Sabeel Ur Rashad Vol 1

Sabeel Ur Rashad Vol 1

سبیل الرّشاد۔ حصہ اول

حصّہ اوّل۔ مجلس انصاراللہ کے متعلق خطابات و ارشادات
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ  کے مجلس انصار اللہ کے متعلق خطابات، ارشادات اور فرمودات کا یہ مجموعہ  ہے۔ دراصل آپ ؓ نے  جولائی 1940ء میں مجلس انصارا للہ کی بنیاد رکھنے سے لیکرہمیشہ ہی مجلس انصاراللہ کو  توجہ اور رہنمائی عطافرمائی  تا تعلیم قرآن وحکمت، تبلیغ اور خدمت خلق سے دین و انسانیت کی نصرت کا سفر جاری رہے اور مجلس انصاراللہ کے ممبران اپنے عمدہ ذاتی نمونہ، اور تربیت اولاد کے فریضہ کو احسن ترین رنگ میں بجا کر جماعتی ترقی کی رفتار میں اضافہ کرنے والے ہیں۔ زیر نظر مجموعہ میں انصاراللہ کے لئے مختلف مواقع پر عطا ہونے والی ہدایات کو جمع کرکے ایک مفید مجموعہ تیار کیا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

سبیل الرشاد حصہ اول مجلس انصاراللہ کے متعلق حضرت خلیفہ مسیح اثانی کے خطبات وارشادات

Page 2

Page 3

بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ کسی قوم کو زندہ اور فعال رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا ہر چھوٹا بڑا اپنے مقاصد سے باخبر ہواوراپنے مقاصد کے حصول کے لئے پوری تندہی اور محنت کے ساتھ مصروف عمل رہے.اس غرض کے لئے حضرت مصلح موعود خلیفتہ امسیح الثانی نے جماعت احمدیہ میں ذیلی تنظیموں کو قائم فرمایا.جولائی ۱۹۴۰ء میں حضور نے جماعت احمدیہ کے ۴۰ سال اور زائد عمر کے افراد کی تنظیم مجلس انصار اللہ کے نام سے قائم فرمائی.اس مجلس کو حضور نے وقتاً فوقتاً اپنے ارشادات سے نوازا اور ان کی رہنمائی فرمائی.حضور کے یہ خطبات اور ارشادات ایک جگہ کتابی شکل میں احباب جماعت کے استفادہ کے لئے پیش کئے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان مقاصد کے حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن کے لئے مجلس انصار اللہ کو قائم کیا گیا ہے اور جماعت احمدیہ کا قدم ہمیشہ ترقی کی راہ پر آگے سے آگے بڑھتا جائے.آمین ناشر

Page 4

- ۶۰ + ° 3 I ۳۴ ۲۶ ۶۳ ۷۴ ۹۶ ۱۰۲ ۱۲۴ ۱۳۵ ۱۴۳ i ا مجلس انصار اللہ کا قیام -۲ -۴ -4 فهرست سبیل الرشاد جلد اول انصار اللہ اور دیگر تنظیموں میں شمولیت کی اہمیت اور ان تنظیموں کے فرائض جماعت کی دینی تعلیم کے لئے مجلس انصاراللہ کی ذمہ داری انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کے قیام کے چھ مقاصد نماز با جماعت کے قیام کے سلسلہ میں مجالس انصاراللہ اور خدام الاحمدیہ کی ذمہ داریاں سلسلہ کی روحانی بقاء.ذیلی تنظیموں کے قیام کا مقصد کیفیت اور کیمیت دونوں لحاظ سے جماعت کی ترقی.ذیلی تنظیموں کی تحریکات کا مقصد جماعت احمدیہ میں خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کے قیام کی ضرورت و اہمیت ۹.ذیلی تنظیموں کے قائم کرنے کی حکمت -11 خلافت احمدیہ سے کامل وابستگی.انصار اللہ کی اہم ذمہ داری قرآن کریم میں احمدی خواتین کا ذکر.انصار اللہ کی ذمہ داری ۱۲- مالی قربانیوں میں اور روحانی اعتبار سے انصار اللہ ترقی کریں - دائمی روحانی زندگی کے لئے خلافت احمدیہ کی اہمیت

Page 5

۱۶۵ ۱۶۸ ۱۷۲ ۱۷۶ ۱۸۰ ۱۸۳ ۱۸۹ ۱۹۱ ۱۹۵ ۱۹۸ ۲۰۲ ۲۰۴ ۲۰۶ ۲۰۷ ۲۱۱ ii ۱۴- کامل تنظیم اور متواتر حرکت عمل کی تلقین -۱۵ احمدیت کی محبت اور محنت کی عادت پیدا کرنے کے ذرائع پر غور کریں ۱۶ جماعت میں مشقت طلب کاموں کی عادت پیدا کرنا ۱۷- وقف جائیداد کی تحریک ۱۸- نماز با جماعت اور محنت کی عادت ڈالنے کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کی ذمہ داری 19 - انصار اللہ کو مرکز بنانے کی ہدایت -۲۰ مجلس انصار اللہ مرکزیہ کی تنظیم نو کے متعلق ہدایات ۲۱.جماعت میں نمازوں ، دعاؤں اور تعلق باللہ کو قائم رکھنا انصار اللہ کا کام ہے ۲۲- تحریک جدید کے سلسلے میں ذیلی تنظیموں کی ذمہ داری ۲۱.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظاہری اور باطنی قرب ملنے کی دعا ۲۳ مجلس انصار اللہ کے پانچویں سالانہ اجتماع کے موقع پر خلیفہ اسیح کا پیغام ۲۵- مجلس انصار اللہ کے چھٹے سالانہ اجتماع کے موقع پر خلیفتہ اسیح کا پیغام ۲۶- تبلیغ کرنے کا تاکیدی ارشاد ۲۷- خدائے واحد کے نام کی بلندی اور کفر اور شرک کی بیخ کنی کے لئے قربانی ۲۸- حقیقی معنوں میں انصار بننے کی دعا

Page 6

مجلس انصار اللہ کا قیام سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کے متعلق ایک دعا کی تھی جس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے اور وہ دعا یہ تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ (البقره آیت ۱۳۰) اے میرے رب! تو ان میں ایک نبی مبعوث فرما.جس کا کام یہ ہو کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وہ تیری آیتیں انہیں پڑھ کر سنائے وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ اور شریعت کے احکام اور ان کی حکمتیں انہیں سمجھائے.وَيُزَكِّيهِمُ اور انہیں پاک کرے بایز تیمم کے دوسرے معنوں کے مطابق انہیں ادنیٰ حالتوں سے ترقی دیتے دیتے اعلیٰ مقامات تک پہنچا دے.یہ دعا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی ہے اس کے مقابل انہوں نے اپنی اولاد کے متعلق ایک عام دعا بھی کی ہے.چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کے بعض احکام کی انہوں نے فرمانبرداری کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی خدمت کو قبول کیا اور فرمایا کہ ہم تم کو امام بناتے ہیں تو انسی جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا کی خبر سنتے کے بعد انہوں نے فرمایا وَ مِن ذُرِّيَّتِى (البقرہ آیت ۱۲۵) میری امامت تو میرے زمانہ کے لوگوں تک ختم ہو جائے گی لیکن دنیا تو اماموں کی ہمیشہ محتاج رہے گی اور جب دنیا ہمیشہ اماموں کی محتاج رہے گی تو اے خدا میری ذریت میں سے بھی امام مقرر کئے جائیں.گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس امر کو تسلیم کیا ہے کوئی نبی ہمیشہ ہمیش کے لئے دنیا کے لئے رہبر نہیں رہ سکتا.بلکہ بار بار خدا کی طرف سے امام آنے کی ضرورت ہوتی ہے.اب ایک طرف وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار امام آنے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی اولاد میں سے

Page 7

۲ متواتر امام بنائے جانے کی درخواست کرتے ہیں اور دوسری طرف مکہ سے تعلق رکھنے والے سلسلہ کے متعلق یوں دعا فرماتے ہیں.رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمُ کہ اے میرے رب ان میں ایک رسول بھیج.اب سوال یہ ہوتا ہے کہ یہاں انہوں نے صرف ایک رسول مبعوث کئے جانے کی کیوں دعا کی.جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایک رسول کافی نہیں ہوتا.بلکہ دنیا ہمیشہ رسولوں کی محتاج رہتی ہے اور اسی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ میری امامت کبھی اچھے نتیجے پیدا نہیں کر سکتی.جب تک میری اولاد میں سے بھی امام نہ ہوں اور جب تک ہدایت کا وہ بیچ جو میرے ہاتھوں سے بویا جائے اس کا بعد میں بھی نشو ونما نہ ہوتا رہے.میں تو امام ہو گیا لیکن اگر بعد میں دنیا گمراہ ہوگئی تو میری امامت کیا نتیجہ پیدا کرے گی.حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو آپ کی ذریت سے تعلق رکھنے والے اماموں میں سے ایک امام ہیں.ان کے متعلق بھی قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ قیامت کے دن جب خدا تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ تیری قوم جس شرک میں مبتلا ہوئی کیا اس کی تو نے لوگوں کو تعلیم دی تھی اور کیا تو نے یہ کہا تھا کہ میری اور والدہ کی پرستش کرو تو اس کے جواب میں وہ کہیں گے وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِى كُنتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمُ (المائدة آيت ۱۱۸) کہ جب تک میں ان میں رہا ان کی نگرانی کرتا رہا مگر جب مجھے وفات دے دی گئی تو حضور پھر میں کیا کر سکتا تھا اور مجھے کیونکر معلوم ہوسکتا تھا کہ میری قوم بگڑ گئی ہے.گویا حضرت عیسی علیہ السلام بھی یہ امر تسلیم کرتے ہیں کہ نبی کا اثر ایک عرصہ تک ہی چلتا ہے اس کے بعد اگر قوم بگڑ جاتی ہے تو كُنتُ اَنتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمُ خدا تعالیٰ کو ان کی ہدایت کا کوئی اور سامان کرنا پڑتا ہے.یہ بھی تصدیق ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی کہ وَمِنْ ذُرِّيَّتِی یعنی میری ذریت میں سے بھی ایسے لوگ ہونے چاہیں.ورنہ دنیا کی ہدایت قائم نہیں رہ سکتی.تو حضرت عیسی علیہ السلام کا بیان ایک اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا دو.یہ اس بات کے شاہد ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی کہ دنیا میں ہدایت کے قیام کے لئے متواتر اماموں کا ہونا ضروری ہے.جب متواتر اماموں کا ہونا ضروری ہے اور اس کے بغیر ہدایت قائم نہیں رہ سکتی تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی

Page 8

اس دعا کے کیا معنی ہوئے که رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمُ اے میرے رب ان میں ایک رسول بھیج.پھر تو انہیں یہ دعا مانگنی چاہئے تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُلاً مِّنْهُمْ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُوْنَهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّوْنَهُمُ کہ اے میرے رب ان میں بہت سے انبیا ھیچیو.جو تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر انہیں سنائیں اور تیری شریعت کے احکام اور ان کی حکمتیں انہیں بتا ئیں اور انہیں اپنی قوت قدسیہ سے پاک کرتے رہیں.مگر وہ تو یہی دعا کرتے ہیں کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمُ اے میرے رب ان میں ایک رسول بھیج.يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وہ تیری آیتیں پڑھے نہ کہ پڑھیں وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَة اور وہ ان کو کتاب اور حکمت سکھائے نہ کہ سکھائیں.وَيُزَکیهِمُ اور وہ ان کو پاک کرے.نہ کہ پاک کریں.مگر خود ہی دوسرے موقعہ پر دعا کے ذریعہ اس امر کا اقرار کر چکے ہیں کہ میری نبوت کافی نہیں ہوسکتی.جب تک میری اولاد میں سے بھی انبیاء نہ ہوں اور جب تک نبیوں کا ایک لمبا سلسلہ دنیا میں قائم نہ ہو.اس ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ کیوں دعا کی کہ ان میں ایک نبی مبعوث کی جیو.یہ ایک سوال ہے.جس کو اگر ہم قرآن کریم سے ہی حل نہ کر سکیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر خطر ناک الزام آتا ہے کہ انہوں نے ایک ایسی دعا کی جس سے دنیا کو ہدایت کامل نہیں مل سکتی تھی اور دنیا کے لئے نور کا ایک رستہ کھولتے ہوئے انہوں نے اسے معا بند کر دیا.یہ تو کہا جاسکتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذہن آگے کی طرف گیا ہی نہیں.انہوں نے صرف یہ چاہا کہ میرے بعد ایک نبی آجائے اور آئندہ کے متعلق وہ خود دعا کرتا رہے.مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری دعا نے بتا دیا کہ ان کے دل میں یہ خیال آیا اور انہوں نے اس کے متعلق دعا بھی کی.چنانچہ فرمایا ومن ذریتی کہ میری اولاد میں سے بھی ائمہ ہوتے رہیں.تو یہ کہنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے بعد کے زمانہ کی ضروریات کی طرف ذہن ہی نہیں گیا بالکل غلط ہے کیونکہ ان کی دوسری دعا نے بتا دیا کہ انہیں قیامت تک لوگوں کی ہدایت کا خیال تھا اور جب انہیں اس امر کا خیال تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ائمہ کا ہمیشہ آتے رہنا ضروری ہے.تو پھر اس دعا پر انہوں نے کیوں کفائت کی کہ خدایا ان

Page 9

میں ایک رسول بھیج جو انہیں تیری آیات پڑھ پڑھ کر سنائے انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے.اس سوال کا جواب ہمیں قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتا ہے چنانچہ سورہ جمعہ میں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ.هُوَ الَّذِى بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (سورۃ جمعہ آیات 2 - 3) یہ وہی الفاظ ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کرتے ہوئے استعمال کئے تھے فرماتا ہے وہ خدا بڑی بلندشان والا ہے.جس نے ابراھیم علیہ السلام کی دعا کو سن کر امن میں اپنا رسول مبعوث کیا يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وہ ان کو اس کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتا ہے.وَيُزَعِيْهُمُ اور ان کو پاک کرتا وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ اور ان کو آسمانی کتاب سمجھا تا اور شرائع کی بار یک دربار یک حکمتیں بتا تا ہے.یہ بتا کر کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی دعا قبول ہوگئی اور اب اس اعتراض کا ازالہ کرتا ہے.جو بعض طبائع میں پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا نا مکمل ہے.کیونکہ جہاں اپنی اولاد کے متعلق عام دعا انہوں نے یہ کی تھی کہ ان میں متواتر رسول آتے رہیں وہاں مکہ والوں کے متعلق انہوں نے صرف یہ دعا کی کہ ان میں سے ایک رسول مبعوث ہو.چنانچہ فرماتا ہے وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (سورہ جمعہ آیت 4) ان دعاؤں میں بے شک ایک فرق ہے.مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ابراہیمی اولاد کے بعض حصوں میں ایسے نبی آنے تھے جنہوں نے اپنی ذات میں مستقل ہونا تھا.مگر ابراھیم نے مکہ والوں کے متعلق جو دعا کی وہ صرف ایسے رسول کے متعلق تھی.جس نے ایک ہی رہنا تھا اور جس کے متعلق یہ مقدر تھا که آئندہ دنیا میں ہمیشہ اس کے اظلال و ابتاع پیدا ہوتے رہیں.پس چونکہ یہ خدا کا فیصلہ تھا کہ اس رسول نے بار بار متبع اطلال کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہوتے رہنا تھا اس لئے بالفاظ دیگر اماموں کا سلسلہ بھی ہمیشہ قائم رہنا تھا اور رسول بھی ایک ہی رہتا تھا کیونکہ ان کی امامت اور رسالت جدا گانہ نہیں ہوئی تھی بلکہ

Page 10

محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ورسالت میں شامل ہوئی تھی.یہ وجہ ہے کہ اس دعا کے نتیجہ میں چونکہ ایک ایسا رسول آنا مقدر تھا.جس نے بار بار اپنے اظلال کے ذریعہ دنیا میں آنا تھا.اس لئے رُسُلاً کہنے کی ضرورت نہ تھی.بلکہ رَسُؤلا ہی کہنا چاہئے تھا.تو اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوابِهِمُ میں اس اعتراض کا جواب دے دیا گیا ہے کہ جہاں انہوں نے اپنی اولاد کے متعلق عام دعا کی.وہاں تو ان میں بار بار رسول اور امام بھیجنے کی التجا کی.مگر جہاں مکہ والوں کے متعلق خاص طور پر دعا کی تو وہاں صرف ایک رسول بھیجنے کی دعا کردی.اس اعتراض کا جواب اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ بے شک مکہ والوں کے متعلق انہوں نے بھی دعا کی تھی کہ ان میں ایک رسول آئے.مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول ایسا کامل تھا کہ اس پر اس قسم کی موت آہی نہیں سکتی تھی کہ اس کی تعلیم کا اثر لوگوں کی طبائع پر سے کلیہ جاتا رہے.بلکہ مقدر یہ تھا کہ جب طبعی طور پر یہ اثر جاتا رہے گا.خدا اسی رسول کو دوبارہ مبعوث کر دے گا اور چونکہ اس رسول نے اپنے متبع اظلال کے ذریعہ بار بار دنیا میں آنا تھا.اس لئے حضرت ابراھیم علیہ السلام کو بہت سے رسول مانگنے کی کوئی ضرورت نہ تھی.غرض اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے جب یہ دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْهُم تو اس رَسُولاً مِنْهُمُ سے مراد خاتم النبین تھا اور چونکہ خاتم النبین کی نبوت میں بعد میں آنے والے تمام نبیوں اور رسولوں کی نبوت شامل تھی.اس لئے یہ ضرورت ہی نہ تھی کہ رَسُولاً منهم کی بجائے رُسُلا منھم کہا جاتا.پس ہمیں اس آیت سے یہ نکتہ معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اپنی ذات میں ہی بعد میں آنے والے رسولوں اور اماموں کی خبر دیتی تھی.آپ کے علاوہ دنیا میں اور کوئی ایسا رسول نہیں جو اپنی ذات میں آنے والے انبیاء کی خبر دیتا ہو.موسیٰ" کا نفس اپنی ذات میں منفرد تھا.داؤد کا نفس اپنی ذات میں منفر د تھا.اسی طرح اور انبیاء کے نفوس اپنی اپنی ذات میں منفرد تھے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد انبیاء آئے مگر وہ ان کے ظل نہیں تھے بلکہ تابع تھے.عیسی ، موسیٰ" کے ظل ان معنوں میں نہیں تھے ، جن معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظل ہیں.یوں تو ظل پہلوں کے بھی ہوتے رہے ہیں.مگر اس ظلیت کے معنے صرف مشابہت کے ہوا کرتے تھے.جیسے حضرت عیسی الیاس کے ظل تھے.مگر فل کے یہ معنی نہیں تھے کہ وہ الیاس کے ماتحت تھے وہاں ایک تابع ہوسکتا تھا جو ل نہ ہو اور ایک ظل ہوسکتا تھا جو تابع نہ ہو.عیسیٰ

Page 11

ظل تھے الیاس کے ہنگر الیاس کے تابع نہ تھے.بلکہ تابع وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہی تھے.تو ظلیت اور اتباع الگ الگ چیزیں ہوا کرتی تھیں.ظلیت کے معنی صرف اس جیسا کے ہوا کرتے تھے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خبر دی کہ میرے بعد ایک میرے جیسا رسول آئے گا.اب اس سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ" کے تابع نہیں تھے.پس پہلے انبیاء میں یہ ہو سکتا تھا کہ ایک نبی کسی دوسرے نبی کاظل تو ہو مگر تابع نہ ہو، یا تابع تو ہو مگر ظل نہ ہو.جیسے حضرت عیسی علیہ السلام تابع تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے.مگر وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ظل نہیں تھے.اس طرح وہ ظل تھے الیاس کے مگر وہ ان کے تابع نہ تھے بلکہ تابع حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تھے.مگر یہاں جو خبر دی گئی کہ وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ اس میں کام بھی وہی رکھا گیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا اور نام بھی وہی رکھا گیا ہے جو آپ کا تھا.کیونکہ فرمایا وَ اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ وہی رسول پھر آخرین میں مبعوث ہوگا اور وہی رسول“ کے معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ صفات بھی ویسی ہوں گی.کام بھی وہی ہوگا اور نام بھی وہی ہوگا.گویا صفات کے لحاظ سے وہ ظل ہوگا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور کاموں کے لحاظ سے وہ تابع ہوگا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا.جس طرح وہ نمازیں پڑھا کرتے تھے اسی طرح یہ نمازیں پڑھے گا.جس طرح وہ روزے رکھا کرتے تھے اسی طرح یہ روزے رکھے گا.جس طرح وہ زکوۃ دیا کرتے تھے ، اسی طرح یہ زکوۃ دے گا.جس طرح وہ احکام الہیہ پر چلتے تھے اسی طرح یہ احکام الہیہ پر چلے گا.یہ تابعیت ہے جو اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاصل ہوگی اور دوسری طرف جو آپ کی خصلتیں ہوں گی وہی اس کی خصلتیں ہوں گی اور جو آپ کے اخلاق ہوں گے وہی اس کے اخلاق ہوں گے اور یہ اس کے ظل ہونے کا ثبوت ہوگا.مگر حضرت عیسی علیہ السلام نے الیاس والے کام نہیں کئے.الیاس نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق تعلیم دی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق تعلیم دی.پس گو وہ ظل تھے الیاس کے مگر الیاس کے تابع نہیں تھے.بلکہ تابع حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہی تھے لیکن محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرما دیا کہ آپ کی نیابت میں جولوگ کھڑے ہوں گے وہ آپ کے ظل بھی ہونگے اور آپ کے تابع بھی ہوں گے اور یہ

Page 12

دونوں باتیں ان میں پائی جاتی ہوں گی.اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں بارہا اپنے متعلق یہ ذکر فرمایا ہے کہ میں امتی نبی ہوں.یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقطہ نگاہ سے میں امتی ہوں مگر تم لوگوں کے نقطہ نگاہ سے میں نبی ہوں.جہاں میرے اور تمہارے تعلق کا سوال آئے گا وہاں تمہیں میری حیثیت وہی تسلیم کرنی پڑے گی جو ایک نبی کی ہوتی ہے.جس طرح نبی پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے اسی طرح مجھ ایمان لانا ضروری ہوگا.جس طرح نبی کے احکام کی اتباع فرض ہوتی ہے اس طرح میرے احکام کی اتباع تم پر فرض ہوگی.مگر جب میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف مونہہ کر کے کھڑا ہوں گا تو اس وقت میری حیثیت ایک امتی کی ہوگی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر فرمان میرے لئے واجب التعمیل ہوگا اور آپ کی رضا اور خوشنودی کا حصول میرے لئے ضروری ہوگا.گویا جس طرح ایک ہی وقت میں دادا اور باپ اور پوتا اکٹھے ہوں تو جو حالت ان کی ہوتی ہے وہی محمدصلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے.ایک باپ جب اپنے باپ کی طرف مونہ کرتا ہے تو وہ باپ کی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ بیٹے کی حیثیت رکھتا ہے لیکن وہی باپ جب اپنے بیٹے کی طرف مونہہ کر کے کھڑا ہوتا ہے تو اس کی حیثیت باپ کی ہو جاتی ہے اور بیٹے کا فرض ہوتا ہے کہ اس کا ہر حکم مانے.بیٹا یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب تم اپنے باپ کی طرف منہ کر کے کھڑے تھے تو اس وقت تمہاری حیثیت بیٹے کی تھی نہ کہ باپ کی تو اب تمہاری حیثیت باپ کی کس طرح ہو سکتی ہے.کیونکہ اب اس کا منہ اپنے باپ کی طرف نہیں بلکہ اپنے بیٹے کی طرف ہوگا.یہی حیثیت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی عطا فرمائی ہے.وہ امتی بھی ہیں اور نبی بھی وہ نبی ہیں ہم لوگوں کی نسبت سے اور وہ امتی ہیں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے.عیسی علیہ السلام نبی تھے ، موسیٰ کی طرف مونہہ کر کے بھی.صرف اپنی امت کی طرف مونہہ کر کے ہی نبی نہیں تھے.اسی طرح داؤد نبی تھے موسیٰ کی طرف مونہہ کر کے بھی.صرف اپنی امت کی طرف مونہہ کر کے نبی نہیں تھے.اسی طرح سلیمان ذکریا اور بیچی نبی تھے موسیٰ کی طرف مونہہ کر کے بھی.یہ نہیں کہ صرف اپنی امت کی طرف مونہ کر کے نبی ہوں اور موسیٰ" کی طرف مونہہ کر کے امتی.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ یہ عجیب قسم کی نبوت جاری ہوئی کہ ایک ہی نبی جب ہماری طرف مخاطب ہوتا ہے تو وہ نبی ہوتا ہے اور جب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہوتا ہے تو امتی بن جاتا ہے اور وہ کسی ایسے کام کا دعویدار نہیں ہو سکتا جو

Page 13

Δ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا بلکہ اس کا فرض ہوتا ہے کہ اسی کام کو چلائے جس کام کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چلایا.کیونکہ فرماتا ہے.وَاخْرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ اللہ تعالیٰ اسے آخرین میں بھی مبعوث کرے گا جو بھی پیدا نہیں ہوئے.گویا محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوبارہ بعثت ہوگی اور یہ ظاہر ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دو کام نہیں ہو سکتے.وہی کام جو آپ نے پہلے زمانہ میں کئے وہی آخری زمانہ میں کریں گے اس جگہ یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیح ناصری کے بھی ظل یا مثیل تھے.مگر آپ سے ان کو صرف ظلیت کا تعلق تھا تا بعیت کا نہیں.کیونکہ گو آپ کو نام مسیح کا دیا گیا تھا، کام آپ کو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا سپر د کیا گیا تھا.جیسا کہ سورہ جمعہ سے ثابت ہے.پس حضرت مسیح موعود کو جو مشابہت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہے وہ زیادہ شدید ہے بہ نسبت اس کے جو آپ کو مسیح ناصری سے حاصل ہے.اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمد جس پہ میرا سب مدار پس ہماری جماعت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لاتی ہے، اس کے افراد کو یہ امرا چھی طرح یا د رکھنا چاہیئے کہ یا تو وہ یہ دعوی کریں کہ حضرت مرزا صاحب کو وہ کوئی ایسا نبی سمجھتے ہیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اور آپ کی غلامی سے آزاد ہو کر مقام نبوت حاصل کیا ہے.اس صورت میں وہ بے شک کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ہمارا نبی آزاد ہے اس لئے ہم نئے قانون بنائیں گے اور جو کام ہماری مرضی کے مطابق ہوگا وہی کریں گے.اس کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کریں گے.پس اگر ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ ہمارا نبی مستقل ہے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور آپ کے احکام کی اتباع سے آزاد ہے، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا صحابہ کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت نہیں.جو باتیں ہمیں اچھی لگیں گی اور جو ہماری مرضی کے مطابق ہوں گی ،صرف ان میں حصہ لیں گے باقی کسی میں حصہ نہیں لیں گے لیکن اگر ہمارا یہ دعوئی ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سورہ جمعہ کے مطابق امتی نبی ہیں اور ہمارا یہ عقیدہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی وہ رسولا ہیں جن کی نبوت ورسالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت شامل ہے تو پھر ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کام کئے ، وہی کام مسیح موعود کے سپرد ہیں اور جو کام صحابہ نے کئے وہی کام جماعت احمدیہ کے ذمہ ہیں مگر میں تعجب سے دیکھتا ہوں کہ ایک طرف تو ہماری جماعت کے

Page 14

۹ دوست یہ دعوی کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کامل حل اور امتی نبی ہیں.اور وہی شریعت جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی اسی کو دوبارہ قائم کرنا ہماری جماعت کا فرض ہے.اور دوسری طرف جماعت کا ایک حصہ صحابہ کے طریق عمل کی جگہ ایک نئی راہ پر چلنا چاہتا ہے اور اس راستہ کو اختیار ہی نہیں کرتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے اختیار کی.گویا ان کی مثال بالکل شتر مرغ کی سی ہے کہ جہاں درجوں اور انعامات کا سوال آتا ہے وہاں تو کہہ دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی الگ وجود نہیں.بلکہ آپ کی بعثت در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہی بعثت ثانیہ ہے اس وجہ سے جو صحابہ کا مقام وہی ہما را مقام.چنانچہ وہ اس قسم کے استدلال کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں آتا ہے ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَّةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ.(الواقعہ آیت 40-41) کہ جیسے اولین میں سے ایک بہت بڑی جماعت نے خدا کا قرب حاصل کیا اسی طرح آخرین خدا کی بہت بڑی رحمتوں کے مستحق ہوں گے.پس جیسے صحابہ کی جماعت تھی ویسی ہی ہماری جماعت ہے جیسے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اولی سے مستفیض ہوئے ، اسی طرح ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بعثت ثانیہ سے مستفیض ہوئے.پس ہم میں اور صحابہ میں کوئی فرق نہیں.مگر جب قربانی کا سوال آتا ہے تو ایسے لوگ کہتے ہیں کہ وہ زمانہ اور تھا اور یہ زمانہ اور ہے.گویا وہ بالکل شتر مرغ کی طرح ہیں.جو اپنی دونوں حالتوں سے فائدہ تو اٹھالیتا ہے مگر کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.کہتے ہیں کسی شتر مرغ سے کسی نے کہا کہ آؤ تم پر اسباب لادیں.کیونکہ تم شتر ہو (شتر کے معنی اونٹ ہیں اور مرغ کے معنی ہیں پرندہ ) وہ کہنے لگا، کیا پرندوں پر بھی کسی نے اسباب لا دا ہے؟ اس نے کہا، اچھا تو پھر اڑ کر دکھاؤ.وہ کہنے لگا، کبھی اونٹ بھی اڑا کرتے ہیں.پس جس طرح شتر مرغ اڑنے کے وقت اونٹ بن جاتا ہے اور اسباب لا دتے وقت پرندہ.اسی طرح ہماری جماعت کا جو حصہ کمزور ہے، کرتا ہے.جب قربانی کا وقت آتا ہے تو وہ کہتا ہے ہمارا حال اور ہے اور صحابہ کا حال اور مگر جب درجوں اور انعامات اور جنت کی نعماء کا سوال آتا ہے

Page 15

تو کہتا ہے، سبحان اللہ ! حضرت صاحب تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کل تھے.پس جو حال صحابہ کا وہی حال ہمارا.میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ کوئی پور بیا مر گیا تھا.پورپہیئے عام طور پر دھوبی ہوتے ہیں.اس کی عورت نے باقی دھوبیوں کو اطلاع دی اور سب اکٹھے ہو گئے.رسم و رواج کے مطابق عورت نے ان سب کے سامنے رونا پیٹنا شروع کر دیا.ان میں طریق یہ ہے کہ جب کوئی مرجاتا ہے تو عورتیں اور لڑکیاں اکٹھی ہو کر پیٹتی ہیں اور مرد انہیں تسلی دیتے ہیں.اس پوریئے کی عورت نے بھی رونا پیٹنا شروع کر دیا اور روتے روتے اس قسم کی باتیں شروع کیں کہ ارے اس نے فلاں کی جگہ سے اتنا روپیہ لیتا تھا.اسے اب کون وصول کرے گا.ایک پور بیا آگے بڑھ کر کہنے لگا.اری ہم ری ہم.وہ کہنے لگی ارے اس نے ادھیارے پر گائے دی ہوئی تھی.اب اسے کون لائیگا.وہی پور بیا پھر بولا اور کہنے لگا اری ہم ری ہم.پھر وہ روئی اور کہنے لگی ارے اس کی تین ماہ کی تنخواہ مالک کے ذمہ تھی اب وہ کون وصول کرے گا.وہ پور بیا پھر آگے بڑھا اور کہنے لگا اری ہم ری ہم.پھر وہ عورت رو کر کہنے لگی ارے اس نے فلاں کا دوسور و پیہ قرض دینا تھا اب وہ قرض کون دے گا.اس پر وہ پور بیا باقی قوم کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگا.ارے بھئی میں ہی بولتا جاؤں گا یا برادری میں سے کوئی اور بھی بولے گا.ان کمزور احمدیوں کی بھی یہی حالت ہے.جہاں جنت کی نعماء اور مدارج کا سوال آتا ہے.وہاں تو کہتے ہیں ارے ہم رے ہم.مگر جب یہ کہا جاتا ہے کہ صحابہ نے بھی قربانیاں کی تھیں تم بھی قربانیاں کرو تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہم ہی بولتے جائیں یا برادری میں سے کوئی اور بھی بولے گا.یہ حالت بالکل غیر معقول ہے اور اسے کسی صورت میں برادشت نہیں کیا جاسکتا.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مستقل نبی تھے تو بے شک کسی نئی شریعت نئے نظام اور نئے قانون کی ضرورت ہو سکتی ہے لیکن اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع اور امتی نبی ہیں.تو پھر جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حال تھا.وہی مسیح موعود کا حال ہے اور جو ان کے صحابہ کا حال تھا وہی ہمارا حال ہے.مگر یہ کمزور لوگ جب اپنی مجلسوں میں بیٹھتے ہیں تو اس وقت تو قرآن کریم کی آیات اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات پڑھ پڑھ کر اپنے سر ہلاتے چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں.ہمارے لئے یہ انعام بھی ہے اور ہمارے لئے وہ انعام بھی ہے.مگر جب کام کا سوال آتا ہے تو کوئی یہ کہنے لگ جاتا ہے کہ اگر میں کام پر گیا تو میری دوکان خراب ہو جائے گی اور کوئی یہ عذر کرنے لگ جاتا ہے کہ میں اپنے بیوی بچوں کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جاسکتا.حالانکہ صحابہ کی بھی دوکا نہیں تھیں اور صحابہ کے بھی بیوی بچے تھے.مگر

Page 16

11 انہوں نے ان باتوں کی کوئی پروانہیں کی تھی.پھر اگر ہم بھی صحابہ کے نقش قدم پر ہیں تو ان باتوں سے ڈرنے اور گھبرانے کے معنے کیا ہوئے.ہمارا مذ ہب یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کل اور آپ کے تابع تھے.ان کی تمام عزت اور ان کا تمام رتبہ اسی میں تھا کہ خدا نے ان کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عکس بنا دیا تھا اور وہ اسی کام کے لئے مبعوث کئے گئے تھے.جس کام کے لئے محمدصلی اللہ علیہ وسلم آج سے ساڑھے تیرہ سوسال پہلے معبوث ہوئے.بلکہ قرآنی اصطلاح میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہو کر تشریف لے آئے اور یہ ایک بہت بڑی عزت کی بات ہے.مگر ساتھ ہی بہت بڑی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہے.کیونکہ اگر محمدصلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہو کر تشریف لے آئے ہیں، تو صحابہ کو بھی تو دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں آجانا چاہئیے.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ کام کئے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئے تھے تو ہمارے کام وہ ہیں جو صحابہ نے کئے.صحابہ کو ہر سال چار چار، پانچ پانچ لڑائیاں لڑنی پڑتی تھیں اور بعض لڑائیوں میں مہینہ ڈیڑھ مہینہ صرف ہو جاتا تھا.گویا بعض سالوں میں انہیں آٹھ آٹھ ، نو نو مہینے گھروں سے باہر رہنا پڑا ہے.پھر انہیں کوئی گزارہ نہیں ملتا تھا.دال روٹی اور نمک کے لئے بھی پیسہ تک نہیں ملتا تھا.بیوی کا کام تھا کہ وہ بعد میں اپنی روزی آپ کمائے اور جانے والوں کا فرض تھا کہ وہ اپنے خرچ پر جائیں.حتی کہ لڑائی پر جانے والوں کو راشن تک نہیں ملتا تھا بلکہ ہر شخص کا فرض ہوتا تھا کہ وہ اپنی روٹی کا آپ انتظام کرے.اس کے مقابلہ میں، میں دیکھتا ہوں.ہماری جماعت میں ان باتوں کا احساس ہی نہیں یہ تو میں نہیں کہتا کہ سب میں احساس نہیں.مگر بہر حال جن کے دلوں میں یہ احساس ہے، ان کے مقابلہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے دلوں میں کوئی احساس نہیں اور اس وجہ سے ہم محض اس بات سے تسلی نہیں پاسکتے کہ جماعت کے ایک حصہ میں ان باتوں کا احساس ہے.جب تک جماعت کا ایک حصہ ہمیں ایسا بھی نظر آتا ہے.جو اس احساس سے بالکل خالی ہے اور دعویٰ یہ کرتا ہے کہ اسے صحابہ کی مماثلت حاصل ہے.خواہ وہ کتنا بھی تھوڑا ہے.جب تک اس کے اس غیر معقول رویہ کی اصلاح نہ کی جائے گی ، اس وقت تک ہم چین اور آرام سے نہیں بیٹھ سکتے.میں نے سب نو جوانوں کی اصلاح اور دوسروں کو مفید دینی کاموں میں لگانے کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ

Page 17

۱۲ قائم کی تھی.مگر ان کی رپورٹ ہے کہ بعض نوجوان ایسے ہیں کہ جب ہم کوئی کام ان کے سپرد کرتے ہیں تو پہلا قدم ان کا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کام کے کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے لیکن اگر زور دیا جائے تو وہ مان تو لیتے ہیں اور کہتے ہیں اچھا ہم یہ کام کریں گے.مگر پھر دوسرا قدم ان کا یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کام کو کرتے نہیں.یہی کہتے رہتے ہیں کہ ہم کریں گے.کریں گے.مگر عملی رنگ میں کوئی کام نہیں کرتے.اس کے بعد جب ان کے لئے سزا مقرر کی جاتی ہے تو وہ اس سزا کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم استعفیٰ دے دیں گے ہمگر سزا برداشت نہیں کریں گے.اس قسم کے لوگوں کو یا درکھنا چاہئے کہ وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ بچے احمدی نہیں.کیا منافقوں کے سوا مخلص صحابہ میں سے تم کوئی مثال ایسی پیش کر سکتے ہو کہ ان میں سے کسی نے کام کرنے سے اس طرح انکار کر دیا ہو.یا کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس بات کو برداشت کیا ؟ پھر اس جماعت میں سے ایسا نمونہ دکھانے والوں کو ہم صحابہ کانمونہ کس طرح قرار دے سکتے ہیں ہم تو ان کو انہیں میں شامل کریں گے جو صحابہ کے زمانہ میں ایسے کام کرتے رہے ہیں.یعنی منافق لوگ.اس میں شبہ نہیں کہ اس زمانے میں تلوار کا جہاد تھا اور آج تلوار کا جہاد نہیں لیکن ہر زمانہ کا جہاد الگ الگ ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تلوار کا جہاد تھا اور ممکن ہے اس قسم کے لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ اگر کسی وقت تلوار کے جہاد کا موقعہ آیا تو وہ سب سے آگے آگے ہوں گے لیکن میں سمجھتا ہوں اگر کبھی تلوار کے جہاد کا موقعہ آیا تو ایسے لوگ سب سے پہلے بھاگنے والے ہوں گے.پس جب وہ کہتے ہیں کہ یہاں کونسا تلوار کا جہاد ہورہا ہے.اگر تلوار کا جہاد ہوتو وہ شامل ہو جائیں.تو یا تو وہ اپنے نفس کو دھوکا دیتے ہیں یا جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں اور میرے خیال میں تو وہ جھوٹ ہی بول رہے ہوتے ہیں.کیونکہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مہینہ میں دودن دوکان بند کرنے کے لئے تو تیار نہ ہو اور وہ جہاد کے لئے سال میں سے آٹھ ماہ گھر سے باہر رہ سکتا ہے.یہ فیصلہ کرنا کہ اس زمانہ میں کس قسم کے جہاد کی ضرورت ہے، خدا کا کام ہے اور یہ خدا کا اختیار ہے، کہ وہ چاہے تو ہمارے ہاتھ میں تلوار دے دے.چاہے تو قلم دے دے اور چاہے تو تبلیغ اور تعلیم وتربیت کا جہاد مقرر کر دے اور اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں تلوار کا جہاد نہیں رکھا.بلکہ تبلیغ اور تعلیم وتربیت کا جہا درکھا ہے اور یہی وہ جہاد ہے جس کا سورہ جمعہ کی ان آیات میں ذکر ہے جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کی خبر دی گئی ہے.چنانچہ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِہ میں ہر مومن کا یہ فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے نشانات الہیہ کو بیان کرے، یعنی انہیں تبلیغ کرے.پر تیهِمُ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ انہیں

Page 18

۱۳ پاک کرے، یعنی دعاؤں کے ذریعے تزکیہ نفوس کرے یا یزکیھم کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ وہ لوگوں کو بڑھائے اگر وہ دنیوی علوم میں دوسروں سے پیچھے ہوں تو اس میدان میں ان کو آگے لے جائے.تعداد میں کم ہوں، تو تعداد میں بڑھائے.مالی حالت کمزور ہو تو اس میں بڑھائے.غرض جس رنگ میں بھی ہو، انہیں بڑھاتا چلا جائے.گویا لوگوں کی مالی اور اقتصادی ترقی میں حصہ لے.يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ ان کو قرآن سکھائے.وَالْحِكْمَةَ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ احکام شریعت کی حکمتوں اور ان کے اسرار سے لوگوں کا آگاہ کرے.اس آیت کے اور بھی معنی ہیں جن کو میں نے تفصیل کے ساتھ اپنی اس تقریر میں بیان کیا ہوا ہے جو خلافت کے آغاز میں میں نے کی تھی اور جو منصب خلافت“ کے نام سے چھپی ہوئی ہے لیکن یہ پانچ موٹی موٹی باتیں ہیں.(۱) تبلیغ (۲) قرآن پڑھانا (۳) شرائع کی حکمتیں بتانا (۴) اچھی تربیت کرنا (۵) قوم کی دنیوی کمزوریوں کو دور کر کے انہیں اس ترقی کے میدان میں بڑھانا.یہ پانچ ذمہ داریاں صحابہ پر تھیں اور یہی پانچوں ذمہ داریاں ہم پر عائد ہیں.تبلیغ ہمارے ذمہ ہے، تعلیم ہمارے ذمہ ہے،احکام کی حکمتیں بتانا ہمارے ذمہ ہے، اور جماعت کی مالی اور اقتصادی حالت کی درستی اور اس کی پستی کو دور کرنا ہمارے ذمہ ہے.اگر ہم یہ پانچ کام نہیں کرتے تو ہم جھوٹے اور کذاب ہیں ، اگر ہم اپنے آپ کو صحابی کہتے ہیں.انہی کاموں میں سے ایک کام کے متعلق میں نے کچھ عرصہ ہوا قادیان کی جماعت کو توجہ دلائی تھی اور میں نے کہا تھا کہ کم سے کم قادیان میں کوئی ان پڑھ نہیں رہنا چاہئے.مگر خدام الاحمدیہ کی طرف سے مجھے رپورٹ ملی ہے کہ جہاں باقی سب محلوں نے کام ختم کر لیا ہے.وہاں مسجد فضل سے تعلق رکھنے والے تعاون نہیں کر رہے.اس سے مراد دار الفضل والے نہیں.بلکہ وہ محلہ ہے جسے محلہ ارائیاں بھی کہتے ہیں.اس محلہ کے لوگ نہ تو نمازوں کے لئے باقاعدہ جمع ہوتے ہیں، نہ پڑھانے کے لئے جاتے ہیں اور نہ ہی پڑھنے کے لئے آتے ہیں.اسی طرح مجھے ہیں لوگوں کی ایسی لسٹ دی گئی ہے جنہیں اس محلہ کے ان پڑھوں کو تعلیم دینے کے لئے مقرر کیا گیا مگر کسی نے کوئی عذر کر دیا اور کسی نے کوئی اور جس نے مان بھی لیا وہ بھی پڑھانے کے لئے نہیں گیا اور جب ان میں سے بعض کو کہا گیا کہ تمہیں اس جرم کی سزا دی جائے گی تو ان میں سے دونے کہا ہم خدام الاحمدیہ سے استعفیٰ دے دیں گے.مگر انہیں یا درکھنا چاہئے وہ خدام الاحمدیہ سے استعفی نہیں

Page 19

۱۴ دے سکتے بلکہ انہیں احمدیت سے استعفیٰ دینا پڑے گا.یہ پانچ کام ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے گئے.یہی پانچ کام ہیں جو صحابہ نے کئے اور یہی پانچ کام ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئے.ہر شخص جو يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِہ کے مطابق تعلیم قرآن کا کام نہیں کرتا بلکہ تعلیم قرآن کے کام سے گریز کرتا ہے.وہ اس سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے.ہر شخص جو تبلیغ سے گریز کرتا ہے، وہ تبلیغ سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے.ہر شخص جو دوسروں کی تربیت سے گریز کرتا ہے، وہ تربیت کرنے سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے.ہر شخص جو شرائع کی حکمتیں بتانے سے گریز کرتا ہے، وہ شرائع کی حکمتیں بتانے سے گریز نہیں کرتا بلکہ وہ احمدیت سے گریز کرتا ہے اور ہر وہ شخص جوتز کیہ نفوس یا جماعت کی اقتصادی اور مالی ترقی کی تجاویز میں حصہ لینے سے گریز کرتا ہے، وہ تزکیۂ نفوس یا جماعت کی اقتصادی اور مالی ترقی کی تجاویز میں حصہ لینے سے گریز نہیں کرتا بلکہ احمدیت سے گریز کرتا ہے.ایسے شخص کی نہ احمدیت کو کوئی ضرورت ہو سکتی ہے اور نہ اس کے لئے کوئی وجہ ہے کہ وہ احمدیت میں داخل رہے.وہ یہ کہہ کر کہ وہ احمدی ہے، اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے.یا اگر اپنے نفس کو دھوکا نہیں دیتا تو جھوٹا اور مکار ہے اور ہر گز اس قابل نہیں کہ وہ مومنوں کی جماعت میں شامل رہ سکے.یہ پانچ کام ضروری ہیں اور جماعت کے ہر فرد کو ان میں حصہ لینا پڑے گا اور جب تک وہ طوعا یا کر ہا ان کاموں میں حصہ نہیں لیں گے.وہ کبھی صحیح معنوں میں صحابہؓ کے مثیل نہیں کہلا سکیں گے.آخر تمہیں غور کرنا چاہئے کہ کیا صحابہ اپنی مرضی سے ہی تمام کام کیا کرتے تھے.وہ اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کرتے تھے.بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام کی متابعت میں تمام کام کرتے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جہاد کے لئے چلو اور سب چل پڑتے تھے اور جونہ چلتا تھا اسے جبری طور پر لے جایا جاتا تھا.میں نے چاہا تھا کہ طوعی طور پر جماعت کو ان قربانیوں میں حصہ لینے کے لئے آمادہ کیا جائے.مگر معلوم ہوتا ہے ساری جماعت طوعی طور پر قربانی کرنے کے لئے تیار نہیں.بلکہ اس کا ایک حصہ منافقوں پر مشتمل ہے اور وہ ہمیں اس بات پر مجبور کر رہا ہے کہ ہم اسے اپنی جماعت میں سے خارج کر دیں.یا اگر وہ منافق نہیں تو ایسے کون لوگ ہیں جو ڈنڈے کے محتاج ہیں اور جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کو سزا دی تھی جو جہاد کے لئے نہیں گئے تھے.اسی طرح وہ بھی چاہتے ہیں کہ انہیں سزادی

Page 20

۱۵ جائے اور جبر ان سے احکام کی تعمیل کرائی جائے.ڈنڈے سے میری مراد سوٹا نہیں.جبر اور حکم مراد ہے.بہر حال ان لوگوں نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں جماعت کے سامنے یہ اعلان کر دوں کہ آج سے قادیان میں خدام الاحمدیہ کا کام طوعی نہیں بلکہ جبری ہوگا.ہر وہ احمدی جس کی پندرہ سے چالیس سال تک عمر ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پندرہ دن کے اندر اندر خدام الاحمدیہ میں اپنا نام لکھا دے.اگر ۱۵ سے ۴۰ سال تک کی عمر کا کوئی احمدی ۱۵ دن کے اندر اندر خدام الاحمدیہ میں اپنا نام نہیں لکھائے گا تو پہلے اسے سزادی جائے گی اور اگر اس سے بھی اس کی اصلاح نہ ہوئی تو اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا.اس کے لئے کسی کو تحریک کرنے کی ضرورت نہیں.خدام الاحمدیہ ہرگز کسی کے پاس نہ جائیں، ہاں ہر مسجد میں وہ اپنے بعض آدمی مقرر کر دیں اور ہر نماز کے بعد اعلان ہوتا رہے کہ فلاں وقت سے لے کر فلاں وقت تک ہمارا آدمی مسجد میں بیٹھے گا جس نے خدام الاحمدیہ میں اپنا نام لکھا نا ہو وہ اسے نام لکھا دے اور محلوں کے پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کا فرض ہے کہ اس کے متعلق خدام الاحمدیہ کی طرف سے جو بھی اعلانات آئیں ، ان کے سنانے کا فوری طور پر انتظام کریں.جو پریذیڈنٹ یا سیکرٹری اس میں غفلت سے کام لے گا وہ مجرم سمجھا جائے گا اور اسے سزا دی جائے گی.غرض تمام مساجد میں خدام الاحمدیہ اعلان کر دیں کہ فلاں وقت سے لے کر فلاں وقت تک اس مسجد میں ہمارا فلاں آدمی بیٹھے گا اسے نام لکھا دیا جائے.بلکہ انہیں اپنے بعض آدمی قریب کے دیہات میں بھی مقرر کر دینے چاہئیں، جیسے نواں پنڈ وغیرہ ہے.اس پندرہ دن کے عرصہ میں جو شخص خدام الاحمدیہ میں اپنا نام نہیں لکھائے گا ہم پہلے اس پر کیس چلائیں گے.اگر کوئی معذور ثابت ہوا، مثلاً ان دنوں وہ قادیان میں موجود نہ تھا یا چار پائی سے ہل نہیں سکتا تھا تو اس کو خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے کا دوبارہ موقعہ دیتے ہوئے ، باقی ہر ایک کو جس نے ان دنوں خدام الاحمدیہ میں اپنا نام نہیں لکھایا ہوگا ، سزادی جائے گی اور اگر وہ سزا برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا تو اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا.اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ ہم سزا نہیں لیتے ، ہم خدام الاحمدیہ کے مبر نہیں رہنا چاہتے.ان کے متعلق خدام الاحمدیہ فورا ایک کمیٹی بٹھا دیں، جو تحقیق کرے کہ ان پر جو الزام لگایا گیا ہے وہ درست ہے یا نہیں.پھر جن کا جرم ثابت ہو جائے، انہیں تین تین دن کے مقاطعہ کی سزا دی جائے.ان تین دنوں میں کسی کو اجازت نہیں ہوگی کہ ان سے بات چیت کرے.نہ باپ کو اجازت ہوگی ، نہ ماں کو اجازت ہوگی، نہ بیوی کو اجازت ہوگی، نہ بیٹے کو اجازت ہوگی اور نہ کسی اور قریبی رشتہ دار اور دوست کو

Page 21

۱۶ اجازت ہوگی.اسی طرح ان دنوں میں انہیں قادیان سے باہر جانے کی اجازت بھی نہیں ہوگی.مبادا وہ خیال کر لیں کہ ان دنوں وہ قادیان سے چلے جائیں گے اور اس طرح اپنے جرم کو چھپالیں گے.بلکہ انہیں قادیان میں رہتے ہوئے یہ تین دن پورے کرنے پڑیں گے اور ان کی کسی قریب ترین ہستی کو بھی ان سے بولنے کی اجازت نہیں ہوگی.ہاں انہیں صبح شام روٹی پہنچانا خدام الاحمدیہ کا کام ہو گا.اسی طرح جن لوگوں نے وعدہ کر کے کام نہیں کیا، ہوائے دسویں جماعت کے طلباء کے (جن کو مقرر کرنے میں خود خدام الاحمدیہ کے افسروں کی غلطی ہے ) ، ان کے الزام کی بھی تحقیق کی جائے اور جب الزام ان پر ثابت ہو جائے تو ان کو بھی ایک دن کے مقاطعہ کی سزادی جائے گی.اس عرصہ میں ماں اور باپ اور بیوی اور بچوں اور دوسرے تمام رشتہ داروں کا فرض ہے کہ جس طرح ایک گندا چیتھڑا اپنے گھر سے نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے.اسی طرح وہ اسے اپنے گھر سے نکال دیں.باپ بچے کو نکال دے، بھائی دوست وغیرہ سب اس دن کے لئے اس سے قطع تعلق کر لیں اور وہ گھر چھوڑ کر مسجد یا کسی اور مناسب مقام پر چلا جائے اور چوبیس گھنٹے لگا تارو ہیں رہے.ہاں ان لوگوں کو بھی کھانا پہنچا نا خدام الاحمدیہ کا کام ہوگا.مگر میں سمجھتا ہوں کام کی ذمہ داری صرف پندرہ سے چالیس سال کی عمر والوں پر ہی نہیں بلکہ اس سے اوپر اور نیچے والوں پر بھی ہے.اس لئے میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ ایک مہینہ کے اندراندر خدام الاحمدیہ آٹھ سے پندرہ سال کی عمر تک کے بچوں کو منظم کریں اور اطفال الاحمدیہ کے نام سے ان کی ایک جماعت بنائی جائے اور میرے ساتھ مشورہ کر کے ان کے لئے مناسب پروگرام تجویز کیا جائے.اسی طرح چالیس سال سے اوپر عمر والے جس قدر آدمی ہیں.وہ انصار اللہ کے نام سے اپنی ایک انجمن بنائیں اور قادیان کے وہ تمام لوگ جو چالیس سال سے اوپر ہیں اس میں شریک ہوں.ان کے لئے بھی لازمی ہوگا کہ وہ روزانہ آدھ گھنٹہ خدمت دین کے لئے وقف کر یں.اگر مناسب سمجھا گیا تو بعض لوگوں سے روزانہ آدھ گھنٹہ کام لینے کی بجائے ، مہینہ میں تین دن یا کم و بیش اکٹھے بھی لئے جاسکتے ہیں.مگر بہر حال تمام بچوں، بوڑھوں اور نو جوانوں کا بغیر کسی استثناء کے قادیان میں منظم ہو جانا لازمی ہے.

Page 22

۱۷ مجلس انصار الله کے عارضی پریذیڈنٹ مولوی شیر علی صاحب ہوں گے اور سیکرٹری کے فرائض سرانجام دینے کے لئے میں مولوی عبدالرحیم صاحب درد، چوہدری فتح محمد صاحب اور خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کو مقرر کرتا ہوں.تین سیکرٹری میں نے اس لئے مقرر کئے ہیں کہ مختلف محلوں میں کام کرنے کے لئے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے.ان کو فوراً قادیان کے مختلف حصوں میں اپنے آدمی بٹھا دینے چاہئیں اور چالیس سال سے او پر عمر رکھنے والے تمام لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنا چاہئے.یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ لوگوں کو کس قسم کے کام میں سہولت ہو سکتی ہے اور جو شخص جس کام کے لئے موزوں ہو اس کے لئے اس سے نصف گھنٹہ روزانہ کام لیا جائے.یہ نصف گھنٹہ کم سے کم وقت ہے اور ضرورت پر اس سے بھی زیادہ وقت لیا جاسکتا ہے.یا یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ کسی سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں دو چار دن کے لئے جائیں.جس دن وہ اپنے آپ کو منظم کرلیں، اس دن میری منظوری سے نیا پریذیڈنٹ اور نئے سیکرٹری مقرر کئے جاسکتے ہیں.سردست میں نے جن لوگوں کو اس کام کے لئے مقرر کیا ہے وہ عارضی انتظام ہے اور اس وقت تک کے لئے ہے جب تک سب لوگ منتظم نہ ہو جائیں.جب منظم ہو جائیں تو وہ چاہیں تو کسی اور کو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بنا سکتے ہیں مگر میری منظوری اس کے لئے ضروری ہوگی.میرا ان دونوں مجلسوں سے ایسا ہی تعلق ہوگا جیسے مربی کا تعلق ہوتا ہے اور ان کے کام کی آخری نگرانی میرے ذمہ ہوگی ، یا جو بھی خلیفہ وقت ہو.میرا اختیار ہوگا کہ جب بھی میں مناسب سمجھوں ان دونوں مجلسوں کا اجلاس اپنی صدرات میں بلالوں اور اپنی موجودگی میں ان کو اپنا اجلاس منعقد کرنے کے لئے کہوں.یہ اعلان پہلے صرف قادیان والوں کے لئے ہے.اس لئے ان کو میں پھر متنبہ کرتا ہوں کہ کوئی فرد اپنی مرضی سے ان مجالس سے باہر نہیں رہ سکتا.سوائے اس کے جو اپنی مرضی سے ہمیں چھوڑ کر الگ ہو جانا چاہتا ہو.ہر شخص کو حکما اس تنظیم میں شامل ہونا پڑے گا اور اس تنظیم کے ذریعہ علاوہ اور کاموں کے، اس امر کی بھی نگرانی رکھی جائے گی کہ کوئی شخص ایسا نہ رہے جو مسجد میں نماز با جماعت پڑھنے کا پابند نہ ہو.سوائے ان زمینداروں کے جنہیں کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے یا سوائے ان مزدوروں کے جنہیں کام کے لئے باہر جانا پڑتا ہے.گوایسے لوگوں کے لئے بھی میرے نزدیک کوئی نہ کوئی ایسا انتظام ضرور ہونا چاہئے جس کے ماتحت وہ اپنی قریب ترین مسجد میں نماز با جماعت پڑھ سکیں.اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کی مجالس تو

Page 23

۱۸ اکثر جگہ قائم ہی ہیں.اب انہیں ہر جگہ چالیس سال سے زائد عمر والوں کے لئے مجالس انصار اللہ قائم کرنی چاہیں.ان مجالس کے وہی قواعد ہوں گے جو قادیان میں مجلس انصاراللہ کے قواعد ہوں گے.مگر سر دست باہر کی جماعتوں میں داخلہ فرض کے طور پر نہیں ہوگا.بلکہ ان مجالس میں شامل ہونا ان کی مرضی پر موقوف ہوگا لیکن جو پریذیڈنٹ یا امیریا سیکرٹری ہیں، ان کے لئے لازمی ہے کہ وہ کسی نہ کسی مجلس میں شامل ہوں.کوئی امیر نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا مبر نہ ہو.کوئی پریذیڈنٹ نہیں ہوسکتا، جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو اور کوئی سیکرٹری نہیں ہوسکتا، جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا نمبر نہ ہو.اگر اس کی عمر ۱۵ سال سے اوپر اور چالیس سال سے کم ہے تو اس کے لئے خدام الاحمدیہ کا نمبر ہونا ضروری ہوگا اور اگر وہ چالیس سال سے اوپر ہے تو اس کے لئے انصار اللہ کا نمبر ہونا ضروری ہوگا.اس طرح سال ڈیڑھ سال تک دیکھنے کے بعد خدا نے چاہا تو آہستہ آہستہ باہر بھی ان مجالس میں شامل ہونا لازمی کر دیا جائے گا.کیونکہ احمدیت صحابہ کے نقش قدم پر ہے.صحابہ سے جب جہاد کا کام لیا جاتا تھا تو ان کی مرضی کے مطابق نہیں لیا جاتا تھا بلکہ کہا جاتا تھا کہ جاؤ اور کام کرو.مرضی کے مطابق کام کرنے کا میں نے جو موقع دینا تھا.وہ قادیان کی جماعت کو میں دے چکا ہوں اور جنہوں نے ثواب حاصل کرنا تھا انہوں نے ثواب حاصل کر لیا ہے.اب پندرہ سے چالیس سال تک کی عمر والوں کے لئے خدام الاحمدیہ میں شامل ہونا لازمی ہے اور اس لحاظ سے اب وہ ثواب نہیں رہا جو طوعی طور پر کام کرنے کے نتیجہ میں حاصل ہوسکتا تھا.بیشک خدمت کا اب بھی ثواب ہو گا لیکن جو طوعی طور پر داخل ہوئے اور وفا کا نمونہ دکھایا وہ سابق بن گئے.البتہ انصار اللہ کی مجلس چونکہ اس شکل میں پہلے قائم نہیں ہوئی اور نہ کسی نے میرے کسی حکم کی خلاف ورزی کی ہے.اس لئے اس میں جو شامل ہوگا، اسے وہی ثواب ہوگا جو طوعی طور پر نیک تحریکات میں شامل ہونے والوں کو ہوتا ہے.میں ایک دفعہ پھر جماعت کے کمزور حصہ کو اس امر کی طرف توجہ دلا دیتا ہوں کہ دیکھوشتر مرغ کی طرح مت بنو.جو کچھ بنو اس پر استقلال سے کاربند رہو.اگر تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے مثیل ہوتو تمہیں اپنے اندر صحابہ کی صفات بھی پیدا کرنی چاہئیں اور صحابہ کے متعلق یہی ثابت ہے کہ ان سے دین کا کام حکماً کیا جاتا تھا.پس جب صحابہ کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ دینی احکام کے متعلق کسی قسم کی چون و چرا کریں تو تمہیں یہ اختیار کس طرح حاصل ہو سکتا ہے یا تو یہ کہو کہ حضرت مرزا صاحب نبی نہیں تھے اور چونکہ وہ نبی نہیں تھے اس لئے ہم صحابی بھی نہیں اور نہ صحابہ سے ہماری

Page 24

۱۹ مماثلت کے کوئی معنے ہیں.مگر اس صورت میں تمہارا مقام قادیان میں نہیں بلکہ لاہور میں ہوگا کیونکہ وہی لوگ یہ کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل کامل نہیں تھے.جس کے لازمی معنی یہ بنتے ہیں کہ جب مرزا صاحب نبی نہیں تھے تو وہ صحابی بھی نہیں.مگر ان میں بھی شتر مرغ والی بات ہے کہ وہ دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ مرزا صاحب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل کامل یعنی نبی نہیں تھے.مگر کہتے اپنے آپ کو صحابی ہی ہیں.حالانکہ اگر مرزا صاحب نبی نہیں تو وہ صحابی کس طرح ہو گئے.چنانچہ بار بار ہمارے مقابلہ میں غیر مبایعین نے اپنے اکابر کو صحابہ کے طور پر پیش کیا ہے.گویا مولوی محمد علی صاحب تو صحابی بن گئے مگر مرزا صاحب ان کے نزدیک مخصوص عالم ہی رہے.پس ایسے لوگوں کا مقام لا ہور ہے، قادیان نہیں.ہر چیز جہاں کی ہو وہیں سجتی ہے.ان کو بھی چاہئے کہ قادیان سے اپنا تعلق تو ڑ کر لاہور سے اپنا تعلق قائم کر لیں.پھر ہم ان کاموں کے متعلق ان سے کچھ نہیں کہیں گے.مگر جب تک وہ ہم میں شامل رہیں گے، ہم ان سے دین کی خدمت کا کام نظام کے ماتحت ضرور کرائیں گے اور اگر انہوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو ہم اس بات پر مجبور ہوں گے کہ ایسے کمزور لوگوں کواپنی جماعت سے خارج کر دیں.میں نے متواتر بتایا ہے کہ کوئی جماعت کثرت تعداد سے نہیں جیتی قرآن کریم نے بھی اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةً بِاذْنِ اللهِ (البقره آیت 250) یعنی کئی دفعہ قلیل التعداد جماعتیں کثیر تعد ا در رکھنے والی اقوام پر غالب آجایا کرتی ہیں.پس محض کثرت کچھ چیز نہیں اگر اس کثرت میں ایمان اور اخلاص نہیں.پھر میں کہتا ہوں اگر یہ لوگ ہم میں شامل ہی رہیں تو کسی قوم کے مقابلہ میں بھلا ہمیں کون سی غیر معمولی فوقیت حاصل ہو سکتی ہے.ہندوستان میں سب سے کم تعداد سکھوں کی سمجھی جاتی ہے مگر وہ بھی تمیں چالیس لاکھ ہیں اور ہم تو ان سکھوں کے مقابلہ میں بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتے.آج سے چھ سال پہلے مئی ۱۹۳۴ء میں سردار کھڑک سنگھ صاحب جو سکھوں کے بے تاج بادشاہ کہلایا کرتے تھے، یہاں آئے.اور انہوں نے بسراواں میں ایک تقریر کرتے ہوئے کہا قادیان میں احمدی سکھوں پر سخت ظلم کر رہے ہیں.اگر احمدی اس ظلم سے باز نہ آئے تو قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادی

Page 25

۲۰ جائے گی.بلکہ ان کے ایک ساتھی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ قادیان کی اینٹیں سمندر میں پھینک دی جائیں گی.مجھے جب یہ رپورٹ پہنچی تو میں نے ایک اشتہار لکھا ، جس میں میں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ احمدیوں کے مظالم کی داستان بالکل غلط ہے.اگر آپ اس علاقہ کے سکھوں کو قسم دے کر پوچھیں تو ان میں سے نانوے فیصدی آپ کو یہ بتائیں گے کہ میں اور میرا خاندان اور میرے ساتھ تعلق رکھنے والے، ہمیشہ سکھوں سے محبت کا برتاؤ کرتے چلے آئے ہیں.چنانچہ میں نے اپنے حسن سلوک کے کئی واقعات تفصیل کے ساتھ ان کے سامنے پیش کئے.اس ضمن میں مجھے یہ رپورٹ بھی ملی کہ ایک احراری نے ان کے جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سکھ بڑے بے غیرت ہیں کہ احمدی ان کے گرو کو مسلمان کہہ کر ان کی ہتک کرتے ہیں اور پھر بھی ان کو جوش نہیں آتا.میں نے ان کو سمجھایا کہ رسول کریم صلی اللہ وسلم کے بعثت کے بعد مسلمانوں کے نزدیک دنیا میں دو ہی گروہ ہیں.یا مسلمان یا کافر.اس احراری کے نزدیک با وا صاحب کو مسلمان کہنے سے ان کی ہتک ہوتی ہے تو اس سے پوچھیں کہ وہ با واصاحب کو کیا سمجھتا ہے.اگر تو وہ مسلمان ولی اللہ سے بڑھ کر با وا صاحب کو کوئی درجہ دے، تو آپ سمجھ لیں کہ وہ آپ کا خیر خواہ ہے اور اگر اس کا یہ مطلب ہو کہ با وا صاحب چونکہ بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر تھے اس لئے کا فر تھے، تو یہ بتائیں کہ باوا صاحب کی بہتک کرنے والا وہ ہو یا ہم.ہم تو انہیں مسلمان، ولی اللہ کے معنوں میں کہتے ہیں اور مسلمان ولی اللہ سے اوپر مسلمانوں کے نزدیک صرف رسول اور پیغمبر ہی ہوتے ہیں.پس ہمارا ان کو مسلمان کہنا کسی تحقیر کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہم ان کو ویسا ہی قابل عزت سمجھتے ہیں جیسے ہمارے نزدیک مسلمان اولیاء قابل عزت ہوتے ہیں.ہمارا انہیں مسلمان کہنے سے یہ مقصد نہیں ہوتا کہ وہ نعوذ باللہ ان ادفی لوگوں کی طرح تھے جو سکھوں کے گاؤں میں بستے ہیں اور گو مسلمان کہلاتے ہیں مگر اسلام سے انہیں کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا.کیونکہ ہم ان کی دنیا وی حیثیت سے ان کو مسلمان نہیں کہتے بلکہ ان کو دینی لحاظ سے مسلمان کہتے ہیں اور دینی لحاظ سے مسلمان کے معنی ولی اللہ کے ہوا کرتے ہیں.مگر عام طور پر چونکہ سکھوں کے گاؤں میں مسلمان کمین ہوا کرتے ہیں اور دنیا داروں کی نگاہ میں کمین حقیر خیال کئے جاتے ہیں.اس لئے وہ خیال کر لیتے ہیں کہ جیسے ہمارے گاؤں کے کمین مسلمان ہیں ویسا ہی مسلمان یہ ہمارے با وا صاحب کو سمجھتے ہیں.حالانکہ ہم اس نقطہ نگاہ سے انہیں مسلمان نہیں کہتے.بلکہ مسلمان کا لفظ ان کے ولی اللہ ہونے کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں.اگر آپ کو یہ لفظ بر امحسوس ہوتا ہے تو آپ ہی بتائیں کہ ہم انہیں کیا کہیں.ہمارے نزدیک تو مسلمانوں کے سوا جتنے لوگ ہیں، سب کافر ہیں اور دوہی

Page 26

۲۱ اصطلاحیں مسلمانوں میں رائج ہیں یا کافر کی اصطلاح یا مسلمان کی اصطلاح.اگر با واصاحب مسلمان بمعنے ولی اللہ نہیں تو دوسرے لفظوں میں وہ نعوذ باللہ کا فر اور خدا سے دور تھے.اب آپ ہی سوچ لیں کہ بادا صاحب کو مسلمان کہنے سے ان کی بہتک ہوتی ہے یا ان کو مسلمان نہ کہنے سے ان کی ہتک ہوتی ہے.احرار کا تو اس اعتراض سے یہ مطلب ہوتا ہے کہ احمدی باوا صاحب کی تعریف کیوں کرتے ہیں.مگر سکھ نا واقفیت کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ احرار ان کی تائید کر رہے ہیں اور احمدی انہیں گالی دے رہے ہیں.میں نے جب یہ اشتہار شائع کیا تو چونکہ وہ آدمی سمجھ دار تھے، اس لئے انہوں نے دوسرے ہی دن جلسہ گاہ میں سٹیج پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہا کہ تم نے مجھے سخت ذلیل کرایا ہے.کیونکہ جو باتیں تم نے مجھے بتائی تھیں وہ اور تھیں اور جو باتیں اس اشتہار میں لکھی ہیں وہ بالکل اور ہیں.میر امنشاء اس مثال سے یہ ہے که با وجود اس بات کے کہ سکھ تمام قوموں میں سے کم ہیں ، پھر بھی وہ اپنے آپ کو اتنا طاقتور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک موقعہ پر ہمیں یہ نوٹس دے دیا کہ وہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے اور ایک نے تو یہاں تک کہ دیا کہ قادیان کی اینٹیں سمندر میں پھینک دی جائیں گی.تو قومی لحاظ سے غیر اقوام کے مقابلہ میں ہم پہلے ہی تھوڑے ہیں.پھر اگر ان منافق طبع لوگوں کو اپنی جماعت سے نکال دینے پر بھی ہم تھوڑے ہی رہتے ہیں اور ان کے ساتھ رہنے سے زیادہ نہیں ہو سکتے تو کوئی وجہ نہیں کہ جب ان کا وجود دوسرے لوگوں کے لئے مضر ثابت ہورہا ہو، انہیں جماعت سے خارج نہ کیا جائے لیکن اگر خدا کے رسولوں کی جماعتیں کثرت تعداد کی بناء پر نہیں بلکہ خدا کی نصرت اور اس کی مدد کے ساتھ جیتا کرتی ہیں.تو اس صورت میں خواہ یہ لوگ نکل جائیں ، پھر بھی گو ہم موجودہ وقت سے تھوڑے ہو جائیں گے مگر شکست نہیں کھا سکتے ممکن ہے پیغامی یہ کہنا شروع کر دیں کہ پہلے تو اپنے زیادہ ہونے کو صداقت کی دلیل قرار دیتے تھے اب کہتے ہیں کہ تھوڑے ہو کر بھی ہم ہی حق پر رہیں گے.ایک ہی وقت میں یہ تمہاری دونوں باتیں کس طرح درست ہو سکتی ہیں.سو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میری دونوں باتیں درست ہیں.جب میں یہ کہتا ہوں کہ ہم تھوڑے ہو کر بھی شکست نہ کھائیں گے ، اس وقت بھی میں ایک حقیقت بیان کرتا ہوں اور جب میں کہتا ہوں کہ ہم زیادہ ہیں اس لئے حق پر ہیں.تو اس وقت بھی میں ایک حقیقت بیان کیا کرتا ہوں.ہم تھوڑے ہیں غیر اقوام کے مقابلہ میں.اور ہم زیادہ ہیں اس لحاظ سے کہ نبی کی جماعت کی اکثریت ہمارے ساتھ ہے.پس جب میں نے یہ کہا کہ ہم تھوڑے ہو کر بھی شکست نہیں کھا سکتے ، تو اس کے یہ معنی نہیں کہ حضرت مسیح

Page 27

۲۲ موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا زیادہ حصہ ہم سے الگ ہو جائے گا اور قلیل حصہ ہمارے ساتھ رہ جائے گا.کیونکہ جماعت کی اکثریت بہر حال ہمارے ساتھ رہے گی اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نبی کی جماعت کی اکثریت گمراہ ہو جائے.اگر کسی وقت اکثریت کو غلطی لگے تو وہ غلطی پر قائم نہیں رہ سکتی بلکہ چند دنوں میں ہی اسے غلطی کی اصلاح کا موقعہ مل جاتا ہے.جیسا کہ صحابہ کے زمانہ میں حضرت علی کی خلافت کے عہد میں ہوا.پس میں نے اپنے آپ کو تھوڑا دنیا کی اور اقوام کے مقابلہ میں قرار دیا ہے اور میں نے یہ نہیں کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت قلیل رہ جائے گی.کیونکہ جب تک جماعت کے دلوں میں نور ایمان باقی ہے یہ ناممکن ہے کہ اس کی اکثریت بگڑ جائے.پھسلنے والے پھلیں گے گرنے والے گریں گے اور جدا ہونے والے جدا ہوں گے، مگر اکثریت پھر بھی ہمارے ساتھ ہی رہے گی.پس پیغامی یا ان کے گماشتے مصری، میرے ان الفاظ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.اکثریت ہمارے ساتھ رہے گی اور انشاء اللہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی.اگر بعض منافق یا کمزور طبع لوگ اپنی ایمانی کمزوری کا ثبوت دیتے ہوئے ہم سے الگ ہو جائیں گے تو وہ پھر بھی اکثریت قرار نہیں پائیں گے.بلکہ اکثریت ہمارے ساتھ رہے گی اور وہ ہمارے مقابلہ میں تھوڑے ہی رہیں گے.کیونکہ نبیوں کی جماعتوں کے اندر شروع زمانہ میں منافق اور فتنہ وفساد پیدا کرنے والے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں اور مومن زیادہ ہوتے ہیں.پس جب میں اپنے متعلق تھوڑے کا لفظ بولتا ہوں تو اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ ہم احمدی کہلانے والوں کے مقابلہ میں تھوڑے ہیں.بلکہ غیر اقوام مراد ہوتی ہیں اور میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم ان کے مقابلہ میں بالکل قلیل ہیں لیکن احمدی کہلانے والے غیر مبایعین کے مقابلہ میں ہم زیادہ ہیں اور زیادہ ہی رہیں گے.انشاء اللہ پس میں اس خطبہ کے ذریعہ جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو پوزیشن ہم نے دیانت داری کے ساتھ تسلیم کی ہوئی ہے.ہمیں اس کے مطابق اپنے اعمال میں تغیر پیدا کرنا چاہئے.اسی طرح صحابہ کی جو پوزیشن ہمارے نزدیک مسلّم ہے.وہی پوزیشن ہمیں اختیار کرنی چاہئے.صحابہ کی پوزیشن یہ تھی کہ انہیں حکم دیا جاتا اور وہ فوراً اطاعت کے لئے کھڑے ہو جاتے اور یہی پوزیشن ہماری ہونی چاہئے.جو شخص یہ پوزیشن اختیار نہیں کرتا، ہم یہ تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو امتی نبی مانتا ہے.کیونکہ امتی نبی ماننے کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ جو کچھ صحابہ نے کیا وہی ہم کریں اور اگر کوئی شخص صحابہ کے سے کام نہیں کرتا تو اس کے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آزاد نبی مانتا ہے.اس صورت میں اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق

Page 28

۲۳ نہیں ہوسکتا.کیونکہ ہم جسے مسیح موعود تسلیم کرتے ہیں.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہے.ہم کسی ایسے شخص پر ایمان لانے کے لئے تیار نہیں جو اپنے آپ کو مستقل نبی قرار دے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی سے آزاد ہو کر نبوت کا دعویٰ دنیا کے سامنے پیش کرے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی نہیں کہتے کہ مرزا صاحب نبی نہیں تھے ، چونکہ آپ کو خدا نے بھی نبی قرار دیا اور اس کے رسول نے بھی نبی قرار دیا اور ہمارے نزدیک ایسا شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کو کلیپ تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے وہ خدا کو بھی جھوٹا کہتا ہے اور خدا کے رسول کو بھی جھوٹا کہتا ہے.اس لئے ان کا راستہ اور ہے اور ہمارا راستہ اور.پس میں قادیان کی جماعت کو آئندہ تین گروہوں میں تقسیم کرتا ہوں.اول اطفال الاحمدیہ ۸ سے ۱۵ سال تک دوم خدام الاحمدیہ ۱۵ سے ۴۰ سال تک سوم: انصار الله ۴۰ سے اوپر تک ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنی اپنی عمر کے مطابق ان میں سے کسی نہ کسی مجلس کا ممبر بنے.خدام الاحمدیہ کا نظام ایک عرصہ سے قائم ہے.مجالس اطفال الاحمدیہ بھی قائم ہیں.البتہ انصار اللہ کی مجلس اب قائم کی گئی ہے اور اس کے عارضی انتظام کے طور پر مولوی شیر علی صاحب پریذیڈنٹ اور مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم.اے.خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب اور چوہدری فتح محمد صاحب کو سیکرٹری بنایا گیا ہے.یہ اگر کام میں سہولت کے لئے مزید سیکرٹری یا اپنے نائب مقرر کرنا چاہیں تو انہیں اس کا اختیار ہے.ان کا فرض ہے کہ تین دن کے اندراندر مناسب انتظام کر کے ہر محلہ کی مسجد میں ایسے لوگ مقرر کر دیں جو شامل ہونے والوں کے نام نوٹ کرتے جائیں اور پندرہ دن کے اندر اندر اس کام کو تکمیل تک پہنچایا جائے.اس کے لئے قطعا اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ محلوں میں پھر کر لوگوں کو شامل ہونے کی تحریک کریں.بلکہ وہ مسجد میں بیٹھ رہیں جس نے اپنا نام لکھانا ہو وہاں آجائے اور جس کی مرضی ہو مبر بنے اور جس کی مرضی ہو نہ بنے.جو ہمارا ہے وہ آپ ہی ممبر بن جائے گا اور جو ہمارا نہیں اسے ہمارا اپنے اندر شامل رکھنا بے فائدہ ہے.پندرہ دن کے بعد مردم شماری کر کے یہ تحقیق کی جائے گی کہ کون کون شخص باہر رہا ہے.اگر تو کوئی شخص دیدہ دانستہ باہر رہا ہو گا تو اسے کہا جائے گا کہ چونکہ تم باہر رہے ہو.اس لئے اب تم باہر ہی رہومگر جو کسی معذوری کی وجہ سے شامل نہ ہو سکا ہوگا.اسے ہم کہیں گے کہ گھر کے اندر تمہارے تمام بھائی بیٹھے ہیں.آؤ اور تم بھی ان کے ساتھ بیٹھ جاؤ.اس طرح پندرہ دن کے اندر اندر قادیان کی تمام

Page 29

۲۴ جماعت کو منظم کیا جائے گا اور ان سے وہی کام لیا جائے گا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے لیا گیا.یعنی کچھ تو اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو تبلیغ کریں، کچھ اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو قرآن اور حدیث پڑھائیں، کچھ اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کریں کچھ اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ تعلیم وتربیت کا کام کریں، اور کچھ يزكيهم کے دوسرے معنوں کے مطابق اس بات پر مقرر کئے جائیں گے کہ وہ لوگوں کی دنیوی ترقی کی تدابیر عمل میں لائیں.یہ پانچ کام ہیں جو لازماً ہماری جماعت کے ہر فرد کو کرنے پڑیں گے.اسی طرح جس طرح جماعت فیصلہ کرے اور جس طرح نظام ان سے کام کا مطالبہ کرے.جو شخص کسی واقعی عذر کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکتا.مثلاً وہ مفلوج ہے یا اندھا ہے یا ایسا بیمار ہے کہ چل پھر نہیں سکتا.ایسے شخص سے بھی اگر عقل سے کام لیا جائے تو فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.الا ماشاء اللہ.مثلاً اسے کہہ دیا جائے کہ اگر تم کچھ اور نہیں کر سکتے ، تو کم سے کم دو نفل روزانہ پڑھ کر جماعت کی ترقی کے لئے دعا کر دیا کرو.پس ایسے لوگوں سے بھی اگر کچھ اور نہیں تو دعا کا کام لیا جاسکتا ہے.درحقیقت دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں جو کوئی نہ کوئی کام نہ کر سکے.قرآن کریم سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں وہی شخص زندہ رکھا جاتا ہے جو کسی نہ کسی رنگ میں کام کر کے دوسروں کے لئے اپنے وجود کو فائدہ بخش ثابت کر سکتا ہے اور ادنیٰ سے ادنی حرکت کا کام جس میں جسمانی محنت سب سے کم برداشت کرنی پڑتی ہے، دعا ہے.ہاں بعض کے کام بالواسطہ بھی ہوتے ہیں.جیسے پاگل نہ دعا کر سکتے ہیں اور نہ کچھ کام کر سکتے ہیں.ایسے لوگ صرف عبرت کا کام دیتے ہیں اور لوگ انہیں دیکھ کر نصیحت حاصل کرتے ہیں.مگر ایسا معذور میرے خیال میں قادیان میں کوئی نہیں.نیم فاتر العقل دو چار ضرور ہیں.مگر پورا پاگل میرے خیال میں قادیان میں کوئی نہیں لیکن یہ لوگ بھی اتنا کام تو ضرور کر رہے ہیں کہ لوگوں کے لئے عبرت کا موجب بنے ہوئے ہیں.میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے دوست اپنے مقام کو سمجھتے ہوئے ایسے رنگ میں کام کریں گے کہ ان میں سے کوئی بھی باغیوں کی صف میں کھڑا نہیں ہوگا.اگر کوئی شخص ان مجالس میں سے کسی مجلس میں بھی شامل نہیں ہوگا، تو وہ ہرگز جماعت میں رہنے کے قابل نہیں سمجھا جائے گا.پس ان مجالس میں شامل ہونا در حقیقت اپنے ایمان کی حفاظت کرنا اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا عملی رنگ میں اقرار

Page 30

۲۵ کرنا ہے.جو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے ہم پر عائد ہیں اور خدا اور اس کے رسول نے جو احکام دیئے ہیں.ان کے نفاذ اور اجراء میں حصہ لینا صرف میرا فرض نہیں بلکہ ہر شخص کا فرض ہے.آخر میں نے ( نعوذ باللہ ) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر نہیں بھیجا تھا.نہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو (نعوذ باللہ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری مظہر بنا کر بھیجا.نہ صحابہ کو میں نے بنایا اور نہ تم کو میں نے بنایا.یہ خدا کا کام ہے جو اس نے کیا.میرا کام تو صرف ایک مزدور کا سا ہے اور میرا فرض ہے کہ خدا نے جس فقرہ کو جہاں رکھا ہے وہاں اس کو رکھ دوں.پس میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا.بلکہ میں وہی کچھ کہتا ہوں جو خدا نے کہا.اگر کوئی شخص اسے تسلیم نہیں کرتا تو اسے ثابت کرنا چاہئے کہ وہ بات خدا نے نہیں کہی ورنہ وہ میرا انکار نہیں کرتا بلکہ خدا تعالیٰ کا انکار کرتا ہے.(خطبہ جمعہ فرموده ۲۶ / جولائی ۱۹۴۰ء.بحوالہ الفضل یکم اگست ۱۹۴۰ء)

Page 31

۲۶ انصار اللہ اور دیگر ذیلی تنظیموں میں شمولیت کی اہمیت اور ان تنظیموں کے فرائض تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: دوستوں کو معلوم ہے کہ میں نے جماعت کو تین حصوں میں منظم کرنے کی ہدایت کی تھی.ایک حصہ اطفال الاحمدیہ کا یعنی پندرہ سال تک کی عمر کے لڑکوں کا، ایک حصہ خدام الاحمدیہ کا یعنی سولہ سے چالیس سال تک کی عمر کے نوجوانوں کا اور ایک حصہ انصار اللہ کا جو چالیس سال سے اوپر کے ہوں خواہ کسی عمر کے ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ نو جوان جو خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے کی عمر رکھتا ہے لیکن وہ اس میں شامل نہیں ہوا، اس نے ایک قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے اور اگر کوئی شخص ایسا ہے جو چالیس سال سے اوپر کی عمر رکھتا ہے مگر وہ انصار اللہ کی مجلس میں شامل نہیں ہوا تو اس نے بھی ایک قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے اور اگر کوئی بچہ اطفال الاحمدیہ میں شامل ہونے کی عمر رکھتا ہے اور اس کے ماں باپ نے اسے اطفال الاحمدیہ میں شامل نہیں کیا، تو اس کے ماں باپ نے بھی ایک قومی جرم کا ارتکاب کیا ہے.مگر مجھے امید رکھنی چاہئے کہ ایسے لوگ یا تو بالکل نہیں ہوں گے.یا ایسے قلیل ہوں گے کہ ان قلیل کو کسی صورت میں بھی جماعت کے لئے کسی دھبہ یا بدنامی کا موجب قرار نہیں دیا جاسکتا.کیونکہ قلیل استنلی کسی جماعت کے لئے بدنامی کا موجب نہیں ہوا کرتے.آج ہم صحابہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور بسا اوقات کہتے ہیں کہ وہ سب کے سب ایسے تھے.حالانکہ ان صحابہ کہلانے والوں میں سے بھی بعض لوگ ایسے تھے جن کا نام قرآن کریم میں منافق رکھا گیا ہے.پھر ہم کیوں کہتے ہیں

Page 32

۲۷ کہ سارے صحابی ایسے تھے اور کیوں ان کا نام زبان پر آتے ہی ان کے لئے ہم دعائیں کرنے لگ جاتے ہیں.اسی لئے کہ منافق نہایت قلیل تھے اور قلیل التعداد ہونے کی وجہ سے وہ کسی شمار میں نہیں آسکتے تھے.ایک حسین انسان کسی خفیف سے جسمانی نقص کی وجہ سے، مثلاً اگر اس کی انگلی پر مستہ نکلا ہوا ہو، یا فرض کرو اس کی کمر پر کوئی داغ ہو ، بدصورت نہیں کہلا سکتا اور نہ ملتے یا داغ کی وجہ سے اس کے حسن میں کوئی فرق آ سکتا ہے.اگر ہم ایسے شخص کو حسین کہیں تو لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ تم نے اس بات کا استثی نہیں کیا کہ اس کی کمر پر داغ ہے.یا اس بات کا استثنا نہیں کیا کہ اس کی انگلی کی پشت پر منہ نکلا ہوا ہے.بے شک منہ ایک نقص ہے، بے شک داغ ایک نقص ہے، لیکن ایسے مقام پر منتے یا داغ کا ہونا جہاں نظر نہ پڑ سکے یا خاص طور پر وہ حسن کو بگاڑ کر نہ رکھ دے حسن کے خلاف نہیں ہوتا.ایک شخص جسے سال دوسال میں ایک دو دن کے لئے نزلہ ہو جاتا ہے یا چھینکیں آنے لگ جاتی ہیں، اسے لوگ بیمار نہیں کہتے بلکہ تندرست ہی کہتے ہیں.اسی طرح اگر کسی جماعت میں منافقوں کی قلیل تعداد موجود ہو تو اس قلیل تعداد کی بناء پر وہ خراب نہیں کہلاتی.غرض ہم صحابہ کو اس لئے اچھا کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ بعض ظاہر میں صحابہ کہلانے والے ایسے تھے جو منافق تھے.پھر بھی منافقوں کی تعداد نہایت قلیل تھی.ورنہ ظاہری طور پر جس طرح انصار اور مہاجر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ، اسی طرح منافق ایمان لائے تھے.وہ اسی زمانہ میں ایمان لائے ، جس زمانہ میں صحابہ ایمان لائے.انہوں نے بیعت کے وقت وہی کلمات کہے جو صحابہؓ نے کہے اور انہوں نے بھی اسی رنگ میں اظہار عقیدت کیا جس رنگ میں صحابہ نے کیا.مگر صحابہ تو کچھ عرصہ کے بعد اپنے اخلاص میں اور بھی ترقی کر گئے لیکن منافق اپنے اخلاص میں کم ہوتے چلے گئے.پس کوئی ایسا ظاہری فرق نہیں جس کی بناء پر ایک کو ہم صحابی کہیں اور دوسرے کو نہ کہیں.سوائے اس کے کہ ایک نے اپنی منافقت کے اظہار سے بتایا کہ وہ صحابی کہلانے کا مستحق نہیں اور دوسرے نے اپنے ایمان اور اخلاص کے اظہار سے بتادیا کہ وہ صحابی کہلانے کا مستحق ہے.ورنہ ظاہری طور پر منافق بھی نمازوں میں شامل ہو جاتے تھے اور منافق بھی صحابہ کے ساتھ جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوتے تھے.چنانچہ صریح طور پر حدیثوں میں آتا ہے کہ بعض غزوات میں منافق بھی شامل ہوئے.غزوہ تبوک میں بھی بعض ایسے شقی القلب اور منافق لوگ تھے جو آگے بڑھ کر راستہ میں اس لئے چھپ کر بیٹھ گئے تھے کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے آتے ہوں تو آپ کو قتل کر دیں اور وہ غزوہ تبوک میں صحابہ کی صف میں شامل ہوئے.مگر باوجود اس کے صحابہ کی تعریف میں کوئی کمی نہیں آتی.ان کی شان میں کوئی فرق نہیں آتا.اور ہر مسلمان کا دل صحابہ کی محبت

Page 33

۲۸ اور اُن کی تعریف سے لبریز ہوتا ہے.کیونکہ منافقوں کی تعداد اتنی قلیل اور صحابہ کی تعداد اتنی کثیر تھی اور پھر صحابہ اپنے اخلاص اور اپنی محبت میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ منافق پیٹھ کے پیچھے چھپے ہوئے ایک داغ یا انگلی کے ایک منہ سے بڑھ کر حیثیت نہیں رکھتے تھے اور ایسا داغ یا متہ کسی حسین کے حسن میں کوئی فرق نہیں لایا کرتا.پس میں امید کرتا ہوں کہ اس قسم کے لوگ تھوڑے ہوں گے.کیونکہ خدا نے ہماری جماعت کو صحابہ کے نقش قدم پر بنایا ہے اور یقینا ہم میں منافقوں کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ وہ جماعت کے لئے کسی صورت میں بدنامی کا موجب نہیں ہو سکتے.بے شک میں جماعت کو اور زیادہ پاک کرنے ،اسے روحانی ترقی کے میدان میں پہلے سے اور زیادہ قدم آگے بڑھانے اور اسے اپنے جسم پر سے معمولی معمولی دھبے اور داغ دور کرنے کی ہمیشہ تلقین کیا کرتا ہوں اور جماعت کو اپنے خطبات کے ذریعہ سے ہمیشہ نصیحت کرتا رہتا ہوں.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ جماعت کے معتد بہ حصہ میں نقص پائے جاتے ہیں.نہ ہی جماعت ان کمزوروں کی وجہ سے بدنام کبھی جاسکتی ہے.معترضین کی نگاہ میں تو جماعت ہر وقت بد نام ہی ہوتی ہے اور جو شخص اعتراض کرنے پر ایک دفعہ تل جائے وہ بہانے بنا بنا کر اعتراض کیا کرتا ہے.مگر ان کی نگاہ میں جماعت کی جو بدنامی ہوتی ہے وہ شرفاء کے نزدیک کوئی حقیقت نہیں رکھتی.پس جب میں کہتا ہوں کہ جماعت ان لوگوں کی وجہ سے بدنام نہیں ہو سکتی.اس کے معنے صرف یہ ہوتے ہیں کہ شرفاء کے طبقہ میں جماعت بدنام نہیں ہو سکتی.ورنہ مخالف کی نگاہ میں تو ہم ہمیشہ بدنام ہی ہیں.خواہ ہم میں بعض کمزور افراد ہوں یا نہ ہوں اور دراصل ایسے لوگوں کی نگاہ میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بدنام ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی بدنام ہیں اور اسی طرح اور تمام انبیاء اور مامورین بدنام ہیں.بلکہ انبیاء تو کیا ان کی نگاہ میں خدا تعالیٰ بھی بدنام ہے.تم بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگوں کی مجلسوں میں بیٹھ کر دیکھ لو وہ ہمیشہ اس قسم کے سوالات کرتے ہوئے دکھائی دیں گے کہ خدا نے اس دکھ کی دنیا میں ہمیں کیوں پیدا کیا.پھر وہ بر ملا کہتے ہیں.نعوذ باللہ خدا قحط ڈالتا ہے.وہ بیماریاں پیدا کرتا ہے.وہ زلزلے بھیجتا ہے، وہ ظلم کرتا ہے.وہ امن بر باد کرتا ہے.غرض لوگ تو کہا کرتے ہیں 'پانچوں عیب شرعی مگر ان کے نزدیک سینکڑوں عیب خدا تعالیٰ میں پائے جاتے ہیں اور جن کی نگاہ میں خدا تعالیٰ میں بھی عیب ہی عیب ہوں.ان کے نزدیک اس کے انبیاء کب عیوب سے پاک سمجھے جاسکتے ہیں.پس میں ایسے شقی القلب لوگوں کا ذکر نہیں کرتا.وہ انسانیت سے دور چلے گئے اور انصاف کا دامن انہوں نے چھوڑ دیا.میں صرف شریف الطبع لوگوں کا ذکر کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ایسے لوگوں کی

Page 34

۲۹ نگاہ میں چند منافقوں کے پائے جانے کی وجہ سے ہماری جماعت بدنام نہیں ہوسکتی.چنانچہ دیکھ لو با وجود اس کے کہ ہماری جماعت میں بعض لوگ ایسے موجود ہیں ، جوست ہیں پھر بھی غیر احمدی شرفاء یہی کہتے ہیں جماعت احمدیہ سے بڑھ کر دین کی خدمت کرنے والی اور کوئی جماعت نہیں.اسی طرح احمد یوں میں بعض بے نماز بھی ہوتے ہیں، مگر وہ یہ نہیں کہتے کہ احمدیوں میں سو میں سے ایک یا دو بے نماز ہیں ، بلکہ لوگوں کا سمجھدار اور شریف الطبع طبقہ یہی کہتا ہے کہ احمدی بڑے نمازی ہوتے ہیں.اسی طرح سارے احمدی تو با قاعدہ چندے نہیں دیتے، کچھ لوگ سست بھی ہیں.مگر تم شریف الطبع لوگوں سے یہی سنو گے کہ احمدی بڑا چندہ دیتے ہیں.کہ وہ سمجھتے ہیں جماعت کی اکثریت نیکی پر قائم ہے اور وہ بعض افراد کی کمزوری کو دیکھ کر ساری جماعت پر الزام عائد نہیں کرتے.مگر وہ لوگ جو اپنے اندر شرافت نہیں رکھتے وہ کسی ایک کمزور احمدی کو دیکھ کر ہی کہنے لگ جاتے ہیں کہ احمدی بے نماز ہیں یا احمدی چندوں میں سست ہیں.بے شک ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسے لوگوں کا مونہہ بند کرنے کی کوشش کریں.ہمارا فرض ہے کہ ہم جماعت کی ایسی تربیت کریں کہ اس میں ایک شخص بھی ایسا دکھائی نہ دے جو چندہ نہ دیتا ہو.اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کو نماز کا پابند بنائیں اور اس قدر کوشش کریں کہ ایک بھی بے نماز نہ رہے اور اس مقصد کے لئے میں اگر کوئی خطبہ پڑھوں اور جماعت کو بیدار کرنے اور اس کی قوت عملیہ میں حرکت پیدا کرنے کی کوشش کروں تو یہ کوئی معیوب بات نہیں بلکہ اچھی بات ہے.کیونکہ ایک خرابی بھی ہم میں کیوں موجود رہے لیکن اس نیکی کو سو فیصدی مکمل کرنے کے لئے ہم اپنی طرف سے جو کوشش کریں اس کے یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ ہماری جماعت میں نیکی ہی نہیں.نیکی تو موجود ہے اور جماعت کی اکثریت میں موجود ہے، مگر اسے تمام پہلوؤں سے مکمل کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وقتاً فوقتاً بعض کمزور لوگوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی جائے.غیر احمدیوں سے ہی پوچھ کر دیکھ لو جہاں جہاں احمدی موجود ہیں وہ ان کے متعلق یہی رائے دیں گے کہ احمدی بڑے بچے ہوتے ہیں.احمدی بڑے نیک ہوتے ہیں.احمدی بڑے نمازی اور خدا تعالیٰ کے دین کے لئے قربانی کرنے والے ہوتے ہیں.حالانکہ ان احمدیوں میں کمزور بھی ہوتے ہیں لیکن شریف الطبع لوگوں کا یہی دستور ہے کہ وہ اکثریت کی نیکی کا ذکر کرتے ہیں اور بعض افراد کی کمزوری کو نظر انداز کر دیتے ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کا نمونہ ایسا ہی ہوگا اور جیسا کہ میرے پاس رپورٹیں پہنچتی رہی ہیں.ان میں سے غالب اکثریت نے اس تنظیم میں اپنے آپ کو شامل کر لیا ہے لیکن میں دوستوں

Page 35

سے یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ محض ظاہری شمولیت کافی نہیں جب تک وہ عملی رنگ میں بھی کوئی کام نہ کریں.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اپنے عملی نمونہ سے ثابت کردیں گے کہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی واحد جماعت آپ ہی ہیں اور یہ ثبوت اسی طرح دیا جا سکتا ہے کہ آپ لوگ اپنے اوقات کی قربانی کریں، اپنے مالوں کی قربانی کریں، اپنی جانوں کی قربانی کریں، اور خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت اور احمدیت کی ترویج کے لئے دن رات کوشش کرتے رہیں.اگر ہم یہ نہیں کرتے اور محض اپنا نام لکھا دینا کافی سمجھتے ہیں تو ہم اپنے عمل سے خدا تعالیٰ کی محبت کا کوئی ثبوت نہیں دیتے.پس صرف ان مجالس میں شامل ہونا کافی نہیں بلکہ اپنے اعمال ان مجالس کے اغراض و مقاصد کے مطابق ڈھالنے چاہئیں.خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال سے خدمت احمدیت کو ثابت کر دیں.انصار اللہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال سے دین اسلام کی نصرت نمایاں طور پر کریں اور اطفال الاحمدیہ کا فرض ہے کہ ان کے اعمال اور ان کے اقوال تمام کے تمام احمدیت کے قالب میں ڈھلے ہوئے ہوں.جس طرح بچہ اپنے باپ کے کمالات کو ظاہر کرتا ہے، اسی طرح وہ احمدیت کے کمالات کو ظاہر کرنے والے ہوں.یہی غرض اس نظام کو قائم کرنے کی ہے اور یہی غرض انبیاء کی جماعتوں کے قیام کی ہوا کرتی ہے مگر مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہماری اس تنظیم سے بعض لوگوں میں ایک بے چینی سی پیدا ہو گئی ہے.چنانچہ تھوڑے ہی دن ہوئے کسی اخبار کا ایک مضمون میرے سامنے پیش کیا گیا جس میں اس بات پر بڑے غصے کا اظہار کیا گیا تھا کہ انہوں نے کہا ہے جو شخص خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے سے دور بھاگے گا، وہ خدام الاحمدیہ سے دور نہیں بھاگے گا، بلکہ وہ احمدیت سے دور بھاگے گا.کہتے ہیں ماں سے زیادہ چاہے کٹنی کہلائے“ بھلا ان کو احمدیوں سے کیا واسطہ.ایک جماعت کا امام ایک نظام کا حکم دیتا ہے اور جماعت والے اس نظام کو قبول کر لیتے ہیں.وہ اپنی جماعت سے راضی اور جماعت اپنے امام سے راضی.پھر ان کو بیٹھے بٹھائے کیوں

Page 36

پیچ و تاب اٹھنے لگتے ہیں.میں اگر کسی کو کہتا ہوں کہ اس نے فلاں بات پر عمل نہ کیا تو جماعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہے گا.تو وہ میری بات کو خوشی سے سنتا اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.اسی طرح میں بوجہ جماعت کا امام ہونے کے وہی بات کہ سکتا ہوں جس میں لوگوں کا فائدہ ہو.پھر جب کہ جماعت بھی اپنے فائدہ کو بجھتی ہوئی ایک بات پر عمل کرتی ہے اور امام بھی وہی بات کہتا ہے جس میں جماعت کا فائدہ ہو، تو کسی دوسرے کو اس میں دخل دینے کا کیا حق ہے.علاوہ ازیں یہ بھی تو سوچنا چاہئے کہ میں ، جس کے ساتھ جماعت کا تعلق ہے، اگر جماعت کے بعض افراد کو ان کی کوتاہی کو دور کرنے کے لئے کوئی تنبیہ کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اگر انہوں نے یہ عمل نہ کیا تو وہ ہماری جماعت میں نہیں رہیں گے تو اس پر انہیں تو بجائے ناراض ہونے کے خوش ہونا چاہئے کہ اب جماعت کم ہو جائے گی.مگر ہوا یہ کہ وہ مخالفت میں اور بھی بڑھ گئے.میں نے جیسا کہ ابھی کہا ہے جماعت کی اصلاح کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وہ خدام الاحمدیہ یا دوسری مجالس میں شامل نہ ہوئے تو ان کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہے گا اور انہیں جماعت سے الگ سمجھا جائے گا.یہ فقرہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کشتی نوح میں فرماتے ہیں کہ جو شخص جھوٹ اور فریب کو نہیں چھوڑتا ، وہ میری جماعت میں سے نہیں.جو شخص دنیا کے لالچ میں پھنسا ہوا ہے، وہ میری جماعت میں سے نہیں.جو شخص بدرفیق کو نہیں چھوڑتا ، وہ میری جماعت میں سے نہیں اور جو شخص اپنے ماں باپ کی عزت نہیں کرتا ، وہ میری جماعت میں سے نہیں.اب اس کے یہ معنی نہیں کہ جو شخص بھی ایسا ہوگا اسے ہم اپنی جماعت سے نکال دیں گے.بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایسے شخص کا میرے ساتھ کوئی حقیقی تعلق نہیں ہوگا.پھر یہ عجیب بات ہے کہ کبھی تو ان کی طرف سے یہ اعتراض ہوتا ہے کہ یہ عجیب پیری مریدی ہے، کہ مرید کے عقیدے کچھ ہوں اور پیر کے عقیدے کچھ اور.اس کی بناء یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں میاں صاحب نے اس امر کی اجازت دے رکھی ہے کہ میرے خلاف عقیدہ رکھ کر بھی ایک شخص بیعت میں شامل ہو سکتا ہے.اور کبھی یہ اعتراض کر دیتے ہیں کہ اگر کوئی ایک بات بھی نہیں مانتا تو اسے جماعت سے نکال دیتے ہیں، اور اس وقت حریت اور آزادی ضمیر کی کوئی پروا نہیں کرتے ، جو اسلام نے ہر مومن کو دے رکھی ہے.حالانکہ اگر یہ اعتراض درست ہے کہ ہماری جماعت میں حریت اور آزادی ضمیر کی کوئی پروانہیں کی جاتی ، تو وہ اعتراض کیوں کیا تھا کہ اس جماعت میں پیر کے عقیدے کچھ ہیں اور مریدوں کے عقیدے کچھ اور اختلاف عقائد رکھنے کے باوجود لوگوں کو بیعت میں شامل کر لیا جاتا ہے اور اگر یہ درست ہے کہ بعض باتوں میں اختلاف رکھتے ہوئے بھی ایک شخص ہمارے نظام میں شامل رہ سکتا

Page 37

۳۲ ہے تو اس اعتراض کے معنے کیا ہوئے کہ حریت اور آزادی ضمیر کو کچل دیا گیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ نظام کی درستی کے لئے اتحاد خیالات کا ایک دائرہ ہوتا ہے.ہو سکتا ہے کہ ایک اختلاف بڑا نظر آئے لیکن اگر وہ کسی فتنے کا موجب نہ ہو تو اس اختلاف رکھنے والے کو جماعت میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے لیکن ایک دوسرا شخص خواہ اس سے کم اختلاف رکھتا ہو لیکن اس کا اختلاف کسی فتنے کا موجب ہو تو اسے جماعت سے نکال دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک دفعہ ایک دوست نے پوچھا کہ میں ابھی شیعیت سے نکل کر آیا ہوں اور حضرت علی کو حضرت ابوبکر اور حضرت عمرؓ سے افضل سمجھتا ہوں.پس کیا اس عقیدہ کے ہوتے ہوئے میں آپ کی بیعت کر سکتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں لکھا کہ آپ بیعت کر سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ چند آدمیوں کو قادیان سے باہر چلے جانے کا حکم دے دیا اور ان کے بارہ میں اشتہار بھی شائع کیا.مگر وجہ صرف یہ تھی کہ وہ پنجوقتہ نماز میں حاضر نہیں ہوتے تھے اور بعض ایسے تھے کہ ان کی مجلسوں میں حقہ نوشی اور فضول گوئی کا شعل رہتا تھا.اب بتاؤ حضرت علی کو حضرت ابو بکڑ سے افضل سمجھنے اور حقہ پینے میں سے کون سی بات بڑی ہے.لازما ہر شخص یہ کہے گا کہ حضرت علی کو حضرت ابو بکر سے افضل سمجھنا بڑی بات ہے اور حقہ پینا چھوٹی بات ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک بڑا اختلاف رکھنے کے باوجود ایک شخص کو اپنی بیعت کی اجازت دے دی اور حقہ پینے اور جنسی ٹھٹھا میں مشغول رہنے پر دوسروں کو مرکز سے چلے جانے کی ہدایت فرمائی.حالانکہ ایک دعوت کے موقع پر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا انتظام کیا تھا.چنانچہ ترکوں کا سفیر حسین کا می جب قادیان میں آیا اور اس کے لئے دعوت کا انتظام کیا گیا تو جماعت کے خرچ پر اس کے لئے سگار اور سگریٹ منگوائے گئے.میں اس وقت چھوٹا تھا مگر مجھے خوب یاد ہے کہ ایک مجلس میں مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے ذکر کیا کہ یہ لوگ سگریٹ کے عادی ہوتے ہیں، اگر ہم نے کوئی انتظام نہ کیا تو اسے تکلیف ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں اس کے لئے سگریٹ منگوا لئے جائیں.کیونکہ یہ ایسی حرام چیزوں میں سے نہیں جیسے شراب وغیرہ ہوتی ہے.پس آپ نے وہ چیز جو اس قسم کی حرمت نہیں رکھتی جیسے شراب اپنے اندر حرمت رکھتی ہے، استعمال کرنے پر تو ایک شخص کو جماعت سے خارج کر دیا اور وہ جس نے یہ کہا تھا کہ میں حضرت ابوبکر سے حضرت علی کو افضل سمجھتا ہوں.باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت ابوبکر حضرت علیؓ سے افضل ہیں، اسے بیعت کرنے کی اجازت دے دی.در حقیقت بعض باتیں وقتی فتنہ کے لحاظ سے بڑی ہوتی

Page 38

٣٣ ہیں.حالانکہ وہ اصل میں چھوٹی ہوتی ہیں اور بعض باتیں وقتی فتنہ کے لحاظ سے چھوٹی ہوتی ہیں.حالانکہ اصل میں بڑی ہوتی ہیں.پس وقتی فتنہ کے لحاظ سے کبھی بڑی بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور چھوٹی بات پر ایکشن لے لیا جاتا ہے.مگر ان لوگوں نے کبھی عقل سے کام نہیں لیا.ان کا مقصد صرف اعتراض کرنا ہوتا ہے لیکن میں کہتا ہوں اگر وہ ہماری اس تنظیم کو دیکھ کر برا مناتے ہیں تو تم انہیں برا منانے دو اور خود سلسلہ کے لئے ہر قسم کی قربانیوں میں بڑھتے چلے جاؤ.خدا تعالیٰ تم سے یہ بھی نہیں کہے گا کہ تم نے ان کا دل کیوں دکھایا بلکہ وہ تم پر خوش ہوگا اور تمہیں ثواب دے گا.بے شک ہم چاہتے ہیں کہ وہ حسد کی آگ میں نہ جلیں.بلکہ جس جنت کے ہم وارث ہیں اسی جنت کے وہ وارث بن جائیں لیکن اگر انہیں اس جنت میں داخل ہونے کی توفیق نہیں ملی تو گو ہم پھر بھی یہی دعا کریں گے کہ خدا انہیں ایمان نصیب کرے لیکن اگر انہیں ایمان نصیب نہ ہو تو ہم ان کے لئے اپنا ایمان چھوڑنے کے لئے تیار نہیں.( خطبه فرموده ۲۳ را گست ۱۹۴۰ء.بحوالہ الفضل مورخ ۱۳ ستمبر ۱۹۶۱ء)

Page 39

۳۴ جماعت کی دینی تعلیم کے لئے مجلس انصاراللہ کی ذمہ داری سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج دوست معمول سے زیادہ تعداد میں جمع ہیں اور مستورات بھی پہلے سے زیادہ معلوم ہوتی ہیں.کیونکہ ان کی طرف سے اس قدر شور و ہنگامہ کی آواز میں آرہی ہیں کہ غالباً دائیں طرف ہیں.کیونکہ ان کی طرف کے ایک حصہ کے لئے خطبہ کا سننا بالکل ناممکن ہو جائیگا.یہ اجتماع ہمارے عام محاورہ کے مطابق رمضان کو وداع کرنے کے لئے ہے.چنانچہ آپ لوگوں میں سے کئی تو وہ ہیں جنہوں نے رمضان کا استقبال کیا اور پھر رمضان کی صحبت میں مہینہ بھر رہے اور اس کی برکتوں کو انہوں نے حاصل کیا وہ آج اس شوق سے یہاں جمع ہوئے ہیں کہ جس مہینہ نے ہم پر اتنا بڑا احسان کیا ہے آؤ ہم اس کو رخصت بھی کریں تا وہ ہماری محبت کے جذبہ کو دیکھ کر ہمیں اپنی برکتوں سے پھر بھی حصہ دے اور اپنی روحانی نعمتوں سے ہمیں پھر مالا مال کرے.مگر کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے رمضان کا استقبال نہیں کیا تھا اور نہ انہوں نے اس کی برکات سے کوئی فائدہ اٹھایا وہ بھی آج اس مہینہ کو رخصت کرنے کے لئے آئے ہوئے ہیں.مگر ان کا آنا بالفاظ دیگر اس لئے ہے کہ وہ رمضان سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہوا جو تم جار ہے ہو.تمہارے آنے کی وجہ سے ہم مصیبت میں پھنس گئے تھے اور ہمیں خواہ مخواہ لوگوں کی شرمندگی سے بچنے کے لئے بھوکا اور پیاسا رہنا پڑتا تھا اب اچھا ہوا جو تم جارہے ہو اور ہمیں اس بلا سے نجات ملی.دونوں قسم کے لوگ اپنی اپنی نیتوں کے مطابق پھل کھالیں گے.وہ جس نے رمضان کو پایا اور اس کی برکات سے اس نے پورا پورا فائدہ اٹھایا اس کا وداع برکت والا وداع ہے اور وہ ایسا ہی وداع ہے جیسے ایک دوست دوسرے دوست کو الوداع کہتا ہے.اس کا وداع کرنے جاتا ہے تا اس کا دوست اس پر پھر بھی مہربان رہے اور وہ پھر بھی اس کے پاس آتا رہے.مگر وہ جنہوں نے رمضان سے تو کوئی فائدہ نہیں اٹھایا مگر آج اسے وداع کرنے کے لئے آگئے ہیں.ان کے وداع کے معنے یہ ہیں کہ اچھا ہوا جو تجھ سے چھٹکارا حاصل

Page 40

۳۵ ہوا.ان دونوں قسم کے آدمیوں کو ان کی نیتوں کے مطابق بدلہ ملے گا.وہ جو پہلا گر وہ ہے جس نے رمضان سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور جو محبت اور اخلاص کے جذبات کے ساتھ اسے وداع کرنے کے لئے آیا اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کے لئے دعا کریں گے اور کہیں گے خدا تجھے اور بھی کئی رمضان نصیب کرے اور تجھے توفیق دے کہ تو اس کی برکتوں سے فائدہ حاصل کرے.مگر وہ آج رمضان کو اس نیت سے الوداع کرنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں کہ انہیں ایک مصیبت سے نجات ملی.ان کو آج کی نماز کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی کیونکہ وہ رمضان کی عزت کرنے نہیں بلکہ اس کی ہتک کرنے کے لئے آئے ہیں.اس کے بعد میں ایک اور امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ چند دن ہوئے ہماری جماعت کے ایک دوست نے مجھے ایک خط لکھا، جس کا مضمون یہ تھا کہ میں بازار میں سے گذر رہا تھا کہ مجھے ایک مخالف شخص نے کچھ ٹریکٹ دینے چاہئے جن کے لینے سے میں نے انکار کر دیا.لیکن اس نے اصرار کیا اور کہا کہ آپ لوگوں کو چاہئے کہ ہماری باتوں کو سنیں اور ٹریکٹ لینے سے انکار نہ کریں.اس دوست نے لکھا ہے کہ مجھے ایک عام اعلان کے ذریعہ جماعت کے دوستوں کو ایسے لوگوں کا لٹریچر پڑھنے سے روک دینا چاہئے کیونکہ اس طرح جماعت کا کمزور طبقہ متاثر ہوتا ہے اور خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہو.میں اس بارہ میں پہلے بھی اپنے خیالات کا اظہار کر چکا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ میرے نزدیک پبلک جگہوں میں یا ایسے مقامات میں جہاں کسی خاص قوم کو کوئی امتیازی حق حاصل نہ ہو اس کا کوئی جتھہ نہ ہو اور بظاہر امن میں خلل واقع ہونے کا کوئی اندیشہ نہ ہو، ہر شخص آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کو پھیلانے کا حق رکھتا ہے اوراگر ہم اسے روک دیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ بیرونی مقامات میں جب ہمارا کوئی احمدی ٹریکٹ وغیرہ تقسیم کرنے لگے اور دوسرے لوگ اسے روک دیں یا ٹریکٹ لینے سے انکار کر دیں تو وہ بھی اپنے رویہ میں حق بجانب سمجھے جائیں.حالانکہ اگر کسی جگہ ہمارا کوئی احمدی اپنے ٹریکٹ تقسیم کرتا ہے اور لینے والا نہیں لیتا تو یہ امر اس کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے.مگر بہر حال ہم غیروں کو اپنے ٹریکٹ دیتے ہیں اور جب دیتے ہیں تو جو حق ہمیں حاصل ہے وہی حق دوسروں کو بھی حاصل ہونا چاہئے.مذہب دنیا میں امن پیدا کرنے کے لئے آتے ہیں فساد پیدا کرنے کے لئے نہیں آتے اور اگر ہم ایک بچے مذہب پر قائم ہیں تو لازماً ہمیں دنیا کو وہ حریت اور آزادی دینی ہوگی جس کے بغیر دنیا کبھی ترقی نہیں کر سکتی.یہ تو لینے والے کا اختیار ہے نا.وہ چاہے تو لے اور چاہے تو نہ لے.مثلا فرض کرو کسی کے ہاتھ میں پہلے ہی بہت سی کتابیں

Page 41

۳۶ ہوں یا اور کوئی سامان اس نے اٹھایا ہوا ہوتو وہ کہ سکتا ہے کہ میں اس وقت نہیں لے سکتا.یا ممکن ہے وہ ٹریکٹ اس نے پڑھا ہوا ہو، تو اس صورت میں بھی وہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے اس ٹریکٹ کی ضرورت نہیں اس طرح اگر اسے پڑھنے کی فرصت ہی نہیں.تو اس عذر کی بناء پر بھی وہ کوئی ٹریکٹ لینے سے انکار کر سکتا ہے.لیکن اگر دینے والا دیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ دوسرا شخص غلطی پر ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی اصلاح کروں تو اگر دیانتداری کے ساتھ اس کی نیت اسی حد تک ہے اور وہ دوسرے کی خیر خواہی واصلاح کے جذبہ کے ماتحت اپنا کوئی ٹریکٹ دوسرے کو پڑھنے کے لئے دیتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے تقسیم کرنے یا اپنی جماعت کے دوستوں کو ان کے لینے اور پڑھنے سے منع کریں.جس چیز کو اسلام نا جائز قرار دیتا ہے اور جسے ہم نا پسند کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اشتہار بازی یا ٹریکٹوں کی تقسیم وغیرہ سے کوئی فتنہ اٹھایا جائے اور یا پھر ہم اس امر کونا پسند کرتے ہیں کہ کوئی شخص رات کو اٹھ کر کسی کے خلاف کارٹون لگا دے.اگر اس میں جرات اور دلیری ہے تو یہ کیوں اپنی پنچائت، اپنی مجلس، اپنی جماعت اور اپنی قوم کے بزرگوں کے سامنے اس معاملہ کو نہیں رکھتا اور انہیں کیوں نہیں کہتا کہ فلاں خرابی کو دور کرنا چاہیے.اس کے معانی تو یہ ہیں کہ اس نے ایک بے دلیل بات بیان کر دی.مگر جو جواب دینے والا ہے وہ حیران ہے کہ وسوسہ ڈال کر وہ بھاگ کہاں گیا.تو یہ چیزیں ہیں جنہیں ہم نا پسند کرتے ہیں.لیکن علی الاعلان کسی کو اشتہار یا ٹریکٹ دینا ہرگز کوئی نا پسندیدہ طریق نہیں بشرطیکہ اس میں گالیاں نہ ہوں اور بشر طیکہ اس کی نیت فساد کی نہ ہو.اگر اس طریق کو روک دیا جائے تو مذہب دنیا میں کبھی پھیل ہی نہیں سکتا.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو مخالف تھے انہیں آپ کی باتیں سننانا گوار ہی گزرتا تھا.مگر کیا اس وجہ سے انہیں حق تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی باتوں کے پھیلانے سے روک دیتے.یا اس زمانہ میں تو پریس نہیں تھا مگر کیا موجود زمانہ میں غیر احمد یوں کو حق حاصل تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ کہتے کہ آپ ہم میں اپنے اشتہار یا ٹریکٹ کیوں تقسیم کرتے ہیں.پس اس قسم کی باتوں کو روکنا حماقت کی بات ہے.ہر قوم کا حق ہے کہ وہ اپنے خیالات کو احسن طریق پر دنیا میں پھیلائے اور چاہے تو اشتہار تقسیم کرے اور چاہے تو ٹریکٹ دے.یہ لینے والے کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ چاہے تو لے اور چاہے تو نہ لے.مگر کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے کو اپنے لٹریچر کی تقسیم سے روک دے.یہ تو اشاعت لٹریچر کے متعلق میں نے ایک اصول بیان کیا ہے لیکن میں اسی حد تک اپنی بات کو محدود نہیں رکھتا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ میرے نزدیک کسی قوم کو بھورے میں بٹھا دینا اس سے انتہا درجہ کی دشمنی اور اس کی ترقی کی جڑ پر اپنے ہاتھوں سے تبر رکھنا ہے.جو

Page 42

۳۷ قوم بھورے میں بند کر کے بٹھا دی جائے وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتی اور نہ کبھی عزت اور عروج کو حاصل کر سکتی ہے.ہم نے بار ہا دیکھا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے بچوں کو گھروں میں سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں اور انہیں تاکید کرتے رہتے ہیں کہ دیکھنا با ہر نہ جانا ، دیکھنا فلاں فلاں سے نہ ملنا، وہ اپنے ماں باپ کی موجودگی میں تو الگ تھلگ رہتے ہیں لیکن جب ان کے سروں سے ماں باپ کا سایہ اٹھ جاتا ہے تو وہ اول درجہ کے آوارہ ثابت ہوتے ہیں کیونکہ ان کے جذبات دبے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ نہ معلوم فلاں فلاں لڑکے میں کیا بات ہے کہ ہمارے ماں باپ ہمیں ان سے ملنے نہیں دیتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ماں باپ سر پر نہیں رہتے تو چونکہ ان کے دل میں مدتوں سے جذبات دبے ہوئے ہوتے ہیں وہ ان سے ایسے شوق اور ایسی محبت سے ملتے ہیں کہ بہت جلد خراب ہو جاتے ہیں.لیکن دوسرا لڑکا جس کی گو جائز نگرانی کی جاتی ہو مگر اسے لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے بھی منع نہ کیا جاتا ہو وہ جب آوارہ لڑکوں کو دیکھتا اور ان کے انجام پر نظر دوڑاتا ہے تو کبھی غلطی نہیں کرتا اور بالعموم اس کا ایسا مضبوط کیریکٹر رہتا ہے کہ لوگ اس پر ڈورے نہیں ڈال سکتے.مسلمانوں کے تنزل کا بھی زیادہ تر یہی سبب ہوا کہ وہ غیر مذاہب کی کتب کے پڑھنے سے غافل ہو گئے.چنانچہ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ مسلمان کسی عیسائی کی کتاب نہیں پڑھیں گے، کسی ہندو کی کتاب نہیں پڑھیں گے کسی اور مذہب والے کی کتاب نہیں پڑھیں گے، صرف اپنے مذہب کی کتاب پڑھتے رہیں گے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چونکہ انہیں پتہ ہی نہیں ہوتا کہ عیسائی کیا کہتے ہیں ، ہندو کیا با تیں پیش کرتے ہیں.اس لئے جب ہند و یا عیسائی ان سے کسی مذہبی مسئلہ پر گفتگو کرتے ہیں تو وہ آسانی سے ان کا شکار ہو جاتے ہیں.لیکن عیسائی دوسرے مذاہب کی کتب کو خوب غور سے پڑھتے ہیں اور خواہ ان کے سامنے کتنی ہی زبر دست دلیلیں پیش کی جائیں ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا.پس بجائے اس کے کہ میں اس قسم کے لٹریچر کی اشاعت کو نا پسند کروں اور جماعت کو اس کے پڑھنے سے روک دوں ،ہمیں تحریک کرتا ہوں کہ جماعت کو اپنی فرصت کے اوقات میں اس قسم کا لٹریچر ضرور پڑھنا چاہئے.اگر تمہیں معلوم ہی نہیں کہ مخالف کیا کہتا ہے تو تم اس کا جواب کیا دو گے؟ اور اگر ہماری جماعت کے بعض لوگ اتنے ہی کمزور ہیں کہ وہ مخالف کی ایک کتاب پڑھ کر اپنا ایمان چھوڑنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.تو ایسے لوگوں کو سنبھالنے سے کیا فائدہ.ایک شاعر نے طنزاً کہا ہے کہ کیا ڈیڑھ چلو پانی سے ایمان بہہ گیا اس نے تو ایک نا جائز چیز کا ذکر کر کے کہا ہے کہ کیا میں اس کا ڈیڑھ چلو پی کر ہی کا فر ہو گیا.مگر جو جائز باتیں

Page 43

٣٨ ہیں ان کے متعلق ہم یہ کہاں فرض کر لیں کہ ہماری جماعت میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جس کا ایمان مخالفوں کا ایک اشتہا ر یا صرف ایک ٹریکٹ یا ایک کتاب پڑھنے سے ہی ضائع ہو جائے گا اور وہ ایسا متاثر ہوگا کہ احمدیت کو چھوڑ دے گا اور اگر کوئی متاثر ہوگا تو اسی وجہ سے کہ ہم نے اسے احمدیت کی حقانیت کے دلائل پوری طرح نہیں سمجھائے ہوں گے.حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی قوم دوسروں کا لٹریچر پڑھنے سے غافل ہو جاتی ہے تو وہ اپنی اس ذمہ داری کو جو قوم کے تمام افراد کو صحیح تعلیم دینے سے تعلق رکھتی ہے ادا کرنے میں سست ہو جاتی ہے.اس قوم کے افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ جب ہم نے دوسروں کا لٹریچر پڑھنے سے اپنی تمام قوم کو منع کر دیا ہے تو وہ غیر کے اثرات سے متاثر ہی کب ہوگی گویا اوہ اصطلاح کا ایک شارٹ کٹ تجویز کرتے ہیں.حالانکہ اس سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن راستہ اور کوئی نہیں.جب ہم اپنی جماعت کے افراد کو یہ آزادی دیں گے کہ وہ دوسروں کے لٹریچر کو بھی پڑھیں تو لازما ہمیں یہ فکر ر ہے گا کہ ہم دوسروں کے پیدا کردہ شبہات کا بھی ازالہ کریں اور اس کے تردیدی دلائل ان کے ذہن نشین کریں.لیکن اگر ہم انہیں دوسروں کا لٹریچر پڑھنے سے ہی منع کر دیں گے تو لازماً ہم تعلیمی پہلو میں سُست ہو جائیں گے اور ہمیں یہ احساس نہیں رہے گا کہ دوسروں کے دلائل کا جواب بھی اپنے افراد کو سکھانا چاہئے.چنانچہ فرض کرو اگر ہم کہہ دیں کہ جماعت کا کوئی شخص دوسروں کا لٹریچر نہ پڑھے تو چونکہ حیات مسیح کے دلائل جو وہ پیش کرتے ہیں انہیں کی کتب میں سے مل سکتے ہیں اس لئے یہ دلائل ہماری جماعت کی نظروں سے مخفی رہیں گے اور ان کا کوئی جواب ہمارے افراد کو نہیں آئے گا.اسی طرح ہم وفات مسیح کے دلائل بھی زیادہ توجہ سے اپنے افراد کو نہیں سکھا سکیں گے.کیونکہ وفات مسیح کے دلائل کی ضرورت بھی حیات مسیح کے دعوی کے مقابلہ میں ہی پیش آیا کرتی ہے.لیکن اگر دوسرا شخص حیات مسیح کے دلائل پیش کرے اور وہ دلائل ہماری جماعت کے افراد کے سامنے آتے رہیں تو ہم اس بات پر مجبور ہونگے کہ انہیں وفات مسیح کے دلائل بھی سمجھا ئیں.اسی طرح اگر ہم کہ دیں کہ مسئلہ نبوت کے بارہ میں کسی مخالف کی کوئی کتاب نہ پڑھی جائے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ اپنی جماعت کو اپنے عقیدہ کے دلائل بتانے میں بھی ہم سست ہو جائیں گے اور جولوگ وفات مسیح یا مسئلہ ختم نبوت کو ہم میں ماننے والے ہوں گے وہ بھی علی وجہ البصیرت ان مسائل پر قائم نہیں ہوں گے بلکہ تقلیدی رنگ میں ہوں گے.حالانکہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان دلائل اور شواہد کی بناء پر اپنے تمام اعتقادات رکھے.چنانچہ قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی دعوی بیان ہوا ہے کہ میں اور میرے متبع دلائل سے اسلام کو مانتے ہیں مگر تم اپنی باتوں پر بے دلیل قائم ہو اور جو قوم کسی بات کو

Page 44

۳۹ بے دلیل مان لیتی ہے وہ کبھی برکت حاصل نہیں کر سکتی.برکت اسی کو حاصل ہوتی ہے جو بادلیل مانے چاہے وہ بچے مذہب میں ہی کیوں شامل نہ ہو.اگر ایک مسلمان اس لئے خدا کو ایک سمجھتا ہے کہ اس کے ماں باپ خدا کی وحدانیت پر ایمان رکھتے تھے.اگر ایک مسلمان اس لئے نمازیں پڑھتا ہے کہ اس نے اپنے ماں باپ کو ہمیشہ نمازیں پڑھتے دیکھا.اگر ایک مسلمان اس لئے روزے رکھتا ہے کہ اس نے اپنے ماں باپ اور اپنی قوم کے افراد کو روزے رکھتے دیکھا.اگر ایک مسلمان اس لئے زکوۃ دیتا ہے کہ اس کی قوم زکوۃ دیتی ہے اور اگر ایک مسلمان اس لئے حج کرتا ہے کہ اور لوگوں کو بھی وہ حج کرتے دیکھتا ہے، تو قیامت کے دن اس کی توحید ، اس کی نمازیں، اس کے روزے، اس کی زکوۃ اور اس کا حج اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے.بلکہ خدا کہے گا کہ بیشک تم نے توحید کے عقیدہ پر ایمان رکھا مگر میں اس کا ثواب تمہارے ماں باپ کو دوں گا جنہوں نے دلائل سے میری وحدانیت پر ایمان رکھا تھا.اسی طرح بے شک تم نے نمازیں بھی پڑھیں تم نے روزے بھی رکھے تم نے زکوۃ بھی دی ہم نے حج بھی کیا مگر چونکہ یہ تمام اعمال تم نے دوسروں کو دیکھ کر کئے اور خودان اعمال کی حقیقت اور حکمت کو نہ سمجھا اس لئے جو لوگ نمازیں سمجھ کر پڑھا کرتے تھے، روزے سمجھ کر رکھا کرتے تھے، زکوۃ سمجھ کر دیا کرتے تھے اور حج سمجھ کر کیا کرتے تھے، میں ان تمام نیکیوں کا ثواب ان کو دوں گا نہ کہ تمہیں.اس طرح ہر نیکی کا ثواب مارا جائے گا اور وہ ان لوگوں کو دیا جائے گا جنہوں نے سوچ سمجھ کر نیکیاں کی ہونگی.پس یہ طریق بڑا خطرناک ہے جو قوموں کو تباہ و برباد کر دینے والا ہے اور یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے جس کو جلد سے جلد دور کرنا چاہئے.بیشک ایسی باتیں جن سے فتنہ پیدا ہونے کا امکان ہو ان سے روکنا ہمارے لئے ضروری ہوتا ہے مگر لٹریچر ایسی چیز نہیں کہ اس کے پڑھنے سے کسی کو روکا جاسکے.بلکہ میں تو کہوں گا کہ ہماری جماعت کے افراد میں سے جن کو بھی فرصت ہو وہ مخالفین کے لٹریچر کو ضرور پڑھیں.ہاں ہمارا یہ مطالبہ ہر وقت رہے گا کہ وہ صرف مخالفانہ لٹریچر کو ہی نہ پڑھیں بلکہ اپنے لٹریچر کو بھی بار بار پڑھیں.پس میں تمہیں دوسروں کے اشتہارات یا پمفلٹ یا کتب پڑھنے سے منع نہیں کرتا.بلکہ میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم عیسائیوں کی کتابیں بھی پڑھو تم یہودیوں کی کتابیں بھی پڑھو تم آریوں کی کتابیں بھی پڑھو اور جتنی جتنی تمہیں فرصت ہو اس کے مطابق ان کے لٹریچر کا مطالعہ جاری رکھو.یہ مطالعہ تمہارے لئے مضر نہیں بلکہ مفید ہے اور جتنا زیادہ مطالعہ بڑھے گا اتنا ہی تمہارا کیریکڑ مضبوط ہوگا اور دوسروں کے حملوں سے تم محفوظ رہو گے کیونکہ تم جانتے ہوگے کہ تمہارا مخالف کیا کہتا ہے اور تمہارے پاس اس کا کیا جواب

Page 45

۴۰ ہے؟ اب اگر میرے سامنے کوئی عیسائی آئے اور کہے کہ مسیح ابن اللہ تھے تو مجھ پر اس کی اس بات کا کوئی اثر نہیں ہوگا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ مسیح کو کن معنوں میں ابن اللہ کہا گیا ہے.میں جانتا ہوں کہ مسیح ایک بشر تھا.میں جانتا ہوں کہ اس کے ابن اللہ ہونے کے کیا دلائل ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جن قرآنی آیات سے وہ مسیح کے ابن اللہ ہونے کا استدلال کرتے ہیں ان کا کیا مفہوم ہے؟ میں نے ان کے اعتراضوں کو پڑھا.ان کے جوابات کو سمجھا اور مجھے یقین حاصل ہو گیا کہ جن آیات سے وہ حضرت مسیح کے ابن اللہ ہونے کا استدلال کرتے ہیں ان کے معنی وہ نہیں جو وہ کرتے ہیں بلکہ اور ہیں.مثلاً اگر کوئی عیسائی کہے کہ قرآن کریم میں حضرت مسیح کے متعلق رُوح منہ کے الفاظ آتے ہیں اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ روح اللہ تھے تو میں اس سے قطعا نہیں گھبراؤں گا کیونکہ مجھے اس اعتراض کا جواب آتا ہے اور جب آتا ہے تو میرے لئے گھبرانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے.تو غیروں کی باتوں کا پڑھنا بشر طیکہ جس مذہب میں انسان داخل ہواس کی اسے پوری واقفیت حاصل ہو نہ صرف جائز ہے بلکہ نہایت ضروری اور مفید ہے.بلکہ اگر کبھی فرصت ہو تو اس قسم کے ٹریکٹوں کو مساجد میں پڑھ کر سنا دینا چاہئے اور جماعت کے دوستوں کو بتانا چاہئے کہ دوسروں نے یہ یہ اعتراض کیا ہے اور ان اعتراضات کے یہ یہ جوابات ہیں.مگر اس قسم کے ٹیکٹوں کا سنانا باقی تمام ضروریات پر مقدم نہیں کر لیتا چاہئے.یعنی یہ نہیں ہونا چاہئے کہ قرآن کا درس چھوڑ دیا جائے ، حدیث کا درس چھوڑ دیا جائے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا درس چھوڑ دیا جائے ، اسی طرح اور وعظ ونصیحت کی باتوں کو چھوڑ دیا جائے اور مخالف ٹریکٹوں کو سنانا شروع کر دیا جائے.یہ سخت بد دیانتی ہے کہ انسان جس مذہب میں شامل ہو اس کے متعلق تو ابھی اسے پوری واقفیت حاصل نہ ہو اور دوسروں کے لٹریچر کو پڑھنے میں وہ مشغول ہو جائے.تم پہلے اپنی جماعت کے لٹریچر کو پڑھو اور جب احمدیت کے عقائد، احمدیت کی تعلیم اور احمدیت کے دلائل سے تم پوری طرح آگاہ ہو جاؤ تو پھر تمہارا حق ہے کہ دوسروں کی کتابوں کو بھی پڑھو اور اگر تمہیں اپنے مذہب کی تعلیم پر غور کرتے ہوئے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ تمہارا مذ ہب سچا نہیں تو تمہارا فرض ہے کہ تم سچائی کو کسی اور مذہب میں تلاش کرو تا کہ اگر تم سچ پر قائم نہیں تو کم از کم تم خدا سے یہ کہہ سکو کہ تم نے بیچ کو تلاش کرنے کی کوشش کی تھی.میں اس بارہ میں

Page 46

۴۱ جماعت کے اندر بیداری پیدا کرنے کے لئے انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ہر سال ایک ہفتہ ایسا منایا کریں جس میں وہ جماعت کے افراد کے سامنے مختلف تقاریر کے ذریعہ نہ صرف اپنی جماعت کے عقائد بیان کیا کریں بلکہ یہ بھی بیان کیا کریں کہ دوسروں کے کیا اعتراضات ہیں اور ان اعتراضات کے کیا جوابات ہیں؟ ہر مسجد میں اس قسم کی تقریریں ہونی چاہئیں اور جماعت کے دوستوں کو بتانا چاہئے کہ لوگ یہ یہ اعتراضات کرتے ہیں اور ان اعتراضات کے یہ جوابات ہیں.فرض کر و خلافت کا مسئلہ جس رنگ میں ہماری جماعت کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے وہ غلط ہے تو کیوں کسی کا حق نہیں کہ وہ ہمیں سمجھائے ؟ یا فرض کرو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی نہیں تو جو شخص ہمیں سمجھاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی نہیں وہ ہمارا محسن ہے نہ کہ دشمن بشرطیکہ وہ شرارت یا بد دیانتی نہ کر رہا ہو.مگر مشکل یہ ہے کہ ہمارے بعض مخالف سنجیدگی اور شرافت کے ساتھ بات نہیں کرتے اور پھر جو حوالے پیش کرتے ہیں ان میں بھی دیانت سے کام نہیں لیا جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ لکھا ہوتا ہے اور وہ کسی اور رنگ میں اسے پیش کر رہے ہوتے ہیں.اگر وہ شرافت کے ساتھ اپنے عقائد کو پیش کریں تو ہم ان کی باتیں خوشی کے ساتھ سننے کے لئے تیار ہیں.قادیان میں ایک دفعہ آریوں کے جلسہ پر دیانند کالج کے ایک پروفیسر صاحب آئے ان دنوں میں اسی مسجد اقصیٰ میں درس دیا کرتا تھا.جلسہ سے فارغ ہو کر مجھے ملنے کے لئے اسی مسجد میں آگئے.میں نے ان سے کہا کہ قادیان ایسا مقام ہے جس میں ہماری تعداد دوسروں کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے.پس یہاں آپ کا آنا اسی صورت میں فائدہ بخش ہو سکتا تھا جب آپ اپنے خیالات سے ہمیں آگاہ کرتے ورنہ آپ کے اپنے آدمی تو جانتے ہی ہیں کہ آپ کے کیا عقائد ہیں اور ان عقائد کے کیا دلائل ہیں.اگر یہاں آ کر بھی آپ نے اپنے آدمیوں کے سامنے ہی ایک تقریر کر دی تو اس کا کیا فائدہ ہوا.فائدہ تو تب ہوتا جب آپ ہمیں بتاتے کہ آپ کے مذاہب کی کیا تعلیم ہے.وہ کہنے لگے بات تو ٹھیک ہے مگر میں نے سمجھا کہ آپ اپنے آدمیوں کو ہماری باتیں سننے کے لئے کب اکٹھا کر سکتے ہیں؟ میں نے ان سے کہا یہ غلط ہے.مسجد ہمارا سب سے مقدس مقام ہوتا ہے اور پھر یہ مسجد تو وہ ہے جسے ہم مسجد اقصی قرار دیتے ہیں.آپ آئیں اور اس مسجد میں تقریر کریں.میں اپنی جماعت کے دوستوں سے کہوں گا کہ وہ آپ کی تقریر کوسنیں.چنانچہ اس مسجد میں دیا نند کالج کے پروفیسر صاحب نے تقریر کی اور حافظ روشن علی صاحب مرحوم نے ان سے تبادلہ

Page 47

۴۲ خیالات کیا.تو خیالات کا تبادلہ بابرکت چیز ہے.اگر ہماری جماعت التزام کے ساتھ دوسروں کے خیالات کو سنے.ان کے لٹریچر کو پڑھے اور ان کے دلائل کو معلوم کر کے ان کے جوابات کو جماعت کے ہر فرد کے ذہن میں اچھی طرح راسخ کر دے.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کا ہر فرد ایمانی لحاظ سے اتنا مضبوط ہو جائے کہ کوئی شخص اسے ورغلا نہ سکے.اگر خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق اسے کوئی دھوکا دینا چاہے گا تو وہ فوراً ہوشیار ہو جائے گا اور کہے گا مجھے خوب معلوم ہے کہ تم اعتراض کرنا چاہتے ہو.تم بے شک اعتراض کر دمگر مجھے ان کے جوابات بھی معلوم ہیں اور ان جوابات کے سامنے تمہارے اعتراضات کوئی حقیقت نہیں رکھتے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی صفات کے متعلق اگر کوئی اعتراض کرے گا تو وہ گھبرائے گا نہیں بلکہ ان کا جواب دینے کے لئے فوراً تیار ہو جائے گا.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت، اسلام کی صداقت، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت اور جماعت احمدیہ کی حقانیت کے متعلق جب بھی کوئی اس کے دل میں وسوسہ پیدا کرنے کی کوشش کرے گا وہ عمدگی کے ساتھ اس کے وساوس کا ازالہ کر دیگا اور اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہوگا.یہ وہ مقام ہے جس پر اگر ہم اپنی جماعت کو کھڑا کر دیں تو ہم اس سے حقیقی نیکی کرنے والے ہونگے.یہ کوئی نیکی نہیں کہ ہم پچاس یا ساٹھ یا سو آدمیوں کو دوسروں سے چھپا کر خدا تعالیٰ کے پاس لے جائیں.کیونکہ خدا چوروں کی طرح دوسروں کی نظر سے چھپ چھپ کر آنے والوں کو پسند نہیں کرتا بلکہ وہ ان کو پسند کرتا ہے جو دھڑلے سے سب کے سامنے آئیں اور علی الاعلان آئیں.اگر تم خدا کے پاس ایک بھی ایسا شخص لے کر حاضر ہوتے ہو جسے دنیا کا کوئی آدمی گمراہ نہیں کر سکتا تو خدا بہت زیادہ خوش ہوگا بہ نسبت اس کے کہ تم سو یا ہزار ایسے آدمی اس کے سامنے پیش کرو جنہیں دوسروں کے عقائد سے بے خبر رکھا گیا ہو اور جنہیں چوری چھپے اپنے مذہب میں شامل کر لیا گیا ہو.خدا تعالیٰ تعداد کی زیادتی کو دیکھ کر خوش نہیں ہوگا بلکہ وہ کہے گا کہ میں ان سو یا ہزار کو کیا کروں، ان میں سے تو ہر شخص آسانی سے دوسروں کا شکار ہو سکتا اور گمراہی اور ضلالت کے گڑھے میں گر سکتا ہے.پس یا درکھو خدا کے حضور وہی مقبول ہوتے ہیں جن کا ایمان علی وجہ البصیرت ہو اور جو دوسرے کے ہر اعتراض کا جواب دینے کی طاقت رکھتے ہوں.چنانچہ قرآن کریم میں اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے.قُلْ هَذِهِ سَبِيْلِيِّ اَدْعُو إِلَى اللهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي (سوره یوسف آیت ۱۰۹)

Page 48

۴۳ کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو لوگوں سے کہہ دے کہ میری سچائی کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ تم جو باتیں کہتے ہو اس کی تمہارے اپنے آدمی کوئی دلیل نہیں جانتے.اس کے مقابلہ میں ہمیں اور میرے پیرو ہر بات کی دلیل رکھتے ہیں اس لئے ہم بچے ہیں اور تم سچے نہیں.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کا ایمان بصیرت پر قائم کریں اور یہ وہ ذمہ داری ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر عائد کی گئی ہے اور ذمہ داری سے بچنا نیکی نہیں ہوتی بلکہ ذمہ داری کو ادا کرنا نیکی ہوتی ہے.پس ہمارے ذمہ یہ فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کو دینی مسائل سے آگاہ کریں اور انہیں ان مسائل میں ایسا پختہ کریں کہ انہیں کوئی گمراہ نہ کر سکے.اگر ہم افراد کی اس رنگ میں تربیت نہیں کریں گے اور پھر یہ امید رکھیں گے کہ کسی مخالف کی باتوں سے وہ متاثر بھی نہ ہوں تو یہ ایسی ہی بات ہوگی جیسے کہتے ہیں کہ آپے میں رجی پیچی آپے میرے بچے جیون یعنی خود بخود دگھر میں بیٹھے فرض کر لیا کہ ہمارا ہر فرد دینی مسائل سے آگاہ ہے اور پھر خود بخود یہ نتیجہ نکال لیا کہ اب انہیں کوئی گمراہ نہیں کر سکتا.حالانکہ جب تک انہیں دوسرے کے لٹریچر کا علم نہیں ہوگا اور انہیں معلوم نہیں ہوگا کہ اس کے اعتراضات کے کیا جوابات ہیں.اس وقت تک بالکل ممکن ہے کہ وہ اس کا شکار ہو جائیں اور اسکی فتنہ انگیز باتوں سے متاثر ہو جائیں.پس ہماری جماعت کے افراد کو شکاری پرندے بنا چاہئے.انہیں وہ باز بننا چاہئے جو روحانی لحاظ سے اپنے شکار پر حملہ آور ہوتا اور اسے اپنے قبضہ و تصرف میں لے آتا ہے.چوہوں کی طرح اپنی بلوں میں سر چھپانے والی قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.بلکہ کامیاب وہی قوم ہوا کرتی ہے جو بازوں اور شکروں کی طرح ہوتی ہے.مجھے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے عہد میں جب کبھی باہر تقریر کے لئے جانا پڑتا تو مجھے یہ بات بیان کرتے وقت ہمیشہ مزا آ جاتا کہ لوگ یہ شور مچاتے ہیں کہ انہوں نے مرزا صاحب کو شکست دے دی.حالانکہ جب آپ نے دعوی کیا اس وقت آپ اکیلے تھے مگر جس طرح شیر بھیڑوں کے گلے پر حملہ کرتا اور ان میں سے کئی بھیڑیں اٹھا کر لے جاتا ہے اسی طرح حضرت مرزا صاحب نے ہزاروں نہیں لاکھوں کو اپنے ساتھ ملا لیا.اب فرض کرو بھیٹرمیں ایک کروڑ ہوں اور شیر صرف ایک ہولیکن وہ ان کی کروڑ بھیڑوں میں سے سو کو اٹھا کر لے جائے تو بہر حال فاتح شیر ہی کہلائے گا نہ کہ بھیڑیں.اسی طرح بے شک مخالف زیادہ ہیں اور احمدی کم مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا جس کثرت کے ساتھ

Page 49

۴۴ غیر احمدیوں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آدمی کھینچے اس کا سینٹر واں حصہ بھی کوئی مخالف ہم میں سے لوگوں کو لے گیا.اگر نہیں تو کامیاب وہ کس طرح ہو گئے ؟ کامیاب تو وہی ہوا جوا کیلا اٹھا اور لاکھوں کو اس نے اپنے ساتھ ملا لیا.پھر اگر کوئی برگشتہ بھی ہوا خدا نے اس کی جگہ ہمیں کئی مخلصین دے دئے.قرآن کریم خود بچے سلسلہ کی صداقت کا معیار بیان فرماتا ہے کہ اگر اس میں سے ایک شخص بھی مرتد ہوتا ہے تو اس کی جگہ ہم ایک قوم کو لے آتے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہمیشہ ہمارے ساتھ رہا ہے.پس یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے.کیونکہ ہم تھوڑے ہو کر جیتتے چلے جاتے ہیں.آخری زمانہ میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام امرتسر شریف لے گئے تو بڑی سخت مخالفت ہوئی اور لوگوں نے آپ پر پتھر پھینکے.ان دنوں امرتسر میں ہماری جماعت کے ایک دوست تھے جو کچھ پڑھے لکھے تو نہیں تھے مگر یوں سمجھ دار آدمی تھے.پرانے زمانہ میں ایک دستور تھا جسے شاید آج کل کے احمدی نہ جانتے ہوں اور وہ یہ کہ جب لڑکے والے لڑکی لینے جاتے تھے تو جو مستورات لڑکی والوں کے گھر میں اکٹھی ہوتی تھیں وہ لڑکے والے کو خوب گالیاں دیا کرتی تھیں.ان گالیوں کو پنجابی میں سٹھنیاں کہا کرتے تھے.وہ خیال کرتی تھیں کہ ان سٹھنیوں سے نکاح بابرکت ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب امرتسر تشریف لے گئے تو وہاں کے ایک رئیس محمد شریف صاحب کے ہاں ٹھہرے جو کشمیری خاندان میں سے تھے.لوگوں کو جب آپ کی آمد کا علم ہوا تو انہوں نے آپ کو خوب گالیاں دیں، سیاپے کئے اور جہاں آپ ٹھہرے ہوئے تھے وہاں بھی آکر گالیاں دیتے رہے.جب آپ وہاں سے تشریف لے آئے تو کسی مخالف نے اس احمدی سے کہا کہ دیکھا تمہارے مرزا کو کیسی گالیاں ملیں.وہ کہنے لگا گالیوں کا کیا ہے آخر تم میں سے ہی اتنے آدمیوں نے بیعت بھی تو کی ہے؟ رہا گالیاں سوان کا کیا ہے.سٹھنیاں تو تم نے دینی ہی تھیں کیونکہ مرزا صاحب تمہارے آدمی جو لے گئے.تو جو قوم خدا تعالیٰ کی برکت کے نیچے ہوتی ہے وہ لوگوں کو کھینچے چلی جاتی ہے.ہم دوسروں کے مقابلہ میں مال و دولت اور تعداد کے لحاظ سے بہت کمزور ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ اسلام کے میدان میں ہمارا اس قدر رعب ہے کہ چرچ آف انگلینڈ کی طرف سے ایک کمیٹی اس غرض کے لئے بٹھائی گئی تھی کہ وہ یہ تحقیق کرے کہ افریقہ میں عیسائیت کی ترقی کیوں رک گئی ہے.اس کمیٹی نے جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں سات مقامات پر یہ ذکر کیا گیا ہے کہ احمدی اب لوگوں کو عیسائی نہیں ہونے دیتے بلکہ جو عیسائی ہو چکے ہیں ان کو بھی ہم سے چھین کر لے جاتے ہیں.چرچ آف انگلینڈ کی سالانہ آمد ساٹھ کروڑ روپیہ تک ہے مگر ہمیں ہزاروں روپے بھی بمشکل میسر آتے

Page 50

۴۵ ہیں اور پھر ہمیں ان ممالک میں کام کرنا پڑتا ہے جہاں سینکڑوں سال سے عیسائی اپنی تبلیغ کرتے چلے آ رہے ہیں.مگر باوجود اس کے سات جگہ انہوں نے تسلیم کیا کہ احمدیوں نے ان کی ترقی بند کر دی ہے.تو کثرت سے اس قسم کی مثالیں پائی جاتی ہیں جہاں عیسائیوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ احمدیت نے عیسائیت کو بڑھنے سے روک دیا ہے.حالانکہ عیسائی چالیس کروڑ کے قریب ہیں.پھر انہیں حکومت حاصل ہے.ان کے پاس روپیہ اور طاقت ہے مگر پھر بھی ہر جگہ انہیں شکست ہوتی چلی جاتی ہے.ابھی سیرالیون میں، میں نے اپنا ایک مبلغ بھجوایا تھا جس کی رپورٹیں الفضل میں شائع ہوتی رہتی ہیں.ان رپورٹوں میں بھی یہی لکھا ہوتا ہے کہ فلاں عیسائی رئیس مسلمان ہو گیا اور فلاں معزز عیسائی نے اسلام کا مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا.پادریوں نے جب یہ حالت دیکھی تو وہ کمشنر کے پاس پہنچے اور پہلے تو یہ کہا کہ یہ باغی ہیں اور پھر یہ شور مچایا کہ ان کی تقریروں سے ملک میں فتنہ پیدا ہوتا ہے انہیں روکا جائے.اس پر ہمارے مبلغوں نے جب اصل حقیقت بتائی تو کمشنر نے کہا کہ میں اب اس علاقہ کا دورہ کروں گا اور پادریوں کو ڈانٹوں گا کہ وہ آپ لوگوں کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کیوں کرتے ہیں.اگر انہیں مقابلہ کا شوق ہے تو مذہبی رنگ میں مقابلہ کر لیں.یہی حال یہاں ہے چنانچہ کوئی سال ایسا نہیں گذرتا جس میں چار پانچ ہزار کے قریب آدمی ان میں سے نکل کر ہم میں شامل نہ ہو جاتے ہوں.لیکن ہم سے شاذ و نادر کے طور پر ہی کوئی ادھر جاتا ہے اور اگر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اور کئی آدمی بھجوا دیتا ہے.یہ فوقیت اور برتری جو ہماری جماعت کو حاصل ہے درحقیقت اس علم وجہ سے ہے جو جماعت کو دیا جاتا ہے اور جس کے بعد کوئی شخص دوسروں کے فریب میں نہیں آتا.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کو دوسروں کے دلائل سے آگاہ رکھیں اور ہر فرد کے یہ ذہن نشین کریں کہ دوسرا کیا کہتا ہے اور اسکے اعتراضات کا کیا جواب ہے اور میں اس غرض کے لئے انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ سے کہتا ہوں کہ وہ سال میں ایک ایسا ہفتہ مقرر کریں جس میں ان کی طرف سے یہ کوشش ہو کہ وہ جماعت کے ہر فرد کو نہ صرف اپنی جماعت کے مسائل سے آگاہ کریں بلکہ یہ بھی بتائیں کہ دوسروں کے کیا کیا اعتراضات ہیں اور

Page 51

۴۶ ان اعتراضات کے کیا کیا جوابات ہیں.یہ تعلیم کا سلسلہ زبانی ہونا چاہئے اور پھر زبانی ہی ان کا امتحان بھی لینا چاہئے تا جماعت میں بیداری پیدا ہو اور وہ دوسروں کے ہر حملہ سے اپنے آپ کو پوری ہوشیاری سے بچا سکے.مگر یہ نہ ہو کہ تم اپنی کتابیں پڑھنی چھوڑ دو اور دوسروں کی کتابیں پڑھنے میں ہی مشغول ہو جاؤ.پہلے اپنے سلسلہ کی کتابیں پڑھو.ان کو یاد کروان کے مضامین کو ذہن نشین کرو اور جب تم اپنے عقائد میں پختہ ہو جاؤ تو مخالفوں کی کتابیں پڑھو.ان کو یاد کروان کے مضامین کو ذہن نشین کرو اور جب تم اپنے عقائد میں پختہ ہو جاؤ تو مخالفوں کی کتابیں پڑھو مگر چوری چھپے نہ پڑھو بلکہ علی الاعلان پڑھو اور سب کے سامنے پڑھو اور پھر مخالف کے دلائل کا پوری مضبوطی سے رد کرو اور دوسروں کے مقابلہ میں ایک شیر کی طرح کھڑے ہو جاؤ تا تمہارے متعلق کسی کو یہ و ہم نہ ہو کہ دوسرا تمہیں ورغلا سکے گا.بلکہ جب وہ تمہیں چھیڑے تو ہر شخص کا دل اس یقین سے بھرا ہوا ہو کہ اب تم ضرور کوئی نہ کوئی شکار پکڑ کر لے آؤ گے.پس تم اپنے آدمیوں کو شیر کی طرح دلیر بناؤ.انہیں بلوں میں چھپنے والے چوہے نہ بناؤ تم تجربہ کے بعد خود بخود دیکھ لو گے کہ اس کے بعد جماعت روحانی لحاظ سے کتنی مضبوطی حاصل کر لیتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمارے پاس سچائی ہے تو ہمیں مخالف کی کسی بات کیا خوف ہوسکتا ہے.وہ لاکھ اعتراض کرے خدا اس کے تمام اعتراضات کو باطل کر دے گا.میرا اپنا تجربہ ہے کہ مخالف خواہ کیسا ہی اعتراض کرے خدا تعالیٰ اس کا کوئی نہ کوئی جواب ضرور سمجھا دیتا ہے.تھوڑا ہی عرصہ ہوا چھوٹی مسجد میں ایک شخص آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ میں نے آپ سے ایک سوال کرتا ہے.میں نے کہا کرو.وہ کہنے لگا.میں چاہتا ہوں کہ آپ مرزا صاحب کی صداقت قرآن کریم سے ثابت کریں.میں نے کہا سارا قرآن مرزا صاحب کی صداقت سے بھرا پڑا ہے.میں کس کس آیت کو پڑھوں.وہ کہنے لگا آخر کوئی آیت تو پڑھیں میں نے کہا جب ہم نے کہہ دیا ہے کہ سارا قرآن ہی آپ کی صداقت سے بھرا ہوا ہے تو کسی ایک آیت کا سوال ہی کیا ہے.تم خود کوئی آیت پڑھ دو میں اس سے حضرت مرزا صاحب کی صداقت ثابت کرنے کے لئے تیار ہوں.قرآن کی بعض آیتیں لمبے چکر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت بنتی ہیں اور بعض آیتوں سے سیدھے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہو جاتی ہے مگر مجھے یقین تھا کہ خدا اس کی زبان پر کوئی ایسی آیت لائے گا جس سے وہ فوراً پکڑا جائے گا.

Page 52

۴۷ چنانچہ اس نے جھٹ یہ آیت پڑھ دی کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ امَنَّا بِالله وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ (سورة البقره آیت ۹) اور کہا کہ اس سے مرزا صاحب کی صداقت ثابت کیجئے.میں نے کہا اس آیت میں کن لوگوں کا ذکر ہے.کہنے لگا مسلمانوں کا.میں نے کہا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمان بگڑ سکتے تھے تو اب کیوں نہیں بگڑ سکتے اور جب آج بھی مسلمان بگڑ سکتے ہیں تو ان کی اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے کسی کو آنا چاہئے یا نہیں ؟ تمہاری دلیل یہی ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مصلح اور مامور کے آنے کی ضرورت ہی کیا ہے.مگر قرآن کہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علی علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی بعض لوگ گمراہ تھے اور جب آپ کے زمانہ میں بھی بعض لوگ گمراہ تھے تو آپ کے بعد تو بدرجہ اولیٰ مسلمان گمراہ ہو سکتے ہیں اور جب گمراہ ہو سکتے ہیں تو لازماً خدا کی طرف سے مصلح بھی آسکتا ہے.پس یا تو یہ مانو کہ امت محمدیہ کبھی گمراہ نہیں ہو سکتی اور اگر ایسا کہو تو قرآن کے منشاء کے خلاف ہوگا کیونکہ جو آیت تم نے پڑھی ہے، اس میں یہی ذکر ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مونہہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں مگر حقیقت میں وہ مومن نہیں اور جب امت محمدیہ گمراہ ہو سکتی ہے تو اس کی اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور بھی آسکتا ہے.یہ بات جو میں نے اس کے سامنے کبھی یونہی مشغلہ کے طور پر نہیں کہہ دی تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن سارے کا سارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت ہے.جس طرح تو رات کا جتنا سچا حصہ ہے وہ سارے کا سارا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ثبوت ہے.جس طرح انجیل کا جتنا سچا حصہ ہے وہ سارے کا سارا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ثبوت ہے.اسی طرح قرآن سارے کا سارا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سچائی کا ثبوت ہے قرآن سارے کا سارا حضرت عیسی علیہ السلام کی سچائی کا ثبوت ہے.قرآن سارے کا سارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت ہے.جس طرح قرآن سارے کا سارا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ثبوت ہے.اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ کان خلقه القرآن یعنی قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی فرق نہیں بلکہ قرآن کی ہر آیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت کرتی ہے.پس جماعت میں بیداری پیدا کرو انہیں دینی اور مذہبی مسائل سکھاؤ.انہیں دوسروں کے خیالات کو پڑھنے دو اور اگر وہ خود نہیں پڑھتے تو خود

Page 53

۴۸ انہیں پڑھ کر سناؤ اور پھر ان کے ہر اعتراض کا انہیں جواب بتاؤ.مگر بالعموم ایک غلطی یہ کی جاتی ہے کہ اپنے جواب کو تو مضبوط رنگ میں بیان کیا جاتا ہے اور دوسروں کے اعتراض کو بودا کر کے پیش کیا جاتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب لوگ اصل اعتراض کو دیکھتے ہیں تو خیال کر لیتے ہیں کہ ہمارے لوگ بھی جھوٹ بولتے ہیں.یہ طریق بالکل غلط ہے تمہیں چاہئے کہ مخالف کی دلیل کو پوری مضبوطی سے بیان کرو اور اس کا کوئی پہلو بھی ترک نہ کروتا اپنے اور بیگانے یہ نہ کہہ سکیں کہ اعتراض کے ایک حصہ کو تو لے لیا گیا اور دوسرے حصوں کو چھوڑ دیا گیا ہے.میں ایک دفعہ لاہور گیا اور وہاں مذہب کی ضرورت پر میں نے ایک تقریر کی.ابتدائی تقریر میں میں نے بیان کیا کہ مذہب پر آج کل کیا کیا حملے کئے جارہے ہیں اور کون کون سے اعتراضات کئے جاتے ہیں جن کی رُو سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ دنیا کو مذہب کی ضرورت نہیں.اس کے بعد میں نے ان تمام اعتراضات کے جواب دیئے.اسی دن شام کو یا دوسرے دن ایک ایم.اے کا غیر احمدی سٹوڈنٹ مجھے ملنے کے لئے آیا اور کہنے لگا.میں نے کل آپ کی تقریر سنی ہے.آپ نے جو اعتراضات بیان کئے تھے وہ تو اتنے زبر دست تھے کہ میں نے سمجھا کہ جتنے اعتراض مذہب پر کئے جاتے ہیں وہ سب کے سب بیان کر دیے گئے ہیں.مگر آپ کے بعض جوابات سے میری پوری تشفی نہیں ہوئی.میں نے اسے کہا کہ اپنی تشفی کو سردست رہنے دو مگر یہ بتاؤ کہ کوئی اعتراض میں نے چھپایا تو نہیں.کہنے لگا.ہم نے جس قدر اعتراضات مذہب کے متعلق سنے ہوئے تھے وہ سب کے سب آپ نے بیان کر دئے ہیں.میں نے کہا تو خیر جواب کسی اور وقت سمجھ آجائیں گے.تو مخالف کے دلائل کو پورے طور پر کھول کر بیان کرنا ضروری ہوتا ہے.مثلا کفارے کا مسئلہ ہے اسے جس رنگ میں ہمارے علماء کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے وہ بالکل غلط ہے.آج کل عیسائی کفارہ کو اس طریق پر پیش نہیں کرتے بلکہ انہوں نے آہستہ آہستہ اسے ایک فلسفیانہ مضمون بنایا ہے.اسی طرح تناسخ کا مسئلہ بیان کرتے وقت عام طور پرسنی سنائی باتیں بیان کر دی جاتی ہیں حالانکہ جس رنگ میں آج کل تناسخ کا مسئلہ پیش کیا جاتا ہے وہ بالکل اور ہے.اسی طرح شرک کے مسئلہ کو فلسفیانہ رنگ دے دیا گیا ہے مثلا فلسفی دماغ والے بت پرست آج کل یہ نہیں کہتے کہ ہم بتوں کو سجدہ کرتے ہیں.بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف اپنی توجہ قائم رکھنے کے لئے بت کی طرف اپنا مونہ کرتے ہیں.اسی طرح وہ کہتے ہیں یہ بت خدا کی بعض صفات کے قائمقام ہیں.اب اگر شرک کے مسئلہ کو صرف اس رنگ میں بیان کر دیا جائے کہ بعض لوگ خدا کی بجائے بتوں کی پرستش کرتے ہیں تو اس سے بت پرستوں کی پوری تسلی نہیں ہوسکتی.پس مخالفین کے اعتراضات کو

Page 54

۴۹ کھول کھول کر بیان کرنا چاہئے اور ان کے اعتراض کی کسی شق کو چھپانا نہیں چاہئے.اس غرض کے لئے میں نے اعلان کیا ہے کہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو ہر سال ایک ہفتہ ایسا منانا چاہیئے جس میں خدا تعالیٰ کی ہستی ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ، خلافت اور دیگر مسائل اسلامی کے متعلق احمدیت کے عقائد کو دلائل کے ساتھ بیان کیا جائے اور پھر بتایا جائے کہ ان اعتقادات پر مخالفین کی طرف سے یہ یہ اعتراضات کئے جاتے ہیں اور ان اعتراضات کے یہ یہ جوابات ہیں.اس کے بعد لوگوں کا زبانی امتحان لیا جائے اور یہ معلوم کیا جائے کہ انہوں نے ان باتوں کو کہاں تک یا درکھا ہے.چونکہ صرف ایک ہفتہ میں ان تمام مسائل کے متعلق جماعت کے دوستوں کو پوری واقفیت حاصل نہیں ہو سکتی اس لئے ہر سال یہ طریق جاری رہنا چاہئے اور کبھی کوئی مسائل بیان کر دیے جائیں اور کبھی کوئی اور.یہاں تک کہ ہماری جماعت کا ہر فردا تنا ہوشیار ہو جائے کہ اگر اسے کسی وقت مخالفین کی لائبریری میں بھی بٹھا دیا جائے تب بھی وہ وہاں سے فاتح ہوکر نکلے.مفتوح اور مغلوب ہوکر نہ نکلے.( خطبه جمعه فرموده یکم نومبر ۱۹۴۰ء.بحوالہ الفضل ۱۷ اگست ۱۹۶۰ء)

Page 55

انصار اللہ.خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کے قیام کے چھا ہم مقاصد ایمان بالغیب.اقامت صلوۃ.خدمت خلق.ایمان بالقرآن.بزرگان دین کا احترام اور یقین بالاخرة (اقتباس از تقریر جلسه سالانه فرمودہ 27 دسمبر 1941) اب میں احباب کو مجلس انصار اللہ اور مجلس خدام الاحمدیہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.جماعت کے احباب یا چالیس سال سے کم عمر کے ہیں، یا چالیس سال سے زیادہ.چالیس سال سے کم عمر والوں کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ اور زیادہ عمر والوں کے لئے مجلس انصاراللہ قائم کی ہے.یا پھر عورتیں ہیں ، ان کے لئے لجنہ اماءاللہ قائم ہے.میری غرض ان تحریکات سے یہ ہے کہ جو قوم بھی اصلاح وارشاد کے کام میں پڑتی ہے، اس کے اندر ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے کہ اور لوگ ان کے ساتھ شامل ہوں اور یہ خواہش کہ اور لوگ جماعت میں شامل ہو جائیں ، جہاں جماعت کو عزت اور طاقت بخشتی ہے، وہاں بعض اوقات جماعت میں ایسا رخنہ پیدا کرنے کا موجب بھی ہو جایا کرتی ہے جو تباہی کا باعث ہوتا ہے.جماعت اگر کر وڑ دو کروڑ بھی ہو جائے اور اس میں دس لاکھ منافق ہوں، تو بھی اس میں اتنی طاقت نہیں ہو سکتی جتنی کہ اگر دس ہزار مخلص ہوں تو ہوسکتی ہے.یہی وجہ ہے کہ چند صحابہ نے جو کام کئے وہ آج چالیس کروڑ مسلمان بھی نہیں کر سکتے.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی مردم شماری کرائی ، تو ان کی تعداد سات سو تھی.صحابہؓ نے خیال کیا کہ شاید آپ نے اس واسطے مردم شماری کرائی ہے کہ آپ کو خیال ہے کہ دشمن ہمیں تباہ نہ کر دے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں کیا اب بھی یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ کوئی ہمیں تباہ کر سکے گا.یہ کیا شاندار ایمان تھا کہ وہ سات سو ہوتے ہوئے یہ خیال تک بھی نہیں کر سکتے تھے کہ دشمن انہیں تباہ کر سکے گا.مگر آج صرف ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان ہیں مگر حالت یہ ہے کہ جس سے بھی

Page 56

۵۱ بات کرو، اندر سے کھوکھلا معلوم ہوتا ہے اور سب ڈر رہے ہیں کہ معلوم نہیں کیا ہو جائے گا.کجا تو سات سو میں اتنی جرات تھی اور کجا آج سات کروڑ بلکہ دنیا میں چالیس کروڑ مسلمان ہیں مگر سب ڈر رہے ہیں اور یہ ایمان کی کمی کی وجہ سے ہے.جس کے اندر ایمان ہوتا ہے، وہ کسی سے ڈر نہیں سکتا.ایمان کی طاقت بہت بڑی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واقعہ ہے.ایک دفعہ آپ گورداسپور میں تھے.میں وہاں تو تھا مگر اس مجلس میں نہ تھا جس میں یہ واقعہ ہوا.مجھے ایک دوست نے جو اس مجلس میں تھے بتایا کہ خواجہ کمال الدین صاحب اور بعض دوسرے احمدی بہت گھبرائے ہوئے آئے اور کہا کہ فلاں مجسٹریٹ جس کے پاس مقدمہ ہے لاہور گیا تھا.آریوں نے اس پر بہت زور دیا کہ مرزا صاحب ہمارے مذہب کے سخت مخالف ہیں.ان کو ضرور سزا دے دو.خواہ ایک ہی دن کی کیوں نہ ہو.یہ تمہاری قومی خدمت ہوگی اور وہ ان سے وعدہ کر کے آیا ہے کہ میں ضرور سزا دوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات سنی تو آپ لیٹے ہوئے تھے یہ سن کر آپ کہنی کے بل ایک پہلو پر ہو گئے اور فرمایا خواجہ صاحب آپ کیسی باتیں کرتے ہیں.کیا کوئی خدا تعالیٰ کے شیر پر بھی ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس مجسٹریٹ کو یہ سزا دی کہ پہلے تو اس کا گورداسپور سے تبادلہ ہو گیا اور پھر اس کا تنزل ہو گیا یعنی وہ ای.اے سی سے منصف بنادیا گیا اور فیصلہ دوسرے مجسٹریٹ نے آکر کیا.تو ایمان کی طاقت بڑی زبردست ہوتی ہے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.پس جماعت میں نئے لوگوں کے شامل ہونے کا اس صورت میں فائدہ ہوسکتا ہے کہ شامل ہونے والوں کے اندر ایمان اور اخلاص ہو.صرف تعداد میں اضافہ کوئی خوشی کی بات نہیں.اگر کسی کے گھر میں دس سیر دودھ ہو تو اس میں دس سیر پانی ملا کر وہ خوش نہیں ہو سکتا کہ اب اس کا دودھ نہیں سیر ہو گیا ہے.خوشی کی بات یہی ہے کہ دودھ ہی بڑھایا جائے اور دودھ بڑھانے میں ہی فائدہ ہوسکتا ہے.جو قو میں تبلیغ میں زیادہ کوشش کرتی ہیں ان کی تربیت کا پہلو کمزور ہو جایا کرتا ہے اور ان مجالس کا قیام میں نے تربیت کی غرض سے کیا ہے.چالیس سال سے کم عمر والوں کے لئے خدام الاحمدیہ اور چالیس سال سے اوپر عمر والوں کے لئے انصار اللہ اور عورتوں کے لئے لجنہ اماء اللہ ہے.ان مجالس پر دراصل تربیتی ذمہ داری ہے.یا درکھو کہ اسلام کی بنیاد تقویٰ پر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک شعر لکھ رہے تھے.ایک مصرعہ آپ نے لکھا کہ

Page 57

۵۲ ہر ایک نیکی کی جڑ اسی وقت آپ کو دوسرا مصرعہ الہام ہوا جو یہ ہے کہ اگر اتقاء ہے جڑ رہی سب کچھ رہا ہے اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اگر جماعت تقویٰ پر قائم ہو جائے تو پھر وہ خود ہر چیز کی حفاظت کرے گا.نہ وہ دشمن سے ذلیل ہوگی ، اور نہ اسے کوئی آسمانی یا زمینی بلائیں تباہ کر سکیں گی.اگر کوئی قوم تقویٰ پر قائم ہو جائے تو کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی.قرآن کریم کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا الم ذَالِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدىً لِلْمُتَّقِين - ( سورة البقره آیت ۲-۳) لا رَيْبَ فِيهِ تو قرآن کریم کی ذاتی خوبی بتائی اور دوسرں سے تعلق رکھنے والی خوبی یہ بتائی کہ شدی لِلْمُتَّقِينَ.یعنی یہ کلام متقی پر اثر کرتا ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص تو روٹی کھاتا اور اس سے طاقت حاصل کر کے کھڑا ہوتا ہے اور دوسرے کو دو آدمی پکڑ کر کھڑا کرتے ہیں.غیر متقی کو جو ہدایت ہوتی ہے وہ تو ایسی ہوتی ہے، جیسے دو آدمی کسی کو کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کر دیں.مگر جو تقی ہے وہ اس سے غذا لیتا اور طاقت حاصل کرتا ہے.ہم اگر ترقی کر سکتے ہیں تو قرآن کریم کی مدد سے ہی اور قرآن کریم کہتا ہے کہ اس کی غذا متقی کے لئے ہی طاقت اور قوت کا موجب ہوسکتی ہے.اگر کسی شخص کے معدہ میں کوئی خرابی ہوتو اسے گھی، دودھ ، مرغ ، بادام، پھل اور کتنی اعلیٰ غذا ئیں کیوں نہ کھلائی جائیں اسے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا بلکہ الٹا اسے ہیضہ ہو جائے گا.غذا اسی صورت میں فائدہ دے سکتی ہے، جب وہ ہضم ہو.اگر ہضم نہ ہوتو الٹا نقصان کرتی ہے اور قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ غذا ایسی ہے جو مومن کے معدہ میں ہی ٹھہر سکتی ہے.پس اگر یہ سچ ہے کہ ہم نے قرآن کریم سے فائدہ اٹھانا ہے اور اس سے فائدہ اٹھائے بغیر ہم کوئی ترقی نہیں کر سکتے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے کہ كُلَّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ ( تذکرہ صفحہ 35 جدید ایڈیشن) یعنی تمام برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہے.پس بڑا ہی مبارک ہے وہ جس نے سکھایا اور بڑا ہی مبارک ہے وہ جس نے سیکھا.اس میں محمد سے مراد در اصل قرآن کریم ہی ہے.کیونکہ آپ ہی قرآن کریم کے الفاظ لائے ہیں.پس

Page 58

۵۳ جماعت کا تقویٰ پر قائم ہونا بے حد ضروری ہے.اس زمانہ میں مومن اگر ترقی کر سکتے ہیں تو قرآن کریم پر چل کر ہی اور اگر یہ غذا ہضم نہ ہو سکے تو پھر کیا فائدہ اور اگر اسے ہضم کرنا چاہتے ہو تو متقی بنو.ابتدائی تقویٰ جس سے قرآن کریم کی غذا ہضم ہوسکتی ہے وہ کیا ہے وہ ایمان کی درستی ہے.تقویٰ کے لئے پہلی ضروری چیز ایمان کی درستی ہی ہے.قرآن کریم نے مومن کی علامت یہ بتائی ہے که يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ.ہر شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ میں متقی کیسے بنوں.پس اس کی پہلی علامت ایمان بالغیب ہے.یعنی اللہ تعالیٰ ملائکہ، قیامت اور رسولوں پر ایمان لانا.پھر اس ایمان کے نیک نتائج پر ایمان لانا بھی ایمان بالغیب ہی ہے.اللہ تعالے ملائکہ، قیامت اور رسالت نظر نہیں آتی.اس لئے اس کے دلائل قرآن کریم نے مہیا کئے ہیں اور وہ دلائل ایسے ہیں کہ انسان کے لئے ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا مگر کئی لوگ ہیں جو غور نہیں کرتے.آج کل ایمان بالغیب پر لوگ تمسخر اڑاتے ہیں.جو لوگ خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں بعض لوگ ان کا تمسخر اڑاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تم تعلیم یافتہ ہو کر خدا کو مانتے ہو.پھر قیامت اور مرنے کے بعد اعمال کی جزا سزا پر بھی لوگ تمسخر اڑاتے ہیں.ملائکہ بھی اللہ تعالیٰ کا پیغام اور دین لانے والے ہیں اور یہ سب ابتدائی صداقتیں ہیں مگر لوگ ان سب باتوں کا تمسخر اڑاتے ہیں.یہ سارا ایک ہی سلسلہ ہے اور جس نے اس کی ایک کڑی کو بھی چھوڑ دیا.وہ ایمان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.نیک نتائج پر ایمان لانا بھی ایمان بالغیب میں شامل ہے اور یہی تو کل کا مقام ہے.ایک شخص اگر دس سیر آٹا کسی غریب کو دیتا ہے اور یہ امید رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا اجر اسے ملے گا.تو وہ گویا غیب پر ایمان لاتا ہے.وہ کسی حاضر نتیجہ کے لئے یہ کام نہیں کرتا بلکہ غیب پر ایمان لانے کی وجہ سے ہی ایسا کر سکتا ہے بلکہ جو شخص خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں رکھتا.وہ بھی اگر ایسی کوئی نیکی کرتا ہے.تو غیب پر ایمان کی وجہ سے ہی کر سکتا ہے.فرض کرو کوئی شخص قومی نقطہ نگاہ سے کسی غریب کی مدد کرتا ہے.تو بھی یہی سمجھ کر کرتا ہے کہ اگر کسی وقت مجھ پر یا میرے خاندان پر زوال آیا.تو اسی طرح دوسرے لوگ میری یا میرے خاندان کی مدد کریں گے.تو تمام ترقیات غیب پر مبنی ہیں کیونکہ بڑے کاموں کے نتائج فور انہیں نکلتے اور ایسے کام جن

Page 59

۵۴ کے نتائج نظر نہ آئیں ، حوصلہ والے ہی لوگ کرتے ہیں.قربانی کا مادہ بھی ایمان بالغیب ہی انسان کے اندر پیدا کر سکتا ہے.گویا قرآن کریم نے ابتداء میں ہی ایک بڑی بات اپنے ماننے والوں میں پیدا کر دی.چنانچہ وہ صحابہ جو بدر اور احد کی لڑائیوں میں لڑے، کیا وہ کسی ایسے نتیجہ کے لئے لڑے تھے جو سامنے نظر آرہا تھا ؟ نہیں بلکہ ان کے دلوں میں ایمان بالغیب تھا.بدر کی لڑائی کے موقعہ پر ملکہ کے بعض امراء نے صلح کی کوشش کی مگر بعض ایسے لوگوں نے جنہیں نقصان پہنچا ہوا تھا.شور مچایا دیا کہ ہرگز صلح نہیں ہونی چاہئے.آخر ایک شخص نے کہا کہ کسی آدمی کو بھیجا جائے جو مسلمانوں کی طاقت کا اندازہ کر کے آئے.چنانچہ ایک آدمی بھیجا گیا اور اس نے آکر کہا کہ اے میری قوم میرا مشورہ یہی ہے کہ ان لوگوں سے لڑائی نہ کرو.انہوں نے کہا کہ تم بتاؤ تو سہی کہ ان کی تعداد کتنی ہے، اور سامان وغیرہ کیسا ہے.اس نے کہا کہ میرا اندازہ ہے کہ مسلمانوں کی تعدادہ ۳۱ اور ۳۳۰ کے درمیان ہے اور کوئی خاص سامان بھی نہیں.لوگوں نے پوچھا کہ پھر جب یہ حالت ہے تو تم یہ مشورہ کیوں دیتے ہو کہ ان سے لڑائی نہ کی جائے.جب ان کی تعداد بھی ہم سے بہت کم ہے اور سامان بھی ان کے پاس بہت کم ہے.اس نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار دیکھیں ہیں.میں نے جو چہرہ بھی دیکھا، میں نے معلوم کیا کہ وہ تہیہ کئے ہوئے ہے کہ وہ خود بھی مرجائے گا اور تم کو بھی مار دیگا.چنانچہ اس کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ ابو جہل میدان میں کھڑا تھا اور عکرمہ اور خالد بن ولید جیسے بہادر نوجواں اس کے گرد پہرہ دے رہے تھے.کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں میں نے اپنے دائیں اور بائیں دیکھا تو دونوں طرف پندرہ پندرہ سال کے بچے کھڑے تھے.میں نے خیال کیا کہ میں آج کیا جنگ کر سکوں گا.جب کہ میرے دونوں طرف چھوٹے چھوٹے بچے ہیں.لیکن ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک لڑکے نے آہستہ سے مجھے کہنی ماری اور پوچھا چا، وہ ابو جہل کون ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ دیا کرتا ہے.میں نے خدا سے عہد کیا ہے کہ آج اسے ماروں گا.ابھی وہ یہ کہہ ہی رہا تھا کہ دوسرے لڑکے نے بھی اسی طرح آہستہ سے کہنی ماری اور مجھ سے یہی سوال کیا.میں اس بات سے حیران تو ہوا مگر انگلی کے اشارہ سے بتایا کہ ابو جہل وہ ہے جو خود پہنے کھڑا ہے اور ابھی میں نے انگلی کا اشارہ کر کے ہاتھ نیچے ہی کیا تھا کہ وہ دونوں بچے اس طرح پر جا گرے جس طرح چیل اپنے شکار پر جھپٹتی ہے، اور تلوار میں سونت کرایسی بے جگری سے اس پر حملہ آور ہوئے کہ اس کے محافظ سپا ہی ابھی تلوار میں سنبھال بھی نہ سکے تھے کہ انہوں نے ابو جہل کو نیچے گرادیا.ان میں سے ایک کا بازو کٹ گیا مگر قبل اس کے با قاعدہ جنگ شروع ہو، ابوجہل

Page 60

۵۵ مہلک طور پر زخمی ہو چکا تھا.یہ کیا چیز تھی جس نے ان لوگوں میں اتنی جرات پیدا کر دی تھی.یہ ایمان بالغیب ہی تھا.جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ہر وقت قربانیوں کی آگ میں جھونکنے کے لئے تیار رہتے تھے اور یہ ایمان بالغیب ہی تھا کہ جس کی وجہ سے ان کے دلوں میں یہ یقین پیدا ہو چکا تھا کہ دنیا کی نجات اسلام میں ہی ہے اور خواہ کچھ ہو ہم اسلام کو دنیا میں غالب کر کے رہیں گے.پس مجلس انصاراللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کا کام یہ ہے کہ جماعت میں تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لئے پہلی ضروری چیز ایمان بالغیب ہے.انہیں اللہ تعالیٰ، ملائکہ، قیامت رسولوں اور ان شاندار عظیم الشان نتائج پر جو آئندہ نکلنے والے ہیں، ایمان پیدا کرنا چاہئے.انسان کے اندر بزدلی اور نفاق وغیرہ اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب دل میں ایمان بالغیب نہ ہو.اس صورت میں انسان سمجھتا ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے یہ بھی اگر چلا گیا تو پھر کچھ نہ رہے گا اور اس لئے وہ قربانی کرنے سے ڈرتا ہے.يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ کے ایک معنے امن دینا بھی ہے.یعنی جب قوم کا کوئی فرد باہر جاتا ہے تو اس کے دل میں یہ اطمینان ہونا ضروری ہے کہ اس کے بھائی اس کے بیوی بچوں کو امن دیں گے.کوئی قوم جہاد نہیں کر سکتی ، جب تک اسے یہ یقین نہ ہو کہ اس کے پیچھے رہنے والے بھائی دیانت دار ہیں.پس ان تینوں مجلسوں کا ایک یہ بھی کام ہے کہ جماعت کے اندر ایسی امن کی روح پیدا کریں.ان تینوں مجالس کو کوشش کرنی چاہئے کہ ایمان بالغیب ایک میخ کی طرح ہر احمدی کے دل میں اس طرح گڑ جائے کہ اس کا ہر خیال، ہر قول اور ہر عمل اس کے تابع ہو اور یہ ایمان قرآن کریم کے علم کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا.جولوگ فلسفیوں کی جھوٹی اور پُر فریب باتوں سے متاثر ہوں اور قرآن کریم کا علم حاصل کرنے سے غافل رہیں، وہ ہرگز کوئی کام نہیں کر سکتے.پس مجالس انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ کا یہ فرض ہے اور ان کی یہ پالیسی ہونی چاہئے کہ وہ یہ باتیں قوم کے اندر پیدا کریں اور ہر ممکن ذریعہ سے اس کے لئے کوشش کرتے رہیں.لیکچروں کے ذریعہ، اسباق کے ذریعہ، اور بار بار امتحان لیکر ان باتوں کو دلوں میں راسخ کیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو بار بار پڑھایا جائے ، یہاں تک ہر مرد عورت اور ہر چھوٹے بڑے کے دل میں ایمان بالغیب پیدا ہو جائے.دوسری ضروری چیز

Page 61

۵۶ نماز پوری شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے.قرآن کریم نے يُؤَدُّونَ الصَّلوةَ کہیں نہیں فرمایا یا تصلون نہیں کہا.بلکہ جب بھی نماز کا حکم دیا ہے يُقِيمُونَ الصَّلوةَ فرمایا ہے اور اقامت کے معنے باجماعت نماز ادا کرنے کے ہیں اور پھر اخلاص کے ساتھ نماز ادا کرنا بھی اس میں شامل ہے.گویا صرف نماز کا ادا کرنا کافی نہیں، بلکہ نماز باجماعت ادا کرنا ضروری ہے.اور اس طرح ادا کرنا ضروری ہے کہ اس کے اندر کوئی نقص نہ رہے.اسلام میں نماز پڑھنے کا حکم نہیں بلکہ قائم کرنے کا حکم ہے.اس لئے ہر احمدی کا فرض ہے کہ نماز پڑھنے پر خوش نہ ہو بلکہ نماز قائم کرنے پر خوش ہو.پھر خود ہی نماز قائم کر لیتا کافی نہیں بلکہ دوسروں کو اس پر قائم کرنا چاہئے.اپنے بیوی بچوں کو بھی اقامت نماز کا عادی بنانا چاہیے.بعض لوگ خود تو نماز کے پابند ہوتے ہیں مگر بیوی بچوں کے متعلق کوئی پرواہ نہیں کرتے.حالانکہ اگر دل میں اخلاص ہو تو یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی بچے کا یا بیوی کا یا بہن بھائی کا نماز چھوڑنا انسان گوارا کر سکے.ہماری جماعت میں ایک مخلص دوست تھے جواب فوت ہو چکے ہیں.ان کے لڑکے نے مجھے لکھا کہ میرے والد میرے نام الفضل جاری نہیں کراتے.میں نے انہیں لکھا کہ آپ کیوں اس کے نام الفضل جاری نہیں کراتے.تو انہوں نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ مذہب کے معاملہ میں اسے آزادی حاصل ہو اور وہ آزادانہ طور پر اس پر غور کر سکے.میں نے انہیں لکھا کہ الفضل پڑھنے سے تو آپ سمجھتے ہیں اس پر اثر پڑے گا اور مذہبی آزادی نہ رہے گی لیکن کیا اس کا بھی آپ نے کوئی انتظام کر لیا ہے کہ اس کے پروفیسر اس پر اثر نہ ڈالیں.کتابیں جو وہ پڑھتا ہے وہ اثر نہ ڈالیں.دوست اثر نہ ڈالیں اور جب یہ سارے کے سارے اثر ڈال رہے ہیں تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ اسے زہر تو کھانے دیا جائے اور تریاق سے بچایا جائے.تو میں بتا رہا تھا کہ اقامت نماز ضروری ہے اور اس میں خود نماز پڑھنا.دوسروں کو پڑھوانا.اخلاص اور جوش کے ساتھ پڑھنا.باوضو ہو کر ٹھہر ٹھہر کر با جماعت اور پوری شرائط کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے.اس کی طرف ہمارے دوستوں کو خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے.مجھے افسوس ہے کہ کئی لوگوں کے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ خود تو نماز پڑھتے ہیں مگر ان کی اولاد نہیں پڑھتی.اولاد کونماز کا پابند بنانا بھی اشد ضروری ہے اور نہ پڑھنے پر ان کو سزا دینی چاہئے.ایسی صورت میں بچوں کا خرچ بند کرنے کا حق تو نہیں ، ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ میں خرچ تو دیتار ہوں گا مگر تم میرے سامنے نہ آؤ، جب تک نماز کے پابند نہ ہو.ہاں اگر کوئی بچہ کہہ دے کہ میں مسلمان نہیں ہوں تو پھر البتہ حق نہیں کہ

Page 62

۵۷ اس پر زور دیا جائے لیکن اگر وہ احمدی اور مسلمان ہے تو پھر اسے سزا دینی چاہئے اور کہہ دینا چاہئے کہ آج سے تم ہمارے گھر میں نہیں رہ سکتے جب تک کہ نماز کے پابند نہ ہو جاؤ.تیسری چیز وَمِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ (سوره بقره آیت ۴) یعنی اللہ تعالیٰ نے جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کیا جائے.خدا تعالیٰ کی دی ہوئی پہلی چیز جذبات ہیں.بچہ جب ذرا ہوش سنبھالتا ہے تو محبت اور پیار اور غصہ کو محسوس کرتا ہے.خوش ہوتا اور ناراض ہوتا ہے.پھر پیدائش سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ نے انسان کو آنکھیں، ناک، کان اور ہاتھ پاؤں دیئے ہیں.پھر بڑا ہونے پر علم ملتا ہے، طاقت ملتی ہے.ان سب میں سے تھوڑا تھوڑا خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا مطالبہ ہے.علم، روپیہ، عقل، جذبات اور اپنی طاقتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے.یہ مطالبہ ایسا وسیع ہے کہ اس کی تفصیل کے لئے کئی گھنٹے درکار ہیں اور اس پر ہزار صفحہ کی کتاب لکھی جاسکتی ہے.مگر کتنے لوگ ہیں جو اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں.بہت سے ہیں جو تھوڑا بہت صدقہ دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ اس مطالبہ کو پورا کر دیا.حالانکہ یہ بہت وسیع ہے.جہاد کا حکم بھی اس کا ایک جزو ہے.بعض امراء صدقہ دے دیتے ہیں.کچھ پیسے خرچ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس حکم کی تعمیل کر دی.حالانکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی بہت سی چیزوں میں سے ایک کو خرچ کر دیا.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب کچھ جو تمہیں دیا گیا ہے ان سب میں سے کچھ کچھ خرچ کرو.ہماری تائی صاحبہ تھیں اسی پچاسی سال کی عمر میں سارا سال روٹی کو کٹوانا.پھر اٹیاں بنانا.پھر جلا ہوں کو دیکر اس کا کپڑا بنوانا اور پھر رضائیاں اور تو شکیں بنوا کر غریبوں میں تقسیم کرنا ان کا دستور تھا اور ان میں سے بہت سا کام وہ اپنے ہاتھ سے کرتیں.جب کہا جاتا کہ دوسروں سے کرالیا کریں تو کہتیں اس طرح مزا نہیں آتا.تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہر چیز کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے.مگر کتنے لوگ ہیں جو ایسا کرتے ہیں.بعض لوگ چند پیسے کسی غریب کو دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ اس پر عمل ہو گیا.حالانکہ یہ درست نہیں جو شخص پیسے تو خرچ کرتا ہے مگر اصلاح وارشاد کے کام میں حصہ نہیں لیتا، وہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اس حکم پر عمل کیا ہے یا جو یہ کام بھی کرتا ہے مگر ہاتھ پاؤں اور اپنی طاقت کو خرچ نہیں کرتا اور بیواؤں اور یتیموں کی خدمت نہیں کرتا.وہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اس پر عمل کیا ہے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ساری قوتوں کو صرف کرنے کا حکم ہے.جذبات کو بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں صرف کرنا ضروری ہے مثلاً غصہ چڑھا تو معاف کر دیا.اسی کے ماتحت ہاتھ سے کام کرنا اور محنت کرنا بھی ہے اور میں خدام الاحمدیہ کو خصوصیت

Page 63

۵۸ سے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خدمت خلق کی روح نوجوانوں میں پیدا کریں.شادیوں، بیا ہوں اور دیگر تقریبات میں کام کرو، خواہ وہ کسی مذہب کے لوگوں کی ہوں.اس کے بعد فرمایا وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ (سورۃ البقرۃ آیت ۵) اس میں ایمان بالقرآن کا حکم ہے.مگر اس کو صرف ماننا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ہر حکم کو اپنے اوپر حاکم بنانا ضروری ہے.اس سلسلہ میں ، میں نے احباب کو یہ نصیحت کی تھی کہ قرآن کریم نے عورتوں کو حصہ دینے کا جو حکم دیا ہے اس پر عمل کریں اور چند سال ہوئے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر میں نے احباب سے کہا تھا کہ کھڑے ہو کر اس کا اقرار کریں اور اکثر نے کیا بھی تھا.مگر میرے پاس شکائتیں پہنچتی رہتی ہیں کہ بعض احمدی نہ صرف یہ کہ خود حصہ نہیں دیتے بلکہ دوسروں سے لڑتے ہیں کہ تم بھی کیوں دیتے ہو.مسلمانوں نے جب عورتوں سے یہ سلوک شروع کیا تو خدا تعالیٰ نے ان کو عورتیں بنا دیا.انہیں ماتحت کر دیا اور دوسروں کو ان پر حاکم کر دیا.انہوں نے عورتوں کو ان کے حق سے محروم کیا تو خدا تعالیٰ نے ان سے حکومت چھین کر انگریزوں کو دے دی.انہوں نے عورتوں کو نیچے گرایا اور خدا تعالیٰ نے ان کو گرا دیا.لیکن اگر تم آج عورتوں کو ان کے حقوق دینے لگ جاؤ اور مظلوموں کے حق قائم کرو تو خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اتریں گے اور تمہیں اٹھا کر اوپر لے جائیں گے.پس عورتوں کے حقوق ان کو ادا کرو اور ان کے حصے ان کو دو.مگر اس طرح نہیں جس طرح ایک واقعہ میں نے پہلے بھی کئی بار سنایا ہے.ایک احمدی تھے ان کی دو بیویاں تھیں.قادیان سے ایک دوست ان کے پاس گئے تو ان کو معلوم ہوا کہ وہ اپنی بیویوں کو مارتے ہیں.انہوں نے نصیحت کی کہ یہ ٹھیک نہیں.اس نے کہا کہ میں نے تو اپنا یہ اصول بنا رکھا ہے کہ جب ایک غلطی کرے، تو اسے تو اس کی غلطی کیوجہ سے مارتا ہوں اور دوسری کو ساتھ اس لئے مارتا ہوں کہ وہ اس پر ہنسے نہیں.جو دوست قادیان سے گئے تھے انہوں نے بہت سمجھایا کہ یہ اسلام کی تعلیم کے خلاف بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسے سخت نا پسند فرماتے ہیں.اس نے سن کر کہا اچھا پھر تو بہت بڑی غلطی ہوئی اب کیا کروں.کیا معافی مانگوں ؟ انہوں نے کہا ہاں معافی مانگ لو.وہ گھر پہنچے اور بیویوں کو بلا کر کہا کہ مجھ سے تو بڑی غلطی ہوتی رہی ہے جو میں تم کو مارتا رہا.مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ تو گناہ ہے اور حضرت صاحب اس پر بہت ناراض ہوتے ہیں.اس لئے مجھے معافی دے دو.وہ دل میں خوش ہوئیں کہ آج ہمارے حقوق قائم ہونے لگے ہیں.بگڑ کر کہنے لگیں کہ تم مارا ہی کیوں کرتے ہو.اس نے کہا کہ بس غلطی ہو گئی اب معاف کر دو.وہ کہنے لگیں کہ نہیں ہم تو معاف نہیں کریں گی.اس پر اس نے کہا کہ سیدھی

Page 64

۵۹ طرح معافی دیتی ہو یا ملا ہواں چھل، یعنی کھال ادھیڑوں.وہ سمجھ گئیں کہ بس اب یہ بگڑ گئے ہیں.جھٹ سے کہنے لگیں کہ نہیں ہم تو یونہی کہ رہی تھیں.آپ کی مار تو ہمارے لئے پھولوں کی طرح ہے.ہندوستان میں عورتوں کو جانوروں سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے.کتے کو اس طرح نہیں مارا جاتا ، بیلوں اور جانوروں کو بھی اس طرح نہیں مارا جاتا ، جس طرح عورتوں کو مارا جاتا ہے اور عورتوں کے ساتھ ان کے اس سلوک کا یہ نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عورتوں کی پوزیشن دے دی ہے.جب عورت کی عزت نہ کی جائے تو اولاد کے دل میں بھی خساست پیدا ہوتی ہے.باپ خواہ سید ہو.لیکن اگر اس کی ماں کی عزت نہ ہو تو وہ اپنے آپ کو انسان کا بچہ نہیں بلکہ ایک انسان اور حیوان کا بچہ سمجھتا ہے اور اس طرح وہ بزدل بھی ہو جاتا ہے.پس عورتوں کی عزت قائم کرو.اس کا نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ تمہارے بچے اگر گیدڑ ہیں تو وہ شیر ہو جائیں گے.يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ کے بعد ایمان وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ (سورة البقرة آیت ۵) کا حکم ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ دوسروں کے بزرگوں کا جائز ادب اور احترام کرو.گویا اس میں صلح کی تعلیم دی گئی ہے پھر اس میں یہ بھی تعلیم ہے کہ تبلیغ میں نرمی اور سچائی کا طریق اختیار کرو.آخری چیز یقین بالاخرت ہے اس کے معنے دو ہیں.ایک تو مرنے کے بعد زندگی کا یقین ہے.بعض دفعہ انسان کو قربانیاں کرنی پڑتی ہیں مگر ایمان بالغیب کی طرف اس کا ذہن نہیں جاتا.اس وقت اس بات سے ہی اس کی ہمت بندھتی ہے کہ میری اس قربانی کا نتیجہ اگلے جہان میں نکلے گا.پھر اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ انسان ایمان رکھے کہ خدا تعالیٰ مجھے پر بھی اسی طرح کلام نازل کر سکتا ہے جس طرح اس نے پہلوں پر کیا.اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت پیدا نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ سے محبت وہی کر سکتا ہے جو یہ سمجھے کہ خدا تعالیٰ میری محبت کا صلہ مجھے ضرور دے سکتا ہے.جس کے دل میں یہ ایمان نہ ہو وہ خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا.یہ چھ کام ہیں جو انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کے ذمہ ہیں.ان کو چاہئے کہ پوری کوشش کر کے جماعت کے اندران امور کو رائج کریں تا کہ ان کا ایمان صرف رسمی ایمان نہ رہے.بلکہ حقیقی ایمان ہو جو انہیں اللہ تعالیٰ کا مقرب بنادے اور وہ غرض پوری ہو جس کے لئے میں نے اس تنظیم کی بنیا درکھی ہے.اقتباس از تقریر جلسہ سالانہ ۲۷.دسمبر ۱۹۴۱ء.بحوالہ الفضل ۲۶ اکتوبر ۱۹۶۰ء ص ۲ تا ۵)

Page 65

نماز با جماعت کے قیام کے سلسلے میں مجلس انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کی ذمہ داری سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں پھوڑے کی وجہ سے نماز کے لئے تو نہیں آسکتا.کیونکہ پیٹ پر پھوڑا ہے اور اس وجہ سے مجھے بیٹھ کر نماز پڑھنی پڑتی ہے.لیکن جمعہ کی وجہ سے میں آج آ گیا ہوں اور مختصر طور پر جماعت قادیان کو خصوصاً اور بیرونی جماعتوں کو عموماً اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ احمدیت ایک مذہب ہے کوئی سوسائٹی یا انجمن نہیں ہے، جو اپنے لئے چند قانون بنا کر باقی امور میں لوگوں کو آزاد چھوڑ دیتی ہے.بلکہ مذہب ہونے کے لحاظ سے اس کی بنیا د انسان اور خدا کے تعلق پر ہے.اگر احمدیت ، اللہ تعالٰی اور اس کے بندوں کے تعلق کو قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو وہ کامیاب ہے.خواہ اس کے ماننے والوں کی تعداد کتنی ہی قلیل کیوں نہ ہو اور اگر خدا اور اس کے بندوں کا تعلق قائم کرنے میں احمدیت کامیاب نہ ہو، تو خواہ ساری دنیا احمدی کیوں نہ ہو جائے احمدیت کامیاب نہیں کہلا سکتی اور اللہ اور اس کے بندے کے تعلق کی پہلی نشانی بندے کے دل میں عبادت کی ترپ کا پیدا ہونا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تڑپ لوگوں کے دلوں میں نہ ہو تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت نہیں اور دوسرے معنے اس کے یہ ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کے دل میں بھی ان کی محبت نہیں ہے.میں نے متواتر جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ نماز ایک ایسی چیز ہے جس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انسان نماز نہ پڑھے، یا اس کو التزام کے ساتھ ادا کرنے میں غفلت سے کام لے تو پھر بھی وہ مسلمان اور احمدی رہ سکتا ہے.بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو چھوڑ دینے کی وجہ سے انسان کمزور کہلاتا ہے.مگر نماز ایسی چیز ہے کہ اس کو چھوڑ دینے کی وجہ سے وہ کچھ بھی نہیں کہلا سکتا.ایک شخص جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے اور پھر نماز نہیں پڑھتا اور نماز نہ پڑھنے کے یہی معنے نہیں کہ وہ کبھی نماز نہیں پڑھتا، بلکہ سال بھر میں اگر وہ ایک نماز بھی چھوڑ دیتا ہے یا دس سال میں وہ ایک نماز کو بھی ترک کر دیتا ہے، تو وہ کسی صورت میں احمدی نہیں کہلا سکتا.اگر اس کو یہ خیال ہو کہ میں نے ہیں

Page 66

۶۱ سال میں صرف ایک نماز چھوڑی ہے، پھر کیا ہو گیا تو وہ ایک وہم میں مبتلا ہے.اگر وہ بیس سال میں ایک نماز بھی چھوڑ دیتا ہے.تو پھر بھی وہ احمدی نہیں کہلا سکتا.بلکہ جس وقت کوئی شخص کسی نماز کو چھوڑتا ہے اسی وقت وہ احمدیت سے خارج ہو جاتا ہے اور جب تک دوبارہ اس کے دل میں ندامت اور اپنے فعل پر افسوس پیدا نہ ہو اور جب تک دوبارہ اس کے دل میں دین کی رغبت پیدا نہ ہو.اس وقت تک وہ خدا تعالیٰ کے حضور احمدی نہیں سمجھا جاتا مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک جماعت نے نماز کی اس اہمیت کو نہیں سمجھا.چنانچہ میرے پاس شکائتیں پہنچتی رہی ہیں کہ بعض لوگ نمازوں میں سُست ہیں اور بعض بالکل ہی نہیں پڑھتے.میں اس نقص کو دیکھتے ہوئے خصوصیت سے قادیان کے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ سے کہتا ہوں کہ نماز کے متعلق ان میں سے ہر شخص اپنے ہمسایہ کی اسی طرح جاسوسی کرے جس طرح پولیس مجرموں کی جاسوسی کا کام کیا کرتی ہے.جب تک رات اور دن ہم میں سے ہر شخص اس طرف متوجہ نہ ہو کہ ہمارا ہر فرد خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، بچہ ہو یا جوان، نما ز با قاعدگی کے ساتھ ادار کرے اور کوئی نماز بھی نہ چھوڑے.اس وقت تک ہم کبھی بھی اپنے اندر جماعتی روحانیت قائم نہیں کر سکتے اور نہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو سکتے ہیں.مثلاً میں نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ نمازوں کے وقت دوکانیں کھلی نہیں ہونی چاہئیں.آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کی دوکان کھلی بھی رہے اور پھر اس کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ وہ نماز با جماعت بھی ادا کرتا ہے.پس میں انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نمازوں کے وقت دوکانداروں کی نگرانی رکھیں اور جس شخص کی دوکان کھلی ہو، اس کی دوکان پرنشان لگادیں اور اسی دن اس کی میرے پاس رپورٹ کریں.اگر نمازوں کے وقت کوئی شخص اپنی دوکان کو کھلا رکھتا ہے تو اس کے سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں ہو سکتے کہ اس کے دل میں نماز کا احترام نہیں.اس وقت بہر حال ایک احمدی کہلانے والے کو اپنی دوکان بند کرنی چاہئے اور نماز با جماعت کے لئے مسجد میں جانا چاہئے.اگر خطرہ ہو کہ دوکانیں بند ہوئیں تو کوئی دشمن نقصان نہ پہنچاوے.تو ایسی صورت میں باری باری پہرے مقرر ہو سکتے ہیں.مگر یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ دوکاندار اپنی دوکانوں پر ہی بیٹھے رہیں اور نماز کے لئے مسجد میں نہ جائیں.پہرہ ایک قومی فرض ہے اور جب کوئی شخص پہرے پر ہوتو وہ اپنے فرض کو ادا کرنے والا سمجھا جاتا ہے.نماز کا تارک نہیں سمجھا جاتا.لیکن بغیر اس کے اگر کوئی شخص مسجد میں نہیں جاتا تو

Page 67

۶۲ وہ نماز کا تارک ہے اور محلوں اور جگہوں کا تو میں کیا شکوہ کروں ،ہمیں تو دیکھتا ہوں مسجد مبارک جو اپنی برکات کے لحاظ سے مکہ اور مدینہ کی مساجد کے بعد تیسرے درجہ پر ہے،اس کے زیر سایہ جو دوکانیں ہیں، ان میں سے بعض بھی نماز کے اوقات میں کھلی رہتی ہیں.پس آج سے میں انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کا فرض مقرر کرتا ہوں کہ قادیان میں اس امر کی نگرانی رکھیں کہ نمازوں کے اوقات میں کوئی دوکان کھلی نہ رہے.میں اس کے بعد ان لوگوں کو مذہبی مجرم سمجھوں گا جو نماز با جماعت ادا نہیں کریں گے اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو قومی مجرم سمجھوں گا کہ انہوں نے نگرانی کا فرض ادا نہیں کیا.ہم پر اس شخص کی کوئی ذمہ داری نہیں ہو سکتی جو بے نماز ہے اور ایسے شخص کا یہی علاج ہے کہ ہم اس کے احمدیت سے خارج ہونے کا اعلان کر دیں گے.مگر جو منتظم ہیں وہ بھی مجرم سمجھے جائیں گے اگر انہوں نے لوگوں کو نماز با جماعت کے لئے آمادہ نہ کیا تو وہ صرف یہ کہہ کر ہی بری الذمہ نہیں ہو سکتے کہ ہم نے لوگوں سے کہہ دیا تھا.اگر لوگ نماز نہ پڑھیں تو ہم کیا کریں.خدا تعالیٰ نے ان کو طاقت دی ہے اور انہیں ایسے سامان عطا کئے ہیں، جن سے کام لے کر وہ اپنی بات لوگوں سے منوا سکتے ہیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ لوگ ان کی بات نہ مانیں.وہ انہیں نماز با جماعت کے لئے مجبور کر سکتے ہیں اور اگر وہ مجبور نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے اخراج از جماعت کی رپورٹ کر سکتے اور مجھے ان کے حالات سے اطلاع دے سکتے ہیں.بہر حال کوئی نہ کوئی طریق ہونا چاہئے جس سے ان لوگوں کا پتہ لگ سکے ، جو بظاہر ہمارے ساتھ ہیں مگر در حقیقت ہمارے ساتھ نہیں.یہ نہیں ہوسکتا کہ ایسے لوگ ہمارے ساتھ لٹکتے چلے جائیں اور اپنی اصلاح بھی نہ کریں.اس کے نتیجہ میں اور لوگوں پر بھی بُرا اثر پڑتا ہے اور وہ بھی نمازوں میں سست ہو جاتے ہیں.میں آج سے خود اپنے طور پر بھی انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے اس کام کی نگرانی کرونگا.اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں بھی اپنے بچوں اور نو جوانوں اور عورتوں اور مردوں کو نماز با جماعت کی پابندی کی عادت ڈالنی چاہئے.اگر اس بات میں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے تو وہ ہرگز خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو نہیں ہو سکتے.چاہے وہ کتنے ہی چندے دیں اور چاہے کتنے ہی ریز ولیوشن پاس کر کے بھجوا دیں.( خطبہ جمعہ فرموده ۵/ جون ۱۹۴۲ء.بحوالہ الفضل ۷.جون ۱۹۴۲ء)

Page 68

۶۳ سلسلہ کی روحانی بقاء ذیلی تنظیموں کے قیام کا ایک مقصد (اقتباس از تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1942ء) اس کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سلسلہ کے روحانی بقاء کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کی تحریکات جاری کی ہوئی ہیں اور یہ تینوں نہایت ضروری ہیں.عورتوں میں کل جو تقریر میں نے کی ہے، اس میں ان کو نصیحت کی ہے کہ وہ بجنات کی ممبر بنانے میں مستعدی سے کام لیں اور آج آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ ان تحریکات کو معمولی نہ سمجھیں.نہ اس زمانہ میں ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ یہ بہت ضروری ہیں.پرانے زمانہ میں اور بات تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں آپ کی ٹرینینگ سے ہزاروں استاد پیدا ہو گئے تھے.جو خود بخود دوسروں کو دین سیکھاتے تھے اور دوسرے شوق سے پیتھے.مگر اب حالات ایسے ہیں کہ جب تک دودو تین تین آدمیوں کی علیحدہ علیحدہ نگرانی کا انتظام نہ کیا جائے کام نہیں ہو سکتا.ہمیں اپنے اندر ایسی خوبیاں پیدا کرنی چاہیں کہ دوسرے ان کا اقرار کرنے پر مجبور ہوں اور پھر تعداد بھی بڑھانی چاہئے.اگر گلاب کا ایک ہی پھول ہو اور وہ دوسرا پیدا نہ کر سکے تو اس کی خوبصورتی سے دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.فتح تو آئندہ زمانہ میں ہونی ہے اور معلوم نہیں کب ہو.لیکن ہمیں کم سے کم اتنا تو اطمینان ہو جانا چاہئے کہ ہم نے اپنے آپ کو ایسی خوبصورتی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ دنیا احمدیت کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتی.احمدیت کو دنیا میں پھیلا دینا ہمارے اختیار کی بات نہیں لیکن ہم اپنی زندگیوں کا نقشہ ایسا خوبصورت بناسکتے ہیں کہ دنیا کے لوگ بظاہر اس کا اقرار کریں یا نہ کریں ،مگر ان کے دل احمدیت کی خوبی کے معترف ہو جائیں اور اس کے لئے جماعت کے سب طبقات کی تنظیم نہایت ضروری ہے.مجھے افسوس

Page 69

۶۴ ہے کہ احباب جماعت نے تا حال انصار اللہ کی تنظیم میں وہ کوشش نہیں کی جو کرنی چاہئے تھی.اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس کا ابھی کوئی دفتر وغیرہ بھی نہیں.مگر دفتر قائم کرنا کس کا کام تھا.بے شک اس کے لئے سرمایہ کی ضرورت تھی مگر سرمایہ مہیا کرنے سے انہیں کس نے روکا تھا.شاید وہ کہیں کہ خدام الاحمدیہ کو تحریک جدید سے مدد دی گئی ہے.مگر ان کی مدد سے ہم نے کب انکار کیا.ان کو بھی چاہئے تھا کہ دفتر بناتے اور چندہ جمع کرتے.اب بھی انہیں چاہئے کہ دفتر بنائیں ،کلرک وغیرہ رکھیں،خط وکتابت کریں، ساری جماعتوں میں تحریک کر کے انصار اللہ کی مجالس قائم کریں اور چالیس سال سے زیادہ عمر کے سب دوستوں کی تنظیم کریں.ملاقات کے وقت عہدیدار آگے بیٹھا کریں.میں ہمیشہ یہ کہتا رہا ہوں کہ ملاقات کے وقت پریذیڈنٹ اور سیکرٹری آگے بیٹھا کریں، اور بتائیں کہ یہ فلاں صاحب ہیں اور یہ فلاں.تا مجھے جماعت کے لوگوں سے واقفیت ہو اور یہ بھی معلوم ہو سکے کہ سیکرٹری اور دوسرے عہد یدار ٹھیک طور پر کام کر رہے ہیں یا نہیں.پہلے اس پر عمل ہوتا رہا ہے اور یہ بھی میں دیکھتا رہا ہوں کہ عہد یداروں کا کام تسلی بخش رہا ہے.مگر اب کچھ عرصہ سے اس میں نقص واقع ہونے لگا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نئی پود کو کام کے لئے تیار نہیں کیا جاسکا.پریذیڈنٹ کا پوچھو تو کہا جاتا ہے کہ وہ بیمار ہے گھر پر ہے.سیکرٹری کہاں ہے، وہ بھی نہیں آیا.حالانکہ چاہئے یہ کہ اگر پریذیڈنٹ بیمار ہے، اور اسے علیحدہ بھی کرنا مناسب نہیں سمجھتے تو بے شک علیحدہ نہ کرو مگر ایک نائب بنادو.سیکرٹری کو بے شک نہ ہٹاؤ مگر ایک نائب سیکرٹری بنا دو.تا اس کی وفات تک دوسرا آدمی تیار ہو سکے اور پرانوں کی جگہ لینے والے نئے آدمی تیار ہوتے رہیں.ور نہ کام کو سخت نقصان پہنچے گا.پرانے آدمیوں کے فوت ہو جانے پر اگر کوئی کام سنبھالنے والے نہ ہوں تو سخت نقصان کی بات ہے.ایک جماعت کے دوست مجھ سے ملنے آئے اور مصافحہ کرنے کے بعد چینیں مار کر رونے لگے کہ ہمارے ہاں پہلے جماعت کے تئیں چالیس افراد تھے مگر اب صرف تین چار رہ گئے ہیں.ان تحریکوں سے میرا مقصد یہ بھی ہے کہ ہر جماعت میں ذمہ داری کو سنبھالنے والے تین تین ، چار چار کارکن موجود ہیں.خدام الاحمدیہ کے سیکرٹری کو کام کی ٹریننگ علیحدہ ملتی رہے، اور انصار اللہ کے سیکرٹری کو علیحدہ اور جہاں کہیں کوئی پرانا کارکن فوت ہو جائے اس کی جگہ لینے والا موجود ہو.رقابت بھی بعض اوقات بڑا کام کراتی ہے.پچھلے دنوں یہاں خدام الاحمدیہ کا جلسہ ہوا تو مجھے معلوم ہوا کہ انصار نے کہا کہ ہمیں بھی اپنا جلسہ کرنا چاہئے.بے شک اگر وہ بھی کرنے لگیں تو یہ بہت فائدہ کی بات ہے.ہم نے جو مدد خدام

Page 70

کی ، کی ہے ان کی بھی کر سکتے ہیں.پھر وہ خود بھی چندہ لے سکتے ہیں.بہر حال انہیں بھی تنظیم کے ساتھ کام کرنا چاہئے.میرا مقصد یہ ہے کہ جماعت کے اطفال، خدام اور انصار سب کی تربیت کا انتظام ہو سکے.۱۴ار سال سے کم عمر کے بچے اطفال کی مجالس میں شامل ہوں.۱۴ سال تک کے خدام میں اور اس سے اوپر عمر کے انصار اللہ میں.تا کہ سب کی صحیح تربیت ہو سکے.(اقتباس از تقریر جلسه سالانه ۱۲۷ دسمبر ۱۹۴۲ء.بحواله الفضل یکم مارچ ۱۹۴۵ ص۲)

Page 71

۶۶ کیفیت اور کمیت دونوں لحاظ سے جماعت کی ترقی ذیلی تنظیموں کی تحریکات کا مقصد سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: کسی جماعت کی ترقی کے لئے دو قسم کی ترقیات ضروری ہوتی ہیں.ایک تو اس کی کمیت کی ترقی یعنی ایک سوال اس کی تعداد بڑھانے کا ہوتا ہے.کیونکہ اگر کسی اچھی سے اچھی قوم کی تعداد نہ بڑھے تو اس کی برکات اور فوائد سے دنیا فائدہ نہیں اٹھا سکتی.دوسری ترقی کیفیت کی ترقی ہوتی ہے.تعداد خواہ کتنی زیادہ ہوا گر اس قوم کی حالت اچھی نہ ہو تو اس کا بڑھنا بھی خرابی ہی کا موجب ہوتا ہے دنیا کے لئے آرام اور فائدہ کا موجب نہیں ہو سکتا.خالی پڑی ہوئی زمینوں میں بعض اوقات آک اگ آتے ہیں اور ان کے بیج پھیلتے چلے جاتے ہیں.بظاہر وہ ایک کھیتی ہے جو بڑھتی ہے.مگر اس کا اتنا بھاری نقصان ہوتا ہے کہ وہ ملک جس میں آگ پیدا ہو جائیں بعض اوقات صدیوں تک قحط کا شکار ہو جاتے ہیں.کیونکہ آگ کو مار دینا اور اس کی جڑوں کو زمین سے نکال دینا آسان کام نہیں ہوتا.پس بظاہر گو یہ ایک زیادتی ہوتی ہے.مگر فائدہ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک کمی ہے.انسانی جسم کتنا قیمتی سمجھا جاتا ہے لیکن اگر کسی کے جسم میں پانچ کی بجائے چھ انگلیاں پیدا ہو جائیں تو وہ خوش نہیں ہوتا کہ میری چھ انگلیاں ہیں بلکہ اسے ایک عیب سمجھتا اور اسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے.جب کسی کے ماتھے پر یا سینے پر یا پیٹ پر یا رانوں پر یا ہاتھ پر رسولی نکل آئے تو وہ اس پر خوش نہیں ہوتا کہ میرے گوشت میں زیادتی ہوگئی.بلکہ اسے نکلوانے پر سینکڑوں ہزاروں روپیہ خرچ کر دیتا ہے.کیونکہ یہ زائد گوشت مفید نہیں بلکہ مضر تھا.اسی طرح جب کسی کی ہڈیوں میں خم پیدا ہو جائے ، وہ بڑھ جائیں اور انسان کبڑا ہو جائے، تو وہ اس پر خوش نہیں ہوتا کہ میرا حجم بڑھ گیا.بلکہ ہڈیوں کے خم اور ان کی زیادتی کو دور کرنا چاہتا ہے.تو بڑھنا ہر حالت میں اچھا نہیں ہوتا.اسی وقت بڑھنا اچھا ہوتا ہے جب بڑھوتی انسان کے اپنے لئے اور دوسروں کے لئے مفید ہورہی ہو.اگر وہ بڑھوتی اس کے لئے اور اس کے ہم جنسوں کے لئے مفید نہیں تو وہ خود بھی اور اس کے ہم جنس بھی یہی کوشش کریں گے کہ اسے روک دیں.

Page 72

۶۷ جن جماعتوں کی زیادتی دنیا کے لئے مفید ہو اللہ تعالیٰ بھی ان کی بڑھوتی پر خوش ہوتا ہے اور بنی نوع انسان بھی ان کے بڑھنے کے لئے دعائیں کرتے ہیں.صحابہ نے جس وقت رومی حکومت کے ساتھ مقابلہ کیا اور بڑھتے بڑھتے یروشلم پر ، جو عیسائیوں کی مذہبی جگہ ہے، قابض ہو گئے اور پھر اس سے بھی آگے بڑھنا شروع ہوئے تو عیسائیوں نے یہ دیکھ کر کہ ان کا مذہبی مرکز مسلمانوں کے ہاتھ آگیا ہے، ان کو وہاں سے نکالنے کے لئے آخری جد و جہد کا ارادہ کیا اور چاروں طرف مذہبی جہاد کا اعلان کر کے عیسائیوں میں ایک جوش پیدا کر دیا گیا اور بڑی بھاری فوجیں جمع کر کے اسلامی لشکر پر حملہ کی تیاری کی.ان کے اس شدید حملہ کو دیکھ کر مسلمانوں نے جو ان کے مقابلہ میں نہایت قلیل تعداد میں تھے.عارضی طور پر پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا اور اسلامی سپہ سالار نے حضرت عمرؓ کولکھا کہ دشمن اتنی کثیر تعداد میں ہے اور ہماری تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ اس کا مقابلہ کرنا اسلامی لشکر کو تباہ کرنے کے مترادف ہے.اس لئے آپ اگر اجازت دیں تو جنگی صف بندی کوسیدھا کرنے اور محاذ جنگ کو چھوٹا کرنے کے لئے اسلامی لشکر پیچھے ہٹ جائے تا تمام جمعیت کو یکجا کر کے مقابلہ کیا جاسکے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ ہم ان علاقوں سے جو فتح کر رکھے ہیں لوگوں سے ٹیکس بھی وصول کیا ہوا ہے.اگر آپ ان علاقوں کو چھوڑنے کی اجازت دیں تو یہ بتائیں کہ اس ٹیکس کے متعلق کیا حکم ہے.حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ محاذ کو چھوٹا کرنے اور اسلامی طاقت کو یکجا کرنے کے لئے پیچھے ہٹنا اسلامی تعلیم کے خلاف نہیں.لیکن یہ یا درکھو کہ ان علاقوں کے لوگوں سے ٹیکس اس شرط پر وصول کیا گیا تھا کہ اسلامی لشکر ان کی حفاظت کرے گا اور جب اسلامی لشکر پیچھے ہٹے گا تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ ان علاقوں کی حفاظت نہیں کر سکے گا.اس لئے ضروری ہے کہ جس سے جو کچھ وصول کیا گیا ہے وہ اسے واپس کر دیا جائے.جب حضرت عمرؓ کا یہ حکم پہنچا اسلامی سپہ سالار نے ان علاقوں کے زمینداروں اور تاجروں اور دوسرے لوگوں کو بلا بلا کر ان سے وصول کردہ رقوم واپس کر دیں اور ان سے کہا کہ آپ لوگوں سے یہ رقوم اس شرط پر وصول کی گئی تھیں کہ اسلامی لشکر آپ لوگوں کی حفاظت کرے گا.مگر اب کہ ہم دشمن کے مقابلہ میں اپنے آپ کو کمزور پاتے ہیں اور کچھ دیر کے لئے عارضی طور پر پیچھے ہٹ رہے ہیں اور اس وجہ سے آپ لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکتے.ان رقوم کو اپنے پاس رکھنا درست نہیں.یہ ایسا نمونہ تھا کہ جو دنیا کی تاریخ میں اور کسی بادشاہت نے نہیں دکھایا.بادشاہ جب کسی علاقہ سے ہٹتے ہیں تو بجائے وصول کردہ ٹیکس وغیرہ واپس کرنے کے، ان علاقوں کو اور بھی لوٹتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ اب تو یہ علاقے دوسرے کے ہاتھ میں جانے والے ہیں، ہم یہاں سے جتنا زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اٹھا لیں.پھر چونکہ انہوں نے

Page 73

۶۸ وہاں رہنا نہیں ہوتا اس لے بدنامی کا بھی کوئی خوف ان کو نہیں ہوتا اور اگر کوئی اعلیٰ درجہ کی منتظم حکومت ہو تو وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرتی ہے کہ خاموشی سے فوجوں کو پیچھے ہٹا لیتی ہے اور زیادہ لوٹ مار نہیں کرنے دیتی.لیکن اس اسلامی لشکر نے جو نمونہ دکھایا، جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے صرف حضرت عمر کے زمانہ میں ہی نظر آتا ہے.بلکہ افسوس ہے کہ بعد کے زمانہ کو بھی اگر شامل کر لیا جائے تو اس کی کوئی اور مثال دنیا میں نہیں ملتی کہ کسی فاتح نے کوئی علاقہ چھوڑا ہو تو اس علاقہ کے لوگوں سے وصول کردہ ٹیکس اور جزیے اور مالیے واپس کر دیئے ہوں.اس کا عیسائیوں پر اتنا اثر ہوا کہ باوجود یہ کہ ان کی ہم مذہب فوجیں آگے بڑھ رہی تھیں.حملہ آور ان کی اپنی قوم کے جرنیلوں ، کرنیلوں اور افسروں پر مشتمل تھے اور سپاہی ان کے بھائی بند تھے اور باوجود اس کے کہ اس جنگ کو عیسائیوں کے لئے مذہبی جنگ بنا دیا گیا تھا، اور باوجود اس کے کہ عیسائیوں کا مذہبی مرکز جوان کے قبضہ سے نکل کر مسلمانوں کے ہاتھ میں جاچکا تھا، اب اس کی آزادی کے خواب دیکھے جارہے تھے.عیسائی مرد اور عورتیں گھروں سے باہر نکل نکل کر روتے اور دعائیں کرتے تھے کہ مسلمان پھر واپس آئیں.یہ وہ حکومت تھی جس کے لئے لوگوں کے دلوں سے دعائیں نکلتی تھیں اور آسمان کے فرشتوں نے بھی کہا کہ ان لوگوں کو لمبی حکومت کرنے کا موقعہ دیا جائے.یہ حکومت تو صرف تمہیں سال تک ہی رہی جو اسلامی اصول کے مطابق قائم تھی مگر اس کی جڑیں اتنی مضبوط تھیں کہ بڑے بڑے ظالم بادشاہوں نے بھی اس کی جڑیں اکھیڑنے کا کام ایک ہزار سال میں کیا اور اتنے طویل عرصہ کے بعد اس کا خاتمہ کر سکے.دنیا میں بہت کم کسی قوم نے اتنی لمبی حکومت کی ہے جتنی مسلمانوں نے کی.عیسائی حکومتوں کا زور اٹھارھویں صدی کے آخر میں شروع ہوا ہے.مگر ابھی ان پر ڈیڑھ ، پونے دوسو سال کا عرصہ ہی گذرا ہے کہ وہ لڑ کھڑا رہی ہیں.مگر مسلمانوں نے قریباً ایک ہزار سال تک نہایت شان و شوکت کے ساتھ حکومت کی ہے اور یہ اثر اسی تمیں سالہ اسلامی حکومت کا تھا.بعد میں گو مسلمانوں میں بھی بعض ظالم اور جابر بادشاہ ہوئے مگر نیکی کی جڑیں قائم رہیں اور ان سے نیک پودے بھی پیدا ہوتے رہے.جس طرح بعض درخت گو کٹ جاتے ہیں مگر ان کی جڑوں سے نئی روئیدگی پیدا ہوتی رہتی ہے.اس روئیدگی میں سے صدیوں بعد ایک بادشاہ پیدا ہوا جس کا ذکر عیسائی مورخ گین نے کیا ہے.وہ عیسائی مورخوں میں سے نسبتا کم متعصب مورخ ہے اور عیسائیت کا بڑا مورخ مانا جاتا ہے اس نے رومی حکومت کی ترقی اور تنزل پر ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ ایک اسلامی بادشاہ ملک ارسلان کا ایک واقعہ بیان کرتا ہے.وہ لکھتا ہے کہ وہ ۱۸، ۱۹ سال عمر کا ایک نوجوان شہزادہ تھا، جب اس کا باپ فوت ہوا.وہ ولی عہد تھا مگر چھوٹی عمر کا تھا.اس لئے کئی

Page 74

۶۹ لوگون نے بغاوت کر کے ملک کو تقسیم کرنا چاہا.اس کا چھا بھی صاحب اثر ورسوخ تھا.اس نے الگ بادشاہی کا دعویٰ کر دیا اور بہت سے لوگ اس کے ساتھ شامل ہو گئے.ایک اس کا سوتیلا بھائی تھا جس کے ماموں بہت طاقتور تھے.وہ اسے بادشاہ بنانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنے اس بھانجے کے نام پر بغاوت کر دی.ادھر سے اس نے بھی کچھ فوجیں جمع کیں.گویا تین فوجیں ایک دوسرے کے مقابلہ پر تھیں.جس دن جنگ ہونے والی تھی اس نوجوان کے وزیر نے جو شیعہ تھا اور جن کا نام نظام الدین طوسی تھا اس سے کہا کہ آپ کے چچا کی طاقت بہت بڑی ہے اور آپ کے بھائی کے ماموں بھی بہت طاقتور ہیں اور انہوں نے بھی بڑی فوج جمع کر لی ہے اور وقت ایسا نا زک ہے کہ ظاہری تدابیر سب پیچ نظر آتی ہیں.اس وقت علاوہ فوجی طاقت کے آسمان کی مدد بھی آپ کے لئے بہت ضروری ہے.اس لئے آپ میرے ساتھ حضرت موسیٰ رضا کی قبر پر چل کر دعا کریں کہ ان کے طفیل اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے.اس کی غرض اس سے یہ تھی کہ اس کے دل پر شیعیت کا اثر ڈالوں.گبن کہتا ہے کہ مسلمان بے شک کا فر ہیں اور بڑی وحشی قوم ہے.مگر اس واقعہ کو دیکھ کر شرم کے مارے میرا سر ندامت کے ساتھ جھک جاتا ہے کہ جو عدل وانصاف کا نمونہ اس قوم سے تعلق رکھنے والے ایک نو جوان نے دکھایا.ہماری قوم کے کسی بوڑھے بادشاہ کی زندگی میں بھی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی.اس کا وزیر اسے موسیٰ رضا کی قبر پر لے گیا اور وہ دونوں وہاں جا کر خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر گئے اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگنی شروع کی.دونوں نے اپنے اپنے رنگ میں دعا کی اور دعا کے بعد جب کھڑے ہوئے اور آنسو پونچھے تو اس نوجوان شہزادہ نے وزیر سے سوال کیا کہ تم نے کیا دعا مانگی.اس نے کہا کہ میں نے یہ دعا مانگی ہے کہ اے خدا تو جانتا ہے کہ یہ شہزادہ تاج وتخت کا حقدار ہے.ولی عہد ہے.اس کا باپ مر گیا ہے اور لوگوں نے اس کے خلاف بغاوت کر دی ہے.تو اس بزرگ کے طفیل اس پر رحم کر.یہ سن کر اس نو جوان شہزادہ نے کہا کہ میں نے تو یہ دعانہیں مانگی.وزیر نے عرض کیا کہ پھر آپ نے کیا دعا مانگی ہے.اس نے کہا میں نے تو یہ دعا مانگی ہے کہ اے خدا مجھے معلوم نہیں کل کو میں ملک و وطن کے لئے کیسا ثابت ہوں ممکن ہے ظالم ثابت ہوں اور ممکن ہے میری ذات سے ملک کو اور اسلام کو کوئی صدمہ پہنچے اور ممکن ہے میرے چھایا بھائی کے ہاتھوں سے ملک کو اور اسلام کو کوئی فائدہ پہنچے.اس لئے کل کی جنگ میں تو اسے فتح پیجئیو جس کے ہاتھ سے ملک اور اسلام کو فائدہ پہنچنے والا ہو.یہ وہ لوگ تھے جن کو اس تمیں سالہ دور عدل وانصاف کی جڑوں سے پھوٹنے والی نئی کونپلیں کہا جاسکتا ہے اور جن کی وجہ سے مسلمانوں کو اتنی لمبی حکومت کا موقعہ ملا.

Page 75

آج اسلام کی ترقی کے لئے ہم جتنی کیفیت میں ترقی کریں گے.تقویٰ، نیکی ، دیانتداری، راستبازی اور عدل و انصاف میں ترقی کریں گے.اتنی ہی دنیا کی دعائیں ہمارے حق میں بڑھتی جائیں گی اور خدا تعالیٰ کے عرش سے فضل کو ہمارے لئے کھینچیں گی لیکن اگر یہ دعا ئیں ہمارے لئے نہ ہونگی.تو نہ زمین سے ہماری ترقی کے سامان ہوں گے نہ آسمان سے.دوسری طرف کمیت میں ترقی بھی ضروری ہے.اگر ہم تعداد میں ترقی نہ کریں تو بھی دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتنے عظیم الشان انسان تھے.لیکن اگر آپ غار حرا میں ہی ساری عمر دعائیں کرتے کرتے فوت ہو جاتے تو آپ کی جڑوں سے ابو بکر، عمر، عثمان علی اور طلحہ زبیر جیسے لوگ کبھی نہ پیدا ہو سکتے اور اس صورت میں دنیا آپ کی برکات سے کس طرح حصہ لے سکتی.آپ کی ذات میں بے شمار خوبیاں تھیں.مگر آپ کی مثال ایک جڑ تھی اور اس جڑ کے خوشبو دار پھول ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی وغیرہ تھے.اگر اس جڑ سے یہ خوشبودار پھول پیدا نہ ہوتے تو دنیا اس سے زیادہ فائدہ نہ اٹھا سکتی.آم کتنا اچھا پھل ہے لیکن اگر دنیا میں ایک ہی پھل ہوتا تو دنیا اس سے کیا فائدہ اٹھا سکتی.مشک اور عبر وغیرہ کتنی مفید چیزیں ہیں لیکن اگر دنیا میں ایک دو ہرن ہی ایسے ہوتے جن سے مشک حاصل ہو سکتا.یا ایک دو مچھلیاں ہوتیں جن سے عنبر حاصل ہوتا تو سوائے ایک دو بڑے بڑے بادشاہوں کے کوئی اس سے فائدہ نہ اٹھا سکتا.جب تک کوئی مفید اور اچھی چیز عام لوگوں کو میسر نہ آسکے اس کی اچھائی کسی کام کی نہیں.گندم، چاول اور گوشت کتنی اچھی چیزیں ہیں لیکن اگر دنیا میں صرف دو چار بکرے ہوتے ، اگر دو چار من ہی گندم یا چاول دنیا میں ہوتے تو لوگ ان سے فائدہ اٹھا سکتے.ان کی کثرت ہی ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتی ہے.اگر کثرت نہ ہوتی تو خوبی اندر ہی اندر مرجاتی.اسی طرح جب تک کسی جماعت کی تعداد نہیں بڑھتی.وہ دنیا کو نفع نہیں پہنچا سکتی.دنیا کو نفع پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ تعداد بڑھے.قرآن کریم نے کلمہ کی مثال اس درخت سے دی

Page 76

اے ہے جس کی جڑیں زمین میں ہوں اور شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں اور لوگ اس کے سایہ میں آرام کر سکیں.کیفیت کی مضبوطی جڑ پر دلالت کرتی ہے اور صرف جڑ کی مضبوطی کافی نہیں.عمدہ سے عمدہ درخت کا اوپر کا جھاڑ اگر کاٹ دیا جائے تو دنیا اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی.اسی طرح کسی عمدہ سے عمدہ درخت کی جڑا اگر مضبوط نہ ہوتو وہ بھی دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.یہ دونوں چیزیں نہایت ضروری ہیں.پس ایک طرف ہماری جماعت کو نیکی تقوی، عبادت گذاری، دیانت ، راستی اور عدل و انصاف میں ایسی ترقی کرنی چاہئے کہ نہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی اس کا اعتراف کریں.اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ، اور لجنہ اماء اللہ کی تحریکات جاری کی ہیں.گو میں نہیں کہہ سکتا کہ ان میں کہاں تک کامیابی ہوگی.بہر حال یہی ایک ذریعہ مجھے نظر آیا جو میں نے اختیار کیا اور ان سب کا یہ کام ہے کہ نہ صرف اپنی ذات میں نیکی قائم کریں بلکہ دوسروں میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں اور جب تک حتمی طور پر جبر و ظلم ، تعدی، بددیانتی ، جھوٹ وغیرہ کو نہ مٹا دیا جائے اور جب تک ہر امیر غریب اور چھوٹا بڑا اس ذمہ داری کو محسوس نہ کرے کہ اس کا کام صرف یہی نہیں کہ خود عدل وانصاف قائم کرے بلکہ یہ بھی کہ دوسروں سے بھی کرائے ، خواہ وہ افسر ہی کیوں نہ ہو، ہماری جماعت اپنوں اور دوسروں کے سامنے کوئی اچھا نمونہ قائم نہیں کر سکتی.اسی طرح اگر جماعت تعداد کے لحاظ سے بھی ترقی نہ کرے تو دنیا فوائد حاصل نہیں کر سکتی.وہ بادل جو صرف ایک گاؤں پر برس جائے اتنا مفید نہیں ہوسکتا.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بادل قادیان یا زیادہ سے زیادہ چند بستیوں پر برس جائے اور چند کھیت ہی اس سے فائدہ اٹھا ئیں تو یہ امر یا در کھے جانے کے قابل نہیں ہوگا.لیکن اگر وہ دنیا کے ہر کھیت کو سیراب کرے اور ہر فرد کو تازگی بخشے تو یہ ایک تاریخ میں یا در کھے جانے کے قابل بات ہوگی اور دنیا ہمارے نام کو عزت اور احترام سے یادر کھے گی.پس ہمارا سب سے اہم فرض یہ ہے کہ اس پیغام کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوا دنیا کے کناروں تک پہنچائیں.مجھے افسوس ہے کہ ہمارا محکمہ تبلیغ بھی اس کام کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھتا.اس کا زور اتنا ہی ہے

Page 77

۷۲ جتنا تین چار گاؤں کی پنچائیت کا ہوتا ہے.نہ محکمہ تبلیغ میں وہ جوش ہے نہ مبلغوں میں اور نہ جماعتوں میں.ابھی چند لوگوں کو جماعت میں داخل کر کے ہم خوش ہو جاتے ہیں.میں نے الفضل میں پڑھا کہ پیغامیوں کے ساتھ سارے سال میں صرف دوسو اشخاص شامل ہوئے ہیں اور ہماری جماعت میں دو ہزار.مگر کیا کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ سال میں دو ہزار کے معنی ہیں ایک صدی میں دولاکھ، ایک سوصدی میں یعنی دس ہزار سال میں دو کروڑ ، اور یہ بھی کوئی تعداد ہے.ہمارے لئے سال میں دو تین بلکہ چار ہزار احمدی بنانا تو افسوس کی بات ہونی چاہئے.جب تک جماعت کے ہر فرد کے اندر یہ آگ نہ ہو کہ اس نے ہر ایک اپنے قریب بلکہ بعید کے شخص کو بھی جماعت میں داخل کرنا ہے اور جب تک لوگ افواج در افواج احمدیت میں داخل نہ ہوں، ہماری حیثیت محفوظ نہیں ہوسکتی اور ذمہ داری ختم نہیں ہوسکتی.پس میں ان دونوں امور کی طرف پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں.ہر ضلع میں ہمارے جلسے ہونے چائیں.متواتر انفرادی تبلیغ بھی نہایت ضروری ہے مگر تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ جلسوں کے بغیر وہ جوش جماعت میں پیدا نہیں ہوتا جو انفرادی تبلیغ کے لئے ضروری ہے.پس کوشش کی جائے کہ کم سے کم ہر سال ہر تحصیل میں ہمارا جلسہ ضرور ہو.پھر اس کے ساتھ انفرادی تبلیغ کو بھی منظم کیا جائے.خصوصیت سے اضلاع گورداسپور،سیالکوٹ اور گجرات میں.ان تینوں اضلاع کی طرف خصوصیت سے توجہ کی جائے.گورداسپور کے ضلع میں احمدیت کا مرکز ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قادیان میں پیدا کیا.گجرات کا ضلع سب سے پہلے احمدیت میں آگے بڑھا.ایک وقت تھا جب گجرات کے احمدی سب سے زیادہ تھے اور سیالکوٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دوسرا وطن ہے.ان اضلاع کی آبادی کثرت سے اضلاع سرگودھا، منٹگمری، لائل پور اور ملتان کے اضلاع میں جا کر آباد ہوئی ہے.اس لئے ان اضلاع کی طرف بھی زیادہ توجہ کرنی چاہئے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ سالوں پر سال گذرتے چلے جاتے ہیں اور ان میں نہ کوئی جلسہ ہوتا ہے اور نہ تبلیغ ، جو نہایت افسوسناک بات ہے.پس چاہئے کہ دوست سستی اور غفلت کو دور کریں.تین چار ماہ کے اندر اندر ہر تحصیل یا اپنے علاقہ کے مرکز احمدیت میں جلسہ کر کے غور کیا جائے کہ کس طرح اور کن ذرائع سے اس علاقہ میں تبلیغ کو وسیع کیا جاسکتا ہے.اگر دوست اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں.تو ایک ہی سال میں ہر جگہ ہیں ہمیں، چالیس لوگ آسانی سے جماعت میں داخل ہو سکتے ہیں اور صرف پنجاب میں ہی چند ماہ میں ہیں، ہمیں ہزار احمدی ہو جاتے ہیں.گو یہ بھی بہت تھوڑی تعداد ہے.لیکن اگر یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو جوں جوں جماعت

Page 78

۷۳ بڑھتی جائے گی ، ترقی کی یہ رفتار بھی بڑھتی جائے گی اور اگلی طاقت پچھلی سے زیادہ ہوگی.پس دوست اپنی ذمہ واری کو سمجھیں اور کوشش کریں کہ کم سے کم جن اضلاع میں زیادہ جماعتیں ہیں، (ایسے اضلاع پنجاب میں ۱۶.۷ اہوں گے ) ان کی ہر تحصیل یا اس علاقہ کے مرکز احمدیت میں جلسہ کیا جائے اور ایسی سکیم بنائی جائے کہ ہر جماعت تبلیغ میں حصہ لے سکے اور ایسی تدابیر لوگوں کو بتائی جائیں کہ وہ کس طرح اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو تبلیغ کر سکتے ہیں.میں تحریک جدید کے نوجوانوں کو بھی اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں.وہ اگر چہ خود تو فارغ نہیں ہیں اور تعلیم حاصل کر رہے ہیں.مگر اس خیال کو دوسروں میں زندہ رکھنے میں مدد دے سکتے ہیں.وہ اپنے اپنے وطن میں خط و کتابت کے ذریعہ دوستوں اور رشتہ داروں کو تحریک کر سکتے ہیں کہ جلسے منعقد کریں اور تبلیغ میں پورے جوش سے حصہ لیں.خدام الاحمدیہ، مبلغوں پر اور تبلیغ کے دفتر پر اس کام کے لئے زور دے سکتے ہیں اور نوجوانوں کے اندر یہ روح پیدا کر سکتے ہیں کہ وہ بیداری کی زندگی اختیار کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو اس کام کے لئے رستہ تیار کرنے والے ہوں گے جس پر آئندہ زندگی میں چلنے والے ہیں.( خطبہ جمعہ فرموده ۵.جنوری ۱۹۴۳ء.بحوالہ الفضل ۲۱.فروری ۱۹۴۵ء)

Page 79

۷۴ جماعت احمدیہ میں خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کے قیام کی ضرورت اور اہمیت سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے کام کو چلانے کے لئے دوقو تیں پیدا کی ہیں اور ان دو قوتوں کے پیدا کرنے کا سبب یہی ہے کہ ایک قوت دوسری قوت کی نگران ہوتی ہے.جب ایک میں کوئی کمزوری پیدا ہو جاتی ہے، خواہ جان کر یا نہ جانتے ہوئے ، تو دوسری طاقت اپنے آپ کو نمایاں کرنا شروع کر دیتی ہے.ان دو قوتوں میں سے ایک قوت تقدیر کی ہے اور ایک قوت تدبیر کی ہے.خدا تعالیٰ کا کوئی فعل نہ جانتے ہوئے نہیں ہوتا.اس لئے تقدیر خاص تو جب بھی دنیا سے اپنا پر تو ہٹاتی ہے، کسی مصلحت کے تحت ہٹاتی ہے.لیکن تدبیر بھی جانتے ہوئے ہٹ جاتی ہے اور کبھی نہ جانتے ہوئے ہٹ جاتی ہے اور اس طرح دنیا کا کام صحیح طور پر چلتا چلا جاتا ہے.کبھی دنیا پر ایسا زمانہ آتا ہے کہ لوگ تدبیر کو روحانیت کی ترقی اور اس کی درستی کے لئے بالکل چھوڑ دیتے ہیں.مثلاً روحانیت کی درستی کے لئے نماز کی ضرورت ہے.مگر لوگ یا تو بہت ہی کم نمازیں پڑھتے ہیں اور جو پڑھتے ہیں وہ بھی ریا اور ظاہر داری کے لئے پڑھتے ہیں، خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے نمازیں نہیں پڑھتے.روحانیت کی درستی کے لئے روزوں کی ضرورت ہے مگر لوگ یا تو روزے رکھنے میں سُست ہو جاتے ہیں، یا دکھاوے کے لئے روزے رکھتے ہیں، یا روزے تو رکھتے ہیں مگر ان کے روزے صرف بھوک اور پیاس کی تکلیف ہی کہلا سکتے ہیں.اس سے زیادہ روزوں کا نہیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا.کیونکہ روزہ

Page 80

۷۵ رکھنے کے باوجود وہ جھوٹ بول لیتے ہیں، وہ لڑائی جھگڑوں میں حصہ لیتے ہیں، وہ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں ، وہ فساد کرتے ہیں، وہ غیبت میں حصہ لیتے ہیں اور اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ ان کا روزہ ، روزہ ہے.وہ با وجود روزہ رکھنے کے خدا تعالیٰ کے حضور روزہ دار نہیں ہوتے اور یا پھر لوگ روزہ رکھتے ہی نہیں.زکوۃ انسان کے نفس کی پاکیزگی اور اس کے قلب کے تزکیہ کے لئے ایک نہایت ہی ضروری چیز ہے.مگر ایک زمانہ ایسا آجاتا ہے جب کہ لوگ یا تو زکوۃ دیتے ہی نہیں اور اگر دیتے ہیں تو اسے اپنے دنیوی مقاصد کو پورا کرنے کا ذریعہ بنالیتے ہیں اور یہ دونوں صورتیں ایسی ہیں جو ان کو نیکی سے محروم رکھتی ہیں.یعنی یا تو وہ ایسا کرتے ہیں کہ اپنے مال کو زکوۃ دینے کے بغیر حرام مال بنا لیتے ہیں اور یا اگر دیتے ہیں تو اس زکوۃ کو ایسی طرز پر تقسیم کرتے ہیں جس میں ان کی نفسانی خواہشات کا دخل ہوتا ہے مثلاً کسی سکول کے لئے چندہ کی تحریک ہوئی تو ہزار دو ہزار روپیہ دے دیا.اس پر لوگ بڑے جوش سے اعلان کرتے ہیں کہ فلاں سکول کے لئے فلاں تاجر صاحب نے دو ہزار روپیہ چندہ دیا.حالانکہ وہ زکوۃ کا روپیہ ہوتا ہے اور ان کا کوئی حق ہی نہیں ہوتا کہ وہ اسے اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کر نیکا ذریعہ بنائیں.وہ غرباء کا مال ہوتا ہے اور غرباء کی طرف ہی لوٹائے جانے کا اسلام حکم دیتا ہے.تا کہ مال کو پاکیزگی حاصل ہو اور ان کا نفس تزکیہ حاصل کرے.مگر بجائے اس کے کہ وہ زکوۃ کو اپنے مال یا اپنے قلب کی پاکیزگی کا ذریعہ بنائیں ، وہ اسے اپنی عزت بڑھانے کا ذریعہ بنالیتے ہیں.یا زکوۃ کا مال تو الگ کر لیتے ہیں، مگر ان کے دل میں یہ ارادہ مخفی ہوتا ہے کہ کبھی ڈپٹی کمشنر سے ملے اور اس نے چندہ کی تحریک کی تو اس موقعہ پر اس روپیہ میں سے ایک خاص رقم دے دیں گے اور اس طرح عزت اور شہرت میں اضافہ ہوگا.حالانکہ زکوۃ غرباء کے لئے ہوتی ہے، اس لئے نہیں ہوتی کہ اس روپیہ کو انسان اپنی ذاتی اغراض کے لئے استعمال کرے.مگر انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی.ڈپٹی کمشنر تحریک کرتا ہے اور وہ چندہ میں ایک بہت بڑی رقم دینے کے بعد اس سے یہ درخواست کر دیتے ہیں.کہ حضور ہماری ” خان صاحب یا خان بہادر کے خطاب کے لئے یا فلاں ٹھیکہ کے لئے سفارش کر دی جائے.ہم نے گورنمنٹ کی اس قدر خدمت سرانجام دی ہے.حالانکہ وہ روپیہ جس کی بناء پر گورنمنٹ کی خدمت کا انہیں دعویٰ ہوتا ہے ان کا ہوتا ہی نہیں ،غرباء کا روپیہ ہوتا ہے اور یا پھر اس روپیہ کو وہ پبلک میں اپنی عزت بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں.مثلاً کہیں کوئی انجمن اسلامیہ ہوئی اور اس کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری یا مربی بنے کا سوال زیر غور ہوا، زکوۃ کے روپیہ میں سے دو ہزار روپیہ اس انجمن اسلامیہ کو دے دیا اور پھر مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے کہنا شروع

Page 81

۷۶ کر دیا کہ ہمیں اسلام کی خدمت کا کس قدر احساس ہے ، ہم نے اپنے دن رات کی محنت سے کمایا ہوا روپیہ انجمن کے سپرد کر دیا.حالانکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ پبلک میں ان کی عزت بڑھے اور لوگ یہ کہنا شروع کر دیں فلاں میر صاحب یا فلاں مرزا صاحب یا فلاں چود ہری صاحب نے دو ہزار رو پیدا انجمن اسلامیہ کو دے دیا.حالانکہ وہ روپیہ اس میر یا مرز ایا چوہدری کا تھا ہی نہیں.وہ تو بہر حال اس نے دینا ہی تھا اور دینا بھی غرباء کو تھا.مگر بجائے اس کے کہ اسے اس مقام پر خرچ کیا جاتا جس مقام پر خرچ کرنے کا اسلام نے حکم دیا ہے، وہ اس روپیہ کو دنیوی وجاہت اور اعزاز حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور یا پھر دیتے ہی نہیں اور یا اس قسم کی ٹھگیاں کرتے ہیں جو نہایت ہی قابل شرم ہوتی ہیں.حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے.کہ ایک سیٹھ صاحب تھے.میں ان کے متعلق یہ سمجھا کرتا تھا کہ وہ زکوۃ دیا کرتے ہیں.مگر مجھے لوگوں نے بتایا کہ وہ زکوۃ کہاں دیتا ہے وہ تو دھوکا بازی کرتا ہے.چنانچہ انہوں نے بتایا کہ جب زکوۃ دینے کا وقت آتا ہے تو وہ زکوۃ کا تمام روپیہ ایک گھڑے میں بھر دیتا ہے.مثلاً دو ہزار یا تین ہزار یا چار ہزار زکوۃ کا روپیہ ہوا تو وہ سب روپیہ ایک گھڑے میں بھر دیا اور اس کے اوپر دانے ڈال دئے.اس کے بعد وہ کسی غریب طالب علم کو بلاتا ، اسے نہایت اچھا کھانا کھلاتا ، اور جب وہ کھانا کھا کر فارغ ہو جاتا تو اسے کہتا کہ اس گھڑے میں جو کچھ ہے یہ میں نے آپ کی ملکیت میں دے دیا ہے.پھر تھوڑی دیر کے بعد کہتا.آپ یہ گھڑا اٹھا کر کہاں لے جائیں گے اسے واپس میرے پاس ہی فروخت کر دیجئے.فرمائیے آپ اس کی کیا قیمت لیں گے.طالب علم بھی اپنے ذہن میں اندازہ لگا لیتا کہ کتنی قیمت مانگوں گا تو مل جائے گی اور کتنی قیمت مانگوں گا تو مجھے دھکے دے کر باہر نکال یا جائے گا.اسے علم ہوتا کہ اس گھڑے میں ہزاروں روپے ہیں مگر وہ کیا کرسکتا تھا.آخر یہی کہتا کہ میں پانچ یا دس روپے میں یہ گھڑا آپ کے پاس فروخت کرتا ہوں.چنانچہ پانچ دس جتنے روپے وہ مانگتا ، اتنے روپے اسے دے دیتا اور گھڑا اٹھا کر گھر میں رکھ لیتا اور جب کوئی کہتا کہ آپ نے زکوۃ کا مال تو پھر اپنے گھر میں رکھ لیا ہے.تو وہ کہتا یہ مال تو میں نے خریدا ہے زکوۃ میں نے دے دی تھی.تو وہ تمام ذرائع جو اللہ تعالیٰ نے قومی پاکیزگی کے لئے یا دل کی پاکیزگی کے لئے یا دماغ کی پاکیزگی کے لئے یا خیالات کی پاکیزگی کے لئے یا افکار کی پاکیزگی کے لئے مقرر کئے ہیں، ان کو لوگ چھوڑ بیٹھتے ہیں اور اپنے نفس کی خرابی اور گندگی کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے دور ہو جاتے ہیں.تب خدا تعالیٰ کی تقدیر جوش میں آتی ہے اور وہ اپنے کسی مامور اور مرسل کو لوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث فرماتا ہے.وہ مامور اور مرسل دنیا

Page 82

22 میں آتا اور تقدیر کے ماتحت لوگوں کو کھینچ کر خدا تعالیٰ کے پاس لے جاتا ہے.تب ایک نیا تعلق خدا اور اس کے بندوں کے درمیان پیدا ہو جاتا ہے.اس تغیر کے ماتحت پھر دنیا اٹھتی ہے اور تدبیر میں منہمک ہو جاتی ہے.مگر میری مراد اس تدبیر سے دنیوی کام نہیں.نہ تجارت زراعت یا صنعت و حرفت کے کام مراد ہیں بلکہ میری مرادند بیر سے یہ ہے کہ نبی کی بعثت کے بعد لوگ روحانی تدابیر کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور پھر ہمیں یہ نظارہ نظر آنے لگتا ہے کہ لوگ قوم کی اصلاح میں لگے ہوئے ہیں.وہ ان کے افکار کو درست کرتے ہیں، وہ ان کے اعمال کو درست کرتے ہیں، وہ ان کے اخلاق کو درست کرتے ہیں، وہ انہیں ضبط نفس کی تعلیم دیتے ہیں، ان پر اللہ تعالیٰ کے نشانات اور اس سے تعلق رکھنے کی برکات ظاہر کرتے ہیں، ان کے اندر دین کی محبت پیدا کرتے ہیں، اور انہیں اخلاص اور ایمان کا ایک نمونہ بناتے ہیں.اسی طرح ہمیں یہ نظارہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ لوگ نمازوں میں مشغول ہوتے ہیں، روزے رکھتے ہیں ، حج کرتے ہیں ، زکوۃ دیتے ہیں، چندوں کی ادائیگی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کا ہر قدم پہلے قدم سے آگے ہو.ان کا ہر دن پچھلے دن سے زیادہ ترقی کے میدان میں بڑھانے والا ہو.غرض پھر تد بیر کا زور شروع ہو جاتا ہے اور اس تدبیر کے نتیجہ میں دنیا میں ایک عام بیداری پیدا ہو جاتی ہے.گویا پہلے تقدیر بیداری پیدا کرتی ہے اور پھر تد بیر بیداری پیدا کرتی ہے.پہلے تقدیر جوش میں آکر بندوں اور خدا میں اتصال پیدا کرتی ہے اور پھر تدبیر جوش میں آکر خالق اور مخلوق کو ملا دیتی ہے.اس تدبیر کے زمانہ میں بھی گوخدا کے فضل نازل ہوتے ہیں.مگر اس دور میں فضل کی بنیا د نیچے سے شروع ہوتی ہے اور اس طرح خدا اور بندوں کے تعلق کی مثال وہی ہو جاتی ہے جو ماں اور بچے کے تعلق کی ہوتی ہے.کسی وقت بچہ ماں کو یاد کرتا ہے اور کسی وقت ماں بچہ کو یاد کرتی ہے.کبھی بچہ ماں کو آکر چھٹ جاتا ہے.وہ کھیل رہا ہوتا ہے کہ کھیلتے کھیلتے ایک دم اس کے دل میں ماں کی محبت پیدا ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھے اپنی ماں سے ملے دیر ہوگئی.چنانچہ وہ کھیلتا کھیلتا دوڑتے ہوئے آتا ہے اور اپنی ماں کے گلے میں محبت سے ہاتھ ڈال دیتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بچے کو احساس نہیں ہوتا مگر ماں کو احساس ہو جاتا ہے.وہ کام کرتی کرتی یک دم اسے چھوڑ دیتی ہے اور ادھر ادھر تلاش کرتی پھرتی ہے کہ اس کا بچہ کہاں گیا اور جب وہ ملتا ہے تو اسے اپنی چھاتی سے چمٹالیتی ہے.یہی مثال عالم روحانی کی ہے.کبھی خدا کے دل میں بندوں کی

Page 83

ZA محبت کا جوش پیدا ہوتا ہے اور کبھی بندوں کے دلوں میں خدا کی محبت کا جوش پیدا ہوتا ہے.کہا جاتا ہے اور خدا کی محبت کو تقدیر بندے کی محبت کومد بیر کہا جاتا ہے.جس طرح ماں بعض دفعہ محبت سے بے تاب ہو کر بچے کی طرف دوڑتی اور اسے اپنے سینہ سے لگا لیتی ہے.اسی طرح کی محبت جب خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہو تو اسے تقدیر کہا جاتا ہے اور ویسی ہی محبت لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی پیدا ہو ، جیسے بچہ کے دل میں بعض دفعہ اپنی ماں کی محبت جوش میں آتی ہے تو اسے روحانی دنیا میں تدبیر کا نام دیا جاتا ہے.یہ سلسلہ چلتا ہے اور چلتا چلا جاتا ہے.کبھی اس طرف سے اور کبھی اس طرف سے.کبھی تقدیر کے زور سے اور کبھی تدبیر کے زور سے اور اس طرح بندوں اور خدا کے تعلق میں کمی واقع ہونے میں نہیں آتی.جب انسان خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کی تقدیر جوش میں آجاتی ہے اور جب خدا تعالیٰ اپنی تقدیر کسی مامور اور مرسل کے ذریعہ ایک دفعہ ظاہر کر دیتا ہے تو گو وہ بندوں کو بھولتا نہیں مگر اس کی بعض صفات میں ایک قسم کا سکون واقع ہو جاتا ہے.اس وقت بندوں کی طرف سے تدبیر شروع ہو جاتی ہے.یہ قانون دنیوی قانون میں سے ڈیما کرسی سے ملتا ہے.یعنی حکومت ہوتی تو ویسی ہی ہے جیسے اور حکومتیں.اس حکومت کے جو ذمہ وار افراد ہوتے ہیں وہ بھی ویسے ہی قانون بناتے ہیں جیسے اور حکومتیں قانون بناتی ہیں.وہ بھی اپنے قوانین کا ویسی ہی سختی سے نفاذ کرتے ہیں.جیسے اور افراد حکومت اپنے قوانین کا سختی سے نفاذ کرتے ہیں.غرض ظاہری لحاظ سے قانون کی تشکیل اور اس کے نفاذ کے لحاظ سے اس حکومت کو دوسری حکومتوں سے کوئی امتیاز حاصل نہیں ہوتا.اگر کوئی امتیاز ہوتا ہے تو یہ کہ عوام یہ نہیں سمجھتے کہ یہ کسی غیر کی حکومت ہے.بلکہ وہ سمجھتے ہیں یہ ہماری حکومت ہے اور اس کی خرابی ہماری خرابی ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ادھر حاکم دن رات ایسی تدابیر میں مشغول رہتے ہیں جن کے ماتحت ان کی قوم کے افراد کی ترقی ہو.انہیں عزت حاصل ہو، ان کے رتبہ اور ان کی وجاہت میں زیادتی ہو اور دوسری طرف عوام اس بات کے نگران ہوتے ہیں کہ کہیں ان کے حاکم سُست نہ ہو جائیں اور اس طرح ان کی حکومت ان کے لئے فائدہ رساں ہونے کی بجائے مہلک اور ضرر رساں نہ ہو جائے.

Page 84

۷۹ غرض دونوں ایک دوسرے کے نگران ہوتے ہیں.حکام عوام کے نگران ہوتے ہیں اور عوام حکام کے نگران ہوتے ہیں.اگر کبھی حاکموں میں سے کوئی حاکم غافل ہو جائے یا سُست ہو جائے یا ایسا حاکم مقرر ہو جو حکومت کے لحاظ سے اس کا اہل نہ ہو، تو عوام میں شور پڑ جاتا ہے کہ ہماری حکومت یوں کیوں کر رہی ہے، یوں کیوں نہیں کرتی اور جب عوام سُست ہو جائیں تو حکام ان کی ستی کو دور کرنے کے لئے موجود ہوتے ہیں.یہ نظارہ بھی وہی ہوتا ہے جسے روحانی دنیا میں تقدیر اور تدبیر کا نام دیا جاتا ہے.جیسے کبھی تدبیر کازور ہوتا ہے اور کبھی تقدیر کا زور ہوتا ہے.اسی طرح چونکہ ایسی حکومت در حقیقت عوام کی حکومت ہوتی ہے، اس لئے جب حکومت میں کوئی نقص پیدا ہو جاتا ہے تو عوام الناس میں جوش پیدا ہو جاتا ہے اور جب عوام میں کوئی نقص پیدا ہوتو حکومت اس نقص کے ازالہ کے لئے مستعد ہو جاتی ہے.اس طرح وہ دونوں ایک دوسرے کو جگانے اور بیدار رکھنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں اور در حقیقت یہ تقدیر اور تدبیر کا ہی ایک مظاہرہ ہے جو دنیا میں اس رنگ میں دکھائی دیتا ہے.اسی نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے جماعت میں خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے قیام کی تحریک ،، کی تھی.یوں تو جماعت کی اصلاح خلیفہ کے ذمہ ہے اور یا پھر خلیفہ کے نائب جو ناظر وغیرہ ہیں ان کے ذمہ ہے.مگر دنیا میں یہ ہمیں قانون قدرت دکھائی دیتا ہے کہ کبھی ایک پر نیند آجاتی ہے اور کبھی دوسرے پر نیند آجاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام بھی اس حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے.آپ کا الہام ہے ” أفطِرُ وَاصْوْمُ “ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں کبھی افطار کرتا ہوں اور کبھی روزہ رکھتا ہوں.اب واقعہ یہ ہے کہ خدا نہ روزہ رکھتا ہے نہ افطار کرتا ہے.مگر الہام یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ روزہ بھی رکھتا ہے اور افطار بھی کرتا ہے.پس در حقیقت اس الہام کا بھی وہی مفہوم ہے، جس کی طرف میں نے ابھی اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کبھی ایسا زمانہ آتا ہے کہ میری صفات جوش میں آجاتی ہیں اور میں خود لوگوں کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کرنے کیلئے تقدیر کو عمل میں لاتا ہوں اور کبھی ایسا زمانہ آتا ہے کہ میں اپنی ان صفات کو ٹھہرا دیتا ہوں اور بندہ جوش میں آکر میری ملاقات کے لئے تدابیر اور جد و جہد میں مشغول ہو جاتا ہے اسی طرح انسانی حکومتوں میں بھی کبھی ایک طرف غفلت طاری ہو جاتی ہے اور کبھی دوسری طرف غفلت طاری ہو جاتی ہے.تب جو جو حصہ بیدار ہوتا ہے وہ غافل حصہ کو چست اور ہوشیار کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے اور جب کسی دوسرے وقت وہ چست اور ہوشیار حصہ غافل ہو جاتا ہے تو جو حصہ بیدار ہو چکا ہوتا ہے وہ

Page 85

۸۰ اس کی غفلت کو دور کرنے میں حصہ لینے لگ جاتا ہے.جب تک کسی قوم میں یہ دونوں حصے متوازی اور ایک دوسرے کے بالمقابل نہ ہوں.اس وقت تک وہ قوم کبھی لمبی زندگی حاصل نہیں کر سکتی.زندگی تو اسے ملتی ہے مگر دو متوازی اور متقابل حصوں کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ بہت جلد مرجاتی ہے مثلاً جس قوم میں سارا انحصار حاکموں پر ہو ، اس قوم کے افراد بھی بہت جلد مرجاتے ہیں.کیونکہ کبھی حکام بھی مست ہو جاتے ہیں اور جس قوم میں سارا انحصار عوام پر ہوتا ہے اس قوم کے افراد بھی بہت جلد مرجاتے ہیں.کیونکہ کبھی عوام بھی غافل، سُست اور لاپر واہ ہو جاتے ہیں اور ان کو بیدار کرنے والا کوئی نہیں ہوتا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی نیند مبدل بہ موت ہو جاتی ہے لیکن جب کوئی قوم یا جماعت یہ بجھتی ہو کہ ایسے حکام مقرر ہونے چاہئیں جو اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو بخوبی سمجھنے والے ہوں اور دوسری طرف افراد یہ مجھتے ہوں کہ ان پر قومی لحاظ سے کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہیں اور یہ کہ بعض افراد کو اگر حکومت کا کام سپرد کیا گیا ہے تو اس لئے نہیں کہ حکومت ان کا حق ہے، بلکہ اس لئے کہ وہ حکومت کے دوسروں کی نسبت زیادہ اہل ہیں.پس ان کی حکومت اپنے اندر نیابتی رنگ رکھتی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اگر کسی وقت وہ غافل ہو جائیں تو ہم ان کو بیدار کریں.کیونکہ حکومت ہماری ہے.تو ایسی صورت میں وہ قوم زندہ رہتی ہے اور موت کا دن اس سے زیادہ سے زیادہ دور ہوتا چلا جاتا ہے.عوام سُست ہوں تو حکام ان پر نگرانی کے لئے موجود ہوتے ہیں اور حکام سُست ہوں تو عوام ان پر نگرانی کے لئے موجود ہوتے ہیں.اس نکتہ کو مدنظر رکھ کر میں نے جماعت میں خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دو الگ الگ جماعتیں قائم کیں.کیونکہ میں سمجھتا ہوں، ایسا ہوسکتا ہے کہ کبھی حکومت کے افراد سُست ہو جائیں اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کبھی عوام سست ہو جائیں.عوام کی غفلت اور ان کی نیند کو دور کرنے کے لئے جماعت میں ناظر وغیرہ موجود تھے.مگر چونکہ ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ کبھی ناظر سُست ہو جائیں اور وہ اپنے فرائض کو کما حقہ ادا نہ کریں.اس لئے ان کی بیداری کے لئے بھی کوئی نہ کوئی جماعتی نظام ہونا چاہئے تھا جو ان کی غفلت کو دور کرتا اور اس غفلت کا بدل جماعت کو مہیا کرنے والا ہوتا.چنانچہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ اسی نظام کی دوکڑیاں ہیں اور ان کو اسی لئے قائم کیا گیا ہے تا کہ وہ نظام کو بیدار رکھنے کا باعث ہوں.میں سمجھتا ہوں اگر عوام اور حکام دونوں اپنے اپنے فرائض کو سمجھیں تو جماعتی ترقی کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ایک نہایت ہی مفید اور خوش کن لائحہ عمل ہوگا.اگر ایک طرف نظارتیں جو نظام کی قائم مقام ہیں عوام کو بیدار کرتی رہیں اور دوسری طرف خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ جو

Page 86

ΔΙ عوام کے قائم مقام ہیں، نظام کو بیدار کرتے رہیں.تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کسی وقت جماعت کلی طور پر گر جائے اور اس کا قدم ترقی کی طرف اٹھنے سے رک جائے.جب بھی ایک غافل ہوگا دوسرا اسے جگانے کے لئے تیار ہوگا.جب بھی ایک سست ہوگا دوسرا اسے ہوشیار کرنے کے لئے آگے نکل آئے گا.کیونکہ وہ دونوں ایک ایک حصہ کے نمائندے ہیں.ایک نمائندہ ہیں نظام کے اور دوسرے نمائندہ ہیں عوام کے.بعض دفعہ اگر نظام کے نمائندے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں غفلت اور کوتا ہی سے کام لیں گے تو عوام کے نمائندے ان کو بیدار کر دیں گے اور جب عوام کے نمائندے غافل ہوں گے.تو نظام کے نمائندے ان کی بیداری کو سامان پیدا کریں گے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت تک پورے طور پر اس حقیقت کو سمجھا نہیں گیا اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ میں وہ بیداری پیدا نہیں ہوئی، جس بیداری کو پیدا کرنے کے لئے ان دونوں جماعتوں کو معرض وجود میں لایا گیا تھا.خدام الاحمدیہ میں کسی قدر زیادہ بیداری ہے.مگر انصار اللہ میں بیداری کے آثار بہت ہی کم دکھائی دیتے ہیں.گذشتہ ایام میں مجھے ان کی بعض رپورٹوں سے یہ محسوس ہوا تھا کہ ان میں بیداری پیدا ہورہی ہے.مگر یہ کہ انہوں نے واقعہ میں کوئی ایسا کام بھی کیا ہے یا نہیں، جس کی بناء پر انہیں بیدار سمجھا جاسکے، اس کا ابھی تک مجھے کوئی ثبوت نہیں ملا.حالانکہ کام کرنے والی جماعت تو جس جگہ موجود ہو، وہاں اس کا وجود خود بخود نمایاں ہونا شروع ہو جاتا ہے اور وہ کسی کو بتائے یا نہ بتائے ہر شخص کو محسوس ہونے لگ جاتا ہے کہ یہاں کوئی زندہ اور کام کر نیوالی جماعت موجود ہے اور در حقیقت کام کرنے والی جماعت کی علامت بھی یہی ہے کہ بغیر لوگوں کو بتانے اور ان کا علم دینے کے وہ خود بخود معلوم کر لیں کہ یہاں کوئی کام کرنے والی جماعت موجود ہے.کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک پھڑ گھر میں آجائے تو کس طرح گھر کے ہر فرد کو معلوم ہو جاتا ہے کہ گھر کے اندر کوئی بھڑ آ گئی ہے.وہ کبھی ایک کی طرف ڈسنے کے لئے جاتی ہے اور کبھی دوسرے کی طرف ڈسنے کے لئے بڑھتی ہے اور گھر بھر میں شور مچ جاتا ہے کہ اس بھڑ کو مارو، یہ کسی کو کاٹ نہ لے.ایک شہد کی مکھی گھر میں آجائے تو چاروں طرف اس سے بچنے کے لئے پگڑیاں اور ہاتھ اور پنکھے اور رومال وغیرہ ہلنے لگ جاتے ہیں.ایک پھول

Page 87

۸۲ کسی گھر میں لگا ہوا ہو تو تمام گھر کے افراد کو اس کے وجود کا احساس ہو جاتا ہے اور ہر شخص کے ناک میں جب ہوا داخل ہوتی ہے وہ فور آناک سمجھ جاتا ہے کہ اس گھر میں گلاب لگا ہوا ہے یا موتیا لگا ہوا ہے یا چنبیلی کا پودا لگا ہوا ہے.تو زندگی کے آثار ہونے ضروری ہیں.ان آثار کے بغیر کوئی شخص زندہ نہیں کہلا سکتا، چاہے بظاہر وہ زندہ ہی دکھائی دے.جب کوئی شخص اس دنیا میں آتا ہے تو اسے دنیا میں اپنی زندگی کا کوئی ثبوت دینا چاہئے اور ایسے نقوش چھوڑ نے چاہئیں جن سے دنیا اس کی زندگی کا احساس کر سکے اور اسے معلوم ہو کہ اس دنیا میں فلاں شخص آیا تھا.اور اس نے فلاں فلاں کام کیا.پس کام کرنے والی جماعت وہ نہیں ہو سکتی جو چندر پورٹیں شائع کر دے.بلکہ کام کرنے والی جماعت وہ کہلا سکتی ہے کہ جب کوئی غیر شخص قادیان میں آئے تو بغیر اس کے کہ اسے کوئی بتائے کہ یہاں خدام الاحمدیہ یا انصار اللہ کی جماعتیں ہیں، اسے خود بخود محسوس ہونے لگے کہ یہاں کوئی کام کرنے والی جماعت موجود ہے.جب کوئی لاہور میں جائے یا امرتسر میں جائے یا اور کسی شہر میں جائے تو اس شہر میں داخل ہوتے ہی اسے محسوس ہونے لگ جائے کہ وہ کسی ایسے شہر میں آیا ہے، جہاں کوئی نمایاں کام کرنے والی زندہ جماعت موجود ہے.مگر جہاں جا کر یہ پستہ نہ لگے اور دوسروں کو خود اس بات کی ضرورت محسوس ہو کہ وہ اسے بتائیں کہ یہاں انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کی جماعت ہے تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ وہ لوگ مردہ ہیں اور اپنے اند زندگی کے کوئی آثار نہیں رکھتے.یہ چیز ہے جو میں انصار اللہ میں پیدا کرنا چاہتا ہوں.مگر میں نہیں دیکھتا کہ یہ چیز ان میں پیدا ہوگئی ہے.سوائے اس کے کہ کبھی کبھی میرے پاس ان کی طرف سے رپورٹ آجاتی ہے، حالانکہ رپورٹوں کی مثال تو ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ہماری پنجابی زبان میں کہتے ہیں.آپے میں رجی پیچی آپے میری بچے جیون بھلا رپورٹوں میں یہ لکھ لینا کیا مشکل ہے کہ فلاں صاحب نے یہ کام کیا اور فلاں صاحب نے وہ کام کیا.اگر اس طرح کی خدمات ہم گنے لگ جائیں تو ہر شخص اپنی خدمات کی تعداد جتنی چاہے بڑھالے گا اور یہ سمجھے گا کہ اس نے بہت بڑا کام کیا.حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو وہ کام ایسا ہو گا جسے کسی صورت میں بھی خدمت قرار نہیں دیا جاسکتا.مثلاً ہر قدم جو تم اٹھاتے ہو اس کے اٹھاتے وقت تمہارے پیروں کے نیچے ضرور چونٹیاں آجاتی ہیں.آج کل کے موسم میں تو خصوصیت سے چیونٹیاں زیادہ پیدا ہو جاتی ہیں.اس لئے آج کل تو بالعموم ہر شخص کے پاؤں کے نیچے کچھ نہ کچھ چیونٹیاں ضرور آجاتی ہیں.پھر یہ بھی ایک ثابت شدہ بات ہے کہ تم قدم پاس پاس نہیں رکھ سکتے

Page 88

۸۳ ہر دو قدم کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے اور اس فاصلہ کے اندر آنے والی چیونٹیاں نہیں مرتیں.پس جب تم چلتے ہو تو کچھ چیونٹیاں مرجاتی ہیں اور کچھ بچ رہتی ہیں.اب اگر اسی قسم کی خدمات کا رپورٹوں میں ذکر ہونے لگے تو ایک شخص کہہ سکتا ہے میں نے مخلوق خدا کی بہت بڑی خدمت کی ہے.آج میں نے اتنے ہزار یا اتنے لاکھ چیونٹیوں کی جانیں بچائیں.حالانکہ یہ صاف بات ہے کہ جس قد ر چیونٹیاں چلتے ہوئے ملیں گی ان میں سے ساری تو مریں گی نہیں.کچھ مریں گی اور زیادہ تر بچ جائیں گی.چاہے کسی کا چیونٹیوں سے سارا گھر بھرا ہوا ہو.پھر بھی یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اس کے پاؤں کے نیچے سب چیونٹیاں آجائیں اور مر جائیں.لاز ما کئی ہزار بلکہ کئی لاکھ چیونٹیاں بچ جائیں گی.اب اگر اسی قسم کے کاموں کو خدمت خلق قرار دے دیا جائے تو کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ مجھ سے بڑھ کر اور کس نے خدمت خلق کی ہے.میں نے آج اتنے لاکھ چیونٹیوں کی جان بچائی ہے.اگر اس رنگ کی خدمات شمار میں آنے لگ جائیں تو ہر شخص کی خدمات کی ایک بڑی بھاری فہرست روزانہ تیار ہو سکتی ہے اور وہ رپورٹ میں اپنا کام ظاہر کرنے کے لئے کافی سمجھی جاسکتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں اگر ہم گناہ گنے لگ جائیں تو ان گناہوں کی بھی ایک لمبی فہرست روزانہ تیار ہوسکتی ہے.پس یہ رپورٹیں کچھ چیز نہیں.اصل چیز بیداری ہے جو ہر شخص کو نظر آجائے.کسی شخص نے یہ کیا ہی لطیف مثال بنادی ہے.جو آج ساری دنیا میں نقل کی جاتی ہے کہ مشک آنست که خود ببوید نه که عطار بگوید مشک پہچاننے کے لئے اگر عطار کی تعریف کی ضرورت ہو اور وہ کہے کہ یہ مشک فلاں جگہ سے آیا ہے اس کا نافہ ایسا عمدہ ہے لیکن ناک میں خوشبو نہ آئے تو ایسے مشک کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے.مشک تو وہی ہے کہ عطار چپ کر کے بیٹھ جائے اور خریدار مشک کی خوشبو سونگھ کر ہی بتیاب ہو جائے اور کہے کہ یہ مشک نکالومیں اسے خریدنا چاہتا ہوں، یہ بڑا اعلیٰ مشک ہے.تو اصل خوبی کام کی یہی ہوتی ہے.اگر ایک غیر اور اجنبی شخص بھی آجائے تو اسے پتہ لگ جائے کہ یہاں کوئی

Page 89

۸۴ فعال اور کام کرنے والی جماعت موجود ہے.باقی کسی کا اپنی ہفتہ وار یا ماہوار یا سالانہ رپورٹ شائع کر دینا کوئی بڑی بات نہیں اور نہ اس سے کام کے متعلق کوئی صحیح اندازہ لگایا جاسکتا ہے.اگر ہم دنیا میں یہ اعلان کرنا شروع کر دیں کہ اس دنیا کے پردہ پر ایک احمدیہ جماعت بھی موجود ہے تو یہ اعلان بالکل مضحکہ خیز ہوگا.لیکن اگر جہاں جہاں بھی ہماری جماعتیں موجود ہیں وہ اپنے وجود کو نمایاں کرنا شروع کر دیں.یہاں تک کہ ہر شخص کہے کہ ہمارے شہر میں ایک عجیب جماعت پیدا ہوگئی ہے.اس کے افراد لوگوں کو تبلیغیں کرتے تعلیمیں دیتے ہیں، بڑی بڑی نیک اور اچھی باتیں بتاتے ہیں.لوگوں سے کہتے رہتے ہیں کہ دیکھو تم نمازیں پڑھو، روزے رکھو، زکوۃ دو، حج کرو، سچ بولو، امن سے رہو.تو بے شک یہ تعریف صحیح تعریف ہوگی اور بے شک اس اشتہار سے بڑھ کر جماعت کی نیک نامی کا اور کوئی اشتہار نہیں ہوگا.لیکن اگر ہم ایسا تو نہ کریں اور صرف ہفتہ وار، ماہوار، یا سالانہ یہ اعلان کر دیں کہ احمد یہ جماعت بھی دنیا پر موجود ہے تو اس کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے.پس میرا مقصد ان جماعتوں کے قیام سے ہر فرد کے اندر ایک بیداری پیدا کرنا تھا.مگر یہ بیداری ابھی تک پیدا نہیں ہوئی.خدام میں ایک حد تک بیداری کا رنگ پایا جاتا ہے، مگر وہ رنگ بھی تھوڑا بلکہ بہت ہی تھوڑا ہے.شاید دس فیصدی بیداری ہے جو ابھی تک خدام میں پیدا ہوئی ہے.لیکن انصار اللہ میں ابھی تک صرف ایک فیصدی بیداری پیدا ہوئی ہے.پس جتنی بیداری خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے ذریعہ جماعت میں پیدا ہوئی ہے، وہ ہرگز کافی نہیں.بلکہ کافی کا ہزارواں حصہ بھی نہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ انصار اللہ خصوصیت کے ساتھ اپنے کام کی عمدگی سے نگرانی کریں.تا کہ ہر جگہ اور ہر مقام پر ان کا کام نمایاں ہو کر لوگوں کے سامنے آجائے اور وہ محسوس کرنے لگ جائیں کہ یہ ایک زندہ اور کام کرنے والی جماعت ہے.مگر میں سمجھتا ہوں ، جب تک انصار اللہ اپنی ترقی کے لئے صحیح طریق اختیار نہیں کریں گے.اس وقت تک انہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی.مثلاً میں نے انہیں توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنے

Page 90

۸۵ کام کی توسیع کے لئے روپیہ جمع کریں اور اسے مناسب اور ضروری کاموں پر خرچ کریں.مگر میری اس ہدایت کی طرف انہوں نے کوئی توجہ نہیں کی.اب میں دوسری بات انہیں یہ کہنا چاہتا ہوں گو غالبا میں ایک دفعہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں، کہ اگر انہیں مالی مشکلات ہوں تو سلسلہ کی طرف سے کسی حد تک انہیں مالی مدد بھی دی جاسکتی ہے.مگر بہر حال پہلے انہیں خود عملی قدم اٹھانا چاہئے اور روپیہ خرچ کر کے اپنے کام کی توسیع کرنی چاہئے.میں سمجھتا ہوں بڑی عمر کے لوگوں کو ضرور یہ احساس اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے کہ وہ شباب کی عمر میں سے گذر کر اب ایک ایسے حصہ عمر میں سے گزر رہے ہیں جس میں دماغ تو سوچنے کے لئے موجود ہوتا ہے، مگر زیادہ عمر گزرنے کے بعد ہاتھ پاؤں محنت مشقت اور کام کرنے کے قابل نہیں رہتے اس کی وجہ سے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے کاموں کے سرانجام کے لئے کچھ نو جوان سیکرٹری چالیس سال کے اوپر کے مگر زیادہ عمر کے نہ ہوں ) مقرر کریں.جن کے ہاتھ پاؤں میں طاقت ہو اور وہ دوڑنے بھاگنے کا کام آسانی سے کر سکیں.تاکہ ان کے کاموں میں سستی اور غفلت کے آثار پیدا نہ ہوں میں سمجھتا ہوں اگر چالیس سال سے پچپن سال کی عمر تک کے لوگوں پر نظر دوڑاتے تو انہیں ضرور اس عمر کے لوگوں میں سے ایسے لوگ مل جاتے ، جن کے ہاتھ پاؤں بھی ویسے ہی چلتے جیسے ان کے دماغ چلتے ہیں.مگر انہوں نے اس طرف توجہ نہ کی اور صرف انہی کو سیکرٹری مقرر کر دیا جن کا نام میں نے ایک دفعہ لیا تھا.حالانکہ ہر سیکرٹری کے ساتھ انہیں ایسے آدمی لگانے چاہئے تھے جو اپنی عمر کے لحاظ سے گو خدام الاحمدیہ میں شامل نہ ہو سکتے تھے مگر اپنے اندر نو جوانوں کی سی ہمت اور طاقت رکھتے ، دوڑنے بھاگنے کی قوت ان میں موجود ہوتی محنت و مشقت کے کام وہ با آسانی کر سکتے ، لوگوں کو بار بار جگاتے اور بار بار انہیں بیدار کرنے کی کوشش کرتے.اگر اب بھی وہ ایسا کریں اور جوان ہمت انصار اللہ کو سیکرٹریوں کے نائب مقرر کر دیں.تو میں امید کرتا ہوں کہ ان کے اندر وہ بیداری پیدا ہوسکتی ہے جس بیداری کو پیدا کرنے کے بغیر محض نام کا انصار اللہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا.یہ ایک الہی قدرت کا کرشمہ ہے کہ ایک زمانہ انسان پر ایسا آتا ہے جب اس کے جسمانی قوی تو نشو ونما پاتے ہیں.مگر اس کے دماغی قومی ابھی پردہ میں ہوتے

Page 91

۸۶ ہیں.یہ نہیں کہتا کہ ان میں انحطاط واقعہ ہو جاتا ہے.انحطاط نہیں بلکہ قوائے دماغیہ ایک پردہ کے اندر رہتے ہیں.یہ زمانہ وہ ہوتا ہے جو چھپیں سال سے چالیس سال تک کی عمر کا ہے.لیکن پھر اس کے بعد ایک زمانہ ایسا آتا ہے جب جسم میں نشو و ارتقاء کی طاقت تو نہیں رہتی مگر اسے جو کمال حاصل ہو چکا ہوتا ہے وہ قائم رہتا ہے.جیسے کسی چیز میں جب ابال شروع ہو تو جب اس کا ابلنا بند ہو جائے ،مگر ابھی وہ اہال بیٹھے نہیں، جو کیفیت اس وقت ہوتی ہے وہی کیفیت چالیس سال سے اوپر عمر والوں کی ہوتی ہے کہ ان کا ابال تو بند ہو جاتا ہے مگر ان کی بلندی میں کمی نہیں آتی.یہی وہ زمانہ ہے جس میں خدا تعالیٰ عام طور پر نبیوں کو اصلاح خلق کے لئے کھڑا کیا کرتا ہے.گویا یہ زمانہ بلغ اشدہ کا زمانہ ہوتا ہے.طاقتیں اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہیں مگر جو ابال کی صورت ہوتی ہے وہ مٹادی جاتی ہے.پس جب میں نے انصار اللہ میں شمولیت کے لئے چالیس سال سے اوپر کی شرط رکھی تو اس کے معنے یہ تھے کہ کام کرنے کا بہترین زمانہ انہیں حاصل تھا.بشرطیکہ اس عمر والوں سے فائدہ اٹھایا جاتا.مگر مجھے افسوس ہے کہ انہوں نے اس حکمت کو نہ سمجھا اور کام انہیں لوگوں کے سپر د رکھا جو زیادہ عمر کے ہیں.حالانکہ اگر سارے کے سارے کام انہیں لوگوں کے سپرد کر دئے جائیں جو ساٹھ سال سے اوپر اور ستر سال کے قریب ہوں، تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ان لوگوں کے پاس دماغ تو ہوگا مگر چونکہ کام کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں نہیں ہوں گے، اس لئے وہ کام خراب ہو جائے گا.مفید نتائج کا حامل نہیں ہوگا.پس انہیں چاہئے تھا کہ وہ ہر محکمہ کے ہر سیکرٹری کے ساتھ نائب سیکرٹری ان لوگوں کو مقرر کرتے جو تیزی کے ساتھ کام کرنے کی ہمت رکھتے اور ان کے پاس صرف دماغ ہی نہ ہوتے بلکہ کام کر نیوالے ہاتھ اور پاؤں بھی ان کے پاس ہوتے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب تک انسان کے اندر دماغی انحطاط پیدا نہیں ہو جاتا اس کا دماغ ترقی کرتا چلا جاتا ہے.خواہ اس کی عمر کس قدر زیادہ ہو.اس لئے زیادہ عمر کے لوگ تجربہ کار، صائب رائے رکھنے والے اور نفع ونقصان کو عمدگی کے ساتھ سمجھنے والے ہوتے ہیں اور ضروری ہوتا ہے کہ ایسے لوگوں کے تجربہ، اصابت رائے اور خوبی دماغ سے فائدہ اٹھایا جائے.مگر بہر حال وہ نگران یا سیکرٹری ہی مقرر ہو سکتے ہیں.سوائے ایسی عمر کے جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارذَلِ الْعُمر قرار دیا ہے اور جن میں جسمانی قومی کے انحطاط کے ساتھ دماغی انحطاط بھی شروع ہو جاتا ہے.ایسی عمر میں انسان کسی کام کا بھی

Page 92

AL نہیں رہتا.مگر جب تک کسی کا دماغی انحطاط شروع نہ ہو جائے اس وقت تک ایسے آدمی کی رائے صائب ہوتی ہے.اس کے تجربہ سے دوسرے لوگ بہت کچھ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں اور اس کی راہنمائی لوگوں کے لئے مفید ہوسکتی ہے لیکن بہر صورت ایسے لوگ نگران ہی مقرر ہو سکتے ہیں.نائب سیکرٹری وہی لوگ مقرر ہونے چاہئیں جو دوڑ سکتے ہوں، بھاگ سکتے ہوں، جلدی جلدی کام کر سکتے ہوں، لوگوں کو یاددہانیاں کرا سکتے ہوں ، ان کی نگرانی کا کام کر سکتے ہوں.اگر انصار اللہ اس طرح کام کرتے تو ان کا کام یقیناً اب تک نمایاں ہو چکا ہوتا مگر انہوں نے بجائے یہ طریق اختیار کرنے کے، جن لوگوں کا نام میں نے اپنے ایک پہلے خطبہ (۲۶.جولائی سن ۴۰ء) میں لیا تھا.انہی کے سپر د تمام کام کر دیا.حالانکہ میں نے وہ نام اس لئے لئے تھے کہ میرے نزدیک وہ اچھا دماغ رکھنے والے تھے.ان کی رائے صائب اور سلجھی ہوئی تھی اور وہ مفید مشورہ دینے کی اہلیت رکھتے تھے.اس لئے نام نہیں لئے تھے کہ ان میں کام کرنے کی ہمت اور قوت بھی نوجوانوں والی موجود ہے اور وہ دوڑ بھاگ بھی سکتے ہیں.ان کا کام صرف نگرانی کرنا تھا اور ضروری تھا کہ ان کے ماتحت ایسے نوجوان لگائے جاتے جو دوڑنے بھاگنے کا کام کر سکتے.اب بھی اگر وہ اچھا کام کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سابق سیکرٹریوں کے ساتھ بعض نوجوان مقرر کر دینے چاہئیں، چاہے نائب سیکرٹری بنا کر یا جائنٹ سیکرٹری بنا کر ، تا کہ انصار اللہ میں بیداری پیدا ہو اور ان پر غفلت اور جمود کی جو حالت طاری ہو چکی ہے وہ دور ہو جائے.ورنہ یا درکھیں عمر کا تقاضا ایک قدرتی چیز ہے.بیشک بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر عمر میں خدا تعالیٰ کی حفاظت کے نیچے ہوتے ہیں.مگر عام طور پر دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ جوں جوں عمر بڑھتی جاتی ہے، ہاتھ پاؤں رہ جاتے ہیں.البتہ دماغ موجود ہوتا ہے جو ہر وقت سوچنے کا کام کرتا رہتا ہے.گویا اس عمر والوں کی ایسی ہی حالت ہوتی ہے جیسے بھاگنے والے کی حالت ہوتی ہے.جب کوئی شخص مکان میں سے نکل کر بھاگنا چاہے تو پہلے وہ ایک پیر نکالتا ہے، پھر دوسرا پیر نکالتا ہے، پھر دھڑ نکالتا ہے اور بھاگنا شروع کر دیتا ہے.اسی طرح روح جب طبعی موت کے ذریعہ انسانی جسم میں سے بھاگتی ہے تو یہی طریق اختیار کرتی ہے.پہلے وہ انسان کے ہاتھوں اور پاؤں سے نکلتی ہے.انسان زندہ ہوتا ہے مگر اچھی طرح نہ ہاتھ ہلا سکتا ہے، نہ پاؤں ہلا سکتا ہے اور اس کی آخری حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ دل اور دماغ میں سے بھی نکل جاتی ہے اور انسان اگلے جہان میں چلا جاتا ہے.پس یہ بھاگنے کا سا وقت ہوتا ہے اور انسان دنیا کو چھوڑ رہا ہوتا ہے اور جو شخص دنیا کو چھوڑ رہا ہوا سے

Page 93

۸۸ دوسروں کی اصلاح کا اتنا فکر نہیں ہوتا جتنا اسے اپنے نفس کا فکر ہوتا ہے.وہ سوچتا بے شک ہے کیونکہ اس نے اپنا ماضی بھی دیکھا ہوا ہوتا ہے.اس نے دوسروں کا ماضی بھی دیکھا ہوا ہوتا ہے.لوگوں کی خوبیاں اور برائیاں اور ان خوبیوں اور برائیوں کے نتائج سب اس کی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں.اس کے اپنے حالات زندگی بھی ایک ایک کر کے اس کے سامنے آتے ہیں اور دوسروں کے گذرے ہوئے واقعات بھی اس کی آنکھوں کے سامنے چکر لگاتے ہیں اور وہ ان سب حالات کو دیکھ کر سوچتا، غور کرتا، ان سے نتائج اخذ کرتا ہے.کیونکہ وہ سمجھتا ہے، اب میں جانے کے لئے تیار ہوں.اب میرا کام یہی ہے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس کا حساب کرلوں.پس اس وقت وہ حساب کر رہا ہوتا ہے اور جو شخص حساب کر رہا ہو اس کی توجہ کسی اور طرف نہیں ہوتی.رات کو سوتے وقت جب بنیا اپنے تمام دن کی آمد کا حساب کر رہا ہو، اس وقت اگر تم بننے سے سودا مانگو تو تم دیکھو گے کہ وہ اس وقت سخت چڑ چڑا ہوتا ہے.کیونکہ وہ اس وقت حساب کر رہا ہوتا ہے.سودا دینے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس وقت اس کی جگہ کوئی اور آدمی دوکان پر ہو.پس ایسے آدمی، جہاں تک حساب کا تعلق ہے، بے شک مفید ہوتے ہیں.مگر ایسی عمر والوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ کبھی لاہور جائیں کبھی پشاور جائیں کبھی انبالے جائیں کبھی گوجرانوالہ جائیں اور سب لوگوں سے کہتے پھریں کہ اٹھو اور بیدار ہو جاؤ! اسلام پر بڑا نازک وقت آیا ہوا ہے.جماعت پر بڑی بھاری ذمہ داری ہے.اگر تم اس ذمہ داری کو ادا نہ کرو گے تو خدا تعالیٰ کے حضور کیا جواب دو گے.یہ کام وہ نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا یہ زمانہ گذر چکا ہوتا ہے.پس میں نے انصار اللہ کے لئے چالیس سال سے او پر عمر کی شرط لگائی تھی.اس کی وجہ یہی تھی کہ میں چاہتا تھا کہ ان کو کام کرنے کے لئے وہ جوان ہمت لوگ بھی مل جائیں جن پر ابھی جوانی جیسا ہی زمانہ ہوتا ہے اور جو اپنے اندر کام کرنے کی کافی طاقت رکھتے ہیں اور ایسے آدمی بھی میسر آجائیں جن کے دماغ اعلیٰ درجہ کے ہوں اور جولوگوں کی نگرانی کا کام پوری احتیاط کے ساتھ کر سکیں.مگر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور صرف ایسے ہی لوگوں کو لے لیا گیا ، جن کا نام میں نے لیا تھا.حالانکہ میں نے وہ نام اس لئے لئے تھے کہ میرے نزدیک وہ نگران اور محافظ بن سکتے تھے.نہ اس لئے کہ وہ دوڑنے بھاگنے کا کام بھی کر سکتے تھے.اس قسم کے کام کرنے کے لئے انہیں چاہئے تھا کہ وہ ایسے لوگ سیکرٹریوں کے ساتھ مقرر کر دیتے ، جن کے قومی میں طاقت ہوتی.جن کے ہاتھوں اور پاؤں میں چلنے پھر نے اور دوڑنے بھاگنے کی ہمت ہوتی تاکہ وہ اپنے مفوضہ فرائض کو عمدگی سے سرانجام دے سکتے.میں سمجھتا

Page 94

ہوں ۸۹ انصار اللہ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے.وہ اپنی عمر کے آخری حصہ میں سے گزر رہے ہیں.اور یہ آخری حصہ وہ ہوتا ہے جب انسان دنیا کو چھوڑ کر اگلے جہان جانے کی فکر میں ہوتا ہے اور جب کوئی انسان اگلے جہان جارہا ہو تو اس وقت اسے اپنے حساب کی صفائی کا بہت زیادہ خیال ہوتا ہے اور وہ ڈرتا ہے کہ کہیں وہ ایسی حالت میں اس دنیا سے کوچ نہ کر جائے کہ اس کا حساب گندہ ہو، اس کے اعمال خراب ہوں ، اور اس کے پاس وہ زادراہ نہ ہو جو اگلے جہاں میں کام آنے والا ہے.جب احمدیت کی غرض یہی ہے کہ بندہ اور خدا کا تعلق درست ہو جائے ، تو ایسی عمر میں اور عمر کے ایسے حصہ میں اس کا احساس جس قدر احساس ایک مومن کو ہونا چاہئے ، وہ کسی شخص سے مخفی نہیں ہوسکتا.نو جوان تو خیال بھی کر سکتے ہیں کہ اگر ہم سے خدمت خلق میں کوتا ہی ہوئی تو انصار اللہ اس کام کو ٹھیک کر لیں گے مگر انصار اللہ کس پر انحصار کر سکتے ہیں.وہ اگر اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتا ہی سے کام لیں گے اور اگر دین کی محبت اپنے نفوس میں اور پھر تمام دنیا کے قلوب میں پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہونگے ، وہ اگر احمدیت کی اشاعت کو اپنا اولین مقصد قرارد نہ دیں گے، اور اگر وہ اس حقیقت سے اغماض کر لیں گے کہ انہوں نے اسلام کو دنیا میں پھر زندہ کرنا ہے تو انصار اللہ کی عمر کے بعد اور کون سی عمر ہے جس میں وہ کام کریں گے.انصار اللہ کی عمر کے بعد تو پھر ملک الموت کا زمانہ ہے اور ملک الموت اصلاح کے لئے نہیں آتا.بلکہ وہ اس مقام پر کھڑا کرنے کے لئے آتا ہے جب کوئی انسان سزایا انعام کا مستحق ہو جاتا ہے.پس میں ایک دفعہ پھر انصار اللہ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ

Page 95

وہ اپنے فرائض کو سمجھیں.ایک دفعہ پہلے بھی میں نے انہیں کہا کہ وہ بھی خدام الاحمدیہ کی طرح سال میں ایک دفعہ خاص طور پر باہر سے لوگوں کو بلوایا کریں.تا کہ ان کے ساتھ مل کر اور گفتگو اور بحث و تمحیص کر کے انہیں دوسروں کی مشکلات کا احساس ہو اور وہ پہلے سے زیادہ ترقی کی طرف قدم اٹھا سکیں.پھر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوسروں کے مشورہ سے انسان بہت کچھ فائدہ اٹھالیتا ہے.غالباً ایک سال ہوا جب میں نے اس امر کی طرف انہیں توجہ دلائی تھی مگر اب تک انصار اللہ کا کوئی جلسہ نہیں ہوا.یہ بات بھی ان کی مردنی پر دلالت کرتی ہے.پچھلی دفعہ جب خدام الاحمدیہ کا جلسہ ہوا تو میں نے بعض انصار اللہ کی آواز میں سنیں کہ ہم کو بھی آئندہ ایسا جلسہ کرنا چاہئے.مگرعمر کا تقاضا تھا کہ انہوں نے کہنے کو تو یہ بات کہہ دی لیکن چونکہ ان کے ہاتھ پاؤں چلتے نہیں تھے اس لئے وہ کوئی عملی قدم نہ اٹھا سکے.حضرت خلیفہ اسیح اول رضی اللہ عنہ سنایا کرتے تھے کہ کوئی بوڑھا شخص کسی طبیب کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے یہ تکلیف ہے، وہ تکلیف ہے، یہ عارضہ ہے، وہ عارضہ ہے، طبیب نے دیکھا کہ اس کی عمر بڑی ہو چکی ہے اور یہ تکلیفیں اب مستقل شکل اختیار کر چکی ہیں ، دواؤں سے جانے والی نہیں.اس لئے جب بھی وہ کوئی تکلیف بیان کرتا ، طبیب کہہ دیتا ہاں ٹھیک ہے، تقاضائے عمر ہے.پانچ سات دفعہ اس نے شکائتیں بیان کیں.اور پانچ سات دفعہ ہی طبیب یہی کہتا رہا کہ آپ درست کہتے ہیں.مگر عمر کا تقاضا ہی ایسا ہے.جب بار بار طبیب نے ایسا کہا تو اسے غصہ آگیا کہ یہ عجیب طبیب ہے اور اسے گالیاں دینے لگ گیا کہ تو بڑا خبیث اور بے ایمان ہے.تیرا کام نسخہ لکھ کر دینا ہے یا ہر بات پر یہ کہہ دینا ہے کہ تقاضائے عمر ہے.جب وہ اپنا جوش نکال چکا تو طبیب کہنے لگا یہ بھی تقاضائے عمر ہے.تو ان کے اندر جوش تو پیدا ہوا مگر جلسہ نہ ہوا.یہ بھی تقاضائے عمر ہی تھا.مگر بہر حال میں نے جان بوجھ کر انصار اللہ میں ایک طبقہ ایسے لوگوں کا بھی رکھا تھا جن کا تقاضائے عمر کام کرنا ہو.تقاضائے عمر کام نہ کرنا نہ ہو.میں نے چالیس سال سے اوپر عمر والوں کو انصار اللہ میں شامل کیا ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ ایک بڑا طبقہ ایسے لوگوں کا ان کے پاس موجود ہے جو اپنے اندر کام کرنے کی روح رکھتا ہے اور طاقت وقوت کے لحاظ سے بھی وہ نوجوانوں سے کم نہیں.ساٹھ سال سے اوپر جا کر انسان کے قومی میں انحطاط شروع ہوتا ہے.بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تریسٹھ سال سے اوپر کی عمر والوں کے متعلق بھی یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ اب اس عمر والوں کا بیٹھنے کا زمانہ ہے کام کرنے کا نہیں.اس

Page 96

۹۱ سے نیچے نیچے ہر شخص سوائے کسی معذور یا بیمار کے اپنے اندر کام کرنے کی طاقت رکھتا ہے.پس جو عمران کے لئے رکھی گئی ہے، اس کے لحاظ سے ایک بہت بڑا حصہ جواں ہمت لوگوں کا ان کے اندر پایا جاتا ہے اور وہ اگر چاہیں تو اچھی طرح کام کر سکتے ہیں.اگر ایسے لوگوں کو آگے آنے اور کام کرنے کا موقعہ دیا جاتا اور زیادہ عمر کے لوگ صرف نگرانی اور محافظت کا کام کرتے تو اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ ایک طرف تو نوجوان بڑوں کی نگرانی میں کام کرنے کا طریق سیکھ جاتے اور دوسری طرف وہ جوش سے کام لے کر لوگوں کے اندر بیداری بھی پیدا کر دیتے.مگر چونکہ ایسے لوگوں کو آگے آنے کا موقعہ نہیں دیا گیا اس لئے ” تقاضائے عمر“ سمجھ کر ہی بات ختم کر دی گئی اور انصار اللہ میں بیداری پیدا نہ ہوئی.پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کے مخلصین کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے.یاد رکھو! اگر اصلاح جماعت کا سارا دارو مدار نظارتوں پر ہی رہا تو جماعت احمدیہ کی زندگی کبھی لمبی نہیں ہو سکتی.یہ خدائی قانون ہے جو کبھی بدل نہیں سکتا کہ ایک حصہ سوئے گا اور ایک حصہ جاگے گا.ایک حصہ غافل ہوگا اور ایک حصہ ہوشیار ہوگا.خدا تعالیٰ نے دنیا کو گول بنا کر فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے قانون میں یہ بات داخل ہے کہ دنیا کا ایک حصہ سوئے اور ایک حصہ جاگے.کبھی دنیا کا ایک حصہ جاگتا ہے اور دوسرا سوتا ہے.کبھی دوسرا جاگتا ہے اور پہلا سوتا ہے.چاہے تم ساری دنیا کو فرشتوں سے بھی لا کر بھر دو پھر بھی ایسا ہی ہوگا کہ آدھی دنیا سوئے گی اور آدھی دنیا جاگے گی.ایسی صورت میں کام کو زندہ اور جاری رکھنے کا بہترین طریق یہ ہوا کرتا ہے کہ کام دونوں کے سپرد کر دیا جائے.اس دنیا کے بھی سپر د کر دیا جائے جو ایک طرف ہے اور اس دنیا کے بھی سپر د کر دیا جائے جو دوسری طرف ہے.اگر ایک طرف سوئے گی تو دوسری طرف جائے گی اور اگر دوسری طرف سوئے گی تو پہلی طرف اس کام کو زندہ رکھے گی.یہی تقدیر اور تدبیر کا باریک نکتہ ہے.خدا تعالیٰ سوتا نہیں مگر خدا کبھی سونے والے کی طرح ہو جاتا ہے جیسے فرمایا افطِرُ وَ أَصُومُ تا کہ دنیا کو بیداری کا موقع دے اور جب دنیا تھک جاتی ہے تو خدا اپنا کام شروع کر دیتا ہے یہی نظام اور عوام کے کام کا تسلسل دنیا میں دکھائی دیتا ہے.جو در حقیقت پر تو ہیں تقدیر اور تدبیر کے.کبھی عوام سوتے ہیں اور نظام جاگتا ہے،

Page 97

۹۲ اور کبھی نظام سوتا ہے اور عوام جاگتے ہیں، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نظام بھی جاگتا ہے اور عوام بھی جاگتے ہیں اور وہ وقت بڑی بھاری کامیابی اور فتوحات کا ہوتا ہے.وہ گھڑیاں جب کسی قوم پر آتی ہیں جب نظام بھی بیدار ہوتا ہے اور عوام بھی بیدار ہوتے ہیں.تو وہ اس قوم کے لئے فتح کا زمانہ ہوتا ہے.وہ اس قوم کے لئے کامیابی کا زمانہ ہوتا ہے.وہ اس قوم کے لئے ترقی کا زمانہ ہوتا ہے.وہ شیر کی طرح گرجتی اور سیلاب کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے.ہر روک جو اس کے راستہ میں حائل ہوتی ہے اسے مٹا ڈالتی ہے.ہر عمارت جواس کے سامنے آتی ہے اسے گرا دیتی ہے.ہر چیز جو اس کے سامنے آتی ہے اسے بکھیر دیتی ہے اور اس طرح وہ دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف، اس طرف بھی اور اس طرف بھی، بڑھتی چلی جاتی ہے اور دنیا پر اس طرح چھا جاتی ہے کہ کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی.مگر پھر ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب نظام سو جاتا ہے او ر عوام جاگتے ہیں.یا عوام سو جاتے ہیں اور نظام جاگتا ہے اور پھر آخر میں وہ وقت آتا ہے.جب نظام بھی سو جاتا ہے اور عوام بھی سو جاتے ہیں.تب آسمان سے خدا تعالیٰ کا فرشتہ اترتا ہے اور اس قوم کی روح کو قبض کر لیتا ہے.یہ قانون ہمارے لئے بھی جاری ہے، جاری رہیگا اور بھی بدل نہیں سکے گا.پس اس قانون کو دیکھتے ہوئے ہماری پہلی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ ہمارا نظام بھی بیدار ر ہے اور ہمارے عوام بھی بیدار ر ہیں.اور درحقیقت یہ زمانہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے.خدا کا مسیح ہم میں ابھی قریب ترین زمانہ میں گذرا ہے.اس لئے اس زمانہ کے مناسب حال ہمارا نظام بھی بیدار ہونا چاہئے اور ہمارے عوام بھی بیدار ہونے چاہئیں.مگر چونکہ دنیا میں اضمحلال اور قوتوں کا انکسار انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے.اس لئے عوام کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ یہ نظام کو جگاتے رہیں اور نظام کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ وہ عوام کو جگاتا رہے.تا خدانخواستہ اگر ان دونوں میں سے کوئی سو جائے ، غافل ہو جائے اور اپنے فرائض کو بھول جائے تو دوسرا اس کی جگہ لے لے اور اس طرح ہم زیادہ سے زیادہ اس دن کو بعید کر دیں جب نظام اور عوام دونوں سو جاتے ہیں اور خدائی تقدیر موت کا فیصلہ صادر کر دیتی ہے.پس دونوں کو اپنے اپنے فرض ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ اگر دونوں نہ جاگیں تو کم از کم ایک تو جاگے اور اس طرح وہ دن ، جو موت کا دن ہے ہم سے زیادہ سے زیادہ دور رہے.

Page 98

۹۳ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ سب کام خدا کے اختیار میں ہے اور انسان اگر کامیاب ہونا چاہئے تو اس کا فرض ہے کہ وہ بجز اور انکسار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرے.مگر دعاؤں کے ساتھ انسان کا اپنا ارادہ اور اس کی امنگ بھی شامل ہونی چاہئے تب دعاؤں کا فائدہ حاصل ہوتا ہے.جیسے میں نے ابھی بتایا ہے کہ جب تقدیر اور تدبیر جمع ہو جاتی ہیں تو اس وقت برکات کا ظہور اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے.یا جیسے میں نے بتایا ہے کہ عوام اور نظام دونوں بیدار ہوں تو وہ وقت قوم کی فتح کا اور وہ گھڑیاں اس کی کامرانی کی گھڑیاں ہوتی ہیں.محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ ایسا ہی زمانہ تھا کہ تقدیر الہی آسمان سے جاری تھی اور زمین پر تدبیروں کا ڈھیر لگایا جارہا تھا.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنے کے لئے ایک وفد آیا.وفدا بھی پیچھے ہی تھا کہ ان میں سے ایک شخص آگے بڑھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملنے کے لئے آگیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا تم بہت جلدی آگئے.تمہاری قوم نہیں آئی.اس کی کیا وجہ ہے؟ وہ کہنے لگا یا رسول اللہ وہ اپنے اونٹ باندھ رہے ہیں مگر میں اپنے اونٹ خدا کے سپرد کر کے آ گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور اپنے اونٹ کی رسی باندھو.اس کے بعد اپنے رب پر توکل کرو.تو وہ زمانہ ایسا تھا جب تقدیر اور تد بیر دونوں اپنے انتہاء کو پہنچی ہوئی تھیں.چنانچہ اس کے نتیجہ میں اسلام کو وہ فتوحات اور کامیابیاں حاصل ہوئیں جن کی مثال نہ پہلے کسی زمانہ میں ملتی ہے اور نہ بعد میں کسی زمانہ میں نظر آتی ہے.اس وقت آسمان سے خدا تعالیٰ کے فرشتے ہی دشمنوں پر حملہ نہیں کر رہے تھے بلکہ زمین پر مسلمانوں کے ہاتھ سے بھی کفار مارے جارہے تھے اور جب دو طرف سے حملہ ہو، تو تم جانتے ہو کہ درمیان میں آنے والی کوئی چیز بیچ نہیں سکتی.پس جب خدا کی تقدیر اور بندے کی تدبیر جمع ہو جاتی ہے تو اس وقت ہر چیز جو درمیان میں آتی ہے، ہٹتی چلی جاتی ہے اور ہر کامیابی اور ہر فتح حاصل ہوتی چلی جاتی ہے.پس اصل کامیابی تو اسی بات میں ہے کہ ہم کوشش کریں کہ آسمان سے خدائی تقدیر بھی ہمارے حق میں جاری رہے، اور زمین پر ہماری تدبیریں بھی ہمیں کامیابی کے قریب تر کرتی رہیں.لیکن اگر یہ نہ ہو تو کم سے کم اتنا تو ہونا چاہئے کہ اگر ہمارے نظام میں خرابی آجائے تو عوام بیدار ہوں ، جو اس

Page 99

۹۴ خرابی کو دور کر سکیں اور اگر عوام میں کوئی خرابی واقع ہو جائے تو نظام اس کی اصلاح کے لئے جاگ رہا ہو.یہ کم سے کم توقع ہے.جو ہم سے ہر شخص کو رکھنی چاہئے.تا کہ ہماری قومی اور جماعتی زندگی ہموت کے دن سے زیادہ سے زیادہ دور رہے.پس میں اس نصیحت کے ساتھ انصار اللہ کو بیدار کرنا چاہتا ہوں اور خدام الاحمدیہ کو بھی بیدار کرنا چاہتا ہوں.خدام الاحمدیہ بیشک نسبتا زیادہ بیدار ہیں مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ بھی قشر کی طرف زیادہ متوجہ ہیں.انہیں یا درکھنا چاہئے کہ یہ کوئی خوبی نہیں کہ کسی قوم کے تین یا چار پانچ آدمی مل کر اچھا مارچ کر سکتے یا کوئی اور دنیوی کام کر سکتے ہیں.بلکہ خوبی تو یہ ہے کہ جماعت میں تین یا چار یا پانچ آدمی پیدا کر دیئے جائیں جن کی روحیں اکٹھی ہوں اور جو روحانی میدان میں مل کر قدم اٹھا سکتے ہوں.مذہبی دنیا میں کبھی قدموں کو ملا کر چلنے سے کامیابی نہیں ہوا کرتی بلکہ مذہبی دنیا میں روحوں کے متحد ہونے سے کامیابی حاصل ہوا کرتی ہے.مگر اس میں ابھی بہت بڑی کو تا ہی پائی جاتی ہے.ہر شخص دوسرے پر اعتراض کرتا اور اعتراض کرنے کو ہی اپنی خوبی اور کمال سمجھتا ہے.ایک افسر دوسرے افسر کی جگہ مقرر کیا جاتا ہے تو ہمیشہ اس کا یہ طریق نظر آتا ہے کہ وہ کہتا ہے میں نے یہ کام کیا مگر دوسرے کے کام میں یہ یہ نقص تھا.اسے کبھی یہ خیال ہی نہیں آتا کہ میں اس قسم کے الفاظ کہہ کر اپنے نقص کا آپ اظہار کر رہا ہوں.بے شک دوسرے افسر کے کام میں کوتا ہی ہو گی مگر جب یہی اس کا نقص بیان کرتا اور اپنی خوبیاں شمار کرتا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت بہم پہنچارہا ہوتا ہے کہ اگر پہلے افسر کا کوئی عمل ناقص تھا تو اس کا ایمان ناقص ہے.پس مادی حالات کی درستی نہیں بلکہ روحوں کی درستی سے مذہبی جماعتیں دنیا میں کامیاب ہوا کرتی ہیں.مگر اس طرف خدام کی توجہ ا بھی کم ہے.لیکن بہر حال انصار اللہ سے وہ کچھ زیادہ بیدار ہیں.اگر یہ دونوں یعنی خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ مل کر جماعت میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی وقت ہمارا نظام

Page 100

۹۵ سو جائے تو یہ لوگ اس کی بیداری کا باعث بن جائیں گے اور اگر یہ خود سو جائیں گے تو نظام ان کو بیدار کرتا رہے گا.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان ذمہ واریوں کی ادائیگی میں ہماری مدد فرمائے اور ہمیں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے ذاتی فرائض کو ادا کرتے ہوئے اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی اٹھانے اور ان کو بیدار کرنے کا باعث ہو.تا کہ ہم خدا تعالیٰ کے سامنے بیدار اور ہوشیار سپاہیوں کی صورت میں پیش ہوں.مردار اور بے کا رلوگوں کی صورت میں پیش نہ ہوں.( خطبه جمعه فرموده ۲۲ اکتوبر ۱۹۴۳ء بحواله الفضل ۱۷.نومبر ۱۹۴۳ء)

Page 101

۹۶ ذیلی تنظیموں کے قائم کرنے کی حکمت دنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ (اقتباس از خطبه جمعه ) ایک قسم کی چیزیں ایک دوسرے کی طرف زیادہ جھکتی ہیں.نوجوان قدرتی طور پر یہ خیال کرتے ہیں کہ بوڑھوں کا کیا ہے وہ اپنی عمریں گزار چکے ہیں اور ہم وہ ہیں جو ابھی جوانی کی عمر میں سے گذررہے ہیں.اس وجہ سے اگر کوئی بوڑھا انہیں نصیحت کرے کہ اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے ، اپنے اشغال اور افعال میں نیکی اور تقویٰ مدنظر رکھنا چاہئے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جو اخلاق اور مذہب کے خلاف ہو تو وہ اس کی بات کو مذاق میں اڑا دیتے ہیں.اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور خیال کرتے ہیں بوڑھوں کا کیا ہے یہ اپنے وقت میں تو مزے اٹھا چکے ہیں اور اب ہمیں نصیحت کرنے لگ گئے ہیں کہ ہم ہر قسم کے کاموں سے اجتناب کریں.لیکن اگر ویسی ہی نصیحت انہیں کوئی نوجوان کرے تو وہ اس کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم اپنی عمر عیش و عشرت میں گزار کر اب ہمیں نصیحت کرنے لگ گئے ہو بلکہ وہ مجبور ہوتے ہیں کہ اس کی نصیحت پر کان دھر میں اور اس کی بات کو تسلیم کریں.کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ یہ نصیحت کرنے والا بالکل ہمارے جیسا ہے یہ بھی اسی عمر کا ہے جو ہماری عمر ہے.اس کا بھی ویسا ہی دل ہے جیسا ہمارا دل ہے.اس کے اندر بھی ویسے ہی جذبات اور احساسات ہیں، جیسے جذبات اور احساسات ہمارے اندر ہیں.لیکن جب یہ بھی ہمیں نصیحت کر رہا ہے تو ہمیں ضرور اس کی بات پر غور کرنا چاہئے اور اگر کچھ نو جو ان ایسے بھی ہوں جو اس کی نصیحت پر عمل کرنے کے لئے تیار نہ ہوں تو کم سے کم وہ اعتراض کا کوئی اور طریق اختیار کریں گے، یہ نہیں کہیں گے کہ خود جوانی کی عمر میں مزے اٹھا کر اب ہمیں روکا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم نیکی کی طرف توجہ کریں.اسی طرح بچے بچوں کے ذریعہ بہت جلد سمجھ سکتے ہیں اور

Page 102

۹۷ بوڑھے بوڑھوں کے ذریعہ باتیں سمجھنے کے عادی ہوتے ہیں.اگر کسی بوڑھے کے پاس کوئی نوجوان جا کر کہے کہ جناب فلاں بات اس طرح ہے اور آپ اس طرح کر رہے ہیں.تو وہ فوراً اس کی بات سنتے ہی کہہ دیگا کہ میاں کوئی عقل کی بات کرو تم ابھی کل کے بچے ہو اور میں بوڑھا تجربہ کار ہوں.تم ان باتوں کی حقیقت کو کیا سمجھو، ہمیں خوب جانتا ہوں کہ بات کس طرح ہے اور نیکی اور تقویٰ کا کونسا پہلو ہے.اسی طرح اگر کوئی بچہ بوڑھے کونصیحت کرے تو وہ نصیحت کی بات اس بچہ کے مونہہ سے سن کر ہنس پڑے گا اور کہے گا یہ پاگل ہوگیا ہے ابھی تو خود نا تجربہ کار ہے، بچپن کے زمانہ میں ہے اور نصیحت مجھے کر رہا ہے.لیکن اگر بوڑھا بوڑھے کو نصیحت کرے تو وہ ضرور اس نصیحت پر کان دھر یگا.کیونکہ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم تجربہ میں مجھ سے کم ہو.میں تمہاری بات کس طرح مان سکتا ہوں.غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم عمر ہی اپنے ہم عمروں کو اچھی طرح سمجھا سکتے ہیں.بلکہ میں نے تو یہاں تک دیکھا ہے اگر عمر میں پانچ دس سال کا فرق ہو تب بھی دوسرا شخص سمجھتا ہو کہ میں تو اوروں کو نصیحت کرنے کا حق رکھتا ہوں مگر کوئی دوسرا شخص جو عمر میں مجھ سے کم ہے، چاہیئے چند سال ہی کم ہو، یہ حق نہیں رکھتا کہ مجھے نصیحت کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں صدر انجمن احمدیہ کے اجلاس میں جب مختلف معاملات پر بحث ہوتی تو بسا اوقات خواجہ کمال الدین صاحب ، مولوی محمدعلی صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب ایک طرف ہوتے اور بعض دوسرے دوست دوسری طرف.ان میں سے شیخ رحمت اللہ صاحب، مولوی محمد احسن صاحب امروہی سے عمر میں صرف چار پانچ سال چھوٹے تھے.مگر میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ جب آپس میں کسی بات پر بحث شروع ہو جاتی تو مولوی محمد احسن صاحب امروہی، شیخ رحمت اللہ صاحب کو مخاطب کر کے کہتے کہ تم تو ابھی کل کے بچے ہو تمہیں کیا پتہ کہ معاملات کو کس طرح طے کیا جاتا ہے.میرا تجربہ تم سے زیادہ ہے اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہی درست ہے.حالانکہ مولوی محمد احسن صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب کی عمر میں صرف چار پانچ سال کا فرق تھا.مگر چار پانچ سال کے تفاوت سے ہی انسان یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ مجھے اس بات کا حق حاصل ہے کہ دوسروں پر حکومت کروں.مجھے حق حاصل ہے کہ میں دوسروں کو نصیحت کا سبق دوں اور ان کا فرض ہے کہ وہ میری اطاعت کریں اور جو کچھ میں کہوں

Page 103

۹۸ اس کے مطابق عمل بجالائیں.پس ایسی صورت میں اگر کوئی نو جوان کسی بوڑھے کو نصیحت کرے گا تو یہ صاف بات ہے کہ بجائے نصیحت پر غور کرنے کے اس کے دل میں غصہ پیدا ہوگا کہ یہ نوجوان مجھے نصیحت کرنے کا کیا حق رکھتا ہے.اس طرح بجائے بات کو ماننے کے وہ اور بھی بگڑ جائے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ انسان ایک بچہ کے مونہہ سے بھی نصیحت کی بات سن کر سبق حاصل کر لیتا ہے.مگر ایسا شاذ و نادر کے طور پر ہوتا ہے.اسی طرح بعض دفعہ ایک نوجوان کے مونہہ سے کوئی سن کر ایک بوڑھا انسان بھی سبق حاصل کر سکتا ہے مگر ایسا بہت کم اتفاق ہوتا ہے.عام طور پر عمر کے تفاوت کے ماتحت چاہے ایک بڑی عمر والا بیوقوف ہی کیوں نہ ہو وہ یہی سمجھتا ہے کہ میرا حق ہے کہ میری بات کو مانا جائے کیونکہ میں بڑی عمر کا ہوں دوسرے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مجھے نصیحت کرے یا مجھے کسی نقص کے اصلاح کی طرف توجہ دلائے.یہی حکمت ہے جس کے ماتحت میں نے انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ تین الگ الگ جماعتیں قائم کی ہیں.تا کہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی نقل کا مادہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ پیدا ہو.بچے بچوں کی نقل کریں.نوجوان نوجوانوں کی نقل کریں اور بوڑھے بوڑھوں کی نقل کریں.جب بچے اور نوجوان اور بوڑھے سب اپنی اپنی جگہ یہ دیکھیں گے کہ ہمارے ہم عمر دین کے متعلق رغبت رکھتے ہیں، وہ اسلام کی اشاعت کی کوشش کرتے ہیں ، وہ اسلامی مسائل کو سیکھنے اور ان کو دنیا میں پھیلانے میں مشغول ہیں، وہ نیک کاموں کی بجا آوری میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں ، تو ان کے دلوں میں بھی یہ شوق پیدا ہوگا کہ ہم بھی ان نیک کاموں میں حصہ لیں اور اپنے ہم عمروں سے نیکی کے کاموں میں آگے نکلنے کی کوشش کریں.دوسرے وہ جو رقابت کیوجہ سے عام طور پر دلوں میں غصہ پیدا ہوتا ہے ، وہ بھی پیدا نہیں ہوگا.جب بوڑھا بوڑھے کو نصیحت کرے گا، نوجوان نوجوان کو نصیحت کرے گا اور بچہ بچے کو نصیحت کرے گا، تو کسی دل میں خیال پیدا نہیں ہو گا کہ مجھے کوئی ایسا مشخص نصیحت کر رہا ہے جو عمر میں مجھ سے چھوٹا یا عمر میں مجھ سے بہت بڑا ہے.وہ سمجھے گا کہ میرا ایک ہم عمر جو میرے جیسے خیالات اور میرے جیسے جذبات اپنے اندر رکھتا ہے مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس وجہ سے اس کے دل پر نصیحت کا خاص طور پر اثر ہوگا اور وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جائیگا.مگر یہ تغیر اسی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے جب جماعت میں یہ

Page 104

۹۹ نظام پورے طور رائج ہو جائے اور کوئی بچہ کوئی نو جوان اور کوئی بوڑھا ایسا نہ رہے جو اس نظام میں شامل نہ ہو.اگر جماعت کے چند بوڑھے اس مقصد کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں، اگر جماعت کے چند نوجوان اس نظام کو جاری کرنے کے لئے اکٹھے ہو جاتے ہیں.اگر جماعت کے چند بچے اس امر کی اہمیت کو سمجھ کر ا کٹھے ہو جاتے ہیں، تو ان چند نو جوانوں، چند بوڑھوں اور چند بچوں کیوجہ سے اس نظام کے وسیع اثرات ظاہر نہیں ہو سکتے اور نہ اس کے نتیجہ میں ساری دنیا میں بیداری پیدا ہو سکتی ہے.ساری دنیا میں اس تحریک کو قائم کرنے ، ساری دنیا کو بیدار کرنے اور ساری دنیا کو اس نظام کے اندر لانے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان اپنے آپ کو اس قدر منظم کر لیں کہ وہ یقینی اور حتمی طور پر کہہ سکیں کہ ہم نے اپنی اندرونی تنظیم کا کام اس کے تمام پہلوؤں کے لحاظ سے پوری خوش اسلوبی کے ساتھ ختم کر لیا ہے.اس طرح بچے اپنے آپ کو خدام الاحمدیہ کی مدد سے اس قدر منظم کرلیں کہ تنظیم کا کوئی پہلو نا قص نہ رہے اور ان کا اندرونی نظام ہر جہت سے مکمل ہو جائے.یہی حال انصار اللہ کا ہو کہ وہ اپنے آپ کو اس طرح منتظم کر لیں.اس طرح ایک نظام میں اپنے آپ کو منسلک کر لیں کہ وہ مسرت کے ساتھ یہ اعلان کر سکیں کہ ہم نے اپنی اندرونی تنظیم پورے طور مکمل کر لی ہے.اب ہم میں تنظیم کے لحاظ سے کسی قسم کی خامی اور نقص باقی نہیں رہا.جب خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور اطفال الاحد یہ تینوں اپنے آپ کو اس رنگ میں منظم کرلیں گے اور اپنی اندرونی خامیوں کو کلیتہ دور کر دیں گے تب وہ اس قابل ہوسکیں گے کہ دوسروں کی اصلاح کریں اور تب دنیا مجبور ہوگی کہ ان کی باتوں کو سنے اور ان پر غور کرے.میں نے دیکھا ہے بعض بچے چھوٹی عمر کے ہوتے ہیں لیکن چونکہ وہ ذہین ہوتے ہیں اور دین کی باتوں کو سمجھتے ہیں، اس لئے ان کا طبعی طور پر دوسرے بچوں پر نمایاں اثر ہوتا ہے اور وہ بھی اس رنگ کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ رنگ ان کو خوبصورت دکھائی دیتا ہے اور وہ باتیں ان کو جاذبیت رکھنے والی معلوم ہوتی ہیں.ہمارا ایک عزیز بچہ ہے، تین چار سال اس کی عمر ہے.مگر ذہین اور ہوشیار ہے.وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ باہر گیا ہوا ہے، جس گھر میں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں اس گھر کے بچوں پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ انہی میں سے ایک لڑکے نے مجھے خط لکھا کہ آپ اپنے فلاں بچہ کو اجازت دیں کہ ہمارے ساتھ مل کر ایک دفعہ میوزیکل کانسرٹ دیکھ لے.اس نے لکھا کہ میں نے اسے بہت کہا ہے کہ ایک دفعہ ہمارے ساتھ میوزیکل کا نسرٹ دیکھ لومگر وہ مانا نہیں.اس نے کہا ہے کہ ہم ایسی

Page 105

100 چیزیں نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ہمیں ان چیزوں کے دیکھنے سے منع کیا گیا ہے.اس نے یہ بھی لکھا کہ مجھے اس کی باتیں سن کر احمدیت کے متعلق رغبت پیدا ہو گئی ہے.وہ بھی ایک چھوٹا بچہ ہے مگر معلوم ہوتا ہے ہمارے عزیز کی طرح وہ بھی ذہین ہے اور بات کو بہت جلدی سمجھ جاتا ہے.پس ایک چھوٹی عمر کے بچے کا دوسرے سے یہ کہنا کہ ہم میوزیکل کانسرٹ میں شامل نہیں ہو سکتے کیونکہ ہمیں ان چیزوں کے دیکھنے سے منع کیا گیا ہے اور پھر دوسرے لڑکے کا میری طرف خط لکھنا کہ اسے ایک دفعہ اجازت دیجئے کہ وہ میوزیکل کانسرٹ دیکھ لے، بتا تا ہے کہ بچوں میں یہ قابلیت پائی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سنبھال سکیں اور نو جوانوں میں بھی یہ قابلیت پائی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو سنبھال سکیں اور بوڑھوں میں بھی قابلیت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے تجربہ اور اپنے علم اور اپنی عقل سے دوسروں کی راہنمائی کر سکیں.مگر یہ فرض اپنی پوری خوش اسلوبی سے اس وقت تک ادا نہیں ہو سکتا جب تک ہماری جماعت کے تمام نو جوان ، تمام بوڑھے اور تمام بچے اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر لیتے.ہماری جماعت کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے.تمام دنیا کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھکانا ہے.تمام دنیا کو اسلام اور احمدیت میں داخل کرنا ہے.تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کرنا ہے.مگر یہ عظیم الشان کام اس وقت تک سرانجام نہیں دیا جا سکتا جب تک ہماری جماعت کے تمام افراد خواہ بچے ہوں یا نوجوان ہوں یا بوڑھے ہوں، اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر لیتے اور اس لائحہ عمل کے مطابق دن اور رات عمل نہیں کرتے جوان کے لئے تجویز کیا گیا ہے.دنیا میں ہمیشہ یہی طریق ہوتا ہے کہ پہلے اندرونی کمروں کی صفائی کی جاتی ہے، پھر بیرونی کمروں کی صفائی کی جاتی ہے، پھر صحن کی صفائی کی جاتی ہے، پھر ڈیوڑھی کی صفائی کی جاتی ہے اور پھر گلی کی صفائی کی جاتی ہے.یہ کبھی نہیں ہوا کہ کوئی شخص ڈیوڑھی یا باہر کی گلی کو تو صاف کرنے لگ جائے اور اس کے اندرونی کمروں میں گند بھرا ہوا ہو.ہمیشہ بیرونی صفائی سے پہلے اندرونی صفائی کی جاتی ہے.باہر کی سڑکوں اور گلیوں اور محن وغیرہ کو صاف کرنے سے پہلے اندرونی کمروں کی غلاظت اور گند کو دور کیا جاتا ہے.اس کے بعد بیرونی کمروں کی صفائی کا وقت آتا ہے.پھر صحن کی صفائی کی طرف توجہ کی جاتی ہے.پھر گلی کی صفائی کا اہتمام کیا جاتا ہے اور جب ان تمام مراحل کو طے کر لیا جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو تو فیق عطا فرما دیتا ہے کہ وہ میونسپل کمیٹی کی شکل میں سارے شہر کی صفائی کا اہتمام کریں.پھر اس سے ترقی کر کے اللہ

Page 106

1+1 تعالیٰ بعض اور لوگوں کو یہ توفیق عطا فرما دیتا ہے کہ وہ ایک حکومت کی شکل میں سارے ملک کی صفائی کا انتظام کریں.بہر حال یہ تدریج ضروری ہے اور بغیر جماعتی تنظیم اور اصلاح کو مکمل کرنے کے ہم ساری دنیا کی تنظیم اور اس کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کر سکتے.ہم اسی وقت باہر کی طرف توجہ کر سکتے ہیں جب ہم اپنے داخلی نظام کو مکمل کر لیں گے.جب ہم تمام جماعت کے افراد کو ایک نظام میں منسلک کرلیں گے تو اس کے بعد ہم بیرونی دنیا کی اصلاح کی طرف کامل طور پر توجہ کر سکیں گے.اس اندرونی اصلاح اور تنظیم کو مکمل کرنے کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ، اطفال الاحمدیہ تین جماعتیں قائم کی ہیں اور یہ تینوں اپنے اس مقصد میں جو ان کے قیام کا اصلی باعث ہے اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہیں.جب انصار اللہ، خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمد یہ اس اصل کو اپنے مدنظر رکھیں جو حَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ (سورة البقرة: ۱۴۵) میں بیان کیا گیا ہے.کہ ہر شخص اپنے فرض کو سمجھے اور پھر رات اور دن اس فرض کی ادائیگی میں اس طرح مصروف ہو جائے جس طرح ایک پاگل اور مجنوں تمام اطراف سے اپنی توجہ کو ہٹا کر صرف ایک بات کے لئے اپنے تمام اوقات کو صرف کر دیتا ہے.جب تک رات اور دن انصار اللہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے.جب تک رات اور دن خدام الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے.جب تک رات اور دن اطفال الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے تمام اوقات کو صرف نہیں کر دیتے اس وقت تک ہم اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر سکتے اور جب تک ہم اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کر لیتے ، اس وقت تک ہم بیرونی دنیا کی اصلاح اور اس کی خرابیوں کے ازالہ کی طرف بھی پوری توجہ نہیں کر سکتے.اقتباس از خطبه جمعه فرموده ۲۹.ستمبر ۱۹۴۴ء بحوالہ الفضل ۱۱.اکتوبر ۱۹۴۴ء - صفحه ۴ اور ۵)

Page 107

۱۰۲ خلافت احمدیہ سے کامل وابستگی انصار اللہ کی اہم ذمہ داری افتتاحی تقریر دوسرا سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ مرکزیہ تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت فرمائی.يَاتِهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارُ اللَّهُ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِينَ مَنْ أَنْصَارِيِّ إِلَى الله قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ الله (سورۃ الصف آیت (۱۵) اس کے بعد فرمایا: آپ لوگوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ہے.یہ نام قرآنی تاریخ میں بھی دو دفعہ آیا ہے اور احمدیت کی تاریخ میں بھی دو دفعہ آیا ہے.قرآنی تاریخ میں ایک دفعہ تو حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں.چنانچہ جب آپ نے فرما یا مَنْ أَنصَارِى إِلَى الله تو آپ کے حواریوں نے کہا نَحْنُ أَنْصَارُ الله کہ ہم اللہ تعالیٰ کے انصار ہیں.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق فرماتا ہے.کہ ان میں سے ایک گروہ مہاجرین کا تھا اور ایک گروہ انصار کا تھا.گویا یہ نام قرآنی تاریخ میں دو دفعہ آیا ہے.ایک جگہ پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق آیا ہے اور ایک جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ایک حصہ کو انصار کہا گیا ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی انصار اللہ کا دوجگہ ذکر آتا ہے.ایک دفعہ جب حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی پیغامیوں نے مخالفت کی تو میں نے انصار اللہ کی ایک جماعت قائم کی اور دوسری دفعہ جب جماعت کے بچوں ، نوجوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کی تنظیم کی گئی تو چالیس سال سے اوپر کے مردوں کی جماعت کا نام انصار اللہ رکھا گیا.گویا جس طرح قرآن کریم میں

Page 108

۱۰۳ دوگروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ہے.اسی طرح جماعت احمدیہ میں بھی دو زمانوں میں دو جماعتوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا.پہلے جن لوگوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ان میں سے اکثر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے صحابہ تھے.کیونکہ یہ جماعت ۱۴ ۱۹۱۳ء میں بنائی گئی تھی اور اس وقت اکثر صحابہ زندہ تھے اور اس جماعت میں بھی اکثر وہی شامل تھے.اسی طرح قرآن کریم میں بھی جن انصار کا ذکر آتا ہے ان میں زیادہ ترمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ شامل تھے.دوسری دفعہ جماعت احمدیہ میں آپ لوگوں کا نام اسی طرح انصار اللہ رکھا گیا ہے جس طرح قرآن کریم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ادنی نبی حضرت مسیح ناصرٹی کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا ہے.آپ لوگوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کم ہیں اور زیادہ حصہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے میری بیعت کی ہے.اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام والی بات بھی پوری ہوگئی.یعنی جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا تھا.اسی طرح مثیل مسیح موعود کے ساتھیوں کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے.گویا قرآنی تاریخ میں بھی دو زمانوں میں دوگروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا اور جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی دوگروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اب بھی زندہ ہیں مگر اب ان کی تعداد بہت تھوڑی رہ گئی ہے.صحابی اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو نبی کی زندگی میں اس کے سامنے آ گیا ہو.گوزیادہ تر یہ لفظ انہی لوگوں پر اطلاق پاتا ہے جنہوں نے نبی کی صحبت سے فائدہ اٹھایا ہو اور اس کی باتیں سنی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ۱۹۰۸ء میں فوت ہوئے ہیں.اس لئے وہ شخص بھی آپ کا صحابی کہلا سکتا ہے جس نے خواہ آپ کی صحبت سے فائدہ نہ اٹھایا ہو لیکن آپ کے زمانہ میں پیدا ہوا ہو اور اس کا باپ اسے اٹھا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے لے گیا ہو.لیکن یہ ادنی درجہ کا صحابی ہوگا.اعلیٰ درجہ کا صحابی وہی ہے جس نے آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں.ان کی تعداد اب بہت کم رہ گئی ہے.اب صرف تین چار آدمی ایسے رہ گئے ہیں جن کے متعلق مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں ہیں.ممکن ہے اگر زیادہ تلاش کیا جائے.تو ان کی تعداد میں یا چالیس تک پہنچ جائے.اب ہماری جماعت لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں اگر ایسے تمیں چالیس صحابہ بھی ہوں ، تب بھی یہ تعداد بہت کم ہے.اس وقت جماعت میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں

Page 109

۱۰۴ جنہوں نے ایسے شخص کی بیعت کی.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منبع تھا اور ان کا نام اسی طرح انصار اللہ رکھا گیا ، جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا تھا.حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَوْ كَانَ مُوسَىٰ وَعِيْسَىٰ حَيَّيْنِ لَمَا وَ سِعَهُمَا إِلَّا اتِّباعی کہ اگر موسیٰ اور عیسی علیهما السلام میرے زمانہ میں زندہ ہوتے تو وہ میرے متبع ہوتے.غرض اس وقت جماعت کے انصار اللہ میں دوباتیں پائی جاتی ہیں.ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک متبع اور مثیل کے ذریعہ اسلام کی خدمت کا موقعہ ملا اور وہ آپ لوگ ہیں.گویا حضرت عیسی علیہ السلام کی مثال آپ لوگوں میں پائی جاتی ہے.جس طرح ان کے حواریوں کو انصار اللہ کہا گیا ہے.اسی طرح مثیل مسیح موعود کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا ہے.پھر آپ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے انصار اللہ کی بات بھی پائی جاتی ہے.جس طرح انصار اللہ میں وہی لوگ شامل تھے جو آپ کے صحابہ تھے.اسی طرح آپ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ شامل ہیں.گویا آپ لوگوں میں دونوں مثالیں پائی جاتی ہیں.آپ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ بھی ہیں.جنہیں انصار اللہ کہا جاتا ہے.جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو انصار کہا گیا پھر جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنا متبع قرار دیا ہے اوان کے صحابہ کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود السلام کے ایک کہا گیا ہے.تبع کے ہاتھ بیعت کرنے والوں کو بھی انصار اللہ شاید بعض لوگ یہ سمجھیں کہ یہ درجہ کم ہے لیکن اگر چالیس سال اور گذر گئے ، تو اس زمانہ کے لوگ تمہارے زمانہ کے لوگوں کو بھی تلاش کریں گے اور اگر چالیس سال اور گذر گئے تو اس زمانہ کے لوگ تمہارے ملنے والوں کو تلاش کریں گے.اسلامی تاریخ میں صحابہؓ کے ملنے والوں کو تابعی کہا گیا ہے.کیونکہ وہ صحابہ کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہو گئے تھے اور ایک تبع تابعی کا درجہ ہے.یعنی وہ لوگ جو تا بعین کے ذریعہ صحابہ کے قریب ہوئے اور آگے صحابہ کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ

Page 110

۱۰۵ وسلم کے قریب ہوئے.اس طرح تین درجے بن گئے.ایک صحابی دوسرے تابعی اور تیسرے تبع تابعی.صحابی وہ جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں.تابعی وہ جنہوں نے آپ سے باتیں سننے والوں کو دیکھا اور تبع تابعی وہ جنہوں نے آپ سے باتیں سننے والوں کے دیکھنے والوں کو دیکھا.دنیوی عاشق تو بہت کم حوصلہ ہوتے ہیں.کسی شاعر نے کہا ہے.تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں میرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا مسلمانوں کی محبت رسول دیکھو جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ قوت ہوئے.تو انہوں نے آپ سے قریب ہونے کے لئے تابعی کا درجہ نکال لیا اور جب تابعی ختم ہو گئے.تو انہوں نے تبع تابعین کا درجہ نکال لیا.اس شاعر نے تو کہا تھا.تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں میرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا مگر یہاں یہ صورت ہوگئی کہ تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں اور پھر ان کے چاہنے والوں کو بھی چاہوں اور پھر تیرہ سو سال تک برابر چاہتا چلا جاؤں.انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا بلکہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہم آپ کے چاہنے والوں کو چاہتے ہیں چاہے وہ صحابی ہوں.تابعی ہوں.تبع تابعی ہوں.یا تبع تبع تابعی ہوں اور ان کے بعد یہ سلسلہ خواہ کہاں تک چلا جائے.ہم کو وہ سب لوگ پیار لگتے ہیں.کیونکہ ان کے ذریعہ ہم کسی نہ کسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہو جاتے ہیں.محدثین کو اس بات پر پڑا اخر ہوتا تھا کہ وہ تھوڑی سی سندات سے محمد رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم تک پہنچ گئے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح اول فرمایا کرتے تھے.کہ میں گیارہ بارہ راویوں کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم تک جا پہنچتا ہوں.آپ کے بعض ایسے اساتذہ مل گئے تھے جو آپ کو گیارہ بارہ روایوں کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیتے تھے اور آپ اس بات پر بڑا فخر کیا کرتے تھے.اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتباع نے آپ کی صحابیت کو بارہ تیرہ درجوں

Page 111

1.7 تک پہنچا دیا ہے اور اس پر فخر کیا ہے.تو آپ لوگ یا صحابی ہیں.یا تابعی ہیں.ابھی تبع تابعین کا وقت نہیں آیا ان دونوں درجوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انصار کا ذکر فرمایا ہے اور پھر ان کی قربانیاں بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند تھیں.چنانچہ جب ہم انصار کی تاریخ کو دیکھتے ہیں.تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ایسی قربانیاں کی ہے کہ اگر آپ لوگ جو انصار اللہ ہیں ان کے نقش قدم پر چلیں تو یقیناً اسلام اور احمدیت دور دور تک پھیل جائے اور اتنی طاقت پکڑ لے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کے مقابلہ پر ٹھہر نہ سکے.تاریخ میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو شہر کی تمام عورتیں اور بچے با ہر نکل آئے.تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے جاتے ہوئے خوشی سے گاتے چلے جاتے تھے کہ طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِياتِ الْوَدَاع رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس جہت سے مدینہ میں داخل ہوئے.وہ وہی جہت تھی جہاں سے قافلے اپنے رشتہ داروں سے رخصت ہوا کرتے تھے.اس لئے انہوں نے اس موڑ کا نام ثنیات الوداع رکھا ہوا تھا.یعنی وہ موڑ جہاں سے قافلے رخصت ہوتے ہیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس موڑ سے مدینہ میں داخل ہوئے.تو مدینہ کی عورتوں اور بچوں نے یہ گاتے ہوئے آپ کا استقبال کیا کہ طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِياتِ الْوَدَاعِ یعنی ہم لوگ کتنے خوش قسمت ہیں کہ جس موڑ سے مدینہ کے رہنے والے اپنے رشتہ داروں کو رخصت کیا کرتے تھے.اس موڑ سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے بدر یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ظاہر کر دیا ہے.پس ہمیں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل ہے.اس لئے کہ وہ تو اس جگہ جا کر اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو رخصت کرتے ہیں.لیکن ہم نے وہاں جا کر سب سے زیادہ محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وصول کیا ہے.پھر ان لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گردگھیرا ڈال لیا اور ان میں سے ہر شخص کی خواہش تھی.کہ آپ اس کے گھر میں ٹھہریں.جس جس گلی میں سے آپ کی اونٹنی گذرتی تھی.اس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے یا رسول اللہ یہ ہمارا گھر ہے جو آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے.یا رسول اللہ آپ ہمارے پاس ہی ٹھہریں.بعض لوگ جوش میں آگے بڑھتے اور آپ کی اونٹنی کی باگ پکڑ

Page 112

۱۰۷ لیتے.تا کہ آپ کو اپنے گھر میں اتر والیں.مگر آپ ہر شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو یہ آج خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے.یہ وہیں کھڑی ہوگی جہاں خدا تعالیٰ کا منشاء ہوگا.آخر وہ ایک جگہ پر کھڑی ہوگئی.رسول کریم اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.سب سے قریب گھر کس کا ہے؟ حضرت ابوایوب انصاری نے فرمایا.یا رسول اللہ میرا گھر سب سے قریب ہے اور آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے.حضرت ابوایوب انصاری کا مکان دو منزل تھا.انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اوپر کی منزل تجویز کی.مگر آپ نے اس خیال سے کہ ملنے والوں کو تکلیف ہوگی نچلی منزل کو پسند فرمایا.حضرت ابوایوب انصاری رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصرار پر مان تو گئے کہ آپ نچلی منزل میں ٹھہریں لیکن ساری رات میاں بیوی اس خیال سے جاگتے رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نیچے سورہے ہیں.پھر وہ کس طرح اس بے ادبی کے مرتکب ہو سکتے ہیں کہ وہ چھت کے اوپر سوئیں.اتفاقاً اسی رات ان سے پانی کا ایک برتن گر گیا.حضرت ابو ایوب انصاری نے دوڑ کر اپنا لحاف اس پانی پر ڈال کر پانی کی رطوبت کو خشک کیا تا کہ چھت کے نیچے پانی نہ ٹپک پڑے.صبح کے وقت وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارے حالات عرض کئے.جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوپر کی منزل پر رہنے میں راضی ہو گئے.اب دیکھو یہ اس عشق کی ایک ادنی سی مثال ہے جو صحابہ کو حمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تھا.پھر یہ واقعہ کتنا شاندار ہے کہ جب جنگ احد ختم ہوئی اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض صحابہ کو اس بات پر مامور فرمایا کہ وہ میدان جنگ میں جائیں اور زخمیوں کی خبر لیں.ایک صحابی میدان میں تلاش کرتے کرتے ایک زخمی انصاری کے پاس پہنچے.دیکھا کہ ان کی حالت نازک ہے اور وہ جان تو ڑ رہے ہیں.اس نے زخمی انصاری سے ہمدردی کا اظہار کرنا شروع کیا.انہوں نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ مصافحہ کے لئے آگے بڑھایا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا میں انتظار کر رہا تھا کہ کوئی بھائی مجھے مل جائے.انہوں نے اس صحابی سے پوچھا کہ آپ کی حالت خطر ناک معلوم ہوتی ہے اور بچنے کی امید نہیں کیا کوئی پیغام ہے جو آپ اپنے رشتہ داروں کو دینا چاہتے ہوں.اس مرنے والے صحابی نے کہا ہاں ہاں میری طرف سے میرے رشتہ داروں کو سلام کہنا اور انہیں کہنا کہ میں مر رہا ہوں مگر میں اپنے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک مقدس امانت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑے جارہا ہوں.میں جب تک زندہ رہا اس نعمت کی اپنی جان کو خطرہ ڈال کر بھی حفاظت کرتا رہا.لیکن اے میرے بھائیو اور رشتہ داروئیں اب مر رہا ہوں اور خدا تعالیٰ کی یہ مقدس امانت

Page 113

۱۰۸ تم کو چھوڑ رہا ہوں.میں آپ سب کو اس کی حفاظت کی نصیحت کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اگر آپ سب کو اس کی حفاظت کے سلسلہ میں اپنی جانیں بھی دینی پڑیں تو آپ اس سے دریغ نہیں کریں گے اور میری اس آخری وصیت کو یا درکھیں گے.مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے اندر ایمان موجود ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ سب کو محبت ہے.اس لئے تم ضرور آپ کے وجود کی حفاظت کے لئے ہر ممکن قربانی کرو گے اور اس کے لئے اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرو گے.اب دیکھو ایک شخص مر رہا ہے.اسے اپنی زندگی کے متعلق یقین نہیں.وہ مرتے وقت اپنے بیوی بچوں کو سلام نہیں بھیجتا.انہیں کوئی نصیحت نہیں کرتا.بلکہ وہ اگر کوئی پیغام بھیجتا ہے تو یہی کہ اے میری قوم کے لوگو! تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت میں کوتا ہی نہ کرنا.ہم جب تک زندہ رہے.اس کے رستہ میں اپنی جانوں کی قربانی بھی پیش کرنی پڑے.تو اس سے دریغ نہ کریں.میری تم سے یہی آخری خواہش ہے اور مرتے وقت میں تمہیں اس کی نصیحت کرتا ہوں.یہ تھا وہ عشق و محبت جو صحابہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا پھر جب آپ کی جنگ بدر کی جنگ کے لئے مدینہ سے صحابہ ضمیت باہر نکلے.تو آپ نے نہ چاہا کہ کسی شخص کو اس کی مرضی کے خلاف جنگ پر مجبور کیا جائے.چنانچہ آپ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا.کہ وہ اس بارہ میں آپ کو مشورہ دیں کہ فوج کا مقابلہ کیا جائے یا نہ کیا جائے.ایک کے بعد دوسرا مہاجر کھڑا ہوا اور اس نے کہا یا رسول اللہ اگر دشمن ہمارے گھروں پر چڑھ آیا ہے تو ہم اس سے ڈرتے نہیں.ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں.آپ ہر ایک کا جواب سن کر یہی فرماتے چلے جاتے کہ مجھے اور مشورہ دو.مجھے اور مشورہ دو.مدینہ کے لوگ اس وقت تک خاموش تھے.اس لئے کہ حملہ آور فوج مہاجرین کی رشتہ دار تھی وہ ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ ان کی بات سے مہاجرین کا دل دُکھے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ مجھے مشورہ دو.تو ایک انصاری سردار کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ مشورہ تو آپ کومل رہا ہے.مگر پھر بھی جو آپ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپ کی مراد ہم انصار سے ہے.آپ نے فرمایا، ہاں.اس سردار نے جواب میں کہا کہ یا رسول اللہ شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب فرمارہے ہیں.کہ آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہمارے اور آپ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں آپ پر اور مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپ

Page 114

۱۰۹ کی حفاظت کریں گے.مدینہ سے باہر نکل کر ہم دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے.لیکن اس وقت آپ مدینہ سے باہر تشریف لے آئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.ہاں یہ درست ہے.اس نے کہایا رسول اللہ جس وقت وہ معاہدہ ہوا تھا.اس وقت تک ہم پر آپ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہیں ہوئی تھی.لیکن اب ہم پر آپ کا مرتبہ اور آپ کی شان پورے طور پر ظاہر ہو چکی ہے.اس لئے یا رسول اللہ اب اس معاہدہ کا کوئی سوال ہی نہیں.ہم موسی" کے ساتھیوں کی طرح آپ کو یہ نہیں کہیں گے کہ فَاذْهَبُ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلاَ إِنَّا هُنَا قَاعِدُونَ (سورة المائدة آیت ۲۵) کہ تو اور تیرا رب جاؤ اور دشمن سے جنگ کرتے پھرو.ہم تو یہیں بیٹھے ہیں.بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑئیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور یا رسول اللہ دشمن جو آپ کو نقصان پہنچانے کے لئے آیا ہے.وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گذرے پھر اس نے کہا یا رسول اللہ جنگ تو ایک معمولی بات ہے.یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمندر ہے.(بدر سے چند منزلوں کے فاصلہ پر سمندر تھا اور عرب تیر نا نہیں جانتے تھے.اس لئے پانی سے بہت ڈرتے تھے ) آپ ہمیں سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دینے کا حکم دیجئے.ہم بلا چوں و چرا اس میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے.یہ وہ فدائیت اور اخلاص کا نمونہ تھا جس کی مثال کسی سابق نبی کے ماننے والوں میں نہیں ملتی.اس مشورہ کے بعد آپ نے دشمن سے لڑائی کرنے کا حکم دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کو نمایاں فتح عطا فرمائی.حضرت مسیح ناصری کے انصار کی وہ شان نہیں تھی.جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انصار کی تھی.لیکن پھر بھی وہ اس وقت تک آپ کی خلافت کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور یہ ان کی ایک بہت بڑی خوبی ہے.مگر تم میں سے بعض لوگ پیغامیوں کی مدد کے لالچ میں آگئے اور انہوں نے خلافت کو مٹانے کی کوششیں شروع کر دیں اور زیادہ تر افسوس یہ ہے کہ ان لوگوں میں اس عظیم الشان باپ کی اولاد بھی شامل ہے.جس کو ہم بڑی قدر اور عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.حضرت خلیفہ اسی اول کی وفات پر ۴۲ سال کا عرصہ کا گذر چکا ہے.مگر میں ہر قربانی کے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں.تحریک جدید ۱۹۳۴ ء سے شروع ہے اور اب ۱۹۵۶ء ہے گویا اس پر ۲۲ سال کا عرصہ گذر گیا ہے.شاید حضرت خلیفہ اسح اول کی اولاد خود بھی اس میں حصہ نہ لیتی ہو.لیکن میں ہر سال آپ کی طرف سے اس میں چندہ دیتا ہوں.تا کہ آپ کی روح کو بھی ثواب پہنچے.پھر جب میں حج پر گیا.تو اس وقت بھی میں نے آپ کی طرف سے قربانی کی تھی اور اب تک عید کے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا چلا آیا ہوں.غرض

Page 115

11+ ہمارے دل میں حضرت خلیفتہ امسیح اول کی بڑی قدر اور عظمت ہے.لیکن آپ کی اولا د نے جو نمونہ دکھایا وہ تمہارے سامنے ہے.اس کے مقابلہ میں تم حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کو دیکھو کہ وہ آج تک آپ کی خلافت کو سنبھالے چلے آتے ہیں.ہم تو اس مسیح کے صحابہ اور انصار ہیں جس کو مسیح نا صرٹی پر فضلیت دی گئی ہے.مگر ہم جو افضل باپ کے روحانی بیٹے ہیں.ہم میں سے بعض لوگ چند روپوں کے لالچ میں آگئے.شاید اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ مماثلت بھی پوری ہونی تھی کہ جیسے آپ کے ایک حواری یہودا اسکر یوطی نے رومیوں سے تمیں روپے لے کر آپ کو بیچ دیا تھا اور اس طرح اس مسیح کی جماعت میں بھی بعض ایسے لوگ پیدا ہونے تھے جنہوں نے پیغامیوں سے مدد لے کر جماعت میں فتنہ کھڑا کرنا تھا.لیکن ہمیں عیسائیوں کے صرف عیب ہی نہیں دیکھنے چاہئیں.بلکہ ان کی خوبیاں بھی دیکھنی چاہئیں.جہاں ان میں ہمیں یہ عیب نظر آتا ہے کہ ان میں سے ایک نے تمیں روپے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام کو بیچ دیا.وہاں ان میں یہ خوبی بھی پائی جاتی ہے.کہ آج تک جب کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر دو ہزار سال کے قریب عرصہ گذر چکا ہے، وہ آپ کی خلافت کو قائم رکھے ہوئے ہیں.چنانچہ آج جب میں نے اس بات پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس چیز کا وعدہ بھی حواریوں نے کیا تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود السلام نے جب کہا.مَنْ أَنْصَارِى إِلَى الله کہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں میری کون مدد کریگا تو حواریوں نے کہا نَحْنُ أَنْصَارُ اللہ ہم خدا تعالیٰ کے رستہ میں آپ کی مدد کریں گے.انہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے.پس اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم وہ انصار ہیں جن کو خدا تعالیٰ کی طرف نسبت دی گئی ہے.اس لئے جب تک خدا تعالیٰ زندہ ہے.اس وقت تک ہم بھی اس کی مدد کرتے رہیں گے.چنانچہ دیکھ لو.حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات پر تقریباً دو ہزار سال کا عرصہ گذر چکا ہے.لیکن عیسائی لوگ برابر عیسائیت کی تبلیغ کرتے چلے جارہے ہیں اور اب تک ان میں خلافت قائم چلی آتی ہے.اب بھی ہماری زیادہ تر ٹکر عیسائیوں سے ہورہی ہے.جو مسیح علیہ السلام کے متبع اور ان کے ماننے والے ہیں اور جن کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال رکھتے ہوئے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے سارے نبی اس فتنہ کی خبر دیتے چلے آئے ہیں.غرض وہ مسیح ناصری جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ان پر فضلیت عطا فرمائی ہے.ان کے انصار نے اتنا جذ بہ اخلاص دکھایا کہ انہوں نے دو ہزار سال تک آپ کی خلافت کو مٹنے نہیں دیا کیونکہ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اگر مسیح علیہ السلام کی خلافت مئی.تو مسیح علیہ السلام کا خود اپنا نام بھی دنیا سے مٹ

Page 116

جائے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شروع عیسائیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ایک حواری نے آپ کو تمیں روپے کے بدلہ میں دشمنوں کے ہاتھ بیچ دیا تھا.لیکن اب عیسائیت میں وہ لوگ پائے جاتے ہیں جو مسیحیت کی اشاعت اور حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا منوانے کے لئے کروڑوں روپیہ دیتے ہیں.اسی طرح اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ نے اپنے زمانہ میں بڑی قربانی کی ہے.لیکن آپ کی وفات پر ابھی ۴۸ سال ہی ہوئے ہیں کہ جماعت میں سے بعض ڈانواں ڈول ہونے لگے ہیں اور پیغامیوں سے چند روپے لے کر ایمان کو بیچنے لگے ہیں.حالانکہ ان میں سے بعض پر سلسلہ نے ہزار ہا روپے خرچ کئے ہیں.میں پچھلے حسابات نکلوار ہا ہوں اور میں نے دفتر والوں سے کہا ہے کہ وہ بتائیں کہ صدرانجمن احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کی کتنی خدمت کی ہے اور حضرت خلیفہ اسی اول کے خاندان کی کتنی خدمت کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فوت ہوئے ۴۸ سال ہو چکے ہیں اور حضرت خلیفہ اسیح اول کی وفات پر ۴۲ سال کا عرصہ گذر چکا ہے.گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فاصلہ زیادہ ہے اور پھر آپ کی اولاد بھی زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود میں نے حسابات نکلوائے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صدرا من احمدیہ نے حضرت خلیفہ اسیح اول کے خاندان کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان پرکم خرچ کیا ہے لیکن پھر بھی حضرت خلیفہ اسیح اول کی اولاد میں یہ لالچ پیدا ہوئی کہ خلافت کو سنبھالو، یہ ہمارے باپ کا حق تھا جو ہمیں ملنا چاہئے تھا.چنانچہ سندھ سے ایک آدمی نے مجھے لکھا کہ یہاں میاں عبدالمنان صاحب کے بھانجے مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کا ایک پروردہ شخص بشیر احد آیا اور اس نے کہا کہ خلافت تو حضرت خلیفتہ اسیح اول کا مال تھا اور ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد کو ملنا چاہئے تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد نے اسے غصب کر لیا.اب ہم سب نے مل کر یہ کوشش کرنی ہے کہ اس حق کو دوبارہ حاصل کریں.پھر میں نے میاں عبدالسلام صاحب کی پہلی بیوی کے سوتیلے بھائی کا ایک خط پڑھا جس میں اس نے اپنے سوتیلے ماموں کولکھا کہ مجھے افسوس ہے کہ مشرقی بنگال کی جماعت نے ایک ریز ولیشن پاس کر کے اس فتنہ سے نفرت کا اظہار کیا ہے.ہمیں تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے تھا.ہمارے لئے تو موقع تھا کہ ہم کوشش کر کے اپنے خاندان کی وجاہت کو دوبارہ قائم کرتے.یہ ویسی ہی نا معقول حرکت ہے جیسی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی وفات پر لاہور کے بعض مخالفین نے کی تھی.انہوں نے آپ کے نقلی جنازے نکالے اور آپ کی وفات پر خوشی کے شادیانے بجائے.وہ تو دشمن تھے.لیکن یہ لوگ احمدی

Page 117

۱۱۲ کہلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اپنے خاندان کی وجاہت کو قائم کرنا چاہئے.حالانکہ حضرت خلیفہ اول کو جو عزت اور درجہ ملا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ملا ہے.اب جو چیز آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ملی تھی وہ ان لوگوں کے نزدیک ان کے خاندان کی جائیداد بن گئی.یہ وہی فقرہ ہے جو پرانے زمانے میں ان لڑکوں کی والدہ نے مجھے کہا کہ پیغامی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خلافت تو حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی تھی.اگر آپ کی وفات کے بعد آپ کے کسی بیٹے کوخلیفہ بنا لیا جاتا تو ہم اس کی بیعت کر لیتے.مگر مرزا صاحب کا خلافت سے کیا تعلق تھا کہ آپ کے بیٹے کو خلیفہ بنا لیا گیا.اُس وقت میری بھی جوانی تھی میں نے انہیں کہا کہ آپ کے لئے راستہ کھلا ہے.تانگے چلتے ہیں ( اُن دنوں قادیان میں ریل نہیں آتی تھی ) آپ چاہیں تو لاہور چلے جائیں.میں آپ کو نہیں روکتا.وہاں جا کر آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ وہ آپ کی کیا امداد کرتے ہیں.وہاں تو مولوی محمد علی صاحب کو بھی خلافت نہیں ملی.انہیں صرف امارت ملی تھی اور امارت بھی ایسی کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہیں وصیت کرنی پڑی کہ فلاں فلاں شخص اُن کے جنازے پر نہ آئے.اُن کی اپنی تحریر موجود ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مولوی صدرالدین صاحب، شیخ عبد الرحمن صاحب مصری اور ڈاکٹر غلام محمد صاحب میرے خلاف پروپیگنڈہ میں اپنی پوری قوت خرچ کر رہے ہیں اور انہوں نے تنکے کو پہاڑ بنا کر جماعت میں فتنہ پیدا کرنا شروع کیا ہوا ہے اور ان لوگوں نے مولوی محمد علی صاحب پر طرح طرح کے الزامات لگائے.یہاں تک کیا کہ آپ نے احمدیت سے انکار کر دیا ہے اور انجمن کا مال غصب کر لیا ہے.اب بتاؤ جب وہ شخص جو اس جماعت کا بانی تھا، اسے یہ کہنا پڑا کہ جماعت کے بڑے بڑے آدمی مجھ پر الزام لگاتے ہیں اور مجھے مرتد اور جماعت کا مال غصب کرنے والا قرار دیتے ہیں تو اگر وہاں دودھ پینے والے چھو کرے چلے جاتے تو کیا ملتا؟ زیادہ سے زیادہ یہی ہوسکتا تھا کہ انہیں پانچ پانچ روپے کے وظیفے دے کر کسی سکول میں داخل کر دیا جا تا.مگر ہم نے تو اس کی تعلیم پر بڑا روپیہ خرچ کیا اور اس قابل بنایا کہ یہ بڑے آدمی کہلا سکیں لیکن انہوں نے یہ کیا کہ جس جماعت نے انہیں پڑھایا تھا اُس کو تباہ کرنے کے لئے حملہ کر دیا.اس سے بڑھ کر اور کیا قساوت قلبی ہوگی کہ جن غریبوں نے انہیں پیسے دے کر اس مقام پر پہنچایا، یہ لوگ انہی کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگ جائیں.جماعت میں ایسے ایسے غریب ہیں کہ جن کی غربت کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا.مگر وہ لوگ چندہ دیتے ہیں.ایک دفعہ قادیان میں ایک غریب احمدی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ اُمراء کے ہاں دعوتیں کھاتے ہیں ایک دفعہ آپ

Page 118

میرے گھر بھی تشریف لائیں اور میری دعوت کو قبول فرمائیں.میں نے کہا تم بہت غریب ہو میں نہیں چاہتا کہ دعوت کی وجہ سے تم پر کوئی بوجھ پڑے.اُس نے کہا میں غریب ہوں تو کیا ہوا آپ میری دعوت ضرور قبول کریں.میں نے پھر بھی انکار کیا.مگر وہ میرے پیچھے پڑ گیا.چنانچہ ایک دن میں اُس کے گھر گیا تا کہ اُس کی دلجوئی ہو جائے.مجھے یاد نہیں اُس نے چائے کی دعوت کی تھی یا کھانا کھلایا تھا.مگر جب میں اُس کے گھر سے نکلا تو گلی میں ایک احمدی دوست عبد العزیز صاحب کھڑے تھے.وہ پسر در ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور مخلص احمدی تھے لیکن اُنہیں اعتراض کرنے کی عادت تھی.میں نے انہیں دیکھا تو میرا دل بیٹھ گیا اور میں نے خیال کیا کہ اب یہ دوست مجھ پر ضرور اعتراض کریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا.حضور آپ ایسے غریبوں کی دعوت بھی قبول کر لیتے ہیں.میں نے کہا عبدالعزیز صاحب میرے لئے دونوں طرح مصیبت ہے.اگر میں انکار کروں تو غریب کہتا ہے میں غریب ہوں اس لئے میری دعوت نہیں کھاتے اور اگر میں اس کی دعوت منظور کر لوں تو آپ لوگ کہتے ہیں غریب کی دعوت کیوں مان لی.اب دیکھو اس شخص نے خود مجھے دعوت پر بلایا تھا.میں نے بارہا انکار کیا لیکن وہ میرے پیچھے اس طرح پڑا کہ میں مجبور ہو گیا کہ اُس کی دعوت مان لوں لیکن دوسرے دوست کو اس پر اعتراض پیدا ہوا.غرض جماعت میں ایسے ایسے غریب بھی ہیں کہ ان کے ہاں کھانا کھانے پر بھی دوسروں کو اعتراض پیدا ہو جاتا ہے.ایسی غریب جماعت نے ان لڑکوں کی خدمت کرنے اور انہیں پڑھانے پر ایک لاکھ روپیہ سے زیادہ خرچ کیا.میاں عبدالسلام کو وکیل بنایا.عبدالمنان کو ایم.اے کر وایا مگر اسے خود تعلیم کا شوق نہیں تھا.اس لئے وہ زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکا لیکن پھر بھی جماعت نے اسے پڑھانے میں کوتا ہی نہ کی.بعد میں میں نے معقول گزارہ دے کر اسے دہلی بھجوایا اور کہا کہ تمہارے باپ کا پیشہ طب تھا.تم بھی طب پڑھ لو.چنانچہ اسے حکیم اجمل خاں صاحب کے کالج میں طب پڑھائی گئی.گو اُس نے وہاں بھی وہی حرکت کی کہ پڑہائی کی طرف توجہ نہ کی اور فیل ہوا لیکن اُس نے اتنی عقلمندی کی کہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے گیا.چنانچہ بیوی پاس ہو گئی اور امتحان میں اول آئی.اب سلسلہ کے لئے روپیہ کی وجہ سے جو اس پر خرچ کیا گیا وہ اپنا گزارہ کر رہا ہے اور اُس نے اپنے دواخانہ کا نام دواخانہ نور الدین رکھا ہوا ہے.حالانکہ در اصل وہ دواخانہ سلسلہ احمدیہ ہے کیونکہ سلسلہ احمدیہ کے روپیہ سے ہی وہ اس حد تک پہنچا ہے کہ دواخانہ کو جاری رکھ سکے.اب وہ لکھتا ہے کہ میری بیوی جو گولڈ میڈلسٹ ہے وہ علاج کرتی ہے.وہ یہ کیوں نہیں لکھتا کہ میری بیوی جس کو سلسلہ احمدیہ نے خرچ دے کر پڑھایا ہے علاج کرتی ہے.غرض چاہے

Page 119

۱۱۴ تعلیم کو لیا جائے ، طب کو لیا جائے یا کسی اور پیشہ کو لیا جائے.یہ لوگ سلسلہ کی مدد کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑے ہی نہیں ہو سکتے تھے.مگر اس ساری کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب یہ لوگ سلسلہ احمدیہ کو ہی تباہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں.مگر سلسلہ احمد یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے.جسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا.یہ سلسلہ ایک چٹان ہے جو اس پر گرے گا وہ پاش پاش ہو جائے گا اور جو اس کو مٹانا چاہئے گا وہ خودمٹ جائے گا اور کوئی شخص بھی خواہ اس کی پشت پناہ احراری ہوں یا پیغامی ہوں.اس کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوگا.اس کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کرنے والے ذلیل اور خوار ہوں گے اور قیامت تک ذلت اور رسوائی میں مبتلاء ر ہیں گے.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عزت اور رفعت دیتا چلا جائے گا اور تمام دنیا میں آپ کا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ پھیلتا چلا جائے گا اور جب آپ کے ذریعہ ہی اسلام بڑھے گا تو لازمی طور پر جو لوگ آپ کے ذریعہ اسلام قبول کریں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے.وہ آپ پر بھی ایمان لائیں گے لیکن اس سلسلہ کی تباہی کا ارادہ کرنے والے ابھی زندہ ہی ہونگے.کہ ان کی عزتیں ان کی آنکھوں کے سامنے خاک میں مل جائیں گی اور پیغامیوں نے جو ان سے مدد کا وعدہ کیا ہے وہ وعدہ بھی خاک میں مل جائے گا.مولوی محمد علی صاحب سے ان لوگوں نے جو وعدہ کیا تھا کیا وہ پورا ہوا.ان کا انجام آپ لوگوں کے سامنے ہے.اب ان لوگوں کا انجام مولوی محمدعلی صاحب سے بھی بدتر ہوگا.اس لئے کہ جب انہوں نے سلسلہ سے علیحدگی اختیار کی تھی اور انجمن اشاعت اسلام کی بنیاد رکھی تھی.تو انہوں نے سلسلہ احمدیہ کی ایک عرصہ کی خدمت کے بعد ایسا کیا تھا.انہیں دنیا کی خدمت کا موقع ملا تھا.رسالہ ریویو آف ریلجیز دنیا میں بہت مقبول ہوا اور وہ اس کے ایڈیٹر تھے.پھر انہوں نے اپنے خرچ سے پڑھائی کی تھی لیکن ان لوگوں نے اپنے یا اپنے باپ کے پیسے سے پڑھائی نہیں کی.بلکہ غریب لوگوں کے پیسے سے کی.جو بعض دفعہ رات کو فاقہ سے سوتے ہیں اور اس سارے احسان کے بعد انہوں نے یہ کیا کہ وہ سلسلہ احمدیہ کو تباہ کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے.یا در کھو تمہارا نام انصار اللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار.گویا تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ از لی اور

Page 120

۱۱۵ ابدی ہے.اس لئے تم کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ابدیت کے مظہر ہو جاؤ تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لئے قائم رکھتے چلے جاؤ اور کوشش کرو کہ یہ کام نسلاً بعد نسل چلتا چلا جاوے اور اس کے دو ذریعے ہو سکتے ہیں.ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی جائے اور اس میں خلافت کی محبت قائم کی جائے.اسی لئے میں نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی تھی اور خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا.یہ اطفال اور خدام آپ لوگوں کے ہی بچے ہیں.اگر اطفال الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی.تو خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی اور اگر خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی تو اگلی نسل انصار اللہ کی اعلیٰ ہوگی.میں نے سیڑھیاں بنادی ہیں.آگے کام کرنا تمہارا کام ہے.پہلی سیڑھی اطفال الاحمدیہ ہے.دوسری سیڑھی خدام الاحمدیہ ہے.تیسری سیڑھی انصار اللہ ہے اور چوتھی سیڑھی خدا تعالیٰ ہے.تم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرو اور دوسری طرف خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگو تو یہ چاروں سیٹرھیاں مکمل ہو جائیں گی.اگر تمہارے اطفال اور خدام ٹھیک ہو جائیں اور پھر تم بھی دعائیں کر اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرلو.تو پھر تمہارے لئے عرش سے نیچے کوئی جگہ نہیں اور جو عرش پر چلا جائے وہ بالکل محفوظ ہو جاتا ہے.دنیا حملہ کرنے کی کوشش کرے تو وہ زیادہ سے زیادہ سو دو سوفٹ پر حملہ کر سکتی ہے.وہ عرش پر حملہ نہیں کرسکتی.پس اگر تم اپنی اصلاح کر لو گے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو گے تو تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو جائے گا اور اگر تم حقیقی انصار اللہ بن جاؤ اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرلو تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی طور پر رہے گی اور وہ عیسائیت کی خلافت سے بھی لمبی چلے گی.عیسائیوں کی تعداد تو تمام کوششوں کے بعد مسلمانوں سے قریباً دو گنی ہوئی ہے.مگر تمہارے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ پیشگوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری تعدا کو اتنا بڑھا دے گا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دوسرے تمام مذاہب ہندو ازم ، بدھ مت، عیسائیت اور شنٹو ازم وغیرہ کے پیرو تمہارے مقابلہ میں بالکل ادنی اقوام کی طرح رہ جائیں گے.یعنی ان کی تعداد تمہارے مقابلہ میں ویسی ہی بے حقیقت ہوگی.جیسے آج کل ادنی اقوام کی دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں ہے.وہ دن جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے یقیناً آئے گا.لیکن جب آئے گا.تو اس کے ذریعہ سے آئے گا کہ

Page 121

١١٦ خلافت کو قائم رکھا جائے تبلیغ اسلام کو قائم رکھا جائے ،تحریک جدید کو مضبوط کیا جائے، اشاعت اسلام کے لئے جماعت میں شغف زیادہ ہو اور دنیا کے کسی کونہ کو بھی بغیر مبلغ کے نہ چھوڑا جائے.مجھے بیرونی ممالک سے کثرت سے چٹھیاں آرہی ہیں کہ مبلغ بھیجے جائیں.اس لئے ہمیں تبلیغ کے کام کو بہر حال وسیع کرنا پڑے گا اور اتنا وسیع کرنا پڑے گا کہ موجودہ کام اس کے مقابلہ میں لاکھواں حصہ بھی نہ رہے.میں نے بتایا ہے کہ خلافت کی وجہ سے رومن کیتھولک اس قدر مضبوط ہو گئے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے پڑھا کہ ان کے ۵۴لا کھ مبلغ ہیں.ان سے اپنا مقابلہ کرو اور خیال کرو کہ تم سو ڈیڑھ سو مبلغوں کے اخراجات پر ہی گھبرانے لگ جاتے ہو.اگر تم ان سے تین چار گنے زیادہ طاقت ور بنا چاہتے ہو، تو ضروری ہے کہ تمہارا دو کروڑ مبلغ ہو.لیکن اب یہ حالت ہے کہ ہمارے سب مبلغ ملالئے جائیں.تو ان کی تعداد دوسو کے قریب بنتی ہے.اگر ہم چاہتے ہیں کہ عیسائیوں کو مسلمان کر لیں.بدھوں کو مسلمان کر لیں.شنٹوازم والوں کو مسلمان کر لیں.کفیوشس ازم کے پیروؤں کو مسلمان کر لیں.تو اس کے لئے دو کروڑ مبلغوں کی ضرورت ہے اور ان مبلغوں کو پیدا کرنا اور پھر ان سے کام لینا بغیر خلافت کے نہیں ہو سکتا.ہمارے ملک میں ایک کہانی مشہور ہے کہ ایک بادشاہ جب مرنے لگا.تو اس نے اپنے تمام بیٹوں کو بلایا، اور انہیں کہا.ایک جھاڑ ولا ؤ.وہ ایک جھاڑ ولے آئے.اس نے اس کا ایک تنکا انہیں دیا اور کہا اسے توڑو اور انہوں نے اسے فورا تو ڑ دیا.پھر اس نے سارا جھاڑ وا نہیں دیا کہ اب اسے توڑو.انہوں نے باری باری پورا زور لگایا مگر وہ جھاڑو ان سے نہ ٹوٹا.اس پر اس نے کہا.میرے بیٹو دیکھو میں نے تمہیں ایک ایک تنکا دیا.تو تم نے اسے بڑی آسانی سے توڑ دیا.لیکن جب سارا جھاڑو تمہیں دیا تو با وجود اس کے تم نے پورا زور لگایا، وہ تم سے نہ ٹوٹا.اسی طرح اگر تم میرے مرنے کے بعد بکھر گئے تو ہر شخص تمہیں تباہ کر سکے گا لیکن اگر تم متحد رہے تو تم ایک مضبوط سوٹے کی طرح بن جاؤ گے جسے دنیا کی کوئی طاقت تو ڑ نہیں سکے گی.اسی طرح اگر تم نے خلافت کے نظام کو توڑ دیا تو تمہاری کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی اور تمہیں دشمن کھا جائیگا.لیکن اگر تم نے خلافت کو قائم رکھا تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں تباہ نہیں کر سکے گی.تم دیکھ لو.ہماری جماعت کتنی غریب ہے لیکن خلافت کی وجہ سے اسے بڑی حیثیت حاصل ہے اور اس نے وہ کام کیا ہے جو دنیا کے دوسرے مسلمان نہیں کر سکے.مصر کا ایک اخبار الفتح ہے جو سلسلہ کا شدید مخالف ہے.اس میں ایک دفعہ کسی نے مضمون لکھا کہ گذشتہ ۱۳۰۰ سال میں مسلمانوں

Page 122

112 میں بڑے بڑے بادشاہ گذرے ہیں مگر انہوں نے اسلام کی وہ خدمت نہیں کی جو اس غریب جماعت نے کی ہے اور یہ چیز ہر جگہ نظر آتی ہے.یورپ والے بھی اسے مانتے ہیں اور ہمارے مبلغوں کا بڑا اعزاز کرتے ہیں اور انہیں اپنی دعوتوں اور دوسری تقریبوں میں بلاتے ہیں...یہ صرف خلافت ہی کی برکت تھی.جس نے احمدیوں کو ایک نظام میں پرو دیا اور اس کے نتیجہ میں انہیں طاقت حاصل ہوگئی میرے سامنے اس وقت چوہدری غلام حسین صاحب بیٹھے ہیں.جو مخلص احمدی ہیں اور صحابی ہیں.یہ اپنی آواز کو امریکہ کس طرح پہنچا سکتے ہیں.یہ اپنی آواز کو انگلینڈ کیسے پہنچ سکتے ہیں.یہ اپنی آواز کوفرانس، جرمنی اور سپین میں کیسے پہنچا سکتے ہیں.یہ بے شک جو شیلے احمدی ہیں مگر یہ اپنی آواز دوسرے ملک میں اپنے دوسرے احمدی بھائیوں کے ساتھ مل کر ہی پہنچا سکتے ہیں، ورنہ نہیں.اسی مل کر کام کرنے سے اسرائیل کو ڈر پیدا ہوا اور اسی مل کر کام کرنے سے ہی پاکستان کے مولوی ڈرے اور انہوں نے ملک کے ہر کونہ میں یہ جھوٹا پراپیگنڈہ شروع کر دیا کہ احمدیوں نے ملک کے سب کلیدی عہدے سنبھال لئے ہیں انہیں اقلیت قرار دیا جائے اور ان عہدوں سے انہیں ہٹا دیا جائے.حالانکہ کلیدی عہدے انہی کے پاس ہیں.ہمارے پاس نہیں.یہ سب طاقت خلافت کی وجہ سے ہے.خلافت کی وجہ سے ہی ہم اکٹھے رہے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کی ہے.اب اس فتنہ کو دیکھو جوسن ۵۳ ء کے بعد جماعت میں اٹھا.اس میں سارے احراری فتنہ پردازوں کے ساتھ ہیں.تمہیں یاد ہے کہ سن ۳۴ء میں بھی احراری اپنا سارا زور لگا چکے ہیں اور بُری طرح ناکام ہوئے ہیں اور اس دفعہ بھی وہ ضرور نا کام ہوں گے.اس دفعہ اگر انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح اول کی اولاد ان کے ساتھ ہے، اس لئے وہ جیت جائیں گے.تو انہیں جان لینا چاہئے کہ جماعت کے اندر ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کے مقابلہ میں خواہ کوئی اٹھے، جماعت احمد یہ اس کا کبھی ساتھ نہیں دے گی.کیونکہ انہوں نے دلائل اور معجزات کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے.ان میں سے ہر شخص نے اپنے اپنے طور پر تحقیقات کی ہے.کوئی گوجرانوالہ میں تھا.کوئی گجرات میں تھا.کوئی شیخو پورہ میں تھا.وہاں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتا بیں پہنچیں اور آپ کے دلائل نقل کر کے بھجوائے گئے، تو وہ لوگ ایمان لے آئے.پھر ایک دھاگہ میں پروئے جانے کی

Page 123

۱۱۸ وجہ سے انہیں طاقت حاصل ہو گئی.اب دیکھ لو.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ السلام کی ہی طاقت تھی کہ آپ نے اعلان فرما دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.بس حضرت مسیح علیہ السلام کی موت سے ساری عیسائیت مرگئی.اب یہ کتنا صاف مسئلہ تھا مگر کسی اور مولوی کو نظر نہ آیا.سارے علماء کتابیں پڑھتے رہے.لیکن ان میں سے کسی کو یہ مسئلہ نہ سوجھا اور وہ حیران تھے.کہ عیسائیت کا مقابلہ کیسے کریں.حضرت مرزا صاحب نے آکر عیسائیت کے زور کو توڑ دیا.اور وفات مسیح کا ایسا مسئلہ بیان کیا کہ ایک طرف مولویوں کا زور ٹوٹ گیا.تو دوسری طرف عیسائی ختم ہو گئے.بھیرہ میں ایک غیر احمدی حکیم الہ دین صاحب ہوتے تھے.وہ اپنے آپ کو حضرت خلیفہ اسیح اول سے بھی بڑا حکیم سمجھتے تھے.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی حکیم فضل دین صاحب انہیں ملنے کے لئے گئے اور انہوں نے چاہا کہ وہ انہیں احمدیت کی تبلیغ کریں.حکیم الہ دین صاحب بڑے رعب والے شخص تھے وہ جوش میں آگئے اور کہنے لگے.تو کل کا بچہ ہے اور مجھے تبلیغ کرنے آیا ہے.تو احمدیت کو کیا سمجھتا ہے.میں اسے خوب سمجھتا ہوں.حضرت مرزا صاحب نے اپنی مشہور کتاب براہین احمدیہ کھی جس سے اسلام تمام مذاہب پر غالب ثابت ہوتا تھا.مگر مولویوں نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا.حضرت مرزا صاحب کو غصہ آیا اور انہوں نے کہا.اچھا تم بڑے عالم بنے پھرتے ہو.میں حضرت عیسی علیہ السلام کو قرآن کریم سے فوت شدہ ثابت کر دیتا ہوں تم اسے زندہ ثابت کر کے دکھاؤ.گویا آپ نے یہ مسئلہ ان مولویوں کو ذلیل کرنے کے لئے بیان کیا تھا.ورنہ در حقیقت آپ کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود ہیں.پھر حکیم صاحب نے ایک گندی گالی دے کر کہا.کہ مولوی لوگ پور از ور لگا چکے ہیں مگر حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ میں ناکام رہے ہیں.اس کا اب ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ ہے.کہ سب مل کر حضرت مرزا صاحب کے پاس جائیں اور کہیں.کہ ہم آپ کو سب سے بڑا عالم تسلیم کرتے ہیں.ہم ہارے اور آپ جیتے اور اپنی پگڑیاں ان کے پاؤں پر رکھ دیں اور درخواست کریں کہ اب آپ ہی قرآن کریم سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی ثابت کر دیں.ہم تو پھنس گئے ہیں ،اب معافی چاہتے ہیں اور آپ کو اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں.اگر مولوی صاحب ایسا کریں، تو دیکھ لیتا حضرت مرزا صاحب نے قرآن کریم میں سے ہی حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ ثابت کر دینا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وہ عظمت دی ہے کہ آپ کے مقابلہ میں اور کوئی نہیں ٹھہر سکتا.چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو.کیونکہ اگر وہ جماعت میں بڑا ہے تو آپ کی غلامی کی وجہ سے بڑا ہے.آپ کی غلامی سے باہر نکل کر اس کی کوئی حیثیت

Page 124

119 نہیں رہتی.مجھے یاد ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب چشمہ معرفت لکھی تو کسی مسئلہ کے متعلق آپ کو خیال پیدا ہوا کہ آپ حضرت خلیفۃ اسیح اول کی بھی کوئی کتاب پڑھ لیں اور دیکھیں کہ انہوں نے اس کے متعلق کیا لکھا ہے.آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا.محمود ذرا مولوی صاحب کی کتاب تصدیق براہین احمدیہ لاؤ اور مجھے سناؤ.چنانچہ میں وہ کتاب لایا اور آپ نے نصف گھنٹہ تک کتاب سنی.اس کے بعد فرمایا اس کو وہیں رکھ آؤ اس کی ضرورت نہیں.اب تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب چشمہ معرفت کو بھی پڑھو اور حضرت خلیفہ اسی اول کی کتاب تصدیق براہین احمدیہ کو بھی دیکھو اور پھر سوچو کہ کیا ان دونوں میں کوئی نسبت ہے اور کیا آپ نے کوئی نکتہ بھی اس کتاب سے اخذ کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب میں پیدائش عالم اور حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق ایسے مسائل بیان فرمائے ہیں کہ ساری دنیا سر دھنتی ہے اور تسلیم کرتی ہے کہ یہ لامحل عقدے تھے.جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حل کر دیا.یہ سب برکت جو ہمیں ملی ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ملی ہے.اب آپ لوگوں کا کام ہے کہ اپنی ساری زندگی آپ کے لائے ہوئے پیغام کی خدمت میں لگادیں اور کوشش کریں کہ آپ کے بعد آپ کی اولاد، پھر اس کی اولا د اور پھر اس کی اولاد بلکہ آپ کی آئندہ ہزاروں سال تک کی نسلیں اس کی خدمت میں لگی رہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خلافت کو قائم رکھیں.مجھے پر بہتان لگایا گیا ہے کہ گویا میں اپنے بعد اپنے کسی بیٹے کو خلیفہ بنانا چاہتا ہوں.یہ بالکل غلط ہے.اگر میرا کوئی بیٹا ایسا خیال بھی دل میں لائے گا تو وہ اسی وقت احمدیت سے نکل جائیگا.بلکہ میں جماعت سے کہتا ہوں کہ وہ دعائیں کرے کہ خدا تعالیٰ میری اولاد کو اس قسم کے وسوسوں سے پاک رکھے.ایسا نہ ہو کہ اس پروپیگنڈہ کی وجہ سے میرے کسی کمزور بچے کے دل میں خلافت کا خیال پیدا ہو جائے.حضرت خلیفہ اسی اول تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام تھے.میں سمجھتا ہوں کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو آقا تھے، اگر ان کی اولاد میں بھی کسی وقت یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ خلافت کو حاصل کریں تو وہ بھی تباہ ہو جائے گی.کیونکہ یہ چیز خدا تعالیٰ نے اپنے قبضے میں رکھی ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ کے مال کو اپنے قبضہ میں لینا چاہتا ہے وہ چاہے کسی نبی کی اولاد ہو یا کسی خلیفہ کی، وہ تباہ و برباد ہو جائے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کے گھر میں چوری

Page 125

۱۲۰ نہیں ہوسکتی.چوری ادنیٰ لوگوں کے گھروں میں ہوتی ہے اور قرآن کریم کہتا ہے.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُو ا مِنْكُمْ وَعَمَلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ (سورة النور آیت ۵۶) کہ مومنوں سے خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں اس طرح خلیفہ بنائے گا جیسے اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا.گویا خلافت خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اور اس نے خود دینی ہے.جو اسے لینا چاہتا ہے چاہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بیٹا ہویا حضرت خلیفہ ایسی اول کا ، وہ یقینا سزا پائے گا.پس یہ مت سمجھو کہ یہ فتنہ جماعت کو کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے.لیکن پھر بھی تمہارا یہ فرض ہے کہ تم اس کا مقابلہ کرو اور سلسلہ احمدیہ کو اس سے بچاؤ.دیکھو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا تھا کہ وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (سورة المائدة آيت (۶۸) وہ آپ کو لوگوں کے حملوں سے بچائے گا اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ سے زیادہ سچا اور کس کا وعدہ ہوسکتا ہے.مگر کیا صحابہ نے کبھی آپ کی حفاظت کا خیال چھوڑا.بلکہ صحابہ نے ہر موقع پر آپ کی حفاظت کی.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر سے باہر ہتھیاروں کی آواز سنی تو آپ باہر نکلے اور دریافت کیا.کہ یہ کیسی آواز ہے؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم انصار ہیں.چونکہ اردگرد دشمن جمع ہے، اس لئے ہم ہتھیار لگا کر آپ کا پہرہ دینے آئے ہیں.اسی طرح جنگ احزاب میں جب دشمن حملہ کرتا تھا.تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کی طرف جاتا تھا.آپ کے ساتھ اس وقت صرف سات سو صحابہؓ تھے.کیونکہ پانچ سو صحابہ کو آپ نے عورتوں کی حفاظت کے لئے مقرر کر دیا تھا اور دشمن کی تعداد اس وقت سولہ ہزار سے زیادہ تھی لیکن اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ہوئی اور دشمن ناکام و نا مرا درہا.میور جیسا دشمن اسلام لکھتا ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح اور کفار کے شکست کھانے کی یہ وجہ تھی کہ کفار نے مسلمانوں کی اس محبت کا جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تھی ، غلط اندازہ لگایا تھا.وہ خندق سے گزر کر کر سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کا رخ کرتے تھے.جس کی وجہ سے

Page 126

۱۲۱ مسلمان مرد، عورتیں اور بچے سب مل کر ان پر حملہ کرتے اور ایسا دیوانہ وار مقابلہ کرتے کہ کفار کو بھاگ جانے پر مجبور کر دیتے.وہ کہتا ہے کہ اگر کفار یہ غلطی نہ کرتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کی بجائے کسی اور جہت میں حملہ کرتے تو وہ کامیاب ہوتے.لیکن وہ سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کا رخ کرتے تھے اور مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت محبت تھی.وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ دشمن آپ کی ذات پر حملہ آور ہو.اس لئے وہ بے جگری سے حملہ کرتے اور کفار کا مونہ توڑ دیتے.ان کے اندر شیر کی سی طاقت پیدا ہو جاتی تھی اور وہ اپنی جان کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے.یہ سچی محبت تھی.جو صحابہ کورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی.آپ لوگ بھی ان جیسی محبت اپنے اندر پیدا کریں.جب آپ نے انصار کا نام قبول کیا ہے تو ان جیسی محبت بھی پیدا کریں.آپ کے نام کی نسبت اللہ تعالیٰ سے ہے اور خدا تعالیٰ ہمیشہ رہنے والا ہے.اس لئے تمہیں بھی چاہئے کہ خلافت کے ساتھ ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھو اور ہمیشہ دین کی خدمت میں لگے رہو.کیونکہ اگر خلافت قائم رہے گی تو اس کو انصار کی بھی ضرورت ہوگی.خدام کی بھی ضرورت ہوگی اور اطفال کی بھی ضرورت ہوگی.ورنہ اکیلا آدمی کوئی کام نہیں کر سکتا.اکیلا نبی کوئی کام نہیں کر سکتا.دیکھو حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حواری دئے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے صحابہ کی جماعت دی.اسی طرح اگر خلافت قائم رہے گی.تو ضروری ہے کہ اطفال الاحمدیہ.خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ بھی قائم رہیں اور جب یہ ساری تنظیمیں قائم رہیں گی تو خلافت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم رہے گی.کیونکہ جب دنیا دیکھے گی کہ جماعت کے لاکھوں لاکھ آدمی خلافت کے لئے جان دینے پر تیار ہیں تو جیسا کہ میور کے قول کے مطابق جنگ احزاب کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ پر حملہ کرنے کی وجہ سے حملہ آور بھاگ جانے پر مجبور ہو جاتے تھے.اسی طرح دشمن ادھر کا رخ کرنے کی جرات نہیں کرے گا.وہ سمجھے گا کہ اس کے لئے لاکھوں اطفال، خدام اور انصار جانیں دینے کے لئے تیار ہیں.اس لئے اگر اس نے حملہ کیا تو وہ تباہ و برباد ہو جائے گا.غرض دشمن کسی رنگ میں بھی آئے جماعت اس سے دھوکہ نہیں کھا ئیگی.کسی شاعر نے کہا ہے.

Page 127

۱۲۲ بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے من انداز قدت را مے شناسم کہ تو کسی رنگ کا کپڑا پہن کر آ جائے.تو کوئی بھیس بدل لے.میں تیرے دھو کے میں نہیں آسکتا کیونکہ میں تیرا قد پہنچانتا ہوں.اسی طرح چاہے خلافت کا دشمن حضرت خلیفتہ المسیح اول کی اولاد کی شکل میں آئے اور چاہے وہ کسی بڑے اور مقرب صحابی کی اولاد کی شکل میں آئے.ایک مخلص آدمی اسے دیکھ کر یہی کہے گا کہ بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش من انداز قدت رامے یعنی تو کسی رنگ میں بھی آ اور کسی بھیس میں بھی آ.میں تیرے دھو کہ میں نہیں آ سکتا.کیونکہ میں تیری چال اور قد کو پہچانتا ہوں.تو چاہے مولوی محمد علی صاحب کا جبہ پہن لے.چاہے احمد یہ انجمن اشاعت اسلام کا جبہ پہن لے یا حضرت خلیفہ اسیح اول کی اولاد کا جبہ پہن لے.میں تمہیں پہچان لوں گا اور تیرے دھوکہ میں نہیں آؤں گا.مجھے راولپنڈی کے ایک خادم نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ شروع شروع میں اللہ رکھا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مری کے امیر کے نام مجھے ایک تعارفی خط لکھ دو.میں نے کہا میں کیوں لکھوں.مری جا کر پوچھ لو کہ وہاں کی جماعت کا کون امیر ہے.مجھے اس وقت فورا خیال آیا کہ یہ کوئی منافق ہے.چنانچہ میں نے لاحول پڑھتارہا اور سمجھا کہ شاید مجھ میں بھی کوئی نقص ہے جس کی وجہ سے یہ منافق میرے پاس آیا ہے.تو احمدی عقلمند ہوتے ہیں ، وہ منافقوں کے قریب میں نہیں آتے.کوئی کمزور احمدی ان کے قریب میں آجائے تو اور بات ہے، ورنہ اکثر احمدی انہیں خوب جانتے ہیں.اب انہوں نے لاہور میں اشتہارات چھاپنے شروع کئے ہیں.جب مجھے بعض لوگوں نے اطلاع دی تو میں نے کہا گھبراؤ نہیں.پیسے ختم ہو جائیں گے تو خود بخود اشتہارات بند ہو جائیں گے.مجھے لاہور سے ایک دوست نے لکھا کہ ان لوگوں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ وہ اخباروں میں شور مچائیں اور اشتہارات شائع کریں.وہ دوست نہایت مخلص ہیں اور منافقین کا بڑے جوش سے مقابلہ کر رہے ہیں.مگر منافق اسے کذاب کا خطاب دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص یونہی ہمارے متعلق خبریں اڑاتا رہتا ہے.لیکن ہم اسے جھوٹا کیوں کر کہیں.ادھر ہمارے پاس یہ خبر پہنچی کہ ان لوگوں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ اشتہارات شائع کئے جائیں اور ادھر لاہور کی جماعت نے ہمیں ایک اشتہار بھیج دیا جو ان منافقین نے شائع کیا تھا اور جب بات پوری ہوگئی تو ہم نے سمجھ لیا کہ اس

Page 128

دوست نے جو خبر بھیجی تھی وہ سچی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو ۱۲۳ حقیقی انصار بنائے.چونکہ تمہاری نسبت اس کے نام سے ہے.اس لئے جس طرح وہ ہمیشہ زندہ رہے گا، اسی طرح وہ آپ لوگوں کی تنظیم کو بھی تا قیامت زندہ رکھے اور جماعت میں خلافت بھی قائم رہے اور خلافت کی سپاہ بھی قائم رہے لیکن ہماری فوج تلواروں والی نہیں.ان انصار میں سے تو بعض ایسے ضعیف ہیں کہ ان سے ایک ڈنڈا بھی نہیں اٹھایا جاسکتا لیکن پھر بھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوج ہیں.اور ان کی وجہ سے احمدیت پھیلی ہے اور امید ہے کہ آئندہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ اور زیادہ پھیلے گی اور اگر جماعت زیادہ مضبوط ہو جائے تو اس کا بوجھ بھی انشاء اللہ ہلکا ہو جائے گا.ورنہ انفرادی طور پر کچھ دیر کے بعد آدمی تھک جاتا ہے.پس تم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں احمدیت کی اشاعت کی کوشش کرو اور انہیں تبلیغ کرو تا کہ اگلے سال ہماری جماعت موجودہ تعداد سے دوگنی ہو جائے اور تحریک جدید میں حصہ لینے والے دو گنا چندہ دیں اور پھر اپنی دعاؤں اور نیکی اور تقویٰ کے ساتھ نوجوانوں پر اثر ڈالو تا کہ وہ بھی دعائیں کرنے لگ جائیں اور صاحب کشوف و رویاء ہو جائیں.جس جماعت میں صاحب کشوف و رویاء زیادہ ہو جاتے ہیں، وہ جماعت مضبوط ہو جاتی ہے.کیونکہ انسان کی دلیل سے اتنی تسلی نہیں ہوتی جتنی تسلی کشف اور رویا سے ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.(اقتباس افتتاحی خطاب سالانہ اجتماع مجلس انصار الله مرکز یہ مورخہ ۲۶.اکتوبر ۱۸۵۶ء بحوالہ الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۵۷ء اور ۲۴ مارچ ۱۹۵۷ء)

Page 129

۱۲۴ قرآن کریم میں احمدی خواتین کا ذکر اس اعتبار سے انصار اللہ کی ذمہ داری مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے تیسرے سالانہ اجتماع سے خطاب تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی.وَالنَّازِعَاتِ غَرْقاً وَالنَّاشِطَاتِ نَشْطاً - وَالسَّابِحَاتِ سَبْحاً - فَالسَّابِقَاتِ سَبْقاً - فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْراً - يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاحِفَةُ -تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَاجِفَةٌ - أَبْصَارُهَا خَاشِعَة - (سورة النزعت آیات ۲ تا ۱۰) اس کے بعد فرمایا.یہ آیات جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے ، ہم اب تک ان کے صرف ایک ہی مفہوم پر زور دیتے رہے ہیں.حالانکہ ان کے اندر بعض اور مضامین بھی پائے جاتے ہیں گذشته مفسرین تو ان آیات کے یہ معنے کرتے رہے ہیں کہ اس جگہ فرشتوں کا ذکر ہے.کیونکہ فرشتہ کے لئے مونث کا صیغہ استعمال کرتے ہیں اور یہاں چونکہ سارے صیغے مونث کے استعمال کئے گئے ہیں.اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں فرشتوں کا ذکر ہے.لیکن ہم یہ کہتے ہیں یہ آیات فرشتوں پر چسپاں ہی نہیں ہوسکتیں.اس لئے کہ وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا ان میں ہے ہی نہیں.غرقا کے معنے اگر جسمانی غرق کے سمجھیں تو فرشتے کون سے تالاب میں غوطہ مارا کرتے ہیں اور اگر اس کے معنے روحانی سمجھیں، تو غَرُقًا کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ علوم میں محو ہو کر نئے نئے نکتے نکالتے ہیں اور فرشتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہیں جن باتوں کا علم دیا جانا ضروری تھا، ان کا انہیں شروع سے علم دے دیا گیا ہے اور جنہیں شروع سے علم دے دیا گیا ہو، انہوں نے محو کیا ہونا ہے.انہیں تو محو ہونے کے بغیر ہی علم مل چکا ہے.چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ میں

Page 130

۱۲۵ خود فرشتے کہتے ہیں کہ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں سکھایا ہے اور جو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا انہیں خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے.انہیں فقہ اور دوسرے مسائل اور علوم میں غرق ہو کر نئے نئے نکتے نکالنے کی کیا ضرورت ہے.انہیں تو خود خدا تعالیٰ نے سب کچھ سکھا دیا ہے.پس یہ آیات فرشتوں پر صادق آہی نہیں سکتیں.ہمارے نزدیک اس جگہ صحابہ کی جماعت کا ذکر ہے اور چونکہ جماعت کے لئے بھی مونث کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے اس لئے وَالنَّازِعَاتِ غَرْقاً کے معنے یہ ہوئے کہ ہم شہادت کے طور پر صحابہ کی ان جماعتوں کو پیش کرتے ہیں.جو اسلام کی تعلیم میں محو ہو کر وہ وہ مسائل نکالتی ہیں، جو اسلام کی سچائی کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیتے ہیں.مگر چند دن ہوئے مجھے اللہ تعالیٰ نے سمجھایا ہے کہ ان آیات کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ ہم ان عورتوں کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو والنَّـا زِعَاتِ غَرْقاً کی مصداق ہیں اور اسلام کی تعلیم پر غور کر کے ان سے نئے نئے نکلتے نکالتی ہیں اور اسلام کی تعلیم میں انتہاک پیدا کرتی ہیں.اس لئے کہ اسلام نے ان پر رحم کیا ہے اور اسلام ہی وہ مذہب ہے جس میں عورتوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ عورت کے ماں ہونے کے لحاظ سے کیا حقوق ہیں، بیٹی ہونے کے لحاظ سے کیا حقوق ہیں، بیوی ہونے کے لحاظ سے کیا حقوق ہیں ، ترکہ میں اس کے کیا حقوق ہیں، اور اس طرح تمدنی زندگی میں اس کے کیا حقوق ہیں.اسی وجہ سے احمدیت میں شامل ہو کر عورتیں جس قدر قربانی اور ایثار سے کام لے رہی ہیں اس کی مثال اور کسی قوم میں نہیں ملتی.چنانچہ دیکھ لومسجد ہیگ (ہالینڈ) صرف عورتوں نے بنائی ہے.اگر چہ ہیمبرگ (جرمنی) کی مسجد مردوں نے اپنے روپیہ سے بنائی ہے.مگر اس کا پورا چندہ ابھی تک وہ ادا نہیں کر سکے.لیکن بیگ کی مسجد کا تمام چندہ عورتیں ادا کر چکی ہیں.صرف اس کا تھوڑا سا حصہ باقی ہے.یہ

Page 131

۱۲۶ قربانی صرف احمدی عورتوں میں پائی جاتی ہے مسلمانوں کا اور کوئی فرقہ نہیں جس کی عورتیں اس طرح اشاعت اسلام کا کام کر رہی ہوں.اہلحدیث کو لے لو، حنفیوں کو لے لو، جنبلیوں کے لے لو، مالکیوں کو لے لو، ان میں کہیں ایسی عورتیں نظر نہیں آتیں.جو اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر اور اسلام کی محبت میں غرق ہو کر اس کی اشاعت کے لئے کوشش کر رہی ہوں.صرف احمدیوں میں ہی یہ بات نظر آتی ہے کہ ان کی عورتیں غیر ملکوں میں تبلیغ کے لئے چندے دیتی ہیں اور بعض دفعہ تو اتنی غریب عورتیں چندہ دیتی ہیں کہ ہمیں لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے.مجھے یاد ہے پچھلے سال میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک سنارلڑ کا جو چنیوٹ میں رہتا ہے آیا اور اس نے سونے کے کڑے میرے ہاتھ پر لا کر رکھ دیئے اور کہا کہ میری ماں کہتی ہے.کہ یہ کڑے میں نے کسی خاص مقصد کے لئے رکھے ہوئے تھے.اب میں چاہتی ہوں کہ آپ انہیں بیچ کر کسی دینی کام لگالیں.چنانچہ میں نے انہیں بیچ کر رقم مسجد ہیگ میں دے دی.میرا خیال ہے کہ وہ ۴.۵سو کے ہوں گے.یہ چیز ہے جو صرف احمدی عورتوں میں پائی جاتی ہے، اس کی مثال نہ حنفیوں میں پائی جاتی ہے، نہ مالکیوں میں پائی جاتی ہے، نہ حنبلیوں میں پائی جاتی ہے، نہ شافعیوں میں پائی جاتی ہے.اسی طرح روحانی فرقوں کو لے لو، تو نہ چشتیوں میں پائی جاتی ہے، نہ سہر وردیوں میں پائی جاتی ہے، اور نہ قادریوں میں پائی جاتی ہے.صرف احمدیوں میں پائی جاتی ہے غرض روحانی فرقوں کے لحاظ سے بھی احمدی عورتیں تمام روحانی فرقوں کی عورتوں پر فضیلت رکھتی ہیں اور دوسرے فرقوں کے لحاظ سے بھی جو فقہی اختلاف کی وجہ سے قائم ہوئے ہیں احمدی عورتیں سب سے مقدم ہیں.ہاں اگر غیروں کو لیا جائے ، تو ہم ان کے مقابلے میں ابھی کمزور ہیں.یعنی عیسائیوں کی عورتوں نے عیسائیت کی خاطر بہت زیادہ قربانی کی ہے.بے شک ہماری عورتوں نے بھی قربانی کی ہے اور وہ تبلیغ کا کام کرتی ہیں.مگر قربانی کے لحاظ سے ابھی وہ ان سے کم ہیں مثلاً چین میں ایک دفعہ عیسائیوں کے خلاف بغاوت ہوئی.وہاں ان دنوں ایک عورت تبلیغ کا کام کر رہی تھی.چینوں نے حملہ کر کے اس عورت کو مارڈالا اور اس کے گوشت کے کباب کھائے.جب یہ خبر انگلستان میں پہنچی تو انگلستان میں اعلان کیا گیا کہ چین میں ہماری ایک عورت مبلغ تھی.چینیوں نے اسے مار دیا ہے اور اس کے گوشت کے کباب بنا کر کھائے ہیں.ہم چاہتے ہیں کہ اس کی جگہ کام کرنے کے لئے کوئی اور عورت اپنا نام پیش کرے.شام تک ۲۰ ہزار عورتوں کی طرف سے تار آگئے کہ ہم وہاں جانے کے لئے تیار ہیں، ہمیں وہاں

Page 132

۱۲۷ بھجوا دیا جائے.یہ نمونہ تو ہم میں ابھی نظر نہیں آتا بلکہ ہمیں شرم آتی ہے کہ اس کام میں عیسائی ہم پر فوقیت رکھتے ہیں.شاید اس لئے کہ ان کو انیس سو سال ہو گئے ہیں اور ہمیں ابھی اتنے سال نہیں ہوئے.مگر بہر حال جوانی میں زیادہ جوش ہونا چاہئے.ہم امید کرتے ہیں کہ عنقریب ہماری عورتیں ان سے بھی زیادہ جوش دکھلائیں گی.بعض مثالیں بے شک ہماری جماعت میں اچھی ملتی ہیں.مثلاً ایک دفعہ ایک غیر ملکی طالب علم یہاں آیا.اس نے کہا کہ میری شادی یہاں کرا دیں.میں نے کسی خطبہ یا مجلس میں ذکر کیا کہ اس طرح ایک غیر ملکی کی خواہش ہے.تو ایک لڑکی آئی اور اُس نے کہا کہ میں تیار ہوں آپ میرا نکاح اس غیر ملکی سے کر دیں.اس کے بعد اس کی بہن آئی اور میری بیوی سے کہنے لگی کہ میری بہن تو منہ پھٹ ہے.وہ خود آکر کہہ گئی ہے لیکن میں نے ابھی تک اس کا اظہار نہیں کیا تھا.حالانکہ میں تین چار سال سے اس بات کے لئے تیار ہوں کہ میری کسی غیر ملکی سے شادی کر کے مجھے باہر بھیج دیا جائے.آخر ان میں سے ایک بہن کی اس سے شادی ہوگئی اور اب وہ دلی میں ہے.ابھی کل ہی اس کے ہاں لڑکی پیدا ہونے کی خبر چھپی ہے.صالح الشسیمی ہمارے ایک غیر ملکی احمدی نوجوان ہیں.پچھلے سال ان سے اس کی شادی ہوئی اور اب ان کے ہاں دلی میں لڑکی پیدا ہوئی ہے.تو اس قسم کی مثالیں تو احمد یوں میں پائی جاتی ہیں.لیکن یہ زیادہ شاندار مثال ہے کہ ایک عورت ماری گئی اور اس کے کباب کھائے گئے اور جب اخباروں میں اعلان کیا گیا کہ اس کی جگہ لینے کے لئے اور عورتیں اپنے آپ کو پیش کریں تو شام تک ۲۰ ہزار عورتوں کی تاریں آگئیں کہ ہم وہاں جانے کے لئے تیار ہیں.بہر حال اس سے ملتی جلتی بعض کمزور مثالیں تو ہم میں پائی جاتی ہیں، لیکن زیادہ شاندار اور اچھی مثالیں ان میں پائی جاتی ہیں.اسی طرح ہمارا ایک مبلغ افریقہ گیا تھا.واپس آکر ایک لڑکی سے اس نے شادی کرنی چاہی.اس کی پہلے ایک شادی ویسٹ افریقہ میں ہو چکی تھی.اب ایک غیر ملکی مبلغ سے شادی کرنا ، جب کہ اس کی ایک بیوی پہلے موجود ہو اور جب کہ اس ملک میں اتنا رواج ہو کہ لوگ ڈیڑھ ڈیڑھ سو بیویاں کرتے ہوں، بڑی قربانی چاہتا ہے مگر وہ لڑکی راضی ہوگئی.چنانچہ اب وہ افریقہ پہنچ چکی ہے.اس نے بڑی محبت سے اپنی سوکن کے بچوں کو یہاں پالا.وہ مبلغ افریقہ سے یہاں آیا تھا اور اپنی ایک پہلی بیوی کو بھی یہاں لایا تھا اور دو بچے بھی ساتھ تھے.وہ لڑکی اپنے خاوند کی پہلی بیوی کا بھی خیال رکھتی رہی اور اس کے بچوں کا بھی خیال رکھتی رہی.گوان میں سے ایک بچہ بعد میں بھاگ گیا.اب وہ میرے ایک بھتیجے کی بیوی کے ساتھ مل کر انگلستان کے رستہ سے اپنے خاوند کے پاس پہنچ گئی ہے.تو اس قسم کی مثالیں تو ہم میں موجود ہیں مگر اس شان کی نہیں جس شان کی عیسائیوں

Page 133

۱۲۸ میں پائی جاتی ہیں.مجھے چاہئے تھا کہ میں عورتوں کے جلسہ میں یہ تقریر کرتا مگر اتفاقاً مردوں کا جلسہ آگیا.اس لئے میں مردوں کے جلسہ میں یہ تقریر کرتے ہوئے انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی عورتوں کو سمجھاؤ اور انہیں کہو کہ تم کو بھی عیسائی عورتوں کی طرح قربانی پیش کرنی چاہئے.جیسا کہ میں نے مثال دی ہے کہ عورت کو مار دیا گیا اور اس کے گوشت کے کباب بنا کر کھائے گئے.مگر اس کے قائمقام کے لئے اعلان کیا گیا، تو شام تک ہیں ہزار عورتوں نے اپنا نام پیش کر دیا.کہ وہ اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو سمجھائیں کہ تم بھی اپنے اندر اسی قسم کا اخلاص اور ایمان پیدا کرو.کل بیماری کی وجہ سے مجھ سے ایک غلطی ہو گئی اور وہ یہ کہ مجھے کل کے خطبہ جمعہ میں تحریک جدید کے نئے سال کی مالی قربانیوں کا اعلان کرنا چاہئے تھا.مگر اس کا اعلان کرنا بھول گیا.سو آج میں نئے سال کے چندہ تحریک جدید کا اعلان کرتا ہوں اور دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ غیر ممالک میں اسلام کی اشاعت کا واحد ذریعہ ہمارے پاس تحریک جدید ہی ہے.میں نوجوانوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ آگے آئیں اور اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لئے وقف کریں اور اپنے آپ کو دینی تعلیم حاصل کر کے اس قابل بنائیں کہ انہیں غیر ملکوں میں بھیجا جاسکے اور جماعت کو میں تحریک کرتا ہوں کہ اگر ہمارے مبلغ بڑھتے گئے اور مسجد میں بڑھتی گئیں تو ہمارا خرچ بھی بڑھتا چلا جائے گا.ایک مسجد پر دولاکھ روپیہ خرچ آتا ہے اور میری سیکم ۵۰ ہزار مسجد بنانے کی ہے تم یہ نہ مجھو کہ ہماری جماعت غریب ہے.میں نے ایک رؤیا دیکھی ہے جس سے خدا تعالیٰ نے مجھے تسلی دلائی ہے کہ یہ غربت عارضی ہے اور ایسے سامان پیدا ہونے والے ہیں کہ جن کے نتیجہ میں جماعت کو خدا تعالیٰ بہت کچھ مال دے گا.میں نے خواب میں دیکھا کہ زمینداروں کا ایک بہت بڑا گر وہ ہے.وہ زمیندار ایسے ہیں جو مر بعوں کے مالک ہیں.وہ راجہ علی محمد صاحب کے پاس آئے اور ان سے انہوں نے مصافحہ کیا.اور پھر ایک طرف چلے گئے.میں ان کو دیکھ کر

Page 134

۱۲۹ کہتا ہوں کہ اب خدا تعالیٰ چاہے گا تو یہ ۶۰ ہزار ہو جائیں گے اور ان میں سے ہر شخص سال میں ایک ایک سور روپیہ بھی مساجد کے لئے دے تو ۶۰ لاکھ روپیہ ہو جائے گا اور ۶ لاکھ سے ہیں مساجد بن سکتی ہیں.اس رویاء سے میں نے سمجھ لیا کہ اب خدا تعالیٰ اپنے فضل سے زمینداروں میں ہماری جماعت پھیلانا چاہتا ہے اور وہ بھی ایسے زمینداروں میں جو کم سے کم ایک سو روپیہ سالانہ مساجد کے لئے دے سکیں.مثلاً ہمارے ہاں مربعوں کے ٹھیکوں کی آمد تین تین چار چار ہزار روپیہ ہے اور زمینداروں کا خرچ بہت کم ہوتا ہے.اگر وہ خود کام کریں تو تین چار ہزار کی بجائے وہ چھ سات ہزار روپیہ کما سکتے ہیں اور اس میں سے ایک سو روپیہ مساجد کے لئے دینا کوئی بڑی بات نہیں چنانچہ میں خواب میں کہتا ہوں کہ اب یہ لوگ ساٹھ ہزار ہو جائیں گے اور اگر ایک ایک سو روپیہ بھی یہ لوگ مساجد کے لئے دیں تو ۶۰ لاکھ ہو جائے گا.اس کے بعد یکدم وہ آدمی تو میری نظروں سے غائب ہو گئے.لیکن جانوروں کا ایک ٹھنڈ اُڑتا ہوا میرے سر پر سے گذرا.وہ جانور موسمی معلوم ہوتے ہیں.جیسے مرغابیاں ہوتیں ہیں.یہ جانور ایک خاص ترتیب کے ساتھ چلتے ہیں.میری نظر ان جانوروں پر پڑی اور میں نے کہا اللہ تعالیٰ بھی کیسی قدرتوں والا ہے.اس نے ایسے جانور پیدا کئے ہیں کہ وہ ہیں تو انسانوں سے ادنی مگر ان کی تنظیم انسانوں سے اعلیٰ ہے.اگر کوئی ایسا ذریعہ نکلے کہ ہم انسانوں میں بھی ان مرغابیوں والی تنظیم پیدا کر سکیں تو دنیا کو فتح کرنا ہمارے لئے کتنا آسان ہو جائے.گویا اس خواب کے دو حصے تھے.پہلا حصہ زمینداروں والا تھا اور دوسرا حصہ جانوروں والا ہے وہ مرغابیاں ہیں یا کوئی اور جانور ہیں میں نہیں جانتا، مگر ہیں فصلی جانور.وہ اس ترتیب سے اڑتے جار ہے ہیں کہ ایک آگے ہے اور دوسرے پیچھے ہیں.یہ بات عام طور پر مگھوں ، سرخابوں، کونجوں اور مرغابیوں میں پائی جاتی ہے.میں نے انہیں دیکھ کر کہا کہ کیسا قادر خدا ہے کہ ہم تو آج پیدا ہوئے ہیں لیکن یہ خصلت اور صفت ان میں آدم علیہ السلام کے زمانے سے پائی جاتی ہے اور ابتداء سے اس نے جانوروں کے دماغ میں ایسا علم بھر دیا ہے کہ جس کے ماتحت وہ ہمیشہ ایک تنظیم کے ساتھ اڑتے ہیں.اگر انسانوں کے اندر بھی ہم یہ تنظیم پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو جماعت احمد یہ با وجود تھوڑے ہونے کے ساری دنیا پر غالب آسکتی ہے.اس وقت بھی ہماری تنظیم ہی ہے، جس کی وجہ سے گو ہماری جماعت بالکل غریب ہے، مگر پھر بھی اس کا سالانہ چندہ تحریک جدید اور

Page 135

صدرانجمن احمد یہ کوملا کر پچھلے سال پچاس لاکھ کے قریب تھا، اور ہمیں امید ہے کہ یہ چندہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھتا چلا جائے گا.تھوڑے عرصہ میں ہی تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ کا سالانہ چندہ ۶۵ لاکھ روپیہ ہو جائے گا.میں تو اپنے ذہن میں یہ سوچا کرتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت کا سالانہ چندہ تین کروڑ ہو جائے تو ہم پاکستان کے گوشہ گوشہ میں اپنے مبلغ پھیلا سکتے ہیں.کیونکہ ۳ کروڑ سے ۲۵ لاکھ روپیہ ماہوار بنتا ہے اور ۲۵ لاکھ ماہوار روپیہ کے معنی یہ ہیں کہ اگر ہر مبلغ کی ماہوار تنخواہ ایک سور و پیہ بھی ہو تو ہم ۲۵ ہزار مبلغ رکھ سکتے ہیں اور ۲۵ ہزار مبلغ پاکستان کے گوشہ گوشہ میں پھیلایا جا سکتا ہے.غرض آج میں تحریک جدید کے نئے سال کے لئے جماعت سے مالی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہوں.اب الفضل اور تحریک جد یک کے کارکنوں کا فرض ہے کہ وہ اس اعلان کو بار بار پھیلائیں اور اس کی اشاعت کریں.ہر دوست کو چاہئے کہ وہ کوشش کرے کہ پچھلے سال اس نے جو کچھ چندہ دیا تھا، اس سال اس سے کچھ نہ کچھ بڑھا کر دے.پچھلے سالوں میں چونکہ چندے تھوڑے تھے.میں نے زیادہ بختی کی تھی اور کہا تھا کہ ہر شخص اپنے گذشتہ سالوں کے چندہ سے ڈیوڑھا دے.مگر اب میں اس قید کو ہٹاتا ہوں کیونکہ لوگوں نے خود اپنی مرضی سے چندوں کو زیادہ کر دیا ہے.اب میں یہ کہتا ہوں کہ کوئی شخص اپنے پچھلے سال کے چندہ سے کم نہ دے اور اگر زیادہ دے سکے مثلاً دس فیصدی زیادہ دے سکے یا پندرہ فیصدی زیادہ دے سکے یا بیس فیصدی زیادہ دے سکے تو یہ اس کی مرضی ہے اور اس کا یہ فعل اسے مزید ثواب کا مستحق بنا دے گا.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان نوافل کے ذریعہ ہی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے.کیونکہ نفل انسان اپنی مرضی سے ادا کرتا ہے اور فرض حکم کے ماتحت ادا کرتا ہے.ابھی ہماری شورٹی کے آنے میں، جب نئے سال کا بجٹ تیار ہوتا ہے، پانچ ماہ باقی ہیں.پانچ ماہ تک یہ چندہ جمع کرتے چلے جائیں اور اس کی تحریک دوستوں کو بار بار کریں.تا کہ پانچ ماہ کے بعد اس سال کا چندہ پچھلے سال کے چندہ سے بھی زیادہ ہو جائے اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے سارے یورپ میں مساجد بنا سکیں اور افریقہ اور انڈو نیشیا وغیرہ میں بھی اپنے مبلغ بڑھا سکیں.یہی ذریعہ ہماری کامیابی کا ہے.اس وقت غیر فرقوں پر اگر ہمیں کوئی فضیلت حاصل ہے تو یہی ہے کہ ہمارے مبلغ غیر ملکوں میں پائے جاتے ہیں اور ان کے نہیں پائے جاتے.اس کا اتنا اثر ہے کہ پرسوں مجھے کو یت سے ایک جرمن کا خط ملا.اس نے لکھا ہے کہ میں دیر سے اسلام کی طرف مائل ہوں لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اسلام کی تعلیم کہاں سے حاصل کروں.یہاں ایک موسیٰ نامی شخص ہیں.(موسیٰ کوئی غیر احمدی ہیں غالباً بمبئی کی طرف کے ہیں کیونکہ اس علاقہ میں ایسے نام رکھے جاتے

Page 136

۱۳۱ ہیں ) ان کو پتہ لگا کہ مجھے اسلام کی طرف رغبت ہے.تو انہوں نے کہ کہ اگر تو اسلام سیکھنا چاہتا ہے تو ربوہ چلا جا اور تو کہیں نہیں سیکھ سکتا.پس میں چاہتا ہوں کی آپ میرے لئے کوئی انتظام کریں.مجھ سے موسیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ خرچ میں دوں گا.میں نے اسے لکھا ہے کہ خرچ کا سوال نہیں.ہمیں صرف یہ ضرورت ہے تم اپنی طبیعت کو کم خرچ کرنے کی عادت ڈالو کیونکہ وہی مبلغ کامیاب ہوسکتا ہے جسے کم خرچ کرنے کی عادت ہو.مسٹر کنزے یہاں سے تعلیم حاصل کر کے گئے ہیں اور اب وہ شکاگو (امریکہ ) میں ہمارے مبلغ ہیں.ان کو ہم جو گزارہ دیتے تھے تم بھی اگر آؤ تو وہی وظیفہ ہم تمہیں دے دیں گے.اپنے لڑکوں کو ہم چالیس روپے دیتے ہیں اور دوسروں کو ساٹھ.اسی طریق کے مطابق اگر تم گزارہ کر سکوتو یہاں آ جاؤ.تعلیم حاصل کر کے چلے جانا اور اپنے ملک میں تبلیغ کرنا.ہمیں موسیٰ کے روپیہ کی ضرورت نہیں.ہم خود تم کو وظیفہ دینے کے لئے تیار ہیں.لیکن اگر تم یہ کہو کہ میرا چھ ہزار روپیہ میں گزارہ ہوتا ہے تو اس کی ہمیں توفیق نہیں کیونکہ ہم نے تو باہر سے کئی لوگوں کو بلوا کر انہیں تعلیم دلانی ہے.اگر ہم پچاس آدمی بھی منگوائیں اور چھ ہزار ماہوار روپیہ ماہوار ہر ایک کا خرچ دیں.تو تین لاکھ روپیہ بن جاتا ہے اور اس کی ہمیں توفیق نہیں.ابھی اس کا جواب تو نہیں آیا، لیکن اگر وہ یہاں آگیا اور پھر جرمن سے بھی ایک پادری آرہا ہے، تو یہ دو ہو جائیں گے.پھر ایک اور نوجوان آسٹریلیا کا ہے.اسے کچھ عربی بھی آتی ہے.وہ بچپن میں ٹیونس چلا گیا تھا اور مدت تک وہیں رہا.کوئی پندرہ ہیں سال وہاں رہ کر آسٹریلیا واپس آیا ہے.اس نے بھی لکھا ہے کہ میں اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتا ہوں.اگر وہ بھی آگیا تو تین بن جائیں گے.پھر ایک شخص فلپائن سے آرہا ہے.وہاں کی گورنمنٹ اس کے رستہ میں روکیں ڈال رہی ہے.اس لئے وہ ابھی تک نہیں آسکا لیکن اگر وہ آگیا، تو چار ہو جائیں گے.نیو یارک سے اطلاع آئی ہے کہ ایک حبشی جو پہلے پادری تھا، وہ بھی آنا چاہتا ہے.اگر وہ آ گیا تو پانچ ہو جائیں گے.غرض اس وقت تک ہمارے پاس قریباً دس ممالک کے لوگوں کی درخواستیں پڑی ہوئی ہیں.کہ ہم یہاں آنا چاہتے ہیں بلکہ اب تو بھارت بھی غیر ملک ہی ہے.بھارت سے بھی درخواستیں آتی رہتی ہیں.تھوڑے دن ہوئے ایک سکھ کی چٹھی آئی تھی کہ میں دین سیکھنا چاہتا ہوں.اس کا انتظام کر دیں.غرض اللہ تعالیٰ دنیا میں چاروں طرف

Page 137

١٣٢ اسلام کی اشاعت کے لئے رستے کھول رہا ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری جماعت قربانیوں کے میدان میں ہمیشہ آگے ہی آگے اپنا قدم بڑھاتی چلی جائے.تا کہ ہر جگہ اسلام کو کامیابی کے ساتھ پھیلایا جاسکے.بے شک دنیا ہماری مخالف ہے مگر کامیابی الہی سلسلہ کے لئے ہی مقدر ہوتی ہے.مخالفانہ تدبیریں سب خاک میں مل جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر دنیا میں غالب آکر رہتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ.( سورة آل عمران آیت ۵۵) کہ انسانوں نے بھی اسلام کو شکست دینے کی بڑی تدبیریں کیں اور ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے بھی اسلام کی فتح دینے کی تدبیریں کیں.لیکن وَاللهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ.اللہ تعالیٰ کو بڑی تدبیریں کرنی آتی ہیں اور آخر اللہ تعالیٰ تدبیریں ہی جیتی ہیں.دیکھ لورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دشمن نے کتنی تدابیر کیں لیکن بالآخر اسلام فاتح ہوا.مکہ فتح ہو گیا ، سارا عرب فتح ہو گیا اور کفار کی تدابیر کسی کام نہ آئیں.کیونکہ وہ انسانی تدبیریں تھیں.بے شک کفار نے مسلمانوں پر بیسیوں حملے کئے.مدینہ کے دائیں بھی اور اس کے بائیں بھی.خود مدینہ پر بھی اور ان مسلمانوں پر بھی جو مدینہ کے رستہ میں آباد ہو گئے تھے.مگر کفار کی ساری کوششیں بیکار ہو گئیں اور آخر حضرت عثمان کے زمانہ میں کسرئی اور قیصر دونوں کی حکومتیں ٹوٹ کر چُور چُور ہو گئیں.پھر ولید بن عبد المالک کے زمانہ میں اسلامی جرنیل طارق نے سپین کو فتح کیا اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے زیادہ دور کی بات نہیں، بلکہ اس وقت ابھی بعض صحابہ زندہ موجود تھے.پھر معاویہ بن یزید کے ایک لڑکے عبدالرحمن نے دمشق سے جا کر اندلس میں اموی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور اس کے بعد گیارہ سو سال تک مسلمان اندلس پر حکمران رہے.تو جس خدا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نشان دکھائے تھے وہ خدا ہمارے زمانے میں بھی موجود ہے.وہ بڈھا نہیں ہو گیا ، وہ ویسا ہی جوان اور طاقت ور ہے جیسے پہلے تھا.صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے اندر ایمان ہو.ہم نے بھی سپین کو نظر انداز نہیں کیا.چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے معا بعد ہم نے اپنے مبلغ کرم الہی ظفر کو سپین بھجوا دیا تھا.میرے بچے طاہر اور محمود جو ولائت گئے ہوئے تھے واپس آتے ہوئے سپین بھی گئے تھے.انہوں نے مجھے بتایا کہ

Page 138

۱۳۳ چین کے نو مسلم بہت زیادہ مخلص ہیں.وہ خوب سوچ سمجھ کر اسلام قبول کرتے ہیں اور پھر اس پر اپنی جانیں فدا کرتے ہیں.مجھے بھی اس کا ایک نمونہ لنڈن میں نظر آیا تھا.سن ۵۴ ء سے قبل کا ایک سپنش نو مسلم ڈاکٹر، لنڈن کے قیام کے دوران مجھے ملا.وہ اس وقت لنڈن سے سو میل کے فاصلہ پر کسی جگہ پریکٹس کرتا ہے.اس نے جب سنا کہ میں لنڈن میں آیا ہوں تو وہ مجھے وہاں ملنے کے لئے آیا.اس نے مجھے بتایا کہ کرم الہی ظفر نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے کہ اس نے ہمیں اسلام جیسی نعمت دی.پھر میں نے وہاں چھوٹے درجہ کی ڈاکٹری پاس کی تھی.اس نے مجھے تحریک کی کہ میں لنڈن چلا جاؤں اور وہاں اپنی تعلیم مکمل کروں.چنانچہ میں اس کی تحریک کے مطابق لنڈن آ گیا.یہاں آکر میں نے اپنی تعلیم کی تکمیل کی اور اس وقت میری پریکٹس بڑی اچھی ہے.میں لنڈن سے سو میل کے فاصلہ پر کام کرتا ہوں.اس لئے میں روزانہ لنڈن نہیں آسکتا.اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ ان لوگوں میں اخلاص پایا جاتا ہے اور وہ قربانی کرنے والے ہیں.میرا پہلے تو یہ ارادہ تھا کہ کرم الہی ظفر کو روم بھجوا دیا جائے.اب بچوں کی شہادت کی وجہ سے خیال پیدا ہوا کرم الہی ظفر کو سپین میں ہی رہنے دیں اور روم میں کسی اور مبلغ کو بھجوا دیں.پہلے چوہدری ظفر اللہ خانصاحب کی یہ تجویز تھی کہ میڈرڈ والے روم کی زبان کو خوب سمجھتے ہیں.اگر کرم الہی ظفر مرکز پر بوجھ ہوں تو انہیں روم بھیجوا دیا جائے.یہ وہاں جا کر بھی سپین والوں کو تبلیغ کر سکیں گے.لیکن اب چونکہ پتہ لگا ہے کہ سپین والے نومسلم بڑے مخلص اور ترقی کرنے والے ہیں.اس لئے اب یہی ارادہ ہے کہ کرم الہی ظفر کو وہیں رہنے دیں اور روم میں کسی اور مبلغ کو بھجوا دیا جائے.صرف اخراجات کی تخفیف کر دی جائے.لیکن ہم پہلے بھی اپنے مبلغوں کو بہت کم خرچ دیتے ہیں.چنانچہ ملایا سے مجھے ایک غیر احمدی دوست نے ایک دفعہ خط لکھا کہ آپ اپنے مبلغوں کو اتنا خرج تو دیں کہ جس سے وہ شریفانہ طور پر کھانا کھا سکیں اور اچھا لباس پہن سکیں.بعد میں وہ مجھے کوئٹہ میں ملا تو اس نے کہا کیا آپ کو میرا خط مل گیا تھا؟ میں نے کہا مل گیا تھا.پھر اُس نے دریافت کیا آپ نے میرے اس خط پر عمل بھی کیا ؟ میں نے کہا ہم غریب لوگ ہیں، ہم اس پر کیا عمل کریں.اس نے کہا میں نے ملایا سے خط تو لکھ دیا تھا.لیکن میں نے نیت کر لی تھی کہ میں واپس جاؤں گا تو ذاتی طور پر بھی آپ سے ملوں گا اور زبانی عرض کروں گا کہ آپ کے

Page 139

۱۳۴ مبلغ بدی جانفشانی سے کام کر رہے ہیں.لیکن آپ انہیں کھانے پینے اور رہائش کے لئے اتنے اخراجات تو دیں جن سے وہ شریفانہ طور پر گزارہ کرسکیں.میں نے دیکھا ہے کہ وہ فقیروں کی طرح رہتے ہیں.ان کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اور معمولی تنوروں سے روٹی لے کر کھاتے ہیں جس کا دیکھنے والوں پر اچھا اثر نہیں ہوتا.مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس کے باوجود ہمیں روم اور سپین میں اخراجات پر کنٹرول کرنا پڑے گا.لیکن اگر اس سال تحریک جدید کا چندہ بڑھ جائے تو ہو سکتا ہے کہ بعد میں ہم مبلغوں کے اخراجات کو بڑھا دیں.تا وہ زیادہ عمدگی کے ساتھ کام کر سکیں.اب میں تقریر کو ختم کرتا ہوں اور دعا کر دیتا ہوں اور دعا کے بعد میں چلا جاؤں گا تا کہ دوسرا پروگرام شروع کیا جاسکے.اس کے بعد حضور نے فرمایا میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ دوست اپنے بچوں کا بھی چندہ لکھوایا کریں اور ساتھ ہی انہیں بتا دیا کریں کہ یہ تحریک جدید کا چندہ ہے.تا کہ انہیں ساری عمر یا در ہے اور وہ اپنی اولادوں کو بھی نصیحت کرتے رہیں.چاہے وہ چندہ دو آنے ہی کیوں نہ ہو یا ایک آنہ ہی کیوں نہ ہو.مگر بہر حال انہیں بتا دیا کریں کہ ہم نے تمہاری طرف سے بھی تحریک جدید کا چندہ لکھوا دیا ہے اب تم بھی اس تحریک کے ایک مجاہد ہو.اس موقع پر ایک دوست کے سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا: پانچ روپیہ چندہ کی شرط تو اس شخص کے لئے ہے جو منفرد ہو.جس کا کوئی بچہ نہیں وہ اگر پانچ روپے سے کم دے تو ہم نہیں لیں گے.لیکن اگر اپنے چندہ کے ساتھ بچوں کی طرف سے بھی کچھ چندہ لکھوا دیا جائے تو چاہے وہ کتنا ہی تھوڑا ہو ہم اسے منظور کر لیں گے.(خطاب فرموده ۲۶ اکتوبر ۱۹۵۷ء.بحوالہ الفضل ۷.نومبر ۱۹۵۷ء ص ۱تا۴)

Page 140

۱۳۵ مالی قربانیوں میں اور روحانی اعتبار سے انصار اللہ ترقی کریں مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے چوتھے سالانہ اجتماع سے خطاب تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کی تقریب ہے.میں اس موقعہ پر آپ سے دو باتیں کہنی چاہتا ہوں.ایک تو میں اس بارہ میں آپ سے خطاب کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے فرائض کی طرف توجہ کریں.آپ کا نام انصار اللہ سوچ سمجھ کر رکھا گیا ہے.پندرہ سے چالیس سال تک کی عمر کا زمانہ جوانی اور امنگ کا زمانہ ہوتا ہے.اس لئے اس عمر کے افراد کا نام خدام الاحمد یہ رکھا گیا ہے تا کہ وہ خدمت خلق کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں اور چالیس سال سے اوپر عمر والوں کو نام انصار اللہ رکھا گیا ہے.اس عمر میں انسان اپنے کاموں میں استحکام پیدا کر لیتا ہے اور اگر وہ کہیں ملازم ہو تو اپنی ملازمت میں ترقی حاصل کر لیتا ہے اور وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے سرمایہ سے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکے پس آپ کا نام انصار اللہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ جہاں تک ہو سکے آپ دین کی خدمت کی طرف توجہ کریں اور یہ توجہ مالی لحاظ سے بھی ہوتی ہے اور دینی لحاظ سے بھی ہوتی ہے.دینی لحاظ سے بھی آپ لوگوں کا فرض ہے کہ عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں اور دین کا چر چا زیادہ سے زیادہ کریں.تا کہ آپ کو دیکھ کر آپ کی اولادوں میں بھی نیکی پیدا ہو جائے.

Page 141

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قرآن کریم میں یہی خوبی بیان کی گئی ہے کہ آپ اپنے اہل وعیال کو ہمیشہ نماز وغیرہ کی تلقین کرتے رہتے تھے.یہی اصل خدمت آپ لوگوں کی ہے.آپ خود بھی نماز اور ذکر الہی کی طرف توجہ کریں اور اپنی اولادوں کو بھی نماز اور ذکر الہی کی طرف توجہ دلاتے رہیں.جب تک جماعت میں یہ روح پیدار ہے اور لوگوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فرشتوں کا تعلق قائم رہے اور اپنے اپنے درجہ کے مطابق کلام الہی ان پر نازل ہوتا رہا ہے.اسی وقت تک جماعت زندہ رہتی ہے کیونکہ اس میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی آواز سُن کر اُسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور جب یہ چیز مٹ جاتی ہے اور لوگ خدا تعالیٰ سے بے تعلق ہو جاتے ہیں، تو اس وقت قو میں بھی مرنے لگ جاتی ہیں.پس آپ لوگوں کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اپنی اولادوں کو بھی ذکر الہی کی تلقین کرتے رہنا چاہئے اور اگر کوئی بشارت آپ پر نازل ہو تو ڈرنا نہیں چاہئے ، اسے اخبار میں اشاعت کے لئے بھیج دینا چاہئے.اصل میں تو یہ انبیاء کا ہی کام ہوتا ہے کہ وہ اپنی رویاء وکشوف کو شائع کریں لیکن انبیاء اور غیر انبیاء میں یہ فرق ہوتا ہے کہ انبیاء میں تحدی پائی جاتی ہے اور غیر انبیاء میں تحدی نہیں پائی جاتی.غیر انبیاء کے لئے یہی حکم ہے کہ وہ انکسار کے مقام کو قائم رکھیں اور بے شک خدا تعالیٰ کی تازہ وحی کی جو بارش ان پر نازل ہو اس کا لوگوں کے سامنے ذکر کریں.لوگوں کو یہ نہ کہیں کہ تم ہماری بات ضرور مانو.ہاں نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں سے کہے کہ تم میری باتیں مانو نہیں تو تمہیں سزا ملے گی لیکن غیر نبی کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ ایمان کی زیادتی کے لئے خواب بیان کر دیتا ہے لیکن وہ کسی سے یہ نہیں کہتا کہ تم میری بات ضرور مانو.وہ سمجھتا ہے کہ جب میں غیر نبی ہوں تو اگر خدا تعالیٰ نے میری بات کسی سے منوانی ہے تو وہ خود اس کے لئے کوئی صورت پیدا کر دے گا.مجھے اس پر زور دینے کی ضرورت نہیں.لیکن نبی اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ وحی پر زور دے.کیونکہ وہ یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس سے ایسے رنگ میں کلام کرتا ہے، جس رنگ میں وہ کسی اور سے نہیں کرتا.اس لئے اگر کوئی شخص میری بات نہیں مانے گا تو اس کو سزا ملے گی اور اسی وجہ سے وہ تحدی کرتا ہے لیکن دوسرا شخص ایسا نہیں کر سکتا.پس جس شخص کو کوئی رویاء یا کشف ہو، اسے وہ کشف یا رویاء اخبار میں چھپوانے کے لئے بھیج دینا چاہئے.آگے الفضل والوں کا کام ہے کہ وہ اسے شائع کریں یا نہ کریں.یہ بھی غلط طریق ہے کہ بعض لوگ مجھے کہہ دیتے ہیں کہ الفضل ہمارا مضمون

Page 142

۱۳۷ شائع نہیں کرتا.وہ بے شک نہ چھاپے تم چپ کر رہو.کیونکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کا منشاء نہیں کہ وہ چھپے، لیکن اس میں خود الفضل والوں کا اپنا فائدہ بھی ہے، کیونکہ اس سے جماعت کے اندر ایک بیداری پید ہوتی ہے.اگر کسی شخص کو کوئی رویاء یا کشف یا الہام ہوتا ہے اور وہ شائع ہو جائے تو دوسروں کے اندر بھی یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم توجہ کریں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں بھی کوئی رویاء یا کشف یا الہام ہو جائے گا.اس طرح الفضل سلسلہ کی ایک خدمت کرے گا.وہ جماعت کے اندر بیداری پیدا کرنے کا موجب ہوگا لیکن اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ خود گرفت کرے گا.آپ لوگوں کا صرف اتنا کام ہے کہ آپ اسے اس طرف توجہ دلائیں.لیکن اگر الفضل نہ چھاپے تو پھر اسے خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیں اور اصرار نہ کریں کہ الفضل ہماری خواب شائع کرے.ایڈیٹر آزاد ہوتا ہے، اس کی مرضی ہے کہ کوئی چیز شائع کرے یا نہ کرے اگر وہ اپنے فرائض کو ادا نہیں کرتا، تو خدا تعالیٰ خود اس سے سمجھ لے گا.آپ اس پر داروغہ نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ تو قرآن کریم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ تم ان لوگوں پر داروغہ نہیں ہو.پھر تم داروغہ کہلانے والے کہاں سے آگئے؟ بہر حال آپ انصار اللہ کے مقام کو قائم رکھنے کی کوشش کریں اور انصار اللہ کے معنے یہی ہیں کہ وہ روپیہ سے بھی دین کی خدمت کریں اور روحانی طور پر بھی دین کی خدمت کریں.میں نے بتایا ہے کہ روحانی طور پر دین کی خدمت یہی ہے کہ آپ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں اور اگر اس کی طرف سے بارش کا کوئی چھینٹا آپ پر بھی پڑ جائے، تو ان چھینٹوں کو لوگوں تک بھی پہنچا ئیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، وحی تو الگ رہی ، خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی ہر چیز کی قدر کرتے تھے.ایک دفعہ بارش ہوئی تو آپ باہر نکل آئے اور اپنی زبان باہر نکال لی.اس پر بارش کا ایک قطرہ پڑا تو آپ نے فرمایا.یہ خدا کی رحمت کا تازہ نشان ہے.تو قرآن کریم تو الگ رہا.آپ نے بارش کے ایک قطرہ کو بھی خدا تعالیٰ کا تازہ نشان قرار دیا.اب اگر کسی شخص پر خدا تعالیٰ کا اتنا افضل ہو جاتا ہے کہ اسے کوئی کشف ہو جاتا ہے یا کوئی الہام ہو جاتا ہے.تو وہ تو یقینی طور پر خدا تعالیٰ کا تازہ نشان ہے.پھر وہ تحدیث نعمت کیوں نہ کرے.تحدیث نعمت بھی خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کا ایک طریق ہے.دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ اب

Page 143

۱۳۸ تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان کا وقت آ گیا ہے.ہمارے ذمہ بہت بڑا کام ہے اور ہم نے تمام غیر ممالک میں مساجد بنانی ہیں.اس وقت ہمارے ملک کی ایکھینچ کی حالت پوری طرح مضبوط نہیں.مگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ فضل کرتا رہا ہے اور ہمارے کام چلتے رہے ہیں.کیونکہ ہماری باہر کی بعض جماعتیں اب مضبوط ہوگئی ہیں.مثلاً افریقہ کی جماعتیں وغیرہ اور وہ پاکستان کے قوانین کے ماتحت نہیں.اس لئے ان لوگوں نے مساجد کی خاطر جو جماعت کو پونڈ اور ڈالر دیئے ہیں، ان سے کسی حد تک کام چلتا رہا ہے.مگر وہ جماعتیں ابھی کم ہیں.وہ زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتیں.ان کا بوجھ بٹانے کا طریق یہی ہے کہ یہاں کا بوجھ یہاں کی جماعتیں اٹھالیں اور ان کو اس بوجھ سے فارغ کر دیا جائے.تا کہ وہ غیر ملکوں میں مسجد میں بنائیں.امریکہ میں عام طور پر حبشی لوگ مسلمان ہیں اور حبشیوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی سمجھ کم ہوتی ہے لیکن امریکہ میں ایک مسجد بنی ہے جس کے لئے ایک حبشی مرد اور اس کی بیوی نے اپنا مکان اور جائیداد وقف کر دی تھی اور پھر انہوں نے کچھ اور روپیہ بھی دیا.اسی طرح کچھ چندہ دوسرے لوگوں نے بھی دیا.بہر حال وہ مسجد بن گئی ہے.اگر امریکہ کے حبشی لوگ جو اسلام سے بہت دور رہے ہیں اور اب قریب عرصہ میں اسلام میں داخل ہوئے ہیں، انہیں اتنی توفیق مل گئی ہے کہ وہ مساجد کے لئے اپنی جائیدادیں وقف کر دیں.تو کیا وجہ ہے کہ جو پرانے مسلمان چلے آتے ہیں وہ یہ کام نہ کریں.مغربی افریقہ میں بھی روپیہ بہت ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں ہمارے کچھ چیفس ایسے ہیں جن کی زمینوں میں ہیروں اور سونے کی کانیں نکل آئی ہیں اور ہزاروں ہزار پونڈ انہیں بطور نفع مل جاتا ہے.اگر ہمارے مبلغ ان میں تحریک جاری رکھیں اور وہ مساجد بنانے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لیں یا کم سے کم دو دو تین تین مسجد میں مشرقی اور مغربی افریقہ والے بنا دیں تو پاکستان کی پونڈ جمع کرنے کی دقت دور ہو جاتی ہے.کیونکہ ان ملکوں میں پونڈ کثرت سے پایا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں پونڈ کثرت سے نہیں پایا جاتا.ہمارے ملک کی جو چیزیں ہیں ان کے بیچنے کے لئے انہیں دوسری قوموں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے.مگر بعض غیر ملکوں میں جن میں پونڈ پایا جاتا ہے، ایسی چیزیں ہیں جن کا کوئی مقابلہ نہیں مثلاً مغربی افریقہ میں سارا پونڈ ہیروں اورسونے کے ذریعہ سے آتا ہے اور ہیروں اور سونے میں کوئی اور قوم ان کا مقابلہ نہیں کرتی.اس لئے لازما ان کے پاس بہت سا پونڈ بیچ جاتا ہے اور اس سے ہمیں مددمل سکتی ہے.پھر ہماری جماعت فلپائن میں بھی پیدا ہوگئی ہے اور ترقی کر رہی

Page 144

۱۳۹ ہے.اگر چہ وہ ترقی آہستہ آہستہ ہو رہی ہے لیکن بہر حال ہو رہی ہے.پچھلے سال وہاں سے بیعت کا ایک خط آیا.مجھے افسوس ہے کہ وہ گھر میں پڑا رہا.میں تو بیماری کی وجہ سے خطا نہیں پڑھ سکتا.اس لئے وہ کہیں پڑا رہا.اب کے وہ خط نکلا تو معلوم ہوا کہ وہ بیعت ایک گورنر کی تھی.مگر ادھر خط ملا اور ادھر معلوم ہوا کہ وہ بے چارہ قتل بھی ہو گیا ہے.اب اس کے خط کے ملنے کا یہی فائدہ ہوا کہ وکیل التبشیر نے کہا ہے کہ ہم اس کے بیوی بچوں کو ہمدردی کا خط لکھ دیتے ہیں.پہلے ہم سمجھتے تھے کہ گورنر کہاں سے آگیا، کوئی ڈپٹی کمشنر ہو گا.مگر اب وہاں سے جو طالب علم آیا ہوا ہے اس نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں بڑے بڑے جزیرے ہیں.ان جزیروں پر گورنر مقرر ہوتا ہے، ڈپٹی کمشنر نہیں ہوتا.اس نے بتایا کہ بیعت کا خط لکھنے والا گورنر ہی تھا.مگر وہ تو اب شہید ہو گیا ہے.اب اس کی جگہ ایک نائب گورنر نے بیعت کر لی ہے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقہ میں بھی ترقی ہوئی اگر خدا تعالیٰ چاہے تو امریکہ اور فلپائن وغیرہ علاقوں مین جماعت کو اور بھی ترقی ہو جائے گی اور اس طرح ڈالر کی آسانی ہو جائے گی.امریکہ میں تبلیغ کا یہ اثر بھی ہے کہ دوسرے کئی ملکوں میں بھی ہماری تبلیغ کا اچھا اثر پڑ رہا ہے.چنانچہ مولوی نور الحق صاحب انور جو حال ہی میں امریکہ سے آئے ہیں.انہوں نے بتایا کہ مصر کا جو وائس قونصل تھا اس کے جبڑے میں درد تھی اس نے آپ کو دعا کے لئے خط لکھا تھا لیکن اس کو آپ کا جواب نہیں پہنچا.میں نے دفتر والوں سے خط نکالنے کے لئے کہا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں وہ خطا نہیں ملا.لیکن اب پرسوں یا اتر سوں اس کا دوسرا خط آیا ہے.اس نے لکھا ہے کہ غالباً میرا پہلا خط نہیں پہنچا.اب میں دوسرا خط لکھ رہا ہوں.میرے جبڑے میں درد ہے آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ صحت دے.(انصار اللہ کے جلسہ کے بعد مولوی نور الحق صاحب انور ملے تو انہوں نے بتایا کہ اب اس کے جبڑے کو آرام آچکا ہے.بلکہ میرے یہاں آنے سے بھی پہلے اسے آرام آچکا تھا.اس لئے یہ خط پہلے کا لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے ) انور صاحب نے یہ بھی بتایا کہ وہ کرنل نا صر کا بچپن کا دوست ہے اور اس پر بہت اثر رکھتا ہے.یہ امریکہ میں تبلیغ کا ہی اثر ہے.ہم امریکہ میں تبلیغ کرتے ہیں تو مصری اور شامی بھی متاثر ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہی جماعت ہے جو اسلام کی خدمت کر رہی ہے اور اس طرح قدرتی طور پر انہیں ہماری جماعت کے ساتھ ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے پہلی شامی حکومت کی سختیوں کی وجہ سے ہمارے مبلغ منیر الحصنی صاحب کا خط آیا تھا کہ اس نے ہماری جماعت کے بعض اوقاف میں دخل اندازی کی تھی لیکن اب انہوں نے لکھا ہے کہ جو نئے قوانین بنائے گئے ہیں ان میں کچھ گنجائش معلوم ہوتی ہے.ان کے مطابق میں دوبارہ نالش کرنے لگا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام

Page 145

الده ہے کہ يَدْعُونَ لَكَ اَبْدَالُ الشَّامِ ابدال شام تیرے لئے دعائیں کرتے ہیں.جس کے معنے یہ ہیں کہ شام میں جماعت پھیلے گی.پس دوستوں کو دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ وہاں جماعت کے لئے سہولت پیدا کرے اور وہاں جماعت کو کثرت کے ساتھ پھیلائے تا ابدال شام پیدا ہوں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو ہیں نہیں ، يَدْعُونَ لَگ کے یہی معنی ہیں کہ وہ جماعت کے لئے دعائیں کریں گے اور ابدال نام بتاتا ہے کہ ان کی دعائیں سنی جائیں گی.ابدال کے معنی ہیں کہ ان کے اندر بڑی عظیم الشان تبدیلی پیدا ہو جائے گی اور خدا تعالیٰ کے مقرب ہو جائیں گے.پس اس کے لئے بھی دعاؤں میں لگے رہنا چاہئے کہ شام میں جو مشکلات ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں دور کرے.وہاں مضبوط جماعت پیدا ہو اور ایسے ابدال پیدا ہوں، جو رات دن اسلام اور احمدیت کے لئے دعائیں کرتے رہیں.ہمیں پونڈ مہیا کرنے میں شام کا بھی بڑا دخل ہے.شام میں بھی ڈالر اور پونڈ کا زیادہ رواج ہے اور وہاں سے ہمیں کچھ مددل جاتی ہے.بہر حال اگر سعودی عرب میں جماعت پھیلے، اسی طرح امریکہ اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ اور فلپائن میں ہماری جماعت پھیلے، تو ڈالرمل سکتا ہے.اسی طرح اگر مشرقی اور مغربی افریقہ اور انگلینڈ میں جماعت پھیلے، تو پونڈ جمع ہو جاتا ہے.یہ پونڈ اور ڈالر ہمیں اپنے لئے نہیں چاہئیں.خدا تعالیٰ کے لئے اور اس کے گھر کی تعمیر کے لئے ہمیں ان کی ضرورت ہے.پس دعائیں کرتے رہیں کہ خدا تعالیٰ ان ممالک میں جماعتیں قائم کرے اور ان سے ایسا اخلاص پیدا کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے گھر سارے ممالک میں بنائیں.یہاں تک کہ دنیا کے چپہ چپہ سے اللہ اکبر کی آواز آنے لگ جائے اور جو ملک اب تک تثلیث کے پھیلانے کی وجہ سے بد نام تھا، وہ اب اپنے گوشہ گوشہ سے یہ آواز بلند کرے کہ مسیح تو کچھ بھی نہیں تھا اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑا ہے.اگر ایسا ہو جائے تو یہ دین اسلام کی بڑی بھاری فتح ہے اور ہمارے لئے بھی یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے.ہم میں سے ہر شخص تو وہاں تبلیغ کے لئے جانہیں سکتا.چند مبلغ گئے ہوئے ہیں.باقی لوگ یہ کر سکتے ہیں کہ ان کی روپیہ سے مدد کریں اور دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا فضل چاہیں تا کہ وہ ان پر اپنے فرشتے اتارے اور ان کی باتوں میں اثر پیدا کرے.ہمارا ایک طالب علم جرمن گیا ہوا تھا.اس کا کل ہی ایک خط آیا ہے کہ ایک پادری کی بیٹی میرے زیر تبلیغ تھی جو بہت حد تک احمدیت کی طرف مائل ہوگئی ہے.لیکن اسے باپ سے ڈر ہے کہ وہ اس کی مخالفت نہ کرے کیونکہ وہ پادری ہے.میں نے لکھا ہے کہ پادری تو بہت مسلمان ہو چکے ہیں.اس لڑکی کو سمجھاؤ کہ وہ ہماری کتابیں پڑھے اور اپنے باپ کو بھی سمجھائے.وہ بھی

Page 146

۱۴۱ انشاء اللہ مسلمان ہو جائے گا.اس وقت تک یورپ میں دو پادری مسلمان ہو چکے ہیں.اب اگر یہ احمدی ہو گیا تو تین ہو جائیں گے.ایک شخص جو با قاعدہ پادری تو نہیں لیکن اس نے پادری کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے وہ انگلینڈ میں احمدیت میں داخل ہوا ہے.اس کا باپ یہودی مذہب کا عالم تھا جب اس نے اپنے باپ سے ذکر کیا تو اس نے جواب دیا کہ مجھے تو اسلام سچا نظر نہیں آتا لیکن اگر تمہیں سچا نظر آئے تو میں تمہیں روکتا نہیں ،تم بے شک اسلام قبول کر لو.جن لوگوں کے دلوں میں سچائی کی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے، اگر وہ خود اسلام قبول نہ کریں تو اپنی اولادوں کو اس کے قبول کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ رستہ کھول دیتا ہے.پس آپ لوگ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ یورپ اور امریکہ میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے رستہ کھولے اور ہماری جو سکیم ہے کہ یورپ میں ہماری کئی مساجد ہوں ، امریکہ کی ہر ریاست میں کئی مساجد ہوں.اس کو خدا تعالیٰ جلد سے جلد پورا کرے.اسی طرح پین کے لئے بھی دعا کریں کہ وہ اسلام کی ابتدائی فتوحات میں شامل تھا.مگر اب وہاں جبری طور پر عیسائیت کو پھیلا دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ اس علاقہ میں اسلام کی نصرت کے سامان پیدا کرے تا بنوامیہ کے زمانہ میں جو اسلام وہاں داخل ہوا تھا اور پھر وہاں سے نکال دیا گیا تھا.خدا تعالیٰ اسے احمدیت کے ذریعہ پھر وہاں دوبارہ قائم کر دے (اس کے بعد حضور نے دعا فرمائی ) دعا کے بعد فرمایا: آئندہ کے لئے یا درکھو کہ بیماری کی وجہ سے میرے پاؤں کا نپتے ہیں.اس لئے تقریر کے وقت کوئی چھوٹی سی میز ہونی چاہئے ، جس پر میں سہارا لے سکوں.خالی سوٹی پر سہارا لینے سے بعض اوقات کام نہیں بنتا.میز کے ساتھ میں زیادہ دیر کھڑا ہوسکتا ہوں اور بول بھی زیادہ سکتا ہوں.اس سال مجھے کمزوری زیادہ ہے گو عقلاً ثابت ہوتا ہے کہ یہ وہم ہے.اس لئے کہ میں پہلے سمجھتا تھا کہ شاید یہ کمزوری بڑھاپے کی وجہ سے ہے، لیکن یہ تو چند ماہ سے فرق پڑا ہے اور چند مہینوں میں عمر میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا.اس لئے ڈاکٹروں کی رائے مجھے صحیح معلوم ہوتی ہے.وہ کہتے ہیں کہ اصل میں کمزوری نہیں ہے صرف وہم ہے.ملنے والے بھی کہتے ہیں کہ آپ کی صحت اچھی معلوم ہوتی ہے.مگر مجھے کمزوری نظر آتی ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹروں کی رائے صحیح ہے کہ مجھے بیماری نہیں.مگر بہر حال جو خرابیاں ہیں وہ تو ہیں ہی.اس لئے ضروری ہے کہ تقریر کے وقت کوئی چھوٹی میز ہو، جس پر سہارا لے سکوں.کیونکہ خالی سوٹی سے دل پر دہشت رہتی ہے اور خیال ہوتا ہے کہ میں کہیں گر نہ جاؤں.باقی دعائیں تو میں نے آپ لوگوں کے لئے بھی کر دی ہیں اور سلسلہ کے لئے بھی کر دی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمائے اور آپ لوگ خیر و عافیت

Page 147

۱۴۲ سے گھر جائیں اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے دلیرانہ کوشش کریں تا کہ خدا تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت دے اور سلسلہ کی مالی حالت اور تحریک جدید جو غیر ملکوں میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے ہے، اس کی مالی حالتوں میں زیادہ سے زیادہ ترقی ہو.پھر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے لوگوں کو پہلے سے زیادہ قربانی کرنے کی توفیق دے اور پچھلے سال ہمارے ملک میں فصل ربیع کو جو تبا ہی آئی تھی آئندہ اس سے خدا تعالیٰ محفوظ رکھے.پھر نئی فصلوں میں بھی برکت دے تاکہ زمینداروں کے پچھلے نقصان دور ہو جائیں اور آئندہ کے لئے وہ اور قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جائیں.ہماری جماعت میں زمیندار ہی زیادہ ہیں اور ان کی مالی کمزوری کا بجٹ پر اثر پڑتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان پر اپنے فضلوں کی بارش نازل کرے اور اپنی تازہ بشارتوں یعنی الہاموں اور کشوف اور خوابوں کے ذریعہ سے ان کے ایمانوں کو تقویت دے تا کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کے ایمان کو زیادہ مضبوط بناسکیں.میں نے دیکھا ہے کہ جن لوگوں کو سچی خوا ہیں آتی ہیں، ان کی اولادیں کہتی ہیں کہ ہمارے دادا کو ایسی خواب آئی تھی.پھر ان کی اولاد کہتی ہے کہ ہمارے پڑدادا کو ایسی خواب آئی تھی.غرض تین تین پشت تک اس کا اثر جاتا ہے.اگر ہمارے دوست اس طرف توجہ کریں اور پھر اپنی اولاد کو بھی اس طرف توجہ دلاتے رہیں، تو ان کی کم سے کم تین چار پشتیں محفوظ ہو جاتی ہیں اور پھر اگلی نسل بھی ایسی ہو جائے تو چھ پشتیں محفوظ ہو جاتی ہیں اور پھر اگلی نسل بھی ایسی ہو جائے تو چھ پشتیں محفوظ ہو گئیں.پھر ایک اور اگلی نسل بھی ایسی ہو جائے تو تو پشتیں محفوظ ہو گئیں.ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کی رحمت ۱۳۰۰ سال تک تو محفوظ رہی اور تیرہ سو سال میں بڑے بھاری تغیر آجاتے ہیں.ہم تو چاہتے ہیں کہ قیامت تک ہی ہماری نسل محفوظ ہو جائے.کیونکہ احمدیت خدا تعالیٰ کا آخری جلال ہے اس آخری جلال کو کم سے کم قیامت تک قائم رہنا چاہئے ، تا کہ ہمیشہ لوگوں میں روحانیت اور ہدایت کی طرف توجہ کے سامان پیدا ہوتے رہیں.اگر یہ سامان مٹ گئے تو اور کوئی ذریعہ ہدایت کا دنیا میں نہیں رہے گا.غرض میں نے یہ دعائیں کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت پر بشارتیں نازل کرتا رہے.تا اس پر نئے سے نئے فضل نازل ہوتے رہیں اور ان کا ایمان روز بروز تازہ ہوتا چلا جائے.( خطاب فرموده یکم نومبر ۱۹۵۸ء بحواله الفضل ۶ نومبر ۱۹۵۸ء ص ۱تا۳)

Page 148

۱۴۳ دائمی روحانی زندگی کے لئے خلافت احمدیہ کی اہمیت اختتامی خطاب دوسرا سالانہ اجتماع مجلس انصاراللہ مرکزیہ تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں تقریر شروع کرنے سے پہلے انصار اللہ کا عہد دہراتا ہوں سب دوست کھڑے ہو جائیں اور میرے ساتھ ساتھ عہد دہراتے جائیں.حضور کے اس ارشاد پر سب دوست کھڑے ہو گئے اور حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسی الثانی نے مندرجہ ذیل عہد دہرایا.يَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحَدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ میں اقرار کرتا ہوں کہ اسلام اور احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظام خلافت کی حفاظت کے لئے انشاء اللہ آخر دم تک جد و جہد کرتا رہوں گا اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہوں گا نیز میں اپنی اولا د کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا اس کے بعد حضور نے فرمایا: کل کی تقریر کے بعد کھانے میں کچھ بد پرہیزی ہو گئی.جس کی وجہ سے اسہال آنے شروع ہو گئے اور پھر رات بھر اسہال آتے رہے.جسکی وجہ سے میں اس وقت بہت زیادہ کمزوری محسوس کر رہا ہوں لیکن چونکہ احباب باہر سے تشریف لائے ہوئے ہیں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ یہاں آ کر جو کچھ بھی کہہ سکوں بیان کر دوں.میں نے کل اپنی تقریر میں کہا تھا کہ آپ کا نام انصار اللہ ہے.یعنی نہ صرف آپ انصار ہیں بلکہ آپ انصار اللہ ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار.اللہ تعالیٰ کو تو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں لیکن اس کی نسبت کی وضاحت سے یہ بتایا گیا ہے کہ

Page 149

۱۴۴ آپ ہمیشہ اس عہد پر قائم رہیں گے کیونکہ اللہ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے.اس پر موت نہیں آتی.اس لئے آپ کے عہد پر کبھی موت نہیں آنی چاہئے.چونکہ موت سے کوئی انسان بچ نہیں سکتا، اس لئے انصار اللہ کے معنی یہ ہوں گے کہ جب تک آپ زندہ رہیں گے، اس عہد پر قائم رہیں گے اور اگر آپ مر گئے تو آپ کی اولاد اس عہد کو قائم رکھے گی.یہی وجہ ہے کہ اس عہد میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ میں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا.اور اگر اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں کو اس بات کی توفیق دے دے.تو پھر کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں یہ توفیق مل جائے کہ ہم عیسائیوں سے بھی زیادہ عرصہ تک خلافت کو قائم رکھ سکیں.خلافت کو زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ تنظیم سلسله ایسی مضبوط رہے کہ تبلیغ احمدیت اور تبلیغ اسلام دنیا کے گوشہ گوشہ میں ہوتی رہے جو بغیر خلافت کے نہیں ہو سکتی.کیونکہ کوئی ایک آدمی اس بات کی توفیق نہیں رکھتا کہ وہ ہالینڈ، انگلینڈ، جرمنی ، سپین، فرانس، سکنڈے نیویا، سوئٹزرلینڈ اور دوسرے ممالک میں مشنری بھیج سکے.یہ کام تبھی ہو سکتا ہے جب ایک تنظیم ہو اور کوئی ایسا شخص ہو جس کے ہاتھ پر ساری جماعت جمع ہو اور وہ آنه آنه، دو دو آنه، چار چار آنه، روپیه دو روپیه جماعت کے ہر فرد سے وصول کرتا رہے اور اس دود و آنہ، چار چار آنہ اور روپیہ دورو پیر سے اتنی رقم جمع ہو جائے کہ ساری دنیا میں تبلیغ ہو سکے.دیکھو عیسائیوں کی تعداد ہم سے زیادہ ہے.وہ اس وقت ۶۰ کروڑ کے قریب ہیں.پوپ جو عیسائی خلیفہ ہے، اس نے اس وقت یہ انتظام کیا ہوا ہے کہ ہر عیسائی سال میں ایک ایک آنہ بطور چندہ دیتا ہے اور اس کو عیسائی پوپ آنہ (Pope's penny) کہتے ہیں اور اس طرح وہ پونے چار کروڑ روپیہ جمع کر لیتے ہیں لیکن آپ لوگ باوجود اس کے کہ اتنا بوجھ اٹھاتے ہیں کہ کوئی اپنی ماہوار تنخواہ کا ۲ فیصدی چندہ دیتا ہے اور کوئی دس فیصدی چندہ دیتا ہے اور پھر بارہ ماہ متواتر دیتا ہے.آپ کا چندہ پندرہ ہیں لاکھ بنتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری تعداد عیسائیوں سے بہت تھوری ہے.اگر

Page 150

۱۴۵ ہمارے پاس پونے چار کروڑ روپیہ ہو جائے تو شائد ہم دو سال میں عیسائیت کی دھجیاں بکھیر دیں.اس تھوڑے سے چندہ سے بھی ہم وہ کام کرتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ گئی ہے.چنانچہ عیسائیوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے جن کے اقتباسات الفضل میں بھی چھپتے رہتے ہیں کہ احمدیوں نے ہمارا ناطقہ بند کر دیا ہے.جہاں بھی ہم جاتے ہیں، احمدیت کی تعلیم کی وجہ سے لوگ ہماری طرف توجہ نہیں کرتے اور نہ صرف نئے لوگ عیسائیت میں داخل نہیں ہوتے بلکہ ہم سے نکل نکل کر لوگ مسلمان ہو رہے ہیں.نائجر یا اور گولڈ کوسٹ کے متعلق تو یہ رپورٹ آئی ہے کہ وہاں جو لوگ احمدی ہوئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر تعداد عیسائیوں سے آئی ہے.سیرالیون اور لائبریا سے بھی رپورٹ آئی ہے کہ عیسائی لوگ کثرت سے احمدیت کی طرف متوجہ ہورہے ہیں اور سلسلہ میں داخل ہورہے ہیں.پاکستان اور ہندوستان میں لوگ زیادہ تر مسلمانوں سے آئے ہیں کیونکہ یہاں مسلمان زیادہ ہیں اور عیسائی کم ہیں لیکن وہاں چونکہ عیسائی زیادہ ہیں اور اس لئے زیادہ احمدی عیسائیوں سے ہی ہوئے ہیں.چنانچہ مغربی افریقہ میں احمدیت کی ترقی کے متعلق گولڈ کوسٹ یو نیورسٹی کالج کے پروفیسر ہے ہی.ولیم سن نے اپنی ایک کتاب مسیح یا محمد “ میں لکھا ہے کہ اشانٹی گولڈ کوسٹ کے جنوبی حصوں میں عیسائیت آج کل ترقی کر رہی ہے لیکن جنوب کے بعض حصوں میں خصوصاً ساحل کے ساتھ ساتھ احمد یہ جماعت کو عظیم فتوحات حاصل ہو رہی ہیں.یہ خوشکن تو قع کہ گولڈ کوسٹ جلد ہی عیسائی بن جائے گا، اب معرض خطر میں ہے اور یہ خطرہ ہمارے خیال کی وسعتوں سے کہیں زیادہ عظیم ہے.کیونکہ تعلیم یافتہ نو جوانوں کی خاصی تعداد احمدیت کی طرف کھینچی چلی جارہی ہے اور یقیناً ( یہ صورت ) عیسائیت کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے.“ پھر جو لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں ان کے اخلاص کی یہ حالت ہے کہ سیرالیون کے مشن نے لکھا کہ یہاں ایک عیسائی سردار تھا.جس کو یہاں چیف کے نام سے پکارا جاتا ہے.درحقیقت ان کی حیثیت ہمارے ملک کے ذیلداروں کی سی ہوتی ہے.مگر وہاں کی گورنمنٹ نے ان چیفس کو بہت زیادہ اختیارات دے رکھے ہیں.ان کے پاس مقدمات جاتے ہیں اور گورنمنٹ نے ایک خاص حد تک ان کو سزا دینے کا بھی اختیار دیا ہوا ہے.وہاں ملک کے رواج کے مطابق چیف کو خدا تعالیٰ کا قائم مقام سمجھا جاتا ہے.اس لئے ان کے ہاں ہماری طرح خدا تعالیٰ کی قسم کھانے کا رواج نہیں بلکہ وہاں یہ رواج ہے کہ جب

Page 151

۱۴۶ کسی سے قسم لینی ہو تو چیف کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنا سٹول جس پر وہ بیٹھتا ہے سامنے رکھ دیتا ہے اور مدعی یا اس کا نمائندہ اس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے چیف کے اس سٹول کی قسم کہ میں نے فلاں بات کی ہے یا نہیں کی اور اس کی بات مان لی جاتی ہے.ہمارے احمدیوں نے چیف کے سٹول پر ہاتھ رکھ کر اس کی قسم کھانے سے انکار کرنا شروع کر دیا اور کہا یہ شرک ہے.ہم تو خدا تعالیٰ کی قسم کھائیں گے لیکن چیف نے کہا میں تو خدا تعالیٰ کی قسم نہیں مانتا.ہمارے باپ دادا سے یہ رواج چلا آ رہا ہے کہ اس سٹول کی قسم کھائی جاتی ہے، اس لئے میں اس سٹول کی قسم لوں گا لیکن احمدیوں نے ایسی قسم کھانے سے انکار کر دیا چنانچہ وہاں ایک کے بعد دوسرے احمدی کو سزاملنی شروع ہوئی لیکن احمدی سٹول کی قسم کھانے سے برابر انکار کرتے گئے.آخر گورنمنٹ ڈرگئی اور اس نے کہا آخر تم کتنے احمدیوں کو جیل میں بند کرو گے.احمدیت تو اس علاقہ میں پھیل رہی ہے اور اس کے ماننے والوں کی تعدا در روز بروز زیادہ ہورہی ہے.چنانچہ تنگ آگر گورنمنٹ نے چیف کو حکم دے دیا کہ اگر کسی مقدمہ میں کسی احمدی سے قسم لینے کی ضرورت پڑے تو اسے چیف کے سٹول کی قسم نہ دی جائے بلکہ اسے خدا تعالیٰ کی قسم دی جائے.کیونکہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم نہیں کھا سکتے.تو دیکھو وہاں احمدیت نے کایا پلٹ دی ہے.سیرالیون میں ہمارا ایک اخبار چھپتا ہے.اس کے متعلق ہمارے مبلغ نے لکھا کہ چونکہ ہمارے پاس کوئی پر لیس نہیں تھا.اس لئے عیسائیوں کے پریس میں وہ اخبار چھپنا شروع ہوا.دو چار پر چوں تک تو وہ برداشت کرتے چلے گئے لیکن جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو پادریوں کا ایک وفد اس پریس کے مالک کے پاس گیا اور انہوں نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اپنے پر لیس میں ایک احمدی اخبار شائع کر رہے ہو جس نے عیسائیوں کی جڑوں پر تبر رکھا ہوا ہے.چنانچہ اسے غیرت آئی اور اس نے کہہ دیا کہ آئندہ میں تمہارا اخبار اپنے پریس میں نہیں چھاپوں گا کیونکہ پادری برا مناتے ہیں.چنانچہ اخبار چھپنا بند ہو گیا.تو عیسائیوں کو اس سے بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے ہمیں جواب دینے کے علاوہ اپنے اخبار میں بھی ایک نوٹ لکھا کہ ہم نے تو احمدیوں کا اخبار چھاپنا بند کر دیا ہے اب ہم دیکھیں گے کہ اسلام کا خدا ان کے لئے کیا سامان پیدا کرتا ہے.یعنی پہلے ان کا اخبار ہمارے پر لیس سے چھپ جایا کرتا تھا.اب چونکہ ہم نے انکار کر دیا ہے اور ان کے پاس اپنا کوئی پر لیں نہیں.اس لئے اب ہم دیکھیں گے کہ یہ جو مسیح کے مقابلہ میں اپنا خدا پیش کیا کرتے ہیں اس کی کیا طاقت ہے اگر اس میں کوئی قدرت ہے تو وہ ان کے لئے خود سامان پیدا کرے.وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ جب میں نے یہ پڑھا تو میرے دل کو سخت تکلیف محسوس ہوئی.میں نے اپنی جماعت کو تحریک کی کہ وہ چندہ کر کے اتنی رقم جمع کر دیں کہ ہم

Page 152

۱۴۷ اپنا پر لیس خرید سکیں.اس سلسلہ میں میں نے لاری کا ٹکٹ لیا اور پونے تین سومیل پر ایک احمدی کے پاس گیا تا کہ اسے تحریک کروں کہ وہ اس کام میں حصہ لے.میں اس کی طرف جارہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی اس کا گاؤں آٹھ میل پرے تھا کہ وہ مجھے ایک دوسری لاری میں بیٹھا ہوا نظر آ گیا اور اس نے بھی مجھے دیکھ لیا.وہ مجھے دیکھتے ہی لاری سے اتر پڑا اور کہنے لگا آپ کس طرح تشریف لائے ہیں؟ میں نے کہا اس اس طرح ایک عیسائی اخبار نے لکھا ہے کہ ہم نے تو ان کا اخبار چھاپنا بند کر دیا ہے.اگر مسیح کے مقابلہ میں ان کے خدا میں بھی کوئی طاقت ہے تو وہ کوئی معجزہ دکھا دے.وہ کہنے لگا آپ یہیں بیٹھیں میں ابھی گاؤں سے ہو کر آتا ہوں.چنانچہ وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی اس نے پانچ سو پونڈ لا کر مجھے دے دیئے.پانچ سو پونڈ وہ اس سے پہلے دے چکا تھا.گویا تیرہ ہزار روپیہ کے قریب اس نے رقم دے دی اور کہا میری خواہش ہے کہ آپ پریس کا جلدی انتظام کریں تا کہ ہم عیسائیوں کو جواب دے سکیں کہ اگر تم نے ہمارا اخبار چھاپنے سے انکار کر دیا تھا تو اب ہمارے خدا نے بھی ہمیں اپنا پر لیس دے دیا ہے.جماعت کے دوسرے دوستوں نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا ہے اور اس وقت تک ۱۸۰۰ پونڈ سے زیادہ رقم جمع ہو چکی ہے اور انگلینڈ میں ایک احمدی دوست کے ذریعہ پریس کے لئے آرڈر دے دیا گیا ہے.ی شخص جس کے پاس ہمارا مبلغ گیا کسی زمانہ میں احمدیت کا شدید مخالف ہوا کرتا تھا.اتنا سخت مخالف کہ ایک دفعہ کوئی احمدی اس کے ساتھ دریا کے کنارے جارہا تھا کہ اس احمدی نے اسے تبلیغ شروع کر دی.وہ دریا کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ دیکھو یہ دریا ادھر سے ادھر بہ رہا ہے.اگر یہ دریا یک دم اپنا رخ بدل لے اور نیچے سے اوپر کی طرف الٹا بہنا شروع کر دے تو یہ ممکن ہے لیکن میرا احمدی ہونا ناممکن ہے.مگر کچھ دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ کوئی بڑا عالم فاضل نہیں بلکہ ایک لوکل افریقن احمدی اس سے ملا اور چند دن اس سے باتیں کیں تو وہ احمدی ہو گیا.پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی مدد کی اور اس کی مالی حالت پہلے سے بہت اچھی ہو گئی.اب دیکھ لو ان لوگوں کے اندر جو اسلام اور احمدیت کے لئے غیرت پیدا ہوئی ہے.وہ محض احمدیت کی برکت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے.دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر الزام لگاتی تھی کہ آپ عیسائیت کے ایجنٹ ہیں.مگر خدا تعالیٰ نے ثابت کر دیا کہ آپ عیسائیت کے ایجنٹ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ایجنٹ ہیں.

Page 153

۱۴۸ اگر آپ مخالفوں کے قول کے مطابق عیسائیت کے ایجنٹ تھے تو عیسائیوں کو مسلمان بنانے کے کیا معنی.اگر آپ عیسائیوں کے ایجنٹ ہوتے تو آپ مسلمانوں کو عیسائی بناتے نہ کہ عیسائیوں کو مسلمان.کیونکہ کوئی شخص اپنے دشمن کی تائید کے لئے تیار نہیں ہوتا.جو شخص عیسائیت کی جڑوں پر تبر رکھتا ہے عیسائی لوگ اس کی مدد کیوں کریں گے؟ حضرت مسیح ناصری سے بھی بالکل اسی طرح کا واقعہ ہوا تھا.آپ پر یہودیوں نے الزام لگایا کہ انہیں بعل بت سکھاتا ہے.اس پر حضرت مسیح علیہ السلام نے انہیں جواب دیا کہ میں تو بعل بت کے خلاف تعلیم دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ایک خدا کی پرستش کرو.پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ بعد مجھے سکھاتا ہے اور میری تائید کرتا ہے.اب دیکھو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کتنا بڑ انشان ہے کہ آپ کی زندگی میں تو مخالف کہتے رہے کہ آپ عیسائیت کے ایجنٹ ہیں لیکن آپ کی وفات کے بعد آپ کے ماننے والی غریب جماعت کو اس نے یہ توفیق دی کہ وہ عیسائیت کو شکست دے.اس نے چندے دیئے اور تبلیغ کا جال پھیلا دیا.اگر وہ چندے نہ دیتے اور ہمارے مبلغ دنیا کے مختلف ممالک میں نہ جاتے ، تو یہ لوگ جو احمدیت میں داخل ہوتے ہیں، کہاں سے آتے ؟ اور عیسائیت کا ناطقہ کیسے بند ہوتا ؟ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے انہی چندوں کی وجہ سے یہ حالت ہوگئی کہ اب عیسائیوں کو ایک ملک کے متعلق یہ کہنا پڑا کہ یہ خوشکن امید کہ یہ ملک عیسائی ہو جائے گا، پوری نہیں ہو سکتی.اب غالباً اسلام جیتے گا اور عیسائیت شکست کھائے گی.کیونکہ اب عیسائیت کی جگہ اس ملک میں اسلام ترقی کر رہا ہے.احمدی جماعت کی طرف سے سکول جاری ہو رہے ہیں.کالج قائم کئے جارہے ہیں.مساجد تعمیر ہو رہی ہیں.چنانچہ گولڈ کوسٹ کے علاقہ میں کماسی مقام پر ہمارا سیکنڈری سکول قائم ہے.کہتے تو اسے کالج ہیں.لیکن وہاں صرف ایف.اے تک تعلیم دی جاتی ہے.کئی کئی میل سے لوگ اپنے بچے اس کا لج میں بھیجتے ہیں.ان لوگوں کو دین پڑھنے کا اتنا شوق ہے کہ پچھلے سال ایک لڑکا یہاں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آیا.اس کے متعلق وہاں کے مبلغ نے لکھا کہ اس کی والدہ میرے پاس آئی اور اس نے مجھے دو سو پونڈ کی رقم دی اور کہا میرے اس بچے کو ربوہ بھیجنے کا انتظام کریں تا کہ یہ وہاں تعلیم حاصل کرے.مبلغ نے کہا بی بی تو بیوہ عورت ہے اتنا بوجھ کیوں اٹھاتی ہے.یہ رقم تیرے کام آئے گی.شاید تو خیال کرتی ہو کہ ربوہ میں تیرا لڑکا بی.اے یا ایم.اے ہو جائے گا.وہاں تو لوگ دبینیات پڑھاتے ہیں.اس پر وہ عورت کہنے لگی، میں تو اپنے لڑکے کو ربوہ بھیجتی ہی اس لئے ہوں کہ وہ وہاں جا کر دین کی تعلیم حاصل کرے.آپ اسے وہاں بھیجئے، خرچ میں دوں گی.چنانچہ وہ لڑکا یہاں تعلیم حاصل کر رہا ہے.تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد واپس اپنے ملک جائے

Page 154

۱۴۹ گا تو وہاں کا مبلغ بن جائے گا.اسی طرح ایسٹ افریقہ سے امری عبیدی آئے تھے.وہ عیسائیوں میں سے احمدی ہوئے ہیں.حبشیوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کم عقل ہوتے ہیں لیکن وہ شخص اتناذہین ہے کہ اس نے اس بات کو غلط ثابت کر دیا ہے.کراچی میں پچھلے دنوں نوجوانوں کی ایک انجمن کی کانفرنس ہوئی تھی.اس میں انہوں نے ہمیں نہیں بلایا تھا لیکن ہم نے خود بعض لڑکے وہاں بھیج دیئے تھے.ان میں سے ایک امری عبیدی بھی تھے.بعد میں وہاں سے رپورٹ آئی کہ وہ ہر بات میں امری عبیدی سے مشورہ لیتے تھے اور اس کو آگے کرتے تھے.گویا وہ تو ہمیں بلاتے بھی نہیں تھے لیکن جب ہمارے نوجوان وہاں گئے تو وہ ہر بات میں ہمارے اس نوجوان سے مشورہ کرتے تھے اور اسے آگے کرتے تھے.اب وہ واپس پہنچ گئے ہیں اور ان کی طرف سے چٹھی آئی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے تبلیغ کا کام شروع کر دیا ہے.خدا تعالیٰ وہ دن جلد لائے ، جب یہ ساری قوم احمد بیت کو قبول کر لے تو یہ جو کچھ ہو رہا ہے محض نظام کی برکت کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اس نظام کا ہی دوسرا نام خلافت ہے.خلافت کوئی علیحدہ چیز نہیں بلکہ خلافت نام ہے نظام کا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب الوصیت میں فرماتے ہیں کہ ”سواے عزیز و! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے.تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں.کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے، جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا.“ اب دیکھو قدرت ثانیہ کسی انجمن کا نام نہیں.قدرت ثانیہ خلافت اور نظام کا نام ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں تو کچھ مدت تک تمہارے اندر رہ سکتا ہوں مگر یہ قدرت ثانیہ

Page 155

۱۵۰ دائی ہوگی اور اس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور قیامت تک نہ کوئی نبی رہ سکتا ہے اور نہ کوئی خلیفہ رہ سکتا ہے.ہاں خلافت قیامت تک رہ سکتی ہے.نظام قیامت تک رہ سکتا ہے.پس یہاں قدرت ثانیہ سے خلافت ہی مراد ہے کیونکہ خلیفہ تو فوت ہو جاتا ہے لیکن خلافت قیامت تک جاسکتی ہے.اگر جماعت ایک خلیفہ کے بعد دوسرا خلیفہ مانتی چلی جائے اور قیامت تک مانتی چلی جائے تو ایک عیسائیت کیا ہزاروں عیسائیتیں بھی احمدیوں کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتیں.کیونکہ ہمارے پاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دیا ہوا دلائل و براہین کا وہ ذخیرہ ہے، جو کسی اور قوم کے پاس نہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ آپ اسلام کو ساری دنیا پر غالب کر دیں.اب وہ زمانہ جب اسلام تمام دنیا پر غالب ہو گا، کسی ایک آدمی کی کوشش سے نہیں آ سکتا.بلکہ اس کے لئے ایک لمبے زمانہ تک لاکھوں آدمیوں کی جدوجہد کی ضرورت ہے.پس یہ کام صرف خلافت کے ذریعہ ہی پورا ہو سکتا ہے لیکن اس کا سارا کریڈٹ صرف مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ملے گا.جن کے دئے ہوئے ہتھیار ہم استعمال کرتے ہیں.باقی باتیں محض خوشہ چینی ہیں.جیسے کوئی شخص کسی باغ میں چلا جائے اور اس کے پھل کھالے.تو وہ پھلوں کا مزہ تو اٹھالے گا لیکن اصل مزہ اٹھانا اس کا ہے، جس نے وہ باغ لگایا.لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی شخص سل کے عارضہ سے بیمار ہو گیا.اس نے بہتیرا علاج کرایا مگر اسے کوئی فائدہ نہ ہوا.جب ڈاکٹروں نے اسے لا علاج قرار دے دیا، تو وہ اپنے وطن واپس آ گیا.وہ شخص وزیر آباد کے قریب سڑک پر جارہا تھا کہ اسے ایک پہلوان ملا جومتکبرانہ طور پر سڑک پر چل رہا تھا.اس نے اس عام دستور کے مطابق کہ پہلوان اپنا سر منڈا لیتے ہیں.تا کہ کشتی میں ان کا مد مقابل ان کے بال نہ پکڑے اپنے بال منڈائے ہوئے تھے.اس بیمار شخص کی حالت بہت کمزور تھی لیکن اس پہلوان کو دیکھ کر اسے شرارت سوجھی اور اس نے آہستہ سے جا کر اس کے سر پر ٹھینگا مارا.اس پر اس پہلوان کو غصہ آ گیا اس نے سمجھا کہ اس شخص نے میری ہتک کی ہے.چنانچہ اس نے اسے ٹھڈوں سے خوب مارا.جب وہ اسے ٹھڈے مار رہا تھا.تو وہ کہتا جاتا تھا کہ تو جتنے ٹھڈے چاہے مارے جتنا مزہ مجھے اس ٹھینگا مارنے میں آیا ہے، تجھے ٹھڈوں میں نہیں آسکتا.اسی طرح جو مزہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دلائل میں آیا ہے.وہ عیسائیت کو اپنی طاقت کے زمانہ میں بھی نہیں آیا.دیکھ لوعیسائی ہم پر حاکم تھے اور ہم کمزور اور ماتحت رعا یا تھے.ہمارے پاس نہ تلوار تھی اور نہ کوئی مادی طاقت لیکن خدا تعالیٰ کا ایک پہلوان آیا اور اس نے ہمیں وہ دلائل دئے کہ جن سے اب ہم امریکہ، انگلینڈ اور

Page 156

۱۵۱ دوسرے سب ممالک کو شکست دے رہے ہیں.یہ جو ٹھینگے کا مزہ ہے، وہ ان کے ٹھڈوں میں نہیں.تو یہ برکت جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دی ہے.محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل دی ہے اور جوں جوں ہمارے مبلغ کام کریں گے اور احمدیت ترقی کرے گی.ہمیں اور زیادہ برکت ملے گی ،محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تیرے ذریعہ اسلام کو دنیا پر غالب کروں گا.اب جو شخص بھی اسلام کی تبلیغ کے لئے باہر نکلتا ہے اور جو شخص بھی تبلیغ کے لئے ایک پیسہ بھی دیتا ہے، در حقیقت اپنے دائرہ میں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے اور جو وعدے خدا تعالیٰ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تھے، وہ اپنے درجہ اور مقام کے لحاظ سے اس کے ساتھ بھی ہوں گے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ ال والسلام تو فوت ہو گئے اور قرآن کریم ایک کتاب ہے جو بولتی نہیں.اب جو مبلغ ہیں وہی بولیں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد ایک رنگ میں آپ کے الصلاة نائب ہوں گے.پس جوں جوں وہ امریکہ، انگلستان اور دوسرے ممالک میں تبلیغ کریں گے اور اسلام بڑھے گا.خلافت محمد یہ ظلی طور پر خدا تعالیٰ انہیں دیتا چلا جائے گا لیکن ان کی وہاں خلافت قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں مرکز میں بھی خلافت قائم ہو جو تمام احمد یوں کو اکٹھارکھے اور انہیں خرچ بھجوائے تا کہ وہ اپنی اپنی جگہ کام کر سکیں.پھر جوں جوں چندے بڑھتے جائیں تبلیغ کے نظام کو وسیع کرتے چلے جائیں.میں نے کل بتایا تھا.عیسائی خلافت نے ۵۲ لاکھ مبلغ تبلیغ کے لئے تیار کیا ہوا ہے اور اس کے مقابلہ میں ہماری طرف سے صرف سو ڈیڑھ سو مبلغ ہے.جس دن مسیح محمدی کو ۵۲ لاکھ مبلغ مل گئے ، اس دن بھاگتے ہوئے عیسائیت کو رستہ نہیں ملے گا.کیونکہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہ دلائل اور براہین دئے ہیں، جو عیسائیت کے پاس نہیں.مثلاً لنڈن میں ایک جلسہ ہوا.اس میں ہمارے مبلغوں نے تقاریر کیں اور بتایا کہ مسیح ناصری فوت ہو گئے ہیں.انہوں نے بتایا کہ مسیح ناصری صلیب سے بیچ کر کشمیر کی طرف چلے گئے تھے اور وہیں انہوں نے وفات پائی ہے اور اب تک ان کی قبر سرینگر میں پائی جاتی ہے.اس پر ایک پادری کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ اگر مسیح فوت ہو گئے ہیں تو ہماری عیسائیت مرگئی.آگے وہ کشمیر چلے گئے یا کسی اور جگہ، اس کا کوئی سوال نہیں.یہ تو ایک علمی سوال ہے جو اٹھایا گیا ہے.ان کا وفات پا جانا ہی عیسائیت کے ختم ہو جانے کے لئے کافی ہے.کیونکہ ہم حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا مانتے ہیں اور اگر وہ مرگئے ہیں تو

Page 157

۱۵۲ خدا نہ رہے اور اس طرح عیسائیت بھی باقی نہ رہی.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کو ایسے ایسے معرفت کے نکتے دیئے ہیں، جن کا مقابلہ عیسائیت کے بس کی بات نہیں.۱۳۰۰ سال سے مسلمان اس دھو کہ میں مبتلا چلے آتے تھے کہ مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر ہیں اور اس کی وجہ سے عیسائیت کو مد دل رہی تھی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کی وفات ثابت کر کے عیسائیت کو ختم کر دیا.حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.مسلمانوں تب ادبار آیا کہ جب قرآن کو بھلایا رسول حق کو مٹی میں سلایا مسیحا کو فلک پر ہے بٹھایا.عیسائی ہمیشہ کہتا تھا کہ میرا مسیح آسمان پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیٹھا ہے اور تمہارا رسول محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) زمین میں دفن ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک ہی جھٹکے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر چڑھا دیا اور مسیح ناصری کو زمین میں دفن کر دیا.یہی چیز تھی جس نے احمدیت کو عیسائیت پر غلبہ دیا ہے.جس وقت تک یہ تعلیم موجود ہے اور انشاء اللہ قیامت تک رہے گی ، دنیا میں عیسائیت پنپ نہیں سکتی.عیسائیت کو یہی فخر تھا کہ مسلمان کہتے ہیں کہ مسیح ناصری علیہ السلام زندہ ہیں اور اس سے ان کے دعوئی کی تائید ہوتی تھی لیکن اب تو انہیں بھی سمجھ آگئی ہے اور وہ اس عقیدہ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں.میں جب مری گیا تو وہاں عیسائی مشن میں ہمارا مبلغ اور میرا ایک بیٹا عیسائیوں کو تبلیغ کرنے کے لئے جاتے تھے.جب ہمارے مقابلہ میں ان کا پہلو کمزور ہو گیا.تو انہوں نے لاہور سے کچھ دیسی مشنری بلائے اور مشنریوں نے آکر چالاکیاں شروع کر دیں اور مسلمانوں کو یہ کہہ کر بھڑ کا نا شروع کیا کہ مرزا صاحب تو مسیح علیہ السلام سے بڑا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.اس طرح انہوں نے غیر از جماعت مسلمانوں کو ہمارے خلاف جوش دلانا چاہا.مگر وہ روزانہ تبلیغ کے بعد سمجھ چکے تھے کہ احمدی جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ ٹھیک ہے.اس سے اسلام کی فضیلت عیسائیت پر ثابت کی جاسکتی ہے اس لئے جب عیسائیوں نے احمدیت کے خلاف شور مچانا شروع کیا تو انہوں نے کہا تمہیں اس سے کیا واسطہ مرزا صاحب اپنے آپ کو حضرت مسیح علیہ السلام سے افضل سمجھتے ہیں یا نہیں ، یہ تو ہمارے گھر کا جھگڑا ہے.تم ان اعتراضات کا جواب دو جو عیسائیت پر ہوتے ہیں اور اپنے عقائد کی حقانیت کو ثابت کرو.یہ لوگ ہماری طرف سے نمائندے ہیں، جو تمہارے ساتھ بحث کر

Page 158

۱۵۳ رہے ہیں.جو یہ بات کریں گے، وہ ہماری طرف سے ہی سمجھی جائے گی.غرض مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیش کردہ دلائل اور براہین کو سمجھ چکے ہیں اور جوں جوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پھیلتی جائے گی ، عیسائیت مغلوب ہوتی جائے گی.دوسرا پہلوروحانیت کا ہے.عیسائیوں کی سیاست کا پہلو تو حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے مسئلہ سے ختم ہو گیا.مذہبی پہلو میں یہ نقص تھا کہ علماء نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ قرآن کریم کی بعض آیات منسوخ ہیں.اس کی وجہ سے مسلمانوں کا قرآن کریم پر ایمان کامل نہیں رہا تھا.ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ جس قرآن میں ایک آیت بھی منسوخ ہے، مجھے اس کا کیا اعتبار ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مشکل کو بھی دور کر دیا اور فیصلہ کر دیا کہ قرآن کریم کی ہر آیت قابل عمل ہے.بسم اللہ کی ب سے لے کر والناس کی س تک کوئی حصہ بھی ایسا نہیں جو قابل عمل نہ ہو.یہی وجہ ہے کہ جب میں نے تفسیر کبیر لکھی تو لوگ اسے پڑھ کر حیران ہو گئے اور کہنے لگے کہ پہلے علماء نے تو وہ باتیں نہیں لکھیں، جو آپ نے لکھی ہیں.مجھے کئی غیر احمدیوں کی چٹھیاں آئیں کہ ہم نے تفسیر کبیر کو پڑھا ہے.اس میں قرآن کریم کے اتنے معارف لکھے گئے ہیں کہ حد نہیں رہی.ضلع ملتان کے ایک غیر احمدی دوست ایک احمدی دوست سے تفسیر کبیر پڑھنے کے لئے لے گئے اور اسے پڑھنے کے بعد انہوں نے کہا ہمیں وہ سمندر دیکھنا چاہئے ، جہاں سے یہ تفسیر نکلی ہے.مگر سوال یہ ہے کہ یہ سمندر کہاں سے آگیا ؟ یہ محض اس نکتہ کی وجہ سے آیا ہے کہ قرآن کریم کی ہر آیت قابل عمل ہے.مفسرین کو جس آیت کی سمجھ نہ آئی اسے انہوں نے منسوخ قرار دے دیا لیکن ہم چونکہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کی ہر آیت قابلِ عمل ہے، اس لئے ہم ہر آیت پر فکر کرتے ہیں اور غور وفکر کے بعد اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور اور برکت کی وجہ سے اس کو حل کر لیتے ہیں اور اس کی ایسی لطیف تفسیر کرتے ہیں جو ۱۳۰۰ سال میں کسی عالم نے نہیں کی.گزشتہ علماء نے اگر بعض آیتوں کی تفسیر نہیں لکھی تو اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ قرآن کریم میں بعض آیات منسوخ بھی ہیں.اس لئے جب کوئی مشکل آیت آجاتی وہ اس پر غور نہیں کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر بعد میں پتہ لگ گیا کہ یہ آیت منسوخ ہے، تو ساری محنت اکارت چلی جائے گی.لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت بھی منسوخ نہیں.اس لئے ہم ہر آیت پر غور کرتے ہیں اور اس کی صحیح تشریح تلاش کرنے میں ہمت نہیں ہارتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارا ایمان بالقرآن روز بروز ترقی کرتا جاتا ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کسی پرانے بزرگ کا ذکر سنایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس بزرگ سے کسی نے درخواست کی کہ قرآن کریم کی

Page 159

۱۵۴ تفسیر سنائیے.تو وہ کہنے لگے یہ قرآن تو سارا ابو جہل کے لئے نازل ہوا ہے.ابوبکر کے لئے نازل ہوتا تو اس کی ب ہی کافی تھی.کیونکہ ب کے معنے ساتھ کے ہیں اور ابو بکر کے لئے یہ کافی تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھی بن جائیں.باقی ابو جہل نہیں مانتا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سارا قرآن اس کے لئے نازل کیا ہے.ورنہ ابو بکر کے لئے اتنے بڑے قرآن کی ضرورت نہیں تھی.تو حقیقت یہی ہے کہ قرآن کے معارف اور حقائق سکھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے اندر ایک نئی روح پھونک دی ہے.آپ نے بتایا کہ قرآن کریم میں کوئی آیت منسوخ نہیں اور تم قرآن کے جتنے حصے پر عمل کرو گے اتنے ہی تم خدا تعالیٰ کے قریب ہو جاؤ گے اور عملی طور پر دیکھا جائے تو قرآن کریم کسی فلسفہ کی کتاب نہیں بلکہ یہ ایک آسمانی کتاب ہے.اس کی ایک ایک آیت پر عمل کرو گے تو تم ولی اللہ بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی اور جب خدا تعالی کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی.تو تمام آفات اور مصائب تمہیں اپنی نظروں میں بیچ نظر آنے لگ جائیں گے.گزشتہ تیرہ سوسال کے عرصہ میں جس نے بھی قرآن کریم پر سچے دل سے عمل کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ اس کے شامل حال رہی ہے اور مصائب اور مشکلات کے ہجوم میں وہ اس کی تائیدات کا مشاہدہ کرتا رہا ہے.ایک بزرگ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کوئی کام نہیں کرتے تھے.ان کی بیوی ان کے ایک دوست کے پاس گئی ، جو خود بھی بڑے بزرگ اور عالم تھے، اور کہنے لگی آپ اپنے دوست کو سمجھائیں وہ کوئی کام نہیں کرتے.اس بزرگ نے کہا بہت اچھا میں ان کے پاس جاؤں گا اور انہیں سمجھاؤں گا کہ وہ کوئی کام کریں.چنانچہ وہ وہاں گئے اور کہنے لگے دیکھو بھائی مجھے پتہ لگا ہے کہ آپ کوئی کام نہیں کرتے حالانکہ آپ عالم ہیں اور دوسرے لوگوں کو پڑھا کر بھی آپ اپنی روزی کما سکتے ہیں.انہوں نے جواب میں کہا بھائی میرے دل میں آپ کی بڑی قدر ہے لیکن مجھے افسوس ہوا کہ آپ نے ایسا مشورہ کیوں دیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم کسی کی مہمان نوازی کو رد نہ کرو اور میں تو خدا تعالیٰ کا مہمان ہوں.پھر میں خدا تعالیٰ کی مہمان نوازی کو کیوں رد کروں.اگر میں اس کی مہمان نوازی کو رد کر دوں تو وہ خفا ہو جائے گا.دوسرے بزرگ بھی ہوشیار تھے.انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان نوازی صرف تین دن کی ہوتی ہے اس کے بعد صدقہ ہوتا ہے.آپ کو خدا تعالیٰ

Page 160

۱۵۵ کے مہمان بنے ہیں سال ہو گئے ہیں.پھر کیا ابھی مہمان نوازی ختم نہیں ہوئی ؟ وہ بھی ہوشیار تھے.کہنے لگے کیا قرآن کریم نے نہیں فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا ایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے.گویا قرآن کریم کی رو سے تو میں تین ہزار سال تک خدا تعالیٰ کا مہمان رہونگا اور اس کا دیا کھاؤں گا.تو حقیقت یہی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے، وہ اس کے لئے روزی کے مختلف رستے کھول دیتا ہے.ہاں یہ ضرور ہے کہ اس نے انسان کے اندر روحانیت پیدا کرنے کے لئے فرمایا ہے کہ تم میرے حضور دعائیں کیا کرو.کیونکہ جب کوئی انسان بحجز اور انکسار کے ساتھ دعائیں کرتا ہے تو اس کے دل میں محبت الہی بڑھتی ہے.بے شک ظاہری کسب بھی ایک ضروری چیز ہے لیکن دعا ئیں بھی روحانیت پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں.مومن کسب تو کرتا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ در حقیقت مجھے دیتا خدا تعالیٰ ہی ہے.یہ کبھی نہیں سمجھتا کہ جو کچھ مجھے ملا ہے، وہ میری محنت کے نتیجہ میں ملا ہے لیکن ایک مالدار کا فر یہ سمجھتا ہے کہ مجھے جو کچھ ملا ہے میرے ذاتی علم اور ذہانت اور محنت کی وجہ سے ملا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں صاف لکھا ہے کہ جب قارون سے کہا گیا یہ دولت تمہیں خدا تعالیٰ نے دی ہے، تو اس نے کہا کہ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِي (سورة القصص آیت ۷۹) کہ میری یہ دولت مجھے میرے علم کی وجہ سے ملی ہے.تو اسلام کمائی سے منع نہیں کرتا لیکن وہ کہتا ہے کہ تم خواہ کتنی محنت کرو یہ یقین رکھو کہ اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے.مثلاً کوئی لوہار ہے تو وہ جتنی چاہے محنت کرے لیکن جو بھی کمائے ، اس کے متعلق یہ خیال نہ کرے کہ وہ اسے لوہارے کی وجہ سے ملا ہے.بلکہ سمجھے کہ یہ سب کچھ اسے خدا تعالیٰ نے دیا ہے.آخر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ ایک شخص سارا سال لو ہارے کا کام سیکھتا ہے لیکن وہ سیکھ نہیں سکتا.پھر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ ایک کاریگر ہوتا ہے لیکن اسے کوئی کام نہیں ملتا.پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ رو پیدل جائے تو رستہ میں کوئی ڈاکو اس کا سارا روپیہ چھین لے پھر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ گھر کما کر روپیہ لے آئے لیکن گھر میں آتے ہی پیٹ میں درد اٹھے اور وہ جانبر ہی نہ ہو سکے.پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اسے ایسی جلدی بیماری پیدا ہو جائے کہ وہ کپڑا نہ پہن سکے.تو جو کچھ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل.سے ہوتا ہے.اگر کوئی انسان اپنی محنت سے بھی روزی کمائے ، تب بھی اسے جو کچھ ملتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتا ہے.یہ چیز ایسی ہے کہ اگر انسان اس پر غور کرے تو اسے معلوم ہوسکتا ہے کہ اسے جو کچھ

Page 161

۱۵۶ ملا ہے.خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی وجہ سے ملا ہے اور خدا تعالیٰ سے تعلق قرآن کریم سے پیدا ہوتا ہے.یہ ہمیں حضرت مرزا صاحب نے بتایا ہے.اصل سبق تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا لیکن اسے مسلمان بھول گئے تھے.حضرت مرزا صاحب نے آکر اسے دوبارہ تازہ کیا اور کہا کہ قرآن پر عمل کرو اور دعائیں کرو اور تقویٰ اختیار کرو اور سمجھو کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ تمہیں خدا تعالیٰ نے ہی دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا ایک شعر ہے کہ یعنی ہر ایک نیکی کی جڑ اگر جڑ رہی سب ہے کچھ رہا ہے تمام نیکیاں تقویٰ سے پیدا ہوتی ہیں اگر تقوی باقی رہے تو ایسے انسان کو کوئی چیز ضائع نہیں کر سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور دوسرے بزرگوں کی مثالیں موجود ہیں کہ کبھی مومن خدا تعالیٰ کے فضل سے مصائب اور آفات سے نہیں ڈرتے مثلاً حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کے متعلق مشہور ہے کہ آپ کے حاسدوں نے آپ کے خلاف بادشاہ کے کان بھرے اور وہ آپ سے بدظن ہو گیا اور آپ کو سزا دینے پر تیار ہو گیا لیکن اس نے کہا میں ابھی جنگ کے لئے باہر جارہا ہوں.واپس آؤں گا تو انہیں سزا دوں گا.جب وہ واپس آ رہا تھا تو حضرت نظام الدین اولیاء کے مرید آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے بادشاہ واپس آ رہا ہے، آپ کوئی سفارش اس کے پاس پہنچائیں تا کہ وہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے.حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے فرمایا.ہنوز دلی دور است ابھی دلی بہت دور ہے.جب وہ دلی کے اور قریب آ گیا تو مریدوں نے پھر بتایا حضور اب تو بادشاہ بالکل قریب آگیا ہے اور اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ صبح دلی میں داخل ہو جائے گا.حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے پھر فرمایا کہ ” ہنوز دلی دور است ابھی دلی بہت دور ہے.چنانچه مرید خاموش ہو کر واپس چلے گئے.رات کو بادشاہ کے بیٹے نے شہر کے باہر والے محل پر ایک بہت بڑا جشن کیا.ہزاروں لوگ اس جشن میں شرکت کے لئے آئے اور وہ محل کی چھتوں پر چڑھ گئے.چھت کا کچھ حصہ بوسیدہ تھا اس لئے وہ اس بوجھ کو برداشت نہ کر سکا اور گر پڑا.بادشاہ اور اس کے ساتھی چھت کے نیچے بیٹھے تھے.اس لئے وہ اس کے نیچے ہی دب گئے اور مر گئے.چنانچہ صبح بجائے اس کے کہ بادشاہ شہر میں

Page 162

۱۵۷ داخل ہوتا ، اس کی لاش شہر میں لائی گئی.حضرت نظام الدین صاحب نے مریدوں سے فرمایا.دیکھو میں نے کہا تھا کہ ہنوز دلی دور است کہ ابھی دلی بہت دور ہے.پھر تین سال ہوئے اس قسم کا ایک واقعہ آپ لوگوں نے بھی دیکھا ہے.اس وقت احمدیوں کو لاریوں اور گاڑیوں سے کھینچ کھینچ کرا تا را جا تا تھا اور انہیں مارا پیٹا جاتا تھا.اس وقت میں نے اعلان کیا کہ گھبراؤ نہیں.میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑا چلا آ رہا ہے.“ چنانچہ تم نے دیکھا کہ تین دن کے اندر اندر نقشہ بدل گیا.لوگ اس وقت کہہ رہے تھے کہ اب احمدیوں کا پاکستان میں کوئی ٹھکانہ نہیں.ہر طرف ان میں جوش بھرا ہوا تھا اور نعرے لگ رہے تھے کہ احمدیوں کو قتل کر دو.اس وقت میں نے کہا کہ میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑا آ رہا ہے.وہ مجھ میں ہے، وہ میرے پاس ہے.پھر دیکھو میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑ کر آیا یا نہیں.اب سارے مولوی تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ اپنے مطالبات کے تسلیم کروانے میں ناکام رہے ہیں.اب بھی جماعت میں منافقین نے فتنہ پیدا کیا تو گجرات کے ایک آدمی نے مجھے لکھا کہ مجھ سے ایک منافق نے ذکر کیا کہ ہم سے غلطی ہو گئی کہ ہم نے خلافت کا سوال بہت پہلے اٹھا دیا.اب ہمیں احمدیوں کے پاس جانے کا کوئی موقع نہیں ملتا.جہاں ہم جاتے ہیں دھتکار دیئے جاتے ہیں.اگر ہم چپ رہتے اور خاموشی سے کام کرتے تو ہم ہر ایک احمدی کے پاس جا سکتے تھے اور اسے اپنی بات سنا سکتے تھے لیکن اب ہمیں ایسا کرنے کی جرات نہیں.جس کی وجہ سے ہماری ساری سکیم فیل ہوگئی ہے.پھر دیکھو میں بیماری کی وجہ سے لمبا عرصہ باہر رہا تھا اور ان منافقین کے لئے موقع تھا کہ وہ میری غیر حاضری میں شور مچاتے لیکن خدا تعالیٰ نے انہیں دبائے رکھا اور جب میں واپس آیا تو اس نے ایک بیوقوف کے منہ سے یہ بات نکلوا دی کہ ہم دو سال کے اندر اندر خلافت کو ختم کر دیں گے.میں نے اس کے بیان کو شائع کر دیا.اس پر کئی لوگوں نے اعتراض کیا کہ یونہی ایک بے وقوف کی بات کو بڑھا دیا گیا ہے.اس سے اسے شہرت اور اہمیت حاصل ہو جائے گی لیکن اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ یہ لوگ ننگے ہو گئے.چنانچہ ایک دوست نے مجھے خط لکھا کہ آپ نے اپنی بیالیس سالہ خلافت میں بڑے بڑے عظیم الشان کارنامے کئے ہیں لیکن اب جو آپ نے کام کیا ہے اور جماعت کو وقت پر فتنے سے آگاہ کر دیا ہے اور اسے بیدار کر دیا ہے، مجھے یقین ہے کہ اس سے بڑا آپ کا اور کوئی کارنامہ نہیں.آج ہمیں سب

Page 163

۱۵۸ منافقوں کا پتہ لگ گیا ہے اور آج ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے شیطان کو مار دیا ہے اور اسے نئے نئے طریقوں سے جماعت کے اند رفتنہ پیدا کرنے سے روک دیا ہے.آپ کے اس بات کو شائع کر دینے سے جماعت کے اندر ایک نئی روح اور نئی امنگ پیدا ہو گئی ہے اور اب ہر احمدی خلافت کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے.اگر آپ وقت پر اعلان نہ کرتے ، آپ لحاظ کر جاتے اور چپ کر جاتے تو یہ فتنہ بہت بڑھ جاتا.آپ نے بہت بڑے بڑے کام کئے ہیں.تبلیغ اسلام کا کام کیا ہے، غیر ممالک میں مساجد بنائی ہیں.مگر مجھے یقین ہے کہ آپ کا موجودہ فتنہ کو دبا لیتا سب سے بڑا کارنامہ ہے.کیونکہ اس کے ذریعہ آپ نے جماعت کو محفوظ کر دیا ہے اور جماعت کے اندر ایک نئی بیداری اور جوش پیدا ہو گیا ہے.پہلے یہ بات نہیں تھی.پہلے جماعت کے اندرستی پائی جاتی تھی اور ہم سمجھتے تھے کہ ہم بالکل محفوظ ہیں.اگر یہ فتنہ یکدم پھیل جاتا تو جماعت غفلت میں بیٹھی رہتی اور فتنہ پرداز اسے نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے لیکن آپ نے ادھر فتنہ پیدا ہوا اور ادھر اعلان شائع کر کے، جماعت کو وقت پر بیدار کر دیا.چنانچہ اب وہ اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر طرح تیار ہے.اگر آپ وقت پر جماعت کو بیدار نہ کر دیتے تو ان لوگوں نے جماعت کو پیغامیوں کی جھولی میں ڈال دینا تھا اور وہ ساری کوشش جو آپ کی ، نبوت اور ماموریت کی سچائی کے لئے ۴۲ سال تک کی گئی تھی ، ضائع ہو جانی تھی.مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو وقت پر ہوشیار کر دیا اور با وجود اس کے کہ وہ بات بظاہر چھوٹی نظر آتی تھی اور بعض احمدی بھی خیال کرتے تھے کہ یہ معمولی بات ہے.آپ نے اس کے ضرر کو نمایاں کر کے دکھایا اور اس طرح تمام احمدی دنیا سمجھ گئی کہ کیا بات ہے اور وہ اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئی.چنانچہ دنیا کے سب ممالک سے جہان جہاں ہماری جماعتیں قائم ہیں مثلاً امریکہ سے، افریقہ سے، دمشق سے، انڈونیشیا سے اور دوسرے تمام ممالک سے مجھے چٹھیاں آ رہی ہیں کہ ہم خلافت سے سچے دل کے ساتھ وابستہ ہیں اور جن لوگوں نے اس فتنہ کو اٹھایا ہے، انہیں منافق خیال کرتے ہیں.اب وہ ہم میں شامل ہو کر کوئی رتبہ اور فضیلت حاصل نہیں کر سکتے.اب دیکھو یہ ساری چیزیں خدا تعالیٰ کے نشان کے طور پر ہیں.اگر اس فتنہ کا مجھے وقت پر علم نہ ہوتا، تو شاید وہ شان پیدا نہ ہوتی جواب ہے.مگر اب جماعت کے اندر وہی بیداری پیدا ہوگئی ہے جو سن ۴۱ء میں پیدا ہوئی تھی.آپ لوگ اس وقت جوان تھے ، اب بڑھے ہو چکے ہیں لیکن اس وقت نو جوانوں والا عزم آپ کے اندر دوبارہ پیدا ہو گیا ہے اور پھر جوانوں کے اندر بھی عزم پیدا ہو چکا ہے اور جماعت کا ہر فرد اس بات کے لئے تیار ہے کہ وہ خلافت کے لئے اپنی جان دے دے گالیکن اسے کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گا اور جب کوئی شخص

Page 164

۱۵۹ خدا تعالیٰ کے دین کی تائید اور نصرت کے لئے عزم کر لیتا ہے.تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کی مدد کرتے ہیں.میں نے پچھلے ماہ خواب میں دیکھا تھا کہ آیتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں، جو قرآن شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لئے آئی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ سے نکل جائیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر مسلمان سے لڑائی کریں گے لیکن قرآن کریم منافقوں سے فرماتا ہے کہ نہ تم یہودیوں کے ساتھ مل کر مدینہ سے نکلو گے اور نہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑو گے، یہ دونوں جھوٹے دعوے ہیں اور صرف یہودیوں کی انگیخت کرنے کے لئے اور فساد پر آمادہ کرنے کے لئے ہیں.اب دیکھو وہی کچھ ہو رہا ہے.جو خدا تعالیٰ نے مجھے رویاء میں بتایا تھا.ایک طرف یہ منافق معافی مانگتے ہیں اور پھر اخبار میں شائع کرا دیتے ہیں کہ ہم نے تو معافی نہیں مانگی.اگر انہوں نے واقعہ میں کوئی معافی نہیں مانگی تھی تو غیر احمدی اخبارات نے یہ کیوں لکھا تھا کہ دیکھو کتنا ظلم ہورہا ہے.ان لوگوں کی معافی مانگتے مانگتے ناکیں بھی رگڑی گئی ہیں لیکن انہیں معافی نہیں ملتی.اگر وہ بعد میں معافی کا انکار نہ کرتے ، تو جماعت کے کئی کمز ور لوگ کہتے کہ جب یہ معافی مانگتے ہیں تو انہیں معاف کر دیا جائے لیکن انہوں نے پہلے خود معافی مانگی، پھر ڈر گئے اور سمجھا کہ کہیں غیر احمدی یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ اب ڈر گئے ہیں اور اس طرح ان کی مدد سے محروم نہ ہو جائیں.اس لئے انہوں نے پھر لکھ دیا کہ ہم نے تو معافی نہیں مانگی.مگر اس جھوٹ کے نتیجہ میں وہی مثال ان پر صادق آئے گی جو کسی لڑکے کے متعلق مشہور ہے کہ وہ بھیڑیں چرایا کرتا تھا.ایک دن اسے گاؤں والوں سے مذاق سوجھا تو اس نے پہاڑی پر چڑھ کر شور مچا دیا کہ شیر آیا.شیر آیا.گاؤں کے لوگ لاٹھیاں لے کے اس کی مدد کے لئے آئے لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو وہاں شیر وغیرہ کوئی نہیں تھا.لڑکے نے انہیں بتایا کہ اس نے ان سے یونہی مذاق کیا تھا.دوسرے دن وہ بھیڑیں چرا رہا تھا تو واقع میں شیر آ گیا اور لڑکے نے پہاڑی پر چڑھ کر شور مچایا کہ شیر آیا.شیر آیا.لیکن گاؤں سے اس کی مدد کے لئے کوئی نہ آیا.انہوں نے سمجھا کہ لڑکا کل کی طرح آج بھی مذاق کر رہا ہوگا.چنانچہ شیر نے اسے پھاڑ کر کھا لیا.اسی طرح جب غیر احمد یوں کو محسوس ہوا کہ یہ لوگ جھوٹ بولنے کے عادی ہیں تو وہ ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور یہ لوگ اپنی آنکھوں سے اپنی ناکامی کا مشاہدہ کریں گے.آج ہی مجھے میرے نائی نے ایک لطیفہ سنایا.

Page 165

17.اس نے بتایا کہ میں میاں عبدالمنان صاحب کی حجامت بنانے گیا تو انہوں نے کہا کیا تم ڈر گئے تھے کہ حجامت بنانے نہ آئے یا تمہیں کسی نے روکا تھا.میں نے کہا مجھے تو کوئی ڈر نہیں اور نہ کسی نے مجھے روکا ہے.حجامت بنانا تو انسانی حق ہے اس سے مجھے کوئی نہیں روکتا اس لئے میں آگیا ہوں.پھر میں نے کہا میاں صاحب میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں کہ پشاور سے ایک احمدی قادیان میں آیا اور وہ میاں شریف احمد صاحب سے ملنے کے لئے ان کے مکان پر گیا.اتفاقاً میں بھی اس وقت حجامت بنانے کے لئے ان کے دروازہ پر کھڑا تھا.ہمیں معلوم ہوا کہ میاں صاحب اس وقت سور ہے ہیں.اس پر میں نے کہا کہ میں تو حجامت بنانے کے لئے آیا ہوں انہیں اطلاع دے دی جائے لیکن وہ دوست مجھے بڑے اصرار سے کہنے لگے کہ ان کی نیند خراب نہ کریں لیکن میں نے نہ مانا اور میاں صاحب کو اطلاع بھجوا دی.جس پر انہوں نے مجھے بھی اور اس دوست کو بھی اندر بلا لیا.وہاں ایک چارپائی پڑی ہوئی تھی.میں نے انہیں کہا کہ اس پر بیٹھ جائیے.کہنے لگے میں نہیں بیٹھتا.میں نے سمجھا کہ شاید یہ چار پائی پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے.اس لئے میں ان کے لئے کرسی اٹھا لیا لیکن وہ کرسی پر بھی نہ بیٹھے اور دروازہ کے سامنے جہاں جو تیاں اُتار کر رکھی جاتی ہیں وہاں پائیدان پر جا کر بیٹھ گئے.میں نے ان سے کہا کہ آپ نے یہ کیا کیا ؟ میں نے چار پائی دی لیکن آپ نہ بیٹھے.پھر کرسی دی تب بھی آپ نہ بیٹھے اور ایک ایسی جگہ جا کر بیٹھ گئے جہاں بوٹ وغیرہ رکھے جاتے ہیں.کہنے لگے میں تمہیں ایک قصہ سناؤں.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا صحابی ہوں.میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو ملنے کے لئے آیا.آپ مسجد مبارک میں بیٹھے تھے اور دروازہ کے پاس جو تیاں پڑی تھیں.ایک آدمی سیدھے سادھے کپڑوں والا آ گیا اور آ کر جوتیوں میں بیٹھ گیا.میں نے سمجھا یہ کوئی جوتی چور ہے.چنانچہ میں نے اپنی جوتیوں کی نگرانی شروع کر دی کہ کہیں وہ لے کر بھاگ نہ جائے.کہنے لگے اس کے کچھ عرصہ بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے اور میں نے سنا کہ آپ کی جگہ کوئی اور شخص خلیفہ بن گیا ہے.اس پر میں بیعت کرنے کے لئے آیا.جب میں نے بیعت کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ وہی شخص تھا جس کو میں نے اپنی بیوقوفی سے جوتی چور سمجھا تھا، یعنی حضرت خلیفہ اسی اول اور میں اپنے دل میں سخت شرمندہ ہوا.آپ کی عادت تھی کہ آپ جو نتیوں میں آ کر بیٹھ جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آواز دیتے تو آپ ذرا آگے آ جاتے.پھر جب کہتے مولوی نورالدین صاحب نہیں آئے تو پھر کچھ اور آگے آجاتے.اس طرح بار بار کہنے کے بعد کہیں وہ آگے آتے تھے.یہ قصہ سنا کر میں نے انہیں کہا.میاں آپ کے باپ نے جوتیوں

Page 166

۱۶۱ میں بیٹھ بیٹھ کے خلافت لی تھی لیکن تم زور سے لینا چاہتے ہو.اس طرح کام نہیں بنے گا.تم اپنے باپ کی طرح جو تیوں میں بیٹھو اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو.اس پر وہ چپ کر گیا اور میری اس بات کا اس نے کوئی جواب نہ دیا.ہم نے خود حضرت خلیفہ اول کو دیکھا ہے.آپ مجلس میں بڑی مسکنت سے بیٹھا کرتے تھے.ایک دفعہ مجلس میں شادیوں کا ذکر ہو رہا تھا.ڈپٹی محمد شریف صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی ہیں، سناتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول اکڑوں بیٹھے ہوئے تھے یعنی آپ نے اپنے گھٹنے اٹھائے ہوئے تھے اور سر جھکا کر گھٹنوں میں رکھا ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.مولوی صاحب جماعت کے بڑھنے کا ایک ذریعہ کثرت اولا د بھی ہے.اس لئے میرا خیال ہے کہ اگر جماعت کے دوست ایک سے زیادہ شادیاں کریں تو اس سے بھی جماعت بڑھ سکتی ہے.حضرت خلیفہ اول نے گھٹنوں پر سے سر اٹھایا اور فرمایا.حضور میں تو آپ کا حکم ماننے کے لئے تیار ہوں لیکن اس عمر میں مجھے کوئی شخص اپنی لڑکی دینے کے لئے تیار نہیں ہوگا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہنس پڑے.تو دیکھو یہ انکسار اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ادب تھا جس کی وجہ سے انہیں یہ رتبہ ملا.اب با وجود اس کے کہ آپ کی اولاد نے جماعت میں فتنہ پیدا کیا ہے لیکن اب بھی جماعت آپ کا احترام کرنے پر مجبور ہے اور آپ کے لئے دعائیں کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں اس انکسار اور محبت کی ، جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تھی وہ عظمت ڈالی ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ کے بیٹوں نے مخالفت کی ہے.پھر بھی ان کے باپ کی محبت ہمارے دلوں سے نہیں جاتی.پھر بھی ہم انہیں اپنی دعاؤں میں یا در کھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے کیونکہ انہوں نے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا، جب ساری دنیا آپ کی مخالف تھی.اسی طرح آج کل ضلع جھنگ کے بعض نئے احمدی ہوئے ہیں.ان میں سے ایک مولوی عزیز الرحمن صاحب ہیں جو عربی کے بڑے عالم ہیں اور ان کا ایک عربی قصیدہ الفضل میں بھی چھپ چکا ہے.ان کے والد جو اپنے بیٹے کی طرح عالم نہیں ، وہ یہاں آئے.وہ کہیں جارہے تھے تو کسی نے میاں عبدالمنان کو آتا دیکھ کر انہیں بتایا کہ وہ میاں عبدالمنان ہیں.اس پر وہ دوڑتے ہوئے اس کے پاس پہنچے اور کہنے لگے میاں.تیرے باپ کو اس در سے خلافت ملی تھی اب تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تو بھاگ رہا ہے.پھر پنجابی میں کہا کہ جا اور جا کر معافی مانگ.عبدالمنان نے کہا.بابا جی میں نے تو معافی مانگی تھی.وہ کہنے لگے اس طرح نہیں.تو جا کر ان کی دہلیز پر بیٹھ جا اور وہاں سے ہل نہیں.تجھے دھکے مار کر بھی وہاں سے نکالنا چاہیں تو اس وقت تک نہ اٹھ ،

Page 167

۱۶۲ جب تک کہ تجھے معافی نہ مل جائے.مگر عبدالمنان نے اس نو احمدی کی بات بھی نہ مانی.پھر میں نے بھی مری میں خطبہ دیا اور معافی کا طریق بتایا لیکن اس نے نہ تو اس طریق پر عمل کیا جو میں نے خطبہ میں بیان کیا تھا اور نہ اس طریق پر عمل کیا جو اس نئے احمدی نے اسے بتایا تھا اور اخباروں میں شور مچایا جارہا ہے.بے شک وہ اور اس کے ساتھی اخباروں میں جتنا چاہیں شور مچالیں.وہ اتنا شور تو نہیں مچاسکتے جتناسن ۶۵۳ میں جماعت کے خلاف مچایا گیا تھا.مگر جو خد اسن ۵۳ء میں میری مدد کے لئے دوڑا ہوا آیا تھا، وہ خدا اب بڑھا نہیں ہو گیا کہ وہ سن ۵۳ء میں دوڑ سکتا تھا اور اب نہیں دوڑ سکتا بلکہ وہ اس وقت بھی دوڑ سکتا تھا اور اب بھی دوڑ سکتا ہے اور قیامت تک دوڑ سکے گا.جب بھی کوئی شخص احمدیت کو کچلنے کے لئے آگے آئے گا میرا خدا دوڑتا ہوا آ جائے گا اور جو شخص احمدیت کو مٹانے کے لئے نیزہ مارنے کی کوشش کرے گا.میرا خدا اپنی چھاتی اس کے سامنے کر دے گا اور تم یہ جانتے ہی ہو کہ میرے خدا کو نیزہ نہیں لگتا.جو شخص میرے خدا کے سینہ میں نیزہ مارنے کی کوشش کرے گا.وہ نیزہ الٹ کر خود اس کے سینہ میں جالگے گا اور جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے ایمان کی وجہ سے محفوظ رہتی چلی جائے گی.ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ لوگ اپنے ایمان کو قائم رکھیں.حضرت خلیفہ امسیح اول سنایا کرتے تھے.جب میں بھوپال میں پڑھا کرتا تھا تو وہاں ایک بزرگ تھے.جنہیں میں اکثر ملنے جایا کرتا تھا.نیک آدمی تھے اور مجھ پر انہیں اعتماد تھا.ایک دن کچھ وقفہ کے بعد میں انہیں ملنے کے لئے گیا، تو کہنے لگے میاں تم سے ہم محبت کرتے ہیں.جانتے ہو کیوں محبت کرتے ہیں؟ ہم اس لئے تم سے محبت کرتے ہیں کہ کبھی کبھی تم آجاتے ہو، تو خدا تعالیٰ کی باتیں کر لیتے ہیں.اس کے بعد پھر دنیا کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں لیکن تم بھی کچھ عرصہ سے میرے پاس نہیں آئے.تم نے کبھی قصاب کی دکان دیکھی ہے؟ میں نے کہا ہاں دیکھی ہے.اس بزرگ نے کہا.تم نے دیکھا نہیں کہ قصاب کچھ دیر گوشت کاٹنے کے بعد دو چھریوں کو آپس میں رگڑ لیتا ہے.پتہ ہے وہ کیوں اس طرح کرتا ہے وہ اس لئے ایسا کرتا ہے کہ گوشت کاٹتے کاٹتے چھری پر چربی جم جاتی ہے اور وہ کند ہو جاتی ہے.جب وہ اسے دوسری چھری سے رگڑتا ہے تو چہ بی صاف ہو جاتی ہے.اسی طرح جب تم یہاں آتے ہو تو میں تم سے خدا تعالیٰ کی باتیں کرتا ہوں اور تم بھی مجھ سے خدا تعالیٰ کی باتیں کرتے ہو.اس طرح وہ چہ بی جو دنیوی باتوں کی وجہ

Page 168

سے جم جاتی ہے.دور ہو جاتی ہے.اس لئے ناغہ نہ کیا کرو یہاں آتے رہا کرو.آپ لوگ بھی اپنے بیوی بچوں کو خدا تعالیٰ کی باتیں سناتے رہا کریں اور اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتے رہا کریں.تا کہ خدا تعالیٰ ہمارے دلوں میں ہمیشہ ہمیش رہے اور اس کی محبت ہمارے دل میں اتنی تیز ہو جائے کہ نہ صرف ہم اس کے عاشق ہوں بلکہ وہ بھی ہمارا عاشق ہو اور یا درکھو کہ کوئی شخص اپنے محبوب کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا.اگر تم خدا تعالیٰ کے محبوب ہو جاؤ گے تو خدا تعالیٰ بھی تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا.بلکہ ابھی دشمن اپنے گھر سے نہیں نکلا ہوگا کہ تم دیکھو گے کہ خدا تعالیٰ عرش سے بھی نیچے اتر آیا ہے اور وہ خود تمہارے گھروں کا پہرہ دے گا.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت کی.بعض دشمن منصوبہ کر کے تنگی تلوار میں لئے کھڑے تھے.مگر آپ سامنے سے نکل گئے.بعد میں لوگوں نے ان سے کہا کہ تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو.مگر تمہارے سامنے سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) گذر گئے اور تم سے کچھ نہ ہو سکا.وہ کہنے لگے خدا کی قسم وہ ہمیں نظر ہی نہیں آیا.پس اگر خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو گا تو دشمن تمہارے گھر پر آئے گا تو تم ان کو نظر نہیں آؤ گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بہت بڑے انسان تھے.ہم نے اپنی جماعت میں بھی اس قسم کے نظارے دیکھے ہیں.مولوی عبدالرحمان صاحب کشمیر کے ایک مخلص احمدی تھے.میں نے انہیں مبلغ بنا کر وہاں رکھا ہوا تھا.وہ مسلمانوں میں اثر رکھتے تھے اور ان کی تنظیم کرتے تھے.اس لئے ان پر ریاست جموں کی گورنمنٹ نے بعض الزامات عاید کر دیئے اور کہا کہ فلاں موقعہ پر جو چوری ہوئی ہے وہ انہی کی وجہ سے ہوئی ہے اور ان کے متعلق وارنٹ فوجداری جاری کر دیئے.ایکدن وہ کشمیر میں میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے ان کے کان میں کہا کہ باہر پولیس کھڑی ہے.وہ اٹھے اور رومال ڈال کر پولیس کے سامنے سے گذر گئے.میں نے بعد میں کسی سے پوچھا کہ مولوی صاحب کا کیا بنا ہے.تو دوستوں نے مجھے بتایا کہ وہ پولیس کے سامنے سے گذر گئے اور کسی کو نظر نہیں آئے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی شان تھی.مولوی عبد الرحمان صاحب صحابی بھی نہیں تھے.تابعی تھے.ان کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہوا کہ پولیس وارنٹ لے کر کھڑی تھی لیکن وہ سامنے سے گذر گئے اور جب پولیس سے پوچھا گیا کہ تم نے انہیں پکڑا کیوں نہیں تو کہنے لگے ہم نے انہیں دیکھا ہی نہیں.تو جب تک خدا تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق رہے گا، خدا تعالیٰ کا تعلق بھی ہمارے ساتھ رہے گا اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی غیرت ہمارے لئے دکھاتا رہے گا اور کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ ہماری طرف ترچھی آنکھوں

Page 169

۱۶۴ سے دیکھے کیونکہ خدا تعالیٰ کے فرشتے فوراً آگے بڑھیں گے اور ہمارے اور اس کے درمیان حائل ہو جائیں گے اور وہ مدد ہمیں حاصل ہو گی جس کو دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ بھی ترستے ہیں.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور تمہاری مدد کرے.اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی اور پھر انصار اللہ کا عہد دہرایا.خطاب فرموده ۲۷ /اکتوبر ۱۹۵۶ء.بحوالہ الفض ۲۶ را در ۲۷ / مارچ ۱۹۵۷ء)

Page 170

۱۶۵ کامل تنظیم اور متواتر حرکت عمل کی تلقین مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے پہلے سالانہ اجتماع سے خطاب سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں صرف مجلس انصاراللہ کی خواہش کے مطابق اس جلسہ کے افتتاح کے لئے آیا ہوں اور صرف چند کلمات کہہ کر دعا سے اس جلسہ کا افتتاح کر کے واپس چلا جاؤں گا.انصار اللہ کی مجلس کے قیام کو کئی سال گذر چکے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اب تک اس مجلس میں زندگی کے آثار پیدا نہیں ہوئے.زندگی کے آثار پیدا کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اول تنظیم کامل ہو جائے دوسرے متواتر حرکت عمل پیدا ہو جائے اور تیسرے اس کے کوئی اچھے نتائج نکلنے شروع ہو جائیں.میں ان تینوں باتوں میں مجلس انصار اللہ کو ابھی بہت پیچھے پاتا ہوں.انصار اللہ کی تنظیم ابھی ساری جماعتوں میں نہیں ہوئی.حرکت عمل ابھی ان میں پیدا ہوتی نظر نہیں آتی، نتیجہ تو عرصہ کے بعد نظر آنے والی چیز ہے.مگر کسی اعلیٰ درجہ کے نتیجہ کی امید تو ہوتی ہے اور کم از کم اس نتیجہ کے آثار کا ظہور تو شروع ہو جاتا ہے.مگر یہاں وہ امید اور آثار ابھی نظر نہیں آتے.غالباً مجلس انصار اللہ کا یہ پہلا سالانہ اجتماع ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اس اجتماع میں وہ ان کاموں کی بنیاد قائم کرنے کی کوشش کریں گے اور قادیان کی مجلس انصار اللہ بھی اور بیرونی مجالس بھی اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کریں گی کہ بغیر کامل ہوشیاری اور کامل بیداری کے کبھی قومی زندگی حاصل نہیں ہو سکتی اور ہمسایہ کی اصلاح میں ہی انسان کی اپنی اصلاح بھی ہوتی ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ اس کے ہمسایہ کا اثر اس پر پڑتا ہے.نہ صرف

Page 171

۱۶۶ انسان بلکہ دنیا کی ہر ایک چیز اپنے پاس کی چیز سے متاثر ہوتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ پاس کی چیزیں ایک دوسرے کے اثر قبول کرتی ہیں.بلکہ سائنس کی موجودہ تحقیق سے تو یہاں تک پتہ چلتا ہے کہ جانوروں اور پرندوں وغیرہ کے رنگ ان پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے ہوتے ہیں جہاں وہ رہتے ہیں.مچھلیاں پانی میں رہتی ہیں اس لئے ان کا رنگ پانی کی وجہ سے اور سورج کی شعاعوں کی وجہ سے، جو پانی پر پڑتی ہیں، سفید اور چمکیلا ہو گیا.مینڈک کناروں پر رہتے ہیں اس لئے ان کا رنگ کناروں کی سبز سبز گھاس کی وجہ سے سبزی مائل ہو گیا.ریتلے علاقوں میں رہنے والے جانور مٹیالا رنگ کے ہوتے ہیں.سبز سبز درختوں پر بسیرا رکھنے والے طوطے سبز رنگ کے ہو گئے.جنگلوں اور سوکھی ہوئی جھاڑیوں میں رہنے والے تیتروں وغیرہ کا رنگ سوکھی ہوئی جھاڑیوں کی طرح ہو گیا.غرض پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے اور ان کے اثرات قبول کرنے کی وجہ سے پرندوں کے رنگ بھی اسی قسم کے ہو جاتے ہیں.پس اگر جانوروں اور پرندوں کے رنگ پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے بدل جاتے ہیں حالانکہ ان میں دماغی قابلیت نہیں ہوتی.تو انسانوں کے رنگ جن میں دماغی قابلیت بھی ہوتی ہے پاس کے لوگوں کی وجہ سے کیوں نہیں بدل سکتے.خدا تعالیٰ نے اسی لئے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (سورة التوبہ آیت ۱۱۹) یعنی اگر تم اپنے اندر تقویٰ کا رنگ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس کا گر یہی ہے کہ صادقوں کی مجلس اختیار کرو تا کہ تمہارے اندر بھی تقویٰ کا وہی رنگ تمہارے نیک ہمسایہ کے اثر کے ماتحت پیدا ہو جائے جو اس میں پایا جاتا ہے.پس جماعت کی تنظیم اور جماعت کے اندر دینی روح کے قیام اور اس روح کو زندہ رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر شخص اپنے ہمسایہ کی اصلاح کی کوشش کرے.کیونکہ ہمسایہ کی اصلاح میں ہی اس کی اپنی اصلاح ہے.ہر شخص جو اپنے آپ کو اس سے مستغنی سمجھتا ہے وہ اپنی روحانی ترقی کے راستہ میں خود روک بنتا ہے.بڑے سے بڑا انسان بھی مزید روحانی ترقی کے راستہ میں خود روک بنتا ہے.بڑے سے بڑا انسان بھی مزید روحانی ترقی کا محتاج ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آخر دم تک اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی دعا کرتے رہے.پس اگر خدا کا وہ نبی جو پہلوں اور پچھلوں کا سردار ہے، جس کی روحانیت کے معیار کے مطابق نہ کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہوگا اور جس نے خدا تعالیٰ کا ایسا قرب حاصل کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور نہ مل سکتی ہے.اگر وہ بھی مدارج پر مدارج حاصل کرنے کے بعد پھر مزید روحانی ترقی کا محتاج ہے اور روزانہ

Page 172

خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو کر اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہتا ہے.اکیلا نہیں بلکہ ساتھیوں کو ساتھ لے کر کہتا ہے.تو آج کون ایسا انسان ہو سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا هوكر اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہنے سے اور جماعت میں کھڑے ہو کر کہنے سے اپنے آپ کو مستغنی قرار دے.اگر کوئی شخص اپنے آپ کو اس سے مستغنی قرار دیتا ہے تو وہ اپنے لئے ایک ایسا مقام تجویز کرتا ہے جو مقام خدا تعالیٰ نے کسی انسان کے لئے تجویز نہیں کیا.پس جو شخص اپنے لئے ایسا مقام تجویز کرتا ہے وہ ضرور ٹھو کر کھائے گا کیونکہ اس قسم کا استغنا عزت نہیں بلکہ ذلت ہے.ایمان کی علامت نہیں بلکہ وہ شخص کفر کے دروازے کی طرف بھاگا جارہا ہے.پس تنظیم کے لئے ضروری ہے کہ اپنے متعلقات اور اپنے گردو پیش کی اصلاح کوشش کی جائے ، اسی سے انسان کی اپنی اصلاح ہوتی ہے.اسی سے قوم میں زندگی پیدا ہوتی ہے اور کامیابی کا یہی واحد ذریعہ ہے.دعا ئیں بھی وہی قبول ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت کی جائیں.خدا تعالیٰ نے ہمارے دعا مانگنے کے لئے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں جمع کا صیغہ رکھ کر ہمیں بتا دیا ہے کہ اگر تم روحانی طور پر زندہ رہنا اور کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے صرف اپنی اصلاح کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ اپنے گردو پیش کی اصلاح کرنا اور مجموعی طور پر اس کے لئے کوشش کرنا اور مل کر خدا سے دعا مانگنا ضروری ہے.چنانچہ اسی غرض کے لئے میں نے مجلس انصار الله، لجنہ اماء اللہ، مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس اطفال الاحمدیہ قائم کی ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ مجلس انصار اللہ مرکز یہ اس اجتماع کے بعد اپنے کام کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ کر پوری تندہی اور محنت کے ساتھ ہر جگہ مجالس انصار اللہ قائم کرنے کی کوشش کرے گی تا کہ ان کی اصلاحی کوششیں صرف اپنے تک ہی محدود نہ ہوں بلکہ گردو پیش کی اصلاح کے لئے بھی ہوں اور ان کی کوششیں دریا کی طرف بڑھتی چلی جائیں اور دنیا کے کونے کونے کو سیراب کر دیں.اب میں دعا کے ذریعہ جلسہ کا افتتاح کرتا ہوں.خدا کرے مجلس انصار اللہ کا آج کا اجتماع اور آج کی کوششیں بیج کے طور پر ہوں جن سے آگے خدا تعالیٰ ہزاروں گنا اور بیج پیدا کرے اور پھر وہ بیج آگے دوسری فصلوں کے لئے بیج کا کام دیں.یہاں تک کہ خدا کی روحانی بادشاہت اسی طرح دنیا پر قائم ہو جائے جس طرح کہ اس کی مادی بادشاہت دنیا پر قائم ہے.آمین خطاب پہلا سالانہ اجتماع انصار الله مورخه ۲۵ / دسمبر ۱۹۴۴ء.بحوالہ الفضل ۶ راگست ۱۹۴۵ء)

Page 173

۱۶۸ احمدیت کی محبت اور محنت کی عادت پیدا کرنے کے ذرائع پر غور کریں مجالس انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ مشورہ دیں (اقتباس از خطبه جمعه ) احمدیت کی محبت ، اخلاص اور تربیت جھگڑوں سے روکتی ہے مگر لوگ معمولی معمولی بات پر جھگڑتے ہیں.عہدوں پر جھگڑ کر ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں.یہ سارا نقص اس وجہ سے ہے کہ احمدیت کی محبت دل میں نہیں.اگر احمدیت کی محبت ہوتی تو کچھ بھی ہو جاتا وہ اس کی پروا نہ کرتے.یہ لوگ ہسپتالوں میں جاتے ہیں، عدالتوں میں جاتے ہیں، کہیں ان کو چپڑاسی تنگ کرتے ہیں، کہیں ان کو کمپونڈ ر دق کرتے ہیں، یہ ان ساری ذلتوں کو برداشت کرتے ہیں.اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے عزیز کی جان یا ہماری عزت خطرے میں ہے.اگر اسلام کی جان اور اسلام کی عزت کی قدر ان کے دل میں ہوتی تو یہ آپس میں ذرا ذراسی بات پر کیوں جھگڑتے.تو فرق یہی ہے کہ اپنے عزیز کی جان یا اپنی عزت ان کو زیادہ پیاری ہے.اس لئے کچہریوں یا ہسپتالوں میں مجسٹریٹوں یا ڈاکٹروں کی جھڑکیاں کھاتے ہیں اور ان کو برداشت کرتے ہیں.ان سے گالیاں سنتے ہیں اور ہنستے ہوئے کہتے چلے جاتے ہیں کہ حضور ہمارے مائی باپ ہیں.جو چاہیں کہہ لیں.مگر خدا کے سلسلہ اور خدا کے نظام میں معمولی بات سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے.وہاں ہسپتالوں میں دایاں اور نرسیں ان کو جھڑکتی ہیں.ڈاکٹر حقارت سے کہتا ہے چلے جاؤ.تو یہ دروازہ کے پاس جا کر چھپ کر کھڑا ہو جاتا ہے.کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے اس کو نا راض کیا.تو میرے عزیز کی جان خطرہ میں پر جائے گی لیکن ان کو احمدیت عزیز نہیں ہوتی.اسلام عزیز نہیں ہوتا.اس لئے سلسلہ اور نظام کی خاطر ادنی سا بر اکلمہ سننے کی تاب نہیں رکھتے.

Page 174

۱۶۹ دوسری چیز محنت ہے اگر واقعہ میں احمدیت کی محبت ہوتی تو ضرور نو جوانوں کے اندر محنت کی عادت ہوتی.مگر ان کے کاموں میں محنت اور باقاعدگی سے کام کرنے کی عادت بالکل نہیں اور اگر کوئی کسی کو اچھی بات بھی کہہ دے تو وہ چڑ جاتا ہے کہ اس نے مجھے ایسی بات کیوں کہی.پس میں پھر ایک دفعہ خدام کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مشورہ کر کے میرے سامنے تجاویز پیش کریں.میں نے بھی اس پر غور کیا ہے اور بعض تجاویز میرے ذہن میں بھی ہیں لیکن پہلے میں جماعت کے سامنے اس بات کو پیش کرتا ہوں کہ وہ مشورہ دیں کہ آئندہ نسلوں میں قربانی اور محنت اور کام کو بر وقت کرنے کی روح پیدا کرنے کے لئے ان کی کیا تجاویز ہیں.مگر یہ شرط ہے کہ جو شخص تجویز پیش کرے وہ اپنی اولاد کو پہلے پیش کرے.بعض لوگ لکھنے کو تو لکھ دیتے ہیں کہ اس طرح سلوک کیا جائے ، اس طرح نو جوانوں پر سختی کی جائے، مگر جب خودان کے بیٹوں کے ساتھ سختی کی جائے تو شور مچانے لگ جاتے ہیں.تو جو شخص اپنی تجاویز لکھے وہ ساتھ یہ بھی لکھے کہ میں اپنی اولاد کے متعلق سلسلہ کو اختیار دیتا ہوں کہ وہ جو قانون بھی بنائیں میں اپنی اولاد کے ساتھ اس سلوک کو جائز سمجھوں گا.اسی طرح خدام الاحمدیہ آپس میں مشورہ کر کے مجھے بتائیں کہ نوجوان کام کے موقعہ پر سو فیصدی فیل ہو جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ مشکل پیش آ گئی اس لئے کام نہیں ہو سکا.وہ نوے فی صدی بہانہ اور دس فیصدی کام کرتے ہیں.یہ حالت نہایت خطرناک ہے اس کو دیر تک برداشت نہیں کیا جا سکتا.پس خدام مجھے بتائیں کہ نوجوانوں کے اندر محنت سے کام کرنے ، اور فرائض کو ادا کرنے میں ہر قسم کے بہانوں کے چھوڑنے کی عادت کس طرح پیدا کی جائے.مشورہ کے بعد ان تجاویز پر غور کر کے ، پھر میں تجاویز کروں گا اور جماعت کے نو جوانوں کو ان کا پابند بنایا جائے گا.پہلے اسے اختیاری رکھیں گے تا کہ یہ دیکھا جائے کہ کون کون سے ماں باپ ہیں جو اپنے بچوں کو سلسلہ کی تعلیم دلانا اور ان کی تربیت کرانا چاہتے ہیں اور جس وقت ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے اور ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ہمارا طریق درست ہے تو پھر دوسرا قدم ہم یہ اٹھائیں گے کہ اسے لازمی کر دیا جائے.بہر حال یہ کام ضروری ہے.اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو احمدیت کی مثال اس دریا کی ہوگی جو ریت کے میدان مین جا کر خشک ہو جائے اور جس طرح بعض بڑے بڑے دریا صحراؤں میں جا کر اپنا پانی خشک کر دیتے ہیں.پانی تو ان میں اسی طرح آتا ہے مگر صحرا میں جا کر خشک ہو جاتا ہے.چھوٹی چھوٹی نالیاں پہاڑوں سے گذرتی ہوئی میلوں میل تک چلی جاتی

Page 175

۱۷۰ ہیں مگر بڑے بڑے دریا ریت کے میدانوں میں جا کر خشک ہو جاتے ہیں.پس یہ مت خیال کرو کہ تمہارے اندر معرفت کا دریا بہ رہا ہے.اگر تم میں سنتی ہم محنتی اور غفلت کا صحرا پیدا ہو گیا تو یہ دریا اس کے اندر خشک ہو کر رہ جائے گا.چھوٹی چھوٹی ندیاں مبارک ہوں گی جو پہاڑوں کی وادیوں میں سے گذر کر میلوں میل تک چلتی چلی جاتی ہیں.مگر تمہارا دریا نہ تمہارے لئے مفید ہوگا اور نہ دنیا کے لئے مفید ہو گا.پس یہ آفت اور مصیبت ہے جس کو ٹلانا ضروری ہے.اس آفت کو دور کرنے کے لئے پہلے میں جماعت کے دوستوں سے فرداً فرداً اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ سے بحیثیت جماعت مشورہ چاہتا ہوں.انصار اللہ سے اس لئے کہ وہ باپ ہیں اور خدام الاحمدیہ سے بحیثیت نوجوانوں کی جماعت ہونے کے کہ ان پر ہی اس سکیم کا اثر پڑنے والا ہے اور ہر فرد سے جس کے ذہن میں کوئی نئی یا مفید تجویز ہو، پوچھتا ہوں کہ وہ مجھے مشورہ دے پھر میں ان سب پر غور کر کے فیصلہ کروں گا کہ آئندہ نسل کی اصلاح کے لئے ہمیں کون سا قدم اٹھانا چاہئے.(اقتباس از خطبه جمعه فرموده ۴ رمئی ۱۹۵۴ء بحواله الفضل ۱۱رمئی ۱۹۴۵ء صفحه۵) انصار اللہ سے مل کر ایسی کوشش کریں کہ ہر احمدی اپنے اوقات کو صحیح طور پر صرف کرنے کی عادت اپنے اندر پیدا کرے اور جو کام اس کے سپرد کیا جاہے اس کے متعلق وہ کوئی بہانہ نہ بنائے.بہانہ بنانا ایک خطرناک چیز ہے جس سے قوم تباہ ہو جاتی ہے.ہمیں یہ عادت اس سال ڈالنی چاہئے کہ جس شخص کو کسی کام پر مقرر کیا جائے ، اس کا فرض ہے کہ یا تو وہ کام پوری دیانتداری سے کرے یا اس کام کے لئے جو وقت مقرر ہے اس کے ختم ہونے پر اس کی لاش وہاں نظر آئے.اس کی زبان چلتی ہوئی یہ عذر نہ کرے کہ میں فلاں وجہ سے یہ کام نہیں کر سکا.جب تک یہ روح ہماری جماعت کے نوجوانوں میں پیدا نہ ہو اس وقت تک وہ حقیقی قربانی پیش نہیں کر سکتے.اسی طرح مردوں کو چاہئے کہ جہاں لجنہ اماءاللہ قائم نہیں وہاں لجنہ اماءاللہ قائم کریں.میرے پاس بہت سی عورتوں نے شکایت کی ہے کہ مردان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے.بعض تو انہیں روکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لجنہ کے جلسوں میں نہ جایا کرو اور بعض ایسے ہیں کہ اگر عورتیں لجنہ اماءاللہ قائم کرنا چاہیں تو وہ

Page 176

121 اس میں روک بن جاتے ہیں.یہ ایک خطر ناک بات ہے.جب تک عورتیں بھی دین کی خدمت کے لئے مردوں کے پہلو بہ پہلو کام نہیں کرتیں ، اس وقت تک ہم صحیح طور پر ترقی نہیں کر سکتے.اسلام کی جو عمارت ہم باہر تیار کرتے ہیں اگر اس عمارت کی تیاری میں عورت ہمارے ساتھ شریک نہیں تو وہ گھر میں اس عمارت کو تباہ کر دیتی ہے.تم بچے کو مجلس میں اپنے ساتھ لاؤ، اسے وعظ ونصیحت کی باتیں سناؤ، دین کی باتیں اس کے کان میں ڈالو لیکن گھر جانے پر اگر تمہاری عورت میں وہ روح نہیں جو اسلام عورتوں میں پیدا کرنا چاہتاہ ہے، تو وہ بچے سے کہے گی کہ بچے تمہارے باپ کی عقل ماری ہوئی ہے وہ تمہیں یونہی مسجدوں میں لئے پھرتا ہے.تمہاری صحت اس سے تباہ ہو جائے گی تم ایسا نہ کیا کرو.باپ اپنے بچے کو اقتصادی زندگی بسر کرنے کی ترغیب دے، تو ماں کہنے لگ جائے گی کہ بیٹا تمہارا باپ محض بحل کی وجہ سے تمہیں یہ نصیحت کر رہا ہے اور نام اس کا دین رکھ رہا ہے ورنہ اصل وجہ یہ ہے کہ اس کا دل تمہاری ضروریات کے لئے روپیہ خرچ کرنے کو نہیں چاہتا.تم بے شک اپنے دل کے حو صلے نکال لو، میں تمہاری مدد کرنے کے لئے تیار ہوں.دیکھو اگر کسی گھر میں ایسا ہو تو ایک ہی وقت میں دو تلوار میں چل رہی ہوں گی ، ایک سامنے سے اور ایک پیچھے سے اور یہ لازمی بات ہے کہ جہاں دو تلواریں چل رہی ہوں وہاں امن نہیں ہوسکتا.پس اول ہماری جماعت کو نماز با جماعت کی پابندی کی عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے.دوسرے جماعت کو خصوصیت سے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے محنت کی عادت اختیار کرنی چاہئے اور جس کام کے لئے کسی کو مقرر کیا جائے اس کے متعلق وہ اس اصول کو اپنے مدنظر رکھے کہ میں نے اب پیچھے نہیں ہٹنا چاہے میری جان چلی جائے.جب تک اس قسم کی روح اپنے اندر پیدا نہیں کی جائے گی جماعت پوری طرح ترقی نہیں کرسکتی.تیسرے ہر جگہ لجنہ اماءاللہ قائم کی جائے اور عورتوں کی تعلیم اور ان کی اصلاح کا خیال رکھا جائے.چوتھے جماعت کے اندر سچائی کو قائم کیا جائے.جب تک کسی قوم میں سچائی قائم رہتی ہے وہ ہارا نہیں کرتی.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں ابھی اس پہلو کے لحاظ سے بھی کمزوری پائی جاتی ہے.اقتباس تقریر جلسه سالانه ۲۸ / دسمبر ۱۹۴۶ء بحواله الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۴۷ء صفحه ۲)

Page 177

۱۷۲ جماعت میں مشقت طلب کاموں کی عادت پیدا کرنا خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے قیام کا اصل مقصد سورة إنشقاق کی آیت يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلْقِيهِ (سورۃ الاشتقاق آیت) کے لغوی معنے بیان فرمانے کے بعد اس آیت کی تفسیر (بحوالہ تفسیر کبیر جلد ششم جز و جهارم نصف اول ص ۳۳۷۳۳۶) کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے انسان تو پوری جدو جہد کرے گا.پوری محنت کرے گا اپنے رب کی طرف جانے کی فَمُلَاقِيهِ اور آخر تو اس سے جا کر مل ہی جائے گا.یہاں يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ میں یا تو عام قاعدہ بیان کیا گیا ہے اور یا اس سے مراد صرف وقت کا امام ہے یعنی یا تو اس سے یہ مراد ہے کہ اے انسان تیرے لئے اپنے رب سے ملنے کا رستہ کھلا ہے.شرط یہ ہے کہ تیری طرف سے گذح ہونا چاہئے ان معنوں کے لحاظ سے ہر انسان اس میں شامل ہے اور یا پھر ہر انسان براہ راست اس میں شامل نہیں بلکہ کامل انسان کے تابع ہو کر شامل ہے اور معنی یہ ہیں کہ اے کامل انسان تو اپنے رب کو پانے کے لئے بڑی قربانیاں کرے گا اور آخر ایک دن اس کو پاہی لے گا اور جب کوئی کامل انسان اس کو پالیتا ہے تو پھر سب کو حکم ہو جاتا ہے کہ تم بھی اسی راستہ پر چلو اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرلو.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے رستے کا ملنا معمولی بات نہیں ہوتی.اس غرض کے لئے

Page 178

۱۷۳ انسان کو اتنی محنت کرنی پڑتی ہے کہ اس کی ہڈیوں تک اثر پہنچ جاتا ہے.یہی وہ نکتہ ہے جس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ لقاء الہی سے محروم رہ جاتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ جب انہیں ایمان نصیب ہو گیا تو کچھ دیر بیٹھ کر ایمان کی باتوں کا مزہ لے لینے اور نماز روزہ وغیرہ ادا کر لینے سے ہی ان کی روحانیت کامل ہو جائے گی.حالانکہ روحانیت کامل ہوتی ہے اس غم کی وجہ سے جو عشق سے پیدا ہوتا ہے جس کے اثر سے انسان کی ہڈیاں تک گھل جاتی ہیں.جب تک انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے متعلق یہ رغبت پیدا نہ ہو.یہ غم پیدا نہ ہو.یہ عشق اور محبت پیدا نہ ہو.اس وقت تک ملاقیہ کا مقام اسے میسر نہیں آ سکتا.باقی نماز پڑھ لینا یا روزے رکھ کر یہ سمجھ لینا کہ میں نے بڑی مشقت برداشت کر لی ہے.ایسی باتیں نہیں ہیں جو کدح میں شامل ہوں.اس سے بہت زیادہ مشقت طلب کام لوگ کرتے ہیں.چوڑھوں کو دیکھ لو وہ کتنی محنت کرتے ہیں.دھوبیوں کو دیکھ لو وہ کس قدر مشقت کا کام کرتے ہیں.سقوں کو دیکھ لو وہ کس قدر تکلیف برداشت کرتے ہیں.مگر یہ نہیں ہوتا کہ اس کام سے ان کی ہڈیاں گھلنی شروع ہو جائیں.کام کا جتنا اثر ہوتا ہے صرف جسم پر ہوتا ہے.جو کچھ دیر کے بعد زائل ہو جاتا ہے.لیکن یہاں اللہ تعالیٰ کادح کا لفظ استعمال فرماتا ہے اور کدح اس بات کو کہتے ہیں کہ انسان ایسا عمل کرے کہ یوں معلوم ہو جائے گا.جب انسان اس رنگ میں کام کرتا ہے تب اسے کامیابی حاصل ہوتی ہے.اس کے بغیر اس کا اپنی کامیابی کے متعلق امید رکھنا غلطی ہوتی ہے.میں نے اپنی جماعت میں خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کو اسی غرض کے لئے قائم کیا ہے کہ وہ محنت کریں اور مشقت طلب کاموں کی اپنے اندر عادت پیدا کریں.جب تک انسان اپنے اوقات کو ضائع ہونے سے نہیں بچاتا اسے خدا نہیں مل سکتا.خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے قیام کا اصل مقصد یہ ہے کہ جماعت میں مشقت طلب کاموں کی عادت پیدا ہو اور ہر فرد کسی نہ کسی کام میں مشغول رہے.پس

Page 179

۱۷۴ يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلْقِيهِ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب تک ہر انسان اپنے آپ کو کام کرتے کرتے فتانہیں کر دیتا، اس وقت تک قومی طور پر خدانظر نہیں آ سکتا.انفرادی طور پر بے شک کدح کے بعد انسان کو لقاء الہی حاصل ہو جاتا ہے مگر قومی طور پر اسی وقت لقاء الہی کی نعمت حاصل ہوتی ہے، جب قوم کا ہر فرد اپنے آپ کو فنا کر دیتا ہے.دنیا میں لقاء الہی دو طرح حاصل ہوتا ہے.ایک فردی طور پر اور ایک قومی طور پر.اگر قوم تباہ بھی ہو چکی ہوتب بھی فردی طور پر انسان خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بعثت سے قبل با وجود اس کے کہ مسلمان قومی طور پر تباہ و برباد ہو چکے تھے، ان میں بعض بزرگ پائے جاتے تھے.مثلاً حضرت عبداللہ غزنوی کے متعلق خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ وہ بزرگ انسان تھے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے مجدد صاحب بریلوی یا حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب شہید اور اسی طرح بعض اور بزرگ گذرے ہیں.مگر یہ چالیس کروڑ مسلمانوں میں سے چند نفوس تھے جو خدا تعالیٰ سے ملے.ان لوگوں کو خدا تعالیٰ نے یہ دکھانے کے لئے بھیجا تھا کہ اسلام اب بھی اپنے اندر طاقت رکھتا ہے اور اب بھی وہ لوگوں کو زندہ کر سکتا ہے، اب بھی وہ انہیں خدا تعالیٰ کے دربار تک پہنچا سکتا ہے.مگر قومی طور پر ان کے وجود سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا.پس حضرت سید احمد صاحب بریلوی کیا تھے.وہ در حقیقت حجت تھے ستوں پر.وہ حجت تھے غافلوں پر اور وہ یہ بتانے کے لئے بھیجے گئے تھے کہ اسلام اب بھی اپنے اندر زندگی بخش اثرات رکھتا ہے.اسی طرح حضرت سید اسمعیل صاحب شہید کیا تھے.وہ حجت تھے ستوں پر.وہ حجت تھے غافلوں پر اور وہ یہ بتانے کے لئے بھیجے گئے تھے کہ اسلام اب بھی اپنے اندر زندگی بخش اثرات رکھتا ہے.مگر بحیثیت قوم اسلام کو ان کے وجود سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا.کیونکہ اسلام نام تھا چالیس کروڑ افراد کا، جن میں سے کوئی چین میں رہتے تھے اور یہ وہ ممالک ہیں جہاں ان لوگوں کی کوئی آواز نہیں پہنچی.یوں ہماری جماعت بھی ابھی چھوٹی سی ہے مگر ہماری جماعت وہ ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے مختلف ممالک میں پھیل رہی ہے.پس وہ لوگ صرف غافلوں پر حجت تھے اور اس بات کی دلیل تھے کہ خدا اب بھی لوگوں کو زندہ کر سکتا ہے ورنہ ان کے زمانہ میں قومی طور پر مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کے چہرہ کو نہیں دیکھا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَأَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلْقِيهِ

Page 180

۱۷۵ اے جماعت مومنین کے ہر فرد تم میں سے ہر شخص کو اس راستہ میں اپنے آپ کو فنا کر دینا پڑے گا تب تمہیں قومی طور پر خدا تعالیٰ کا چہرہ نظر آئے گا اور اس کے لقاء کی نعمت تمہیں میسر آئے گی اور یہی نعمت حقیقی نعمت ہوتی ہے.ورنہ انفرادی طور پر تو ہر زمانہ میں لوگ خدا تعالیٰ کو پاتے رہتے ہیں لیکن انفرادی طور پر خدا تعالیٰ کو پالینے سے قوم کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا.قومی طور پر اسی وقت خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہوتا ہے اور قوم کا ہر فردخدا تعالیٰ کا چہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے جب ہر فرد اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستوں میں فنا کر دیتا ہے اور اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹتا جب تک اس نعمت عظیمہ کو حاصل نہیں کر لیتا.( بحوالہ الفضل ۱۶؍ مارچ ۱۹۴۶ء)

Page 181

وقف جائیداد کی تحریک مرکزی مجلس انصار اللہ سے خطاب کا ملخص کل مرکزی مجلس انصار اللہ کی طرف سے مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس اور محترم السید منیر الحصنی صاحب کے اعزاز میں جو دعوت چائے دی گئی اس میں جناب شمس صاحب نے مجلس انصار کے خیر مقدم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یہ ذکر کیا کہ مختلف ممالک میں کام کرنے والے مبلغین کو سامان تبلیغ کی بے حد قلت ہے ورنہ تبلیغ کے لئے بہت وسیع میدان موجود ہے.اس سلسلہ میں آپ نے اُس تحریک کا ذکر کیا جو حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے وقف جائیداد کے متعلق جاری فرمائی ہے اور بتایا اسے کامیاب بنانے کی صورت میں دنیا میں عظیم الشان انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے.اس کی طرف انصار کو توجہ کرنی چاہئے.اس موقعہ پر حضرت امیر المؤمنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا.مبلغ بیرونی ممالک سے آتے بھی ہیں اور جاتے بھی.جانے والوں کے لئے جماعت کے دل افسردہ بھی ہوتے ہیں اور خوش بھی.اسی طرح آنے والوں کے لئے خوشی بھی ہوتی ہے اور افسردگی بھی.اس لئے کہ جہاں ان کا آنا خوشی کا موجب ہوتا ہے کہ وہ عزیزوں کے پاس آگئے وہاں یہ امر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان کی زندگی کا وہ دور جو انہیں بہت بڑے ثواب کا مستحق بنا رہا تھا وہ ختم ہو گیا یا اس کو تبدیل کر لیا گیا.ہماری جماعت جس مقصد کے لئے قائم کی گئی ہے وہ اتنا بلند ، اتنا اعلیٰ اور اس قدر عظیم الشان ہے کہ اس کے حصول کے لئے جتنی کوشش کرنی چاہئے اور جس قدر سامان مہیا ہونا چاہئے اس کا ہزارواں چھوڑ لا کھواں حصہ بھی ابھی تک میسر نہیں آیا.بے شک ہم تھوڑے ہیں اور کمزور لیکن اگر جماعت اپنی قوت کے مطابق کوشش کر دیتی تو یہ سنت اللہ ہے کہ جب ایک مامور کی جماعت اپنی ساری طاقت صرف کر دیتی ہے تو کامیابی کے لئے باقی جس

Page 182

122 قدر کوشش ضروری ہوتی ہے اسے خدا تعالیٰ پورا کر دیتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے.جو مقروض ہماری قوم کا مرجائے اس کے قرض کے ہم ذمہ دار ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ مقروض اپنے گھر میں مال چھوڑ کر مر جائے تو اس کی ذمہ داری قوم پر پڑتی ہے بلکہ یہ ہے کہ اس نے جو کچھ کہ اس کے پاس تھا دے دیا مگر پھر بھی قرض باقی رہا، اس کی ذمہ داری رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لی ہے.یعنی باقی جو قرض رہ گیا ، اس کی ادائیگی کے ہم ذمہ دار ہیں.یہی حال دین کے معاملہ میں خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں کے متعلق ہوتا ہے.جو جماعت اپنی ساری طاقت خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت اور خدمت کے لئے صرف کر دیتی ہے، اسے باقی مددخود خدا تعالیٰ دیتا ہے.پس اگر امت مسلمہ مسلمان مقروض کے قرض کی ذمہ دار ہو سکتی ہے تو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی کمی پورا کرنے کا بہت زیادہ ذمہ دار ہے.وہ اپنے ان بندوں کی کامیابی کے جو اپنی ساری طاقت اس کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں خود سامان پیدا کر دیتا ہے.پس خطرہ کی بات یہ نہیں کہ ہم تھوڑے اور کمزور ہیں.بلکہ یہ ہے کہ جتنی کوشش اور سعی ہم کر سکتے ہیں وہ کر رہے ہیں یا نہیں.پھر یہ بھی سوال نہیں کہ ہمیں فتح حاصل ہوگی یا نہیں کیونکہ اس کا فیصلہ خود خدا تعالیٰ نے کر دیا ہے.دنیا میں بڑے بڑے راجے، مہاراجے ، نواب اور بادشاہ موجود ہیں.خدا تعالیٰ اپنے دین کی خدمت اور اشاعت کے لئے ان کے دل میں جوش پیدا کر سکتا اور انہیں اس کام کے لئے کھڑا کر سکتا تھا.مگر اس نے ان کی بجائے تم کو کھڑا کیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ اس کام کی قوت تم میں موجود ہے.تم میں اتنی طاقت ہے کہ اس کے ذریعہ اسلام کو فتح حاصل ہوسکتی ہے.پس جو شخص بھی احمدیت میں داخل ہوتا ہے وہ اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ اس میں طاقت ہے اسلام کی کامیابی اور فتح میں حصہ لے سکے.کیا یہ ممکن ہے کہ ہمارے وہم وگمان میں بھی یہ بات آسکے کہ خدا تعالیٰ ایک عظیم الشان کام ایک جماعت کے سپرد کرے، مگر اس جماعت میں وہ کام کرنے کی طاقت اور قابلیت موجود نہ ہوا اور وہ اس کی اہل ہی نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے، اگر مجھے چالیس مومن مل جائیں تو میں دنیا کو فتح کر سکتا ہوں.مگر ہماری جماعت تو اس وقت لاکھوں کی ہے.معلوم ہوا کہ اس وقت تک طاقت کے لحاظ سے نہیں بلکہ قربانی کے لحاظ سے کمی ہے، ورنہ تعداد کے لحاظ سے تو پہلے دن جب بیعت

Page 183

KZA ہوئی ، چالیس سے زیادہ بیعت کرنے والے تھے.پس اس وقت تک ہماری کامیابی میں جو کمی ہے وہ قربانی کی ہے نہ کہ طاقت کی.دوسری وجہ یہ ہے کہ ابتدا میں لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لئے استادوں کی ضرورت ہوتی ہے اور جوں جوں استاد تیار ہوتے جاتے ہیں ، لوگوں کو اس جماعت میں لایا جاتا ہے.ہمارے پاس بھی جب تمام دنیا کو تعلیم دینے اور اس کی تربیت کرنے کے لئے استاد پیدا ہو جائیں گے تو تلامذہ کثرت سے آنے لگیں گے.یہ بھی ایک وجہ اس وقت تک عظیم الشان کامیابی نہ ہونے کی ہے.مگر اس وجہ سے، اس وجہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ابھی تک پوری اور مکمل قربانی نہیں کی جارہی.اس وقت شمس صاحب نے میری ایک تحریک کا ذکر کیا ہے اس سے فائدہ اٹھانے کا وقت وہی ہوسکتا ہے جب کہ جماعت کی اکثریت اپنی جائیدادیں وقف کر دے گی.مگر افسوس کہ یہ تحریک ایک حد تک جا کر رکی ہوئی ہے اور کارکنوں نے اسے جاری رکھنا ضروری نہیں سمجھا.اب تک ایک کروڑ ۳۵ لاکھ روپے کی جائیدادیں وقف ہو چکی ہیں اور اگر ساری جماعت اس تحریک میں حصہ لے تو میرا اندازہ ہے کہ دس کروڑ سے بیس کروڑ تک کی جائیدادیں وقف ہو سکتی ہیں اور اگر کم از کم اندازہ دس کروڑ بھی ہو اور ۱/۲ فیصدی ہم خرچ کریں تو اس سے دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کیا جاسکتا ہے اور تبلیغ کے کام کو اتنا بڑھایا جاسکتا ہے کہ لاکھوں لاکھ انسانوں تک آواز پہنچ جائے.اسی طرح موجودہ مبلغین کے لئے بے حد اخراجات کی ضرورت ہے اور خرچ کی تنگی کی وجہ سے کام وسیع نہیں کیا جاسکتا.وقف جائیداد کی ایک ایسی تحریک ہے کہ کسی کا کچھ خرچ نہیں ہوتا مگر کام بہت بڑا ہو سکتا ہے.میں نے بتا دیا ہے کہ ہم جائیدادیں نہ لیں گے بلکہ مالکوں کے پاس ہی رہنے دیں گے اور ایسے طور پر کام چلا ئیں گے کہ عظیم الشان نتائج نکلنے شروع ہو جائیں گے.مگر افسوس کہ جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی.قادیان میں شاید پانچ فیصدی نے اپنی جائیدادیں وقف کی ہیں.میرا اندازہ ہے کہ قادیان میں احمدیوں کی جائیداد میں ایک

Page 184

۱۷۹ کروڑ روپیہ سے کم کی نہ ہوں گی بلکہ زیادہ ہی ہوں گی.اگر سب کے سب احمدی اپنی جائیدادیں وقف کر دیں تو ان پر کوئی بوجھ بھی نہیں پڑے گا اور تبلیغ اسلام کے بہت سے رستے کھل جائیں گے.مگر اس وقت ہماری حالت وہی ہے جو احد کے شہیدوں کی تھی کہ کپڑے کی کمی کی وجہ سے ان کے سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہوتے اور پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگے ہو جاتے.ہمارے پاس کبھی روپیہ ہوتا ہے تو موزوں آدمی نہیں ملتے اور کبھی آدمی ملتے ہیں تو روپیہ نہیں ہوتا.پس ضرورت ہے کام کرنے والے احمدیوں کی اور روپے کی.اس میں سب سے زیادہ امدا د انصار دے سکتے ہیں.اور انہیں ضرور اسے اپنا فرض سمجھنا چاہئے ، ایسے انصار ہیں جو لکھتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کو خدمت دین کے لئے زندگی وقف کرنے کی تحریک کر رہے ہیں جب وہ تیار ہوں گے تو پیش کر دیں گے.مگر ایسے بھی ہیں جن کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی زندگی وقف کرنے سے روکتے ہیں.ایسے لوگوں کو دین کی ضرورت کو دیکھنا چاہئے اور دین کے متعلق اپنا فرض ادا کرنا چاہئے.خاکسار غلام نبی.(ایڈیٹر الفضل) (خلاصہ خطاب فرموده ۲۲ را کتوبر ۱۹۴۶ء.بحوالہ الفضل ۲۶/اکتوبر ۱۹۴۶ء)

Page 185

۱۸۰ نماز با جماعت اور محنت کی عادت ڈالنے کے لئے مجالس خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کی ذمہ داری جلسہ سالانہ ۱۹۴۶ء کی تقریر سے اقتباس) سب سے پہلا اور مقدم فرض جو ایک مسلمان کا ہے.وہ خدا تعالیٰ کی عبادت ہے، قرآن کریم نے عبادت کے لئے ہر جگہ اقامت صلوٰۃ کے الفاظ رکھے ہیں.جن میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ا قامت صلوۃ کے بغیر درحقیقت کوئی عبادت عبادت نہیں کہلا سکتی.جب تک نماز با جماعت ادانہ کی جائے ،سوائے اس کے کہ انسان بیمار یا معذور ہو ، اس وقت تک اس کی نماز اللہ تعالیٰ کے حضور قبول نہیں ہوسکتی.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کی اس طرف پوری توجہ نہیں.پس دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اپنا پورا زور اس بات کے لئے صرف کر دیں کہ ہم میں سے ہر شخص نماز با جماعت کا پابند ہو.میں نے پہلے بھی چند سال ہوئے جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی اور اس پر کچھ عرصہ عمل بھی ہوا.مگر پھر ستی واقعہ ہوگئی.میں نے کہا تھا کہ جہاں مسجد میں قریب ہوں.وہاں مسجدوں میں نماز با جماعت ادا کی جائے اور جہاں مسجد میں نہ ہوں وہاں جماعت کے دوست محلہ میں کسی کے گھر پر جمع ہو کر نماز با جماعت پڑھ لیا کریں اور جہاں اس قسم کا انتظام بھی نہ ہو سکے وہاں گھروں میں نماز با جماعت ادا کی جائے اور مرد اپنے بیوی بچوں کو پیچھے کھڑا کر کے جماعت کرالیا کریں.آج میں پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں.خصوصاً عہدیداروں کو.انہیں چاہئے کہ وہ ہر ماہ مجھے لکھتے رہا کریں کہ انہوں نے اس بارہ میں

Page 186

کیا کارروائی کی ہے.۱۸۱ دوسری چیز جس کی طرف میں اس وقت توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ محنت کی عادت ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے بہت سے نوجوانوں میں محنت کی عادت نہیں پائی جاتی.ذرا بھی محنت کا کام ان کے سامنے آجائے تو وہ گھبرا جاتے اور اپنے فرض کے ادا کرنے میں کوتاہی سے کام لینے لگ جاتے ہیں.یہ ایک خطر ناک نقص ہے جو ان میں پایا جاتا ہے.اس کا نتیجہ یہ نظر آتا ہے کہ اگر وہ موقعہ آ گیا، جس میں دین کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرنی پڑیں.تو اس قسم کے لوگ خواہ اس وقت قربانی بھی کریں.ان کی قربانی چنداں مفید نہیں ہو گی.کیونکہ محنت سے گھبرانے والے اپنے فرائض منصبی کو ادا کرنے کی نسبت، آرام زیادہ پسند کرتے ہیں.پس ہر جگہ کی جماعت کو، خصوصاً خدام الاحمدیہ کو میں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ انصار اللہ سے مل کر ایسی کوشش کریں کہ ہر احمدی اپنے اوقات کو صحیح طور پر صرف کرنے کی عادت اپنے اندر پیدا کرے اور جو کام اس کے سپرد کیا جائے اس کے متعلق وہ کوئی بہانہ نہ بنائے.بہانہ بنانا ایک خطر ناک چیز ہے جس سے قوم تباہ ہو جاتی ہے.ہمیں یہ عادت اس سال ڈالنی چاہئے کہ جس شخص کو کسی کام پر مقرر کیا جائے ،اس کا فرض ہے کہ یا تو وہ کام پوری دیانتداری سے کرے.یا اس کام کے لئے جو وقت مقرر ہے اس کے ختم ہونے پر اس کی لاش وہاں نظر آئے.اس کی زبان چلتی ہوئی یہ عذر نہ کرے کہ میں فلاں وجہ سے یہ کام نہیں کرسکا.جب تک یہ روح ہماری جماعت کے نوجوانوں میں پیدا نہ ہو اس وقت تک وہ حقیقی قربانی پیش نہیں کر سکتے.اسی طرح مردوں کو چاہئے کہ جہاں لجنہ اماءاللہ قائم نہیں وہاں لجنہ اماءاللہ قائم کریں.میرے پاس بہت سی عورتوں نے شکایت کی ہے کہ مردان کے ساتھ تعاون نہیں کرتے.بعض تو انہیں روکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ لجنہ کے جلسوں میں نہ جایا کرو اور بعض ایسے ہیں کہ اگر عورتیں لجنہ اماءاللہ قائم کرنا چاہیں تو وہ

Page 187

۱۸۲ اس میں روک بن جاتے ہیں.یہ ایک خطر ناک بات ہے.جب تک عورتیں بھی دین کی خدمت کے لئے مردوں کے پہلو بہ پہلو کام نہیں کرتیں، اس وقت تک ہم صحیح طور پر ترقی نہیں کر سکتے.اسلام کی جو عمارت ہم باہر تیار کرتے ہیں.اگر اس عمارت کی تیاری میں عورت ہمارے ساتھ شریک نہیں تو وہ گھر میں اس عمارت کو تباہ کر دیتی ہے.تم بچے کو مجلس میں اپنے ساتھ لاؤ، اس وعظ ونصیحت کی باتیں سناؤ، دین کی باتیں اس کے کان میں ڈالو لیکن گھر جانے پر اگر تمہاری عورت میں وہ روح نہیں جو اسلام عورتوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے، تو وہ بچے سے کہے گی کہ بچے تمہارے باپ کی عقل ماری ہوئی ہے وہ تمہیں یونہی مسجدوں میں لئے پھرتا ہے.تمہاری صحت اس سے تباہ ہو جائے گی تم ایسا نہ کیا کرو.باپ اپنے بچے کو اقتصادی زندگی بسر کرنے کی ترغیب دے، تو ماں کہنے لگ جائے گی کہ بیٹا تمہارا باپ محض بحل کی وجہ سے تمہیں یہ نصیحت کر رہا ہے اور نام اس کا دین رکھ رہا ہے ورنہ اصل وجہ یہ ہے کہ اس کا دل تمہاری ضروریات کے لئے روپیہ خرچ کرنے کو نہیں چاہتا.تم بے شک اپنے دل کے حوصلے نکال لو، میں تمہاری مدد کرنے کے لئے تیار ہوں.دیکھو اگر کسی گھر میں ایسا ہو تو ایک ہی وقت میں دو تلوار میں چل رہی ہوں گی، ایک سامنے سے اور ایک پیچھے سے اور یہ لازمی بات ہے کہ جہاں دو تلوار میں چل رہی ہوں وہاں امن نہیں ہوسکتا.پس اول ہماری جماعت کو نماز با جماعت کی پابندی کی عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے.دوسرے جماعت کو خصوصیت سے اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے محنت کی عادت اختیار کرنی چاہئے اور جس کام کے لئے کسی کو مقرر کیا جائے اس کے متعلق وہ اس اصول کو اپنے مد نظر رکھے کہ میں نے اب پیچھے نہیں ہٹنا چاہے میری جان چلی جائے.جب تک اس قسم کی روح اپنے اندر پیدا نہیں کی جائے گی جماعت پوری طرح ترقی نہیں کر سکتی.تیسرے ہر جگہ لجنہ اماءاللہ قائم کی جائے اور عورتوں کی تعلیم اور ان کی اصلاح کا خیال رکھا جائے.چوتھے جماعت کے اندر سچائی کو قائم کیا جائے.جب تک کسی قوم میں سچائی قائم رہتی ہے وہ ہارا نہیں کرتی.میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں ابھی اس پہلو کے لحاظ سے بھی کمزوری پائی جاتی ہے.(اقتباس تقریر جلسه سالانه ۲۸ دسمبر ۱۹۴۶ء بحواله الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۴۷ء صفحه ۲)

Page 188

۱۸۳ انصار اللہ کو مرکز بنانے کی ہدایت دفتر خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے افتتاح کے موقع پر انصار اللہ کو ہدایت تشہد تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جس وقت یہ زمین خریدی گئی تھی ، اس وقت میں نے تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ سے جو اس زمین کے خریدار تھے، یہ خواہش کی تھی کہ وہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے لئے بھی ایک ایک ٹکڑا وقف کریں.چنانچہ بارہ بارہ کنال زمین دونوں کے لئے وقف کی گئی.بارہ کنال زمین کے یہ معنی ہیں کہ ۶۵ ہزار مربع فٹ کا رقبہ ان کے پاس ہے.اگر اسے صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو یہ بہت بڑے کام آ سکتا ہے.مثلاً اس کے اردگرد چار دیواری بنالی جائے تو آئندہ سالانہ اجتماع ، بجائے اس کے کہ کسی اور میدان میں کیا جائے ، بڑی عمدگی کے ساتھ اس جگہ ہو سکتا ہے.۶۵ ہزار مربع فٹ زمین میں سے اگر عمارتوں اور سڑکوں کو نکال لیا جائے مثلاً عمارتوں اور سڑکوں کے لئے ۶۵ ہزار مربع فٹ زمین نکال لی جائے تو چالیس ہزار مربع فٹ زمین باقی بچتی ہے اور دس دس فٹ زمین ایک آدمی کے لئے رکھ لی جائے ، بلکہ ۱۵.۵افٹ زمین بھی ایک آدمی کے لئے رکھ لی جائے تو تو چالیس ہزارفٹ زمین میں اڑھائی تین ہزار آدمی سوسکتا ہے اور اتنے نمائندے ہی اجتماع میں ہوتے ہیں.پھر اگر زیادہ نمائندے آجائیں تو سڑکوں وغیرہ کے لئے زمین کو محدود کیا جاسکتا ہے.پھر پاس ہی انصار اللہ کا دفتر ہوگا، اگر دونوں مجالس کے سالانہ اجتماع ایک ہی وقت میں نہ ہوں تو ۲۴ کنال زمین استعمال میں لائی جاسکتی ہے.انہیں ضرورت ہو تو تم اپنی جگہ انہیں دے دو اور تمہیں ضرورت ہو تو وہ اپنی جگہ تمہیں دے دیں.اس طرح مقامی جگہ کی عظمت قائم ہو سکتی ہے.پس میرے نزدیک آپ لوگوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ کسی نہ کسی قسم کی چار دیواری اس زمین کے ارد گرد ہو جائے خواہ وہ چار دیواری لکڑیوں کی ہی کیوں نہ

Page 189

۱۸۴ ہو.بارہ کنال کی چار دیواری پر اڑھائی تین ہزار روپیہ خرچ آئے گا بلکہ اس سے بھی کم اخراجات میں چار دیواری بن جائے گی.اس موقع پر محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے فرمایا پتھروں کی چار دیواری بارہ سو روپیہ میں بن جاتی ہے ) اس پر حضور نے فرمایا میرے مکان کی چار دیواری کولیا جائے تو یہ اندازہ بہت کم ہے.اتنی رقم میں چاردیواری نہیں بن سکتی.(صاحبزادہ صاحب نے عرض کیا.حضور اس رقم میں صرف چارفٹ اونچی چار دیواری بنے گی ) حضور نے فرمایا: ہاں اگر چارفٹ اونچی چار دیواری بنائی جائے تو اتنی رقم میں کام ہوسکتا ہے لیکن چارفٹ اونچی چار دیواری سے پردہ نہیں ہوتا.بہر حال اگر چار دیواری بن جائے تو مرکز کا اثر بیرونی مجالس پر بڑھ جائے گا.عورتوں کے متعلق مجھے تجربہ ہے کہ جب وہ کوئی بنی ہوئی چیز دیکھتی ہیں تو پہلے سے بڑھ کر روپیہ خرچ کرتی ہیں اور نو جوانوں میں تو یہ سپرٹ زیادہ ہونی چاہئے.جب سالانہ اجتماع ہو گا خدام باہر سے آئیں گے اور چاردیواری بنی ہوئی دیکھیں گے تو سمجھیں گے کہ ان کا روپیہ نظر آنے والی صورت میں لگ رہا ہے اور ان کا جوش بڑھ جائے گا.دفاتر میں جو روپیہ لگتا ہے وہ انہیں نظر نہیں آتا.اگر تم کہو کہ دفتر میں کاغذ ، سیاہی، قلم، پنسل اور کارکنوں کی تنخواہوں پر روپیہ صرف ہوتا ہے، تو چونکہ یہ خرچ انہیں نظر نہیں آتا.وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا روپیہ صیح طور پر خرچ نہیں کیا جاتا.تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو روپیہ تنظیم پر خرچ ہوتا ہے، وہ نظروں سے پوشیدہ ہوتا ہے.اس لئے قوم کی طرف سے جب بھی کوئی اعتراض ہوتا ہے تو وہ تنظیم سے متعلقہ اخراجات پر ہی ہوتا ہے اور کسی چیز پر نہیں مثلاً وہ کہیں گے تم پر کسی قدر روپیہ خرچ ہوا ہے.ہسپتالوں پر کس قدر روپیہ خرچ ہوا ہے.غریبوں کی امداد کے لئے کس قدر روپیہ خرچ ہوا ہے.غرباء کے وظائف پر کس قدر رقم خرچ ہوئی ہے اور اگر انہیں یہ بتایا جائے کہ کام کو چلانے کے لئے اتنے سیکرٹریوں کی ضرورت ہے، پھر دفتری اخراجات کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے، سفر خرچ کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے، تو وہ کہیں گے ہمارا روپیہ ضائع ہو گیا.اگر چہ ایسا اعتراض کرنا حماقت ہوتا ہے.کیونکہ سب سے اہم چیز مرکزیت ہوتی ہے لیکن واقع یہی ہے کہ ہمیشہ ان اخراجات پر اعتراض کیا جاتا ہے.تم انگلستان کی تاریخ کو لے لو،

Page 190

۱۸۵ امریکہ کی تاریخ کو لے لو، فرانس کی تاریخ کو لے لو، جرمنی کی تاریخ کو لے لو، جاپان کی تاریخ کو لے لو، روس کی تاریخ کو لے لو، جب کبھی بھی میزانیہ پر اعتراض ہوا ہے تو اس کے اسی حصہ پر ہوا ہے جو تنظیم کے لئے خرچ ہوا ہے کیونکہ یہ اخراجات نظر نہیں آتے.پس نظر آنے والا خرچ لوگوں میں مزید چندہ دینے کی تحریک پیدا کرتا ہے.اگر تم اس جگہ کو زیادہ سے زیادہ اعلیٰ بناتے جاؤ گے تو خدام میں چندہ کی تحریک ہوتی رہے گی مثلاً میدان کو چھوڑ کر دیواروں کے ساتھ ساتھ پھول لگائے جائیں.چونکہ اس جگہ پر تمہیں سالانہ اجتماع بھی کرنا ہوگا اس لئے تم چمن تو بنا نہیں سکتے لیکن دیواروں کے ساتھ ساتھ پھول لگائے جاسکتے ہیں.اس طرح نظارہ اور زیادہ خوبصورت بن جائے گا.پھر بیچ میں چند فٹ کی سڑک رکھ کر اس کے ارد گر د بھی پھول لگائے جاسکتے ہیں.جب خدام آئیں گے اور اس جگہ کو دیکھیں گے تو وہ کہیں گے ہمارا روپیہ صیح طور پر استعمال ہوا ہے.اس کے بعد میں آپ لوگوں کے لئے دعا کروں گا.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمہیں جلد مرکز بنانے کی توفیق دے دی ہے.مجھے افسوس ہے کہ انصار اللہ نے ابھی مرکز بنانے کی کوشش نہیں کی.دنیا میں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ بوڑھے تجربہ کار ہوتے ہیں لیکن ہماری جماعت یہ مجھتی ہے کہ بڑھے بیکار ہوتے ہیں اور بیکار کا کوئی کام نہیں.اس لئے انصار اللہ یہ مجھتے ہیں کہ اگر وہ کوئی کام نہیں کرتے تو وہ اپنے عہدے کے مطابق کام کرتے ہیں.قادیان میں بھی انصار اللہ نے زیادہ کام نہیں کیا اور اب یہاں بھی انصار اللہ کام نہیں کرتے.شاید یہ چیز ہو کہ صدر انجمن احمدیہ کے بڑے بڑے افسر اس مجلس کے عہدیدار ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں صدر انجمن احمدیہ کے کاموں سے فرصت نہیں.بہر حال انصار اللہ کو بھی چاہئے تھا کہ وہ اپنا مرکز بناتے لیکن انہوں نے ابھی اس طرف توجہ نہیں کی.یہ غلط خیال ہے کہ چونکہ قادیان واپس ملنا ہے اس لئے ہمیں یہاں کوئی جگہ بنانے کی ضرورت نہیں.ایک صاحب یہاں ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی ہیں.ان سے جب بھی کوئی بات پوچھی جائے وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم نے قادیان واپس جانا ہے اس لئے یہاں مکان بنانے کی کیا ضرورت ہے.انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ قادیان کے لئے جو پیشگوئیاں ہیں وہ مکہ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ان سے زیادہ نہیں لیکن کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ واپس گئے ؟ ہم تو یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم قادیان واپس جائیں گے اور وہی ہمارا مرکز ہوگا لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مکہ سے مدینہ چلے گئے تو مکہ میں واپس نہیں آئے.حالانکہ مکہ فتح ہو گیا تھا آپ نے مدینہ کو چھوڑا نہیں.پھر بعد میں مدینہ ہی حکومت کا مرکز بنا اور وہیں سے اسلام اردگرد پھیلنے لگا.مکہ صرف حج کے لئے رہ گیا.مکہ صرف اعتکاف کی جگہ بن گئی.یا جولوگ اپنی

Page 191

۱۸۶ زندگیاں وقف کر کے مکہ چلے جاتے تھے ان کی جگہ رہی.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہی رہے اور وہیں آپ فوت ہوئے.خدا تعالیٰ کیا کرے گا.آیا اس کے نزدیک ہمارا یہاں رہنا بہتر ہے یا قادیان واپس جانا بہتر ہے، ہمیں اس کا علم نہیں.پس یہ حماقت کی بات ہے کہ محض ان پیشگوئیوں کی وجہ سے جو کسی جگہ کے تقدس پر دلالت کرتی ہیں جب کہ ان پیشگوئیوں سے زیادہ پیشگوئیاں دوسری جگہ کے متعلق موجود تھیں اور خدا تعالیٰ نے انہیں کسی اور شکل میں پورا کیا تھا، ہم یہ خیال کر لیں کہ ہمیں کسی اور جگہ کی ضرورت نہیں.اگر بڑی جگہ کے لئے جو پیشگوئیاں تھیں وہ ظاہری رنگ میں پوری نہیں ہوئیں تو چھوٹی جگہ کے لئے یہ کیوں ضروری خیال کر لیا گیا ہے کہ اس کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہری رنگ میں ہی پوری ہوں گی.قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ وہی آیات ہیں جو مکہ کے متعلق نازل ہوئی تھیں.وہ آیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر دوبارہ نازل ہوئی ہیں اور جب وہ پیشگوئیاں مکہ کے لئے بھی ظاہری رنگ میں پوری نہیں ہوئیں تو ہم کیا لگتے ہیں کہ یہ کہیں کہ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہری رنگ میں پوری ہوں گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس مکہ تشریف نہیں لے گئے بلکہ مدینہ میں ہی مرکز بنا کر کام کرتے رہے.صرف آپ حج کے لئے مکہ تشریف لے جاتے تھے اور حج کر کے واپس تشریف لے آتے تھے.پھر حضرت ابو بکر واپس مکہ نہیں گئے ، حضرت عمرؓ واپس مکہ نہیں گئے ، حضرت عثمان واپس مکہ نہیں گئے ، حضرت علی واپس مکہ نہیں گئے.یہ سب حج کے لئے مکہ جاتے تھے اور واپس آ جاتے تھے.حکومت کا مرکز مدینہ ہی رہا اور یہیں سے اسلام اردگرد کے علاقوں میں پھیلا.پس جب پیشگوئیوں سے کسی جگہ کی عظمت ظاہر ہوتی ہے تو یہ سمجھ لینا کہ یہ پیشگوئیاں ضرور ظاہری رنگ میں پوری ہوں گی، حماقت ہے.چاہے بعد میں وہ پیشگوئیاں ظاہری رنگ میں ہی پوری ہو جائیں لیکن مومن کا یہ کام ہے کہ جس چیز میں خدا تعالیٰ نے اُسے اب رکھا ہے، اس میں وہ راضی رہے.خدا تعالیٰ کا معاملہ جو ہمارے ساتھ ہے وہ کتنا عجیب ہے.ایک چور سیندھ لگاتا ہے اور پھر توبہ کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ دوسرے دن پھر سیندھ لگائے گا.پھر وہ دوسرے دن سیندھ لگاتا ہے اور پھر تو بہ کرتا ہے، تو خدا تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے.حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ پھر سیندھ لگائے گا.پس خدا تعالی با وجود اس کے کہ وہ علم غیب رکھتا ہے، ہمارے ساتھ رحم کا معاملہ کرتا ہے لیکن ہم لوگ با وجود علم غیب نہ ہونے کے خدا تعالیٰ کے ساتھ مستقبل والا معاملہ کرتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ بھی ہمارے ساتھ مستقبل والا معاملہ کرے، تو چونکہ اسے علم ہے کہ مجرم دوبارہ جرم کرے گا اسے علم غیب حاصل ہے، اس لئے کسی کی

Page 192

۱۸۷ تو بہ قبول نہ ہو.اسی طرح ہزاروں لوگ مارے جائیں گے.ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ گناہ کرتے ہیں تو پھر بعض اوقات بڑی سٹرگل (Struggle) کے بعد اس گناہ سے نجات حاصل کرتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ تو بہ قبول کرنے سے انکار کر دے تو کوئی شخص گناہ سے نجات حاصل نہ کرے تو بہ ضمیر کو روشن کرتی ہے اور انسان کو گناہ سے روکتی ہے.باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اس شخص نے تو بہ توڑ دینی ہے.باوجود اس کے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ پھر فساد کرے گا، لڑائی کرے گا ، گالیاں دے گا اور جھوٹ بولے گا وہ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے.گویا خدا تعالیٰ با وجود علم غیب رکھنے اور جاننے کے مجرم دوبارہ جرم کرے گا وہ اس سے حاضر والا معاملہ کرتا ہے.لیکن ہم با وجود علم غیب نہ ہوئے کے خدا تعالیٰ سے مستقبل والا معاملہ کرتے ہیں.اس سے زیادہ بیوقوفی اور کیا ہوگی؟ ہمیں خدا تعالیٰ سے حاضر والا معاملہ کرنا چاہئے.اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم جنگلوں میں رہیں تو ہمیں جنگلوں میں رہنا چاہئے اور اپنا کام کرتے چلے جانا چاہئے.ہم چوہوں اور چیونٹیوں کو باہر پھینک دیتے ہیں تو وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتے ہیں.شہد کی مکھیوں کو دیکھ لو.انسان ان کا تیار کیا ہوا شہد حاصل کر لیتا ہے اور انہیں دور پھینک دیتا ہے لیکن وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کام میں کامیاب رہتی ہیں.اگر وہ اس بات کا انتظار کرتی رہیں کہ انہیں پہلی جگہ ملے تو کام کریں تو ہزاروں چھتے مر جائیں.اسی طرح اگر تمہیں اپنا گھر نہیں ملتا تو جس گھر میں خدا تعالیٰ نے تمہیں رکھا ہے، تمہیں اسی میں فوراً کام شروع کر دینا چاہئے.اگر خدا تعالیٰ تمہیں واپس لے جائے تو وہاں جا کر کام شروع کر دو.لیکن کسی منٹ میں بھی اپنے کام کو پیچھے نہ ڈالو.مومن ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے موت آجاتی ہے.گویا مومن کے لئے کام ختم کرنے کا وقت موت ہے.آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے کہ اپنامرکز تعمیر کر لیا اور خدا کرے کہ انصار اللہ کو بھی اس طرف توجہ پیدا ہو اور وہ اس حماقت کو چھوڑ دیں کہ قادیان واپس جانے کے متعلق بہت سی پیشگوئیاں ہیں.اس لئے قادیان ہمیں ضرور واپس ملے گی اور چونکہ قادیان ہمیں واپس ملے گی اس لئے ہمیں یہاں کوئی جگہ بنانے کی ضرورت نہیں.انہیں یا درکھنا چاہئے کہ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ مکہ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ان سے زیادہ نہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہ پیشگوئیاں ظاہری معنوں کے لحاظ سے پوری نہیں ہوئیں.اس لئے ہمیں بھی پتہ نہیں کہ آئندہ ہمارے ساتھ کیا ہوگا.مکہ کے متعلق بھی بہت پیشگوئیاں موجود تھیں بلکہ ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے آپ کو مبعوث کیا گیا تھا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح کے بعد

Page 193

۱۸۸ بھی مدینہ میں ہی رہے ، مکہ واپس نہیں گئے.قادیان مکہ سے بڑھ کر نہیں جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں.اگر چہ ہم بھی امید رکھتے ہیں کہ قادیان ہمیں واپس ملے گا اور ایک مومن کو یہی امید رکھنی چاہئے کہ قادیان ہمیں واپس ملے گا اور وہی ہمارا مرکز ہو گا لیکن انہیں یا درکھنا چاہئے کہ عملاً ہمارا مرکز وہی ہو گا جہاں ہمیں خدا تعالیٰ رکھنا چاہتا ہے.پس ہمیں اس نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے کاموں کو وسیع کرنا چاہئے اور اس بات کو نظر انداز کر کے کہ ہم نے قادیان واپس جاتا ہے اپنا کام کرتے چلے جانا چاہئے.بلکہ میں تو کہوں گا کہ اگر ہمیں تار بھی آ جائے کہ آؤ اور قادیان میں بس جاؤ.تو بھی تمہیں شام تک کام کرتے چلے جانا چاہئے تا یہ پتہ لگے کہ ہمیں کام سے غرض ہے.ہمیں قادیان سے کوئی غرض نہیں.ہمیں ربوہ سے کوئی غرض نہیں.اگر ہمیں خدا تعالیٰ لے جائے تو ہم وہاں چلے جائیں گے، ورنہ نہیں.ہم خدا تعالیٰ کے نوکر ہیں کسی جگہ کے نو کر نہیں.اگر ہم کسی جگہ سے محبت کرتے ہیں تو صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے اسے عزت دی ہے.پس مومن کو اپنے کاموں میں سست نہیں ہونا چاہئے.پھر نو جوانوں کی عمر تو کام کی عمر ہے انہیں اپنے کاموں میں بہت چست رہنا چاہئے.( خطاب فرموده ۱/۵اپریل ۱۸۹۲ء.بحوالہ الفضل ۲۰ فروری ۱۹۲۶ء صفحہ ۷ اور ۸)

Page 194

۱۸۹ کہ وہ مجلس انصاراللہ مرکزیہ کی تنظیم نو کے متعلق ہدایات (اقتباس از خطبه جمعه ) میں نے بتایا ہے کہ ناصر احمد اب انصار اللہ میں چلے گئے ہیں.ان کے متعلق میں نے فیصلہ کیا ہے آئندہ انصار اللہ کے صدر ہوں گے.اگر چہ میرا یہ حکم ” ڈکٹیٹر شپ کی طرز کا ہے لیکن اس ڈکٹیٹر شپ“ کی وجہ سے ہی تمہارا کام اس حد تک پہنچا ہے.ورنہ تمہارا حال بھی صدر انجمن احمدیہ کی طرح ہی ہوتا.ایک دفعہ ایک جماعت کی طرف سے ایک چٹھی آئی جو سیکرٹری مال کی طرف سے تھی.انہوں نے تحریر کیا کہ ہمارے بزرگ ایسے نیک اور دین کے خدمت گزار تھے کہ انہوں نے دین کی خاطر ہر ممکن قربانی کی لیکن اب ہم جو ان کی اولاد ہیں ایسے نالائق نکلے ہیں کہ جماعت پر مالی بوجھ روز بروز زیادہ ہو رہا ہے لیکن ہم نے اپنا چندہ اتنے سالوں سے ادا نہیں کیا.آپ مہربانی کر کے اپنا آدمی یہاں بھجوائیں، دوستوں کو ندامت محسوس ہو رہی ہے.چنانچہ یہاں سے نمائندہ بھیجا گیا اور چند دن کے بعد اس کی طرف ایک چٹھی آئی کہ ساری جماعت یہاں جمع ہوئی اور سب افراد اپنی سستی اور غفلت پر روئے اور انہوں نے درخواست کی کہ پچھلا چندہ ہمیں معاف کر دیا جائے، آئندہ ہم باقاعدہ چندہ ادا کریں گے اور اس کام میں غفلت نہیں کریں گے.کچھ عرصہ کے بعد پھر بقایا ہو گیا تو ایک اور چٹھی آگئی کہ مرکز کی طرف سے کوئی آدمی بھیجا جائے ، احباب میں ندامت پیدا ہوئی ہے.چنانچہ ایک آدمی گیا ، تمام لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے گریہ وزاری کی اور یہ درخواست کی کہ پہلا چندہ معاف کیا جائے آئندہ ہم باقاعدہ چندہ ادا کریں گے.غرض ہر تیسرے سال یہ چکر چلتا.دو تین آدمی ایسے تھے جو باقاعدہ طور پر چندہ ادا کرتے تھے.باقی کا یہی حال تھا.اگر میں مجلس خدام الاحمدیہ

Page 195

190 کے بارہ میں ڈکٹیٹر شپ استعمال نہ کرتا تو تمہارا بھی یہی حال ہوتا.نوجوانوں کو میں نے پکڑ لیا اور انصار اللہ کو یہ سمجھ کر کہ وہ بزرگ ہیں، ان میں سے بعض میرے اساتذہ بھی ہیں، چھوڑ دیا لیکن اب تم دیکھتے ہو کہ خورد بین سے بھی کوئی انصار اللہ کا ممبر نظر نہیں آتا.پس ناصر احمد کو میں انصار اللہ کا صدر مقرر کرتا ہوں.وہ فوراً انصار اللہ کا اجلاس طلب کریں اور عہدہ داروں کا انتخاب کر کے میرے سامنے پیش کریں ( تین ماہ کے عرصہ میں خدام سے انصار اللہ میں جاکر ناصر احمد نے بھی کوئی کام نہیں کیا.معلوم ہوتا ہے وہاں کی ہوا لگ گئی ہے ) اور پھر میر امشورہ لے کر انہیں از سر نو منظم کریں.پھر خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کی طرح انصار اللہ کا بھی سالانہ جلسہ کیا کریں لیکن ان کا انتظام اور قسم کا ہوگا.اس جتماع میں کھیلوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے.کبڈی اور دوسری کھیلیں ہوتی ہیں.انصار اللہ کے اجتماع میں درس القرآن کی طرف زیادہ توجہ دی جائے اور زیادہ وقت تعلیم و تدریس پر صرف کیا جائے.(اقتباس از خطبه جمعه مورخہ ۷ نومبر ۱۹۵۴ء.بحواله الفضل ۹رفروری ۱۹۵۵ء)

Page 196

۱۹۱ جماعت میں نمازوں.دعاؤں اور تعلق باللہ کو قائم رکھنا انصار اللہ کا کام ہے مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج انصار اللہ کی پہلی میٹنگ ہے.انصار کس جذبہ اور قربانی سے کام کرتے ہیں یہ تو آئندہ سال ہی بتا ئیں گے.مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کی دماغی نمائندگی انصار الله کرتے ہیں اور اس کے دل اور ہاتھوں کی نمائندگی خدام الاحمدیہ کرتے ہیں.جب کسی قوم کے دماغ ، دل اور ہاتھ ٹھیک ہوں تو وہ قوم بھی ٹھیک ہو جاتی ہے.پس میں پہلے تو انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے بہت سے وہ ہیں جو یا صحابی ہیں یا کسی صحابی کے بیٹے ہیں یا کسی صحابی کے شاگرد ہیں، اس لئے جماعت میں نمازوں، دعاؤں اور تعلق باللہ کو قائم رکھنا ان کا کام ہے.ان کو تہجد ، ذکر الہی اور مساجد کی آبادی میں اتنا حصہ لینا چاہئے کہ نوجوان ان کو دیکھ کر خود ہی ان باتوں کی طرف مائل ہو جائیں.اصل میں تو جوانی کی عمر ہی وہ زمانہ ہے، جس میں تہجد ، دعا اور ذکر الہی کی طاقت بھی ہوتی ہے اور مزہ بھی ہوتا ہے.لیکن عام طور پر جوانی کے زمانہ میں موت اور عاقبت کا خیال کم ہوتا ہے.اس وجہ سے نوجوان غافل ہو جاتے ہیں لیکن اگر نو جوانی میں کسی کو یہ توفیق مل جائے تو وہ بہت ہی مبارک وجود ہوتا ہے.پس ایک طرف تو میں انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے نمونہ سے اپنے بچوں، اپنے ہمسایہ کے بچوں اور اپنے دوستوں کے بچوں کو زندہ کریں اور دوسری طرف میں خدام الاحمدیہ کو توجہ

Page 197

۱۹۲ دلاتا ہوں کہ وہ اتنا اعلیٰ درجہ کا نمونہ قائم کریں کہ نسلاً بعد نسل اسلام کی روح زندہ رہے.اسلام اپنی ذات میں کامل مذہب ہے لیکن اعلیٰ سے اعلیٰ شربت کے لئے بھی کسی گلاس کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح اسلام کی روح کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے کسی گلاس کی ضرورت ہے اور ہمارے خدام الاحمدیہ وہ گلاس ہیں جن میں اسلام کی روح کو قائم رکھا جائے گا اور ان کے ذریعہ اسے دوسروں تک پہنچایا جائے گا.دیکھو آخر ہم بھی انسان ہیں اور یہودی بھی انسان ہیں.ہمارا دین ان کے دین سے بہتر ہے اور ہمار ا رسول ان کے رسول سے افضل ہے.مگر یہودیوں کو فلسطین سے نکال دیا گیا تو وہ اسے دو ہزار سال تک نہیں بھولے.بلکہ اتنے لمبے عرصہ تک انہیں یہ یا درہا کہ انہوں نے فلسطین میں دوبارہ یہودی اثر کو قائم کرنا ہے اور آخر وہ دن آ گیا.اب وہ فلسطین پر قابض ہیں.ہمیں اس بات پر غصہ تو آتا ہے اور ہم حکومتوں کو اس طرف توجہ بھی دلاتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو انہیں توجہ دلاتے رہیں گے کہ اب یہ اسلامی علاقہ ہے یہودیوں کا نہیں، اس لئے یہ مسلمانوں کو ملنا چاہئے.مگر ہم اس بات کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہودیوں نے دو ہزار سال تک اس بات کو یا درکھا، جو دوسری قو میں بعض دفعہ ہیں سال یا سو سال تک بھی یاد نہیں رکھ سکتیں.پس یا درکھو کہ اشاعت دین کوئی معمولی چیز نہیں، یہ بعض دفعہ جلدی بھی ہو جاتی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ۲۳ سال میں ہوگئی اور پھر مزید اشاعت کوئی ۵۰ سال میں ہو گئی.مگر کبھی کبھی یہ سینکڑوں سال بھی لے لیتی ہے جیسے حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں اس نے ایک سوسال کا عرصہ لیا اور کبھی یہ ہزاروں سال کا عرصہ بھی لے لیتی ہے.چنانچہ دیکھ لو، یہودیوں کا دنیوی نفوذ تو بہت کم عرصہ میں ہو گیا تھا لیکن دوسری قوموں کی ہمدردی انہیں دو ہزار سال بعد جا کر حاصل ہوئی.جب لوگوں کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ کوئی قوم اپنے آثار اور اپنی تعلیمات کو قائم رکھنے کے لئے ہر وقت تیار ہے اور آئندہ بھی تیار رہے گی تو اس قوم کے دشمن بھی اس کے ہمدرد ہو جاتے ہیں.کیا یہ لطیفہ نہیں کہ عیسائیوں نے ہی یہودیوں کو فلسطین سے باہر نکالا تھا اور اب عیسائی ہی انہیں فلسطین میں واپس لائے ہیں.دیکھو یہ کیسی عجیب بات ہے.آج سب سے زیادہ یہودیوں کے خیر خواہ امریکہ اور انگلینڈ ہیں اور یہ دونوں ملک عیسائیوں کے گڑھ ہیں.فلسطین سے یہودیوں کو نکالا

Page 198

۱۹۳ بھی عیسائیوں نے ہی تھا.مگر وہی آج ان کے زیادہ ہمدرد ہیں.گویا ایک لمبی قربانی کے بعد ان کے دل بھی پیج گئے.پس ہمیشہ ہی اسلام کی روح کو قائم رکھو، اس کی تعلیم کو قائم رکھو اور یا درکھو کہ تو میں نو جوانوں کی دینی زندگی کے ساتھ ہی قائم رہتی ہیں.اگر آنے والے کمزور ہو جائیں تو وہ قوم گر جاتی ہے.مگر کوئی انسان یہ کام نہیں کر سکتا صرف اللہ ہی یہ کام کر سکتا ہے.انسان کی عمر تو زیادہ سے زیادہ ۶۰ ۸۰۰۷۰۰ سال تک چلی جائے گی مگر قوموں کی زندگی کا عرصہ تو سینکڑوں ہزاروں سال تک جاتا ہے.دیکھو مسیح علیہ السلام کی قوم بھی دو ہزار سال سے زندہ ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم ۳۰۰ سال سے زندہ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ جب تک دنیا قائم رہے گی یہ بڑھتی چلی جائے گی.تم بھی ایک عظیم الشان کام کے لئے کھڑے ہوئے ہو.پس اس روح کو قائم رکھنا، اسے زندہ رکھنا اور ایسے نوجوان جو پہلوں سے زیادہ جوشیلے ہوں، پیدا کرنا تمہارا کام ہے.ایک بہت بڑا کام تمہارے سپرد ہے.عیسائی دنیا کو مسلمان بنانا اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے، جتنا عیسائی دنیا کو یہودیوں کا ہمدرد بنانا.کیونکہ عیسائی دنیا کو ہمدرد بنانے میں تو صرف دماغ کو فتح کیا جاتا ہے لیکن عیسائیوں کو مسلمان بنانے میں دل اور دماغ دونوں کو فتح کرنا پڑے گا اور یہ کام بہت مشکل ہے.پس دعاؤں میں لگے رہو اور اپنے کام کو تا قیامت زندہ رکھو.محاورہ کے مطابق میرے منہ سے ” تا قیامت“ کے الفاظ نکلتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں تا قیامت بھی درست نہیں.قیامتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں.پس میں تو کہوں گا کہ تم اسے ابدی زمانہ تک قائم رکھو کیونکہ تم از لی اور ابدی خدا کے بندے ہو.اس لئے ابد تک اس نور کو جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے قائم رکھو اور محمدی نور کو دنیا میں پھیلاتے چلے جاؤ، یہاں تک کہ ساری دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے لگ جائے اور یہ دنیا بدل جائے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت جو آسمان پر ہے زمین پر بھی آجائے.میں بیمار ہوں زیادہ لمبی تقریر نہیں کر سکتا.اس لئے میں مختصر سی دعا کر کے رخصت ہو جاؤں گا.میں نے اپنی مختصر تقریر میں خدام کو بھی نصیحت کر دی ہے اور انصار اللہ کو بھی.مجھے امید ہے کہ دونوں میری مختصر باتوں کو یا د رکھیں گے.اپنے اپنے فرائض کو ادا کریں گے اور اپنے اپنے علاقوں میں ایسے اعلیٰ نمونے پیش کریں گے کہ لوگ ان کے نمونے دیکھ کر ہی احمدیت میں داخل ہونے لگ جائیں.مجھے تو یہ دیکھ کر

Page 199

۱۹۴ گھبراہٹ ہوتی ہے کہ تحریک جدید کا چندہ دو تین لاکھ روپے سالانہ ہوتا ہے اور وہ بھی بڑا زور لگا لگا کر.حالانکہ کام کے لحاظ سے دو تین کروڑ بھی تھوڑا ہے.صدرانجمن احمد یہ کا سالانہ چندہ دس گیارہ لاکھ روپیہ ہوتا ہے.حالانکہ کام کے پھیلاؤ کو تو جانے دو، جو صدرانجمن احمدیہ کے ادارے ہیں ان کو بھی صحیح طور پر چلانے کے لئے ۳۰ ،۴۰ لاکھ چندہ ہونا چاہیئے.مگر ۳۰ ،۲۰ لاکھ چندہ تو سبھی ہو گا جب جماعت چار پانچ گنے زیادہ بڑھ جائے.مگر اب تو ہمارے مبلغ ایسے پست ہمت ہیں کہ جب کسی مبلغ سے پوچھا جائے تبلیغ کا کیا حال ہے.تو یہ کہتا ہے.جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے.اس سال جماعت میں دو آدمی اور شامل ہو گئے ہیں.اگر تبلیغ کی یہی حالت رہی تو کسی ایک ملک میں دو لاکھ احمدی بنانے کے لئے ایک لاکھ سال چاہئیں.پس دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ کے حضور میں اتنا گڑ گڑاؤ اور اتنی کوششیں کرو کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے تمہاری مدد کے لئے اتر آئیں.انسانی زندگیاں محدود ہیں مگر ہمارا خدا ازلی ابدی خدا ہے.اس لئے اگر وہ یہ بوجھ جو ہم نہیں اٹھا سکتے آپ اٹھا لے، تو فکر کی کوئی بات نہیں.جب تک ہم یہ کام انسان کے ذمہ سمجھتے ہیں تب تک فکر رہے گا.کیونکہ انسان تو کچھ مدت تک زندہ رہے گا پھر فوت ہو جائے گا.مگر خدا تعالیٰ خود اس بوجھ کو اٹھالے تو فکر کی کوئی بات نہیں.یہ اسی کا کام ہے اور اسی کو سجتا ہے اور جب خدا تعالیٰ خود اس بوجھ کو اٹھالے گا تو پھر اس کے لئے زمانہ کا کوئی سوال نہیں رہے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ صدیاں تعلق نہیں رکھتیں، ان کا تعلق تو ہمارے ساتھ ہے.ورنہ خدا تعالیٰ تو ازلی ابدی خدا ہے.پس دعا ئیں کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھی اور مجھے بھی توفیق دے کہ ہم ثواب حاصل کریں لیکن جو اصل چیز ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ یہ بوجھ خود اٹھا لے تا کہ آئندہ ہمارے لئے کوئی فکر کی بات نہ رہے.(خطاب فرموده ۱۸/ نومبر ۱۹۵۵ء.بحوالہ الفضل ۱۵؍دسمبر ۱۹۵۵ء صفحه ۴)

Page 200

۱۹۵ تحریک جدید کے سلسلے میں ذیلی تنظیموں کی ذمہ داری تحریک جدید کے ذریعہ ایک نہایت (اقتباس از خطبه جمعه ) اہم اور قابلِ تعریف کام ہو رہا ہے اور جماعت کو اسے ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس میں حصہ لینا چاہئے.تا کہ وہ تبلیغ اسلام کو ساری دنیا میں پھیلا سکے.اس سال سکنڈے نیویا میں ایک نیا مشن کھولا گیا ہے اور ایسے سامان پیدا ہورہے ہیں کہ شاید ہمیں اپنے خرچ پر کچھ اور مبلغ بھی امریکہ بھیجوانے پڑیں.کیونکہ امریکہ میں مبلغوں کی بڑی مانگ ہے لیکن امریکن احمدی ان کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے.بلکہ امریکن جماعت کا چندہ امریکہ کے موجودہ مبلغوں کا خرچ بھی برداشت نہیں کر سکتا.اگر چہ مغربی ممالک میں سے امریکہ ہی ایک ایسا ملک ہے، جو ایک حد تک تبلیغ کا بوجھ اٹھا رہا ہے.وہاں کے مشن کا خرچ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ کے قریب ہے لیکن وہ قریباً دو تہائی بوجھ اٹھا رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں جماعت تھوڑی ہے.امریکہ کی جماعت کے کل ۵۰۰ افراد ہیں اور ظاہر ہے کہ ۵۰۰ افراد کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ کا بوجھ برداشت کرنا مشکل ہے.اس لئے لازمی طور پر ہمیں بھی ان کا خیال رکھنا پڑتا ہے.اگر اور مبلغ گئے تو اور خرچ ہوگا.پھر ایک اور علاقہ میں بھی تبلیغ کے رستے کھل رہے ہیں اور کچھ وقت کے بعد وہاں با قاعدہ مشن قائم کیا جا سکے گا.اسی طرح چین سے ایک بڑے عالم کا عربی اور انگریزی میں خط آیا ہے جس میں اس نے اپنے ملک میں احمدیت کی اشاعت کی طرف توجہ دلائی ہے.فلپائن میں بھی بعض نوجوان لٹریچر کے ذریعہ احمدی ہوئے ہیں اور تازہ اطلاع آئی ہے کہ وہاں طلباء کی ایک انجمن ہے جس کے آٹھ ممبر لٹریچر کے ذریعہ احمدی ہو گئے ہیں اور ان میں سے بعض نے دین کی اشاعت کے لئے اپنی زندگی بھی وقف کی ہے اور وہ ربوہ آ کر تعلیم

Page 201

۱۹۶ حاصل کرنا چاہتے ہیں.اب اگر وہ ربوہ آ کر تعلیم حاصل کرنا کریں گے تو ان کے یہاں قیام کے اخراجات بھی دینے پڑیں گے اور ایک طرف کا کرایہ بھی دینا پڑے گا.اس طرح ۲۵ ،۳۰ ہزار روپیہ کا خرچ اور بڑھ جائے گا.غرض ہمارا اشاعت اسلام کا کام ہر روز بڑھے گا اور اخراجات بھی بڑھیں گے جو آپ کو بہر حال برداشت کرنے پڑیں گے.ہمارے ملک میں ایک مثال ہے اور وہ بڑی سچی ہے کہ اونٹ شور مچاتے ہی لا دے جاتے ہیں.اسی طرح تم بھی چاہے کس قدر شور مچاؤ تمہیں تبلیغ کا کام بہر حال کرنا پڑے گا.اس سے تمہارا پیچھا نہیں چھوٹے گا.کیونکہ جب تم احمدی ہوئے تھے تو تم نے مان لیا تھا کہ نَحْنُ خَيْرُ أُمَّةِ ہم بہترین امت ہیں اور اگر تم بہترین امت ہو، تو تمہیں وہ کام کرنا پڑے گا جو خدا تعالیٰ نے قران کریم میں بہترین امت کا بیان کیا ہے.یا تو تم کہدو کہ ہم اچھے نہیں.ہم سے عیسائی اور یہودی اچھے ہیں اور یا یہ کہو کہ ہم اچھے ہیں اور اگرتم اچھے ہو تو تمہیں اشاعت اسلام کا کام بھی کرنا پڑے گا.اس تمہید کے بعد میں تحریک جدید کے نئے سال کے چندہ کا اعلان کرتا ہوں اور تحریک کرتا ہوں کہ دوست زیادہ سے زیادہ اس میں چندہ لکھوائیں اور پھر اسے جلد ادا کرنے کی کوشش کریں تا کہ پچھلا بوجھ بھی اترے اور آئندہ سال تبلیغ کا کام بہتر طور پر ہو سکے اور خدام اور انصار کے ذمہ لگاتا ہوں کہ وہ سارے دوستوں میں تحریک کر کے زیادہ سے زیادہ وعدے جلد سے جلد بھجوائیں اور خدا کرے کہ نومبر کے آخر تک ان کو وعدوں کی لسٹیں پورا کرنے کی توفیق مل جائے اور دسمبر کے آخر میں تحریک جدید اعلان کر سکے کہ اس کی ضرورتیں پوری ہوگئی ہیں.پچھلے سال میں نے تحریک جدید کا بجٹ بڑی احتیاط سے بنوایا تھا لیکن پھر بھی پتہ لگا ہے کہ تحریک جدید پر صیغہ امانت اور بعض دوسری مدات کا دو لاکھ چالیس ہزار روپیہ قرض ہے.اس لئے قربانی اور ہمت کی ضرورت ہے.مگر گھبراؤ نہیں خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی مالی حالت بہتر بنائے اور تمہیں مزید لاکھوں بھائی عطا فرمائے ، جن کے ساتھ مل کر تم اس بوجھ کو آسانی کے ساتھ اٹھا سکو.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے زمیندار ہی یورپ کے زمینداروں کی طرح محنت کریں تو ہماری آمد میں سو گنا اضافہ ہو سکتا ہے.یورپ کے بعض ممالک میں فی ایکٹر تین تین ہزار روپیہ آمد ہے اور ہماری جماعت کے پاس ڈیڑھ لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین ہے.اگر ہمارے زمینداروں کی آمد بھی تین تین ہزار روپیہ فی ایکڑ ہو تو

Page 202

۱۹۷ ان کی آمد ساڑھے پینتالیس کروڑ روپیہ سالانہ ہو جاتی ہے.اگر وہ اس کا چھ فی صدی چندہ دیں، تو جماعت کا چندہ دو کروڑ ستر لاکھ بن جاتا ہے اور اگر دس فیصدی دیں تو جماعت کا چندہ چار کروڑ پچاس لاکھ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے.پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت روز بروز بڑھ رہی ہے.گو جماعت کے دوست تبلیغ میں سستی کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے لوگوں کے کانوں میں احمدیت کی تعلیم ڈالتے رہتے ہیں اور وہ کھنچے ہوئے احمدیت کی طرف آجاتے ہیں.اگر ہمارے زمیندار محنت کریں تو خود بھی انہیں فائدہ ہوگا یعنی ان کی مالی حالت بہتر ہوگی اور ان کے بچے تعلیم پائیں گے اور ساتھ ہی تبلیغ بھی ہوگی اور وہ کنتم خیرامۃ میں داخل ہو جائیں گے اور ان کا نام خدا تعالیٰ کے حضور پہلے نمبر پر لکھا جائے گا.دیکھو اگر تم زیادہ نمازیں پڑھو گے تو اس کا ثواب صرف تمہارے حساب میں لکھا جائے گا لیکن اگر تم زیادہ تبلیغ کرو گے تو ساری دنیا اس سے فائدہ اٹھائے گی اور ساری دنیا کے ثواب میں تم شریک ہو جاؤ گے.( اقتباس از جمعه فرموده ۲۶ را کتوبر۱۹۵۶ء.بحوالہ الفضل ۶ - نومبر ۱۹۵۶ء صفحہ ۴ کالم۲)

Page 203

۱۹۸ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ظاہری اور باطنی قرب ملنے کی دعا مجلس انصار اللہ کراچی کے پہلے سالانہ اجتماع کے موقعہ پر پیغام تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اے احباب کراچی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ چونکہ میں اس دورہ میں بیماری سے دو چار رہا ہوں اس لئے یہاں کراچی آکر مجھے یہ موقعہ نہیں ملا کہ میں آپ لوگوں سے ملوں یا آپ لوگوں کو اپنے سے ملنے کا موقعہ دوں.دوستوں نے خواہش کی ہے کہ میں ٹیپ ریکارڈ پر کچھ الفاظ کہہ دوں اور وہ آپ کو سنا دیئے جائیں.سب سے پہلے میں آپ سے معذرت کرتا ہوں کہ کراچی میں آنے کے باوجود آپ کو وہ موقعہ نہیں ملا جو میزبان کو اپنے مہمان سے ملنے ملانے کا ملتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو میں پہلے ہی بیمار تھا.پھر بشیر آباد سے واپسی پر مجھے کار کا ایک حادثہ پیش آیا، جس کی خبر الفضل میں چھپ چکی ہے.اس حادثہ سے پہلے تو یہ خطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ بس اب خاتمہ ہی ہے.جو دوست میرے پیچھے پیچھے آرہے تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ جب یکدم آپ کی موٹر گری تو ہمارا دل دہل گیا کہ پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے.مگر جب آپ کا رسے باہر نکلے تو آپ کو دیکھ کر ہمیں تسلی ہو گئی کہ آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے صحیح و سلامت ہیں.پہلے خیال تھا کہ نخاع کٹ گیا ہے.لیکن ڈاکٹروں نے دیکھنے کے بعد بتایا کہ ایسا نہیں ہوا.کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آپ کھڑے نہیں ہو سکتے تھے لیکن میں کار سے باہر نکلا اور سہارا لے کر کھڑا ہو گیا.ناصر آباد جا کر میرے دائیں پاؤں پر نقرس کا شدید حملہ ہوا لیکن علاج کی وجہ سے جلد ہی افاقہ ہو گیا.پہلے تو چارپائی کے ساتھ ہی پاٹ رکھنا پڑتا تھا لیکن دوسرے تیسرے دن میں دوسرے کمرہ میں پاٹ کے ساتھ چلا جاتا تھا.پھر ایک دن ہم باغ میں سیر کے لئے بھی گئے لیکن جب ہم محمود آباد گئے تو چونکہ وہاں کی

Page 204

۱۹۹ آب و ہوا میں رطوبت زیادہ تھی، اس لئے وہاں مجھ پر نقرس کا دوبارہ حملہ ہوا.جو برابر ریل میں بھی کراچی پہنچنے تک جاری رہا.یہاں پہنچ کر با وجود اس کے کہ جماعت کے ڈاکٹروں اور شہر کے دوسرے چوٹی کے ڈاکٹروں سے علاج کرایا گیا، ابھی تک کوئی افاقہ نہیں ہوا اور اس وقت تک برابر اتنا درد ہے کہ میں نہ تو رات کو سو سکتا ہوں نہ دن کو آرام سے لیٹ سکتا ہوں.اس لئے میں مجبور ہوں کہ آپ سے مل نہیں سکا اور اس طرح میں نے آپ کے دل کو رنج پہنچایا ہے.امید ہے کہ آپ لوگ اس کا ازالہ دعا سے کریں گے.کیونکہ ہمارا اصل معالج خدا تعالیٰ ہی ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں: وَإِذَ مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ (سورة الشعراء آیت (۸) کہ جب میں اپنی بیوقوفیوں کی وجہ سے بیمار ہوتا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل سے شفا دیتا ہے.تو حقیقت یہی ہے کہ بیماریاں ہماری اپنی بیوقوفی سے آتی ہیں لیکن شفا خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے.ورنہ ڈاکٹر دیکھتے رہ جاتے ہیں اور انہیں پتہ نہیں لگتا کہ کیا بیماری ہے.مجھے بھی کل یہاں کے ایک چوٹی کے ڈاکٹر نے ، جن کی یورپ میں بھی شہرت ہے، کہا ہم آپ کی مرض کا خاطر خواہ علاج نہیں کر سکتے.کیونکہ عمر کے زیادہ ہونے کی وجہ سے آپ کا جسم بیماری کا مقابلہ نہیں کرتا.حالانکہ عمر کی زیادتی محض انسانی کم عقلی کا بہانہ ہے.ورنہ ایک دفعہ گجرات کا ایک شخص میری بیعت کرنے کے لئے آیا تو اس نے مجھے بتایا کہ اس وقت میری عمر ۱۱۸ سال کی ہے اور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں جوان تھا.تو انسان اپنی کوتا ہی کی وجہ سے بہانے بناتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ حکیموں اور ڈاکٹروں کو عقل دے تو انہیں علاج سوجھ جاتا ہے اور اگر خدا تعالیٰ انہیں عقل نہ دے تو کچھ بھی نہیں ہوتا.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا کام تو محض قارورہ سونگھنا ہے.ورنہ علاج تو اللہ تعالیٰ ہی سمجھا تا ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ سرگودہا کا ایک رئیس میرے پاس آیا.وہ اپنے آپ کو بہت بڑا رئیس سمجھتا تھا.میں نے اسے بیماری کا معمولی سا علاج بتایا ، تو اس نے برا منایا اور سمجھا کہ گویا میں نے اس کی ہتک کی ہے.پھر وہ غصہ سے کہنے لگا کہ آخر آپ لوگ پیشاب ہی سونگھنے والے ہیں.تو حقیقت یہی ہے کہ طبیب حقیقی خدا تعالیٰ ہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ علم طب محض ظنی ہے اور طبیب کو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ مرض کیا ہے.وہ محض تک مارتا ہے جو بعض اوقات صحیح بھی ہو جاتی ہے.میرا علاج وہی ہو رہا ہے جو جوانی کی عمر میں ہوتا تھا اور اس سے فائدہ ہو جاتا تھا، لیکن اب اس علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.کل ہی مجھ سے ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ یہ مر کا تقاضا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے، ایک شخص بیعت کے لئے میرے پاس

Page 205

۲۰۰ قادیان آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ اس کی عمر ۱۱۸ سال کی ہے اور وہ لاہور سے پیدل چل کر آیا ہے اور قادیان لاہور سے تقریبا ۷۰ میل دور تھا.پس اگر خدا تعالیٰ طاقت دے اور وہ بڑی قدرتوں کا مالک ہے تو ۱۱۸ سال کی عمر کا آدمی بھی 2 میل چل لیتا ہے.میرا تو ابھی سترھواں سال شروع ہوا ہے اور میں اس کے شروع میں ہی اتنا کمزور ہو گیا ہوں کہ اس کی کوئی حد نہیں.جب میں پڑھتا ہوں یا سنتا ہوں کہ میرے زمانہ میں اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچ گیا ہے، تو میں شرمندہ ہو کر خدا تعالیٰ سے کہتا ہوں کہ یہ محض ان کی حسن ظنی ہے ورنہ حق یہ ہے کہ میں وہ فرض پورا نہیں کر سکا جو تو نے میرے سپرد کیا تھا.اگر میں وہ فرض پورا کر لیتا تو اب تک اسلام دنیا کے کناروں تک پھیل چکا ہوتا.یہ میری غفلت اور کوتاہیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ابھی دنیا کے صرف چند ملکوں میں ہی تبلیغ ہوئی ہے.میں ۱۹۱۴ء میں خلیفہ ہوا تھا لیکن تحریک جدید جس کے ماتحت مبلغین باہر جاتے ہیں.اس کی ابتداء ۱۹۳۴ء میں ہوئی.گویا میں نے ۲۰ سال غفلت میں گزار دیئے.یعنی ۲۰ سال بعد جا کر کہیں مجھے ہوش آئی کہ ابھی بہت کام باقی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس عرصہ میں یورپ اور دیگر ممالک میں مساجد تعمیر کی گئیں ، جماعتیں قائم ہوئیں اور بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہوئے.لیکن اگر یہ تحریک ۲۰ سال قبل شروع کی جاتی تو شاید جماعت کی تعداد اور بھی بڑھ جاتی.بہر حال میں جماعت سے ان کی اس تکلیف کی وجہ سے ہمدردی کرتے ہوئے جزاکم اللہ کہتا ہوں.ایک خدمت ایسی ہوتی ہے کہ باتیں کرنے یا سننے سے اس کا کسی قدر بدلہ خدمت کرنے والے کومل جاتا ہے.لیکن آپ کو ایسی خدمت کی توفیق ملی ہے جو بغیر معاوضہ کے تھی.میں ابھی تک اس کا کوئی معاوضہ نہیں دے سکا.شاید اللہ تعالیٰ فضل کرے اور آپ کو اس خدمت کا بدلہ دے دے.پس میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو اس خدمت کا بدلہ دے اور ادھر مجھے صحت دے اور اسلام کی خدمت کی توفیق دے کہ میں اور آپ سب اسلام کی ترقی اپنی آنکھوں سے دیکھیں.پھر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں قادیان بھی دے.ہم اپنی زندگی میں قادیان جائیں اور ہم میں سے جو لوگ مستحق ہیں ان کو اللہ تعالیٰ بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب میں جگہ دے.خدا تعالیٰ کا قرب تو ہمیں ہر جگہ نصیب ہے أَيْنَمَا تُوَلُّوْافَتَمَّ وَجُهُ اللَّهِ (سورة البقرة آیت ۱۱۶)

Page 206

۲۰۱ جہاں بھی ہم جائیں خدا تعالیٰ موجود ہے لیکن خدا تعالیٰ کو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ دیکھا ہے.اس لئے ہمارا دل تڑپتا ہے کہ جہاں ہمیں خدا تعالیٰ کا ظاہری قرب نصیب ہے وہاں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ظاہری قرب بھی نصیب ہو.آپ کا قرب باطنی تو ہر ایمان والے کو حاصل ہے لیکن قادیان بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والے کو آپ کا ظاہری قرب بھی مل جائے گا.تو اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ظاہری اور باطنی دونوں قرب عطا فرمائے اور پھر صرف ہمیں ہی عطانہ فرمائے بلکہ دنیا کے سب لوگوں کو عطا فرمائے.کیونکہ سب لوگ ہمارے دادا حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور ایک دادا کی اولاد میں کوئی فرق نہیں ہوتا بلکہ وہ سب آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مجلس انصاراللہ کراچی کے پہلے سالانہ اجتماع منعقدہ ۷، ۸ مارچ ۱۹۵۹ء کے موقع پر دیا جانے والا پیغام جو بذریعہ ٹیپ ریکارڈرے مارچ ۱۹۵۹ء کو سنایا گیا.بحوالہ الفضل ۴ را پریل ۱۹۵۹ء ص۳)

Page 207

٢٠٢ مجلس انصار اللہ کے پانچویں سالانہ اجتماع کے موقعہ پر حضرت خلیفہ اس کا پیغام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ برادران ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ھوالناصر اب تحریک جدید کے نئے سال کا وقت آ گیا ہے ہماری جماعت کا چندہ پہلے سے ہزاروں گنا بڑھ جاتا چاہئے اور اگر آپ ہمت کریں اور تبلیغ کریں تو یقیناً بڑھ جائے گا اگر پہلے ایک لاکھ ہوتا تھا تو اب ایک کروڑ ہونا چاہئے.پس میں تحریک کرتا ہوں کہ آپ آئندہ سال تحریک کے لئے اپنے وعدے لکھوائیں اور اپنے شہروں میں جا کر تمام احمدیوں سے لکھوائیں تا کہ تحریک جدید کا چندہ نہ صرف کروڑ بلکہ کروڑوں ہو جائے.خدا تعالیٰ آپ کے مالوں میں برکت دے گا اور جماعت کو بھی بڑھائے گا کیونکہ روپیہ بھی خدا تعالیٰ کے پاس ہے اور طاقتیں بھی خدا کے پاس ہیں.قرآن مجید میں اللہ فرماتا ہے وَاعْلَمُو إِنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ یعنی وہ انسان کے خیال سے بھی زیادہ قریب ہے آپ جانتے ہیں کہ خیال انسان کے کتنا قریب ہے مگر خدا تعالیٰ اس سے بھی زیادہ قریب ہے پس خدا تعالیٰ سے دعائیں بھی کیجئے کہ خدا ساری دنیا کے دلوں کو احمدیت کی طرف پھیر دے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ” پھیر دے میری طرف اے ساربان جگ کی مہار عیسائیت کو ۱۹۵۹ ء سال ہو گئے مسیح محمدی کا زمانہ اس سے بڑا ہوگا.آپ کی جماعت میں انشاء اللہ کئی گنا زیادہ آدمی ہو گا اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت تک زندگی دے گا جب تک احمدیت دنیا کے چپہ چپہ پر پھیل چکی ہوگی اور دنیا کے تمام اموال احمدیت پر قربان ہورہے ہوں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعا ہزاروں گنا زیادہ شان و شوکت سے پوری ہوگی کہ پھیر دے میری

Page 208

طرف اے ساربان جگ کی مہار.پس اپنے چندوں کو بڑھاؤ اور خدا کی رحمت کو کھینچو کیونکہ جتنا تم چندہ دو گے اس سے ہزاروں گنا زیادہ تمہیں ملے گا اور دنیا کی ساری دولت کھینچ کر تمہارے قدموں میں ڈال دی جائے گی.جس کے متعلق تمہارا فرض ہوگا کہ سلسلہ احمدیہ کے لئے خرچ کرو تا کہ دنیا کے چپہ چپہ پر مبلغ بھیجے جاسکیں اور ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے اور دنیا کی ساری حکومتیں اسلام میں داخل ہو جائیں.آپ کو یہ بات بڑی معلوم ہوتی ہوگی.مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑی نہیں.پس میں اس اعلان کے ذریعہ تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز کرتا ہوں.مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی 1-11-59

Page 209

۲۰۴ مجلس انصاراللہ مرکز بیہ کے چھٹے سالانہ اجتماع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا پیغام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ أَعُوذُبِ اللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ برادران ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ هو الناصر مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں تحریک جدید کے نئے مالی سال کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے دوستوں کو اس تحریک میں زیادہ سے زیادہ جوش اور اخلاص کے ساتھ حصہ لینے اور اپنے وعدوں کو پچھلے سالوں سے بڑھ کر پیش کرنے کی طرف توجہ دلاؤں.تحریک جدید کوئی نئی یا عارضی چیز نہیں بلکہ قیامت تک قائم رہنے والی چیز ہے.اس لئے مجھے ہر سال کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں لیکن چونکہ مجھے کہا گیا ہے کہ میں اس بارہ میں اعلان کروں.اس لئے میں تحریک جدید کے نئے مالی سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں اور دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور زیادہ سے زیادہ مالی قربانی کا نمونہ دکھا ئیں تاکہ تبلیغ کا کام قیامت تک جاری رہے.یہ امر یا درکھو کہ ہماری جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام قیامت تک جاری رہے گا.پس ہمیں بھی سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارے سپرد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشاعت اسلام کا جو کام کیا گیا ہے.وہ قیامت تک جاری رہنے والا ہے اور ہمیں قیامت تک آپ کے جھنڈے کو بلند رکھنے کے لئے ہر قسم کی قربانیوں سے کام لینا پڑے گا.بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت اشرار الناس پر آئے گی لیکن اگر آپ لوگ نیکی پر قائم رہیں تو خدا تعالیٰ اس کو بدل بھی سکتا ہے اور بالکل ممکن ہے کہ قیامت اشرار الناس پر نہیں

Page 210

۲۰۵ بلکہ اخیار الناس پر آئے.یہ تو امت کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسا اچھا بنائے کہ خدا تعالیٰ اپنی تقدیر کو بدل دے اور قیامت آنے کے وقت بھی دنیا میں اچھے لوگ ہی ہوں برے نہ ہوں اور چونکہ اس زمانہ میں دنیا کی ہدایت کے لئے خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو کھڑا کیا ہے اور ہماری جماعت نے قیامت تک اسلام اور احمدیت کو پھیلاتے چلے جانا ہے.اس لئے ہماری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا فضل کرے کہ قیامت اچھے لوگوں پر ہی آئے اور ہماری جماعت کے افراد کبھی بگڑیں نہیں بلکہ ہمیشہ نیکی اور تقویٰ پر قائم رہیں.سلسلہ سے پورے اخلاص کے ساتھ وابستہ رہیں.اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرتے رہیں اور اپنے نیک نمونہ سے دوسروں کی ہدایت کا موجب بنیں.مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ لوگ بھی اپنا اچھا نمونہ دکھا ئیں اور دوسروں کو بھی اپنے عملی نمونہ اور جد وجہد سے نیک بنانے کی کوشش کریں.تا کہ قیامت اشرار الناس پر نہیں بلکہ اخیار الناس پر آئے اور ہمیشہ آپ لوگ دین کی خدمت میں لگے رہیں جو خدا تقدیریں بناتا ہے وہ اپنی تقدیروں کو بدل بھی سکتا ہے.اگر آپ لوگ اپنے اندر ہمیشہ نیکی کی روح قائم رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے فعل کے ساتھ اپنی تقدیر کو بھی بدل دے گا اور قیامت تک نیک لوگ دنیا میں قائم رہیں گے جو اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرتے رہیں گے.پس کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو قیامت تک لئے چلا جائے اور اخیار کی صورت میں لے جائے نہ کہ اشرار کی صورت میں اور ہر سال جو ہماری جماعت پر آئے وہ زیادہ سے زیادہ نیک لوگوں کی تعداد ہمارے اندر پیدا کرے اور ہماری قربانیوں کے معیار کو اور بھی اونچا کر دے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور وہ آپ کو اس تحریک میں پورے جوش او را خلاص کے ساتھ حصہ لینے کی توفیق اور ہمیشہ آپ کو خدمت دین کی توفیق عطا فرما تار ہے.اللھم امین.( بحوالہ الفضل یکم نومبر 1960ء)

Page 211

۲۰۶ تبلیغ کرنے کا تاکیدی ارشاد مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے آٹھویں سالانہ اجتماع پر پیغام أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ انصار اللہ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مجھے افسوس ہے کہ میں بیماری کی وجہ سے آپ کے جلسہ میں شرکت نہیں کر سکتا لیکن آپ کو آپ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.تبلیغ کریں، تبلیغ کریں، تبلیغ کریں یہاں تک کہ حق آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے اور دنیا میں صرف محمد رسول اللہ کی حکومت ہو.اسی کام کی طرف میں آپ کو بلاتا ہوں.اب دیکھنا ہے کہ مَنْ أَنْصَارِی إلى الله - ( سورة الصف آیت (۱۵) تحریک جدید کے نئے سال کا بھی اعلان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو قربانیوں کی توفیق دے.آمين اللهم آمين ا خاکسار مرز امحموداحمد خلیفہ المسیح الثانی مجلس انصار اللہ مرکیہ کے آٹھویں سالانہ اجتماع کے موقع پر بذریعہ ٹیپ ریکارڈر سنایا جانے والا پیغام.بحوالہ ماہنامہ انصار اللہ.ربوہ نومبر ۱۹۲۶ء)

Page 212

۲۰۷ خدائے واحد کے نام کی بلندی اور کفر اور شرک کی بیخ کنی کے لئے قربانی کریں انصار اللہ کے نویں سالانہ اجتماع کے موقع پر پیغام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ برادران جماعت احمدیہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر آپ لوگ جو اپنے سالانہ اجتماع میں شمولیت کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں.میں آپ سب کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کے ایمان اور اخلاص میں برکت دے اور آپ کو اور آپ کی آئندہ نسلوں کو بھی خدمت دین کی ہمیشہ زیادہ سے زیادہ تو فیق عطا فرماتا رہے.انصار کی تنظیم در حقیقت اسی غرض کے لئے کی گئی ہے کہ آپ لوگ خدمت دین کا پاک اور بے لوث جذبہ اپنے اندر زندہ رکھیں اور وہ امانت جسے آپ نے اپنے بچپن اور جوانی میں سنبھالا اور اسے ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھا، اس کی اب پہلے سے بھی زیادہ نگہداشت کریں اور اپنے بچوں اور نو جونوں کو بھی اپنے قدم بقدم چلانے کی کوشش کریں.بے شک ان کی تنظیمیں الگ الگ ہیں لیکن

Page 213

۲۰۸ اطفال الاحمدیہ آخر آپ کے ہی بچے ہیں اور خدام بھی کوئی علیحدہ وجود نہیں بلکہ آپ لوگوں کے ہی بیٹے اور بھائی ہیں.پس جس طرح ہر باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کرے.اسی طرح انصار اللہ کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی جماعت کے بچوں اور نوجوانوں کے حالات اور ان کے اخلاق کا جائزہ لیتے رہیں اور اگر خدانخواستہ ان میں کوئی کمزوری دیکھیں تو نرمی اور محبت کے ساتھ اس کو دور کرنے کی کوشش کریں اور اپنی ظاہری جد و جہد کے ساتھ ساتھ دعاؤں سے بھی اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت کو جذب کریں اور سب سے بڑھ کر اپنا نیک نمونہ ان کے سامنے پیش کریں تا کہ ان کی فطرت کا مخفی نور چمک اٹھے اور دین کے لئے قربانی اور فدائیت کا جذبہ ان میں ترقی کرے.اگر جماعت کے یہ تینوں طبقات اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھنے لگ جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری قومی زندگی ہمیشہ قائم رہ سکتی ہے.افراد بے شک زندہ نہیں رہ سکتے لیکن قوم اگر اپنے آپ کو روحانی موت سے محفوظ رکھنا چاہے، تو وہ محفوظ رکھ سکتی ہے.پس کوشش کرو کہ خدا تمہیں دائمی روحانی حیات بخشے.کوشش کرو کہ تم اپنے پیچھے نیک اور پاک نسلیں چھوڑ کر جاؤ تا کہ جب تمہاری موت کا وقت آئے تو تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور تمہاری زبان اللہ تعالیٰ کی حمد کر رہی ہو.تمہیں یہ امر بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ہر زمانہ میں حالات کے بدلنے کے ساتھ خدمت دین کے تقاضے بھی بدل جایا کرتے ہیں.اس زمانہ میں عیسائیت کا فتنہ سب سے بڑا فتنہ ہے.جس کے استیصال کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا اور کسر صلیب کا کام آپ کے سپر دفرمایا.پس اس زمانہ میں سب سے بڑی نیکی خدائے واحد کے نام کی بلندی اور کفر شرک کی بیخ کنی کرنا ہے.جس کے لئے جماعت کو مالی اور جانی ہر قسم کی قربانیوں سے کام لینے کی ضرورت ہے.میں نے اس امر کو دیکھتے ہوئے ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے دوستوں سے کہا تھا کہ پاکستان میں عیسائیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر شخص کو سال بھر میں کم از کم ایک ہفتہ وقف کرنا چاہئے.مجھے معلوم نہیں کہ جماعت نے عملی رنگ میں اس کا کیا جواب دیا اور صدرانجمن احمدیہ نے اس کی نگرانی کے لئے کیا کوششیں کی لیکن اگر ابھی تک ہماری جماعت نے اس کی طرف پوری توجہ نہ کی ہو تو میں ایک دفعہ پھر آپ لوگوں

Page 214

۲۰۹ کو اس فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں.عیسائیت کا فتنہ کوئی معمولی فتنہ نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آدم سے لے کر اب تک کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا ، جس نے اپنی امت کو دجال کے فتنہ سے نہ ڈرایا ہو.میں نہیں سمجھ سکتا کہ اتنے بڑے فتنہ کے ہوتے ہوئے ہماری جماعت کس طرح آرام کی نیند سو سکتی ہے اور کس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں میں وہ اپنے قیمتی وقت کو ضائع کر سکتی ہے.جب کسی کے گھر میں آگ لگ جاتی ہے تو لوگ بیٹھ کر گپیں ہانکنے نہیں لگ جاتے بلکہ پا گلا نہ طور پر ادھر ادھر دوڑنے اور آگ پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں.اگر یہی احساس ہماری جماعت کے اندر بھی موجود ہو تو کفر وشرک کی آگ جو اس وقت دنیا کو جلا کر خاکستر کر رہی ہے.اس کو بجھانے کے لئے آپ لوگوں کے اندر کیوں بے تابی پیدا نہ ہو.پس میں آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ وقت کی نزاکت کو سمجھو اور اس جہاد کی طرف آؤ جس سے بڑا جہاد اس زمانہ میں اور کوئی نہیں.آج ایک بہت بڑی روحانی جنگ دنیا میں لڑی جارہی ہے اور اسلام کے مقابلہ میں ایک بڑا بھاری فتنہ سر اٹھائے ہوئے ہے.ہماری تو راتوں کی نیند بھی اس فکر میں اڑ جانی چاہئے اور ہمیں اپنے تمام پروگرام اس نقطہ کے ارد گر د مرکز کرنے چاہئیں.بے شک تزکیہ نفس بھی ایک بڑی ضروری چیز ہے اور دعاؤں اور ذکر الہی سے کام لینا بھی ہر مومن کا فرض ہے مگر تبلیغ اسلام ایک نہایت وسیع اور عالمگیر نیکی ہے، جس میں حصہ لینے والا تزکیہ نفس اور دعاؤں اور ذکر الہی کی دولت سے بھی محروم نہیں رہے گا.پس دجالی فتنہ کے مقابلہ کے لئے اجتماعی کوشش کرو.اپنے اموال کی ہمیشہ قربانی کرتے رہو اور اپنے اوقات کو اس غرض کے لئے وقف کرو تا کہ اسلام دنیا میں غالب آئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا کے کونہ کونہ میں قائم ہو.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کے اس اجتماع کو ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب بنائے اور آپ کو اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور وقت کے تقاضوں کو صحیح رنگ میں شناخت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ لوگوں میں ایسا جذب روحانی اور اخلاص پیدا کرے کہ آپ لاکھوں لاکھ لوگوں کو احمدیت میں داخل کرنے کا موجب بن جائیں تا کہ قیامت کے دن ہم شرمندہ نہ ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں اور خطاؤں کو معاف فرماتے ہوئے اپنی رحمت کی چادر میں ہمیں چھپالے اور اپنے دین کے بچے اور جاں

Page 215

۲۱۰ شار خادموں میں شامل کرے.اے خدا تو ایسا ہی کر.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے نویں سالانہ اجتماع کے موقعہ پر سنایا جانے والا پیغام جو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے اجتماع کے افتتاح اجلاس میں یکم نومبر ۱۹۶۳ء کو۳ بجے سہ پہر پڑھ کر سنایا.بحواله الفضل مورخه ۳ نومبر ۱۹۶۳ء صفحها،۸)

Page 216

۲۱۱ حقیقی معنوں میں انصار بننے کی دعا انصار اللہ کے دسویں سالانہ اجتماع کے موقع پر پیغام تمہارا نام انصار اللہ " ہے تم نے اپنے اس نام کی عزت کا خیال ہمیشہ رکھنا ہے.خدا تعالیٰ تمہیں حقیقی معنوں میں انصار اللہ بنائے.آمین مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دسویں اجتماع کے موقع پر سنایا جانے والا پیغام جو محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ۱۳/ نومبر ۱۹۶۴ء کو تین بجے سہ پہر پڑھ کر سنایا.بحوالہ الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۶۴ء صفحه۱) صحیح معنوں میں انصار اللہ بننے کی توفیق پانے کی دعا انگریزی میں پیغام "My message is the God may enable you to become Ansarullah in true sense of the term.Khalifatul Masih Rabwah" ترجمہ: میرا پیغام یہ ہے کہ اللہتعالیٰ آپ لوگوں کو صیح معنوں میں انصار اللہ بنے کی توفیق عطا فرمائے.خلیفه ای ربوه ( مجالس انصاراللہ خیر پور ڈویژن کے سالانہ اجتماع منعقدہ ۱۲۰۱۱ار فروری ۱۹۶۱ء کے لئے بذریعہ تار بھجوایا جانے والا پیغام.بحوالہ ماہنامہ انصار اللہ مارچ ۱۹۶۱ء)

Page 217

اشاریہ سبیل الرشاد جلد اوّل مرتبہ: عبد المالک آیات قرآنیہ کلید مضامن اسماء مقامات 1.۱۳

Page 218

آیات قرآنیہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ يَاتِها الذِينَ آمَنُوا كُونُوا اَنْصَارُ الله...قَالَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّه ۱۰۲ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّادُمُتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي فَاذْهَبُ انْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَهُنَا قَاعِدُون ۱۰۹ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُو امِنْكُمْ وَعَمَلُو الصَّلِحَتِ ۲ كُنتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمُ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَرض كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ ۱۲۰ ۱۲۰ قَبْلِهِمْ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۴ الْمَلِكِ الْقُدُوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ.وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَة ثلةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ وَثُلَةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ وَالنَّازِعَاتِ غَرْقاً.......أَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ ۱۲۴ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةً بِاذْنِ اللَّهِ ١٩ وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ۱۳۲ قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي اَدْعُو إِلَى اللهُ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِي اتَّبَعَنِي ۴۲ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ۱۵۵ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّه وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِوَمَا اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ انْعَمْتَ هُم بِمُؤْمِنِينَ ۴۷ عَلَيْهِمْ الم ذَالِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدَى لِلْمُتَّقِينَ ۵۲ يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلقِيهِ ۱۷۴،۱۷۲ وَإِذَ مَرِضْتُ فَهُوَيَشْفِينِ ۱۹۹ أَيْنَمَا تُوَلُّوافَقَمْ وَجْهُ اللَّهِ ۲۰۰ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ ۲۰۲ ۵۷ ۵۸ ۵۹ 1+1 وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُون وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ حَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلْوَاوُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ

Page 219

122 ۵۱ ۵۵ ۱۲۵ ۲۰۹ ۱۶۷ آخرین کلید مضامین آخرین خدا بہت کی بڑی رحمتوں کے مستحق ہوں گے.آزادی اسلام کی کامیابی اور فتح میں حصہ لے سکے.اسلام کی بنیا و تقویٰ پر ہے.اسلام ر شخص آزادی کے ساتھ اپنے خیالات کو پھیلانے دنیا کی نجات اسلام میں ہے.کا حق رکھتا ہے.احمدی ۳۵ احمدی عیسائیوں کے نہیں بلکہ خدا کے ایجنٹ ہیں.۱۴۷ ہراحمدی اپنے اوقات کو صحیح طور پر صرف کرنے کی عادت پیدا کرلے.احمدیت احمدیت صحابہ کے نقش قدم پر ہے.احمدیت کی بنیا د انسان اور خدا کے تعلق پر ہے.۱۷ ۱۸ ۶۰ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس میں عورتوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے.اپنے اوقات کو اس غرض سے وقف کرو تا کہ اسلام دنیا میں غالب آئے.اطفال الاحمدیہ ان کے اعمال اور اقوام احمدیت کے قالب میں ڈھلے ہوئے ہوں.اصلاح اپنی اصلاح کے لئے گردو پیش کی اصلاح ضروری ہے.انصار الله انصار اللہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال سے دینِ اسلام کی خدمت نمایاں طور پر کریں.انصار اللہ سال میں ایک ہفتہ مقرر کریں جس میں دوسروں ۸۹ ۱۱۴ ۱۵۷ احمدیت کی غرض یہی ہے کہ بندہ اور خدا کا تعلق درست ہو جائے.احمدیت خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے جسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا.احمدیت کے لئے خدائی مدد احمدیت کی محبت جھگڑوں کو روکتی اور محبت کو بڑھاتی ہے.۱۶۸ کے اعتراضات سے جماعت کو آگاہ کریں.جو شخص بھی احمدیت میں داخل ہوتا ہے وہ اس بات یہی وہ زمانہ ہے جس میں خدا تعالیٰ عام طور پر کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ اس میں طاقت ہے کہ ۴۵ نبیوں کو اصلاح خلق کے لئے کھڑا کیا کرتا ہے.۸۶

Page 220

انصار اللہ کی ذمہ داری اور ملک الموت کا زمانہ ۸۹ ۱۰۲ بی نام قرآنی تاریخ میں دو دفعہ آیا ہے.عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں.۱۳۵ روپیہ سے بھی دین کی خدمت کریں اور روحانی طور پر بھی دین کی خدمت کریں.اپنے نمونہ سے اپنے بچوں، اپنے ہمسایہ کے بچوں اور اپنے دوستوں کے بچوں کو زندہ کریں.۱۳۷ ۱۹۱ انسان کے اندر بزدلی اور نفاق وغیرہ اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب دل میں ایمان بالغیب نہ ہو.بد دیانتی یہ سخت بد دیانتی ہے کہ انسان جس مذہب میں شامل ہو اس کے متعلق تو ابھی اُسے پوری واقفیت حاصل نہ ہو ۵۵ اور دوسروں کے لٹریچر کو پڑھنے میں مشغول ہو جائے.۴۰ برکت اگر تم حقیقی انصاراللہ بن جاؤ اور خدا سے تعلق پیدا کرلو برکت اسی کو حاصل ہوتی ہے جو با دلیل مانے.تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی طور پر رہے گی.۱۱۵ انفاق فی سبیل اللہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی چیزوں کو خرچ کرنا ایمان ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کو ایمان بصیرت پر قائم کریں.۵۷ ۴۳ جس کے اندر ایمان ہوتا ہے وہ کسی سے ڈر نہیں سکتا ا۵ ایمان کی طاقت بڑی زبر دست ہوتی ہے.جو قوم خدا تعالیٰ کی برکت کے نیچے ہوتی ہے وہ لوگوں کو کھینچے چلی جاتی ہے.پہرہ ایک قومی فرض ہے.احمدیوں کی تبلیغ کا رعب ره تبلیغ تبلیغ میں نرمی اور سچائی کا طریق اختیار کرو.۵۱ اگر ہم تعداد میں ترقی نہ کریں تو بھی دنیا کو کوئی فائدہ نہیں جماعت کے اندر ان امور کو رائج کریں تا کہ ان کا پہنچ سکتا.ایمان صرف رسمی ایمان نہ رہے حقیقی ایمان ہو جو انہیں ہمارا سب سے اہم فرض یہ ہے کہ اس پیغام کو جو حضرت ۳۹ ۴۴ ۶۱ ۴۴ ۵۹ خدا تعالیٰ کا حقیقی مقرب بنا دے.ایمان بالغیب ۵۹ مسیح موعود کے ذریعہ نازل ہوا دنیا کے کناروں تک پہنچا ئیں.نیک انجام پر ایمان لانا بھی ایمان بالغیب میں شامل ہے.۵۳ تبلیغ اسلام ایک نہایت وسیع اور عالمگیر نیکی ہے.قربانی کا مادہ بھی ایمان بالغیب ہی انسان کے اندر پیدا کر سکتا ہے.۵۴ تقوی تقویٰ کے لئے پہلی چیز ایمان کی درستی ہے.يؤمنون بالغیب کے ایک معنے امن دینا بھی ہیں.۵۵ تمام نیکیاں تقویٰ سے پیدا ہوتی ہیں.۲۰۹ ง : ۵۳ ۱۵۶

Page 221

۶ جماعت یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نبی کی جماعت کی اکثریت گمراہ ہو جائے.جماعت میں نئے لوگوں کے شامل ہونے کا اس ۲۲ آئے گا تو تم ان کو نظر نہیں آؤگے.جب تک خدا تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق رہے گا خدا تعالیٰ کا تعلق بھی ہمارے ساتھ رہے گا.۱۶۳ ۱۶۳ خدا تعالیٰ کے رستے کا ملنا معمولی بات نہیں ہوتی.۱۷۲ صورت میں فائدہ ہو سکتا ہے کہ شامل ہونے والوں قومی طور پر اسی وقت خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہوتا ہے کے اندرایمان اور اخلاص ہو.زندہ اور کام کرنے والی جماعت ۵۱ Al جب قوم کا ہر فرد اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستوں میں فتا کر دیتا ہے.ہماری جماعت کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم نے دنیا سب سے پہلا اور مقدم فرض جو ایک مسلمان کا ہے 10+ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت ہے.کی اصلاح کرنی ہے.جماعت کو خصوصیت سے اپنے فرائض کی ادائیگی کے وہ (خدا تعالیٰ ) انسان کے خیال سے بھی زیادہ لئے محنت کی عادت اختیار کرتی چاہیئے.ہماری جماعت وہ ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے مختلف ممالک میں پھیل رہی ہے.جماعت کے اندر سچائی کو قائم کیا جائے.جہاد ہر زمانہ کا جہادا لگ ہوتا ہے.یہ فیصلہ کرنا کہ اس زمانہ میں کس قسم کے جہاد کی ضرورت ہے، خدا کا کام ہے.۱۷۱ ۱۷۴ ۱۸۴ ۱۲ ۱۲ قریب ہے.خدام الاحمدیہ خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال سے خدمت احمدیت کو ثابت کر دیں.۱۷۵ ۱۸۰ ۲۰۲ ۳۰ خدمت خلق کے سلسلہ میں زیادہ وقت صرف کریں.۱۳۵ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے قیام کا اصل مقصد یہ ہے کہ جماعت میں مشقت طلب کاموں کی عادت پیدا ہو.اس زمانہ میں خدا نے تلوار کا نہیں بلکہ تبلیغ اور تربیت کا خدام الاحمد یہ وہ گلاس ہیں جن میں اسلام کی روح جہا درکھا ہے.۱۲ ہماری جماعت کے افراد کو شکاری پرندے بننا چاہیئے.۴۳ خدا تعالیٰ کو قائم رکھا جائے گا.خدمت خلق ۱۹۲ خدمت خلق کی روح نوجوانوں میں پیدا کریں.۵۸ خدا تعالیٰ کا کوئی فعل نہ جانتے ہوئے نہیں ہوتا.۷۴ خدمت خلق کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ وقت خدا تعالیٰ اگر تمہارے ساتھ ہوگا تو دشمن تمہارے گھر پر صرف کریں.۱۳۵

Page 222

۴۵ ۱۵۹ ۱۳۶ ۱۲۳ ۷۵ ۴۶ خلافت اگر تم نے خلافت کو قائم رکھا تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں تباہ نہیں کر سکے گی.دوسروں کے دلائل سے آگاہ رکھیں.دین جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کے دین کی تائید اور نصرت اگر تم نے خلافت کے نظام کو توڑ دیا تو تمہاری کوئی کے لئے عزم کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کی حیثیت باقی نہیں رہے گی.یہ صرف خلافت ہی کی برکت تھی جس نے احمدیوں کو ایک نظام میں پرو دیا.نظام ہی کا دوسرا نام خلافت ہے.۱۱۶ ۱۱۷ ۱۴۹ مدد کرتے ہیں.ذکر الہی آپ لوگوں کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہیئے اور اپنی اولادوں کو بھی ذکر الہی کی تلقین کرتے رہنا خلافت خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے چاہیئے.اور اس نے خود دینی ہے.دعا دعاؤں کے ساتھ انسان کا اپنا ارادہ اور امنگ بھی ۱۲۰ رویا جس جماعت میں صاحب رویا و کشوف زیادہ ہوں شامل ہونی چاہیئے.۹۳ مضبوط ہوتی ہے.زكوة دعاؤں میں لگے رہو اور اپنے کام کو تا قیامت زندہ رکھو.۱۹۳ انسان کے نفس کی پاکیزگی اور اس کے قلب کے تزکیہ پس دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ کے حضور میں اتنا گڑ گڑا ؤ کے لئے ایک نہایت ہی ضروری چیز ہے.اور اتنی کوششیں کرو کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سچائی اگر ہمارے پاس سچائی ہے تو ہمیں مخالف کی کس بات کا خوف ہو سکتا ہے.۱۹۴ سے تمہاری مدد کے لئے اُتر آئیں.دلیل اسلام یہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان دلائل اور شواہد کی بناء جب تک کسی قوم میں سچائی قائم رہتی ہے وہ ہارا نہیں پر اپنے تمام اعتقادات رکھے.جو قوم کسی بات کو بے دلیل مان لیتی ہے وہ کبھی برکت حاصل نہیں کر سکتی.برکت اسی کو حاصل ہوتی ہے جو با دلیل مانے.ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی جماعت کے تمام افراد کو ۳۸ ۳۹،۳۸ ۳۹ ۱۸۲،۱۷۱ کرتی.صحابة صاحبہ کی پانچ ذمہ داریاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متابعت میں سارے کام کرتے تھے.۱۳ ۱۴

Page 223

صحابہ سے دین کا کام حکما لیا جاتا تھا.۱۸ اس کی غذا متقی ہی کے لئے طاقت اور قوت کا موجب صحابہ کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ دینی احکام کے ہوسکتی ہے.متعلق کسی قسم کے چون و چرا کریں.انہیں حکم دیا جاتا اور وہ فورا اطاعت کے لئے کھڑے ہو جاتے صحابہ کا آنحضور سے عشق ΙΔ ۲۲ ۱۲۰،۱۰۷ بسم اللہ کی 'ب“ سے لے کر والناس کی 'س' تک کوئی حصہ بھی ایسا نہیں جو قابل عمل نہ ہو.۵۲ ۱۵۳ گزشتہ تیرہ سوسال کے عرصہ میں جس نے بھی قرآن کریم پر سچے دل سے عمل کیا ہے اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ اس ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے، بائیں بھی لڑیں گے.کے شاملِ حال رہی ہے.عجز وانکسار 109 ۱۵۴ خدا تعالیٰ سے تعلق قرآن کریم سے پیدا ہوتا ہے.۱۵۶ قادیان انسان اگر کامیاب ہونا چاہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ قادیان واپس جانے کی پیشگوئیاں بجز اور انکسار کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرے.عورت عورتوں کو حصہ دینے کا حکم ۹۳۹۲ قربانی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری جماعت قربانیوں IAZ ۵۸ مسجد ہیگ (ہالینڈ) عورتوں کے چندہ سے بنائی گئی ۱۲۵ احمدی عورتوں کی قربانی ۱۲۷،۱۲۶ چلی جائے.کے میدان میں ہمیشہ آگے ہی آگے اپنا قدم بڑھاتی مذہب ۱۳۲ ہمارا مذ ہب یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود رسول کریم 11 مذہب دنیا میں امن پیدا کرنے کے لئے آتے ہیں.۳۵ عورتوں کی تعلیم اور اصلاح کا خیال رکھا جائے.۱۸۲ کے ظلل اور تابع تھے.قرآن کریم شخص جو تعلیم قرآن کے کام سے گریز کرتا ہے.مذہبی دنیا میں روحوں کے متحد ہونے سے کامیابی ہوا وہ احمدیت سے گریز کرتا ہے.۱۴ سارا قرآن مرزا صاحب کی صداقت سے بھرا ہے.۴۶ کرتی ہے.مسلمان مومن قرآن کی ہر آیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ثابت کرتی ہے.۴۷ نشانات الہیہ بیان کرے.۹۴ ۱۲

Page 224

۵۶ ۵۶ ۶۰ اولاد کو نماز کا پابند بنانا اشد ضروری ہے.نہ پڑھنے پر ۱۳ لوگوں کو مالی اور اقتصادی ترقی میں حصہ لے دینی لحاظ سے مسلمان کے معنے ولی اللہ کے ہوا کرتے ہیں.سزا دینی چاہیئے.۲۰ اقامت نماز ضروری ہے.اس میں خود پڑھنا، دوسروں دنیا میں بہت کم کسی قوم نے اتنی لمبی حکومت کی ہے کو پڑھوانا ، اخلاص اور جوش کے ساتھ پڑھنا، با وضو جتنی مسلمانوں نے کی.مسیح موعود آپ کی کتب کو بار بار پڑھایا جائے.آپ کے قرآنی علم کا اعتراف ۶۸ ۵۵ ۱۱۸ ہو کر ٹھہر ٹھہر کر با جماعت اور پوری شرائط کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے.ایک شخص جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے اور پھر نماز نہیں پڑھتا تو وہ کسی صورت احمدی نہیں کہلا سکتا.کوئی شخص آپ کی عظمت کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا ۱۱۸ نمازوں کے وقت دوکانیں کھلی نہیں ہونی چاہئیں.۶۱ حضرت مسیح موعود نے وہ دلائل اور براہین دیئے جو نماز کے متعلق ہر شخص اپنے ہمسایہ کی جاسوسی کرے.عیسائیت کے پاس نہیں.۱۵۱ روحانیت کی درستی کے لئے نماز ضروری ہے.حضرت مسیح موعود نے فیصلہ کر دیا کہ قرآن کی ہر آیت جب تک با جماعت نماز نہ ادا کی جائے سوائے معذوری قابل عمل ہے.مہمان نوازی ۱۵۳ مہمان نوازی تین دن کی ہوتی ہے.اس کے بعد صدقہ ہوتا.تا ہے.نماز کوئی شخص ایسا نہ رہے جو مسجد میں نماز با جماعت پڑھنے کا پابند نہ ہو.اسلام نماز پڑھنے کا نہیں بلکہ قائم کرنے کا حکم دیتا ہے.۱۵۴ ۱۷ کے نماز اللہ تعالیٰ کے حضور قبول نہیں ہوسکتی.ہم میں سے ہر شخص نماز با جماعت کا پابند ہو.ہدایت دنیا میں ہدایت کے قیام کے لئے متواتر اماموں کا آنا ضروری ہے.ہم عمر ہم عمر ہی ہم عمروں کو اچھی طرح سمجھا سکتے ہیں.۷۴ ۱۸۰ ۱۸۰ ท ۹۷ ۵۶

Page 225

2 ۴۱ ! 3 ; ۹۷ ง 14.۲۳۱۷ ۱۱۲ ۱۳۲ ۱۳۲ ۵۴ ۱۱۲ د ذ ر ز 1.اسماء آدم علیہ السلام آر ابراہیم علیہ السلام آپ کی دعا آپ کی دعا سے مراد خاتم النمین تھے ابوایوب انصاری ابوبکر ۲۰۹،۲۰۱،۱۲۹،۱۲۴ ۱۱۹ ۱۹۹،۱۳۶،۳،۲،۱ داؤد علیہ السلام ذکریا علیہ السلام ام رحمت الله : شیخ روشن علی : حافظ 1.2 زبیر ۱۵۴،۷۰،۳۲ س ش ص ۱۵۴،۵۴ ۱۱۳ سلیمان علیہ السلام شریف احمد: صاحبزادہ مرزا ۵،۴ شیر علی مولوی ۱۱۸ صدر الدین مولوی ۱۴۹ ط ع غ طارق طاہر احمد حضرت مرزا طلو عائشہ (حضرت امیر المؤمنین) عبدالرحمن بن عوف عبدالرحمن مصری: شیخ ۲۰ IZACZY ۳۲ ۵۴ ابو جہل اجمل خاں حکیم الیاس علیہ السلام الہ دین حکیم امری عبیدی با وانا تک بشیر احمد ج - ح - خ جلال الدین شمس: مولانا حسین کامی (ترک سفیر ) خالد بن ولید

Page 226

۱۳۳۱۳۲ ۵۱ ۱۳۱ ۱۹ ۶۹،۶۸ ک مگ کرم الہی ظفر کمال الدین خواجہ کنزے: مسٹر کھڑک سنگھ : سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۴۷،۵۲،۱۰،۸،۶،۵،۱ ۱۹۳،۱۶۳،۱۵۱،۱۳۷ ، ۱۰۷ ، ۱۰۶ ،۱۰۵،۱۰۲ آپ کا ظل آپ کے تابع ہوگا ۶،۵ آپ نے جو کام کئے وہی مسیح موعود کے سپرد ہیں ۸ پہلے اونٹ کا گھٹا باندھو پھر تو کل کرو ۹۳ ۹۷ ۱۷۴ ۱۴ ۴۴ ३ ۱۲۲،۱۱۴ ۱۱۲،۱۹ ۱۳۳ ۱۱۹ ۶۸ ۱۸۴ ۱۷۶،۱۳۷ محمد احسن امروہی محمد اسماعیل شہید محمد شریف : ڈپٹی محمد شریف رئیس محمد علی مولوی محمد ظفر اللہ خان سر محمود احمد: حضرت مرزا ملک ارسلان منور احمد: صاحبزادہ مرزا منير الحصيني ۱۶۳ ۲۳۱۷ ۱۱۳۱۱۱ ۱۶۲۱۶۱،۱۶۰،۱۱۳۱۱۱ ۱۷۴ ง 4.171 ۵۴ ۳۲۲۲ ۱۲۷ ۷۰،۶۸،۶۷ ،۳۲ ۱۵۷ ، ۱۰۴ ۱۰۲،۴۷ ،۶،۵،۲ ۷۲ 2 11 ۱۱۲ ۱۹۷ ۲۳۱۷ لا ۱۱۸ ۱۵۵ عبدالرحمن: مولوی عبد الرحیم ورد عبد السلام عبد المنان عبداللہ غزنوی عثمان عزیز الرحمن : مولوی حکومه على علی محمد : راجہ عمر عیسی علیہ السلام غلام احمد : مرزا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ نبی بھی ہیں اور امتی بھی آپ آنحضور کے نظل اور تابع تھے غلام محمد : ڈاکٹر غلام نبی (ایڈیٹر الفضل) فتح محمد : چوہدری فرق فرزند علی مولوی فضل دین حکیم قارون

Page 227

۶۹ ۱۶۰،۱۳۹ ۱۱۳۹۰ ،۷۷ ۱۶۱ ۱۶۰ ۱۴۵ 11+ ^ نظام الدین طوسی نور الحق: مولوی نورالدین حکیم: حضرت آپ کا انکسار هی ولیم سن: جه ی یہودا اسکر یوطی یحیی علیه السلام ۱۲ ۱۱۸،۱۰۹،۱۰۴ ،۴۷ ،۶،۵ ۱۲۳ ۶۹ ۱۲۱ ۲۱۰،۱۹۰،۱۸۹ ۱۳۹ ۱۵۷ موسیٰ علیہ السلام موسیٰ موسیٰ رضا امام میور ناصر احمد: حضرت مرزا ناصر: کرنل نظام الدین اولیاء

Page 228

۱۳۱ I 2-2 ۱۸۵ ۱۸۵،۱۴۰،۱۳۰،۱۲۵،۱۱۷ Whi 171 ۱۲۶ ١٢٦ ۲۱۱ ۱۵۶،۱۲۷،۱۱۳ ۱۲۲ ۱۹۶،۱۹۵،۱۴۸،۱۳۱ الله له الله الله الله آ - ( مقامات ٹیونس جاپان جرمنی جموں جھنگ چنیوٹ چین خیر پور در وہلی راولپنڈی ربوه روم سیش پین ۱۸۵،۱۴۴،۱۴۱،۱۳۴،۱۳۳،۱۳۲،۱۷ سرگودھا ۱۲۲ ۱۵۱ الده ۱۹۵،۱۴۴ سری نگر سعودی عرب سکنڈے نیویا الله الله ا ۱۴۵،۱۴۰،۱۳۸،۱۳۰،۱۲۷، ۴۴ الدله ۱۹۵،۱۹۲۱۵۰،۱۴۱ ۱۴۰ ۱۳۹ ۱۳۱ ،۱۱۷ ۷۷ ۱۵۸،۱۳۰ ۱۲۷ ،۱۲۶،۱۱۷ ،۴۴ آسٹریلیا افریقہ امرتر امریکہ انبالہ انڈونیشیا انگلینڈ.انگلستان (لنڈن).۱۹۲۱۸۴،۱۵۱ ۱۵۰ ۱۴۴ ۱۴۰ ۱۹ ۱۹۸ ۱۳۰ ۱۶۲ ۱۳۰ ۲۰۸،۱۳۸،۱۲۹ الله ۱۶۰،۳۸ ۷۳ بسراواں بشیر آباد.(سندھ) بمبئی بھویال بھیرا پرٹ پاکستان پسرور پشاور پنجاب

Page 229

گولڈ کوسٹ لاہور محمود آباد (سندھ) مدینہ مری ليم الله ۲۰۰،۱۵۲،۱۲۲،۸۸،۸۲،۵۱،۴۸،۱۹ ۱۹۸ ۱۸۸،۱۸۶،۱۸۵،۱۰۹،۶۲ ۱۵۲۱۲۲ 111 ۱۸۸،۱۸۷،۱۸۶،۱۸۵،۱۳۲،۶۲،۴،۲ ۱۴۵ ۱۹۸ ۱۳۱ ۱۵۰ الدله الله ۵۹،۵۰،۱۹ ۱۲۵ ۱۲۵ ۶۷ 71PWPL61661 مشرقی بنگال ދނ مکه نو نائجیریا ناصر آباد نیویارک وزیر آباد ہی ہالینڈ ہندوستان میگ ہیمبرگ ید علم یورپ اله الدلد " ۱۱۳۷۲ الده الده الد لدله ۱۳۱ ۱۱۷ الله 601 ع فق ۱۸۵،۱۴۴ ،۱۱۷ ۱۹۵،۱۴۰،۱۳۹،۱۳۸،۱۳۱ ۱۹۲ ،۲۴،۲۳،۲۱،۲۰،۱۹،۱۸ ،۱۷ ،۱۶،۵ ،۱۶۰،۱۱۲،۸۲،۷۲ ، ۱ ، ۶۱ ، ۶۰ ، ۴۱ ۲۰۰،۱۸۸،۱۸۷،۱۸۶،۱۸۵،۱۷۸ ۲۰۱،۱۹۹،۱۹۸ ،۱۴۹ ۱۶۳۱۵۱ ۱۵۷ ،۱۱۷،۷۲ VV'711 ۷۲،۵۱ سوئٹزرلینڈ سندھ سیالکوٹ سیرالیون شام شکا گو شیخو پوره فرانس فلپائن فلسطین قادیان ک مگ کراچی کشمیر گجرات گوجرانولہ گورداسپور

Page 229