا محاورہ ویسے ہی استعمال نہیں کیا.جو اللہ تعالیٰ سے تجارت کرتا ہے وہ گھاٹے میں کس طرح رہ سکتا ہے ؟ صرف ایک مثال دے دیتا ہوں.اس کی تفصیل میں آگے چل کر بتاؤں گا کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح فضل کیا.ایسا معلوم

Page 222

سبیل الرشاد جلد دوم 203 ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ وہ ہماری کمر پر ہاتھ رکھیں اور ہمیں آگے ہی آگے تیزی سے چلاتے چلے جائیں.مغربی افریقہ کے ایک ہیلتھ سنٹر جس کی میں مثال دے رہا ہوں اور وہ دوسروں سے نسبتاً اچھا ہے، کے جاری کرنے پر ہم نے ڈیڑھ ہزار پونڈ خرچ کیا.یہ سب خرچ بیرون پاکستان کی جماعتوں کے چندہ سے کیا جاتا ہے.دس فیصد کے لحاظ سے ڈیڑھ ہزار پونڈ پر میں ڈیڑھ سو پونڈ سال کا نفع ہونا چاہئے تھا یعنی اگر ہم یہی ڈیڑھ ہزار پونڈ کسی اچھی کمپنی میں لگا دیتے تو سال کے بعد وہ کمپنی ہمیں ڈیڑھ سو پونڈ نفع دے دیتی مگر اللہ تعالیٰ نے ڈیڑھ ہزار کے اوپر ہمیں پانچ مہینے کے بعد جو نفع دیا وہ چھ ہزار پونڈ ہے.افریقہ میں ہیلتھ سنٹرز اور سکولوں کا قیام : پھر یہ تو ایک مالی چیز ہے.اصل چیز عوام کی خدمت ہے.اس سے وہاں ایک جوش اور پیار پیدا ہو رہا ہے (جوش کام کے لئے اور پیاران خادموں کے کام کے ساتھ ) اصل بنیادی چیز اسلام ہے جس کے ساتھ ہم پیار پیدا کرنا چاہتے ہیں اور جس کے نتیجہ میں خدائے واحد و یگانہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیار پیدا ہو گا.عیسائی باشندے ہیلتھ سنٹرز کے لئے ہمیں زمینیں دے رہے ہیں اور پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ جلد ہسپتال کھولے جائیں اور ابھی وقت بھی کیا ہوا ہے.میں پچھلے سال مئی میں افریقہ سے واپس آیا تھا اور اس طرح قریباً چودہ مہینے ہوئے ہیں اور وعدہ میں نے یہی کیا تھا کہ اگلے پانچ سال کے لئے سکیم بنا رہے ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ کم از کم ایک لاکھ پونڈ ان ملکوں میں خرچ کر دو اور اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء گیمبیا میں مجھ پر ظاہر ہوا تھا اور یہ اس وقت ظاہر ہوا تھے جب میرے پاس کام کے لئے لاکھ آ نہ بھی نہیں تھا.لیکن مجھے کوئی گھبراہٹ اس لئے نہیں ہوئی کہ جب خدا تعالیٰ جو تمام دولتوں کا مالک ہے وہ کہتا ہے تو وہ مجھے دے گا بھی.چنانچہ میں نے لندن آ کر بھی یہی اعلان کیا تھا اور یہاں آ کر بھی یہی اعلان کیا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ پیسہ کہاں سے آئے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ دولتوں کا اصل مالک ہے.اس نے کہا ہے تو وہ دے گا کیونکہ اس کے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے یا مجھے یہ فکر نہیں تھی کہ آدمی کہاں سے آئیں گے.چند سال ہوئے میں نے تحریک جدید کو کہا کہ تم وہاں اور ڈاکٹر کیوں نہیں بھیجتے ؟ تو تحریک نے کہا کہ کوئی ڈاکٹر ہی نہیں ملتا.ہم بھیجیں کیسے؟ اور وہاں میں وعدہ کر آیا تھا چھ ملکوں کے لئے کم سے کم 18 ڈاکٹروں کا اور یہ کہتے تھے کہ ہمیں وہاں بھیجنے کے لئے ایک ڈاکٹر بھی نہیں ملتا.لیکن مجھے کوئی فکر نہیں تھا بلکہ مجھے یقین تھا کہ جب خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ وہاں ڈاکٹر بھیجے جائیں تو ڈاکٹر آئیں گے کیونکہ میں نے ڈاکٹر پیدا نہیں کرنے اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے.

Page 223

سبیل الرشاد جلد دوم 204 بے لوث خدمت کا جذبہ : جتنے سکولوں کا میں نے وعدہ کیا تھا نیز یہ جو ہیلتھ سنٹر ز ہیں ان کا یعنی سکولوں اور ہسپتالوں کا پانچ سالہ بجٹ ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے ہے اور اس کا چندہ بصورت وعدے نصرت جہاں ریزروفنڈ 48 لاکھ کے قریب پہنچا ہے اور خرچ ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے کا ہے.باقی قریباً نوے لاکھ روپے کہاں سے آئیں گے؟ مگر مجھے فکر نہیں تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دئیے کہ اب یہی ہیلتھ سنٹرز روپیہ کما رہے ہیں اور ان کے ذریعہ جو کمایا جاتا ہے وہ وہیں ان لوگوں پر خرچ کر دیا جاتا ہے کیونکہ ہم ایکس پلائیٹیشن (Exploitation) کے لئے وہاں نہیں گئے.ہم وہاں خدمت کے لئے گئے ہیں.ہم اسلام کی محبت پیدا کرنے کے لئے گئے اور اسلام کی محبت پیدا ہی نہیں ہو سکتی اگر آپ ایک دھیلہ بھی وہاں سے نکالیں.پھر تو وہ کہیں گے تم تو ہمارے پیسے کے لالچ میں یہاں آئے تھے.ہم ان سے کہتے ہیں ہم پیسے کے لالچ میں نہیں آئے.ہم خدمت کے جذبہ سے آئے ہیں.نائیجریا میں ہیلتھ سنٹرز : نائیجریا میں ڈاکٹروں کا ایک کرائسز (Crisis) پیدا ہوا اور ہماری پر یشانی کا باعث بنا.ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیا ہو رہا ہے کیونکہ یعقو بو گوون بڑے پیار سے ملے تھے.میں نے ان سے بھی اپنی سکیم کے متعلق باتیں کی تھیں اور وہ بڑے خوش تھے.اب وہ ہمیں ڈاکٹروں کے لئے ریزیڈنشل پر مٹ نہیں دے رہے تھے.میں بڑا پریشان تھا کہ بات کیا ہے؟ شاید بیچ میں کوئی ایسا متعصب آدمی آ گیا ہے جو رعب ڈال رہا ہے.فکر تھا کہ کیا بات ہے؟ بعد میں یہ پتہ لگا کہ وہاں افریقین ڈاکٹر جو گورنمنٹ کے نوکر تھے انہیں یکدم یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر ہم استعفیٰ دے کر اپنی پریکٹس کریں تو زیادہ کما سکتے ہیں.چنانچہ انہوں نے استعفے دینے شروع کر دیئے جس سے حکومت نائیجریا کو یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ بہت سارے ہسپتال بند کرنے پڑیں گے.غرض انہوں نے ہمارے ڈاکٹروں کو روک دیا اور کہا کہ ہم اجازت نہیں دیتے اور وجہ یہ بتائی کہ جس نے ہاؤس جاب نہیں کیا.اس کو ہم اجازت نہیں دیں گے.اب ہاؤس جاب تو سارے ڈاکٹر نہیں کرتے.بعض ڈاکٹروں کی پندرہ پندرہ سال کی پریکٹس ہے اور یہ پندرہ سال کی پریکٹس ہاؤس جاب سے بہر حال زیادہ کوالیفکیشن ہے.ہاؤس جاب تو صرف ایک سال کا ہوتا ہے مگر پھر بھی انہوں نے کہا کہ نہیں ہم نے اجازت نہیں دینی.اتفاق کی بات ہے اور یہ بھی خدا کی شان ہے کہ مجھے خیال آیا کہ میں اپنے مشن کو لکھ دوں کہ

Page 224

سبیل الرشاد جلد دوم 205 ان سے کہو کہ اپنے ہسپتالوں میں ہمارے ڈاکٹروں کو ہاؤس جاب کروا دو.خیال یہ تھا کہ ممکن ہے ان کو ڈاکٹروں کی ضرورت ہو.ادھر ہمارے مشنری انچارج نے لکھا کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ ہم کر سکتے ہیں.غرض وہ اپنی ضرورت پوری کرنا چاہتے تھے میرے ساتھی کچھ گھبرائے.میں نے کہا گھبرانے کی بات نہیں یہ تو اللہ تعالی نے بڑا فضل کیا ہے ہم نے وہاں سر دست چار ہیلتھ سنٹر کھولنے تھے مگر اب ہم ان کولکھ رہے ہیں کہ ہم دس ڈاکٹر بھیجتے ہیں جنہیں تم ہاؤس جاب کرواؤ اور ایک سال کے بعد ان کو فارغ کر دینا.اگر وہ دس بارہ کی اجازت دے دیں تو وہاں سولہ ہیلتھ سنٹر ز کھل جائیں گے.اس وقت سوال تھا.پیسے کا وہ اللہ تعالیٰ نے دے دیا ہے.جماعت نے پہلے سے زیادہ قربانی کی اور اس طرح غلبہ اسلام کی اس مہم کی حرکت میں بڑی شدت پیدا ہورہی ہے اور اس سے ہم امید رکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جھنڈ ا عنقریب ساری دنیا کے دل میں گاڑ دیا جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.ہیلتھ سنٹرز کا قیام اور اس کا اثر : اس وقت تک جو ڈاکٹر وہاں پہنچ چکے ہیں.ان کی تعداد 14 ہو چکی ہے.جو تیار ہیں اور روانہ ہونے والے ہیں.ان کی تعداد 4 ہے.یعنی سولہ کا وعدہ کر کے آیا تھا.پانچ سال کے لئے اور سولہ کی بجائے اٹھارہ ڈاکٹر ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصہ میں پہنچ جائیں گے.ایک اس کا اور اثر ہوا.وہاں کے پیرا ماؤنٹ چیفس پہلے یہ سمجھتے تھے کہ امام جماعت احمد یہ آئے ہیں.ان کے دل میں پیار تو بڑا ہے.لیکن انہوں نے ایسا وعدہ کیا ہے کہ جسے یہ اتنی جلدی پورا نہیں کرسکیں گے.ان کے دل میں چونکہ یہ خیال تھا اس لئے وہ آرام سے بیٹھے ہوئے تھے.جب ہمارے ڈاکٹر پہنچنے لگے تو انہوں نے کہا ہمیں اور ڈاکٹر دیں.ہم زمین دیتے ہیں ہم اور ہیلپ (Help) کرتے ہیں.ہم حکومت سے اجازت لے کر دیتے ہیں.ہمیں اور ڈاکٹر دیں.پس اس وقت تک انیس اور ڈاکٹروں کا مطالبہ آ چکا ہے، ان اٹھارہ کے علاوہ جن میں سے اکثر پہنچ چکے ہیں اور کچھ پہنچنے والے ہیں.اس کی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی فضل سے ہمارا کام بڑی جلدی کر دیا اور اس میں برکت ڈال دی.ایک امریکن غانا میں ریسرچ سکالر کے طور پر کام کر رہا ہے.اس نے ایک افریقن عورت سے شادی کی ہوئی ہے.وہ مجھے پیچی من (غانا) میں ملا تھا.یہ پیچی من وہ جگہ ہے جہاں حال ہی میں ہمارا ایک ہیلتھ سنٹر کھلا ہے.چند روز ہوئے اس کے متعلق الفضل میں چھپا ہے.میرے دورے کے وقت یہ امریکن وہاں نیچی من میں بھی آیا ہوا تھا.اب وہ سیاحت پر ہے.مجھے یہاں بھی ملا.یہاں میرے سامنے تو بات نہیں کی لیکن ہمارے دوستوں سے کہنے لگا کہ انہوں نے مغربی افریقہ کے ممالک میں جو پروگرام بتایا

Page 225

206 سبیل الرشاد جلد دوم ہے.ہم نے سوچا کہ اگر ہم اتنا بڑا پروگرام طے کرتے تو با وجود ساری دنیا کی دولت ہمارے پاس ہونے کے ہم اس کو تھیں سال میں مکمل کر سکتے تھے.مگر ابھی تو ایک سال نہیں گزرا کہ آپ کے کام شروع ہو گئے ہیں.تم کس طرح اور کیا کرتے ہو؟ ہمیں تو سمجھ نہیں آ رہی.غیر کیا جانے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل کب کس پر اور کیوں نازل ہوگا.یہ امر انسان کے دماغ میں بھی نہیں آتا.یہ تو اس کو پتہ لگتا ہے جس پر فضل نازل ہو رہا ہوتا ہے.ٹیچی من کا ہیلتھ سنٹر : ٹیچی من میں ایک بہت بڑا عیسائی پیرا ماؤنٹ چیف ہے.یہ اپنے علاقے کا صدر بھی ہے اور کنگ کہلاتا ہے اور غانا کے پیرا ماؤنٹ چیفس کی جو مجلس ہے.جسے انہوں نے ابھی تک روایتاً رکھا ہوا ہے اس مجلس کا یہ نائب صدر ہے یعنی چیفس کے لحاظ سے سارے غانا میں یہ دوسرے نمبر پر ہے.غرض یہ اتنا بڑا چیف اور پھر عیسائی ہے.بایں ہمہ اس نے ہمیں اڑھائی سوا یکٹر زمین مفت دی ہے اور جب میں وہاں گیا تھا تو اس نے جو ایڈریس پڑھا وہ اس طرح لگتا تھا کہ گو یا کسی احمدی کا لکھا ہوا ہے.ٹیچی من میں کیونکہ عیسائی پہلے سے پہنچے ہوئے ہیں.یہاں عیسائیوں نے دو بڑے ہسپتال بنا رکھے ہیں.ایک کیتھولک ہسپتال ہے اور دوسرا کسی اور عیسائی فرقے کا ہے.اس وقت میرے ذہن میں نہیں کہ وہ کس فرقہ کا ہے.بہر حال ان دونوں ہسپتالوں میں یورپین ڈاکٹر ہیں.چنانچہ جس وقت میں نے اپنی جماعتوں کے دوستوں سے کہا کہ ٹیچی من میں ہیلتھ سنٹر کھولو تو وہ مجھے اصل وجہ تو بتا ئیں نہ.اور کہیں یہاں مناسب نہیں ہے.پھر مجھے یہاں خط لکھنے شروع کئے کہ یہ جگہ مناسب نہیں ہے.اس سے تو فلاں جگہ اچھی ہے اگر آپ جازت دیں تو وہاں کھول دیں.میرے دماغ نے فیصلہ کیا تھا کہ اس جگہ ہیلتھ سنٹر ضر و ر کھلنا چاہئے کیونکہ ٹیچی من ایک مرکزی نقطہ بنتا ہے.اس لحاظ سے کہ اس کے جنوب مشرق اور مغرب میں عیسائی اور بت پرست (پیگن ) زیادہ ہیں اور مسلمان نسبتاً کم اور شمال میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور یہ ایک مرکزی نقطہ ہے.عیسائیوں نے وہاں اپنا سارا زور لگایا ہوا تھا کیونکہ وہ بت پرستوں کو عیسائی بنا رہے تھے اور مسلمانوں کے بچوں میں اپنا دجل پھیلا رہے تھے.ہماری جماعت کے دوستوں کا یہ خیال تھا کہ دومشن ہسپتال ہیں.جن کی اچھی عمارتیں ہیں جن میں یورپین ڈاکٹر بیٹھے ہوئے ہیں.یہ زور لگائیں گے اور حکومت ہمارے ہسپتال کو روک دے گی.جس سے ہماری سبکی ہو گی.مگر میرا دل کہتا تھا کہ میں نے یہیں ہسپتال بنانا ہے.چنانچہ وہ مجھے

Page 226

207 سبیل الرشاد جلد دوم بار بار خط لکھ رہے تھے کہ یہ جگہ مناسب نہیں ہے فلاں جگہ مناسب ہے.وہاں ہسپتال ہونا چاہئے.میں نے کہا کہ جب میں نے فیصلہ کر دیا ہے تو وہیں بنے گا.چنانچہ میں نے یہاں سے ڈاکٹر بشیر احمد صاحب کو بھیج دیا.وہ سرحد کے رہنے والے ہیں اور بڑے ہی مخلص ہیں.انہوں نے بڑا اچھا کام کیا ہے.چنانچہ اس علاقے کا جو عیسائی ہیلتھ آفیسر تھا اس نے ہمارے حق میں رپورٹ دے دی اور رپورٹ دے کر وہ خود چھٹی پر چلا گیا.اس کی جگہ عارضی طور پر جو دوسرا آدمی آیا ہے وہ بڑا متعصب تھا اس نے عیسائی پادریوں اور ڈاکٹروں سے مل کر مرکزی حکومت پر زور دینا شروع کیا کہ ان کو ہسپتال کھولنے کی اجازت نہ دو.چنانچہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا.پھرانہوں نے مجھے لکھنا شروع کیا کہ یہاں یہ قصہ ہے.میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا.تم گھبراتے کیوں ہو؟ چار پانچ مہینے تک یہی حالت رہی مگر انہوں نے اس عرصہ میں ہمارے ڈاکٹر کا ریزیڈنشل پر مٹ منسوخ نہیں کیا کیونکہ پہلا ہیلتھ آفیسر یہ رپورٹ کر چکا تھا کہ عمارت بھی مناسب ہے اور ڈاکٹر بھی اہل ہے.چنانچہ حکومت نے کہہ دیا کہ جب تک ہم اجازت نہیں دیتے اس وقت تک یہ ڈاکٹر پریکٹس کرے.ہم کچھ نہیں کہیں گے چنانچہ اس نے پریکٹس شروع کر دی.پریکٹس کے دوران ایک دن کیتھولک کے علاوہ عیسائیوں کے دوسرے فرقے کا جو ہسپتال تھا اس کا یورپین ڈاکٹر اچانک مر گیا اور ان کے پاس کوئی ڈاکٹر نہ رہا اور یہ جو کیتھولک ڈاکٹر تھا یہ ایک دن بیمار پڑ گیا اور اسی دن ایک بڑی خطرناک مریضہ کا کیس آ گیا.اس پر انہیں مجبور آرات کو ہمارے ڈاکٹر بشیر احمد صاحب کے پاس درخواست کرنی پڑی کہ اس طرح ایک مریضہ آئی ہوئی ہے تم ہمارے ہسپتال میں آ کر اس کا اپریشن کر دو.انہوں نے اپریشن کیا اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہوا اور مریضہ اچھی ہوگئی.احمدی ڈاکٹروں کی قربانی : ہمارے احمدی ڈاکٹروں نے بڑی اچھی مثال پیش کی ہے.دنیا میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ مثلاً ایک ڈاکٹر جو لندن میں قریباً چار سو پونڈ ماہانہ کمارہا تھا وہ ساٹھ پونڈ ماہانہ پر وقف کرنے کے لئے تیار ہو گیا.میں نے اسے خود روکا ہوا ہے.کیونکہ وہ ڈنیٹسٹ ہے اور مجھے ابھی ان کی ضرورت نہیں تھی.ایک اور ڈنیٹسٹ ڈاکٹر مجھے مل گئے تھے.ان کو میں نے گیمبیا بھجوا دیا ہے اور اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے.پاکستان میں نوری صاحب ہمارا ایک نوجوان ڈاکٹر ہے.پچھلے سال وہ یونیورسٹی میں اپنے لا ہو را پر یا میں فرسٹ آیا ہے.اس نے اپنی زندگی وقف کر دی ہے.وہ بغیر ہاؤس جاب کئے جانے کے

Page 227

208 سبیل الرشاد جلد دوم لئے تیار تھا.لیکن جب میں نے دوستوں سے مشورہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اگر اس کو Higher Qualification کے لئے امریکہ یا انگلستان بھیجنا ہو تو پھر اس کے لئے ہاؤس جاب کرنا ضروری ہے.چنانچہ میں نے اسے کہا کہ پہلے ہاؤس جاب کرو.غالباً ڈیڑھ دو مہینے تک اس کا ہاؤس جاب ختم ہورہا ہے اس کے متعلق میرا پروگرام یہ ہے کہ پہلے اُسے وہاں بھجوا دیں گے پھر تین سال کا عرصہ وہاں خدمت کرے گا.اس عرصہ میں پیسے بھی کمائے گا اور کچھ جوڑے گا اور پھر وہ لندن جائے گا اور وہاں دواڑھائی سال میں Higher Degree لے گا.بلکہ میرا خیال ہے کہ وہ اس سے بھی جلدی لے لے گا.کیونکہ وہ ماشاء اللہ بڑا ذہین بچہ ہے.اللہ تعالیٰ اس کی ذہانت اور صحت کو قائم رکھے اور اُسے لمبی زندگی عطا فرمائے.اسی طرح کئی اور نو جوان ڈاکٹروں نے اپنی زندگی وقف کر دی ہے.دنیا میں یہ کبھی نہیں ہوا.دنیا تو بڑے بڑے جبہ پوشوں کو بھی مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچ رہی ہے لیکن یہ تو جماعت ہی اللہ تعالیٰ نے عجیب پیدا کر دی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمیں دے گا اور ہمیں کچھ نہیں کرنا.خدا تعالیٰ نے بڑی وضاحت سے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اپنا پورا زور لگا لو پھر جو کی رہ جائے گی وہ میں پوری کر دوں گا.اب غلبہ اسلام کے لئے جتنی طاقت کی ضرورت ہے یا جتنے انسانوں کی اور جتنے مال و دولت کی ضرورت ہے، اس کا شاید کروڑواں حصہ بھی ہمارے پاس نہیں ہے مگر آج ہمارے کان میں یہ آواز پڑ رہی ہے کہ جتنی ضرورت ہے اس کا کروڑواں حصہ تم خرچ کر دو باقی میں دے دوں گا.یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل اور رحم ہے.مغربی افریقہ میں سکولوں کا اجراء : جہاں تک نئے سکولوں کے اجراء کا تعلق ہے.نائیجیر یا پیچھے رہ گیا ہے.نائیجیریا میں کچھ جذباتی بات بھی آگئی تھی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے شروع میں جب وہاں مبلغ بھیجے اور جماعت قائم ہوئی تو اس وقت جو ہمارے دوست وہاں گئے تھے ان کو یہ خیال آیا کہ یہاں سکول کھلنے چاہئیں.مسلمان کو بچے تعلیم میں بہت پیچھے ہیں.چنانچہ انہوں نے وہاں سکول کھولے.وہاں کے مقامی لوگوں نے بھی مدد کی.جس وقت وہ سکول آمد کا ذریعہ بن گئے تو بعض مقامی احمد یوں کو ٹھوکر لگی.کوئی کانسٹی ٹیوشن Constitution ابھی تک بنی نہیں تھی اور عہدیدار وہ تھے اور چونکہ کانسٹی ٹیوشن کوئی نہیں تھی اس لئے لیگل کیس کوئی نہیں بنتا تھا.انہوں نے سکول سنبھال لئے اور پیسے کھانے شروع کر دیئے.میں نے اپنی نائیجرین جماعت سے کہا کہ میری غیرت یہ تقاضا کرتی ہے کہ اُن سے دُگنے سکول میں یہاں جلدی سے جلدی کھلواؤں.سولہ ہائر سیکنڈری سکول یعنی انٹرمیڈیٹ کا لنج کا میں وعدہ کر کے آیا

Page 228

209 سبیل الرشاد جلد دوم ہوں.ان کے علاوہ اور بھی ہیں.گیمبیا میں ایک سکول کھل گیا ہے صرف یہ ایک ہی نہیں اور کئی جگہ بہت سے سکول کھلنے ہیں مثلاً اس عرصہ میں غانا میں چار ہائر سیکنڈری سکول کھل چکے ہیں اور ان سکولوں کو ہم انٹرمیڈیٹ کالج کہہ سکتے ہیں.وہاں یہ ہائر سیکنڈری سکول کہلاتے ہیں یعنی بارہ سال کا کورس بلکہ شاید تیرہ سال کا کورس ہے.پس سیرالیون میں چار سکول کھل چکے ہیں، نائیجیریا میں دو سکول کھلے چکے ہیں.گیمبیا میں ایک سکول کھل چکا ہے.غانا میں ایک سکول کھل چکا ہے.ان کی کل تعداد آٹھ بنتی ہے اور ان آٹھ سکولوں کا خرچ یعنی جو شروع کا سرمایہ ہے.مثلاً بلڈنگ ہے، فرنیچر ہے اور دیگر سامان ہے وغیرہ وغیرہ پانچ سال کا خرچ فی سکول ہیں ہزار پونڈ ہے اور اس طرح اس سال آٹھ سکولوں کے لئے ایک لاکھ ساٹھ ہزار پونڈ سالا نہ خرچ کا وعدہ اور عہد ہو چکا ہے.یعنی خرچ تو وہ پانچ سال میں ہوگا.کیونکہ ہر سال نئی کلاس نے کھلنا ہے.پہلے سال تو سارا خرچ کرنا ضروری نہیں ہوتا کیونکہ پہلے سال ایک نویں کلاس ہی ہوتی ہے (وہاں ہائر سیکنڈری میں آٹھویں کلاس نہیں ہوتی ) پھر دسویں ، پھر گیارہویں ، پھر بارہویں پھر تیرہویں کلاس غرض پہلے سال نویں کلاس ہوتی ہے.اس لئے شروع میں تھوڑ ا خرچ کرنا پڑتا ہے.ان میں سے نائیجریا کے جو سکول کھلے ہیں ان میں جنوری ۱۹۷۲ء میں دوسری کلاس آ جائے گی.تو پھر یہ چار سکول بن جائیں گے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے.نائیجریا کے شمال مغرب میں سکو تو کا صوبہ ہے.وہاں کے گورنر نے لیگوس کا بینہ کی میٹنگ میں شامل ہونے کے لئے آتے ہوئے ایئر پورٹ پر یہ اعلان کیا کہ ہم تعلیم میں بہت پیچھے ہیں اور اس واسطے ہم نے ایمر جنسی ڈیکلر (Emergency Declare) کر دی ہے اور پبلک کو چاہئے کہ وہ میرے ساتھ تعاون کرے.میں نے اپنے ایک دوست کو بھیجا.میں نے کہا میری طرف سے اُسے کہو کہ میں تعاون کرتا ہوں.چار سکول کھولتا ہوں.آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں اور دو قسم کا تعاون کریں.ایک یہ کہ زمین مفت دیں کیونکہ میں پاکستان سے زمین نہیں لا سکتا اور دوسرے ریزیڈنشل پرمٹ دیں.کیونکہ اس کے بغیر ہمارے ٹیچر یہاں رہ نہیں سکتے.اس پر وہ بہت خوش ہوا اور ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا.چنانچہ ان چار میں سے دو سکول ایک سال کے اندر کھل گئے ہیں اور ڈیڑھ سال کے اندراندر چار بن جائیں گے.دراصل دولڑکوں کے کھولنے تھے اور دولڑکیوں کے.وہ تو حکومت کی ریڈ ٹیپ ازم ایسی چلی کہ لڑکوں کے سکول کے لئے زمین مل گئی.اور لڑکیوں کے لئے نہیں ملی اور میں دونوں ( یعنی لڑکے اور لڑکیوں کے سکول) ایک جگہ کھولنا چاہتا ہوں اس واسطے کہ میں نے وہاں میاں بیوی ٹیچرز کو بھجوانا ہے اور اگر بیوی میاں سے ۲۰۰ میل دور رہے تو محرم کے بغیر غیر ملک میں عورت کا اتنی دور رہنا

Page 229

210 سبیل الرشاد جلد دوم مناسب نہیں ہے.مگر وہاں کی لوکل جماعت کے ذہن میں خود ہی یہ آ گیا اور انہوں نے بڑا اچھا کیا کہ شروع میں لڑکے اور لڑکیوں کو اکٹھا داخل کر دیا کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ نویں جماعت میں لڑکیاں اور لڑکے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ان کے لئے الگ الگ سکول کی ضرورت نہیں.دسویں میں ہم دو کالج بنا دیں گے.لڑکیوں کو ادھر لے جائیں گے (سیکنڈ ایئر میں ) اور لڑکے یہاں رہ جائیں گے اور اس طرح چارسکول ہو جائیں گے.پس جنوری ۷۲ء میں نائیجریا میں چار سکول ہو جائیں گے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ فضل کر رہا ہے اور ان ممالک ہی میں آمد کے ذرائع پیدا کر رہا ہے.اب ان کو خرچ کے لئے رقم کی ضرورت تھی.یہاں سے تو ہم بھی نہیں سکتے.کیونکہ ملک میں فارن ایکسچینج کی وقت ہے.اس لئے ہم یہاں سے کوئی پیسہ با ہر نہیں بھیج سکتے اور نہ بھیج رہے ہیں.ایک اعتراض اور اس کا جواب : بعض لوگ بغیر سوچے سمجھے اعتراض کر دیتے ہیں کہ یہ ضرور کوئی شرارت کرتے ہوں گے، یہ نہیں سوچتے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں ہماری جماعتیں ہیں.بعض دیگر ممالک میں بھی دقتیں ہیں جہاں سے ہم پیسے باہر نہیں بھیج سکتے.لیکن ہم انگلستان سے بھیج سکتے ہیں.جرمنی سے بھیج سکتے ہیں.سوئٹزر لینڈ سے بھیج سکتے ہیں، امریکہ سے بھیج سکتے ہیں.امریکہ نے ۲۳ / ہزار ڈالر کے وعدے کئے اور غالباً ۱۰ ۱۲ ہزار ڈالر اس وقت تک وہ جمع بھی کر چکے ہیں.میں نے سہولت کی خاطر امریکہ اور Continent کے جو پیسے ہیں یہ سوئٹزرلینڈ میں جمع کرا دیئے ہیں.غرض بیرون پاکستان کی جو ہماری احمدی جماعتیں ہیں وہ ان کو پیسے بھیجتی ہیں.البتہ ہم یہاں سے جو آدمی بھیجتے ہیں ان کا کرایہ دیتے ہیں اور یہاں سے جتنی کتا ہیں قانو نا ساتھ جا سکتی ہیں وہ ساتھ بھجواتے ہیں یا بعض دوسرا سامان بھی ہے مگر ہم قانون کے اندر رہتے ہوئے خرچ کرتے ہیں.خدا تعالیٰ فضل کرے اور یہاں ہمارا پریس لگ جائے تو ہمارا دل کرتا ہے کہ ہمارے پاس جتنے پیسے ہیں یعنی پاکستان کی جماعت کا کل چندہ ساڑھے ستائیس لاکھ ہے.اس میں سے دولاکھ رکھ کر چھپیں لاکھ کی حکومت سے اجازت لے کر ایک سال کے اندراندر قرآن کریم شائع کر کے ساری دنیا میں پھیلا دیں.( غیر مطبوعہ )

Page 230

سبیل الرشاد جلد دوم 211 سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث رحم اللہ تعالی کا انتقامی خطاب فرموده ۷ اراخاء۱۳۵۰ہش ۱۷ راکتو برا۱۹۷ء بمقام احاطہ دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ سیدنا حضرت نضرت خلیفۃ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ ۱۷ را خاء۱۳۵۰ ہش ( مطابق ۱۷ار اکتوبر ۱۹۷۱ء) کو مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے جو اختتامی خطاب فرمایا تھا اس کا مکمل متن درج ذیل ہے.تشهد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے یہ آیات پڑھیں.في صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ مَّرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ بِأَيْدِى سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍة اور پھر فرمایا: ہم اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں جس نے اپنے فضل سے موجودہ کشمکش کے حالات میں بھی ہمیں یہاں بخیریت جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور نیکی کی باتیں سننے اور دلوں میں یہ عہد کرنے کی توفیق دی کہ ہم ان باتوں پر عمل کریں گے.انصار اللہ اور اشاعت قرآن کریم انصار اللہ کا پہلا اور آخری فرض یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم کو عام کریں.قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ فِي صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ مَّرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ قرآن کریم کی بڑی شان ہے اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس کی بڑی عزت ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے علم کامل کے چشمے سے نکلا ہے اور اسی کی طرف اس کے تمام نتائج رجوع کرتے ہیں.پس قرآن کریم بڑی بلندشان والا ہے.یہ پاکیزگی کے چشمے سے نکلا ہے اور انسان کے لئے پاکیزگی کا چشمہ بننے والا ہے یہ ایک کامل اور مکمل اور حسین اور خوبصورت اور پاک اور مطہر شریعت ہے سوره عبس : ۱۴ تا ۱۷

Page 231

سبیل الرشاد جلد دوم جس کے بغیر عقل مند انسان کی حسین اور پیاری زندگی ممکن ہی نہیں.212 پھر فرما یا بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍ اور اس میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی ہے کہ اگر تم عزت حاصل کرنا چاہتے ہو اور نیکیوں میں ترقی کرنا چاہتے ہو، تو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم پر تمہارا Grasp ( گراسپ ) ہو.عبور ہو (بائیڈنی میں اسی طرف اشارہ ہے ) اور قرآن کریم کے لکھنے اور پھیلانے میں تم کوشاں رہو.کیونکہ اشاعتِ قرآن انسان کو نیک بھی ٹھہراتی ہے اور پاک بھی ٹھہراتی ہے اور باعزت بھی ٹھہراتی ہے.جو آدمی قرآن کریم کو چھوڑتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت نہیں پاسکتا.اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت پانا چاہتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں نیک ٹھہر نا چاہتا ہے تو اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے عمل اور اپنے فعل اور اپنے قول سے قرآن کریم کی اشاعت کرنے والا ہو.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے.انصار اللہ کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ اشاعت قرآن کے لئے کوشاں رہیں.میں پھر دوبارہ بطور یاد دہانی آج یہ نصیحت اس لئے کرنا چاہتا ہوں کہ جب آپ واپس جائیں اور جہاں بھی آپ ہوں دعائیں کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے توفیق پا کر قرآن کریم کی اشاعت کی طرف متوجہ رہیں.قرآن کریم کا مخاطب ہر انسان ہے جیسا کہ خود قرآن کریم نے بتایا ہے قرآن کریم جیسی عظیم کتاب کو مہجور بنانے والے لوگ بھی پائے جاتے ہیں.یعنی وہ اس کی کوئی پروا نہیں کرتے.انہوں نے اس کو چھوڑ دیا ہے.وہ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.وہ اپنی زندگیوں کے مسائل کا حل اس سے تلاش نہیں کرتے اور اس کے سہارے اس کے نور سے اپنی زندگیوں کو روشن کرنے کی کوشش نہیں کرتے.دنیا میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں.جہاں بھی آپ کو ایسے لوگ ملیں.آپ ان کو اس طرف متوجہ کریں کہ قرآن کریم کے بغیر تو مسلمان کی کوئی زندگی نہیں ہے.ہر اس شخص کو جو اسلام کی طرف منسوب ہوتا ہے اور ہر اس شخص کے لئے جس کا یہ دعویٰ ہے کہ صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار میرے دل میں ہے.اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کو پڑھے اور اس کو سمجھے یعنی ترجمہ جانتا ہو اور اس پر غور کرنے کی عادت رکھتا ہو.اس کے بغیر تو ایک مسلمان کی زندگی ہی نہیں اور اس کے بغیر جو مسلمان زندہ ہیں، خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ان کی زندگی زندگی ہی نہیں ہے.دیکھو ہر انسان کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ وہ ایک حسین زندگی گزارے اور یہ صرف قرآن کریم ہی کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے.اس کے لئے خدا تعالیٰ نے انعام بھی مقرر کئے ہیں کیونکہ یہ ایک عظیم اور ہمیشہ قائم رہنے والی جد و جہد ہے اور ہرنئی نسل کے ساتھ جد و جہد کرنی پڑتی ہے.یہ مجاہدہ کرنا پڑتا ہے

Page 232

213 سبیل الرشاد جلد دوم اور یہ کوشش کرنی پڑتی ہے کہ ان کے دل میں قرآن کریم کی محبت قائم ہو.یہ کوشش ان کے ساتھ بھی کرنی پڑتی ہے جو بڑے ہو گئے ہیں اور جنہوں نے بدقسمتی سے قرآن کریم کی طرف توجہ نہیں کی.اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ دنیا میں سارے فتنے اس لئے پیدا ہوئے کہ قرآن کریم کی تعلیم کو چھوڑ دیا گیا.مثلاً عیسائی فتنہ ہے ، دہریت کا فتنہ ہے، شرک کا فتنہ ہے.یہ سارے فتنے اسی وجہ سے ہیں.قرآن کریم کا مخاطب صرف وہ نہیں جو بعد میں مسلمان بنا.قرآن کریم کا مخاطب تو ہر انسان ہے.ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ وہ اپنی نجات کے لئے قرآن کریم کی شریعت کی طرف لوٹے تا کہ اس کے دل میں میری محبت پیدا ہو اور وہ میری محبت کا وارث بنے.قرآن کریم میں ہر فتنہ کا علاج ہے پس دنیا کا ہر فتنہ قرآن کریم کی تعلیم کو چھوڑنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور دنیا کے ہر فتنے اور فساد کا علاج قرآن کریم میں موجود ہے اور اسی کے ذریعہ ہر فتنے کا علاج کیا جا سکتا ہے.اگر میرے اور پ کے دل میں بنی نوع انسان کی محبت ہے اور ان سے ہمدردی ہے اور ان سے تعلق ہے.اور یہ خواہش ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے عذاب سے بچیں تو پھر میرا اور آپ کا یہ فرض ہے کہ ہم ہر شخص کے پاس ہر ذہن کے پاس ، ہر دل کے پاس ، اور ہر روح کے پاس قرآن کریم کو لے کر جائیں اور اس سے کہیں کہ اس میں تمہاری نجات اور اس میں تمہاری بھلائی اور اس میں تمہاری ترقی کا راز مضمر ہے.اس میں تمہارے لئے نور کے سامان ہیں.اس میں تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کے جذب کرنے کے سامان ہیں.تم اس کی طرف توجہ کرو.قرآن کریم اور خدائی انعامات غرض قرآن کریم نے فرمایا کہ اگر تم بِأَيْدِي سَفَرَةٍ - كِرَاهِم بَرَرَةٍ “ کے گروہ میں شامل ہونا چاہتے ہو اور اس میں شامل ہونے کی کوشش کرو گے تو تمہیں بڑا انعام ملے گا اور انعام یہ ملے گا کہ وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ إِنَّهُ لَقَوْلُ فَضْلُ - 1 یعنی قرآن کریم ایک قائم رہنے والی مکمل اور حسین تر اور منور تر شریعت ہے جس وقت تم اس پر عمل کرو گے اور اس کو دنیا میں پھیلاؤ گے.تو فر ما یاوَ السَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجْعِ اللہ تعالیٰ تم پر بار بار آسمانوں سے برکتوں اور رحمتوں کے دروازے کھولے گا اور اللہ تعالیٰ سورة الطارق آیت ۱۲ تا ۱۴

Page 233

سبیل الرشاد جلد دوم 214 ایسے سامان پیدا کرے گا کہ تم اُن رحمتوں اور برکتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاؤ گے.تمہاری روح اور تمہارا دل کھل اُٹھے گا.جس طرح بادلوں سے پانی برستا ہے اور زمین پر تر و تازگی کے آثار پیدا کر دیتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمانوں سے نازل ہوگی.البتہ کبھی وہ وحی کے ذریعہ سے نازل ہو گی.کبھی وہ الہام کے ذریعہ سے نازل ہو گی.کبھی وہ کشوف کے ذریعہ سے نازل ہو گی.کبھی وہ رویائے صالحہ کے ذریعہ سے نازل ہو گی.کبھی وہ فرشتوں کے نزول کے ساتھ آئے گی اور کبھی وہ کسی اور طریق سے آئے گی.کیونکہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ - اللہ تعالیٰ کا تو ہر رنگ ہی نرالا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو تو ہم گن نہیں سکتے.بے شمار زاویوں سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور بے شمار طریقوں سے اس کی رحمتیں نازل ہوں گی اور وہ تمہارے لئے بے شمار خوشیوں کے سامان پیدا کرتی جائیں گی اور اس سے یہ دعویٰ ثابت ہوگا کہ اِنَّهُ لَقَوْلُ فَصْلُّ صحیح محنت اور اس کے نتائج.اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے کہ ہم تمہیں جو کہتے ہیں کہ محنت کرو گے.جد و جہد کرو گے محنت کی طرف میں نے شروع میں افتتاحی تقریر میں بھی ایک رنگ میں توجہ دلا ئی تھی تو تمہارا دل اس طرف بھی مائل ہوسکتا ہے.تمہاری توجہ اس طرف بھی پھر سکتی ہے کہ ساری محنتیں تو نتیجہ خیز نہیں ہوا کرتیں یعنی ساری محنتیں اور کوششیں ایسی نہیں ہوتیں کہ ان کے نتیجہ میں تسلی ملے.سکون ہو، کامیابی ہو، رحمتوں کے سامان پیدا ہوں ، نور کی وسعتیں پیدا ہوں.بشاشت قلب پیدا ہو.چہرے پر مسکراہٹیں ہوں.غموں سے نجات ملے.پس ساری محنتیں تو کامیاب نہیں ہوتیں عَامِلَةً نَاصِبَةٌ بھی تو ہوتی ہیں.ایسے لوگ کوشش کرتے ہیں مگر نتیجہ کوئی نہیں نکلتا.چنانچہ بے نتیجہ کوشش کا اثر یہ ہوتا ہے کہ چہرے پر سیاہی آ جاتی ہے.بددلی کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں.آدمی کی تیوریاں چڑھی ہوتی ہیں.وہ بڑا پریشان ہوتا ہے.کبھی آپ نے بے نتیجہ کوشش والا نا کام انسان دیکھا ہے؟ میں نے تو بہت دیکھے ہیں.میں تو آدمی کا چہرہ دیکھ کر ہی پہچان جایا کرتا ہوں کہ وہ کہیں سے ناکام ہو کر آیا ہے.لیکن جو کامیاب ہو جاتا ہے اس کے چہرے سے پتہ لگ جاتا ہے.میں ایک موٹی مثال لیتا ہوں.دسویں جماعت کا بچہ پاس ہوتا ہے.کوئی تھرڈ ڈویژن میں ، کوئی سیکنڈ ڈویژن میں اور کوئی فرسٹ ڈویژن میں.جس وقت وہ نتیجہ سُن کر اپنے گھر میں آتا ہے اس وقت اسے یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ میں پاس ہو گیا ہوں اس کے چہرے کے آثار بتاتے ہیں کہ وہ پاس ہو گیا ہے.اس کے جسم میں سے ، اس کی روح میں سے خوشی کی شعاعیں نکل رہی ہوتی سورة الرحمن ۳۰ سورة الغاشية آیت ۴

Page 234

215 سبیل الرشاد جلد دوم ہیں.پس جو دسویں میں پاس ہو جاتا ہے.اس کے چہرے کے آثار ایسے ہوتے ہیں تو وہ آدمی جو خدا تعالیٰ کے امتحان میں پاس ہو کر خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرتا ہے اس کے جسم اور روح میں سے جو نور نکل رہا ہوگا.اس کی شعاعوں کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں کر سکتا.لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ“ کے گروہ میں ہیں.وہ جو بھی عمل کرتے ہیں اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا.اُن کے چہروں پر وہی بددلی ، وہی پریشانی اور وہی گھبراہٹ کے آثار اور وہی نیند کے اُڑے رہنے کی کیفیت طاری رہتی ہے.مثلاً ایٹم بم ایجاد کر دیا.دنیا کہتی ہے یہ بڑا کارنامہ ہے.مگر جن قوموں نے ایٹم بم ایجاد کیا ہے ان کو اپنی ہلاکت کا اتنا خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ ایٹم بم کی ان کو کیا خوشی ہے.ان کو تو اب یہ فکر لاحق ہے کہ کہیں ایک دوسرے پر اس کا استعمال ہو گیا تو یہ انہیں تباہی کے گڑھے میں پھینک دے گا.محنت اور بشاشت کا احساس 0 پس دنیا کی وہ ساری کوششیں جو دعاؤں کے حصار کے اندر نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کے حصار کے اندر نہیں ہیں ، ان کا نتیجہ خوشی نہیں ہے.آدمی منہ سے جو مرضی کہہ لے لیکن ان قوموں کے چہروں پر ہمیں فکر کے آثار نظر آ رہے ہیں حالانکہ ان کے چہروں پر خوشی اور بشاشت کا یہ احساس پیدا ہونا چاہئے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا ہے.اور ہمیں وہ کچھ مل گیا ہے جس کی ہمارے ذہن بھی امید نہیں کر سکتے تھے اور جہاں تک ہمارا خیال بھی نہیں پہنچ سکتا تھا.غرض عَامِلَةً نَّاصِبَةً بھی ہیں یعنی ایسے محنت کرنے والے لوگ جن کی محنت کا نتیجہ نہیں نکلتا.وہ نتیجہ جو وہ اپنے لئے نکالنا چاہتے ہیں.وہ نتیجہ جو بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہو.وہ نتیجہ جو انسان کی بشاشت کے سامان پیدا کرنے والا ہو.اس کی خوشی کے سامان پیدا کرنے والا ہو.لوگوں کی بے فکری کے سامان پیدا کرنے والا ہو.ان کے سکون کے سامان پیدا کرنے والا ہو.وہ نتیجہ نہیں نکلتا.لیکن قرآن کریم نے ہمیں یہ فرمایا ہے کہ اگر تم اپنے فعل و عمل اور دوسرے ذرائع ( مثلاً طباعت ہے ) سے اشاعت قرآن کرو گے تو تمہاری اس کوشش کا نتیجہ ضرور نکلے گا.اور وہ بڑا شاندار ہوگا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَجُوهٌ يَوْمَذٍ نَّاعِمَةٌ لِسَعْيِهَا رَاضِيَةٌ فِي جَنَّةِ عَالِيَةٍ لَّا تَسْمَعُ فِيهَا لَا غِيَةً.کہ اسلام کی اشاعت کی جدوجہد کو اللہ تعالیٰ کا میاب کرے گا اور بڑی ہی کامیابی دے گا.سورۃ الغاشیۃ آیت ۹ تا ۱۲

Page 235

سبیل الرشاد جلد دوم ذہین بچوں کی صحیح نشو ونما اور کامیابی 216 کا میابی تھوڑی بھی ہوتی ہے اور بڑی بھی ہوتی ہے.ایک شخص بی اے یا ایم اے میں پاس ہوتا ہے.یہ ایک شخص کی کامیابی ہے.ایک قوم کے جتنے ذہین بچے ہیں جو دراصل اللہ تعالیٰ کی دین ہے اور جو ایم اے تک پہنچ سکتے ہیں اگر وہ سب کامیاب ہو جائیں تو یہ قوم کی خوشی کا دن ہے.ہمارے ملک میں بدقسمتی سے بہت سے ذہن ضائع کر دیئے جاتے ہیں اور یہ بات خدا تعالیٰ کو پیاری نہیں ہے.خدا تعالیٰ نے ایک اچھا ذہن دیا ہے تو اس کا شکر کرنا چاہئے.بہر حال اگر کوئی ایسی قوم ہو کہ اگر اس کے سارے ذہین بچے اپنی صلاحیتوں کی پوری نشو و نما کر سکیں تو یہ اس قوم کے لئے بڑا خوشی کا دن ہے.ایک دفعہ ہمارے ایک مشہور سائنٹسٹ جو ایک بڑے عہدے پر فائز ہیں انہوں نے مضمون بھی لکھا اور مجھ سے زبانی بھی بات کی.کئی سال پہلے کی بات ہے کہ بڑا فکر رہتا ہے.اس وقت ملک میں صرف پانچ ہزار سائنسدان ہیں اور ہمیں ان کی بڑی ضرورت ہے.میں نے ان سے کہا کہ تم نے پچاس ہزار سائنسی ذہن ضائع کر دیئے اور آج تم روتے ہو کہ ہمارے پاس سائنسدان نہیں ہیں.خدا تعالیٰ نے تو تمہیں نہیں چھوڑ ا تھا لیکن تم نے خدا کو اور اس کی نعمتوں کو چھوڑ دیا اور اب تم اس کا نتیجہ بھگت رہے ہو.ذہین بچوں کی اعلیٰ تعلیم ایک اور دوست سے میں نے بات کی.میں نے کہا ہم غریب سی جماعت ہیں.جہاں تک ہماری بساط اور طاقت ہے ہم اپنے ذہین بچوں کو ضائع نہیں ہونے دیتے.ابھی انشاء اللہ کل ہی ایک غریب مگر ذہین بچہ انگلستان جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسے حساب کے ایک خاص شعبہ میں بڑا اچھا ذہن دیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی ذہانت اور فراست کو اور زیادہ تیز کرے.پس قوم نے اس کا انتظام کیا.وہ ولایت جا کر پڑھے گا اور اگر حالات یہی رہے اور اس کی توجہ بھی قائم رہی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ذہن کو بھی اسی طرح ٹھیک رکھا تو وہ انشاء اللہ دس سالوں کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے چوٹی کے دماغوں میں شامل ہو جائے گا.پس ہم اس معاملہ میں کنجوس نہیں ہیں.جو جماعت کے بچے نہیں ابھی تک اگر اُن کے متعلق ہمیں پتہ لگ جائے.اور ہمیں طاقت ہو تو ہم ان کی بھی مدد کرتے ہیں.ہم نے خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اپنے غیر احمدی بھائیوں کے سینکڑوں بچوں کو اعلی تعلیم دلوائی ہے.جس سے ان کے خاندانوں کی کایا پلٹ گئی ہے.ہمارے اس علاقہ کے ایک مزدور کا بچہ تھا.جس کے لئے باپ ایک پیسہ خرچ نہیں کر سکتا تھا.

Page 236

217 سبیل الرشاد جلد دوم پتہ نہیں کس طرح اس بیچارے نے میٹرک پاس کیا.اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کی پڑھائی کے لئے مدد کر نے کی توفیق عطا فرمائی اور اب وہ وکیل ہے.اس پر ہمارا کوئی احسان نہیں ہے.ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا فرض ادا کرنے کی توفیق بخشی.یہ اس کا حق تھا.دوسرے لوگ اُسے دے نہیں رہے تھے.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ ہم اُسے یہ حق دے دیں.اب اس کا گھر ایک مزدور کا گھر نہیں رہا.وہ ایک وکیل کا گھر بن گیا ہے.دنیوی نقطہ نگاہ سے بھی اس میں بڑا فرق ہے اور عزت کے لحاظ سے بھی اور مال کے لحاظ سے بھی بڑا فرق ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر تم اپنے قول اور فعل سے قرآن کریم کی اشاعت میں لگے رہو گے اور اشاعت قرآن کے لئے اپنی طرف سے انتہائی کوشش کرو گے یعنی وہ کوشش جس کو کبھی ہم غلبہ اسلام کی کوشش کہتے ہیں، کبھی اشاعت اسلام کی کوشش کا لفظ بولتے ہیں.کبھی ہم خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کے الفاظ بولتے ہیں اور دراصل ہر کوشش کا آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے پیار ہو.کیونکہ اللہ ہی اللہ ہے اور یہ حقیقت ہے اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے.باقی تو سارے وسائل ہیں یا غیر متعلق چیزیں ہیں.دنیا نے غیر متعلق بنا دیا ہے ورنہ اصل میں تو اللہ تعالیٰ نے سب چیزوں کو وسائل ہی بنایا تھا اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا.اشاعت قرآن کریم کی کوشش اور افضال الہیہ بہر حال اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو میری راہ میں اشاعتِ قرآن کی کوشش ہوگی ، وہ تمہیں اس گروہ میں شامل نہیں کرے گی جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ بلکہ اس گروہ میں شامل کرے گی.جس کے متعلق اس نے فرمایا ہے.وُجُوهٌ يَوْمَبِذٍ نَاعِمَةٌ لِسَعْيِهَارَاضِيَةً یعنی جو اپنی کوشش کے نتیجہ سے راضی اور مطمئن ہوں گے اور وہ سمجھیں گے کہ ان کی کوشش کا نتیجہ بہت زیادہ نکل آیا.اس لئے کہ مثلاً ایک غریب آدمی ہے اس کی انتہائی کوشش دس روپے ہو سکتی ہے.لیکن ساری دنیا میں اشاعت اسلام کے لئے دس روپے تو کوئی کوشش نہیں.مگر یہ بھی خدا تعالیٰ کا بڑا رحم ہے کہ انتہائی کوشش دس روپے بلکہ انتہائی کوشش چار آنے بھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی.اب یہ چار آنے کی انتہائی کوشش تھی جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں فرمایا ہے.آپ نے ایسے لوگوں کا جنہوں نے چار آنے میں انتہائی کوشش کو پایا اور خدا کے حضور وہ قربانی پیش کر دی ، ان کا نام قیامت تک کے لئے دعا کے لئے محفوظ کر دیا.

Page 237

218 سبیل الرشاد جلد دوم پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم قرآن کریم کی اشاعت کے لئے انتہائی کوشش کرو گے ( خواہ وہ دنیا کی نگاہ میں دس روپے ہو یا دس آنے ہو یا دس پیسے ہو ) تو اللہ تعالیٰ تم پر اپنے انتہائی فضل کرے گا اور اللہ تعالیٰ کے انتہائی فضلوں کا تو شمار بھی نہیں ہو سکتا اور اللہ تعالیٰ جو فضل نازل کرتا ہے انہیں ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ رہے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑا عظیم وعدہ دیا ہے.ہمیں یہ خوف نہیں کہ ہماری کوششیں رائیگاں جائیں گی.البتہ ہمیں یہ خوف ضرور ہے کہ ہماری کوششوں میں شیطانی وساوس کا گھن نہ لگ جائے.لیکن ہمیں ایک سیکنڈ کے لئے بھی یہ فکر پیدا نہیں ہوتی کہ اگر ہم نیک نیتی اور خلوص دل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی محبت میں محو ہو کر کوئی کوشش کریں گے تو وہ ضائع چلی جائے گی.کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہم سے وعدہ فرمایا ہے کہ ہماری ایسی کوششیں ضائع نہیں جائیں گی.دنیا کی جنت اور ہماری ذمہ داری پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فی جَنَّةٍ عَالِيَةٍ کہ ایسے لوگوں کو جنت ملے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس زندگی کی بھی ایک جنت ہے اور اُس زندگی کی بھی ایک جنت ہے اور یہاں کی جنت بھی.یعنی اس دنیا کی جنت بھی جَنَّةٍ عَالِيَة کی مصداق ہے.جنت کی زندگی کے متعلق قرآن کریم نے جو بیانات دیئے ہیں.وہ اس پر بھی چسپاں ہوں گے اور دنیا کی جنت میں بھی لا تَسْمَعُ فِيهَا لَاغِیة کوئی لغو بات نہیں کی جائے گی.دراصل اس میں ایک مومن پر بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے.آج میں سوچ رہا تھا تو میرا دماغ اس طرف گیا کہ دنیا کامیابی کے بعد لغو باتوں میں مشغول ہو جاتی ہے.بچے میٹرک کا امتحان دے کر آتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اب ہم فارغ ہیں اور بیٹھ کر گپیں ماریں گے.یہی حال ایف ، اے کے امتحان دینے کے بعد ہوتا ہے بی.اے.کے امتحان دینے کے بعد ہوتا.ایم اے کے امتحان دینے کے بعد ہوتا ہے اور اجتماعات کے بعد ہوتا ہے.مثلاً اب آپ یہاں سے واپس جائیں گے تو کہیں گے آؤ ذراستا لیں.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لا تَسْمَعُ فِيهَا لَاغِيَةً خدا کی جماعتیں لغو باتوں میں ایک منٹ بھی ضائع نہیں کیا کرتیں.جلسہ سالا نہ ہوتا ہے.دماغ تھکے ہوتے ہیں دعائیں کر کے اور باتیں سُن کر.مگر ایک عقی انسان کا دماغ باتوں کو ذہن میں حاضر رکھنے کے لئے کوشش کرتا ہے.کیونکہ لَّا تَسْمَعُ فِيهَا لَا غِيَةً کی رو عقلمند

Page 238

219 سبیل الرشاد جلد دوم سے یہ دنیوی جنت بھی ایسی ہے کہ اس میں وقت کے ضیاع کی اجازت نہیں ہے.امت محمد یہ جو اپنے مقام کو پہچانتی ہے یا امت محمدیہ کے وہ حصے جو اپنے مقام کو پہچانتے ہیں.وہ کامیابی کے بعد لغو باتوں کی طرف نہیں جاتے.اس واسطے کہ انگلی اور ایک نئی اور بڑی کامیابی کا وعدہ ہے اور اس کے لئے بھی انتہائی جدوجہد کی ضرورت ہے.متواتر جد و جہد اور الہی رحمتیں ہے.اگر چہ میرا مضمون اس وقت روحانیت اور روحانی ترقیات اور روحانی رفعتوں کے متعلق.لیکن میں وہی میٹرک کے امتحان کی مثال دے کر بات واضح کرتا ہوں.جس لڑکے نے دسویں کے امتحان میں فرسٹ پوزیشن لی ہے اور امید رکھتا ہے کہ وہ ایف اے کے امتحان میں بھی بورڈ میں اول نمبر پر آئے گا تو وہ پہلے سے تیاری کرنی شروع کر دیتا ہے.کیونکہ اس کے لئے انتہائی کوشش کی ضرورت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بیچ میں قریباً دو سال کا فاصلہ ہے اس کا ایک منٹ بھی ضائع نہ ہو.مگر ایف اے کی کامیابی اس کامیابی کے مقابلے میں بالکل بیچ ہے.جو اللہ تعالیٰ روحانی میدانوں میں ایک کے بعد دوسری کامیابی دیتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَالسَّمَاء ذَاتِ الرَّجْعِ یعنی اللہ تعالیٰ انسان پر بار با رفضل کرتا ہے اور دو فضلوں کے درمیان انسان کی اپنی کوشش ہے.ایک فضل ہوتا ہے.اس پر وہ تسلی پاتا ہے مگر وہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس پر ٹھہر نا نہیں.اے میرے بندے! تو نے میرا پیارلیا.لیکن اس سے بڑا پیار میں تجھے دینے کے لئے تیار ہوں.تو اس کے لئے کوشش کر.غرض ایک ہی وقت میں پہلی کامیابی پر اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے جلوے دیکھنے کے بعد روح سرور بھی حاصل کر رہی ہے اور دماغ اور جسم اور روح نئی کوشش میں بھی لگ گئی ہے.پس سرور اور جد وجہد متوازی چلنے شروع ہو گئے اور یہ شروع سے اسی طرح چل رہے ہیں.اس لئے وقت کو ضائع کرنے کی اجازت ہی نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَّا تَسْمَعُ فِيهَا لَا غِيَةٌ - اب آپ یہاں سے جائیں گے، ستانے کے لئے آپ کو کوئی وقت نہیں.اگلی کامیابی کے لئے آپ کوشش کریں تا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر مزید رحمتیں نازل فرمائے.اس طرح ایک غیر متناہی سلسلہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کا شروع ہو جاتا ہے.اُخروی جنت اور ترقیات جب انسان خدا تعالیٰ پر حقیقی ایمان لاتا ہے تو اُسے اُخروی جنت بھی ملتی ہے اور وہاں بھی اگر چہ وہ عمل کی دنیا نہیں ہے.مگر جس طرح گلاب کا پھول جب پورا بن جاتا ہے تو اس کے بعد گلاب کے

Page 239

220 سبیل الرشاد جلد دوم پھول کے بننے کا تو کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.لیکن پتیوں کے کھلنے کا سوال پیدا ہو جاتا ہے.گلاب کی تو محدود پیتیاں ہیں.لیکن انسان جب دوسری زندگی میں داخل ہو کر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نئی زندگی حاصل کرتا ہے تو اس کی مثال یوں سمجھ لو کہ وہ ایک گلاب کا پھول ہے جو نہایت خوب صورت اور خوشبو دار اور حسین رنگوں کا مجموعہ ہے اور جس کی پتیاں غیر محدود ہیں اور جب کھلتی ہیں تو اس کے حسن میں خدا تعالیٰ کا پیار اور اس کی محبت کا جلوہ ترقی کرتا چلا جاتا ہے اور اس کی کوئی انتہاء نہیں ہوتی.پس میرے اور آپ کے لئے کسی ایک مقام پر ٹھہرنے کا کوئی سوال نہیں ہے.ہم تو ایک راستے پر چل پڑے ہیں کہ ٹھہرے تو مارے گئے.کون ہے ہم میں سے جو زبانی یہ کہنے کے لئے تیار ہو کہ کچھ گھنٹے ہماری زندگی میں ایسے بھی ہونے چاہئیں جن میں اللہ تعالیٰ اور ہمارے درمیان دوری پیدا ہو جائے.جب آپ کا دماغ اس تصور کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تو آپ کا عمل اس بات کو قبول کرنے کے لئے کیسے تیار ہو جائے گا.پس یہ تسلسل جو ایک طرف انسانی کوشش اور محنت میں ہمیں نظر آ رہا ہے.اس تسلسل کو قائم رکھنا چاہئے تا کہ دوسری طرف وہ تسلسل جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا ہے اور جسے ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ رہے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے پیار کے جلوے جن میں سے ہر جلوہ پہلے سے بڑھ کر ہوتا ہے ، وہ تسلسل قائم رہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اب میں عہد اور دعا کرانے کے بعد آپ کو رخصت کروں گا.سفر اور حضر میں آپ جہاں بھی ہوں اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.اللہ تعالیٰ آپ کے جسموں میں اور آپ کے عمروں میں برکت ڈالے اور آپ کی محنت میں برکت ڈالے اور آپ کے مال میں برکت ڈالے اور آپ کی اولاد میں برکت دے.آپ کی اولا د کو آپ کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور بنائے.پاکستان کی حفاظت وسالمیت کے لئے مساعی پاکستان کی حفاظت اور سالمیت کے لئے آج قوم ایک عظیم جد و جہد کر رہی ہے.اس جد و جہد میں شامل کرنے کے لئے میں آپ کو واپس آپ کے گھروں میں بھجوار ہا ہوں.خدا کرے کہ آئندہ سال میں آپ کو کامیاب و کامران واپس آنے پر آپ کا استقبال کروں اور آپ کو سینے سے لگاؤں.میری دعا ہے اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمتیں ، اس کی مدد اور اس کی نصرتیں ہر وقت اور ہر آن آپ کے شامل حال رہیں.روزنامه الفضل ۱۵-۱۶ - ۱۸-۱۹ / فروری ۱۹۷۲ء )

Page 240

سبیل الرشاد جلد دوم 221 سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالت نا رت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا افتتاحی خطاب فرموده ۱۷ رنبوت ۱۳۵۰۰ بهش ۷ ارنومبر ۱۹۷۲ء بمقام احاطہ دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ ساڑھے تین بجے شام سید نا حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۷ نومبر۱۹۷۲ء کو جلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کا افتتاح فرمایا.اس موقع پر حضور رحمہ اللہ کے افتتاحی خطاب کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی.كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ) اور پھر فرمایا ”ہم نے انصار کے اس اجتماع کو دعاؤں سے شروع کیا اور ہماری ہر آن یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم سے ہماری نیک خواہشات کو پورا کرے اور ہماری پاک دعاؤں کو قبول فرمائے.اللہ تعالیٰ نے اسلام میں ایک مسلمان کو جو تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا یعنی انسان کا اپنا کچھ نہیں.سب کچھ اس کے رب کا ہے.اور سب کچھ اس کی مخلوق کے لئے پیدا کیا گیا ہے.انسان اپنی زندگی رکھتے ہوئے بھی اپنی زندگی نہیں رکھتا.اور اپنی تمام دولت و ثروت کے با وجو د جیب خالی رکھتا ہے اور اپنی ساری طاقت اور اقتدار کے ہوتے ہوئے بھی ایک خادم کی حیثیت میں دنیا میں پیدا ہوا ہے.ہم عام طور پر بار بار جماعت کے سامنے یہ بات تو لاتے رہتے ہیں کہ اسلام کے معنی اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی گردن کو رکھ دینے کے ہیں کہ اگر وہ چاہے تو اس کی راہ میں جان تک قربان ہو جائے.اللہ تعالیٰ جو رب العالمین ہے اُس نے ہماری ربوبیت کے لئے اس سارے جہان کو ، اس عالم کو پیدا کیا ہے.اور ہم میں تسخیر کرنے کی طاقت اور اس عالمین میں تسخیر ہو جانے کی قوت پیدا کی ہے.ہمارا جو کچھ بھی ہے یا تو اس عالم کی وجہ سے اور ان جہانوں کے نتیجہ میں ہے یا ان طاقتوں اور قوتوں یا اس عقل اور فراست کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے.سورة آل عمران آیت: ۱۱۱

Page 241

سبیل الرشاد جلد دوم 222 ایک مادہ یعنی ٹھوس چیز ہے جس سے ہم کام لیتے ہیں.یہ ایک طاقت ہے جس سے ہم اپنے فائدہ کے لئے خدا کی مخلوق کا استعمال یا اسے تسخیر کرتے ہیں.یہ مادی اشیاء نہ ہم نے پیدا کیں اور نہ پیدا کر سکتے ہیں.یہ سب اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں اور جس طاقت کے نتیجہ میں ، جس ہنر کے حاصل کرنے کے بعد، جس عقل و فراست کی وجہ سے ہم اس عالمین کو تسخیر کرتے اور انسان کے فائدہ کے لئے اس مادہ سے نئی نئی چیزیں اور نئی سے نئی طاقتیں نکالتے ہیں.یہ سب اللہ تعالیٰ کی دین ہے.غرض یہ مادی دنیا اور ہماری یہ قوتیں اور استعداد میں نہ تو ہماری پیدا کردہ ہیں.اور نہ ہم ان کو پیدا کر سکتے ہیں.یہ ایک موٹی بات ہے جسے ہر انسان کی عقل تسلیم کرنے پر مجبور ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک چھوٹے سے فقرہ میں اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے.گھر سے تو کچھ نہ لائے" پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ربوبیت کے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمانیت نے جلوے دکھائے.چنانچہ جب انسان نے فعل اور عمل کے میدان میں داخل ہونا تھا.اور جہاد اور مجاہدہ کرنا تھا.اور کوشش اور محنت کرنی تھی اور احسان کے نتیجہ میں اپنی محنت کی قوت کو اجاگر کرنا تھا اور اسے بڑھانا تھا یا اپنے اندر زیادہ طاقت پیدا کرنی تھی تو اُس وقت بھی ہمیں یہی فرمایا کہ خدائے رحیم کی برکت کے بغیر تم کامیاب نہیں ہو سکتے.کیونکہ انسان خواہ کتنا ہی ہوشیار کیوں نہ ہو.خواہ کتنا ہی سمجھ دار کیوں نہ ہو.خواہ کتنا ہی محنتی کیوں نہ ہو.خواہ وہ کتنے ہی اچھے طریق پر مثلاً اپنی کھیتی کو تیار کر دے.اس میں وقت پر دانہ ڈال دے.جسے کھیتی باڑی کی اصطلاح میں آپٹیم پیریڈ (Optimum Period) کہتے ہیں یعنی وہ وقت جس میں بیج بونے سے سب سے زیادہ گندم پیدا ہونے کی امید رکھی جا سکتی ہے.پھر وہ وقت پر کھاد دے.وقت پر پانی دے.غرض اس ساری محنت کے باوجود پھر بھی کچھ نہ کچھ خامیاں ضرور رہ جاتی ہیں جو بعض دفعہ انسان کو معلوم ہوتی ہیں.بعض دفعہ اس کو معلوم نہیں ہوتیں.چنانچہ بسا اوقات ہمارا کوشش کرنا اور روپیہ کو خرچ کرنا رائیگاں جاتا اور ہماری دن رات کی محنت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا.اس لئے نتیجہ نہیں نکلتا کہ یہ تو خدائے رحیم ہی ہے جو ہماری مدد کو آتا اور وہ ہماری قربانیوں کا ، ہماری محنتوں کا اور ہماری کوششوں کا نتیجہ نکالتا ہے.اور ہمیں وہ غذا دیتا ہے تب جس باغ کو ہم نے اپنے خون سے سینچا تھا.وہ ہمیں ثمر آور نظر آتا ہے.اور اس کے پھل ہمیں ملتے ہیں.دنیا میں بھی ایک جنت ہمارے لئے پیدا کی جاتی ہے اور مرنے کے بعد تو ایک جنت ہے ہی.جو اتنی حسین جنت ہے جس کا ہم آج تصور بھی نہیں کر سکتے وہ ہمارے مقدر اور نصیب میں ہوتی ہے.میں نے آپ کے سامنے یہ باتیں اس لئے زیادہ تفصیل کے ساتھ اور بار بار رکھی ہیں کہ

Page 242

سبیل الرشاد جلد دوم 223 اس کے دوسرے پہلو کے بارہ میں جس کا تعلق أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ سے ہے اس کے متعلق میں آج کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں.جب یہ کائنات پیدا کی گئی جس میں تسخیر ہو جانے کا مادہ رکھا گیا اور جب انسان کو قو تیں اور استعداد میں دی گئیں جن کی روح اشیائے عالم کو تسخیر کرنا ہے یعنی اس کائنات کی تمام چیزوں کو حسب ضرورت اور استعداد کام پر لگانا ہے تو اس سلسلے میں عقلاً دو نظریے قائم ہوئے.ایک کو اسلام نے دھتکار دیا اور ایک کو اسلام نے اپنالیا.چنانچہ ایک نظریہ یہ ہے کہ انسان کہتا ہے.میں ہوں.میرے لئے دنیا میں یہ سب کچھ پیدا کیا گیا ہے.اس لئے میں اپنے نفس کی خاطر اور اپنے وجود کی خاطر اور اپنے خاندان کی خاطر اور اپنے بیوی بچوں کی خاطر محنت کروں گا.میں کماؤں گا.میں گندم پیدا کروں گا.خود کھاؤں گا اور دوسروں کو کھلاؤں گا اور اس طرح میری زندگی کا مقصد پورا ہو جائے گا.پس ایک یہ نظریہ ہے جسے اسلام نے دھتکار دیا اور رڈ کر دیا ہے.اس کو قبول نہیں کیا.مگر جو لوگ دنیا دار ہیں.انہوں نے اس نظریے کو قبول کیا ہے اور انہوں نے کہا کہ خدا نے دنیا کو ہمارے لئے پیدا کیا ہے اور ہم اس سے فائدہ اٹھائیں گے یا جو لوگ خدا کو نہیں مانتے وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ دنیا کچھ ایسی بنائی گئی ہے کہ جو ہماری محنت اور کوشش کے اثر کو قبول کرتی اور ہمیں فائدہ پہنچانے کے لئے تیار ہو جاتی ہے لہذا ہم اس سے فائدہ حاصل کریں گے.میں ایک فرد کے لحاظ سے اور ہم ایک قوم کے لحاظ سے جتنا کما سکیں گے اور جس طرح کما سکیں گے ہم کمائیں گے اور فائدہ اٹھائیں گے.اس نظریے میں کوئی اخلاقی پابندیاں تسلیم نہیں کی گئیں.جہاں تسلیم کی گئیں ( دنیا کی عقل کی میں بات کر رہا ہوں ) وہاں بھی وہ ظاہری لحاظ سے تھیں.کیونکہ بعض لوگ اس وقت تک اخلاقی پابندیوں کو مانتے نظر آتے ہیں.جب تک کہ ان کا ذاتی یا قومی مفاد اس کو برداشت کرتا ہو.جب ان کے قومی یا ذاتی مفاد کے خلاف بات ہو جائے تو پھر ان اخلاقی پابندیوں کے قائل نہیں رہتے.یہ نظریہ آگے پھر دوحصوں میں تقسیم ہو گیا.دنیا کا ایک وہ حصہ جنہوں نے بحیثیت قوم سب کچھ اپنا ہی سمجھ لیا.اور کہہ دیا کہ بس خدا نے سب کچھ انگلستان میں بسنے والوں کے لئے پیدا کیا ہے.چنانچہ آج سے دو سال پہلے انگریزوں نے یہ سمجھا کہ جہاں سے ہمیں مال و دولت اور آرام و آسائش کے سامان مل سکتے ہیں.ہم دنیا میں نکلیں گے اور وہاں سے حاصل کریں گے چنانچہ وہ ہندوستان میں آئے اور ہمیں لوٹا اور پھر افریقہ میں گئے وہاں سے انہوں نے دولت سمیٹی اور وہاں کے رہنے والوں کا کوئی خیال نہیں کیا.وہ امریکہ میں گئے.امریکہ کی آج اور

Page 243

224 سبیل الرشاد جلد دوم حالت ہے.آج سے چند سو سال قبل اس کی حالت یہ نہیں تھی.وہاں ریڈ انڈینز (Red Indians) کے نام سے بعض قبائل رہائش پذیر تھے.انگریز وہاں جا پہنچے اور ان کا بڑی بُری طرح سے قتل عام کیا کہ اب بھی اس کے تصور سے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.حتی کہ وہ ملک جس کے وہ باشندے تھے اس میں ان کا زندہ رہنا ناممکن بنا دیا گیا.پھر بعد میں جب ان کو لوٹ لاٹ لیا اور جب پچاس فیصد اور بعض جگہ تو نوے فیصد قبیلے مارے گئے تو دنیا کو دکھانے کے لئے اُن پر گویا یہ بڑی مہربانی کی اور بڑا احسان کیا کہ زمین کے چھوٹے چھوٹے قطعے بنا دیے تاکہ وہ ان پر آباد ہوں اور زندگی کے دن گزار ہیں.اس کو اخلاق نہیں کہتے.یہ تو جب اعتراضات زیادہ پڑنے لگے تو ان سے بچنے کے لئے جو اُن کا (ریڈ انڈینز کا ) اپنا تھا یعنی جو ان کی ملکیت تھی.اس میں سے ہزارواں حصہ دیا اور کہہ دیا دیکھو ہم تم پر کتنا احسان کر رہے ہیں.ابھی تک، میں سمجھتا ہوں ان کے یعنی ریڈ انڈینز اور جو باہر سے لٹیرے گئے ہوئے تھے ان کے درمیان صحیح معنوں میں مساوات نہیں پائی جاتی..پھر یہ انگریز آسٹریلیا پہنچ گیا اور وہاں کچھ لوگ تھے ان کو Aborigines کہتے ہیں.ان کا بُری طرح قتل عام کیا.کچھ ان میں سے بچ گئے ہیں.ورنہ یہ تو ان کو بالکل مٹا دینا چاہتے تھے.حالانکہ وہ اتنا بڑا علاقہ ہے کہ کوئی ڈیڑھ سو سال بعد بھی اس کو ابھی تک پوری طرح آباد نہیں کر سکے.بہر حال بڑا لمبا زمانہ گزر گیا.اسی طرح جہاں بھی انگریز گئے وہاں ان کی یہ ذہنیت کارفرما رہی کہ جو کچھ اس دنیا کا مل سکتا ہے ، لے لو.خواہ اس سے دنیا کے کتنے بڑے حصے کو ، دنیا کی کتنی اقوام کو اور کتنے کروڑوں انسانوں کو تکلیف پہنچے بس لوٹ مار کر و.دولت سمیٹو اور اپنے گھروں کو لے جاؤ.پھر یہی انگریز آئس لینڈ پہنچے اور وہ بے چارے غریب جن کا تمدن پرانا تھا یعنی یہ صحیح ہے کہ وہ اس قسم کے تہذیب یافتہ نہیں تھے گویا ان کو سگریٹ کی عادت نہیں تھی.انگریز نے کہا ہم تمہیں مہذب بناتے ہیں یہ لوسگریٹ پیو، تمبا کو استعمال کرو.یہ شراب لو.اس کا استعمال کرو.اور جو اُن کی دولت تھی وہ سگریٹوں کے پیکٹ کے بدلے سمیٹ کر چلتے بنے.مثلاً ان کی دولت تھی.برف میں اللہ تعالیٰ نے جو جانور پیدا کئے ہیں.ان کی کھالیں یعنی سمور جو بڑی قیمتی چیز ہے.وہ وہاں سے لوٹ کر لے آئے اور بھی جتنی بھی ان کی دولت تھی وہ سگریٹ کے بدلے میں لے آئے ان کو سگریٹ کا نشہ لگایا.شراب کا نشہ لگایا.اور ان کا سب کچھ لوٹ کر لے آئے.میں نے خود وہاں انگلستان کے لوگوں کے مضمون پڑھے ہیں بعض لوگوں میں کہیں کہیں شرافت پائی جاتی ہے وہ اُبھر آتی ہے.انہوں نے برملا اعتراف کیا کہ انگریز آئس لینڈ کے باشندوں کا سب کچھ چھین کر لے گئے ہیں.تو یہ گویا کوئی Isolated یعنی یہ نہیں کہ یہ کوئی اتفاقی

Page 244

225 سبیل الرشاد جلد دوم واقعہ ہے.یہاں ہوا یا وہاں ہو گیا.بلکہ یہ واقعات ایسے ہیں جو ایک نظریہ کی نشاندہی کر رہے ہیں.انہوں نے خدا تعالیٰ کو نہیں پہچانا لیکن انہوں نے خدا تعالیٰ کی خلق کو دیکھا اور انہوں نے زمین کو پیدا کرنے والے ، زمین کے اندر صفات کو پیدا کرنے والے خدا کو تسلیم نہیں کیا ، نہ اس کو پہچانا اور نہ اس کی صفات کی معرفت حاصل کی لیکن انہوں نے زمینی مخلوق کو پہچانا اور انہوں نے کہا یہاں تو بڑی گندم پیدا ہو و سکتی ہے، یہاں تو بڑے چاول پیدا ہو سکتے ہیں یہاں تو بہت کپاس پیدا ہوسکتی ہے یا دوسری فصلیں آگ سکتی ہیں.یا یہاں کیلوں کے باغات لگائے جا سکتے ہیں یا ذرا اور نیچے چلے جائیں تو ہیرے جواہرات مل سکتے ہیں.اور ذرا اور نیچے چلے جائیں تو ہم پیٹرولیم حاصل کر سکتے ہیں.پس انہوں نے خدا کو نہیں پہچانا لیکن خدا کی مخلوق یعنی انسانوں کے علاوہ جو دوسری کائنات ہے اور جو ایک خاص غرض کے لئے بنائی گئی تھی.اور جس میں خدا تعالیٰ نے بے شمار فائدے کی چیزیں رکھی تھیں.انہوں نے ان سے فائدہ اٹھایا مگر اس کے جو حق دار تھے ان کو محروم کر دیا.اب یہ ایک موٹی بات ہے اور اسے ہر عقل کا آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جس نے کائنات کو پیدا کیا وہی بتائے گا کہ میں نے اسے کیوں پیدا کیا.جس نے پیدا ہی نہیں کیا وہ کیسے بتا سکتا ہے کہ اس چیز کو کیوں پیدا کیا گیا ہے.پس ہر چیز کے معاملہ میں خواہ وہ زمین سے تعلق رکھتی ہو یا آسمان سے تعلق رکھتی ہو.اُس کا علم حاصل کرنے کے لئے خدا کی طرف متوجہ ہونا اور رجوع کرنا چاہئے تا کہ ہمیں پتہ لگے کہ وہ چیز کیوں پیدا کی گئی ہے.پس یہ ایک نظریہ ہے جو میں نے بتایا ہے ، آگے پھر دوحصوں میں تقسیم ہو گیا ہے اور اسلام نے اس کو رڈ کیا ہے.اسلام نے جو نظریہ ہمارے سامنے رکھا ہے اور جسے ہماری فطرت قبول کرتی اور ہماری عقل تسلیم کرتی ہے اور جس کے متعلق ہمارا رب ہمیں قرآن عظیم میں اپنی ہدایت اور شریعتِ کاملہ کی رُو سے فرماتا ہے وہ یہ ہے کہ.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تمہیں”الناس کے لئے پیدا کیا گیا ہے.سب بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے تمہیں پیدا کیا گیا ہے.چونکہ عمل وہی شخص کرتا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن عظیم پر ایمان لاتا ہے اس لئے اگر چہ قرآن عظیم کے مخاطب جنکی طرف قرآن نازل ہوا.یعنی بنی نوع انسان ہیں.لیکن جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہی صاحب بصیرت بنتے ہیں.اور عقل اور فراست سے کام لے کر اس شریعت کے اسرار اور رموز معلوم کرتے ہیں اور ان صداقتوں کو خود بھی پہچانتے ہیں اور دنیا کے سامنے بھی پیش کرتے ہیں.پس أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کی رو سے فرمایا کہ ہر مسلمان کی زندگی کی سرحدیں اس کی اپنی زندگی پر جا

Page 245

226 سبیل الرشاد جلد دوم کر ختم نہیں ہو جاتیں اور اس کے فوائد تک ہی آگے نہیں بڑھتیں بلکہ ہر مسلمان کی سرحدیں وسعت میں بنی نوع انسان کی سرحدوں تک پھیلی ہوئی ہیں.میں اس وقت جس چیز کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.وہ یہ ہے کہ عملی زندگی میں اس کے آگے بہت سے نتائج نکلتے ہیں.مثلاً ایک بالکل چھوٹا زمیندار ہے اس کے لئے ساڑھے بارہ ایکڑ کا یونٹ رکھا گیا.لوگ سمجھتے ہیں کہ اس سے ایک خاندان پل جاتا ہے.اب اگر وہ پہلا نظریہ ہو تو اس کے مطابق تو اس شخص کو اتنی محنت کرنی چاہئے کہ اس کے خاندان کا پیٹ بھر سکے کیونکہ اس نے جو کچھ کرنا ہے اپنے لئے کرنا ہے.اور اب اگر فرض کریں کہ اس کے خاندان کے دس افراد ہوں، بڑا کنبہ ہے، میاں بیوی اور آٹھ بچے کھانے والے ہیں.اللہ تعالیٰ نے بڑافضل کیا ہے ان کے نفوس میں برکت ڈالی ہے تو گویا اگر نصف سیر غلہ فی کس روزانہ کے حساب سے ساڑھے چارمن غلہ ایک سال کے لئے درکار ہے.تو دس افراد کے لئے پینتالیس من غلہ کی ضرورت ہے.تو اگر وہ شخص چھ ایکڑ میں غلہ لگاتا ہے اور پینتالیس من حاصل ہو جاتا ہے تو گویا اس کا پیٹ بھر گیا.علا وہ ازیں اس نے اپنی زمین میں کچھ کپاس لگائی کچھ اور چیزیں لگائیں.اور اس طرح اپنی ضرورتیں پوری کر لیں.اب پہلے نظریہ کے مطابق ( جو دراصل غیر اسلامی نظریہ ہے ) یہ شخص بڑا کامیاب نظر آتا ہے.مگر اسلام اسے قبول نہیں کرتا.وہ کہتا ہے تیری کوشش اور محنت کی سرحدیں تو تیری اپنی زندگی یا تیرے خاندان کے جو تقاضے ہیں ان سرحدوں تک نہیں جاتیں.بلکہ جہاں انسانیت کی سرحد ختم ہوتی ہے.وہاں تیری محنت کی سرحد ختم ہوتی ہے.پس وہ اس اسلامی نظریہ کی رو سے زیادہ سے زیادہ محنت کرتا ہے جس کی اسے اپنے لئے تو ضرورت نہیں ہوتی مگر بنی نوع انسان کو ضرورت ہوتی ہے.اس نظریے کا دوسرا حصہ جو ذکر کرنے سے رہ گیا ہے مختصر یہ ہے کہ مثلاً انگریز با ہر گئے ہیں یعنی اپنے ملک سے آگے گئے ہیں.لیکن ان کی وسعت انسانی سرحدوں کی انتہاء کو نہیں پہنچی.مثلاً روسی کہے گا کہ ہم نے انٹرنیشنل پرولیٹیریٹ (INTERNATIONAL PROLETARIAT) کے لئے بھی کام کرنا ہے.اسی طرح چینی سوشلسٹ یہ کہے گا کہ جو باہر کے ملکوں میں ہمارے ہم خیال لوگ ہیں ان کی تقویت کے لئے اور ان کی بہبود کے لئے بھی ہم نے محنت کرنی ہے.میرا تاثر یہ ہے کہ روس اپنی نفسانی حدود سے ابھی باہر نہیں نکلا.لیکن چین اپنی نفسانی حدود سے یعنی خود غرضی کی حدود سے کچھ باہر آ گیا ہے، گوا بھی وہاں تک نہیں گیا جہاں تک اسلام لے کر جانا چاہتا ہے لیکن وہ خود غرضی کی حدود سے کسی قدر باہر آ گیا ہے.مگر اسلام یہ کہتا ہے کہ اے انسان تو نے اپنے لئے زندگی نہیں گزارنی تو نے بنی نوع انسان کے لئے زندگی گزارنی ہے.پس یہ ذہنیت ایک احمدی کے اندر پیدا ہونی چاہئے کہ اس کی زندگی کی دوڑ اس کے اپنے ہی

Page 246

227 سبیل الرشاد جلد دوم محمد ود ما حول تک نہیں ہے بلکہ وہ افریقہ تک جاتی ہے ، وہ امریکہ تک جاتی ہے وہ آسٹریلیا تک جاتی ہے وہ یورپ تک جاتی ہے وہ روس تک جاتی ہے ، وہ چین تک جاتی ہے وہ جزائر تک جاتی ہے اور ہر ضرورت کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے.یعنی صرف جسمانی ضرورت نہیں یا صرف تعلیمی ضرورت نہیں بلکہ اس نے ہر ضرورت انسانی کو اپنی اس ذہنیت کے اندر سمیٹا ہوا ہے.ہر احمدی اپنی زندگی کی جد و جہد میں یہ کوشش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جو میری ذمہ داری افریقہ کے عوام کی غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہے میں پورا زور لگا کر لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا اپنی جگہ پر درست ہے ) یہ کوشش کروں گا کہ اس کی مددکر سکوں.اگر ہم سب یہ جملہ معترضہ ہے، پاکستان میں ایسا کر لیں تو ہم بھک منگے بننے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے ماتحت دوسری اقوام کی غذائی ضرورتوں کو پورا کرنے والے بن جائیں گے اور بن سکتے ہیں کیونکہ ایک مسلمان جب خلوص نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں کو اس کی مخلوق کی بھلائی کے لئے خرچ کرتا ہے تو اس کے نتائج دوسروں کی کوششوں سے بہر حال زیادہ اچھے نکلتے ہیں اور نکلنے بھی چاہئیں.یہ اللہ تعالیٰ کا ہمارے ساتھ وعدہ ہے اور اکثر حالات میں اچھے نتائج نکلتے بھی ہیں.بہت سے لوگ ہیں جن کا اپنا ذاتی مشاہدہ ہے.میرا بھی ایک ذاتی مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ، اس محاورہ کے مطابق کہ اللہ تعالیٰ چھپڑ پھاڑ کر دیتا ہے یا آسمان پھاڑ کر دیتا ہے ، اس طرح وہ بے حساب دیتا ہے.لیکن خلوص نیت ہونا چاہئے.تا ہم صرف غذائی ضرورتوں کا سوال نہیں.انسان کی غذائی یا دوسری جسمانی ضرورتوں کے علاوہ مثلا تعلیمی ضرورتیں ہیں.انسان کی تعلیمی دور محض اپنے تک محدود نہیں رہنی چاہئے.اب ان دنوں گندے ماحول کا ہمارے احمدی طلباء کے ذہنوں پر بھی اثر پڑا ہے.وہ سمجھتے ہیں اور آج کل یہ خیال عام ہے کہ ہنگامے کروڈ گریاں مل ہی جائیں گی.سٹرانکس(Strikes) کریں گے اور ڈگری لے لیں گے گویا اب ڈگریاں لینا بڑا آسان ہو گیا ہے.پہلے طالب علم بڑی محنت کیا کرتا تھا.آدھی آدھی رات تک جاگتا اور محنت کرتا تھا.ہم خود طالب علمی کے زمانے میں آدھی آدھی رات تک پڑھتے رہے ہیں.ہمیں یہ فکر لگا رہتا تھا کہ اگر محنت نہیں کریں گے تو اچھے نمبر نہیں لیں گے.یا پاس نہیں ہوں گے.لیکن اب آسان ہو گیا ہے.بس ایک جلوس نکالو.نعرہ لگاؤ اور جس کسی معصوم دکاندار کی دکان سامنے آ جائے اس کے شیشے توڑ دو.اب بتاؤ اس دکاندار کا کیا قصور ہے.حکومت اگر تمہیں ڈگریاں نہیں دیتی تو اس میں اس بے چارے دکاندار کا تو کوئی قصور نہیں ہے لیکن یہ فیشن بنالیا گیا ہے کہ اس طرح اپنا غصہ نکالو اور پھر حکومت سے کہو کہ جی ہمیں ڈگریاں دے دو.مگر امتحان کے لئے تیاری نہ کرو.جو سوره آل عمران آیت ۲۸۷

Page 247

سبیل الرشاد جلد دوم 228 طالب علم امتحان کی تیاری کرتا ہے وہ تو ایک دن کے لئے بھی اپنا امتحان ملتوی نہیں کروانا چاہتا.لیکن جو طالب علم تیاری نہیں کرتا وہ کہتا ہے دو مہینے اور مل جائیں.وہ اس میں بھی نہیں پڑھتا پھر کہتا ہے کہ اچھا دو مہینے اور مل جائیں.چنانچہ انہی ہنگاموں اور سٹرائکس (Strikes) کی وجہ سے اب اس سال کے بہت سارے امتحان اگلے سال کے امتحانوں کے قریب قریب چلے گئے ہیں.اس سے مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے اور بڑی پریشانی ہوتی ہے خصوصاً جب میں یہ سوچتا ہوں کہ کچھ احمدی بچے بھی اس گندے ماحول اور گندی فضا سے متاثر ہوتے ہیں.لیکن اگر ہماری تعلیمی کوششیں یعنی حصول علم کی کوششیں محض حصول علم کے لئے نہ ہوں بلکہ علم کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے یا سکھانے کے لئے بھی ہوں.اگر ہمیں یہ نظر آ رہا ہو کہ افریقہ میں اس وقت کئی لاکھ اساتذہ کی ضرورت ہے.جب آپ اس غرض کے لئے پڑھیں گے اور علم حاصل کریں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا تمہیں بھوکا نہیں مارے گا.تمہاری اس نیت کے نتیجہ میں شاید تمہیں اس دنیا میں بھی دوسروں سے زیادہ دے دے اور اگلی دنیا میں جو تمہیں جزا ملنی ہے وہ یقیناً ملنی ہے.اُس کا تو حساب ہی کوئی نہیں.پس ایک احمدی مسلمان کو اس نیت سے پڑھنا چاہئے کہ اس نے صرف اپنے یا اپنے خاندان کی ضرورتیں پوری نہیں کرنی بلکہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا اور اس کے کان میں بڑے پیار سے یہ آواز پہنچائی کہ تم اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کی رو سے لوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو.تم الناس“ یعنی ساری دنیا کے عوام کی خدمت کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہو.تمہارا دائرہ عمل اپنے نفس یا اپنے قبیلے یا اپنی قوم یا اپنے ملک تک محدود نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کے عوام کی جو حدود ہیں ان کی آخری حدوں تک پھیلا ہوا ہے.اگر ہم اپنا وقت ضائع نہ کریں ، اگر ہم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سمجھیں تو ہم دنیا سے آگے نکل سکتے ہیں لیکن اس وقت تک ہم نہیں نکل سکے.یہ ایک حقیقت ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا.یہ نعرہ لگانا کہ ہم ساری دنیا سے علم میں آگے نکل جائیں گے لیکن پڑھنے کی بجائے جلوس نکالنے لگ جائیں تو اس کا آپس میں کوئی تعلق نہیں.یہ تو قول اور فعل میں تضاد کے مترادف ہے.کبھی نعروں کے ساتھ بھی کسی نے علم حاصل کیا ہے.یا ایجادات کی ہیں؟ مثلاً آئن سٹائن تھا یا دوسرے بڑے بڑے سائنسدان تھے یا ڈاکٹر سلام ہیں.انہوں نے بڑی ریسرچ کی ہے اور علمی میدان میں نئی سے نئی دریافتیں کی ہیں.کیا انہوں نے نعرہ لگا کر کی ہیں؟ نہیں انہوں نے دن رات سوچ کر اور دعائیں کر کے اور محنت کر کے اور خلوص نیت کے ساتھ کوشش کر کے نئی چیزیں دریافت کی ہیں.نئی نئی چیزیں دریافت کرنے کا یہی عمدہ طریق اور بہترین اصول ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے انسان تیرا نفس ہی نہیں ، یا تیرا خاندان ہی

Page 248

229 سبیل الرشاد جلد دوم نہیں ، یا تیرا قبیلہ ہی نہیں ، تیری برادری یا دوستوں کا حلقہ ہی نہیں ، تیرا ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کے سارے عوام ہیں جن کی خدمت کرنے کے لئے تمہیں پیدا کیا ہے.ان کی سرحدوں تک تیری کوشش مؤثر ہونی چاہئے.یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ علم کے میدان میں کوئی کوشش نہ کی اور بے مقصد ہنگاموں میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر دیا.پھر جب ہم دنیا کے میدان میں نگاہ ڈالتے ہیں تو خالی اس چیز کی ہی ضرورت نہیں بلکہ دوسرے نمبر پر بھی نہیں یعنی مادی اشیاء اور علم کے علاوہ کچھ اور علم بھی ہمیں حاصل کرنا چاہئے.مثلاً ان کو اچھے اخلاق کی ضرورت ہے.اب ان کو اچھے اخلاق سکھانے کے لئے وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ کی روسے پہلے خود اپنے اخلاق اچھے بنانے پڑیں گے.اگر اپنے اخلاق اچھے نہیں بنائے تو گویا حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الایمان کے جذبہ کے خلاف کام کیا اور اگر اپنے اخلاق اچھے نہیں بنائے یعنی ایسے اخلاق جو ساری دنیا کے اخلاق پر اثر انداز ہونے والے ہوں تو گویا ہم أُخْرِجَتْ لِلنَّاس کی بشارت کے خلاف عمل کرنے والے ہوں گے.اب اخلاقی لحاظ سے جب ہم دنیا پر نظر ڈالتے ہیں تو بعض علاقے ، بعض قبائل اور بعض قو میں ایسی نظر آتی ہیں جن میں آداب بھی نہیں پائے جاتے حالانکہ آداب ہی اخلاق کی بنیا د ہوتے ہیں.یعنی ان میں بات کرنے کی تمیز نہیں ہے.رہن سہن کی تمیز نہیں ہے.کپڑے پہنے کی تمیز نہیں ہے ، کھانے پینے کی تمیز نہیں ہے گویا اس قسم کے جو آداب ہیں وہ بھی ان کے اندر نہیں پائے جاتے.اچھے اخلاق کا تو سوال ہی نہیں.بعض ایسے ملک ہیں جہاں یہ اعلان کیا گیا کہ اخلاق کیا ہوتا ہے.وہ کہتے ہیں جو چیز ہمارے منصوبہ میں ممد و معاون ہے وہ اچھے اخلاق ہیں.اور ہر وہ بات جو ہمارے راستے میں روک بنتی ہے وہ بُرا خلق ہے.گو یا اگر سچ بولنا تمہارے راستے میں روک ہے تو سچ نہ بولو.اگر جھوٹ بولنا تمہارے راستے میں محمد ہے تو یہ اچھا خلق ہے اس پر عمل کرو.چنانچہ بہت بڑی بڑی قومیں ایسی ہیں جو اس قسم کے نظریے رکھتی ہیں.احباب کو ان کے متعلق غور کرنا چاہئے مثلاً روس نے خدا کا انکار کیا.اخلاق کا مضحکہ اڑایا اور کہا اخلاق کیا چیز ہوتے ہیں تاہم ایسے ملکوں کو ہم پر انہیں کہتے ہمیں ان پر رحم آتا ہے.اخلاقی اقدار سے اُن کے انکار کی ایک وجہ بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ صحیح اور بچے اخلاق مذہب سکھاتا ہے مگر جس مذہب سے اُن کا واسطہ پڑا وہ عیسائیت تھی جو مذہبی اور اخلاقی اقدار سے محروم ہو رہی تھی.دوست یہ یا درکھیں کہ ہمارے نزدیک تمام انبیاء اور مرسلین اللہ تعالیٰ کے مقرب اور نیک بندے تھے.ہماری اُن کے حق میں ہر وقت دعا ئیں رہتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم اُن کو بھی

Page 249

230 سبیل الرشاد جلد دوم شامل کرتے ہیں.جو آپ کے روحانی بچے تھے اور جو آپ سے پہلے آئے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے بھی خاتم النبین تھے.سارے انبیاء علیہم السلام کا روحانی تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسا ہی ہے.جیسے ایک بچے کا باپ کے ساتھ ہوتا ہے.لیکن اُن کو چونکہ ایک وقت تک ایک خاص قوم کی طرف ان کی مخصوص بُرائیاں دور کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا.وہ اپنا کام کر گئے تو ان کی ضرورت نہ رہی.پھر اگلا نبی آ گیا.چنانچہ جس وقت عیسائیت اپنی نہایت گری ہوئی زندگی میں داخل ہو رہی تھی.اس وقت اُن لوگوں کے ساتھ ان روسی کمیونسٹوں وغیرہ کا واسطہ پڑا جو مذہب کا نام لیتے تھے مگر خود بداخلاقیوں میں ملوث تھے.اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے کہا مذ ہب کیا ہوتا ہے اور یہ اخلاق کیا ہوتے ہیں.اگر یہ پادری مذہب کے نمائندے ہیں تو تو بہ بھلی ہمیں ان کی ضرورت نہیں اور اس لحاظ سے ان کا نتیجہ ٹھیک ہے کیونکہ ان کے اپنے اخلاق نہیں تھے.مذہب جس غرض کے لئے پیدا کیا گیا اس غرض کی کوئی جھلک ان کی زندگیوں اور کوششوں اور ان کے عمل میں نظر نہیں آ رہی تھی.میں نے بڑے بڑے اشترا کی لیڈروں کی کتابوں میں خود پڑھا ہے کہ اخلاق کوئی چیز نہیں وہ کہتے ہیں جو چیز ہمارے منصوبہ میں ( جو انہوں نے بنایا ہے وہ اچھا ہے یا بُرا اس کے متعلق میں اس وقت کچھ نہیں کہہ رہا ) مد ہے وہ اخلاق ہے بہر حال انہوں نے اخلاق کا مذاق اڑایا اور مذہب اور اخلاق کو چھوڑ دیا یہ گویا بعض لحاظ سے مفلوج اقوام ہیں.اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے.ان کی حالت بالکل اس آدمی کی ہے جس کے ایک بازو پر فالج گرے تو دوسرا باز و کام کر رہا ہوتا ہے یا اس کی ایک لات حرکت بھی نہیں کر رہی ہوتی اور دوسری میں پوری طاقت ہوتی ہے.یا مثلاً اس کے چہرے کا ایک حصہ لقوہ کی وجہ سے ٹیڑھا ہو جاتا ہے جبکہ دوسرا حصہ بالکل ٹھیک ہوتا ہے یا اس کی ایک آنکھ پر اثر ہوتا ہے تو دوسری ٹھیک ہوتی ہے تو اس طرح انسان کی جو انسانی زندگی ہے اور میں انسانی زندگی کی یہ تعریف کروں گا کہ اس سے مراد انسان کی وہ زندگی ہے جس میں اس کا جسم جس میں اس کا ذہن جس میں اس کی اخلاقی قوتیں اور جس میں اس کے روحانی قومی ایک جیسی مناسب نشو و نما حاصل کرنے کے بعد ایک صحت مند فرد کی شکل میں اسے دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے.پس اس لحاظ سے روس مفلوج ہے گو اس نے جسمانی لحاظ سے بڑی ترقی کی ہے مثلاً اب ہمارے اتھلیٹ بھی باہر جاتے ہیں مگر ان کا پتہ نہیں لگتا کہ کہاں ہیں.وہ ان روسیوں کی ہوا کو بھی نہیں پہنچتے.پس یہ جسمانی طاقت کی نشو و نما ہی ہے جس کے نتیجہ میں وہ سو گز کی دوڑ میں بھی آگے نکل گئے.جس کے نتیجہ میں ( کبڈی انہوں نے کھیلنی شروع نہیں کی گشتی شروع کر دی اور وہ کشتی میں آگے نکل گئے.

Page 250

231 سبیل الرشاد جلد دوم کیونکہ انہوں نے اپنے ملک کی جسمانی طاقتوں کی نشو ونما کو کمال تک پہنچا دیا.مگر ہم نے اس ملک میں اپنی جسمانی طاقتوں کو کمال تک نہیں پہنچایا.لیکن ہم مفلوج نہیں ہم کمزور ہیں.یعنی Constitutionally Weak جسمانی ساخت کے لحاظ سے کمزور ہیں.یعنی جسمانی طور پر ہر پہلو سے ہم کمزور ہیں.لیکن مفلوج نہیں.پھر ایسے ملک ہیں جنہوں نے اخلاق کو تو لے لیا لیکن وہ روحانی قوتوں کو بھول گئے.وہ بھی ایک لحاظ سے مفلوج ہیں.لیکن ان کے وجود کا ایک چوتھائی حصہ فالج زدہ ہے.جنہوں نے اخلاق کو چھوڑا ان کے آدھے جسم پر فالج کا حملہ ہے.جن کو علم سے کوئی مس نہیں ، وحشی قبائل ہیں.ان کا تو کوئی قصور نہیں.یہ سرمایہ دار قوموں کا قصور ہے کہ انہوں نے اپنی خود غرضی کی وجہ سے ان کو علم نہیں سکھایا.ان کی ہے قوتوں پر فالج کا اثر ہے اور جو جسمانی لحاظ سے بھی کمزور ہیں.ان کا تو گویا کوئی عضو بھی ہل نہیں رہا.بہر حال اسلام نے یہ کہا ہے کہ تمہاری ان علاقوں میں بھی ضرورت ہے.یعنی تمہاری اور تمہاری کوششوں کی اور تمہارے عمل کی تمہارے مجاہدہ کی اور تمہاری دعاؤں کی ان علاقوں میں بھی ضرورت ہے جن کے نہ جسم اچھے نہ ان کے ذہن اچھے نہ ان کے اخلاق اچھے اور نہ ان میں روحانی اقدار پائی جاتی ہیں.اسی طرح تمہیں ان سرحدوں پر بھی جانا ہوگا کہ جہاں تمہیں ایسے لوگ ملیں گے کہ ان کے جسم تو اچھے ہیں لیکن ان کی ذہنی، اخلاقی اور روحانی نشو و نما نہیں ہوئی.تمہیں ان سرحدوں پر بھی جانا پڑے گا.جن کے جسم بھی اچھے جن کی ذہنی نشو ونما بھی ہوئی ہوئی ہے.لیکن اخلاقی اور روحانی قوتوں کی نشو و نما نہیں ہوئی.تمہیں ان سرحدوں پر جانا پڑے گا جن کی جسمانی، ذہنی اور ایک حد تک اخلاقی قوتوں کی نشو ونما تو ہوئی ہے لیکن ان کی روحانی نشو و نما نہیں ہوئی.تمہیں ان سرحدوں تک بھی جانا پڑے گا جن کی جسمانی ذہنی اخلاقی اور ایک حد تک روحانی نشو ونما ہوئی ہے لیکن کامل طور پر نہیں ہوئی.لیکن چونکہ قرآن کریم کا حکم ہے کہ قوتوں کی کامل نشو ونما ہونی چاہئے.اور قوتوں کو کمال نشو ونما تک پہنچانے کے لئے اپنے نفس کے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی کوشش کرنی چاہئے.پس ایک احمدی کی ذہنیت یہ ہونی چاہئے اور ایک احمدی کو یہ عرفان ہونا چاہئے کہ وہ ایک مسلمان کی حیثیت سے اسی اہم غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے.وہ محض اس لئے نہیں پیدا کیا گیا کہ وہ اپنے نفس کی ضرورتوں کو پورا کرے اور اپنے نفس کے چار قسم کے قومی کی نشو و نما کو کمال تک پہنچائے نہ وہ اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ اپنے بیوی بچوں اور اپنے خاندان ، اپنے دوستوں یا اپنے قبیلے کی یا اپنے ملک کی ہر چہار قسم کی قوتوں کی نشو و نما میں حصہ لے اور ان کو کمال تک پہنچانے کی کوشش کرے.بلکہ اسے تو خدا تعالیٰ نے ساری دنیا کا خادم بنایا ہے کوئی ایک آدمی کا خادم بنتا ہے.کوئی دو کا خادم بنتا ہے.گاؤں کا چوکیدار ہے وہ اس گاؤں کا خادم ہے.ضلع کا

Page 251

سبیل الرشاد جلد دوم 232 ڈی سی اس ضلع کا خادم ہے.حکومت کا صدر اس ملک کا خادم ہے.لیکن میں جماعت کے ہر چھوٹے بڑے سے کہتا ہوں کہ تمہیں دنیا اور اس کی وجاہتوں سے بے تعلق کر کے ، تمہارے دل سے دنیا کی محبت کو ٹھنڈا کر کے اُخْرِجَتْ لِلنَّاس کی رو سے باہر نکلنے کا حکم دیا گیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے تمہیں تمام بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے.باہر نکلو اور جس جس جگہ خدمت کی ضرورت ہے.وہاں خدمت بجا لاؤ.پس جب تک یہ ذہنیت ہمارے اندر پیدا نہیں ہو گی.آپ سنیں ! اور اچھی طرح یا درکھیں !! اُس وقت تک بعثت مہدی معہود کی غرض کامیابی کے ساتھ پوری نہیں ہو سکے گی.جو آپ نے جا بجا یہ فرمایا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ جو یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ تمام بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنا دے میں ( یعنی مسیح موعود ) آپ کے جرنیل کی حیثیت میں بھی اور آپ کے فرزند کی حیثیت میں تمام بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنانے کے لئے مبعوث ہوا ہوں.پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جو وعدے دیئے تھے وہ بنیادی طور پر دو تھے.ایک تھا تکمیل ہدایت کا وعدہ اور بشارت یعنی آپ کو یہ بشارت دی گئی تھی کہ جو کتاب نازل ہوئی اور آخر وقت تک نازل ہوتی رہی ) وہ کامل اور مکمل شریعت کی حیثیت میں آپ پر نازل ہوگئی.اور یہ ایک چیلنج ہے جسے ہم غیروں سے بحث کرتے وقت دھراتے ہیں کہ کوئی صداقت ایسی نہیں کہ جو کہیں اور نظر آئے اور قرآن کریم میں بنیادی طور پر نہ ملتی ہو.کیونکہ تفصیل تو ساری دنیا میں مختلف رنگ اختیار کرتی ہے.ہر زمانہ میں مختلف رنگ اختیار کرتی رہی ہے.لیکن ہدایت کے سارے کامل اصول اور نہایت حسین صداقتوں کو قرآن کریم نے اپنے اندر جمع کر لیا ہے.پس ایک تکمیل ہدایت کی بشارت دی گئی تھی جسے اللہ تعالیٰ نے پورا کر دیا.گویا یہ بشارت آپ کی زندگی میں پوری ہو گئی تھی.اور اس وقت کی معروف دنیا میں اس کی اشاعت بھی ہوئی.لیکن جو دوسرا وعدہ دیا گیا تھا.یعنی صرف یہ نہیں کہا گیا تھا کہ آپ کے وجود میں تکمیل ہدایت ہوگی.بلکہ یہ بھی کہا گیا تھا کہ آپ کے ذریعہ تکمیل اشاعت ہدایت بھی ہوگی.یعنی آپ کے ذریعہ سے ساری دنیا اس نور سے جو قرآن کریم کی شکل میں نازل ہوا منور ہو گی.تمام اقوام عالم اور تمام ملک جن میں سے بعض آج ہمیں گالیاں دینے والے ہیں اور خدا تعالیٰ کا انکار کر نے والے ہیں وہ بھی سب کے سب اس نور سے منور ہوں گے.یہ بشارت دی گئی ہے گویا دنیا با ہمی اتحاد اور اخوت اور پیار اور محبت کے نتیجہ میں اس طرح بن جائے گی کہ گویا یہ ہر ایک دوسرے کا خادم بن جائے گا.آج ہر ایک آدمی دوسرے کا خادم نہیں.کیونکہ جماعت احمد یہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے لیکن جس وقت خدائی

Page 252

سبیل الرشاد جلد دوم 233 بشارتیں پوری ہوں گی اور جماعت احمد یہ اسلام کو دنیا میں غالب کرے گی اور ہر دل میں خدا تعالیٰ کی تو حید کا جھنڈا گاڑ دیا جائے گا.اور ہر نفس انسانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر لا رکھا جائے گا.اس وقت ہاں اس وقت ہر ایک آدمی ایک دوسرے کا خادم ہو گا.غرض اس وقت جماعت احمدیہ نے ایک مختصر تعداد کے باوجود تمام بنی نوع انسان کا خادم بنتا ہے.یہ ذہنیت اس کے اندر پیدا ہونی چاہئے تا کہ وہ بشارت پوری ہو کہ تمام دنیا میں اسلام کا جھنڈا لہرانے لگے.اور قرآن عظیم کی حکومت قائم ہو جائے.پھر کون خادم اور کون آتاہم سارے ہی ایک دوسرے کے خادم ہوں گے.اس وقت آقا بننے کے لئے جد و جہد نہیں کی جایا کرے گی اس وقت اچھے خادم بننے کے لئے جد و جہد ہو گی.اور اسی میں انسان کو لذت اور پیار ملے گا اور اسی کے بعد خدا تعالیٰ اپنے بندے کے پاس آئے گا اور کہے گا کہ میرے بندوں میں سے تجھ سا پیارا کوئی نہیں پیدا ہوا.میں نے کہا تھا کہ تمہیں بطور اخرجَتْ لِلنَّاسِ پیدا کیا گیا ہے.اور تم نے اپنی عملی زندگی میں یہ ثابت کر دیا ہے کہ واقعی تم لوگوں کی بھلائی اور بہتری کے لئے پیدا کئے گئے ہو.پس دوست اس حقیقت کو سمجھیں تا کہ آپ اس بشارت کو پاسکیں جو ایک عظیم بشارت ہے.اور جس کا حلقہ ساری دنیا پر پھیلا ہوا ہے.اسی واسطے میں نے شروع میں کہا تھا کہ آپ کی جد وجہد کی سرحد میں عوام الناس کی جہاں تک سرحدیں ہیں ، وہاں تک پہنچتی ہیں.اگر وہاں تک نہ پہنچیں تو آپ اس بشارت کے کیسے حامل ہو سکتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے اس انتہائی پیار کو جس کو پہلوں نے بڑی کثرت سے پایا اور جس کا وعدہ بعد میں آنے والوں کے لئے یعنی اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ بھی پورا ہونا ہے.لیکن یہ وعدہ آپ کی غفلتوں کی وجہ سے پورا نہیں ہوگا.آپ کی سستیوں اور نالائقیوں کی وجہ سے پورا نہیں ہوگا بلکہ آپ کے اس مقام کو سمجھنے کے بعد اپنی ساری کوشش دنیا کی خدمت میں لگا دینی پڑے گی.تب خدا تعالیٰ کے فرشتے آ کر وہ کام کریں گے جو آج انسان کی طاقت سے باہر نظر آ رہا ہے.خدا کرے کہ ہم اس حقیقت کو سمجھیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پانے والے ہوں.“ ( غیر مطبوعہ )

Page 253

سبیل الرشاد جلد دوم اسلام کے معنی ہم عام طور پر بار بار جماعت کے سامنے یہ بات تو لاتے رہتے ہیں کہ اسلام کے معنی اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی گردن کو رکھ دینے کے ہیں کہ اگر وہ چاہے تو اس کی راہ میں جان تک قربان ہو جائے.اللہ تعالیٰ جو رب العالمین ہے اُس نے ہماری ربوبیت کے لئے اس سارے جہان کو ، اس عالم کو پیدا کیا ہے.اور ہم میں تسخیر کرنے کی طاقت اور اس عالمین میں تسخیر ہو جانے کی قوت پیدا کی ہے.ہمارا جو کچھ بھی ہے یا تو اس عالم کی وجہ سے اور ان جہانوں کے نتیجہ میں ہے یا ان طاقتوں اور قوتوں یا اس عقل اور فراست کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے.(سبیل الرشاد جلد دوم صفحه 221) 234

Page 254

سبیل الرشاد جلد دوم 235 سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثال رحمہ اللہ تعالی کا انتقامی خطاب فرموده ۱۹ ارنبوت ۱۳۵۰ بهش ۱۹ نومبر۱۹۷۲ء بمقام احاطه دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز بیر بوہ سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں : اَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ.قَالُوا بَلَى وَلَكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ أَنْفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْاَمَانِى حَتَّى جَاءَ أَمْرُ اللهِ وَغَرَّكُم بِاللهِ الْغَرُورُ ) ) اور پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں منافقوں کا ذکر کیا ہے اور اس رنگ میں ان کا ذکر کیا ہے اور نفاق کے ہر پہلو پر اس تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ ایک مسلمان کے لئے منافقوں کی ذہنیت کو سمجھنا مشکل نہیں رہا.غرض قرآن کریم میں نفاق کے متعلق بڑی کثرت سے ذکر کیا گیا ہے.اس سے ہم تین نتائج اخذ کرتے ہیں.ایک یہ کہ وہ لوگ، وہ سلسلہ اور وہ جماعت جو قرآن کریم سے محبت اور پیار کرنے والی ہے اور قرآن کریم کو حرز جان بنانے والی ہے اور قرآن کریم پر فدا ہونے والی ہے اور قرآن کریم کے رموز و اسرار کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ طور پر جھکنے والی ہے.اُس کے ساتھ منافقوں کا وجود ہمیشہ پایا جاتا رہے گا.اسی لئے تو قرآن کریم نے جماعت مومنین کو بار بار اور ہر رنگ میں منافقین کے متعلق آگاہ کیا اور ان کے حالات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.ہم اس سے دوسرا نتیجہ یہ اخذ کرتے ہیں کہ امت مسلمہ کو چوکس اور بیدار رہ کر منافقوں کی نگرانی کرنی چاہئے.الہبی جماعتوں میں منافقوں کا وجود تو ساتھ لگا ہوا ہے.لیکن ان کے شر سے خود کو اور امت سوره توبه آیت ۱۲۶ سورۃ الحدید آیت ۱۵

Page 255

سبیل الرشاد جلد دوم 236 کو بچایا جا سکتا ہے، اُن ذرائع کے ساتھ اور اُن طریقوں کو بروئے کارلاتے ہوئے جو اللہ تعالیٰ نے خود ہی قرآن کریم میں بیان کر دیئے ہیں.ہم تیسرا نتیجہ یہ اخذ کرتے ہیں کہ اس گروہ کی ہدایت کے لئے ہر ممکن کوشش ہونی چاہئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو ہدایت کے سامان پیدا کئے ہیں.اور جو ہدایت میں ترقیات کے سامان پیدا کئے ہیں وہ صرف کافر و مومن ہی کے لئے نہیں بلکہ کافر و مومن کے علاوہ منافق کے لئے بھی ہیں.اس لئے جہاں ہمارا یہ فرض ہے کہ تکمیل اشاعت ہدایت میں منکرینِ اسلام پر دنیا کے جس مقام پر بھی ہوں وہاں قرآن عظیم کی عظیم روحانی طاقت کے ساتھ جارحانہ حملے کر یں.وہاں ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ جو ہمارے اندر منافق پائے جاتے ہیں ، ان کی اصلاح کی کوشش بھی کریں.دلیل کے ساتھ بھی اور سمجھا کر بھی اور دعاؤں کے ساتھ بھی کہ اللہ تعالیٰ اس بد بخت گروہ کو جن کے لئے اسی کے فرمان کے مطابق جہنم کی سب سے نچلی ، سب سے زیادہ دکھ دینے والی جگہ مقرر کی گئی ہے ، انہیں اپنے فضل.سے یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس نہایت ہی بھیا نک عذاب سے خود کو بچاسکیں اور ہدایت پا جائیں.تاہم کچھ ہدایت پا جاتے ہیں مگر اکثر جہنم کے نچلے حصے کی زینت بن جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس سے ہر شخص کو محفوظ رکھے.بہر حال قرآن کریم میں جو کثرت سے منافقین اور ان کے نفاق کا ذکر آیا ہے.اس سے یہ تین نتیجے نکلتے ہیں جن کا میں نے ابھی مختصراً ذکر کیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.ان کی اصلاح کے لئے ایک پُر حکمت طریق بیان فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا وہ دیکھتے نہیں کہ سال میں ایک دو بار ان کو آزمائش میں ڈالا جاتا ہے.ان کو آزمائش میں اس لئے ڈالا جاتا ہے کہ وہ تو بہ کریں اور خدا تعالیٰ کی طرف جھکیں اور اس کا ذکر کریں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بہت سے تو بہ بھی نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع بھی نہیں کرتے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سال میں ایک دو بار منافقوں کو آزمائش میں ڈالا جانا چاہئے.اور منافق کی سب سے بڑی آزمائش یہ ہے کہ منافقین کے متعلق قرآن کریم کی جو تعلیم ہے اسے جلسوں میں ، تقاریر میں کھلے بندوں بیان کیا جائے.اس لئے گاہے گاہے اس قسم کی تقاریر اللہ کے حکم اور اسی کی ہدایت کے مطابق ہوتی ہیں جن میں کسی کا نام تو نہیں لیا جا تا صرف یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے منافق کی یہ علامت بیان فرمائی ہے اور اس کے بعد مثلاً میں اگر تقریر کروں تو میرے پاس خط آ جاتے ہیں.کوئی کہتا ہے میں تو منافق نہیں.کوئی کہتا ہے فلاں تو منافق نہیں ہے.تمہارے دل میں چور تھا وہ نکل آیا.نانوے ہزار نانو مخلصین کے دل میں

Page 256

سبیل الرشاد جلد دوم 237 تو یہ خیال نہیں پیدا ہوا کہ یہ ان کے متعلق کہا گیا ہے لیکن جس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا اس کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہئے.بہر حال اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ منافقوں کو سال میں ایک دو بار ضرور آزمائش میں ڈالنا چاہئے.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے منافق کی ایک بڑی آزمائش اور امتحان یہ ہے کہ قرآن کریم میں نفاق کے بارہ میں جو تعلیم دی گئی ہے.اس پر تقریر کر دی جائے.اس حکم کے ماتحت آج میں یہ تقریر کر رہا ہوں.اور اس میں مومن اور منافق ہر دو کے متعلق انشاء اللہ کچھ کہوں گا.وباللہ التوفیق.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن وہ بد قسمت منافق جن کے لئے ہر خیر کے دروازے کھولے گئے تھے مگر انہوں نے ہر خیر رب کریم کو ٹھکرا دیا.جن کے لئے آسمان کے دروازے کھولے گئے تھے اور رفعتوں کے سامان پیدا کئے گئے تھے لیکن وہ اس زمین کی طرف اور زمین کے سامانوں اور زمین کے آراموں اور زمین کی آسائشوں کی طرف جھک گئے.چنانچہ قیامت کے دن جس وقت ایک گروہ جہنم کی طرف جا رہا ہو گا تو مخلص مومن جنہوں نے خلوص کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دے کر اس کی رضا کو حاصل اور اس کی جنتوں کو پایا ہو گا.منافق ان سے کہیں گے تم ادھر جا رہے ہو اور ہم ادھر، کیا بات ہے.کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو جواب دیا جائے گا.قَالُوا بَلی کہ ہاں ٹھیک ہے تم ظاہر میں ہمارے ساتھ تھے لیکن اندرونی طور پر ہمارے ساتھ نہیں تھے.لیکن ہمارے ساتھ ہونے کے باوجو دفَتَنتُم اَنْفُسَكُمْ تم نے اپنے لئے خود اپنے ہاتھوں اور اپنی کرتوتوں اور اپنے اعمال اور بدنیتوں اور نفاق کے نتیجہ میں جہنم کے سامان پیدا کئے.اس لئے بظاہر ہمارے ساتھ ہوتے ہوئے بھی تم ہمارے ساتھ نہیں رہے اور اس نتیجہ کے حقدار نہیں بنے جس کے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہم حقدار بنے ہیں.ہمارے لئے اس کی رضا کی جنت ہے اور تمہارے لئے وہ ہے جسے تمہارے ہاتھوں نے کمایا ہے.یہاں سورہ حدید کی اس آیہ کریمہ میں منافقوں کے متعلق تین بنیادی باتیں بیان کر کے ایک منافق اور مومن میں ایک امتیاز اور فرقان پیدا کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو کہا جائے گاتَرَبَّصْتُمْ تم نے ہماری ہلاکت کا انتظار کیا.قرآن کریم میں تین قسم کی ہلاکتوں کے انتظار کا نمایاں طور پر ذکر کیا گیا ہے.(ممکن ہے کوئی اور بھی ہو لیکن اس وقت میرے ذہن میں تین باتیں ہی آئی ہیں ) ایک خود منافقوں کی طرف سے منافقانہ ریشہ دوانیاں ہوتی ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مومنوں کی جماعت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس مجاہد جماعت کو جو ساری دنیا میں اشاعت

Page 257

238 سبیل الرشاد جلد دوم اسلام کے لئے کوشش کر رہی ہے.ان کو اپنی ریشہ دوانیوں سے کمزور یا ہلاک کر دیں گے یا نا کام کر دیں گے.لیکن ان کو نظر آتا ہے کہ وہ ریشہ دوانیاں تو کرتے ہیں لیکن بے نتیجہ رہتی ہیں.ان سے وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا جو مقصد وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں.چھ مہینوں کی کوششوں کے بعد وہ نتیجہ تو یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ چھ مہینے پہلے کے مقابلہ میں اس وقت جماعت کمزور ہو گی لیکن نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جماعت کہیں سے کہیں ترقی کر کے آگے نکل چکی ہوتی ہے.پھر اُن کے چور دل یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ہماری ریشہ دوانیاں نا کام ہو گئیں.یہ امید لگاتے ہیں کہ کوئی آسمانی حادثہ نازل ہوگا.اور اس جماعت کو ہلاک کر دے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَابِرَ دوائر یعنی حوادث آسمانی کا وہ تمہارے لئے انتظار کر رہے ہیں کہ اس طرح جماعت مومنین ہلاک ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اُسے ہمارے سامنے کھول کر رکھا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے پیارے اور محبوب بندوں پر مصائب کے پہاڑ گرا دیتا ہے.یہ تو صحیح ہے مگر یہ اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ ان کو ہلاک کرے بلکہ اس لئے کہ وہ دنیا پر یہ ثابت کرے کہ یہ میرے محبوب بندے ہیں.اور اگر ان پر کوہ ہمالیہ بھی گر پڑے گا تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا مگر میرے یہ بندے نا کام نہیں ہوں گے.پس منافق وہ ہے جس کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی حادثہ ایسا رونما ہو جس کی وجہ سے جماعت ہلاک ہو جائے.کوئی بیماری پڑ جائے یا آپس میں جھگڑے پیدا ہو جا ئیں یا کسی جماعت کے ٹوٹنے کے سامان پیدا ہو جا ئیں وغیرہ وغیرہ.پتہ نہیں منافق کیا باتیں سوچتا ہوگا.لیکن اس میں بھی وہ نا کام ہوتا ہے.پھر جس وقت معاند اور دشمن اسلام، اسلام کو مٹانے کے لئے حملہ آور ہوتا ہے.مثلاً جس وقت کفار مکہ ایک ہزار لشکر جرار کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوئے.تو ان کے مقابلہ میں قریباً ایک تہائی مسلمان تھے اور قریباً نہتے تھے.مسلمانوں کے پاس کفار کے مقابلہ میں فوجی ساز وسامان بھی بہت تھوڑا تھا.اس وقت ایک منافق اس انتظار میں تھا کہ اب دشمن آ گیا ہے.چمکدار تلواریں (سییوف ہندی اس وقت بڑی مشہور تھیں ) ان کے ہاتھ میں ہیں ، گھوڑے ہیں ، اونٹنیاں ہیں ، کھانے کا سامان ہے ، جتھہ ہے اتحاد ہے، مال و دولت ہے اور ان کے مقابلہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بالکل غریب پھٹے ہوئے کپڑوں میں ٹوٹی ہوئی اور زنگ آلود تلواروں کے ساتھ کفار کے ساتھ کیا لڑیں گے.آج تو ان کے لئے سورة التو به آیت ۹۸

Page 258

سبیل الرشاد جلد دوم 239 (نعوذ باللہ ) موت کا دن ہے.چنانچہ یہ اُس وقت کا منافق تھا جو یہ کہتا تھا کہ بس مسلمان مارے جائیں گے مگر اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اس قسم کے منافقانہ خیالات کا یہ جواب دیتا ہے کہ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ) کہ ٹھیک ہے دشمن حملہ آور ہوا ہے اور تمہارے نزدیک ہماری یعنی مسلمانوں کی ہلاکت کے سامان پیدا ہو گئے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کا جو فیصلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا اس چھوٹی سی جماعت کے ساتھ جو سلوک ہے اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ نہیں کرتے کہ دشمن ہلاک کرنے کے لئے آیا ہے.بلکہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں یعنی تمہارا یہ نظریہ ہے کہ اب ہم ہلاک ہوئے کہ ہوئے.خدا تعالیٰ کے فضل کے باعث ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ تم دراصل دو اچھی باتوں میں سے ایک کا ہمارے لئے انتظار کر رہے ہو.اگر تم یہ امید رکھتے ہو کہ ہم مارے جائیں گے تو یہ تو ہمارے لئے شہادت یا عزت کا موجب ہے.شہادت کا اسلام میں بڑا درجہ ہے.اس لئے وہ یعنی شہدا ء تو بڑے انعام کے وارث بنیں گے.ناکامیوں کے وارث تو نہیں بنیں گے.ان سے ان کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کا سلوک تو نہیں کیا جائے گا.بلکہ ان سے ایک شہید کا سلوک کیا جائے گا.جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ ان کو مردہ بھی نہ کہو.جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اتنی حسین اخروی زندگی عطا کی ، کون احمق ہے جو ایسے شخص کو مردہ کہے گا ان کو مردہ نہ کہو.وہ زندہ ہیں.بلکہ وہ دوسروں کو زندگی دینے والے ہیں یعنی وہ دوسروں کے لئے ایک اسوۂ حسنہ قائم کرنے والے ہیں.دلوں میں ایک نو ر اور عقلوں میں ایک جلاء پیدا کرنے والے ہیں.اس لئے ان کو تم مردہ نہ کہو.فرمایا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ دشمن ہمیں مار کر ہلاک کر دے گا.خدا کہتا ہے تم میں سے کفار کے ساتھ لڑتے ہوئے جو لوگ مارے جائیں گے وہ تو شہید ہوں گے ان کو مردہ نہیں کہا جاسکتا.اور کچھ وہ ہوں گے جن کو شہادت نہیں ملے گی.اور وہ کامیابی کے ساتھ واپس لوٹیں گے اور دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے پیار کی جنت میں وہ داخل ہوں گے اور دنیا ان کی زندگیوں میں جنت کے نظارے دیکھے گی.منافق سمجھتے تھے کہ ہلاکت آنے والی ہے اور اس کا وہ انتظار بھی کر رہے تھے مگر مومن کو خدا نے کہا تم ان کو کہو تم إحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ کا انتظار کر رہے ہو.ہماری ہلاکت کا دراصل انتظار نہیں کر رہے یا ہمیں شہادت ملے گی یا ہمیں کامیابی ملے گی.ہلاکت کہاں سے آئے گی.ہلاکت کے لئے تو ہم پیدا ہی نہیں کئے گئے.ہلاکت ہمارے مقدر کی بات نہیں، تمہارے مقدر کی بات ہے.پس ایک منافق کی ایک بنیادی علامت یہ ہے کہ وہ مخلصین کی ہلاکت کا انتظار کرتا ہے.اپنی سورة التو به آیت ۵۲

Page 259

240 سبیل الرشاد جلد دوم ریشہ دوانیوں سے مخلصین کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے.پہلے ریشہ دوانیاں کرتا ہے پھر انتظار کرتا ہے.مگر اس کی ریشہ دوانیوں سے مومنین کو وہ نقصان نہیں پہنچتا جو وہ پہنچانا چاہتا ہے.پھر وہ یہ انتظار کرتا ہے کہ کوئی آسمانی بلا نازل ہو اور ان کو مٹا دے.چنانچہ انتظار کرتے کرتے تھک جاتا ہے تو پھر وہ دیکھتا ہے کہ معاند اپنی وحشیانہ قوت کے ساتھ مومنین پر حملہ آور ہوا ہے، جسے ہر لحاظ سے برتری حاصل ہے، ہتھیاروں کے لحاظ سے سواریوں کے لحاظ سے، دولت کے لحاظ سے، کھانے پینے کی اشیاء کے لحاظ سے.چنانچہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں مسلمانوں کے خلاف جب اس قسم کے حالات رونما ہوئے تو منافقین نے یہ سمجھا کہ اب یہ مارے گئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کی یہ امید بھی پوری نہ ہو گی.کچھ مومنین اپنی جان کی قربانی ضرور دیں گے.مومن کو یہ نہیں کہا کہ تم یہ کہو کہ کون سی تلوار ہے جو کسی ایک مومن کی گردن بھی نہیں کاٹ سکتی.خدا نے کہا گردن مومن کی کٹے گی لیکن اسلام کی گردن نہیں کٹے گی.کیونکہ اسلام مرنے کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہنے کے لئے قائم کیا گیا ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ذہنیت کیوں پیدا ہوتی ہے.یہاں منافق کی تین نشانیاں جو بیان کی گئی ہیں.ان پر میں نے غور کیا تو میری توجہ اس طرف پھیری گئی کہ یہ ذہنیت اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ مذہب سے عام طور پر اور اسلام سے چونکہ وہ ایک کامل مذہب ہے اور اس نے انسانی زندگی کا کامل احاطہ کیا ہوا ہے.منافق اسلامی احکام اور ان کی پابندی سے جان چھڑانا چاہتا ہے کیونکہ اسلام صبح تہجد کے وقت تم پر یہ حکم چلاتا ہے، کہتا ہے اٹھو اور دعائیں کرو، یہ فجر کے وقت کہتا ہے کہ نکلو اپنے بستروں سے اور جا کر مسجدوں کو آباد کرو.پھر ظہر کا وقت ہے پھر عصر کا وقت ہے پھر مغرب کا وقت ہے پھر عشاء کا وقت ہے غرض پانچ وقتوں میں تمہیں اپنے کاموں سے چھڑوا کر گھروں سے باہر نکال کر مساجد کی طرف بھجوا تا ہے.اس کے علاوہ وہ نوافل ادا کرنے کی بھی ترغیب دلاتا ہے.وہ مال و دولت کو جائز طریقوں سے کمانے کی اجازت بھی دیتا ہے اور جب ایک انسان ، مرد مومن کما لیتا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی گردن کو جھکا دیا ہے تو اس کو اسلام کہتا ہے کہ اب تم کمائے ہوئے مال کی گٹھڑی باندھ لو اور باہر نکل کر دیکھو تمہارے دوسرے بھائی کو اس مال کی ضرورت ہے.وہ یہ نہیں کہتا کہ یہ سارا مال تیرا ہے اس لئے تو خود ہی اسے کھا لے.بلکہ وہ اس پر ایک ذمہ داری ڈالتا ہے.وہ کہتا ہے کہ ایک سائل ہے.ایک محروم ہے اس کی خدا دا د قوتوں اور استعدادوں کی نشو و نما نہیں ہو رہی.مثلاً ایک لڑکا ہے جسے پڑھائی کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے یا کسی کو توانائی حاصل کرنے کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے یا کسی کو اخلاقی روشنی کے لئے پیسوں کی ضرورت ہے اور دولت کی ضرورت ہے.باہر نکل اور ان میں اپنی جائز ضرورتوں سے

Page 260

سبیل الرشاد جلد دوم 241 بچا ہوا مال تقسیم کر دے.غرض پیسے خرچ کرنے پر پابندی لگا دی.پھر اسی طرح مثلاً اوقات ہیں فرمایا وقار عمل کرو.خدمت خلق کرو.باہر نکلو لوگوں کو دیکھو ان سے دوستی پیدا کرو.وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کرو.کوئی فوت ہو جائے تو اس کے ہاں تعزیت کے لئے پہنچو.اس کے پسماندگان کی دلجوئی کرو.اپنے بھائی کے لئے مغفرت کی دعا کرو.غیروں کے لئے ہدایت پانے کی دعا کرو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہی فرمایا ہے ( مجھے حوالہ تو یاد نہیں مفہوم یاد ہے.آپ نے فرمایا ہے ) سر سے لے کر پاؤں تک اسلامی احکام تمہارے اوپر حاکم بنے ہوئے ہیں.زمانہ کو لے لیجئے اس کے لحاظ سے.مثلاً بچپن کے متعلق علیحدہ احکام دیئے گئے ہیں ، جوانی کے متعلق علیحدہ احکام دیئے گئے ہیں.بڑھاپے کے متعلق علیحدہ احکام نازل کئے گئے ہیں اور پھر انسان کے بحیثیت انسان ہونے کے اس کی ساری زندگی کے متعلق احکام دیئے گئے ہیں.صبح سے لے کر شام اور شام سے لے کر صبح تک کے احکام بیان کئے گئے ہیں.ہر چیز کو احکام کے اندر جکڑ دیا یہاں تک کہ تمہاری نیند پر بھی حکم لگا دیا اور فرمایا.وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ.ہم نے رات کو تمہارے لئے سکینت اور طاقت کو از سر نو بحال کرنے کے سامان پیدا کئے.وہ دیوانہ شخص جو یہ چاہتا ہے کہ میں دن کو روزے رکھ کر اور رات کو اپنا سر رشتی سے باندھ کر ساری رات خدا کا نام جپ کر خدا کو راضی کرلوں گا.خدا نے فرمایا نہیں کوئی انسان مجھے اس طرح راضی نہیں کر سکتا.میری بات مانو گے تو مجھے پاؤ گے.مجھے پانے کی اپنی طرف سے ہدایات بنا کر پیش کرو گے تو پھر میں تمہیں نہیں ملوں گا.کیونکہ میں تمہیں اپنا بندہ بنانا چاہتا ہوں.تم میری مرضی کے مطابق کام کرو گے تو میں اپنی ساری قدرتوں کے جلوے تم پر ظاہر کر دوں گا.لیکن اگر تم اپنی مرضی کے مطابق ایک خدا بنا کر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرو گے تو تمہارا دماغ تو کسی خدا کی تخلیق نہیں کر سکتا.اس واسطے تمہیں کچھ نہیں ملے گا.بہر حال اسلام نے ایک مسلمان اور اس کی زندگی پر اپنے گونا گوں احکام عائد کئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم نے سات سو سے زیادہ احکام تمہارے لئے دیئے ہیں.اگر تم دیدہ و دانستہ اور بغاوت کرتے ہوئے اُن میں سے ایک حکم کی بھی خلاف ورزی کرو گے تو خدا تعالیٰ کے قہر کی انگلیاں تمہاری گردن پر ہوں گی.اور تمہیں جہنم میں دھکیل دیا جائے گا.دراصل یہ قیود اور یہ پابندیاں انسان کی فطرت اور اس کی روح کو ارتقائی مدارج اور بلندیاں طے کرنے کے لئے عائد کی گئی ہیں.اب ایک منافق کسی نہ کسی طریق سے اسلام میں شامل تو ہو جاتا ہے لیکن وہ ان قیود اور ان پابندیوں کو برداشت نہیں کر سکتا.اس کی عجیب قابل رحم حالت ہوتی ہے.وہ اسلام کو مان بھی لیتا ہے

Page 261

242 سبیل الرشاد جلد دوم مگر اسلام کی طرف سے عائد شدہ پابندیوں کے نیچے اپنی گردن نہیں رکھ سکتا.اس واسطے وہ یہ انتظار کرتا ہے کہ کسی طرح چھٹکارا ہو جائے.بس قصہ ختم ہو جائے اور میں پھر اسی طرح دنیا میں عیش کرنے کے لئے آزاد ہو جاؤں.پس یہ تَرَبَّصْتُم اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ منافق اسلامی احکام بجالانے میں کوفت محسوس کرتا ہے.وہ بشاشت کے ساتھ ان احکام کو بجالانے کے لئے تیار نہیں ہوتا.اس لئے مسلمان کہلانے کے باوجود وہ اس بات کا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ کسی طرح یہ تباہ ہوں اور ہم پھر آزاد ہو جا ئیں.یہ منافق کی ایک علامت ہے جو یہاں بیان کی گئی ہے.یہ وہ بنیادی علامت ہے جو منافق کی ذہنیت سے تعلق رکھتی ہے.پھر فرمایا وَارْتَبْتُم ان کو کہا جائے گا کہ تمہارے اندر ایک اور وصف پایا جاتا ہے اور وہ تمہارے دلوں میں ریب کے ہونے کا وصف ہے.یقین کے فقدان کو ریب کہتے ہیں.منافق کو کسی بات پر یقین نہیں ہو تا قرآن کریم نے ایک دوسری جگہ از تبتُم کی تشریح بھی کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمُ يَتَرَدَّدُونَ.فرمایا منافقوں کے دل میں یہ شکوک و شبہات اور یقین کا فقدان اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فتح و ظفر کی جو بشارتیں دی ہوں اُن کے ساتھ انہیں یقین پیدا نہیں ہوتا.تو چونکہ ان کو آخری کامیابی پر یقین نہیں ہوتا.اس لئے درمیانی عرصہ میں قربانیاں دینے کے لئے منافق تیار نہیں ہوتا.جب کہ مومن کی ساری قربانیاں اور اس کا مجاہدہ یقین کی بنیاد پر کھڑا ہوتا ہے.جس شخص کو یہ پتہ ہو کہ مثلاً سوگز کی دوڑ صرف مجھے تھکانے کے لئے کی گئی ہے.اس کا جو انعام ہے وہ مجھے نہیں ملے گا تو اسے اس دوڑ سے کوئی دلچسپی نہیں ہوگی.لیکن اگر اس دوڑ میں ہی آپ کہیں کہ سونے کا تمغہ ملے گا تو پھر اس دوڑ میں ایک کی بجائے سولر کے شامل ہوں گے.تو نتیجہ کی کامیابی پر یقین کام کرنے کی جرات اور قربانیاں دلاتا ہے لیکن منافق چونکہ اللہ تعالیٰ کی بشارتوں پر ایمان نہیں لاتا یعنی وہ بشارت جو آخری کامیابی یعنی فتح وظفر کے متعلق ہے اس کے پورا ہونے پر اُسے یقین نہیں ہوتا اس لئے جو درمیانی عرصہ کے مختلف امتحان اور مصائب ہیں ان کو وہ برداشت نہیں کرتا.ان سے گھبراتا ہے.حالانکہ اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے امت محمد یہ کو کامیابی کی بشارتیں دی ہیں اور اخروی زندگی میں جنت کا بھی وعدہ دیا گیا ہے.جو شخص آخرت پر حقیقی ایمان نہیں لائے گا اور یہ نہیں سمجھے گا کہ واقع میں کوئی جنت ہے اور وہ اتنی حسین اور اتنی اعلیٰ اور اتنی سورۃ التوبہ آیت ۴۵

Page 262

243 سبیل الرشاد جلد دوم عمدہ اور اتنی آسائشوں اور مسرتوں اور سرور والی ہے کہ جس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ ان خوبیوں کا تم اس دنیا میں تصور بھی نہیں کر سکتے.اگر اس پر یقین نہیں تو اس جنت کے حصول کے لئے کوئی کوشش کیوں کرے گا.اگر منافق کو اس دنیا میں آخری کامیابی پر یقین نہیں تو وہ قربانیاں کیوں دے گا.وہ بدر کے میدان سے واپس آ جائے گا.وہ احد کے میدان میں فتنہ بپا کرے گا.اور غداری کرے گا.وہ ہر ایسے موقع پر جہاں انتہائی جانی قربانی کا خطرہ پیدا ہو گا.وہ اس میں شامل نہیں ہو گا.اس لئے کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ جنگ یہاں ہار جانی ہے اور اخروی زندگی میں کوئی جنت نہیں ہے.پس شکوک و شبہات کے نتیجہ میں منافق کے اندر کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں اور وہ قربانیاں دینے سے گریز کرتا اور ہچکچاتا ہے.فرمایا اُس وقت یعنی میدان حشر میں کہا جائے گا کہ تم نے شک کیا.لیکن یہاں کہتے ہو کہ ہم بھی تمہارے ساتھ تھے، ہمیں بھی اپنے نور کا حصہ دو اور وہاں تم کہتے تھے کہ مرنے کے بعد جنت ہے ہی کوئی نہیں.جب انسان مر جائے گا تو سارا قصہ ختم ہو جائے گا.آج تمہیں کیسے نور مل جائے گا.اس ریب کی وجہ سے جو تم اس دنیا میں کرتے رہے ہو اور جس کے نتیجہ میں تمہیں قربانیاں کرنے کی توفیق نہیں ملی بلکہ تمہیں نفاق کی توفیق ملی جس کی سزا تمہارے سامنے ہے.پس دوسری چیز جو منافق میں پائی جاتی ہے.وہ یہ ہے کہ چونکہ اس کو اللہ تعالیٰ کی فتح و نصرت اور جنتوں اور اس کی رضا کے حصول کے وعدوں پر یقین کامل نہیں ہوتا اور وہ شک میں پڑا ہوتا ہے.کبھی اسے شبہ پڑ جاتا ہے.یعنی اس کی حالت لَا إِلى هؤلاء وَلَا إلى هؤلاء کی مصداق ہوتی ہے.کبھی وہ کہتا ہے کہ شاید یہ بات صحیح ہوا اور کبھی اس کا دل کہتا ہے کہ شاید یہ بات صحیح نہ ہو.اس واسطے وہ مسلمان بھی رہنا چاہتا ہے اور قربانیوں سے بچنا بھی چاہتا ہے.وہ کبھی یہ نہیں سوچتا کہ کیا وجہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مخلصین صحابہ نے میدان جنگ میں ذاتی خوشی اور بشاشت سے اپنی جانوں کو خدا کے حضور پیش کیا کہ اتنی خوشی اور بشاشت سے ایک شخص اپنے سونے والے کمرہ سے اپنے بیٹھنے والے کمرہ میں نہیں آتا.یہ یقین کامل کا نتیجہ تھا.جتنا ان کو یہ یقین تھا کہ آج ہم زندہ ہیں اور میدانِ کارزار میں دشمن کا دفاع کرنے کے لئے آئے ہوئے ہیں اتنا ہی ان کو یہ یقین تھا کہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی ہے اور دوزخ اور جنت برحق ہے ہم اٹھائے جائیں گے اور اسی دن فیصلہ کیا جائے گا.اللہ تعالیٰ کا قہر ہمارے مقدر میں ہو گا یا اس کی رضا اور اس کا پیار ہمارے مقدر میں ہوگا.قہر کا تصور ، اگر واقع میں اللہ ہے، اگر واقع میں مرنے کے بعد ایک اور زندگی ہے.اگر واقع میں اس زندگی میں یا قہر یا رضا اور محبت کے جلوے ظاہر ہوں گے تو ایک لمحہ کے لئے انسان یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ اللہ کے قہر کو قبول کرے.

Page 263

سبیل الرشاد جلد دوم 244 اس لئے وہ قربانی دیتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کے غضب اور اس کے غصہ سے بچنے کے لئے قربانی دیتا ہے اور وہ قربانی پر قربانی دیتا ہے اس کے پیار اور اس کی رضا کے پانے کے لئے.لیکن منافق شک میں پڑا رہتا ہے.اسے اس بات کا یقین ہی نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے پیار کے نتیجہ میں جنت ملے گی.تاہم کبھی کوئی نشان دیکھ لیتا ہے تو سمجھتا ہے شاید یہ صیح ہے.پھر جب اس سے قربانی کا مطالبہ ہوتا ہے تو کہتا ہے شاید غلط ہے میں اپنے پیسے کیوں ضائع کروں، ہمیں اپنے جسم کو کیوں تکلیف میں ڈالوں.کیوں میں اپنی بیوی اور بچوں کی مفارقت برداشت کروں.میں کیوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد پروانہ وار چکر لگاؤں؟ غرض یہی شک ہے جو منافق کو قربانیاں دینے اور ایثار دکھانے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں فدا ہو جانے اور خدا کے لئے ایک موت کو قبول کر کے ایک نئی اور پیاری زندگی پانے میں روک بنتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَار تَبتُم قیامت کے دن ان کو کہا جائے گا.کہ تم اس بات میں شک میں پڑے ہوئے تھے کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی بھی ہے، مرنے کے بعد کسی جنت کے ملنے کا امکان بھی ہے، مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے سامان بھی پیدا کئے گئے ہیں.اور اس کے نتیجہ میں تم نے قربانیاں نہیں دیں.تم نے وہ مطالبات پورے نہیں کئے جو تم سے تمہارے پیدا کرنے والے رب نے کئے تھے.مگر آج تم یہ کہتے ہو کہ ہمارا وہ رب جس پر تمہیں ایمان ہی نہیں تھا تم سے وہ وعدے پورے کر دے جو اس نے مخلصین مومنین کے ساتھ کئے تھے.یہ تو نہیں ہوسکتا.وعدہ تو مخلص کے ساتھ ہے.وعدہ تو یقین کامل پر قائم ہو کر خدا کی راہ میں قربانیاں دینے والے کے لئے ہے.تمہیں اس کی توفیق نہیں ملی تم نے اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے جہنم کے دروازوں کی چابیاں بنائیں اور ان چابیوں کو لے کر آج تم میدان حشر میں اکٹھے ہو گئے ہو.اب اس چابی سے جو تم نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہے صرف جہنم کا قفل کھول سکتے ہو.اس سے جنت کا قفل نہیں کھل سکتا.اس کے لئے اور چابی درکار ہے.آج تم کو جنت کیسے مل جائے گی.آج تمہیں جہنم سے دور کیسے رکھا جا سکتا ہے.پس قرآن کریم نے منافق کی دوسری صفت یہ بتائی ہے کہ وہ یقین کامل پر قائم نہیں ہوتا.اس میں آگے ایک چھوٹا سا فرق ہے لیکن اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاسکتا.ورنہ دیر ہو جائے گی.قرآن کریم نے کمزور ایمان والے اور منافق میں بھی فرق کیا ہے.بہر حال جو منافق ہے وہ شکوک و شبہات میں مبتلا رہتا ہے اور وہ یقین سے دور ہوتا ہے اسی لئے وہ قربانی نہیں دیتا.یہ ایک پکی بات ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا.ہماری عقل اسے تسلیم کرتی ہے کہ جب تک کسی بات پر یقین نہ ہو.اس وقت تک اس کے لئے صحیح معنوں میں اور پورے طور پر قربانی نہیں دی جا سکتی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا

Page 264

سبیل الرشاد جلد دوم 245 ہے.اِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ جہاد میں جانے کا موقع پیدا ہوتا ہے تو کہتے ہیں ہمیں اجازت دے دیں.ہم آپ کے ساتھ جہاد کے لئے باہر نہ نکلیں.یہ ان لوگوں کا کام ہے جن کا ایمان پختہ نہیں ہوتا.اور جو یوم آخرت کو یقین کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جس کے نتیجہ میں ارتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ اس وجہ سے وہ اس مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم ہو جاتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ نے ایک منافق کی تیسری صفت یہ بتائی ہے غَرَّتْكُمُ الْاَمَانُ حَتَّى جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُمْ بِاللهِ الْغَرُورُ شیطان ایک منافق کے دل میں دنیا اور اس کے سامانوں کی محبت اور پیار پیدا کر دیتا ہے.جھوٹی طمع پیدا کر کے اس کو دھوکا دیتا ہے اور ایک پکا مسلمان جو اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت اور اس کی صفات کا عرفان رکھتا ہے وہ شیطان کو کہتا ہے کہ جاؤ ہم تمہارے فریب میں نہیں آ سکتے.لیکن منافق اس کے فریب میں آ جاتا ہے اور دنیا اور دنیا کے اموال اور دنیا کی زمینیں اور دنیا کی وجاہتیں اسے اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں.ایک جھوٹی طمع ہے جو ا سے دلائی جاتی ہے اور ایک جھوٹی طمع ہے جسے منافق قبول کر لیتا ہے اور خدا کا دوست بننے کی بجائے وہ شیطان کا دوست بن جاتا ہے.یہ حیاتِ دنیا سے دلچسپی اور پیار اور دنیا کی نعمتوں پر فریفتہ ہونے کی جو صفت ہے یہ منافق میں پائی جاتی ہے اور یہ مومن میں نہیں پائی جاتی اور اس کے نتیجہ میں ایک منافق اپنی عملی زندگی میں مذہب اسلام کو ایک مشغلہ اور کھیل بنا لیتا ہے.وہ اسے ایک بنیادی حقیقی اور ابدی صداقت نہیں سمجھتا اور نہ اسے اسلام کی اس بنیادی صداقت کو سمجھنے کے نتیجہ میں ایک مسلمان پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کا احساس ہی ہوتا ہے.اس لئے وہ دنیا دارانہ خیالات میں بہہ جاتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورہ انعام میں فرمایا وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَ لَهُوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيوةُ الدُّنْيَا ) یعنی ورلی زندگی نے ان کو دھوکا میں ڈالا ہوا ہے.اے رسول تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دے یعنی تو ان کی فکر نہ کر ہم ان کے شر سے محفوظ رہنے کے سامان پیدا کر دیں گے.پس یہ تیسری بنیادی حقیقت ہے کہ خواہشات ردّیہ جن کا تعلق دُنیا کی چھوٹی چھوٹی اور عارضی لذتوں سے ہے ایک منافق ان کا شکار ہو جاتا اور اس طرح وہ ابدی سرور اور لذت سے محروم ہو جاتا ہے.شیطان اسے دھوکا دیتا اور یہ شیطان کے دھوکے میں آ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا دوست بننے کی بجائے وہ شیطان کا دوست بن جاتا ہے.شیطان تو ہے ہی دھوکا دینے والا.اس کا تو دوسرا نام ہی غُرُور ہے.یعنی دھوکا دینے والی ہستی.وہ پہلے دھوکا دیتا ہے اور پھر قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ آتا ہے کہ سورہ انعام آیت اے

Page 265

246 سبیل الرشاد جلد دوم وہ اپنی بریت کا اعلان کر دیتا ہے.کہتا ہے میں نے تو تمہیں ایک بات کہی تھی تم نے کیوں مانی تھی.میں نے تمہارے ساتھ فریب کیا تھا تم میرے فریب میں کیوں آگئے.آج میرے اوپر کیا الزام دیتے ہو.اللہ تعالیٰ نے سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے کی تمہیں قوت عطا کی تھی تم نے کیوں استعمال نہ کی.وہ بالکل بُری ہو جاتا ہے.اور منافق کے لئے جہنم کا دروازہ کھول دیتا ہے.شیطان پرے ہو کر بیٹھ جاتا ہے.گو اُس نے بھی جہنم میں جانا ہے.لیکن وہ منافق کو تو یہی کہتا ہے کہ میں تجھے جہنم میں نہیں لے کر آیا.تیری بد بختی تھی کہ تو میرا دوست بن گیا اور میں کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوں میری تیری کوئی دوستی نہیں.جہنم میرے لئے بھی ہے لیکن میں تو تیرے ساتھ جہنم میں رہنا بھی پسند نہیں کرتا.شیطان لعین میں معلوم ہوتا ہے اتنی غیرت ضرور ہے کہ وہ جن کو دھوکا دیتا ہے اور جو اس کے دھوکے میں آ جاتے ہیں.اپنی دوستی کا ہر وقت انکار کرنے کے لئے تیار رہتا ہے.لیکن بعض انسانوں میں بدقسمتی سے بعض دفعہ اتنی غیرت بھی نہیں ہوتی.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تیسری چیز جو تم منافق میں دیکھو گے وہ یہ ہے کہ وہ شیطان کا دوست بن جائے گا اور ورلی زندگی کی عارضی خواہشات اس کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیں گی اور جو ضروری باتیں اور بنیادی صداقتیں ہیں ان کی طرف سے ان کی توجہ ہٹ جائے گی.اور خدا کی بجائے شیطان کی طرف اس کا رخ ہو جائے گا.اور ٹور کی بجائے اندھیروں کی طرف وہ اپنے مکان کی کھڑکیاں کھول دے گا.اور ظلمات سے اس کا مکان بھر جائے گا.نور کی کوئی کرن وہاں داخل نہیں ہوگی اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس کا ٹھکانا فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ بنادے گا یعنی جہنم میں جو سب سے زیادہ تکلیف دہ مقام ہے وہ ایک منافق کا ٹھکانا بن جائے گا.غرض سورہ تو بہ کی ان آیات میں منافقوں کے متعلق اور بھی کئی باتیں بڑی تفصیل سے بیان ہوئی ہیں میں نے اس وقت صرف تین بنیادی باتوں کو لیا ہے.ان کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب مضمون بیان فرمایا ہے.اس طرح لگتا ہے کہ گویا سننے والوں، ایمان لانے والوں، پڑھنے والوں اور قرآن کریم پر غور و فکر کرنے والوں کا زبر دستی پکڑ کر منہ دوسری طرف پھیر دیا گیا ہو.ایک نیا مضمون کھل کر ہمارے سامنے آجاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آخر میں فرماتا ہے: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمُ حَرِيصٌ عَلَيْكُمُ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُه سورہ النساء : ۱۴۶ سوره التوبه : ۱۲۸

Page 266

سبیل الرشاد جلد دوم 247 اللہ تعالیٰ منافقین سے فرماتا ہے کہ دیکھو کہ تم شیطان کے دوست بن جاتے ہو حالانکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو تمہاری نجات کے لئے مبعوث کئے گئے ہیں ان میں یہ صفات پائی جاتی ہیں اور پھر خلی طور پر، کیونکہ قرآن کریم تو قیامت تک ہے اس کی کوئی آیت کسی زمانہ میں بھی منسوخ نہیں ہو سکتی.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ بس یہاں تک اس کا دائرہ عمل تھا اور اس کے آگے قابل عمل نہیں.اس کا دائرہ عمل قیامت تک ممتد ہے.تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات حسنہ ہیں وہ آپ کے پیاروں اور آپ سے انتہائی پیار کرنے والوں اور آپ کے تابعین میں بھی پائی جاتی ہیں.چنانچہ منافقین کی ان تین علامتوں کے بتانے کے بعد جو شیطان ان میں پیدا کرتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں انہی کے ساتھ تعلق رکھنے والی تین صفتیں پائی جاتی ہیں اور وہ زیادہ اچھی ہیں.ایک یہ کہ تَرَبَّصْتُم یعنی قرآن عظیم کے قوانین، احکام اور اوامر و نواہی کی قیود اور پابندیوں کو قبول کرنے میں ایک ہچکچاہٹ کا پیدا ہونا ( یہ تو تَرَبَّصُتُم کی رُو سے منافق کی علامت بتائی گئی تھی ) تو شیطان کہتا ہے کہ تو کیوں اتنی قیود اور اتنی پابندیوں اور اتنے احکام کے نیچے اپنی گردن رکھتا ہے.اس طرح تو تم نقصان اٹھاؤ گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم یہ دیکھو تمہاری طرف ایک ایسا رسول آیا ہے.عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ کہ تمہارا تکلیف میں پڑنا اس کو شاق گزرتا ہے یہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو ہے کہ آپ کسی کی تکلیف کو برداشت نہیں کر سکتے تھے اور ہر کسی کی تکلیف کو دور کرنے کے لئے حتی المقدور کوشاں رہتے تھے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے گروہ منافقین شیطان تمہیں یہ کہتا ہے کہ اگر تم اسلامی احکام کی پابندی کرو گے تو تکلیف میں پڑ جاؤ گے کیونکہ اتنی قیود ہیں اور اتنی پابندیاں ہیں کہ ان کو برداشت نہیں کیا جا سکتا.مگر کیا تم یہ دیکھتے نہیں کہ جس نبی پر ، جس رسول پر جس خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کلام ، یہ شریعت اور یہ ہدایت نازل ہو رہی ہے.اس کی فطرت کتنی اچھی ہے کہ تمہارا تکلیف میں پڑ جانا اس پر شاق گزرتا ہے.اگر یہ احکام تمہیں تکلیف میں ڈالنے والے ہوتے تو وہ ان کو کبھی تمہارے سامنے پیش نہ کرتا.پھر تو یہ ایک کھلا تضاد ہوتا کہ قرآن کریم کچھ کہتا ہے اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ اور کہہ رہے ہیں اسی لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو دیکھنا ہو تو قرآن کریم کو دیکھ لو.آپ کا جو اسوۂ حسنہ قرآن کریم کے الفاظ میں بیان ہوا ہے آپ کی عملی زندگی اسی کی تصویر ہے.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا قرآن کریم کے احکام تمہیں تنگی میں ڈالنے والے نہیں بلکہ تمہارے لئے میسر اور فراخی کے سامان پیدا کرنے کے لئے ہیں تمہیں دھوکا دینے کے لئے نہیں تمہارے سامنے اس حکیم کتاب نے ہر چیز کھول کر بیان کر دی ہے.اپنی عقلوں سے کام لوتو

Page 267

wwww 248 سبیل الرشاد جلد دوم فرمایا کہ شیطان تمہیں یہ کہتا ہے کہ ان احکام کو قبول کر کے اپنے لئے تنگی کے سامان پیدا کرو گے لیکن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو احکام لے کر آئے ہیں ان کی زندگی کو تم دیکھو.تمہیں نظر آئے گا کہ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ تمہارا تکلیف میں پڑنا اس کی طبیعت پر شاق گذرتا ہے.شیطان تمہیں کہتا ہے کہ یہ تو یقینی بات نہیں ہے کہ جو تمہیں کہی گئی ہے یعنی واز تَبتُم کہ شائد تمہیں ملے یا شائد تمہیں نہ ملے.فرمایا اگر یقینی بات نہ ہوتی تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت تمہیں قرآنی ہدایت پیش نہ کرتی کیونکہ آپ کی فطرت میں ہے حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ وہ تو تمہارے لئے خیر و برکت کا بھوکا ہے تم قربانیاں دینے سے اس لئے گھبراتے ہو کہ تمہیں شک ہے کہ ان کا اچھا نتیجہ نہیں نکلے گا اگر ان قربانیوں کا اچھا نتیجہ نہ نکلنا ہوتا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت تمہارے سامنے ان قربانیوں کا مطالبہ نہ کرتی اس واسطے کہ آپ کی فطرت میں ہے کہ آپ کے لئے خیر و برکت کا متمنی ہو.مگر شیطان تمہیں غَرتُكُمُ الْآمَانِيُّ - وَغَرَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ کی رو سے امید دلاتا ہے لیکن چونکہ شیطان تم سے محبت نہیں کرتا وہ تمہیں جھوٹی امید میں دلاتا ہے اور ہماری عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ جو شخص کسی کو جھوٹی امید دلائے وہ محبت کرنے والا نہیں ہوتا.جھوٹی امیدیں دلانے سے ، امید دلانے والے کی محبت ظاہر نہیں ہوتی.بلکہ اس شخص کے ساتھ لاتعلقی یا ایک قسم کی دشمنی ظاہر ہوتی ہے.وہ یہ کہتا ہے کہ جو مرتا ہے وہ مرے مجھے اس سے کیا غرض ؟ پس شیطان کی طرف سے یہ چیز تو ظاہر ہوتی ہے.لیکن اس کا پیار ظاہر نہیں ہوتا.لیکن حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تم یہ مشاہدہ کرتے ہو کہ آپ مومنوں کے ساتھ حد درجہ محبت کرنے والے تھے اور ان پر بہت کرم والے تھے اگر شیطان کی دلائی ہوئی امید میں اور جھوٹی طمع درست اور قابل اعتنا ہوتی تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت اس کی مخالف تمہارے سامنے کوئی بات نہ کرتی.تمہارے سامنے ان وعدوں اور بشارتوں کا رکھ دینا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو رؤف اور رحیم ہیں یہ بتاتا ہے کہ ان میں شک کی کوئی گنجائش نہیں.پس اے میرے بھائی! اگر ایک دشمن تیرے ہاتھ میں زہر کا پیالہ دے اور تجھے یہ پتہ نہ ہو کہ یہ زہر ہے.یا تریاق ہے تو تیرے دل میں یہ شبہ پیدا ہوگا کہ میں اس کو پیوں یا نہ پیوں.کیونکہ تُو جانتا ہے کہ وہ شخص تیرا دشمن ہے.لیکن تیرا باپ تیرے ہاتھ میں ایک پیالہ دے اور کہے کہ یہ دوائی ہے کیا تو اس محبت کرنے والے باپ کی بات ماننے سے انکار کر دے گا؟ اور کیا تو یہ کہے گا کہ مجھے تو پتہ نہیں اس میں کیا ہے کیوں پتہ نہیں؟ یہ یقین تو اس خدا نے تیرے دل میں پیدا کیا ہے.جس کے دست قدرت نے تیرے لئے شفا کا پیالہ پکڑا ہوا ہے.اگر تو نے اس پیارے وجود صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی زندگی میں رافت اور رحمت کے نمونے دیکھے ہیں ، صرف اپنوں کے لئے نہیں بلکہ عالمین کے لئے رحمت کے نمونے

Page 268

249 سبیل الرشاد جلد دوم دیکھے ہیں تو اس پیالہ میں جو چیز اس کا ہاتھ آگے بڑھاتا ہے تو آگے بڑھ اور شوق کے ساتھ لے اور اسے پی جا.کوئی شک نہ کر بلکہ تو اس یقین کے ساتھ پی جا کہ جیسا کہ قرآن کریم نے اس کا دعویٰ کیا ہے اس میں تیرے لئے شفا کا سامان پیدا کیا گیا ہے.پس یہ تین بنیادی باتیں ہیں جو شیطان ، منافق کے دل میں پیدا کرتا ہے ان تین باتوں کا جواب جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت میں نمونہ نظر آتا ہے اسے قرآن کریم نے مندرجہ بالا آیہ کریمہ میں پیش کیا ہے.اور پھر منافق کو جو آج زندہ ہیں یا ان کو جو کل زندہ ہوں گے.تاہم جو مر گئے ہیں ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں.لیکن جو آج زندہ ہیں ان کے ساتھ ہمارا تعلق ہے.جو آئندہ ہوں گے ان کے ساتھ ہماری جماعت کا تعلق ہے کیونکہ قیامت تک کی تگ و دو اور قیامت تک کے جہاد اور مجاہدہ کرنے کا کام جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالا گیا ہے.پس منافقین سے ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں اور آپ کی فطرت میں یہ تین چیزیں تمہیں نظر آتی ہیں اور یقیناً نظر آتی ہیں تو پھر تو تم بتاؤ کہ تمہاری عقل کیا کہے گی؟ اس کے باوجود تمہیں شیطان کی طرف جھکنا چاہئے یا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جمع ہو جانا چاہئے.تمہاری فطرت صحیحہ کا یہی صحیح جواب ہوگا کہ اگر یہ صحیح ہے اور یقینا صحیح ہے تو پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطان لعین پر بہر حال ترجیح دینی پڑے گی.دوست دعا کریں کہ منافقوں کو یہ بات سمجھ آ جائے اللہ تعالیٰ نے بلا وجہ اور بغیر کسی مصلحت کے تو یہ نہیں فرمایا کہ منافقوں کو سال میں ایک دو دفعہ آزمائش میں ڈالنا چاہئے.کیونکہ ہمارا تجربہ ہے کہ پانچ چھ مہینے کی یا بعض دفعہ آٹھ دس مہینے کی خاموشی ہو تو پھر جس طرح جنگلی چوہا اپنے بل سے منہ باہر نکالتا ہے منافق بھی اپنے بل سے منہ باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے.اور وہ نہیں جانتا کہ جنہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ان صفات کے جلوے اپنی زندگیوں میں دیکھے ہیں وہ تمہارے فریب میں کبھی نہیں آ سکتے وہ تمہارے لئے دعائیں کریں گے وہ تمہاری اصلاح کی کوشش کریں گے.وہ تمہاری خدمت کریں گے کیونکہ تم بھی خدا کی مخلوق ہو.مگر وہ تمہارے دھوکا میں نہیں آئیں گے.اور تمہیں سمجھا ئیں گے کہ دیکھو شیطان کے چیلے نہ بنو.بلکہ خدائے رحمان کے دوست بنو.خدا نے کہا اور بڑے پیار سے کہا ( آدمی سوچتا ہے تو جذبات میں آ جاتا ہے کہ اتنی عظیم ہستی اور ہمیں کہے ) کہ میں تمہارا دوست ہوں.تم خدائے واحد یگانہ ، قادر مطلق کے دوست بنے کی اہلیت رکھتے ہو.اپنے نفسوں کو ٹو لو.میں تو جب بھی اپنے نفس کو ٹو لتا ہوں.تو یہی جواب آتا ہے کہ نہیں اے خدا! میرے اندر کوئی اہلیت نہیں تھی یہ سب تیر افضل اور تیری

Page 269

سبیل الرشاد جلد دوم 250 رحمت ہے پس ہم اس خدا کی طرف جھکیں گے ہمیں شیطان مردود سے کیا تعلق اور کیا واسطہ.سوائے اس کے جن کی گردن اس کے ہاتھ میں ہے.اس وقت ہم آگے بڑھیں گے اور شیطان کا پنجہ پکڑ کر اس کو ان کی گردن سے ہٹانے کی کوشش کریں گے.تا کہ ہمارا ایک دوسرا بھائی اس کے شر سے محفوظ ہو جائے.ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں اس کے یعنی منافقت کے بداثرات کو مٹانا ہمارا اصل مقصد ہے.اب پھر میرے کانوں میں کچھ منافقوں کی بعض باتیں پڑی تھیں تو میری توجہ اس طرف پھری کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ سال میں ایک دوبار ان کو آزمائش میں ڈالا کرو.ان کے متعلق قرآنی احکام بیان کیا کرو.سو میں نے آج کچھ احکام بیان کر دیئے ہیں.خدا تعالیٰ نے ان آیات کی طرف توجہ پیدا کی جب میں نے ان آیات کا آپس میں جوڑ کے متعلق غور کیا تو مجھے بڑا لطف آیا.اللہ تعالیٰ بڑا اچھا اور بہترین معلم ہے میں منافقوں کے متعلق پڑھ رہا تھا کہ اتفاقاً میری نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تین خوبیوں پر پڑ گئی ویسے تو منافقین کے متعلق سورۃ توبہ میں تفصیل سے بیان ہوا ہے.لیکن سورہ حدید میں ان کی ان علامتوں کو اکٹھا کر دیا گیا ہے.پس قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے یہ اتنی عظیم کتاب ہے کہ اس کی عظمت کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے.اس لئے اس سے پیار کریں.آنکھیں بند کر کے پیار کریں کیونکہ جب بھی آپ نے آنکھ کھولی.اس کی عظمت کو اور بھی زیادہ بڑھا ہوا پایا.کسی کو اس کا دھوکا نہیں لگ سکتا.جو چیز ٹھنڈی ہے اور اس کی ٹھنڈک کو آپ کی انگلیوں نے محسوس کیا ہے اس کے بعد آپ اس گلاس میں جس میں وہ چیز پڑی ہوئی ہے آنکھیں بند کر کے ہاتھ ڈال دیں گے.جو چیز پھینک رہی ہے اور اس کا ذرا سا بھی چھینٹا پڑ جائے تو آپ کو اس کی جلن محسوس ہوتی ہے.آپ آنکھیں بند بھی کریں تو اس کی طرف آپ کا ہاتھ نہیں بڑھے گا.غرض قرآن کریم کی عظمت کو ہم نے خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا.قرآن کریم کی عظمتوں کو اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کیا.ہم نے قرآن کریم کی مٹھاس اپنی زبان سے چکھی.اس کی سریلی آواز کو ہمارے کانوں نے سنا.اس کی نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی خوشبو کو ہمارے ناکوں نے سونگھا.ہمارے سارے حواس اس کی عظمت کے قائل اور اس کی بڑائی کے مداح ہیں.اس کو ہم نہیں چھوڑ سکتے.قرآن کریم ہمیں یہ کہتا ہے اور وضاحت سے بیان کر کے کہتا ہے اور کوئی الجھن اور شک باقی نہیں چھوڑتا.چنانچہ منافقین کے اس بیان میں بھی کہتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ یہ خوبیاں ہیں (جس کی تفصیل قرآن کریم نے دوسری جگہ بھی بیان کی ہے ) ان خوبیوں کے بعد شیطان اگر اس کے برعکس وسوسہ پیدا کر کے اور شکوک وشبہات پیدا کر کے نفاق پیدا کرنا چاہے تو تم شیطان کو دھتکار دو.کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ محمد ہست بر ہان محمد

Page 270

251 سبیل الرشاد جلد دوم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات وصفات ، آپ کی انسانی خدمات ، آپ کا احسان اور وہ حسن جو خدا نے آپ کے اندر پیدا کیا وہ اس بات کا شاہد ہے کہ جب کوئی چیز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت یا خوبی کے یا آپ کے کسی حسن و احسان یا آپ کے کسی نور کے مقابلہ میں آئے گی تو دھتکار دی جائے گی.اسے ہم نے نہیں لینا.منافقوں کو بھی یہ سمجھاؤ.ہم کو قرآن کریم نے جیسا کہ فرمایا.إِحْدَى الْحَسْنَین گووه ایک خاص Context میں کہا گیا ہے.لیکن جب دشمن سے لڑائی ہو تو اس وقت دو ہی چیزیں ہوتی ہیں.یا شہادت یا ظفر اور کامیابی ملتی ہے.تیسری چیز کوئی نہیں ہوتی لیکن خدا تعالیٰ نے تو ہمارے ساتھ اتنے حسن کے ، اتنی خوبیوں اور اچھائیوں کے وعدے کئے ہیں کہ ان کا شمار کوئی نہیں.ہر ضمن میں ہر زاویہ نگاہ سے آپ دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہم پر خدا تعالیٰ کی بے شمار مہر بانیاں ہیں.قرآنِ کریم نے کہا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کے احسانوں کو گننا چاہو تو نہیں گن سکو گے.بارش کے قطرے گنے جا سکتے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کے احسانات اور اس کی نعمتوں کو نہیں گنا جا سکتا.خدا تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مبارک وجود ہم پر احسان کرنے کے لئے ، خدا کے حسن کے جلوے اپنی زندگی میں ہمیں دکھانے کے لئے مبعوث کیا تھا.آپ کی تعلیم کے مقابلہ میں منافق کے دل میں شیطان بنیادی طور پر یہ تین بدصفات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.لیکن ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کے جلوے دیکھے ہیں.ہم یہ جانتے ہیں کہ شیطان شیطان ہے.وہ جعل سازی کرتا ہے.دھو کے دیتا ہے اور فریب کرتا ہے جو لوگ اپنی بدقسمتی کے نتیجہ میں یہ نہیں سمجھتے ان کو فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ، سے بچانے کے لئے آپ کو چوکس اور بیدار رہ کر اُن کی اصلاح کی کوشش کرنی پڑے گی.تا اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ یہ ذمہ داری بھی میں اور آپ خدا تعالیٰ کے فرمان اور منشاء کے مطابق نباہ سکیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.یہ اجتماع آج ختم ہو رہا ہے.آخری رپورٹ جو مجھے پہنچی ہے اس کے مطابق خدام الاحمدیہ اپنی مجالس کی تعداد کے لحاظ سے ( جو اس دفعہ اجتماع میں شامل ہوئی ہیں ) دو مجالس آپ سے آگے نکل گئی ہے.اور آپ دو مجالس سے پیچھے رہ گئے ہیں.میں نے لجنہ اماءاللہ کو کل خطاب کیا تھا.اس میں میں نے ان کو بتایا تھا کہ اپنا دائرہ خدمت بڑھاؤ.عورتوں کی بعض مجبوریاں ہیں اس واسطے جب ہم مجالس کی طرف سے شمولیت اور ان کی حاضری کو دیکھتے ہیں تو اس معیار پر ہم ان کو نہیں پر کھ سکتے.لیکن بہر حال جس حد تک ممکن ہو ان کو بھی زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے اجتماع میں شامل ہونا چاہئے.چنانچہ اس دفعه لجنہ کی ۱۵۱/۱۵۰ مجالس لجنہ اماءاللہ کے اجتماع میں شامل ہوئی ہیں.یہ تعداد پہلے کے مقابلہ میں بہت

Page 271

سبیل الرشاد جلد دوم 252 زیادہ ہے.ایک جان ، ایک جسم ، ایک روح کے ساتھ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو نباہنا ہے.اس واسطے ہمارے کام میں گہرائی بھی ہونی چاہئے.اور ہمارے کام میں وسعت بھی ہونی چاہئے.ہمیں ہر کام بہت اچھی طرح بھی کرنا چاہئے.اور خوب پھیلا کر بھی کرنا چاہئے.پھر جیسا کہ میں نے بتایا تھا کہ آپ خدمت بنی نوع کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور ہمارے عمل کا دائرہ اور حدودا پنی زندگی تک یا اپنے ملک کی زندگی تک محدود نہیں ہے بلکہ ہمارا دائرہ عمل عوام الناس کی زندگیوں کے دائرہ عمل اور دائرہ حیات تک ممتد ہے.پس آپ ( یعنی انصار اللہ ) بھی اپنی خدمت کا دائرہ بڑھائیں اور میری ایک خواہش ہے اگر آپ پورا کر دیں تو شاید آپ کے سامنے اس خواہش کے اظہار کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی رحم کرے اور آپ پر بھی رحم کرے گا.وہ یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں پاکستان کے ہر گاؤں میں کم از کم ایک قرآن کریم ہمارا چھپا ہوا پہنچ جانا چاہئے.وہ سادہ ہو گاؤں کے حالات کے لحاظ سے یا وہ ترجمہ والا ہو.مختلف جگہوں کے مختلف حالات ہوتے ہیں.بعض ایسے گاؤں بھی ہیں جہاں ایک آدمی بھی قرآن کریم نہیں پڑھ سکتا.یہ مسلمانوں کی بدقسمتی ہے ہماری دعا ہے اللہ تعالیٰ اس کو خوش قسمتی میں بدل دے.بہر حال قرآن کریم کا کم از کم ایک نسخہ ہر گاؤں میں پہنچ جانا چاہئے.یہ کوئی ایسا بڑا کام نہیں ہے.اس طرح ستر اسی ہزار یا ایک لاکھ قرآن کریم کے نسخے تقسیم کرنے پڑیں گے.اللہ تعالیٰ سامان پیدا کر رہا ہے.ہماری بہنیں یعنی لجنہ کی جو ممبرات ہیں وہ آپ کے ساتھ ہر قربانی میں بھی شامل ہیں.مثلاً فضل عمر فاؤنڈیشن ہے، نصرت جہاں ریز روفنڈ ہے یا دوسری مالی تحریکات ہیں وہ ان میں بھی شامل ہوتی ہیں.اور یہ سوچنے والی بات ہے (میں اس کا اعلان تو نہیں کروں گا آپ کو صرف توجہ دلانا چاہتا ہوں ) کہ وہ بعض ایسے کام کرتی ہیں جن میں مردوں کو شامل نہیں کرتیں اور خود آگے نکل جاتی ہیں.لیکن مرد کوئی ایسا نیکی کا کام نہیں کرتے (کم از کم اس وقت میرے ذہن میں نہیں ) یا خدا کی راہ میں قربانی کا کام نہیں کرتے جس میں اُن کو ( یعنی احمدی مستورات کو ) باہر نکال دیں.اور کہیں تم اس میں شامل نہیں ہو سکتیں.مثلاً انہوں نے اپنے چندے سے کئی مساجد بنوا دیں جس میں مردوں کا کوئی حصہ نہیں.کل ہی انہوں نے اپنے پچاس سالہ جشن کے موقعہ پر قریباً ایک لاکھ روپیہ پاکستان کی لجنہ نے اور قریباً ایک لاکھ روپیہ غیر ممالک کی لجنہ نے اشاعت قرآن کریم کے لئے خلافت کے حضور پیش کر دیا.گو انہوں نے کہا تو یہی ہے کہ جیسے آپ کی مرضی ہو خرچ کریں.لیکن میری پہلی اور آخری مرضی یہی ہے کہ قرآن کریم کی ہمہ گیر اشاعت ہو.لیکن یہ سوچنے والی بات ہے.آپ بھی کوئی

Page 272

سبیل الرشاد جلد دوم 253 ایسی راہ نکالیں کوئی نیکی کا ایسا کام کریں جس پر آپ عورتوں سے کہیں کہ تم گھر بیٹھو ہم تمہیں شامل نہیں کریں گے.عیسائیوں نے اسلام پر بڑا اعتراض کیا ہے کہ اسلام میں عورت کا کوئی درجہ نہیں ہے.انہوں نے اپنی حماقت کا مظاہرہ کیا ہے.اسلام نے تو کہا ہے کہ عورت ہو یا مرد جو بھی نیکی کرے گا میں اسے اپنا پیار دوں گا.بہر حال میں نے انہیں (عورتوں کو ) کہا تھا کہ دائرہ خدمت میں وسعت پیدا کرو.اُن کے لئے مشکل ہے.میں نے ان سے کہا تھا کہ انہیں کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ تمہیں بعض دشواریاں ہے.تمہارے راستے میں بعض روکیں ہیں تم ایسا انتظام کرو کہ دوسری عورتیں تمہارے گھر میں آ جایا کریں.مثلاً تمہاری غریب بہنیں ہیں تم ان کی خدمت کیا کرو.لیکن آپ کے راستے میں یہ دشواری نہیں ہے..پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ دائرہ خدمت کو بڑا وسیع کریں.روحانی طور پر بنیا دی خدمت یہی ہے کہ قرآن کریم کی برکت اگر گھر گھر پہنچانے کے قابل نہیں تو قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں ضرور پہنچا دینی چاہئے.آپ اس کام کے قابل ہیں اگر آپ ہمت کریں تو قابل ہیں.پیسے کے لحاظ سے تو قابل ہیں.لیکن قرآن کریم کو گاؤں گاؤں پہنچانے کا جو کام ہے وہ تو آپ نے کرنا ہے مگر اس طرح نہیں کہ یہاں سے گئے.پانچ سات دن بہت جوش دکھایا اور پھر خاموش ہو گئے.یہ بڑے افسوس اور دکھ کی بات ہے.مجھے اس سے بڑی تکلیف ہوتی ہے.جو کام کرنا ہے اس کو کرتے رہیں جب تک کہ وہ اپنے کمال کو نہ پہنچ جائے اور پورا نہ ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی مثال دی ہے کہ کونین سے ملیر یا کا علاج کیا جاتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ کونین پوری ڈوز یعنی خوراک (Dose) میں کھائی جائے اگر کوئی شخص ایک گرین کو نین کا ہزارواں حصہ کھائے اور کہے کہ میرا ملیریا بخار نہیں اترتا.یوں ہی لوگ کہتے ہیں کہ ملیریا کا علاج کونین سے کیا جاتا ہے.میرا تو بخار نہیں اترتا.تو یہ غلط ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جس طرح جسمانی بیماریوں میں پوری خوراک کے ساتھ دواؤں کا استعمال کرنا ضروری ہے.اسی طرح پوری خوراک کے ساتھ ساتھ روحانی غذاؤں کا استعمال بھی ضروری ہے.مثلاً ایک شخص چار روٹیوں سے سیر ہوتا ہے.اب وہ کہے کہ میں ایک لقمہ کھا تا ہوں.لوگ یو نبی کہتے ہیں کہ روٹی سے پیٹ بھر جاتا ہے میں نے تو روٹی کھائی میرا تو پیٹ نہیں بھرا.جب تک تم چار روٹیاں نہیں کھاؤ گے.اس وقت تک تمہارا پیٹ نہیں بھرے گا.پس جب تک انسان اپنے کام کی انتہاء تک نہ پہنچ جائے اس وقت تک اس کام کو چھوڑ نا نہیں چاہئے.اور اس کے بغیر تو صحیح کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.

Page 273

سبیل الرشاد جلد دوم 254 غرض میری یہ خواہش تو بڑی چھوٹی اور ابتدائی ہے اور وہ یہی ہے کہ ہر گاؤں میں جماعت کا چھپا ہوا قرآن کریم کم از کم ایک نسخہ ضرور پہنچ جانا چاہئے.آپ اپنے ارد گر د علاقے میں چکر لگا ئیں، پیدل چلیں ہم گھر میں کرسیوں کے ساتھ بندھے رہنے والے بھی بعض دفعہ آٹھ آٹھ دس دس میل پیدل چلے جاتے ہیں.قرآن کریم کی اشاعت کے لئے تو پیدل چلنا کوئی ایسی بات نہیں.یہاں اس وقت اکثر دوست زمیندار ہوں گے.وہ اپنے اردگرد کے گاؤں کو لیں.وسعتِ خدمت کے لئے ساتھ کے گاؤں کو لیں اور وہاں یہ کام بھی کریں.ایک ضلع نے کہا تھا کہ ہماری جماعتیں کم ہیں میں نے کہا تھا میں تمہیں تین مبلغ دیتا ہوں گاؤں والوں کو کہو.اردگرد کے دیہات میں ان کی رشتہ داریاں ہیں.وہاں مبلغ چلے جائیں.اور تبلیغ ان کو اس طرح کریں کہ دیکھو اسلام پر اللہ تعالیٰ کتنا فضل کر رہا ہے افریقہ میں امریکہ میں یورپ میں جزائر میں بجی آئی لینڈ اور آسٹریلیا ، جاوا ، سماٹرا وغیرہ میں لوگ مسلمان ہورہے ہیں.پہلے یہ باتیں ان کو بتا ئیں.پھر جب اُن کو دلچسپی پیدا ہو جائے گی تو پھر وہ خود بخود اور باتیں بھی سنیں گے.پھر ان کو کہیں کہ ہم اس لئے وہاں کامیاب ہیں کہ جو بات قرآنی تعلیم اور انسانی عقل کے خلاف ہے ہمیں خدا نے یہ سمجھ عطا فرمائی کہ ان باتوں کو ر ڈ کر دیں جو اسلام میں بلا وجہ شامل ہوگئی ہیں اور ایسی باتیں کریں جو اُن کی عقل میں آجائیں.مثلاً وہ کہتے ہیں یہ کیا ہوا.ان کی عقل میں نہیں آتا کہ ایک تین اور تین ایک کا فلسفہ کیا ہے.ہم ان کو کہتے ہیں کہ یہ ہے ہی فضول مسئلہ.مگر وہ جن کے متعلق یہ مسئلہ بنایا گیا ہے وہ تو کبھی کے کشمیر میں طبعی وفات پاچکے ہیں.اس طرح گویا آپ نے وفات مسیح کی ایک دلیل دے دی.پس اگر آپ کسی شخص کو مخاطب کر کے یہ کہیں کہ تیرا عقیدہ غلط ہے.اور اگر تو اس عقیدہ پر قائم رہا تو سیدھا جہنم میں جائے گا.تو وہ پڑ جائے گا.اور آپ کی کوئی بات نہیں سنے گا.اور اگر آپ یہ کہیں کہ ہم افریقہ میں غلط عقائد کی درستی کے لئے یہ بات کرتے ہیں.گویا غلط قسم کے عقائد جو اس کے دل میں ہیں اس کی طرف منسوب نہ کریں اس کے غیر کی طرف منسوب کریں تو اس کو کوئی غصہ نہیں چڑھے گا.آپ کہیں گے دیکھو! افریقہ کے حبشی کہتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فیضان الہی مل ہی نہیں سکتا.لیکن ہم نے ان کو سمجھایا کہ دیکھو فیضان الہی مل تو سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قوتیں اتنی ہی قوی اور شدید ہیں کہ جتنی پہلے کسی زمانہ میں رہی ہیں.اور وہ ہماری دعاؤں کو سنتا ہے وہ کہتے ہیں اچھا چالیس سال سے ہمارے ہاں بچہ نہیں ہوا دعا کر کے دکھا ئیں کہ واقعی خدا تعالیٰ اسلام کی برکت سے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے دعاؤں کو سنتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ ، ہماری دعاؤں کو سن کر اس کے ہاں بچہ پیدا کر دیتا ہے.تو گویا دعا قبول ہو گئی.بعض دفعہ پہلے بتا دیتا ہے.بعض دفعہ سکھوں اور عیسائیوں کے خط

Page 274

255 سبیل الرشاد جلد دوم آ جاتے ہیں کہ مثلاً ہم ہیں تو عیسائی لیکن ہمیں پتہ لگا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی دعا سنتا ہے.اس واسطے آپ ہمارے لئے دعا کریں مشرقی افریقہ کے غالباً نیروبی کے ایک سکھ کو ایک ایسی تکلیف تھی جس کا اس کے پاس کوئی علاج نہیں تھا.آخر لا چار ہو کر اس نے مجھے لکھا کہ آپ کے احمدی کہتے ہیں کہ خدا آپ کی دعائیں سنتا ہے.آپ میرے لئے دعا کریں.اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے.میں تو بالکل ذرہ ناچیز ہوں.خیر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا اظہار کرتا ہے.چنانچہ وہ شخص جسے دنیا نے کہا تھا کہ تیرا کام نہیں ہوسکتا.اس کا کام ہو گیا.اس کے دل میں ایک پیار پیدا ہوا.بعد میں عام دعاؤں کے متعلق لکھتا رہا.اس کے یہاں سے جواب جاتے تھے.ایک دن اس کو خیال پیدا ہوا.کہ میں نے اپنا کام کروالیا ہے.خواہ مخواہ ان کے پیسے خرچ ہوتے ہیں میں ان کے پیسے کیوں ضائع کرواؤں اس نے مجھے خط لکھا میں تو آپ کو خط لکھتا رہوں گا.کیونکہ میرے دل میں آپ نے ایک پیار پیدا کیا ہے.ایک ایسی چیز دکھا کر جو کہیں سے نہیں ملی تھی وہ آپ کے ہاں سے مل گئی آپ کو میرے خطوں کا جواب دینے کی ضرورت نہیں.خواہ مخواہ چٹھیوں پر پیسے کیوں ضائع ہوں.یہ اس کا نظریہ تھا لیکن میرا نظریہ یہ تھا کہ اس کے خط کا جواب ضرور جائے گا.یہاں بھی اس قسم کے کچھ اور نظریے ہیں.مجھے ایک رپورٹ آ گئی کہ ہم نے دفتر میں ڈیڑھ سو خط دیکھے جن پر ٹکٹ لگے ہوئے تھے گویا خواہ مخواہ پیسے ضائع ہورہے ہیں إِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.تمہیں تو یہ چاہئے تھا کہ کلرک کو غصے میں آ کر چپیڑ لگا دیتے تو میں تمہیں معاف کر دیتا مگر اس ذہنیت کو میرے لئے معاف کرنا ممکن نہیں آپ خط نہیں لکھیں گے تو ہم بڑے مستعد ہو جائیں گے اور خوب جوش و خروش کے ساتھ کام کریں گے اس لئے یاد دہانیوں کی کیا ضرورت ہے.اور ایسا کر کے دکھا دیں تو ہم مان لیں گے لیکن اگر خط نہ وصول کرنے کے نتیجہ میں پہلے سے زیادہ ستی پیدا ہو گی تو خط لکھنے کے نتیجہ میں فرض کریں زیادہ جوش نہیں آیا صرف پانچ فیصد آ گیا تو اگر ایسی جگہ آیا جہاں تم نے اپنے گاؤں میں وہ جوش نہیں دیکھا تھا.لیکن اگر یاد دہانی کے خط نہیں جائیں گے تو مشکل ہے جب تک اپنی اصلاح نہ کریں غرض ایسے آدمی کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ ایک ہزار سے زیادہ جماعتیں ہیں تم ڈیڑھ سو خط کیوں بھیج رہے ہو.تمہارے پاس زیادہ ٹکٹیں اور خط ہونے چاہئے تھے کیونکہ قرآن کریم بار بار کہتا ہے ذَكَرُ ذَكِّرُ ذکر کہ یاد دہانیاں کرواتے رہا کرو.اور جب مرکز یاد دہانی کراتا ہے تو کہتے ہیں ٹکٹوں پر پیسے کیوں خرچ کر رہے ہو.تم کہتے ہو کہ ان کا کوئی اثر نہیں تو کیا خط نہ لکھنے کا اثر ہو جائے گا.اگر تو یہ کہو کہ کچھ بھی نہیں ہوگا.پھر تو تمہاری حالت اس پارہ کی مانند ہوگی جسے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سبق سکھانے کے لئے بنایا ہے یعنی جب درجہ حرارت گر جاتا ہے تو پارہ نقطہ انجماد سے نیچے آنے

Page 275

256 سبیل الرشاد جلد دوم لگتا ہے.اسی طرح اگر روحانی حرارت میں کمی واقع ہونے لگے تو پھر تو تم اگر خدانخواستہ منفی ۵ پر منفی ۱۰ پھر منفی ۲۰ پھر منفی ۵۰ پر پہنچ گئے تو ٹھٹھر کر رہ جاؤ گے.بالکل بے جان ہو جاؤ گے تمہارے جسموں میں اگر روحانی گرمی نہیں رہے گی تو روح کا کوئی عملی مظاہرہ نہیں ہوگا.اگر تم زیرو پر ہی کھڑے ہو تو جان تو محفوظ ہے.کسی وقت خدا تعالیٰ تمہیں اپنے جسم میں پیار کی حرارت اور تمازت پیدا کرنے کی توفیق دے نا ہے.لیکن اگر تم برف کی طرح ٹھنڈے اور بے جان تو دے بن گئے تو پھر تم کیا کرو گے.پھر کہو گے کہ تم ہمیں خط کیوں نہیں لکھتے تھے.پھر کون کہے گا تم تو برف بنے ہوئے ہو گے اب تم میں اتنی جان تو ہے کہ تم کہتے ہو کہ ہمیں یاد دہانی کیوں کرائی جاتی ہے.اس سے پیسے ضائع ہوتے ہیں.اگر ہم تمہیں یاد دہانیاں نہیں کرائیں گے تمہارے اندر اتنی جان بھی نہیں رہے گی.یہ احساس ہی نہیں رہے گا کہ کوئی یاد دہانی کراتا ہے.جسے نہیں کرانی چاہئے تھی یا کوئی یاد دہانی نہیں کراتا جسے یاد دہانی کرانی چاہئے تھی.تم ان شیطانی وساوس سے بچنے کی دعا سکتا.کرتے رہا کرو.فرمایا ( اس اثناء میں حضور نے چند گھونٹ قہوے کے پٹے ) میں سبز چائے کا قہوہ بغیر میٹھے کے پیتا ہوں.یہی میں نے اب پیا ہے تو مجھے ایک بات یاد آ گئی وہ آپ سے بھی کہنے والی ہے.ہمارے ملک میں وبائی امراض کے کیڑوں سے صاف پانی کا ہر جگہ انتظام نہیں ہے.بلکہ اکثر جگہ نہیں ہے.اس قسم کی بیماریوں سے جو اس غفلت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں سب سے اچھی اور ستی تدبیر یہ ہے کہ آپ پانی ابال کر پیا کریں.اور جب تک کوئی اور تدبیر نہ آ جائے اس تدبیر پر عمل پیرا ر ہیں.اگر آپ پانی ابال کر پئیں گے تو چین کی طرح معدے اور انتڑیوں کی بیماریوں سے آپ قریباً محفوظ ہو جائیں گے.قریباً اس لئے کہ وہاں چین میں اللہ کا خانہ تو خالی ہے.وہ تو اگر کسی کو تکلیف پہنچانا چاہے تو پہنچائے گا.پانی کے ذریعہ نہیں پہنچائے گا تو کسی اور ذریعہ سے پہنچائے گا.یا خود پانی کو حکم دے گا.ایسے کیڑے پیدا کر دے گا جو ابلنے کے باوجود زندہ رہیں گے.لیکن میں عام اصول خداوندی بیان کر رہا ہوں کہ پانی اُبالنے سے (اچھے دو چار اُبالے آجائیں تو ) کیڑے مر جاتے ہیں.لیکن اکثر لوگوں کو بغیر ابلا پانی پینے کی عادت ہے.اس واسطے جب آپ پانی کو ابال کر ٹھنڈا کر کے چھوٹے گھڑے میں رکھیں گے.تو بالکل ٹھنڈا ہو جائے گا.لیکن اس کا مزہ بک بکا ہو گا ممکن ہے بعض زمیندار کہہ دیں کہ کیا مصیبت ڈال دی ہے.اسے پرے پھینکو.اس قسم کا اظہار پہلے چین میں بھی کیا گیا تھا تا ہم ان کو ہم سے پہلے خیال آیا حالانکہ ہمیں پہلے خیال آنا چاہئے تھا.بہر حال انہوں نے پانی میں تھوڑی سی سبز چائے کی پتی ڈال دی اس سے پانی میں موتیا رنگ آ جاتا ہے اور اس کا بک بکا پن دور ہو جاتا ہے.اور اس چائے کی ہلکی سی لذت پیدا ہو

Page 276

257 سبیل الرشاد جلد دوم جاتی ہے.چنانچہ اب چین کے لوگ یہی سبز چائے کا قہوہ پیتے ہیں.میں نے ایک رسالہ میں پڑھا ہے کہ وہاں پیٹ کی بیماری نہ ہونے کے برابر ہے.اس لئے آپ بھی اُبلا ہوا پانی استعمال کیا کریں.کیوں بیمار ہو کر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اور اپنے آپ پر یہ ابتلاء لاتے ہیں کہ زندگی میں کئی لمحات ایسے بھی آ سکتے ہیں جن میں آپ خود کو نیکیوں کے کام کرنے سے محروم کر دیں.بہر حال یہ بھی ایک تدبیر ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر تد بیر اس لئے بنائی ہے کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں اگر چہ حکم اسی کا چلتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں لیکن اس کا یہ بھی حکم ہے کہ میری اس دنیا میں تدبیر کر و.اس لئے میں اس قہوے کی شکل میں گرم پانی پیتا ہوں.پہلے بھی ، درمیان میں بھی اور آخر میں بھی میرے پاس آپ کے لئے دعائیں ہی دعائیں ہیں.میری دعا ہے کہ جہاں بھی آپ ہوں ربوہ میں، اہل ربوہ کی طرح رہائش اختیار کرنے والے، یا اپنے گاؤں میں مکین ہونے کی شکل میں ،سفر اور حضر میں، جاگتے اور سوتے ، کام کرتے اور آرام لیتے غرض جس حالت میں اور جس جگہ اور جس کیفیت میں بھی آپ ہوں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں آپ کے شامل حال رہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ اس نے اپنے فضل اور رحمت سے ہمیں جو قو تیں اور استعداد میں عطا فرمائی ہیں.ہم اس کی بتائی ہوئی تدابیر اور اس کے بتائے ہوئے طرق دعا کے نتیجہ میں ان قوتوں اور استعدادوں کی کامل نشو و نما کرنے میں کامیاب ہو جائیں تا کہ اس کے کامل فضل اور کامل رضا ء ہمارے ورثہ اور مقدر میں ہو.پس میں ان دعاؤں کے ساتھ آپ کو رخصت کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے.ہماری دعائیں بھی آپ کے ساتھ رہیں.بعض دفعہ بیماری میں ایسا وقت بھی آتا ہے کہ انسان پوری طرح دعا ئیں نہیں کر سکتا.آپ دعا کریں وہ وقت نہ آئے.جب تک زندگی ہے آپ کی دعاؤں سے چوکس دماغ ہر وقت آپ کی خدمت میں لگا رہے.اب انصار ( اور ہمارے بچے بھی ) کھڑے ہو کر عہد دوھرا ئیں گے.اس کے بعد تمام حاضرین نے حضور کی اقتداء میں تجدید عہد کی.پھر حضور نے فرمایا.دعا کے بعد یہ اجتماع اور اس کی کارروائی اختتام پذیر ہوگی.اس کے معا بعد دو کام ہیں ایک نمازوں کا ادا کرنا اور دوسرا دو پہر کا کھانا کھانا میرا خیال ہے کہ پہلے ہم نمازیں پڑھ لیں.نمازوں سے فارغ ہو کر آپ اپنی اپنی جگہوں پر کھانا کھا ئیں گے.ورنہ پھر سب کا اکٹھا ہونا مشکل ہو جائے گا.نماز مسجد مبارک میں ہوگی.( غیر مطبوعہ )

Page 277

سبیل الرشاد جلد دوم 258 منافق کون ہے پس منافق وہ ہے جس کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی حادثہ ایسا رونما ہو جس کی وجہ سے جماعت ہلاک ہو جائے.کوئی بیماری پڑ جائے یا آپس میں جھگڑے پیدا ہو جائیں یا کسی جماعت کے ٹوٹنے کے سامان پیدا ہو جائیں وغیرہ وغیرہ.پتہ نہیں منافق کیا باتیں سوچتا ہوگا.لیکن اس میں بھی وہ نا کام ہوتا ہے.پھر جس وقت معاند اور دشمن اسلام، اسلام کو مٹانے کے لئے حملہ آور ہوتا ہے.مثلاً جس وقت کفار مکہ ایک ہزار لشکر جرار کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوئے.تو ان کے مقابلہ میں قریباً ایک تہائی مسلمان تھے اور قریباً نہتے تھے.مسلمانوں کے پاس کفار کے مقابلہ میں فوجی ساز د سامان بھی بہت تھوڑا تھا.اس وقت ایک منافق اس انتظار میں تھا کہ اب دشمن آ گیا ہے.چمکدار تلواریں ( سیوف ہندی اس وقت بڑی مشہور تھیں ) ان کے ہاتھ میں ہیں، گھوڑے ہیں ، اونٹنیاں ہیں ، کھانے کا سامان ہے ، جتھہ ہے اتحاد ہے، مال و دولت ہے اور ان کے مقابلہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بالکل غریب پھٹے ہوئے کپڑوں میں ٹوٹی ہوئی اور زنگ آلود تلواروں کے ساتھ کفار کے ساتھ کیا لڑیں گے.آج تو ان کے لئے (نعوذ باللہ ) موت کا دن ہے.سبیل الرشاد جلد دوم صفحہ 239-238)

Page 278

سبیل الرشاد جلد دوم 259 سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثاث رحمہ اللہ تعالی کا فتاحی خطاب کا فرموده ۹ رنبوت ۱۳۵۲ بهش ۹ نومبر ۱۹۷۳ء بمقام احاطہ دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے بر موقع ۳۰ ویں مرکزی سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ مرکز یہ ربوہ کی افتتاحی تقریر میں تشہد وتعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے موقع پر میں نے اپنے بچوں کے سامنے یہ مضمون بیان کیا تھا اور اسی مضمون کو ایک دوسرے پیرا یہ میں ممبرات لجنہ اماء اللہ کے سامنے اور اطفال کے سامنے مختصراً دوسرے رنگ میں بیان کیا.اور وہ مضمون یہ تھا کہ پہلی وحی کے ساتھ شیطان سے انسان کی ایک جنگ شروع ہوئی اور جیسا کہ پہلے نوشتوں میں بھی یہ خبر دی گئی تھی اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں.شیطان سے عباد الرحمان کی یہ جنگ جو آدم سے شروع ہوئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت اپنے آخری مراحل میں داخل ہوگئی.جب رب العالمین کی ربوبیت انسان کی تربیت کرتے ہوئے اُسے مختلف ادوار میں سے گزار کر اُس مقام پر لے آئی جہاں رب العالمین کے جلوے نوع انسانی پر ایک جیسے ظاہر کئے جاسکتے تھے تو اُس وقت رب العالمین کی طرف سے نوع انسانی کی ایک ہی وقت میں اجتماعی روحانی اور دیگر ترقیات کے لئے ایک رحمت آسمانوں سے نازل ہوئی جسے قرآنِ عظیم نے رحمۃ للعالمین کہا ہے.یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود.اور جیسا کہ بتایا گیا تھا بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عبادالرحمان کی شیطان اور شیطانی گروہ اور شیطانی خیالات کے ساتھ ایک آخری جنگ کا آغاز ہو گیا.بنگل بجا دیا گیا.اعلان جنگ ہو گیا.اور یہ جنگ جو اُمتِ محمدیہ نے شیطانی طاقتوں اور ظلمات کی حکومت سے لڑنی تھی اسے آخری جنگ کہا گیا.

Page 279

سبیل الرشاد جلد دوم 260 جنگ اور لڑائی میں فرق ہے.مختلف محاذوں پر مختلف اوقات میں جو لڑی جاتی ہے وہ جنگ کہلاتی ہے.اور کسی ایک محاذ پر کسی ایک وقت میں جو معرکہ ہوا سے لڑائی کہتے ہیں.انگریزٹی میں اس کے لئے War اور Battle کے دو مختلف الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ شیطانی طاقتوں سے آخری جنگ شروع ہو گئی.اور چونکہ شیطان کو ہمیشہ کے لئے مغلوب کرنا تھا اور شیطان پر روحانی طاقتوں اور عبادالرحمان کا یہ غلبہ ہمیشہ کا غلبہ تھا جس کے بعد تمام جنگیں جو بیرونی محاذ پر مذہبی طور پر لڑی جاتی ہیں وہ ختم ہو جانی تھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقصود کا معراج تھا کہ نوع انسانی کو اُمتِ واحدہ بنا کر اللہ تعالیٰ کے قدموں میں اکٹھا کر دیا جائے اس لئے عقلاً بھی اور بشاراتِ ربانی کے لحاظ سے بھی اس جنگ کی آخری لڑائی آخری زمانہ کے لئے مقد تھی.اور یہ آخری زمانہ وہ زمانہ ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس فاتح جرنیل نے آنا تھا جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی کے نام سے موسوم کیا اور مسیح کا اُسے لقب دیا اور اپنے پیار کا اس رنگ میں اظہار کیا کہ امت محمدیہ کے کروڑوں کروڑ افراد میں سے کسی کے ساتھ بھی اُس پیار کا اظہار نہیں کیا گیا.اور وہ یہ کہ فرمایا کہ جب وہ آئے تو اُسے میرا سلام پہنچا دینا یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سلامتی اور فتح کی دعائیں اُس کے ساتھ ہوں گی اور آپ نے یہ کہا کہ ”ہمارے مہدی کی یہ دو علامتیں ہیں.اِنَّ لِمَهْدِينَا میں بڑے ہی پیار کا اظہار ہوتا ہے.اور وہ اس لئے کہ اس روحانی جرنیل نے شیطانی طاقتوں کے ساتھ وہ آخری جنگ فاتحانہ طور پر اور کامیابی کے ساتھ لڑنی تھی کہ جو اُس جنگ کی آخری لڑائی تھی جس جنگ کی ابتداء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے ایک رحمۃ للعالمین کی حیثیت سے شروع ہوئی.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک وجود ہیں جو اعظم ہیں.احسان کے میدان میں دیکھیں تو آپ محسن اعظم ہیں.علم سکھانے کے میدان میں دیکھیں تو آپ معلم اعظم ہیں.دین کو از سرِ نو زندہ کرنے اور اسے کمال تک پہنچانے کے نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو آپ مسجد داعظم ہیں اور رحمت کے لحاظ سے دیکھیں تو آپ رحمتہ للعالمین ہیں.شریعت کے لحاظ سے دیکھیں تو آپ خاتم الانبیاء ہیں جن پر خاتم الکتب کا نزول ہوا.شیطان سے جنگوں کے لحاظ سے دیکھیں تو آپ وہ قائد اعظم اور جرنیل اعظم ہیں جنہوں نے اپنی براہ راست نگرانی Direction اور ہدایت کے مطابق اپنی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اپنی روحانی زندگی کے طفیل جو صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے.اس آخری جنگ کی قیادت کرنی تھی اور جس کی انتہا اُس لڑائی پر ہونی تھی جواب شروع ہو گئی جس کا تعلق مہدی معہود کے ساتھ تھا.مہدی آگئے.شیطان

Page 280

ا 261 سبیل الرشاد جلد دوم کے ساتھ اس جنگ کی آخری جھڑپ اور اس عظیم جنگ کی آخری لڑائی شروع ہو چکی.اور یہ ایک حقیقت ہے سوچنے والا دماغ اور علم رکھنے والا ذہن اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ آخری لڑائی ہے.اس جنگ عظیم کی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ ہے اور جسے مہدی نے اور آپ کی جماعت نے لڑنا تھا.اگر یہ حقیقت ہے تو ہم جو مہدی کی طرف منسوب ہونے والے اور اپنے آپ کو شیطان سے اس آخری لڑائی لڑنے والی فوج کے سپاہی گرداننے والے ہیں ہم پر کتنی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اتنی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے.کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا.اُسی طرح جس طرح طاغوتی طاقتوں کا اکٹھے ہو کر اسلام پر حملہ آور ہونے کا تصور نہیں کیا جا سکتا.یہ جنگ آج سے کچھ عرصہ پہلے شروع ہوئی.میں نے اپنے بچوں اطفال الاحمدیہ کو بھی اُس وقت جو میرے ذہن میں آیا تھا بتایا تھا کہ یہ جنگ اُس وقت شروع ہوئی کہ جب دُنیا کی تمام شیطانی طاقتیں اسلام پر اس رنگ میں یلغار کر رہی تھیں اور اسلام کی طرف سے مدافعت کا فقدان اس طور پر تھا کہ شیطانی طاقتوں کو یہ یقین ہو گیا کہ وہ کامیاب ہوں گی.اور اسلام کو ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے گا.چنانچہ ہمارے پاس اس قسم کے بیسیوں حوالے موجود ہیں.ان حوالوں کا تعلق مہدی معہود کی بعثت سے معا پہلے کے زمانہ سے ہے.شیطانی طاقتوں نے جو اسلام پر حملہ آور ہو رہی تھیں ایک طرف یہ کہا کہ وہ دن آنے والا ہے کہ جب ملک ہند میں ایک مسلمان بھی باقی نہیں رہے گا.اور اگر اس زمانہ میں کسی کے دل میں کبھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کسی مسلمان کی شکل دیکھے تو اُس شخص کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی.کیونکہ کو ئی مسلمان ہی نہیں رہے گا.دوسری طرف ان طاقتوں نے یہ اعلان کیا کہ عنقریب بر اعظم افریقہ خداوند یسوع مسیح کی گود میں ہوگا اور وہاں سے بشمول اسلام ہر دوسرا ازم (Ism) اور مذہب اور عقیدہ مٹا دیا جائے گا.اور تیسری طرف انہوں نے یہ اعلان کیا کہ وہ وقت آ رہا ہے کہ جب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ پر خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا لہرائے گا.اسلام پر اس قسم کی یلغار تھی.اتنا ز بر دست حملہ تھا اور ان کو اسلام کا دفاع کرنے والا کوئی نظر نہیں آ رہا تھا.اس لئے وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ ہم کامیاب ہو جائیں گے.اُس وقت اُس نازک وقت میں خدا وند تعالیٰ نے جو اپنے دین کی حفاظت کرنے والا ہے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والوں کو کبھی لاوارث نہیں رہنے دیتا اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی.اور مہدی معہود مبعوث ہو گئے اور اس طرح اس نازک وقت میں اس شخص نے جو ایک وقت میں اکیلا تھا اسلام کے دفاع کا بیڑا اُٹھایا.اور پہلے تن تنہا اور بعد میں اپنے گر د جمع ہونے والوں کی تربیت کر کے ایک بہت ہی مختصر اور چھوٹا سا گروہ پیدا کیا.پھر اس تربیت کے نتیجہ میں اس گروہ کی تعداد کو بڑھاتے

Page 281

سبیل الرشاد جلد دوم 262 ہوئے ایک فوج تیار کی جو دشمنانِ اسلام کی اس زبر دست یلغار کے مقابلہ میں سینہ سپر ہوگئی اور دشمن کے وار اُس نے اپنے سینے پر ہے.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور وہ حملہ پسپا ہو چکا ہے.وہی لوگ جو ۱۸۵۰ء سے لے کر ۱۸۸۰ء کے زمانہ میں یہ کہتے تھے اور اعلان کرتے تھے اور دعویٰ کرتے تھے وہی حملہ آور لوگ یہ ماننے پر مجبور ہوئے کہ افریقہ میں اگر وہ ایک عیسائی بناتے ہیں تو اُن کے مقابلہ میں جماعت احمد یہ نو افراد کو اسلام میں داخل کرتی ہے وہی لوگ اس ملک ہند سے جہاں ایک مسلمان کو بھی دیکھنا اور برداشت کرنا نہیں چاہتے تھے وہاں وہ ناکام ہوئے.یہ واقعہ قسیم ہند سے پہلے ہی ہو گیا تھا.ہندوستان اور پاکستان میں یہ نظر آ رہا ہے کہ وہ لوگ نا کام ہوئے.اور اُن کے ارادے خاک میں مل گئے.اُن کی پسپائی کے بعد ایک وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو للکارا.اور فرمایا کہاں ہیں وہ پادری جو چوراہوں پر کھڑے ہو کر یہ للکارتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا.اور آج اُنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں سے ایک غلام کے ذریعہ اتنے معجزات دیکھے کہ اُس کے مقابلہ میں آنے کے لئے وہ تیار نہیں.اور اُن کی زبانیں گنگ ہوگئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو یہ بتایا کہ میرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ایسی قوم تیار کر رہا ہے کہ یہ قوم جو اسلام کو دُنیا سے مٹانے کے در پے تھی اُس قوم کے بچوں سے بھی بات کرتے ہوئے گھبرائے گی.میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ افریقہ میں ہمارا ایک دس سال کا بچہ ایک اتوار کے روز ہاتھ میں کچھ رسالے لئے کھڑا تھا.اور جو کوئی اُس کے پاس سے گزرتا اور وہ ذہین بچہ اُس کے متعلق سمجھتا تھا کہ یہ پڑھ سکتا ہے تو وہ اُس کے ہاتھ میں کوئی رسالہ یا کوئی پمفلٹ یا دو ورقہ یا کوئی کتاب دے دیتا تھا.اُس بچے کے اندازے کے مطابق ایک پڑھا لکھا بڑے اچھے لباس میں ملبوس بظا ہر کھا تا پیتا ادھیڑ عمر کا ایک شخص اُس کے پاس سے گزرا اُس بچے نے ایک رسالہ اُس شخص کو دیا.چلتے چلتے اُس شخص نے رسالہ پر سرسری نگاہ ڈالی.اور دس پندرہ قدم چلنے کے بعد واپس لوٹا.اور اُس بچہ سے کہنے لگا کہ تمہیں معلوم نہیں میں کیتھولک عیسائی ہوں اور ہمیں یہ ہدایت ہے کہ نہ کسی احمدی سے کوئی کتاب لینی ہے اور نہ اُس کی بات سننی ہے.پس وہ لوگ جو دنیا سے اسلام کو مٹانا چاہتے تھے وہ اپنی پہلی یلغار میں پسپا ہوئے.اب وہ یہ دعوی نہیں کر سکتے.بعض چھوٹے چھوٹے علاقوں کے متعلق بعض دفعہ وہ یہ مہم سی بات کرتے ہیں کہ جی کچھ کہ نہیں سکتے کہ عیسائیت کے پاس یہ علاقہ جائے گا یا اسلام کے پاس جائے گا.لیکن اس قسم کے فقرے بذات خود اعتراف شکست کے مترادف ہیں.

Page 282

263 سبیل الرشاد جلد دوم بہر حال وہ حملہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فاتح اعظم ہونے کی حیثیت میں اور آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں مہدی معہود کے ذریعہ پسپا ہو گیا.لیکن ہمارا کام یہاں ختم نہیں ہوا.جماعت احمدیہ کا قیام صرف دفاع کرنے کے لئے نہیں تھا.جماعت احمدیہ کا قیام اُس زمانہ میں ہوا جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ مہدی کے ذریعہ شیطان کو آخری شکست دینے کے بعد نوع انسانی کو وحدت اقوامی میں ملت واحدہ بنا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیا جائے گا.حملہ آور تو پسپا ہو چکا لیکن اب ہماری روحانی اسلحہ کے ساتھ جارحانہ یلغار شروع ہو چکی ہے.اور اُس وقت تک اس میں نہ کمی آئے گی نہ کمی آنے دینی چاہئے جب تک یہ بشارت پوری نہ ہو جائے کہ ساری دنیا اسلام کی آغوش میں آ جائے.اور ساری دنیا، مشرق و مغرب میں بسنے والے اور شمال اور جنوب میں رہنے والے بھی ، سفید فام بھی اور گندمی رنگ والے بھی اور زرد رنگت والے بھی اور مور کی طرح خوبصورت رنگ والے افریقین بھی تمام کے تمام بلا امتیاز رنگ و نسل و ملک و ملت خدائے واحد ویگانہ کی پرستش کرنے لگیں.اور دُنیا سے شرک گئی طور پر مٹا دیا جائے.اور دہریت کا خاتمہ ہو جائے اور مختلف ISMS ، نظریات جو آج کل اِدھر اُدھر سر نکالتے رہتے ہیں وہ سارے کے سارے نیست و نابود ہو جائیں ، اور صداقت پورے طور پر نوع انسانی پر قابض ہو جائے.اور اللهُ نُورُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ کا نور اور سراج منیر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نور نوع انسانی کو اپنی نورانی چادر میں اس طرح لپیٹ لے کہ ظلمت کا کوئی اندھیرا پہلو اُس کے اندر داخل نہ ہو سکے.پس ہمارا کام شروع ہے اور آخری کامیابی تک چلتا چلا جائے گا.اتنا عظیم کام ہم اُسی صورت میں ظاہری حالات میں سر انجام دے سکتے ہیں.جب اس کے لئے انتہائی کوشش کریں.ویسے تو اللہ تعالیٰ ہی کارساز ہے.لیکن ہمارے اُوپر ذمہ داریاں ہیں اور تد بیر کرنے کا کام ہمارے سُپر د ہے.آسمانوں سے فرشتوں کے نزول کے ساتھ تائیدات اور نصر تیں بھیجنے کا کام اللہ تعالیٰ کا ہے.لیکن قربانیاں دینا اور دین کی راہ میں تکالیف برداشت کرنا دین کی راہ میں اپنے اموال اور اوقات اور توجہ کو وقف کر دینا اپنے علم کے ہر روشن پہلو کو دین کی خاطر وقف کر دینا یہ ہماری ذمہ داری ہے.اور جو ہماری ذمہ داری ہے.وہ ہم نے نبھانی ہے.اور یہ کام اُس وقت تک جاری رہنا ہے جب تک کہ اس لڑائی میں آخری مورچہ فتح نہیں کر لیا جاتا.اور اس کے بعد مسیح اور مہدی کے متعلق یہ جو بتایا گیا تھا کہ وہ جنگیں ختم کر دے گا تو اُس کی ایک شرح یہ ہے کہ جب بیرونی محاذ پر دشمن کا خاتمہ ہو جائے گا تو جنگ ختم ہو جائے گی.کیونکہ دشمن ختم ہو گیا تو جنگ ختم ہو گئی.اور یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اسلام غالب آچکا ہو گا.پھر بیرونی محاذ پر کوئی جنگ نہیں ہو گی.بہر حال یہ اُن باتوں کا خلاصہ ہے جو میں نے اپنے بچوں

Page 283

264 سبیل الرشاد جلد دوم اطفال الاحمدیہ اور بہنوں لجنہ اماءاللہ کے سامنے پچھلے ہفتہ اُن کے اجتماعات میں کیں.اس وقت اس پس منظر کے بعد جو میں نے ابھی آپ کو بتایا اور جس کا بتا نا ضروری تھا میں کچھ انتظامی باتیں کرنا چاہتا ہوں.یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر مہدی معہود کی جماعت نے شیطان کے ساتھ اتنی زبردست لڑائی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ہو کر لڑنی ہے تو اُس جماعت کا کوئی حصہ کمزور نہیں ہونا چاہئے.دیکھو! جب دُنیوی جنگیں لڑی جاتی ہیں تو اگر فوج کا میمنہ یا میسرہ یا بالفاظ دیگر فوج کا دایاں باز و یا بایاں باز و کمزور ہو تو بڑا خطرہ ہوتا ہے کہ دشمن اُس کمزوری سے فائدہ اُٹھا کر گھیرے میں لینے کی کوئی تدبیر کرے.اور اس طرح بڑا ز بر دست نقصان پہنچایا جا سکتا ہے.پس اس جنگ میں محاذ جنگ کا کوئی حصہ بھی کمزور نہیں رہنا چاہئے.اسے یہ جنگ برداشت نہیں کرتی.نہ ہم اسے برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں.اور اس الہی جماعت میں یہ خلیفہ وقت کا کام ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ کسی حصہ میں کمزوری نہ رہے.میں نے اپنی بہنوں سے کہا مفلوج عورت جماعت احمدیہ کی اس مہم میں شریک نہیں ہو سکتی.اور اُس کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں رہے گا.یا تو اپنا علاج کرو اور مفلوج نہ رہو.اور اپنے خاوندوں اور اپنے باپوں اور اپنے بھائیوں اور اپنے بیٹوں کے پہلو بہ پہلو شیطان کے خلاف اس آخری لڑائی میں حصہ لو یا جماعت کو چھوڑ دو اور ہمارے پاس سے چلی جاؤ !! میں نے اپنے بچوں سے کہا کہ کہانی لمبی ہے مختصر تمہیں سناتا ہوں.یہ کہانی آدم سے شروع ہوئی تھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا اختتام ہوتا ہے.یعنی شیطان سے آخری جنگ کی کہانی.وہ جنگ شروع ہو چکی تم یہ نعرے لگاؤ اور انہوں نے لگائے اور میں بڑا خوش ہوں کہ ہم شیطان سے یہ آخری جنگ لڑیں گے.اور کامیاب ہوں گے!! پس بچے کا ذہن اگر اس صداقت کو قبول کرلے تو وہ اس کے لئے تیاری بھی کرے گا.پھر وہ خاموش نہیں بیٹھے گا.ہر تیاری کے لئے تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں.پہلی جماعت جو علم کے میدان میں سب سے چھوٹی جماعت ہے اُس میں کامیاب ہونے کے لئے بھی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے.اور جو او پر کی جماعتیں ہیں مثلا بی اے یا ایم اے یا ایم ایس سی یا دنیا دار لوگ جو دنیا کی خاطر پی ایچ ڈی کرتے ہیں وہ بے حد محنت کرتے ہیں.میں آکسفورڈ میں پڑھتا رہا ہوں.وہاں اچھا پڑھنے والا وہ سمجھا جاتا تھا جو دورانِ سال اوسطاً بارہ تیرہ گھنٹے روزانہ پڑھتا تھا.اور درمیانہ درجہ میں پڑھنے والا وہ سمجھا جاتا تھا کہ جس کی اوسط روزانہ 9 گھنٹے کے قریب ہوتی تھی.اور نالائق طالب علم جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ پتہ نہیں یہاں کیا کرنے آ گیا ہے وہ ہوتا تھا جو اوسطاً صرف پانچ چھ گھنٹے روزانہ پڑھتا تھا.میرا

Page 284

.265 سبیل الرشاد جلد دوم خیال ہے کہ ہمارے ملک میں الا ما شاء اللہ اچھا طالب علم بھی اوسطاً سات آٹھ گھنٹے سے زیادہ روزانہ نہیں پڑھتا.لیکن اُن لوگوں نے دنیا میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھنا تھا وہ اس بنیادی صداقت کو سمجھ گئے تھے کہ جب کوئی چیز حاصل کرنی ہو تو اس کے لئے تیاری کرنی پڑتی ہے.اور ہر تیاری محنت طلب اور تکلیف میں ڈالنے والی ہوتی ہے.اور اُس تکلیف کی برداشت کے بعد انسان کو کامیابی حاصل ہوتی ہے.پہلے زمانہ میں ہمارے بزرگ بھائیوں نے تلوار کے ساتھ اسلام کی جو جنگیں لڑیں اس لئے کہ تلوار نیام میں سے مسلمانوں کی گردنیں اڑانے کے لئے نکلی تھی.اللہ تعالیٰ نے اُسی تلوار کے ساتھ کفار کی گردنیں اڑا دیں.اُس زمانہ کے حالات تھے.اللہ تعالیٰ کی مصلحت یہی تھی.نکھد تلوار ، ٹوٹی پھوٹی تلوار جس کا لوہا بھی درست نہیں تھا.غریب لوگ Under nourished ، جن کو کھانے کے لئے بھی پوری طرح نہیں ملتا تھا.اُن کے جسم بھی اُتنے مضبوط نہیں تھے جتنے کہ مقابلہ کے قیصر وکسریٰ کے پہلوانوں کے جسم تھے.اور حالت یہ تھی کہ خلافتِ اولی کے زمانہ میں کسری یا قیصر کے ساتھ جو جنگیں ہوئی تھیں تو تعداد میں اسلامی فوج اور کسری یا قیصر کی فوج میں اتنا فرق تھا کہ کسری یا قیصر کی افواج کے سپہ سالار ہر گھنٹے دو گھنٹے بعد لڑ نے والی فوج کو پیچھے ہٹا لیتے تھے اور ایک تازہ دم فوج اگلی صف میں بھیجتے تھے.مسلمانوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ ایک ہی صف آگے تھی.اس لئے پیچھے ہٹانے یا تازہ دم صف آگے بھیجنے کا سوال نہیں تھا.ایک سپاہی صبح تلوار چلانی شروع کرتا تھا اور جب تک شام کے اندھیرے یا شام کا جھٹپٹا پھر تلوار کو نیام میں نہیں لے جاتا تھا.اُس وقت تک وہ تلوار چلاتا تھا.آپ کوئی سوئی لے کر کسی جھاڑی کے اوپر مارنا شروع کریں.پانچ منٹ کے بعد آپ کے بازو شل ہو جائیں گے.انہوں نے ہاں انہی غریب اور کمزور جسموں اور ناقص ہتھیار والوں نے کہیں تو مشقت کی.دعائیں کیں.دعا بھی ایک تدبیر ہے.تلوار چلانے کی تربیت حاصل کی.اُن کو معلوم تھا کہ دشمن ہمارے مقابلہ میں ایک گھنٹہ بعد تازہ دم فوج لے آئے گا.لیکن ہمارے پاس اتنی تعداد نہیں کہ ہماری اگلی صف پیچھے چلی جائے اور پچھلی آگے آ جائے.اس کے لئے اُنہوں نے تیاری کی کتنی تیاری اُنہوں نے کی ہوگی.اُن کے بچوں کو دیکھو! یہاں تک میں نے تاریخ میں خود پڑھا ہے کہ بھائی بھائی کے سر پر سیب رکھ کر تیر کے ساتھ اُس سیب کو اُڑا دیتا تھا.اور اُسے پتہ تھا کہ کوئی خطرہ کی بات نہیں.میرا نشانہ اتنا عمدہ ہے کہ خطا نہیں جائے گا.چھوٹے بچوں نے یہاں تک تربیت حاصل کرنے کی طرف توجہ دی.میں اس سے کوئی اور استدلال نہیں کر رہا صرف یہی استدلال کرنا چاہتا ہوں کہ تربیت کے حصول میں اُنہیں اتنا شغف تھا کہ وہ اُس عمر میں میدانِ جنگ میں

Page 285

سبیل الرشاد جلد دوم 266 جانے کے اہل نہیں تھے لیکن نشانہ بازی میں اور تلوار چلانے میں وہ بہت آگے تھے.اُس وقت اسلام کے پاس جو اصل اسلحہ تھا وہ اسلام کی اندرونی خوبیاں اور اُس کا حُسن اور اُس کا نو ر تھا.لیکن دشمن نے مجبور کیا اور تلوار نکال لی.اور تلوار کا مقابلہ مجبوراً تلوار سے کرنا پڑا.پھر بھی اسلام نے کہا کہ ہے تو یہ ایک ذیلی چیز لیکن اس میں بھی تو مجھے شکست نہیں دے سکتا.اُن کے دلوں میں یہ عزم تھا.اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ شیطان کے ساتھ جنگ کی ابتداء ہو چکی اُنہوں نے ایک Pattern...خاکہ...بنانا ہوتا ہے پہلی لڑائیاں بعد میں لڑی جانے والی لڑائیوں کا ایک خاکہ تجویز کرتی ہیں.اگر پہلی لڑائیوں میں پسپائی ہو جائے تو بعد میں بعض دفعہ صفیں بھی درست نہیں کی جاسکتیں.اب بھی ان جنگوں میں ایسا ہی ہوا.جرمنی نے دوسری جنگ عظیم میں ایک چھوٹے سے حصہ میں اس طرح یلغار کی کہ سینکڑوں میل اندر چلا گیا.اور انگریز جیسی سلطنت جس کی زبان British Empire کہتے ہوئے تھکتی نہ تھی اُن کو ڈنکرک جیسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا.پس پہلی جنگوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے.وہ جنگ جو چودہ سو سال پر پھیلی ہوئی تھی اُس جنگ کی پہلی لڑائیاں بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہیں.دنیا کی کوئی مثال اِس کو نمایاں نہیں کر سکتی.اور قرونِ اولیٰ میں مسلمانوں نے دوفتم کی جنگ لڑی.اصل جنگ جو قرآن کریم کے روحانی اسلحہ کے ذریعہ تھی وہ بھی لڑی گئی.اور جو تلوار کی جنگ تھی وہ بھی لڑی گئی.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہمارے ایک محبوب جرنیل خالد بن ولیڈ آئے.آپ اُن کے خطبے پڑھیں.اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی بہت بڑا عالم خطبے دے رہا ہے.اسلام کی رُوح اُن کے اندر گڑی ہوئی تھی.ان کے اندر سے جو نکلتا تھا وہ خالص اسلام تھا.معلوم ہوتا ہے انہیں ایک جگہ قیصر کے ساتھ مقابلہ میں یہ معلوم ہوا کہ بہت زیادہ فرق اسلامی فوج اور دشمن کی فوج میں تھا.دشمن کی فوج کئی لاکھ تھی.اور اسلامی فوج تمہیں چالیس ہزار تھی.اس موقعہ پر حضرت خالد بن ولیڈ نے ایک طویل خطبہ دیا.اُس میں اُنہوں نے یہی کہا کہ جیت یا ہار کا انحصار سپاہ کی تعداد یا ہتھیاروں کی برتری پر نہیں ہوا کرتا.بلکہ خدا تعالیٰ کے منشاء پر ہوتا ہے.اس لئے تم گھبراؤ نہیں.خدا کا وعدہ ہے کہ تم جیتو گے.اور وہ جیتے.کسری کے مقابلہ میں بھی بہت تھوڑی تعداد تھی.چودہ ہزار کی فوج لے کر اُن کو پہلے مدافعت کرنا پڑی اور پھر حملہ بھی کرنا پڑا.اور ہر جنگ میں جو دو تین دن کے بعد ہوتی تھی چالیس پچاس یا بعض اوقات ساٹھ ستر ہزار کی تعداد میں تازہ دم ایرانی فوج مقابلہ میں آئی تھی.اور یہ وہی پرانے تھکے ہوئے سپاہی ، ان میں سے بھی کچھ زخمی اور کچھ شہید ہو جاتے تھے.حضرت خالد بن ولیڈ نے حضرت ابوبکر

Page 286

سبیل الرشاد جلد دوم 267 رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کمک کے لئے درخواست کی تو آپ نے صرف ایک آدمی کی کمک بھیجی.اس کی تفصیل لمبی ہے پہلے بعض دفعہ میں بتا چکا ہوں.بہر حال یہ فوج دنیا کی نگاہ میں معمولی حیثیت کی تھی.لیکن اُن کے دل خدا تعالیٰ کے یقین سے اس قدر بھرے ہوئے تھے کہ دشمن کو اُنہوں نے یہ پیغام بھیجا کہ ہم سے لڑنے کی غلطی مت کرو تو بہت اچھا ہے.کیونکہ جتنا پیار تمہیں اس زندگی اور اس زندگی کے عیش سے ہے اُس سے زیادہ پیار ہم موت اور جنت کی نعماء سے کرتے ہیں.ایک مٹھی بھر فوج اتنے زبر دست دشمن کے مقابلہ میں اُسے یہ نصیحت کرتی ہے.اُن کے سپہ سالار کو ایک ایک لاکھ روپے کے ہیرے جڑے ہوئی ٹوپی پہننے کی اجازت تھی.جو اُن کو انعام میں ملتی تھی.یہ بڑے منجھے ہوئے جرنیل ہوتے تھے.جو مقابلہ میں آئے تھے.اور اُن کے مقابلہ میں ایک چھوٹی سی فوج ، صحراء میں سے نکلی.اُس محسن اعظم و معلم اعظم اور اُس رحمت للعالمین نے اُن کے اندر ایک عظیم تبدیلی پیدا کر دی تھی کہ وہ اپنی حقیقت کو پہچاننے لگے تھے.پس اس دور کی اس عظیم جنگ کو اگر ہم نے کامیابی کے ساتھ لڑنا ہے تو ہمارا کوئی پہلو بھی کمزور نہیں ہونا چاہئے.نہ ہمارے انصار کمزور ہونے چاہئیں نہ ہمارے خدام کمزور ہونے چاہئیں.نہ ہمارے اطفال کمزور ہونے چاہئیں.نہ ہماری ناصرات کمزور ہونی چاہئیں.اور نہ ہماری لجنہ کی ممبرات کمزور ہونی چاہئے.مجھے انصار اللہ میں ایک کمزوری نظر آئی ہے.میں نے کہا تھا کہ آج کی یہ ساری باتیں دراصل پس منظر ہیں.آج میں کچھ انتظامی باتیں کرنا چاہتا ہوں.وہ باتیں میں مختصر ا کروں گا.کیونکہ اُن کا تعلق عمل کے ساتھ ہے.پھر خود ہی وہ باتیں ابتدائی ادوار میں سے گزر کر unfold.منکشف ہوتی رہیں گی.اور پھیل جائیں گی.اور میں اُمید کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اُن کے اچھے نتا ئج نکلیں.انصار اللہ کی عمر ہم نے چالیس سال سے اوپر رکھی ہے.ہمارے عہدے دار بالعموم بڑی عمر کے ہیں.اور ہونا بھی ایسا ہی چاہئے.وہ تجربہ کار اور پڑھے لکھے ہیں.جماعت کے پرانے سپاہی ہیں.لیکن بعض کام ایسے ہیں جن کا کم و بیش تعلق نسبتاً چھوٹی عمر سے بھی ہے.مثلاً جب میں نے خدام سے یہ کہا اور خوشی کی بات یہ ہے کہ اُس میں ہمارے بچے بھی شامل ہوئے.خدام سے میں نے یہ کہا کہ سائیکل چلانا سیکھو اور اتنی مشق کرو کہ ایک دن میں بغیر سُلا دینے والی تھکاوٹ کے تم سومیل سائیکل سفر کر لو.خدام کا رد عمل بڑا پیارا ہوا.اور میں اُن کے اِس رد عمل سے بڑا خوش ہوں اور ان کے لئے ہر آن دُعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے اخلاص میں اور اُن کی قوتوں میں برکت ڈالے.خدام کراچی سے سائیکلوں پر

Page 287

سبیل الرشاد جلد دوم 268 آئے.حیدر آباد سے آئے.پھر تھر پارکر سے بھی آئے جو حیدر آباد کے پرلے سرے پر ہے.جہاں ہماری زمینیں ہیں.کوئی ۴۹ کا ایک گروپ وہاں سے آیا.اور کچھ راستہ میں ان سے ملے.یہ لوگ اسی توے میل روزانہ کا فاصلہ طے کرتے ہوئے.گویا چھلانگیں لگاتے یہاں پہنچ گئے.جب میں نے انصار سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ انہیں بھی سائیکل چلانے کی مشق کرنی چاہئے.تو ہمارا جو۵ ۷ سال کا عہدیدار ہے وہ تو سوچے گا کہ میں اتنا سائیکل کیسے چلا سکتا ہوں وہ صیح سوچے گا کہ ۷۵ سال کی عمر میں سو میل روزانہ سائیکل نہیں چلایا جا سکتا.لیکن خالی وہ یہ نہیں سوچتا کہ میں نہیں چلا سکتا بلکہ اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ انصار اللہ کا یہ کام نہیں.اور یہ نہیں سوچتا کہ جس وقت ایک صاحب عزم و ہمت احمدی انتالیس سال کی عمر میں اور چالیسویں سال میں سو میل سائیکل چلا سکتا ہے تو وہی شخص ایک سال کے بعد انصار اللہ میں داخل ہو کر سو میل سائیکل کیسے نہیں چلا سکتا.یقیناً چلا سکتا ہے.پس اسی لئے ایک تجویز میرے ذہن میں یہ آئی ہے کہ آج میں انصار اللہ کی دو صفیں مقرر کرتا ہوں.اُن کی صف اول تو بزرگوں کی صف ہے.کیونکہ اُن کا زیادہ تر کام اسی نوعیت کا ہے.لیکن انصار اللہ کی ایک صف دوم ہوگی.جس کی عمر ۴۰ سے ۵۵ سال کی ہوگی.میں اس سوچ میں تھا.بعض سے مشورہ کیا.تو اُنہوں نے یہ مشورہ دیا کہ ۵۵ سال کا کون سا بوڑھا ہو جاتا ہے.احمدی تو ۵۵ سال میں بوڑھا نہیں ہوتا.الا ماشاء اللہ.بیماریاں بھی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں.پس ۴۰ سال سے ۵۵ سال کی عمر تک کی صف دوم اور ۵۵ سال سے زائد کی صفِ اوّل، یہ دو صفیں ہو جائیں گی.اور انصار اللہ میں صدر مجلس انصار اللہ کے ساتھ ایک نائب صدر مجلس انصار اللہ ہوگا جس کی عمر ۴۰ سے ۴۷ سال کے درمیان ہونی چاہئے.یعنی وہ اپنی عمر کے درمیان میں کہیں کھڑا ہونا چاہئے تا کہ وہ کم عمر اور بڑی عمر والوں دونوں کو سنبھال سکے.اب اس وقت صرف صدر مجلس انصار اللہ ہیں.اس وقت کے بعد اور اسی اجتماع میں اُس نائب صدر کا انتخاب ہوگا.جس میں حصہ لینے والے صرف وہ انصار ہوں گے جن کی عمر ۴۰ سے ۵۵ سال کے درمیان ہے.اور ایک مجلس انصار اللہ کے مستعد ممبر کو نا ئب صدر مجلس انصار اللہ منتخب کرو.اور دعائیں کرو.اور میری بھی دُعا ہو گی کہ اللہ تعالیٰ اُسے اتنی ہمت عطا کرے کہ وہ اُن کاموں میں بھی جن کا بظاہر زیادہ تعلق خدام الاحمدیہ کی عمر سے ہے.انصار اللہ کو پیچھے نہ رہنے دے.اور اپنی انتہائی کوشش کرے.پھر ایک وقت میں یہ درست ہے کہ انسان اپنی عمر کے لحاظ سے قانونِ قدرت کے مطابق بعض کا م نہیں کر سکتا.قانونِ قدرت اور خدا تعالیٰ کی حکمتوں سے نہ ہم نے جنگ کرنی ہے نہ ہم ایسا سوچ سکتے ہیں.لیکن جب تک ہم انصار میں آنے کے بعد بھی اس قسم کے کام کر سکتے ہیں اُس وقت

Page 288

269 سبیل الرشاد جلد دوم تک ہمیں کرنے چاہئیں.چونکہ کوئی کمزوری بھی کسی جہت اور پہلو سے ہم برداشت نہیں کر سکتے.اور اس کے ساتھ ہی اطفال الاحمدیہ کے نظام میں بھی ایک ترمیم کا اعلان کرتا ہوں.اطفال الاحمدیہ کی بھی دو صفیں ہوں گی.ایک طفل کی عمر غالبا ۷ سال ہے.سات سال سے لے کر بارہ سال تک اُن کی صف دوم ہو گی.اور تیرہ چودہ اور پندرہ سال، ان تین سال کی عمر کے اطفال کی صف اوّل ہو گی.کیونکہ یہ ایسی عمر ہے جس میں (سارے بچے تو نہیں ) بعض بچے جسمانی مشقت اتنی ہی اُٹھا سکتے ہیں جتنی خدام اُٹھا سکتے ہیں.مثلاً جو سائیکل سوار قافلہ نبی سر روڈ (سندھ) سے آیا وہ قافلہ کافی بڑا تھا.اُس میں دو اطفال تھے.جو ۹۰ یا سومیل روزانہ طے کر کے وہاں سے یہاں پہنچے.اور اس قسم کے ہزاروں اطفال ہو سکتے ہیں.اس کی مثال پہلے زمانہ میں ملتی ہے.ایک جنگ میں اُس زمانہ کے دو اطفال فوج میں شامل تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جائزہ لیا تو فرمایا کہ تم دونوں جنگ میں شامل نہیں ہو سکتے.اُنہوں نے کہا ہم نے شامل ہونا ہے.آپ نے کوئی امتحان لیا.اس میں ایک طفل کامیاب ہو گیا.آپ نے اُسے شامل کر لیا.تو دوسرے نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے بھی شامل ہونا ہے.آپ نے کہا تم چھوٹے ہو تم شامل نہیں ہو سکتے.اُس نے کہا میری اس سے گشتی کرا لیں.اس طرح وہ بھی شامل ہو گیا.پس اس قسم کے اطفال بھی ہیں جو مشقت برداشت کرنے میں بہت باہمت ہیں.سائیکل چلانے کی مہم بھی تربیت کا ایک حصہ ہے.اس کے بہت سے فوائد ہیں.ان میں سے بعض ، سمجھداروں کے سامنے آگئے اور انہیں معلوم ہو گیا.پس یہ مہم بے فائدہ اور بغیر مصلحت کے نہیں تھی.لیکن جیسا کہ میں نے انگلستان میں بھی کہا تھا کہ غلیلیں رکھو.اور مصلحت نہ پوچھو.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الامامُ جُنَّةٌ يُقْتَلُ مِن وَرَائِهِ.جو امام کہتا ہے اُس کو ماننا ہے.اُس کے پیچھے کھڑے ہو کر تم نے لڑنا ہے.مصلحتیں نہیں پوچھنی.اس میں یہ بھی اشارہ ہے.بس مصلحتیں نہ پوچھیں.میں اب یہ اعلان کرتا ہوں کہ مجھے انصار میں سے ہیں ہزار سائیکل سوار چاہئیں.میں نے کہا ہے کہ مجھے ایک لاکھ احمدی سائیکل سوار چاہئیں.میں ان کو احمدی سائیکل کہتا ہوں.جس سائیکل پر احمدی سوار ہے وہ سائیکل بھی احمدی ہے.اُس کی نیت وہی ہے نا ! جو اُس کے سوار کی ہے.پس مجھے انصار اللہ میں سے ۲۰ ہزار سائیکل چاہئیں اور اطفال میں سے دس ہزار سائیکل چاہئیں.اور ستر ہزار خدام میں سے چاہئیں.اس مرتبہ یہ پہلا تجربہ تھا.اور قریباً سات سوسائیکل سوار ربوہ سے باہر کے خدام اپنے اجتماع میں شامل ہوئے.ہم نے جو یہاں جائزہ لیا ہوا ہے اُس کے مطابق

Page 289

سبیل الرشاد جلد دوم 270 ساڑھے سات سوسائیکل ربوہ کے خدام کے پاس ہیں.گویار بوہ میں اُس دن کل چودہ سو خدام سائیکل موجود تھے.اور آج جو مجھے رپورٹ ملی ہے اس کے مطابق شاید اکتیس انصار سائیکل کے ذریعہ اپنے اجتماع میں شامل ہونے کے لئے ربوہ کے باہر سے آئے ہیں.تاہم یہ کوئی کمزوری نہیں کیونکہ اس کے لئے انہیں نہ تو تحریک کی گئی اور نہ تیاری کروائی گئی.بہر حال اب آئندہ کے لئے میں بتا رہا ہوں کہ میں ہزار انصار سائیکل سوار ، دس ہزار اطفال سائیکل سوار اور ستر ہزار خدام سائیکل سوار سات سال کے اندر اندر جتنی جلدی ہو سکے مجھے چاہئیں.آپ کوشش کرتے چلے جائیں.اب سائیکل کی قیمت چار سو روپے سے او پر ہوگئی ہے.ایک لاکھ سائیکل کا مطلب ہے چار کروڑ روپے.یہ بہت بڑا خرچ ہے.پس جولوگ نیا سائیکل نہیں خرید سکتے وہ سکینڈ ہینڈ لے لیں.جب میں آکسفورڈ میں داخل ہوا تو کئی دوستوں نے کہا کہ سائیکل پر سوار ہو کر باہر ڈور سیر کو جایا کریں گے.میں نے کہا میرے پاس تو سائیکل نہیں ہے.اُنہوں نے کہا کہ سائیکل کا یہاں تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے.ایک طالب علم نیا خریدتا ہے.جب جاتا ہے تو کسی کو دے جاتا ہے.پھر وہ بعد میں آنے والے کو دے جاتا ہے.اس طرح سائیکل طالبعلموں کی کئی نسلیں گزار کر بھی یہاں موجود ہیں.میں نے کہا بڑی اچھی بات ہے چنانچہ اُس زمانہ میں جب پونڈ کی قیمت گیارہ روپے کے برابر تھی میں نے چھپیں شلنگ یعنی چودہ روپے کا ایک سائیکل خریدا.وہ بڑا پرانا تھا.لیکن میرے کام کا تھا.جب ہم نے جانا ہوتا تھا تو اُس پرانے سائیکل پر بیٹھ کر باہر چلے جاتے تھے.پندرہ بیس یا تمیں میل تک اتوار کے دن سیر کر آتے تھے.ورزش بھی ہو جاتی تھی.پس ضروری نہیں کہ نئے سائیکل ہی لئے جائیں.ہاں جو نئے لے سکتے ہیں وہ ضرور نئے لیں.جو نئے نہیں لے سکتے اُن کو اگر کہیں سے بیس روپے کا سائیکل بھی ٹوٹا پھوٹا مل جائے تو لے لیں اور اسے ٹھیک کریں.تھوڑے سے پرزے اُس کے اندر ڈال لیں اور اُسے قابل استعمال بنالیں.میں نے مشاورت پر مجلس شوری کو کہا تھا کہ میں اُس ضلع کو جو خدام الاحمدیہ کی نگرانی میں اپنے ضلع میں سائیکل سواروں کے وفود بھیج کر ہر شہر اور قصبہ اور چھوٹے گاؤں سے ملاپ کرے ایک ہزار رو پیدا نعام دوں گا.اس میں ہمارے نقطہ نگاہ سے جو بڑی حکمت ہے وہ یہ ہے کہ اگر ہمارا دعویٰ تو یہ ہو کہ ہم اُس امت کے زندہ رکن ہیں جن کو خدا نے اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کہا.یعنی دنیا کی بھلائی کے لئے جنہیں پیدا کیا گیا ہے.اور حال ہمارا یہ ہو کہ اپنے ضلع کے گاؤں کے اقتصادی حالات اور وہاں کے لوگوں کی تکالیف سے بے خبر ہوں تو أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ہونے کا دعویٰ ہم کس طرح کر سکتے ہیں.کہ ہم اُس اُمت کے زندہ

Page 290

سبیل الرشاد جلد دوم 271 رکن ہیں.صرف اُس کی طرف منسوب نہیں ہوتے بلکہ ہمارے اندر ایک اسلامی رُوح پائی جاتی ہے.پس میں نے اعلان کیا کہ جو ضلع اپنے ماحول کے اندر اس طرح ملاپ کرے گا میں اُسے ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا.چھ ماہ کے اندر سر گودھا نے سائیکل سوار وفود بھیج کر جن میں سے بعض وفود میں انصار بھی شامل تھے.اپنے ضلع کے ایک ہزار اسی کے قریب گاؤوں میں سے ایک ہزار انتالیس گاؤوں کے ساتھ ملاپ کیا.لیکن ، سیالکوٹ کے انصار یہاں بیٹھے ہیں نا ؟ سیالکوٹ اس معاملہ میں بڑا پیچھے رہا ہے.حالانکہ وہاں بہت سی جماعتیں ہیں.اُنہوں نے توجہ ہی نہیں کی.سیالکوٹ ان ضلعوں میں سے ہے جہاں بڑی جماعتیں ہیں.اور جنہوں نے اس امر کی طرف سب سے کم توجہ کی.مجھے بڑی شرم آئی کیونکہ سیالکوٹ کے بہت سے دوستوں کے ساتھ میرے ذاتی تعلقات بھی ہیں.میں وہاں گیا بھی ہوں.بلکہ مجھے پھر خیال آیا کہ شاید میرا قصور ہو.اور میری غفلت اور کوتا ہی ہو.پاکستان بننے کے بعد سیالکوٹ ایک طرف پڑ گیا.جو ہمارے عام سفر کے دوران راستے میں نہیں آتا.تو میں نے سوچا کہ اگر مناسب جگہیں تلاش کی جائیں ( جو میں کروں گا ) اور میں ایک آدھ دن کے لئے سال میں دو تین مرتبہ جاتا رہوں اور وہاں دوستوں سے ملوں اُن سے پیار کروں.پیار سے اُنہیں سمجھاؤں کہ تمہارے اوپر یہ ذمہ داریاں ہیں.انہیں نبھاؤ.ستی نہ کرو.آپس کی لڑائیاں چھوڑ دو.جھگڑے ختم کرو.اپنی پوری توجہ اپنے مقصود کی طرف کرو.اور یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں تمہاری راہ کا کا نشانہ بنیں.پھر اللہ تعالیٰ فضل کرے تو ان کے اندر بھی وہ زندگی پیدا ہو جائے گی.زندہ تو وہ ہیں.کوئی احمدی سوائے منافق کے مردہ نہیں.سو وہ جماعتیں زندہ تو ہیں مگر سوئی ہوئی ہیں.ان کو بیدار کرنا ضروری ہے.اس کے لئے کوشش کریں گے.لیکن اس وقت میں اُن تمام اضلاع کو توجہ دلاتا ہوں جنہوں نے اس طرف پوری توجہ نہیں دی کہ یہ تو سالانہ مقابلہ ہے اور اگلے سال کا ایک ہزار روپے کا انعام اُس ضلع کو ملے گا ؟؟ اگلے سال کی کوششوں میں جو اول آئے گا.اُس کا وقت میں نے مستقل طور پر اب پندرہ ستمبر رکھ دیا ہے.پندرہ ستمبر تک رپورٹیں آنی چاہئیں.اور پھر یہاں جائزہ لے کر انعام کا فیصلہ ہو جائے گا.اگر اس نسبت سے بھی بیس فیصد تعداد ان سائیکل سوار وفود میں انصار کی ہوگی اور جو ضلع اول آیا ہے مثلاً اگر سو (۱۰۰) وفود سائیکل سواروں کے باہر گئے تو بیس فیصد انصار بھی گئے ہیں تو پھر میں انعام انصار اللہ کے اجتماع میں دیا کروں گا.اور اگر خدام الاحمدیہ نے آپ کو آگے نکلنے نہیں دیا یا آپ کو وہ پوری طرح بیدار نہیں کر سکے تو پھر انعام خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں دیا جائے گا.ممکن ہے اس میں کوئی تبدیلی ہو.لیکن فی الحال میں یہی اعلان کرتا ہوں.اب جس ضلع کے ہر گاؤں کے متعلق آپ کا کوئی نہ کوئی احمدی واقف ہونا چاہئے.ایک گاؤں

Page 291

سبیل الرشاد جلد دوم 272 ہے.اُس میں ایک مریضہ پڑی ہے.اُس کا علاج کرنے والا کوئی نہیں.ایک گاؤں ہے اُس میں ایک خاندان رات کو بھو کا سویا ہے اُس کو روٹی دینے والا کوئی نہیں.ہمیں خدا نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ ہم الناس کی تمام ضروریات اپنی طاقت کے مطابق پوری کرنے کی کوشش کریں.احمدی یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتا کہ وہ اس قابل ہے کہ دنیا کی تمام ضروریات پوری کر دے.لیکن احمدی کو دنیا کے سامنے یہ نمونہ پیش کرنا چاہئے کہ اپنی طاقت کے مطابق جتنا وہ کر سکتا تھا اُتنا کر دیا.اور اُس میں اُس نے غفلت اور کوتا ہی نہیں برتی.ایک غفلت اور کوتا ہی وہ ہے کہ آپ کے علم میں کوئی ضرورت مند ہے اور آپ نے اُس کی ضرورت پوری نہیں کی.ایک غفلت اور کوتا ہی یہ ہے کہ آپ نے یہ کوشش ہی نہیں کی کہ معلوم کریں کہ ضرورت مند کون ہے.یہ بھی ایک قسم کی غفلت اور کوتا ہی ہے.اور اتنا بڑا علاقہ یعنی سارا ملک ہے.اب سیالکوٹ میں غالباً دو ہزار نو سو سے اوپر گاؤں ہیں.سرگودھا میں چک بندی ہوئی تھی وہاں ڈیرے گاؤں کے ساتھ ہی منسلک ہیں.ان کو ہم گاؤں نہیں کہتے.وہاں گاؤں کی تعداد قریباً ایک ہزار اناسی ہے.یہ فرق ہے.یہ تعداد ایک ایک ضلع کی ہے.لیکن سارے پاکستان میں جتنے گاؤں ہیں ہر گاؤں میں ملاپ کرنا ان سے پیار کرنا.یہ آپ کا کام ہے.میں نے سائیکل سواروں سے کہا ہے کہ تم ہمارے منا ظر کی حیثیت سے نہیں جاؤ.تم اُس احمدی کی حیثیت سے وہاں جاؤ جس نے اپنا اچھا نمونہ دکھانا ہے.اُن سے ملو.اُن سے باتیں کرو.اُن سے کہو کہ ہمارے شہر میں آؤ.تو اگر تمہیں اس وجہ سے کہ انجان ہو.شہر کا پتہ نہیں تو ہمارے پاس آ جاؤ.یہ ہمارا پتہ ہے اور ہم وہاں تمہارا کام کریں گے تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی.تم وہاں ہمارے مہمان ٹھہر و.اس قسم کی دعوت اُنہیں دو.پس جتنی طاقت ہے اتنا تو کرو.اطِيعُوا اللهَ وَالرَّسُولَ اس میں جہاں یہ بتایا گیا ہے.کہ وسعت سے زیادہ خدا تعالی بوجھ نہیں ڈالتا وہاں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جتنی طاقت ہے اگر اُس سے کم بوجھ اُٹھاؤ گے.تو خدا تعالیٰ کی گرفت میں تم آ جاؤ گے.سائیکل کے ذریعہ اپنے ماحول میں سے ملاپ ایک بڑی فائدہ مند چیز ہے.میں بتا رہا ہوں کہ بعض مصلحتیں ہیں جو بتائی نہیں جاتیں.جب وقت آئے گا تو بتا دیں گے.ایک مصلحت یہ ہے کہ ہمارا یہ دعوئی ہے اور یہ جو شیطان کے خلاف اس جنگ کی آخری لڑائی لڑی جا رہی ہے.اُس کا تقاضا یہی ہے.اگر ہم نے نوع انسانی کو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا ہے تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کی جھلکیاں اُن تک پہنچنا چاہئیں.اور اس کی لذت اُن کو ملنی چاہئے تب وہ آئیں گے ورنہ اُن کو کیا دیپی.وہ کچھ جانتے ہی نہیں نہ اسلام کا اُن کو پتہ نہ خدا تعالیٰ کا پتہ نہ اس کی صفات کی خبر نہ اسلام کے حسن کا پتہ نہ اُس کے نور کی چمک اُنہوں نے دیکھی.نہ اُس کے فائدوں سے واقفیت حاصل کی.نہ

Page 292

سبیل الرشاد جلد دوم 273 قرآن کریم کی تعلیم کی حکمتیں سیکھیں.تو پھر تو وہ دُور رہیں گے.یہ چیزیں ان تک پہنچا نا ہمارا کام ہے.انصار اللہ کا ایک بڑا کام قرآن کریم کی تعلیم دوسروں تک پہنچانا ہے.بچوں کو بھی سکھا نا عورتوں کو بھی سکھانا اور دنیا کو بھی سکھانا ان کا کام ہے.اس کی طرف اتنی توجہ نہیں جتنی ہونی چاہئے.قرآن کریم ناظرہ ہے.جس کسی گاؤں میں شیعہ ہے وہابی ہے یا حنفی ہے.اگر وہ کہتا ہے کہ میں قرآن کریم پڑھنا چاہتا ہوں.لیکن میرے پاس حمائل نہیں ہے تو تم اُس کا انتظام کرو.قرآن کریم تو ہمارا سانجھا خزانہ ہے.اس پر صرف ہماری اجارہ داری تو نہیں.سارے مسلمان ہیں.ان تک اُن کو پہنچاؤ.یہ ایک بڑی خدمت ہوگی.اور یہ کام تمہارے ذمہ ہے.اور جیسا کہ میں نے اپنی بہنوں کے اجتماع میں اعلان کیا تھا.آپ کی ذمہ داری ہے کہ عورتوں کے اندر کمزوری پیدا نہ ہو.ہماری بچیوں کو حضرت خولہ سے آگے نکلنا چاہئے اس لئے کہ جس محاذ پر تاریخ نے ہمیں خولہ کو جو ہماری ایک پرانی بزرگ بہن ہے اور بزرگ بچی ہے.یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا ہے.جس محاذ پر اپنے گھوڑے پر سوار دشمن کی صفوں کے کبھی دائیں کنارے پر جا کر قیصر کے سپاہی کو وہ ہلاک کرتی تھی.اور کبھی بائیں کنارے پر.یہ فاصلہ تو بڑا تھوڑا تھا.اور جو خولہ آج پیدا ہونی چاہئے اُس نے کبھی آسٹریلیا کے محاذ پر جا کر روحانی اسلحہ سے اسلام کا حملہ کرنا ہے اور کبھی امریکہ میں اور کبھی روس میں بھی اور کبھی افریقہ کے صحراؤں میں.اُس کا محاذ بڑا وسیع ہے.اس لئے اُس کی زیادہ تربیت ہونی چاہئے ورنہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو نہیں نبھا سکتی پس اپنی عورتوں کو سنبھالو.یہ انصار کی ذمہ داری ہے.الا ماشاء اللہ ہر خاندان میں کوئی نہ کوئی انصار کی عمر کا فرد موجود ہے.اکثریت ایسے خاندانوں کی ہے جن کے اندر انصار کی عمر کے بڑے بزرگ موجود ہیں.ان کی ذمہ داری ہے کہ عورت کو بہکنے نہ دیں.ان کی ذمہ داری ہے کہ عورت کو غافل نہ ہونے دیں ان کی ذمہ داری ہے کہ عورت کو اس طرف لگائیں کہ وہ قرآنی علوم کو سیکھے.ان کی ذمہ داری ہے کہ ایک احمدی عورت اس حقیقت کو اس طرح پہچانے جس طرح وہ یہ پہچانتی ہے کہ یہ دن ہے اور سورج چڑھا ہوا ہے.کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں شیطانی طاقتوں کے ساتھ عبادالرحمان کی آخری جنگ جاری ہے.اور اس طرح آخری جنگ جاری ہے.اور اس آخری جنگ کی آخری لڑائی مہدی معہود کی بعثت کے ساتھ شروع ہو چکی.اور اسلام کے غلبہ کے دن نزدیک ہیں.اور وہ دن ہم سے بڑی قربانیاں چاہتے ہیں.ان قربانیوں کے پیش کرنے کے لئے وہ عورت تیار ہو.یہ انصار اللہ کی ذمہ داری ہے.میں نے خدام سے بھی کہا تھا کہ جا کر اپنی ماؤں کو سمجھاؤ.لیکن بیٹا اپنی ماں کو اس طرح نہیں سمجھا سکتا جس طرح بڑا بھائی اپنی چھوٹی بہن یا خاوندا اپنی بیوی یا بزرگ باپ اپنی

Page 293

سبیل الرشاد جلد دوم 274 بچیوں کو سمجھا سکتا ہے.پس خدام کو بھی میں نے کہا ہے کہ ضد کر کے اور مچل کر وہ ماؤں کو سمجھا سکتے ہیں.اور تم لوگوں بزرگانہ رویہ اختیار کر کے اپنے خاندان کی اپنے سے چھوٹی عورتوں کو سمجھا سکتے ہو.الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ میں مرد کا ایک فرض یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ عورت کی قوتوں کی صحیح نشو و نما کرے.میرے نزدیک قوام کی ایک تفسیر یہ بھی ہے.دیگر قومی کے علاوہ عورت کے روحانی قومی کی صحیح نشو و نما کرنے کی ذمہ داری بھی مرد پر ڈالی گئی ہے.اور بچوں کے قومی کی کامل نشو ونما کی پوری ذمہ داری ایک خاص عمر تک عورت پر ڈالی گئی ہے.اور اس طرح بھی اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان مساوات قائم کر دی ہیں ایک طرف مرد کو کہا کہ اس ماحول میں تو ذمہ دار ہے.ایک طرف عورت کو یہی ذمہ داری ایک دوسرے ماحول میں دے دی.اپنے اپنے ماحول کے مطالبات اور ضروریات کے لحاظ سے اور طاقتوں کے لحاظ سے اور اثر کے لحاظ سے مساوات کو قائم کر دیا پس انتظامی لحاظ سے انصار اللہ دو صفوں میں بٹ گئے.صف اول میں ۵۵ سال سے زائد عمر کے انصار ہوں گے اور صف دوم جو چالیس سال سے لے کر 55 تک کی عمر کے انصار ہوں گے.اور اطفال بھی دو صفوں میں بانٹ دیئے گئے ہیں.صف اول میں طفل کی عمر سے لے کر بارہ سال کی عمر تک کے بچے ہوں گے.اور صنف دوم میں وہ اطفال ہیں جن کی عمر تیرہ اور پندرہ سال کے درمیان ہے.اطفال کی یہ صف دوم.تین سال کے اندر اندر اپنے وقت پر خدام الاحمدیہ میں داخل ہو جائے گی.اور خدام کی ایک ہی صف ہے.انہوں نے محاذ کے اُوپر جا کر اسلام کی راہ میں ہر قسم کی قربانیاں دینی ہیں.اپنی عمر کے لحاظ سے اور اپنی تربیت کے لحاظ سے اُن کو ایسا ہونا چاہئے.اور ایسے ہیں یعنی تربیت کے لحاظ سے اُن کو ایسا ہونا چاہئے اور عمر کے لحاظ سے وہ ایسے ہیں کہ جسمانی لحاظ سے بھی اور دوسرے محاذوں پر بھی وہ انتہائی قربانیاں دے جائیں.یہ ان کا کام ہے اور انصار کا یہ کام ہے کہ وہ یہ عہد کریں کہ اپنے بچوں کو وہ اپنے سے آگے نکلنے نہیں دیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.( غیر مطبوعہ )

Page 294

سبیل الرشاد جلد دوم 275 سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث رحم اللہ تعالیٰ کا انتقامی خطاب فرموده ۱۱ار نبوت ۱۳۵۲۶ بهش ۱۱ نومبر ۱۹۷۳ء بمقام احاطه دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے اا نومبر ۱۹۷۳ء کو انصار اللہ مرکز یہ کے سالانہ سیدنا حضرت اجتماع کا اختتامی خطاب فرمایا اس کا متن ذیل میں درج ہے.میری آج کی تقریر کا موضوع بڑی ہی اہم دعائیں ہیں جن کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًاO یعنی رسول نے کہا.اے میرے رب ! میری قوم نے تو اس قرآن عظیم کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا ہے.یہ حقیقت ہمیں تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ امت محمدیہ پر ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے یا آچکا ہے جس میں بعض جگہوں پر یا بعض زمانوں میں ایسے لوگ پیدا ہونے والے ہیں جو اس قرآن عظیم کو مجور بنا دیں گے.اس قرآن عظیم کو پیٹھ پیچھے پھینک دیں گے اور اس کی طرف توجہ نہیں دیں گے.یہ آیہ کریمہ پڑھ کر طبیعت میں بڑا ہی دُکھ اور پریشانی پیدا ہوتی ہے اور بڑا ہی استغفار کرنا پڑتا ہے اور بڑی ہی دُعا کرنی پڑتی ہے.اپنے متعلق بھی اور اپنوں کے متعلق بھی اور اسی دعا (یعنی دو دعاؤں میں سے پہلی دُعا ) کی طرف میں اس وقت احباب جماعت کو توجہ کرانا چاہتا ہوں.دوست دُعا کریں اور بڑی کثرت سے دُعائیں کریں کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے زمانہ میں جماعت احمدیہ کو جو غلبہ اسلام کے لئے قائم کی گئی ہے.جس کی رُوح قرآنِ عظیم ہے ، جس کی زندگی کا انحصار اس عظیم کتاب میں ہے.جس کی جان ، جس کا دل اور جس کا وجود اس کے بغیر کچھ بھی نہیں.خدا نہ کرے کہ ہماری اس جماعت میں کوئی ایسا گروہ پیدا ہو یا کوئی ایسا فرد ہی پیدا ہو جو قرآن کریم کو مہجور بنانے والا ہو.قرآن کریم سے دوری کے نتیجہ میں اسلامی تاریخ نے جو بھیا تک شکلیں ہمارے سامنے پیش کی سورة الفرقان آیت ۳۱

Page 295

276 سبیل الرشاد جلد دوم ہیں اُن کا ایک ورق آج ہمارے سامنے ہے.اور وہ یہ کہ جماعت احمدیہ پر تحریف قرآن کا فتویٰ لگایا جا رہا ہے اور ملک میں فتنہ و فساد پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے یہ کہہ کر کہ نعوذ باللہ جماعت احمدیہ نے قرآن کریم میں تحریف کی ہے.یہ الزام تین شکلوں میں عائد کیا گیا ہے.گزشتہ سال یہ فتنہ سب سے پہلے بلوچستان میں کھڑا کیا گیا.اور جیسا کہ مجھے وثوق سے بتایا گیا ہے، وہاں کے علماء نے جو اپنے آپ کو مذہبی قائد سمجھتے ہیں، یہ شور مچا دیا کہ دیکھو کہ کتنا ظلم ہو گیا ! جماعت احمد یہ قرآن کریم کے مقطعات کا ترجمہ کرنے لگ گئی ہے.( بعض سورتوں سے پہلے آنے والے حروف مثلا الم.الرا.وغیرہ کوحروف مقطعات کہتے ہیں ) یہ تو بڑا ظلم ہو گیا.جماعت احمدیہ نے یہ بدعت شروع کر کے بڑا ظلم کیا.احمدی گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہوئے اور کافر بن گئے.وجہ یہ کہ انہوں نے حروف مقطعات کا ترجمہ کر دیا ہے.علاوہ اس کے کہ ہماری عقل یہ کہتی ہے کہ ان حروف کا ترجمہ کیا جائے.ہماری تاریخ بھی یہ کہتی ہے کہ ان کا ترجمہ کیا گیا ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک یعنی مہدی معہود علیہ السلام کے زمانہ تک ان کا ترجمہ ہوتا چلا آیا ہے.صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حروف کا ترجمہ کیا.اُن کے بعد آنے والوں نے ترجمہ کیا.غرض احادیث کی بعض کتب میں عموماً اور ہماری تفسیر کی کتب میں خصوصاً اور بڑی کثرت کے ساتھ مقطعات کے ترجمے موجود ہیں ہمارے دوسرے لٹریچر میں بھی ان کے ترجمے پائے جاتے ہیں.مگر اب قرآن کریم سے گویا اتنا بعد اور دُوری پیدا ہو گئی ہے کہ جو ماضی کی باتیں تھیں یا جو کتاب مکنون کے حصے کتاب مبین میں بدل چکے تھے اُن کا بھی علم نہیں رہا.صرف یہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر دُکھ دہ یہ حقیقت ہے کہ ان میں ایک آدمی بھی ایسا نہیں جو کھڑا ہو کر یہ کہے کہ تم کیا با تیں کر رہے ہو.ان حروف کے ترجمے تو پہلے ہو چکے ہیں.اب یا تو یہ جہالت کی انتہاء ہے اور یابُزدلی کی انتہاء ہے.کوئی ایک شخص بھی کھڑا ہو کر یہ نہیں کہتا کہ تم نے کیا شور مچارکھا ہے ، مقطعات کے ترجمے تو ہمیشہ سے ہوتے چلے آرہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک ان کا ترجمہ اور تفسیر بیان ہوتی چلی آئی ہے.ان کے معانی و مطالب بیان کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے.بایں ہمہ ہم پر یہ اعتراض کر دیا کہ ہم نے حروف مقطعات کا ترجمہ کیوں کیا ہے.جب میں نے یہ باتیں سنیں تو مجھے دراصل اس وجہ سے زیادہ دُکھ ہوا کہ دیکھو اس قوم نے قرآن کریم جیسی عظیم کتاب کو مہجور بنا دیا ہے.اس میں اُن کی اتنی دلچسپی بھی نہیں رہی کہ قرآن کریم کی جو تفسیر پہلے بیان ہو چکی ہے اُس کا تو علم حاصل کریں.اگر آج کی قرآنی تفسیر کو اُن کے دل اپنے گنا ہوں تفسیر کبیر رازی بجوشانی صفحہ سے تفسیر ابن کثیر اردو پارہ نمبر ۲۵ تفسیر روح البیان جو اول صفحه ۲۰

Page 296

سبیل الرشاد جلد دوم 277 کے نتیجہ میں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تو کم از کم تفسیر کی اُن کتب کا تو اُن کو علم حاصل ہونا چاہئے جن کے متعلق یہ مان چکے ہیں کہ فلاں فلاں تفسیری کتب بڑے پایہ کی کتب ہیں.اس اعتراض کی دوسری شکل یہ سامنے آئی کہ جماعت احمدیہ نے نعوذ باللہ قرآن کریم بدل دیا ہے.اس پر لوگوں نے بڑا شور مچایا اور ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا اور ایک فتنہ برپا کر دیا.حتی کہ یہ بات ہماری اسمبلی میں نمائندگان تک جا پہنچی کہ دیکھو قرآن کریم میں تحریف ہوگئی.بڑا ظلم ہو گیا.احمدی لوگ کافر اور اسلام کے دشمن ہیں اس لئے کہ یہ قرآن کریم میں تحریف کرتے ہیں مگر جب کہا گیا کہ وہ قرآن ہے کہاں؟ جس میں تحریف کی گئی ہے تو سب خاموش ہو گئے کیونکہ نہ کوئی ایسا قرآن ہے اور نہ پیش کیا جا سکتا ہے.اُمت مسلمہ میں وہ لوگ بھی پائے جاتے ہیں جنہوں نے قرآن کریم کی سینکڑوں آیات کو منسوخ سمجھ لیا.چنانچہ علماء متقدمین کے نزدیک قرآن کریم کی پانچ سو سے زائد آیات منسوخ سمجھی گئی ہیں پھر ابن عربی کے زمانہ میں منسوخ ہونے والی آیات کی تعداد ہیں تک پہنچی ہے اور پھر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے سامنے جب مسیح آیات کا مسئلہ پیش ہوا تو انہوں نے ان کی تعداد پانچ بتائی.مگر جب مہدی معہود مبعوث ہوئے تو آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کی کوئی آیت تو کیا اس کا کوئی شععہ کوئی زیر یا کوئی زبر اور نقطہ تک منسوخ نہیں ہوسکتا.جنہوں نے پانچ سو سے زیادہ آیات کو منسوخ سمجھا اور اس کا اعلان کیا وہ تو تمہارے نزدیک تحریف کرنے والے نہیں تھے لیکن جس وقت امام وقت یا جس مہدی معہود علیہ السلام نے دنیا میں یہ اعلان فرمایا کہ قرآن کریم کی کسی آیت کے منسوخ ہونے کا سوال تو در کنار اس کا کوئی شعفہ یا نقطہ یا زیر اور زبر تک بھی منسوخ نہیں ہو سکتی وہ آج تحریف کرنے والے ٹھہرے.اُمّتِ مسلمہ میں ایک فرقہ وہ بھی ہے جو کہتا ہے کہ یہ قرآن کریم جو ہمارے ہاتھوں میں ہے جسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بڑی محنت کر کے اکٹھا کیا تھا ( ویسے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھا گیا تھا) اور اسے صحیح ترتیب دے کر اس کو قرآن کریم کی موجودہ شکل میں جمع کیا تھا.یہ ہمارے ہاتھوں میں چلا آ رہا ہے.مگر ایک فرقہ امت مسلمہ میں ایسا بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ یہ قرآن تحریف شدہ ہے اس میں سے کئی سورتیں نکال دی گئی ہیں.اور اس میں گویا بڑی زبردست تحریف کر دی گئی ہے.میں نے اپنی آنکھوں سے پٹنہ میں خدا بخش لائبریری میں قرآن کریم کا وہ نسخہ دیکھا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ صحیح ہے.اس میں ایک سورت وہ بھی تھی جس کا نام سورۃ علی تھا.الفوز الکبیر فی اصول التفسیر صفحہ ۱۶ تا ۱۸ مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مطبوعہ ( فارسی )لاہور مطبع علیمی.تفسیر صافی صفحه ۱۳

Page 297

278 سبیل الرشاد جلد دوم اس کی عبارت پڑھ کر پتہ لگتا تھا کہ وہ قرآن کریم کا حصہ نہیں.بلکہ انسان کی بنائی ہوئی عربی ہے.میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑ رہا کہ انہوں نے یہ کیوں کیا اور نہ اُن پر اس وقت تنقید کرنا میرے مد نظر ہے.میں تو یہ بتا رہا ہوں کہ قرآن کریم سے بعد اور دُوری اور اسے مہجور سمجھ لینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنہوں نے قرآن کریم کے اس نسخے کو جو ہمارے ہاتھوں میں ہے محرف اور مبدل ہونے کا اعلان کیا اُن کے متعلق تو کوئی شور نہیں مچایا.لیکن جنہوں نے یہ اعلان کیا کہ اس کا ایک حرف بلکہ اس کا ایک شعشہ بھی نہیں بدل سکتا، اُن کے متعلق کہ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے قرآن کریم میں تحریف کر دی ہے.چنانچہ جب یہ مطالبہ کیا گیا کہ قرآن کریم کا تحریف شدہ نسخہ تو ہمیں بتاؤ.ہم بھی تو دیکھیں تم نے کیا معرکہ مارا ہے.مگر کسی سے کوئی جواب نہ بن پڑا.تو اب آہستہ آہستہ اس طرف آرہے ہیں کہ قرآن کریم کی معنوی تحریف کی گئی ہے جس کی واضح مثال ہفت روزہ چٹان ہے.جو آہستہ آہستہ یہ خیال کر رہا تھا کہ اُس نے غلطی کی کہ قرآن کریم کی لفظی تحریف کا لکھ دیا.چنانچہ اُس نے اپنے ٫۵نومبر ۱۹۷۳ء کے شمارہ میں لکھا : پچھلے دنوں مرزائیوں نے قرآن کریم کے ترجمہ میں تحریف و تغلیط کر کے جو قرآن شائع کیا اور اس کی تقسیم کے لئے جو طریق اختیار کیا وہ اب ڈھکا چھپا نہیں کھل کر سامنے آچکا ہے.“ پس معلوم ہوا کہ مخالفین کے نزدیک ہم پر ترجمہ میں تحریف و تغلیط کا الزام ہے.اور یہ ایک عجیب فقرہ ہے.قرآن کریم کا کوئی ترجمہ جس کے متعلق مترجم نے یہ دعوی کیا ہو کہ اللہ تعالیٰ کی وحی نے اُسے یہ ترجمہ سکھایا ہے ، اس کے متعلق تو یہ اعلان ہو سکتا ہے کہ اس میں تحریف کی گئی حالانکہ وہ خدا کی وحی تھی.لیکن اگر کوئی ایسا ترجمہ ہے جسے اللہ تعالیٰ کی وحی نے نہیں سکھا یا اس کے بارہ میں تحریف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.وہاں تو اختلاف کا سوال پیدا ہوتا ہے.غرض ہر وہ تفسیر جس کے متعلق تغییر کرنے والے نے یا آیت کا معنی کرنے والے نے یہ اعلان کیا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ تفسیر سکھائی ہے اور یہ معنی بتائے ہیں.اگر اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا کوئی برگزیدہ شخص یہ کہتا ہے کہ یہ غلط ہے.اور رڈ کر دینے کے قابل ہے تو پھر تو تمہارا یہ حق ہے کہ تم یہ کہو کہ جو معنی اور تفسیر وحی الہی کے نتیجہ میں انسان کے ہاتھ میں دی گئی ہے.اس کو تم رڈ کرتے ہو اور اس کے مقابلہ میں ایک دوسری تفسیر پیش کرتے ہو تو پھر تو یہ واقعی تحریف ہوگئی.لیکن وحی کا دروازہ تم نے بند کر دیا ہوا ہے اور جو انسان کی تفسیر ہے اس میں تحریف کے اعتراض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اس کا تو تصور بھی

Page 298

279 سبیل الرشاد جلد دوم نہیں کیا جا سکتا.پس یہ غلط فقرہ ہے جو محض فتنہ وفساد پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے.جہاں تک تغلیط یعنی غلط ترجمہ کا سوال ہے شیعوں کا ایک ترجمہ ہے.بریلویوں کا دوسرا ترجمہ ہے.دیو بندیوں کا تیسرا ترجمہ ہے.اسی طرح فرقہ وارانہ عقائد کے نتیجہ میں ترجمے بدل گئے یا زمانہ، زمانہ کے لحاظ سے ترجموں میں تبدیلی پیدا ہوگئی.مثلاً جب اردو میں ترجمے ہونے لگے تو جن لوگوں نے سب سے پہلے ترجمے کئے اُن کو تر جمہ کرنے میں بڑی دقت پیش آئی.اُن کے سامنے کوئی ترجمہ نہ تھا جو ان کی اس کوشش کی بنیاد بن سکے.تاہم انہوں نے بڑی کوشش، محنت اور دعاؤں کے ساتھ اپنے اپنے زمانہ کے حالات کے لحاظ سے اور ذہنی صلاحیتوں کے نتیجہ میں جو ترجمے کئے وہ بعد کے زمانہ میں آکر بدل گئے.کیونکہ بعض نے لفظی ترجمہ کیا اور معنوں کو سامنے نہیں رکھا.شاید اس لئے کہ وہ ڈرتے ہوں گے کہ لوگ کہہ دیں گے یہ تم نے کیا کر دیا ؟ تم نے خود ہی قرآن کریم کے معنے سمجھانے شروع کر دیئے ہیں یا انہوں نے یہی ضرورت سمجھی ہوگی کہ عربی الفاظ کا ترجمہ کر دیتے ہیں بعد میں آنے والے خود ہی دعاؤں کے بعد تفسیری معانی سیکھ جائیں گے.پھر جب اردو زبان نے ترقی کی اور بیچ میں حالات زمانہ میں ایک نیک تبدیلی رونما ہوئی تو بعد میں آنے والے لوگوں نے ترجمے بدل دیئے مگر ان بدلے ہوئے ترجموں کو باوجود اس حقیقت کے کہ یہ پہلوں سے مختلف ہیں ، آپ تغلیط تو نہیں کہہ سکتے اور نہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تحریف ہے.غرض عملاً دیکھنے میں یہ آیا کہ قرآن کریم کا ایک ترجمہ ہوا جو پہلوں سے مختلف تھا.پھر اس کے بعد ایک اور وہ بھی مختلف تھا.مترجم نے اپنی سمجھ کے مطابق اور تفسیر جو کسی کے دماغ میں آئی اس کے مطابق ترجمہ کر دیا.پھر زمانہ، زمانہ کے حالات مختلف تھے.زبان ارتقائی ادوار میں سے گزرتی ہے، اس لئے تراجم مختلف ہو گئے.پھر کسی کے سامنے یہ تھا کہ قرآن کریم جو عربی میں ہے عربی کے ہر لفظ کا ترجمہ سکھا دیا جائے.ذہین آدمی خود ہی اس سے استدلال کرلے گا.کسی کو خدا تعالیٰ نے تفسیر سکھائی.اس نے اس تفسیر کے مطابق قرآن کریم کا ترجمہ کیا.اب اسے ہم اختلاف تو کہہ سکتے ہیں مگر ترجمے کے اختلاف، تغلیط یا تحریف نہیں کہہ سکتے البتہ غلط ترجمہ کئے جانے کا امکان رہتا ہے اور وہ یہ کہ جب ایک شخص نے یا بہت سے اشخاص نے جو مختلف تراجم کئے ہوئے ہوں وہ پہلوں کے ترجموں سے مختلف بھی ہوں اور لغت عرب بھی اُن کی مستعمل نہ ہو.پھر تو یہ تغلیط ہے اسے ہم غلط ترجمہ کہیں گے.مثلاً ایک لفظ ز کسی ہے.عربی لغت اس کے پندرہ سولہ معنے بتاتی ہے.پندرہ سولہ معنوں میں یہ لفظ عربی زبان میں استعمال ہوتا ہے.مثلاً زکوۃ ، تزکیہ وغیرہ.مجھے یاد ہے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی تفسیر میں ایک جگہ اس لفظ کے پندرہ سولہ معنوں میں سے منتخب کر کے غالبا گیارہ معنے لئے ہیں اور ان کو حل لغت میں درج کر دیا ہے.یہ بتانے کے

Page 299

سبیل الرشاد جلد دوم 280 لئے کہ اس لفظ کو عربی زبان میں اِن ان معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے.لیکن جب تفسیر بیان کی تو صرف چھ سات معنوں کو لیا.یعنی حل لغات میں تو گیارہ معنے دے دیئے لیکن تفسیر میں کچھ معنے چھوڑ دیئے.ایک دفعہ میں ایک مضمون پر غور کر رہا تھا.اس سلسلہ میں یہ آیہ کریمہ بھی زیر غور آئی جس میں زکی کا لفظ استعمال ہوا ہے اور جس کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے تفسیر بیان فرمائی ہے.چنانچہ میں نے جب یہ تفسیر پڑھی تو مجھے بڑی دلچسپی پیدا ہوئی.یہ دیکھ کر کہ گیارہ معنے حل لغات میں دے دیئے ہیں.لیکن آپ نے تفسیر کرتے وقت فائدہ اٹھایا صرف چھ سات معنوں سے.چنانچہ جب میں نے اس پر غور کیا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے یہ سکھایا کہ لغوی لحاظ سے جو معنے باقی رہ گئے تھے اگر اُن پر بنیا درکھ کر تفسیر کی جاتی تو یہ ایک بہت لمبا اقتصادی مضمون بن جاتا لیکن چونکہ پہلے ہی تفسیر لمبی ہو رہی تھی.اس لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ان معانی کی تفسیر کو چھوڑ دیا لیکن حلِ لغات میں ان کو درج کر دیا.چنانچہ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ آپ کو ان معنوں کی تفسیر بھی سکھائی گئی تھی لیکن جگہ کی قلت کی وجہ سے آپ نے چھوڑ دی.پھر اللہ تعالیٰ نے نئے سرے سے ان کی تفسیر مجھے سکھائی اور میں نے اقتصادی مضامین کے سلسلہ میں استعمال کیا.نہ صرف یہ بلکہ جو لغوی معنے نہیں دیئے گئے تھے.اللہ تعالیٰ نے مجھے اُن میں سے بھی ایک معنی کی تفسیر سکھا دی.پس اگر تر جمہ میں ایک شخص اپنے مضمون کے لحاظ سے ترجمہ کرتے ہوئے ذکی کے ایک معنے لیتا ہے.ایک دوسرا متر جم کوئی دوسرے معنے لیتا ہے اور نئی تفسیر بیان کرتا ہے تو یہ اختلاف ہے مگر دونوں معانی اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہیں.زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ دو مختلف تفاسیر کی بنیا دان دو معانی پر رکھی گئی ہے.لیکن اگر کوئی شخص ایک ایسا ترجمہ کرے جو لغت کے لحاظ سے درست نہ ہو تو یہ غلط ترجمہ ہے.اس سے قرآن کریم کی معنوی حیثیت پر حرف آتا ہے.یہ صحیح ہے.لیکن ہمارے ترجمہ اور تفسیر کے متعلق کوئی آدمی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ ان کی بنیا دلغوی معنوں کے خلاف اور ان سے متضاد ہے.یعنی یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہم نے کسی آیت یا لفظ کے وہ معنے دے دیئے ہیں جن کی عربی لغت متحمل نہیں.جہاں تک تفسیر کا تعلق ہے میں یہ کئی بار بتا چکا ہوں کہ قرآن کریم ، کتاب مبین بھی ہے اور کتاب مکنون بھی ہے.کتاب مکنون سے تفسیر قرآنی کے وہ بطون مراد ہیں جن میں اسرار و رموز یا چھپے ہوئے مضامین پائے جاتے ہیں.جن کا علم اللہ تعالیٰ کے مظہر بندوں کو دیا جاتا ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

Page 300

سبیل الرشاد جلد دوم 281 لا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ یعنی قرآن کریم کے کتاب مکنون والے حصے کو مظہر بندوں کے سوا اور کوئی چھو نہیں سکتا.ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.قرآن کریم کی پہلوں نے جو تفسیریں کیں اُن کے دو حصے ہیں.ایک وہ تفسیر جس میں کئی باتیں روا یتا بیان کر دی گئیں.اور ایک وہ تفسیر ہے جس میں مفسرین نے قرآن کریم اور اس کے معانی اور تفسیر کو خود سمجھ کر بیان کیا ہے.ظاہر ہے ایسی تفسیری کتب جن میں بہت سی باتیں روایتاً درج کر دی گئی ہیں.اُن کے اندر کمزوری پائی جاتی ہے.مثلاً یہ لکھ دیا گیا کہ نعوذ باللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ بولا اسی قسم کی اور بھی کئی روایات بیان کر دیں جن میں دوسرے انبیاء علیہم السلام پر اتہامات لگائے - گئے ہیں.اب ایسی تفسیر تو آج کے علماء ظاہر کو قابل قبول ہے.جس میں انبیاء علیہم السلام پر تہمتیں لگائی گئی ہیں.لیکن وہ تفسیر قابل قبول نہیں جس کی تفسیر میں نہ صرف تمام انبیاء کو معصوم قرار دیا گیا ہے بلکہ جس کے نتیجہ میں دُنیائے عیسائیت کو یہ چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر تم سورۃ فاتحہ کے معانی کے مقابلے میں اپنی پوری تو رات میں سے سورۃ فاتحہ میں مذکور روحانی اسرار نکال دو تو ہم سمجھیں گے کہ تمہارے ہاتھ میں کچھ ہے.یہ حسین تفسیر تو رڈ ہونے کے قابل مگر یہ چیز قبول کرنے کے قابل کہ فلاں نبی نے یہ جھوٹ بولا اور فلاں نبی نے یہ گناہ کبیرہ کیا.اگر ہم حسن ظنی سے کام لیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسی روایات دراصل آنے والی نسلوں کو یہ بتانے کے لئے تھیں کہ قرآن کریم کی بعض تفسیری روایات کے بارہ میں سوچ سمجھ سے کام لینا.ساری روایات قبول کرنے کے قابل نہیں ہوتیں.چنانچہ بعض مجد دین جنہوں نے اپنے اپنے وقتوں میں بڑے معرکۃ الآراء کارنامے انجام دیئے انہوں نے اپنے ماننے والوں میں یہ اعلان کر دیا ( خود میں نے اس قسم کا اعلان پڑھا ہے ) کہ اس قسم کی تفاسیر کو نہ پڑھو کیونکہ ان میں ہر قسم کا رطب و یابس جمع کر دیا گیا ہے.پس یہ عجیب بات ہے کہ جو آج کی تفسیر ہے یعنی مہدی معہود علیہ السلام نے خدا سے سیکھ کر جو تفسیر بیان فرمائی ہے.اس پر تو لوگ اعتراض کرتے ہیں مگر جنہوں نے خدا سے سیکھے بغیر اس قسم کی باتیں بھی ریکارڈ کر دیں جورڈ کے قابل ہیں اُن کو قبول کر لیتے ہیں.بے شک تم حسن ظن سے کام لو.ہم بھی حسنِ ظن سے کام لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں اور رحمتوں سے ایسے مفسرین کو بھی بہترین جزا دے جنہوں نے اس قسم کے اعتراضات بھی لکھ دیئے جورڈ کے قابل ہیں.میں سمجھتا ہوں یہ تمہارے سامنے رکھے ہی اس لئے گئے تھے کہ ہر اسلامی ضمیر اسلام کا ہر تربیت یافتہ اور بیدا ر ضمیر ان چیزوں کو رڈ کر دے اور بخاری جلد ۴ صفحه ۱۴۶ امصری و ترمذی جلد۲ صفحه ۱۴۶ مجتبائی - تفسیر ابن کثیر زیر آیت بَلْ فَعَلَهُ كَثِيرُ هُمُ (الانبياء: ۶۴) تفسیر معالم التنزیل جلد ۲ صفحه ۳۵ - صفحہ ۱۲۸ - صفحہ ۱۷۵ جلد اول - جلالین مع کمالین وغیرہ صفحہ ۳۷۹ تفسیر ابن جریر طبری جلد ۳ صفحه ۳۵۹

Page 301

282 سبیل الرشاد جلد دوم خدا تعالیٰ نے اپنے مطہر بندوں کو قرآن کریم کے جوڑ و حانی علوم سکھائے اُن کو قبول کرے.غرض یہ بڑی عجیب بات ہے کہ پرانی تفاسیر میں سے قابلِ اعتراض حصوں کو تو لوگ قبول کر لیتے ہیں.لیکن مہدی معہود علیہ السلام نے خدا سے سیکھ کر جو تفسیر بیان فرمائی ہے اسے رڈ کر دیتے ہیں.جہاں تک مہدی معہود علیہ السلام کی تفسیر کا تعلق ہے اس کا تجزیہ ہم کرتے ہیں.آپ نے ایک وہ تفسیر کی جو براہ راست اللہ تعالیٰ سے سیکھی جس کی آج کے زمانہ کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اور الجھنوں کو سلجھانے کے لئے اور خدمت انسانی کی راہوں کو فراخ کرنے کے لئے اور انسان انسان کو قریب سے قریب تر لانے کے لئے اس وقت ضرورت تھی.گویا تمام بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنا کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنے کے لئے قرآن کریم کے جن علوم کی ضرورت تھی وہ مہدی معہود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سیکھے اور لوگوں تک پہنچائے.امام مہدی کا مقامِ حکم کی تفسیر آپ کی تفسیر کا ایک دوسرا پہلو ہے اور اس کا تعلق اُن غلطیوں کو دُور کرنے سے ہے جو پرانی روایات کی صورت میں پہلے مفسرین نے شامل کر دیں.اسلام میں ان غلطیوں کے راہ پا جانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ قرآن کریم کی تفسیر کرتے وقت وہ احادیث قبول کر لی گئیں جو نہ روایتاً درست تھیں اور نہ در ایتاً درست تھیں.اس لئے کسی آدمی کا یہ کہنا کہ فلاں بات حدیث میں آتی ہے اور تم اسے رڈ کرتے ہو عقلاً بھی صحیح نہیں ہے.پھر عجیب بات یہ ہے کہ احادیث پہنچانے والوں میں سے سب سے زیادہ ثقہ اور قابلِ اعتبار حضرت امام بخاری ہیں.اب حضرت امام بخاری کو تو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ قریباً چھ لاکھ احادیث کے مجموعہ میں سے قریباً پانچ لاکھ اکانوے ہزار احادیثوں کو رڈ کر دیں لیکن حضرت مہدی معہود علیہ السلام کو یہ اختیار نہیں دیا جاتا کہ حضرت امام بخاری کی وساطت سے جو قریباً نو ہزار حدیثیں اُس تک پہنچیں ، اُن کے متعلق خدا سے علم پا کر یہ کہے کہ اُن میں سے فلاں فلاں حدیثیں رڈ کرنے کے قابل ہیں.حضرت امام بخاری کا مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مہدی معہوڈ کے برابر نہیں ہوسکتا.یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی یہ کہہ دے کہ مہدی معہود علیہ السلام کا مقام و مرتبہ اسے سمجھ نہیں آیا.ایسی صورت میں لوگوں کو چاہئے کہ وہ ہم سے حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی صداقت کے دلائل سنیں.خدائے واحد و یگانہ نے حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ اپنے فرشتوں کے ذریعہ جو عظیم برکتیں نازل فرمائی ہیں.ہم سے اُن کا علم حاصل کریں.اسلام کی ترقی کے لئے جو اس وقت کامیاب کوششیں ہو بستان المحد ثین ( اردو ) تالیف علامہ شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی ترجمہ مولانا عبدالسمیع صاحب صفحہ ۷۳

Page 302

283 سبیل الرشاد جلد دوم رہی ہیں ، اُن سے آگاہی حاصل کریں.ہم نے حضرت مہدی معہود علیہ السلام کو مہدی معہود علیہ السلام علیٰ وجہ البصیرت اور پورے یقین کے ساتھ مانا ہے.ہم نے اپنی آنکھوں ، دل اور دماغ سے پورا کام لیتے ہوئے مہدی معہود علیہ السلام کے دعوئی پر غور کیا اور اُسے صحیح پایا اور آپ کی صداقت کو تسلیم کیا.یہ وہ صداقت ہے جس پر آسمان نے گواہی دی.یہ وہ صداقت ہے جس پر زمین نے گواہی دی.مہدی معہود علیہ السلام وہ وجود ہے جس کی صداقت پر پہلوں نے گواہی دی اور جس کی صداقت پر قرآن کریم بھی گواہ ہے.یہ وہ موعود ہے جس کی علامتیں نہ صرف مخبر صادق حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں بلکہ آپ سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام نے بھی بتائی ہیں اور پھر وہ علامتیں حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے وجود میں پوری بھی ہو گئیں جن کا پورا کرنا انسان کے بس میں نہ تھا.مثلاً کہا گیا تھا کہ مقررہ دنوں میں مقررہ مہینہ میں آگے پیچھے سورج اور چاند کو گرہن لگے گا.اب گرہن لگنا میرے اور تیرے اختیار میں تو نہیں اور نہ مدعی مہدویت کے اختیار میں تھا.جس وقت یہ نشان ابھی ظاہر نہیں ہوا تھا معترض اعتراض کرتا تھا کہ ہم کیسے ایمان لائیں.مہدی کی تو یہ علامت تھی اور یہ ظاہر نہیں ہوئی.مگر جب وہ علامت ظاہر ہوگئی تو کہنے لگے یہ حدیث جھوٹی ہے.کیا یہ حدیث اس لئے جھوٹی ہے کہ یہ حرف بحرف پوری ہو گئی ہے؟ کیا تمہیں یہ حق پہنچتا ہے کہ جو حدیث عملاً پوری ہو جائے ، اُس کو جھوٹا قرار دے دو.مگر تمہارے نزدیک مہدی معہود کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی حدیث کے متعلق اپنی نورانی فراست سے اور خدا سے علم حاصل کر کے یہ کہے کہ وہ قابل قبول نہیں ہے.تمہیں تو یہ حق پہنچتا ہے کہ تمہارا ہر فرقہ حدیث کے اپنے مطلب کے معنے کر لے مگر کیا مہدی معہوڈ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ یہ کہے تم جو معنی کر رہے ہو یہ غلط ہیں.حالانکہ مہدی کو تو خدا کے بزرگ ترین انسان حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حَكَمُ قرار دیا ہے.اُس نے تو فرقے فرقے کے درمیان فیصلہ کرنا تھا.سوال پیدا ہوتا ہے کہ مختلف فرقے مہدی معہود کے خلاف کیوں اکٹھے ہو گئے.اس لئے اکٹھے ہوئے کہ ہر فرقہ کہتا ہے کہ چونکہ ہمارے فرقہ کے بعض عقائد کو مہدی معہوڑ نے غلط قرار دیا ہے اس لئے إِنْ لِمَهْدِيّنَا ايَتَيْنِ لَمْ تَكُونَامُنُدُ خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ يَنْكَسِفُ القَمَرُ لِأَوَّل لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِى النِّصْفِ مِنْهُ وَلَمْ تَكُونَا مُنْدُ خَلَقَ اللهُ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ (دار قطنی صفحه ۱۸۸) قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوْشَكَنْ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَما عَدْلاً فَيَكْسِر الصَّلِيْب وَيَقْتُلُ الْخَنْزِيرَ وَيَضَعُ الْحَرَبَ وَيَفِيْضُ الْمَالَ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ حَتَّى تَكُونَ السَّجَدَةُ الْوَاحِدَة خَيْرٌ مِّنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا ( بخاری کتاب الانبیاء باب شدة الزمان )

Page 303

284 سبیل الرشاد جلد دوم ہم ان کو نہیں مانتے.چنانچہ ہر فرقہ آپس کی جنگ بُھول کر حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے خلاف اکٹھا ہو گیا.یہ عجیب وجہ اتفاق ہے.بریلویوں نے کہا کہ چونکہ اُن کے بعض عقائد سے اختلاف رکھنے والا مہدی آ گیا ہے اس لئے وہ اسے تسلیم نہیں کرتے.اور دیوبندیوں نے کہا کہ چونکہ اُن کے بعض عقائد سے اختلاف کیا گیا ہے اس لئے وہ اسے قبول نہیں کرتے.حالانکہ خود بریلوی دیوبندیوں کے اُن عقائد سے متفق نہیں اور دیوبندی بریلویوں کے اُن عقائد سے اتفاق نہیں کرتے لیکن سب نے اکٹھے ہو کر اعتراض کر دیا اس ایک شخص پر جو غلبہ اسلام کے لئے کھڑا ہوا تھا اور جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حَكَمُ قرار دیا تھا.یہ سب اسلام کے غلبہ کی راہ میں روک بننے کے لئے اکٹھے ہو گئے اور اُس کے مشن کو نا کام کرنے کے لئے اُس پر حملہ آور ہو گئے.غرض لوگوں نے یہ نہ سوچا کہ جس کی مخالفت پر وہ کمر بستہ ہیں اُسے تو حکم قرار دیا گیا ہے اس کا تو کام ہی یہ ہے کہ دنیا خواہ ناراض ہو خدا کا منشاء پورا ہو.صرف ایک ہی ذات ہے جس کو خوش کرنے کے لئے وہ آیا ہے.اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معلم حقیقی خدائے واحد و یگانہ کی ذات بابرکات ہے.باقیوں کی اُس نے نہ پر واہ کرنی تھی اور نہ کی.اور نہ ہم اُس کے متبع ہی حق وصداقت کے مقابل کسی کی پرواہ کرتے ہیں.پس قرآن کریم کو مہجور بنا کر اس قسم کے بھیانک حالات پیدا ہو گئے کہ جو پہلے کہا گیا تھا لوگ اُسے بھی بھول گئے.مثلاً حروف مقطعات کی تفسیر کی جاچکی ہے اور پُرانی تفسیر کی کتابوں میں شائع شدہ موجود ہے مگر کہتے ہیں مقطعات کی تفسیر کرنا کفر ہے.بہت بڑا ظلم ہے.اس سے تو آدمی واجب القتل بن جاتا ہے.اب اس قسم کا جھوٹا اور غلط الزام لگایا جاتا ہے مگر کوئی شخص کھڑا ہو کر یہ نہیں کہتا کہ ہوش کرو کیوں جھوٹی باتیں کر رہے ہو.پھر کہہ دیا گیا کہ احمدیوں نے قرآن میں تحریف کر دی ہے.کیا تحریف کی ہے کوئی نہیں بتا تا.یہ بھی عجیب بات ہے.جن لوگوں نے قرآن کریم میں پانچ سو آیات منسوخ کر دیں وہ تو بزرگ ٹھہرے اور سچے مسلمان ! لیکن جو قرآن کی آیات کو منسوخ نہیں سمجھتے اور جو نسخ کے قائل نہیں وہ لوگوں کے نزدیک تحریف کے مرتکب اور اسلام کے دشمن ہو گئے.پرانی تفسیروں میں ” یہودی روایات کے چھپنے کی بھی اجازت ہے اُن کے پڑھنے کی بھی اجازت ہے.حتی کہ اُن کو پڑھ کر اور از بر یاد کر کے آدمی علامہ بھی بن جاتا ہے.یہ سب کچھ تو جائز ہے لیکن اگر قرآن کریم کی ایسی تفسیر کی جائے جس میں اللہ تعالیٰ کا منشاء اور حالات حاضرہ میں قرآن کریم کی رہنمائی کا ذکر ہے اور غلط روایات کا محاکمہ کیا گیا ہو تو وہ نا جائز.یہ کیسی اسلام دوستی ہے؟ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں مسلمان راویوں اور مفسرین نے

Page 304

سبیل الرشاد جلد دوم 285 یہودیوں کی روایات کو لے لیا اور انہیں جابجا بیان کر دیا.میں اس کے یہ معنی بھی لے سکتا ہوں اور لیتا ہوں کہ ان راویوں اور مفسرین نے کہا ایک حکم کے آنے کی پیشگوئی کی گئی ہے.ہمارے پاس روایات کی شکل میں جو بھی رطب و یا بس پہنچا ہے ہم اُسے درج کر دیتے ہیں.جب وہ حکم آئے گا تو وہ خود ہی ان کے صحیح یا غلط ہونے کا حکم لگائے گا.وہ خود ہی یہ فیصلہ کرے گا کہ یہ گند ہے اسے باہر نکال دو.یہ صداقت ہے اسے اپنا لو.یہ تو تھا اُن روایتیوں کے بارے میں جو مفسرین نے قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے اپنی کتابوں میں درج کر دیں.اب میں حدیث کو لیتا ہوں قرآن کریم کی احسن تفسیر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے ہوتی ہے.کیونکہ ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے اور یہی صداقت ہے کہ قرآن کریم چونکہ ایک کامل اور مکمل کتاب ہے ، اس لئے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد قرآن کریم میں زیادتی نہیں کرتا بلکہ قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت کی تفسیر کرتا ہے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام ارشادات دراصل قرآن کریم کی تفسیر ہیں.اب یہ فیصلہ کرنا باقی رہ جاتا ہے کہ آیا کون سا ارشاد فی الواقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے.اس مشکل کو حضرت امام بخاری نے حل کر دیا.اُن کے پاس جو حدیثیں یا خبریں یا روایتیں پہنچیں اُن کی تعداد چھ لاکھ تھی.ان میں سے حضرت امام بخاری نے پانچ لاکھ کا نوے ہزار روایتوں کو تو ر ڈ کر دیا یہ کہہ کر کہ یہ مشکوک ہیں اس لئے قابل قبول نہیں.اور صرف نو ہزار کو اپنی نیک نیتی کے ساتھ قبول کر لیا.یہی حال دوسرے مؤلفین حدیث کا ہے.پس یہاں حدیث کا سوال نہیں.اصل سوال یہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو رد کیا جاتا ہے.بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام نے حکم کی حیثیت میں کسی حدیث کے متعلق یہ فیصلہ کرنا ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے بھی یا نہیں.حضرت امام بخاری کو تو یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنے احادیث کے مجموعہ میں سے پانچ لاکھ کا نوے ہزار احادیث کے متعلق یہ فیصلہ کریں کہ یہ اُن کے نزدیک مشکوک ہیں.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں ہو سکتیں.لیکن یہی لوگ امام مہدی کو یہ حق دینے کے لئے تیار نہیں کہ ان نو ہزار احادیث میں سے جن کو امام بخاری نے قبول کیا یا دیگر علماء حدیث نے ان میں سے کچھ کے متعلق یہ کہے کہ تم نے یہ غلطی کی.یہ تو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہیں ہو سکتا.اس لئے اِن ان وجوہ کی بناء پر میں اسے رڈ کرتا ہوں.چنانچہ اسی حقیقت اور اپنی اسی حیثیت کے پیش نظر حضرت مہدی معہود و مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا میں بڑی تحدی کے ساتھ یہ اعلان فرمایا میں اس کا مفہوم بیان کروں گا ، کتاب میں اصل عبارت

Page 305

286 سبیل الرشاد جلد دوم موجود ہے ) کہ مہدی معہود قرآن کریم کی جو تفسیر کرے، اس کے متعلق تمہیں ماننا پڑے گا کہ وہی درست ہے اور جس حدیث کے متعلق مہدی کہے کہ یہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے وہ تمہیں ماننا پڑے گا اور جس کے متعلق وہ یہ حکم لگائے کہ یہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہیں ہے اس کے متعلق تمہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہیں ہے.یہ کوئی ایسا حق نہیں جو تمہارے لئے ایک اچنبہ ہو.پانچ لاکھ اکانوے ہزار روایات اور احادیث پر امام بخاری نے حکم لگایا کہ وہ قابل قبول نہیں اور تم نے خاموشی کے ساتھ اس حکم کو قبول کیا اور امام بخاری کا اسے بڑا کارنامہ بتایا.لیکن امام مہدی علیہ السلام اگر پچاس (۵۰) سو (۱۰۰) روایات واحادیث پر حکم کی حیثیت سے یہ حکم لگائے کہ یہ احادیث درست نہیں اور رڈ کی جاتی ہیں یارڈ کے قابل نہیں اور قبول کی جاتی ہیں تو یہ بات تمہیں ناگوار گزرتی ہے اور تم فساد پر آمادہ ہو جاتے ہو.حالانکہ اس حق کو ان علماء کے متعلق تم قبول کر چکے ہو جنہیں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم نہیں کہا.آخر انسان کو اپنے اندر کچھ تو رشد پیدا کرنی چاہئے.لوگوں کو بات کرتے وقت کچھ تو سوچنا چاہئے کہ وہ کیا بات کر رہے ہیں.حضرت مہدی معہود کا عیسائیت کو چیلنج پس جماعت احمدیہ پر قرآن کریم کے ترجمہ میں تحریف اور تغلیط کا اعتراض بالکل بے جا ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے اور اُن بشارتوں کے مطابق جو امت محمدیہ کو دی گئی تھیں، حضرت مہدی معہود علیہ السلام کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی.ہمارا مشاہدہ ہے اور کئی لوگ اس حقیقت کے معترف ہیں کہ اسلام کے خلاف عیسائیت کی یلغار سب سے بڑی یلغار تھی.جس کا حضرت امام مہدی علیہ السلام نے تن تنہا مقابلہ کیا اور عیسائیت کے مقابلہ میں اسلام کو ایک زندہ مذہب ثابت کیا.آپ نے عیسائیوں کو یہ چیلنج دیا کہ تم اپنی ساری تو رات سے خدا تعالیٰ کی ذات وصفات و دیگر روحانی علوم کے متعلق وہ تعلیم بیان نہیں کر سکتے جو قرآن کریم کی ایک چھوٹی سی سورت یعنی سورہ فاتحہ میں بیان ہوئی ہے.میں نے اس چیلنج کو ۱۹۶۷ء میں ڈنمارک میں دُہرایا تھا.میں نے پادریوں سے کہا ہو سکتا ہے تم کہو پادریوں کی پہلی نسلوں نے اس طرف توجہ نہیں کی.اس لئے آج جبکہ تم میں سے چوٹی کے پادری موجود ہیں میں اس چیلنج کو پھر یاد کرا تا ہوں.(اُن میں سے ایک وہ پادری بھی موجود تھا جو تقسیم ملک سے پہلے ہندوستان میں کم و بیش ۲۷ سال تک عیسائی مشن کا انچارج رہا تھا ) میں نے اُن سے کہا تم اس غلطی میں نہ رہنا کہ ایک چیلنج تھا جسے دنیا بھول جائے گی.میں اس چینج کو ہرا تا ہوں.مہدی معہود کے نائب اور خلیفہ

Page 306

سبیل الرشاد جلد دوم 287 کی حیثیت میں میں تمہیں یہ چیلنج کرتا ہوں اور پوری ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ تم اب بھی اس چیلنج کو قبول نہیں کرو گے اور اگر قبول کرو گے تو کامیاب نہیں ہو گے.جب میں نے یہ چیلنج دہرایا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر بے وقوفی سے انہوں نے یہ چیلنج قبول کر لیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سورہ فاتحہ کی مختلف پہلوؤں سے جو تفسیر فرمائی ہے وہ اکٹھی نہیں ہے بلکہ آپ کی مختلف کتابوں میں بکھری ہوئی ہے.اگر انہوں نے کہا کہ کہاں ہے سورہ فاتحہ کی وہ تفسیر جس کا مقابلہ کرنے کی تم ہمیں دعوت دے رہے ہو؟ تو ہم اُن کو کتابی صورت میں نہیں دکھا سکیں گے.چنانچہ ہمارے کارکنوں کو جس حد تک توفیق ملی انہوں نے سورہ فاتحہ کی تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مختلف کتابوں سے اکٹھی کی اور ایک نہایت حسین اور نہایت مؤثر اور نہایت ہی جامع تفسیر کتابی صورت میں شائع ہوگئی.سورہ فاتحہ کی جامع تفسیر عیسائیوں نے سورہ فاتحہ کی اس تفسیر کا کیا مقابلہ کرنا ہے عیسائیت کی تعلیم تو اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی.کیونکہ وہ پچھلے زمانوں کے لئے تھی ، اب بدل گئی یا پیچھے رہ گئی.اگر نہ بدلتی تب بھی یہ قرآن کریم کا مقابلہ نہ کر سکتی.کیونکہ عیسائیت کی تعلیم محدود زمانہ کے لئے تھی دوسرے اس میں تحریف ہو گئی.اس میں تبدیلیاں ہو گئیں.لیکن قرآن کریم ایک جامع کتاب ہے.اس کی تعلیمات کا دائرہ قیامت تک ممتد ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی.تفسیر سورہ فاتحہ کا انگریزی ترجمہ بھی ہو چکا ہے لیکن اب تک کسی کو یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ اس چیلنج کو قبول کرے حالانکہ میں نے اُن کو یہ چیلنج با قاعدہ لکھ کر اور انگریزی میں ترجمہ اور ٹائپ شدہ صورت میں اُن کے ہاتھوں میں پکڑایا تھا.کیونکہ میں نے سمجھا زبانی بات ہو گی تو شاید یہ بھول جائیں گے، اس لئے جب میرا اُن سے دو گھنٹے کا انٹر ویوختم ہوا تو میں نے یہ کہتے ہوئے اس چیلنج کو ڈ ہرایا کہ اب میں تمہیں دو چیلنج دیتا ہوں.یہ لکھے ہوئے ہیں ، ان کو لے لو اور اُن میں سے ایک سورۃ فاتحہ کے متعلق تھا.جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے.میں آج ان کا ذمہ دار ہوں.تم اپنے گھروں میں جا کر سوچو اور اپنے بڑے اور چھوٹے پادریوں اور ہم پلہ لوگوں سے مشورہ کرو.مگر ۱۹۶۷ ء میں حضرت مہدی معہود و مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تیسرے خلیفہ نے جو چینج دُہرایا تھا عیسائیوں میں سے اب تک کوئی سامنے نہیں آیا.مجھ سے پہلوں نے بھی یہ چیلنج دیئے اور بار بار ڈ ہرائے.عیسائیوں کو بار بار یاد دہانی کرائی گئی مگر وہ مقابل پر نہ آئے.کیا ہم ان تفاسیر کو جو ایسے حقائق اور معارف پر مشتمل ہیں جن کے مقابلے کی کسی کو حجرات نہیں ہوسکی اور نہ کبھی ہوگی ، اُن کو چھوڑ کر صرف اُن تفاسیر پر قانع ہو جائیں جن میں نعوذ باللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو

Page 307

سبیل الرشاد جلد دوم کذاب کہا گیا ہے اور اسی طرح کئی دوسرے انبیاء علیہم السلام پر تہمتیں لگائی گئی ہیں.ا 288 فضل میں دوستوں کو یہ بتا رہا ہوں کہ دیکھو قرآن کریم کو مہجور بنا کر کتنی بھیا نک شکل بنتی ہے.اس لئے دوست دعائیں کریں.دُعائیں کریں اور بہت دُعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت احمد یہ فرمائے.اس کے اندر کبھی کوئی گروہ یا کوئی فردا ایسا نہ ہو جو قرآن کریم کو مہجور سمجھنے والا ہو اور اس کی تعلیم کو پیٹھ پیچھے پھینکنے والا ہو.قرآن کریم تو ہماری زندگی ہے اور ہماری روح ہے.یہ تو ہماری زندگی کا نور ہے.اس کے بغیر تو اس زندگی کا کوئی مزہ ہی نہیں.اس لئے اگر دوست اس دُنیا کی جنت چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اُخروی جنت کی لذتیں اور سرور چاہتے ہیں تو پھر انہیں قرآن کریم کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ نا ہوگا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ چاہئے کہ قرآن کریم تمہارے اوپر یہ حکم لگائے کہ تم خدا کے مومن بندے ہو اور قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہو.اگر قرآن عزیز نے تمہارے ایمان کی تصدیق نہ کی تو تم ہلاک ہو گئے.آپ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم کے سینکڑوں احکام میں سے اگر کوئی ایک حکم کو بھی دیدہ دانستہ یا باغیانہ طور پر چھوڑتا ہے تو قرآن کریم کی گواہی اس کے خلاف ہوگی اور خدا تعالیٰ کا غضب اُس پر بھڑ کے گا.پس حضرت امام مہدی معہود علیہ السلام نے ہمیں بیدار کر دیا ہے.آپ نے ہمیں تنبیہ کر دی ہے.اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ہر وقت چوکس اور بیدار ر ہیں اور قرآن کریم کو کبھی مہجور نہ بنا ئیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے ماحول میں ، اپنی مجلسوں میں قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کریں.قرآن کریم کا ترجمہ سیکھیں.اس کی ایک نہایت ہی حسین اور جامع تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے اس کو پڑھیں.تاہم ہمارا ایک گروہ ان خوبصورت تفاسیر کو جاننے والا بھی ہو جو پہلوں کو دی گئی تھیں.کیونکہ جیسا کہ میں اپنے گزشتہ خطبہ جمعہ میں بتا چکا ہوں.کتاب مبین کی آج بھی ضرورت ہے.پچھلے چودہ سو سال سے کتاب مکنون کے اوراق کتاب مبین کے اوراق میں تبدیل ہوتے رہے ہیں.اب بھی یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ زمانہ چلا گیا.ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں رہی.میں پھر مختصر ابتا دیتا ہوں کہ کتاب مبین کی ہمیں اس لئے ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مطہر بندوں نے اللہ تعالیٰ ہی سے تفسیر سیکھ کر اسلام پر ہونے والے جن اعتراضات کا از منہ ماضیہ میں ازالہ کیا تھا اور اسلام کو ایک زندہ مذہب ثابت کرنے کے لئے جو حقائق پیش کئے تھے وہ پرانے تو نہیں ہو گئے.اُن میں اکثر کو آج بھی دُہرایا جا رہا ہے.اس لئے اسلام پر کئے جانے والے ایسے اعتراضات کے جو جوابات پہلوں کو سکھائے گئے تھے اُن کی ہمیں آج بھی ضرورت ہے.

Page 308

سبیل الرشاد جلد دوم 289 اسی طرح ماضی میں یعنی پچھلے چودہ سو سال میں ہر صدی میں جونئی اُلجھنیں پیدا ہوئیں اور اُن کو سلجھانے کے لئے خدا تعالیٰ کے مظہر بندوں کو خدا کی طرف سے قرآن کریم کی جو نئی سے نئی تفسیر سکھائی جاتی رہی ہے ، اُس کی آج بھی ضرورت ہے ، اس لئے کہ ان اُلجھنوں میں سے کچھ اُلجھنیں آج کی زندگی میں بھی پیدا ہو جاتی ہیں ، اُن کو قرآن کریم کی روشنی میں سلجھانے کے لئے کتاب مکنون کے اوراق سکھائے گئے تھے جواب کتاب مبین کے اوراق بن چکے ہیں اُن کی ہمیں آج بھی ضرورت ہے.اس لئے ہم میں سے ایک ایسا گروہ ضرور ہونا چاہئے جو اللہ تعالیٰ کے مظہر بندوں کی بیان کردہ تفاسیر کو دیکھے اور اُس پر غور کرے.یہ ایک بڑا دلچسپ مضمون ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ مثلاً تین سو سال پہلے اسلام پر یہ اعتراض ہوا اور خدا کے فلاں مقرب ، محبوب اور مطہر بندہ نے خدا سے قرآن کریم کو سیکھ کر اس کا یہ جواب دیا تھا.گویا زمانہ زمانہ میں اور ملک ملک میں بدلتے ہوئے حالات میں نئی سے نئی الجھنیں پیدا ہوتی رہیں جن کو ہر زمانہ میں اور ہر خطہ ارض میں خدا کے مظہر بندوں نے خدا سے علم حاصل کر کے سلجھانے کی جو کوشش کی اُس کی آج بھی ضرورت ہے کیونکہ وہ اُلجھنیں آج بھی پیدا ہو رہی ہیں.انسانی زندگی کی ساری الجھنیں ماضی کا قصہ تو نہیں بن گئیں.اُن کو قصہ پارینہ تو نہیں سمجھ لینا چاہئے.اُن میں بعض خود کو دُ ہراتی رہتی ہیں.اسلام پر پر انے اعتراضات کسی نہ کسی شکل میں کبھی نہ کبھی سامنے آ جاتے ہیں.جیسا کہ یہ اعتراض دُہرایا جاتا رہا ہے کہ ان هذا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اگر یہ ایک پرانا اعتراض ہے جسے کفار مکہ نے بھی دُہرایا تھا.لیکن کیا ہم اس کا جواب نہیں ڈ ہرا ئیں گے.اس لئے گو یہ اعتراض پہلے انبیاء علیہم السلام پر بھی کیا گیا تھا لیکن امت محمدیہ پر پہلی صدی میں جو اعتراض ہوئے اُن میں سے بعض ایسے ہیں جو آج تک دُہرائے جار ہے ہیں.پہلی صدی میں جو اُلجھنیں پیدا ہوئیں اُن میں سے بعض ہماری زندگی میں آج بھی پیدا ہورہی ہیں.اس لئے اُن کا جوصل پہلوں کو سکھایا گیا تھا اس کا ہمیں بھی علم ہونا چاہئے.علاوہ ازیں اسلام پر کئے جانے والے اعتراضات کو دُور کرنے کے لئے اور پیش آمدہ الجھنوں کو سلجھانے کے لئے اس زمانہ میں حضرت مہدی معہود علیہ السلام نے ہمارے ہاتھ میں بنیا دی طور پر دو قسم کی تفسیر دی ہے ایک تفصیلی تفسیر ہے اور دوسری اجمالی.یعنی ایک وہ تفسیر ہے جس میں ہر چیز کو اس کی اصل شکل میں تجزیہ کر کے اُسے نمایاں کر دیا گیا ہے، اور دوسری قسم کی تفسیر میں اجمالاً ذکر کر دیا گیا ہے.مثلاً ایک آیت ہوتی ہے اس کے متعلق ایک دو فقرے میں آپ نے مجملاً ذکر کر دیا ہے.چنانچہ بعض دفعہ میں سورۃ الانعام آیت : ۲۶

Page 309

290 سبیل الرشاد جلد دوم نے دیکھا ہے میرے سات خطبوں کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیان کردہ ایک ایسا تفسیری نکتہ ہوتا ہے جسے آپ نے صرف ایک فقرہ میں بیان فرمایا ہے.جس طرح قرآن کریم فی نفسہ ایسی عظیم الشان کتاب ہے جس کے اندر مکنون یعنی چھپی ہوئی باتیں قیامت تک دعوت غور وفکر دیتی رہیں گی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر گو اس رنگ میں تو نہیں لیکن ایک رنگ میں ایسی ضرور ہے کہ اس میں سے نئے سے نئے علوم قر آنی ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں جو قرآن کریم کے مکنون حصے کی تفاسیر کو سمجھنے کے لئے گویا کنجی کا کام دیتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کا دروازہ نہ پہلے بند تھا اور نہ اب بند ہے.قرآن کریم کے متعلق یہ سمجھ لینا کہ حالات حاضرہ میں یا مستقبل میں پیش آنے والے جو مسائل ہیں قرآن کریم میں اُن کے حل کرنے کی طاقت نہیں ہے، سراسر غلط اور قرآن کریم کو مہجور بنانے کے مترادف ہے.قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے.اللہ تعالیٰ پہلے کی طرح اب بھی اپنے مظہر بندوں کو اس کے نئے سے نئے علوم سکھائے گا.پس دوست دُعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کے مظہر بندوں کو جو نئے سے نئے علوم اور اسرار روحانیہ سکھائے جائیں اللہ تعالیٰ اُن کے قبول کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے.انصار اللہ اس دُعا پر بہت زور دیں غرض ایک تو یہ دُعا ہے جس پر میں چاہتا ہوں کہ جماعت زور دے خصوصاً انصار اللہ.یہ وہ دُعا ہے جس کے نتیجہ میں اُن (انصار اللہ ) پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اُن سے تعلق رکھنے والی مستورات اور اُن سے تعلق رکھنے والی بچیاں اور اُن سے تعلق رکھنے والے بچے یا اُن کے چھوٹے بھائی غرض سب کو وہ چوکس اور بیدار رکھیں اور اُن کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ اُن کے لئے قرآن کریم کبھی مجبور نہ بنے کیونکہ جیسا کہ میں مثالیں دے کر واضح کر چکا ہوں.اس سے بڑے ہولناک اور تباہ کن نتائج پیدا ہوتے ہیں.دوسری اہم دُعا : دوسری دعا جس کی طرف میں دوستوں کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ مختصراً یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ گو یا اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کے لئے اور اخروی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی نعماء کا اہل بننے کے لئے ، قرآن کریم کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات بنیادی طور پر اسوۂ حسنہ ہے.اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دو پہلو ہیں.آپ کی زندگی کا ایک پہلو بطور اسوۂ حسنہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے.دوسرے پہلو کا تعلق اس بنیاد پر کھڑی ہونے والی عمارت سے ہے یعنی اس سورۃ الاحزاب آیت ۲۲

Page 310

291 سبیل الرشاد جلد دوم تفصیل سے ہے جو آپ کی زندگی میں عیاں ہے.گویا ایک اجمالی پہلو ہے اور دوسرا تفصیلی.جس طرح بنیا د چھپی ہوئی ہوتی ہے اور عمارت نظر آ رہی ہوتی ہے.اسی طرح آپ کی زندگی کا ایک پہلو مجمل اور دوسر اتفصیلی یعنی ظاہر و عیاں.تاہم آپ کی زندگی کے یہ دونوں پہلو ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں.یہ ایک ایسی صداقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا.حضور تمام انسانوں سے افضل ہیں : اسی طرح یہ بھی ایک صداقت ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی اہم اور وسیع ذمہ داریاں سونپی تھیں.اس لئے آپ اپنی استعداد کے لحاظ سے تمام بنی نوع انسان سے افضل ہیں.گویا آپ کی افضیلت کا ایک یہ پہلو بھی ہے کہ آپ اپنی استعداد اور صلاحیت کے لحاظ سے تمام بنی نوع انسان سے افضل ہیں.لازمی طور پر اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کوئی دوسرا انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہیں بن سکتا.اس لئے کہ کسی دوسرے انسان کو اللہ تعالیٰ نے نہ وہ قوت و طاقت دی اور نہ وہ استعداد دی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منفرد ہیں.بعض لوگ یہ اعتراض کر دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے روک دیا کہ کوئی شخص حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام تک نہ پہنچے یا ان سے آگے نہ نکلے.یہ سوال نہیں ہے.یہ اعتراض غلط ہے.حقیقت کو سمجھا ہی نہیں گیا.سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا یعنی ہر فرد پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے کہ وہ اپنی استعداد کے مطابق اپنی جسمانی اور ذہنی قوتوں کی نشو ونما کرے اور اپنے اندر روحانیت اور اخلاق پیدا کرے.لیکن جو چیز اس کی استعداد سے باہر ہے اس کی اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے پس چونکہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم امت محمدیہ کے لئے اسوۂ حسنہ ہیں اس لئے اپنی اپنی استعداد کی کامل نشو ونما کے لحاظ سے اس امت میں آپ کے شبیہ اور مثل لاکھوں کروڑوں پیدا ہوئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامل استعدادوں کے مالک تھے.لیکن کسی دوسرے کی استعداد کامل نہیں.اس لئے کمال استعداد میں تو مماثلت ممکن نہیں.لیکن آپ نے جو اپنی استعدادوں کی کامل نشو و نما کی تھی اسی طرح آپ کے متبعین میں سے لاکھوں کروڑوں نے اپنے اپنے دائرہ استعداد میں سنتِ نبوی کے مطابق اپنی اپنی استعدادوں کی کامل نشو ونما کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مثل بن گئے.لیکن استعدادوں کے فرق نے ان دونوں کے مراتب کے درمیان آسمان وزمین کا فرق ڈال دیا.جیسا کہ بشارتیں دی گئی تھیں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روحانی طور پر مستفیض ہونے سورة البقره آیت ۲۸۷

Page 311

292 سبیل الرشاد جلد دوم والا اور آپ کی کامل اتباع کے لحاظ سے آپ کا کامل متبع ایک ہی وجود ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مثیل محبوب اور پیارا ہے.جسے آپ نے اپنا مہدی قرار دیا ہے.آپ نے فرمایا ان لِمَهْدِينَا.ہمارے مہدی کی یہ یہ علامت ہے.ظاہر ہے کہ جس پیارے وجود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مہدی کہا ہو وہ آپ کے قریب تر ہے.گو وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو نہیں بنا اور نہ بن سکتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل انعکاس کی وجہ سے ہر دو میں فرق کرنا ایک عام انسان کے لئے مشکل ہے.اس لئے انسان کو اس مشکل مسئلہ میں نہیں پڑنا چاہئے.ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ انعکاسی طور پر کوئی انسان جتنا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوسکتا تھا اور آپ کی خوبیوں اور صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھا سکتا تھا اتنا مقرب اور اس حد تک ایک مثیل بن گیا.جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اصطلاح میں مہدی کہا گیا ہے.اور بھی مہدی تھے جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے علم قرآن سیکھا اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالا.لیکن مہدی ، مہدی میں اسی طرح فرق ہے جس طرح نیک ، نیک میں فرق ہوتا ہے.مطہر مطہر میں فرق ہوتا ہے خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کرنے میں فرق ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرنے اور اس کی قبولیت ، قبولیت میں فرق ہوتا ہے.پس وہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل انعکاس لے کر کامل ظل بن کر آیا اور آپ کی کامل مثل اور شبیہہ بن کر آیا اور مہدی کہلایا.وہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنا قریب ہے کہ اگر مہدی کے مقام کو پہچان لیا جائے تو عام انسان کی آنکھیں ان دو میں فرق نہیں کر سکتیں.اسی لئے حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے حق میں آپ ہی کی زبان سے کہلوایا گیا.مَنْ فَرَّقَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْمُصْطَفَى فَمَا عَرَفَنِي وَمَا رَأَى یعنی اگر تمہاری آنکھ مجھ میں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) میں فرق کرے تو یہ تمہاری سمجھ کا قصور ہے.مہدی معہود اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنا قریب ہے کہ تمہاری آنکھ اس فرق کو نہیں پہچان سکتی.اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے مہدی کی عظمت اور اس کے مقام کو نہیں پہچانا.اسی لئے فرمایا کہ مجھ میں اور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم میں فرق نہ کرنا اور یہ اس لئے کہ آپ کی ذات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل انعکاس تھا.اور فنا فی محمد کا مقام آپ کو حاصل تھا.اسلام سے قبل چونکہ ملک ، ملک اور زمانے ، زمانے کے حالات مختلف تھے اس لئے ہر ملک اور زمانہ کے حالات کے مطابق نبی آئے اور اپنے اپنے حالات میں بنی نوع انسان کی اصلاح کی کوشش کی 1 خطبہ الہامیہ صفحه ۲۵۹ روحانی خزائن جلد ۱۶

Page 312

293 سبیل الرشاد جلد دوم لیکن حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تمام انبیاء کی صفات کے جامع تھے.آپ کے فیوض و برکات کا دائرہ قیامت تک ممتد ہے اور خاتم الکتب آپ کے ہاتھ میں تھی.اس لئے آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ میں تمام بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ کی توحید کے بندھنوں میں باندھوں گا.پھر آپ نے یہ بشارت دی کہ میرا ایک محبوب مہدی ہو گا جو میر امثیل ہو گا.یہاں تک کہ مجھ میں اور اس میں فرق کرنا مشکل ہو جائے گا.فرق تو ہو گا مگر تم اس فرق کی طرف توجہ نہ دینا بلکہ اس نمونہ کو دیکھنا جو میری اتباع کامل کے نتیجہ میں وہ پیش کرے گا.گویا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اسی طرح حضرت مہدی معہود کا وجود بھی بوجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل انعکاس اور کامل اتباع کے اس زمانے میں بہترین نمونہ ہے.فنافی الرسول : در حقیقت مہدی معہود علیہ السلام کی اپنی کوئی شخصیت نہیں ہے.آپ کا وجود تو وہ مصفا آئینہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی انوار کو اپنی پوری شان کے ساتھ ہم تک پہنچا رہا ہے.یہ روشنی شیشے کی نہیں.یہ روشنی اس روحانی آفتاب کی ہے جو چودہ سو سال پہلے فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہوا تھا.یہ قوت قدسیہ اور روحانی تاثیرات مہدی کی نہیں بلکہ اُسی انسان کامل اور افضل الرسل کی ہیں جو خدا کی صفاتِ حسنہ کا مظہر اتم اور تمام کمالات روحانی کا جامع تھا.پس مہدی معہود کا اپنا تو کوئی وجود ہی نہیں رہا.وہ تو فنافی الرسول کے درجہ کو پہنچ کر اپنے وجود کو محمد کی ذات میں فنا کر بیٹھا.اس مہدی کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی انوار اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا کے دلوں کو موہ لینے کے لئے آپ تک پہنچ گئے.اب ہم میں سے ہر ایک پر ، مجھ پر بھی اور آپ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اس مماثلت کو حاصل کرنے کی انتہائی کوشش کریں.اس کے حصول کا امکان پیدا ہو چکا ہے.اسلام کی اس بڑی ہی عجیب اور حسین تعلیم کو پھر سے اُشکارا کیا جا چکا ہے، تاہم اس امر کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ لَا يُكَلَّفَ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کی رُو سے کسی بھی انسان سے اس کی خدا داد قوت و طاقت اور استعداد سے باہر کچھ بھی نہیں مانگا جائے گا.یہاں وسع“ میں وسعتِ نفس سے مراد استعداد نفس ہے یا وسعت سے مرا دصلاحیت نفس ہے.اس لئے گو ہر ایک انسان کی صلاحیت اور استعداد مختلف ہوتی ہے لیکن ہر انسان سے آج یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی صلاحیتوں کی کامل نشو ونما کو کمال تک پہنچائے اور پھر سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دے.ہر شخص اس بات کا مکلف ہے کہ خواہ اس کی استعداد مثلاً ایک اکائی ہو.خواہ اس کی استعداد ایک

Page 313

سبیل الرشاد جلد دوم 294 ارب اکائی ہو یا اس کی استعداد ان گنت اکائیوں پر مشتمل ہو.اگر کوئی شخص اپنی استعداد کے مطابق اپنی صلاحیت کے دائرہ میں اپنی استعدادا اور صلاحیت کی کامل نشو و نما کر لیتا ہے.تو وہ گویا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ حسنہ کی کامل پیروی کرنے والا ہے اور اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ اس سے پیار کرے گا اور اسے ابدی جنت عطا ہوگی.کیونکہ جہاں تک اسے پہنچنے کی طاقت دی گئی تھی وہاں تک وہ پہنچ گیا.لیکن اگر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے فضلوں کی ناشکری کرتا ہے.آج بھی ناشکری کرتا ہے.جب مہدی آ گیا اور مسیح دنیا میں نازل کر دیا گیا اور وہ اپنی استعدادوں کی صحیح اور کامل نشو و نما کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتا یا مجاہدہ کے ساتھ اس میں کامیاب ہونے کی کوشش نہیں کرتا.وہ اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کا وارث نہیں بن سکتا.جن فضلوں کا وارث بننے کے لئے اس نے آپ کو پیدا کیا ہے اور توفیق دی کہ آپ مہدی معہود کی جماعت میں شامل ہو جا ئیں.ذمہ واری نباہنے کے لئے دعا: پس یہ بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اس کے نباہنے کے لئے بھی بڑی دعا کی ضرورت ہے.یہی وہ دوسری دعا ہے جس کی طرف میں آج احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.ہم میں سے ہر شخص یہ دعا کرے کہ اے ہمارے رب ! ہم تہی دست اور کمزور اور ناکارہ ہیں.تیری مدد کے بغیر ہم کچھ نہیں کر سکتے.تو نے ہمیں قو تیں اور استعداد میں تو عطا فرمائیں اور تو نے ہمیں یہ حکم بھی دیا ہے کہ ان کی نشو ونما کو کمال تک پہنچاؤ مگر تیری مدد اور تیری نصرت ، تیرے فضل اور تیری رحمت کے بغیر ہم اپنی استعدادوں کی کامل نشو و نما نہیں کر سکتے اس لئے ہم تجھ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ تو اپنے فضل اور اپنی رحمت سے ہمیں یہ تو فیق عطا فرما کہ ہم اپنی صلاحیتوں کی کامل نشو ونما کرسکیں.ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انسانِ کامل ہیں.آپ تمام نبیوں سے افضل ہیں، آپ کا دائرہ استعداد اور دائرہ صلاحیت اتنا بڑا اور وسیع ہے کہ انسان کے تصور میں بھی نہیں آسکتا.آپ کے روحانی کمالات اور فیوض کا دائرہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے.اس میں ذرہ بھر بھی مبالغہ نہیں ہے.یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام روحانی کمالات کے جامع ہیں اور آپ کے اسوۂ حسنہ کی کچی پیروی آج بھی انسان کو خدا کا مقرب اور محبوب بندہ بنا دیتی ہے.اس لئے ہم دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے خدا! ہمیں یہ توفیق عطا فرما کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی کامل پیروی کرتے ہوئے ہم اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں کی نشو ونما کر سکیں اور اس نقطہ نگاہ سے ہم بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مثیل بن جائیں.پھر یہ مماثلت جو ایک بہت بڑے کی ایک بہت چھوٹے کے ساتھ ہوگی اور بڑی حسین مماثلت ہوگی.اس

Page 314

295 سبیل الرشاد جلد دوم کے نتیجہ میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکتوں اور رحمتوں کے طفیل اللہ تعالیٰ کا وہی پیار اور اسی رنگ میں گواتنا شدید اور اتنا عظیم تو نہیں ہو سکتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا، ہم میں سے ہر ایک کو حاصل ہو جائے گا.جس پیار کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے پوری شان کے ساتھ حاصل کیا تھا اور آسمانوں پر بلند ترین مقام پر فائز ہوئے تھے.انصار کو دو دعاؤں کی طرف خصوصی توجہ : پس یہ وہ دو دعائیں ہیں جن کی طرف جماعت کو اور خصوصاً انصار کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.یہ ٹھیک ہے نو جوانوں کو بھی توجہ کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ نوجوانوں کی عمروں میں برکت ڈالے.اللہ تعالیٰ انہیں بھی اس دنیا کو چھوڑنے سے قبل اس صداقت کو سمجھنے اور اسے پالینے کی تو فیق عطا فرمائے.اور انہیں بھی خدمات دینیہ بجالانے اور خدا کی رضا حاصل کرنے کا موقع ملے اور ان کا خاتمہ بالخیر ہو جائے.اس معنی میں کہ وہ بھی اپنی استعدادوں کی نشو و نما کو کمال تک پہنچا کر گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مثیل اور تصویر بن گئے.لیکن جوں جوں عمر گزرتی جاتی ہے.موت کا وقت مقررہ قریب آتا چلا جاتا ہے.اس لئے جن دوستوں کی عمریں بڑی ہیں.ان کے غور و فکر کا دائرہ بھی زیادہ وسیع ہونا چاہئے.ان کی کوششیں بھی زیادہ ہونی چاہئیں.اللہ تعالیٰ کے حضور ان کی عاجزی کا اظہار بھی زیادہ ہونا چاہئے.نہایت ہی ابتہال کے ساتھ اور سینہ میں جس طرح ایک آگ لگی ہوتی ہے اس طرح خدا کے حضور جھکنا چاہئے تا کہ جو کچھ وہ ہمیں دینا چاہتا ہے.وہ ہم اس کی توفیق سے لینے کے قابل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو.اللہ تعالیٰ کرے کہ دعاؤں کے نتیجہ میں اور کوشش اور عملی نمونہ کے ساتھ ہم دنیا کے دل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے میں کامیاب ہو جائیں.اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے کہ ہمارے بھائی جو مختلف خطہ ہائے ارض پر بسنے والے اور مختلف عقائد رکھنے والے ہیں ان پر تو حید حقیقی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت آشکار ہو جائے اور وہ بشاشت کے ساتھ اور خوشیوں کے ساتھ اور مسرتوں سے اپنی جھولیاں بھر کر دوڑتے ہوئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قُرب کی تلاش میں آپ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں اور وہ آخری بشارت اور وہ کامل بشارت کہ جس سے بڑی بشارت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دی گئی (یعنی مہدی معہود کے ذریعہ اسلام کے عالمگیر غلبہ کی ) وہ جلد پوری ہو.تمام نوع انسان حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع نظر آئیں اور نوع انسانی امتِ واحدہ بن جائے.پھر نہ کوئی جھگڑا باقی رہے اور نہ کوئی اختلاف.سارے مل کر ایک ہو کر

Page 315

سبیل الرشاد جلد دوم 296 ایک دوسرے سے پیار کرنے والی قوم کی حیثیت میں اپنے دین اور دنیا کو سنوار نے میں لگے ہوئے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو حاصل کر رہے ہوں.اب ہم کھڑے ہو کر عہد دہرائیں گے اور پھر بیٹھ کر دعا کریں گے.پھر آپ بیٹھے رہیں گے.میں آپ کو الوداع کہوں گا اور السلام علیکم کہ کر رخصت ہو جاؤں گا.الوداعی کلمات : عہد دہرانے اور اجتماعی دعا کرنے کے بعد حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.یہاں بھی ، سفر میں بھی اور جب آپ اپنے گھروں میں پہنچیں وہاں بھی آپ اس کی حفظ وامان میں رہیں.اللہ تعالیٰ ہر آن اپنی رحمتوں کا سایہ آپ کے سروں پر رکھے اور اپنی برکتیں لانے والے فرشتوں کو آپ کے گرد جمع رکھے اور آپ کو نیک ارادے رکھنے اور ان کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ وہ سب راہیں آپ پر کھولے جو اسے خوش کرنے والی ہیں.اور پھر ان کو آپ پر ہمیشہ فراخ رکھے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہر طرح سے آپ کے ساتھ ہو.اب میں رخصت ہوتا ہوں اور آپ کو بھی رخصت کرتا ہوں.روزنامه الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۷۳ء)

Page 316

سبیل الرشاد جلد دوم 297 سید نا حضرت خلیفہ اصبح الثالث رحمہ اللہ تعالی کا انتقامی خطاب فرموده ا ارشہادت ۱۳۵۵۶ ہش ۱۱ را پریل ۱۹۷۶ء بمقام احاطه دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز بید بوہ سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ نے مورخہا ارشہادت ۱۳۰۵ہش بمطابق اراپریل۱۹۷۶ء کو انصار اللہ مرکزیہ کے نمائندہ اجتماع سے جو خطاب فرمایا تھا، اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج کا ہمارا اجتماع انصار اللہ ، ہنگامی نوعیت کا ہے.اس لئے کہ اس کو پچھلے سال اکتوبر ۱۹۷۵ء کی ۲۶.۲۷ - ۲۸ تاریخ کو منعقد ہونا چاہئے تھا.لیکن جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ سے قبل بتایا تھا کہ حسن ظنی سے کام لیتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاید کسی غلط فہمی کی بناء پر اپنے مقررہ وقت پر انصار اللہ کا اجتماع نہ ہو سکا.اس لئے میں نے یہ ہدایت کی تھی کہ ۲۶ - ۲۷.۲۸ اکتوبر کی بجائے امسال اپریل میں بھی ایک مختصر سا اجتماع کر لیا جائے تا کہ گزشتہ سال بغیر اجتماع کے نہ رہے.دین کے کاموں سے محبت کرنے والی فدائی جماعت : میں نے انصار اللہ مرکزیہ کے دفتر کو یہ ہدایت کی تھی کہ اگر ۱/۵ انصار اللہ آ جائیں تو اس سے ہمارے اجتماع کی غرض پوری ہو جائے گی.لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دین کے کاموں سے محبت کرنے والی ایک فدائی جماعت عطا کی ہے اس لئے وہ اس میں پیچھے کیسے رہ سکتی تھی.چنانچہ ۱۹۷۳ء کے اجتماع میں زیادہ سے زیادہ ۵۳۵ مجالس شامل ہوئی تھیں.اس لحاظ سے جیسا کہ میں نے ہدایت کی تھی اگر کم از کم ۱۰۷ مجالس آجائیں تو اجتماع کی غرض پوری ہو جاتی لیکن اس کی بجائے ۳۸۱ مجالس آگئی ہیں.الحمد لله على ذالك اسی طرح نمائندگان جو زیادہ سے زیادہ انصار اللہ کے اجتماع میں کبھی شامل ہوئے ، وہ ۹۵۳ تھے.لیکن اس اجتماع میں ۵۷۲ نمائندے شامل ہوئے ہیں یعنی ۵/ انہیں بلکہ اس کے نصف سے بھی

Page 317

سبیل الرشاد جلد دوم 298 زیادہ ہیں.اراکین کی زیادہ سے زیادہ تعداد ۱۹۵۳ تھی.اس اجتماع میں اراکین کی تعداد ۱۲۱۶ ہے اور یہ بھی ۳/۵ ہیں ۱/۵ نہیں.پس اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے.اللہ تعالیٰ اس رُوح کو جماعت میں ہمیشہ قائم رکھے.اس اجتماع میں شامل ہونے والوں اور پیچھے رہنے والوں ہر دو کو احسن جزاء عطا فرمائے.کیونکہ انہوں نے نظامِ جماعت کا حکم مانا اور اپنی محبت کا اظہار کیا.مجھے بتایا گیا ہے کہ انصار اللہ کے اس اجتماع کے پروگرام کا کچھ حصہ ابھی باقی ہے اس لئے اس وقت میں جو باتیں کہوں گا وہ انصار اللہ کے اس نمائندہ اجتماع کی آخری گفتگو نہیں ہوگی.بلکہ میرے یہاں سے واپس جانے کے بعد آپ دوست آرام سے یہاں بیٹھے رہیں گے.اور اپنے پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے اور اگر گھنٹہ دو گھنٹہ کھانے میں دیر ہو جائے تو میرے لئے اور آپ کے لئے بھی کوئی ایسی پریشانی کی بات نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے اسلام جیسا پُر حکمت مذہب ہمیں دیا ہے جس نے ایسے موقعوں پر نمازیں جمع کرنے کی اجازت دی ہے.پس اس موقع پر بھی نماز میں ظہر و عصر جمع کر لی جائیں.معروف عذر کے بغیر بھی نمازیں جمع کرنے کی سنت بچپن میں اتنا بچپن تو نہیں طالب علمی کے زمانہ میں بعض چیزیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں کیونکہ وہ عملی زندگی میں پڑ کر سمجھ آتی ہیں.بچپن کے زمانہ میں جب حدیث میں پڑھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ن بِغَيْرِ مَطَرٍ وَلَا عُذْرِ نمازیں جمع کروا دیں تو سمجھ نہیں آتا تھا کہ یہ کیا بات ہے.مگر اب اس کی سمجھ آئی کہ عذر ، راوی کو سمجھ نہیں آیا.کوئی ایسی ضرورت یا حکمت ہوگی جسے ہر آدمی سمجھ نہیں سکتا.اس واسطے یہ روایت محفوظ کر لی گئی تا کہ ایسے طور پر نمازیں جمع کرنے والوں پر لوگ اعتراض نہ کریں.بعض معترض دماغ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ تم بلا عذر نمازیں جمع کیوں کرتے ہو.ہم اس لئے جمع کرتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معروف عذر کے بغیر بھی نماز جمع کرنے کی سنت قائم کر دی.لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آپ گھروں میں ویسے ہی نمازیں جمع کر لیا کریں.جب دینی کام کے لئے کوئی انتظام کرنا ہو یا امام وقت نمازیں جمع کرنا مناسب سمجھے تو اُسوۂ نبوی پر عمل کرتے ہوئے وہ نمازیں جمع کر کے پڑھائے.ایسی صورت میں نمازیں جمع کرنے کا عذر تو ضرور ہو گا لیکن راوی کو نہیں سمجھ آ رہا ہو گا کہ کیوں جمع کی گئیں.بہر حال عملی زندگی میں آکر بہت سارے مطالب خود بخود حل ہو جاتے ہیں.انصار اللہ کی گونا گوں ذمہ داریاں اب میں انصار اللہ کی بات کرتا ہوں.انصار اللہ " کا لفظ ان بزرگ احمد یوں پر بہت ساری

Page 318

سبیل الرشاد جلد دوم 299 ذمہ داریاں ڈالتا ہے جو اس تنظیم سے وابستہ ہیں، اس کے اراکین ہیں.ایک ذمہ داری یہ ہے کہ انصار اللہ اس بات کا خیال رکھیں کہ ہمارے جو طفل ہیں یا خادم کہلانے والے ہیں جن کا اطفال الاحمدیہ یا خدام الاحمدیہ کی تنظیم سے تعلق ہے ، وہ حقیقتاً خدا تعالیٰ کے اطفال اور خدا تعالیٰ کے لئے بنی نوع انسان کے خدام بنیں.اس کے لئے ہم تفصیل میں بھی جاتے ہیں اور ہم آپس میں اصولی باتیں بھی بیان کیا کرتے ہیں.ہمارے دین کی ، ہمارے اسلام کی ، ہماری تعلیم کی ، ہماری ہدایت اور ہماری شریعت اسلامی کی جو بنیاد ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کا وہ علم رکھنا جو قرآن عظیم میں بیان ہوا ہے اور جس کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً یا قولاً تفسیر بیان فرمائی ہے یا اُن بزرگ ہستیوں نے بیان فرمائی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت محمدیہ میں تیرہ سوسال تک پیدا ہوتے رہے.جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جاں نثاری دکھائی اور اس سے انتہائی طور پر محبت کی.قرآن کریم کے نئے سے نئے علوم جو کتاب مکئون ہی تھے ، وہ انہوں نے خدا سے سیکھے اور پھر ضرورتِ زمانہ یا ضرورتِ علاقہ کے مطابق لوگوں کو جو مسائل پیش آگئے تھے اُن کو انہوں نے حل کیا اور پھر آخر میں جیسا کہ بتایا گیا تھا صحیح اور مہدی علیہ السلام آگئے اور خدا تعالیٰ نے آپ کی بعثت سے لے کر قیامت تک نوع انسانی کو جس قدر مسائل پیش آنے والے تھے.آپ کو اُن سب کا حل تفصیل کے ساتھ یا بیج کے طور پر بتا دیا.کیونکہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے انتہائی تعلق محبت پیدا کیا.اور محبت الہی کو انتہائی طور پر حاصل کرنے کے بعد قرآن کریم کے حقائق و معارف اور اسرار روحانیہ کو پایا.آپ نے عشق محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں فنا ہو کر قرآن کریم کی تفسیر بیان فرمائی.یہ محض ہمارا اعتقاد ہی نہیں بلکہ ہماری زندگیوں کا ہر وہ لمحہ جو مخالف اسلام کا مقابلہ کرنے میں گزرتا ہے وہ اس بات پر شاہد ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام نے محض اسلام کے دفاع کے لئے نہیں بلکہ اسلام کو دُنیا کے تمام ادیان اور سب از منہ پر غالب کرنے کے لئے زبردست عقلی دلائل دیئے اور آسمانی نشانوں کے اتنے وسیع دروازے کھول دیئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور دُنیا کو یہ بات مانی پڑتی ہے کہ مہدی علیہ السلام کا حقیقتاً وہی مقام ہے جس کا ذکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مجالس میں بڑے پیار اور محبت سے کیا تھا.یہ ایک بنیادی چیز ہے جسے انصار اللہ سے تعلق رکھنے والے احمدیوں کے ذہنوں میں ہر وقت خاص رہنا چاہئے اور انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر وقت چوکس اور بیدار رہ کر اپنے ماحول کا جائزہ لیتے رہیں کہ اطفال اور خدام کے ذہنوں سے یہ اصولی با تیں زائل تو نہیں ہو جاتیں یا اُن کے ذہنوں میں دھندلا تو نہیں جاتیں.

Page 319

سبیل الرشاد جلد دوم 300 ۷ ستمبر کی آئینی ترمیم کے معنے اس وقت جیسا کہ میں ایک عرصہ سے جماعت احمدیہ کو بار بار توجہ دلا رہا ہوں ، حالات کچھ اس قسم کے پیدا ہو گئے ہیں کہ ہمیں اور بھی زیادہ ضرورت پڑ گئی ہے کہ ہم ان باتوں کو ہمیشہ یاد رکھیں.یہ ضرورت نئی نہیں لیکن اس نے نیا رنگ بدلا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام یوں تو اپنی کتب میں اپنے آپ کو اسلام کے جرنیل کی حیثیت میں اور بنی نوع انسان کے خادم کے طور پر بڑے زبر دست دلائل کے ساتھ پیش کر رہے تھے لیکن ابھی آپ نے مسیحیت کا دعویٰ نہیں کیا تھا اور نہ بیعت لینی شروع کی تھی جس کا مطلب ہے کہ ابھی ایک احمدی بھی نہیں تھا مگر آپ کے گھر میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں کفر کے فتوے موجود تھے.پس جہاں تک کسی دوسرے شخص کی طرف سے ہمیں کا فر یا غیر مسلم قرار دینے کا سوال ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے.البتہ پہلے تھوڑے لوگوں نے کہا پھر بہتوں نے کہنا شروع کر دیا.پہلے ایک خاص علاقے میں احمدیوں کو کافر کہا گیا.اب ساری دُنیا میں لوگ احمد یوں کو کافر کہنے لگ گئے ہیں.یہ کوئی نئی بات نہیں ہے.تاہم ۱۹۷۴ء سے پہلے حکومتوں نے قانون یا دستور کی اغراض کے لئے احمدیوں کو کبھی Not" "Muslim نہیں قرار دیا تھا.اس سے مخالفت کے جو نئے زاویے پیدا ہوئے ، میں اُن میں نہیں جاؤں گا.شاید اس سلسلہ میں مجھے کوئی بات کرنی پڑے تا ہم زیادہ تر میں اپنے موقف کو بیان کروں گا.۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو جو ترمیم پیش ہوئی اور اُس وقت اسمبلی میں جو پاس ہو ا جسے اُس وقت کے نمائندہ دماغ نے سمجھا، وہ ہمارے پرائم منسٹر صاحب کی ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کی تقریر میں بیان ہو چکا ہے یعنی یہ کہ ۷ ستمبر کی ترمیم کے کیا معنے لئے گئے اور اُن کے دماغ میں جو چیز تھی وہ ظاہر ہوگئی.آخر وہی ہر چیز کے کرتا دھرتا ہیں.وہ پیپلز پارٹی کے ذمہ دار لیڈر تھے جس کی حکومت تھی اور اس واسطے انہوں نے جو سمجھا وہ اپنی تقریر میں بڑے دھڑلے کے ساتھ بیان کر دیا.پس اس ترمیم کے بارہ میں انہوں نے جو بیان دیا.اس کے علاوہ کوئی اور معنے نہیں لئے جا سکتے.بعد میں آنے والے حالات میں کئی اور چیزیں سامنے آ سکتی ہیں اور انسان کے دماغ کو دُھندلا کر سکتی ہیں لیکن اُس وقت جب کہ یہ ترمیم پاس ہوئی اس کے متعلق اُن کے دماغ میں جو کچھ تھا وہ اُنہوں نے بیان کر دیا کہ وہ اس ترمیم کے متعلق یہ سمجھتے ہیں.احباب جانتے ہیں میں نے مشاورت کے موقع پر بھی کہا تھا اور بعد میں خطبہ جمعہ میں بھی بیان کیا ہے کہ غیر ( مخالف ) ہمیں جو مرضی چاہے سمجھتا رہے.اس کی زبان کو ہم نہیں بند کر سکتے.ہما را حق بھی کوئی نہیں کہ ہم یہ کہیں کہ جو اپنے متعلق ہم سمجھتے ہیں وہی تم ہمارے متعلق بھی سمجھو.یہ ہمارا حق نہیں ہے.تمہارا یہ حق ہے کہ تم جو چاہو سمجھو اور جو چاہو اسمبلی میں پاس کرو.یہ تمہارا حق ہے لیکن تمہارا یہ حق نہیں ہے کہ تم یہ کہو کہ تم ہمیں جو سمجھتے ہو ہم بھی اپنے آپ کو وہی سمجھنے لگ جائیں.یہ تمہاراحق نہیں ہے اور جس چیز

Page 320

سبیل الرشاد جلد دوم 301 کو آخر بھٹو صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ موجودہ زمانہ ( ماڈرن ٹائمنر ) میں ایسی باتیں تو نہیں کی جا سکتیں جن سے ساری دُنیا بھڑک اُٹھے کہ یہ کیا ہو گیا.تم یہ کیا کر رہے ہو.اس واسطے اس زمانہ میں رہنے والے ایک سیاسی دماغ نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اپنے خیال کا اُس دن اظہار کیا جس سے اُن کا اصل مطلب ظاہر ہو جاتا ہے.لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہمارے بہت سے مخالف جھوٹ کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ بعض دفعہ تو حیرانی ہوتی ہے کہ جہاں تک ہماری مخالفت کا تعلق ہے بعض لوگ تو ایسے بھی ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ، کھانا پینا اور رہنا سہنا سوائے جھوٹ کے اور کچھ نہیں ہے.چنانچہ گزشتہ مشاورت پر میں نے تقریر کی تو انہوں نے ایک جگہ یہ لکھ دیا گیا کہ مرزا ناصر احمد نے یہ کہا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں غیر مسلم نہیں کہہ سکتی.حالانکہ میں نے اس کے الٹ کہا تھا.میں نے تو کہا تھا کہ دنیا جو چاہے ہمیں کہتی رہے.آخر ۸۰ سال سے ہم اپنے متعلق غیر مسلم کا لفظ سنتے آئے ہیں اور اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کا جو ر ڈ عمل ہے یعنی پیار کا اور محبت کا اور نصرت کا اور مددکا.وہ دیکھتے آئے ہیں.ہمیں کیا فرق پڑتا ہے.پس میں نے تو یہ کہا تھا کہ دُنیا ہمیں جو چاہے سمجھے پا کہے مگر لکھنے والے نے یہ لکھ دیا کہ دُنیا کی کوئی طاقت ہمیں غیر مسلم نہیں کہ سکتی.گویا کہ ہم لنگوٹے گس کر گشتی کرنے کے لئے اکھاڑے میں آگئے ہیں.ہمیں کشتی کرنے کی کیا ضرورت ہے.میں نے تو بتایا ہے کہ ہمارا موقف ہی یہ ہے کہ جب ہمیں مدد کی ضرورت پڑے، جب ہمیں دُکھ پہنچایا جائے ، جب ہمیں تکلیف محسوس ہو تو ہم اپنے پیار کرنے والے رب کی محبت اور اس کے پیار میں نہاں ہو جاتے ہیں.ھے 66 نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں پس میں نے جو کہا تھا لکھنے والے نے اُس کے اُلٹ بیان کر دیا تا کہ اس طرح شاید پیپلز پارٹی کو غصہ آ جائے.اگر پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتا صاحب اختیار و اقتدار لوگ سمجھدار ہیں تو اُن کو کیوں غصہ آئے گا.وہ تو بات سمجھ گئے کہ میں نے بات وہی کی ہے جو بھٹو صاحب نے ۷ ستمبر کو کی تھی.تم جو مرضی چاہو کہو لیکن ہم اپنے متعلق جو سمجھتے ہیں کہ ہم ہیں ، ہم اس کا اعلان کرتے ہیں.میں نے مولوی دوست محمد شاہد صاحب کو کہا تھا کہ وہ مجھے بھٹو صاحب کی تقریر کا اردو تر جمہ دے جائیں لیکن انہوں نے مجھے پشتو کا ترجمہ بھجوا دیا اس لئے میں مجبور ہوں کہ بھٹو صاحب نے جو اصل زبان اختیار کی تھی یعنی انگریزی ، اس میں سے بعض حصے پڑھوں.چنانچہ جو ترمیم پاس ہوئی اُس کے آخری الفاظ یہ تھے."Is not a Muslim for the purposes of the Constitution or Law." کہ دستور یا قانون کی اغراض کے لئے احمدی " Not Muslim" ہو گا یعنی وہ مسلمان نہیں سمجھا

Page 321

سبیل الرشاد جلد دوم 302 جائے گا یہ نہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہے.گویا احمدیوں کو دستور یا قانون کی اغراض کے لئے مسلمان نہیں سمجھا جائے گا یا ان لوگوں کو بھی جو کسی شکل میں مہدی کے منتظر ہیں.ہر احمدی کا یہ آئینی حق ہے کہ وہ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرے : چنانچہ ۷ ستمبر ہی کو اس ترمیم کے متعلق پرائم منسٹر صاحب نے جو تقریر کی اس کا ایک پیرا گراف اس طرح شروع ہوتا ہے.یہ فیصلہ ایک ہی وقت میں دینی بھی ہے اور لادینی بھی."This is both a religious and secular decision" "It is a religious decision because it affects the majority of the population which is Muslim" اس کو ہم مذہبی فیصلہ صرف اس لئے کہہ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ اثر انداز ہوتا ہے ایک ایسی پاکستانی اکثریت پر جو پیدائشی طور پر مسلمان ہیں.اس واسطے ہم اس فیصلہ کو مذہبی فیصلہ نہیں کہیں گے.It is a Secular decisin because We live in Modern times." اور یہ فیصلہ سیکولر ( لا دینی) ہے کیونکہ ہم ماڈرن ٹائمنز میں رہتے ہیں.سیکولر کے معنے انگریزی زبان میں مختلف ہوتے ہیں.جب سیکولر (Secular) کا لفظ ریجن (Religion) کے مقابلے میں آئے تو اس کے دو معنے ہو سکتے ہیں.ایک Worldly ( دُنیا دارانہ ) اور ایک Non Sacred یعنی جس میں مذہبی تقدس نہ ہو.گویا پرائم منسٹر صاحب کے اعلان کے مطابق یہ مذہبی تقدس والا فیصلہ بھی ہے اور دُنیا دارانہ فیصلہ بھی ہے اور انہوں نے اُس دن اسے دُنیا دارانہ فیصلہ اس لئے قرار دیا کہ ہم ماڈرن ٹائمنر ( Modern Times) میں رہتے ہیں.اگر ہم اس قسم کی سختی کریں کہ کوئی شخص اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہوئے بھی مسلمان نہ سمجھے تو ساری دُنیا میں شور مچ جائے گا.اس واسطے انہوں نے صاف بات کر دی کہ صرف یہ فیصلہ ہوا ہے کہ دستور یا قانون کی اغراض کے لئے احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھا جائے گا.جب بات دستور کی ٹھہری تو پھر ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ ہمارا دستور ہمیں کیا کہتا ہے.ہمارا دستور کہیں بھی یہ نہیں کہتا کہ احمدی اپنے آپ کو مسلمان نہ سمجھیں.دستور میں یہ Clause ہے ہی نہیں.اس کے برعکس یہ Clause ہے جسے بھٹو صاحب نے بیان کیا ہے.کہتے ہیں : "Have a secular constitution." اور یہ فیصلہ اس لئے سیکولر ہے کہ ہما را دستور بھی مذہبی نہیں بلکہ سیکولر ہے.

Page 322

سبیل الرشاد جلد دوم and believes in the citizens the Country having equal right 303 اور دستو ر اس بات میں یقین رکھتا ہے اور یہ اس کی رُوح ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کے ایک جیسے حقوق ہیں اُن میں کوئی امتیاز نہیں برتا جاسکتا اور اس کے بعد وہ کہتے ہیں : Every Pakistani has a right to profess his religion proudly with Confidence and without Fear کہ ہر پاکستانی کا یہ حق ہے کہ وہ جس مذہب پر چاہے ، اُس پر فخر کے ساتھ اعتقاد ر کھے اور کسی سے نہ ڈرے.بلا خوف و خطر یہ اعلان کرے کہ میرا یہ مذہب ہے اور یہ اس لئے کہ ہم ماڈرن ٹائمنر میں رہتے ہیں.اگر ہم اس کے علاوہ کوئی اور بات کہہ دیں تو ساری دنیا میں شور پڑ جائے گا.ہمارے پرائم منسٹر صاحب بڑے صاحب فراست ہیں.اُن کے اس قول کے مطابق میں یہ کہہ رہا ہوں کہ دُنیا کی جو مرضی ہے وہ ہمیں کہے لیکن دُنیا کی کوئی طاقت ایک احمدی کو اس بات پر مجبور نہیں کر سکتی کہ وہ اپنے آپ کو ایک غیر مسلم سمجھے.۷ ستمبر کے اُسی دن جس دن یہ ترمیم پاس ہوئی تھی بھٹو صاحب نے گارنٹی دی اور ساری دُنیا کو مخاطب کر کے بڑے واضح الفاظ میں کہہ دیا ( ماڈرن ٹائمنز میں جو رہتے ہیں ) کہ ہم نے تو احمدیوں کو یہ کہا ہی نہیں کہ تم اپنے آپ کو غیر مسلم سمجھو.ہم نے تو یہ کہا ہے کہ فخر سے اپنی گردنیں اُٹھاؤ اور بغیر کسی خوف و خطر اپنے مذہب کا اعلان کرو.ہر احمدی یہ کہتا ہے کہ میرا مذہب اسلام ہے تو آپ کو کون روک سکتا ہے کہ آپ اپنے مذہب اسلام کا انکار کریں یا یہ کہہ دیں کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں.لیکن اس بات کا کیا علاج ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم احمدی خود کو مسلمان سمجھتے ہیں اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے ہیں تو ہمارا مخالف کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ یہاں تک لکھ دیتا ہے کہ احمدیوں نے دستور سے بغاوت کی ہے.اگر دستور سے کوئی بغاوت ہوئی ہے تو ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو خود پرائم منسٹر صاحب کر چکے ہیں.احمدیوں نے بغاوت نہیں کی.لیکن ۷ ستمبر کو پرائم منسٹر صاحب (Prime Minister) نے بھی بغاوت نہیں کی بلکہ ایک سچی بات تھی جس کا انہوں نے اُس دن اعلان کر دیا.غرض ہر احمدی جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے وہ بھی دستور سے بغاوت نہیں کرتا.ہر احمدی کا یہ دستوری حق ہے کہ وہ اپنے مذہب کا اظہار کرے.دستور نے زیر دفعہ ۲۰ ہر شہری کو یہ حق دیا ہے کہ ہر شخص کا جو عقیدہ ہے وہ رکھے.اس کا اعلان کرے.اس کی تبلیغ کرے اور یہ ہمارے پرائم منسٹر صاحب نے انتہائی فراست کے ساتھ اُس دن یہ اعلان کیا کہ اس فیصلہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ سیکولر ہے.گویا ہر احمدی کا یہ حق ہے کہ وہ کھڑے ہو کر فخر کے ساتھ گردن اونچی کر کے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرے اور کسی سے نہ ڈرے.اس لئے کہ ہم زمانہ حاضرہ میں رہنے والے

Page 323

سبیل الرشاد جلد دوم 304 ہیں اور ڈرنے کی کوئی بات نہیں.تم اپنے آپ کو احمدی مسلمان سمجھو اور اپنے آپ کو احمدی مسلمان کہو اپنے عقائد کی تبلیغ کرو تمہیں کون روک سکتا ہے جب کہ خود دستور تمہیں اس کا حق دیتا ہے.اسلام ہماری روح اور دل کی غذا ہے لیکن بعض لوگ جو فتنہ پیدا کرنے والے ہیں اور جن میں سچ اور جھوٹ کی تمیز نہیں.وہ ہمارے خلاف جُھوٹ بولتے رہتے ہیں.میں نے بتایا کہ میں نے جو بات کہی تھی اُس کے اُلٹ لکھ دیا.حالانکہ میں نے تو کہا تھا کہ کوئی جو چاہے ہمیں سمجھے.ہم اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے.کیونکہ ہم اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہیں.اسلام ہماری زندگی ہے.یہ ہماری رُوح اور دل کی غذا ہے اسے چھوڑ کر ہم نے کہاں جانا ہے.اسلام کو چھوڑنے سے تو ہزار درجہ بہتر ہے کہ دُنیا ہمیں قتل کر دے.ہم مرنے سے نہیں ڈرتے.ہم اپنے خدا کی ناراضگی اور قہر سے ڈرتے ہیں.لوگ ہمیں اسی (۸۰) سال سے کافر کہتے چلے آ رہے ہیں اور یہ تو "Not Muslim" سے بھی زیادہ سخت لفظ ہے.لوگوں نے ہماری ہر لحاظ سے Wholesale Condemnation کی کہ تم مسلمان نہیں.کسی لحاظ سے بھی مسلمان نہیں.ہر لحاظ سے "Not Muslim" ہو.مگر ہم ایسے لوگوں سے کہتے ہیں تم اسی (۸۰) سال سے یہ کہہ رہے ہو.تمہاری ان آوازوں ، تمہارے اس غصے ، تمہاری ان تیوریوں اور تمہاری آنکھوں کی اس سُرخی نے ہمیں کبھی پریشان نہیں کیا اس لئے کہ ان آوازوں اور ان مخالفتوں کے ساتھ ساتھ ایک اور نہایت میٹھی ، بڑی محبت بھری اور نہایت حسین آواز ہمارے کانوں میں پڑتی ہے یعنی خدائے ذوالعرش ہمیں یہ تسلی دیتا ہے کہ تم اس شخص کے ماننے والے ہو جسے خُو دخدا نے یہ فرمایا تھا کہ وہ دُنیا میں یہ اعلان کر دے.أَنَا أَوّلُ المُسْلِمِينَ میں ہی سب سے بڑا مسلمان ہوں.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے.ہم آپ کے ماننے والے ہیں.اپنے آپ کو مسلمان نہ کہنے کا ناگزیر مطلب اس وقت ہر احمدی کے ذہن پر بڑا دباؤ پڑ رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو Not" "Muslim کہنا شروع کر دے یا کافر کہنا شروع کر دے.آپ نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اس کا مطلب کیا ہے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ مثلاً با بو قاسم الدین صاحب اپنے آپ کو غیر مسلم کہنے لگ جائیں وہ دراصل یہ چاہتا ہے کہ بابو قاسم الدین صاحب ( اور اسی طرح دوسرا ہر احمدی جس کے متعلق وہ غلط فہمی میں امید

Page 324

305 سبیل الرشاد جلد دوم لگائے بیٹھے ہیں ) یہ اعلان کریں کہ (نعوذ باللہ ) خدا واحد و یگانہ نہیں ہے.تین خدا ہیں یا دس خدا ہیں یا بت پرستوں کی طرح کیڑے مکوڑوں اور سانپوں کو خدا مانے اور خود ہی اپنے ہاتھوں سے پتھر اور لکڑی کے بُت گھڑ کر اُن کے سامنے سجدے کرنے لگ جائیں اور خدائے واحد و یگانہ کو ماننا چھوڑ دیں.اور یہ بات اُس قرآن کریم کو ماننے والے کہتے ہیں جس نے اہل کتاب سے بھی یہ کہا تھا کہ جب تم پکڑے جاتے ہو تو تم تثلیث کے قائل ہوتے ہوئے بھی کہتے ہو کہ اصل میں تو ہم ایک خدا کو مانتے ہیں.میں ذاتی طور پر گواہ ہوں میں نے عیسائیوں سے باتیں کی ہیں.جب اُن سے کوئی اور بات نہ بنے تو کہہ دیتے ہیں ہم تو ایک خدا کو مانتے ہیں.چنانچہ اُن سے یہ کہا گیا کہ اچھا اگر تم ایک خدا کو مانتے ہو تو : تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا الله اس قرآن کریم کو ماننے والے کہتے ہیں کہ دُنیا کا ایک کروڑ احمدی یا بقول اُن کے اتنے احمدی نہیں تو جتنے بھی ہیں وہ خدا سے اپنا رشتہ توڑ دیں.اُس خُدا سے تعلق توڑلیں جس کی طرف تمہیں قرآن کریم بلا رہا ہے اور جس کی طرف وہ خُو دکو منسوب کرتے ہیں.پس جب بعض لوگ ہمیں یہ کہتے ہیں کہ تم اسلام کو چھوڑ دو اور اپنے آپ کو مسلمان نہ کہو تو دراصل اُن کا یہ مطالبہ ہوتا ہے اور وہ ہمارے منہ سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں کہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ قرآن کریم جھوٹ کا ایک پلندہ ہے اور اس کے اندر کوئی صداقت نہیں ہے.اس کے اندر کوئی ہدایت نہیں ہے، اس کی تعلیم اور اس کی تربیت انسان کو خدا تعالیٰ تک لے جانے والی نہیں ہے.خدا تعالیٰ کا پیار کسی نے حاصل کرنا ہو تو قرآن کریم کی ضرورت نہیں ہے.کہتے ہیں تم اسلام کو چھوڑ دو اور اپنے آپ کو مسلمان نہ کہو تو گویا تم یہ کہلوانا چاہتے ہو کہ نعوذ باللہ وہ لاکھوں اعتراضات جو محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری اور حسین ذات پر عیسائیوں نے اور دوسرے لوگوں نے کئے ، وہ درست تھے.اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ صداقت اور حقیقت زندگی سے کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے.میں ایسے الفاظ اپنی زبان پر نہیں لا سکتا یعنی وہ الفاظ ہماری زبان پر نہیں آ سکتے.ہماری زبانوں پر تو وہ الفاظ بھی نہیں آ سکتے جو بعض لوگوں نے اپنی کتابوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لکھے ہیں.حالانکہ ہم تو اس کائنات کی پیدائش کی وجہ ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں.اگر نبی کریم جیسی عظیم ہستی کو اللہ تعالیٰ نے پیدا نہ کرنا ہوتا تو وہ اس کا ئنات ہی کو پیدا نہ کرتا.اس کی کوئی اور حکمت چلتی.وہ خدا ہے، وہ مالک ہے.اس کی بڑی پر حکمت اور عظیم صفات ہیں.لیکن ہماری یہ کائنات جو اس وقت ہمیں نظر آ رہی ہے.ہمارے نزدیک اس سوره آل عمران آیت ۶۵

Page 325

306 سبیل الرشاد جلد دوم کی پیدائش کا سبب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے.اس لئے ہم آپ ہی کی اتباع کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں.ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انسان اپنی کوشش سے خدا تعالیٰ کا چھوٹے سے چھوٹا پیار بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر حاصل نہیں کر سکتا.انسان کو روحانی طور پر سرور اور خدا تعالیٰ کا جو پیار حاصل ہوتا ہے اور جس کے نتیجہ میں وہ رُوحانی طور پر قر بانی اور ایثار دکھاتا ہے.یہ پہلا قدم ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اُٹھایا جاتا ہے اور جو آخری قدم ہے وہ بھی آپ ہی کی غلامی کا جوا اپنی گردن میں اُٹھانے سے نصیب ہوتا ہے.آپ کی سچی اتباع ہی میں دین و دنیا کی کامیابی ہے تو پھر کیا لوگ تم سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں اور کیا آپ یہ کہنے کے لئے تیار ہیں کہ (نعوذ باللہ ) خدا نہیں اور قرآن کریم جھوٹی کتاب ہے ( تمام حاضرین نے بیک زبان کہا نہیں.ہرگز نہیں ) تو پھر کیا بعض لوگ دُنیا کی اس عارضی زندگی کے لئے اور دُنیا کی جو اسمبلیاں ہیں اُن میں سیٹیں حاصل کرنے کے لئے یا دوسرے چھوٹے چھوٹے فوائد حاصل کرنے کے لئے اسلام کو چھوڑ دیں گے ( اس پر بھی حاضرین نے کہا نہیں.ہر گز نہیں چھوڑیں گے ) ہاں مگر احمدی کہلانے کے باوجود ؤ ہی اسلام کو چھوڑے گا جس کے دل میں نہ کبھی احمدیت داخل ہوئی اور نہ اسلام داخل ہوا.جو پہلے بھی اسلام سے مرتد تھا اور اب اس رنگ میں اسلام سے ارتداد اختیار کر لیتا ہے.وہ واقعی مسلمان نہیں ہے.جبراً اسلام چھڑوانے والوں کا ایک سوال: میں یہ پوچھتا ہوں اُن لوگوں سے جو بعض لوگوں سے اسلام چھڑوانے کا اعلان کرواتے ہیں کہ وہ جو تم نے ارتداد کی سزا کا مسئلہ بنایا ہوا ہے.وہ اس ( مرتد ) پر جاری کیوں نہیں ہوتا.مجھے تو سمجھ نہیں آتی.یہ بھی ایک تضاد ہے.ایک طرف کہتے ہیں کہ اسلام سے ارتداد کا اعلان کرو اور دوسری طرف کہتے ہیں بے شک اعلان کے باوجود ہم تمہیں وہ سزا نہیں دیں گے.جو ہمارے علماء پتہ نہیں کب سے کہتے چلے آئے ہیں کہ مرتد کی یہ سزا ہے.تو اگر واقعی وہ مرتد کی سزا ہے تو پھر تمہیں تو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ایسے شخص کو تم اس سزا سے محفوظ رکھو.کہنے والوں نے یہ کہا تھا کہ اسلام مرتد کی یہ سزا مقرر کرتا ہے.اگر اسلام کوئی سزا مقرر کرتا ہے تو پھر زید اور بکر کا یہ حق نہیں ہے کہ جو سزا اسلام نے مقرر کی تھی ، اسلام کے نام پر جو ملک بنا تھا اس میں وہ سزا نہ دی جائے.باقی ہمارے نزدیک ارتداد کا جو مسئلہ ہے اور جسے قرآن کریم نے دُنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور جس پر متعصب سے متعصب دماغ بھی اعتراض نہیں کر سکتا.وہ نہایت پاکیزہ مسئلہ ہے.یعنی جہاں تک سزا کا تعلق ہے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نعوذ باللہ ظالم اور جابر ہے اور اپنے بندوں پر زبر دستی کرنا چاہتا ہے.یہ دُنیا خدا کے قانون میں بندھی ہوئی ہے.مثلاً خدا تعالیٰ نے کہا

Page 326

307 سبیل الرشاد جلد دوم میرے پیدا کئے ہوئے اور بنائے ہوئے کھانے سے پیٹ بھرو گے تو سیری ہو گی.یہ نہیں کہا کہ پتھروں سے پیٹ بھر لو تو سیر ہو جاؤ گے.خدا تعالیٰ نے کہا میں نے تمہارے جسموں کی سیری اور اُن کی نشو و نما کے لئے جو چیزیں پیدا کی ہیں جتنی مقدار میں تمہاری ضرورت ہے اُتنی کھاؤ گے تو تمہاری صحت ٹھیک رہے گی.اسی طرح خدا تعالیٰ نے کہا میری طرف سے جو ہدایت نازل کی گئی ہے اُس پر عمل کرو گے تو تمہاری رُوحانی صحت ٹھیک رہے گی.اور تمہاری روحانی نشو ونما صحیح طور پر ہوگی اور تمہیں روحانی نعمتیں ملیں گی.دُنیا کے قانون دنیا کی لذتیں دیتے ہیں لیکن خدا نے جو قانون بنائے ہیں جن کو روحانی قوانین کہا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ انسان اُن کو توڑے نہیں.بے راہ روی نہ دکھائے اور اُن پر عمل کرے تو کامیابی ہو گی.ورنہ نہیں.پس یہ ایک بنیادی تعلیم ہے اور اس کے مطابق ارتداد کے مسئلہ کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور کھل کر بیان کیا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس پر کوئی متعصب سے متعصب عیسائی یا ہندو یا دہریہ اعتراض نہیں کر سکتا.اگر کوئی اعتراض کرے تو میں اس کو قائل کرنے کا ذمہ لیتا ہوں.البتہ اگر کوئی ہٹ دھرمی سے کام لے تو اس سے اسلامی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.لیکن میں اس وقت اس مسئلہ میں نہیں جا رہا.میں تو یہ بتا رہا ہوں کہ لوگوں نے مرتد کے بارہ میں جو مسئلہ بنایا تھا وہ شخص اس سزا سے کیسے بچ گیا جو اعلان کرتا ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہے.جماعت احمد یہ عشق الہی میں سرشار رہنے والی جماعت ہے : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کی تو غرض ہی یہ تھی کہ آپ کے ماننے والے اللہ تعالی کی تو حید پر صحیح معنے میں اور حقیقی طور پر قائم ہو جائیں اور خدا کی ذات اور صفات کو پہچاننے لگیں اور ایسے مقبول عمل کریں یعنی جن کے اندر کوئی نقص نہ ہو اور خدا تعالیٰ جنہیں قبول کر لے.وہ خدا تعالیٰ کی صفات کی معرفت حاصل کریں اور اس کے پیار کے جلوے اپنی زندگیوں میں اور اپنے ماحول میں دیکھنے لگیں.پس جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتہائی طور پر عشق الہی رکھنے والی جماعت ہے اور جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کی معرفت رکھنے والی جماعت ہے.خدا تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے اپنے دل میں ایک پختہ عزم رکھنے والی جماعت ہے.یہ خدا تعالیٰ سے کیسے منہ موڑلے گی.اور اس سے کیسے اپنا تعلق قطع کرے گی.تاہم دوست اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ جب میں جماعت احمد یہ کہتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک احمدی اپنی استعداد کے مطابق عمل کرتا ہے.کچھ سیکھ رہے ہیں، کچھ ترقی کر رہے ہیں اور کچھ ترقی کرنے کے بعد اور ترقی کر رہے ہیں ــــــــی

Page 327

308 سبیل الرشاد جلد دوم لِلْمُتَّقِینَ کے مطابق تقوی بھی ہے اور ہدایت بھی ہے.ہر ہدایت میں اسلام آگے سے آگے لے جاتا چلا جاتا ہے.ہم نے قرآن کریم میں بڑی حسین تعلیم پائی ہے.اس میں بڑی وسعتیں ہیں.اس میں بڑی برکتیں ہیں.اور اس میں بڑی رحمتیں اکٹھی ہوگئی ہیں کہ ان کا غیر بھی اثر لئے بغیر نہیں رہ سکتے.قرآنی تعلیم کی عظمت کا حیرت انگیز اثر : میں پہلے بھی کئی بار بتا چکا ہوں ۱۹۶۷ء میں میں نے کوپن ہیگن ( ڈنمارک) میں خدا کے گھر یعنی مسجد کا افتتاح کرنا تھا.چونکہ وہ پہلا موقع تھا عملی آزمائش کا اس لئے میں خود بھی قرآنی تعلیم کی عظمت پر حیران ہو گیا.جہاں تک مسجد کا تعلق ہے اس کا مالک تو اللہ تعالیٰ ہے.یہ خدا کا گھر ہے.اس لئے وہاں کی مسجد کے ہم کسٹوڈین(Custodian) تھے.اس کا افتتاح کرنا تھا اس کے لئے جمعہ کا وقت مقرر تھا.پہلے اذان ہوئی تھی.پھر میں نے جمعہ کا خطبہ دے کر نماز پڑھانی تھی.وہاں کے مبلغین نے مجھے جو مختلف مشورے دیئے تھے وہ یہ تھے کہ یہ لوگ لمبی تقریریں سننے کے عادی نہیں ہیں اس لئے بڑے مختصر الفاظ میں تقریر کریں.بس دس منٹ میں دو تین باتیں جو آپ اُن سے کہنا چاہیں کہہ دیں لیکن میں نے وہاں ہیں منٹ تک تقریر کی اور جو باتیں میں نے کہیں اُن میں ایک بات یہ بھی تھی کہ قرآن کریم کہتا ہے.وَ أَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا میں نے کہا قرآن کریم نے اعلان کیا ہے کہ مسجد کا مالک اللہ ہے، انسان نہیں ہے اور فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ اَحَدًا کی تفسیر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً یہ فرمائی ہے کہ اسلام میں ہر مسجد کا دروازہ ہر موحد پر کھلا ہے خواہ کسی مذہب سے اس کا تعلق ہو.فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا کہا ہے یہ نہیں کہا کہ اسلام کے مطابق نماز پڑھے.اسلامی تعلیم کے مطابق عبارت کرے.بلکہ فرمایا اس میں خدا تعالیٰ کی عبادت کی جائے.غیر اللہ کی عبادت اس میں نہیں ہو سکتی.فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا کی رُو سے اس میں خدائے واحد و یگانہ ہی کی عبادت ہو سکتی ہے.میں نے کہا عیسائیوں میں سے بہت سے لوگ یو نیٹرین (Unitarian) ہیں یعنی خدائے واحد کو ماننے والے ایک سے زائد فرقے ہیں اور وہ یو نیٹرین کہلاتے ہیں.میں نے کہا وہ بھی اور دُنیا کا ہر وہ انسان جو اپنے اپنے رنگ میں ایک خدا پر ایمان لاتا ہے.وہ اس مسجد میں نماز ادا کر سکتا ہے.وہ اس میں خدا کی عبادت کر سکتا ہے.اُسے کوئی روک نہیں سکتا.نہ کسی انسان کا یہ حق ہے کہ وہ اُسے رو کے کیونکہ قرآن عظیم نے یہ اعلان کر دیا ہے سورة الجن آیت ۱۹

Page 328

309 سبیل الرشاد جلد دوم وَ أَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ اَحَدا میں نے اس کے پہلے دو 2 Points پر زور دیا اور ضمناً یہ بھی بتا دیا کہ کوئی شخص خدا کے گھر میں بدنیتی سے داخل نہ ہو اور یہ ٹھیک ہے.عقل بھی یہی فتویٰ دیتی ہے.تو پتہ ہے اس کا کیا اثر ہوا؟ جمعہ کی نماز شروع ہوئی تو کئی سو عیسائی اور دوسرے غیر مسلم نماز میں شامل ہو گئے لیکن چونکہ اُن کو پتہ نہیں تھا کہ رکوع کس طرح کرنا ہے اس لئے جب ہم رکوع میں گئے تو وہ ایک دوسرے کو اِدھر اُدھر دیکھ کر رکوع میں چلے گئے.پھر قیام میں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے تھے.پھر سجدے میں گئے.پھر سجدے سے اٹھے اور پھر سجدے میں گئے.پھر التحیات میں بیٹھے.غرض پوری نماز میں ہمارے ساتھ شامل رہے اور یہ اس آیت کریمہ کا اثر تھا.وَأَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا (الجن: 19) اور کتنا عظیم اثر تھا کہ اس کا سلسلہ اب تک چل رہا ہے.چنانچہ پچھلے سال یا اس سے پچھلے سال میں نے پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ بعد میں بھی لوگ نماز میں شامل ہو جاتے رہے ہیں.کیونکہ ڈنمارک کا کوئی اخبار ایسا نہیں تھا جس نے اس کے متعلق نہ لکھا ہو سوائے ایک کے جو غالبًا ہفتہ وار ہے.غیر ممالک کے اخباروں نے بھی لکھا.اس لئے سارے ملک کو یہ پتہ لگ گیا تھا کہ ہم نے مسجد کے متعلق یہ اعلان کر دیا ہے.اس واسطے جو لوگ سیر کرنے کے لئے اس علاقے میں آتے ہیں ، وہ اس خوبصورت مسجد کو دیکھنے کے لئے بھی آجاتے ہیں اور اگر اُس وقت نماز کا وقت ہو تو وہ بلا لحاظ مذہب نماز میں شامل ہو جاتے ہیں.چنانچہ اس طرح اب تک دس ہزار سے زائد لوگ نماز پڑھ چکے ہیں.یعنی یہ وہ لوگ ہیں جو مسلمان نہیں بلکہ وہ خدا کو مانتے ہیں.انہوں نے اس مسجد میں خدا کی عبادت کی.کیونکہ ہم نے اعلان کیا تھا کہ مسجد کے دروازے ہر موحد پر کھلے ہیں.قرآن کریم کی تعلیم کو پھیلانے کے لئے وہاں جو مسجد بنائی گئی تھی وہ خدا کا گھر ہے.انسان تو اس کا کسٹوڈین(Custodian) ہے مالک نہیں ہے.ہمارے منتظمین نے اپنے اندازے کے مطابق اس افتتاح کے بعد تھوڑے سے وقفہ میں یا جمعہ کی نماز کے بعد light refreshment کے طور پر چائے یا کافی کی پیالی ، بوتل اور ایک آدھ چھوٹا سا کیک بھی رکھا ہوا تھا.ڈنمارک میں ہمارے مبلغ اور دوسرے مقامی احمدیوں کا خیال تھا کہ انہوں نے جو دعوت نامے بھیجے ہیں شاید تین ساڑھے تین سو آدمی آئیں گے لیکن وہاں پہنچ گئے ایک ہزار آدمی.ہم نے اس موقع پر وہاں خدا کی ایک اور شان دیکھی کہ خدا تعالیٰ اس طرح بھی پیار کرتا ہے.چنانچہ جب منتظمین گھبرائے ہوئے میرے پاس آ کر کہنے لگے کہ اب کیا ہوگا ؟ میں نے کہا کیا ہو گیا.کہنے لگے ہم نے اندازہ لگایا تھا تین سوساڑھے تین سو سے زیادہ آدمی نہیں ہو گا اس لئے اس کے مطابق انتظام کیا گیا لیکن

Page 329

310 سبیل الرشاد جلد دوم یہاں تو ایک ہزار آدمی آ گیا ہے.میں ہنس پڑا.میں نے کہا جس کا ہم کام کر رہے ہیں وہ خود ہی اس کا انتظام کر دے گا.تمہیں کیوں فکر ہے.خیر یہ ایک فقرہ تھا جو ایک جذبہ سے میرے دل سے نکلا وہ میں نے کہہ دیا.(اس وقت صحیح الفاظ مجھے یاد نہیں لیکن مفہوم یہی تھا ) جمعہ کی نماز ہوئی پھر احباب مل بیٹھے اور چائے، کافی، بوتل ، جو جس کی مرضی تھی پیا چلے گئے ، تو منتظمین میرے پاس آ گئے.باچھیں کھلی ہوئی اور مسکراتے چہروں کے ساتھ مجھے کہنے لگے کہ خدا کی شان ہے.ایک ہزار آدمی کو ہم نے لائٹ ریفریشمنٹ بھی پیش کر دی اور ہمارے پاس سامان بھی بچا پڑا ہے.قرآن سے لوگوں کو دور کرنے کی ایک نئی افسوسناک روایت : پس یہ خدا تعالیٰ کی شان ہے اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے ہیں جنہیں ہم نے قرآن کریم کی تعلیم اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل مشاہدہ کیا ہے.یہ سارا فیض تو دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو دیا گیا تھا جو آپ کی زندگی میں بھی ظاہر ہوا اور اب بھی ظاہر ہورہا ہے اور اب کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسلام ایک مُردہ مذہب ہے جس کی شان پہلے گزر چکی اب نہیں آسکتی.ایسا نہیں.اسلام ایک زندہ مذہب ہے.جو ہمیشہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتا ہے.لیکن بعض لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ تم کہو نعوذ باللہ ، نعوذ باللہ قرآن کریم میں کوئی صداقت نہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.تم نے اس بات کے اظہار پر کیسے جرات کر لی.یہ تو ایسی بات ہے کہ چودہ سو سال میں کسی عیسائی اور کسی یہودی تک نے کھل کر یہ نہیں کہا کہ نعوذ باللہ قرآن کریم ایک فضول کتاب ہے.جو چیز آج تک نہیں ہوئی وہ تم اپنی طرف سے پیدا کر کے نئی روایات قائم کر رہے ہو.اور احمدیوں سے کہتے ہو کہ وہ یہ کہیں قرآن کریم میں کوئی صداقت نہیں اور اس میں کوئی نو رنہیں ، قرآن کریم میں کوئی ہدایت نہیں ، اس میں کوئی رہبری نہیں، یا یہ کہ قرآن کریم انسان کو خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچا تا.حالانکہ قرآن کریم نے ہدایت کو ایک ایسے رنگ میں پیش کیا ہے کہ انسان مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ اس ہدایت کے لانے والے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے لگے.ہم احمدیوں کے دل میں قرآن کی عظمت گاڑ دی گئی ہے : ہم تو اس قرآن کو مانتے ہیں جس کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے.جس میں قیامت تک کے انسان کے لئے رہبری اور ہدایت کے سامان موجود ہیں.آج کے بعض ایسے مسئلے ہیں جن کے بارہ میں دُنیا کے دانا اور عقلمند لوگ، بڑے ہوشیار اور صاحب فراست لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے اُن کوحل

Page 330

311 سبیل الرشاد جلد دوم کرنے کی کوشش کی لیکن اس صدی میں جو ہماری تاریخ کی پہلی صدی ہے ( حضرت مہدی علیہ السلام کے دعوی کے چند سال بعد بیسیویں صدی عیسوی شروع ہوئی ، جو اب ۷۶ ویں سال میں ہے ) دُنیا کے یہ عقلمند انسان ان مسائل کو حل نہیں کر سکے.دو خطرناک بین الاقوامی جنگیں ان کی اس ناکامی پر گواہ ہیں.دو عالمی جنگیں ہوئیں جنہوں نے ساری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.انسان نے انسان کی گردن کاٹی.کیا یہ مصیبت جو انسان پر انسان کے ہاتھ سے آئی یہ ثابت کرتی ہے کہ آج کے انسان کو قرآن کریم کی ضرورت نہیں اور وہ اپنے مسائل کو خود ہی حل کر سکتا ہے.نہیں.اس سے الٹ ثابت کرتی ہے.یہ تو بڑی موٹی چیزیں ہیں جن کو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے.ورنہ خود میرے جیسے ایک ناچیز انسان کے دماغ میں بھی سینکڑوں ہزاروں باتیں ایسی آتی رہتی ہیں اور میرا دماغ کہتا ہے اچھا! ایک یہ بھی چیز ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی عقل مسائل کے حل کے لئے کافی نہیں ہے.اُسے خدا تعالیٰ کی ہدایت کی ضرورت ہے.اس کے باوجو دلوگ کہتے ہیں تم اعلان کرو کہ ہم قرآن کریم کو سمجھتے ہی کچھ نہیں.گویا ہم قرآن کریم کی صداقت کا انکار کریں.ہم کیوں انکار کریں.ہم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھی ہیں اور جن کے دل میں قرآن کریم کی عظمت گاڑ دی گئی ہے اور جن کے دلوں کی کیفیت یہ بنادی گئی ہے.خدا نے ہماری روح کو آنحضرت کے عشق اور پیار سے بھر دیا ہے : - قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے تم ہمیں یہ کہتے ہو کہ ہم قرآن کریم کے ماننے سے انکار کر دیں.ہم کیسے انکار کر دیں.ہم کہتے ہیں تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لاؤ.وہ عظیم ہستی جس نے میرے سر سے لے کر پاؤں تک احسان کئے ہیں.کیا میں اس کے احسانوں کو بھول جاؤں؟ یا آپ بھول جائیں گے.آپ نے ہم پر اتنے زبر دست احسان کئے کہ آپ کے ایک ایک احسان پر آدمی کئی کئی دن تک گفتگو کر سکتا ہے.آپ نے انسانی زندگی کی کسی چھوٹی سے چھوٹی بات کو نظر انداز نہیں فرمایا اور یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بہت کچھ بتاتی ہیں.نوع انسانی سے آپ کو اتنا پیار تھا اور آپ انسانیت کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ آپ نے یہاں تک بتا دیا کہ مسواک اس طرح کرو.ڈاکٹروں کو دانتوں کی صفائی کے صحیح طریق کا اب پتہ لگا ہے حالانکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے فرمایا تھا کہ جب مسواک کرو تو اوپر کے دانتوں کی مسواک اس طرح کرو کہ تمہاری حرکت مسوڑوں سے نچلی طرف ہو اور نچلے دانتوں کی اس طرح کرو کہ نیچے سے اوپر کی طرف ہو تا کہ مسوڑوں کو زخم اور نقصان نہ پہنچے.اب بتاؤ ہم لوگ جو آپ کے مقام کو سمجھنے والے ہیں اور ہم جو اس کو چہ کے واقف ہیں ،

Page 331

312 سبیل الرشاد جلد دوم ہم جو صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے ہیں اور اس کے باوجود سمجھتے ہیں کہ ہم آپ کے احسانوں کا شکر ادا نہیں کر سکتے.ہمیں تم کہتے ہو کہ ہم اپنا رشتہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قطع کر دینے کا اعلان کر دیں.کیا ہم پاگل ہو گئے ہیں.نہیں خدا تعالیٰ نے ہمیں فراست عطا کی ہے.خدا تعالیٰ نے ہماری رُوح کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق اور پیار سے بھر دیا ہے.ہم آپ کا انکار کیسے کر سکتے ہیں.موجودہ ماحول میں ان حقائق کو ذہن نشین کرانا اور زیادہ ضروری ہے : پس یہ وہ باتیں ہیں جو انصار کو سمجھنی چاہئیں اور اُن کا یہ فرض ہے کہ وہ اطفال اور خدام کو بھی سمجھاتے رہیں.اب اس ماحول میں یہ بات نہایت ضروری ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب بھری پڑی ہیں ان چیزوں سے.میں نے اس سلسلہ میں کچھ حوالے نکلوائے تھے.لیکن بہت ساری باتیں ذہن میں بھی حاضر رہتی ہیں.وہ تو میں نے بیان کر دیں.اس کے علاوہ چند حوالے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے پڑھوں گا.آپ فرماتے ہیں : مجھے بتلایا گیا ہے کہ تمام دینوں میں سے دینِ اسلام ہی سچا ہے.مجھے فرمایا گیا ہے کہ تمام ہدایتوں میں سے صرف قرآنی ہدایت ہی صحت کے کامل درجہ پر انسانی ملاوٹوں سے پاک ہے.مجھے سمجھایا گیا ہے کہ تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا اور اعلیٰ درجہ کی پاک اور پُر حکمت تعلیم دینے والا اور انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے اعلیٰ نمونہ دکھلانے والا صرف حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اور مجھے خدا کی پاک اور مظہر وجی سے اطلاع دی گئی ہے کہ میں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود اور اندرونی اور بیرونی اختلافات کا حکم ہوں.پھر آپ فرماتے ہیں : میں سچ سچ کہتا ہوں کہ زمین پر وہ ایک ہی انسان کامل گزرا ہے جس کی پیشگوئیاں اور دُعائیں قبول ہونا اور دوسرے خوارق ظہور میں آنا ایک ایسا امر ہے جواب تک امت کے سچے پیروؤں کے ذریعہ سے دریا کی طرح موجیں مار رہا ہے بجز اسلام وہ مذہب کہاں اور کدھر ہے جو یہ خصلت اور طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور وہ لوگ کہاں ہیں اور کس ملک میں رہتے ہیں جو اسلامی برکات اور نشانوں کا مقابلہ اربعین نمبر اول صفحه ۳ - ۴ ، مورخہ ۲۳ / جولائی ۱۹۰۰ء روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۳۴۵

Page 332

سبیل الرشاد جلد دوم کر سکتے ہیں.اگر انسان صرف ایسے مذہب کا پیرو ہو جس میں آسمانی روح کی کوئی ملاوٹ نہیں تو وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے.مذہب وہی مذہب ہے جو زندہ مذہب ہو اور زندگی کی روح اپنے اندر رکھتا ہو اور زندہ خدا سے ملاتا ہو اور میں صرف یہی دعوی نہیں کرتا کہ خدا تعالیٰ کی پاک وحی سے غیب کی باتیں میرے پر کھلتی ہیں اور خارق عادت امر ظاہر ہوتے ہیں بلکہ یہ بھی کہتا ہوں کہ جو شخص دل کو پاک کر کے اور خدا اور رسول پر سچی محبت رکھ کر میری پیروی کرے گا وہ بھی خدا تعالیٰ سے یہ 313 نعمت پائے گا.ہماری سب سے بڑی ذمہ داری قبل اس کے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور اقتباس پڑھوں ، میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس دُنیا کے جو دکھ اور پریشانیاں ہیں ، اُن کو دُور کرنے کے لئے ہم پر بہت کچھ کرنے کی ذمہ داری ہے.لیکن سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم دعائیں کریں.میں نے بعض نیم تربیت یافتہ نو جوانوں کے منہ سے بھی یہ بات سنی ہے کہ یہ لوگ ایسے ہو گئے ہیں کہ ان کو تو کبھی ہدایت نہیں ملے گی.یہ غلط بات ہے.ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے لیکن پیار سے اور احسن طریقہ پر دلائل دے کر سمجھانا یہ ہمارا کام ہے اور پھر دُعائیں کرنا کہ خدا تعالیٰ جس کے ہاتھ میں انسان کا دل ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان کا دل ، خدا کی دو انگلیوں کے درمیان ہے.اُنگلیوں کے بدلنے سے اس کا زاویہ بدلتا رہتا ہے.پس ہدایت خدا دیتا ہے.میں نے یا آپ نے کسی کو ہدایت نہیں دینی.لیکن ہمارا یہ کام ہے کہ ہم لوگوں کو پیار سے سمجھا ئیں.ہم نے ساری دُنیا کے دل جیتنے ہیں.ہم نے پیار کے ساتھ اور محبت کے ساتھ اس عظیم مہم میں اُن کو بھی شامل کرنا ہے جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور آج ہمارے مخالف ہیں.ہمیں دُکھ بھی دیتے ہیں لیکن ہمارے دل میں کسی کی دشمنی نہیں ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس اقتباس سے ظاہر ہے جسے میں ابھی پڑھ کر سناؤں گا.سب سے زیادہ اہم ہتھیار جو دنیا میں ہمیں دیا گیا ہے ( میں دُنیا کی بات کرتا ہوں ) وہ دُعا کا ہتھیار ہے.اس وقت جو عیسائی دُنیا ہے اُن کے عقائد میں اختلاف ہے.غیر مسلم دنیا ہے.ایک طرف روس میں بسنے والا دہر یہ ہے دوسری طرف سرمایہ دارانہ حکومتیں ہیں جو عیسائیت کا لیبل لگائے ہوئے ہیں.لیکن پتہ نہیں اُن کا کیا مذہب ہے.بہر حال ان سب کے لئے ہم نے دُعائیں کرنی ہیں کہ وہ اپنے اربعین روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۳۴۶

Page 333

314 سبیل الرشاد جلد دوم رب کو پہچانے لگیں اور اس کے قہر اور غضب کے طمانچے سے اپنے آپ کو محفوظ کر لیں.پس جہاں تک دُعا کا تعلق ہے اس سلسلہ میں جو سب سے پہلی بات ہے.وہ ہے ایک احمدی کے دل میں اس یقین کا پیدا ہونا کہ خدا تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور اس کے لئے کوئی چیز ان ہونی نہیں ہے.دُعا کی بعض شرائط بھی ہیں اور وہ میں بتا دیتا ہوں کہ کیا ہیں.بعض ایسی شرائط ہیں کہ عام طور پر لوگوں کے خیال میں نہیں آتیں.اس دُنیا میں قانونِ قدرت کارفرما ہے.خدا کا ایک عام قانونِ قدرت ہے جس پر ہماری سائنس، ہمارے علوم اور ہماری تحقیق کی بنیاد ہے.یہ ایک عام قانون ہے.عام طور پر آگ جلاتی ہے اور پانی ٹھنڈا کرتا ہے.حتی کہ جم کر برف بن جاتا ہے یعنی پانی کے اندر خنکی ہے.اس کی اپنی فطرت کے اندر خنکی ہے.مثلاً آگ پر پانی اُبل رہا ہے.اگر برتن اُلٹ جائے تو وہی آگ جس کے نتیجہ میں وہ اُبل رہا تھا اس کو بجھا دیتا ہے.غرض یہ ایک عام قانون قدرت ہے.لیکن اس کے پیچھے ایک اور قانون کام کر رہا ہے اور وہ بڑا زبر دست قانون ہے اور وہ قانون ہے کہ ہوگا وہی جو خدا چاہے گا.عام قانون کے مطابق خدا چاہتا ہے کہ عام حالات میں عام قانون کے مطابق ہو، تا کہ انسان اِن علوم سے بے بہرہ نہ رہے.قانون کے مطابق علمی ترقی کرے.تحقیق کرے.آگے بڑھے.نئی چیزیں دریافت کرے.نئی چیزیں بنائے.اور ان سے فائدے اُٹھائے ہوائی جہاز بنائے.ایٹم بنائے ( مگر خدا کرے غلط استعمال نہ کرے ) ستاروں پر کمندیں ڈالے، چاند پر جائے.غرض یہ ساری کائنات ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے اسے اپنے بندوں کے لئے مسخر کیا ہے.اب ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ ان چیزوں کو سمجھے.ان کو پر کھے اس کا علم پڑھے اور اصول سیکھے.قانونِ قدرت پر اس کا علم حاوی ہو.اس سے فائدہ اُٹھائے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان سب کے پیچھے ایک اور قانون چل رہا ہے.جس کی رُو سے ہوتا وہی ہے جو خدا چاہتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مختصر سے اقتباس میں اسی طرف اشارہ فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں : اُس کی (اللہ تعالیٰ.ناقل ) قدرت کی نسبت اگر کوئی سوال کیا جائے تو ا بجز آن خاص باتوں کے جو اس کی صفات کا ملہ اور مواعید صادقہ کے منافی ہوں باقی سب امور پر وہ قادر ہے.اور یہ بات کہ گو وہ قادر ہو مگر کرنا نہیں چاہتا یہ عجیب بے ہودہ الزام ہے جبکہ اس کی صفات میں كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِى شأن (الرحمن: 30) بھی داخل ہے اور ایسے تصرفات کہ پانی سے برودت دُور کرے یا آگ سے خاصیت احتراق زائل کر دیوے.اس کے صفات کا ملہ اور مواعید صادقہ کی منافی نہیں ہیں.“ برکات الدعا صفحه ۳۲ روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۲۸ - ۲۹

Page 334

سبیل الرشاد جلد دوم 315 عام قانون قدرت کے پیچھے خدا کا ایک خاص قانون جاری ہے : بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو آگ نے کیسے نہیں جلایا.یہ تو کوئی قصہ لگتا ہے ہم ایسے لوگوں سے کہتے ہیں کہ آگ نے اس لئے نہیں جلایا کہ عام قانونِ قدرت کے پیچھے خدا کا ایک خاص قانون جاری ہے اور وہ یہ کہ خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارہ میں وہی قانون کارفرما تھا.خدا نے آگ کو حکم دیا کہ میرے پیارے بندہ پر عام قانون نہیں چلے گا.اس لئے آگ نے اُن کو نہیں جلایا.وہ اُن پر ٹھنڈی ہو گئی.خالی ٹھنڈی ہی نہیں ہوئی بلکہ اُن کے لئے سلامتی کا ایک زبر دست نشان بھی بن گئی.یعنی اس آگ نے اُن کے لئے خالی برودت ہی نہیں پیدا کی بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے سلامتی کے سامان بھی پیدا کئے.خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک عظیم معجزہ عطا فرمایا.لیکن ہمارے اس زمانہ میں دہر یہ لوگ کہتے ہیں یہ کیا بات ہے کہ آگ نے نہیں جلایا.پتہ نہیں کیا قصہ ہے.اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیا ہے.آپ نے فرمایا تم کہتے ہو کیا ہوا اور کیا نہیں.آپ نے فرمایا.میں مہدی ہو کر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک محبوب روحانی فرزند کی حیثیت میں تمہاری طرف آیا ہوں.تماشے دکھا نا میرا کام نہیں لیکن میں تمہیں کہتا ہوں کہ اگر تم میرے خلاف یہ منصوبہ بناؤ.میرے خلاف آگ جلا ؤ اور مجھے اس میں پھینک دو تو آگ مجھے بھی نہیں جلائے گی کیونکہ خدا نے مجھے فرمایا ہے آگ تیرے لئے بھی بردا وَسَلَامًا بن جائے گی.پس اصل چیز دُعا ہے جس سے خدا اپنا خاص قانون جاری فرماتا ہے.کیونکہ قانون قدرت کے پیچھے ایک اور قانون چل رہا ہوتا ہے.ہر قانونِ قدرت ظاہری شکل میں عملاً اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب اس کو اندر سے خدا تعالیٰ کا حکم ہو کہ ظاہری شکل میں نمودار ہو جائے.میں نے کئی دفعہ درخت کے پتوں کی مثال دی ہے.میں اُسے پھر دُہرا دیتا ہوں.قرآن کریم کہتا ہے کہ درخت کا ہر پتہ خدا کے حکم سے گرتا ہے.یہ اس کا عام قانون ہے جو اس کائنات میں چل رہا ہے.لیکن قانونِ قدرت نے یہ کہا کہ بعض درخت موسم خزاں میں پت جھڑ کرتے ہیں، بعض موسم بہار میں کرتے ہیں یا سارا سال کر رہے ہوتے ہیں ، کچھ پتے گر جاتے ہیں کچھ نئے آ جاتے ہیں.ایک ایسا درخت جو موسم بہار میں پت جھڑ کرتا ہے اور سارے پتے بالکل جھاڑ دیتا ہے وہ کالج کے Cottage میں تھا جہاں میں رہا کرتا تھا.جب اُس کے پت جھڑ کا موسم آیا تو ایک دن مجھے یہ خیال آیا کہ قرآن کریم نے کہا ہے پتے جھڑنے کے لئے عام قانون

Page 335

316 سبیل الرشاد جلد دوم کافی نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک اور قانون کام کر رہا ہے جو ہمارے سامنے نہیں آتا.وہ عام طور پر معجزانہ شکل میں ہمارے سامنے آتا ہے.تو میں بھی دیکھوں کہ یہ کیا بات ہے.چنانچہ بہت سے پتے جھڑ رہے تھے بہت سے سبز تھے اور بہت سے بالکل زرد ہو گئے تھے.ایک رات میں نے ایک چھوٹی سی ٹہنی کو دیکھا جس کے پتے زرد تھے اور اس کے ساتھ ملی ہوئی ایک اور ٹہنی تھی جو بالکل زرد ہو چکی تھی.اس میں کوئی جان نہیں تھی.مُردہ ہو چکی تھی لیکن اُن کے ساتھ کچھ پتے تھے جو ابھی سبز تھے.اُن میں ابھی زردی نہیں آئی تھی.میں نے اُن کو نشان لگا دیا.اگلی صبح کو جا کر خدا کا یہ نشان دیکھا کہ سبز پتہ زمین پر گرا ہوا تھا اور زرد پتہ اپنی جگہ پر تھا.غرض قانونِ قدرت اپنی جگہ کام کر رہا ہے لیکن قانونِ قدرت کے پیچھے خدا کا ایک اور قانون کام کر رہا ہے.جو اپنے وقت پر مجزا نہ شکل میں ظاہر ہوتا ہے.دوست نوع انسانی کے لئے دعا کریں: پس دوستوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ وہ دُنیا کے لئے دعا کریں.یہ ایک طفل تسلی نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت زندگی ہے.دوست دعا کریں.دُنیا اس وقت ان کی دعاؤں کی محتاج ہے.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے نوع انسانی کو یہ توفیق عطا کرے کہ وہ حقیقت زندگی کو سمجھیں اور اللہ اور اس کی صفات کا عشق اُن کے دل میں پیدا ہو اور اسلام کی حقانیت اُن کے دل میں سمندر کی طرح موجزن ہو جائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار اُن کی روح کی غذا بن جائے اور وہ بحیثیت نوع انسانی خدا تعالیٰ کے اُن انعاموں کے وارث بن جائیں جن فضلوں اور رحمتوں کے حصول کے لئے نوع انسانی کو پیدا کیا گیا ہے.غرض دُنیا آپ کی دعاؤں کی محتاج ہے اور دُعا محض دکھاوے کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک حقیقت ہے.یہ ایک اثر رکھنے والی چیز ہے.ساری دُنیا کے ڈاکٹر انسانوں کو جو Tonics دیتے ہیں وہ مل کر بھی انسان میں اتنی طاقت نہیں پیدا کر سکتے جتنی طاقت ایک مقبول ہونے والی دُعا پیدا کر سکتی ہے.دُعا انسان کو موت سے نکال کر ایک صحت مند زندگی کی رفعتوں تک پہنچا دیتی ہے.جولوگ خود کو جماعت کا دشمن سمجھتے ہیں دوست اُن کے لئے بھی دُعا کریں کیونکہ ہمارے وجود کی ایک ہی غرض ہے اور وہ یہ ہے کہ نوع انسانی اپنے رب کو پہچاننے لگے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوع انسانی پر جو احسانات کئے ہیں اُن کی گرویدہ ہو جائے اور آپ کی صداقت کو ماننے لگ جائے.غرض دُعا شروع کرنی ہے مگر پہلے اپنے لئے دُعا کرنی ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : پس تم سوچ لو کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے کیونکر تم بچ سکتے ہو.اگر تم خدا

Page 336

سبیل الرشاد جلد دوم کی آنکھوں کے آگے متقی ٹھہر جاؤ تو تمہیں کوئی بھی تباہ نہیں کر سکتا اور وہ خود تمہاری حفاظت کرے گا.اور دشمن جو تمہاری جان کے درپے ہے تم پر قابو نہیں پائے گا.ور نہ تمہاری جان کا کوئی حافظ نہیں اور تم دشمنوں سے ڈر کر یا اور آفات میں مبتلا ہو کر بے قراری سے زندگی بسر کرو گے اور تمہاری عمر کے آخری دن بڑے غم اور غصہ کے ساتھ گزریں گے.خدا اُن لوگوں کی پناہ ہو جاتا ہے جو اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں.سو خدا کی طرف آجاؤ اور ہر ایک مخالفت اس کی چھوڑ دو اور اس کے فرائض میں سستی نہ کرو اور اس کے بندوں پر زبان سے یا ہاتھ سے ظلم مت کرو اور آسمانی قہر اور غصب سے ڈرتے رہو.یہی راہ نجات ہے.317 یہ اقتباس تو اپنے لئے دعائیں کرنے کے لئے پڑھا ہے.دوسروں کے لئے دُعائیں کرنے کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : میں تمام مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں اور آریوں پر یہ بات ظاہر کرتا ہوں کہ دُنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے.میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر.میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے.انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بدعملی اور ناانصافی اور بداخلاقی سے 66 بے زاری میرا اصول.“ دنیا جو چاہے کہتی رہے ہم خود کو مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں : میں پھر واپس آتا ہوں اُن باتوں کی طرف جو ابھی میں نے آپ سے کہی تھیں کہ ہم اسلام کو چھوڑ نہیں سکتے.ہم خدا سے قطع تعلق نہیں کر سکتے.ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار میں غرق ہیں اور آپ کی محبت میں فنا ہو چکے ہیں.ہم آپ سے دُوری کی راہوں کو اختیار نہیں کر سکتے.دُنیا جو چاہے ہمیں کہتی رہے.ہم خود کو ایک مسلمان کہتے اور سمجھتے ہیں اور دن رات ہماری یہ کوشش رہتی ہے کہ ہم اپنے آپ کو عملی طور پر اسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ) کا مصداق بنا ئیں اور اس کے لئے دُعائیں کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۷۱-۷۲ اربعین نمبرا روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۳۴۴ سورة آل عمران آیت ۲۱

Page 337

سبیل الرشاد جلد دوم 318 کریں.اور کوشش کریں کہ خدا کی نگاہ میں بھی ہم بچے اور حقیقی مسلمان بن جائیں ، چنانچہ اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : و کیا میں اس نعمت معرفت اور علم صحیح کو ر ڈ کر دوں جو مجھ کو دیا گیا ہے؟ یا وہ آسمانی نشان جو مجھے دکھائے جاتے ہیں اُن سے منہ پھیر لوں یا میں اپنے آقا اور اپنے مالک کے حکم سے سرکش ہو جاؤں.کیا کروں مجھے ایسی حالت سے ہزار دفعہ مرنا بہتر ہے کہ وہ جو اپنے حسن و جمال کے ساتھ میرے پر ظاہر ہوا ہے میں اُس سے برگشتہ ہو جاؤں.یہ دُنیا کی زندگی کب تک اور یہ دُنیا کے لوگ مجھ سے کیا وفاداری کریں گے.تا میں اُن کے لئے اُس یار عزیز کو چھوڑ دوں.“ پس ہم دُنیا کے لئے اُس یار عزیز کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں.اس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ کی نصرت اور اس کی مدد کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کی ضرورت ہے.آؤ دعاؤں کے ساتھ ہم اس کے دامن کو جھنجوڑ یں اور اس سے کہیں کہ اے خُدا! تو اپنے فضل اور رحمت سے ہمیں یہ ہمت اور طاقت عطا کر کہ دنیا جو کہنا چاہے کہتی رہے.ہم اُس کی نگاہ میں کبھی غیر مسلم نہ ٹھہریں.آواب دُعا کریں.اُس نہایت پُر سوز اجتماعی دعا کے بعد حضور نے فرمایا آپ کا پروگرام جاری رہے گا.ہمت سے اور فراست سے اپنے پروگرام کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو گا.( غیر مطبوعہ ) اضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۳۰ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۹۷

Page 338

سبیل الرشاد جلد دوم 319 سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا افتتاحی خطاب فرموده ۱/۲۸ خاء۱۳۵۶ بهش ۲۸ را کتوبر ۱۹۷۷ء بمقام احاطہ دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی نے مورخہ ۲۸/ اخاء ۱۳۵۶ ہش بمطابق ۲۸ /اکتوبر ۱۹۷۷ء کو مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کا افتتاح کرتے ہوئے دفا تر انصار اللہ کے لان میں جو بصیرت افروز خطاب فرمایا، اُس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: تین سال کے بعد مکمل اجتماع اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ تین سال کے ناغہ کے بعد چوتھے سال ہمیں خدا کی رحمت نے یہ توفیق عطا کی کہ ہم انصار اللہ کا یہ سہ روزہ اجتماع معمول کے مطابق منعقد کریں.گو پچھلے سال ایک دن کا مختصر سا اجتماع تو ہوا تھا لیکن وہ تو ویسے ہی ٹوکن اجتماع تھا.۷۴ ء سے ۷۶ ء تک کے تین سال ہمارے لئے غیر معمولی حالات بنائے گئے تھے اور ان میں ہم اپنے معمول کے مطابق انصار اللہ کا اجتماع نہیں کر سکے تھے.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ملک کے حالات معمول پر آ رہے ہیں.خدا کرے کہ سارے حالات ہی معمول کے مطابق آجائیں اور ملک میں امن اور استحکام پیدا ہو جائے.روحانی اور اخلاقی اغراض ہمارا یہ اجتماع روحانی اور اخلاقی اغراض کے لئے منعقد کیا جاتا ہے.گو اس میں کچھ جسمانی اور ذہنی پروگرام بھی ہوتے ہیں لیکن وہ ذیلی حیثیت کے ہوتے ہیں.ہمارا یہ اجتماع علمی ہے اس معنی میں کہ یہاں اسلامی تعلیم کے مطابق کچھ سنا جاتا ہے اور کچھ سنایا جاتا ہے اور اس امید پر سُنایا جاتا ہے اور اس عزم کے ساتھ سنایا جاتا ہے کہ اسلام کی جو تعلیم ہے اُس پر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہم اپنی زندگیوں میں عمل کرنے والے ہوں گے.

Page 339

سبیل الرشاد جلد دوم 320 یاد دہانی کروانا مومن کی علامت ہے قرآن کریم کی صداقتیں ابدی صداقتیں ہیں اور یہ تعلیم ایک مومن پر واضح ہے لیکن اس کے با وجود خود قرآن کریم ہی نے ہمیں یہ حکم دیا ہے : وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ.کہ آپس میں ایک دوسرے کو یاد دہانی کراتے رہا کرو کیونکہ یاد دہانی مومنوں کو فائدہ دیتی ہے.منافق اور غیر مومن کو یہ فائدہ نہیں دیتی.غرض یاد دہانی کروانا اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ یہ مومن ہیں جن کو مخاطب کیا جا رہا ہے اس بات کی علامت نہیں ہوتی کہ یہ منافق ہیں یا دینی لحاظ سے کمزور ہیں یا روحانی اور اخلاقی طور پر دل کے مریض ہیں جن کو کچھ نصیحت کے طور پر بتایا جارہا ہے پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ذکر میں مومن ہی مخاطب ہیں.اور چونکہ بیچ میں تین سال کا وقفہ پڑ گیا.اس لئے جہاں تک انصار اللہ کا تعلق ہے اس عرصہ میں ہم اپنے اجتماع میں ذکر کے حکم پر عمل نہیں کر سکے.اور اب چوتھے سال ہم یہاں مل بیٹھے ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی ہے کہ ہم اس حکم پر عمل کریں.قرآن کریم کی شریعت اور اس کے بعض پہلوؤں کو آپ کے سامنے رکھیں اور بتائیں کہ اسلامی تعلیم کس طرح انسان کی انفرادی اور قومی زندگی میں ایک زبر دست انقلاب پیدا کر دیتی ہے.ہے.قرآن کی تعلیم قیامت تک کے لئے ہے قرآن کریم کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ اس کی تعلیم چونکہ قیامت تک کے لئے ہے اور چونکہ زمانہ کے ساتھ ساتھ حالات بدلتے رہتے ہیں اس لئے قیامت تک کے حالات شروع زمانہ میں ایک ہی وقت میں انسان کو بتائے ہی نہیں جا سکتے تھے کیونکہ جب مسائل نہیں تھے تو اُن کا حل انسان کے سامنے کیسے رکھا جا سکتا تھا.اگر اُس وقت مسائل بتا دیے جاتے تو کسی کو سمجھ ہی نہ آتی.مثلاً پہلے زمانہ میں ایک گاؤں میں ایک خاندان یا اگر گاؤں بڑا ہے تو دو خاندان کھڈیاں لگاتے تھے اور گاؤں کی کپڑے کی ضرورت کو پورا کر دیتے تھے اور اب یہ زمانہ ہے جس میں یورپ میں کپڑا بننے کے ایک ایک کارخانے میں دس دس پندرہ پندرہ ہزار مزدور کام کر رہے ہیں اور ایک کارخانے میں مزدوروں کا اتنا بڑا اجتماع بہت سے مسائل پیدا کر دیتا ہے.مثلاً اُن کی رہائش کا مسئلہ ہے ، اُن کی طبی ضرورتوں کو پورا کرنے کا مسئلہ ہے، اُن کے بچوں سورۃ الد ریت آیت ۵۶

Page 340

321 سبیل الرشاد جلد دوم کی تعلیم کا مسئلہ ہے.غرض اسی طرح کے اور بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں.لیکن یہ مسائل آج سے چار سو سال پہلے بھی نہیں تھے.چودہ سو سال پہلے بھی نہیں تھے.پس قرآن کریم کی وہ تعلیم جو ان مسائل کو حل کرنے والی ہے ، ضروری نہیں تھا کہ پہلی صدی میں وہ انسان کو بتائی جاتی اور اگر بتائی بھی جاتی تو کسی کو سمجھ ہی نہ آتی کیونکہ اُس وقت ایک گاؤں میں جو ایک خاندان کپڑا بن رہا تھا یا دوخاندان کپڑا بن رہے تھے ، وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتے تھے کہ یہ کیا مسئلہ ہے جس کا حل انہیں بتایا جا رہا ہے.اُن کے سامنے کوئی مسئلہ نہیں تھا اور کوئی اُلجھن نہیں تھی جس کو سلجھانے کی ضرورت پڑتی.پس قرآنی تعلیم چونکہ اپنے زمانہ کے لحاظ سے قیامت تک ممتد ہے اس لئے اس کے دو پہلو ہیں.اس کا ایک پہلو وہ ہے جسے قرآن کریم کی اصطلاح میں کتاب مبین کا حصہ کہا گیا ہے یعنی قرآن کریم کی ایسی تعلیم جو وضاحت سے بیان کر دی گئی ہے اور جو مسائل ضرور یہ ہیں اُن کے متعلق ہمیں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اس طرح کرنا ہے اور اس طرح نہیں کرنا.قرآن کریم کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کی تعلیم کتاب مکنون ( چھپی ہوئی کتاب ) کا حصہ ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: في كِتَبٍ مَّكْنُونِ لا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ 6 قرآن کریم کے رُوحانی اسرار کا یہ حصہ جس کا تعلق کتاب مکنون سے ہے، یہ زمانہ زمانہ میں ظاہر ہوتا رہتا ہے.جس طرح ایک لکھی ہوئی کتاب کا ورق الٹایا جاتا ہے.اسی طرح قرآن کریم کی تفسیر کا ورق ورق اُلٹا جاتا ہے اور ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق لا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کی رُو سے مطہر بندے، پاک دل ، پاک فطرت اور پاک رُوح بندے ایسے ہوتے ہیں جن کا خود خدا معلم بنتا ہے.وہ خدا تعالیٰ.قرآن کریم کے اسرار سیکھتے اور زمانہ کی ضرورتوں کو حل کرتے ہیں اور قرآن کریم پر یہ اعتراض قائم نہیں رہنے دیتے کہ کوئی سر پھرا یہ کہہ دے کہ وہ کتاب جو آج سے دو سوسال پہلے یا چارسوسال پہلے یا ہزار سال پہلے یا چودہ سو سال پہلے نازل ہوئی تھی ، وہ آج کے مسائل کو کیسے حل کرے گی.آج کل بھی بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں.بلکہ خود اسلام کی طرف منسوب ہونے والوں میں سے بھی بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں اور جو لوگ اسلام کی طرف منسوب نہیں ہوتے وہ تو اس کو ایک بڑا وزنی اعتراض سمجھتے ہیں کہ چودہ سوسال پہلے جو کتاب نازل ہوئی ، وہ چودھویں صدی کے مسائل کو کیسے حل کرے گی.اس کا جواب خود قرآن کریم میں موجود ہے اور وہ یہ کہ یہ اس طرح حل کرے گی کہ تعلیم تو ہو گی مگر پہلے بیان نہیں کی گئی ہوگی.یعنی خود قرآن کریم میں وہ تعلیم موجود ہوگی لیکن بوجہ ضرورت کے نہ ہونے کے وہ تعلیم کھول کر خدا کے بندوں کو سورۃ الواقعہ آیت ۷۹-۸۰

Page 341

سبیل الرشاد جلد دوم 322 سکھائی نہیں گئی ہوگی.لیکن ہر زمانہ میں خدا کے ایسے مطہر بندے پیدا ہوں گے جو قرآن کریم کی وہ تعلیم جو اُن کے زمانہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے خدا سے سیکھیں گے اور پھر دنیا کو یہ بتائیں گے اور اُن پر ثابت کریں گے کہ خدا نے یہ جو دعویٰ کیا ہے کہ قرآن ، خدا رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے اور قیامت تک کے مسائل کو حل کرنے والا اور انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے، یہ دعویٰ حقیقت پر مبنی ہے.خدا کے مطہر بندے قرآنی تعلیم کے نئے پہلو خدا سے سیکھ کر لوگوں کو بتائیں گے اور اس بات کو ثابت کر دکھائیں گے کہ واقعی قرآن کریم کا یہ دعویٰ درست ہے کہ وہ تَنْزِيلٌ مِنْ رَّبِّ الْعَلَمِيْنَ ہے.مہدی کی بعثت کا زمانہ اس زمانہ میں جس میں سے ہم گزر رہے ہیں اور یہ زمانہ شروع ہوا ہے بعثت مہدی ومسیح موعود علیہ السلام سے.اور یہ زمانہ جس میں قریباً ۸۶-۸۷ سال گزر چکے ہیں اس زمانہ کی روحانی اور اخلاقی ضرورتوں کو اور انسان کی معاشرتی ضرورتوں کو قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں پورا کرنے کے لئے مہدی آگئے.اللہ تعالیٰ نے پہلے سے یہ بشارتیں دی تھیں.اور مہدی علیہ السلام کو بھی کہا کہ عمر دنیا کا جو ایک ہزار سال باقی رہ گیا ہے جس میں سے قریباً ایک صدی ختم ہو رہی ہے.باقی نوسو اور چند سال رہ گئے ہیں.اس ایک ہزار سال کے زمانے کے لئے مہدی کو قرآن کریم کی تفسیر سکھائی جائے گی.مہدی اور مسیح کا زمانہ ایک ہزار سال پر پھیلا ہوا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت میں یقیناً اور آپ کی کامل اتباع کے نتیجہ میں یقیناً اور عشق اور محبت کی وجہ سے آپ میں فنا ہونے کی وجہ سے یقیناً محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ روحانی جرنیل ایسا ہے جس کے ذریعہ ایک ہزار سال تک کی قرآن کریم کی تفسیر تفصیل کے لحاظ سے یا بیج کے طور پر مہدی کی کتب کے اندر پائی جاتی ہے.آپ کی تحریروں میں پائی جاتی ہے.آپ کے الہام اپنے اندر ایسے بیج رکھتے ہیں.آپ کی جو تحریرات اور کتب ہیں اُن کو دیکھ کر آ دمی حیران ہو جاتا ہے کہ ایک ایک فقرہ ایسا ہے جس پر پوری ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے.یعنی اس کا مضمون بطور بیج کے اس میں موجود ہے.قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم پر کچھ زائد نہیں کیا اور نہ کچھ کم کیا ہے.اس لئے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے اور یہی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ قرآن کریم ایک کامل اور مکمل کتاب ہے اس لئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن پر نہ کچھ زائد کیا اور نہ اس میں کچھ کم کیا.اور نہ کوئی سورۃ الواقعہ آیت ۸۱

Page 342

323 سبیل الرشاد جلد دوم اور ایسا کر سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ارشاد قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت کی تفسیر ہے.خواہ ہمیں یہ سمجھ آئے یا نہ آئے کہ یہ قرآن کریم کی کس آیت کی تفسیر ہے.لیکن ہے تفسیر اس لئے کہ قرآن کریم کا یہ دعوئی ہے.خدا تعالیٰ نے اس کتاب کے متعلق فرمایا ہے : الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ ) کہ دین ہر لحاظ سے کامل اور مکمل ہو چکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یا تو قرآن کریم کی تفسیر کی ہے یا جو تفسیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی فرمائی تھی آگے اس کی تفسیر کی ہے اور اس کو کھول کر بیان کیا ہے.پس زائد تو کچھ نہیں کیا.لیکن قیامت تک کے زمانہ کے لئے جن علوم کی ضرورت تھی وہ اپنی تفصیل میں یا اپنے پیج کے طور پر آپ کی تفسیر کے اندر موجود ہیں.جس طرح دریا کا پانی نہر میں ڈالا جاتا ہے اُسی طرح اُن تمام برکتوں کو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل انسان کو ملتی ہیں اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے.آپ نے یہ فرمایا ہے کہ مجھ سے علیحدہ ہو کر قیامت تک کوئی شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کو حاصل نہیں کر سکے گا.اور نہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو پاسکے گا.مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود ضروری ہے اب یہ ایک ہزار سال کا زمانہ ہے جو خدا کے مسیح کا زمانہ ہے اور خیر و برکت کا زمانہ ہے.اس میں سے قریباً ایک صدی گزرنے والی ہے اور اس وجہ سے شیطان انسانی دماغ کے اندر بعض وسوسے ڈال رہا ہے کہ گویا کوئی نیا سلسلہ دنیا میں قائم ہو گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ختم ہو گیا اور اب کوئی اور آ جائے گا جس کا زمانہ ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کھول کر بیان کیا ہے کہ میں صدی کا مجدد نہیں بلکہ آپ نے فرمایا میں امام آخر الزمان ہوں اور آپ نے کھول کر بیان کیا ہے کہ اس آدم کی اولاد کی عمر ایک ہزار سال باقی رہ گئی ہے اور اس ایک ہزار سال کا خدا نے مجھے امام بنایا ہے اور میں مجد دصدی بھی ہوں اور مجد دالف آخر بھی ہوں.ایک ہزار سال کے لئے خدا تعالیٰ نے تجدید دین کا کام مجھ سے اور میرے ذریعہ سے لینے کا فیصلہ کیا ہے.یہ تو تھی تمہید اس بات کی جو دراصل آج میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا کثرت سے اور بغور مطالعہ کرنا ضروری ہے.چونکہ الخَيْرُ كُلَّهُ فِي القُرآن کے مطابق قرآن کریم سے باہر کوئی خیر نہیں اور قرآن کریم کی تفسیر کو سمجھنے کے لئے اور جاننے کے سورۃ المائدہ آیت ۴

Page 343

سبیل الرشاد جلد دوم آ.324 لئے اور اس کا علم حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا پڑھنا از بس ضروری ہے.پ کے زمانہ میں آپ سے باہر ہمیں قرآن کریم کی وہ تفسیر کہیں نہیں مل سکتی جو اس ہزار سال کے مسائل کو حل کر نے والی ہو.لیکن آنے والے اپنے اپنے وقت پر قرآن کریم کی تفسیر کریں گے.جس زمانہ میں اور جس نسل میں ہم ہیں ہمیں تو اپنی فکر کرنی چاہئے.دوا ہم ذمہ داریاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب فی الحقیقت روحانی خزانے ہیں لیکن جماعت ان سے استفادہ کرنے کی طرف پوری توجہ نہیں کر رہی اور یہ بہت افسوس کی بات ہے اور بڑے فکر کی بات ہے اور میرے لئے بڑی پریشانی کی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی جو تفسیر ہمارے ہاتھ میں دی ہے.وہ بڑی ہی عجیب چیز ہے.ہم اسے جتنی دفعہ پڑھتے ہیں اتنی دفعہ نئے سے نئے معنے سمجھ میں آتے ہیں.میں نے بعض کتب کو شاید دس دس پندرہ پندرہ دفعہ پڑھا ہے.ہر دفعہ نئی سے نئی چیزیں ذہن کے اندر آ جاتی ہیں.چونکہ خدا تعالیٰ نے ایک ہزار سال کی ضرورتیں پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قرآن کریم کی تفسیر سکھائی ہے اس لئے وہ ساری چیزیں اس میں موجود ہیں جن کی اب ہمیں ضرورت ہے یا آئندہ پیش آئے گی.البتہ کچھ تفصیل سے ہیں اور کچھ پیج کے طور پر اشارے ہیں جن کو اگلی صدی والے سمجھیں گے اور پھر اس سے اگلی صدی والے سمجھیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پڑھنا آتا ہو.اب جو شخص اُردو نہیں پڑھ سکتا، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب بھی نہیں پڑھ سکتا.اس کے لئے ہمیں کوئی انتظام کرنا چاہئے.میں سمجھتا ہوں اس کی ذمہ داری انصار اللہ پر عائد ہوتی ہے.وہ احمدی خاندانوں کے باپ ہیں.گو بہت سارے خدام بھی باپ ہیں اور ان کی بھی ذمہ داریاں ہیں لیکن بہت سے خدام ایسے باپ ہیں جن کے اپنے والد بھی موجود ہیں.پس اگر چہ ذمہ داری بٹ جاتی ہے تاہم ہزاروں ایسے انصار ہیں جو خود ہی اپنے خاندان کے ذمہ دار ہیں.انصار میں الا ماشاء اللہ کوئی ایسا احمدی بھی ہو شاید ہزار میں ایک جس کا کوئی اور سر پرست ہو.ایسے بہت کم ہوں گے ممکن ہے کوئی نہ ہو.میرے دماغ میں بعض ایسی مثالیں بھی آتی ہیں.مگر اس استثناء کے بغیر سارے انصار ہی ایسے ہیں جو اپنے اپنے خاندان کے سر پرست ہیں.پس انصار اللہ چونکہ اپنے اپنے خاندان کے سر پرست ہیں اس لئے اُن پر دوذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ایک یہ کہ ہر خاندان کا ہر فر دارد و پڑھنا جانتا ہو.ہمیں جماعت میں تعلیم کا یہ کم سے کم معیار قائم کرنا پڑے گا ورنہ وہ برکتیں جو قرآن کریم کے ذریعہ ہمیں ملی ہیں اور جو سمندروں سے بھی زیادہ ہیں ، اُن

Page 344

325 سبیل الرشاد جلد دوم سے ہم اپنے آپ کو بھی محروم کر رہے ہوں گے اور اپنی نسلوں کو بھی محروم کر رہے ہوں گے.اور دوسرے یہ کہ جو خاندان پڑھنا جانتے ہیں ، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کریں.مجھے یہ کہتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ چونکہ آپ کو عادت پڑ گئی ہے کتابیں نہ خریدنے کی اس لئے ہمارے اشاعت لٹریچر کے جو ادارے ہیں ان کو یہ گندی عادت پڑ گئی ہے کہ جب کبھی میں اُن سے کسی کتاب کے متعلق یہ پوچھتا ہوں کہ کتنی تعداد میں شائع کر رہے ہو تو وہ کہہ دیتے ہیں جی ہم ایک ہزار کی تعداد میں شائع کریں گے.پاکستان میں خدا کے فضل سے ہماری بہت بڑی جماعت ہے.زبان بھی اردو ہے.لیکن ان کے لئے ہمارے ادارے ایک ہزار کی تعداد میں کتاب شائع کرتے ہیں.میں اُن سے کہتا ہوں کہ تمہارے دماغ میں تو یہ آنا چاہئے کہ ایک لاکھ کی تعداد میں شائع کرتے ہیں.ایک ہزار کی تعداد میں تو وہاں بھی کتابیں شائع نہیں ہوتیں جہاں ہماری چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں اور ملک بھی ہمارے ملک سے بہت چھوٹے ہیں اور جماعتیں بھی اسی نسبت سے بہت چھوٹی ہیں.اب مثلاً غانا کی جماعت نے مجھے لکھا کہ انہیں انگریزی ترجمہ قرآن کریم کی ضرورت ہے.اس لئے اجازت دیں کہ وہ دس ہزار کی تعداد میں شائع کریں.حالانکہ غانا کی کل آبادی ۳۰ - ۳۵ لاکھ سے زیادہ نہیں.شاید اب تک ۴۰ لاکھ تک پہنچ گئی ہو.اور ہماری آبادی سات کروڑ ہے.وہ تو دس ہزار شائع کرنے کی بات کر رہے ہیں لیکن ہمارے اشاعت کے جو مختلف ادارے ہیں وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ایک ہزار کی تعداد میں شائع کر دیتے ہیں.بعض دفعہ کہتے ہیں کہ ایک ہزار بھی نہیں بکتی.ٹھیک ہے یہ میری ذمہ داری ہے لیکن جب تک آپ میرے ساتھ تعاون نہیں کرتے.میں اپنی اس ذمہ داری کو کیسے نباہوں گا.میں چاہتا ہوں کہ ہر گھر کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب موجود ہوں اور کثرت سے اُن کے پڑھنے والے ہوں اور پھر آپس میں تبادلہ خیالات کرنے والے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں ہر مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے.آپ کوئی مسئلہ لے لیں مثلاً وفات مسیح کا مسئلہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دس پندرہ کتب میں اس کے متعلق لکھا ہوا ہے.یہ مسئلہ پوری طرح تو ہمارے سامنے تب آئے گا جب ہم آپ کی کتب پڑھیں گے اور ان کا دور کریں گے.آپ کی کتابوں میں خدا تعالیٰ کی عجیب شان نظر آتی ہے کہ کس طرح معلم حقیقی نے آپ کو سکھا یا تھا.آپ نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے الہام و وحی سے میں نے یہ علم حاصل کیا ہے.کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے.وہ صلیب پر سے زندہ اُترے، زندہ رہے.انہوں نے بنی اسرائیل کی گم شدہ بھیڑوں یعنی بکھرے ہوئے قبائل میں تبلیغ کی.پشاور کے راستے کشمیر گئے.وہاں پر

Page 345

326 سبیل الرشاد جلد دوم ہی فوت ہوئے اور وہیں اُن کی قبر ہے.آپ نے فرمایا یہ تو مجھے خدا نے بتایا ہے اور میں تمہیں خدا کے علم سے یہ بھی بتا تا ہوں کہ جو باتیں میں تمہیں بتا رہا ہوں ، اُن کی تائید میں وہی لوگ دلائل اکٹھے کریں گے جو ہمارے اور اسلام کے مخالف ہیں.چنانچہ خدا کی یہ شان ہے کہ ایک تو جس چادر میں حضرت مسیح علیہ السلام کے زخموں پر مرہم لگا کر اُن کو لپیٹا گیا تھا، وہ اُس وقت سے محفوظ پڑی ہے.کچھ عرصہ ہوا مختلف علوم کے ماہر تین سوسائنسدانوں نے اس چادر پر تحقیق کی.پھر انہوں نے صلیب کے متعلق تحقیق کی.اُس زمانہ میں آج کل کی طرح پھانسی پر لٹکانے والی صلیب نہیں ہوا کرتی تھی یعنی یہ کہ گلے میں پھندا لگایا اور ایک جھٹکے کے ساتھ گردن کا منکا ٹوٹ گیا.بلکہ صلیب پر زندہ آدمی کے ہاتھ پاؤں لکڑی کے ساتھ گاڑ دیتے تھے اور پھر اُن میں کیلیں ٹھوک دیتے تھے.اس طرح آدمی لٹکتا رہتا تھا اور بھوکا پیاسا بڑی تکلیف کے اندر رہ کر کوئی دو دن کے بعد اور کوئی تین دن کے بعد فوت ہو جاتا تھا.حضرت مسیح علیہ السلام کے دشمنوں نے ظلم کی راہیں اختیار کرتے ہوئے جہاں اُن کو اس قسم کی کئی اور تکلفیں دیں اور زخم پہنچائے وہاں اُن کے سینے میں بائیں طرف نیزہ بھی مارا اور لوگ کہنے لگے کہ نیزہ تو دل کے اندر چبھ گیا تھا کیونکہ وہ دل کی جگہ تھی.جب نیزہ دل میں لگا تو وہ بیچ کیسے سکتے تھے چنانچہ ان ہی سائنسدانوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ نیزہ اُن کے دل میں نہیں لگا تھا.کیونکہ اُس زمانے میں جس طرح آدمی کو صلیب پر لٹکایا جاتا تھا دل اُس جگہ نہیں رہتا جس جگہ عام طور پر ہوتا ہے بلکہ اس حالت میں کہ انسان کا جسم صلیب پر لٹکا ہوا ہو تو دل اپنی جگہ چھوڑ کر نیچے آ جاتا ہے پس جس جگہ نیزہ لگا ہے وہ تو وہ جگہ ہی نہیں جہاں دل تھا.جہاں تک اس چادر پر تحقیق کا تعلق ہے جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کے زخموں پر مرہم لگا کر لپیٹا گیا تھا اس سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر سے زندہ اُترے تھے کیونکہ ان سائنسدانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس چادر پر جو خون کے دھبے ہیں وہ بہتے ہوئے خون کی نشاندہی کرتے ہیں حالانکہ جو آدمی فوت ہو جاتا ہے اس کا خون تو منجمد ہو جاتا ہے اور خون میں بہنے کی جو صفت ہے وہ باقی نہیں رہتی.خون میں بہنے کی جو خاصیت ہے وہ تو صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب دل حرکت کر رہا ہو.دل کی حرکت کے مطابق خون گردش کرتا ہے.اس حالت میں اگر کوئی زخم آئے تو وہ بہنے لگتا ہے لیکن مردہ کے اندر سے خون نہیں بہتا.اس تحقیق کے نتیجہ میں ضمناً ایک اور چیز بھی مل گئی اور وہ یہ کہ پہلی دفعہ حضرت مسیح علیہ السلام کی صحیح شبیہ ( تصویر ) کا عکس اس چادر پر مل گیا.حضرت مسیح علیہ السلام کے منہ پر بھی زخم آئے تھے اس لئے اُن کے سارے سر پر مرہم لگائی گئی تھی جس نے Negative کا کام کیا جس طرح کیمرہ سے ایک Negative

Page 346

327 سبیل الرشاد جلد دوم بنتا ہے اور اس سے ہم تصویریں لیتے ہیں، بالکل اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی شکل کاNegative چادر کے اوپر آ گیا اور اس سے انہوں نے Positive یعنی تصویر نکالی تو پتہ لگا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی وہ دو تصویر میں جو عیسائیوں کے دو مختلف گروہوں نے بنا رکھی تھیں اور ان میں سے ہر ایک یہ کہتا تھا کہ یہ صحیح ہے اور دوسرا کہتا یہ صحیح ہے.وہ دونوں غلط تصویر میں تھیں.گویا تثلیث کا سارا ڈھانچہ قیاس آرائیوں پر کھڑا کیا گیا تھا.غرض کفن مسیح پر سائنسدانوں کی تحقیق پر مشتمل یہ کتاب خاصی نعیم ہے جو غالبا جرمن زبان میں لکھی گئی تھی.پھر انگریزی زبان میں اور اب ڈچ میں بھی اس کا ترجمہ ہو گیا ہے.افغانستان کے ایک حصے میں کوئی ایک ہزار کے قریب ایسے عیسائی بستے ہیں جو اپنے آپ کو عیسائی مسلمان کہتے ہیں اور اُن کا یہ دعوئی ہے کہ حضرت مسیح کشمیر جاتے ہوئے وہاں سے گزرے تو کچھ یہودی جو وہاں بستے تھے ان میں وہ ٹھہرے اور اُن کو تبلیغ کی.وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح کی اصل انجیل اُن کے پاس موجود ہے.اور دُنیا میں اس وقت جو انجیلیں پیش کی جارہی ہیں ، اُن کا وہ مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو رطب و یابس کا مجموعہ ہیں.ان میں تو وہ باتیں ہی نہیں جو حضرت مسیح علیہ السلام نے صحیح انجیل میں بتائی تھیں اور یہ بھی کہ انسانی ہاتھ نے تحریف کر کے انجیلوں کو بدل دیا ہے.غرض یہ ایک نئی بات سامنے آ گئی جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کی تصدیق میں ایک اور دلیل مل گئی.میں بتا یہ رہا ہوں کہ یہ شان ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں اور تقریروں کی جو آپ کی کتابوں میں محفوظ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اب خدا تعالیٰ نے اسلام کو غالب کرنے کا فیصلہ کیا ہے عیسائیت خود بخود مر جائے گی.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے لاٹ پادری ہیں جن کے دلوں سے عیسائیت مٹ گئی ہے.وہ لوگ جو خداوند یسوع مسیح کا پیار اور محبت دنیا میں بانٹنے کا دعویٰ کرتے تھے انہوں نے خود اپنے دلوں سے عیسائیت کی محبت کو نکال باہر کیا.بڑے بڑے لاٹ پادری اور بشپ حضرت مسیح علیہ السلام کے خلاف اس قسم کے بیان دینے لگ گئے ہیں کہ ہم کانپ اُٹھتے ہیں.غالباً ایک بشپ جو بہت بڑا پادری ہے.اس نے ایک کتاب لکھی ہے جس کے آخر میں وہ لکھتا ہے کہ میں نے ساری عمر مسیح کی زندگی پر تحقیق کی ہے اور میری تحقیق کا نچوڑ یہ ہے کہ مسیح نعوذ باللہ بدمعاش تھا.اور اس کو عیسائیت سے نکالنے کی بجائے ترقی دے کر کوئی اور اونچا عہدہ دے دیا گیا ہے.عیسائیوں کے جو گرجے ہیں وہ خالی ہو گئے.میں نے خود اپنی آنکھوں سے لندن میں گرجوں کے سامنے’برائے فروخت کا بورڈ دیکھا ہے.مجھے بتایا گیا کہ بہت سے گرجے بک گئے ، کسی جگہ شراب خانہ بن گیا، کسی جگہ مختبہ خانہ بن گیا اور کسی جگہ موٹر گیراج بن گیا.

Page 347

سبیل الرشاد جلد دوم 328 پس جو باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام بتائی گئی تھیں وہ باتیں اب واقعہ پوری ہو رہی ہیں اور یہ بڑے عظیم الشان نشان ہیں لیکن اگر آپ اُن کو پڑھیں گے نہیں تو ان سے واقفیت کیسے ہو گی.اگر آپ کے بچے نہیں پڑھیں گے اور دنیا کا گندہ اثر تو لیتے رہیں گے اور جو چیز میں اس گندے اثر کو مٹانے والی ہیں وہ آپ کے گھروں میں داخل نہیں ہوں گی.اس لئے پہلی بات میں آج آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے گھروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے رکھنے اور اُن کا مطالعہ کرنے اور بچوں کو سُنانے کا انصار اللہ کے ذریعہ کوئی انتظام ہونا چاہئے اور اس کی کوئی خاطر خواہ نگرانی بھی ہوئی چاہئے کہ عملاً ایسا ہو رہا ہے.مجلس موصیان کی ذمہ داری میں نے حکمت کے ماتحت موصیان کی انجمن بنائی تھی.اس کام کی نگرانی کا ذمہ دار میں اُن کو ٹھہراتا ہوں.وہ اس بات کی نگرانی کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہر جگہ موجود ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ ایک ہی وقت میں ساری خرید لو.بہت سے لوگوں کے پاس اتنی رقم ہی نہیں ہوتی کہ وہ ساری کتب ایک وقت میں خرید سکیں.کتب حضرت مسیح موعود خرید نے کا طریق میں یہ کہتا ہوں کہ بے شک تم تین مہینے میں ایک کتاب خرید ولیکن خرید وضرور.اور خریدنے کا عمل اس طرح جاری رکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کتاب سب سے آخر میں لکھی ہے اُسے پہلے خریدو اور پھر اسی طرح پچھلی طرف چلتے چلے جاؤ.اور یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخاطب وہ علماء تھے جو کہتے تھے کہ آپ کو تو نہ دین کا علم آتا ہے اور نہ عربی کا.اس لئے آپ اپنی ابتدائی کتابوں میں بڑی گہرائی میں گئے ہیں.مثلاً براہین احمدیہ ہے.گو یہ ایک بڑی عظیم کتاب ہے.لیکن اس کا عام آدمی کے لئے سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے.یہ اتنی دقیق کتاب ہے کہ میں نے مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب سے کہا کہ اس کا انگریزی میں ترجمہ کریں تو اگر چہ انہوں نے پہلے بھی اس کو کئی بار پڑھا ہوا تھا اب اس کا کچھ حصہ ترجمہ کرنے کی خاطر پڑھ کر کہنے لگے کہ کسی عالم کو میرے ساتھ لگا ئیں جو پہلے مجھے یہ کتاب پڑھائے پھر میں اس کا ترجمہ کر سکوں گا.وہ کہنے لگے کہ قرآن کریم کا ترجمہ کرنے میں یہ آسانی ہے کہ بہت سے تراجم ہو چکے ہیں اُن سے رہنمائی مل جاتی ہے لیکن اس کا پہلی دفعہ ترجمہ کرنا ہے اور اس کی عبارتیں سمجھنے میں مشکل پڑ جاتی ہے.

Page 348

سبیل الرشاد جلد دوم 329 كتب مسیح موعود سے عربی کا بلند معیار غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں عربی کی بعض ایسی عبارتیں ہیں جن کے متعلق میں یہ سمجھتا ہوں کہ دنیا میں بڑے چوٹی کے جو علماء ہیں اُن کے لئے بھی اُن کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے.۱۹۷۰ ء میں افریقہ کے دورے میں ایک ملک کے سفیر مجھ سے علیحدہ ملے.وہ بڑی نیک طبیعت کے انسان تھے.ان کے دل میں اسلام سے پیار تھا.کیونکہ وہ متعصب نہیں تھے اس لئے کہنے لگے میں نے جماعت احمدیہ پر یہ یہ اعتراض سُنے ہیں میں سمجھنے کی خاطر ان کے جواب سُننا چاہتا ہوں.میں نے کہا میں آپ کو ان کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام سے دیتا ہوں.میری عادت ہے جب میں سفر کرتا ہوں تو تینوں ڈری مینیں یعنی فارسی، عربی اور اردو کی در تشین اپنے ساتھ رکھتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ساری کتابیں تو ساتھ رکھی نہیں جاسکتیں ان میں خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے.میں نے اُسے عربی کی درمشین سے کچھ اشعار پڑھ کر سنانے شروع کئے تو کئی اشعار سناتے وقت اُن کے چہرے پر ایسے آثار آتے تھے کہ گویا وہ عربی کو نہیں سمجھ رہے.ایک دفعہ یہاں ہمارے چھ سات چوٹی کے علماء مجھ سے کہنے لگے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عربی کا ایک محاورہ باندھ گئے ہیں اور ہمارے علم کے مطابق تو عربی زبان میں یہ محاورہ استعمال ہی نہیں ہوتا.ہمیں اس کا ترجمہ کرنے میں مشکل پیش آ گئی ہے اور سمجھ نہیں آتا کہ ہم اس کا ترجمہ کس طرح کریں.میں نے اُن سے کہا کہ یہ تو میں مان نہیں سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جنہوں نے خدا تعالیٰ سے عربی سیکھی ہے وہ کوئی ایسا محاورہ بھی لکھ جائیں جو عربی زبان میں مستعمل نہ ہو.اس لئے تم دوبارہ تلاش کر و.انہوں نے ۱۰۸ دن تک تلاش کی اور میرے پاس آ کر کہنے لگے کہ نہیں ملتا.میں نے کہا پھر تلاش کرو کیونکہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ نہ ملے.چنانچہ چودھویں پندرھویں دن ایک عالم عربی کی ایک کتاب لے کر آ گئے اور کہنے لگے دیکھیں یہاں یہ محاورہ لکھا ہوا ہے اور وہ محاورہ وہی تھا جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مضمون میں استعمال کیا تھا.سے پہلے سب سے آخری کتاب خرید کر پڑھو غرض ایک وقت تک آپ کے مخاطب وہ علماء تھے جو اپنے علم وفضل کا بڑا ادعا ر کھتے تھے.آپ نے اُن کو مخاطب کر کے بڑی دقیق کتا ہیں لکھیں لیکن پھر ایک وقت آیا جب خدا تعالیٰ نے آپ کو مامور کیا اور فرمایا کہ اٹھ اور میرے دین کی خدمت کر تو اس وقت آپ کے مخاطب عوام بن گئے.تو آپ کا جو

Page 349

330 سبیل الرشاد جلد دوم طریق تھا اور لکھنے کا جو سٹائل تھا وہ بالکل بدل گیا.آپ نے بڑا سہل انداز اختیار فرمایا جسے ہر آدمی سمجھ سکتا ہے اس لئے میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ پہلے وہ کتاب خرید و جسے آپ نے سب سے آخر میں لکھا ہے اور پھر پیچھے کو چلتے آؤ اور خرید کر بار بار پڑھو پھر دیکھو ان کے اندر سے آپ کو کیا کیا ملتا ہے.پھر کچھ اور پڑھنے کو دل ہی نہیں کرے گا.سوائے قرآن کریم کے.کیونکہ وہ تو بنیادی چیز ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتا ہیں تو اس کی شرح ہیں.اسی طرح احادیث نبویہ ہیں ان کی اپنی شان ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بہت ہی عجیب شان رکھتے ہیں.لیکن جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھتے ہیں تو تیرہ سو سال کے زمانہ میں جو علماء گزرے ہیں اُن کی کتابیں پڑھنے میں کوئی مزہ نہیں آتا.گوضرور تا ہم پڑھتے ہیں کیونکہ بہت سی چیزیں دیکھنی پڑتی ہیں.لیکن جو چیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں ہے اور جو اس کی شان ہے وہ ہمیں اور کہیں نظر نہیں آتی.اور ہونا بھی یہی چاہئے تھا.کیونکہ پہلوں نے بھی یہی کیا اور ہمارے شیعہ حضرات کا لٹریچر جو ایران میں بڑی کثرت سے چھپ رہا ہے اس میں بھی یہی ہے اور دوسرے فرقوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ امت محمدیہ میں مہدی معہود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عکس کامل ہیں.اور مہدی کے متعلق پہلوں نے خبر دی تھی کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کرنے والے اور آپ کا کامل عکس یعنی پوری شبیہ رکھنے والے ہیں.باقیوں میں اس قسم کا کمال نہیں.اس کو ہم محاورہ میں فنافی الرسول کہتے ہیں.آپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں فنا ہو گئے.آپ کا اپنا کچھ نہیں تھا بلکہ مہدی علیہ السلام کا سب کچھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گیا تھا.اور اپنے لئے کچھ نہیں چھوڑا تھا.حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو صرف سارے کا سارا مال و دولت لے آئے تھے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش کر دیا تھا اور وہ بھی وہ دولت تھی جو اُس وقت آپ کے پاس تھی.اور خدا نے جو بعد میں دیا اس سے آپ فائدہ بھی اٹھاتے رہے.لیکن مہدی علیہ السلام نے تو ساری زندگی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپر د کر دی اور آپ کے دین کی خدمت میں دن رات ایک کر دیا.اور آپ کے دل میں ایک ہی جوش اور ایک ہی تڑپ تھی کہ کسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت بنی نوع انسان کے دل میں قائم ہو جائے اور آپ کا جھنڈا ساری دنیا میں لہرانے لگے.اگلی صدی کی ذمہ داریاں میں نے یہ تمہید اس لئے باندھی ہے کہ اب احمدیت کی تاریخ میں اگلی صدی بس آنے ہی والی

Page 350

331 سبیل الرشاد جلد دوم ہے.اس صدی کے لئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں کافی ہیں کسی نئے مجدد کی ضرورت نہیں.مسجد دتو ضرورت کے وقت آیا کرتا ہے لیکن اس انگلی صدی کے لئے بھی آپ کی کتابیں کافی ہوں گی اور ایک ہزار سال تک کے لئے جو ضرورت ہے وہ آپ کی تفسیر کے اندر موجود ہے.لیکن ہمیں تو اپنی فکر کرنے کی ضرورت ہے اور ہماری ضرورتیں اگر کہیں سے پوری ہوسکتی ہیں قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب ہی پورا کر سکتی ہیں.ہمارے اپنے کئی حفاظ اور قاری ہیں جو پچھلے ایک دو سال میں احمدی ہوئے ہیں ان میں سے بہت ایسے بھی ہیں جنہوں نے احمدی ہونے کے بعد قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنا شروع کیا ہے.یعنی ان کو یہ شوق پیدا ہوا ہے کہ قرآن کریم محض لفظوں کا مجموعہ نہیں ہے.قرآن کریم تو بڑی وسعتوں والی بڑی گہرائیوں والی اور بڑی رفعتوں والی کتاب ہے.قرآن کریم کی جو عظمت ہے اسے انسان پوری طرح سمجھ ہی نہیں سکتا.اور جتنی سمجھ لے وہ اسے حیران کر دیتی ہے.اور یہ سمجھ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب عطا کرتی ہیں.بعض جگہ آپ نے قرآن کریم کا ایک ٹکڑا لیا ہے بلکہ بعض دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ مختلف کتب میں اس کا صرف ترجمہ کیا تفسیر نہیں کی اور دس جگہ دس مختلف ترجمے کر گئے ہیں.ایک دفعہ میں نے سات آٹھ خطبے آپ کے کئے ہوئے تراجم پر بنیاد رکھ کر دے دیئے تھے کیونکہ وہ مجھے مضمون سکھا دیتے تھے.ہر ترجمہ ایک نیا مضمون دماغ میں ڈالتا تھا پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کی شکل میں آپ کو ایک بہت بڑا خزانہ ملا ہے.اور آپ نے اسے صندوقچی میں بند کر کے رکھ دیا ہے اور بہت سے ایسے بھی گھر ہیں جہاں یہ صندوقچی بھی نہیں ہے جس میں یہ خزانہ پڑا ہو یعنی کتا بیں بھی موجود نہیں.ہماری جماعت کو نمونہ بننا ہوگا دوسرے یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہماری جماعت کو اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ ہم دنیا کے لئے اسلام کا ایک نمونہ بنیں.اور یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے.پس جس حد تک ممکن ہو اور جتنی کسی میں استعداد ہو اس کے مطابق تَخَلَّقُوا بِاَخْلَاق اللہ کے ماتحت اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھا کر اور اپنی زندگی کے ہر فعل کو اسلام کی حکومت کے تلے رکھ کر دنیا کے لئے ایک نمونہ بننا ضروری ہے.اگر ہم ایسا نمونہ بن چکے ہوتے تو اس وقت ہمیں تبلیغ کے راستے میں مشکلات پیش نہ آتیں.مثلاً یہ ہمارا ملک ہے اس میں وہ دقتیں ہمارے لئے باقی نہ رہتیں جو اب ہمیں نظر آ رہی ہیں.پس تبلیغ کا بہترین طریقہ نیک نمونہ پیش کرنا ہے.یورپ میں میرے بعض ایسے دورے ہوئے کہ

Page 351

سبیل الرشاد جلد دوم 332 جن میں اس جہت سے بعض دفعہ مجھے شرمندگی اٹھانی پڑی.پریس کا نفرنس میں صحافیوں نے پوچھا کہ آپ اسلام کی جو تعلیم بتا رہے ہیں.ہم مانتے ہیں کہ وہ بڑی اچھی ہے اور بڑی حسین ہے لیکن یہ بتائیں کہ دنیا میں اس پر عمل کون کر رہا ہے.یہ اعتراض احمدیوں کو تو اپنے اوپر نہیں لینا چاہئے.چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اور بڑی بڑی باتوں میں بھی ہمیں ہدایت دی گئی ہے.اور ہدایت ہم پر بوجھ ڈالنے کے لئے نہیں دی گئی بلکہ ہمارے بوجھوں کو ہلکا کرنے کے لئے دی گئی ہے.مثلاً ہمیں یہ کہا گیا ہے کہ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ضرورت سے زیادہ نہیں کھانا ، اسراف نہیں کرنا.اب کوئی شخص یہ کہے کہ دیکھو جی ہمیں کھانے پینے سے بھی روک دیا گیا ہے اور یہ بوجھ بن گیا ہے درست نہیں ہے کئی ایسے بھی پیٹو ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے بہت کھانا ہے.لیکن یہ حکم ہم پر بوجھ ڈالنے کے لئے نہیں بلکہ ہمارے پیٹ کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لئے دیا گیا ہے تاکہ پیٹ میں اپھارہ نہ ہو جائے اور ہمیں تکلیف نہ ہو.اسی طرح قرآنی تعلیم کے سارے احکام ہیں جو ہمارے بوجھوں کو ہلکا کرتے ہیں، ہمارے بوجھوں کو وزنی نہیں کرتے ان کو بوجھل اور نا قابل برداشت نہیں بنا دیتے.اسلام کا ایک حسین نمونہ بن جاؤ پس جہاں تک ممکن ہو اور جہاں تک خدا تعالیٰ تمہیں ہمت دے.اور دعاؤں کے ذریعہ اس سے زیادہ ہمت مانگو.اور اسلام کا ایک حسین نمونہ بن جاؤ.پھر دیکھو کہ کس طرح انقلاب بپا ہوتا ہے.اب بھی جماعت ایک حد تک نمونہ ہے لیکن اس حد تک نہیں جس حد تک ہم چاہتے ہیں کہ جماعت نمونہ بنے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور جس غرض کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجلس انصار اللہ کو قائم کیا تھا.اس غرض کو ہم پورا کرنے والے ہوں.اور جس مقصد کے لئے مہدی معہود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث کیا تھا.اس غرض کو پورا کرنے کے لئے ہم پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ہم ان کو ادا کرنے والے ہوں.اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کے قرب کو پانے والے اور اس کی رضا کی جنتوں میں داخل ہونے والے بن جائیں.آمین.( غیر مطبوعہ ) 1 سورۃ الاعراف آیت 32

Page 352

سبیل الرشاد جلد دوم 333 سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث رحم اللہ تعالی کا انتقامی خطاب فرموده ۳۰ را خا۱۳۵۶۶ بهش ۳۰ اکتوبر۱۹۷۷ء بمقام احاطہ دفا تر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ ۳۰ را خاء۱۳۵۶ بهش بمطابق ۳۰ر اکتوبر ۱۹۷۷ ء دفاتر انصار اللہ مرکزیہ کے لان میں سالانہ اجتماع انصار اللہ سے جو اختتامی خطاب فرمایا تھا.اس کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے.تشہد وتعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ایک رُوحانی انقلاب بپا کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے.آپ کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ انسان جو خدا سے دور چلا گیا، اُسے دوبارہ خدا کی طرف لے کر آئیں اور نیکی اور تقویٰ اور صلاحیت اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی جو راہیں خدا کے نزدیک کشادہ اور درست اور مستقیم ہیں ، انسان پر وہ راہیں کھولیں.آپ کا وجو د سب انسانوں سے عظیم ، بہت ہی برکتوں والا ، بڑے احسان کرنے والا اور دُنیا کی انتہائی خیر خواہی کرنے والا اور ایک عض روحانی طاقت رکھنے والا وجود تھا جس سے استفادہ کرنا انسان کے لئے قیامت تک ممکن ہے کیونکہ آ.کا زمانہ اپنی بعثت سے لے کر قیامت تک ممتد ہے.اور اب انسان سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہیں اور سے کوئی خیر اور خوبی حاصل نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور افاضہ رُوحانیہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور ہمیں نہایت ہی دلنشیں پیرا یہ میں یہ باتیں سمجھائی ہیں.میں اس وقت آپ کے چند اقتباسات پڑھوں گا.آپ فرماتے ہیں : در میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ہزار ہزار دُرود اور سلام اُس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہو سکتا.اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.

Page 353

334 سبیل الرشاد جلد دوم افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا وہ تو حید جو دُنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی.اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضلیت بخشی اور اُس کی مرادیں اُس کی زندگی میں اس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم از لی ہے.ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے.ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے ٹور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں.اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسر آیا ہے.اس آفتاب ہدایت کی شعاع دُھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اُسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اُس کے مقابل پر کھڑے ہیں.اسی طرح آپ فرماتے ہیں: وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دُنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سُنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیں جنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس اُمی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اللهم صلّ وسلم وبارك عليه واله بِعَدَدِ هَمِّهِ و عَمِّهِ وَ حُزنِهِ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ حقیقۃ الوحی طبع چہارم صفحه ۱۱۵-۱۶ اروحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۱۸-۱۱۹

Page 354

335 سبیل الرشاد جلد دوم ہے وَأَنْزِلُ عَلَيْهِ انوار رَحْمَتِكَ إِلَى الْأَبَدِ انسانیت کے اس عظیم محسن کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں قیامت تک خدا تعالیٰ کے پیارے اور خدا سے پیار حاصل کرنے والے بندے پیدا ہوتے رہیں گے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جُدا ہو کر تو کوئی شخص خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل نہیں کر سکتا.اور وہ دُعا جو سورہ فاتحہ میں سکھائی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ اُمت محمدیہ کو منعم علیہ گروہ میں شامل کرے گا ، وہ دُعا بڑی کثرت سے پوری ہوئی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ کثرت کمیت کے لحاظ سے اور صفائی کیفیت کے لحاظ سے حقیقی معنی میں منعم علیہ کے دو گروہ ہیں.ایک گروہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور پھر ان کے بعد تین صدیوں تک پیدا ہونے والے ابرار واخیار پر مشتمل ہے.اسی لئے اسلام کی پہلی تین صدیاں خیر القرون کہلاتی ہیں.اس گروہ کے ایک حصے نے تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ رُوحانی تربیت حاصل کی اور پھر جو لوگ بعد میں آنے والے تھے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی اثر قبول کر کے اپنے وجود میں ایک عظیم روحانی انقلاب پیدا کیا اور دُنیا کے لئے وہ ہدایت کا باعث بنے.دوسرا گر وہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مشتمل ہے کیونکہ انہوں نے بھی بالواسطہ طور پر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی رُوحانی تربیت سے حصہ پایا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : خدا تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو سورۃ فاتحہ میں یہ دعا سکھلائی ہے کہ وہ اس فریق کی راہ خدا تعالیٰ سے طلب کرتے رہیں جو مُنْعَمْ عَلَيْهِمُ کا فریق ہے اور سُنْعَمُ عَلَيْهِمْ کے کامل طور پر مصداق باعتبار کثرت کمیت اور صفائی کیفیت اور نعمائے حضرت احدیت از رُوئے نص صریح قرآنی اور احادیث متواترہ حضرت مرسل یزدانی دو گروہ ہیں.ایک گروہ صحابہ اور دوسرا گروہ جماعت مسیح موعود.کیونکہ یہ دونوں گروہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کے تربیت یافتہ ہیں کسی اپنے اجتہاد کے محتاج نہیں.وجہ یہ کہ پہلے گروہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے جو خدا سے براہ راست ہدایت پا کر وہی ہدایت نبوت کی پاک توجہ کے ساتھ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دل میں ڈالتے تھے اور اُن کے لئے مرتی ہے واسطہ تھے اور دوسرے گروہ میں مسیح موعود ہے جو خدا سے الہام پاتا اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت سے فیض اٹھاتا ہے لہذا اس کی برکات الدعاء.روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۱۰-۱۱

Page 355

سبیل الرشاد جلد دوم 336 جماعت بھی اجتہاد خشک کی محتاج نہیں ہے جیسا کہ آیت وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بهم (سورة الجمعه: 4) سے سمجھا جاتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں : "حسب منطوق آیت ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ O و ثُلَّةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ (سورة الواقعہ: 40-41) خالص محمدی گروہ جو ہر ایک پلید ملونی اور آمیزش سے پاک اور تو به نصوح سے غسل دیئے ہوئے ایمان اور دقائق عرفان اور علم اور عمل اور تقویٰ کے لحاظ سے ایک کثیر التعداد جماعت ہے یہ اسلام میں صرف دوگر وہ ہیں یعنی گروہ اولین و گروه آخرین جوصحابہ اور مسیح موعود کی جماعت سے مراد ہے اسی طرح آپ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُلَّةٌ مِّنَ الْاَوَّلِينَ O وَتُلَّةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ يعنى ابرار و اخیار کے بڑے گروہ جن کے ساتھ بدمذاہب کی آمیزش نہیں وہ دو ہی ہیں.ایک پہلوں کی جماعت یعنی صحابہ کی جماعت جو زیر تربیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے.دوسری پچھلوں کی جماعت جو بوجہ تربیت روحانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جیسا کہ آیت وَاخَرينَ مِنْهُمُ (الجمعه 4) سے سمجھا جاتا ہے صحابہ کے رنگ میں ہیں.یہی دو جماعتیں اسلام میں حقیقی طور پر مُنْعَمْ عَلَيْهِمْ ہیں اور خدائے تعالیٰ کا انعام اُن پر یہ ہے کہ اُن کو انواع و اقسام کی غلطیوں اور بدعات سے نجات دی ہے.اور ہر ایک قسم کے شرک سے ان کو پاک کیا ہے اور خالص اور روشن تو حیدان کو عطا فرمائی ہے جس میں نہ دجال کو خدا بنایا جا تا ہے اور نہ ابن مریم کو خدائی صفات کا شریک ٹھہرایا جاتا ہے اور اپنے نشانوں سے اس جماعت کے ایمان کو قوی کیا ہے اور اپنے ہاتھ سے ان کو ایک پاک گروہ بنایا ہے.مُنْعَمُ عَلَيْهِ کے یہ دو گروہ جن کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ذکر کیا ہے.ان کے متعلق میں نے رمضان کے آخری درس میں تفصیل سے روشنی ڈالی تھی.کیونکہ اُس وقت آپ میں سے بہت سے دوست یہاں موجود نہیں تھے اس لئے یاد دہانی کے طور پر مختصر دوبارہ بیان کر دیتا ہوں.مُنْعَمُ عَلَيْهِ کے تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۳۸.روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۲۴ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۳۹-۱۴۰.روحانی خزائن جلد ۱۷ صفحه ۲۲۵ - ۲۲۶ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۴۱ - ۱۴۲.روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۲۲۷ - ۲۲۸ 66

Page 356

337 سبیل الرشاد جلد دوم یہ دو گروہ جو کمیت کے لحاظ سے اتنی کثرت میں ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں خیر القرون کے بعد اور مسیح و مہدی کی بعثت سے قبل کا جو درمیانی زمانہ ہے یعنی فیج اعوج کا زمانہ جو اسلام کے تنزل کا زما نہ کہلاتا ہے ، اس میں بھی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض حاصل کر کے اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے مقربین الہی ایک دریائے عظیم کی مانند تھے.تا ہم مُنْعَمُ عَلَیہ کے ان دو گروہوں کے مقابلہ میں یہ دریائے عظیم کوئی حقیقت نہیں رکھتا.ان دو مُنعَمُ عَلَیہ گروہوں میں ہمیں جو فرق نظر آتا ہے اور وہ بڑا اہم ہے آج میں اس کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.جیسا کہ بتایا گیا ہے مُنْعَمُ عَلَيْهِ گر وہ وہ ہے جو پہلی تین صدیوں پر پھیلا ہوا ہے.میں سمجھتا ہوں وہ اپنی تعداد کے لحاظ سے لاکھوں کروڑوں تک پہنچا ہوا ہے اور اپنے روحانی انوار اور اخلاقی اقدار کے لحاظ سے اس شان کا ہے کہ صرف دُنیائے اسلام ہی میں اُن کی عزت واحترام نہیں بلکہ وہ لوگ جو اسلام کے مخالف تھے وہ بھی دنیوی لحاظ سے اسلام کے ابرار واخیار کے سامنے اپنی گردنیں جھکانے پر مجبور ہو گئے.چنانچہ انہوں نے بھی مسلمانوں سے فیض حاصل کیا.اور یہ فیض مسلمانوں کا اپنا نہیں تھا بلکہ یہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کا ایک حصہ تھا.پس میں آج کا مضمون اسلام کے ان بزرگوں کے ذکر سے شروع کرتا ہوں جن کا مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ تعلق تھا.اس گروہ میں قرآن کریم کے بڑے زبر دست مفسر پیدا ہوئے.بڑے زبر دست محدث پیدا ہوئے.جنہوں نے احادیث جمع کیں اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہم تک پہنچائے.بڑے زبر دست متکلمین پیدا ہوئے.جن کے علم کلام نے دُنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا.بڑے زبر دست مورخین پیدا ہوئے.بڑے زبر دست صوفیاء پیدا ہوئے.بڑے زبر دست سیاستدان پیدا ہوئے.بڑے زبر دست حساب دان پیدا ہوئے.بڑے زبر دست اطباء پیدا ہوئے.غرضیکہ ہر علم کے بڑے زبردست ماہر پیدا ہوئے.جب میں نے بعض مضامین مثلاً تاریخ کا نام لیا، طب کا نام لیا تو اگر چہ بظاہر ان علوم کا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیوض کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لیکن چونکہ ساری کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیدا کی گئی ہے.اس لئے اس کا ئنات کے ہر شعبہ کا تعلق لازما محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قرآن کریم میں ہمیں ہر علم کے متعلق بنیادی ہدایت دی گئی ہے جس کا میں علی وجہ البصیرت ذکر کرتا رہتا ہوں.میرے پاس جب کبھی کوئی سائنسدان آتا ہے ، میں اس کو سمجھا تا ہوں کہ دیکھو! سائنسز ( علوم ) میں سے جس کسی علم پر تم نے تحقیق کی ہے اور اُسے مدون کیا ہے ان میں سب سے کامل علم جس میں شک کی

Page 357

.338 سبیل الرشاد جلد دوم کوئی گنجائش نہیں سمجھی جاتی وہ علم حساب ہے مثلاً دو اور دو چار بنتے ہیں لیکن چوٹی کے حساب دان دماغ نے علم حساب کی بنیا د مفروضات پر رکھی ہے اور اس طرح بنیادی طور پر ایک خامی پیدا کر دی ہے کیونکہ جس عمارت کی بنیا د مفروضے پر کھڑی کی جائے گی اگر وہ مفروضہ نیچے سے نکل جائے تو ساری عمارت دھڑام سے نیچے آجائے گی.ہمارے احمدی اور بعض غیر احمدی بچے بھی جوایم.اے وغیرہ کے طالب علم ہوتے ہیں وہ مجھے ملنے آتے ہیں تو میں اُن کو سمجھاتا ہوں کہ ہمیں اصل ہدایت اور نور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطا ہوا ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اسلام کی پہلی تین صدیوں میں خصوصاً اور بعد کی صدیوں میں عموماً ہر میدان میں ایسے لوگ کثرت کے ساتھ پیدا ہوئے جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ایک بڑا عظیم وجود ہے کہ جن سے فیض حاصل کر کے لاکھوں انسان دُنیا کے رہبر بن گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل خدا تعالیٰ سے سیکھ کر کوئی علم تاریخ میں رہنمائی کرنے والا بن گیا.کوئی خدا تعالیٰ سے سیکھ کر علم طب میں رہنمائی کرنے والا بن گیا اور کوئی خدا تعالیٰ سے علم پا کر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے منور ہو کر علم کلام کے میدانوں میں سب سے آگے نکل گیا.کسی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی محبت کر کے اور خدا تعالیٰ کے عشق میں فنا ہو کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات مبارکہ اور ارشادات عالیہ کو جمع کرنے میں کمال حاصل کیا.کئی ایک ایسے بزرگ بھی تھے جنہوں نے قرآن کریم کی تفسیر کر کے اُمت محمد یہ سے خراج تحسین حاصل کیا.غرض اپنی اپنی جگہ ان سب کی بڑی شان ہے لیکن ایک چیز نمایاں ہے کہ خلافتِ راشدہ کے بعد یہ گروہ کثیر ، خدا کے برگزیدوں کی یہ جماعت ، اخیار وابرار کی یہ جماعت ، مجددین اور اولیاء اللہ کا یہ گروہ کہ جن کی لاکھوں کی تعداد تھی اُن کا کوئی مرکزی نقطہ نہیں تھا جس کے ساتھ وہ بندھے ہوئے ہوتے اور اس میں خدا تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی حکمت تھی.میں نے بتایا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تو قیامت تک ممند ہے.آپ کو بشارت دی گئی ہے.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِه که اسلام تمام ادیان پر غالب آئے گا اور نوع انسانی کو امت واحدہ بنا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیا جائے گا.لیکن ساتھ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اسلام کے عروج کا جو زمانہ ہے یعنی زمانہ کے لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سیر روحانی ہے، امت مسلمہ اس عروج کو ضرور پہنچے گی لیکن پہنچے گی آپ کے ایک نائب نبوت یعنی مہدی اور مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں.قرآن کریم نے بھی یہی بتایا ہے.قرآن کریم کی تفسیر کرتے سورۃ التوبہ آیت ۳۴.نیز سورۃ الصف : ۱۰)

Page 358

339 سبیل الرشاد جلد دوم ہوئے ہمارے پہلے بزرگوں نے بھی یہی بتایا ہے اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے بھی یہی پتہ لگتا ہے اور پھر وحی و الہام کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی یہی بات بتائی گئی ہے.پس یہ گروہ کثیر ہے مفسرین.محدثین.متکلمین اور دیگر اخیار و ابرار کا جو کسی مرکزی نقطہ کے ساتھ بندھا ہوا نظر نہیں آتا.یہ لاکھوں بزرگ جب کسی نقطہ مرکزیہ کے ساتھ بندھے ہوئے نہیں تھے تو اس سے جو چیز پیدا ہونی تھی وہ پیدا ہوئی اور وہ یہ کہ امت محمدیہ میں وحدت نہیں پیدا ہوسکی.اور نہ پیدا ہونی ہئے تھی کیونکہ انسان کو امت واحدہ بنانے کا کام مہدی اور مسیح کے سپر دکھا اور ان کی بعثت میں ابھی دیر نفی.پہلی تین صدیوں میں گو اسلام کو بہت ترقی حاصل ہوئی لیکن اُس وقت امت واحدہ بنانے کا وعدہ ہی نہیں تھا.اب میں مثال کے طور پر بعض مضامین کو لیتا ہوں.میں نے حوالے تو بہت نکلوائے ہیں لیکن وہ سب اس وقت بیان نہیں ہو سکیں گے.میں پہلے علم تفسیر کو لیتا ہوں.مفسرین میں جو چوٹی کے نام لئے جاتے ہیں اُن میں حضرت حسن بصری ہیں ۲۱ھ میں ان کی ولادت ہوئی اور ۱۱۰ ھ میں ان کی وفات ہوئی.حضرت زید عدنی مدنی ہیں جن کی ۱۳۶ھ کو وفات ہوئی.حضرت عطا بن دینار ہیں ۱۲۶ھ میں ان کی وفات ہوئی.ان کا بھی چوٹی کے مفسرین میں شمار ہوتا ہے.پھر عبدالرحمن مغربی ہیں.عبداللہ سجستانی ہیں.انہوں نے اپنی تفسیر میں ناسخ منسوخ کی بحث چھیڑ دی.کچھ مفسرین سمرقند کے ہیں.کچھ بخارا کے ہیں اور کچھ افریقہ کے ہیں.قطیبہ بن شریح وہ مفسر ہیں جنہوں نے اپنی تفسیر میں شیعہ خیالات بیان کئے ہیں.شیعہ بزرگوں میں سے امام حسن عسکری مفسر ہیں.جب ہم ان بزرگوں کی تفسیروں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اُمت کا ایک حصہ ایک مفسر کے ساتھ چمٹ گیا اور دوسرا حصہ دوسرے کے ساتھ چمٹ گیا.مفسرین میں سے جو شیعہ خیالات کے تھے اُن کی تفسیروں کے ساتھ شیعہ فرقے چمٹ گئے یعنی وہ ان کو شوق سے پڑھنے لگے.ان کو سمجھنے لگے اور اپنی نسلوں کو اس کی تعلیم دینے لگے اور اس طرح ہر فرقہ علیحدہ علیحدہ نمایاں ہونا شروع ہو گیا.دوسرے قرآن کریم کی تفسیر کے جو اصول ہیں ان کو ان تفاسیر میں ایک حد تک نظر انداز کیا گیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان اصولوں کو پھر کھول کر بیان کیا تا کہ تفسیر کرتے ہوئے آگے پھر تفرقہ نہ پیدا ہو.مثلاً ایک یہ اصول ہے کہ قرآن کریم اپنی تفسیر خود بیان کرتا ہے.اس کی بعض آیات کی تفسیر بعض دوسری آیات کر رہی ہوتی ہیں.تفسیر قرآن کا ایک یہ اصول بھی ہے کہ قرآن کریم چونکہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس کے اندر کوئی تضاد نہیں پایا جاتا.قرآن کریم کی دو آیات جو مختلف جگہوں سے لی گئی ہوں اُن کی

Page 359

340 سبیل الرشاد جلد دوم کوئی ایسی تفسیریں نہیں کی جاسکتیں جن میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہو.اور نہ ہی قرآن کریم کی کوئی ایسی تفسیر کی جاسکتی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ اور مسلمہ تفسیر کے مخالف ہو.اسی طرح قرآن کریم کی کوئی ایسی تفسیر بھی نہیں کی جاسکتی کہ جو اللہ تعالیٰ کی جو عظمت اور بزرگی اور جلال اور کبریائی اور شان قرآن کریم نے بیان کی ہے وہ اس کے خلاف ہو یعنی اگر کوئی مفسر کسی آیت کی کوئی ایسی تفسیر کر دے جو خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے خلاف ہو تو وہ صحیح تفسیر نہیں سمجھی جائے گی.قرآن کریم کی کوئی ایسی تفسیر صحیح نہیں سمجھی جائے گی جو عربی لغت کے خلاف ہو.اگر ایسا ہو تو پھر تفسیر بالرائے بن جاتی ہے.میں آپ کو ایک لطیفہ سنا دیتا ہوں.گورنمنٹ کالج لاہور میں ہمارے ایک اُستاد تھے.ایک دفعہ انہوں نے عربی کے پرچے میں مجھے فیل کر دیا.میں بڑا حیران ہوا کہ مجھے کیوں فیل کیا ہے.کیونکہ میرا خیال تھا سا دے سے سوال ہیں مثلاً مفردات ہیں اُن کی جمع اور جمع کی مفر لکھنی تھی.اگر مفرد اور جمع صحیح لکھی گئی ہے تو پورے نمبر ملنے چاہئیں اگر نہیں لکھی گئی تو ایک نمبر بھی نہیں ملنا چاہئے.ہمیں پر چہ واپس مل جاتا تھا.جب مجھے پر چہ ملا تو میں نے دیکھا کہ انہوں نے مجھے فیل کرنے کے لئے یہ اصول بنایا کہ صحیح پرچہ پر سرخ پنسل سے چرخی ڈال دی.یعنی جمع کی مفر د صحیح تھی اور مفرد کی جمع صحیح تھی.مگر انہوں نے چرخی ڈالی اور نمبر کاٹ لئے.مجھے تو شرمندگی کا سامنا کرنا تھا وہ سٹاف روم میں بیٹھے ہوئے تھے.سٹاف میں مسلمان بھی تھے اور عیسائی بھی.ہندو بھی تھے اور سکھ بھی.میں اُن کے پاس گیا چونکہ استاد کا ہمیشہ ادب کرنا چاہئے اس لئے میں نے بڑے ادب سے کہا یہ جو آپ نے چرخیاں ڈالی ہیں معلوم ہوتا ہے کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے ورنہ جمع کی مفرد درست ہے اور مفرد کی جمع درست ہے.لیکن کسی غلط فہمی کی وجہ سے چرخی پڑ گئی.نمبر کاٹنے تھے آپ نے کاٹ لئے تو مجھے کہنے لگے نہیں یہ درست نہیں.میں نے کہا یہ تو آسان بات ہے.میں عربی لغت کی کتاب لے آتا ہوں.اگر اس نے اس مفرد کی یہی جمع دی ہے تو درست ہے ورنہ نہیں اور اگر اس جمع کا یہی مفرد دیا ہے تو درست ہے ورنہ نہیں.تو وہ سب کے سامنے آرام سے میری طرف منہ اٹھا کر کہنے لگے لغت کا کیا ہے اس میں سے تو ہر چیز نکل آتی ہے.پس اگر تفسیر میں بھی اس طرح کیا جائے تو پھر تو کام نہیں چلتا اس لئے قرآن کریم کی تفسیر کا ایک اصول یہ ہے کہ قرآن کریم کے کسی لفظ کے وہ معنے نہ کئے جائیں جن کی عربی لغت حامل نہیں ہو سکتی.اسی طرح کے اور بہت سے اصول ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے کے مفسرین کا جو عمل تھا اور اُن کا جو طریق تھا اس میں اصول تفسیر کو عموماً نظروں کے سامنے نہیں رکھا گیا.ویسے اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اس میدان میں بڑی محنت کی اور دین کی بڑی خدمت کی اللہ تعالیٰ اُن کو جزا دے اور اُن کے

Page 360

341 سبیل الرشاد جلد دوم درجات بلند کرے لیکن اصول تفسیر کو مدنظر نہ رکھنے سے بعض سقم پیدا ہو گئے مثلاً قرآن کریم نے بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء معصوم ہوتے ہیں.لیکن بعض مفسرین نے تفسیر کرتے ہوئے کسی نبی پر ایک الزام لگا دیا دوسرے پر دوسرا الزام لگا دیا اور بڑے سخت الزام لگا دیئے.کسی نبی پر جھوٹ بولنے کا الزام لگا دیا اور کسی پر کچھ اور الزام لگا دیا.حالانکہ خدا تعالیٰ نے وضاحت کے ساتھ قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ کوئی جھوٹا آدمی خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل نہیں کر سکتا کجا یہ کہ وہ خدا تعالیٰ کے پیار کا اتنا بلند درجہ حاصل کر لے کہ خدا تعالیٰ اسے نبوت کے مقام پر فائز کر دے اور ایک دُنیا کا اس کو رہبر بنا دے اور ایک دنیا کو کہے کہ اس کی اتباع کرو تو کیا پھر لوگ جھوٹ بولنے میں اس کی اتباع کریں گے.پس قرآن کریم کی تفسیر کرنے کے جو اصول ہیں کسی سے کسی اصول میں غلطی ہو گئی.کوئی کہیں کسی اصول کو نظر انداز کر گیا اور کوئی کہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت عثمان بن فودگی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک صدی قبل نائیجریا اور اس کے اوپر نائیجر کا جو علاقہ ہے.اس میں بشارتوں کے ماتحت تجدید دین کا کام کرتے رہے یعنی وہاں کے جو اولیاء اللہ تھے اُن کو خدا تعالیٰ نے یہ بشارت دی تھی کہ خدا تم میں سے ایک مجدد پیدا کرنے والا ہے.چنانچہ ان بشارتوں کے مطابق حضرت عثمان بن فودی جب مجد دبنے تو انہوں نے اپنے ماننے والوں کو کہا کہ تفسیر میں بالکل نہ پڑھنا کیونکہ ان میں رطب و یابس بھی آ گیا ہے.پس قرآن کریم جیسی عظیم کتاب جو خود اپنی تفسیر کی رہبری کرنے والی ہے اور بتاتی ہے کہ اس طرح میری تفسیر کرنی ہے اور اس طرح نہیں کرنی اس میں بھی لوگ غلطیاں کر گئے.لیکن تھے وہ بڑے بزرگ.انہوں نے بدنیتی سے غلطیاں نہیں کیں.لیکن ایسی غلطیاں ہوئیں اور خدا تعالیٰ نے اُن کو ان غلطیوں سے محفوظ نہیں کیا کیونکہ ان غلطیوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان امت واحدہ نہ بن سکے اور ابھی اس کا وقت بھی نہیں آیا تھا.مفسرین ایک دوسرے کی تصحیح بھی کرتے رہتے تھے.کوئی مان جاتے تھے اور کوئی نہیں مانتے تھے.پھر بعد میں جب میج اعوج کا زمانہ آیا اور ظلمات نے زور پکڑ لیا تو پھر اس سے فتنے پیدا ہوئے ورنہ شروع میں امت مسلمہ اس قسم کے فتنوں سے محفوظ رہی.دوسرے نمبر پر آتی ہیں احادیث کی کتب.محدثین میں حضرت امام بخاری ہیں (۱۹۴.۲۵۶ھ ) حضرت امام مسلم ہیں (۲۰۶ ۲۶۱ ھ ) امام نسائی ہیں (۲۱۵ ۳۰۳ ھ ) ابوداؤد ہیں (۲۰۲-۲۷۵ھ) امام ترمذی (۲۰۰ - ۲۷۹ ھ ) ابن ماجہ ہیں.امام مالک ہیں (۹۵-۱۷۹ھ ) یہ ویسے فقہ کی طرف زیادہ مائل ہیں اس لئے موطا امام مالک کو صحاح ستہ میں شمار نہیں کیا گیا لیکن حدیث کی بڑی اچھی کتاب ہے.یہ بزرگ بھی پہلی تین صدیوں میں پھیلے ہوئے ہیں جو خیر القرون کہلاتی ہیں.احادیث کے اکٹھا کرنے میں

Page 361

342 سبیل الرشاد جلد دوم ان بزرگوں نے بڑی محنت کی.حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور سنت کا مجموعہ ہے جو روایتیوں کے ذریعہ ہمارے ان بزرگوں تک پہنچا یعنی ایک شخص کہتا ہے کہ فلاں شخص نے مجھ سے بیان کیا اور اس سے فلاں شخص نے بات کی اور اسے فلاں نے بتایا تھا کہ فلاں موقع پر حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فر ما یا تھا یا یہ کام کیا تھا.تین چار بلکہ بعض دفعہ تو چھ سات راویوں کے ذریعہ حدیث پہنچتی ہے.پس محدثین نے اپنی طرف سے بڑی محنت کی.انہوں نے یہ دیکھا کہ راوی ثقہ ہے یا نہیں.پھر یہ بھی دیکھا کہ راوی کا حافظہ درست ہے یا نہیں.پھر یہ بھی دیکھا کہ درایت کے اعتبار سے راوی کیسا ہے یعنی دینی علوم میں اس کی سمجھ ایسی ہے کہ دینی معاملات میں اس کی بات پر اعتبار کیا جا سکے.پھر حدیث پر فقہ کی بنیاد پڑی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات جو امت محمدیہ کو ایک کرنے کے لئے ہیں اُن کے نتیجہ میں امت محمدیہ میں بہت سے گروہ بن گئے حدیث کی وجہ سے بھی اور حدیث پر جو فقہ کی بنیاد پڑی اس کی وجہ سے بھی کیونکہ فقہ میں چار اماموں کی وجہ سے چار مختلف فقہی مسلک بن گئے.ایک امام ابوحنیفہ کی فقہ ہے دوسری امام شافعی کی فقہ ہے تیسری امام مالک کی فقہ ہے اور چوتھی امام احمد بن حنبل کی فقہ ہے.یہ چار فقہی مسلک ہیں.دنیا کے مختلف علاقوں میں کہیں ایک فقہ پر عمل کیا جا رہا ہے.اور کہیں دوسری فقہ پر عمل کیا جا رہا ہے.اس سے فقہی معاملات میں ایک تفرقہ پیدا ہو گیا.حالانکہ تھے یہ بڑے بزرگ.اس میں کوئی شک نہیں.لیکن ان بزرگوں کی جو کثرت ہے ان کے اندر خدا تعالیٰ کی یہ حکمت ہمیں نظر نہیں آتی کہ ان کو کسی ایک مرکزی نقطے سے باندھ کر امت کو ان تفرقوں سے بچالیا جائے جو بعد میں پیدا ہو گئے تھے.ہمارے ذہن میں بھی بہت سی حکمتیں آتی ہیں لیکن نہ بھی آئیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا کوئی کام بھی حکمت کے بغیر نہیں ہوتا.جہاں تک فقہ کا تعلق ہے ایک فقہ افریقہ کے اندر رائج ہوگئی.دوسری مدینہ جو اُس وقت ہمارا اسلامی مرکز تھا اس کے اندر رائج ہو گئی.حضرت امام مالک مدینہ کے فقہیہ تھے.چنانچہ مدینہ میں بسنے والوں نے جواحادیث ان کے سامنے بیان کی تھیں وہ صرف ان احادیث پر بنیا د رکھ کر مسائل حل کرتے تھے اور چونکہ صحابہ رضوان اللہ علیہم بکھر چکے تھے.دنیا میں پھیل چکے تھے.ان سے جو روایتیں مروی ہوتی تھیں ان کے متعلق حضرت امام مالک کہتے تھے نہیں ! میں ان کی طرف نہیں جاؤں گا.میں صرف مدینہ کے راویوں کولوں گا.اس لئے ان پر فتوے بھی لگ گئے لیکن بہر حال ایک اختلاف پیدا ہو گیا.(میں حدیث اور فقہ کو اکٹھا بیان کر رہا ہوں ) پھر جہاں تک احادیث کا تعلق ہے گو صحیح بخاری اصح الکتب بعد کتاب اللہ سمجھی جاتی ہے.لیکن اس کے اندر بھی ہمیں دو نقص نظر آتے ہیں.ایک تو یہ کہ بہت محتاط ہونے

Page 362

سبیل الرشاد جلد دوم 343 کی وجہ سے بہت سی احادیث جو درست تھیں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ارشادات تھے لیکن راوی کمزور ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنی صحیح میں اُن کو درج نہیں کیا.یہ ٹھیک ہے حضرت امام بخاری نے بڑی محنت کی ہے صحاح ستہ میں ان کی کتاب جو بخاری شریف کہلاتی ہے سر فہرست ہے لیکن صحیح بخاری میں گل ۱۹۰۸۲ حادیث ہیں جبکہ صحیح مسلم میں ۱۲۰۰۰ ہیں.اب یہ جو ۳۰۰۰ احادیث کا فرق ہے.اس کی وجہ سے بھی اس لحاظ سے تفرقہ پڑ گیا کہ جن علاقوں میں لوگ مسلم کی حدیث کو پکڑنے والے تھے.انہوں نے ان کو ترجیح دی اور وہ جو زائد حدیثیں تھیں وہ بھی ان کے سامنے آ گئیں.ابن رشد جو اندلس کے ایک بہت بڑے فلاسفر اور بہت بڑے دینی عالم تھے انہوں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام بدایۃ المجتھد ہے.اس میں انہوں نے فقہاء کا جو اختلاف ہے وہ بیان کیا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ مثلاً ایک حدیث حضرت امام ابو حنیفہ کے پاس پہنچ گئی تھی لیکن امام شافعی کو نہیں پہنچی تھی.اس لئے امام ابوحنیفہ نے اور فتویٰ دیا اور امام شافعی نے اور فتویٰ دیا.پس ایک تو یہ ہے کہ امام بخاری نے بڑی احتیاط کی اس لئے بہت سی احادیث جو صحیح تھیں وہ اُن تک نہیں پہنچ سکیں مثلاً جو احادیث صوفیائے کرام نے لی ہیں ان میں سے بہت ساری ایسی ہیں کہ جو محدثین کے پاس نہیں پہنچی تھیں دوسرے یہ کہ با وجود اتنی احتیاط کے پھر بھی بخاری میں ایسی حدیثیں ملتی ہیں جن کا ٹکراؤ ہو جاتا ہے، خود بخاری کی دوسری احادیث سے یا جن کا ٹکراؤ ہو جاتا ہے ، قرآن کریم کے بعض مضامین کے ساتھ.پس یہ دو خامیاں احادیث کی کتب میں ہمیں نظر آتی ہیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جگہ جگہ ٹولیاں بن گئیں اور امت محمدیہ امت واحدہ نہ بن سکی.ٹولیاں بن گئیں اسلام کے اندر اور یہ بڑھتی چلی گئیں.تا ہم ان بزرگوں کا جو زمانہ تھا اس میں لوگ ایک دوسرے کی نہایت عزت اور احترام کرنے والے تھے.ان کا آپس میں الا ماشا اللہ کوئی لڑائی جھگڑا نہیں تھا.لیکن بعد میں آنے والوں نے ان بزرگوں کے اختلافات کو وجہ تفریق بنا لیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احادیث کی صحت کے بارہ میں اصول بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو پرکھنے کے لئے کہ آیا راوی کی روایت درست ہے یا نہیں.ایک یہ اصول ہے کہ ہر وہ قول جس کو راوی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہے اگر وہ بات قرآن کریم کی کسی آیت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی ہے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں ہوسکتا اور اگر کسی راوی کی کوئی روایت قرآن کریم سے کچھ زائد کر رہی ہے تو ظاہر ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا بھی نہیں فرما سکتے تھے اور اگر قرآن کریم سے کچھ کم کر رہی ہے تب بھی

Page 363

344 سبیل الرشاد جلد دوم ماننا پڑے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں فرما سکتے تھے کیونکہ آپ نے تو خدا تعالیٰ کی وحی سے دنیا میں یہ اعلان فرمایا تھا.اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ قرآن کریم ایک کامل شریعت اور مکمل ہدایت کے طور پر تمہارے ہاتھ میں دے دی گئی ہے.اب اس سے نہ کچھ زائد ہو سکتا ہے اور نہ کچھ کم ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں اس بارہ میں جو دوسری بات بتائی وہ یہ ہے کہ ہر وہ حدیث جس کو محدثین نے قبول نہیں کیا اور ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا کیونکہ اُن کو اس میں کوئی نقص نظر آیا لیکن اگر خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت بتاتی ہے کہ وہ درست ہے تو وہ حدیث صحیح ہے.جس حدیث کی صحت پر خدا تعالیٰ کا فعل گواہ ہے اس کے ماننے میں تردد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.مثلاً آئندہ کے متعلق کوئی پیشگوئی ہے.اگر وہ واقع میں پوری ہو جاتی ہے تو وہ حدیث صحیح ہے کیونکہ خدا کے علا وہ تو کسی کو علم غیب نہیں.عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ تو اسی کی ذات ہے.آئندہ کی خبر میں دینے والی صرف وہی ذات ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حدیث کی صحت کے بارہ میں تیسری بات ہمیں یہ بتائی کہ نیکی کی ہر وہ بات جو حدیث کی کتابوں میں بیان ہوئی ہے اگر وہ قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف نہیں اور ہمیں یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ یہ کس آیت کی تشریح ہے تو چونکہ وہ حدیث حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہے اس لئے ہمارے دل میں آپ کا جو پیار ہے، وہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم اس کو قبول کر لیں اور اس کے مطابق عمل کریں کیونکہ اس میں خرابی کی کوئی بات نہیں.وہ قرآن ، قرآن کریم کی کسی آیت یا اس کے کسی مضمون کے خلاف نہیں ہے.غرض حدیث اور حدیث پر جو فقہ کی بنیا د رکھی گئی ہے اس کی وجہ سے امت محمدیہ مہدی علیہ السلام کی بعثت سے قبل مختلف فرقوں میں بٹ گئی.خدا تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتا دیا تھا کہ تیری امت ۷۲ فرقوں میں بٹ جائے گی.ویسے ۷۲ کا یہ عمل بھی تحقیق طلب ہے.میں نے کسی جگہ پڑھا ہے اور میرے ذہن پر یہ اثر ہے کہ اوّل تو ۷۲ تعداد نہیں بلکہ ان کی کثرت کی طرف اشارہ ہے.دوسرے یہ کہ اسلام میں کچھ فرقے پیدا ہوتے تھے.پھر ختم ہو جاتے تھے.کچھ فرقے بنتے تھے.اور پھر مٹ جاتے تھے.پھر کچھ نئے فرقے بیچ میں پیدا ہو جاتے تھے.لیکن یہ صحیح ہے کہ امت محمدیہ فرقہ فرقہ ہوگئی.اس حالت میں بھی کثرت کمیت ہے یعنی بڑی کثرت سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افاضۂ روحانیہ سے فیض حاصل کر کے خدا تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا یہ گروہ ہے جس کی لاکھوں کی تعداد ہے.سورۃ المائدہ آیت ۴

Page 364

345 سبیل الرشاد جلد دوم غرض مُنْعَمُ عَلَیہ کے حقیقی معنے میں مصداق جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے دو گروہ ہیں.ایک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور خیر القرون کے زمانہ کے بزرگ جو بڑی کثرت سے ہیں اور جنہوں نے لوگوں کی بھلائی کے لئے یہ کام کیا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی جو تفسیر بیان فرمائی تھی اس کو احادیث کی کتب میں جمع کر دیا.اُن کو جو تفسیر سمجھ آئی وہ لکھ دی ، جو کچھ دوسروں سے سنا وہ لکھ دیا.اگر اُن کو کچھ تاریخی شواہد ملے صحیح یا غلط اُن کو اپنی تفسیر وں میں لکھ دیا.لیکن اُن کے سامنے یہ مقصد نہیں تھا کہ امت فرقہ فرقہ نہ ہو جائے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ عملاً فرقہ فرقہ بن گئی.اگر خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہوتا کہ ان بزرگوں کے کثیر گروہ کے نتیجہ میں اُمت میں فرقے نہیں پیدا ہوں گے تو ہر گز نہ پیدا ہوتے کیونکہ خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف تو کوئی چیز نہیں ہوسکتی.پس یہ تو تھے ہمارے بزرگ مفسرین، محدثین اور فقہاء جو اپنے اپنے علم کے اساتذہ اور امام تھے.اسی طرح متکلمین ہیں گو یہ زیادہ تر بعد کے زمانہ میں ہوئے لیکن متکلمین نے مناظرے کرنے شروع کر دیے تھے اور پھر ان کو ایسی عادت پڑی مناظرے کرنے کی کہ سرحدوں پر دشمن اپنی فوجیں لے کر حملہ آور ہو رہا ہوتا تھا اور شہروں میں، بازاروں میں لوگ دومنا ظر علماء کا مناظرہ سننے میں دلچسپی لے رہے ہوتے تھے.اس بات کو ہماری تاریخ نے ریکارڈ کیا ہے کہ ایسے حالات بھی پیدا ہو گئے تھے کہ لوگ سرحدوں کی حفاظت کی بجائے مناظرے سننے میں راتیں گزار رہے ہوتے تھے.لیکن مُنْعَمُ عَلَيْهِ کا یہ جو گر وہ ہے جس کا تعلق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور پھر خیر القرون کے ساتھ ہے، اس زمانہ میں تو کوئی تفرقہ پیدا نہیں ہوا بلکہ انہوں نے ہر میدان اور ہر علم میں ترقی کی اور ہمارے استفادہ کے لئے بہت سا قیمتی مواد اکٹھا کر دیا.بہت سی کتابیں مفقود ہو گئیں.کہا جاتا ہے کہ اب بھی دُنیا کی بعض لائبریریوں میں بعض کتابیں محفوظ ہیں.خدا کرے کہ وہ جماعت احمد یہ کومل جائیں کیونکہ ان کتابوں میں بڑے کام کی باتیں ہیں.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ماسکو کی لائبریری میں بھی مسلمانوں کا بہت سا لٹریچر محفوظ ہے.خدا کرے کہ وہ محفوظ رہے اور پھر یہ لوگوں کے سامنے آ جائے.پس یہ ثُلَّةٌ مِّنَ الأَوَّلِینَ کا جو گروہ کثیر ہے اس کے اندر ہمیں یہ چیز نظر نہیں آتی کہ اس گروہ کثیر کا مقصد یہ تھا کہ دنیا میں اسلام کو غالب کیا جائے کیونکہ اُن کے زمانہ میں ایسا نہیں ہوا.یہ کام تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کرنا ہے.آپ کے زمانہ میں ادیان باطلہ کا زور ہوا مثلاً عیسائیت ہے، دہریت ہے اور ہندو ازم ہے یہ سب اپنے اپنے علاقوں میں اسلام پر حملہ آور تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ اسلام کو مٹا دیں گے لیکن پیشگوئی یہ تھی.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ -

Page 365

346 سبیل الرشاد جلد دوم میں اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا.تمام مذاہب کا بطلان ثابت کر کے دنیا کے دل سے اپنی صداقت منوائے گا اور نوع انسانی کو امت واحدہ بنادے گا.یہ بشارت دی گئی تھی لیکن مُنْعَمُ عَلَيْهِ کا جو پہلا گر وہ ہے اور جو تین صدیوں پر پھیلا ہوا ہے ، ان کے ساتھ اس کا تعلق نہیں.بعد میں فیج اعوج کے زمانہ میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر مسلمان آپس میں لڑ پڑتے تھے.حالانکہ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بہر حال وجہ اختلاف نہیں بنتی تھیں کیونکہ اختلاف عقیدہ اور بات ہے اور آپس میں لڑ پڑنا اور بات ہے.اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کا اظہار فرمایا ہے.لیکن مسلمانوں نے آپ کے اظہار ناراضگی کے باوجود آپس میں لڑنا شروع کر دیا.کسی نے آمین بالجہر کہہ دی تب کوئی دوسرا لڑ پڑا.نہیں کہی تب کوئی دوسرا لڑ پڑا.کسی نے ہاتھ باندھ کر کسی مسجد میں نماز پڑھ لی تب لڑائی ہو گئی کسی نے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھ لی تو وہاں لڑائی ہو گئی.یہ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن کا حل بھی موجود تھا.ہماری اپنی روایات میں ان کا حل موجود تھا مگر ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی تفرقہ بازی شروع ہوگئی.اور یہ اس لئے ہوا کہ مہدی کا ابھی زمانہ نہیں آیا تھا جس میں یہ آخری وعدہ دیا گیا تھا کہ بنی نوع انسان کو امتِ واحدہ بنا دیا جائے گا.اس کا ابھی وقت نہیں آیا تھا.اس لئے باوجود اس کے کہ پہلی تین صدیوں میں خدا کے برگزیدہ بندے ابرار و اخیار اور اولیاء اللہ بڑی کثرت سے پیدا ہوئے.یہاں تک کہ اُن کے مقابلے میں وہ مقربین الہی کوئی حیثیت نہیں رکھتے جو فیج اعوج کے زمانے میں دریائے عظیم کی مانند تھے.گویا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر کہ لو.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی زبر دست قوت قدسیہ کام کر رہی تھی لیکن امتِ واحدہ بنانے کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی.اُس وقت ویسے بھی یہ بات ناممکن تھی.اسلام کا عالمگیر غلبہ اور نوع انسانی کے دل جیت کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر کے ان کو امت واحدہ بنانے کا کام مسیح موعود کے ذریعہ پورا ہونا مقدر ہے.اُس وقت یہ کام ویسے بھی ناممکن تھا کیونکہ ذرائع آمد ورفت کے نہ ہونے کی وجہ سے مثلاً افریقہ سے تاشقند یا ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن اب ذرائع آمد و رفت میں انقلابی ترقی آجانے سے سالوں کا سفر چند گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے.ہمارے کئی تاریخ دان اور سیاح ایسے تھے جو سالہا سال گھر سے باہر رہے.وہ اپنے گھر سے رخصت ہو کر چلتے تھے کہ پتہ نہیں زندہ واپس بھی آتے ہیں یا نہیں.چنانچہ ساری عمر چلتے چلتے کوئی چین پہنچ گیا اور کوئی کہیں سے کہیں پہنچ گیا.ایسے لوگ جہاں بھی گئے وہاں انہوں نے اپنے علم کے مطابق اسلام پھیلایا.پس اسلام کی ترقی میں خدا تعالیٰ کی اور حکمتیں تھیں جو کام کر رہی تھیں اور وہ بڑی شاندار حکمتیں تھیں.میں اس وقت ان حکمتوں کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا.بہر حال یہ بات بالکل واضح ہے کوئی شخص

Page 366

347 سبیل الرشاد جلد دوم اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ یہ گروہ کثیر جو خدا تعالیٰ کے اولیاء اور ابرار اور اخیار پر مشتمل ہے اور پہلی تین صدیوں پر پھیلا ہوا ہے.اُن کے اندر ہمیں وحدت نہیں نظر آتی.کوئی حنفی ہے، کوئی مالکی ہے، کوئی شافعی ہے، کوئی حنبلی ہے.کوئی ایک صوفی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور دوسروں کے ساتھ اختلاف رکھنے والا اور لڑائی مول لینے والا ہے.کوئی دوسرے بزرگ صوفی کے ساتھ تعلق رکھنے والا ہے اور باقیوں کو پسند نہیں کرتا.یہ ایک انتشار ہے جو امت میں پایا جاتا تھا لیکن اس کے باوجود اسلام ترقی کر رہا تھا.خدا تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ اسلام اُس وقت کی معروف دنیا میں پھیل جائے ، چنانچہ پہلی تین صدیوں میں مسلمان سپین کی طرف سے فرانس کے اندر گھس گئے.سارا افریقہ اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو گیا.اور اسی طرح دوسرے ممالک میں اسلام دُور دُور تک پھیل گیا.گو اس عرصہ میں ارتداد کے دور بھی آئے اور ان کی بڑی لمبی تاریخ ہے لیکن جب کبھی ایسے حالات پیدا ہوئے.خدا کے اس برگزیدہ گروہ نے تو حید کا نعرہ لگا کر خدا کے نام پر لوگوں کو پھر اکٹھا کر دیا اور اُن کو ایک بار پھر خدا تعالیٰ کی توحید اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے دائرہ کے اندر لے آیا.غرض مشرق و مغرب میں ایک مد وجزر تھا جو اسلام کے حق میں نظر آتا تھا.مسلمان کبھی اوپر اٹھتے تھے اور کبھی نیچے گر جاتے تھے.ان کے اندر کوئی ٹھہراؤ نہیں تھا.امت مسلمہ میں اتفاق نہیں تھا.وہ ایک ہی فرقے اور ایک ہی جماعت کی لڑی میں منسلک نہیں تھے.پس یہ تصویر بنتی ہے اس گروہ کثیر کی جو خیر القرون میں پھیلا ہوا ہے.میں پھر کہتا ہوں کوئی یہ نہ سمجھے کہ اُن کی کوئی عظمت نہیں تھی.یقیناً اُن کی بڑی عظمت تھی.ایک لحاظ سے تو ان کی اتنی بڑی عظمت تھی کہ بعد میں قیامت تک کوئی اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتا.کیونکہ اس گروہ کثیر کے پہلے حصہ نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے مبارک قدموں میں بیٹھ کر آپ سے روحانی فیوض حاصل کئے تھے.اگر مجھے ایک لمحہ کے لئے یہ شرف مل جائے تو میں ہزار زندگیاں اس ایک لمحہ پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوں.میں تو اس وقت اُس مجموعی شکل کی بات کر رہا ہوں جو اسلام کی پہلی تین صدیوں یعنی خیر القرون کے اندر ہمیں نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اُس وقت مسلمانوں میں وحدت نہیں پیدا ہو سکی.وہ فرقہ فرقہ بن گئے.اس کے بعد پھر میج اعوج کا زمانہ آ گیا اور اس کے اندر تو پھر جو دراڑیں پڑ گئی تھیں اُن کے فاصلے بڑھنے شروع ہوئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مسلمان کی تلوار نے مسلمان کی گردن اڑانی شروع کر دی.مسلمانوں نے تو سیاست میں بھی بہت ترقی کی تھی لیکن سیاست بھی اختلافات کا شکار ہو گئی اور اس میں بھی تفرقہ نظر آنے لگ گیا.چنانچہ محمد بن قاسم جس نے خدا تعالیٰ پر بھروسہ کر کے نہایت بے سروسامانی کی حالت میں برصغیر پاک و ہند میں قدم رکھا تھا اور کہا تھا کہ جس خدا کے نام کو بلند کرنے

Page 367

348 سبیل الرشاد جلد دوم کے لئے وہ اس سرزمین پر اُترا ہے، وہ اسے نا کام نہیں کرے گا اور بے سہارا نہیں چھوڑے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور خدا تعالیٰ نے انہیں فتح عطا کی مگر اسلام کے اسی بطل جلیل کی گردن بادشاہ وقت کے دربار میں اڑا دی گئی اور یہ اس لئے ہوا کہ ابھی نوع انسانی کا امت واحدہ اور ایک خاندان بن جانے کا وقت نہیں آیا تھا.اُس وقت خدا تعالیٰ کی دوسری حکمتیں تھیں جو اسلام کی ترقی میں کارفرما تھیں.پھر امت واحدہ بنے کا وقت آ گیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور آپ خاتم الانبیاء ہیں اس لئے خدا نے یہ نہ چاہا کہ وحدت اقوامی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی کمال تک پہنچ جائے کیونکہ یہ صورت آپ کے زمانہ کے خاتمہ پر دلالت کرتی تھی یعنی شبہ گذرتا تھا کہ آپ کا زمانہ وہیں تک ختم ہوگیا.کیونکہ جو آخری کام آپ کا تھا وہ اُسی زمانہ میں انجام تک پہنچ گیا.اس لئے خدا نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قو میں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہو جائیں ، زمانہ محمدی کے آخری حصہ میں ڈال دی جو قرب قیامت کا زمانہ ہے اور اس تکمیل کے لئے اسی امت میں سے ایک نائب مقرر کیا جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اُسی کا نام خاتم الخلفاء ہے.پس زمانہ محمد دمی کے سر پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اس کے آخر میں مسیح موعود ہے.اور ضرور تھا کہ یہ سلسلہ دنیا کا منقطع نہ ہو جب تک کہ وہ پیدا نہ ہو لے کیونکہ وحدت اقوامی کی خدمت اُسی نائب النبوت کے عہد سے وابستہ کی گئی ہے اور اُسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے اور وہ یہ ہے هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (سورۃ الصف: 10) یعنی خداوہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ایک کامل ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تا اس کو ہر ایک قسم کے دین پر غالب کر دے یعنی ایک عالمگیر غلبہ اس کو عطا کرے اور چونکہ وہ عالمگیر غلبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ظہور میں نہیں آیا اور ممکن نہیں کہ خدا کی پیشگوئی میں کچھ تختلف ہو.اس لئے اس آیت کی نسبت اُن سب متقدمین کا اتفاق ہے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں کہ یہ عالمگیر غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ظہور میں آئے گا.چشمہ معرفت صفحه ۸۲-۸۳ - روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۹۰-۹۱

Page 368

سبیل الرشاد جلد دوم پھر آپ رسالہ الوصیت میں فرماتے ہیں : ” خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا.ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.سو تم اس مقصد کی پیروی کرو.مگر نرمی اور اخلاق اور دعاؤں پر زور دینے سے 349 جیسا کہ میں نے شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک حوالہ پڑھ کر سنایا تھا کہ آیت ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِنَ الْآخِرِينَ خالص محمدی گروہ جو ہر ایک پلید ملونی اور آمیزش سے پاک اور توبہ نصوح سے غسل دیئے ہوئے ایمان اور دقائق عرفان اور علم اور عمل اور تقویٰ کے لحاظ سے ایک کثیر التعداد جماعت ہے.یہ اسلام میں صرف دو گروہ ہیں یعنی گروہ اولین و گروه آخرین جو صحابہ اور مسیح موعود کی جماعت سے مراد ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ ایک گروہ کثیر آخرین میں پیدا کیا جائے اور وہ محمدی گروہ ہو.چنانچہ آپ نے فرمایا ہے وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں میں سے جو کچھ پایا وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ سے پایا.اور ہم بھی جو کچھ پاسکتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعے سے پا سکتے ہیں.لیکن قرب قیامت اور روحانی طور پر ظلمت کے اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ فضل فرما یا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہائی پیار کرنے والا بلکہ آپ کے عشق میں فنا ہو جانے والا ایک وجود مہدی اور مسیح کی شکل میں ہماری طرف بھیجا.ہم نے مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو پہچانا اور خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کی.پر ثُلَّةٌ مِنَ الْاَوَّلِينَ کی رو سے یہ جو دوسرا محمدی گروہ ہے یعنی پہلا گر وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور خیر القرون کے ابرار و اخیار کا.اور دوسرا گر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہے.اب اس جماعت کا یہ کام ہے کہ غلبہ اسلام کی وہ آخری مہم جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ لگائی گئی تھی یہ گروہ آخرین اس کے لئے مجاہدہ کرے.صدق و ایثار کے نمونے دکھائے.خدا کی راہ میں مال و جان کی قربانیاں دے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی کچھ اس رنگ میں ادائیگی رسالہ الوصیت صفحہ ۶.روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶ - ۳۰۷

Page 369

350 سبیل الرشاد جلد دوم کرے کہ جماعت احمد یہ دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جائے اور اپنی زبان سے اور اپنے عمل سے نوع انسانی کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کی طرف کھینچنے والی ہو.پس جیسا کہ میں بتا چکا ہوں.ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِنَ الْآخِرِينَ کی رو سے پہلے اور آخری گروہ میں جو فرق ہے اسے بیان کر کے اس کے جو نتائج نکلتے ہیں ان کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.پہلوں میں ہمیں وحدت نظر نہیں آتی.وہ فرقہ فرقہ بن گئے.فقہ کے میدان میں بھی فقہاء کے چار بڑے گروہ بن گئے اور پھر آگے ان کے بھی یعنی حضرت امام ابوحنیفہ کے دونوں شاگردوں نے ان سے اختلاف کیا.وہ اپنے چھوٹے چھوٹے گروہ لے کر بیٹھ گئے اور یہ گویا امت میں وحدت اور ایکا پیدا کرنے کی اور ایک جھنڈے تلے جمع کرنے کی کوشش نہیں ، اسلام کو پھیلانے کی ضرور کوشش ہے.خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے کی کامیاب کوشش ہے.اللہ تعالیٰ انہیں بڑی جزا دے.انہوں نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے اس میں کوئی شک نہیں.لیکن وہ زمانہ ویسے بھی اس بات کا اہل نہیں تھا اس لئے کہ میں نے بتایا ہے کہ افریقہ اور مشرق میں اتنا فاصلہ تھا کہ بعض دور دراز ملکوں میں پہنچنا ہی مشکل تھا.ذرائع آمد و رفت نہیں تھے.سفر کے وسائل موجود نہیں تھے.چھاپے خانے نہیں تھے.کتا بیں نہ چھپ سکتی تھیں نہ دُور دُور تک پہنچ سکتی تھیں لیکن اب سالوں کے کام دنوں اور گھنٹوں میں ہو جاتے ہیں.زمانہ مادی انقلاب کے بعد ایک روحانی انقلاب کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو چکا ہے.یہ ذمہ داری کہ اقوام عالم کو وحدت اقوامی میں پرو دیا جائے یہ آخرین کی اس جماعت پر ہے جو مسیح موعود کی جماعت ہے.اس لئے اس گروہ میں کوئی ایک مرکزی نقطہ ایسا ہونا چاہئے جو پہلے گروہ میں خلافت راشدہ کے بعد مفقود ہو گیا تھا.پس اب جماعت احمدیہ میں خلافت احمد یہ وہ مرکزی نقطہ ہے جس کے بغیر خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا نہیں ہوسکتا کہ نوع انسانی کو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر دیا جائے گا.اور یہ گروہ اُتنا ہی بڑا ہے جتنا پہلا گر وہ تھا شاید کچھ کم ہوگا.مُنْعَمُ عَلَیہ کے پہلے گروہ سے.لیکن وہ ایک سلسلہ میں پروئے ہوئے نہیں تھے.وہ موتی ایک لڑی میں منسلک نہیں تھے.لیکن اب ایک مرکزی نقطہ ہے.گو اُس وقت لاکھوں کی تعداد میں خدا تعالیٰ کے مقربین اولیاء اللہ اور ابرار واخیار تھے لیکن خلافت راشدہ جو تھوڑے سے عرصہ تک رہی اس کے بعد وہ کون سا مرکزی نقطہ تھا جس کے گردوہ مضبوطی سے جمع ہو جاتے.جہاں سے اُن کو ہدایت ملتی یا جہاں سے اُن کو دعائیں ملتیں یا جہاں سے اُن کو ر ہنمائی ملتی یا جہاں سے ان کو وہ منصوبے ملتے جس کے نتیجہ میں اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کی کوشش کی جاتی.سورۃ الواقعہ آیت ۴۰ - ۴۱

Page 370

351 سبیل الرشاد جلد دوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں دو انقلابی نظام قائم کئے ہیں.ایک مادی دنیا میں نظام وصیت ہے.جو چندہ وصیت آپ دیتے ہیں اس کے ذریعہ سے یہ نظام قائم ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اپنی بعض تقاریر میں اس پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.میں اس وقت اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا.آپ نے فرمایا ہے کہ اگر سارے احمدی اپنی جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کا ۱/۱۰ دینے لگیں تو ایک ایسا زمانہ آ جائے گا کہ مرکز کے پاس اتنی دولت ہوگی کہ جس سے کوئی آدمی ایسا نہیں رہے گا جس کے حقوق پورے نہ ہو رہے ہوں.یہ عمل تو شروع ہے.گوا بھی ابتداء میں ہے اس میں شک نہیں لیکن وہ ایک نظام ہے جس کی طرف ساری دنیا میں توجہ پیدا ہو رہی ہے.مثلاً امریکہ جو مادی دنیا میں پھنسا ہوا ہے وہاں ہمارے احمدی دوستوں میں یہ رو پیدا ہوگئی ہے کہ وصیت کرنی چاہئے پھر اُن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ بہشتی مقبرے میں کیسے جائیں گے.بہشتی مقبرہ کی شاخیں ہونی چاہئیں یا کوئی ایسا انتظام ہونا چاہئے جہاں اکٹھے ہو کر دعائیں ہو جائیں.وہ بہشتی مقبرہ تو نہیں ہو گا لیکن بہر حال اس سے ملتی جلتی کوئی چیز ہو گی کہ جس سے وہ مقصد پورا ہو جائے کہ جو مالی قربانیاں کرنے والے ہیں اُن کے لئے دعائیں ہوتی رہیں.پس یہ نظام وصیت ہے جو د نیوی لحاظ سے ایک انقلابی نظام ہے.رسالہ الوصیت کی رو سے دوسرا نظام ایک روحانی نظام اور نہایت ہی عظیم نظام ہے اور وہ ہے نظام خلافت اور یہی جماعت احمدیہ کا مرکزی نقطہ ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں فرمایا ہے کہ جس قسم کی زبر دست قدرت کا ہاتھ خدا تعالیٰ میری زندگی میں دکھا رہا ہے (جو لوگ آپ کی کتابوں میں پڑھتے ہیں وہ پھر غور سے پڑھیں بہت کم لوگ اس طرف توجہ کرتے ہیں ) آپ نے فرمایا ہے کہ جس قسم کی زبر دست قدرت کا ہاتھ خدا تعالیٰ میرے ذریعہ سے دکھا رہا ہے اور جس زبر دست قدرت کا میں مظہر ہوں.میں تمہیں کہتا ہوں کہ قیامت تک اس قسم کی قدرت اب تم میں نہیں آئے گی.لیکن آپ نے فرمایا کہ مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں.خدا تعالیٰ اپنی زبردست قدرت کا ایک اور ہاتھ دکھائے گا اور اسے آپ نے قدرت ثانیہ کہا ہے.آپ نے فرمایا.میرے بعد ایسے وجود ہوں گے جو قدرت ثانیہ کے مظہر بنیں گے اور اس زبر دست قدرت یعنی قدرت ثانیہ کا ظہور میرے مرنے کے معاً بعد شروع ہو جائے گا.اس میں کوئی فاصلہ نہیں ہو گا کہ تمہیں سو سال تک انتظار کرنا پڑے.دوسرے آپ نے فرمایا کہ قدرت ثانیہ کے ظہور کا سلسلہ قیامت تک ممتد ہے یہ منقطع نہیں ہوگا.خدا تعالیٰ اپنی زبر دست قدرتوں کا ہاتھ قیامت تک دکھاتا رہے گا ، مظاہر قدرت ثانیہ کے ذریعہ سے.اور یہ سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا.پس جب یہ قدرت ثانیہ کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہونا.تو ظاہر ہے

Page 371

سبیل الرشاد جلد دوم 352 قدرت اولی تو بیچ میں نہیں آئے گی.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ باتیں کھول کر بیان کر دی ہیں.ایک بات اور میں بتا دیتا ہوں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا یہ عقیدہ تھا اور میرا بھی یہی ہے اور میں سمجھتا ہوں ہمیشہ یہی رہے گا کہ خدا تعالیٰ خلافت احمدیہ کو بادشاہت نہیں دے گا اور نہ خلافت احمدیہ کو بادشاہت میں کوئی دلچسپی ہے.خلافت احمد یہ دنیا میں ایک روحانی انقلاب پیدا کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے.خلافت احمد یہ اس لئے قائم کی گئی ہے کہ جو بیج حضرت مسیح و مہدی علیہ السلام کے ذریعہ بویا گیا اس کی آبیاری کرے اور مہدی علیہ السلام کا جو مشن تھا اس کی تکمیل کرے.جیسا کہ میں نے ابھی رسالہ الوصیت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پڑھ کر سنایا ہے.اس میں جہاں خلافت کا ذکر ہے وہیں آپ نے فرمایا ہے : خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں، کیا یورپ اور کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں تو حید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کے لئے میں دنیا میں بھیجا گیا.“ اور یہی مقصد ہے جس کے حصول کے لئے خلافت احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے.خلافت احمدیہ کو اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّم کی جو بشارت دی گئی تھی اس کے مطابق جو روحانی انقلاب پیدا کرنا ہے اس کے لئے ایک منصو بہ بنایا جائے اور اس پر عمل کروایا جائے.پس خلافت احمدیہ کو اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ دعاؤں کے ساتھ ، اخلاق کے ساتھ، حسن معاملہ کے ساتھ اور حسن مجادلہ کے ساتھ یعنی احسن رنگ میں تبادلہ خیالات کرتے ہوئے دنیا کے دل حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتے جائیں.قرآنی تعلیم اور اسلامی شریعت میں بڑی طاقت ہے.اسلامی شریعت و ہدایت کو کسی مادی طاقت کی ضرورت نہیں.اسلامی تعلیم کے اندر اس قدرحسن پایا جاتا ہے اور اس کے اندر اس قدر احسان پایا جاتا ہے کہ کوئی بھی انسان جس کے سامنے اس کے حسن و احسان کی باتیں کی جائیں اس کا دل اس کی طرف مائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.پس یہ وہ غرض اور مقصد ہے جس کے لئے مہدی ومسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا گیا اور اس مقصد کے حصول کے لئے یعنی بنی نوع انسان کو اُمتِ واحدہ بنانے کے لئے ایک مرکزی نقطہ یعنی خلافت احمدیہ کو قائم کر دیا گیا ہے.اب یہ آپ کا کام ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے اور خدا تعالیٰ

Page 372

سبیل الرشاد جلد دوم 353 کے ارادوں کو پورا کرنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کی جنتوں میں بطور لیڈر داخل ہونے کے لئے یعنی ساری دنیا آپ کے پیچھے چل کر خدا کی جنتوں میں داخل ہونے والی ہو ، آپ خلافت احمدیہ کے اس مرکزی نقطہ کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں اور اپنی نسلوں کو بھی اس کی اہمیت بتا ئیں.یہ مرکزی نقطہ یعنی خلافت احمد یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے.جیسا کہ آپ نے ایک اقتباس میں سُنا، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے خدا تعالیٰ اپنے نشانوں کے ساتھ ان (جماعت مسیح موعود ) کے ایمانوں کو مضبوط کرے گا.تم نے ہاں ! میں تم سے پوچھتا ہوں کیا تم نے پچھلے تین سال میں خدا تعالیٰ کے نشان بارش کی طرح آسمانوں سے برستے ہوئے دیکھے ہیں یا نہیں.(سارے اجتماع سے دیکھے ہیں! ” دیکھے ہیں !!‘ کی ندا اور اس کے ساتھ نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوئے ) پس خدا تعالیٰ تو سچے وعدوں والا ہے.وہ اپنے وعدے پورے کر رہا ہے.آپ بھی اس کے سامنے صدق و وفا کا نمونہ دکھا ئیں.اور اپنے عہد کو نبھا ئیں.اللہ تعالیٰ کی ساری برکتوں کے آپ بھی اسی طرح وارث بن جائیں گے جس طرح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں اور پھر خیر القرون میں ایک گروہ کثیر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کا وارث بنا تھا.آمین اب ہم اپنا عہد دہرائیں گے.اس کے بعد اجتماعی دعا ہوگی اور پھر آپ واپس اپنے اپنے گھروں کو جائیں گے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آپ سب کا سفر میں بھی اور حضر میں بھی حافظ و ناصر ہو.حضور کی اقتداء میں تجدید عہد اور پُر سوز اجتماعی دعا کے ساتھ یہ نہایت ہی بابرکت اجتماع اختتام پذیر ہوا.( غیر مطبوعہ )

Page 373

سبیل الرشاد جلد دوم اب جماعت کا یہ کام ہے کہ وہ صدق وایثار کے نمونے دکھلائے پس ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ کی رو سے یہ جو دوسرا محمدی گروہ ہے یعنی پہلا گروہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور خیر القرون کے ابرار وا خیار کا.اور دوسرا گروہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہے.اب اس جماعت کا یہ کام ہے کہ غلبہ اسلام کی وہ آخری مہم جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ لگائی گئی تھی یہ گروہ آخرین اس کے لئے مجاہدہ کرے.صدق و ایثار کے نمونے دکھائے.خدا کی راہ میں مال و جان کی قربانیاں دے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی کچھ اس رنگ میں ادائیگی کرے کہ جماعت احمد یہ دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جائے اور اپنی زبان سے اور اپنے عمل سے نوع انسانی کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کی طرف کھینچنے والی ہو.سبیل الرشاد جلد دوم صفحہ 349-350) 354

Page 374

سبیل الرشاد جلد دوم 355 سید نا حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالیٰ کا افتاحی خطاب فرموده ۱/۲۷ خاء۱۳۵۷ بهش ۲۷/اکتوبر ۱۹۷۸ء بمقام احاطه دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ ۲۷/ اخاء ۱۳۵۷ ہش بمطابق ۲۷ / اکتوبر ۱۹۷۸ء کی سہ پہر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کا افتتاح کرتے ہوئے جو خطاب فرمایا تھا ، اُس کا مکمل متن افادہ احباب کے لئے ذیل میں پیش کیا جاتا ہے.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: عرصہ ہوا میں نے انصار اللہ کو ایک بات بتائی تھی.میرا خیال ہے کہ بہت سے انصار وہ بات بھول چکے ہیں.میں نے بتایا تھا کہ انصار جوانوں کے جوان ہیں.وہ بوڑھے نہیں ہیں.وہ اپنے آپ کو جوانوں کے جوان سمجھیں.یہ فقرہ انصار پر بہت سی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے.ایک تو یہ اس بات کی یاد دہانی کرواتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ انسان کے نفس کے بھی اس پر بہت سے حقوق ہیں.اُن میں سے پہلا اور بنیادی حق یہ ہے کہ اپنی صحتوں کو ٹھیک رکھا جائے اور جسموں کو مضبوط بنایا جائے.انسان کی وہ عمر جس کو ہم بڑھا پا کہتے ہیں اس کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے ضعف و ناطاقتی و سستی و اعضا شکنی ایک گھٹنے سے جوانی کے بڑھا کیا کیا کچھ بر جو بڑھاپا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جسم کو جس قسم کے کھانے کی عادت ہوتی ہے ، بہت سی وجوہات کی بناء پر ایک خاص عمر کے بعد انسان وہ کھانا نہیں کھا سکتا.کچھ نفسیاتی چیزیں بھی بیچ میں آ جاتی ہیں، کچھ

Page 375

سبیل الرشاد جلد دوم ایلو پیتھک ڈاکٹر غلط مشورے دے دیتے ہیں.356 موجودہ تحقیق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بڑھاپے میں بھی ہڈیاں اگر مضبوط رہیں تو انسانی صحت بڑی اچھی رہے گی.اُس کے لئے کیلشیم (چونا) کھانا بڑا ضروری ہے.ایک وقت میں انگلستان کے ایلو پیتھک ڈاکٹروں نے یہ مشورہ دیا کہ ۳۵ سال کے بعد کیلشیم کھانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی اور اب پھر بہت سے غلط مشورے دے کر شاید لاکھوں، لاکھوں انسانوں کی صحتیں خراب کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ۳۵ سال تو کیا ۱۳۵ سال کی عمر ہو تب بھی کیاشیم استعمال کرنے کی ضرورت ہے.میں نے ۸۵ سال کی عمر کے ایک ایسے جو ان کی تصویر دیکھی ہے جس کا ایک دانت بھی گرا ہوا نہیں تھا اور وہ بڑے مضبوط جسم کا مالک تھا.وَ هَنَ الْعَظمُ مِنی کا اس پر کوئی اطلاق نہیں ہوتا تھا اور یہ اس لئے تھا کہ اُس نے خدا کے قانون کی پابندی کی تھی.اُس نے اپنے ایک چھوٹے سے نوٹ میں لکھا تھا کہ وہ ہر روز صبح نہار منہ ۸ گولیاں کیلشیم کی چباتا ہے اور پھر ناشتہ کرتا ہے.آج کل کھانے پینے کی مصنوعی چیزوں کے استعمال کا رواج بڑھ رہا ہے.گو ہمارے ملک میں یہ وباء نہیں لیکن مغربی ممالک میں یہ وباء عام ہے.وہاں لوگ Processed فوڈ جوٹین اور کاغذ کے ڈبوں میں بند ملتی ہے ، اُسے استعمال کرتے ہیں اور اب تو وہ اس کے استعمال میں یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ انہوں نے مصنوعی دودھ بنالیا ہے.مصنوعی مکھن بنالیا ہے.مصنوعی پنیر بنا لیا ہے.مصنوعی دہی بنالیا ہے اور لوگوں کی صحبتیں خراب کرنے کے لئے بازار میں بیچنا شروع کر دیا ہے.چنانچہ وہاں شور مچ گیا ہے کہ مصنوعی طور پر خوردنی اشیاء بنانے والی کمپنیوں نے مغربی قوموں کی صحت خراب کر دی ہے.ظاہر ہے جو چیز مصنوعی طور پر تیار کی جاتی ہے اس میں وہ تمام اجزاء تو نہیں ہوتے جو خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت نے چیزیں بنا کر اُن کے اندر پیدا کئے تھے.دوسرے یہ کہ غیر معقول طریقے سے مصنوعی چیزیں تیار کرنے کی صورت میں انسان نے ضروری اجزاء کم کر دیئے.مثلاً زمین سے کام لینا شروع کیا.خدا تعالیٰ نے زمین کے اندر جو معد نیاتی اجزاء ر کھے ہوئے تھے ان کو بیچ میں سے زیادہ نکال لیا اور واپس کم کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مثلاً Zinc (زنک) ایک دھات ہے.خدا تعالیٰ نے اسے ہمارے کھیتوں میں بھی رکھا ہوا ہے.لیکن اس کا کسی کو پتہ نہیں تھا.اب جب سائنس نے ترقی کی اور سائنسدانوں نے ٹیسٹ کرنے شروع کئے تو معلوم ہوا کہ جن کھیتوں میں ہمارے زمیندار ”وائی کرتے ہیں اُن میں زنک دھات کی شکل میں بھی موجود ہوتی ہے.لیکن بہت زیادہ فصلیں لینے کے ساتھ اور مصنوعی کھا دیں ڈالنے کے نتیجہ میں زنک اور دوسری معدنیات کی کمی ہوگئی.جب کھیت میں کمی واقع ہوئی تو جو چیز کھیت میں اُگی اس میں "

Page 376

357 سبیل الرشاد جلد دوم بھی کمی ہو گئی.جتنا زنک گندم میں پہلے تھا اب اتنا نہیں ہے.جتنا ز تک مکی میں پہلے تھا اب اتنا نہیں ہے جتنا زنک باجرے میں پہلے تھا اب اتنا نہیں ہے.جتنا زنک انسان کو کھانے میں پہلے ملتا تھا اب اتنا نہیں مل رہا.اس تحقیق کو محاورہ Trace Elements کہا جاتا ہے.اس تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ گو بہت ہی تھوڑی مقدار میں انسانی جسم کو زنک کی ضرورت ہے لیکن صحت کو برقرار رکھنے کے لحاظ سے یہ چیز بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے.یہاں تک کہ یہ جو پراسٹیٹ گلینڈ کی بیماری ہے اور جس کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ عام طور پر بوڑھوں کو ہوتی ہے اس کے متعلق ریسرچ کرنے والوں نے کہا ہے کہ یہ زیادہ تر زنک کی کمی کے نتیجہ میں پیدا ہو جاتی ہے.میرا ذاتی تجربہ ہے.جب میں نے اس بیماری کے بارہ میں مختلف رسالوں میں اس قسم کے مضامین پڑھے تو پھر کئی دوست جن کو یہ تکلیف تھی اُن کو میں نے کہا میں نے اس طرح پڑھا ہے تم اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کے بعد اس کو استعمال کر کے دیکھ لو.چنانچہ بہتوں نے استعمال کیا اور شروع ہی میں بیماری کو پکڑ لیا اور اُن کی تکلیف رفع ہو گئی اور اُن کو آپریشن کرانے کی ضرورت ہی نہ پڑی.اس لئے خدا تعالیٰ نے انسان کی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے جو کھانے کی چیزیں یا کھانے کی چیزوں کے اندر Trace Elements ہیں.جن میں کیلشیم بھی ہے وہ بھی ہم نے کم کر دیا.زمین کے اندر بہت سی معدنیات ہیں.اس تفصیل میں اس وقت جانے کی ضرورت نہیں.پھر وٹامن میں کھانے کے اندران میں ہم نے کمی کر دی.مثلاً یہ جو دل کی بیماریاں ہیں (اس وقت تک نو بیماریوں کا پتہ لگا ہے انسان مستقبل میں کیا مزید تحقیق کرے گا ابھی پتہ نہیں) ان کے متعلق لوگ یہ کہتے ہیں کہ گندم کا جو بیج ہوتا ہے اس میں ایک Germ ( جرم ) ہوتا ہے جو پھوٹتا ہے.یعنی جب ہم گندم بوتے ہیں تو اس کا بیج ایک جگہ سے پھوٹ پڑتا ہے.پھر اس کا پودا بن جاتا ہے.اس پیج کے اندر تیل ہوتا ہے.اور اس تیل کے اندر وٹامن ای (E) ہوتی ہے.وٹامن ای میں خدا تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ انجائنا ( دل کے درد ) کا بہترین علاج ہے.دل کی بیماریاں صرف اس کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں.لوگوں نے بڑا تیر مارا کہ انہوں نے آٹا پینے کے بڑے بڑے کارخانے بنا دیئے ہیں.اتنے بڑے بڑے کارخانے کہ ان میں سے ہر ایک کارخانہ ہزار ہاٹن گندم گھنٹوں کے اندر پیس دیتا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے گندم کے ہر دانہ میں تیل ہوتا ہے.اگر یہ پیج میں چھوڑ دیا جائے اور پسے ہوئے آئے پر 20/15 دن گزر جائیں تو اس باسی آٹے میں ایک قسم کی بساندھ پیدا ہو جاتی ہے.پھر وہ آٹا کھانے والے لوگ مل کے مالک کو کہتے تھے یہ تم کیا بد بو دار آٹا دے رہے ہو.چنانچہ مل مالکان نے کہا چلو Wheat Germ ہی نکال دو.جب اس جرم کو نکال کر آٹا پیسنا شروع کیا تو وہ جو دل کی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اس میں اللہ تعالیٰ نے

Page 377

سبیل الرشاد جلد دوم 358 وٹامن ای رکھی ہوئی تھی ، اس سے محروم کر دیا اور لوگ بیمار ہونے لگے.یہ بیماری ہمارے ملک میں تو کم ہے لیکن بیرونی ملکوں میں زیادہ ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو گندم ہے اس کی اپنی کیفیت جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہ نہیں ہے جو ہونی چاہئے.غرض میں انصار بھائیوں کو بتانا یہ چاہتا ہوں کہ وہ بوڑھے نہیں ، جوانوں کے جوان ہیں.اس لئے وہ خوب گرد نہیں اٹھا کر اور سینے تان کر اور مسکراتے چہروں کے ساتھ زندگیاں گزاریں اور اپنے ہی بچوں یعنی خدام الاحمدیہ کے سامنے سر نہ جھکائیں اور صحت کو قائم رکھنے کے لئے ترکیبیں ضرور کریں.جن کے متعلق میں وقتاً فوقتاً بتا تا رہتا ہوں اور اس وقت بھی اُن کی یاد دہانی کرا رہا ہوں.خدا تعالیٰ نے ہماری صحتوں کو قائم رکھنے کے لئے جو چیزیں کھانے کی بنائی تھیں اُن سے یا تو ہمیں محروم کر دیا گیا ہے یا ہم نے اپنے آپ کو خود ہی محروم کر لیا ہے مثلاً ہمارے ملک میں یہ ایک عادت ہے کہ لوگ گندم کا استعمال کرتے ہیں اور بعض دوسری اجناس کو ترک کر دیتے ہیں.اب دیکھیں امریکہ ہے یہ دنیوی لحاظ سے بہت امیر ملک ہے.امریکیوں نے بہت دولت اکٹھی کر لی ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے مکی کا آٹا کھانا نہیں چھوڑا اور باجرے کا آٹا کھانا نہیں چھوڑا.بڑی دیر کی بات ہے.میں اُس وقت چھوٹا ہوا کرتا تھا.ہمارے ہاں پہلے پہل جب ۵۹۱آئی تو دیہاتیوں نے شور مچا دیا کہ انگریز بڑا نا لائق ہے.اس نے ہماری صیحتیں کمزور کرنے کے لئے یہ نیا پیج مہیا کر دیا ہے.گندم کا پرانا بیج تو بہت اچھا تھا.اس میں تو بڑی طاقت تھی.لیکن کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ انہیں ۵۹۱ چاہئے.دوسری گندم نہیں کھانی.اب تو اور بھی نرے میدے والی چیزیں سامنے آگئی ہیں.آٹا پسنے والی مشینیں اکثر اجزاء نکال لیتی ہیں حتی کہ جو چھان یعنی Bran ہے وہ بھی نکال لیتی ہیں اور چھان میں بڑی طاقت ہے.اس میں وٹامنز بھی ہیں اور اگر انسان گندم کا آٹا کھائے جس میں سے چھان الگ نہ کیا گیا ہو تو انتریوں کی کوئی ایسی بیماری نہیں ہوتی جس کے نتیجہ میں سر جن کو انتری کا آپریشن کرنا پڑتا ہے.اس قسم کی بیماری ہوتی ہی کوئی نہیں.اور یہ صرف Bran کا نتیجہ ہے.لیکن لوگوں نے گندم کا چھان نکال کر گھوڑوں کو دینا شروع کر دیا.ایک دن گھوڑوں نے انسان کو کہا ! عظمند و ! تم نے ہمیں Bran کھلا کر مضبوط بنا دیا تمہارا بہت شکریہ.چنانچہ انسان کو پتہ لگا کہ گھوڑے کو انتڑیوں کی کوئی بیماری نہیں ہوتی تو پھر جب یہ تحقیق کی گئی کہ کیوں نہیں ہوتی تو پتہ لگا کہ Bran ہم نے کھانا چھوڑ دیا تھا اور گھوڑوں کو دینا شروع کر دیا تھا.اس لئے اُسے انتڑیوں کی بیماری نہیں ہوتی.خدا تعالیٰ نے گندم انسان کے لئے پیدا کی ہے.یہ تو ٹھیک نہیں کہ اس میں سے ایک اچھا حصہ نکال کر گھوڑوں

Page 378

6 359 سبیل الرشاد جلد دوم کو کھلا دیا جائے اور اس کا Germ یعنی وٹامن ای کو کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا جائے.پس ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو چیز جس شکل میں بنائی ہے اس کو اسی شکل میں کھانے کی کوشش کی جائے.دیہاتوں میں لوگ چکیوں کا پسا ہوا آٹا کھاتے تھے مگر اب دیہاتوں نے بھی اپنی چکیاں چھوڑ دیں.میں نے امریکہ سے ایک چھوٹی سی چکی منگوائی ہے، بڑی سستی اور ہے بھی بڑی چھوٹی سی.دومنٹ میں آدھ سیر آٹا پیس دیتی ہے.میں چونکہ بہت کم کھانے والا ہوں.ایک وقت میں میں ایک چھٹانک آٹا کھاتا ہوں.ایک دن کا پسا ہوا آٹا دو تین دن تک میرے کام آ جاتا ہے.چکی میں جو آٹا پستا ہے اس میں سے کوئی چیز نہیں نکلتی.نہ اس کا جرم نکلتا ہے اور نہ اس کا سوڑھا نکلتا ہے.ایک دفعہ مجھے خیال آیا یہ جو میں نے امریکہ سے چکی منگوائی ہے ، کیوں نہ میں یہاں سے پتہ کرواؤں.پرانے زمانے میں جب یہاں کے لوگ چکیاں استعمال کرتے تھے تو اُن کی ضرورت کے لئے چکیاں سپلائی کرنے والے تاجروں کو پتہ ہوتا تھا کہ چکی کا بہترین پتھر کہاں سے ملتا ہے اور اچھے پتھر کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ جب اُسے آٹا پیسنے کے لئے استعمال کیا جائے تو اس کے اندر کرک“ نہ آئے.خدا تعالیٰ نے بڑے مضبوط پتھر ، چکیاں بنانے کے لئے بھی تو بنائے ہوئے ہیں لیکن جب انسان نے چکی کا استعمال چھوڑ دیا تو کسی کو پتہ ہی نہ رہا کہ اچھا پتھر کہاں سے ملتا ہے.چنانچہ ایک دن بعض دیہاتی دوست ملاقات کے لئے آئے ہوئے تھے.میں نے اُن میں سے ایک دوست سے کہا میں نے پتھر کی چنگی خریدنی ہے.میں لوں گا مول، مفت نہیں لوں گا.اگر کسی کے گھر میں چکی پڑی ہوئی ہو تو تلاش کر کے ایک چکی مجھے لا دیں.خیر انہوں نے کئی دنوں تک تلاش کی.آخر کار بڑی مشکل سے ڈھونڈ کر وہ ایک چکی لے آئے.پس میں دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے گھروں میں چکیاں رکھیں اس سے اُن کی صحت اچھی رہے گی.اُن کی بیویوں اور بیٹیوں کی بھی ورزش ہوتی رہے گی.سب گھر والوں کی بھی صحت اچھی رہے گی کیونکہ چکی کا پسا ہوا تازہ بتازہ آٹا میسر آئے گا.پھر میں بڑی دیر سے کہہ رہا ہوں کہ دوست اپنے گھروں میں کوئی نہ کوئی پھل دار درخت ضرور لگا ئیں.جس آدمی کے پاس پانچ مرلے زمین ہے اس میں بھی کئی درخت لگ جاتے ہیں.پہلے سال انجیر پھل دے دیتا ہے.دوسرے سال شہتوت پھل دے دیتا ہے.کوئی پھل کھائیں اس کے اندر بہت سی اچھی غذائیت والی چیزیں ہوتی ہیں.میں نے سویا بین کے متعلق کہا تھا.اس میں کچھ محنت کرنی پڑتی ہے.اس طرف دوستوں نے توجہ نہیں کی.بہر حال مجھے غرض ہے نہ سویا بین سے.نہ شہتوت سے، نہ انجیر سے،

Page 379

سبیل الرشاد جلد دوم 360 مجھے غرض ہے غلبہ اسلام سے.اس سلسلہ میں جو ذمہ داریاں احباب پر ڈالی گئی ہیں وہ چونکہ بہت اہم ہیں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ احباب کو جسمانی لحاظ سے اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو اٹھا سکیں اور اُن سے کما حقہ عہدہ برآ ہوسکیں.پھر تربیت کے لحاظ سے کچھ ذمہ داریاں بہر حال بڑوں پر عائد ہوتی ہیں.بعض جوان بھی ایسے ہیں جو اپنے گھر کے ذمہ دار ہیں.مثلاً ایک ۳۰/۲۵ سال کا نوجوان ہے جو آزاد ہو گیا ہے.وہ علیحدہ گھر کر رہا ہے، اس کی بیوی ہے اور بچے ہیں.اس کا گھر مستقل حیثیت سے آباد ہے جس کی ساری ذمہ داریاں اس نوجوان پر عائد ہوتی ہیں لیکن دیہات میں بھی اور شہروں میں بھی اور اس نوجوان کے لحاظ سے بھی جس نے علیحدہ گھر آباد کیا ہے.یہ تو نہیں ہوتا کہ کوئی شخص اپنے دل سے اپنے ماں باپ کی محبت کو نکال کر باہر پھینک دے.ابھی تک اپنے بڑوں کے ساتھ اور بزرگوں کے ساتھ اس کا تعلق قائم ہے.لیکن جو بزرگ ہیں.وہ بزرگ بننے کے لئے تیار نہیں.یہ عجب تماشا ہے.پس جو بزرگوں کی ذمہ داری ہے وہ اُن کو اٹھانی چاہئے.اُن کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کے کانوں میں ہمارے دین کی باتیں ڈالیں.ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائیں.اس زمانے کی ضرورت یاد دلائیں.یہ وہی زمانہ ہے جس میں پیشگوئیوں کے مطابق غلبہ اسلام کی ضرورت مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کا باعث بنی.دینی ضرورت کے بغیر تو خدا تعالیٰ کے برگزیدہ لوگ نہیں آتے.غرض ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا وہ عظیم الشان کام جس کی تعمیل جماعت احمدیہ کے ذریعہ مقدر ہے.خدا تعالیٰ نے احباب کو اس جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے.اب یہ ضروری ہے کہ اس کی ذمہ داریاں اٹھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں.یہ ایک نسل کا کام نہیں یہ کام تو نسلاً بعد نسل جاری رہنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.ابھی تین صدیاں پوری نہیں ہوں گی کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آ جائے گا.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ۲۹۰ سال کے بعد اسلام غالب آئے گا.آپ نے یہ فرمایا ہے کہ تین صدیوں سے زیادہ وقفہ نہیں گزرے گا کہ اسلام غالب آ جائے گا.میں نے بہت سی پیشگوئیوں پر غور کیا.زمانے کے حالات دیکھے.چنانچہ پرانی اور نئی پیشگوئیوں کو دیکھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی زندگی کی دوسری صدی جس میں ہم دس بارہ سال کے بعد داخل ہونے والے ہیں غلبہ اسلام کی صدی ہے اور اس صدی میں انشاء اللہ اللہ تعالیٰ ہی کے فضل اور اس کے رحم سے دنیا کی اکثریت اسلام میں داخل ہو جائے گی.پس غلبہ اسلام کی بہت بھاری ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ڈالی گئی ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ہمیں ہر وقت کوشاں رہنا چاہئے.

Page 380

سبیل الرشاد جلد دوم 361 میں پہلے بھی بتا چکا ہوں یورپ کے سفر میں ، پریس کانفرنسوں میں، اخباری نمائندے مجھ سے پوچھ لیتے ہیں کیا میں یورپ کو بھی مسلمان بنانا چاہتا ہوں ؟ اس پر ایک تو میں اُن کو یہ جواب دیا کرتا ہوں کہ مسلمان بنانا چاہتے ہیں کا اگر تمہارا یہ مطلب ہے کہ میں ڈنڈے کے زور سے تمہیں مسلمان بنانا چاہتا ہوں تو یہ بات غلط ہے.کیونکہ میرے نزدیک تو مذہب میں ڈنڈا جائز ہی نہیں ہاں یہ صحیح ہے کہ میرے دل میں یہ خواہش اور تڑپ ہے کہ ہم اسلام کے حسن کو تمہارے سامنے کچھ اس طرح پیش کریں کہ تم اسے قبول کرنے پر مجبور ہو جاؤ اور تمہیں یہ احساس ہو جائے گا کہ اسلام سے باہر تمہاری فلاح نہیں ہے.اگر تم نے خیر و برکت کی زندگی گزارنی ہے تو تمہیں اسلام قبول کرنا پڑے گا اور یہ بھی کہ تم یورپ کا پوچھ رہے ہو میرا تو یہ اندازہ ہے اگلے ۱۱۰ ۱۱۵ سال کے اندر (ابھی ہماری اس صدی کے بھی دس سال رہتے ہیں.ان کو بھی شامل کر کے اگلے ۱۱۰.۱۱۵ سال کے اندر ساری دنیا اسلام میں داخل ہو جائے گی.اور اس کی دلیل میں یہ دیتا رہا ہوں کہ قریباً ۹۰ سال پہلے ایک ایسے شخص نے جو یکا و تنہا تھا اُس نے یہ اعلان کیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس لئے کھڑا کیا ہے کہ میں ساری دنیا میں اسلام کو غالب کروں.یہ ایک ایسی آواز تھی جسے کوئی سننے والا نہیں تھا خود اس کے گھر والے اُس کی قدر کو نہیں پہچانتے تھے.لوگ اس کی مخالفت پر کھڑے ہو گئے بلکہ They got united against him ساری دنیا اکٹھی ہو کر اس کے مقابلے میں کھڑی ہو گئی.ہر مذہب کے لوگوں نے اس کی مخالفت کی.لیکن اس مخالفت کے باوجود وہ جو اکیلا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس پر ایسا فضل کیا کہ نوے (۹۰) سال میں وہ ایک سے ایک کروڑ بن گیا.اب اگر اگلے سو سال میں اس کروڑ میں سے ہر ایک، ایک کروڑ بن جائے تو ضرب لگا کر دیکھ لو کیا شکل بنتی ہے.چنانچہ فرنکفرٹ میں بھی جب میں نے یہی جواب دیا تو ایک بڑا اچھا شریف اور منجھا ہوا ثقہ صحافی میرے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا.میں نے اس سے کہا ذرا ضرب دے کر دیکھیں کیا شکل بنتی ہے.پہلے تو اس نے سمجھا کہ ویسے باتیں کرتے ہوئے فقرہ بول گئے ہیں.تو میں نے اسے کہا میں آپ کو یہ کہہ رہا ہوں کہ مہربانی فرما کرمیری خاطر تکلیف برداشت کریں اور دس ملین کو دس ملین کے ساتھ ضرب دیں.تو اس شریف آدمی نے جب ضرب دی تو وہ سمجھا کہ غلطی ہوگئی ہے.پھر اس کو کاٹا میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا.پھر اس نے دوبارہ ضرب دی تو پھر بھی وہی شکل سامنے آئی.تب وہ مسکرایا.اس نے گردن اٹھائی اور مجھے کہنے لگا اتنی تو دنیا کی آبادی نہیں ہو سکتی.میں نے اُسے کہا.میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اتنے ہو جائیں گے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ جب پچھلے ۹۰ سال میں ایک سے ایک کروڑ ہو گیا تو یہ بات غیر ممکن نہیں ہے کہ اگلے سو سال میں دنیا کی اکثریت اسلام میں داخل ہو جائے گی.پس اس طرح میں اُن لوگوں کو سمجھاتا رہا ہوں کہ اگلی

Page 381

سبیل الرشاد جلد دوم صدی میں اسلام دنیا پر غالب آ جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.362 یہ تو ہم نے پیشگوئیوں سے اندازہ لگایا ہے.لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف انذاری پیشگوئیوں کے نتیجہ میں دعا اور صدقات کی ضرورت ہوتی ہے اور جو بشارتیں ہیں اُن کے لئے کچھ نہیں کرنا پڑتا.یہ بات غلط ہے.سب سے بڑی بشارتیں تو آدم سے لے کر آج تک حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تھیں.آپ کے ماننے والوں نے پہلے دن سے لے کر آج تک اس حقیقت کو سمجھا اور اسی کے مطابق عملی جد و جہد بھی کی کہ جتنی بڑی بشارت ہوتی ہے اُتنی بڑی ذمہ داریاں بھی عائد کی جاتی ہیں.پس وہ ذمہ داریاں جو اس وقت میں احباب جماعت کو بتا رہا ہوں، یہ ایک نسل پر نہیں پڑیں.اگر یہ اگلے سو ڈیڑھ سو سال میں وقوعہ ہو جانا ہے.انشاء اللہ اور جس کے نتیجہ میں دُنیا کی اکثریت اسلام کے اندر داخل ہو جائے گی تو یہ کئی نسلوں کا کام ہے.یہ ایک نسل کا کام نہیں ہے.اس لئے ہر بڑی نسل کا اور ہر زمانے کے انصار کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سنبھالیں اور اُن کو تیار کریں ذہنی طور پر اور اخلاقی طور پر اور رُوحانی طور پر کہ اس نقطہ نگاہ سے اُن پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ، وہ انہیں بشاشت قلب کے ساتھ اور مسکراتے چہروں کے ساتھ ادا کرنے والے بہنیں خواہ ساری دنیا ہی اکٹھی ہو کر اُن کے مقابلے پر کیوں نہ آ جائے.انہوں نے قدم آگے ہی بڑھاتے چلے جانا ہے.تب خدا تعالیٰ کی برکتوں کی جماعت وارث بن سکتی ہے.اور انشاء اللہ بنے گی.پس تربیت اولاد بڑی اہم ذمہ داری ہے.اس کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے.اس کے لئے ایک تو ہر باپ کو اپنے بچے کا دوست بننا چاہئے.کئی باپ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو ایسی خونخوار نظروں سے دیکھتے ہیں کہ وہ اُن کے سامنے بات کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں.بیٹا تو ایسا ہونا چاہئے کہ بے تکلف ہر بات اپنے باپ سے کر دے ورنہ اس کی ذہنی اور اخلاقی نگرانی نہیں کی جاسکتی.بہر حال یہ ذمہ داریاں ہیں جن کی میں احباب جماعت کو یاد دہانی کرا رہا ہوں.اب میں اپنے اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْاَ نْفْسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُوْنَ أُولَيكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتُ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَيْكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ.ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور کچی بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا اپنے سورة البقره آیت ۱۵۶ تا ۱۵۸

Page 382

سبیل الرشاد جلد دوم 363 پیارے بندوں سے یہ بڑا ہی پیارا سلوک ہوتا ہے کہ وہ اُن کا امتحان لیتا ہے.جس ابتلاء کا یہاں ذکر ہے اُس ابتلاء میں جب اُن کو ڈالتا ہے تو یہ اُس کے پیار کا نتیجہ ہوتا ہے.یہ ناراضگی کا نتیجہ نہیں ہوتا.لیکن بعض لوگ اسے عذاب میں تبدیل کر لیتے ہیں.اس آیت سے ہمیں یہ پتہ لگتا ہے کہ جس ابتلاء کا خدا تعالیٰ نے یہاں ذکر کیا ہے وہ تھوڑا سا ہے.فرما یا بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ کچھ تھوڑا سا میں تمہیں ابتلاء میں بھی ڈالوں گا.یہ بڑا لطیف اور حسین فقرہ ہے.اگر انسان کی ساری عمر بھی اس ابتلاء میں سے گزرے تب بھی تھوڑا سا ہی ابتلا ء ہوتا ہے.کیونکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی معظمند انکار نہیں کر سکتا کہ قرآن کریم نے یہ کیا ہی سچا اعلان کیا ہے : وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ) اللہ تعالیٰ نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں انسان پر موسلا دھار بارش کی طرح برسائی ہیں.تو اس موسلا دھار بارش میں اگر کوئی ایک ژالہ یا اولہ یا برف کا ایک قطرہ کسی کان کے پاس آلگے اور اس سے تھوڑی سی درد ہو تو وہ چیخنے تو نہیں لگ جاتا.در حقیقت یہ بھی خدا تعالیٰ کے پیار ہی کا ایک اظہار ہوتا ہے.اس پیار کی ایک مثال مجھے یاد آ گئی.ہمارے ایک بزرگ تھے.ایک دن بڑی گرمی کے زمانے میں اُن کے دل میں برف کھانے کی خواہش پیدا ہوئی.یہ صدیوں پہلے اُس زمانے کی بات ہے جب برف بنانے کے کارخانے نہیں ہوتے تھے.بس اُن کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی اور ایسے وقت پیدا ہوئی جب کہ سورج کی تپش کی وجہ سے شدید گرمی تھی اور دو پہر کا وقت تھا اور آسمان پر کوئی بادل نہیں تھا.چنانچہ جوں ہی اُن کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی.انہوں نے دیکھا ایک چھوٹی سی بدلی آئی ہے اور وہ اُن کے سر پر آ کر ٹھہر گئی ہے.اور اس سے قطرے گرنے شروع ہو گئے ہیں.چنانچہ ژالہ باری سے اُن کا صحن برف سے بھر گیا.وہ بڑے سخت جذباتی ہو گئے.انہوں نے وہ اولے اکٹھے کئے.وہ اتنے جذباتی ہوئے کہ اتنا پیار کرنے والا ہے میرا رب.ادھر میرے دل میں برف کھانے کی خواہش پیدا ہوئی اور اُدھر میرے لئے اس کا سامان پیدا کر دیا گیا.انہوں نے ایک اولہ اُٹھایا اور الحمد للہ کہہ کر اپنے منہ میں ڈالا اور باقی سارے اولے اپنے اردگرد ہمسایوں اور دوستوں میں تقسیم کر دیئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا یہ نشان مجھے دکھایا ہے.پس یہ ہے ہمارا رب کریم جو بڑا پیار کرنے والا ہے اور اپنی نعمتوں کو موسلا دھار بارش کی طرح ہم پر نازل کرنے والا ہے.اگر وہ تھوڑے عرصہ کے لئے ہمیں آزماتا ہے جو اس کی عظیم نعماء کی بارش کے سوره لقمان آیت ۲۱

Page 383

سبیل الرشاد جلد دوم 364 مقابلے میں اپنی کیفیت اور کمیت ہر دو لحاظ سے بالکل چھوٹی چیز ہے تو ہمیں وہ نمونہ دکھانا چاہئے جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ تمہیں تھوڑی سی تکلیف بھی پہنچاؤں گا.تھوڑا سا آزماؤں گا، تمہارا امتحان لوں گا.تمہارے لئے تھوڑے سے خوف کے حالات پیدا ہوں گے.خوف کئی قسم کے ہوتے ہیں.بعض دفعہ مخالف بڑی دھمکیاں دیتے ہیں.وہ ڈراتے ہیں کہ یوں ہو جائے گا اور یوں ہو جائے گا.مجھے یاد ہے ۵۳ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک بہت بڑے لیڈر کا پیغام آیا کہ (نعوذ باللہ ) اب تو آپ ختم ہو گئے.آپ نے اپنی اور جماعت کی جان بچانی ہے تو ایک ہی صورت ہے کہ جو لکھا ہوا ڈرافٹ ہم آپ کو بھیجیں اُس پر دستخط کر دیں ور نہ آپ مارے گئے.کسی نے جب یہ پیغام دیا تو حضرت صاحب نے فرمایا میں تو خدا کو ماننے والا ہوں.انسانوں کی پرستش کرنے والا تو نہیں ہوں.دنیا کے ہر خطہ میں کسی نہ کسی وقت اس قسم کے حالات بھی پیدا ہو جاتے ہیں.لیکن جو مومن ہے اس کے لئے جب کبھی خوف کے حالات پیدا ہوں تو وہ اپنے خدا کو بھول تو نہیں جا تا.پھر فرما یا والجوع اور بھوک سے تمہیں آزماؤں گا.یہ آزمائش بھی آتی ہے.ایک تو اس طرح کہ قریش مکہ نے مسلمانوں گو شعب ابی طالب میں قید کر دیا.مسلمانوں کی ایسی ناکہ بندی کی کہ اُن کے کھانے کے سارے راستے بند کر دیئے اور کہا کہ ہم تمہیں بھوکا مار دیں گے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا ہے کہ تم رازق ہو یا میں رازق ہوں.پس وہ مسلمانوں کو بھوکا تو نہیں مار سکے البتہ کفار نے مسلمانوں کو تکلیف ضرور دی جسے انہوں نے بشاشت کے ساتھ برداشت کیا.ایک بہت بزرگ صحابی کہتے ہیں کہ ایک رات اندھیرے میں میرے جوتے کے نیچے کوئی چیز آئی اور مجھے احساس ہوا کہ وہ کوئی نرم چیز ہے.میں نے اُسے اٹھایا اور کھا لیا اور مجھے کچھ پتہ نہیں وہ کیا چیز تھی.یہ حال تھا اُن کی بھوک کا.لیکن اس ابتلاء کو بھی انہوں نے بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا.پھر جنگ احزاب کے موقع پر ایک صحابی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! اب تو تکلیف بہت بڑھ گئی ہے.آزمائش کا زمانہ لمبا ہو گیا ہے.انہوں نے اپنی قمیض اٹھائی اور یہ ایک طریقہ تھا میرے خیال میں ضرور فائدہ دیتا ہو گا کہ اگر معدے کو دبایا جائے تو بھوک کا احساس کم ہو جاتا ہے تو اس کے لئے وہ یہ کرتے تھے کہ کوئی چیز لے کر پٹکے کے ساتھ معدے پر باندھ دیتے تھے.غرض انہوں نے اپنا پیٹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا جس پر ایک پتھر چٹکے کے ساتھ باندھا ہوا تھا.عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ حالت ہو گئی.ہم پتھر باندھے ہوئے پھر رہے ہیں.آپ

Page 384

365 سبیل الرشاد جلد دوم نے فرمایا اچھا تو ادھر دیکھو.آپ نے اپنی قمیض اٹھائی.دو پتھر باندھے ہوئے تھے.لیکن اُس وقت بھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مسلمان بھی پتھر باندھے پھرتے تھے اور بھوک سے نڈھال تھے.اس آزمائش کو بھی بشاشت کے ساتھ برداشت کر رہے تھے.باپ بیٹے کے راز و نیاز کی طرح انہوں نے علیحدگی میں آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر کر دیا تھا کہ وہ پتھر باند ھے پھرتے ہیں لیکن کوئی واویلا تو نہیں کیا تھا.چیخ و پکار تو نہیں کی تھی.ہاں وہ خدا کے حضور جھکتے تھے اور اس سے مخلصی کی دعائیں کرتے تھے.پھر جب ہجرت ہوئی تو ابھی چند سال نہیں گزرے تھے کہ مکہ میں قحط پڑ گیا اور وہاں سے مدینہ میں ایک وفد آ گیا اور اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا.کیا آپ اپنے بھائیوں کو بھوکا ماریں گے؟ آپ نے فرمایا.نہیں.اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے مکہ میں بھی اور مدینے میں بھی آپ کو بھوک کے ابتلا میں ڈالا تھا ، اُن کے لئے فوراً کھانے کا انتظام کر دیا.آپ نے لوگوں کو مسجد نبوی میں بلایا اور اُن سے فرمایا مکے کو راشن بھیجنا ہے.اس کا انتظام کرو.اس انتظام پر ایک دوروز لگے ہوں گے لیکن اُن کے لئے انتظام کرنے میں ایک منٹ کی بھی تا خیر نہیں کی اور یہ برداشت نہیں کیا کہ اہل مکہ بھو کے رہیں.پھر فرمایا وَ نَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْاَنْفَس بعض دفعہ مال کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے.لوگ مکان جلا دیتے ہیں.ڈکا نہیں لوٹ لیتے ہیں.۷۴ء میں ایک موقع پر ایک کارخانے سے دس لاکھ روپے کی مونجی جلا دی گئی.میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ لوگ اسے لے جاتے اور کھا لیتے تو مجھے خوشی ہوتی.ہم یہ سمجھتے چلو کسی کے کام تو آئی.مگر انہوں نے جلا کر راکھ کر دی.بہر حال بھٹو صاحب کی اُس وقت یہ شان تھی.اب اور شان ہے.اسی طرح لوگ قتل کر دیتے ہیں.بعض دفعہ اس قسم کے حالات پیدا کر دیے جاتے ہیں جن سے اولا د کا نقصان ہو جاتا ہے یہ بھی ایک آزمائش ہوتی ہے اور ہر آزمائش کے ساتھ ایک برکت بھی لگی ہوتی ہے.ایک حصے کی میں بتا دیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا نے کہا میں تمہارے ماننے والوں کے نفوس اور اموال میں برکت ڈالوں گا.دشمن کہتا ہے میں بھوکا ماروں گا.چنانچہ اُس وقت جو لوگ برسر اقتدار تھے وہ یہ کہتے ہوئے بھی سنے گئے تھے کہ ہم احمدیوں کے ہاتھ میں کشکول پکڑا ئیں گے.خدا نے کہا احمدی کے ہاتھ میں تو کشکول نہیں آئے گا مگر تمہارے ہاتھ سے کبھی چھٹے گا نہیں.پھر فرمایا.وَالثَّمَراتِ محنت کے پھلوں میں نقصان اٹھانا پڑے گا.ایک لڑکا ہے جو بہت ذہین ہے.بہت اچھے نمبر لے کر فرسٹ آتا ہے.اور قرآن کریم کہتا ہے :

Page 385

سبیل الرشاد جلد دوم 366 أَنْ تُؤَدُّوا الْاَ مُنتِ إِلَى أَهْلِهَا تم اہلیت کے مطابق Appointments ( تقرریاں ) کرتے وقت فیصلے کیا کرو.لیکن اس کی ذہانت کے باوجود اُسے ملازمت نہیں ملتی.یہ گویا ثمرات سے محرومی ہے یا بعض دفعہ لوگ کھیتیاں اُجاڑ دیتے ہیں یا فصلوں کو آگ لگا دیتے ہیں.اس قسم کے نقصان پہنچانے کی حرکتیں بھی ہوتی ہیں.یہ ویسے دونوں طرح سے ہوتی ہیں.خدا تعالیٰ تو آزماتا ہے.وہ کبھی انسانوں کے ہاتھ سے آزماتا ہے اور کبھی آفات سماویہ کے ذریعہ آزماتا ہے.یہ مختلف قسم کی آزمائشیں ہیں جن کو قرآن کریم نے بیان کیا ہے ، ان میں قریباً ہر قسم کی آزمائش آ جاتی ہے.اس کے بعد خدا تعالیٰ کہتا ہے ایک چیز ظاہر کر کے بیان کی.ایک چیز نتیجتا ہے کہ ماننے والے دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں.ایک وہ جو صبر نہیں کرتے اور کمزوری دکھا جاتے ہیں اور ایک وہ جو کمزوری نہیں دکھاتے.جو لوگ کمزوری دکھا جاتے ہیں ان کو تو کچھ نہیں ملتا.ان کو نہ دنیا ملتی ہے اور نہ دین ملتا ہے.اس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں جو لوگ کمزوری دکھا جاتے ہیں اور ماشاء اللہ کوئی چھ مہینے کے بعد واپس آ جا تا ہے.جب اُسے اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی ڈھارس بندھاتا ہے اور کہتا ہے تو کدھر پھر رہا ہے.تو چل واپس کسی کو سال کے بعد یہ احساس ہو جاتا ہے.کوئی ویسے ٹوٹ بھی جاتا ہے.آخر ہرے بھرے درختوں کی بعض ٹہنیاں اور لکڑیاں بھی تو ٹوٹ جاتی ہیں.قانونِ قدرت ایسا ہی چل رہا ہے.لیکن جو لوگ صبر دکھاتے ہیں.خدا تعالیٰ اپنے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے.اے رسول تم ان کو بشارت دو.ایک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کردہ بشارت جو دنیا کی ساری نعماء سے بڑی ہے.دنیا داروں کی طرف سے وصول ہونے والی ساری نعمتوں سے بڑی ہے.جس کی بشارت خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسان کو دے رہے ہیں.فرمایا بَشِّرِ الشبرين اور صابر کے معنے یہ کئے إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ جب اس قسم کے ابتلاء جن کا ابھی ذکر کیا ہے وہ مومنوں کو پہنچتے ہیں تو وہ یہ کہتے ہیں.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ ہم خدا کی امانت ہیں.ہماری ہر چیز خدا کی امانت ہے.خدا ہمارا خالق و مالک ہے.سب کچھ اسی کا ہے.ہمارا تو کچھ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے: گھر سے تو کچھ نہ لائے یہ ایک حقیقت ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی ہے.انا للہ.ہم اور ہماری ہر چیز خدا تعالیٰ کی امانت اور اس کی ملکیت ہے.وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ہم نے اُسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور اگر صبر کیا تو لوٹ کر سورۃ النساء آیت ۵۹

Page 386

367 سبیل الرشاد جلد دوم جانے کی صورت میں اس کا انعام حاصل کرنا ہے.اور اگر خدا تعالیٰ کی ناشکری کی تو پھر معاملہ دوسرا ہے.ویسے خدا تعالیٰ مالک ہے.وہ جو چاہے اپنے بندوں سے سلوک کرے.اولیكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتُ مِنْ رَّبِّهِمْ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے وارث بنتے ہیں.صلوٰۃ کا لفظ جب خدا کی طرف منسوب ہو تو اس کے اور معنے ہوتے ہیں اور جب بندوں کی طرف منسوب ہو تو اور معنے ہوتے ہیں.بندوں کے متعلق تو ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ درود پڑھیں یا دعا کریں لیکن اللہ تعالیٰ دُعا نہیں کرتا وہ تو دعا قبول کرنے والی ہستی ہے.یعنی وہ خود دیالو ہے.وہ مانگنے والی ہستی تو نہیں.دعا کے تو معنے ہی مانگنے کے ہوتے ہیں.پس جب یہ لفظ صلوۃ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہو تو اس کا مطلب الہی رحمت ہوتا ہے.فرمایا.صَلَوتٌ مِنْ رَّبِّهِمْ.ایسے صابر لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی ایک نہیں، دو نہیں، بے شمار رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں گی اور پھر خدا تعالیٰ کے یہ انعام جو بندوں پر نازل ہوتے ہیں وہ تو بے شمار ہوتے ہیں.ہم اُن کا احاطہ نہیں کر سکتے.اس لئے ہم عام طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی برکتوں اور اس کے فضلوں ، خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور اس کی نعمتوں ، خدا تعالیٰ کے پیار اور اس کی محبت کو چند ایک الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہاں چونکہ رحمت کا لفظ ظاہری طور پر آ گیا ہے.اس لئے ہم کہتے ہیں کہ صلوٰۃ کی رو سے صبر کرنے والوں کو خدا تعالیٰ کی رحمت بھی اور اس کے علاوہ دوسرے قسم کے جو فضل ہیں اور برکتیں ہیں اور نعمتیں ہیں وہ بھی اُن کو ملیں گی.پھر فرمایا.اُولبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے خدا تعالیٰ نے ہدایت کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.پس اگر چہ خدا کے مومن بندوں پر ابتلاء آتے ہیں لیکن اس کے نتیجہ میں اُن پر بہت بڑے انعام بھی نازل ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو بڑے لطیف رنگ میں بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ سے یہ بڑا پیارا سلوک ہے کہ وہ اُسے امتحان میں ڈالتا ہے اور اس کے نتیجہ میں بے شمار روحانی اور جسمانی ترقیات کے دروازے اُس پر کھول دیئے جاتے ہیں.الہی جماعتوں پر ابتلا ء اس لئے نہیں آتے کہ خدا تعالیٰ انہیں مٹانا چاہتا ہے.یا انہیں کمزور کرنا چاہتا ہے.بلکہ اس لئے آتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اُن کو روحانی رفعتیں دینا چاہتا ہے.اُن کے درجات کو بلند کرنا چاہتا ہے.خدا تعالیٰ اپنی نعمتوں سے اُن کی جھولیاں بھرنا چاہتا ہے.میں نے کئی دفعہ سوچا، صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا عجیب حالت تھی.دشمن نے تلوار میان سے نکالی اور کہا سب کی گردنیں کاٹ دیں گے اور اسلام کو مٹا دیں گے.لیکن صحابہ کرام کی ذہنی کیفیت اور ایمانی حالت کا یہ عالم تھا کہ آج کا ایک دولت مند شخص اپنے سونے والے کمرے سے نکل کر بیٹھنے

Page 387

سبیل الرشاد جلد دوم 368 والے کمرے، ڈرائنگ روم میں جانے میں جو کوفت محسوس کرتا ہے ، اُس سے بھی کم وہ اس دنیا کو چھوڑ کر اگلے جہان میں جانے میں محسوس کرتے تھے.اُن کو یہ احساس تھا کہ یہ دُنیا تو ایک دارالا بتلا ء ہے.اس سے نکل کر خدا تعالیٰ کے پیار کی جنتوں میں جا رہے ہیں.چھلانگیں مارتے ہوئے اور قربانیوں پر قربانیاں دیتے چلے جاتے تھے.یہ تو پھر خدا کی مرضی تھی جو ان کو کہتا تھا.ابھی اس دنیا میں رہو ورنہ اُن کی خواہش یہی ہوتی تھی کہ وہ ہنستے مسکراتے خدا کی راہ میں قربان ہو جائیں.پس یہی وہ رُوح ہے جس کے پیدا کرنے کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.ملکی زندگی میں بہت سے صحابہ اور صحابیات کو بڑے دکھ دیئے گئے خصوصاً جو لوگ غلام تھے اور مسلمان ہو گئے تھے اُن پر بہت زیادہ مظالم ڈھائے گئے.حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو نگا کر کے تپتے ہوئے ریتلے میدان میں لٹا دیا جاتا اور اُن کے سینے پر گرم پتھر رکھ کر اُن سے اسلام کا انکار کرنے کو کہا جاتا.مگر اس انتہائی تکلیف اور دُکھ کی حالت میں بھی اُن کے حلق سے احد احد “ ہی نکلتا تھا.پھر اُن کے گلے میں رسہ ڈال دیا جاتا اور شریر بچے اُن کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے تھے.ہماری ایک بزرگ بہن صحابی تھیں.ایک شخص نے اُن کی ران میں نیزہ مار کر اُن کو شہید کر دیا.غرض صحابہ کرام نے خدا کی راہ میں ظلم وستم کا تختہ مشق بننا یہاں تک کہ جان دے دینا گوارا کر لیا.لیکن انہوں نے اپنے رب کریم سے قطع تعلق نہیں کیا.نہ وہ وو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان کو بھولے اور نہ انہوں نے آپ کے دامن کو چھوڑا.غرض جو بات میں احباب جماعت سے اس وقت کہنا چاہتا ہوں.وہ یہی ہے کہ وہ اپنے اندر صحابہ کرام کا نمونہ پیدا کریں.غور سے دیکھیں تو اس میں صحابہ کا اپنا کوئی کمال نہ تھا.یہ کمال تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا.( غیر مطبوعہ )

Page 388

سبیل الرشاد جلد دوم 369 سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعلی کا انتقامی خطاب فرموده ۲۹/اخاء ۱۳۵۷اهش ۲۹ اکتوبر ۱۹۷۸ء بمقام احاطه دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ ) سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۷۸ء کے موقع پر ۲۹ اکتوبر ۱۹۷۸ء کو جو بصیرت افروز اختتامی خطاب فرمایا.ذیل میں اس کا مکمل متن درج کیا جاتا ہے.تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دنیا میں ہر جماعت کا کوئی نشان ہوتا ہے، کچھ علامات ہوتی ہیں ، کچھ مزاج ہوتا ہے، کچھ صفات ہوتی ہیں.اس وقت میں جماعت احمدیہ کے مزاج اور جماعت احمد یہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جو صفات پیدا کی ہیں.ان کے متعلق پہلے کچھ مختصر بیان کروں گا.جماعت کی پہلی نمایاں صفت یہ ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی عاجز اور منکسر المزاج جماعت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو عاجزانہ راہیں پسند ہیں.اور جو چیز ہمارے محبوب خدا کو پسند ہے وہی ہمیں بھی پسند ہے.اس لئے ہم احمدی عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے والے ہیں اور ہمارے دلوں میں کبھی تکبر اور فخر کے جذبات پیدا نہیں ہوتے.ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انعامات میسر آتے ہیں اور وہ بے حد و شمار ہیں.ہم علی وجہ البصیرت یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں ہمیں خدا کی طرف سے نہیں ملے بلکہ یہ محض اس کا فضل ہے کہ اس نے اپنے ان انعامات سے ہمیں نوازا ہے.دوسری صفت یہ ہے کہ ساری دنیا سے پیار کرنا اور ان کے لئے محبت کے جذبات رکھنا جماعت احمدیہ کا شعار ہے اور یہ محض زبان کا دعویٰ نہیں بلکہ ہمارے اعمال کا ہر پہلو اس بات پر شاہد ہے کہ ہم نوع انسانی سے پیار کرنے والے اور اس کی خیر خواہی کرنے والے ہیں اور دنیا کا کوئی انسان نہیں جس سے ہمیں دشمنی ہو.دشمنی کسی سے نہیں اور پیار کا جذبہ اور خیر خواہی کا جذ بہ ہر ایک کے لئے ہے اور میں نے

Page 389

370 سبیل الرشاد جلد دوم بڑا غور کیا اور بڑا مشاہدہ کیا.دنیا میں سب سے زیادہ طاقت خدا تعالیٰ نے جس کو دی ہے وہ پیار ہے.انسانی تاریخ میں کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ نفرتیں آخر کار کامیاب ہوئی ہوں بلکہ ہم نے ہمیشہ یہی دیکھا کہ پیار و محبت کے حامل اور علمبر دار لوگوں کو خدا تعالیٰ نے اپنی رحمتوں سے نوازا اور انسان کے خادموں سے خدا تعالیٰ نے پیار کیا.انسان کے دشمنوں سے اس نے پیار نہیں کیا اور نہ ہی اپنی برکتوں سے انہیں نوازا.جب ہم کسی چیز کے متعلق بولتے ہیں تو صوتی لہروں کے ساتھ ہماری جذباتی لہریں بھی شامل ہو جاتی ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ جب میں عیسائیوں اور دہریوں سے یورپ میں بات کرتا ہوں اور یہ بات ان سے بیان کرتا ہوں کہ اسلام نے ہمیں محبت کرنا سکھایا ہے نفرت کرنا نہیں سکھایا.تو ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں.تیسری صفت جو جماعت میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ایک امن پسند جماعت ہے جو قانون شکنی نہیں کرتی.اور فساد خواہ کسی رنگ میں بھی پایا جائے اس میں حصہ دار نہیں بنتی.قانون کا احترام کرتی ہے اور اگر خدا تعالیٰ کی محبت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق سے کوئی قانون نہ ٹکرائے تو وہ قانون کی پابندی کرتی چلی جائے گی.اور جہاں تک ہم نے دیکھا ہے اور آج کی دنیا کا مطالعہ کیا ہے.انسان جان بوجھ کر ایسے قوانین نہیں بنا رہا جو دوسرے انسانوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے والے ہوں لیکن بعض دفعہ ایسے استثناء پائے جاتے ہیں کہ جو لوگ دنیا میں قانون چلانے والے ہیں افریقہ میں، انگلستان میں ، یورپ میں ، امریکہ میں اور جزائر وغیرہ میں.میں ساری دنیا کی بات کر رہا ہوں.ان میں سے بعض لوگ ایسے متعصب ہوتے ہیں جو قانون کا غلط استعمال کرتے اور بعض لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے لگ جاتے ہیں.لیکن وہ قو میں جن میں ایسا واقعہ ہوتا ہے اسے پسند نہیں کرتیں.مثلاً میرے اسی سفر کے دوران جب میں نے مغربی افریقہ جانے کا پروگرام بنایا تو نائیجیریا کے ایک افسر نے بلا وجہ اپنے بالا افسروں سے غلط باتیں بیان کر کے وقتی طور پر یہ حالت پیدا کر دی کہ نائیجیریا نے ویزا دینے کے بعد ہمارا ویزا واپس لے لیا اور پھر چند دن کے بعد انہوں نے معذرت بھی کر دی کہ ہمیں بڑا افسوس ہے کہ ایسا ہوا.اور ہم خوش نہیں ہیں کہ ہم میں سے کسی شخص نے اس قسم کے حالات پیدا کئے.اب وہ اس سے کیا سلوک کرتے ہیں.اس کا ہمیں علم نہیں.نہ ہمارا اس سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہم کسی کی بدخواہی کرتے ہیں.اس لئے اگر وہ اس شخص کو معاف ہی کر دیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ اسی میں اس کی بھی اور آوروں کی بھی بہتری ہے.

Page 390

371 سبیل الرشاد جلد دوم میں یہ بتا رہا ہوں کہ قانون کا اجراء کرنے والے بعض دفعہ غلطی کرتے ہیں لیکن اس مہذب دنیا میں غلط قسم کے قانون نہیں بنائے جار ہے.إِلَّا مَا شَاءَ الله - اگر بنائے جاتے ہیں تو اس کے لئے بہت سے عقلی اور اخلاقی دلائل دیئے جاتے ہیں کہ یہ قانون ہے اور اس کے پیچھے عقل یہ کہتی ہے اور اخلاقی اقدار یہ کہتی ہیں.مثلاً ساؤتھ افریقہ اس ملک میں بسنے والے افریقنز کا ملک ہے اور ہمارے نزدیک سفید فام اقوم کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان کے ملک پر غاصبانہ قبضہ جمائے رکھیں.۱۹۷۰ء کے دورے میں جب میں افریقہ سے لندن واپس آیا.تو اس وقت وہاں امیگریشن (Immigration) کے بارے میں بڑا چرچا تھا کہ لوگ زیادہ آ رہے ہیں.ان کی آمد کا سلسلہ بند کیا جائے.وہاں جانے والوں میں ہمارے علاقے اور ہمارے ملک کے لوگ بھی تھے.اور دوسرے ممالک سے بھی آئے ہوئے تھے.غیر ملکیوں نے کہا کہ اس کے منہ سے نکلوائیں کہ انگریز غیر ملکیوں پر بڑا ظلم کر رہے ہیں.اور پھر اسے ساری دنیا میں پھیلا ئیں.مجھے پہلے پتہ لگ گیا.میں نے انہیں کہا کہ جو بات سچی سمجھتا ہوں میں تو اسی کا اظہار کروں گا تمہارے مطلب کی بات نہیں کروں گا.میں سیاسی آدمی نہیں ہوں میں تو مذہبی آدمی ہوں اور سچ بولنا میرا شعار ہے.اور میرا فرض ہے اور میرا طرہ امتیاز ہے.میں ڈپلومیسی(Diplomacy) استعمال نہیں کر سکتا.اس لئے میں نے انہیں کہا کہ ایسے سوال نہ کریں.لیکن انہوں نے سوال کر دیا.چنانچہ جب انہوں نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ انگریز ہم لوگوں کو اپنے ملک میں آنے نہیں دیتے.آجائیں تو ٹھہر نے نہیں دیتے.اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے تو میں نے جواب میں کہا کہ بات یہ ہے کہ انگلستان کا جزیرہ انگلستان میں بسنے والوں کا ہے، انگریز کا ملک ہے اگر وہ تمہیں یہاں رہنے دیں تو یہاں رہو.اگر وہ کہیں کہ یہاں سے چلے جاؤ تو یہاں سے چلے جاؤ.لیکن میں نے انہیں کہا کہ میں تمہیں ایک بات بتا دیتا ہوں.اگر تم ان کے دل جیتنے میں ناکام رہو تو تمہارا کوئی حق نہیں ہے کہ یہاں رہو.اور اگر تم ان کے دل جیتنے میں کامیاب ہو جاؤ تو وہ تمہیں ہرگز یہاں سے نہیں نکالیں گے.پھر کسی نے مجھ سے سوال کیا کہ ساؤتھ افریقہ کے متعلق کیا خیال ہے.میں نے کہا کہ ساؤتھ افریقہ ، ساؤتھ افریقنز کا ہے.وہاں انگریز کو رہنے کا کوئی حق نہیں.اگر افریقن کہیں کہ انگریز وہاں سے چلا جائے تو ان کو وہاں سے واپس آ جانا چاہئے.اور اگر یہ ان کے دل نہیں جیت سکتے تو ان کو وہاں رہنے کا کوئی حق نہیں.لیکن اگر یہ ان کے دل جیت لیں.اور وہ اپنی خوشی اور پیار سے انگریز کو سفید فام کو وہاں رکھنے کے لئے تیار ہوں تو پھر کسی اور کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے.غرض جس وقت دنیوی عقل اور کم عقلی کا مرکب غلط قسم کے قانون بنا تا ہے تو اس کے لئے بھی جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے.عقلی جواز بھی اور اخلاقی جواز بھی.مثلاً ساؤتھ افریقہ کہے گا کہ یہ لوگ

Page 391

372 سبیل الرشاد جلد دوم بڑے بیک ورڈ (Back ward) اور ترقی یافتہ نہیں ہیں.اس لئے ہم ان کی خدمت کے لئے یہاں بیٹھے ہیں.کوئی گھر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ایک شخص آکر ان کو کہے کہ میں زبر دستی تمہاری نوکری کروں گا.انسانی ضمیر زبردستی کی نوکری کو برداشت ہی نہیں کرتی.اگر وہ خدمت نہیں لینا چاہتے.تو تم کیوں زور دے رہو خدمت کرنے پر ، باہر نکل آؤ.بہر حال وہ اس قسم کی باتیں بناتے ہیں.اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.لیکن آج دنیا کی ضمیر بیدار ہو چکی ہے.اگر کسی جگہ غلط قسم کی عقلی دلیلیں دے کر اور اخلاقی اقدار بیان کر کے غلط قسم کے قوانین بنائے جائیں تو پھر اس کے خلاف شور اٹھتا ہے.اور ایسے ملکوں پر دباؤ ڈالے جاتے ہیں کہ یہ تم کیا کر رہے ہو.گو انسان بحیثیت مجموعی ابھی یہ طاقت نہیں رکھتا کہ جہاں اس قسم کی اصلاحوں کی ضرورت ہو وہ یہ اصلاح کرنے میں کامیاب ہو سکے.کیونکہ دھڑا بندی ہے اور Spheras of influence ہیں اور کچھ بڑی قو میں ظالم کے ساتھ مل جاتی ہیں.اس لئے جو بڑی قو میں مظلوم کی مدد کر نا چاہتی ہیں وہ پوری طرح مدد نہیں کر سکتیں.یہ حالت ہمیں آج کی دنیا میں نظر نہیں آ رہی ہے.لیکن اندر سے یہ چیز بھی نظر آ رہی ہے کہ ان کے دل سے یہ نکل رہا ہے کہ اگر تم نے غلط قانون بنانا ہے تو اس کے لئے بھی ملمع سازی سے اور ڈپلومیسی (Diplomacy) سے کوئی جواز پیدا کرنے کی کوشش کرو ورنہ دنیا میں شور پڑ جائے گا.بہر حال جماعت احمدیہ کا یہ طرہ امتیاز ہے.میں جماعت احمد یہ کہہ رہا ہوں کیونکہ میرے مخاطب صرف پاکستان کے احمدی نہیں بلکہ ساری دنیا میں بسنے والے احمدی ہیں کہ وہ قانون کی پابندی کرنے والی اور اخلاقی اقدار اپنے اندر پیدا کرنے والی جماعت ہے.۱۹۷۶ء میں میں امریکہ گیا وہاں ایک شہر ڈیٹین ہے اس میں بھی گیا.وہاں کثرت کے ساتھ افریقہ سے غلام بنا کر لے جائے گئے لوگوں کی اولادیں آباد ہیں اور اب وہ آزاد ہیں، غلام نہیں رہے.لیکن ان کی حالت اچھی نہیں.ان کا مئیر (Mayor) سفید فام نہیں بلکہ افریقنوں میں سے ہی ہے.اچھا پڑھا لکھا اور ہوشیار آدمی ہے.مجھے کہنے لگا کہ ہم آپ سے بہت خوش ہیں کہ آپ نے اخلاقی لحاظ سے ان لوگوں کی زندگی بدل دی ہے جنہوں نے احمدیت کو قبول کیا اور کہنے لگا کہ آج تک کسی احمدی کے خلاف اخلاقی لحاظ سے ایک شکایت بھی ہمارے پاس نہیں آئی اور دوسروں کے متعلق تو ہر روز بیسیوں بلکہ بعض دفعہ سینکڑوں شکایات آ جاتی ہیں اور ہم آپ کے بڑے ممنون ہیں کہ آپ ہماری مدد کر رہے ہیں اور ہمارے معاشرے کو گند اور بُرائیوں سے صاف کر رہے ہیں.غرض میں ساری دنیا کے احمدیوں کے متعلق بات کر رہا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی ایک صفت اور اس کے مزاج کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ قانون شکنی نہیں کرتی.اور نیکی کے کاموں میں اور قوم کے مفاد کے لئے

Page 392

373 سبیل الرشاد جلد دوم جو منصوبے بنائے جاتے ہیں ان میں حاکم وقت کے ساتھ پورا تعاون کرتی ہے.لیکن اگر کوئی شخص اس کے یہ معنے کرے کہ کوئی احمدی اپنے اس قدر پیار کرنے والے رب کریم سے کسی کے کہنے پر قطع تعلق کر لے گا.یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے محسن اعظم کو جس کے احسانوں کے جلوے روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں ایک عقلمند انسان اپنی زندگی میں دیکھتا ہے چھوڑ دے گا تو یہ غلط فہمی پیدا ہی نہیں ہونی چاہئے اور ہمیں ایک دوسرے کو کچھ کہنے کی بھی ضرورت نہیں.ہر احمدی خدا تعالیٰ کے فضل سے خود سمجھتا ہے.احمدی کہتے ہی اسے ہیں جو اللہ ( جسے قرآن کریم نے پیش کیا ہے ) کی محبت میں اور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم (جن کی عظمت اور جلال کو قرآن عظیم نے بڑی شان سے بیان کیا ہے ) کے عشق میں مست آگے سے آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے.اور بھی بہت سے پہلو ہیں لیکن یہ تین چار باتیں کہنے کے بعد اب میں جو بہت سے کام ہمیں کرنے ہیں ان کاموں کے متعلق اور دنیا کے حالات کے متعلق کچھ باتیں آپ سے کرنا چاہتا ہوں.۱۹۷۳ء کے جلسہ میں میں نے ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے ایک قدم جو جماعت کو اٹھانا چاہئے اُس کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ جو صدی گزر رہی ہے.اس کی جو بلی ، اور یہ کہتے ہوئے مجھے زیادہ لذت آتی ہے کہ اپنی زندگی کی دوسری صدی کے استقبال کے لئے ایک منصوبہ پیش کیا تھا.استقبال کے لئے اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے جو لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّم میں اور قرآن کریم میں سینکڑوں دوسری جگہ بتایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور بزرگانِ امت کو جو وحی اور کشوف اور رؤیا میں بتایا گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے جو علم پایا.اس کو سامنے رکھ کر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہماری زندگی کی دوسری صدی ساری دنیا میں اسلام کے غالب آ جانے کی صدی ہے.اس واسطے جس صدی میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے غلبہ اسلام عملاً ہو جائے گا.اس عظیم صدی کا ہمیں استقبال کرنا چاہئے.یہ ایک منصوبہ ہے اور وقت کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور منصوبے بھی ذہن میں ڈالتا ہے.جو وقت پر آپ کو بتا دیے جاتے ہیں.اس منصوبے کی بہت سی شاخیں ہیں مثلاً یورپ کے جن ممالک میں مساجد اور ہمارے مرکز یعنی مشن ہاؤ سر نہیں بنے.وہاں مساجد اور مشن ہاؤسز بنا دیے جائیں تا کہ یورپ کے ہر ملک میں خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کا مرکز قائم ہو جائے.اور ہمارا مبلغ وہاں بیٹھے اور لوگوں سے تبادلہ خیال کرے اور ہر روز کے بدلتے ہوئے حالات میں ان کی عقل اور سمجھ کے مطابق ان سے اسلام کی باتیں کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر شخص سے اس کی سمجھ کے مطابق بات کیا کرو.ہر ملک کا اپنا مزاج ہے.اٹلی کا مزاج اور سورة الصف آیت ۱۰

Page 393

سبیل الرشاد جلد دوم 374 ہے اور سکنڈے نیوین کنٹریز کا مزاج اور ہے.ہر مبلغ اپنے اپنے ملک کے حالات کے مطابق ان سے بات کرے گا اور اسلام کی بنیادی حقیقتوں کو محفوظ رکھتے ہوئے ان کے بیان میں فرق کر جائے گا.مثلاً اسلام نے کہا ہے کہ سچ بولو اور ہم نے ہمیشہ سچ بولنا ہے لیکن سچ بولنے کے الفاظ اور طریقہ اور وقت کا انتخاب وغیرہ بہت سی چیزوں میں فرق آ جاتا ہے.ایک قوم کے سامنے اگر اخبار میں سچ بولا جائے اور اس کی اشاعت کی جائے.انٹرویو دیئے جائیں.پریس کانفرنسز کی جائیں تو وہ اس کی طرف زیادہ توجہ دیتی ہے اور ایک قوم ہے اس سے اگر زبانی باتیں کی جائیں یا سارے ہی حربے استعمال کئے جائیں تو وہ توجہ کرتی ہے.بہر حال ایک منصوبہ یہ ہے کہ یورپ کے ہر ملک میں مشن قائم ہو جا ئیں اس میں ابھی بہت سی چھوٹی چھوٹی ٹیکنیکل اور قانونی دشواریاں بھی ہیں.اوسلو میں ہم دو سال سے زمین لینے کی کوشش کر رہے ہیں.ان کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر میونسپلٹی کسی کو کوئی جگہ دے.صرف مسلمانوں کا یا ہمیں مسجد اور مشن ہاؤس بنانے کے لئے نہیں یا کسی بھی مذہبی مقصد کے لئے ہی نہیں بلکہ کسی کا بھی کوئی پبلک جگہ بنانے کا پروگرام ہوا اور وہ کہیں کہ ہمارے پاس یہ جگہ ہے.جو ہم دے سکتے ہیں تو پہلے وہ اس کا سروے کرتے ہیں اور پھر اخبار میں اعلان کرتے ہیں اور اس جگہ کے اردگرد بسنے والے لوگوں کو قانون نے یہ حق دیا ہے کہ اگر تم نے کوئی اعتراض کرنا ہے کہ اس جگہ کو فلاں وجہ سے پبلک جگہ نہ بنایا جائے تو اعتراض کر دو اور پھر کوئی نہ کوئی اعتراض ہو جاتا ہے.لندن میں ہم نے خود سُنا ہے کہ بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ جی ہمارے ہمسائے کے پاس ایک کتا ہے وہ بھونکتا ہے اور ہمیں Disturb کرتا ہے.کوئی کہتا ہے کہ ہم میاں بیوی ا کیلیے خاموش زندگی گزارنے کے عادی ہیں اور ہمارے ہمسائے کے تین بچے ہیں جو شور کرتے ہیں.( بچوں نے تو شور کرنا ہی ہے ) ان بچوں کے شور سے ہمیں نجات دلائی جائے.میرے نزدیک ان کے دماغ غلط طرف بھی چل پڑے ہیں.بہر حال ان کو قانون نے یہ اجازت دی ہے کہ اگر کسی نے کوئی Objection کرنا ہے کوئی اعتراض کرنا ہے تو وہ فیصلے سے پہلے بتا دے.پھر اگر وہ اس قسم کے اعتراض ہوں جو قابل قبول نہیں ہیں تو وہ خود ہی فیصلہ کر دیتے ہیں اور اگر کسی جگہ ان کو وزن نظر آئے یا یہ نظر آئے کہ اگر ہم نے یہ نا معقول بات نہ مانی تو احتجاج بھی ہو سکتا ہے تو پھر وہ ان کو بلا کر بات کرتے ہیں اور سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہارا خیال غلط ہے.تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی وغیرہ.اس قسم کی اور بہت سی روکیں ہوتی ہیں اور اوسلو میں بھی اس قسم کی روکیں پیدا ہوئیں.ہم ایک دو جگہ اور کوشش کر رہے ہیں.اس سفر میں میری توجہ اس طرف بھی گئی کہ جن ممالک میں ابھی تک ہماری مساجد اور

Page 394

سبیل الرشاد جلد دوم 375 مشن ہاؤس نہیں ہیں وہاں مسجد اپنے وقت پر بن جائے گی.لیکن فی الحال کسی مناسب جگہ پر کوئی مکان خرید لیا جائے جو اس ملک کی جماعت احمدیہ کی ملکیت ہو.ملک ملک جماعت احمدیہ آزاد ہے.اور وہ خرید تے بھی ہیں وہ اپنے چندے اکٹھے کرتے ہیں اور خرچ کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے وہ بہت کوششیں کرتے ہیں.میرا دل تو یہی کرتا تھا کہ میرے لندن چھوڑنے سے پہلے ان سارے ملکوں میں مکان خرید لئے جائیں اور اس وقت یورپ کے مختلف ممالک کی جماعتوں کے پاس ان کے اپنے چندے اتنے ہیں کہ اس میں کوئی روک نہیں تھی.ہم نے یہاں سے تو پیسہ بھیجنا نہیں.انہوں نے ہی ایک دوسرے کی مدد کر کے خریدنا ہے.لیکن اس وقت تک ابھی مناسب جگہ پر مناسب قیمت پر کوئی مکان نہیں ملا تھا.ایک ملک جس کو ہم نے بوجہ چھوٹا ہونے کے چھوڑا ہوا تھا بیلجیئم ہے.فرینکفرٹ، میں بیلجیئم کی قونصلیٹ کے انچارج مجھے ایک موقع پر ملے اور کہنے لگے کہ آپ نے ہمارا ملک کیوں چھوڑا ہوا ہے.سارے یورپ میں صرف ایک ہمارا ملک ہے جس نے یہ قانون بنایا ہوا ہے کہ مسلمانوں کے باہمی فیصلے اسلامی فقہ کے مطابق ہوں گے، ہلکی قانون کے مطابق نہیں ہوں گے.ہم نے آپ کا اتنا خیال رکھا ہے لیکن آپ نے ہمارے ملک کو چھوڑ ہی دیا ہے اور سوچ ہی نہیں رہے کہ یہاں بھی مشن قائم ہو.چنانچہ میں نے وہاں آدمی بھیجا کہ پتہ کرو.اس کے بعض حصے فرانسیسی بولنے والے بھی ہیں.میرا خیال تھا کہ اس علاقہ میں جو فرانسیسی بولنے والا ہے اس وقت ہم کوئی مناسب مکان لے کر اپنا مبلغ بھیج دیں اور وہ وہاں جا کر کام کرے.دوسرے اس وقت یورپ اور امریکہ اور افریقہ بلکہ مجھے یوں کہنا چاہئے کہ ساری دُنیا جماعت احمدیہ سے یہ مطالبہ کر رہی ہے اور اس مطالبے میں شدت پیدا ہو رہی ہے کہ ہمیں قرآن کریم کے تراجم دو اور ساری دنیا میں قرآن کریم کے تراجم پہنچانا بڑا وقت چاہتا ہے اور بڑی محنت چاہتا ہے اور بڑی قربانی چاہتا ہے اور بڑا منصوبہ چاہتا ہے.ہر ملک کا اپنا مزاج ہے اور پڑھنے کے لحاظ سے اپنی عادتیں ہیں.میں مثال میں غیر مذہبی کتب لے لیتا ہوں جس قسم کی چھپی ہوئی کتاب کے متعلق ہمارے ملک میں کہیں گے کہ بڑی اچھی چھپی ہوئی ہے اور پڑھنے والے بڑے شوق سے خریدیں گے، بڑے افسوس کی بات ہے کہ پڑھنے والے ہمارے ملکوں میں کم ہی ہیں.بہر حال وہ کہیں گے کہ اس کی بہت اچھی اور معیاری کتابت اور طباعت ہوئی ہے وہ کتاب جس وقت یورپ میں جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بہت ہی رڈی چھپائی اور کتابت ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر کوئی قیمتی چیز نہیں ہے.ان کی اپنی عادتیں ہیں.مغربی افریقہ کے ایک ملک کی جماعت احمدیہ نے قرآن کریم کا ترجمہ کیا اور میرے خیال میں انہوں

Page 395

376 سبیل الرشاد جلد دوم نے بڑی غلطی کی ، غالبا ان کے پاس پیسے نہیں ہوں گے.انہوں نے بہت کم تعداد میں چھپوا دیا.انہوں نے اپنے ملک میں نہیں بلکہ باہر کے ایک ملک میں جہاں ان ملکوں کے لئے بظاہر بہت اچھا چھپتا ہے ، پانچ ہزار کی تعداد میں چھپوایا.اور اس قرآنی ترجمہ کی ایک کاپی بطور نمونہ میرے پاس لندن بھیجی اور ساتھ ہی یہ خط بھیجا کہ یہ تو ختم ہو رہا ہے.ہمیں فوری طور پر دوسرے ایڈیشن کے لئے خط لکھنا پڑ رہا ہے.ہمارے تراجم بہت مقبول ہیں.دن کے وقت بھی مقبول ہیں اور رات کے وقت بھی مقبول ہیں.یعنی ایسے لوگ بھی ہیں جو دن کی روشنی میں آکر قرآن کریم لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس ترجمہ سے جو آپ نے کیا ہے ہمیں تسلی ہوتی ہے اور ایسے بھی ہیں جو دن کے وقت آتے ہوئے شرماتے ہیں یا ڈرتے ہیں اور رات کو اندھیرے میں چپکے سے آتے ہیں، کہتے ہیں کسی کو بتانا نہ لیکن اس کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ہمیں قرآن کریم کا ترجمہ دے دو.دونوں قسم کے لوگ ہیں.یورپ اور امریکہ میں رات کو آنے والے میرے خیال میں کم ہی ہوں گے یا نہ ہوں گے.لیکن افریقہ کے ممالک میں بہت سے ایسے بھی ہیں.ہمارے پاس خبریں آتی رہتی ہیں بہر حال یہ ایک کام کرنا ہے.اگلی صدی کے آنے سے پہلے یہ کام شروع ہو جانا چاہئے تا کہ جس وقت وہ صدی آئے اور خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے اور کثرت سے لوگ اسلام میں داخل ہونے لگیں اور آپ سے آکر کہیں کہ ہمیں اسلام کے متعلق کتابیں دو، قرآن کریم کے تراجم دو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات دو.اسلام نے بچوں کو جو تعلیم دی ہے اور اسلام نے جو اخلاق سکھائے ہیں ، اس کے متعلق ہمیں لٹریچر دو.تو ہم یہ کہتا ہیں انہیں مہیا کر سکیں.ہزاروں کتابوں کی ضرورت ہے ایسا نہ ہو کہ ہمیں یہ جواب دینا پڑے کہ وہ تو ہمارے پاس نہیں ہیں.ہمیں خدا تعالیٰ نے کس کام کے لئے پیدا کیا ہے.ہم علی وجہ البصیرت اس یقین پر قائم ہیں کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے لئے پیدا کیا ہے اور اگر ہم نے اس کے مطابق کام نہ کئے تو ( اللہ محفوظ رکھے ) یہ خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے آنے والی بات ہے.میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ جتنا ہم کر سکتے ہیں وہ ہمیں کر دینا چاہئے.ہمارا خدا بڑا پیار کرنے والا ہے.خدا یہ نہیں کہتا کہ جتنے کی ضرورت ہے وہ کرو بلکہ خدا یہ کہتا ہے کہ جتنے کی طاقت ہے وہ کرو اور ضرورت اور طاقت کے درمیان جو فرق ہے وہ میں پورا کروں گا.سارے کا ثواب تمہیں دے دوں گا وہ مفت کا ثواب دیتا ہے لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ جتنی طاقت ہے وہ کرو.امریکہ کی بڑی آبادی ہے.میں نے انہیں کہا کہ پہلا قدم یہ ہے کہ دس لاکھ قرآن کا ترجمہ امریکہ میں تقسیم کیا جائے ، فروخت کیا جائے اور ایسا انتظام کیا جائے کہ لائبریریاں خریدیں.بہت بڑا منصوبہ ہے.کئی سال ہوئے میں نے اس کا اعلان کیا تھا.پھر میں نے سوچا کہ اس کے لئے پیسے کہاں سے

Page 396

سبیل الرشاد جلد دوم 377 آئیں گے.چنانچہ جب میں نے جائزہ لیا تو مجھے معلوم ہوا کہ خود امریکہ کی جماعت کے پاس اتنی رقم ہے کہ اگر وہ دس لاکھ کے ہیں حصے کر کے ۵۰ ،۵۰ ہزار کا پیاں منگواتی چلی جائے اور بیچتی چلی جائے ( کچھ مفت دے اور کچھ بیچے ) اور جب وہ رقم واپس آ جائے تو پھر ۵۰ ہزار اور لے لے تو اس طرح چار پانچ سال کے اندر وہ دس لاکھ قرآن کریم تقسیم کر سکتی ہے.اور یہ میں آپ کو بتا تا ہوں کہ ایک دفعہ دس لاکھ امریکنوں کے ہاتھ میں آپ قرآن کریم کی دس لاکھ کا پیاں دے دیں تو اس کی مانگ بڑھ جائے گی.ایک شخص کا دوست دیکھے گا وہ مانگے گا.اگر باپ کو دلچسپی ہو گی تو اس کے گھر تین چار بچے پڑھنے لگیں گے.وہ جوان ہو کر اپنے گھر آباد کر لیتے ہیں وہ اپنے باپ کو کہیں گے کہ میں لے جا رہا ہوں.وہ کہے گا کہ نہیں میں تو اپنے گھر سے باہر نہیں دوں گا.لڑکا کہے گا کہ پھر مجھے اپنا خریدنا چاہئے.میں خدا تعالیٰ سے اُمید رکھتا ہوں کہ ان کے اسلام میں داخل ہونے سے بھی پہلے یہ حالات پیدا ہو جائیں گے ، تو سب سے زیادہ دور ہم سے امریکہ کے علاقے ہی ہیں.یہاں ہم ہیں اور زمین کے دوسری طرف وہ ہیں لیکن ان کے اخلاص کا یہ حال ہے کہ ہماری قرآن کریم کی ایک انگریزی تفسیر پانچ موٹی موٹی جلدوں میں ہے اور وہ قریباً ہر احمدی کے گھر موجود ہے.جو بالکل تھوڑا عرصہ پہلے مثلاً پچھلے سال احمدی ہوا ہے میں اس کی بات نہیں کر رہا لیکن جن کو احمدی ہوئے کچھ عرصہ گزر گیا ہے ان میں سے کوئی ایک شخص بھی شاید ایسا نہیں ہے جس کے گھر میں وہ پانچ جلدوں کی تفسیر نہ ہو اور جسے وہ پڑھتا نہ ہو اور اس کے نتیجہ میں وہ بعض دفعہ فون اٹھا کر ہمارے مبلغ کو کہتا ہے کہ میں اس جگہ اٹک گیا ہوں مجھے سمجھ نہیں آ رہی مجھے بتاؤ.مبلغ کو بھی تو سارے قرآن کریم کی تفسیر حفظ نہیں ہوتی اس لئے اس کو بعض دفعہ کہنا پڑتا ہے کہ میں تمہیں Study کر کے بتاؤں گا.ابھی نہیں بتا سکتا.وہ قرآن کریم سے بڑا پیار کرتے ہیں اور قرآن کریم ہے ہی ایسی چیز جس سے پیار کیا جائے.ضمنا میں بتا دوں کہ ناظرہ پڑھنے والے بچوں کے لئے قرآن کریم کا متن موجود نہیں تھا.اب وہ چھپ چکا ہے.بہت خوبصورت ہے.قاعدہ یسرنا القرآن کی طرز پر اس کی کتابت ہے اور بازاری قیمتوں کے لحاظ سے میرے خیال میں نصف سے بھی کم قیمت پر ملے گا کیونکہ ہم قرآن کریم ہر گھر میں پہنچانا چاہتے ہیں اور ہر نسل کو پہنچانا چاہتے ہیں.اس سے نفع کمانے کا ہمارا پروگرام نہیں ہے لیکن چونکہ بعض جگہ مفت دینا پڑتا ہے اور کچھ اور اخراجات ہیں اس لئے بالکل معمولی سی رقم نفع کی ہوتی ہے جو بمشکل اپنے اخراجات پورے کرتی ہے.بہر حال میں آپ کو بتانا چاہتا تھا کہ قرآن کریم شائع ہو گیا ہے.اب آپ اپنے بچوں کو ناظرہ قرآن کریم پڑھانے کے لئے اچھا، ستھرا غلطیوں سے پاک اور سستا قرآن کریم

Page 397

سبیل الرشاد جلد دوم قرآن 378 بشنز (Publications) سے خرید سکتے ہیں.میرے پاس پہلی کا پی آ گئی ہے ممکن ہے اس کی جلد بندی وغیرہ میں دس پندرہ دن اور لگ جائیں تاہم وہ جلد آنے شروع ہو جائیں گے.میں نے صرف امریکہ کے متعلق بتایا ہے.یورپ کے بعض ملک بھی ہمارے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ ہمیں قرآن کریم کا ترجمہ دو.ان میں سے دو ملک ایسے ہیں جن میں زیادہ تر وہاں کے مسلمانوں کا یہ مطالبہ ہے کہ ہمیں قرآن کریم کا ترجمہ دیں کیونکہ وہاں دہریت کی فضا زیادہ ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی نسلوں کو د ہر یہ نہیں بنانا چاہتے.سوئٹزر لینڈ میں مجھے میرے بعض دوستوں نے جو احمدی نہیں تھے یہ کہا کہ آپ یہاں آئے ہوئے ہیں اور اسلام پھیلا رہے ہیں ، یہاں پر لاکھوں کی تعداد میں مسلمان خاندان ہیں لیکن ان کے بچوں کے پاس اسلام کے متعلق کوئی کتاب نہیں ہے آپ ہمیں ایسی کتابیں دیں.غرض دنیا میں یہ احساس بیدار ہو گیا ہے کہ ہمیں اسلامی اخلاق کے متعلق، اسلامی تربیت کے متعلق ، اسلامی تعلیم کے متعلق ، اسلامی روحانیت کے متعلق لٹریچر ملنا چاہیئے اور وہ ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں لٹریچر دیں.کوئی اور بھی سمجھتا ہے تو وہ بھی ادا کرے.ہمیں اس سے زیادہ خوشی کی اور کوئی بات نہیں ہوگی.لیکن میں تو اپنے متعلق ہی بات کروں گا کہ ہمارا یہ فرض ہے.غرض دنیا میں احساس پیدا ہو چکا ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ سویڈن میں ایک صحافیہ نے کہا کہ آپ اتنی دیر کے بعد ہمارے علاقہ میں کیوں پہنچے ہیں.اس کا مطلب یہ تھا کہ ہم روز بروز گندی زیست میں دھنسے چلے جاتے ہیں اور آپ نے ہمارا خیال ہی نہیں کیا.اتنی حسین تعلیم جو گند سے پاک کرنے والی ہے اسے اپنے پاس لے کر بیٹھے رہے اور ہماری آپ لوگوں نے پروا ہی کوئی نہیں کی.اس سے پہلے کیوں نہیں آئے.پہلے جانے یا نہ جانے کے متعلق تو خدائی تقدیر ہی کام کر رہی تھی.ہمارے پاس تو نہ پیسہ، نہ اقتدار، نہ کوئی طاقت، صرف ایک چیز ہے اور وہ بہت بڑی ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل تو نہ میں ، نہ آپ آسمانوں سے چھین کر تو نہیں لا سکتے وہ تو اپنے پیار سے جب چاہے گا جتنا چاہے گا نازل کرے گا.ہمارا کام ہے کہ ہم الحمد للہ کہیں اور اپنی سی طاقت اس کی راہ میں خرچ کر دیں..صد سالہ جوبلی کا اعلان ۷۳ء میں ہوا.اس کے کچھ کام اگلی صدی کے آنے سے قبل ہونے والے تھے مثلاً سب جگہ مشن بنانے وغیرہ.اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ میں بڑی برکت ڈالی.سب سے پہلے برکت کا یہ موقع دیا کہ سویڈن میں اس منصوبہ کے تحت یورپ کی جماعتوں کے چندے اور قربانی سے مسجد تعمیر ہوئی.ہمارے ملک میں بسنے والوں کی ایک دھیلے کی بھی Contribution اور قربانی اس میں شامل نہیں.ساری کی ساری بیرونی جماعتوں کی قربانی ہے.تھوڑی سی رقم انہوں نے امریکہ سے قرض لی تھی

Page 398

379 سبیل الرشاد جلد دوم جس کا ایک حصہ واپس کر دیا ہے اور دوسرا حصہ بھی عنقریب واپس ہو جائے گا.چنانچہ ایک نہایت خوبصورت مسجد گوٹن برگ ، سویڈن کی ایک پہاڑی کی چوٹی پر بنی ہے.وہاں پتھریلی زمین تھی.جس میں اس سائبان کی اونچائی جتنے بڑے بڑے پتھر زمین میں دھنسے ہوئے تھے.اللہ تعالیٰ نے وہ ہمارے لئے ریز رور کھی ہوئی تھی کسی اور کے دل میں خواہش ہی نہیں پیدا ہوئی کہ اُس کو لے کر پتھروں کو صاف کر کے وہاں کوئی چیز بنالے.وہ ہمارے حصہ میں آگئی.خاصی بڑی جگہ ہے غالباً دوا یکڑ کے قریب ہے.غرض اس چوٹی پر مسجد بن گئی ہے اور سارے شہر کو سوائے اس کے جو بعض پہاڑیوں کے سائے میں آیا ہوا ہے مسجد نظر آتی ہے اور مسجد سے سارا شہر نظر آتا ہے.نہایت شاندار اور خوبصورت مسجد ہے اور وہاں سے خدا تعالیٰ کا نام بلند ہو رہا ہے اور یہ وہاں کا معمول ہے کہ روزانہ کوئی نہ کوئی وفد یا سکول کے ٹیچر ز کے ساتھ کوئی پارٹی یا کچھ لوگ مسجد دیکھنے کے لئے آتے ہیں.عیسائیوں نے یہ مشہور کر دیا ہے کہ عورت مسجد میں داخل نہیں ہو سکتی.چنانچہ جب ۷۶ء میں ، میں نے اس کا افتتاح کیا تو عورتوں میں یہ شوق پیدا ہوا کہ ہم جا کر دیکھیں تو سہی کہ وہ کون سی عمارت ہے جس میں عورت نہیں داخل ہو سکتی.جب وہ آتی تھیں تو ہمارے مبلغ اور دوسرے احمدی جو وہاں موجود ہوتے تھے ان کو کہتے تھے کہ تمہیں کسی نے غلط بتایا ہے تم اندر جاسکتی ہو.وہ کہتیں کہ اچھا! ہم جا سکتی ہیں ؟ وہ کہتے کہ صرف یہ ہے کہ تم پتہ نہیں کہاں پھرتی رہی ہو تمہارے جوتوں کو گند لگا ہوا ہو گا ان کو باہر اُتار دو اور اندر چلی جاؤ.چنانچہ وہ بڑے شوق سے اور پیار کے ساتھ اندر جاتیں اور دیکھتیں.مسجد اپنے اندر ایک عجیب شان اور ایک رعب کی کیفیت پیدا کرنے والا خاصہ رکھتی ہے اور جو بھی اندر جاتے ہیں خواہ غیر مسلم ہوں بے ساختہ ان کی زبان سے نکلتا ہے کہ یہاں تو بڑی پرسکون فضا ہے.یہاں تو ہم پر عجیب اثر ہوتا ہے.وہاں نہ کوئی تصویر ہے نہ کوئی اور سجاوٹ کی چیز.ایک چیز ہے جو اُس کو سجا رہی ہے اور وہ ہے خدا تعالیٰ کی بزرگی اور قدوسیت اور وحدانیت کی تعلیم کو عام کرنے کا عزم جو نمازی وہاں اپنے دل میں لے کر جاتے ہیں اور جو وہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہیں وہ مسجد کے اندر کوئی ایسی چیز پیدا کرتے ہیں کہ جب عیسائی اس ہوا میں سانس لیتا ہے تو اس سے اثر قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا.یہ ہے اَنَّ الْمَسْجِدَ لِله کا مفہوم.جو مساجد خدا کے لئے اور اُس کی رضا کے حصول کے لئے بنائی جائیں وہ اسی قسم کی مساجد ہوتی ہیں.اس کے علاوہ صد سالہ جوبلی منصوبہ نے اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ توفیق پائی کہ لندن میں Deliverance of Jesus from the Cross کے موضوع پر کانفرنس ہوئی.ہم سوچ بھی نہیں سورة الجن آیت ۱۹

Page 399

سبیل الرشاد جلد دوم 380 سکتے تھے کہ اس کے وہ نتائج نکلیں گے جو نکلے.ایک بات جس کی کوئی اتنی اہمیت نہیں ہے لیکن بہر حال اسے پڑھ کر لطف آیا یہ ہے کہ ایک عیسائی اخبار نے لکھا کہ کانفرنس ہوگئی اور انگلستان پر جو کہ عیسائی ملک تھا اسلام کی زبر دست یلغار ہو گئی اور چرچ یعنی کلیسیا خاموش بیٹھا ہے.پتہ نہیں ان کو کیا ہو گیا ہے.کیا سوچ رہے ہو تم ؟ خاموش کیوں بیٹھے ہو تمہارے اوپر تو زبر دست حملہ ہو گیا ہے.یہ احساس اس کا نفرنس نے پیدا کیا ہے.وہ لوگ خاموش بیٹھے تھے جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے دعوئی سے پندرہ ہیں سال قبل یہ اعلان کر چکے تھے ( اور وہ اعلان ہماری لائبریری میں محفوظ ہیں ) انہوں نے اعلان کیا کہ سارا ویسٹ افریقہ خداوند یسوع کی جھولی میں ہے اور اب یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اور جماعت احمدیہ کی کوششوں میں خدا نے جو برکت ڈالی اس کی وجہ سے مغربی افریقہ میں پانچ لاکھ سے زیادہ عیسائی مسلمان ہو چکے ہیں اور انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب خداوند یسوع مسیح کا جھنڈا مکہ اور مدینہ پر لہرائے گا.اور اب یہ حالت ہے کیتھولک فرقہ جو کہ عیسائیت میں اپنی تعداد کے لحاظ سے، اثر ورسوخ کے لحاظ سے، مال کے لحاظ سے ، رُعب کے لحاظ سے اور تنظیم کے لحاظ سے سب سے بڑا فرقہ ہے اس نے اپنے پادریوں کو بھی یہ ہدایت کی ہے کہ کسی احمدی سے بات نہیں کرنی اور نہ ان سے کوئی کتاب لے کر پڑھنی ہے.وہ جھنڈا تو کبھی وہاں نہیں لہرائے گا اور اس کے بعد جو بات میں کہنے والا ہوں وہ صرف ایک خواہش کا اظہار ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ایسا کبھی نہیں ہونے دے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اگر اس کے لئے جان دینے کی ضرورت پڑی تو اس جھنڈے کے لہرانے سے پہلے آخری احمدی کا خون بہہ چکا ہو گا.( تمام حاضرین نے بیک آواز انشاء اللہ تعالیٰ کہا اور پھر نعرہ ہائے تکبیر اور اسلام زندہ باد کے نعروں سے فضا گونج اٹھی ) لوگ مختلف باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن وہ باتیں ہمارے دل سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیار تو نہیں چھین سکتیں اور نہ ملکہ کی عظمت کو ہمارے دل سے مٹاسکتی ہیں.پاکستان تو بعد میں بنا ہے پہلے ہندوستان تھا جس میں ہمارے یہ علاقے بھی شامل تھے.۱۸۶۰ء اور ۱۸۸۰ء کے درمیان انہوں نے اس قسم کے اعلان کئے کہ ہندوستان کے سارے مسلمان عیسائی ہو چکے ہوں گے.یہاں ایک علامہ تھے جو بعد میں پادری بن گئے عمادالدین ان کا نام تھا.انہوں نے ایک مضمون لکھا جو ایک عیسائی کا نفرنس میں پڑھا گیا.میرا خیال ہے کہ اس کی بھی ایک کاپی یہاں ہمارے پاس موجود ہے.اس میں انہوں نے کہا کہ وہ وقت آنے والا ہے کہ اس کے بعد اگر کسی ہندوستانی عیسائی کے دل میں کبھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ مرنے سے پہلے کسی مسلمان کا منہ تو دیکھ لے تو اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو گی لیکن اب حالات بدل گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو محمد صلی اللہ

Page 400

381 سبیل الرشاد جلد دوم علیہ وسلم کی اتباع کے طفیل خدا تعالیٰ سے جو دلائل عیسائیت کے خلاف اور حقانیت اسلام کے حق میں ملے اس کا یہ نتیجہ ہے کہ ہم نے جو کانفرنس کی اس کا بہت اثر ہوا.ہم ایک چھوٹی سی جماعت ہیں ، غریب سی جماعت کوئی اقتدار نہ رکھنے والی جماعت لیکن قربانیاں کرنے والی جماعت ، جس کے دوسو کے قریب فدائی اپنے خرچ پر پاکستان سے اس کا نفرنس میں چلے گئے.غریب غریب لوگ ہمیں شکلیں دیکھتا تھا تو حیران ہوتا تھا کہ انہوں نے پیسے کہاں سے اکٹھے کئے یہاں آنے کے لئے.اُن کو تو کسی نے ایک دھیلہ باہر سے نہیں مدد نہیں دی.اپنے خرچ پر گئے.اُن کے دلوں میں جوش تھا کہ عیسائیت کے مرکز سے خدائے واحد و یگانہ کی بزرگی اور کبریائی کی آواز بلند ہو گی ہم بھی جا کر اس میں شامل ہوں.جس وقت اس کا نفرنس کا چرچا ہوا تو دونمایاں اثر ہوئے.ویسے تو بہت سے اثرات ہیں لیکن یہ مضمون زیادہ لمبا بیان نہیں کیا جا سکتا.ابھی اسے بیان کرتے ہوئے ہم انشاء اللہ آگے بھی چلیں گے.بہر حال دو باتیں بہت نمایاں ہیں.ایک یہ کہ وہ کپڑا جو غالباً چودہ فٹ تین انچ لمبا اور چارفٹ سات انچ چوڑا ہے جس میں حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب سے اترنے کے بعد مرہم لگا کر رکھا گیا تھا اور اس پر مرہم کے نشان اور حضرت مسیح کی شبیہ بھی ہے ( لوگ کہتے ہیں.صحیح یا غلط یہ وہ جانیں ) اس کو کفن مسیح بھی کہتے ہیں اور شراؤڈ آف ٹیورن بھی کہتے ہیں.کیونکہ وہ ٹیورن کے گرجا میں ہے اس کے متعلق انہوں نے یہ اعلان کیا کہ مئی کے مہینے میں اس کا سائنسی طریقوں سے ٹیسٹ ہوگا.اب سائنس نے بڑی ترقی کر لی ہے.ایک کار بن ۱۴ کا ٹیسٹ ہے جو کپڑے کی عمر بتا سکتا ہے.اگر وہ ٹیسٹ لیں تو وہ بتا دے گا کہ یہ دو ہزار سال پہلے کا ہے یا صرف ۵۰۰ سال پہلے کا ہے.ویسے ۵۰۰ کا نہیں ہے اس سے زیادہ عرصہ سے تو ان کے پاس ہے.تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ غالباً ایک ہزار یا بارہ صد سال سے اُن کے پاس ہے اور اس سے پہلے بھی یہ محفوظ چلا آیا ہے.انہوں نے کہا کہ مئی میں وہ ٹیسٹ بھی ہوگا اور دوسرے اور بہت سے ٹیسٹ ہوں گے.پھر جب ہماری طرف سے یہ اعلان ہوا کہ ۲.۳.۴ جون کو جماعت احمدیہ کی طرف سے کا نفرنس ہو گی تو چرچ نے اعلان کیا کہ ٹیورن شراؤڈ کے متعلق ، کفن مسیح کے متعلق جو سائنسی تحقیق ہونی تھی وہ غیر معین عرصہ کے لئے ملتوی کر دی گئی ہے.اس بات کو میں اختتام تک پہنچا دوں اس کے بعد میں کا نفرنس کے اثرات بھی بتاؤں گا.میرے واپس آنے سے چند دن پہلے ایک احمدی نے امریکہ کے کسی اخبار کا تراشہ مجھے بھیجا.اس میں یہ لکھا تھا کہ چرچ نے یہ اعلان کیا ہے کہ اب اکتو بر میں کسی وقت وہ سائنسی تحقیق ہوگی.انہوں نے بہت ترقی یافتہ آلات بنائے ہیں جو تصویر میں لیں گے.امریکہ کا ہوائی جہازوں کا محکمہ وہ آلات استعمال کرتا ہے اور وہ بڑے Sophisticated ہیں اور بڑے عجیب اور ان

Page 401

سبیل الرشاد جلد دوم 382 کے خیال میں بڑے صحیح نتائج نکالتے ہیں اور گھنٹوں میں نتائج نکل آتے ہیں کیونکہ جو جنگ کے ساتھ تعلق رکھنے والی بات ہے اگر کوئی شخص کہے کہ میں جو چیز امریکہ کی فوج کے ہاتھ میں رکھ رہا ہوں.یہ تمیں سال کے بعد نتیجہ بتائے گی تو قوم اُس کے منہ پر تھپڑ مارے گی کہ تمیں سال میں تو ہم پتہ نہیں دو جنگیں لڑ چکے ہوں گے.تیس سال پہلے کا نتیجہ ہم کیا کریں گے.پس ایسے آلات ہیں جو منٹوں میں نہیں تو گھنٹوں میں نتیجہ نکال دیتے ہیں اور اس کا پتہ لگ جاتا ہے.انہوں نے بڑی Advanced لیبارٹریز بنا لی ہیں.بہر حال انہوں نے اعلان کیا کہ یہ سائنسی تحقیق اکتوبر میں ہوگی لیکن اس تحقیق میں کار بن ۱۴ کا ٹیسٹ نہیں ہوگا جس سے کہ عمر کا پتہ لگتا ہے اور اس وجہ سے نہیں ہوگا کہ ابھی تو یہ ٹیکنیک (Technique) پوری طرح مکمل بھی نہیں ہوئی.جب مکمل ہو جائے گی تو پھر دیکھیں گے.اس کے علاوہ جو تصاویر لینی ہیں اور دوسرے ٹیسٹ ہیں وہ اکتوبر میں ہوں گے.لیکن ان کا نتیجہ آج سے تہیں سال کے بعد بتایا جائے گا.جو آلات تم استعمال کر رہے ہو ان سے تو نتیجہ گھنٹوں میں پتہ لگ جاتا ہے.یہ تمیں سال تک اس کو راز میں رکھنے کا اعلان ہمیں بتا تا ہے کہ اس میں کیا حکمت ہے.جب وہاں پرو پیگنڈا ہوا تو یورپ کے عیسائیوں اور دنیا میں دوسرے عیسائیوں میں ایک بے چینی پیدا ہوئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے کہ یا تو ہم ان کے ملکوں پر یلغار کر کے ان کے ایمانوں پر بھی ڈاکہ مارا کرتے تھے اور ان کی دنیوی دولتوں پر بھی ڈاکہ مارا کرتے تھے.Colonial age میں جس وقت یہ لوگ سارے افریقہ میں اور ہندوستان میں بھی حاکم بن گئے تھے تو یہ ساری دنیا کی دولت لوٹ کر اپنے اپنے ملکوں میں لے گئے تھے اور یا یہ حال ہے کہ ایک مسلمان جماعت لندن میں آ کر ہمارے ایک عیسائی ملک میں آ کر، ہماری ایمپائر (Empire) جو دنیا میں سب سے بڑی تھی اس کے دل میں اپنی کا نفرنس منعقد کر رہی ہے.وہ ایمپائر جس کے متعلق وہ یہ دعوی کرتے تھے کہ اس پر کبھی سورج غروب نہیں ہوتا.اس کا سورج غروب ہو گیا اور اس ایمپائر کے دل میں اس کے مرکز میں کچھ نئی کر نیں.اسلام کی روشنی کی کرنیں نظر آنے لگ گئیں.یہ کیا بات ہوگئی.اس گھبراہٹ کو دیکھ کر عیسائیت کے مختلف فرقوں نے جو وہاں ایک کونسل آف برٹش چرچز Council of) (British Churches بنائی ہوئی ہے.ان کی طرف سے ۲۳ مئی کو ہماری کانفرنس سے قریباً دس دن پہلے ایک پریس ریلیز جاری ہوئی اور اس کے نیچے ایک نوٹ تھا کہ اخبارات اس خبر کو کانفرنس کی ابتداء تک شائع نہ کریں جب کا نفرنس شروع ہو تو اس وقت شائع کی جائے.مجھے صحیح تاریخ یاد نہیں کہ انہوں نے مئی کا آخری دن مقرر کیا ہوا تھا یا جون کا پہلا دن تھا.کچھ اخباروں نے اسے شائع بھی کر دیا.اس کی ایک کاپی انہوں نے ہمارے لندن مشن کو بھی بھیجی.مجھے دکھائی گئی تو میں نے کہا کہ میں بڑا خوش ہوں کہ انہوں نے ہمیں دعوت

Page 402

383 سبیل الرشاد جلد دوم دی ہے کہ اس مضمون پر ہمارے ساتھ dialogue کرلو، مذاکرہ کرلو.اس دعوت نامہ کے اندر ہمیں یہ عجیب بات نظر آئی کہ پہلے ایک خط تھا اور اس کے بعد پریس ریلیز تھی اور خط میں تھا کہ open dialogue یعنی کھلی بات چیت ہوگی چھپی ہوئی نہیں ہوگی.نیچے جو پریس ریلیز تھی اس میں لکھا ہوا تھا کہ unpublicised ہوگی یعنی اسے شائع نہیں کیا جائے گا بلکہ چھپا کر رکھا جائے گا.ایک ہی وقت میں وہ open بھی ہوگی اور unpublicised بھی ہو گی.اس کا مطلب ہمیں سمجھ نہیں آیا بہر حال میں نے کہا کہ ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.کانفرنس کے آخری دن ۴ جون کو میں نے ایڈریس پڑھا اس کے بعد مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے کونسل آف چرچز کا دعوت نامہ پڑھ کر سنایا اور پھر اس کا جواب خود میں نے پڑھکر سنایا.کچھ پوائنٹس تھے ان کا جواب دیا اور میں نے کہا بڑی اچھی بات ہے ہم تو ہر وقت تیار ہیں اور صرف ” کونسل آف چرچر سے ہی نہیں بلکہ یہ مذاکرہ دنیا کے مختلف حصوں میں ہونا چاہئے.ایشیا میں بھی ہونا چاہئے ، انگلستان میں بھی ہونا چاہئے اور امریکہ اور دوسری جگہوں میں بھی ہونا چاہئے اور صرف تمہارے مختلف چرچز کی تنظیم سے نہیں بلکہ کیتھولیسزم (Catholicism) سے بھی ہونا چاہئے.جو کہ سب سے بڑی اور مضبوط جماعت ہے جس کا head روم میں پوپ ہے.چنانچہ ان کو بھی میں نے دعوت دی کہ آپ بھی مذاکرہ میں تبادلہ خیال میں شریک ہوں خواہ ان کے ساتھ مل کر یا علیحدہ جیسے آپ چاہیں.ہمیں تو خدا نے پیدا ہی اس کام کے لئے کیا ہے ہم کسی سے گھبراتے تو نہیں.غرض ایک تو اس دن اعلان ہو گیا اور پھر ان صاحب کو لکھ کر بھیجا گیا جو غالبا سیکرٹری یا صدر ہیں جن کے دستخط سے وہ دعوت نامہ آیا تھا کہ امام جماعت نے اسے منظور کر لیا ہے.اب آپ شرائط طے کریں لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا.غالباً ۳ ۴ ہفتے کے بعد میں نے کہا کہ تم خاموش کیوں بیٹھے ہو ان کو یاد دہانی کراؤ.پھر ان کو reminder بھیجا گیا یاددہانی کرائی گئی.اور اس کا جواب ایک اور پادری کی طرف سے آیا جو انہی کے ساتھی تھے.انہوں نے ان صاحب کا نام لیا جن کے دستخط سے پہلا خط آیا تھا اور لکھا کہ انہوں نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ کو یہ خط لکھوں کہ وہ کہتے ہیں کہ مجھے تو اسلام کے متعلق کچھ پتہ ہی نہیں ہے اس واسطے میں آپ کے قبول دعوت نامہ کا کیا جواب دوں؟ اس لئے وہ عیسائیت کے ماہروں سے مشورہ کر کے جواب دیں گے.یہ نہیں لکھا کہ اس مشورہ پر وہ ایک مہینہ لگائیں گے یا ایک صدی لگائیں گے.یہ وہ جانیں واللہ اعلم.میں نے وہاں سے ساری دنیا میں احمدیوں کو یہ کہا کہ تم اپنے اپنے ملکوں میں ان کا دعوت نامہ اور میرا جواب وہاں کے بشپس (Bishops) کو بھجواؤ اور ان سے کہو کہ اگر تم تیار ہو تو ہم تمہارے ساتھ بھی تبادلہ خیال کرنے کو تیار ہیں.اس وقت جس فرقے کی طاقت سب سے زیادہ ہے کیتھولیسزم ہے اگر باقی سب فرقوں کو ملا کر ایک فرقہ

Page 403

384 سبیل الرشاد جلد دوم سمجھا جائے تب بھی سب سے زیادہ طاقت کیتھولسزم کی ہے.چنانچہ میں نے کہا کہ کیتھولک بشپس کوضرور لکھو اور ساری دنیا میں کیتھولک بشپس کو لکھا گیا لیکن اکثر نے جواب ہی نہیں دیا.صرف چند ایک نے جواب دیا اور جنہوں نے جواب دیا انہوں نے یہ جواب دیا کہ ہم جماعت احمدیہ سے کوئی گفتگو کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.اس کا نفرنس کے جو نتائج ابھی تک نکلے ہیں وہ بڑے شاندار ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ صد سالہ منصو بہ کو خدا تعالیٰ نے یہ بڑی برکت عطا کی ہے کہ اس کے ذریعہ سے یہ کانفرنس منعقد ہوئی اور غلبہ اسلام میں ہماری حرکت جو آگے ہی آگے بڑھ رہی ہے اس میں اپنے اثرات کے لحاظ سے نمایاں حصہ اس کا نفرنس کا ہے اور ہو گا.ایک اور بڑا اچھا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائی محققین نے بھی تحقیق شروع کی تھی کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے بلکہ زندہ اُترے اور جو دس گم شدہ قبائل تھے Lost tribes of Israel ان میں جا کر انہوں نے تبلیغ کی اور کشمیر گئے اور وہاں وفات پائی اور وہاں ان کی قبر ہے چنانچہ اس کا نفرنس کے نتیجہ میں معلوم ہوا کہ بہت سے لوگوں نے تحقیق کی تھی لیکن ان کی تحقیق کا نتیجہ کتابی شکل میں شائع نہیں ہوا تھا.مسو دے پڑے ہوئے تھے.سویڈن کی ایک عورت نے لکھا کہ میرے باپ نے تو ساری عمر تحقیق کر کے وہی نتیجہ نکالا تھا جس پر آپ اس وقت کا نفرنس کر رہے ہیں اس لئے مجھے بہت دلچسپی ہے.میرا باپ تو فوت ہو گیا ہے.مسودہ میرے پاس پڑا ہوا ہے اس کی زندگی میں نہیں چھپ سکا اور نہ میں چھاپ سکی ہوں.آپ مجھے دعوت دیں کہ میں بھی آکر attend کروں.چنانچہ وہ بھی آگئی اور اسی طرح چھپے ہوئے اور بہت سے لوگوں کی طرف سے اطلاع آگئی کہ ہم نے بھی تحقیق کی ہے اور اسی نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب پر نہیں مرے بلکہ زندہ اترے اور بعد میں لمبا عرصہ زندہ رہے اور انہوں نے بنی اسرائیل کے گمشدہ دس قبائل میں تبلیغ کی.بارہ میں سے دس قبائل یعنی اتنی فیصد لوگوں میں انہوں نے تبلیغ کی اور ان کو عیسائی بنایا اور ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور اسلام کو قبول کرنے کے لئے تیار کیا اور انہوں نے اسلام کو قبول کر لیا اور جنہوں نے قبول نہیں کیا ان کو میں نے دعوت دی ہے.میں چاہتا ہوں کہ چند منٹ کے لئے آپ اسی انگریزی تقریر کا ایک حصہ سن لیں.(چنانچہ حضور رحمۃ اللہ علیہ نے لندن کا نفرنس میں اپنی تقریر کا ایک حصہ تقریباً ۵ منٹ تک ٹیپ ریکارڈر کے ذریعہ سنایا جس میں آپ نے احسن رنگ میں عیسائیوں کو خدائے واحد و یگانہ کی طرف اور اسلام کی طرف بلایا تھا )

Page 404

سبیل الرشاد جلد دوم پھر فرمایا: 385 بڑی وضاحت کے ساتھ اس کا نفرنس میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم نے جو بیان کیا ہے اسے اور انجیل میں اس وقت بھی اور ان حالات میں بھی جو حقیقتیں پائی جاتی ہیں انہیں تاریخ میں حضرت مسیح کے متعلق جو باتیں ہیں انہیں ، طب کی کتب میں حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب سے زندہ اُترنے کے متعلق جو شہادتیں ہیں انہیں اور اس قسم کے دیگر تمام مضامین کو بیان کیا گیا.مختلف مقررین اور محققین نے جن میں احمدی بھی تھے اور وہ بھی تھے جو احمدی نہیں اور اسلام کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اور عیسائی بھی تھے اور والله اعلم شاید بعض ایسے بھی ہوں جو عیسائیت کو چھوڑ چکے ہوں.ان سب نے مقالے پڑھے اور ہر چیز کھول کر بیان کر دی.میں نے چونکہ آخر میں بولنا تھا اس لئے میرے لئے دقت یہ تھی کہ مجھ سے پہلے ہر موضوع پر بہت تفصیل کے ساتھ کوئی نہ کوئی بول چکا تھا.اس لئے اور میں خوش ہوں کہ اس لئے مجھے بہت دعائیں کرنے کی توفیق ملی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے مضمون میں شرمندہ نہ کیا بلکہ ایک نہایت اچھا اور مؤثر مضمون تیار ہو گیا اور جیسا کہ آپ نے سنا جو چیز صرف میں ہی کر سکتا تھا یعنی ان کو دعوت دینا اسلام کی طرف اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کی طرف اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کر لینے کی طرف، وہ دعوت میں نے بڑے پیار کے ساتھ مگر زور دار الفاظ میں اُن تک پہنچا دی اور جن علاقوں کی خبریں اس انگریز ایجنسی کے پاس پہنچیں جن کو ہم نے اطلاعات اکٹھی کرنے کے لئے مقرر کیا تھا اس کے مطابق ۱۴ کروڑ انسانوں تک یہ آواز پہنچ گئی.لیکن یہ تعداد کم ہے کیونکہ ہماری اطلاع کے مطابق ان علاقوں کے علاوہ افریقہ کے عیسائی اخباروں نے اس کا نفرنس کے متعلق اور اس عقیدہ کے متعلق ۴ ۴ صفحے کے ضمیمے لکھے اور ایک شخص کہنے لگے کہ مجھے میرے کسی واقف نے اطلاع دی ہے کہ ساؤتھ امریکہ میں (جہاں ہمارا کوئی مشن بھی نہیں اور ہمیں براہ راست کوئی اطلاع بھی نہیں آئی ) ایک اخبار نے نصف صفحے سے زیادہ ان عقائد کے متعلق خبر دی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر بھی شائع کی.اسی طرح ایران میں اور ایشیا کے بہت سے ملکوں میں چھپا.جاپان میں ٹوکیو سے انگریزی کا ایک بہت بڑا اخبار نکلتا ہے اس میں ایک لمبی خط و کتابت شائع ہوئی.وہاں ہمارے مبلغ نے اس میں مضمون لکھا پھر کسی نے اس کے خلاف اور کسی نے اس کی تائید میں لکھا لمبا چوڑ اقصہ چلا.اخبار کچھ عرصے کے بعد اسے بند کر دیتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ خود اخبار پر اتنا اثر تھا کہ انہوں نے ہمارے مبلغ کو لکھا کہ اب ہم صرف ایک خط شائع کرنا چاہتے ہیں اس کے بعد بند کر دیں گے اور ہم چاہتے کے آخری خط جو شائع ہو وہ تمہارا ہو.چنانچہ ہمارے مبلغ کو موقع مل گیا اور انہوں نے سارا مواد اکٹھا کر کے مجموعی طور پر جو کچھ ہو چکا تھا اور جو چرچ کا رد عمل تھا اس کے بارہ میں خط لکھ دیا.دعوت تو خود چرچ نے دی تھی

Page 405

386 سبیل الرشاد جلد دوم اور اب ان کا رد عمل بڑا عجیب ہے.اگر ہم نے دعوت دی ہوتی تو تم کہتے کہ نہیں مانتے لیکن تم نے دعوت دی اور ہم نے مان لی اور خوشی سے مانی اور ہم نے کہا کہ پیار اور محبت کی فضا میں تبادلہ خیال ہونا چاہئے تا کہ دنیا پر حقیقت آشکار ہو اور جب ہم نے اسے مان لیا تو تم نے بہانے کرنے شروع کر دیئے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ چلے گا نہیں کسی نہ کسی وقت عیسائی دنیا اپنے پادریوں کو مجبور کرے گی کہ وہ مذاکرہ کریں.انشاء اللہ ! غرض یہ ایک بہت بڑا کام ہے جس کے کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا کی ہے اور اگلی صدی کے استقبال کا جو منصوبہ ہے اس کے لئے تیار کیا ہے اور عیسائی دنیا کو پکڑ کر جھنجوڑا ہے.سویڈن میں سٹاک ہام میں ایک پریس کا نفرنس میں مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا اس قبر کو کھود کر اس کی تحقیق ہونی چاہئے ؟ میں نے کہا ہونی چاہئے.کہنے لگے کہ ہوئی یا نہیں ؟ میں نے کہا نہیں ہوئی.کہنے لگے کہ ہم نے تو ایک مضمون شائع کر دیا ہے جس میں کسی کے حوالے سے یہ لکھ دیا ہے کہ اس کی تحقیق ہوئی ہے.میں نے کہا آپ نے غلط لکھ دیا ہے.سویڈن کے ایک اور شہر مالمو میں بھی ہماری جماعت ہے.میں سٹاک ہام سے گوٹن برگ آیا جہاں ہماری ( بیت ) ہے وہاں سے ڈنمارک جاتے ہوئے رستہ میں مالمو آتا ہے.وہاں میں دو تین گھنٹے کے لئے ٹھہرا تو اتفاقا وہاں وہی شخص مل گئے جن کا مضمون چھپا تھا.وہ سویڈن کے مانے ہوئے محقق ہیں.میں نے ان کو کہا کہ یہ کیا آپ نے غلط بات لکھ دی.انہوں نے کہا میں اس کا ذمہ دار نہیں مجھے ایک کشمیری نے بتایا تھا اور میں یونہی بے خیالی میں لکھ گیا کہ قبر کھودی گئی اور اس کی تحقیق ہوئی.پُرانے زمانے میں دستور تھا اور مسلمانوں کی بعض قبریں ایسی ہیں کہ اصل جگہ جہاں دفنا یا جا تا تھا اس کے اوپر ایک کمرہ سا بنا کر اس کمرے کی چھت پر بالکل اسی قبر کی نقل بنا دیتے تھے تا کہ اصل قبر محفوظ رہے.مثلاً حضرت مسیح فوت ہوئے تو سارے یہودیوں نے جو ان کی تبلیغ سے عیسائی ہوئے تھے کثرت سے وہاں آنا تھا اور ہر قسم کے آدمی ہوتے ہیں، کوئی مٹی اٹھاتا ہے کوئی کسی چیز کو چھیڑتا ہے.اس لئے اس کی حفاظت کے لئے اس کے اوپر بالکل اسی کی شکل کی قبر بنائی ہوئی ہے اور اس کے سرہانے دیار رکھنے کی جگہ پر صلیب بنی ہوئی ہے.کسی مسلمان کے سرہانے تو کوئی صلیب نہیں بنا تا.یہ بھی ایک دلیل ہے اور بہت سی باتیں ہیں.جو چیز میں آپ کو بتانے لگا ہوں وہ یہ ہے اس قبر کی تحقیق نہیں ہوئی لیکن ایک سیکنڈ کے لئے بھی ہمارے دل میں کوئی گھبراہٹ پیدا نہیں ہوئی.اس واسطے کہ یہ بتانے والا علام الغیوب خدا ہے کہ یہاں حضرت مسیح دفن ہیں.دنیا جو چاہے کر لے لیکن ثابت یہی ہوگا کہ حضرت مسیح کا جسد عنصری اسی جگہ دفن ہے.اس کے علاوہ اور کچھ ثابت ہو ہی نہیں سکتا.لیکن ہمارے اختیار میں تو نہیں کہ ہم وہاں جا کر تحقیق کریں اس واسطے جب مجھ سے پوچھا گیا کہ ہونی چاہئیے ؟ تو میں نے کہا کہ ہونی چاہئے.ہماری

Page 406

387 سبیل الرشاد جلد دوم کا نفرنس میں اس سلسلہ میں ایک ریزولیوشن (resolution) بھی پاس ہوا تھا.جو کام کرنے والے ہیں وہ بڑے عظیم ہیں اور وہ بڑی محنت چاہتے ہیں ، بڑی قربانی چاہتے ہیں ، آنے والی نسلوں کی بڑی تربیت چاہتے ہیں.میرے ذہن میں اور بھی باتیں تھیں وہ پھر کسی وقت بیان ہو جائیں گی.اب اس وقت میں دعا پر اس کو ختم کروں گا.جو چیز میں آپ کو بتا نا چاہتا تھا جس کے کچھ حصے میں نے بتائے ہیں وہ یہ ہے کہ انگریزی کا محاورہ ہے 'In the thick of it‘ پیشگوئیوں کے مطابق جو جنگ نور کی ظلمات سے آخری جنگ قرار دی گئی تھی وہ گھمسان کی شکل اختیار کر گئی ہے اور اس کے وسط میں اس وقت ہم اپنے آپ کو کھڑا پاتے ہیں.پس یہ بے فکری کا اور بے پروائی کا زمانہ نہیں نہ میرے لئے نہ آپ کے لئے نہ میرے بچوں کے لئے اور نہ آپ کے بچوں کے لئے.ہمیں اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا چاہئے جب تک کہ ہم ظلمات کی یلغار کو جیسا کہ پیشگوئی کی گئی ہے اور بشارت دی گئی ہے اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے شکست نہ دے دیں اور اللہ جو نُورُ السَّمَوَاتِ وَالاَ رُضِ ہے اس کا نور ساری دنیا میں پھیل جائے اور انسان کا دل اس سے منور ہو جائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد پورا ہو جائے کہ نوع انسانی کو امت واحدہ بنا دیا جائے اور جو امت واحدہ سے باہر رہنے والے ہوں ان کی دنیا میں کوئی حیثیت باقی نہ رہے اور دنیا کی بڑی بھاری اکثریت سارے انسانوں کا ۹۵ فیصد یا ۹۸ فیصد یا ۹۹ فیصد یا ہزار میں سے ۹۹۹ مسلمان ہو چکے ہوں.اس قسم کے حالات انشاء اللہ پیدا ہوں گے لیکن یہ حالات جو ہمیں افق غلبہ اسلام پر روحانی آنکھ سے نظر آ رہے ہیں اس کے لئے ہمارے جسموں اور ہماری روحوں نے قربانیاں دینی ہیں لیکن یہ قربانیاں محض مادی قربانیاں نہیں ہیں بلکہ ان میں بنیادی حیثیت رکھنے والی قربانی یہ ہے کہ ہم اپنے وقتوں کو خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ اور متضرعانہ دعاؤں میں خرچ کریں کہ خدا تعالیٰ نوع انسانی پر رحم فرمائے اور انسانیت جو آج گندی زیست کی دلدل میں نیچے ہی نیچے دھنستی چلی جا رہی ہے ، میں کہتا ہوں کہ گردن تک ڈوب گئی ہے ، خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کو منہ سے پکڑیں اور اوپر نکال لیں اور خدا تعالیٰ کے غضب اور قہر سے انسان کو محفوظ کر لیا جائے.اور وہ خدا تعالیٰ کو پہچاننے لگیں اس کی recognition معرفت اور عرفان انہیں حاصل ہو.اس قدر پیار کرنے والے رب سے وہ دُور پڑے ہیں.اتنی محرومی! اور اس محرومی کا انہیں احساس نہیں.محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ پہچانتے نہیں اور اس کے احسان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.اتنا احسان ہے اتنا احسان ہے کہ سمندروں کے پانی تو ایک قطرہ ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کے سمندر کے مقابلہ میں.لیکن ان لوگوں کو کوئی احساس ہی نہیں ، کوئی علم ہی نہیں ، کوئی توجہ ہی نہیں ، ساری دنیا کو اس طرف لے کر آنا ہماری ذمہ داری ہے لیکن تلوار

Page 407

388 سبیل الرشاد جلد دوم کے زور سے یا سر پھوڑ کر یا ایٹم بم استعمال کر کے یا اس سے بھی زیادہ مہلک ہتھیار جو آج انسان ایجاد کر رہا ہے اس کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ جو اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اس سے دعائیں کر کے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے ہمارے لئے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ کا اُسوہ چھوڑا ہے، اس اُسوہ پر عمل کرتے ہوئے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ نبی ہیں ، قیامت تک کے لئے.آپ کی قوت قدسیہ اور روحانی فیضان بنی نوع انسان کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ آپ کے قدموں پر جمع ہوں اور آپ کے فیوض سے حصہ لیں.پس آپ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر بھی فضل کرے اور رحم کرے اور اپنے پیار سے ہمیں نوازے اور ہماری غلطیوں کو معاف فرمائے اور ہمیں آئندہ کی غلطیوں سے بچائے اور بنی نوع انسان کی خدمت کا جو فریضہ ہم پر عائد کیا گیا ہے ہمیں اسے مادی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی پوری طرح اور کامل طور پر نباہنے کی توفیق عطا کرے اور ہمیں توفیق دے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھاٹھیں مارنے والے پیار کے سمندر میں سے ہم اپنے برتن بھریں اور اس پیاسی دنیا کے مُنہ کے ساتھ جا کر لگائیں اور اس پیار کے نتیجہ میں ان کے دلوں کو خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے میں کامیاب ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.اب آپ جائیں گے.خدا تعالیٰ سفر و حضر میں آپ کا ناصر ہوا اور محافظ ہو اور آپ اس کی پناہ میں رہیں اور آپ کو وہ ہر شر سے محفوظ رکھے اور ہر خیر میں آپ کو حصہ دار بنائے.آپ کو دُنیا پر احسان کرنے والا وجود بنائے ، دنیا کا خادم بنائے ، فسادات کو دور کرنے والا بنائے ،فساد سے بچنے والا بنائے اور آپ دنیا پر یہ ثابت کریں کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر جو ذمہ داری ڈالی تھی خدا نے پھر اپنے فضل سے یہ تو فیق بھی دی کہ ہم نے اس کو نباہ لیا.اور جب ہم اپنے فرائض پورے کر کے مریں تو خدا تعالیٰ ہم سے غصے نہ ہو اور ناراض نہ ہو بلکہ ہم سے پیار کرنے والا ہو اور ہم اس کی رضا کی جنتوں میں جانے والے ہوں.اللهم آمین.اس خطاب کے بعد حضور نے انصار اللہ کا عہد دہر وایا.تمام حاضرین نے کھڑے ہو کر حضور کے ساتھ یہ عہد دُہرایا اور اس کے بعد اجتماعی دعا ہوئی جس کے ساتھ یہ با برکت اجتماع اپنے اختتام کو پہنچا.( غیر مطبوعہ ) سورة الشعراء آیت ۴

Page 408

سبیل الرشاد جلد دوم 389 سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث حمد اللہتعالیٰ کا افتاحی خطاب (فرموده ۱/۲۶ خاء۱۳۵۸ هش ۲۶ را کتوبر۱۹۷۹ء بمقام احاطه دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز بیر بوہ ) سید نا وامامنا حضرت خلیفۃ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے۲۲ ویں سالانہ اجتماع کا افتتاح کرتے ہوئے مورخہ ۲۶ اکتوبر ۱۹۷۹ ء کو جو خطاب فرمایا تھا.اس کا متن ذیل میں افادہ احباب کے لئے درج کیا جاتا ہے.لاؤڈ اسپیکر کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے حضور کا یہ خطاب مکرم مولوی عبد العزیز ویس صاحب مربی سلسلہ نے اونچی آواز میں احباب تک پہنچایا.تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: انسانوں کو عادتیں بھی پڑ جاتی ہیں.میں نے ساری عمر اس بات کا خیال رکھا کہ عادت نہ پڑے لیکن اب معلوم ہوا کہ لاؤڈ اسپیکر پر بات کرنے کی عادت پڑ چکی ہے.اس سے قبل اس مجمع سے بھی بڑے مجمعوں میں بغیر لاؤڈ سپیکر کے میں تقریر کرتا رہا ہوں.مگر اب بُری عادت پڑ چکی ہے اور ویس صاحب کی آواز کا سہارا لینا پڑ رہا ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِيْنَ کی حیثیت سے مبعوث ہوئے اور جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے.آپ تمام بنی نوع انسان کی طرف نہ ختم ہونے والی رحمتوں کو ساتھ لئے بطور نبی کے مبعوث ہوئے.اس لئے جہاں تک انسانوں کا تعلق ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت نے انسان انسان میں کوئی امتیاز اور فرق نہیں کیا.آپ سب کے لئے ہی رحمت، مومن و کافر کا یہاں سوال پیدا نہیں ہوتا.جو تعلیم آپ لے کر آئے اُس کا ہر حکم ، امر ہو یا نہی.مومن کے لئے بھی رحمت ہے اور کافر کے لئے بھی رحمت ہے.جو احکام آپ لے کر آئے اُن میں سے اس وقت میں کچھ کہوں گا.انسان کو عمل صالح کا حکم ہے یعنی جو کچھ بھی وہ کرے خدا تعالیٰ کی ہدایت اور تعلیم کی روشنی میں کرے اور اس تعلیم کی وسعت بہت بڑی ہے.ہمارے اعمال ہماری زبان سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور زبان سے تعلق رکھنے والے اعمال صالحہ

Page 409

390 سبیل الرشاد جلد دوم بہت سے ہیں.اُن میں سے میں ایک کو اس وقت لوں گا جس کی بنیادی حیثیت ہے اور وہ ہے ” بولنا“ تعلیم یہ دی کہ (۱) جھوٹ مت بولو.(۲) دوسرے یہ کہ سچ بولو.تیسرے یہ کہ صرف سچ نہیں بلکہ قول سدید ہو.سچ بھی ہو اور ہر قسم کی کجی سے پاک بھی ہو.اور اس پر زائد یہ کہ قول طیب بھی ہو.یعنی جھوٹ نہ ہو سچ ہو ، سدید ہوا اور طیب بھی ہو.طیب کے معنی ہیں جو موافق ہو.یہ موافق ہونا انسان کے مخاطب کو مد نظر رکھ کر بھی ہے یعنی جس ماحول میں باتیں کر رہے ہو اس ماحول میں سننے والوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے والی باتیں کرو.فرمایا : جَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر شخص سے اُس کی عقل کے مطابق بات کرو.یہ طیب ہی کی تفسیر ہے.پھر جہاں تک حقوق کا سوال ہے.اسلام نے حقوق کی تعیین اور اُن کی حفاظت کے سلسلہ میں انسان انسان میں کوئی تمیز نہیں کی مثلا لیاقت کے لحاظ سے انسان میں پیدائشی فرق تو ہے لیکن حکم یہ ہے کہ ہر ایک شخص کو معاشرہ میں اُس کی لیاقت کے مطابق مقام دیا جائے اور اس میں مسلم وکافر کی کوئی تمیز نہیں.فرمایا: أنْ تُؤَدُّوا الأمنتِ إِلَى أَهْلِهَا اسلامی تعلیم اہلیت کے مطابق تقرریاں بھی کرتی ہے اور ترقیات بھی دیتی ہے.اس کی بیسیوں مثالیں ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ملتی ہیں.خلفائے راشدین نے اپنے اپنے فن کے ماہرین کو مدینہ بلا کر بہت سے شعبوں کا افسر اعلیٰ مقرر کیا.حالانکہ ان لوگوں کا تعلق نہ صرف یہ کہ غیر مسلم عقائد کے ساتھ تھا بلکہ اسلام سے لڑنے والی جنگجو اقوام کے ساتھ بھی تھا.اسلام ایک حسین مذہب ہے.قولانہ فعلاً کسی جگہ بھی دُکھ کے سامان نہیں پیدا کئے اس نے بلکہ ہر ایک کے لئے مسرت اور اطمینان کے حالات پیدا کئے.یہی وجہ ہے کہ جب مسلمان کے ہاتھ میں گند تلوار میں تھیں ، اسلام کے حُسن نے لاکھوں انسانوں کے دل جیتے اور اس پیاری تعلیم نے انہیں رب کریم کے محبوب رسول کے قدموں میں لا بٹھایا.پس انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ اپنی زندگیاں اس نمونہ کے مطابق ڈھالیں اور انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ اپنی نسلوں کی صحیح طور پر تربیت کریں.اپنے گھروں میں بچوں کو ( دین حق ) سکھائیں.قرآن پڑھا ئیں.ہمارے رسول کی پیاری باتیں اُن کے کانوں میں ڈالیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے عاشق حضرت مہدی کی باتیں اُن تک پہنچائیں.اور مہدی علیہ السلام کی کتب کا خود بھی مطالعہ کریں اور اپنی نسلوں کو بھی کروائیں تا کہ جو ہماری ذمہ داری ہے کہ ساری دنیا میں اسلام غالب ہو.اس سورۃ النساء آیت ۵۹

Page 410

سبیل الرشاد جلد دوم ذمہ داری کو کماحقہ ادا کر سکیں.اور اپنے خدا کے حضور سرخرو ہو جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.391 اور خدا تعالیٰ نے جو کام ہمارے سپرد کیا ہے.وہ ہمیں کامیاب طریقے پر کرنے کی وہ خود تو فیق عطا کرے.آمین.( غیر مطبوعہ )

Page 411

سبیل الرشاد جلد دوم جماعت کی پہلی نمایاں صفت جماعت کی پہلی نمایاں صفت یہ ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی عاجز اور منکسر المزاج جماعت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو عاجزانہ را ہیں پسند ہیں.اور جو چیز ہمارے محبوب خدا کو پسند ہے وہی ہمیں بھی پسند ہے.اس لئے ہم احمدی عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے والے ہیں اور ہمارے دلوں میں کبھی تکبر اور فخر کے جذبات پیدا نہیں ہوتے.ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انعامات میسر آتے ہیں اور وہ بے حد و شمار ہیں.ہم علی وجہ البصیرت یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں ہمیں خدا کی طرف سے نہیں ملے بلکہ یہ محض اس کا فضل ہے کہ اس نے اپنے ان انعامات سے ہمیں نوازا ہے.سبیل الرشاد جلد دوم صفحه 369) 392

Page 412

سبیل الرشاد جلد دوم 393 سیدنا حضرت خلیفہ امسح الثالث رحم اللہ تعالی کا انتقامی خطاب فرموده ۱/۲۸ خاء۱۳۵۸اهش ۲۸ اکتوبر ۱۹۷۹ء بمقام احاطہ دفا تر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ ) سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے موقع پر مورخه ۲۸ را خاء ۱۳۵۸اهش ( ۲۸ را کتوبر ۱۹۷۹ء) سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے جو اختتامی خطاب فرمایا.اس کا مکمل متن ذیل میں درج ہے.تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: سورہ انفال کی پانچویں آیت یوں ہے - اوتيك هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجتْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِیم اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مذکورہ بالا صفات رکھنے والے جن کا ذکر پہلی چار آیات میں آیا ہے.سچے مومن ہیں.ان کے رب کے پاس ان کے لئے بڑے بڑے مدارج، بخشش کا سامان اور معزز رزق ہے.اس سے ہمیں پتہ لگا کہ مومن دو قسم کے ہیں قرآنی اصطلاح میں.ایک وہ جنہیں اس آیت میں الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا کہا گیا ہے.سچے مومن.ایک وہ مومن ہیں جو مومن تو ہیں مگر ان کے لئے قرآن کریم نے سچے مومن کا لفظ استعمال نہیں کیا لفظ نہ معناً.اس آیت میں سچے مومنوں کے لئے تین وعدے دیئے گئے ہیں.ایک یہ کہ اللہ کے حضوران کے درجات ہیں.درجات کے متعلق قرآن کریم نے دوسرے مقامات پر تفصیل سے بیان کیا ہے.مثلاً ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بچے مومن وہ ہیں جو علم حقیقی رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ رفیع الدرجات ہیں.اور ایک دوسری جگہ فرمایا ہر شخص، ہر قوم کے لئے اس کے اعمال کے مطابق اللہ تعالیٰ نے درجات مقرر کئے ہوئے ہیں.بخشش کا سامان جو یہاں کہا گیا، قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بخشش کے تین بنیادی سامان ہیں.ایک تو دعا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو انسان جذب کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پاتا ہے اور یہ تمام دوسرے سامانوں کی بنیاد ہے.دوسرے ہجرت ہے.یعنی ہوائے نفس کی یلغار سے بچنا اور دنیا کی

Page 413

سبیل الرشاد جلد دوم 394 طرف مائل ہونے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنا اور ہر گندگی کو اپنے وجود سے نکال باہر کرنا اور کوشش کرنا کہ انسان خدا تعالیٰ کی نگاہ میں پاک اور مطہر بن جائے بخشش کا تیسرا اصولی سامان جس کا قرآن عظیم میں ذکر کیا گیا ہے ، وہ مجاہدہ ہے.مجاہدہ اپنے نفس کے خلاف بھی ہوتا ہے اور مجاہدہ حقیقتاً ہر اس طاقت کے خلاف ہے.( اصطلاحی معنی میں ) جو طاقت کہ انسان کو خدا سے دور لے جانے کی کوشش کرتی ہو.اللہ تعالیٰ نے یہاں فرمایا کہ میں نے بخشش کے سامان تمہارے لئے پیدا کر دئیے ، میری ہدایت کے مطابق ، میری رضا کے حصول کے لئے ان سامانوں کو استعمال کرو اور میرے پیار کو حاصل کرو.تیسری چیز جس کا یہاں ذکر ہے وہ انعام مومنوں کو دیا جائے گا ، وہ رزق کریم ہے محض رزق نہیں کہا.خدا تعالیٰ بڑا دیا لو ہے اور سب ہی کو دیتا ہے.مومن ہو یا کا فرکسی سے بخل نہیں کرتا.کسی کو بھو کا نہیں مارتا.ہر ایک کی سیری کا اس نے انتظام کیا ہے.کسی کو جاہل نہیں رکھنا چاہتا.ہر ایک کے لئے علم کے حصول کی طاقتیں اس نے مہیا کی ہیں.کسی کو ظلمات میں بھٹکتے دیکھنا نہیں چاہتا.ہر ایک کے لئے نور کے سامان اس نے پیدا کر دئیے.بندہ خود اپنے آپ کو ان چیزوں سے محروم کر لیتا ہے.پس اس آیت میں ایک تو سچے مومنوں کا ذکر ہے.دوسرے اشارۃ ان کا جو سچے مومن نہیں.تیسرے بنیادی طور پر سچے مومنوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو انعامات مقرر کئے ہیں ان کا ذکر ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا یہاں تین بنیادی ایسے انعامات کا ذکر ہے.یہاں یہ جو فرمایا کہ مذکورہ صفات رکھنے والے ہی سچے مومن ہیں.وہ صفات پہلی چار آیات میں یہ بتلائی گئی ہیں.نمبر 1 یہ کہ سچے مومن تقویٰ کے حصول کی کوشش میں لگے رہتے ہیں.تقویٰ کے معنی ہیں ایسے اعمال صالحہ بجالانا جن کے نتیجہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی امان ، حفاظت اور پناہ میں آ جائے.دوسرے یہ فرمایا کہ سچے مومن وہ ہیں جو آپس میں اصلاح کی کوشش کرتے رہتے ہیں.اصلاح یافتہ معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.معاشرہ سے ہر قسم کی گندگی کو دور کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں.اور تیسرے یہ کہ تقویٰ کے حصول اور اصلاح کی کوشش، ان دو اغراض کے لئے سچا مومن اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں زندگی گزارتا ہے.اور چوتھے یہ کہ ایسا سچا مومن وہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اس کا شعار ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کی اطاعت تو یہ ہے کہ اس نے اپنی کامل تعلیم ، قرآن عظیم میں جو احکام دیئے ہیں ان

Page 414

395 سبیل الرشاد جلد دوم پر انسان کار بند ر ہے.اور رسول اللہ کی اطاعت یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، معلم حقیقی سے قرآن عظیم کی جوتفسیر سیکھیں اور ہمارے سامنے بیان کریں ہم کوشش کریں کہ اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والے ہوں.رسول اللہ کی اطاعت کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کریم کی جو تفسیر کریں خدا داد، نور فراست کے نتیجہ میں ، اس کو ہم مضبوطی سے پکڑیں اور اپنی دینی اور دنیوی ترقیات کے لئے اس پر عمل کرنا ضروری سمجھیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو اسوہ ہمارے سامنے پیش کیا اس کے حسن اور عظمت سے ہم واقف ہوں اور اپنی زندگی میں بھی اسی حسن کو پیدا کرنے کی کوشش کریں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے چوتھے معنی یہ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اجتہاد کیا اس اجتہاد کو ہر دوسرے اجتہاد پر فوقیت دیں اور ان پر اسے بالا سمجھیں اور اپنی فلاح کی بنیاد اس اجتہاد کے مطابق اعمال صالحہ بجا لانے میں دیکھیں.پھر ان آیات میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ بچے مومن کی پانچویں صفت یہ ہے کہ پہلی چار باتوں کے حصول کے نتیجہ میں اس کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ جب اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کا دل، اس کی روح اور اس کا سارا وجو دخشیت اللہ سے بھر جاتا ہے.اور چھٹی صفت سچے مومن کی یہ بتائی کہ جب ان کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جائیں تو وہ ان کے ایمان کو بڑھاتی ہیں.آیات کا لفظ قرآن کریم نے دو معانی میں استعمال کیا ہے.ایک یہ اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ کہ زمین و آسمان کی پیدائش میں آیات بھری ہوئی ہیں.ہر چیز جو دست قدرت باری سے ظاہر ہوئی وہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم آیت ہے.اور سچے مومن کا یہ فرض ہے کہ وہ اس حقیقت پر ایمان بھی لائے اور اس حقیقت سے فائدہ اٹھانے کی ہر آن کوشش بھی کرتا رہے.دست قدرت باری سے ظاہر ہونے والی ہر شے غیر محد ودصفات سے متصف ہے.مثلاً خشخاش کا ایک دانہ ہی لے لو.آج تک انسان خشخاش کے دانہ کی ساری کی ساری خصوصیات کا علم حاصل نہیں کر سکا.ہر نسل پہلے علم پر زیادتی کرتی چلی آئی ہے، زیادتی کرتی چلی جائے گی.بظاہر چھوٹی نظر آنے والی چیزیں بھی اپنی عظمت کے لحاظ سے آیات اللہ میں شمار ہوتی ہیں.اور انسانی ترقی کا راز اس چیز میں ہے کہ وہ انہیں آیات اللہ سمجھے اور دوسرے آیات کا لفظ اس معنی میں سورة آل عمران آیت ۱۹۱

Page 415

396 سبیل الرشاد جلد دوم استعمال ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو معجزات اور نشانات انسان کو اپنی طرف راہبری کرنے کے لئے دکھائے جاتے ہیں.وہ معجزات ونشانات بھی آیت اللہ کہلاتی ہیں.اور ہر دو قسم کی آیات کا علم رکھنے کے بعد، ان کی حقیقت سمجھ لینے کے بعد انسان اس بات پر مجبور ہوتا ہے کہ اُس سر چشمہ کو جس سے وہ نکلیں ، اُس ہستی کو جس نے انہیں پیدا کیا شناخت کرے اور صرف اُس ہستی پر تو کل اور بھروسہ رکھے.اور مومن کی ، ان آیات میں، ساتویں یہی صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر تو کل اور بھروسہ رکھتا ہے اور خدا کے سوا ہر شے کو لاشئے محض سمجھتا ہے.نہ اپنے وجود کو کچھ سمجھتا ہے، نہ بڑے سے بڑے انسان پر تکیہ رکھتا ہے ، نہ دنیا کی ایجادات کو اپنی کامیابی کا ذریعہ سمجھتا ہے ، نہ دنیا کے اموال اس کے دل میں کوئی خوف یا جذب پیدا کرتے ہیں، نہ دنیا کی طاقتیں اسے اپنے رب کریم سے دور لے جانے میں کامیاب ہوتی ہیں.تو سچے مومن کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل رکھنے والا اور اسی سے سب کچھ پانے والا ہے.کامل تو کل دو باتوں کا مطالبہ کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں مومن کی آٹھویں صفت یہ بیان ہوئی يُقِيمُونَ الصَّلوة کہ وہ حقوق اللہ پورے طور پر ادا کرنے والے ہوتے ہیں.دل میں کھوٹ نہیں ہوتی ، شرک کی ملونی نہیں ہوتی ، غیر اللہ کی طرف کوئی رغبت نہیں ہوتی.اور نویں صفت ان کی یہ ہے وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کہ اللہ کی مخلوق کے سب حقوق ادا کرنے کے لئے ہر وقت وہ تیار رہتے ہیں.جب ہم ان آیات پر غور کرتے ہیں اور جب ہم سچے مومنوں کی وہ صفات اپنے سامنے رکھتے ہیں جو یہاں بیان ہوئی ہیں تو ہمارے سامنے ہمارا ، جماعت احمدیہ کا اور اس کی ذیلی تنظیموں کا انصار اللہ خدام الاحمدیہ کا پروگرام آ جاتا ہے اور اسی کا اس وقت میں اعلان کرنا چاہتا ہوں.اعلان سے قبل یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعتی زندگی کے سو سال پورے ہونے میں قریباً دس سال باقی ہیں اور میرے اس پروگرام کا تعلق ان دس سالوں سے ہے.نمبر 1.علوم روحانی کا سیکھنا، اس کے لئے پروگرام یہ ہے کہ عمر کے لحاظ سے ہر بچہ قاعدہ، یسرنا القرآن پڑھنے والا ہو.جب میں ہر بچہ کہتا ہوں تو میری مراد ہر احمدی بچہ سے ہے خواہ وہ شہر میں رہنے والا ہو خواہ وہ دیہات میں رہنے والا ہو خواہ وہ بڑی جماعتوں کا ایک طفل ہو خواہ وہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہو کہ جہاں صرف ایک ہی خاندان احمدی ہے.جتنی جلد ممکن ہو سکے ہر بچے کو قاعدہ میسرنا القرآن پڑھا دیا جائے.

Page 416

397 سبیل الرشاد جلد دوم ب.یہ علوم روحانی اور علوم قرآنی کے سیکھنے کے عنوان کے نیچے ب نمبر یہ ہے کہ عمر کے لحاظ سے ہر طفل ، ہر خادم، ہر نیا احمدی ، ہر پر ا نا غافل احمدی قرآن کریم کا ترجمہ سکھنے کی طرف متوجہ ہو.اور ب نمبر ۲ یہ ہے کہ جو قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں.وہ قرآن کریم کے معانی ، اس کی تفسیر پڑھنے کی طرف متوجہ ہوں.جب ہم نے یہ کہا کہ ایک سچا مومن اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت کرتا ہے تو وہ شخص جو یہ جانتا ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ حکم کیا دیتا ہے.وہ اس کی کامل اطاعت کیسے کر سکے گا.دوسرے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کیسے کر سکے گا جنہوں نے دنیا میں یہ اعلان کیا: اِنْ اَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى کہ جو وحی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر نازل ہوئی ہے میں صرف اُسی کی اتباع کرنے والا ہوں.تفسیر قرآن سیکھنے کے لئے ( یہ بات ضروری ہے کہ معلم حقیقی اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود جو تفسیر سکھائی ہمیں اس کا علم ہو.پس سارے تو نہیں ( میں سمجھتا ہوں سارے نہیں سیکھ سکتے ) مگر کثرت سے جماعت احمد یہ میں ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو اُن کتب حدیث کو پڑھنے اور جاننے والے ہوں جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی تفسیر پائی جاتی ہے.اور اپنی اس ذمہ داری کو سمجھنے والے ہوں کہ وہ اس پیاری تفسیر کو ہر احمدی کے کان تک پہنچائیں گے.اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تفسیر کی.قرآن کریم سے اس کی مثالیں میں دے کے بتا سکتا ہوں لیکن وہ بڑا لمبا مضمون ہے اس واسطے میں چھوڑ رہا ہوں پھر کسی وقت بتا دوں گا یعنی دو تفسیریں ہیں ایک وہ جو اللہ تعالیٰ نے سکھائی خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو.اور دوسری وہ تفسیر ہے جو محمد رسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور کے نتیجہ میں خود کی.پھر اس کے بعد وہ تفاسیر ہیں جو چودہ سو سال پر پھیلی ہوئی ہیں اور چودہ سوسال میں پیدا ہونے والے نئے مسائل کو حل کرتی ہیں.اس وعدہ کے مطابق کہ اِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمُ فِي كِتَبٍ مَّكْنُونٍ لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ تَنْزِيلٌ مِنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَکہ ہر زمانہ میں ہر نسل کے لئے اُس نسل کے نئے مسائل حل کرنے کی خاطر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والے خدا کی نگاہ میں جو مطبر ہوں گے.انہیں ایسی تفاسیر سکھائی جائیں گی اور یہ مطالعہ قرآن کریم کی عظمت ظاہر کرتا ہے اور یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ہر بگڑے ہوئے ماحول میں جب انسان اپنے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو جائے تو انسان کی مدد کے لئے خدا اور محمد کا قرآن ہی آتا رہا.آتا رہے گا.صلی اللہ علیہ وسلم پروگرام نمبر ۲.یہ جو کہا گیا کہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش آیاتِ باری سے بھری ہوئی ہے اس 1 سوره یونس آیت : ۱۶ سورۃ الواقعہ آیت ۷۸ تا ۸۱

Page 417

398 سبیل الرشاد جلد دوم میں یہ حکم پنہاں ہے کہ جن علوم کو دنیوی علوم کہا جاتا ہے جن کا تعلق افلاک سے ہے، کیمیا سے ہے ،طبیعات سے ہے، کھانے پینے کی اشیاء سے ہے، زراعت سے ہے ، طب سے ہے.وغیرہ وغیرہ.اُن میں بھی خدا کی آیات نظر آتی ہیں.اور انہیں بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے.اور ان کا بھی ایک مسلمان کے لئے سیکھنا ضروری ہے.اس لئے آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جماعت ، میری خواہش کا احترام کرتے ہوئے ، اپنی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے اور دنیا پر احسان کرنے کی خاطر ، خدا اور رسول کی اطاعت میں دنیوی علوم بھی روحانی نور کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے سیکھنے کی کوشش کرے.اور اس دس سال میں یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہمارا کوئی بچہ بھی میٹرک سے کم تعلیم کا نہ ہو.اس کی ذمہ داری امرائے اضلاع پر ہے.تنظیم انصار اللہ پر ہے.تنظیم خدام الاحمدیہ پر ہے.جماعت پر ہے.پوری کوشش کریں کہ ہر احمدی بچہ کم از کم میٹرک تک پڑھ جائے ، دس سال کے اندراندر.اور پھر وہ بچے جب دسویں پاس کریں اور یہ پتہ لگے ہمیں کہ بعض بڑے ذہین ہیں تو ان کے آگے پڑھانے کا جماعت ذمہ لے، وہ انتظام کرے تا کہ خدا تعالیٰ نے جو اتنا بڑا ہم پر احسان کیا کہ ہم غریبوں کے گھروں میں ذہین بچے پیدا کر دیئے اور ذہانت سے ہماری جھولیاں بھر دیں ، ہم ان سے بے اعتنائی کر کے ناشکرے نہ بننے والے ہوں.کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے شکر گزار بندوں سے پیار کرتا اور وہ جوشکر نہیں کرتے اُس کا ، غصے کی نگاہ ان پر ڈالتا ہے.پروگرام کا تیسرا حصہ یہ ہے کہ جماعت احمد یہ بحیثیت جماعت ، ( دین حق ) کے حسین اخلاق پر قائم ہوا اور اصلاح یافتہ معاشرہ اپنے ماحول میں پیدا کرنے کی کوشش کرے.معاشرہ کی بُرائیوں سے خود کو محفوظ رکھنا.اور معاشرہ کو بُرائیوں سے بچانا آپ کی ذمہ داری ہے.اور آپ کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ جو کوئی بھی معاشرہ کو بُرائیوں سے بچانے کی کوشش میں ہو اس کو آپ کا پورا تعاون حاصل ہو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں اخلاق کو کامل کرنے کے لئے بھی مبعوث ہوا ہوں.اس وقت چند موٹی باتیں میں آپ کو بتا دوں.(۱) کوئی احمدی جھوٹ نہیں بولتا (۲) کسی احمدی کو گالی دینے کی عادت نہیں ہونی چاہئے خصوصاً دیہاتی جماعتیں اس طرف متوجہ ہوں (۳) ہر احمدی اپنی بات کا پکا ہو.جو عہد کرے وہ پورا کرے.جو بات کہے اس کے مطابق اس کا عمل ہو.اور (۴) یہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے جو نجشیں پیدا ہو جاتی ہیں ، جماعت کے اندر یا باہر اس قسم کی رنجش نہ پیدا ہونے دے (۵) کوئی احمدی اپنے احمدی بھائی سے، نہ دوسرے بھائیوں سے لڑائی جھگڑا نہیں کرے گا.(۶) اگر احمدیوں میں باہمی کوئی

Page 418

399 سبیل الرشاد جلد دوم اختلاف پیدا ہو جائے تو جہاں تک قانونِ ملکی اجازت دیتا ہو اُس اختلاف کو جماعتی مصالحت کے ذریعہ سے دور کیا جائے.اور آپس کی رنجشیں ہرگز پیدا نہ ہونے دی جائیں اور نہ کوئی تلخی پیدا ہونے دی جائے.( ۷ ) کوشش کرو کہ پیار سے رہو (۸) کوشش کرو کہ پیار کے ساتھ دنیا کے دل خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتو.اگر تم ایسا کرو گے تو خدا کے پیار کو حاصل کر لو گے.اگر تم خدا کے پیار کو حاصل کر لو گے تو ہر دو جہان کی نعمتیں تمہیں مل جائیں گی.پھر کسی اور چیز کی تمہیں ضرورت نہیں رہے گی.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.“ پھر حضور نے نمازوں کے بارہ میں اعلان فرمایا کہ کھانے سے قبل ( بیت ) مبارک میں نماز ظہر و عصر ہوں گی.اس کے بعد فرمایا: امسال جو مجالس اس اجتماع میں شریک ہوئی ہیں ان کی تعدا د ۲ ۶۷ ہے.اور گزشتہ برس کے مقابلہ میں ۱۸۵ کی زیادتی ہے.الحمد للہ.مگر یہ بھی تسلی بخش نہیں.سب جماعتوں کو یہاں آنا چاہئے.نمائندے بھیج کر.اور اب ہم عہد دہراتے ہیں.“ اس کے بعد حضور نے انصار اللہ کا عہد دہرایا اور پھر اجتماعی دعا فرمائی.جس کے ساتھ یہ با برکت اجتماع اپنے اختتام کو پہنچا.( غیر مطبوعہ )

Page 419

سبیل الرشاد جلد دوم ہمارا کوئی بچہ میٹرک سے کم پڑھا ہوا نہ ہو ہمارا کوئی بچہ بھی میٹرک سے کم تعلیم کا نہ ہو.اس کی ذمہ داری امرائے اضلاع پر ہے.تنظیم انصار اللہ پر ہے.تنظیم خدام الاحمدیہ پر ہے.جماعت پر ہے.پوری کوشش کریں کہ ہر احمدی بچہ کم از کم میٹرک تک پڑھ جائے ، دس سال کے اندر اندر.اور پھر وہ بچے جب دسویں پاس کریں اور یہ پتہ لگے ہمیں کہ بعض بڑے ذہین ہیں تو ان کے آگے پڑھانے کا جماعت ذمہ لے ، وہ انتظام کرے تا کہ خدا تعالیٰ نے جو اتنا بڑا ہم پر احسان کیا کہ ہم غریبوں کے گھروں میں ذہین بچے پیدا کر دیئے اور ذہانت سے ہماری جھولیاں بھر دیں، ہم ان سے بے اعتنائی کر کے ناشکرے نہ بننے والے ہوں.کیونکہ خدا تعالیٰ اپنے شکر گزار بندوں سے پیار کرتا اور وہ جو شکر نہیں کرتے اُس کا ، غصے کی نگاہ ان پر ڈالتا ہے.(سبیل الرشاد جلد دوم صفحه 398) 400

Page 420

سبیل الرشاد جلد دوم 401 سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحم اللہ تعالیٰ کا افتاحی خطاب فرموده ۳۱ را خاء ۱۳۵۹ بهش ۳۱ راکتو بر ۱۹۸۰ء بمقام احاطه دفاتر مجلس انصاراللہ مرکز یہ ربوہ) سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ ۳۱ راخاء۱۳۵۹ہش ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۰ء کو مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع منعقدہ احاطہ انصار الله مرکز یہ ربوہ سے جو افتتاحی خطاب فرمایا اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تشہد وتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: ۲۶ جون کو میں ربوہ سے سفر پر روانہ ہوا تھا اور ۲۶ / اکتوبر کو واپسی ہوئی.جہاں تک ربوہ سے جانے ، واپس آنے کا سوال ہے پورے چار ماہ ہوئے.ان چار ماہ میں تین بر اعظموں میں زمانہ کی آنکھ نے جو دیکھا وہ تو ایک لمبی داستان ہے.آہستہ آہستہ بیان کروں گا.یہاں آتے ہی ابھی کوفت دور نہیں ہوئی تھی کہ نئی ذمہ داریاں آ گئیں.آج جمعہ، پھر انصار اللہ کا اجتماع، پھر چند دن کے بعد ایک جمعہ اور خدام الاحمدیہ کا اجتماع.یہ کام ۳۱ /اکتوبر سے ۹ / نومبر تک رہیں گے.پھر سلسلہ دوسری نوعیت کے کام کا شروع ہو جائے گا.اس کے بعد شاید کچھ آرام کا بھی موقع ملے.اگر نہ ملے تو بھی حرج نہیں کیونکہ جب تک میں کام میں لگا رہتا ہوں مجھے کوفت کا احساس نہیں ہوتا.جب کام کم ہو جاتا ہے اُس وقت تکان اپنا سر اٹھاتی ہے.یہ جو کچھ ہو گیا ان چار مہینوں میں اس کا ایک پس منظر بھی ہے.جمعہ کے خطبہ میں میں نے تحریک جدید کا پس منظر بیان کیا.کیونکہ اسی پس منظر کے تسلسل میں ہم اس زمانہ میں داخل ہوئے اور اس میں سے گزرے.مختلف واقعات کا ایک اور سلسلہ ہے.اس وقت میں ان کے متعلق کچھ بتاؤں گا اور پھر انصار اللہ کی جو ذمہ داریاں ہیں ، چند ایک کا ان میں سے ذکر کروں گا.سپین میں ۷۰ء میں بھی میں گیا.میڈرڈ گئے ، وہاں سے قرطبہ گئے.میڈرڈ کے قریب ایک قصبہ ہے طلیطلہ.کچھ عرصہ طلیطلہ، مسلمان حکومت کا دارالحکومت بھی رہا.یہ قریباً ستر میل کے فاصلہ پر ہے.میڈرڈ سے.( صحیح فاصلہ اس وقت ذہن میں نہیں کم و بیش اتنا فاصلہ ہے ) قرطبہ بہت بڑا شہر ہے.اُس وقت بھی بہت بڑے شہروں میں سے ایک تھا.آبادی اتنی نہیں تھی.دارالحکومت تھا اسلامی حکومت کا.

Page 421

402 سبیل الرشاد جلد دوم کہتے ہیں چھ سو مساجد اس شہر میں تھیں اور ایک وہ مسجد بھی جو دنیا میں سب سے بڑی مسجد ہے.جس مسجد کے مستقف حصے میں چالیس ہزار نمازی نماز پڑھ سکتا ہے.اتنی بڑی مسجد ہے اور یہ مسجد آباد تھی ، دن کے اوقات میں بھی اور رات کے اوقات میں بھی ، اور ایک رات میں کوئی تھیں چالیس من تیل اس مسجد میں روشنی کرنے کے لئے استعمال ہوتا تھا.نیز اس شہر کے گرد و نواح میں کئی ہزار مساجد تھیں.پھر غرناطہ گئے.وہاں عجائبات روحانی و مادی کا ایک شاندار مجموعہ ہے.ایک محل ہے وہاں جو بہت سے معجزات اپنے اندر رکھتا ہے.عقل اور مہارت جو اللہ تعالیٰ سے اُسی کے حضور جھک کے اور اس کے حضور دعائیں کر کے مسلمان نے حاصل کی.اس عقل اور مہارت کے نقوش ہی نہیں بلکہ بعض حقیقتیں بھی ان جگہوں پر جو پانچ سو سال سے کھنڈر کی شکل میں پڑی ہوئی ہیں.آج بھی ہمیں نظر آتی ہیں.جو گائیڈ (Guide) ہم نے لیا وہ کہنے لگا یہاں سب سے بڑا معجزہ پانی ہے.اس پہاڑی پر پانی نہیں تھا.جب مسلمان بادشاہ نے اپنے سب سے بڑے انجینئر سے یہ کہا کہ میں یہاں محل بنوانا چاہتا ہوں تو ساتھ یہ بھی کہا کہ یہاں پانی کی ضرورت ہے اس کا بھی انتظام کرو.پانی کا کوئی چھوٹا سا چشمہ بھی نہیں تھا اور پہاڑ کی چوٹی اتنی اونچی نہیں کہ جہاں ہر وقت برف رہے اور برف کا پانی چشموں کی صورت میں میسر ہو.اس پہاڑی کے ایک طرف وادی کے اُس پار اور پہاڑیاں اٹھتی ہیں جو بہت بلند ہیں.جو قریباً سارا سال برف سے ڈھکی رہتی ہیں.برف جب پہاڑیوں پر ہو تو پچھلتی بھی ہے اور پانی زمین جذب کرتی ہے.پھر وہ زمین دوز نالیوں میں ہیں میل دور، پچاس میل دور، سینکڑوں میل دور چشمے کی شکل میں باہر نکل آتا ہے.کبھی میدانوں میں وہ چشمے بہہ نکلتے ہیں.پہاڑیوں پر نکلتے ہیں اور آبشاریں بن جاتی ہیں.مختلف نظارے پہاڑوں پر ہمیں نظر آتے ہیں.آپ میں سے بہتوں نے بھی دیکھے ہوں گے.میں نے بھی دیکھے ہیں.بڑی اونچائیوں سے آبشار میں گرتی ہیں.میدانوں میں بھی چشمے نکلتے ہیں.انجینئر ز نے ان برفانی پہاڑیوں کا پانی جو زمین دوز اور بڑے راجباہ کی شکل میں تھا اس کو تلاش کیا اور زمین کے اندر ہی اندر اُس پانی کو پہاڑی کی چوٹی پہ جہاں محل بنانا تھا لے جا کے اسے باہر نکال لیا.اس طرح وہاں خدا تعالیٰ کے قانون کے عین مطابق ایک نہر جاری ہو گئی.خدا تعالیٰ کے قانون کے عین مطابق اور خدا تعالیٰ نے انسان کو جو طاقت عطا کی ہے اس کی عجیب شان نظر آئی.خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے ظاہر ہوئے اور خدا تعالیٰ کی صفات کے جلووں کے متعلق جو یہ کہا گیا کہ وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِى السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ عین اس کے سورة الجاثیہ آیت ۱۴

Page 422

403 سبیل الرشاد جلد دوم مطابق زمین کے اندر خدا تعالیٰ نے انسان کی خدمت کے لئے جو پانی کو پیدا کیا تھا.انسانی عقل خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا اور اپنی خدا داد قوت اور استعداد کے نتیجہ میں وہ زمین دوز پانی کو پہاڑ کی چوٹی پر لے آئی.آج کی مہذب ترقی یافتہ چاند پر اترنے والی نسل انسانی ڈر کے مارے اس کو چھیڑتی نہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا اصول انہوں نے استعمال کیا.ڈراس بات کا کہ ایسا نہ ہو کہ ہم اسے کھول دیں اور پھر اس کو بنا نہ سکیں.مسلمان کی یہ عظمت، مسلمان کی عاجزی اور اس کی دعا اور اس کی تدبیر کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے قائم کی.اس محل کی تعریف یہ ہے کہ بادشاہ وقت نے بڑے شوق سے بڑی دولت خرچ کر کے اسے تیار کر وایا.کہتے ہیں تین ہزار سنگ تراش کئی سال کام کرتے رہے اس کو بنانے پر.اور فصیل اس کی ایک وسیع خطہ ارض کو گھیرے ہوئے ہے.در و دیوار اور گنبدوں ، محرابوں کو بہت خوبصورت سجایا گیا.جب بادشاہ وقت اپنے درباریوں کے ساتھ گھوڑوں پر سوار ہو کر اس محل کی طرف روانہ ہوئے تو شیطان نے دل میں وسوسہ پیدا کیا اور انانیت نے جوش مارا.میں اتنا بڑا بادشاہ کئی ہزار ساری دنیا سے آئے ہوئے ماہرین فن یہاں جمع ہوئے ”میری خاطر“ ”میری خاطر انہوں نے اتنے سال کام کیا اور اتنی عظیم چیز تیار ہو گئی.ساتویں عجوبہ سے بھی بڑھ کر ایک عجوبہ.ایک چشمہ اندر ہی اندر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا دیا.بغیر پھول اور پھل اور گھاس کے تو وہ لوگ رہ ہی نہیں سکتے تھے.اُن کو قدرت کے مناظر بڑے پسندیدہ تھے.”میں“.میں نے جوش مارا تو خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے اسے جھنجھوڑا.یہ میں “.”میں کیا لگائی ہے.جیسا کہ میں نے خطبہ جمعہ میں بتایا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بھی نعمت تمہارے پاس ہے.تمہارے شامل حال ہے وہ خدا تعالیٰ کی عطا کردہ ہے.تمہارے زور بازو سے یا تدبیر سے یا دولت سے نہیں ملی تمہیں.جب فرشتوں نے اسے جھنجھوڑا تو وہ سخت پریشان ہوا اور ابھی جب وہ دروازے سے باہر ہی تھا.اس نے گھوڑے سے چھلانگ ماری اور زمین پر سجدہ کر دیا اور کہنے لگا واپس چلو.میرے رہنے کے لئے نہیں یہ محل.اور انجینئرز سے کہا کہ سارے نقوش مٹاؤ اور ان در و دیوار اور چھتوں پر صفات باری لکھو خو بصورتی کے لئے.اور لا غَالِبَ إِلَّا اللہ کو اس محل کے حسن کا مرکزی نقطہ بناؤ.چاروں طرف دیوار پر یوں چل رہی ہے پٹی.لَا غَالِبَ إِلَّا الله - لَا غَالِبَ إِلَّا الله - لَا غَالِبَ إِلَّا اللہ پھر اس میں بیضوی شکل میں اور گول شکلوں میں بھی.اس کے علاوہ الْقُدْرَةُ لِلہ.الْحُكْمُ لِلّه الْعِزَّةُ لِلہ.یہ ساری خوبصورتی اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے لئے تھی.دیوار میں بھی اپنی خاموشی سے خدا کی حمد کے ترانے گا رہی ہیں.پھر کئی سال مزید لگے اور سنگ تراشوں نے سنگ میں سے یہ حروف ابھارے ہیں.دو.دو.تین.تین سوت تراشا ہے سنگ کو.بعض حصوں پر تو زمانے 66.66

Page 423

404 سبیل الرشاد جلد دوم نے اثر کیا ہے.لیکن بعض حصے ایسے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ کل لا غَالِبَ إِلَّا الله“ یہاں کندہ کیا گیا ہے اس پتھر پر.اس محل میں ایک گنبد ایسا ہے جس میں غار ثور میں مکڑی نے جالا بنا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کی حفاظت کے لئے.خدا تعالیٰ نے عظیم نشان دکھایا تھا کہ دشمن سر پر آ گیا ہے.تو مکڑی کے ذریعے سے وہ جال بن دیا.کبوتر آیا ، اس نے گھونسلا بنا دیا.اس حقیقت کو ایک گنبد میں ظاہر کیا ہے نہایت ہی خوبصورت طریق پر.مکڑی کا جالا نہیں لیکن پتھر کو کچھ اس طرح تراشا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مکڑی نے جالائین دیا اور اس کے ساتھ کبوتر کے گھونسلے بنا دیے.یہ پیارا اسلام کے ساتھ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کے ساتھ.یہ شان وہاں نظر آئی.دل بے چین ہو گیا.۷۰ ء کی بات میں کر رہا ہوں.خدا تعالیٰ دعا کی تو فیق دیتا ہے.اتنی سخت بے چینی اور کرب پیدا ہوا کہ میں ساری رات خدا کے حضور دعا کرتا رہا کہ خدایا ! یا وہ شان تھی اور یا اس ملک میں ایک مسلمان بھی باقی نہیں رہا، اپنی غفلتوں ، کوتاہیوں اور گناہوں کے نتیجہ میں.اور میں نے کہا.اے خدا ! رحم کر اس قوم پر.اسلام کی روشنی اور اسلام کا حسن پھر انہیں دکھا اور اسلام کے جھنڈے تلے انہیں جمع کرنے کے سامان پیدا کر.صبح کی اذان کے وقت مجھے خدا تعالیٰ نے بڑے پیار سے یہ کہا.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ جو لوگ خدا پر توکل کرتے ہیں ان کے لئے اللہ کافی ہے وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِم.خدا تعالی بڑی طاقت والا ہے اور جو چاہتا ہے وہ کر دیتا ہے.کوئی اس کو روک تو نہیں سکتا نا.قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا لیکن ہر چیز کے لئے اس نے ایک وقت مقرر کیا ہے.ہوگا تو سہی یہ یعنی تیری دعا تو قبول کی جاتی ہے لیکن ہو گا اپنے وقت پر.مجھے تسلی ہوگئی.۷۰ء میں تعصب کا یہ حال تھا کہ طلیطلہ جس کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے وہاں ایک چھوٹی سی مسجد ہے.یہ جو ہمارا انصار اللہ کا ہال ہے اس سے بھی چھوٹی ٹوٹی پھوٹی ایک مسجد ، گرد و غبار سے اٹی ہوئی، دروازے کھلے، کوئی دیکھ بھال بھی اس کی نہیں ہو رہی تھی.اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا ٹوٹا پھوٹا مکان تھا.میں نے کرم الہی صاحب ظفر کو کہا کہ ایک درخواست دیتے ہیں حکومت کو کہ بیس سال کے لئے ہمیں یہاں نماز پڑھنے کی اجازت دے دیں.وہ مجھے کہنے لگے کہ آپ مانگتے کیوں نہیں کہ ہمیں دے دیں یہ مسجد.میں نے کہا نہیں.میں نے کہا اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے گا اپنی مسجد بنانے کی.اس واسطے مانگنا نہیں.وہ کہنے لگا.پھر سو سال کے لئے نماز پڑھنے کی اجازت مانگیں.میں نے کہا کیا با تیں کرتے ہو.سوسال ہیں سال کے اندر اندر اللہ تعالیٰ انقلاب بپا کرے گا.چنانچہ ہم نے جب درخواست دی، جنرل فرینکو اس وقت

Page 424

405 سبیل الرشاد جلد دوم زندہ تھے بڑے اچھے انسان.انہوں نے کہا ان کے وزراء نے کہا، پوری کیبنٹ (Cabinet) نے کہا کہ ہم اجازت دے دیں گے نماز پڑھنے کی یہاں لیکن دفتری کارروائی کرنی ہوتی ہے.چند ہفتوں تک آپ کو اجازت مل جائے گی.میں نے بات کو اور پکا کرنے کے لئے مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو سپین بھیجا اور کہا آپ لاء منسٹر سے ملیں اور ان سے بات کریں.اس نے کہا آپ خواہ مخواہ گھبراتے ہیں.ہو جائے گا سارا کام.بالکل فکر نہ کریں.لیکن جب شروع میں مسلمانوں کو مغلوب کرنے کے بعد وہاں عیسائیوں کی حکومت بنی تو اس دستور میں یہ تھا کہ مسلمانوں کی جو جائیداد ہے اس کے متعلق کوئی فیصلہ بھی لاٹ پادری کارڈینل (Cardinal) کے منشاء کے بغیر نہیں کیا جا سکتا.ساری حکومت تیار دینے کو اور پادری صاحب نے کہا نہیں دینی.وقت نہیں آیا تھا نا ابھی.تو نہیں ملی ہمیں.خیر ہم نے کہا ٹھیک ہے.اور دس سال نہیں گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی قرب قرطبہ میں مسجد بنانے کی.ہاں ایک اور چیز بتا دوں.اُس وقت میری نگاہ نے دو جگہ کا انتخاب کیا.جہاں ہماری مسجد بن سکتی ہے عوام کی طبیعت کے لحاظ سے، ایک طلیطلہ، وہاں تھوڑی دیر کے لئے گئے اور طلیطلہ کے عوام نے ہم سے بڑے پیار کا اظہار کیا اور ایک قرطبہ جس کے مکین ہنس مکھ ، کوئی غصہ نہیں ، کوئی پرانی عداوت نہیں ، کوئی تعصب نہیں ، بڑے پیار سے ملتے تھے ایسا پیار کہ قرطبہ کی مسجد دیکھ کر نکلے تو سڑک پار کتابوں کی دکان تھی ہم وہاں چلے گئے.میرا خیال تھا کوئی انگریزی کتاب ملے تو تازہ کریں اپنا علم ، کوئی ہیں پچیس منٹ کے بعد جب باہر نکلے تو جس دروازے سے مسجد کے ہم نکلے تھے وہاں دومیاں بیوی اور دواڑھائی سال کا بچہ جو انہوں نے اٹھایا ہوا تھا کھڑے ہوئے تھے.بچے نے ہاتھ ہلانے شروع کر دیئے.مجھے بڑا پیار آیا.ہماری موٹر کا منہ دوسری طرف تھا.میں نے ڈرائیور کو کہا کہ موڑ کے اس طرف لے آؤ.جہاں وہ بچہ کھڑا ہوا ہے.جب وہاں گئے تو اس کا باپ کہنے لگا.آپ اس دوکان کے اندر جب داخل ہوئے ہیں اس وقت اس بچے نے ضد کی کہ جب تک یہ باہر نہیں نکلتے میں یہاں سے نہیں ہلوں گا اور ہمیں چھپیں منٹ اس نے ماں باپ کو ملنے نہیں دیا صرف اس لئے کہ جب ہم باہر نکلیں تو ہمیں دیکھ کر وہ ہاتھ ہلائے.دواڑھائی سال کا بچہ کچھ اس کو پتہ نہیں لیکن اس کے خدا کو تو پتہ تھا.پیار کیا اُس کو ، بہت پیارا لگا اور وہ بھی پیار کرتا تھا.شیشہ چڑھا ہوا تھا تو منصورہ بیگم اس کو دیکھ رہی تھیں تو شیشے کو باہر سے اس بچے نے پیار کیا.اس قسم کے تھے وہ لوگ.سارا جائزہ لے کے میں نے کہا مسجد یہاں بنے گی.انشاء اللہ.اور اب دس سال گزرے اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی.قریباً ڈیڑھ.دو گھماؤں زمین ہم نے وہاں خرید لی اور خریدنے سے پہلے میں نے انہیں کہا کہ لوکل آبادی سے اور مرکز سے یہ تحریر لو کہ ہمیں مسجد بنانے کی اجازت دیں گے.تو مقامی انتظامیہ نے بھی اور مرکزی حکومت نے بھی تحریری اجازت دی کہ یہاں تم مسجد بنا سکتے ہو.پھر ہم نے وہ زمین خرید لی.یہ

Page 425

406 سبیل الرشاد جلد دوم ہے اللَّهُ غَالِبٌ عَلَی آمیرہ.اور وقت مقد رتھا.ہمارے مبلغ صاحب تو کہ رہے تھے سوسال تک دوسروں کی مساجد میں نماز پڑھیں گے.میں نے کہا تھا نہیں.انقلاب عظیم بڑی جلدی بپا ہونے والے ہیں.دس سال کے بعد ہمیں اجازت مل گئی اور مسجد کے متعلق باقی باتیں انصار اللہ کے یا خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں بتاؤں گا.یہ تو بیک گراؤنڈ (Back Ground) آج میں بتا رہا ہوں نا.ایک اور واقعہ اس عرصہ میں ہوا.اللہ تعالیٰ اپنے جاں نثاروں کا امتحان بھی لیتا ہے.۷۴ ء کا واقعہ جو سب جانتے ہیں.حکومت وقت نے یہ سمجھا تھا کہ جماعت احمدیہ کو قتل کر کے سڑک کے پرے پھینک دیا اس کا لاشہ.مگر اس وقت بہت سی باتیں اللہ تعالیٰ نے بتا ئیں.ان میں سے ایک یہ تھی وَسِعُ مَكَانَكَ کہ مہمان تو پہلے سے بہت زیادہ آتے رہیں گے.ان کا انتظام کرو.إِنَّا كَفَيْــكَ المُستهزئين يه جو استہزاء کا منصوبہ بنا رہے ہیں.اس کے لئے میں کافی ہوں تمہارے لئے.( نعرے ) جہاں تک استہزاء کا منصوبہ تھا.وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ کا نظارہ دنیا نے دیکھ لیا اور جہاں تک آنے والوں کا نظارہ تھا آج دیکھ لو وَسِعُ مَكَانَكَ.چھ سال کے اندر جماعت تعداد کے لحاظ سے بھی پاکستان میں نیز بیرونی ممالک میں کہیں سے کہیں پہنچ گئی ( نعرے ) یہ بھی ایک پس منظر ہے.واقعات بعد میں بتاؤں گا.ایک اور پس منظر.یورپ میں فن لینڈ کے علاوہ سیکنڈے نیویا کے تین ملک ہیں.ڈنمارک، سویڈن اور ناروے.ناروے میں سب سے بڑی جماعت ہے وہاں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں نماز پڑھی جا سکے، بچوں کی تربیت و تعلیم کا انتظام ہو سکے.بڑی مشکل تھی.طبیعت میں پریشانی تھی.۷۸ء میں میرے وہاں جانے سے پہلے ناروے کے پرانے شہر کے ساتھ جو ایک سیٹلائٹ ٹاؤن بن رہا تھا.نئی میونسپلٹی وہاں بنا دیتے ہیں.زمین دینے کا میئر (Mayor) نے وعدہ بھی کیا اور مکر گیا.جب میں وہاں پہنچا تو معلوم ہوا ایک مکان مل رہا تھا کوئی پندرہ یا بیس لاکھ روپے کا تو میں نے جماعت کو کہا کہ سروے کروا کے لے لو اور یہ خیال ہی نہیں کیا کہ پاکستان سے تو ہم پیسہ نہیں بھیج سکتے.یورپ میں یا بیرون پاکستان کسی اور جگہ اتنا روپیہ بھی پڑا ہے یا نہیں.اس کے بعد لندن آئے.میں نے جائزہ لیا تو میں نے فون کیا ان کو کہ اس عمارت کی خرید کے لئے ہمارے پاس پیسے نہیں.اس واسطے چھوڑ واس کو.یہ ۷۸ ء کی بات ہے اور اس سال جس مسجد ، مشن ہاؤس کا میں نے افتتاح کیا ناروے میں یہ پہلے مکان سے ڈیڑھ گنا بڑا مکان ہے.نہایت اچھی Locality ، شرفا کا محلہ جہاں کوئی نعرہ بازی بھی نہیں ہوتی.دنیا کے ہر ملک میں نعرہ باز بھی ال عمران آیت ۵۵

Page 426

407 سبیل الرشاد جلد دوم ہیں.اچھے لوگ بھی ہیں.بُرے لوگ بھی ہیں.نہایت شریف لوگوں کا وہ علاقہ ہے اور تین منزلہ وہ مکان ہے اور بڑا اچھا بنا ہوا.البتہ مرمت طلب تھا.پرانا مکان تھا.قریبا تمیں پینتیس لاکھ کی اس کے لئے ضرورت پڑی تھی.پچھلے سال خریدا گیا تھا اور اس سال میں نے اس کا افتتاح کیا ہے.اور انگلستان، ناروے، سویڈن، ڈنمارک ، جرمنی اور سوئٹزر لینڈ ان ملکوں میں اتنا پیسہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ ہم اس کی قیمت ادا کر دیں گے.اور وہاں کے میئر (Mayor) مجھے کہنے لگے.آپ نے بڑا خرچ کر دیا.میں نے کہا خرچ تو بڑا نہیں کیونکہ ہماری ضرورت کے مطابق ہے.کئی سو احمدی تھا.ان کے بچوں کی تربیت نہیں ہو رہی تھی.نمازیں اکٹھے پڑھنے کا انتظام نہیں تھا.اللہ تعالیٰ کے انعامات جو بارش کی طرح برستے ہیں ان تک وہ انعامات پہنچتے نہیں تھے.ان باتوں سے تقویت ایمان ہوتی ہے.کوئی جگہ ہی نہیں تھی آپس میں مل بیٹھنے کی.یہاں بھی آپ مساجد بنایا کریں کیونکہ جو گھروں میں پڑھتے ہیں نماز باجماعت بعض جب چھوٹی سی رنجش ہو جائے آپس میں تو ایک دوسرے کے گھر نماز پڑھنے کے لئے بھی نہیں آتے.بڑی بُری بات ہے.لیکن میں کہتا ہوں چھوٹی چھوٹی باتوں میں رنجش تو ہو ہی جاتی ہے انسان کی.پھر بعد میں تو بہ کر لیتا ہے.کیوں نہیں تم خدا کا گھر بناتے جس پر کسی انسان کا کوئی حق نہیں اللہ کا حق ہے اور اللہ تعالیٰ نے کہا ہے ہرموحد جو خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنا چاہتا ہے اس کے لئے اس کے دروازے کھلے ہیں چاہے وہ موحد ، موحدین کے فرقے جو ہیں عیسائیت میں اس سے تعلق رکھتا ہو یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو.انسان کا حق ہی نہیں کہ وہ دروازے بند کرے خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کے لئے.مساجد میں ایک اور پس منظر تو وہ نہیں لیکن چھوٹا سا ٹکڑا ہے ایک واقعہ کا.نائیجیریا میں ایک جگہ ہے الا رو (Ilaro) اور اس کا فاصلہ ہے لیگوس دارالخلافہ سے قریباً اتنی میل اور اس کی آبادی ہے کم و بیش تمیں پینتیس ہزار اور جماعت احمد یہ ہزاروں کی تعداد میں ہے وہاں.بڑی فعال جماعت.نڈر جماعت اور انہوں نے اپنے خرچ سے ایک وین (Van) لی ہے.اس کے اوپر لکھا ہوا ہے' جماعت احمدیہ کی تبلیغی کار اور چار پانچ انہوں نے لئے ہوئے ہیں سکوٹر اور وہ تبلیغ کرتے رہتے ہیں.تفصیل میں بعد میں بتاؤں گا.انہوں نے چار مسجد میں پہلے بنائی ہوئی تھیں مرکز سے ایک دھیلا مانگے بغیر اور اب ایک جامع مسجد بنائی پانچویں اور خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر اور جماعت کو کہا کہ حضرت صاحب آ رہے ہیں.حضرت صاحب ہم چاہتے ہیں ، افتتاح کریں.میں نے کہا ٹھیک ہے.ہم وہاں گئے تو کئی ہزار ہوں گے.احمدی مردوزن اور بچے اور بے شمار دوسرے لوگ آئے ہوئے.اور بڑا ان کا اثر اور رسوخ ہے.جماعت کا بھی یعنی اُس اِلا رو (llaro) کے احمدیوں کا بھی اور ویسے جماعت احمدیہ کا بڑا اثر بڑھ گیا ہے.

Page 427

408 سبیل الرشاد جلد دوم اور وہاں ہم نے جمعہ پڑھا اور بڑی خوشی ہوئی ان سے مل کے.بات جو میں اس وقت مختصراً بتا نا چاہتا ہوں کہ افریقہ میں سینکڑوں مساجد احمد یہ جماعت بنا چکی ہے اور ایک دھیلا بھی انہوں نے مرکز سے نہیں لیا مسجد کے لئے اور ان کے دماغ میں یہ بات ہے کہ خدا کے گھر کے لئے مانگنا نہیں ، بناؤ.بعض دفعہ چھ چھ مہینے بناتے رہتے ہیں یعنی اگر زیادہ امیر نہیں اور مسجد بنانا چاہتے ہیں تو ہر مہینے پیسہ کچھ دے کے بنیادیں بنا دیں گے.پھر کھڑ کیوں تک وہ اٹھا دیں گے دیوار میں پھر اور لے جائیں گے.پھر چھ مہینے آٹھ مہینے کے بعد وہ مسجد تیار ہو جائے گی.پھر اندر کا وہ کام کرتے رہیں گے.نہ ادھر دیکھیں گے نہ اُدھر دیکھیں گے صرف آسمان کی طرف دیکھتے ہیں.ان کی نقل کریں.بنا ئیں یہاں مساجد اور مرکز سے ایک دھیلا نہ مانگیں.اس بات میں آپ کا ان کا مقابلہ کروا دیا آج میں نے.وہ آیا کرتے ہیں جلسے پر.وہ آپ سے پوچھیں گے ان کو میں کہہ دوں گا کہ جب آپ سے ملیں تو پتہ کریں کہ آپ نے کتنی مساجد بنائیں.وہ آپ کو بتا ئیں گے کہ انہوں نے کتنی مساجد بنا ئیں.یہ جو حالات دیکھے اصولی طور پر اس سے ہمیں یہ تاثر ملا کہ جماعت کو ایثار پیشہ، ذہین مبلغین کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ذہن دیا ہے اور ایثار بھی دیا ہے.اخلاص بھی دیا ہے لیکن ایثار اور اخلاص کے بعض پہلو پوری طرح ابھی چمکے نہیں.پالش نہیں ہوئی انہیں.پالش کریں ان کو.بچے دیں جامعہ کے لئے لیکن ذہین بچے.ایک وقت میں جس شخص کا بچہ بالکل جاہل ، خر دماغ ہوتا تھا اور میٹرک میں دو نمبر لے کے وہ پاس ہو جاتا تھا وہ خدا تعالیٰ پر احسان جتانے کے لئے آ کے جامعہ میں داخل کر دیتا تھا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی چھوڑ کے چلے گئے.بڑی بدمزگیاں ہو گئیں.اب میں نے یہ قانون بنایا ہے کہ اصل تو مجھے چاہئیں فرسٹ ڈویژن کے بچے لیکن سیکنڈ ڈویژن والوں کو ایک حد تک برداشت کر لیں گے، تھرڈ ڈویژن والوں کو نہیں لیں گے.اب اس سال بھی میں آیا ہوں تو میرے سامنے ایک فہرست میں تین بچے تھر ڈ ڈویژن والے پیش کر دیئے گئے کہ بچے تھوڑے ہیں اس لئے تھرڈ ڈویژن والوں کو بھی داخل کرنے کی اجازت دے دیں.میں نے اوپر تو نہیں لکھا اس کاغذ کے لیکن میرے ذہن میں یہ آیا کہ اگر ایک بھی نہ آتا اور یہ تین آتے تو میں کلاس جاری نہ کرتا.ان تین بچوں کو میں نے نہیں لینا.تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے فائدے کے لئے یہ حکم دیا کہ جس رکابی میں بال آیا ہو باریک تریر جو انگلی اگر پھیریں تو انگلی محسوس بھی نہیں کرے گی.اس میں کھانا نہ کھاؤ.کیونکہ وہاں بیکٹریا پرورش پاتا ہے اور انسان کو انفیکشن (Infection) کی بیماری ہو جائے گی.خدا کے جس رسول نے آپ کا اتنا خیال رکھا آپ اپنا ٹوٹا ہوا بیٹا اس کے حضور پیش کرنے کی کس طرح جرات کرتے ہیں.تو اول تو

Page 428

409 سبیل الرشاد جلد دوم مجھے فرسٹ ڈویژن کے چاہئیں.مولوی احمد خاں صاحب مرحوم کا بڑا پیارا بچہ ہے نسیم مہدی.اس نے فرسٹ ڈویژن بھی بڑی اونچی پاس کر لی.اس نے کہیں اپنے باپ کو کہا کہ میں کالج میں چلا جا تا ہوں اور بی.اے کرنے کے بعد آ جاؤں گا.اس نے زندگی وقف کی ہوئی تھی دل سے.وہ اس کو لے کے میرے پاس آگئے.مجھے کہنے لگے کہ کیا خیال ہے آپ کا.وہ بڑا سخت مخلص انسان تھا اور بڑی اطاعت کرنے والا وہ کہنے لگے میں اس کو پہلے بی اے کروا کے نہ لے آؤں جامعہ کی طرف.میں نے کہا نہیں ابھی جاؤ اور جامعہ میں داخل کراؤ.انہوں نے جا کے جامعہ میں داخل کروا دیا.جامعہ میں پڑھ کے اب وہ زیورک میں ہیں.خدا کے فضل سے ( آپ دعا بھی کریں اس نوجوان کے لئے ) اتنا اچھا کام کر رہا ہے کہ بہتوں کے لئے قابل رشک ہے اور جذبہ ہے تبلیغ کا.ابھی ایک سکیم پر عمل کرنے کو کہا گیا تھا ( کثرت سے فولڈ رز Folders شائع کرنے کی) سب سے آگے وہ نکل گیا یعنی جو نیکی کی بات ، جو مفید بات، جو تبلیغ کی بات میں بتا تا ہوں کوئی آہستہ سے اس کو لیتے ہیں اور آگے چلتے ہیں، کوئی جلدی سے لیتا ہے.وہ تو چھلانگ مار کے لیتا اور کہیں کا کہیں نکل گیا.اس ٹائپ کا ہے.ویسے ہی چاہئیں.دنیا میں ایک انقلاب بپا ہو رہا ہے.یہ انقلاب جو دنیا میں بپا ہو رہا ہے وہ اسلام کے حق میں ہو رہا ہے.یہ انقلاب آپ سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ صحیح اسلام اس کے سامنے پیش کیا جائے.اسلام جس کے معنی سلامتی ہیں جس کے معنی حقوق انسانی کی ادائیگی کے ہیں خواہ وہ انسان دہریہ اور خدا کو گالیاں دینے والا ہی کیوں نہ ہو.قرآن کریم نے ہر چیز کو کھول کے بیان کر دیا.اسلامی تعلیم کا مطالبہ کرتا ہے یہ انقلاب.میں جب پیش کرتا ہوں بعض دفعہ کہہ دیتا ہوں.جو تعلیم پیش کر رہا ہوں تم میں جرات نہیں ہوگی کہ کہو کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں یا ہم یہ تسلیم نہیں کرتے.کسی کو آج تک جرات نہیں ہوئی کہنے کی کہ نہیں یہ خراب ہے ہم نہیں مانتے.اور قسم کے اعتراض کر جاتے ہیں.یہ کہہ دیتے ہیں کہ کہاں کون سے مسلمان ان پر عمل کر رہے ہیں.میں کہتا ہوں میں تمہارے پاس قرآن پیش کر رہا ہوں.میں تمہارے سامنے نمونہ سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی کو پیش نہیں کرتا.یہ قرآن ہے اس کی تعلیم دیکھو.وہ نمونہ ہے کامل نمونہ اس کے نقوش پر چلو.جو اس کے نقشِ قدم پر ٹھیک طرح چلا وہ ایک حد تک تمہارے لئے اسوہ بن گیا.جو نہیں چلا وہ تمہارے لئے اسوہ نہیں ہے.اس کی طرف کیوں دیکھتے ہو.پس منظر کی ایک آدھ بات دوسری بھی میں نے تھوڑی سی بتا دی ہے.لیکن میں نے بتایا ہے کہ یہ تو لمبا سلسلہ ہے.میں نے ایک بار آپ سے پھر باتیں کرنی ہیں.اس موقع پر میں اس کا کافی حصہ انصار اللہ کو اُس موقع پر کچھ بتاؤں گا.پھر خدام الاحمدیہ میں دو یا تین تقاریر ہیں.یہ ابھی نہیں میں کہہ سکتا.اس میں میں

Page 429

سبیل الرشاد جلد دوم 410 بتاؤں گا.انصار تو خدام الاحمدیہ میں نہیں آتے لیکن ہر ضلع اپنے پانچ دس نمائندے بھیجے جو ان کو جا کے بتائیں کہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں میں نے کیا کہا.وہ ضرور یہاں رکیں یا بھیجیں بہر حال وہ موجودرہنے چاہئیں کیونکہ بہت سی اہم باتیں کرنے کا ارادہ ہے میرا اور اللہ تو فیق دیتا ہے.دعا کریں آپ کہ اللہ آپ کو اور مجھے توفیق دے اور آپ کو باتیں سننے، سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے.آمین.روزنامه الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۸۱ء)

Page 430

سبیل الرشاد جلد دوم 411 سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب (فرموده ۲ رنبوت ۱۳۵۹ بهش ۲ نومبر ۱۹۸۰ء بمقام احاطه دفاتر مجلس انصار اللہ مرکز ی ربوہ) مل انصار اللہ مرکز یہ کے تیسویں سالانہ اجماع کے موقع پر۲ نومبر ۱۹۸ء کوحضرت خلیفۃ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اختتامی خطاب فرمایا اس کا متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تشہد وتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: بعض بہت ہی اہم باتیں میں خدام ، انصار اور لجنہ یعنی جماعت سے کرنا چاہتا ہوں.اس لئے ایسی باتوں کا ذکر میں نے خدام الاحمدیہ کے اجتماع تک ملتوی کیا ہے اور میں نے آپ سے کہا تھا کہ ہر ضلع کے انصار کے نمائندے خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں شامل ہونے چاہئیں ، لیکن لجنہ میں میں علیحدہ تقریر میں وہ باتیں مختصراً بیان کر دوں گا.لجنہ کا اجتماع خدام الاحمدیہ کے اجتماع کے ساتھ ہوتا ہے.اُن سے علیحدہ باتیں ہو جائیں گی.بہت سی تو ایسی باتیں ہیں جن کا میری ذات سے تعلق بظاہر نظر آتا ہے وہ تو مجھے حجاب ہو گا شاید میں نہ بیان کروں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میری ذات سے کسی چیز کا بھی تعلق نہیں اس لئے کہ میں ایک نہایت ہی عاجز انسان ہوں اور جو کچھ بھی اس وقت دنیا میں ہو رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی سچی تو حید کے قیام کے لئے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو دلوں میں گاڑنے کے لئے ہو رہا ہے.پہلے میں افریقہ کے ان دو ملکوں کو لیتا ہوں جن میں میں گیا اس سفر میں.بہت پھرا ، ہیں تمہیں ہزار میل کا غالبا سفر کیا ہے میں نے ان دنوں میں.پھر بھی ہر جگہ نہیں جاسکا.مغربی افریقہ کے بہت سے ملکوں میں دل کرتا تھا کہ جاؤں جہاں نصرت جہاں ، جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری کی گئی تھی ، کام کر رہی ہے.صرف نائیجیریا اور غانا میں جاسکا.نائیجیریا میں جو انقلاب عظیم ذہنی طور پر بپا ہو رہا ہے اُس کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے.ایک مثال میں لیتا ہوں ظاہر کی.جس وقت ہم وہاں پہنچے یعنی ہوائی جہاز سے اتر کے آئے تو اس قدر وہاں اللہ کے فضل سے اور اللہ ہی کے نام کو بلند کرنے کے لئے ہجوم جمع تھا کہ میرے اندازے سے بھی کہیں زیادہ تھا.کیونکہ دس سال پہلے میں اسی ہوائی اڈے پر اُترا تھا اور اس وقت وہاں چند سو سے

Page 431

412 سبیل الرشاد جلد دوم زیادہ احمدی نہیں تھے اور اس بار با وجود رات ہو جانے کے ہزار ہا احمدی نمائندے ( ہر جگہ کے نمائندے حاضر بھی نہیں تھے کیونکہ بہت بڑا ملک ہے وہ ) وہاں پر موجود تھے اور بڑا جوش اور جذبہ تھا اُن میں.اور دیکھنے والی آنکھ نے اور رپورٹ کرنے والی قلم نے یہ بیان کیا یعنی وہ آنکھ اور وہ قلم جس کا احمدیت سے تعلق نہیں ادھر اُدھر رپورٹیں جاتی رہتی ہیں نا کہ اس وقت وہ زبر دست استقبال ہوا کہ آج تک نائیجیریا میں کسی سر براہ مملکت کا بھی ویسا استقبال نہیں ہوا.( نعرے ) یہ جو کچھ بھی ہوا وہ مرزا ناصر احمد کے لئے نہیں ہوا بلکہ اللہ اور اُس کے رسول کے ایک ادنیٰ خادم کے لئے ہوا.وہاں ایک اور واقعہ بھی ہوا.ہم ابادان گئے.ابادان مسلمانوں کا شہر ہے، بہت بڑا ۲۰،۱۵ لاکھ کی آبادی ہے.غالباً ، بہت پرانا مسلم آبادی کا شہر ہے ، وہاں بڑی جماعت ہے ، ایک نئی بہت بڑی مسجد انہوں نے بنائی ہے.وہاں ہم صبح گئے ، شام کو واپس آئے ، بہت دوست وہاں جمع تھے اور ایسے بھی تھے جو ابھی احمدیت میں داخل نہیں ہوئے کل کو ہو جائیں گے انشاء اللہ ).راستے میں بارش ہوئی اور بارش میں اندھیرے میں ہم سفر کرتے ہوئے جس وقت لیگوس جو ان کا دارالخلافہ ہے جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے وہاں پہنچے تو شہر کی سرحدوں کے قریب ایک خطر ناک قسم کا حادثہ ہوا ہماری کار کے ساتھ.کار تو بالکل ٹوٹ پھوٹ گئی اور ہمارا یہ حال تھا کہ کچھ دیر کے بعد جب دروازہ کھول کے مجھ سے کسی نے پوچھا کہ چوٹ تو نہیں آئی تو میں نے کہا پہلے کھڑ کی کھولو کہ میں باہر نکل کے یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ میری کوئی بڑی تو نہیں ٹوٹی.خیر اللہ نے بڑا فضل کیا.جب ہوٹل پہنچے تو ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب کو میں نے کہا باقی ہڈیاں تو ٹھیک ہیں.ریڑھ کی ہڈی کو پہلے بھی گھوڑے سے گر کے تکلیف ہوئی تھی اور لمبی چلی تھی اس کو دیکھیں ریڑھ کی ہڈی میں تو نہیں تکلیف.تو انہوں نے جائزہ لیا اور تسلی دلائی کہ وہ ٹھیک ہے.اُس وقت میں نے اپنے رب سے یہ عہد کیا کہ اُس نے اس خادم کی جان بچائی ہے محض اپنے فضل اور رحم کے ساتھ نہ کہ میری کسی خوبی کے نتیجہ میں ، اس لئے میں اپنے پروگرام میں اس حادثہ کی وجہ سے ایک سیکنڈ کی بھی تبدیلی نہیں کروں گا.اگر چہ کوئی ہڈی تو نہیں ٹوٹی تھی.لیکن سر سے لے کر کمر کے نچلے حصے تک مسلز (Muscles) میں اتنی شدید درد کی تکلیف تھی کہ آپ اُس کا اندازہ نہیں کر سکتے.ڈاکٹروں نے جو دوائی بتائی اُس نے درد کو کم کیا اور ہم نے اپنے پروگرام کو جاری رکھا.جن کو نہیں پتہ تھا حادثہ کا اُن کو اندازہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ کس حادثے سے ہم گزر کے آئے ہیں.تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نائیجیر یا وہ ملک ہے جہاں آج سے دس سال پہلے غلط فہمیوں اور عدم علم کے نتیجہ میں بہت سی بدظنیاں اور بدمزگیاں پیدا ہوگئی تھیں جماعت احمدیہ کے

Page 432

413 مشتمل سبیل الرشاد جلد دوم خلاف.مسلم نارتھ بہت بڑا علاقہ نائیجیریا کے شمال میں ہے جو قریباً قریباً سو فیصد مسلمان آبادی پرمستنم ہے.اُس وقت تو غالباً نو صوبے تھے پھر بعد میں وہ بارہ بنے اور اب اُنیس صوبے کر دیئے گئے ہیں.سارے نائیجریا کے.تو بہت سے صوبے ہیں اور بہت سا علاقہ ایسا ہے جہاں عثمان فودی جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے ایک صدی پہلے اُس علاقہ کے مجدد ہو کر آئے.دنیوی سیاست میں تو نہیں لیکن ویسے دو حصوں میں ان کے دو بیٹوں کی اولاد کا اتنا اثر ہے کہ وہاں کے صوبہ کا گورنر بھی اُن سے مشورہ کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا.اُن کے چھوٹے بیٹے کی جو اولاد ہے اس میں تو تعصب نہیں.انہیں رائل بلڈ Royal) (Blood شاہی خون کے نام سے پکارا جاتا ہے اُن کی زبان میں.اُن میں بعض احمدی بڑے دلیر قسم کے ہو چکے ہیں.عثمان فودی کی اولاد میں سے.اور دوسرے صوبے میں یہ لوگ پڑھے لکھے ہیں.اتفاق یہ ہے کہ عثمان فودی کے وہ صاحبزادے جن کا نام عبد الرحمن تھا وہ بڑے عالم اور تفقہ فی الدین رکھنے والے تھے.بہت سی عربی میں کتابیں لکھی ہیں.میں نے بھی اُن میں سے بعض پڑھی ہیں.اُن کی اولاد میں سے جو اس وقت ہیں وہاں وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں، لیکن متعصب بڑے ہیں.اُن کے علاقے میں تو کوئی احمدی گھس ہی نہیں سکتا تھا اتنی مخالفت تھی، لیکن اُس زمانے میں بھی اُن کا داماد احمدی تھا اور چھپا ہوا تھا، لیکن ۱۹۷۰ء میں جب یہ نصرت جہاں کا منصوبہ جاری ہوا اور وہاں سکول کھلا تو ہمارے قائم کردہ ایک سکول میں ایک وزیر آئے اور وہاں اُن کے منہ سے کچھ ایسی باتیں احمدیت کی تعریف میں نکلیں کہ ہمارے احمدی حیران ہوئے کہ یہ اُس خاندان سے تعلق رکھنے والا اُن کا داماد ہے اور یہ ایسی باتیں کیسے کہہ گیا احمدیت کے حق میں.کوئی دوست اُن کو ملے تو وہ کہنے لگے میں تو چھپا ہوا احمدی ہوں.میں تو سکول کے زمانے سے احمدی ہوں اور میرے جیسے چار پانچ اور بھی ہیں.یہاں احمدی چھپے ہوئے ، جو بڑے بڑے عہدوں پر ہیں ، اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتے.بہر حال یہ اُس زمانے کی بات ہے.پھر خدا تعالیٰ نے توفیق دی اور وہاں دو سکول جماعت احمدیہ نے نصرت جہاں سکیم کے ماتحت کھولے اور ہمارے ٹیچر وہاں گئے اور اثر ہوا اور جو عدم علم اور جہالت کی وجہ سے خیالات تھے ، اُن میں ایک تبدیلی آنی شروع ہوئی.بہت سے ہونسا کے رہنے والے باہر ادھر اُدھر گئے ہوئے تھے وہ بھی احمدی ہوئے.پھر واپس آئے.حالات بدلتے رہتے ہیں ملکوں میں.اُن کے حالات بھی بدلے اور اب یہ حال ہے ، ایک میں مثال دوں گا یوں تو بہت سی مثالیں ہیں.میں یہاں سے جب جانے لگا دورے پر تو نائیجیریا سے ایک خط ملا جس کا میں نے کہا، جواب دے دیں.پھر سفر میں مجھے خط ملا اور خط یہ تھا، ( یہ تبدیلی جس کو میں ذہنی انقلاب کہتا ہوں اس سے اس کا پتہ لگتا ہے ) انہوں نے لکھا کہ فلاں صوبے میں آبادی کی نسبت کچھ اس طرح ہے کہ

Page 433

414 سبیل الرشاد جلد دوم ایک تہائی مسلمان ہیں ، ایک تہائی عیسائی ہیں اور ایک تہائی بت پرست ہیں.عیسائی پادری بُت پرست لوگوں میں مشنری کام کر رہے ہیں ، انہیں عیسائی بنارہے ہیں اور مسلمانوں میں کوئی ایک بھی فرقہ نہیں ہے جو ان کا مقابلہ کر سکے ، اس واسطے اگر آپ اس صوبے کو عیسائی صوبہ بننے سے بچانا چاہتے تو فوری طور پر یہاں پانچ ہائر سیکنڈری سکول (انٹرمیڈیٹ کالج ) کھولیں کیونکہ صرف جماعت احمدیہ ہے جو عیسائی مشنریز کا مقابلہ کر سکتی ہے.سواتنا عظیم انقلاب بپا ہو گیا ہے وہاں.غانا میں بڑے مسلمان ہیں تعداد کے لحاظ سے لیکن منتشر اور پراگندہ جن کا کوئی وقار اور کوئی مقام نہیں اور جماعت نے وہاں کام شروع کیا اور پیار کے ساتھ ان کے دل جیتنیشر وع کئے.دو جگہوں کا مجھے علم ہے جہاں شروع میں جب احمدی ہوئے تو ان کو اس قسم کے اسی طرح دُکھ اُٹھانے پڑے جس طرح بعض مقامات پر حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے زمانہ میں احمدیت کی ابتداء میں جو احمدی اکا دکا ہو جاتا تھا گاؤں میں اُن کا حقہ پانی بند کر کے اُن کو دُکھ پہنچائے جاتے تھے ہمارے ملک میں اور وہ ثابت قدم رہے.ایک اُن میں سے ”وا‘ کا علاقہ ہے غانا کے شمال میں.ابتداء میں وہاں چند آدمی ، چند خاندان احمدی ہوئے انہوں نے بڑی مصیبتیں جھیلیں اسلام کی خاطر ، جسے ہم احمدیت کہتے ہیں.اور اب وہاں پندرہ بیس ہزار پر مشتمل احمدی جماعت قائم ہو چکی ہے اور اخلاق کا رُعب ہے.ہنستے ہوئے مسکراتے ہوئے جب آپ ملاقات کرتے ہیں وہ اپنا اثر کرتی ہے لوگوں کے کام آنا ، لوگوں کے دُکھوں کو دُور کرنے کی کوشش کرنا ، ان کی عزت کرنا یہ اپنا اثر رکھتا ہے.اب حالت اتنی بدل گئی ہے کہ بارشوں کی وجہ سے رستے ٹوٹے ہوئے تھے میں وہاں جانہیں سکا، کئی سومیل کا فاصلہ ہے’اکر ا دارالخلافہ سے.اُن کا ایک چھوٹا سا وفد اڑھائی سو افراد پر مشتمل وہاں سے آیا.اکرا میں ملا اور سالٹ پانڈا گلے روز میں گیا جمعہ کے لئے تو وہاں وہ بھی شریک ہوئے.یہ بیچ میں ایک بات میں کر جاؤں سالٹ پانڈ کی.مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک خراب سے ٹی وی کے اوپر آپ نے کچھ جھلکیاں فلم کی دیکھی ہیں رات کو.ٹی وی سیٹ اگر اچھا ہو تو اس فلم کی آواز بھی بڑی صاف ہے.مجھے بتایا گیا ہے صاف آواز نہیں تھی.آواز صاف ہے ویسے یہ جو یہاں ٹی وی تھا اُس کی آواز صاف نہیں تھی.فلم کی آواز صاف ہے.وہاں ہم نے بہت محتاط اندازہ لگایا تھا.پچیس ہزار کے قریب احمدی جمعہ میں شامل تھےمردوزن افريقينز (ہماری جو جماعت ہے وہاں ) ان کا اندازہ تھا چالیس اور پچاس ہزار.لیکن یہ جو جمعہ ہم نے پڑھا ہے پرسوں ، آپ نے دیکھا ہوگا مسجد کا صحن بھی بھرا ہوا تھا، اندر کا حصہ بھی بھرا ہوا تھا.آپ نے جو بیٹھے ہوئے تھے وہ نہیں دیکھا جو میں نے دیکھا.میں صفیں درست کرواتا ہوں.یہ بھی سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم ہے.آپ صفیں درست کرواتے تھے ایسے مجمع میں.تو ہر جمعہ میں مجھے کچھ 6.

Page 434

415 سبیل الرشاد جلد دوم وقت انتظار کرنا پڑتا ہے کیونکہ فاصلے فاصلے پر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں دوست.درمیان میں خالی جگہ نہیں چھوڑی جاسکتی.پیچھے سے نمازی آگے آتا ہے تب صف درست ہوتی ہے.پرسوں جب کھڑے ہوئے ہیں تو میرے خیال میں ایک جگہ بھی خالی نہیں تھی یعنی بیٹھے ہوئے تھے.کندھے سے کندھا جوڑ کے اور میرا انداز ہے کہ یہ بارہ چودہ پندرہ ہزار آدمی تو ہو گا جمعہ میں.اگر یہ بارہ ہزار بھی تھا تو اُن کی بات صحیح ہے وہاں چالیس پچاس ہزار تھا.(نعرے) یہاں غانا میں بھی تعداد بڑی ہوگئی ہے.ان کا اندازہ اور میرا خیال درست ہے کہ پانچ لاکھ اور دس لاکھ کے درمیان احمدی غانا میں ہو گئے ہیں جو چھوٹا سا ملک ہے جس کی کل آبادی ستر اسی لاکھ ہے.وہاں ان کا بڑا اثر ہے ”وا (WA ) سے جو دوست آئے جن کا میں ذکر کر رہا تھا وہ کہنے لگے کہ وہاں کے عیسائی عیسائیت سے مایوس ہو چکے ہیں.اور وہ سارے میرے وہاں پہنچنے کا انتظار کر رہے تھے اور اپنے طور پر استقبال کی تیاریاں کر رہے تھے.تو ایک بڑی تبدیلی پیدا ہو رہی ہے اور وہ ملک اس نتیجہ پہ پہنچ چکا ہے جس کا وہاں اظہار بھی کیا گیا کہ جماعت احمد یہ اس مضبوطی سے مستحکم ہو چکی ہے کہ اسے اب نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.چنانچہ مسلمانوں کو بوجہ اس کے کہ وہ منتشر تھے اور اُن میں اتحاد نہیں تھا کہ کثرت کے باوجود ان کو وہاں کے لوگ نظر انداز کر رہے تھے اور کوئی اُن کو پوچھنے والا نہیں تھا، لیکن اب انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ احمدی مسلمانوں کو نظر انداز نہیں کریں گے.افریقہ اور یورپ، کینیڈا اور امریکہ جہاں میں گیا ہوں ایک بنیادی چیز ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ یہ سارے ممالک اور ان کی آبادیاں جو کچھ اُن کے پاس ہے (مذہب اور اصول تہذیب واخلاق ) اُس سے مایوس ہوتی چلی جارہی ہیں اور اسلام کی طرف متوجہ ہو رہی ہیں.اُن کی مشکل یہ ہے کہ صحیح اسلام اُن کے سامنے پیش نہیں کیا جا رہا.اسلام ایک عظیم مذہب ہے: اسلام ایک عظیم مذہب ہے.اسلام نام ہے سلامتی کا، اسلام نام ہے امن کا ، اسلام نام ہے حقوق کو قائم کرنے اور اُن کی حفاظت کا، اسلام نام ہے نہ صرف حقوق انسانی کی حفاظت بلکہ حقوقِ اشیائے کائنات کی حفاظت کا کیونکہ اعلان کیا گیا رَحْمَةً لِلْعَلَمِینَ“ اسلام نام ہے مرد اور عورت کی مساوات اور برابری کا.نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم اپنی استعدادی طاقتوں کے لحاظ سے ، اپنی اخلاقی رفعتوں کے لحاظ سے، اپنی روحانی عظمتوں کے لحاظ سے ایک فرد واحد ہیں کہ جس کے مقابلے میں کوئی اور انسان نہ کسی نے پیش کیا نہ کوئی کر سکتا ہے نہ کر سکے گا.یہ اپنی جگہ درست ، لیکن آپ بشر بھی ہیں ، انسان بھی ہیں

Page 435

416 سبیل الرشاد جلد دوم اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو کہا کہ دنیا میں یہ اعلان کر دو کہ بشر ہونے کے لحاظ سے میں ہرانسان کے برابر ہوں.کسی انسان مرد ہو یا عورت اُس میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں.قُلْ اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ) اور یہ اتنا عظیم اعلان ہے کہ جس وقت میں نے ۱۹۷۰ء میں غانا ہی میں ٹیچی مان کے مقام پر دس ہزار کے مجمع میں اور بہت سارے اُس وقت آئے ہوئے تھے بُت پرست وغیرہ بھی یہ اعلان کیا.اُن کا لاٹ پادری بھی آیا ہوا تھا وہاں اور کہنے والوں نے بتایا کہ وہ اس طرح اُچھلا جس طرح کسی نے اُسے سوئی چبھودی ہے.میں نے کہا دیکھو جو سب سے بڑا تھا اس کے منہ سے خدا نے یہ اعلان کروایا انسان کو مخاطب کر کے کہ انہیں کہہ دو بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں تو وہ جو بہر حال اُس سے جو نیئر ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام وہ اور اُن کے ماننے والے تم پر برتری کا دعوی نہیں کر سکتے.اس پر خوشی کی زبر دست لہر دوڑی افریقنز میں اور وہ پادری پریشان ہوئے کہ ہماری برتری کو خاک میں ملا دیا گیا ہے.حقیقت یہی ہے اسلام نے اس اعلان کے ساتھ دنیا کا دل جیتا ہے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے.بلال جو اپنے آقاؤں کا جو حاکم وقت تھے مکہ میں غلام تھا ، ان کے کوڑے کھایا کرتا تھا ، اُس بلال کو زمین سے اُٹھا کر آسمانوں تک پہنچا دیا کہ خلیفہ وقت بھی اُسے مخاطب کر کے کہتے تھے سیدنا بلال، کہیں دنیا میں ایسی مثال نہیں ملتی.ہمارے ہاں بھی ہندوؤں کی روایتیں چلی آ رہی ہیں کہ یہ پٹھان ہے اور یہ وہ ہے اور یہ وہ ہے.احمدیت اور اسلام میں پٹھان وٹھان کوئی نہیں سارے مسلمان ہیں ہاں اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتَّقُكُمْ نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوششیں کرو.خدا تعالیٰ کی نگاہ میں جو زیادہ عزت پائے گا دنیا کی نگاہ میں وہی زیادہ معزز بن جائے گا.خدا تعالیٰ کی نگاہ سے گر کے نہ تمہارا مغل ہونا نہ تمہارا سیّد ہونا نہ تمہارا پٹھان ہونا نہ تمہارا چو ہدری ہونا نہ راجپوت ہونا قطعاً کوئی معنے نہیں رکھتا.اگر تم خدا کی بات نہیں مانتے ، اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کے لئے تیار نہیں تو میں سچ کہتا ہوں کہ دنیا بھی تمہیں جو تیاں مارے گی اور تمہاری کوئی عزت نہیں کرے گی.آج وہی عزت پائے گا جو قرآن کریم کی عزت کرنے والا ہو گا.آج وہی عزت پائے گا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو اس مضبوطی سے پکڑے گا کہ دنیا کی کوئی طاقت اُس سے اس دامن کو چھڑوا نہیں سکے گی.آج وہی عزت پائے گا جو خدائے واحد و یگانہ کی وحدانیت کے ترانے گا تا ہوا اپنی زندگی کے دن گزارے گا.خدا تعالیٰ خالقِ گل ، مالک گل ، ساری صفاتِ حسنہ اُس میں پائی جاتی ہیں.ایسی عظیم ہستی ہے کہ انسان اُس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتا.وہ پیار کرنا چاہتا ہے اپنے بندوں سے.اُس سورۃ الکہف آیت ۱۱۱ سورۃ الحجرات آیت ۱۴

Page 436

417 سبیل الرشاد جلد دوم نے پیدا کیا ہے بندوں کو اس لئے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ کہ اُس کی صفات کی جھلک اُس کے بندوں میں ہو، وہ رنگ چڑھے ، وہ حُسن ان میں پیدا ہو، وہ نور اُن کی زندگیوں سے جھلکے.جس کی زندگی میں اللہ کا نور چمک رہا ہو ، جس کی زندگی پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حُسن کے نقوش پائے جاتے ہوں، کون ہے دنیا میں جو اُس کی عزت نہیں کرے گا.لیکن تم اپنے زور بازو سے کسی سے بھی عزت نہیں کروا سکتے.یہ دنیا کی عزتیں ساری جھوٹی عزتیں ہیں.یہ خوشامدوں میں لپٹی ہوئی دنیا کی عزتیں دروغ گوئی میں لپٹی ہوئی.دنیا کی عزتیں عارضی ہیں آج جو شاہی تخت پر بیٹھا ہے کل وہ آپ کو دار پر نظر آتا ہے.یہ تاریخ کے افسانے نہیں ہیں یہ آج کے واقعات ہیں اس زندگی کے.سب بڑائیاں اسلام نے ختم کر دیں.میں تو انگریزی میں کہا کرتا ہوں " Islam is a great Leveller" سب اونچے سر جو تھے ان کو ایک برابر کر کے کھڑا کر دیا.سب بھائی بھائی برابر.پریس والے علیحدہ بھی ملتے ہیں بعض دفعہ.پھر وہ پڑ جاتے ہیں تفصیل میں.اپنے متعلق بتلائیں کیا مقام ہے آپ کا؟ میں نے کہا میرا مقام ! ایک میرا مقام ہے ہدایت دینے کا ، ایک میرا مقام ہے ہر احمدی میرا بھائی ہے اور ہر احمدی ( یہ حقیقت ہے ) سمجھدار ہے.وہ آتا ہے، میرے ساتھ بیٹھتا ہے، بالکل بے تکلف باتیں کرتا ہے.عورتیں خط لکھ دیتی ہیں مجھ کو ، اپنے باپ کو وہ خط نہیں لکھ سکتیں جو مجھے لکھ دیتی ہیں.گجرات سے ایک دفعہ خط آ گیا کہ میرا باپ زبر دستی شادی کرنا چاہتا ہے.میں خلیفہ وقت کو اپیل کرتی ہوں ، وہ خط میں نے بند بعد میں کیا پہلے آدمی کو بلایا اور اس کو وہاں بھیج دیا کہ باپ کو سمجھاؤ کہ تمہیں جس چیز کی خدا تعالیٰ نے اجازت نہیں دی ، تم کیسے جرات کر سکتے ہو.وہ کرنے کی.بچی کی مرضی کے بغیر شادی نہیں ہو گی.مخلص تھا مگر غلطی کر رہا تھا کہا نہیں ہو گی.اب امریکہ سے (ساری دنیا میں یہ حال ہے ) جلسے پر ایک شادی شدہ بچی آئی.اُس کے خاوند کا مسئلہ تھا اُس کا نہیں تھا لیکن تھا بڑا بھیا نک سا، احمدیت سے پہلے کی زندگی سے متعلق.اُس کے خاوند کی زندگی سے تعلق رکھتا تھا.اپنے ملک میں اپنے مزاج کے احمدیوں کے سامنے بات کرنے کی جرات نہیں کی اُس نے.مجھے کہنے لگی علیحدہ وقت دیں.میں نے کہا جلسہ ہے مشغولیت بڑی ہے اگر وقت ملا تو دے سکوں گا.( اکٹھی مل رہی تھیں وہ ساری امریکن احمدی مستورات) اگر نہ دے سکا وقت تو مجھے لکھ کے دے دینا اور تسلی رکھو کسی کو نہیں بتاؤں گا.وہ مجھے اس نے لکھ دیا اور کسی کو اُس نے نہیں بتایا.بڑی اہم تھی بات.پھر میں نے اس کے امیر کو بلا کے، یہ بتائے بغیر کہ ایک واقعہ ہوا ہے، کہا تمہارے ملک کے حالات ایسے ہیں.اس قسم کے واقعات ہونے لگ جائیں گے آئندہ.تو تمہیں میں مسئلہ بتا دیتا ہوں سورۃ الڈ ریات آیت ۵۷

Page 437

سبیل الرشاد جلد دوم 600006 418 اسلام کا.اگر تمہارے سامنے ایسی کوئی بات آئے تو اس کے مطابق حل کر لیا کرنا.اس طرح اُس کو سمجھایا.تو کتنا احسان ہے اللہ کا.آتے ہیں بے تکلف بیٹھتے ہیں، باتیں کرتے ہیں.آدھی تکلیف تو ویسے دور ہو جاتی ہے اور ساری پھر اللہ تعالیٰ دُور کر دیتا ہے.مجھ میں تو یہ طاقت نہیں ہے کہ سب احمدی جو ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں میں ان کی تکالیف دور کر دوں لیکن میرے خدا میں یہ طاقت ہے اور اُس نے یہ اعلان کیا کہ خلافت کو قائم اس لئے کیا جاتا ہے کہ تا کہ دکھوں کو دور کیا جائے.(نعرہ) اور عجیب عجیب معجزانہ واقعات ہو جاتے ہیں.ایک لنڈن کا واقعہ سن لیں یعنی مجھ میں تو طاقت ہی نہیں.میں تو غریب مسکین انسان ہوں.ایک شخص کے دو تین مہینے کے بعد بچہ ہونا تھا.مجھے کہنے لگا نام رکھ دیں ایک لڑکے کا، ایک لڑکی کا.میں نے کہا.میں تو صرف لڑکے کا ہی نام رکھ دیتا ہوں.دو مہینے پہلے انگلستان کی ساری لیڈی ڈاکٹر ز نے کہا کہ تیری بیوی کے پیٹ میں لڑکی ہے.اُس کے دوستوں نے کہا.جا کے حضرت صاحب سے کہو نام بدلیں.اُس نے کہا میں نے کوئی نہیں کہنا.دو مہینے تک اصرار کرتی رہیں لیڈی ڈاکٹرز کہ پیٹ میں لڑکی ہے.بہت سارے ٹیسٹ نکلے ہیں ، اُن کا دعوی ہے کہ وہ صحیح معلوم کر لیتی ہیں.اور ہمارے وہاں ہوتے ہوئے بچہ پیدا ہوا اور وہ لڑکا تھا.ساری لیڈی ڈاکٹروں کی جو تشخیص تھی اور جو علم تھا وہ دھرے کا دھرا رہ گیا.ایک اور شخص نے مجھے کہا.اُس نے نام پوچھا میں نے ایک نام لڑکے کا لکھ کے لفافے میں بند کر کے اُس کو دے دیا اور میں نے کہا جب بچہ ہو اس لفافے کو کھولنا اور نام رکھ دینا.جب اُس نے لفافہ کھولا تو اُس میں ایک ہی نام تھا اور وہ لڑکے کا تھا اور وہ لڑکا اُس کے ہوا تھا.تو اب میں کیا چیز ہوں یعنی اگر میں ان چیزوں کو اپنی طرف منسوب کروں تو سب سے بڑا دنیا کا پاگل میں ہوں گا مگر خدا کا فضل ہے میں پاگل نہیں ہوں.میں اپنے مقام کو بھی جانتا ہوں اور اپنے خدا کے مقام کو بھی پہچانتا ہوں.مجھ سے کینیڈا میں پوچھا ایک شخص نے کہ اسلام میں وحی اور الہام کا کیا تصور ہے.ان لوگوں کی عادت ہے کہ جو بھی بتاؤ کہتے ہیں کہ بائیبل میں بھی یہی لکھا ہوا ہے.میرے ساتھ تو چالاکیاں کرنی مشکل ہیں.میں نے کہا پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ بائیل میں وحی اور الہام کا کیا تصور ہے.اُس نے بتایا بائیل کیا کہتی ہے.پھر میں نے اُس کو بتایا کہ اسلام میں وحی اور الہام کا یہ تصور ہے اور میں تمہیں مثال دیتا ہوں ۱۹۷۴ ء کی.جب یہ کہا گیا کہ سوال و جواب ہوں گے اور اُسی وقت آپ نے جواب دینا ہوگا تو صدر انجمن احمدیہ نے لکھا کہ نوے سال پر لٹریچر پھیلا ہوا ہے.سینکڑوں کتابیں ہیں اور امام جماعت احمدیہ کا یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ ساری کتب ان کو زبانی یاد ہیں.اس واسطے ایک دن پہلے آپ سوال کریں اور اگلے دن جواب مل جائے گا.انہوں نے کہا نہیں یہی ہو گا.طبعا بڑی اہم ذمہ داری تھی اور پریشانی.ساری

Page 438

419 سبیل الرشاد جلد دوم رات میں نے خدا سے دُعا کی.ایک منٹ نہیں سویا ، دعا کرتا رہا.صبح کی اذان کے وقت مجھے آواز آئی بڑی پیاری وَسِعُ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِين“ ہمارے مہمانوں کی فکر کرو.وہ تو بڑھتے ہی رہیں گے تعداد میں.اب دیکھا نا ساری قناتیں اُٹھانی پڑیں ، آج وَسِعُ مَكَانَكَ مہمان بڑھتے چلے جائیں گے، ان کی فکر کرو، اپنے مکانوں میں وسعت پیدا کرو، استہزاء کا منصوبہ ضرور بنایا ہے انہوں نے مگر اس کے لئے ہم کافی ہیں.۵۲ گھنٹے دس منٹ میرے پر جرح کی اور (۵۲) گھنٹے دس منٹ میں نے خدا کے فرشتوں کو اپنے پہلو پہ کھڑا پایا.بعض اور باتیں بتا ئیں میں نے ان کو.بعض لوگوں نے کہا آپ ابھی لکھا دیں ہمیں.میں نے کہا لکھ لو وہ کہتا کہ یہ کیسے پتہ لگے یہ خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی بات ہے.میں نے کہا مستقبل بتاتا ہے جو بات کہی جائے اگر وہ پوری ہو جائے اس کا مطلب ہے خدا نے بتائی.خدا کے علاوہ تو آئندہ کی بات کوئی نہیں بتا سکتا.علام الغیوب صرف خدا تعالیٰ کی ہستی ہے.پھر میں نے مزید بتایا.میں نے کہا میں بچوں سے پوچھتا ہوں.بعض دفعہ کہ کوئی کچی خواب آئی.چھوٹے چھوٹے زمینداروں کے بچے دیہات میں رہنے والے، ماحول اُن کا اسی قسم کا ہے، وہ کہتے ہیں جی ہمیں خواب آئی سچی.کیا خواب آئی بچی؟ جی بھینس کے بچہ ہونے والا تھا اور خدا نے ہمیں خواب دکھائی کہ کٹی ہوئے گی تے وی (۲۰) دن بعد کئی ہو گئی.چھوٹی سی بات ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اُس بچے کے ساتھ بچے کی زبان میں بات کرنی ہے اُس بچے کے ساتھ ابن خلدون کے فلسفہ پر گفتگو نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ.بچہ سمجھ ہی نہیں سکتا اُس کو.تو خدا تعالیٰ نے پہلے دن بچپن میں یہ سبق دینا ہے کہ میں ہوں اور علام الغیوب ہوں اور طاقتوں والا ہوں اور وہ اس کو تربیت دیتا ہے.آپ لوگ تو تربیت میں سست ہو گئے.خدا تعالیٰ تو سست نہیں ہوا.وہ ہماری جماعت کی تربیت کرتا چلا جاتا ہے.انصار اللہ کی ذمہ داریاں بعض باتیں انصار اللہ کے متعلق ہیں.انصار اللہ کی ذمہ داریاں ہیں زیادہ یعنی خاندان ہے، شادی ہوئی ہوئی ہے، بیوی ہے، بچے ہیں ، اکثر یہاں وہی بیٹھے ہوں گے.قرآن کریم نے کہا ہے.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيْكُمُ نَارا پہلی ذمہ داری انسان پر اُس کے نفس کی ہے اور دوسرے نمبر پر اُس پر اُس کے خاندان کی ہے.خدا کہتا ہے خود اپنے نفسوں کو اور اپنے خاندانوں کو خدا تعالیٰ کے غضب سے بچانے کی کوشش کرو.اور قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچنے اور بچانے کی تدابیر خود بیان کی ہیں.بڑی عظیم کتاب ہے یہ.صراط مستقیم جو ہے وہ خود بتایا ہمیں.ہر آدمی کے لئے بعض پہلو اُسی کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں.دعا ئیں سکھا ئیں.انھدِنَا سورۃ التحریم آیت ۷

Page 439

420 سبیل الرشاد جلد دوم الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ- اَرِنَا مَنَا سِگنا.ہم سے تعلق رکھنے والے جو پہلو ہیں وہ ہم پر اُجا گر کر.تا کہ وہ راستہ جو تیری رضا کی طرف لے جانے والا ہے اُس تک میں اور میرا خاندان پہنچے.اگر جماعت احمدیہ کے سارے خاندان خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والے ہوں تو جماعت احمد یہ دنیا کے لئے ایک مثالی جماعت بن جاتی ہے.آج دنیا اسلام کی طرف متوجہ بھی ہے اور نمونہ مانگتی ہے.ہر سفر میں ، ہر موقع پر پر یس کا نفرنس میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ہمارے سامنے نمونہ پیش کیا جائے.اسلام کی تعلیم پر کون عمل کر رہا ہے اور ثمرات اسلام کیا ہیں یعنی اسلام پر ایمان لا کر کیا حاصل ہوتا ہے اور کیا حاصل ہو رہا ہے.دنیوی لحاظ سے عقلمند لوگ ہیں یہ اُن کا حق ہے کہ یہ پوچھیں.میں کھل کے بات کرتا ہوں.میں تو خدا کا ایک عاجز بندہ ہوں کوئی چیز چھپا کے نہیں رکھتا.میرے لئے دنیوی مصلحت کوئی نہیں.میرے لئے سچ بولنا ایک ہی مصلحت ہے.کھل کے کہتا ہوں کہ دیکھوا گر ہم تمہارے سامنے کوئی ایسی چیز پیش کریں جو اُس سے اچھی ہو جو تمہارے پاس موجود ہے تم لے لو گے اُسے.عقل کا یہ تقاضا ہے.لیکن اگر ہم تمہیں کنونس (Convince) نہ کر سکیں.اگر ہم تمہیں باور نہ کروا سکیں کہ جو ہم پیش کر رہے ہیں وہ بہتر ہے اس چیز سے جو تمہارے پاس ہے تو تم نہیں لو گے، لیکن اگر باور کروانے میں ہم کامیاب ہو جائیں تو ہو ہی نہیں سکتا کہ تم نہ لو.تم چھوڑ دو گے اس کو جو تمہارے پاس ہے.کیونکہ تم قائل ہو گے اس بات کے کہ جو تمہارے پاس ہے وہ اچھی نہیں ، جو ہم دے رہے ہیں وہ اچھی ہے اور میں نے اس دفعہ تحدی سے ان کو کہا کہ دیکھو تم نے سائنس میں بڑی ترقی کی اور ایک پہلو یہ ہے کہ تم نے اپنے ایٹم بم اور ہائیڈ روجن بم اور دوسرے مہلک ہتھیاروں کے پہاڑ جمع کر لئے.صرف یہی نہیں ، تم نے ایسے مسائل پیدا کر لئے اپنی زندگی میں اور وہ بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں جن مسائل کا حل تمہارے پاس نہیں The problems you haven't got the solution of وہ Pile up کر لئے ہیں اور پہاڑ بن رہے ہیں ایسے مسائل کے.اور میں تمہیں بتا تا ہوں کہ ایک دن عنقریب آنے والا ہے جب یہ مسائل اتنے بڑھ جائیں گے جن کا حل تمہارے پاس نہیں ہو گا.کہ تم مجبور ہو جاؤ گے اِدھر اُدھر دیکھنے کے لئے.وہ دن اسلام کا دن ہے، اسلام آئے گا تمہارے پاس اور کہے گا کہ تمہارے ہر مسئلے کو میں حل کرتا ہوں.تم مجبور ہو جاؤ گے اسلام کو ماننے پر تمہیں آنا پڑے گا اسلام کی طرف.ایک شخص نے پوچھا آپ جو کہتے ہیں.ساری دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی تو اگر جنگ ہوگئی ایک اور یعنی Third World War تو جو مر جائیں گے وہ تو جمع نہیں ہوں گے.میں نے کہا.میں نے یہ نہیں کہا کہ جو مر دے ہیں وہ بھی جمع ہو جائیں گے.جن کو تم

Page 440

421 سبیل الرشاد جلد دوم مار دو گے وہ تو تم نے مار دیئے.میں تو یہ کہ رہا ہوں کہ وہ وقت آنے والا ہے کہ زندوں کی ننانوے فیصد اکثریت جو ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی.(نعرے) آج کے زمانہ کی یہ ایک حقیقت ہے جو میں نے ان کے سامنے رکھ دی لیکن اس حقیقت کی تفاصیل بیان کرنا یہ جماعت احمدیہ کا کام ہے.اس حقیقت کے مطابق اپنی زندگیوں کو بطور نمونہ ان کے سامنے پیش کرنا یہ آپ میں سے ہر خاندان کا کام ہے.اس واسطے عہد کرو آج کہ ہم دنیا کی لالچ میں خدا کی طرف پیٹھ کر کے اپنی زندگیاں نہیں گزاریں گے.ہم دنیا کی خاطر کسی اور کا دامن نہیں پکڑیں گے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو چھوڑ کے.ہم خدا تعالیٰ کی رحمت کی بھیک مانگتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں گے.ہمارے ہاتھ میں ہمیشہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن مضبوطی سے پکڑا رہے گا اور انشاء اللہ دنیا کی کوئی طاقت اس دامن کو ہم سے چھڑا نہیں سکے گی.جو مرضی کر لے دنیا.انشاء اللہ.اور آپ بھی عہد کریں اور اپنے بچوں کو دین سکھا ئیں.بہت سے منصوبے میں نے بنائے ہیں اُن پر عمل کریں.قرآن کریم کا منصوبہ ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے اس مادی دنیا میں ہیں وہ بھی آیات اللہ ہیں قرآن کریم کی اصطلاح میں.علمی میدان میں آگے بڑھو، آگے بڑھو ! آگے بڑھو ! آگے بڑھو ! یہاں تک کہ دنیا اس بات کی بھی قائل ہو جائے (جس طرح سپین نے اُن کو قائل کیا تھا ایک وقت میں) کہ ہر میدان میں احمدی مسلمان ہم سے آگے نکل گیا اور ہم مجبور ہو گئے ہیں اُس سے سیکھنے ، اُس سے بھیگ مانگنے پر.اللہ تعالیٰ وہ دن جلد لائے.آمین اس کے بعد حضور نے عہد دہر وایا اور پھر فرمایا: ظہر اور عصر کی نماز انشاء اللہ مسجد مبارک میں ڈیڑھ بجے ہوگی اور اس کے بعد جہاں بھی کھانے کا انتظام ہے کھانا ہوگا.پہلے نماز ہوگی اگر آپ جلدی آ سکتے ہیں.اس وقت ایک بجنے میں اکیس منٹ ہیں.سوا ایک بجے نماز ہو سکتی ہے.سوا ایک بجے نماز ہو گی.یعنی ایک بج کے پندرہ منٹ پر اور اس کے بعد کھانا ہوگا ، اور جتنا مرضی وقت لگا ئیں پھر.“ دعا فرمانے کے بعد حضرت اقدس نے احباب جماعت کو حسب ذیل الوداعی نصیحت فرمائی: چند دنوں تک چودہویں صدی ختم ہو رہی ہے.اس صدی کو خدائے واحد و یگانہ کی تو حید کے ورد کے ساتھ الوداع کہیں.لا الہ الا اللہ اتنی کثرت سے پڑھیں کہ کائنات کی فضا اس ترانہ کے ساتھ معمور ہو جائے.دن رات اُٹھتے بیٹھتے بالکل خاموشی کے ساتھ نہیں ، اونچی آواز میں بھی نہیں ، اس طرح ( حضور نے دھیمی آواز میں لا الہ الا الله متعدد بار دہرا کر دکھایا اور پھر فرمایا ) لَا إِلَهَ إِلَّا الله - لَا إِلَهَ الا اللہ اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے پڑھتے رہیں.اس ندا کے ساتھ اس صدی کو الوداع کہیں اور اسی ندا کے

Page 441

سبیل الرشاد جلد دوم 422 ساتھ ہم اگلی صدی کا استقبال کریں گے.انشاء الله تعالى - السلام عليكم ورح م ورحمة الله و برکاتہ.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.(آمین ) (روز نامه الفضل ربوه جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۸۰ء صفحہ ۷ تا ۱۱)

Page 442

سبیل الرشاد جلد دوم 423 قرآنی علوم سیکھنے میں مہارت حاصل کرو مجلس انصاراللہ کراچی سے خطاب سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ ۳۱ اگست ۱۹۸۱ء کو مجلس انصار اللہ کراچی سے جو خطاب فرمایا تھا، اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.حضور نے فرمایا : ناظم صاحب ضلع مجھے یہ بتائیں کہ انصار اللہ کہتے کسے ہیں؟ یعنی آپ کا پروگرام کیا ہے؟ آپ کیا کرتے ہیں؟ اپنا تعارف کروائیں.اس پر ناظم صاحب نے اپنی ششما ہی رپورٹ پیش کی تو ( بیوت ) میں انصار کی حاضری کے ذکر پر حضور نے فرمایا.مسجد میں آکر نماز با جماعت ادا کرنے کا مسئلہ یہ جو ( بیت ) میں آ کر نماز باجماعت ادا کرنے کا مسئلہ ہے.یہ مسئلہ اس طرح نہیں ہے کہ اگر قریب ترین ( بیت ) ۲۰ میل دُور ہو تو پانچوں نمازیں وہاں جا کر پڑھا کرو.بالکل یہ مسئلہ نہیں ہے.پھر کیا مسئلہ ہے.یہ لاؤڈ سپیکر وغیرہ تو اب نئی چیز میں آگئی ہیں.ساری دُنیا میں ایک ہی اذ ان سُنانے کی کوشش بھی کی جاتی ہے.اور کبھی ممکن بھی ہوسکتی ہے.خانہ کعبہ کی اذان مغرب کی دی جائے اور دُنیا کے کسی خطہ میں ایسی مسجد بھی ہو تو وہاں صبح کا وقت ہو.چکر میں ہے نا گولائی میں.بہت سی احادیث سے پتہ لگتا ہے اور جو صحابہ کرام کا عمل تھا.اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ مسجد کی وہ دُوری کہ جہاں نماز کے لئے جمع ہونا نماز باجماعت کے لئے ضروری ہے وہ ہے کہ اُس مسجد کی اذان کی آواز وہاں تک پہنچ جائے.جس کا مطلب یہ ہے کہ کراچی میں جماعت احمد یہ بکھری ہوئی ہے.۳۳ حلقے تو ہم نے انتظامی ضرورت کے لئے بنائے ہیں.نماز با جماعت کے لئے تو ممکن ہے دو سو جگہوں کی ضرورت ہو.۲۰۰ جگہ میں نے جان بوجھ کے کہا ہے.۲۰۰ مساجد نہیں کہا یعنی جو ایک خاص گھر اللہ تعالیٰ کا بنایا جاتا ہے.وَاَنَّ المَسَاجِدَ لِلهِ (الجن: 19).اور وہاں نماز کے لئے مسلمان جمع ہوتے ہیں.اس لئے کہ نماز با جماعت کے لئے اُس قسم کی مسجد کی ضرورت نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضَ مَسْجِدًا ساری کی ساری زمین اللہ تعالیٰ نے میرے لئے میری امت کے لئے مسجد بنا دی.تو اتنے فاصلے پر کہ جہاں سے آواز آ جاتی ہے وہاں کوئی

Page 443

424 سبیل الرشاد جلد دوم ایسی جگہ ہونی چاہئے.جہاں دوست اکٹھے ہو جائیں ورنہ اگر آپ ایک حلقہ جس میں ایک ایسا احمدی گھرانہ بھی ہے جو اُس حلقہ کی مسجد سے دو تین میل دور ہے اور آپ یہ امید رکھیں کہ خدا تعالیٰ کا حکم بجا لاتے ہوئے اسے دو تین میل پانچ دفعہ آنا چاہئے.یہ خیل غلط ہے.اور خدا تعالیٰ نے جو سہولت اور نرمی امت محمدیہ کے لئے پیدا کی یہ اُس کے خلاف ہے.اس لئے اگر آپ نے نماز با جماعت اس معنی میں کروانی ہے جس معنی میں کہ ہمیں کہا گیا ہے کہ اکٹھے ہوا کرو.تو نماز پڑھنے کے لئے جگہوں کے فاصلے اتنے ہونے چاہئیں کہ بغیر لاؤڈاسپیکر کے اذان کی آواز پہنچ جائے.ہو سکتا ہے کہ بعض ایسے حالات ہوں کہ آپ وہاں اذان نہ دے سکیں لیکن یہ تو ایک موٹا اندازہ ہے کہ یہاں سے اذان کی آواز پہنچ جائے گی یا نہیں پہنچے گی.اب آپ نے کہا ایک حلقہ ہے وہاں دو مساجد ہیں.اُس کا دائرہ جو ہے اُس حلقے کا اس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے کا فاصلہ ۳.۴ میل کا ہے.تو کوئی شخص ایسا بھی ہو گا جس کی آواز آدھے میل یا میل تک پہنچ جائے لیکن عام طور پر انسان کی آواز اذان دیتے ہوئے اتنے فاصلے پر نہیں پہنچتی.اس میں زیادہ جذبہ کا سوال ہے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی زندگی میں جمعہ کے لئے بھی ایک یہ شکل نظر آئی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اور صحابی کی شراکت سے ایک باغ لیا تھا وہاں کام کرتے تھے.تو ایک جمعہ ان کے شریک آکے پڑھا کرتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اور دوسرا جمعہ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آ کے پڑھتے تھے پتہ نہیں کتنا لمبا زمانہ تھا لیکن بہر حال یہ ایک واقعہ ہوا.اس سے پتہ لگتا ہے کہ اعتراض کرنے کی بجائے کام کرنا چاہئے.جب میں کہتا ہوں ” اعتراض کرنے کی بجائے تو میرے دماغ میں اعتراض ہے کہ فلاں شخص مسجد میں آ کے نماز با جماعت ادا نہیں کرتا.اور اُس کا گھر اُس جگہ سے جہاں جماعت احمد یہ اُس حلقے میں نماز باجماعت ادا کر رہی ہے، فاصلے پر ہے ایسا کہ اس کے لئے پانچوں وقت آنا تکلیف مَا لَا يُطَاق “ ہے اس کا جو ایک بُر انتیجہ نکلا.وہ یہ کہ یہ عادت پڑ گئی.جماعت میں یہ بڑی عادت ہے اور میں جماعت احمدیہ کی بات کرتا ہوں کیونکہ یہ نسبتاً زیادہ پیار کے ساتھ خدا تعالیٰ کے لئے ایک جگہ جمع ہو کر اس کے حضور جھکنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مغرب وعشاء اور صبح کی نمازیں ہو جائیں اور ظہر و عصر کے متعلق کوئی خیال ہی نہیں.حالانکہ اگر ایک آبادی ظہر اور عصر کے وقت کسی اور جگہ اکٹھی ہوتی ہے اور صبح و شام کے وقت اُن کے گھروں کے قریب جب وہ فارغ ہوتے ہیں کسی اور جگہ اکٹھی ہوتی ہے تو دونوں جگہوں پر ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ وہ نماز

Page 444

سبیل الرشاد جلد دوم با جماعت ادا کر سکیں.پھر تعلیم القرآن کے ذکر پر فرمایا: جو شخص صحیح معنی میں تفسیر صغیر پڑھ سکتا ہے وہ صحیح معنی میں درس بھی دے سکتا ہے.مرکزی امتحانات مرکزی امتحانات کے ذکر پر فرمایا: 425 جس نوجوان نے مقابلہ کا امتحان دینا ہو وہ مقابلے کی تیاری کیا کرتا ہے.کیوں کرتا ہے؟ اس لئے کرتا ہے کہ وہ کامیاب ہو جائے اور کامیابی کے نتیجہ میں اُسے بہت سے انعامات ملیں.تو اس سے زیادہ انعامات جہاں ملنے کا سوال ہو وہاں کیوں نہیں وہ پڑھتا ؟ اصل تو ہمارے پاس ایک ہی کتاب ہے.قرآن عظیم اور وہ کتب جو قرآن کریم کے معانی بیان کرنے کے لئے لکھی جاتی ہیں یا وہ باتیں جو قرآن کریم کی طرف توجہ دلانے کے لئے کہی جاتی ہیں.باقی تو سارے کھلونے ہیں.کسی نے بتایا کہ کسی کالج میں کوئی طالب علم مائیگریشن کے لئے گیا.اب نہ وہاں کا پرنسپل احمدی ، نہ طالب علم احمدی، اور بتانے والا بھی احمدی نہیں.اس نے باہر سے چک میں دیکھا کہ کوئی صاحب پرنسپل صاحب کی کرسی پر بیٹھے ہوئے اور لاتیں میز پر رکھی ہوئیں اور ایک چھوٹا سا جس طرح ایک بچوں والی کوئی کتاب ہوتی ہے وہ اس کے ہاتھ میں ہے اور پڑھ رہا ہے.اُس نے خیال کیا کہ پرنسپل صاحب کہیں باہر گئے ہوئے ہیں اور اُن کا جو چپیڑ اسی ہے وہ عیش کر رہا ہے.یہ ذہنی عیاشی کہ میں پرنسپل کی کرسی پر بیٹھا ہوا اور ایک کتاب اپنے علم کے مطابق پڑھ رہا ہوں.خیر اُس نے پوچھا.میں آ جاؤں اندر.اُس صاحب نے کہا ہاں آ جاؤ اندر.اندر گئے تو اس نے دیکھا کہ اُن کے ہاتھ میں ”علی با با چالیس چور کتاب بچوں والی وہ تھی پکڑی ہوئی.اور وہ پڑھ رہے ہیں.تو اس کو یقین ہو گیا کہ یہ جو میرا اندازہ تھا وہ درست نکلا.اُس نے پوچھا کہ مجھے پرنسپل صاحب سے کام ہے.آپ بتا سکیں گے کہ مجھے کہاں مل سکتے ہیں.اُس نے جلدی سے لاتیں نیچے کیں اور بیٹھ کے یوں کہنے لگا.میں ہی پرنسپل ہوں.تو جس کو پیار نہیں ہے اپنے پیشے اور اپنے مضمون کے ساتھ اور اپنی زندگی کے ساتھ ، وہ توجہ نہیں کرے گا.لیکن جو شخص ایسا ہو جسے پیار ہو اور ہر احمدی کے دل میں ایسا پیار ہونا چاہئے.پیار ہوا اپنی زندگی کے ساتھ.اور یہ جانتا ہو کہ زندگی یہاں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اُس نے مرنے کے بعد آگے چلنا ہے.اُسے یہ کوشش کرنی پڑے گی کہ وہ نعماء جو مرنے کے بعد اُخروی زندگی کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہیں اور موعودہ

Page 445

سبیل الرشاد جلد دوم 426 ہیں یعنی جن کا وعدہ قرآن کریم میں دیا گیا ہے.اُن کے حصول کے لئے جو طریق بتائے گئے ہیں اور جو شرائط رکھی گئی ہیں ، میں اُن کی طرف توجہ کروں.جس شخص کو پتہ ہی نہیں ہو گا وہ کام کیسے کرے گا.ہر عمل کی بنیاد معرفت پر ہے.یعنی اُس کو پتہ ہونا چاہئے کہ کیوں کروں.یہ علم ہے کیا ؟ ہر ملکی بنیاد معرفت پر ہے.اگر معرفت ، عرفان.شناخت کا علم نہ ہو تو عمل ہو ہی نہیں سکتا.جس شخص کو یہ پتہ نہیں کہ موٹر کیسے چلاتے ہیں.وہ موٹر نہیں چلا سکتا.جس شخص کو یہ پتہ نہیں کہ ہوائی جہاز کیسے چلایا جاتا ہے.وہ ہوائی جہاز نہیں چلا سکتا.جس شخص کو یہ علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا کی کونسی راہیں کھولی ہیں وہ اُن را ہوں پر چل ہی نہیں سکتا.یہ ایک موٹی بات ہے.تو کیوں نہیں توجہ کرتے.کوئی مصروفیت نہیں اس قسم کی.(اس موقع پر حضور نے زعیم اعلیٰ صاحب سے استفسار فرمایا کہ جو مرکز کی طرف سے سہ ماہی امتحان لیا جاتا ہے اس میں کتنے انصار نے حصہ لیا ) اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے حلقے ایسے ہیں جن میں دس پندرہ فیصد انصار امتحان میں شامل ہوتے ہیں ورنہ ان کے انصار پچاس فیصد سے زائد نہ ہو جاتے اور آپ کے ذمہ کیا کام ہے.(اس پر زعیم اعلیٰ صاحب نے بتایا کہ تعلیم و تربیت کے علاوہ اصلاح و ارشاد کے کام ہیں تو حضور نے فرمایا ) تربیت کے کام تو ابھی بہت رہتے ہیں.انصار کا یہ تربیتی کام نہیں کہ وہ جو عمر کے لحاظ سے اُن کے Dependents ہیں اُن کی تربیت کا خیال رکھیں ؟ اس رپورٹ میں غالباً یہ فقرہ نہیں آیا کہ کوئی احمدی اپنے بچوں سے تربیت کے معاملہ میں غافل نہ رہے.پھر حضور کے ارشاد پر زعیم اعلیٰ صاحب نے اصلاح و ارشاد کے کام کی رپورٹ پڑھی اور بتایا کہ اس کام کی طرف توجہ ذرا گھٹ گئی ہے.حضور نے دریافت فرمایا کہ یہ احساس انصار کو ہوا یا اُن کے عہدیداروں کو ہوا.عرض کیا گیا کہ یہ عہدیداروں کو ہوا.حضور نے فرمایا.اس کا مطلب ہے جن لوگوں کو ہم دعوت دیتے ہیں وہ قبول نہیں کرتے اور کم آتے ہیں.ویسے عزم اور ہمت کی کمی ہے.فولڈروں کی اشاعت ابھی دو ایک ہفتے ہوئے مجھے سوئٹزرلینڈ سے یہ اطلاع ملی کہ وہاں پہاڑوں پر جس طرح ہمارے گوجر ہوتے ہیں وہاں رو مینش زبان بولنے والے خاندان رہتے ہیں جن کی تعداد کم و بیش ستر اسی ہزار ہے.اور تین زبانیں بولتے ہیں یعنی رو مینش ڈاسکیکٹ Dialect تین قسم کی وہاں بولی جاتی ہے.تین Dialects پچھلے سال جب میں نے فولڈر تقسیم کرنے کا منصوبہ دیا تو نسیم مہدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی سے کام کرنے والے ہیں.انہوں نے مجھے لکھا کہ رو مینش زبان بولنے پڑھنے والے تو بڑے

Page 446

427 سبیل الرشاد جلد دوم تھوڑے ہیں لیکن اگر کہیں تو اس زبان میں بھی فولڈر ہم شائع کر دیں.میں نے کہا ضرور شائع کرو.اُس وقت تک اُن کو ابھی یہ نہیں معلوم ہوا تھا کہ تین Dialects ہیں.اتفاقاً یہ ہوا کہ جس Dialect میں انہوں نے فولڈر شائع کیا وہ سب سے زیادہ بولنے والی زبان کوئی تمیں چالیس ہزار کے درمیان کوئی تعداد ہے.وہ لوگ او پر پہاڑوں میں رہتے ہیں، زیادہ تر تو وہ بازاروں میں ملتے ہی نہیں بڑی مشکل ہے.وہاں جو پوسٹ آفس ہے اُس نے ایک بڑی ہی عجیب ( آپ کو عجیب اس واسطے لگے گی کہ یہاں کوئی تخیل ہی نہیں اُس کا) ایک سہولت مہیا کی ہے اور وہ یہ کہ ٹکٹ لگائے بغیر یعنی ہر فولڈر پر علیحدہ علیحدہ ٹکٹ لگانے کی ضرورت نہیں.مثلاً ایک گاؤں کوئی x (ایکس ) لے لیا.اُس کے سارے گھر پانچ سو ہیں اُس علاقے میں ، رومینش زبان بولنے والے.پانچ سو گھروں کی فہرست ہر پوسٹ آفس میں موجود ہے.تو پوسٹ آفس والے کہتے ہیں کہ ایک بنڈل بنا کے ہمیں دے دو.اُس کا چارج بہت کم ہے ٹکٹ کے مقابلہ میں اور ہم اپنے پوسٹ آفس کو بھیج دیں گے اور وہاں ڈاک کے ساتھ ہر گھر میں وہ فولڈر پہنچا دے گا.چنانچہ پہلی کوشش میں انہوں نے اس مشکل جگہ پہ جہاں آدمی کا پہنچنا بڑا وقت چاہتا تھا.اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آٹھ ہزار فولڈر اتنی آبادیوں میں جن کی ٹوٹل تعداد کم و بیش آٹھ ہزار بنتی تھی.کچھ او پر ہوں گے اس طرح وہ فولڈر پہنچا دیئے.اور نیوز بلیٹن جو ہے وہ ریلیز کر دی.اُس کے اوپر دو اخباروں نے بڑا دلچسپ مضمون لکھا بڑے غصہ میں کہ یہ کیا ہو گیا ہے ہماری قوم کو ہم عیسائی ہیں (وہ کیتھولک ہیں زیادہ ) اور اپنے مذہب سے بڑا پیار رکھتے ہیں لیکن ہم نے یہ خیال ہی نہیں کیا کہ جو پٹرول لے کے ہم اپنی کاروں میں ڈالتے اور استعمال کرتے ہیں.وہ پیسہ اب مسلمان ملکوں کو جا رہا ہے.اور مسلمان ملکوں نے اب یہ کرنا شروع کر دیا ہے کہ یہ سارے ملکوں نے مل کے جماعت احمدیہ کو روپیہ دیا ہے کہ وہ ہمارے علاقوں میں اسلام کی تبلیغ کریں.یہ اچھی خاصی لمبی Commentary پر تنقید آ گئی ہے.جرمن زبان میں یا شاید ایک دوسری زبان میں بھی ہے.دو اخباروں نے لکھا ہے جرمن زبان میں بھی اور اس کا ترجمہ بھی اردو میں.تو بہت دلچسپ ہے نا.لیکن آپ کے لئے عبرت بھی ہے.اگر میں چھپیں خاندان سوئٹزرلینڈ کے اس قسم کی تبلیغی مساعی کر سکتے ہیں.آپ کیوں نہیں کر سکتے ؟ بہت شرم کی بات ہے.ہے نا شرم کی بات.اصل.یہ ہے Personal Contact اور واقفیت پیدا کریں.کوشش کریں تو بڑی واقفیت ہو جاتی ہے.یہ خیال غلط ہے کہ احمدی کے خلاف پاکستان میں تعصب بہت ہے.میں تو جہاں اس قسم کا کوئی اکٹھ ہو تو وہ آنکھیں دیکھا کرتا ہوں جو غضب ناک ہوں اور جن میں خون اُترا ہوا ہو، تیوریاں چڑھی

Page 447

سبیل الرشاد جلد دوم 428 ہوئیں ہوں اور غصہ کے آثار ہوں چہرے پر.مگر سارے مجمعے میں مجھے ایک بھی نہیں ملتا.ابھی پولو کے لئے گئے ہوئے تھے.بہت سارے لوگ تھے.اچھے پڑھے لکھے بہت سارے آدمی آئے ہوئے تھے وہاں.لیکن ایک آنکھ میں بھی غصہ نہیں نظر آیا.ایک دفعہ بچی کے پتے کا آپریشن راولپنڈی میں کوئی فوجی ہسپتال ہے وہاں ہوا.تو وہاں میں بچی کو پوچھنے گیا.تو بہت سارے لوگ پھر رہے تھے.میں نے بچی کا حال پوچھا.اُس کی والدہ باتیں کر رہی تھی.میں باہر نکل آیا اپنے احمدی دوست بھی تھے.تو سب کو دیکھا نظر ڈالی، جو پاس سے گزرتا تھا سلام کرتا تھا.مسکراتا تھا.غصہ کوئی نہیں دکھاتا تھا..یہ ٹھیک ہے کہ غصہ بہت ہے.ایک خاص طبقہ ہے کوئی ! یا شاید اس سے بھی کم ہوگا.ایک چھوٹا سا نقطہ سارے پاکستان کے نقشے کے اوپر ہے وہ بڑا غصہ دکھاتے ہیں.یہ بھی ٹھیک ہے کہ عارضی طور پر پاکستانی شہریوں کا بھی اس میں حصہ شامل ہو جاتا ہے جنہیں غلط باتیں کر کے غصہ دلا دیا جاتا ہے.لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ سال میں گیارہ مہینے یہ لوگ جنہیں کبھی کبھی غصہ آتا ہے وہ بغیر غصے کے زندگی کے دن گزار رہے ہوتے ہیں.اور چاہتے ہیں کہ آپ اُن سے بات کریں.ان کو بتائیں.پس حقیقت کا کسی کو پتہ ہی نہیں مثلاً نبوت کا دعوی ہے.مجھ سے سوال ہو گیا ۷۴ء میں کہ کیا آپ (اُنہوں نے تو یہی کہا تھا ) مرزا غلام احمد صاحب کو نبی مانتے ہیں؟ میں نے کہا نہیں.تو وہ بھی پریشان اور ابو العطاء صاحب کہنے لگے کہ آپ نے تو ہمارے پاؤں کے نیچے سے زمین نکال دی.پھر میں خاموش ہو گیا کوئی ۲۵ - ۳۰ سیکنڈ کے لئے.پھر میں نے کہا ہم اُمتی نبی مانتے ہیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نبی کی تعریف کی ہے.اور امتی نبی کی بھی تعریف کی ہے اور اگر میں یہاں پوچھوں کہ کس کو یہ دو مختلف تعریفیں جو نبی اور امتی نبی کی ہیں آتی ہیں تو کوئی ہاتھ کھڑا ہو گا (اس پر بعض دوستوں نے ہاتھ کھڑے کئے.آپ نے فرمایا ) نبی کی کیا تعریف ہے؟ ( جواب سننے پر فرمایا ) امتی نبی کی ( پھر فرمایا ) ہاں کچھ قریب قریب پھر رہے ہیں.اصل جواب نہیں ملا.نبی اور امتی نبی کا فرق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ نبی اُسے کہتے ہیں جو مقام نبوت کے حصول میں نبی متبوع کا کامل تابع ہے ہی نہیں.ہونا ضروری نہیں اُس کا.مثلاً بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام شریعت لے کے آئے اور اُن کے بعد نبی اسرائیل میں ایک ایک وقت میں سینکڑوں نبی بھی ہو جاتے تھے.ایک ایک گاؤں کا نبی لیکن اُن کو نبوت کا مقام اس لئے نہیں ملتا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ

Page 448

429 سبیل الرشاد جلد دوم علیہ السلام کی شریعت کی پیروی کر رہے ہیں بلکہ وہ محض موہبت تھی.وہ اس شریعت کی پیروی نہیں کر رہے ہوتے تھے اور اُن کو نبوت مل رہی ہوتی تھی.یعنی یہ ہی ایک Extreme کے اوپر مثال دینے لگا ہوں آپ کو.حضرت عیسی علیہ السلام بظاہر شریعت موسوی کے پیرو نبی تھے.لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا کہ جو تیرے ایک منہ پہ ایک تھپڑ مارے تو اس کے منہ پر اس سے زیادہ زور سے تھپڑ مار دے.اور حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا تھا کہ بالکل غصہ نہیں دکھانا یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کا یہ بالکل واضح حکم منسوخ کرنے والے تھے.اور پھر بھی نبوت پانے والے تھے.پس امتی نبی اُسے کہتے ہیں کہ جو اپنے نبی متبوع کے فیض کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں کرتا.یعنی زمین آسمان کا فرق ہے.ان دو تعریفوں میں اس واسطے کوئی شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسا کھڑا نہیں ہو سکتا جو اپنے اس دعوی میں سچا ہو کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع نہیں کی پھر بھی خدا نے مجھے نبی بنا دیا.ہو ہی نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.نبوت تو بہت بڑا مقام ہے اسے علیحدہ چھوڑو.کوئی چھوٹی سی چھوٹی روحانی خوبی کسی میں نہیں پیدا ہو سکتی جب تک کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حاصل نہ کی گئی ہو.اور یہ زمین آسمان کا فرق ہے یعنی ایک وہ ہے جسے اس مقام تک پہنچنے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر عمل کرنے کی ضرورت ہی نہیں.بیچ میں Consideration ہی نہیں ہے اور دوسرا وہ ہے جو ایک قدم بھی اگر ہٹا تا ہے تو چھوٹے سے چھوٹا روحانی درجہ بھی اُسے نہیں مل سکتا.اس واسطے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا.یعنی کوئی ایسا شخص جو آپ سے علیحدہ ہو کے آپ کے مقابلے میں کھڑا ہو کے کہے، مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت نہیں اور مجھے کوئی روحانی مقام مل گیا.آہی نہیں سکتا.ناممکنات میں سے ہے.لیکن امتی اگر ہو یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والا ہو تو وہ صالح بھی ہوگا صرف اس لئے کہ اُس نے اتباع کی.وہ شہید بھی ہوگا صرف اس لئے کہ اُس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اپنے دائرہ استعداد کے اندر رہ کر کی.اور وہ صدیق بھی ہو گا صرف اس لئے کہ اُس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی.اور نبی بھی ہوسکتا ہے اگر وہ فنافی محمد کے بلند تر مقام تک پہنچ جائے.یعنی اُسے سب سے بڑے ارفع مقام کے حصول کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہونا پڑے گا.تو یہ ہمیں جب کہتے ہیں کہ یہ کافر ہیں تو اگر ہم نبی کے معنے ہی نبوت کو جاری سمجھیں تو ہم واقعی کا فر ہیں یعنی ہم آپ کہتے ہیں کہ پھر ہم کافر ہیں.لیکن ہم وہ نبوت جاری نہیں سمجھتے.ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا.جس شخص نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مقام کو پہچانا.اور آپ کی رفعت کو

Page 449

430 سبیل الرشاد جلد دوم شناخت کیا.اور اس یقین پر قائم ہوا کہ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ خدا تعالیٰ کا پیار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا.اور اگر چلے گا تو وہ خدا تعالیٰ سے سب کچھ ہی پالیتا ہے.جتنی اُس کی جھولی ہو گی اتنی وہ بھر دی جائے گی.اب اگر آپ ان کی یہ غلط فہمی دور کر دیں کہ نبی اس معنی میں جس معنی میں وہ نبی مانتے ہیں اور ہم بھی نبی مانتے ہیں یعنی خالص نبی.امتی کی صفت ساتھ ملائے بغیر تو وہ بات ان کی اور ہماری ٹھیک ہے.لیکن اگر ہم وہ مانتے ہی نہیں اور ہم پہ خواہ مخواہ ایک الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم امتی نبی نہیں مانتے بلکہ نبی مانتے ہیں تو یہ بالکل غلط ہے.کیا کوئی اور نبی بھی آسکتا ہے دوسرے ویسے نبوت موہتی ہے.یعنی شکل یہ بنتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ کسی کو موہبت نبوت اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تیرے وجود میں اس کی کامل فنا نہ ہو.اسی واسطے ایک سوال یہ بھی کیا گیا اور کیا جا سکتا ہے کہ کیا کوئی اور نبی بھی آسکتا ہے ؟ تو امت محمدیہ میں ، جب ہم نے یہ تعریف کر دی تو صرف وہ امتی نبی آ سکتا ہے جس کی اطلاع نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّت کو دی ہو اُس کے علاوہ نہیں آ سکتا.تو جب سوال کیا گیا تو میں نے یہ جواب دیا کہ ہمارے نزدیک امت محمدیہ میں صرف وہ نبی ہو سکتا ہے جو آپ کی کامل اتباع کرنے والا ہوا ور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے آنے کی خبر دی ہو.اور ہمارے علم کے مطابق صرف ایک کی خبر دی ہے.اگر آپ کے علم کے مطابق اور ہوں تو مان لینا اُن کو.لیکن بہر حال ہمیں تو ایک ہی کی خبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی اہمیت یعنی یہ یقینی بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کے چھوٹے سے چھوٹا روحانی درجہ بھی نہیں حاصل کیا جاسکتا.یہ ہمیں تب پتہ لگتا ہے جب ہم قرآن کریم کے مقام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو سمجھنے لگ جائیں.اب مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام یہ ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ آپ کی زندگی کا کوئی پہلو قرآن کریم کو چھوڑتے ہوئے یا قرآن کریم کے مخالف اور متضاد ہے ہی نہیں إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى جو وحی ہوتی ہے میں صرف اس کی اتباع کرتا ہوں.اور اس بات کو تفصیل سے کئی جگہ پر بیان کیا.تو جو وحی ہوئی اس کی اتباع کرنے والے کے متعلق ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ خُلق کیا تھے.سوره آل عمران آیت ۳۲ سوره یونس آیت ۱۶

Page 450

سبیل الرشاد جلد دوم 431 خُلُقُهُ الْقُرْآنَ یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے.جو قرآن نے کہا آپ نے کر دکھایا.اب اگر یہ جو باتیں میں نے کی ہیں.دماغ میں آجائیں تو خدا تعالیٰ کا پیار حاصل کرنے کے لئے آپ میں سے ہر ایک شخص کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا پڑے گا.اور اس کے بغیر اور کوئی راستہ ہی نہیں ہے.اور کوئی چارہ ہی نہیں ہے.ہر چیز ہمارے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے اب یہ بات چھوڑ کے ایک نئی بات کرتا ہوں.ہر چیز ہمارے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی.وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ 0 خدا تعالیٰ نے اس عالمین میں، اس یونیورس میں جو کچھ بھی پیدا کیا انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے انسان کو اُس میں دلچسپی لینی چاہئے.(اس موقع پر کچھ جانور اڑتے دکھائی دیئے تو حضور نے احباب سے دریافت کرنے کے بعد فرمایا یہ تیر دو قسم کے ہیں.ایک وہ ہے جن کے اوپر سفید سفید داغ ہوتے ہیں کا لا تلیر.دراصل تلیر اسی کو کہتے ہیں.اس کو غلطی سے ہماری زبان میں تلیر ہی کہا جاتا ہے.یہ آپ نے ٹھیک ہی کہا لیکن یRed Breasted ہیں ان کے پورا سرخ نہیں گلابی آتا ہے اور یہ دو دو ہزار کی ڈار میں بھی ملتا ہے.ویسے اسے مارنا نہیں چاہئے کیونکہ ہمیں فائدہ پہنچا رہا ہے.یہ ٹڈی کو کا تا ہے.جس وقت ٹڈی دل آتا ہے تو ہزار ہا اڑ رہے ہوتے ہیں اور یہ ۵.۱۰ منٹ میں ۱۰۰.۲۰۰ کو کاٹ کاٹ کر نیچے پھینکتا چلا جاتا ہے.یہ بھی خدا تعالیٰ کی شان ہے اُس نے تمہارے فائدہ کے لئے بنایا ہے.آپ نے کس کالج میں تلیر کو پڑھایا تھا کہ ہمارے فائدہ کے لئے آسمانوں میں جا کر ٹڈیوں کو کا ٹا کرو.تو یہ میں نے اس واسطے بات کی کہ اکثر لوگوں کو اپنے خادموں میں کوئی دلچسپی نہیں.ہر چیز میں دلچسپی لیں فائدہ کے لئے نہیں دلچسپی لیں گے تو پھر خرابی ہوتی ہے ، ہلاکت پیدا ہو جاتی ہے اس کے نتیجہ میں یعنی ہوائے نفس آ جاتی ہیں.جب یہ واضح ہے کہ تمہارے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے تو سوچنا پڑے گا کہ ہمارا حقیقی فائدہ کس چیز میں ہے.کس استعمال میں ہے.مثلاً پھر یہ نہیں ہوگا کہ بس شراب پی لی اُٹھ کے باسور کھالیا.بلکہ یہ سوچنا پڑے گا کہ کہیں شراب اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الْشَيْطَنِ (المائده :91) تو نہیں.شراب کی جہاں ممانعت ہے وہاں یہ کہا گیا ہے.رجس ایک گندی چیز ہے اور اس کا پینا عملِ شیطن ہے.تو میں اس واسطے کہہ رہا ہوں آپ کو بتا رہا ہوں کہ دُنیا میں ایسے لوگ بھی پیدا ہو گئے جنہوں نے یہ فتویٰ دے دیا کہ چونکہ عرب بڑا گرم ملک ہے.اس لئے وہاں شراب حرام ہو گئی ورنہ حرام نہیں ہے.تو خدا تعالیٰ نے غیر مشروط طور پر اعلان کیا.رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَنِ شیطانی کام ہے.جو یہ سورۃ الجاثیہ آیت ۱۴.

Page 451

سبیل الرشاد جلد دوم 432 کرے گا وہ شیطان کا چیلا ہو جائے گا.رپورٹ کے اگلے حصے کے بارہ میں سن کر حضور نے دریافت فرمایا: صف دوم کی تعریف کیا ہے.زعیم اعلیٰ صاحب نے بتایا کہ جو انصار ۴۰ سے ۵۵ سال کی عمر کے ہیں وہ انصار کی صف دوم کہلاتے ہیں.سائیکل کا فائدہ پھر فرمایا.سائیکل چلانے سے انسان کو کیا فائدہ ہے.اس پر زعیم اعلیٰ صاحب نے بتایا کہ یہ ایک قسم کی ورزش ہے.اور تمام بیماریوں سے بچاتی ہے مثلا دل کی بیماری وغیرہ سے.پھر فرمایا.تمام بیماریوں سے نہیں.صحت کو ٹھیک کرتا ہے اور دل کے لئے سائیکل چلانا بہت اہم ہے.پھر دریافت فرمایا بنیادی طور پر دو قسمیں سائیکلوں کی کون سی ہیں.سائیکلیں دونوں ہی دو پہیوں والی ہیں.ایک سائیکل ہے جو چلے بغیر کلو میٹر بتاتی جاتی ہے کہ آپ اتنا چل لئے.وہ صرف ورزش کے لئے ہے.یعنی اپنے کمرے میں آپ اُس کے اوپر بیٹھ کے دو چار کلو میٹر سائیکل چلا لیتے ہیں.ورزش کے لئے بہت سارے مریضوں کے لئے بھی دے دیتے ہیں.یہاں بھی بنتی ہے.کراچی میں بھی بن رہی ہے میرا خیال ہے کئی سال سے شروع ہے.لیکن بہت لکھی ہے ابھی تک.قیمتیں بھی نسبتا کم ہیں.میں نے پچھلے سال اپنی Exercise کے لئے جرمنی سے خریدی تھی میرے پاس پہلے بھی تھی وہ بہت پرانی ہو گئی تھی تو اُسی دکان پر دوسری سائیکل بھی تھی.دو ہزار ، اڑھائی ہزار میں اچھی سائیکل تھی.اس لحاظ سے تو ہمارا ملک مہنگا نہیں.لیکن وہ بہت خوبصورت بنی ہوئی اور بہت اچھی اور پائیدار تھی.ایک تو یہ ہے کہ مثلاً بوٹ ہے.ایک بوٹ ہے یہاں کا بنا ہوا ہے اور میرے خیال میں بہت سارے باپ جو ہیں وہ میری تصدیق کریں گے کہ پچاس ساٹھ روپے اس کی قیمت ہو گی یا شاید اس سے زیادہ اور سال میں تین چار دفعہ وہ ٹوٹ جاتے ہیں.نئے لیں اور بالکل چیتھڑے اڑ جاتے ہیں اُن کے.اور ایک بوٹ ہے جس کو سات سال استعمال کرنے کے بعد میں ویسے ہی تنگ آ گیا.اس کو تو میں نے ایک اور صاحب کو دے دیا.میں نے کہا لینا ہے تو لے لو.انہوں نے کہا ہاں دے دیں.اُس میں بالکل کوئی فرق ہی نہیں پڑا تھا.بہترین خدمت لیں انسان کو خدا تعالیٰ نے خالی یہ نہیں کہا کہ ساری چیزیں اس عالمین کی میں نے تیری خدمت پہ لگا دیں.یہ بھی ساتھ ہی کہا اور وہ زیادہ بڑا نعام ہے کہ عالمین کی ہر شے سے بہترین خدمت لینے کی عقل

Page 452

سبیل الرشاد جلد دوم 433 تیرے دماغ میں پیدا کر دی اور اُس طرف ہمارے ملکوں کے لوگوں کا دماغ ہی نہیں جاتا یعنی عجیب عجیب چیزیں سوچتے رہتے ہیں مثلاً بالی بہت مشہور ہے بُوٹ بنانے کی کمپنی.اور وہ ہر قسم کے بُوٹ بناتے ہیں.اُن کی دکان پہ میں گیا تو انہوں نے کہا یہ گر گابی ہے.اس کے اندر خاص نئی چیز ہم نے یہ ایجاد کی ہے کہ نم جگہ میں آپ پھرتے رہیں اس کے اندر نمی نہیں جائے گی.لیکن ہوا کی سرکولیشن Circulation اس کے اندر رہے گی جو پسینہ آ جائے گا پاؤں کا وہ خشک ہو جائے گا.بظاہر دو متضاد با تیں ہیں کہ ہوا جو ہے اس کے لئے تو سانس لینے کا ایسا انتظام ہو اور ساتھ ہی وہ پانی کو بھی روک رہا ہو.اُس کے لئے کوئی نہ کوئی سوراخ انہوں نے کئے ہوئے ہیں، پھرتے رہو اندر بالکل نمی جائے گی ہی نہیں.بوٹ اندر سے خشک رہے گا.یہاں تو برساتی نالے کی طرح بوٹ کے اندر پانی چلا جائے گا.خوبانی اور بادام پر گلاب کا پھول یہ جو عزم ہے کہ ہم نے زیادہ سے زیادہ خدمت لیتے چلے جانا ہے، ترقی کرنی ہے ، یہ تو مسلمان کے لئے تھا.یہاں بھی ہے.جا کے پتہ لگتا ہے.ابھی سپین میں کچھ آثار ہیں.غرناطہ کا جو حمل ہے.پہلے بھی میں نے بتایا تھا پانی ایسی جگہ سے لے آئے کہ ابھی تک ان کو پتہ ہی نہیں کہ مسلمان انجینئر نے کیا طریقہ اختیار کیا.پھر وہاں بڑی کثرت سے بادام اور خوبانی کے درخت پر گلاب کے پھول کا پیوند کر دیا.تو بڑے بڑے درخت خوبانی کے اور بادام کا درخت تو بہت بڑا نہیں ہوتا.دس بارہ فٹ تک جاتا ہے.اُن کے اوپر نہایت خوبصورت گلاب کا پھول لگا ہوا.تو اب وہ فن وہاں کا انسان بھول ہی گیا.جب مسلمانوں کو عیسائیوں نے مارا.گردنیں اڑائیں تو ساتھ بہت سارے جو فن تھے اُن کی گردنیں بھی اُڑا دیں.الحمرا کے محل کی حیران کن باتیں پہلے شاید میں نے یہاں بتایا تھا کہ ایک سوچو میں ستونوں کا ایک حصہ ہے الحمرا میں.جس وقت وہ بنایا گیا تو انجینئر کو حکم ہوا کہ یہاں زلزلے آتے ہیں تو ستون اس طرح بناؤ کہ زلزلے آنے کے نتیجہ میں چھت نہ گرے.تو انہوں نے بالکل سیدھے ستون نہیں رکھے.ویسے نظر نہیں پہچانتی.ہمارا گائیڈ کہنے لگا.ایک طرف کھڑے ہو کے دیکھیں تو سہی.یہ ۴۰ ستون جو لمبی سائڈ کے اوپر نظر آ رہے ہیں.وہ سیدھے ہیں ہی نہیں.کوئی پانچ سات انچ ادھر ہلا ہوا ہے اپنی جگہ سے یعنی اپنی سدھائی سے اور کوئی اُدھر ہلا ہوا ہے.یعنی گروپ اس طرح اکٹھے کر دیئے ہیں.وہ کہنے لگا کہ یہ اس لئے ہے کہ مسلمان انجینئر نے زلزلے کی لہروں کے جو رخ تھے.لہر پیدا ہوتی ہے نا زمین کے اندر.اُن کو سٹڈی (Study) کیا اور اُن کو

Page 453

434 سبیل الرشاد جلد دوم سٹڈی کرنے کے بعد اُن Pillars کو اس طرح رکھا کہ اگر زلزلے کی ایک لہر کا اینگل ایسا بن جائے کہ ایک Pillar بوجھ کو سہارنے سے انکار کر دے تو چھت نہیں گرے گی.دوساتھ کے Pillars اس کے بوجھ تو اُٹھانے والے موجود ہیں.عجیب چیز ہے وہ.اور پھر یہ کہ یہاں آپ سارے لوگ سڑکوں پر تو جاتے ہیں نا.کوئی سڑک تھوڑی سی خراب ہو جائے تو مہینوں بعض دفعہ سالوں وہ آپ کو نظر آتی رہتی ہے.گڑھے نظر آتے رہتے ہیں.وہ جودُ کھ دینے والی چیز سٹرک میں اِمَاطَةُ الأذى عَنِ الْطَرِيقِ ہونا چاہئے تھا فور ادُ کھ دُور ہونا چاہئے تھا وہ نظر آتی رہتی ہے.سپین کے مسلمان بادشاہ نے کہا کہ میں ایک دن بھی کسی Pillar کوٹوٹا ہوانہیں دیکھنا چاہتا.بہت نازک مزاج تھے نا.خدا تعالیٰ کے نعماء سے بڑے فائدہ اُٹھانے والے اور آرام حاصل کرنے والے تھے.انہوں نے ایک عجیب کام کیا ہے.میں تو حیران ہو گیا.Pillar کے نیچے ایک تو ایک چوڑی سی تھڑی بناتے ہیں.پھر اس کے وسط میں سے Pillar اُٹھتے ہیں.پھر اوپر جہاں وہ Arch آنی ہے وہاں بھی چوڑائی شروع ہو جاتی ہے.جہاں او پر چوڑائی شروع ہوئی جہاں نیچے چوڑائی ختم ہوئی.ان کے درمیان Pillar ہے.پتھر کا گھڑا ہوا چھوٹا سا.اور اوپر بھی اور نیچے بھی کسی Metal کی پلیٹ رکھی ہوئی ہے.تو اگر کر یک آ جائے کسی Pillar میں یا گر جائے تو بنے بنائے ستون پڑے ہوتے ہیں.بس وہاں سے لا کے اس کو وہاں کھڑا کر دیں گے.یعنی آدھے گھنٹے یا گھنٹے کے اندر وہ مکمل ہو جائے گا.یہاں تو فلش کے اندر خرابی ہو تو دو تین دن ہمارے امیر صاحب مستری کو ڈھونڈتے رہتے ہیں نا.عجیب اُن کے دماغ تھے.وہاں ایک جگہ ہم کھڑے ہوئے اُن کے بادشاہ سلامت کے رہنے کا جو حصہ تھا وہ شمالاً جنو با تھا.جنوب کی طرف سورج زیادہ آتا ہے تو شمال والے حصہ میں کھڑ کی کوئی نہیں تھی.ساری دیوار Solid تھی.پتہ نہیں اس میں مسالہ بھی کوئی خرچ ایسا کیا ہو گا.کہنے لگا سارا دن اس کے اوپر جو دھوپ پڑتی ہے اس کی گرمی سردیوں کے دنوں میں رات کو اس کمرے میں آتی ہے.یہ کمرہ بادشاہ سلامت کا بیڈ روم تھا.وہ سردیوں کا اس طرح کا تھا اور گرمیوں میں جو شمال کی طرف ہے وہاں ٹھنڈی ہوا آتی تھی.ایک کھڑ کی اس Bed Room میں نظر آ رہی تھی.خیر ہم دیکھ رہے تھے کہ عام کھڑ کی کی طرح ہے.گائیڈ کہنے لگا یہ عام کھڑ کی نہیں ہے.آپ بیٹھ جائیں اس کے پاس تو آپ دیکھیں گے تو احساس میں کیا فرق پڑ گیا آپ کے.تو میں تو نہیں بیٹھا.میں نے منصورہ بیگم سے کہا بیٹھیں یہاں.وہ بیٹھیں اور میر محمود صاحب تھے اُن کو کہا.جو بھی بیٹھا.انہوں نے کہا کہ یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ ہم چھت کے نیچے ہیں بلکہ آسمان کے نیچے بیٹھنے کا احساس ہوتا ہے اور بالکل کھلا ما حول محسوس ہوتا ہے.اور اسی طرح اور چیزیں.ہر چیز میں فائدہ والی چیز بنانا کہ گھٹن نہ پیدا ہو.گرمی میں ویسے گھٹن ہو جاتی ہے.جہاں بیچاروں کے کمروں کے اندر ائیر کنڈیشنر

Page 454

435 سبیل الرشاد جلد دوم نہیں لگے ہوئے ، اُن کو مصیبت پڑی ہوئی ہوتی ہے.تقSouth بدلتا تھا اپنا کمرہ گرمی سردی میں.اور وہ جو کھڑ کی ہے وہاں سے ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں.اس طرف سورج زیادہ نہیں.سایہ ہے، نسبتاً ٹھنڈی ہوا ہے.پھر کھڑ کی ایسی ہے کہ اگر آپ بیٹھ جائیں تو وہاں اتنی بڑی بڑی کرسیاں تو استعمال ہوتی ہوں گی.لیکن وہاں بیٹھنے کے لئے قالین وغیرہ ہوتے تھے.تو وہ اسی طرح معلوم ہوتا تھا کہ سر کے اوپر چھت ہے ہی نہیں بلکہ آسمان ہے، اتنی وسعت نظر میں پیدا ہو جاتی تھی اور اس کے بیچ میں پرانی حویلیوں کی طرح حویلی اور حویلی، الحمراء ہے.اس کا فرش اونچا تھا.کوئی چھ انچ ہو گا یا نو انچ.اسی کمرے میں گائیڈ کہنے لگا یہاں بیٹھ جائیں.تو جو صحن کا نظارہ ہے وہ بدل جائے گا.اس کے اندرفراخی اور گھٹن کا احساس کم کرنے والی کوئی چیز بنا دی گئی ہے یعنی angle بدلنے سے سکون کا احساس آ جاتا ہے.یہ اُن کو عقل دی تھی.آپ سے میں اس لئے باتیں کر رہا ہوں کہ آپ میرے نزدیک بڈھے نہیں ہوئے.جوانوں کے جوان ہیں.ہر وقت سوچا کریں کہ کیا آپ اپنے رب سے، ان مسلمانوں کی نسبت جو قریباً نویں ہجری میں سپین میں تھے ان سے کم پیار کرنے والے ہیں آپ کے دور میں تو مہدی آگئے.آپ اُن پر ایمان لے آئے تو آپ کے دل میں تو اُن سے زیادہ پیار ہونا چاہئے.بہت ساری اور چیزیں شامل ہوگئیں ان کی زندگی میں.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ اس موقع پر طوطے اڑتے ہوئے گزرے.آپ نے اُن کے متعلق احباب سے پوچھا.جواب ملنے پر فرمایا اس واسطے ہر چیز میں دلچسپی لیا کریں.اور یہ "كُل يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ - “ اگر یہ چیز نہ ہوتی کہ پرندے کی پرواز ہر پرندے سے مختلف ہے.ایک میل دور سے جانور اُڑ رہے ہوں.طوطا اور فاختہ تو میری آنکھ ایک سیکنڈ کے اندر پہچان جاتی ہے یہ کیا جانور ہے.اور اللہ کی شان نظر آتی ہے.اس طرح نہیں کہ موٹرمیں ایک لاکھ نکلیں.ایک قالب میں سے تو ایک ہی شکل اُن کی ، پھر رنگ اُن کو مختلف کر کے MONOTONY کو توڑا گیا.ورنہ تو آپ کے لئے یہ زندگی اجیرن ہو جاتی اگر ہر چیز ایک جیسی ہوتی ایک ہی پھول ہوتا.اس کا ایک ہی رنگ ہوتا.ایک ہی زمانہ میں پتے گرتے ویسے ہی پتے نکل آتے.کوئی تنوع نہ ہوتا.اس واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.کثرت شانِ دلیلِ وحدت او کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق میں جو کثرت اور تنوع ہمیں نظر آتا ہے.وہ دلیل ہے اس بات کی کہ اللہ ایک ہے.یہ بڑا گہر افلسفہ ہے گھر جا کے سوچنا.ہاں مَالَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلَّهِ وَفَّارًا وَ قَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا.سوره الرحمن آیت ۳۰

Page 455

سبیل الرشاد جلد دوم 436 میں بتا چکا ہوں کہ قرآن سے باہر کوئی چیز نہیں.یہ بڑی عظیم کتاب ہے.قرآن عظیم جس کو ہم کہتے ہیں واقع میں عظیم ہے.تو یہ کہتے ہیں آپ پڑھتے نہیں.اب یا ان سے کشتی کر لیں یا میری تسلی کروا دیں.قرآن پر غور کریں قرآن کریم ایک تو روز پڑھنا چاہئے تفسیر صغیر سے ، سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جس کو ویسے ترجمہ نہیں آ تا اگر وہ متن پڑھ رہا ہو تو پتہ نہیں لگے گا اگر وہ ایک رکوع دس منٹ میں پڑھے، تین منٹ میں نہ پڑھے اور ترجمہ پر غور کرے یہ کیا ہے.کیا باتیں اس میں لکھی ہیں.تو نئی سے نئی باتیں آپ کو ملنی شروع ہو جائیں گی.کوئی ایک آیت قرآنی ایسی نہیں جس کے معانی چودہ سو سال میں ختم ہو چکے ہوں، قیامت تک نکلتے آئیں گے.چھپے ہوئے بطون اس کے اندر اس طرح رکھے ہیں.لیکن اُس کے لئے دُعا اور پاکیزگی کی ضرورت ہے.ایک آدمی پاکیزہ راہوں کو اپنی طرف سے کوشش کر کے معلوم کرے اور پھر اُن پر چلنے کی کوشش کرے.اور دوسرے دُعا کرے.کیونکہ دُعا کے بغیر تو کچھ ملتا نہیں.اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ بڑا عجیب اعلان ہے.یہ نہیں کہ دعا کرو.دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کرلوں گا.یہ پورے معنے نہیں دے رہا.کہا ہے مانگو مجھ سے میں تم کو دوں گا.کیوں نہیں مانگتے آپ؟ اپنے لئے مانگیں.بچوں کے لئے مانگیں.اس دنیا کے لئے مانگیں.دُنیا تو ہلاکت کی طرف جا رہی ہے.جانتی ہے..اب جاننے لگ گئی ہے.کہتے ہیں کچھ کر یں.ایک صحافیہ کی آنسوؤں کی لڑی ۱۹۷۸ء سٹاک ہوم سویڈن کے دورے میں ایک پریس کانفرس میں میں نے قرآن کریم کی تھوڑی سی باتیں بتا ئیں ایک گھنٹے میں تو قرآن نہیں ختم ہوتا..وہ میرے سامنے جذباتی ہوتی گئی جب با ہر نکلی تو میرے ایک ساتھی کو کہنے لگی، اور اس کی آنکھوں کے آنسوؤں کی دھار بہہ رہی تھی.کہنے لگی آپ اتنی دیر بعد کیوں آئے ہیں.یہ بتاؤ مجھے ؟ مطلب یہ تھا کہ ہم گندگی میں دھنستے چلے گئے اور تم لوگوں نے ہمارا خیال نہیں رکھا.اور یہاں کہتے ہیں قرآن ہمیں کافی نہیں.کہیں اور سے بھی ہمیں کچھ ڈھونڈ نا چاہئے.نیکی کی بات اور فلاح کی بات جس سے دین اور دنیا میں کامیابی ملتی ہے اور نور کی بات اور حسن کی بات اور شفاء کی بات یہ تو قرآن کے علاوہ کہیں اور سے نہیں ملتی.متوازن غذا ربوہ سائیکل پر جانے کی بات ہوئی تو فرمایا مگر وہ اپنا فزیکل Physical Fitness کا ٹیسٹ

Page 456

سبیل الرشاد جلد دوم 437 کروالیں.یہاں سے کروالیں.(صحت جسمانی کے ذکر پر فرمایا ) اصل میں جو صحت ہے اس کا تعلق کھانے کے ساتھ ہے.اور اچھا کھانا جو ہے اس کا تعلق میزان کے ساتھ ہے.یعنی ایک Balance قرآن کریم نے جو محاورہ چودہ سو سال پہلے بتایا تھا وہ اب انہوں نے عام کر دیا ہے یعنی Balanced Food متوازن غذا.متوازن غذا کا مطلب ہے کہ جن بہت سارے اجزاء سے مل کے کھانا بنتا ہے ان میں ایک توازن پیدا ہونا چاہئے تا کہ جن بہت سے کیمیاوی اجزاء سے ہمارا جسم بنا ہے ان سارے اجزاء کی Feeding ہوتی چلی جائے ورنہ وہ بنیا بیٹھا ہوتا تھا ہمیں نظر نہیں آتا لیکن بیٹھا ہوتا ہے.بیٹھا اب بھی اسی طرح ہوگا.مثلاً مٹھائی بیچ رہا ہے.ہر پانچ دس منٹ کے بعد ایک لڈواٹھا کے کھالیا.اس کا پیٹ آگے نکلا ہوا ہوتا ہے.لیکن صحت کچھ نہیں.تو یہ جو Balanced غذا ہے.یہ آپ کے اعصاب کے لئے مفید ہے.آپ کے Muscles کے لئے مفید ہے.آپ کی ہڈیوں کے لئے مفید ہے.آپ کے بالوں کے لئے مفید ہے.آپ کے دانتوں کے لئے مفید ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ڈاکٹر ، جس کو علم ہونا چاہئے تھا نیوٹریشن (Nutrition) کے متعلق ، اس کو پتہ کچھ نہیں.ایک آدھ ہو گا کوئی لیکن جب میں کہتا ہوں کہ پتہ کوئی نہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے ادارے یہاں نہیں ہیں کہ آٹھ کروڑ کی ساری قوم کو بتانے والے ہوں کہ کیا کیا کھایا کرو.امریکہ میں گند بھی بڑا کھاتے ہیں یہ صحیح ہے اُن کی مصیبت اور بڑھ گئی لیکن بہت سارے رسالے جو مجموعی طور پر اُن کی آبادی سے ہر ہفتے تین چار گنا زیادہ تعداد میں چھپتے ہیں.ان میں یہ متوازن غذا کے متعلق بحث ہوتی ہے.نئی Discoveries کا ذکر ہوتا ہے یہ بھی آنا چاہئے غذا میں ، یہ بھی آنا چاہئے.خالی ایک کھانا کافی نہیں.کھانا ہضم ہونا چاہئے.وہاں آپ کی ورزش آتی ہے یعنی اتنا کھائیں کہ ہضم ہو جائے.اتنا نہ کھائیں جو غنودگی پیدا کرے اور آپ سو جائیں اور آپ کو نماز بھی چھوڑنی پڑے.اور قرآن کریم کا وہ فتویٰ آپ کے اوپر لگ جائے کہ ”شکاری“ ہونے کی حالت میں نماز نہ پڑھو.یعنی مستی چڑھی ہوئی ہے ، معدہ بہت زیادہ بھر گیا اس کے نتیجہ میں (اس قسم کے نہیں ) چاق و چو بند دماغ اور کھائیں.میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ میرے جتنا کھائیں کیونکہ یہ آپ کے لئے اجتماعی طور پر ممکن ہی نہیں.میرے بہت سارے بھائی ہوں گے.جو اتنا کھاتے ہوں گے یا اس سے بھی کم کھاتے ہوں گے.لیکن اصول یہ ہے کہ جتنا ہضم ہو جائے اتنا کھاؤ.یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب بھوک ہو اُس وقت کھاؤ.یہاں سے شروع کرتے ہیں.بھوک کب ہوگی جب پہلا کھانا ہضم ہو گیا.تبھی بھوک لگے گی نا.تو اس میں بھی اس طرف اشارہ ہے کہ ہضم کی طرف بھی توجہ دو.جب بھوک ہو تو کھاؤ.

Page 457

سبیل الرشاد جلد دوم 438 ابھی بھوک ہو تو چھوڑ دو.زیادہ بوجھ نہ ڈالو.خدا نے ایک سبق سکھا دیا ہے کہ میں نے اپنی تعلیم میں تم پر بوجھ نہیں ڈالا.تم کسی پر جو تمہارے ماتحت ہیں اُتنا بوجھ نہ ڈالو جوان کی طاقت سے باہر ہو.نہ مزدور پر ڈالو نہ معدے پر ڈالو.وہ بھی تو آپ کا مزدور ہے.ہر میدان میں ان قوموں نے بڑی ترقی کی مثلاً جہاں مسلمان کو کرنی چاہئے تھی.ایک زمانہ میں کی بھی تھی اب دوسروں نے اُن میدانوں پر قبضہ کر لیا.اب ہم احمدیوں نے اُن سے یہ میدان چھینتے ہیں.پتہ ہے؟ یہ تم انصار کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کے ذہن میں یہ بات ڈالو کہ جو ہماری دولت تھی ، متاع تھی اسلام کی وہ غیروں کے ہاتھ میں جا پڑی.وہ ہم نے ان سے چھینی ہے.اب گوشت گوشت میں فرق ہے.کراچی میں کھانے والا گوشت ہی نہیں ملتا.تو قرآن کریم میں مثلاً آ گیا لَحْمًا طَرِيًّا.ایک یہ اصول کھانے کا.دوسرے آ گیا مِمَّا يَشْتَهُونَ.جس کو اشتہاء پیدا ہوا اسے کھانے کو ملنا چاہئے اور یہاں تو نفرت پیدا ہوتی ہے پھیپھڑے اور عجیب وغریب ہڈیوں کی شکلیں ہوتی ہیں.پاکستان میں دراصل گوشت کھایا ہی نہیں جاتا.ہڈیوں کا جتنا سوپ بن سکتا تھا اس کا سواں حصہ بنا کے سمجھتے ہیں ہم گوشت کا شور بہ کھا رہے ہیں.شوربے میں ہڈی کا رس پورا نہیں آیا ہوتا.کیونکہ پکانے کا طریق درست نہیں ہے.اور جب طاقت نہیں ہوگی تو وہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے تھے جنہوں نے کہا کہ خدایا خواہش تو بڑی ہے مگر جسم ساتھ نہیں دے رہا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ایسے نہیں کہ خواہش تو ہے مگر جسم ساتھ نہیں دے رہا.پہلے زمانہ میں وہ جو بن گئے ویسا بننا ہے ہم نے.اب میں بتاتا ہوں.جسمانی طاقت کے لحاظ سے کیسے بنا ہے.خدا کے لئے انہوں نے اپنے جسموں کو مضبوط بنایا اور محنت برداشت کرنے کی طاقت پیدا کی.مثلاً سب سے پہلے دنیا کی دو میں سے ایک بہت بڑی طاقت کسری کی تھی جس نے مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کی اُن سے لڑنا پڑا.لڑائی کی کیفیت کیا تھی ؟ اگر میں آپ میں سے کسی کو بات سمجھانے سے پہلے مثال دوں کہ خدام الاحمدیہ میں سے کسی کو ایک چھ فٹ کی سوٹی دوں اور کہوں کہ اس کو اس طرح ہلاتا چلا جا.آدھے گھنٹے کے بعد تھک جائے گا.بہت ہی بہادر ہوا تو ۴۵ منٹ کے بعد تھک جائے گا.ہاتھ میں سوئی ہے یا تلوار ہے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ جو جسم کے اوپر اس کا بوجھ پڑ رہا ہے وہ تو اس کی حرکت کے نتیجہ میں ہے نا.اچھا اب یہ میری بات ختم ہو گئی ہے.اب میں وہاں سے شروع کرتا ہوں.مسلمان فوجوں نے جن کی تعداد صرف ۱۸ ہزار تھی.۴ ہزار گھوڑ سوار اور ۱۴ ہزار پیادہ ، انفنٹری اور انہوں نے جو وہاں حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں جنگیں لڑیں وہ ۴.۵ جنگیں ہیں.بعد میں بھی یہی حال رہا کچھ تھوڑے سے فرق کے ساتھ لیکن میں انہی کو لیتا ہوں.ان کے مقابلہ میں کسری کی فوج

Page 458

439 سبیل الرشاد جلد دوم تھی.ہر لڑائی میں ایک تازہ دم ایرانی فوج آئی ہے اور مسلمان وہی ہیں.کچھ شہید ہو گئے.کم ہوئے ، خدا نے بڑی حفاظت کی.کچھ زخمی ہو گئے.کم زخمی ہوئے خدا نے بڑی حفاظت کی.مان لیتے ہیں.لیکن سارے کے سارے تھکے ہوئے.ہر تیسرے دن کے بعد ایک تازہ دم فوج کے ساتھ مقابلہ اور مقابلہ یہ تھا یہ جو میں نے چھوٹی سی مثال دی ہے آپ کو سمجھانے کے لئے کہ اٹھارہ ہزار کے مقابلہ میں کم و بیش اوسطاً اسی ہزار کے قریب فوج.آٹھ گھنٹے کی لڑائی فرض کر لیتے ہیں.ایک دن کی لڑائی ہوتی تھی نا شام کوختم کر دیتے تھے تو ہر دو گھنٹے کے بعد ایرانی فوج کا کمانڈر ان چیف اس فوج کو جو دو گھنٹے لڑ چکی ہے.اس کو واپس بلا لیتا تھا.اور اُن کی لائنز میں سے بالکل تازہ دم فوج ہر دو گھنٹے کے بعد آگے آ جاتی تھی.چار دفعہ مسلمان فوج نے تازہ دم فوج سے صبح سے شام تک لڑائی کی اور ایرانی فوج نے دو دو گھنٹے تلوار میں چلائیں اور مسلمانوں نے آٹھ گھنٹے تلوار چلائی.یہ کمال ہو گیا.جسمانی طاقت اور مہارت کا.اب یہ حال ہے کہ مسلمان کہتے ہیں جی ہم قرآن نہیں پڑھتے.تو پھر مہارت کیسے پیدا ہو گی.اور دعا ئیں نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ موقع پر آپ کو جواب کیسے سمجھائے گا.مہارت کا یہ حال کہ پھر خالد بن ولید ہی چلے گئے قیصر کی فوجوں کے مقابلہ میں تو دمشق کا انہوں نے محاصرہ کیا ہوا تھا.عیسائی محاصرہ سے تنگ آ گئے تو اُن کے جرنیل نے کہا ان کو ڈرانا چاہئے.اور میں آپ کو بتاتا ہوں مسلمان ڈرا نہیں کرتے.آپ یہ سبق یاد رکھیں.مسلمان کبھی ڈرا نہیں کرتا کیونکہ حکم یہ ہے فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِی اس زمانے میں بڑی چوڑی چوڑی فصیلیں ہوا کرتی تھیں.انہوں نے نوجوان عیسائی لڑکیوں اور پادری صاحبان کی فوج ہتھیاروں سے لیس کر کے اور کئی ہزار کی تعداد میں رعب ڈالنے کے لئے فصیل پر کھڑا کر دیا.خالد بن ولید کو خدا نے بڑی فراست دی تھی.بڑا اخلاص دیا تھا.انہوں نے کہا اچھا یہ تم میرے ساتھ تماشا کر رہے ہو.انہوں نے اپنی فوج ذرا پیچھے ہٹائی اور تیر انداز یونٹ جو تھا اُن کو آگے بڑھایا.اور اُن کو ان ہونا حکم دیا.اُن کو کہا میں تمہیں حکم دیتا ہوں کمانڈر ان چیف کی حیثیت میں کہ یہ فوج جو سامنے کھڑی ہے.ایک ہزار آدمیوں کی تیر چلا کے ان کی آنکھیں نکال دو.اور گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں ایک ہزار آدمی کی آنکھ اُن تیر اندازوں نے نکال دی.اور اُس سے اُن کی شکست ہوگئی کیونکہ وہ وہاں سے نیچے اُتر کے بھاگے ہیں.اور وہ رعب ڈالنے کے لئے جمع ہوئے ہوئے تھے وہاں سے بھاگے ہیں سارا شہر Cross کر کے اُس دروازے تک پہنچے.سارے شہر میں یہ منادی کرتے ہوئے کہ لوگو! مسلمانوں نے ہماری آنکھیں نکال دی ہیں اور یوں انہوں نے Surrender سرنڈر کر دیا.یعنی جو منصوبہ بنایا گیا تھا.رُعب ڈالنے کے لئے وہ اُلٹا اُن کے اوپر پڑا.لیکن ایک ہزار آدمی کی آنکھ نکالنا جو اوپر چڑھا ہوا میرا اندازہ

Page 459

440 سبیل الرشاد جلد دوم ہے میں نے تیراندازی کو بھی بہت Study کیا ہے.وہ اسی یا سو گز سے تیر چلاتے تھے اور آنکھ کا نشانہ کر لیتے تھے یہ کمال ہے کہ نہیں ؟ آپ یوں ہی میرے سامنے بیٹھے ہیں آپ بھی کمال حاصل کریں.میں آپ کو کہتا ہوں قرآن کریم کے علوم حاصل کریں.( غیر مطبوعہ )

Page 460

سبیل الرشاد جلد دوم 441 سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ للہ تعالیٰ کا افتتاحی خطاب (فرموده ۳۰ را خاء۱۳۵۶۰ بهش ۳۰ راکتو برا ۱۹۸ء بمقام بیت اقصی ربوہ ) سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ ۳۰ راخاء۱۳۶۰ش ( ۳۰ راکتو بر ۱۹۸۱ء) چار بجے شام بیت اقصیٰ ربوہ میں مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے ۲۴ ویں سالانہ اجتماع کا افتتاح کرتے ہوئے جو خطاب فرمایا تھا ، اُس کا پورا متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.تشہد وتعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: دین اسلام ایک تعلیم بھی ہے اور ایک ہدایت بھی اور ایک لائحہ عمل انسانی زندگی کے لئے بھی ہے.اور ایک عشق کا جذ بہ اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی ہے.ہم جو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں.ہمارے سامنے جماعت احمدیہ کے عقائد جنہیں ہم اسلام کی تعلیم اور ہدایت سمجھتے ہیں ، وہ آتے رہنے چاہئیں.یہ ہدایت قرآن کریم میں ہے.اس قرآن کی تفسیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوشکلوں میں کی ہے.ایک اپنے ارشادات میں اور ایک اپنے عمل سے.ایک لمبا زمانہ گزرنے کے بعد بہت سی بدعات دین اسلام میں داخل ہوگئیں ایک علاقے کی بدعتیں ہیں اور ایک بین الاقوامی بدعتیں ہیں.علاقے علاقے کی بدعتوں کے دُور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُن پیار کرنے والوں کو بھیجا جن کے متعلق کہا گیا تھا : " عُلَمَاءُ أُمَّتِی كَانُبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ“ اس ارشاد نبوی کے بہت سے معانی ہیں.ایک معنی اس کے یہ بھی ہیں.جس کی طرف ہمیں توجہ دلائی گئی کہ جس طرح بنی اسرائیل کے انبیاء حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح امتِ موسویہ کی طرف بحیثیت امت موسویہ نہیں آتے تھے بلکہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ بعض دفعہ سینکڑوں ہوتے تھے وہ سارے کے سارے امتِ موسویہ کو تو مخاطب نہیں کرتے تھے.اُن کے دائرے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیئے تھے.وہ اپنے اپنے دائرہ میں بنی اسرائیل کی اصلاح میں کوشاں رہتے تھے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے حقیقی تو حید پر قائم رہنے والے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ، اپنے اپنے دائرہ استعداد میں، کرنے والے اپنے اپنے خطہ میں اسلام کی خدمت کر رہے تھے مثلاً ہندوستان میں جو ہمارے بزرگ

Page 461

سبیل الرشاد جلد دوم 442 گزرے ہیں اللہ تعالیٰ اُن پر بڑی رحمتیں نازل کرے.اُن کا مشن ساری دُنیا کی طرف نہیں تھا.یعنی اُن میں سے کسی نے یہ کوشش نہیں کی اور تاریخ اس پر گواہ ہے کہ افریقہ میں جا کے اسلام میں جو بدعتیں پیدا ہو گئیں اُن کو دور کریں یا یورپ میں جا کر وہ تبلیغ کریں.داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ بڑے بزرگ مدفون ہیں لاہور میں ، انہوں نے اپنے اس علاقے کو سنبھالا اور ہزار ہا غیر مسلموں کو اُن کی برکات اور فیوض سے جو اُنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کی تھیں یہ توفیق ملی کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائیں.تو جو کیفیت انبیائے بنی اسرائیل کی تھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد، وہی کیفیت تھی صلحاء امت کی مگر وہ نبی نہیں تھے لیکن اللہ کا مکالمہ مخاطبہ ہوتا تھا اُن سے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض رُوحانی سے حصہ لینے والے.عاشق خدا کے بھی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی اور دینِ اسلام کے بھی اور قرآن کریم کے بھی.وہ انبیائے بنی اسرائیل کی طرح اپنے اپنے خطہ میں دینِ اسلام کی خدمت میں لگے ہوئے تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات جو ہے وہ بڑی عظیم ہے اور ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس عظیم ہستی سے جو تعارف کرایا ہے ، اُس کے نتیجہ میں ہمارے سینے اور ہماری رُوح محمدؐ کے عشق سے معمور ہو گئی ہے.ہمیں کہا گیا ہے.لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِہ جہاں تک رسالت اور تبلیغ رسالت کا تعلق ہے سارے رسول برابر تھے یعنی جو خدا نے اُن کو آگے پہنچانے کا کہا وہ آگے پہنچایا اُنہوں نے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل شریعت لانے والے نبی جن کی طرف شریعت آئی ، جو اُن کا فرض تھا.وہ انہوں نے ادا کیا احسن رنگ میں.اپنی اپنی امت تک خدا کی وحی کو پہنچایا.اور اُن کے بعد آنے والے امت موسویہ میں انبیاء جو تھے ، انہوں نے حضرت موسیٰ کی شریعت کو دوسروں تک پہنچایا.سوائے اس کے کہ کسی جگہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے بعض احکام شریعتِ موسویہ کو بدلا ہو.مثلاً جس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی اُس وقت انسانی دماغ ابھی اپنے عروج کو نہیں پہنچا تھا.اس واسطے اُن کو قرآن عظیم کا ایک حصہ دیا گیا تھا.ایک لمبا عرصہ گزرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی.انسان کے ہاتھ میں ایک کامل کتاب دے دی گئی قرآن عظیم کی شکل میں.اس لمبے زمانہ میں زمانے کے بدلنے کے ساتھ یہودیوں کی ، بنی اسرائیل کی اخلاقی اور روحانی ضرورتیں بدلتی گئیں اور موسوی شریعت میں کسی نبی نے کسی جگہ ترمیم کر دی.خدا کے حکم سے کسی نے کسی جگہ.حضرت عیسی علیہ السلام نے سوره بقره آیت ۲۸۶

Page 462

سبیل الرشاد جلد دوم 443 اس حکم میں ترمیم کی کہ انتقام ضرور لینا ہے.جو تیرے تھپڑ مارتا ہے ، چپیڑ مارواس کو.بڑا زور دیا ہے اس پر.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت.خدا تعالیٰ نے یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ ان کی اخلاقی اور روحانی حالت گر گئی تھی.وہ بُزدل بن گئے تھے اور مومن بزدل نہیں ہوا کرتا.یہ یا درکھیں کہ مومن بزدل نہیں ہوا کرتا اور بنی اسرائیل بزدل بن گئے تھے.اس واسطے ان کی بزدلی کا علاج ہونا چاہئیے تھا.ان کو حکم دیا گیا تھا انتقام لینے کا.لیکن اُنہی کی شریعت کی پیروی کرنے والے حضرت عیسی علیہ السلام جب آئے تو وہ لوگ دوسری انتہا ء تک پہنچ چکے تھے.بزدلی سے تو نجات حاصل کر لی تھی.لیکن ظلم کے پھندے میں پھنس گئے تھے.اس واسطے حضرت عیسی علیہ السلام نے اُن کو یہ کہا.موسیٰ کی شریعت کے پابند ہی تھے.لیکن اُن کو یہ کہا کہ اگر تیری ایک گال پہ کوئی تھپڑ مارتا ہے تو دوسری بھی آگے کر دے اور پس وہ تھے تو شریعت موسویہ کے پابند تھوڑے تھوڑے فرق کے ساتھ.اس سے ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ ان انبیاء کو جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے نبوت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کامل اتباع کے نتیجہ میں نہیں ملی.کیونکہ کامل اتباع انہوں نے نہیں کی مثلاً حضرت عیسی علیہ السلام نے نہیں کی.ایک حکم تو بڑا واضح ہے نا ہمارے سامنے جس میں تبدیلی کی.اسی طرح دوسرے انبیاء کا حال تھا.جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں تو وہ تو ہر بات میں ہر وصف میں یکتا نکلے، یعنی کوئی مقابلہ ہی نہیں.کہتے ہیں ایک لاکھ بیس ہزار یا چوبیس ہزار انبیاء آئے.ان ایک کے علاوہ جتنے انبیاء تھے رسالت کے لحاظ سے.لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِم ہم اُن پر درود بھیجتے ہیں.ہمارے دل میں اُن کی قدر ہے.خدا کا پیار حاصل کیا انہوں نے.ہمارے دل میں بھی خدا تعالیٰ نے اُن کا پیار پیدا کیا.لیکن جتنے بھی ہزاروں کی تعداد میں بنی اسرائیل میں نبی پیدا ہوئے.انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے روحانی فیوض کے نتیجہ میں اور اُن کی کامل اتباع کی وجہ سے نبوت حاصل نہیں کی.لیکن یہ ایک شخص ہے.یکتا ویگا نہ صلی اللہ علیہ وسلم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ یہ اعلان کیا گیا کہ نبوت کا مقام تو علیحدہ رہا.کوئی روحانی درجہ خواہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو کوئی شخص حاصل نہیں کر سکتا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے.اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ہر روحانی درجہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نتیجہ میں حاصل کیا جائے گا.یہ میں آپ کو اپنا عقیدہ بتا رہا ہوں.جماعت احمدیہ کا.اچھی طرح یا درکھیں.اس لئے ہم یہ بات ماننے پر مجبور ہیں کہ اگر نبی کے یہ معنے ہیں جو ایک لاکھ نہیں یا چوبیس ہزار انبیاء کی زندگی میں ہمیں نظر آئے کہ نبی متبوع سے اُنہوں نے نبوت حاصل کرنے کے لئے یا

Page 463

444 سبیل الرشاد جلد دوم روحانی فیوض حاصل کرنے کے لئے کچھ نہیں پایا.یہ معنے ہیں اگر نبی کے اور یہی معنے ہیں نبی کے جیسا کہ ابھی میں بتاؤں گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہی معنے گئے ہیں.اور اگر یہ درست ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد کوئی شخص چھوٹے سے چھوٹا روحانی رتبہ اور درجہ بھی حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ کامل اتباع اپنی استعداد کے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ کر رہا ہو.تو پھر ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں.نبی کی مذکورہ تعریف کی رو سے کوئی نبی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ,, چونکہ اسلام کی اصطلاح میں نبی اور رسول کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ کامل شریعت لاتے ہیں یا بعض احکام شریعت سابقہ کو منسوخ کرتے ہیں.یا نبی سابق کی امت نہیں کہلاتے اور براہ راست بغیر استفادہ کسی نبی کے خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں.اس لئے ہوشیار رہنا چاہئے کہ اس جگہ بھی یہی معنی نہ سمجھ لیں کیونکہ ہماری کتاب بجز قرآن کریم کے نہیں اور ہمارا کوئی رسول بحجر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہے اور ہمارا کوئی دین بجز اسلام کے نہیں اور ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء اور قرآن شریف خاتم الکتب ہے.سو دین کو بچوں کا کھیل بنانا نہیں چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ ہمیں بجز خادمِ اسلام ہونے کے اور کوئی دعوی بالمقابل نہیں ہے.اور جو شخص ہماری طرف اس کے خلاف منسوب کرے وہ ہم پر افتراء کرتا ہے.ہم اپنے نبی کریم کے ذریعہ سے فیض و برکات پاتے ہیں اور قرآن کے ذریعہ سے ہمیں فیض معارف ملتا ہے.یعنی نبی کے یہ معنی ہیں اور اس معنی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں.یہ ہمارا عقیدہ ہے.ہم یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور شان اور رفعت اور بلندی اور قرب الہی کی پوری اور حقیقی معرفت رکھتا ہے اور اس کے دل میں ایک ایسی محبت پیدا ہوتی ہے آپ کے لئے کہ کسی اور کے دل میں ویسی پیدا نہیں ہو سکتی اور کامل اتباع کرتا ہے اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کے ذکر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود میں محو رہتا ہے.وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہر وہ روحانی فیض حاصل کر سکتا ہے جو پہلے انبیاء نے براہ راست خدا تعالیٰ سے حاصل کیا.یعنی بالفاظ دیگر جو الحکم ۱۷ار اگست ۱۸۹۹ء صفحه ۶ نمبر ۲۹ جلد۳

Page 464

سبیل الرشاد جلد دوم 445 کامل طور پر اور سچے معنے میں امتی بن جاتا ہے.اور اپنا وجود محمد کے وجود میں کھو دیتا ہے صلی اللہ علیہ وسلم.اس کے لئے مکالمہ مخاطبہ کے دروازے کھلے ہیں.اللہ تعالیٰ ہم کلام ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : دو امتی ہونے کے بجز اس کے اور کوئی معنے نہیں کہ تمام کمال اپنا اتباع کے ذریعہ سے رکھتا ہو.“ پھر آپ فرماتے ہیں : ”نبی کے لفظ سے اس زمانہ کے لئے صرف خدا تعالیٰ کی یہ مراد ہے کہ کوئی شخص کامل طور پر شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ حاصل کرے اور تجدید دین کے لئے مامور ہو.یہ نہیں کہ وہ کوئی دوسری شریعت لاوے کیونکہ شریعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی پر نبی کے لفظ کا اطلاق بھی جائز نہیں.جب تک اس کو امتی بھی نہ کہا جائے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک انعام اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا نہ براہ راست - پس ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا اور ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کی شان یہ تقاضا کرتی تھی ہے کہ وہ تمام فیوض رُوحانی اور مدارج روحانی جو پہلے انبیاء کو مختلف امتوں میں ملے وہ آپ کی امت کو آپ کی اتباع اور پیروی کے نتیجہ میں ملیں.اس لئے امت محمدیہ میں خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہا ہے.آج بھی کھلا ہے اور قیامت تک کھلا رہے گا.جو اولیاء پہلے گزرے بڑی کثرت سے اُن کے اُو پر خدا کا کلام نازل ہوا اور اُن کو خدا نے ہدایت دی.اُن کو قرآن کریم کے وہ معانی بتائے جو اُس زمانہ کے مسائل کو حل کرنے والے تھے.ایک دفعہ مجھے خیال آیا اور جتنی کتابیں دستیاب تھیں یہاں.ایک دوست کو مقرر کیا میں نے کہ پہلے بزرگوں کے وحی والہام اور کشوف کو اکٹھا کرو.تو ساری صدیوں کے میں یہ نہیں کہتا وہ سارے تھے کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ بہت ساری ہماری لائبریریاں ہمارے دشمنوں نے جلا دیں لیکن جو کتا ہیں ہمیں ملیں ان میں سے تیرہ صدیوں کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ تک کے بزرگوں کے الہام اور وحیاں اکٹھی کیں کا پیوں میں ، وہ ساری مل کے اس کلام سے کم تھیں جو کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوا.ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی صفحه ۸ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱۶ تجلیات الہیہ حاشیہ صفحہ ۹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۰۱

Page 465

سبیل الرشاد جلد دوم 446 ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو امتی نبی مانتے ہیں اور علی وجہ البصیرت یہ یقین رکھتے ہیں.اس لئے کہ جب ہم آپ کا کلام دیکھتے ہیں تو آپ کے کلام ، تقریر اور تحریر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اتنی محبت پاتے ہیں کہ امت محمدیہ کے کسی اور دل میں وہ محبت نظر نہیں آرہی.اور جو خدا تعالیٰ نے محمد کے طفیل آپ کو عطا کیا گھر سے تو کچھ نہ لائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل جو پایا وہ اس سے زیادہ ہے جو ان سارے بزرگ اولیاء امت نے پایا جو تیرہ سو سال کے زمانہ میں گزر چکے ہیں.یہ ایک کیسا روحانی فرزند پیدا ہو گیا ، امت محمدیہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا.جس کے دل کی کیفیت اپنے نبی متبوع کے دل کی لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ كیسی کیفیت تھی جس کا دل اُس انسان کے لئے بھی دُکھی ہوا جو آسٹریلیا میں رہنے والا ہے.اُس کے لئے بھی دُکھی ہوا جو امریکہ میں اور کینیڈا میں اور ساؤتھ امریکہ میں رہنے والا ہے اور سب کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اُس نے خدا سے مانگا اور خدا نے اُسے دیا.اس لئے نہیں دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کسی کو کھڑا کرنا تھا.اس لئے دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت جسے دُنیا بھول چکی تھی اُس سے دوبارہ دنیا کو روشناس کیا جائے.(نعرے) حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم كافة للناس مبعوث ہوئے ساری دُنیا کو آپ نے مخاطب کیا.آپ کے یہ روحانی فرزند جو ہیں.انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو کچھ اس طرح پکڑا کہ خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کہ ایک ایسا غلام آپ کا پیدا ہو جو آپ کی طرح ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے اپنی کمر کے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو چن لیا.یہ ہے ہمارا عقیدہ.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ آپ امتی نبی ہیں.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ ا علیہ وسلم کا عکس کامل ہیں.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ پہلے بزرگ گزرے وہ بھی عکس تھے مگر عکس کامل نہیں تھے جیسا کہ اُن کی زندگیوں کی تاریخ ہمیں بتا رہی ہے.جو شخص اپنی کوشش اور سعی اور جد و جہد اور عشق کی مستی میں ایک خطہ ارض میں چکر لگا رہا ہے.وہ اس کے ساتھ کیسے مل جائے گا جس کی ساری دنیا میں آواز گونج رہی ہے.پس آپ اُمتی نبی تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے.آپ کے رُوحانی فرزند تھے.محبوب تھے آپ کے.اُمت مسلمہ جس میں کروڑوں خدا رسیدہ اولیاء پیدا ہوئے اور بڑے پایہ کے پیدا ہوئے.اپنے اپنے رنگ میں.اُن سب میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ صرف ایک پہ پڑی اور اس کے متعلق فرمایا کہ جب اُسے ملو میر اسلام اسے پہنچا دو.سورۃ الکہف آیت ۷

Page 466

سبیل الرشاد جلد دوم 447 تیسرے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ امت محمدیہ میں امتی نبی صرف ایک ہوگا.جو آنا تھا وہ آ گیا.اس کی ایک عقلی دلیل ہے، ایک اس کی دلیل ہے.ابھی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حوالہ پڑھوں گا.عقلی دلیل یہ ہے کہ اگر کسی کے سپرد یہ کام کیا جائے کہ وہ ساری دُنیا میں اسلام کو غالب کرے تو اس کی کوشش میں ایک تسلسل کا پایا جانا ضروری ہے مثلاً سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک خطہ میں کام کیا.اُن کی اولا داب بھی درود پڑھتی ہے اور ذکر بھی کرتی ہے لَا إِلهَ إِلَّا اللہ کا.مگر کوئی کوشش ساری دنیا کو اسلام میں داخل کرنے کی نہیں گئی.تسلسل کے بغیر یہ ہو نہیں سکتا.کیونکہ ایک زندگی کی یہ ذمہ واری نہیں.کوئی ایک نسل اپنی زندگی میں ساری دُنیا میں اسلام کو غالب نہیں کر سکتی.بشارت دی گئی ہے کہ تین سوسال کے اندراندر.اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بھی منصوبہ اپنے عروج کو پہنچ جائے گا.دوسری صدی میں یعنی جو نو سال کے بعد شروع ہونے والی ہے.اس میں دس بارہ ، خدا جانے کتنی نسلوں نے پیدا ہونا اور اپنی ذمہ داریوں کو سنبھالنا ہے.ایک سوسال تو گزر گیا نا.پہلے بزرگوں کو دیکھو.امت مسلمہ میں جو مجدد پیدا ہوئے تھے ان پر بھی جب سو سال گزرگیا اُن کا زمانہ ختم ہو گیا.پھر نئے آنے والے نے نئے سرے سے شروع کر دیا کام.تسلسل ختم ہو گیا.اُن کا کام بھی ختم ہو گیا.اُن کی افادیت بھی ختم ہو گئی.اُن کے اثرات بھی ختم ہو گئے.وہ ایک خاص زمانے کے لئے ایک خاص خطہ ارض کے لئے تھے.جس کے سپر د خدا یہ کام کرے کہ ساری دُنیا میں اسلام کو غالب کر ولیکن اُسے یہ کہے کہ تیری جماعت کو زندگی صرف سو سال کی دوں گا.کام تیرے سپر د تین سو سال کا ہے اور زندگی ایک سو سال کی ، خدا تعالیٰ تو یہ نہیں کہہ سکتا.کیونکہ کوئی نقص اس کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا.اس لئے حقیقت یہ ہے کہ یہ امتی نبی ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں کچھ اس طرح تڑپا کہ خدا نے ایک ہزار سال کے لئے اُسے اُمتی نبی اور مجدد آخر بنا دیا.(نعرے) بہت سے حوالے ہیں لیکن میں ان میں سے چند ایک کو ہی لے سکتا ہوں.آپ فرماتے ہیں : غرض بروزی رنگ کی نبوت سے ختم نبوت میں فرق نہیں آتا اور نہ مُہر ٹوٹتی ہے.لیکن کسی دوسرے نبی کے آنے سے اسلام کی بیخ کنی ہو جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس میں سخت اہانت ہے کہ عظیم الشان کام دجال کشی کا عیسی سے ہوا نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آیت کریمہ وَلكِنْ رَسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبيِّنَ نعوذ باللہ اس سے جھوٹی ٹھہرتی ہے اور اس آیت میں ایک پیشگوئی مخفی ہے اور وہ یہ کہ اب نبوت پر قیامت تک مُہر لگ گئی ہے اور بجز بروزی وجود کے جوخود

Page 467

سبیل الرشاد جلد دوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے کسی میں یہ طاقت نہیں جو کھلے کھلے طور پر نبیوں کی طرح خدا سے کوئی علم غیب پاوے.اور چونکہ وہ بروز محمد کی جو قدیم سے موعود تھا، وہ میں ہوں.اس لئے بروزی رنگ کی نبوت مجھے عطا کی گئی اور اس نبوت کے مقابل پر اب تمام دنیا بے دست و پا ہے.کیونکہ نبوت پر مہر ہے.ایک بروز محمد می جمیع کمالات محمدیہ کے ساتھ آخری زمانہ کے لئے مقدر تھا.سو وہ ظاہر ہو گیا.میں بتا رہا ہوں کہ صرف ایک امتی نبی کی بشارت دی گئی تھی.66 448 پھر حقیقۃ الوحی کے صفحہ ۳۰ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس موضوع پر بحث کر رہے ہیں کہ مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ کا دروازہ امت محمدیہ پر بند نہیں.آپ فرماتے ہیں: اور اس ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم.ناقل ) کی امت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہو گا.اور بجز اس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں.ایک وہی ہے جس کی مہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونا لازمی ہے.اور اُس کی ہمت اور ہمدردی نے اُمت کو ناقص حالت پر چھوڑنا نہیں چاہا.اور ان پر وحی کا دروازہ جو حصول معرفت کی اصل جڑھ ہے بند رہنا گوارا نہیں کیا.اس کے نیچے حاشیہ ہے.حاشیہ میں آپ فرماتے ہیں : دد لیکن اِس امت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی برکت سے ہزار ہا اولیاء ہوئے ہیں اور ایک وہ بھی ہوا جو امتی بھی ہے اور نبی بھی." اسی طرح حقیقۃ الوحی میں آپ فرماتے ہیں : غرض اس حصہ کثیر وحی الہی اور اُمور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں.اُن کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرت وحی اور کثرتِ امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط اُن میں پائی نہیں جاتی اور ضرور تھا کہ ایسا ہوتا تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی ایک غلطی کا ازالہ صفحه ۱۱، روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۵ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۰ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۳۰

Page 468

سبیل الرشاد جلد دوم صفائی سے پوری ہو جاتی.کیونکہ اگر دوسرے صلحاء جو مجھ سے پہلے گزر چکے ہیں وہ بھی اسی قدر مکالمہ و مخاطبہ الہیہ اور امور غیبیہ سے حصہ پالیتے تو وہ نبی کہلانے کے مستحق ہو جاتے تو اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی میں ایک رخنہ واقع ہو جاتا.اس لئے خدا تعالیٰ کی مصلحت نے ان بزرگوں کو ، اس نعمت کو پورے طور پر پانے سے روک دیا جیسا کہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ ایسا شخص ایک ہی ہوگا.66 449 ایسا شخص کون؟ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق جو نبی نہیں ، امتی نبی ہے.یہ یاد رکھیں.آپ نے کہا ہے کہ مجھے کبھی خالی نبی نہ کہا کرو.امتی نبی کہا کرو جیسا کہ میں نے ابھی بتایا نبی کے معنی امتی نبی کے معنی سے بالکل مختلف ہیں.اگر ہم نبی کہیں تو نعوذ باللہ یہ کہہ رہے ہوں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام روحانی مدارج بغیر اتباع وحی قرآنی کے حاصل کئے.یہ بات بالکل غلط ہے.آپ تو بدعات کو مٹا کر خالص اسلام قائم کرنے کے لئے ، ان راہوں کو روشن کرنے کے لئے آئے تھے جن را ہوں پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش ہمیں نظر آتے ہیں.مجدد، امام ، مسیحی ، خلیفہ یہ لفظ ہم استعمال کرتے ہیں.ان کے متعلق ہر ایک کا ذکر کر کے آپ نے فرمایا ہے کہ میں آخری ہوں.چنانچہ لیکچر لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: تب سخت لڑائی کے بعد جو ایک رُوحانی لڑائی ہے خدا کے مسیح کو فتح ہوگی اور شیطانی قوتیں ہلاک ہو جائیں گی اور ایک مدت تک خدا کا جلال اور عظمت اور پاکیزگی اور توحید زمین پر پھیلتی جائے گی اور وہ مدت پورا ہزار برس ہے جو سا تواں دن کہلاتا ہے.بعد اس کے دُنیا کا خاتمہ ہو جائے گا.سو وہ مسیح میں ہوں.پھر آپ فرماتے ہیں : قرآن شریف میں بلکہ اکثر پہلی کتابوں میں بھی یہ نوشتہ موجود ہے کہ وہ آخری مُرسل جو آدم کی صورت پر آئے گا اور مسیح کے نام سے پکارا جائے گا.ضرور ہے کہ وہ چھٹے ہزار کے آخر میں پیدا ہو.جیسا کہ آدم چھٹے دن کے آخر میں پیدا ہوا.“ پھر آپ لیکچر سیالکوٹ میں فرماتے ہیں : 66 حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۶ - ۴۰۷ لیکچر لا ہور روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۷۹ لیکچر لا ہور روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۸۵

Page 469

450 سبیل الرشاد جلد دوم اور عیسائی مذہب تخم ریزی کے ساتھ ہی خشک ہو گیا اور اُس کا پیدا ہونا اور مرنا گویا ایک ہی وقت میں ہوا.پھر ہزار پنجم کا دور آیا جو ہدایت کا دور تھا.یہ وہ ہزار ہے جس میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے اور خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر تو حید کو دوبارہ دُنیا میں قائم کیا.پس آپ کے منجانب اللہ ہونے پر یہی ایک زبر دست دلیل ہے کہ آپ کا ظہور اُس ہزار کے اندر ہوا جو روز ازل سے ہدایت کے لئے مقرر تھا.اور یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ خدا تعالیٰ کی تمام کتابوں سے یہی نکلتا ہے.اور اسی دلیل سے میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا بھی ثابت ہوتا ہے.کیونکہ اس تقسیم کی رُو سے ہزار ششم ضلالت کا ہزار ہے اور وہ ہزار ہجرت کی تیسری صدی کے بعد شروع ہوتا ہے اور چودھویں صدی کے بر تک ختم ہوتا ہے.اس ششم ہزار کے لوگوں کا نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج رکھا ہے.اور ساتواں ہدایت کا ہے جس میں ہم موجود ہیں چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لئے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سر پر پیدا ہو.اور اسکے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کے لئے بطور ظن کے ہو.لیکچر لدھیانہ میں آپ فرماتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر شریعت اور نبوت کا خاتمہ ہو چکا ہے اب کوئی شریعت نہیں آ سکتی.قرآن مجید خاتم الکتب ہے.اس میں اب ایک شعشہ یا نقطہ کی کمی و بیشی کی گنجائش نہیں ہے ہاں یہ سچ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوضات اور قرآن شریف کی تعلیم اور ہدایت کے ثمرات کا خاتمہ نہیں ہو گیا.وہ ہر زمانہ میں تازہ بتازہ موجود ہیں اور انہی فیوضات اور برکات کے ثبوت کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے.“ پھر آپ فرماتے ہیں : میں بڑے زور سے اور پورے یقین اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ دوسرے مذاہب کو مٹا دے اور اسلام کو غلبہ اور قوت دے.اب کوئی ہاتھ اور طاقت نہیں جو خدا تعالیٰ کے اس ارادہ کا مقابلہ کرے.وہ لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۰۸ • لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۷۹

Page 470

سبیل الرشاد جلد دوم فَعَّالٌ لِمَا يُريدُ ہے.یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ تمہیں یہ خبر دی ہے اور میں نے اپنا پیام پہنچا دیا ہے.اب اس کو سنا نہ سُنا تمہارے اختیار میں ہے.پھر آپ فرماتے ہیں : قرآن شریف اپنے نصوص قطعیہ سے اس بات کو واجب کرتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے مقابل پر جو موسوی خلیفوں کے خاتم الانبیاء ہیں اس امت میں سے بھی ایک آخری خلیفہ پیدا ہوگا تا کہ وہ اسی طرح محمدی سلسلہ خلافت کا خاتم الاولیاء ہو.مجددانہ حیثیت اور لوازم میں حضرت عیسی علیہ السلام کی مانند ہو اور اسی پر سلسلہ خلافت محمد یہ ختم ہو جیسا کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر سلسلہ خلافت موسویہ ختم 2 66 451 ہو گیا ہے.“ قرآن کریم کی آیت كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اب جب ہم مانند کے لفظ کو پیش نظر رکھ کر دیکھتے ہیں جو محمدی خلیفوں کی موسوی خلیفوں سے مماثلت واجب کرتا ہے تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ جو ان دونوں سلسلوں کے خلیفوں میں مماثلت ضروری ہے اور مماثلت کی پہلی بنیاد ڈالنے والا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہے اور مماثلت کا آخری نمونہ ظاہر کرنے کا وہ مسیح خاتم خلفائے محمد یہ ہے جو سلسلہ خلافت محمدیہ کا سب سے آخری خلیفہ ہے.سب سے پہلے خلیفہ جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہے وہ حضرت یوشع بن نون کے مقابل اور اُن کا مثیل ہے جس کو خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلافت کے لئے اختیار کیا.یہ بات بہت ضروری یاد رکھنے کے لائق ہے کہ ہر ایک دائرہ کا عام قاعدہ یہی ہے کہ اُس کا آخری نقطہ پہلے نقطہ سے اتصال رکھتا ہے لہذا اس عام قاعدہ کے موافق خلافت محمدیہ کے دائرہ میں بھی ایسا ہی ہونا ضروری ہے یعنی یہ لازمی امر ہے کہ آخری نقطہ اُس دائرہ کا جس سے مراد مسیح موعود ہے جو سلسلہ خلافت محمد یہ کا خاتم ہے.وہ اس دائرہ کے پہلے نقطہ سے جو خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نقطہ لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۲۹۰ تحفہ گولڑ و یه صفحه ۹۶ روحانی خزائن جلد ۷ اصفحه ۱۸۲ تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۱۸۳

Page 471

سبیل الرشاد جلد دوم 452 ہے جو سلسلہ خلافت محمدیہ کے دائرہ کا پہلا نقطہ جو ابوبکر ہے.وہ اس دائرہ کے انتہائی نقطہ سے جو مسیح موعود ہے اتصال تام رکھتا ہے.جن حوالوں پر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں پڑھتے ہوئے نشان لگائے ہیں وہ بیسیوں ہیں جو یہی بات بیان کر رہی ہیں لیکن وہ ساری کی ساری تو یہاں بیان نہیں ہو سکتی تھیں.میں اس وقت آپ کے سامنے اب اس کا خلاصہ بتا تا ہوں.ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ محمد رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر بات ، ہر وصف میں یکتا ہیں.کوئی نظیر آپ کا نہیں ملتا اس آدم کی نسل میں.ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ چونکہ آپ یکتا ہیں ہر صفت میں.اس صفت میں بھی یکتا ہیں کہ جوڑ وحانی فیوض آپ کی اتباع کے نتیجہ میں نوع انسانی کو مل سکتے ہیں اور ملے ہل رہے ہیں اور آئندہ ملتے رہیں گے وہ اُن روحانی فیوض سے کہیں زیادہ ہیں اپنی وسعتوں کے لحاظ سے بھی ، اپنی رفعتوں کے لحاظ سے بھی اور اپنی شان کے لحاظ سے بھی جو پہلے شرعی انبیاء کی امتوں کو ملے.ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی کے معنی ہیں براہ راست موہبتِ باری تعالیٰ کے نتیجہ میں نبوت مل گئی.اس مقام پر کھڑے کئے جانے میں اسرائیلی نبیوں کی اگر مثال ہم لیں ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رُوحانی فیوض کا کوئی دخل نہیں تھا یعنی یہ ضروری نہیں تھا بلکہ واقعہ یہ نہیں تھا کہ آپ کی اتباع ، پوری کی پوری لازم ہوتی.اس لئے ایک مسلسل تدریجی تبدیلی اُس کے اندر پیدا ہو رہی تھی.ہر نبی آکے کوئی نہ کوئی تبدیلی پیدا کر دیتا تھا خدا کے حکم سے.تو ایک وہ شریعت جو پتھر کی پلیٹوں پر کندہ ہو کر اُن کو دی گئی اور ایک وہ جس کے اندر پھر بھی تبدیلیاں ہوئیں اور ہر اسرائیلی نبی کو ضرورت کے مطابق ہر علاقہ میں وحی کے ذریعہ تبدیلی کا حکم ملا.ایک علاقہ میں ایک حکم چل رہا ہے دوسرے میں ایک اور حکم.انسانیت اپنے ارتقاء کے ادوار میں سے گزر رہی تھی.جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے.انسانیت اپنی ارتقاء کو پہنچ چکی تھی.ایک کامل اور مکمل شریعت کو سمجھنے کی اس معنی میں اہلیت رکھتی تھی کہ ہر آنے والا زمانہ اپنی ضروریات کو سمجھنے کے لئے خدا سے ایک مظہر یا بہت سے مطہر وجود پاتا تھا جنہیں اللہ تعالیٰ معلم حقیقی کی حیثیت سے لَّا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کی میں تفسیر کر رہا ہوں قرآن کریم کے وہ بطون سمجھا تا تھا جو اُس زمانہ یا اُس خطہ کے مسائل کو حل کرنے والا تھا.لیکن اُس پیش خبری کے عین مطابق جو امت محمدیہ کو دی گئی تھی کہ میرے علماء جو ہوں گے ، علمائے رُوحانی.وہ انبیائے بنی اسرائیل کی طرح ہوں گے.میری طرح نہیں ہوں گے.اُس میں یہ خبر دی گئی تھی.یہ نہیں آپ نے فرمایا کہ عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَمَثَلِی.یہ نہیں کہا آپ نے تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد۱۷ حاشیہ صفحہ ۱۹۱

Page 472

453 سبیل الرشاد جلد دوم کہا كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ - اُس میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ میرے فیض سے حصہ لیں گے.لیکن کامل حصہ نہیں لیں گے.اس لئے کہ اُن پر ذمہ داری کامل نہیں ڈالی جائے گی.بلکہ اپنے اپنے زمانہ کے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ واری اُن پر ڈالی جائے گی اور اُسی کے مطابق اللہ تعالیٰ ان کو اپنی نعماء سے نوازے گا اور قرآن کریم کے معانی انہیں بتائے گا.لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ایک میرا روحانی فرزند پیدا ہوگا.لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلّهِ (الصف: 10) تا کہ اسلام کو تمام دنیا پر غالب کرے.امت میں یہ جو چھوٹے چھوٹے اولیاء گزرے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلہ میں انہوں نے اس کی یہی تفسیر کی ہے کہ کامل غلبہ اسلام کا آخری زمانہ میں مہدی کے وقت میں ہو گا.اس لئے جب مہدی آئے مسیح اور مہدی علیہ السلام.وہ نبی نہیں بن سکتے تھے.اس واسطے کہ کوئی شخص جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیٹھ کر کے کھڑا ہونے والا ہے وہ خدا تعالیٰ کے انعامات سے محروم کر دیا جاتا ہے.نبی نہیں بن سکتے تھے کیونکہ نبی کے معنی آپ نے یہ کئے ہیں کہ اسلام کی اصطلاح میں نبی کے معنے یہ ہیں کہ انہوں نے اپنے نبی مبتوع کے فیض سے کوئی روحانی چیز حاصل نہ کی ہو.اور آپ ہی نے امتی نبی کے یہ معنے کئے ہیں کہ جس نے جو کچھ بھی پایا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل پایا.اس لئے ہمارا یہ عقیدہ ہے.آپ یا درکھیں.غلط استعمال نہ کر جائیں لفظوں کو.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص اپنی استعداد کے دائرہ میں جتنا جتنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرتا ہے اُتنا اتنا اُسے مل جاتا ہے.اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ پہلوں نے اپنی استعداد کے مطابق پایا لیکن اس کثرت سے نہیں پایا مکالمہ مخاطبہ کہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ نبی کا مقام پاتے.نہ وہ زمانہ ایسا تھا.زمانہ کی ضرورت بھی یہ مطالبہ نہیں کر رہی تھی کہ وہ مہم جس کے نتیجہ میں اسلام نے ساری دُنیا میں پھیلنا تھا، اُس کا اجراء کر دیا جاتا ، اعلان کر دیا جاتا کہ شروع ہوگئی.پہلے کسی زمانہ میں ایسے حالات نہیں پیدا ہوئے.لیکن ایک طرف حضرت مسیح موعود، مہدی معہود علیہ السلام کی پیدائش کے ایام.دوسری طرف دنیا نے ترقیات کر کے سارے نوع انسانی کو ایک خاندان بنانے کے لئے سامان پیدا کر دیئے.ریڈیو ہے.ٹیلی ویژن ہے.کتب کی اشاعت ہے.ہوائی جہاز ہیں.اُس سے بھی زیادہ تیز چیزیں اب بنانی شروع کر دیں.اب خود ہوائی جہاز ہماری آواز کی جو رفتار ہے اس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ اُڑنے لگ گئے ہیں.چند گھنٹوں میں ہزاروں میل کا سفر کر کے پہنچا دیتے ہیں ہماری کتابیں دوسرے ملکوں میں.تو امت واحدہ بننے کے سامان پیدا ہوئے.امت واحدہ بنانے کا سامان پیدا کر دیا.وہ پیارا.

Page 473

سبیل الرشاد جلد دوم 454 محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب آپ کا خادم - بقول خود مہدی کے آپ کا نالائق مزدور جو مرضی کہلو.لیکن وہ محمد کا ہے.اور محمد سے جدا نہیں ہے.میں نے آپ کو بتایا ہے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس غرض غلبہ اسلام کے لئے آئے.آپ نے سوچا کہ ہمارے اس عقیدہ نے ہر احمدی کے کندھوں پر کیا ذمہ داریاں ڈالی ہیں.اپنے قول اور فعل سے دُنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا کرے.اس کے بعد حضور کی اقتداء میں آٹھ بار لا اله الا اللہ کا ورد ہوا اور پھر حضور احباب کو السلام علیکم و رحمۃ اللہ کہہ کر تشریف لے گئے.( غیر مطبوعہ )

Page 474

سبیل الرشاد جلد دوم 455 سیدنا حضرت خلیفة انز یلمسیح الثالث رحمہ اللہتعالیٰ کا انتقامی خطاب فرموده کیم نبوت ۱۳۶۰ بهش یکم نومبر ۱۹۸۱ء بمقام بیت اقصیٰ ربوہ ) سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ یکم نبوت ۱۳۶۰ ہش یکم نومبر ۱۹۸۱ء کو بیت اقصیٰ میں مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے جو اختتامی خطاب فرمایا تھا وہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے: تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی ایک صفت الیتی ہے.یعنی اپنی ذات میں زندہ اور ہر قسم کی زندگی اور حیات بخشنے والا.ایک قسم یہ ہے کہ انصار اللہ میں زندگی کے آثار بڑھاتا آ رہا ہے.پچھلے سال انصار اللہ کی جو مجالس اس اجتماع میں شامل ہوئیں ان کی تعداد ۷۵۵ اور جو نمائندگان آئے ان کی تعداد ۱۸۲اتھی.سالِ رواں میں جو مجالس شامل ہوئیں ہیں ان کی تعداد ۸۴۲ یعنی ۷ ۸ زیادہ اور نمائندگان ۱۳۰۵ یعنی ۱۲۳ زیادہ.یہ ۴۲ ۸ مجالس شامل ہوئی ہیں اور کل مجالس ۹۳۶ ہیں.تو جو رہ گئی ہیں، ان کو اپنی فکر کرنی چاہئے اور ہمیں ان کی بہت فکر کرنی چاہئے.کل میں اس آج کی تقریر کے متعلق سوچ رہا تھا کہ کس مضمون پر میں کچھ کہوں تو ایک بہت وسیع مضمون اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا.اتنا وسیع کہ مجھے بڑی کوشش کر کے سمیٹنا پڑا.اور بنیادی چار باتیں میں نے اس مضمون میں سے اٹھائی ہیں اور وہ مضمون تھا تَخَلَّقُوا بِاخْلَاقِ الله اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنی زندگی میں پیدا کرو.یہ بہت بڑا مضمون ہے.بنیادی طور پر خدا تعالیٰ کی صفات دو پہلو رکھتی ہیں.ایک تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا کہ وہ السُّبُوحُ ہے.عربی میں اس کا تلفظ دونوں طرح ہے ”س“ کی زبر کے ساتھ بھی اور پیش کے ساتھ بھی.اور الْقُدُّوسُ ہے.لغت میں ہے کہ اَلسُّبُوحُ اور الْقُدُّوسُ ساری عربی زبان اس شکل میں صرف دو لفظ اپنے اندر رکھتی ہے.اور اللہ تعالیٰ نے بار بار توجہ ہمیں دلائی کہ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ

Page 475

سبیل الرشاد جلد دوم 456 وَ الْأَرْضِ اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے.پاک اور منزہ ہے ہر عیب سے.اور مَا فِي السَّمَوتِ وَ الْاَرْضِ جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب اس کی پاکیزگی کے ترانے گاتے ہیں.دنیا میں اس وقت جو شکل مذاہب کی ہمارے سامنے آتی ہے صرف ایک مذہب اسلام ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی ذات کو کلی طور پر ہر عیب سے پاک اور منزہ قرار دیا ہے.باقی جو مذاہب ہیں جب وہ نازل ہوئے اس وقت تو تخیل یہی دیا گیا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے مگر ان کی عقلیں اس مضمون کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکیں اور بعد میں بہت کچھ بدعات اس مذہبی عقیدہ میں اصولی بنیادی عقیدہ میں شامل ہو گئیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں بہت سے نقائص اس کے اندر پائے جاتے ہیں لیکن جو صحیح اور حقیقی اسلام اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں دیا وہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات کلی طور پر ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور ضعف سے پاک اور منزہ ہے.بعض لوگ گزشتہ تیرہ سو سال میں بھی اس حقیقت کو بھول بیٹھے.یہ کہنا کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے یہ جہالت کا اظہار تو ہے، حقیقت کا اظہار نہیں ہے.حقیقت یہی ہے کہ خدا تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے.اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکیزگی کو پسند کرتا ہے اور پاکیزگی کو قائم کرنے کے لئے اس نے قرآن کریم میں بہت سے احکام ہمیں دیئے ہیں.ان چاروں باتوں کے متعلق احکام کا جو تعلق ہے وہ میں آخر میں بیان کروں گا.دوسری بنیادی بات اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق قرآنی تعلیم میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اور اس کو اپنی ذات اور صفات اور محامد میں من کل الوجوہ کمال حاصل ہے ) اور یہاں وہ پہلی بات بھی آپ نے فرمائی.”اور رذائل سے بکلی منزہ ہے“ چونکہ وہ تمام صفات حسنہ سے متصف ہے اور حکم اس نے دیا تَخَلَّقُوا بِاخْلَاقِ اللَّهِ.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی تعلیم میں اور خلق کائنات میں ایسے سامان پیدا کئے کہ انسان اپنی تمام اور ہر قسم کی قابلیتوں ، استعدادوں اور صلاحیتوں پر خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ چڑھا سکے.تیسری بنیادی تعلیم خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کے متعلق قرآن کریم میں یہ دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں تضاد نہیں پایا جاتا.اور اس کا ذکر سورۃ الملک میں بھی ہے جہاں کہا گیا ہے کہ تمہیں کوئی الحشر آیت ۲۵ براہین احمدیہ روحانی خزائن جلد اصفحه ۴۳۶ براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد اصفحه ۴۳۶

Page 476

457 سبیل الرشاد جلد دوم تفاوت اور فتور نظر نہیں آئے گا.عربی زبان میں تَفَاوَتَ الشَّيْئَان کے معنی یہ کئے گئے ہیں اِخْتَلَفَا وَ تَبَاعَدَا مَا بَيْنَهُمَا کہ آپس میں ان کا اختلاف ہو.اسی کو ہم تضاد کہتے ہیں نا.اور ان کے درمیان بعد پایا جائے.مفردات راغب نے کہا ہے اس کے معنی ہیں.لَيْسَ فِيْهَا مَا يَخْرُجُ عَنْ مُقْتَضَى الحِكْمَةِ کہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے جو کائنات پر ظاہر ہوئے اور جس سے ہر چیز پیدا ہوئی اس نے ساری کائنات کو اس طرح باندھ دیا کہ کسی پہلو سے بھی جو حکمت کا تقاضا تھا، جو خدا تعالیٰ چاہتا تھا اس سے ادھر اُدھر نہیں ہوئی کوئی چیز.یہ ایک مکمل LOGICAL WHOLE ہے.اتنی بڑی کائنات اتنی چیزیں ہیں اس میں اتنی اشیاء ہیں ، اتنے فرد ہیں کہ ہمارے تصور سے بھی بالا ہیں.یعنی ہم اس کو سوچ بھی نہیں سکتے اس وسعت کو وسعت تعداد کو.اور ہر چیز ایک دوسرے سے بندھی ہوئی ہے.مثلاً ایک جہت جس میں وہ بندھی ہوئی ہے یہ ہے کہ ہر چیز خدا تعالیٰ کی پاکیزگی کو بیان کر رہی ہے اور ہر چیز اس کے محامد کو بیان کر رہی ہے.اور دوسرے اس جہت سے کہ اس کائنات کی ساری چیزیں مل کے اس میں ، کوئی ان میں کوئی تفاوت اور تقضاد نہیں ، انسان کی خدمت پر لگی ہوئی ہیں.کوئی ایک چیز ایسی نہیں سارے عالمین میں ، اس یونیورس UNIVERSE میں ، اس کائنات میں کہ جو انسانی خدمت کرنے سے انکار کرے.ہر لحاظ سے تضا د سے پاک اور اختلال اور وھن ، کمزوری سے پاک.یعنی نہ اس میں کوئی فساد ہے اور نہ کوئی کمزوری.یہ جو تضاد نہیں بلکہ ہر چیز ایک دوسرے کی جو حکمت ہے پیدائش کی، اس کے ساتھ تعاون کرنے والی ہے، اس سے نکلی آگے ایک اور چیز نکلی کہ اس ساری کائنات میں ” میزان “ اور ” توازن پایا جاتا ہے.یہ بڑا عجیب اصول ہے قرآن کریم میں وَضَعَ الْمِیزَانَ یعنی ساری کائنات میں تضاد نہیں، میزان ہے اور جو ریسرچ اب ہو رہی ہے نئی سے نئی وہ اس حقیقت کا ملہ کو جو قرآن کریم نے بیان کی ہے اسے سچا ثابت کر رہی ہے.توازن کا مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں عالمین میں کامل نسبتیں قائم ہیں.مثلاً متوازن غذا ہم کہتے ہیں.بڑا چھوٹا سا ایک پہلو میزان کا.متوازن غذا وہ ہے جو ایک فرد زید کی غذائی ضروریات میں BALANCE پیدا کرتا ہے کہ اتنی پروٹین (PROTEIN) اتنے CARBOHYDRATESاتنی MINERALS اس قسم کی جتنی چیزیں ہیں ان کو.پھر اب تو یہ اس حد تک آگے ریسرچ میں چلے گئے ہیں کہ جو پروٹین ہیں ان کے منبعے مختلف ہیں.گائے کا گوشت ہے ، بکری اور بھیڑ کا گوشت ہے، مچھلی کا سورة الرحمن آیت ۸

Page 477

458 سبیل الرشاد جلد دوم گوشت ہے، مرغی اور پرندوں کا گوشت ہے اور دودھ میں پروٹین (PROTEIN) ہیں.اس سے پھر آگے پنیر وغیرہ ملتا ہے.ایک چکر میں نے ایک رسالے میں بنا ہوا دیکھا جس نے پروٹین کو اتنا حصہ دے کے چکر کا اور پھر آگے اس میں تقسیم کی ہوئی تھی کہ اصل BALANCE تب قائم ہوتا ہے کہ جب اس طرح ہم اپنی پروٹین میں پروٹین کے اندر بھی ایک بیلنس BALANCE قائم کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ جو شخص گوشت ہی کھاتا رہے گا اس کے اخلاق کے اوپر اثر پڑے گا.ان کی اس ریسرچ نے ثابت کیا جو شخص گوشت ہی کھاتا رہے گا اس کے اخلاق پر اثر پڑے گا.اور یہ ہمارے ہاں ہے کہ جو مثلاً گائے اور بھینسے کا گوشت کھاتے رہتے ہیں ہمیشہ ان کے اخلاق کے اوپر ایک خاص قسم کا اثر پڑتا ہے.تو یہ میزان جو ہے تضاد نہیں ، تو ہم ایک منفی بات کہہ رہے تھے نا.لیکن مثبت چیز یہ ہے کہ اس عالمین میں میزان ہے.تو ازن ایک قائم کیا گیا ہے.ہر چیز دوسرے کی مدد کر رہی ہے اس کی مد اور معاون ہے یعنی حصول مقصد کے لئے ممد اور معاون ہے.کائنات کی پیدائش کی غرض انسان کی خدمت کرنا تھا نا تو ہر چیز دوسرے کی مد اور معاون ہے انسان کی خدمت کرنے میں.ہر چیز دوسرے کو سہارا دیتی ہے یہ بھی میزان کے اندر ہے.اب اتنے ستارے ہیں اور قرآن کریم نے کہا ہے وہ اپنے رستوں کے اوپر چل رہے ہیں.ایک میزان قائم کر دی کہ اتنا فاصلہ رکھو تب زمین اپنا مقصد پورا کر سکتی ہے کہ انسان اس پر زندہ رہے.انہوں نے ریسرچ کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر یہ راستہ یہ جو فاصلہ ہے سورج اور زمین کا اگر اس میں فرق پڑ جائے، زیادہ قریب ہو جائے تو زمین جل جائے یعنی زندگی یہاں نہ رہ سکے.زیادہ دور ہو جائے تو اتنی سردی ہو کہ زندگی نہ رہ سکے.تو ایک خاص نظام کے ساتھ تو ازن جو ہے وہ قائم کیا گیا ہے، نسبت قائم کی گئی ہے اور اس کو قائم رکھا ہوا ہے خدا تعالیٰ نے.عظیم ہستی ہے ہمارا خدا ہمارا رب کریم.یہ جو میزان ہے (میں نے کہا نا تضاد نہیں، میزان ہے ) اس میزان میں ایک تصور ہے زوجین کا.یہ اسی کا ایک حصہ ہے آگے.زوجین کا مطلب یہ ہے کہ اس عالم میں وہ ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے والی ہیں.ایک مؤثر ہے.اثر پیدا کرتی ہے اور ایک چیز اثر قبول کرنے والی ہے.ایک اور رنگ میں وہ مؤثر بن جاتی ہے لیکن بہر حال زوجین ہیں، اثر ڈالنے والی اور اثر قبول کرنے والی.ہر چیز دوسرے کے اوپر اثر ڈال رہی ہے، اثر قبول کر رہی ہے.یعنی مؤثر بھی ہے اور متاثر ہو نیوالی بھی ہے لیکن ایک نسبت ہے کلّی طور پر.خدا تعالیٰ کی ذات ہر چیز پر اثر ڈالنے والی ہو اور کوئی مخلوق میں سے ایسی چیز

Page 478

459 سبیل الرشاد جلد دوم نہیں جو خدا تعالیٰ پر اثر ڈالنے والی ہے.اس واسطے جہاں میزان کے ساتھ یہ زوجین کا ذکر ہے اس کے عملی پہلو کو تو میں لوں گا انشاء اللہ بعد میں لیکن بڑا لطف آتا ہے جب ہم یہ پڑھتے ہیں کہ وَمِنْ كُلِّ شَيْ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ ہر چیز میں زوجین رکھ دیا مؤثر اور متاثر ہونے والی لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ تا کہ تم اس سے فلسفیانہ طور پر نصیحت حاصل کرو.اور پھر نتیجہ بڑا عجیب نکالا فَفِرُّوا اِلَی اللہ ایک ہستی ہے جو اثر انداز ہوتی ہے اور تم اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتے.تمہاری خصلت ،تمہاری فطرت یہ ہے کہ اس سے اثر قبول کرو.فَفِرُّوا إِلَى اللهِ جب تک یہ فَفِرُّوا إِلَى الله کی حقیقت انسانی زندگی میں قائم نہ ہو وہ اپنے مقصد حیات کہ خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرے یہ ہو نہیں سکتا.اور چوتھی بنیادی چیز خدا تعالیٰ کی صفات میں یہ ہے کہ ہر چیز اور انسان ، وہ صرف خدا تعالیٰ سے اپنی ضرورتیں طلب کرتا ہے.اس کے معنی یہ نہیں کہ کوئی بیوقوف دوسروں سے طلب نہیں کرتا فطرت انسانی میں ہے خدا سے طلب کرنا اور حقیقت کا ئنات یہ ہے کہ صرف خدا دینے والا ہے.یعنی مانگ لینا، کشکول آگے بڑھا دینا چونکہ انسان پر جبر نہیں ہے وہ کر لیتا ہے.کسی کا اس کشکول میں ڈال دینا یہ بھی جبر نہیں ہے، ڈال دیتا ہے.لیکن جو نتیجہ لینے کے بعد انسانی زندگی میں نکلنا چاہئے وہ نہیں نکلتا جب تک دینے والا اللہ تعالیٰ نہ ہو اور لینے والا انسان نہ ہو.یہ تو اللہ تعالیٰ کی صفات جو ہیں ان میں سے ان کی بنیادی باتیں جو ہمیں قرآن کریم سے معلوم ہوئیں، ان میں سے میں نے چار اٹھا ئیں.اب ہم اپنی زندگی جماعت احمدیہ کی زندگی جو بٹی ہوئی ہے جماعت احمدیہ کی تنظیم اور ذیلی تنظیموں میں.انصار اللہ ہے، لجنہ ہے ، خدام الاحمدیہ ہے.پھر خدام الاحمدیہ کے ساتھ اطفال لگے ہوئے ہیں.لجنہ کے ساتھ ناصرات لگی ہوئی ہیں.ہماری زندگی پر یہ چاروں بنیادی حقیقتیں اثر انداز ہوتی ہیں اور اگر ہم اس حقیقت کو بھول جائیں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.پہلی بات یہ تھی کہ ہر عیب سے پاک ہے خدا تعالیٰ اور اس پاکیزگی کے ترانے ساری کائنات گا رہی ہے.انسانوں میں سے بعض بیوقوف زبان سے نہیں گاتے.بعض صاحب عرفان خدا تعالیٰ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں.اس کی قدوسیت کے ترانے گاتے رہتے ہیں.لیکن وہ جن کی زبان پر خدا کی پاکیزگی کا ذکر نہیں آتا ان کے جسم کے ذرے ذرے میں سے خدا تعالیٰ کی پاکیزگی کے ترانے باہر نکل رہے ہیں.مثلاً دل کی حرکت ہے.اب کوئی دہر یہ خدا کو گالیاں دینے والا جو ہے وہ اپنے دل کی حرکت پر کوئی سورۃ الذریت آیت ۵۰

Page 479

سبیل الرشاد جلد دوم 460 کنٹرول نہیں رکھتا.یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ دل کو کہے بس کافی ہو گیا.بند ہو جاؤ اور دہر یہ کہے خدا تو ہے ہی نہیں.اس لئے اے میرے دل تو نے اس آواز کو سنا نہیں.وہ مر جائے گا.جو مرضی سوچتا رہے وہ.اللہ پاک ہے اور پاکیزگی کو وہ پسند کرتا ہے.ہمیں پاک زندگی گزارنی چاہئے.ہمارے سارے پروگرام ایسے ہونے چاہئیں کہ ہمیں پاک زندگی گزارنے کی تربیت دیں اور اس قابل بنائیں کہ ہم پاک زندگی گزارنے لگیں.اس کے لئے قرآن کریم نے جو تعلیم دی وہ نوا ہی میں ہے.نہ کرو.یعنی ہر گند سے بچالیا نا.گندہ کھانا مت کھا ؤ وغیرہ وغیرہ.سارے نواہی جو ہیں.احکام قرآنی آگے دو حصوں میں منقسم ہوتے ہیں.ایک کا تعلق خدا تعالیٰ کی سیو حیت اور قدوسیت سے ہے اور دوسرا جو گروہ ہے احکام کا ، اس کا صفات حسنہ سے ہے.تو جن احکام کا تعلق خدا تعالیٰ کی سبو حیت اور قد وسیت سے ہے انہیں ہم نوا ہی کہتے ہیں.جو گند کو دور کر کے اس قابل بناتی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت انسان کی طرف مائل بہ توجہ ہو سکے.مثلاً ایک شخص جو خدا تعالیٰ سے پیار کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت رکھتا ہے اور اس کے عشق میں مست ہے اس کو سب سے زیادہ دکھ دینے والی بات یہ ہے کہ کوئی اس کے محبوب اللہ کو گالی دے.اس سے زیادہ اور کوئی بات تکلیف دہ نہیں اس کے لئے ہو سکتی.اب اس وقت جماعت احمدیہ، (یہ میں ایک اور بیچ میں بات لے آیا ہوں.پھر اس طرف آ جاؤں گا) کے لئے سب سے زیادہ دکھ وہ دو باتیں بن گئیں.نمبر ایک اللہ تعالیٰ کے خلاف باتیں سننا اور گالیاں سننا.دوسرے نمبر ہمارے پیارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانی کی باتیں سننا، جب ۷۴ء میں اور اب بھی بہت گالیاں دیتے ہیں بڑے جوش میں آجاتے ہیں جو ان.میں ان کو کہا کرتا ہوں جو میں تعلیم اب بتا رہا ہوں آپ کو کہ جب ہم ان گالیوں کے بدلے لے چکیں گے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئیں پھر ان گالیوں کی طرف آئیں گے جو ہمیں دی جا رہی ہیں.اس وقت تو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق ہے وہ سوچ بھی نہیں سکتا اپنی ذات کے متعلق.اور ان کا بدلہ لاٹھی سے تو ہم نے نہیں لینا.ان کا بدلہ یہ ہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا بھلا کہنے والے کا بدلہ یہ ہے کہ ہم اس شخص کے دل میں محمد کا پیار پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں.تو میں بتا رہا تھا کہ سب سے زیادہ دکھ دہ بات ایک مسلم مومن کے لئے یہ ہے کہ اتنی عظیم ہستی جس کی وہ معرفت رکھتا ہے، جس کی نعماء سے اس کی جھولیاں بھری ہوئی ہیں، جو ہر دُکھ کے وقت اس کے دُکھ کو دور کرنے کے سامان پیدا کرتا ہے جو اتنا پیار کر نیوالا ہے کہ اس کی خطاؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے موسلا دھار بارش کی طرح اپنی نعمتیں اس کے اوپر برسا رہا ہے، اس کو وہ گالیاں دینے لگ جاتا ہے.سب سے زیادہ دکھ دہ یہ بات

Page 480

سبیل الرشاد جلد دوم 461 ہے.حکم یہ ہے.لَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ T یہ میں نواہی میں سے، جو روکنے والی چیزیں ہیں ان میں سے سب سے سخت یہ لے رہا ہوں لَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُونِ اللَّهِ تو ساری نوا ہی جو کہتے ہیں نہ کر ، نہ کر نہ کر ، یہ نہ کر ، یہ نہ کر یہ نہ کر، وہ ساری نوا ہی جو ہیں وہ انسانی زندگی سے گند کو اور ناپاکی کو دور کر نیوالی ہیں.اس واسطے ہمارے سارے پروگرام ایسے ہونے چاہئیں جو ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی سے نا پا کی کو دور کر نے والے ہوں.صفات حسنه صفات حسنہ کا رنگ اپنی زندگی پر چڑھاؤ.خدا تعالیٰ اپنی صفات میں اور محامد میں من کل الوجوہ کامل ہے.اور قرآن کریم کے سارے اوامر، پہلے میں نواہی کی بات کر رہا تھا.ہر حکم جو ہے وہ خدا تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت کا رنگ ہمارے اوپر چڑھانے والا ہے.اگر ہم قرآن کریم کی تعلیم کو کلی طور پر FOLLOW کرنے والے ہوں ،اس کی اتباع کرنے والے ہوں اِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر وحی قرآنی کی اتباع کرنے والے ہوں تو ہماری زندگی ساری کی ساری ایسی ہو جائے جس میں اللہ تعالیٰ کے نور اور اس کی چمک دنیا کو نظر آئے.ساری صفات کا تو اس وقت ذکر نہیں میں کر سکتا، ایک کا کروں گا.جس طرح وہاں میں نے کیا تھا کہ لَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ بالكل Extreme پہ یہاں جو وسعت کے لحاظ سے سب سے بڑی ہے.وہ حکم میں لیتا ہوں وہ امر ہے.ربوبیت.اللہ رب ہے.ہمیں کہا ہے کہ جہاں تک تمہیں خدا طاقت اور استعداد دے اندرونی طور پر بھی یعنی اپنی سوسائٹی میں بھی، اپنے ماحول میں بھی اور ساری دنیا میں بھی ، جہاں بھی مدد کی اور ربوبیت کی ضرورت ہو جہاں تک تمہیں خدا تعالی طاقت دے وہ تمہیں کرنی چا ہے.ہماری زندگی اپنے وسائل کے لحاظ سے محدود ہے.میں نے ”ہماری جب کہا ”جماعت احمدیہ کی میری مراد ہے ، جماعت احمدیہ کی زندگی اپنے وسائل کے لحاظ سے محدود ہے لیکن اپنے فرائض کے لحاظ سے غیر محدود ہے.اس واسطے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا جو رنگ ہمیں نظر آتا ہے وہ محض انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ کل کائنات کے متعلق آپ کی رحمت جو ہے وہ جوش مارتی نظر آتی ہے.ہمارے پروگرام ایسے ہونے چاہئیں جن کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی اس صفت پہ ہو کہ ہم نے پرورش کرنی ہے.بہتوں کو شاید سمجھ نہ آئے میرے ذہن میں کیا ہے.ہم نے پرورش کرنی ہے اس بچے کی جو ہمارے گھر میں پیدا ہوتا ہے اسلامی رنگ میں.ہم نے اسلامی رنگ میں پرورش کرنی ہے اُس سورۃ الانعام آیت ۱۰۹ سوره یونس آیت ۱۶

Page 481

462 سبیل الرشاد جلد دوم بچے کی جو ہمارے ہمسائے میں پیدا ہوتا ہے، ہم نے پرورش کرنی ہے، اس بچے کی جو ہمارے محلے میں پیدا ہوتا ہے یا ہمارے شہر میں پیدا ہوتا ہے ، ہم نے پرورش کرنی ہے اس بچے کی اسلامی رنگ میں جو ہمارے ملک میں یا دوسرے ممالک میں پیدا ہوتا ہے، ہم نے پرورش کرنی ہے اس بچے کی جو جماعت احمدیہ میں پیدا ہوتا ہے اور ہم نے پرورش کرنی ہے.ربوبیت کی صفت اپنے میں پیدا کرنے کے لئے اس بچے کی جو جماعت احمد یہ میں نہیں بلکہ جماعت احمدیہ سے باہر دنیا کے کسی خطہ کسی جگہ کسی محلے کسی گھر میں پیدا ہوتا ہے.یہ ہمارا آئیڈیل ہے.آج ہمارے لئے یہ ممکن نہیں لیکن ہماری جد و جہد اور کوشش ( جو آخر میں بتاؤں گا بات ) وہ یہ ہے جو ہمارے لئے جو مقرر کیا ہے خدا نے کہ کرنی پڑے گی تمہیں ایک دن.اس کے لئے تیاری کرو.اس کے لئے صفات حسنہ، پہلے اپنی ذات آتی ہے نا.تو اس واسطے میں بڑی دیر سے کہہ رہا ہوں اب دہراؤں گا لیکن اس مضمون کا چھوٹا سا حصہ بنا کر جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی صلاحیتوں اور استعدادوں کی کامل نشو ونما کرنا فرض ہے ہر اس شخص کا جو ہم میں پیدا ہو اور ابھی اگر وہ بچہ ہے تو جو ذمہ دار ہیں اس کے اور گارڈین ہیں ان کا یہ فرض ہے.اس کے بغیر ہم جو ایک وسیع فرض کا میدان ہے اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے.جب تک ہم اپنے اندر جماعت احمدیہ کے ہر فرد کی نشو ونما کو کمال تک نہیں پہنچاتے ، ہم آگے بڑھ کر دوسروں کے گھروں میں نو را ور حسن لے کے کیسے پہنچ سکتے ہیں.تضاد نہیں ، خدا تعالیٰ کی صفات میں تضاد نہیں.قرآن کریم نے سورہ الملک میں دو لفظ استعمال کئے ہیں.ایک تو یہ کہ تفاوت نہیں.دوسرے یہ کہ فتور نہیں.میں نے بتایا کہ یہ جو ہے تفاوت اسی کے معنی ہیں تضاد کے اِخْتَلَفَ، اختلاف ، تضاد اسی کو کہتے ہیں نا ایک چیز اس سے مختلف دوسری چیز.اور اس کا مثبت پہلو ، اس لفظ کا یہ ہے کہ لَيْسَ فِيْهَا مَا يَخْرُجُ عَنْ مُقْتَضَى الْحِكْمَةِ خدا تعالیٰ جو حکیم خدا ہے، جس کی صفات کے جلووں میں حکمت کاملہ انسان کو نظر آتی ہے اس حکمت کا جو تقاضا ہے خدا تعالیٰ کی صفت کا کوئی جلوہ اس سے باہر نہیں جاتا.اور فتور کے معنی ہیں کمزوری اور فساد.یہ دونوں ایسے معنی ہیں جن کے پیچھے قضا د جھلک رہا ہے.ہمارے اندر ایک توازن پیدا ہونا چاہئے.میں نے بتایا ہے یہ تضاد منفی حصہ ہے اور توازن، میزان جو ہے وہ اسی چیز کا مثبت حصہ ہے.تو ازن انسان کی، فرد کی زندگی میں بھی ہے ، کھانے میں بھی ہے، اس کی ورزش میں بھی ہے، اس کی ذہنی نشو ونما میں بھی ہے، اس کی قربانیوں میں بھی ہے.مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا إِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا کہ اپنے نفس کو بھول کے دین کی خدمت کرنا غلط ہے.ایک توازن بخاری کتاب الصوم باب حق الاصل في الصوم

Page 482

463 سبیل الرشاد جلد دوم پیدا کر دیا نا.دین کی خدمت اور نفس کے حقوق یعنی غیر کے حقوق ( دین کی خدمت کا مطلب ہے غیر کے حقوق ) غیر کے حقوق اور نفس کے حقوق میں ایک توازن پیدا کیا.انہوں نے کہا تو ازن قائم رکھو.اپنے نفس کا حق بھی ادا کرو اور دوسروں کے حقوق بھی ادا کرو.کیونکہ اگر اپنے نفس کے حقوق ادا نہیں کرو گے تو غیروں کے حقوق ادا کرنے کے قابل نہیں رہو گے.اگر اپنے نفس کے حقوق ادا نہیں کرو گے اور اپنا کھانا لمبے عرصے تک کسی ایسے شخص کو ، کھانا جس کو میسر نہیں کھلاتے رہو گے تو بیمار پڑ جاؤ گے اور اِذَا مَرِضْتُ کا مقام ہو جائے گا تمہارا.ایک قیادت کا جو مقام اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی کو دیا وہ اس سے چھن جائے گا.اس لئے ہماری جو تنظیمیں ہیں ان کے اندر بھی ایک توازن ہونا چاہئے.اس طرف ابھی تک توجہ شاید اس لئے نہیں تھی کہ ابھی ابتداء تھی نشو و نما کی ، اس لئے میں نے انتظامی ڈھانچے میں بھی کچھ تبدیلیاں سوچی ہیں.کچھ میں بعد میں بتاؤں گا ، وہ نشو ونما کے ذریعے سے پیدا ہوں گی.ایک تو یہ کہ مثلاً اطفال ہیں.یہ خدام الاحمدیہ کی ایک برانچ ہے لیکن ان کا تعلق ماں سے بھی ہے اور باپ سے بھی.جو انصار کا ہو، تو جہاں تک اطفال کا تعلق ہے (میں موٹی ایک مثال دے رہا ہوں آپ کو سمجھانے کے لئے ) اس میں انصار بھی بیچ میں آجاتے ہیں، لجنہ اماءاللہ بھی بیچ میں آجاتی ہے.یہ خرابی اس طرح پیدا ہوئی (میں خود بھی رہا ہوں صدر خدام الاحمدیہ اور اب بھی میرے سامنے ایسی باتیں آتی ہیں کہ بعض والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ”جی اسی بچہ خدام دے سپرد کر دتا تے ہن سانوں اوہدے نال کوئی تعلق نہیں.کیوں نہیں تعلق ؟ تمہارے خدا نے اس کے ساتھ تعلق پیدا کیا.تو ایک توازن ہونا چاہئے تنظیموں کے درمیان.باپ اس کا انصار میں ہے ، ماں اس کی لجنہ میں ہے.ان کا آپس میں تعلق ہونا چاہئے.جو تربیت کے لئے اور مختلف استعدادوں کی نشو ونما کے لئے ہماری کوشش ہے جب تک ماں اور باپ تنظیم کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے یعنی ان کی تنظیمیں، فرد بھی اور تنظیمیں بھی، اس وقت تک ہم کامیاب ہی نہیں ہو سکتے.مثلاً ایک بچہ ہے وہ صحت کے لحاظ سے کمزور ہے.خدام الاحمدیہ اس کا طبی معائنہ کرواتی ہے اور کہتی ہے اسے ملٹی وٹامنز کی ضرورت ہے.بہت ساری وٹامنز اس کو کھانی چاہئیں.اب خدام الاحمدیہ کے ذمے یہ کام ہی نہیں ہے کہ ہر طفل کو حسب ضرورت وٹامنز خرید کے دے اور MINERALS خرید کے دے.وہ کہیں گے ماں باپ کو کہ تم کرو اور ماں باپ اس طرف توجہ نہ دیں تو میزان UPSET ہو گیا نا.تضاد پیدا ہو گیا.خدا نے کہا تھا کہ میری صفات کے جلوے پیدا کرو اور ان جلووں میں تضاد نہیں.ہماری زندگی میں تضاد پیدا ہو گیا.ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.ایک دفعہ مجھے چینی سفیر سے ملنے کا اتفاق ہوا.میں تو سوچتا یہی ہوں کہ اسلام کا تعارف

Page 483

سبیل الرشاد جلد دوم 464 کرواؤں.میں نے دو تین باتیں ذہن میں رکھیں.ایک یہی تھی کیونکہ چیئر مین ماؤزے تنگ نے ایک مضمون لکھا کہ تضاد کو ( یہ کسی علاقے کے متعلق تھا ) یہاں کس طرح دور کیا جائے تو میں نے ان سے کہا مجھے بھی دلچسپی ہے اگر انگریزی ترجمہ ہو تو آپ مجھے دیں میں پڑھنا چاہتا ہوں.پھر میں نے یہاں سے بات شروع کی نا ، توجہ ان کی اپنی طرف پھیرنے کے لئے.میں نے کہا آپ حیران ہوں گے کہ ۱۹۵۸ء میں کچھ حالات پیدا ہوئے اور ان حالات کے پیش نظر چیئر مین ماؤ نے اس خاص خطہ میں جو حالات پیدا ہوئے وہاں کے CONTRADICTIONS کے متعلق ایک مضمون لکھا.مجھے اس میں کیسے دلچسپی ہو گئی اور کیوں دلچسپی پیدا ہوگئی.میں نے کہا مجھے اس لئے دلچسپی پیدا ہوئی کہ ہمیں قرآن کریم نے کہا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات میں کوئی CONTRADICTION نہیں ہو گی، تمہیں نظر نہیں آئے گی اور کوئی نہیں ہے.اور تمہاری زندگیوں میں بھی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں CONTRADICTION‘ تضاد نہیں ہونا چاہئے.پھر میں نے اس کو بتایا کہ خدا نے مجھے قوت مشاہدہ دی ہے.میں نے بڑا سوچا غور کیا لوگوں کے حالات کا مشاہدہ کیا اس نتیجہ پہ پہنچا کہ اکثر ناکامیاں، تضاد CONTRADICTION کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں.مثلاً آپ کو ایک بات بتاؤں CONTRADICTION کی.ایک نوجوان لڑکا غالبا تین سال تک ہر سال مجھے یہ لکھتا رہا، دعا کریں میں یونیورسٹی میں فرسٹ آؤں اور وہ ہر سال ہر مضمون میں فیل ہوتا تھا.جو اس کی قابلیت ہی نہیں تھی وہ اس کی خواہش تھی.تو جب خواہش اور قابلیت کا تضاد ہوا، ناکامی پیدا ہو گئی.تو وہ بڑا حیران ہوا.اس کے اوپر بڑا اثر پڑا کہ اچھا اسلام اور قرآن کریم نے یہ تعلیم دی ہے CONTRADICTION کے متعلق.اور بھی دو باتیں تھیں.تین باتیں اس کے سامنے رکھیں قرآن کریم کی عظمت کو ثابت کرنے کے لئے.اس لئے ایک تو مجلس تو ازن میں قائم کرنا چاہتا ہوں جس میں جماعت احمدیہ، انصار اللہ اور خدام اور لجنہ کے نمائندے ( جس شکل میں بھی ہوں ) یہ آئیں اور وہ میزان پیدا کریں.ہماری ، ایک تو جماعت ہے وہ سب کے اوپر حاوی ہے اور نیچے دوسری ایسوسی ایشنز ہیں.ہم ایک جہت کی طرف پورا زور لگا رہے ہوں جس طرح رسہ کشی میں سارے رستہ کھینچنے والے ایک ہی طرف زور لگارہے ہوتے ہیں اگر پانچ ANGLE کا بھی فرق پڑ جائے کسی ایک رستہ کھینچنے والے کا تو ٹیم ہار جاتی ہے.ایک سدھائی میں وہ رستہ کھینچا جائے تبھی ٹیم جیتی ہے ورنہ نہیں جیتی.اس واسطے ایک سدھائی کی طرف ایک سیدھا پوائنٹ ہمارے سامنے ہے نقطہ مرکزی ، صراط مستقیم ، اس کے اوپر سارے چل کے آگے بڑھ رہے ہوں.یہ ایک تو بنیادی، ایک نئی بات کا میں اعلان کر رہا ہوں.یہ قائم ہو جائے گی ایک مہینے کے اندر.

Page 484

465 سبیل الرشاد جلد دوم صدرانجمن احمد یہ اور انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ ذمہ دار ہیں اور مشورہ کریں پھر لجنہ سے بھی مشورہ ہوگا.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صفاتِ حسنہ خدا تعالیٰ کی جو ہیں ، اپنے اخلاق میں وہ رنگ چڑھانا یہ عمل ہے.اعمالِ صالحہ میں آتا ہے یہ.یہ عقیدہ نہیں ہے.اور اعمال صالحہ میں ایک تو انفرادی اعمال ہیں دوسرے اجتماعی اعمال ہیں.اور یہ سارے اجتماعی اعمال جو ہیں وہ اجتماعی طاقت ، جو مقصد ہے، جو ٹارگٹ ہے وہاں وہ Hit کرنے چاہئیں پوری طاقت کے ساتھ.یہ نہیں کہ خدام الاحمدیہ کہیں Hit کر رہی ہے.اور وہ کہیں اور Hit کر رہے ہیں.اس واسطے ایک دوسرے کی نگرانی بھی کرے گی مجلس تو ازن.لیکن اب جو میں جو دوسری بات کہنے لگا ہوں وہ اور ہے.( حضور ایدہ اللہ نے محترم صدر صاحب انصار اللہ سے دریافت کرنے کے بعد کہ صدر کے نیچے کتنے شعبے میں فرمایا ) چودہ شعبے ہیں اور اتنی نصیحتیں کی ہیں.میں کل ہدایت نامہ ان کا لے گیا تھا.تو میں نے دیکھا تو پھر میں نے سمجھا کہ اس میں کوئی ترمیم میرے لئے مشکل ہے کرنی.مجھے سارا کچھ بدلنا پڑے گا.میرا خیال ہے کہ ہر شعبے کے قائد کو بھی نہیں یاد ہو گا.اگر میں انہی کو پوچھوں کہ بتا دو.کتنے ہیں تمہارے لکھے ہوئے فرائض تو وہ نہیں بتا سکیں گے مجھے.یہ کام کرنا ہے.یعنی وعظ کر کے خاموش ہو جانا یہ پرانے زمانے کے واعظوں کا تو کام ہوگا.نہ خلیفہ وقت کا یہ کام ہے.نہ خلیفہ وقت کے جو جوارح ہیں ہاتھ پاؤں ( یہ سارے عہد یدار ) ان کا یہ کام ہے.عمل عمل عمل.عمل کے لئے میں نے یہ سوچا کہ صدر اور نائب صدر اس وقت ہیں آپ کے ، اس کے علاوہ چار نا ئب صدر ہوں گے.اور ان کے ذمے ایک سے زائد شعبے ہوں گے تین تین، چار چار اور وہ مجھے ہر مہینے صرف یہ رپورٹ دیں گے کہ ان شعبوں میں کیا کام ہوا.مہینے میں ایک بار ماہانہ رپورٹ یعنی عمل کے متعلق رپورٹ دیں گے ہر مہینے اور ہر مہینے ہم مرکز میں ایک دفعہ وہ جو مجلس تو ازن ہے اس کی میٹنگ یہاں ہوا کرے گی.جب مجھے توفیق ہوگی میں بھی بیچ میں بیٹھوں گا.یہاں ہر مہینے باہر سے بھی لوگ آئیں گے اور ہر مہینے اس میں جو ممبر نہیں ان کے ایک حصے کو بلایا جائے گا.مثلاً سارے پاکستان کو چار حصوں میں تقسیم کر کے ہر سہ ماہی میں ایک حصہ آجائے گا.یعنی سال میں ایک دفعہ وہ یہاں آئیں گے.ان کے سامنے باتیں ہوں گی اور جلسہ سالانہ پر غیر ملکیوں کو بھی بیچ میں شامل کیا جائے گا.اور یہ عمل کی اب میں بات کر رہا ہوں.یعنی صفات حسنہ کا رنگ اور اس میں تضاد نہ ہو.میں نے لجنہ سے کہا کہ ہر لجنہ ممبرات لجنہ کے لئے کھیل کو د اور ورزش ، بیٹھیں وہاں نیکی کی باتیں کرنے ، کریں ) کوئی کلب بناؤ.اب سات آٹھ سو کلبز (CLUBS) وہ چھ مہینے یا سال میں نہیں بن سکتیں.اس واسطے درجہ

Page 485

466 سبیل الرشاد جلد دوم بدرجہ ہم آگے بڑھیں گے.پہلا درجہ یہ ہے کہ پنجاب کی ہر تحصیل میں ایک ایک کلب بن جائے کم از کم.اور اس کے ذمہ دار لجنہ کے علاوہ انصار اور خدام الاحمدیہ ہیں.کیونکہ میرا خیال یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو چار کنال زمین ورنہ دو کنال سے کم نہ ہو وہ لی جائے ، کرائے پر لی جائے خالی ، پلاٹ گاؤں میں.یہ شاملات میں اکٹھے ہو کے جو آپ کے ہیں اس میں سے آپ لیں.بہر حال میں مفت استعمال نہیں کرنا چاہتا.اگر مثلاً شاملات ہے اور احمدی بہت ہیں وہاں.وہ اگر کہیں نہیں جی یہ ساروں کی زمین ہے.آپ اس کو استعمال کریں.ان کو بھی میں کہوں گا کہ شاملات کی اگر کوئی مد ہے اکٹھی ، تو کم کرا یہ لے لولیکن دو کرائے پر اور لجنہ میں میں نے کہا تھا کہ نو سال کے کرایہ پر لوں گا کیونکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر دس سال قبضہ رہے تو پھر قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں.میں کوئی پیچیدگی کسی کے لئے پیدا نہیں کرنا چاہتا.اس سال ہر تحصیل میں لجنہ کے لئے ایک کلب بن جائے.ایک دوست نے تو ، بڑی ہمت کا کام ہے ، اتنی ہمت زیادہ تھی کہ میری طبیعت پہ بوجھ تھا.میں نے کہا پہلے تحقیق تو کرو لکھا کہ میرے پاس فلاں گاؤں میں چار کنال زمین ہے اور وہ چار کنال میں دیتا ہوں اس کام کے لئے.ویسے وہ دوسری جگہ کہیں مزدوری وغیرہ کر رہا ہے.تو کوئی ایسی بات نہیں ہے دو کنال سے چار کنال تک کی زمین.اس کو ہم فوری طور پر ، جس طرح وہ پٹھان دیوار میں بناتے ہیں نا اونچی اونچی ، اس قسم کی دیوار بنا دیں گے.اگر وہ نہیں خرچ کر سکتے تو مرکز ، لجنہ اماءاللہ کا جو مرکز ہے وہ خرچ کرے گا دیوار بنانے پر.یہ میں کہتا ہوں ان کا احاطہ ہو با پر د.پہلا میرا مقصد یہ ہے کہ ان کو احساس ہو کہ عورتوں کو با پر درہنا چاہئے.اور ایک چھوٹا سا کمرہ بالکل چھوٹا سا چاہے ۸× ۸ کا ہو یا ۷ × ۱۰ کا ہو جس میں چیزیں ( پھر آ جائیں گی کھیلنے والی ) وہاں ان کو محفوظ سٹور کر لیا جائے.جس میں ہم ان کو کہیں گے کہ بیٹھنے کی جگہ ، تخت پوش عام لکڑی لے کے جس طرح ہوتا ہے ( کا وچ (COUCH) وغیرہ تو فضول بن گئے ہیں گاؤں والوں کے لئے ، ہم تو ابھی تک استعمال کر رہے ہیں لکڑی کے تخت ) وہ ہوں ، بیٹھیں وہاں.نیکی کی باتیں کریں.میں نے لجنہ کو کہا تھا.ایک شرط ہے میری کہ وہاں عورتیں جمع ہو کے آپس میں لڑیں گی بالکل نہیں.تو یہ جواب بنے گی مجلس تو ازن ، ان کا کام ہے کہ یہ پورا کریں.میں عمل چاہتا ہوں.اس سال ہر تحصیل میں لجنہ کا ایک کلب بن جائے.اس کے علاوہ (ان کو تو کھلی زمین مل جائے.دیوار کی ضرورت نہیں ) خدام الاحمد یہ ہرایسی مجلس میں جہاں بہت تھوڑے خدام نہیں کافی ہیں ، وہاں وہ اکٹھے ہوں.وہاں میروڈ بہ کھیلیں گلی ڈنڈا کھیلیں.وہاں بڑی اچھی ایک ورزش ہے بہت ہی اچھی جو انڈونیشین سٹوڈنٹس ( جب میں پڑھا کرتا تھا ) مدرسہ

Page 486

467 سبیل الرشاد جلد دوم احمدیہ میں لے آئے تھے اور میں بھی وہاں کھیلتا رہا ہوں ان کے ساتھ.بڑا چوکس دماغ رکھ کے کھیلنی پڑتی ہے.وہ یہاں سے بھیج دیں گے.خدام الاحمدیہ کو سکھانے کے لئے گاؤں گاؤں اور بڑی معصوم ہے.کوئی چیز نہیں چاہئے بس زمین چاہئے اور ایک چھوٹی سی سوئی چاہئے لکیریں ڈالنے کے لئے اور اپنے ہاتھ چاہئیں اور دماغ.اور ورزش ہو جاتی ہے بڑی.اور دوڑیں، چلیں، ہر روز ورزش کریں.صحت کے لئے متوازن غذا بھی، BALANCED DIET بھی چاہئے اور اس کا ہضم کرنا بھی ضروری ہے.ورنہ بنیوں کی طرح اتنا بڑا پیٹ سارے جسم سے بھی بڑا نکل آتا ہے.وہ ٹھیک نہیں ہے.اور انصار جو ہیں جو بڑی عمر کے انصار ہیں.انصار کے دو حصے ہیں عمر کے لحاظ سے بھی، اور صحت کے لحاظ سے بھی ، جو صحت اور عمر کے لحاظ سے بڑی عمر کے ہیں ان کے لئے بہترین ورزش سیر کرنا ہے.ان کو اور کسی چیز کی ضرورت نہیں.وہ چار پانچ میں سیر کیا کریں صبح.نماز پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں اور گرمیوں میں ٹھنڈے ٹھنڈے اور سردیوں میں بکل مار کے سیر کو نکل جائیں اور چند میل سیر کریں.روزانہ کریں چھوڑ نا نہیں اس کو.اس ورزش کے متعلق آپ انصار نے توجہ دینی ہے اور خدام الاحمدیہ نے بھی آپ کو پکڑنا ہے.میں نے اعلان کیا تھا کہ جسمانی لحاظ سے جماعت احمدیہ کے افراد کو دنیا میں سب سے زیادہ صحت مند ہونا چاہئے.اور اپنی اس صحت کو دنیا کے مفاد میں خرچ کرنے والا ہونا چاہئے.مگے باز نہیں ہیں ہم.ہم پاؤں دبانے والے ہیں.یہ یا درکھیں آپ.ایک افسر تھے.میں جب پرنسپل ہوا کرتا تھا کوئی رقم انہوں نے کالج کو دینی تھی.ایک دفعہ میں گیا تو کہنے لگے اچھا پھر دس دن کے بعد آجائیں.دوسری دفعہ گیا.کہنے لگے پانچ سات دن کے بعد آجائیں.تیسری دفعہ میں گیا تو پھر کہا کہ اتنے دن کے بعد آ جائیں.میں نے کہا دیکھیں ! میں نے اپنی زندگی کی ہوئی ہے وقف اور ہم سب نے وقف کی ہوئی ہے زندگی اگر سوچیں تو.میرا وقت ، میری عزت میرا سب کچھ خدا کے لئے وقف ہو گیا.اگر آپ کے دماغ میں یہ پروگرام ہو کہ میں سو دفعہ آپ کے گھٹنے کو ہاتھ لگاؤں گا تب آپ یہ رقم کا لج کو دیں گے جو اس کا حق بنتا ہے.تو مجھے سو دفعہ بلائیں نہیں کیونکہ میرا وقت بہت قیمتی ہے اور جگہ میں خرچ کرتا ہوں.میں اسی وقت آپ کے گھنٹے کو سو دفعہ ہاتھ لگا دیتا ہوں.اتنا سخت شرمندہ ہوئے وہ اور انہوں نے اسی وقت کر دیا کام.تو ہم خادم ہیں.یہ جو د نیوی عزتیں ہیں جن کے تماشے آپ روز دیکھتے رہتے ہیں.قرآن کریم نے ہمارے سہارے کے لئے بڑا عجیب اعلان کر دیا تھا :

Page 487

سبیل الرشاد جلد دوم 468 فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلهِ جَمِیعًا صحیح عزت ، ہر قسم کی عزت، ساری کی ساری عزت اللہ تعالیٰ کی عطا ہے.اس سے لیں آپ.بڑی عزت دیتا ہے.ہمارا مبلغ یہاں عام پھر رہا ہے ہوتا ہے.آپ کے سامنے سے گزرتا ہے.آپ اس کی قدر ہی نہیں پہچان رہے ہوتے.وہ افریقہ میں جاتا ہے.جو صدر مملکت ہے، وہ کھڑا ہو جاتا ہے.جب اس کے دفتر میں ملنے جاتا ہے.یہ خدا تعالیٰ عزت دیتا ہے.جو آپس میں انہوں نے عزتیں بانٹیں ، آپس میں سر بھی اڑائے.یہ تو دنیا اپنا کھیل کھیل رہی ہے.ہم نے تو خدا تعالیٰ کے کام کرنے ہیں اور وہ کھیل نہیں.ہم نے سنجیدگی کے ساتھ خدمت کرنی ہے بنی نوع انسان کی.اور ( میں نے بڑا مختصر کیا تھا.مختصر ہی ہے میں سمجھتا ہوں ) چوتھی خدا تعالیٰ کی صفات کی بنیاد یہ ہے : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ اور اس کو باندھا ہے يَسْلُهُ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ زمين و آسمان کی ہر شئے اپنی ضرورت اس سے مانگتی ، اس سے پاتی ہے.عجیب اعلان ہے.یہاں اگر ٹھہر جاتا قرآن کریم تو وہ عظمت جو كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ کے ساتھ کہہ کے انسانوں کو شامل کیا ہے.دوسری چیزوں کو بھی ساروں کو شامل کیا ہے.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ کہہ کے یہ اعلان کیا کہ ترقیات کے غیر محدود دروازے تمہارے اوپر کھول دیئے ہیں ہم نے.اس کی صفات کا ہر جلوہ پہلے سے مختلف ہوتا ہے.انسان کا خدا تعالیٰ کے قرب کی طلب میں ہر قدم پہلے سے آگے بڑھنا چاہئے.اس لئے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ سے فائدہ اٹھانے کے لئے خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق ہر آن اس کے حضور عاجزانہ متضرعانہ دعا کے ساتھ قائم کرنا ضروری ہے جو ممکن نہیں.جب تک ہم نہایت عاجزی کے ساتھ اس کے حضور جھکیں اور اسی کی مدد سے اس کے ساتھ زندہ تعلق کو قائم کریں.66 غیر محدود ترقیات کے دروازے یہ اعلان کھولتا ہے.ہر قدم فلاح اور رفعت کی طرف بڑھتے رہنا چاہئے اللہ کے فضل سے کیونکہ (یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فقرہ ہے ) انسان اپنے تمام کمالات اور تمام حالات اور اپنے تمام اوقات میں خدا تعالیٰ کی ربوبیت کا محتاج ہے.اس واسطے ہر احمدی کو انفرادی طور پر اور جماعت کو جماعتی طور پر اور جماعت احمدیہ کو اجتماعی طور پر اپنے تمام کمالات اور تمام حالات اور تمام اوقات میں خدا تعالیٰ کی ربوبیت کے حصول کیلئے کوشش کرنی چاہیئے اور خدا کی رضا کو حاصل کر کے اپنی زندگی کے مقصود کو پالینا چاہئے تا کہ دنیا میں ایک ایسی جماعت ہو جو کسی اور کو دکھ دینے کا سوچے بھی نہ.سب کے سکھ کا سامان پیدا کرنے کی نیت سے اپنا قدم آگے بڑھا رہی ہو.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا کرے آمین.النساء آیت ۱۴۰ سورة الرحمن آیت ۳۰ براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد اصفحه ۴۵۸ حاشیہ

Page 488

سبیل الرشاد جلد دوم 469 اس کے بعد حضور نے فرمایا: ایک بج گیا.کھانا اور نماز کون پہلے.کون بعد میں؟ ( منتظمین سے دریافت کرنے پر فرمایا ) کہتے ہیں کھانا تیار ہے.اور میں سمجھتا ہوں کھانے والے بھی تیار ہیں.اس لئے ہم یہ کرتے ہیں ، اس وقت ایک ہے تو ڈیڑھ گھنٹہ کافی ہے میرے خیال میں.کیونکہ شفٹ بھی بعض دفعہ کرنی پڑتی ہے تو انشاء اللہ نمازیں میں جمع کراؤں گا.مسجد مبارک میں اڑھائی بجے اور جو دوسری مساجد ہیں وہاں بھی میں ان کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اڑھائی بجے نمازیں جمع کرائیں تا کہ جو دوست دوسری مساجد میں جا کے نمازیں پڑھیں وہ بھی با جماعت نماز پڑھ سکیں.اب ہم دعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ایسے حالات پیدا کرے کہ آج وہ جو اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے والے ہیں لا الہ الا اللہ کا ورد کرنا شروع کر دیں.اور آج وہ جو انسانیت میں فساد اور دُکھ پیدا کرنے والے ہیں وہ امن اور سکھ پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگ جائیں.اور آج وہ انسان جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے نہیں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آجائے اور آپ کی بیشمار بے انتہا بر کتوں اور فیوض سے حصہ لینے لگے اور یہ دُکھی انسانیت خوشحال خوش باش انسانیت بن جائے.اور اللہ تعالیٰ ہمیں ، جماعت احمدیہ کو یہ توفیق عطا کرے کہ ہم اس کے فضل اور اس کی رحمت اور اس کی توفیق سے اپنی تمام ذمہ داریاں اپنی پوری توجہ اور پوری محنت اور پوری طاقت سے ادا کریں.اور خدا ہماری کوششوں کو قبول کرے اور اپنی رضا کی جنتیں ہمارے لئے مقدر کر دے.اور اللہ تعالیٰ آپ کا ہر آن ہر جگہ سفر اور حضر میں حافظ و ناصر ہو اور اپنی برکتیں آپ کے اوپر برسائے.آپ کو اہل بنائے اس کا کہ جو کہا وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً وہ عملاً پوری ہوں اور آپ کو احساس ہو اور آپ شکر گزار بندے بن کے اپنی زندگی گزارنے والے ہوں.آؤاب دعا کرلیں.طویل اور پُر سوز اجتماعی دعا کروانے کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته سوره لقمان آیت ۲۱ ( غیر مطبوعہ )

Page 489

سبیل الرشاد جلد دوم صفات حسنہ کا رنگ اپنی زندگی پر چڑھائیں صفات حسنہ کا رنگ اپنی زندگی پر چڑھاؤ.خدا تعالیٰ اپنی صفات میں اور محامد میں من کل الوجوہ کامل ہے.اور قرآن کریم کے سارے اوامر، پہلے میں نواہی کی بات کر رہا تھا.ہر حکم جو ہے وہ خدا تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت کا رنگ ہمارے اوپر چڑھانے والا ہے.اگر ہم قرآن کریم کی تعلیم کو کلی طور پر FOLLOW کرنے والے ہوں، اس کی اتباع کرنے والے ہوں إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر وحی قرآنی کی اتباع کرنے والے ہوں تو ہماری زندگی ساری کی ساری ایسی ہو جائے جس میں اللہ تعالیٰ کے نور اور اس کی چمک دنیا کو نظر آئے.سبیل الرشاد جلد دوم صفحہ 461) 470

Page 490

1 ضمیمه سبیل الرشاد جلد دوم

Page 491

2 اس حصہ میں خطبات وخطابات ناصر سے سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے وہ ارشادات و فرمودات دیئے جارہے ہیں جو سبیل الرشاد جلد دوم کے پہلے ایڈیشن میں شامل ہونے سے رہ گئے تھے.(ناشر)

Page 492

3 $ 1965 حضرت مسیح موعود نے دعا کی.اے میرے رب ! مجھے انصار دے تا کہ تیرے کام بخیر و خوبی چلائے جاسکیں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ 3 دسمبر 1965ء میں فرمایا." جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور حکم دیا کہ اُٹھ اور ساری دنیا میں میری تو حید کو قائم کر اور دنیا کے تمام ادیان پر اسلام کے غلبہ کو ثابت کرنے کیلئے کوشش میں لگ جا اور دنیا کے ہر ملک اور قوم تک اسلام کا پیغام پہنچا تو اس اہم اور وسیع ذمہ داری کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے رب کے حضور جھکے اور بڑے بجز اور گریہ وزاری کے ساتھ آپ نے اپنے رب کو پکارا اور کہا کہ اتنا اہم اور اتنا وسیع کام اکیلے مجھ سے تو نہ ہو سکے گا.اس لئے میری درخواست ہے کہ تو اپنی طرف سے مجھے انصار دے تا تیری شریعت اور احکام کو اس دنیا میں قائم رکھا جا سکے.اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو وعدہ دیا.يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ (براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 238) کہ ہم تمہیں ایسے مددگار عطا کریں گے.جنہیں ہم آسمان سے وحی کریں گے کہ اٹھو اور میرے اس بندہ کے مددگار بنو اور انصار کی حیثیت سے اس کے ساتھ شامل ہو جاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آئینہ کمالات اسلام کے عربی حصہ میں اپنی اس گریہ وزاری اور دعا کا ذکر جن الفاظ میں کیا ہے ان کا ترجمہ یہ ہے.اور میں رات دن اللہ تعالیٰ کے حضور چلاتا رہا اور کہتا رہا يَا رَبِّ مَنْ أَنْصَارِبُ يَارَبِّ مَنْ انصاری کہ اے میرے رب ! میرے انصار کون ہیں؟ مجھے مددگار دے تا کہ تیرے کام خیر و خوبی کے ساتھ چلائے جاسکیں آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 581) خطبات ناصر جلد اول صفحہ 28

Page 493

4 دوستوں کو ماہنامہ انصار اللہ کی خریداری کی طرف توجہ کرنی چاہئے حضور نے جلسہ سالانہ 1965ء کے دوسرے روز 20 دسمبر کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا.ماہنامہ انصار اللہ مجلس انصار اللہ کا رسالہ ہے اس کی پالیسی بھی مخصوص نوعیت کی ہے اور اسے خاص غرض کے لئے جاری کیا گیا ہے.جن لوگوں نے یہ رسالہ دیکھا ہے انہوں نے نوٹ کیا ہو گا کہ اس میں اشتہارات نہیں ہوتے اس میں زیادہ تر تربیتی مضامین ہوتے ہیں اور تبلیغ کو بالواسطہ طریق سے مد نظر رکھا جاتا ہے کیونکہ تربیت خود اشاعت مقصد اور اشاعت عقائد کا ایک بڑا ذریعہ ہے.دوستوں کو اس کی خریداری کی طرف بھی توجہ کرنا چاہئے." (خطابات ناصر جلد اول صفحہ 8) ذیلی تنظیموں کے سپر د جو کام ہے ان کو بجالانے میں وہ بہترین رضا کار ثابت ہوں حضور نے جلسہ سالانہ 1965ء کے دوسرے روز 20 دسمبر کو خطاب میں فرمایا.ان تینوں تنظیموں یعنی صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید اور وقف جدید کے علاوہ حضرت مصلح موعود نے جماعت میں کچھ ذیلی تنظیمیں بھی قائم کی ہیں اور وہ ذیلی تنظیمیں مجلس انصار اللہ، مجلس خدام الاحمدیہ مجلس اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ ہیں.ان ذیلی تنظیموں کے سپر د جو کام حضرت مصلح موعود نے کئے وہ اصولاً تین قسم کے ہیں بعض کام جماعتی تنظیموں کے رضا کار کے طور پر ان کے سپرد کئے گئے تھے کیونکہ وہ کام ان کے اپنے نہیں تھے بلکہ وہ کام جماعتی تنظیموں کے تھے اور ان ذیلی تنظیموں سے کہا گیا تھا کہ وہ رضا کار کے طور پر وہ کام کریں.پھر بعض کام ایسے تھے جو ان کے سپر د جماعتی نظام کے رضا کار کے طور پر کئے گئے تھے.وہ کام نہ ان کے اپنے تھے اور نہ صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید اور وقف جدید کے تھے بلکہ وہ جماعتی نظام سے تعلق رکھتے تھے جو صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید اور وقف جدید کے مجموعہ کا نام ہے اور جس کی نگرانی خلیفہ وقت کے سپرد ہے اور کچھ کام بطور نوافل کے خودان کے سپرد کئے گئے تھے وہ ان کے اپنے کام تھے.میں ان تنظیموں سے کہوں گا کہ جو کام ان کے سپر د جماعتی تنظیموں یا جماعتی نظام کے رضا کار کے طور پر سپرد کئے گئے ہیں ان کو بجالانے میں وہ بہترین رضا کا رثابت ہوں مثلاً تربیت کا کام ہے وہ

Page 494

5 جماعتی نظام کے رضا کار کے طور پر خدام الاحمدیہ کے سپرد ہے اور خلیفہ وقت کی براہ راست نگرانی میں ہے ان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ احمدی نوجوانوں میں تذلل اور تواضع کا جذبہ ابھار کر اسے ان کا شعار بنا دیں گے." خطابات ناصر جلد اول صفحه 20 جہاں جماعت قائم ہے وہاں ذیلی تنظیمیں اپنی مجلس قائم کریں حضور نے جلسہ سالانہ 1965 ء کے دوسرے روز 20 دسمبر کو خطاب میں فرمایا.خدام الاحمدیہ کے سپر د جو کام ہے میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن میں انہیں اور باقی تنظیموں انصار اللہ ، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ کو ان کی بنیادی کمزوری کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں جو آج ان میں نظر آ رہی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ ان ذیلی تنظیموں کی بعض مجالس بہت ہی اچھا کام کر رہی ہیں.وہ قابل رشک ہیں اور ہماری دعاؤں کی مستحق ہیں اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مغربی پاکستان میں ہماری جماعتوں کی تعداد آٹھ سو اور ہزار کے درمیان ہے ان جماعتوں کی بھاری اکثریت ایسی ہے جہاں یہ ذیلی تنظیمیں فعال تنظیم کی حیثیت سے موجود نہیں.ہمیں تمام نو جوانوں کو چاہئے وہ لاہور کے رہنے والے ہوں یا کسی چھوٹے سے قصبے کے رہنے والے ہوں.تمام بہنوں کو چاہئے وہ کراچی کی رہنے والی ہوں یا سندھ کے کسی دُور افتادہ گوٹھ کی رہنے والی ہوں اور تمام انصار کو چاہئے وہ ڈھاکہ کے رہنے والے ہوں یا چٹا گانگ کے ہل ٹریکس Hill) (Tracks یعنی پہاڑی علاقوں میں کسی جگہ ان کی رہائش ہو مدعا کہ ان سب کو کم از کم اس معیار تک ضرور لانا ہے اور جلد تر لانا ہے اس کے بغیر ہماری ترقی میں تیزی پیدا نہیں ہوسکتی اور نہ اس میں وسعت پیدا ہو سکتی ہے.اس کے بعد پھر ان تمام ذیلی تنظیموں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ وہ ہر اس مقام پر جہاں جماعت احمد یہ قائم ہے اپنی مجلس کو منظم کریں آٹھ دس ہیں یا تمھیں یا چالیس پچاس مجالس کا فعال اور ایکٹو (Active) ہونا ہماری تسلی کا موجب نہیں اور نہ ہی اس طرح ہم خدا تعالی کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں.پس جہاں جہاں جماعتیں پائی جاتی ہیں وہاں یہ تنظیمیں ہونی چاہئیں اور پھر فعال قسم کی ہونی چاہئیں.اگر آئندہ سال تک ہر جماعت میں یہ ذیلی تنظیمیں فعال قسم کی قائم ہو جائیں تو میں بھی خوش ہوں گا.آپ بھی خوش ہوں گے اور سب سے زیادہ خدا تعالیٰ ان سے خوش ہوگا اور انہیں اپنے فضلوں اور

Page 495

برکتوں سے نوازے گا." 6 خطابات ناصر جلد اول صفحه 21-22) ذیلی تنظیموں کے اچھے اور خوشکن نتائج سے حضرت مصلح موعود کا نام زندہ رہے گا حضور نے جلسہ سالانہ 1965ء کے تیسرے روز 21 دسمبر کو اختتامی خطا ہمیں فرمایا.اس میں شک نہیں کہ صدر انجمن احمد یہ جس کو موجودہ شکل حضرت مصلح موعود نے دی ہے تحریک جدید جسے آپ نے قائم کیا ہے اور وقف جدید جسے آپ نے جاری کیا ہے اسی طرح مجلس انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ، ناصرات الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ جو ذیلی تنظیمیں آپ نے قائم فرمائی ہیں یہ سب ( بنیادی اور ذیلی تنظیمیں ) جب تک قائم رہیں گی اور جب تک ان کے اچھے اور خوش کن نتائج نکلتے رہیں گے (اور ہم اپنے رب سے امیدرکھتے ہیں کہ قیامت تک ان تنظیموں کے اچھے اور خوش کن نتائج نکلتے رہیں گے ) اس وقت تک حضرت مصلح موعود کا نام زندہ رہے گا اور دنیا عزت کے ساتھ آپ کو یاد کرتی رہے گی." خطابات ناصر جلد اول صفحہ 34-35)

Page 496

7 $ 1966 ذیلی تنظیمیں فرائض کو چھوڑ کر نوافل کی طرف متوجہ نہ ہو حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ 7 جنوری 1966ء میں فرمایا." جماعت کی ذیلی تنظیموں انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کو بھی اپنے منصوبے اور پلان (Plan) ریوائز (Revise) کرنے چاہئیں انہیں مزید غور کے بعد ان میں کچھ تبدیلیاں کر لینی چاہئیں.اور اس اصول کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ وہ ایسے کاموں کی طرف توجہ نہ دیں.جوان کے سپردنہیں کئے گئے.اور ان کاموں کو نظر انداز نہ کریں جو ان کے سپرد کئے گئے ہیں.کیونکہ فرائض کو چھوڑ کر نوافل کی طرف متوجہ ہونا کوئی نیکی نہیں اور نہ اس کے اچھے نتائج ہی نکلتے ہیں.پس جماعت کی ان ذیلی تنظیموں کو اپنے مفوضہ فرائض احسن طور پر بجالانے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ان کے کاموں میں برکت دے کہ وہ جماعت کی مضبوطی کیلئے قائم کی گئی ہیں اور اگر یہ تنظیمیں اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کریں تو یہ جماعت کیلئے بہت برکت کا موجب بن سکتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کر سکتی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین" ( خطبات ناصر جلد اول صفحہ 88-89) جماعتوں میں قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام مجلس انصاراللہ کے سپرد کرتا ہوں حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ 4 فروری 1966 ء میں فرمایا." اس سلسلہ میں جو ابتدائی منصوبہ میں جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جماعت احمد یہ لا ہور کے تمام بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام مجلس خدام الاحمدیہ کرے.اور کراچی کی جماعت کے بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام میں مجلس انصار اللہ کے سپر د کرتا ہوں.ضلع سیالکوٹ کی دیہاتی جماعتوں میں یہ کام مجلس خدام الاحمدیہ کرے ضلع جھنگ میں جو جماعتیں ہیں ان کے بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام مجلس انصاراللہ کے سپرد کیا جاتا ہے ان کے علاوہ جو جماعتیں ہیں ان میں اس اہم کام کی طرف نظارت اصلاح و ارشاد کو خصوصی توجہ دینی چاہئے.ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ دو تین سال کے اندر ہمارا کوئی بچہ ایسا نہ رہے جسے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا نہ آتا ہو.اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت کو اس طرف

Page 497

8 بڑی توجہ دینی پڑے گی اور اس کے لئے بڑی کوشش درکار ہوگی ہم بڑی جدوجہد کے بعد ہی اس کام میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس منصو بہ کو کامیاب بنانا نہایت ضروری ہے.اگر ہم نے الہی سلسلہ کے طور پر ان نعمتوں کواپنے اندر قائم رکھنا ہے.واللہ تعالیٰ نے محض رحمانیت کے ماتحت ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل عطا کی ہیں تو ہمیں اپنے اس منصو بہ کو کامیاب بنانے میں اپنے آپ کو پورے طور پر لگا دینا ہوگا.اس منصوبہ کی تفاصیل متعلقہ محکمے تیار کریں اور ایک ہفتہ کے اندر اندر مجھے پہنچا ئیں.یعنی جو حلقے مجلس خدام الاحمدیہ کو دیئے گئے ہیں اور جو جماعتیں مجلس انصار اللہ کے سپرد کی گئی ہیں اور باقی جماعتیں جو اصلاح وارشاد کے صیغہ کے سپرد کی گئی ہیں ان میں انہوں نے کس کس رنگ میں کام کرنا ہے اس کے متعلق وہ اپنا اپنا منصوبہ تیار کریں اور اس منصوبہ کی تفاصیل ایک ہفتہ کے اندراندر مجھے پہنچائیں ان سب محکموں کو یہ بات مد نظر رکھنا چاہئے کہ وہ پہلے ہی سال اس کام میں سو فیصدی نہیں تو 90 فیصدی کامیابی ضرور حاصل کر لیں.کیونکہ جو ذہین بچے ہیں وہ تو چھ ماہ کے اندر بلکہ بعض بچے اس سے بھی کم عرصہ میں قرآن کریم ناظرہ پڑھ لیں گے قاعدہ میسر نا القرآن اگر صحیح طور پر پڑھا دیا جائے تو بچہ کیلئے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا مشکل نہیں ہوتا.مجھے یہ سن کر بہت تعجب ہوا ہے کہ ہمارے کالج کے بہت سے طلباء بھی قرآن کریم نہیں پڑھ سکتے اور اگر یہ بات درست ہے کہ ان میں سے ایک تعداد قرآن کریم ناظرہ پڑھنا بھی نہیں جانتی یا ان میں سے بہت سے لڑ کے قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے تو انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ اگر انہیں قرآن کریم سے وابستگی نہیں اگر انہیں قرآن کریم سے کوئی تعلق نہیں اور انہیں قرآنی علوم حاصل نہیں تو انہوں نے دنیوی علوم حاصل کر کے کیا لینا ہے.دنیا کے ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں دہر یہ لوگ دنیا کے ان علوم کو حاصل کر رہے ہیں.وہ دیکھیں کہ یہ علوم دنیا کو کس طرف لے جارہے ہیں.اُخروی زندگی کو تو چھوڑ وہ دنیا کو بھی تباہی کی طرف لے جارہے ہیں وہ دیکھیں کہ آخر دنیا کو ان دنیوی علوم سے کون سی خیر و برکت حاصل ہورہی ہے.آج دنیا کے ہر طبقہ کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ جس طرح ہم نے دنیوی علوم سیکھے ہیں اور جس طور پر ہم نے انہیں استعمال کیا ہے وہ انسانیت کو بھلائی کی طرف نہیں بلکہ تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں.غرض ہمارے کالج کا طالب علم ہو اور پھر وہ قرآن کریم سے ناواقف ہو یہ بڑی شرم کی بات ہے.بہر حال ہم نے یہ کام کرنا ہے اور واضح بات ہے کہ اتنے بڑے کام کے لئے چند مربی یا معلم یا مجالس خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے بعض عہدیدار کافی نہیں.یہ تھوڑے سے لوگ اس عظیم کام کو پوری طرح نہیں کر سکتے.اس کیلئے ہمیں اساتذہ درکار ہیں ہمیں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے رضا کار چاہئیں جو اپنے اوقات میں سے ایک حصہ قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کے لئے یا جہاں ترجمہ سکھانے کی

Page 498

ضرورت ہو وہاں قرآن کریم کا ترجمہ سکھانے کیلئے دیں تا یہ اہم کام جلدی اور خوش اسلوبی سے کیا جاسکے.میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نعمت جو قرآن کریم کی شکل میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل دوبارہ ملی ہے اگر وہ ورثہ کے طور پر آپ کے بچوں کو نہیں ملتی تو آپ اپنی زندگی کے دن پورے کر کے خوشی سے اس دنیا سے رخصت نہیں ہوں گے.جب آپ کو یہ نظر آ رہا ہوگا کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کا خزانہ یعنی قرآن کریم جو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل حاصل کیا تھا اس سے آپ کے بچے کلیہ نا واقف ہیں تو موت کے وقت آپ کو کیا خوشی حاصل ہو گی.آپ ان جذبات کے ساتھ اس دنیا کو چھوڑ رہے ہوں گے کہ کاش آپ کی آئندہ نسل بھی ان نعمتوں کی وارث ہوتی جن کو آپ نے اپنی زندگی میں حاصل کیا تھا پس تم اپنی جانوں پر رحم کرو.اپنی نسلوں پر رحم کرو.اپنے خاندانوں پر رحم کرو اور پھر ان گھروں پر رحم کرو جن میں تم سکونت پذیر ہو کیونکہ قرآن کریم کے بغیر آپ کے گھر بھی بے برکت رہیں گے.ہر احمدی کا گھر ایسا ہونا چاہئے کہ اس میں رہنے والا ہر فرد جو اس عمر کا ہے کہ وہ قرآن کریم پڑھ سکتا ہو صبح کے وقت اس کی تلاوت کر رہا ہو.لیکن اگر مثال کے طور پر آپ کے گھر میں دس افراد ہیں اور ان میں سے صرف ایک فرد قرآن کریم پڑھنا جانتا ہے باقی نو افراد قرآن کریم پڑھنا نہیں جانتے تو گویا آپ نے اس نعمت کا 1/10 حصہ حاصل کیا لیکن دنیوی لحاظ سے آپ ساری کی ساری چیز کو حاصل کرنا چاہتے ہیں" خطبات ناصر جلد اول صفحہ 124-127) پھر اسی سلسلہ میں مورخہ 8 اپریل 1966ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے فرمایا.اس منصوبہ کے لئے میں نے لاہور کی جماعت اور سیالکوٹ کا ضلع مجلس خدام الاحمدیہ کے سپر د کیا تھا اور کراچی کی جماعت اور جھنگ کا ضلع مجلس انصار اللہ کے سپر د کیا تھا اور باقی تمام جماعت کا کام نظارت اصلاح وارشاد نے کرنا تھا.اس سلسلہ میں بھی کچھ کام ہوا ہے لیکن میرے نزدیک ابھی وہ کام تسلی بخش نہیں.کوئی جماعت ایسی نہیں رہنی چاہئے کہ جہاں قرآن کریم پڑھانے کا انتظام نہ ہو..........اس سلسلہ میں میں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض جگہ سے یہ شکایت موصول ہوئی ہے کہ گو ہماری یہ جماعت خدام الاحمدیہ کے سپرد نہ کی گئی تھی لیکن انہوں نے جماعتی انتظام سے علیحدہ قرآن کریم سکھانے کا اپنے طور پر انتظام کر دیا ہے اور وہ جماعت سے تعاون نہیں کر رہے.اگر ایک مقام پر بھی ایسا ہوا ہو تو یہ بہت افسوسناک ہے خدام کو یا درکھنا چاہئے کہ جو طریق انہوں نے اختیار کیا ہے وہ درست نہیں جن جگہوں میں قرآن کریم کے پڑھانے کا کام خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا گیا ہے مثلاً لا ہور اور ضلع سیالکوٹ کی جماعتیں.وہاں جماعتی نظام سے میں امید رکھتا ہوں کہ وہ مجلس خدام الاحمدیہ سے پورا تعاون کریں گے.اور جس جگہ یا علاقہ میں قرآن کریم پڑھانے کا کام مجلس انصار اللہ کے سپرد کیا گیا ہے اس علاقہ کی جماعتوں سے میں امید

Page 499

10 اور توقع رکھتا ہوں کہ وہ مجلس انصار اللہ سے پورا پورا تعاون کریں گی اور وہ مقامات ، جماعتیں یا اضلاع جہاں قرآن کریم کی تعلیم کا کام جماعتی نظام کے سپر د کیا گیا ہے وہاں جہاں تک قرآن کریم پڑھانے کا سوال ہے خدام الاحمد یہ یا انصار اللہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے کیونکہ یہ کام ان کے سپرد کیا ہی نہیں گیا.تمام دوستوں کو انصار میں سے ہوں یا خدام میں سے، جوان ہوں یا بڑی عمر کے یہ بنیادی بات یاد رکھنی چاہئے کہ احمدی ہونے اور انصار یا خدام کے رکن ہونے میں بڑا فرق ہے.ایک احمدی پر اللہ تعالیٰ نے بڑی اہم اور بڑی وسیع ذمہ داری ڈالی ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں حضور کے منشاء اور ارشاد کے ماتحت اور پھر بعد میں حضور کے خلفاء کے منشاء اور ارشاد کے ماتحت تمام دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لئے جو سکیم میں تیار کی جائیں ہر احمدی اپنا سب کچھ قربان کر کے ان سکیموں کو کامیاب کرنے کی کوشش کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ جو آسمان پر ہو چکا ہے کہ وہ اسلام کو اس زمانہ میں جو سیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے تمام ادیان باطلہ پر غالب کرے گا.اس فیصلے کا نفوذ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جسے ہماری کوشش جذب کرے اس دنیا میں بھی ہمیں جلد تر نظر آ جائے.یہ الہی فیصلہ جو آسمان پر ہو چکا ہے زمین پر نافذ ہو کر رہے گا.دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی !!! لیکن اس راہ میں انتہائی قربانی پیش کرنا ہمارا فرض ہے.یہ کام جو ایک احمدی کے سپرد ہے احمدی نوجوان کے بھی ، احمدی بوڑھے کے بھی ، احمدی مرد کے بھی ، احمدی عورت کے بھی اور احمدی بچے کے بھی !!! اس وسیع کام کا ایک حصہ جو شاید اس کام کا ہزارواں حصہ بھی نہ ہو.مجالس خدام الاحمدیہ، انصار اللہ، لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ کے سپرد کیا گیا ہے تا کہ ان مختلف گروہوں کی تربیت ایسے رنگ میں کی جاسکے.یا ان کی تربیت ایسے طور پر قائم رکھی جاسکے کہ وہ اس ذمہ داری کو کما حقہ ادا کرسکیں جو ایک احمدی کی حیثیت سے ان کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے.پس مجلس خدام الاحمدیہ یا مجلس انصار اللہ کا رکن ہونے کی حیثیت سے تم پر جوذ مہ داری عائد ہوتی ہے وہ بہت ہی محدود ہے.اس محدود ذمہ داری کو ٹھیک طرح نباہ لینے کے بعد اگر کوئی رکن خوش ہو جاتا ہے کہ جتنی ذمہ داری بھی بحیثیت احمدی ہونے کے اس پر ڈالی گئی تھی وہ اس نے پوری کر دی تو وہ غلطی خوردہ ہے.کیونکہ جو ذمہ داری اس پر ایک احمدی ہونے کی حیثیت سے ڈالی گئی ہے یہ ذمہ داری اس کے مقابل پر شاید ہزارواں حصہ بھی نہیں.اس پر خوش ہو کے بیٹھ جانا بڑی خطر ناک بات ہے.یہ ہمارے لئے سوچ اور فکر کا مقام ہے اور اس کیلئے خطرہ کا مقام ہے اسی طرح اگر جوانی کے جوش میں یا اپنے تجربہ کے زعم میں وہ اپنے حدود سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو بھی وہ اچھا کام نہیں کرتا.جو جماعتی نظام کی ذمہ داری ہے وہ جماعتی نظام نے ہی ادا کرنی ہے اور تم نے جماعت کا ایک فرد

Page 500

11 ہونے کی حیثیت سے اس میں حصہ لینا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مجالس خدام الاحمدیہ اور مجالس انصاراللہ اتنی زیر الزام نہیں آتیں جتنے کہ جماعتی عہدیدار.حضرت مصلح موعود (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے مجالس خدام الاحمدیہ اور مجالس انصار اللہ کے متعلق یہ ارشاد فرمایا تھا کہ میں نے ایک محدود کام محدود دائرہ عمل میں ان تنظیموں کے سپر د کیا ہے.جماعتی نظام کو میں یہ حق نہیں دیتا کہ وہ ان کے کاموں میں دخل دے کوئی عہد یدار پریذیڈنٹ ہو یا امیر امیر ضلع ہو یا امیر علاقائی، اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خدام الاحمدیہ کے کام میں دخل دے یا انہیں حکم دے لیکن میں اجازت دیتا ہوں کہ اگر وہ ضرورت محسوس کریں تو وہ ان سے درخواست کر سکتے ہیں کہ بحیثیت مجلس خدام الاحمدیہ تم یہ کام کرو.درخواست کرنے کی اجازت دینا تو دراصل امراء کو غیرت دلانے کے لئے تھا تا وہ اپنی تنظیم کو اس حد تک بہتر بنالیں کہ ان کو کبھی اس قسم کی درخواست نہ کرنی پڑے لیکن انہوں نے اس اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور جب بھی کوئی جماعتی کام ان کے سامنے آیا تو انہوں نے بجائے اس کے کہ جماعتی نظام سے کام لیتے ، آرام سے مجلس خدام الاحمدیہ کے مقامی قائد کو بلایا اور ان سے درخواست کی کہ مہربانی کر کے یہ کام آپ کر دیں اور اس طرح وہ جماعتی نظام کو کمزور کرنے کا موجب ہوئے.اس لئے آج سے ان کا یہ حق میں واپس لیتا ہوں جماعت کا کوئی عہد یدار اب اس بات کا مجاز نہیں ہوگا کہ وہ مجالس خدام الاحمدیہ یا مجالس انصار اللہ سے کسی قسم کی کوئی درخواست کرے.حکم وہ دے نہیں سکتا وہ پہلے ہی منع ہے.درخواست کی اجازت اب واپس لے لی جاتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آئندہ جماعتی کام انہوں نے جماعتی نظام کے ذریعہ سے ہی کروانے ہیں.مجلس خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ سے کبھی اس قسم کی درخواست نہ کرنا ہوگی.فی الحال میں اس اجازت کو صرف ایک سال کے لئے واپس لیتا ہوں پھر حالات دیکھ کر فیصلہ کر سکوں گا اس کے مطابق جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا.جماعتی عہد یداروں کو بھی اور ان لوگوں کو بھی جو ایک طرف احمدی ہیں اور دوسری طرف احمدی ہونے کی وجہ سے بعض مخصوص محدود ذمہ داریاں بطور رکن خدام الاحمدیہ یا بطور رکن مجلس انصار اللہ ان پر عائد ہوتی ہیں.میں بڑی وضاحت سے یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جماعتی کام بہر حال اہم ہیں اگر امیر جماعت یا پریذیڈنٹ بحیثیت احمدی کے انہیں کوئی حکم دے تو ان کا فرض ہے کہ وہ اس حکم کو بجالائیں.خواہ اس حکم کی بجا آوری کے نتیجہ میں انہیں مجلس خدام الاحمدیہ کے کسی افسر کی حکم عدولی ہی کیوں نہ کرنی پڑے.سرکشی تو کسی صورت میں جائز نہیں لیکن انہیں چاہئے کہ اپنی تنظیم کو اطلاع دے دیں کہ پریذیڈنٹ یا امیر نے میرے ذمہ فلاں کام لگایا ہے اس وقت مجھے وہ کام کرنا ہے.اور اس وقت آپ نے ایک دوسرا کام میرے ذمہ لگایا تھا.میں خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ کا وہ کام اس وقت نہیں کر سکتا.کیونکہ اس سے زیادہ اہم کام مجھے بڑی تنظیم کی طرف سے ملا ہے اس لئے میں جماعتی کام کروں گا اس ذیلی تنظیم کا کام نہیں کر سکوں گا اس طرح وہ معذرت کر

Page 501

12 دیں لیکن جماعتی تنظیم سے معذرت نہ کر بیٹھیں.یہ طریق قطعاً جائز نہیں بہر حال جماعتی کام کو ذیلی تنظیموں کے کام پر مقدم رکھنا ہوگا.اور جہاں جہاں مجالس خدام الاحمدیہ نے قرآن کریم کے پڑھانے کا انتظام جماعتی انتظام سے علیحدہ ہو کر اپنے طور پر شروع کر دیا ہے.وہ میری آواز پہنچتے ہی اس کام کو بند کر دیں اور اپنی خدمات جماعت کے پریذیڈنٹ یا امیر کو پیش کر دیں اور جماعتی انتظام کے ماتحت اس کام کو کریں.قرآن کریم کا سمجھنا، اس کا فہم حاصل کرنا سب سے اہم کام ہے مگر قرآن کریم خود فرماتا ہے کہ جب مجھے سمجھنا ہوتو یاد رکھو کہ اپنے نفس کی اصلاح کے بعد میرے پاس آنا کیونکہ سوائے اس شخص کے جو پاک ہو میں کسی کو ہاتھ نہیں لگانے دیتا اور اگر تم مطہر ہوئے بغیر مجھے ہاتھ لگانا چاہو گے تو مجھے خدا تعالیٰ نے یہ طاقت بخشی ہے کہ وہ ہاتھ مجھے چھونے نہیں پائے گا.تمہارا ہاتھ مجھے اس وقت چھو سکے گا جب تم جتنا مجھے جانتے ہو.اس پر عمل کرنے والے بھی ہو.اور پھر میرے پاس اس نیت کے ساتھ آؤ کہ جو زائد علم تم مجھ سے حاصل کرو اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق ڈھالو گے.یہ بڑا ہی اہم کام ہے قرآن کریم کا سمجھنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے.قرآن کریم کی اشاعت کے لئے ہی ہمیں زندہ کیا گیا ہے اور ہمیں منظم کیا گیا ہے اس الہی سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے قائم ہی اسی لئے کیا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا بھر میں اس رنگ میں پھیلائیں کہ دنیا یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے کہ اگر ہم اس دنیا اور اخروی زندگی کی فلاح چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنا ہوگا.دنیا میں قرآن کریم کی تعلیم آپ پھیلا کیسے سکتے ہیں جبکہ خود آپ کو ہی اس کا علم حاصل نہ ہو.تو جو ہماری پیدائش کی غرض ، ہمارے قیام کی غرض اور ہماری زندگی کا مقصود ہے وہ حاصل ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ ہم خود قرآن کریم کو نہ سمجھیں اور اس کے علوم اچھی طرح ہمارے ذہنوں میں مستحضر نہ ہوں.پس میں تمام امراء اضلاع کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے ضلع کی ہر جماعت میں قرآن کریم پڑھانے کا با قاعدہ ایک نظام کے ماتحت انتظام کریں اور ہر دو ماہ کے بعد مجھے اس کی رپورٹ بھجوایا کریں" (خطبات ناصر جلد اول صفحہ 206-211) ذیلی تنظیمیں خلیفہ وقت کے اعضاء ہیں حضور نے خطبہ جمعہ 25 نومبر 1967 ء میں فرمایا." اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کام خلیفہ وقت کے سپرد کئے جاتے ہیں ان میں سے ایک بڑا اہم کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کریں کہ قوم اِعْتِصَامُ بِحَبْلِ اللهِ “ کے مطابق اپنی زندگی کے دن گزار

Page 502

13 رہی ہے کہ نہیں.جس کے نتیجہ میں اللہ تعالی محض اپنی نعمت کے طور پر اور اپنے فضل اور برکت کے نتیجہ میں ان کے درمیان مودت اور اُلفت پیدا کرتا اور انہیں بنیان مرصوص بنادیتا ہے.اس ذمہ داری کو نباہنے کے لئے خلفاء امت محمدیہ نے مختلف تدابیر اختیار کیں ہمارے زمانہ میں ہمارے سلسلہ میں ایک تدبیر اس کے لئے یہ اختیار کی گئی ہے کہ مختلف نظام قائم کر دئے گئے ہیں.ایک جماعتی نظام ہے جو سلسلہ کے تمام بنیادی کاموں پر حاوی ہے اور ان کو کما حقہ ادا کرنے کی اس پر ذمہ داری ہے.ایک تحریک جدید کا نظام ہے جسے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس لئے جاری کیا تھا کہ غیر ممالک میں اسلام کی اشاعت کی جائے اور توحید کا جھنڈا گاڑا جائے.ایک وقف جدید کی تنظیم ہے کہ جس کے سپر د اشاعت قرآن اور تربیت سلسلہ کا ایک محدود دائرہ کے اندر کچھ کام کیا گیا ہے.ان کے علاوہ ذیلی تنظیمیں ہیں.انصار اللہ ہے.لجنہ اماءاللہ ہے، خدام الاحمدیہ ہے، ناصرات احمدیہ ہے ، اطفال احمد یہ ہے اور بعض دفعہ وقتی طور پر ہم کچھ کام کرتے ہیں یا ایسی کوئی تدبیر کرتے ہیں کہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ وقتی ہے یا مستقل شکل اختیار کر جائے گی.مثلاً وقف عارضی کا نظام میں نے جاری کیا ہے اس کے نتائج خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھے نکل رہے ہیں لیکن نہیں کہا جا سکتا کہ یہ تحریک کیا رنگ اختیار کرے گی.جس رنگ میں اور جس طور پر اللہ تعالیٰ کا منشاء ہوگا اور اس کی ہدایت ہوگی اس کے مطابق ہی وہ شکل اختیار کرلے گی.لیکن اس وقت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.بہر حال یہ مختلف تدابیر اور ذرائع ہیں تا جماعت کو اغتصامُ بِحَبْلِ اللہ کے مقام سے ہٹنے نہ دیا جائے اور یہ تمام تنظیمیں خواہ وہ بنیادی ہوں یا ذیلی ہوں خلیفہ وقت کے اعضاء ہیں.اور ان میں سے کسی کو بھی کمزور نہیں کیا جاسکتا نہ عقلاً نہ شرعاً.عقل بھی اس کی اجازت نہیں دیتی اور شریعت بھی اس کو برداشت نہیں کرتی کہ وہ ذرائع جو خلیفہ وقت کی طرف سے جاری کئے گئے ہوں ان میں کسی کو کمزور کر دیا جائے اور ہر تنظیم میں سب سے زیادہ طاقت اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنی حدود کے اندر کام کر رہی ہوا گر آپ ایک گز کپڑا لیں اور سواگز جگہ میں اس کو بچھانا چاہیں اور دو آدمی زورلگا کر اسے پھیلائیں تو وہ تارتار ہوجائے گا اور اپنی افادیت کھودے گا.تو ہر ذیلی تنظیم کا جہاں اپنے حدود کے اندر ہنا ضروری ہے وہاں دوسری تنظیموں کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس میں کسی قسم کی کمزوری نہ پیدا ہونے دیں.دراصل کسی تنظیم کا بھی کسی دوسری تنظیم کے ساتھ براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے.سارے تعلق خلافت کے ذریعہ اوپر سے ہو کر نیچے کی طرف آتے ہیں اور جب خلیفہ وقت سارے کاموں کی نگرانی کر رہا ہے تو جماعت کو یہ خطرہ نہیں ہے" خطبات ناصر جلد اول صفحہ 505-506)

Page 503

14 عہد یداران نظام کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ پورا تعاون کریں حضور نے خطبہ جمعہ 25 نومبر 1966ء میں فرمایا." یہی حال ہر عہدیدار کا ہونا چاہئے.اگر آپ خدا کے ان پیارے بندوں کو انتہائی محبت نہیں دے سکتے تو آپ عہد یدار رہنے کے قابل ہی نہیں.کسی شخص کے دل میں یہ وہم بھی پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی عہد یدار اس سے پیار نہیں کرتا، اس سے ہمدردی نہیں رکھتا، اس کی غمخواری نہیں کرتا.وقت پر اس کے کام نہیں آئے گا.ہر عہد یدار کی پہلی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ اپنی تکلیف بھول جائے اور اپنے بھائیوں کی تکلیف کا اسے خیال رہے اگر یہ کیفیت ہو تو پھر وہاں بشاشت کے نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جہاں عہد یدار ڈھونڈ ڈھونڈ کر یہ کام کریں کہ کسی کو دوائی کی ضرورت ہے وہ دوائی پہنچائی جائے.کسی کی بیماری کے نتیجہ میں اس کے بعض کام رکے ہوئے ہیں.وہ کام کر دیئے جائیں کسی کو مالی تکلیف ہے اسے اس تکلیف سے نکالا جائے.یہ صحیح ہے کہ ہم نے بادشاہتیں نہیں دینی ہیں.لیکن ہر احمدی کی کم سے کم ضرورت بہر حال ہم نے پوری کرنی ہے.اس سے وہ اس قدر سیکوریٹی اور اطمینان محسوس کرے گا کہ خود بخود اس کے دل میں بشاشت محسوس ہوگی.انفرادی طور پر ہی نہیں ( گووہ بھی بہت ضروری ہے) انتظامی لحاظ سے بھی ، ہر نظام کو خواہ وہ بنیادی ہو یا ذیلی ہو یقین ہونا چاہئے کہ دوسرے نظام میرے ساتھ سو فی صدی تعاون کرنے والے اور میرے کاموں کو آگے سے آگے بڑھانے میں میرے مرد اور معاون اور ناصر ہیں.میرے راستے میں روکیں پیدا کرنے والے نہیں ہیں.جب ہر نظام اور ہر نظام کے عہدیداروں کے دماغ میں یہ بات آ جائے گی اور یہ ذہنیت سب میں پیدا ہو جائے گی تو ہمارے یہ سارے نظام ایک جست میں ہی کہیں سے کہیں پہنچ جائیں گے.چھوٹی چھوٹی باتوں میں بعض دفعہ بدظنی پیدا ہو جاتی ہے.بدظنی تو کسی کے لئے بھی جائز نہیں لیکن عہد یداروں کے لئے تو بڑی ہی مہلک چیز ہے.جس طرح اگر کوئی کسی کے پیچھے سے السلام علیکم کہے تو آپ کو خود کو اتنا بڑا نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ سلام آپ کو کیا گیا ہے.اسی طرح اگر کوئی کسی کو پیچھے سے گالی دے رہا ہو اور آپ کے کان تک وہ آواز پہنچے تو آپ کو یہ بھی نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ گالی آپ کو دی جارہی ہے یہ دونوں باتیں غلط ہیں.اگر کوئی برا بھلا کہتا ہے تو غلطی کرتا ہے آپ یہی سمجھیں کہ وہ آپ کو نہیں کہہ رہا بلکہ کسی اور کو کہہ رہا ہے.آپ اپنا کام کئے جائیں اور یاد رکھیں کہ نظام کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ پورا تعاون اور اتفاق ہونا چاہئے خدام الاحمدیہ کی طاقت ، انصار اللہ کی طاقت، لجنہ اماءاللہ کی طاقت ، ناصرات الاحمدیہ اور اطفال کی طاقت اس بات میں ہے کہ جو حد و د خلیفہ وقت نے ان کے لئے مقرر کی ہیں وہ ان سے باہر نہ جائیں اور جس

Page 504

15 وقت دوسری تنظیموں کو ان کے تعاون کی ضرورت ہو بحیثیت تنظیم بھی وہ اتنا تعاون کریں کہ دنیا میں اس کی مثال نہ ملتی ہو.اگر یہ حالات ہوں، یہ صورت ہو.تو ان حالات میں ہر تنظیم بشاشت کے ساتھ اپنے کاموں میں لگی ہوئی ہوگی.اس کو یہ پتہ ہوگا کہ اپنے دائرہ کے اندر رہا تو ہر دوسری تنظیم میری مدد کو آئے گی.اور اگر میں نے اپنے دائرہ سے باہر قدم رکھا تو اوپر سے تنیہ ہو جائے گی اور جس کو یہ پتہ ہو کہ وہ اپنے دائرہ عمل سے باہر نہیں جاسکتا" خطبات ناصر جلد اول صفحہ 508-509)

Page 505

16 $ 1967 دنیا کو اس وقت ہماری دعاوں کی بڑی ضرورت ہے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ 24 فروری 1967 ء میں فرمایا."ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہادی اور رہبر تسلیم کیا ہے اور اپنے رب رحیم کے حکم کے ماتحت اور اس کی خوشنودی اور رضا کے حصول کے لئے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اپنے محبوب آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے لئے ہمیشہ اسوۂ حسنہ بنائے رکھیں گے اور وہی رنگ اپنی طبیعتوں پر اور اپنی زندگیوں پر چڑھانے کی کوشش کرتے رہیں گے جس رنگ کو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت صحیحہ پر چڑھایا تھا اور یہ صفات باری کے انوار کا حسین رنگ تھا.ایک بڑی نمایاں خصوصیت جو ہمارے آقا میں پائی جاتی تھی اور جو اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی اور جس کے نتیجہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس مقام کے لئے منتخب کیا تھا اور چنا تھا کہ آپ تمام دنیا کے لئے اور تمام جہانوں کے لئے اور تمام زمانوں کے لئے ابدی شریعت لے کر آئیں اور قرآن کریم کے حامل ہوں جس کے اندر کبھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی اور جس کا کوئی لفظ اور کوئی حرف اور کوئی زبر اور زیر بھی کبھی منسوخ نہیں ہوئی وہ رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ “ ہونے کی خصوصیت ہے.بنی نوع انسان سے کسی انسان نے اس قدر شفقت اور محبت نہیں کی جتنی شفقت اور محبت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بھائی انسانوں سے کی ، نہ صرف ان انسانوں سے جو آپ کے سامنے تھے نہ صرف ان انسانوں سے جو آپ کے ملک میں رہنے والے تھے، نہ صرف ان انسانوں سے جو آپ کی زندگی میں ساری دنیا اور دنیا کے ہر ملک کو آباد ر کھے ہوئے تھے بلکہ تمام ان انسانوں سے بھی جو آپ سے پہلے گزر چکے تھے اور تمام ان بنی نوع انسان سے بھی جنہوں نے آپ کے بعد پیدا ہونا تھا آپ نے سب سے ہی اس محبت کا اس رحمت اور شفقت کا سلوک کیا.اور یہ جذ بہ اللہ تعالیٰ نے اس شدت سے آپ کے دل میں پیدا کیا تھا جس کی مثال انسان کو کہیں اور نظر نہیں آتی.یہ ایک بڑی نمایاں صفت تھی جو ہمارے آقا میں پائی جاتی تھی اور یہی وہ صفت ہے جس کی طرف میں بڑے اختصار کے ساتھ اپنے بھائیوں کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.آج دنیا کو ضرورت ہے اس رَحْمَةٌ لِلْعَلَمِینَ کے جاں نثاروں کی جو دنیا کی بہتری کے لئے اپنی زندگیاں قربان کر رہے ہوں.ہمارا جو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں ویسے تو ہر کام ہی ، ہر منصوبہ ہی ، ہر کوشش ہی اور ہر جد وجہد ہی بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہے لیکن ان تمام کوششوں اور ان تمام

Page 506

17 تدابیر کے علاوہ اس وقت دنیا کو ہماری دعاؤں کی بڑی ہی ضرورت ہے." خطبات ناصر جلد اول صفحہ 588-589) تو حید خالص کو اپنے نفسوں اور اپنے ماحول میں قائم کریں حضور رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ 24 فروری 1967 ء میں فرمایا.ہماری جماعت کا پہلا اور آخری فرض یہ ہے کہ توحید خالص کو اپنے نفسوں میں بھی اور اپنے ماحول میں بھی قائم کریں اور شرک کی سب کھڑکیوں کو بند کر دیں ہمارے گھروں میں صرف تو حید کے دروازے ہی کھلے رہیں اور شرک کی سب راہوں کو ہم کلیۂ چھوڑ دیں اور توحید کی راہوں پر بشاشت کے ساتھ چلنے لگیں ہم بھی اور ہمارے بھائی بھی اور نوع انسان کے رشتہ سے جو ہمارے بھائی ہیں وہ بھی اس توحید خالص کی تعلیم پر قائم ہو جائیں.توحید کے قیام میں ایک بڑی روک بدعت اور رسم ہے یہ ایک حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر بدعت اور ہر بد رسم شرک کی ایک راہ ہے اور کوئی شخص جو تو حید خالص پر قائم ہونا چاہے وہ توحید خالص پر قائم نہیں ہو سکتا جب تک وہ تمام بدعتوں اور تمام بد رسوم کو مٹانہ دے.ہمارے معاشرے میں خاص طور پر اور دنیا کے مسلمانوں میں عام طور پر بیسیوں، سینکڑوں شائد ہزاروں بدرسمیں داخل ہو چکی ہیں احمدی گھرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام بدرسوم کو جڑ سے اکھیڑ کے اپنے گھروں سے باہر پھینک دیں............اس وقت اصولی طور پر ہر گھرانے کو یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر اور ہر گھرانہ کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں.اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوشش کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہو گا وہ یہ یادر کھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے وہ اس طرح جماعت سے نکال کے باہر پھینک دیا جائے گا جس طرح دودھ سے مکھی پس قبل اس کے کہ خدا کا عذاب کسی قہری رنگ میں پ پر وارد ہو یا اس کا قہر جماعتی نظام کی تعزیر کے رنگ میں آپ پر وارد ہو اپنی اصلاح کی فکر کرو اور خدا سے ڈرو اور اس دن کے عذاب سے بچو کہ جس دن کا ایک لحظہ کا عذاب بھی ساری عمر کی لذتوں کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے کہ اگر یہ لذتیں اور عمریں قربان کر دی جائیں اور انسان اس سے بچ سکے تو تب بھی وہ مہنگا سود نہیں ستا سودا ہے.پس آج میں اس مختصر سے خطبہ میں ہر احمدی کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے آن

Page 507

18 مطابق اور جماعت احمدیہ میں اس پاکیزگی کو قائم کرنے کیلئے جس پاکیزگی کے قیام کیلئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے ہر بدعت اور بدرسم کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ سب میرے ساتھ اس جہاد میں شریک ہوں گے اور اپنے گھروں کو پاک کرنے کے لئے شیطانی وسوسوں کی سب راہوں کو اپنے گھروں پر بند کر دیں گے دعاؤں کے ذریعہ اور کوشش کے ذریعہ اور جد و جہد کے ذریعہ اور حقیقتاً جو جہاد کے معنی ہیں اس جہاد کے ذریعہ اور صرف اس غرض سے کہ خدا تعالیٰ کی توحید دنیا میں قائم ہو ، ہمارے گھروں میں قائم ہو، ہمارے دلوں میں قائم ہو، ہماری عورتوں اور بچوں کے دلوں میں قائم ہو اور اس غرض سے کہ شیطان کے لئے ہمارے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دیئے جائیں." خطبات ناصر جلد اول صفحہ 758-763) رسالہ ماہنامہ انصار اللہ کو پڑھیں اس سے فائدہ اٹھائیں حضور نے جلسہ سالانہ 1967ء کے دوسرے روز مورخہ 27 جنوری 1967 ء 1ء کے خطاب میں فرمایا.پھر رسالوں میں’انصار اللہ کا رسالہ، خدام الاحمدیہ کا رسالہ ”خالد“ ہے.اطفال کا رسالہ تفخیذ الاذہان اور لجنہ اماءاللہ کا رسالہ ” مصباح“ ہے.جامعہ احمدیہ کا رسالہ ہے.مکرم ومحترم ابوالعطاء صاحب کا ”الفرقان ان سب رسالوں کو پڑھنا چاہئے اور ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے.اگر آپ انہیں پڑھیں گے اور ان سے فائدہ اٹھائیں گے تو علاوہ فائدہ کے آپ کو یہ ثواب بھی پہنچ رہا ہوگا کہ آپ اس طرح ان رسالوں کو زندہ رکھنے میں مدد دے رہے ہوں گے کیونکہ ان میں سے کوئی رسالہ بھی ایسا نہیں جو انسانی تدبیر کے بغیر زندہ رکھا جا سکے.گوتدبیر میں بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہی ہوا کرتا ہے لیکن تدبیر کوخدا تعالیٰ نے دنیا میں پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ اس سے اس دنیا میں فائدہ حاصل کیا جائے." خطابات ناصر جلد اول صفحه 99-100)

Page 508

19 $ 1968 ربوہ کی صفائی ستھرائی کے لئے وقار عمل میں انصار بھی شامل ہوں حضرت خلیفہ ایسیح الثالث رحمہ اللہ نے 5 جنوری 1968ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.ربوہ میں بسنے والوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ان دنوں میں صفائی کا خاص خیال رکھیں ربوہ کے ایک چھوٹے سے حصہ میں آج بھی وقار عمل منایا گیا ہے یعنی خدام الاحمدیہ کے انتظام کے ماتحت رضا کارانہ طور پر کچھ کام کیا گیا ہے جس کی تفصیل کا مجھے علم نہیں ہے میں امید رکھتا ہوں کہ انہوں نے صفائی پر زیادہ زور دیا ہوگا اور ان رخنوں کو بند کرنے پر زیادہ زور دیا ہو گا جس کے نتیجہ میں گندگی پھیلتی ہے اگر خدام الاحمدیہ ہمت کرے اور انصار اور اطفال بھی ان کے ساتھ شامل ہوں تو کم از کم دو دن عصر اور مغرب کے درمیان ربوہ کو صاف ستھرا کرنے پر خرچ کرنے چاہئیں" (خطبات ناصر جلد دوم صفحه 10) اسلام کے استحکام کے لئے ایمان کا تقاضا ہے کہ تم انصار اللہ بنو حضور نے خطبہ جمعہ 6 ستمبر 1968ء میں فرمایا." يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللهِ (الصف: 15) ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کی ساری زندگی اس رنگ میں گذرے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ کے دین کو استحکام اور اس کی اشاعت کے سامان پیدا ہوں اگر کوئی شخص مسلمان ہونے کا اسلام لانے کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن اس اسلام کے استحکام کے جذبات اس کے دل میں نہیں اور اشاعت اسلام کی کوشش اس کے اعمال کا حصہ نہیں تو پھر وہ مومن کیسا وہ ایمان کیسے لایا تو فرمایا کہ تمہارے ایمان کا تقاضا ہے کہ تم انصار اللہ بنو اگر حقیقتا تم اللہ کے دین کے مددگار نہیں ہو گے تو تمہیں رحمت الہی نصیب نہیں ہوگی جیسے دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ کی نصرت انہیں لوگوں کو ملتی ہے جو اس کے دین کی نصرت میں ہر وقت لگے رہتے ہیں فرمایا انصار اللہ بننے میں تمہارے اموال اور تمہاری اولا د روک بنے گی شیطان تمہارے اپنے ہاتھ سے محنت سے بلکہ محنت شاقہ سے کمائے ہوئے اموال کو اور تمہاری محبوب اور پیاری اولاد کو بڑے اچھے بچوں کو تمہارے ایمان کے راستہ میں روک بنانے کی کوشش کرے گا تو تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم شیطان کی اس چال میں نہ آؤ فرمایا.تايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ

Page 509

20 أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللهِ (المنافقون: 10 ) اموال کو شیطان ذریعہ بنائے گا اور اولا دکو بھی شیطان ذریعہ بنائے گا اس بات کا خدا کا ایک بندہ اپنے رب کو بھول جائے اور اس کے ذکر سے غافل ہو جائے اور رب کے ذکر سے غافل ہوگا وہ انصار اللہ کیسے بنا تو فرمایا کہ ہر وقت چوکس اور بیدار رہوا گر شیطان مال کے رخنہ سے تمہارے ایمان پر ڈاکہ ڈالنا چاہے یا اگر شیطان تمہارے بچوں کو تمہارے روحانی اموال لوٹنے کے لئے بطور چور کے استعمال کرنا چاہے تو اس کو اس میں کامیاب نہ ہونے دینا بلکہ کوشش یہ کرنا کہ تمہارا اموال شیطان کو شکست دینے والے اور تمہارے بچے شیطان کے خلاف صف آرا ہونے والے ہوں یہ چند مثالیں میں نے دی ہیں اور انتخاب بھی صرف ان آیات کا کیا ہے جن میں مومن کو مخاطب کر کے ایمان کا تقاضا بتایا ہے بڑی وضاہت کے ساتھ تو بنیادی چیز اللہ کی رحمت کے حصول کے لئے یہ ہے کہ ہم اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی معرفت کو حاصل کریں اور جو شریعت ہماری روحانی تقلید کے لئے اس نے نازل کی ہے اور جس پر عمل پیرا ہو کر ہم اس کی بہترین رحمتوں کے وارث بن سکتے ہیں اس شریعت پر چلنے والے ہوں اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا کے لئے بطور ایک نمونہ کے پیدا کیا اور مبعوث کیا آپ کے اسوہ کے مطابق اور آپ کے اسوہ کی اتباع کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو ڈھالیں.یعنی ایمان کے سب تقاضوں کو پورا کریں تا کہ اللہ تعالیٰ ایسا فضل کرے کہ اس کی رحمت کے سارے ہی دروازے ہمارے لئے کھل جائیں اور یہ اس کی توفیق سے ہوسکتا ہے" خطبات ناصر جلد دوم صفحہ 285-286) تحریک جدید دفتر دوم کی ذمہ داری انصار اللہ کے سپرد کرتا ہوں حضور نے خطبہ جمعہ 25 اکتوبر 1968ء میں فرمایا." اس لحاظ سے جب میں نے غور کیا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہم آج دفتر دوم میں شامل ہونے والوں سے یہ امید نہیں کر سکتے کہ ان کی اوسط بھی 64 روپے فی کس تک پہنچ جائے کیونکہ ان میں عمر اور ادھیڑ عمر کے بھی ہیں کم تربیت یافتہ بھی ہیں اور بعد میں داخل ہونے والے بھی ہیں لیکن میں نے سوچا اور غور کیا اور مجھے یہ اعلان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ انہیں روپے اوسط بہت کم ہے اور آئندہ سال جو یکم نومبر سے شروع ہورہا ہے جماعت کے انصار کو ( دفتر دوم کی ذمہ داری آج میں انصار پر ڈالتا ہوں ) جماعتی نظام کی مدد کرتے ہوئے (آزادانہ طور پر نہیں ) یہ کوشش کرنی چاہئے کہ دفتر دوم کے معیار کو بلند کریں اور اس کی اوسط انیس روپے سے بڑھا کر تمیں روپے فی کس پر لے آئیں.میں سمجھتا ہوں کہ چونسٹھ روپے فی کس اوسط پر لانا

Page 510

21 ابھی مشکل ہوگا اور یہ ایسا بار ہوگا جسے شاید ہم نبھا نہ سکیں لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہم کوشش کریں تو اس معیار کو دفتر اول کے چونسٹھ روپے فی کس کے مقابلہ میں انہیں روپیہ سے بڑھا کر تمیں روپیہ تک پہنچا سکتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ ہمت اور توفیق اور مالوں میں برکت دے، اخلاص میں برکت دے تو یہی لوگ تمہیں سے چالیس اوسط نکالیں گے پھر پچاس اوسط نکالیں گے پھر ساٹھ اوسط نکالیں گے پھر ستر اوسط نکالیں گے اور دفتر اول سے بڑھ جائیں گے لیکن آئندہ سال کے لئے میں یہ امید رکھتا ہوں کہ جماعتیں اس طرف متوجہ ہوں گی اور میں حکم دیتا ہوں کہ انصار اپنی تنظیم کے لحاظ سے جماعتوں کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں اور کوشش کریں کہ آئندہ سال دفتر دوم کے وعدوں اور ادائیگیوں کا معیارانہیں روپیہ فی کس اوسط سے بڑھ کر تمیں روپیہ فی کس اوسط تک پہنچ جائے اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سال رواں کے جو تین لاکھ چون ہزار روپے کے وعدے ہیں وہ پانچ لاکھ چالیس ہزار روپیہ تک پہنچ جائیں گے" خطبات ناصر جلد دوم صفحہ 353-354) رسالہ انصار اللہ ایک تربیتی رسالہ ہے حضور نے جلسہ سالانہ 1968ء کے دوسرے روز 12 جنوری 1968ء کے خطاب میں فرمایا.انصار الله تربیتی رسالہ ہے لیکن اس سے وہ لوگ جو ابھی احمدیت میں داخل نہیں ہوئے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی تربیت کس رنگ میں اور کس طور پر کی جا رہی ہے آیا یہ جماعت اپنے بزرگوں کو اور اپنے بچوں کو خدا اور اس کے رسول محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور لے جارہی ہے یا ان کے عشق میں اور بھی زیادہ شدت اور تیزی پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے." خطابات ناصر جلد اول صفحہ 187-188) مسابقت فی الخیر کی روح اُجاگر کرنے کیلئے ذیلی تنظیموں کو قائم کیا گیا ہے حضور نے جلسہ سالانہ 1968 ء کے تیسرے روز 13 جنوری کے خطاب میں فرمایا."ہماری جماعت میں روح مسابقت قائم رہنی چاہئے یعنی یہ نہیں کہ بعض جماعتیں کہیں کہ کراچی چندہ دے دے گا.ہمیں اس کی طرف توجہ کرنے کی کیا ضرورت ہے یا یہ کہ بعض جماعتیں یہ کہیں کہ مرکز سے لوگ آکر اصلاح و ارشاد کا کام کریں گے.ہمیں اس طرف توجہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.یہ نہیں

Page 511

22 بلکہ ہر ایک یہ کہے کہ مرکز کے پورا وقت کام کرنے والے مربی جتنا کام کرتے ہیں ہم ان سے زیادہ کام کریں گے.ان سے آگے بڑھ جائیں گے یہ زیادہ استحقاق رکھتے ہیں خدا تعالیٰ سے بہتر انعامات پانے کا.ہم پائیں گے.ان سے آگے بڑھیں گے یہ نہیں کہ وہ یہ انعامات نہ پائیں وہ بھی پائیں لیکن ہم ان سے زیادہ پائیں گے ہر ایک کے اندر یہ روح ہونی چاہئے اور صرف اس نسل میں نہیں کیونکہ ہمارا کام اس نسل کے کام پر ختم نہیں ہو جاتا.یہی روح مسابقت انگلی نسل کے اندر پیدا کرنی چاہئے اور اس کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے جس کے لئے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ کو قائم کیا گیا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ فرمایا.میں جو کہتا ہوں کہ جنت کی طرف روح مسابقت کے ساتھ تیز قدم اٹھاتے ہوئے بڑھتے چلے جاؤ اس سے کیا مراد ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلِكُلّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (البقرہ:149 ) کہ ہر ایک شخص یا قوم کا ایک مطمع نظر ہوتا ہے تم خیرات کے تعلق میں روح مسابقت کو اپنا مطمع نظر بناؤ اور یہاں الْخَيْرَاتِ کے ایک معنی احکام قرآن ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا.وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَاذَا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قَالُوا خَيْرًا (النحل : 31) کہ قرآن کریم کے احکام خیر ہیں یہ ایک لفظ میں قرآن کریم کی تعریف بیان کی گئی ہے یعنی ان میں بھلائی ہی بھلائی ہے." خطابات ناصر جلد اول صفحہ 245-246) ذیلی تنظیمیں جس ماحول کے لئے اپنے رسالے شائع کرتی ہیں اس ماحول میں ان کا پہنچنا ضروری ہے حضور نے جلسہ سالانہ 1968ء کے دوسرے روز 27 دسمبر کے خطاب میں فرمایا." پھر ہمارے رسالے ہیں یعنی الفرقان ہے ریویو آف ریجنز ہے.تحریک جدید کا رسالہ ہے انصار اللہ ہے خدام الاحمدیہ کا رسالہ ہے لجنہ اماءاللہ کا رسالہ ہے بچوں کا رسالہ ہے جس جس ماحول کے لئے یہ رسالے شائع کئے جاتے ہیں اس ماحول میں ان کا پہنچنا ضروری ہے.اگر یہ نہیں پہنچیں گے تو ہمارا دعویٰ ایک خیال اور ایک غیر حقیقی اعلان ہوگا.اس کے پیچھے روح نہیں ہوگی.ایک مُردہ اور بے روح جسم ہوگا.آپ اسے ایسا نہ بنا ئیں." (خطابات ناصر جلد اول صفحہ 296)

Page 512

23 $ 1969 قرآن کریم سیکھنا اور سکھانا انصار اللہ کی ذمہ داری ہے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے 14اپریل 1969 کے خطبہ جمعہ میں فرمایا." انصار اللہ کو آج میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے طوعی اور رضا کارانہ چندوں کی ادائیگی میں ست ہو چکے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کو چست ہو جانے کی توفیق عطا کرے) لیکن مجھے اس کی اتنی فکر نہیں جتنی اس بات کی فکر ہے کہ آپ ان ذمہ داریوں کو ادا کریں جو تعلیم القرآن کے سلسلہ میں آپ پر عائد ہوتی ہیں.قرآن کریم کی تعلیم کے سلسلہ میں آپ پر دو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ایک ذمہ داری تو خود قرآن کریم سیکھنے کی ہے اور ایک ذمہ داری ان لوگوں ( مردوں اور عورتوں) کو قرآن کریم سکھانے کی آپ پر عائد ہوتی ہے کہ جن کے آپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق رائی بنائے گئے ہیں.آپ ان دونوں ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جلد تر ان کی طرف متوجہ ہوں ہر رکن انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کی ذمہ داری اُٹھائے کہ اس کے گھر میں اس کی بیوی اور بچے یا اور ایسے احمدی کہ جن کا خدا کی نگاہ میں وہ راعی ہے قرآن کریم پڑھتے ہیں اور قرآن کریم کے سیکھنے کا وہ حق ادا کرتے ہیں جو حق ادا ہونا چاہئے اور انصار اللہ کی تنظیم کا یہ فرض ہے کہ وہ انصار اللہ مرکزیہ کو اس بات کی اطلاع دے اور ہر مہینہ اطلاع دیتی رہے کہ انصار اللہ نے اپنی ذمہ داری کو کس حد تک نبھایا ہے اور اس کے کیا نتائج نکلے ہیں" (خطبات ناصر جلد دوم صفحہ 564) انصار اللہ بحیثیت مجلس اپنے اندر ایک فعال زندگی پیدا کرے حضور نے 16 مئی 1969ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا." تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ زیادہ مستعدی سے اپنے پروگراموں کی طرف متوجہ ہوں اور بحیثیت مجلس اپنے اندر ایک فعال زندگی پیدا کریں.ہر دو مجالس کا ایک حصہ بڑا ہی اچھا کام کر رہا ہے اور قابلِ رشک ہے.اگر خدام الاحمدیہ ہیں تو وہ انصار اللہ کے لئے قابل رشک ہیں اور انصار ہیں تو جماعت کے لئے قابل رشک ہیں.خدا کے لئے فدا ہونے والی اور اپنے نفسوں اور اموال کو فدا کرنے والی زندگیاں ہیں جو وہ گزار رہے ہیں لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو دنیا کے غلط اصول کے

Page 513

24 مطابق تینتیس فیصد کام کر کے کامیاب ہونے کی امید رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں گناہوں کی معافی کا وعدہ تو دیا ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ لوگ جن کی بدیاں اور جن کے گناہ ان کی نیکیوں اور اعمال صالحہ کا احاطہ کر لیں گے انہیں بہر حال جہنم کی تکلیف میں سے گزرنا پڑے گا.اگر اللہ تعالیٰ معاف کرنا چاہے تو یہ اس کی شان اور قدرت ہے وہ اس کا بھی مظاہرہ کرتا ہے اور ہمارے دلوں میں اپنی محبت اور عظمت کو اس طرح بھی قائم کرتا ہے لیکن اس نے ایک عام اصول یہ بنایا ہے کہ اگر گناہ اور بدیاں نیکیوں اور اعمال صالحہ کو اپنے احاطہ میں لے لیں تو جہنم کی تکلیف میں سے گزرنا پڑے گا.اگر آپ جیومیٹری کی ایک شکل کے ذریعہ اس احاطہ کو سمجھنے کی کوشش کریں تو جو دائرہ دوسرے کو اپنے اندر احاطہ کئے ہوئے ہے وہ قریباً 55 فیصد بنتا ہے.پس اگر سو میں سے 45 نیکیاں ہوں اور 55 بداعمالیاں ہوں تو بد اعمالیوں کی سزا سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ بد اعمالیوں نے سارے راستے بند کر دیئے.انہوں نے ایک ایسا چکر ڈال لیا ہے کہ باہر نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا.لیکن اگر ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ نیکیاں پچاس فیصد سے زائد ہوں تو پھر اگر بدیاں احاطہ کرنے کی کوشش کریں تو وہ احاطہ کر نہیں سکیں گی کیونکہ ایک دروازہ کھلا رہ جاتا ہے اور وہ نجات کا دروازہ بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فضل کرتا ہے اور وہاں سے اپنے بندے کو اپنے احسان سے نکال لیتا ہے.اس گرفت سے اسے چھڑا لیتا ہے جو اس کی بدیوں نے اس کے گردا حاطہ کر کے کی ہوئی ہوتی ہے غرض اس دنیا کے غلط اصول کے مطابق تو ایک نوجوان تینتیس فیصد نمبر لے کر کامیاب ہو جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو قانون قرآن کریم میں وضع کیا ہے وہ یہ ہے کہ پاس ہونے کے لئے کم از کم پچپن فیصد نمبروں کی ضرورت ہے استثنائی صورت اس کے علاوہ ہے.خدا تعالیٰ کسی پر رحمت کرنا چاہے تو وہ اور بات ہے.اس کی رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے.پس نیکیوں کا پلڑا بدیوں اور کوتاہیوں اور غفلتوں کے پلڑے پر غالب اور وزنی رہنا چاہئے.نیکیوں کا دائرہ بدیوں کے دائرہ سے بڑا ہونا چاہئے ورنہ نجات کی راہ عام اصول کے مطابق بند ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کی خاص قدرتوں کی تجلیات کا تو ذکر نہیں.اللہ تعالیٰ ویسے بھی فضل ہی کرتا ہے لیکن عام اصول کے مطابق اگر بدیاں اس طرح پھیلی ہوئی ہوں کہ باہر نکلنے کا راستہ تنگ ہو تو پھر نیکیوں کے باوجود انسان ہلاکت میں چلا جاتا ہے.نیکیوں کی توفیق بھی فضل الہی سے ہی ملتی ہے.اسی واسطے اسلام نے یہ کہا ہے کہ نجات خدا کے فضل کے ذریعہ ہی حاصل ہوتی ہے.خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کو صرف اس بات سے خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ انہوں نے 30 فیصد یا 40 فیصد نمبر لے لئے ہیں.خدمت بنی نوع انسان کی اس تنظیم کو تو سو فیصد سے کم نمبروں پر خوش ہونا ہی نہیں چاہئے.انسان چونکہ فطرتا کمزور ہے اس لئے ہم دس پندرہ فیصدی کا چھوٹا سا مارجن (Margin) رکھ لیتے ہیں یعنی اگر پچاسی یا نوے فیصد کامیابی نہ ہو تو وہ کوئی کامیابی نہیں ہے.ان دونوں تنظیموں کو یادرکھنا چاہئے کہ

Page 514

25 انصار اللہ کی تنظیم میں تربیت اور حصول قرب الہی پر زور دیا گیا ہے اور خدام الاحمدیہ کے پروگرام میں خدمت بنی نوع انسان اور حصول قرب الہی پر زیادہ زور ہے.اگر آپ سوچیں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں کہ اگر یہ خدمت کی روح غائب ہو جائے تو انسانی اقدار قائم نہیں ہو سکتیں اور اگر انسانی اقدار قائم نہ ہوں تو روحانی ترقیات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ روحانی ترقیات کے لئے جتنی ہدایتیں اور شریعتیں نازل کی گئی ہیں وہ انسان پر نازل کی گئی ہیں وہ گدھے یا گھوڑے یا بیل یا دوسرے جانوروں پر نازل نہیں کی گئیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ شرعی تقاضوں کو پورا کر کے روحانی رفعتوں کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان میں انسانی اقتدار قائم ہوں.اگر انسان انسانی اقدار کو قائم نہیں کرتا تو روحانی ارتقاء کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور جب کسی سلسلہ میں یا کسی قوم میں یا بحیثیت مجموعی بنی نوع انسان میں روح خدمت نہ ہو اس وقت تک اس سلسلہ یا اس قوم یا بحیثیت مجموعی بنی نوع انسان میں انسانی اقدار قائم نہیں ہوسکتیں.اگر ہم انسانی اقدار کو قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں خدمت کی روح کو زندہ کرنا پڑے گا اور اس خدمت کی زندہ روح کو لے کر کام کے میدان میں سرگرم عمل رہنا خدام الاحمدیہ کا ضروری پروگرام ہے.خدام الاحمدیہ اس نکتہ کو سمجھتے ہوئے اس کام میں لگ جائیں کیونکہ خدمت اسلام واحمدیت تقاضا کرتی ہے خدمت انسان کا.جو شخص انسان کی خدمت نہیں کرتا وہ احمدیت کی خدمت نہیں کرتا.احمدیت اور اسلام ایک ہی چیز ہیں اور اسلام نے بنی نوع انسان کی بحیثیت بنی نوع انسان خدمت کی ہے.وہ ایک مسلمان کو بلاتا ہے اور کہتا ہے تم نے انسان کی خدمت کرنی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک دہر یہ جو مجھ کو گالیاں دیتا ہے ( تم نے اس کے حقوق کو بھی تلف نہیں کرنا ) اس کے حقوق کی بھی تم نے حفاظت کرنی ہے تب یہ امید ہو سکتی ہے کہ وہ کسی وقت اپنے پیدا کرنے والے ربّ کی طرف رجوع کرے.اگر تم اس کے حقوق تلف کرو گے تو وہ کون سی ایجنسی دنیا میں دیکھے گا جو یہ ثابت کرے گی کہ پیدا کرنے والے رب کی ربوبیت سے کوئی انسان باہر نہیں.پس خدام الاحمدیہ کا کام ہے انسان کی خدمت، اس کے بغیر نہ اسلام کی خدمت ہوسکتی ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے احکام عبادت کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکتا ہے.آپ اس خدمت کے جذبہ کو ، اس خدمت کی روح کو زندہ رکھ کر کام کریں اور دنیا کوخداکے نام پر اورمحمدرسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور کریں کہ واقعی مسلمان بنی نوع انسان کا خادم ہوتا ہے.اگر آپ اسلام کے خادم ہونے کی حیثیت میں بنی نوع انسان کو یہ تسلیم کروا دیں کہ اسلام کا خادم بنی نوع انسان کا خادم ہوتا ہے تب وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان احسانوں کو سمجھنے لگیں گے جو واقعہ آپ نے ان پر کئے ہیں اور جن کو وہ اس وقت سمجھتے نہیں اور جس کے بغیر محبت اور پیار کا وہ تعلق قائم نہیں ہوسکتا جو بنی نوع انسان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونا چاہئے.پس خدام الاحمد یہ روح خدمت کے ماتحت اپنے پروگراموں پر عمل کریں اور

Page 515

26 انصار اللہ روح تربیت کو زندہ رکھتے ہوئے اپنے پروگرام پر عمل کریں.روح تربیت بھی روح خدمت ہی ہے صرف اس کی شکل بدلی ہوئی ہے.اس لئے ہر دو تنظیمیں اس طرح بنی نوع انسان کی خدمت میں لگ جائیں اور لگی رہیں کہ اپنے نفسوں کا بھی خیال رکھیں، اپنے رشتہ داروں اور عزیز واقارب کا بھی خیال رکھیں ، پھر یہ دائرہ وسیع ہوتا چلا جائے یہاں تک کہ وہ تمام بنی نوع انسان کو اپنے اندر سمیٹ لے اور خدا کے نام پر اسلام کی اشاعت میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بنی نوع انسان کے دل میں پیدا کرنے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو ہر وقت تیار رہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کے نبھانے کی توفیق عطا کرے.اہل ربوہ کو نماز با جماعت ادا کرنے کی توفیق عطا کرے اور ذمہ دار دوستوں کو ان کی نگرانی کی توفیق عطا کرے.فضل عمر فاؤنڈیشن میں جماعت کے دوستوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو وعدے لکھوائے ہیں وہ ان کی ادائیگی کر دیں تا وہ بہترین جزا کے وارث بنیں.انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ تکبر اور ریاء کے بغیر اپنے اپنے پروگرام اور دائرہ کے اندر بے نفس اور بے لوث خدمت کرنے والے ہوں کہ اللہ کی توفیق سے ہی سب نیکیوں کی توفیق عطا ہوتی ہے اور اللہ کے فضلوں سے ہی نیکیوں اور اعمال صالحہ کے نیک انجام نکلتے ہیں." ( خطبات ناصر جلد دوم صفحہ 645-648) ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات میں تمام مجالس کی نمائندگی ضروری ہے ضور نے خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1969ء میں فرمایا.پچھلے دنوں ناصرات الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ، خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے اجتماع تھے.اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا، بڑی رحمتیں نازل کیں اور ہر طرح خیر و برکت کے ساتھ یہ اجتماع انجام پذیر ہوئے اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جیسا کہ اس نے ہمیں بتایا ہے کہ ایک زندہ فعال الہی جماعت ہر قدم آگے ہی آگے بڑھاتی چلی جاتی ہے.ہمارے یہ اجتماع بھی گزشتہ سالوں کی نسبت زیادہ بارونق اور زیادہ بابرکت اور زیادہ مخلصانہ ماحول میں ہوئے.فَالْحَمْدُ لِلهِ عَلى ذلِك لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے.انصار اللہ کے اجتماع میں سب سے زیادہ مجالس کی نمائندگی تھی لیکن اس نمائندگی کی تعداد بھی صرف 346 کے قریب تھی جب کہ ہماری مغربی پاکستان کی جماعتیں قریباً ایک ہزار ہیں.ہمارا مقصد ہمیں صرف اس وقت حاصل ہوسکتا ہے کہ جب ہم یہ کوشش کریں اور ہماری روایت اور معمول یہ ہو کہ ان اجتماعات میں ہر جماعت کی نمائندگی ضرور ہو اور یہ کم سے کم معیار ہے.ترقی کے مختلف مدارج میں سے گزرتے ہوئے ابھی ہم اس کم سے کم معیار تک بھی نہیں پہنچے " خطبات ناصر جلد دوم صفحہ 946)

Page 516

27 پھر اسی خطبہ میں حضور نے آگے چل کر فرمایا.یہ کوشش ہونی چاہئے کہ آئندہ ہم کم سے کم معیار پر ضرور پہنچ جائیں یعنی تمام جماعتوں کے نمائندے لجنہ اماءاللہ، ناصرات الاحمدیہ، خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ اور انصار اللہ کے اجتماعوں میں ضرور شامل ہوں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں صرف اس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے جو اب تک ہوتی نہیں رہی اور جو جماعتی نظام ہے وہ میرے سامنے ذمہ دار ہوگا.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو انشاء اللہ میں نگرانی کروں گا کہ ان جماعتوں میں ہر جماعت کی نمائندگی ضرور ہو یعنی جماعت میں جو افراد خدام الاحمدیہ کی عمر کے ہیں وہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں شامل ہوں اور اس طرح اپنی جماعت کی نمائندگی کریں جو افرا دانصار اللہ کی عمر کے ہیں ان کی نمائندگی انصار اللہ کے اجتماع میں ہونی چاہئے.اسی طرح ہر جماعت کی مستورات اور ناصرات الاحمدیہ کی نمائندگی لجنہ اماءاللہ کے اجتماع میں ہونی چاہئے.اگر چھوٹی سی جماعت ہے ایک نمائندہ ہی وہاں سے آ جائے لیکن ہر جماعت کا کوئی نہ کوئی نمائندہ ان اجتماعوں میں شامل ضرور ہو کیونکہ جو نمائندے ان اجتماعوں میں شامل ہوں گے وہ ایک نئی روح اور ایک نئی زندگی لے کر واپس جائیں گے." خطبات ناصر جلد دوم صفحہ 948-949) اجتماعات پر تقریری پروگرام حالات و معمول کے مطابق بنائیں حضور نے خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 1969 ء میں فرمایا.اسی طرح جو مختلف پروگرام ہیں ان کے متعلق بھی جور پورٹ ملی ہے وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہمارا معیار خدا تعالیٰ کے فضل سے گرا نہیں بلکہ پہلے سے بلند ہی ہوا ہے.ہرست تنظیمیں مختلف روا تیں رکھتی ہیں ان میں ہے ہر ایک کے اندر ایک انفرادیت پائی جاتی ہے.جب میں انصار اللہ کا صدر تھا اس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے تو فیق دی تھی کہ ان کے سالانہ اجتماع کا پروگرام اس طرح بنایا جائے کہ ایک مضمون سے لے کر یکے بعد دیگر مختصر تقاریر کی جائیں یا لکھے ہوئے مضمون پڑھے جائیں اور پھر اس رنگ میں پڑھے جائیں کہ ان کا اثر دماغوں پر بہت گہرا اور وسیع ہو.اصل میں تو ہمارا مضمون ایک ہی ہے اور وہ تو حید باری ہے لیکن تو حید باری کو سمجھنے کے لئے اور بہت سی راہیں ہمیں اختیار کرنی پڑتی ہیں مثلاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری عظیم اور بڑی حسین زندگی کا اگر نچوڑ نکالا جائے اور وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ اللہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے ) یہی حال رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کا ہے " خطبات ناصر جلد 2 صفحہ 949-950)

Page 517

28 جماعت احمدیہ میں مختلف تنظیمیں تمکین دین اور خوف کو امن میں بدلنے کے سامان پیدا کرنے کے لئے بطور ہتھیار کے ہیں اور یہ ہتھیار خلیفہ وقت کے ہاتھ میں ہوتا ہے حضور نے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ کے اعزاز میں ( جب وہ انصار اللہ میں جارہے تھے ) دعوت کے موقع پر 29 اکتوبر 1969ء کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا.قرآن کریم میں خلافت کے دو کام بتائے گئے ہیں ایک ہے تمکین دین اور دوسرا ہے خوف سے حفاظت.اور قرآن کریم کی رو سے یہ دونوں کام جب تک خلافت ہے کسی اور کے ذریعہ سے سرانجام نہیں پاسکتے.اس لئے (جس طرح پہلے الہی سلسلوں میں ہمیشہ یہ ہوتا رہا ہے ) جماعت احمدیہ میں بھی مختلف تنظیمیں تمکین دین اور خوف کو امن سے بدلنے کے سامان پیدا کرنے کے لئے بطور ہتھیار کے ہوتی ہیں اور یہ ہتھیار خلیفہ وقت کے ہاتھ میں ہوتا ہے.ہماری جماعت میں اس وقت مختلف تنظیمیں کام کر رہی ہیں.مثلاً صدر انجمن احمد یہ ہے.یہ سب سے پرانی تنظیم ہے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بھی موجود تھی.پھر تحریک جدید ہے.حضرت مصلح موعود نے دنیا بھر میں اشاعت اسلام کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اور جماعت کی جدو جہد کو تیز اور اس کے جہاد بالقرآن میں ایک شدت پیدا کرنے کے لئے تحریک جدید کو قائم کیا.پھر وقف جدید ہے اسی طرح وقف عارضی کا نظام ہے.پھر موصیوں کی انجمن ہے.گو اس کے کام کی بھی ابتداء ہے اور جو اس کی ذمہ داریاں ہیں ان کو نبھانے کے لئے یہ تنظیم بھی انشاء اللہ اپنے وقت پر نمایاں شکل میں سامنے آجائے گی.خدام الاحمدیہ کے ساتھ مجلس اطفال الاحمدیہ ہے.اس واسطے میں نے اس کا ذکر نہیں کیا.پھر لجنہ اماء اللہ کی تنظیم ہے.یہ تنظیمیں خلیفہ وقت کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کی حیثیت میں بڑے ہی مفید کام کرتی رہی ہیں اور اب بھی کر رہی ہیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی کرتی رہیں گی.لیکن ہر تنظیم میں بعض دفعہ وقتی طور پر بعض کمزوریاں بھی آجاتی ہیں.یہ خلیفہ وقت کا کام ہوتا ہے کہ ان کمزوریوں کو جس طرح وہ مناسب سمجھے اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی اسے ہدایت ہو دور کرنے کی کوشش کرے.بسا اوقات ایک ظاہر بین آنکھ اس کوشش کو دیکھ ہی نہیں سکتی.جو کسی کمزوری کو دور کرنے کے لئے کی جاتی ہے.لیکن بہر حال خلیفہ وقت تو کسی وقت بھی اپنی ذمہ داری سے غافل نہیں ہو سکتا خواہ دنیا دیکھے یا نہ دیکھے اور سمجھے یا نہ سمجھے." ( مشعل راه جلد دوم صفحه 210-211)

Page 518

29 $ 1970 انصار اللہ کو ہر قدم پر دعا کرنے کی تلقین حضرت خلیق اسح الثالث رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ 6 مارچ 1970ء کوفر مایا."ہمارا کام اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے ہے خواہ وہ تہجد کی نماز ہو خواہ وہ گھٹیالیاں کا انٹر میڈیٹ کالج ہو یا کہیں پرائمری سکول ہو خواہ وہ بچوں کی قاعدہ پڑھانے والی کلاس ہو یا خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ کا تربیتی کورس ہو یا یہاں جو قرآن کریم کی کلاس ہوتی ہے وہ ہو چاہے دھوبی کو کپڑے دینے کا کام ہو یا درزی سے کپڑے سلوانے کا کام ہو سب کام ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرنے ہیں اگر ہم درزی کو کپڑے سینے کے لئے اس لئے دیتے ہیں کہ اپنے لباس کی نمائش مطلوب ہے تو خدا تعالیٰ کا غضب تو ہمیں مل سکتا ہے اس کی رضا نہیں مل سکتی لیکن اگر ہم درزی سے کپڑے اس نیت سے سلواتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں نے اے مومنو! تمہارے لئے ان چیزوں کو پیدا کیا.اسراف سے بچتے ہوئے افراط و تفریط ہر دو پہلوؤں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے ان چیزوں کو استعمال کرو میں تمہیں جہاں باطنی حسن دینا چاہتا ہوں وہاں میں تمہیں ظاہری حسن بھی دینا چاہتا ہوں اپنے لباس کو اس نیت سے بنواؤ اور پہنو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عطا ہے ہم اس کا شکر ادا کرتے ہوئے یہ لباس بنواتے ہیں.ایک شخص دھوبی کو کپڑے عادتا دیتا ہے ایک دوسرا شخص ہے جو یہ کہتا ہے کہ میرے رب کو نجاست اور گندگی اور میل کچیل پسند نہیں ہے میں اپنے کپڑوں کو صاف رکھوں گا.اس نیت کے ساتھ دھوبی کو کپڑے دیتا ہے چنانچہ وہ صاف کپڑے بھی پہن لیتا ہے اور فرشتوں کی دعا ئیں بھی اسے حاصل ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی اسے مل جاتی ہے.غرض ایک احمدی کا ہر کام اسلام کے معیار پر پورا اترنا چاہئے ورنہ اس کام کے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اس کے نتیجہ میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا نہیں مل سکتی.پس جوتعلیمی ادارے ربوہ سے باہر ہیں ان کی بھی بڑی سختی سے نگرانی ہونی چاہئے.تعلیم کے لحاظ سے بھی اور تربیت کے لحاظ سے بھی ہمارے تعلیمی ادارے اور کسی اور کے تعلیمی ادارے میں نمایاں فرق ہونا چاہئے ورنہ ہم اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہوں گے." (خطبات ناصر جلد سوم صفحہ 52)

Page 519

30 انصار اللہ کو تحریک جدید کے حوالہ سے ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں حضور نے خطبہ جمعہ 23 اکتوبر 1970ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.ان تین دنوں میں انصار اللہ کا اجتماع ہے انصار اللہ کے دوست باہر سے آئے ہوئے ہیں یہ بھی کافی بڑا پروگرام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اسے نباہنے کی بھی توفیق عطا فرمائے اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے اور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں جو یکم نبوت ( یکم نومبر ) سے شروع ہوگا یہ نیا سال تحریک جدید کے دفتر اول کا سینتیسواں سال ہے اور دفتر دوم کا ستائیسواں سال ہے اور دفتر سوم کا چھٹا سال ہے.دو سال قبل میں نے جماعت کو یہ توجہ دلائی تھی کہ تحریک جدید کے کام کی طرف پہلے سے زیادہ متوجہ ہوں اور زیادہ قربانیاں کریں اور زیادہ ایثار دکھا ئیں اور اپنی نئی نسل کو زیادہ بیدار کریں اور انہیں قربانیوں کے لئے تیار کریں دفتر سوم کی ذمہ داری تو انصار اللہ پر ڈالی گئی تھی اس میں بھی ابھی کافی سنتی ہے.اس دو سال میں وہ ٹارگٹ جو میں نے تحریک جدید کے سامنے رکھا تھا یا یوں کہنا چاہئے کہ تحریک کے تعلق میں جماعت کے سامنے رکھا تھا وہ یہ تھا کہ پاکستان کے احمدیوں کی یہ مالی قربانی سات لاکھ نوے ہزار روپے ہونی چاہئے مگر جماعت اس ٹارگٹ تک نہیں پہنچ سکی کچھ جائز وجو ہات بھی ہیں.پہلے فضل عمرفاؤنڈیشن کے چندوں کا زائد بار تھا اب بار تو نہیں کہنا چاہئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار کے جو دروازے کھولے تھے ہم اپنی غفلتوں کی وجہ سے یا اپنی بشری کمزوری کے نتیجہ میں اتنا فائدہ نہیں اٹھا سکے جتنا کہ ہمیں اٹھانا چاہئے تھا یا جتنا ہمارا پیارا رب ہم سے توقع رکھتا تھا کہ ہم اٹھائیں گے.باوجود فضل عمر فاؤنڈیشن کی زائد قربانیوں کے جو جماعت دے رہی تھی پھر بھی پہلے کی نسبت تحریک نے ترقی کی ہے پینتیسویں سال میں چھ لاکھ میں ہزار تک پہنچے اور چھتیسویں سال میں چھ لاکھ پینسٹھ ہزار تک پہنچے اور سات لاکھ نوے ہزار تک جو میں نے ٹارگٹ مقرر کیا تھا اس میں ابھی ایک لاکھ پچیس ہزار کی کمی ہے کیونکہ اس عرصہ میں نصرت جہاں ریز روفنڈ“ کا بھی مطالبہ ہوا ہے یہ مطالبہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہوا ہے.مغربی افریقہ کی ضرورت کے مطابق یہ مطالبہ ہوا ہے.اس لئے میں نے سات لاکھ نوے ہزار کا جو ٹارگٹ رکھا تھا کہ یہاں تک جماعت کو پہنچنا چاہئے اس میں کوئی زیادتی نہیں کرنا چاہتا لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت اس سال انشاء اللہ وہاں تک پہنچ جائے گی.بعض جماعتوں نے اس طرف توجہ دی ہے بعض نے بڑی غفلت برتی ہے اگر ہم جماعتوں کا سرسری جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کراچی کی جماعت اپنے ٹارگٹ کو پہنچ گئی ہے جب میں نے یہ اعلان کیا تھا یعنی سات لاکھ نوے ہزار کا ٹارگٹ مقرر کیا تھا تو دفتر تحریک نے ہر بڑی جماعت اور ضلع کا نسبتی طور پر ٹارگٹ

Page 520

31 مقرر کر دیا یعنی چونتیسویں پینتسویں سال کا چندہ تھا اس کے ٹوٹل اور سات لاکھ نوے ہزار کی جو نسبت بنتی تھی اس نسبت سے تحریک نے کہا کہ ہر جماعت اور ضلع اتنا زیادہ دے دے تو جو ٹارگٹ ہے وہ پورا ہو جاتا ہے.اس نسبت سے یعنی سات لاکھ نوے ہزار کے ٹارگٹ کے لحاظ سے کراچی کو جتنا دینا چاہئے تھا اتنا اس نے دے دیا ہے.الحمد للہ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.اسی طرح اسلام آباد ہے پھر ضلع ہزارہ ہے پھر جہلم شہر ہے اسی طرح بنوں شہر ضلع ہے پھر ساہیوال شہر ہے، پھر ڈیرہ غازیخاں شہر ضلع ہے پھر بہاولپور شہر ضلع ہے اور اسی طرح ڈھا کہ شہر، ان سب نے اپنے تحریک جدید کے چندے اس نسبت سے بڑھا دیئے کہ جس نسبت سے سات لاکھ نوے ہزار کی رقم پوری کرنے کے لئے ان پر ذمہ داری آتی تھی اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزائے خیر عطا فرمائے.لیکن بعض ایسی جماعتیں بھی ہیں جو کچھ ست ہیں اور بعض ایسی جماعتیں ہیں جن سے ہم توقع رکھتے تھے کہ وہ اس طرف زیادہ توجہ دیں گی مگر انہوں نے توجہ نہیں دی مثلار بوہ ہے.ربوہ اپنے اس ٹارگٹ کو نہیں پہنچا اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے ربوہ کو تو باہر کی جماعتوں کے لئے نمونہ بنا چاہئے مگر یہ نمونہ نہیں بنے نہ صرف یہ کہ ربوہ کے دوست باہر کی جماعتوں کے لئے نمونہ نہیں بنے بلکہ انہوں نے کراچی اور دوسرے شہر واضلاع کے نمونے سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا ٹارگٹ کے لحاظ سے ربوہ کو نوے ہزار کی رقم دینی چاہئے تھی جس میں سے صرف ستاون ہزار کے وعدے ہیں.اسی طرح لاہور شہر کا حال ہے یہ امیر احمدیوں کا شہر ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی کامل روح موجود نہیں یا اس روح کو بیدار نہیں کیا گیا دوسری بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے روح تو ہے لیکن نظام جماعت لاہور نے اس روح کو کما حقہ بیدار نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کا بھی چورانوے ہزار ٹارگٹ بنتا تھا لیکن صرف بہتر ہزار کے وعدے ہیں پھر سیالکوٹ شہر ہے.انہیں پندرہ ہزار کا ٹارگٹ دیا گیا تھا ان کے دس ہزار کے وعدے ہیں (ویسے میں نے سینکڑے چھوڑ دیئے ہیں ہزاروں میں بات کر رہا ہوں ) اسی طرح راولپنڈی شہر ہے جس کے پہلو میں اسلام آبادشہر ہے جس نے اپنا ٹارگٹ پورا کر دیا ہے لیکن راولپنڈی شہر کا چون ہزار روپے ٹارگٹ بنتا تھا اور انہوں نے وعدے صرف تمہیں ہزار کے کئے ہیں لیکن قریباً پچپن فیصد ہیں یہ بہت پیچھے رہ گئے ہیں پھر ملتان شہر ہے اس کا ٹارگٹ سترہ ہزار تھا اور انہوں نے وعدے کیے ہیں گیارہ ہزار کے.دفتر نے یہ رپورٹ دی ہے کہ جو شہر یعنی ضلع کا صدر مقام پیچھے ہے وہاں کی ضلعی جماعتیں بھی پیچھے ہیں.یہ تو ایک طبعی بات ہے جب کسی جماعت نے توجہ نہیں کی اور سنتی دکھائی نظامِ جماعت نے اپنی ذمہ داری کو نہیں نباہا تو اگر ہر پیچھے ہے تو ضلع یقینا پیچھے ہوگا بلکہ غالباً کچھ زیادہ پیچھے ہوگا بہر حال ہمارے سامنے یہ بڑی افسوسناک تصویر آتی ہے اللہ تعالیٰ فضل کرے اور ہمیں اپنی ذمہ داری نباہنے کی توفیق عطا کرے.

Page 521

32 میں نے آپ کو کچھ معیار بھی بتائے تھے یعنی دفتر اول اس حساب سے اوسطا رقم دے رہا ہے دفتر دوم کی اوسط کیا ہے اور دفتر سوم کی اوسط کیا ہے اور چونکہ دفتر اول کی اوسط بہت اچھی تھی اور اب بھی ہے اسلئے میں نے اس میں زیادتی نہیں کی تھی دفتر اول میں جو حصہ لینے والے ہیں ان کی اوسط فی کس.64 روپے ہے اور یہ اوسط بڑی اچھی ہے کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ دفتر اول میں بہت سے احباب کافی بڑی عمر کے ہیں اور میرا یہ خیال ہے (اگر چہ اس حصہ کی میرے پاس رپورٹ تو نہیں لیکن ان کی میرے پاس جو روزانہ رپورٹیں آتی ہیں ان سے پتہ لگتا ہے) کہ دفتر اول کی مجموعی رقم کم ہوگئی ہے اور ہونی چاہئے تھی کیونکہ بڑی عمر کے لوگ اس میں شامل ہیں.وفات بھی انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے بعض دفعہ تو روزانہ یا دوسرے دن یہاں جنازہ آجاتا ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ زندگی تو فانی ہے ہمیشہ کے لئے دنیا میں تو کسی نے نہیں رہنا ہم یہاں آئے ہیں پھر گزرجائیں گے.تاہم دفتر اول والوں نے اپنی 64 کی اوسط برقرار رکھی ہے اور یہ بڑی خوشی کی بات ہے اللہ تعالیٰ انہیں بہترین جزاء عطا فرمائے 64 کے مقابلے میں دفتر دوم کی اوسط فی کس غالباًا.20 یا.21 تھی لیکن میں نے کہا اسے 30 تک لیکر جاؤ یہ اوسط بڑھی تو ہے لیکن 30 تک ابھی نہیں پہنچی صرف 24 تک پہنچی ہے.دفتر دوم وہ دفتر ہے جس نے دفتر اول کی جگہ لینی ہے اور عملاً خاموشی کے ساتھ لے رہا ہے.دفتر اول میں حصہ لینے والوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جارہی ہے کیونکہ نئے تو اس میں شامل نہیں ہور ہے.دفتر دوم کی تعداد زیادہ ہے اور انہوں نے ان کی جگہ لینی ہے اور پھر دفتر سوم نے دفتر دوم کی جگہ لینی ہے اور پھر دفتر چہارم آ جائے گا اپنے وقت پر جس نے دفتر سوم کی جگہ لینی ہے.دفتر اول کی اوسط فی کس اور دفتر دوم کی اوسط فی کس میں بڑا فرق ہے.ایک طرف 64 روپے فی کس اور دوسری طرف 24 روپے فی کس جس کا مطلب یہ ہے کہ 40 روپے فی کس کا فرق ہے اور یہ فرق ہمیں فکر میں ڈالتا ہے اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ دفتر دوم میں قربانی کی وہ روح نہیں جو دفتر اول میں پائی جاتی ہے یہ بھی ہے کہ دفتر دوم والوں کی آمد شروع تھوڑی ہوتی ہے مگر انسان ترقی کرتا ہے مثلاً جو دوست گورنمنٹ کے ملازم ہیں ان کی ہر سال ترقی ہوتی ہے جتنی بڑی عمر کے ہوں گے وہ زیادہ تنخواہ لے رہے ہوں گے پھر انسان تجربے میں بھی ترقی کرتا ہے ایک شخص نو کر نہیں لیکن تجارت کر رہا ہے شروع میں اسے تجربہ نہیں یا شروع میں اس کے پاس سرمایہ نہیں تھا پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کے مالوں میں برکت ڈالتا ہے وہ اپنے تجربے میں بھی ترقی کرتے ہیں اور ان کے سرمائے میں بھی ترقی ہوتی ہے، ان کی آمد بھی زیادہ ہونے لگ جاتی ہے یہ اپنی جگہ صحیح ہے لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ 64 اور 24 کی نسبت ہمارے دل میں بڑا فکر پیدا کرتی ہے.اس لئے ہمیں دفتر دوم کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے اور ان کے معیار کو بلند کرنا چاہئے.دفتر سوم میں بہت سے طالب علم بھی ہیں دفتر دوم میں بھی کچھ ہوں گے لیکن دفتر

Page 522

33 سوم کی نسبت بہت کم ہیں.دفتر سوم کا معیار 13 فیصد تھا.پھر میں نے کہا اسے بڑھا کر 20 تک لے جاؤ.یہ بڑھا تو ہے یعنی 13 سے 15 تک آگئے ہیں لیکن ابھی 20 تک نہیں پہنچے دفتر سوم کی دوذمہ داریاں انصار اللہ پر عاید ہوتی ہیں ایک یہ کہ دفتر سوم میں زیادہ کم عمر بچے ہیں یا وہ ہیں جن کی احمدیت میں کم عمر ہے یہ ہر دوتر بیت کے محتاج ہیں اور ان ہر دو کی تربیت کا کام خدام الاحمدیہ کا نہیں بلکہ انصار اللہ کا کام ہے مجموعی حیثیت میں وہ زیادہ تربیت یافتہ ہیں.یہ صحیح ہے کہ انصار اللہ میں بعض نئے احمدیت میں داخل ہو نیوالے بھی شامل ہو جاتے ہیں.انہیں ہم خدام الاحمدیہ یا اطفال میں تو نہیں بھیجتے مثلاً جو 45 یا 50 سال کی عمر میں آج احمدی ہوا ہے اور ہر مہینے بیسیوں اور سینکڑوں لوگ ایسے ہوتے ہیں.ایسے لوگ بہر حال اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ میں جائیں گے اور ان کی تربیت کمزور ہوگی لیکن زیادہ رواس وقت نو جوانوں میں ہے اور میں بڑا خوش ہوں ہماری اگلی نسل میں بڑوں کی نسبت دین کی طرف بھی اور اسلام کے حقیقی نور کی طرف بھی اور احمدیت کی طرف بھی زیادہ توجہ ہے اور بعض جگہ تو اس وجہ سے فکر پیدا ہوتی ہے دو تین جگہ سے یہ رپورٹ آئی ہے کہ انہوں نے ایک فتویٰ دے دیا تھا کہ احمدی کا فر ہیں اس کے مقابلے میں اس وقت تک دو چیزیں آگئی ہیں.میں ضمنا یہ بھی بتا دوں کہ دنیا جو مرضی کہتی رہے اگر ہمارا رب ہمیں کا فرنہیں کہتا تو ہمیں کوئی فکر نہیں لیکن چونکہ بہت سے احمدیت سے باہر ہیں وہ غلط راستے پر چل سکتے ہیں غلط نتائج لے سکتے ہیں اسلئے ہمیں بعض دفعہ کفر کے فتوؤں کا جواب دینا پڑتا ہے کہ ہائیکورٹ نے بھی یہ فیصلہ کیا اور قوم کے محبوب سیاسی رہنما قائد اعظم نے بھی یہ کہا وغیرہ وغیرہ.یہ جو نئے نئے احمدیت میں داخل ہوئے ہیں یا جو احمدی نہیں ہیں ان کے لئے ہمیں یہ چیزیں چھپوانی پڑی ہیں ورنہ ہمیں کیا ضرورت ہے؟ جس کے کان میں اللہ تعالیٰ یہ کہ رہا ہو کہ میں تجھے مسلمان سمجھتا ہوں اسے کسی اور کے فتوے کی ضرورت تو باقی نہیں رہتی.اللہ تعالیٰ کا فرمان کافی ہے اور الْحَمْدُ لِلَّهِ وہ ہمیں یہی کہہ رہا ہے میں تمہیں مسلمان سمجھتا ہوں لیکن جب ہم دوسروں کے لئے چھپواتے ہیں.جماعت احمدیہ لاہور کے ایک دوست نے کچھ پوسٹر شائع کئے تو دو تین جگہ سے یہ رپورٹ آئی کہ جب یہ پوسٹر لگائے جارہے تھے تو چونکہ ہمارے خلاف تعصب بھی ہے اور یہ تعصب جہالت کے نتیجہ میں ہے یا عدم علم کے نتیجہ میں ہے.یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں صحیح واقفیت بہم پہنچائیں اس لئے ایسے موقع پر ہمیں ان کے اوپر رحم ہی آتا ہے اپنے اوپر غصہ آتا ہے کہ ہم نے صداقت صحیح رنگ میں ان تک کیوں نہیں پہنچائی بہر حال تعصب ہے) چنانچہ کئی لوگ کھڑے ہو گئے کہ ہم یہ پوسٹر نہیں لگانے دیں گے اس پر کئی غیر احمدی دوست ان کے مقابلے پر کھڑے ہو گئے کہ ہم دیکھیں گے تم کس طرح پھاڑتے ہو پس ایسی لڑائی میں ہم شامل تو نہیں ہو نگے لیکن ملوث سمجھے جائیں گے حالانکہ وہاں کوئی احمدی نہیں لڑے گا کیونکہ لڑنے کا تو نہ ہمیں حکم ہے اور نہ ہمیں ایسی تربیت دی گئی ہے لیکن جن کی توجہ غلبہ اسلام کی اس مہم کی طرف ہوتی ہے ان کو جوش

Page 523

34 آجاتا ہے اور ہمیں وہاں خاموش ہی رہنا پڑتا ہے.1953ء میں جب کالج پر کئی طرف سے انہوں نے یورش کی تو ایک ایسا گروہ آیا جس نے پتھراؤ کیا.تعلیم الاسلام کا لج اس وقت لاہور میں ڈی.اے.وی کالج کی بلڈنگ میں تھا چنانچہ جب کالج پر پتھراؤ کیا گیا تو ان کے مقابلے میں ہمارے طالبعلموں نے بھی پتھراؤ کیا.مجھے جب پتہ لگا تو میں بڑا پریشان ہوا کہ انہوں نے احمدیت کی تربیت کے خلاف ایسا کیسے کر دیا؟ دراصل ہمارے کالج کے ہوٹل میں 60 فیصد طالب علم ایسے تھے جو احمدی نہیں تھے.جب میں نے تحقیق کی تو مجھے پتہ لگا کہ جن لڑکوں نے جوابا پتھراؤ کیا ہے.ان میں ایک بھی احمدی نہیں تھا لیکن چونکہ وہ ہمارے درمیان رہتے تھے ہمارے طالب علموں کو دیکھتے تھے ہمارے ساتھ ان کا تعلق تھا انہیں یہ پتہ تھا کہ یہ مظلوم جماعت ہے اس لئے ان کو غصہ آ گیا اور جوابی پتھراؤ کیا مگر اس میں احمدی طلبہ ملوث نہیں تھے.انکوائری کمیشن میں آئی جی انور علی صاحب نے اس بات کو پیش کرایا کہ دیکھیں جی یہ دونوں طرف سے ہو جاتا ہے اس سے زیادہ پیش آ جاتا ہے تعلیم الاسلام کالج پر جب حملہ ہوا تو اندر سے بھی پتھراؤ ہو گیا میرے ساتھی میرے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ آپ کو پتہ ہے کہ اس پتھراؤ میں احمدی طلباء شامل نہیں تھے اس لئے ہماری طرف سے یہ موقف لینا چاہئے کہ یہ غیر احمدی طلباء کا کام ہے میں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا جنہوں نے پیار کے ساتھ ہمارا ساتھ دیا ہے ہم ان کے خلاف انکوائری کمیشن میں کچھ نہیں کہیں گے ہمیں وہ بدنام کرتے ہیں تو کرتے رہیں لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ طالب علم جو احمدی نہیں تھے ان کو اپنے کالج کے لئے جوش اور غیرت آئی اور انہوں نے ہماری خاطر ایک قدم اٹھا یا بے شک وہ ہمارے نزدیک غلط قدم تھا لیکن ان کے نزدیک تو درست تھا اگر ان کا قدم غلط ہے تو باہر سے بھی پتھراؤاندر نہیں آنا چاہئے تھا اور اندر سے بھی باہر پتھر نہیں جانا چاہئے تھا لیکن جنہوں نے ہماری خاطر یہ قدم اٹھایا ہے ہم ان کے خلاف یہ قدم نہیں اٹھائیں گے وہ احمدی نہیں تھے غیر احمدی تھے وہ تو ہمارے ہیں چاہے احمدی ہیں یا نہیں ہماری خاطر انہیں غیرت آئی ہماری خاطر انہیں جوش آیا پس ہمیں فکر یہ رہتا ہے کہ کام کوئی کرے گا اور نام ہمارا بدنام ہوگا ہمارا موقف پیارکا موقف ہے ہم ان کو بدنام نہیں کریں گے جو ہماری خاطر غلطی کر رہے ہوں گے اپنے سر لے لیں گے.غرض یہ نوجوان طبقہ اس وقت احمدیت کی طرف زیادہ توجہ کر رہا ہے اور ہم پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے پڑھے لکھے طالب علم ہیں لیکن اکثر مظلوم ہیں ان سے بھی کوئی پیار نہیں کرتا ایک دفعہ بہت سے غیر احمدی طالب علم مجھ سے ملنے آئے ان میں کئی ایک لیڈر ٹائپ کے تھے جب میں اٹھا تو ایک لیڈ ر طالب علم کے منہ سے ایک ایسا فقرہ نکلا جسے سن کر مجھے خوشی بھی ہوئی لیکن مجھے دکھ بھی بہت ہوا جب ہم ڈیڑھ دو گھنٹے کی ملاقات کے بعد فارغ ہوئے اس کے بعد مصافحہ کرنا تھا وہ میرے دائیں طرف بیٹھا ہوا تھا پہلے اسی سے میں نے مصافحہ کرنا تھا.وہ آہستہ سے مجھے کہنے لگا کہ آج پہلی دفعہ کسی شریف آدمی نے ہم سے شرافت سے باتیں

Page 524

35 کی ہیں.مجھے یہ سن کر خوشی تو ہوئی کہ اس طرح جماعت کا اس پر اثر ہوالیکن مجھے انتہائی دکھ ہوا کہ وہ نسل جس کے اوپر قوم کی ساری ذمہ داری پڑنے والی ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں عقل دی ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں فراست دی ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں جذبہ دیا ہے وہ آگے نکلنے والی نسل ہے میں یہ نہیں کہتا کہ ان سے کبھی کسی نے شرافت سے بات کی ہے یا نہیں میں یہ ضرور کہوں گا کہ ان کے دل میں یہ احساس ہے کہ ہم سے کسی نے کبھی شرافت سے بات نہیں کی اور اصل تو احساس ہوتا ہے پس جہاں مجھے تھوڑی بہت خوشی ہوئی وہاں مجھے بڑی تکلیف بھی ہوئی پس یہ پیارے بچے اب آرہے ہیں اور آئیں گے ان کی تربیت انصار اللہ کا کام ہے یہ کام میں نے خدام الاحمدیہ کے سپرد نہیں کیا اس طرف توجہ دینی چاہئے دفتر سوم کے چندے کی فی کس اوسط 13 سے 15 تک پہنچ گئی ہے یہ خوشکن ہے لیکن 20 تک ان کو پہنچنا چاہئے اور اس سال پہنچنا چاہئے انصار اللہ ہر جگہ جائزہ لیں اور اپنی تھوڑی سی مستیاں ترک کر دیں تو زیادہ اچھا ہے حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں" خطبات ناصر جلد سوم صفحہ 377-384) تربیت کی ذمہ داری انصار کی ہے حضور نے خطبہ جمعہ 23 اکتوبر 1970 ء کو فرمایا.دفتر سوم کو جس میں روز بروز ترقی ہوتی چلی جائے گی کیونکہ نو جوانوں کو اس طرف بڑی توجہ پیدا ہو رہی ہے.وہ آئیں گے تو دفتر سوم میں داخل ہو جائیں گے دفتر سوم میں جب داخل ہونگے غیر تربیت یافتہ ہوں گے آج احمدی ہوئے کل کو اس نے تحریک جدید کا چندہ لکھوا دیا اس پر ذمہ داری پڑ گئی جو ہر احمدی نوجوان پر پڑتی ہے اس کو اپنا نفس مارنا پڑے گا اس کو گالیاں سن کر بجائے چیڑ لگانے کے دعا دینی پڑیگی اسے بڑے زبر دست ضبط اور نفس پر قابو پانے کی ضرورت ہے.دوسروں کو تو بڑا آرام ہے ،غصہ آیا چپیڑ لگا دی.ایک چپیڑ کھالی ایک چیڑ لگا دی ، پر ایک احمدی کی نہ یہ تربیت ہے اور نہ اسے یہ زیب دیتا ہے اسے تو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ چیڑ کھاؤ اور دعا دو اور دل جیتو ہم نے لوگوں کے سر پھاڑ کر ترقی نہیں کرنی بلکہ غلبہ اسلام کی یہ ہم لوگوں کے دل جیت کر سر ہوگی.جس طرح یورپ سے میں نے جا کر کہا تھا کہ تمہارے دل جیتیں گے اور اسلام کو پھیلائیں گے اسی طرح میں یہاں بھی کہتا ہوں.کسی سے ہماری دشمنی اور لڑائی نہیں ہم دل جیتیں گے اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو پھیلائیں گے.اس لئے جب تم چپیڑ کھاؤ گے تو چپیڑ کا جواب چپیڑ سے نہیں دینا.اسلئے بڑی زبردست تربیت کی ضرورت ہے نفس کی مثال گھوڑے کی ہے نفس یا تو منہ زور گھوڑا بن سکتا ہے یا

Page 525

36 مطیع گھوڑا بن سکتا ہے گھوڑے میں بڑی طاقت ہے اگر چاہے اور مطیع نہ ہو تو دس آدمیوں کو کھینچ کر لے جائے، لگام آپ جتنی مرضی کھینچتے رہیں وہ کوئی پرواہ نہیں کرتا اسی طرح نفس امارہ اور اس کی بدیاں بڑی زور دار ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت کی اور عاجزانہ دعاؤں کی لگام اس کے منہ میں پڑنی چاہئے اور اس کو ایک ہلکا سا اشارہ کافی ہونا چاہئے گھوڑے کو جو سکھایا جاتا ہے صرف اشارہ سکھایا جاتا ہے.اسے یہ نہیں بتایا جاتا کہ میں تم سے زیادہ طاقتور ہوں، یہ بتایا جاتا ہے کہ میں تم سے زیادہ ہوشیار ہوں تمہیں میرے اشارے پر چلنا پڑے گا.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ گھوڑے کو ہم نے تمہارے لئے مسخر کیا ہے اور یہی گھوڑے کو سمجھایا جاتا ہے ویسے لگام کا اشارہ ہوتا ہے لیکن اگر اچھا گھوڑا ہو تو سوار اگر بغیر لگام کے اشارے کے ٹھہرانا چاہے تو وہ کھڑا ہو جاتا ہے پس نفس کو بھی اسی طرح مطیع ہونا چاہئے یہ نہیں کہ جو مرضی کرے آپ کا شعور یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اچھے کھانے نہ کھاؤ اس وقت مجھے تمہارے پیسوں کی اسلئے ضرورت ہے.تم اپنے جسموں کو کھانے سے اسلئے محروم کرو کہ کسی اور روح کو تمہارے پیسے کی ضرورت ہے تو بہر حال یہ روح جسم پر مقدم ہے پس اپنے جسم کی آسائش اور اچھے کھانے کی لذت کی قربانی دو تا کہ کوئی اور روح جہنم سے بچائی جاسکے اور یہ تربیت نفس کو آپ نے دینی ہے وہ جو باہر سے آئیں گے وہ تو اور بھی فکر مند کر دیں گے کہ پہلوں کی جو تربیت ہے اس میں رخنہ نہ پڑ جائے.ان کو آتے ہی سنبھالنا چاہئے اور پیار کے ساتھ اور محبت کے ساتھ صحیح راستہ پر ان کولگادینا چاہئے یہ ذمہ داری انصار اللہ پر ہے" خطبات ناصر جلد سوم صفحہ 387-389) ہمدردی مخلوق انصار اللہ کا بھی کام ہے حضور نے 16 اکتوبر 1970ء کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کے اختتامی خطاب میں فرمایا." پھر ہمدردی مخلوق ہے.میں نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے ہمارے سب چھوٹوں اور بڑوں کا کام ہی ہمدردی مخلوق ہے.انصار کا بھی یہ کام ہے اور آپ کا بھی یہ کام ہے.(دراصل انصار بھی خادم ہیں صرف نام بدلا ہے ).جماعت احمدیہ پیدا ہی دنیا کی خدمت کے لئے ہوئی ہے ہم نے دنیا سے بہر حال ہمدردی کا سلوک روارکھنا ہے.مجھے یاد آ گیا میں افریقہ میں گیا تو جب میں یہ بات کہتا تھا کہ اسلام ہمدردی مخلوق کی تلقین کرتا ہے تو وہ حیران رہ جاتے تھے اور اس کا بڑا اثر لیتے تھے اور بڑے خوش ہوتے تھے.میں ان سے کہتا تھا کہ میں آپ کے لئے محبت کا پیغام لے کر آیا ہوں ، مساوات کا پیغام لے کر آیا ہوں.ایک

Page 526

37 دفعہ میں نے ان سے کہا کہ تمہاری عزت اور احترام کا سورج طلوع ہو چکا ہے، اب آئندہ دنیا تمہیں نفرت اور حقارت سے نہیں دیکھا کرے گی ہم اس کے ضامن ہیں." مشعل راه جلد دوم صفحه 252-253) انصار ماحول کو ہداثرات اور گندی باتوں سے محفوظ رکھیں حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع پر مورخہ 17 اکتوبر 1970ء کو اطفال الاحمدیہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا.یہ ماحول جس میں آپ رہ رہے ہیں.اس میں تو لوگ خدا کو نہ اس طرح پہچانتے ہیں نہ اس کے فضلوں کو جانتے ہیں جس طرح خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اس کی صفات کی معرفت رکھیں اور اس کو پہچانیں اور اس کے فضلوں کو دیکھیں.اس واسطے سے ماحول کے بداثرات اور گندی باتیں آپ پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں اور ان سے آپ کو محفوظ رکھنا یہ جماعت کا اور خدام الاحمدیہ کا اور اطفال الاحمدیہ کا اور انصار جو بزرگ ہیں غرض ساری تنظیموں کا یہ کام ہے." ( مشعل راه جلد دوم صفحه 262)

Page 527

38 $ 1971 اپنے رب سے تعلق کی پختگی انصار اللہ کی عمر سے بھی تعلق رکھتی ہے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ 19 نومبر 1971ء کو فرمایا." دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے رب سے تعلق کی پختگی صرف نو جوانی کی عمر سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ انصار اللہ کی عمر سے بھی تعلق رکھتی ہے.شاید کوئی شرمائے کہ وہ دھیلے سے آگے نہیں بڑھ رہے تھے.انصار اللہ کا چندہ ایک دھیلہ فی روپیہ ہے.اُس وقت بھی دھیلہ تھا جب روپے کے چونسٹھ پیسے تھے اور اس وقت بھی دھیلہ ہے جبکہ روپے کے یک صد پیسے ہو گئے ہیں.بہر حال خلیفہ وقت کا کام سہارا دینا بھی ہے اس لئے میں نے سہارا دے دیا اور انصار اللہ کے چندے کی جو شرح ہے وہ میں نے دھیلے سے بڑھا کر پیسہ کر دی ہے اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ سب کو بھی جن کی عمر زیادہ ہے اس کی توفیق عطا فرمائے.(آمین) اس عمر میں تو ہمیں زیادہ فکر ہونی چاہئے.یا تو یہ ہو کہ انصار اللہ کے جو کام ہیں اُن کی ضرورت نہیں رہی.خدام جن کے پاس کبھی پیسہ اکٹھا ہی نہیں ہوتا تھا اور انصار سے مانگ مانگ کر ہم اپنی ضرورتیں پورا کیا کرتے تھے مگر اب یہ ہے کہ اُن کا چندہ انصار سے کئی گنا زیادہ ہوگیا ہے اس کی ایک وجہ تو میں نے پہلے بتائی تھی کہ پچھلی پود کثرت سے جوانی کی طرف بڑھ رہی ہے.اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے اگر جماعت کی تعداد وہی رہتی تو پھر تو یہ شکل نہ بتی لیکن آج سے تہیں سال پہلے جو نسبت انصار اور خدام کی تعداد میں تھی آج وہ نسبت نہیں ہے.صحیح طور پر تو مجھے علم نہیں اور نہ کبھی اس قسم کی مردم شماری ہوئی ہے لیکن اگر فرض کر تو میں سال پہلے پچاس فی صد احمدی نوجوان یعنی پندرہ سال سے اوپر کی عمر کے خدام میں شامل تھے تو پچاس فیصد انصار میں شامل تھے مگر آج نہیں سال کے بعد یہ شکل نہیں رہی.آج یہ شکل ہے کہ میں فیصد انصار میں شامل ہیں اور ستر فیصد خدام میں شامل ہیں کیونکہ پیچھے سے اللہ تعالیٰ کے فضل کا ایک بڑا ریلا آ رہا ہے.ہم ہر لحاظ سے بڑھ رہے ہیں.نئے نوجوان احمدی ہورہے ہیں اور ہماری احمدی بہنیں بہت بچے پیدا کر رہی ہیں.وہ بیچاری تکلیف اُٹھا کر یہ قربانی دے رہی ہیں خدا کرے وہ بھی اور زیادہ قربانی دیں.اب بھی بہت سی بہنیں قربانی دے رہی ہیں.یعنی اپنے بچے احمدیت کے نام پر خدا کے لئے وقف کرنے کی شکل میں وہ پیدا کر رہی ہیں یعنی وقف کے لئے یہی ضروری نہیں ہے کہ تحریک جدید کا واقف ہو.نیت وقف کی ہونی چاہئے ان کی تربیت کا بھی خاص خیال رکھیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی بھی توفیق بخشے.(آمین) بہر حال انصار اور خدام کی تعداد میں بڑا فرق پڑ گیا اور پھر اس وجہ سے چندوں میں بھی فرق پڑ گیا

Page 528

39 پھر خدام الاحمدیہ، جن کی عمر سولہ سے چالیس تک ہے ان کی مجموعی آمدنی جتنی تمہیں سال پہلے تھی اس وقت یقیناً اس سے سو گنا زیادہ ہے.غرض اللہ تعالیٰ بڑے فضل کر رہا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ انصار اللہ والے کیوں مایوس ہو جائیں کہ اُن پر اللہ تعالیٰ فضل نہیں کرے گا پس وہ دھیلے سے پیسہ شرح چندہ مقرر کریں.اللہ تعالیٰ ان کے مال میں بھی برکت دے گا بہر حال یہ ذیلی چیزیں ہیں جن کی طرف میں نے توجہ دلا دی ہے" ( خطبات ناصر جلد سوم صفحہ 509-510)

Page 529

40 1972 انصار اللہ ، ربوہ کے ہر شہری کے لئے ورزش کا انتظام کروائے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ 3 مارچ 1972ء میں فرمایا." جہاں تک قوت کا تعلق ہے، اس کے بعض پہلو ورزش سے نشو و نما پاتے ہیں.اس لئے جسمانی ورزش کی طرف توجہ دینا ضروری ہے.جوان کو بھی اور بوڑھے کو بھی.( بوڑھا تو میں کسی کو نہیں کہا کرتا اس لئے میں کہوں گا ) جو ان کو بھی اور جوانوں کے جوان یعنی انصار اللہ کو بھی.مرد کو بھی اور عورت کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے.کبھی توجہ ہو جاتی ہے کچھ اور کبھی بھول ہو جاتی ہے بہت سی.اس لئے چند دن ہوئے بچوں کے ایک اجتماع میں میں نے ایک اعلان کیا تھا.میں آج اسے دُہرانا چاہتا ہوں کیونکہ یہ ساری جماعت کی ذمہ واری ہے.میں نے اُس اعلان میں بچوں سے یہ کہا تھا کہ تم ربوہ میں کھیلوں کو منظم کرنے کا کام سنبھالو کیونکہ اس انتظام میں اکثر نوجوان ہی آگے آئیں گے اور ان کو میں نے اس انتظام کی یہ شکل بھی بتائی تھی کہ دو نمائندے تعلیم الاسلام کالج کے ، دو جامعہ احمدیہ کے، دو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے، دو خدام الاحمدیہ کے اور دو انصار اللہ کے مل کر سر جوڑیں اور ایسا انتظام کریں کہ ربوہ کا ہر شہری روازنہ ورزش کیا کرے" (خطبات ناصر جلد چہارم صفحہ 70) ستی دکھلانے والے عہد یداران کو عہدیداران رہنے کا کوئی حق نہیں حضور نے خطبہ جمعہ 14 اپریل 1972 ء میں فرمایا."پس جن جماعتوں نے اپنا بجٹ پورا کر کے دس فیصدی زائد چندے دینے کی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے وہاں آپ کو جماعتی نظام یعنی جو عہدیدار ہیں وہ ہر لحاظ سے خصوصا وقت کی قربانی کے لحاظ سے زیادہ تندہی سے کام کرنے والے یا زیادہ وقت دینے والے نظر آئیں گے.غرض جہاں تک اموال کی قربانی کا سوال ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری جماعت آگے بڑھنے کی تمنا، خواہش اور تڑپ رکھتی ہے اسی طرح جہاں تک نظام جماعت کا سوال ہے اکثر جگہ بڑا اچھا نظام قائم ہے.عہد یداروں کی اکثریت ایسی ہے جو علاوہ دوسری قربانیوں کے اوقات کی قربانی بھی دے رہے ہیں لیکن بعض جگہیں ایسی بھی نظر آتی ہیں.جہاں باوجود اس کے کہ جماعت کے افراد ہر قسم کی قربانی بشمول اموال کی

Page 530

41 قربانی دینے کے لئے تیار ہیں.مگر عہدیداروں کی سستی کی وجہ سے نتیجہ ٹھیک نہیں نکلتا.جہاں بھی ایسے عہد یدار ہیں جو اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے یعنی ایمان کی کمزوری کی وجہ سے یا نا اہلیت کی وجہ سے یا احساس ذمہ داری کے فقدان کے نتیجہ میں سنتی دکھاتے ہیں ان کا بہر حال کوئی حق نہیں کہ وہ عہد یدار ر ہیں ان کو بدلنا پڑے گا" خطبات ناصر جلد چہارم صفحہ 162-163) انصار کو اجتماعات کے موقع پر تسبیحات پڑھنے کی تلقین حضور نے خطبہ جمعہ 17 نومبر 1972ء میں فرمایا."جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں آج انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کا اجتماع شروع ہو رہا ہے....6 go.....غرض انصار اللہ بجنات دونوں کے اجتماع آج شروع ہورہے ہیں.امت محمدیہ میں جب بھی اجتماع ہوں اس بارہ میں قرآن کریم کی ایک ہدایت موجود ہے جسے بھولنا نہیں چاہئے اور وہ یہ ہے کہ جب بھی دینی اجتماع ہو اس وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید اور توبہ و استغفار بڑی کثرت سے کرنا چاہئے.اس پر نہ تو کوئی پیسہ خرچ ہوتا ہے اور نہ وقت لگتا ہے.یہ صرف عادت کی بات ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ ان دنوں کثرت سے سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 25 ) کا ورد کریں.تسبیح وتحمید سمیت درود پڑھنے کی تحریک تو میں پہلے بھی کر چکا ہوں.پھر استغفار ہے یعنی اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِي مِنْ كُلِّ ذَنْبِ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ بھی کثرت سے پڑھنا چاہئے.اس کے ساتھ جو دوست لَا حَول پڑھ سکیں وہ لَا حَولَ بھی پڑھیں.میرا تجربہ ہے کہ استغفار کرنا اندرونی کمزوریوں کے دور کرنے کے حق میں اکسیر کا حکم رکھتا ہے اور لا حول بیرونی حملوں کے شر سے حفاظت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.پس لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَ نَّكُمُ (ابراہیم : 8 ) کی رو سے آپ جتنی زیادہ تسبیح وتحمید کرینگے آپ اپنے محسن اور انسانیت کے محس صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنا زیادہ درود پڑھیں گے اتنے ہی زیادہ آپ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے انصار اللہ کا اجتماع عملاً جمعہ کے بعد شروع ہو جاتا ہے.اسلئے دوست ابھی سے تسبیح و تحمید اور درود و استغفار پڑھنے لگ جائیں اور اگر ہو سکے تو اپنے اس ورد میں لا حول کو بھی شامل کر لیں.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر اپنے فضل نازل فرمائے.اسکی جو برکات ہمارے لئے مقدر ہیں اور ان برکات کے حصول کیلئے جس قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں وہ قربانیاں دینے

Page 531

42 کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں قبول بھی فرمائے.یعنی ہمیں مقبول ایثار کی مقبول قربانیوں کی توفیق عطا ہوتا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی رحمتوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بنیں اور انسان کے ضمن میں دنیا کی بحیثیت مجموعی جو ذمہ داریاں ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں ہم ان ذمہ داریوں کو الہی توفیق سے بہتر رنگ میں ادا کر سکیں" انصار اللہ کا رومال خطبات ناصر جلد چہارم صفحه 504-506) حضور نے 5 اکتوبر 1972ء کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع پر افتتاحی خطاب میں فرمایا.قبل اس کے کہ میں اس وقت وہ باتیں کہنا شروع کروں جن کے کہنے کا ارادہ لے کر میں یہاں آیا ہوں، میں خدام کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم نے خادم کی علامت کے طور پر ایک رومال تجویز کیا ہے.کیونکہ وقت کم تھا اس لئے یہ صرف پانچ سو کے قریب تیار ہو سکے ہیں جن میں سے نصف کے قریب تو نو جوان بچوں نے خرید لئے ہیں اور نصف ابھی پڑے ہوئے ہیں.خدام کو چاہئے کہ وہ بھی خرید لیں کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ساری دنیا میں ہر خادم اسلام کے پاس یہ رومال ہونا چاہئے.اس رومال میں ایک چھلا پڑتا ہے.یہودی بڑی ہوشیار قوم ہے.وہ دنیا میں ہر لحاظ سے اپنی بڑائی پھیلانے کی کوشش کرتی رہتی ہے.اس سلسلہ میں ان کے بعض خاموش ذرائع بھی ہیں.غرض ان کی دنیوی شہرت کا ایک ذریعہ چھلا بھی بنا اور انہوں نے گردن میں ڈالنے والے رومال کیلئے جو چھلا بنا رکھا ہے، اس پر سانپ کی شکل بنادی ہے اور اس طرح گویا انہوں نے ہر مسلمان کے گلے میں جو یہ رنگ استعمال کرے، اپنی یہ علامت ڈال دی ہے.چنانچہ جس وقت مجھے اس رومال اور چھلے کا خیال آیا تو میں نے سوچا ہمیں اپنے لئے رنگ (چھلے ) خود تجویز کرنے چاہئیں اور اسی طرح سکارف ( رومال ) کا نمونہ بھی خود ہی بنانا چاہئے.مجھے یاد آیا کہ پین میں الحمرا کی دیواروں پر مجھے چار فقرے نظر آئے تھے.(1) لا غَالِبَ إِلَّا اللہ جو بڑی کثرت کے ساتھ لکھا ہوا تھا.(2) الْقُدْرَةُ لِلَّهِ (3) الحُكْمُ لِلَّهِ (4) الْعِزَّةُ للہ.ان سے فائدہ اٹھا کر یہ تجویز کی ہے.عام اطفال اور خدام یعنی ہر رکن کیلئے الْقُدْرَةُ لِلَّهِ کا رنگ یعنی چھلا ہے اور جو عہدہ دار ہیں ان کیلئے الْعِزَّةُ لِلہ کا.اور یہی لجنہ اماءاللہ کا نشان ہے.البتہ ان کے رومال کا

Page 532

43 رنگ مختلف ہے.ویسے تو جھنڈوں کیلئے عام طور پر سبز رنگ ہوتا ہے مگر ہمارے اس رومال کا رنگ کالا اور سفید اس لئے ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو جھنڈے تھے وہ یا کالے رنگ کے تھے اور یا سفید رنگ کے تھے چنانچہ پہلی بار جب ہماری جماعت کا جھنڈا بنا تھا اس وقت حضرت مصلح موعود نے اس سلسلہ میں چھان بین کرنے کیلئے ایک کمیٹی مقرر فرمائی تھی جس میں مجھ خاکسار کو بھی شامل کر دیا تھا.چنانچہ اس پر ہم نے پوری چھان بین کی تو ہمیں یہی پتہ لگا تھا کہ ان دو رنگوں کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کا اور کوئی رنگ نہیں تھا.اس واسطے ہم نے جماعت کے جھنڈا میں سیاہ اور سفید رنگوں کا ایک امتزاج پیدا کر دیا ہے اور یہی دو رنگ یعنی سیاہ اور سفید ہمارے اس رومال میں بھی آئے ہیں اور ایک دوسری شکل میں ناصرات اور لجنہ اماء اللہ کے رومال میں آئے ہیں اور تیسری شکل میں انشاء اللہ انصار اللہ کے رومالوں میں آئیں گے.انصار اللہ کو چاہئے کہ وہ مجھ سے مشورہ کر کے اپنے رومال تیار کریں.ان کے اجتماع میں ابھی کچھ وقت ہے اس وقت کچھ نہ کچھ تو ضرور تیار ہو جانے چاہئیں.ان کیلئے میں رومالوں کی کوئی اور شکل تجویز کروں گا.تاہم انصار اللہ کے چھلے کیلئے لا غَالِبَ إِلَّا اللہ کا نشان مقرر کیا گیا ہے.چاہے وہ عام رکن ہو، چاہے وہ مجلس انصار اللہ کا کوئی عہدہ دار ہو سب کا یہی نشان ہوگا".(مشعل راه جلد دوم صفحه 345-346) جوانوں کے جوان یعنی انصار، ماہنامہ انصار اللہ میں دلچسپی لیں حضور نے 1972ء کے جلسہ سالانہ کے دوسرے روز مورخہ 27 دسمبر کے خطاب میں فرمایا." پھر ماہنامہ انصار اللہ ہے جس کا تعلق جماعت کے اس حصہ سے ہے جن کو میں بوڑھے کہنے کی بجائے ” جوانوں کے جوان“ کہا کرتا ہوں.اس لئے جوانوں کے جوان اس میں دلچسپی لیں." خطابات ناصر جلد اول صفحہ 537)

Page 533

44 $ 1973 احیائے دین اور قیام شریعت کی بھاری ذمہ داری عہدیداران پر عائد ہوتی ہے حضرت خلیفتہ امیج الثالث رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ 16 اپریل 1973ء میں فرمایا.قرآنی تعلیم پر عمل پیرا رہنا ہماری زندگی کا اولین مقصد ہے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق يُخي الدِّينَ وَيُقِيمُ الشَّرِيعَةَ ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 55 ) کا الہام ہے.اس الہام کی رو سے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وساطت سے آپ کو یہ بشارت بھی دی اور احیائے دین اور قیام شریعت کی بھاری ذمہ داری بھی آپ پر عائد کی گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ آپ دین کا احیاء فرمائیں گے دین کی جو باتیں لوگ بھول گئے ہیں وہ اُن کو دوبارہ یاد کرائیں گے.ویسے دین تو حسی یعنی زندہ ہے اسلامی شریعت تو ابدی ہے لیکن اس پر عمل کرنے والوں پر شرعی لحاظ سے جب مردنی چھا جاتی ہے تو احیائے دین یعنی بنی نوع انسان کو دین پر قائم کرے اور انہیں ایک نئی روحانی زندگی دینے کے لئے کسی آسمانی وجود کی ضرورت ہوتی ہے.چنانچہ اسی غرض کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ہوئی ہے یعنی شریعت حقہ اسلامیہ کو قائم کرنے کیلئے آپ کو مبعوث کیا گیا ہے یہ وہ عظیم الشان فریضہ ہے جس کو سر انجام دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مہدی معہود علیہ السلام کو مرسل بنا کر اس دُنیا میں بنی نوع انسان کی طرف بھیجا ہے.پس ان واضح ہدایات کے باوجود اگر کوئی احمدی ایسا نہیں کرتا تو وہ احمدیت سے نکل جاتا ہے لیکن اگر وہ بے جانے بوجھے ایسا نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے کہ ہم نے اُس کے کانوں میں یہ باتیں بار بار نہیں ڈالیں اس صورت میں اس کی غلط روش کے ذمہ دار ہم ٹھہرتے ہیں.مجھ پر یہ ذمہ داری آتی ہے.جماعت کے عہدیداروں پر ذمہ داری آتی ہے.شاہدین مربیان پر ذمہ داری آتی ہے.صرف عہد یداران یا مربیان کا سوال نہیں بلکہ تَعَاوَنُوْاعَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوى (المائدة: 3) کی رو سے ہر ایک احمدی پر اپنے اپنے مقام کے لحاظ سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ہم سب پر یہ ذمہ داری عقلاً اور شرعاً معروف باتوں کے متعلق ہے" ( خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ 103-104)

Page 534

45 اجتماعات کے موقعوں پر طہارت ظاہری و باطنی کا خیال رکھنا چاہئے حضور نے خطبہ جمعہ " اس نقطہ نگاہ سے اہل ربوہ کو جن ذمہ داریوں کی طرف میں آج توجہ دلانا چاہتا ہوں ان میں پہلی ذمہ داری کا تعلق طہارت ظاہری کا خیال رکھنے سے ہے.میں اس سے پہلے بھی کئی موقعوں پر احباب ربوہ کو توجہ دلا چکا ہوں کہ وہ ربوہ کی صفائی کریں بلکہ ربوہ کو دلہن کی طرح سجادیں اور اب تو یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ پہلی دفعہ بیرونی ملکوں سے بھی خدا اور اسکے رسول کے مہمان آ رہے ہیں.........دوسری بنیادی ذمہ داری طہارت باطنی سے متعلق ہے.اجتماعات کے دنوں میں جہاں بہت سے لوگ اکٹھے ہو جا ئیں تو بہت سے دباؤ بھی پڑتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اسی لئے فرمایا ہے فَلَا رَفَتَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جَدَالَ فِي الْحَجّ.(البقرہ: 198) کیونکہ حاجیوں کا بہت کثرت سے ہجوم ہوتا ہے اس لئے رفت ، فسوق اور جدال سے منع کیا گیا ہے تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حج کے موقع پر تو یہ نہیں ہونا چاہئے دیگر اجتماعات پر کوئی حرج نہیں یعنی لوگ آپس میں لڑیں جھگڑیں اور دوسری بداخلاقیاں کریں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں بھی اجتماع ہو وہاں اجتماعی اخلاق کا مظاہرہ ہونا اور اجتماع کے نتیجہ میں جن کمزوریوں کے پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ان کمزوریوں سے بچنے کی کوشش ہونی چاہئے" ( خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ 346-347) ذیلی تنظیمیں اپنے اپنے زیر انتظام تین تین کمروں پر مشتمل گیسٹ ہاؤس غیر ملکی مہمانوں کے لئے بنوائیں حضور نے جلسہ سالانہ 1973ء کے اختتامی خطاب میں مورخہ 28 دسمبر کو فرمایا."مرکز سلسلہ میں جلسہ سالانہ پر اقوام عالم کے وفود کی شرکت کا جو نظام جاری ہوا ہے اس کو مضبوط کیا جائے.اس میں بعض وقتیں بھی ہیں.مثلاً ان کی رہائش کی، ان کے آرام و آسائش کی دقت ہے.اس دفعہ ان کو مختلف جگہوں پر ٹھہرایا گیا ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن سوچ رہی ہے کہ وہ ایک گیسٹ ہاؤس بنا دے جو 20 رہائشی کمروں پر مشتمل ہو.میں نے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ ور لجنہ اماءاللہ کی ذیلی تنظیموں کو بھی کہا ہے کہ وہ اپنے اپنے زیرانتظام تین تین کمروں پر مشتمل ایک ایک گیسٹ ہاؤس بنوائیں.اس طرح موجودہ گیسٹ ہاؤس کو ملا کر 33 کمرے تو میسر آجائیں گے.پھر انشاء اللہ اور بنتے رہیں گے." خطابات ناصر جلد اول صفحه 674)

Page 535

46 $ 1974 بڑی عمر کے احمدیوں کو زندگی وقف کرنی چاہئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ 25 جنوری 1974 ء میں فرمایا." ہمیں اُن بڑی عمر کے احمدیوں کی ضرورت ہے جو اگر چہ جامعہ احمد یہ یا اس قسم کے کسی ادارہ میں تو نہ پڑھے ہوں لیکن اُن کی زندگی صحیح اور حقیقی اسلام کے مطالعہ میں خرچ ہوئی ہو اور جن کے دل خدا تعالیٰ کی محبت سے معمور ہوں اور جن کا اپنے رب سے اخلاص کا تعلق ہو اور جن کی ہمت جوان ہوا گر چہ عمر کے لحاظ سے وہ جواں نہ ہوں وہ آگے آئیں.وہ ریٹائر ہو گئے دنیوی کاموں سے.وہ جور بیٹائر ہو سکتے ہیں.(ملازمت کا ایک ایسا حصہ جس میں انسان اپنی مرضی سے ریٹائر ہو جاتا ہے اور اسکی پنشن پر خاص فرق نہیں پڑتا یا بعض دفعہ بالکل ہی فرق نہیں پڑتا ) ایسے لوگ اپنی زندگیوں کو وقف کریں تا کہ ہم انہیں ان ممالک میں بھجواسکیں" (خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ 396) سائیکل سوار واقفین عارضی کی ضرورت ہے حضور نے خطبہ جمعہ 3 مئی 1974 ء میں فرمایا." میں نے کہا تھا کہ سائیکل سوار واقفین عارضی بھی چاہئیں کیونکہ وہ زیادہ وسیع علاقہ اور دائرہ میں کام کر سکتے ہیں.میں نے کچھ عرصہ سے اس کی تحریک نہیں کی تھی اب یاد کراتا ہوں (ویسے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کئی ہزار احمدیوں نے اس عرصہ میں کام کیا ہے لیکن ہمارا قدم آگے بڑھنا چاہئے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے.میں اپنے پیارے احباب جماعت سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس کام کے لئے آگے آئیں.اب چھٹیوں کے دن آرہے ہیں.ہماری قوم کا ایک حصہ اور اُسی نسبت سے جماعت کا ایک حصہ ایسا ہو گا جن کو چھٹیاں ملیں گی.جو چھٹیوں سے فائدہ اُٹھانا چاہیں وہ وقف کریں اور وقف عارضی کے منصوبہ کے ماتحت مختلف علاقوں میں جائیں یا سال کے دوسرے اوقات میں جائیں.زمینداروں کے بعض دوسرے اوقات نسبتاً خالی ہوتے ہیں اور مصروفیت بڑھ جاتی ہے تو زمینداروں کیلئے نسبتاً جو سہولت کے دن ہیں اُن میں وہ کام کریں تا کہ دنیاوی سہولت سے فائدہ اُٹھا کر اُخروی سہولت کے سامان اپنے لئے اور اپنے عزیزوں کیلئے وہ پیدا کرسکیں اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے" ( خطبات ناصر جلد پنجم صفحہ 508)

Page 536

47 $1975 انصار اللہ اپنے ہاں تربیتی ماحول پیدا کریں اور اپنے گھروں میں اسلامی صداقتوں کا ذکر کرتے رہیں حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ 17 جنوری 1975ء میں فرمایا.اگر ہم خود اپنے نفوس کی اصلاح کر لیں اور اگر ہم یہ کوشش کریں کہ ہمارا ماحول تربیت یافتہ اور اصلاح یافتہ ہو جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ہر وقت اُن صداقتوں کو جو اسلامی عقائد میں پائی جاتی ہیں اور اُن حقیقتوں کو جنہیں قرآنی شریعت نے ہمارے سامنے رکھا ہے اُن کو خود سمجھیں اور اُن کے مطابق اپنی زندگی گزار دیں اور اپنی چھوٹی نسلوں کو، نو جوانوں کو اور نئے آنے والوں کو بھی اسلامی تعلیمات کی صداقتوں اور قرآنی حقائق سے آگاہ کریں بلکہ ان صداقتوں کو حفظ کر دیں اور اُن کی زندگی کا جزو بنا دیں.تب ہم خود کو جماعتی اجتماعی لحاظ سے اس قابل بنا سکیں گے کہ جو ذمہ داری اگلے تیرہ چودہ سال میں ہم پر پڑنے والی ہے ہم اُسے نباہ سکیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر سکیں اور اس کی خوشنودی کو پاسکیں.جو صداقت مثلاً اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کے متعلق اسلام نے ہمیں بتائی ہے، وہ تو ایک عجیب اور حسین تعلیم ہے.بہت سی حقیقتیں ہیں جو ہم کو بتائی گئی ہیں.اُن کے عرفان اور معرفت کو قرآن کے ذریعہ ہم نے حاصل کیا مگر انسان یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ کس طرح مسلمانوں کی ایک نسل کے بعد دوسری نسل نے یہ صداقتیں بھلا دیں اور اُن کی طرف توجہ نہیں دی.یہ کیسے ممکن ہوا؟ لیکن جب ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ عملاً یہ ممکن ہو گیا.اللہ تعالیٰ کو ماننے والے عملاً بہت سی بدعات کا شکار ہو گئے اور یہ آج کی بات نہیں.پچھلے چودہ سو سال میں ہزاروں لاکھوں مصلحین نے یہی اعلان کیا کہ صداقتیں تمہیں دی گئیں.آسمان سے نور تمہارے اوپر نازل ہوا پھر بھی تم اندھیروں میں جا چھپے اور وہ صداقتیں تم سے اوجھل ہوگئیں اور وہ معرفت اور عرفان جاتا رہا.وہ محبت اور وہ عشق کا ماحول قائم نہ رہا.ایک طرف اتنی عظیم صداقتیں ہیں.اتنا عظیم محسن ہے اور دوسری طرف اُن کا نظر سے اوجھل ہو جانا بھی ایک ایسا واقعہ ہے کہ انسانی عقل اس کو تسلیم کرنے کے لئے تیار تو نہیں لیکن انسان کا مشاہدہ بتا تا ہے کہ ایسا واقعہ ہوگیا.اس لئے یہ بڑے خطرے کی بات ہے کہ ہم جو بڑے ہیں ہم جو انصار اللہ کہلاتے ہیں.ہم اگر اپنے کام سے غافل ہو گئے اور اگر ہم نے اپنی ذمہ داریاں نہ نبا ہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ جو بعد میں آنے والی نسل ہے یا جو ان کے بعد آنے والی نسل ہے وہ کمزوری دکھائے اور اللہ تعالیٰ کے قہر کا مورد بن جائے حالانکہ اُن کو اس لئے پیدا کیا گیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے

Page 537

48 پیار کو پائیں.خدا تعالیٰ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ تو پورا ہو گا.ہمیں اپنی اور اپنے بچوں کی اور اپنی نسلوں کی فکر کرنی چاہئے.اس لئے میں انصار اللہ کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ہر جگہ جہاں ایک یا ایک سے زائد انصار پائے جاتے ہیں تربیتی ماحول پیدا کریں اور اپنے گھروں میں، اپنی مساجد میں، اپنے ڈیروں میں اور اپنی بیٹھکوں میں ان باتوں کو دُہرائیں.اس شکل میں اور اس تفصیل کے ساتھ جو مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے رکھی ہیں اور یہ کوشش کریں کہ اس معرفت کے حصول کے بعد دوسروں کو بھی معرفت سکھائیں.معرفت ایک تو خود اپنے لئے اُنس اور لگاؤ اور پیار پیدا کرتی ہے یعنی اعلی تعلیم خود اپنے حسن کی طرف کھینچتی ہے لیکن وہ تو ایک ذریعہ ہے، منزل تو نہیں وہ تو ایک راہ ہے خدا تعالیٰ کا پیار دلوں میں پیدا کرنے کے لئے.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو صداقتیں پیش کی ہیں قرآن کریم نے جو ہدایتیں دی ہیں ، وہ ہر ایک کے سامنے حاضر رہنی چاہئیں.قرآن عظیم میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق ہمیں جو کچھ بتایا گیا ہے، وہ ہمیں بھول نہیں جانا چاہئے.اسلام کی شرک سے متر اتعلیم کے ہوتے ہوئے بعض لوگ قبروں پر سجدہ کرتے ہیں.اسی قسم کی اور بھی بہت سی بدعات ہیں جو مسلمانوں کے اندر گھس آئی ہیں.انسان اپنے مالک اور اپنے خالق اور اپنے رب کریم اور اپنے خدائے رحمان، رحیم اور مالک یوم الدین کو بھول جاتا ہے اور راہ ہدایت سے بھٹک جاتا ہے.یہ بڑے فکر کی بات ہے.پہلوں نے جو غلطی کی، جماعت احمدیہ کو اس غلطی سے محفوظ رہنا چاہئے اسے محفوظ رکھنا چاہئے.آنے والی نسلوں کے سامنے ایک تربیتی پروگرام کے ماتحت اسلام کی ابدی صداقتوں کو دہراتے چلے جانا چاہئے تا کہ وہ غلطی سے محفوظ رہیں.انصار اللہ اسلامی صداقتوں کو اجاگر کرنے کے لئے لٹریچر تیار کریں بڑی دیر ہوگئی انصار اللہ سے میں نے باتیں نہیں کیں.بدلے ہوئے حالات کے تقاضے بھی بڑے اہم ہو گئے ہیں.ہم ایک نازک دور میں داخل ہو گئے ہیں اس لئے انصار اللہ کو چاہئے کہ وہ با قاعدہ ایک منصوبہ بنائیں.اس منصوبہ کی تکمیل پر بے شک مہینہ دو مہینے لگائیں لیکن ایک جامع منصوبہ تیار ہو.اگر ایک خاندان احمدی ہے تو اس ایک خاندان تک بھی قرآن عظیم کی عظیم صداقتیں پہنچ جائیں.آپس میں تبادلہ خیالات کریں.باتیں کریں اور سوچیں پہلوں نے اسلامی صداقتوں سے جو کچھ حاصل کیا اس کے متعلق غور کریں اور ان باتوں کو اتنا دُہرائیں، اتناؤ ہرائیں کہ وہ ذہن کا ایک حصہ بن جائیں، انسانی دماغ کا ایک جزو بن جائیں اور کوئی رخنہ باقی نہ رہے کہ جس کے ذریعہ شیطانی وساوس انسان کے دماغ میں داخل ہوسکیں.امید ہے انصار اللہ اس اہم امر کی طرف توجہ کریں گے اور کوئی ٹھوس پروگرام بنانے سے پہلے مجھ سے مشورہ بھی کر لیں گے.میں نے ہدایت دی تھی کہ کچھ کتابوں پر مشتمل لٹریچر شائع ہونا چاہئے.کتابوں میں

Page 538

49 لٹریچر پڑا رہے تو یہ تو کوئی چیز نہیں، اسے سامنے آنا چاہئے.اس کے متعلق تبادلہ خیالات کرنا چاہئے.باتیں کرنا اور ایک دوسرے سے پوچھنا ضروری ہے کیونکہ اگر ہم ایسا نہ کریں تو بعض پہلو جہالت کی وجہ یا نا سمجھی کی وجہ سے یا شرم کی وجہ سے بعض دفعہ چھپے رہتے ہیں اور وہ بچوں اور نئے آنے والوں کے سامنے واضح ہو کر نہیں آتے.اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ کتابوں کو پڑھنے کی ایک رو پیدا کر دینی چاہئے.ایسی کتا ہیں ہوں جنہیں احباب ہر وقت اُٹھتے بیٹھتے مطالعہ میں رکھیں.آپس میں باتیں کریں.کسی مسئلہ کو لے کر سوچیں کہ اس کی کیا برکتیں ہیں.پہلوں نے اس سے کیا حاصل کیا.ہم اس سے کیوں محروم ہیں؟ اس کے لئے ہمیں کس طرح کوشش کرنی چاہئے.کس قسم کا پیار ہمیں اپنے دلوں میں پیدا کرنا چاہئے ؟ ہمیں کس قسم کا تعلق اپنے رب سے اور اپنے محبوب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیدا کرنا چاہئے.کس رنگ میں آپ ہمارے لئے اُسوہ ہیں ؟ کس طرح ہمیں اس اُسوہ کو اختیار کرنا چاہئے.کون سی راہ ہے جس پر چل کر اور کون سا طریق ہے جس پر گامزن ہو کر اُس نور سے حصہ لے سکتے ہیں اور اس سے اپنے سینوں کو اور اپنے ماحول کو اور اپنے خاندانوں کو منور کر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ.پس ان باتوں کو یا درکھنا چاہئے ، بھول نہیں جانا چاہئے.انسان اپنی آنکھوں سے بھی علم حاصل کرتا ہے.کانوں سے بھی علم حاصل کرتا ہے اور ناک سے بھی علم حاصل کرتا ہے.بعض اور حستیں ہیں ، اُن سے بھی علم حاصل کرتا ہے مثلاً وہ اپنی زبان سے بھی علم حاصل کرتا ہے.زبان سے صرف کھانے والی چیزوں کا ذائقہ ہی نہیں حاصل کیا جاتا.کیا انسان خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے زبان سے لذت نہیں حاصل کرتا ؟ یقیناً حاصل کرتا ہے اس لئے محض کھانے کی لذت نہیں جو زبان سے حاصل ہوتی ہے بلکہ روحانی لذتیں بھی ہیں جو زبان سے ہمیں حاصل ہوتی ہیں.مثلاً دعا ہے دعا زبان سے کی جاتی ہے ہم خدا سے دعا کرتے ہیں اور اس سے ہمیں ایک قسم کی لذت حاصل ہوتی ہے.میں نے پہلے بھی بتایا تھا ایک دفعہ میرے دماغ میں عجیب خیال پیدا ہوا.میں نے خدا سے یہ دعا کی کہ اے خدا! کھانا پینا یا اس قسم کی اور ہزاروں چیزیں ہیں جن کے ذریعہ ہم لذت حاصل کرتے ہیں لیکن ان مادی ذرائع کے علاوہ خود اپنی رحمت سے ایسا سامان پیدا کر کہ میں ایک لذت حاصل کروں.عجیب دُعا تھی جو میرے دل سے نکلی لیکن اللہ تعالیٰ نے اُسی وقت اس دُعا کو قبول کیا اور 24 گھنٹے تک سر سے پاؤں تک میرا جسم سرور حاصل کرتا رہا.یہ روحانی طور پر زبان کی لذت نہیں تو اور کیا ہے.ہم دعائیں کرتے ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں.ہم اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں وہ ہم پر اپنے فضلوں کو نازل کرتا ہے.آخر دعا ہم زبان سے کرتے ہیں لوگ سمجھتے ہیں کہ زبان کا کام صرف چسکے“ کا ہے کہ کھایا اور مزہ اُٹھا لیا.مادی چیزوں سے حظ اُٹھانے کے لئے ہی زبان پیدا نہیں کی گئی.وہ بھی ضروری ہے کیونکہ زندگی اور اس کے قیام کے لئے کھانا پینا بھی ضروری ہے لیکن زبان کی لذت صرف یہی نہیں یہ بھی ایک

Page 539

50 چھوٹا سا حصہ ہے اس لذت کا جو زبان کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اصل لذت وہ ہے جو انسان ذکر الہی سے حاصل کرتا ہے.اسی طرح کان ہے.دُنیا بہک گئی.سماع ایک محاورہ بن گیا.عجیب لوگ ہیں کہ صرف گانے سُن کر لذت حاصل کرتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ کی آواز جب کان میں پڑتی ہے تو جو لذت کان کے ذریعہ انسان حاصل کرتا ہے اس کا کروڑواں حصہ بھی انسان گانے سُن کر حاصل نہیں کرسکتا.ایک وہ لذت ہے جو وقتی اور چند منٹ کے بعد ختم ہو جاتی ہے اور ایک وہ لذت ہے جو انسان کی زندگی کو بدل دیتی ہے یعنی پیار کی آواز.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں.آپ نے جس رنگ میں اور جس طور پر خدا تعالیٰ کی آواز کوسنا اور جو لذت آپ نے محسوس کی اُس کا آپ نے کئی جگہوں پر ذکر کیا ہے اس کو بچوں کے سامنے آنا چاہئے.شاعر کی جو آواز گانے کے ذریعہ آتی ہے یہ قابل التفات اس لئے بھی نہیں کہ شاعر تو بہک جاتا ہے ایک مصرع میں ایک مضمون ہوتا ہے تو اگلے مصرع میں اس سے الٹ مضمون ہوتا ہے.ایک شعر میں شمال کا مضمون تھا تو دوسرے میں جنوب کا شروع ہو گیا.گویا شاعرانہ تخیل کے اندر ہمیں بالکل متضاد اور ایک دوسرے سے بعد رکھنے والے مضامین نظر آتے ہیں لیکن ایک وہ آواز ہے جو کان کے ذریعہ ہمیں لذت دیتی ہے اور اس آواز میں نہ کوئی تضاد ہے اور نہ یہ عارضی ہوتی ہے بلکہ مستقل طور پر ہمیشہ کے لئے ہے جب تک انسان اپنے مقام پر قائم رہے یہ آواز لذت پیدا کرتی رہتی ہے.اسی طرح مثلاً ناک ہے وہ صرف خوشبو سونگھنے والا یا بد بو محسوس کرنے والا آلہ تو نہیں ہے انسان ناک سے بہت سی روحانی چیزیں سونگھتا ہے.میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ناک کہتا ہے کہ یہ چیز ہے یا یہ چیز نہیں ہے تو جیسا کہ یہ محاورہ بھی ہے کہ میں یہ Smell کرتا ہوں مثلاً دوسروں کی روحانی خوبیاں ہیں سوائے روحانی انسان کے دوسرے نے ابھی تک اس کو سمجھا ہی نہیں لیکن صرف خوشبو سونگھنے یا بد بو سونگھ کر اس سے بچنے کے لئے تو انسان کو ناک نہیں دیا گیا بلکہ اس کے بہت سے روحانی فوائد ہیں.ہماری جتنی حسیں ہیں ان کی افادیت صرف مادی پہلوؤں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کا اصل فائدہ یہ ہے کہ وہ ہمارے لئے روحانی طور پر لذت اور سرور کے سامان پیدا کرتی رہیں.غرض خدا تعالیٰ کا جو پیار ہے وہ ایک راستہ سے تو ہم تک نہیں پہنچا وہ تو ہر راستہ سے ہم تک پہنچتا ہے.بد بخت ہے وہ انسان جس کو ہر راہ سے پیار نہیں ملا اور اس سے بھی بد بخت ہے وہ نو جوان جواحمدیت میں پیدا ہوا اور خدا کے پیار سے محروم رہا.اس کی ذمہ داری انصار اللہ پر ہے.انصار اللہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور تربیت کا پروگرام بنائیں پس انصار اللہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور تربیت کا پروگرام بنا ئیں اور ہر ایک کو معرفت کے مقام پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں.ٹھیک ہے ہر ایک نے اپنی استعداد اور اپنی قوتوں کے مطابق اس معرفت کو

Page 540

51 حاصل کرنا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ ہمارا ہر بچہ جو اپنے دائرہ استعداد کے اندر اپنے کمال کو نہیں پہنچتا وہ مظلوم ہے اور ہمارے اوپر اس کی ذمہ داری آتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں یہ تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان کو ادا کریں.اللہ تعالیٰ ہماری نوجوان نسل کو اور نئے آنے والوں کو یہ توفیق دے کہ وہ اپنے مقام کو سمجھیں جس طرح ایک اُبلنے والی دیگ جس کے اُبلنے میں کچھ وقت لگتا ہے ایک دیگ جو اُبل رہی ہے وہ بعض دفعہ آدھے گھنٹہ میں یا گھنٹے میں اس درجہ حرارت کو پہنچتی ہے لیکن اُس اُبلتی ہوئی دیگ میں دو قطرے ٹھنڈے پانی کے ڈالو تو ایک سیکنڈ میں اُبلنے لگتی ہے.اسی طرح ہمارے اندر بھی خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار کی اتنی گرمی ہونی چاہئے کہ اس کے مقابلے میں اُبلتے ہوئے پانی کی کوئی گرمی نہ ہو.باہر سے آنے والے ہمارے اندر شامل ہوتے ہیں یا ہماری جو نو جوان نسل ہے جب وہ بڑی ہوکر اپنی ذہنی اور روحانی بلوغت کو پہنچتی ہے تو جس طرح ایک سیکنڈ یا اس کے ہزارویں حصے میں ٹھنڈے پانی کا قطرہ ابلنے لگتا ہے (جو اُبلتی دیگ میں ڈالا جائے ) اور حرارت کے بلند درجے کو پہنچ جاتا ہے اسی طرح یہ بھی خدا کی محبت اور پیار میں انتہائی طور پر گداز ہوجائیں.پس ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر دو کو تو فیق دے انصار اللہ ک بھی کہ وہ تربیت کی ذمہ داری کو نباہ سکیں اور نو جوانوں کو بھی کہ وہ اس تربیت کو قبول کر لیں اور سارے کے سارے بلا استثناء اس مقام تک پہنچ جائیں کہ وہ ہر پہلو سے معرفت الہی اور عرفانِ باری کو حاصل کر چکے ہوں اور وہ اس بات کے قابل ہو گئے ہوں کہ جب غلبہ اسلام کی اس عالمگیر اور ہمہ گیر جدوجہد میں وسعتیں پیدا ہوں اور اس وقت ہزاروں مربیوں کی ضرورت ہو تو ہزاروں لاکھوں مربی موجود ہوں تا کہ دنیا کو سنبھالا جا سکے اور نوع انسانی کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کیا جا سکے".( خطبات ناصر جلد 6 صفحہ 21 تا 26) جلسہ سالانہ کے لئے انصار، خدام ربوہ کوصاف ستھرا کر دیں حضور نے اپنے خطبہ جمعہ 5 دسمبر 1975ء میں فرمایا." ہمیں سارا سال یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ربوہ میں گندگی نہ ہو اور پاکیزگی اور طہارت کے خلاف کوئی چیز نہ ہو لیکن میں نے بتایا ہے کہ اجتماعات میں گند پڑ جانے کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں اس لئے جلسہ سے پہلے صفائی کرو اور جلسہ سالانہ میں خاص طور پر اس بات کا خیال رکھو.جلسہ سالانہ کا نظام اور ہماری جماعت کے جو دوسرے نظام ہیں اور حکومت کا جو یہاں نظام ہے یہ ان کا کام ہے.امید ہے کہ وہ اس کا خیال

Page 541

52 رکھیں گے لیکن جو ہمارے نظام ہیں ان سے میں یہ کہتا ہوں کہ وہ خیال رکھیں.ان دنوں میں بھی خیال رکھیں لیکن جلسہ سے پہلے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ ربوہ کو بالکل صاف ستھرا کر دیں.انصار اللہ کا صرف نام ہی مختلف ہے ویسے تو ہم سارے ہی خادم ہیں، میں بھی اور آپ بھی دنیا کے خادم بن گئے ہیں اور اس خدمت میں اور پھر اس خدمت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے میں بڑا لطف ہے" خطبات ناصر جلد 6 صفحہ 234-235)

Page 542

53 $ 1976 ربوہ میں درخت لگانے کا کام آج میں انصار اللہ کے سپر د کرتا ہوں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ ربوہ میں کئی سال سے درخت لگانے کی تحریک کر رہا ہوں اس کا کچھ تو فائدہ ہوا ہے.ایسی بہت سی جگہوں پر اب درخت نظر آتے ہیں جہاں پہلے کوئی درخت نہیں تھا لیکن جو میں چاہتا ہوں کہ ہر طرف درخت ہوں اور بڑی صحت مند ہوا ہو جس میں ہم سانس لے رہے ہوں وہ کیفیت ابھی تک پیدا نہیں ہوسکی.درخت تو ہر قسم کے لگانے چاہئیں پھلدار بھی اور لکڑی کے لئے سایہ دار بھی.ہر قسم کا درخت ہماری خدمت پر مامور ہے.ہوا کو صاف کرنے کے لئے بھی اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے اور بہت سی خدمتیں ہیں جواللہ تعالیٰ کی طرف سے درخت کے سپرد کی گئی ہیں.ربوہ میں درخت لگانے کا کام خدام الاحمدیہ کے سپرد کیا گیا تھا اور غالبا انصار اللہ کے بھی ، اگر پہلے نہیں کیا تھا تو آج میں انصار اللہ کے سپر دبھی کر دیتا ہوں.علاوہ ازیں ہماری مقامی تنظیم ہے وہ بھی ذمہ دار ہے.سب مل کر کوشش کریں کہ محلوں میں کوئی جگہ جہاں درخت لگ سکتا ہے اس کو بہر حال خالی نہ چھوڑیں اور اگر درختوں کو ٹھیک طرح پالیں تو کوئی وجہ نہیں کہ درخت بڑھنے نہ لگ جائیں.تاہم بعض ایسے درخت ہیں جو بڑے صبر آزما ہوتے ہیں مثلاً بڑ کا درخت ہے جو پندرہ بیس سال کے بعد بھی ایسا نہیں ہوتا جس کا سایہ ٹھیک طرح انسان کے کام آسکے گو یہ ایک بڑی عمر پانے والا درخت ہے لیکن بہت آہستہ آہستہ بلوغت کو پہنچتا ہے اس کے مقابلے میں بعض ایسے درخت بھی ہیں جن کی بہت جلدی نشو ونما ہوتی ہے وہ بہت جلد قد نکالتے اور پھیل جاتے ہیں ان میں سے ایک شہتوت ہے جو بڑا پھل دیتا ہے اور اس کا پھل بھی بڑا اچھا ہوتا ہے اگر کوئی شخص شہتوت کا ایک درخت لگا دے تو موسم میں اس کا پھل بھی مل جائے گا بلکہ ہمسائے اور محلے کے بچے بھی کھائیں گے اور بڑا مزا آئے گا".خطبات ناصر جلد 6 صفحہ 310)

Page 543

54 انصار اللہ سمیت تمام انجمنیں اور تنظیمیں خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں حضور نے جلسہ سالانہ 1976ء کے دوسرے روز کےخطاب مورخہ 11 دسمبر 1976ء کوفر مایا."جماعت احمدیہ کے مختلف شعبے ہیں لیکن جو بڑا شعبہ ہے اس کو ہم صدرانجمن احمد یہ کہتے ہیں.جماعت احمد یہ جو ہے وہ کسی انجمن میں محصور اور محدود نہیں ہے.یہ مسئلہ آپ یادرکھیں.اب اس وقت میں اسے حل کر دوں.صدر انجمن احمد یہ جماعت احمدیہ کا نام نہیں ہے.خلیفہ وقت اور جماعت مل کر جماعت احمدیہ ہے.جس طرح کہ خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں اس کو قائم کیا ہے.باقی جماعت کا انتظام ہے اس کے لئے صدر انجمن احمد یہ بھی ہے اس کے لئے تحریک جدید انجمن احمد یہ بھی ہے اس کے لئے وقف جدید انجمن احمد یہ بھی ہے اس کے لئے ہماری باہر کی جماعتیں بھی ہیں.قریباً ہر ملک میں جماعتیں یا تو رجسٹر ہو چکی ہیں یا ہو رہی ہیں کچھ وقت قانونی طور پر لگتا ہے بہر حال رجسٹر ہو جائیں گی.لیکن خلیفہ وقت، جماعت میہ ایک ہستی ، ایک وجود، ایک چیز کا نام ہے اور ساری انجمنیں ماتحت ہیں.اس لئے خلیفہ وقت اور جماعت احمدیہ کے ماتحت ہیں.صدر انجمن احمد یہ بھی تحریک جدید انجمن احمد یہ بھی اور دوسری انجمنیں بھی اور جماعتیں بھی خواہ رجسٹرڈ ہوں یا unregistered.جماعت کو میں الْخَلَافَةُ بِالْمَشْوَرَةِ كيم سکتا ہوں.جماعت کو دوسرا نام یہ دیا جا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے جماعت کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ وہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی تدبیریں بنائے.اس وقت تین نئی تدبیریں چالو ہیں یعنی فضل عمر فاؤنڈیشن اور نصرت جہاں آگے بڑھو اور صد سالہ جوبلی منصوبہ اور عام نوعیت کی صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید انجمن احمدیہ، وقف جدید انجمن احمد یہ اور بعض دوسری سکیمیں انصار اللہ وغیرہ ہیں یا باہر کی جماعتیں ہیں جو میں نے بتایا ہے کہ کچھ رجسٹر ڈ ہیں اور کچھ ہو رہی ہیں وغیرہ وغیرہ." ( خطابات ناصر جلد دوم صفحه 187)

Page 544

55 $ 1977 جماعتی ادارے یا ذیلی تنظیمیں اہم امور پر توجہ دلانے کے لئے خطبات میں مجھے درخواست کرتی ہیں حضرت طلیقہ امسح الثالث رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ انسان کو زندگی میں بہت سے جھٹکے لگتے ہیں لیکن ایک مومن کی صدا اور اس کا اعلان یہی ہے کہ میرے لئے اللہ کافی ہے.میں نے بتایا تھا کہ ایک موقع پر جب ہم بظاہر تکلیف میں ڈالے گئے تھے تو وہاں بڑا لطف آیا.اس وقت ایک شخص کو میں نے یہی کہا تھا کہ تجھ سے جو کوئی بات کرے تو یہی کہا کر کہ مولابس.میرے لئے اللہ ہی کافی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اس کو اس تکلیف سے نجات دے دی.میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا سلوک یہ ہے کہ بعض دفعہ ذہن میں کوئی مضمون آتا ہے، بعض دفعہ جماعتی لحاظ سے ضرورت ہوتی ہے اور میں اس پر خطبہ دیتا ہوں.بعض دفعہ ادارے مجھے توجہ دلاتے ہیں کبھی انصار اللہ کبھی خدام الاحمدیہ، کبھی تحریک جدید، کبھی وقف جدید، کبھی صدر انجمن احمد یہ اور اسی طرح کبھی دوسرے ادارے وقف عارضی وغیرہ کہ اس امر کے متعلق یاد دہانی کروادیں اور کبھی خود دماغ میں کوئی مضمون آتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ وہ بیان کر دوں لیکن بسا اوقات خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ یہ دستور ہے، بڑا پیارا اور پیار کرنے والا رب ہے اور اکثر میرے خطبے ایسے ہیں کہ جمعہ والے دن صبح جب میں تلاوت کرتا ہوں تو تلاوت کرتے ہوئے میری آنکھ کو کوئی آیت قرآنی پکڑتی ہے اور پھر مجھے آگے نہیں ملنے دیتی.پھر میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں.پھر میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کا منشا یہی ہے کہ میں اس آیت پر خطبہ دوں.پھر میں سوچتا ہوں اور لغت دیکھتا ہوں ، تیاری کرنی ہوتی ہے کیونکہ تفسیر کرنا بڑی ذمہ داری کا کام ہے اور سب سے بوجھل دن میں سمجھتا ہوں کہ سب خلفاء پر یہی آتا ہوگا.میرا تو یہی تجربہ ہے کہ جمعہ کا دن بڑا بوجھل دن ہے.اتنی ذمہ داری ہے جمعہ کا خطبہ دینا، اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ انسان استغفار کرتا ہے، بے حد استغفار کرتا ہے اور دعائیں کرتا ہے، خدا تعالیٰ پھر رحم کرتا ہے".( خطبات ناصر جلد 7 صفحہ 101 )

Page 545

56 ماہنامہ انصار اللہ صرف انصار اللہ کے لئے نہیں بلکہ اس میں کوئی کام کی بات ہے تو بچوں کے علم میں بھی لائی جائے حضور نے جلسہ سالانہ 1977 ء کے دوسرے روز کے خطاب 27 دسمبر 1977ء میں فرمایا."ماہنامہ انصار اللہ انصار اللہ کے لئے ہے اور ان کے لئے بھی ہے جو انصار اللہ نہیں کیونکہ کام کی باتیں، یہ تو نہیں کہ ماہنامہ انصار اللہ میں کام کی بات چھپ گئی ، یا خالد ، خدام الاحمدیہ کا جو رسالہ ہے اس میں کام کی بات چھپ گئی تو دوسروں نے فائدہ نہیں اٹھانا.اب بچوں کا ہے رسالہ تفخیذ الاذہان اگر اس میں کام کی بات چھپتی ہے تو بوڑھوں کو بھی پڑھنی چاہئے ضرور.اور اگر ماہنامہ انصار اللہ میں کوئی کام کی بات ہے تو بچوں کے علم میں بھی وہ بات لانی چاہئے." (خطابات ناصر جلد دوم صفحہ 249)

Page 546

57 $ 1978 جلسہ سالانہ کے لئے وقار عمل میں انصار بھی شامل ہوں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ 3 نومبر 1978ء میں فرمایا.اس سلسلہ میں کچھ کام وقار عمل کے ذریعے کرنے کے ہیں اور کچھ کام سمجھانے کے ہیں.چھوٹے بچوں کے دماغ میں بار بار یہ بات آنی چاہئے کہ یہ جماعت ہے اور یہ جماعت کا مقام ہے.ایک بہت بڑا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور جلسہ سالانہ اس کے مطابق ایک چھوٹا سا مظاہرہ ہے اس کے اندر وہ خوبیاں اور وہ صفات پائی جانی چاہئیں جن کی طرف قرآن کریم نے ایک آئیڈیل ہمارے سامنے رکھ کر ہمیں توجہ دلائی ہے کہ اپنے اندر یہ صفات پیدا کرو.جلسہ کے لئے رضا کارانہ کاموں میں سے ایک تو وقار عمل ہے.اس کا انتظام زیادہ تر خدام الاحمدیہ کے سپرد ہے اور کام میں انصار بھی اور اطفال بھی شامل ہوتے ہیں.اس کے لئے ابھی سے دیکھیں اور مختلف قسم کی ظاہری صفائی جو ہونی چاہئے ابھی سے اس کی طرف توجہ دیں.جس وقت جلسہ شروع ہو تو ہمارا یہ شہر ربوہ جو ہمارا مرکز ہے یہ ایک غریب اور مسکین دلہن کی طرح صاف و شفاف ہو.نمائش کی ہمیں ضرورت نہیں لیکن جس طرح ایک دیہاتی دلہن ہوتی ہے نہائی دھوئی صاف کپڑوں میں ملبوس اور اپنے حال پر راضی اور جو کچھ خدا نے اسے دیا ہے اس پر خوش اسی طرح ربوہ کو صاف کر دیں.شو تو نہ ہم کر سکتے ہیں اور نہ ہمیں کرنے کی خواہش ہے لیکن ایک چمکتا ہوا چہرہ اور منور دل اور صاف گلیاں اور پاک اور مطہر فضا باہر سے آنے والے، اپنے بھی اور دوسرے بھی محسوس کریں".( خطبات ناصر جلد 7 صفحہ 458-459) جلسہ سالانہ پر مزدوروں اور نانہائیوں سے رابطہ کرنے کے لئے امراء انصار جیسے قابل اعتما دکو بھجوائیں حضور نے اپنے خطبہ جمعہ 3 نومبر 1978ء میں فرمایا." جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جو کام کرنے والے باہر سے آئیں وہ موزوں آدمی ہوں.باہر والوں کو اس قسم کی تربیت نہیں ہوتی جیسی ربوہ میں رہنے والوں کو ہے.باہر سے جو آئیں گے ان میں سے

Page 547

58 کچھ تو وہ ہوں گے جو پچھلے سال بھی رضا کار بن کر آئے تھے وہ تو تربیت یافتہ ہیں ان کی فکر نہیں اور جو پہلی دفعہ آئیں گے ان میں کمزور بھی ہوں گے، نا سمجھ بھی ہوں گے، نا تجربہ کار بھی ہوں گے اس واسطے امراء صاحبان اور خدام الاحمدیہ کے قائدین ہر دول کر ہر لحاظ سے اپنی تسلی کریں.صرف ان کی مستعدی کو اور ان کے اخلاص کو نہیں دیکھنا بلکہ جلسے کی ضرورت کے لحاظ سے جس قسم کے آدمی وہ سمجھتے ہیں کہ ضروری ہیں اس قسم کے آدمی یجیں.عام طور پر ہمارے امرا تو بہت سے جلسے دیکھ چکے ہیں اور ان کو پتا ہے ان کے دل میں کبھی شکایتیں بھی پیدا ہوئی ہوں گی جن کو وہ خدا کے لئے بھول گئے.بہر حال وہ تسلی کر کے بھیجیں کہ مسیح نو جوان ہو صحیح سے میری مراد یہ ہے کہ جو جلسہ سالانہ کے کام کے لئے موزوں اور مناسب ہوا اور یہ ضروری نہیں ہے کہ نو جوان ہی ہو بلکہ بہت سے ایسے کام ہیں جن میں بڑی عمر کے آدمی شاید زیادہ اچھا کام کر سکیں.کچھ نہ کچھ حصہ تو ثواب میں ان کو بھی ملنا چاہئے جن کو میں جوانوں کے جوان کہا کرتا ہوں یعنی جن کا انصار اللہ کے ساتھ تعلق ہے.پس قابل اعتماد اور اپنے نفسوں پر قابورکھنے والے غصہ میں نہ آنے والے، پیار سے خدمت کرنے والے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق رکھنے والے اور آپ نے جو جماعت پیدا کی ہے اس کے نظام کے لئے ہر قسم کی تکلیف برداشت کر کے جماعت کے کام کو حض عمل کے ذریعہ نہیں بلکہ حسن عمل کے ذریعہ سرانجام دینے والے رضا کار ہمیں چاہئیں.باہر کی جماعتیں مہیا کریں گی.میں آج خطبہ میں ان کو اس طرف توجہ دلا رہا ہوں".( خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ 460) ربوہ سے باہر کی جماعتیں انصار کو بطور رضا کا رجلسہ پر ربوہ بھجوائیں حضور نے اپنے خطبہ جمعہ 8 دسمبر 1978 ء میں فرمایا.دوسری بات جو میں آج کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ منتظمین جلسہ کا خیال ہے کہ اہل ربوہ ان کو مناسب اور پوری تعداد میں رضا کار نہیں دیں گے اور میرا یہ خیال ہے کہ اہل ربوہ منتظمین جلسہ کو پوری تعداد میں رضا کار دے دیں گے.یہ ہمارا اختلاف رائے ہو گیا ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کا عمل مجھے جھوٹا بناتا ہے یا ان کو غلط قرار دیتا ہے اس لئے آج میں اطفال اور خدام کو خصوصاًاور انصار کو عموماً مخاطب کرتا ہوں.پچھلی دفعہ جب میں نے کہا تھا کہ رضا کار دو تو ربوہ میرا مخاطب تھا یعنی ربوہ کے سارے مکین لیکن آج میں علیحدہ علیحدہ تنظیموں کو مخاطب کرتا ہوں کہ جتنے رضا کار ہمیں چاہئیں اتنے مل جانے چاہئیں".(خطبات ناصر جلد ہفتم صفحہ 493)

Page 548

59 احباب مجلس انصار اللہ کی شائع کردہ کتب کا مطالعہ کیا کریں حضور نے جلسہ سالانہ 1978 ء کے دوسرے روز کے خطاب 27 دسمبر 1978 ء میں فرمایا.حضرت مصلح موعود ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کی تین کتب شائع ہوئی ہیں یہاں اردو، احمدیت یعنی حقیقی اسلام، سیر روحانی جلد اول اور ہمارا رسول، اور انصار اللہ مرکزیہ کی طرف سے اسلامی معاشرہ اور یہ صدر صاحب انصار اللہ کی مختلف تقریریں ہیں ان کی یا انہوں نے کتاب یہ کھی ہے اور انصار اللہ کی تاریخ.یہ تھا تو انصار اللہ کے ساتھ تعلق آپ پڑھیں اور ان کو ان اپنے بچوں نو جوانوں کو بھی پڑھا ئیں جو آج نہیں تو کل انشاء اللہ اللہ تعالیٰ ان کی عمریں لمبی کرے، انصار میں شامل ہونے والے ہیں." خطابات ناصر جلد دوم صفحہ 326-327) بعض انصار کو بھی بنیادی مسائل کا علم نہیں.ان کو اس طرف توجہ دینی چاہئے حضور نے جلسہ سالانہ 1978 ء کے اختتامی خطاب مورخہ 28 دسمبر 1978ء کو فرمایا.اگر Census صحیح ہو ہمارے اندازہ کے مطابق قریباً کم و بیش چالیس لاکھ احمدی اللہ کے فضل سے پاکستان میں ہیں.ان میں چھوٹے شیر خوار بچے بھی ہیں ان میں بوڑھے بھی ہیں.ان میں وہ بھی ہیں جن کو ان مسائل کا علم ہے.( رفقاء ) میں سے بھی بہت سے زندہ ہیں ان سے سننے والے بھی ہیں لیکن جو میرے مخاطب ہیں اطفال اور نو جوان، خدام الاحمدیہ کی عمر کے یا بچے جن کو میں کہوں گا یا نوجوان ہیں جنہیں کہوں گاوہ دو قسم کے ہیں اور ایک تو وہ ہے جو احمدی گھر میں بچہ پیدا ہوا پھر وہ اپنی عمر سے گزرتا ہوا ایک طفل جو ہمارا نظام ہے اطفال کا اس کی عمر کو پہنچا.پھر اس سے نکلا.پھر وہ خدام الاحمدیہ کی عمر کو پہنچا.پھر اس سے نکلا.پھر وہ انصار اللہ کی عمر کو پہنچا.انصار میں سے بھی ہیں بہت سے جن کو ان باتوں کا علم نہیں.ایک دوسرے بچے بھی ہیں میرے، اور نو جوان اور وہ وہ ہیں جو بیعت کر کے بعد میں جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے ہیں.ان میں سے بعض کی عمر پانچ سال ، سات سال ، آٹھ سال ، دس سال کی ہے اور بعض کی عمر پندرہ بیس سال کی ہے اور شاذ و نادر ہی ہیں جو اس گروہ میں آئیں گے جو بڑی عمر کے ہیں مثلاً جب افریقہ میں ہمارے مبلغ گئے تو 1944 ء تک بہت تھوڑے احمدی ان ممالک میں تھے.سینکڑوں ہوں گے.میرے خیال میں ہزاروں کی تعداد اس وقت شاید ہی کسی ملک میں بنی ہو لیکن اب غانا جو چھوٹا سا ملک ہے

Page 549

60 وہ اندازہ کرتے ہیں کہ ان کے ملک میں دس لاکھ احمدی ہو چکا.یہ دس لاکھ احمدی اللہ کے فضل سے ہوالیکن ان دس لاکھ احمدیوں کے کانوں میں اس قسم کی صدائیں اس رنگ میں جو ہمارے کانوں میں پڑی تھیں نہیں پڑیں.تو ایک تو وہ طفل ہے جو احمدی کے گھر میں پیدا ہوا اور طفل کی عمر کو پہنچا اور ایک وہ طفل ہے جو جماعت احمدیہ میں داخل ہوا اور پھر ایک وقت گزرنے کے بعد کچھ اس کو واقفیت ہوئی.زیادہ واقفیت ہوئی.ویسے تو بنیادی چیزیں سمجھ کے ہی جماعت میں داخل ہوتے ہیں لوگ لیکن پوری تفصیل کے ساتھ جو میں تفصیل بتاؤں گا آپ کو، کتنی زبردست ہے، وہ واقفیت ان کو ہوئی.ان میں سے کوئی طفل کی عمر کے سمجھے جانے چاہئیں کوئی خدام الاحمدیہ کی عمر کے سمجھے جانے چاہئیں.مجھے خیال آیا کہ ہم بڑے خوش قسمت تھے کہ ہمارے چاروں طرف ( رفقاء ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بطور ہمارے معلم کے موجود تھے اور ہمارے کانوں میں وہ یہ باتیں دن رات ڈالتے تھے.قادیان میں وہاں ایک.آپ میں سے بہتوں نے شاید قادیان دیکھی بھی نہ ہو اور جو بچے وہاں سے ہم گودوں میں اٹھا کے لائے تھے 1947ء میں ان کو بھی کیا یا د پتہ ہو ہی نہیں سکتا کہ قادیان کا نقشہ کیا ہے.وہاں ( بیت ) مبارک جو ہے اس کے سامنے چوک میں ایک دفعہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب ( اللہ آپ سے راضی ہو ) نے ایک بڑا سا بورڈ لگا دیا کالا اور اس کے اوپر کوئی فقرے آپ لکھ دیتے تھے.اسی طرح ان کے چھوٹے بھائی ہمارے چھوٹے ماموں یعنی حضرت مصلح موعود (اللہ آپ سے راضی ہو) کے چھوٹے ماموں ہم بھی ان کو ماموں ہی کہتے رہے ہیں.وہ کوئی حدیث.ارشاد نبوی کوئی قرآن کریم کی چھوٹی آیت لے کے.آداب، کھانے کے آداب مجلس کے آداب، سڑکوں کے آداب یہ بتاتے تھے اور مہدی کے متعلق ہر وقت ذکر تھا ذ کر تازہ تھا.تو بڑے خوش قسمت تھے ہم لوگ جن کے گرد اس قسم کے سکھانے والے تھے لیکن آپ بد قسمتی سے ایسے ماحول میں طفل کی عمر کو اور نو جوانی کی عمر کو اور اس سے نکل کے کچھ آپ میں سے انصار اللہ کی عمر کو پہنچے ہیں جنہوں نے اصولی طور پر تو ان مسائل کو سمجھا لیکن جس رنگ میں اور جس کثرت کے ساتھ اور جس پھیلاؤ میں اور تیرہ سوسال میں پھیلے ہوئے لٹریچر میں جس طرح مہدی کا ذکر آیا جس رنگ میں آیا جن الفاظ میں بیان کیا جس طرح ان چیزوں کو دنیائے اسلام نے محفوظ رکھا وہ آپ کے کان میں باتیں نہیں پڑیں." ( خطابات ناصر جلد دوم صفحہ 356-357)

Page 550

61 $ 1979 انصار اللہ سمیت تمام تنظیموں نے احمدی بچوں کو ضائع ہونے سے بچانا ہے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے 2 فروری 1979ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.جماعت کو چوکس رہ کر خدام الاحمدیہ کو خصوصاً اور اس سے بھی زیادہ انہی کا حصہ ہے وہ لوگ خدام الاحمدیہ کے جن کا تعلق اطفال الاحمدیہ سے ہے اور ہر خاندان کو.یہ بڑا ضروری ہو گیا ہے ہمیشہ ہی یہ ضروری ہے کہ بچے کو ضائع نہ ہونے دیا جائے لیکن اس زمانہ میں کہ وہ جو آج سات سال کا بچہ ہے جس وقت وہ تھیں سال کا ہوگا.آج سے تئیس سال کے بعد تو دنیا میں اسلام کے حق میں اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و شان کے لحاظ سے ایک انقلاب عظیم بپا ہو چکا ہوگا.اس وقت کے حالات جو ذمہ داریاں ہمارے بچوں کے کندھوں پر ، وہ بچے جو آج سات سال کے ہیں ڈالیں گے ان ذمہ داریوں کو نباہنے کی اہلیت اور طاقت اور استعداد اور صلاحیت تو ان کے اندر ہونی چاہیے.جماعت ، خاندان، انصار، خدام الاحمدیہ، اطفال کے نظام کے عہدیدار، مائیں، بڑی بہنیں ، ہر وہ شخص جس کا کسی نہ کسی پہلو سے ایک بچے سے تعلق ہے اور وہ احمدی ہے اس کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر وقت اس بات کو ذہن میں رکھے کہ اس بچے کو ہم نے خدا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار کرنا ہے اور ضائع نہیں ہونے دینا.حضور نے 24 اگست 1979ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحہ 52) انصار کو میں جو دو باتیں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہیں کہ عاجزانہ دعاؤں سے اپنے رب کو راضی کرو اور تمہارا اصل کام تربیت کا ہے اس کی طرف پوری توجہ دو تا کہ آنے والی نسلیں آنے والی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور نباہنے والی ہوں.یہ تربیت گھر سے شروع ہوتی ہے.اپنے بچوں اور لواحقین (Dependents) سے اور پھر ماحول کی وسعتوں میں پھیل جاتی ہے.گھر سے گاؤں ، گاؤں سے علاقہ ، علاقہ سے ملک، ملک سے نکل کے جب بنی نوع انسان کو اپنے احاطہ میں لے لیتی ہے.آپ پر پہلی ذمہ داری ہے دعائیں کرنا.وہ دعائیں ہر ایک کے کام کے لحاظ سے اور ہر ایک کے ماحول کے لحاظ سے اور عمر کے لحاظ سے مختلف ہو جاتی ہیں ایک خادم کی دعا کا بڑا حصہ یہ ہے.(طه: 115) ابھی وہ سیکھ رہا ہے.علم دین بھی سیکھ رہا ہے، علم اخلاقیات بھی سیکھ رہا ہے، علم روحانیات بھی سیکھ رہا ہے، وہ خدا سے کہے کہ اے خدا! تو نے مجھ پر

Page 551

62 خدمت کی ذمہ داری ڈالی لیکن اس کے لئے جن علوم کی مجھے ضرورت ہے کہ مجھے اخلاق کے سارے پہلو معلوم ہوں روحانیت میرے اندر پیدا ہو، مجھے یہ معلوم ہو کہ میں اپنے جسموں کی اور دوسروں کے جسموں کی صحیح نشو ونما اور تربیت کیسے کر سکتا ہوں ، کس رنگ میں ان کی خدمت بجالا سکتا ہوں.یہ دعائیں ہیں خدام کی جو بڑے ہیں ان کی یہ دعا ہے کہ اے خدا ہماری ذریت کو اور ہمارے ساتھ تعلق رکھنے والوں کو اپنا بندہ بنا.ان کے دلوں میں اپنا پیار پیدا کر.ہمارے لئے قرۃ العین ہوں وہ ہماری بدنامی کا باعث نہ بنیں.لوگ یہ نہ کہیں کہ خود تو انہوں نے دینی میدان میں ظاہری رنگ میں (باقی دلوں کا حال تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے ) بہت بلند مقام حاصل کئے لیکن ان کے بچے خراب ہو گئے.آنے والی نسلیں آباء کے مقام سے گر گئیں.یہ دعائیں ہیں ان کی اور تربیت کی ذمہ داری دعاؤں کے پہلو بہ پہلو آگے بڑھتی ہے.جس طرح خدام کیلئے خدمت کی ذمہ داری دعاؤں کے ساتھ.وو دعا اور خدمت پہلو بہ پہلو آگے بڑھتے ہیں.انصار کے لئے تربیت کی ذمہ داری دعاؤں کے ساتھ دعا اور تربیت“ پہلو بہ پہلو آگے بڑھتے ہیں.اور جماعت کو جو دو باتیں میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہیں.ایک تو یہ کہ عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اپنے رب کریم کی رضا اور اس کی نعماء کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.دعاؤں کے ساتھ اس ذمہ داری کو نباہنے کے قابل بنے کی کوشش کرو کہ ساری دنیا میں اسلام کو پھیلانے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور نور کو متعارف کروانے کی ذمہ داری تم پر ہے اور دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ سے یہ نعمت حاصل کرو کہ تم واقع میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو سکتے ہو خدا کی نگاہ میں یعنی اس طور سے نقشِ قدم پر چلنے والے ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپ کا صحیح معنی میں اور حقیقی رنگ میں دوسروں کے لئے اسوہ بن جاؤ اور تمہاری زندگیوں کو دیکھ کر اور تمہارے اعمال کو دیکھ کر تمہارے اسوہ کے حسن کے گرویدہ ہو کر وہ جو ابھی تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھنڈے سایہ کے نیچے نہیں آئے وہ اس طرف کھیچے آئیں.جذب ہو تمہارے اندر.اپنے لئے نہیں چونکہ تمہارا مقام تو نیستی کا مقام ہے ہر دو پہلو سے (۱) اس لئے بھی کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں تمہارا مقام نیستی کا ہے اور (۲) اللہ تعالیٰ کے مقابل تمہارا مقام نیستی ہے.وہ عظیم ہستی جس کے سامنے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عاجزانہ راہوں کو اختیار کر کے اور فنافی اللہ ہو کر نیستی کا مقام حاصل کیا.جس مقام پر دنیا فخر کرتی آئی ہے اور فخر کرتی چلی جائے گی.تو کبر اور غرور نہیں بلکہ ” خدمت عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ تربیت کی توفیق پانا خدام وانصار کا اور اتنی بڑی ذمہ داری ! اتنی بڑی ذمہ داری ڈالی گئی ہے تم پر کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جب آدمی سوچتا ہے کہ ذمہ داری کتنی بڑی ہے اور طاقت کس قدر تھوڑی.یہی سمجھ آتا ہے کہ خدا سے دعا مانگ کر جتنا زیادہ سے 9966

Page 552

63 زیادہ انسان کر سکتا ہو کر دے اور باقی (جیسا کہ خدا نے وعدہ کیا ہے کہ اگر تم اپنی سی کر لو گے تو کمی کو میں پورا کر دوں گا).انسان دعا کرے کہ اے خدا! میری کوشش کو خواہ وہ حقیر ہی کیوں نہ ہو ایسا بنادے کہ قبول ہونے کے لائق ہو تیرے حضور اور جب خدا قبول کر لیتا ہے انسان کی کوشش کو تو خامیاں دور کر دیتا ہے اور نتائج پورے نکال دیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے خدام کو اپنی ذمہ داریاں ، انصار کو اپنی ذمہ داریاں اور جماعت کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے کی توفیق عطا کرے اور عمل کرنے کی توفیق عطا کرے اور اس کے نتیجے میں اس نے جو نعماء کے وعدے اور بشارتیں دی ہیں وہ ہماری نسلوں میں ہماری زندگیوں میں اور آنے والی نسلوں کی زندگیوں میں پوری ہوں.آمین (خطبات ناصر جلد ہشتم صفحہ 335-337) انصار اللہ کے اجتماع میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہو.ہمارے سی اجتماع ذہنی اور اخلاقی تربیت کے لئے منعقد ہوتے ہیں حضور نے 14 ستمبر 1979ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.پہلے بھی میں نے توجہ دلائی ہے ذکر کے ماتحت اس وقت بھی میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں خدام الاحمدیہ کی عمر کی نمائندگی ہر جماعت سے ہونی چاہیئے.خدام الاحمدیہ کے اجتماع سوائے چند تنزل کے سالوں کے ہمیشہ ہی پہلے سے بڑھ چڑھ کر تعداد کے ساتھ منعقد ہوتے ہیں لیکن میرے دل میں یہ خواہش ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جماعتی تربیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ خدام وانصار کے اجتماع میں جماعت ہائے احمد یہ پاکستان کی تمام جماعتیں شمولیت اختیار کریں...........میری یہ خواہش ہے کہ کوئی ایسی جماعت نہ رہے جس کا کوئی نمائندہ اس اجتماع میں شامل نہ ہو.اس لئے میں امرائے اضلاع کو اور مربی صاحبان کو اور ان کو جو ان لوگوں کی نگرانی کرنے والے ہیں یہ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ذمہ دار ہیں اس بات کے کہ ہر جماعت سے خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں نمائندہ آئے.اگر چھوٹی جماعت ہے ایک نمائندہ آئے مگر آئے ضرور.ہر جماعت سے انصار اللہ کے اجتماع میں نمائندہ شامل ہو خواہ ایک ہی ہوا گر وہ چھوٹی جماعت ہے لیکن آئے ضرور.ہمارے یہ اجتماع دنیوی میلے نہیں.یہ اجتماع ذہنی اور اخلاقی تربیت کے لئے منعقد کئے جاتے

Page 553

64 ہیں.ذہنی تربیت کے لئے اس معنی میں کہ بہت سی نیکی کی باتیں شامل ہونے والوں کے کانوں میں پڑتی ہیں اور ذہنوں میں جلا پیدا ہوتا ہے اور اخلاقی لحاظ سے اس معنی میں کہ اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے خدام وانصار کو کہ حقیقی مسلمان بنے کی کوشش کرو.(خُلُقُهُ الْقُرْآنُ).( خطبات ناصر جلد هشتم صفحه 347-349) جلسہ میں زیادہ سے زیادہ انصار، خدام اطفال کو آنے کی تلقین حضور نے 21 ستمبر 1979ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.جہاں تک یہاں کی جماعت کا تعلق، پاکستان کی جماعت کا، ان کا تو کام ایک ہے اور وہ اسے کرتے ہیں اور پیار سے اور عشق سے کرتے ہیں ان کا کام یہ ہے کہ جتنے زیادہ سے زیادہ جلسے پر دوست آسکیں آئیں ہمیں معلوم ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک گاؤں جو قریباً سارا احمدی ہو چکا ہے وہ سارے کا سارا آ جائے.انہوں نے اپنے جانور بھی سنبھالنے ہیں، اپنے گھروں کو بھی سنبھالنا ہے، اپنے بیماروں کو بھی سنبھالنا ہے اپنے بوڑھوں کو بھی سنبھالنا ہے، وہاں اپنی مقامی ایسی ذمہ داریاں ہیں جنہیں چھوڑ کے وہ نہیں آسکتے.ایک حصہ ایسا بھی ہے صرف ایک حصہ آتا ہے.ہر سال آنے والوں کی تعداد پچھلے سال سے بڑھی ہوتی ہے ہر سال دنیا کی جماعت احمدیہ کی تعداد بڑھ جاتی ہے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.یہ اس کا ایک منصو بہ اور تدبیر ہے جو پوری ہورہی ہے ہزاروں کی تعداد میں دوران سال نئے احمدی ہو چکے ہوتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں بچے جو مثلاً اکیلے یہاں نہیں آسکتے تھے اور ماں باپ کے ساتھ ہی آسکتے تھے وہ اکیلے آنے والے بن گئے.ہزاروں کی تعداد میں طفل خادم بن گیا.خادم انصار اللہ میں شامل ہو گیا.چھوٹا بچہ جو ہے اس کو شوق پیدا ہو گیا کہ میں نے ضرور جانا ہے.بعض دفعہ چھ چھ سات سات سال کا بچہ پیچھے پڑ جاتا ہے کہ میں نے ضرور جلسے میں شامل ہونا ہے، میں پیچھے نہیں رہ سکتا.ہر سال ایسے نئے آتے ہیں.بعض ان میں سے میرے سامنے بھی آتے ہیں مجھے بتاتے ہیں کہ یہ کچھ عذر بھی تھے لیکن بچوں نے کہا نہیں ہم تو نہیں چھوڑ سکتے جلسہ.ایک تو یہ ہر سال زیادتی ہوتی ہے جلسے کی تعداد میں زیادتی ہوتی ہے کئی وجوہات کی بنا پر.ایک یہ ہے کہ تعداد بڑھ گئی جماعت کی ، شوق پیدا ہو گیا بعض لوگوں میں جو پہلے نہیں تھا اور جو ابھی احمدی نہیں ہوئے ان کو بھی شوق پیدا ہوتا ہے کہ جلسہ دیکھ آئیں ، ان کی تعداد بھی ہر سال بڑھ جاتی ہے.خطبات ناصر جلد ہشتم صفحہ 358-359)

Page 554

65 انصار، خدام اور اطفال جلسہ سالانہ پر رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کوشش کہ حضور نے 21 ستمبر 1979ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.اہل ربوہ کا دوسرا کام یہ ہے کہ اتنے رضا کار دے دیں کہ جلسہ کے نظام میں دقت محسوس نہ ہو.میں یہ نہیں کہتا سارے کے سارے آجاؤ کیونکہ سارے کے ساروں کی ضرورت ہی نہیں ہے.میں یہ کہتا ہوں کہ جتنے کی ضرورت ہے اتنے دے دو.میں یہ کہتا ہوں کہ اگر کسی گھر میں چار بچے ہیں طفل یا خدام یا انصار ہیں ان کے کرنے کے بھی بعض کام ہیں ، وہ گھر ضرور اس خدمت میں شامل ہو کے اس کی برکات لے اور کلی طور پر اپنے آپ کو محروم نہ کرے.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحہ 363) انصار، خدام مل کر ربوہ کو غریب دلہن کی طرح سجادیں حضور نے 21 ستمبر 1979ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.صفائی میں آپ نے شامل ہونا ہے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کی طرف سے جو اجتماعی صفائیاں ہوں گی ان میں جس طرح غریب دلہن ہوتی ہے ( غریب دلہن میں جان کے کہہ رہا ہوں) ایک غریب گھرانے کی بچی جس کو زیور بھی نہیں میسر جب دلہن بنتی ہے تو صاف ستھری ہوتی ہے نا.اس وقت تو اس طرح صاف ستھرار بوہ کو بنا دو.ہمیں سنگھار کی ضرورت نہیں لیکن صفائی کی ضرورت ہے ایسا بنا دور بوہ کو جلسہ سالانہ پر آنے والے دیکھیں کہ اہلِ ربوہ نے صاف ستھرا ماحول پیدا کر کے ان کا استقبال کیا اور ان کی عزت افزائی کی.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحہ 364-365) انصار اللہ کے اجتماع پر خطبہ جمعہ اجتماع کا ہی حصہ ہوتا ہے ایمان باللہ ، یوم آخرت پر ایمان اور عمل صالح کی لطیف تشریح حضور نے 26 اکتوبر 1979ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج انصار اللہ کا اجتماع شروع ہو رہا ہے اور اجتماع جس دن شروع ہو خدام کا یا انصار کا خطبہ جمعہ بھی اسی کا ایک حصہ بن جاتا ہے.

Page 555

66 انصار اللہ کے اجتماع کے جمعہ کے خطبہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس دن میں تحریک جدید کے سالِ نو کا اعلان کیا کرتا ہوں.تحریک جدید کو شروع ہوئے پینتالیس سال ہو چکے ہیں اور دفتر دوم کو شروع ہوئے پینتیس سال ہو چکے ہیں اور دفتر سوم کو شروع ہو نچودہ سال ہو چکے ہیں.پچھیالیسویں سال کا اعلان ہے جو میں اس وقت کر رہا ہوں اور دفتر دوم کے چھتیسویں اور دفتر سوم کے پندرھویں سال کا اعلان.پینتالیس سال پہلے تحریک جدید جب شروع ہوئی تو پینتیس سال پہلے یعنی اس کے دس سال کے بعد دفتر دوم کا اعلان ہو گیا لیکن اس کے بعد پچیسویں سال جب دس سال پھر گزر گئے تو دفتر سوم کا اعلان ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوا.وقت گزر گیا.بہت ساری وجوہات تھیں ان میں جانے کی ضرورت نہیں.بہر حال آج سیچودہ سال پہلے میں نے اس کا اعلان کیا.اعلان اس لئے کیا کہ دفتر اول میں جو دوست شامل ہوئے ان کا اس لمبے عرصہ کے گزر جانے کی وجہ سے چندہ، ان کی مالی قربانی اتنی نہیں رہی تھی کہ تحریک کے بوجھ کو وہ اٹھا سکیں اور ایک وقت ایسا آیا کہ جب تحریک جدید کا سارا چندہ قریباً ایک جگہ ٹھہر گیا اور ضروریات تو ہر سال بڑھتی ہی ہیں اور جماعت کا قدم تو ہر سال آگے ہی بڑھنا چاہیئے اس وقت یہ بات ذہن میں آئی کہ دفتر سوم کا اعلان ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہوا.وہ اعلان کیا گیا.1966 - 1967 میں پہلی دفعہ دفتر سوم کا چندہ تحریک جدید کے چندہ میں شامل ہوا.1967-1966 میں دفتر اول کا چندہ ایک لاکھ تریسٹھ ہزار تھا اور دفتر سوم کا پہلے سال کا چندہ پانچ ہزار دوسو ستاون ہوا.کام شروع ہو گیا اور اس نے ترقی کرنی تھی.آہستہ آہستہ پہلے سال اس طرف توجہ نہیں دی گئی دوستوں کو توجہ نہیں ہوئی.کچھ لوگ دفتر دوم میں شامل ہوتے رہے جن کو توجہ ہوئی اس طرف اور سال رواں یا پچھلے سال کہنا چاہئے یعنی 1977-1978 میں دفتر اول کا چندہ ایک لاکھ تریسٹھ ہزار دوسو اٹھائیس سے گر کے ایک لاکھ اکیس ہزار تین سو اٹھہتر رہ گیا.یعنی یہ نیچے جارہے تھے.دوست فوت ہو رہے تھے دوست پینشن پر جا رہے تھے بڑی عمر کی وجہ سے.آمدنی میں کمی ہو رہی تھی وہ اس قدر مالی قربانی نہیں دے سکتے تھے.حصہ لینے پر بھی جو پہلے دیا کرتے تھے یا فوت ہو گئے.اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے اللہ تعالیٰ انہیں اس کی احسن جزا دے.دفتر دوم 1966-1967 کو پانچ ہزار دوسوستاون روپے سے شروع ہوا اور 1967-1977 میں ایک لاکھ ستر ہزار ایک سو چورانوے تک پہنچ گیا یعنی جس وقت یہ شروع ہوا اس وقت دفتر اول کا چندہ تھا ایک لاکھ تریسٹھ ہزار اس سے دس ہزار سے بھی زیادہ رقم 1977-1978 سے آنی شروع ہوگئی.اس سال تو نہیں کیونکہ میں مشورہ نہیں کر سکا اور حالات کا جائزہ نہیں لے سکا.سوچ اور غور اور فکر نہیں کر سکا اور دعائیں نہیں کر سکا اس لئے دفتر چہارم کا اعلان نہیں کروں گا لیکن یہ جو کھڑا ہو گیا تھا چندہ.اس کے نتیجہ میں تحریک جدید کو

Page 556

67 اپنے کام میں دقتیں پیدا ہونی شروع ہو گئیں جس کو ایک حد تک دفتر سوم نے سنبھالا لیکن بعض ایسے ذرائع آمد تھے جو یک دم بند ہو گئے اور ان کی وجہ سے بہت وقت کا سامنا ہوا.پھر میں نے جماعت کو ایک ٹارگٹ دیا پندرہ لاکھ روپے کا.آٹھ اور دس لاکھ کے درمیان کہیں کھڑی ہوگئی تھی تحریک مالی قربانیوں کے میدان میں.اور ٹارگٹ کے لئے جماعت کوشش کرتی رہی لیکن ٹارگٹ تک پہنچی نہیں.یہ کئی سال کی بات ہے.اس واسطے میں نے ٹارگٹ بڑھایا نہیں.ہر سال میں کہتا رہا میرا پندرہ لاکھ کا ٹارگٹ ہے یہاں تک پہنچو.پچھلے سال کی وصولی تیرہ لاکھ نانوے ہزار ہے.سال رواں میں 22 اکتوبر تک آٹھ لاکھ کی وصولی ہو جانی چاہئے تھی اس میں سے سات لاکھ اسی ہزار وصول ہو چکا ہے.اس لئے امید ہے کہ سال رواں میں کم و بیش پندرہ لاکھ کا ٹارگٹ پورا ہو جائے گا انشاء اللہ تعالیٰ.یہ پاکستان کی جماعتوں کی مالی قربانی ہے.تحریک جدید کو جہاں یہ دقت پیش آئی کہ ساری دنیا کے اقتصادی حالات کے نتیجہ میں پاکستان سے باہر دین اسلام کی خدمت کے لئے جماعت کوئی رقم قا نو نا بھو نہیں سکتی تھی اور نہیں بھجوائی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلے میں یہ سامان پیدا کر دیا کہ باہر اس قدر ترقی جماعت کو خدا کے فضل اور اس کی رحمت سے ہو گئی کہ باہر کی جماعتوں نے ، بیرون پاکستان کی جماعتوں نے.بیرون پاکستان کے بہت بڑے بوجھ خود اٹھا لئے اور خود کفیل ہو گئے.یہاں جو اخراجات ہیں وہ اب کم ہو گئے ہیں لیکن جو ہیں وہ بہت ضروری ہیں مثلاً مبلغین کا تیار کرنا.جامعہ احمدیہ کا خرچ ہے.مبلغین کا تیار کرنا جماعت کی ذمہ داری اس معنی میں بھی ہے کہ تیاری کا خرچ جماعت مہیا کرے اور جماعت کی ذمہ داری اس معنی میں بھی ہے کہ خرچ کروانے کے لئے اپنے بچے وقف کرے اور بڑھتی ہوئی ضروریات کے مطابق مخلص نوجوان آگے آئیں.اس سلسلہ میں جو چیز نمایاں ہو کر میرے سامنے آئی وہ یہ ہے کہ جو ہماری نوجوان واقفین کی نسل ہے ان میں بڑی بھاری اکثریت محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت مخلص اور قربانی دینے والی اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی زندگی کو صحیح معنی میں وقف کرنے والی ہے اور صرف نو جوان واقفین ہی نہیں جماعت احمدیہ کی نوجوان نسل احمدیوں کے گھروں میں پیدا ہوئی ہے یا احمدی ہوئی ہے اور اسی طرح وہ احمدی نوجوان نسل بن گئی.خدام احمد یہ بن گئے ان کے اندر بڑا جذ بہ پایا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ سے بڑا پیار پایا جاتا ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بڑی محبت پائی جاتی ہے.یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کو انسانی دل میں پیدا کرنا ہے تو انہیں بہت سی قربانیاں دینی ہوں گی جس کے لئے وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ تیار

Page 557

68 ہیں ذہنی طور پر بھی اور قلبی طور پر بھی اور کوشش کرتے ہیں کہ وہ علمی طور پر بھی اس کے لئے تیار ہوں.یہ بڑی خوشی کی بات ہے لیکن دوسری طرف جو کمزور تھا وہ زیادہ کمزور ہو گیا.مقابلے میں آگیا نا بہت زیادہ مخلصین کے.تو ہزار میں سے ایک شاید بیس ہزار میں سے ایک شاید ایک لاکھ میں سے ایک ہو لیکن ان کی جو شرارتیں اور ان کی نالائقیاں تھیں اللہ تعالیٰ سے ان کی جو بے وفائیاں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی جو بے پر واہی تھی وہ نمایاں طور پر ہمارے سامنے آنے لگ گئی.اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے بھی سامان پیدا کرے اور مخلصین کی اس نسل کو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کی حفاظت میں رکھے اور شیطان کے ہر حملہ سے انہیں محفوظ رکھے.تو آج میں پندرہ لاکھ کے ٹارگٹ کے ساتھ ہی تحریک جدید کے سال نو کا اعلان کرتا ہوں تین شکلوں میں دفتر اول کے چھیالیسویں سال کا.دفتر دوم کے چھتیسویں سال کا اور دفتر سوم کے پندرھویں سال کا، جو نئے کمانے والے ہیں، جو نئے بلوغت کو پہنچنے والے ہیں.جو پہلی دفعہ اپنے دلوں میں یہ احساس محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، خواہ روپیہ دوروپے ہی کیوں نہ ہو، خدا تعالیٰ کے دین کی راہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور مالی قربانیاں بھی پیش کرنی چاہئیں.وہ اس کو مضبوط کریں.مالی جو پہلو ہے اس کو بھی اور جو اس سے اہم دوسرے پہلو ہیں انہیں بھی مضبوط کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے اور اللہ پر توکل اور اس سے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہماری آئندہ آنے والی نسلیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں گی اور ان کو ادا کرنے کی اپنے رب کریم سے توفیق پائیں گی.انصار اللہ کا اجتماع آج شروع ہے.جو انصار سے تعلق رکھنے والی تفاصیل ہیں ان کے متعلق تو انشاء اللہ ان کے اجتماع میں بیٹھ کے ان سے گفتگو ہوگی لیکن بعض بنیادی حقیقتیں ہیں انسانی زندگی کی اور چونکہ انصار اللہ کی زندگی بھی انسانی زندگی ہی ہے ایک پہلو اس کا.اس لئے بعض بنیادی باتیں اس وقت میں بیان کرنا چاہتا ہوں.سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (المائده : 70) خدا تعالیٰ کو حاصل کرنے ، اس کی معرفت پانے ، اس کی رضا حاصل کرنے ، اس کا پیارا بننے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جہاں منطقی ترتیب کے ساتھ تین باتوں کا ذکر کیا ہے ایک ایمان باللہ ہے، خدا تعالیٰ پر ایمان لانا یعنی خدا تعالیٰ کو وہ ماننا جو وہ ہے.وہ سمجھنا، وہ شناخت کرنا جو حقیقت ہے اس کی ہستی اور وجود کی جس کو ہم عام طور پر عرفان باری، اللہ تعالیٰ کی معرفت کا نام دیتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں ایک بے مثل ہستی ہے اور اس کی صفات میں بھی اس کا کوئی مثیل نہیں.جہاں تک اللہ تعالیٰ کا انسان سے تعلق ہے خدا تعالیٰ کی ساری صفات کی حقیقت یہ ہے کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً

Page 558

69 (ال عمران : 192 ) کہ ہر چیز جو اللہ تعالیٰ کے دست قدرت سے نکلی وہ باطل نہیں ہے.کسی مقصد کے بغیر نہیں.ایک مقصد ہے ہر پیدائش کا اور جیسا کہ دوسری آیات سے اور قرآن کریم کے دوسرے مقامات سے ہمیں پتا لگتا ہے.انسان کی پیدائش اس لئے ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا بندہ بنے اور خدا تعالیٰ کا بندہ بننے کے لئے اسے جس چیز کی بھی ضرورت اپنی انفرادی زندگی سے باہر تھی وہ سب ضرورت اللہ تعالیٰ نے مادی چیزوں کی پیدائش اور غیر مادی چیزوں کی پیدائش کے ساتھ پوری کر دی تو ربَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلا كاجب انسان اعلان کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم اس اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں جس نے ہمیں اپنا عبد بننے کے لئے پیدا کیا.اس لئے پیدا کیا کہ ہماری زندگی میں اس کے رنگ کی، اس کے نور کی جھلک ہو اور ہماری صفات پر بھی اس کی صفات کا رنگ چڑھے اور اس عظیم مجاہدہ کے لئے جس چیز کی بھی ضرورت تھی انسان کو وہ اس نے پیدا کر دی اور اس نے کوئی ایسی چیز پیدا نہیں کی جس سے فائدہ اٹھا کر ہم اپنی زندگی کے اس مقصد کے حصول میں کام نہ لیں.تو ایمان باللہ جو ہے یہ انسان اور خدا کے تعلق میں ایک بنیادی حقیقت ہے.خدا تعالیٰ کی معرفت کا حاصل کرنا اور یہ جاننا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا عبد بنانے کے لئے ہمیں پیدا کیا اور یہ نہیں کہ اس نے ہمیں یہ تو کہہ دیا کہ میرے عبد بنو میری صفات کا رنگ اپنی خصلتوں پر، اپنے اخلاق پر چڑھاؤ لیکن ایسا کرنے کے سامان پیدا نہیں کئے.یہ نہیں بلکہ جب اس نے یہ کہا اے انسان! میرا بندہ بن تو ساتھ ہی اس نے اپنا بندہ بننے کے سارے ہی سامان جو ہیں وہ اس کے لئے پیدا کر دیئے.یہ اصولی طور پر ہر چیز نوع انسانی کی خدمت پر لگی ہوئی ہے اور انفرادی طور پر فرد فرد میں جو فرق ہے ہر فرد نے اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے زبانِ حال سے جس چیز کا بھی مطالبہ کیا کہ اے خدا! تیری طرف بڑھنے کے لئے مجھے یہ چاہئے اس نے اس کائنات میں اس چیز کو پایا جو پہلے سے موجود تھی اور وہ خدا پر یہ گلہ نہیں کر سکتا کہ مجھے بندہ بننے کے لئے تو کہا گیا ہے لیکن بندہ بننے کے سامان پیدا نہیں کئے گئے.یہ ایمان باللہ ہے پہلی چیز جو ضروری ہے انسان کے لئے اگر وہ اللہ تعالیٰ کا بندہ بنا چاہتا ہے.ایمان باللہ سے اور مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاًے ہمارا دوسرا قدم یہ اٹھتا ہے.ہماری فطرت کی آواز ہماری عقل کا نتیجہ کہ جب کوئی چیز بھی باطل نہیں.بے فائدہ اور بے مقصد نہیں تو انسانی زندگی کیسے بے مقصد ہو سکتی ہے جس کے لئے ہر چیز کو پیدا کیا گیا ہے.اس واسطے ہماری زندگی اس دنیا میں ختم نہیں ہوتی.وَاليَومِ الْآخِر ایمان بالآ خرت ضروری ہو جاتا ہے یعنی حقیقی معرفت باری، ایمان بالآخرت پر منتج ہوتی ہے یعنی دوسرا ایمان اس کے پیچھے آتا ہے اور اس سے انسانی عقل انکار نہیں کر سکتی جیسا کہ اس کی فطرت اس سے انکار نہیں کر سکتی.یہ جو دوسرا پہلو ہے وَاليَومِ الآخر حشر کا دن زندہ ہونا اور اس دن خدا سے اس کی بے شمار نعماء کو

Page 559

70 حاصل کرنا یا اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں اور دوری کی راہوں کو اختیار کرنے کے نتیجہ میں اس کے قہر کے جلووں کا دیکھنا اس کا تعلق ہے وَاليَومِ الْآخِر کے ساتھ.پھر انسان کے دل میں خوف پیدا ہوتا ہے کہ معرفت باری کے بعد یہ یقین ہو گیا.یہ یقین جس کے او پر بڑا زور دیا ہے اسلام نے.اس کے بغیر ایمان باللہ بھی نہیں رہتا کیونکہ کامل ایمان جیسا کہ میں نے بتایا ہے کامل ایمان باللہ اس ایمان کو چاہتا ہے کہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی ہے اور یومِ آخرت ہے اور الساعة ہے اور قیامت ہے مختلف الفاظ میں اور مختلف پیرایوں میں اسے بیان کیا گیا ہے.تو جب جزا وسزا ہے.یومِ آخرت وَاليَومِ الآخِر میں قیامت کے دن تو اس کے لئے ہمیں عمل کرنا چاہیے.وَعَمِلَ صَالِحاً تیسر منطقی نتیجہ اگلا یہ نکلتا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے.اس معرفت سے ہمیں پتا لگا کہ ہم بندگی کے لئے، عبد بننے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور خدا تعالیٰ کا کوئی فعل اور کوئی خلق ، پیدائش اور کوئی چیز جو اس نے پیدا کی ہے وہ باطل نہیں ہے.ہماری زندگی بھی باطل نہیں ، وَاليَومِ الأخر قیامت کا دن ہے ہم زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے.یہ اپنا ایک لمبا مضمون ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں تفصیل سے آیا ہے.دوستوں کو ان کتب کو بھی پڑھنا چاہئیتا کہ قیامت اور وَالْيَومِ الْآخِر کی جو حقیقت ہے وہ بھی بہر حال ہمارے دماغ میں حاضر رہے.تو پھر سوال انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے کہ کیسے قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کروں تو فرمایا وَ عَمِلَ صَالِحاً عمل صالحہ کرے.قرآن کریم میں اعمال صالحہ کی تعریف یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے احکام کے مطابق ، خدا تعالیٰ کی نواہی اور خدا تعالیٰ نے جو اوامر بتائے ہیں ان کے مطابق موقع اور محل پر عمل صالحہ کرے یعنی موقع اور محل کے مطابق عمل کرے.یہ عمل صالحہ ہے لیکن انسانی کوشش جب انسان اپنے متعلق غور کرتا ہے.بڑی حقیر ہے اور کوئی شخص اپنے ہوش و حواس میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں اپنے عمل سے اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کے پیارکو حاصل کر سکتا ہوں العیاذ باللہ اس لئے دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:- قُلْ مَا يَعْبُوْا بِكُمْ رَبِّي لَوْ لَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان: 78) تو عمل صالح اچھا نتیجہ کسی شخص کے لئے صرف اس حالت میں پیدا کر سکتا ہے جب وہ عمل مقبول ہو.خدا تعالیٰ اسے قبول کرے تب اس کو جزا دے گا نا.اس لئے جہاں تک انسانی کوشش کا سوال ہے عملِ صالحہ کا.اس کی بنیادی حقیقت دعا ہے یعنی خدا سے اس کے فضل کو مانگنا تا کہ انسان اس کے قرب کی راہوں میں آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے اور دعا ہے اس کی مغفرت کے لئے التجا کرنا اور چیخ و پکار کرنا تا کہ جو باتیں، جو اعمال اس کو نا پسندیدہ ہیں اور جو اس سے دور لے جانے والے ہیں.وہ اول سرزد ہی نہ ہوں اور اگر سر زد ہو جائیں تو ان کے بدنتائج سے ہمارا رب ہمیں بچالے.اس مغفرت کے لئے دعا کرنا.سو یہ دعا کے دو حصے ہیں.نیکیوں کی تو فیق پانے کے لئے اعمال

Page 560

71 صالحہ مقبولہ کی توفیق پانے کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کو طلب کر نا اور اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں اور بدیوں اور بداعمالیوں اور بھول چوک سے بچنے کے لئے یا ان کے بدنتائج سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ کی مغفرت کا طالب ہونا اس کے بغیر وہ عمل صالح جو روکھا پھیکا انسان کا اپنا عمل صالح ہے.جس میں خدا تعالیٰ کا فضل شامل نہیں اور خدا تعالیٰ نے جسے قبول نہیں کیا ایک کوڑی قیمت نہیں رکھتا نہ خدا کے نزدیک نہ انسانی فطرت کے نزدیک کیونکہ جس نے جزا دینی ہے اس کو اگر وہ عمل پسند آئے گا تبھی وہ اس کا بدلہ احسن رنگ میں مقبول اعمال کے متعلق جو وعدے دیئے گئے ہیں اس طور پر اپنے بندوں کو دے گا اور جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر لیتا ہے یوم آخرت پر پختہ ایمان رکھتا ہے جیسا کہ اسلام نے تعلیم دی اور اس کے مقبول اعمال صالحہ ہیں اس کے متعلق خدا نے کہا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ كه الله تعالیٰ کے ایمان کو قبول کر لینے کی علامت یہ ہے یعنی خدا تعالیٰ نے جو اس کے ایمان کو اور اس کے دلی عقیدہ کو اور اس کے اعمال صالحہ کو قبول کر لیا اس کی علامت یہ ہے کہ سچے مومنوں کو نہ تو آئندہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ وہ سابق کوتاہیوں کے بدنتائج کا شکار ہوتے ہیں تو جب ان کی اسی زندگی کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں جب یہ حالت ہو تو اس سے پتا لگتا ہے کہ ایمان سچا ہے.دلی عقیدہ صادق اور اعمال صالحہ خدا کو مقبول ہیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے اور ہم سب کو جو انصار اللہ سےتعلق رکھنے والے ہیں اپنی عمر کے لحاظ سے انصار کی تنظیم میں ہیں.ہم سب کو ان تین حقیقوں پر قائم ہوکر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی توفیق عطا کرے تاکہ ہم ان کے لئے جو عمر میں ہم سے چھوٹے یا علم میں اتنے پختہ نہیں یا جو تجربہ میں کم ہیں یا بعد میں آنے والی نسلیں ہیں ان کے لئے نیک نمونہ بنیں.بدنمونہ نہ بنیں تا کہ ہر نسل اپنے دور میں سے گزر کے جب انصار اللہ میں شامل ہو تو آنے والی نوجوان نسلوں کے لئے وہ نمونہ بنتی چلی جائے تا کہ وہ کام جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے مسلمان کے سپرد کیا ہے کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرے وہ جلد پورا ہو اور یہ مقصد ہمارا اس زندگی میں بھی ہمیں حاصل ہو اور دنیا جہان کی خوشیاں مل جاتی ہیں اگر یہ مقصد حاصل ہو جائے که نوع انسانی ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کی توحید کے جھنڈے تلے جمع ہو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار اور محبت میں مست اور سرشار آگے ہی آگے خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں پر چلتی جائے.یہ نظارہ ہم دیکھیں.جو دوری کی راہیں آج دنیا اختیار کئے ہوئے ہے خدا کرے وہ دوری کی راہیں قرب کی راہوں میں بدل جائیں اور اس میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہو اس رنگ میں کہ خدا ہماری کوششوں کو قبول کرے اور ہمیں بھی اس کی محبت اور پیار حاصل ہو.آمین.خطبات ناصر جلد ہشتم صفحہ 409-417)

Page 561

72 $ 1980 انصار دینی کتب کی خرید کے لئے کلب بنا ئیں اور گھروں میں فیملی کلاسز جاری کریں حضرت خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ 7 مارچ1980ء میں فرمایا.وہ کتب جو ہماری جان ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھ کے اگر ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نور حاصل نہیں کرنا تو زندہ رہ کے کیا کرنا ہے.میں نے کہا کلب (Club) بناؤ.خدام اپنی بنائیں.انصار اپنی بنائیں، لجنہ اپنی اور پہلا مرحلہ یہ ہے ( پہلے جو میں نے بات کی تھی اور سوچا اب اس سے کچھ زائد بات کرنے لگا ہوں) کہ ہر گھر میں دو آدمی میاں بیوی ہیں ابھی بچہ نہیں پیدا ہوا یا آٹھ دس آدمی ہیں اور ان کے Dependents ہیں بچے بڑے ہو گئے ہیں.پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہر گھر میں ایک نسخہ تفسیر صغیر کا ہو یا اگر کوئی انگریزی کے شوقین ہیں تو جو انگریزی ترجمہ قرآن کے فٹ نوٹ ہیں ان میں تفسیر صغیر کو Follow کیا ہے بلکہ اپنی شروع خلافت میں بعض مضامین پر میں نے روشنی ڈالی تو ملک غلام فرید صاحب نے ان کو بھی انگریزی کے فٹ نوٹس میں لے لیا.یہ مرضی ہے گھر والے کی کہ وہ تغییر صغیر رکھتا ہے یا تفسیر صغیر کی طرح کے ہی جو نیچے نوٹ والا ہمارا انگریزی ترجمہ اور نوٹ ہیں وہ اپنے گھر میں رکھتا ہے.اور دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر کی جو پانچ جلدیں چھپ چکی ہیں وہ اس سال کے اندراندر ہر گھر میں آجائیں.اس کے لئے میں نے ایک تجویز سوچی.میں نے کہا نا کہ ایک ہماری مشکل یہ ہے کہ اتنے پیسے نہیں.مثلاً ایک خاندان ہے وہ ڈیڑھ سوروپیہ کما رہا ہے ڈیڑھ سو سے زیادہ ان کی قیمتیں بن جاتی ہیں وہ کیسے یکدم خرید لے گا تو عقل سے ہم نے کام لینا ہے.میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ میں سے کوئی بھی بد دیانت نہ ثابت ہو اور آپ کو یہ غیرت ہونی چاہئیکہ آپ میں سے کوئی بددیانت نہ ثابت ہو.اگر آپ دیانت دار ہیں تو ہمیں ایک لحظہ کے لئے بھی آپ کو کتاب پکڑانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں محسوس ہوتی.یہ کلب جو میں نے بتائی ہے آپ سوچ کے بنالیں گے سارے کے سارے اس کلب کے ممبر ہونے چاہئیں.بے شک اپنے چندے اپنی آمد کے لحاظ سے تھوڑے یا بہت کریں مثلاً دوروپے مہینہ کریں، تین روپے مہینہ کریں ، پانچ روپے مہینہ کریں، دس روپے مہینہ کریں.باقاعدگی سے ہر شخص پہنچائے ، جگہ پہنچانے کی وہ ہو جہاں اسے زیادہ تکلیف نہ ہو.دس میل دور وپے خرچ کر کے دوروپے نہ پہنچائے بلکہ ایک پیسہ خرچ

Page 562

73 کئے بغیر پیدل چل کے اس جگہ پر پہنچے جہاں اس نے اپنا چندہ Deposit کرانا ہے.خدام الاحمدیہ اور ان ساری تنظیموں کو اتناOfficiant اتنا اہل تو ہونا چاہئیکہ وہ ایسا نظام قائم کر سکیں.آپ کی تعداد کے مطابق میں ربوہ سے یہاں کتابیں بھجوا دوں گا اور آپ ہر گھر میں دے دیں.اس کی قیمت کی ادائیگی کی دو شکلیں بنتی ہیں.یا تو میں ربوہ کو کہوں گا کہ آپ سے بالاقساط رقم وصول کریں مثلاً سارا بل اگر دس ہزار کا بنتا ہے اور آپ نے یہ رقم دس مہینے میں دینی ہے تو ایک ہزار روپ دے دیں.اگر آپ نے بیس مہینے میں وہ رقم ادا کرنی ہے (اور یہ پہلے ہی فیصلہ ہو جائے گا ) تو آپ وہاں پانچ سوروپیہ مہینہ ادا کریں با قاعدگی کے ساتھ بغیر اس کے کہ ایک خط بھی یاد دہانی کا آپ کو آئے.اسی طرح لجنہ کرے اور انصار کریں لیکن جماعت ایک کمیٹی بنائے جو یہ دیکھے کہ میں جو کہہ رہا ہوں کہ تین تنظیمیں کریں تو میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ ابھی پہلے مرحلے میں ہی ایک گھر میں تین جلدیں اکٹھی ہو جائیں.میرا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسا گھر ہے جہاں خدام الاحمدیہ کی عمر کا بچہ ہی کوئی نہیں تو اس کے نئے انصار منتظم ہوں.ایک گھر ایسا ہے جہاں مرد ہی کوئی نہیں مثلاً کئی نادان ہماری بوڑھی نوجوان کنواری لڑکیاں جو نوکری کرنے لگ گئی ہیں تھیں اٹھائیس سال کی اکیلی ہیں یعنی ابھی شادی نہیں ہوئی خاوند ہی کوئی نہیں ان کے.تو وہ لجنہ اماءاللہ کی ممبر بنیں گی اور ان سے لے لیں گی.جماعت احمد یہ ایک کمیٹی بنائے جو یہ دیکھے کہ یہ آپس میں Co-ordination ہو کہ یہ ایک کاپی جو آنی ہے یہ خدام الاحمدیہ کے ذریعہ اس گھر میں داخل ہوگی یا انصار اللہ کے ذریعہ لجنہ اماءاللہ کے ذریعہ اور اس سال کے اندر اندر یہ مرحلہ آپ کو کتا ہیں ملنے کا پورا ہو جانا چاہیے.اس کی ادائیگی کی تو دیکھیں گے کیا شکل بنتی ہے کچھ جلدیں ادا ئیگی کر دیں گے کچھ یکمشت ادا ئیگی کر دیں گے.کوئی دس مہینے میں کرے گا.کوئی بیس مہینے میں کرے گا اس کے مطابق ہوگا.ایسا مالی بوجھ ڈالے بغیر جسے اٹھانے کی اس شخص کو طاقت نہیں.یہ علوم کے خزانے ان کے گھروں میں پہنچنے چاہئیں.ہم ان کے گھروں کو ور اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی برکات سے بھرنا چاہتے ہیں یہ کتب وہاں ہونی چاہئیں یعنی یہ مرحلے دو ہیں کتب کے لحاظ سے لیکن یہ ایک وقت میں چالو ہوں گے اور علیحدہ علیحدہ اس کی رپورٹیں ہوں گی اور میرے پاس آئیں گی اور ایک سال کے اندر اندر ہر گھر میں تفسیر صغیر کا ایک نسخہ اور پانچ جلدیں تفسیر کی ہو جانی چاہئیں.جو طاقت رکھتے ہیں وہ تو اگلے جمعہ سے پہلے پہلے خرید لیں.مجھے یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ آپ کی ضرورت کے مطابق ربوہ میں جلدیں موجود بھی ہیں یا نہیں یا چھپوانی پڑیں گی.اس واسطے میں نے ایک سال لگایا ہے کیونکہ پھر میں ذمہ دار ہوں انشاء اللہ کہ وہ آپ کو ایک سال کے اندریل جائیں.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحہ 573-575)

Page 563

74 انسانوں کی خدمت بھی جہاد فی سبیل اللہ ہے حضور نے 7 نومبر 1980ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.نفس کو درست کرنا پالش کرنا تا کہ خدا اور زیادہ پیار کرے.خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے یہ نہیں ڈرنا کہ ہم بھو کے مرنے لگ جائیں گے.اپنے اوقات دینا خدا کی راہ میں اب یہاں آگئے ہیں یہ بھی ایک جہاد انْفُسَهُمُ ہے.انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ اور جلسہ سالانہ میں اور وقف زندگی کا باہر جا کے انسانوں کی خدمت کرنا یہ سارا جہاد فی سبیل اللہ ہے.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحه 689) جلسہ سالانہ پر ربوہ کی صفائی کے لئے انصار، خدام، اور لجنہ خصوصی توجہ دیں حضور نے 21 نومبر 1980ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.دوسرے صفائی اور ایک سادگی سے سجاوٹ جو ہے وہ ہر سال ہوتی ہے اور ہر سال یاددہانی بھی میں کراتا ہوں ثواب حاصل کرنے کے لئے.خدام وانصار اور لجنہ سب کو میں کہتا ہوں کہ آج کے بعد سے ربوہ کی صفائی کا خیال کرنا شروع کر دو.لجنہ کو میں اس لئے کہتا ہو کہ میرے پاس یہ خبر بھی پہنچی ہے کہ بہت سی صاف رہنے والی احمدی مستورات اپنے گھروں کی صفائی کر کے مانج کوچ کے سارا گند دروازہ کھول کے گلی میں پھینک دیتی ہیں.تو گھر صاف ہو جاتے ہیں اور ر بوہ جو ہے گندا ہو جاتا ہے.اس واسطے آپ ایسا انتظام کریں ، ڈیوٹی لگائے ہرممبر لجنہ کہ اس کے گھر کا جو مرد ہے وہ جو یہ کوڑا کرکٹ اکٹھا کریں، آج کل تو یہ پلاسٹک کے بیگ بڑے ستے مل جاتے ہیں، مفت بہت سارے مل جائیں گے.کسی میں کھا د آ رہی ہے کسی میں کچھ دو دو پیسے کے شاید مل جائیں یا مفت مل جائیں.بہر حال وہ لیں اور ان کو کہیں جو جگہ ہے پھینکنے کی گند کی وہاں جاکے پھینکو.سارا جسم صاف کر کے ایسی بات ہے کہ اپنے ماتھے کے اوپر مل لینا گند یہ تو ٹھیک نہیں نا.تو دروازہ تو آپ کا ماتھا ہے اس کو صاف رکھنا یہ لجنہ کا کام ہے اور گلیوں کا کوڑا کرکٹ ہٹانا، گڑھے جو میں چھوٹے چھوٹے ہو جاتے ہیں بارشوں کی وجہ سے اور کئی وجوہات ہیں تو ان کو پر کرنا، جھاڑیاں اُگ آتی ہیں غلط جگہوں پر ان کو کاٹنا.بعض دفعہ کانٹے والی جھاڑیاں ہوتی ہیں، میں کہتا ہوں ایک مہمان کو بھی اگر کانٹا چھے جلسے کے ایام پر تو ہمارے لئے بڑے دکھ کا وہ باعث بنے گا اور بڑی شرم کی بات ہوگی.تو یہ صفائی کریں خوب.غریب جماعت ہیں ہم لیکن ہم سمجھتے ہیں اور خدا کرے کہ ہماری سمجھ درست ہو کہ اللہ تعالیٰ سے پیار

Page 564

75 کرنے والی ہم جماعت ہیں اور خدا کا ہر حکم خواہ وہ ثِيَابَكَ فَطَبَرُ (المدثر: 5) کا ہو خواہ وہ اپنے ماحول کو صاف کرنے کے لئے ہو اس پر عمل کرنے والی جماعت ہے.میں دعا کرتا ہوں اور دیکھوں گا یہ کام میرا ہے.یہ بھی ایک کام ہی ہے کہ دیکھوں، آپ کی رپورٹیں پڑھوں کہ کتنے محلوں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے.ہفتے کو کل ہفتہ ہے نا، اگلا ہفتہ جو ہے اس کو یا ایک دو دن بعد اگر میں باہر ہوں تو میرے پاس پہلی رپورٹ آ جائے صفائی کے متعلق خدام وانصار کی طرف سے.( خطبات ناصر جلد ہشتم صفحہ 709-710)

Page 565

76 $ 1981 انصار اللہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو اسلامی بنا ئیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے 27 مارچ 1981 ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.جماعت احمدیہ میں ذیلی تنظیمیں بھی ہیں.انصار اللہ ہے.خدام الاحمدیہ مع اس کی شاخ اطفال الاحمدیہ کے اور لجنہ اماءاللہ مع اس کی شاخ ناصرات الاحمدیہ کے.ان ذیلی تنظیموں کے سپر د خلیفہ وقت نے بعض معین کام کئے ہیں اور امید رکھی جاتی ہے کہ وہ اپنے دائرہ عمل میں حسنِ عمل پیدا کریں گی اور حسن عمل بہت حد تک پیدا کر بھی رہی ہیں لیکن انسانی زندگی میں ترقیات کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں.(خطبہ کے دوران بعض دوست جو دوسروں کے سروں پر سے پھلانگ کر آگے آنے کی کوشش کر رہے تھے کی طرف اشارہ کر کے حضور نے فرمایا لوگوں کے سروں پر سے پھلانگ کے نہیں آنا چاہیئے.ناقل ) اور اس کے لئے ایک مستقل عمل ، جد وجہد میں تسلسل قائم رکھا جاتا ہے رکھا جانا چاہیے.بعض دفعہ بعض ممبران ان تنظیموں سے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ چونکہ مثلاً خدام الاحمدیہ کی ایک تنظیم قائم ہے.اس لئے ماں باپ کی ساری ذمہ واریاں خدام الاحمدیہ کو سونپ دی گئی ہیں.انہیں اپنے بچوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت نہیں.یہ غلط ہے ان تنظیموں نے اپنے اپنے دائرہ عمل میں کام کرنا ہے اور جو جماعت احمد یہ ہے اس نے بڑے وسیع پیمانہ پر اس مہم کے لئے تیاری کرنی ہے جو جماعت کے سپرد کی گئی یعنی اس زمانہ میں اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنا.خدام الاحمدیہ نگرانی کرتی ہے کہ نوجوان اور اطفال قرآن کریم کی طرف توجہ کریں.انہیں نماز آتی ہو.موٹے موٹے مسائل اطفال کو معلوم ہوں.ایک حد تک قرآن کریم پڑھانے کا انتظام بھی کرتے ہیں.یاد دہانیاں کراتے ہیں لیکن جہاں تک گھروں کے ماحول کا تعلق ہے خدام الاحمدیہ کا تو اس سے کوئی تعلق نہیں کہ زید یا بکر یا عمر کے گھر میں کس قسم کا ماحول ہے اور اس گھر میں کیا کوشش ہو رہی ہے اپنے بچوں کی تربیت کی ، ان کے دل میں خدا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کرنے کے لئے ، اسلام کی عظمتیں ان کے دلوں میں ڈالی جارہی ہیں یا نہیں؟ جو ذمہ داریاں والدین پر یا بڑی عمر کے عزیز وں اور رشتہ داروں پر اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں پر ہیں ان کی طرف توجہ دی جارہی ہے یا نہیں.خدام الاحمدیہ کو اس کا کیا علم ؟ خدام الاحمدیہ کا تعلق تو ایک خاص دائرہ میں ہے اور اس وقت ہے جب گھر سے بچہ باہر نکلتا ہے.جب گھر میں ہوتا ہے تو خدام الاحمدیہ کو اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.خدام الاحمدیہ کو دین نے بھی اجازت نہیں دی نہ جماعت احمد یہ یہ اجازت دے سکتی تھی خدام الاحمدیہ کو کہ وہ گھروں کے اندر داخل

Page 566

77 ہو جائیں.اس کی اجازت تو عزیزوں کو بھی نہیں.قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ جاؤ اور دستک دو اور سلام کرو اور اجازت لو.اجازت ملے تو اندر داخل ہو نہیں تو واپس آجاؤ اور واپس آجاؤ اسی میں تمہارے لئے تقویٰ کے حصول کی راہیں رکھی گئی ہیں.غصے سے واپس نہ آؤ کہ بڑے بداخلاق ہیں انہوں نے ملنے کی اجازت نہیں دی.وہ شخص بداخلاق ہے اسلامی نقطہ نگاہ سے جسے اجازت نہیں ملی اور اس نے بُرا منایا کیونکہ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ بُرا مناتے ہوئے واپس آ جاؤ.قرآن کریم نے کہا ہے کہ ہنسی خوشی واپس آ جاؤ تمہیں نہیں معلوم کہ وہ کس کام میں مشغول تھا اور اس وجہ سے تمہیں وہ نہیں مل سکتا تھا.انصار اللہ جو ہیں وہ انصار بھی ہیں.ان کی ذمہ واریاں اپنے دائرہ کے اندر گھروں سے باہر ہیں اور جماعت احمدیہ کے ایسے افراد ہونے کی حیثیت میں جو اپنی عمر کے لحاظ سے بڑے، تجربے کے لحاظ سے پختہ اور اگر لمبا عرصہ ان کا گزرا ہے احمدیت کی فضا میں تو علم بھی ان کا زیادہ اور وعظ ونصیحت بھی انہوں نے زیادہ بارسنا ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے گھر کے ماحول کو اسلامی ماحول بنا ئیں اور اس بات کی ذمہ داری ہے ان کے کندھوں پر کہ وہ یہ دیکھیں کہ ان کے گھروں میں تلاوت قرآن کریم ہوتی ہے، قرآن کریم کا ترجمہ ان کے گھر میں جو ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے بچے بچیاں ہیں ان کو سکھایا جارہا ہے، جو آج کی دنیا ہے اس کے متعلق بتایا جارہا ہے.جو نوع انسانی کی آج کی ضرورتیں ہیں ان کی طرف انہیں توجہ دلائی جارہی ہے اور ان کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ آج کی دنیا کے مسائل سوائے اسلام کے کسی اور جگہ سے حل نہیں کروائے جاسکتے اور یہ ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ہے.یہ ایک نسل کی ذمہ داری نہیں.اگر یہ کام ایک نسل پر ختم ہو جاتا ہے تو ہم خوش ہوتے کہ ایک نسل جو ہے ہماری عمر میں بڑی، اگر ان کی تربیت ہو جائے اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبا ہیں تو ہم کامیاب ہو جا ئیں گے لیکن نسلاً بعد نسل نوع انسانی کو دائرہ اسلام میں داخل کرنا تا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ٹھنڈے سائے تلے ان کی زندگیاں گزریں اور نوع انسانی کو قیامت تک اس قابل بنائے رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کی وہ وارث ہوتی رہے.یہ تو قیامت تک آنے والی نسلوں کی ذمہ داری ہے اور ہر بڑی نسل کی یہ ذمہ داری ہے کہ اگلی نسل کے دل میں یہ جوش پیدا کرے کہ جہاں تک ہمارے بزرگ پہنچے تھے ہم اس سے آگے نکلیں، آگے نکلیں.گے تو کام ہوگا کیونکہ کام میں زیادتی ہورہی ہے.اندرونی تربیت کو ہی لے لو.جس وقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پہلا جلسہ ہوا.غالباً ( صحیح تعداد مجھے اس وقت یاد نہیں ہے ) ستر کے قریب تھے افراد.چھوٹی سی جماعت تھی، اس چھوٹی سی جماعت کی اندرونی تربیت مختصر تھی.اب ہمارے جلسے میں ڈیڑھ اور دولاکھ کے درمیان کا اندازہ ہے گزشتہ جلسے میں.پس ذمہ واریاں بڑھ گئیں.پہلے جس تعداد میں نئے احمدیت میں داخل ہونے والے تھے اس سے کہیں زیادہ اب داخل ہونے والے ہیں.بعض ایسے سال بھی گزرے ہوں گے.بعض دفعہ بڑا جوش بھی آیا

Page 567

78 طبائع میں لیکن بعض ایسے سال بھی گزرے ہوں گے کہ سارے سال میں جتنے نئے احمدیت میں داخل ہونے والے تھے اس سے زیادہ ایک مہینے میں ، بعض دفعہ ایک ہفتے میں ہو جاتے ہیں نئے احمدی.تو ایک احمدی کی زندگی کے جو حالات ہیں ان میں عظیم تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں.خاموشی کے ساتھ ہم اپنے راستوں پر چلتے ہوئے اپنی زندگی نہیں گزار سکتے ، چوکس اور بیدار ہو کر ہر اس اچھی تبدیلی ( نوع انسان کے لئے جو آج پیدا ہو رہی ہے ) اس کو دیکھنا، اس کو سوچنا، اس کے مطابق اپنے ذہنوں میں تبدیلی پیدا کرنا، جو نئے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ان کو سلجھانے کے لئے تدابیر کرنا، قرآن کریم پر غور کرنا کیونکہ قیامت تک کے ہر نئے مسئلے کا حل قرآن کریم کے اندر موجود ہے اور خدا سے دعا کرنا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے علوم بڑوں کو بھی سکھائے اور نوجوان نسل میں بھی علم قرآنی کے حصول کا ایک جوش، ایک عشق ، ایک جنون پیدا کرے تا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے لگیں.گھر کا سولہ سال کا بچہ اپنے گھر میں یہ فضا نہیں پیدا کر سکتا.یہ تو باپ فضا پیدا کر سکتا ہے یا ماں فضا پیدا کر سکتی ہے یا وہ بھائی پیدا کر سکتا ہے جو اپنی عمر کے لحاظ سے بڑا ہے مثلاً گھر میں بھائی ہے تمہیں پینتیس چالیس سال کا قریباً انصار کی عمر کو پہنچا ہوا ہے اور کچھ بھائی ہیں ، پندرہ سولہ میں سال کی عمر کے جو ایسی عمر میں داخل ہو رہے ہیں جس میں غلط قسم گندی قسم کی دوستی کے بداثر کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے.ان کو اس وقت سنبھالنا، اس کے لئے دعا کی ضرورت ہے.اگر اسلام اپنے ماننے والوں کا رب کریم کے ساتھ زندہ تعلق پیدا نہ کرسکتا تو اسلام کی ضرورت نہیں تھی نوع انسانی کو نوع انسانی کو آج اسلام کی ضرورت اس لئے ہے کہ یہ ضروری ہے انسان کی اس زندگی کی خوشحالی کے لئے بھی (جو دوسری زندگی ہے اس میں تو بہر حال ہے ) لیکن اس زندگی کی خوشحالی کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ اس دنیا کی زندگی میں انسان کا ایک زندہ اور پختہ پیار کا اور فدائیت کا اور ایثار کا تعلق اپنے رب کریم سے پیدا ہو جائے.الیسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کی انگوٹھی کا رواج ہے.ہم میں کہ اللہ ہی اللہ ، یہی معنے ہیں نا اس کے.اللہ بیلی، پنجابی میں کہتے ہیں.”مولا بس.یہ روح احمدی کے بچے میں اور بڑے میں پیدا ہونی چاہئے کہ ”مولا بس خدا کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہمیں اور ہر چیز جس کی ضرورت ہے وہ اللہ تعالیٰ سے ہم لیں گے کسی اور طرف منہ پھیرنے کی ہمیں ضرورت نہیں.اس خطبہ میں میں بڑوں کو یہ توجہ دلا رہا ہوں کہ اپنے گھروں کی صفائی کریں.گھروں میں اخلاقی اور روحانی حسن پیدا کریں.اپنے گھروں کی ظلمات دور کر کے انہیں منور بنا ئیں تا کہ آپ کی آئندہ نسل جو ہے وہ اس نیک اور پاک اور مطہر ماحول میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ پر ورش پا کر وہ بنیں جو اللہ تعالیٰ انہیں بنانا چاہتا ہے.انسان زور بازو سے متقی نہیں بن سکتا، پر ہیز گار نہیں بن سکتا.قرآن کریم نے کھول کے یہ بات بیان کی اور دھڑلے کے ساتھ اس کا اعلان کیا اور حکم دیا ہمیں.فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ (النجم: 33) کبھی

Page 568

79 اپنے آپ کو مطہر نہ سمجھنا.هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم : 33) کیونکہ روحانی پاکیزگی کا تعلق اس بات پر ہے کہ آیا اللہ تعالیٰ نے انسان کی سعی کو قبول کیا اور مشکور ہوئی وہ سعی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے مقابلہ میں اپنی محبت اسے عطا کی.متقی وہ نہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ میرے دل میں خدا کی خشیت ہے اور میں اس کی پناہ لینا چاہتا ہوں.متقی وہ ہے جس کے دل میں واقع میں خدا کی ایسی خشیت ہے جو خدا کو پسند آئی اور خدا نے اسے اپنی پناہ میں لے لیا.اپنے زور بازو سے تو تم خدا تعالی کی پناہ میں نہیں آسکتے.اپنے فضل سے وہ تمہیں اپنی پناہ میں لے سکتا ہے.پس عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے بے انتہا دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس مقام پر کھڑا کرے جس مقام پر ایک احمدی باپ کو اللہ تعالیٰ کھڑا کرنا چاہتا ہے اور آپ کی آئندہ نسلوں کو تا قیامت اللہ تعالیٰ اس بات کی توفیق عطا کرتا رہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم انقلاب، انقلاب انسانی زندگی میں ایک ہی ہوا اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا انقلاب ہے ( باقی سارے ہنگامے انقلاب نہیں بلکہ اس کے الٹ چلنے والی لہریں ہیں انسانی زندگی کی ) تا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا انقلاب نوع انسانی کو اپنی تمام برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ لپیٹ لے اور ان کا احاطہ کر لے اور یہ خوشحال زندگی اور ایک حسین معاشرہ نوع انسانی کی زندگی میں پیدا ہو اور پھر قیامت تک وہ قائم رہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے اور ہمیں دعا کرنے کی توفیق دے اور ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے.تا کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرسکیں.آمین.( خطبات ناصر جلد نم صفحہ 63-67) ذیلی تنظیموں کو اجتماعات کی تیاری کے لئے زرین ہدایات حضور نے 18 ستمبر 1981ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.اکتوبر کے آخر میں خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ اور انصار اللہ کے اجتماع ہوں گے.آج میں ان اجتماعات کی تیاری اور اہمیت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَا عَدُّوالَهُ عُدَّةً (التوبة : 46) قرآن کریم کی یہ بھی ایک عظمت ہے کہ وہ ایک واقعہ کی اصلاح جب کرتا ہے تو چونکہ یہ ابدی صداقتوں پر مشتمل ہے اس کا بیان اس طرح کرتا ہے کہ واقعہ کی طرف اشارہ بھی ہو جائے اور ایک بنیادی اصول اور حقیقت بھی بیان کر دی جائے.

Page 569

80 اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کمزوروں کے متعلق اور منافقوں کے متعلق جو جہاد میں نہیں نکلے اور بعد میں عذر کرنے شروع کئے کہ یہ وجہ تھی اور یہ وجہ تھی ، ہمارے گھر ننگے تھے ، ڈکیتی کا خطرہ تھا وغیرہ وغیرہ، اس لئے ہم نہیں جا سکے ورنہ دل میں بڑی تڑپ تھی ، بڑی خواہش تھی ہمارے سینوں میں بھی مومنوں کے دل دھڑک رہے ہیں وغیرہ.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تمہارا ارادہ تمہاری نیست کبھی بھی جہاد میں شامل ہونے کی نہیں ہوئی اور دلیل یہاں یہ دی ہے کہ اگر ان کا ارادہ ہوتا تو اس کے لئے تیاری بھی ہوتی.جس شخص نے اس زمانہ کے حالات کے مطابق نہ کبھی تلوار رکھی نہ نیزہ، نہ تیر کمان نہ زرہ ، نہ خود، نہ نیزے کا فن سیکھا، نہ تلوار چلانے کی مشق کی ، نہ تیر کمان ہاتھ میں پکڑا، وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ عارضی ضرورتوں کی وجہ سے میں اس جہاد سے محروم ہورہا ہوں ورنہ دل میں تڑپ تو بہت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دل میں اگر تڑپ ہوتی ، اگر تمہارا ارادہ اور نیت اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی ہوتی تو اس کے لئے تمہیں تیاری کرنی پڑتی.جو مسئلہ زیر بحث ہے یہاں یعنی جہاد بالسیف اس کے لئے تیاری دو طرح کی ہے.ایک جہاد کے لئے اسلحہ وغیرہ کی تیاری.اس وقت رضا کار فوج تھی اپنے ساتھ کھانے کا سامان لے کے جاتے تھے، اس کی تیاری اور دوسرے مشتق ہے، تھوڑا کھا کے بھوکا رہ کے مشقت برداشت کرنے کی تیاری تلوار اس طرح چلانے کی تیاری کہ جب کسری کے ساتھ مقابلہ ہوا بعد میں تو کچھ عرصہ حضرت خالد بن ولید بھی اس محاذ پر سپہ سالار کے طور پر لڑ رہے تھے.چار پانچ لڑائیاں انہوں نے وہاں لڑیں پھر وہ قیصر کے مقابلہ پر چلے گئے.مسلمان فوج چار ہزار گھوڑ سوار اور چودہ ہزار پیادہ تھی اور ان کے مقابلہ میں ہمیشہ قریباً چار گنا زیادہ فوج کسری کی ہوتی تھی.ایک دن کی لڑائی اگر آٹھ گھنٹے کی سمجھی جائے تو ہر دو گھنٹے کے بعد کسری کی فوجوں کا کمانڈ راگلی لڑنے والی صفوں کو پیچھے ہٹا لیتا تھا اور تازہ دم فوج آگے بھیج کے ان کی صفیں بنالیتا تھا.طریقہ یہ ہوتا تھا کہ درمیان لڑنے والوں کے درمیان سے وہ آگے بڑھتے تھے اور محاذ کو سنبھال لیتے تھے اور لڑنے والے پیچھے ہٹ جاتے تھے اور مسلمان فوج کا ہر سپاہی آٹھ گھنٹے لڑتا تھا.کسری کا سپاہی ہر دو گھنٹے کے بعد تازہ دم آگے آتا تھا لیکن باوجود اس کے کہ کسری کے تازہ دم فوجیوں کا وہ مقابلہ کر رہے ہوتے تھے، آٹھ گھنٹے ( اپنی زندگی کی حفاظت کی تو انہیں پرواہ نہیں تھی لیکن ) خدا کے نام پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان نثاری کا یہ مقابلہ تھا کہ آٹھ گھنٹے لڑتے چلے جاتے تھے.کسی کے دل میں یہ خواہش ہو کہ وہ ان حالات میں آٹھ گھنٹے دشمن کا مقابلہ کرے، اس دشمن کا کہ ہر دو گھنٹے بعد تازہ دم فوج اس کے سامنے آرہی ہے ، وہ اس وقت تک ایسا نہیں کر سکتا جب تک تیاری نہ کی ہو اس کے لئے یعنی آٹھ گھنٹے لگا تار تلوار چلانے کی مشق نہ کی ہو اور آٹھ گھنٹے تلوار چلانے کے بعد وہ تھکاوٹ محسوس نہ کرے مزید لڑائی کے لئے تیار ہو.تو ایک تیاری تو اسلحہ خریدنے کی ہے دوسری تیاری اس اسلحہ کے استعمال کی ہے.مسلمان کے لئے

Page 570

81 تیاری ایک ایسے استعمال کی تھی کہ اپنے سے کہیں زیادہ تعداد میں دشمن اور ہر دو گھنٹے بعد تازہ دم فوج کا مقابلہ، کبھی پانچ گنا زیادہ ان کی فوج انہی اٹھارہ ہزار کے مقابلہ میں جس کا مطلب یہ تھا کہ قریباً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد تازہ دم فوج سامنے آگئی.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم کہتے ہو کہ تڑپ بڑی تھی، ہم بھی پکے مومن ہیں مگر مجبوریاں ایسی آگئیں کوئی بچہ بیمار ہوگیا.بہانہ جو طبیعت، گھر خطرے میں پڑ گیا، یہ ہوگیا وہ ہو گیا ورنہ پیچھے رہ نہ جاتے.خدا کہتا ہے تم جھوٹ بولتے ہو اور دلیل یہ کہ اگر تمہیں خواہش ہوتی جہاد پر نکلنے کی تو اس کے لئے ہر ممکن تیاری کی ہوتی.نہ تم نے اسلحہ پر مال خرچ کیا، نہ تم نے اسلحہ چلانے کی مشق کی ضرورت کے مطابق مشق مشق اتنی کہ، مثلاً میں نے تیراندازی کا نام لیا ابھی، ایک بار جب خالد بن ولید ہی قیصر کی فوجوں کے خلاف لڑ رہے تھے تو دمشق کا محاصرہ کیا ہوا تھا.قیصر کی فوج کا جو کمانڈر تھا اس نے جہالت سے مسلمان پر رعب ڈالنے کے لئے ، یہ نہ سمجھتے ہوئے کہ مسلمان پر رعب نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ وہ تو صرف خدا سے ڈرتا ہے، یہ منصوبہ بنایا کہ نوجوان لڑکیوں اور راہبوں ، پادریوں کو فوجی لباس پہنا کے اور ہاتھ میں نیزے دے کر اور تلواریں لٹکا کے فصیل کے او پر کھڑا کر دیا.کئی ہزار مردوزن کو.خالد بن ولید کی دور بین آنکھ مومنانہ فراست رکھنے والی تھی.انہوں نے کہا اچھا میرے ساتھ مذاق کر رہے ہو تم.آپ نے اپنی پیادہ فوج کو پیچھے کیا اور تیراندازوں کو آگے بلایا اور تیر اندازوں کو یہ حکم دیا کہ تم یہ جو سامنے تمہارے کھڑے ہیں ہم پر رعب ڈالنے کے لئے ان میں سے ایک ہزار کی آنکھ نکال دو تیر سے.اور گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں ان تیراندازوں نے ایک ہزار کی آنکھ میں نشانہ ٹھیک بٹھایا اور آنکھ نکال دی.اس کے مقابلہ میں مشہور ہے کہ ایک بادشاہ بیوقوف تھا وہ سمجھتا تھا میں بڑا بہادر، ماہرفن ہوں، جنگ جو ہوں تو مشق کر رہا تھا اور کوئی نشانہ بھی اس کا بلز آئی (Bull's eye) پر نشانہ نہ بیٹھتا تھا.کوئی دس گز ادھر پڑتا تھا کوئی دس گزا دھر پڑتا تھا.کوئی راہی گذر رہا تھا اس نے سوچا بادشاہ سے مذاق کر رہے ہیں سارے.جہاں وہ نشانہ مار رہا تھا وہ وہاں کھڑا ہو گیا جائے.تو حواری خوشامد خورے کہنے لگے نہ نہ پرے ہٹ پرے ہٹ مرنا چاہتا ہے؟ بادشاہ سلامت تیراندازی کر رہے ہیں.اس نے کہا صرف یہ جگہ محفوظ ہے جہاں تیر نہیں لگ سکتا باقی دائیں بھی لگ رہا ہے، بائیں بھی لگ رہا ہے او پر بھی نکل رہا ہے ورے بھی پڑ رہا ہے، اس جگہ پر نہیں آ رہا.ایک وہ تیرانداز تھا اور ایک یہ تیرانداز کہ ایک ہزار انسان کی آنکھ میں نشانہ مارا ٹھیک اور وہ جوسپہ سالار نے رعب ڈالنا چاہا تھا مسلمانوں پر وہ ناکام ہو گیا.وہ سب بھاگے اس طرف سے جہاں ان پر تیر پڑ رہے تھے اور شہر کے دوسری طرف جاکے اور دروازہ کھول کے باہر نکل گئے اور سارے شہر میں شور مچادیا کہ مسلمانوں نے ہماری آنکھیں نکال دی ہیں.خدا کہتا ہے.وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَا عَدُّوالَهُ عُدَّةٌ اور

Page 571

82 اس زمانہ کا مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ تیاری کا یہ مطلب ہے کہ اگر یہ حکم ہو کہ ایک ہزار آنکھ نکال دو ایک ہزار آنکھ نکال دی جائے گی.یہ ہے تیاری! تیاری کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہر دو گھنٹے بعد تازہ دم فوج سامنے آ جائے تو آٹھ گھنٹے ایک مسلمان لڑتا رہے گا کامیابی کے ساتھ لڑے گا اور فاتح ہوگا.ہر روز، ہر دو گھنٹے بعد تازہ دم فوج سے لڑنے کے بعد شام جو نتیجہ نکلتا تھا وہ کسریٰ کی اسی نوے ہزار فوج کی شکست اور ان اٹھارہ ہزار مسلمان ، دعا گو اللہ تعالیٰ پر توکل رکھنے والے، توحید خالص پر قائم ہونے والے مسلمان کی فتح.یہ نتیجہ نکلتا تھا.تیاری اس کا نام ہے قرآن کریم کے نزدیک جو مسلمان نے سمجھا.تاریخ میں آتا ہے کہ اتنی تیاری کرواتے تھے اپنے بچوں کو کہ بارہ سال کا بچہ آٹھ سال کے بھائی کے سر پر سیب رکھ کے تیر سے اڑادیتا تھا.اگر دو تین انچ بھی نشانہ سے نیچے پڑے تو ماتھے پہ لگے اور مرجائے بھائی لیکن اس کو پتا تھا کہ میرا تیر سوائے سیب کے کسی اور چیز کو نہیں لگ سکتا اور یہ مشق اور مہارت تھی.یہ ان کی کھیل تھی.زمانہ بدل گیا ہے اس واسطے میں اپنے خدام اور انصار اور اطفال اور ناصرات سے کہتا ہوں کہ آج کی جنگ جن ہتھیاروں سے لڑنی ہے ان ہتھیاروں کی مشق ، مہارت، اور آپ کا ہنر اور پریکٹس کمال کو پہنچی ہوئی ہو.شکل بدلی ہوئی ہوگی.اس زمانے میں دفاع کے لئے اور دشمن کے منصوبہ کو ناکام بنانے کے لئے مادی اسلحہ کی بھی ضرورت تھی ، غیر مادی ہتھیاروں (بصائر وغیرہ) کے استعمال میں بھی ان کو مہارت حاصل تھی.مگر ہمارے ہتھیار صرف وہ بصائر ہیں جن کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے.بصائر سے مراد دلائل ہیں.بصیرت کی جمع بصائر ہے ایک تو ہے نا آنکھ کی نظر.ایک ہے روحانی نظر جس کے متعلق قرآن کریم نے کہا ہے کہ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصدور :(الحج: 47) آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں روحانی طور پر وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں دھڑک رہے ہوتے ہیں.ایک تو ہماری جنگ بصائر کے ساتھ ہے اور بصائر کہتے ہیں وہ دلیل جو فکری اور عقلی طور پر برتری رکھنے والی اور مخالفین کو مغلوب کرنے والی ہو ہمارے ہتھیار (نمبر دو نشان ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کا اظہار جو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو اس لئے اور اس وقت عطا کرتا ہے جب وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی جنگ لڑ رہے ہوں.اس کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے.دعاؤں کے ساتھ اسے جذب کیا جاسکتا ہے.اس کے لئے بصائر سیکھنے ، دعائیں کرنے کے جو مواقع ہیں ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے.اس واسطے جو آنے والے ہیں ان کو آج ہی سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ جن مقاصد کے لئے ہمیں بلایا جارہا اللہ تعالیٰ انہیں پورا کرنے کے سامان کرے.ہمیں بلایا جارہا ہے باتیں دین کی سننے کے لئے ، کچھ باتیں کہلوانے کے لئے ، ہم تقریریں کرتے ہیں یہاں آکے خدا کرے اس میں بصائر ہوں، آیات کا ذکر ہو.نور

Page 572

83 ہم نے پھیلانا ہے وہ نور ہم حاصل کرنے والے ہوں، اپنی زندگیوں میں اسے قائم کرنے والے ہوں، اپنے اعمالِ صالحہ میں اس کو ظاہر کرنے والے ہوں ، ظلمات دنیا کونور میں بدلنے والے ہوں.جو اجتماع ہورہے ہیں اس میں دو طرح کے نظام ہیں جن کی پوری تیاری ہونی چاہیے.ایک تو جو شامل ہونے والے ہیں.خدام، اطفال، ناصرات لجنہ اماءاللہ، اور انصار اللہ.فرداً فرداً ان کو تیار ہونا چاہیے.دہنی طور پر چوکس اور بیدار مغز لے کر یہاں آئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت اور اس کے نور اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار اور خدا تعالیٰ کے عشق سے اپنی جھولیاں بھر کر واپس جائیں.اس کے لئے ابھی سے تیاری کریں.استغفار کریں.لاحول پڑھیں.شیطان کو اپنے سے دور رکھنے کی کوشش کریں.خدا سے دعائیں مانگیں کہ ہماری زندگی کا جو مقصد ہے حاصل ہو.ایک ہی بے مقصد ہماری زندگی کا اس کے علاوہ ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں اور مقصد یہ ہے کہ اس دنیا میں آج سارے انسانوں پر اسلام اپنے دلائل ، اپنے نور، اپنے فضل، اپنی رحمت، اپنے احسان کے نتیجہ میں غالب آئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے نوع انسانی جمع ہو جائے.دوسری تیاری کرنی ہے منتظمین نے.وہ بھی بغیر تیاری کے کچھ دے نہیں سکتے.ایک تو وہ ہیں جو لینے والے ہیں اور معطعی ءِ حقیقی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس لئے میں نے کہا اس کا دروازہ کھٹکھٹاؤ تا کہ تمہاری جھولیاں بھر جائیں.ایک ہیں دینے والے اور جو دینے والے ہیں ان کو قرآن کریم نے دو تین لفظوں میں بیان کیا کہ هُمُ الْمُؤمِنُونَ حَقًّا (الانفال:4) مومن مومن میں فرق ہے.ایک وہ گروہ ہے جو محض عام مومن نہیں بلکہ هُمُ الْمُؤمِنُونَ حَقًّا جن کے متعلق میں نے پچھلے خطبے میں بتایا تھا خدا نے یہ کہا کہ اے محمد حَسْبُكَ اللهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (الانفال: 65) کہ تیرے لئے وہ مومن کافی ہیں جو تیری کامل اتباع کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی وحی پر پورا عمل کرنے والے اور توحید خالص پر قائم اور ان راہوں کی تلاش میں لگے رہنے والے جن راہوں پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم ہیں اور ان نقوشِ قدم کو دیکھ کر ان راہوں کو اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہیں.کامل متبعین ! خدا تعالیٰ کے حکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا.اِن أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ (الاحقاف:10 ).خدا تعالیٰ کی وحی کو ہی سب کچھ سمجھنے والے اور اس سے باہر کسی چیز کی احتیاج نہ رکھنے والے.ایسا بنا چاہے منتظمین کو بھی.دعاؤں کے ساتھ آپ اپنا پروگرام بناتے ہیں.اس میں برکتیں بھی پڑ سکتی ہیں اور برکتیں نہیں بھی پڑ سکتیں.دعائیں کریں گے تو بابرکت ہو جائیں گے.دعائیں کریں گے آپ کے منہ سے نکلا ہوا ایک فقرہ دنیا میں انقلاب عظیم بپا کر دے گا.مثال دیتا ہوں.میں تو بڑا عاجز بندہ ہوں.اللہ تعالی بڑا فضل کرنے والا ہے.پچھلے سال ہی

Page 573

84 دورے پہ میرے منہ سے یہ فقرہ نکلوایا کہ:.Love For All Hatred For None ہر ایک سے پیار کرو، کسی سے نفرت نہ کرو، اتنا اثر کیا اس فقرے نے کہ ابھی مہینہ ڈیڑھ مہینہ ہوا ہالینڈ میں ہمارا سالانہ جلسہ ہوا ہیگ میں ہماری مسجد اور مشن ہاؤس ہے وہاں کے میر کو انہوں نے بلایا.وہ آئے.میر کی ان ملکوں میں بڑی پوزیشن ہوتی ہے اور انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں تم احمدیوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تمہارے امام نے جو تمہیں یہ سلوگن دیا تھا کہ Love For All Hatred For None کہ ہر ایک سے پیار کر ونفرت کسی سے نہ کرو، میں تم سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ تم ہالینڈ کے گھر گھر میں یہ فقرہ پہنچا دو کیونکہ ہمیں اس کی ضرورت ہے.ایک فقرہ انقلاب پیدا کر سکتا ہے.ایک گھنٹے کی تقریر سوکھے گھاس کی طرح ہاتھ سے چھوڑ وزمین پر گر جائے گی.جب تک خدا تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو انسان کامیاب نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ سے ہدایت مانگتے ہوئے منتظمین ان اجتماعات کا انتظام کریں اور خدا تعالیٰ کا فضل اور رحمت مانگتے ہوئے شامل ہونے والے ان میں شامل ہوں تا کہ ہم اپنی زندگیوں کے مقصد کو پانے والے ہوں.آمین.اس بات کی ذمہ داری کہ ہر جماعت سے چھوٹی ہو یا بڑی، نمائندہ ان اجتماعات میں آئے سوائے اس کے کہ بعض اکا دکا استثنائی طور پر ایسی جماعتیں ہیں جس میں سارے ہی خدام ہیں بڑی عمر کا وہاں کوئی نہیں.نئی جماعت بن گئی نوجوانوں کی.وہاں سے کوئی انصار اللہ کے اجتماع میں ممبر کی حیثیت سے نہیں آئے گا بعض ایسے ہو سکتے ہیں کہ جو دو چار وہاں بڑی عمر کے ہیں اور ابھی خدام الاحمدیہ کی عمر کا کوئی نہیں.اطفال اور ناصرات کی عمر کے تو یقینا ہوں گے وہ کوشش کریں کہ جن کی نمائندگی ہو سکتی ہے ، وہ ہو جائے.ہر جماعت کی نمائندگی اپنے اپنے اجتماع میں ہونی چاہیے.اس کی ذمہ واری ایک تو خودان تنظیموں پر ہے لیکن اس کے علاوہ تمام اضلاع کے امراء کی میں ذمہ داری لگاتا ہوتا ہوں اور تمام اضلاع میں کام کرنے والے مربیوں اور معلموں کی یہ ذمہ داری لگاتا ہوں کہ وہ گاؤں گاؤں، قریہ قریہ جا کے ایک دفعہ نہیں ، جاتے رہ کر ان کو تیار کریں کہ کوئی گاؤں یا قصبہ جو ہے یا شہر جو ہے وہ محروم نہ رہے نہ پنجاب میں ، نہ سرحد میں ، نہ بلوچستان میں ، نہ سندھ میں اور اس کے متعلق مجھے پہلی رپورٹ امرائے اضلاع اور مربیان کی طرف سے عید سے دو دن پہلے اگر مل جائے تو عید کی خوشیوں میں شامل یہ خوشی بھی میرے لئے اور آپ کے لئے ہو جائے گی اور دوسری رپورٹ پندرہ تاریخ کو یعنی جو اجتماع ہے خدام الاحمدیہ کا غالبا ۲۳ /اکتوبر کو ہے تو اس سے پہلے جمعہ کو سات دن پہلے وہ رپورٹ ملے کہ ہم تیار ہیں.ہر جگہ سے، ہر ضلع سے، ہر گاؤں، ہر قریہ، ہر قصبہ ہر شہر اس ضلع کا جو ہے اس کے نمائندے آئیں گے.یہ انتظام جو ہے جس کے متعلق میں بات کر رہا ہوں اس کے بھی آگے دو حصے ہو گئے.ایک کے

Page 574

85 متعلق میں نے پہلے بات کی تھی جو یہاں کے رہنے والے ہیں.ایک کے متعلق میں اب بات کر رہا ہوں جن کا تعلق باہر سے ہے.اور دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت نوع انسانی ایک خطرناک، ایک ہولناک ہلاکت کی طرف حرکت کر رہی ہے.اس قسم کی خطرناک حرکت ہے جو انسان کو تباہ کرنے والی ہے اور عقل میں نہیں ان کے آ رہی بات کہ ہم کیا کر رہے ہیں.اس واسطے تمام احمدی یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو سمجھ اور فراست عطا کرے کہ اپنے ہی ہاتھ سے اپنی ہلاکت کے سامان نہ کرے اور خدا تعالیٰ ان کو اس عظیم ہلاکت سے جس کے متعلق پیش گوئیاں بھی ہیں بچالے.ہرا نذاری پیشگوئی دعا اور صدقہ کے ساتھ ٹل جاتی ہے.ان کو تو سمجھ نہیں، انہوں نے اپنے لئے دعا نہیں کرنی.مجھے اور آپ کو تو سمجھ ہے.ہمیں ان کے لئے دعا کرنی چاہئے اور صدقہ دینا چاہیے.اجتماعات پر صدقہ دینا چاہیے نوع انسانی کو ہلاکت سے بچانے کے لئے اپنی طاقت کے مطابق ہم صدقہ دیں گے اجتماعات کے موقع پر لجنہ اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ یہ تین انتظامات ۲۱.۲۱ بکروں کی قربانی نوع انسان کو ہلاکت سے بچانے کے لئے ان اجتماعات کے موقع پر دیں گے، انشاء اللہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ذمہ واریوں کے سمجھنے کی توفیق عطا کرے.اور اللہ تعالیٰ فضل کرے انسان پر کہ وہ بہکا ہوا انسان اندھیروں میں بھٹکنے والا انسان اس روشنی میں واپس آ جائے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوع انسانی کی بھلائی اور ترقیات کے لئے آسمانوں سے لے کر آئے ہیں.آمین خطبات ناصر جلد نهم صفحہ 253-260) جماعت احمدیہ کا بنیادی مقام عجز وانکسار کا مقام ہے اس لحاظ سے بڑا اہم جمعہ ہے کہ اس جمعہ ہی سے میں اس مضمون کو شروع کر دیا کرتا ہوں جو خدام الاحمدیہ میں میں نے بیان کرنا ہوتا ہے اور جو مضمون خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے اجتماعات کی تقاریر میں میں نے بیان کرنا ہے وہ اس لئے بہت اہم ہے کہ یہ اجتماعات پندرہویں صدی ہجری کے پہلے اجتماعات ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ پندرھویں صدی ہجری کی اہمیت کے پیش نظر جو اہم ذمہ داریاں ہیں اُس کے مطابق جس قسم کی ہمیں زندگی گزارنی چاہئیا اس کے متعلق میں جماعت کو کچھ کہوں.کیونکہ ابھی جمعہ کے بعد اجتماع بھی ہے میں بیماری کی وجہ سے ضعف بھی محسوس کر رہا ہوں ، ہم نمازیں انشاء اللہ جمع کریں گے.اس لیے مختصر ا ایک ضروری بات کہوں گا کہ جو بنیا دبنتی ہے ساری اسلامی تعلیم

Page 575

86 کی بھی اور ہماری زندگیوں کی بھی اور وہ یہ ہے کہ عاجزی کو اختیار کرو.“ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی بہت سی آیات میں اس مضمون پر ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے.ایک جگہ فرمایا وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا (بنی اسرائیل: 110 ) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ قرآن عظيم وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا انہیں عاجزی اور فروتنی میں اور بھی زیادہ کرتا چلا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کریم میں جو بھی تعلیم پائی جاتی ہے وہ وحتی عظیم جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی اور جس نے نوع انسانی کے ہاتھ میں ایک کامل شریعت پکڑائی.سارے احکام ، اوامر بھی اور نواہی بھی ایسے ہیں جن کی بنیاد عاجزی اور انکساری پر ہے یا جن پر عمل کرنا عاجزی اور انکساری کی راہوں کو اختیار کئے بغیر ممکن ہی نہیں.میں نے مثال کے طور پر ایک آیت کو اس وقت منتخب کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُّلْقُوْا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.(البقرة: 46-47) یہ دو آیات ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ حکم دیا ہے کہ میرے سارے احکام، اوامر نواہی جن پر عمل کرنا ضروری ہے تم اُن پر عمل نہیں کر سکتے جب تک میری مدد ، میرافضل اور رحمت تمہارے شامل حال نہ ہو.اس لئے وَاسْتَعِينُوا تم خدا تعالیٰ سے مدد مانگو.اس لئے کہو کہ ہماری مدد کو آ اپنے فضل اور رحمت سے.تا کہ ہم تیرے احکام بجالا کر اس طریقے پر جس طریق کو تو پسند کرتا ہے تیری رضا کو حاصل کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم محض یہ کہہ دینے سے کہ ہماری مدد کو آمیری مددکو نہیں پاؤ گئے.میری مدد کے حصول کے لیے دور ہیں میں نے تمہارے لئے کھولی ہیں.ایک صبر کی راہ ہے دوسرے دُعا کا راستہ ہے.صبر کے معنے ہیں مضبوطی کے ساتھ استقامت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم پر گامزن رہنا، اس کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا اور اَلصَّلوةُ هَيَ الدُّعَاءُ ( تفسیر کبیر رازى سورۃ الکوثر آیت 3 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے.یہ جو ہم ایک فارمل دعا کرتے ہیں.نماز بھی ہم پڑھیں گے جمعہ کی اور عصر کی.یہ بھی کیا ہے؟ تسبیح ہے، تحمید ہے، استغفار ہے، درود ہے، بہت کچھ ہم مانگتے ہیں.بہت کچھ قرآن کریم کی آیات ہیں.خدا سے کہتے ہیں جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں اُن کی عقل اور سمجھ ہمیں عطا کر.دُعا ہی ہے پانچ وقتہ تا کہ کم سے کم جو ہمارے لیے ضروری تھا وہ ہمیں مل جائے.اور پھر کہا جتنی زیادہ نوافل کے ذریعہ مجھ سے مدد حاصل کرتے رہو گے ملتی رہے گی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری مدد تمہیں مل نہیں سکتی صبر اور دعا کے بغیر اور تمام دباؤ کے باوجود جو شیطانی اور طاغوتی طاقتیں تمہارے اوپر ڈالیں گی اور تمہیں گمراہ کرنے کی کوشش کریں گی اور دعا ان طاغوتی طاقتوں کو ناکام بنا دیگی.صبر کرنا اور دعا کرنا اور دعا کو اپنی شرائط کے ساتھ مانگنا بڑا مشکل کام ہے.وَإِنَّهَا لكبيرة یہ آسان کام نہیں.یہ تو درست ہے لیکن جس قسم کے صبر کا، استقامت کا ہونا ضروری ہے یعنی یہ کہ ایک

Page 576

87 لحظہ کے لئے بھی غیر کا خیال انسانی ذہن میں نہ آئے اور ہر وقت اُس کے آستانہ پر انسان جُھکا رہے دُعا کرتے ہوئے ، اس کے بغیر وہ مدد نہیں مل سکتی اور یہ آسان کام نہیں لیکن آسان ہے بھی.إِلَّا عَلَى الْخَشِعِين جو عاجزی کو اور فروتنی کو اور انکسار کو اور تواضع کو اختیار کرتے ہیں اُن کے لئے صبر اور ہمیشہ دُعا میں مشغول رہنا اور مضبوطی کے ساتھ اتباع وجئی قرآنی کرتے رہنا یہ مشکل نہیں ہے اور یہ جو خشوع ہے ، یہ عاجزی اور انکساری يبالَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُّلْقُوا رَبِّهِم اس معرفت کے نتیجہ میں انسان کے دل اور اس کے سینہ میں پیدا ہوتا ہے کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ اَنَّهُمْ مُلْقُوا رَبِّھم کہ اُن کا واسطہ اُن کے خدا سے پڑنا ہے اور وہ یہ شدید خواہش رکھتے ہیں کہ انہیں أَنَّهُمْ مُلْقُوا رَبِّهم وصال الہی حاصل ہو، اس زندگی میں بھی.اور اس یقین پر قائم ہیں کہ جو بھی فیصلہ ہونا ہے صبر ودعا کے قبول ہو جانے کا، صبر اور استقامت اور اتباع وحی قرآنی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ، اللہ تعالیٰ انہیں قبول کرتا ہے اپنے فضل اور اپنی رحمت سے یا اُن کے اندر جو بشری کمزوریاں رہ جائیں بد قسمتی سے اللہ تعالیٰ اُن کی وجہ سے اُن کو کہیں رو تو نہیں کر دیتا وَ أَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے یہ خواہش کہ خدا سے زندہ تعلق قائم ہونا چاہئیا ور قائم رہنا چاہئے اور اس حقیقت کی معرفت کہ آخری فیصلہ اللہ نے کرنا ہے اسی کی طرف ہم نے لوٹ کے جانا ہے، اُن کو اس مقام پر لا کھڑا کرتا ہے کہ ہم لاشئی محض ہیں ، ہم کچھ بھی نہیں، نیست ہیں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے اُمت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میں سے جو تواضع کرے گا ، عاجزانہ راہوں کو اختیار کرے گا اور اس رنگ میں اختیار کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کی عاجزی اور فروتنی کو قبول کرلے گا تو رَفَعَهُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ (يَا السَّابع ) ( کنز العمال اللہ تعالی ساتویں آسمان تک اُسے اُٹھا کے لے جائے گا.تو جماعت احمدیہ کا بحیثیت جماعت اور افراد جماعت احمدیہ کا انفرادی حیثیت میں جو بنیادی مقام ہے وہ بجز اور فروتنی اور تواضع اور انکساری کا مقام ہے اس کو نہ بھولنا.اگر تکبر ہو، اگر ریا ہو، اگر اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگ جاؤ، اگر غرور ہو تمہیں اپنے علم پر یا اپنے مال پر یا اپنی دولت پر یا اپنے قبیلہ پر یا اپنی طاقت پر تو مارے گئے تم ایہ جو ہے فروتنی یہ فنا کی شکل اختیار کرتی ہے یعنی اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کردینا اللہ میں فانی ہو جانایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں کھوئے جانا، ایک موت اپنے پر وارد کرنا ایک ایسی موت جو نئی زندگی عطا کرتی ہے اگر قبول ہو جائے وہ موت ( اپنی جان پیش کی ہے خُدا کے حضور ) اگر خدا تعالیٰ اس قربانی کو قبول کر لے تو ایک نئی زندگی آپ کو عطا کرتا ہے جو بڑی پاک ہوتی ہے ، جو بڑی مطہر ہوتی ہے جس پر فرشتے بھی ناز کرتے ہیں ، جسے خدا قبول کرتا ہے اور جسے قبول کر کے اپنی تمام اُن بشارتوں کا وارث بنا دیتا ہے جو قرآن کریم نے مُؤمِنُونَ حَقًّا سچے اور کامل مومنوں کو دی ہیں.اللہ کرے کہ جماعت کو جماعتی حیثیت میں اور افراد جماعت کو انفرادی حیثیت میں اس عجز وانکسار

Page 577

88 کے مقام کو حاصل کرنے اور پھر ہمیشہ اس پر قائم رہنے کی توفیق ملتی رہے.اسی بنیاد پر میں انشاء اللہ خدام ولجنہ کو کچھ کہوں گا.غور سے سنیں اور اپنی زندگیوں کو اُن کے مطابق ڈھالیں.اللہ تعالیٰ توفیق دے (خطبات ناصر جلد نم صفحہ 273-276) انصار اجتماع کے دن دعاوں اور عاجزی کے ساتھ گزاریں حضور نے 30 اکتوبر 1981ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.آج انصار اللہ کا اجتماع ہے.اس سال یہیں انہوں نے انتظام کیا ہے.ماشاء اللہ جور پورٹیں ابھی تک مشاہدے کے نتیجے میں مجھے ملی ہیں وہ تو یہی ہیں کہ تعداد پچھلے سال سے زیادہ ہے.اللہ تعالیٰ برکت ڈالے نفوس میں بھی اور اموال میں بھی آپ کے اور غور سے سنیں.بعض چیزوں کو دہرانا بھی پڑتا ہے.آج کی افتتاحی تقریر میں میں وَذَكَرْ فَإِنَّ الذِكرى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الد ریت : 56) کی ہدایت کے مطابق وہ باتیں جو ہر احمدی کے ذہن میں ہر وقت حاضر رہنی چاہئیں تھیں لیکن بعض لوگ بھول جاتے ہیں وہ یاد دلاؤں گا انشاء اللہ.خدا میری زبان میں تاثیر دے اور آپ کے دلوں میں تاثیر قبول کرنے کی طاقت بخشے.آمین نمازیں ہم جمع کریں گے اور پھر اپنے وقت کے اوپر انصار اللہ کا اجتماع انشاء اللہ شروع ہو جائے گا.بہت دعاؤں کے ساتھ اور عاجزی کے ساتھ یہ دن گزار ہیں اور ساری دنیا کے لئے دعائیں کریں.میں نے بار بار کہا اور کہتار ہوں گا کہ ہمیں کسی سے عداوت نہیں ، مخالفت نہیں.جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے دشمن ہیں ہم انہیں بھی یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں.ان کے لئے بھی دعائیں کریں اور ان کے لئے بھی دعائیں کریں جو دہر یہ ہیں اور بت پرست ہیں.بڑے ظالم ہیں، وہ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے کہ خدا تعالیٰ جس نے اعلان کیا تھا کہ میں نے اپنے قرب کی راہیں تمہارے لئے کھول دیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ.بڑی چوڑی شاہراہیں ہیں یہ لیکن وہ لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے.غیر مطمئن بھی ہیں اپنی زندگی سے، اطمینان نہیں انہیں.اندھیرے میں بھٹک بھی رہے ہیں لیکن اسلام کی روشنی ابھی تک قبول کرنے کے لئے ان کے اندھیرے تیار نہیں.اللہ تعالیٰ ان کے اندھیروں کو بھی دور کرے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی جو روشنی ہے اس کے اندر وہ اپنی زندگی گزارنے لگیں.( خطبات ناصر جلد نہم صفحہ 282-283)

Page 578

89 $ 1982 زندگی اور بقاء کے لئے ضروری ہے کہ جانے والوں کی قائم مقام میں ہو حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے 22 جنوری 1982ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.جوانسان پیدا ہوتا ہے وہ بوڑھا ہو جاتا ہے، کام کے لائق نہیں رہتا یا فوت ہو جاتا ہے اور اپنے رب سے اپنے اعمال کی جزا پاتا ہے لیکن البہی سلسلہ کو جس نے ساری دنیا میں دین الحق کو غالب کرنا ہے ان کے قائم مقام ملتے رہنے چاہئیں، اگر پہلوں سے بڑھ کر نہیں تو کم از کم پہلوں جیسے.میں نے محسوس کیا ہے کہ کچھ عرصہ سے جماعت ( یہ جماعت کی اجتماعی زندگی کا تقاضا ہے ) اس طرف توجہ نہیں دے رہی اور میں نے محسوس کیا ہے کہ اگر ہم نے فوری اس طرف توجہ نہ دی تو ایک بڑا خطرناک دھکا بھی لگ سکتا ہے، نقصان بھی پہنچ سکتا ہے سلسلہ عالیہ احمدیہ کو.عارضی طور پر ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ کا منصوبہ نا کام نہیں ہوا کرتا.کمزوری دکھانے والے ایک حصہ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اپنے ماحول میں.جو بات دس سال میں ہونی ہے وہ پندرہ سال میں ہو جائے گی ، ہیں سال میں ہو جائے گی لیکن کامیاب تو خدا تعالیٰ کا منصوبہ ہی ہوگا اور آج منصوبہ یہ ہے کہ سلسلہ عالیہ احمد یہ جسے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق نے قائم کیا جس کی محبت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اس قدر تھی کہ قیامت تک کے علماء اور بڑے بڑے بزرگ اور آپ سے فیض حاصل کر کے روحانی رفعتوں کو حاصل کرنے والے وہ کروڑوں جو آپ کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئے ان میں سے اس ایک کو چنا اور اسے سلام پہنچایا اپنا.( خطبات ناصر جلد نهم صفحہ 371) اپنے نفسوں کو اور اپنے اہل کو خدا تعالیٰ کے غضب سے بچاؤ حضور نے 5 مارچ 1982ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.قرآن کریم بھرا ہوا ہے انذار سے اور تبشیر سے.اس وقت میں اس کی ایک مثال دینا چاہتا ہوں.سورۃ التحریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم: 7) اپنے نفسوں کو اور اپنے اہل کو خدا تعالیٰ کے غضب کی آگ سے بچانے کی کوشش کرو.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اھلِیكُم کا ایک انذاری پہلو یہ بھی بتایا کہ بعض دفعہ ایک انسان خود تو ایمان رکھتا

Page 579

90 ہے اپنے دل میں اور اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بشارتوں کا مستحق ہوتا ہے لیکن اس کے اہل اس کے لئے فتنہ بنتے اور صراط مستقیم سے اسے دور لے جانے والے بن جاتے ہیں.اس واسطے کسی ایک شخص کا یہ کہنا کہ میں صراط مستقیم پر قائم ہو گیا ہوں ، یہ کافی نہیں ہے، یہ اس لئے کافی نہیں کہ جو قریب ترین فتنہ اس کی زندگی میں ہے وہ اس کے گھر میں موجود ہے.اس واسطے آئندہ نسلوں کی صحیح تربیت کرنا ان نسلوں کی بھلائی میں بھی ہے اور اپنی بھلائی بھی یہی تقاضا کرتی ہے کہ انسان فتنے سے اپنے آپ کو بچائے اور خدا تعالیٰ کے غضب سے محفوظ رہنے کی کوشش کرے اور جو پیارا سے حاصل ہوا وہ پیارا سے اور اس کے خاندان کو مرتے دم تک اس دنیا میں حاصل رہے تا خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں گزرنے والی ابدی زندگی کے وہ مستحق بنیں.(خطبات ناصر جلد نهم صفحه 392)

Page 580

البقرة i اشاریہ سبیل الرشا دو جلد دوم طبع اول (مرتبہ ریاض محمود باجوہ) آیات تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ (65) 305 221 61 وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ ءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(111) وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتُهُمْ أَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (140) مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُولئِكَ عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ صَلوتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ لَآيَتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ (191) الْمُهْتَدُونَ (156-158) 395 لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ (286) لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ إِلَّا وُسْعَهَا (287) آل عمران 362 442 227 النساء وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُول (14) أن تُؤدُّوا الأمنتِ إِلى أَهْلِهَا (59) 187 390.366 أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (60) 187 أسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ (21) 317 وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ (70) إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبَبْكُمُ الله (31) 430 فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (140) قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبَبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (146) ذُنُوبَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ، قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِنْ المائدة تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَفِرِينَ (31-32) أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ (33) وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللهُ خَيْرُ الْمَكِرِينَ (55) 121 187 406 187 468 246 الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي (4) 129،84 الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (4) قدْ جَاءَ كُم مِّنَ اللهِ نُورٌ وَكِتَبٌ مُّبِينٌ (16) 344.323 83

Page 581

ii فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْن وَلَا تَشْتَرُوا بِايَتِي ثَمَنًا حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُ وُفٌ رَّحِيمٌ (128) 246،127 قَلِيلاً (45) وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا (93) الانعام إن هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (26) 192.183 187 289 یونس قَدَمَ صِدْقٍ (3) إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَيَّ(16) الرعد وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِيْنَهُمْ لَعِبًا وَّ لَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَوةُ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (29) الدنيا (71) 245 قُلْ لَّا أَسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا (91) لَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ (109) الاعراف 156 461 188 461.397 1 الكيف فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (7) 126 فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ(7) وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَا الَّذِي آتَيْنَهُ ايَتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (111) الشَّيْطنُ فَكَانَ مِنَ الْغُوبُنَه وَلَوْ شِمْنا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَلَكِنَّة الانبياء أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوئه (76-77) الانفال 27 446 416.185 وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّلِحُونَ (106) 113 أُولئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَتْ عِندَ رَبِّهِمْ النور وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَريمٌ (5) التوبه لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ (33) 393 338 قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۖ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلغُ الْمُبِينُ O وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ (45) هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ (52) يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ (98) 242 239 238 اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ط يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بي شَيْئًا ۖ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ اَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ (55-56) يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ (126) 235 91 وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ لَقَدْ جَالَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ

Page 582

iii دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُونَ O يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى فَأُولئِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ (56) الشعراء لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِيْنَ(4) لقمان وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً (21) الاحزاب ما وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا (13) 99.98 388 469.363 175 اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (30-34) 17 الجاثية وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا منه (14) محمد 431.402 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللهَ يَنصُرُكُمْ وَيُثَبِّتُ أَقْدَامَكُمْ(8) 53 لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ الحجرات يَرْجُوا الله (22) لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (22) فاطر فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ (9) الزمر 209 132 126 لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْض أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمُ لَا تَشْعُرُونَ (3) إنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ الْقَيْكُمْ (14) الذريت 120 416.134 459 320 417 30.29 457 قُلْ يَعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ (50) رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا * إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ وذَكَّرُ فَإِنَّ الذِكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (56) الرَّحِيمُ (54) قُلْ يَعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا (54) 122 154 مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ (57) لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (54)157 لَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ (33) الرحمن وَضَعَ الْمِيزَانَ (8) 130.127 حم السجده إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (7) إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ(30) الْمَلَئِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ الواقعہ 468.435.214.198 تُوعَدُوْنَ نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِى الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ (40-41 ) 349 350

Page 583

أَنتُمْ تَزْرَعُونَةٌ أَمْ نَحْنُ الزَّرِعُونَ (65) 147 iv التحريم إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ هِ فِي كِتَب مَّكْنُونٍ لَّا يَمَسُّةٌ إِلَّا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (7) الْمُطَهَّرُونَ تَنزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَ (78-81) 397 الجن فِي كِتَب مَّكْنُونِه لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (79-80) 321 وأَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا (19) لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (80) تَنزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَ (81) الحديد 94 322 أَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ (19) عبس 419 308 379 يَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ (29) فِي صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ هِ مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ قَالُوا بَلَى وَلَكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ أَنْفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ كِرَامٍ بَرَرَةٍ (14-17) وَغَرَّتُكُمُ الْآمَانِيُّ حَتَّى جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُمْ بِاللَّهِ الطارق الْغَرُور (15) 235 83 211 وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُع ٥ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ إِنَّهُ لَقَولٌ فضل (12-14) 213 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَامِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمُ الغاشية كِفُلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِهِ (29) 174 عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ (4) 214 الحشر وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاعِمَةٌ لِسَعُيهَا رَاضِيَةٌ فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ هِ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (25) 456.455 الصف يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ (9) 84 لَيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (10) 373.352.345 لَّا تَسْمَعُ فِيهَا لَا غِيَةً (9-12) البلد لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ الَّيْل 215 195 التغابن فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا (9) 82 فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى ، فَسَنُيَسِّرُهُ لليسرى (6-8) 200

Page 584

12 13 V ارشادات خدا کی خاطر ہر کام کے لئے تیار رہیں سارے کام اللہ کے فضل سے ہوتے ہیں ہر نیکی اللہ تعالیٰ کی صفت سے مشابہت اختیار کرنے کا نام ہے 49 146 397 462 426 2 174 175 178 187 320 396.394 190 3 281 8 319 398 458 اخلاق کوئی عادت نہ ڈالیں اجتماع کی غرض روحانی اور اخلاقی تربیت ایک احمدی کے اخلاق غذا کا اثر اخلاق پر پڑتا ہے اسلام اسلام کا اصل اسلحہ اس کی اندرونی خوبیاں حسن اور نور تھا 266 امتحانات اتم الصفات چار ہیں معلم حقیقی اللہ تعالیٰ خدا تعالیٰ کی صفات میں تضاد نہیں مرکزی امتحانات.انصار کی شمولیت ایمان ایمان دنیا کی ملونی سے پاک ہو ایمان نفاق سے پاک ہو ایمان بزدلی سے آلودہ نہ ہو ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہ ہو یاد دہانی کروانا مومن کی علامت مومنوں کو دو بشارتیں قیام خلافت اور نزول ملائکہ تحریک جدید کی اہمیت کو سمجھیں 304 360 179 306 اسلام ہماری زندگی ، ہماری روح اور دل کی غذا غلبہ اسلام.تین صدیوں کے اندر افریقن نومسلموں کا اسلام سے عشق جبراً اسلام چھڑوانے والوں سے ایک اسلام کی اقتصادی تعلیم کی برتری أسوة حسنه آنحضرت اُمت کے لئے اسوۂ حسنہ 129 291 اُسوۂ حسنہ کے مثل لاکھوں کروڑوں ، اپنی اپنی استعداد میں 291 مومن کی 9 صفات اقوام یورپین اقوام افریقنوں کی ہر نعمت چھین کر اپنے ممالک تحریک جدید ایک ماہ کی آمد کا 1/5 حصہ تحریک جدید کے لئے ادا کریں پہلوں کی تفسیروں کے دو حصے 184 433 میں لے گئیں الحمر الحل الحمرا کی حیران کن باتیں اللہ تعالیٰ

Page 585

3670362 369 369 370 218 219 35 35 45 45 77 351 351 34 294 316 419.418 40.39 463 ابتلا ؤں کی حکمت خدا تعالیٰ کی عاجز اور منکسر المزاج جماعت جماعت احمدیہ کا شعار ساری دنیا سے پیار امن پسند جماعت جنت دنیا کی جنت اور ہماری ذمہ داری اُخروی جنت اور ترقیات خلافت خلافت کی موجودگی میں ولایت کا وسوسہ کبراور اباء ہے خلیفہ بنا نا خدا کا کام ہے خلیفہ پر اعتراض کرنا کسی انسان کا کام نہیں خلیفہ وقت اور جماعت ایک ہی وجود ہے جماعت احمدیہ کا مرکزی نقطہ.نظام خلافت قدرت ثانیہ کا سلسلہ قیامت تک دعا دعاؤں کو حصول زر کا ذریعہ بنانا تو ایک لعنت ہے ذمہ داری نبھانے کے لئے دعا نوع انسانی کے لئے دعا کریں قبولیت دعا کے واقعات ذیلی تنظیمیں ذیلی تنظیموں کی غرض آپس میں تعلق انصار الله vi 282 287 339 203 208 216 324 398 216 79 88 89 267 297 300 302 303 307 331 336 مقام حکم کی تفسیر سورہ فاتحہ کی جامع تفسیر چوٹی کے مفسرین تعلیم افریقہ میں سکولوں کا قیام مغربی افریقہ میں سکولوں کا اجراء ذہین بچوں کی اعلیٰ تعلیم جماعت میں تعلیم کا کم سے کم معیار ہراحمدی بچہ کم از کم میٹرک تک پڑھ جائے جماعت نے سینکڑوں غیر احمدی بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی جماعت احمدیہ بحیثیت جماعت یہ درخت زندہ ، ہرا اور سرسبز رہے گا تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا جماعت کے دل میں کبھی تکبر اور فخر کے جذبات پیدا نہیں ہونے چاہئیں ہمارا کوئی پہلو بھی کمزور نہیں ہونا چاہئے دین کے کاموں سے محبت کرنے والی فدائی جماعت 7 ستمبر 1974ء کی آئینی ترمیم ہر احمدی کا آئینی حق دستور سے بغاوت جماعت احمد یہ عشق الہی رکھنے والی جماعت ہے ہماری جماعت کو نمونہ بننا ہوگا منعم علیہ کے دوگر وہ

Page 586

23 2 198 صحابہ کرام پر فرشتوں کا بڑی کثرت سے نزول ہوا کرتا تھا صحابہ کی تیراندازی صدر انجمن احمدیہ صد سالہ جوبلی منصوبہ طب و صحت بیماریوں کا سستا علاج چین میں پیٹ کی بیماری نہ ہونے کے برابر 396.373 9.8 257 256 356 356 357.356 359 437 437 358 467 253 253 450 58 پانی ابال کر پئیں.معدے اور انتڑیوں کی بیماریوں سے محفوظ ہو جائیں 135 سال کی عمر تک بھی کیلشیم کا استعمال مصنوعی چیزوں کا استعمال نقصان دہ ہے زنک کی زمین میں کمی کی وجہ گھروں میں پھل دار درخت لگا ئیں اتنا کھا ئیں جتنا ہضم ہو جائے جب بھوک ہو اس وقت کھاؤ آٹے کے چھان میں بڑی طاقت ہے افراد جماعت کو سب سے زیادہ صحت مند ہونا چاہئے دوائی کی پوری خوراک لیں تب دیتی ہے عیسائیت عیسائیوں کا اعتراض اسلام میں عورت کا کوئی درجہ نہیں عیسائی مذہب تخم ریزی کے ساتھ ہی خشک ہو گیا عیسائی حضرت مسیح کے صلیب پر جان دینے کے خلاف کتب لکھ رہے vii 1 211 274 274 355 269 467 274 269 267 40 40 274 274 269 466 252 330 10 بحیثیت افراد جماعت انصاراللہ کی ذمہ داریاں انصار اللہ کا پہلا اور آخری فرض اشاعت قرآن صف اوّل 55 سال سے زائد عمر صف دوم 40 تا 55 سال کی عمر تک انصار جوانوں کے جوان انصاراللہ میں 20 ہزا ر سائیکل سوار انصار اللہ کی بہترین ورزش سیر ہے خدام الاحمدیہ خدام کی ایک ہی صف ہے 70 ہزار سائیکل سوار چاہئیں بغیر تھکے ایک دن میں 100 میل سفر کرسکو خدام الاحمدیہ کا دائرہ کار اطفال الاحمدیہ طفل صف اوّل 12 سال کی عمر تک صف دوم 13 سے 15 کے درمیان 10 ہزا رسائیکل سوار چاہئیں لجنہ اماء الله لجنہ اماءاللہ ہر تحصیل میں کلب بنائے پچاس سالہ جشن.لجنہ پاکستان نے ایک لاکھ روپیہ دیا صدی اگلی صدی کی ذمہ داریاں صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عرب صحابہ کی قربانیاں

Page 587

قبر مسیح پر تحقیق ہونی چاہئے 386 کسر صلیب کانفرنس 385،384،383،382،381،380،379 327 327 104 106 181 328 200 214 215 81 284.283 286 322 446 449 104 283 لندن میں گرجے برائے فروخت کے بورڈ گر جے شراب خانے بن گئے مجدد حضرت مسیح موعودؓ سے پہلے مجددین کی تاریخ viii 57 262 عیسائیوں کا ساری دنیا پر غالب ہونے کا خواب عیسائیوں کو ہدایت کہ کسی احمدی سے کتاب نہیں لینی 252.202.201 427.426 فضل عمر فاؤنڈیشن فولڈر فولڈرز کی اشاعت اور تقسیم قرآن کریم قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کی تحریک قرآن کریم کے علوم اپنی نسلوں کے دلوں میں قائم کرو 5 33 قرآن کریم میں ہر قسم کی خیر و برکت ، عزت اور بزرگی کے مجلس موصیان سامان ہیں قرآن کا مخاطب ہر انسان ہے قرآن میں ہر فتنہ کا علاج قرآن کریم تو ہمارا سانجھا خزانہ ہے علماء کے نزدیک منسوخ آیات کی تعداد 47 212 213 273 277 نئی صدی کے سر پر ایک مجدد مجد د نائیجیر یا عثمان بن فودی مجلس موصیان کی ذمہ داری محنت محنت کا صحیح نتیجہ نکلنے کے متعلق قرآن کریم کی راہنمائی صحیح محنت اور اس کا علاج محنت اور بشاشت کا احساس پٹنہ میں خدا بخش لائبریری.قرآن کا ایک ایسا نسخہ جس میں مسیح موعود علیہ السلام بعثت کا مقصد.اسلام کا نور تمام دنیا میں پھیلائیں مخالفت کی وجوہات عیسائیت کے مقابلہ میں اسلام کو زندہ مذہب ثابت کیا مہدی کی بعثت کا زمانہ حضرت مسیح موعود امتی نبی آخری مرسل مسیح کے نام سے پکارا جائے گا حضرت مسیح موعود اور پہلے مسجد دین صداقت حضرت مسیح موعود.چاند ،سورج گرہن کا نشان 277 278 286 287.286 308 376 381.326 ایک سورت کا نام سورت علی تھا.معاندین احمدیت کا الزام تحریف و تغلیط سورہ فاتحہ کا چیلنج ڈنمارک میں چیلنج کا اعادہ قرآنی تعلیم کی عظمت امریکہ میں دس لاکھ قرآن کا ترجمہ تقسیم کیا جائے قبر مسیح کفن مسیح کفن مسیح ، چا در مسیح پر تحقیق

Page 588

428 430 252.204.202 298 423 6 12 67 203 204 206 207 نبی اور امتی نبی کا فرق کیا کوئی اور نبی بھی آسکتا ہے نصرت جہاں ریزروفنڈ نماز معروف عذر کے بغیر نمازیں جمع کرنے کی سنت ix 323 324 325 329 مطالعہ کتب کثرت سے اور غور سے کرنا ضروری ہے یہ کتب فی الحقیقت روحانی خزانے ہیں کتب میں ہر مسئلہ پر سیر حاصل بحث کتب پڑھنے کا طریق کتب خریدنے کا طریق رسائل اور کتب کا مطالعہ کریں مہدی علیہ السلام کی کتب کا خود بھی مطالعہ کریں اور اپنی نسلوں کو بھی کروائیں منافق منافق مخلصین کی ہلاکت کا انتظار کرتا ہے 328 66.65 390 239 مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کا مسئلہ وقف عارضی واقفین عارضی اپنا کھانا خود پکائیں صحیح معنوں میں واقفین عارضی چاہئیں جماعت میں بیداری پیدا کرنے کے لئے وقف عارضی بھی منافق اسلامی احکام اور ان کی پابندی سے جان چھڑانا چاہتا ہے 240 بہت بڑا ذریعہ بنا ہے ہیلتھ سنٹرز افریقہ میں ہیلتھ سنٹرز کا قیام نائیجیریا میں ہیلتھ سنٹرز ٹیچی من کا ہیلتھ سنٹر احمدی ڈاکٹروں کی قربانی 244 245 237 114 منافق.یقین کامل پر قائم نہیں ہوتا ایک منافق دنیا کی عارضی لذتوں کا شکار ہو جاتا ہے منافق کے متعلق تین باتیں نبوت ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی بھی ہوتا تھا

Page 589

76 368.186 29 341 74 153 339 339 آپ کی حفاظت کا انتظام بلال بلعم باعور ترمذی ، امام چ - ح - خ چراغدین جمونی چنگیز خان حسن بصری حسن عسکری ، امام خالد بن ولید خوله 439.438.266.199.11 273 301 365 301 300 139 339 343.342 412 405 179 247 413 دوز دوست محمد شاہد ذوالفقار علی بھٹو زاہر ( بدوی صحابی) زید عدنی مدنی ش ض.ظ شافعی ، امام ضیاء الدین ، ڈاکٹر X 228 419 343 277 428 اسماء آیا آئن سٹائن ابن خلدون ابن رشد (اندلس کے فلاسفر ) ابن عربی ابو العطاء ابوبکر، حضرت 116.109.103-100.35.26.25 452.451.330.267.141.140 350.343.342 341 315.287.87 342 87 55 ابوحنیفہ، امام ابو داؤد، امام حضرت ابراہیم علیہ السلام احمد بن حنبل ، امام حضرت اسماعیل علیہ السلام امة الحفیظ بیگم ، سید و نواب ب.بخاری ، امام بشیر احمد ، ڈاکٹر بشیر احمد رفیق ، امام 343 342 341.286.285.282 207 58 بشیر الدین محموداحمد، حضرت صاحبزادہ مرزا خلیفہ امسح الا فی الصلح الموعود ظفر اللہ خاں ، سر چوہدری مرزا.الثانی جنت کے درخت جو حضرت مصلح موعود کے ہاتھ سے لگائے 3،2 گو میں دعا کروں گا لیکن تم میاں ناصر احمد کو دعا کے لئے لکھو 54 ز کلی لفظ کی آپ نے تفسیر بیان فرمائی خلفاء کے زمانہ میں اس قسم کے ولی نہیں ہوتے 280 35 ظفر علی خاں ،مولا نا ع غ عائشة ، حضرت عبدالرحمان بن عثمان فودی

Page 590

404 304 339 266.265.10 439-266-265.10 66 342.341 فق یک فرینکو، جنرل قاسم الدین ، بابو قطعیہ بن شریح قیصر.شاہ روم کسری.شاہ ایران کمال یوسف 98.97.90.83.58.48 259 131 130.111.106 337.334.333 347 45 111 434 1 208.207 341 187 434.405 196 مالک ، امام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم محمد بن قاسم محمد علی ، مولوی.غیر مبائع محمد ولی اللہ ، حاجی محمود احمد ناصر ، سید میر مسعود احمد ، حافظ ڈاکٹر.سرگودھا مسعود الحسن نوری ، ڈاکٹر مسلم ، امام مشتاق احمد باجوہ، چوہدری xi 339 282 389 80 282 115 137 171 141 339 116.108.35 413 341 181 201 339 116.108.35 380 116.108.35.23 131 عبدالرحمان مغربی عبدالعزیز، علامہ شاہ - محدث دہلوی عبدالعزیز و بنیس ،مولوی عبد السلام، ڈاکٹر عبدالسمیع ،مولا نا.مترجم بستان المحد ثین عبد القادر جیلانی 102 101 100.96.58.57 عبد اللطیف شہید، صاحبزادہ سید عبد اللہ بن اوفی عبد اللہ بن عمر و بن العاص عبداللہ سجستانی عثمان ، حضرت عثمان بن فودی.مجدد نا بیجیریا عطاء اللہ ، کرنل عطا بن دینار علی ، حضرت 336.327.326.325.186.103 451.443.442.429.381 عمادالدین عمرؓ، حضرت عیاض، قاضی حضرت عیسی علیہ السلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود منصورہ بیگم ،سیدہ نواب.منصور احمد ، مرزا.مجاہد ا مریکہ 428.174.130.107.81.60

Page 591

270.264 290 418 406 75 341 426 آکسفورڈ میں تعلیم ایک نکتہ سات خطبوں کی بنیاد قومی اسمبلی میں سوال و جواب 74ء کے حالات اور وسع مكانك نذیر احمد برق ( پیشگوئیاں کرنے والے ) نسائی ، امام نسیم مهدی نورالدین ، حضرت حکیم مولانا خلیفہ المسح الاول 50،45،9 نا.277 184 451.100 45 وی ولی اللہ ، شاہ - محدث دہلوی یعقو بوگوون.نائیجیریا کے سربراہ مملکت یوشع بن نون یونس بن متی xii حضرت موسیٰ علیہ السلام 100.99.97.96.48 112 111.109.103 102 101 451.443.442.429.428.185.114 7 9.8 55.54 77 77 182179 227 404 ن ناصراحمد، حضرت صاحبزادہ مرزا.خلیلة امسیح الثالث ہ خلیفۃالمسیح سرائے عالمگیر کے بیس کیمپ میں عادت کا مسئلہ، جیل کی روٹی قبولیت دعا کے واقعات انکساری اور عاجزی کی راہ جماعت اور خلیفہ ایک روحانی درخت دورہ افریقہ کے حوالے سے آدھی رات تک پڑھائی سپین میں تعصب

Page 592

339 276 180 375 406.381.262.252.220 277 325 346 268 384 416.206 205 385 254 بخارا بلوچستان بو ( سیرالیون) بيلجيئم پاکستان پشاور تاشقند تھر پارکر ٹوکیو هیچی من (غانا) ج - چ - ح جاپان جاوا 407.266.210 370.254.227.153 346-257-256.227.226 268 266 407.386.309 372 428 جرمنی جزائر چین حیدر آباد ڈر ڈنکرک ڈنمارک ڈیٹن را ولپنڈی xiii مقامات آنا 446.273.254.227.224.55 270.264 224 4 373 آسٹریلیا آکسفورڈ آئس لینڈ اٹک.کیمبل پور اٹلی افریقہ <262.261.254.227.223.55.54 375.372.370-346-342.339.273 442.385.376 327 414 407 افغانستان اکرا (غانا) الا رو( نائیجیریا) امریکہ 273.254.227.223.210.186.55 378.377.376.375.372.370.351 446.437.415.385.382 343 407.380 371 370.224.210.55 374 382 385.349.153 8 بات.ٹ اندلس انگلستان اوسلو ایران ایشیا بٹالہ

Page 593

254.55 347 180 375 55 406 13 401 276.136.39 327.325.254.7 308 446-415 386.379 209 442 340 133.13 6.ق یک رگ 418.382.379.375.327 407.209 386 365.342.261 فی فرانس فری ٹاؤن فرینکفورٹ فلپائن فن لینڈ قادیان قرطبه کراچی کو پن ہاگن ( ڈنمارک) کینیڈا گوٹن برگ گیمبیا لاہور لندن لیگوس مالمو مدینہ منورہ xiv 436.401.270.257.4 313 273-230-229 414 371 446 436.386 434.404401.347 7 272.271 209 254 339 ربوه روس سیش سالٹ پانڈ ساؤتھ افریقہ ساؤتھ امریکہ سٹاک ہام ، ہوم سپین سرائے عالمگیر سرگودها سکوتو ( نائیجیریا) سماٹرا سمرقند سوئٹزرلینڈ سویڈن سیالکوٹ 426.407.378.210.187 407.406.386.379.378 272.271 209.181 198.11 سیرالیون شام ع غ عراق غانا 11 416.415.414.325.209.208.205 غرناطه 402

Page 594

413 412 411.407.370.210 نبی سر روڈ (سندھ) 269 نیروبی 255 وا (غانا) 415.414 هی ہندوستان 441.382.286.262.223.216.57.2 یورپ.331.320.254.186.127.77.66.55 382.378.376373.370.361.349 442.415.406 XV 179 255 411.208 65 416.365.261.160 4 401 مری مشرقی افریقہ مغربی افریقہ مغربی پاکستان مکه مکرمه میانوالی میڈرڈ ن و ناروے نائیجیر ما 407.406 209 208.204.185.184.181

Page 595

xvi کتابیات براہین احمدیہ 469.457.456.318.100 بركات الدعا 335.314 آئینہ کمالات اسلام ابن سعد ( طبقات ) آرا بستان المحد ثین 282 بیہقی ابن کثیر ابوداؤد اربعین ازالہ اوہام الجامع الصغير الحق مباحثہ لدھیانہ الحكم الفضل الفضل سالانہ نمبر 1967ء.الفضل سالانہ نمبر 1968ء - الفوز الكبير في اصول التفسير الوصیت انصار اللہ، ماہنامہ.ربوہ انوار الاسلام ایک غلطی کا ازالہ 123.82 139 281.276 تجليات البيه 131 445.89087 تحفہ گولڑویہ 452.451.336.115.104101 تذکره 83.24 141.132.131 ترندی 281.141 313.312 تریاق القلوب 123 97 129 تفسیر ا بن جریر 281 94 تفسیر صافی 277 تفسیر صغیر 444.115.29 422.410.296.220.194.35.34 37 118 277 تفسیر کبیر از رازی 436.425 276 ج - چ جلالين مع کما لین 281 چٹان 278 چشمه معرفت 348 352 351 349.174.110.88 190 86 ح - خ حقیقة الوحی 449.448.334 448 خطبہ الہامیہ 292 104 103 درز دار قطنی بخاری شریف بدايته المجد 462.343.283.281.124 343 روح البیان 283 276

Page 596

451.450 81.25 82 132 141.139 142 281 456 111 96 36 31 190-189 من لیکچرلدھیانہ مجموعہ اشتہارات جلد اوّل مجموعہ اشتہارات جلد دوم مسلم صحیح مسند احمد بن حنبل مشكوة معالم التنزيل ، تفسير مفردات راغب مکتوبات جلد ششم ملفوظات جلد 2 ملفوظات جلد سوم ملفوظات جلد 4 نسیم دعوت xvii 448 445.70 141 روحانی خزائن جلد 22 ریویو مباحثہ چکڑالوی و بٹالوی زرقانی جلد 4 سیش سیرت النبی از شبلی نعمانی 141 139.132.131 سیرت خاتم النبیین از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد شرح شفائے از قاضی عیاض 141 131 140 114.113.98 281 317 450.107.97 449 شمائل ترمذی شہادت القرآن ط کل طبری کشتی نوح لیکچر سیالکوٹ لیکچر لاہور

Page 597

XV اشاریہ ضمیمه جلد دوم ( مرتبہ - ملک سعید احمد رشید ) آیات وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَوَةِ وَإِنَّهَا لَكَبَيْرَةٌ إِلَّا عَلَى وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَاذَا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ قَالُوا خَيْرًا (النحل : 31) 492 الْخَشِعِينَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُّلْقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا (بنی اسرائیل :110) راجعُونَ.(البقرة:46-47) 559 رَبِّ زِدْنِي عَلْمًا (طه: 115) 559 534 وَلِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (البقرة: 149) 492 وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ (الحج:47) 555 فَلَا رَفَتَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ (البقره: 198) 517 قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعاؤكُمْ (الفرقان: 78) 543 رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً (آل عمران: 192) 541 516 541 557 إن أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى (الاحقاف: 10) وَذَكَرْ فَإِنَّ الذَّكَرَى تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذريات:56) 561 فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن اتَّقَى (النجم : 33) 552 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ (الصف: 15) 489 تَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة:3) مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (المائده : 70) هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّار الانفال:4) 556 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُم حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَن اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (الانفال: 65 556 عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ (المنافقون:10) 490 563 قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا(التحريم :7) 553 513 وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَا عَدُّوا لَهُ عُدَّةً (التوبه: 46) لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَ نَّكُمُ (ابراهيم:8)

Page 598

ارشادات الف اللہ تعالی + خدا تعالیٰ xvi ہر چیز جو اللہ تعالیٰ کے دست قدرت سے نکلی وہ باطل نہیں ہے اللہ تعالی سے پیار کرنے والی جماعت ہم ہیں اپنے زور بازو سے تم خدا تعالیٰ کی پناہ میں نہیں آ سکتے اپنے فضل سے وہ تمہیں اپنی پناہ میں لے سکتا ہے 541 548 552 552 ایک احمدی پر اللہ تعالیٰ نے بڑی اہم اور بڑی وسیع ذمہ داری ڈالی ہے 480 انصار الله اللہ تعالی کا فیصلہ آسمان پر ہو چکا ہے کہ وہ اسلام کو مسیح موعود کے زمانہ میں ربوہ کی صفائی کے لئے وقار عمل میں انصار بھی شامل ہوں تمام ادیان باطلہ پر غالب کرے گا یہ الہی فیصلہ جو آسمان پر ہو چکا زمین پر نافذ ہوکر رہے گا 480 480 489 ایمان کا تقاضا ہے کہ اسلام کے استحکام کے لئے تم انصار اللہ بنو 489 اگر حقیقتا تم اللہ کے دین کے مددگار نہیں بنو گے تو تمہیں رحمت الہی نصیب اللہ تعالیٰ نے جو کام خلیفہ وقت کے سپرد کئے ہیں ان میں سے ایک نہیں ہوگی بڑا اہم کام اعتصام بحبل اللہ کی نگرانی ہے.483 489 کوشش یہ کرنا کہ تمہارا اموال شیطان کو شکست دینے والے اور تمہارے اللہ تعالی ایسا فضل کرے کہ اس کی رحمت کے سارے دروازے ہمارے بچے شیطان کے خلاف صف آرا ہونے والے ہوں لئے کھل جائیں اس کی رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے 490 495 490 تحریک جدید دفتر دوم کی ذمہ داری انصار اللہ کے سپرد کرتا ہوں 490 قرآن کریم سیکھنا سکھانا انصار اللہ کی ذمہ داری ہے 494 دنیا جو مرضی کہتی رہے اگر ہمارا رب ہمیں کافر نہیں کہتا تو ہمیں کوئی فرق ہر رکن انصار اللہ کا یہ فرض ہے یہ ذمہ داری اُٹھائے کہ اپنے گھر کے بیوی، نہیں پڑتا 505 بچے اور دیگر احمدی قرآن کریم پڑھتے اور سیکھتے ہیں 494 اللہ تعالیٰ جس کے کان میں یہ کہہ رہا ہو کہ میں تجھے مسلمان سمجھتا ہوں اسے بحیثیت مجلس انصار اللہ اپنے اندر ایک فعال زندگی پیدا کرے 494 انصار اللہ کی تنظیم میں تربیت اور حصول قرب الہی پر زور دیا گیا ہے 496 505 کسی اور فتوے کی ضرورت نہیں خدا تعالیٰ کا جو پیار ہے وہ ایک راستہ سے تو ہم تک نہیں پہنچا.وہ تو ہر راستہ انصار اللہ تکبر اور ریاء کے بغیر اپنے پروگرام کے اندر بے نفس خدمت سے ہم تک پہنچتا ہے 523 کرنے والے ہوں ہمارے اندر خدا تعالیٰ کی محبت اور پیار کی اتنی گرمی ہونی چاہئے کہ اس کے انصار اللہ کو ہر قدم پر دعا کرنے کی تلقین مقابلے میں اُبلتے ہوئے پانی کی کوئی گرمی نہ ہو 523 497 501 انصار اللہ کوتحریک جدید کے حوالہ سے ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں 502 انسان استغفار کرتا ہے اور دعائیں کرتا ہے خدا تعالیٰ پھر رحم کرتا ہے 527 تربیت کی ذمہ داری انصار کی ہے اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں ایک بے مثل ہستی ہے اس کی صفات میں اس کا ہمدردی مخلوق انصار اللہ کا بھی کام ہے کوئی مثیل نہیں 541 507-508 509

Page 599

xvii انصار الله ماحول کو بداثرات سے محفوظ رکھیں اپنے رب سے تعلق کی پختگی انصار اللہ سے بھی تعلق رکھتی ہے انصار اللہ ، ربوہ کے ہر شہری کے لئے ورزش کا انتظام کروائے انصار اللہ کو اجتماعات پر تسبیحات پڑھنے کی تلقین انصار اللہ کا ر و مال اور اس کی تفصیل 509 510 512 513 514 گھروں میں فیملی کلاسز جاری کریں انصار کی یہ ذمہ داری کہ گھر کے ماحول کو اسلامی ماحول بنا ئیں انصار اجتماع کے دن دعاؤں اور عاجزی سے گزاریں انصار الله (رساله) ماہنامہ انصار اللہ خاص غرض کے لئے جاری کیا گیا ہے 545 550 561 474 انصار اللہ کے رومال کے چھلے کیلئے لَا غَالِبَ إِلَّا اللہ کا نشان مقرر 515 جماعتوں میں قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام مجلس انصار اللہ کے سپرد 477 انصار ، ماہنامہ انصار اللہ میں دلچسپی لیں 515 رسالہ انصار اللہ کو پڑھیں اس سے فائدہ اٹھائیں انصار اللہ کو میں بوڑھے کہنے کی بجائے جوانوں کے جوان کہا کرتا ہوں 515 رسالہ انصار اللہ ایک تربیتی رسالہ ہے انصار اللہ اپنے ہاں تربیتی ماحول پیدا کریں اور گھروں میں اسلامی صداقتوں ماہنامہ انصار اللہ ان کے لئے بھی ہے جو انصار اللہ نہیں انصاراللہ کا ذکر کریں 519 اسلامی صداقتوں کے مطابق زندگی گزاریں اور اپنی نسلوں کو ان صداقتوں بدرسوم اور قرآنی حقائق سے آگاہ کریں اور ان صداقتوں کو حفظ کرا دیں 519 ہر بدعت اور بدرسم شرک کی ایک راہ ہے 488 491 528 487 ایک تربیتی پروگرام کے تحت اسلام کی ابدی صداقتوں کو دہراتے چلے ہر گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان جانا چاہئے 520 کرتا ہوں 487 انصار اللہ اسلامی صداقتوں کو اجاگر کرنے کے لئے لٹریچر تیار کریں 520 جو احمدی گھرانہ ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا وہ جماعت سے نکال کر بعض انصار کو بنیادی مسائل کا علم نہیں.اس طرف توجہ دینی چاہئے 531 باہر پھینک دیا جائے گا جس طرح دودھ سے مکھی انصار اللہ سمیت تمام تنظیموں نے بچوں کو ضائع ہونے سے بچانا ہے 533 دعا اور تربیت انصار اللہ کی ذمہ داری ہے 533 توحید ساری دنیا میں اسلام اور محمدؐ کے نور کو متعارف کروانے کی ذمہ داری تم توحید خالص کو اپنے نفسوں اور ماحول میں قائم کریں 487 487 487 487 487 487 شرک کی تمام کھڑکیوں کو بند کر دیں شرک کی تمام راہوں کو کلیۂ چھوڑ دیں تو حید کے قیام میں بڑی روک بدعت اور رسم ہے ہر بدعت اور رسم شرک کی ایک راہ ہے 534 535 537 545 پر ہے انصار اللہ کے اجتماع میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہو انصار، خدام مل کر ربوہ کو غریب دلہن کی طرح سجادیں انصار دینی کتب خریدنے کے لئے کلب بنا ئیں

Page 600

xviii خدا کی توحید دنیا میں قائم ہو، ہمارے گھروں میں قائم ہو ، ہمارے دلوں میں ہماری عورتوں اور بچوں کے دلوں میں قائم ہو 488 جماعت کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچے وقف کرے 536 540 جماعت احمدیہ جہاں جماعت قائم ہے وہاں ذیلی تنظیمیں اپنی مجلس قائم کریں 475 جماعت احمدیہ کی نوجوان نسل میں بڑا جذ بہ اور اللہ تعالیٰ سے پیار 540 548 اور نبی اکرم کے لئے بڑی محبت پائی جاتی ہے جماعت کی ذیلی تنظیموں کو اپنے منصوبے(Revise) کرنے چاہئیں 477 ہم اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والی جماعت ہیں جماعت کی ذیلی تنظیموں کو اپنے ملوضہ فرائض احسن طور پر بجالانے چاہئیں 477 خدا کے ہر حکم پر عمل کرنے والی جماعت ہے جماعتوں میں قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام ذیلی تنظیمیں کریں 477 جماعت احمدیہ نے وسیع پیمانہ پر تیاری کرنی ہے کہ اس زمانہ میں اسلام کو میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ قرآن کریم کی شکل میں جو نعمت حضرت مسیح ساری دنیا میں غالب کرنا ہے 548 549 موعودؓ کے طفیل ملی ہے اگر وہ ورثہ کے طور پر آپ کے بچوں کو نہیں ملتی تو جماعت احمدیہ کا بنیادی مقام عجز وانکسار کا مقام ہے اس کو نہ بھولنا 561 اگر تکبر ، ریا اور غرور ہو تمہیں اپنے علم پر یا مال پر یا اپنے قبیلہ اور طاقت پر تو آپ خوشی سے اس دنیا سے رخصت نہیں ہوں گے 479 561 ہماری جماعت کا پہلا اور آخری فرض یہ ہے کہ توحید خالص کو اپنے نفسوں اور مارے گئے تم اپنے ماحول میں بھی قائم کریں اور شرک کی تمام کھڑکیوں کو بند کر دیں 487 اللہ کرے کہ جماعت کو جماعتی حیثیت اور انفرادی حیثیت میں عجز وانکسار میں نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق جماعت احمدیہ میں پاکیزگی کو قائم کے مقام کو حاصل کرنے کی توفیق ملتی رہے کرنے کیلئے ہر بدعت اور بدرسم کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا ہے 488 اپنے اہل کو خدا تعالیٰ کے غضب کی آگ سے بچانے کی کوشش کرو 564 561 ہماری جماعت میں روح مسابقت قائم رہنی چاہئے جماعتی نظام میرے سامنے ذمہ دار ہوگا 492 498 دوست ہر جماعت کا کوئی نہ کوئی نمائندہ اجتماعوں میں شامل ضرور ہو 498 دوستوں کو ماہنامہ انصار اللہ کی خریداری کی طرف توجہ کرنی چاہئے 474 جماعت احمدیہ میں مختلف تنظیمیں تمکنت دین اور خوف کو امن میں بدلنے ذیلی میں کیلئے بطور ہتھیار کے ہیں 499 ذیلی تنظیموں کے سپرد جو کام ہے ان کو بجالانے میں وہ بہترین رضا کار جماعت چوکس رہ کر خصوصاً خدام الاحمدیہ، خاندان، انصار، مائیں، بڑی ثابت ہوں بہنیں احمدی بچے کو ضائع ہونے سے بچائے 533 474 ذیلی تنظیمیں مجلس انصار اللہ مجلس خدام الاحمد یہ مجلس اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماءاللہ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ اس بچے کوخدا اور محمد کیلئے تیار کرنا ہے 533 اور نا صرات الاحمدیہ ہیں 474 ہر سال دنیا کی جماعت احمدیہ کی تعداد بڑھ جاتی ہے یہ اللہ تعالیٰ کا اگر ذیلی تنظیمیں فعال ہو جائیں تو خدا تعالیٰ ان سے خوش ہو گا اور انہیں

Page 601

xix اپنے فضلوں اور برکتوں سے نوازے گا خدام الاحمدیہ براہ راست خلیفہ وقت کی نگرانی میں ہے 476 475 خدام الاحمد یہ نو جوانوں میں تذلیل اور تواضع کا جذبہ ابھارے 475 جہاں جماعت قائم ہے وہاں ذیلی تنظیمیں اپنی مجلس قائم کریں 475 جو تعلیمی ادارے ربوہ سے باہر ہیں ان کی بھی سختی سے نگرانی ہونی چاہئے 501 ربوہ کو باہر کی جماعتوں کیلئے نمونہ بننا چاہئے 503 خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے نمائندے ایسا انتظام کریں کہ ربوہ کا ہر شہری رواز نہ ورزش کیا کرے 512 ذیلی تنظیموں کے اچھے نتائج سے حضرت مصلح موعود کا نام زندہ رہے گا 476 اہل ربوہ کی پہلی ذمہ داری طہارت ظاہری کا خیال رکھنا ہے دوسری ذمہ 517 517 524 525 داری باطنی طہارت ربوہ کی صفائی کریں بلکہ ربوہ کو دلہن کی طرح سجادیں ہمیں سارا سال یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ربوہ میں گندگی نہ ہو ربوہ میں درخت لگانے کا کام انصار اللہ کے سپرد کرتا ہوں 477 477 482 483 ذیلی تنظیمیں فرائض چھوڑ کر نوافل کی طرف متوجہ نہ ہوں جماعت کی مضبوطی کیلئے قائم کی گئی ہیں جماعتی کام کو ذیلی تنظیموں کے کام پر مقدم رکھنا ہوگا ذیلی تنظیمیں خلیفہ وقت کے اعضاء ہیں ہر تنظیم میں سب سے زیادہ طاقت اس وقت ہوتی ہے جب وہ اپنی حدود کے جب جلسہ سالانہ شروع ہو تو ربوہ ایک غریب مسکین دلہن کی طرح صاف اندر کام کر رہی ہو 483 و شفاف ہو ذیلی تنظیموں کی طاقت اس بات میں ہے کہ جو حد و دخلیفہ وقت نے ان کے ربوہ کی صفائی کے لئے انصار ، خدام اور لجنہ خصوصی توجہ دیں لئے مقرر کی ہیں اُن سے باہر نہ جائیں 485 مسابقت في الخیرات کی روح اُجاگر کرنے کیلئے ذیلی تنظیموں کو قائم کیا زبان گیا ہے 491-92 ز 529 547 لوگ سمجھتے ہیں کہ زبان کا کام صرف جسکے کا ہے کھایا اور مزہ اُٹھا لیا.اصل ذیلی تنظیموں کے اجتماعات میں تمام مجالس کی نمائندگی ضروری ہے 497 لذت وہ ہے جو انسان ذکر الہی سے حاصل کرتا ہے 522 ذیلی تنظیمیں اپنے زیر انتظام تین کمروں پر مشتمل گیسٹ ہاؤس مہمانوں مادی چیزوں سے حظ اٹھانے کے لئے ہی زبان پیدا نہیں کی گئی 522 ع عہد یدار 517 558C552 کے لئے بنوائیں ذیلی تنظیموں کو اجتماعات کیلئے زریں ہدایات ربوه عہدیداران نظام کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ پورا تعاون کریں 484 آپ خدا کے بندوں کو انتہائی محبت نہیں دے سکتے تو آپ عہد یدار رہنے ربوہ میں بسنے والوں کے لئے ضروری ہے کہ صفائی کا خاص خیال رکھیں 489 کے قابل ہی نہیں 484 اہل ربوہ کو اللہ تعالی نماز باجماعت ادا کرنے کی توفیق عطا کرے 497 ہر عہدیدار کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی تکلیف بھول جائے اور اپنے بھائیوں

Page 602

XX کی تکلیف کا احساس رہے بدظنی عہد یداروں کے لئے بڑی مہلک چیز ہے عہد یداروں کی سستی کی وجہ سے نتیجہ ٹھیک نہیں نکلتا 484 485 513 نہ ہو 479 قرآن کریم کا سمجھنا، اس کا فہم حاصل کرنا سب سے اہم کام ہے 482 قرآن کریم کی اشاعت کے لئے ہی ہمیں زندہ کیا گیا ہے 482 عہد یدار جہاں بھی ہیں اور سستی دکھاتے ہیں ان کا کوئی حق نہیں کہ وہ اس الہی سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی تعلیم کو دنیا بھر میں پھیلانے کیلئے عہد یدارر ہیں 513 قائم کیا ہے احیائے دین اور قیام شریعت کی بھاری ذمہ داری عہدیداران پر عائد قرآن کریم کے احکام خیر ہیں ان میں بھلائی ہی بھلائی ہے 482 492 ہوتی ہے ق قرآن کریم 516 قرآن کریم سیکھنا سکھانا انصار اللہ کی ذمہ داری ہے قیامت تک کے ہر نئے مسئلے کا حل قرآن کریم میں موجود ہے قرآن کریم بھرا ہوا ہے انذار سے اور تبشیر سے 494 551 563 جماعتوں میں قرآن کریم پڑھانے کا کام انصاراللہ کے سپردکرتا ہوں 477 کان ہمارا کوئی بچہ ایسا نہ ہو جسے قرآن پڑھنا نہ آتا ہو 478 اسی طرح کان ہے.دُنیا بہک گئی.عجیب لوگ ہیں کہ صرف گانے سُن کر قاعدہ میسر نا القرآن صحیح طور پر پڑھا دیا جائے تو قرآن کریم پڑھنا مشکل لذت حاصل کرتے ہیں نہیں ہوتا 478 522 خدا تعالیٰ کی آواز جب کان میں پڑتی ہے تو جو لذت کان کے ذریعہ حاصل ہمارے کالج کا طالب علم قرآن کریم سے ناواقف ہو بڑی شرم کی ہوتی ہے اس کا کروڑواں حصہ بھی انسان گانے سن کر حاصل نہیں کر سکتا 522 بات ہے 478 کلب ہمیں ہزاروں رضا کار چاہئیں جو اپنے اوقات قرآن کریم ناظرہ اور حضرت مسیح موعود کی کتب کیلئے کلب بناؤ.خدام اپنی بنائیں، انصار اپنی بنا ئیں ، لجنہ اپنی.سب کے سب اس کلب کے ممبر ہونے چاہئیں 545 با تر جمہ سکھانے کیلئے دیں خدا تعالیٰ کے فضلوں کا خزانہ قرآن کریم 479 479 گھر اپنی جانوں ، اپنی نسلوں، اپنے خاندانوں اور ان گھروں پر رحم کرو جن میں تم ان گھروں پر رحم کرو جن میں تم سکونت پذیر ہو کیونکہ قرآن کے بغیر آپ سکونت پذیر ہو کیونکہ قرآن کریم کے بغیر آپ کے گھر بھی بے برکت کے گھر بھی بے برکت ہیں رہیں گے ہر احمدی گھرانے کا ہر فر د قرآن کریم پڑھ سکتا ہو 479 479 ہر احمدی گھر ایسا ہو کہ ہر فرد قرآن کریم پڑھ سکتا ہو ہمارے گھروں میں صرف تو حید کے دروازے ہی کھلے رہیں 479 479 487 کوئی جماعت ایسی نہیں رہنی چاہئے کہ جہاں قرآن پڑھانے کا انتظام احمدی گھرانوں کا فرض ہے کہ تمام بد رسوم کو جڑ سے اکھیڑ کر باہر پھینک دیں 487

Page 603

xxi ہر گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر بدرسوم کے خلاف جہاد کا اعلان چکے تھے اور تمام بنی نوع انسان جنہوں نے آپ کے بعد پیدا ہونا تھا کرتا ہوں 487 سب سے محبت ، شفقت اور رحمت کا سلوک کیا 486 جو احمدی گھرانہ ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا وہ جماعت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم اور حسین زندگی کا نچوڑ نکالا جائے تو نکال دیا جائے گا 487 اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ اللہ اکبر اپنے گھروں کو پاک کرنے کیلئے سب شیطانی وسوسوں کی راہوں کو آنحضرت کے جھنڈے کا رنگ کا لاتھ یا سفید تھا بند کر دیں 488 499 515 حضرت محمد نے عاجزانہ راہوں کو اختیار کر کے اور فنافی اللہ ہو کر نیستی ہر انصار کا فرض ہے کہ اس کے گھر میں اس کے بیوی بچے قرآن کریم کا مقام حاصل کیا پڑھتے ہوں اپنے گھروں میں اسلامی صداقتوں کا ذکر کرتے رہیں 494 519 533 حضرت مسیح موعود 535 حضرت مسیح موعود کے متعلق بحي الدين ويُقيم الشريعة كا اصل تر بیت گھر سے شروع ہوتی ہے گھروں میں فیملی کلاسز شروع کریں ہر گھر میں ایک نسخہ تفسیر صغیر کا ہو حضرت مسیح موعودؓ کی تفسیر کی جلد میں ہر گھر میں آجائیں اپنے گھر کے ماحول کو اسلامی ماحول بنا ئیں 545 545 545 الہام ہے 516 حضرت مسیح موعود کی بعثت کی ایک غرض یہ ہے کہ دین کا احیاء فرمائیں گے 516 شریعت حقہ اسلامیہ کے قیام کیلئے آپ کو مبعوث کیا گیا 516 550 حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھ کر ہم نے محمد کا نور حاصل نہیں کیا تو نگرانی کہ ان کے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے ترجمہ سیکھا جارہا ہے 550 زندہ رہ کے کیا کرنا حضرت محمد 545 حضرت مسیح موعود کی تفسیر کی جو جلد میں چھپ چکی ہیں ہر گھر میں آجائیں 545 ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہادی اور رہبر تسلیم کیا ہے 486 یہ علوم کے خزانے گھروں میں پہنچنے چاہئیں 546 یہ عہد کیا ہے کہ ہم اپنے محبوب آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو م 486 حضرت مصلح موعود ہمیشہ اسوۂ حسنہ بنائے رکھیں گے آپ تمام دنیا کیلئے ، تمام جہانوں اور زمانوں کیلئے ابدی شریعت صدر انجمن کو موجودہ شکل آپ نے دی، تحریک جدید، وقف جدید لے کر آئے 486 اور ذیلی تنظیمیں آپ نے قائم کیں 476 ایک بڑی نمایاں خصوصیت " رحمۃ للعالمین“ ہونے کی ہے 486 یہ تنظیمیں جب تک قائم رہیں گی اور ان کے خوشکن نتائج نکلتے رہیں آپ نے ساری دنیا بلکہ تمام ان انسانوں سے جو آپ سے پہلے گزر گے اس وقت تک آپ کا نام زندہ رہے گا 476

Page 604

xxii دنیا عزت کے ساتھ آپ کو یاد کرتی رہے گی 476 حضرت مصلح موعود نے دنیا بھر میں اشاعت اسلام اور جہاد بالقرآن وقف جدید میں شدت پیدا کر نے کیلئے تحریک جدید کو قائم کیا ن نظام - تنظیم 499 وقف جدید کی تنظیم جس کے سپر د اشاعت قرآن اور تربیت سلسلہ کا ایک محدود دائرہ کے اندر کچھ کام کیا گیا ہے وقف زندگی 483 ہر نظام کو خواہ وہ بنیادی ہو یا ذیلی، یقین ہونا چاہئے کہ دوسرے نظام ہمیں بڑی عمر کے احمدیوں کی ضرورت ہے جن کی زندگی حقیقی اسلام میرے ساتھ سو فیصدی تعاون کرنے والے، میرے ممدومعاون ہیں 484 کے مطالعہ میں گزری ، جن کے دل خدا کی محبت سے معمور، جن کی نظام کے اندر ایک دوسرے کے ساتھ پورا تعاون اور اتفاق ہونا چاہئے 485 ہمت جواں ہو وہ آگے آئیں ، اپنی زندگیوں کو وقف کریں 518 جس وقت دوسری تنظیموں کو ان کے تعاون کی ضرورت ہو.وہ اتنا تعاون کریں کہ دنیا میں اس کی مثال نہ ملتی ہو 485 جماعت میں مختلف تنظیمیں تمکنت دین اور خوف کو امن میں بدلنے کے لئے بطور ہتھیار کے ہیں 499 حضرت مصلح موعود یہ تنظیمیں خلیفہ وقت کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کی حیثیت میں بڑے حضرت مسیح موعود مفید کام کرتی ہیں اور آئندہ بھی کرتی رہیں گی 499 ماحول کے بداثرات اور گندی باتوں سے محفوظ رکھنا جماعت اور اسماء 531 515.499.483.476.474 499.488.481.479.478.473 550.545.542.532.522.520.516 ناصراحمد حضرت مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث 510.486.473 527.518.516.512.520.515.499.494.491.486.555.553.540.534.533.523.521 563.562.560.558.557.556 499 543 ساری تنظیموں کا یہ کام ہے 509 تمام انجمنیں اور تنظیمیں خلیفہ وقت کے ماتحت ہیں 526 تمام تنظیموں نے احمدی بچوں کو ضائع ہونے سے بچانا ہے 533 حضرت محمد ناک ناک صرف خوشبو سونگھنے یا بد بو محسوس کرنے والا آلہ نہیں انسان ناک سے بہت سی روحانی چیزیں سونگھتا ہے 526 522 حضرت مرزا طاہر احمد صاحب سابق صد ر خدام الاحمدیہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ناک کہتا ہے یہ چیز ہے یا یہ چیز نہیں ہے 522 حضرت خالد بن ولید 522 اس کے بہت سے روحانی فوائد ہیں

Page 605

اسلام آباد بلوچستان بنوں بہاولپور پاکستان پاکستان پنجاب جہلم چٹا گانگ دمشق ڈھا کہ ڈھا کہ ڈیرہ غازیخاں را ولپنڈی ربوه ساہیوال سپین سرحد سندھ سیالکوٹ قادیان کراچی مقامات xxiii 503 558 503 503 502 536 558 503 475 554 475 503 503 503.524.517.503 537.529.525 503 514 558 558 503.480 533 503.470 لاہور مغربی افریقہ 506 502 503 ملتان ہزارہ 503 کتابیات خطبات ناصر جلد اول.دوم قرآن کریم خطبات ناصر جلد اوّل ، دوم، سوم، چهارم، پنجم، ششم، هفتم هشتم نم رسالہ ماہنامہ انصار الله رسالہ ماہنامہ خالد رسالة تشحمید الا ذهان رساله مصباح رسالہ الفرقان ریویو آف ریلیجند براہین احمدیہ جلد اول حصہ سوم رساله تحریک جدید مشعل راه جلد دوم تذکره احمدیت یعنی حقیقی اسلام سیر روحانی ہما را رسول اسلامی معاشرہ تفسیر کبیر رازی روحانی خزائن جلد 5

Page 606

Sabeel-ur-Rashad vol-2 (With Additional Matter) Comprising The Sayings Of Hazrat Khalifatul Masih The 3rd (May Allah have mercy On him) By MAJLISANSARULLAH PAKISTAN

Page 606