Language: UR
بسلسلہ صد سالہ خلافت احمدیہ جو بلی بنت محمد الله حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا لجنہ اماء الله
بات محمد علم الالية حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا
بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بنے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین
حضرت رقیہ بنت حضرت محمد الله 1 پیارے بچو! حضرت رقیہ بنت حضرت محمد عل الله اس وقت آپ کے ہاتھوں میں جو کتاب ہے یہ اُن چار خوش قسمت ترین خواتین میں سے ایک کی ہے جن کو رسول پاک ﷺ کی بیٹی ہونے کا شرف حاصل ہے.رسول پاک ﷺ کو خدا تعالیٰ نے چار بیٹیوں سے نوازا.حضرت رقیہ رسول پاک ﷺ کی دوسری صاحبزادی تھیں.(1) آپ کے والد محترم حضرت محمد ﷺ کی طرف سے سلسلہ نسب یوں ہے.حضرت رقیہ بنت محمد اللہ بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی.والدہ محترمہ حضرت خدیجہ الکبری کی طرف سے سلسلہ نسب یوں ہے.حضرت رقیہؓ بنت خدیجہ الکبری بنت خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی.حضرت رقیہ بعثت نبوی سے سات سال پہلے پیدا ہوئیں.اس وقت رسول خدالے کی عمر تینتیس برس تھی.حضرت رقیہ حضرت زینب سے تین برس چھوٹی تھیں.(2) حضرت رقیہ عرب کے مشہور شہر مکہ میں
حضرت رقیہ بنت حضرت محمد الله پیدا ہوئیں.یہ ارضِ نبوت وہ مقام تھا جو بڑے بڑے انبیاء کی جائے پیدائش ہے.یہ بیت اللہ کی جگہ تھی جس کی بنیاد میں آپ ہی کے بزرگوں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیل نے ہزاروں سال پہلے خدا کے حکم سے رکھی تھیں.بیت اللہ کے قریب الحجر کے ایک مکان میں حضرت رقیہ نے آنکھ کھولی تھی.یہ خدائی منشاء تھا کہ یہ با نصیب بیٹی با اقبال گھرانے میں پیدا ہوئیں جہاں عرب کے دستور سے ہٹ کر نہایت محبت کرنے والے والدین موجود تھے.(3) آپ کے بڑے بھائی قاسم تھے.ان کا انتقال کم عمری میں اس وقت ہوا جب وہ پاؤں پاؤں چلتے تھے.(۸) انہی کے نام سے رسول پاک میلے کی کنیت ابوالقاسم تھی.قاسم کے بعد آپ کی بڑی بہن زینب تھیں.جن کے بعد آپ کے ایک اور بھائی عبد اللہ کا بھی ذکر کیا جاتا ہے.اس لحاظ سے حضرت رقیہ حضرت محمد ملنے کی چوتھی اولاد تھیں.(5) بعض جگہ یہ بھی ذکر ہے کہ حضرت عبد اللہ حضرت رقیہ کے بعد پیدا ہوئے تھے اس طرح سے آپ آنحضور میلے کی تیسری اولا دیتی ہیں.حضرت محمد علہ انتہائی شفیق اور مہربان باپ تھے.ایک دفعہ آپ ﷺ کا اولاد سے محبت کا غیر معمولی واقعہ ایک شخص نے دیکھا تو اس نے دوسروں سے بیان کیا کہ میں نے تو حضرت محمدعلی سے بڑھ کر بچوں
حضرت رقیہ بنت حضرت محمد صل الله سے پیار و محبت کرنے والا کوئی نہیں دیکھا دی گو کہ خود آنحضور ما بیچین ہی میں یتیم ہونے کی وجہ سے ماں باپ کی شفقت سے محروم تھے مگر انہوں نے اپنے بچوں کو بے انتہا پیار، محبت اور عزت دی.وہ اپنے بچوں کو چومتے اور انہیں عزیز رکھتے.حضرت محمد ملنے کی اس محبت سے اُن کی بیٹی رقیہ نے بھی خوب حصہ پایا.حضرت رقیہ نے اپنی زندگی کا ابتدائی دور آرام و راحت میں گزارا.گھر میں مذہبی ماحول تھا.نرمی و محبت کی اس فضا میں غیر معمولی صلى الله نمونے آپ پچپن میں دیکھتی رہیں.آپ کے والد محترم میں نے کھانے پینے کا سامان لے کر ایک تاریک و تنگ غار میں عبادت کرتے رہتے.آپ کی والدہ چونکہ مالدار خاتون تھیں اس لئے بچپن میں آپ کو امیر گھرانے کی آسائش حاصل رہی.آپ کی خدمت کے لیے گھر میں لونڈیاں موجود تھیں.حضرت خدیجہ نے عقبی کی ایک لونڈی سلمی کو اپنی اولاد کی خدمت کے لیے گھر میں رکھا ہوا تھا.یہ لونڈی جیسا کہ امیر گھرانوں میں رواج ہوتا ہے گھر میں بچوں کو کھلاتی پلاتی تھی.(7) لونڈیوں کے باوجود حضرت خدیجہ خود بھی اپنے بچوں کی ذمہ داری ادا کرتیں.جب رسول پاک ﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو حضرت خدیجہ نے اپنا تمام مال و اسباب، گھریلو ضروریات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے رسول پاک ﷺ کی خدمت میں صلى الله
حضرت رقیہ بنت حضرت محمد م الله دے دیا کہ وہ جس طرح چاہیں اس کو خرچ کریں.اس طرح مالی آرام و آسائش کا دور ختم ہو گیا.(8) آپ کا پہلا نکاح عتبہ بن ابولہب سے ہوا تھا جو حضور ﷺ کے چا کا بیٹا تھا.جب ابوالعاص جو بنو عبد العزیٰ بن عبد الشمس بن عبد مناف میں سے تھے حضرت رقیہ کی بڑی بہن حضرت زینب کی شادی ان سے ہو گئی تو بنو ہاشم کو خیال آیا کہ حضور ا کی دوسری بیٹیوں حضرت رقیہ اور حضرت اُم کلثوم کے نکاح بھی کہیں دوسرے قبیلوں میں نہ ہو جائیں اس لئے حضرت زینب کے نکاح کے تھوڑا عرصہ بعد ہی بنو المطلب کے کچھ لوگ حضرت ابو طالب کو ساتھ لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے.جناب ابوطالب نے بات شروع کی.”اے بھیجتے ! آپ معدے نے زینب کا نکاح ابو العاص سے کر دیا ہے.بے شک وہ اچھا داماد اور شریف انسان ہے مگر آپ ﷺ کے عم زاد کہتے ہیں کہ جس طرح آپ ﷺ پر خدیجہ کی بہن ہالہ کے بیٹے کا حق ہے اسی طرح آپ ﷺ پر ہمارا بھی حق ہے اور حسب نسب اور شرافت میں بھی ہم اس سے کم نہیں.آپ ﷺ نے فرمایا! اے چا قرابت داری اور رشتہ داری سے تو انکار نہیں لیکن آپ مجھے سوچنے کا موقعہ دیں.آخر حضرت خدیجہ کے الله مشورے سے اور بیٹیوں کی رضامندی سے یہ نکاح ہو گیا.
حضرت رقیہ بنت حضرت محمد عالی ابولہب کی بیوی ام جمیل بہت چرب زبان ، بد مزاج ، سنگ دل صلى الله اور بد اخلاق عورت تھی.رسول اللہ ﷺ نے جب اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو مشرکین نے نہ صرف آپ ﷺ کی نبوت کا انکار کیا بلکہ آپ ﷺ اور دیگر مسلمانوں پر ظلم و ستم بھی شروع کر دیئے.ابو لہب اور اس کی بیوی بھی رسول اللہ علہ کو ایذاء پہنچانے میں پیش پیش تھے.ابولہب کی مذمت میں جب سورۃ لہب نازل ہوئی تو ابولہب نے اپنے دونوں بیٹوں سے کہا.جب تک تم حضرت محمدمہ کی دونوں بیٹیوں کو طلاق نہ دو گے میرا سر تمہارے سر سے جدا رہے گا.چنانچہ دونوں لڑکوں عتبہ اور عتیبہ نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادیوں حضرت رقیہ اور حضرت اُم کلثوم کو رخصتی سے پہلے ہی طلاق دے دی.(8) یہ پہلی بڑی تکلیف تھی جو حضرت رقیہ کو اسلام کی راہ میں اٹھانی پڑی.حضرت قاضی عیاض لکھتے ہیں کہ حضور اللہ نے عقبہ بن ابو لہب کے لیے ان الفاظ میں بد دعا فرمائی ” اے اللہ تو اس پر اپنے کتوں میں صلى الله سے ایک کتا مسلط کر دے“ چنانچہ حضور میلے کی یہ دعا قبول ہوئی.اسے ایک شیر نے پھاڑ کھا یا تھا.محققین و مؤرخین کا اس میں اختلاف ہے کہ جس کو شیر نے پھاڑ کھایا تھا وہ عتبہ تھا یا عتیبہ (9) حضرت رقیہ اور آپ کی دوسری بہنوں نے اپنی والدہ کے ساتھ
حضرت رقیہ بنت حضرت محمد عل الله ہی اسلام قبول کر لیا یہ اس تعلیم و تربیت ، خوش اخلاقی اور شفقت کا نتیجہ تھا جو بچپن سے آپ کے ذہن میں بسی ہوئی تھی.جب حضرت رقیہ کا پہلا نکاح ختم ہو گیا تو رسول پاک ﷺ نے آپ کے لیے حضرت عثمان غنی کا رشتہ تجویز کیا.حضرت عثمان خاندان قریش کے ایک عالی نسب اور با حیاء انسان تھے.اللہ تعالیٰ نے انہیں جاہلیت میں بھی عزت عطا فرمائی.ان کا نسب رسول اللہ علیہ سے جا ملتا تھا.آپ خوب صورت اور خوب سیرت نو جوان تھے.آپ کا شمار مکہ کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا.وہ ایک نہایت صالح نوجوان تھے.جب انہوں نے ابوبکر صدیق کے ذریعہ اسلام قبول کیا تو رسول پاک ﷺ نے انہیں اپنی دامادی کے لیے منتخب فرمایا.حضرت عثمان کی اپنی دلی خواہش بھی یہی تھی.چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے مکہ ہی میں حضرت رقیہ کی شادی حضرت عثمان سے کر دی.(10) شادی کے موقع پر رسول اللہ ملے نے رقیہ کو حضرت عثمان کا خیال رکھنے اور احسن سلوک کرنے کی نصیحت فرمائی.آپ ﷺ نے فرمایا " عثمان اپنے اخلاق میں دوسرے صحابہ کی نسبت مجھ سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے.(11) یہ الفاظ کو کہ حضرت رقیہ کے لیے بہت تسکین کا باعث ہوئے ہوں گے مگر یہ فقرے محض دلجوئی کے لئے نہیں کہے گئے تھے بلکہ حقیقت بیان کی گئی تھی.آپ ﷺ نے صلى الله 66
حضرت رقیہ بنت حضرت محمد مالی ایک مرتبہ ایک عجیب بات لوگوں کو بتائی جو پوری ہوئی.ایک حدیث میں ذکر ہے کہ آنحضور ملالہ ، حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر اور حضرت عثمان اُحد پہاڑ پر چڑھے ہوئے تھے کہ پہاڑ لرزنے لگا تو آنحضور ﷺ نے اپنا پاؤں پہاڑ پر مارا اور فرمایا ” اُحد ٹھہر جاتم پر کوئی اور نہیں بلکہ ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں، آنحضور ﷺ کی وفات کے کئی سال بعد حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان کو شہید کیا گیا اور اس طرح یہ بات پوری ہوگئی.(12) حضرت رقیہ نیک بخت اور خوش نصیب تھیں.جس طرح حضرت خدیجہ نے آپ کو ناز و نعم سے پالا تھا اسی طرح حضرت عثمان نے بھی آپ کو بڑے آرام سے رکھا.شادی کے وقت حضور ﷺ نے اپنی ایک خادمہ جو حضور ﷺ کو وضو کرایا کرتی تھی حضرت رقیہ کو دے دی.(13) الله الله ایک دوسرے کی قدر وعزت، محبت و وفا، فرائض کی ادائیگی، حسن معاشرت ، خاندانی و جاہت، تقوی ، دینداری اور پاکیزگی وحیا میں یہ جوڑ ا مثالی تھا.حضرت عثمان اپنی بیوی کی خوبیوں کی تعریف فرماتے تھے.ایک دفعہ رسول پاک ملے آپ کے گھر تشریف لے گئے تو دیکھا کہ حضرت رقیہ اپنے ہاتھوں سے حضرت عثمان کا سر دھو رہی تھیں (14)غرض
حضرت رقیہ بنت حضرت محمد صل الله 8 با وجود آسائشوں کے حضرت رقیہ اپنے شوہر کی خدمت کیا کرتی تھیں.جب قریش کے مظالم حد سے بڑھ حد سے بڑھ گئے تو حضور علہ نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا.حضرت رقیہ بنت محمد م ہے وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں سب سے پہلے مکہ سے حبشہ ہجرت کی.یہ ہجرت 5 نبوی میں ہوئی.آنحضرت ﷺ نے آپ کی حبشہ ہجرت پر فرمایا.’ابراہیم اور لوط کے بعد عثمان" پہلے شخص ہیں جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی آپ کے حبشہ ہجرت کر جانے کے کئی روز بعد تک جب سیدہ کی کوئی اطلاع نہ ملی اس پر صلى الله رسول اکرم بے حد پریشان ہوئے اور مکہ سے باہر تشریف لے جا کر آنے جانے والے مسافروں سے پوچھتے.ایک روز ایک عورت نے کہا کہ میں نے ان کو حبشہ میں دیکھا ہے.اس کا جواب سن کر حضور اقدس علیہ نے فرمایا.اللہ ان کا ساتھی ہے.(15) حضرت عثمانؓ اور حضرت رقیہ نے تقریباً 7 یا 8 سال کا عرصہ حبشہ میں گزارا.یہ حبشہ ہی تھا جو مسلمانوں کے لئے پہلا امن کا گھر بنا دیا گیا اور یہ حبشی قوم ہی تھی جس کی سرپرستی میں مسلمان پہلی مرتبہ کسی جگہ مذہبی آزادی کے ساتھ پھرتے.صلى الله حضرت رقیہ حضور میلے کی اکلوتی صاحبزادی تھیں جنہوں نے اسلام کی اس پہلی ہجرت کی توفیق پائی.آپ اپنی مہربان اور شفیق والد و
حضرت رقیہ بنت حضرت محمد عل الله نیز دوسرے گھر والوں سے جدائی کا زخم لئے ، دوبارہ ملنے کی امید میں صبر سے وقت گزارتی رہیں.مگر افسوس که ۱۱ رمضان المبارک، ہجرت مدینه سے تین سال قبل حضرت رقیہ کی والدہ حضرت خدیجہ الکبری انتقال فرما گئیں پھر مکہ میں دوبارہ اپنی والدہ کے ساتھ رہنا سیدہ رقیہ کو نصیب نہ ہوا.حضرت خدیجہ کی وفات کے وقت حضرت رقیہ کی عمر 17 سال تھی.حبشہ میں ایک عرصہ تک قیام کرنے کے بعد حضرت عثمان کو خبر ملی کہ رسول اللہ علیہ مدینہ ہجرت کرنے والے ہیں تو آپ حضرت رقیہ اور بعض دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مکہ واپس آ گئے.جب رسول اللہ علیہ نے مسلمانوں کو مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کا حکم دیا تو آپ حضرت عثمان کے ساتھ مدینہ ہجرت کر گئیں.(16) اسی طرح ایک اور انفرادی اعزاز جو آپ کو ملا وہ یہ ہے کہ آپ رسول اللہ ﷺ کی واحد صاحبزادی ہیں جنہوں نے دو ہجرتوں کا شرف حاصل کیا.ہجرت مدینہ کے وقت حضرت رقیہ کی عمر تقریبا 20 سال تھی.حبشہ اور مدینہ ہجرت کرنے والے صحابہ وصحابیات اصحاب الجرتین کہلاتے ہیں.(17) 6 صلى الله حضرت رقیہؓ اور حضرت عثمان مدینہ میں حضرت اوس بن ثابت کے گھر ٹھہرے ، اسلام کے مشہور شاعر حسان بن ثابت آپ کے بھائی تھے کچھ عرصہ بعد رسول اللہ اللہ بھی مدینہ تشریف لے آئے (18)
حضرت رقیہ بنت حضرت محمد عل الله 10 خدا کی یہ ایک اور عنایت تھی کہ حضرت رقیہ نے اپنی زندگی کے آخری سال اپنے وطن میں عزیزوں کے ساتھ گزارے.حضور اکرم میں ہے جس صاحبزادی کا حال دریافت کرنے مکہ کے گردونواح میں پھرتے تھے اب وہ آپ اللہ کے ہمسائے میں رہنے لگی تھیں.اور حضرت اُم کلثوم اور حضرت فاطمۃ الزہرۃ کو بھی چند سال اپنی بہن کے ساتھ گزارنے کا موقعہ مل گیا.صلى الله 2 ہجری میں حضرت رقیہ کو چیچک نکل آئی.یہ دانے نکلنے سے انہیں شدید تکلیف تھی.یہ وہ زمانہ تھا جب رسول پاک ﷺ غزوہ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے.رسول پاک ﷺ جس وقت غزوہ بدر کے لیے روانہ ہوئے تو اس وقت حضرت رقیہ شدید بیمار تھیں.آپ ﷺ نے حضرت عثمان غنی کو غزوہ بدر میں جانے سے روکا اور سیدہ رقیہ کی تیمارداری کا حکم دیا.آپ ﷺ نے فرمایا اس کے عوض اللہ تعالیٰ انہیں جہاد میں شریک ہونے کا اجر بھی دے گا اور مال غنیمت میں سے انہیں حصہ بھی ملے گا.آنحضور علی ابھی بدر کے مقام پر ہی تشریف فرما تھے کہ حضرت رقیہ 20 دن کی شدید علالت کے بعد وفات پاگئیں.وفات کے وقت آپ کی عمر اکیس سال تھی.عین اس وقت جب قبر پر مٹی ڈالی
حضرت رقیہ بنت حضرت محمد صل الله 11 جا رہی تھی حضرت زید بن حارثہ بدر سے فتح کی خبر لے کر مدینہ پہنچے.صلى الله حضرت رقیه آنحضور ﷺ کی صاحبزادیوں میں سے سے پہلی تھیں جنہوں نے حضور ﷺ کی زندگی میں وفات پائی.آپ نے اپنی لخت جگر کی وفات کی اطلاع پا کر بے حد غمگین ہوئے اور آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.مدینہ واپس تشریف لا کر حضرت رقیہ کی قبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا :- 66 عثمان بن مظعون جاچکے اب تم بھی ان سے جاملو.“ مہاجرین میں حضرت عثمان بن مظعون پہلے صحابی تھے جنہوں نے مدینہ میں انتقال کیا.اس المناک موت کا غم نہ صرف پیارے رسول ملے کو تھا بلکہ آپ ﷺ کی صاحبزادیاں بھی اپنی بہن کی جدائی پغمگین تھیں.چنانچہ حضرت فاطمہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ جب اپنی بہن کی قبر پر تشریف لائیں تو قبر کے کنارے پر بیٹھ کر رونے لگیں.حضور اقدس میلے اپنی چادر مبارک سے آپ کے آنسو پو نچھتے جاتے تھے.حضرت عثمان بھی بیوی کی جدائی میں بے حد غمگین تھے.حضرت رقیہؓ اور حضرت عثمان آپس میں بے حد محبت کرتے تھے.لوگ ان کے مثالی تعلقات کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ ان سے بہتر میاں بیوی کسی انسان نے نہیں دیکھے.(19)
حضرت رقیہ بنت حضرت محمد الله 12 آنحضور ﷺ کو بھی آپ کی فکر تھی یہی وجہ تھی کہ جب 2 ہجری صلى الله میں حضرت رقیہؓ کا انتقال ہوا تو رسول کریم ﷺ نے ربیع الاول میں حضرت عثمان کا نکاح اپنی دوسری صاحبزادی حضرت اُمّ کلثوم سے کر دیا.مشیعت الہی سے ان کو چھ سال حضرت عثمان کی خدمت کرنے کا موقعہ ملا.حضرت عثمان اتنے نیک فطرت تھے اور رسول مقبول عملے کو اتنے محبوب تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ” مجھے عثمان کی فرزندی پر فخر ہے اگر میری دس بیٹیاں ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے ہر لڑکی کے انتقال پر حضرت عثمان کے نکاح میں دے دیتا.“ حبشہ ہجرت کے بعد حضرت رقیہؓ اور حضرت عثمان کو خدا نے الله ایک بیٹے عبد اللہ سے نوازا.یہ رسول مقبول ﷺ کا پہلا نواسہ تھا.حضرت عثمان کی کنیت ابوعبداللہ اسی کے نام پر تھی.حضرت عبد اللہ کی عمر ابھی چھ سال تھی کہ ایک دن ایک مرغ نے ان کی آنکھ میں چونچ ماری جس سے تمام چہرہ متورم ہو گیا اور اس تکلیف کی وجہ سے انہوں نے جمادی الاول ، ہجری میں وفات پائی.آنحضرت ﷺ نے نماز جنازہ صلى الله پڑھائی.اور حضرت عثمان نے قبر میں اُتارا.عبد اللہ کے بعد حضرت رقیہ کے کوئی اولاد نہ ہوئی.(20)
حضرت رقیہ بنت حضرت محمد الله 13 حضرت رقیہ خوبرو اور موزوں اندام تھیں.زرقانی میں ہے وہ نہایت خوبصورت تھیں.نہ صرف خوبصورت بلکہ خوب سیرت بھی تھیں.آپ حیاء دار، پاک اور نفیس طبیعت کی مالک تھیں.آپ نے عصمت و پرهیزگاری، زہد و تقوی، نفاست و طہارت، شرم و حیاء، حمیت و غیرت اور دیگر اوصاف کریمہ اور اخلاق عالیہ ورثہ میں پائے تھے.(21) یہ قابل احترم ہستی جو مختصر و با برکت زندگی لے کر اس دنیا میں آئیں، اُس میں بھی اسلام کی خاطر قربانیوں کی توفیق پائی، آپ نے صبر و استقامت سے زندگی گزاری ، تکالیف کے ساتھ ساتھ خدائی نصرت اور انعامات ہمیشہ آپ کے ساتھ ساتھ رہے.آپ کا ایک عظیم نشان فرزندگانِ ابولہب کی ذلت و خواری تھی جنہوں نے محض آپ کے قبول اسلام کی وجہ سے آپ سے رشتہ توڑا.پھر جو نیا رشتہ حضرت عثمان سے آپ کا جُڑا وہ پورے عرب میں مثالی کہلاتا تھا.غرض یہ بات ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ خدا کی راہ میں کی گئی قربانیاں بھی رائیگاں نہیں جاتیں.خدا کسی کا احسان نہیں رکھتا.وہ غیور ہے ہمیشہ بڑھا کر لوٹا تا ہے.پس ہمیں چاہیئے کہ ان نیک سیرت صحابیات کی روشن تصویر ذہن میں رکھیں اور ان پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں.اللہ ان کے درجات بلند کرے اور ہمیشہ ہمارے ساتھ ہو.(آمین ثم آمین )
حضرت رقیہ بنت حضرت محمد عل الله (1) (2) (3) (4) (5) (6) (7) (8) (9) 14 سیر الصحابیات (صفحہ 98) حوالہ جات ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 257) اردو دائرہ معارف اسلامیہ زیر اہتمام دانش گاہ پنجاب لاہور جلد 10 (صفحہ 324) اردو دائرہ معارف اسلامیہ زیر اہتمام دانش گاہ پنجاب لا ہور جلد 8 ( صفحہ 866) سیر الصحابیات حصہ دہم (صفحہ 27) اسوہ انسان کامل (صفحہ 455 ) سیر الصحابیات حصہ دہم (صفحہ 28) اردو دائرہ معارف.جلد 10 (صفحہ 324 ) ازواج مطہرات وصحابیات (صفحہ 258_259 ) (10) ازواج مطہرات وصحابیات (صفحہ 259 260) (11) اسوہ انسان کامل (صفحہ 470) (12) جامع صحیح بخاری چودھواں جز ترجمه زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب (صفحہ 187) (13) اسوہ انسان کامل (صفحہ 470) (14) اسوہ انسان کامل (صفحہ 470) (15) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 260 ) (16) ازواج مطہرات وصحابیات (صفحہ 261 ) (17) دائرہ معارف اسلامیہ جلد 10 (صفحہ 327) (18) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 261 ) (19) ازواج مطہرات وصحابیات ( صفحہ 262 263 ) (20) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 263) (21) دائرہ معارف اسلامیہ جلد 10 (صفحہ 531 )
حضرت رقیہ بنت محمد rd (Hadrat Ruqayya" Bint-e-Muhammad) Published in UK in 2008 Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.ISBN: 1 85372 964 7