Language: UR
ہر ملک و قوم کے بچے اور نوجوان اپنے مشاہیر کے حالات زندگی کا مطالعہ کرکے اپنے لئے مستقبل کے طرز عمل کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ زیر نظر کتابچہ صحابی رسول حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے حالات زندگی پر مشتمل ہے ،جنہوں نے کائنات کی سب سے معززہستی کی رفاقت کی خوش نصیبی بھی پائی اور اسی کی غلامی اور اطاعت میں اعلیٰ اخلاق کے قرینے سیکھے اور اسی دنیا میں جنت کی بشارت حاصل کرنے والوں میں شامل ہوئے۔ سفر و حضر میں نبی کریم ﷺ کی معیت و قربت کا شرف پانے والے اس بزرگ وجود نے فاتح ایران بن کر متعدد پیش گوئیوں کی تکمیل میں بھی حصہ پایا۔اپنے زمانہ کی سپر پاور سمجھی جانے والی سلطنت ایران پر فتح پاکرشاہ کسریٰ کے دارالخلافہ مدائن کے محلات کو محمد عربی ﷺ کے قلمرو میں شامل کرنے کا فخر سمیٹا۔
سوانح حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نام کتاب: سوانح حضرت سعد بن ابی وقاص تاریخ طبع سوم: مئی 2004ء تعداد: ایک ہزار ناشر:.عزیز احمد
دیباچه ہر قوم اور ملک کے بچے اور نوجوان اپنے مشاہیر کے حالات زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تا کہ اُن کے نقش قدم پر چل کر خود بھی اپنی زندگی سنوار اور سکیں.جماعت احمدیہ کے خدام و اطفال کے لئے دراصل آنحضور علیا آپ کے صحابہ رضوان اللہ میم سے بڑھ کر اور کوئی نمونہ نہیں اسی غرض سے شعبہ اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان نے صحابہ کرام کے حالات زندگی پر مشتمل چھوٹی چھوٹی کتب شائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے تا کہ خدام و اطفال ان کتب سے مستفید ہوسکیں.
پیش لفظ مبارک ہیں وہ لوگ جنہیں اُس ہستی کی رفاقت نصیب ہوئی جس کے آنے سے انسانیت کی تکمیل ہوئی.جو خالق کا ئنات کا عکس تھی جس کے ذریعہ صفات الہیہ کا ظہور ہوا اور اعلیٰ اخلاق کی تعمیل ہوئی یعنی حضرت اقدس محمد مصطفى عمال قرآن کریم آپ کے صحابہ کے متعلق فرماتا ہے:.ވނ ترجمہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور جولوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے خلاف بڑا جوش رکھتے ہیں لیکن آپس میں ایک رے سے بہت ملاطفت کرنے والے ہیں.جب تو انہیں دیکھے گا تو انہیں شرک سے پاک اور اللہ کا مطیع پائے گا.وہ اللہ کے فضل اور رضا کی جستجو میں رہتے ہیں.ان کی شناخت ان کے چہروں پر سجدوں کے نشان کے ذریعہ موجود ہے“.(الفتح آیت ۳۰) آنحضور ﷺ نے ان خوش قسمت وجودوں کے متعلق فرمایا کہ میرے صحابہ شستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت اللہ عنہ ہیں جو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں.یعنی ان دس بزرگ صحابہ میں جنہیں آنحضور ﷺ کے ذریعہ اپنی زندگی میں ہی ایک موقعہ پر جنت کی بشارت مل چکی تھی.الله پاؤ گے.آسمان کے انہی ستاروں میں سے ایک حضرت سعد بن ابی وقاص رضی
انتساب الله صلی عن عبدالرحمان بن عوف قال قال رسول الله عليه وسلم ابوبكر في الجنة و عمر في الجنة و عثمان في الجنة و على في الجنة و طلحة في الجنة والزبير في الجنة و عبدالرحمان بن عوف فى الجنة و سعد بن ابي وقاص في الجنة و سعيد بن زيد فى الجنة وابو عبيدة بن الجراح في الجنة.( ترمذی کتاب المناقب باب مناقب عبد الرحمان بن عوف) آنحضرت ﷺ نے جن دس صحابہ کو جنت کی بشارت دی تھی اُن کو اصطلاحاً عشرہ مبشرہ کہتے ہیں ان کے اسماء حسب ذیل ہیں:.ا.الله حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (خلیفہ اوّل) حضرت عمر رضی اللہ عنہ (خلیفہ ثانی).حضرت عثمان رضی اللہ عنہ (خلیفہ ثالث ) ۴.حضرت علی رضی اللہ عنہ (خلیفہ رابع ) حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ.حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ.حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ ۱۰.حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ
2 1 تعارف حضرت سعد بن ابی وقاص قریش کے قبیلہ بنی زہرہ میں سے تھے.یہ وہی قبیلہ ہے جس میں ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کی والدہ محترمہ سیدہ آمنہ علیھا السلام تھیں.حضرت سعد کی پیدائش مکہ میں ہوئی وہ 19 سال کی عمر میں مسلمان ہوئے.ان کا شمار بہت ابتدائی صحابہ میں ہوتا ہے.حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے جن دس خوش نصیب صحابہ کو بطورِ خاص جنت کی بشارت دی ان میں حضرت سعد بھی شامل ہیں.ہجرت مدینہ تک سعد مکہ میں رہے اور آنحضرت ﷺ اور باقی صحابہ کے ساتھ قریش کے مظالم کو صبر اور بہادری سے برداشت کرتے رہے.جب ہجرت مدینہ ہوئی تو سعد بھی مدینہ ہجرت کر گئے.الله ہجرت مدینہ کے بعد سعد تمام غزوات النبی ﷺ میں شامل ہوئے.غزوہ اُحد میں حضور علیہ نے زخمی حالت میں جن صحابہ کے ساتھ مل کر دفاع کیا ان میں سعد بھی شامل تھے.انتہائی خطرے کے عالم میں حضور علیہ انہیں تیر پکڑاتے رہے اور وہ اپنی کمان سے دشمن پر تیر پھینکتے رہے اور آنحضرت ﷺ ساتھ ساتھ سعد کو دعائیں دیتے رہے.حضرت ابوبکر کے زمانہ خلافت میں سعد نجد میں بنو ہوازن سے زکوۃ وصول کرنے پر مقرر تھے اور عامل کہلاتے تھے.یہ وہ زمانہ تھا جب ایران اور شام میں حضرت خالد بن ولید کو سپہ سالار بنا کر بھیجا گیا.انہوں نے دونوں عظیم طاقتوں کی یکے بعد دیگرے بنیادیں ہلا دیں.حضرت عمر کی خلافت کے آغاز پر دونوں محاذوں پر لڑائیاں جاری تھیں.زیادہ زور شام کے محاذ پر تھا.شام کے محاذ پر ابوعبیدہ بن الجراح کو سپہ سالار اعظم بنایا گیا.جب مسلمان شام میں نمایاں فتوحات حاصل کر رہے تھے اس دوران ایران (عراق) میں خطرات بڑھ گئے.کسری فارس نے بہت بھاری تعداد میں فوجیں اکٹھی کیں جن میں گھوڑے ہاتھی ( بلکہ ایک موقع پر شیر ) بھی شامل تھے تا کہ ایک ہی وار میں مسلمانوں کو نیست و نابود کر دیا جائے.اس وقت پہلے حضرت عمرؓ نے خود عراق کے میدان جنگ میں اترنے کا ارادہ کیا.لیکن پھر صحابہؓ کے مشورہ پر خود دارلخلافہ مدینہ میں رہنا منظور فرما لیا اور ایران (عراق) کے محاذ کے لئے حضرت سعد بن ابی وقاص کا انتخاب کیا اور سپہ سالار بنا کر قادسیہ کے میدان میں بھیجا.جہاں حضرت سعد بن ابی وقاص نے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے اور کسری فارس کا دارالحکومت مدائن حضرت سعد کے ہاتھوں فتح ہوا.اپنی وفات سے قبل حضرت عمرؓ نے چھ اصحاب رسول ع پر خلافت ثالثہ کے انتخاب کے لئے جو کمیٹی مقرر فرمائی.ان میں حضرت سعد کا نام بھی شامل فرمایا.حضرت عثمان کی خلافت کے دوران بھی سعد کو خدمات کی توفیق ملتی رہی.حضرت عثمان کی شہادت کے بعد سعد گوشہ نشین ہو گئے اور ایک لمبا عرصہ عبادات اور دعاؤں میں گزارا.سن 55 ھجری میں مدینہ سے دس میل دور عقیق کے مقام پر حضرت سعد نے وفات پائی.انہیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا.آؤ بچو! آپ کو حضرت سعد بن ابی وقاص کی کہانی ان کی زبانی سنائیں.ย مشتمل
4 3 ابتدائی حالات اور قبولیت اسلام میرا نام سعد ہے میرے والد کا نام (ابو وقاص ) مالک اور والدہ کا نام حمنہ تھا.والد کی نسبت سے میرا سلسلہ نسب پانچویں پشت پر اپنے آقا حضرت اقدس محمد اللہ سے جاملتا ہے.حضرت رسول اکرم ﷺ کی والدہ حضرت سیدہ آمنہ علیھا السلام بھی میرے خاندان بنوزہرہ میں سے تھیں.اور میرے والد کی چچا زاد بہن لگتی تھیں.والدہ کے خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے محمد رسول اللہ اللہ مجھے ماموں کہا کرتے تھے.حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت حمزہ کی والدہ میرے والد کی حقیقی بہن تھیں.اس طرح محمد رسول اللہ ﷺ کے خاندان سے میرا دو ہرا تعلق بنتا ہے.میری والدہ قریش کے قبیلہ بنو امیہ میں سے تھیں اور حرب بن امیہ کی پوتی اور ابوسفیان کی چچا زاد بہن تھیں.میری پیدائش آنحضرت علی کی پیدائش سے تقریباً 21 سال بعد سن 592ء میں ہوئی.مجھے اسلام کے آغاز پر ہی ایمان لانے کی توفیق مل گئی تھی.صلى الله میرے بڑے بھائی کا نام عقبہ بن ابی وقاص تھا.وہ بہت پہلے یثرب چلا گیا تھا.اسے اسلام قبول کرنے کی توفیق نہیں ملی.میرا ایک چھوٹا بھائی عمیر بن ابی وقاص تھا جو مکی دور میں ہی مسلمان ہو گیا تھا.اس نے میرے ساتھ ہجرت کی تھی اور آخر کار بدر کی جنگ میں بہادری سے لڑتا ہوا شہید ہو گیا.حضرت محمد ﷺ نے چالیس سال کی عمر میں جب مکہ میں نبوت کا دعویٰ فرمایا اس وقت میں 19 سال کا تھا.حضرت ابوبکر ایمان لانے میں سب پر سبقت لے گئے.مجھے اسلام کا پیغام حضرت ابوبکر کے ذریعے سے پہنچا.حضرت ابوبکرؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد پہلے حضرت عثمان بن عفان حضرت زبیر بن العوام حضرت عبدالرحمن بن عوف مجھے اور حضرت طلحہ بن عبید اللہ کو تبلیغ کی اور ہم سب ایمان لے آئے.مسلمان ہونے سے پہلے میں نے ایک بار خواب میں دیکھا کہ گویا میں تاریکی میں ہوں مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا ایک دم میرے سامنے چاند روشن ہو گیا اور میں اس کے پیچھے چل پڑا.میں نے دیکھا کہ مجھ سے پہلے حضرت زید بن حارثہ اور حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت ابوبکر بن قحافہ پہلے ہی وہاں پہنچ چکے ہیں.میں نے پوچھا آپ لوگ اس جگہ کب پہنچے؟ انہوں نے جواب دیا، ابھی.چنانچہ اسی طرح ہوا جس طرح خواب میں دکھایا گیا تھا.کیونکہ حضرت علیؓ اور حضرت زید حضرت رسول کریم ﷺ کے گھر میں بچوں کی طرح رہ رہے تھے.اس لئے انہیں سب سے پہلے محمد رسول اللہ ﷺ کے دعوی نبوت کا علم ہوا اور وہ ایمان لے آئے باہر کے لوگوں میں حضرت ابوبکر نے سنا تو وہ ایمان لے آئے.اس کے بعد حضرت ابو بکر کے ذریعہ اسلام کا پیغام ہم تک پہنچا اور ہم پانچ نوجوان ایمان لے آئے.ہمارے بعد قدرے جلدی جو لوگ اسلام کی آغوش میں آئے ان میں ابو عبیدہ بن الجراح عبیدہ بن الحارث ابو حذیفہ بن عتبہ سعید بن زید عثمان بن مظعون، عبداللہ بن جحش، عبید اللہ بن جحش (جو بعد میں عیسائی ہو گئے ، عبداللہ بن مسعود بلال بن رباح، عامر بن فہیرہ خباب بن الارت عمار بن یاسر صہیب رومی ارقم بن ابی ارقم اور ابوذر غفاری شامل ہیں.شروع میں ہی ایمان لانے کی وجہ سے مجھے حضرت اقدس صلى الله
16 5 محمد رسول اللہ ﷺ کا بہت قرب نصیب ہوا.اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ نے جن دس صحابہ کو بطورِ خاص جنت کی بشارت دی.ان میں مجھے بھی شامل فرمایا.یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت خدیجہ نے سب سے پہلے آنحضرت علی کی تصدیق فرمائی.گو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ عورتوں میں سب سے پہلے ایمان لے آئیں.لیکن اگر عورتوں اور مردوں اور رشتہ داروں اور غیر رشتہ داروں کی تفریق نہ کی جائے تو سب سے اوّل نمبر حضرت ام المومینین حضرت خدیجہ طاہرہ کا ہی بنتا ہے.عورتوں میں سے حضرت ابو بکر کی بیٹی اسماء حضرت عمرؓ کی الله بہن فاطمہ زوجہ زید بن سعید حضور ﷺ کی بچی ام فضل زوجہ عباس اور حضرت آمنہ کی خادمہ اُم ایمن زوجہ زید بن حارثہ جلد ایمان لے آئیں.الله مشکلات کا دور ماں کی محبت محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے تقریباً تین سال بعد تک تبلیغ کا معاملہ مخفی رہا.تیسرے سال کے آخر یا چوتھے سال کے شروع میں اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر محمد رسول اللہ ﷺ نے کھلم کھلا تبلیغ شروع کر دی.اور مکہ والوں کو بہت جلد ہمارے مسلمان ہونے کا علم ہو گیا.جلد ہی مخالفت کی رو چلی اور پھیلتی چلی گئی.اس مخالفت کا رخ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تک ہی محدود نہ تھا بلکہ ہر ابتدائی مسلمان اس کی زد میں آتا چلا گیا.قریش مکہ نے اس نئے دین کو سخت نا پسند کیا اور اس کے رستے میں حائل ہو گئے.انہوں نے اسلام کی اشاعت کو صلى الله زبر دستی روکنا چاہا اور یہ فیصلہ کیا کہ ہم سب کو خدا اور محمد رسول اللہ ﷺ سے جدا کر کے واپس اپنے دین میں داخل کیا جائے گا.ہم اس سے پہلے مشرک تھے اور بتوں کی پوجا کرتے تھے اب ہم نے شرک کو چھوڑ کر تو حید کو اختیار کر لیا تھا.قریش نے فیصلہ کیا کہ جس جس خاندان سے کوئی مسلمان ہوا ہے وہ خاندان اس مسلمان پر سختی کر کے اسلام چھوڑنے پر مجبور کرے.میری ماں کو مجھ سے بہت محبت تھی اور میں ان کا بے حد احترام کرتا تھا ان کی ہر بات مانتا تھا.انہوں نے مجھے اسلام چھوڑنے کے لئے کہا میرے لئے یہ بات ماننی ممکن نہ تھی.میں نے انکار کیا انہوں نے مجھے قسم دی اور کہا کہ میں جب تک محمد رسول اللہ اللہ کے دین کو نہیں چھوڑتا وہ مجھ سے نہیں بولیں گی.کھانا پینا
80 7 : بھی چھوڑ دیں گی اور بھوکی پیاسی رہ کر مر جائیں گی.ان کا خیال تھا کہ اس ترکیب سے وہ مجھے خدا تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ سے الگ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گی.میں نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا.تین دن تک انہوں نے نہ کچھ کھایا نہ پیا اور نہ مجھ سے کلام کیا ان کی حالت خراب ہو گئی اور وہ مرنے کے قریب ہو گئیں.میں نے رسول اللہ علیہ سے پوچھا کہ اب کیا کروں؟ آپ ﷺ پر سورۃ لقمان کی وہ آیات اتریں جن میں ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا اور جہاں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر ماں باپ شرک کرنے پر مجبور کریں تو ان کی بات نہ ماننا البتہ ان سے نیک سلوک کرتے رہنا.میں نے ارادہ کر لیا کہ میں اللہ کے حکم کے برخلاف والدہ کی بات نہیں مانوں گا.میں والدہ کے پاس گیا وہ سمجھیں کہ ان کی محبت میرے ایمان پر غالب آ گئی ہے.انہوں نے پوچھا کیا تم نے اپنی ماں کو موت سے بچانے کے لئے اسلام چھوڑ دیا ہے؟ میں نے کہا ماں ! تم مجھے بے حد عزیز ہولیکن اگر تمہارے اندر ہزار جانیں بھی ہوں اور ایک ایک کر کے ہر جان نکل جائے تو خدا کی قسم! میں پھر بھی اسلام نہیں چھوڑوں گا.“ چھوٹی عمر کی وجہ سے مجھے اس وقت خاندان میں کوئی خاص مقام حاصل نہ تھا.اس لئے کوئی بھی میری بات ماننے کے لئے تیار نہ تھا.اپنی ماں کی بات نہ ماننے کی وجہ سے اور اسلام پر قائم رہنے کی وجہ سے مجھے بہت دُکھ دیئے گئے.عفو کا حکم صلى الله باقی مسلمانوں کی طرح میرا بھی ہنسی مذاق اڑایا جاتا ، گالیاں دی جاتیں، لعن طعن کی جاتی اور عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا.لیکن خدا تعالیٰ اور رسول ہے کی محبت کے نتیجے میں میرے قدم کبھی نہ ڈگمگائے تاہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک بار ہم حاضر ہوئے.عبد الرحمن بن عوف جو دور سے میرے رشتہ دار تھے.انہوں نے ہماری طرف سے حضرت اقدس محمد اللہ سے عرض کیا.یا رسول اللہ ﷺ! جب ہم مشرک تھے تو ہم معزز تھے اور کوئی شخص ہماری طرف آنکھ تک نہیں اٹھا سکتا تھا.لیکن مسلمان ہو کر ہم کمزور اور ناتواں ہوگئے ہیں اور ہمیں ذلیل ہو کر رہنا پڑتا ہے.پس آب عام ہمیں ظالموں کے مقابلہ کی اجازت دیں.“ آپ ﷺ نے فرمایا:.إِنِّي أُمِرْتُ بِالْعَفْوِ فَلَا تُقَاتِلُوا مجھے ابھی تک عفو کا حکم ہے اس لئے میں تمہیں لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا.“ رجب سنہ 5 نبوی میں بعض صحابہ رسول اللہ ﷺ کی اجازت سے حبشہ ہجرت کر کے چلے گئے جہاں ایک عادل اور رحم دل بادشاہ حکومت کرتا تھا اور نجاشی کہلاتا تھا.حبشہ کی طرف ہجرت دو مرتبہ ہوئی ادھر کفار نے ان صحابہ پر جو کہ مکہ میں رہ گئے تھے مزید ظلم کرنے شروع کر دیئے.میں نے یہ عرصہ مکہ میں
10 9 رہ کر گزارا.ہم سب آنحضرت ﷺ کے ساتھ مل کر راتوں کو عبادت کرتے اور کثرت سے دعائیں کرتے.چنانچہ ایک سورۃ میں اللہ تعالیٰ اس کا ذکر ان الفاظ میں فرماتا ہے.إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ اَدْنى مِنْ ثُلُثَيِ الَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ ط (المزمل: 21) اے محمد م تیرا رب جانتا ہے کہ تو دو تہائی رات سے کچھ کم نماز کے لئے کھڑا رہتا ہے کبھی نصف کے برابر اور کبھی ایک تہائی کے برابر اور اسی طرح تیرے ساتھی بھی.“ الله یہاں رسول اکرم ﷺ کے ساتھیوں سے مراد ہم لوگ ہیں جو مخالفت کی شدت میں راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے تھے.قید و بند کے مصائب جوں جوں اسلام ترقی کر رہا تھا دشمن ظلموں میں اضافہ کرتا چلا جاتا تھا.سنہ 6 نبوی میں مکہ کے دورؤساء حضرت حمزہ بن عبدالمطلب اور حضرت عمر بن خطاب ایمان لے آئے جس سے قریش کا غیض و غضب اور بڑھ گیا اور انہوں نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا.قریش میں قبائلی نظام رائج تھا.ان کے کچھ اصول تھے.ہر قبیلہ اپنے ہر فرد کی جان کا ذمہ دار ہوتا تھا.اس لئے حضرت محمد ﷺ کے خاندان کے لوگ بنو ہاشم اور بنو مطلب حضرت محمد علی کو لے کر شعب ابی طالب میں پناہ گزین ہو گئے.ہم سب صحابہؓ بھی حضور اللہ کے ساتھ تھے.یہ دیکھ کر قریش مکہ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات ختم کر دیئے.محرم سنہ 7 نبوی میں با قاعدہ ایک معاہدہ لکھا گیا کہ کوئی شخص بنو ہاشم اور بنو مطلب سے رشتہ نہیں کرے گا.نہ ان کے پاس کوئی چیز فروخت کرے گا اور نہ ان سے خریدے گا اور نہ ان کے پاس کھانے پینے کی کوئی چیز جانے دے گا اور نہ ان سے کسی قسم کا تعلق رکھے گا.جب تک وہ حضور ﷺ کی حفاظت سے دستبردار نہ ہو جائیں.اس معاہدے پر رؤساء قریش نے دستخط کئے اور کعبہ کی دیوار سے لٹکا دیا.شعب ابی طالب میں ہمیں اڑھائی تین سال تک رہنا پڑا جلد ہی کھانے پینے کا سامان ختم ہو گیا اور نوبت فاقوں تک جا پہنچی بھوک کی شدت سے ہم نے جنگلوں کے پتے وغیرہ کھا کر گزارہ کیا.یہ انہی دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک الله
12 11 بار رات کا وقت تھا.میں بھوک سے نڈھال ہورہا تھا.مجھے اپنے پاؤں کے نیچے کوئی نرم چیز معلوم ہوئی شاید کھجور کا ٹکڑا تھایا کچھ اور.اس وقت میری بھوک کا یہ حال تھا کہ میں نے اسے اٹھا کر فورا نگل لیا اور مجھے آج تک صحیح پتہ نہیں کہ وہ کیا چیز تھی.ایک اور موقع پر مجھے سخت بھوک لگی ہوئی تھی مجھے زمین پر پڑا ہوا سوکھا چھڑا ملا میں نے اسے پانی میں نرم اور صاف کیا اور پھر بھون کر کھا گیا اور تین دن اس خوراک سے گزارے.تکلیف کے یہ دن ہم نے اپنے آقا حضرت محمد علیہ کے ساتھ نہایت صبر کے ساتھ گزارے.ان دنوں میں ہم سب کو دعاؤں کی خوب تو فیق ملی.جب بھی موقع ملتا ہم آنحضرت ﷺ کے ساتھ گھائی سے باہر نکل کر تبلیغ کرتے خاص طور پر ان ایام میں جب عرب رواج کے مطابق حج کے مہینوں میں ملک میں امن ہوتا تھا اور کوئی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھاتا تھا.آخر کار قریش کا ضمیر اس ظلم کے خلاف بغاوت کرنے لگا اور یہ معاہدہ توڑ دیا گیا اور ہمیں آزادی نصیب ہوئی.ہجرت مدینہ الله شعب ابی طالب سے رہائی کے بعد حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ کی زوجہ اول حضرت خدیجہ اور آپ ﷺ کے چا حضرت ابوطالب (جو آپ ﷺ کے لئے بمنزلہ باپ کے تھے ) وفات پاگئے.اس کے نتیجے میں آپ ﷺ کے خاندان نے بھی آپ ﷺ کا ساتھ چھوڑ دیا اور قریش کے سردار زیادہ دلیر ہو گئے.یہ دور محمد رسول ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کے کےصحابہ کے لئے بڑے دکھوں کا دور تھا.مکہ میں کوئی شخص ہماری بات سننے کیلئے تیار نہیں تھا.حضور ﷺ حج کے موقع پر عرفات میں جا جا کر اور تجارتی میلوں میں عکاظ مجنہ اور ذوالمجاز کے مقامات پر جا جا کر مختلف قبائل کو تبلیغ کرتے.ہم بھی حضور علی کے ساتھ ہوتے ادھر ابو جہل اور دوسرے دشمن جن میں حضور کا چا ابولہب بھی ہوتا پیچھا کرتے اور دکھ دیتے.سنہ 10 نبوی میں آنحضرت ﷺ کو ایک رویا میں ایک جگہ دکھائی گئی جو کھجوروں اور کنوؤں والی تھی.آنحضرت ﷺ نے اس سے مراد طائف کی اورا کیلے طائف کے سفر پر روانہ ہو گئے.طائف پہنچ کر طائف کے رؤساء کو تبلیغ فرمائی.لیکن جس ظلم کی ابتداء وادی مکہ میں ہوئی تھی اس کی انتہاء وادی طائف میں ہوگئی.آنحضرت ا لہو لہان حالت میں مکہ کے ایک رئیس کی پناہ لے کر صلى الله واپس شہر میں داخل ہوئے.اس کے بعد تو یہ حالت تھی کہ محمد رسول اللہ علی
14 13 اور ہم سب کا گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہو گیا مکہ والوں پر اتمام حجت ہو چکی تھی.اب ان میں سے کسی اور کے ایمان لانے کی امید نہ تھی.صلى الله حج کے موقعہ پر آنحضرت علی چند صحابہ کے ہمراہ راتوں کو باہر نکلتے اور ادھر ادھر سے آئے ہوئے قبائل کو تبلیغ فرماتے.سنہ 11 نبوی میں میثرب کے کچھ نوجوان جو قبیلہ خزرج کے تھے حج کے موقع پر ملکہ آئے.آنحضرت علی نے رات کے وقت انہیں تبلیغ کی اور وہ ایمان لے آئے دراصل انہوں نے اپنے دشمن یہود قبائل سے سن رکھا تھا کہ ایک عظیم الشان نبی کا ظہور ہونے والا ہے.اور وہ بیٹرب ہجرت کر کے آئے گا اور دشمنوں پر غلبہ پائے گا.چنانچہ جب انہوں نے ایک دوسرے کے کان میں کھسر پھسر کی اور کہا کہ یہ تو وہی نبی لگتا ہے جس کے بارے میں یہودی بتاتے ہیں.اس سے پہلے کہ یہود ایمان لے آئیں ہم ایمان لے آتے ہیں.تا کہ اس کے ساتھ مل کر یہود پر غلبہ حاصل کریں انہوں نے آنحضرت ﷺ کو یقین دلایا کہ وہ واپس بیشترب جا کر اپنے عزیزوں کو بھی آپ ﷺ کا بتا ئیں گے.چنانچہ سن ۱۲ نبوی میں حج کے موقع پر 11 لوگوں نے اور سنہ ۱۳ نبوی میں حج ہی کے موقع پر مزید 73 لوگوں نے آنحضرت ﷺ کی بیعت کی اور ہمیں میثرب چلے آنے کی دعوت دی اور محمد رسول اللہ یہ کی حفاظت کا ذمہ لیا.اسے آنحضرت ﷺ نے منظور فرمالیا.حضور علہ نے ہمیں ایک ایک دو دو کر کے مکہ سے میٹرب ہجرت کرنے کی ہدایت دی.چنانچہ وہ چند لوگ جو شروع میں ہجرت کر کے یثرب چلے گئے میں بھی ان میں شامل تھا.اس طرح اسلام قبول کرنے کے نتیجہ میں ہمیں اپنے وطن سے بھی نکلنا پڑا.کچھ عرصے کے بعد حضرت رسول کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر بھی ہجرت کر کے میرب آگئے آپ ﷺ کی آمد پر یشرب مدینۃ الرسول‘ اور بعد میں صرف مدینہ مشہور ہو گیا.آپ ﷺ کے مدینہ پہنچنے کے بعد عرب قبائل میں سے اکثر لوگ ایمان لے آئے.جب میں نے ہجرت کی اس وقت میرا چھوٹا بھائی عمیر بن ابی وقاص بھی میرے ساتھ تھا.وہ بھی مسلمان ہو چکا تھا ہم دونوں مدینہ سے باہر قبا میں بنو عمرو بن عوف کے محلہ میں اپنے بڑے بھائی عقبہ بن ابی وقاص کے پاس ٹھہرے.ہمارے بڑے بھائی عتبہ کے ہاتھوں مکہ میں ایک شخص قتل ہو گیا تھا اس لئے ہمارا بھائی قصاص کے خوف سے بھاگ کر مدینہ چلا گیا تھا اور مدینہ میں ہی رہائش اختیار کر چکا تھا.اکثر صحابہ جو آنحضرت ﷺ سے پہلے ہجرت کر کے مدینہ آئے وہ بھی شروع میں قبا میں ہی ٹھہرتے تھے.حتی کہ خود حضرت رسول اللہ علیہ بھی دس دن قبا میں ٹھہرے اور پھر اندرون شہر مدینہ تشریف لے گئے.قبا کی بستی مدینہ سے قبلہ کی طرف دو میل کے فاصلے پر ہے.صلى الله
16 15 مدینہ میں خوف کی راتیں اور محمد رسول اللہ علی اللہ حفاظت کے لئے پہرہ مدینہ میں دو عرب قبائل اوس اور خزرج رہتے تھے.جن میں سے بعض لوگ ایمان لے آئے اور انصار کے نام سے موسوم ہوئے.اس کے علاوہ مدینہ میں تین یہودی قبائل بنو قریظہ بنو قینقاع اور بنو نضیر آباد تھے.عرب قبائل پر یہودیوں کا کافی اثر تھا.اور وہ اوس و خزرج پر اکثر مظالم کرتے تھے.اوس اور خزرج نے شام کی سرحد پر غسان کے حاکم کی مدد سے یہودیوں کو سزا دلوائی اور یہود کا زور ٹوٹ گیا.یہود کا زور ٹوٹ جانے کے بعد اوس اور خزرج آپس میں لڑنے لگے اور وسیع پیمانے پر خانہ جنگی شروع ہوگئی.اوس اور خزرج کے درمیان آخری خون ریز جنگ جنگ بعاث کے نام سے مشہور ہے.یہ جنگ حضرت محمد رسول اللہ علیہ کے زمانہ نبوت میں ہوئی جب کہ آپ علیہ مکہ میں مقیم تھے.جنگ بعاث کے بعد قبیلہ خزرج کے ایک سردار عبداللہ بن ابی بن سلول کو مدینہ کا حاکم تسلیم کر لیا گیا اور ہنوز تاج پوشی کی رسم ہونے والی تھی تو یہ انقلاب عظیم رونما ہو گیا کہ اوس اور خزرج کے کئی لوگ اسلام لے آئے اور حضرت محمد ﷺ مدینہ تشریف لے آئے جہاں آپ کو حاکم تسلیم کر لیا گیا اس کے نتیجے میں عبد اللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی حسد کی آگ میں جلنے لگے.آنحضرت ﷺ نے مدینہ پہنچ کر عربوں اور یہود کے تمام قبائل کے ساتھ جو مدینہ میں آباد تھے امن سے رہنے اور ایک دوسرے کا ساتھ صلى الله دینے کا معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہے.اس دوران قریش مکہ نے مدینہ کے رئیس اعظم عبد اللہ بن ابی بن سلول کو خط لکھا اور کہا کہ مدینہ والے محمد ( ﷺ ) کو مدینہ سے نکال دیں ورنہ وہ مدینہ پر حملہ کر کے ان کے مردوں کو قتل کر دیں گے اور عورتوں پر قبضہ کر لیں گے.عبد اللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی پہلے ہی حسد کی آگ میں جل رہے تھے.ادھر قبیلہ اوس کا ایک رئیس ابو عامر جو عیسائیت کی طرف مائل تھا اسلام دشمنی میں مدینہ چھوڑ کر مکہ چلا گیا اور قریش کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے اکسانے لگا.اسی طرح عبد اللہ بن ابی بن سلول اور ابو عامر کے ساتھی اندر ہی اندر شرارتوں پر آمادہ ہو گئے.قریش مکہ خانہ کعبہ کے متولی تھے اور سارے عرب کے مذہبی لیڈر شمار ہوتے تھے.وہ باقی عرب قبائل کو بھی مسلمانوں کے خلاف اکسانے لگے اور اس طرح مدینہ میں سخت خوف و ہراس پھیل گیا.دشمن کے اچانک حملے سے ہوشیار رہنے کے لئے صحابہ دن رات مسلح رہتے تھے اور انہیں راتوں کو نیند نہیں آتی تھی.خود آنحضرت ﷺ راتوں کو جاگتے رہتے.میں چپکے چپکے آنحضرت ﷺ کا پہرہ دیتا رہتا.ایک رات آنحضرت عمل بہت دیر تک جاگتے رہے اور پھر فرمایا کہ اگر ہمارے دوستوں میں سے کوئی مناسب آدمی پہرہ دیتا تو میں ذرا سولیتا.اس دوران آپ ہی ہے نے ہتھیاروں کی چھنکار سنی.آپ علیہ نے پوچھا کون ہے؟.میں نے عرض کیا رسول اللہ ﷺ میں سعد بن ابی وقاص ہوں اور حضور علیہ کے پہرے کے لئے حاضر ہوں.اس پر آپ ﷺ بہت خوش ہوئے اور مجھے ” مرد صالح کہ کر پکارا.اس صلى الله الله صلى الله.کے بعد حضور علی تھوڑی دیر کے لئے سو گئے اور میں آپ ﷺ کا پہرہ دیتا رہا.صل الله
18 17 قریش کی حرکات و سکنات کے جائزے کیلئے مہمات قریش کی طرف سے مدینہ پر اچانک حملے کے خطرات کو دیکھ کر محمد رسول اللہ ﷺ نے ارادہ فرمایا کہ قریش کی حرکات وسکنات کا زیادہ قریب سے جائزہ لیا جائے.اس غرض کے لئے آپ یہ کئی مرتبہ خود کچھ صحابہ کو ساتھ لے کر مدینہ سے باہر بعض مقامات تک تشریف لے گئے اور بعض اوقات صحابہ کی ایک جماعت اس مقصد کے لئے مدینہ سے باہر بھجوائی.ایسی کئی مہمات میں مجھے بھی خدمت کی توفیق ملی.ہجرت کے سات ماہ بعد سب سے پہلا اسلامی لشکر آپ ﷺ نے اپنے چا حمزہ بن عبدالمطلب کے ہمراہ رمضان سنہ ادھ میں بھجوایا.اس لشکر میں تھیں مہاجرین شامل ہوئے.یہ قافلہ اس تجارتی قافلے کی نقل وحرکت معلوم کرنے کے لئے نکلا تھا جو تین سوسوار وں سمیت شام کی طرف سے ابو جہل کی سربراہی میں آ رہا تھا.شوال سنہ اتھ آنحضرت ﷺ نے عبیدہ بن حارث کو ساٹھ مہاجرین پر مشتمل ایک دستہ دے کر بھیجا.اس کا سامنا ابوسفیان کے ایک لشکر کے ساتھ جُحفہ سے دس میل دور بطن رابغ کے قریب ہوا اور میں بھی اس قافلہ میں شامل تھا.ابوسفیان کا لشکر دو سو آدمیوں پر مشتمل تھا ان کے ساتھ معمولی جھڑپ ہوئی.میں نے دشمن پر ایک تیر پھینکا یہ پہلا تیر تھا جو اسلام کے دور میں پھینکا گیا.قریش کے قافلے سے دو افراد بھاگ کر ہمارے ساتھ آملے جو مسلمان ہو چکے تھے.لیکن ہجرت کی توفیق نہیں رکھتے تھے.آنحضرت علیہ نے ہجرت کے نویں ماہ ذوالقعدہ سنہ اھ میں مجھے بہیں مہاجرین کا ایک دستہ دے کر خرار کی طرف بھیجا.یہ حجاز کی ایک وادی ہے جو جُحفہ میں جا گزرتی ہے.یہ قافلہ قریش کے اس لشکر کی نقل و حرکت معلوم کرنے کے لئے بھجوایا گیا تھا جو اس مقام سے گذرنے والا تھا.ہم دن کو کہیں چھپے رہتے اور راتوں کو سفر کرتے.خرار پہنچنے پر معلوم ہوا کہ قافلہ وہاں سے گذر چکا ہے.ہجرت کے بارھویں ماہ صفر سنہ ۲ ھ میں آنحضرت ﷺ خود ساٹھ مہاجرین کا قافلہ لے کر مدینہ کے جنوب مغرب میں مکہ کی طرف مقام و دان تک تشریف لے گئے.وہاں ایک قبیلہ بنو ضمرہ آباد تھا جو قریش کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھا.آپ علیہ نے اس کے رئیس سے معاہدہ کیا کہ بنو ضمرة مسلمانوں کے خلاف کسی دشمن کی مدد نہیں کریں گے.نیز یہ کہ بنو ضمرة کے اموال اور جانیں مسلمانوں سے محفوظ رہیں گی.میں بھی اس مہم میں اپنے آقا محمد رسول اللہ علیہ کے ہمراہ تھا.صلى الله ہجرت کے تیرھویں مہینے ربیع الاول سنہ ۲ ھ میں رسول الله الا الله.مہاجرین کی ایک جماعت لے کر بواط کے مقام تک گئے آپ علی کے ہمراہ اسلامی پرچم میں نے اٹھایا ہوا تھا.جمادی الاول سنہ ۲ ھ میں آنحضرت ﷺ پھر مدینہ سے باہر نکلے.کا طریق یہ تھا کہ مدینہ میں کسی کو امیر مقرر فرما دیا کرتے تھے.آپ ع ساحل سمندر پرینبوع کے قریب عشیرہ تک پہنچے اور بنو مدلج کے ساتھ معاہدہ کیا.میں بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تھا.ابوسفیان بن حرب تجارتی
20 19 صلى الله قافلہ لے کر پہلے ہی وہاں سے گذر چکا تھا.دراصل آپ ﷺہ اس قافلے کی نقل و حرکت معلوم کرنے کے لئے وہاں تشریف لے گئے تھے.اس مہم سے واپس آئے ہوئے دس دن بھی نہیں گزرے تھے کہ قریش مکہ کے ایک دستے نے مدینہ سے تین میل باہر ایک چراگاہ پر حملہ کر کے مسلمانوں کے اونٹ لوٹ لئے.حضور عے ان کے تعاقب میں بدر کے پاس سفوان تک گئے.زیادہ قریب سے قریش کا جائزہ لینے کے لئے آنحضرت ﷺ نے عبداللہ بن جحش کو آٹھ مہاجرین کا ایک دستہ دے کر مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ کے مقام پر بھیجا.اس مہم کے دوران میرے اور عتبہ بن غزوان کے اونٹ بچھڑ گئے اور اونٹوں کی تلاش میں ہم قافلے سے بچھڑ نخلہ پہنچ کر عبداللہ بن جحش نے قریش کے ایک قافلے پر حملہ کر دیا.قریش کا ایک آدمی مارا گیا اور دو قید کر لئے گئے.عبداللہ بن جحش جو رسول اللہ ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے قیدیوں کو مدینہ لے آئے.گورسول صلى الله اللہ ﷺ ان سے ناراض ہوئے تاہم ہماری واپسی تک قیدیوں کو مدینہ روکے رکھا.قید کے دوران ایک قیدی حکم بن کفان آنحضرت ﷺ کے اخلاق سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا اور اس نے واپس جانے سے انکار کر دیا.اس کے جلد ہی بعد قریش مکہ نے با قاعدہ فوج تیار کر کے مدینہ پر حملوں کا آغاز کر دیا.اذن جہاد صلى الله غزوات النبی ﷺ میں میری خدمات 12 صفر سنہ 2ھ بمطابق 15 اگست 623 ء کو جب آنحضرت عے کو مکہ میں تیرہ سال تک کفار کے مظالم برداشت کرنے کے بعد مدینہ آئے ہوئے تقریبا ایک ہی سال گذرا ہو گا، آپ ﷺ پر یہ قرآنی وحی نازل ہوئی.أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ط وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِم لَقَدِيرُ.(الحج.40) یعنی وہ لوگ جن سے (بلا وجہ ) جنگ کی جارہی ہے ان کو بھی (جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے.کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی مدد پر قادر ہے.دشمنوں کے ساتھ مقابلے کی اجازت قریش مکہ کے اس الٹی میٹم کا جواب تھا جو انہوں نے اہل مدینہ کو آنحضرت ﷺ کی ہجرت کے بعد دیا تھا.گو مکی دور میں مسلمانوں کو ہر قسم کے مظالم برداشت کرنے پڑے لیکن مدینہ پہنچ کر جو کیفیت پیدا ہوگئی تھی.اس سے زیادہ نازک وقت اسلام پر کبھی نہیں آیا تھا کیونکہ اس کمزوری کی حالت میں قریش مکہ اور ہمارے درمیان جنگوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا.جس کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا گیا.کفار بار بار مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے ان سے مقابلہ کے لئے آنحضرت صحابہ کو کئی آزمائشوں سے گذرنا پڑا.ان غزوات کی داستان لمبی ہے.اس میں سے چند ایک غزوات میں اپنی شمولیت کا مختصر ساذ کر کرتا ہوں.
22 21 غزوہ بدر قریش مکہ رمضان سنہ 2 ھ میں ایک ہزار کا مسلح لشکر لے کر عمر بن ہشام (ابوجہل) کے زیر کمان ہم پر حملہ کرنے کے لئے مکہ سے نکا جب حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو پتہ چلا تو آپ ﷺ نے صحابہ سے مشورہ مانگا.مقداد بن اسود نے مہاجرین کی نمائندگی کرتے ہوئے عرض کیا.ہم موسیٰ کے اصحاب کی طرح نہیں ہیں کہ آپ ﷺ کو یہ جواب دیں کہ جا تُو اور تیرا خدا جا کر لڑو.ہم یہیں بیٹھے ہیں.بلکہ ہم تو کے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے ہو کر لڑیں الله آپ ﷺ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا.لیکن آپ مہ نے پھر مشورہ مانگا راصل آپ ﷺ کا اشارہ انصار کی طرف تھا.جنہوں نے مدینہ کے اندررہ کر حفاظت کا معاہدہ کیا ہوا تھا.انصار کی نمائندگی کرتے ہوئے قبیلہ اوس کے رئیس سعد بن معاذ نے عرض کیا.یا رسول اللہ ﷺ اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کوحق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگر آپ عہ ہمیں سمندر میں کود جانے کو کہیں تو ہم کو دجائیں گے اور ہم میں سے ایک فرد بھی پیچھے نہیں صلى الله رہے گا اور آپ ﷺ انشاء اللہ ہم کولڑائی میں صابر پائیں گے اور ہم سے وہ بات دیکھیں گے جو آپ ﷺ کی آنکھوں کو ٹھنڈا 66 کرے گی.“ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر اللہ کا نام لے کر بڑھو اور خوش ہو کیونکہ اللہ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ ہم کو ضرور غلبہ دے گا اور خدا کی قسم میں گویاوہ بں دیکھ رہا ہوں جہاں دشمن کے آدمی قتل ہو ہو کر گریں گے.تمام صحابہ کا عجیب جذبہ تھا سب اس انتہائی خطرناک وقت میں آنحضرت ﷺ پر جانیں شمار کرنا چاہتے تھے.میرا چھوٹا بھائی عمیر بن ابی وقاص چھوٹا تھا.حضور علیہ نے بچوں کو واپس مدینہ چلے جانے کا حکم دیا یہ سن کر وہ لشکر میں ادھر ادھر چھپنے لگا.حضور ﷺ نے جب اس کو واپس جانے کے لئے کہا تو وہ رونے لگا اس پر حضور نے اسے جنگ میں شرکت کی اجازت دے دی.الله الله میدان جنگ میں ہماری تعداد 313 تھی جن میں 60 کے قریب مہاجرین اور باقی سب انصار تھے.ساری فوج میں صرف ستر اونٹ اور دو گھوڑے تھے.خود آنحضرت ﷺ کے پاس کوئی الگ سواری نہ تھی نہایت بے سروسامانی کی حالت میں دشمن کے ایک ہزار افراد پر مشتمل لشکر سے مقابلہ ہوا جو پوری تیاری کے ساتھ مسلمانوں کو مٹانے کے لئے نکلا تھا.ان کے پاس بے شمار سواریاں اور اونٹ اور گھوڑے تھے.خوراک کے لئے روزانہ دس اونٹ ذبح ہوتے تھے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ہماری غیر معمولی نصرت فرمائی.ابو جہل کے زیر کمان جولشکر بڑی شان و شوکت سے ہمیں مٹانے آیا تھا وہ بری طرح شکست کھا کر میدان جنگ سے بھاگا.بدر کے دن کو خدا تعالیٰ نے یوم الفرقان قرار دیا ہے.دشمن کی جڑ کاٹ دی گئی.
24 23 ابو جہل اور دوسرے بڑے بڑے لیڈر مارے گئے دشمن کے ستر بہادر مارے گئے.ستر ہی قید ہوئے اور باقی بھاگ گئے.چودہ مسلمان شہید ہوئے میرا چھوٹا بھائی عمیر بن ابی وقاص بھی اس جنگ میں شہید ہو گیا.اگر چہ بعد میں بھی مجھے بے شمار جنگیں لڑنی پڑیں لیکن بدر کی یاد کبھی دل سے محو نہیں ہوتی.میں نے وہ چوغہ ساری عمر سنبھال کر رکھا جو بدر کے دن پہن رکھا تھا.فتح بدر کا مدینہ اور اس کے نواح پر بہت اثر ہوا.مدینہ کا ہر دشمن خائف ہو گیا.عبداللہ بن ابی بن سلول نے بھی اسلام قبول کر لیا لیکن مخفی طور پر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا رہا.غزوہ اُحد کفار مکہ نے بدر کا بدلہ لینے کے لئے شوال سنہ 3 ھ میں بھر پور تیاری کے ساتھ تین ہزار کا لشکر ابوسفیان کے زیر کمان مکہ سے روانہ کیا.مدینہ کے شمال مغرب میں قریب ترین پہاڑ اُحد کے دامن میں آنحضرت ﷺ ایک ہزار کا لشکر لے کر مقابلہ کے لئے آئے اور پہاڑ کو پشت پر رکھ کر کفار کا مقابلہ کیا.اسلامی لشکر کی پشت پر ایک پہاڑی درہ تھا.جہاں آنحضرت عمی نے پچاس تیراندازوں کو مقرر فرمایا تا کہ دشمن پیچھے سے آ کر حملہ نہ کر دے.اس جنگ صلى الله میں دو حادثات پیش آئے ایک تو عبد اللہ بن ابی بن سلول رئیس خزرج تین سو ساتھیوں کو لے کر میدان جنگ سے بھاگ گیا.یہ شخص اوپر سے مسلمان اور اندر سے کافر تھا اس لئے منافق کہلایا.دوسرے یہ کہ مسلمانوں نے ایک ہی وار میں کفار کو میدان سے بھاگنے پر مجبور کیا اور اسی اثناء میں درہ خالی ہو گیا.خالد بن الولید اور عکرمہ بن ابی جہل سوسو گھوڑ سواروں کی کمان سنبھالے ہوئے تھے اور ابوسفیان کے لشکر میں شامل تھے.خالد بن الولید نے عقابی نظر سے درے کو خالی دیکھ کر پیچھے سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا خالد بن ولید کو دیکھ کر عکرمہ بن ابی جہل بھی پیچھے سے حملہ آور ہوا.پیچھے سے یک دم حملے کے لئے اسلامی لشکر تیار نہ تھا اس دوران آگے سے کفار کی پیدل فوج نے مڑ کر حملہ کر دیا.آنحضرت علیہ اور صحابہ کے لئے یہ بہت مشکل وقت تھا.ایک کے بعد دوسرا شہید ہو رہا تھا.اس دوران آنحضرت علی ہے بے ہوش ہو کر گر پڑے اور یہ افواہ پھیل گئی کہ آپ ﷺ شہید ہو گئے ہیں.مسلمان سپاہی ادھر ادھر صلى الله صلى الله
26 25 صلى الله بھاگنے لگے بعض نے غلطی سے ایک دوسرے پر بھی حملہ کر دیا.کئی دشمن پر اس خیال سے ٹوٹ پڑے کہ جب آنحضرت ﷺ اس دنیا میں نہیں رہے تو ہم بھی شہید ہو کر آپ ﷺ کے پاس جا پہنچیں.میں نے ارادہ کیا کہ اپنا دفاع کروں گا یا شہید ہو جاؤں گا اور لڑتے لڑتے آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچ جاؤں گا.اس دوران میں نے ایک شخص کو دیکھا خون سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا میں اسے پہچان نہ سکا وہ بڑی شجاعت کا مظاہرہ کر رہا تھا اور دشمن پر حملے کر رہا تھا.میرے اور اس کے درمیان مقداد تھا.اس نے مجھے بتایا کہ یہ شخص آنحضرت ﷺے ہیں.آپ نے مجھے بلایا اور اپنے سامنے بٹھایا میں دشمن پر تیر پھینکنے لگا اور ساتھ ساتھ دعا کرنے لگا اے اللہ ! تو اپنے تیر سے دشمن کو تباہ کر دے اس پر آنحضرت نے دعا کی ، اے اللہ اسعد کی دعا قبول فرما اس کے تیروں کو ٹھیک نشانہ پر لگا.اس موقع پر کفار میں سے ایک شخص نے مسلمانوں میں گویا آگ لگا رکھی تھی اور بری طرح حملے کر رہا تھا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا سعد ! اس شخص کو اپنے تیر کا نشانہ بناؤ.میں نے تھیلے میں سے تیر نکالا اس کا پھل غائب تھا میں نے اس کے ماتھے پر تیر مارا جس سے وہ چکرا کر گر پڑا اس کی ٹانگیں اوپر ہو گئیں حضور نے دیکھا تو ہنس پڑے.جب میرے تیر ختم ہو گئے تو آنحضرت ﷺ نے اپنے ترکش کے تیر میرے لئے زمین پر بکھیر دئیے.میں کفار کی طرف تیر چلاتا رہا اور آنحضرت عہ مجھے تیر دیتے رہے.حضور علیہ فرماتے میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں تیراندازی کرتے رہو.گویا نہایت محبت کے عالم میں آپ مجھے دعائیں دے رہے تھے.اس حالت میں بعض جاں نثار صحابہ نے صلى الله صلى الله آنحضرت ﷺ کے گرد حلقہ بنالیا تو قریش کے تین آدمی حلقے کے اندر داخل صلى الله ہونے میں کامیاب ہو گئے.ان میں میرا مشرک بھائی عقبہ بن ابی وقاص بھی تھا.اس بدبخت نے آپ ﷺ کے چہرے پر پتھر مارا جس سے آپ علی کے دو نچلے دانت ٹوٹ گئے اور نچلا ہونٹ زخمی ہو گیا.میں نے کمان پھینک دی اور تلوار لے کر اپنے بھائی پر حملہ آور ہوا لیکن وہ بھاگ گیا.خدا کی قسم میں کبھی کسی کو اس بے دردی سے قتل کرنے کا خواہاں نہیں ہوا جس بے دردی سے میں اس وقت اپنے بھائی کو قتل کرنا چاہتا تھا.کیونکہ اس نے نبی کریم ﷺ کو زخمی کیا تھا.اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے اپنے چہرے سے خون صاف کیا اور فرمایا:.وہ قوم کس طرح فلاح پاسکتی ہے.جو اپنے پیغمبر کے چہرے کو لہولہان کرتی ہے.جب کہ وہ انہیں ان کے رب کی طرف بلاتا ہے.“ آپ عہ یہ دعا بھی کر رہے تھے کہ :.اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ اے اللہ ! میری اس قوم کو ہدایت دے ان کو علم نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں.صلى الله اُحد کی جنگ میں مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا ستر صحابہ شہید ہوئے حضور ﷺ کے چچا حضرت حمزہ بھی شہید ہوئے لیکن دشمن مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں ناکام رہا اور میدان چھوڑ کر بھاگ گیا.اُحد کے بعد میرا شمار خاص تیراندازوں میں ہونے لگا.آنحضرت اللہ نے جن چودہ صحابہ سے خوشنودی کا اظہار فرمایا میں بھی ان میں شامل تھا.//////
28 27 غزوہ حمراء الاسد یہ غزوہ اُحد کے اگلے دن پیش آیا.آنحضرت ﷺ کو اطلاع ملی کہ قریش نے فیصلہ کیا ہے کہ لوٹ کر مسلمانوں کا صفایا کر دیا جائے (نعوذ باللہ ) الله آنحضرت ﷺ نے صبح کی نماز کے بعد اعلان کروایا کہ وہ لوگ جو کل ہمارے ساتھ تھے اور غزوہ اُحد میں شریک ہوئے تھے.وہ دشمن کی تلاش میں آپ کے ساتھ مدینہ سے نکلیں.اکثر صحابہ زخمی حالت میں تھے.لیکن سب نے صلى الله اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھایا.آپ ﷺ صحابہ کو لے کر مدینہ سے آٹھ میل دور حمراء الاسد کے مقام تک تشریف لے گئے اور وہاں تین دن قیام فرمایا.دشمن پر ایسا رعب طاری ہوا کہ اسے لوٹ کر حملہ کی جرأت نہ ہوئی.میں بھی اس اہم سفر میں شامل تھا.غزوہ خندق الله سنہ 5ھ میں قریش مکہ عرب کے تمام قبائل کو اکٹھا کر کے مدینہ پر حملہ آور ہوئے ان کی تعداد دس سے بیس ہزار تک ہوگی.ہم نے مدینہ کے باہر ایک گہری اور چوڑی خندق کھود کر دفاع کیا.تین ہزار مسلمانوں نے خندق کھودنے میں حصہ لیا ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے.خندق کھودنے کے بعد عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو آنحضرت ﷺ نے واپس اپنے گھروں میں بھجوا دیا اور محاذ جنگ پر بارہ سو مسلمان رہ گئے.جب مدینہ کے یہودیوں کی طرف سے اندرون شہر خطرہ محسوس ہوا تو آنحضرت ﷺ نے پانچ سو مجاہدین کو عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لئے بھجوا دیا اور محاذ جنگ پر صرف سات سو مسلمان رہ گئے.ہم سخت خطرے میں تھے.لیکن ہمت نہیں ہاری ایک ماہ تک محاصرہ جاری رہا بیچنے کی کوئی امید نہ تھی.لیکن آنحضرت ﷺ کی اضطراری دعاؤں نے کام کیا آندھی چلی دشمن کے خیموں میں آگ لگ گئی اور وہ ڈر گئے سب سے پہلے ان کا سپہ سالا راعظم ابوسفیان بدحواس ہو کر میدان جنگ سے بھاگا.اسے دیکھ کر سب قبائل بھاگ گئے.مجھے بھی اس جنگ میں شامل ہونے کا موقع ملا.
30 29 معاہدہ حدیبیہ اس سے اگلے سال حدیبیہ کے مقام پر قریش کے ساتھ معاہدہ ہوا.مکہ کے نمائندہ سہیل بن عمرو اور حضرت اقدس محمد اللہ کے درمیان بعض شرائط کے ساتھ اس معاہدہ پر دستخط ہوئے جس کے مطابق دس سال کے لئے جنگ بند کر دی گئی.لیکن افسوس کہ قریش اور ان کے ساتھی اس معاہدہ کی پابندی نہ کر سکے اس موقع پر آنحضرت ﷺ کے ساتھ چودہ سو صحابہ تھے.جن میں مجھے بھی شریک ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.اس مہم کا ایک اہم واقعہ بیعت صلى الله رضوان ہے جو حضور ﷺ نے ہم سب سے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر لی.جو لوگ اس بیعت میں شامل ہوئے.ان کے ساتھ راضی ہونے کی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو وحی سے خبر دی.معاہدہ حدیبیہ پر آنحضرت ﷺ نے گواہ کے طور پر میرے بھی دستخط کروائے.فتح خیبر مدینہ کے یہودیوں نے بار بار میثاق مدینہ کی خلاف ورزی کی.چنانچہ ان کے ساتھ یکے بعد دیگرے تین جنگیں ہوئیں.جنگ بدر کے بعد یہودیوں کے قبیلہ بنو قینقاع کا محاصرہ کیا گیا اور انہوں نے شکست کھا کر اطاعت قبول کرلی اور مدینہ سے نکل کر خیبر کا رخ کیا.جنگ اُحد کے بعد یہود پھر وگئے اور ان کے قبیلہ بنو نضیر کے ساتھ ہماری جنگ ہوئی اور انہیں جلا وطن کر دیا گیا.غزوہ خندق کے دوران یہود کے تیسرے قبیلہ بنو قریظہ نے غداری کی اور پھر مشرکوں سے مل کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کی تیاری کی.رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خندق کے دوران ان کی غداری کی وجہ دریافت کروانے کے لئے حضرت علی کو چند اور صحابہ کے ساتھ بھجوایا.انہوں نے شرمندہ ہونے کی بجائے ناپاک گالیاں دیں.اور جنگ پر آمادہ ہو گئے آنحضرت ﷺ نے ان کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا اور انہوں نے اس شرط کے ساتھ شکست تسلیم کر لی کہ ان کی سزا کے بارہ میں قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ فیصلہ کریں انہوں نے توریت کے مطابق ان کے قتل کا فیصلہ دیا.(دیکھو استثناء باب 20 آیت 1 تا18 ) یہود مدینہ سے نکل کر زیادہ تر مدینہ سے چند منزل کے فاصلے پر خیبر میں رہائش پذیر ہو گئے جہاں سے ایک طرف انہوں نے رومی سرحد پر عیسائی قبائل کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا شروع کیا اور دوسری طرف انہوں نے عراق میں اپنے ہم مذہبوں کو خطوط لکھ کر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ کسری فارس کو
32 31 مسلمانوں کے خلاف بھڑ کا ئیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے انہیں سزا دینے کے لئے خیبر سے پرے دھکیل دینے کا فیصلہ کیا اور سولہ سو صحابہ کے ساتھ محرم سنہ 7ھ میں خیبر کا محاصرہ کیا.جہاں یہودیوں کے تین مرکزی قلعے تھے اور ہر ایک قلعے کے آگے متعدد ذیلی قلعے تھے.کئی دن محاصرہ جاری رہا.ایک صبح آپ ﷺ نے حضرت علی کو اسلامی پر چم دے کر بھجوایا اور ان کے ہاتھ پر خیبر فتح ہوا.اور اس شرط پر صلح ہوئی کہ یہود خیبر کے پورے علاقے کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں گے اور یہ علاقہ خالی کر دیں گے اور انہیں ساتھ کچھ بھی لے جانے کی اجازت نہیں ہوگی اور ان کے تمام اموال مسلمانوں کے حق میں ضبط ہوں گے.میں بھی خیبر کی جنگ میں بہادری سے لڑا.آنحضرت ﷺ نے مجھے خیبر میں فتح کی ہوئی ایک جاگیر بھی عطافرمائی.ย فتح مکہ سنہ 8 ھ میں حضرت اقدس محمد علی کے ہاتھوں مکہ فتح ہوا.حضور ع نے دس ہزار صحابہ کے ساتھ قریش مکہ کی صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کرنے کے نتیجہ میں مکہ پر لشکر کشی کی اور بغیر جنگ کئے مکہ والوں نے ہتھیار ڈال دیئے.جس روز مکہ فتح ہوا آنحضرت ﷺ نے مہاجرین کے ایک دستے کا مجھے علم بردار بنایا.حضور ﷺ کے آگے جب قریش مکہ پیش ہوئے تو ان کی ٹانگیں کانپ الله صلى الله رہی تھیں اور دل دھڑک رہے تھے ان کے مظالم جو انہوں نے حضور علی او صحابہ پر کئے تھے ان کی آنکھوں کے سامنے تھے اور انہیں اپنی موت نظر آ رہی تھی لیکن حضور ﷺ نے جو کہ تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے ان سب کو معاف کر دیا عام معافی کے اعلان پر مکہ والوں نے از خود اسلام قبول کر لیا.
34 33 غزوہ تبوک فتح مکہ کے بعد حنین اور طائف کی جنگوں میں بھی مجھے آنحضرت علی کے ساتھ شامل ہونے کا موقع ملا.یہودیوں کے انگیخت کرنے پر شام کی سرحد پرسنہ 9ھ میں سخت خطرہ محسوس ہوا.آنحضرت ﷺ نے 30 ہزار کا لشکر تیار کیا.رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں اس سے بڑا الشکر کبھی تیار نہیں ہوا تھا.صحابہ نے بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں.حضرت ابو بکر گھر کا سارا سامان لے آئے.الله صلى الله مدینہ سے شام کی سرحد کے پاس تبوک تک سفر کیا گیا با قاعدہ جنگ کی نوبت نہ آئی.کیونکہ دشمنی کا خطرہ عارضی طور پر ٹل گیا حضور سرحدی علاقوں میں آباد عرب قبائل کے ساتھ امن کے معاہدے کر کے واپس مدینہ تشریف لے آئے.حجتہ الوادع کے موقع پر میری بیماری کے دوران حضور کی نصائح اور بشارات علوم نو دس سال مسلسل جنگ اور سفروں میں رہنے کی وجہ سے بعض اوقات ہم کیکر کے پتوں اور اس کے پھل یا انگور کی بیل کے پتوں کو کھا کر گزارہ کرتے تھے جس سے میری صحت خراب ہوگئی.چنانچہ سنہ 10 ھ میں آنحضرت ﷺ نے جو ج فرمایا وہ حجتہ الوداع کے نام سے مشہور ہے.میں بھی حضور ﷺ کے ہمراہ مدینہ سے مکہ گیا اور وہاں جا کر بیمار ہو گیا.حضور ﷺ کوخبر ہوئی تو میرے پاس تشریف لائے.میں نے یہ خیال کر کے کہ شاید میری وفات قریب ہے آپ ﷺ کے سامنے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں اپنے پیچھے اپنا سارا مال خدا کی راہ میں وقف کرنا چاہتا ہوں.آپ ﷺ نے فرمایا نہیں یہ زیادہ ہے میں اس کی اجازت نہیں دیتا.میں نے دو تہائی کی اجازت چاہی مگر آپ ﷺ نے اس کی بھی اجازت نہ دی.آخر میں نے ایک تہائی کی اجازت مانگی آپ ﷺ نے اس کی اجازت دے دی اور فر مایا اگر تم اپنے پیچھے اپنے وارثوں کو منی چھوڑ جاؤ گے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں ایسی حالت میں چھوڑو کہ وہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں.دراصل یہ نصیحت سب مسلمانوں کے لئے تھی اور میرے لئے بھی تھی.آپ ﷺ نے کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا:.جو کام تم خدا تعالیٰ کی خاطر کرو گے اس کی وجہ سے ثواب اور وو
36 35 رفعت ضرور حاصل کرو گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کیا بعید ہے کہ وہ تمہیں شفا دیدے اور تم ہمارے ساتھ مدینہ واپس جاؤ اور مختلف اقوام کو تم سے فائدہ پہنچے اور تمہارے مقابل پر آنے والے نقصان اٹھا ئیں اور نا کامی کا منہ دیکھیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی دعا سے مجھے شفا بخشی بعد میں فارس کا دارالحکومت میرے ہاتھوں فتح ہوا.میں سوچتا ہوں کہ کیسے رسول اکرم علی کی یہ پیشگوئی پوری شان کے ساتھ میرے حق میں پوری ہوئی اور حق تو یہ ہے کہ میری اور ہر ایک مسلمان کی گردن اسلام اور بانی اسلام ﷺ کے احسان کے نیچے ہے ہمارا اسلام پر کوئی احسان نہیں.خلافت راشدہ کا قیام اور میری خدمات 12 ربیع الاول سنہ 11ھ ( 5 جون 632ء) کو ایک ایسا واقعہ پیش آ گیا جسے دیکھنے کے لئے ہم میں سے کوئی بھی تیار نہ تھا.وہ اس طرح کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ کا اس روز وصال ہو گیا اس سے بڑھ کر مجھے کبھی غم نہیں ہوا جو اس موقع پر ہوا لیکن ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے آگے اپنے سر جھکا دیئے.خدا تعالیٰ نے خود ہم میں سے ایک شخص کو جو محمد رسول اللہ ﷺ کا سب سے بڑا عاشق تھا.آپ عﷺ کا خلیفہ اور جانشین بنا کر کھڑا کر دیا.میری مراد حضرت ابوبکر صدیق سے ہے جن کے ذریعے مجھ تک اسلام کا پیغام پہنچا تھا.ہم سب نے حضرت ابوبکر کی بیعت کر لی.حضرت ابوبکر صدیق نے آنحضرت ﷺ کی جانشینی کا حق خوب ادا کیا.ان کے عہد خلافت میں عرب میں بغاوتوں نے سراٹھایا اور جوجنگیں عرب کے اندر جاری تھیں وہ وسیع ہو کر قیصر اور کسریٰ کے ممالک کی سرحدوں کے اندر داخل ہو گئیں.حضرت ابوبکر نے اپنے دور خلافت میں آنحضرت ﷺ کے ابتدائی صحابہ کو عام طور پر میدان جنگ میں بھیجنا پسند نہ فرمایا.انہوں نے میرے ذمہ قبیلہ ہوازن سے صدقات وصول کرنے کا کام کیا.اس دوران میں زیادہ عرصہ نجد میں بنو ہوازن سے صدقات وصول کرنے کے لئے بطور عامل خدمات بجالاتا رہا.چونکہ بنو ہوازن قدرے دیر سے ایمان لائے تھے اس 77777
38 37 لئے ان کی تعلیم و تربیت بھی ضروری تھی جس کی مجھے توفیق ملتی رہی.بنو ہوازن غزوہ حنین کے بعد مسلمان ہوئے تھے.یہ وہی قوم ہے جس کے ایک قبیلہ بنو سعد سے آنحضرت ﷺ کی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ تھیں.یہ اللہ تعالیٰ کا عجیب تصرف ہے کہ حضور علیہ کی حقیقی والدہ حضرت سیدہ آمنہ کے ساتھ میری قریبی رشتہ داری تھی.اور حضور ﷺ کی رضاعی والدہ کے قبیلہ بنو ہوازن کی مجھے عملی زندگی میں خدمت کی توفیق ملی.نجد عرب کے وسط میں واقع نہایت وسیع اور مشہور علاقہ تھا اور کئی چھوٹے چھوٹے علاقوں میں جن میں سے بعض عرب کے شاداب حصوں میں شمار ہوتے تھے منقسم تھا.رض حضرت ابوبکر کا زمانہ خلافت سوا دو سال تک ممتد رہا اور اس دوران وہ ہمیشہ مجھ سے راضی رہے.حضرت ابوبکر * 22 جمادی الآخر سنہ 13ھ (22 اگست 634ء) کو فوت ہوئے اور حضرت عمر خلیفہ ہوئے.حضرت عمرؓ نے مجھے عراق کی مہم پر سپہ سالار بنا کر بھیجا اور کسری فارس کا پایہ تخت مدائن میرے ہاتھوں فتح ہوا.اس کے بعد عراق کا نظم و نسق سنبھالنے اور استحکام قائم کرنے کے لئے حضرت عمرؓ نے مجھے عراق کا والی ( گورنر ) بنا دیا.عراق کی مہم میری زندگی کا سب سے اہم کارنامہ شمار ہوتا ہے اس کی تفصیل اگلے صفحوں پر آپ ملاحظہ کریں گے.اپنی خلافت کے آخری دنوں میں حضرت عمرؓ نے مجھے واپس مدینہ بلوالیا اور جب ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تو انہوں نے خلیفہ ثالث کے انتخاب کے لئے ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی تا کہ یہ کمیٹی آپس میں فیصلہ کر کے ان چھ میں سے کسی ایک کوخلیفہ منتخب کرلے اس کمیٹی میں حضرت عمر نے مجھے ย بھی شامل فرمایا.حضرت عمرؓ کی وفات کے تین دن کے اندر اندر اس کمیٹی نے با ہمی مشورے سے حضرت عثمان کو خلیفہ منتخب کیا.حضرت عمر کا وصال 26 ذوالحجہ سنہ 23ھ (3 نومبر 642ء) کو ہوا اور حضرت عثمان 1 محرم سنہ 24ھ (7 نومبر 642ء) کو خلیفہ منتخب ہوئے.حضرت عثمان نے مجھے دوبارہ عراق کا والی ( گورنر ) مقرر کیا اور کچھ عرصہ کے بعد واپس مدینہ بلا کر ریٹائر کر دیا اور میں نے مدینہ کے قریب وادی تحقیق میں رہائش اختیار کر لی اور گوشہ تنہائی میں رہنے لگا.
40 39 1 - فارس کی عظیم سلطنت سے محاذ آرائی اور دار الحکومت مدائن کی فتح اسلامی ریاست کے ساتھ دنیا کی دو عظیم سلطنتوں کی حدیں ملتی تھیں.عظیم مملکت فارس 2 - عظیم مملکت روما - فارس کا بادشاہ کسری فارس (Chosroes) اور روما کا بادشاہ قیصر روم (Heraclius) کہلاتا تھا.آدھی آدھی دنیا پر دونوں کی حکومت تھی فارس کا صوبہ عراق اور یمن اسلامی ریاست عرب سے ملحق تھے اور شمال اور مشرق میں واقع تھے.مغرب کی سرحد کے ساتھ شام کا صوبہ تھا جور وما کی عظیم سلطنت کا ایک اہم صوبہ تھا.عراق عرب کے شمال میں واقع عظیم مملکت فارس کا ایک خوش نما اور اہم حصہ تھا دنیا کے دو عظیم دریا دریائے فرات اور دریائے دجلہ عراق کے درمیان سے گزرتے ہیں.اور اس کی رونق کو دوبالا کرتے ہیں.اس عہد کے دو مقامات طیسفون اور حیرا بہت اہم تھے.طیسفون میں کسری کا پایہ تخت تھا اور مملکت فارس کی شان و شوکت کا مرکز تھا.طیسفون دریائے دجلہ کے دونوں طرف پھیلا ہوا تھا ہم عربی لوگ اسے مدائن کہتے تھے.حیرا عربی النسل خاندان کے بادشاہوں کا مرکز تھا.حیرا میں کئی قلعے تھے اور یہ شہر دریائے فرات کے مغربی کنارے پر واقع تھا.ابلہ فارس کی مرکزی بندرگاہ تھی اور عراق میں واقع تھی.ابلہ میں ہندوستان چین اور سمندر کے قریب دوسرے ایشائی ممالک کے بحری جہازوں کی آمد ورفت رہتی تھی.عراق میں فارسی اور عربی دونوں قو میں بہتی تھیں.فارسیوں کو ایرانی بھی کہتے تھے.فارسی سپاہی اپنے وقت کے بہترین جنگی ساز و سامان سے مسلح تھے اور جنگی مہارت میں ان کی مثال نہیں ملتی تھی.
42 41 عظیم پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ نے پہلے سے آنحضرت ﷺ کو ایران (فارس) کی فتح کی خبریں دے رکھی تھیں.جن کا اظہار آپ ﷺ نے دو موقعوں پر فرمایا.اوّل اس وقت جب آپ ﷺ مکہ سے مدینہ ہجرت فرما رہے تھے اور دوسرے غزوہ خندق میں جب کہ آپ ﷺ صحابہ کے ساتھ مل کر متحدہ عرب قبائل کے حملے روکنے کے لئے مدینہ کے گرد ایک گہری اور چوڑی خندق کھود رہے صلى الله چنانچہ ہجرت مدینہ کے دوران مکہ کے رؤسا نے اعلان کیا کہ جوشخص آنحضرت عہ کو زندہ یا مردہ پکڑ کر لائے گا اسے سوسرخ اونٹ انعام دیئے جائیں گے.انعام کے لالچ میں ایک نوجوان سراقہ بن مالک آپ ﷺ کے تعاقب میں نکلا اور اس راستے پر پہنچ گیا جس پر آپ ﷺ حضرت ابوبکر کو لے کر سفر کر رہے تھے.جب وہ قریب پہنچتا تو اس کا گھوڑا ٹھوکر کھا تا اور گر پڑتا کئی بار ایسا ہوا.اس نے تیروں سے فال نکالی ( عربوں میں یہی دستور تھا) فال اس کے ارادے کے خلاف نکلی اس پر وہ زور سے چلا یا اورمحمد رسول اللہ ﷺ سے امان کا طلبگار ہوا.سراقہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ واپس لوٹے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا:.سراقہ ! اس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب تیرے ہاتھ میں کسری کے کنگن ہوں گے؟.سراقہ نے تعجب سے پوچھا کون؟ کسری بن ہرمز شہنشاہ ایران؟ ﷺ نے فرمایا: ” اور کون.یہ عظیم الشان پیشگوئی اس وقت کی گئی جب آنحضرت ﷺ بظاہر انتہائی کسمپرسی کی حالت میں تھے.تین دن اور رات تنگ و تاریک غار میں پناہ لے کر دشمن سے چھپ کر اپنا وطن مکہ چھوڑ کر ایک دوسرے شہر میں ہجرت فرما رہے تھے.الله دوسرے غزوہ خندق کے موقع پر سارے عرب قبائل کے یکدم حملے کو روکنے کے لئے جب آپ ﷺ مدینہ کے گرد ایک گہری اور چوڑی خندق کھودرہے تھے.دشمن کی آمد میں وقت بہت کم تھا ہم سب فاقے کر رہے تھے اور پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے.خندق کی کھدائی کے دوران ایک ایسا پتھر نکلا جو کسی سے ٹوٹتا ہی نہیں تھا.حضور ﷺ نے اپنے ہاتھ میں کدال پکڑی اور پتھر پر تین ضربیں لگائیں ہر ضرب پر ایک چنگاری نمودار ہوتی اور حضور ﷺ اللہ اکبر کہتے تیسری ضرب پر پتھر ٹوٹ گیا.صحابہ نے دریافت کیا یا رسول اللہ ! آپ علی نے تین بار اللہ اکبر کیوں کہا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ہر ضرب لگنے پر آگ کی چنگاری میں ایک کشفی نظارہ دکھایا جب میں نے پہلی بار اللہ اکبر کہا تو اس وقت مجھے شام کے سفید محلات دکھائے گئے اور شام کی کنجیاں دی گئیں.دوسری بار جب اللہ اکبر کہا تو اس وقت مجھے مدائن کے سفید محلات دکھائے گئے اور فارس کی کنجیاں دی گئیں.اور تیسری مرتبہ صنعاء کے
44 43 دروازے دکھائے گئے اور یمن کی کنجیاں مجھے دی گئیں.پس تم خدا کے وعدوں پر یقین رکھو دشمن تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتا.آپ ﷺ نے فرمایا جب یہ قیصر روم ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد اس شان کا کوئی اور قیصر نہیں ہوگا.اور جب یہ کسری شاہ ایران ہلاک ہو گا تو اس کے بعد اس شان کا کوئی اور کسری نہیں ہوگا.یعنی تمہارے ذریعہ ان سلطنتوں کی شان وشوکت مٹادی جائے گی اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم ان بادشاہوں کے خزانوں کو اللہ تعالیٰ کے راستوں میں لٹاؤ گے ) یہ ایسی باتیں تھیں جو اس وقت وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتی تھیں انہیں عقل تسلیم کرنے کو تیار ہی نہ تھی.لیکن حضرت اقدس محمد مصطفی علی خدا تعالیٰ صل الله کے بچے نبی تھے اور ہمارا ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ جو بھی وعدے آپ ﷺ سے کر رہا تھا وہ ضرور پورے کر کے دیکھائے گا.مدائن کے سفید محلات کی فتح خدا تعالیٰ نے میرے مقدر میں رکھ دی تھی.تبلیغی مخط اور کسری فارس کا شدید رد عمل چونکہ آنحضرت ﷺ کو ساری دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا تھا اور آپ کا زمانہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے اس لئے حدیبیہ کے امن معاہدے کے بعد سنہ 7ھ میں آپ نے دنیا بھر کے حکمرانوں کو تبلیغی خطوط تحریر فرمائے ایک خط آپ نے کسری فارس کے نام بھی روانہ فرمایا جس کا مضمون یہ ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم من محمد رسول اللہ الی کسری عظیم فارس صلى الله یہ خط محمد رسول اللہ علیہ کی طرف سے کسری شاہ فارس کے نام ہے) جو شخص کامل ہدایت کی اتباع کرے اور اللہ پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں اس پر خدا کی سلامتی ہو.اے بادشاہ ! میں تجھے خدا کے حکم کے ماتحت اسلام کی طرف بلاتا ہوں.کیونکہ میں تمام انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں تا کہ ہر زندہ شخص کو میں ہشیار کروں اور کافروں پر حجت تمام کر دوں.تو اسلام کو قبول کرتا تو ہر ایک فتنہ سے محفوظ رہے اگر تو اس دعوت سے انکار کرے گا تو سب مجوس کا گناہ تیرے ہی سر پر ہوگا.کسری فارس ایک نہایت متکبر انسان تھا اس کو پہلے ہی یہودی اور قریش مکہ اور مدینہ کے منافق حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے خلاف بھڑکاتے
46 45 الله صلى الله علوم سے ہتے تھے.یہ خط پڑھ کر وہ آگ بگولا ہو گیا اس نے اپنے ماتحت صوبہ یمن کے گورنر باذان کو حکم دیا کہ فوراً اس عربی نبی ﷺ کو اس گستاخی کی وجہ سے گرفتار کر کے اس کے دربار میں پیش کرے.چنانچہ باذان نے اپنے دو سپاہی آنحضرت ﷺ کے پاس بھیجے انہوں نے مدینہ پہنچ کر آپ ﷺ.ملاقات کی اور کہا کہ آپ ﷺ ہمارے ساتھ چلیں ورنہ عظیم کسری فارس آپ ﷺ کو اور آپ ﷺ کی قوم اور ملک کو ( نعوذ باللہ ) تباہ کر کے رکھ دے گا.آپ نے بڑے عمل سے فرمایا کہ میں اس کا کل جواب دوں گا معلوم ہوتا ہے آپ ﷺ نے رات کو اضطراری رنگ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ تعالی نے جو کچھ آپ ﷺ کوعلم غیب سے بتایا اس کی خبر آپ ﷺ نے اگلے دن ان سپاہیوں کو ان الفاظ میں دی.اپنے گورنر سے جا کر کہد و کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خداوند کو مار دیا ہے.66 (دیباچہ تفسیر القرآن) سپاہیوں نے واپس آ کر سارا ماجرا یمن کے گورنر کو سنایا وہ بہت حیران ہوا.اس نے کہا یا تو یہ نبی ﷺ سچا ہے ورنہ فارس کی عظیم سلطنت کا مالک کسری جس کا نام خسرو پرویز تھا ان کا نام ونشان مٹا دے گا.کچھ عرصہ کے بعد فارس کے دار الحکومت سے نئے کسری شیرویہ کا خط ملا جس میں اس نے باذان کو لکھا کہ میں نے اپنے باپ خسرو پرویز کو اس کے ظلموں کی وجہ سے قتل کر دیا ہے.( یہ واقعہ 19 فروری 628ء کو معرض وجود میں آیا اور خود حکومت سنبھال لی ہے اور میں اپنے باپ کے تمام احکامات منسوخ کرتا ہوں.نیز اس نے جس عربی نبی ﷺ کی گرفتاری کا حکم دیا تھا اس حکم کو بھی منسوخ کرتا ہوں.اس پر باذان اور اس کے قبیلے پر اسلام کی صداقت روز روشن کی طرح واضح ہوگئی اور وہ اپنے خاندان سمیت مسلمان ہو گیا.خسرو پرویز کا قتل 10 جمادی الاول سنہ 7 ھ کی نصف شب کے بعد ہوا اور بالکل اسی رات کی خبر آپ ﷺ نے کوسوں میل دور باذان کے سپاہیوں کو دی تھی.اس کے بعد یمن کا علاقہ اسلامی ریاست میں شامل ہو گیا.آنحضرت علی نے باذان کو ہی یمن کے علاقوں کا حاکم مقرر کر دیا.شیرویہ کی حکومت آٹھ ماہ سے زیادہ نہ چل سکی اس نے اپنے باپ کے علاوہ اپنے خاندان کے بہت سارے لوگ قتل کر دیے تھے.اور خود بھی جلد ہی مر گیا شیرویہ کے بعد عظیم فارس کی حکومت کئی ہاتھوں میں منتقل ہوتی رہی.
48 47 کسری فارس کے بدا را دے اور عراق میں جہاد کا آغاز کسری فارس اور اس کے کارندے عرب کے علاقہ یمن، عمان اور بحرین کے مالک بن بیٹھے تھے اور ان کے زیر اقتدار برائے نام عرب روساء حکمران تھے عراق کی حددو میں بھی عربوں کی حکومت مٹاکر فارسیوں نے اندرون عرب بھی پیش قدمی شروع کر دی تھی اور حجاز کو بھی وہ اپنا ہی غلام سمجھتے تھے.یمن، عمان اور بحرین اسلام قبول کر چکا تھا.یہ علاقہ ہاتھوں سے نکلتا ہوا دیکھ کر اور خیبر کے یہودیوں اور مدینہ کے منافقوں کے بھڑکانے پر فارس کی حکومت نے عرب پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کیا.ان دنوں بنو بکر کا ایک قبیلہ جو عراق کی سرحد پر آباد تھا اور فارسیوں سے برسر پیکار رہتا تھا مسلمان ہو گیا.اس کے سیردار کا نام منی بن حارثہ تھا.اب ان کی تمام تر وفاداریاں اسلام کے ساتھ تھیں.مثنی بن حارثہ نے حضرت ابوبکر کی خدمت میں فارسیوں کے بدار ا دوں کی خبریں پہنچائیں اس وقت ایران (فارس) کے پایہ تخت پر ایک خاتون پوران دخت حکمران تھی.ایران کے حالات خود اس کے قابو سے باہر حضرت ابوبکر نے حالات کا جائزہ لے کر فارس (ایران) کی عظیم سلطنت کے بدار ا دوں اور سرحدی قبائل پر ان کے حملوں کی روک تھام کے لئے عراق کے اس حصے کے خلاف جہاد کرنے کا فیصلہ کیا جو عرب کی سرحد کے ساتھ دریائے فرات تک پھیلا ہوا تھا اور اس کام کے لئے حضرت خالد بن ولید کو سپہ سالار مقرر کیا اور ثنی کے لوگوں کو ان کے ماتحت جہاد میں حصہ لینے کی اجازت دے دی.آنحضرت ﷺ نے چند سال پہلے جنگ موتہ کے حوالے سے خالد بن ولید کو سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب دیا تھا.حضرت خالد بن ولید کی ایرانیوں کے ساتھ کئی جنگیں ہوئیں.فارس کی فوج اپنے زمانہ کی سب سے طاقتور فوج شمار ہوتی تھی ان کے پاس اس زمانہ کے بہترین ہتھیار تھے.ان کے بالمقابل اسلامی فوج میں معمولی تجربہ رکھنے والے لوگ تھے اور ان کے پاس سامان بھی برائے نام ہی تھا.لیکن انہیں خدا تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ تھا اور آنحضرت ﷺ کی بتائی ہوئی پیشگوئیوں پر کامل یقین تھا.خالد بن الولید کی ایرانیوں کے ساتھ کئی جنگیں ہوئیں ان کی قیادت میں مسلمانوں کو غیر معمولی کامیابیاں نصیب ہوئیں.وہ ایک سال کے عرصہ میں عراق کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک تیز طوفان کی طرح چھا گئے.خالد کی افواج کا مقابلہ اپنے سے کئی گنا زیادہ افواج سے ہوتا رہا لیکن ہرلڑائی میں انہیں فتح نصیب ہوئی اور عراق کی جنگوں نے خالد بن الولید کو بہت مشہور کر دیا.عراق کی سرزمین مسلمان افواج کے گھوڑوں کی ٹاپوں اور اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھی ایرانی عوام نے مسلمانوں کی آمد کو خیر و برکت کا موجب سمجھا انہیں مسلمانوں سے امن انصاف اور خوشحالی نصیب ہوئی.فوج در فوج لوگ اپنی مرضی سے اسلام میں داخل ہوئے.جنگ سلاسل جنگ دریا، جنگ وجہ جنگ البس، فتح مغیشیاء، سلطنت حیرا کی فتح ، وسطی عراق کی فتح ، انبار اور عین التمر کی فتوحات اور فراض کی فتح حضرت خالد بن الولید کے کارنامے ہیں.
50 49 فراض پر روم اور فارس کی سرحدیں آپس میں ملتی تھیں.اس دوران رومیوں کے ساتھ شام میں محاذ کھلا ہوا تھا.حضرت ابو بکر نے خالد بن ولید کو نصف فوج مثنی کے پاس عراق میں چھوڑ کر باقی نصف فوج سمیت شام کے محاذ پر جانے کا ارشاد فرمایا.عراق کی سرزمین پرشنی بن حارثہ کے پاس تقریباً 9 ہزار فوج رہ گئی تھی.حضرت خالد بن ولید مئی 634ء میں نصف فوج لے کر شام کی طرف گئے تھے اور ایک انتہائی صحرا میں سے گذر کر چند دنوں میں شام میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراح سے جاملے تھے جہاں دمشق کی فتح پر وہ سپہ سالار اعظم رہے حضرت عمر خلیفہ ہوئے تو آپ نے کسی حکمت کے تحت حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو ( جو عشرہ مبشرہ میں تھے ) شام کے محاذ پر سالا را عظم بنا دیا اور خالد بن الولید نے ریٹائر منٹ تک ان کے ماتحت کام کیا.ایران کے ساتھ فیصلہ کن جنگیں اسلامی فوج کے نصف حصہ کے شام کے محاذ پر چلے جانے کے بعد ایران (عراق) کے ساتھ محاذ آرائی کا نیا دور شروع ہوا.ایرانیوں نے اسلامی فوج کے نصف حصہ کے چلے جانے سے فائدہ اٹھانا چاہا اور مسلمانوں کے مفتوحہ علاقے واپس لینے کے لئے زبردست تیاریاں شروع کر دیں.عراق کے محاذ پر اب مثنی بن حارثہ سپہ سالار تھے وہ دربار خلافت میں مدینہ حاضر ہوئے اور حضرت ابوبکر کو عراق میں نازک صورتحال پیدا ہونے کی اطلاع دی.اس وقت حضرت ابو بکر سخت بیمار تھے.آپ نے حضرت عمر کو اپنے بعد خلیفہ بنانے کی وصیت کی.آپ نے عمر کو نصیحت فرمائی کہ منی کو مدد دے کر عراق روانہ کریں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ چند دنوں بعد 22 جمادی الاول سنہ 13 ھ (22 اگست 634ء) کو وفات پاگئے اور وصیت کے مطابق حضرت عمرؓ بن الخطاب خلیفہ ہوئے.حضرت عمرؓ نے مسلمانوں کے ایک اجتماع میں عراق کے حالات پر منی سے تقریر کروائی اور جہاد کی تحریک فرمائی.بنو ثقیف کا ایک مسلمان ابوعبیدہ بن مسعود ایمان کے جوش میں اٹھ کر کھڑا ہوا اور حضرت عمرؓ کو مخاطب کر کے عرض کی.امیر المومنین ! اس کام کے لئے میں حاضر ہوں“.ابو عبیدہ کو دیکھ کر ہزاروں مسلمان عراق کے جہاد میں شریک ہونے کے
52 51 لئے تیار ہو گئے حضرت عمرؓ نے ابو عبیدہ کو سپہ سالار بنا کر عراق بھیج دیا میشنی اور ان کی ساری فوج اب ابو عبیدہ بن مسعود کے ماتحت تھی.ایران کے وزیر اعظم رستم کوعلم ہوا تو اس نے سرحدی علاقوں میں بغاوت کروادی اور دو زبر دست لشکر تیار کئے.ابوعبیدہ دریائے فرات عبور کر کے ایرانی فوجوں کے بہت نزدیک پہنچ گئے اور ایرانیوں کو بری طرح شکست دی.رستم نے ایک اور سپہ سالار کے ماتحت فوج تیار کر لی جس میں تین سو ہاتھی بھی تھے دریائے فرات کے اس پار جنگ ہوئی.ابو عبیدہ بڑی بہادری سے لڑے لیکن ہاتھیوں کی یلغار سے ایک ہاتھی کے پاؤں کے نیچے کچل کر شہید ہو گئے اسلامی جھنڈ انثنی نے سنبھال لیا اور بڑی جرات کا مظاہرہ کیا اس دوران دشمن نے دریا کا پل تو ڑ دیا تا کہ مسلمان واپس نہ جاسکیں اور انہیں نیست و نابود کر دیا جائے لیکن مسلمان دشمن کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہو گئے.حضرت شنی نے کمال حکمت سے حالات کو مزید نہ بگڑنے دیا پل کی تعمیر کروائی اور اسلامی فوج کو پل کے اس طرف لانے میں کامیاب ہو گئے تا ہم چھ ہزار مسلمان اس جنگ میں شہید ہو گئے.یہ جنگ جنگ جسر یعنی پل والی جنگ کے نام سے مشہور ہے.جب یہ خبر مدینہ پہنچی تو حضرت عمر اور تمام مسلمانوں کو البوعبیدہ اور باقی مسلمان شہداء کا بہت افسوس ہوا.حضرت عمرؓ نے جنگ جسر کا بدلہ لینے کے لئے تمام عرب میں جہاد کا اعلان کروایا.ہزاروں مسلمان بلکہ بعض عیسائی سردار بھی ہزاروں آدمی لے کر مسلمان فوج میں شامل ہو گئے.حضرت عمر نے منی بن حارثہ کو سپہ سالار مقرر کیا.ان کا اب ایک لاکھ سے زائد ایرانیوں سے مقابلہ ہوا ایرانی فوج میں آگے زرہ پوش تھے.پھر جنگی ہاتھی اور ان پر تیرا انداز سوار تھے.دائیں اور بائیں سواروں کے دستے تھے.حضرت مثنیٰ نے مسلمانوں کے آگے نہایت ایمان افروز تقریریں کیں اور پورے جوش و جذبہ کے ساتھ دشمن پر ٹوٹ پڑے.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد فرمائی ایک لاکھ کے قریب ایرانی اس جنگ میں مارے گئے.صرف ایک سو مسلمان شہید ہوئے.حضرت مثنی بری طرح زخمی ہوئے.جس جگہ یہ جنگ لڑی گئی اس جگہ کا نام بویب تھا.اس لئے یہ جنگ جنگِ بویب“ کے نام سے مشہور ہوئی.بویب کی شکست کے بعد ایرانیوں نے پوران دخت کو معزول کر دیا اور کسری فارس کے پایہ تخت پر خسرو پرویز کے پوتے یزدگرد (یزدجرد) کو بٹھا دیا.جنگ بویب کی زبر دست شکست کا بدلہ لینے کے لئے ایرانی متحد ہو کر مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور عراق کے مسلمان علاقوں میں بغاوت کے شعلے بھڑ کا دیئے.حضرت مثنیٰ نے دربارِ خلافت میں اطلاع دی.حضرت عمرؓ نے فرمایا !خدا کی قسم اگر ملک عجم نے اتحاد کر لیا ہے تو میں ان کے مقابلہ کے لئے ملوک عرب کو بھیجوں گا.حضرت عمرؓ نے سارے عرب میں ایران میں جہاد کے لئے لوگوں کو تحریک فرمائی لا تعداد لوگ لبیک کہتے ہوئے مدینہ حاضر ہو گئے.میں بھی بنو ہوازن سے تین ہزار جنگجو لے کر حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہو گیا.حضرت عمرؓ کا خیال تھا کہ وہ اب خود فوج لے کر ایرانیوں کے ساتھ جنگ لڑیں گے.لیکن بعض صحابہؓ کے مشورہ سے انہوں نے مجھے ایرانیوں کی
54 53 اس خطر ناک جنگ کا سپہ سالار بنا کر بھیجا جو انتہائی خوفناک جنگ کسری فارس اور اسلامی فوجوں کے درمیان لڑی جانے والی تھی.حضرت عمرؓ نے مجھے روانہ کرتے وقت بعض نصائح فرمائیں اور فرمایا کہ:.تم اسی طریقہ کو مضبوطی سے اختیار کرو جس پر محمد رسول اللہ علی 66 بعثت سے رحلت تک قائم رہے.اب کوئی معمولی جنگ نہیں ہوئی تھی.سارا ایران متحد ہو کر مسلمانوں کو پیس ڈالنے کے لئے تیار ہو بیٹھا تھا.اس جنگ کی نازک صورت حال کے باعث حضرت عمر نے شام سے اس فوج کو بھی بلوالیا جو عراق سے شام کو بھیجی گئی تھی اور اس وقت جس کی قیادت حضرت خالد بن ولید کر رہے تھے.لیکن اب انہیں اس عہدے سے سبکدوش کر دیا گیا تھا.میں قادسیہ کے مقام پر پہنچا اس دوران حضرت مثنیٰ وفات پاچکے تھے.انہیں بویب کی جنگ میں بہت گہرے زخم آئے تھے اور ان زخموں کی تاب نہ لا کر وفات پاگئے.جس سے مجھے اور تمام مسلمانوں کو بہت دکھ ہوا.میں نے مثنی کی بیوہ سے نکاح کر لیا.اب تک اسلامی فوج کی تعداد تمیں ہزار تک پہنچ چکی تھی.میدان جنگ میں پہنچ کر میں نے سارے حالات حضرت عمر کو تحریر کئے اور حضرت عمرؓ نے مزید ہدایات مجھے لکھ کر بھجوائیں اور فرمایا کہ مجھے دشمن کی نقل و حرکت کی اس طرح اطلاع دو کہ گویا آپ خود سے دیکھ رہے ہوں.جس فوج میں سپہ سالار بنایا گیا تھا اس میں چھ سو کے قریب آنحضور ﷺ کے صحابہ شامل تھے اور ستر کے قریب وہ صحابہؓ بھی شامل تھے صلى الله علوم جو بدر کی جنگ میں شامل تھے.اور صحابہ میں ایک خاص مقام رکھتے تھے اور تین سو کے قریب وہ صحابہ شامل تھے جو صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت علی کے ہمراہ تھے.اور بیعت رضوان میں شامل ہوئے تھے.اس طرح چھ سو صحابہ میں سے تین سوستر خاص صحابہ ہوئے اور باقی دوسو تیں دوسرے صحابہ تھے.اور سات سو کے قریب صحابہ کی اولاد میں سے تھے.غرض یہ وہ تمام لوگ تھے جو خدا کی نگاہ میں اس وقت بہت محبوب لوگ تھے اور جنہوں نے آنحضرت ﷺ سے بطور خاص تربیت پائی تھی.ہمارے مقابلے کے لئے کسری فارس یزدگرد نے ایران کے نہایت مشہور اور بہادر شخص کو جو آرمینہ کے رئیس فرخ زاد کا بیٹا تھا اور وزیر اعظم یا وزیر دفاع تھا اور جس کا نام رستم تھا اڑھائی لاکھ فوج دے کر اس کا سپہ سالار مقرر کیا.میں نے حضرت عمرؓ کو ایرانی فوج کی اطلاع بھجوائی حضرت عمرؓ نے مجھے خط لکھا اور فرمایا:.تم ایرانی فوجوں کی کثرت اور ان کے ساز وسامان کی فروانی سے مت گھبراؤ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو جو ہمارا حقیقی کارساز ہے اور اسی سے مدد مانگو.جنگ سے پہلے چند صائب الرائے بہادر اور وجاہت والے لوگ چن کر کسری کے دربار میں بھجواؤ جو اس کو اسلام کی دعوت دیں.انشاء اللہ اس دعوت سے ایرانیوں کے ارادے ست ہو جائیں گے اور اگر کسری ایران دعوت اسلام کو رڈ کر دے گا تو اس کا وبال بھی اسی کی گردن پر ہوگا.وو میں نے چودہ آدمیوں پر مشتمل ایک سفارت کو نعمان کی سربراہی میں
56 55 مدائن بھجوایا جو سیدھا کسری فارس کے پُر شوکت دربار میں پہنچا اور یزدگرد کے پوچھنے پر اسے بتایا کہ عرب کے سارے قبائل کو متحد کرنے کے بعد ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں جو ہم سے قریب تر ہیں.اگر تم شرک کو چھوڑ دو اور خدا اور اس کے رسول محمد ﷺ پر ایمان لے آؤ اس صورت میں ہم کتاب اللہ تمہارے درمیان چھوڑ کر واپس چلے جائیں گے اگر یہ منظور صلى الله نہیں تو جز یہ دو ورنہ تلوار تمہارے اور ہمارے درمیان فیصلہ کرے گی.کسری فارس اس گفتگو سے غضب ناک ہوا اور جواباً خاک کی ایک ٹوکری اٹھا کر مسلمان کے آگے پھینک دی یہ مٹی کی ٹوکری نعمان کے ایک ساتھی عاصم نے اپنی چادر میں ڈال لی اور مجھے آ کر مبارک دی کہ دشمن نے اپنی زمین خود ہماری جھولی میں ڈال دی ہے.انشاء اللہ اب ہم ضرور غالب آئیں گے.یزدگرد نے رستم کو حکم دیا کہ قادسیہ پہنچ کر مسلمانوں کے لشکر کو نیست و نابود کر دو.رستم اس وقت ساباط میں تھا اس نے اپنے اڑھائی لاکھ لشکر کے ساتھ جس میں تین سو ہاتھی بھی تھے قادسیہ کی طرف کوچ کیا اور کوٹی کے مقام پر پہنچا.وہاں سے نجف اور پھر قادسیہ کے سامنے عتیق کے مقام پر پہنچا.مدائن اور قادسیہ کے درمیان صرف چند دن کا فاصلہ تھا.چھ ماہ تک جنگ کی نوبت نہ ماہ آئی.رستم کا خیال تھا کہ مسلمان تھک کر واپس چلے جائیں گے.بالآخر اس نے مجھے پیغام بھیجا کہ میں اپنا کوئی معتمد صلح کی گفتگو کے لئے اس کے پاس بھیجوں میں نے یکے بعد دیگرے تین بہادروں کو بھجوایا رستم نے بڑی شان و شوکت سے دربار سجایا ہوا تھا اور سونے کے تخت پر بیٹھا تھا.لیکن میرے سفیر اس سے مرعوب نہ ہوئے اور بڑی بے باکی سے اسے اسلام کی دعوت دی ورنہ لڑنے کے لئے کہا.رستم سخت غضب ناک ہوا.اور اس نے کہا:.سورج کی قسم ! تم سے صلح نہیں ہو سکتی کل میں تم سب کو ہلاک کروں گا“.دونوں فوجوں کے درمیان دریائے دجلہ حائل تھا.رستم راتوں رات پل بنوا کر اپنی فوج کو مسلمانوں کی طرف لے آیا میرے لشکر کی تعداد میں ہزار کے لگ بھگ تھی.میں بیمار تھا اس لئے میدان جنگ کے قریب ایک عمارت پر بیٹھ گیا اور وہیں سے ہدایات دیتا رہا پہلے انفرادی جنگ ہوئی جو ایرانی سامنے آیا مد مقابل مسلمان نے اس کا سر کاٹا اس پر جنگ با قاعدہ شروع ہوگئی.ایرانیوں نے جنگی ہاتھیوں کو ہماری طرف دھکیلا اور ایرانی فوجیں آندھی اور طوفان کی طرح مسلمانوں پر حملہ آور ہوئیں.مسلمانوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس طاقت کا مظاہرہ کیا جس کے لئے انسانی بدن بنائے ہی نہیں گئے تھے.یہ ایمان کی طاقت تھی اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت تھی جو کام کر رہی تھی اس کے پیچھے خلیفہ وقت اور عالم اسلام کی دعائیں تھیں جو اثر پیدا کر رہی تھیں.اس جنگ میں رستم مارا گیا اس کی موت سے ایرانی بد دل ہو گئے.ان کے ہاتھیوں کی سونڈوں پر مسلمانوں نے تلواریں چلائیں اور وہ اپنی ہی فوج کو روندتے ہوئے پیچھے بھاگے تقریبا تمیں ہزار ایرانی ہلاک ہوئے.مسلمان شہداء کی تعداد آٹھ ہزار تھی.ایرانیوں کو عبرتناک شکست ہوئی کسری فارس کے تحت کی بنیادیں ہل گئیں.بے تحاشا مال غنیمت ہمارے //
58 57 ہاتھ آیا.جنگ قادسیہ سنہ 16ھ (635ء) میں لڑی گئی اس جنگ نے ایران کے دروازے مسلمانوں پر کھول دیئے.تمام مجاہدین کو کثرت سے مال غنیمت ملا جس کا وہ گمان بھی نہیں کر سکتے تھے.حضرت عمر کو خبر ملی تو آپ سجدہ میں الله گر گئے اور لوگوں کو مسجد نبوی ﷺ میں بلا کر قادسیہ کی فتح کی خوش خبری سنائی تمام مسلمان قادسیہ کی فتح سے بہت خوش ہوئے.عراق کے محاذ پر اللہ تعالیٰ کی مدد خاص طور پر ہمارے شامل حال تھی ان دنوں عجیب و غریب واقعات ہوئے.ایک روز مدینہ میں خطبہ جمعہ کے دوران حضرت عمر پر کشفی حالت طاری ہوگئی اور میدان جنگ آپ کے سامنے آ گیا آپ نے دیکھا کہ ساریہ جو ایک دستے کا جرنیل تھا.وہ اپنے ساتھیوں سمیت دشمن فوج سے لڑ رہا ہے مگر دشمن کی فوج کا پلہ بھاری ہے اور قریب ہے کہ اسلامی فوج شکست کھا جائے آپ نے بلند آواز سے کہا ساریہ ! پہاڑ کی طرف ہو جاؤ تا کہ دشمن کے حملے سے بچ سکو.خدا کی عجیب شان ہے کہ آواز میدان جنگ میں پہنچی ساریہ پہاڑ کے پیچھے ہو گئے اور دشمن کے حملے سے بچ قادسیہ میں شکست کھانے کے بعد ایرانی لشکر نے بھاگ کر بابل کی چھاؤنی میں پناہ لی اور فیروزاں نامی جرنیل کی سربراہی میں از سر نو جنگ کی تیاریاں کیں.میں نے حضرت عمرؓ کو اطلاع بھجوائی اور قادسیہ سے آگے بڑھنے کی اجازت مانگی.حضرت عمرؓ نے ایران کے دارالحکومت مدائن کی طرف پیش قدمی کی اجازت دے دی اور ایک مضبوط فوج بھی مدد کے لئے روانه فرما دی ایرانیوں نے دریائے دجلہ اور اس کی نہروں کے پل تباہ کر دیئے تا کہ مسلمان نقل و حرکت نہ کر سکیں.ہم نے بابل اور کوئی پر قبضہ کرلیا اور لوگوں کو جزیہ پر ایمان دی کئی لوگوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لیا.کوئی وہ تاریخی جگہ تھی جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نمرود نے قید کر لیا تھا.میرے منہ سے بے ساختہ یہ آیت نکلی.تِلْكَ اللَا يَامُ نُدَاوِ لُهَا بَيْنَ النَّاسِ (آل عمران: ۱۴۱) یعنی یہ دن ایسے ہیں کہ ہم انہیں لوگوں کے درمیان نوبت به نوبت پھیراتے رہتے ہیں.ہم کوئی سے آگے برہ شیر نامی جگہ پر پہنچے یہاں کسرای کا شکاری شیر رہتا تھا دشمن نے اس شیر کو ہمارے لشکر پر چھوڑ دیا.میرے بھائی عقبہ کا بیٹا ہاشم ہر اول دستے کا افسر تھا.انہوں نے شیر پر تلوار سے حملہ کیا اور شیر کو مار دیا میں نے ہاشم کی بہادری دیکھ کر اس کی پیشانی چوم لی.برہ شیر دار حکومت مدائن کی حفاظتی چھاؤنی تھی پہلے ایرانی یہاں قلعہ بند ہوئے لیکن دو ماہ کے محاصرے سے قلعہ سے باہر نکل آئے اور مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے لیکن بری طرح پسپا ہوئے ہم قلعہ میں فاتحانہ شان سے داخل ہوئے.شہر والوں کو جزیہ پر امان دی.یہاں سے ہم نے دیکھا کہ دریائے دجلہ کے اس طرف مدائن کے سفید محلات ہیں جن کی فتح کی خوشخبری حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خندق کے دوران دی تھی.مدائن کے سفید محلات اور ہمارے درمیان دریائے دجلہ حائل تھا اس کے پل تو ڑ دیئے گئے تھے.اور بارشوں کی وجہ سے طغیانی آئی ہوئی تھی میں
60 60 59 نے گھوڑوں کو دریا میں ڈالنے کا فیصلہ کیا اور مسلمانوں کو کہا.مسلمانو! میں نے پکا ارادہ کر لیا ہے کہ اللہ پر بھروسہ کر کے میں اپنے گھوڑے کو دریا میں ڈال دوں.بتاؤ اس وقت کون میرا ساتھ دے گا.تمام فوج پکا راٹھی اے امیر ! ہم حاضر ہیں.چنانچہ ہم سب نے دجلہ میں اپنے گھوڑے ڈال دیئے اس وقت میری نظروں کے آگے وہ زمانہ آ گیا جب جنگ بدر پر روانگی سے قبل حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے انصار سے مشورہ مانگا تو انہوں نے کہا تھا کہ ہم حاضر ہیں.اگر آپ ہمیں سمندر میں لڑنے کے لئے بھی کہیں تو ہم تیار ہیں.یہ کیفیت میری فوج کی تھی انہوں نے امیر کی اطاعت میں جو آنحضرت علی کے ابتدائی صحابہ میں سے ہے سچ سچ اپنے گھوڑے پانی میں ڈال دیئے اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ساری فوج صحیح سلامت دریا پار کر کے مدائن کے سفید محلات کے پہلو میں پہنچ گئی.یہ نظارہ دیکھ کر دشمن پر دہشت طاری ہوگئی اور انہوں نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دیئے.کسری فارس یزدگرد جس قدر خزا نہ سمیٹ سکتا تھا سمیٹ کر کچھ امراء اور محافظوں کے ساتھ حلوان کی طرف بھاگ گیا.جہاں اس کے بیوی بچے پہلے ہی پہنچا دیئے گئے تھے.ایوان کسری پر اسلامی پرچم لشکر اسلام مدائن کے سفید محلات میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کرتا ہوا داخل ہوا.مدائن کی شان و شوکت اور سرسبز و شاداب باغ دیکھ کر میرا دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر گیا اور میری زبان پر بے اختیار سورۃ دخان کی وہ آیات جاری ہو گئیں.جن میں اللہ تعالیٰ کافروں کی نعمتوں کا ایک دوسری قوم کو وارث بنانے کا وعدہ کرتا ہے.میں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مدائن کے سفید محلات میں نماز شکرانہ ادا کی محل کے درودیوار اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھے.کسری فارس کے محل کے اوپر اسلامی پر چم لہرایا گیا.یہاں پر جو مال غنیمت ہمارے ہاتھ آیا اس کی مالیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے بے انتہا ہیرے جواہرات سونا چاندی، تلواریں زر ہیں، قیمتی پار چات اس کی مالیت کا اندازہ نہیں کھرب دینار کے قریب لگایا گیا.میں نے مال غنیمت کا پانچواں حصہ مدینہ حضرت عمرؓ کے پاس بھجوا دیا اور باقی فوج میں تقسیم کر دیا.مال غنیمت کو دیکھ کر حضرت عمر اور مدینہ کے مسلمانوں کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری ہو گئے.حضرت عمرؓ نے فرمایا:.لوگو ! رب ذوالجلال کا شکر ادا کرو جس نے کسری عظیم فارس سے سلطنت چھین لی اس نے کہا تھا کہ میں لوگوں کا رب ہوں.آج خدائے حقیقی نے عرب کے بادیہ نشینوں کو اس کا مالک بنا دیا ہے.جان لو کہ عزت اور ذلت سب خدا کے ہاتھ میں ہے.“ حضرت عمر نے اس موقع پر کسری کے کنگن سراقہ بن مالک کو پہنائے جن
62 61 کے بارہ میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے ہجرت مدینہ کے دوران فرمایا تھا.کہ سراقہ تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب کسری کے کنگن تمہارے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے.عراق کے گورنر کے طور پر خدمات اور کوفہ کی تعمیر عراق ایک سرے سے دوسرے سرے تک فتح ہو چکا تھا.حضرت عمرؓ نے مجھے آگے پیش قدمی سے روک دیا اور فرمایا کہ اس علاقے کے انتظام اور انصرام کی طرف توجہ دوں اور حضرت عمرؓ نے مجھے عراق کا گورنر بنا دیا.میں نے سارے ملک میں امن اور انصاف قائم کیا.لوگ اسلام کو قریب سے دیکھ کر اس کے حسن سے بے حد متاثر ہوئے اور فوج در فوج لوگ اپنی مرضی سے مسلمان ہوئے جن میں بڑے بڑے رؤساء بھی شامل تھے میں نے عراق کی مردم شماری کروائی اور سارے ملک کا سروے کروایا اور رعایا کی ترقی و خوشحالی کے منصوبے بنائے.نیز نو مسلموں کی تربیت کے لئے مساجد تعمیر کروائیں اور قرآن کریم کے درس جاری کروائے.مدائن کی آب و ہوا عربوں کے موافق ی تھی.حضرت عمرؓ کو ہمارا بہت خیال رہتا تھا.آپ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ عرب کی سرحد پر کوئی مناسب جگہ تلاش کر کے وہاں ایک نیا شہر آباد کروں.جہاں پانی کافی مقدار میں ہو اور میرے اور اس کے درمیان کوئی دریا یا پل نہ ہو.میں نے دریائے فرات سے ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر حیرا کے پاس ایک سرسبز و شاداب جگہ کا انتخاب کیا اور اس شہر کی بنیاد رکھی جس کا نام ” کوفہ رکھا گیا.اس شہر میں ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کی گئی جس میں چالیس ہزار مسلمانوں کے نماز پڑھنے کی گنجائش تھی.مسجد کے ارد گرد ہر قبیلے کے لئے الگ الگ محلہ بنایا گیا.مسجد کے قریب ایوان حکومت تعمیر ہوا جو " قصر سعد" کے نام سے مشہور ہوا.کوفہ میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی چھاؤنی بن گئی جس میں
63 64 ایک لا کھ سپاہی بسائے گئے.کوفہ میں قیام کے دوران میں نے کئی رفاہ عامہ کے کام کئے جن میں کنویں نہریں میل مسافر خانے سکول مساجد چھاونیاں وغیرہ شامل ہیں.حتی کہ کوفہ عالم اسلام میں سب سے بڑی چھاؤنی بن گیا.مدینہ واپسی اور خلافت کمیٹی میں شمولیت کوفہ میں میرا قیام سنہ 23 ھ تک رہا اس دوران بعض نا خوشگوار واقعات بھی ہوئے.بعض لوگوں نے حضرت عمرؓ کو میری شکایت کی.حضرت عمرؓ نے آدمی بھیج کر تحقیق کروائی.شکایت غلط ثابت ہوئی تا ہم حضرت عمر نے کسی حکمت کے تحت مجھے واپس مدینہ بلوالیا.اس کی مجھے اس وقت سمجھ آئی جب حضرت عمر نے خلافت کمیٹی تشکیل دے کر مجھے اس میں شامل فرمایا :.دراصل آخر سنہ 23ھ میں حضرت عمر پر قاتلانہ حملہ ہوا.حضرت عمر نشدید زخمی ہو گئے.آپ نے اس موقع پر انتخاب خلافت کے لئے ایک بورڈ مقرر فرمایا جس میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ اللہ کے وہ چھ ابتدائی صحابہ شامل کئے جو عشرہ مبشرہ میں شامل تھے.اور ابھی تک زندہ تھے.ان میں آپ نے مجھے بھی شامل فرمایا.ان کے نام درج ذیل ہیں.ا.حضرت عثمان بن عفان ۲.حضرت علی بن ابی طالب ۳.حضرب عبد الرحمن بن عوف ۴.حضرت زبیر بن العوام ۵.حضرت طلحہ بن عبید اللہ ۶.خاکسار سعد بن ابی وقاص حضرت عمرؓ نے اگلے دن صبح ہمیں بلوایا اور فرمایا تم ان لوگوں کے سردار صلى الله ہو تم میں سے کوئی ایک خلیفہ ہونا چاہئے.حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کا
66 65 وصال ایسی حالت میں ہوا کہ آپ یہ تم سے راضی تھے.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میری وفات کے تین دن کے اندر انتخاب خلافت ہو جائے.آپ نے فرمایا کہ جو بھی خلیفہ منتخب ہو اس کی سب اطاعت کرنا.آپ نے وصیت فرمائی کہ اگر سعد خلیفہ منتخب نہ ہوسکیں تو جو بھی خلیفہ منتخب ہو وہ سعد کی خدمات سے فائدہ اٹھائے.حضرت عمرؓ کا 26 ذوالحجہ سنہ 23 ھ کو وصال ہوا.آپ دس سال تک منصب خلافت پر فائز رہے.اس دور میں عالم اسلام کو غیر معمولی ترقیات نصیب ہوئیں.حضرت عمر کی ہدایت کے مطابق خلافت کمیٹی نے تین دن کے اندر اندر دعا اور باہمی مشورے کے بعد حضرت عثمان کو خلیفہ منتخب کر لیا.حضرت عثمان 1 محرم سنہ 24ھ (7 نومبر 642ء) خلافت ثالثہ کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے.عراق میں گورنری کا دوسرا دور حضرت عمرؓ کی وفات کے وقت مغیرہ بن شعبہ کوفہ کے گورنر تھے.حضرت عثمان نے خلیفہ بن کر مجھے دوبارہ عراق بھجوا دیا اور کوفہ کا گورنر بنا دیا.اس وقت فارس کے علاقے میں مملکت اسلامیہ کے دو صوبے بن چکے تھے.عراق کے صوبے کا دارالحکومت کوفہ تھا اور عراق سے آگے ایران اور اس کے مفتوحہ علاقوں کے صوبہ کا دارالحکومت بصرہ تھا.کوفہ کی حکومت عراق کے تمام علاقوں سے آگے آرمینیا تک پھیلی ہوئی تھی.بصرہ ایران کی سرحد پر واقع تھا اور بصرہ کی حکومت ایران کے مقبوضات تک پھیلی ہوئی تھی.حضرت عثمان کے دور خلافت میں ایران کی آخری حدود تک فتوحات پہنچ گئیں.مغیرہ بن شعبہ کو ہٹا کر حضرت عثمان نے مجھے کوفہ کا گورنر بنا کر بھیجا.فارس کے علاقوں میں فتوحات کا سلسلہ ابھی جاری تھا.کثرت سے لوگ مسلمان ہو چکے تھے.ان کی تعلیم و تربیت اور ملک کے استحکام کا کام وسیع پیمانے پر جاری تھا.مجھے حضرت عثمان کے دور خلافت میں کوفہ کے گورنر کے طور پر تین سال تک خدمت کی توفیق ملی.
68 67 کوفہ سے واپسی اور عقیق میں مستقل قیام سنہ 26ھ میں حضرت عثمان نے مجھے کوفہ سے واپس مدینہ بلوالیا اور میری جگہ ولید بن عقبہ کو گورنر مقرر کر دیا عرب گورنر کو والی کہا کرتے تھے.میری عمر اب 65 سال سے تجاوز کر چکی تھی میں نے ارادہ کیا کہ باقی زندگی کے دن عبادت اور دعاؤں میں گزاروں.مجھے معقول رقم بطور وظیفہ (پنشن) ملنے لگی.عراق کی مہمات میں مال غنیمت کے طور پر بھی جو رقم ملی وہ زکوۃ وغیرہ صلى الله نکال کر میری آئندہ زندگی گزارنے کے لئے کافی تھی.مدینہ سے دس میل دور مدینہ اور فرع کے درمیان وادی عقیق ہے.مدینہ کے اطراف میں جتنی بھی آبادیاں ہیں ان میں سے عقیق کے کنوؤں کا پانی سب سے میٹھا ہے وہاں پر حضرت رسول اللہ علیہ نے خود مجھے زمین کا ایک قطعہ دے رکھا تھا.میں نے اس پر مکان بنوایا اور وہیں رہنے لگا.وہیں پر میں تھوڑا بہت کھیتی باڑی کا کام بھی کرتا تھا.میں زیادہ وقت عبادت اور دعاؤں میں گذارتا اور ملک کی سیاست سے پوری طرح الگ ہو گیا اس دوران عالم اسلام میں کئی اتار چڑھاؤ آئے لیکن میں نے کسی میں دخل نہ دیا.حضرت عثمان بارہ سال خلیفہ رہے.آپ کے عہد خلافت کا آخری نصف دور مسلمانوں میں اختلافات کا دور تھا.یہودیوں کی ایک گہری سازش خلافت اور مرکزیت کو ختم کرنا چاہتی تھی.اسی سازش کے نتیجہ میں حضرت عثمان کی شہادت ہوئی.آپ 18 ذو الحجہ سنہ 35ھ (21 مئی 656ء) کو شہید ہوئے.اس فتنے کا بانی ایک یہودی عبداللہ بن سبا تھا.جو اوپر سے مسلمان اور اندر سے یہودی تھا اس نے اپنے ساتھیوں کا جال سارے عالم اسلام میں پھیلا کر اسلام کو بہت نقصان پہنچایا حتی کہ اس کے ساتھیوں اور باغیوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا.میں نے مدینہ جا کر انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن میری نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا اور ان لوگوں سے مایوس ہوکر میں واپس آ گیا.//////
70 0 69 حضرت علی کی بیعت اور گوشہ نشینی حضرت عثمان کی شہادت کے المناک واقعہ کے بعد کچھ لوگوں نے حضرت علی کی بیعت کی.میں نے بھی مدینہ جا کر بیعت کر لی اور واپس عقیق آ گیا.یہ زمانہ عالم اسلام میں فتنوں کا زمانہ تھا.حضرت علی اضطراری حالات میں مدینہ چھوڑ کر کوفہ چلے گئے.مسلمانوں نے ایک دوسرے کے خلاف تلوار میں نکال لیں.گو حضرت علی کی زندگی میں معاویہ نے خلیفہ ہونے کا دعویٰ نہیں کیا لیکن اس نے شام کے صوبے میں الگ حکومت قائم کر لی جہاں وہ پہلے مدینہ کی حکومت کے ماتحت گورنر تھا.مصر میں عمرو بن العاص بھی علیحدہ ہو گیا.الله اس دوران معاویہ اور حضرت علیؓ کے درمیان جنگیں بھی ہو ئیں میرا دامن صلى الله مسلمان کے خون سے پاک رہا.میں نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ سے سن رکھا تھا کہ حضور ﷺ کے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا جس میں لیٹنے والا بیٹھنے والے سے اور بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا.اس لئے میں نے سیاست سے الگ رہ کر گوشہ نشینی کی زندگی کو ترجیح دی.ایک موقع پر مجھے معلوم ہوا کہ حضرت علی اور معاویہ کے درمیان مصالحت ہو رہی ہے.مجھے بہت خوش ہوئی میں اس خوشی میں شامل ہونے کے لئے دومۃ الجندل تک گیا لیکن مجھے پتہ چلا کہ مصالحت نہیں ہو سکی مجھے بہت دکھ ہوا اور میں واپس آ گیا.اس زمانے میں عبادات اور دعاؤں سے فارغ ہو کر میں کچھ کھیتی باڑی کا کام بھی کرتا تھا اور جنگل میں اونٹ بکریاں بھی چراتا تھا.ایک بار میرا ایک بیٹا عمرو بن سعد میرے پاس آیا اور کہنے لگا ابا جان ! آپ جنگل میں اونٹ بکریاں چراتے ہیں اور لوگ مدینہ میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں.میں نے اسے سمجھایا اس کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور کہا:.چپ ہو جاؤ! میں نے حضرت محمد رسول اللہ علہ سے سن رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی اور مخفی رہنے والے بندہ سے محبت کرتا ہے.“ حضرت علی پونے پانچ سال تک خلیفہ رہ کر 20 رمضان سنہ 40 ھ کو شہید کر دئیے گئے.آپ کی شہادت کے بعد میں نے مکمل گوشہ نشینی اختیار کرلی.
72 71 حضرت سعد کی وفات اور سیرت حضرت سعد کو ایک لمبا عرصہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کیساتھ مل کر خدمات کی توفیق ملتی رہی.پھر خلافت راشدہ کے دوران بھی انہیں مقدور بھر خدمات کی سعادت نصیب ہوئی اور کسری فارس کا پایہ تخت مدائین ان کے ہاتھوں پر فتح ہوا.فارسیوں میں دعوت الی اللہ اور نومسلموں کی تعلیم و تربیت کا بھی انہیں موقع ملا.ایک لمبا عرصہ مجاہدانہ زندگی گزارنے کے بعد زندگی کے آخری کئی سال انہوں نے گوشہ نشینی میں رہ کر زاہدانہ زندگی کو ترجیح دی اور مسلسل عبادات اور دعاؤں میں مصروف رہے.بالاخر سنہ 55ھ میں تقریباً 87 سال کی عمر میں انہوں نے تحقیق میں اپنے گھر قصر سعد میں وفات پائی وفات کے وقت ان کا سر ان کے بیٹے مصعب بن سعد کی گود میں تھا.اور انکی زبان پر سورۃ الفجر کی یہ آیات تھیں.يآيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر 31:28) ”اے نفس مطمئن اپنے رب کی طرف لوٹ آ میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا“.خدا کی عجیب شان ہے کہ آنحضرت علی انہیں پہلے ہی ان دس صحابہ میں شامل فرما چکے تھے.جو عشرہ مبشرہ کہلاتے ہیں اور جنہیں آنحضرت نے بطور خاص جنت کی بشارت دی تھی.انہوں نے اپنی وفات سے پہلے وہ جبہ منگوایا جو بدر کے موقع پر پہنا تھا انہوں نے اپنے بچوں کو وصیت کی کہ مجھے یہ جبہ پہنا کر دفن کرنا اور محمد رسول اللہ کی طرح لحد والی قبر بنا کر دفن کرنا.ازواج مطھرات کی خواہش پر ان کا جنازہ ان کے گھر سے اٹھا کر مسجد نبوی ﷺ میں لایا گیا.مدینہ کے گورنر ( والی ) مروان بن حکم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ازواج مطھرات بھی ان کے جنازے میں شامل ہوئیں اور و ہزاروں مسلمانوں کو ان کا جنازہ پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت سعد بن ابی وقاص کو مدینہ کے قطعہ خاص ”جنت البقیع میں دفن کیا گیا.سیرت نگاروں نے حضرت سعد کی سیرت، عبادات، عشق رسول خدمت قرآن، قبولیت دعا‘ شجاعت، صبر و حمل ایثار خدمت خلق، زہد و تقویٰ اور سادگی کو بطور خاص شامل کیا ہے.لیکن ان کی مجاہدانہ زندگی والا حصہ ان سب اوصاف پر حاوی ہے.جیسا کہ حضرت سعد کے ایک پوتے اسماعیل بن محمد بن سعد بیان کرتے ہیں:.ہیں:.کہ میرے والد ہم سب کو مغازی اور سرایا کی تعلیم دیا کرتے اور فرماتے تھے کہ یہ تمہارے آباؤ اجداد کے قابل فخر کارنامے ہیں.پس ان کے تذکروں اور یاد گاروں کو فراموش نہ کرنا.محمد رسول الله علی از شیخ محمد رضا قاہرہ صفحہ 308) ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے
73 وو اور انہوں نے اپنی کوششوں اور تگ و دو میں کوئی دقیقہ اسلام کے لئے اٹھا نہ رکھا یہاں تک کہ دین کو فارس اور چین اور روم اور شام تک پہنچا دیا.اور جہاں جہاں کفر نے اپنا بازو پھیلا رکھا تھا اور شرک نے اپنی تلوار کھینچ رکھی تھی.وہیں پہنچے انہوں نے موت کے سامنے سے منہ نہ پھیرا اور ایک بالشت بھی پیچھے نہ ہٹے اگر چہ ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے وہ لوگ جنگ کے وقتوں میں اپنی قدم گاہوں پر استوار اور قائم رہتے تھے.اور خدا کے لئے موت کی طرف دوڑتے تھے وہ ایک قوم ہے جنہوں نے کبھی جنگ کے میدانوں سے تخلف نہ کیا اور زمین کی انتہا ئی آبادی تک زمین پر قدم مارتے ہوئے پہنچے.اور یہ معجزہ ہمارے رسول خاتم النبین ﷺ کا ہے اور حقیقت اسلام پر ایک صریح دلیل ہے.(نجم الهدی اردو تر جمه از عربی عبارت) حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ نے کیا خوب فرمایا:.”میرے صحابہ ستاروں کی مانند روشن ہیں جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے.(مشكوة )