Language: UR
حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ شہرہ آفاق پیش گوئی بابت موعود بیٹے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’دوسری خبر اس پیش گوئی میں یہ دی گئی تھی کہ وہ باطنی علوم سے پُر کیا جائےگا۔ باطنی علوم سے مراد وہ علوم مخصوصہ ہیں جو خداتعالیٰ سے خاص ہیں۔ جیسے علم غیب ہے۔ جسے وہ اپنے ان بندوں پر ظاہر کرتا ہے جن کو وہ دنیا میں کوئی خاص خدمت سپرد کرتا ہے تاکہ خدا تعالیٰ سے ان کا تعلق ظاہر ہو اور وہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کے ایمان تازہ کر سکیں۔ سو اس شق میں بھی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر خاص عنائیت فرمائی ہے اور سینکڑوں خوابیں اور الہام مجھے ہوئے جو علم غیب پر مشتمل ہیں۔‘‘ فضل عمر فاونڈیشن کو حضرت مصلح موعودؓ کے رویاء وکشوف کا یہ مجموعہ مرتب کرکے پیش کرنے کی سعادت مل رہی ہے۔ اس روحانی اور علمی باتوں سے بھری کتاب کا مطالعہ جہاں حضورؓ کے بلند روحانی مقام اور قرب الٰہی کا ثبوت مہیا کرے گا وہاں قارئین کے لئے خدا تعالیٰ کی ہستی پر مضبوط یقین و زندہ ایمان اور ازدیاد علم و عرفان کے حصول کا بھی موجب ہوگا۔
رو با کشوف سيدنامحمود (۱۸۹۸ تا ۱۹۶۰) زیر اهتمام
RU'YA WA KUSHUF SAYYIDNĀ MAHMŪD Publishe by: Islam International Publications Ltd.Islamabad, Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ U.K.Printed by: Raqeem Press, Islamabad, Tilford, Surrey.
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو سید نا حضرت مصلح موعود کے رویا و کشوف کا مجموعہ احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَلِكَ اس جلد میں 1898ء سے لے کر 1980ء تک کے 855 رویا و کشوف درج کئے گئے ہیں.سید نا حضرت فضل عمر نور اللہ مرقدہ الہی بشارات کے حامل ایک ایسا نشان رحمت تھے جن کے وجود باجود کی برکتیں دنیا کے کناروں تک محیط ہیں.انہیں اللہ تعالیٰ نے علوم ظاہری و باطنی کے انمول خزانوں سے نوازا اور تعلق باللہ کے نتیجہ میں خدائے ذوالجلال والاکرام کے انوار بارش کی طرح آپ پر زندگی بھر نازل ہوتے رہے.حضرت فضل عمر مصلح موعود کی شہرہ آفاق عظیم الشان پیشگوئی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” دوسری خبر اس پیشگوئی میں یہ دی گئی تھی کہ وہ باطنی علوم سے پر کیا جائے گا.باطنی علوم سے مراد وہ علوم مخصوصہ ہیں جو خدا تعالیٰ سے خاص ہیں.جیسے علم غیب ہے جسے وہ اپنے ان بندوں پر ظاہر کرتا ہے جن کو وہ دنیا میں کوئی خاص خدمت سپرد کرتا ہے تاکہ خداتعالی سے ان کا تعلق ظاہر ہو اور وہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کے ایمان تازہ کر سکیں.سو اس شق میں بھی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر خاص عنایت فرمائی ہے اور سینکڑوں خوا ہیں اور الہام مجھے ہوئے جو علم غیب پر مقتل ہیں".جس عنایت خاص " کا یہاں ذکر ہوا ہے.اس کی تشریح و تفصیل آئندہ صفحات میں پیش کی گئی ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن حضرت فضل عمر کے رویا و کشوف کا یہ مجموعہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے اس یقین پر قائم ہے کہ علوم باطنی کا یہ ظہور جہاں ایک طرف حضور کے بلند روحانی مقام اور قرب الہی کا ثبوت ہے وہاں دوسری طرف قارئین کرام کے لئے خدا تعالیٰ کی ہستی پر مضبوط یقین و زنده ایمان اور ازدیاد علم و عرفان کے حصول کا موجب ہو گا.
اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے مکرم سلطان احمد صاحب پیر کوٹی کو جنہوں نے حضور کے الہامات رؤیا و کشوف جو سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مختلف جرائد ، اخبارات و رسائل اور کتب میں بکھرے پڑے تھے بڑی محبت، محنت اور خلوص سے یکجا کرنے کی سعادت پائی ہے.جماعت کے وہ بزرگان اور علمائے کرام جنہوں نے محترم ناظر صاحب اشاعت کے ذریعہ اس پر نظر ثانی کی ہے وہ سب بھی ادارہ کے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں.فَجَزَاهُمُ اللهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ اس جلد کی تیاری میں مکرم عبد الباسط صاحب شاہد اور مکرم سلطان احمد صاحب شاہد مربیان سلسلہ نے خاکسار کی عملی معاونت فرمائی ہے خاکسار ان کا بھی دلی شکریہ ادا کرتا ہے.خدا تعالیٰ ان سب دوستوں کے علم و فضل میں برکت ڈالے اور جماعت کو اس قیمتی خزانے سے صحیح رنگ میں استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
1 1 اگست 1898ء فرمایا : ”جہاں پر حضرت مسیح موعود نے اور دوستوں کو ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ کے دوران میں دعا کے لئے فرمایا وہاں مجھے بھی دعا کے لئے ارشاد فرمایا.اس وقت میری عمر دس سال کی تھی اور یہ عمر ایسی ہوتی ہے کہ مذہب کا بھی کوئی ایسا احساس نہیں ہو تا.میں نے اس وقت رویا میں دیکھا کہ ہمارے گھر میں پولیس کے لوگ جمع ہیں اور دوسرے لوگ بھی ہیں پاتھیوں کا (اوپلوں کا ڈھیر ہے جس کو وہ لوگ آگ لگانا چاہتے ہیں لیکن جب بھی وہ آگ لگاتے ہیں آگ بجھ جاتی ہے.تب انہوں نے کہا کہ آؤ تیل ڈال کر پھر آگ لگا ئیں تب انہوں نے تیل ڈالا لیکن پھر بھی آگ نہ لگی اس وقت میری آنکھ اوپر کی طرف گئی اور میں نے دیکھا کہ ایک لکڑی پر موٹے الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ " خدا کے بندوں کو کوئی نہیں جلا سکتا" پس اگر خدا ہمارا ہو جائے اور اس کی رضا ہمیں حاصل ہو جائے تو دنیا ہزار روکیں ہماری راہ میں پیدا کرے کوئی نقصان نہیں کر سکتی اور اگر خدا تعالٰی ہمارے ساتھ ہے تو دنیا کی بادشاہتیں اور حکومتیں بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں.الفضل 3 جنوری 1925 ء صفحہ 11.نیز دیکھیں :- الفضل 22 - جون 1933ء صفحہ 6، 7 و 23 جون 1937 ء صفحہ 65 و3 - جولائی 1941ء صفحہ 8 5 ستمبر 1958ء صفحہ 5 و 4 فروری 1959ء صفحہ 3 اور سیر روحانی حصہ اول صفحہ 271 270 ( شائع کردہ الشركته الاسلامیہ ربوہ) 2 +1899 1898 فرمایا : ایک دفعہ مجھے جنت دکھائی گئی تھی.میری عمر اس وقت دس گیارہ برس کی ہوگی.: دفعہ عمر دس گیارہ کی بہشتی مقبرہ کی بنیاد بھی اس وقت تک نہیں رکھی گئی تھی.میں نے دیکھا.میں اپنے باغ کے قریب باہر کے کھیتوں میں پھر رہا ہوں کہ مجھے کوئی کہتا ہے یہاں جنت ہے.میں کہتا ہوں آؤ تو پھر جنت کو دیکھ لیں.وہ مجھے کہتا ہے جنت کوئی دیکھنے نہیں دیتا.میں نے اسے یہ مقدمہ یکم اگست 1897ء کو دائر ہوا اور 23 اگست کو اس کا فیصلہ سنایا گیا (مرتب)
2 کہا کوشش کرتے ہیں شاید کسی طرح دیکھ لیں.چنانچہ میں اس وقت زمین پر بیٹھ کر جیسے چڑیا کا شکار کیا جاتا ہے دوسروں کی نگاہ سے چھپتے ہوئے جنت کی طرف بڑھنے لگا.گویا خواب میں میں فرشتوں سے چھپ کر جنت دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں.جنت کے ارد گرد ایک منڈیر تھی.میں آہستہ آہستہ اس کے پیچھے بیٹھ گیا اور میں دل میں بڑا خوش ہوں کہ میں آخر اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا.منڈیر کے قریب پہنچ کر میں نے اندر جھانکا تو مجھے اس قسم کے خوبصورت رنگوں کے پھول نظر آئے جو کبھی دنیا میں نہیں دیکھے گئے.میں ان پھولوں کو دیکھتے ہی بیتاب ہو گیا اور میں نے جلدی سے اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ ان میں سے ایک پھول کو تو ڈلوں مگر ابھی میں نے ایک پھول پر انگلی ہی لگائی تھی کہ اس کی پتی پتی میں سے فرشتے نکل آئے اور انہوں نے انگلی سے اشارہ کیا جیسے کہتے ہیں کہ ”ابھی نہیں ".الفضل 2 - جون 1944ء صفحہ 1 +1899 1898 3 فرمایا : مجھے اپنا ایک رویا یا د ہے.میری عمر دس گیارہ سال کی تھی بازار احمدیہ کی دکانیں ابھی نہ بنی تھیں اور مدرسہ احمدیہ بھی نہیں تھا اس جگہ ایک چبوترہ تھا شاید بعض عمارتیں بھی بنی ہوں.لوگ یہاں کبڈی کھیلا کرتے تھے میری اس وقت اتنی عمر تو نہ تھی کہ کبڈی میں شامل ہو سکوں مگر دیکھنے چلا جاتا تھا اور بعض اوقات میرا دل رکھنے کے لئے مجھے بھی شامل کر کے دور کھڑا کر دیا کرتے تھے.میں نے اس زمانہ میں خواب دیکھا کہ کبڈی ہو رہی ہے.ایک طرف غیر احمدی ہیں اور دوسری طرف احمدی اور کبڈی وہ ہے جسے پنجابی میں جھل کہتے ہیں.غیر احمد یوں کا جو آدمی آتا ہے احمدی اسے پکڑ کر اپنی طرف ہی رکھ لیتے ہیں حتی کہ صرف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہی رہ گئے.آخر وہ بھی ایک دیوار سے لگ کر ایک کونے کی طرف کھسکنے لگے اور ہمارے قریب آکر کہنے لگے کہ اچھا.اب میں بھی ادھر ہی آجاتا ہوں اور رویا میں بعض اوقات افراد سے مراد جماعت ہوتی ہے اگر چہ مولوی محمد حسین صاحب کو ظاہر اہدایت نہیں ہوئی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر وقت میں ان کو حقیقت معلوم ہو گئی تھی.چنانچہ وہ جماعت کے لوگوں سے ملنے لگ گئے تھے.پیغام وغیرہ بھی بھیجتے رہتے تھے ایک دفعہ مجھے بٹالہ میں ملے بھی اور کہتے تھے کہ آپ سے تخلیہ میں باتیں کرنی ہیں.
3 اس رویا میں مولوی محمد حسین صاحب سے مراد دراصل ان کی سی طبائع والے لوگ ہیں کہ آخر وہ بھی احمدیت میں داخل ہوں گے.الفضل 21 مارچ 1930ء صفحہ 8.نیز دیکھیں.الفضل 10 - مارچ 1931ء صفحہ 7 و 27 - اکتوبر 1932ء صفحہ 6 و 19 - فروری 1938ء صفحہ 4 و 12 مئی 1944ء صفحہ 2 و 9- جنوری 1ء صفحہ 3,4 - فروری 1956ء صفحہ 7-6 و2 - جون 1944ء 1963 4 1901 1900 فرمایا : مجھے ایک رؤیا یاد آیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب کہ میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہو گی دیکھا تھا.میں نے دیکھا قیامت کا دن ہے اور خدا کے حضور لوگوں کو پیش کیا جا رہا ہے.خدا تعالیٰ ایک مضبوط خوبصورت جو ان کی شکل میں کرسی پر بیٹھا ہے.دائیں طرف حضرت خلیفہ اول اور دوسرے کئی لوگ بیٹھے ہیں.میں بھی انہیں میں ہوں.وہاں ایک دائیں طرف کو ٹھڑی ہے ایک بائیں طرف.اس وقت خدا کے حضور ایک شخص کو پیش کیا گیا جو بہت مضبوط اور بنو مند تھا.اس کا چہرہ سرخ تھا.یاد نہیں رہا خدا تعالیٰ نے اس سے کچھ پوچھایا نہیں اور اگر پوچھا تو میں نے نہیں سنا.مگر بغیر اس کے کہ وہ جواب دیتا اس کے چہرے کی رنگت متغیر ہونے لگی اور ایسا معلوم ہوا کہ اسے کوڑھ ہو گیا ہے.پھر اس کے جسم کا گوشت پوست پیپ بنے لگا آخر سر سے پیر تک وہ پیپ کا بن گیا.اس پر فرشتوں نے کہا.یہ جہنمی ہے آؤ ا سے جنم میں پھینکیں.چنانچہ اسے بائیں طرف کی کوٹھڑی میں پھینک دیا گیا.پھر ایک اور شخص لایا گیا.اللہ تعالٰی نے اس سے سوال نہیں کیا یا مجھے یاد نہیں رہا.اس کا چہرہ چمکنے لگا اور اس کا سارا جسم نور کا بن گیا.اس پر فرشتے بغیر خدا کے حکم کے کہنے لگے.یہ جنتی ہے چلو اسے جنت میں لے جائیں چنانچہ اسے جنت میں لے گئے.اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا تم اپنی پیٹھوں کی طرف دیکھو جس کے پیچھے پختہ دیوار ہے وہ جنتی ہے اور جس کے پیچھے دیوار کچی ہو وہ دوزخی ہے.یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ وہاں پھر دکھائی نہ دیا اور ہم پر اتنی ہیبت طاری ہو گئی کہ کوئی ڈر کے مارے اپنے پیچھے نہ دیکھتا ہر ایک ڈرتا کہ نہ معلوم اسے کیا نظر آئے.جب اس حالت میں عرصہ گزر گیا تو حضرت خلیفہ اول نے مجھے کہا تم میرے پیچھے دیکھو میں تمہارے پیچھے دیکھتا ہوں.میں نے کہا بہت اچھا اور میں نے ڈرتے ڈرتے ان کے پیچھے دیکھا اور انہوں نے میرے پیچھے اور
4 یکدم میں نے چلا کر کہا.آپ کے پیچھے کی دیوار ہے اور انہوں نے بھی کہا.آپ کے پیچھے پکی دیوار ہے.میرے نزدیک ایک دوسرے کے پیچھے دیکھنے کے معنی یہی ہیں کہ ایمان کی تکمیل ایک دوسرے کی مدد سے ہو سکتی ہے.الفضل 3 جنوری 1930 ء صفحہ 3.نیز دیکھیں.الفضل 16- مئی 1930ء صفحہ 8 1-21944-10,7'61937-24; 5 1901 1900 فرمایا : مجھے خوب یاد ہے مسجد مبارک کے سامنے دیوار * مخالفوں نے کھینچ دی تھی.بعض احمدیوں کو جوش آیا اور انہوں نے دیوار کو گرانا چاہا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہمارا کام صبر کرنا اور قانون کی پابندی اختیار کرنا ہے.پھر مجھے یاد ہے میں بچہ تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچپن سے ہی مجھے رویائے صادقہ ہوا کرتے تھے.میں نے خواب میں دیکھا کہ دیوار گرائی جا رہی ہے اور لوگ ایک ایک اینٹ کو اٹھا کر پھینک رہے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے اس سے پہلے کچھ بارش بھی ہو چکی ہے.اس حالت میں میں نے دیکھا کہ مسجد کی طرف حضرت خلیفہ اول تشریف لا رہے ہیں.جب مقدمہ کا فیصلہ ہوا اور دیوار گرائی گئی تو بعینہ ایسا ہی ہوا.اس روز کچھ بارش بھی ہوئی اور اس کے بعد حضرت خلیفہ ادل جب واپس آئے تو آگے دیوار توڑی جارہی تھی.میں بھی کھڑا تھا چونکہ اس خواب کا میں آپ سے پہلے ذکر کر چکا تھا اس لئے مجھے دیکھتے ہی آپ نے فرمایا.میاں دیکھو آج تمہارا خواب پورا ہو گیا.الفضل 5 - اگست 1934ء صفحہ 7.نیز دیکھیں.الفضل 2 - اگست صفحہ 8 و 14- دسمبر 1939ء صفحہ 5 و 18 - فروری 1959ء صفحہ 6 اور الموعود صفحہ 126 - 125 تقریر 28 - دسمبر 1944ء جلسہ سالانہ 6 اکتوبریا نومبر 1902ء فرمایا : اس بات کو قریباً سات سال ہو گئے ہیں حضرت مسیح موعود کی زندگی میں 1902ء کے جو الٹی کو یہ دیوار کھینچی گئی.12- اگست 1901ء کو مقدمہ کا فیصلہ سنایا گیا 22 اگست 1901ء کو دیوار گرا دی گئی ( مرتب)
10 5 اکتوبر یا نومبر میں میں نے رؤیا دیکھی کہ میں بورڈنگ کے ایک کمرہ میں ہوں یا ریویو آف ریلیجنز کے دفتر میں.وہاں ایک بڑے صندوق پر مولوی محمد علی صاحب بیٹھے ہیں اور میں ذرا فاصلے پر کھڑا ہوں.اتنے میں ایک دروازہ سے شیخ رحمت اللہ صاحب تاجر داخل ہوئے اور ہم دونوں کو دیکھ کر کہا کہ میاں صاحب آپ لمبے ہیں یا مولوی صاحب ؟ مولوی صاحب نے کہا میں لمبا ہوں.میں نے کہا میں لمبا ہوں.شیخ صاحب نے کہا آؤ دونوں کو نا ہیں.مولوی صاحب صندوق پر سے اترنا چاہتے ہیں لیکن جس طرح بچے اونچی چار پائی سے مشکل سے اترتے ہیں اس طرح بڑی مشکل سے اترتے ہیں.اور جب شیخ صاحب نے مجھے اور ان کو پاس پاس کھڑا کیا تو وہ بے اختیار ہی بول اٹھے کہ ہیں میں تو سمجھتا تھا کہ مولوی صاحب اونچے ہیں لیکن اونچے تو آپ نکلے.میں نے کہاں ہاں میں ہی اونچا ہوں.اس پر انہوں نے کہا کہ اچھا میں مولوی صاحب کو اٹھا کر آپ کے کندھوں کے برابر کرتا ہوں دیکھیں کے پیر کہاں آتے ہیں اور یہ کہہ کر انہوں نے مولوی صاحب کر اٹھا کر میرے کندھوں کے برابر کرنا چاہا.جتناوہ اونچا کرتے جاتے اسی قدر میں اونچا ہوتا جاتا.آخر بڑی وقت سے انہوں نے ان کے کندھے میرے کندھوں کے برابر کئے تو ان کی لاتیں میرے گھٹنوں تک بھی نہیں پہنچ سکیں جس پر وہ سخت حیران ہوئے...مولوی محمد علی صاحب کے دوستوں نے انہیں میرے مقابلہ پر کھڑا کیا اور اللہ تعالٰی نے ان کو سخت نا کام کیا حتی کہ انہوں نے اپنی ذلت کا خود اقرار کیا.جس قدر بھی ان کے دوستوں نے جوش مارا کہ ان کو اونچا کریں اسی قدر خدا تعالیٰ نے ان کو نیچا کیا اور قریباً ستانوے فیصدی احمدیوں کو میرے تابع کر دیا اور میرے ذریعہ جماعت کا اتحاد کر کے مجھے بلند کیا.بركات خلافت صفحہ 48-49) تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1914ء) 7 1903 1902 فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک سٹیچو ہے جیسا کہ امرتسر میں ملکہ کا سنگ مرمر کا بنا ہوا تھا.اس کے اوپر ایک بچہ ہے جو آسمان کی طرف ہاتھ پھیلائے ہوئے ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی کو بلاتا ہے.اتنے میں آسمان سے کوئی چیز اتری ہے جو نہایت ہی حسین عورت ہے جس کے کپڑوں کے ایسے عجیب و غریب رنگ ہیں جو میں نے کبھی نہیں دیکھے.اس نے چبوترے پر اتر کر اپنے پر
6 پھیلائے اور نہایت محبت سے بچہ کی طرف جھکی ہے بچہ بھی اس کی طرف اس طرح جھکا ہے جس طرح ماں سے محبت کرانے کے لئے لپکا کرتا ہے اور اس نے اس بچہ کو ماں کی طرح ہی پیار کرنا شروع کر دیا ہے.اس وقت میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے Love Creates Love محبت محبت کو کھینچتی ہے.اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ وہ بچہ عیسی ہے اور وہ عورت مریم.الفضل 15 - مارچ 1920ء صفحہ 8-9 پوچھا گیا کہ) اس رویا کے وقت آپ کی عمر کتنی تھی.فرمایا.” میری عمر چودہ پندرہ سال کی ہو گی".الفضل 2 جون 1959ء صفحہ 2.نیز دیکھیں.الفضل 20.ستمبر 1920ء صفحہ 7 و 12 اپریل 1923ء صفحہ 7 و 6 - جولائی 1923ء صفحہ 2 و 18 - مارچ 1926ء صفحہ 7, 9 اپریل 1926ء صفحہ 6 و 5 - فروری 1929ء صفحہ 6 و 11 اپریل 1936ء صفحہ 4 و 4 - فروری 1948 ء صفحہ 4 و3- اکتوبر 1959ء صفحہ 6 و 21 - اکتوبر 1959ء صفحہ 4 و 4 - دسمبر 1960ء صفحہ 23 و 12 - اگست 1964 ء صفحہ 4 اور منہاج الطالبین ( تقریر جلسہ سالانہ 28 - دسمبر 1925 ء شائع کردہ الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ) تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ 268-269 مطبوعہ نومبر 1989ء $1904 1903 8 فرمایا : میں جب حضرت خلیفہ اول سے بخاری پڑھا کرتا تھا تو ایک رویا دیکھا جس کا تعلق اس بات سے تھا کہ ایک حدیث پڑھی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کے متعلق پوچھا گیا کہ کس طرح ہوتی ہے تو آپ نے فرمایا كَصِلْصِلَةِ الْحَرَسِ مجھے اس سے تعجب ہوا کہ گھنٹے کی آواز سے وحی کا کیا تعلق ہے.رویا میں میں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا.میں نے دیکھا کہ میرا دل ایک کٹورے کی طرح ہے جیسے مراد آبادی کٹورے ہوتے ہیں اس کو کسی نے ٹھکورا ہے جس سے ٹن ٹن کی آواز نکل رہی ہے اور جوں جوں آواز دھیمی ہوتی جاتی ہے مادہ کی شکل میں منتقل ہوتی جاتی ہے.ہوتے ہوتے اس سے ایک میدان بن گیا ہے اس میں سے مجھے ایک تصویر سی نظر آتی ہے جو فرشتہ معلوم ہونے لگا.میں اس میدان میں کھڑا ہو گیا اور فرشتہ نے مجھے ہلایا اور کہا کہ آگے آؤ جب میں اس کے پاس گیا تو اس نے کہا کیا میں تم کو سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں.میں نے کہا سکھاؤ.اس نے سکھانی شروع کی.سکھاتے سکھاتے جب إِيَّاكَ نَعْبُدُ
7 وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تک پہنچا تو کہنے لگا تمام مفسرین میں سے کسی نے اس سے آگے کی تفسیر نہیں لکھی.سارے کے سارے یہاں آکر رہ گئے لیکن میں تمہیں اگلی تفسیر بھی سکھاتا ہوں چنانچہ اس نے ساری سکھائی.جب میری آنکھ کھلی تو میں نے اس بات پر غور کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ تمام مفسرین نے إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تک کی تفسیر کی ہے اس کے متعلق میرے دل میں یہ تاویل ڈالی گئی کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تک تو بندے کا کام ہے جو اس جگہ ختم ہو جاتا ہے آگے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ سے خدا کا کام شروع ہو جاتا ہے تو تمام مفسرین کے اس حصہ کی تفسیر نہ لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس حصہ کی تفسیر تو کر سکتا ہے جو انسانوں کے متعلق ہے اور جن کاموں کو انسان کرتا ہے ان کو بیان کر سکتا ہے مگر اس حصہ کی تفسیر کرنا اس کی طاقت سے باہر ہے جس کا کرنا خد اتعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سورہ فاتحہ کے دو حصے ہیں.آدھی بندہ کے لئے اور آدھی خدا کے لئے.آدھی میں بندہ طالب اور خدا مطلوب.آدھی میں خدا طالب اور بندہ مطلوب جس حصہ میں بندہ طالب ہے اور خدا مطلوب اس کے متعلق وہ بتا سکتا ہے.دوسرا حصہ جو خدا سے تعلق رکھتا ہے اس کے متعلق کچھ نہیں بتا سکتا اور اس حصہ کی کیفیت نہیں بیان کر سکتا.الفضل 16.جولائی 1916ء سلحہ -10 - نیز دیکھیں.الفضل 17 جون 1914ء صفحہ 6 ( مختصراً) یکم اپریل 1927ء صفحہ 78 و 24.جولائی 1928ء صفحہ 7 و 20 اگست 1929ء صفحه 5 و یکم فروری 1937ء صفحہ 5 و 6 و 15 اپریل 1936ء صفحہ 7 (ضمیمہ) 2 - جون 1944ء صفحہ 1 و 7- مارچ 1944ء صفحہ 3 و 6 - نومبر 1948ء صفحہ 3 ( احمدیت کا پیغام) 22 ستمبر 1956ء ( مختصراً) صفحہ 13 18 فروری 1958ء صفحہ 12 ملا کہ اللہ ( تقریر جلسہ سالانہ 28 - دسمبر 1920ء صفحہ 41 42) فضائل القرآن ( تقریر جلسہ سالانہ 28 - دسمبر 1932ء صفحہ 289 اور الموعود ( تقریر جلسہ سالانہ 1944ء) صفحه 85-86 و تفسیر کبیر جلد اول جز اول صفحہ 6 (مطبوعہ 23 مئی 1948ء) و تفسیر کبیر جلد چهارم 155-166 (مطبوعہ مارچ 1958ء) تفسیر کبیر جلد ششم جزو چهارم حصہ سوم صفحہ 476 (مطبوعہ دسمبر 1950ء) 9 ابریل 1905ء فرمایا : ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا کہ إِنِّي مَعَ الْأَزْوَاجِ
8 اتيك بَغْتَةً میں اپنی افواج کے ساتھ اچانک تیری مدد کے لئے آؤں گا.جس رات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا اسی رات ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آج یہ الہام ہوا ہے کہ إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ أَتِيكَ بَغْتَةً جب صبح ہوئی تو مفتی محمد صادق صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جو تازہ الہامات ہوئے ہیں وہ اندر سے لکھو الاؤ.مفتی صاحب نے اس ڈیوٹی پر مجھے مقرر کیا ہوا تھا اور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تازہ الہامات آپ سے لکھوا کر مفتی صاحب کو لا کر دے دیا کرتا تھا تا کہ وہ انہیں اخبار میں شائع کر دیں.اس روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب الہامات لکھ کر دیئے تو جلدی میں آپ یہ الہام لکھنا بھول گئے کہ انتی مَعَ الْأَفْوَاجِ أَتِيكَ بَغْتَةً میں نے جب ان الہامات کو پڑھا تو میں شرم کی وجہ سے یہ جرات بھی نہ کر سکتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس بارہ میں کچھ عرض کروں اور یہ بھی جی نہ مانتا تھا کہ جو مجھے بتایا گیا تھا اسے غلط سمجھ لوں.اسی حالت میں کئی دفعہ میں آپ سے عرض کرنے کے لئے دروازہ کے پاس جاتا مگر پھر لوٹ آتا پھر جاتا اور پھر لوٹ آتا.آخر میں نے جرات سے کام لے کر کہہ ہی دیا کہ رات مجھے ایک فرشتہ نے بتایا تھا کہ آپ کو الہام ہو ا تھا اپنی مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيْكَ بَغْتَةً مگر ان الہامات میں اس کا ذکر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ نے فرمایا.یہ الہام ہوا تھا مگر لکھتے ہوئے میں بھول گیا.چنانچہ کاپی کھولی تو اس میں وہ الہام بھی درج تھا چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پھر اس الہام کو بھی اخبار کی اشاعت کے لئے درج فرما دیا.تفسیر کبیر جلد ششم جز و چهارم حصہ دوم صفحہ 447-448 مطبوعہ فروری 1946ء نیز دیکھیں.البدر 27 اپریل 1905ء تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ دوم صفحہ 305 ( مطبوعہ نومبر 1959ء) $1905 10 فرمایا : میں ابھی سترہ سال کا تھا جو کھیلنے کودنے کی عمر ہوتی ہے کہ اس سترہ سال کی عمر میں خدا تعالیٰ نے الہا ما میری زبان پر یہ کلمات جاری کئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ہاتھوں سے ایک کاپی پر لکھ لئے کہ اِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ کہ وہ لوگ جو تیرے متبع ہوں گے اللہ تعالیٰ انہیں قیامت تک ان لوگوں پر فوقیت اور
9 0) غلبہ دے گا جو تیرے منکر ہوں گے.الفضل 9 جولائی 1937ء صفحہ 4 فرمایا : میں سمجھتا ہوں کہ یہ الہام میرے متعلق ہے خدا تعالیٰ نے مجھے ایسے مقام پر کھڑا کیا کہ دنیا اس کی مخالفت کے لئے آگئی.بیرونی مخالف بھی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور منافق بھی اپنے سروں کو اٹھا کر یہ سمجھنے لگے کہ اب ان کی کامیابی کا وقت آگیا ہے مگر میں حضرت نوح کے الفاظ میں کہتا ہوں کہ جاؤ اور تم سب کے سب مل جاؤ اور سب مل کر اکٹھے ہو کر مجھے پر حملہ کرو اور تم مجھے کوئی ڈھیل نہ دو اور مجھے تباہ کرنے اور مٹانے کے لئے متحد ہو جاؤ پھر بھی یادر کھو کہ خدا تمہیں ذلیل اور رسوا کرے گا اور شکست پر شکست دے گا اور مجھے اپنے مقصد میں کامیاب کرے گا.الفضل 16 مئی 1936ء صفحہ 11.نیز دیکھیں.الفضل 4 - نومبر 1937ء صفحہ 8 ( مجملاً) 17 - جنوری 1935ء صفحہ 9 و 12 جون 1935ء صفحہ 414- ستمبر 1937ء صفحہ 2018- نومبر 1937ء صفحہ 8 و 5 - اپریل 1940ء صفحہ 3 و 7 - مارچ 1944 ء صفحہ 2 و 14 - مارچ 1944 ء صفحہ 8 و 11 - نومبر 1954 ء صفحہ 4 و 18 فروری 1958ء صفحہ 18 و3 - فروری 1982ء صفحہ 3 اور الموعود ( تقریر جلسہ سالانہ 28- دسمبر 1944ء) صفحہ 109 11 8 مارچ 1907ء فرمایا : 8 مارچ 1907 ء کی بات ہے کہ رات کے وقت رویا میں مجھے ایک کاپی الہاموں کی دکھائی گئی اس کی نسبت کسی نے کہا کہ یہ حضرت صاحب کے الہاموں کی کاپی ہے اور اس میں موٹا لکھا ہوا ہے عَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ یعنی کچھ بعید نہیں کہ تم ایک بات کو نا پسند کرو لیکن وہ تمہارے لئے خیر کا موجب ہو.اس کے بعد نظارہ بدل گیا اور دیکھا کہ ایک مسجد ہے اس کے متولی کے برخلاف لوگوں نے ہنگامہ کیا ہے اور ہنگامہ کرنے والوں میں سے ایک شخص کے ساتھ باتیں کرتا ہوں.باتیں کرتے کرتے اس سے بھاگ کر الگ ہو گیا ہوں اور یہ کہا کہ اگر میں تمہارے ساتھ ملوں گا تو مجھ سے شہزادہ خفا ہو جائے گا.اتنے میں ایک شخص سفید رنگ آیا ہے اور اس نے مجھے کہا کہ مسجد کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے تین درجے ہیں ایک وہ جو صرف نماز پڑھ لیں یہ لوگ بھی اچھے ہیں دوسرے وہ جو مسجد کی انجمن میں داخل ہو جائیں.تیسرا متولی.اس کے ساتھ ایک اور خواب بھی دیکھی لیکن اس کے یہاں بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.برکات خلافت ( تقریر جلسہ سالانہ 25 - دسمبر 1914ء)
10 صفحہ 34-35 فرمایا : 8 مارچ کو میں نے یہ رویا دیکھی تھی اور وہ اس طرح کہ جس رات میں نے یہ رویا دیکھی اسی صبح کو حضرت والد ماجد کو سنایا آپ سن کر نہایت متفکر ہوئے اور فرمایا کہ مسجد سے مراد تو جماعت ہوتی ہے شاید میری جماعت کے کچھ لوگ میری مخالفت کریں گے یہ رویا لکھوا دے چنانچہ میں لکھوا تا گیا اور آپ اپنی الہاموں کی کاپی میں لکھتے گئے.پہلے تاریخ لکھی پھر یہ لکھا کہ محمود کی رؤیا.برکات خلافت صلحہ 37 - 38 12 8- مارچ 1907ء فرمایا : میں نے دیکھا ہو کہ " ایک پارسل میرے نام آیا ہے محمد چراغ کی طرف سے آیا ہے.اس پر لکھا ہے "محمود احمد پر میشر اس کا بھلا کرے".خیر اس کو کھولا تو وہ روپوں کا بھرا ہوا صندوقچہ ہو گیا.کہنے والا کہتا ہے کہ ”کچھ تو خود رکھ لو.کچھ حضرت صاحب کو دے دو.کچھ صد را انجمن احمدیہ کو دے دو " پھر حضرت صاحب کہتے ہیں کہ محمود کہتا ہے کہ "کشفی رنگ میں آپ مجھے دکھائے گئے اور چراغ کے معنے سورج سمجھائے گئے اور محمد چراغ کا یہ مطلب ہوا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جو کہ سورج ہے اس کی طرف سے آیا ہے.منصب خلافت صفحہ 51 $1908 13 فرمایا : میں نے ایک دفعہ ایک رؤیا دیکھی شاید حضرت مسیح موعود اس وقت زندہ تھے میں اور کچھ اور آدمی کشتی میں سوار تھے اور ایک بہت بڑے سمندر میں چلے جا رہے تھے کہ سخت طوفان آیا اور کشتی چلتے چلتے بھنور میں پڑگئی.بہت کوشش کی اور چپو چلائے کہ کسی طرح کشتی اس بھنور سے نکل جائے مگر جوں جوں ہم کو شش کرتے تھے وہ اس قدر زیادہ بھنور میں پڑتی جا رہی تھی.ہم اسی طرح زور لگاتے رہے اور ہماری حیرانی بڑھتی جارہی تھی کہ ایک آدمی نے ہ " یہ رویا حضرت مسیح موعود کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے ان کی اپنی کاپی الہامات میں درج ہے آگے پیچھے حضرت صاحب کے اپنے الہامات ہیں " منصب خلافت م51
11 کہا.یہاں ایک پیر کی قبر ہے اگر اس سے دعا کی جائے تو ہم اس ہلاکت سے بچ سکتے ہیں.میں نے کہا یہ تو نہیں ہو سکتا.میرے ساتھیوں میں سے بعض کہنے لگے اگر پیر سے دعا کی جائے تو کیا حرج ہے.مگر میں کہتا رہا کہ یہ تو شرک ہے ہمیں ڈوبنا منظور ہے مگر یہ شرک ہرگز نہیں کریں گے.چونکہ خطرہ دم بدم بڑھ رہا تھا اس لئے اسے روکتے روکتے میرے ساتھیوں میں سے ایک نے کاغذ پر کچھ لکھا اور سمندر میں ڈالنا چاہا.میں نے کاغذ روک لیا یا کسی اور طرح ضائع کر دیا اور سختی سے کہا کہ یہ شرک ہے ہم شرک نہیں کریں گے.جب ہم نے یہ کہا تو اس وقت کشتی اچھل پڑی اور اس گرداب سے باہر نکل آئی.الفضل 5 اپریل 1919ء مسلمہ 0 و 8.نیز دیکھیں.منصب خلافت ( تقریر 12 اپریل 1914ء صفحہ 44 اور خلافت را شدہ صفحہ 266284) 14 مئی 1908ء فرمایا : جس رات کو حضرت صاحب کی بیماری میں ترقی ہو کر دوسرے دن آپ نے فوت ہونا تھا میری طبیعت پر کچھ بوجھ سا محسوس ہو تا تھا اس لئے میں گھوڑی پر سوار نہ ہوا.ملک صاحب ملک مبارک علی صاحب تاجر لاہور) نے کہا.میری گاڑی میں ہی آجائیں چنانچہ میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا لیکن بیٹھتے ہی میرا دل افسردگی کے ایک گہرے گڑھے میں گر گیا اور یہ مصرعہ میری زبان پر جاری ہوا کہ سه راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو " ملک صاحب نے مجھے اپنی باتیں سنائیں.میں کسی ایک آدھ بات کا جواب دے دیتا تو پھر اسی خیال میں مشغول ہو جاتا.رات کو ہی حضرت صاحب کی بیماری یکدم ترقی کر گئی اور صبح آپ فوت ہو گئے.یہ بھی ایک تقدیر خاص تھی جس نے مجھے وقت سے پہلے اس نا قابل برداشت صدمہ کے برداشت کرنے کے لئے تیار کر دیا.تقدیر الہی صفحہ 121 ( شائع کردہ نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف ربوه - تقریر جلسہ سالانہ 1919ء) غالباً 1908ء 15 فرمایا : مجھے ایک کشف ہو ا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہی میں نے
12 دیکھا تھا وہ بھی اسی مقام پر دلالت کرتا ہے.میں نے دیکھا کہ میں اس کمرہ سے نکل رہا ہوں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام رہتے تھے اور باہر صحن میں آیا ہوں وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف رکھتے ہیں اس وقت کوئی شخص یہ کہہ کر مجھے ایک پارسل دے گیا ہے کہ یہ کچھ تمہارے لئے ہیں اور کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے ہے.کشفی حالت میں جب میں اس پارسل پر لکھا ہوا پتہ دیکھتا ہوں تو وہاں بھی مجھے دو نام لکھے ہوئے نظر آتے ہیں اور پتہ اس طرح درج ہے کہ محی الدین اور معین الدین کو ملے.میں کشف میں سمجھتا ہوں کہ ان میں سے ایک نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ر ہے اور دوسرا نام میرا ہے.میں نے سمجھا کہ محی الدین سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں جنہوں نے دین کو زندہ کیا اور معین الدین سے مراد میں ہوں جس نے دین کی اعانت کی ".الفضل 7 مارچ 16 31944 $1908 فرمایا ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ لیکچر دے رہا ہوں اور میرے ہاتھ میں شیشہ ہے.لوگوں کو وہ شیشہ دکھا کر کہتا ہوں کہ یہ دل ہے جس طرح انسان شیشے کو اس لئے سنبھال کر رکھتا ہے کہ وہ صاف رہے اور شکل اچھی دکھا سکے اس لئے جب ذرا اس پر میل دیکھتے ہیں تو صاف کر دیتے ہیں کیونکہ جتنا شیشہ صاف ہوتا ہے اتنی ہی زیادہ خوبصورت شکل نظر آتی ہے اور اگر شیشہ خراب ہو تو اچھی شکل بھی بری نظر آتی ہے.بعض ایسے شیشے ہوتے ہیں جو کہ اصل شکل سے گھٹایا بڑھا کر دکھاتے ہیں اس لئے اعلیٰ درجہ کے شیشہ کی یہی تعریف ہوتی ہے کہ ہو بہو شکل دکھاتے ہیں.بڑے بڑے قیمتی شیشے بعینہ اصل شکل ظاہر کرتے ہیں اور ذرا بھی فرق نہیں آنے پاتا.اسی طرح اعلیٰ درجہ کا انسان وہ ہے جس کا دل اللہ تعالی کے جمال کو اصل شکل میں دکھائے.انسان کا دل اللہ تعالیٰ کے جلوہ کو ظاہر کرنے کے لئے ایک شیشہ ہے اس لئے جس قدر یہ صاف ہوتا ہے اتنا ہی خدا تعالیٰ کی صفات کو اعلیٰ ظاہر کرتا ہے اور جس قدر گندہ ہوتا د حضور فرماتے ہیں کہ ” یہ غالباً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے یا آپ کی وفات کے قریب کی یعنی چار پانچ ماہ کے اندر کی "الفضل یکم دسمبر 1954ء صفحہ 4
13 ہے اتنا ہی گندہ ظاہر کرتا ہے.الفضل 13- دسمبر 1914ء صفحہ 12.نیز دیکھیں.الفضل 27 - اپریل 1928ء صفحہ 2 ,3 - دسمبر 1935ء صفحہ 5و24 - مارچ 1937ء صفحہ 6 و یکم دسمبر 1954 ء صفحہ 4 اور ہستی باری تعالی ( تقریر جلسہ سالانہ 1921ء) صفحہ 113 اور تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ دوم صفحه 200 1908 17 فرمایا : میں نے ایک دفعہ رویا دیکھا کہ بیت الدعا میں بیٹھا ہوں کہ ایک فرشتہ میرے سامنے آیا اور اس نے کہا.میں تم کو ابراہیم جھاؤں میں نے کہا میں ابراہیم کو جانتا ہوں.وہ کہنے لگا ایک ابراہیم نہیں کئی ابراہیم ہوئے ہیں.چنانچہ اس کے بعد اس نے کئی ابراہیم مجھے بتانے شروع کئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت اس نے کہا کہ وہ بھی ابراہیم تھے پھر اس نے حضرت خلیفہ اول کے متعلق کہا کہ وہ بھی ابراہیم تھے اور آپ کا نام اس نے ابراہیم ادھم بتایا اسی طرح اور بیسیوں ابراہیم اس نے مجھ پر ظاہر کئے.الفضل 9 - مئی 1940ء صفحہ 3 ” مجھے بتایا گیا کہ ایک ابراہیم تم بھی ہو ".الفضل 7- مارچ 1944 ء صفحہ 3 ابراہیمی مشابہت کے لئے ضروری تھا کہ ہمیں بھی ہجرت کرنا پڑے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ہمیں قادیان چھوڑنا پڑا.الفضل 10 جون 1959 ء صفحہ 4.مزید دیکھیں.الفضل 8 - جون 1945ء صفحہ 2 $1908 18 فرمایا : ایک دفعہ میں نے رویا ہو میں ایک چھوٹی سی کتاب ساٹھ ستر صفحے کی دیکھی.اس کے اوپر منہاج السالکین لکھا ہوا تھا.حضرت خلیفۃ المسیح مرحوم و مغفور اس کو پڑھ رہے تھے میں اور آپ نماز پڑھ کر ایک ہی مصلیٰ پر بیٹھے ہوئے تھے آپ نے وہ کتاب پڑھ کر مجھے دی اور فرمایا کہ پڑھ کر مجھے واپس دینا مجھے اس کتاب کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوا کہ گویا آپ ہی کی لکھی ہوئی ہے.میں نے اس کو لے کر کسی جگہ رکھا.تھوڑی دیر کے بعد جب میں نے اس کو تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ تم ہو گئی ہے.میں نے بڑی تلاش کی.آخر میرے دل میں خیال آیا کہ میرے سرہانے کہ یہ رویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات سے پہلے کا ہے یا حضرت خلیفہ اول کے ابتدائی زمانہ کا ہے (مرتب)
14 رکھی ہوئی ہے.میں نے سرمبارہ اٹھایا تو اس آیت وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ (المدثر : 32) کے الفاظ میری زبان پر جاری ہو گئے میں نے حضرت خلیفۃ المسیح علیہ الرحمہ کو اس کتاب کا نام بتایا آپ نے فرمایا کہ میں نے اس نام کی کوئی کتاب نہیں دیکھی.میں نے بھی اس نام کی کتاب کی بڑی تلاش کی لیکن اب تک نہیں ملی شاید کبھی اللہ تعالی کے جنود کے ہی ذریعہ مل جائے وَمَاذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيز الفضل 30 - جولائی 1914ء صفحہ 6 $1908 19 فرمایا : میں نے اس خیال سے کہ اگر شیخ عبد القادر جیلانی کی کوئی کتاب اس نام کی ہو تو اسے تلاش کروں.حضرت خلیفۃ المسیح الاول سے پوچھا تو آپ نے فرمایا ان کی اس نام کی تو کوئی کتاب نہیں البتہ غنية الطالبین نام کی کتاب ہے پھر معلوم ہوا کہ اس نام کی کسی اور کی کتاب بھی نہیں ہے پھر خیال آیا کہ ممکن ہے کہ کسی وقت مجھے ہی اس نام کی کتاب لکھنے کی توفیق ملے اور عبد القادر سے مراد یہ ہو کہ اس میں جو کچھ لکھا جائے وہ میرے دماغ کا نتیجہ نہ ہو بلکہ خدا تعالٰی کی سمجھائی ہوئی باتیں ہوں اس وجہ سے میں نے اس مضمون کا نام منھاج الطالبیین رکھا ہے.منهاج الطالبین ( تقریر جلسہ سالانہ 27 - دسمبر 1925ء) صفحہ 23 ( شائع کردہ الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ.اگست 1979ء) اس وقت مجھے یہی دکھایا گیا کہ انسان سمجھتا ہے کہ میں نے فلاں قیمتی چیز کھو دی مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا اور کبھی انسان سمجھتا ہے مجھے کون تباہ کر سکتا ہے مگر وہ تباہ ہو جاتا ہے اسی طرح اب ہو گا.محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ترقی حاصل ہوگی اور کوئی اس ترقی کو روک نہیں سکے گا اس کے دشمن تباہ و برباد ہو جائیں گے اور کوئی ان کو بچانہ سکے گا چنانچہ اسی طرح ہو گیا.الفضل 17 جولائی 1928ء ( ضمیمہ صفحہ (113).مزید دیکھیں الفضل 3 ستمبر 1935ء صفحہ 8 غالباً 1908ء 20 فرمایا : تیرا الہام جو مجھے اس رنگ میں ہوا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد وہ یہ ہے کہ اِعْمَلُوالَ دَاوُدَ شُكراً ال داؤد تم اللہ تعالی کے شکر کے ساتھ اس کے احکام پر عمل کرو.اس الہام کے ذریعہ
15 اعْمَلُوا کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے منشاء پر پوری طرح عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور ال داؤد کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مجھے حضرت سلیمان علیہ السلام سے مشابہت دی ہے حضرت سلیمان علیہ السلام حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد خلیفہ ہوئے تھے اور ان کے بیٹے بھی تھے مجھے یاد ہے اس وقت یہ الہام اتنے زور سے ہوا کہ کتنی دیر تک مجھ پر اس الہام کے نازل ہونے کی کیفیت تازہ رہی.الفضل 7 - مارچ 1944ء صفحہ 3 $1908 21 فرمایا : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ آپ کی لاش قبر پر باہر نکلی پڑی ہے.جب میں نے اسے دیکھا تو سخت تکلیف ہوئی اور سمجھا کہ اس طرح آپ کی ہتک کی گئی ہے.میں نے ایک شخص سے پوچھا کس نے ایسا کیا ہے.اس نے کہا وہ شخص جو اس جگہ کو اپنی سمجھتا ہے اس نے نکالی ہے.اس وقت میں نے کہا گرم دودھ لاؤ.جب دودھ لایا گیا اور میں نے آپ کے منہ میں ڈالا تو لاش تر و تازہ ہو گئی.اس پر میں نے کہا کون کہتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہو گئے آپ تو زندہ ہیں.الفضل 19 ستمبر 1933ء صفحہ 6 اور نیز دیکھیں الفضل 10 - مئی 1944 ء صفحہ 6 22 1909 1908 فرمایا : مجھے ایک اور رویا دکھایا گیا کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کے کلام کی عظمت اور شان کے متعلق ہی تھا.اس رویا میں مجھے انگریزی کا ایک فقرہ بتایا گیا.میں تو بہت انگریزی نہیں جانتا اس لئے شاید اس کے یاد رکھنے میں مجھ سے غلطی ہو گئی ہو مگر وہ ایسا شاندار ہے کہ اب تک مجھے یاد ہے اور کم سے کم اس کے اکثر الفاظ وہی ہیں جو مجھے رویا میں سنائے گئے کوئی میرے کان میں کہتا ہے."Hearken I tell in thy ear that the earth would be shaken for thee to one that dont care for me for a thread."Three to One"
16 مطلب یہ ہے کہ جس طرح شرط میں جس کو زیادہ یقین ہوتا ہے وہ اپنی بات کی تائید میں دوسرے کی تھوڑی رقم کے مقابلے میں زیادہ رقم شرط کے طور پر رکھنے کے لئے تیار ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنی بات پر زور دینے کے لئے اس فقرہ کو استعمال فرماتا ہے.لیکن اس رویا کے دیکھنے کے وقت مجھے اس جملہ کے معنی معلوم نہ تھے میں اس وقت سفر میں تھا جب یہاں آیا تو انگریزی خوان احباب سے اس کے معنے پوچھے.انہوں نے کہا کہ ہمیں تو معلوم نہیں لیکن کچھ عرصہ کے بعد یہی محاورہ ایک انگریزی اخبار میں پڑھا.ولایت میں گھوڑوں پر شرط لگاتے ہیں کہ اگر ہمارے گھوڑے سے فلاں گھوڑا جیت گیا تو ہم ایک کے مقابلہ میں تین دیں گے یا اس طرح کچھ اور.غرض اس رویا کا مطلب یہ ہے کہ میرے کان میں آواز آئی کہ سن میں تیرے کان میں تجھے ایک بات بتاؤں اور وہ یہ کہ زمین ہلائی جائے گی (یہ سات آٹھ سال کا رویا ہے ممکن ہے اس سے مراد موجودہ جنگ ہی ہو) کیونکہ لوگ میرے کلام کو بالکل چھوڑ چکے ہیں اور میں اس بات پر شرط لگانے کے لئے بھی تیار ہوں کہ اگر کوئی میرے مقابلہ میں ایک چیز پیش کرے تو میں اس سے تنگنی پیش کروں گا کہ لوگ میری اتنی بھی پرواہ نہیں کرتے جتنی تاگے کی.جنوری 1909ء ذکر الی ( تقریر جلسہ سالانہ 27 - دسمبر 1916 ء طبع اول) صفحہ 5 23 فرمایا : جنوری 1909ء میں میں نے یہ رویا دیکھی کہ ایک مکان ہے بڑا عالیشان.سب تیار ہے لیکن اس کی چھت ابھی پڑنی باقی ہے.کڑیاں پڑ چکی ہیں اس پر اینٹیں رکھ کر مٹی ڈال کر کوٹنی باقی ہے.ان کڑیوں پر کچھ پھونس پڑا ہے اور اسی کے پاس میر محمد اسحاق صاحب کھڑے ہیں اور ان کے پاس میاں بشیر احمد اور نثار احمد مرحوم (جو پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی کا صاحبزادہ تھا) کھڑے ہیں.میر محمد اسحاق صاحب کے ہاتھ میں ڈبیہ دیا سلائیوں کی ہے اور وہ اس پھونس کو آگ لگانی چاہتے ہیں.میں انہیں منع کرتا ہوں کہ ابھی آگ نہ لگائیں.نہیں تو کڑیوں کو آگ لگنے کا خطرہ ہے ایک دن اس پھونس کو جلایا تو جائے گاہی لیکن ابھی وقت نہیں.بڑے زور سے منع کر کے اپنی تسلی کر کے میں وہاں سے لوٹا ہوں لیکن تھوڑی دور جا کر میں نے پیچھے سے کچھ آہٹ سنی اور منہ پھیر کر کیا دیکھتا ہوں کہ میر محمد اسحاق صاحب دیا سلائی کی تیلیاں نکال کر اس کی
17 ڈبیہ سے جلدی جلدی رگڑتے ہیں.وہ نہیں جلتیں.پھر اور نکال کر ایسا ہی کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد اس پھونس کو آگ لگا دیں.میں اس بات کو دیکھ کر واپس بھا گا کہ ان کو روکوں لیکن میرے پہنچتے پہنچتے انہوں نے آگ لگادی تھی.میں اس آگ میں کود پڑا اور اسے میں نے بجھا دیا لیکن تین کڑیوں کے سرے جل گئے.یہ خواب میں نے اسی دن دوپہر کے وقت مولوی سید سرور شاہ کو سنائی جو سن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ یہ خواب تو پوری ہو گئی.اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میر محمد اسحاق صاحب نے چند سوالات لکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح کو دیئے ہیں جن سے ایک شور پڑ گیا ہے اس کے بعد میں نے حضرت خلیفتہ المسیح کو یہ رویا لکھ کر دی اور آپ نے وہ رقعہ پڑھ کر فرمایا خواب پوری ہو گئی ہے اور ایک کاغذ پر مفصل واقعہ لکھ کر مجھے دیا کہ پڑھ لو.جب میں نے پڑھ لیا تو لے کر پھاڑ دیا.یہ رویا حرف بحرف پوری ہوئی اور ان سوالات کے جواب میں بعض آدمیوں کا نفاق ظاہر ہو گیا اور ایک خطر ناک آگ لگنے والی تھی.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس وقت اپنے فضل سے بجھا دی ہاں کچھ کمڑیوں کے سرے جل گئے اور ان کے اندر ہی اندر یہ آگ دہکتی رہی.برکات خلافت صفحہ 40 39 ( تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1914ء).نیز دیکھیں.الفضل 21 اپریل 1940 ء صفحہ 34 اور خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک صفحہ 10 12 ( تقریر 21 - شہادت 1319 عش) اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحہ 16 تا صفحہ 18 - خلافت را شده ( تقریر جلسہ سالانہ 29 - دسمبر 1939ء صفحہ 88 صفحہ 90 24 +1909 فرمایا : جب خلافت کا جھگڑا شروع ہوا تو کو مجھے وہ رویا بھی ہو چکی تھی جس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ کی لکھی ہوئی موجود ہے اور وہ دوسری رویا بھی دیکھ چکا تھا جس میں میر محمد اسحاق صاحب کے سوالات سے منافقوں کے سر جلنے کا پتہ دیا گیا تھا لیکن پھر بھی طبیعت پر ایک بوجھ تھا اور میں چاہتا تھا کہ زیادہ وضاحت سے مجھے اس مسئلہ کی نسبت کچھ بتایا جائے اور میں نے اپنے رب کے حضور میں بار بار عرض کیا کہ الہی مجھے حق کا پتہ دیا جائے اور صداقت مجھ پر کھول دی جائے اور جو بات سچ ہے وہ مجھے بتادی جائے کیونکہ مجھے کسی پارٹی سے تعلق نہیں بلکہ صرف حضور کی رضا حاصل کرنے کا شوق ہے.جس قدر دن
18 جلسہ میں باقی تھے ان میں برابر یہ دعا کرتا رہا لیکن مجھے کچھ نہ بتایا گیا حتی کہ وہ رات آگئی جس دن صبح کو جلسہ تھا جس میں یہ سوالات و پیشن ہونے تھے اور اس رات میرا کرب بڑھ گیا اور میرا دل دھڑکنے لگا اور میں گھبرا گیا کہ اب میں کیا کروں.اس رات میں بہت ہی گڑ گڑایا اور عرض کیا کہ الہی صبح کو یہ معاملہ پیش ہو گا.حضور مجھے بتائیں کہ میں کس طرف ہوں.اس وقت تک تو میں خلافت کو حق سمجھتا ہوں لیکن مجھے حضور کی رضا مطلوب ہے کسی اپنے اعتقاد پر اصرار نہیں.میں حضور سے ہی اس مسئلہ کا حل چاہتا ہوں تا میرے دل کو تسلی ہو.پس صبح کے وقت میری زبان پر یہ الفاظ جو قرآن کریم کی ایک آیت ہے جاری کئے گئے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان : 78) کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پروا ہی کیا کرتا ہے.اس کے بعد مجھے تسلی ہو گئی اور میں نے خیال کہ میں حق پر ہوں کیونکہ لفظ "قُلُ" نے جتادیا کہ میرا خیال درست ہے تبھی تو مجھے حکم ہوا کہ میں لوگوں کو حکم الہی سناؤں اور اگر میرا عقیدہ غلط ہو تا تو یہ الفاظ ہوتے مَا يَعْبُؤُاكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ برکات خلافت صفحه 40-41 ( تقریر جلسہ سالانہ 27 - دسمبر 1914ء) مجھے کہا گیا کہ جو تمہارے خلاف خیال رکھتے ہیں ان کو کہہ دو کہ یورپ کی تقلید میں کامیابی اور فلاح نہیں یہ دینی مسئلہ ہے اس لئے جس طرح خدا کے نبیوں کے خلیفے ہوتے رہے ہیں اسی طرح یہاں بھی خلافت ہی ہوگی لیکن اگر وہ باز نہیں آئیں گے تو خدا کو ان کی کوئی پرواہ نہیں.کامیابی اسی میں ہے کہ وہ خدا کے حضور گر جائیں اور زاری کریں اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو خدا کا عذاب موجود ہے.(الفضل 28 - ستمبر 1918ء صفحہ 10.نیز دیکھیں.اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحہ 21-22 25 +1909 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ مسجد میں جلسہ ہو رہا ہے اور حضرت خلیفہ اول تقریر فرما حضرت خلیفہ اول نے جماعت کے لوگوں سے حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے پیش کردہ سوالات کے جوابات طلب فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ 31 جنوری 1908ء کو مختلف جماعتوں کے قائم مقام قادیان میں جمع ہو جاویں تا سب سے مشورہ کر لیا جاوے (ناقل)
19 رہے ہیں مگر آپ اس حصہ مسجد میں کھڑے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بنوایا تھا اس حصہ مسجد میں کھڑے نہیں ہوئے جو بعد میں جماعت کے چندہ سے بنوایا گیا تھا.آپ تقریر مسئلہ خلافت پر فرما رہے ہیں اور میں آپ کے دائیں طرف بیٹھا ہوں.آپ کی تقریر کے دوران میں خواب میں ہی مجھے رقت آگئی اور بعد میں کھڑے ہو کر میں نے بھی تقریر کی جس کا خلاصہ قریباً اس رنگ کا تھا کہ آپ پر ان لوگوں نے اعتراض کر کے آپ کو سخت دکھ دیا ہے مگر آپ یقین رکھیں کہ ہم نے آپ کی بچے دل سے بیعت کی ہوئی ہے اور ہم آپ کے ہمیشہ وفادار رہیں گے.پھر خواب میں ہی مجھے انصار کا وہ واقعہ یاد آگیا جب ان میں سے ایک انصاری نے کھڑے ہو کر کہا تھا کہ یا رسول اللہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روند تا ہوا نہ گزرے.اسی رنگ میں میں بھی کہتا ہوں کہ ہم آپ کے وفادار ہیں اور لوگ خواہ کتنی بھی مخالفت کریں ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے در پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ کے پاس اس وقت تک نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہم پر حملہ کر کے ہمیں ہلاک نہ کرئے.قریباً اسی قسم کا مضمون تھا جو رویا میں میں نے اپنی تقریر میں بیان کیا.مگر عجیب بات یہ ہے کہ جب حضرت خلیفہ اول تقریر کرنے کے لئے مسجد میں تشریف لائے تو اس وقت میرے ذہن سے یہ رویا بالکل نکل گیا اور بجائے دائیں طرف بیٹھنے کے بائیں طرف بیٹھ گیا.حضرت خلیفہ اول نے جب مجھے اپنے بائیں طرف بیٹھے دیکھا تو فرمایا.میرے دائیں طرف آ بیٹھو پھر خود ہی فرمانے لگے.تمہیں معلوم ہے کہ میں نے تمہیں دائیں طرف کیوں بٹھایا.میں نے کہا مجھے تو معلوم نہیں آپ نے فرمایا.تمہیں اپنی خواب یاد نہیں.تم نے تو خود ہی خواب میں اپنے آپ کو میرے دائیں طرف دیکھا تھا.الفضل 21- اپریل 1940ء صفحہ 4-5 خلافت راشدہ صفحہ 92-93 ( تقریر جلسہ سالانہ 29 دسمبر 1939ء) خلافت احمدیہ کے مخالفین کی تحریک صفحہ 15-18 اور القول الفصل صفحه 52 ( مختصراً) 26 $1909 فرمایا : مجھے بھی خدا تعالیٰ نے پہلے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر
20 ہو گا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو گا.مکتوب محررہ 26 دسمبر 1909ء بنام منشی فخر الدین صاحب ملتانی بحوالہ الفضل 8 اپریل 1915ء صفحہ 5 27 غالبا 1909ء فرمایا : جب غیر مباحین کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درجہ کو گھٹایا جانے لگا تو اس وقت میں نے خدا تعالیٰ کو دیکھا اور اس نے مجھے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی تھے.میں نے رویا میں دیکھا کہ میں پہاڑیوں پر سے گزر رہا ہوں.گزرتے گزرتے ایک مقام پر میں نے خدا تعالی کا بہت بڑا جلوہ دیکھا اس وقت میں نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوا پایا اور اللہ تعالی نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پر یقین دلایا.الفاظ مجھے یاد نہیں مگر مفہوم یہی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی ہیں.+1910 28 الفضل 10 مئی 1944ء صفحه 2 فرمایا : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے قریبا دو سال کے بعد جب یہ سوال اٹھا ہوا تھا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کا انجام کیا ہو گا.میں نے رویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں.میں دوڑ کر گیا تا کہ آپ کے آنے کی خبر دوں جب آپ پہنچے اور گفتگو فرمانے لگے تو میں نے پوچھا.ثناء اللہ کا کیا انجام ہو گا.آپ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا اور بات شروع کر دی.میں نے پھر پوچھا.پھر آپ نے اسی طرح کیا میں نے اصرار سے پوچھا تو آپ نے فرمایا.انجام کیا ہو گا.انجام کیا ہو گا.انجام کیا ہو گا.میرے الہام میں جو موجود ہے کہ طاعون سے ہلاک ہو گا.طاعون کا مفہوم کئی رنگ میں پورا ہو سکتا ہے گویا تین دفعہ آپ نے انجام کیا ہو گا" کے الفاظ دہرائے اور پھر اپنے ایک الہام کی طرف اشارہ فرمایا اس کے بعد میں نے آپ کی ایک کاپی دیکھی جس میں ثناء اللہ صاحب کے متعلق بقیہ الطاعون درج تھا اس سے پہلے مجھے یہ الہام معلوم نہ تھا.الفضل 30 مئی 1933 ء صفحہ 6 و 10 - مئی 1944ء صفحہ 6 اس وقت آپ کے اس جواب سے مجھ پر سخت رقت کی حالت طاری ہو گئی اور میری
21 آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور میں نے کہا کہ حضور میں نے تو زیادتی علم کے طور پر سوال کیا تھا ورنہ میں نے تو آپ کے الہام اس قدر کثرت سے پڑھے ہیں کہ وہ مجھے یاد ہو گئے ہیں.الفضل 10 مئی 1944ء صفحہ 6 29 غالباً 1910ء فرمایا : ایک دفعہ حضرت خلیفہ المسیح الاول نے مجھے خطبہ جمعہ پڑھنے کے لئے فرمایا وہ جمعرات کا دن تھا.اس دن شام کے وقت میرے دل پر ایک تحریک ہوئی اور وہ یہ کہ میں جماعت کے سامنے اس آیت پر خطبہ پڑھوں کہ وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان : 31) اور یہ خیال ایسا غالب ہوا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا.نماز میں میری توجہ اس طرف پھر گئی اور اس آیت کے متعلق مجھے بہت وسیع مطالب القاء کے طور پر سمجھائے گئے.ذکر الہی صفحہ 34 ( تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1916ء) 30 +1911/1910 فرمایا : پرسوں جمعہ کے روز میں نے ایک خواب سنایا تھا کہ میں بیمار ہو گیا اور مجھے ران میں درد محسوس ہوا اور میں نے سمجھا کہ شاید طاعون ہونے لگا ہے.تب میں نے اپنا دروازہ بند کر لیا اور فکر کرنے لگا کہ یہ کیا ہونے لگا ہے.میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے وعدہ کیا تھا اِنّى أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ یہ خدا کا وعدہ آپ کی زندگی میں پورا ہوا شاید خدا کے مسیح کے بعد یہ وعدہ نہ رہا ہو کیونکہ وہ پاک وجود ہمارے درمیان نہیں.اسی فکر میں میں کیا دیکھتا ہوں یہ خواب نہ تھا.بیداری تھی میری آنکھیں کھلی تھیں میں درو دیوار کو دیکھتا تھا کمرے کی چیزیں نظر آ رہی تھیں.میں نے اسی حالت میں اللہ تعالی کو دیکھا کہ ایک سفید اور نہایت چمکتا ہوا نور ہے.نیچے سے آتا ہے اور اوپر چلا جاتا ہے نہ اس کی ابتداء ہے نہ انتہاء.اس نور میں سے ایک ہاتھ نکلا جس میں ایک سفید چینی کے پیالہ میں دودھ تھا جو مجھے پلایا گیا جس کے معا بعد مجھے آرام ہو گیا اور کوئی تکلیف نہ رہی.اس قدر حصہ میں نے سنایا تھا اس کا دوسرا حصہ اس
22 وقت میں نے نہیں سنایا تھا.اب سناتا ہوں وہ پیالہ جب مجھے پلایا گیا تو معا میری زبان سے نکلا اب میری امت بھی کبھی گمراہ نہ ہوگی " میری امت کوئی نہیں.تم میرے بھائی ہو.مگر اسی نسبت سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت مسیح موعود کو ہے یہ فقرے نکلے.جس کام کو مسیح موعود نے جاری کیا اپنے موقع پر وہ امانت میرے سپرد ہوئی ہے.الفضل 21 - مارچ 1914 ء صفحہ 2 3.نیز دیکھیں.الفضل 8 - مارچ 1914ء صفحہ 15 و 17 جنوری 1935ء صفحہ 8 10 و 17 ستمبر 1937ء صفحہ 13 14 و 10 مئی 1944ء صفحہ 32 اور تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ دوم صفحه 213 31 +1911 1910 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں اور حافظ روشن علی صاحب ایک جگہ بیٹھے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھے گورنمنٹ برطانیہ نے افواج کا کمانڈر انچیف مقرر فرمایا ہے اور میں سراو مور کرے سابق کمانڈر انچیف افواج ہند کے بعد مقرر ہوا ہوں اور ان کی طرف سے حافظ صاحب مجھے عہدہ کا چارج دے رہے ہیں.چارج لیتے لیتے ایک امر پر میں نے کہا کہ فلاں چیز میں تو نقص ہے میں چارج میں کیونکر لے لوں؟ میں نے یہ بات کہی ہی تھی کہ نیچے چھت بھٹی (ہم چھت پر تھے ) اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول اس میں سے بر آمد ہوئے اور میں خیال کرتا ہوں کہ آپ سر او مور کرے کمانڈر انچیف افواج ہند ہیں.آپ نے فرمایا کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں بلکہ لارڈ کچھر سے مجھے یہ چیز اسی طرح ملی تھی.افواج کی کمانڈ سے مراد جماعت کی سرداری ہے...اس رویا میں حضرت مسیح موعود کولارڈ کچنر کے نام سے ظاہر کیا گیا ہے اور حضرت خلیفہ اول کو سر او مور کرے کے نام سے.اور جب ہم ان دونوں افسروں کے عہدوں کو دیکھتے ہیں تو جس سال حضرت مسیح موعود نے وفات پائی تھی اسی سال لارڈ کچھر ہندوستان سے رخصت ہوئے تھے اور سر او مور کرے کمانڈر مقرر ہوئے تھے مگر یہ بات تو پچھلی تھی.عجیب بات یہ ہے کہ جس سال اور جس مہینہ میں سراو مور کرے ہندوستان سے روانہ ہوئے ہیں اسی سال اور اسی مہینہ یعنی مارچ 1914 ء میں حضرت خلیفۃ المسیح فوت ہو گئے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اس کام پر مقرر فرمایا.
23 اس رویا میں یہ جو دکھایا گیا ہے کہ چارج میں ایک نقص ہے اور میں اسے لینے سے انکار کرتا ہوں تو وہ ان چند آدمیوں کی طرف اشارہ تھا کہ جنہوں نے اس وقت فساد کھڑا کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس رویا کے ذریعہ سے حضرت مولوی صاحب پر سے یہ اعتراض دور کیا ہے جو بعض لوگ آپ پر کرتے ہیں کہ اگر حضرت مولوی صاحب اپنے زمانہ میں ان لوگوں کے اندرونہ سے لوگوں کو علی الاعلان آگاہ کر دیتے اور اشارات پر ہی بات نہ رکھتے یا جماعت سے خارج کر دیتے تو آج یہ فتنہ نہ ہوتا اور مولوی صاحب کی طرف سے قبل از وقت یہ جواب دے دیا گیا کہ یہ نقص میرے زمانہ کا نہیں بلکہ پہلے کا ہی ہے اور یہ لوگ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہی بگڑ چکے تھے.ان کے بگڑنے میں میرے کسی سلوک کا دخل نہیں مجھ سے پہلے ہی ایسے تھے.برکات خلافت ( تقریر جلسہ سالانہ 27 - دسمبر 1914ء صفحہ 47745) فروری 1911ء 32 فرمایا : چند دن کا ذکر ہے کہ صبح کے قریب میں نے دیکھا کہ ایک بڑا محل ہے اور اس کا ایک حصہ گرا رہے ہیں اور اس محل کے پاس ایک میدان ہے اور اس میں ہزاروں آدمی ہتھیروں کا کام کر رہے ہیں اور بڑی سرعت سے اینٹیں پاتھتے ہیں.میں نے پوچھا کہ یہ کیسا مکان ہے اور یہ کون لوگ ہیں اور اس مکان کو کیوں گرا رہے ہیں تو ایک شخص نے جواب دیا کہ یہ جماعت احمد یہ ہے اور اس کا ایک حصہ اس لئے گرا رہے ہیں تا پرانی اینٹیں خارج کی جائیں (اللہ رحم کرے اور بعض کچی اینٹیں پکی کی جائیں اور یہ لوگ اینٹیں اس لئے پاتھتے ہیں تا اس مکان کو بڑھایا جاوے اور وسیع کیا جائے.یہ ایک عجیب بات تھی کہ سب ہتھیروں کا منہ مشرق کی طرف تھا.اس وقت دل میں خیال گزرا کہ یہ ہتھیرے فرشتے ہیں اور معلوم ہوا کہ جماعت کی ترقی کی فکر ہم کو بہت کم ہے بلکہ فرشتے ہی اللہ تعالیٰ سے اذن پا کر کام کر رہے ہیں.( بدر 23 - فروری 1911 صفحہ 2) میں نے سوچا کہ کوئی کسی کے کام میں اسے مدد دیتا ہے تو وہ اس کا دوست اور پیارا بن جاتا ہے تو اگر ہم اس وقت ملائکہ کے کاموں میں مدد کریں گے جو خود اپنی ہی مدد ہے تو ضرور ہے کہ ملا تک کا ہم سے خالص تعلق ہو جائے اور اس تعلق کی وجہ سے خود ہمارے نفوس کی بھی اصلاح
24 ہو اور ملائکہ ہمارے دلوں میں کثرت سے نیک تحریکیں شروع کر دیں.عید الاذہان بابت مئی 1911ء صفحہ 161-162) اس رویا سے تحریک پاکر میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اجازت سے ایک انجمن بنائی جس کے فرائض تبلیغ سلسلہ احمدیہ حضرت خلیفہ المسیح کی فرمانبرداری ، تسبیح و تحمید و درود کی کثرت قرآن کریم اور احادیث کا پڑھنا اور پڑھانا، آپس میں محبت بڑھانا بدظنی اور تفرقہ سے بچنا نماز با جماعت کی پابندی رکھنا تھے.ممبر ہونے کے لئے یہ شرط رکھی گئی کہ سات دن متواتر استخارہ کرنے کے بعد کوئی شخص اس انجمن میں داخل ہو سکتا ہے.اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحہ 49 - 50 و نیز دیکھیں.الحکم فروری 1911ء صفحہ 21-22 33 فروری 1911ء فرمایا : میری ایک پرانی کاپی ملی ہے اس میں میرا یہ الہام درج ہے.إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَ اس کے ساتھ وہ رویا بھی درج ہے جس کی بناء پر میں نے انصار اللہ کی جماعت بنائی تھی.الفضل 28 نومبر 1921ء صفحہ 6 34 +1911 فرمایا : جب خواجہ صاحب (خواجہ کمال الدین صاحب) نے ہندوستان میں ایسی طرز کی تبلیغ شروع کی جس میں حضرت مسیح موعود کا نام نہ لیتے تو مجھے بہت برا معلوم ہوا.یہ لوگ تو کہتے تھے کہ ہماری یونی مخالفت شروع کر دی گئی ہے نہ کچھ سوچا نہ سمجھا ہے.لیکن وہ نہیں جانتے کہ اس وقت میں نے استخارہ کیا کہ الہی اگر یہی طریق تبلیغ اچھا ہے تو مجھے بھی اس پر انشراح کر دے.بار بار دعا کرنے پر رویا میں میری زبان پر ایک اردو شعر جاری ہوا جو شعر تو یاد نہیں رہا مگر اس کا مطلب یاد ہے جو یہ ہے کہ جن کے پاس کھک نہیں ہو تا وہ نان ہی کو کھک سمجھ لیتے ہیں اس لفظ کھک کے متعلق میں نے کئی لوگوں سے دریافت کیا کہ اس کے کیا معنی ہیں لیکن وہ کچھ نہ بتا سکے پھر کئی لغت کی کتابوں کو دیکھا وہاں سے بھی نہ ملا.آخر بڑی تلاش کے بعد ایک لغت کی
25 کتاب سے معلوم ہوا کہ کھک کو کہتے ہیں اور یہ عربی لفظ ہے تو اس قسم کے نئے الفاظ بتایا جانا ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ یہ خواب خدا کی طرف سے ہے.حقیقتہ الرؤ یا صفحہ 64-65(ایڈیشن دوم ( تقریر جلسہ سالانہ 28 - دسمبر 1917ء) نیز دیکھیں.اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحه 51-52 +1911 35 فرمایا : میں نے حضرت خلیفتہ المسیح کی وفات سے تین سال پہلے ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر یہ تھی کہ آپ کی وصیت سے نواب صاحب (حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ.ناقل) کا بھی کچھ تعلق ہے چنانچہ تین سال بعد اللہ تعالیٰ نے اس رویا کو پورا کر کے دکھا دیا کہ وہ کیسا زبردست ہے.برکات خلافت صفحہ 41 ( تقریر 27 - دسمبر جلسہ سالانہ 1914ء) 36 اکتوبر 1912ء فرمایا : جب میں تعلیم کے لئے مصر گیا تو ارادہ تھا کہ حج بھی کرتا آؤں گا مگر یہ پختہ ارادہ نہ تھا کہ اسی سال حج کروں گا.یہ بھی خیال آتا تھا کہ واپسی پر حج کرلوں گا.جب میں بمبئی پہنچا تو وہاں نانا جان مرحوم بھی آملے.وہ براہ راست حج کو جا رہے تھے اس پر میرا بھی ارادہ پختہ ہو گیا کہ اسی سال ان کے ساتھ حج کرلوں.جب پورٹ سعید پہنچے تو میں نے رویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر حج کی نیت ہے تو کل ہی جہاز پر سوار ہو جاؤ کیونکہ یہ آخری جہاز ہے گونج میں ابھی دس پندرہ دن کا وقفہ تھا مگر فاصلہ بھی وہاں سے قریب ہے اس لئے خیال کیا جاتا تھا کہ ابھی کئی جہاز حاجیوں کے مصر سے جدہ جائیں گے.میرے ساتھ عبدالحی صاحب عرب بھی تھے وہ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ اگلے جہاز پر چلے جائیں گے مگر مجھے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اگر نیت ہے تو اسی جہاز پر جاؤ ورنہ جہازوں میں روک پیدا ہو جائے گی اس لئے میں نے پختہ ارادہ کر لیا.وہاں جو ایک دو اصحاب واقف ہوئے تھے وہ بھی کہنے لگے کہ ابھی تو کئی جہاز جائیں گے قاہرہ اور سکندریہ وغیرہ دیکھتے جائیں.اتنی دور آکر ان کو دیکھے بغیر چلے جانا مناسب نہیں مگر میں نے کہا کہ مجھے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ کل نہ جانے سے حج سے رہ جانے کا خطرہ ہے اس
26 لئے میں تو ضرور جاؤں گا.چنانچہ اس جہاز راں کمپنی سے گورنمنٹ کا کوئی جھگڑا تھا اور اس نے ایسی صورت اختیار کرلی کہ وہ جہاز آخری ثابت ہوا اور کمپنی والے اس سال اور جہاز حاجیوں " کے نہ لے گئے.الفضل 25 - اگست 1938 ء صفحہ 7.نیز دیکھیں.الفضل 10 مئی 1944ء صفحہ 5 اور تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ اول صفحہ 34-35 مکتوب بنام خلیفة المسیح بحوالہ البدر 12 - دسمبر 1912ء صفحہ 2 37 28 اکتوبر 1912ء فرمایا : آج رات میں نے خواب میں دیکھا کہ والدہ ناصر کچھ بیمار ہیں.نہ معلوم خواب کی کیا تعبیر ہے لیکن حضور دعا فرمائیں.عورتوں کو خاوندوں کی جدائی کا بھی ایک صدمہ ہوتا ہے اور اس سے جسمانی بیماریوں کا بھی خطرہ ہوتا ہے دعا کی سخت ضرورت ہے.(مکتوب بنام خلیفہ المسیح از سویز بحوالہ بد ر 12 - دسمبر 1912ء صفحہ 1) 38 نومبر 1912ء فرمایا : ایک متوحش نظارہ بار بار دیکھ رہا ہوں جب دعا کرتا ہوں پھر وہی بات اور رنگ میں دکھلائی جاتی ہے قریباً سات دفعہ دیکھا ہے.کل اونٹ پر جاگتے ہوئے کشفی رنگ میں دیکھا.ابھی سردرد کی وجہ سے لیٹ گیا تھا پھر وہی دیکھا.مکتوب بنام خلیفہ اول بحوالہ الفضل 30 - ستمبر 1949ء صفحہ 5) 39 نومبر 1912ء فرمایا : خدا تعالیٰ نے مجھے خود ایک رؤیا کے ذریعہ بتایا کہ آسمان سے سخت گرج کی آواز آ رہی ہے اور ایسا شور ہے جیسے توپوں کے متواتر چلنے سے پیدا ہوتا ہے اور سخت تاریکی چھائی ہوئی ہے ہاں کچھ کچھ دیر کے بعد آسمان پر روشنی ہو جاتی ہے اتنے میں ایک دہشت ناک حالت کے بعد آسمان پر ایک روشنی پیدا ہوئی اور نہایت موٹے اور نورانی الفاظ میں آسمان پر لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ لکھا گیا ہے اس کے بعد کسی نے باد از بلند کچھ کہا جس کا مطلب یا د رہا کہ آسمان پر بڑے بڑے تغیرات ہو رہے ہیں جن کا نتیجہ تمہارے لئے اچھا ہو گا.
27 پس اس سلسلہ کی ترقی کے دن آگئے ہیں اس خواب کا ایک حصہ پورا ہو گیا ہے اور یورپ کی خطرناک جنگ کی شکل میں ظاہر ہوا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اسلام کی صداقت کو روشن کرے اور یہ ہو نہیں سکتا مگر اس کے ہاتھ سے جس نے مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کی ہو.خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ حضرت مسیح موعود کی جماعت پھیلے کیونکہ وہ خدا کی طرف سے آیا ہے.پیام مسیح ( تقریر فرمودہ 11 جولائی 1915ء بمقام لاہور ).مزید دیکھیں البدر 8 - جنوری 1912ء اور الفضل 9 - مئی 1921ء صفحہ 9 و 6 جنوری 1945ء صفحہ 21 و 30 - ستمبر 1940ء صفحہ 5 (مکتوب بنام حضرت خلیفہ اول) 40 +1913 فرمایا : آج سے بائیس سال قبل غالباً اگست یا ستمبر کا مہینہ تھا جب میں شملہ گیا ہوا تھا تو میں نے رویا دیکھا کہ میں ایک پہاڑی سے دوسری پہاڑی پر جانا چاہتا ہوں.ایک فرشتہ آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ تمہیں پتہ ہے یہ رستہ بڑا خطرناک ہے اس میں بڑے مصائب اور ڈراؤنے نظارے ہیں ایسا نہ ہو تم ان سے متاثر ہو جاؤ اور منزل پر پہنچنے سے رہ جاؤ اور پھر کہا کہ میں تمہیں ایسا طریق بتاؤں جس سے تم محفوظ رہو.میں نے کہا ہاں بتاؤ.اس پر اس نے کہا کہ بہت سے بھیانک نظارے ہوں گے مگر تم ادھر ادھر نہ دیکھنا اور نہ ان کی طرف متوجہ ہوتا بلکہ "خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ " "خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ " کہتے ہوئے سیدھے چلے جانا.ان کی غرض یہ ہوگی کہ تم ان کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اگر تم ان کی طرف متوجہ ہو گئے تو اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہ جاؤ گے اس لئے اپنے کام میں لگے جاؤ.چنانچہ میں جب چلا تو میں نے دیکھا کہ نہایت اندھیرا اور گھنا جنگل ہے اور ڈر اور خوف کے بہت سے سامان جمع تھے اور جنگل بالکل سنسان تھا.جب میں ایک خاص مقام پر پہنچا جو بہت ہی بھیانک تھا تو بعض لوگ آئے اور مجھے تنگ کرنا شروع کیا تب مجھے معا خیال آیا کہ فرشتہ نے مجھے کہا تھا کہ ”خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ " کہتے ہوئے چلے جانا اس پر میں نے بلند آواز سے یہ فقرہ کہنا شروع کیا اور وہ لوگ چلے گئے.اس کے بعد پھر پہلے سے بھی خطرناک راستہ آیا اور پہلے سے بھی زیادہ بھیانک شکلیں نظر آنے لگیں حتی کہ بعض سرکٹے ہوئے جن کے ساتھ دھڑ نہ تھے ہوا میں معلق میرے سامنے آئے اور طرح طرح کی شکلیں بناتے اور منہ چڑاتے اور چھیڑتے.
28 مجھے غصہ آتا لیکن معافرشتہ کی نصیحت یاد آجاتی اور میں پہلے سے بلند آواز سے ”خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ " کہنے لگتا اور پھر وہ نظارہ بدل جاتا.یہاں تک کہ سب بلائیں دور ہو گئیں اور میں منزل مقصود پر خیریت سے پہنچ گیا.1- یہ رویا میں نے 1912ء میں اگست یا ستمبر میں بمقام شملہ دیکھا تھا اور شملہ میں خواب دیکھنے کا شاید یہ بھی مطلب ہو کہ حکومت کے بعض ارکان کی طرف سے بھی ہماری مخالفت ہو گی.اس رویا کو آج کچھ ماہ کم 22 سال ہو گئے ہیں.اس دن سے جب میں کوئی مضمون لکھتا ہوں تو اس کے اوپر ”خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ " ضرور لکھتا ہوں.(الفضل 17 اپریل 1935ء صفحہ 6 - 5 ) یہ رویا حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی زندگی میں 1913ء کے شروع میں میں نے دیکھا تھا اس وقت میں نے سمجھا کہ میری زندگی میں کوئی تغیر پیدا ہونے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص کام میرے سپرد کیا جائے گا.دشمن مجھے اس کام سے غافل کرنے کی کوشش کرے گا وہ مجھے ڈرائے گا دھمکائے گا اور گالیاں دے گا مگر مجھے اللہ تعالی کی طرف سے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ میں ان گالیوں کی طرف توجہ نہ کروں اور خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ کہتا ہوا منزل مقصود کی طرف بڑھتا چلا جاؤں یہی وجہ ہے کہ میرے ہر مضمون پر یہ الفاظ لکھے ہوئے ہوتے ہیں.خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ "الموعود ( تقریر جلسہ سالانہ 28 - دسمبر 1944ء) صفحہ 114-115.مزید دیکھیں.الفضل 4 جولائی 1916 ء صفحہ 11 و 17 جنوری 1935ء صفحہ 10 و 12 - اپریل 1935ء صفحہ 9 و 17 - اپریل 1935ء صفحہ 56 و 20 جولائی 1935 ء صفحہ 67 و 19 - ستمبر 1936ء صفحہ 6 و 18 نومبر 1937ء صفحہ 3 و 5 - دسمبر 1939ء صفحہ 5 و 6 - نومبر 1948ء صفحہ 3 و 8 - دسمبر 1954ء صفحہ 4 و 20- نومبر 1958ء صفحہ 3 4 و 14 - جون 1961ء صفحہ 2 و 16 - اکتوبر 1962ء صفحہ 3 اور تقریر دلپذیر ( تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1927ء) صفحہ 20-29 41 غالبا 1913ء فرمایا : حضرت خلیفۃ المسیح کی زندگی کا واقعہ ہے کہ منشی فرزند علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہوں.اس وقت ان سے میری اس قدر واقفیت بھی نہ تھی میں نے عذر کیا مگر انہوں نے اصرار کیا.میں نے سمجھا کہ کوئی منشاء الہی ہے آخر میں نے ان کو شروع
29 29 کرا دیا.ایک دن میں پڑھا رہا تھا کہ میرے دل میں بجلی کی طرح ڈالا گیا کہ آیت رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيهِمْ رَسُوْلاً مِّنْهُمْ (البقرة : (130) سورہ بقرہ کی کلید ہے اور اس سورۃ کی ترتیب کار از اس میں رکھا گیا ہے اسی کے ساتھ ہی سورہ بقرہ کی ترتیب پورے طور پر میری سمجھ میں آگئی.(منصب خلافت ( تقریر 12 - اپریل 1914ء) صفحہ 7 میں اس راز اور حقیقت کو آج سمجھا کہ تین سال پیشتر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بجلی کی طرح میرے دل میں کیوں ڈالی.قبل از وقت میں اس راز سے آگاہ نہیں ہو سکتا تھا مگر آج حقیقت کھلی کہ ارادہ الہی میں یہ میرے ہی فرائض اور کام تھے اور ایک وقت آنے والا تھا کہ مجھے ان کی تکمیل کے لئے کھڑا کیا جانا تھا.منصب خلافت صفحہ 28.مزید دیکھیں تغیر کبیر جلد اول جزو اول صفحہ 55 42 ستمبر 1913ء فرمایا : 1913ء میں میں ستمبر کے مہینہ میں چند دن کے لئے شملہ گیا تھا جب میں یہاں سے چلا ہوں تو حضرت خلیفۃ المسیح کی طبیعت اچھی تھی لیکن وہاں پہنچ کر میں نے پہلی یا دوسری رات دیکھا کہ رات کا وقت ہے اور قریباً دو بجے ہیں.میں اپنے کمرہ ( قادیان میں بیٹھا ہوں.مرزا عبد الغفور صاحب (جو کلانور کے رہنے والے ہیں) میرے پاس آئے اور نیچے سے آواز دی میں نے اٹھ کر ان سے پوچھا کہ کیا ہے.انہوں نے کہا کہ حضرت خلیفۃ ا صحیح کو سخت تکلیف ہے تپ کی شکایت ہے ایک سو دو (۱۰۲) کے قریب تپ ہو گیا تھا آپ نے مجھے بھیجا ہے کہ میاں صاحب کو جا کر کہہ دو کہ ہم نے اپنی وصیت شائع کر دی ہے مارچ کے مہینہ کے بدر میں دیکھ لیں.جب میں نے یہ رویا دیکھی تو سخت گھبرایا اور میرا دل چاہا کہ واپس لوٹ جاؤں لیکن میں نے مناسب خیال کیا کہ پہلے دریافت کرلوں کہ کیا آپ واقع میں بیمار ہیں.سو میں نے وہاں سے تار دیا کہ حضور کا کیا حال ہے جس کے جواب میں حضرت صاحب نے لکھا کہ اچھے ہیں.یہ رویا میں نے اس وقت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کو اور مولوی سید سرور شاہ صاحب کو سنادی.اب دیکھنا چاہئے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت مجھے حضرت صاحب کی وفات کی خبر دی اور چار باتیں ایسی بتائیں کہ جنہیں کوئی شخص اپنے خیال اور اندازہ سے دریافت نہیں کر
30 سکتا.اول.تو یہ کہ حضور کی وفات آپ سے ہوگی.دوم یہ کہ آپ وفات سے پہلے وصیت کر جائیں گے.سوم یہ کہ وہ وصیت مارچ کے مہینہ میں شائع ہوگی.چہارم یہ کہ اس وصیت کا تعلق بدر کے ساتھ ہو گا.اگر ان چاروں باتوں کے ساتھ میں یہ پانچویں بات بھی شامل کر دوں تو نا مناسب نہ ہو گا کہ اس رویا سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس وصیت کا تعلق مجھ سے بھی ہو گا کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تا تو میری طرف آدمی بھیج کر مجھے اطلاع دینے سے کیا مطلب ہو سکتا تھا.چوتھی بات کہ بدر میں دیکھ لیں تشریح طلب ہے.کیونکہ وہ اس وقت بند تھا.بدراصل میں چودھویں رات کے چاند کو کہتے ہیں پس اللہ تعالی نے رویا میں ایک قسم کے اخفاء رکھنے کے لئے مارچ کی چودھویں تاریخ کا نام چودھویں کی مشابہت کی وجہ سے بدر رکھا اور بتایا کہ یہ واقعہ چودہ تاریخ کو ہو گا چنانچہ وصیت باقاعدہ طور پر جو شائع ہوئی یعنی اس کے امین نواب محمد علی خان صاحب نے پڑھ کر سنائی تو چودہ تاریخ کو ہی سنائی اور اسی تاریخ کو خلافت کا فیصلہ ہوا.برکات خلافت صفحه 41 460 ( تقریر جلسہ سالانہ 27 - دسمبر 1914ء) 43 غالبا 1913ء فرمایا : میں نے حضرت خلیفہ اول کے وقت میں دیکھا کہ میں حج کو گیا ہوں جب عدن کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ مجھے تو حج کرنا آتا نہیں.لوگوں سے پوچھا.انہوں نے بھی انکار کیا اور کہا کہ ہم نہیں جانتے.میں لوٹ آیا لیکن راستہ میں ہی ایک جگہ اپنے آپ کو خشکی پر دیکھا اور ایک آدمی سے پوچھا کہ حج کس طرح کرتے ہیں.اس نے مجھے بتایا کہ یہ تو آسان امر ہے ابن عباس کی قبر کے پاس جا کر احرام باندھ لیتے ہیں اور پھر وہاں سے جا کر حج کر لیتے ہیں مجھے رویا میں احرام باندھنے سے متعلق ہی شبہ ہے) اس کے بعد وہ مجھے ساتھ لے چلا اور میں نے ایک کچا کو ٹھا دیکھا جسے اس نے ابن عباس کی قبر بتایا ہے میں نے وہاں سے احرام باندھا اور حج کیا.میں نے یہ رویا حضرت خلیفہ اول کو سنائی.فرمایا الحمد للہ.پھر پوچھا کہ کچھ سمجھے.میں نے کہا میں تو نہیں سمجھا.فرمایا کہ ابن عباس کی قبر طائف میں ہے اور اخبار میں جو آتا ہے کہ مسیح یا مهدی طائف سے احرام باندھے گا اللہ تعالی شاید آپ سے حضرت مسیح موعود کی طرف سے حج کرائے.
31 فرمایا : حج کے متعلق اور بھی میں نے کئی دفعہ دیکھا ہے.اللفضل 23.مئی 1921ء صفحہ 8 +1914 44 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں گاڑی میں بیٹا ہوا کہیں سے آرہا ہوں کہ راستہ میں مجھے کسی نے بتایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح وفات پاگئے ہیں یہ ان دنوں کی بات ہے جبکہ حضرت خلیفہ اول بیمار تھے انہیں ایام میں مجھے ایک ضروری کام کے لئے لاہور جانے کی ضرورت محسوس ہوئی مگر اس رویا کی وجہ سے میں نے لاہور جانا ملتوی کر دیا اور میں نے بعض دوستوں سے ذکر کیا کہ میں جانے سے اس لئے ڈرتا ہوں کہ مجھے رویا میں گاڑی سوار ہونے کی حالت میں حضرت خلیفہ اول کی وفات کی خبر ملی ایسا نہ ہو کہ میں باہر جاؤں اور یہی واقعہ ہو جائے.پس میں نے اپنے سفر کو ملتوی کر دیا تا کہ یہ خواب کسی طرح ٹل جائے مگر انسان خدا تعالی کے فیصلہ سے بچنے کی خواہ کس قدر کوشش کرے بعض دفعہ تقدیر پوری ہو کر رہتی ہے.آپ کی بیماری کے ایام میں آپ کے حکم کے ماتحت جمعہ بھی اور دوسری نمازیں بھی میں ہی پڑھایا کرتا تھا.ایک دن جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے میں مسجد اقصیٰ میں گیا اور نماز سے فارغ ہو کر تھوڑی دیر کے لئے میں اپنے گھر چلا گیا.اتنے میں خان محمد علی خاں صاحب کا ایک ملازم میرے پاس ان کا پیغام لے کر آیا کہ وہ میرے انتظار میں ہیں اور ان کی گاڑی کھڑی ہے.چنانچہ میں ان کے ہمراہ گاڑی میں سوار ہو کر ان کے مکان کی طرف روانہ ہوا.ابھی ہم راستہ میں ہی تھے کہ ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا کہ حضرت خلیفۃ المسیح فوت ہو گئے ہیں.اس طرح وہ رویا پورا ہو گیا جو میں نے دیکھا تھا کہ میں گاڑی میں کہیں سے آرہا ہوں کہ مجھے حضرت خلیفۃ المسیح کی وفات کی خبر ملی ہے.میں نے محض اس لئے کہ یہ خواب مل جائے باہر جانے سے اپنے آپ کو رو کا مگر خدا تعالی نے قادیان میں ہی اس کو پورا کر دیا.الموعود صفحہ 124 - 125 ( تقریر جلسہ سالانہ 28.دسمبر 1944ء).نیز دیکھیں.اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات صفحہ 104 106 والفضل 20.فروری 1958ء صفحہ 4 و خلافت راشدہ صفحه 99 مارچ 1914ء 45 فرمایا : میں جب اس فتنہ (فتنہ پیغام.ناقل) سے گھبرایا اور اپنے رب کے حضور میں گرا تو
32 اس نے میرے قلب پر یہ مصرعہ نازل فرمایا شکر اللہ مل گیا ہم کو وہ لعل بے بدل " اتنے میں مجھے ایک شخص نے جگا دیا اور میں اٹھ کر بیٹھ گیا مگر پھر مجھے غنودگی آئی اور میں اس غنودگی میں اپنے آپ کو کہتا ہوں کہ اس کا دوسرا مصرعہ یہ ہے کہ کیا ہو اگر قوم کا دل سنگ خارا ہو گیا مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ میرا مصرعہ الہامی تھا یا بطور تفہیم تھا."کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے " 12 مارچ 1914ء 46 فرمایا : جماعت پر اس وقت ابتلاء آیا جب حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وفات کے بعد پیغامی فتنہ اٹھا اور جماعت کے اعلیٰ کارکن علیحدہ ہو گئے.خزانہ خالی تھا اور جماعت کا بیشتر حصہ ان کے ساتھ تھا اس وقت بھی اکثر لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ اب یہ کام کیسے چلے گا لیکن اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے اس مایوسی کی حالت کو دیکھ کر مجھے بتایا ”خدا تعالیٰ کے کام کو کوئی نہیں روک سکتا الفضل 12.جون 1935ء صفحہ 4 نیز دیکھیں.الفضل 5 اپریل 1940 ء صفحہ 3 و 23 اکتوبر 1948 ء صفحہ 4 و خلافت راشدہ صفحہ 260 47 مارچ 1914ء فرمایا : کل بھی میں نے اپنے رب کے حضور میں نہایت گھبرا کر شکایت کی کہ مولا ! میں ان غلط بیانیوں کا کیا جواب دوں جو میرے برخلاف کی جاتی ہیں اور عرض کی کہ ہر ایک بات حضو ر ہی کے اختیار میں ہے اگر آپ چاہیں تو اس فتنہ کو دور کر سکتے ہیں تو مجھے ایک جماعت کی نسبت بتایا گیا کہ ليمز قنَّهُمْ یعنی اللہ تعالی ضرور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا.("کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے " صفحہ 12 نیز دیکھیں.الفضل 21 - اکتوبر 1915 ء صفحہ 8 و 9.مئی 1933 ء صفحہ 7 و 12.جون 1935ء صفحہ 4 و 9.جولائی 1937ء صفحہ 5 و 5 اپریل 1940ء صفحہ 3 و 5 - جون 1940 ء صفحہ 3 و 7.مارچ 1944 ء صفحہ 4 و 25.جون 1944ء صفحہ 2 و
33 8.اگست 1961 ء صفحہ 4 و 3.جنوری 1982 ء صفحہ 1 اور الموعود ( تقریر جلسہ سالانہ 1928 ء دسمبر 1944ء) صفحہ 109 و صفحه 148 - خلافت را شده صفحه 262 والقول الفضل صفحه 57 مارچ 1914ء 48 فرمایا : جس وقت بیعت ( بیعت خلافت ثانیہ) ہو چکی تو میرے قدم ڈگمگائے اور میں نے اپنے اوپر ایک بہت بڑا بوجھ محسوس کیا.اس وقت مجھے خیال آیا کہ آیا اب کوئی ایسا طریق بھی ہے کہ میں اس بات سے لوٹ سکوں.میں نے بہت غور کی اور بہت سوچا لیکن کوئی طرز مجھے معلوم نہ ہوئی.اس کے بعد بھی کئی دن میں اس فکر میں رہا تو خدا تعالیٰ نے مجھے رویا میں بتایا کہ میں ایک پہاڑی پر چل رہا ہوں دشوار گزار راستہ دیکھ کر میں گھبرا گیا اور واپس لوٹنے کا ارادہ کیا.جب میں نے لوٹنے کے لئے پیچھے مڑ کر دیکھا تو پچھلی طرف میں نے دیکھا کہ پہاڑ ایک دیوار کی طرح کھڑا ہے اور لوٹنے کی کوئی صورت نہیں.اس سے مجھے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اب تم آگے ہی آگے چل سکتے ہو پیچھے نہیں ہٹ سکتے.برکات خلافت صفحہ 6( تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1914ء) 21-20 مارچ 1914ء 49 فرمایا : میں نے دیکھا کہ دو سانپ ہیں باریک باریک ڈیڑھ بالشت.ایک کے مارنے کو مولوی فضل الدین کو کہا اور ایک کو خود مارنے لگا.جس کو میں نے مارنا چاہا وہ دروازے سے بھاگ کر برآمدہ میں آگیا.وہاں میں اس کے مارنے کی فکر میں تھا کہ چند آدمیوں نے دروازہ پر دستک دی.دروازہ کھولا تو سب سے اول شیخ عبدالرحمان قادیانی نکلا.وہ لوگ اندر آگئے میں نے اور ایک اور نے اس سانپ کو مارنے کے لئے وار کیا.دوسرے کا وار خالی گیا مگر میں نے اس کو مار لیا.پھر اور چھوٹے چھوٹے سانپ جو انگلی کے برابر تا گے جیسے باریک دیکھے ان کو بھی مارا پھر مولوی فضل الدین سے پوچھا.آپ نے اپنا سانپ مار لیا تو انہوں نے کہا میں نے مارا تھا.بھاگ گیا.پھر نظارہ بدل گیا.دیکھا ایک میدان میں ہوں.وہاں بھی ایک سانپ دیکھا اس کو بھی مار
34 دیا.میں نے دیکھا میرے پاس ڈاکٹر محمد اسماعیل اور مولوی سرور شاہ اور چند اور لوگ بیٹھے ہیں (اسماعیل سے پایا جاتا ہے کہ اللہ نے دعا سن لی) الفضل 25.مارچ 1914ء صفحہ 21 21-20 مارچ 1914ء 50 فرمایا : حضرت مولوی صاحب بیمار ہیں.آخری دنوں کی حالت سے بہت بہتر حالت ہے.میں کہتا ہوں مولوی صاحب کو دفن کر کے آئے تھے.پھر خیال کرتا ہوں کہ جس طرح مسیح ناصری نے پیشگوئی کی تھی اسی طرح مسیح ناصری کے خلیفہ نے دوسرے خلیفہ کے متعلق بعض پیشگوئیاں کی تھیں یہ اس کے مطابق ہو رہا ہے.الفضل 25.مارچ 1914 ء صفحہ 2 51 23 مارچ 1914ء فرمایا : آج 23 - مارچ 1914ء کو آنکھ میں دوائی ڈال کر لیٹا تھا کہ غنودگی کے بعد دیکھا کہ ایک پروف میرے سامنے ہے.میں نے دیکھا کہ اس میں ایک غلطی رہ گئی ہے اور ایک "ر" اس میں نہیں.میں اسے درست کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ مولوی محمد اسماعیل صاحب نے پروف اچھی طرح نہیں دیکھا لوگ اعتراض کریں گے.وہ غلطی اس آیت میں رہ گئی ہے." يَا نَارُ كُونِي بَرْداً وسلاماً " (الانبياء : 70 ) میں نے اسے درست کر دیا الفضل 25 - مارچ 1914ء صفحہ 2 52 غالبا اپریل 1914ء فرمایا : خواب میں دیکھا کہ ایک پانی کی نہر ہے اور اس میں نہایت شفاف پانی ہے کہ نیچے کی زمین صاف نظر آتی ہے اس نہر میں ایک تختہ لکڑی کا کشتی کے طور پر پڑا ہے اور میں اور سید حامد شاہ صاحب اور ایک بچہ جس کی عمر کوئی چار پانچ سال کی ہوگی یا اس کے قریب ہم تین اس پر بیٹھے ہیں اور شیخ عبد الرحمان صاحب قادیانی اس کو چلاتے جاتے ہیں اتنے میں میں نے کہا کہ چلو واپس گھر چلیں اور دیکھا کہ مغرب کی طرف سے سرخی نمو دار ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ سخت طوفان ہے اور شاہ صاحب کو کہتا ہوں کہ کشتی تو شاید دیر سے سینچے چلیں ہم بیدل جلدی سے گھر پہنچ
35 جائیں ایسا نہ ہو کہ طوفان آجائے.چنانچہ ہم کشتی سے اتر کر کنارہ کنارہ گھر کی طرف چل دیئے اور شیخ عبد الرحمان صاحب قادیانی کو کہا ہے کہ آپ کشتی پیچھے لے آئیں.الفضل 8 - اپریل 1914ء صفحہ 24 53 $1914 فرمایا میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالی نے مجھے بتا دیا ہے کہ قادیان کی زمین بابرکت ہے.میں نے دیکھا کہ ایک شخص عبد الصمد کھڑا ہے اور کہتا ہے.مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی رحمتیں یا برکتیں نازل ہوتی رہیں“ منصب خلافت صفحہ 33.نیز دیکھیں الفضل 14.مارچ 1944ء صفحہ 11 54 مئی 1914ء فرمایا : 18 یا 19 مئی کو آپ نے ایک شخص کی ناکامی اور نامرادی کے ایام کی خبر سنائی اور پھر چند روز بعد اس کے آثار شروع ہو گئے.اسی طرح مرغابیوں کے شکار کے خواب میں جو اپنے ایک محب کی فتح مندی کی خبر تھی اس کی ابتداء بھی ہو چکی.الفضل 17.جون 1914ء صفحہ 1 غالبا مئی 1914ء 55 فرمایا : مجھے اس مکتوب کے لکھنے کی تحریک ایک رؤیا کی بناء پر ہوتی ہے اور چونکہ رویا کا پورا کرنا بھی مومن کا فرض ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اللہ تعالٰی نے عالم رویا میں جناب تک ایک امر حق کے پہنچانے کی جو مجھے تحریک فرمائی ہے عالم بیداری میں اس تحریک کو پورا کر دوں.اس مکتوب میں جو جناب کی رفعت شان اور عام مخلوق کی بہتری کے خیال سے چھپوا کر جناب کی خدمت میں ارسال کیا گیا ہے اس خواب کا درج کرنا درست نہیں معلوم ہو تا ہاں اس قدر عرض کرتا ہوں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے جناب کو اس سلسلہ کے متعلق ایک مبسوط تقریر کے ذریعہ واقف کیا ہے اور جو کچھ میں نے جناب کو رویا میں کہا ہے اس کا ایک حصہ
36 جو مجھے یا د رہا مع کچھ زوائد کے اس مکتوب کے ذریعہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ اس مکتوب کو بابرکت کرے اور آپ کو بہت سے لوگوں کے لئے موجب ہدایت کرے.امِيْنَ يَارَبَّ الْعَالَمِينَ - تحفة الملوک (مکتوب جون 1914ء بنام والی حید ر آباد کن) صفحہ 3 - 4 56 14 جون 1914ء فرمایا : آج رات میں نے رویا میں دیکھا کہ میں کہیں جا رہا ہوں اور بھی بہت لوگ میرے ساتھ ہیں لیکن میں ایسا تیز چل رہا ہوں کہ باقی سب لوگ میرے پیچھے رہ گئے ہیں اور میں ایک اونچی جگہ پر چڑھ رہا ہوں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیر کے لئے جا رہا ہوں.راستہ میں بارش شروع ہو گئی ہے اس لئے میں نے واپس لوٹنے کا قصد کیا ہے تو ایک دوست اس وقت پاس پہنچ کر کہتا ہے کہ آپ اب لوٹنے لگے ہیں اس سے پہلے ہی لوٹ جاتے.تو میں نے اس کو کہا کہ میں تو اس سے بھی آگے جایا کرتا ہوں.وہ مقام جہاں ہم جا کر بیٹھنا چاہتے ہیں پاس ہی ہے مگر اس کی سیڑھیاں بڑی خطرناک ہیں.ہمارے قریب ہی ایک آدمی ہے جو خدا تعالیٰ نے مجھے اندھا دکھایا ہے وہ سوئی پکڑے ہوئے ہے اس کے پاس ہی ایک غار ہے میں اس کو یہ کہتا رہا کہ بیچ کر چلیو.بیچ کر چلیو.لیکن وہ میرے کہتے کہتے ہی غار میں گر پڑا ہے اور وہیں مرگیا ہے اور کچھ لوگ اس کی لاش اٹھا کر لے گئے ہیں اور پھر ہم سب صحیح و سلامت واپس لوٹ آئے ہیں.اس شخص کی تباہی بھی غفلت کا نتیجہ تھی.الفضل 8.اکتوبر 1914 ء صفحہ 10 57 ستمبر 1914ء فرمایا : ہمارے زمانہ میں بھی منافقوں کا ایک گروہ پیدا ہو گیا تھا جو کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم سے جدا کر دیا ہے.پچھلے دنوں میں نے رویا میں دیکھا تھا کہ ایک بڑا عظیم الشان مکان ہے اس میں کچھ سوراخ ہیں اور اس کی چھت میں دو تین کڑیوں کی جگہ خالی ہے مجھے یہ بتایا گیا کہ یہ خالی جگہ نہیں بلکہ یہاں کے منافق ہیں.اس کے بعد خد اتعالیٰ نے ان میں سے کچھ لوگوں کو نکال دیا.(الفضل یکم اکتوبر 1914ء صفحہ 7)
37 58 تمبر 1914ء فرمایا : پانچ چھ دن ہوئے کہ رویا میں مجھے ایک اور شخص دکھایا گیا ہے.ایک مکان میں میں تسجد کی نماز پڑھ رہا ہوں میرے دل میں کھٹکا پیدا ہوا کہ کوئی شخص چوری کے ارادہ سے اس مکان میں داخل ہوا ہے.میں اس خیال سے کہ وہ کوئی چیز نہ چُرا لے جلدی نماز ختم کر کے اس کی طرف بڑھا تو وہ بغیر کوئی چیز اٹھانے کے بھاگ گیا.اس وقت اس نے چوروں کی طرح تمام کپڑے اتار کر صرف لنگوٹی باندھی ہوئی تھی.میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ یہ منافق ہے جو کہ نقصان پہنچانا چاہتا ہے لیکن پہنچا نہیں سکے گا.الفضل یکم اکتوبر 1914ء صفحہ 7-8 59 اکتوبر ونومبر 1914ء فرمایا : چند دنوں سے میں متواتر دیکھ رہا ہوں کہ کچھ ابتلاء آنے والے ہیں قریباً مہینہ ہونے کو ہے کہ مختلف ابتلاؤں کا مجھے پتہ بتلایا گیا ہے ان سب کا علاج صرف یہی ہے کہ استغفار کیا جائے.الفضل 19.نومبر 1914ء صفحہ 7 1914 60 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ بیٹھا ہوا ہوں شمال کی طرف میرا منہ ہے اور جنوب کی طرف پیٹھے.میں بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ لوگ میرے پاس آئے مجھے یہ خیال نہیں پیدا ہوا کہ یہ لوگ جلسہ پر آئے ہیں بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یوں مہمان آئے ہیں کہ کوئی شخص چائے لایا ہے اور اس نے میرے سامنے رکھ دی ہے.میں نے اسے کہا کہ آدمی بہت ہیں لیکن تم صرف ایک پیالی چائے لائے ہو اسے لے جاؤ اگر لانی تھی تو سب کے لئے لانی چاہئے.جب وہ اٹھانے لگا تو ڈاکٹر عباد اللہ جو امر تسر کے ایک دوست ہیں ان کی طرف میرا خیال گیا اور اس کو میں نے کہا کہ انہیں چائے دے دو اس نے ان کے آگے رکھ دی.چند اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں ایک شریف اللہ خاں صاحب صوابی کے ہیں وہ بھی وہیں تھے.ایک شخص ہمارے مخالفوں میں سے بھی بیٹھا تھا.اس ہجوم میں میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی بیٹھے ہیں.پھر
38 نظارہ بدلا تو کسی شخص نے مجھے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی مجلس میں بیٹھے تھے لیکن میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا.الفضل 13.دسمبر 1914 ء صفحہ 7 61 9.دسمبر 1914ء فرمایا : اس سے تھوڑی دیر بعد میں نے ایک اور منذر رویا دیکھی اور وہ یہ کہ جیسی اس مسجد (اقصی میں بیچوں بیچ ایک نالی جاتی ہے اسی طرح کی ایک نہر ہے اور وہ بہت دور تک چلی جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بڑا پانی ہے مگر ہندوں کی وجہ سے اس کے اندر ہی اندر ہے اس کے ارد گرد ایک نہایت خوبصورت باغ ہے.میں اس میں مل رہا ہوں اور ایک اور آدمی بھی میرے ساتھ ہے شملتے شملتے نہر کی پرلی طرف میں نے چوہدری فتح محمد صاحب کو دیکھا ہے.اتنے میں ایک شخص آیا میرے ساتھ گھر کی مستورات بھی ہیں اس نے مجھے کہا کہ مستورات کی پردہ کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے انہیں کہہ دیں صرف باغ میں ملیں.میں جب اس جگہ سے ہٹ کر دوسری طرف گیا ہوں تو مجھے بڑے زور سے پانی کے بہنے کی سرسر کی آواز آئی.اس وقت میں جس طرح پرانے مقبرے بنے ہوتے ہیں ایسے مکان میں کھڑا ہوں وہ مقبرہ اس طرح کا ہے جس طرح بادشاہوں کی قبروں پر بنے ہوئے ہوتے ہیں.میں اس کی چھت پر چڑھ گیا ہوں اور اس کی کئی چھتیں اونچی نیچی ایک دوسرے کے ساتھ بنی ہوئی ہیں مجھے پانی کی سرسر کی جو آواز آئی تو میں نے اس شہر کی طرف دیکھایا تو وہ ایسا خوبصورت نظارہ تھا کہ پرستان نظر آتا تھا یا ہر جگہ پانی پھرتا جاتا تھا عمارتیں گرتی جاتی تھیں درخت دبے جاتے تھے گاؤں اور شہر تباہ ہوئے جاتے تھے پانی میں لوگ ڈوب رہے تھے کسی کے گلے گلے کسی کے منہ تک کسی کے سر کے اوپر پانی چڑھا جاتا تھا اور ڈوبنے والوں کا بڑا دردناک نظارہ تھا.یک لخت وہ پانی اس مکان کے بھی قریب آگیا جس پر میں کھڑا تھا اور اس کی دیواروں سے ٹکڑا نا شروع ہو گیا.آگے پیچھے کی آبادی کو تباہ و برباد ہوتا دیکھ کر بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا."نوح کا طوفان " پھر پانی اس مکان کی چھت پر چڑھنا شروع ہوا اس کے ارد گرد جو دیوار تھی ایسا معلوم ہو تا تھا کہ پانی اسے توڑ کر اندر آنا چاہتا ہے اور لہریں دیوار کے اوپر سے نظر آتی ہیں.اس وقت میں نے گھبرا کا ادھر ادھر دیکھا مجھے کہیں آبادی نظر نہیں آتی تھی اور پانی ہی پانی نظر آتا تھا جب پانی چھت پر بھی آنے لگا تو میں نے
39 گھبراہٹ میں پکار پکار کر اس طرح کہنا شروع کیا اللهُمَّ اهْتَدَيْتُ بِهَدْيِكَ وَ أَمَنْتُ بِمَسِيحِكَ اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوڑے چلے آتے ہیں اور گو یا لوگوں سے فرماتے ہیں کہ یہی فقرہ پڑھو تب تم اس عذاب سے بچ جاؤ گے.مجھے حضرت مسیح موعود نظر نہیں آتے لیکن یہ میرا خیال تھا کہ آپ لوگوں کو یہ فرما رہے ہیں.اتنے میں میں نے دیکھا کہ پانی کم ہونا شروع ہوا اور چھت یلی کیلی نظر آنے لگی اسی گھبراہٹ میں میری آنکھ کھل گئی.یہاں ایک عرب رہتا ہے اس نے بھی آج ہی اپنی خواب لکھ کر مجھے دی ہے اور وہ یہ کہ میں کہیں جا رہا ہوں اور چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے اور کوئی جگہ خالی نہیں.ہر طرف سے شعلے اٹھ رہے ہیں.مجھے دو خوبصورت آدمی ملے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ تو کد ھر جا رہا ہے جہاں تو بیٹھا ہوا تھا وہیں بیٹھ جا.انہوں نے مجھے ایک قرآن اور ایک سیب دیا ہے اور کہا ہے کہ جاؤ یہ سیب خلیفۃ المسیح کو دے دو اور اسے اسباب میں لپیٹ کر رکھ دو تا کہ خشک نہ ہو جائے.الفضل 13 - دسمبر 1914ء صفحہ 7 والفضل 2.نومبر 1918ء صفحہ 8 فرمایا : میں اس سے یہ نتیجہ نکالا کرتا تھا کہ اس رویا میں جس عذاب کا ذکر ہے وہ اسی وقت آئے گا جب چوہدری فتح محمد صاحب ہندوستان میں ہوں گے.(مکرم چوہدری فتح محمد صاحب اس وقت انگلستان میں تھے.ناقل ) الفضل یکم مئی 1942ء صفحہ 8 فرمایا : پہلے تو میں سمجھا کرتا تھا کہ یہ رویا شائد انفلوئنزا کے متعلق تھا مگر اب اس طرف خیال جاتا ہے کہ شائد احرار کا فتنہ اس سے مراد ہو.الفضل 10 مئی 1944 ء صفحہ 4.مزید دیکھیں.الفضل 7 اکتوبر 1918 ء صفحہ 4 ( مختصراً ) 3 مارچ 1948ء صفحہ 6 اور حقیقتہ الا مر صفحہ 4 62 $1914 فرمایا : میں نے ایک رویا میں دیکھا کہ ایک بڑا شخص ہے اس کی شکل مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی سے ملتی ہے اور وہ پاگل ہو گیا ہے.اتنے میں میں نے دیکھا کہ ابلیس حملہ کرتا ہے میں بار بار لاحول پڑھتا ہوں وہ رکتا نہیں.آخر اَعُوذُ پڑھا تو وہ دور ہوا.الفضل 17 جنوبی 8,1921
40 40 63 اوائل 1915ء فرمایا : صوفی غلام محمد صاحب بی اے ماریشس روانہ ہوئے تو آپ نے ان کے جانے کے دو چار روز بعد سنایا.میں نے رویا میں دیکھا ہے کہ صوفی صاحب جہاز سے اترے اور جس سرزمین پر قدم رکھا ہے اس میں سانپ بہت ہیں.فرمایا : معلوم ہوتا ہے کہ اولاً ان کی مخالفت بہت ہو گی.الفضل 30 مارچ 1915ء صفحہ 15 اوائل 1915ء 64 فرمایا : خدا نے آج سے بائیس سال پہلے مجھے خبر دی تھی جب شیخ صاحب (شیخ عبد الرحمان صاحب مصری مراد ہیں.ناقل ) مصر سے واپس آئے ہیں اس وقت مجھے ایک رویا ہوا جس میں مجھے بتایا گیا کہ شیخ صاحب کا خیال رکھنا یہ مرتد ہو جائیں گے.چنانچہ میں نے اس رویا کی بناء پر صد رانجمن احمدیہ کو توجہ دلائی کہ ان کا خاص خیال رکھا جائے.الفضل 20.نومبر 1937ء صفحہ 5 6 نیز دیکھیں الفضل 14.اگست 1964ء صفحہ 4 65 ₤1915 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ ہمیٹی سے تاجروں کی بیعتیں آئی ہیں اور ان میں سے ایک کا نام راؤ بہ اور راگھو رام جیسا ہے اور جیسا کہ ان علاقوں میں قاعدہ ہے ہر نام باپ کے نام کے ساتھ ملا کر رکھا ہوا ہے وہ فہرست آٹھ نو تاجروں کی تھی اور مجھے خواب میں ہی معلوم ہوا کہ ان میں سے اکثر خطاب یافتہ اور بینکر تھے.معلوم ہوتا ہے اس میں اسی طرف اشارہ تھا کہ اس قوم کو تبلیغ سے خالی نہ چھوڑو.مگر بعض دفعہ خواب کی تعبیر ایک وقت سمجھ میں نہیں آتی اور دوسرے وقت آجاتی ہے اس وقت میں نے اس خواب کی تعبیر نہ سمجھی لیکن تحریک جدید پر خدا تعالیٰ نے یہ بات میرے ذہن میں ڈال دی اور میں نے ” دعوت و تبلیغ " پر زور دینا شروع کیا کہ وہ ہمیئی میں تبلیغی مرکز قائم کرے.ریورٹ مجلس مشاورت 1937 ء صفحہ 78
41 66 $1915 فرمایا : ہمارے ایک دوست ہیں ان کا نام میں نہیں لیتا وہ ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے کہ انہوں نے خط میں لکھا.احمدیت کے متعلق فلاں فلاں بات میری سمجھ میں نہیں آتی.اس کے بعد میں نے رویا میں دیکھا ایک تخت بچھا ہوا ہے جس پر میں نے ان کو بیٹھے ہوئے دیکھا.پھر دیکھا کہ آسمان سے ایک نور ان کے قلب پر گر رہا ہے اور وہ ذکر الہی کر رہے ہیں.یہ اس وقت کا خواب ہے جب کہ وہ ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے اور سلسلہ کے کاموں میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملا تھا اس کے بعد خدا نے انہیں سلسلہ میں داخل ہونے کی توفیق بخشی اور ان کو سلسلہ کے کاموں میں حصہ لینے کے بہت سے موقعے ملے.الفضل 11 دسمبر 1925 ء صفحہ 7 مزید دیکھیں.الفضل 7 جنوری 1934ء 5 و 6.اگست 1941ء صفحہ 3 اور رپورٹ مجلس شور کی 1937ء صفحہ 78 اور الموعود ( تقریر جلسہ سالانہ 28.دسمبر 1944ء) صفحہ 119 10 ستمبر 1915ء 67 فرمایا : میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے جس سے مجھے بہت سرور ہوا اور رات کو میں نے اٹھ کر سب گھر والوں کو جگا دیا کہ نفل پڑھو اور اس کے بعد میں بھی نہیں سویا.وہ خواب یہ ہے کہ مجھ سے حضرت مسیح موعود نے پوچھا کہ تم نے نبوت کے متعلق کیا دلائل دیئے اور لوگ سن کر کیا کہتے ہیں چڑتے تو نہیں.تو انہیں میں نے کہا لوگ اچھی طرح سنتے ہیں اور دلائل بھی بتائے جو آپ نے بہت پسند کئے اور خوش ہوئے.پھر میں نے ان لوگوں کی نسبت بتایا کہ کس طرح مخالفت کرتے ہیں.یہی باتیں کرتے ہوئے شیخ رحمت اللہ صاحب آئے اور انہوں نے آکر مجھ سے مصافحہ کیا میں نے ان سے کہا آپ بھی آج ہی حضرت مسیح موعود کو دیکھ کر ملنے آئے ہیں.انہوں نے کہا آپ بھی تو آج ہی ملے ہیں اس گفتگو پر حضرت صاحب نے اس کی طرف دیکھا اور ہاتھ مصافحہ کے لئے بڑھایا اور کہا کہ شیخ صاحب ہیں لیکن شیخ رحمت اللہ صاحب نے اپنا حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین مراد ہیں.آپ نے 1915ء میں احمدیت قبول کی (مرتب)
42 ہاتھ پیچھے کو ہٹا لیا اور مصافحہ نہیں کیا.اس پر منہ موڑ لیا اور پھر حضرت صاحب نے اشارہ فرمایا کہ اس کو نکال دو یہ دیکھ کر مرزا خدا بخش نے شیخ صاحب کو کہا کہ تم پر بڑا ظلم ہوا ہے اور ان سے لپٹ گئے اس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ ہیں تم بھی میرے مریدوں میں ہو پھر دونوں کو نکالنے کا اشارہ فرمایا جس پر دونوں کو پکڑ کر نکال دیا گیا.پھر میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود ایک مکان میں ہیں اور اس جگہ فوجی پہرہ ہے اور بینڈ باجا بج رہا ہے.بڑی شان و شوکت اور رونق ہے.میں نے آپ سے کہا حضور شروع میں تو مجھے بڑا فکر تھا کہ یہ بڑے بڑے آدمی نکل گئے ہیں اب کیا ہو گا لیکن خدا تعالیٰ نے خود ہی سب کام کر دیا اور میری کیا حیثیت ہے میرے سب کام خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے اور اس پر سخت رقت طاری ہوئی اور آنکھ کھل گئی.الفضل 23.ستمبر 1915ء صفحہ 9 و 10 - الفضل 10 مئی 1944 ء صفحہ 6 68 ستمبر 1915ء فرمایا : گذشتہ ستمبر میں میں نے ایک رویا دیکھی تھی جو یہاں کے لوگوں کو اسی وقت بتادی گئی تھی کہ قادیان میں سخت تپ ہو گا جو اپنے اندر طاعون کی طرح کا زہر رکھتا ہو گا.چونکہ خدا تعالٰی نے ہماری جماعت کے متعلق طاعون سے حفاظت کرنے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے اس لئے اس کو تپ سے بدل دے گا کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماریاں اور جانوں اور مالوں کا اختلاف بھی مومنین کے متعلق سنت اللہ ہے اس لئے خدا تعالٰی نے چونکہ طاعون سے محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے اس کی بجائے آپ نازل کرے گا تا کہ اس طرح کرنے سے نہ تو اس وعدہ کے خلاف ہو اور نہ وہ غلط ٹھہرے اور نہ ہی قرآن کریم کی بیان کردہ سنت کے خلاف ہو.یہ رویا میں نے انہی دنوں لوگوں کو سنادی تھی اس کے بعد ایسا تپ آیا کہ قریباً ہر ایک مرد و عورت پر اس کا حملہ ہوا اور جس گھر کے آٹھ آدمی تھے وہ آٹھوں ہی بیمار ہو گئے اور اس قدر شدید بخار ہوتا کہ ایک سو سات درجہ تک پہنچ جاتا.ان دنوں ہر گھر میں بیماری پڑ گئی اور اس مرض کی وجہ سے کام کرنے والے لوگ بھی یا تو خود بیمار رہے یا بیماروں کے تیمار دار بنے رہے.ذکر الہی صفحہ 16 تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1916ء) نیز دیکھیں الفضل 22 اگست 1916 ء صفحہ 8
43 69 غالبا اکتوبر 1915ء فرمایا : تھوڑی مدت ہوئی میں نے بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے رویا میں مجھے مسئلہ نبوت سمجھایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ السلام کو بطور مثال و نمونہ نبی بتایا.الفضل 21 اکتوبر 1915ء صفحہ 5 70 غالباد سمبر 1915ء فرمایا : ایک سال کا عرصہ ہوا مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک شخص محمد احسن نامی نے قطع تعلق کرلیہ ہے.ذکر الہی صفحہ 15 تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1916ء) +1917 1915 71 فرمایا : قریباً بیس سال کی بات ہے میں نے رویا * میں دیکھا کہ میں ایک نہر پر کھڑا ہوں اور اس کے اردگرد بہت سبزہ زار ہے.جیسے انسان بعض دفعہ نہر پر سیر کے لئے جاتا ہے اور لطف اٹھاتا ہے اسی طرح میں بھی نہر پر کھڑا ہوں.اس کا پانی نہایت ٹھنڈا اور اس کے چاروں طرف سبزہ ہے کہ اسی حالت میں یکدم شور کی آواز آئی جیسے قیامت آجاتی ہے.میں نے اوپر کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا نہر ٹوٹ کر اس کا پانی تمام علاقہ میں پھیل گیا ہے اور سرعت سے بڑھتا چلا جا رہا ہے پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ پانی اس قدر بڑھا کہ سینکڑوں گاؤں غرق ہو گئے.میں یہ نظارہ دیکھ کر سخت گھبرایا اور میں نے چاہا کہ واپس لوٹوں تاپانی میرے قریب نہ پہنچ جائے مگر ابھی میں یہ خیال ہی کر رہا تھا کہ میں نے دیکھا میرے چاروں طرف پانی آگیا ہے.پھر میں نے دیکھا کہ نہر کا بند ٹوٹ گیا اور میں بھی نہر کے اندر جا پڑا جب میں نہر کے اندر گر گیا تو میں نے تیرنا شروع کیا یہاں تک کہ میلوں میل تیر تا چلا گیا مگر میرا پاؤں کہیں نہ لگا.آخر جب سینکڑوں میل دور نکل گیا تو میں گھبرانے لگا اور میں نے کہا معلوم نہیں اب کیا ہو گا.یہاں تک کہ میں تیرتے تیرتے قریباً پنجاب اس رؤیا کے متعلق حضور فرماتے ہیں " یہ 1915 ء سے 1917 ء تک کے کسی سال کی بات ہے جب مجھے خلیفہ ہوئے ایک سال یا دو سال یا تین سال ہی ہوئے تھے " المصلح کراچی 23 - ستمبر 1953ء
44 کی سرحد تک پہنچ گیا ہوں تب گھبراہٹ کی حالت میں میں نے دعا کرنی شروع کی کہ یا اللہ سندھ میں تو پیر لگ جائیں.یا اللہ سندھ میں تو پاؤں لگ جائیں.ابھی میں یہ دعا کر ہی رہا تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ سندھ آگیا اور پھر جو میں نے کوشش کی تو میرا پیر ٹک گیا اور پانی چھوٹا ہو گیا اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے سب پانی غائب ہو گیا.ہیں سال ہوئے جب میں نے یہ رویا دیکھا.اس وقت سندھ سے ہمارا کوئی تعلق نہ تھا لیکن جب سکھر بیراج کی سکیم مکمل ہوئی تو میں نے صد را انجمن احمدیہ پر زور دیا کہ وہاں زمینیں لیں.اس میں ضرور اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت ہوگی کیونکہ میں نے اس کے متعلق رویا د یکھا ہوا ہے.رپورٹ مجلس مشاورت 1937 ء صفحہ 78-79.نیز دیکھیں.الفضل 7.اپریل 1944ء صفحہ 7 و 25.جون 1944ء صفحہ 2 و 2.اپریل 1946ء صفحہ 4 و 16.مارچ 1952 ء صفحہ 6 اور المصلح کراچی 23.ستمبر 1953ء صفحہ 1 اور الفضل 18.فروری 1956ء صفحہ 5 و 20 اپریل 1960 ء صفحہ 4 اور رپورٹ مجلس مشاورت 1925ء صفحہ 75 جولائی 1916ء 72 فرمایا : جب میں خطبہ (قبولیت دعا کے طریق فرمودہ 2.جولائی 1916ء.ناقل) پڑھ کر مسجد سے گھر گیا تو دل میں آیا کہ سوائے دو تین طریقوں کے جو وقت کی تنگی کی وجہ سے بیان نہ ہو سکے باقی سب میں نے بیان کر دیئے ہیں اور یہ جو مجھے یاد ہیں ان کے علاوہ اور کوئی طریق نہیں ہے لیکن اس وقت جبکہ جمعہ کا دن اور رمضان المبارک کا مہینہ تھا میں نے دعا شروع کی تو خدا تعالیٰ نے کئی نئے طریق مجھے اور بتا دیے.میں نے سمجھا تھا کہ وہی طریق کو چھوڑ کر جن کو انسان بیان ہی نہیں کر سکتا جس قدر بھی کسی طریق ہیں اور جنہیں ہر ایک انسان استعمال کر سکتا ہے وہ سب میں نے اخذ کر لئے ہیں لیکن جاتے ہی خدا تعالیٰ نے چار پانچ طریق اور بتا دیئے گویا جب میں نے جگہ خالی کی تو اور آگئے.الفضل 23 ستمبر 1916ء صفحہ 8 73 ستمبر 1916ء فرمایا : ابھی کچھ ہی دن ہوئے محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تمثیلی طور پر تشریف فرما ہوئے اور آپ نے مجھے فرمایا.ہم تیری مشکلات کو دیکھتے ہیں اور ان کو دور کر سکتے ہیں لیکن ایک دو (یا
45 دو تین کہا) سال تک صبر کی آزمائش کرتے ہیں.الفضل 16 ستمبر 1916ء صفحہ 10.نیز دیکھیں الفضل 10 مئی 74 41944 +1916 فرمایا : لاہور کے ایک دوست کے خط کے جواب میں حضور نے لکھوایا.نکاح انشاء اللہ پڑھا دیا جائے گا.اس خط کے آنے سے پہلے میں نے رویا میں دیکھا کہ ”آپ کی لڑکی کا رشتہ مبارک ہوا.الفضل 13 مئی 1916ء صفحہ 2 75 +1916 فرمایا : ماسٹر عبدالرحمان صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول کالا پانی کو لکھوایا کہ رات میں نے دیکھا کہ " آپ آئے ہیں " اس ڈاک میں آپ کا خط آگیا.الفضل 13 مئی 1916 ء صفحہ 2 غالباً 1916ء 76 فرمایا : میں نے ایک دفعہ رویا دیکھی کہ ایک اعلان ہے جو اسی طرح کا ہے جس طرح کا بادشاہوں کی طرف سے شائع ہوتا ہے اور دو صفحہ ہے.پہلے تو اس اعلان کے مجھے الفاظ بھی یاد تھے لیکن اب مفہوم ہی یاد رہ گیا ہے.اس میں لکھا تھا کہ اے لوگو! جبکہ تم دنیا کے ادنی اونی حاکموں کی طرف سے شائع ہونے والے اعلان کی طرف فوراً توجہ کرتے ہو اور اس وقت تک تمہیں چین نہیں آتا جب تک کہ معلوم نہیں کر لیتے کہ کیا اعلان ہو رہا ہے تو میں جو تمام حاکموں کا حاکم ہوں میری طرف سے جو اعلان شائع ہوا ہے اس کی طرف تم کیوں توجہ نہیں کرتے.گویا خدا تعالیٰ نے یہ اعلان میرے پاس بھیجا ہے کہ میں اسے شائع کر دوں.ذکر الہی (ایڈ یشن اول) صفحہ 4 - 5 تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1916ء)
46 77 غالبا 1916ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ مولوی محمد احسن صاحب کی نسبت خط آیا ہے کہ مرگئے ہیں اور مرنے کی ایک تعبیر مرتد ہونا بھی ہے.فرمایا.میں نے یہ بات سن کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خبر * کی.اس وقت میرے آنسو نکل آئے اور میں نے کہا افسوس.ان کا انجام اچھا نہ ہوا.اگر اس رویا میں ان کے مرنے سے جسمانی مرنا مراد ہوتا تو حضرت مسیح موعود مجھے بتلاتے نہ کہ میں آپ کو اس کی خبر کرتا.ذکر الہی صفحہ 18 ( تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1916ء) مزید دیکھیں الفضل 20.جنوری 1917ء صفحہ 7 و 10.78 مئی 1944ء صفحہ 6 غالبا 1916ء فرمایا : میں نے ایک رؤیا د یکھی تھی کہ مجھے دو آدمی دکھائے گئے جو مرتد ہو چکے ہیں.ذکر الہی صفحہ 16 ( تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1916ء) 79 +1917 1916 فرمایا : کچھ دن ہوئے ایک ایسی بات پیش آئی کہ جس کا کوئی علاج میری سمجھ میں نہ آتا تھا.اس وقت میں نے کہا کہ ہر ایک چیز کا علاج خدا تعالی ہی ہے اسی سے اس کا علاج پوچھنا چاہئے اس وقت میں نے دعا کی اور وہ ایسی حالت میں تھی کہ میں نفل پڑھ کے زمین پر ہی لیٹ گیا اور جیسے بچہ ماں باپ سے ناز کرتا ہے.اسی طرح میں نے کہا اے خدا ! میں چارپائی پر نہیں زمین پر ہی سوؤں گا.اس وقت مجھے یہ بھی خیال آیا کہ حضرت خلیفہ اول نے مجھے کہا ہوا ہے کہ تمہارا معدہ خراب ہے اور زمین پر سونے سے معدہ اور زیادہ خراب ہو جائے گا لیکن میں نے کہا آج تو میں زمین پر ہی سوؤں گا.یہ بات ہر ایک انسان نہیں سمجھ سکتا بلکہ خاص ہی حالت ہوتی ہے یہ کوئی چھ سات ہی دن کی بات ہے جب میں زمین پر سو گیا تو دیکھا کہ خدائی نصرت اور مدد کی صفت ی " رؤیا کی حالت میں ہی " الفضل 10 مئی 1944ء
47 جوش میں آئی اور متمثل ہو کر عورت کی شکل میں زمین پر اتری.ایک عورت تھی.اس کو اس نے سوئی دی اور کہا اسے مارو اور کہو جا کر چارپائی پر سو.میں نے اس عورت سے سوئی چھین لی اس پر اس نے (خد اتعالیٰ کی اس مجسم صفت نے سوئی خود پکڑی اور مجھے مارنے لگی اور میں نے کہالو مارلو.مگر جب اس نے مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو زور سے سوٹی کو گھٹنے تک لا کر چھوڑ دیا اور کہا.دیکھو محمود! میں تجھے مارتی نہیں پھر کہا جا اٹھ کر سو ر ہو یا نماز پڑھ.میں اس وقت کو دکر چارپائی پر چلا گیا اور جا کر سو رہا.میں نے اس وقت سمجھا کہ اس حکم کی تعمیل میں سونا ہی بہت بڑی برکات کا موجب ہے.ملا کہ اللہ صفحہ 69 - 70 ( تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1920ء).نیز دیکھیں.الفضل 7.جون 1928 ء صفحہ 159.مارچ 1934ء صفحہ 8 و 17.فروری 1935 ء صفحہ 8 و 11.اپریل 1936ء صفحہ 5 - 4 الفضل 10.مئی 1944ء صفحہ 2 و 18 جون 1958ء صفحہ 3 و 8 اپریل 1959ء صفحہ 4 تعلق باللہ ) تقریر جلسہ سالانہ 28 دسمبر 1952ء) طبع دوم صفحہ 98 80 12 ستمبر 1917ء فرمایا : آج میں نے ایک رؤیا دیکھی ہے کسی سے غیر مبائعین کا ذکر کرتا ہوں اور کہا کہ بالفرض ہماری جماعت سے کوئی غلطی بھی ہو جائے تو بھی ہم عشقی ہیں اور وہ شقی.مجھے ان الفاظ پر غور کر کے ایک لطف آتا ہے.صرف ایک عین اڑانے سے شقی ہو جاتا ہے.الفضل 18 ستمبر 1917ء صفحہ 2 81 1917 فرمایا : جب میرا لڑکا منور پیدا ہوا میں نے رویا میں دیکھا کہ منارہ ہلا ہے اور اس کی اوپر کی منزل اتر کر ہمارے گھر میں آگری ہے اور بغیر کسی نقص کے سیدھی کھڑی ہو گئی ہے.پہلے تو مجھے تشویش پیدا ہوئی مگر اس رؤیا کے بعد میرے گھر یہ لڑکا پیدا ہوا اور اسی لئے میں نے اس کا نام منور رکھا کہ اس کی پیدائش سے پہلے میں نے دیکھا کہ منارۃ المسیح کے اوپر کی منزل اڑ کر ہمارے گھر میں آکھڑی ہوئی ہے مگر میں نے رویا میں منارہ کی منزل کو اسی صحن میں آکر کھڑا ہوتے دیکھا جو امتہ الحی مرحومہ کے گھر کا حصہ تھا اور ان کے باورچی خانہ کے آگے کا صحن تھا اور اس دالان کے
48 اوپر کی چھت ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رہا کرتے تھے اس لئے ممکن ہے خلیل احمد کی پیدائش کی طرف اشارہ ہو مگر چونکہ اس رویا کے بعد جلد ہی منور احمد پیدا ہوا اس لئے اسی کی طرف ذہن گیا.خلیل احمد اس رویا کے پانچ چھ سال بعد پیدا ہوا ہے.الفضل 9.اپریل 82 41944 $1917 فرمایا : میں نے ایک رویا دیکھی اور آج تک جب یاد آتی ہے اس کی لذت محسوس کرتا ہوں.میں نے دیکھا کہ ایک اژدھا ہے اور ایک سڑک ہے کچھ آدمی آگے بڑھے ہوئے ہیں اور ایک جماعت میرے ساتھ ہے.جو لوگ آگے ہیں ان کے متعلق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہی ساتھ سے الگ ہوئے ہوئے ہیں.اس کا شاید یہ مطلب ہو کہ بظاہر تو ساتھ ہیں مگر اطاعت میں تقدم کرتے ہیں.چلتے چلتے کسی کے چیخنے کی آواز آئی ہے اور میں اس کی طرف دوڑتا ہوا گیا کہ اسے مصیبت سے بچاؤں.دیکھا کہ ایک اژدھا ہے جو لوگوں پر حملہ کر رہا تھا اور کوئی انسان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.جب وہ سانس لیتا تھا تو بے اختیار لوگ اس کی طرف کھنچے چلے جاتے اور کوئی ان کو روک نہ سکتا.انسانوں پر ہی کیا موقوف ہے ہر ایک چیز درخت وغیرہ تک اس کی طرف کھنچنے لگے اور جب وہ سانس باہر نکالتا جہاں تک پہنچا وہاں تک کی ہر ایک چیز کو جلا کر راکھ کر دیتا.اس وقت میں نے اپنے دوستوں میں سے ایک کو دیکھا جس پر وہ حملہ آور ہو رہا تھا.میں بھاگ کر گیا کہ اس کی مدد کروں لیکن وہ اژدھا اس سے ہٹ کر مجھ پر حملہ کرنے لگا.اس وقت مجھ کو وہ اثر دھایا جوج ماجوج ہی معلوم ہونے لگا.اور خیال آیا کہ اس کا سامنے ہو کر مقابلہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حدیث شریف میں ہے لا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهما (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال) کہ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکے گا اور یہ حدیث یا جوج ماجوج کے متعلق ہے اس سے مجھے کچھ گھبراہٹ سی پیدا ہوئی لیکن معایہ بات مجھے سمجھائی گئی کہ اس حدیث کا تو یہ مطلب ہے کہ اس کے سامنے ہو کر کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا اگر کسی اور طریق سے حملہ کیا جائے تو ضرور کامیابی ہوگی.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک چارپائی پیدا ہوئی ہے جو بنی ہوئی نہیں صرف چوکھٹ ہے اور وہ اس اژدھے کی پیٹھ پر رکھی ہوئی ہے میں اس پر کھڑا ہو گیا اور ہاتھ اٹھا
49 کر دعا کرنی شروع کر دی ہے جس سے وہ پگھلنا شروع ہو گیا اور آخر کار مر گیا.الفضل 26.مئی 1917ء صفحہ 5.نیز الفضل 17.کی 1919 ء صفحہ 7 و 29.مئی 1928ء صفحہ 9 اور اسلام کا اقتصادی نظام صفحہ 111 تا 113 فرمایا : اس رویا کے ماتحت میں سمجھتا ہوں کہ ممکن ہے یہ جنگ ہندوستان کے اندر بھی آجائے.خواہیں چونکہ تعبیر طلب ہوتی ہیں اسی لئے یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی یہی تعبیر ہے لیکن ممکن ہے اس کی یہی تعبیر ہو اور اگر ایسا ہوا تو یہ امر کوئی بعید نہیں کہ جنگ کے شعلے ہندوستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں.ہماری جگہ تک اس اژدھا کے پہنچنے کے یہی معنے ہیں کہ وہ جنگ ہندوستان میں آجائے یا اس کے اثرات ہندوستان کے لوگوں تک بھی پہنچیں.الفضل 6 اکتوبر 1939 ء صفحہ 65 83 ستمبر 1917ء فرمایا : رات جب مباحثہ سے (1 بجے شب) دوست واپس آئے تو میں جاگتا تھا اس کے بعد غنودگی سی ہوئی اور کیا دیکھتا ہوں کہ ٹیلی فون دل سے لگا ہوا ہے اس کی نالیوں میں سے ایک نالی میرے کان میں دی گئی ہے اور مجھے آواز آئی چل رہی ہے نسیم....یہاں جو الفاظ تھے مجھے یاد نہیں رہے) جو دعا کیجئے قبول ہے آج یہ وعدہ سنتے ہی مجھے حضرت مولوی صاحب حضرت خلیفہ اول.ناقل) کی مکہ معظمہ والی دعا یاد آگئی اور میں نے دعا کی وہی.”میں جو دعا کروں قبول ہو جائے".پھر فرمایا آسمان سے ہر وقت فرشتوں کے نام احکام جاری ہوتے رہتے ہیں اور ٹیلی فون میں جانے والے پیغاموں کا سا حال ہوتا ہے.کبھی کبھی خداوند ایک Tube نالی کسی اپنے پیارے کے کان میں بھی لگا دیتے ہیں اور وہ احکام سنا دیتے ہیں.مجھے اس رویا پر غور کر کے مزا آتا ہے کیونکہ ہمارے خانہ دل میں ہو کیونکر غیر کی الفت - تصوف میں نہیں دل کے سواعرش اللہ کوئی اور قلوب المؤمنین میں عرش اللہ کا مضمون اس رویا نے لطیف رنگ میں بتایا ہے.الفضل 18.
50 84 ستمبر 1917ء صفحہ 1 ستمبر 1917ء فرمایا : حضرت صاحب نے ایک رویا سنائی کہ ”میں (حضور ان دنوں میں شملہ میں مقیم تھے.مرتب) قادیان گیا ہوں پھر واپس آنا پڑا ہے جس پر افسوس کرتا ہوں کہ کیوں جلدی کی.الفضل 18 ستمبر 1917ء صفحہ 2 85 +1917 فرمایا : پچھلے ہی دنوں کی بات ہے کہ دو پہر کو میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا کہ غنودگی آئی اور یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہو گئے لَوْلَا النَّبضُ لَقُضِيَ الْحَبَضُ اور معلوم ہوا کہ یہ پیغامیوں کے متعلق ہے مجھے حبض کے معنے معلوم نہ تھے.بعض لغت کی کتب میں بھی یہ لفظ نہ ملا آخر بڑی کتب لغت میں یہ لفظ ملا.اور طرفہ یہ کہ ان میں ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ لفظ نبض کے ساتھ مل کر بہت استعمال ہوتا ہے چنانچہ عربی کا محاورہ ہے کہ مَا بِهِ حَبَضٌ وَلَا نَبَضُ اور حیض کے معنے حرکت کے ہیں خصو صادل کی حرکت کے تیز ہو کر پھر ٹھر جانے کے.پس اس جملہ کے یہ معنے ہوئے کہ اگر نبض نہ چلتی ہوتی تو یہ جو ان کے دل کی حرکت تیز ہوتی ہے اور پھر ٹھہر جاتی ہے اور پھر تیز ہو جاتی ہے پھر گھر جاتی ہے اس کا خاتمہ کر دیا جاتا یعنی یہ ہلاک ہو جاتے.جس کا مطلب مجھے یہ سمجھایا گیا کہ یہ جو ان میں بار بار جوش پیدا ہوتا ہے اور پھر دب جاتا ہے پھر پیدا ہوتا ہے اور پھر دب جاتا ہے یہ نتیجہ ہے ان کی ظاہری کو ششوں کا اور اصل کا اثر فرع پر نہیں پڑ رہا بلکہ فرع کی زندگی سے اصل پر بھی ایک اثر پڑ جاتا ہے اگر یہ حرکات اور یہ کو ششیں ان کی نہ ہوتیں تو یہ جو زندگی کے آثار ان میں پیدا ہو جاتے ہیں یہ مٹا دیئے جاتے گویا کلا نمد مولاء وَ هَؤُلَاءِ (بنی اسرائیل : (21) کے ماتحت ان کو یہ بات حاصل ہو رہی ہے.حقیقة الرؤیا صفحہ 65-64 طبع دوم ( تقریر جلسہ سالانہ 28 دسمبر 1917ء)
51 86 +1917 فرمایا : اس سال ایک معاملے کے متعلق جو گورنمنٹ کے ساتھ تھا ایسا اتفاق ہوا کہ کمشنر صاحب کی چٹھی میرے نام آئی کہ فلاں امر کے متعلق میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن مجھے آج کل اتنا کام ہے کہ میں گورداسپور نہیں آسکتا اور قادیان سے قریب تر جو میرا مقام ہے وہ امر تسر ہے یہاں اگر آپ آسکیں تو لکھوں.اس چٹھی میں معذرت بھی کی گئی کہ اگر مجھے فرصت ہوتی تو میں گورداسپور ہی آتا لیکن مجبور ہوں.اس چٹھی کے آنے سے تین دن بعد مجھے رویا ہوئی میں کمشنر صاحب کو ملنے کے لئے گورداسپور جا رہا ہوں اور یکوں وغیرہ کا انتظام ڈاکٹر رشید الدین صاحب کر رہے ہیں لیکن جس دن میں نے رویا دیکھی اس دن ڈاکٹر صاحب قادیان میں موجود نہیں تھے بلکہ علی گڑھ گئے ہوئے تھے اور اسی رات کی صبح کمشنر صاحب کی چھٹی آگئی جو بلا کسی تحریک کے تھی کہ مجھے کچھ کام گورداسپور میں بھی نکل آیا ہے اگر آپ کو امر تسر آنے میں تکلیف ہو تو میں فلاں تاریخ گورداسپور آرہا ہوں آپ وہاں آجائیں.اس چٹھی سے ایک حصہ تو پورا ہو گیا مگر دو سرا حصہ باقی تھا اور وہ ڈاکٹر صاحب کی موجودگی تھی ڈاکٹر صاحب ایک مہینہ کے ارادہ سے علی گڑھ اپنی چھوٹی لڑکی کی لات کا اپریشن کرانے کے لئے گئے تھے اور ابھی ان کے آنے کی کوئی امید نہ تھی.مگر دو سرے دن ہمیں گورداسپور جانا تھا کہ اتنے میں ڈاکٹر صاحب آگئے اور بیان کیا کہ جس ڈاکٹر نے اپریشن کرنا تھا اس نے ابھی ٹانگ کاٹنے سے انکار کر دیا ہے اور کہتا ہے کہ ایسا کرنا سرجری کی شکست ہے میں پہلے یونہی علاج کروں گا اس لئے میں نے سردست ٹھہر نا مناسب نہ سمجھا اور واپس آگیا ہوں (گو چند ماہ بعد اس ڈاکٹر کو مجبور آ ٹانگ کاٹنی پڑی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلی تحریک محض اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی) غرض اس طرح دوسرا حصہ بھی پورا ہو گیا.اب دیکھو یہ ایک مرکب خواب تھی اور اس وقت آئی تھی جب حالات بالکل خلاف تھے کیونکہ کمشنر صاحب کی چٹھی آچکی تھی کہ میں اس ضلع میں اس وقت نہیں آسکتا اور کوئی انسانی دماغ اس بات کو تجویز نہیں کر سکتا تھا کہ فورا وہاں ان کو کام پیدا ہو گا اور پھر وہ اس کی اطلاع دے کر امر تسر آنے سے روک دیں گے اور ادھر ڈاکٹر صاحب بھی غیر متوقع طور پر واپس آجائیں گے.اس خواب کے جس قدر جزو ہیں وہ نہ صرف یہ کہ ایسے
52 وقت میں جائے گئے ہیں کہ جب ان کی تائید میں کوئی سامان موجود نہ تھا بلکہ ایسے وقت میں بتائے گئے جبکہ ان کے خلاف سامان موجود تھے.حقیقة الرؤيا طبع دوم صفحه 61-62 ( تقرير جلسہ سالانہ 28 دسمبر 1917ء) +1918 1917 87 فرمایا : آج سے نو سال قبل اسی نمبر پر اسی مسجد میں اسی دن اور اسی وقت خطبہ میں میں نے اپنی ایک رؤیا بیان کی تھی کہ مجھے منافق جتائے گئے ہیں جن کا اس قسم کا نقشہ ہے میرا خیال ہے کہ یہ 1917ء یا 1918ء کا خطبہ ہے اس خواب میں موجودہ فتنہ کا صحیح نقشہ بیان کر دیا گیا تھا اور اس کی بنیاد بھی بتا دی گئی تھی.میں دیکھتا ہوں ہماری جماعت نے نفاق کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور بہت لوگ اس لئے دھوکا کھا جاتے ہیں کہ انہوں نے منافقوں کے کام کو نہیں سمجھا حالانکہ منافقوں کا ذکر اتنی تفصیل سے قرآن کریم میں کیا گیا ہے کہ بغیر کسی نوٹ کے اگر اسے ایک جگہ لکھا جائے تو آج کل کے منافق جو حالات بیان کرتے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعریف کی گئی ہے.الفضل 4 نومبر 1927ء صفحہ 6 88 $1918 فرمایا : میں نے گذشتہ سے پیوستہ جلسہ پر بیان کیا تھا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہیں سے دوڑے دوڑے آئے ہیں میں نے کہا حضور اندر آئیں فرمایا خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں امریکہ جاؤں.میں پانچ سال امریکہ رہ کر آیا ہوں.میں نے کہا حضور اب کچھ عرصہ گھر پر ٹھہریں.فرمایا.نہیں میں نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا ہے کہ پانچ سال بخارے جاکر رہوں چنانچہ آپ چلے گئے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے بعد اب دو سرا قدم ہمارا بخارا کی طرف اٹھنا ہے.ملائكة الله صفحه 10 ( تقریر جلسہ سالانہ 27 - و سمبر 1920ء) نیز دیکھیں الفضل 6 جنوری 1921ء صفحہ 11 و 16.نومبر 1923ء صفحہ 4 و 10.مئی 1944ء صفحہ 6
53 89 غالبا 1918ء فرمایا : میاں چراغ دین صاحب کے ایک لڑکے حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی والے بھی پیغامیوں میں شامل ہو گئے تھے.ان کے متعلق میں نے ایک دفعہ دعا کی تو میں نے رویا میں دیکھا کہ قادیان آئے ہیں اور میں نے انہیں ایک چارپائی پر لٹایا ہے اور کپڑا اٹھا کر میں نے ان کے پیٹ پر چھری پھیر دی ہے.پھر خواب میں ہی مجھے ایسا محسوس ہوا کہ انہوں نے توبہ کرلی ہے.میں نے یہ رویا میاں چراغ دین صاحب کو سنایا تو وہ بہت خوش ہوئے.اس رویا کے چند دن بعد ہی حکیم محمد حسین صاحب نے بیعت کر لی.الفضل 29.نومبر 1957ء صفحہ 2 +1919 90 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں بیت الدعا میں بیٹھا تشہد کی حالت میں دعا کر رہا ہوں کہ الہی میرا انجام ایسا ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم کا ہوا.پھر جوش میں آکر کھڑا ہو گیا ہوں اور یہی دعا کر رہا ہوں که دروازہ کھلا ہے اور میر محمد اسماعیل صاحب اس میں کھڑے روشنی کر رہے ہیں.اسماعیل کے معنی ہیں خدا نے سن لی اور ابراہیمی انجام سے مراد حضرت ابراہیم کا انجام ہے کہ ان کے فوت ہونے پر خدا تعالیٰ نے حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل دو قائم مقام کھڑے کر دیئے یہ ایک طرح کی بشارت ہے جس سے آپ لوگوں کو خوش ہو جانا چاہئے.عرفان الہی صفحہ 19( تقریر جلسہ سالانہ.مارچ 1919ء) (شائع کردہ نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف ربوہ) 91 +1919 فرمایا : مجھے رویا میں بتایا گیا ہے کہ قوم کی زندگی کی علامتوں میں سے ایک علامت شعر گوئی بھی ہے اور میں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم شعر کہا کرو یہی وجہ ہے کہ جلسہ سالانہ پر نظمیں پڑھنے کے لئے بھی وقت رکھا جاتا ہے اور میں نظم کو پسند کرتا ہوں شعر کہتا رہا ہوں اور رویا میں مجھے بتایا گیا ہے کہ اپنی جماعت کے لوگوں کو شعر کہنے کی تحریک کروں مگر ان ہی باتوں کی وجہ سے مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ اشعار ایسے طریق سے پڑھے جائیں کہ زبان خراب
54 ہو ہمیں اس بات کے لئے بڑی غیرت رکھنا چاہئے کہ ہماری ملکی زبان خراب نہ ہو.الفضل 13.جون 1919ء صفحہ 4 92 +1919 فرمایا : تھوڑے سے عرصہ میں باحیثیت اور بااثر لوگوں کا جماعت میں داخل ہونا دراصل میرے ایک رؤیا کی تعبیر ہے جو میں نے مولوی سید سرور شاہ صاحب کو سنایا تھا.میں نے ایک لمبی دعا کی تھی جس میں یہ بھی کہا تھا مَتی نَصْرُ الله اس پر مجھے چوہدری نصر اللہ خاں صاحب دکھلائے گئے.اس میں میں نے یہ دعا بھی کی تھی کہ ہمارے سلسلہ میں امراء داخل نہیں ہیں الہی ! ان کے دلوں کو کھول دے اور انہیں حق کے قبول کرنے کی توفیق بخش.اس کے بعد جلد ہی کئی اصحاب داخل ہوئے اور حال ہی میں ایک خان بہادر اور آنریری مجسٹریٹ نے بیعت کی ہے.الفضل 13.جون 1919 ء صفحہ 5 اوائل فروری 1920ء 93 فرمایا : کچھ ہی دن ہوئے میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک آدمی سے علیحدہ ہو کر باتیں کر رہاں ہوں اس کو کچھ ابتلاء آیا ہے اس لئے میں اس کی دلجوئی کر رہا ہوں کہ اتنے میں ایک معزز آدمی آیا مجھے دوسرے آدمی کی طرف متوجہ دیکھ کر اسے برالگا ہے کہ میری پرواہ نہیں کی گئی.میں نے اسے کہا دیکھو جماعتیں افراد سے بنتی ہیں اگر افراد کا خیال نہ رکھا جائے اور وہ تباہ ہو جائیں تو جماعتیں تباہ ہو جاتی ہیں.پھر میں نے اسے کہا جسمانی نظام کا روحانی نظام سے بڑا تعلق ہوتا ہے اس کے متعلق بتاتے ہوئے میں نے یہاں تک کہا ہے کہ بعض باتیں جو عام لوگوں کے لئے گناہ نہیں ہوتیں وہ ان کے لئے گناہ ہو جاتی ہیں جو روحانیت میں ترقی کر لیتے ہیں مثلا ان کا زائد لقمہ کھانا بھی گناہ ہو جاتا ہے.ان کی اپنی صحت کی پرواہ نہ کرنا بھی گناہ ہوتا ہے.درس القرآن (سوره نور و فرقان) مطبوعہ 1921ء صفحہ 46
55 94 فرمایا : ابھی تھوڑا عرصہ ہوا ایک ڈاکٹر مطلوب خان جو کالج سے عراق میں بھیجے گئے تھے ان کے متعلق ان کے ساتھیوں کی طرف سے اور سرکاری طور پر خبر آئی کہ وہ فوت ہو گیا ہے.ان کے والد اس خبر سے تھوڑا عرصہ پہلے قادیان آئے تھے جو بہت بوڑھے تھے.مجھے خیال تھا کہ مطلوب خاں اپنے باپ کا اکیلا بیٹا ہے بعد میں معلوم ہوا وہ سات بھائی ہیں.ماں باپ کا ایک بیٹا ہونے کے خیال سے اور اس کے باپ کے بوڑھا ہونے پر مجھے قلق ہوا ادھر ہمارے میڈیکل سکول کے لڑکوں کو جب اس کی موت کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے کہا وہ ملٹری خدمات کرنے سے انکار کر دیں گے.مجھے لڑکوں میں بے ہمتی پیدا ہونے کے خیال سے بھی قلق ہوا.اس پر میں نے دعا کی اور مجھے رویا میں بتایا گیا کہ گھبراؤ نہیں وہ زندہ ہے.میں نے صبح کے وقت اپنے بھائی کو یہ بتایا اور انہوں نے اس کے رشتہ دار کو بتایا اور یہ خبر عام ہو گئی.اس سے کچھ دنوں کے بعد خبر آئی کہ وہ زندہ ہے.دشمن کے قبضہ میں آ گیا تھا غلطی سے مردہ سمجھ لیا گیا.الفضل مارچ 1921ء صفحہ 4.نیز دیکھیں الفضل 9 اکتوبر 1922 ء صفحہ 5 و 18.نومبر 1924 ء صفحہ 26.ستمبر 1930ء صفحہ 6 و13 - جولائی 1933 ء صفحہ 6 و 20.مئی 1934 ء صفحہ 11 - 12 و 18.فروری 1959ء صفحہ 8 6.اکتوبر 1961ء صفحہ 3 اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحہ 119 - ہستی باری تعالٰی صفحہ 74 ( تقریر جلسہ سالانہ 1921ء) تبلیغ حق ( تقریر لائل پور اور 8 اپریل 1934ء) صفحہ 83-84 اور الموعود ( تقریر جلسہ سالانہ 28 دسمبر 1944ء) صفحہ 127 131 95 1920 فرمایا : چند ہی ماہ ہوئے قرآن کریم کی ایک آیت وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا پر غور کرتے ہوئے مجھے بتایا گیا کہ انسان کا جسم ظاہری کھانے سے ہی نہیں بنتا بلکہ اخلاق سے بھی اس کا گوشت پوست بنتا ہے.یہ ایک خاص مضمون میری سمجھ میں آیا اور میں نے اسے درس میں بیان کیا.الفضل 14 فروری 1921 ء صفحہ 8)
56 96 $1920 فرمایا : مجھے آج تک تین اہم معاملات میں خدا تعالیٰ کی رؤیت ہوئی ہے پہلے پہل اس وقت کہ ابھی میرا بچپن کا زمانہ تھا اس وقت میری توجہ کو دین کے سیکھنے اور دین کی خدمت کی طرف پھیرا گیا اس وقت مجھے خدا نظر آیا اور مجھے تمام نظارہ حشر و نشر کا کھایا گیا یہ میری زندگی میں بہت بڑا انقلاب تھا.دوسرا وہ وقت تھا کہ جماعت کے لوگ ایسے نقطے کی طرف جارہے تھے کہ قریب تھا کہ وہ کفر میں چلے جائیں اور اس بات کی طرف لے جانے والے وہ لوگ تھے جو سلسلہ کے دنیاوی کاموں پر قابو پائے ہوئے تھے.مثلاً صد را انجمن احمدیہ وغیرہ انہی کے ماتحت تھیں اور یہ لوگوں میں بڑے بڑے نظر آتے تھے.اس وقت کوشش کی جارہی تھی کہ حضرت صاحب کے دعوی کو گھٹایا جائے اگرچہ ہم نے حضرت صاحب سے آپ کے دعوئی کے متعلق خوب سنا ہوا تھا مگر اندیشہ ہوا کہ ممکن ہے ہم غلطی پر ہوں.اس وقت میں نے خدا تعالی کو دیکھا اور مجھے حضرت صاحب کی نبوت پر یقین دلایا گیا.تیسری دفعہ آج مجھے خدا تعالی کی رؤیت ہوئی ہے جس سے مجھے یقین ہے کہ یہ کام (تعمیر مسجد لنڈن * ناقل) مقبول ہے.جہاں تک مجھے یاد ہے وہ یہی ہے کہ میں مسجد لنڈن کا معاملہ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کر رہا تھا میں اللہ تعالیٰ کے حضور دو زانو بیٹھا تھا کہ خداتعالی نے فرمایا.جماعت کو چاہئے کہ ”جد " سے کام لیں اور "ھزل" سے کام نہ لیں.جد " کالفظ مجھے اچھی طرح یاد ہے اور اس کے مقابلہ میں دوسرا لفظ ”غزل“ اس حالت میں معا میرے دل میں آیا تھا اس کے معنے یہ ہیں کہ جماعت کو چاہئے کہ اس کام میں سنجیدگی اور نیک نیتی سے کام لے ہنسی اور محض واہ واہ کے لئے کوشش نہ کرے.الفضل 22.جنوری 1920ء صفحہ 8 نیز دیکھیں.الفضل 10.مئی 1944ء صفحہ 2 " 97 -7-6.اپریل 1920 ء کی درمیانی شب فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک مکان ہے اور اس کے پیچھے گلی ہے.میں نے دیکھا اس گلی میں کچھ لوگ سر نیچے کئے لیٹے ہیں اور مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کسی آدمی کو سجدہ کر رہے ہیں.اس پر " احمدیت یعنی حقیقی اسلام " سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رویا 1920ء کی ہے.دیکھیں کتاب مذکور صفحہ 119
57 مجھے سخت غصہ آیا اور میں ان کے پاس گیا کہ انہیں منع کروں لیکن جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سجدہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ گال زمین پر رکھ کر لیٹے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور آگے بڑھتے جا رہے ہیں.میں نے بھی آسمان کی طرف دیکھا تو مجھے ایک بہت بڑی آبادی نظر آئی اور اس جگہ خاصی روشنی دیکھی جہاں حضرت مسیح موعود ایک کشتی کی شکل کی چیز میں بیٹھے تھے اور وہ نیچے اترنا چاہتی تھی.ان لوگوں نے بھی کہا کہ حضرت مسیح موعود کو دیکھ رہے ہیں اس کے بعد وہ کشتی ہوائی جہاز کی طرح نیچے اتری اور میں حضرت صاحب کو تلاش کرنے لگا لیکن مجھے کہیں نہ ملے.آخر میں سخت غمگین ہو کر کہ شاید حضرت صاحب مجھ سے ناراض ہیں کہ مجھے نہیں ملے والدہ کے پاس گیا کہ ان کے پاس آئے ہوں گے.اس وقت میری آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے.میں نے ان سے جا کر پوچھا اور کہا کہ حضرت صاحب مجھے نہیں ملے شاید ناراض ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ باہر ٹانگہ پر سیر کو جارہی تھی شریف احمد میرے ساتھ تھا اور عزیز احمد کو بھی میں نے ساتھ لے لیا تھا لیکن حضرت صاحب کے آنے کا سن کر جلدی واپس آگئی ہوں مگر وہ ابھی تک مجھے بھی نہیں ملے.اس سے میری تسلی ہوئی.والدہ نے جب میرے آنسو دیکھے تو فرمایا یہ تو رؤیا ہے اور رویا کی تعبیر ہوتی ہے.یہ سن کر مجھے اطمینان ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ یہ رویا ہے اور حضرت صاحب کے نہ ملنے کی جو وجہ میں نے سمجھی تھی وہ صحیح نہیں ہے.رویا میں مجھے اس کی تین تعبیریں سمجھائی گئیں.میں نے کہا یا تو میں ایسی زبان میں کتاب لکھوں گا جس کے لکھنے کی مشق نہیں یا عظیم الشان تقریر کروں گا جو بے نظیر ہوگی یا کوئی بڑا نشان ظاہر ہو گا اس کے بعد آنکھ کھل گئی.اس رویا میں تقریر کرنے کی طرف جو اشارہ ہے وہ سیالکوٹ کی اس تقریر کے متعلق معلوم ہوتا ہے جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.اس تقریر کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح نے فرمایا کہ جس وقت میں تقریر کر رہا تھا اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ یک لخت آسمان سے نور اترا ہے اور میرے جسم میں داخل ہو گیا ہے اور پھر اس کی وجہ سے میرے جسم سے ایسی شعائیں نکلنے لگی ہیں کہ مجھے معلوم ہوا میں نے حاضرین کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا ہے اور وہ جکڑے ہوئے میری طرف کھنچے چلے آرہے ہیں.الفضل 19.اپریل 1920ء صفحہ 10
98 58 $1920 حضرت مولوی رحیم بخش صاحب (بعد عبد الرحیم درد پرائیویٹ سیکرٹری) فرماتے ہیں.حضور نے خواب میں دیکھا کہ ڈلنوزی جا رہے ہیں پہاڑی راستے پر سے گذر رہے ہیں کہ شیخ یعقوب على صاحب ایڈیٹرا حکم ایک طرف سے تشریف لائے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں.حضرت اقدس نے جواب دیا کہ ڈلہوزی جا رہا ہوں.شیخ صاحب نے دریافت کیا کہ مکان مل گیا ہے.حضرت نے جواب دیا کہ نہیں مکان تو نہیں ملا بلکہ میں نے تار دی تھی وہاں سے سب نے انکار لکھ بھیجا ہے.یہ کہہ کر حضور اپنے دل میں سوچنے لگے کہ عجیب بات ہے کہ مکان تو وہاں ملا نہیں سب نے انکار کر دیا ہے اور میرے پاس خرچ بھی نہیں ہے پھر میں وہاں کیوں جا رہا ہوں اس سے تو بہت تکلیف ہو گی.ان خیالات کے دل میں آتے ہی فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف سے القاء ہوا کہ خرچ کا بندو بست تو ہم کر دیں گے اور ساتھ ہی دل میں آیا کہ مکان کا بھی بند و بست ہو جاوے گا.یہ سوچ کر حضرت اقدس آگے چلے ہی تھے کہ کچھ لوگ آئے اور انہوں نے مصافحہ کر کے کچھ روپیہ حضور کے پیش کیا لیکے بعد دیگرے کئی آدمیوں نے ایسا ہی کیا اور حضرت اقدس دل میں خیال کر رہے ہیں کہ لو یہ خرچ آ رہا ہے.پھر کچھ اور لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں آپ نیچے اتر آئیں.اس وقت خیال گزرتا ہے کہ حضور گھوڑے پر سوار ہیں اور اتر پڑے ہیں انہوں نے ایک صف بچائی ہے اور اس پر حضور بیٹھ گئے.ان میں سے ایک آدمی نے روپے دامن سے نکال کر حضرت کے سامنے ڈھیر کرنے شروع کر دیئے اور قطاروں میں کھڑے کرنے شروع کر دیئے.حضور ان سے پوچھتے ہیں کہ یہ روپے کسی چندہ کے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں نہیں یہ آپ کے ہیں.اس پر آنکھ کھل گئی اور حضور نے اٹھ کر یہ حصہ کہ حضور ڈلہوزی جا رہے ہیں اور اسی طرح مکان کے متعلق خیال آیا دوستوں کو سنایا اور تعبیر یہ سوچی کہ شاید اللہ تعالی چاہتا ہے کہ اس سال یہیں (دھرم سالہ.ناقل) رہیں اگلے سال بجائے کہیں اور جانے کے ڈلہوزی چلے جائیں اور روپیہ کے متعلق حصہ نہ سنایا اس کے بعد دو دن گزرنے پر ایک تار آئی جو ایک ایسے صاحب کی طرف سے تھی جن کو ہم نہیں جانتے تھے کہ ڈلہوزی میں مکان اڑھائی سو روپیہ پر مل گیا ہے فوراً روپیہ بھیج دیں.اس تار کو
59 پڑھ کر نہایت حیرت ہوئی کہ یہ کون صاحب ہیں اور خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے کس غیر معمولی طور پر رویا پوری کی.یہ تار چونکہ خواب کو پورا کرنے والی تھی حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مناسب سمجھا کہ اب ضرور ڈلہوزی چلے جانا چاہئے.اتفاقاً اس وقت معلوم ہوا کہ کرایہ مکان بھیج کر راستہ کے اخراجات کے لئے بھی روپیہ کافی نہیں بچتا اس لئے حضور نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کرایا تو ان کے پاس بھی روپیہ کافی نہ ملا.آخر تجویز ہوئی کہ یہاں سے کسی دوست سے کچھ روپیہ قرض لے لیا جاوے جو راستہ کے لئے کفایت کرے اور ڈلہوزی روپیہ منگوا کر قرض اتار دیا جاوے یہ تجویز کر کے ہم سیر کو گئے تو وہاں سے لوٹتے وقت ڈاک خانہ سے روپیہ ملا جو بیمہ خطوں کے ذریعہ آیا تھا اور جو اس وقت کی ضروریات کے لئے کافی تھا اور جس کے آنے سے قرض کی ضرورت باقی نہ رہی.اور تعجب یہ ہے کہ پچھلے بارہ دنوں میں کوئی رقم یہاں نہ آئی تھی کیونکہ منی آرڈروں کے متعلق حضور ہدایت دے آئے تھے کہ قادیان میں ہی وصول کئے جاویں کیونکہ اکثر روپیہ چندہ کا ہوتا ہے یہاں آکر اس کا واپس کرنا خرچ کا باعث ہو گا.اس پر اس خواب کے دوسرے حصہ کے پورا ہونے پر اور بھی متعجب ہوا کہ کس طرح لفظاً لفظاً پوری ہوئی.آج صبح مکرمی شیخ یعقوب علی صاحب کی طرف سے ایک منی آرڈر سو روپیہ کا بذریعہ تار آیا جس سے شیخ یعقوب علی صاحب کو خواب میں دیکھنے کی تعبیر بھی پوری ہوئی اور ایمان کو اور تازگی ہوئی.اس خواب کے بہت سے پہلو تھے اور وہ غیر معمولی طور پر حالات کے خلاف اس صفائی سے پورے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت نمائی کا نظارہ دیکھ لیا.الفضل 23.اگست 1920ء صفحه 6 99 1920 فرمایا : مجھے ایک تحریک ہوئی تھی اس کے ماتحت میں نے ایک پیغام نظم کیا ہے جو ان نوجوانوں کے نام ہے جو کالجوں میں ہیں یا فارغ ہو کر نکل چکے ہیں.سکول کے بڑے طلباء بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.چونکہ قادیان والوں کا پہلا حق ہے اس لئے پہلے انہی کو سنایا جاتا ہے اور اس میں میں نے جہاں تک عیب نوجوانوں میں معلوم کر سکا ہوں وہ سب بتائے ہیں اور ان
60 60 سے بچنے کی نصیحت کی ہے اور ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی ہے.الفضل 18.اکتوبر 1920ء صفحه 9 25.دسمبر 1920ء 100 فرمایا : چند دن ہوئے میں نے ایک نظارہ دیکھا جس میں مجھے بتایا گیا کہ بعض لوگوں کو کچھ ابتلاء آئے ہیں.اس کو دیکھ کر میری طبیعت بہت گھبرائی اور میں خدا تعالیٰ کے حضور جھکا اور گرا اور کہا کہ خدا تعالیٰ ان پر رحم کرے ان کے گناہوں کی پردہ پوشی کرے اور ان کے گناہوں کو مٹادے.اس دعا کے بعد کہ جلسہ کے دن قریب تھے بلکہ آہی گئے تھے یعنی پرسوں کی بات ہے کہ میں نے دیکھا.میں بیٹھا ہوا ہوں اور ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب جو میرے ماموں ہیں وہ آئے ہیں.میں نے ایک لمبے تجربہ کے بعد یہ بات معلوم کی ہے کہ اسماء کے ساتھ رویا اور کشوف کا خاص تعلق ہوتا ہے اور مجھے جو خداتعالی سے قبولیت کا تعلق ہے اس کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ اٹھانوے فیصدی انہیں کو دیکھتا ہوں.ان کا نام ہے "اسمعیل جس کے معنے ہیں خدا نے سن لی.جب میں کوئی دعا کرتا ہوں تو یہی مجھے دکھائے جاتے ہیں.ہاں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا کسی ملک کے ذریعہ بتا دیتا ہے اور کبھی خود جلوہ نمائی کرتا ہے.تو میں نے دیکھا کہ وہ آئے ہیں اور ہشاش بشاش ہیں اور کہتے ہیں کہ لوگ آرہے ہیں اور وہ اتنے خوش معلوم ہوتے ہیں اور آنے والوں کا ایمان اتنا ترقی یافتہ ہے کہ انہوں نے ان کے چہروں سے دیکھ لیا ہے جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ نوران کے چہروں سے ٹپکتا ہے.جب انہوں نے یہ کہا کہ لوگ آرہے ہیں اور ایمان اور اخلاص کے ساتھ آرہے ہیں تو اسی وقت جوش سے میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے کہ اللَّهُمَّ زِدْ فَزِدْ عَلَى نَهْجِ الصَّلَاحِ وَالْعِفَّةِ اے اللہ ان کو زیادہ کر ایمان اور اخلاص میں پھر زیادہ کر ایمان اور اخلاص میں اور یہ پھر آدیں مگر مٹی کے رستوں پر چل کر نہیں بلکہ نیکی اور اخلاص اور ترقی کے راستوں پر چل کر آئیں.اس کے بعد آنکھ کھل گئی اور اس طرح خدا تعالیٰ نے مجھے تسلی دی.ملائكة اللہ صفحہ 6-5 ( تقریر 28 - دسمبر 1920 ء جلسہ سالانہ )
61 101 1920 فرمایا : ایک دفعہ مجھے بخار ہوا.ڈاکٹر نے دوائیں دیں مگر کوئی فائدہ نہ ہوا ایک دن چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب آئے ان کے ساتھ ایک غیر احمدی بھی تھا ان کو میں نے اپنے پاس بلا لیا.ان کے آنے سے پہلے مجھے غنودگی آئی اور ایک مچھر میرے پاس آیا اور کہا آج تپ ٹوٹ جائے گا.جب ڈاکٹر صاحب اور چوہدری صاحب اور ان کا غیر احمدی دوست اور بعض احباب آئے تو میں نے ان کو وہ کشف بتا دیا چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد جب ڈاکٹر صاحب نے تھرما میٹر لگا کر دیکھا تو اس وقت آپ نہیں تھا.دراصل وہ مچھر نہیں بولا تھا بلکہ اس کی طرف سے وہ فرشتہ بولا تھا جس کا مچھر پر قبضہ تھا.ملائكة الله صلح 47( تقریر جلسہ سالانہ 28 - دسمبر 1920ء) $1920 102 فرمایا : ضرورت کے وقت ہر علم خدا مجھے سکھاتا ہے اور کوئی شخص نہیں ہے جو مقابلہ میں ٹھر سکے.ابھی سورہ والناس کی تفسیر جو میں نے سنائی ہے یہ الہام ہی کے ذریعہ مجھے بتائی گئی ہے.حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ اس میں گورنمنٹ کی وفاداری کی تعلیم دی گئی ہے.میں نے بہت غور کیا مگر یہ بات میری سمجھ میں نہ آتی تھی کہ کس طرح اس میں گورنمنٹ کی وفاداری کی تعلیم دی گئی ہے؟ لیکن اسی جگہ جب میں نے جمعہ کی نماز پڑھائی تو سجدہ میں جاتے ہوئے ایک سیکنڈ میں ساری تفسیر اس طرح میرے قلب میں ملادی گئی جس طرح شکر دودھ میں ملادی جاتی ہے اور جو کچھ میں نے بیان کیا ہے یہ اس میں سے بہت مختصر طور پر بیان کیا ہے ورنہ دنیا کے سارے موجودہ مفاسد کے متعلق اس کی نہایت لطیف تفسیر بیان کی جاسکتی ہے.ملائکۃ اللہ صفحہ 53 54 تقریر جلسہ سالانہ 28 دسمبر 1920ء) 103 1920 فرمایا : اس سفر ( کشمیر کے سفر.ناقل) میں حضور نے ایک رویا میں دیکھا تھا کہ ایک خط ہوائی جہاز کے ذریعہ حضور کے نام آیا ہے اور لفافہ کی پشت پر حرف B.M لکھے ہوئے ہیں اور ایک
62 اور حرف ہے جو یاد نہیں رہا.سوخد اتعالیٰ کے فضل سے حضور کی یہ رویا بعینہ پوری ہوئی لفافہ کی پشت پر ایک ٹکٹ چسپاں تھا جس پر لکھا ہوا تھا By Air Mall (یعنی بذریعہ ہوائی جہاز) اور خط لکھنے والے نے اپنے ہاتھ سے بھی یہی لکھا تھا.الفضل 26 - ستمبر 1921ء صفحہ 2.نیز دیکھیں.ہستی باری تعالی صفحہ 74 1921 1920 104 فرمایا : 1920ء یا 1921 ء یا اس سے پہلے کی بات ہے کہ میں نے ایک رؤیا دیکھا.کوئی مجھے کہتا ہے کہ قادیان میں بعض لوگ کمیونسٹ خیالات کے ہو گئے ہیں یہ سن کر مجھے خواب میں ہی تعجب پیدا ہوتا ہے اور میں اس منشاء کے ماتحت گھر سے باہر نکلتا ہوں کہ باہر جا کر دیکھوں کہ لوگوں کا رویہ میرے متعلق کس قسم کا ہے.ان کا جو رویہ ہو گا اس سے میں اندازہ لگالوں گا کہ آیا سچ مچ ان کے خیالات کمیونسٹوں والے ہیں.گویا میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں کے اس قسم کے خیالات ہونگے باہر نکلنے پر میں ان کے خیالات کا ان کے رویہ سے اندازہ کرلوں گا.چنانچہ میں مسجد مبارک کی شمالی جانب کی سیڑھیوں سے نیچے اترا ہوں اور مسجد اقصیٰ کی طرف چل پڑا ہوں.رستہ میں کئی احمدی مجھے ملے ہیں اور بڑے ادب اور احترام سے مجھے ملتے ہیں اور ان کے اندر میرا ویسا ہی احترام ہے جیسے کہ پہلے پایا جاتا تھا مگر خواب میں میرے دل پر ان میں سے بعض کے اندرونہ کا عکس ظاہر ہو جاتا ہے.میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان میں سے بعض کمیونسٹ خیالات رکھتے ہیں لیکن میرا ادب اور احترام اسی طرح کرتے ہیں جیسا کہ پہلے کرتے تھے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.فرمایا.کچھ عرصہ سے مختلف شہروں سے اس قسم کی اطلاعات آرہی ہیں کشمیر سے بھی اس قسم کی اطلاع آئی ہے کہ کمیونسٹ لوگوں کا ارادہ ہے کہ ہر مذ ہبی مرکز میں اپنی جماعت قائم کریں اور قادیان میں بھی اپنا مرکز بنانا چاہتے ہیں.ان اطلاعات کو میں سرسری سمجھتا تھا مگر چند دن ہوئے گورنمنٹ کے ذریعہ سے بھی معلوم ہوا ہے کہ کمیونسٹوں کا ارادہ ہے کہ قادیان میں اپنا مرکز قائم کریں.گویا اس اطلاع سے پہلی اطلاعات کی تصدیق ہو گئی.الفضل 25 دسمبر 1944ء صفحہ 3
63 105 1921 1920 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں لنڈن میں ہوں اور ایک ایسے جلسہ میں جس میں پارلیمنٹ کے بڑے بڑے ممبر اور دوسرے بڑے آدمی ہیں ایک دعوتی قسم کا جلسہ ہے.اس میں میں بھی شامل ہوں مسٹرلائڈ جارج سابق وزیر اعظم اس میں تقریر کر رہے ہیں.تقریر کرتے کرتے ان کی حالت بدل گئی اور انہوں نے ہال میں ٹہلنا شروع کر دیا اور ایسی گھبراہٹ ان کی حرکات سے ظاہر ہوئی کہ سب لوگوں نے یہ سمجھا کہ ان کو جنون ہو گیا ہے.سب لوگ قطاریں باندھ کر کھڑے ہو گئے ہیں اور وہ جلد جلد ادھر سے ادھر ٹہلتے ہیں.اتنے میں لارڈ کرزن صاحب نے آگے بڑھ کر ان کے کان میں کچھ کہا اور وہ ٹھہر گئے اور آہستہ سے لارڈ کرزن صاحب کو کچھ کہا انہوں نے باقی لوگوں سے جو ان کے گرد تھے وہی بات کی اور سب لوگ دوڑ کر ہال کے دروازے کی طرف چلے گئے اور باہر سڑک کی مشرقی جانب بھاگنا شروع کیا.ان کے اس طریق پر مجھے اور بھی حیرت ہوئی.قاضی عبد اللہ صاحب میرے پاس کھڑے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے کیا کہا ہے اور یہ لوگ دروازے کی طرف کیوں دوڑے اور کیا دیکھتے ہیں.قاضی صاحب نے مجھے جواب دیا کہ مسٹر لائڈ جارج نے لارڈ کرزن سے یہ کہا ہے کہ میں پاگل نہیں ہوں بلکہ میں اس وجہ سے ٹہل رہا ہوں کہ مجھے ابھی خبر آئی ہے کہ مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ کی فوجیں عیسائی لشکر کو دباتی چلی آتی ہیں اور مسیحی لشکر شکست کھا رہا ہے اور وہ ٹہلتے ٹہلتے اس جگہ کے قریب آگیا ہے اور یہ لوگ اس بات کو سن کر دروازے کی طرف اس لئے دوڑنے لگے کہ تا دیکھیں کہ لڑائی کا کیا حال ہے.جب میں نے یہ بات ان سے سنی تو میں دل میں کہتا ہوں کہ ان کو اس قدر گھبراہٹ ہے اگر ان کو معلوم ہو کہ میں خود ان کے اندر موجود ہوں تو وہ مجھے گرفتار کرنے کی کوشش کریں گے یہ خیال کرکے میں بھی دروازے کی طرف بڑھا جس طرح وہ لوگ دیکھنے کے لئے گئے ہیں اور وہاں سے خاموشی سے سڑک کی طرف نکل گیا اس پر میری آنکھ کھل گئی.الفضل 14.جون 1924ء صفحہ 5
64 106 30 جنوری 1921ء فرمایا : پرسوں ایک عجیب رویا دیکھی کہ گویا میں باہر سے آیا ہوں اور خیال کرتا ہوں کہ شملہ سے آیا ہوں یہ نہیں معلوم کہ ریل کی سواری ہے یا کوئی اور مگر وہ گاڑی گزر رہی ہے.میں حیران ہوں کہ قادیان کی سڑک تو سچی ہے پھر اس پر یہ گاڑی کیسے چل رہی ہے.میں نے جو نیچے نظر کی تو معلوم ہوا کہ بڑی چوڑی اور پختہ سڑک نیچے ہے.حیران ہوں کہ کب یہ سڑک بن گئی.جب آگے بڑھے تو دیکھا کہ بہت سی گاڑیاں جو کئی قسم کی ہیں چلی آرہی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا جلسہ کے ایام ہیں جس گاڑی میں میں سوار ہوں وہ موٹر ہے.یا کیا ہے.جب میں آگے آیا تو بہت سی دکانیں نظر آئیں اور آگے شہر میں آیا تو بہت سے آدمی نظر آئے اور ایسا معلوم ہوا کہ بڑا چوڑا بازار ہے اور لوگ دکانوں سے نکل نکل کر کھڑے ہو رہے ہیں.میری گاڑی بھی پاس ہی چلتی جاتی ہے.اس کو روکتا ہوں کہ کہیں کوئی حادثہ نہ ہو جائے.شہر بھی پختہ ہے اور ہجوم آہستہ آہستہ بڑھتا جاتا ہے اور میں سب کو سلام علیکم کہتا جاتا ہوں.اور پھر بڑھتے بڑھتے ہم اس اپنے چوک میں آگئے لیکن اس کی موجودہ شکل نہیں بلکہ بہت بدل گئی ہوئی ہے.اس جگہ ایک مکان کو ٹھی کی شکل کا بنا ہوا ہے اور اس کے آگے عمدہ اور خوبصورت صحن ہے اور مکان کے سامنے ایک وسیع برآمدہ ہے وہاں والدہ صاحبہ (حضرت اماں جان) اور ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب بھی ہیں.میں نے وہاں پانی منگایا کہ وضو کروں کیونکہ عصر کا وقت معلوم ہوتا ہے اور پھر ذرا نظارہ بدلا اور ایسا معلوم ہوا کہ وہیں ایک شخص مخالفین کی نسبت سخت لفظ کہتا ہے.میں اس کو کہتا ہوں کہ نرمی مد نظر رکھنی چاہئے اور پھر اس کو اپنا ایک واقعہ سناتا ہوں اور کہتا ہوں کہ دیکھو میرا تو ان لوگوں سے یہ سلوک ہے کہ میں نے ایک دفعہ دو مخالفوں کو دیکھا کہ وہ ایسی جگہ پر پڑے ہیں جو بہت ڈھلوان ہے اور خطرہ ہے کہ وہ ذراسی حرکت سے ایک عمیق غار میں جاگریں گے اور ان تک پہنچنے کا راستہ بھی خطرناک ہے اور گویا وہاں تک جانے میں نوے فیصد ہلاکت کا احتمال ہے مگر میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر وہاں گیا اور ان دونوں کو بچا لایا (رویا میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں آدمی پیغامی ہیں) جس وقت میں یہ واقعہ اس شخص کو سنا رہا تھا تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جس جگہ کا میں نقشہ کھینچ رہا ہوں تو اس کا نظارہ اس کو ٹھی کے
65 سامنے برآمدہ کے نیچے پیدا ہو گیا ہے.اس نے مجھ کو کہا کہ جو کچھ آپ کہتے ہیں وہی طریق ہو گا مگر مجھے رویا میں یہ بتایا گیا ہے کہ فلاں شہر کے فلاں آدمی کو لٹا کر اس کی گردن پر چھری پھیر کر اس پر مسجد احمدیہ کی بنیاد رکھی جائے گی اور جس وقت وہ یہ رویا سناتا ہے ساتھ ہی اپنے ہاتھ کے اشارہ سے اس نظارہ کی نقل بھی کرتا ہے میں نے اس کو کہا کہ ہاں بعض حالات میں ایسا بھی ہوتا ہے پھر میری آنکھ کھل گئی.اور وہ تجد کا وقت تھا اس وقت میں نے اپنے گھر کے لوگوں کو بھی جگایا انہوں نے کہا کہ میں اس وقت خواب دیکھ رہی تھی چنانچہ انہوں نے بتایا کہ میں نے دیکھا کہ آپ پلنگ پر بیٹھے ہیں اتنے میں آپ پر غنودگی طاری ہوئی اور آپ لیٹ گئے ہیں اور ایک عورت میرے پاس بیٹھی ہے اور اس نے مجھے کہا کہ اس وقت ان کو آواز نہ دینا.یہ خواب دیکھ رہے ہیں یہ گویا اس خواب کی تصدیق بھی ہو گئی.فرمایا میں اس شہر اور اس شخص کو جانتا ہوں جس کا اس میں ذکر ہے.مولانا سید سرور شاہ صاحب کے دریافت کرنے پر فرمایا کہ وہ پیغامی ہے.الفضل 10.فروری 1921ء صفحہ 6‘7 (روایت مولوی رحیم بخش صاحب 107 اوائل فروری 1921ء فرمایا میں نے تھوڑا عرصہ ہوا ایک کشف دیکھا کہ میرے گرد جو چیزیں تھیں وہ بھی میں دیکھ رہا تھا اور دوسرے نظارے بھی میرے سامنے تھے اسی طرح بنارس سے آتے ہوئے ہم ایک گاڑی میں سوار تھے جس میں مولوی شیلی صاحب بھی تھے.باتیں مذہبی ہو رہی تھی اس گفتگو میں میرے کان میں آواز آئی إِنَّكَ تَهْدِى مَنْ أَحْبَبْتَ قرآن کریم میں آتا ہے إِنَّكَ لَا تَهْدِى مَنْ اَحْبَبْتَ مگریه آواز دوسری طرح تھی.الفضل 14 فروری 1921ء صفحہ 7 108 8 فروری 1921ء فرمایا : آج میں نے عجیب رویا دیکھی ہے تمام یاد نہیں مگر آخری حصہ یاد ہے.فرمایا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جلسہ کا موقع ہے اور میں لیکچر دے رہا ہوں جس کا آخری حصہ یہ ہے کہ میرا
66 مضمون ہے کہ دو قسم کے انسان دنیا میں ہوتے ہیں اول وہ جن کی ذات خدا کو محبوب ہوتی ہے مگر ان کے کام محبوب نہیں ہوتے.دوم وہ جن کی ذات بھی محبوب ہوتی ہے اور ان کے کام بھی محبوب ہوتے ہیں.پہلی قسم کے لوگ جن کی ذات تو محبوب ہوتی مگر کام محبوب نہیں ہو تا.ان کی ذات کی اللہ تعالیٰ حفاظت کرتا ہے مگر کام کی حفاظت نہیں کرتا یعنی ان کا کام مٹ جاتا ہے.مگر دوسری قسم کے لوگ جن کی ذات اور کام دونوں محبوب ہوتے ہیں وہ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی ذات کی بھی حفاظت کرتا ہے اور کام کی بھی حفاظت کرتا ہے اگر ان کی ذات پر کوئی حملہ کرے تو اس کو مٹادیتا ہے اور اگر ان کے کام کوئی مٹانا چاہے تو وہ بھی ناکام رہتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کو سزا دیتا ہے.ان دونوں قسموں کے لوگوں کی مثال میں میں نے کہا کہ پہلی قسم کے لوگوں میں جن کی محض ذات سے محبت تھی حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام ہیں ان کی ذات سے خدا تعالیٰ کو محبت ہے اب بھی اگر کوئی شخص ان کی ہتک کا مرتکب ہو تو اس سے خدا تعالٰی مواخذہ کرے گا لیکن ان کے کام ہمیشہ کے لئے نہ تھے اس لئے ان کے کام کی حفاظت اللہ تعالیٰ نہیں کر رہا.ایک وقت تک ان کا کام مفید تھا، حفاظت کی گئی اب اس کی کوئی حفاظت نہیں.دوسری قسم میں میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیش کیا اور کہا کہ ان کی ذات اور کام محبوب ہے انکی ذات کی بھی حفاظت اللہ تعالیٰ کر رہا ہے اور ان کے کام کی بھی.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.الفضل 17.فوری 1921ء صفحہ 5 اوائل 1921ء 109 فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص خلافت پر اعتراض کرتا ہے.میں اسے کہتا ہوں اگر تم بچے اعتراض تلاش کر کے بھی میری ذات پر کرو گے تو خدا کی تم پر لعنت ہوگی اور تم تباہ ہو جاؤ گے کیونکہ جس درجہ پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے اس کے متعلق وہ غیرت رکھتا ہے.درس القرآن سورۃ نور و فرقان صفحه 73 مطبوعہ نومبر 1921 ء نیز دیکھیں.الفضل 29.مئی 1928 ء صفحہ 2
67 110 $1921 فرمایا : ایک سال کے اندر کی خواب ہے کہ ہماری مسجد بہت وسیع ہے یہاں تک کہ ایک طرف سے دوسری طرف تک نظر نہیں پہنچ سکتی.صحن مسجد کا با قاعدہ مسجد کی طرح نہیں بلکہ کھلا ہے عید گاہ کی طرح.اس میں میں نے دیکھا کہ پہلے وائسرائے آیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے بعد میں بادشاہ نے آنا ہوتا ہے اور وائسرائے انتظام کر رہا ہے.بعد میں بادشاہ آیا ہے کئی ہزار کی فوج اس کے ہمراہ ہے.الفضل 4.مئی 1922ء صفحہ 6 (ب) میں نے دیکھا کہ وائسرائے مسجد میں داخل ہوئے اور وہ تمام انتظام کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے پھر وہ دوسرے مقدس مقامات دیکھنے چلے گئے ہیں.الفضل 18.مارچ 1936 ء صفحہ 4 $1921 111 فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا ہے ایک کمرہ میں داخل ہوا ہوں مولوی عطاء الہی صاحب ڈلے والے بیٹھے ہیں اور بھی تین آدمی ہیں وہ کمرہ بیت الدعا کی طرح ہے.معلوم نہیں کہ اس خواب کاڈلہ کے ساتھ کوئی تعلق ہے یا اس نام کے ساتھ کوئی تعلق ہے.الفضل 4 مئی 1922ء صفحہ 6 $1921 112 فرمایا : ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک مکان میں ایک شخص رہتا ہے جس کی شکل میں نے نہیں دیکھی لیکن ایک دوسرا شخص کہتا ہے کہ اس مکان میں ایک بوڑھا فلاسفر رہتا ہے کتابیں پڑھتے پڑھتے اس کی عقل ماری گئی ہے.اتنے میں میں نے دیکھا ایک شخص نکلا ہے اس کا سرمنڈا ہوا ہے اور فقیروں کے سے اس نے کپڑے پہنے ہوئے ہیں.میں خیال کرتا ہوں کہ یہ شیطان ہے اس نے مجھ پر حملہ کیا.میں لاحول پڑھتا ہوں وہ ہٹ جاتا ہے مگر پھر حملہ کرتا ہے پھر میں لاحول پڑھتا ہوں وہ دور ہو جاتا ہے اور اسی طرح بار بار حملہ کرتا ہے اور میں لاحول پڑھتا ہوں آخر میں میں نے اعوذ باللہ پڑھا اور وہ بالکل دور ہو گیا.الفضل 12.مئی 1921ء صفحہ 6 نیز دیکھیں.الفضل 27 جنوری 1935 ء صفحہ 8 و 23.جون 1944 ء صفحہ 2
68 113 9- جون 1921ء فرمایا : آج صبح میں نے رویا میں دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں ڈاکٹر صاحب * کے آنے سے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے اور میں نے ان کو اپنے مکان میں سے 16 مرلہ زمین دی ہے اس سے تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر صاحب دنیا کو چھوڑ کر حضرت مسیح موعود کے پاس چلے گئے.الفضل 9 13 جون 1921 ء صفحہ 1 114 ستمبر 1921ء فرمایا : میں نے ایک رویا میں دیکھا کہ غیر مبائعین میں سے دو بڑے آدمی مجھے ملے ہیں میں ان سے کہتا ہوں دیکھو خد اتعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ جو شخص تمہاری بیعت سے الگ رہے گا میں (یعنی خدا تعالی) اس سے نمازوں کی لذت چھین لوں گا.یہ سن کر ان میں سے ایک دیوار کی طرف منہ کر کے چیخ چیخ کر رویا اور پھر کہنے لگا کہ خدا کی قسم میری اب ایسی ہی حالت ہے مجھے نمازوں میں بالکل مزا نہیں آتا.الفضل 26.ستمبر 1921ء صفحہ 2 $1921 115 فرمایا : میں نے گاند ھربل میں ساگر چند کے ارتداد کے متعلق رؤیا دیکھی تھی میں نے دیکھا کہ میری پگڑی کے پہلے پر تین داغ ہیں اور باقی پگڑی صاف ہے (یہ رویا بیان کرتے ہوئے اپنی پگڑی اتاری اور اس کو دیکھ کر پھر سر پر رکھ لیا) دوسرے دن تین آدمیوں کے ارتداد کے متعلق مخطوط پہنچے.(1) ساگر چند (2) حکیم سیف الله (3) عبد اللہ للیانی.الفضل 24 - اکتوبر 1921ء صفحہ 2 1921 116 فرمایا : میں نے ایک رویا میں ایک شخص کو دیکھا ہے مگر میں نہیں جانتا کہ وہ کون شخص ہے.اس نے مجھے کہا میں تم سے محبت کرتا ہوں اس لئے کہ تم خوشبو سے محبت کرتے ہو.میں نے اسی ڈاکٹر محمد اسماعیل خاں صاحب کو ژیانی مراد ہیں (مرتب)
69 وقت اپنے کپڑوں کو سونگھا تو مجھے ان میں خوشبو معلوم نہیں ہوئی.میں نے اسی حالت رویا میں سمجھا کہ اس خوشبو سے مراد وہ خطبے ہیں جو میں نے ایمان کی مضبوطی کے لئے بیان کئے ہیں ایمان کو خوشبو سے تعبیر کیا گیا ہے چونکہ میں ایمان کو دنیا میں پھیلانا چاہتا ہوں اس لئے اس شخص نے کہا کہ چونکہ تم خوشبو سے محبت رکھتے ہو اس لئے میں تم سے محبت رکھتا ہوں ورنہ ظاہری طور پر اس وقت میرے کپڑوں کو خوشبو نہیں لگی ہوئی تھی.اس وقت میں سمجھا کہ یہاں خوشبو سے مراد یہ خطبات ہیں جن میں دعوت ایمان دی گئی ہے.الفضل 14.نومبر 1921ء صفحہ 5 - 6 *1921 117 فرمایا : میں نے رویا دیکھی ہے جس کا مضمون تو بہت تھا مگر اس میں سے یاد صرف تھوڑا سارہ گیا ہے.میں نے پیغامیوں کو دیکھا.بحث ایسی معلوم ہوتی ہے کہ جس میں گویا وہ مجھ پر الزام لگاتے ہیں کہ میں حضرت اقدس کے درجہ کو بڑھاتا ہوں.میں نے ان کو کہا کہ اس کا فیصلہ تو بہت آسان ہے کہ وہ قسم کھا کر یا تو یہ اعلان کر دیں کہ 1.وہ حضرت صاحب کو ظلی بروزی نبی نہیں سمجھتے.2.یا قسمیہ یہ اعلان کر دیں کہ میں حضرت صاحب کو ظلی بروزی نبی سے بڑھ کر سمجھتا ہوں.الفضل 28 نومبر 1921ء صفحہ 6 23 نومبر 1921ء 118 نماز سے فارغ ہو کر شیخ نواب الدین صاحب افسر ڈاک سے مخاطب ہو کر فرمایا.لاہور سے مباحثہ کے متعلق کوئی اطلاع آئی ہے.شیخ صاحب نے عرض کیا اس وقت تک کوئی اطلاع نہیں آئی.فرمایا.میں نے ایک رؤیا دیکھی ہے اور اس کا سلسلہ قریباً ساری رات ہی جاری رہا جس میں معلوم ہوتا ہے کہ وفد گاڑی سے رہ گیا.اس سے بہت پریشانی سی معلوم ہوئی.چونکہ میاں عبد السلام صاحب (ابن حضرت خلیفۃ المسیح الاول) بھی ساتھ تھے.وہ سامنے آئے.جب یہ نظارہ دیکھتا ہوں تو آخر میں زور سے کہتا ہوں " سلام ".اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے.اس کا کیا مطلب ہے کہیں خدانخواستہ آپس ہی میں کوئی اختلاف نہ ہو گیا ہو.فرمایا کہ گاڑی سے رہ جانے کے معنے یہی ہیں
70 کہ آپ (شیخ نواب الدین صاحب) نہیں گئے اور آخر سلام کے معنے یہ کہ آریہ کتنی ہی معاہدہ شکنی کریں لیکن انجام سلامتی ہو گا.الفضل 5.جنوری 1922ء صفحہ 9 $1921 119 فرمایا : میں نے خود کئی دفعہ اللہ تعالیٰ کو انسانی شکل میں دیکھا ہے اور مضمون رویا کے مطابق اس کی شکل مختلف طور پر دیکھی ہے.میں ہرگز نہیں سمجھتا کہ وہ شکل خدا تھی یا اس میں خدا حلول کر آیا تھا لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ایک جلوہ تھا اور اسی رؤیا کے مضمون کے مطابق الہی صفات کی جلوہ گری پر دلالت کر رہی تھی اور وہ ایک رؤیت تھی مگر تصویری زبان میں اور اس تعلق کو ظاہر کرتی تھی جو اللہ تعالیٰ کو مجھ سے یا ان لوگوں سے تھا جن کے متعلق وہ رویا تھی.حق الیقین صفحہ 73 (مطبوعہ 1921ء) $1921 120 فرمایا : اس (سیدہ امتہ الحی صاحبہ مرحومہ.ناقل ) کی وفات کے متعلق تو مجھے پہلے ہی اطلاع ہو گئی تھی.تین سال ہوئے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ سفید کپڑے پہنے ہوئے میرے پاس آئی ہے اور السلام علیکم کہہ کر کہنے لگی ” میں جاتی ہوں اور اس کے بعد جلدی جلدی گھر سے نکل گئی.میں نے میر محمد اسماعیل صاحب کو اس کے پیچھے روانہ کیا تو انہوں نے واپس آکر بتایا کہ وہ بہشتی مقبرہ کی طرف چلی گئی ہے.الفضل 3.جنوری 1925ء صفحہ 8 $1921 121 فرمایا : کشمیر جب میں گیا ہوا تھا تو وہاں میں نے ایک رات دیکھا کہ میں ایک پہاڑی کی طرف جا رہا ہوں اور ایک شعر میری زبان پر جاری ہے وہ شعر تو مجھے یاد نہیں رہا مگر اس کا مطلب یاد ہے و یہ ہے کہ گویا وہ طور پہاڑ ہے اور میں اس مضمون کا شعر پڑھ رہا ہوں.طور پر خدا جلوہ گر ہے.میں اس جلوہ کو خود دیکھتا ہوں اور دوسروں کو دکھاتا ہوں.صبح کو جب میں اٹھا تو وہ شعر بھول گیا مگر مضمون یاد تھا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ نظم کہہ دوں اس نظم کا اکثر حصہ تو
71 کشمیر میں ہی کہا گیا تھا اور کچھ یہاں کہا ہے.( نظم کا پہلا شعریہ ہے.ناقل) طور پر جلوہ کناں ہے وہ ذرا دیکھو تو.حسن کا باب کھلا ہے بخدا دیکھو تو الفضل 26 - دسمبر 1921ء 26 جنوری 1922ء صفحہ 1 17.دسمبر 1921ء 122 فرمایا : میں نے غالبا آج ہی رات کو رویا دیکھی ہے میں نے حضرت صاحب کو رویا میں دیکھا.چند پیغامی بھی گرد بیٹھے ہیں میں بھی مجلس میں تھا پیغامیوں نے سوال کیا کہ مسلمانوں کا مسلمانوں کو قتل کرنا کیسا ہے.میں ان کے اس سوال سے گھبرا گیا اس لئے میں نے سمجھا کہ انہوں نے اس طرح مجھ پر چوٹ کی ہے اور فتوئی اس طرح جیسے وہ ان تمام شرائط اور صورت مسئلہ کو پیش کر کے لے رہے ہیں ممکن ہے حضرت صاحب اس کے متعلق کوئی ایسی بات فرمائیں جس کو یہ لوگ ہمارے خلاف مشہور کرتے پھریں.میں اپنی جگہ سے اٹھا اور حضرت صاحب کے قریب آیا اور اس وقت حضرت صاحب کی شکل بدل کر والدہ کی شکل ہو گئی اگر چہ شکل والدہ کی ہے مگر میں آپ کو حضرت صاحب ہی سمجھتا ہوں اور یہ بات عطوفت پر دلالت کرتی ہے) اور عرض کیا کہ سمالی لینڈ میں جس طرح جنگ حضور کے زمانہ میں ہوئی تھی اور احمدی گورنمنٹ کی فوج میں بھرتی ہو کر مسلمانوں سے لڑتے تھے.حافظ صاحب سے خطاب کر کے فرمایا کہ اس وقت میں نے آپ کے بھائی ڈاکٹر رحمت علی صاحب ہی کا نام لیا اور عرض کیا کہ آپ نے گورنمنٹ کی وفاداری کی تعلیم دی ہے اس کے مطابق ہی کام کرتا ہوں اس پر مسیح موعود نے فرمایا یہی ہمارا مسلک ہے ".الفضل 16.فروری 1922ء صفحہ 8 1922 1921 123 فرمایا : چودہ یا پندرہ سال کا عرصہ گزرا ہے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اور ایک اور شخص ایک جگہ بیٹھے ہیں وہ تیسرا آدمی اب یاد نہیں رہا کہ چوہدری صاحب پر یا مجھ پر یا اور کسی تیسرے شخص پر اعتراض کرتا ہے کہ وہ ورزش کیوں کرتا ہے اس طرح تو وقت ضائع ہوتا ہے.اس پر میں اسے جواب دیتا ہوں کہ بعض خدا تعالیٰ کے
72 بندے ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے ورزش ضروری ہوتی ہے ورنہ دین کو نقصان پہنچتا ہے اور اگر وہ ورزش نہ کریں تو گنہ گار ہوں.اس وقت میرے دل میں خیال گزرتا ہے کہ میں بھی تو ورزش میں سستی کر جاتا ہوں اور یہ نہیں چاہئے.رپورٹ مجلس مشاورت 1936ء صفحہ 144 نیز دیکھیں.الفضل 2 جون 1925 ء صفحہ 2 اور منہاج العالمین (شائع کردہ الشركته الاسلامیہ ربوہ) صفحہ 70 124 $1922 فرمایا : میں نے دیکھا کہ مسجد مبارک کی چھت پر بہت شور ہے لوگ چیختے اور روتے ہیں.میں دوڑا ہو وہاں گیا اور لوگوں سے پوچھا کہ کیا بات ہے تو کسی نے بتایا کہ قیامت آگئی.مغرب کا وقت ہے اور کوئی سورج کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ وہ دیکھو سورج مشرق کی طرف واپس آرہا ہے اور یہ علامت قیامت کی ہے کہ سورج مغرب میں جانے کے بعد واپس لوٹ آیا ہے.میں بھی گھبرا تا تو ہوں مگر سمجھتا ہوں کہ قیامت نہیں ہے.وہاں میں نے دیکھا کہ بھائی عبدالرحیم صاحب مل رہے ہیں اور وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ قیامت آگئی مگر مجھے یکدم کچھ خیال آیا اور میں ان سے کہتا ہوں کہ سورج کا مغرب سے واپس لوٹنا بھی بیشک قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت تو ہے مگر اس کے ساتھ بعض اور شرطیں بھی ہیں اور وہ اس وقت ظاہر نہیں ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج کا مغرب سے اس وقت کا طلوع قیامت کی علامت نہیں ہے.میں نے جونہی یہ کہا سو رج یکدم ٹھرا اور پھر واپس ہونا شروع ہو گیا.اس سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ فتنہ جو مغرب سے اٹھا ہے امید ہے اللہ تعالیٰ اسے دور کر دے گا.الفضل 17.جنوری 31942 نیز دیکھیں.الفضل 17 فروری 1935 ء صفحہ 11 و 17.فروری 1945ء صفحہ 11 125 $1922 فرمایا : عرصہ ہوا میں نے ایک رویا دیکھی تھی.دیکھا کہ میں جرنیلوں کی چال چل رہا ہوں اور میرے پیچھے فوج چلی آرہی ہے.ساتھ ہی توپ خانہ بھی ہے ایک شہر کا ہم نے محاصرہ کیا ہے اور میں کسی کمزور مقام کی تلاش میں ہوں.آخر میں نے ایک جگہ کمزورپائی اور فوج کو اور توپ
73 خانہ کو حملے کا اشارہ کیا.جونہی کہ میں نے اشارہ کیا گولہ باری شروع ہو گئی.فصیل بہت چوڑی ہے اس کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور اس کے اندر مکانات عالیشان اور سنگ مرمر کے بنے ہوئے ہیں.میرے ساتھ مفتی محمد صادق صاحب اور مرحوم عبدالحی بھی ہیں.مفتی صاحب نے کہا کہ یہ جگہ تو اس قابل ہے کہ اس میں بیٹھ کر دعا کی جائے.چنانچہ وہ محل میں دعا کرنے لگے میں ان کو بھی دیکھتا ہوں اور فوج کو بھی گولہ باری کرتے ہوئے دیکھتا ہوں.اتنے میں میں نے دیکھا کہ ہماری جماعت کے آدمی مال غنیمت نکال رہے ہیں ایک بڑا سا بستر عبدالھی مرحوم نے بھی اٹھایا ہوا ہے میں نے اس کے سر سے اتار لیا اور کہا کہ اور لوگ اٹھالائیں گے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ احمدیت کسی سختی کے بعد مانی جائے گی.الفضل 3.جولائی 1922ء صلحہ 5 - 6 $1922 126 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں یورپ میں ہوں لیکچر دے رہا ہوں میں کسی کو کچھ سمجھانے لگا ہوں کہ ایک جبہ پوش ہے اس کو یہ فکر ہے کہ کسی پر لیکچر کا اثر نہ ہو جائے.جگہ یونیورسٹی کی طرح ہے آگے ایک پھاٹک ہے.وہ پادری آگے آیا مجھے شرمندہ کرنے کے لئے کہتا ہے کہ تمہاری تعلیم کس قدر ہے.میں نے جواب دیا کہ مسیح سے جس کو تم خدا کا بیٹا کہتے ہو زیادہ میری ہے.اس پر وہ نہایت شرمندہ ہو کر بھاگا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیت میں گھبراہٹ تو ضرور پڑے گی.الفضل 4.مئی 1922ء صفحہ 6 127 3-2- جون 1922ء کی درمیانی رات فرمایا : آج رویا میں میری زبان پر یہ جاری ہو گیا ”آج بہت سی بشارتیں ترقی اسلام کے متعلق ملی ہیں" یہ اصلی الفاظ نہیں بلکہ اس مضمون کا خلاصہ ہے جو میری زبان پر جاری ہوا.الفضل 17.جولائی 1922ء صفحہ 5 128 ₤1922 فرمایا : دعا کے اوقات ہوتے ہیں جب چوہدری صاحب (چوہدری فتح محمد صاحب ایم اے
74 مرحوم.ناقل ) ولایت سے آئے تو ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے ان کی آنکھوں کو دیکھا اور مجھ کو بتایا کہ چوہدری صاحب کی ایک (بائیں) آنکھ کا بچنا تو قریبا نا ممکن ہے اور دوسری بھی بہت خراب ہو رہی ہے.مجھے اس سے قلق پیدا ہوا کہ چوہدری صاحب کام کے آدمی ہیں مگر ان کی آنکھوں کے متعلق ڈاکٹر صاحب ایسا خیال کرتے ہیں.میں نے دعا کی تو رات کو خواب میں ایک نے کہا کہ ان کی آنکھ تو اچھی ہے صبح کو میں نے ڈاکٹر صاحب کو یہ خواب بتایا اور انہوں نے پھر دیکھا اور کہا کہ اب مرض کا 3 /1 حصہ باقی رہ گیا ہے.چوہدری صاحب نے عرض کیا کہ اس وقت میری آنکھ میں چنے کے برابر زخم ہو گیا تھا اور چھ انچ کے فاصلہ تک (ہاتھ کو آنکھ کے سامنے کر کے عرض کیا، یہاں سے ہاتھ نظر نہیں آتا تھا بلکہ پانی سا سامنے نظر آتا تھا اس سے پہلے یہ حالت تھی کہ ہر ایک دوائی مضر پڑتی تھی پھر ہر ایک دوائی مفید ہونے لگی اب میری طرف سے سستی ہے کہ میں دوائی کا استعمال نہیں کرتا اس آنکھ کی نظر دوسری سے تیز ہو گئی ہے.الفضل 9.اکتوبر 1922 ء صفحہ 5 129 29.دسمبر 1922ء فرمایا : آج رات میں نے عجیب خواب دیکھی.چند ماہ ہوئے میں نے اس مضمون پر ایک خطبہ پڑھا لیکن اب ذہن میں بالکل نہ تھا اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر اس رؤیا کا ہونا خدائی تحریک ہے کہ میں آپ لوگوں کو اس طرف متوجہ کروں.جب میں نے یہ خواب دیکھی تو میں نے اس کی اسی خطبہ کے مطابق تعبیر کی ہے چونکہ اس امر کا جماعت سے تعلق ہے اس لئے میں سنا دیتا ہوں.میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان سترہ اٹھارہ برس کا ہے نہایت خوبصورت ایسا جیسا کہ مشہور ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام بینظیر خوبصورت تھے.وہ نوجوان باہر سے آیا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سے میری ذاتی دوستی ہے یہ نہیں کہ وہ احمد ی ہے بلکہ دوست معلوم ہو تا ہے.اس سے احمدیت کا سوال پیدا نہیں ہو تا مگر اس کی حالت یہ ہے کہ جو اس سے ملتا ہے خوش ہو جاتا ہے وہ میرے ساتھ لگ کر بیٹھا ہوا ہے.اس وقت میں نے دیکھا کہ ہمارے خاں صاحب ذوالفقار علی خاں صاحب آئے ہیں ان کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی ہے اور وہ حیران ہیں.میں
75 ان کو اس کے متعلق سناتا ہوں کہ یہ میرے دوست ہیں اور مجھ سے ملنے کے لئے آئے ہیں اور مجھ سے چھٹے ہوئے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ یکدم ان میں بھی ایک تغییر آیا اور وہ سترہ اٹھارہ برس کی عمر کے نوجوان ہو گئے ہیں وہ اس سے ملے ہیں اور ان کی یہ حالت ہوئی ہے کہ گویا وہ خوشی سے اچھلنے لگ گئے ہیں.میں نے اس کو کہا کہ میرے ساتھ بیٹھ کر سناؤ کہ تم کہاں کہاں گئے.پھر میں خاں صاحب سے کہتا ہوں کہ یہ عجیب شخص ہے جہاں یہ ہو لوگ اس کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں میں ان کو یہ حال سناتا ہوں اور خوش ہوں.آخر قادیان کے مرد اور بچے سب لوگ اس پر لٹو ہوئے جاتے ہیں اور اس سے اس طرح محبت کرتے ہیں جس طرح میں کرتا ہوں.اس وقت میں نے کہا اس کا نام ”موانست" ہے اور لوگوں سے ملنا اور ان سے محبت کرنا ہے.اس نظارے کا مجھ پر ایسا اثر تھا کہ میں نے اسی وقت اپنے گھر والوں کو جگایا اور ان کو سنایا تاکہ میں بھول نہ جاؤں اس وقت میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ لوگوں سے ملنا جلنا اور محبت کرنا مجھے مجسم کر کے دکھایا گیا ہے.لڑکے سے مراد وہ ملنے جلنے کی صفت تھی جو خوبصورت نوجوان کی صورت میں دکھائی گئی جو لوگوں سے محبت کرتا ہے اور ہنس مکھ چہرے سے ملتا ہے اس کے گرد لوگ جمع ہو جاتے ہیں.جو چڑ چڑا ہو اس سے لوگ بھاگتے ہیں اس کے ساتھ خان صاحب کے نوجوان ہونے کے یہ معنے ہیں کہ یہ صفت جس کے اندر رہتی ہے وہ بوڑھا ہو کر بھی جو ان ہی ہوتا ہے.الفضل.جنوری 1923ء صفحہ 9 130 1923 1922 فرمایا : مجھے اپنا ایک رویا یاد آگیا 1922 ء یا 1923 ء کی بات ہے میں سویا ہوا تھا کہ میں نے دیکھا ایک جگہ آگ لگ گئی ہے.میں اسے بجھانے کے لئے اٹھا تو میں نے دیکھا ایک اور طرف سے بھی آگ کے شعلے نکلنے شروع ہو گئے ہیں.میں دوڑ کر اسے بجھانے کے لئے گیا تو کیا دیکھتا ہوں تیسری طرف بھی آگ لگ گئی ہے اور وہ آگ دوسری آگ سے بھی زیادہ بھڑکنے والی ہے یہ دیکھ کر میں اس آگ کی طرف اسے بجھانے کے لئے بھا گا تو دیکھا کہ چوتھی طرف بھی آگ لگی ہوئی ہے اور پہلی تینوں آگوں سے زیادہ تیز ہے.یہ دیکھ کر میں خواب میں سخت گھبرا گیا اور میں کہتا ہوں نہ معلوم اب کیا ہو گا آگ ہر طرف لگ رہی ہے اور اس کا ہر شعلہ پہلے شعلوں سے
76 زیادہ تیز ہے میں اسی گھبراہٹ کی حالت میں حیران ہو کر کھڑا تھا کہ میں نے دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور آپ نے پوچھا تم یہاں کیوں کھڑے ہو میں نے کہا حضور چاروں طرف آگ لگی ہوئی ہے میں ایک جگہ کی آگ بجھاتا ہوں تو دوسری جگہ نکل آتی ہے اور ہر آگ پہلی آگ سے زیادہ تیز ہے جو کسی طرح سمجھنے میں نہیں آتی.آپ نے فرمایا یہ آگ یوں نہیں مجھے گی اس آگ کی ایک کنجی ہے جو میں تمہیں بتاتا ہوں چنانچہ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے زمین میں ایک سوراخ دکھایا اور فرمایا.یہ اس آگ کی کنجی ہے پھر آپ نے اشارہ کیا کہ اس سوراخ کو بند کر دو.اس پر میں نے اس سوراخ کو زور سے دبا دیا اور میں نے دیکھا کہ جونہی میں نے سوراخ کو دبایا تمام آگیں بجھ گئیں اور کوئی شعلہ باقی نہ رہا.یہ نظارہ جو میں نے 1922ء یا 1923ء میں دیکھا تھا در حقیقت ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں بچوں اور بوڑھوں کی عملی زندگی کا ایک نظارہ تھا.الفضل 2.جون 1936ء صفحہ 5.نیز دیکھیں.الفضل 18 جون 1936 ء صفحہ 10 و 10.مئی 1944 ء صفحہ 5.4 19.جون 1951ء صفحہ 5 الفضل 18.جون 1958ء صفحہ 3 131 21 نومبر 1923ء فرمایا : میں نے جو آج یہ خطبہ پڑھا ہے یہ ایک رویا کی بناء پر پڑھا ہے جو میں نے پرسوں دیکھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا پر کوئی اور عذاب آنے والا ہے اور قریب کے زمانے میں آنے والا ہے.میں نے دو نظارے دیکھے ہیں.اول میں نے ایک مریض کو دیکھا جس کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ طاعون کا مریض ہے.پھر ایسا معلوم ہوا کہ ہم کچھ آدمی ایک گلی میں سے گذرے ہیں ہمیں ایک شخص کہتا ہے پرے ہٹ جاؤ یہاں بھینسیں گذرنے والی ہیں.ایسا معلوم ہوا کہ گویا گلی کے پاس ایک کھلا میدان ہے جس کے ارد گرد احاطہ کے طور پر دیوار ہے اور ایک طرف دروازہ بھی ہے جس کو کو اڑ نہیں ہیں اور میں اور میرے ساتھی اس دروازے میں داخل ہو گئے ہیں.ہم نے گلی میں سے گذرنے والی بھینسوں کو دیکھا کہ وہ مارنے والی بھینسوں کی طرح گردن اٹھا کر دوڑتی چلی آتی ہیں میں نے انتظار کیا کہ وہ گذر جائیں لیکن اتنے میں ہمیں بتایا گیا کہ وہ اس گلی سے نہیں دوسری سے گذر گئیں.
77 تعبیر الرویا میں بھینس کی تعبیر و بایا بیماری ہوتی ہے اور طاعون سے مراد بھی عام بیماری یا کوئی وہا ہوتی ہے اور طاعون بھی ہو سکتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عنقریب اس رنگ میں کوئی اور نشان ظاہر ہو گا.الفضل 30 نومبر 1923 ء صفحہ 7 - نیز دیکھیں.الفضل 18.نومبر 1924ء صفحہ 8 و 19.مارچ 1925ء صفحہ 8 و 15 جون 1928ء صفحہ 8 و 4.مارچ 1927ء صفحہ 5 اور الفضل -2 ستمبر 1930ء صفحہ 8 و احمدیت یعنی حقیقی اسلام صفحہ 119 - 120 132 $1923 فرمایا : مفتی * صاحب (مفتی محمد صادق صاحب ناقل) جب امریکہ سے واپس آئے تھے تو اس وقت میں نے رویا میں دیکھا کہ میں کہتا ہوں اب مفتی صاحب اور مولوی شیر علی صاحب کو باہر نہیں جانے دوں گا.رویا میں گو یہ میرا اپنا فقرہ تھا مگر رویا کے اس قسم کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں یہ کام اس قسم کا ہے کہ اگر وہ قلیل سے قلیل عرصہ اس کام میں لگا کر واپس آجائیں تو ان کا وہاں کا قیام بھی قادیان کا قیام سمجھا جائے گا.الفضل 29.فروری 1936ء صفحہ 6 28.دسمبر 1923ء 133 فرمایا : چونکہ میں نے تقریر کے نوٹ پہلے نہیں لکھے تھے اس لئے کل یہاں سے جا کر رات کو دو بجے تک لکھے.صبح کے قریب مجھے رویا ہوئی کہ کچھ روٹیاں ہیں جو ٹوٹی پڑی ہیں.میں ناشتہ کرنا چاہتا ہوں مگر خیال آیا گھر کی عورتیں تو جلسہ کے انتظام کے لئے چلی گئی ہیں پھر کس طرح ناشتہ کروں.اس پر میں نے وہی ٹکڑے لئے کہ ان کا ناشتہ کرلوں.میں انہیں ایک کپڑے میں لپیٹ کر باندھ رہا تھا کہ ایک بڑھیا آئی جو نہایت مکروہ شکل کی تھی اور وہ اس کپڑے کے اندر کوئی چیز رکھنا چاہتی تھی میں نے اسے روکا کہ نہیں رکھنے دوں گا مگر میں جو گرہ دے رہا تھا وہ کھل گئی اور روٹیاں تنگی ہو گئیں.ان پر پیاز رکھا ہوا تھا اور گٹھے تو نیچے گر گئے چھ (۶) چھوٹے چھوٹے ٹکڑے باقی رہ گئے.مجھے پیاز سے سخت نفرت ہے مگر اس وقت میں پیاز سے ہی روٹی کھانے کے حضرت مفتی صاحب 4 - دسمبر 1923ء کو امریکہ سے واپس قادیان تشریف لائے (ناقل)
78 لئے تیار ہو گیا.اس وقت کیا دیکھتا ہوں کہ تین مولیاں پڑی ہیں اور پھر ایک بڑھیا آگئی.یہ نہیں معلوم ہوا کہ وہ پہلی ہی ہے یا کوئی اور مگر تھی وہ بھی سخت مکروہ شکل.وہ مجھ سے مولیاں لیتا چاہتی ہے.میں نے کہا کیوں لیتی ہو یہ تو ہمارے کھیت سے آئی ہیں.وہ کہتی ہے میں نے محنت کی ہے اگر یہ تم لینا چاہتے ہو تو مجھے مزدوری دے دو.میں نے کہا سکہ رائج الوقت میں سے ایک دھیلہ مزدوری دوں گا.اس نے کہا یہ بہت کم ہے لاہور میں تو بہت زیادہ محنت ملتی ہے.میں نے کہا وہ شہر ہے اور یہ گاؤں ، اچھا ایک پیسہ لے لو.وہ کہتی ہے ایک روپیہ دو اور پھر کہتی ہے اچھا چار آنے دے دو.لیکن میں نے دینے سے انکار کر دیا اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.مولی غم پر دلالت کرتی ہے اور کھیت سے اکھیڑنے کا مطلب جماعت سے جدا کرنا ہے لیکن اس رویا سے سمجھا تھا کہ تین آدمیوں کا صدمہ ہونے والا ہے.صبح میں نے تعبیر نامہ نکالنے کے لئے کہا اس کی ابھی تلاش ہی ہو رہی تھی کہ رقعہ آیا بابو محمد یوسف صاحب ملتے نہیں.پھر رقعہ آیا کہ فوت ہو گئے ہیں پھر ایک اور رقعہ آیا جو ایک ایسے دوست کی طرف سے تھا جس سے مجھے بچپن سے تعلق رہا ہے کہ انہیں تار آیا ہے ان کی بیوی سخت بیمار ہے.پھر میں جلسہ کے لئے آرہا تھا تو معلوم ہوا کہ ایک دوست جو علاقہ ملکانہ میں تبلیغ کے لئے گئے ہوئے ہیں ان کا بچہ فوت ہو گیا ہے.یہ دو واقعے تو موت کے ہو گئے تیسری جو بیماری کی تار آئی ہے دوست اس کی صحت کے لئے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اس حادثہ کو ٹلا دے.لیکچر نجات ( تقریر 28.دسمبر 1923ء) (غیر مطبوعہ) 1924 1923 134 فرمایا : 1923ء یا 1924ء میں میں نے مہاراجہ صاحب کشمیر کے متعلق رویا دیکھا اور متواتر دو دن دیکھا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب میں سیاسیات کے ساتھ پٹیالہ اور کشمیر کا تعلق رہا ہے.الفضل 11 اپریل 1947 ء ( ڈائری مرتبہ عبد الواحد صاحب آف کشمیر) اس تقریر کا مسودہ خلافت لائبریری میں موجود ہے (مرتب)
79 135 اوائل 1924ء حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ مرحومہ سے کہا.یہ خوش خبری سن لو کہ تمہارے ہاں لڑکا ہو گا جو بہت با اقبال ہو گا.پہلے اس سے لڑکیاں ہوئی تھیں مگر اس ماہ جس میں یہ گفتگو ہوئی حمل ہوا اور لڑکا پیدا ہوا جس کا نام خلیل احمد رکھا گیا.الفضل 18 اپریل 1925ء صفحہ 5 $1924 136 فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا اور خواب میں ہی مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گویا یہ بیداری کا واقعہ ہے.مجھے ایسا محسوس ہوا کہ چھت پر کوئی آدمی ہے میں نے خواب میں ہی اپنی بیوی کو جگایا.مجھے اس وقت محسوس ہوا کہ گویا چور پھرتا ہے پھر میں نے میاں بشیر احمد صاحب کے گھر کی طرف سے روشنی آتی دیکھی جیسے کوئی لائینیں لے کر سیڑھیوں پر چڑھا ہے.اس کے بعد مجھے شور کی آواز معلوم ہوئی اور میں نے غور سے سناتو یوں معلوم ہوا کہ جیسے کہیں آگ لگی ہوئی ہے اور شور وہاں سے آتا ہے.اٹھ کر باہر گیا تو معلوم ہوا کہ جیسے میاں شریف احمد صاحب کے گھر کی طرف جہاں مولوی رحیم بخش صاحب رہتے ہیں آگ لگی ہوئی ہے.اس مکان میں ایک دفعہ پہلے بھی آگ لگی تھی اور میں خواب میں اس امر کو یاد کر کے کہتا ہوں یہیں پھر آگ لگی ہے.میں اس طرف جانا چاہتا ہوں اور راستے وغیرہ اجنبی معلوم دیتے ہیں.اس وقت میں نے مولوی رحیم بخش صاحب کو ایک سکیم بتائی کہ آگ بجھانے کا انتظام اس طرح کرنا چاہئے.جس راستہ پر میں اب مکان کی تلاش میں گیا ہوں اس پر جا کر مجھے اس مکان کا پتہ نہیں ملا اور میں پھر سڑک کی طرف واپس آگیا ہوں اتنے میں مجھے ایسا نظر آیا کہ حضرت صاحب جارہے ہیں اور شاید آپ کے ساتھ حافظ حامد علی مرحوم ہیں.مجھے خیال آیا کہ آپ کے پیچھے جاؤں تو وہاں پہنچ جاؤں گا جس راستہ پر سے ہو کر آپ جارہے ہیں ایسا ہے جیسا شہر کی بہت آباد حصہ کی سڑک ہوتی ہے اور بہت کوڑا اور کرکٹ اور کیچڑ ہے.کچھ دور جانے کے بعد آپ غائب ہو گئے اور میں نے سمجھا کہ اس جگہ کے پاس آگ لگی ہوئی ہوگی (گویا آپ راستہ دکھانے آئے تھے) جب میں آگے بڑھا تو میں
80 80 نے وہ مکان دیکھ لیا جس کو آگ لگی ہوئی ہے.ایسا معلوم ہو تا ہے جیسے کوئی بنک یا منڈی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہماری نہیں بلکہ لوگوں کی ہے.میں اس کو دیکھ کر کہتا ہوں کہ یہاں تو آگ لگنی ہی تھی.اس کے بعد وہاں اس طرح کھڑا ہو گیا ہوں جس طرح انسان کسی عجیب نظارہ کو دیکھ کر کھڑا ہو جاتا ہے.اتنے میں ایک شخص نے ایک سکہ میری جیب میں ڈالا.اس نے پشت کی طرف سے ڈالا تھا مگر اس وقت جو اس اتنے تیز تھے کہ مجھے نظر آگیا میں نے اس کو پکڑلیا اور کہا کہ تو جھوٹا سکہ میری جیب میں ڈال کر مجھے پکڑوانا چاہتا تھا اور کچھ پولیس مین جو اس آگ کی وجہ سے ہی وہاں جمع ہیں ان میں سے ایک کو بلا کر اس کو پکڑوا دیا.اس کے بعد کچھ اور نظارہ جو اسی تسلسل میں تھا جس کا بیان کرنا مناسب نہیں دیکھا اور اس کے بعد آنکھ کھل گئی ہے.الفضل 5.فروری 1924ء صفحہ 5 137 $1924 فرمایا : میرے نزدیک غیر مبائین کا جنازہ پڑھنا جائز ہے میں نے شیخ رحمت اللہ صاحب کا جنازہ پڑھا تھا میں نے رویا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان پر ناراض دیکھا.میں نے متواتر دیکھا کہ حضرت صاحب ان کی طرف ناراضگی کی وجہ سے نہیں دیکھتے اور یہ بتایا گیا کہ ان کو غلطی لگی ہوئی ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی خدمت دین ہے.ان کی وفات کے متعلق بھی اللہ تعالی نے مجھے بتایا تھا میں نے ان کے مرنے سے پہلے رویا میں دیکھا.وہ آئے ہیں اور مجھے کہتے ہیں چلو صلح کی تدبیر نکالی ہے.میں ان کے ساتھ چلا گیا اور لوگ بھی تھے مولوی محمد علی صاحب بھی تھے.باتیں ہونی شروع ہوئیں.مولوی محمد علی صاحب نے کچھ ایسی باتیں کیں جن معلوم ہو تا تھا کہ صلح نہیں ہو سکتی.شیخ صاحب اس پر ایک طرف کونے میں جابیٹھے.ان کا چہرہ افسردہ ہو گیا اور کہنے لگے اچھا آپ لوگوں کی مرضی.زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہم مر گئے تو ہمارے بچے بھی احمدی نہیں رہ سکتے.میں نے یہ خواب اس وقت بعض دوستوں کو سنائی تھی.اس سے معلوم ہو تا تھا کہ شیخ صاحب اب فوت ہو جائیں گے حالانکہ جو مرض ان کو تھی وہ کوئی ایسی خطرناک صورت میں نہ تھی.الفضل 16.فروری 1926ء صفحہ 8
81 138 $1924 فرمایا : میں نے کئی رویا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا کہ وہ دوسرے لوگوں کی طرف سے منہ پھیرے ہوئے ہیں لیکن شیخ رحمت اللہ صاحب کی طرف کنکھیوں سے محبت سے دیکھ رہے ہیں ان کے متعلق میں نے بھی ایک رویا دیکھا تھا جو اس بات پر دلالت کرتا تھا کہ وہ ٹھو کر کھا جائیں گے.الفضل 31.جولائی 1949ء صفحہ 5 $1924 139 شیخ رحمت اللہ صاحب کے نام ایک مکتوب میں لکھا.میں نے بارہا حضرت مسیح کو رویا میں دیکھا ہے اور معلوم کیا ہے کہ جہاں وہ میرے بعض مخالف لوگوں پر ناراض ہیں آپ سے کم ناراض ہیں صرف دوستانہ گلہ آپ سے رکھتے ہیں.مجھے بعض اور خوابوں سے بھی آپ کے دل کی حالت بعض دوسرے لوگوں کی نسبت اچھی دکھائی گئی ہے.فرمایا.میں نے آپ کی دلی خواہش اور غالبا آپ کی بیماری کو پچھلے دنوں ایک رؤیا کے ذریعہ معلوم کیا تھا جو مفتی صاحب کو میں سنا چکا ہوں.غالبا ان کو یاد ہو گی.(الفضل 14 مارچ 1924ء صفحہ 1) 1924 140 فرمایا : یہ رویا اسی سال کی ہے مگر ولایت جانے کی تحریک سے دو تین ماہ پہلے کی ہے یہ خواب بھی میں نے اسی دن دوستوں کو سنادی تھی جن میں سے ایک مفتی محمد صادق صاحب بھی ہیں.میں نے دیکھا کہ میں انگلستان کے ساحل سمندر پر کھڑا ہوں جس طرح کہ کوئی شخص تازه وارد ہوتا ہے اور میرا لباس جنگی ہے میں ایک جرنیل کی حیثیت میں ہوں اور میرے پاس ایک اور شخص کھڑا ہے اس وقت میں یہ خیال کرتا ہوں کہ کوئی جنگ ہوئی ہے اور اس میں مجھے فتح ہوئی ہے اور میں اس کے بعد میدان کو ایک مدبر جرنیل کی طرح اس نظر سے دیکھ رہا ہوں کہ اب مجھے اس فتح سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کس طرح حاصل کرنا چاہئے.ایک لکڑی کا موٹا شہتیر زمین پر
89 82 کٹا ہوا پڑا ہے ایک پاؤن میں نے اس پر رکھا ہوا ہے اور ایک پاؤں زمین پر ہے جس طرح کوئی شخص کسی دور کی چیز کو دیکھنا چاہے تو ایک پاؤں کسی اونچی چیز پر رکھ کر اونچا ہو کر دیکھتا ہے اسی طرح میری حالت ہے اور جسم میں عجیب چیستی ہے اور سکی پاتا ہوں جس طرح کہ غیر معمولی کامیابی کے وقت ہوا کرتا ہے اور چاروں طرف نگاہ ڈالتا ہوں کہ کیا کوئی جگہ ایسی ہے جس طرف مجھے توجہ کرنی چاہئے کہ اتنے میں ایک آواز آئی جو ایک ایسے شخص کے منہ سے نکل رہی ہے جو مجھے نظر نہیں آتا مگر میں اسے پاس ہی کھڑا ہوا سمجھتا ہوں اور یہ بھی خیال کرتا ہوں کہ یہ میری ہی روح ہے گویا میں اور وہ ایک ہی وجود ہیں اور وہ آواز کہتی ہے ولیم دی کنگر زیعنی ولیم فاتح.ولیم ایک پر انا بادشاہ ہے جس نے انگلستان کو فتح کیا تھا اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.جب میں نے دوستوں کو یہ خواب سنائی تو مفتی صاحب نے ولیم کے معنی لغت انگریزی سے دیکھے اور معلوم ہوا کہ اس کے معنے ہیں.پختہ رائے والا.پکے ارادے والا یا دوسرے لفظوں میں اولو العزم پس گویا ترجمہ یہ ہوا اولوا العزم فاتح.ان خوابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغربی ممالک کے لئے ایک نیک ارادہ مقدر ہے اور یہ کہ غالبا وہ کسی میرے سفر کے ساتھ وابستہ ہے.غالباً اس لئے کہ بعض دفعہ خواب میں جس شخص کو دیکھا جائے اس کے قائم مقام مراد ہوتے ہیں مگر باوجود ان خوابوں کے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نتائج اس سفر کے معا ساتھ وابستہ ہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ بیج سفر میں بویا جائے.نتیجہ بعد میں نکلے.الفضل 24 جون 1924 ء صفحہ 5.نیز دیکھیں.الفضل 4.اکتوبر 1924 ء صفحہ 3 و 18 - اکتوبر 1924 ء صفحہ 8 و 8.نومبر 1924ء صفحہ 8 و 18.نومبر 1924ء صفحہ 8 و 4 - دسمبر 1924ء صفحہ 5 اور تفسیر کبیر جلد چهارم صفحه 301 141 $1924 فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے پہلے ہی بشارت دی تھی کہ میرے ولایت جانے سے اسلام کی فتوحات شروع ہوں گی.بعض دوستوں نے کہا بھی کہ میرے وہاں جانے سے کیا ہوا حالا نکہ اول تو جماعت نے ہی مجھے وہاں بھیجا تھا.میں خود اپنے ارادے سے وہاں نہیں گیا تھا بلکہ مجھے تو خواب میں بعض مصائب و مشکلات بھی دکھائے گئے جو میری غیر حاضری میں ہمارے خاندان میں پیدا
83 ہونے والے تھے لیکن باوجود اس کے جماعت کی کثرت رائے دیکھ کر میں وہاں گیا اور پھر میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ جماعت یہ خیال نہ کرے کہ میرے وہاں جاتے ہی احمدی ہونا شروع ہو جائیں گے.میں تو وہاں تبلیغ کے لئے حالات دیکھنے جاتا ہوں پھر بعد کے حالات سے معلوم ہوا کہ میرے جانے میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ وہ فتوحات جو میرے وہاں جانے کے نتیجہ میں اب شروع ہوئی ہیں وہ کسی اور شخص کی طرف منسوب نہ ہوں اور اسلام پر کسی خاص شخص کا احسان نہ ہو بلکہ براہ راست حضرت مسیح موعود کی طرف منسوب ہوں.الفضل 14.جنوری 1927ء صفحه 4 142 $1924 فرمایا جب میں نے اس قسم کی بار بار خواہیں دیکھیں تو اس وقت میں نے دعا کی کہ الہی ! حالات اس قسم کے ہیں کہ جو غم دینے والے اور صدمہ پہنچانے والے ہیں اور لوگ ان حالات سے واقف نہیں اور تفصیل کے ساتھ میں بتا بھی نہیں سکتا کیونکہ خوابوں کو تفصیلاً بیان کرنا منع ہے.ایسی حالت میں اگر میں سفریورپ کی تیاری نہیں کرتا تو لوگ شاید یہ کہیں کہ ایک لمبے سفر کی صعوبت سے بچنا چاہتا اور اپنے آرام اور آسائش کو مقدم کرتا ہے جس کا اثر یہ ہو کہ پھر ساری کی ساری قوم بزدل ہو جائے اور کہہ اٹھے کہ خلیفہ کو ایک موقع دین کے لئے باہر جانے کا پیش آیا تو وہ گیا نہیں پھر ہم کیوں جائیں اور اگر تمام حالات اور مشکلات کو نظر انداز کر کے دور دراز کا سفر اختیار کرتا ہوں تو ممکن ہے لوگ یہ کہیں کہ یہ تو سیر و سیاحت کے لئے جاتا ہے اور میں ان حالات کو کھول کر پتا بھی نہیں سکتا اور ان کو میرے حال کی کیا خبر.اگر وہ مشکلات جو مجھے در پیش ہیں ان کو بھی درپیش ہوں تو وہ کبھی ایسے سفر کی جرات نہ کریں.جب میں نے دعا کی تو اس شب میری زبان پر یہ کلام جاری ہوا.قُلْ إِنَّ صَلوتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کہ میری زندگی اور موت تو سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہے یعنی ان باتوں کی کچھ پروا نہ کرو.تمہاری زندگی بھی خدا کے لئے ہو اور اگر اس کے لئے موت بھی آجائے تو اس کو بھی برداشت کرو اور جو کام خدا تعالیٰ کی طرف سے پیش آیا ہے اس کو پورا کرو تب میں نے اللہ تعالیٰ کی
84 مشیت کو معلوم کر کے اس سفر کو اختیار کیا.الفضل 25.دسمبر 1924ء صفحہ 6 یت کو معلوم کرکے ا 28.مئی 1924ء 143 فرمایا : ایک دفعہ پادری زویمر * قادیان آیا اس نے حضرت مصلح موعود سے تین چار سوالات کے جواب طلب کئے آپ فرماتے ہیں.”اس نے تین سوال کئے اور تینوں سوالات کے متعلق قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے القاء کر کے مجھے بتادیا کہ ان کا ان سوالات سے اصل غشاء کیا ہے اور باوجود اس کے کہ وہ چکر دے کر پہلے اور سوال کرتا تھا پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اس کا منشاء مجھے پر ظاہر کر دیا اور وہ بالکل لاجواب ہو گیا".الفضل 18 - اپریل 1942ء صفحہ 8 $1924 144 فرمایا : پیشتر اس کے کہ میں سفر یورپ کے لئے رخصت ہو تا.میں نے دعا اور استخارہ کیا جس میں مجھے بتلایا گیا کہ میری دو بیویوں کو بعض صدمات پہنچنے والے ہیں.چنانچہ استخارہ کے دنوں میں بھی میں نے رویا دیکھیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ کچھ ابتلاء اور مصائب پیش آنے والے ہیں.استخارہ کے ایام میں میں نے دیکھا کہ مکان گر رہے ہیں.بڑا سخت دھماکا ہوا اور بجلی کی طرح آواز آئی جب میں نے دیکھا تو وہ میری پہلی اور دوسری بیوی کے مکان تھے جو دھڑا دھڑ گر رہے ہیں اور ابھی یہ نظارہ میں دیکھ رہا تھا کہ یک لخت وہ مکان بنے بھی شروع ہو گئے اور پہلے سے بہت زیادہ عمدہ اور اعلیٰ بنے ہیں.ایک مکان کی تیاری میں تو کچھ آدمی کام کرتے نظر آتے ہیں اور ایک بغیر آدمیوں کی مدد سے تیار ہو رہا ہے.وہ مکان جو بغیر آدمیوں کی مدد کے بنا ہے وہ میری دوسری بیوی کا مکان تھا اور اس میں اس کی وفات کی خبر دی گئی تھی اور جس میں آدمی کام کر رہے تھے جن میں ایک شیخ عبدالرحمان قادیانی تھے اور ایک شیخ فضل الہی.وہ میری پہلی بیوی کا مکان تھا.یہ نام بھی بہت عمدہ ہیں جو خدا کے فضل اور رحم پر دلالت کرتے ہیں.اس میں کسی
85 ایسی تکلیف کی طرف اشارہ تھا جس کے ازالہ کے لئے انسانی کوشش اور سعی کو دخل ہے چنانچہ کل میری بیوی کا لڑ کا فوت ہو گیا اور لڑکوں کا قائم مقام مائیں ہو سکتی ہیں لیکن ماؤں کے قائم مقام بچے نہیں ہو سکتے اس لئے مجھے دوسری بیوی کے مکان کی تیاری میں آدمیوں کو کام کرتے نہیں دکھایا گیا اس کی تیاری محض خدا کے فضل پر منحصر ہے یہ رویا جس دن میں نے دیکھی اسی روز میں یہ نے اپنی دوسری بیوی کو سنا بھی دی اور اسی کے گھر میں میں نے یہ خواب دیکھی تھی اور بھی کئی رو یا ان مصائب اور مشکلات کے متعلق ہوئیں.الفضل 25.دسمبر 1924ء صفحہ 5-6 145 اگست 1924ء فرمایا : جب ہم دمشق گئے تو اول تو ٹھرنے کی جگہ ہی نہ ملتی تھی مشکل سے انتظام ہوا مگر دو دن تک کسی نے کوئی توجہ نہ کی.میں بہت گھبرایا اور دعا کی کہ اے اللہ ! پیشگوئی جو دمشق کے متعلق ہے کس طرح پوری ہو گی.اس کا یہ مطلب تو ہو نہیں سکتا کہ ہم ہاتھ لگا کر واپس چلے جائیں تو اپنے فضل سے کامیابی عطا فرما.جب میں دعا کر کے سویا تو رات کو یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہو گئے.عَبْدٌ مُكَوم یعنی ہمارا بندہ جس کو عزت دی گئی اس سے میں نے سمجھا کہ تبلیغ کا سلسلہ یہاں کھلنے والا ہے چنانچہ دوسرے ہی دن جب اٹھے تو لوگ آنے لگے یہاں تک کہ صبح سے رات کے بارہ بجے تک دو سو سے بارہ سو تک لوگ ہوٹل کے سامنے کھڑے رہتے.الفضل 4.دسمبر 1924ء صفحہ 6 $1924 146 فرمایا ایک دفعہ میں روزے میں تھا اور مجھے پیاس کی سخت تکلیف تھی جب وہ تکلیف حد سے بڑھ گئی تو میں نے دعا کی اور میں نے دیکھا کہ معا ایک غنودگی کی حالت مجھ پر طاری ہوئی اور ایک پیاس بجھانے والی چیز میرے منہ میں ڈالی گئی.یہ کیفیت ایک سیکنڈ کی تھی اس کے بعد وہ حالت بدل گئی اور میں نے دیکھا کہ وہ پیاس کی حالت جاتی رہی اور یوں معلوم ہوا کہ جس طرح خوب پانی پی لیا ہے.احمدیت یعنی حقیقی اسلام.صفحہ 244 - 245
86 فرمایا : سخت گرمی کے ایام تھے اور میں نے روزہ رکھا ہوا تھا اس دن مجھے روزہ سے اتنی سخت تکلیف ہوئی کہ میں بے تاب ہو گیا اس بے تابی کی حالت میں مجھ پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور میں نے دیکھا کہ ایک شخص نے میرے منہ میں پانی ڈال دیا ہے جس میں کچھ مٹک بھی ہے.جب یہ حالت جاتی رہی اور آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ مشک کی میرے منہ سے خوشبو آرہی تھی اور اس کی تراوت میرے رگ وریشہ میں ایسی اثر کر گئی تھی کہ پیاس کا نام و نشان تک نہ تھا.الفضل 3.اکتوبر 1958ء صفحہ 6.نیز دیکھیں.تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 194 - الفضل 15.جنوری 1947ء صفحہ 3 - 2 $1924 147 فرمایا : میر صاحب میر ناصر نواب صاحب ناقل) کو تندرست دیکھا جس کے معنے موت کے ہیں کیونکہ بڑھاپے سے تندرستی بعد الموت ہی حاصل ہو سکتی ہے الفضل 25.دسمبر 1924ء صفحہ 8 1924 148 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میری ایک بائیں داڑھ ہل گئی ہے اور تعبیر میں داڑھ سے مراد عورت ہوتی ہے.الفضل 25 دسمبر 24 صفحہ 6 $1924 149 فرمایا : جہاز میں ایک عورت کی زور زور کے ساتھ چیخوں کی آواز سنی اور وہ تاریخ وہی تھی جس میں میری دوسری بیوی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا.میں نے جہاز کے سوراخوں سے دیکھا کہ کیا کوئی جہاز آ رہا ہے جس سے یہ آواز آئی یا کوئی خشکی قریب ہے لیکن سمندر میں بالکل خاموشی تھی اور سینکڑوں میل تک اس تاریخ کو کوئی جہاز نہ تھا اور خشکی بھی ایک طرف تو سینکڑوں میل اور دوسری طرف ہزاروں میل دور تھی تب میں نے سمجھا کہ کوئی حادثہ ہوا ہے یا ہونے والا ہے.میں نے حافظ روشن علی صاحب سے بھی اس واقعہ کا ذکر کیا کہ اس طرح تین چار دفعہ میں نے چیخوں کی آواز سنی ہے اور یہ بھی حافظ صاحب سے میں نے کہہ دیا تھا کہ آواز عورت کی تھی.الفضل 25 - دسمبر 1924 ء صفحہ 6.نیز دیکھیں.الفضل 3.جنوری 1925ء صفحہ 8
87 150 غالبا 8 دسمبر 1924ء فرمایا : وفات (حضرت سیدہ امتہ الحی مرحومہ کی وفات.ناقل) سے دو دن پہلے دیکھا کہ حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول تشریف لائے ہیں اور میرے پاس چارپائی پر بیٹھ گئے ہیں.ان کا رنگ بالکل زرد ہے آپ نے میرے پاؤں کی جراب کو پکڑا اور فرمایا.یہ جراب تو بالکل بوسیدہ ہو گئی ہے پھر اس میں سے ایک دھاگا نکالا اور اسے ذرا کھینچا تو وہ بالکل ٹوٹ گیا اور کچھ روئی سی نکل آئی اور فرمانے لگے یہ تو بالکل بوسیدہ ہے دیکھو اس کے تو تاگے بھی اب بوسیدہ ہو گئے ہیں.میں نے کہا کہ اس کا یہاں علاج نہیں ولایت میں تو اس کا علاج ہو سکتا ہے.اس سے بھی میں نے یہی نتیجہ نکالا کہ وفات کے دن اب بالکل تقریب معلوم ہوتے ہیں.مولوی صاحب پر بھی اس واقعہ کا اثر ہوا ہو گا جو ان کے زرد رنگ سے معلوم ہوتا ہے جراب سے مراد بیوی ہی تھی جو اس حد تک کمزور ہو گئی تھی کہ اب وہ بچ نہیں سکتی ہاں یہ معلوم ہو تا ہے کہ ولایت میں ایسی امراض کا علاج ہو سکتا ہے یا شاید اس کا کوئی اور مفہوم ہو.(الفضل 3- جنوری 1925ء صفحہ 8) دسمبر 1924ء 151 فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک عورت فوت ہو گئی ہے اور میں جنوب کی طرف دوڑا ہوں.وہاں دیکھا کہ میر صاحب (مرحوم) لیٹے ہوئے ہیں اور وہاں کچھ شور ہو رہا ہے اور میں منع کر رہا ہوں کہ میر صاحب ضعیف اور کمزور ہیں ان کو تکلیف ہو گی تب میر صاحب اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہا نہیں.میں تو بالکل اچھا اور تندرست ہوں.تب میں نے سمجھا کہ بڑھاپے سے صحت پانا تو اس دنیا کی بات نہیں اور اس عورت کی وفات سے میری بیوی کی طرف اشارہ تھا چنانچہ ان کی قبر بھی میر صاحب کے پاس بنائی گئی.الفضل 25.دسمبر 1924ء صفحہ 6 دسمبر 1924ء 152 فرمایا : میری پہلی بیوی جو ہیں ان کے بچے کی وفات سے چند روز پہلے بھی میں نے ایک رویا
88 دیکھی جو ہمشیرہ اور والدہ صاحبہ کو میں نے سنادی تھی اور بتلایا تھا کہ کوئی پھر غم آنے والا ہے.میں نے دیکھا کہ چوہدری علی محمد صاحب ہو لیں بھون رہے ہیں اور چنے خواب میں غم پر دلالت کرتے ہیں.چنانچہ کل جب بچہ فوت ہوا تو کسی نے مجھے آکر کہا کہ با ہر کوئی آدمی کھڑا ہے میں نے پوچھا کہ کون ہے تو معلوم ہوا چوہدری علی محمد ہے میں نے کہ وہ خواب پوری ہو گئی.(الفضل 25 - دسمبر 1924ء صفحہ 6) فروری 1925ء 153 فرمایا : فروری کے ہی مہینہ میں اس تحریک ( تحریک چندہ خاص.ناقل) سے شائع کرنے سے چند دن بعد جبکہ میں تبدیلی آب و ہوا کے لئے دریا پر گیا ہوا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ چند دوستوں کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہوں.جب میں سلام پھیر کر بیٹھا ہوں تو میں نے دیکھا کہ جی فی اللہ اخویم مکرم ڈاکٹر قاضی کرم الہی صاحب امرتسری جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے احباب میں سے ہیں وہ آگے بڑھے ہیں اور مصافحہ کرتے ہوئے کہتے چلے جاتے ہیں مبارک ہو مبارک ہو اللہ تعالٰی نے آپ کی بات میں بڑی برکت رکھی ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ انہوں نے چندہ خاص کے متعلق یہ فقرات فرمائے ہیں اس کے بعد مجھے ایک کاغذ دکھایا گیا جس پر ایک سو دس ہزار لکھا ہوا ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ چندہ کی مقدار ہے.میں نے اسی دن صبح کی نماز کے بعد یہ خواب اپنے دوستوں کو سنا دی جن میں سے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب شیخ عبد الرحمان صاحب قادیانی اور صوفی عبد القدیر صاحب بی اے کے نام مجھے یاد ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کتنا بڑا نشان ہے کہ دشمنوں کے طعنوں کے باوجود اور دوستوں کی گھبراہٹ کے باوجو د جب اس چندہ کی آخری تاریخ ختم ہوئی ہے تو اس تاریخ تک ایک لاکھ دس ہزار روپیہ آچکا تھا جس کی خواب میں بشارت دی گئی تھی.الفضل 16.جولائی 1925ء صفحہ 2 154 نومبر 1925ء فرمایا : ابھی چند دن ہوئے شاید دس بارہ دن ہوئے ہوں گے میں نے ایک عجیب رویا دیکھی.میں خطبہ پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ جامع مسجد بہت
89 وسیع ہے اتنی وسیع تو نہیں کہ جہاں تک نظر جاتی ہے مگر بہت وسیع ہے دور تک پھیلی ہوئی ہے نمازی بھی بہت کثیر ہیں جن کو میں نے تین نصیحتیں کی ہیں.پہلی تو میں بھول گیا ہوں دوسری یہ کہ جماعت کے لوگوں کو چاہیے مرکزی کاموں میں زیادہ دلچسپی لیں اور تیسری یہ کہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنی آئندہ نسلوں کی صحت کا خیال رکھیں اور نصیحت کرتے ہوئے میں نے یہ الفاظ کے ہیں کہ ہماری آئندہ نسلوں کے لئے ہماری نسبت ہزار گنا زیادہ کام در پیش ہے جس کے اٹھانے کے لئے ان کے کندھے اتنے ہی چوڑے ہونے چاہئیں.یہ خواب ایک بہت بڑی بشارت بھی اپنے اندر رکھتی ہے اور وہ یہ کہ جب ہماری اگلی پود کام کرنے کے قابل ہو گی تو اس وقت جماعت لاکھوں میں سے بڑھ کر کروڑوں تک پہنچ جائے گی مگر اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جسمانی صحت کا بھی خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے.الفضل 15 - دسمبر 1925ء صفحہ 5 8 جنوری 1926ء 155 فرمایا : میں آج صبح نماز کے بعد کچھ دیر کے لئے لیٹ گیا تو میں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا اس کے کئی حصے ہیں لیکن چونکہ میرے نزدیک بعض حصوں کا ایسا بین تعلق جماعت کے ساتھ نہیں ہے اس لئے میں انہیں چھوڑتا ہوں اور صرف اس حصہ کو لیتا ہوں جس کا میرے نزدیک جماعت کے ساتھ تعلق ہے اور جس میں جماعت کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور جس میں جماعت اس کی آئندہ ترقیات کے متعلق بعض باتیں ہیں.ایک لمبی خواب کے دوران میں نے اپنے آپ کو ایک لمبے دالان میں دیکھا جو اتنا ہی لمبا تھا جتنے لمبے دالان بڑے بڑے اسٹیشنوں مثلاً لا ہو ر امر تسر دہلی وغیرہ کے ہیں میں اس میں مل رہا تھا کہ میں نے دیکھا خان صاحب منشی فرزند علی صاحب بھی وہاں آگئے ہیں جو میرے ملنے کو دیکھ کر اور میری حالت پر نظر کر کے اور میرے بعض افکار سے متاثر ہو کر میرے ساتھ ملنے لگ گئے اور مجھ سے دریافت کیا کہ آپ اس طرح کیوں مل رہے ہیں.اس وقت جو خیالات اور افکار میرے قلب میں موجزن تھے میں ان سے متاثر ہو کر جیسا کہ عام قاعدہ ہے کہ جب کوئی انسان نہایت ہی متاثر کر دینے والے افکار اور جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے اور احساسات کو ابھارنے
90 والے خیالات کی ادھیڑ بن میں ہوتا ہے تو بسا اوقات وہ اپنی طاقت کا ایک حصہ جذبات کے دہانے اور ان کے غبار بن کر آنکھوں کے رستہ ٹپک پڑنے کو روکنے کی کوشش میں صرف کرتا ہے لیکن اگر کوئی اور شخص آکر اس سے بات چھیڑ دیتا ہے تو چونکہ اسے اپنی توجہ کا ایک حصہ اس شخص کی طرف لگانا پڑتا ہے اس لئے اس کا اپنی طبیعت پر سے قابو جاتا رہتا ہے اور جونہی وہ اس کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے ہیں.اس وقت میں نے اپنی حالت کو ایسا ہی پایا.میں سمجھا اگر میں ان کے سوال کا جواب دینے لگا تو اس کے ساتھ ہی مجھے اس وقت اپنے نفس پر جو قابو ہے وہ جاتا رہے گا اور جن جذبات کو میں نے روکا ہوا ہے وہ اہل پڑیں گے اور آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑیں گے.یہ خیال کر کے میں نے ان کے سوال کا جواب دینے سے قبل چاہا کہ میں اپنے جذبات کو اس قدر وبالوں اور ان پر اتنا قابو پالوں کہ بغیر آنسوؤں کے ٹیکنے کے ان کو جواب دے سکوں.میں اس کوشش میں تھا کہ میں نے دیکھا ایک تیسرا شخص ہمارے درمیان آگیا اور اس نے بہت جلدی میری حالت کا اندازہ کر کے خان صاحب منشی فرزند علی صاحب کے کان میں کہنا شروع کیا کہ ان کی آنکھوں میں نمی ہے.مجھے اس شخص کی یہ بات بہت بری معلوم ہوئی کیونکہ اس قسم کی حالت بھی ایک راز ہوتا ہے اور مجھے یہ گراں گزرا کہ اس راز کو کیوں ظاہر کر دیا.پھر میں نے خان صاحب منشی فرزند علی صاحب کو جواب دینا شروع کیا میں نے انہیں کہا میرے افکار کا باعث یہ ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی ایک رؤیا دیکھی ہے.اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پرانی رویا ہے جو ایک کاپی میں آج تک پوشیدہ تھی اور اس وقت میں نے دیکھی ہے میں نے انہیں کہا کہ اس رویا کا میرے قلب پر اثر ہے.جو نہی کہ میں یہ بات ان سے کہتا ہوں اور وہ رو یا بیان کرتا ہوں اس رویا کے واقعات ظاہری طور پر آنکھوں کے سامنے سے اس طرح گزرتے جاتے ہیں جس طرح سینما میں تصاویر حرکت کرتی ہیں بعینہ اسی طرح وہ سارا نظارہ جو رویا میں بیان ہوا آنکھوں کے سامنے گزرتا ہے اور اگرچہ میں نے وہ رو یا کسی کاغذ یا کاپی پر لکھی ہوئی دیکھی تھی لیکن جب میں اسے بیان کرتا ہوں تو بعینہ وہی نقشہ آنکھوں کے سامنے سے گذر جاتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رویا میں بیان کیا.میں دیکھتا ہوں کچھ لوگ ہیں جماعت کے جو گروہ در گروہ کھڑے ہیں.چند یہاں ہیں چند وہاں ہیں.چند پرے ہیں چند اس
91 سے پرے ہیں اور آپس میں متفرق باتوں میں مشغول ہیں.کوئی کسی قسم کی باتوں میں لگا ہے اور کوئی کسی قسم کی باتوں میں اتنے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس جگہ تشریف لے آئے اور آپ ان لوگوں سے کہتے ہیں تم کن باتوں میں لگے ہو کیا چھوٹی چھوٹی باتوں میں مشغول ہو.کیسے چھوٹے چھوٹے اختلافات میں پڑے ہو.تم نہیں دیکھتے دین کی کیا حالت ہے اور دین کتنے بڑے خطرے میں ہے اس خطرہ کو دیکھتے ہوئے تم کس طرح ایسی باتوں میں مشغول ہو.وہ لوگ جو گروہ در گروہ کھڑے ہیں ان کا آپس میں کوئی اس قسم کا اختلاف نہیں معلوم ہو تا جس طرح کا اختلاف مبائعین اور غیر مبائعین میں ہے بلکہ وہ سب مبالعین ہیں ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ تم کیسی چھوٹی چھوٹی باتوں میں جھگڑ رہے ہو اور اختلاف کر رہے ہو کیا تمہیں دین کی حالت کا احساس نہیں کہ وہ کس قدر خطر ناک حالت میں ہے.یہ کہتے کہتے جس طرح کوئی گھبرا جاتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان لوگوں کو دھکے دے دے کر متوجہ کرتے اور فرماتے ہیں تم کن باتوں میں مشغول ہو کیا دیکھتے نہیں دین کی کیا حالت ہے کیا اسی طرح اسلام ساری دنیا میں پھیلے گا اور اس طرح خدا کی تقدیر دنیا میں قائم ہوگی.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حالت یوں معلوم ہوتی ہے جیسے کسی ایسی ماں کی حالت ہو جس کا بچہ بھوک اور پیاس سے تڑپ رہا ہو جیسے حضرت ہاجرہ کی اس وقت کی کیفیت دل میں آسکتی ہے جبکہ انہیں ایک چھوٹے بچے کے ساتھ بے آب و گیاہ جنگل میں اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا اور جب بچہ پیاس کی وجہ سے تڑپنے لگا تھا بعینہ وہی کیفیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر آتی ہے.آپ کبھی ادھر دوڑتے جاتے ہیں کبھی ادھر.کبھی ایک جماعت کو دھکے دے کر جگاتے ہیں کبھی دوسری کو.کبھی تیسری کی طرف جاتے ہیں اور کبھی چوتھی کی طرف کہ تم کن باتوں میں پڑے ہو دین کی حالت دیکھو.آخر جیسے کوئی شخص تھک جاتا ہے آپ یہ سوچتے ہوئے کہ اب میں کیا طریق اختیار کروں کہ یہ لوگ اشاعت اسلام کی طرف متوجہ ہوں ایک طرف کھڑے ہو گئے.اس وقت آپ پر یہ وحی نازل ہوئی وَسِعُ مَكَانَكَ اپنے مکان کو وسیع کر کیونکہ اب لوگ جوق در جوق اس سلسلہ میں داخل ہوں گے اور گروہ در گروہ تیرے پاس آئیں گے.اس وقت میں سمجھتا ہوں یہ وہ نظارہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس زمانہ کے متعلق دیکھا اور جب میں یہ دیکھتا ہوں تو اپنے جذبات کو بہت روکتا
92 ہوں کہ ظاہر نہ ہوں مگر اس سارے نظارہ کا مجھ پر اس قدر اثر ہوتا ہے کہ آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور آنسوؤں کا تار بندھ گیا.میں کچھ بیان کر کے ٹھہر جاتا ہوں اور رقت سے آگے نہیں بیان کر سکتا.پھر خاں صاحب کہتے ہیں آگے.اور پھر میں کچھ بیان کر کے رک جاتا ہوں.اس وقت میں نے دیکھا ان کے قلب پر بھی اثر ہوا اور ان کی آنکھوں سے بھی آنسو رواں ہو گئے اور ناک سے پانی بہنے لگا.میں ان کو یہ نظارہ سناتا ہوں اور بتاتا ہوں دیکھو جب حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام نے کوشش کی اور خاطر خواہ نتیجہ نہ دیکھا اور جب انسانی کوششیں کام نہ کر سکیں تو خدا نے وعدہ دیا کہ وَسِعُ مَكَانَكَ ہم خود انتظام کریں گے کہ لوگ کثرت سے تمہارے پاس آئیں اس لئے اپنے مکان کو وسیع کرو.میری اس وقت رقت کی حالت تھی کہ آنکھ کھل گئی.اس کے متعلق میں نے سمجھا کہ اس رویا میں تین باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور ایک نہایت لطیف پیرایہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جماعت میں اختلافات کیونکر پیدا ہوتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمانا کہ تم چھوٹی چھوٹی باتوں میں پڑے ہو بڑی بات یعنی اسلام کی طرف نہیں دیکھتے کہ اس کی کیا حالت ہے.یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اختلافات تب ہی پیدا ہوتے ہیں جب انسان یہ خیال کر لیتا ہے کہ اب میں امن میں ہو گیا ہوں ورنہ جب تک کسی انسان کے سامنے کوئی بڑا مقصد ہو جسے اس نے حاصل کرنا ہو اور وہ اپنے اردگر و خطرات کو دیکھتا ہو اس وقت آپس میں لڑائی جھگڑا پیدا نہیں کرتا.چھوٹی چھوٹی باتوں پر اسی وقت لڑتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ اب میں امن میں ہوں اور اپنا کام کر چکا ہوں.تو اس رویا میں تین باتیں بیان ہوئی ہیں ایک یہ کہ ہمیں تبلیغ کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے.دوم یہ کہ تبلیغ میں ہم اس وقت کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک تربیت نہ کریں.سوم اپنے مقصد کو سامنے سے ہٹا دینا موجب ہے ان اختلافات کا جو بعض دوستوں میں پیدا ہو جاتے ہیں.یہ تین باتیں تو ہمارے متعلق ہیں لیکن ایک چوتھی بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی درد بھری دعائیں درجہ قبولیت کو پہنچ گئیں اور خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان کرے گا کہ یہ سلسلہ وسیع ہو گا اور نئے سرے سے اسی طرح توسیع مکان کی ضرورت پیش آئے گی جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں پیش آئی تھی.
93 مجھ پر اس رویا کا اتنا اثر ہوا کہ میں خواب میں ہی سوچتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام سے وعدہ کیا ہے کہ جماعت بڑھے گی اور باوجود اس کے کہ جماعت میں غفلت اور ستی پائی جاتی ہے کئی لوگ لڑائی جھگڑوں میں پڑے ہیں فرماتا ہے مکان وسیع کرو تو اب اس رویا کو پورا کرنے کے لئے کس طرح مکان کو وسیع کیا جائے.خواب میں ہی خیال کر رہا ہوں میں نے تو کبھی مکان نہیں بنوایا اب کس طرح وسعت کراؤں گا.پس یہ وہی وعدہ ہے کہ جماعت بڑھے گی اور یہ پورا ہو کر رہے گا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو متواتر وسع مكانك کا الہام ہوتا رہا اور نبیوں کے الہام بعض دفعہ دوری ہوتے ہیں یعنی ایک زمانہ آتا ہے جب وہ پورے ہوتے ہیں پھر درمیان میں وقفہ پڑ جاتا ہے پھر ان کے پورے ہونے کا وقت آجاتا ہے.گویا وہ ایک ہی دفعہ پورے ہو کر ختم نہیں ہو جاتے بلکہ بار بار پورے ہوتے رہتے ہیں.وجہ یہ کہ انسان کی زندگی تو اس کے سانس تک ہوتی ہے لیکن نبیوں کی زندگی ان کے سانس تک نہیں ہوتی بلکہ ان کی قوم کے سانس تک ہوتی ہے اس لئے متواتر ان کے الہام پورے ہوتے رہتے ہیں.چونکہ یہ رویا ہماری جماعت کی اصلاح و درستی سے تعلق رکھتی ہے اس لئے میں نے اس کا بیان کرنا ضروری سمجھا.امید ہے کہ دوست اس مقصد کو مد نظر رکھیں گے جو اس سلسلہ کے قیام میں خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے تجویز کیا ہے.الفضل 15.جنوری 1926ء صفحہ 8 10C $1926 فرمایا 156 زین الدین صاحب (انجینئر بمبئی.ناقل) کے متعلق بھی میں نے رویا میں دیکھا کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم آئے ہیں.میں نے دریافت کیا آپ کہاں؟ فرمانے لگے میں بھی آیا ہوں اور حضرت صاحب بھی آئے ہیں.زین الدین صاحب کو لے جاتا ہے میں نے اس سے سمجھ لیا کہ یہ رویا ان کی موت پر دلالت کرتی ہے.ان کی عمر 95 یا سو سال کے قریب تھی اور حضرت صاحب کے دیرینہ مخلص تھے.بالکل اسی طرح کے مخلص تھے جس طرح کے شیخ رحمت اللہ صاحب.چند لوگ جنہیں حضرت صاحب بہت ہی پیار کیا کرتے تھے ان میں سے ایک یہ زین الدین صاحب تھے.الفضل 16.فروری 1926ء صفحہ 8
94 157 27 دسمبر 1926ء فرمایا : آج صبح کی نماز پڑھ کر میں نے سلام پھیرا تو معادا ئیں طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا اس پر میں نے سمجھا کہ ہمارا اندازہ غلط ہے اس دفعہ بھی لوگ ہمارے اندازہ سے زیادہ ہی آئیں گے.یہ ہو نہیں سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائیں اور پھر لوگ کم آئیں بادشاہ کے آنے پر تو لوگ زیادہ آیا کرتے ہیں.چنانچہ آج جلسہ گاہ شہادت دے رہا ہے اس بات کی کہ باوجود جلسہ گاہ کے پہلے کی نسبت زیادہ وسیع ہونے کے اب زیادہ آدمیوں کی گنجائش نہیں اور یہ ہمارے لئے نشان ہے.الفضل 11 جنوری 1927ء صفحہ 8 158 جنوری 1927ء فرمایا : ایک دفعہ ایک دوست نے مجھے مجملاً ایک مصیبت کی اطلاع دی اور دعا کے لئے کہا.مجھے اس نے یہ نہیں بتایا کہ فلاں مصیبت ہے اور حالات نہیں لکھے تھے.ان دنوں ان کی ہمشیرہ بھی بیمار رہتی تھیں اس لئے میں نے خیال کیا کہ ان کی ہمشیرہ زیادہ بیمار ہوگی.میں نے دعائیں کیں تو مجھے رویا میں معلوم ہوا کہ کوئی کہتا ہے قانونی غلطی کی وجہ سے تمام حقوق ضائع ہو گئے اور گورنمنٹ کی گرفت کے نیچے آگئے لیکن اگر وہ تو کل کریں گے اور گھبرائیں گے نہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے معاملات کو بالکل الٹ دے گا اور ان کے حق میں بہتر حالات پیدا کر دے گا.میں نے ان کو یہی لکھ دیا.تھوڑے ہی دنوں کے بعد ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ قریب تھا کہ واقع میں ان کے حقوق ضائع ہو جائیں اور گرفت کے نیچے آئیں.میری طرف انہوں نے لکھا کہ اس قسم کے حالات پیدا ہو رہے ہیں کہ مجھے خطرہ ہے کہ میرے تمام حقوق تباہ ہو جائیں.میں نے انہیں لکھا کہ آپ تو تکحل کریں اور گھبرائیں نہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ ان کے مد مقابل انگریز تھا یہ حالات بالکل بدل گئے حتی کہ اس انگریز نے میری طرف لکھا کہ مجھے مصیبت سے بچائیے.الفضل 21 جنوری 1927ء صفحہ 4
95 159 ایریل 1928ء فرمایا : میں نے سامنے کسی چیز پر جیسے دیوار ہوتی ہے محمد علی " لکھا ہوا دیکھا جو میرے دیکھتے دیکھتے مٹ گیا.نوٹ.مولانا محمد علی جوہر کی وفات سے 4.جنوری 1931ء کو پورا ہوا ( یہ استدلال عبدالحکیم احمد ی ہیڈ کوارٹر رائل ائر فورس شملہ نے کیا ہے ) الفضل 20 - اکثر بر 1931ء صفحہ 7 مئی 1928ء 160 فرمایا : مجھے بیسیوں خواب آتے ہیں جو پورے ہو جاتے ہیں آج ہی ایک خواب پورا ہوا ہے.میرے لڑکے ناصر احمد نے اس سال مولوی فاضل کا امتحان دیا تھا.دو پرچے وہ دے چکا تھا اور تیسرا پرچہ ابھی نہ دیا تھا کہ میں نے دیکھا وہ قادیان آگیا ہے اور کہتا ہے کہ پرچہ خراب ہوا ہے.میں نے کہا تمہارے گھبرانے کے سبب سے ایسا ہوا تمہیں امتحان پورا دینا چاہئے.اس خواب میں بتایا گیا کہ خدا کے نزدیک وہ دوسرے پرچہ پر ہی واپس آچکا ہے.آج اطلاع پہنچی ہے کہ وہ دوسرے پرچہ میں بھی فیل ہوا ہے اور یہ وہ پرچہ تھا جس کے متعلق اسے اطمینان تھا کہ اچھی طرح ہو گیا ہے.الفضل 18.ستمبر 1928ء صفحہ 10 1928 161 فرمایا : تھوڑا ہی عرصہ ہوا کہ میں نے دیکھا ایک معزز غیر احمدی کا تار چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے نام کسی کام کے متعلق آیا ہے.میں نے بعض دوستوں کو یہ خواب بتایا اس کے بعد چوہدری صاحب کی چٹھی آئی جس میں اس تار آنے کا ذکر کرتے ہوئے ایک اہم کام پر جانے کا ذکر کیا تھا.الفضل 18 - نومبر 1928 - صفحہ 10 162 1929 1928 فرمایا : آٹھ نو سال ہوئے میں نے رویا دیکھی کہ مصری صاحب پر کوئی ابتلاء آنے والا ہے
96 اور ان کے دل میں بہت سے شکوک پیدا ہو گئے ہیں اور بعض دفعہ انہیں یہ بھی خیال آتا ہے کہ وہ قادیان سے چلے جائیں.میں نے اس رویا میں ان کی دعوت کی اور انہیں نصیحت کی کہ ان باتوں کا نتیجہ اچھا نہیں اس سے ایمان بالکل جاتا رہے گا.چنانچہ رویا میں انہوں نے اقرار کیا کہ ہاں واقعہ میں میرے دل میں وساوس پیدا ہو گئے تھے اور میں چاہتا تھا کہ قادیان سے چلا جاؤں.یہ خواب بھی عجیب طور پر پورا ہوا.چنانچہ احباب نے الفضل میں ایک دوست کا بیان پڑھا ہو گا جو انہوں نے افریقہ سے لکھ کر بھیجوایا کہ مصری صاحب نے ان کے سامنے یہ خواہش کی تھی کہ اگر میری لڑکی کی ملازمت کا وہاں کوئی انتظام ہو جائے تو میرا جی چاہتا ہے کہ میں بھی افریقہ چلا جاؤں اور گو انہوں نے کہا تھا کہ دو سال کی چھٹی لے کر مگر بہر حال قادیان کو چھوڑ کر محض دنیوی اغراض کے لئے ایک لمبے عرصہ کے لئے انہوں نے جانے کا اظہار کیا.باقی رہا وساوس کا حصہ اس کو وہ خود تسلیم کر چکے ہیں.الفضل 20.نومبر 1939ء صفحہ 6 ماسٹر غلام حیدر صاحب جو بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے سپرنٹنڈنٹ ہیں انہوں نے بتایا کہ مصری صاحب نے میرے سامنے ذکر کیا تھا کہ میرے دل میں واقعہ میں ایسے وساوس پیدا ہو گئے تھے کہ میں چاہتا تھا کہ قادیان سے چلا جاؤں مگر جب سے میں نے حضرت صاحب کی خواب سنی ہے ان وساوس کو دور کر کے اپنی اصلاح کرلی ہے.الفضل 14 اگست 1964ء صفحہ 4 163 غالبا 1929ء فرمایا : ایک خواب دیکھی کہ ایک انگریز میرے پاس آیا ہے اور اس نے کہا ہے کہ سرحد پر پٹھانوں کی طرف سے حملے ہو رہے ہیں اور بڑی سختی سے حملہ کرتے ہیں کیا اسلام میں یہ بات جائز ہے کہ اگر کوئی دشمن ہمارے کسی آدمی کو مارے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے تو اس کے مقابلہ میں ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے.میں نے کہا ہاں قرآن کریم میں وَجَزَاؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةُ (الشوریٰ : (41) آتا ہے یہ مسئلہ تو فقہی طرز کا تھا جو میں نے خواب میں بتایا لیکن خواب کا دوسرا حصہ نہایت اہم تھا.مجھے خواب میں بتایا گیا کہ اگر انگریزوں نے اس محاذ پر چوٹی کے افسر نہ بھیجے تو انہیں شکست ہوگی.اتفاق کی بات ہے کہ میں کچھ عرصہ کے بعد شملہ گیا وہاں گورنمنٹ آف انڈیا کے ہوم سیکرٹری نے مجھے چائے پر بلایا.اس وقت مسٹر کر یر اہوم سیکرٹری
97 تھے جو وائسرائے ہند کے رشتہ دار تھے اس موقع پر سرولیم بھی آئے ہوئے تھے جو انگریزی فوج کے چیف آف دی جنرل سٹاف تھے ان کا ایک بھائی اس وقت بادشاہ انگلستان کا پرائیویٹ سیکرٹری تھا.باتوں باتوں میں اس خواب کا ذکر آگیا جو میں نے اوپر بیان کی ہے تو سرولیم بے اختیار بول اٹھے کہ آپ کی رؤیا بالکل درست ہے اور میں اس کا گواہ ہوں.میں ان دنوں اس فوج کا کمانڈر تھا جو پٹھانوں سے لڑ رہی تھی ایک دن پٹھان فوج ہمیں دھکیل کر اتنا پیچھے لے گئی کہ ہماری شکست میں کوئی شبہ نہ رہا اور ہمیں مرکز کی طرف سے یہ احکام موصول ہو گئے کہ فوجیں واپس لے آؤ.چنانچہ ہم نے اپنا سامان ایک حد تک واپس بھی بھیج دیا تھا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ پٹھان فوج کو ہماری فوجی طاقت کے متعلق غلطی لگ گئی اور وہ آگے نہ بڑھی اگر وہ آگے بڑھتی تو افغان فوج ڈیرہ اسماعیل خاں تک ہمیں دھکیل کرلے آتی.سرولیم نے بتایا کہ پٹھانوں کے جتھے ہمارے مقابلے پر آتے تو وہ مرتے چلے جاتے اور اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہتا جب تک کہ وہ اس علاقہ کو فتح کر لیتے آخر ہمیں حکم ہوا کہ فوجیں واپس لے آؤ.الفضل 10.جون 1959ء صفحہ 3-2 164 21 24-دسمبر 1929ء فرمایا : پچھلے ہفتہ دو دفعہ میں نے دو رویا دیکھے ہیں جن میں ایسے نظارے دکھائے گئے جو مخفی ابتلاء کا پتہ دیتے ہیں.ایک رویا تو میں نے آج سے پانچ دن قبل دیکھا ایک پرسوں.میں ان کی تشریح نہیں کرتا.کیونکہ منذر رؤیا کا بیان کرنا بعض اوقات ان کے پورا کرنے کا موجب ہو جاتا ہے لیکن اتنا بتا دیتا ہوں کہ دوستوں کو توجہ دعا کی طرف ہو کہ ایک حملہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کیا گیا اور ایک مجھے پر.اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان سے مبرم تقدیر بھی مل جایا کرتی ہے احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم سے ہر قسم کی مشکلات دور فرمائے اور ہر قسم کے ابتلاؤں سے جماعت کو محفوظ رکھے تاکہ ہم عمدگی اور آسانی سے اس سلسلہ کی خدمت کر سکیں.الفضل یکم جنوری 1931ء صفحہ 4
98 165 جنوری 1930ء فرمایا : پچھلے سال جب انہی دنوں میں ڈلہوزی گیا تو وہاں میں نے ایک رؤیا دیکھی کہ میں لاہور گیا ہوں اور کالجوں کے تمام طلباء میں دہریت پھیل رہی ہے اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ وہ خدا کے متعلق مجھ سے سوال کرنا چاہتے ہیں.میں دل میں خیال کرتا ہوں کہ ہمیشہ یہ بات کہا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے قرآن سکھاتا ہے اور ہر اعتراض کا جواب سمجھاتا ہے یہ گروہ جو اس وقت کوشش کر رہا ہے کہ خدا تعالٰی کی ہستی کو مشتبہ کر دے اسے اس وقت کیا جواب دوں جو تسلی بخش ہو.میں جو اب سوچتا ہوا ٹہل رہا ہوں کہ اس عرصہ میں یکدم ایسا معلوم ہوا کہ آسمان سے میرے قلب میں ایک کھڑکی کھلی ہے جس سے مجھے اطمینان ہو گیا کہ ان کو اب میں سمجھا سکوں گا.اس سے تھوڑی دیر کے بعد ان کا پیغام آیا کہ ہماری تسلی ہو گئی ہے اب ہم آپ سے کچھ نہیں پوچھنا چاہتے.الفضل 24.جنوری 1931ء صفحہ 7 اگست تا ستمبر 1930ء 166 فرمایا : شملہ میں مجھے خواب میں ایک بہت بڑے ہندو لیڈر کے متعلق بتایا گیا کہ وہ دل سے مسلمان ہیں اور جب اس سے بات چیت ہوئی تو اس نے کہا کہ فلاں ہندو لیڈر بھی مسلمان ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ دل سے مسلمانوں کے ہمدرد ہوں اور یا اب خداتعالی ان کے دل میں یہ ڈال دے کہ مسلمانوں کا خیال رکھنا چاہئے وہ لیڈر گول میز کانفرنس کے ممبر بھی ہیں.الفضل 13.لو مہر 1930ء صفحہ 7 167 غالبا جون 1931ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ سلسلہ کے راستہ میں بعض مشکلات درپیش ہیں.میں نے دیکھا بعض دوستوں نے ان کے ازالہ میں کو تاہی کی اور رویا میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ دشمنوں کی شرارتوں سے خوف کھا رہے ہیں.تب اچانک میں نے دیکھا کہ دشمنوں میں سے ایک نے وار کیا لیکن اللہ تعالٰی نے ایسے غیر معمولی سامان پیدا کر دئیے کہ وہی وار الٹ کر اس پر جا
99 هم پڑا جس نے وار کیا تھا.اور جب میں نے دیکھا کہ بعض لوگ ڈر رہے ہیں اور دشمن اپنا وار کر چکا اور وہ دارالٹ کر اسی پر جا پڑا تو میں نے خود اس کے حملے کا مقابلہ کرنا چاہا.اس پر اچانک ایک اور دشمن ظاہر ہوا اس نے میرا مقابلہ کیا مگر باوجود اس کے کہ اس کا وار مجھ پر تھا اور باوجود اس کے کہ وہ وار مجھ پر پڑا بھی مگر نقصان نہیں پہنچا بلکہ اس دشمن کو نقصان پہنچ گیا.پھر ایک تیسرے دشمن نے وار کرنا چاہا مگر پیشتر اس کے کہ وہ وار کرتا خدا نے اس کا ہتھیار اس سے چھین لیا پھر چوتھی مرتبہ ایک اور دشمن ظاہر ہوا اور اس نے بھی وار کرنا چاہا مگر خدا نے وار کرنے سے پیشتر ہی اس وار کا خود ہی اسے شکار کر دیا.تو چار متفرق طور پر وار ہوئے اور چاروں میں خدا تعالٰی نے غیر معمولی تائید اور نصرت فرمائی.ایک وارد شمن نے کیا مگر وہ الٹ کر اس پر پڑ گیا دوسرا وار بظا ہر نشانے پر پڑا لیکن نقصان مجھے نہیں پہنچا بلکہ اس کو پہنچا جس نے وار کیا تھا.پھر تیسرے نے دار کیا مگر پیشتر اس کے کہ وہ وار کرتا اس کا ہتھیار اس سے چھین لیا گیا پھر چوتھے نے وار کیا مگر خدا نے وہی وار اس پر وارد کر دیا یہ چاروار ہیں اور دراصل یہ چار دہائیوں کے قائم مقام ہیں ہم اس وقت چار دہائیاں ختم کر چکے ہیں یعنی جماعت کی چالیس سالہ زندگی پوری ہوئی اور ہر دس سالہ زندگی پر دشمن نے مار کھائی.پہلے دس سال میں مجددیت کے مقابلہ میں دشمن کھڑا ہوا.دوسرے دس سالوں میں خدا نے نبوت کی تشریح کرائی.تیسرے دس سال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے جو اندرونی دشمن تھے ان کا مقابلہ کرایا اور چوتھے دس سال میں سلسلہ کی بنیاد مختلف بلاد میں مضبوط کردی پس یہ چار ترقیات ہیں جو جماعت کو حاصل ہوئیں اور یہ چار دور ہیں جن سے ہماری جماعت گزری اور ہر ترقی پر دشمن نے ہمارا مقابلہ کیا لیکن اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ابھی یہ چاروار اور کسی رنگ میں کب اور کس شکل میں ہوں مگر اتنا ضرور ہے یہ چاروں قسم کے حملے جاری رہیں گے.پس ہمیں بھی ان حملوں کے مقابلے کے لئے تیار رہنا چاہئے اور اس خوشی کا بھی اظہار کرنا چاہئے جو چالیس سال عمر دے کر اللہ تعالٰی نے ہمیں اپنے فضل سے نوازا ہے اور ہمیں اپنے عمل اور طریق سے دشمن کو بتا دینا چاہئے کہ مومن کبھی بزدل نہیں ہو تا.الفضل 12.جون 1931ء صفحہ 8
100 168 1932 فرمایا : دس بارہ سال کی بات ہے میں نے رویا میں دیکھا کہ سر سکندرحیات خان کی طرف سے ایک آدمی آیا ہے جس نے ایسی وردی پہنی ہوئی ہے جیسے پنجاب گورنمنٹ کے وزراء کے ارولیوں کی ہوتی ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ ہے جو تار کی شکل کا ہے مگر ہے خط.وہ کہتا ہے کہ یہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے لئے ہے.میں نے اسے کہا کہ لاؤ یہ خط مجھے دے دو اس نے مجھے دے دیا.میں نے اسے دیکھا تو اس میں سر سکندرحیات خاں نے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو یہ لکھا تھا کہ میں کسی کام کے متعلق آپ سے مشورہ لینا چاہتا ہوں آپ مجھے ملیں.اس خواب کا ایک حصہ تو اسی وقت پورا ہو گیا کیونکہ سر سکندر حیات خاں جو اس وقت بہاول پور میں وزیر تھے ان کا چوہدری ظفر اللہ خاں کے نام تار آیا کہ میں بھوپال گورنمنٹ کے ایک کام کے لئے بمبئی جا رہا ہوں اور آپ سے بھی مشور لینا چاہتا ہوں آپ مجھے ملیں.لیکن اس خواب کا ایک دوسرا حصہ بھی تھا اور وہ یہ کہ وہ پنجاب گورنمنٹ میں وزارت کے عہدے پر پہنچیں گے کیونکہ میں نے ان کے اردلی کو ایسی وردی پہنے دیکھا تھا جو پنجاب گورنمنٹ کے وزراء کے اردلیوں کی ہوتی ہے خواب کا یہ حصہ بعد میں اس طرح پورا ہوا کہ وہ پہلے ریونیو ممبر بنے اور پھر پنجاب گورنمنٹ کی وزارت عظمیٰ کے عہدہ پر فائز ہوئے.الموعود ( تقریر جلسہ سالانہ 28 - دسمبر 1944ء صفحہ 122 - 123 169 $1932 فرمایا : آج سے بارہ تیرہ سال پہلے میں نے رویا میں دیکھا کہ اُمم طاہر کا اپریشن ہوا ہے مگر میں نے دیکھا کہ ان کا اپریشن دہلی میں ہوا ہے اور مجھے اطلاع ملی ہے کہ ان کا ہارٹ فیل ہو گیا ہے.الفضل 14.مارچ 1944 ء صفحہ 2 170 *1932 فرمایا : میں نے خود بھی خواب دیکھا ہے کہ ایک مجلس ہے جس میں بہت سے معززین جمع ہیں
101 میں ان کے سامنے کشمیر کے حالات بیان کر رہا ہوں اور کہتا ہوں کہ حالات امید افزا ہیں اور درمیانی روکیں کوئی ایسی روکیں نہیں اور انہیں تحریک کرتا ہوں کہ آپ لوگ اگر کچھ رقم خرچ کریں تو آسانی سے یہ کام ہو سکتا ہے.پھر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس تحریک کے ساتھ ہی ان لوگوں میں حرکت شروع ہوئی اور حاضرین ایک دوسرے کے کان میں باتیں کرنے لگے اس کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک کاغذ پھرایا جانے لگا گویا وہ چندہ کرنے لگے ہیں میں نے اس کی تعبیر یہ سمجھی ہے کہ بعض اوقات جو مایوسی کی گھڑیاں آتی ہیں وہ حقیقی نہیں بلکہ درمیانی روکیں ہیں اور مسلمان اگر مال قربان کریں تو یہ کام ہو سکتا ہے.الفضل 31 جنوری 1932 ء صفحہ 6 $1932 171 فرمایا : آج سے (چند دن پہلے میں نے رویا دیکھا تھا کہ اگر ٹیری ٹوریل میں اپنے آدمیوں کی دوسری کمپنی بڑھانے کی کوشش نہ کی گئی تو جو کمپنی موجود ہے وہ بھی خطرہ میں پڑ جائے گی.اب اس سال سے اس خواب کے پورے ہونے کا سامان ہو گیا ہے اب کے 24 آدمی بغیر ہمارے مشورہ کے غیر احمدیوں میں سے لا کر داخل کر دیئے گئے ہیں اس کا نتیجہ یہی ہو سکتا ہے کہ آہستہ آہستہ ہمارے آدمیوں کو کم کر دیا جائے.رپورٹ مجلس مشاورت 1932ء صفحہ 83 - 84 172 اگست 1932ء فرمایا اڑھائی مہینے پہلے کی بات ہے.میں نے ڈلہوزی میں ایک رؤیا دیکھا کہ کوئی شخص نہایت گھبرائے ہوئے الفاظ میں لکھتا ہے.دوڑو دو ڑو! قادیان میں ایک ایسا شخص فوت ہوا ہے جس کے فوت ہونے سے آسمان اور زمین ہل گئے ہیں.جب میری نظر اٹھی تو میں نے دیکھا کہ واقعی آسمان بل رہا ہے اور مکان بھی ہل رہے ہیں گویا ایک زلزلہ آیا ہے.میرے قلب پر اس کا بڑا اثر ہوا.میں گھبرا کر پوچھتا ہوں کہ کون فوت ہوا ہے تو کوئی شخص تسلی دینے کے لئے کہتا ہے ہندوؤں میں سے کوئی فوت ہوا ہو گا.میں نے کہا ہندؤں میں سے کسی کے فوت ہونے کے ساتھ آسمان اور زمین کے ملنے کا کیا تعلق.وہ کہنے لگا ہندؤں کا زمین و آسمان ہل گیا ہو گا.اس وقت جیسے کوئی ان (مولوی عبدالستار خاں صاحب (افغان) کی وفات (17.اکتوبر 1932ء) سے دو
102 شخص تسلی حاصل کرنے کے لئے ایسے الفاظ پر مطمئن ہونا چاہتا ہے میں بھی مطمئن ہونا چاہتا ہوں مگر پھر گھبراہٹ میں کہتا ہوں چلو دیکھیں تو سہی.اسی گھبراہٹ میں تھا کہ آنکھ کھل گئی.اس رویا کے سات آٹھ دن کے بعد تار پہنچا کہ (حضرت اماں جان سخت بیمار ہیں اس وقت تار کے پہنچنے پر میں نے بعض دوستوں کو جن میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور غالبا مولوی شیر علی صاحب بھی تھے بتایا کہ میں نے اس طرح رویا دیکھا ہے جس کی وجہ سے مجھے گھبراہٹ ہے.شاید اس سے مراد حضرت اماں جان ہی ہوں.میں فوراہی روانہ ہو گیا لیکن میرے آنے تک بہت حد تک انہیں صحت ہو گئی تھی پھر جلدی ہی اللہ تعالٰی کے فضل سے انہیں کامل صحت ہو گئی اس کے چند ہی دنوں کے بعد مولوی عبد الستار صاحب بیمار ہو گئے اور مجھے ان کی بیماری کی اطلاع پہنچی گو میں اس عرصہ میں ان کی صحت کے لئے دعائیں ضرور کرتا تھا مگر دل میں خدشہ تھا کہ اس خواب سے مراد انہی کی وفات نہ ہو اور اب جبکہ وہ فوت ہو چکے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ رویا انہی کے متعلق تھی جو پوری ہو گئی.الفضل 3.نومبر 1922ء صفحہ 8 دسمبر 1932ء 173 فرمایا : چند ہی دن ہوئے میں نے ایک اور رویا دیکھا.میں نے دیکھا دروازہ پر آواز دی گئی ہے کہ باہر آئیں ایک ضروری کام ہے.جب میں باہر آیا تو دیکھا کہ دروازہ پر شیخ عبد الرحمان صاحب قادیانی اور منشی برکت علی صاحب آڈیٹر صد را مجمن احمد یہ کھڑے ہیں اور ان کے ہاتھ میں ایک پارسل ہے.پارسل رسیوں سے بندھا ہوا ہے اور اوپر مہریں لگی ہوئی ہیں وہ کاغذات کا بنڈل معلوم ہوتا ہے.انہوں نے بڑے ادب سے کاغذات پیش کئے میرا ہی ادب نہیں کیا بلکہ کاغذات کا بھی ادب کیا.کہا یہ پارسل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بصیغہ راز بھیجا ہے اور اس میں تاکیدی ارشاد فرمایا ہے اور یہ بھی کہ حاجی نبی بخش کو بھی شامل کر لیا جائے.منشی برکت علی صاحب کے سپرد میں نے چندہ کشمیر کا کام کیا ہوا ہے اس وقت میرا ذہن اس طرف گیا کہ اس پارسل میں کشمیر کے متعلق خاص ہدایات ہیں تو میں اس کام میں خدائی ہاتھ سمجھتا ہوں.الفضل 10 جنوری 1933 صفحہ 4
103 174 جنوری 1933ء فرمایا : میں نے کچھ دن ہوئے اسی رمضان (1351ھ) میں ایک رؤیا دیکھا کہ ایک بڑا ہجوم ہے ایسا ہی جیسا کہ اب آپ لوگ بیٹھے ہیں میں اس میں بیٹھا ہوں اور ایک دو غیر احمدی بھی میرے پاس بیٹھے ہیں کچھ لوگ مجھے یاد رہے ہیں.ان میں سے ایک شخص جو میرے سامنے بیٹھا تھا اس نے آہستہ آہستہ میرا ازار بند پکڑ کر گرہ کھولنی چاہی میں نے سمجھا اس کا ہاتھ اتفاقا جالگا ہے اور میں نے ازار بند پکڑ کر اس کی جگہ پر اٹکا دیا.پھر دوبارہ اس نے ایسی ہی حرکت کی اور میں نے پھر بھی یہی سمجھا کہ اتفاقیہ اس سے ایسا ہوا ہے اور پھر ازار ہندا ڈس لیا.تیسری دفعہ پھر اس نے ایسا ہی کیا تب مجھے اس کی بدنیتی کے متعلق شبہ ہوا اور میں نے اسے روکا نہیں جب تک کہ میں نے دیکھ نہ لیا کہ بالا رادہ ایسا کر رہا ہے تاکہ جب میں کھڑا ہوں تو نگا ہو جاؤں اور لوگوں میں میری سکی ہو.پر میں نے اسے ڈانٹا اور کہا تو جانتا نہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے عبد القادر بنایا ہے اور کہا کوئی ہے.اس پر معلوم ہوا کہ ہجوم میں بھی بعض اس کے ساتھی ہیں جو حملہ آور ہونا چاہتے ہیں لیکن جب میں نے کہا کہ کوئی ہے تو دو نوجوان لڑکے جن کے ابھی داڑھی نہیں اُگی تھی آگے بڑھے.میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں انہوں نے ہاتھ کے اشارہ سے کہا ہٹ جاؤ اور ایسا معلوم ہوا گویا سب کو گرفتار کر کے ایک طرف کھڑا کر دیا گیا ہے.مجھے خیال ہوا کہ کہیں یہ غیر احمدی یہ نہ سمجھیں کہ میں نے اس شخص کو یونہی ڈانٹا.اس پر میں انہیں کہتا ہوں کہ اس نے پہلے بھی دو بار ایسا کیا مگر میں نے حسن ظن سے کام لیا اور تیسری دفعہ معلوم کیا کہ اس کا مشاء یہ ہے کہ مجھے تنگا کرنا چاہتا ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ میں کون ہوں.تب اسی وقت رویا میں ہی میرے دل میں ڈالا گیا کہ عبد القادر سے مراد یہ ہے کہ بندہ ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اس کے سب کام اللہ تعالی کے لئے ہو جاتے ہیں اور کوئی خواہ کتنا طاقت در کیوں نہ ہو اس پر حملہ نہیں کر سکتا حملہ ہمیشہ کنزوریوں کی وجہ سے ہوتا ہے مگر جس کا کھانا پینا پہننا بھی عبادت ہو جائے اس پر حملہ کرنا خدا پر حملہ کرنا ہوتا ہے.الفضل 5 فروری 1933ء صفحہ 8.نیز دیکھیں.الفضل 4.ستمبر 1937ء صفحہ 1438 - اگست 1984ء صفحہ 4
104 175 مارچ 1933ء فرمایا : میں نے ایک رویا دیکھا ہے جو ایک باپ اور بیٹے کے متعلق ہے وہ دونوں ہیں.میں ان کا نام نہیں لوں گا میں نے دیکھا لڑکے نے اپنے باپ کو لکھا ہے میں دس ہزار روپیہ بھیجنا چاہتا ہوں ان میں سے چھ ہزار تو آپ کے قدموں میں اور باقی چار ہزار کے متعلق اجازت دیں تو قادیان میں مکان بنوالوں.میں یہ خط پڑھ کر بہت خوش ہوا کہ کتنے ادب سے اپنے باپ کو لکھا ہے اور لڑکا کیسا موذب ہے اس خط کو پڑھنے سے مجھے ایسا لطف آیا کہ جب آنکھ کھلی تب بھی سرور تھا.باپ ہندوستان میں ہی ہے اور بیٹا ہندوستان سے باہر ہے اس کے الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا یہ روپیہ اس کی اپنی کمائی کا ہے جس کے متعلق باپ سے اجازت حاصل کر رہا ہے.الفضل 28.مارچ 176 5+1933 مئی 1933ء فرمایا : اس حادثہ (وفات حضرت سارہ بیگم صاحبہ) سے قبل میں نے کئی رویا دیکھے اور بھی بہت سے لوگوں نے دیکھے جن میں اس کی طرف اشارہ تھا.میں جب ڈلہوزی میں تھا تو اس وقت میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ میں قادیان سے باہر ہوں اور قادیان سے اطلاع آئی ہے کہ وہاں ایک ایسی وفات واقع ہوئی ہے جس سے زمین و آسمان ہل گئے ہیں.یہ خبر سن کر میں سوچتا ہوں کہ میں اب وہاں کیسے پہنچوں گا اس وقت گویا کوئی میری تسلی کے لئے کہتا ہے کسی ہندو یا سکھ کی موت ہوگی میں اس پر کہتا ہوں کہ ہندو یا سکھ کی موت پر تو زمین و آسمان نہیں ہل سکتے پھر وہ یہ خیال پیش کرتا ہے کہ اس سے ہندوؤں اور سکھوں کی زمین و آسمان مراد ہوگی.اس کے بعد مجھے حضرت اماں جان کی بیماری کی اطلاع پہنچی تو اس رویا کی طرف خیال گیا اور راستہ میں میں نے دوستوں کو یہ بتایا لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا دے دی.ڈلہوزی سے میری واپسی پر مولوی عبد الستار صاحب جو بہت مخلص ، علم اور خدا رسیدہ انسان تھے ان کی وفات ہو گئی تو میں نے اس خواب کو اس پر چسپاں کیا اور اگرچہ میری موجودگی میں وہ فوت ہوئے تھے مگر میں نے خیال کیا کہ
105 وہ بیمار تو میری عدم موجودگی میں ہوئے تھے اس لئے وفات خواہ میری موجودگی میں ہوئی یہ رویا پورا ہو گیا مگر رویا میں یہ تھا کہ میں پہاڑ پر نہیں ہوں بلکہ میدانی علاقہ میں ہوں اور وفات میری غیر حاضری میں ہوئی ہے پھر جس دن سارہ بیگم کی وفات ہوئی تو میری زبان پر تھا مرد قادیان یا مرده قادیانی میں نے اس سے خیال کیا کہ مخالفین جو کہتے ہیں قادیان مردہ باد شاید اس سے یہ مراد ہو کہ کوئی مخالف ہمارے خلاف کوئی کتاب لکھے گا یا لیکچر دے گا اور یہ خیال استنا غالب تھا کہ جب مجھے بیماری کا تار پہنچا تو پھر بھی اس طرف میرا خیال نہیں گیا.الفضل یکم جون 1933ء صفحہ 7 جون 1933ء 177 حضور نے حضرت سارہ بیگم صاحبہ مرحومہ کے لئے دعا کے سلسلہ میں چند اشعار دعائیہ و اظہار حال لکھے.اس ضمن میں فرمایا.آخر میں جس احساس کا ذکر ہے اس کے متعلق اس نظم کے بعد ایک رؤیا دیکھی جس سے دل کو ایک حد تک تسلی ہوئی.گورو یا اس رنگ میں نہ تھی کہ اس سے لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِی کا مفہوم پورا ہوتا ہے لیکن پھر بھی دعا کی قبولیت کی ایک ظاہری نشانی ضرور تھی مگر میں رویا کے معاملہ کو اپنے مضمون کے تتمہ کے لئے اٹھا رکھتا ہوں.الفضل 9.جولائی 1933ء صفحہ 2 178 جولائی 1933ء فرمایا : میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ایک کمرہ ہے جس کی بہت سی مشابہت اس گول کمرہ سے ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوئی سے پہلے مہمانوں اور اپنے آرام کے لئے بنوایا تھا.ہم چھوٹے چھوٹے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس میں مہمانوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے اگر مجالس مسجد میں نہ فرماتے تو وہاں بیٹھتے تھے.رویا میں مجھ پر یہ اثر تو نہیں کہ یہ وہی گول کمرہ ہے مگر مشابہت اس سے ضرور ہے میں دیکھتا ہوں کہ میں اس کے اندر ہوں وہاں ایک میز پڑی ہے.ایک کرسی اس کے ایک طرف اور ایک دوسری طرف ہے شاید کوئی تیسری بھی ہو مگر مجھے اس وقت خیال نہیں.جو کرسی شمال کی طرف ہے اس
106 پر ایک ایسا شخص بیٹھا ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ سلسلہ کا دشمن ہے دوسری پر میں سمجھتا ہوں کہ میں بیٹھا تھا ہم سے ہٹ کر مشرق کی طرف کچھ لوگ اور بیٹھے ہیں جو ابتداء میں ہماری طرف متوجہ نہیں تھے.میز پر ایک چھوٹی سی شیشی یا گلاس جیسا عرب لوگ قہوہ نوشی کے لئے استعمال کرتے ہیں اور ایک بوتل ہے جس میں میں سمجھتا ہوں کہ زہر ہے.میں نے بوتل میں سے کچھ قطرے گلاس میں ڈالے ہیں اور پانی یا کوئی اور پینے کی چیز حل کرنے کے لئے اس میں ملاتی ہے گویا میں اسے پینا چاہتا ہوں.رویا میں ہی مجھ پر یہ اثر ہے کہ یہ ایسا زہر ہے جو قاتل ہے اور جس سے خود کشی کی جاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ دشمن سلسلہ بھی یہی سمجھتا ہے کہ میں خود کشی کر رہا ہوں اور چاہتا ہوں کہ وہ یہی سمجھتا رہے لیکن میں بخوبی جانتا ہوں کہ پینے کے لئے میں نے جو ڈالا ہے وہ اتنا ز ہر نہیں کہ ہلاک کر سکے بلکہ اتنی مقدار دوائی ہے ہاں مخالف یہی سمجھتا ہے کہ یہ خود کشی کرنے لگا ہے.اتنے میں میں نے مڑ کر دوسرے لوگوں کی طرف دیکھا اور پھر مڑا ہوں کہ اس زہر کو پی لوں مگر خیال آیا کہ شاید اس مخالف نے میرے دوسری طرف متوجہ ہونے پر اس میں زہر کی مقدار زیادہ کر دی ہو اور حیران ہوں کہ اب کیا کروں.آخر میں فیصلہ کرتا ہوں کہ اسے گرا دوں اور پھر مقررہ مقدار ڈال کر پیوں لیکن ساتھ ہی مجھے یہ بھی خیال ہے کہ یہ مخالف جو سمجھتا ہے کہ میں خود کشی کرنے لگا ہوں اس پر ظاہر ہو جائے گا کہ یہ خود کشی نہیں کر رہا.اس پر خیال کرتا ہوں کہ اسے نہیں پھینکوں گا لیکن پھر خیال آتا ہے کہ ممکن ہے اس نے اور زہر ملا دیا ہو اور پھر اسے پھینک دینے کا فیصلہ کرتاہوں مگر جب پھینکنے لگتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ یہ کہے گا کہ اگر واقعی خود کشی کرنے لگا تھا تو اور چند قطرے ملا دینے کی وجہ سے ڈر کیوں گیا.یہ بات اس کے ارادہ کی اور زیادہ محمد ہوتی اور اس کے لئے آسانی پیدا کرتی اور واقعی جب میں پھینکنے لگتا ہوں تو وہ یہی اعتراض کرتا ہے کہ اگر واقعی آپ خود کشی کرنے لگے تھے تو پھر اسے پھینکنے کی کیا وجہ ہے مگر میں اسے گرا دیتا ہوں اور پھر اپنے ہاتھ میں بوتل لے کر اس میں سے اتنے ہی قطرے ڈالتا ہوں جو میں سمجھتا ہوں، استانی خوراک ہے اور پھر گلاس کو بھی اور بوتل کو بھی اپنے ہاتھ میں پکڑے رکھتا ہوں تاکہ میری نگاہ ادھر ادھر ہونے پر اس میں وہ پھر اضافہ نہ کر دے.جو لوگ پرے ہٹ کر بیٹھے ہیں ان میں سے بھی بعض اپنے دوست معلوم ہوتے ہیں ان میں سے ایک کو دیتا ہوں کہ اس میں پانی یا عرق ڈال دو.
107 یہ رویا جو میں نے دیکھا اور ظاہر ہے کہ مومن کے لئے خود کشی کی ظاہری شکل بھی ایسی بھیانک ہے کہ رویا دیکھتے ہوئے یک لخت میری آنکھ کھل گئی اور اس کا میرے دل پر ایک عجیب بوجھ تھا.میں اسے دل سے نکالنا اور بھلانا چاہتا تھا مگر یہ پھر غالب آجاتی تھی یہاں تک کہ میں نے اسے بھلانے کی بجائے سمجھنے کی کوشش شروع کر دی.اور غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ تو ایک نہایت عجیب بات ہے اور اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ جب کبھی کسی مومن جماعت کو اللہ تعالیٰ قائم کرتا ہے تو اس کے سپرد ایسے کام کر دیتا ہے جنہیں لوگ خود کشی سمجھتے ہیں.ان جماعتوں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں اپنے مال اپنے اوقات اور اپنی عزت و آبروسب کچھ قربان کر دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے یہاں تک کہ لوگ کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ پاگل ہیں اور خود کشی کر رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے لئے ایک نگران مقرر کرتا ہے جو اس بات کا اندازہ کرتا رہتا ہے کہ جماعت کی قربانی آخری حد سے آگے نہ بڑھنے پائے اور ان کے لئے زہر کا مترادف نہ ہو جائے بلکہ اس سے نیچے رہے اور حقیقت یہ ہے کہ سب زہر ایک مقررہ حد تک مقوّمی ہوتے ہیں.الفضل 27 جولائی 1933 ء صفحہ 6 179 تمبر 1933ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ گول کمرہ کے پاس جو کو ٹھڑی ہے اس میں ایک بڑی چارپائی پڑی ہے اور اس پر دو عورتیں لیٹی ہیں.وہ عورت جس کا مونہہ دیوار کی طرف ہے اسے تو میں دیکھ نہیں سکا مگر دوسری کو دیکھا کہ وہ سارہ بیگم ہیں.اس وقت میں جانتا ہوں کہ یہ فوت ہو چکی ہیں مگر ان کو زندہ دیکھ کر سمجھتا ہوں روح ہے جو جسم میں آئی ہے.میں ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں باہر لے آیا ہوں جہاں چھوٹے چھوٹے بچے کھیل رہے ہیں.ان میں ہمار ا مبارک احمد بھی ہے مگر اس وقت کی شکل ہے جبکہ وہ 12/11 سال کا تھا.ان بچوں کے سامنے کھڑے ہو کر میں نے کہا دیکھو کیا یہ معجزہ نہیں کہ روح ہے جو جسم میں آئی ہے.یہ کہنے کے ساتھ ہی معا مجھے خیال آیا کہ یہ چیز تو خدا تعالیٰ نے مجھے دکھانے کے لئے بھیجی تھی میں نے دوسروں کو دکھادی یہ کھوئی نہ جائے.ادھر میرے کہنے پر ان بچوں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا ادھر جسم غائب ہو گیا.الفضل 3.اکتوبر 1933 ء صفحہ 6
108 180 فرمودہ ستمبر 1933ء فرمایا : میں نے بیسیوں دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا اور آپ نے بتایا کہ یہ بات یوں ہے اور وہ اسی طرح ثابت ہوئی.الفضل 26 ستمبر 181 7+1933 1934 1933 فرمایا : تین چار سال ہوئے میں نے ایک خواب دیکھا تھا جو انہیں دنوں اخبار میں شائع ہو گیا تھا جس میں میں نے خلافت کے متعلق لوگوں کو لڑتے دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ اس لڑائی میں ایک شخص بھی مرگیا ہے اور بعض زخمی ہوئے ہیں.یہ رویا بھی بعینہ پوری ہوئی کیونکہ خلافت کے متعلق جھگڑا پیدا ہوا میاں فخر الدین صاحب ا ملتانی اور ایک دو اور آدمی زخمی ہوئے اور میاں فخر الدین صاحب ملتانی فوت ہو گئے.الفضل 12.اگست 1964ء صفحہ 4-5 7- اپریل 1934ء 182 فرمایا : میں جب لائل پور کے لئے صبح کو روانہ ہونے والا تھا تو اس رات کو ایک خواب میں دیکھا کہ آسمان پر بہت سے بادل ظاہر ہو رہے ہیں اور کوئی آواز دے رہا ہے کہ دیکھو آسمان سے ایک ہاتھ ظاہر ہو رہا ہے.میں نے دیکھا کہ یکے بعد دیگرے سفید سفید بادلوں کے ٹکڑے افق پر ظاہر ہوتے ہیں اور پھر پھٹ جاتے ہیں.پھٹتے وقت ان میں سے ایک سفید نورانی ہاتھ ظاہر ہوتا ہے اور اس طرح انگلیوں کو حرکت دیتا ہے جیسے کہ بات کرتے وقت بعض لوگ اشارہ کرتے ہیں بیداری کے بعد میرا خیال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مصرعہ کی طرف گیا.ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا اور میں سمجھا کہ اسلام کی عظمت کے اظہار کے لئے کوئی نشان ظاہر ہو گا.تبلیغ حق صفحہ 85 ( تقریر لائل پور.8.اپریل 1934ء) نیز دیکھیں.الفضل 20 مئی 1934 ء صفحہ 12
109 183 1934 فرمایا : 1934 ء میں احرار کا لشکر ہمارے مقابل میں اٹھا اور اس نے ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ہمارے خلاف ایک طوفان بے تمیزی برپا کر دیا چھوٹے بھی اور بڑے بھی عالم بھی اور جاہل بھی اس بات پر متفق ہو گئے کہ ہمیں مٹادیں گورنمنٹ کے کل پرزے بھی احرار کی تائید میں نظر آنے لگے حکام ان کی پیٹھ ٹھونکتے اور کہتے شاباش تم بڑا اچھا کام کر رہے ہو.ان نازک اور تاریک ترین ایام میں جبکہ بعض احمدی بھی کہہ رہے تھے کہ اب جماعت کا کیا بنے گا.خدا نے میری زبان پر جاری کیا کہ میں زمین احرار کے پاؤں سے نکلتی دیکھتا ہوں.چنانچہ تھوڑے ہی دن گزرے کہ دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ زمین احرار کے پاؤں سے نکل گئی یہاں تک کہ غیر احمدی اخبارات نے بھی اس صداقت کو تسلیم کیا.انہوں نے بھی انہی الفاظ سے احرار کی عبرت ناک ناکامی کا ذکر کیا کہ زمین احرار کے پاؤں تلے سے نکل گئی.رپورٹ مجلس مشاوت 1943ء صفحہ 54.نیز دیکھیں.الفضل 30.مئی 1935ء صفحہ 3 اکتوبر 1934ء 184 فرمایا : جب میں نے اس ( تحریک جدید - ناقل) کے متعلق پہلا خطبہ پڑھا تو اس میں تحریک جدید کے متعلق جس قدر باتیں میں نے بیان کیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور القاء میرے دل میں ڈالی گئی تھیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ میرے دل میں ڈالتا چلا گیا میں ان باتوں کو بیان کرتا چلا گیا.نظام نو ( تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1942ء) صفحه 3 (شائع کردہ نظارت اصلاح دار شاد) 185 9 نومبر 1934ء فرمایا : آج میں نے دیکھا کہ ایک دعوت کا سامان ہو رہا ہے اس کے لئے برتن صاف کر کے میری ایک بیوی ترتیب سے رکھوا رہی ہے.ان برتنوں میں میں نے نہایت نفیس اور خوبصورت رنگوں والا شیشہ کا سامان دیکھا.کچھ پیالے ہیں کچھ صراحیاں اور کچھ گلاس سب نہایت ہی اعلیٰ قسم کے ہیں ایسے کہ ان کی طرح کا اور ان کی قیمت کا کوئی سامان ہمارے ہاں موجود
110 نہیں.میں اس وقت وضو کر کے غالبا نماز کے لئے کمرہ میں داخل ہو رہا ہوں انہیں دیکھ کر ان کی خوش نمائی کا مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ فلاں قسم کے رنگوں میں برتن ہمارے ہاں پہلے سے موجود تھے ان کو بھی بیچ میں رکھ دو تو یہ رنگ زیادہ خوبصورت ہو جائیں گے.یہ رویا بھی خوشی اور کامیابی پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.إنا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ - فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِعَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ (سورة الكور) نومبر 1934ء 186 الفضل 18 - نومبر 1934ء صفحہ 8 فرمایا : میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر فضل کریم صاحب آئے ہیں ڈاکٹر صاحب کے اہل و عیال قادیان میں رہتے ہیں مگر آجکل وہ باہر ملازمت پر ہیں.میں نے خواب میں دیکھا کہ جب وہ آئے تو میں نہایت محبت سے ان سے ملا ہوں اور میں کہتا ہوں آپ کے خلاف کسی نے شکایت کی تھی مگر میں سمجھتا تھا کہ وہ جھوٹی ہے.فضل کریم سے مراد بھی یہی ہے کہ سب قسم کے کرم یعنی عزتیں تو میرے قبضہ میں ہیں کون آپ کو ذلیل کر سکتا ہے جبکہ میرا فضل ساتھ ہو اور شکایتیں جھوٹی ہونے سے یہ مراد ہے کہ جو لوگوں نے خیال کیا کہ گویا خدا تعالیٰ ہم سے غداری کرے گا اور دشمن کا حملہ کامیاب ہو گا یہ سب جھوٹ ہے.ہمارا خدا وفادار خدا ہے اس کے خلاف سب الزام جھوٹے ہیں.الفضل 18.نومبر 187 51934 نومبر 1934ء فرمایا : میں نے ایک دن خاص طور پر دعا کی تو میں نے دیکھا کہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب آئے ہیں (وہ اس وقت تک انگلستان سے واپس نہیں آئے تھے) اور میں قادیان سے باہر پرانی سڑک پر ان سے ملا ہوں.وہ ملتے ہی مجھ سے بغل گیر ہو گئے ہیں.اس کے بعد نہایت جوش سے انہوں نے میرے کندھوں اور سینہ کے اوپر کے حصہ پر بوسے دینے شروع کئے ہیں اور نہایت رقت کی حالت ان پر طاری ہے اور وہ بو سے بھی دیتے جاتے ہیں اور یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ
111 میرا آقا میرا جسم اور روح آپ پر قربان ہوں کیا آپ نے خاص میری ذات سے قربانی چاہی ہے.اور میں نے دیکھا کہ ان کے چہرہ پر اخلاص اور رنج دونوں قسم کے جذبات کا اظہار ہو رہا ہے.میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اول تو اس میں چوہدری صاحب کے اخلاص کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کیا ہے کہ انشاء اللہ جس قربانی کا ان سے مطالبہ کیا گیا خواہ کوئی ہی حالات ہوں وہ اس قربانی سے دریغ نہیں کریں گے.دوسرے یہ کہ ظفر اللہ خاں سے مراد اللہ تعالی کی طرف سے آنے والی فتح ہے اور ذات سے قربانی کی اپیل سے ملی نصر اللہ کی آیت مراد ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے اپیل کی گئی تو وہ آگئی.اور سینہ اور کندھوں کو بوسہ دینے سے مراد علم اور یقین کی زیادتی اور طاقت کی زیادتی ہے اور آقا کے لفظ سے یہ مراد ہے کہ فتح و ظفر مومن کے غلام ہوتے ہیں اور اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا اور جسم اور روح کی قربانی سے مراد جسمانی قربانیاں اور دعاؤں کے ذریعہ سے نصرت ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں اور فرشتوں کی طرف سے ہمیں حاصل ہوں گی.عجیب بات ہے کہ رویا میں میں نے چوہدری صاحب کو جس لباس میں دیکھا تھا ان کے آنے پر ویسا ہی لباس ان کے جسم پر تھا کو عام طور پر ان کا لباس اور طرح کا ہوتا ہے.الفضل 18.نومبر 1934ء صفحہ 5 188 مبر 1934ء فرمایا میں جمعہ کے بعد رات کو بستر پر لیٹا ہوا تھا اور غالبا نصف شب کے بعد کا وقت ہے کمزوری اور کمر درد کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی اور میں جاگ رہا تھا کہ جاگتے ہوئے میں نے نظارہ دیکھا کہ میری کوئی بیوی والدہ ناصر احمد یا والدہ طاہر احمد غالبا والدہ ناصر احمد ہیں کسی شخص نے آکر دستک دی ہے انہوں نے دریافت حال کیا تو اس شخص نے ایک چیزا نہیں دی کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب نے بھیجوائی ہے.انہوں نے لا کر مجھے دی کہ غلام نبی صاحب گلکار (جو کشمیر کی جماعت کے پریذیڈنٹ ہیں) یہ قدرتی برف لائے ہیں کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب نے دی ہے.وہ برف ایک سفید تولئے میں لپٹی ہوئی ہے اور دو سیر کے قریب ہے اور اس کی شکل بڑی اینٹ کے مشابہ ہے میں کشف کی حالت میں اس برف کو پکڑتا ہوں اور حیران ہو تا ہوں کہ اتنی دور سے اتنی برف کس طرح محفوظ پہنچ گئی تو تولیہ بھی بالکل خشک ہے اور اس میں برف پگھلنے کی
112 وجہ سے نمی تک نہیں آئی تھی.اس کے بعد یکدم حالت بدل گئی میں سمجھتا ہوں اس کشف کی تعبیر یہ ہے کہ ہمارے قلوب کو اللہ تعالیٰ کسی اپنے پیارے بندے کی قربانی کو قبول کرتے ہوئے ٹھنڈک پہنچائے گا.ولی اللہ کا بھیجنا، غلام نبی کا لانا رشیدہ بیگم (جو میری بڑی بیوی کا نام ہے) کا پکڑنا اور محمود کے ہاتھ میں دینا ایک عجیب پر معنی سلسلہ ہے جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں.قدرتی برف سے یہ مراد ہے کہ یہ سامان تسکین کے غیب سے پیدا ہوں گے اور اس کا نہ پچھلنا جتاتا ہے کہ تسکین مستقل ہو گی اور عارضی نہ ہو گی.الفضل 18.نومبر 1934ء صفحہ 6 مجھو 189 24 یا 25 دسمبر 1934ء فرمایا : 24 یا 25 دسمبر کی شب کو میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ جلسہ کے ایام میں مجھ پر حملہ کیا جائے گا اور بعض کہتے ہیں کہ موت انہی دنوں میں ہے.میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ ہے جس سے میں یہ بات پوچھتا ہوں اس نے کہا کہ میں نے تمہاری عمر کے متعلق لوح محفوظ دیکھی ہے آگے مجھے اچھی طرح یاد نہیں رہا کہ اس نے کہا میں بتانا نہیں چاہتا یا بھول گیا ہوں زیادہ تر یہی خیال ہے کہ اس نے کہا میں بتانا نہیں چاہتا لیکن جلسہ کی یا بعد کی دو تاریخیں ملا کر اس نے کہا کہ ان دنوں میں یہ بات یقیناً نہیں ہو گی.اس دن سے میں نے تو بے پرواہی شروع کر دی اور اگرچہ دوست کئی ہدایتیں دیتے رہے کہ یوں کرنا چاہئے کوئی حرج نہیں.الفضل 17.جنوری 1935ء صفحہ 8 جنوری 1935ء 190 فرمایا : چند دن ہوئے میں نے ایک رویا دیکھا ہے جس کا مجھ پر اثر ہے اور اس سے مجھے خیال آیا کہ جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاؤں کہ وہ ہمیشہ اصل مقصود کو مد نظر رکھیں.میں نے دیکھا کہ ایک پہاڑی کی چوٹی ہے جس پر جماعت کے کچھ لوگ ہیں میری ایک بیوی اور بعض بچے بھی ہیں.وہاں جماعت کے سرکردہ لوگوں کی ایک جماعت ہے جو آپس میں کبڈی کھیلنے لگے ہیں جب وہ کھیلنے لگے تو کسی نے مجھے کہا یا یو نہی علم ہوا کہ انہوں نے شرط یہ باندھی ہے کہ جو جیت جائے گا خلافت کے متعلق اس کا خیال قائم کیا جائے گا.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس فقرہ کا مطلب یہ تھا
113 کہ جیتنے والے جسے پیش کریں گے وہ خلیفہ ہو گا یا یہ کہ اگر وہ کہیں گے کہ کوئی خلیفہ نہ ہو تو کوئی بھی نہ ہو گا بہر حال جب میں نے یہ بات سنی تو میں ان لوگوں کی طرف گیا اور میں نے ان نشانوں کو جو کہڈی کھیلتے کھیلتے بنائے جاتے ہیں مٹا دیا اور کہا کہ میری اجازت کے بغیر کون یہ طریق اختیار کر سکتا ہے یہ بالکل ناجائز ہے اور میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا.اس پر کچھ لوگ مجھ سے بحث کرنے لگے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ اکثریت پہلے صرف ایک تلعب کے طور پر یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کون جیتتا ہے اور خلیفہ کی تعیین کرتا ہے اور کم لوگ تھے کہ جو خلافت کے ہی مخالف تھے مگر میرے دخل دینے پر جو لوگ پہلے خلافت کے موید تھے وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے.گویا میرے روکنے کو انہوں نے اپنی ہتک سمجھا نتیجہ یہ ہوا کہ میرے ساتھ صرف تین چار آدمی رہ گئے اور دوسری طرف ڈیڑھ دو سو.اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ گویا احمدیوں کی حکومت ہے اور میں اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے خون ریزی کے ڈر سے بھی میں پیچھے قدم نہیں ہٹا سکتا اس لئے آؤ ہم ان پر حملہ کرتے ہیں دو مخلصین میرے ساتھ شامل ہوئے مجھے یاد نہیں کہ ہمارے پاس کوئی ہتھیار تھے یا نہیں مگر بہر حال ہم نے ان پر حملہ کیا اور فریق مخالف کے کئی آدمی زخمی ہو گئے اور باقی بھاگ کر تہہ خانوں میں چھپ گئے.اب مجھے ڈر پیدا ہوا کہ یہ لوگ تہہ خانوں میں چھپ گئے ہیں ہم ان کا تعاقب بھی نہیں کر سکتے.اور اگر یہاں کھڑے رہتے ہیں تو یہ لوگ کسی وقت موقع پا کر ہم پر حملہ کر دیں گے اور چونکہ ہم تعداد میں بالکل تھوڑے ہیں ہمیں نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اور اگر ہم یہاں سے جائیں تو یہ لوگ پشت پر ہیں آکر حملہ کر دیں گے پس میں حیران ہوں کہ اب ہم کیا کریں.میری ایک بیوی بھی ساتھ ہیں اگر چہ یہ یاد نہیں کہ کونسی اور ایک چھوٹا لڑ کا انور احمد بھی یاد ہے کہ ساتھ ہے.میرے ساتھی ایک زخمی کو پکڑ کر لائے ہیں جسے میں پہچانتا ہوں اور جو اس وقت وفات یافتہ ہے اور بااثر لوگوں میں سے تھا میں اسے کہتا ہوں کہ تم نے کیا یہ غلط طریق اختیار کیا اور اپنی عاقبت خراب کرلی.مگر وہ ایسا زخمی ہے کہ مر رہا ہے مجھے یہ درد اور گھبراہٹ ہے کہ اس نے یہ طریق کیوں اختیار کیا مگر جواب میں اس کی زبان لڑکھڑائی اور وہ گر گیا.اتنے میں پہاڑ کے نیچے شور کی ایک آواز پیدا ہوئی معلوم ہوا کہ تکبیر کے نعرے بلند کئے جارہے ہیں.میں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا شور ہے تو اس نے بتایا کہ یہ جماعت کے غرباء ہیں ان کو جب خبر ہوئی کہ آپ سے
114 لڑائی ہو رہی ہے تو وہ آپ کی مدد کے لئے آئے ہیں.میں خیال کرتا ہوں کہ جماعت تو ہمیشہ غرباء سے ہی ترقی کیا کرتی ہے یہ خدا کا فضل ہے کہ غرباء میرے ساتھ ہیں مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ تکبیر کے نعرے خاموش ہو گئے اور مجھے بتایا گیا کہ آنے والوں سے فریب کیا گیا ہے.انہیں کسی نے ایسا اشارہ کر دیا ہے کہ گویا اب خطرہ نہیں اور وہ چلے گئے ہیں.کوئی مجھے مشورہ دیتا ہے کہ ہمارے ساتھ بچے ہیں اس لئے ہم تیز نہیں چل سکتے آپ نیچے جائیں آپ کو دیکھ کر لوگ اکٹھے ہو جائیں گے اور آپ اس قابل ہوں گے ہماری مدد کر سکیں.چنانچہ میں نیچے اتر تا ہوں اور غرباء میں سے مخلصین کی ایک جماعت کو دیکھتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں کہ میں یہاں اس لئے آیا ہوں کہ تا مخلصین اکٹھے ہو جائیں تم اوپر جاؤ اور عورتوں اور بچوں کو بہ حفاظت لے آؤ اس پر وہ جاتے ہیں.اتنے میں میں دیکھتا ہوں کہ پہلے مرد اترتے ہیں اور پھر عورتیں لیکن میرالڑ کا انور احمد نہیں آیا.پھر ایک شخص آیا اور میں نے اس کو کہا کہ انور احمد کہاں ہے اس نے کہا کہ وہ بھی آگیا ہے.پھر جماعت میں ایک بیداری اور جوش پیدا ہوتا ہے چاروں طرف سے لوگ آتے ہیں.ان جمع ہونے والے لوگوں میں سے میں نے شہر سیالکوٹ کے کچھ لوگوں کو پہچانا ہے ان لوگوں کے ساتھ کچھ وہ لوگ بھی آجاتے ہیں جو باغی تھے اور میں انہیں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اتحاد کے ذریعہ طاقت دی تھی.اگر تم فتنوں میں پڑے تو کمزور ہو کر ذلیل ہو جاؤ گے کچھ لوگ مجھ سے بحث کرتے ہیں.میں انہیں دلائل کی طرف لاتا ہوں اور یہ بھی کہتا ہوں کہ اس سے جماعت کا تو کچھ نہیں بگڑے گا البتہ اس کے وقار کو جو صدمہ پہنچے گا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور تم ذمہ دار ہو گے اس پر بعض لوگ کچھ نرم ہوتے ہیں لیکن دوسرے انہیں پھر در غلا دیتے ہیں اور اس بحث مباحثہ میں میری آنکھ کھل جاتی ہے.اس رؤیا کے کئی حصوں سے معلوم ہوتا ہے یہ واقعات میری وفات کے بعد کے ہیں واللہ اعلم بالصواب.اور اس موقع پر اس رویا کا آنا شاید اس امر پر دلالت کرتا ہو کہ مجھے جماعت کو آئندہ کے لئے ہو شیار کر چھوڑنا چاہئے کیونکہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہو تا اس رویا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ میرے ساتھ تعلق رکھنے والے خواہ تھوڑے ہوں اپنے دشمنوں پر غالب آئیں گے.انشاء اللہ.الفضل 17 جنوری 1935 ء صفحہ 8 - 9 - نیز دیکھیں.الفضل 17.جولائی 1937ء صفحہ 6 و11.ستمبر 1937ء صفحہ 3 و 28.اپریل 1957ء صفحہ 6
115 191 فروری 1935ء فرمایا : ایک رؤیا بیان کر دیتا ہوں جو انہی دنوں میں نے دیکھا کہ میں بھوپال میں ہوں اور وہاں ٹھرنے کے لئے سرائے میں اترنے کا ارادہ ہے.ایک سرائے وہاں ہے جو بہت اچھی اور عمدہ ہے مگر ایک اور سرائے جو بظاہر خراب اور خستہ ہے اور وہاں میرے ساتھی اسباب لے گئے ہیں.ایک ہمارے ہم جماعت ہوا کرتے تھے ان کا نام حافظ عبدالرحیم تھا.میں نے دیکھا کہ وہ اس جگہ ہیں اور حکیم دین محمد صاحب کہ وہ بھی میرے ہم جماعت ہیں وہیں ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حافظ عبدالرحیم صاحب مرحوم اس بظاہر شکستہ سرائے میں ہمیں لے گئے ہیں میں اسے دیکھ کر کہتا ہوں کہ یہاں ٹھہرنے میں تو خطرات ہوں گے.سرائے بھی خراب ہی ہے.دوسری اچھی سرائے جو ہے وہاں کیوں نہیں ٹھرتے.وہ کہنے لگے ہیں ٹھہرنا اچھا ہے پھر وہ میرے لئے بستر بچھاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بستر بھی نہایت گندہ اور میلا سا ہے.میں اسے دیکھ کر کہتا ہوں اگر مجھے معلوم ہو تا کہ بستر ایسا گندہ ملے گا تو میں اپنا بستر لے آتا.تکیہ کی جگہ بھی انہوں نے کوئی نہایت ہی ذلیل سی چیز رکھی ہے.پھر جس طریق پر وہ بچھاتے ہیں اس سے بھی مجھے نفرت پیدا ہوتی ہے کیونکہ ٹیڑھا سا بسترا انہوں نے بچھایا ہے مگر پھر میں دل میں خیال کرتا ہوں کہ یہ بری بات ہے میں کسی اور جگہ رہائش کا انتظام کروں جہاں باقی ساتھی ہیں وہیں مجھے بھی رہنا چاہئے.اس کے بعد میں بستر پر لیٹ جاتا ہوں مگر لیٹتے ہی میں دیکھتا ہوں کہ بستر نہایت اعلیٰ درجہ کا ہو جاتا ہے اور جگہ بھی تبدیل ہو کر پہلے سے بہت خوشنما ہو جاتی ہے.لحاف اور کمبل بھی جو بستر پر ہیں نہایت عمدہ قسم کے ہو جاتے ہیں اور تکیہ بھی میں دیکھتا ہوں کہ بہت اعلیٰ ہے اور باقی ساتھیوں کے بستر بھی صاف ستھرے ہو جاتے ہیں.بستر پر لیٹتے وقت میرے دل میں خیال تھا کہ مجھے اپنے پاس کوئی ہتھیار رکھنا چاہئے کیونکہ خواب میں ہم باہر صحن میں ہیں اور گلابی جاڑے کا موسم ہے جبکہ لوگ باہر سوتے ہیں لیکن اوپر کچھ نہ کچھ اوڑھتے ہیں پس خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی چور چکار نہ آجائے.میں اسی سوچ میں ہوں کہ میں خیال کرتا ہوں میری جیب میں پستول پڑا ہے اسے دیکھوں کہ موجود ہے یا نہیں.چنانچہ کہنی کے بل میں اٹھتا ہوں اور جیب میں ہاتھ مار کر دیکھتا ہوں تو مجھے نہایت اچھی قسم کا عمدہ سا پستول نظر آجاتا ہے اس پر دل میں
116 اطمینان پیدا ہو جاتا ہے.اس رویا کا اثر اتنا گہرا تھا کہ فورا آنکھ کھل گئی اور میں نے دیکھا کہ میں واقعہ میں اپنے کرتہ پر صدری کی جیب کی جگہ پر ہاتھ مار رہا ہوں جیسے کوئی کچھ تلاش کرتا ہے.یہ رویا تو تعبیر طلب ہے مگر اور بھی بہت سے واضح رویا ہوئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان ابتلاؤں میں ہمیں فتح دے گا اور یہ کہ اس کا منشاء یہ ہے کہ وہ احمدیت کو ان ابتلاؤں کے ذریعہ سے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے تمام ممالک میں پھیلائے اور کوئی بڑی سے بڑی روک اس کی ترقی میں حائل نہیں ہو سکے گی.الفضل 17.فروری 1935ء صفحہ 10 192 فرموده یکم فروری 1935ء فرمایا : میں نے اپنی زندگی میں بیسیوں دفعہ رویا دیکھا ہے کہ بعض دانت گر گئے ہیں اور عام طور پر اگر تو دیکھا جائے کہ دانت گر کر مٹی میں مل گئے ہیں تو اس کی تعبیر موت ہوتی ہے لیکن اگر یہ دیکھا جائے کہ مٹی میں نہیں ملے اور ہاتھ میں یا کسی اور محفوظ جگہ میں ہیں اور صاف ہیں تو اس کی تعبیر لمبی عمر ہوتی ہے کیونکہ دانت عام طور پر لمبی عمر میں ہی گرتے ہیں.خدا کی قدرت ہے کہ ادھر تو ایسے رویا ہوئے اور ادھر گذشتہ چند دنوں کی بات ہے کہ میرے دانتوں میں ایسا شدید درد ہوا کہ جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور اس سے دانت ہلنے لگ گئے اور میں نے سمجھا کہ شاید اسی طرح بیماری سے دانت گر کر وہ خواب پوری ہو جائے گی اور اس کے معنے لمبی کے نہیں ہوں گے مگر دوسرے تیسرے دن وہ پھر اپنی جگہ پر قائم ہو گئے.الفضل 12.فروری 1935ء صفحہ 4 اپریل 1935ء 193 فرمایا : میں نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رویا میں دیکھا آپ ایک اور شخص سے فرما رہے تھے اتُصَدِّقُنِى وَلَا تُؤْمِنُ بی یعنی تو میری تصدیق تو کرتا ہے مگر میری بات نہیں مانتا.گویا یہ ایک حدیث ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مونہہ سے میں نے براہ راست سنی.لوگ تو احادیث کے متعلق یہ بحثیں کیا کرتے ہیں کہ یہ احاد میں سے ہے اور یہ تو اتر میں سے.فلاں کے راوی ثقہ ہیں اور فلاں کے نہیں مگر یہ وہ حدیث ہے جو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سنی کہ اتُصَدِّقُنِي وَلَا تُؤْمِنُ بِنی یعنی تو میری
117 بات کو تو سچا سمجھتا ہے مگر اسے مانتا نہیں.الفضل 24 اپریل 1935ء صفحہ 8.نیز دیکھیں الفضل 10.مئی 41944 اپریل 1935ء 194 فرمایا : چند روز ہوئے میں نے دیکھا کہ کوئی شخص باہر سے آیا ہے اور اس کی بیوی اور ملازم بھی ساتھ ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی آسودہ حال آدمی ہے اور بعض مسائل پوچھنا اور اس کے بعد اطمینان حاصل کر کے سلسلہ میں داخل ہونا چاہتا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے وہ کچھ باتیں مجھ سے یا سلسلہ کے علماء کے ساتھ کر چکا ہے.میں نے اسے بڑے کمرہ میں جہاں میں ملاقاتیں کرتا ہوں بٹھایا اور جیسا کہ میرا قاعدہ ہے کہ سوائے اس وقت کے کہ ملنے والے پتلون وغیرہ پہنے ہوں فرش پر ہی بیٹھتا ہوں اس وقت بھی فرش پر ہی بیٹھا ہوں.ان کے دو ملازم آئے اور کوچ پر بیٹھ گئے اس کے بعد ان کی بیوی بھی آگئی جو مصری یا شامی آزاد تعلیم یافتہ عورتوں کی طرح سیاہ رنگ کا برقعہ اوڑھے ہے جس میں منہ ، ناک ، آنکھیں نگی ہیں.سر بال اور گردن وغیرہ ڈھکی ہوئی ہیں پھر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرد پورے طور پر سمجھ چکا ہے اور عورت سمجھنا چاہتی ہے اور آدمی کہتا ہے کہ میری بیوی بھی سوال کرنا چاہتی ہے اور اس کی خواہ ہے کہ اسے روحانی ترقی کے گر بتائے جائیں.تصوف کی طرف اس کا میلان معلوم ہوتا ہے اور صوفیاء کا جیسا قاعدہ ہے کہ وہ بعض اصطلاحات بولتے ہیں مثلاً مومن کو پرندہ کہتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت نے بھی کوئی ایسی اصطلاحیں بنائی ہیں.اس کا خاوند میرے کان میں کہتا ہے کہ اس کی خواہش ہے میں روحانی پٹواری بن جاؤں.چونکہ میں سمجھ گیا ہوں کہ اس کا میلان تصوف کی طرف ہے اس لئے اس لفظ کے سننے سے مجھے تعجب نہیں ہوتا اور میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح پٹواری زمینوں کی پیمائش کرتا ہے لوگوں کے حقوق کی نگرانی کرتا ہے، مالیہ مقرر کرتا ہے اسی طرح اس کی خواہش ہے کہ میں ایسے مقام پر پہنچ جاؤں کہ دوسروں کی نگران ہو جاؤں اور میں یہی مفہوم سمجھتا ہوں.عورت چونکہ کچھ فاصلہ پر ہے وہ بھی ذرا اونچی آواز سے کہتی ہے کہ میں چاہتی ہوں میں پٹواری بن جاؤں.اس پر اس کا خاوند جھک کر کہتا ہے کہ پیچھے جیون خاں بیٹھا ہے یہ لفظ نہ بولو.گویا ان دو نوکروں میں سے ایک جو میری پشت کی طرف بیٹھا ہے جیون خان
118 ہے دوسرا نو کر جیون خان کے پاس میرے ذرادائیں طرف کو بیٹھا ہے.اس پر وہ آہستہ سے کہتی ہے کہ میں چاہتی ہوں کہ کوئی روحانی مقام حاصل کروں پھر آہستہ سے پٹواری کا لفظ بولتی ہے اور پھر وہ کہتی ہے کہ ذرا الگ میری بات سن لیں گویا وہ یہ نہیں چاہتی کہ اس کے ملازم سن لیں اور میں ذرا پرے ہو کر اس کی بات سنتا ہوں تو وہ کہتی ہے کہ عاشق کو انعام سے کیا تعلق ہے اس کا کام تو قربانی کرنا ہے پھر اسے انعام سے کیا واسطہ میں اسے کہتا ہوں کہ اپنی بات کو ذرا اور واضح کرو اس پر وہ سورہ الرحمن کی کچھ آیات پڑھ کر کہتی ہے کہ مجھے ان پر کچھ شبہ پیدا ہوتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اسی لئے اس نے کہا تھا کہ الگ ہو کر بات سن لیں کہ تا نوکر اسے بے دین نہ سمجھیں حالانکہ یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں.سورہ الرحمٰن کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر ہے.میں رویا میں سمجھتا ہوں کہ گو الفاظ عام ہیں مگر یہ انعامات سارے انسانوں کے لئے نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لئے ہیں اور وہ پوچھتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو عاشق تھے انہیں انعام سے کیا واسطہ.اس پر میں نے اسے ایک مثال کے ذریعہ سمجھانا چاہا اور اس سے کہا کہ تم یہ بتاؤ کہ ایک بادشاہ ہے اس پر غنیم حملہ کرتا ہے وہ اپنے ایک وفادار جرنیل کو بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہیں کمانڈ ربنا کر اس تنظیم کے مقابل پر بھیجتا ہوں اب تم ہی بتاؤ کہ وہ کیا کہے.کیا یہ کہے کہ نہیں حضور میں تو خادم اور عاشق ہوں مجھے انعام کی ضرورت نہیں یا یہ کہ بہت اچھا حضور.اس عورت نے جواب دیا کہ نہیں اسے چاہئے اس عہدہ کو قبول کرے.میں کہتا ہوں کہ بس یہی حال یہاں ہے اللہ تعالیٰ جو انعام دیتا ہے وہ حقیقت میں قربانی ہوتی ہے اس پر اس نے اپنی تسلی کا اظہار کیا اور میری آنکھ کھل گئی.یہ مضمون حقیقت پر مبنی ہے.الفضل 12.اپریل 1935ء صفحہ 4 195 اپریل 1935ء فرمایا : میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ جیسے پہاڑوں میں شلز (Tunnels) ہوتے ہیں اسی طرح ایک پہاڑی راستہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی عاشق رو میں جا رہی ہیں میں بھی ان میں شامل ہوں.بہت سے لوگ میرے آگے ہیں اور بہت سے میرے پیچھے ہیں مگر وہ سب کے سب ایسے ہی ہیں جیسے دیوانہ وار مجذوب ہوتے ہیں.نہ انہیں سرکی فکر ہے اور نہ پیر کی.نہ لباس کی
119 فکر ہے نہ کسی اور چیز کی.ہم سب بڑھتے چلے جا رہے ہیں کہ مجھے محسوس ہو ا ہمارے آگے اللہ تعالیٰ کے فرشتے کچھ شعر پڑھ رہے ہیں ان کی آواز میں گونج ہے اور وہ بڑی محبت اور جوش کے ساتھ ان شعروں کو پڑھتے جا رہے ہیں.ہم ان کی طرف بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ ہم اس مقام کے قریب پہنچ گئے جہاں سے فرشتوں کے گانے کی آواز آرہی تھی اور جو گویا میں (Tunnel) کا آخری سرا تھا.جب ہم وہاں پہنچے تو مجھے وہاں اللہ تعالیٰ کا نور نظر آیا نہایت تیز روشنی جیسا نور جو تمام افق پر چھایا ہوا تھا اور میں نے دیکھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے عرش کے ارد گرد کھڑے اس سے محبت اور عشق کا اظہار کر رہے ہیں.میں بھی جس طرح دیوانہ انسان اپنا سر مارتا ہے، سر مارتے ہوئے وہاں کھڑا ہو گیا اور میں نے یہ شعر پڑھنا شروع کیا کہ ہیں تیری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جس سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا یہی شعر میں پڑھتا رہا پڑھتے پڑھتے جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا میں اپنی چارپائی پر لیٹا ہوا یہی شعر پڑھ رہا تھا کہ ہیں تیری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جس سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا الفضل 21 جون 1944ء صفحہ 3.نیز دیکھیں.الفضل 17.جون 1935ء صفحہ 4 و 10.مئی (31944 20.اپریل 1935ء 196 فرمایا : پرسوں میں نے جو تقریر کی اس کے بعد میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ قاری سرفراز حسین جو دہلی کے تھے اور اب فوت ہو چکے ہیں اور میں نے ان کی شکل کبھی نہیں دیکھی وہ آئے اور میرے پاس بیٹھ گئے.اس کی تعبیر میری سمجھ میں یہ آئی کہ جو سرفراز ہونا چاہتا ہے وہ حسینی نمونہ دکھا کر عزت حاصل کرے میں سمجھا اس سے خدا تعالی کا یہی بتانا مقصود تھا.گویا خدا تعالیٰ نے جماعت کو یہ پیغام دیا ہے کہ جماعت اگر سر فراز بننا چاہتی ہے تو حسینی نمونہ دکھائیں اور اس ابتلاء میں سے کامیابی کے ساتھ گزر جائیں.رپورٹ مجلس شوری 1935ء صفحہ 98
120 197 2 جولائی 1935ء فرمایا : ابھی تین دن کی بات ہے میں صبح کی نماز پڑھ کر لیٹا تو مجھے الہام ہو ا جس کے یہ الفاظ تھے ”مبارک ہے وہ خدا جس نے مجھے کو ثر دکھایا اور اس طرح جنت کے بعض اور مقام بھی “.میں اس وقت دل میں کہتا ہوں کہ مبارک کا لفظ انسانوں کے متعلق آتا ہے مگر اس وقت دل میں آیا کہ اس جگہ مبارک تبارک کی جگہ پر استعمال ہوا ہے.اس الہام کے وقت یوں معلوم ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے میری روح کو لے جا کر کوثر اور بعض دوسرے اعلیٰ مقامات جنت دکھائے ہیں اور واپسی پر اس لطف و اکرام پر حیران ہو کر میں اوپر کے الفاظ کہتا ہوں.غرض رویا میں خدا تعالیٰ نے مجھے کوثر کے مقام تک پہنچایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پر ہماری نصرت و تائید کے سامان ہو رہے ہیں.کو ثر تو مرنے کے بعد ملتا ہے اور اگر دوسرے کوائف ساتھ نہ ہوتے تو میں اس کی تعبیر یہ کرتا کہ یہ میرے نیک انجام کی طرف اشارہ ہے لیکن رویا کے باقی حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل کی امید دلاتے ہیں اور جماعت کی ترقیات کی اس میں خبر دی گئی ہے.اس رویا میں کو ثر کا نظارہ اس لئے بھی دکھایا گیا ہے کہ دشمن کہتا ہے ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں چونکہ کوثر دراصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے اور کو ترکی نعمتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہی مل سکتی ہیں اس لئے کو شر کے انعام ملنے کا نظارہ دکھا کر بتایا گیا ہے کہ نادان دشمن لاکھ جھک مارے کو ٹر کا دیکھنا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں اس کے زندگی بخش جام کا پینا تو ہم نے تیرے لئے مقدر کر دیا ہے کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تو ہی سچا متبع ہے.پھر وہ چیز جو بعد میں مجھ کو دی گئی وہ در حقیقت جماعت کا امام ہونے کے لحاظ سے تم کو بھی دی گئی ہے.الفضل 9.جولائی 1935ء صفحہ 8 16.اگست 1935ء 198 فرمایا : میرا ہمیشہ سے یہ تجربہ ہے کہ جب کبھی رات کو سوتے وقت میری زبان پر الہامی طور پر دعائیں جاری ہوں اس کے بعد خدا تعالیٰ کا کوئی فضل نازل ہوتا ہے.ایسے وقت میں میں دیکھتا ہوں کہ رات کو گو میں سویا ہوا ہو تا ہوں مگر میں اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر رہا ہو تا ہوں اور جب
121 آنکھ کھلتی ہے میں معلوم کرتا ہوں کہ میں نہایت سوز و گداز سے دعا کر رہا تھا گویا وہ الہامی ہی ہوتی ہے اور یہ حالت خواب میں بھی جاری رہتی ہے اسی طرح آج میں نے دیکھا ساری رات بار بار میری آنکھ کھلتی رہی اور جب بھی میں جاگا میں نے دیکھا کہ احراری فتنہ کے متعلق اللہ تعالٰی سے دعائیں کر رہا ہوں.الفضل 20 - اگست 1935ء صفحہ 10 199 19.اگست 1935ء فرمایا : گذشتہ اتوار کو ہی میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک عربی کا شعر پڑھ رہا ہوں اور خیال کرتا ہوں کہ گویا مجھ پر الہام ہوا ہے اور یہ بھی خیال کرتا ہوں کہ یہی شعر یا ایسا ہی کوئی دوسرا شعر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی الہام ہوا تھا جب میری آنکھ کھلی تو وہ شعر میری زبان پر تھا مگر افسوس کہ ایک مصرعہ یا د رہ گیا دو سرا بھول گیا وہ مصرعہ یہ ہے.تَأْتِي إِلَيْكَ الرُّوحُ كَالدُّ خَانِ یعنی انسان کی روح دھوئیں کی طرح تیری طرف آتی ہے.دوسرا مصرعہ مجھے یاد نہیں رہا لیکن اس کا مطلب یہ تھا کہ تو جب اسے چھو دیتا ہے تو وہ سورج کی طرح یا سورج سے بھی روشن ہو جاتی ہے.الفضل 27.اگست 1935 ء صفحہ 6 - 7 1936 1935 فرمایا 200 دس بارہ سال ہوئے میں نے رویا میں دیکھا کہ میں پشاور آیا ہوں اور جس ریل میں سفر کر رہا ہوں وہ شہر کی ایک گلی میں سے گزر رہی ہے یعنی دونوں طرف آبادی ہے چنانچہ آج جس وقت ریل پشاور چھاؤنی اسٹیشن پر پہنچی تو ریل کے دونوں طرف آبادی دیکھ کر مجھے اپنا رویا یاد آگیا.رویا میں میں نے دیکھا کہ جب ریل پشاور آکر ٹھہری تو مولوی غلام حسن خاں صاحب جو اس وقت زندہ تھے استقبال کے لئے اسٹیشن پر کھڑے تھے اور ان کے ساتھ ایک اور صاحب ہیں جو غالبا خاں بہادر دلاور خان صاحب ہیں.رؤیا کے بعد کئی دفعہ ارادہ کیا کہ اس رؤیا کو پورا کرنے کے لئے پشاور آؤں لیکن عرصہ تک یہ ارادہ پورا نہ ہو سکا تو آج میرے یہاں آنے سے یہ رویا پورا ہو گیا.رویا میں جو یہ دیکھا تھا کہ مولوی غلام حسن صاحب استقبال کے لئے اسٹیشن
122 پر کھڑے ہیں اس کی یہ تعبیر معلوم ہوتی ہے کہ وہ مبائعین میں شامل ہو جائیں گے چنانچہ مولوی صاحب جو پہلے غیر مبائع تھے انہوں نے میری بیعت کی اس کے بعد وہ قادیان آگئے اور وہاں ہی فوت ہو کر مقبرہ بہشتی میں مدفون ہو گئے.الفضل 22.اپریل 1948 ء صفحہ 3 ابریل 1936ء 201 فرمایا : اسلامی حکومت کے قیام کے سب سے زیادہ خواب ہمیں ہی آتے ہیں اور خواب آنا تو لوگ وہم سمجھتے ہیں ہمیں تو الہام ہوتے ہیں کہ اسلامی حکومتیں دنیا میں قائم کی جائیں گی.الفضل 4 اپریل 1938ء صفحہ 4 17.اپریل 1936ء 202 فرمایا : میں نے آج رؤیا دیکھا ہے کہ میں ایک گھر میں ہوں جو قادیان کا ہی ہے وہاں بہت سے احمدی مرد اور عورتیں جمع ہیں عورتیں ایک طرف ہیں غالبا برقعہ وغیرہ پہن کر بیٹھی ہیں یا اوٹ ہے.میں نے اس طرف دیکھا نہیں لیکن ایک طرف مرد ہیں اور ایک طرف عورتیں.چوہدری مظفر الدین صاحب جو کچھ عرصہ پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے ہیں اور اب بنگال میں مبلغ ہو کر گئے ہیں وہ اور ایک اور آدمی گھبرا کر کھڑے ہوئے جلدی جلدی بلند آواز سے میری توجہ کو ایک طرف پھر انا چاہتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ دیکھئے کیا ہے.وہ دیکھئے کیا ہے.وہاں ایک چوہیا دوڑی جارہی ہے لوگ اسے مار رہے ہیں اور میری توجہ اس طرف ہے لیکن چوہدری صاحب اور ان کا ایک ساتھی مجھے دوسری طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں اور آوازیں دے رہے ہیں اور ان کی توجہ دلانے پر میں نے اس طرف دیکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ ایک جگہ سے دیوار شق ہے اور ایک چوہیا وہاں سر کے بل لٹکی ہوئی ہے.اسے دکھا کر چوہدری مظفرالدین صاحب جلدی جلدی مجھ سے پوچھ رہے ہیں حضور یہ طاعون سے مری یا کسی اور طرح سے.اسے دیکھ کر میں سمجھتا ہوں کہ یہ طاعون سے ہی مری ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری بڑی بیوی بھی وہیں ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ چلو گھر چلیں لیکن پھر خیال آتا ہے کہ اس گھر کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اسے طاعون سے محفوظ رکھوں گا اسی لئے
123 موجودہ جگہ سے جہاں طاعون کے آثار پیدا ہو چکے ہیں ہمارا اس گھر میں جاناوحی الہی کی بے حرمتی کا موجب تو نہ ہو گا اور میرے دل میں خیال گزرتا ہے کہ کیوں نہ سات دن کے لئے کسی کھلے میدان میں باہر رہ کر پھر گھر جائیں.میں اس خیال میں تھا کہ آنکھ کھل گئی اور چوہدری صاحب جب مجھے وہ چو بیا دکھا رہے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اور بھی بہت سے چوہے مرے پڑے ہیں.چوہے سے مراد منافق بھی ہوتا ہے اور طاعون بھی.پس اس خواب کا اشارہ ایسے فتنہ کی طرف بھی ہو سکتا ہے جو گھبراہٹ کا موجب ہو یا منافقوں سے ہمارا مقابلہ آپڑے اور اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کر دے اور اس سے مراد طاعون بھی ہو سکتا ہے اور ممکن ہے اس سال طاعون زیادہ زور سے پھوٹے یا آئندہ زمانہ میں پھر اس کا شدت سے ظہور ہو.الفضل 24.اپریل 1936ء صفحہ 3 1937 1936 203 فرمایا : ایک دو سال ہوئے میں نے خواب میں دیکھا میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوں اور میرے سامنے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بیٹھے ہوئے ہیں اور 12/11 سال کی عمر کے معلوم ہوتے ہیں.کہنی پر ٹیک لگا کر ہاتھ کھڑا کیا ہوا اور اس پر سر رکھا ہوا ہے ان کے دائیں بائیں عزیزم چوہدری عبد اللہ خاں صاحب اور چوہدری اسد اللہ خاں صاحب بیٹھے ہیں ان کی عمریں آٹھ آٹھ نو نو سال کے بچوں کی سی معلوم ہوتی ہیں.تینوں کے منہ میری طرف ہیں اور یہ تینوں مجھ سے باتیں کر رہے ہیں اور بہت محبت سے میری باتیں سن رہے ہیں اور اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تینوں میرے بیٹے ہیں اور جس طرح گھر میں فراغت کے وقت ماں باپ اپنے بچوں سے باتیں کرتے ہیں اسی طرح میں ان سے باتیں کرتا ہوں.شاید اس کی تعبیر بھی مرحومہ (والدہ محترمہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب.ناقل) کی وفات ہی تھی کہ الہی قانون کے مطابق ایک قسم کی ابوت یا مامتا جگہ خالی کرتی ہے تو دوسری قسم کی ابوت یا مامتا اس کی جگہ لیتی ہے.الفضل 22 - مئی 1938ء صفحہ 2 فرمایا : جس وقت میں نے یہ رویا دیکھا اس وقت ان کے بھائی چوہدری شکر اللہ خاں صاحب بھی زندہ تھے مگر رویا میں میں نے ان کو نہیں دیکھا صرف تینوں بھائیوں کو دیکھا رویا کے بعد اللہ تعالیٰ نے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو جماعت کا کام کرنے کا بڑا موقع دیا اور لاہور کی جماعت
124 نے ان کی وجہ سے خوب ترقی کی.اس کے بعد چوہدری عبد اللہ خاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کراچی میں کام کرنے کی توفیق دی اور چوہدری اسد اللہ خاں صاحب آجکل لاہور کی جماعت کے امیر ہیں.الفضل 8 - اپریل 1960 ء صفحہ 4 $1937 204 فرمایا : ایک دفعہ میں اپنے بڑے گھر میں تھا یعنی جہاں میری بیوی رہتی ہے.حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام اس صحن میں رہا کرتے تھے.مجھے نیچے گلی میں کھڑ کا معلوم ہوا اور ایسا القاء ہوا کہ گویا نیچے منافقین ہیں.میں نے نالی کے سوراخ میں سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ لوگ دیواروں سے لگے کھڑے ہیں اور اندر جھانک کر کچھ دیکھنا چاہتے ہیں یا کان لگا کر سننا چاہتے ہیں جب انہیں معلوم ہوا کہ میں دیکھ رہا ہوں تو وہ بھاگے.وہ تعداد میں جہاں تک یاد ہے نو تھے.بھاگتے ہوئے ان میں سے بعض کو میں نے پہچان بھی لیا اور ایک کا علم تو اب تک ہے مگر بعض کے متعلق اللہ تعالیٰ نے عفو سے کام لیا اور میں ان کو دیکھ نہ سکا.الفضل 28.اپریل 1937ء صفحہ 6.نیز دیکھیں.الفضل 11.جون 1941ء صفحہ 2 جولائی 1937ء 205 فرمایا : میں ایک تازہ خواب سناتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالٰی کی نصرت ایک رنگ میں چل رہی ہے.مصری صاحب کے اعلان کے بعد پانچ دن کی بات ہے یعنی اتوار یا ہفتہ کی درمیانی شب کو میں جاگ رہا تھا اور کلی طور پر بیدار تھا کہ یک دم ربودگی کی حالت طاری ہوئی اور الٹی تصرف کے ماتحت کچھ فقرے میرے دماغ پر نازل ہونے شروع ہوئے پہلے ایک دو تو جلدی گزر گئے مگر تیسرا یہ تھا کہ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے" اور بے اختیار زبان سے نکلا.مبارک ہو مبارک ہو اور میرے دل پر یہ اثر ہے کہ یہ مبارک ہو مبارک ہو" میرے نفس کی طرف سے ہے اور پہلا حصہ الہامی ہے اور اس کا ہ یہ رویا حضور نے خطبہ جمعہ فرمودہ 25 - جون 1954 ء میں بیان فرمائی (مرتب)
125 مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح اس فتنہ کو دبانے کے لئے آ رہی ہے.اس کے بعد میں سو گیا اور میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک دشمن نے مجھ پر حملہ کیا ہے اور میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا ہے اور وہ بے ہوش ہو کر گر گیا ہے یہ معلوم نہیں کہ مرگیا یا زندہ ہے.پھر تیسرا نظارہ بدلا اور میں نے دیکھا کہ کوئی شخص ہمارے مکان میں گھس آیا ہے اور میں اسے پکڑنے کے لئے اٹھا ہوں مگر میری آنکھوں پر کٹوپ پڑا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہ ہو وہ مجھ پر حملہ کر دے کیونکہ میری آنکھوں پر تو کٹوپ ہے.اس پر میں نے کنٹوپ اتارنا شروع کیا حتی کہ میری آنکھیں بالکل ننگی ہو گئیں مگر اتنے میں وہ بھاگ گیا.اس میں بتایا گیا ہے کہ ابھی کچھ مخفی مخالف ہیں 1935ء والے رویا میں یہ دکھایا گیا تھا کہ بعض مخالف بلوں میں چھپ جائیں گے اور بعض کے زخمی ہونے کے یہ معنے ہیں کہ وہ ظاہر ہو جائیں گے.بہر حال وہ چھپ جائیں یا ظاہر ہوں ہمارے لئے اللہ تعالی کی طرف سے نصرت کا وعدہ ہے.ہمارا خدا دیکھنے والا ہے وہ اگر چھپیں بھی تو کہاں چھپ سکتے ہیں انہیں ظاہر کرا کے یا تو وہ انہیں ہمارے ہاتھوں سے سزا دے گا یا اندر ہی اندر طاعون کے چوہوں کی طرح انہیں مار دے گا.الفضل 17 - جولائی 1937 ء صفحہ 6.نیز دیکھیں.الفضل 10.مئی 1944ء صفحہ 4 و 30.جنوری 1945ء صفحہ 5 و 6 اپریل 1949ء صفحہ 3 و 23 اگست 1964ء صفحہ 4 اور سیر روحانی جلد 2 صفحہ 139 ( شائع کردہ الشركة الاسلامیہ ربوہ) جولائی 1937ء 206 فرمایا : چند روز ہوئے کہ مجھے الہام ہو ا جو اپنے اند ر دعا کا رنگ رکھتا ہے اور وہ یہ کہ ”اے خدا! میں چاروں طرف سے مشکلات میں گھرا ہو ا ہوں تو میری مدد فرما.پھر اس کے تین چار روز بعد الہام ہو ا جو گویا اس کا جواب ہے کہ گا.९९ میں تیری مشکلات کو دور کروں گا اور تھوڑے ہی دنوں میں تیرے دشمنوں کو تباہ کر دوں آخری الفاظ "تباہ کر دوں گا“ یا ” برباد کر دوں گا“ یا ”مٹا دوں گا“ تھے صحیح طور پر یاد نہیں رہے.الفضل 30 جولائی 1937ء صفحہ 10.نیز دیکھیں.الفضل 23.اگست 1964ء صفحہ 4
126 207 جولائی 1937ء فرمایا : انہی دنوں میں نے ایک رویا دیکھا ہے وہ بھی مخالفوں کے تباہ ہونے پر دلالت کرتا ہے.ایسے معلوم ہوتا ہے کہ ایک درختوں کا چھوٹا سا جنگل ہے جس میں کچھ درخت ہیں اور کچھ کھلا میدان ہے اور تین چار چار پائیاں پڑی ہیں دو شرقا غربا ایک شمالاً جنوبا ان میں سے ایک پر میں بیٹھا ہوں اور ایک پر ایک بچہ اور ایک عورت بیٹھے ہیں.وہ عورت اگر چہ محرم معلوم ہوتی ہے مگر اس وقت اس کا نام ذہن میں نہیں آتا.میں نے یکدم دیکھا کہ بھورے رنگ کا ایک سانپ جو قریبا ڈیڑھ گز لمبا ہے چارپائی کے نیچے سے نکلا ہے.میرے پاس چھوٹی سی سوئی ہے میں نے دوڑ کر اسے مارا سوئی اس کی کمر میں لگی اور وہ دو ٹکڑے ہو گیا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دو مونی ہے اور اس کی دم اور سردونوں ہی میں زندگی کے آثار معلوم ہوتے ہیں (جیسا کہ عوام میں مشہور ہے.دو مونہی سانپ میں دو زندگیاں ہوتی ہیں سر کی طرف بھی اور دم کی طرف بھی) مگر اب اس میں بھاگنے اور حملہ کرنے کی طاقت نہیں رہی وہ کھسکتا ہے.عورت اس کے پاس آئی مگر بچہ وہیں بیٹھا رہا وہ لکڑی کے ساتھ اسے ہلاتی ہے.میں بھی ایک سرا ہلا رہا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ وہ سانپ چھوٹا ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ڈیڑھ بالشت کے قریب رہ گیا اور ساتھ ہی پتلا بھی ہوتا گیا پھر دائیں طرف ایک درخت کے نیچے آگ جلتی ہوئی نظر آئی میں نے اس عورت سے کہا کہ اس کا ایک ٹکڑا لکڑی سے تم اٹھاؤ اور ایک میں اٹھاتا ہوں اور اسے آگ میں ڈال دیں تا جل جائے.میں نے تو ایک ٹکڑا آگ میں ڈال کر او پر بوجھ رکھ دیا اور وہ جل کر راکھ ہو گیا دوسرا حصہ جو اس عورت کو جو میں سمجھتا ہوں ہماری رشتہ دار ہے مگر خیال نہیں کہ کون ہے آگ میں ڈالنے کے لئے کہا تھا وہ اس نے پھینکا تو بجائے آگ کے وسط میں گرنے کے آگ کے آخری حصہ میں گرا.اس پر میں کہتا ہوں کہ یہ آگ سے نکل نہ جائے اسی لئے میں نے ایک اینٹ اٹھا کر اس کے اوپر پھینک دی تا وہ اچھی طرح جل جائے اور پھر اسے آگ لگ گئی اور وہ جل گیا مگر اس کا سر ایک چھوٹی انگلی کی پور کے برابر آگ میں سے نکل کر جھاڑی کی جڑ کی طرف چلا گیا میں اسے بھی مارنا چاہتا ہوں مگر وہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے.اب اس کی یہ تعبیر بھی ہو سکتی ہے کہ اس فتنہ کا تھوڑا سا حصہ باقی رہ جائے گا اور یہ بھی کہ
127 بالکل تباہ ہو جائے گا کیونکہ کہتے ہیں کہ سانپ جب زخمی ہو جائے تو پھر بچ نہیں سکتا.پس اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ یہ اس طرح ذلیل ہوں گے کہ کوئی اثر ان کا جماعت میں نہ رہے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے کچھ لوگ ذلیل ہو کر مخفی مخفی جماعت میں شامل رہیں جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض مناطق رہ گئے تھے جنہوں نے بعد میں بہت گندی روایات تاریخ اسلامی میں داخل کر دیں.یہ بھی اندر رہ کر فتنہ پیدا کرتے رہیں.اللفضل 30 - جولائی 1937 ء 10+ 12.ستمبر 1937ء 208 فرمایا : گذشتہ اتوار کی رات میں نے ایک عجیب رویا دیکھا.میں نے دیکھا کہ ایک بڑا جلسہ گاہ ہے مگر اس رنگ کا نہیں جیسا کہ ہمارا جلسہ گاہ ہوا کرتا ہے بلکہ جیسا کہ تاریخوں میں ہم پڑھتے ہیں کہ روم میں بڑے بڑے قومی اجتماعوں کے لئے ایمفی تھیٹر (Amphi Theatre) بنائے جایا کرتے تھے اس رنگ کا وہ جلسہ گاہ ہے یعنی جو خطیب ہے اس کے سامنے مربع یا مستطیل شکل میں جلسہ گاہ نہیں بلکہ ہلالی رنگ میں ہے جس طرح گھوڑے کا نعل بیچ میں سے خالی ہوتا اور قریباً نصف دائرہ یا اس سے کچھ زیادہ بناتا ہے اسی طرح ایک وسیع میدان میں جو نصف میل یا میل کے قریب ہے اسی طرح بیج لگے ہوئے ہیں جس طرح پہلے دن کا چاند ہوتا ہے ایک گول دائرہ ہے جو دور فاصلہ سے شروع ہو کر دونوں کناروں سے آگے بڑھنا شروع ہوتا ہے اور جس طرح چاند کی ایک طرف خالی نظر آتی ہے اسی طرح ایک طرف سے اس دائرہ کی خالی ہے اور وہاں لیکچرار یا خطیب کی جگہ خالی ہے.اس وسیع میدان میں کہ لوگوں کی شکلیں بھی اچھی طرح پہچانی نہیں جاسکیں بہت سے لوگ لیکچر سنے کے لئے بیٹھے ہیں اور جو درمیانی جگہ خطیب کی ہے جہاں چاند کے دونوں کونے ایک دوسرے کے قریب ہو جاتے ہیں وہاں میں کھڑا ہوں اور اس وسیع مجمع کے سامنے ایک تقریر کر رہا ہوں.وہ تقریر الوہیت نبوت اور خلافت کے متعلق اور اس کے باہمی تعلقات کی نسبت ہے.گویوں بھی میری آواز خدا تعالیٰ کے فضل سے جب صحت ہو تو بہت بلند ہوتی ہے اور دور دور سنائی دیتی ہے لیکن وہ دائرہ اتنا وسیع ہے کہ میں سمجھتا ہوں مجھ سے دگنی آواز والا شخص بھی اپنی آواز ان لوگوں تک نہیں پہنچا سکتا مگر رویا میں میری آواز
128 اتنی بلند ہو جاتی ہے کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ اس وسیع دائرہ کے تمام سروں تک میری آواز پہنچ رہی ہے.اس ضمن میں مختلف آیات قرآنیہ سے اپنے مضمون کو واضح کرتا ہوں اور بعض دفعہ تقریر کرتے کرتے میری آواز اتنی بلند ہو جاتی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے وہ دنیا کے سروں تک پہنچ رہی ہے.جب میں اپنی تقریر کے آخری حصہ تک پہنچتا ہوں تو اس وقت میری حالت اس قسم کی ہو جاتی ہے جس طرح کوئی شخص جذب کی حالت میں آجاتا ہے.میں نے اس وقت الوہیت نبوت اور خلافت کے متعلق ایک مثال بیان کر کے اپنے لیکچر کو ختم کیا.اور اس وقت میری آواز میں ایسا جلال پیدا ہو گیا کہ اس کے اثر سے میری آنکھ کھل گئی ہے.مجھے صرف وہ مثال ہی یاد رہ گئی ہے باقی مضمون بھول گیا ہے وہ مثال میں نے رویا میں یہ دی تھی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء اور اس کے خلفاء کے تعلق کی مثال چوکھٹے میں لگے ہوئے آئینہ کی ہوتی ہے.آئینہ کا کام تو در حقیقت درمیانی شیشہ دیتا ہے مگر اس شیشہ کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی لگی ہوئی ہوتی ہیں جیسے آئینہ کے پیچھے قلعی ہوتی ہے اور اس کے ارد گرد چوکھٹا ہوتا ہے لیکن دراصل جو چیز ہماری شکل ہمیں دکھاتی ہے اور جو چیز ہمارے عیب اور صواب کے متعلق ہماری راہ نمائی کرتی ہے وہ آئینہ ہی ہے نہ وہ قلعی جو اس کے پیچھے لگی ہوئی ہوتی ہے وہ اپنی ذات میں شکل دکھا سکتی ہے اور نہ وہ چوکھٹا جو اس کے ارد گرد لگا ہوا ہے وہ ہمارے عیب اور صواب کے متعلق ہمیں کوئی ہدایت دے سکتا ہے.لیکن آئینہ بھی عیب اور صواب ہمیں تبھی بتاتا ہے جب اس کے پیچھے قلعی کھڑی ہو اور وہ محفوظ بھی اس وقت تک رہتا ہے جب تک وہ چوکھٹ میں لگا رہتا ہے چنانچہ چوکھٹوں میں لگے ہوئے آئینے لوگ اپنی میزوں پر رکھ لیتے ہیں.اپنی دیواروں پر لٹکا لیتے ہیں اور اس طرح وہ ٹوٹنے سے محفوظ رہتے ہیں مگر جب ہم اس کے چوکھٹے کو اتار دیں اور اس کی قلعی کو کھرچ دیں تو آئینہ بلحاظ روشنی کے تو آئینہ ہی رہتا ہے مگر پھر وہ ہماری شکل ہمیں نہیں دکھاتا اور اگر دکھاتا ہے تو نہایت دھندلی سی جیسے مثلاً (یہ مثال میں نے رویا میں نہیں دی صرف سمجھانے کے لئے بیان کر رہا ہوں) دروازوں میں وہی شیشے لگے ہوئے ہوتے ہیں، کھڑکیوں میں بھی وہی شیشے لگے ہوئے ہوتے ہیں جو آئینوں میں ہوتے ہیں مگر ان میں سے شکل نظر نہیں آسکتی کیونکہ ان کے پیچھے قلعی نہیں لگی ہوتی.اسی طرح جن شیشوں کے چوکھٹے اتر جاتے ہیں رویا میں ہی میں کہتا ہوں کہ ان شیشوں کا محفوظ رکھنا مشکل ہوتا ہے اور وہ ٹوٹ جاتے
129 ہیں.تو آئینہ اپنے اندرونی جو ہر ظاہر کرنے کے لئے ایک ایسی چیز کے آگے کھڑا ہوتا ہے جو اپنی ذات میں تو چہرہ دکھانے والی نہیں مگر جب وہ آئینہ سے مل جاتی ہے تو آئینہ میں شکل نظر آنے لگ جاتی ہے اور وہ قلعی ہے.اسی طرح اس کا چوکھٹا اسے محفوظ رکھتا ہے تو میں رویا میں یہ مثال دے کر کہتا ہوں کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کی مثال ایک آئینہ کی سی ہے اور انسان کی پیدائش کا اصل مقصد اس کو حاصل کرنا ہے وہی ہے جو ہمیں علم دیتا ہے لیکن وہ اپنی قدیم سنت کے مطابق اس وقت تک دنیا کو عیب اور صواب سے آگاہی نہیں بخشا جب تک اس کے پیچھے قلعی نہیں کھڑی کی جاتی جو نبوت کی قلعی ہے یعنی وہ ہمیشہ اپنے وجود کو نبیوں کے ہاتھ سے پیش کرواتا ہے جب نبی اپنے ہاتھ میں لے کر خدا تعالیٰ کے وجود کو پیش کرتا ہے تبھی دنیا اس کو دیکھ سکتی ہے ور نہ نبوت کے بغیر خدا تعالیٰ کی ہستی اتنی مخفی اور اتنی دراء الورٹی ہوتی ہے کہ انسان صحیح اور یقینی طور پر اس کا اندازہ ہی نہیں کر سکتا.اللہ تعالی آسمانوں میں بھی ہے اللہ تعالی زمینوں میں بھی ہے، اللہ تعالیٰ دریاؤں میں بھی ہے اللہ تعالیٰ پہاڑوں میں بھی ہے اللہ تعالیٰ سمندروں میں بھی ہے اللہ تعالی خشکیوں میں بھی ہے غرض ہر ایک ذرہ ذرہ سے اس کا جلال ظاہر ہو رہا ہے مگر باوجود اس کے کہ دنیا کے ذرہ ذرہ میں اس کا جلال پایا جاتا ہے بغیر انبیاء کے دنیا نے کب اس کو دیکھا.انبیاء ہی ہیں جو خدا تعالیٰ کا وجود دنیا پر ظاہر کرتے ہیں لیکن انبیاء خدا تعالیٰ کو بناتے نہیں وہ تو ازل سے موجود ہے پھر وجہ کیا ہے کہ انبیاء کے آنے پر دنیا خدا تعالیٰ کو دیکھنے لگ جاتی ہے اور پہلے نہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ جس طرح آئینہ کے پیچھے قلعی کا وجود ضروری ہوتا ہے اسی طرح انبیاء کو خدا تعالیٰ نے اپنے ظہور کا ذریعہ بنایا ہوا ہے.پھر جو کھٹا جو ہوتا ہے وہ آئینہ کی حفاظت کا ذریعہ ہوتا ہے اور وہ نبوت اور خلافت کا مقام ہے یعنی انبیاء اور ان کے خلفاء اللہ تعالیٰ کے وجود کو دنیا میں قائم رکھتے ہیں خود اپنی ذات میں اللہ تعالی می و قیوم ہے لیکن اس نے اپنی سنت یہی رکھی ہے کہ وہ اپنے وجود کو بعض انسانوں کے ذریعہ قائم رکھے ان وجودوں کو مٹا دو ساتھ ہی خدا تعالیٰ کا ذکر بھی دنیا سے مٹ جائے گا.الفضل 24.ستمبر 1937ء صفحہ 3.4 209 13 یا 14.ستمبر 1937ء فرمایا : پیر یا منگل کو مجھے اب یہ اچھی طرح یاد نہیں رہا کہ کو نسادن تھا بہر حال ان میں سے کسی
130 دن نماز ظهر یا عصر یہ بھی مجھے صحیح طور پر یاد نہیں) میں پڑھا رہا تھا اور اس وقت مجھے خواب (اوپر والی.ناقل ) کا خیال بھی نہیں تھا گویا اس وقت وہ میرے ذہن سے بالکل اتری ہوئی تھی کہ جب میں نے رکوع کے بعد قیام کیا اور پھر سجدہ میں جانے کے لئے اللہ اکبر کہا تو جس وقت اوپر سے نیچے سجدہ کی طرف جانے لگا تو معا القاء کے طور پر میرے دل پر ایک آیت نازل ہوئی اور مجھے بتایا گیا کہ یہ وہ آیت ہے جو اس مضمون کی حامل ہے جو خواب میں بتایا گیا ہے اور پھر بجلی کی طرح اس طرح وہ وسیع مضمون میرے سامنے آگیا کہ اس کی وجہ سے نہ صرف وہ آیت بلکہ سورۃ کی سورۃ ہی حل ہو گئی اور اس کی ترتیب جو میں پہلے سمجھتا تھا اس کے علاوہ ایک ایسی ترتیب مجھ پر کھول دی گئی کہ مجھے یوں معلوم ہونے لگا کہ اس سورۃ میں ہر آیت اس طرح پروئی ہوئی ہے جس طرح کے موتی پروئے ہوئے ہوتے ہیں اور کوئی آیت اس سورۃ میں ایسی نہ رہی جس کے متعلق یہ شبہ ہو سکے کہ اس کا پہلی آیتوں یا بعد کی آیتوں سے کیا تعلق ہے.وہ سورۃ جس کی طرف میرا ذہن منتقل کیا گیا سورہ نور ہے اور وہ آیت جس کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ اس میں الوہیت، نبوت اور خلافت کے تعلقات پر بحث کی گئی ہے اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (النور : 36) ہے.الفضل 24.ستمبر 1937ء صفحہ 6 210 $1937 فرمایا : میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ کوئی شخص مجھ سے سوال کرتا ہے کہ قرآن کریم میں مختلف مسائل کا تکرار ہوا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ میں اسے جواب دیتا ہوں کہ قرآن مجید میں کوئی تکرار نہیں.لفظ تو الگ رہے قرآن مجید میں تو زیر اور زبر کی بھی تکرار نہیں جو زیر ایک جگہ استعمال ہوئی ہے اس کی غرض دوسری جگہ آنے والی زیر سے مختلف ہے اور جو زبر ایک جگہ استعمال ہوئی ہے دوسری جگہ آنے والی زبر سے اس کے سنے مختلف ہیں یہ قرآن مجید کی وہ خوبی ہے جو کسی اور الہامی کتاب کو ہرگز حاصل نہیں.انقلاب حقیقی (ایڈیشن دوم صفحہ 83-84 تقریر جلسہ سالانہ 28.دسمبر 1937ء)
131 211 مارچ 1938ء فرمایا : اس مقدمہ میں ایک اور نشان بھی ہے.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قتل کے مقدمہ کے متعلق رویا ہو گئی تھی اسی طرح اس مقدمہ میں مجھے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رویا ہوئی جو بالکل صحیح ثابت ہوئی.مجھے شیخ بشیر احمد صاحب نے فون پر اطلاع دی کہ اس درخواست کے فیصلہ کے لئے جو تاریخ مقرر تھی وہ بدل دی گئی ہے پھر اس کے بعد دوبارہ اطلاع دی که دو سری تاریخ جو مقرر ہوئی وہ بھی بدل گئی ہے میں نے انہیں کہا کہ یہ تاریخوں کا بد لنا اچھا نہیں کیونکہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ اس عرصہ میں جوں پر مخالف اثر ڈالنے کی کوشش کی جائے گی.میں بہت حیران تھا کہ ہائیکورٹ کے جج تو بڑے پایہ کے لوگ ہوتے ہیں ان پر بیرونی اثر ڈالنا تو نا ممکن ہے مگر اس کی کوشش کرنا بھی بظاہر نا ممکن ہے پھر یہ رویا کس طرح پورا ہو گا مگر خدا تعالیٰ نے اس کے بھی سامان پیدا کر دیئے اور وہ اس طرح کہ ان لوگوں نے فخر الدین صاحب ملتانی کے لڑکے کی طرف سے ایک ٹریکٹ انگریزی میں شائع کر کے بچوں کو بھجوا دیا اور اسے مظلوم قرار دے کر ان کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی.اس ٹریکٹ میں میرے حوالوں کو غلط طور پر کانٹ چھانٹ کر پیش کیا گیا اور ظاہر کیا گیا ہے کہ گویا وہ لوگ بہت مظلوم ہیں اور میاں فخر الدین کو میں نے مروا دیا ہے.ٹریکٹ علاوہ دوسرے لوگوں کے بچوں کو بھی بھجوایا گیا اور اس طرح ججوں کے خیالات پر اثر ڈالنے کی کوشش کی گئی مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس منصوبہ کو بھی ناکام کیا اور ججوں کو سچ تک پہنچنے کی توفیق دی اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ خطبہ میں ہرگز جسمانی سزا کی طرف کسی کو ترغیب نہیں دلائی گئی بلکہ روحانی سزا کا ذکر ہے.الفضل 18.مارچ 1938ء صلحہ 9 - 10 مارچ.اپریل 1938ء 212 فرمایا : اس سفر سندھ میں ایک دن کسی بات پر مجھے سخت تکلیف اور رنج تھا اور سارا دن میری طبیعت پر اس کا اثر رہا شدید گھبراہٹ تھی رات کو میں نے بہت دعا کی اور جب سویا تو ایک رؤیا دیکھا کہ جیسے میں کسی غیر ملک میں ہوں اور وہاں سے دوسرے ملک کو واپسی کا سفر اختیار کرنے والا ہوں.میرے ساتھ خاندان کی بعض مستورات بھی ہیں اور بعض مرد بھی.خواب
132 میں میں سمجھتا ہوں جیسا کہ میں انگلستان میں ہوں اور فرانس سے ہو کر مشرق کی طرف آرہا ہوں.ہم ریل پر سوار ہونے کے لئے پیدل جا رہے ہیں ریل کے سفر کے بعد جہاز پر چڑھنے کا خیال ہے.چلتے ہوئے ہم ایک خوبصورت چوک میں پہنچے جہاں ایک عالی شان مکان ہے اور اس کا مالک کوئی انگریز ہے.مجھے کسی نے آکر کہا کہ اس کا مالک اور اس کی بیوی آپ سے چند منٹ بات کرنا چاہتے ہیں اگر آپ تھوڑی سی تکلیف فرما کر وہاں چلیں تو بہت اچھا ہے.میں نے اس سے ملنا منظور کر لیا اور میں بھی اور میرے ساتھ کی مستورات بھی اس مکان میں گئیں.عورتیں جا کر اس کی بیوی کے پاس بیٹھ گئیں اور باتیں کرنے لگیں اور میں اس آدمی کے ساتھ باتیں کرنے لگا.مختلف علمی باتیں ہوتی رہیں گفتگو کوئی مذہبی نہیں تھی بلکہ علمی تھی مثلاً یہ کہ مستشرقین یعنی عربی دان انگریز کون کون سے ہیں نیز بعض تمدنی تحقیقاتوں کے متعلق باتیں ہوتی رہیں.باتوں میں اس نے عبدالحی عرب کا ذکر کیا اور کہا کہ اس نے فلاں انگریز کو عربی پڑھائی ہے میں نے کہا کہ میں عبدالحی عرب کو جانتا ہوں وہ بوجہ عرب ہونے کے خراب شدہ عربی بول لیتے ہیں مگر عربی کے کوئی عالم نہیں.اس نے کہا کہ خیر کتاب پڑھانا کیا مشکل ہوتا ہے لغت کی کتابیں دیکھ کر پڑھایا جا سکتا ہے.جب وہاں سے چلنے لگے ہیں تو میں اپنے دل میں ڈر رہا ہوں کہ اس کی بیوی اب مجھ سے مصافحہ کرے گی اور میں اسے کہتا ہوں کہ آپ برا نہ منائیں ہمار اند ہی حکم ہے کہ عورتوں سے مصافحہ جائز نہیں.یہ سن کر اس کے چہرہ پر تو تغیر پیدا ہوا مگر اس نے جواب دیا کہ اگر آپ کے مذہب کا یہ حکم ہے تو پھر بر امنانے کی کیا بات ہے.پھر اس خیال سے کہ مجھے یہ خیال نہ ہو کہ اس نے برا منایا ہے اس نے ہنس کر کہا کہ اللہ تعالٰی آپ کے اس سفر کو کامیاب کرے.میں وہاں سے چلا اور مستورات کے ساتھ نیچے آیا ہوں تو بعض دوست نیچے کھڑے ہیں جن میں میر محمد اسماعیل صاحب اور درد صاحب بھی ہیں.میں ان سے بات چیت کرتا اور کہتا ہوں کہ اب ہمیں چلنا چاہئے مگر وہ کہتے ہیں کہ شاید آپ کو خیال نہیں رہا کہ بڑی دیر ہو گئی ہے رات کے دس بج چکے ہیں اور اب تو گاڑی جا چکی ہوگی.پھر وہ مجھے پوچھتے ہیں کہ آپ نے کھانا کھالیا میں کہتا ہوں کہ نہیں ابھی کھاتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ اہل خانہ نے بعض مہمانوں کو دو چار مرتبہ پیغام بھیجا کہ آجاؤ تا کھانا کھا سکیں اس لئے ہمارا خیال تھا کہ آپ بھی کھا چکے ہیں.میں نے کہا ممکن ہے اس کا خیال ہو کہ وہ آجائیں تو کھالیں مگر نہ وہ مہمان آئے اور نہ کھانا کھلایا گیا.پھر
133 میں کہتا ہوں کہ اب کیا کیا جائے وہ کہتے ہیں کہ ہوائی جہاز میں جاکر جہاز کو پکڑ سکتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ اس میں خرچ بہت زیادہ ہو گا کل کیوں نہ چلے جائیں.اس وقت خواب میں میں محسوس کرتا ہوں کہ گویا ہم مصر میں ہیں اور حج کے لئے جارہے ہیں میری یہ بات سن کر غالباد رو صاحب نے کہا کہ ہمارا بھی یہی خیال تھا کہ کل چلے جائیں تو اچھا رہے گا.اس پر میں نے کہا کہ ہمیں ایک دن مل گیا ہے کیوں نہ قاہرہ مستورات کو دکھالیں گویا اس وقت ہم کسی ساحل بحر کے شہر میں ہیں.انہوں نے میری اس رائے کی تصدیق کی مگر معا مجھے خیال آیا کہ قاہرہ تو میں نے دیکھا ہوا ہے ( اور واقعی دیکھا ہوا ہے) اسکندریہ نہیں دیکھا وہاں چلے چلیں.مستورات نے نہ تو قاہرہ دیکھا ہے اور نہ اسکندریہ.اس واسطے ان کے واسطے تو برا بر ہے خواہ کہیں چلے جائیں بہر حال اس وقت میں وہ ایک شہر دیکھ سکتی ہیں مگر مجھے اسکندریہ دیکھنے کا موقع مل جائے گا.اس پر مولوی ابو العطاء صاحب جو اس وقت سامنے بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں کہتے ہیں کہ مجھے بھی یہی خیال آرہا تھا کہ آپ سے کہوں کہ آپ اسکندریہ ہو آئیں.اتنے میں ذو الفقار علی خاں صاحب نظر آئے اور وہ کہتے ہیں کہ یہاں کے تجار کے بعض لیڈر جو گویا ان کی مجلس اعلیٰ کے ممبر ہیں آپ سے ملنا چاہتے ہیں ایک دو منٹ ہی لیں گے.میں کہتا ہوں کہ وقت بہت ہو گیا ہے ابھی ہم نے کھانا بھی نہیں کھایا اور صبح روانہ ہونا ہے.مگر خیر آپ ان کو لے آئیں چنانچہ وہ آئے اور ایک نیم دائرہ کی صورت میں کھڑے ہو گئے ان میں سے بعض ترکی لباس میں ہیں اور بعض عربی میں ، میں ان سے مصافحہ کرتا ہوں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ باتیں کرتی ہیں جہاں ہم ہیں وہاں سنگ مرمر کا اچھا فرش ہے اس پر کپڑے بچھا دیئے گئے اور ہم اس پر بیٹھ گئے ہیں.میں ان سے کہتا ہوں ہمیں ہندوستان میں عربی میں گفتگو کرنے کی مشق نہیں ہوتی اس لئے " اگر میں آہستہ آہستہ بات کروں تو آپ گھبرائیں نہیں آپ کا جواب بہر حال آجائے گا.اس پر ان میں سے ایک نے نہایت خطرناک بگڑی ہوئی گنواری زبان میں کوئی بات کی میں نے اسے کہا کہ ہم تو قرآن کریم کی زبان ہی جانتے ہیں آپ لوگوں کی بگڑی ہوئی زبان نہیں سمجھتے بلکہ ہم میں سے بعض تو یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کی عربی عربی ہی نہیں.اس پر ایک شخص ان میں سے کہتا ہے کہ ہاں ہماری زبان بہت خراب ہو گئی ہے اور قرآنی زبان سے بہت دور جا چکی ہے.اس کے بعد ان میں سے ایک شخص جس نے ترکی لباس پہنا ہوا ہے مجھے کہتا ہے کہ کیا میں انگریزی زبان میں
134 گفتگو کروں.اس کے بعد کوئی وجہ تو مجھے معلوم نہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس جگہ کو چھوڑ کر تھوڑے فاصلے پر ہی دوسری جگہ جابیٹھے ہیں اس جگہ کی تبدیلی کی کوئی وجہ معلوم نہیں.شاید اندھیرا تھا اور ہم روشنی میں آنا چاہتے تھے خیر اس جگہ ان لوگوں میں سے ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عربی پر اعتراض کئے اور نتیجہ یہ نکالا کہ یہ شخص مامور کس طرح ہو سکتا ہے.اس وقت مجھے یہ احساس ہے کہ ان میں سے ایک شخص احمدیت سے متاثر ہو چکا ہے اور یہ لوگ اس لئے نہیں آئے کہ خود تحقیق کریں بلکہ ان کی غرض یہ ہے کہ اسے خراب کریں اور ان میں سے ایک ہنس کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب لحة النور يا شاید کسی اور کتاب کا نام لیتا اور کہتا ہے کہ وہ کتاب ہو تو ہم اس میں سے حوالہ پڑھ کر بھی سنا سکتے ہیں.ان کے سوال کے جواب میں میں نے عربی زبان میں جواب دینا شروع کیا اور اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک اہل زبان قادر ہوتا ہے میں بے تکلفی سے عربی زبان میں باتیں کر رہا ہوں اور کوئی حجاب معلوم نہیں ہوتا.میں نے ان سے کہا کہ اعتراض تو ہر بڑی سے بڑی سچائی پر بھی ہو سکتا ہے کوئی ایسی صداقت نہیں جس پر لوگوں نے اعتراض نہ کئے ہوں اور یہ سوال بے شک آپ کے نزدیک وقیع ہوں مگر میں تو اس وقت چند منٹ سے زیادہ آپ لوگوں کو نہیں دے سکتا ہم نے تو ابھی کھانا بھی نہیں کھایا پھر صبح اسکندریہ جاتا ہے اور وہاں سے واپس آکر حج کے لئے روانہ ہوتا ہے اگر دو چار منٹ میں آپ کے سوالات کا جواب دوں تو اول تو آپ کی تسلی نہیں ہو سکے گی اور اگر ہو بھی جائے تو آپ کہیں گے ابھی فلاں سوال رہ گیا اور اگر میں ان کا جواب نہیں دوں گا آپ کہیں گے آتا نہیں تھا، پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان پر اور اعتراض پڑتے ہوں پھر ان کا جواب دینا ضروری ہو گا اور اتنا وقت میرے پاس نہیں اس کا حل میں ایک آسان ترکیب سے کر دیتا ہوں.ہر صداقت کے متعلق کچھ گر ہوتے ہیں جن سے اس کو پر کھا جا سکتا ہے.پس قرآن کریم نے جو گر بیان کئے ہیں اگر تو ان کے رو سے یہ ثابت ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعوی سچا ہے تو پھر ان اعتراضات کا یہ مطلب ہو گا کہ ہمارے خیال کی غلطی ہے کیونکہ قرآن کریم غلط نہیں ہو سکتا اور اگر ان گروں کے رو سے.آپ سچے ثابت نہ ہوں تو خواہ ایک بھی اعتراض آپ پر نہ پڑے ، آپ جھوٹے ہوں گے.پھر میں ان سے کہتا ہوں کہ میں آپ لوگوں کو
135 قرآن کریم کا ایک گر بتاتا ہوں جو سورہ فاتحہ میں بیان ہے اور یہ بیان کرنے سے پہلے میں نے جو فقرے کے وہ مجھے ابھی تک یاد ہیں.میں نے کہا کہ وہ گر ایسی سورۃ میں بیان کیا گیا ہے جو قرآن کریم کی ابتداء میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ایک ہے اور جسے نماز کی ہر رکعت میں پڑھا جاتا ہے اور وہ سورہ فاتحہ ہے اس کے بعد میں نے سورۃ فاتحہ پڑھی اور کہا کہ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے تین گروہ بیان کئے ہیں اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ الْمَغْضُوبِ الضَّالِّينَ اور بتایا ہے کہ دنیا میں یا تو وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کے انعام نازل ہوئے یا جن پر اس کا غضب بھڑ کا اور یا ضال جنہوں نے خدا تعالیٰ کے راستہ کو چھوڑ دیا اور بندوں کو خدا کی جگہ دے دی.غرض یہ تین گروہ ہی قرآن کریم نے بیان کئے ہیں.منعم علیہ.مغضوب اور ضال.اگر تو حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام منعم علیہ گروہ میں شامل ہیں تو خواہ آپ پر کتنے اعتراض ہوں آپ جھوٹے نہیں ہو سکتے اور اگر مغضوب یا ضال میں سے ہیں تو پھر خواہ ایک بھی اعتراض نہ ہو آپ بچے نہیں ہو سکتے.یہ ایک چھوٹا سا نکتہ ہے جس کے ماتحت ہم دیکھ لیتے ہیں کہ آپ کس گروہ میں سے ہیں.میں جس وقت یہ تقریر کر رہا ہوں تو میں نے دیکھا کہ مصریوں میں سے ایک شخص اس طرح سر ہلا رہا ہے کہ گویا اس سے متاثر ہے اس پر اس کے ساتھی ڈرے ہیں اور انہوں نے خیال کیا کہ پہلے جو شخص متاثر تھا ہم تو اسے بگاڑنے کے لئے آئے تھے مگر اب تو ڈر ہے کہ اسے بگاڑنے کی بجائے اور بھی متاثر نہ ہو جائیں اس لئے جو اشد مخالف ہیں وہ ہنس کر کہتے ہیں کہ اجی ان باتوں سے کیا ہوتا ہے آپ اصلی سوال کا جواب دیں.پھر میں کہتا ہوں کہ سوالات تو ہزاروں ہیں اگر میں آپ کے اس سوال کا جواب دوں تو اول تو اتنے تنگ وقت میں آپ کی تسلی ممکن نہیں اور اگر ہو بھی جائے تو باقی سوال رہ جائیں گے اور آپ کو ہدایت کا موقع نہیں مل سکے گا اگر آپ کو اپنی ہدایت مقصود ہے تو آپ یہ طریق کیوں اختیار نہیں کرتے.یہ کہہ کر میں اس شخص کی طرف دیکھتا ہوں جس کے متعلق مجھے خیال ہے کہ اس کے دل میں ہدایت ہے اور جسے بگاڑنے کے لئے وہ لوگ گفتگو کرنے آئے ہیں اور اس کے چہرہ کو دیکھ کر اندازہ کرتا ہوں کہ یہ شخص بھی کہیں یہ نتیجہ تو نہیں نکال رہا کہ میں بات ٹال رہا ہوں لیکن میں نے دیکھا کہ اس کے چہرہ پر یقین اور سرور کے آثار ہیں جب اس کی نظر میری نظر سے ملی تو اس نے ہاتھ اٹھا کر کہا کہ اچھا آپ سورۃ فاتحہ پڑھ کر دعا کریں اور میں دعا شروع کرتا ہوں وہ لوگ میرے ساتھ دعا میں
136 شریک ہوتے ہیں مگر کچھ دیر کے بعد ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں میں نے جب دعا کی تو وہ شخص میرے سامنے آیا اور اپنا سر زمین پر اس طرح رکھ کر کہ ایک کلہ نیچے اور دوسرا اوپر کی طرف ہے زمین پر لیٹ گیا.وہ رو رہا ہے اور میرے ہاتھ پکڑ کر اپنے سرپر پھیرتا ہے گویا برکت حاصل کر رہا ہے اس پر میری آنکھ کھل گئی.الفضل 16.جون 1939ء صفحہ 6 7 213 اپریل 1938ء فرمایا : تھوڑے ہی دن ہوئے ایک رویا میں نے دیکھا جو بعض دوستوں کو سنا بھی دیا تھا.اس رویا کو سنائے آج پانچواں دن ہے مگر اس سے بھی آٹھ دن پہلے میں نے یہ رویا دیکھا تھا اس وقت جو حالت تھی وہ دراصل رویا کی نہیں تھی.سوتے سوتے میری آنکھ کھل گئی اور میں نے دیکھا کہ نیم غنودگی کی حالت میں میں سورہ نوح کی چند آیتیں چھوڑ کر باقی آیتیں اس طرح پڑھ رہا ہوں کہ گویا ایک طرف لوگوں کو ان آیات کے ساتھ مخاطب کر رہا ہوں اور دوسری طرف اللہ تعالی سے دعا کر رہا ہوں مجھے سورہ نوح حفظ نہیں مگر اس وقت بلا تکلف اس کی آیات پڑھتا جاتا ہوں چنانچہ جو آیات میں نے اس وقت تلاوت کیں ان میں سے بعض مجھے اب تک یاد ہیں مثلاً یہ کہ رَبِّ إِنِّى دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلاً وَنَهَارًا فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَالِي الْأَفِرَارًا (سوره نوح : 76) اور یہ بھی کہ ثُمَّ اِنّى اَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا (سوره نوح : (10) بعض آیات مجھے اس وقت بوجہ اس کے کہ ساری سورۃ مجھے حفظ نہیں زبانی یاد نہیں لیکن یہ یقینی طور پر یاد ہے کہ صرف چند آیات چھوڑ کر باقی ساری سورۃ میں نے پڑھی ہے اس واقعہ سے میں نے سمجھا کہ کوئی ابتلاء ہے جو بہت بڑا ہے اور جس میں دشمن سے ہمیں سخت مقابلہ کرنا پڑے گا.رپورٹ مجلس مشاورت 1938 ء صفحہ 125.نیز دیکھیں.الفضل 20 - اپریل 1938ء صفحہ 4 (مجملاً ) 17 - جنوری 1942ء صفحہ 2-3 214 اپریل 1938ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ پر ہوں اور خواب میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ بعض اور لوگ بھی وہاں ہیں مگر یہ کہ وہ کون ہیں یہ مجھے یاد نہیں رہا.صرف اتنا سمجھتا ہوں کہ اور لوگ بھی
137 ہیں اور ہم ایک کشتی میں بیٹھے ہیں جو سمندر میں ہے اور سمندر بہت وسیع ہے جس کے ایک طرف اٹلی کی مملکت ہے اور دوسری طرف انگریزوں کی.اٹلی کی مملکت شمال مغربی طرف معلوم ہوتی ہے اور انگریزی علاقہ مشرق کی طرف اور جنوب کی طرف ہٹ کر.یوں معلوم ہوتا ہے کہ کشتی اس جانب سے آرہی ہے جس طرف اٹلی کی حکومت ہے اور اس طرف جا رہی ہے جس طرف انگریزوں کی حکومت ہے.اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ یکدم شور اٹھا اور گولہ باری کی آواز آنے لگی اور اتنی کثرت اور شدت سے گولہ باری ہوئی کہ یوں معلوم ہو تا تھا کہ گویا ایک گولے اور دوسرے گولے کے چلنے میں کوئی فرق نہیں ہے اور یکساں شور ہو رہا ہے.میں نے دیکھا کہ گولے متواتر پڑ رہے تھے اور اتنی کثرت سے پڑ رہے تھے کہ یوں معلوم ہو تا تھا ان گولوں سے جو بھرا ہوا ہے.میں یہ دیکھ کر گولوں سے بچنے کے لئے کشتی میں جھک گیا اس کے بعد کا نظارہ مجھے یاد نہیں رہا.اس اثناء میں یکدم محسوس کرتا ہوں کہ ایک زبر دست طوفان آیا ہے اور دنیا میں پانی ہی پانی ہو گیا ہے اور میں اس وقت اپنے آپ کو پانی کے نیچے پاتا ہوں میری کمر پر اس وقت پانی کا اتنا بوجھ ہے کہ میں اس کی وجہ سے پورے طور پر کھڑا نہیں ہو سکتا اور ہا تھوں اور پاؤں کے بل چلتا ہوں ساتھ ہی اندھیرا بھی ہے اور مجھے تاریکی کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آتا لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ جیسے پانی کو چادر میں ڈال کر کسی نے میرے اوپر سے اٹھایا ہوا ہے یعنی اس کا بوجھ میں زیادہ محسوس نہیں کرتا اور میری کمر پر پانی اس طرح لگ رہا ہے گویا وہ چادر میں ہے اور چادر کو کسی نے اٹھایا ہوا ہے جیسے پانی کی مشک کسی کی کمر پر رکھ دی جائے اور ساتھ اس کا بوجھ بھی نہ پڑنے دیا جائے ، اسی کی مانند حس تھی.اسی حالت میں جبکہ میں حیران ہوں کہ اب کیا ہو گا میں محسوس کرتا ہوں کہ پانی کم ہونا شروع ہوا ہے اور کسی نے اس پانی کو جو ہمارے اوپر ہے اٹھانا شروع کر دیا ہے یہاں تک کہ تمام بوجھ میری کمر پر سے دور ہو گیا اور میں کھڑا ہو گیا.اس وقت میں اپنے آپ کو ایک اس قسم کے کمرہ میں پاتا ہوں جو مغلیہ بادشاہوں کی عمارتوں کی طرز پر بنا ہوا ہے اس میں تین بڑے بڑے در ہیں جنہیں دروازہ نہیں لگا ہوا.کمرہ مسجد مبارک سے کچھ بڑا ہے اس کمرہ میں کچھ اور لوگ بھی ہیں جن میں سے ایک میری بیوی ام طاہر ہیں جو میرے پاس ہی کھڑی ہیں جب میں کھڑا ہوا تو میں نے دیکھا کہ پانی کم ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ کمرہ کے دروں میں سے ایک در کے اوپر کی طرف سے پانی ہٹ گیا اور روشنی اندر داخل
138 ہونی شروع ہوئی جسے دیکھ کر میں نے بڑے جوش سے اپنی تیسری بیوی سے مخاطب ہو کر کہا.مریم - الحمد للہ.دیکھو.میری خواب پوری ہو گئی.دیکھو نور نظر آنے لگ گیا.اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اس کے متعلق پہلے سے کوئی رویا دیکھی ہوئی تھی اسی طرح دو تین دفعہ میں نے کہا.پھر وہ پانی اور زیادہ کم ہونا شروع ہوا یہاں تک کہ دروازے نصف نصف تک نظر آنے لگ گئے.میں یہ دیکھ کر پھر اسی جوش میں کہتا ہوں.مریم دیکھو.پانی اور زیادہ کم ہو گیا الحمد للہ میری خواب پوری ہو گئی.اس وقت میں دیکھتا ہوں کہ ایک ہندو عورت بھی وہاں سکڑ کر بیٹھی ہے جیسے سردی لگی ہوئی ہوتی ہے مگر وہ نہایت غلیظ ہے جسے دیکھ کر گھن آتی ہے اس کے پاس ہی ایک بڑھیا عورت بیٹھی ہے جسے میں اس کی ماں یا ساس سمجھتا ہوں وہ بھی نہایت غلیظ لباس میں ہے.اس سکڑ کر بیٹھی ہوئی عورت کی نسبت میرے دل میں خیال آتا ہے کہ یہ بیمار ہے اور اسے سردی لگی ہو گی مگر میں اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتا اور یوں سمجھتا ہوں جیسے وہ عذاب الہی میں مبتلاء ہے توجہ کے قابل نہیں ہے اور میں اس خیال سے کہ گیلے لباس سے تکلیف نہ ہو کمرہ میں ٹہلنا شروع کر دیتا ہوں.میری بیویاں بھی وہیں ہیں تین بیویاں تو یاد ہیں جو تھی یاد نہیں اور اپنی دو لڑکیاں امتہ القیوم اور امتہ الرشید میں نے وہاں دیکھیں جو امتہ المی مرحومہ کے بطن سے ہیں.میں اس وقت دل میں خیال کرتا ہوں کہ گھر کے لوگوں کو ذرا فکر نہیں.گیلے کپڑے پہن رکھتے ہیں بہتر تھا کہ یہ ٹہلتیں تاکہ ان کے کپڑے خشک ہو جاتے اور صحت پر کوئی برا اثر نہ پڑتا مگر میں انہیں کہتا کچھ نہیں.اتنے میں میرے دل میں خیال آتا ہے کہ یہ جو اس اطمینان سے کھڑی ہیں تو شاید ان کے کپڑے گیلے ہی نہیں ہوئے اور مجھے خیال آتا ہے کہ میں اپنے کپڑے تو دیکھوں وہ خشک ہیں یا گیلے.جب میں اپنے کپڑے دیکھتا ہوں تو وہ بالکل خشک معلوم ہوتے ہیں اور میں کہتا ہوں یہ عجیب قسم کا طوفان تھا کہ باوجود طوفان میں رہنے کے کپڑے بھی سوکھے رہے.پھر مجھے شبہ پیدا ہوا اور میں نے سمجھا کہ شاید یہ طوفان نہیں تھا بلکہ طوفان کا ایک نظارہ تھا جو دکھائی دیا مگر جب حقیقت معلوم کرنے کے لئے ایک کانس پر پڑے ہوئے کپڑے پر میں ہاتھ رکھتا ہوں تو وہ بالکل گیلا نظر آتا ہے اور میں کہتا ہوں یہ کوئی خدائی تصرف ہے کہ میرے کپڑے باوجود طوفان کے گیلے نہ ہوئے.اسی دوران میں مجھے خیال آتا ہے کہ امتہ القویم کی صحت کمزور
139 ہے اسے گرم دھہ دینا چاہئے تاکہ اوڑھ لے چنانچہ میں نے اسے اپنا گرم دصہ دیا جو بالکل خشک معلوم ہوتا ہے مگر تھوڑی دیر کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ اس نے وہ دھہ اوڑھا ہوا نہیں.میں اس سے دریافت کرتا ہوں کہ میں نے جو تمہیں دصہ دیا تھا وہ کہاں گیا تو وہ کہتی ہے کہ یہ ہندو عورت جو بیمار ہے اسے میں نے دیا ہے تاکہ یہ اوڑھ لے.ظاہری شریعت کے لحاظ سے تو اس کا یہ فعل اچھا تھا مگر رویا میں مجھے اس کا یہ فعل اچھا معلوم نہیں ہوا اور میں سمجھتا ہوں کہ میرا دھہ اس ہندو عورت کو نہیں دینا چاہئے.اتنے میں میں دیکھتا ہوں کہ وہ عورت لیٹ گئی اور اس نے بیقراری ظاہر کرنی شروع کر دی جیسے گرمی لگی ہوئی ہوتی ہے اور خود بخود درحمہ پرے پھینک دیا میں نے دیکھا کہ وہ دھسہ آپ ہی نہ ہو گیا اور میں نے اٹھا کر اور کسی جگہ رکھ دیا اس عورت کے متعلق اس وقت یوں محسوس ہوا کہ یہ اب مرگئی ہے یا مرنے والی ہے اس وقت اس کے پاس اس کی ساس یا ماں جو بھی ہے آکر بیٹھ گئی ہے.اتنے میں میں باہر آجاتا ہوں جہاں مجھے اپنی جماعت کے بہت سے دوست ملتے ہیں کچھ ہندو اور کچھ پیغامی بھی ہیں.مولوی محمد علی صاحب اور مولوی صدرالدین صاحب مجھے خاص طور پر یاد ہیں اور ایک اور پیغامی بھی مجھے یاد ہے جس کے متعلق رویا میں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ وزیر آباد کا ہے اور اچھا تا جر ہے.پھر میں نے ایک کو دیکھا کہ وہ کھڑا ہے اور اس کے پاس ایک گاڑی ہے جو اس گاڑی سے ذرا بڑی ہے جو بچوں کے لئے ہوتی ہے اور تین بکرے بھی کھڑے ہیں جن میں سے دو اس گاڑی میں جتے ہوئے ہیں مجھے خیال پڑتا ہے کہ اس جگہ میں نے بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی کو بھی جماعت کے لوگوں میں نے دیکھا جو لوگ وہاں کھڑے ہیں میں ان کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ دیکھو یہ پانی کا طوفان میرے خواب کی بناء پر آیا ہے.مجھے اس طوفان کی اللہ تعالٰی نے قبل از وقت خبر دی تھی اور مجھے رویا میں بکروں کی صورت میں خدا تعالیٰ کے فرشتے نظر آئے تھے اور انہوں نے مجھ سے بات کی تھی اور مجھے یہ سب نظارہ دکھایا گیا تھا اور بتایا گیا کہ پھر یہ طوفان ہٹ جائے گا اور سب سے پہلے میں روشنی دیکھوں گا.میں نے جب یہ کہا کہ بکروں کی صورت میں خدا تعالیٰ کے فرشتے ظاہر ہو کر مجھ سے ہم کلام ہوئے تھے تو میں نے دیکھا کہ جس طرح کسی کی تقدیس اور بزرگی کا اعتراف کیا جاتا ہے اسی طرح ان بکروں میں سے جو وہاں تھے ایک نے میرے بازو پر اپنی تھوتھنی ملنی شروع کر دی گویا کہ وہ اظہار کرتا ہے کہ جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں ٹھیک ہے اور گویا وہ برکت
140 ڈھونڈ رہے ہیں اور خواب میں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ بکرا اپنے پچھلے پاؤں پر کھڑا ہے اور اس نے اگلے دونوں پاؤں میرے بازو کے گرد لپیٹ لئے ہیں جیسے کوئی وفور محبت سے دوسرے کو کھینچتا ہے اور میرے بازو پر اپنا منہ پھیر رہا ہے اس وقت میں حاضرین کو گذشتہ سب واقعہ پھر سناتا ہوں کہ اس طرح جب میرے خواب کے مطابق طوفان آیا اور پھر ہٹا تو میں نے اپنی بیوی مریم بیگم کو مخاطب کر کے کہا الْحَمْدُ لِله مریم دیکھو میرا خواب پورا ہو گیا.پانی کم ہو رہا ہے اور وہ دیکھو روشنی نظر آ رہی ہے جب میں آخری بات کہتا ہوں کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ میرا خواب پورا ہو گیا تو وہ لوگ جو میرے سامنے ہیں وہ بھی اَلْحَمْدُ لِلَّهِ يَا اللهُ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ وہ آدمی جو اس بکروں والی گاڑی میں بیٹھا تھا گاڑی ہانک کر چلا گیا.خواب میں میں نے یہ بھی دیکھا کہ جس وقت میں نے اپنا رویا سنانا شروع کیا تو مولوی محمد علی صاحب وہاں سے ہٹ کر دوسری طرف چلے گئے لیکن مولوی صدرالدین صاحب کھڑے رہے مگر ذرا ہٹ کر.لیکن وزیر آباد کا جو پیغامی تھا وہ اسی جگہ رہا اور میرے سامنے کھڑا رہا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس خواب سے متاثر ہے چنانچہ میرے یہ کہنے پر کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ میرا خواب پورا ہو گیا جو لوگ اَلْحَمْدُ لِلهِ یا اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہیں ان میں وہ وزیر آباد کا پیغامی بھی شامل ہے.رپورٹ مجلس مشاورت 1938ء صفحہ 1297125 یہ اور اس قسم کے اور بہت سے اشارات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی طوفان آنے والے ہیں ممکن ہے بعض طوفان ظاہری شکل میں ہوں اور بعض طوفان مشکلات و ابتلاؤں کی صورت میں ظاہر ہوں.الفضل 26.جولائی 1938ء صفحہ 4.نیز دیکھیں.الفضل 20 اپریل 1938ء صفحہ 4 ( مختصراً ) 6 اکتوبر 1939ء صفحہ 6 و 18.جون 1940ء صفحہ 1 و الفضل 17 جنوری *1942 صفحہ 3-2 215 فرمایا : میں تو جب بھی تحریک جدید کے مطالبات پر غور کرتا ہوں ان میں سے امانت فنڈ کی تحریک پر میں خود حیران ہو جایا کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ امانت فنڈ کی تحریک الہامی ہے کیونکہ بغیر کسی بوجھ اور غیر معمولی چندہ کے اس فنڈ سے ایسے ایسے اہم کام ہوئے ہیں کہ جاننے والے
141 جانتے ہیں وہ انسان کی عقل کو حیرت میں ڈالنے والے ہیں.الفضل 29.جولائی 1938ء صفحہ 2 216 2 نومبر 1938ء فرمایا : دو دن ہوئے مجھے ایک عجیب کشفی نظارہ نظر آیا میں سحری کے انتظار میں لیٹا ہوا تھا کہ میں نے دیکھا جیسے پہاڑوں میں ٹنلز ہوتے ہیں اور ان میں بورنگ کر کے اندرونی طور پر ایک گول سا راستہ تیار کر لیا جاتا ہے اس طرح مجھے معلوم ہوا کہ جو میں ایک گول رستہ بنا ہوا ہے جو تاگے کی کسی ریل کے اندرونی سوراخ سے مشابہ ہے.فرق صرف یہ ہے کہ تاگے کی ریل کا سوراخ چھوٹا ہوتا ہے مگر وہ سوراخ بڑا تھا یا یوں سمجھ لو کہ جیسے آگ جلانے والی ٹھنکنی ہوتی ہے اور اس کے اندر ایک گول سا سوراخ ہوتا ہے جس سے آر پار نظر آجاتا ہے اسی طرح جو میں ایک گول سا رستہ بنا ہوا ہے اور اس کے ایک طرف خدا تعالی کی ذات بیٹھی ہے اور دوسری طرف میں بیٹھا ہوا ہوں اور اس میں سے مجھے اللہ تعالیٰ کا اس قدر قرب معلوم ہوتا ہے کہ میرے اور اس کے درمیان کوئی چیز حائل نہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے راز آپ ہی کھلتے چلے جا رہے ہیں اور اللہ تعالی کی ذات اتنی قطعی اور یقینی ہے کہ دنیا کی تمام چیزیں اس کے مقابلہ میں مشکوک اور مشتبہ نظر آتی ہیں.کئی منٹ تک برابر یہی کیفیت مجھ پر طاری رہی اور اس ٹنل کے ایک سرے پر بیٹھے ہوئے اللہ تعالیٰ سے جو اس کے دوسرے سرے پر بیٹھا تھا دل ہی دل میں میں باتیں کرتا رہا.اس وقت کی کیفیت ایسی ہی تھی جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مقام پر لکھا ہے کہ سورج کی ذات میں شبہ ہو سکتا ہے زمین کے وجود میں شبہ ہو سکتا ہے اپنے وجود میں شبہ ہو سکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی ذات میں شبہ نہیں ہو سکتا.اس قسم کی باتیں میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے کہیں اور اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہا کہ تیرا وجود ایسا یقینی ہے اور ایسا شکوک کو دور کرنے والا پھر تو کیوں چھپا ہوا ہے اور کیوں میرے لئے اور اپنے دوسرے بندوں کے لئے کامل تجلی کے ساتھ ظاہر نہیں ہوتا.جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس کشف کا مفہوم وہی تھا جو اللہ تعالٰی نے اس آیت میں بیان فرمایا تھا کہ وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِى عَنِّى فَإِنّى قَرِيبٌ (البقرة : 187) کہ دیکھو رمضان میں اللہ تعالیٰ بندے کے کتنے قریب ہو جاتا ہے بہت دفعہ انسان غلطی سے اس قرب کو محسوس نہیں
142 کرتا جیسے پیٹھ کے پیچھے اگر بالکل قریب آکر بھی کوئی شخص بیٹھ جائے تو انسان معلوم نہیں کر سکتا کہ میرے پیچھے کوئی بیٹھا ہوا ہے لیکن اگر اس کا منہ اس کی طرف پھیر دیا جائے تو وہ دیکھ سکتا ہے کہ کوئی شخص میرے کتنے قریب بیٹھا ہوا ہے اسی طرح اللہ تعالٰی نے ٹنل کا نظارہ دکھا کر مجھ پر ظاہر فرمایا کہ اگر ہم پر وہ دور کر دیں تو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہو کہ ہم تمہارے کتنے قریب ہیں مگر چونکہ اللہ تعالیٰ اور مخلوق کے درمیان ایک پردہ پڑا ہوا ہے اس لئے اس بات کو سرسری نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کو محسوس نہیں کرتے.الفضل 11.نومبر 3.1938 نیز دیکھیں.الفضل 10 مئی 44 صفحہ 3 مارچ اپریل 1939ء 217 فرمایا : کچھ عرصہ ہوا اسی سفر (سفر سندھ.ناقل ) میں مجھے خداتعالی کی ملاقات کے متعلق ایک عجیب رویا ہوا جس کا اثر میری طبیعت پر اب تک ہے.میں نے دیکھا کہ دو پہاڑیاں ہیں جن میں ایک درہ ہے اور پہاڑیوں کے پرے بہت وسیع میدان ہے جو گو مجھے نظر نہیں آتا مگر میں اس درہ کی طرف جا رہا ہوں.چاروں طرف اندھیرا ہے اور میں پہاڑیوں کے درمیانی رستوں پر سے گذر کر جا رہا ہوں.میرے کانوں میں دور سے گونج کی آواز آرہی ہے میں نے اس کے قریب ہونے کی کوشش کی تو وہ گانے کی آواز معلوم ہوئی جیسے دور کوئی نہایت ہی شیریں آواز میں گا رہا ہو.میرے قلب میں ایک بشاشت اور مسرت محسوس ہوئی اور میں نے اپنے قدم اور تیز کر دیے کہ دیکھوں کیا بات ہے.جب میں کچھ اور قریب ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ گویا کچھ لوگ شعر پڑھ رہے ہیں مگر ابھی وہ شعر سمجھ میں نہیں آئے میں اور قریب ہوا تو کوئی کوئی لفظ سمجھ میں آنے لگا.نہایت سریلی آواز تھی اور یوں معلوم ہوا کہ کئی آدمی ہیں جو مل کر ایک ہی شعر پڑھ رہے ہیں اور آگے ہوا تو آواز اور واضح ہونے لگی اور جب میں نے پھر کان لگائے کہ سنوں کیا پڑھتے ہیں تو یکدم میرے منہ سے یہ فقرہ نکلا کہ یہ تو میرے شعر ہیں اور جب میں نے اور غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ میرے ایک پرانے شعر کا مصرعہ پڑھ رہے ہیں جو یہ ہے." زنہار میں نہ مانوں گا چہرہ دکھا مجھے "
143 پڑھنے والوں کی آواز نہایت ہی سریلی اور دل کو لبھانے والی تھی اور وہ اس طرح پڑھ رہے ہیں جس طرح کوئی مست ہو کر گاتا ہے وہ نظر تو نہیں آتے تھے مگر ان کی آواز سنائی دیتی تھی.جب میں اور قریب ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ یہ تو فرشتے ہیں جو میرا مصرعہ پڑھ رہے ہیں اتنے میں یکدم دور افق سے بجلی چمکی اور روشنی ہوئی اور معا مجھے القاء ہوا کہ یہ اللہ تعالی کی دوسری تجلی ہے پہلی تجلی وہ تھی جو میرے پہنچنے سے قبل ظاہر ہو چکی ہے اور گویا وہ ادنی تجلی تھی اور اسے دیکھ کر یہ فرشتے یہ مصرعہ پڑھنے لگے کہ زنہار میں نہ مانوں گا چہرہ دکھا مجھے اور گو میں نے پہلی تجلی نہیں دیکھی مگر میں سمجھتا ہوں کہ دوسری زیادہ ہے اور جب یہ ظاہر ہوئی تو فرشتوں نے پہلے مصرعہ کی بجائے یہ مصرعہ پڑھنا شروع کر دیا اک معجزہ دکھا کے تو عیسی بنا مجھے " یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب ملائکہ نہایت جوش کے ساتھ اکٹھے جس طرح انگریزوں کے ہاں Chorus ہوتا ہے گا رہے ہیں.وہ کچھ دیر اسی جوش اور شدت کے ساتھ گاتے رہے اور یوں معلوم ہونے لگا کہ گویا ان کی آواز نے اللہ تعالیٰ کے عرش کو ہلا دیا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کی آخری تجلی ہوئی اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ پہلی تجلی جو میرے پہنچنے سے قبل ظاہر ہوئی عاشقانہ تجلی تھی.دوسری عیسوی تجلی تھی اور یہ تیسری محمدی تجلی ہے جس میں بہت نور تھا اس پر فرشتوں نے ایک تیسرا مصرعہ پڑھنا شروع کر دیا جو مجھے یاد نہیں رہا اور اس پر میری آنکھ کھل گئی.مجھے یاد ہے کہ میں خواب میں ہی کہہ رہا تھا کہ یہ تیسری متجلی محمدی تجلی ہے.الفضل 8.نومبر 1939ء صفحہ 5.نیز دیکھیں.الفضل 10 مئی 1944 ء صفحہ 3 - 4 و الفضل 23 جون 1944ء صفحہ 1 جولائی یا اگست 1939ء 218 فرمایا : انگلستان اور جرمنی کی ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی کہ میں نے دھرم سالہ میں جہاں میں ان دنوں تبدیلی آب و ہوا کے لئے مقیم تھا رویا میں دیکھا کہ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوں اور میرا مونہہ مشرق کی طرف ہے کہ ایک فرشتہ آیا اور اس نے جیسا کہ میرے سرشتہ دار ہوتے ہیں بعض کا غذات میرے سامنے پیش کرنے شروع کر دیے وہ کاغذات انگلستان اور
144 فرانس کی باہمی خط و کتابت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.مختلف (Documents) ڈاکومنٹس کے بعد ایک ڈاکو منٹ میرے سامنے پیش کیا گیا میں نے اسے دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک چٹھی ہے جو انگریزی حکومت کی طرف سے فرانسیسی حکومت کو لکھی گئی ہے اور اس کا مضمون یہ ہے کہ ہمارا ملک سخت خطرہ میں گھر گیا ہے جو منی اس پر حملہ آور ہونے والا ہے اور قریب ہے کہ اسے مغلوب کر لے اس لئے ہم آپ سے خواہش کرتے ہیں کہ انگریزی اور فرانسیسی حکومتوں کا الحاق کر دیا جائے دونوں ایک نظام کے ماتحت آجائیں اور دونوں کو آپس میں اس طرح ملا دیا جائے کہ دونوں کے شہریت کے حقوق یکساں ہوں.یہ چٹھی پڑھ کر خواب میں میں سخت گھبرا گیا اور قریب تھا کہ اسی گھبراہٹ میں میری آنکھ کھل جاتی کہ یکدم مجھے آواز آئی کہ یہ چھ ماہ پہلے کی بات ہے یعنی اس حالت کے چھ ماہ بعد حالات بالکل بدل جائیں گے اور انگلستان کی خطرہ کی حالت جاتی رہے گی.یہ رویا دھرم سالہ میں جولائی 1939ء کے آخر میں یا اگست کے شروع میں دیکھا تھا.برطانیہ نے 17 جون 1940ء کو فرانسیسی حکومت کو تار دیا کہ دونوں ملکوں کی حکومت ایک کر دی جائے اور فرانس کا برطانیہ سے الحاق کر دیا جائے.حکومت ایک ہو.پار لیمٹس بھی ملا دی جائیں اور خوراک کے ذخائر اور خزانہ کو بھی ایک ہی سمجھا جائے.(لنڈن ٹائمز مورخہ 18 جون 1940ء).خدا تعالیٰ نے مجھے دوسری خبر یہ دی کہ یہ چھ مہینے کی بات ہے یعنی چھ ماہ کے بعد انگریزوں کی حالت بدل جائے گی.چنانچہ عین چھ ماہ کے بعد 10.دسمبر اٹلی کو پہلی شکست ہوئی اور انگریزوں کی حالت میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوئی.الموعود صفحہ 132 135.نیز دیکھیں.الفضل 4.جون 1940 ء صفحہ 4 و 28.جون 1940ء صفحہ 3 و 12 - جولائی 1940 ء صفحہ 3 و 28.مارچ 1941ء صفحہ 2 و 28.جون 1941ء صفحہ 11 و 13.جولائی صفحہ 8 و15.اکتوبر 1941ء صفحہ 4 و 14.اگست 1942ء صفحہ 4 و 15.جون 1944ء صفحہ 1 و 14.اگست 1945ء صفحہ 2 و 11.اکتوبر 1945ء صفحہ 2 و 18.فروری 1958ء صفحہ 13 اور اہل پیغام کے عقائد کے فیصلہ کا آسان طریق صفحہ 4 $1939 - 219 فرمایا : چار پانچ سال کی بات ہے میں نے رویا میں دیکھا جس میں کسی بیرونی خیال کا کوئی دخل
145 نہ تھا میں نے دیکھا کہ لدھیانہ میں ہوں اور ایک ایسے مکان میں ٹھہرا ہوں جو ایک لمبی سڑک کے کنارے پر واقع ہے یہ سڑک بہت چوڑی ہے اور بازار لمبا ہے جس میں کھانے کی دکانیں بھی ہیں.میں اسی بازار میں ٹہلتا ہوں اور کوئی شخص مجھے کچھ نہیں کہتا اور نہ کوئی مخالفت کرتا ہے اور میں دل میں کہتا ہوں کہ اس شہر میں تو ہمیں گالیاں ملا کرتی تھیں پھر آج یہ کیا تغیر ہوا ہے کہ کوئی ہمیں کچھ بھی نہیں کہتا.الفضل 18.فروری 1959ء صفحہ 5 220 تمبر 1939ء فرمایا : جس دن جنگ کا آغاز ہوا اور ہم کو اس کی اطلاع آئی اس سے پہلی رات کو مجھے ایک جنگ کا نظارہ خواب میں دکھایا گیا مگر جیسا کہ اللہ تعالی کی سنت ہے اس نے خواب کا نظارہ مجھے مقامی ماحول میں دکھایا.اس رنگ کے نظارے مجھے پہلے بھی دکھائے جاچکے ہیں.مجھے دکھایا گیا کہ ہمارے باغ اور قادیان کے درمیان جو تالاب ہے اس میں قوموں کی لڑائی ہو رہی ہے مگر بظا ہر چند آدمی رسہ کشی کرتے نظر آتے ہیں کوئی شخص کہتا ہے کہ اگر یہ جنگ یونان تک پہنچ گئی تو اس کے بعد یکدم حالات متغیر ہوں گے اور جنگ بہت اہم ہو جائے گی.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ یکدم اعلان ہوا کہ امریکہ کی فوج ملک میں داخل ہو گئی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ امریکہ کی فوج بعض علاقوں میں پھیل گئی ہے مگر وہ انگریزی حلقہ اثر میں آنے جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالتی.اب یہ نظارہ دکھایا تو قادیان کے ماحول میں گیا مگر اس میں جنگ کی قریباً تفصیلات بتادی گئیں.حتی کہ امریکہ کے انگریزوں کی تائید میں جنگ میں شامل ہونے کا بھی ذکر ہے.الفضل 21.دسمبر 1941ء صفحہ 2 - نیز دیکھیں.الفضل 17 جنوری 1942ء صفحہ 2 و 4.اگست 1942ء صفحہ 4 و 16.مئی 1945ء صفحہ 3 اور الموعود ( تقریر جلسہ سالانہ 28 - دسمبر 1944ء) صفحہ 139 - 140 اکتوبر 1939ء - 221 فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے بارہا بتایا.دنیا میں ایسی ایسی آفات آنے والی ہیں کہ وہ قیامت کا نمونہ ہوں گی اور بسا اوقات ان آفات کو دیکھ کر انسان یہ خیال کرے گا کہ اب دنیا میں شاید کوئی
146 انسان بھی باقی نہیں رہے گا.الفضل 6.اکتو بر 1934 ء صفحہ 9 222 مارچ 1940ء فرمایا : جب میں رشتہ کے متعلق استخارہ کر رہا تھا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں ایک بہت بڑی دعوت کا انتظام ہو رہا ہے اس میں بہت سے لوگ شریک ہیں میز کرسیاں اور بینچ پڑے ہیں صدر کی جگہ میں بیٹھا ہوں اور کچھ لوگ اور بھی میرے ساتھ ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاول بھی دعوت میں شریک ہیں اور اس دعوت میں جو سرو (خدمت) کرنے والا ہے معلوم نہیں وہ کسی نسبت سے بھائی عبدالرحیم صاحب معلوم ہوتے ہیں.یوں تو بھائی صاحب اب بہت ضعیف ہیں نظر بھی کچھ کمزور ہو چکی ہے مگر اس وقت وہ بالکل نوجوان معلوم ہوتے ہیں عمر چو بیس پچیس سال کی ہے حضرت خلیفہ اول مجھے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں میاں دیکھو تو یہ کیسا نوجوان ہے.میں حیران ہو تا ہوں کہ یہ تو قریباً 65 سال کی عمر کے بوڑھے تھے مگر اب کیسے جوان ہیں.میں نے اس خواب کی تعبیر یہی سمجھی کہ حضرت خلیفہ اول چونکہ میری اس لڑکی (صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ.ناقل) کے نانا ہیں اس لئے ان کے دکھائے جانے کے یہ معنے ہیں کہ ان کے نزدیک بھی یہ رشتہ پسندیدہ ہے بھائی عبدالرحیم صاحب کا جو ان نظر آنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چونکہ میاں عبدالرحیم احمد صاحب کی صحت کمزور ہے دبلے پتلے ہیں اللہ تعالٰی نے بتایا ہے کہ وہ چاہے تو ان کی جسمانی صحت کو مضبوط کر دے گا.میرے نزدیک تو یہی دیکھنا چاہئے کہ لڑکا نیک اور دیندار ہو.بڑی دعوت کے دکھائے جانے کے یہ معنے ہیں کہ اس لڑکے کے والدین غریب ہیں چونکہ بیمار ہیں اس لئے گزارہ کی کوئی صورت نہیں.میں نے خیال کیا کہ دعوت سے اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ کیا ہے کہ رزق کی کشائش اسی کے ہاتھ میں ہے وہ اگر چاہے تو غریبوں کو بھی امیر بنا سکتا ہے اور چاہے تو امیروں کی دولت بھی چھین سکتا ہے.الفضل 14.فروری 1941
147 223 مارچ 1940ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ملاقات کے دفتر میں بیٹھا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ صحن میں دو ہوائی جہاز ہیں جن میں سے ایک میں دنیا کی حکومت اور دوسرے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق ہے اور یہ دونوں اکٹھے پرواز کرنے لگے ہیں جب وہ اڑنے لگے ہیں تو آواز آتی ہے اور میں پوچھتا ہوں کہ کیا بات ہے.میری بیویاں پاس ہیں اور وہ بتاتی ہیں کہ دونوں جہاز اڑے ہیں ہم لوگ چونکہ ہوائی جہازوں میں پرواز کے عادی نہیں اس لئے عام طور پر اس میں سفر کو ہندوستان میں خطرناک سمجھا جاتا ہے.چنانچہ جب مجھے بتایا جاتا ہے کہ دنیا کی حکومت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و عشق علیحدہ علیحدہ ہوائی جہازوں میں پرواز کرنے لگے ہیں تو میں گھبرا کر کہتا ہوں کہ اوہو یہ ہوائی جہاز میں گئے ہیں کہیں کوئی حادثہ نہ پیش آجائے اور میں بر آمدہ میں کولوں کے پاس کھڑا ہو کر دیکھتا ہوں مگر وہ کہیں واپس آتے ہوئے نظر نہیں آتے.میں گھبرا کر کہتا ہوں، چلو ان کی تلاش کریں رات کا وقت ہے میں تلاش کے لئے نکلتا ہوں اور خیال کرتا ہوں کہ مدرسہ احمدیہ کے طلباء کو ساتھ لے لوں.وہاں جاتا ہوں تو طالب علم کھیل رہے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ سب چلو مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک غیر احمدی لڑکا بھی ان میں ہے جو مجھے جانتا نہیں اور وہ کہتا ہے کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کی اجازت نہیں ہم کیسے جائیں مگر ایک لڑکا اسے ڈانٹتا اور کہتا ہے کہ خاموش رہو تمہیں پتہ نہیں یہ حضرت خلیفۃ المسیح ہیں ان کی اجازت کے بعد کسی دوسرے کی اجازت کی ضرورت نہیں.میں ان لڑکوں کو ساتھ لے کر مغرب کی طرف جاتا ہوں اور ایک جگہ سے بڑے زور سے چیخنے اور چلانے کی آواز میں آ رہی ہیں اور معلوم ہوا کہ جس جہاز میں دنیا کی حکومت اور بادشاہت تھی وہ تو واپس آگیا مگر جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تھی اسے ایکسیڈنٹ پیش آیا جس سے جہاز ٹوٹ گیا اور وہ مرگئی اور زور زور سے رونے کی آوازیں آرہی ہیں مگر وہاں لاش کے کوئی آثار نہیں.کچھ لوگ ہوائی جہاز کو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لئے مٹی کھود رہے ہیں مگر کچھ نہیں نکلا اور اس کوشش میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہاتھی مرکز گرا ہوا ہے اور خواب میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اتنا پرانا ہے کہ ہاتھی بھی گل سڑ کر خاک ہو چکا ہے اور جب اس میں
148 پھاوڑے مارتے ہیں تو مٹی کا ڈھیر کٹ کٹ کر علیحدہ ہوتا ہے اس ہاتھی کی تمام مٹی ہٹانے کے بعد لاش اس کے نیچے سے نکلتی ہے اور ایک شخص بڑے افسوس سے کہتا ہے کہ یہ محبت کی لاش ہے اور میں اسے دیکھ کر إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہتا ہوں.یہ لاش بالکل ایسی ہے جیسے گتے کے اوپر کوئی تصویر ہوتی ہے اور بوجھ کی وجہ سے پچک گئی ہے سر اور دھڑ کا گوشت بالکل کھایا جا چکا ہے اور ڈھانچہ بالکل اسی طرح چپکا ہوا ہے جیسے گئے پر تصویر ہوتی ہے لاتیں بھی نظر تو آتی ہیں مگر بالکل ہڈیاں ہیں.سب لوگ اسے دیکھ کر رو رہے ہیں میں اس کے قریب پہنچتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک پتلا ساڈھانچہ ہے میں قیاس کر کے اس کے دل پر ہاتھ رکھتا ہوں اور ایک شخص سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں تمہیں معلوم ہے کہ میرا الہام ہے کہ ”ہم نے ایک مردہ کو زندہ کیا.آؤ اب ہم اس کی آنکھوں میں نور ڈالیں اور میں کہتا ہوں کہ یہ الہام ایسے ہی موقع کے لئے تھا " اور پھر میں اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں کہ تو نے ہی یہ الہام مجھے کیا تھا اور اب میں اس کی زندگی کے لئے تجھے ہی سے دعا کرتا ہوں اے میرے رب! تو اس مردہ کو زندہ کر دے.رویا میں ہی مجھ پر یہ اثر بھی ہے کہ مردے زندہ نہیں ہوا کرتے مگر پھر یہ خیال آتا ہے کہ نہیں اس کے زندہ ہونے کے متعلق خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے اور جب میں نے اس کے دل پر ہاتھ رکھا تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی رگیں پھولنے لگی ہیں تب میں نے اس کے پیٹ کی جگہ پر پانی کا چھینٹا دیا اور کہا اے میرے رب! تو اس مردہ کو زندہ کر دے اور میں نے دیکھا کہ اس کی ناف کی جگہ پر وہ پانی جمع ہونا شروع ہوا اور یوں معلوم ہوا کہ وہ اس کے جسم میں جذب ہو رہا ہے اور اس کی ہڈیوں پر گوشت نمودار ہونا شروع ہوا اور اس کے سر کی جگہ ربڑ کے غبارہ کی طرح موٹی ہوئی شروع ہوئی اور پھر وہ گول ہونے لگا اور اس میں سے سر، چہرہ آنکھیں ، ناک اور گردن نظر آنے لگی.بعض آدمی جو وہاں کھڑے ہیں میں ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں کہ دیکھو یہ سانس لینے لگا ہے.اس کے بعد اس کی لاتوں پر گوشت چڑھنے لگا اور اس طرح ہوتے ہوتے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جان پڑ گئی ہے مگر اس کی آنکھوں میں نور نہیں اور میں کہتا ہوں کہ مجھے الہام ہوا تھا کہ ہم نے ایک مردہ کو زندہ کیا تھا آؤ اب ہم اس کی آنکھوں میں نور ڈالیں.اور مجھے گھبراہٹ بہت ہے کہ اس کی آنکھوں میں نور نہیں اور میں اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتا ہوں کہ
149 آنکھ کھل گئی.اس خواب میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہاتھی دنیا کی علامت ہے اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے ہاتھ ڈھیر کے نیچے آجانے کے یہ معنے ہیں کہ وہ دنیا کی محبت کے نیچے دب گئی ہے اور پرانے ڈھیر کے یہ معنے ہیں کہ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں بلکہ صدیوں کی پرانی حالت بتائی جارہی ہے یعنی جس دنیا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو مٹایا تھا وہ خود بھی خاک ہو چکی ہے تاہم دنیا کی ترقی کی خواہشات موجود تھیں اور ہمارے ہاتھوں سے اللہ تعالٰی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو پھر زندہ کرے گا اور پھر اس کی آنکھوں میں نور پیدا ہو گا پہلے اس کے جسم میں جان پڑے گی اور پھر آنکھوں میں نور ڈالا جائے گا یعنی عملی قوت آئے گی اور مردوں کو زندہ کرنے کے یہ معنے ہیں کہ یہ کام مردہ کو زندہ کرنے کے برابر ہے مگر یہ انسانی تدبیروں سے نہیں ہو گا بلکہ محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ہو گا.رپورٹ مجلس مشاورت 1940ء صفحہ 758 صفحہ 61 224 مارچ 1940ء فرمایا : میں نے متواتر رویا میں دیکھا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب میرے پاس آئے ہیں اور وہ نہایت محبت اور اخلاص سے مجھے ملے ہیں اس خواب کے مطابق ظاہری رنگ میں مولوی محمد علی صاحب آئیں یا نہ آئیں اس کی تعبیر تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہمراہیوں یا ان کے خاندان کے لوگوں میں سے بعض کو کھینچ کر ہماری طرف لائے گا اور وہ خواہ کتنا ہی شور مچائیں فتح ہماری ہی ہو گی.الفضل 5.اپریل 1940ء صفحہ 8 225 مئی 1940ء فرمایا : جب گذشتہ جنگ ہوئی اور بیلجیم پر حملہ ہوا تو مجھے یاد ہے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بعض غیب کی خبروں کا انکشاف کیا تھا مثلاً میں نے دیکھا کہ ایک طرف انگریز اور فرانسیسی ہیں اور دوسری طرف جرمنی ہے اور دونوں میں فٹ بال کا میچ ہو رہا ہے جرمن فٹ بال کو لاتے لاتے گول کے قریب پہنچ گئے مگر گول نہیں ہو سکا.اتنے میں پھر اتحادی ٹیم نے طاقت پکڑ لی اور انہوں نے فٹ بال کو دوسری طرف دھکیل دیا.جرمن یہ دیکھ کر واپس دوڑے اور انگریز بھی
150 فٹ بال کو لے کر دوڑنے لگے مگر جب وہ گول کے قریب پہنچ گئے تو وہاں انہوں نے کچھ گول گول سی چیزیں بنالیں جس کے اندروہ بیٹھ گئے اور باہر یہ بیٹھ گئے بعینہ اسی طرح جر من لشکر نے جب حملہ کیا تو وہ پیرس تک پہنچ گیا مگر پھر اسے واپس لوٹنا پڑا اور جب سرحد پر واپس لوٹ آیا تو وہاں اس نے ٹرنچز (Trenches) بنالیں اور اس کے اندر بیٹھ گئے اور اس طرح چار پانچ سال تک وہاں لڑائی ہوتی رہی.الفضل 5.جون 1940 ء صفحہ 9.نیز دیکھیں.الموعود( تقریر جلسہ سالانہ 28.دسمبر 226 112 (1944 مئی 1940ء فرمایا : جب جرمنی کے مقابلہ میں اتحادی فوجوں کو فلنڈرز میں پہلی شکست ہوئی تو اس وقت میں کراچی میں تھا مجھے پر اس خبر کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ رات کو میری نیند اڑ گئی اور بے چینی اور اضطراب کی حالت میں میں نے اتحادیوں کی کامیابیوں کے لئے دعا کرنی شروع کردی اور گھنٹوں دعا کر تا رہا جب صبح ہونے کے قریب ہوئی تو اس وقت الہام ہوا.ہم الزام ان کو دیتے ہیں قصور اپنا نکل آیا میں نے بعد میں سوچا کہ اس کا کیا مفہوم ہے تو اس کا مطلب میری سمجھ میں یہ آیا کہ ابھی دو چار سال پہلے تو بہت سے احمدیوں کے دلوں سے حکومت کے خلاف آہیں نکل رہی تھیں اور اب ان کی کامیابی کے لئے دعائیں کر رہے ہیں گویا اللہ تعالیٰ نے سمجھایا کہ ہماری جماعت کی طرف سے کر ہیں اللہ تعالی کہ اس موقع پر جو بد دعائیں کی گئی تھیں وہ ضرورت سے زیادہ تھیں اور اس میں توازن کو ملحوظ نہیں رکھا گیا تھا یعنی یہ نہیں دیکھا گیا کہ ظلم کتنا ہے اور آہیں کتنی بلند ہو رہی ہیں اور نہ یہ سوچا گیا کہ اگر یہ حکومت تہ و بالا ہو گئی تو اس کے بعد جو آئے گا وہ کیسا ہو گا.اچھا ہو گا یا برا.پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا.ہم الزام ان کو دیتے ہیں قصور اپنا نکل آیا (الفضل 4.جون 1940ء صفحہ 3) 227 مئی 1940ء فرمایا : میں 25 کو کراچی کے سفر سے واپس آرہا تھا کہ میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک میدان ہے جس میں اندھیرا سا ہے اور اس میں ایک شخص سیاہی مائل سبز وردی پہنے کھڑا ہے
151 جس کے متعلق مجھے معلوم ہوا کہ وہ کوئی بادشاہ ہے پھر الہام ہوا " ایبڈی کیٹ...اس الہام پر ابھی تین دن ہی گزرے تھے کہ خدا تعالیٰ نے بیلجیم کے بادشاہ لیوپولڈ کو نا گہانی طور پر معزول کر دیا.یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے جو خداتعالی نے دکھایا تین دن پہلے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ خبر دی اور منگل کی رات کو بغیر اس کے کہ کسی اور کو علم ہو بیلجیئم کے بادشاہ نے اپنے آپ کو جرمنوں کے سپرد کر دیا اور وہ معزول ہو گیا.الموعود ( تقریر جلسہ سالانہ 28 - دسمبر 1944ء) صفحہ 140-141.نیز دیکھیں.4.جون 1940 ء صفحہ 4 و 5 - جون 1940ء صفحہ 9 و 16.جون 1940ء صفحہ 1 و 12.جولائی 1940 ء صفحہ 3 و 13 جولا ئی 1941ء صفحہ 2018 - تمبر 1941ء صفحه 3 و 4.اگست 1941ء صفحہ 4 و 25.جون 1944ء صفحہ 1 و 16.مئی 1945ء صفحہ 5 و 28 - دسمبر 1944 ء اور اہل پیغام سے عقائد کے فیصلہ کا آسان طریق صفحہ 9 - 228 $1940 فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ترکوں کے علاقے میں ہوں اور ایک بڑی بھاری عمارت ہے اس میں ٹھہرا ہوا ہوں کسی نے میری دعوت کی ہے اور میں اس دعوت میں گیا ہوں جب میں دعوت سے واپس آیا ہوں تو اس وقت میں اکیلا ہوں ساتھ والے دوست جو ہیں ان میں سے کوئی بھی اس وقت ساتھ معلوم نہیں ہو تا.عمارت جس میں ہم ٹھرنے ہوئے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ صرف ام طاہر مرحومہ میرے ساتھ ہیں اور وہ اوپر کے کمرہ میں سو رہی ہیں.جب میں اس عمارت کے پہلے کمرے میں داخل ہوا ہوں تو مجھے پیچھے سے آہٹ سنائی دی اور مجھے شبہ ہوا کہ کوئی شخص کمرے کے اندر آنا چاہتا ہے میں نے روشندان میں سے باہر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ ایک شخص فوجی وردی پہنے ہوئے کمرے کے اندر جھانک رہا ہے میں نے کھڑکی کے پاس سے آکر باہر کی طرف جھانکا تو مجھے معلوم ہوا کہ چند فوجی افسر با ہر کھڑے آپس میں باتیں کر رہے ہیں.ان کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ حملہ کر کے عمارت کے اندر گھس جائیں پہرے دار اور دوسرے ساتھی اس وقت تک نہیں پہنچے.میں نے جلدی جلدی او پر چڑھنا شروع کر دیا تا کہ ام ظاہر مرحومہ کو بیدار کردوں بہت اونچا جا کر عمارت ایسی ہے کہ ایک طرف شیڈ سا بنا ہوا ہے اور ساتھ صحن ہے.وہاں ام طاہر سو رہی ہیں اور ایک بچہ ان کے پاس سو رہا ہے میں نے
152 جس وقت یہ خواب دیکھا 1940ء کی بات ہے اس وقت ہماری لڑکی امتہ الجمیل ساڑھے تین سال کی تھی تو میں نے دیکھا کہ ام طاہر مرحومہ وہاں سو رہی ہیں اور ان کے ساتھ ایک بچہ سو رہا ہے میں نے ام طاہر مرحومہ کو جگانا شروع کیا لیکن وہ میرے جگانے پر جلدی نہ اٹھیں.میں کہتا ہوں خطرہ ہے اٹھو اور بچہ کو لے لو مگر انہوں نے اٹھنے میں دیر کی تو میں نے وہ بچہ اٹھالیا اس وقت وہ بچہ لڑکا بن گیا ممکن ہے اللہ تعالی ام طاہر مرحومہ کی بچیوں یا بچوں کو مبارک لڑکا دے یا امتہ الجمیل جولڑکے کی صورت میں دکھائی گئی ہے ممکن ہے جیسے حضرت مریم علیھا السلام کے متعلق آتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو مردوں کے کام کی توفیق دے دے.بہر حال میں نے بچہ کو اٹھالیا اور میں نے کہا کہ میں بچہ لے کر چلتا ہوں تم جلدی جلدی میرے پیچھے آؤ.وہاں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے مٹی ڈال کر کسی اونچی جگہ پر رستہ بنا دیا جاتا ہے جیسے پہاڑوں پر مکان ہوتے ہیں اور ایک منزل نیچے اور ایک اوپر ہوتی ہے اور اوپر کی منزل کے ساتھ بھی گو وہ اونچی ہوتی ہے پہاڑ پر رستہ مل جاتا ہے اسی طرح اس مکان کی بھی دوسری یا تیسری منزل ہے اور وہاں سے بھی ایک سڑک نیچے کی طرف جاتی ہے اس پر میں تیز تیز چلتا ہوں اور پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا جاتا ہوں اور ام طاہر مرحومہ کو اشارہ کرتا چلا جاتا ہوں کہ جلدی جلدی چلو دور جانے کے بعد میں نے دیکھا کہ کچھ جھونپڑیاں ہیں جن کی پھونس کی دیواریں اور پھونس کی چھتیں ہیں وہاں ایک کٹہرے کے ساتھ جو سڑک پر بنا ہوا ہے مجھے ایک عورت نظر آئی میں نے اسے کہا کہ کیا یہاں کوئی ٹھرنے کی جگہ مل سکتی ہے.اس نے کہا ہاں مل سکتی ہے اتنے میں ام طاہر مرحومہ بھی قریب آگئیں اور میں نے اس عورت سے کہا کہ بتاؤ کونسی جگہ ہے وہ ہمیں گاؤں میں لے گئی جیسے گاؤں میں جگہیں ہوتی ہیں کہیں اپلے پڑے ہیں اور کہیں کوڑا کرکٹ پڑا ہے ایسی جگہوں سے چلتے چلتے ایک چھوٹی سے پھونس کی دیواروں والی جھونپڑی آئی وہ ہمیں وہاں لے گئی کچھ لوگ وہاں جمع ہو گئے میں نے ان سے حالات پوچھنے شروع کئے حالات پوچھتے ہوئے مذہب کی باتیں شروع ہو گئی ہیں اس وقت میں ان سے دریافت کرتا ہوں کہ تمہارا مذہب کیا ہے تو ان میں سے ایک مرد پہلے تو ہچکچاتا ہے اس کے بعد اس نے کہا ہم ایک نئے مذہب کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.میں نے کہا وہ کو نسا فرقہ ہے تو پھر وہ ایسے رنگ میں جیسے کوئی شخص خیال کرتا ہے کہ مخاطب اس کے متعلق نہیں جانتا اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ اس کو بتانا فضول ہے.کہتا ہے کہ ہندوستان کا ایک فرقہ ہے میں نے کہا ہندوستان کا
153 کو نسا فرقہ ہے تو اس نے جواب دیا کہ ہندوستان کے ایک شخص نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے ہم اس کے مرید ہیں پھر وہ کچھ خلافت کا بھی ذکر کرتا ہے کہ وہاں ہمارا خلیفہ ہے مجھے اس پر خواب میں خوشی ہوتی ہے اور میں اسے بتانا چاہتا ہوں کہ جس کے متعلق تم کہتے ہو وہ خلیفہ میں ہی ہوں وہ میری بات فور اُ سمجھ کر اشارہ کرتا ہے کہ آپ بولیں نہیں اور اس کے بعد اس نے الگ یا کان میں مجھے بتایا کہ ہم چند لوگ احمدی ہیں اور باقی لوگ وہر یہ ہیں.میں پوچھتا ہوں یہ کو نسا علاقہ ہے تو وہ کہتا ہے روس کا علاقہ ہے اور کہتا ہے کہ میں مناسب نہیں سمجھتا کہ ان لوگوں کو آپ کا پتہ لگ جائے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.یہ رویا بھی اس امر کی خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو روس میں احمدیت کی تبلیغ کے ذرائع کھول دے ممکن ہے ترکی کے علاقے کی طرف یا ایران کے علاقہ کی طرف اللہ تعالیٰ روس میں تبلیغ اسلام کا رستہ کھول دے.الفضل -7 مئی 1945ء صفحہ 3.2 نیز دیکھیں.الفضل 5.فروری 1957ء صفحہ 3 جون 1940ء 229 فرمایا : میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ انگلستان گیا ہوں اور انگریزی حکومت مجھ سے کہتی ہے کہ آپ ہمارے ملک کی حفاظت کریں.میں نے اس سے کہا کہ پہلے مجھے اپنے ذخائر کا جائزہ لینے دو پھر میں بتا سکوں گا کہ میں تمہارے ملک کی حفاظت کا کام سرانجام دے سکتا ہوں یا نہیں.اس پر حکومت نے مجھے اپنے تمام جنگی محکمے دکھائے اور میں ان کو دیکھتا چلا گیا.آخر میں میں نے کہا کہ صرف ہوائی جہازوں کی کمی ہے اگر مجھے ہوائی جہاز مل جائیں تو میں انگلستان کی حفاظت کا کام کر سکتا ہوں.جب میں نے یہ کہا تو معامیں نے دیکھا کہ امریکہ کی طرف سے ایک تار آیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ.The American Government has delivered 2800 aeroplanes to the British Government.یعنی امریکی گورنمنٹ نے دو ہزار آٹھ سو ہوائی جہاز برطانوی حکومت کو دیے ہیں اس کے بعد
154 میری آنکھ کھل گئی.الموعود صفحہ 126 - 127 ( تقریر جلسہ سالانہ 28 - دسمبر 1944ء) یہ رویا جون 1940 ء میں میں نے دیکھا تھا.جولائی کے مہینہ میں میں ایک دن مسجد مبارک میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اس نے کہا کہ آپ کے نام ایک ضروری فون آیا ہے میں گیا تو مجھے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی آواز آئی.انہوں نے کہا.مبارک ہو آپ کی خواب پوری ہو گئی.ابھی تار آئی ہے جس میں لکھا ہے.The British Representative from America Wires that the American Government has delivered 2800 aeroplanes to the British Government.گویا وہی الفاظ جو رویا میں مجھے دکھائے گئے تھے ایک مہینے کے اندراندر پورے ہو گئے.سیر روحانی جلد 2 صفحہ 64-63 ( شائع کرده تالیف و اشاعت صد را مجمن احمد یہ ربوہ).نیز دیکھیں.الفضل 11.اپریل 1941 ء صفحہ 5 و 13.جولائی 1941ء صفحہ 8 و 25 جولائی 1944 ء صفحہ 2 و 29 - ستمبر 1946ء صفحہ 1 و 18.فروری 1958ء صفحہ 14 و 6 مئی 1960ء صفحہ 3 و 5 - فروری 1941ء صفحہ 14 9 اگست 1942ء صفحہ 4 اور 25 جون 1944ء صفحہ 1.میں بھی اس رویا کا ذکر آتا ہے.230 جون 1940ء فرمایا : میں نے ایک خواب دیکھا پہلے تو میں سمجھا تھا اس کا مطلب کچھ اور ہے مگر اب میں سمجھتا ہوں شاید ان کے اور ان کے تماش کے دوسرے لوگوں کے متعلق ہو.میں نے دیکھا کہ ایک چار پائی ہے جس پر میں بیٹھا ہوں سامنے ایک بڑھیا عورت جو بہت ہی کریمہ المنظر ہے کھڑی ہے اس نے دو سانپ چھوڑے ہیں جو مجھے ڈسنا چاہتے ہیں وہ چارپائی کے نیچے ہیں اور سامنے نہیں آتے تاجب میں نیچے اتروں تو پیچھے سے کود کر ڈس لیں.میرا احساس یہ ہے کہ ان میں سے ایک چارپائی کے ایک سرے پر ہے اور دوسرا دو سرے سرے پر.تامیں جدھر سے جاؤں حملہ کر سکیں.میں کھڑا ہو گیا ہوں اور جلدی جلدی کبھی پائنتی کی طرف جاتا ہوں اور کبھی سرہانے کی طرف.میں خیال کرتا ہوں کہ جب میں پائنتی کی طرف جاؤں گا تو سرہانے کی طرف کا سانپ اس طرف دوڑے گا اور جب سرہانے کی طرف آؤں گا تو پائنتی والا اس طرف آئے گا اور اس طرح میں ان کو جھانسہ دے کر نکل جاؤں
155 گا.پانچ سات مرتبہ اس طرح کرنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اب دونوں سانپ ایک ہی طرف ہیں اور میں دوسری طرف سے کو دپڑا.جب میں نیچے اترا تو میں نے دیکھا کہ واقعی وہ دونوں دوسری طرف تھے میں فوراً ان کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا ان میں سے ایک نے مجھ پر حملہ کیا اور میں نے اسے مار دیا پھر دوسرے نے حملہ کیا اور میں نے اسے مارا مگر میں سمجھتا ہوں ابھی وہ زندہ ہی ہے اسی جگہ کے پہلو میں ایک علیحدہ جگہ ہے میں ہٹ کر اس کی طرف چلا گیا ہوں وہاں ایک نہایت خوبصورت نوجوان ہے جو میں سمجھتا ہوں فرشتہ ہے اور گویا میری مدد کے لئے آیا ہے وہ عورت چاہتی ہے کہ اس سانپ کو پکڑ کر مجھ پر پھینکے مگر وہ نوجوان میرے آگے آگیا اور میری حفاظت کرنے لگا.عورت نے نشانہ تاک کر اس پر مارا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی مافوق العادت طاقت کا ہے اس نے اسے سر سے پکڑ لیا اور چاقو نکال کر اس کی گردن کاٹ دی اس عورت نے پھر اس کٹی ہوئی گردن کو اٹھایا اور ہماری طرف پھینکنا چاہتی ہے.کبھی اس کی طرف نشانہ باندھتی ہے اور کبھی میری طرف مگر اس فرشتہ نے مجھے پیچھے کر دیا اور فوراً آگے ہو گیا اور اسے پھینکنے کا موقع نہیں دیا.آخر ایک دفعہ اس عورت نے پھینکا مگر فرشتہ آگے سے ایک طرف ہو گیا سامنے کچی دیوار تھی وہ اس دیوار میں لگا اور اس میں سوراخ ہو گیا اور وہ اس سوراخ کے اندرہی گھس گیا.میری پیٹھ اس طرف ہے وہ فرشتہ ایک کمرہ کی طرف جو پہلو میں ہے اشارہ کر کے مجھ سے کہتا ہے کہ تم ادھر ہو جاؤ اس سوراخ میں سے یہ سانپ پھر نکلیں گے (گویا ان کی موت مجازی تھی اور جسمانی موت نہ تھی اور ابھی حقیقتاً زندہ تھے میں نے دیکھا کہ کبھی وہ اس سوراخ سے سر نکالتا ہے اور کبھی زبان ہلاتا ہے کبھی ادھر اور کبھی ادھر رخ کرتا ہے گویا چاہتا ہے کہ ہم ذرا غافل ہوں تو وہ حملہ کر دے.یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک کی بجائے دو سانپ ہیں اور گویا دوسرا سانپ جسے میں نے مردہ سمجھا تھا وہ بھی در حقیقت زندہ تھا چنانچہ پہلے تو ایک ہی سوراخ تھا مگر یکدم ایک اور نمودار ہو گیا اور دونوں سانپ ان سوراخوں میں سے کو دے اور زمین پر گرتے ہی آدمی بن گئے جو بڑے قوی الجثہ ہیں اس پر فرشتہ نے کسی عجیب سی زبان میں کوئی بات کی جسے میں نہیں سمجھ سکا.ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس نے کسی زبان میں جسے میں نہیں جانتا دعائیہ الفاظ کے ہیں اور وہ الفاظ ہاکی پاکی" کے الفاظ سے مشابہہ ہیں مگر چونکہ وہ غیر زبان ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ یہی الفاظ ہیں یا ان سے ملتے جلتے کوئی اور الفاظ.اس کے دعائیہ الفاظ کا اس کی زبان سے جاری ہو نا تھا کہ میں نے دیکھا کہ اس کے دونوں ہاتھ اوپر اٹھے اور ان میں ہتھکڑیاں پڑ گئیں مگر
156 اس طرح کہ ایک کلائی دوسری کے اوپر ہے اور دایاں ہاتھ بائیں طرف کر دیا گیا اور بایاں دائیں طرف کر دیا گیا ہے اور اس کے علاوہ ایک کمان دونوں ہاتھوں پر رکھی گئی ہے اور اس کے ایک سرے سے ایک ہاتھ کی انگلیاں اور دوسرے سرے سے دوسرے ہاتھ کی انگلیاں باندھ دی گئی ہیں دوسرے آدمی کو کس طرح قید کیا گیا ہے میں اچھی طرح نہیں دیکھ سکا پھر فرشتہ نے مجھے اشارہ کیا کہ باہر آجاؤ.الفضل 18 جون 1940ء صفحہ 4 231 تمبر 1940ء فرمایا : ایک اور خواب میں نے پچھلے سال دیکھا تھا جس کا دوسرا حصہ اب پورا ہوا ہے.میں شملہ میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے مکان پر تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک جگہ ہوں اور وہاں ایک بڑا ہال ہے جس کی سیڑھیاں بھی ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑا ملک ہے مگر نظر ہال آتا ہے میں دیکھتا ہوں کہ سیڑھیوں میں سے اٹلی کی فوج لڑتی آرہی ہے اور انگریزی فوج دیتی چلی جا رہی ہے یہاں تک کہ اطالوی فوج ہال کے کنارے تک پہنچ گئی جہاں سے میں سمجھتا ہوں کہ انگریزی علاقہ شروع ہوتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ قادیان نزدیک ہی ہے اور میں بھاگ کر یہاں آیا ہوں.مجھے میاں بشیر احمد صاحب ملے ہیں میں ان سے اور بعض دوستوں سے کہتا ہوں کہ اٹلی کی فوج انگریزی فوج کو دباتی چلی آرہی ہے اگر چہ ہماری صحت اور بینائی وغیرہ ایسی تو نہیں کہ فوج میں باقاعدہ بھرتی ہو سکیں مگر بندوقیں ہمارے پاس ہیں آؤ ہم لے کر چلیں دور کھڑے ہو کر ہی فائر کریں گے.چنانچہ ہم جاتے ہیں اور دور کھڑے ہو کر فائر کرتے ہیں.اتنے میں میں نے دیکھا کہ انگریزی فوج اٹلی والوں کو دبانے لگی ہے اور اس نے پھر انسی سیڑھیوں پر واپس چڑھنا شروع کر دیا ہے جن پر سے وہ اتری تھی اس وقت میں دل سے سمجھتا ہوں کہ دو تین بار اس طرح ہوا ہے.چنانچہ یہ خواب لیبیا میں پورا ہو چکا ہے جہاں پہلے تو دشمن مصر کی سرحد تک پہنچ گیا تھا مگر انگریزوں نے پھر اسے پیچھے ہٹا دیا.پھر دشمن نے انگریزوں کو پیچھے ہٹا دیا اور اب پھر انگریزوں نے ان کو پیچھے ہٹا دیا اور یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی مثال کہیں تاریخ میں نہیں ملتی کہ چار دفعہ ایسا ہوا ہو کہ پہلے ایک قوم دوسری کو ایک سرے سے دباتی ہوئی دوسرے سرے تک جا پہنچی ہو اور پھر وہ اسے دبا کر وہیں پہنچا آئی ہو اور چوتھی دفعہ پھر وہ اسے
157 دبا کر واپس لے گئی ہو.الفضل 17.جنوری 1942ء صفحہ 3 فرمایا : خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ ہم بندوقیں چلا رہے ہیں گو ظاہری بندوق چلانا مجھے یاد نہیں مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم نے فائر کئے ہیں ہمارے فائروں کے بعد انگریزی فوج کا قدم آگے بڑھنا شروع ہوا.پھر فرمایا.یہ جو میں نے دیکھا ہے کہ ہم نے فائر کئے ہیں اس کا مطلب میں دعا سمجھتا ہوں اور بشیر احمد کا نام بشارت ظاہر کرتا ہے اور اس کی تعبیر میں نے یہ کی کہ ہو سکتا ہے ہماری دعاؤں سے اللہ تعالٰی انگریزی فوجوں کو آخری دفعہ دشمن کو دھکیلنے کی توفیق دے دے کیونکہ گو ضروری نہیں کہ خواب میں جو آخری نظارہ دکھایا جائے فی الواقع بھی وہ آخری نظارہ ہو مگر کثیر الوقوع یہی امر ہے کہ جو آخری نظارہ نظر آئے وہی واقعہ میں بھی آخری ہوتا ہے بہر حال جتنا واقعہ میں نے رویا میں دیکھا بتا دیا.چوہدری صاحب نے اگلے دن اس رویا کا ذکر اپنے کئی دوستوں اور ہز ایکسی نسی وائسرائے کے پرائیویٹ سیکرٹری مسٹر لیتھویٹ سے بھی کیا ان پر اس کا ایسا اثر تھا کہ دوسرے یا تیسرے دن جب چوہدری صاحب کے ہاں چائے پر آئے تو انہوں نے خود مجھ سے اس کے متعلق دریافت کیا اور پوچھا کہ آپ نے کیا ر و یا دیکھا ہے اور وہاں میں نے ان سے مکمل رو یا بیان کیا اس کے دو ماہ بعد انگریزی فوج دشمن کو دھکیلتی ہوئی کئی سو میل تک لے گئی.1941ء میں دشمن پھر آگے بڑھا اور انگریزی فوج کو دھکیلتا ہوا مصری سرحد تک لے آیا نومبر 1941ء میں پھر انگریزی فوج نے حملہ کیا اور دشمن کی فوجوں کو دھکیلتی ہوئی کئی سو میل تک لے گئی اور اب تازہ خبر یہ ہے کہ دشمن کی فوجیں انگریزی فوجوں کو دھکیل کر مصر کی سرحد پر لے آئی ہیں.الفضل 3 جولائی 1942 ء صفحہ 1 فرمایا : خواب میں بال دکھائے جانے کے معنے بھی یہی تھے کہ ایسی جگہ لڑائی ہو گی جو ایک وسیع میدان نہیں ہوگی بلکہ محدود جگہ ہو گی اسی طرح خواب میں جو سیڑھیوں والا حصہ دکھایا گیا تھا وہ بھی اس جنگ میں نمایاں طور پر پورا ہوا چنانچہ اس جنگ کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ انگریزی فوج جس جگہ لڑ رہی تھی وہ نسبتاڈی پریشن (Depression) یعنی نیچی جگہ تھی اور دشمن شروع میں سامنے کی پہاڑیوں پر قابض تھا.الفضل 12 نومبر 1942ء صفحہ 1 تا 3 نیز دیکھیں.الفضل 25.جون 1944ء صفحہ 2 و 14 - مارچ 1945 ء صفحہ 6 و 18.فروری 1959ء صفحہ 7-8 اور الموعود صفحہ 142 تا 147.سیر
158 روحانی جلد 2 صفحہ 61-62 اکتوبر 1940ء 232 فرمایا : میں نے اکتوبر 1940ء میں رویا دیکھا تھا کہ میرے سامنے کچھ کاغذات پیش کئے گئے ہیں جو پیٹان (Petain) گورنمنٹ کے متعلق ہیں اور ان کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ حرکات انگریزی حکومت کے خلاف کر رہی ہے اور انگریز پہلی دوستی کے لحاظ سے کچھ نہیں کر سکتے اور میں خواب میں ہی گھبراتا ہوں کہ اب کیا بنے گا تو میرے دل میں ڈالا جاتا ہے کہ یہ صرف ایک سال کی بات ہے سال کے اندراندر یہ حالت بدل جائے گی.بعض دستوں کو یہ رویا سنایا اور یہ بھی کہا کہ اس کی چار تعبیریں ہو سکتی ہیں یا تو مارشل پیٹان مر جائیں گے یا ان کی حکومت بدل جائے گی یا پیان گورنمنٹ پورے طور پر جرمنی کے ساتھ مل جائے گی اور اس طرح برطانیہ کو جو کچھ امن کا لحاظ ہے وہ جاتا رہے گا اور وہ پوری طاقت کے ساتھ اس کا مقابلہ کر سکے گا یا پھر وہ انگریزوں کے ساتھ مل جائے گی اور یہ رویا حیرت انگیز طور پر پورا ہوا ہے.فرانس کی شکست سے ٹھیک ایک سال بعد عراق میں جرمنوں نے بغاوت کرائی اور ایسے نازک حالات پیدا ہو گئے کہ خطرہ تھا ہفتہ عشرہ میں ہی جنگ ہندوستان تک آپہنچے گی اور اس بغاوت کے سلسلہ میں شام کی فرانسیسی حکومت نے جرمنوں کو مدد دی اور اس طرح انگریزوں کے لئے پہلے فرانس کے ساتھ اس وجہ سے جنگ نہ کرنا چاہتے تھے کہ دنیا میں ان کی بدنامی ہوگی اور لوگ کہیں گے کہ اپنے سابق حلیف کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں اس کے مقابلہ کرنے کا موقع خود بخود پیدا ہو گیا اور انہیں فرانس کو نوٹس دینا پڑا اور جب پھر بھی فرانس کے رویہ میں تبدیلی نہ ہوئی تو انہوں نے اس کا مقابلہ کیا اور اسے شکست دی.دیکھو کس طرح یہ رویا ایک سال کے اندر اندر پورا ہو گیا.الفضل 9 نومبر 1941ء صفحہ 4.نیز دیکھیں الفضل 17.جنوری 21942 6/5جنوری1941ء 233 فرمایا : 6/5 جنوری کی درمیانی شب خدا تعالیٰ نے مجھ پر انکشاف فرمایا تھا افسوس ہے کہ وہ
159 پوری طرح یاد نہیں رہا جو بہت لمبا نظارہ تھا صرف ایک دو باتیں مجھے اس میں سے یا د رہ گئی ہیں لیکن جو کچھ بھی یاد ہے وہ اپنی ذات میں اتنا اہم اور اتنی زبر دست پیشگوئی اس میں اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہماری شامت اعمال کی وجہ سے اس میں کوئی تبدیل پیدا نہ فرمادے تو وہ جماعت کے ایسے زبر دست مستقبل پر دلالت کرتی ہے جو بالکل غیر معمولی اور بے مثال ہے.میں نے دیکھا کہ میں ایک ایسی چیز میں ہوں جو جہاز کی طرح نظر آتی ہے میں جہاز کی طرح اس لئے کہتا ہوں کہ مجھے اس کے کمرے وغیرہ نظر نہیں آتے وہ چیز ایسی ہے جیسے سب کی شکل ہوتی ہے یعنی جہاز کی شکل کی چار دیواری اس میں موجود ہے وہ زمین سے اونچی ہے اور جس طرح پانی میں جہاز کھڑے ہوتے ہیں اسی طرح پانی میں وہ کھڑی ہے اور اس کا رنگ سبز ہے....اور اس کی دیواریں جو میں نے دیکھیں وہ بھی گہرے سبز رنگ کی ہیں جس میں کچھ نیلا ہٹ معلوم ہوتی ہے گویا وہ اتنا تیز سبز رنگ ہے کہ اس میں کچھ نیلاہٹ کا شبہ بھی پیدا ہونے لگا ہے پانی بھی مگر چھوٹا چھوٹا.بعض دفعہ خواب میں ایسے غیر معمولی نظارے بھی دکھا دیئے جاتے ہیں اس لئے اس پر تعجب نہیں کرنا چاہئے بہر حال وہ جہاز چھوٹے سے پانی میں کھڑا ہے یا یوں سمجھ لو کہ جب کنارے پر جہاز لگتا ہے تو جس طرح اس کے آگے چھوٹا پانی ہوتا ہے اسی طرح دریا میں مجھے وہ پانی نظر آتا ہے جہاں جہاز کھڑا ہے وہاں تو کچھ زیادہ پانی ہو گا مگر جہاں اس جہاز سے اترتے ہیں وہاں مخنوں مخنوں تک پانی ہے چند گز تک تو پانی چلتا چلا جاتا ہے مگر آگے ایک بڑی سی دری بچھی ہے اور وہ دری بھی سبز کچھ نیلاہٹ رکھتی ہوئی ہے جیسے نہایت گہرا سبز رنگ ہوتا ہے اور اس پر ایک نوجوان بیٹھا ہے.اس کا لباس بھی سبز ہے جو سوٹ کے مشابہ ہے جیسے انگریزی سوٹ ہوتے ہیں میں یقینی طور پر تو نہیں کہہ سکتا مگر بہر حال اس کی شکل یا تو ملک غلام فرید صاحب سے ملتی ہے یا ڈاکٹر میجر غلام احمد صاحب سے ملتی ہے.میں شبہ اس لئے کرتا ہوں کہ ملک غلام فرید صاحب کی داڑھی بہت ہی سفید ہو چکی ہے مگر اس نوجوان کی داڑھی سیاہ ہے اور جیسے انسان نے جب پتلون پہنی ہوئی ہو تو زمین پر بیٹھنے میں اسے تکلیف محسوس ہوتی ہے اور وہ ایک طرف ٹانگیں نکال کر بیٹھتا ہے اسی طرح وہ نوجوان بیٹھا ہوا ہے اس کے سر پر ترکی ٹوپی ہے میں جہاز سے اترا ہوں مجھے وہاں کوئی سیڑھی لگی ہوئی معلوم نہیں ہوتی ایک اونچی سی دیوار ہے اور جیسے جہاز
160 اونچے ہوتے ہیں اسی طرح اس کی دیوار زمین سے پینتیس چالیس فٹ اونچی ہے میں نہیں جانتا کہ میں اس میں سے کس طرح نیچے اترا.بہر حال میں اس جہاز پر سے ہلکے پھلکے طور پر اترا ہوں اور پانی میں سے جو مخنوں تک ہے چل کر اس دری کی طرف گیا ہوں جہاں وہ نوجوان بیٹھا ہے اور جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ ملک غلام فرید صاحب ہیں یا ڈاکٹر غلام احمد صاحب ہیں دونوں میں سے کسی ایک کا مجھے شبہ پڑتا ہے وہاں پہنچ کر مجھے اس نوجوان کے چہرے پر بڑی افسردگی نظر آتی ہے جب میں نے افسردہ دیکھا تو مجھ میں ایک جلال سا پیدا ہو گیا ہے اور میں اس نوجوان سے کہتا ہوں کہ تم افسردہ کیوں ہو اس وقت میری طبیعت پر اثر یہ ہے کہ قادیان سے کچھ لوگ چلے گئے ہیں میں نہیں کہہ سکتا کہ اس سے میری کیا مراد تھی کیونکہ رویا میں میرا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ ” چلے گئے " سے یہ مراد ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں یا یہ مراد کہ کچھ لوگ مرتد ہو گئے ہیں رویا کے وقت قلب میں اس کے متعلق وضاحت نہیں ہوئی.” چلے گئے " سے مراد اگر یہ ہو کہ کچھ لوگ فوت ہو گئے ہیں تو ممکن ہے اس سے میر محمد اسحاق صاحب او ر ام طاہر کی وفات کی طرف اشارہ ہو یا شاید بعض اور موتیں خدا تعالیٰ کے نزدیک مقدر ہوں بہر حال میری طبیعت پر اس وقت اثر یہ ہے کہ کچھ لوگ قادیان سے چلے گئے ہیں میں کہہ نہیں سکتا کہ چلے جانے سے مراد اگلے جہان جانا ہے یا شاید اس سے مرتد ہو نا مراد ہے لیکن میں اتنا ضرور سمجھتا ہوں کہ کچھ لوگ قادیان سے پہلے گئے ہیں اور اس وجہ سے اس نوجوان کے دل پر افسردگی چھائی ہوئی ہے وہ ایک ہی آدمی ہے.اس کے علاوہ مجھے کوئی اور شخص نظر نہیں آتا جب میں اس کے چہرہ پر افسردگی دیکھتا ہوں تو میں بڑے جلال میں اس نوجوان سے کہتا ہوں تم افسردہ کیوں ہو اس کے بعد میں بڑے جوش سے کہتا ہوں دیکھو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہماری جماعت کے لئے خصوصاً قادیان کے لئے ایک بڑا بھاری اور عظیم الشان مستقبل مقدر ہے.اس لئے افسردگی کی کوئی وجہ نہیں.گویا خواب میں جو میں اس نوجوان کو اس وجہ سے افسردہ دیکھتا ہوں کہ قادیان سے کچھ لوگ چلے گئے ہیں تو میں اس کی افسردگی کو دور کرنے کے لئے کہتا ہوں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہماری جماعت کے لئے خصوصاً قادیان کے لئے ایک بڑا بھاری مستقبل مقدر ہے.جب میں نے یہ الفاظ کہے تو وہ نوجوان اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور میں اس کو اپنے ساتھ لے کر ایک طرف چل پڑا.میں نے دیکھا کہ
دری کے دوسرے کنارے پر ایک بہت بڑا مکان ہے اور اس مکان میں ایک بہت بڑا ہال ہے میں اس ہال میں شملنے لگ گیا اور میں نے شملتے شملتے پھر بڑے زور سے اس نوجوان کو کہنا شروع کر دیا کہ تمہارے لئے افسردگی کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی ایک بڑا بھاری مستقبل ہماری جماعت کے لئے مقدر ہے اس کے بعد میں نے ایک بڑی لمبی تقریر کی جس میں میں کئی قسم کی پیشگوئیاں بیان کرتا ہوں اور اس نوجوان کو بتاتا ہوں کہ ہمارے لئے یوں مقدر ہے.افسوس ہے کہ مجھے اس تقریر کا بہت سا حصہ بھول گیا صرف دو باتیں یاد رہ گئی ہیں مگر وہ دو باتیں بھی اتنی شان کی ہیں کہ صرف ان کا یا د رہ جانا بھی اپنی ذات میں بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے.میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں خدا تو قادیان کے لوگوں پر یا جماعت کے لوگوں پر کا لفظ میں نے استعمال کیا ہے مجھے پورا یقین نہیں کہ میں نے رویا میں قادیان کے لوگوں کا نام بھی لیا تھایا ہماری جماعت کا ذکر کیا تھا بہر حال ان دونوں میں سے ایک کا ذکر کر کے میں کہتا ہوں کہ خدا توان لوگوں پر اس رنگ میں نزول برکات کرنے والا ہے کہ ان کے دلوں میں خدا کا نور نازل ہو گا پھر نور بڑھے گا اور بڑھتا چلا جائے گا یہاں تک کہ وہ نور دلوں کے کناروں تک آئے گا اور پھر کناروں سے بھی بہنا شروع ہو جائے گا رویا میں جب میں کہتا ہوں کہ خدا کا نور ان کے دلوں کے کناروں سے بہنا شروع ہو جائے گا تو اس وقت مجھے مومن کے قلب کی شکل دکھائی دیتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ایک تنور ہے بچپن میں ہم دیکھا کرتے تھے کہ بھٹیار نہیں روٹی پکانے کے لئے جب بنور گرم کرتیں تو پتے اور لکڑیاں وغیرہ ڈال کر اور انہیں آگ لگا کر بعد میں تنور کے منہ پر مٹی کا کوئی کونڈا رکھ دیتی تاکہ تنور کی گرمی زیادہ ہو جائے ایسی ہی شکل مجھے مومن کے قلب کی دکھائی گئی بنور کی طرح اس کی شکل ہے اور اس پر مٹی کا ایک کو نڈاڈھکا ہوا نظر آتا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ قلب کے سرے ہیں گویا ایک تنور کی صورت میں میں مومن کے دل کے کنارے دیکھتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ان کناروں کے اوپر سے خدا تعالیٰ کا نور نکلے گا اور اس کا عرفان اور فیضان اس میں سے نکل کر دنیا میں ہے گا.پھر میں اور زیادہ زور دیتا ہوں اور کہتا ہوں خدا کا نوران کناروں سے بسے گا اور بہہ کر تمام دنیا میں جائے گا یہاں تک کہ دنیا کا ایک انچ حصہ بھی ایسا باقی نہیں رہے گا جہاں خدا کا یہ نور نہ پہنچے.تو میں دل میں خیال کرتا ہوں کہ یہ تو مبالغہ ہے ایسا ہو نا خدا تعالیٰ کی سنت کے خلاف معلوم ہوتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے
162 کہ گو اس کا دین غالب آجائے مگر کچھ نہ کچھ لوگ دین کے مخالف ضرور رہتے ہیں پس میں کہتا میرا یہ کہنا ایک انچ بھی ایسی باقی نہیں رہے گی جہاں خدا کا یہ نور نہ پہنچے غلطی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے خلاف ہے چنانچہ میرے دل میں اس وقت خیال آتا ہے کہ دیکھو اللہ تعالٰی قرآن کریم میں حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کہ کچھ نہ کچھ لوگ ایسے موجود رہتے ہیں جو دین کا انکار کرنے والے ہوں اسی قسم کی بعض اور آیات میرے ذہن میں اجمالی طور پر آئی ہیں اور میں کہتا ہوں کہ ایسا ہونا تو خدا تعالیٰ کی سنت اور اس کے طریق کے خلاف ہے مگر پھر میرا ذہن فوراً اس امر کی طرف منتقل ہوتا ہے کہ یہ تو ایک محاورہ ہے جو استعمال کیا جاتا ہے جب انتہائی رنگ میں ہم کسی چیز کا ذکر کرنا چاہتے ہیں تو ایسے ہی الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں پس چونکہ یہ فیضان انتہائی طور پر ہو گا اس لئے یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ ایک انچ زمین بھی ایسی باقی نہیں رہے گی جہاں خدا کا نور بہہ کر نہ پہنچے چنانچہ میں ان الفاظ کے کہنے سے نہیں رکھتا اور وہ پہلا سوال دل میں پیدا نہیں ہو تا بلکہ میں سمجھتا ہوں یہ الفاظ کہنے کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں کہ ایک انچ زمین بھی ایسی نہیں رہے گی جہاں خدا کا نور اور اس کا فیضان دلوں کے کناروں سے بہہ کر نہ پہنچے اور میں خیال کرتا ہوں کہ گو دنیا کا کچھ حصہ اس نور سے محروم رہ جائے مگر اس کا بہاؤ اتنی شدت کا ہو گا اور اس فیضان کا دائرہ اتنا وسیع ہو گا کہ اگر اس کے اظہار کے لئے کوئی الفاظ بولے جاسکتے ہیں تو وہ یہی ہیں کہ دنیا میں ایک انچ زمین بھی ایسی باقی نہیں رہے گی جہاں خدا کا یہ نور نہیں پہنچے گا.چنانچہ خواب میں میں بڑے زور سے ان الفاظ کو دہراتا ہوں اور کہتا ہوں ایک انچ بھی ایسا باقی نہیں رہے گا جہاں خدا کا یہ نور نہیں پہنچے گا اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ ایک سفید پانی کی شکل میں خدا تعالیٰ کا نور اس کو نڈے کے کنارے سے نکل کر دنیا میں پھیلنا شروع ہوا اور وہ دنیا کے گوشے گوشے اور اس کے کونے کونے تک پہنچ گیا.اس کے بعد مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے خدا تعالیٰ مجھے مستقبل کی بعض اور خبریں دے رہا ہے اسی دوران میں میں بڑے زور سے بعض الفاظ کو کہتا ہوں وہ الفاظ بالکل ایسے ہی ہیں جیسے بائبل کے الہاموں کے ہیں اور وہ مجھے پوری طرح یا د رہے ہیں ممکن ہے کسی ایک یا آدھ لفظ کی بچائے اس کا ہم معنی کوئی اور لفظ استعمال ہو گیا ہو میں کہتا ہوں کہ احمدیوں کے دلوں پر اللہ تعالی
163 کا فضل نازل ہوتے ہوئے ایک زمانہ وہ آئے گا کہ انسان یہ نہیں کہے گا کہ اے میرے رب! اے میرے رب! تو نے مجھے کیوں پیاسا چھوڑ یا بلکہ وہ کہے گا اے میرے رب! اے میرے رب! تو نے مجھے سیراب کر دیا یہاں تک کہ تیرے فیضان کا پانی میرے دل کے کناروں سے اچھل کر بہنے لگا اس کے بعد آنکھ کھل گئی.الفضل 6 جون 1941ء صفحہ 1 تا3 رویا میں مجھے قلب مومن کی شکل جو تنور کی طرح دکھائی گئی ہے اس سے بعد میں میرا ذہن اس آیت کی طرف منتقل ہوا جس میں یہ ذکر آتا ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر عذاب آیا تو فَارَ التَّنُّورُ (ھود : (41) بنور جوش میں آگیا لوگ اس آیت کے مختلف معنے کرتے ہیں مگر اس رویا سے میں سمجھا کہ مجھے قلب انسانی ایک بنور کے رنگ میں دکھائے جانے سے شاید اس طرف بھی اشارہ ہو کہ فَارَ التَّنُّورُ میں بھی بنور قلب کے معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے یعنی ایک طرف خدا تعالیٰ کا امر نازل ہوا اور دوسری طرف نوح کے قلب میں جوش پیدا ہوا اور جب وہ دونوں مل گئے تو خدا تعالیٰ کا عذاب دنیا پر نازل ہو گیا.الفضل 6.جون 1941 ء صفحہ 4 9 اپریل 1941ء 234 فرمایا : چار پانچ دن ہوئے مجھے ایک رویا ہوا جس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ پیغامی پھر کوئی فتنہ کھڑا کرنا چاہتے ہیں.میں نے رویا میں دیکھا کہ کوئی بیمار ہے جس کے لئے میں نے کونین تجویز کی ہے اور میں کو نین لینے کے لئے حضرت اماں جان) کے کمرہ کی طرف جا رہا ہوں جب میں کمرہ کے قریب پہنچا.تو میں نے دیکھا کہ اندر میاں منصور احمد مولوی صدرالدین صاحب پیامی اور غالباً مرزا ناصر احمد اور مرزا مبارک احمد بیٹھے ہیں میرا غالب خیال یہی ہے کہ ناصر احمد بیٹھے ہوئے ہیں میں مولوی صدرالدین صاحب کو دیکھ کر بہت گھبرایا کہ یہ ہمارے گھر میں کس طرح آگئے ہیں مگر مرزا منصور احمد اور مرزا ناصر احمد نے بتایا کہ حضرت اماں جان) سے اجازت لے کر ان کا حال دریافت کرنے کے لئے آئے ہیں.میاں منصور احمد میرے بھیجے بھی ہیں اور داماد بھی.میں نے رویا میں مذاق کے طور پر ان سے کہا کہ یہاں اماں جان کی شیشی میں سے کونین کی ایک گولی تو چرا دو (چرا دو کا لفظ اس لئے بولا کہ حضرت اماں جان) وہاں موجود نہ تھیں اور ان کی بلا اجازت کو نین لینے گئے تھے) اس پر مولوی صدر الدین صاحب کہنے لگے یہ تو پہلے ہی چوری کے عادی
164 ہیں.مجھے ان کا یہ فقرہ بہت بر الگا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں نے تو منصور احمد سے مذاق کیا تھا اور مخاطب بھی میں نے اسے ہی کیا تھا مولوی صدرالدین صاحب درمیان میں کیوں بول پڑے.پھر میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ یہ بہت بری بات ہے آپ کو اس لئے اجازت نہیں دی گئی تھی کہ اندر آگر آپ ایسی بیہودہ باتیں کریں.اس پر وہ کھڑے ہو گئے اور میری طرف انہوں نے بڑھنا شروع کر دیا گویا وہ میرا مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.جب وہ میرے قریب پہنچے تو میں نے اپنی کلائی ان کی کلائی کے سامنے رکھ کر انہیں پیچھے ہٹایا اور کہا کہ آپ نے یہ بہت بری حرکت کی ہے.اتنے میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ مولوی صدرالدین صاحب میرے اس معمولی سے جھٹکے سے چاروں شانے چت گر گئے ہیں اور ان کا قد کوئی بالشت بھر کے قریب رہ گیا ہے اور وہ زمین پر پڑے ہوئے یوں معلوم ہوتے ہیں جیسے موم کی گڑیا ہوتی ہے اور وہ میری طرف اس طرح پھٹی ہوئی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ گویا سمجھتے ہیں میں انہیں مار ڈالوں گا.پھر میں نے انہیں کہا کہ ہمارے گھر سے اسی وقت چلے جاؤ چنانچہ وہ باہر نکل گئے اتنے میں خواب میں ہی نماز کا وقت ہو گیا.میں نماز کی تیاری کر رہا ہوں کہ میاں بشیر احمد صاحب میرے پاس آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ چوک میں کچھ پیغامی کھڑے ہیں جن میں مولوی صدرالدین صاحب بھی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نالش کرنے والے ہیں کیونکہ انہوں نے ہم کو مارا ہے ہاں اگر وہ معافی مانگ لیں یا معافی نہیں مانگتے تو اظہار افسوس ہی کر دیں تو ہم نالش نہیں کریں گے ورنہ ضرور نالش کریں گے.میاں بشیر احمد صاحب نے جب مجھے یہ بات کہی تو میں نے ان سے کہا مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں وہ بیشک مجھ پر نالش کر دیں میں نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے.یہ سن کر میاں بشیر احمد صاحب چلے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد پھر واپس آئے میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ وہ کہنے لگے وہ تو کچھ اوباش لوگ تھے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا وہ معافی مانگنے یا اظہار افسوس کرنے کے لئے تیار ہیں مگر جب میں نے آپ کا جواب انہیں سنایا تو وہ کہنے لگے اچھا اگر ان کی مرضی نہیں تو نہ سہی اور یہ کہہ کر وہ چلے گئے.میں نے یہ رویا چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب سے بیان کر دیا تھا اور ان سے کہا تھا کہ شاید پیغامی پھر کوئی فتنہ کھڑا کرنے والے ہیں کل شیخ بشیر احمد صاحب نے سنایا کہ ان کو لائل پور کے ایک دوست کے ذریعہ یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ پیغامیوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مولوی
165 صدر دین صاحب کو قادیان بھیجا جائے میں نے کہا پھر تو یہ خواب اپنے ظاہری رنگ میں ہی پوری ہو جائے گی اور وہ اگر آئے تو یقینا ہمارے مقابلہ میں گڑیا بن کر رہ جائیں گے ایران کے ساتھی یہ کہہ کر چلے جائیں گے کہ جب یہ کوئی بات مانتے ہی نہیں تو نہ سہی.ہم جاتے ہیں.یہ رویا 9.اپریل بدھ کے روز میں نے دیکھا تھا.رپورٹ مجلس مشاورت 1941ء صفحہ 132 - 134.مزید دیکھیں.الفضل 11 جون 1941 ء صفحہ 2 و 12.جون 1941 ء صفحہ 65 235 ایریل 1941ء فرمایا : چند دن کی بات ہے یہاں ایک مقامی افسر نے ایسی کارروائی کرنی شروع کی جس سے مجھے یہ شبہ پیدا ہوا کہ ہماری تبلیغ کو روک دیا جائے گا.میں نے اس کے متعلق دعا کرنی شروع کر دی اور میں نے کہا کہ یا اللہ تیرے دین کی تبلیغ کو تو کوئی روک نہیں سکتا مگر یہ افسر اس بیوقوفی کا ارتکاب کر کے اپنے آپ کو ہلاک کرے گا اس لئے تو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرما کہ تبلیغ میں کوئی روک پیدا نہ ہو.میں نے اس دعا کے بعد رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ بیٹھا ہوا ہوں اور وہی افسر میرے سامنے آیا ہے پہلے تو وہ اور افسروں سے کچھ مشورہ کرتا رہا پھر ایک خالی پیج پر بیٹھ گیا.میں نے دیکھا کہ اس کے سر پر ایک لمبا سا کلاہ ہے اور چھوٹی سی پگڑی اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی ملتا ہے اتنے میں پیچھے سے بعض اور دوست آئے اور وہ ان سے باتیں کرنے لگ گیا باتیں کرتے کرتے یکدم وہ اٹھا اور میرے پہلو میں جھکا.میں نے دیکھا کہ اس کا رنگ فق ہو تا چلا جا رہا ہے میں حیران ہوں کہ اسے کیا ہو گیا ہے اتنے میں میں نے دیکھا کہ وہاں ایک سوراخ ہے جس میں سے ایک سانپ نے سر نکالا ہوا ہے اور غالبا اس سانپ نے اسے کاٹ لیا ہے میں نے کہا کہ جلدی سے اس سانپ کا زہر نکالو مگر وہ باکل ہمت ہار چکا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے مرنے لگا ہے مگر میں اس کے لئے دوائی تلاش کرنے لگ گیا اور ابھی دوائی تلاش ہی کر رہا تھا کہ آنکھ کھل گئی.ادھر یہ رویا میں نے دیکھا اور ادھر چند دنوں کے بعد ہی مجھے معلوم ہوا کہ اس افسر کے رویہ میں فرق پیدا ہو گیا ہے اور یا تو وہ ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے ماتحت کارروائی کرنے لگا تھا اور یا اس نے اس ارادہ کو بالکل ترک کر دیا.اس رویا سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ باز نہ آیا تو
166 یا تو واقعہ میں کوئی سانپ اسے کاٹ لے گا یا اپنی قوم کے کسی مخفی شخص کے ذریعہ سے اسے شدید نقصان پہنچے گا.رپورٹ مجلس مشاورت 1941ء صفحہ 134 12 اپریل 1941ء 236 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں انگریزوں کی کامیابی کے لئے دعا میں مشغول ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے نماز پڑھ کر میں فارغ ہو چکا ہوں اور مصلی پر بیٹھا ہوا ہوں شمال کی جانب میرا منہ ہے اور میرے سامنے میری بچی ناصرہ بیگم بیٹھی ہوئی ہے اس سے آگے میرا بھتیجا مظفر احمد بیٹھا ہوا ہے اس کے آگے منصور یا منور ہے.خواب میں میں حیران ہوتا ہوں کہ ناصرہ نے مظفر سے پردہ کیوں نہیں کیا اتنے میں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ناصرہ میری طرف سے اس اعتراض کو بھانپ گئی ہے اس وقت اس نے ایک دصہ لیا ہوا ہے اور وہ اپنے ہاتھ سے اس دصہ کے کونوں کو پکڑ کر ہلاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ میں نے پر وہ کیا ہوا ہے.اس رویا کی تعبیر میں نے یہ سمجھی کہ اللہ تعالٰی کی نصرت پس پردہ بیٹھی ہے.یہ تو معلوم نہیں ہوا کہ مظفر کون ہے مگر اس خواب سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ جو مظفر ہے اسے بھی یہ معلوم نہیں کہ نصرت اس کے پس پردہ بیٹھی ہے...اس رویا سے مجھے اتنی تسلی ضرور ہوئی کہ اس جنگ میں خداتعالی کا دخل ہے اور جس جنگ میں خدا تعالیٰ کا دخل ہو اس کا نتیجہ اسلام اور احمدیت کے لئے مضر نہیں ہو سکتا.رپورٹ مجلس مشاورت 1941ء صفحہ 135 237 9.مئی 1941ء فرمایا : جب ہرئیس * Herr Hess) انگلستان میں اترا میں سندھ میں تھا رات کو میں نے ریڈیو پر خبریں سنیں ان میں اس کے اترنے کا کوئی ذکر نہ تھا یوں وہ اتر چکا تھا رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا جرمن لیڈر ہوائی جہاز سے انگلستان میں اترا ہے صبح میں نے بعض دوستوں کو خطوط لکھے تو ان میں اس کا ذکر کر دیا کیونکہ صبح کی خبروں میں ریڈیو پر یہ خبر بھی آگئی تھی.میں نے خواب میں جو جرمن لیڈر دیکھا اس کا اور نام تھا مگر خواب میں بعض اوقات ایک ی ہر ایس 10 - مئی 1941ء کو انگلستان کے ساحل پر پیرا شوٹ کے ذریعہ اترا تھا (مرتب)
167 سے مراد دوسرا ہوتا ہے بعض اوقات باپ سے مراد بیٹا ہوتا ہے.بعض دفعہ خواب میں بیٹا دکھایا جاتا ہے تو مراد اس سے باپ ہوتا ہے.خواب میں میں نے اور جرمن لیڈر دیکھا تھا مگر اس کی ایک تعبیر یہ تھی کہ.میں ہوائی جہاز سے اترا ہے اور ابھی ایک اور تعبیر ہے جو ابھی پوری ہونے والی ہے اس خواب میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بعض اور باتیں بھی ظاہر فرمائیں جو بہت مخفی ہیں اور کسی پر میں نے ان کو ظاہر نہیں کیا.الفضل 9.نومبر 1941ء صفحہ 4 گذشتہ دنوں میں سندھ میں تھا کہ مجھے انگریزی میں ایک الہام ہوا جس کا مفہوم یہ تھا کہ انگریزی فوج کی صف تو ڑ کر جرمن فوج اندرداخل ہو گئی ہے دوسرے ہی دن میں نے میاں بشیر احمد صاحب کو بھی ایک خط میں اس خواب کی اطلاع دے دی اور غالبا چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو بھی خواب لکھ دی اس کے بعد یہ خبر آگئی جو ریڈیو پر ہم نے خود سن لی کہ ” طبروق کے مقام پر انگریزی صفوں کو چیر کر جرمن فوج آگے بڑھ گئی ہے ".الفضل 13.جولائی 1941ء صفحہ 9 238 اگست 1941ء فرمایا : میں نے ایک رؤیا دیکھی کہ گویا میں دہلی میں ہوں اور انگریز حکومت چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے ہیں اور ہندوستانیوں نے حکومت پر قبضہ کر لیا ہے اور بڑی خوشی کے جلسے کر رہے ہیں کہ حکومت ہمارے ہاتھ آگئی ہے.ایک بہت بڑا چوک ہے اس میں کھڑے ہو کر بڑے زور شور سے لوگ تقریر کر رہے ہیں اور خطابات تجویز کر رہے ہیں کہ ہندوستان نے حکومت حاصل کی ہے فلاں کو یہ رتبہ دیا جائے اور فلاں کو یہ عہدہ دیا جائے غرض خطابات اور عہدے تجویز کر رہے ہیں.میں نے ان کی خوشیوں کو دیکھ کر کھڑے ہو کر ان میں ایک تقریر کی اور کہا یہ کام کرنے کا وقت ہے خوشیاں منانے کا وقت نہیں انگریز تو صرف عارضی طور پر پیچھے ہٹے ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پھر لوٹیں اور یہ سب خوشیاں بیکار ہو جائیں اس لئے تقریر میں نہ کرو ، خوشیاں نہ مناؤ تنظیم کرو اور تیاری کرو.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں پر میری بات کا اثر ہوا ہے لیکن اکثروں پر نہیں ہوا اور وہ اس خوشی میں کہ ہم نے ملک پر قبضہ کر ہی لیا ہے نعرے مارتے ہوئے اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں.جب وہ نعرے مار کر اپنے گھروں کو واپس چلے گئے اور میدان خالی ہو گیا تو میں نے دیکھا کہ سامنے سے انگریزی فوج مارچ کرتی ہوئی چلی آرہی ہے اور میں نے کہا
168 دیکھو وہی ہوا جس سے میں ڈرتا تھا اس وقت میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اب جبکہ ملک آزاد ہو چکا ہے ملک کی آزادی کو قائم رکھنے کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے لیکن اپنے دل میں سوچتا ہوں کہ کتنے آدمی میں اس موقع پر جمع کر سکتا ہوں اور میں نے خیال کیا کہ اگر پندرہ سو آدمی جمع ہو جائیں تو ہم آزادی کو برقرار رکھ سکیں گے اسی پر میری آنکھ کھل گئی.کوئی دو سال کا عرصہ ہوا لاہور کے اخبار نویسوں کو ایک چائے کی پارٹی بعض دوستوں کی طرف سے دی گئی تھی اس وقت میری بعض خوابوں کا ذکر آیا تو ان لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ہندوستان کی آزادی کے متعلق آپ کو کوئی بشارت ملی ہے اس وقت میں نے اس خواب کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں جواب دیا تھا کہ آئی تو ہے مگر ابھی اس کا بتانا مصلحت کے خلاف ہے اب واقعات نے بعینہ اسی طرح کے حالات ظاہر کر دیئے ہیں انگریزی حکومت اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ رہی ہے.ہندوستان کے لئے وہ میدان خالی کر رہی ہے مگر بجائے محبت اور پیار سے اپنا تصفیہ کرنے ر تنظیم کرنے کے لوگ اس بات پر خوشیاں منا رہے ہیں کہ حکومت ہمارے ہاتھ میں آرہی ہے اللہ تعالیٰ ہی رحم کرے اور اس فخر و مباہات کے بعد نتائج سے ہندوستان کو بچائے.الفضل 24.اگست 1946ء صفحہ 2 تمبر 1941ء 239 فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ میں مدرسہ احمدیہ کے ایک کمرہ میں ہوں اور وہاں عزیزہ امتہ القیوم سلمھا اللہ تعالٰی اور میری چھوٹی بیوی مریم صدیقہ بیگم سلمھا اللہ تعالیٰ بھی میرے ساتھ ہیں دروازہ بند ہے مگر دروازہ میں بڑی بڑی دراڑیں ہیں میری نظر جو پڑی تو میں نے دیکھا کہ ان دراڑوں میں سے پولیس کے کچھ سپاہی جھانک رہے ہیں میں نے ان دونوں کو چھپا دیا اور باہر نکل کران پولیس والوں سے کہا کہ تم کیوں جھانک رہے تھے.اس پر وہ کمرہ کے اندر گھسے اس وقت میں دل میں کہتا ہوں کہ اندر میری بیوی اور لڑکی ہے ان کی بے پردگی ہو گی مگر پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سب باتوں پر قادر ہے وہ خود ان کی حفاظت کرے گا چنانچہ جب وہ کمرہ میں گھس آئے اور ادھر ادھر تلاش کرنے لگے تو میں نے دیکھا کہ دونوں وہاں سے غائب ہو گئی ہیں اور میں کہتا ہوں کہ دیکھو میرے رب کا احسان کہ اس نے اس ذلت سے ہمیں بچا لیا اور خود ان کو
169 غائب کر دیا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ نے بغیر اس کے کوئی اور دروازہ اس کمرہ میں ہو ان کو غائب کر دیا.عجیب بات ہے کہ جس کمرہ میں میں نے اپنے آپ کو دیکھا وہ شمال کی طرف تھا اور صحن جس میں پولیس آئی وہ جنوب کی طرف تھا اسی طرح یہ کو ٹھی جس میں ہم تھے اس کا صحن جنوب کی طرف تھا اور اسی طرف سے پولیس داخل ہوئی میں وہاں سے گھر آیا اور حیرت سے امتہ القیوم سے کہتا ہوں کہ میں تو بڑا ڈرا تھا مگر اللہ تعالیٰ تم کو وہاں سے نکال لایا اور بے پردگی سے ہم بچ گئے.چونکہ امتہ القیوم سلمہا اللہ اور خلیل احمد ایک ہی والدہ سے ہیں اور بہن بھائی ہیں اس لئے خدا تعالٰی نے کسی مصلحت سے خلیل کی جگہ امتہ القیوم سلمہا اللہ تعالیٰ کو دکھا دیا جیسا کہ عالم رؤیا میں کثرت سے ہوتا ہے پھر یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس وقت امتہ القیوم بیگم اور مریم صدیقہ دونوں کو ٹھی میں موجود تھیں حالانکہ مریم صدیقہ واپس آرہی تھیں اور پھر کسی وجہ سے وہاں ٹھر گئیں اور امتہ القیوم سلمها اللہ تعالیٰ کی شادی ہو چکی ہے اور وہ سرگودھا میں تھیں مگر خاوند کی چند دن کی رخصت کی وجہ سے میرے پاس مہمان ہو کر آئی ہوئی تھی فَالْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى اَخْبَرَنِى بِهَذِهِ الْبَلِيَّةِ قَبْلَ وَقُوعِهَا وَ سَلَانِي قَبْلَ نَزُولِ الألم- هُوَ مَوْلَايَ وَ عَلَيْهِ تِكَلانِى إِلَيْهِ أُفَوِّضُ أَمْرِى وَ أَرْجُو مِنْهُ كُلَّ الْخَيْرِ الفضل 14 ستمبر1941ء صفحہ 10 240 نومبر 1941ء فرمایا : جاپان کی جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی کہ میں نے گذشتہ ہفتہ میں جمعرات یا جمعہ کی رات کو ایک رؤیا دیکھا جس کی تعبیر میں تو کچھ اور کرتا رہا مگر بعد میں جب اس جنگ کا آغاز ہوا تو معلوم ہوا کہ اس کی تعبیر کچھ اور تھی.میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک کو ٹھڑی میں ایک شخص بیٹھا ہے اور وہ کچھ کاغذات جلا رہا ہے اور میں رویا میں ہی ایک اور شخص کو کہتا ہوں کہ یہ شخص نهایت ضروری کاغذات جلا رہا ہے.پہلے دن جب جنگ کی خبر شائع ہوئی تو ساتھ ہی یہ خبر آئی کہ جاپانی سفارت خانہ میں جاپانیوں کو کاغذ جلاتے دیکھا گیا ہے اس خبر کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کام صرف جاپانیوں نے ہی کیا ہے بلکہ اس قسم کے کاغذات انگریزوں نے بھی جلائے ہوں گے.امریکنوں نے بھی جلائے ہوں گے خبروں میں صرف ایک ملک کے سفارت خانہ کا حال بیان ہو گیا
170 ہے کیونکہ کاغذات جلاتے وقت کسی اخباری رپورٹر کی نگاہ اس پر پڑ گئی ہو گی بہر حال اس جنگ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھا کر مجھے بتایا کہ اب کوئی نئی حکومت جنگ میں شامل ہونے والی ہے اور اس کے سفارت خانوں میں ضروری کاغذات جلائے جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.دسمبر 1941ء 241 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک مکان میں ہوں جو ہمارے مکانوں سے جنوب کی طرف ہے اور اس میں ایک بڑی بھاری عمارت ہے جو کئی منزلوں میں ہے اس کئی منزلہ عمارت میں میں بھی ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یکدم غنیم حملہ کر کے آگیا ہے اور اس غنیم کے حملہ کے مقابلہ کے لئے ہم لوگ تیاری کر رہے ہیں.میں اس وقت اپنے آپ کو کوئی کام کرتے نہیں دیکھتا مگر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں بھی لڑائی میں شامل ہوں یوں اس وقت میں نے نہ تو تو ہیں دیکھی ہیں نہ کوئی اور سامان جنگ، مگر میں سمجھتا بھی ہوں کہ تمام قسم کے آلات حرب استعمال کئے جا رہے ہیں.اس دوران میں میں نے محسوس کیا کہ وہاں پڑول کا ذخیرہ ختم ہو گیا ہے میں تیزی سے اتر کر نچلی منزل میں آتا ہوں اور کہتا ہوں پڑول ختم ہو گیا ہے.اس وقت میں خیال کرتا ہوں کہ ہمیں پڑول موٹروں کے لئے نہیں چاہئے بلکہ دشمن پر پھینکنے کے لئے پٹرول کی ضرورت ہے چنانچہ مجھے کسی شخص نے بتایا کہ نیچے ایک تہہ خانہ ہے جس میں پڑول موجود ہے اس پر ایک شخص اس تہ خانہ میں گیا اور چھ گیلن پٹرول کی بیرل لے کر آگیا ساتھ ہی اس کے دوسرے ہاتھ میں ایک سیڑھی ہے تاکہ سیڑھی کی مدد سے وہ اوپر چڑھ کر دشمن پر پڑول پھینک سکے یہ دونوں چیزیں اٹھا کر اس نے اوپر چڑھنا شروع کیا اور اتنی تیزی سے وہ چڑھنے لگا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ گر جائے گا چنانچہ میں اسے کہتا ہوں سنبھل کے چڑھو ایسا نہ ہو کہ گر جاؤ اور خواب میں میں حیران بھی ہوتا ہے کہ کیسا بہادر آدمی ہے کہ اس کے ہاتھ میں چھ گیکن یعنی تمیں سیر پٹرول ہے اور ہاتھ میں سیڑھی ہے اور یہ اس بہادری سے چڑھتا چلا جاتا ہے.پھر یہ نظارہ بدل گیا اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ جیسے ہم اس مکان میں سے نکل آئے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن غالب آگیا ہے اور ہمیں وہ جگہ چھوڑنی پڑی ہے باہر نکل کر ہم حیران ہیں کہ کس جگہ جائیں اور
171 کہاں جا کر اپنی حفاظت کا سامان کریں.اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں آپ کو ایک جگہ بتا تا ہوں آپ پہاڑوں پر چلیں وہاں ایک اٹلی کے پادری نے گر جا بنایا ہوا ہے اور ساتھ ہی اس نے بعض عمارتیں بھی بنائی ہوتی ہیں جنہیں وہ کرایہ پر مسافروں کو دے دیتا ہے وہاں چلیں وہ مقام سب سے بہتر رہے گا.میں کہتا ہوں بہت اچھا.چنانچہ میں گائیڈ کو ساتھ لے کر پیدل ہی چل پڑتا ہوں ایک دو دوست اور بھی میرے ساتھ ہیں.چلتے چلتے ہم پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ گئے مگر وہ ایسی چوٹیاں ہیں جو ہموار ہیں اس طرح نہیں کہ کوئی چوٹی اونچی ہو اور کوئی نیچی جیسے عام طور پر پہاڑوں کی چوٹیاں ہوتی ہیں بلکہ وہ سب ہموار ہیں جس کے نتیجہ میں پہاڑ پر ایک میدان سا پیدا ہو گیا ہے وہاں میں نے دیکھا کہ ایک پادری کالا سا کوٹ پہنے کھڑا ہے اور پاس ہی ایک چھوٹا سا گر جا ہے اس آدمی نے پادری سے کہا کہ باہر سے کچھ مسافر آئے ہیں انہیں ٹھہرنے کے لئے مکان چاہئے وہاں ایک مکان بنا ہوا نظر آتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ پادری لوگوں کو کرایہ پر جگہ دیتا ہے اس نے ایک آدمی سے کہا کہ انہیں مکان دکھا دیا جائے وہ مجھے مکان دکھانے کے لئے لے گیا اور ایک دوست اور بھی ہیں میں نے دیکھا وہ کچا مکان ہے اور جیسے فوجی بار کیں سیدھی چلی جاتی ہیں اسی طرح وہ مکان ایک لائن میں سیدھا بنا ہوا ہے مگر کمرے صاف ہیں میں ابھی غور کر رہا ہوں کہ جو شخص مجھے کمرہ دکھا رہا تھا اس نے خیال کیا کہ کہیں میں یہ نہ کہہ دوں کہ یہ ایک پادری کی جگہ ہے ہم اس میں نہیں رہتے ایسا نہ ہو کہ ہماری عبادت میں کوئی روک پیدا ہو چنانچہ وہ خود ہی کہنے لگا آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ہو گی کیونکہ یہاں مسجد بھی ہے.میں نے اسے کہا کہ اچھا مسجد دکھاؤ اس نے مجھے مسجد دکھائی جو نہایت خوبصورت بنی ہوئی تھی مگر چھوٹی سی تھی ہماری مسجد مبارک سے نصف ہوگی لیکن اس میں چٹائیاں اور دریاں وغیرہ بچھی ہوئی تھیں اسی طرح امام کی جگہ ایک صاف قالینی مصلی بھی بچھا ہوا تھا.مجھے اس مسجد کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی اور میں نے کہا کہ ہمیں یہ جگہ منظور ہے خواب میں میں نے یہ خیال نہیں کیا کہ مسجد وہاں کس طرح بنائی گئی ہے مگر بہر حال مسجد دیکھ کر مجھے مزید تسلی ہوئی اور میں نے کہا کہ اچھا ہو امکان بھی مل گیا اور ساتھ ہی مسجد بھی مل گئی.تھوڑی دیر کے بعد میں باہر نکلا اور میں نے دیکھا کہ اتحاد تا احمدی وہاں آرہے ہیں خواب میں میں حیران ہو تا ہوں کہ میں نے تو ان سے یہاں آنے کا ذکر نہیں کیا تھا ان کو جو میرے یہاں آنے کا پتہ لگ گیا ہے تو
172 معلوم ہوا کہ یہ کوئی محفوظ جگہ نہیں چاہے یہ دوست ہی ہیں لیکن بہر حال اگر دوست کو ایک مقام کو علم ہو سکتا ہو تو دشمن کو بھی ہو سکتا ہے محفوظ مقام تو نہ رہا چنانچہ خواب میں میں پریشان ہو تا ہوں اور میں کہتا ہوں کہ ہمیں پہاڑوں میں اور زیادہ دور کوئی جگہ تلاش کرنی چاہئے.اتنے میں میں نے دیکھا کہ شیخ محمد نصیب صاحب آگئے ہیں.میں اس وقت مکان کے دروازے کے سامنے کھڑا ہوں انہوں نے مجھے سلام کیا.میں نے ان سے کہا کہ لڑائی کا کیا حال ہے انہوں نے کہا دشمن غالب آگیا ہے میں کہتا ہوں کہ مسجد مبارک کا کیا حال ہے انہوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑ رہا ہے میں نے کہا اگر مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑ رہا ہے تب تو کامیابی کی امید ہے میں اس وقت سمجھتا ہوں کہ ہم تنظیم کے لئے وہاں آئے ہیں اور تنظیم کرنے کے بعد دشمن کو پھر شکست دیں گے.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ کچھ اور دوست بھی وہاں پہنچ گئے ہیں ان کو دیکھ کر مجھے اور پریشانی ہوئی اور میں نے کہا کہ یہ تو بالکل عام جگہ معلوم ہوتی ہے حفاظت کے لئے یہ کوئی خاص مقام نہیں ان دوستوں میں ایک حافظ محمد ابراہیم صاحب بھی ہیں اور لوگوں کو میں پہچانتا نہیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ احمدی ہیں حافظ صاحب نے مجھ سے مصافحہ کیا اور کہا بڑی تباہی ہے بڑی تباہی ہے پھر ایک شخص نے کہا کہ نیلے گنبد میں ہم داخل ہونے لگے تھے مگر وہاں بھی ہمیں داخل نہیں ہونے دیا گیا میں نے نیلا گنبد لاہور کا ہی سنا ہوا ہے واللہ اعلم کوئی اور بھی ہو بہر حال اس وقت میں نہیں کہہ سکتا کہ نیلے گنبد کے لحاظ سے اس کی کیا تعبیر ہو سکتی ہے البتہ اس وقت بات کرتے کرتے میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ نیلا سمندر کا رنگ ہوتا ہے ممکن ہے کوئی خلیج ایسی ہو جسے انگریز محفوظ سمجھتے ہوں مگر وہاں بھی تباہی ہو.اس کے بعد حافظ صاحب نے کوئی واقعہ بیان کرنا شروع کیا اور اسے بڑی لمبی طرز سے بیان کرنے لگے جس طرح بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بات کو جلدی ختم نہیں کرتے بلکہ اسے بلاوجہ طول دیتے چلے جاتے ہیں اسی طرح حافظ صاحب نے پہلے ایک لمبی تمہید بیان کی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جالندھر کا کوئی واقعہ بیان کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہاں بھی بڑی تباہی ہوئی ہے اور ایک منشی کا جو غیر احمدی ہے اور پٹواری یا گرداور ہے بار بار ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ منشی جی ملے اور انہوں نے بھی اسی طرح کہا میں خواب میں بڑا گھبراتا ہوں کہ یہ موقع تو
173 حفاظت کے لئے انتظام کرنے کا ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی مرکز تلاش کیا جائے انہوں نے منشی جی کی باتیں شروع کر دی ہیں چنانچہ میں ان سے کہتا ہوں کہ آخر ہوا کیا ؟ وہ کہنے گئے منشی جی کہتے تھے کہ ہماری تو آپ کی جماعت پر نظر ہے میں نے کہا بس یہی بات تھی نہ کہ منشی جی کہتے تھے کہ اب ان کی جماعت احمدیہ پر نظر ہے یہ کہہ کر میں انتظام کرنے کے لئے اٹھا اور چاہا کہ کوئی مرکز تلاش کروں کہ آنکھ کھل گئی.خواب سے بیدار ہونے کے بعد اس کی تعبیر میرے ذہن میں یہ آئی کہ اس سے مراد کوئی مقامی فتنہ ہے جس میں دشمن سے ہماری جماعت کو کوئی نقصان پہنچے گا کیونکہ سارے نام اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے ہی تھے مگر نو بجے کے قریب جیسا کہ ریڈیو کی خبروں کی رپورٹ مجھے ملی اس وقت معلوم ہوا کہ جاپان نے یکدم حملہ کر دیا ہے اور وہ بہت سا آگے بڑھ آیا ہے میں نے جیسا کہ بتایا ہے بعض دفعہ مقامی نظارے دکھائے جاتے ہیں مگر ان سے مراد دور کے نظارے ہوتے ہیں مسجد مبارک کے حلقے کی طرف سے لڑائی جاری رہنے کا غالبا یہ مفہوم ہے کہ بعض انگریزی علاقے جاپانی گھیر لیں گے مگر انگریز برابر لڑتے رہیں گے چنانچہ اب بھی بعض علاقے ایسے ہیں جن کے چاروں طرف جاپانی فوجیں پہنچ گئی ہیں مگر ایسی حالت میں انگریزوں نے مقابلہ جاری رکھا تو امید ہے کہ ان کی شکست فتح سے بدل جائے گی.الفضل 21.دسمبر 1941ء صفحہ 3.نیز دیکھیں.الفضل 17 ستمبر 1947ء صفحہ 1 و 26.دسمبر 1964ء صفحہ 8 اور سیر روحانی جلد 2 صفحہ 65 ( مختصراً) ( شائع کردہ الشركة الاسلامیہ.ربوہ ) الفضل 26 - دسمبر 1961ء صفحہ 7 پر بھی اجمالاً ذکر ہے.242 5 اپریل 1942ء فرمایا : آج ہی میں نے ایک رؤیا دیکھی ہے جو بہت لمبی ہے.اور جس میں جنگ اور اس سے پیدا ہونے والے انقلابات کا نقشہ دکھایا گیا ہے.میں نے دیکھا کہ میں مشرق کی طرف آرہا ہوں اور راستہ میں بڑے بڑے اہم تغیرات ہو رہے ہیں وہ تغیرات بڑے دلچسپ تھے.مگر چونکہ میں بیمار تھا اور گو سارادن کوفت نہیں ہوئی مگر رات کو کوفت ہو گئی تھی اس لئے میں انہیں صحیح طور پر یاد نہیں رکھ سکا.صرف ایک بات یاد رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ جب میں احمدیہ چوک میں گھر آنے کے لئے پہنچا تو وہاں چوک میں میں نے ایک شخص کو دیکھا جو زمین پر اکڑوں بیٹھا ہوا تھا میں
174 اسے دیکھ کر انگریزی کا ایک فقرہ کہتا ہوں انگریزی زبان کو میں سمجھ لیتا ہوں مگر اس زبان میں مجھے بولنا اور لکھنا نہیں آتا.میں اس وقت اس شخص کو انگلی مار کر کہتا ہوں.There is nothing better for Thee to be brave than to be coward یعنی کوئی چیز تیرے لئے اس سے بہتر نہیں کہ تو بجائے بزدل بنے کے بہادر بنے صبح اٹھنے پر میں نے اپنی ایک بیوی کو جو گر یجوایٹ ہیں یہ فقرہ بتایا اور ان سے کہا کہ مجھے تو معلوم نہیں آپ بتائیں.یہ فقرہ صحیح ہے یا نہیں.وہ کہنے لگیں مجھے تو یہ فقرہ غلط معلوم ہوتا ہے پھر میں نے درد صاحب کو بتایا اور ان سے اس بارہ میں پوچھا تو انہوں نے کہا ” ہے تو کچھ کچھ ٹھیک" مولوی شیر علی صاحب سے میں نے پوچھا تو وہ کہنے لگے مجھے تو اس میں کوئی غلطی نظر نہیں آتی پھر میں نے ملک غلام فرید صاحب سے پوچھا.انہوں نے بھی کہا کہ ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے.میں نے کہا اس مضمون کا آپ کوئی فقرہ بنا ئیں چنانچہ انہوں نے فقرہ بنایا.اس کا پہلا حصہ تو وہی ہے جو اس نقرہ کا ہے مگر دو سرے حصہ میں کچھ فرق ہے اس سے میں سمجھا کہ میں اس فقرہ کو بھولا نہیں کہ There is nothing better for Thee to be brave than to be coward اس فقرہ کے انگریزی میں ہونے کے شاید ایک معنے یہ بھی ہوں کہ انگریزی قوم سے اس بات کا تعلق ہو مگر بہر حال ہماری جماعت سے بھی اس کا تعلق معلوم ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس خطرناک موقع پر دل چھوڑ کر بیٹھ جانا اور کمزوری دکھانا بالکل جائز نہیں بلکہ جتنا ہم بہادر بنیں گے اتنا ہی ہمارا انجام اچھا ہو گا.انتقامی تقریر بر موقع مجلس مشاورت فرمودہ 5.اپریل 1942ء صفحہ 7 C صفحه 9 ( غیر مطبوعہ) مئی 1942ء 243 فرمایا : میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یہ سلسلہ سب سے زیادہ خطرات میں گھرا ہوا ہے ہ اس تقریر کا مسودہ خلافت لائبریری ربوہ میں موجود ہے (مرتب)
175 یا الہی ! تو اپنا فضل کر اور یہی دعا کرتا کرتا میں سو گیا.صبح کے قریب کا وقت تھا کہ میرے سامنے ایک کاغذ لایا گیا جس پر کچھ لکھا تھا میں نے اسے پڑھنا شروع کیا مگر کشف میں ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رات کا وقت ہے اور وہ ٹھیک طرح پڑھا نہیں جاتا.کئی بار میں نے کوشش کی مگر ٹھیک طور پر پڑھا نہیں گیا لیکن آخر پڑھا گیا اس پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے.أكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا اس کے بعد یہ الفاظ میرے دل پر بھی اور زبان پر نازل ہونے شروع ہوئے اور بہت دیر تک آدھا گھنٹہ معلوم نہیں کتنے عرصہ تک میری زبان پر یہ الفاظ جاری رہے زبان بھی یہی الفاظ کہتی تھی اور دل میں بھی بار بار دہرائے جاتے تھے.اتنی تکرار کے ساتھ یہ الفاظ الہام ہوتے رہے کہ شاید نصف یا پون گھنٹہ مسلسل جس طرح تار سارنگی پر پڑتی ہے یہ الفاظ میرے قلب پر پڑتے رہے یہاں تک کہ میری آنکھ کھل گئی.الفضل 5.جون 1942ء صفحہ 4 244 $1942 فرمایا : 1942 ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے الہا نا فرمایا.مَوْتُ حَسَنٍ مَوْتٌ حَسَنٌ فِي وَقْتٍ حَسَنٍ کہ حسن کی موت بہترین موت ہوگی اور ایسے وقت میں ہوگی جو بہتر ہو گا.اس الہام میں مجھے حسن رضی اللہ عنہ کا بروز کہا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ذات کے ساتھ تعلق رکھنے والی پیشگوئیوں کو پورا کرے گا اور میرا انجام بہترین ہوگا اور جماعت میں کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہوگی.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ تغير كبر جلد ششم جزو چهارم صفحه 183
176 245 $1943 1942 فرمایا : میں نے وقت پر خدا تعالیٰ سے خبر پا کر جماعت کو 3/2 سال ہوئے 1842ء کے آخر یا 1843ء کے شروع میں اطلاع دی تھی اور جلسہ سالانہ کے موقع پر اس خواب کو بیان بھی کر دیا تھا اور ہدایت کی تھی کہ ہماری جماعت کے لوگوں کو خود اپنے گھروں میں کپڑے بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس دستکاری کو جاری کرنا چاہئے کیونکہ آئندہ کپڑے کے قحط کا امکان ہے.الفضل 11.اکتوبر 1945ء صفحہ 1 8 جنوری 1943ء 246 فرمایا : میں نے آج رویا میں دیکھا ہے جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں وہ اس سلسلہ میں ہے چنانچہ میں اس کو بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں میں نے رویا میں دیکھا کہ میں یکدم قادیان سے کسی سفر کے ارادے سے چل پڑا ہوں چند آدمی میرے ساتھ ہیں مگر ایسے نہیں جو سیکرٹری وغیرہ کے طور پر کام کرتے ہیں بلکہ ایسے لوگ ساتھ ہیں جو عام طور پر جب کسی سفر پر جانا ہو تو ساتھ نہیں ہوتے.میرا ارادہ کسی لمبے سفر کا معلوم ہوتا ہے مگر قادیان سے رخصت ہونا یاد نہیں.بس ارادہ کیا اور ارادہ کرتے ہی چل پڑے کچھ دور جا کر ہم ایک جگہ ٹھر گئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی اور ملک ہے اور جیسے راستہ میں پڑاؤ کیا جاتا ہے اسی طرح ہم نے بھی وہاں پڑاؤ کیا ہے وہاں کسی مکان کے سامنے ایک چبوترہ بنا ہوا ہے مگر اس کا جو اگلا حصہ ہے وہ چوڑا کم ہے اور لمبا زیادہ ہے مگر اس کے پیچھے جو جگہ ہے وہ اگلے حصہ سے کچھ چوڑی ہے اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولوی محمد ابراہیم صاحب جو بقا پوری کہلاتے ہیں وہاں جماعت میں بطور مبلغ کے کام کرتے ہیں میں مولوی صاحب پر کسی قدر خفا ہوتا ہوں کہ آپ کی طبیعت میں عجیب لا ابالی پن ہے کہ آپ جماعت کے دوستوں کو مجھ سے ملاتے نہیں اور میرے ساتھ لگے ہوئے ہیں اس طرف آپ کی ذرا بھی توجہ نہیں کہ جماعت کے دوستوں کو مجھ سے ملائیں اور میری ان سے واقفیت پیدا کرائیں.انہی باتوں میں نماز کا وقت آگیا اور میں نماز کے لئے دو تین آدمیوں کو کھڑا دیکھتا ہوں اس وقت میں ان سے کہتا ہوں کہ جماعت کے امیر کہاں ہیں پریذیڈنٹ کہاں ہیں اور
177 کیوں ایسی بے توجہی سے کام لیا گیا ہے کہ ان کو اس بات کا موقع نہیں دیا کہ وہ یہاں آئیں اور مجھ سے ملیں.مولوی صاحب اس کے جواب میں کہتے ہیں وہ اس وجہ سے خفا ہیں کہ میں اولیس کی اولاد میں سے ہوں اور مجھے ملاقات میں مقدم نہیں کیا کیا میں نے کہا وہ ٹھیک کہتے ہیں آپ کا فرض تھا کہ آپ مقامی آدمیوں کو ملاقات کا موقع سب سے پہلے دیتے آپ تو ہمیشہ ملتے ہی رہتے ہیں پھر میں نے انہیں کہا کہ آپ نے یہ ٹھیک نہیں کیا کہ انہیں ناراض کر دیا ہے آپ ان کو بلوائیں تاکہ میں ان سے ملوں.چنانچہ مولوی صاحب نے ان کو بلوایا جب وہ آئے تو میں نے دیکھا کہ ان کا لباس بالکل ایسا ہی ہے جیسے عربوں کا لباس ہوتا ہے اور سانولا سا رنگ ہے.خیر میں ان سے بڑے تپاک سے ملا ہوں اور ان سے باتیں کرتا ہوں تاکہ ان کی دلجوئی ہو جائے اس کے بعد میری نظر تین چار اور دوستوں پر پڑی ان کا لباس بھی عربوں جیسا ہے میں نے کہا مولوی صاحب مجھے ان سے بھی ملا ئیں چنانچہ مولوی صاحب مجھے ان کے پاس لے گئے اور پھر بتانے لگے کہ یہ فلاں شہر کے ہیں تین چار ہی آدمی ہیں اس سے زیادہ نہیں.اس کے بعد میں نے ایک اور نظارہ دیکھا اور در حقیقت اس لئے میں نے تفصیل بیان کی تھی کہ اس چبوترے کے پیچھے جو جگہ ہے وہ اگلے حصہ سے نسبتا چوڑی ہے اور جہاں ہم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہیں وہاں سے وہ چبوترہ خم کھا کر ایک طرف مڑتا ہے وہ چبوترے اس شکل کے ہیں.جس جگہ اس کا پہلا غم ہے (جس پر نقشہ میں نمبر لکھا ہے وہاں سے دو تین فٹ جگہ چوڑی ہو گئی ہے میں نے دیکھا کہ اس دو تین فٹ جگہ کے کونے میں در ننگے آدمی جو بہت ہی موٹے تازے ہیں اور ان کے جسم ایسے ہیں جیسے پہلوانوں کے جسم ہوتے ہیں بیٹھے ہوئے ہیں انہوں نے لنگوٹیاں کسی ہوئی ہیں اور باقی تمام جسم ننگا ہے اسی طرح انہوں نے سرمونڈھا ہوا ہے اور تالو کی جگہ انہوں نے عجیب قسم کے کنگروں والے بال رکھے ہوئے ہیں جیسے تبتی وغیرہ لوگ ہوتے ہیں
178 اسی طرز کے وہ معلوم ہوتے ہیں.میں نے دیکھا کہ وہ کنارہ کی طرف پیٹھ کر کے اور منہ دوسری طرف کر کے چھپے بیٹھے ہیں میں مولوی صاحب سے کہتا ہوں کہ مولوی صاحب ان سے کیوں نہیں ملاتے.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ یہ جاپانی ہیں میں حیران ہو تا ہوں کہ جاپانی ہی سہی مگریہ چھے کیوں بیٹھے ہیں ان دونوں میں سے ایک لمبے قد کا آدمی ہے اور اس کا جسم نسبتا پتلا ہے یوں تو وہ بھی موٹا ہے مگر دوسرے کے مقابلہ میں پتلا معلوم ہوتا ہے اور دوسرا بہت ہی موٹا ہے اور اس کا جسم ایسا ہی ہے جیسے غلام پہلوان اور اسی طرح دوسرے پہلوانوں کے جسم بتائے جاتے ہیں.غرض مولوی صاحب مجھ سے کہتے ہیں کہ یہ جاپانی ہیں اور میں ان سے مذاقاً کہتا ہوں کہ کیا جاپانیوں سے مصافحہ کرنا منع ہے چنانچہ اس کے بعد میں نے ان میں سے ایک کے سرپر اس کے بالوں والی جگہ پر ہاتھ رکھا اور اس نے بہت ہی شرماتے ہوئے اور لجاتے ہوئے جیسے کوئی سخت شرمسار ہوتا ہے میری طرف اپنا ہاتھ مصافحہ کے لئے بڑھایا اور میں نے اس سے مصافحہ کیا پھر میں دوسرے جاپانی کو کہتا ہوں کہ تم بھی مصافحہ کر لو وہ بھی اسی طرح سر چھپائے بیٹھا ہے اس کا دوسرا ساتھی بھی اسے کہتا ہے کہ کرلو.کر لو.چنانچہ میں نے اسی طرح بیٹھے بیٹھے اپنا ہاتھ ٹیڑھا کر کے آگے کیا میں خواب میں سمجھتا ہوں کہ شاید ان کے ہاں مصافحہ کا رواج نہیں اسی لئے اسے معلوم نہیں کہ مصافحہ کس طرح کیا جاتا ہے اس پر اس کا دوسرا ساتھی اسے کہتا ہے کہ اس طرح مصافحہ نہیں کیا کرتے.اس طرح کیا کرتے ہیں.چنانچہ اس نے اس کے ہاتھ کو مروڑا اور میں نے بھی اپنے ہاتھ کو چکر دے کر اس سے مصافحہ کیا اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ گو اس کا منہ دوسری طرف ہے مگر وہ بھی چوری چوری کنکھیوں سے ہمیں دیکھ رہا ہے اس کے بعد میں وہاں سے نماز کی طرف آتا ہوں اور میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ اب میں انگلستان کی طرف جانے والا ہوں چونکہ وہاں انگریزوں سے ملنا ہے اس لئے کم سے کم درد صاحب کو میں تار دے دوں کہ وہ رستہ میں ہی مجھے آکر ملیں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اس خواب میں بھی مختلف ممالک کے آدمیوں کو میں نے دیکھا ہے عربوں کو دیکھا ہے جاپانیوں کو دیکھا ہے ان سے مصافحہ کیا ہے ان کے حالات معلوم کئے ہیں پھر اپنے آپ کو ایک سفر پر جاتے دیکھا ہے اور آخر میں انگلستان جانے کا ادارہ کیا ہے یہ تمام امور تبلیغ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں.ممکن ہے جاپانیوں کی جو شرمندگی اور ندامت مجھے دکھائی گئی ہے اس کا مفہوم یہ ہو
179 کہ ہمارے دو مبلغ جاپان میں رہے ہیں اور دونوں کے کام کے نتیجہ میں سوائے ایک شخص کے جو مشتبہ ساتھا اور کوئی احمدی نہیں ہوا گویا جاپانیوں نے مذہب کی طرف بالکل توجہ نہیں کی مگر اس رویا میں معلوم ہوتا ہے کہ آخر اس قوم میں ندامت پیدا ہو گی اور جب ان میں تبلیغ پر زور دیا جائے گا اور انہیں اسلام اور احمدیت کی طرف کھینچا جائے گا تو کچھ حصہ تو دلیری سے مصافحہ کر لے گا یعنی احمدیت کو قبول کرنے گا مگر کچھ عرصہ اس شرمندگی اور ندامت کی وجہ سے دیر لگائے گا.الفضل 7.فروری 1943 ء صفحہ 2 3 247 22 فروری 1943ء فرمایا : مجھے گذشتہ سے پیوستہ شب ذیل کا الہام ہوا جو مجھے اس وقت سے پہلے سمجھ نہیں آیا تھا میں اسے اب اولین موقع پر آپ (گاندھی جی.ناقل) تک پہنچارہا ہوں الہام فارسی زبان میں تھا ترجمہ یہ ہے کہ افسوس ہے ایسے علم پر جو کہ اپنے رکھنے والے کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ علم جو آپ کو دیا گیا ہے اسے آپ کو ایسے رنگ میں استعمال نہیں کرنا چاہئے جو خود آپ کی ہلاکت کا خطرہ پیدا کر دے.الفضل 24.فروری 1943ء صفحہ 1 22 فروری کو الفضل کو بذریعہ تار بتایا گیا کہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات آخر شب میں بڑے زور سے یہ فارسی الفاظ میرے دل اور زبان پر جاری ہوئے.وائے مسلمے کہ برباد کند عالم را بار بار یہ الفاظ زبان پر جاری ہوتے اور دل پر نازل ہوتے تھے حتی کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ گھنٹوں یہی کیفیت رہی میں نے فارسی نہیں پڑھی اور نہ اس کی کتب کا مطالعہ کیا ہے اس لئے تعجب ہوا کہ فارسی زبان کا فقرہ اور وہ بھی موزوں کلام اور پھر ایک فلسفیانہ نکتہ پر مشتمل کیوں اور کس حکمت سے نازل ہوا ہے.میں دوسرے دن یعنی اتوار کو برابر سوچتا رہا کہ آیا صرف اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے جو اس میں بیان ہوا ہے یا کسی خاص شخص کی طرف اس میں توجہ دلائی گئی ہے عالم کے لفظ کی نسبت کچھ اشتباہ بھی پیدا ہوا کہ عالم ہے یا عالم مگر طبیعت کا غالب بلکه بهت غالب گمان عالم بكسره لام ہی تھا.
180 دوسری رات بستر پر لیٹنے پر معا مجھے خیال آیا کہ یہ مسٹر گاندھی کے متعلق معلوم ہوتا ہے اور یہ خیال اس قدر زور پکڑ گیا کہ میں نے اسی وقت تار میں انہیں پیغام کی طرف توجہ دلائی جو الفضل میں شائع ہو چکا ہے.الفضل 5.مارچ 1943ء صفحہ 1 ابریل 1943ء 248 فرمایا : اسی سفر (سفر سندھ) میں میں نے ایک رویا دیکھا ہے جس سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ جنگ ابھی کئی شکلیں تبدیل کرنے والی ہے جن میں سے بعض شکلیں اسلام کے لئے بہت خطر ناک ہوں گی اس قسم کے اور رویا میں نے پہلے بھی دیکھے تھے مگر میں ان کو دو الگ الگ واقعات نہ سمجھتا تھا لیکن اس رویا نے بتا دیا ہے کہ وہ ایک واقعہ کی دو شکلیں نہیں بلکہ آگے پیچھے آنے والے الگ الگ واقعات ہیں اس تازہ رویا کو میں عام طور پر بیان نہیں کر سکتا اور شاید اس کا بیان کرنا حکومت کی مصلحت کے خلاف ہو اشارہ صرف اتنا بتا تا ہوں کہ میں نے دیکھا ہے کہ یورپ کی دو طاقتیں ہیں اور ایک ایشیائی طاقت اور ایشیائی طاقت کا سردار * ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سمجھتا ہے کہ اس کے ملکی معاملات کے بارہ میں میرا مشورہ بھی مفید ہو سکتا ہے یا شاید اسے احمدیت سے کوئی دلچسپی ہے وہ اپنے ملک کے حالات بیان کر کے مجھ سے مشورہ پوچھتا ہے کہ ان حالات میں ہم کیا کریں میں نے اسے کوئی مشورہ دیا ہے مگریہ یاد نہیں کہ اس نے کیا پوچھا اور میں نے کیا بتایا صرف اتنا احساس ہے کہ اس نے کوئی مشورہ پوچھا ہے اور میں نے دیا ہے.پھر میں دیکھتا ہوں کہ ان دو یورپین حکومتوں میں سے ایک کے نمائندہ اور اسی ایشیائی حکومت کے سردار کے درمیان کمیٹی ہوئی ہے دونوں جمع ہوئے ہیں کہ صورت حالات پر غور کریں اور سوچیں کہ کیا کارروائی کرنی چاہئے.میں بھی وہاں گیا ہوں اور پرے ہٹ کر کھڑا ہوں اس مغربی طاقت کا نمائندہ ایک کھلے میدان میں کسی پتھر پر یا ایسی کرسی یا کوچ پر جس کی پشت نہیں بیٹھا ہے اور ایشیائی حکومت کا سردار کھڑا ہے اور اس سے بات کرتا ہے کہ ہمارے ملک کے یہ حالات ہیں ہمیں کیا کرنا چاہئے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اجتماع کسی معاہدہ کی بات چیت کرنے کے لئے یا خواب میں معلوم نہیں ہوا کہ وہ کون ہے گو بعد میں میں نے جنرل چیانگ کائی شیک ہی سمجھا " الفضل 2 - نومبر 45 ء صفحہ 1
181 آئندہ کے لئے سکیم بنانے کے لئے ہے.دس بارہ گز ہٹ کر میں بھی کھڑا ہوں اور گفتگو سن رہا ہوں ایشیائی حکومت کا نمائندہ اس مغربی طاقت کے نمائندہ کو بتاتا ہے کہ ہمارے ملک کے فلاں فلاں علاقوں میں فلاں یورپین ملک کی فوجیں موجود ہیں جسے ہم پسند نہیں کرتے ہمارا ملک آزاد ہے پھر کوئی وجہ نہیں کہ اس کی فوجیں وہاں موجود رہیں اس پر وہ یورپین حکومت کا نمائندہ پوچھتا ہے کہ کیا تم نے اس پر احتجاج نہیں کیا تمہیں چاہئے تھا کہ اس پر احتجاج کرتے.وہ جواب دیتا ہے کہ ہم نے احتجاج تو کیا ہے مگر وہ حکومت جواب دیتی ہے کہ یہ فوجیں ہم نے تمہارے فائدہ کے لئے رکھی ہیں جب وہ یہ بات بیان کرتا ہے تو مغربی حکومت کا نمائندہ حقارت کے ساتھ مسکراتا ہے جس کا مطلب گویا یہ ہے کہ کیسا بیوقوفی کا جواب ہے اسے کون مان سکتا ہے اس موقع پر وہ ایشیائی حکومت کا سردار اس سے کہتا ہے کہ میں نے ان سے (مجھ سے) بھی مشورہ لیا ہے اور انہوں نے (یہ) مشورہ دیا ہے مگر مجھے پھر پتہ نہیں کہ اس نے کیا بتایا کہ اس نے کیا مشورہ پوچھا تھا اور میں نے کیا دیا اس پر اس مغربی حکومت کے نمائندہ نے حیرت کا اظہار کیا کہ اچھا ان سے بھی تم نے مشورہ لیا ہے پھر وہ آپس میں بحث کرتے ہیں کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں.اس وقت میں صورت حالات کو پوری طرح معلوم کر کے گھبراتا ہوں اور خیال کرتا ہوں کہ ہمیں بھی اب کسی اقدام کی ضرورت ہے.جو نسی یہ خیال میرے دل میں آتا ہے ایک صورت میرے ساتھ نمودار ہوتی ہے جو معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا فرشتہ ہے اور وہ کہتا ہے ” دعا سے کام لیتا ہی اچھا ہے آخر وقت تو معلوم ہو گیا ہے اور میں معا خیال کرتا ہوں کہ در حقیقت دعا سے کام لینا ہی اچھا ہے.اس رویا کے بعض حصے ہیں جو میں نے بیان نہیں کئے اور ان سے بعض دوسرے حصوں کی تشریح ہو جاتی ہے بہر حال جو باتیں بتائی گئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ بعض فتنے بہت زیادہ خطر ناک آنے والے ہیں اور وہ اسلام کے لئے بہت زیادہ مضر ہوں گے.مگر یہ ہمارے بس کی بات نہیں جیسا کہ رویا میں فرشتہ نے بتایا ہے دعا سے کام لیتا ہی اچھا ہے یہ جو کہا ہے کہ آخر وقت تو معلوم ہو گیا ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ ابھی وقت ہے اور دعا کی قبولیت کا موقع ہے.الفضل 14 اپریل 1943ء صفحہ 3 - 4 نیز دیکھیں.الفضل 2 لومبر 1945 ء صفحہ 1 -'
182 249 جولائی 1943ء فرمایا : اٹلی پر جب انگریزی حملہ ہوا تو اس سے ایک دن پہلے رویا میں میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ کھڑا ہوں اور وہاں پاس ہی ایک دوسرا ملک نظر آتا ہے جو بہت لمبا سا ہے وہاں مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کھڑے ہیں اور بڑے زور و شور سے انگریزوں کی مدد کے لئے فوج میں بھرتی ہونے کے متعلق تقریر کر رہے ہیں.خواب میں میں کہتا ہوں کہ مولوی عبد الکریم صاحب تو فوت ہو چکے ہیں معلوم ہوتا ہے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اجازت لی ہوگی کہ میں لوگوں کے سامنے بھرتی کے متعلق تقریر کروں اور اس اجازت کے بعد وہ تقریر کر رہے ہیں غرض وہ بڑے زور شور سے تقریر کر رہے ہیں.اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ اس علاقہ کے ایک چوک سے فوج سے بھری ہوئی لاریاں اتنی کثرت سے دوسرے ملک میں داخل ہونی شروع ہو گئیں کہ یوں معلوم ہو تا تھا کہ ان لاریوں سے تمام جو بھر گیا ہے بے تحاشا ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری موٹر دوڑتی چلی جاتی ہے اس خواب کے دوسرے دن ہی اخبارات میں یہ اطلاع شائع ہو گئی کہ انگریزوں نے اٹلی پر حملہ کر دیا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ تین چار دن کے بعد انگلستان کے اخبار ”ٹائمز کا ایک فقرہ ”سول" وغیرہ انگریزی اخبارات میں نقل کیا گیا کہ جس طرح فوجوں سے بھری ہوئی لاریاں اٹلی میں داخل ہوئی ہیں اس کا اگر کسی نے اندازہ لگانا ہو تو وہ لنڈن کے کسی چوک کا اندازہ لگالے جب وہاں موٹریں اور لاریاں کسی وجہ سے رک جاتی ہیں تو اجازت ملنے پر کس طرح ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتی چلی جاتی ہیں جو حالت ایسے موقع پر لنڈن کے کسی چوک میں موٹروں اور لاریوں کی کثرت اور ان کے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنے کی ہوتی ہے اس کو اگر کئی سو گنا بڑھا کر سوچے تو وہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ اٹلی میں ہماری فوجوں سے بھری ہوئی لاریاں کس کثرت اور کتنی بڑی تیزی کے ساتھ داخل ہوئیں.الفضل 12.اکتوبر 1943ء صفحہ 2.نیز دیکھیں.الفضل 20 اپریل 1944 ء صفحہ 2 و 25.جون 1944ء صفحہ 1 - 250 ستمبر 1943ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک تنگ سی جگہ ہے جو پیچھے سے تو زیادہ تنگ ہے مگر آگے کسی قدر
183 کھلی ہے وہاں انگریزی فوج موجود ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ بادشاہ اور ملکہ بھی اسی جگہ ہیں.اتنے میں وہاں جرمنوں نے شدید گولہ باری شروع کر دی اور اس قدر گولہ باری کی کہ انگریزی فوج نے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا اور وہ جگہ زیادہ سے زیادہ تنگ ہوتی چلی گئی پہلے مثلاً چودہ میل کا راستہ تھا پھر سات میل پر آگئے اور پھر اور پیچھے ہٹ کر تین میل پر آگئے غرض اسی طرح وہ پیچھے ہٹتے چلے آئے.میں اس وقت سمجھتا ہوں کہ اس کے پیچھے ایک دریا بھی ہے وہاں میں کھڑا ہوں اور یہ تمام نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں.اس وقت مجھے خواب میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انگلستان کا ریڈیو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اس واقعہ کی خبریں براڈ کاسٹ کرتا چلا جا رہا ہے اور میں بھی اس کی آواز سن رہا ہوں وہ بتاتا ہے کہ سخت گولہ باری ہو رہی ہے اور انگریزی فوج پیچھے ہٹ رہی ہے اب اور جگہ تنگ ہو گئی ہے شاہی خاندان کو سخت خطرہ پیش آگیا ہے اور ہم حیران ہیں کہ اسے وہاں سے کس طرح نکالیں جوں جوں ریڈیو پر یہ خبریں بیان کی جاتی ہیں مجھے ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ غیبی طور پر مجھے ایسی قوت عطا کی گئی ہے جس سے میں صرف خبریں ہی نہیں سنتا بلکہ لڑائی کا تمام نظارہ بھی دیکھتا چلا جاتا ہوں اس کے بعد یکدم مجھے ریڈیو پر کوئی شخص یہ کہتا سنائی دیتا ہے کہ اب کوئی صورت حال نظر نہیں آتی جس سے کام لے کر شاہی خاندان کو نکالا جا سکے.میں اس وقت سمجھتا ہوں شاید ہمارے بادشاہ کسی چیز کے معائنہ کے لئے گئے تھے اور وہاں دشمنوں کے نرغہ میں پھنس گئے.اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ انگریزی فوج شکست کھا کر بھاگی ہے اور دریا کے پار جہاں میں کھڑا ہوں اسی طرف سپاہی بھاگ کر آرہے ہیں اور میرے دونوں طرف سے بھاگے جا رہے ہیں اتنے میں مجھے اور شور سنائی دیا اور ایک گھوڑا گاڑی بھی دیکھی جس میں ملکہ مکرمہ سوار ہیں وہ دریا جس کے کنارے پر میں کھڑا ہوں پہاڑی طرز کا ہے جیسے کسی پہاڑ کے درے میں سے نکل کر آتا ہے میں نے ملکہ مکرمہ کی گاڑی کو اسی درے میں سے آتے ہوئے دیکھا.کو چبان شدت جوش کی وجہ سے کھڑا ہوا ہے اور کوڑے پر کو ڑا گھوڑوں پر برسا رہا ہے اور گھوڑے بے تحاشا بھاگ رہے ہیں اور گاڑی کے پیچھے مبارز یعنی جر من گھڑ چڑھے ہتھیار لگائے ہوئے تعاقب کر رہے ہیں.مجھے اس وقت خیال آیا کہ اس گاڑی میں ملکہ سوار ہے اگر ان کو دشمن نے گرفتار کر لیا تو انگریزی حکومت پھر جرمنی کا مقابلہ نہ کر سکے گی اس لئے جس طرح ہو ملکہ کو بچانا چاہئے.یہ خیال آتے ہی میں بھاگتے ہوئے سپاہیوں
184 کی طرف بڑھا اور ان سے کہا کہ یہ وقت بھاگنے کا نہیں اس وقت ملکہ کی حفاظت تمہارا اولین فرض ہے فوراً واپس لوٹو اور جرمن سپاہیوں اور ملکہ کے درمیان صفیں باندھ لو تاکہ ملکہ کی گاڑی کو دریا عبور کرنے کا موقع مل جائے.اور میں ان کے آگے کھڑا ہو کر ان کو دوڑنے سے روکتا ہوں اور واپس جانے پر مجبور کرتا ہوں آخر وہ میری بات سے متاثر ہو جاتے ہیں اور بڑے جوش سے دریا میں کود کر اس کو عبور کرتے ہیں ملکہ مکرمہ کی گاڑی اور جرمن فوج کے درمیان میں کھڑے ہو جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں کو چبان کو گاڑی دریا کے پار کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اب ملکہ محفوظ ہو گئی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ خبر ایک بجلی کی طرح ساری برٹش ایمپائر میں پھیل گئی ہے کہ ملکہ دریا کے پار ہو گئی ہے اور جرمن سپاہی اس کو پکڑ نہیں سکے اور اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ میں سب ملکوں کی آواز سن سکتا ہوں اور میں نے سنا انگلستان ، آسٹریلیا، کینیڈا افریقہ سب جگہ کے برطانوی باشندے خوشی سے تالیاں پیٹ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب انگریزی قوم جیت گئی اور جرمن ہار گئے اس وقت خواب میں مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ اس احساس سے کہ میری طاقت سے یہ تغیر ہوا ہے میں نے بھی بے تحاشا تالی پیٹ دی لیکن ایک دو دفعہ ہاتھ پر ہاتھ مارنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میں غلطی کر رہا ہوں اور ہاتھ کو روک دیا.پہلے خیال تھا کہ میرا یہ رویا انزیو (Anzio) میں پورا ہو گیا ہے وہاں انگریزی فوج اس طرح پیچھے ہٹی ہے اور وہاں ایک سمندر کا بھی اخبار میں ذکر آتا ہے مگر میرے ایک عزیز نے اس طرف توجہ دلائی کہ ممکن ہے گذشتہ دنوں برما میں جو ایک انگریزی فوج گھر گئی تھی اس کی طرف اشارہ ہو لارڈ مونٹ بیٹن ملکہ کے بھائی برما میں انگریزی افواج کے کمانڈر انچیف ہیں ممکن ہے اس نسبت سے ملکہ مکرمہ کو دکھایا گیا ہو یا ممکن ہے کسی اور واقعہ کا اس رویا میں ذکر ہو جو ابھی پورا ہونے والا ہے.الفضل 20 - اپریل 1944ء صفحہ 3-2 251 8 ستمبر 1943ء فرمایا : پہلے میں نے یہ نظارہ دیکھا تھا کہ میں ایک گاڑی پر سوار ہوں اور امتہ الحکیم میری لڑکی میرے ساتھ ہے وہ گاڑی ایسی ہے جیسے ہلکا سا گڑا ہو تا ہے مگر بیٹھنے والی گاڑی کی طرز ہے ہم چلے آرہے ہیں کہ راستہ میں وہ گاڑی کسی چیز سے ٹکرائی اور ہم کو سخت چوٹیں آئیں جب مجھے
185 ہوش آیا تو میں نے سنا کہ ڈاکٹر میرے متعلق امتہ الحکیم سے یہ کہہ رہا ہے کہ وہ بہت بے ہوش پڑے ہیں یا شاید یہ تھا کہ مرگئے ہیں میں اس کی تردید کرنا چاہتا ہوں مگر ڈاکٹر مجھے کہتا ہے کہ آپ بولیں نہیں تھوڑی دیر کے بعد مجھے پتہ لگتا ہے کہ امتہ الحکیم کو سخت چوٹ آئی ہے اور ڈاکٹر اسے صدمہ پہنچانا چاہتے ہیں تاکہ ایک بڑے صدمہ کا ذکر سن کر طبیعت چھوٹے صدمہ کا مقابلہ کرے اور اسے ہوش آ جائے اس کے بعد اسے ہوش آ جاتی ہے اور میں اسے بچے کی طرح گود میں اٹھا کر مکان کے کٹہرے کے پاس لے گیا ہوں اور اسے کہتا ہوں کہ وہ نظارہ دیکھو سامنے دریا نظر آ رہا ہے اس وقت میں خواب میں امتہ الحکیم سے یہ بھی کہتا ہوں کہ دیکھو.میں نے تمہاری خاطر جھوٹ بولا.جھوٹ تو ڈاکٹر نے بولا تھا مگر چونکہ میں اس وقت ڈاکٹر کے کہنے پر خاموش رہا اس لئے میں امتہ الحکیم سے مذاقا کہتا ہوں کہ تمہاری خاطر مجھے جھوٹ بولنا پڑا اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ گویا امتہ الحکیم چھوٹی سی ہو گئی ہے اور میں نے اسے گود میں اٹھالیا ہے اور مکان کے کٹہرے میں لے جاکر میں اسے کہتا ہوں کہ وہ سامنے دریا کا نظارہ دیکھو اس کے بعد مجھے ملکہ کا نظارہ دکھایا گیا.فرمایا شاید اس کی والدہ ام طاہر کی وفات کے متعلق تھی کیونکہ گاڑی ٹکرانے سے صدمہ عظیم مراد ہوتا ہے اور مجھے اور امتہ الحکیم سلمہا اللہ تعالیٰ کو سخت چوٹ آنے سے یہی مراد تھی کہ ہم دونوں کو سخت صدمہ ہوگا چونکہ بچوں میں سے زیادہ صدمہ اسی کو ہوا ہے اور بچوں کی طرح اسے اٹھا لینے کی بھی یہی تعبیر ہے کہ ماں کی وفات کی وجہ سے مجھے ہی اس کی پوری طرح دلداری کرنی ہوگی اور اس کا سب بوجھ مجھ پر آپڑے گا یہ رویا ڈلہوزی میں 8.ستمبر کو آئی تھی اور اس وقت دوستوں کو سنادی گئی تھی.الفضل 20.اپریل 1944ء صفحہ 3 252 دسمبر 1943ء فرمایا : میں نے جلسہ سے دو چار دن پہلے ایک رؤیا دیکھا تھا.میں نے رویا میں دیکھا کہ ہماری جماعت کے ایک نوجوان جو پہلے قادیان میں ہی پڑھا کرتے تھے اور جن کا نام عبد الحمید ہے آئے ہیں اور انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا.میں ان سے کہتا ہوں کہ تم کہاں؟ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.
186 اس رویا سے میں سمجھتا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا فعل صادر ہو گا جس کی بناء پر اس کی حمد کرنے کی ہمارے دلوں میں تحریک ہو گی.الفضل 5.اپریل 1944 ء صفحہ 2 253 6/5 جنوری 1944ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک مقام پر ہوں جہاں جنگ ہو رہی ہے وہاں کچھ عمارتیں ہیں نہ معلوم وہ گڑھیاں ہیں یا ٹرنچز ہیں بہر حال وہ جنگ کے ساتھ تعلق رکھنے والی کچھ عمارتیں ہیں وہاں کچھ لوگ ہیں جن کے متعلق میں نہیں جانتا کہ آیا وہ ہماری جماعت کے لوگ ہیں یا یونسی مجھے ان سے تعلق ہے میں ان کے پاس ہوں.اتنے میں مجھے یہ معلوم ہوتا ہے جیسے جرمن فوج نے جو اس فوج سے کہ جس کے پاس میں ہوں بر سر پیکار ہے یہ معلوم کر لیا ہے کہ میں وہاں ہوں اور اس نے اس مقام پر حملہ کر دیا ہے اور وہ حملہ اتنا شدید ہے کہ اس جگہ کی فوج نے پسپا ہونا شروع کر دیا.یہ کہ وہ انگریزی فوج تھی یا امریکن فوج یا کوئی اور فوج تھی اس کا مجھے اس وقت کوئی خیال نہیں آیا بہر حال وہاں جو فوج تھی اس کو جرمنوں سے دینا پڑا اور اس مقام کو چھوڑ کر وہ پیچھے ہٹ گئی جب وہ فوج پیچھے ہٹی تو جرمن اس عمارت میں داخل ہو گئے جس میں میں تھا تب میں خواب میں کہتا ہوں دشمن کی جگہ پر رہنا درست نہیں اور یہ مناسب نہیں کہ اب اس جگہ ٹھرا جائے یہاں سے ہمیں بھاگ چلنا چاہئے اس وقت رویا میں صرف یہی نہیں کہ تیزی سے چلتا ہوں بلکہ دوڑتا ہوں میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں اور وہ بھی میرے ساتھ ہی دوڑتے ہیں اور جب میں نے دوڑنا شروع کیا تو رویا میں مجھے یوں معلوم ہوا جیسے میں انسانی مقدرت سے زیادہ تیزی کے ساتھ دوڑ رہا ہوں اور کوئی ایسی زبر دست طاقت مجھے تیزی سے لے جارہی ہے کہ میلوں میں ایک آن میں میں طے کرتا جا رہا ہوں.اس وقت میرے ساتھیوں کو بھی دوڑنے کی ایسی ہی طاقت دی گئی مگر پھر بھی وہ مجھ سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور میرے پیچھے ہی جرمن فوج کے سپاہی میری گرفتاری کے لئے دوڑتے ہیں مگر شاید ایک منٹ بھی نہیں گزرا ہو گا کہ مجھے رویا میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ جرمن سپاہی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں چلتا چلا جاتا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ زمین میرے پاؤں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے یہاں تک کہ میں ایک ایسے علاقہ میں پہنچا ہوں جو دامن کوہ کہلانے کا مستحق ہے ہاں جس وقت جرمن فوج نے حملہ کیا
187 ہے رویا میں مجھے یاد آتا ہے کہ کسی سابق نبی کی پیشگوئی ہے یا خود میری کوئی پیشگوئی ہے اس میں اس واقعہ کی خبر پہلے سے دی گئی تھی اور تمام نقشہ بھی بتایا گیا تھا کہ جب وہ موعود اس مقام سے دوڑے گا تو اس طرح دوڑے گا اور پھر فلاں جگہ جائے گا چنانچہ رویا میں جہاں میں پہنچا ہوں وہ مقام اس پہلی پیشگوئی کے عین مطابق ہے اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ پیشگوئی میں اس امر کا بھی ذکر ہے کہ ایک خاص رستہ ہے جسے میں اختیار کروں گا اور اس رستہ کے اختیار کرنے کی وجہ سے دنیا میں بہت اہم تغیرات ہوں گے اور دشمن مجھے گرفتار کرنے میں ناکام رہے گا.چنانچہ جب میں یہ خیال کرتا ہوں تو اس مقام پر مجھے کئی پگڈنڈیاں نظر آتی ہیں جن میں سے کوئی کسی طرف جاتی ہے اور کوئی کسی طرف.میں ان پگڈنڈیوں کے بالمقابل دوڑتا چلا گیا ہوں تا معلوم کروں کہ پیشگوئی کے مطابق مجھے کس کس راستہ پر جانا چاہئے اور میں اپنے دل میں یہ خیال کرتا ہوں کہ مجھے تو یہ معلوم نہیں کہ میں نے کس راستہ پر جاتا ہے اور میرا کس راستہ سے جانا خدا کی پیشگوئی کے مطابق ہے ایسا نہ ہو میں غلطی سے کوئی ایسا راستہ اختیار کروں جس کا پیشگوئی میں ذکر نہیں اس وقت میں اسی سڑک کی طرف جا رہا ہوں جو سب کے آخر میں بائیں طرف ہے.اس وقت میں دیکھتا ہوں کہ مجھ سے کچھ فاصلہ پر میرا ایک اور ساتھی ہے اور وہ مجھے آواز دے کر کہتا ہے کہ اس سڑک پر نہیں دوسری سڑک پر جائیں اور میں اس کے کہنے پر اس سڑک کی طرف جو بہت دور ہٹ کر ہے واپس لوٹتا ہوں اور وہ جس سڑک کی طرف مجھے آوازیں دے رہا ہے انتہائی دائیں طرف ہے اور جس سڑک کو میں نے اختیار کیا تھا وہ انتہائی بائیں طرف تھی پس چونکہ میں انتہائی بائیں طرف تھا اور جس طرف وہ مجھے بلا رہا تھا وہ انتہائی دائیں طرف تھی اسی لئے میں لوٹ کر اسی سڑک کی طرف چلا مگر جس وقت میں پیچھے کی طرف واپس ہٹا ایسا معلوم ہوا کہ میں کسی اور زبردست طاقت کے قبضہ میں ہوں اور اس زبر دست طاقت نے مجھے پکڑ کر درمیان میں سے گزرنے والی ایک پگڈنڈی پر چلا دیا.میرا ساتھی مجھے آواز میں دیتا چلا جاتا ہے کہ اس طرف نہیں اس طرف اس طرف نہیں اس طرف.مگر میں اپنے آپ کو بالکل بے بس پاتا ہوں اور درمیانی پگڈنڈی پر بھاگتا چلا جاتا ہوں اس جگہ کی شکل رویا کے مطابق اس طرح بنتی ہے.
شمال 188 برای سرمک جس پر میں لڑ رہا ہوں پہاڑی دامن کوہ کا علاقہ در میانی پک رہی ہیں جو آگے جاکر پر دو شاخوں میں تقسیم ہو جاتی ہے یاں پیلاری مشرق جب میں تھوڑی دور چلا تو مجھے وہ نشانات نظر آنے لگے جو پیشگوئی میں بیان کئے گئے تھے اور میں کہتا ہوں میں اسی راستے پر آگیا جو خدا تعالیٰ نے پیشگوئی میں بیان فرمایا تھا اس وقت رویا میں میں اس کی کچھ تو جیہہ بھی کرتا ہوں کہ میں درمیانی پگڈنڈی پر جو چلا ہوں تو اس کا کیا مطلب ہے چنانچہ جس وقت میری آنکھ کھلی معا مجھے خیال آیا کہ دایاں اور بایاں راستہ جو رویا میں دکھایا گیا ہے اس میں بائیں رستہ سے مرادہ خالص دنیوی کوششیں اور تدبیریں ہیں اور دائیں رستہ سے مراد خالص دینی طریق.دعا اور عبادتیں وغیرہ ہیں.اور اللہ تعالٰی نے مجھے بتایا ہے کہ ہماری جماعت کی ترقی درمیانی راستے پر چلنے سے ہوگی یعنی کچھ تدبیریں اور کوششیں ہوں گی اور کچھ دعائیں اور تقدیر میں ہوں گی اور پھر یہ بھی میرے ذہن میں آیا کہ دیکھو قرآن شریف نے امت محمدیہ کو اُمَّةً وَسَطًا قرار دیا ہے اس وسطی رستہ پر چلنے کے یہی معنے ہیں کہ یہ امت اسلام کا کامل نمونہ ہوگی اور چھوٹی پگڈنڈی کی یہ تعبیر ہے کہ راستہ گو درست راستہ ہے مگر اس میں مشکلات بھی ہوتی ہیں غرض اس راستہ پر چلنا شروع ہوا اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ دشمن بہت پیچھے رہ گیا ہے اتنی دور کہ نہ اس کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے اور نہ اس کے آنے کا کوئی امکان پایا جاتا ہے مگر ساتھ ہی میرے ساتھیوں کے پیروں کی آہٹیں بھی کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں دوڑتا چلا جاتا ہوں اور زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی چلی جا رہی ہے.اس وقت میں کہتا ہوں کہ اس واقعہ کے متعلق جو پیشگوئی تھی اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ اس رستہ کے بعد پانی آئے گا اور اس پانی کو عبور کرنا بہت مشکل ہو گا اس وقت میں رستے پر
189 چلتا تو چلا جاتا ہوں مگر ساتھ ہی کہتا ہوں وہ پانی کہاں ہے؟ جب میں نے کہا وہ پانی کہاں ہے ؟ تو یکدم میں نے دیکھا کہ میں ایک بہت بڑی جھیل کے کنارے پر کھڑا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس جھیل کے پار جانا پیشگوئی کے مطابق ضروری ہے.میں نے اس وقت دیکھا کہ جھیل پر کچھ چیزیں تیر رہی ہیں وہ ایسی لمبی ہیں جیسے سانپ ہوتے ہیں.اور ایسی باریک اور ہلکی چیزوں سے بنی ہوئی ہیں جیسے بیتے وغیرہ کے گھونسلے نہایت باریک تنکوں کے ہوتے ہیں وہ اوپر سے گول جیسے اژدھا کی پیٹھ ہوتی ہے اور رنگ ایسا ہے جیسے بیتے کے گھونسلے سفیدی، زردی اور خاکی رنگ ملا ہوا.وہ پانی پر تیر رہی ہیں اور ان کے اوپر کچھ لوگ سوار ہیں جو ان کو چلا رہے ہیں خواب میں میں سمجھتا ہوں یہ بت پرست قوم ہے اور یہ چیزیں جن پر یہ لوگ سوار ہیں ان کے بہت ہیں اور یہ سال میں ایک دفعہ اپنے بتوں کو نہلاتے ہیں اور اب بھی یہ لوگ اپنے بتوں کو نہلانے کی غرض سے مقررہ گھاٹ کی طرف لے جا رہے ہیں جب مجھے اور کوئی چیز بار لے جانے کے لئے نظر نہ آئی تو میں نے زور سے چھلانگ لگائی اور ایک بت پر سوار ہو گیا تب میں نے سنا کہ بتوں کے پجاری زور زور سے مشرکانہ عقائد کا اظہار منتروں اور گیتوں کے ذریعہ سے کرنے لگے اس پر میں نے دل میں کہا کہ اس وقت خاموش رہنا غیرت کے خلاف ہے اور بڑے زور زور سے میں نے توحید کی دعوت ان لوگوں کو دینی شروع کی اور شرک کی برائیاں بیان کرنے لگا.تقریر کرتے ہوئے مجھے یوں معلوم ہوا کہ میری زبان اردو نہیں بلکہ عربی ہے چنانچہ میں عربی بول رہا ہوں اور بڑے زور سے تقریر کر رہا ہوں.رویا میں ہی مجھے خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کی زبان عربی تو نہیں یہ میری باتیں کس طرح سمجھیں گے مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ گوان کی زبان کوئی اور ہے مگر یہ میری باتوں کو خوب سمجھتے ہیں.چنانچہ میں اسی طرح ان کے سامنے عربی میں تقریر کر رہا ہوں اور تقریر کرتے کرتے بڑے زور سے ان کو کہتا ہوں کہ تمہارے یہ بت اس پانی میں غرق کئے جائیں گے اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم ہو گی ابھی میں یہ تقریر کر ہی رہا تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ اس کشتی نمابت والا جس پر میں سوار ہوں یا اس کے ساتھ کے بت والا بت پرستی کو چھوڑ کر میری باتوں پر ایمان لے آیا ہے اور موحد ہو گیا ہے.اس کے بعد اثر بڑھنا شروع ہوا اور ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں شخص میری باتوں پر ایمان لاتا مشرکانہ باتوں کو ترک کرتا اور مسلمان ہو تا
190 چلا جاتا ہے.اتنے میں ہم جھیل پار کر کے دوسری طرف پہنچ گئے.جب ہم جھیل کے دوسری طرف پہنچ گئے تو میں ان کو حکم دیتا ہوں کہ ان بتوں کو جیسا کہ پیشگوئی میں بیان کیا گیا تھا پانی میں غرق کر دیا جائے اس پر جو لوگ موقد ہو چکے ہیں وہ بھی اور جو ابھی موحد تو نہیں ہوئے مگر ڈھیلے پڑگئے ہیں میرے سامنے جاتے ہیں اور میرے حکم کی تعمیل میں اپنے بتوں کو جھیل میں غرق کر دیتے ہیں اور میں خواب میں حیران ہوں کہ یہ تو کسی تیرنے والے مادے کے بنے ہوئے ہیں اور یہ اس آسانی سے جھیل کی تہہ میں کس طرح چلے گئے صرف پجاری پکڑ کر ان کو پانی میں غوطہ دیتے تھے اور وہ پانی کی گہرائی میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اس کے بعد میں کھڑا ہو گیا اور پھر انہیں تبلیغ کرنے لگ گیا کچھ لوگ تو ایمان لا چکے تھے مگر باقی قوم جو ساحل پر تھی ابھی ایمان نہیں لائی تھی اسی لئے میں نے ان کو تبلیغ کرنی شروع کر دی یہ تبلیغ میں ان کو عربی زبان میں ہی کرتا ہوں جب میں انہیں تبلیغ کر رہا ہوں تا کہ باقی لوگ بھی اسلام لے آئیں تو یکدم میری حالت میں تغیر پیدا ہوتا ہے اور مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب میں نہیں بول رہا بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہامی طور پر میری زبان پر باتیں جاری کی جارہی ہیں.جیسے خطبہ الہامیہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا.غرض میرا کلام اس وقت بند ہو جاتا ہے اور خد اتعالیٰ میری زبان سے بولنا شروع ہو جاتا ہے.بولتے بولتے میں بڑے زور سے ایک شخص کو جو غالبا سب سے پہلے ایمان لایا تھا غالبا کا لفظ میں نے اس لئے کہا کہ مجھے یقین نہیں کہ وہی شخص پہلے ایمان لایا ہے ہاں غالب گمان یہی ہے کہ وہی شخص پہلا ایمان لانے والا یا پہلے ایمان لانے والوں میں سے بااثر اور مفید وجود تھا.بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہے اور میں نے اس کا اسلامی نام عبد الشکور رکھا ہے.میں اس کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ پیشگوئیوں میں بیان کیا گیا ہے میں اب آگے جاؤں گا اس لئے اے عبدالشکور ! تجھ کو میں اس قوم میں اپنا نائب مقرر کرتا ہوں تیرا فرض ہو گا کہ میری واپسی تک اپنی قوم میں توحید کو قائم کرے اور شرک کو مٹادے اور تیرا فرض ہو گا کہ اپنی قوم کو اسلام کی تعلیم پر عامل بنائے میں واپس آکر تجھ سے حساب لوں گا اور دیکھوں گا کہ تجھے میں نے جن فرائض کی سرانجام دہی کے لئے مقرر کیا ہے ان کو تو نے کہاں تک ادا کیا ہے اس کے بعد وہی الهامی حالت جاری رہتی ہے اور میں اسلام کی تعلیم کے اہم امور کی طرف اسے توجہ دلاتا
191 ہوں اور کہتا ہوں کہ تیرا فرض ہو گا کہ ان لوگوں کو سکھائے گا کہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور کلمہ پڑھتا ہوں اور اس کے سکھانے کا حکم دیتا ہوں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے کی اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے کی اور سب لوگوں کو اس ایمان کی طرف بلانے کی تلقین کرتا ہوں.جس وقت میں یہ تقریر کر رہا ہوں (جو خود الہامی ہے) یوں معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذکر کے وقت اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو میری زبان سے بولنے کی توفیق دی ہے اور آپ فرماتے ہیں اَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر پر ایسا ہی ہوتا ہے اور آپ فرماتے ہیں اَنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ اس کے بعد ان کو اپنی طرف توجہ دلاتا ہوں چنانچہ اس وقت میری زبان پر جو فقرہ جاری ہوا یہ ہے وانا الْمَسِيحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِيْلُهُ وَ خَلِيفَتُهُ اور میں بھی مسیح موعود ہوں یعنی اس کا مثیل اور اس کا خلیفہ ہوں.تب خواب میں ہی مجھ پر ایک رعشہ کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے اور میں کہتا ہوں کہ میری زبان پر کیا جاری ہوا اور اس کا کیا مطلب ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اس وقت معاً میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس کے آگے جو الفاظ ہیں منیلہ میں اس کا نظیر ہوں.اور اس کا خلیفہ ہوں.یہ الفاظ اس سوال کو حل کر دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کہ وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہو گا اس کے مطابق اور اسے پورا کرنے کے لئے یہ فقرہ میری زبان پر جاری ہوا اور مطلب یہ ہے کہ اس کا مثیل ہونے اور اس کا خلیفہ ہونے کے لحاظ سے ایک رنگ میں میں بھی مسیح موعود ہوں کیونکہ جو کسی کا نظیر ہو گا اور اس کے اخلاق کو اپنے اندر لے لے گاوہ ایک رنگ میں اس کا نام پانے کا مستحق بھی ہو گا.پھر میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں.میں وہ ہوں جس کے ظہور کے لئے انیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں اور جب میں کہتا ہوں میں وہ ہوں جس کے لئے انیس سو سال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کر رہی تھیں تو میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان عورتیں اور جو سات یا نو ہیں جن کے لباس صاف ستھرے ہیں دوڑتی ہوئی میری طرف آتی ہیں مجھے السلام علیکم کہتی ہیں اور ان میں سے بعض برکت حاصل کرنے کے لئے میرے کپڑوں پر ہاتھ پھیرتی جاتی ہیں اور کہتی ہیں ”ہاں ہم تصدیق کرتی ہیں کہ ہم انیس سو سال سے آپ کا انتظار کر رہی تھیں اس کے بعد میں بڑے زور
192 سے کہتا ہوں میں وہ ہوں جسے علوم اسلام اور علوم عربی اور اس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئے تھے.رویا میں جو ایک ایک سابق پیشگوئی کی طرف مجھے توجہ دلائی گئی تھی اس میں یہ بھی خبر تھی کہ جب وہ موعود بھاگے گا تو ایک ایسے علاقہ میں پہنچے گا جہاں ایک جھیل ہوگی اور جب وہ اس جھیل کو پار کر کے دوسری طرف جائے گا تو وہاں ایک قوم ہوگی جس کو وہ تبلیغ کرے گا اور وہ اس کی تبلیغ سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جائے گی تب وہ دشمن جس سے وہ موعود بھاگے گا اس قوم سے مطالبہ کرے گا کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کیا جائے مگر وہ قوم انکار کر دے گی اور کے گی ہم لڑ کر مر جائیں گے مگر اسے تمہارے حوالے نہیں کریں گے چنانچہ خواب میں ایسا ہی ہوتا ہے جرمن قوم کی طرف سے مطالبہ ہوتا ہے کہ تم ان کو ہمارے حوالے کر دو اس وقت میں خواب میں کہتا ہوں یہ تو بہت تھوڑے ہیں اور دشمن بہت زیادہ ہے مگر وہ قوم باوجود اس کے کہ ابھی ایک حصہ اس کا ایمان نہیں لایا بڑے زور سے اعلان کرتی ہے کہ ہم ہرگز ان کو تمہارے حوالے کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ہم لڑ کر فنا ہو جائیں گے مگر تمہارے اس مطالبہ کو تسلیم نہیں کریں گے تب میں کہتا ہوں دیکھو وہ پیشگوئی بھی پوری ہو گئی اس کے بعد میں پھر ان کو ہدایتیں دے کر اور بار بار توحید قبول کرنے پر زور دے کر اور اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کر کے آگے کسی اور مقام کی طرف روانہ ہو گیا ہوں اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ اس قوم میں سے اور لوگ بھی جلدی جلدی ایمان لانے والے ہیں چنانچہ اسی لئے میں اس شخص سے جسے میں نے اس قوم میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے کہتا ہوں جب میں واپس آؤں گا تو اے عبدالشکور میں دیکھوں گا کہ تیری قوم شرک چھوڑ چکی ہے موحد ہو چکی ہے اور اسلام کے تمام احکام پر پابند ہو چکی ہے.یہ وہ رویا ہے جو میں نے جنوری 1944ء (مطابق 1223 ھش) میں دیکھی اور جو غالباً پانچ اور چھ کی درمیانی شب بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات میں ظاہر کی گئی جب میری آنکھ کھلی تو میری نیند بالکل اڑ گئی اور مجھے سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی کیونکہ آنکھ کھلنے پر مجھے یوں محسوس ہوتا تھا گویا میں اردو بالکل بھول چکا ہوں اور صرف عربی ہی جانتا ہوں.چنانچہ کوئی گھنٹہ بھر تک میں اس رویا پر غور کرتا اور سوچتا رہا مگر میں نے دیکھا کہ میں عربی پر ہی غور کرتا تھا اور اسی میں سوال و جواب میرے دل میں آتے تھے.الفضل یکم فروری 1944ء صفحہ 1 تا 5.مزید دیکھیں.الفضل 16.
193 جون 1944ء صفحہ 6 و 28 نومبر 1944ء صفحہ 4, 8.فروری 1959ء صلح 18 و 18 فروری 1958ء صفحہ 8 117 و 26 دسمبر 1981ء صفحہ 9 اور الموعود ( تقریر جلسہ سالانہ 28 -."مبر 1944ء صفحہ 6854) جنوری 1944ء 254 فرمایا : میں ابھی لاہور میں تھا کہ موجودہ انکشاف کے چند دن بعد ہی میں نے رویا میں دیکھا کہ میں قادیان میں اپنے گھر میں ہوں اور نیند سے اٹھا ہوں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کہ نماز فجر کا وقت ہے اور نماز پڑھنے میں کچھ دیر ہو گئی ہے میں جلدی سے اٹھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے سے پہلے ہی نماز پڑھ لوں کیونکہ دیر ہو رہی ہے مگر جب دروازہ کھولا تو معلوم ہوا کہ ابھی اندھیرا ہے.اس وقت میں نے کہا کہ پہلے حوائج سے فارغ ہولوں پھر اطمینان سے نماز پڑھوں گا اسی حالت میں جب میں نے بیت الخلاء کی طرف جانے والا دروازہ کھولا تو میں نے دیکھا کہ ساتھ کے کمرے میں ایک کٹرہ کے سامنے میر محمد اسحاق صاحب نہایت صاف ستھرا لباس پہنے ہوئے ہیں مجھے دیکھتے ہی وہ کہنے لگے حضور دلیری کس کو کہتے ہیں.میں نے ان سے کہا دلیری اس بات کا نام ہے کہ خدا کے سوا انسان کسی سے نہ ڈرے مگر معامیں نے کہا یہ تعریف مکمل نہیں اس لئے کہ حدیثوں میں آتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ گھر میں تشریف رکھتے تھے کہ آپ نے ایک شخص کی برائیاں بیان کرنی شروع کر دیں کہ وہ ایسا ہے.ایسا ہے.ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ وہی شخص آگیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے اٹھے آپ نے احترام سے بٹھایا اور محبت سے اس کے ساتھ باتیں کیں جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا آپ بھی ایسا کر لیتے ہیں کہ ایک طرف تو بعض لوگوں کے عیوب بیان کریں اور دوسری طرف جب وہ سامنے آجائیں تو ان کی خاطر تواضع کریں.آپ نے فرمایا اے عائشہ بعض لوگوں کے شر سے ڈر کر میں ایسا کیا کرتا ہوں.رویا میں میں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں تھا کہ میں ڈرتا ہوں کوئی شر مجھے نہ پہنچ جائے بلکہ مطلب یہ تھا کہ اگر میں ایسے لوگوں سے خاطر مدارت کے ساتھ پیش نہ آؤں تو میں ڈرتا ہوں کہ وہ اور زیادہ گمراہی میں نہ بڑھ جائیں اور ان کی روحانیت کو مزید
194 نقصان نہ پہنچ جائے.اسی طرح مجھے ایک اور مثال یاد آئی اور میں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا اے عائشہ کعبہ جب بنایا گیا تھا اس وقت تیری قوم کے پاس سامان کم ہو گیا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کعبہ کی چار دیواری جتنی وسیع ہونی چاہئے تھی اتنی نہیں بلکہ اس سے کچھ کم ہے.میں چاہتا ہوں کہ کعبہ کو اس کی اصل بنیادوں پر لے آؤں مگر میں ڈرتا ہوں کہ تیری قوم حَدِیثُ الْعَهْدِ بِالْإِسْلَامِ ہے یعنی نئی نئی اسلام لائی ہے اگر میں نے ایسا کیا تو اس کے ایمان میں تزلزل واقع ہو جائے گا یہاں بھی آپ نے ڈرنے کا لفظ استعمال فرمایا مگر اس جگہ بھی اس کے یہی معنے ہیں کہ میں ڈرتا ہوں تیری قوم کے ایمان کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے.پس میں نے ان سے کہا جو تعریف میں نے پہلے کی ہے وہ نامکمل ہے اب میں اس کی مکمل تعریف یہ کرتا ہوں کہ دلیری یہ ہے کہ انسان خدا کے سوا کسی پر تو کل نہ کرے.رپورٹ مجلس مشاورت 1944ء صفحہ 72-73 فرمایا : اب معلوم ہوا کہ اس میں ان کی وفات کی خبر تھی اور اسی رؤیا کے ذریعہ اللہ تعالٰی نے ان کے منہ سے ہی تعزیت کرادی.الفضل 12.اپریل 1944ء صفحہ 1 فروری 1944ء 255 فرمایا : میں نے ایک رؤیا دیکھی کہ ایک بہت بڑا اژدھام ہے جس میں ان (شیخ نیاز محمد صاحب کو ایک ہاتھی پر چڑھا کر لوگ جلوس کی صورت میں شہر کی طرف لا رہے ہیں.بہت سے مسلمان جمع ہیں اور لوگوں کا بہت بڑا ہجوم ہے اور وہ بہت خوش ہیں ان کو کوئی عزت ملی ہے یا ملنے والی ہے.میں رویا میں دیکھتا ہوں کہ جلوس مفتی محمد صادق صاحب کے گھر کی طرف آرہا ہے میں ان کے گھر کے قریب جو موڑ ہے وہاں کھڑا ہو گیا اور جلوس نے اس طرف بڑھنا شروع کر دیا جس وقت وہ عین منزل مقصود پر پہنچ گئے جہاں ان کا اعزاز ہو نا تھا تو یکدم آسمان سے ایک ہاتھ آیا اور وہ انہیں اٹھا کر لے گیا.اس رویا کے مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے بعد وہ فوت ہو گئے بعد میں معلوم ہوا کہ ہائی کورٹ کی جھی کے لئے ان کا نام گیا ہوا تھا اور منظوری آنے والی تھی کہ وہ فوت ہو گئے.الفضل 18.فروری 3 1944
195 256 غالبا فروری 1944ء فرمایا : میں نے دو تین ہفتے ہوئے ایک رؤیا دیکھا تھا معلوم ہوتا ہے وہ جماعت کی اصلاح کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.میں نے رویا میں دیکھا کہ میں کھڑا ہو کر لوگوں میں تقریر کر رہا ہوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بزرگ ہے جس کی عادت یہ ہے کہ جتنا اس سے کوئی مطالبہ کرے اتنا اسے دے دیتا ہے لیکن اس کی بیوی کچھ ایسی نیک نہیں.اس بزرگ کا ایک لڑکا بھی ہے وہ عورت اس لڑکے کو ورغلاتی ہے اور کہتی ہے تیرا باپ روپیہ ضائع کر رہا ہے اگر یہ اسی طرح روپیہ دیتا رہا تو ہمارے لئے کچھ نہیں بچے گا آؤ ہم کوئی ایسی تدبیر کریں جس سے ہم اسے اس کام سے روک دیں تاکہ کسی طرح اس کا سارا روپیہ ہمارے ہاتھ آجائے اسے ضائع کرنے کا موقع نہ ملے.گویا وہ عورت اس کا صدقہ و خیرات میں اپنا روپیہ صرف کرنا اسے ضائع کرنا سمجھتی ہے.میں خواب میں کھڑے ہو کر اس مومن مرد اور اس کی بیوی اور بچے کا ذکر کرتا ہوں اور لوگوں کے سامنے ان کی مثال پیش کرتا ہوں مجھے خواب میں اس بزرگ کے اس واقعہ کا پتہ چل گیا ہے اور تقریر میں ذکر کرتے ہوئے میں لوگوں سے کہتا ہوں.ایک بزرگ ہے اس میں یہ عادت پائی جاتی ہے کہ اگر کوئی شخص اس سے پیسہ مانگے تو وہ اسے پیسہ دے دیتا ہے چنانچہ میں تقریر کرتے ہوئے عربی زبان میں کہتا ہوں.اِنْ يَطْلُبُ مِنْهُ فَلْسًا فَيُعْطِيهِ فَلْسًا پھر میں کہتا ہوں اگر کوئی اس سے دو آنے مانگے تو وہ اسے دو آنے دے دیتا ہے چنانچہ میں عربی زبان میں ہی کہتا ہوں.وَإِنْ يَطْلُبْ مِنْهُ اثْنَيْنِ فَيُعْطِيهِ اثْنَيْنِ اس کے بعد میں پھر کہتا ہوں اگر کوئی شخص اس سے سارے مال کا مطالبہ کرے تو وہ اسے سارا مال دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.چنانچہ میں عربی زبان میں کہتا ہوں.وَاِنْ يَطْلُبُ مِنْهُ أَحَدٌ كُلَّ شَيْءٍ فَيُعْطِيْهِ كُلَّ شتی و اس کی یہ حالت دیکھ کر اس کی بیوی اس کے بیٹے کو بتاتی ہے کہ تیرا باپ اس طرح روپیہ ضائع کر رہا ہے اگر کوئی اس سے پیسہ مانگے تو وہ اسے پیسہ دے دیتا ہے دو آنے مانگے تو اسے دو آنے دے دیتا ہے اور اگر کوئی شخص سارا مال مانگے تو وہ سارا مال دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.اس پر وہ کہتی ہے اگر کوئی شخص اس سے کسی دن سارا مال مانگ بیٹھا تو ہمارے لئے تو گھر میں کچھ نہیں بچے گا اس لئے آؤ ہم دونوں اس کے پاس چلیں اور اس سے کہیں کہ وہ ہمیں اپنا
196 سارا روپیہ دے دے اس طرح اس کا تمام روپیہ ہمارے قبضہ میں آجائے گا اور آئندہ نیکی کے مواقع پر روپیہ خرچ کرنے کے لئے اس کے پاس کچھ نہیں رہے گا.اس رویا * سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ بعض ایسے گندے جلیس ہوتے ہیں جو مومن کو ثواب سے روکنے کے لئے کئی قسم کی تدابیر اختیار کرتے ہیں پس یہ رویا جماعت کو ہو شیار کرنے کے لئے ہے کہ وہ ایسے حالات سے بچنے کی کوشش کرے.الفضل 8 - اپریل 1944 ء صفحہ 6.نیز دیکھیں.الفضل 31.مارچ 1944ء صفحہ 4 257 غالبا 3.مارچ 1944ء فرمایا : ایک دن جب میں ان (حضرت ام طاہر) کے لئے دعا کر کے سویا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے اس مکان کی سیڑھیوں پر میرے ساتھی گھبرائے ہوئے چڑھ رہے ہیں.میں ان کے قدموں کی آواز سن کر اور ان کی گھبراہٹ محسوس کر کے باہر نکلا تا کہ معلوم کروں کہ کیا بات ہے جب میں باہر آیا تو میں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں گاگریں ہیں انہوں نے گاگریں میرے سامنے رکھ دیں اور کہا کہ سب نلکے سوکھ گئے کہیں پانی نہیں ملتا.میں نے ان سے کہا کہ کہیں سے پانی تلاش کرو.اس پر انہوں نے کہا کہ حضور سب ہی نلکے سوکھ گئے ہیں میں خواب میں ایسا سمجھتا ہوں کہ اس وقت پانی کی سخت ضرورت ہے اور زور دیتا ہوں کہ کہیں سے پانی تلاش کرو مگروہ یہی کہتے ہیں کہ سب نلکے سوکھ گئے ہیں.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ کوئی شخص تلاش کرنے کے بعد پانی کا ایک لوٹ لایا ہے مجھے یہ یاد نہیں رہا کہ میں نے اس سے پانی کا لوٹا لیا ہے یا نہیں پھر اس رویا کے معا بعد یا پہلے جاگتے ہوئے جبکہ میں سو نہیں رہا تھا میں نے دیکھا کہ کوئی شخص میرے پر جھکا اور آہستہ سے میرے کان میں اس نے کہا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ میں نے دوستوں کو یہ خواب سنایا تو انہوں نے کہا یہ بڑا اچھا خواب ہے کہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہا گیا ہے.میں نے کہا مجھے تو یہ منذر معلوم ہوتا ہے کیونکہ آنے والا دور سے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہا کرتا ہے اور جانے والا پاس سے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ ہے.پانی نہ ملنے کے معنی بھی یہی تھے کہ ان کی زندگی کا پانی کیا کرتا " اس رویا میں تحریک (وقف جائیداد) کی طرف توجہ دلائی گئی ہے " الفضل 31 مارچ 44 ء صفحہ 1
197 ہو چکا تھا اور ایک لوٹا پانی کے معنے یہ تھے کہ اب وہ تھوڑا عرصہ ہی زندہ رہیں گی چنانچہ اس رویا کے بعد وہ صرف اڑتالیس گھنٹے زندہ رہیں اس کے بعد وفات پاگئیں.اللفضل 14.مارچ 1944ء صفحہ 3 مارچ 1944ء 258 فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ شیخ بشیر احمد صاحب مجھ سے ملنے کے لئے آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ام طاہر کا ہارٹ فیل ہو گیا ہے.پھر کہنے لگے انہوں نے آپ تک پہنچانے کے لئے مجھے کہا تھا کہ سو روپیہ فلاں عورت کو دے دیں ایک عورت کا نام انہوں نے بتایا اور دوسری کا نام انہوں نے نہ بتایا یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کا نام بھول گئے ہیں مگر ساتھ ہی کہا کہ عجیب بات ہے کہ جب وہ وصیت کر رہی تھیں اور ان کا دل ساکت ہو رہا تھا تو ان کی طبیعت بالکل مطمئن تھی اور ان کے دل پر اس وقت گھبراہٹ کے کوئی آثار نہ تھے.خواب کا بعض دفعہ ایک حصہ پورا کر دیا جائے تو وہ ٹل جایا کرتی ہے اس بناء پر میں نے یہاں سے ان کو دو سو روپیہ دیا اور کہا کہ ایک سو روپیہ فلاں عورت کو دے دو اور ایک سو روپیہ جس عورت کو چاہو دے دو.مگر شرط یہ ہے کہ پورا سو دو.تقسیم کر کے مختلف مستحقوں کو نہ دو.یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس عورت کو انہوں نے سو روپیہ بھجوایا اس کے متعلق بعد میں معلوم ہوا کہ اس نے دو دن پہلے کسی سے کہا تھا کہ میرے بیٹے کو سو روپیہ کی ضرورت ہے میری فلاں فلاں چیزیں فروخت کر دو اور اس کے لئے روپیہ کا انتظام کر دو.الفضل 14.مارچ 1944ء صفحہ 3 259 مارچ 1944ء فرمایا : میں نے ام طاہر کی وفات کے چند دن بعد رویا میں دیکھا کہ اماں جان کے دالان میں ایک تخت پوش پر ہمارے سب بچے بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں کہ اتنے میں بیت الدعا کے پیچھے سے ام طاہر آتی ہیں اور کہتی ہیں میری اولاد کو کوئی صدقہ نہ کھلائے.فرمایا جب کوئی شخص مرجاتا ہے تو لوگ جذبات رحم کے ماتحت اس کے بچوں کی مدد کر دیا کرتے ہیں اور مجھے بتایا گیا کہ یہ بھی ایک قسم کا صدقہ ہی ہے.ہمیں بچوں کے اند رو قار پیدا کرنا
198 چاہئے اور اس قسم کی امداد کو قطعا برداشت نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ جذبہ امر اور حم کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے محبت کے نتیجہ میں پیدا نہیں ہو تا.الفضل 4.ستمبر 1944 ء صفحہ 1-2 260 15.مارچ 1944ء فرمایا : میر محمد اسحاق صاحب کی وفات سے پہلے جب میں قادیان آگر دوبارہ لاہور گیا ہوا تھا تو میں نے ایک رؤیا دیکھا جو اسی دن میں نے لاہور کے بعض دوستوں کو سنا دیا.وہ بدھ کا دن تھا دوسرے دن جمعرات کو ہم واپس آگئے اور اسی شام کو میر محمد اسحاق صاحب بیمار ہو کر دوسرے دن وفات پاگئے اس دن میں کھانا کھا کر لیٹا ہی تھا کہ نیم غنودگی کی سی کیفیت مجھ پر طاری ہو گئی اور میں نے دیکھا کہ حضرت اماں جان) کہہ رہی ہیں.تالے کیوں نہ کھول لئے اور میں ان کو جواب دیتے ہوئے کہتا ہوں کس کی طاقت ہے کہ خدا کی اجازت کے بغیر تالے کھول سکے" حضرت اماں جان) کا یہ فرمانا کہ " تالے کیوں نہ کھول لئے " بتا تا تھا کہ کوئی ایسا واقعہ ہو گا جس کا ان کے ساتھ خاص طور پر تعلق ہو گا جس میں ہمیں ناکامی ہوگی.میں نے بھی یہی کہا کہ کس کی طاقت ہے کہ خدا کی اجازت کے بغیر تالے کھول سکے.رپورٹ مجلس مشاورت صفحہ 1944ء صفحہ 173 نیز دیکھیں.الفضل 25.جون 1944ء صفحہ 1 261 مارچ 1944ء فرمایا : گزشتہ دنوں جب میں لاہور میں تھا تو ایک دن میڈیکل کالج کے کچھ طالب علم مجھے ملنے کے لئے آئے ان میں سوائے ایک لڑکے کے باقی سب لڑکیاں تھیں لڑکا فورمین کرسچین کالج کا تھا اور لڑکیاں سب میڈیکل کالج میں پڑھتی تھیں.ان کے آنے سے پہلے جب میں نماز پڑھ رہا تھا نماز کا آخری سجدہ تھا کہ یکدم مجھے الہام ہوا کہ عظمت کے بھوکے ہیں اس سے پہلے بھی کوئی فقرہ تھا جو مجھے بھول گیا.مگر وہ اس قسم کا تھا شہرت کے طالب ہیں.عظمت کے بھوکے ہیں " میں حیران ہوا کہ نہ معلوم کون شخص آج مجھ سے ملنے والا ہے تھوڑی دیر کے بعد میڈیکل
199 کالج کے چند طالب علم آئے اور انہوں نے مجھ سے ملاقات کا وقت لیا.رپورٹ مجلس مشاورت 262 133 1944 مارچ 1944ء فرمایا : جب ہم لدھیانہ جا رہے تھے تو اس رو ز بارش ہو رہی تھی رستے خراب تھے نہر والوں نے بھی انکار کر دیا کہ ہم دروازہ نہیں کھول سکتے غرض ایسی حالت ہو گئی کہ میں ڈرتا تھا کہ شاید ہمارا جلسہ بھی ہو سکے یا نہ ہو سکے مگر اسی حالت میں مجھے الہام ہوا.بہت سی برکتوں کے سامان کروں گا آخری لفظ کے متعلق مجھے صحیح طور پر یاد نہیں رہا کہ کروں گا " یا " ہوں گے " تھا بہر حال الفاظ یہ تھے کہ "بہت سی برکتوں کے سامان کروں گا یا بہت سی برکتوں کے سامان ہوں گے " میں حیران تھا کہ حالت تو یہ ہے کہ بارش ہو رہی ہے اور نہر والے بھی راستہ نہیں دے رہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ بہت سی برکتوں کے سامان کروں گا.یہ الہام لدھیانہ جاتے ہوئے راستہ میں ہی مجھے ہوا گھر میں نے اس کا کسی سے ذکر نہ کیا آخر ایسا ہی ہوا بارش کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت کامیاب جلسہ ہوا اور بارش ہی دشمن کی شرارتوں کو دور کرنے کا ایک ذریعہ بن گئی.الفضل 25.جون 1944 ء صفحہ 2 263 مارچ 1944ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں کسی جگہ ہوں وہاں انہوں نے میرے لئے ایک فٹن بھجوائی ہے اور مجھے اپنے گھر بلا بھیجا ہے تین چار دوست اس فٹن میں بیٹھ گئے اور میں بھی کہتا ہوں کہ میں نے وہاں جاتا ہے مگر میں ابھی بیٹھا نہیں کہ آنکھ کھل گئی.شاید اس سے یہ مراد ہو کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے دے گایا اس سے مراد یہ ہو کہ کوئی احسن بات ظاہر ہونے والی پیرا حسن الدین ڈپٹی کمشنر مراد ہیں (مرتب)
200 ہے.پھر میں نے مرزا احسن بیگ صاحب کو دیکھا اس میں بھی احسن کا لفظ آتا ہے.الفضل 20 اپریل 1944ء صفحہ 2 مارچ 1944ء 264 فرمایا : ہفتہ کے دن مغرب کی نماز کے بعد ہم یہاں بیٹھے تھے اور میں نے دوستوں کو ایک رویا سنایا تھا میں نے کہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مرزا احسن بیگ صاحب آئے ہیں اسی طرح پیرا حسن الدین صاحب ڈپٹی کمشنر کے متعلق دیکھا کہ انہوں نے مجھے بلا بھیجا ہے.فرمایا : مجھے یاد نہیں کہ میں نے پچھلے تمہیں سال میں ایک دفعہ بھی مرزا احسن بیگ صاحب کو خواب میں دیکھا مگر ادھر میں نے یہ رویا دیکھا ادھر دوسری صبح یہ اطلاع آئی کہ مرزا احسن بیگ صاحب کی بیٹی قادیان آتی ہوئی گاڑی میں گم ہو گئی ہیں.مرزا افضل بیگ صاحب اپنے لڑکے کے رخصتانہ کے لئے وہاں گئے تھے اور وہ ان کی لڑکی کو رخصت کرا کے لا رہے تھے کہ رستہ میں گاڑی کا وہ حصہ جس میں مستورات سوار تھیں ریلوے والوں نے کاٹ کر کسی اور گاڑی کے ساتھ لگا دیا اور وہ گاڑی دوسری طرف چلی گئی پس مرزا احسن بیگ صاحب کا رویا میں آنا در حقیقت یہی تعبیر رکھتا تھا.ادھر یہ واقعہ ہوا اور ادھر آج رات ہی رؤیا میں یہ تمام نظارہ دکھایا گیا اب تو مرزا افضل بیگ صاحب آچکے ہیں مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ آرہے ہیں اور نہ مجھے یہ معلوم تھا کہ کہاں یہ واقعہ ہوا مگر آج رات جبکہ میں نے ان کے لئے دعا کی تو مجھے دکھایا گیا کہ اصل واقعہ یہ ہے کہ ایک اسٹیشن پر ان کی گاڑی کٹ کر کسی اور طرف لگ گئی ہے اور جدھر وہ آرہے تھے اس کی بجائے مشرق کی طرف چلی گئی ہے چنانچہ آج دوپہر دو بجے کے قریب ان کے محلہ کی ایک عورت ہمارے گھر میں آئی اور اس نے ذکر کیا کہ وہ لوگ رات 12 بجے آگئے ہیں اور واقعہ یوں ہوا تھا کہ ریلوے والوں نے گاڑی کا وہ حصہ کاٹ کر ایک دوسری گاڑی کے ساتھ لگا دیا جو آگرے کو چلی گئی.اس طرح مرزا افضل بیگ صاحب تو دہلی پہنچ گئے اور ان کی بہو آگرہ جا پہنچیں.میں نے بھی یہی دیکھا تھا کہ گاڑی کٹ کر مشرق کی طرف چلی گئی ہے اور اس طرح دو نو خوا ہیں پوری ہو گئیں گاڑی کا کٹ جاتا بھی پورا ہو گیا اور مرزا احسن بیگ صاحب کا آنا بھی پورا ہو گیا کیونکہ ان
201 کی بیٹی آگرہ سے مل گئی اور قادیان پہنچ گئی.الفضل 21.اپریل 1944 ء صفحہ 1 مارچ 1944ء 265 فرمایا : مارچ 1944ء میں میں نے ایک رؤیا دیکھا جبکہ بعض لوگ میرے متعلق ایسی خبریں شائع کر رہے تھے اور کچھ احمد کی دوست بھی نہ معلوم کن اثرات کے ماتحت یہ خواہیں دیکھ رہے تھے کہ میری زندگی کے دن ختم ہو رہے ہیں.ان حالات کی وجہ سے جب میں نے اللہ تعالٰی کے حضور دعا کی تو مجھے ایک نظارہ دکھایا گیا کہ ایک سمند رہے اور اس میں کچھ بوائے (Buoy) ہیں بوائے انگریزی کا لفظ ہے اور چونکہ یہ صنعتی شئے ہے اس لئے اردو زبان میں اس کا کوئی ترجمہ نہیں یہ بوائے ڈھول سے ہوتے ہیں جنہیں آہنی زنجیروں سے سمندر میں چٹانوں کے ساتھ باندھا ہوتا ہے اور وہ سمندر میں تیرتے پھرتے ہیں اور جو جہاز وہاں سے گزرتے ہیں ان کو دیکھ کر جہاز راں یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ اس بوائے سے چٹان قریب ہے اور اس سے بیچ کر چلنا چاہئے اور اگر سمندر کے اندر چٹانوں کا نشان بتانے کے لئے بوائے نہ لگے ہوں اور جہاز آجائے تو جہاز کے چٹان سے ٹکرا کر ڈوب جانے کا خطرہ ہوتا ہے بعض جہاز ایسے ہوتے ہیں جو پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ فٹ پانی کے نیچے ہوتے ہیں بوجہ اپنے سائز کے یا بوجہ بوجھ کے یا بعض بوجہ اپنی ساخت کے.اور اگر چٹان پانی کی سطح سے پندرہ یا بیس فٹ نیچے ہو تو ایسے جہاز چٹان کا نشان نہ ہونے کی وجہ سے چٹان سے ٹکرا کر ڈوب جاتے ہیں پس جہاز کو ہو شیار کرنے کے لئے اور اسے اطلاع دینے کے لئے اس جگہ چٹان ہے متمدن حکومتیں اپنے اپنے سمندری علاقوں میں لوہے کے بنے ہوئے بوائے زنجیروں کے ذریعہ چٹانوں کے ساتھ باندھ دیتی ہیں ان کا رنگ سرخ ہوتا ہے اور وہ ہر وقت پانی کی سطح پر تیرتے رہتے ہیں اور ان کو دیکھ کر جہاز والے یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہاں خطرہ ہے اور وہ اس جگہ سے جہاز کو بچا کر لے جاتے ہیں) تو میں نے دیکھا کہ سمندر میں اسی قسم کے بوائے لگے ہوئے ہیں اور ان کی زنجیریں بہت لمبی ہیں اور دور تک چلی جاتی ہیں خواب میں میں خیال کرتا ہوں کہ اس بوائے کا تعلق میری ذات سے ہے اور تمثیلی رنگ میں وہ بوائے میں ہی ہوں اور مجھے بتایا گیا کہ یہ نظارہ پانچ سال کے عرصہ سے تعلق رکھتا ہے.تب میں
202 نے سمجھا کہ آئندہ پانچ سال کے اندر کوئی اہم واقعہ اسلام کے متعلق پیش آنے والا ہے اور گویا مسلمانوں کو اس آفت سے بچانے کے لئے میں بطور بوائے ہوں اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بھی بتایا کہ جب تک وہ واقعہ پیش نہ آئے مجھے زندہ رکھا جائے گا.الفضل 4 فروری 1948ء صفحہ 1 فرمایا: اس اہم امر کو مصلح موعود کے انکشاف کے ساتھ باندھا گیا تھا اور پانچ سال یا اس کے ادھرادھر قریب زمانہ میں اس کا ظہور ہو گا یا ظہور کی علامات پیدا ہو جائیں.سردرد کی وجہ سے چونکہ چند دن میں برومائیڈ کھاتا رہا ہوں اس لئے مجھے سخت گہری نیند آتی ہے اسی وجہ سے وہ بات مجھے بھول گئی بہر حال اتنا یا د رہا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اور بات اس موجودہ انکشاف کے ساتھ مقدر ہے اور وہ ایسی ہی ہے جیسے لڑکے پتنگ اڑاتے ہیں تو پتنگ کے پیچھے ایک دھجی بندھی ہوئی ہوتی ہے اسی طرح ایک اہم واقعہ اس انکشاف کے ساتھ ازل سے خدا تعالیٰ نے باندھا ہوا ہے اور وہ واقعہ پانچ سال کے قریب یا اس کے بعد ہو گا رویا میں میں اپنی عمر کا بھی کچھ تعلق اس واقعہ سے وابستہ سمجھتا ہوں.یہ نہیں کہہ سکتا کہ مبشر رنگ میں یا منذر رنگ میں.ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض لوگوں کی منذر خوابوں کی بناء پر انکشاف کی دعا کی گئی تھی پس ممکن ہے کہ یہ بتایا گیا ہو کہ پانچ سال تک یہ واقعہ نہ ہو گا یا ممکن ہے کسی اور رنگ میں اس کا اس سے تعلق ہو بہر حال یہ حصہ وقت پر جا کر کھلے گا.الفضل 16.اپریل 1944ء صفحہ 2 266 مارچ 1944ء فرمایا : رویا میں ایک مضمون بار بار مجھ پر نازل ہوا وہ پورا مضمون تو مجھے یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ اس میں بار بار بیالس اور اڑتالیس کا لفظ آتا تھا.بیالیس کی تعبیر تو میری سمجھ میں نہیں آئی شاید بیالس سے مراد 1942ء ہی ہو جیسا کہ میں نے رویا کی تعبیر کرتے وقت خطبہ میں بھی بیان کیا تھا کیونکہ 1942ء میں جمعوں کے متواتر ایسے اجتماع ہوئے جو اسلام کی ترقی کی طرف توجہ دلاتے تھے (خطبہ کے بعد ایک دوست نے خط لکھا کہ شاید 1942ء سے مراد اوپر کی رؤیا کی طرف توجہ دلانا مقصود ہو اور بتایا گیا ہو کہ بیالس میں پانچ سال جمع کئے جائیں تو یہ واقعہ ظاہر ہو گا یعنی 1947ء میں اور 1948 ء میں خدا تعالیٰ اس تباہی سے بچنے کے سامان پیدا کرے گا) بہر حال اڑتالیس کا لفظ پنج سالہ زمانہ کی طرف توجہ دلا تا تھا یہ رویا میں نے مارچ 1944 ء میں دیکھی تھی
203 اور یہ پنج سالہ زمانہ مارچ 1949ء میں ختم ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی بار بتایا ہے.رؤیا کی تعبیر میں اگر پورا سال ہو تو اس کی کسر بھی ساتھ ہی شامل ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے کہ پانچ سال کی کسر بھی یعنی چھ ماہ اور ملا کر یہ پنج سالہ زمانہ اکتوبر 1949ء تک ہو بہر حال زیادہ سے زیادہ مدت 1949ء کے آخر تک ہے اور اگر پورے پانچ سال ہوں تو یہ زمانہ مارچ 1949ء میں ختم ہوتا ہے گویا 25 مارچ 1948ء کے بعد پانچواں سال شروع ہو جائے گا.الفضل 4.فروری 1948ء صفحہ 4 مارچ 1944ء 267 فرمایا : ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ جیسے فوجی سپاہیوں کی قطار ہوتی ہے اسی طرح بہت سے لوگ ایک قطار میں کھڑے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سب کو پریڈ کرا رہا ہے.میں بھی اسی جگہ ہوں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک لکیر کھینچی ہے اور فرمایا ہے کہ جو لوگ اس لکیر سے آگے گزر جائیں وہ جنتی ہوں گے.میں بھی آگے بڑھتے بڑھتے اس لکیر پر سے گذر گیا جب میں وہاں سے گزرا تو یکدم میرے منہ سے نکلا کہ میں بھی یہاں پہنچ گیا اور یہ کہتے ہی میری آنکھ کھل گئی.الفضل 10 مئی 1944 ء صفحہ 2 268 30 مارچ 1944ء فرمایا : میں نے پرسوں ایک عجیب رویا دیکھا جو جماعت کے متعلق ہے وہ بظا ہر منذ ر بھی ہے اور مبشر بھی معلوم ہوتی ہے.میں نے دیکھا کہ ایک جگہ ہماری جماعت کھڑی ہے مگر تھوڑے سے افراد ہیں اور میں انہی کو تمام جماعت کا قائم مقام سمجھتا ہوں رویا میں بعض دفعہ ایک چھوٹا سا نظارہ دکھایا جاتا ہے اور مراد اس سے بڑی جماعت ہوتی ہے اور بعض دفعہ بڑا نظارہ دکھایا جاتا ہے مگر مراد اس سے کوئی چھوٹا واقعہ ہوتا ہے رویا میں میں نے اپنی جماعت کے جو آدمی دیکھے وہ سات آٹھ تھے زیادہ نہیں.میں نے دیکھا کہ ان سات آٹھ آدمیوں نے ایک صف بنائی ہوئی ہے اور میں وہاں اس طرح کھڑا ہوں جس طرح انہیں پریڈ کرا رہا ہوں مگر یہ پریڈ اس طرح نہیں ہو رہی جس طرح فوجی پریڈ ہوتی ہے کہ پریڈ کرانے والا لیفٹ رائٹ لیفٹ رائٹ کرتا چلا جاتا
204 ہے بلکہ میں انہیں صرف اشارہ کرتا ہوں اور وہ میرے اشارہ پر حرکت کر کے ایک لائن میں کھڑے ہو جاتے ہیں.اس کے مقابل میں مجھے اور ایک جماعت بھی نظر آتی ہے اس وقت میرے ذہن میں یہ بات نہیں کہ وہ ملائکہ ہیں یا گذشتہ بزرگوں کی ارواح ہیں ان کے لباس ایسے ہی ہیں جیسے ہماری جماعت کے افراد کے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جیسے صوفیاء کہا کرتے ہیں کہ ہر انسان کا ایک ہم زاد ہوتا ہے اسی طرح وہ ہیں.شکل ان کی ویسی ہی ہے لیکن وہ ہلکے نظر آتے ہیں جیسے ان کے اور ہمارے درمیان کوئی ہلکا سا حجاب حائل ہو تا ہے جیسے ہلکی کہر ہوتی ہے جب میں ان کو اشارہ کرتا ہوں کہ اپنی صف سیدھی کرو تو دوسرا گروہ جس کی اتنی ہی تعداد ہے جتنی ہماری جماعت کے افراد کی اور جس کے ویسے ہی لباس ہیں جیسے ہمارے اور جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ شاید ارواح ہیں یا فرشتے ہیں وہ بھی میرے اشارہ پر اپنے آپ کو سیدھا کرتے ہیں.سیدھے ہونے کے لحاظ سے ان کی قطار بھی سیدھی ہے لیکن رویا میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ جس وقت ہماری جماعت کے افراد دوسری صف کے متوازی آجائیں گے اس وقت انہیں تکمیل حاصل ہو جائے گی.اس کے بعد میں نے جو آخری نظارہ دیکھا وہ یہ تھا کہ میں اس طرح کھڑا ہوں کہ میرا منہ جنوب کی طرف ہے دائیں طرف اپنی جماعت کھڑی ہے اور بائیں طرف ملائکہ یا بزرگوں کی ارواح ہیں جب میں اشارہ کرتا ہوں تو یہ بھی لائن بناتے ہیں اور وہ بھی لائن بناتے ہیں لیکن اصل چیز جس کا خواب میں مجھے احساس ہے وہ یہ ہے کہ ان کی لائن جب ان کی لائن کے متوازی ہو جائے گی تب جماعت کی روحیں مکمل ہوں گی.پس وہ آخری نظارہ جس کے بعد میری آنکھ کھل گئی یہ تھا کہ ہماری جماعت سیدھی لکیر میں تو کھڑی ہو گئی لیکن اس لائن کا دوسری سے کچھ معمولی سا فرق ہے.ہماری جماعت کے افراد نے جو یہ لائن بنائی ہے وہ بالکل سیدھی ہے مگر شمال سے جنوب کی طرف جاتی ہے اور وہ فرشتے یا ارواح جو دوسری طرف کھڑے ہیں انہوں نے جو لائن بنائی ہے وہ جنوب مغرب سے شمال مشرق کو جاتی ہے لیکن زاویہ کا فرق زیادہ نہیں.تھوڑا ہی ہے اس کے بعد میں پھر جماعت کے دوستوں کو اس زاویہ پر لانے کی کوشش کر رہا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ جب میں اپنی جماعت کو اس زاویہ پر لے آؤں گا تو پھر ان کی تکمیل ہو جائے گی.فرمایا : میں نے یہ رویا پرسوں دیکھی اور کل صبح ہی افریقہ سے مولوی نذیر احمد صاحب کا
205 مجھے خط ملا کہ وہاں اسلام کی ایک زبر دست رو چل رہی ہے اور بارہ مبلغوں کی سخت ضرورت ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہاں اسلام کی ترقی کے لئے جلد ہی کوئی تغیر پیدا کرنے والا ہے.الفضل 20.اپریل 1944ء صفحہ 2 2.اپریل 1944ء 269 فرمایا : پرسون صبح میری آنکھ کھلی تو میرے دل پر یہ الفاظ بطور القاء جاری تھے کہ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کس کے متعلق ہیں مگر یہ الفاظ ہیں بہت مبارک.اس آیت کا پہلا حصہ نہیں تھا صرف اتناہی فقرہ تھا.يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فرمایا وہ جو الہامی الفاظ تھے کہ يَدُ اللهِ فَوْقَ اَيْدِيهِمْ یہ دتی کے واقعہ کے متعلق معلوم ہوتے ہیں وہاں بالکل اسی طرح ہوا کہ ہمارے چار چار پانچ پانچ آدمیوں کے ذریعہ ان کے دودو چار چار سو آدمی پٹ گئے.الفضل 21 جولائی 1944ء صفحہ 1.نیز دیکھیں.الفضل 3.مئی 1944ء صفحہ 5 270 اپریل 1944ء فرمایا : میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ میں ایک سٹیشن پر کھڑا ہوں جس کے دو حصے ہیں مگر اس کی دوسری طرف نظر نہیں آتی.درمیان میں ایک کھڑکی کا پردہ ہے جو دونوں کو جدا کر رہا ہے مگر وہ پر وہ اس طرح کا ہے کہ کئی لکڑی کے ستون تر چھے گاڑے ہوئے نظر آتے ہیں نیچے سے تو دیوار بالکل بند ہے مگر اوپر جا کر جو لکڑیاں یا بالے ہیں ان میں ایک شگاف ہے اور اس شگاف میں سے ارم طاہر مجھے جھانک رہی ہے میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں نیم باز ہیں اور وہ دوسری طرف کھڑی ہو کر اس شگاف میں سے سٹیشن کے اس حصہ کی طرف دیکھ رہی ہیں.میں نے سمجھا کہ یہ در حقیقت اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد کا ایک نظارہ دکھایا ہے اور بتایا ہے کہ یہ سلسلہ متوازی چلتا چلا جا رہا ہے.الفضل 31.مئی 1944ء صفحہ 2
206 271 9.اپریل 1944ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا.ایک نوجوان میرے سامنے آیا ہے اور وہ مجھ سے کہتا ہے آپ صبح کی نماز میں کیوں نہیں آتے.میں نے اسے بتایا کہ میں تو اس وجہ سے نہیں آتا کہ صبح کے وقت مجھے اتنا ضعف ہوتا ہے کہ میں کھڑا ہو کر نماز بھی نہیں پڑھ سکتا بلکہ بیٹھ کر پڑھتا ہوں بلکہ میں نے کہا مجھ سے بعض دفعہ وضو بھی نہیں ہو سکتا اور تیسم سے نماز پڑھنی پڑتی ہے.ممکن ہے ہماری جماعت میں سے کسی شخص کے دل میں میرے متعلق ایسا خیال پیدا ہوا ہو اور اللہ تعالیٰ نے کشفی طور پر یہ نظارہ مجھے دکھا دیا ہو.الفضل 14 اپریل 1944ء صفحہ 3 272 ریل 1944ء فرمایا : ایک دفعہ میں اس امر کے متعلق تجارب کر رہا تھا کہ علم توجہ کے ماتحت کس طرح دو سروں پر اثر ڈالا جاتا ہے اسی دوران میں ایک تجربہ سانس کے متعلق بھی آگیا.میں نے اس وقت رویا میں دیکھا کہ جہاں آجکل حضرت اماں جان رہتی ہیں وہاں میں موجود ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اوپر کی منزل پر سے ایک کھڑکی میں سے جھانک رہے ہیں اور فرماتے ہیں محمود یہ نہیں کرنا اس سے سینہ کمزور ہو جاتا ہے.الفضل 10 مئی 1944ء صفحہ 5 نیز دیکھیں.الفضل 4.مئی 1960ء صفحہ 3 273 ایریل 1944ء فرمایا : ایک دفعہ رویا میں میں نے دیکھا کہ رمضان کے ایام ہیں.مجھے اب یاد نہیں کہ اس وقت رمضان کا ہی مہینہ تھایا کوئی اور مہینہ تھا غالب خیال یہی ہے کہ رمضان کا مہینہ نہیں تھا مگر مجھے رویا میں ایسا محسوس ہوا کہ گویا رمضان کا مہینہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی وہیں ہیں اور پاس ہی چار پائی پر ہماری والدہ صاحبہ ہیں اس وقت رویا میں میں اپنی عمر بڑی ہی سمجھتا ہوں مگر ہم سب اسی طرح اکٹھے ہیں جیسے ماں باپ سو رہے ہیں تو ان کے پاس بچوں کی بھی چار پائیاں ہوتی ہیں.اتنے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آگئے.آپ نے تہجد کی
207 نماز پڑھی اور پھر فرمایا لاؤ سحری کھالیں میں اس وقت دل میں کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو اگلے جہان چلے گئے تھے ہمیں کیا پتہ تھا کہ انہوں نے بھی روزہ رکھنا ہے اور ان کے لئے سحری تیار کرنا ضروری ہے مگر آپ کے اس کہنے پر میں نے فوراً اپنا کھانا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے رکھ دیا اور خود چپ کر کے بیٹھ گیا تا کہ آپ کو پتہ نہ لگے کہ میں نے کھانا نہیں کھایا چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سحری کھائی اور اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.الفضل 10.مئی 1944ء صفحہ 5 11.اپریل 1944ء 274 فرمایا : پرسوں میں نے ایک عجیب رویا دیکھا اسی دن میں نے اپنے بغلوں کے بال صاف کئے تھے مگر رات کو رویا میں میں نے دیکھا کہ میں اپنی بغلوں میں ہاتھ لگاتا ہوں تو مجھے وہاں اچھے لمبے بال نظر آتے ہیں رویا میں میں کہتا ہوں کہ میں نے تو آج ہی بغلوں کے بال صاف کئے تھے معلوم ہو تا ہے استرا نا قص تھا کہ بال صاف نہیں ہوئے.میں تو سمجھتا ہوں کہ بال صاف ہو گئے ہوں گے مگر وہ ابھی لمبے لمبے ہیں.فرمایا : میں نے تعبیر نامہ منگوا کر دیکھا تو اس میں لکھا تھا اگر کوئی شخص دیکھے کہ بغلوں کے بال بڑے بڑے ہیں تو اس کا مقصد پورا ہو جائے گا اسی طرح لکھا تھا جو شخص یہ خواب دیکھے اس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ وہ صحیح دین پر قائم ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے سخاوت کی توفیق ملتی ہے ( تعطیر الانام) الفضل 29.اپریل 1944ء صفحہ 2 275 12.اپریل 1944ء فرمایا : آج صبح جب میں اٹھا تو میرے دل پر الہامی طور پر یہ فقرہ جاری تھا جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں یہ بھی خاصی اہمیت رکھتا ہے کہ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا یہ الہام میرے قلب پر بار بار نازل ہوا اور بارہا اسے دہرایا گیا.الفضل 129اپریل 1944ء صفحہ 21
208 276 13 اپریل 1944ء فرمایا : آج میں نے ویسا ہی ایک رویا دیکھا جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک رویا ہے کہ خواب میں آپ نے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کو دیکھا اور ان سے کہا آپ میرے واسطے دعا کیا کریں کہ میری اتنی عمر ہو کہ سلسلہ کی تکمیل کے واسطے کافی وقت مل جائے.اس کے جواب میں انہوں نے کہا تحصیلدار.میں نے کہا.یہ آپ غیر متعلق بات کرتے ہیں جس امر کے واسطے آپ کو دعا کے لئے کہا ہے آپ وہ دعا کریں تب انہوں نے دعا کے واسطے سینہ تک ہاتھ اٹھائے مگر اونچے نہ گئے اور کہا ” اکیس " میں نے کہا.کھول کر بیان کرو مگر انہوں نے کچھ کھول کر بیان نہ کیا اور بار بار اکیس اکیس " کہتے رہے اور پھر چلے گئے ( تذکرہ صفحہ 527-528) میری ساری رؤیا تو نہیں مگر آج رات ایک لمبے عرصہ تک یہی رویا ذہن میں آکر بار بار یہ الفاظ جاری ہوتے رہے.اکیس اکیس " الفضل 29.اپریل 1944ء صفحہ 2 277 اپریل 1944ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک شہر میں ہوں غالبا وہ لاہور شہر ہے اور کسی دوائی کے لئے یا کوئی اور چیز لینے کے لئے میں ایک دکان پر گیا ہوں.مجھے اب یہ یقینی طور پر یاد نہیں رہا کہ میں دوائی لینے کے لئے گیا ہوں یا کوئی اور چیز لینے کے لئے مگر خواب کے اگلے حصہ سے معلوم ہوتا ہے کہ میں دوائی لینے کے لئے ہی گیا ہوں جب میں وہاں پہنچا تو دکاندار میری بات سن کر ایک اور شخص کو میرے پاس لایا اور اسے میرے ساتھ انٹروڈیوس کرایا.معلوم ہوتا ہے وہ شخص اس کا دوست ہے اور اس کی دکان پر اکثر جاتا رہتا ہے اور وہ بھی لاہور کا ہی رہنا والا ہے دکاندار نے مجھے اس شخص سے یہ کہہ کر انٹروڈیوس کرایا کہ یہ ڈاکٹر سید ممتاز حسین صاحب ایم بی بی ایس ہیں.ایک منٹ کے بعد اس جگہ ایک اور نوجوان آیا جس کا عنفوان شباب معلوم ہوتا ہے گول چہرہ ہے سانولا رنگ ہے اور اس کی داڑھی کے چھوٹے چھوٹے بال نکلے ہوئے ہیں جیسے اس کی داڑھی ابھی نکل ہی رہی ہو یا جیسے ایک دو دن کوئی شیو نہ کرائے تو اس کے چہرہ پر چھوٹے چھوٹے بال نکل آتے ہیں اسی طرح اس کے چہرہ پر چھوٹے چھوٹے بال ہیں جب وہ اس دکان میں آیا تو دکاندار مجھے اس نوجوان کے متعلق کہتا ہے
209 یہ بھی ڈاکٹر ہیں اور اس کی میرے ساتھ ملاقات کراتا ہے.خواب میں میں ایسا سمجھتا ہوں کہ یہ دوسرا نوجوان غالباً اسی دکاندار کا بیٹا ہے.اس کے بعد وہ مجھے کہتے ہیں آپ ذرا لیٹ جائیں تاکہ ہم آپ کا پیٹ دیکھ لیں گویا دوست بن کر انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ ذرا لیٹ جائیں ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا مرض ہے یا مرض کا سبب کیا ہے.مجھے اس وقت اچنبھا سا ہوا کہ دکاندار کو اس بات سے کیا غرض ہو سکتی ہے کہ وہ کسی کا پیٹ ٹولے اور اس کا مرض معلوم کرے اس کا کام تو صرف اتنا ہے کہ جو دوائی اس سے مانگی جائے وہ دے دے.اس کا کام یہ تو نہیں کہ جب اس سے کوئی دوائی لینے کے لئے آئے تو وہ اسے یہ بھی کہے کہ آؤ میں تمہاری بیماری معلوم کروں مگر پھر میں سمجھتا ہوں چونکہ اس کا بیٹا بھی ڈاکٹر ہے اور دوسرا شخص بھی ڈاکٹر ہے اس لئے شاید ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے انہیں احساس پیدا ہوا کہ مجھے دیکھ لیں وہاں ایک چھوٹی سی چارپائی پڑی ہے میں اس پر ذرا ٹیڑھا ہو کر لیٹ گیا.انہوں نے میرے پیٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا اور جگر کے نچلے حصے اور انتڑیوں کے اوپر کے حصے کو ہاتھ سے ٹول کر دیکھا پہلے ڈاکٹر سید ممتاز حسین نے مجھے دیکھا اس کے بعد لڑکے نے.مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے اس لڑکے کا نام بھی مجھے بتایا یا نہیں.بہر حال جب وہ دیکھ چکے تو اس کے بعد میں اٹھا لیکن اس وقت مجھے یہ عجیب بات نظر آئی کہ میرا بٹوہ جیب سے نکل کر باہر پڑا ہوا ہے اور کھلا ہے اس وقت میں کہتا ہوں.اوہو.ان کی غرض تو مجھے لٹانے کی یہ تھی کہ جب میں کوٹ اتار کر لیٹ جاؤں تو یہ مجھے کوئی نقصان پہنچائیں میں اس وقت خیال کرتا ہوں کہ شاید اس میں سے کچھ نوٹ غائب ہیں.ساتھ ہی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ صرف مالی نقصان ہی نہیں یہ لوگ مجھے جسمانی نقصان بھی پہنچانا چاہتے تھے.چنانچہ میں نے جلدی سے ہوا اپنی جیب میں ڈال لیا اور کوٹ کو بجائے پہننے کے اپنے ہاتھ میں ہی پکڑ کر باہر نکل آیا.والله اعلم اس نام کا کوئی آدمی لاہور میں ہے یا نہیں اور اس کے کسی اس قسم کے دکاندار سے دوستانہ تعلقات بھی ہیں یا نہیں بہر حال خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں ممکن ہے تعبیر ظاہر کے مطابق نہ ہو بلکہ اس میں کوئی مخفی راز ہو اور نام سے بھی کسی اور طرف اشارہ ہو.الفضل 29.اپریل 1944ء صفحه 1
210 278 ایریل 1944ء فرمایا : رویا میں میں نے ایک دفعہ شیطان بھی دیکھا تھا.میں نے دیکھا کہ میں لیٹا ہوا ہوں کہ ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا تمہیں بتاؤں شیطان کس طرح حملہ کرتا ہے میں نے کہا بتاؤ اس نے ایک بلی نکالی جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں وہ ابلیس ہے اور اسے کچھ اشارہ کیا وہ بلی میرے پاؤں سے اوپر کی طرف چڑھنی شروع ہوئی جب وہ ٹخنوں سے کچھ اوپر پہنچی تو فرشتہ نے مار کر وہ بلی ہٹادی اور مجھے کہا شیطان جب انسان پر حملہ کرتا ہے تو ابتداء میں تھوڑی دور تک ہی چلتا ہے اور چونکہ انسان کی اس کے ساتھ مناسبت نہیں ہوتی اس لئے فطرت انسانی اس کے مقابلہ کے لئے کھڑی ہو جاتی ہے جب فطرت شیطان کے حملے کا مقابلہ کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو حکم ہوتا ہے کہ وہ بندے کی مدد کریں چنانچہ وہ اس طرح مارتے ہیں جس طرح میں نے بلی کو مارا ہے اور وہ پرے جاپڑتا ہے.تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر اسے اشارہ کرتا ہے اور بلی میرے پاؤں پر چڑھنا شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ پنڈلی تک چڑھ جاتی ہے وہ فرشتہ پھر اسے مار کر پرے ہٹا دیتا ہے اور کہتا ہے دوسری دفعہ شیطان پھر انسان پر حملہ کرتا ہے کیونکہ اس کا کام ہی حملہ کرنا ہے اور چونکہ اب اس کا شیطان سے مس ہو چکا ہوتا ہے اس لئے وہ کمزور انسان اس کا اتنا مقابلہ نہیں کر سکتا جتنا مقابلہ اس نے پہلی دفعہ کیا تھا یہاں تک کہ وہ پنڈلی تک چڑھ جاتا ہے اس پر پھر انسان کے دل میں شیطان کے مقابلے کا جوش پیدا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ شیطان کو ہٹا دیں چنانچہ ہم پھر اسے مارتے ہیں یہ کہہ کر وہ بلی کو پھر ہاتھ سے مارتا ہے اور وہ دور پرے جاپڑتی ہے.اس کے بعد وہ پھر اسے اشارہ کرتا ہے اور اب کی دفعہ بلی اوپر چڑھتے چڑھتے گھٹنوں تک پہنچ جاتی ہے فرشتہ بتاتا ہے کہ اب چونکہ نفس کو شیطان سے اور مناسبت پیدا ہو جاتی ہے اس لئے وہ کچھ اور اونچا چلا جاتا ہے مگر پھر انسان اس کے مقابلہ کا ارادہ کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ بندے کی مدد کریں اور شیطان کو اس سے دور کریں چنانچہ وہ کہتا ہے اس پر ہم پھر اسے یوں مارتے ہیں یہ کہہ کر وہ پھر بلی کو زور سے مارتا ہے اور وہ پرے جاپڑتی ہے اسی طرح کرتے کرتے آخری دفعہ بلی میری ناف تک پہنچی اس پر وہ کہتا ہے جب شیطان پھر حملہ کرتا ہے تو انسانی فطرت میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ میں تو اب شیطان سے بالکل دینے لگا ہوں چنانچہ وہ پھر اس کے مقابلہ کی جد وجہد کرتا
211 ہے اور پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ جاؤ اور میرے بندے کی مدد کرو چنانچہ ہم آتے اور اسے زور سے مار کر پرے ہٹا دیتے ہیں چنانچہ یہ کہتے ہی اس.نے زور سے اس بلی کو جھٹکا دے کر علیحدہ کیا کہ اس کا سر ایک دیوار سے ٹکرایا اور معلوم ہوا جیسے اس کا سر شیخ دیا گیا ہے.الفضل 23.جون 1944ء صفحہ 21 ایریل 1944ء 279 فرمایا : ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا کہ شیطان میرے پاس آیا ہے اور اس نے شدت سے میرا گلا گھوٹنا شروع کر دیا ہے لیکن میں اسے مارتا ہوں ہٹاتا ہوں مگر وہ کسی طرح بھی ہٹنے میں نہیں آتا.آخر میں لاحول پڑھتا ہوں جس سے وہ کمزور ہو کر الگ ہو جاتا ہے مگر پھر مجھ پر حملہ کر دیتا ہے میں پھر لا حول پڑھتا ہوں تو وہ پھر علیحدہ ہو جاتا ہے مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ سہ بارہ مجھ پر حملہ کر دیتا ہے اس پر خواب میں ہی کہتا ہوں آؤ.اب اَعُوذُ پڑھیں چنانچہ میں اَعُوْذُ پڑھتا ہوں تو شیطان بھاگ جاتا ہے.فرمایا : پہلی رؤیا سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ شیطان فرشتوں کا تابع ہے ایسی زبردست چیز نہیں جو ان کے قبضہ سے باہر ہو پس جو ملائکہ سے تعلق پیدا کرے اس میں شیطان کے مقابلہ کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ ملائکہ اس کی مدد کرتے ہیں.فرمایا : اَعُوذُ سے میں لاحَولَ کا ذکر اس لئے بہتر خیال کرتا ہوں کہ اَعُوذُ میں انسان کہتا ہے میں ایسا کرتا ہوں گو یا کسی قدر انانیت اس میں پائی جاتی ہے مگر لاحول میں کوئی انانیت نہیں پائی جاتی بلکہ انسان اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے عجز اور اپنی بے کسی کا کامل طور پر اعتراف کرتا ہے پس عقلی طور پر میں اب بھی لاحول کو اَعُوذُ سے بڑھ کر سمجھتا ہوں مگر رویا میں جہاں لا حول بیکار ہو ا وہاں اَعُوذُ سے فائدہ ہوا.الفضل 23 جون 1944ء صفحہ 2.نیز دیکھیں.الفضل 6.نومبر 1948ء صفحہ 163 اکتوبر 1962ء صفحہ 3 280 اپریل 1944ء فرمایا : میری عادت نہیں کہ میں کسی کے متعلق بددعا سے کام لوں چاہے کوئی کیسا ہی شدید دشمن
212 ہو میں نے اس کے متعلق کبھی بددعا نہیں کی اور اگر کسی وقت کوئی کلمہ جوش کی حالت میں میری زبان سے نکل جائے تو میں بعد میں ضرور دعا کیا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان الفاظ کو اس کے حق میں دعا بنا دے مگر آج رات یہ الہامی فقرہ مجھ پر نازل ہوا کہ اے خدا میرے دشمن سے انتقام لے اس وقت دشمن کے معنے میری سمجھ میں یہ آئے کہ اس سے مراد کوئی ایسا شخص ہے جو سردار ہے اور جس کے ماتحت بعض اور لوگ بھی ہیں یہ معلوم نہیں ہوا کہ اس سے کون شخص مراد ہے مگر الفاظ یہی تھے کہ اے خدا میرے دشمن سے انتقام لے یہ خدائی فقرہ ہے میرا نہیں.اس لئے میرا جو اصول ہے کہ میں کسی کے لئے بد دعا نہیں کرتا وہ بہر حال قائم ہے الہام نازل ہوتے وقت کوئی دشمن میرے ذہن میں نہیں تھا.صرف اتنا جانتا تھا کہ وہ اکیلا دشمن نہیں بلکہ ایک لیڈر ہے جس کے ماتحت اور لوگ بھی ہیں.فرمایا : رؤیا یا الہام یا کشف میں جو دعا بتائی جائے اس کے الفاظ کو دعائیہ ہوتے ہیں مگر مراد اس سے کوئی پیشگوئی ہوتی ہے یہ نہیں ہوتا کہ وہ صرف دعا ہو.پیشگوئی نہ ہو.پس اس الہام سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دشمن جس کے ماتحت اور لوگ بھی ہوں کسی الہی گرفت میں آنے والا ہے.واللہ اعلم اس سے کون مراد ہے.الفضل 29.اپریل 1944ء صفحہ 2 281 ایریل 1944ء فرمایا : کل ایک عجیب رویا دیکھا دو مکان مجھے خواب میں نظر آئے وہ چھوٹے چھوٹے ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے میں نے وہ مکان خریدے ہیں میں نے رویا میں ان کی عمارت نئے سرے سے بنتی دیکھی ہے گو وہ ہیں چھوٹے چھوٹے.ساتھ ہی دل میں خیال گزرتا ہے کہ میں نے دو تجارتی کاموں میں حصہ لیا ہے.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اس میں اندازی پہلو بھی ہے اور تبشیری بھی.الفضل 29.اپریل 1944ء صفحہ 2
213 282 ابریل 1944ء فرمایا : میں نے کشفی حالت میں یہ نظارہ دیکھا کہ گویا آسمان کے فرشتوں کی آوازیں سن رہا ہوں مجھے بہت دفعہ کشفی حالت میں ملاء اعلیٰ کی آوازیں سننے کا موقع ملا ہے کل بھی ایسا ہی ہوا اور میں نے آسمان کے فرشتوں کو دیکھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک شعر پڑھ رہے ہیں مگر کچھ تغیر کے ساتھ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شعر ہے یا رو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا : یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا مگر میں خواب میں فرشتوں کے پڑھنے کی جو آواز سنتا ہوں اس میں پہلے دو لفظ بدلے ہوئے ہیں یعنی فرشتے بجائے یہ کہنے کے کہ "یا رو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آچکا.یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا یہ کہتے ہیں کہ ”سوچو جو شخص آنے کو تھا وہ تو آچکا.یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا.اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ تبدیلی اس زمانہ کے لحاظ سے نہایت مناسب ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ شعر کہا اس وقت ہمارے سلسلہ کا ابتدائی زمانہ تھا اور لوگوں کو اس رنگ میں اپیل کرنا مناسب تھا مگر اب وہ زمانہ گزر چکا اور اب سلسلہ کی ترقی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ لوگوں کو سوچنا چاہئے اور اس بارہ میں انہیں غور و فکر کرنا چاہئے کہ جس شخص نے آنا تھا وہ تو آچکا ہے.چنانچہ میں نے سنا کہ فرشتے کہہ رہے ہیں سوچو جو شخص آنے کو تھاوہ تو آچکا.یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا.فرشتے اس شعر کو بہت بلند آواز سے اور بڑی رسیلی اور سریلی آواز میں پڑھ رہے ہیں اور میں سن رہا ہوں اس کے بعد مجھ پر ایک الہام نازل ہو ا جس نے میرے ہوش اڑا دئیے وہ الہام یہ تھا جو خود ایک مصرعے کی شکل میں ہے کہ Q روز جزاء قریب ہے اور راہ بعید ہے بڑے زور سے یہ الہام مجھے پر نازل ہوا اور بار بار اس کو دہرایا گیا اس الہام کے اور معنے بھی ہو سکتے ہیں مگر میں نے اس وقت جو اس الہام کے معنے سمجھے وہ یہ ہیں کہ وہ تغیرات عظیمہ جس کا پیشگوئیوں میں ذکر تھا اور وہ اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے ایام جن کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی تھی بالکل قریب آپہنچے ہیں روز جزاء اب سر پر کھڑا ہے قدرت کا زبردست ہاتھ اس دن کو اب قریب تر لا رہا ہے مگر راہ بعید ہے " جماعت نے اس آنے والے دن کے لئے ابھی وہ "
214 تیاری نہیں کی جو اسے کرنی چاہئے تھی اور ابھی اس نے وہ مقام حاصل نہیں کیا جو اس عظیم الشان یوم جزاء کے انعامات کا اسے مستحق بنانے والا ہو اس کے لئے ابھی بہت بڑا اور لمبا راستہ پڑا ہے اسے طے کرنا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” روز جزاء قریب ہے ".جو معنے اس وقت میں نے سمجھے وہ یہی تھے کہ " روز جزاء قریب ہے " کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم پر اسلام خدا تعالیٰ اور احمدیت کے غلبہ کے متعلق جو وعدے فرمائے ہیں ان کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے.آسمان پر فرشتوں کی فوجیں اس دن کو لانے کے لئے تیار کھڑی ہیں مگر جو کوشش تم کر رہے ہو وہ بہت ہی حقیر اور ادنی اور معمولی ہے جب ہم نے اپنے فضل کا دروازہ کھول دیا ، جب آسمان سے فرشتوں کی فوجیں زمین میں تغیر پیدا کرنے کے لئے نازل ہو گئیں ، جب کفر کی بربادی کا وقت آپہنچا جب اسلام کے غلبہ کی گھڑی آگئی تو اس وقت اگر تم پوری طرح تیار نہیں ہو گے تم نے اپنے اندر کامل تغیر پیدا نہیں کیا ہو گا، تم نے اپنی اصلاح کی طرف پوری توجہ نہیں کی ہوگی تو نتیجہ یہ ہو گا کہ تم اس دن سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جاؤ گے اور اسلام کی دائمی ترقی میں روک بن جاؤ گے.الفضل 27 اپریل 1944 ء صفحہ 6-7 نیز دیکھیں الفضل 14 مارچ 1946ء صفحہ 7 - 3 فروری 1947ء صفحہ 2.11 جولائی 1960ء صفحہ 3 283 فرمودہ 26.اپریل 1944ء فرمایا : میں نے زیادہ تر خداتعالی کو نور کی شکل میں دیکھا ہے کبھی اللہ تعالیٰ کی تجلی بجلی کی تیز روشنی کی طرح مجھے دکھائی دی ہے.مگر اس میں اسی قسم کی تیزی اور حدت نہیں ہوتی جیسے بجلی کی سی روشنی میں ہوتی ہے بلکہ وہ روشنی اپنے اندر ایک سکون اور راحت رکھتی ہے اور کبھی اللہ تعالیٰ کو میں نے ایک نور کے ستون کی شکل میں دیکھا ہے جسے دیکھ کر آنکھیں راحت پاتی تھیں بہر حال میں نے اللہ تعالیٰ کو ان صورتوں میں زیادہ دیکھا ہے بہ نسبت انسانی شکلوں میں دیکھنے کے.الفضل 31.اکتوبر 1944 ء صفحہ 2 284 26.اپریل 1944ء فرمایا : رات کو ایک منذر کلام مجھے معلوم ہوا ہے مجھے اس شخص کا پتہ ہے مگر میں اس کا نام
215 نہیں لیتا وہ ہمارے عزیزوں میں سے ہی ہے مجھے رات کو یہ نظارہ دکھایا گیا کہ وہ کہہ رہا ہے انگلی بھی کٹ گئی اور مرغی بھی ذبح ہو گئی “ اللہ تعالیٰ کا جو کلام ہوتا ہے اس میں بڑی فصاحت پائی جاتی ہے اس فقرہ میں بھی عجیب مضمون بیان کیا گیا ہے انسان مرغی کو جب ذبح کرنے لگتا ہے تو بعض دفعہ غلطی سے انگلی سامنے آکر کٹ جاتی ہے مگر اس وقت فقرہ کی ترتیب بالکل اور ہوتی ہے اس وقت انسان یہ کہا کرتا ہے مرغی تو ذبیح ہو گئی مگر میری انگلی بھی کٹ گئی.گویا وہ مرغی تو ذیح کرنا چاہتا تھا مگر یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی انگلی کٹے لیکن فقرہ بتا تا ہے کہ مرغی سے جانور نہیں بلکہ انسانی جان مراد ہے کیونکہ الفاظ یہ ہیں.انگلی بھی کٹ گئی اور مرغی بھی ذبح ہو گئی گویا دونوں باتیں ہو گئیں حالانکہ وہ نہ مرغی ذبیح کرنا چاہتا ہے نہ یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی انگلی کئے.جب انسان یہ کہتا ہے کہ مرغی ذبح کرتے ہوئے میری انگلی کٹ گئی تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ان میں سے ایک چیز خود چاہتا تھا وہ خواہش رکھتا تھا کہ مرغی ذبح ہو جائے مگر یہ نہیں چاہتا تھا کہ انگلی کٹے لیکن اس فقرہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ مرغی ذبح کرنا چاہتا تھا اور نہ انگلی کٹوانا چاہتا تھا گویا دونوں کا طالب نہیں تھا لیکن انگلی بھی کٹ گئی اور مرغی بھی ذبح ہو گئی یعنی دو نقصان پہنچے ایک انگلی کے کٹنے کے رنگ میں اور ایک گھر کی جان جانے کے رنگ میں.انگلی کٹنے سے مراد یہ ہے کہ انگلی ہاتھ کی طاقت کی علامت ہوتی ہے.پس انگلی کٹنے کے معنے یہ ہیں کہ علاوہ ایک جان ضائع ہونے کے طاقت و قوت کو بھی نقصان پہنچ جائے گاورنہ وہ مرغی جس کو انسان ذبیح کرنا چاہتا ہے اس میں تو وہ خود خواہش مند ہوتا ہے کہ مرغی ذبح ہو اور وہ اس کے ذبح ہونے پر افسوس نہیں کیا کرتا صرف انگلی کٹنے کا اسے افسوس ہوتا ہے.الفضل 29.اپریل 1944ء صفحہ 2 285 26 اپریل 1944ء فرمایا : دوسرا ایک الہام ہے جو اپنے اندر بڑی بشارت رکھتا ہے گو اس میں فکر کا پہلو بھی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ ایک ذمہ داری عائد کی گئی ہے اور ذمہ داری بہت کم لوگ ادا کیا کرتے ہیں بہر حال آج رات مجھے یوں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ مجھے مخاطب کر کے فرماتا ہے.
216 اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کر لو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی " گویا اسلامی فتوحات جو آئندہ ہونے والی ہیں ان میں عورتوں کی اصلاح کا بہت بڑا دخل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر اس کے فضل و کرم سے جماعت کی پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح ہو جائے یا شاید قادیان کی عورتیں مراد ہوں تو ترقی اسلام کے سامان مہیا ہو جائیں گے.الفضل 29.اپریل 1944ء صفحہ 2.3 286 ابریل 1944ء فرمایا : ایک دفعہ کشف میں مجھے دکھایا گیا کہ سخت بارش ہوئی اور تمام مکانات اندر سے گیلے ہو گئے اس کے بعد ایک زلزلہ آیا تو میں نے کہا کہ جس جس مکان کی طرف میں اشارہ کروں گا وہ مکان نہیں کرے گا.پھر میں نے کہا کہ یہ کام تو خدا کا ہے مجھے بتایا گیا اور میں نے خود جواب دیا کہ خدا نے اپنی خدائی میرے سپرد کر دی اب جس مکان کو میں اشارہ کروں گا وہ ہرگز نہیں کرے گا.الفضل 25.نومبر 1944ء صفحہ 1 287 ابریل 1944ء فرمایا : رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میں نے اس طرح دیکھا کہ ایک دفعہ مجھے رویا ہوا کہ ایک جگہ پر ہم سب بیٹھے ہیں ہماری سیمیں مشرق کی طرف ہیں اور منہ مغرب کی طرف.سامنے ایک کرسی بچھی ہے اور کہا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف لائیں گے اور اس کرسی پر بیٹھیں گے مگر دیر ہو گئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تشریف نہیں لائے.تھوڑی دیر کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ جنوب کی طرف سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چلے آرہے ہیں اور معامیں نے دیکھا کہ شمال کی طرف سے حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام بھی آرہے ہیں اور دونوں اس کرسی کی طرف بڑھ رہے ہیں یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس کرسی کی طرف آرہے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بھی اسی کرسی کی طرف آرہے ہیں مجھے یہ دیکھ کر دل میں گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے کہ کرسی تو ایک ہے دونوں اس پر کس طرح بیٹھیں گے مگر اس وقت مجھے یہ خیال نہیں آتا
217 کہ میں اٹھ کر ایک اور کرسی لے آؤں اور اسے پہلی کرسی کے ساتھ بچھا دوں.صرف گھبراہٹ کا اظہار کرتا ہوں کہ اب کیا ہو گا اور جوں جوں وہ کرسی کے قریب پہنچتے چلے جاتے ہیں میری گھبراہٹ بھی بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دونوں کرسی کے قریب پہنچ گئے اور دونوں نے اپنے جسم کو ذرا ٹیڑھا کر کے اس کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کی تب مجھے اور گھبراہٹ پیدا ہوئی مگر تھوڑی دیر کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ ان کے دھڑ ایک دوسرے میں داخل ہونے شروع ہوئے اور جب کرسی پر بیٹھ گئے تو دو نہیں بلکہ ایک ہی وجود نظر آنے لگا.الفضل 10.مئی 1944ء صفحہ 4 نیز دیکھیں.الفضل 30.جنوری 1945ء صفحہ 5 اور تفسیر کبیر جلد ششم جزو چهارم نصف اول صفحہ 527-528 288 یکم مئی 1944ء فرمایا : تین دن ہوئے پیر اور منگل کی درمیانی رات میں نے ایک رؤیا دیکھا.معلوم ہوتا ہے جماعت کے لئے کوئی ابتلاء مقدر ہے مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے کسی جگہ احمدیوں کا اجتماع ہے جلسہ تو میں نے نہیں دیکھا اور کوئی تقریر ہوتے بھی نہیں دیکھی مگر احمد یوں کا ایک جگہ پر اجتماع نظر آیا.پھر میں نے دیکھا کہ کسی جگہ پر غیر احمدی بہت بڑی تعداد میں جمع ہیں اور ان کا بڑا و سیع ہجوم ہے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ غیر احمدی حملہ آور ہوئے ہیں اور ہماری جماعت کے افراد اتنے کمزور اور اس قدر بے تیاری کے ہیں کہ انہوں نے حملہ کر کے ان کو مغلوب کر لیا ہے اور انہیں مارا پیٹا ہے.بعد میں معلوم ہوا ہے کہ کچھ عورتیں بھی احمدیوں کے اجتماع میں تھیں.اس وقت مجھ سے بعض نے بیان کیا کہ ان کی لاتوں پر سوٹیاں ماری گئی ہیں.فرمایا : میں نے اس رویا میں دیکھا کہ میں تو اس جگہ سے جو قادیان کے مغرب میں جنوب کی طرف مائل علاقہ میں ہے خیریت سے واپس آگیا ہوں مگر باقی لوگ جو پیچھے آئے ہیں معلوم ہوتا ہے ان کو لوگوں نے مارا ہے.الفضل 11.مئی 1944 ء صفحہ 1 289 4.مئی 1944ء فرمایا : آج رات میں نے ایک اور رویا دیکھی جو عجیب قسم کی ہے کہ اس کی تعبیر اس وقت
218 تک سمجھ میں نہیں آئی.اس رویا سے میرے دل میں بہت افسردگی ہے.میں نے دیکھا کہ کوئی شخص ہے جو کسی غیر مذہب کا آدمی معلوم ہوتا ہے لیکن جس جگہ پر وہ ہے اس جگہ پر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے احمدیوں کی حکومت ہے اور اس کے متعلق حکومت نے کوئی فیصلہ کیا ہے.اس شخص نے کوئی سیاسی جرم کیا ہے ایسا معلوم ہو تا ہے کہ وہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے اس جرم کی بناء پر حکومت نے اس کے خلاف فیصلہ صادر کیا اور اس کے لئے کوئی سزا تجویز کی ہے جیسے حکومت سے غداری کرنے پر مجرم کو پھانسی یا موت کا حکم دیا جاتا ہے اسے پھانسی کا تو حکم نہیں دیا گیا مگر حکومت کی طرف سے کوئی سزا اس کے لئے ضرور تجویز کی گئی ہے.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ چند لوگوں نے حکومت کی طرف سے اس کو پکڑا ہوا ہے اور وہ اس طرح اس کے پیٹ کی کھال چیر رہے ہیں جس طرح بکرے کی کھال اتاری جاتی ہے اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ شخص جسے سزا مل رہی ہے کہہ رہا ہے (مجھے اس کا فقرہ تو صحیح طور پر یاد نہیں مگر اس کا مفہوم یہ تھا کہ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کی گورنمنٹ اس پر اعتراض کرے گی.میں بھی اسی جگہ ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں احمدیوں کی حکومت ہے.جب اس نے یہ کہا کہ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کی گورنمنٹ اس پر اعتراض کرے گی تو میں کہتا ہوں یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہے یہ جنوبی امریکہ کا علاقہ ہے یہ مراد نہیں کہ سارا جنوبی امریکہ بلکہ مراد یہ ہے کہ جنوبی امریکہ کا کوئی ٹکڑا) اور اس علاقہ پر احمدیوں کی حکومت ہے.اس کے بعد میں پھر دیکھتا ہوں کہ لوگ اس کے پیٹ کو چیرتے ہیں مگر وہ اسے دائیں طرف سے چیر رہے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اس کی کھال ادھیڑی جا رہی ہے مگر وہ بڑے صبر اور استقلال سے اس تمام تکلیف کو برداشت کر رہا ہے وہ جانتا ہے کہ چونکہ یہ لوگ میرا پیٹ چاک کر رہے ہیں اس لئے تھوڑی دیر کے بعد ہی میری موت واقع ہو جائے گی چنانچہ وہ اس وقت کہتا ہے.” میری تجهیز و تکفین غیر مذاہب والوں کی طرح نہ کرنا جب وہ یہ فقرہ کہتا ہے تو مجھ پر سخت کرب کی حالت طاری ہو جاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ تو کوئی ایسا شخص تھا جو دل سے مسلمان تھا چنانچہ میں اس سے کہتا ہوں ”کیا تم دل میں مسلمان
219 ہو و اس پر وہ ایسے رنگ میں سر ہلاتا ہے جیسے کہتا ہو ہاں.اس کے اس فقرہ کے کہنے سے میرے دل میں محبت کا سخت جوش پیدا ہوا اور مجھے افسوس ہوا کہ اس کے متعلق حکومت کی طرف سے جو فتویٰ دیا گیا تھا وہ معلوم ہوتا ہے غلط تھا.چنانچہ میں اس وقت جوش میں اس کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو جاتا ہوں اور بڑے جوش سے کہتا ہوں.اگر مجھے پتہ ہو تاکہ تم دل سے مسلمان ہو تو میں تمہاری حکومت یہاں قائم کر دیتا پھر مجھے اور جوش پیدا ہوتا ہے اور میں کہتا ہوں اگر مجھے پتہ ہو تاکہ تم دل سے مسلمان ہو تو ہم سارے تمہارے ماتحت آجاتے.پھر میں اور زیادہ زور دیتا ہوں اور کہتا ہوں اگر مجھے پتہ ہوتا کہ تم دل سے مسلمان ہو تو ہم تو تمہاری غلامی سے بھی احتراز نہ کرتے.مگر وہ خاموش رہا اور اس کے جواب میں کچھ نہیں کہا.اس کے بعد میں نے یہ نظارہ دیکھا کہ آہستہ آہستہ اس کے چہرہ میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوئی اور تھوڑی دیر میں ہی اس کی شکل ام طاہر کی سی بن گئی.اس وقت میرے دل میں بڑا درد پیدا ہوا اور میں نے اس کے سرہانے کھڑے ہو کر دعا کی یا اللہ اس کو بچالے.مجھے اس وقت یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک مرد کی شکل عورت کی شکل میں کس طرح تبدیل ہو گئی اور وہ ام طاہر کی صورت میں.اس وقت رویا میں معین شکل میں اسے ام ظاہر نہیں سمجھتا لیکن یہ ضرور ہے کہ ام طاہر کی طرح اس کی شکل ہو گئی ہے لیکن پھر بھی خواب میں میرے لئے یہ کوئی اچنبھے کی بات معلوم نہیں ہوتی اس وقت دعا کرتے ہوئے کہتا ہوں الہی تو ان کی جان بچالے.اس دعا سے پہلے اس نے کوئی بات نہیں کی سوائے اس پہلے فقرہ کے کہ میری تجهیز و تکفین غیر مذاہب والوں کی طرح نہ کرنا مگر جب میں یہ دعا کرتا ہوں کہ الہی تو ان کی جان بچالے تو جیسے عورت بعض دفعہ ناز سے ٹھنک کر بات کرتی ہے اسی طرح اس نے ٹھنک کر کہا اوہوں او ہوں.یعنی یہ کیا دعا کرتے ہو پھر اس نے سر ہلایا جس کا مطلب یہ ہے کہ میری زندگی کے لئے دعا نہ کرو اس کے بعد میں نے دیکھا کہ اس کی شکل اُتم طاہر کی شکل میں پوری طرح تبدیل ہو گئی اور جب مجھے معلوم ہو تا ہے کہ یہ ام طاہر ہیں تو میں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا خدا تمہاری روح پر فضل نازل کرے تمہاری روح پر برکتیں نازل کرے.خدا تمہاری روح پر بڑی بڑی رحمتیں نازل کرے اور میں نے دیکھا کہ وہ
220 بڑے سکون اور اطمینان سے لیٹی ہوئی ہیں پھر خواب میں ہی جگہ بدل جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اس وجود کی چار پائی اماں جان کے صحن میں ہے اس صحن کے پاس ہی ایک کمرہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت تو اس میں آدمی رہتے تھے مگر آج کل غسل خانہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے میں اس کمرہ کی طرف جاتا ہوں تو راستہ میں میں نے انو ریا طاہر کو دیکھا.میں نے اسے چار پائی کے پاس کھڑا کر دیا اور کہا پیٹ چاک ہو تو بعض دفعہ کتے بو سونگھ کر حملہ کر دیتے ہیں اس لئے تم چارپائی کے پاس کھڑے رہو اور پہرہ دو.اس کے بعد میں اس کمرے میں گیا ہوں وہاں میں نے بعض عورتوں کو دیکھا.میرے جانے پر وہ کھڑی ہو گئی ہیں ان میں میں نے اپنی لڑکی امتہ الباسط کو بھی دیکھا اسی طرح سیٹھ غلام غوث صاحب حیدر آبادی کی ایک نواسی ہے جس کا نام رشیدہ ہے میں نے دیکھا کہ وہ بھی اسی جگہ کھڑی ہے مگر باوجود اسے پہنچانے اور یہ علم رکھنے کے کہ یہ رشیدہ ہی ہے میں کہتا ہوں اس کا نام امتہ الحفیظ ہے حالانکہ امتہ الحفیظ ان کی اس بیٹی کا نام ہے جو خلیل احمد صاحب ناصر سے بیاہی گئی ہیں شکل بھی رشیدہ کی ہی ہے مگر میں کہتا ہوں کہ یہ امتہ الحفیظ ہے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.فرمایا : اگر اس خواب میں جنوبی امریکہ کے کسی علاقہ میں ہونا اور پھر ایک ایسے شخص کا دکھایا جانا نہ ہو تا جس کے متعلق ہم سمجھتے ہیں کہ وہ شاید غیر مسلم ہے تو میں شاید اس کی یہ تعبیر کرتا کہ ام طاہر کا اپریشن غلط ہوا ہے اگر اپریشن نہ ہو تا تو ان کی جان بچ جاتی رؤیا میں ان کا ٹھنک کراو ہوں اوہوں کرنا اور یہ کہنا کہ میری زندگی کے لئے دعا نہ کرو یہ حصہ تو اسی لحاظ سے ان پر یقیناً چسپاں ہو جاتا ہے کہ ڈاکٹر بار بار مجھے یہ کہتا تھا کہ مریضہ علاج میں میری مدد نہیں کرتی اور وہ اپنی صحت کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتی جس سے مرض کا مقابلہ ہو اور ان کی طبیعت بیماری پر غالب آسکے باوجود ساری کوششوں کے ان کا طریق اس طرز کا تھا کہ گویا اب انہیں زندگی کی ضرورت نہیں.فرمایا : اس خواب کے دو حصے ہیں ایک ہمارا جنوبی امریکہ میں ہونا اور دوسرا ایک ایسے شخص کا دکھایا جاتا جس کو ہم نے پہلے غیر مسلم سمجھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دل سے مسلمان تھا یہ دو حصے بتلا رہے ہیں کہ یہ خواب کسی اور واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے البتہ اتنا ضرور
221 معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری تبلیغ کے لئے جو نئے رستے کھولنے والا ہے ان میں جنوبی امریکہ بھی شامل ہے کیونکہ میں نے دیکھا کہ جنوبی امریکہ کے ایک حصہ پر احمد ی حکومت قائم ہو گئی ہے جنوبی امریکہ میں دس گیارہ ریاستیں ہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ خواب کس حصہ کے لئے مقدر ہے.فرمایا : اس امر کی طرف ذہن جاتا ہے کہ ام طاہر چو نکہ میری بیوی تھیں اس لئے ممکن ہے اس خواب کا یہ مطلب ہو کہ کسی وقت جب احمدیت کو غلبہ میسر آجائے گا اس وقت کسی ایسے شخص سے مقابلہ ہو گا جو دل سے تو ایمان رکھتا ہو گا مگر ظاہر میں مخالف ہو گا جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ يُكْتُمُ اِيْمَانَهُ (المومن : 29) وہ اپنے ایمان کو چھپاتا تھا پس ممکن ہے اس کے دل میں بھی ایمان ہو لیکن اپنی قوم کے ڈر سے احمدیت کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا ہو جائے اور پھر گرفتار ہو کر سزا پائے لیکن اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ آخری وقت میں اظہار عقیدت اور اظہار ایمان کر دے گا اور بتا دے گا میں احمدی ہوں بیوی چونکہ مرد کے ماتحت ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے اس سے مراد یہی ہو کہ وہ دل سے اظہار ایمان کرے گا اور یہ جو اس نے پہلے کہا ہے کہ میری تجهیز و تکفین غیر مذاہب والوں کی طرح نہ کرنا اس کا یہ مطلب ہو کہ اس کے عقائد عام مسلمانوں والے نہیں ہوں گے لیکن بعد میں ام طاہر کی شکل دکھانے سے یہ مراد ہو کہ وہ دل میں احمدی ہو گا.گفتگو کے بعد مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے ذکر کیا کہ شاید ام طاہر سے یہ مراد ہو کہ گو وہ شخص يَكْتُمُ اِيْمَانَهُ کا مرتکب ہو اور اس وجہ سے اپنی جان بھی کھو بیٹے مگر اس کے بعد اسکی نسل طاہر ثابت ہو اور احمدیت کی خادم بنے اور اس طرح وہ شخص ام طاہر کا لقب پانے کا مستحق ہو یہ تعبیر درست معلوم ہوتی ہے اور اس سے بظاہر خواب کی پیچیدگی دور ہو جاتی ہے.الفضل 11.مئی 1944 ء صفحہ 1
222 290 4.مئی 1944ء فرمایا : کل میں نے ایک چھوٹا سا نظارہ دیکھا جس کا کچھ حصہ یاد رہا اور کچھ حصہ بھول گیا یا شاید اتنا ہی نظارہ تھا مجھے رویا میں آدمیوں کی قطار نظر آئی جیسے فوج ہوتی ہے مجھے وہ ساری قطار نظر نہیں آتی مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب لوگ قطاروں میں کھڑے ہیں اور میں اگلی صف میں ایک سرے پر ہوں مجھے وہاں سے ایک دو صفیں نظر آتی ہیں ایک ایک صف میں پندرہ بیس آدمی ہیں اور وہ دس بارہ فٹ لمبی چلی جاتی ہے مگر سپاہیوں کی طرح نہیں کہ فاصلہ فاصلہ پر قطاریں ہوں بلکہ ایک قطار کے ساتھ دوسری اور دوسری کے ساتھ تیسری لگی ہوئی ہے اور میں پہلی صف کے سرے پر ایک طرف کھڑا ہوں جیسے افسر کھڑے ہوتے ہیں اس وقت کوئی شخص بعض الفاظ اپنی زبان سے نکالتا ہے مجھے اس کے سارے الفاظ تو یاد نہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے مارچ کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے کہا جاتا ہے یہ فوج ہے جو آگے بڑھ کر حملہ کرنے والی ہے بہر حال مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہہ رہا ہے یہ مارچ ہے حملہ کے لئے بھی اور فتح کے لئے بھی یعنی یہ لوگ جو مارچ کریں گے اس میں دشمن پر حملہ بھی ہو جائے گا اور فتح بھی ان کو حاصل ہو جائے گی مجھے اس کا اصل فقرہ بھول گیا مگر مفہوم یہی تھا کہ یہ فوج اب مارچ کرے گی اور اس کے دو کام ہوں گے اول دشمن پر حملہ کرے گی دوم حملہ کے ساتھ ہی اسے فتح حاصل ہو جائے گی.فرمایا : وہ لوگ جو قطاروں میں کھڑے ہیں وہ کسی دنیوی فوج سے تعلق رکھنے والے معلوم نہیں ہوتے بلکہ اپنی جماعت کے ہی افراد ہیں جن کو میں فوج سمجھتا ہوں مگر ان سب کے کپڑے بالکل صاف اور دھلے ہوئے ہیں اس سے مجھے خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں زمینداروں میں یہ روح پیدا کرنی چاہئے کہ ان کے کپڑے ہمیشہ صاف ستھرے ہونے چاہئیں.کیونکہ رویا میں میں نے جتنے آدمی دیکھے ان کے کپڑے کو سادہ تھے مگر سب کے سب دھلے ہوئے اور صاف ستھرے تھے ظاہری نظافت بھی باطنی پاکیزگی کے لئے ایک ضروری چیز ہوا کرتی ہے.الفضل 18.مئی 21944
223 291 8.مئی 1944ء فرمایا : اترسوں جس دن ہم ڈلہوزی پہنچے تو مجھے ایک الہام ہو ا جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں وہ بہت ہی اہم ہے اور اپنی طرز میں بھی نرالا ہے اس الہام کے الفاظ قریباً یہ تھے.قریبا کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ بعض الفاظ کے متعلق مجھے شبہ ہے کہ ان کی قراءت اس رنگ میں ہے یا اس رنگ میں.بہر حال اس الہام کا اکثر حصہ اسی رنگ میں یاد ہے کہ إِنَّمَا أُنْزِلَتِ السُّورَةُ الْفَاتِحَةُ لِتَدْمِيرِ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ اور فِتْنَةِ الدَّجَّال کی دوسری قرارت فِتْنَةِ الشَّيْطَانِ بھی آتی ہے یعنی اس کی ایک قرامت تو یہ ہے کہ لِتَدْمِيرِ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ اور دوسری قراءت یہ ہے کہ لِتَدْمِيرِ فِتْنَةِ الشَّيْطَانِ اس الہام کے ساتھ ہی القاء ہوا کہ اِنَّمَا اُنْزِلَ السُّورَةُ الْفَاتِحَةُ سے مراد سورۃ فاتحہ کا صرف وہ نزول نہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوا بلکہ اس میں سورہ فاتحہ کا وہ نزول بھی شامل ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یا ان کے ذریعہ بعد میں بعض دوسرے افراد پر ہوا جیسے مجھے بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھائی گئی ہے پس مجھے القاء یہ ہوا کہ سورہ فاتحہ کے معارف کا یہ نزول بھی اسی میں شامل ہے مگر یہ حصہ الہام کا نہیں بلکہ الہام کے ساتھ ہی مجھے القا ہوا اس کا یہ حصہ ہے.اسی طرح القاء کے طور پر یہ بھی بتایا گیا کہ اس الہام کی دو قراتیں ہیں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اِنَّمَا اُنْزِلَتِ السُّوْرَةُ الْفَاتِحَةُ لِتَدْمِيرِ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اِنَّمَا اُنْزِلَتِ السُّوْرَةُ الْفَاتِحَةُ لِتَدْمِيرِ فِتْنَةِ الشَّيْطَانِ جاگنے پر مجھے خیال آیا کہ سورۃ فاتحہ کا وہ نزول جو شیطانی فتنہ کے استیصال کے لئے ہوا اس سے مراد وہ سورہ فاتحہ ہے جو قرآن کریم میں نازل ہوئی ہے.قرآن کریم میں جو سورۃ فاتحہ نازل ہوئی ہے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ سے لے کر قیامت تک ہے اور وہ تمام حملے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت سے لے کر اب تک ہوئے یا قیامت تک ہوتے چلے جائیں گے وہ شیطانی فتنہ سے تعلق رکھتے ہیں پس قرآن کریم میں جو سور ہ نازل ہوئی ہے وہ حاوی ہے ان تمام حملوں کے دفاع پر جو قیامت تک اسلام پر ہوتے رہیں گے لیکن سورۃ فاتحہ کا نزول جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ہوا یا آپ کے بعد مجھے اس کا
224 علم دیا گیا اور سورۃ فاتحہ سے کئی قسم کے علوم سکھائے گئے وہ دجالی فتنہ کے زمانہ کے لئے مخصوص ہے پس رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ کے لحاظ سے اس الہام کی قراءت ب إِنَّمَا أُنزِلَتِ السُّوْرَةُ الْفَاتِحَةُ لِتَدْمِيرِ فِتْنَةِ الشَّيْطَانِ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام پر سورہ فاتحہ کا جو نزول ہو اوہ صرف دجالی فتنہ کو پاش پاش کرنے کے لئے ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سورۃ فاتحہ کا نزول شیطانی دور کے استیصال کے لئے ہے جس کا اثر دجالی فتنہ سے بہت وسیع ہے کیونکہ دجالی فتنہ بھی اس کا حصہ ہے.فرمایا : اس الہام میں جو تدمیر کا لفظ ہے یہ عربی زبان میں یا تو انسان کی ہلاکت پر بولا جاتا ہے یا بنیادوں اور عمارتوں کی تباہی کے متعلق استعمال ہوتا ہے پس اس لفظ کے ذریعہ اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دجال کی ظاہری شان و شوکت کی بربادی اور اس کی تباہی کا بھی سورۃ فاتحہ میں ذریعہ بتایا گیا ہے.بعد میں قلب میں جو تقسیم پیدا ہوئی ہے اس کے ذریعہ مجھے بتایا گیا کہ موجودہ زمانہ میں اسلام پر دجالیت کا جو اثر پڑا ہے اس کا ازالہ سورۃ فاتحہ کے ذریعہ کس طرح کیا جاسکتا ہے.الہام میں جو اِنَّما کا لفظ ہے اس نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ تیرہ سو سال میں سورۃ فاتحہ سے جو کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لیا ہے وہ کسی اور نے نہیں لیا در حقیقت اس سورۃ کا پورا استعمال اور کسی زمانہ میں ہوا ہی نہیں.الفضل 16.مئی 1944ء صفحہ 1.2.نیز دیکھیں.الفضل 26 نومبر 1947ء صفحہ 3.5 مئی 1960ء صفحہ 3 292 مئی 1944ء فرمایا ایک دفعہ رویا میں میں نے دیکھا کہ ہمارے مکانات کے ایک کمرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ایک چارپائی پر بیٹھے ہیں اور میں بھی آپ کے ساتھ بیٹھا ہوں.اتنے میں زلزلہ آیا اور وہ زلزلہ اتنا شدید ہے کہ اس کے جھٹکوں سے مکان زمین پر لگ جاتا ہے بار بار جھٹکے آتے ہیں اور بار بار مکان جھک کر زمین کے ساتھ لگ جاتا ہے یہ دیکھ کر میں وہاں.بھاگنے لگا ہوں مگر معا مجھے خیال آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی تو یہیں تشریف رکھتے ہیں میں کس طرح بھاگ سکتا ہوں جب زلزلہ ہٹا اور میں باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ میاں عبد اللہ خاں صاحب باہر کھڑے ہیں اتنے میں پھر زلزلہ آیا اور مکان اپنی جگہ پر واپس چلا گیا
225 صرف اس کی ممٹی ذراسی ٹیڑھی ہے اور میں خواب میں ہی ہوں کہ مکان میں اپنی جگہ پر واپس آگیا ہے.الفضل 10.مئی 1944 ء صفحہ 5 293 17.مئی 1944ء فرمایا : آج میں نے رویا میں دیکھا کہ میں کہیں بیٹھا ہوں اس جگہ میری لڑکی امتہ القیوم بھی ہے مگر وہ ایک طرف منہ کر کے اس طرح کھڑی ہے جس طرح آئینہ کے سامنے عورت کھڑی ہوتی ہے مجھے رویا میں آئینہ نظر نہیں آتا.مگر جس طرح عورتیں آئینہ کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے بال گوندھتی اور ان کو درست کرتی ہیں اسی طرح اس کے ہاتھ بھی اٹھے ہوئے ہیں جیسے وہ اپنے بال درست کر رہی ہے میری طرف اس کی پیٹھ ہے اور دوسری طرف اس کا مونہہ ہے اتنے میں غیب سے میری طرف ایک پیالہ آیا مجھے اس پیالہ کو لانے والا کوئی آدمی نظر نہیں آتا صرف اتنا معلوم ہوا کہ غیب سے ایک پیالہ میرے سامنے آیا ہے اور اس میں حلوہ ہے مجھے کسی کا ہاتھ نظر نہیں آتا البتہ غیب سے جو پیالہ میرے سامنے لایا گیا اس میں مجھے حلوہ پڑا ہوا دکھائی دیا ہے میں نے اس حلوہ کو ذرا سا چکھا ہے یا نہیں چکھا یہ مجھے یاد نہیں رہا مگر بعد کی گفتگو سے نتیجہ نکالتا ہوں کہ میں نے اس حلوہ کو چکھا ہے اس پیالہ کے سامنے آنے کے معابعد میں نے اس پیالہ کو رد کر دیا اس پر وہ پیالہ میرے سامنے سے ہٹ گیا مگر اس کے ہٹتے ہی جیسے آئینہ میں اس کا عکس پڑ جاتا ہے یا قلبی طور پر امتہ القیوم کو القاء ہو جاتا ہے وہ اس کی طرف پیٹھ کر کے اور میری طرف مونہ کر کے کہتی ہے ابا جان آپ نے اس پیالہ کو رد کیوں کر دیا.گویا میں نے جو حلوہ نہیں کھایا تو اس کے متعلق وہ مجھ سے پوچھتی ہے کہ آپ نے اس کے کھانے سے انکار کیوں کیا ہے میں اس کے جواب میں کہتا ہوں اس میں بہت زیادہ میٹھا تھا پھر میں کہتا ہوں اس میں ایسا ہی میٹھا تھا جیسے بیٹھے کی مٹھائی پر ہوتا ہے اور چونکہ بیٹھے کی مٹھائی کا ذکر آگیا تھا اس لئے میں نے اس کے ساتھ ہی کہا بیٹھے کی مٹھائی پر تو باہر کی طرف میٹھا چڑھا ہوا ہوتا ہے اور اس کے اندر بیٹھا زیادہ تھا.واقعہ یہ ہے کہ بیٹھے کی مٹھائی بچپن میں مجھے بہت پسند تھی مگر چونکہ اس پر میٹھا زیادہ ہوتا ہے اس لئے میں اس میٹھے کو جھاڑ کر یا چاقو سے کھرچ کر کھایا کرتا تھا یہی مثال میں نے رویا میں دی ہے اور میں نے امتہ القیوم سے کہا ہے کہ اس میں بہت زیادہ میٹھا تھا جیسے بیٹھے کی مٹھائی پر ہوتا ہے اور میں
226 اس کی تشریح کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ بیٹھے کی مٹھائی کے اوپر زیادہ میٹھا ہوتا ہے اور اس حلوہ کے اندر زیادہ میٹھا تھا.فرمایا : اس کے بعد ایک اور نظارہ دیکھا وہ چھوٹا سا ہے اس نظارہ میں وہ حلوہ جو پہلے میرے سامنے آیا.ذہن میں نہیں آتا لیکن میں کہتا ہوں اگر حلوہ میں تھوڑی سی کڑواہٹ بھی ملالی جائے تو اچھا ہوتا ہے.حلوہ کی جہاں اور تعبیریں ہیں وہاں اس کی ایک تعبیر عیش دنیا بھی ہے پس ممکن ہے اس کا مطلب یہ ہو کہ زیادہ مٹھاس اچھی نہیں ہوتی زندگی میں اگر کچھ تلخی بھی ہو تو وہ زیادہ بہتر ہوتی ہے کیونکہ تلخی کے بغیر زندگی پاکیزہ نہیں ہوتی.میں نے جو تعبیر کی ہے وہ اس لحاظ سے ہے کہ اگر خالی آرام و آسائش کی زندگی انسان کو ملتی چلی جائے اور اسے کوئی تلخی نصیب نہ ہو تو اس کے نفس میں بہادری نہیں رہتی اور اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے ابتلاء بھی آتے رہے تو نفس سے جرات اور بہادری اور قربانی کا مادہ پیدا ہوتا ہے لیکن اگر خالی میٹھا ہی میٹھا ملے تو قربانی کا مادہ جاتا رہتا ہے.ممکن ہے مجھے دوسرا نظارہ اس پہلے نظارہ کی تعبیر بتانے کے لئے ہی دکھایا گیا ہو اس وقت میرے ذہن میں کوئی دوائی سی آتی ہے اور میں کہتا ہوں اگر یہ دوائی ذراسی اس حلوے میں ملالی جائے تو زیادہ اچھا ہے ممکن ہے اس نظارہ کے ذریعہ مجھے اس خواب کی تعبیر ہی بتائی گئی ہے اب اس تعبیر سے میرا ذ ہن اس طرف بھی منتقل ہوا ہے کہ امتہ القیوم جو مجھے دکھائی گئی اس میں قیوم خدا کا نام ہے یعنی قائم رکھنے والا.پس امتہ القیوم کو دکھانے اور زیادہ میٹھے حلوے کو رد کرنے کا مطلب یہی ہے کہ خالی میٹھا کھانے سے زوال کے آثار پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور جماعتوں کا قیام باقی نہیں رہتا.اللفضل 24.مئی 1844ء 4 294 26.مئی 1944ء فرمایا عجیب بات ہے کہ آج نماز پڑھاتے ہوئے دو دفعہ میر محمد اسحاق صاحب کی شکل میرے سامنے آئی ہے پہلے بھی ایک آدھ دفعہ ایسا ہو چکا ہے آج ایک دفعہ تو سجدہ میں میں نے میر صاحب کو دیکھا دوسری دفعہ تشہد کی حالت میں دیکھا دونوں دفعہ وہ مسکراتے ہوئے میرے
227 سامنے آتے ہیں لیکن ام طاہر کے متعلق بعض دفعہ خواہش بھی ہوئی ہے کہ انہیں دیکھوں اور توجہ بھی کی مگران کی شکل نظر نہیں آئی.الفضل یکم جون 1644ء صفحہ 1 26.مئی 1944ء 295 فرمایا : آج رات میں نے ایک عجیب رویا دیکھا جو اپنے تجربہ کے لحاظ سے بالکل نرالا ہے.میں نے دیکھا کہ مجھے کوئی سفر در پیش ہے یہ نہیں کہ جیسے خاص طور پر کسی کو کوئی کام پیش آجائے تو وہ سفر کے لئے چل پڑتا ہے بلکہ میں رویا میں یوں سمجھتا ہوں کہ میرے سامنے کوئی سفر ہے اور اس کے لئے میں سوچتا ہوں کہ کس رنگ میں کروں.ہماری جماعت کے ایک دوست اس سفر کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک سواری میرے سامنے پیش کرتے ہیں.خواب کے نظارے بھی عجیب ہوتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ دوست مجھے کوئی جانور دکھائیں مجھے ایک سرد کھاتے ہیں جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ خچر کا سر ہے.جاگتے ہوئے تو انسان ایسی حالت میں ہنس پڑے گا کہ ایک جانور کا سر پیش کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ آپ کی سواری کے لئے ہے مگر رویا میں میں اسے عجیب بات نہیں سمجھتاوہ ٹیچر کا سر مجھے دکھا کر کہتے ہیں.میں اس کو آپ کے سفر کے لئے سد ھاؤں میں کہتا ہوں آپ ہیٹک سدھائیں.پھر میں نے ان کے ہاتھ میں ایک لگام بھی پکڑی ہوئی دیکھی ہے چنانچہ میرے کہنے پر وہ اس کو سدھاتے ہیں مگر پھر بھی وہ مجھے اس کا سر ہی دکھاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ جانور کیسا اچھا سیکھ رہا ہے.اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے وہ اس کو سواری کے لئے سیدھا رہے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں کہ وہ کس محمدگی سے سواری کی تربیت حاصل کر رہا ہے اس کے بعد وہ منہ سے تو کچھ نہیں کہتے مگر دوبارہ اس کا سر ہی مجھے دکھاتے ہیں یہ بتانے کے لئے کہ مچھر سواری کے لئے نہایت عمدگی سے سدھائی جاچکی ہے.یہ نظارہ جیسا کہ خواب کا طریق ہے منٹوں میں گذر جاتا ہے بجائے اس کے کہ دنوں یا مہینوں میں ایسا ہو اس کے مداس مچھر پر سواری کرنے اور اپنے سفر کو پورا کرنے کے لئے جاتا ہوں.بہت سی عورتیں اور مرد اور بچے میرے ساتھ ہیں مگر وہ سب میرے پیچھے ہیں اور آگے آگے میں ہوں.چلتے چلتے وہ مجھے سواری کے قریب کھڑا کر دیتے ہیں.اور کہتے ہیں اس پر سوار ہو جائیے جب وہ سواری میرے
228 سامنے آئی تو میں نہیں کہہ سکتا ان کی رائے بدل گئی تھی یا اس سواری کی جنس بدل گئی بہر حال اس وقت میرے سامنے جو سواری آتی ہے وہ فیچر کی بجائے شتر مرغ ہے مگر بہت ہی خوبصورت جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے براق کی لوگ تعریف کرتے ہیں اسی طرح وہ نہایت خوبصورت اور اعلیٰ درجہ کا شتر مرغ ہے اس کی گردن قاز کی گردن کی طرح ہے اور اس کے پروں میں ایسی چمک اور خوبصورتی ہے کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے رنگ ایسا ہے جیسے سیاہی مائل رمادی رنگ ہو یا گہرے رنگ کے فاختئی رنگ میں کچھ کبوتر کا رنگ ملا دیا جائے.قد اس کا بظاہر بہت اونچا بھی نہیں اور نیچا بھی نہیں مگر رویا میں مجھے کوئی حیرت نہیں ہوتی کہ انہوں نے یہ کیا کیا که شتر مرغ میری سواری کے لئے لے آئے ہیں وہ نر شتر مرغ نہیں بلکہ مادہ شتر مرغ معلوم ہوتی ہے بہر حال میں اس کی پیٹھ پر بیٹھ گیا اس وقت مجھے خیال آیا کہ کہیں یہ اتنا چھوٹا تو نہیں کہ میرے پاؤں زمین سے لگ جائیں مگر میں نے دیکھا میرے پاؤں زمین سے نہیں لگتے جب میں اس کی پیٹھ پر بیٹھ گیا تو مجھے خیال آیا کہ اس کے منہ میں تو لگام نہیں چونکہ گھوڑے کے منہ میں لگام ہوتی ہے.اس لئے اس کے متعلق بھی مجھے لگام کا خیال آیا کہ میں اس پر سوار تو ہو گیا ہوں مگر اس کے منہ میں لگام نہیں مگر مجھے یہ بات ان سے کہنے میں حیا اور شرم مانع ہوئی.اور میں دل میں کہتا ہوں اب میں ان سے کیا کہوں دوستوں نے جب مجھے بٹھا دیا ہے تو میں بیٹھ جاتا ہوں جب میں اس پر بیٹھ گیا تو شتر مرغ آپ ہی آپ چل پڑایا چونکہ وہ مادہ شتر مرغ ہے اس لئے یوں کہہ لو کہ وہ چل پڑی جس طرف وہ مادہ شتر مرغ جارہی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک چھوٹی سی دنیا ہے مگر بظاہر ایک شہر ہے جس میں مختلف سڑکیں ہیں، وادیاں ہیں باغ ہیں ، قلعے ہیں ، مکان ہیں ، صحن ہیں اور ان معنوں میں تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر اس قسم کی جگہیں بنی ہوئی ہیں جیسے جغرافیہ سکھانے کے لئے سکولوں میں پہاڑوں وغیرہ کے نقشے کھینچے جاتے ہیں وہاں بھی کہیں باغ ہیں کہیں روشیں ہیں کہیں پہاڑ ہیں کہیں میدان.کہیں سڑکیں ہیں غرض سب چیزیں ہیں مگروہ ہیں اتنی چھوٹی چھوٹی کہ چند گز میں ہی تمام چیزیں آگئی ہیں اس میں رستے بھی ہیں اور ایسے گڑھے اور پک ڈنڈیاں وغیرہ بھی ہیں جیسے چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں والے علاقہ میں ہوتی ہیں مثلاً جہلم میں ہی پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے کہیں غاریں ہیں کہیں پک ڈنڈیاں ہیں.کہیں گڑھے ہیں اسی طرح وہاں صاف راستہ نہیں لیکن شتر مرغ بغیر میرے کچھ کے کے ایسی حالت میں کہ اس کے
229 منہ میں لگام بھی نہیں ان رستوں پر چلنا شروع ہو گئی ہے مجھے پتہ نہیں کہ وہ کس طرح میری مرضی کے تابع ہو گئی بہر حال میں اس وقت خواب میں کہتا ہوں ایک تو یہ لوگ شتر مرغ میری سواری کے لئے لے آئے ہیں اور پھر اس کے منہ میں لگام بھی نہیں یہ تو مجھے گرا دے گی.جو نہی مجھے یہ خیال آتا ہے مجھے ایک جگہ نظر آتی ہے جو پہاڑی شکل کی ہے اونچی نیچی جگہ ہے پاس پتھر بھی پڑے ہیں اور گڑھے بھی نظر آرہے ہیں میں اس وقت سمجھتا ہوں کہ اب میں ضرور گر جاؤں گا رستہ بھی بہت تنگ ہے ایک دو فٹ سے زیادہ نہیں پس میں ڈرتا ہوں کہ اب تو شتر مرغ پر سے گر جاؤں گا مگر اس جگہ پہنچ کر اس شتر مرغ نے ایسی عمدگی سے اپنے پیر رکھے ہیں کہ خواب میں اس کو داد دینے کو جی چاہتا ہے ایک طرف اونچی ہے دوسری طرف نیچی ہے مگر وہ اس طرح برابر پیر رکھتی ہے کہ میں اس پر سیدھا بیٹھا رہتا ہوں اور نشیب و فراز سے مجھے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی بلکہ جب بھی نشیب و فراز آتا ہے وہ اس طرح اپنے پیر سمیٹتی اور اس عمدگی سے ان اونچی نیچی جگہوں سے گزر جاتی ہے کہ میں اس کی پیٹھ پر برابر بیٹھا رہتا ہوں.چلتے چلتے وہ ایک جگہ پہنچتی ہے جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ سرحد آگئی پھر دوسری جگہ پہنچتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ دوسری سرحد آگئی.اسی طرح ایک دفعہ راہ میں ایک درخت آجاتا ہے جس کی ٹہنیاں زمین میں لگی ہوئی ہیں اور میں سمجھتا ہوں اب تو میں ضرور گر جاؤں گا مگر میں نے دیکھا گو اس کی شاخیں میں نے بھی اٹھائی ہیں مگر وہ مادہ شتر مریخ اس پھرتی اور عمدگی سے اپنی لاتیں نیچے کر کے مجھے وہاں سے لے گئی کہ مجھے ذرا بھی تکلیف نہیں ہوئی.پھر ایک کمرہ آجاتا ہے جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی دنیا کا ایک حصہ ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے دالان ہو تا ہے اسی کے دروازہ کے سامنے پہنچ کر وہ مادہ شتر مرغ میری طرف منہ کر کے کہتی ہے میں نہیں جاتی اندر اندر مرد بیٹھا ہے یہ کہہ کر وہ پھر لوٹی اور پھر اسی طرح نشیب و فراز والی جگہیں آنی شروع ہوئیں مگروہ اس عمدگی سے اپنے پاؤں رکھتی ہے کہ اونچی نیچی جگہ میرے لئے برابر رہتی ہے اور میں اس پر سیدھا بیٹھا رہتا ہوں پھر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسی احاطہ میں اس کے کنارہ پر پہنچ گیا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اب ہم یہاں سے باہر نکل جائیں گے کہ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی.میں نے اس کی یہ تعبیر کی ہے کہ سفر سے مراد زندگی کا سفر ہے اور وہ مختلف سڑکیں اور
230 میدان اور وادیاں جو مجھے دکھائی گئیں ان سے مراد دنیا ہے اور خچر کے معنے اعزاز کے ہیں.میں نے رویا میں دیکھا ہے کہ اس شتر مرغ نے مجھے ہر جگہ بچایا وہ اعلیٰ درجہ کی خوبصورت ہے اور ایسی احتیاط سے مجھے لے گئی ہے کہ جگہ کی اونچ نیچ اور نشیب و فراز کا مجھے احساس تک نہیں ہوا اور میں اس پر سیدھا بیٹھا رہا ہوں پس شتر مرغ کا خوبصورت ہوتا.اس کا اور نچ نچ میں احتیاط سے لے جانا اور کوشش کرنا کہ سوار کو تکلیف نہ ہو یہ باتیں بتاتی ہیں کہ یہ خواب بری نہیں.اچھی ہے شتر مرغ کا یہ کہنا کہ میں نہیں جاتی اندر اندر مرد بیٹھا ہے یہ بھی ایک خبر کا پہلو ہے پس میں سمجھتا ہوں کہ بہر حال یہ ایک اچھی خواب ہے.پھر ایک اور بات ہے کہ اس خواب کے دو حصے ہیں پہلے حصہ میں میں نے خچر دیکھی ہے جسے عربی میں بغلة کہتے ہیں اور دوسرے حصہ میں میں نے شتر مرغ دیکھا ہے جسے نعامة کہتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ تعبیر ناموں میں خچر اور نعامہ دونوں کی ایک ہی تعبیر لکھی ہے.خواب میں مجھے خچر اور شتر مرغ ایک تسلسل میں دکھائے گئے ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ ان دونوں نگاروں کی ایک تعبیر ہے اور معترین نے بھی ٹیچر اور نعامہ کی ایک ہی تعبیر لکھی ہے.فرمایا : میں نے جو مچھر دیکھی ہے وہ کمیت سے رنگ کی ہے وہ دوست جو مجھے اس کا سر دکھا کر کہتے ہیں کہ کیا اس کو آپ کی سواری کے لئے سدھایا جائے میں ان کا نام بھی لے دیتا ہوں میں نے مولوی ابو العطاء صاحب کو دیکھا ہے اب اگر ان کا نام ابو العطاء سمجھا جائے جو ان کی کنیت ہے تو اس لحاظ سے رویا میں ابو العطاء سے مراد خدا ہو گا اور اگر ان کا وہ نام لیا جائے جو ان کے ماں باپ نے رکھا ہے یعنی الله و تا تو اس کے معنے ہوں گے.خدا کی دین اور اس کی عطاء الفضل کیم جون 1944ء صفحہ 371 فرمایا : معترین نے لکھا ہے کہ مچھر کو خواب میں دیکھنے کی تعبیر یہ ہے کہ ایسی عورت سے شادی ہو جس کے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی.اور شتر مرغ پر سواری کی تعبیر دیکھی تو وہاں لکھا تھا کہ ایسی عورت سے شادی ہو جس سے اولاد نہیں ہو سکتی ٹیچر ایک ایسا جانور ہے جس سے بالطبع کچھ نفرت سی پیدا ہوتی ہے اور اس لئے اللہ تعالیٰ کی حکمت نے اس کی بجائے شتر مرغ دکھا دیا جس کے لئے عربی میں لفظ نعامہ ہے جو نعمت سے نکلا ہے جس سے اس طرف اشارہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اس خواب کے مورد کی اصلاح فرما کر اسے نعمت و رحمت کا موجب بنا دے گا.الفضل حکیم اگست
231 296 5-41944 مئی 1946ء فرمایا : میں نے ایک اور رویا دیکھی کہ لڑکی کے والد صاحب مجھے ملے ہیں اور مجھ سے بعض امور میں مشورہ لیتے ہیں مگر اشاروں میں مجھ سے بات کرتے ہیں واضح بات نہیں کرتے مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ شادی کے بارہ میں ہی مجھ سے مشورہ کر رہے ہیں خلاصہ ان کی بات کا یہ ہے کہ اگر کسی کے سامنے کوئی بات پیش کی جائے اور وہ اسے کرنا نہ چاہے تو کیا کرے.میں خواب میں خیال کرتا ہوں کہ مجھے ایسا جواب دینا چاہئے کہ جس سے ان کے شبہ کا ازالہ ہو چنانچہ میں ان کو کوئی جواب دیتا ہوں تو پھر وہ پوچھتے ہیں کہ اچھا اگر کوئی اس بات کے کرنے میں راضی ہو جائے تو پھر جلدی سے اس کام کو کر دے یا دیر کرے میں نے ان سے کہا کہ یہ تو کام کی نوعیت پر منحصر ہے اگر اس کام کے جلدی کرنے میں فائدہ ہے تو جلدی کرے اور اگر دیر سے کرنے میں فائدہ ہے تو دیر سے کرے.اس خواب سے میں نے سمجھا کہ ضرور اس معاملہ میں پہلے کچھ گڑ بڑ ہو گی چنانچہ سید ولی اللہ شاہ صاحب جو پیغام لے کر گئے تھے واپس آئے تو انہوں نے بتایا کہ لڑکی کے والد تو راضی ہیں مگر لڑکی کہتی ہے کہ میں تو شادی کے قابل ہی نہیں پہلے ہی لوگ کہتے تھے کہ انہوں نے ایک بیمار عورت حضرت صاحب کے گھر میں بھیج دی ہے اب اگر میں گئی تو خاندان کی بدنامی ہوگی اور لوگ کہیں گے کہ ایک اور بیمار بھیج دی اور اس طرح یہ خاندان اپنے بیماروں کو بھیج کر بوجھ ڈالتا ہے.اللفضل یکم اگست 1944ء صفحہ 6 فرمایا : میں نے جو رویا دیکھا تھا اس کا دوسرا حصہ ابھی پورا ہو نا باقی تھا یعنی یہ کہ اگر کوئی راضی ہی ہو جائے تو پھر جلدی کرے یا دیر کرے چنانچہ وہ اس طرح پورا ہوا کہ جب نکاح کے ذکر کے ساتھ رخصتانہ کا ذکر ہوا تو برادرم سید عزیز اللہ شاہ صاحب نے سید ولی اللہ شاہ صاحب سے کہا کہ رخصتانہ ہم جلدی نہیں کر سکتے تیاری کے لئے ہمیں وقت ملنا چاہئے ہم نہیں چاہتے کہ جلدی میں کوئی سامان نہ کر سکیں اور لڑکی کی دل شکنی ہو اور وہ سمجھے کہ میں چونکہ بہار تھی اس لئے والدین مجھے یونسی پھینک رہے ہیں اس طرح گویا رویا کا ہر حصہ پورا ہو گیا.الفضل یکم اگست
232 61944 297 مئی 1944ء فرمایا : میں نے ایک رؤیا دیکھی جو شائع نہیں ہوئی میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ گیا ہوں ایک بہت بڑا احاطہ ہے جس میں ایک شخص رہتا ہے اور اس احاطہ میں پانچ چھ چار پائیاں بچھی ہیں جو اس کے خاندان کے لوگوں کی ہیں وہ شخص مجھے کہتا ہے کہ آپ یہیں ٹھہریں یہ کہہ کر وہ خود با ہر چلا گیا ہے اور پھر نہیں لوٹا.میں وہاں ٹہل رہا ہوں وہاں میں نے دو چار پائیاں الگ بچھی ہوئی دیکھیں اور ان میں سے ایک پر میں نے بشری بیگم صاحبہ کو لیٹے دیکھا.اس سے بھی میں نے سمجھا کہ اس خواب کی تعبیر اسی خاندان سے وابستہ ہے مگر یہ بات میری سمجھ میں نہ آئی کہ وہ آدمی گیا ہے تو پھر لوٹا کیوں نہیں گو بعد کے واقعات نے اس کی تعبیر ظاہر کر دی کیونکہ برادرم سید عزیز اللہ شاہ صاحب پہلے تو اس رشتہ پر راضی ہو گئے مگر بعد میں سیدہ بشری بیگم کی گھبراہٹ کی وجہ سے وہ بھی متردد ہو گئے بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ جب با قاعدہ پیغام گیا تو وہ اس وقت دورہ پر چلے گئے تھے.الفضل یکم اگست 1944ء صفحہ 5 298 مئی 1944ء فرمایا : میں نے ایک اور رویا میں دیکھا تھا کہ ایک فرشتہ آواز دے رہا ہے کہ ”مہر آپا کو بلاؤ جس کے معنے ہیں محبت کرنے والی آیا.تو ان کے اندر اللہ تعالی یہ احساس پیدا کر دے گا کہ مرحومہ کے بچوں کے لئے محبت کرنے والی آپا بن کر نہ صرف ایک عام ثواب حاصل کر سکیں بلکہ ایک بزرگ و مهربان کی خدمت کر سکیں یا ان کی خدمت کا بدلہ اتار سکیں اسی طرح جماعت کی مستورات اور مساکین کے لئے بھی مہر آپا ثابت ہوں.الفضل یکم اگست 1944ء صفحہ 7 مئی 1944ء 299 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک جہاز میں ہوں یا ایک ایسی چیز میں ہوں جو جہاز کی طرز پر ہے اور اس جہاز میں سے ساحل پر اترا جیسے کوئی شخص قبر سے لوٹ کر واپس آتا ہے.عرصہ کی بات
233 ہے دس بارہ سال ہوئے میں نے ایک دفعہ ایک رویا میں دیکھا کہ ایک جہاز ہے جو مدرسہ احمدیہ کے صحن میں کھڑا ہے مدرسہ احمدیہ کا صحن لمبا سا ہے اور کچھ کمرے شمال کی طرف ہیں اور کچھ جنوبی طرف.میں نے رویا میں دیکھا کہ جنوبی طرف کے جو کمرے ہیں وہاں کمرے نہیں بلکہ ایک بڑا سا جہاز کھڑا ہے اور مدرسہ احمدیہ کا صحن ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے جہاز کا یارڈ ہوتا ہے.میں اس جہاز میں بیٹھنے کے لئے گیا ہوں میرے ساتھ کچھ اور دوست بھی چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بھی میرے ساتھ ہیں ہم اس جہاز میں بیٹھ گئے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس جہاز میں بیٹھ کر ہم مدینہ منورہ جائیں گے.ہم اس جہاز میں اپنا اسباب بھی رکھ رہے ہیں.اور لوگ بھی اس میں بیٹھ رہے ہیں کہ اتنے میں میں نے حکم دیا ہے کہ ابھی سامان اتار لو ابھی وقت نہیں آیا کہ مدینہ منوری جائیں چنانچہ سب دوست اتر آئے اور سامان بھی اتار لیا گیا کیونکہ میں کہتا ہوں کہ ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم مدینہ منورہ میں جائیں.مدینہ جانے سے مراد کسی ایسے مقام کا میسر آجانا ہے جو احمدیت کے لئے اس کی ترقیات اور فتوحات اور کامیابیوں کا ذریعہ ہو جیسے مدینہ منورہ اسلام کی شان و شوکت کا مقام ثابت ہوا اور وہاں پہنچ کر اسلام بڑی سرعت سے چاروں طرف پھیلنا شروع ہوا پس جہاز کے ذریعہ واپس آنے کے ممکن ہے یہ معنے ہوں کہ آج سے دس بارہ سال پہلے جو خبر دی گئی تھی کہ ہم مدینہ منورہ جانے والے ہیں وہ سفر اب طے ہو گیا ہے اور اللہ تعالیٰ احمدیت کو اپنے فضل سے ایسا مقام عطا فرمانے والا ہے جو فتوحات اور کامیابیوں کا پیش خیمہ ہو گا اسی طرح یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس دوران میں جو ابتلاء آئیں وہ بھی بعض کمزور طبائع کے لئے ٹھو کر کا موجب ہوتے ہیں اور بعض کے دلوں میں ان سے افسردگی بھی پیدا ہوتی ہے.الفضل 6.جون 1944ء صفحہ 3 غالبا مئی 1944ء 300 فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک شخص کچھ سامان رات کے وقت لایا ہے اور سیڑھیوں پر سے آواز دے کر وہ سامان پکڑاتا ہے سامان دیتے وقت اس نے کہا کہ یہ مرزا منور احمد (سلمہ اللہ تعالیٰ نے بھیجوایا ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ عزیزم منور احمد اس شخص کو امر تسر کے سٹیشن پر ملے ہیں سامان دیتے وقت اس نے کہا ہے کہ نرگس بھی آئی ہے میں نے پوچھاوہ کہاں ہے تو اس
234 نے کہا وہ پیغامیوں کے ہاں گئی ہے اور بتایا کہ ان کا جھگڑا مرزا منور احمد سے سٹیشن پر ہو گیا تھا میں نے حیرت سے کہا کہ پیغامی قادیان میں کہاں؟ تو اس شخص نے کہا کہ دس بارہ آدمی ہیں میں نے کہا گر ایسے کوئی لوگ ہوتے تو ہمیں علم نہ ہوتا اس پر اس نے جواب دیا کہ مخفی رہتے ہیں اور چوری چوری آپس میں ملتے ہیں اور شمال کی طرف ہاتھ بڑھا کر جو غالبا مغرب کی طرف جھکا ہوا تھا کہا کہ اس طرف وہ اکٹھے ہوتے ہیں یعنی شمال کے اس حصہ کی طرف جو مغرب کی طرف جھکتا ہے گویا دار الرحمت کے شمال مغربی کونے کی طرف.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اندر ہی اندر کوئی سازش مخالفت کی بعض لوگ کر رہے ہیں مگر جیسا کہ اللہ تعالٰی نے ظاہر فرمایا ہے خدا تعالیٰ کے فرشتے میری حفاظت پر ہیں اور وہ ان فتنوں سے مجھے محفوظ رکھے گا.اللہ تعالی کی طرف سے جن لوگوں کے سپرد کوئی کام کیا جاتا ہے ان پر اس وقت تک دشمن کامیاب حملہ نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنا کام نہ کر لیں جب وہ اپنا کام کر چکیں تو پھر خداتعالی یا تو خود انہیں واپس بلا لیتا ہے یا کسی دشمن کو حملہ کا موقع دے کر ایک جھوٹی خوشی انہیں پہنچا دیتا ہے کیونکہ ان کا کام پھر اسی طرح چلتا رہتا ہے اور دشمن پہلے کی طرح ناکام ہی رہتا ہے اور ایک عارضی اور جھوٹی خوشی کے سوا اسے کچھ نصیب نہیں ہو تا خواب میں جو نرگس نام لینے والے نے لیا اس سے مراد کوئی عورت نہیں ہے بلکہ غالبا اس سے مراد جاسوس ہے کیونکہ نرگس کو آنکھ سے تشبیہ دی جاتی ہے اور آنکھ کا لفظ جاسوس کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے پس نرگس سے مراد یہ ہے کہ ان لوگوں کے بعض جاسوس بھی ہیں لیکن بعض جھگڑوں میں پھنس کر ان کے اند رونے ظاہر ہو جائیں گے اور ان کی منافقت ظاہر ہو جائے گی.الفضل 3 اگست 301 1-21944 3.جون 1944ء فرمایا : میں نے آج رویا میں حضرت خلیفہ اول کو دیکھا آپ کا بہت مضبوط جسم ہے اور قد بھی بہت لمبا ہے یوں تو پہلے بھی آپ کا قد لمبا تھا مگر رویا میں میں نے اس سے بھی زیادہ لمبا قد آپ کا دیکھا اور جسم بھی بالکل سیدھا نظر آیا بیماری میں آپ کچھ خمیدہ ہو گئے تھے مگر خواب میں میں نے آپ کا جسم بالکل سیدھا دیکھا.ایک صدری کی آپ نے پہنی ہوئی ہے اور لباس بھی بالکل
235 صاف ستھرا ہے گو ویسا ہی سادہ ہے جیسا سادہ لباس آپ پہنا کرتے تھے سر پر پگڑی ہے مگر وہ بھی عادت کے خلاف اچھی طرح باندھی ہوئی ہے ، گھسیٹی ہوئی نہیں.آپ ایک جگہ کھڑے ہیں اور میرے ساتھ باتیں کر رہے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ رویا میں مجھے بھی اپنا قد لمبا نظر آتا ہے.حضرت خلیفہ اول کو اپنی زندگی میں کتابوں کا بہت شوق تھا اور رویا میں مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ اگلے جہان میں بھی نئی نئی کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں آپ مجھ سے دوران گفتگو میں ان کتابوں کا ذکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ فلاں فلاں نئے مضامین میرے علم میں آئے ہیں چنانچہ آپ ایک تو سید ولی اللہ شاہ صاحب کی بیوی کا نام لیتے ہیں ان کا نام سیارہ حکمت ہے مگر آپ صرف سیارہ نام لیتے ہیں اور اسے کوئی عورت نہیں بلکہ مرد سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں سیارہ نام ایک شخص ہے جس کے آج کل مضامین نکل رہے ہیں اور ان مضامین میں برو برو کا حوالہ آیا ہے لیکن رویا میں آپ کی اس بات کی تصدیق کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ بوجہ اس کے کہ حضرت خلیفہ اول انگریزی نہیں جانتے تھے آپ سے نام لینے میں کچھ غلطی ہوئی ہے اصل میں یہ برو برو نہیں بلکہ براؤن ہے.میں اس وقت رویا میں یہ خیال نہیں کرتا کہ شاید ایسے مضامین نکل رہے ہیں بلکہ میں یقینا سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے مضامین لکھے جا رہے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ مضامین سید ولی اللہ شاہ صاحب کے ہیں اور سیارہ نام ایسا ہی ہے جیسا بعض لوگ خاص طور پر اپنے تصنیفی نام الگ رکھ لیتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے بھی اپنی بیوی کے نام پر اپنا تصنیفی نام سیارہ رکھا ہوا ہے اور اسی نام پر وہ مضامین لکھتے رہتے ہیں اور برو برو سے میں خیال کرتا ہوں کہ یہ مضامین بہائیوں کے خلاف ہیں اور برو برو سے مراد براؤن ہے لیکن حضرت خلیفہ اول چونکہ انگریزی نہیں جانتے تھے اس لئے آپ براؤن کی بجائے برو برو فرماتے ہیں اور میں انہیں جواب میں کہتا ہوں ہاں میں خوب جانتا ہوں گویا ان کو تو معلوم نہیں کہ سیارہ سے کون شخص مراد ہے مگر میں دل میں کہتا ہوں یہ سید ولی اللہ شاہ صاحب کے مضمون ہیں اور میں رویا میں اس کی تصدیق کرتا ہوں اس کے بعد آپ فرماتے ہیں دوسرے اہم مضمون اذکری کے ہیں گویا اذکری بھی کوئی شخص ہے جو مضمون لکھتا رہتا ہے جب آپ فرماتے ہیں اذکری بھی ایک شخص ہے جو مضمون لکھتا رہتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا میں اذکری کو بھی جانتا اور میں کہتا ہوں ہاں میں اذکری کو بھی خوب جانتا ہوں وہ بھی مضمون لکھتا رہتا ہے اس
236 کے بعد آپ فرماتے ہیں.اذکرمی جو نظام کا ابا ہے رویا میں میرا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ آپ از کری کو نظام کا ابا کیوں کہتے ہیں صرف اتنا سمجھتا ہوں کہ اس مصنف کو بھی میں یقینی طور پر جانتا ہوں.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.رویا میں میں نے دیکھا کہ آپ نے یہ تمام باتیں بڑی بے تکلفی سے میرے ساتھ کی ہیں.اس رویا میں پہلی بات میں یہ سمجھا ہوں کہ ہمیں بہائیوں کے خلاف لٹریچر تیار کرنا چاہئے اور اس لٹریچر کی تیاری میں براؤن کی کتابوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور آپ نے یہ جو فرمایا کہ اذکری نظام کا ابا ہے اس کی میں نے یہ تعبیر کی کہ نظام کے ابا سے میں ہی مراد ہوں کیونکہ سلسلہ کا ابا خلیفہ وقت اور امام جماعت ہوتا ہے اور اذکری سے مراد ذکر الہی کی کثرت ہے.اذکری نام سے میں نے یہ سمجھا کہ ہم میں ذکر الہی کی کثرت ہونی چاہئے اور نظام کے ابا سے مراد چونکہ امام وقت ہے اس لئے رویا میں نظام کے ابا کا نام اذکری رکھنے سے اس امر کی طرف بھی اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اسے خود بھی ذکر الہی کثرت سے کرنا چاہئے اور جماعت کو بھی ذکر الہی کی طرف توجہ کرنی چاہئے.الفضل 18.جون 1944ء صفحہ 1 - 2 8.جون 1944ء 302 فرمایا : میں نے آج آٹھ جون 1944 ء رات کو رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ نماز پڑھا رہا ہوں وہ جگہ موجودہ مسجد سے بہت فراخ ہے کچھ لڑکے شور کرتے ہیں اس پر ان میں سے کسی کو غالبا ایک پہرہ دار نے ڈانٹایا شاید کوئی تھپڑ بھی مار دیا اس لڑکے نے شور مچانا شروع کر دیا جس پر پولیس کا ایک افسر آکر تحقیق کرنے لگا.مگر مجھے دیکھ کر ادب کا طریقہ اس نے اختیار کر لیا اور سامنے بیٹھ گیا اتنے میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ مفتی فضل الرحمان صاحب مرحوم عمدہ لباس میں اور جوانی کی عمر میں حتی کہ سب داڑھی سیاہ ہے آکر سامنے بیٹھ گئے ہیں.میں نے ان سے پوچھا کہ مفتی صاحب آپ کہاں چلے گئے تھے (خواب میں ان کو وفات یافتہ نہیں سمجھتا) اس پر وہ کہتے ہیں کہ میں قادیان سے باہر چلا گیا تھا اب آپ فرما ئیں تو قادیان واپس آجاؤں.میں نے ان سے بڑے زور سے کہا کہ ضرور واپس آجائیں اس پر وہ کہنے لگے کہ میں نے فضل نرس کے لڑکے بشیر احمد سے اپنی لڑکی کی شادی کر دی ہے.اس پر میں نے تعجب سے کہا کہ وہ تو کچھ آوارہ سالڑ کا ہے
237 اور تعلیم بھی کوئی نہیں.اس پر وہ کہتے ہیں کہ نہیں اب وہ اچھا ہے اور اس نے اب ایم اے پاس کر لیا ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ میں اب اس کو بھی ساتھ لاؤں گا اور میں نے اسے بھی پسند کر لیا ہے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.یہ خواب بہت مبشر ہے فضل الرحمان نام مبشر ہے پھر فضل الرحمان کا نام اور بشیر احمد کا نام تینوں مبشر ہیں اسی طرح مفتی صاحب طبیب تھے اور فضل نرس ہے دو نو پیشوں میں آرام صحت اور مواسات اور ہمدردی کے معنے پائے جاتے ہیں دوسرے مردوں اور عورتوں کی بیماریوں کے علاج کی طرف بھی اشارہ ہے غرض سب نام اور کام اس میں مبارک اور مبشر ہیں اس کے ایک یہ معنے ہیں کہ ایک نئے طور پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی مواسات اور ہمدردی اور خیر خواہی اور بشارت قادیان پر نازل ہونے والے ہیں فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ (خواب میں جو فضل نرس اور بشیر احمد اس کے بیٹے کا ذکر ہے یہ فی الواقع بھی موجود ہیں مگر خواب میں ان کے دیکھنے سے مراد ان کا دیکھنا نہیں بلکہ مراد ناموں اور کاموں کی تعبیر ہے.الفضل 13.جون 1944 ء صفحه1 303 11.جون 1944ء فرمایا : دس اور گیارہ جون کی درمیانی شب میں میں نے دیکھا گویا کسی جگہ گیا ہوں اور وہاں ایک مکان رہائش کے لئے لیا ہے جسے میں سمجھتا ہوں بہت وسیع ہے مستورات پہلے چلی گئی ہیں اور میں آخر میں چند دوستوں کے ساتھ ہوں جب میں ایک مکان میں داخل ہوا ہوں وہاں کچھ مستورات تعلق رکھنے والی ہیں لیکن میری وہ بیوی جو میرے ساتھ ہیں اس جگہ نہیں اور مکان کو بھی میں نسبتا تنگ سمجھتا ہوں اس پر مجھے کسی نے بتایا کہ اس مکان کے پہلو میں ایک اور بڑا مکان ہے وہاں میرے گھر کے لوگ ہیں میں اس طرف جاتا ہوں تو ایک وسیع مکان ملتا ہے جس کے کمرے بڑے فراخ ہیں اور ایک وسیع اور فراخ کمرے میں کچھ چارپائیاں ہیں جن پر بستر لگے ہوئے ہیں مجھے بتایا گیا ہے کہ وہاں میری بیوی کا بستر بھی ہے اور اس وقت خیال ہے کہ وہ مریم صدیقہ بیگم ہیں اس کمرہ کے ساتھ ایک اور کمرہ ہے جس کی وسعت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا.لمبائی تو ایسی ہے جیسے بڑے سٹیشنوں کی ہوتی ہے اور چوڑائی بھی بہت ہی ہے اور بغیر ستونوں کے
238 چھت ہے.جس قسم کی چھت اس دنیا میں تو آج تک بنائی نہیں گئی.ہاں یاد آیا کہ اس مکان میں جانے سے پہلے مجھے سید ولی اللہ شاہ صاحب ملے ہیں لیکن سلام کر کے بغیر کوئی بات کرنے کے چلے گئے ہیں میں حیران ہو تا ہوں کہ ملے بھی ہیں اور بغیر بات کرنے کے چلے گئے ہیں اس پر کسی نے کہا کہ ان کے ساتھ مستورات ہیں غالبا ان کو چھوڑنے گئے ہیں چھوڑ آئیں گے تو پھر ملیں گے.جس وسیع دالان کا میں نے ذکر کیا ہے جب وہاں پہنچا ہوں تو کسی نے کہا ہے کہ اس مکان کے مالک کا ایک شریک ہے اور وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح اپنے حصہ مکان کے ساتھ جو دوسری طرف تھوڑے فاصلہ پر ہے اس مکان پر بھی قبضہ کرے جس میں میں اس وقت ٹھہرا ہوں اس پر میں دوسرے مکان کی طرف چل پڑا ہوں جب اس کی حد تک پہنچا تو وہ شخص اپنی حد سے گزر کر میرے پاس آکر کھڑا ہو گیا اور باتیں کرنے لگ گیا.اس کے ایک پہلو میں میں ہوں اور دوسرے پہلو پر ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ہیں دو چار باتیں کرنے کے بعد اس نے کہا کہ مجھے شدید کھجلی ہے اور اس کے ساتھ ہی مجھے اس کا جسم پھنسیوں سے بھرا ہوا نظر آیا اس پر میں یہ خیال کر کے کہ مجھے اس سے کھیلی نہ لگ جائے وہاں سے گھر کی طرف جلد جلد قدم اٹھاتا ہوا چل پڑا.اس وقت میرے دل میں خیال آتا ہے کہ جس مکان میں میں ٹھہرا ہوں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اسی میں پناہ لی تھی جب میں اس طرف جارہا تھا مجھے سید ولی اللہ شاہ صاحب پھر ملے اور انہوں نے کہا کہ میں جب آیا تھا میرے ساتھ میری بیوی کے علاوہ خاندان کی کچھ مستورات بھی تھیں اور میں ان کو چھوڑنے چلا گیا پھر انہوں نے بعض کے نام لئے کہ فلاں فلاں مستورات تھیں اور ایک نام انہوں نے غلام مرزا لیا.میں سمجھتا ہوں یہ ان کی کسی قریبی عزیزہ کا نام ہے.میں پہلے حیران ہوا کہ یہ کیسا نام ہے مگر معا خواب میں میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ نام شہزادیوں کا ہے اور مغل بادشاہوں کے زمانہ میں بعض شہزادیوں کا یہ نام ہوا کرتا تھا گو جہاں تک ظاہر کا تعلق ہے ایسا نام میں نے کبھی نہیں سنا) اس پر میری آنکھ کھل گئی.الفضل 20.جون 1944ء صفحہ 1 فرمایا : اصل میں انہوں نے بشری غلام مرزا کہا تھا مگر خواب بیان کرتے وقت میں نے بشری کا لفظ اڑا دیا تا لوگوں کو ابھی میرے ارادہ کا علم نہ ہو ( تعجب ہے بعض لوگوں کو پھر بھی علم ہو گیا
239 معلوم نہیں کس طرح.شاید بعض لوگ مخطوط چرا کر پڑھ لیتے ہیں) مگر پھر بھی مجھے خیال رہا کہ غلام مرزا نام جو خواب میں آیا ہے ممکن ہے اس سے مراد کوئی اور عورت ہو اور شاہ صاحب کے ان الفاظ سے کہ میرے ساتھ سیارہ بشریٰ غلام مرزا ہیں دو نہیں بلکہ تین عورتیں مراد ہوں.الفضل یکم اگست 1944ء صفحہ 5 11.جون 1944ء 304 فرمایا : اس کے بعد پھر آنکھ لگنے پر میں نے دیکھا کہ میں تقریر کر رہا ہوں اور کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو مجھے مثیل مسیح موعود قرار دیا ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے ہاتھوں سے دلوں کی اصلاح کرے گا اتنا ہی کہا تھا کہ آنکھ کھل گئی.ان دو خوابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کچھ زمینی اور آسمانی نشانات دکھانا چاہتا ہے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پناہ کا ذکر قرآن کریم میں زمین کے ساتھ بتایا گیا ہے.اور حضرت مسیح علیہ السلام کے بارہ میں فرماتا ہے رَافِعُكَ پس ایک کو زمین پر پناہ دی گئی ہے اور دوسرے کو استعارہ آسمان پر پناہ دی گئی ہے پس ساتھ ساتھ ان دو خوابوں کا وجود کہ ایک میں موسیٰ علیہ السلام کی جائے پناہ پر جانے کا ذکر ہے اور دوسرے میں مثیل مسیح موعود ہونے کا بتاتا ہے کہ موسوی اور مسیحی سنتوں کا اللہ تعالیٰ پھر احیاء کرے گا اور زمینی و آسمانی نشانوں سے میری اور جماعت کی تائید فرمائے گا خدا کرے جلد جلد ایسا ہو یہ جو غلام مرزا نام بتایا گیا ہے شاید غلام مرزا سے مراد ام طاہر مرحومہ ہوں کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ تک خدمت کا موقع دیا.یا شاید شاہ صاحب کے خاندان کا کوئی اور فرد ہو جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دین کی خدمت کا موقع ملے وَالله اَعْلَمُ بِالصَّوَاب.موسیٰ کی جائے پناہ سے اس طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلسطین میں جماعت کو خاص کامیابی بخشے گا وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.الفضل 20 جون 1944ء صفحہ 2-1 " جون 1944ء 305 فرمایا : کچھ دن ہوئے مجھے ایک اور نظارہ بھی نظر آیا.میں نے دیکھا کہ میں کسی طرف جا رہا
240 ہوں کوئی لمبا سفر معلوم نہیں ہو تا بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے میں ایک مکان کی طرف جارہا ہوں وہاں مجھے ایک نہایت خوبصورت اور وجیہہ نوجوان کھڑا ہوا نظر آیا اس مکان کا پھاٹک کھلا ہوا ہے اور اندر کمرہ میں روشنی دکھائی دیتی ہے وہ کمرہ ایسا ہی ہے جیسے محلات کی ڈیوڑھیاں ہوتی ہیں اس ڈیوڑھی کے اندر مجھے ایک گیارہ بارہ سال کا لڑکا دکھائی دیا ہے جب اس مکان کے قریب پہنچا اور دربان نے مجھے دیکھا تو اس نے نہایت بلند آواز سے جیسے وہ بڑا حیر الصوت ہوتا ہے اور اس کی آواز میں بڑی شوکت اور عظمت پائی جاتی ہے اتنی بلند آواز سے کہ یوں معلوم ہوتا ہے اس کی آواز تمام دنیا میں گونج گئی ہے اور پھر ساتھ ہی بڑی سریلی اور نہایت دلکش آواز سے اس نے کیا مہر آپا کو بلاؤ" جب اس نے یہ الفاظ کہے تو وہ لڑکا یکمدم اندر کی طرف دوڑ پڑا لیکن معا بعد میری آنکھ کھل گئی.اس رویا میں عجیب قسم کا جوڑ ہے مہر کے معنے محبت کے بھی ہوتے ہیں اور مہر سورج کو بھی کہتے ہیں شاید محبت اور انوار الہی کے امتزاج کا کوئی جلوہ ظاہر ہونے والا ہو یا کوئی اور تعبیر ہو.وَالله اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.الفضل 8 جولائی 1944ء صفحہ 3 306 جون 1944ء فرمایا : کچھ دن ہوئے ہیں میں نے دو دفعہ رویا دیکھیں.مگروہ دونوں بھول گئیں صرف ایک ایک لفظ ان دونوں میں سے یا د رہا ہے ایک میں بار بار بیالیس " کا لفظ آتا تھا دوسری میں بار بار اڑتالیس " کا لفظ آتا تھا میں نے اس کا کسی سے ذکر نہ کیا کیونکہ میں سمجھتا تھا جب خواب کے باقی حصے یاد نہیں رہے تو ان الفاظ کے بیان کرنے کا کیا فائدہ ہے مگر آج یکدم میری توجہ اس طرف پھری کہ ”بیالیس “ اور ”اڑتالیس " دونوں لفظوں کا یا د رہنا بھی بعض مضامین کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے.الفضل 8.جولائی 1944ء صفحہ 2 نیز دیکھیں.الفضل 4.فروری 1948ء صفحہ 4 307 24.جون 1944ء فرمایا : گرمی کی شدت کی وجہ سے رات کو میری آنکھ کھلی تو میں نے اپنے گھر والوں سے کہا مجھے دو چار گھونٹ پانی کے دو.وہ پانی لانے کے لئے اٹھیں تو یکدم مجھ پر غنودگی کی حالت طاری
241 ہوئی اور اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا.اِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِبَكة قرآن کریم میں تو اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ ال عمران : 69) کے الفاظ آتے ہیں مگر مجھ پر یہ الہام کسی قدر فرق کے ساتھ ان الفاظ میں نازل ہوا کہ اِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِمَكَّةَ يه الهام ابھی جاری ہی تھا کہ یکدم حالت بدل گئی اور میں نے دیکھا.میں جاگتے ہوئے اس کے ساتھ ہی کہہ رہا ہوں لِلَّذِينَ آمَنُوا اس لحاظ سے کہ الہام ابھی جاری ہی تھا کہ لِلَّذِينَ آمَنُوا کے الفاظ جاگتے ہوئے میں نے کہے.ان الفاظ کو بھی کلام الہی کا حصہ ہی سمجھنا چاہئے مگر اس فرق کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ نے لفظی الہام اور قلبی الہام کا مجھے ایک ایسا عجیب نمونہ دکھایا کہ حیرت آتی ہے ان دونوں میں ویسا ہی نمایاں فرق محسوس ہوتا ہے جیسے گاڑی ایک پٹڑی پر چلتے چلتے یکدم اس کو چھوڑ کر دوسری پٹری پر چلنے لگ جائے مجھے اس وقت معلوم ہوا کہ کلام الہی کی وہ حالت جب وہ زبان پر نازل ہوتا ہے اور وہ حالت جب وہ قلب پر نازل ہو تا ہے آپس میں بہت بڑا فرق رکھتی ہے......بهر حال اس الہام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ صرف جماعت احمدیہ کی کامیابی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بلکہ یہ الہی کلام بشارت کا ایک عظیم الشان پیغام اپنے اندر رکھتا اور دنیا میں احمدیت کی ترقی کی خبر دیتا ہے.الفضل 8 جولائی 1944 ء صفحہ 2 جون 1944ء 308 فرمایا : میں نے ایک رویا میں دیکھا کہ مولوی عبد اللہ بابی قادیان میں آیا ہے اور وہ مجھ سے کہتا ہے آپ بہاء اللہ کو کیوں نہیں مانتے میں اسے کہتا ہوں میں بہاء اللہ کو اس لئے نہیں مانتا کہ قرآن کریم کے متعلق تم بھی سمجھتے ہو کہ وہ کچی کتاب ہے اور میں بھی اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ قرآن کریم کی سچائی میں کوئی شبہ نہیں اور جب ہم دونوں قرآن کریم کی سچائی پر یقین رکھتے ہیں تو کسی اور مدعی کی طرف جو قرآن کریم سے ہمیں دور لے جانا چا ہے اسی صورت میں ہم توجہ کر سکتے ہیں جب قرآن کریم کی غلطیاں کوئی شخص ہم پر ثابت کر دے اور بتائے کہ اس کی فلاں فلاں بات قابل عمل نہیں یا فلاں فلاں سچائیاں ایسی ہیں جو قرآن کریم میں موجود نہیں ہیں مگر جب کہ قرآن کریم میں کوئی بات ایسی نہیں جو غلط ہو اور کوئی سچائی ایسی نہیں جو قرآن کریم میں موجود نہ ہو تو اس کے بعد یہ سوال ہی کس طرح پیدا ہو سکتا ہے کہ ہم قرآن کریم کو چھوڑ
242 دیں اور اس کی بجائے کسی اور کتاب کو ماننے لگ جائیں.یہ جواب میں نے اسے رویا میں دیا.اس کے بعد یکدم میری طبیعت میں جوش پیدا ہو جاتا ہے اور میں اسے کہتا ہوں مجھے تو خدا نے بتایا ہے کہ قرآن کریم کی ہر زیر اور ہر زبر اپنے اندر مہینے رکھتی ہے نہ صرف اس کی آیات میں بلکہ اس کی زیروں اور اس کی زبروں میں ایسی حکمتیں پوشیدہ ہیں کہ کوئی زبر اور کوئی زیر ایسی نہیں جو قابل منسوخ ہو اور جبکہ خدا نے مجھے قرآن کریم کی ہر زیر اور ہر زبر تک سمجھا دی ہے تو میں قرآن کریم کو کس طرح چھوڑ سکتا ہوں اور پھر تم بھی تو تسلیم کرتے ہو کہ قرآن کریم کچی کتاب ہے اس میں جھوٹ کی ملاوٹ نہیں.الفضل 9 جولائی 1944ء صفحہ 4 309 *1944 فرمایا : مجھے چوہدری مشتاق احمد صاحب کا انگلستان سے جو خط ملا ہے اس میں انہوں نے میری 1944ء کی ایک خواب لکھی ہے جو یہ ہے کہ ”میں نے رویا میں ان کی بیوی کلثوم کو دیکھا کہ وہ کہہ رہی ہیں کہ بابا جی اتنے بیمار ہوئے لیکن ہمیں کسی نے اطلاع تک نہیں دی.چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ بالکل ایسا ہی واقعہ اس وقت ہوا ہے ہمیں ان کی بیماری کی اطلاع تک نہیں ملی اور اب وفات کی خبر صرف آپ کی طرف سے ملی ہے خاندان کے کسی فرد کی طرف سے نہیں ملی.الفضل 31.جولائی 1949ء صفحہ 7 310 غالبا تیم جولائی 1944ء فرمایا : ایک اور رویا میں نے چھ سات دن ہوئے یہ دیکھا کہ روس کے ملک میں خوشیاں منائی جارہی ہیں جیسا کہ کوئی تازہ فتح ہوتی ہے.ممکن ہے فن لینڈ یا کسی اور علاقہ میں روس کو فتح حاصل ہو ) الفضل 13.جولائی 1944ء صفحہ 2 جولائی 1944ء 311 فرمایا : میں نے دیکھا.ایک جگہ ہے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دارالمسیح کی پہلے زمانہ میں
243 بناوٹ تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات سے چند سال پہلے اور جس میں آپ کی زندگی کے آخری سالوں میں اور پھر بعد میں تبدیلی کر دی گئی ہے اس وقت وہ ڈیوڑھی جو مشرق کی طرف ہے اور جس طرف حضرت اماں جان رہتی ہیں اس ڈیوڑھی میں سے گزر کر آگے ایک برآمدہ تھا اس کے پاس سیڑھیاں لگی ہوئی ہیں اس وقت جو صحن تھا اور جو بعد میں بڑھا لیا گیا) گویا صحن کا پرانا حصہ اس کے شمالی کو نہ پر سیڑھیاں چڑھتی تھیں اسی قسم کی سیڑھیاں چڑھتی ہیں.نیچے مکان میں میں ہوں میں نے دیکھا کہ ایک سانپ ہے جو مفتی محمد صادق صاحب پر حملہ کر رہا ہے اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ یہ نظر تو سانپ آتا ہے مگر ہے آدمی.اس نے مجھ سے کچھ بات بھی کی ہے مفتی صاحب پر اسے حملہ آور ہوتے دیکھ کر میں ڈرتا ہوں کہ کاٹ نہ لے بہت زہریلا معلوم ہوتا ہے اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان سیڑھیوں کے درمیان ایک روک سی بنی ہوئی ہے تا اس پر بغیر اجازت کے کوئی نہ چڑھے ایک ڈنڈا ایک سرے سے دوسرے سرے تک گزرتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ مفتی صاحب اگر اس ڈنڈے کے اوپر ہو جائیں تو حملہ کمزور ہو جائے گا اور اگر اس سے نیچے رہیں تو حملہ زور کا ہو گا میں نے مفتی صاحب کا ہاتھ پکڑ کر انہیں ڈنڈے کے اس طرف نکال لیا جب میں نے ان کو نکالا تو سانپ غصہ سے مجھ پر حملہ کرتا ہے میں جلدی سے اوپر چڑھ گیا اور اس طرف جو روک ہے اس کی پرلی طرف ہو گیا سانپ اچھل اچھل کر ڈسنے کی کوشش کرتا ہے اور بعض دفعہ تو اتنا قریب آجاتا ہے کہ اگر انچ کا پانچواں یا چھٹا حصہ اور آگے بڑھے تو کاٹ لے اس کے بعد میں اندر چلا گیا اس طرف جد حرام ناصر کا دالان ہے اور اس میں سے ہو کر میں دفتر کو جاتا ہوں اس کے مغرب میں ایک کمرہ ہے میں وہاں چلا جاتا ہوں وہاں کچھ عورتیں خاندان کی اور کچھ دوسری جمع ہیں.میں اپنے آپ کو بیمار نہیں سمجھتا مگر نہ معلوم کس خیال سے وہاں عورتوں کو نماز پڑھانے کے لئے کھڑا ہو گیا ہوں میں نے تو کسی سے ذکر نہیں کیا مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو احساس ہے کہ سانپ یہاں آکر حملہ کرے گا اس خیال سے انہوں نے آپ ہی آپ پہرہ مقرر کر دیا جس جگہ میں کھڑا ہوا ہوں اس کے بائیں طرف ایک میز رکھی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس سے نیچے ہو کر سانپ حملہ کرے گا میرے پیچھے کوئی عورت ہے معلوم نہیں خاندان کی ہے یا کوئی اور.میں نے اسے بتایا کہ سانپ یہاں سے حملہ کرے گا اس پر وہ چوکس ہو کر کھڑی ہو جاتی ہے اس کے بعد یہ نظارہ
244 بدلا.یہ نہیں کہ کوئی رؤیا شروع ہو گیا بلکہ یہ کہ میں نماز سے فارغ ہو کر ایک اور طرف گیا وہاں ایک برآمدہ تو جنوب کی طرف ہے اور ایک مشرق کی طرف اور چوڑائی میں چھوٹا لیکن کافی لمبا صحن ہے وہاں ایک شخص ہے جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اس نے تین ہزار روپیہ دینا تھا وہ دینے کے لئے آیا ہے.میں نے اسے کہا ابھی رکھو تھوڑی دیر کے بعد لے لوں گا اس وقت میں نے نام نہیں لیا مگر میری مراد سید حبیب اللہ شاہ صاحب سے ہے میں اسے کہتا ہوں سپرنٹنڈنٹ جیل جو ہیں ان کے گھر پر روپیہ رکھ دو اس وقت کوئی اور شخص کہتا ہے کہ یہ کھا جائے گا یہ بڑا ہے اعتبار آدمی ہے اس وقت یہ بھی ساتھ ہی ذہن میں آتا ہے کہ کوئی اور شخص تھا جسے تین ہزار روپیہ دیا گیا تھا اور وہ کھا گیا تھا یہ خیال آتے ہی میں نے اسے آدمی بھیج کر بلوا بھیجا اور کہتا ہوں روپیہ ابھی دے دو اس پر وہ لمبی لمبی تشریح کر دیتا ہے جیسے نادہند لوگوں کا طریق ہوتا ہے میں نے اسے کہا یہ کیا کہتے ہو مجھے ابھی روپیہ دے دو اس نے پھر لمبی تشریح شروع کر دی میں نے کسی سے کہا نا ظر صاحب امور عامہ کو بلالا ؤ وہ جھٹ پٹ سید ولی اللہ شاہ صاحب کو بلالا یا میں نے انہیں کہا اس سے پوچھو.روپیہ ادا کیوں نہیں کرتے.انہوں نے پوچھا تو ان کے آگے بھی بہانے بنانے لگا میں نے اس پر کہا یہ ہمیں صحیح بات نہیں بتاتا تو اسے پولیس کے حوالے کیا جائے اس سے تھوڑی دیر بعد سید ولی اللہ شاہ صاحب اسے میرے پاس لائے اور کہا یہ کوئی بات آپ سے کہنا چاہتا ہے آپ اس کی بات سن لیں.میں نے کہا بتاؤ کیا بات ہے تو اس نے کہا.میں نے سپرنٹنڈنٹ جیل کے گھر روپیہ رکھا تھا مگر وہاں ادھر ادھر ہو گیا خواب میں ہی میں سمجھتا ہوں کہ یہ سید حبیب اللہ صاحب کی بیوی پر الزام لگا رہا ہے.میں نے کہا کیا وہ چور ہیں تم جھوٹا الزام لگا رہے ہو اس وقت مجھے خیال آیا کہ ام طاہر احمد بر آمدہ میں بیٹھی ہیں ان کی عادت تھی کہ ان کے پاس جو بھی کسی کام کے لئے جاتا اس کی سفارش کر دیتیں اور پھر پیچھے ہی پڑ جاتیں کہ اس کا کام کر دیا جائے انہیں جا کر کہتا ہوں.لو.تم نے اس کی سفارش کی تھی اس نے روپیہ کھا لیا وہ کہتی ہیں اس کی عادت ہی ایسی ہے کہ جب کوئی دو ہزار کسی چیز کی قیمت دے تو کہتا ہے میں تین ہزار دیتا ہوں اس طرح اس کی بات سے دھو کا لگ جاتا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسے نقد روپیہ نہیں دیا گیا بلکہ کوئی چیز دی گئی تھی جس کی قیمت اس نے تین ہزار مقرر کر کے خریدی تھی مگر ادائیگی سے بچنے کی کوشش کرنے لگا میں نے یہ بات سن کر اتم طاہر رحمھا اللہ سے کچھ نہیں کہا اور آنکھ
کھل گئی.245 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمن کی طرف سے کوئی ایسی بات ہونے والی ہے جو خطرہ اور نقصان کا موجب ہو خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے.الفضل 13.جولائی 1944ء صفحہ 2-1 8 جولائی 1944ء 312 فرمایا : آج صبح مجھے الہام ہوا افسوس کہ میں نے اسے لکھ نہ لیا اور ایک لفظ بیچ میں سے بھول گیا الہام یہ تھا.وه باست بد خواہ تھا یا بد کن تھا یہ لفظ بھول گیا کہ بد خواہ تھا یا بد کن مگر اس کا مفہوم یہی تھا کہ شرارت کا اظہار ہو تا تھا) میرے لئے بھی اور سب کے لئے بھی".اس کے ساتھ اس شخص کا نام بھی القاء کیا گیا جو ظاہر نہیں کرتا وہ شخص اونٹ کی طرح کینہ ور ہے چونکہ اس کے متعلق تھا " کا لفظ آیا ہے اس لئے ممکن ہے جلد ہی وہ مرجائے اور نقصان نہ پہنچا سکے یا اسے کوئی اور عذاب پہنچے جس سے اس کا شر کمزور پڑ جائے جب کہ میں بتا چکا ہوں جب الہام کی حالت جاتی رہی تو وہ لفظ مجھے یاد تھا بلکہ کئی گھنٹہ یا د رہا مگر شام کے قریب بھول گیا سب کے لئے " کی یہ تقسیم ہوئی کہ اس سے مراد احمد یہ جماعت ہے یعنی وہ ساری جماعت کا اور بالخصوص میرا دشمن ہے اس کے ساتھ اس کا نام بھی بتا دیا گیا وہ ایسا شخص ہے کہ اس کا مجھے سے کوئی خاص تعلق نہیں یعنی معاملات کے لحاظ سے ایسا بے تعلق ہے کہ ذہن میں اس کا نام خود بخود آنے کی کوئی وجہ نہیں.الفضل 13.جولائی 1944ء صفحہ 2 " 313 8.جولائی 1944ء فرمایا : پھر ایک نظارہ دیکھا کہ میں سورۃ فاتحہ بڑی خوش الحانی سے پڑھ رہا ہوں جب میں نصف تک پہنچا تو میری آنکھ کھل گئی مگر تصرف الہی جاری رہا اور باقی حصہ سورۃ فاتحہ کا میں نے جاگتے پڑھا جب ختم کی تو پھر وہ حالت بدل گئی.الفضل 13.جولائی 1944ء صفحہ 2
246 314 جولائی 1944ء فرمایا : کل میں نے چند رویا اور الہام سنائے تھے.ایک رؤیا سنانا بھول گیا تھا جو یہ ہے.میں نے دیکھا میں اسی جگہ بیٹھا ہوں ایک دوست اپنی جماعت کے جو مخلص ہیں وہ مجلس سے اٹھے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی کام کے لئے اٹھے ہیں اور اس کے لئے ادھر سیڑھیوں کی طرف گئے ہیں.مسجد کا وہ سامنے کا کو نہ جہاں ٹین لگا ہوا ہے وہاں چھوٹی سی دیوار معلوم ہوتی ہے اور سیڑھیاں ننگی ہیں اوپر سے چھتی ہوئی نہیں ہیں وہ دوست اس طرح اٹھ کر گئے جیسے کوئی چیز اٹھانے جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا سر چکرا گیا ہے وہاں اس کونے پر جا کر انہوں نے اپنا ایک پاؤں آگے بڑھایا یہ دیکھ کر میں حیران ہو تا ہوں کہ نیچے تو گڑھا ہے یہ کیا کرنے لگے ہیں پھر خیال آتا ہے کہ کسی چیز کی تلاش کے طور پر پاؤں آگے رکھ رہے ہیں میں یہ نہیں سمجھتا کہ اترنے لگے ہیں پھر انہوں نے اپنا دوسرا پاؤں بھی آگے بڑھا دیا اتنے میں ان کے نیچے گرنے کی آواز آئی.میں دوڑا اور انہیں آواز دی کہ چوٹ تو نہیں آئی انہوں نے کچھ جواب دیا جو میری سمجھ میں نہیں آیا مگر مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ وہ زندہ ہیں کچھ اور لوگ دوڑ کر نیچے ان کے پاس گئے ان سے میں نے پوچھا ان کا کیا حال ہے تو انہوں نے کہا.چوٹیں آئی ہیں مگر زندہ ہیں اتنے میں کوئی اور شخص آیا اور آکر کہنے لگا.کہ وہ تو گر کر چُور چُور ہو گئے ہیں اس پر میں نے خیال کیا کہ یہ اس کا قیاس ہے اس نے خود ان کی حالت نہیں دیکھی.جن کے متعلق میں نے یہ رویا دیکھی وہ مخلص احمدی ہیں اور اس طرح گرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دینی لحاظ سے گرنا نہیں ہے کیونکہ میرا تعلق ان سے قائم رہا ہے میں ان کے گرنے پر دوڑ کر گیا.ان سے سوال کیا ار ان کا حال پوچھا اس کا انہوں نے جواب دیا میں نے ان کا انجام نہیں دیکھا.وہ مشتبہ رہے ممکن ہے انہیں کوئی جانی یا مالی تکلیف پیش آئے.الفضل 13.جولائی 194ء صفحہ 3-2- نیز دیکھیں.12.مارچ 1946ء صفحہ 2 315 جولائی 1944ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں اپنی اولاد کو مخاطب کرکے کہ رہا ہوں کہ اگر اس قسم کا
247 معاہدہ (حلف الفضول.ناقل ) وہ بھی کریں اور پھر اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں تو خدا تعالیٰ ان کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ ان پر اپنے فضل فرمائے گا.یہ ایک ایسا مضمون ہے جو شاید سالها سال سے بھی میرے ذہن میں نہیں آیا ہو گا آٹھ دس سال سے تو حلف الفضول کا لفظ میرے ذہن میں نہیں آیا مگر اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ الہام ربانی ہے اس میں نفس کا دخل نہیں.الفضل 22 جولائی 1944ء صفحہ 2.نیز دیکھیں.الفضل یکم جنوری 1945ء صفحہ 2913.ستمبر 1960ء صفحہ 3 اور تغییر کبر جلد ششم جز و چهارم حصہ سوم صفحه 262 28.جولائی 1944ء 316 فرمایا : جمعرات اور بدھ کی درمیانی رات کو اللہ تعالیٰ نے میری زبان پر جاری فرمایا ”مظفر بخت اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ یہ نام اللہ تعالیٰ نے میرا رکھا ہے اس کے بعد یہ الفاظ زبان پر جاری ہوئے اس کی سلامتیوں“ نہ معلوم فقرہ کو جان کر نا مکمل چھوڑ دیا گیا کہ خود ہی اس کا مفہوم نکال لیا جائے.یا یہ کہ بعد کے الفاظ بھول گئے سلامتیوں کالفظ جمع استعمال کرنابتا تا ہے کہ کئی رنگ کے خطرات مجھے پیش آئیں گے مگر اللہ تعالیٰ مجھے محفوظ رکھے گا چنانچہ دوسرے دن " جو رویا ہوئی اس سے اس کی تصدیق ہو جاتی ہے.الفضل 3.اگست 1944ء صفحہ 1 29.جولائی 1944ء 317 فرمایا : جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات کو میں نے دیکھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے مجھ سے کہا کہ بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی اور ایک اور شخص جب آپ کی سواری کسی موڑ پر سے یاپل پر سے گزرتی ہے تو وہاں بھرا ہوا پستول لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور جب سواری گزر جاتی ہے تو پھر بھاگ کر اگلے پل یا موڑ پر چلے جاتے ہیں یہ خبر رساں مخلص معلوم ہو تا ہے مگر وہ اس وقت اس غلط فہمی میں مبتلاء نظر آتا ہے کہ یہ دونوں صاحبان مخالف ہیں اور بدارادہ رکھتے ہیں اور گویا مجھ پر حملہ کرنے کے لئے ہر موڑ یا پل پر جا پہنچتے ہیں پھر وہ مجھ سے کہتا ہے کہ شاید وہ جن ہیں کہ اس قدر تیز رفتاری سے اگلے پل یا موڑ پر پہنچ جاتے ہیں اس وقت رویا میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرا کام ہی یہ ہے کہ میں ریل میں سوار ہو کر دورہ کرتا ہوں اور
248 ریل گویا موٹر کی طرح ہے کہ جہاں چاہتا ہوں اسے لے جاتا ہوں اور یہ دونوں ایسے تیز رفتار ہیں کہ ایک موڑ یا پل پر سے گزر جاتا ہوں تو یہ بھاگ کر اگلے موڑ یا پل پر جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اس وقت میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اس دوست کو غلطی لگی ہے کہ یہ جن ہیں اور مخالف ہیں بلکہ یہ دو فرشتے ہیں جن میں سے ایک کی شکل بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی سے ملتی ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کے لئے مقرر کیا ہے جو ہر موڑ اور پل پر جو خطرہ کی جگہیں ہوتی ہیں دوڑ کر جا پہنچتے ہیں اور بھرے ہوئے پستول سے پہرہ دینے لگتے ہیں.الفضل 3.اگست 11944 30.جولائی 1944ء 318 فرمایا : جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کو دیکھا کہ حضرت (اماں جان) کا خط میرے نام آیا ہے (حالانکہ حضرت اماں جان اس وقت ڈلہوزی میں ہمارے پاس ہی ہیں) اور اس پر میرے نام کے ساتھ یہ دعائیہ کلمات لکھے ہیں.أطالَ اللَّهُ بَقَاءَهُ وَأَطْلَعَ شُمُوسَ طَالِعِهِ یعنی اللہ تعالیٰ اس کی بقاء کے دن لمبے کرے اور اس کی قسمت کے سورجوں کو چڑھائے عجیب بات ہے کہ جمعرات کے دن جو الفاظ اللہ تعالیٰ نے فرمائے ان میں بھی سلامتیوں " کا لفظ ہے اور اس جگہ بھی سورجوں" کا لفظ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے کئی میدانوں میں کام لینا چاہتا ہے پس مقابلہ کے ہر میدان کے لحاظ سے الگ الگ قسم کی سلامتی اور ہر ظلمت کے لحاظ سے الگ الگ سورج کا ذکر فرمایا فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ - الفضل 3 - است 1,1944 جولائی 1944ء 319 فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے ایک مکان ہے مگر اس کی شکل ہمارے اس مکان سے نہیں ملتی کو میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام والا مکان ہی ہے میں اس مکان میں ہوں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پیر افتخار احمد صاحب جو صوفی احمد جان صاحب مرحوم
249 لدھیانوی کے لڑکے پیر محمد منظور صاحب مصنف قاعدہ یسرنا القرآن کے بھائی اور حضرت خلیفہ اول کے سالے ہیں انہوں نے دعوت کی ہے دعوت میری اور کچھ اور دوستوں کی ہے جن میں میر محمد اسحاق صاحب مرحوم اور میاں بشیر احمد صاحب بھی شامل ہیں میں اس وقت یہ خیال بھی نہیں کرتا کہ میر صاحب فوت ہو چکے ہوئے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گیارہ بارہ بجے کا وقت ہے اور دوپہر کے کھانے کی دعوت ہے.میں دعوت پر چلنے کی تیاری کرتا ہوں اور دل میں کہتا ہوں چلیں کہ میرے گھر سے مریم صدیقہ بیگم کہتی ہیں کہ چچا جان کی رائے تو یہ ہے کہ دعوت میں نہ جانا چاہئے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میر صاحب مرحوم نے اپنے دو چھوٹے لڑکوں یعنی مسعود احمد اور محمود احمد میں سے کسی ایک کو اپنی بھتیجی کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ میری رائے میں اس دعوت میں نہ جانا چاہئے.میں دعوت کے لئے جانے کے واسطے تیار تھا چھڑی ہاتھ میں تھی مریم صدیقہ بیگم نے یہ کہا.اس پر میں نے کہا کہ اچھا اگر میر صاحب کی یہ رائے ہے کہ نہیں جانا چاہئے تو میں نہیں جاتا مگر یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ کیوں نہ جانا چاہئے.پیر صاحب پرانے صحابی اور مخلص احمدی ہیں ان کے ہاں دعوت پر نہ جانے کی کوئی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی.میں یہ باتیں کر رہا ہوں اور ٹہلتا بھی جاتا ہوں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم مکان کی اوپر کی منزل میں ہیں میں اسی طرح مل رہا تھا کہ نیچے سے میر صاحب مرحوم کی آواز آئی انہوں نے زور سے السلام علیکم کہا میں ان کی آواز کو سن کر سیڑھیوں کی طرف گیا موڑ والی سیڑھیاں معلوم ہوتی ہیں یعنی ایک حصہ بڑھ کر دوسری طرف کو مڑ جاتی ہیں اور درمیان میں زاویہ قائمہ کی طرح زاویہ بنتا ہے میں سیڑھیوں کے دروازہ تک پہنچا تو میر صاحب مرحوم نظر پڑے وہی زندگی والا بشاش چہرہ تھا وہ مجھے دیکھتے ہی بولے کہ دعوت کو دیر ہو رہی ہے میں نے ان سے کہا کہ میں تو آنے کو تیار تھا مگر مریم صدیقہ بیگم نے مجھے بتایا کہ آپ کی رائے یہ ہے کہ نہ جانا چاہئے اس لئے میں رک گیا میر صاحب مرحوم نے کہا کہ نہیں.اب رائے یہ ہوئی ہے کہ جانا چاہئے اور مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مرزا بشیر احمد صاحب کا نام بھی لیتے ہیں کہ ان کی رائے بھی یہی ہے کہ جانا چاہئے اس کے ساتھ ہی میں رویا میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ پیرا افتخار احمد صاحب، حافظ روشن علی صاحب مرحوم والے مکان میں رہتے ہیں حالانکہ ان کا مکان جو ہر کی طرف ہے حافظ صاحب مرحوم والے مکان کے دو راستے ہیں ایک تو احمد یہ چوک میں سے ہو کر اور ایک ہمارے مکان
250 سے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب والے مکان میں سے ہو کر جاتا ہے اس وجہ سے میں نے میر صاحب مرحوم سے پوچھا کہ میں کس رستہ سے جاؤں.باہر کے راستہ سے یا اندروالے راستہ سے.اس پر میر صاحب نے کہا کہ آپ باہر والے راستہ سے آئیں تا اکٹھے ہو کر جائیں.پیر افتخار احمد صاحب میرے استاد ہیں....وہ صوفی منش آدمی ہیں اور علیحدگی کو پسند کرتے ہیں اس لئے میرے سامنے بھی بہت کم آتے ہیں.....پھر ان کے ہاں دعوت کا ہونا بھی غیر معمولی بات ہے کیونکہ مجھے یاد نہیں میں نے کبھی ان کے ہاں دعوت کھائی ہو ان کی طبیعت میں شرم و حیا بہت زیادہ ہے.پھر ان کی عادت خط و کتابت کی بھی نہیں.ممکن ہے چار پانچ سال میں وہ کبھی کوئی خط لکھ دیتے ہوں مگر عام طور پر نہیں لکھتے.لیکن اس خواب کے تیسرے روز بعد ڈلہوزی میں ان کا خط مجھے ملا جو ایک ایسے واقعہ کے بارے میں تھا کہ آج سے چھ ماہ قبل ان کو وہ خط لکھتا چاہئے تھا اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ آپ پر اس انکشاف کے بعد کہ آپ ہی پسر موعود ہیں بہت سے لوگوں کے خواب اس کی تائید میں شائع ہوئے ہیں اس بارہ میں میرا بھی ایک خواب ہے جو میں نے حجاب کی وجہ سے اب تک بیان نہیں کیا اور وہ خواب اس وقت کا ہے کہ جب آپ کی عمرا بھی پانچ چھ سال کی ہی تھی اس وقت میں نے رویا دیکھا جس میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ یہ لڑکا جب بڑا ہو گا تو یہی پسر موعود ہو گا اور یہ کہ تمہیں بھی اس وقت ان سے فائدہ پہنچے گا.اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پیر صاحب اس وقت تک زندہ رہیں گے اب ان کی عمر قریباً اتنی سال ہے اور وہ ویسے ہی دبلے پتلے اور کمزور جسم کے آدمی ہیں اور پھر یہ بھی بتایا گیا کہ ان کو ایمان بھی نصیب ہو گا.الفضل 30.اگست 1944ء صفحہ 2 320 514 اگست 1944ء فرمایا : دو تین روز بعد میں نے ایک اور رویا دیکھی میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ کھڑا ہوں وہ ایسی جگہ ہے کہ جہاں میں کھڑا ہوں وہاں تو روشنی ہے مگر اس سے آگے اندھیرا ہے اور اس اندھیرے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی احمدی ہے جس کی شکل میں نہیں دیکھ سکتا اور اگر چہ کوئی بات تو نہیں ہوئی مگر مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی دو بیویاں ہیں اور ان میں سے ایک کے ساتھ اس کا سلوک اچھا نہیں اور وہ اس کے ساتھ انصاف نہیں کرتا یہ ساری باتیں میرے
251 دل میں گزرتی ہیں اگرچہ کوئی ایسا واقعہ میرے سامنے نہیں ہو تا.اندھیرے کی وجہ سے میں اس آدمی کو پہچان نہیں سکا شاید اللہ تعالیٰ نے اسی لئے اندھیرے میں دکھایا کہ اس کی پردہ پوشی کرنا چاہتا ہے اور شاید اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہو کہ وہ آدمی اس فعل کی وجہ سے تاریکی میں ہے بہر حال میں اسے دیکھ نہیں سکتا مگر مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی دو بیویاں ہیں جن میں سے ایک کے ساتھ اس کا سلوک اچھا نہیں اور میں بغیر اس کے کوئی آدمی وہاں کھڑے ہوں جنہیں میں مخاطب کروں آپ ہی آپ کہتا ہوں کہ آؤ ہم اس ظلم کو مٹا دیں".الفضل 31.اگست 11944 اکتوبر 1944ء 321 فرمایا : دو مہینے کے قریب عرصہ گزرا کہ میری زبان پر یہ الفاظ جاری کئے گئے کہ بَلَوْنَاهُمْ فِتْنَةٌ قرآن کریم کے استعمال اور لغت کے محاورہ کی رُو سے ان الفاظ میں حذف ہے یعنی دراصل فقره بَلَوْنَاهُمْ بِالشَّرِ فِتْنَهُ يا بَلَوْنَاهُمْ بِالْخَيْرِ فِتْنَةٌ ہے یا پھر یہ دونوں الفاظ اس میں ہوں جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ بلو نَاهُمْ بِالْحَسَنَتِ وَالسَّيِّاتِ (الاعراف : (169) اگر یہ فقره بَلَوْ نَاهُمْ بِالشَّرِ وَالْخَيْرِ فِتْنَةٌ ہو تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ بعض نیکیاں دشمن کو خدا تعالیٰ پہنچاتا ہے تاکہ اسے توبہ نصیب ہو مگر وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا بلکہ شر میں پڑ جاتا ہے اور بعض دفعہ اس کے لئے شر پیدا کیا جاتا ہے تاوہ نیکیوں کی طرف لوٹے مگر پھر بھی وہ تو بہ نہیں کرتا اور اس طرح پر حجت پوری ہو جاتی ہے اور وہ الہی گرفت میں آجاتا ہے.الفضل 5.نومبر 1944ء صفحہ 1 322 اکتوبر 1944ء فرمایا : یہ جو مجھے پر بیماری کا حملہ ہوا اس سے پہلے میں نے ایک رویا دیکھا تھا جس میں اس بیماری کی طرف اشارہ تھا میں نے دیکھا کہ میں کہیں جا رہا ہوں کہ میں نے مفتی فضل الرحمان صاحب حکیم کو دیکھا کہ میرے پیچھے پیچھے آرہے ہیں مگر ان کا چہرہ صاف طور پر نظر نہیں آتا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مونہہ کے آگے کوئی جالی سی ہے.
252 بعد میں اس کی تعبیر سمجھ میں آئی کہ مفتی فضل الرحمان صاحب طبیب تھے ان کے دکھائے جانے سے بیماری کی طرف اشارہ ہے اور ان کا چہرہ صاف نظر نہ آنے کی تعبیر یہ ہے کہ یہ تکلیف دیر تک رہے گی.الفضل 5.دسمبر 1944ء صفحہ 1 اکتوبر 1944ء 323 فرمایا : انہی دنوں ایک اور رویا دیکھا کہ مجھے لیموں کا گلاس دیا گیا.لیموں تقویت قلب کے لئے مفید ہوتا ہے.اس لئے یہ رویا مبشر ہے ممکن ہے بیماری کی طرف بھی اشارہ ہو.الفضل 5.نومبر 1944ء صفحہ 1 324 اکتوبر 1944ء فرمایا : یہ انہی دنوں کا رویا ہے جب میں ڈلہوزی سے قادیان آیا تھا عید سے شاید پہلے کی بات ہے میں نے دیکھا کہ اپنی بیوی عزیزہ بیگم کے ہاں سویا ہوا ہوں کہ میری آنکھ کھل گئی اور مجھے خطرہ کی صورت نظر آئی اس پر میں اٹھ کر بیٹھ گیا اس وقت میری دوسری بیوی بشری بیگم دوڑتی ہوئی اندر آئیں اور عزیزہ بیگم کو آوازیں دینے لگیں کہ جلدی آؤ اس وقت میں خیال کرتا ہوں کہ خطرہ کی جو آواز مجھے سنائی دی تھی ان کو بھی اس کا پتہ لگ گیا ہے مگر میں نے ان سے اس کے متعلق پوچھے بغیر کہا کیا تم کو پتہ لگ گیا ہے انہوں نے کہا ہاں میں نے کہا کس طرح.تو انہوں نے مسجد کے ساتھ جو کمرہ ہے اس کی طرف اشارہ کر کے کہا مجھے اس کمرہ میں آہٹ آئی تھی کہ دشمن اندر آنا چاہتا ہے.اس رویا میں جو نام آئے ہیں عزیزہ اور بشریٰ وہ مبارک نام ہیں اور دشمن کے متعلق قبل از وقت اطلاع کا ہو جانا بھی اچھی فال ہے ممکن ہے اس رویا میں اس مقدمہ کی طرف اشارہ ہو جو کسی نے دفعہ 107 کا دائر کیا تھا اور جو خارج ہو گیا ہے یہ رویا اس کے دائر ہونے سے بھی دو ہفتہ پہلے کا ہے.الفضل 5.نومبر 1944ء صفحہ 1
253 325 اکتوبر 1944ء فرمایا : ایک اور رویا میں نے دیکھا یہ شاید اس وقت کا ہے جب میں عید کے موقع پر قادیان آیا یا اس سے پہلے کا ہے یہ بات اچھی طرح یاد نہیں ہے میں نے دیکھا کہ میں بیمار ہوں اور ایک مکان میں ہوں جو ہمارے مکان سے مختلف معلوم ہوتا ہے.رات کا وقت ہے کرنل اوصاف علی خان صاحب جو آج کل دہلی میں رہتے ہیں میرا علاج کر رہے ہیں وہ طبیب نہیں ہیں مگر خواب میں ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ جب وہ طبیب نہیں ہیں تو علاج کیوں کر رہے ہیں بہر حال ساری رات وہ علاج کرتے رہے.اور صبح کے وقت طبیعت درست معلوم ہوئی اتنے میں صبح کی اذان ہوئی اور انہوں نے مجھے یا میں نے ان کو توجہ دلائی کہ اب نماز پڑھ لیں اس پر وہ کسی اور طرف وضو کے لئے چلے گئے اور میں پاس ہی ایک گھرا تھا اس کے پاس بیٹھ کر وضو کرنے لگا مگر میرے وضو کرتے کرتے ہی یوں معلوم ہوا کہ سورج نیزہ بھر اوپر نکل آیا ہے گویا اتنی سی دیر میں کہ میں اذان کے معا بعد وضو کرتا ہوا پاؤں دھونے تک پہنچا کہ سورج نکل آیا اس پر میں گھبرایا کہ یہ کیا ہو ا نماز کا وقت تو فوت ہو گیا اور آنکھ کھل گئی.کچھ دیر بعد میرے دل پر منکشف ہوا کہ خواب بہت مبارک ہے ایک تو بیماری سے صحت کی خبر ہے دوسرے معالج اوصاف علی خان ہیں یعنی خدائے علی کی صفات.تیسرے نماز میں دیر میری سستی کی وجہ سے نہیں بلکہ سورج ہی غیر معمولی طور پر جلدی نکل آیا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ اسلام پر جو تاریکی کا زمانہ ہے اللہ تعالیٰ اس کے دور کرنے کے لئے غیر معمولی سامان پیدا کر دے گا.یہ خواب گویا اس الہام کی طرف اشارہ کرتی ہے جو مجھے پہلے ہو چکا ہے." روز جزاء قریب ہے اور راہ بعید ہے ".الفضل 5 نومبر 1944ء صفحہ 2 326 اکتوبر 1944ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ امریکہ میں الیکشن ہو رہا ہے اور اس کی خبریں باہر پہنچائی جارہی ہیں.ایک خبر میں کہا گیا کہ پہلے مسٹر روزویلٹ کے ووٹ زیادہ تھے مگر پھر مسٹر ڈیوی کے زیادہ ہو گئے ہیں.ممکن ہے کہ اس رویا کے معنے یہی ہوں کہ گو اس وقت جنگ کے غصہ کی وجہ سے مسٹر
254 روزویلٹ کی پارٹی کا خیال کہ جرمنی کو بعد از جنگ بھی دبائے رکھنا چاہئے غالب ہے لیکن آخر امریکن لوگ معقولیت کی طرف آجائیں گے اور مسٹر ڈیوی کی پارٹی کی رائے غالب آجائے گی یہ میرا خیال اس وجہ سے ہے کہ ان دنوں میری طبیعت پر مذکورہ بالا بحث کا خاص اثر تھا ورنہ ممکن ہے کہ خواب میں جو کچھ بتایا گیا ہو وہی ظاہر میں مراد ہو.الفضل 5.نومبر 1944ء صفحہ 2 -1.نیز دیکھیں.الفضل 7.مئی 1945ء صفحہ 2 اکتوبر 1944ء 327 فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیمار ہیں اور ایک ایسی جگہ ہیں جہاں دائیں بائیں تو عمارتیں ہیں مگر درمیان میں پچاس ساٹھ گز کھلی جگہ ہے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی چارپائی بچھی ہے اس بیماری کے وقت میں ادھر ادھر دیکھتا ہوں کہ کسی طرف سے دشمن حملہ نہ کرے.یہ دیکھتا ہو اپہلے میں سرہانے کی طرف گیا اس طرف میں نے دیکھا کہ دلدلی سا علاقہ ہے جسے پنجابی میں پچھنب کہتے ہیں اس میں گھاس دو دو تین تین فٹ اونچی اور گھنی اگی ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ادھر جرمن فوجیں ہیں اس وقت میں خیال کرتا ہوں کہ یہاں لڑائی ہو رہی ہے اس طرف کوئی گولی نہ چلا دے اس پر میں ادھر جا کر کہتا ہوں (میں نے جو فقرہ کہا وہ تو مجھے یاد نہیں مگر اس کا مفہوم یہ تھا) کہ ادھر ہم لوگ ہیں تم سے ہمیں کوئی خطرہ تو نہیں ہے اس کے جواب میں ایک افسر نے کہا ہم نے ادھر گولی نہیں چلائی اور ہم سے تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے.پھر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پائنتی کی طرف گیا ادھر مجھے آدمی تو نظر نہیں آتے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ادھر آریہ ہیں ان سے بات کرنا بھی مجھے یاد نہیں مگران کی طرف سے جو جواب دیا گیا وہ یاد ہے انہوں نے کہا لیکھرام کا قتل ہمیں بھولا تو نہیں آخر ہم نے اس کا بدلہ لیتا ہے “ اس پر میں گھبرا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس واپس آیا اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ سوئے ہوئے ہیں یا بیماری کی وجہ سے غنودگی میں ہیں میں چاہتا ہوں کہ جلد سے جلد یہ بات آپ کو بتاؤں مگر جگانا بھی نہیں چاہتا کہ ممکن ہے آپ سوئے ہوئے ہوں اور آپ کے
255 آرام میں خلل پڑے آخر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ سرہانے کھڑے ہو کر کانوں کے پاس آرام سے یہ بات کہہ دوں.اس طرح آپ سن لیں گے.اس کے بعد میں نے آپ کے کان کے پاس جھک کر آہستہ سے کہا کہ اس طرف آریہ ہیں جو کہتے ہیں کہ لیکھرام کا قتل نہیں بھولا تو نہیں آخر ہم نے اس کا بدلہ لیتا ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سنا نہیں پھر میں نے پہلے سے ذرا اونچی آواز میں یہی بات کی مگر پھر بھی آپ نے نہیں سنی اس پر میں نے پھر اونچی آواز بھی مگرپھر سے کہا کہ آریہ کہتے ہیں.لیکھرام کا قتل ہمیں بھولا تو نہیں آخر ہم نے اس کا بدلا لیتا ہے اس پر آپ کی آنکھ کھل گئی مگر آپ نے کچھ کہا نہیں صرف یہ اشارہ فرمایا کہ میں نے یہ بات سن لی ہے اس کے بعد میں وہاں سے ہٹا تو ایک شخص آتا ہوا نظر آیا جو فقیرانہ لباس پہنے ہوئے تھا لمبا سا کرتا تھا ایک لوہے کا کڑا ہاتھ میں پہن رکھا تھا اور اس کی کمر سے لوہے کی زنجیر بندھی ہوئی تھی جو بہت لمبی تھی.اور اس کا ایک حصہ زمین پر لٹک رہا تھا اس نے آکر کہا میں آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا علاج کروں گا مجھے اس کی شکل و صورت دیکھ کر اس کا یہ کہنا بہت برا لگا اور میں نے کہا.نہیں.تم نے علاج نہیں کرنا اس نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہا.مجھے وہ لائے ہیں پھر اس نے آگے بڑھ کر کچھ دم کیا جس کا کوئی اثر نہیں ہوا پھر اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کنپٹی پر اس طرح منہ رکھ دیا کہ گویا وہ خون چوسنا چاہتا ہے جس طرح خون چوسنے کے لئے مٹی کے آبخورے لگائے جاتے ہیں اسی طرح اس نے ہونٹوں کی شکل بنا کر کنپٹی پر رکھ دیئے یہ دیکھ کر مجھے بہت جوش آیا اور میں نے دل میں خیال کیا کہ اس طرح یہ کوئی نقصان نہ پہنچائے اور میں نے اسے سختی سے کہا کہ ہٹ جاؤ میں تم کو اس کی اجازت نہیں دیتا مگر وہ میرے کہنے کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور آنکھوں سے اس طرح اشارہ کرتا ہے کہ میں نے اجازت لی ہوئی ہے اس پر میں کود کر اس کے پیچھے آگیا اور اسے گردن سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا.میں نے دیکھا اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنکھ کھولی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں کہا اس کو ہٹانے میں میں نے غلطی نہیں کی بلکہ اچھا کیا ہے اس پر مجھے دلیری پیدا ہو گئی اور میں نے اتنے زور سے اسے لات ماری کہ وہ چار پانچ قدم پرے جا پڑا اس وقت پھر اس نے کہا کہ مجھے تو ڈاکٹر صاحب نے علاج کی اجازت دی تھی مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک ڈاکٹر صاحب کو بھی محسوس ہو گیا ہے کہ اس شخص کو علاج کی اجازت دینا ٹھیک نہ
256 یوں لکھنا تھا اور انہوں نے بھی اسے سختی سے ڈانٹا اور کوئی سخت لفظ کہہ کر کہا کہ یہاں سے چلے جاؤ.میں نے دیکھا اس وقت کچھ اور احمدی بھی وہاں آگئے ہیں ان میں سے ایک نیک محمد خاں صاحب افغان تھے میں ان سے کہتا ہوں کہ اسے اٹھا کر یہاں سے لے جاؤ چنانچہ انہوں نے اس کی ٹانگیں پکڑیں اور ایک اور شخص نے اس کا سر پکڑا اور وہ اسے اٹھا کر لے گئے اس وقت اس کی زنجیر زمین کے ساتھ گھسٹتی جاتی ہے اس کے بعد میں پھر پائنتی کی طرف کے علاقہ میں گیا اور میرے ذہن میں آیا کہ اور تو سارے رشتہ دار یہاں جمع ہو گئے ہیں مگر منور احمد یہاں نہیں ہے وہ حیدر آباد میں ہے اس پر میں نے نیک محمد صاحب سے کہا کہ فور آثار گھر جاؤ اور منور احمد کو تار دو کہ فوراً آ جاؤ وہ جانے لگے تو میں نے کہا عام طور پر فور آ کے معنے فورآ آجانا نہیں سمجھتے بلکہ خیال کر لیتے ہیں کہ بلانے کے لئے تاکید کی ہے اس لئے تار میں یہ الفاظ لکھوانا کہ پہلی گاڑی سے آجاؤ اور پھر خیال آیا کہ اس میں پورا زور نہیں اور کہا کہ By First Train without fail اس پر وہ تار دینے کے لئے دوڑے اور میں اس خیال سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس کوئی اور آدمی نہیں آپ کی طرف چل دیا مگر اس وقت مڑ مڑکر نیک محمد صاحب کو بتاتا جاتا ہوں کہ یہ الفاظ ضرور لکھنا By First Train without fail اور نیک محمد صاحب دوڑے جاتے ہیں اور جواب دیتے جاتے ہیں کہ میں سمجھ گیا ہوں میں سمجھ گیا ہوں یہی الفاظ لکھوں گا جب میں واپس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس کوئی آدمی نہیں اور کچھ اندھیرا سا بھی ہو گیا ہے جیسے شام کا وقت ہوتا ہے مگر ایک طرف جو دیکھا تو دو لڑکیاں نظر آئیں جن میں سے ایک کو میں ہمشیرہ مبارکہ بیگم کی ملازمہ سمجھتا ہوں اور دوسری کو ہمشیرہ امتہ الحفیظ کی ملازمہ سمجھتا ہوں اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ ان کو پہرہ کے لئے مقرر کیا گیا ہے اس وقت تکیہ کے سہارے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس طرح بیٹھے ہیں کہ گویا نماز پڑھ رہے ہیں اور میں خوش ہو تا ہوں کہ اب آپ کی طبیعت آگے سے اچھی ہے اتنے میں ہمارے گھر کے بچے جو 5-4-3 سال کی عمر کے ہیں صحن کی طرف نکل آئے اور ان کے آنے سے میں نے سمجھا کہ گھر کے لوگ یہیں ہیں مجھے اس وقت وہاں بچوں کا شور کرنا اور کھیلنا ناگوار گذرا اور میں نے ان کو ڈانٹ کر وہاں سے ہٹا دیا اور پھر زنانہ میں اس مکان کے اندر گیا جہاں سے بچے آئے تھے تاکہ ان
257 کی ماؤں کو سمجھاؤں.اندر آکر میں نے دیکھا کہ میری ایک بیوی کھڑی ہے.ان سے میں نے غصہ سے کہا کہ ان بچوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام والے صحن میں آنے سے روکو آپ بیمار ہیں ان کے شور سے آپ کو تکلیف ہوگی اگر پھر میں نے کسی بچہ کو وہاں دیکھا تو میں اس کی ہڈیاں تو ڑدوں گا پھر میں اس مکان میں جو نہایت وسیع معلوم ہوتا ہے آگے چلتا گیا اور میں دل میں خیال کرتا ہوں کہ جماعت نے اس موقع پر احتیاط سے کام نہیں لیا اور پہرہ کا انتظام نہیں کیا مگر جب میں جاتے جاتے دوسری طرف کے دروازے کے پاس پہنچا تو میں نے دیکھا کہ دروازہ کے دائیں بائیں احمدی پہرہ دے رہے ہیں وہ قادیان کی جماعت کے معلوم ہوتے ہیں اس پر مجھے خوشی ہوئی جب میں پھر اندر کی طرف لوٹا تو ام متین نے کہا کہ پاخانہ آیا ہے پردہ کروا دیں میں نے کہا یہ کونسا پر وہ کرانے کا وقت ہے ایسے نازک وقت میں اس قدر احتیاط نہیں کیا کرتے ایک طرف اندھیرے میں بیٹھ کر قضائے حاجت کر لو.یہ رویا میں نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو سنایا تو انہوں نے توجہ دلائی کہ اوصاف علی اور حیدر آباد بتاتے ہیں کہ دونوں رویا ایک ہی واقعہ کی نسبت ہیں کیونکہ حیدر بھی حضرت علی کی صفت ہے اور پہلی رؤیا میں آپ نے اپنے آپ کو بیمار دیکھا ہے اور دوسری میں حضرت مسیح موعود عليه الصلواۃ والسلام کو.ان کی یہ رائے درست معلوم ہوتی ہے.الفضل 5.نومبر 1944ء صفحہ 3-2 اکتوبر 1944ء 328 فرمایا : ڈلہوزی سے آنے سے معا پہلے یا معابعد میں نے رویا میں دیکھا کہ ڈلہوزی سے قادیان آرہا ہوں راستہ میں ایک پڑاؤ پر ام طاہر آتی ہیں ان کے چہرہ پر رونق ہے اور ایک عورت ان کی کمر دبا رہی ہے میں نے کہا.اب تم اچھی ہو انہوں نے کہا میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہوں میں ان سے خوش ہو کر باتیں کرتا رہا اتنے میں دیکھا کہ ایک لڑکی ہماری کسی لڑکی کو شدید وق کرتی ہے اس پر میں اسے پکڑ کر دور تک گھسیٹتا ہوالے گیا ہوں اور اسے وہاں چھوڑ کر واپس آگیا ہوں اس کا باپ بھی وہاں موجود ہے مگر اس ادب سے کہ میں اسے چھوڑ کر آیا ہوں اس کا باپ اسے لایا نہیں اتنے میں کسی بچہ نے کہا کہ وہ رو رہی ہے.میں نے اس کے باپ سے کہا.
258 میرا یہ مطلب تو نہیں تھا کہ تم بھی اسے چھوڑ آؤ.اب جا کے اسے لے آؤ اس پر وہ چلا گیا مگر جب واپس آیا ہے تو ایک ٹانگہ میں ہے جو تعزیہ کی شکل کا ہے اور اسے آدمی دھکیلتا ہے اور اس میں اس لڑکی کے علاوہ میری لڑکی بھی ہے.الفضل 5.نومبر 1944ء صفحہ 3 27.اکتوبر 1944ء 329 فرمایا : گزشتہ رات بڑا اچھا الہام ہو ا مگر یاد نہیں رہا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ سے شروع ہوتا تھا اور آگے فقرہ مکمل تھا دوسرا فقرہ پہلے الَّذِینَ کے بدل کے طور پر پھر الَّذِينَ سے شروع ہوتا ہے مگر وہ بھی یاد نہیں رہا.ہاں یہ احساس ہے کہ وہ تھا مبارک اسی قسم کا تھا جیسے قرآن کریم میں ہے اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ (النحل : 129) الفضل 5 نومبر 1944ء صفحہ 3 اکتوبر 1944ء 330 فرمایا : ایک اور رویا یاد آگیا میں نے دو چار دن ہوئے ام طاہر کو خواب میں دیکھا کہ ان کی بڑی سی داڑھی ہے جو سفید ہے اور مہندی لگی ہوئی ہے مگر نیچے کھونٹیاں سفید ہیں رویا میں مجھے یہ کوئی قابل تعجب بات معلوم نہیں ہوتی یوں معلوم ہوتا ہے کہ کسی وقت انہوں نے مجھے طعنہ دیا تھا کہ تمہارے بال سفید ہو گئے ہیں اس بات کو یاد کر کے میں نے ان سے کہا میری تو پچاس سال کی عمر ہے مگر تمہاری تو 38 سال کی عمر میں ہی داڑھی سفید ہو گئی ہے اس پر وہ ہنس پڑیں اور ایسا معلوم ہوا کہ گویاوہ سمجھتی ہیں ان کو بھی جواب دینے کا موقع مل گیا ہے.میں نے تعبیر الرویا میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ زندہ عورت کے اگر داڑھی دیکھیں تو اس کی یہ تعبیر ہوتی ہے کہ اس کے ہاں لڑکا پیدا ہو گا یہ بھی لکھا ہے عورت کے داڑھی دیکھنا مبارک ہوتا ہے اس کو یا اس کے شوہر کو شرف اور مال ملتا ہے ممکن ہے وفات یافتہ عورت کے داڑھی دیکھنے کی بھی یہی تعبیر ہو.الفضل 5.نومبر 1944ء صفحہ 3
259 331 30 اکتوبر 1944ء فرمایا : آج صبح کے وقت میں نے نماز فجر سے پہلے ایک رویا دیکھی جو آج پوری ہو گئی ہے میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بینچ پر بیٹھا ہوں وہ اس طرح کی چھوٹی بیچ نہیں جس پر اس وقت بٹھا ہوا ہوں بلکہ وہ بیچ لمبی ہے جس طرح سکولوں میں لڑکوں کے بیٹھنے کے لئے ہوتی ہے مجھے قضائے حاجت ہوئی اور میں نے وہیں بینچ پر بیٹھے ہی کپڑا ایک طرف کر کے قضائے حاجت کی اور جس طرح آدمی زمین پر قضائے حاجت کے لئے بیٹھتا ہے تو ایک جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ ہو جاتا ہے تاکہ پاخانہ اونچا ہو کر صفائی کرتے وقت اس کے ہاتھ کو نہ لگ جائے اسی طرح میں نے بھی پہلے ایک جگہ اور پھر وہاں سے ہٹ کر دوسری جگہ دو جگہ قضائے حاجت کی.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا.یہاں میرا بچہ رہ گیا ہے میں اس کی تلاش کرنے آیا ہوں میں ایک طرف ہٹ گیا کہ وہ اپنا بچہ دیکھ لے.خواب میں مجھے اس بات پر کوئی حیرانگی نہیں ہوتی کہ یہاں اس کا بچہ کس طرح رہ گیا اس شخص نے بیج کے اوپر دیکھنا شروع کیا مگر بچہ وغیرہ تو وہاں کوئی نہیں تھا دو جگہ پاخانہ پڑا ہوا تھا.اتنے میں میں نے دیکھا کہ میرے ماموں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب آئے ہیں ان کے ساتھ ایک اور ڈاکٹر ہیں ان کو بھی میں خواب میں اپنا ماموں سمجھتا ہوں میرے دوسرے ماموں میر محمد اسحاق صاحب مرحوم ڈاکٹر صاحب سے چھوٹے تھے میں خواب میں جن کو میں دوسرا ماموں سمجھتا ہوں ان کو میں ڈاکٹر صاحب سے بڑی عمر کا سمجھتا ہوں.دونوں آکر بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے ایک لاش ہے جو چھوٹے بچہ کی ہے انہوں نے اس لاش کا پیٹ چاک کرنا شروع کیا خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ اپریشن کر رہے ہیں اور حیران ہوتا ہوں کہ مردہ کا اپریشن کرنے کے کیا معنے.ان دونوں ماموؤں میں میں نہیں کہہ سکتا کہ کون اصلی ہے اور کون تمثیلی.اپریشن کرتے وقت ان میں سے ایک نے دوسرے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ فلاں اپریشن کرتے وقت ان کا ہاتھ کانپ گیا تھا اور وہ آگے سے جواب دیتے ہیں.نہیں.وہ تو فلاں وجہ تھی.انہوں نے لاش کا اپریشن کیا اور ٹانگے لگا کر بند کر دیا.اس کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو میں سوچتا ہوں کہ اس کا کیا مطلب ہے ایک طرف پاخانہ
260 دکھایا گیا ہے اور دوسری طرف مردہ بچہ کا پیٹ چاک کیا گیا ہے.میں اسی سوچ میں تھا کہ نماز سے فارغ ہو کر سلام پھیرنے کے بعد ابھی آدھا منٹ بھی نہیں گذرا ہو گا کہ نواب عبد اللہ خان صاحب نے (امتہ الوکیل ان کی نواسی تھی) فون کیا کہ ابھی ابھی لاہور سے فون آیا ہے کہ و یکی" کی حالت بہت نازک ہے اور مجھے وہاں بلایا ہے.اگر وہ فوت ہو جائے تو دفن کرنے کے متعلق آپ کا کیا مشورہ ہے یہاں لے آئیں یا وہیں دفن کردیں.میں نے کہا.بچہ ہے یہاں لے آئیں یا وہاں دفن کر دیں مگر ماں کے احساس کا خیال رکھ لیں اور جس طرح وہ کہے اسی طرح کریں اس وقت یہ پتہ نہیں تھا کہ بچی فوت ہو جائے گی بعض دفعہ مرتے مرتے بھی انسان بچ جاتا ہے اس لئے اس وقت میرا ذہن اس طرف نہیں گیا.کہ خواب میں اس کی طرف اشارہ ہے مگر اشاره.بعد میں جب وفات کی خبر آئی تو معلوم ہوا کہ خواب اسی کے متعلق تھی.خواب میں پاخانہ دیکھنے سے مراد روپیہ ہوتا ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ ”ویکی" کے علاج پر جو روپیہ خرچ ہو تا رہاوہ روپیہ کا ضیاع تھا دراصل وہ مرہی چکی تھی.اور جو مردہ کا اپریشن دکھایا گیا اس کا مطلب یہ تھا کہ ہسپتال میں جو اس کا اپریشن ہو تا رہا وہ دراصل ایک مردہ کا ہی اپریشن ہوتا رہا.الفضل 5 - نومبر 1944ء صفحہ 4 -3 332 نومبر 1944ء فرمایا : کوئی دس پندرہ دن ہوئے میں نے ایک رویا دیکھا میں نے دیکھا کہ جیسے میں دہلی میں ہوں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی کام میرے سامنے ہے.یہ یاد نہیں کہ وہ کام کیا ہے مگر معلوم ہوتا ہے کوئی کام ہے جس کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر لطیف صاحب اور ان کی بیوی امینہ بیگم جو میری نسبتی بہن ہیں یہ دونوں آئے ہیں اور انہوں نے ایک گٹھڑی میرے سامنے لا کر رکھ دی اور کہتے ہیں کہ صوفی عبد الغفور صاحب بھیروی جنہوں نے کسی وقت اپنے آپ کو وقف بھی کیا تھا یہ گٹھڑی ان کی طرف سے ہے.ان کو معلوم ہوا ہے کہ آپ کو کسی کام کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے اس لئے انہوں نے جو کچھ ان کے پاس تھا اس گٹھڑی میں باندھ کر آپ کی خدمت میں بھیج دیا ہے اور پھر کہتے ہیں کہ اگر اجازت ہو تو ہم بھی اپنی طرف سے نذر پیش کریں لیکن میں ان کو منع کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ نہیں اس کی ضرورت نہیں
261 آپ اسے رہنے دیں.میں نے جب گٹھڑی کو کھولا تو اس کے اندر کچھ کپڑے ہیں جیسے تھان ہوتے ہیں پھر ان کے نیچے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں یہاں تک کہ پھر چھوٹی چھوٹی کتر نیں آگئیں جن کو دیکھ کر ڈاکٹر صاحب اور ان کی بیوی کہتے ہیں کہ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ سب اکٹھا کر کے انہوں نے بھیج دیا ہے.حضرت اماں جان) بھی رویا میں وہاں میرے ساتھ ہیں آپ ان کترنوں کو دیکھ کر سر کی طرف اشارہ فرماتی ہیں اور سر کی طرف اشارہ کرنے سے گویا ان کا مطلب یہ ہے کہ صوفی صاحب کے دماغ میں کوئی نقص ہے کہ انہوں نے چھوٹی چھوٹی کتر نیں گٹھڑی میں باندھ کر بھیج دی ہیں.میں حضرت اماں جان) کی اس بات کی تردید نہیں کرتا میں کہتا ہوں کہ ان کو کبھی کبھی اخلاص کا دورہ ہوتا ہے اور بعض دفعہ یہ سب کچھ اکٹھا کر کے پیشن کر دیا کرتے ہیں پھر ڈاکٹر صاحب اور ان کی بیوی اصرار کرتے ہیں کہ ہمیں اجازت دیں ہم اپنی نذر پیش کریں لیکن میں کہتا ہوں اس کی ضرورت نہیں.آپ رہنے دیں اور میں نے اس گٹھڑی کو ایک طرف رکھ دیا اور میرا ارادہ یہ ہے کہ بغیر اس کے کہ کسی کو معلوم ہو صوفی صاحب کو واپس کردوں گا.الفضل 11.دسمبر 1944ء صفحہ 2.1 333 نومبر 1944ء فرمایا : رویا میں دیکھا کہ میں دہلی میں ہوں وہاں ایک عمارت خریدنی ہے جس کے لئے میں چاندنی چوک میں جا رہا ہوں معلوم ہوا ہے کہ جس تاجر کے پاس عمارت ہے وہ چاندنی چوک میں رہتا ہے اس سے وہ عمارت خریدنی ہے.پھر یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ احمدیوں کو یہ عمارت نہیں دے گا لیکن میں رویا میں یہ خیال کرتا ہوں کہ اس کو کیا پتہ کہ کون خرید رہا ہے اس لئے یہ عمارت وہ ہمیں دے دے گا.جس راستہ پر میں جا رہا ہوں وہ بڑا وسیع ہے راستہ میں جاتے جاتے ایک طرف میں نے دیکھا کہ کچھ انگریز کوئی کھیل کھیل رہے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ فٹ بال یا ایسی ہی کوئی کھیل ہے جن کو کھیلتے دیکھ کر میرا کوئی ساتھی کہتا ہے کہ کیا پاگل پن ہے.گویا اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ادھر خوفناک جنگ ہو رہی ہے اور ادھر یہ لوگ کھیل میں مشغول ہیں یہ کیا پاگل پن ہے میں اسے کہتا ہوں کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے یہ کھیل نہیں کھیل رہے بلکہ جنگ کے لئے ہی تیاری اور مشق کر رہے ہیں پھر اس کے بعد نظارہ یاد نہیں
رہا.262 فرمایا : وہاں (دہلی) میں کوئی عمارت خریدنے کی ضرورت پڑ جائے اور جیسا کہ میں نے پہلے رویا میں دیکھا ہے اس کے لئے روپیہ فراہم کرنے کی ضرورت پڑے.دوسرے خواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.خدا تعالٰی نے بتایا ہے کہ بعض کام بظاہر کھیل نظر آتے ہیں مگر دراصل وہ لڑائی ہی ہوتے ہیں.الفضل 11.دسمبر 1944 ء صفحہ 334 غالبا نومبر 1944ء فرمایا : چند سال ہوئے کہ میں ایک دفعہ برف دیکھنے کے لئے ڈلہوزی گیا وہاں پر میں دو پہر کے وقت تھوڑی دیر کے لئے بیٹھا تو مجھے الہام ہوا کہ دنیا میں امن کے قیام اور کمیونزم کے مقابلہ کے لئے سارے گر سورۃ فاتحہ میں موجود ہیں.مجھے اس کی تفسیر سمجھائی گئی جو عرفانی طور پر تھی نہ کہ تفصیلی طور پر.عرفان کے معنے یہ ہیں کہ دل میں ملکہ پیدا کر دیا جاتا ہے لیکن وہ تفصیل الفاظ میں نازل نہیں ہوتی.الفضل 31.مئی 1955ء صفحہ 2 نیز دیکھیں.الفضل 18.جون 1955ء صفحہ 3 و 22.جون 1955ء صفحہ 3 دسمبر 1944ء 335 فرمایا : کل میں نے رویا میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ ایک قصر میں ہے اور میں اس کے دروازے کے آسے گلی میں کھڑا ہوں اور خدا تعالٰی کو مخاطب کر کے کہہ رہا ہوں کہ اے میرے رب ! میں دیر سے انتظار میں کھڑا ہوں میرے پیالے میں بھی خیر ڈال " فرمایا "خیر" کا لفظ جن معنوں میں یہاں استعمال ہوا ہے ان معنوں میں یہ لفظ پنجابی زبان میں استعمال ہو تا ہے لیکن عربی زبان کے لحاظ سے "خیر" کا لفظ ہی زیادہ مناسب ہے اور پیالے کی تعبیر قلب ہوتی ہے.الفضل 23.جون 1960 ء صفحہ 4-3
263 336 19.دسمبر 1944ء فرمایا : پرسوں میں نے ایک رؤیا دیکھا جب صبح اٹھا تو وہ خواب میں بالکل بھول چکا تھا لیکن جب اٹھ کر میں بیٹھا تو اتفاقا چوہدری مشتاق احمد صاحب بی اے ایل ایل بی واقف زندگی کی بیوی آگئیں ان کو دیکھ کر مجھے وہ خواب یاد آگیا اور میں نے اسے کہا کہ تم نے اپنی شکل دکھا کر وہ خواب یاد کرا دی.وہ رویا یہ تھا کہ میں نے دیکھا کہ ایک جگہ گیا ہوں ایک تالاب یا جو ہر ہے جس میں میر محمد اسحاق صاحب مرحوم اور ان کے ساتھ چند اور آدمی پانی میں کھڑے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے جیسے نہا رہے ہیں.میر صاحب کو میں نے دیکھا کہ جو ہر کاپانی ان کے کمر تک ہے پہلے جس جگہ میں گیا ہوں وہ ایک ٹیلہ ہے جہاں سے جو ہر کا پانی نظر نہیں آتا.جب وہاں سے دائیں یا بائیں طرف ڈھلوان کی طرف گیا ہوں تو وہاں سے وہ پانی نظر آتا ہے.وہاں میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سالڑ کا پانی کے کنارے کھڑا ہے وہ کہتا ہے میں بھی غوطہ لگاؤں.اس جو ہڑ کا پانی گو میر صاحب کی کمر کے برابر نظر آتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پانی گہرا ہے یہ لڑکا کس طرح غوطہ لگائے گا کہیں ڈوب نہ جائے لیکن اس لڑکے نے پانی میں غوطہ لگا دیا دیر تک اس کا انتظار کیا مگروہ نکلا نہیں جب وہ دیر تک نہ نکلا تو میں نے دوسرے آدمیوں سے کہا کہ اس کا پتہ لگاؤ کہیں ڈوب نہ گیا ہو مگر وہ کھڑے رہے اور کہنے لگے نہیں جی ڈوبتا نہیں نکل آئے گا.اتنے میں دور ایک سیاہ سی چیز نظر آئی جسے دیکھ کر انہوں نے کہا کہ وہ دیکھئے اس نے سر نکالا ہے مگر جب وہ چیز ساری نمایاں ہوئی تو معلوم ہوا کہ بڑا قا ز ہے.میں نے کہا یہ لڑکا تو نہین یہ تو قاز ہے پھر تھوڑی دیر کے بعد اسی قسم کی ایک اور چیز نظر آئی جسے دیکھ کر ان آدمیوں نے پھر کہا کہ دیکھئے وہ نکل آیا مگر معلوم ہوا کہ وہ بھی لڑکا نہیں.ایک بڑا سا قاز ہی ہے جو کہ بطخ نے بھی بڑا ہے اور میں کہتا ہوں یہ تو وہ نہیں.تھوڑی دیر کے بعد پھر وہ لڑکا نکلا اور معلوم ہوا کہ وہ ڈوبا نہیں تھا بلکہ اس نے غوطہ لگایا ہوا تھا جب میں اس ٹیلہ کی ڈھلوان کی طرف سے جوہڑ کے کنارے کی طرف بڑھا تو میں نے دیکھا کہ وہاں کچھ عورتیں بھی بیٹھی ہیں جنہوں نے برقعے پہنے ہوئے ہیں مگر سامنے کی طرف سے برقعے اٹھائے ہوئے ہیں جن کو میں دیکھ کر کہتا ہوں کہ یہ تو بڑی بے احتیاطی ہے ان پر تو لوگوں کی نظر پڑتی ہو گی ان عورتوں میں میں نے دیکھا کہ چوہدری مشتاق احمد صاحب کی بیوی بھی تھی.صبح جب میں اٹھا تو یہ خواب مجھے بھول گیا تھا پھر ان کی بیوی کو دیکھ کر مجھے یاد آگیا جب میں
264 نے ان کو یہ خواب سنایا تو وہ کہنے لگیں کہ میں نے بھی کئی دفعہ یہ خواب دیکھا ہے کہ جوہڑ کے کنارے کھڑی ہوئی ہوں اور ایک لڑکا اس جوہڑ میں غوطے لگا رہا ہے.یہ سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا اس خواب کی کوئی تعبیر اس وقت تک ذہن میں نہیں آئی مگر یہ عجیب بات ہے کہ میں نے اس خواب میں چوہدری صاحب کی اہلیہ کو دیکھا اور وہ بیان کرتی ہیں کہ اس قسم کا خواب دو تین دفعہ میں بھی دیکھ چکی ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص اور اہم امر کی طرف اس خواب میں اشارہ ہے جس کی حقیقت اس وقت تک منکشف نہیں ہوئی.337 دسمبر 1944ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ جرمنی سے ترکی کی طرف کنکشن ہوا ہے اور کوئی خبر ہے جو ترکی کے نام جرمنی کی طرف سے پہنچائی جارہی ہے اس دوران میں کسی نے آلہ میرے کان میں لگا دیا اور میں نے سنا کہ جرمن حکومت ترکی سے یہ گفتگو کر رہی ہے کہ اٹلی ہمارے خلاف انگریزوں سے ملنے والا ہے تم ہمارے ساتھ مل جاؤ.یہ رؤیا مجھے اس وقت ہوا جبکہ اٹلی جرمنی کا حلیف تھا اور آسٹریا جرمنی اور اٹلی کا آپس میں معاہدہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے اس لئے ان کو (Tripple Alliance) ٹرپل الائنس کہتے تھے یعنی تین طاقتوں کا اتحاد قرار دیا جاتا تھا مگر اس رؤیا کے عین مطابق واقعہ یہ ہوا کہ اٹلی انگریزوں سے جاملا اور ترکی جرمنوں کے ساتھ مل گیا گویا دو پہلو تھے جو اس رویا میں بتائے گئے تھے ایک یہ کہ اٹلی جرمنی سے غداری کرے گا اور دو سرا یہ کہ ترکی اس کے مقابلہ میں جرمنوں سے جاملے گا.الموعود صفحہ 111 - ( تقریر جلسہ سالانہ 28.دسمبر 1944ء) دسمبر 1944ء 338 فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں نے کھدر کی قمیص پہنی ہے اور خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ یہ کھدر کی قمیص پہننا کسی کا نگر سی قسم کی تحریک کے ماتحت نہیں بلکہ اقتصادی حالات کے نتیجہ میں ہے.الفضل 14.مئی 1945ء صفحہ 3.نیز دیکھیں.الفضل 7.مئی 1945ء صفحہ 1
265 339 4.جنوری 1945ء فرمایا : کل ہی میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں کابل گیا ہوں جس کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ وہاں بھی انشاء اللہ احمدیت کی اشاعت کی کوئی صورت پیدا ہو گی میں نے دیکھا کہ میں وہاں گیا ہوں اور وہاں بادشاہ وزراء اور بڑے سرکاری حکام اور بڑے بڑے آدمیوں سے مل چکا ہوں مجھے وہاں گئے دو تین روز ہو چکے ہیں.الفضل 10.جنوری 1945 ء صفحہ 8 اوائل جنوری 1945ء 340 فرمایا : پانچ چھ دن کی بات ہے میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک بہت بڑے میدان میں کھڑا ہوں اور جس طرف میرا منہ ہے اس کے بالمقابل ایک عمارت ہے اس کی دیواریں اور چھتیں جست کی چادروں کی ہیں اور اس کے بڑے بڑے پھاٹک ہیں جیسا کہ بڑے بڑے سٹیشنوں یا بندرگاہوں پر عمارتیں بنائی جاتی ہیں تاکہ ان میں مال رکھا جائے اس عمارت میں کچھ لوگ کھڑے ہیں جن کے چہرے دور ہونے کی وجہ سے مجھے اچھی طرح نظر نہیں آتے صرف چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو میں نے پہچانا ہے جو ان کے سامنے کھڑے ہیں.وہ مجھے دیکھ کر دوڑ کر میری طرف آئے اور کہنے لگے کیا یہ اس طرح ہے؟ ان کا سوال تو مجھے یاد نہیں رہا لیکن انا یاد ہے کہ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا یہ اس طرح ہے؟ میں نے کہا نہیں.اس طرح نہیں بلکہ اس طرح ہے میرا یہ جواب سن کر وہ واپس چلے گئے.اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ وہ لوگ گورنمنٹ کے بڑے بڑے آفیسر ز ہیں اور انہوں نے مجھ پر کوئی الزام لگایا ہے اور چوہدری صاحب اس کی تردید کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ تم نے ان پر یہ الزام لگایا ہے اور تم جھوٹ بولتے ہو.اس کے بعد چوہدری صاحب مجھے اپنے ساتھ لے گئے.ایک جگہ ایسی سیڑھیاں آئیں جیسے سٹیشنوں پر ہوتی ہیں اور ہم نے ان پر چڑھنا شروع کر دیا مگر میرے ذہن میں اس وقت یہ نہیں آتا کہ مجھے چوہدری صاحب کہاں لے جا رہے ہیں اور کیوں لے جا رہے ہیں.اوپر چڑھ کر ہم کھڑے ہو گئے ابھی ایک دو منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ چار پانچ مزدور دوڑتے ہوئے آئے ان کو دیکھ کر چوہدری صاحب کہنے لگے وقت پر
266 آگئے.میں کہتا ہوں ان مزدوروں کا گورنمنٹ کے جھگڑے سے کیا تعلق ہے.چوہدری صاحب نے کہا میں نے ان کو سٹیشن پر اسباب لانے کے لئے بلایا ہے.اس کے بعد انہوں نے مجھے بھی کہا کہ ساتھ چلیں چنانچہ میں بھی ان کے ساتھ چل پڑا چوہدری صاحب اور مزدور تیزی کے ساتھ مجھ سے آگے آگے جارہے ہیں اور میں آہستہ آہستہ سیڑھیوں پر سے اتر رہا ہوں جب میں نیچے اتر آیا تو میں نے دیکھا کہ چوہدری صاحب بے تحاشا و اپس بھاگے آرہے ہیں میں انہیں دیکھ کر حیران ہوا کہ یہ کیا بات ہے.وہ کہنے لگے ڈاکوؤں نے حملہ کیا ہے اور ان کے ساتھ مصری صاحب بھی ہیں.اس وقت چوہدری صاحب کے پاس اسباب نظر نہیں آتا چوہدری صاحب تیزی کے ساتھ سیڑھیوں پر چڑھنے لگے اور مجھے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے کہنے لگے جلدی چلیں چنانچہ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چلا جب میں اوپر پہنچا تو ایک پلیٹ فارم پر سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک مکان ہے جس میں ایک کمرہ ہے اور چھوٹا سا صحن ہے وہاں حضرت (اماں جان) اور میاں بشیر احمد بیٹھے ہیں میں نے ان کو دیکھ کر خیال کیا چلو یہیں ٹھہر جاتے ہیں لیکن ایک آدمی نے کہا آگے جائیے.میں نے کہا کہاں جاؤں.وہ کہنے لگے سڑک پر سیدھے چلے جاؤ اس میں پہاڑی راستہ بھی آئے گا اس کے بعد حفاظت کی جگہ ہے میں نے کہا اس حفاظت کی جگہ کی نشانی کیا ہے ؟ وہ کہنے لگے نواب صاحب بہاول پور کی کو ٹھی میں سے یہ راستہ ہو کر جائے گا.چنانچہ میں اسی خیال سے چل پڑتا ہوں کہ نواب صاحب کی کوٹھی سے کسی سے حفاظت کی جگہ پوچھ لوں گا اس کے بعد میں نے چوہدری صاحب کو نہیں دیکھا.جاتے جاتے ایک موڑ سے مڑکر میں نے دیکھا کہ کوئی بڑی گہری اترائی ہے اور اس میں ایک پک ڈنڈی ہے جو ڈیڑھ فٹ چوڑی ہے میں حیران ہوں کہ کس طرح اتروں پہلے تو میں پہاڑ پر چڑھ جاتا تھا لیکن اب دل کی کمزوری کی وجہ سے نہیں چڑھ سکتا.میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں گیا تو کمزوری کی وجہ سے کہیں چکر نہ آنے لگ جائیں لیکن پھر بھی میں کہتا ہوں چلنا چاہئے لیکن پگ ڈنڈی اتنی سیدھی ڈھلوان میں سے ہو کر جاتی ہے کہ انسان اس پر بغیر سہارے کے نہیں چل سکتا بہر حال میں اس پر چل پڑتا ہوں.تھوڑی دور جاکر میں نے دیکھا کہ کھمبے کی تاروں کی طرح پانچ چھ تاریں پگڈنڈی کے ساتھ ساتھ چلی جا رہی ہیں میں ان پر ہاتھ رکھتا ہوں تو کوئی کہتا ہے یہ کہیں گر نہ جائیں میں کہتا ہوں یہ بنی ہی اس لئے ہیں کہ ان پر ہاتھ رکھ لئے جائیں جب میں ان پر ہاتھ رکھتا ہوں تو میری رفتار بہت تیز ہو
267 جاتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں اڑ رہا ہوں اور جب میں قدم مارتا ہوں تو میرا قدم ایک فٹ یا دو فٹ پر نہیں بلکہ سو سوفٹ پر جاپڑتا ہے اس طرح چلتے چلتے میں ایک جگہ پہنچا ہوں جو نواب صاحب کی کوٹھی ہے میں وہاں اترا تو دیکھا کہ وہاں اماں جان موجود ہیں میں حیران ہوں کہ یہ یہاں مجھ سے پہلے کس طرح پہنچ گئیں میں تو ان کو پیچھے چھوڑ آیا تھا.پھر میں یہاں سے بھی آگے چلتا ہوں اور مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ راستہ گھاٹیوں سے نہیں بلکہ نواب صاحب کے کمروں میں سے ہو کر جاتا ہے میں ان کمروں میں سے گزرتا چلا جاتا ہوں وہاں قالین اور غالیچے وغیرہ بجھے ہوئے ہیں آخر راستہ طے کر کے میں اس جگہ پہنچتا ہوں جہاں ہمارے ٹھہرنے کا انتظام ہے میں دیکھتا ہوں کہ وہاں بھی حضرت اماں جان موجود ہیں میں حیران ہوں کہ وہ یہاں بھی آگئی ہیں اس پر میری آنکھ کھل گئی.اس خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ ہم پر حملے ہوں گے مگر خد اتعالیٰ کی تائید اور نصرت ہمارے ساتھ ہو گی اور اس کی رحمت اور فضل ہمارے شامل حال ہو گا ہم پر دشمنوں کی طرف سے الزام کا لگایا جاتا اور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کا اس کی تردید کرنا اور پھر ہمارا حفاظت کے مقام پر پہنچ جانا یہ بتلاتا ہے کہ ہمیں مشکلات تو پیش آئیں گی نیز خداتعالی کے فضل اور رحمت اور اس کی تائید کے ساتھ ہم ان مشکلات میں سے بیچ کر نکل جائیں گے.الفضل 8 اگست 1951 ء صفحہ 3-4 341 جنوری 1945ء فرمایا : 1945ء کی بات ہے میں نے رویا میں دیکھا کہ ہٹلر ہمارے گھر میں آیا ہے پہلے مجھے پتہ لگا کہ ہٹلر قادیان میں آیا ہوا ہے اور مسجد اقصیٰ میں گیا ہے میں نے اس کی طرف ایک آدمی دوڑایا اور کہا کہ اسے بلا لاؤ.چنانچہ وہ اسے بلالایا میں نے اسے ایک چارپائی پر بٹھا دیا اور اس کے سامنے میں خود بیٹھ گیا میں نے دیکھا کہ وہ بے تکلف وہاں بیٹھا تھا اور ہمارے گھر کی مستورات بھی اس کے سامنے بیٹھی ہیں میں حیران تھا کہ ہماری مستورات نے اس سے پردہ کیوں نہیں کیا.پھر مجھے خیال آیا کہ ہٹلر چونکہ احمدی ہو گیا ہے اور میرا بیٹا بن گیا ہے اس لئے ہمارے گھر کی مستورات اس سے پردہ نہیں کرتیں پھر میں نے اسے دعادی اور کہا اے خدا ! تو
268 اس کی حفاظت کر اور اسے ترقی دے پھر میں نے کہا وقت ہو گیا ہے میں اسے چھوڑ آؤں چنانچہ میں اسے چھوڑنے کے لئے گیا.میں اس کے ساتھ جارہا تھا اور یہ خیال کر رہا تھا کہ میں نے تو اس کی ترقی کے لئے دعا کی ہے اور ہم انگریزوں کے ماتحت ہیں اور ان کے ساتھ ان کی لڑائی ہے یہ میں نے کیا کیا ہے لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ وہ ہٹلر عیسائی ہے اور یہ ہٹلر احمد کی ہو چکا ہے اس لئے اس کے لئے دعا کرنے میں کیا حرج ہے.یہ رویا بھی بتاتی ہے کہ نائسی قوم اسلام کی طرف توجہ کرے گی اور ایک ہی ہفتہ میں اس بات کا پتہ لگنا کہ ایک بڑے نائبسی لیڈر کا لڑکا اسلام کی طرف مائل ہے اور اس میں دلچسپی لے رہا ہے اور پھر پروفیسر ٹلٹاک کا بتانا کہ وہ خود بھی ناٹیوں کے بڑے لیڈ رتھے بتا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک روچلا رہا ہے.الفضل 8.فروری 1945ء صفحہ 3 342 10.جنوری 1945ء فرمایا : میں نے ایک رویا دیکھا جو صبح بھول گیا اس دن ملنے والوں میں مولوی نورالدین صاحب منیر بھی تھے.وہ تبلیغ کے متعلق اپنی رپورٹ لائے تھے ضلع گورداسپور کے متعلق سوال تھا کہ مبلغین کہاں کہاں بھیجے جائیں انہوں نے میرے آگے نقشہ پھیلا دیا ہم نقشہ دیکھ رہے تھے تا مبلغین کے لئے جگہیں تجویز کریں کہ دیکھتے دیکھتے ایک گاؤں طالب پور آگیا انہوں نے کہا یہ طالب پور ہے اور اس کے نزدیک بھنگواں ہے یہاں بھی ایک مبلغ رکھا جا سکتا ہے میں نے انہیں کہا کہ آپ نے طالب پور کا نام لے کر مجھے ایک خواب یاد کرادی ہے.خواب میں میں نے دیکھا کہ طالب پور کے ایک احمدی ہیں وہ میرے سامنے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں سفر پر کہیں دور جا رہا ہوں اس کا اگلا حصہ مجھے یاد نہیں رہا.رویا میں بعض دفعہ انسان کسی کو دیکھتا ہے تو اس کا تعلق اس شخص کے رشتہ داروں سے ہو تا ہے خود اس کی ذات سے نہیں ہو تا اگر باپ کو دیکھا جائے تو بیٹا مراد ہوتا ہے اگر بیٹے کو دیکھا جائے تو باپ مراد ہو تا ہے پیر کو دیکھا جائے تو مرید مراد ہوتا ہے اور اگر مرید کو دیکھا جائے تو پیر مراد ہو تا ہے بہر حال یہ ایک رویا تھا جو میں نے دیکھا اور جس میں کسی احمدی دوست کے کسی دور کے سفر پر جانے کا اشارہ تھا.
269 دوسرے دن چوہدری انور احمد صاحب کاہلوں جو چوہدری نذیر احمد صاحب کے داماد ہیں مجھے ملنے کے لئے آئے اور کہنے لگے میں سسرال سے آیا ہوں اور اب کلکتہ جا رہی ہوں اس طرح یہ خواب دو سرے ہی دن پوری ہو گئی اور خواب کے تیسرے دن چوہدری نذیر احمد صاحب کی لڑکی آئیں اور بارہ بجے کے قریب مجھے اندر سے پیغام آیا کہ چوہدری نذیر احمد صاحب کی لڑکی آئی ہیں اور وہ رخصت ہونا چاہتی ہیں.میں کام چھوڑ کر اندر گیا اور انہیں رخصت کیا انہوں نے بھی بتایا کہ میں کلکتہ جارہی ہوں اس طرح یہ خواب ایک دفعہ پھر اپنی ظاہری شکل میں پوری ہو گئی.اس رویا کا یہ ایک عجیب پہلو ہے کہ پہلے دن نقشہ کے ذریعہ خواب یاد آئی دوسرے دن چوہدری نذیر احمد صاحب کے داماد ملے جو کلکتہ جا رہے تھے اور تیسرے دن ان کی بیٹی آکر مل گئیں اور کہا کہ میں کلکتہ جا رہی ہوں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو رویا دکھایا جاتا ہے وہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے پورا کیا جاتا ہے تاکہ دیکھنے والے کے ایمان میں زیادتی پیدا ہو اور اس کی روحانیت ترقی کرے.الفضل 8.اگست 1951ء صفحہ 3 343 14/13.جنوری 1945ء فرمایا : درس شروع کرنے سے پہلے میں اپنے دو ر و یا سناتا ہوں تین چار دن ہوئے میں نے ایک رؤیا دیکھا.میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر غلام غوث صاحب جیسے سٹیشن سے آکر کہتے ہیں کہ میں ٹکٹ خرید لایا ہوں.اپنا بھی اور آپ کا بھی اور سید ولی اللہ شاہ صاحب کا بھی اور ایک دو پہریداروں کا بھی انہوں نے ذکر کیا کہ ان کا بھی ٹکٹ خرید لایا ہوں.یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی لمبے سفر پر جاتا ہے لیکن ذہن میں نہیں آتا کہ کس سفر پر جاتا ہے.فرمایا : ناموں کے لحاظ سے اس خواب کی تعبیر بہت اچھی ہے غلام غوث سے پناہ اور استعاذہ کی طرف اشارہ ہے ولی اللہ بھی اچھا نام ہے یعنی خدا کا دوست اور ان کا دوسرا نام زین العابدین بھی یعنی عبادت گزاروں کی زینت.الفضل 31.جنوری 1945ء صفحہ 3
270 344 17 جنوری 1945ء فرمایا : 17 ماہ صلح 1324 هش مطابق 17 جنوری 1945ء بروز بدھ میں سورۃ غاشیہ کا درس دینے کے لئے مسجد مبارک میں آیا میں نے درس سورہ غاشیہ کا دینا تھا مگر میں غور سورۃ فجر پر کر رہا تھا اس ذہنی کشمکش میں میں نے عصر کی نماز پڑھانی شروع کی اور میرے دل پر ایک بوجھ تھا لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ جب میں عصر کی نماز کے آخری سجدہ سے سراٹھا رہا تھا تو ابھی سرزمین سے ایک بالشت بھر اونچا آیا ہو گا کہ ایک آن میں یہ سورۃ مجھے پر حل ہو گئی پہلے بھی کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سجدہ کے وقت خصوصا نماز کے آخری سجدہ کی حالت میں اللہ تعالٰی نے بعض آیات کو مجھ پر حل کر دیا مگر اس دفعہ بہت ہی زبر دست تقسیم تھی کیونکہ وہ ایک نہایت مشکل اور نہایت وسیع مضمون پر حاوی تھی.چنانچہ جب میں نے عصر کی نماز کا سلام پھیرا تو بے تحاشا میری زبان سے الحمد للہ کے الفاظ بلند آواز سے نکل گئے.تغیر نمبر جلد ششم جز و چهارم نصف اول صفحہ 285 17.جنوری 1945ء 345 فرمایا : آج میں نے رویا دیکھا اور یہ عجیب رویا تھا جن لوگوں کو رویا ہوتا ہے ان کو تجربہ ہو گا کہ رویا میں باوجود یہ خیال نہ آنے کہ میں رویا دیکھ رہا ہوں اور وہ رویا میں سمجھتا ہے کہ میں جاگ رہا ہوں پھر بھی جب وہ اس پر غور کرتا ہے تو اس کو اس زندگی اور رویا کی زندگی میں فرق ضرور معلوم ہوتا ہے اور رویا میں احساسات کچھ بد - ' ہوئے معلوم ہوتے ہیں لیکن اس رویا کا ایک حصہ ایسا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ میں قطعی طور پر جاگ رہا ہوں.مدت ہوئی 1926 ء میں میرا دفتر مسجد مبارک کے ساتھ کے ایک کمرہ میں ہوا کرتا تھا جسے گول کمرہ کہتے ہیں اور اب سالہا سال سے مجھے وہاں جانے کا اتفاق نہیں ہوا.رویا میں میں نے دیکھا کہ میں اس کمرہ میں ہوں اور کسی کام کے لئے آیا ہوں یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا ہم مکان کے نچلے حصہ میں رہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پہلے زمانہ میں نیچے رہا کرے تھے اس وقت ہم بچے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے
271 مقابلہ میں سورۃ فاتحہ کی جو تفسیر لکھی تھی وہ نیچے ہی کے ایک کمرہ میں لکھی تھی وہ کمرہ اس گلی پر واقع ہے جو پرانے مکان اور میاں بشیر احمد صاحب کے مکان سے ہوتے ہوئے موجودہ دفتر کو جاتی ہے اس مکان کے شمال میں ایک ڈیوڑھی کا کمرہ تھا اور اب بھی ہے درمیان میں دالان اور جنوبی پہلو میں ایک اور چھوٹا کرہ ہے.دالان اور کمرہ کے سامنے ایک برآمدہ تھا جس کو اب دو ٹکڑے کر کے جنوبی کمرہ کے سامنے ایک اور کمرہ بنا دیا گیا ہے اور دالان کے سامنے کا حصہ صرف برآمدہ کی صورت میں رہ گیا ہے اس زمانہ میں مکان کی حالت اور تھی اب گھر کی ضرورتوں اور آدمیوں کی کثرت کی وجہ سے مکان کی شکل اور حالت بدل چکی ہے.مثلا وہ کمرہ تاریخی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اعجاز المسح "کتاب لکھی تھی لیکن اب وہاں اسباب پڑا ہے مگر میں نے رویا میں پرانا نظارہ ہی دیکھا تھا میں نے دیکھا کہ گول کمرہ سے کسی ضرورت کے لئے میں پرانے مکان کی طرف آیا ہوں اور میں نے اپنی چھوٹی بیوی بشری بیگم کو آواز دی ہے میرے بلانے پر وہ آئی ہیں لیکن اس وقت وہ بچی معلوم ہوتی ہیں ان کی عمر بارہ تیرہ سال کی معلوم ہوتی ہے یا کچھ زیادہ.میں نے ان سے کوئی بات پوچھی ہے تو میری بات کا وہ اس طرح جواب دیتی ہیں جس طرح بچے شرار تا آدھی بات کر کے بھاگ جاتے ہیں اور اس سے ان کا غشاء یہ ہوتا ہے کہ انہیں پکڑا جائے وہ بھی اسی طرح بات کر کے جلدی سے اس دالان کی طرف چلی گئی ہیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رہا کرتے تھے اور میں بھی ان کے پیچھے گیا ہوں جب میں بر آمدے میں پہنچا تو وہ وہاں سے بھاگ کر جنوب کی طرف اس جگہ چلی گئی ہیں جو مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بر آمدے کا حصہ تھا اور اب وہاں کمرہ ہے.فرق صرف یہ ہے کہ رویا میں دیوار کی جگہ محراب بنا ہوا ہے پہلے وہاں محراب نہیں تھا ساری جگہ برابر تھی مگر رویا میں محراب دیکھتا ہوں تو وہ محراب میں سے گذر کر اندر چلی گئی ہیں اور میں بھی ان کے پیچھے گیا ہوں جب میں ذرا آگے گیا تو اندر سے آواز آئی جیسے انسان پیار سے بچہ کو سرزنش کرتا ہے.شریر.مجھے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اہم طاہر کی آواز ہے میں یہ آواز سن کر اس طرف گیا ہوں جدھر سے آواز آئی اس وقت میں یہ نہیں سمجھتا کہ یہ فوت شده.ہیں.انہوں نے شریر کا لفظ کہا تو اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ تم جو بھاگ کر ادھر آئی ہو اس سے تمہارا یہ منشاء تھا کہ وہ بھی (یعنی میں) ادھر آجائیں جہاں میں لیٹی ہوئی ہوں گویا اس طرح تم نے
272 میرا پتہ بتا دیا ہے.پس میں یہ آواز سن کر اس طرف گیا ہوں اور میں نے دیکھا کہ اہم طاہر ایک اونچی سی چارپائی پر لیٹی ہیں جس پر ویسا ہی موٹا بستر ہے جیسا بیماری کے دنوں میں ہوا کرتا تھا لیکن وہ ہیں تندرست اور صاف ستھرا لباس پہنے ہوئے ہیں اور چارپائی پر لیٹی ہوئی ہیں.میں نے کھڑے ہوتے ہی اپنا سر جھکا کر ان کے پیٹ پر رکھ دیا اور میں نے پیار کا کوئی کلمہ کہا جو یاد نہیں کیا تھا.اس کے جواب میں انہوں نے جھک کر اپنا سر میری کمر کے ساتھ یا کسر پر رکھ دیا اور کہا میرے خالد ایک بات ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ خالد انہوں نے مجھے کہا ہے.خواب میں میں خیال کرتا ہوں کہ میرے پیار کا شاید انہوں نے غلط مطلب سمجھا ہے اور یہ جو انہوں نے کہا ہے کہ میرے خالد ایک بات ہے اس سے شاید ان کا منشاء یہ ہے کہ عورتوں کے مخصوص ایام میں سے گزر رہی ہیں لیکن پھر میں نے خیال کیا کہ شاید یہ بات نہ ہو بلکہ وہ مجھے کوئی بات کہنا چاہتی ہیں اس پر میں نے ان سے سوال کرنا چاہا کہ کیا بات ہے مگر پیشتر اس کے کہ سوال کرتا آنکھ کھل گئی.خواب کا آخری حصہ اس طرح کا تھا کہ بالکل جاگنے کی حالت معلوم ہوتی تھی اور میرا ان کو چھونا اور ان کا میری کمر کے ساتھ سر لگانا بالکل مادی دنیا کی کیفیت اپنے اندر رکھتا تھا.آنکھ کھلنے کے بعد میں نے اس رویا کو اپنے دماغ میں دہرانا شروع کیا تا کہ مجھے یاد رہے ابھی میں دہرا ہی رہا تھا کہ معا غنودگی طاری ہوئی اور میں نے دیکھا کہ میں لاہور میں ہوں اور اسی گنگا رام ہسپتال میں جہاں ام طاہر فوت ہوئی تھیں.اُتم طاہر میرے آگے آگے ہیں اور جاتے ہی اسی کمرہ میں داخل ہو گئی ہیں جہاں وہ فوت ہوئی تھیں اتنے میں کوئی شخص غالباً میاں بشیر احمد صاحب میرے سامنے آتے ہیں اور میں ان کو کوئی واقعہ سناتا ہوں اور کہتا ہوں مجھ سے "وہ" کہتے ہیں اور "وہ" سے مراد ایک کمیٹی ہے جس میں میرا خیال ہے کہ ایک میاں شریف احمد صاحب اور عزیزم ناصر احمد صاحب اور ایک دو اور شخص شامل ہیں اور اس کمیٹی کے سیکرٹری یا پریذیڈنٹ میاں شریف احمد صاحب ہیں اور انہوں نے ہی مجھ سے گویا یہ بات کی ہے اور میں اس کا حوالہ دے کر کہتا ہوں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس بات کے متعلق مشورہ کر لیا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی مشورہ کر لیا ہے.یہ کہنے کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں نے دیکھا کہ عربی میں لکھا ہوا ایک تختہ میرے سامنے آیا میری نظر اس کے درمیانی حصہ پر پڑی وہاں یہ عبارت لکھی ہوئی تھی اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ پھرای
273 عبارت کا پہلا اور پچھلا حصہ میں دیکھنے نہیں پایا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی.فرمایا ارم وہ قوم تھی جو خدا تعالیٰ کے ایک نبی کا مقابلہ کر کے تباہ ہوئی تھی میں سمجھتا ہوں اس میں کسی ایسی قوم کی تباہی کی خبر ہے جو دشمنان اسلام میں سے ہے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس سے کونسی قوم مراد ہے میں نے گنگا رام ہسپتال کا نظارہ دیکھا ہے ممکن ہے ہندوؤں میں سے بعض لوگ جو اسلام کے مخالف ہیں ان کے متعلق یہ خبر ہو یا کمیونسٹوں کے متعلق جو اسلام کے مخالف ہیں رات میں نے ان کے متعلق دعا بھی کی ہے ممکن ہے ان کے متعلق ہو.پہلی خواب جس میں میں نے دیکھا کہ بشری بیگم مجھ کو کھیل کھیل میں ام طاہر کے مکان میں لے گئی ہیں اس میں ایک منذر پہلو بھی ہے اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے اور خالد کے نام میں ایک بہت بڑی بشارت ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے خالد کی طرح ہر میدان میں فتح بخشے گا.الفضل 31 جنوری 1945ء صفحہ 3-4 346 29.جنوری 1945ء فرمایا : تفسیر شروع کرنے سے پہلے میں آج کا ایک عجیب واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اپنی قدرت کا نشان دکھا دیتا ہے میری عادت ہے کہ چونکہ مجھے رات کو دیر تک کام کرنا پڑتا ہے اس لئے صبح کی نماز کے بعد میں تھوڑی دیر کے لئے سو جاتا ہوں آج صبح جب میں سو کر اٹھا تو ایک لڑکا جو ہمارے گھر میں خدمت کرتا ہے ام ناصر کے پاس آیا اور اپنے طریق کے مطابق جیسے جاہل اور ان پڑھ لوگوں کا قاعدہ ہوتا ہے کہنے لگا.ایک بڑھی باہر کھڑی ہے چونکہ آج کل بعض ایسے واقعات ظاہر ہوئے ہیں جن کی بناء پر ہمیں گھر میں زیادہ احتیاط کرنی پڑتی ہے اس لئے ام ناصر نے اسے ڈانٹا کہ تمہیں کس نے کہا ہے کہ تم کسی عورت کو دفتر میں لے آؤ اس کے بعد وہ باہر نکلیں یہ دیکھنے کے لئے کہ کون عورت آئی ہے جب وہ باہر نکلیں تو یکدم مجھ پر غنودگی کی حالت طاری ہوئی اور میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ میرے سرہانے ایک لڑکی کھڑی ہے جو ڈاکٹر غلام علی صاحب مرحوم کی ہے جن کا لڑکا عبدالکریم ہمارے زود نویسوں میں کام سیکھ رہا ہے ممکن ہے اس لڑکی کو میں نے پہلے بھی دیکھا ہوا ہو مگر میں علم کی بناء پر یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ ڈاکٹر غلام علی صاحب مرحوم کی لڑکی ہے میں اس کی بڑی بہن کو جانتا ہوں
274 مگر اسے میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا.بهر حال کشفی حالت میں میں نے دیکھا کہ وہ لڑکی میرے سرہانے کی طرف کھڑی ہے اور جس طرف میرا منہ ہے اس کے بالمقابل محمود احمد جو ڈاکٹر شاہ نواز صاحب کا لڑکا ہے یعنی اس لڑکی کا خالہ زاد بھائی وہ کھڑا ہے اور کوئی شخص لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ اس لڑکی کا رشتہ محمود احمد کے لئے مانگ رہے ہیں آپ کی اس بارہ میں کیا رائے ہے میں ابھی اس بات کا جواب ہے ؟ دینے نہیں پایا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی.جب میری آنکھ کھلی تو اس وقت ام ناصر واپس آچکی تھیں انہوں نے ایک لفافہ میرے سرہانے رکھ دیا اور کہا کہ یہ زینب کا خط ہے میں نے کہا کون زینب.وہ کہنے لگیں ڈاکٹر غلام علی صاحب کی بیوی.میں نے کہا میں نے ابھی کشفی حالت میں دیکھا ہے کہ ایک لڑکی میرے سرہانے کھڑی ہے یہ سن کر وہ جلدی سے اٹھیں اور کہا کہ ڈاکٹر غلام علی صاحب کی لڑکی ہی یہ خط لائی ہے میں ابھی اس کو بلاتی ہوں چنانچہ وہ لڑکی کو اندر بلا لائیں اس کے آنے کے بعد میں نے لفافہ کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ میری بہن جو ڈاکٹر شاہ نواز کے گھر میں ہیں اپنے لڑکے محمود احمد کے لئے میری لڑکی کا رشتہ مانگتی ہے آپ کی اس بارہ میں کیا رائے ہے گویا فلق الصبح کی طرح اس وقت جیسے کشف میں نظارہ دکھایا گیا تھا ویسے ہی پورا ہو گیا.الفضل 7.فروری 1945ء صفحہ 3 جو لڑکی لفافہ لائی تھی اس کے متعلق فرمایا.یہ لڑکی وہ نہیں تھی جس کے متعلق میں نے کشف میں دیکھا تھا.الفضل 4.اگست 1945ء صفحہ 2.1 347 غالبا آخر جنوری 1945ء فرمایا : کچھ دن ہوئے میں نے رویا میں ڈاکٹر مرزا یعقوب صاحب کو دیکھا جو حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابہ میں سے تھے اور آپ سے بہت تعلق اور عقیدت رکھتے تھے بعد میں وہ پیغامی تو ہو گئے مگر اس قسم کے شدید پیغامی نہیں جیسے بعض دوسرے لوگ ہیں.میں نے رویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی زندگی کے آخری ایام میں جس دالان میں رہا کرتے تھے میں اس دالان میں ہوں اور مسجد میں جس دروازہ سے داخل ہو کر میں آیا کرتا ہوں اس میں سے گذر کر ایک اور دروازہ جو اس کے قریب ہی آتا ہے اس میں
275 سے ہو کر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب میرے پاس آئے ہیں کچھ اور لوگ بھی ان کے ساتھ ہیں جن میں سے ایک خواجہ کمال الدین صاحب کے کوئی لڑکے ہیں یہ لوگ میرے پاس آئے اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے مجھے السلام علیکم کہا اور میرے ساتھ مصافحہ بھی کیا اس کے بعد انہوں نے کوئی بات کی جو مجھے یاد نہیں رہی.بہر حال ان کی گفتگو اور مصافحہ کا طریق ایسا تھا جس سے ان کے تعلق کا اظہار ہوتا تھا پھر میں نے ان سے کہا ڈاکٹر صاحب میرا ناک تو دیکھیں مجھے اپنے ناک میں کچھ تکلیف محسوس ہوتی ہے یوں تو مجھے ناک کا کوئی مرض نہیں مگر خواب میں میں سمجھتا ہوں میرے ناک میں کچھ تکلیف ہے.انہوں نے میرے دائیں نتھنے کو بھی دبایا اور بائیں نتھنے کو بھی دبایا تو مجھے کچھ درد محسوس ہوا اس پر وہ کہنے لگے معلوم ہوتا ہے یہاں زخم ہے پھر وہ کچھ اور باتیں کرنے لگ گئے اتنے میں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب آگئے اور انہوں نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سے کہا پھریری میں دوائی لگا کر ناک کے نتھنے میں ڈالیں چنانچہ انہوں نے پھریری کے ذریعہ ناک کے اندر دوائی لگائی اور جیسے نزلہ کے بعد چھیچھڑے وغیرہ اندر جم جاتے ہیں اسی قسم کا کچھ مواد پھریری کے ساتھ لگا ہوا باہر آیا اس کے بعد ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے کہا.جب اپریشن ہو جائے گا تو انہوں نے ابھی اتنا ہی فقرہ کہا تھا کہ خواب میں میں گھبرا کر کہتا ہوں اپریشن کا کیا کر ہے کیا میرے ناک کا اپریشن ہو گا.انہوں نے کہا ہاں اس کا اپریشن ہو گا.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.فرمایا اس سے میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض کی اولادوں کو ہدایت دے دے گا اور ہماری جماعت میں شامل ہو جائیں گے.ناک کے اندر زخم پائے جانے کے معنے میں یہ سمجھتا ہوں کہ بعض لوگ جو اس مقام پر ہیں کہ ان کا کام یہ ہے کہ وہ جماعت کی خبر گیری کریں اور اس کے اندر کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہونے دیں اور مجھے اس کے حالات سے باخبر رکھیں ان میں سے کسی میں نقص پیدا ہو گا اور پھر اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے گا اس کے اپریشن کی ضرورت محسوس ہو گی.اپریشن سے مراد یہ ہے کہ اس کو سزا دینی پڑے گی یا اسے جماعت میں سے نکالنا پڑے گا.الفضل 7.مارچ 1945ء صفحہ 1 ت میں سے ؟ 348 7.فروری 1945ء فرمایا : دو سرا رویا میں نے آج ہی دیکھا ہے اس رویا کا نظارہ نہایت قلیل وقت میں اس
276 طرح آنکھوں کے سامنے گزر گیا جس طرح بھجلی کو ند جاتی ہے.میں نے دیکھا کہ ایک عورت ہے جس نے اپنے ہاتھوں پر ایک بچہ رکھا ہوا اور وہ بچہ مردے کی طرح اکڑا ہوا ہے میرے سامنے وہ اس بچہ کو پیش کر کے کہتی ہے اس کو اپنڈے سائٹس ہے اور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں.میں نے یہ بات سن کر اسے جواب میں کہا ڈاکٹروں نے تو فیصلہ نہیں کرنا ہوتا فیصلہ تو خدا نے کرنا ہوتا ہے میں اس کے لئے دعا کروں گا اور یہ اچھا ہو جائے گا اس کے بعد یہ نظارہ جاتا رہا اور میری آنکھ کھل گئی.فرمایا : اس سے میں سمجھتا ہوں یا تو اپنڈے سائنٹس سے کوئی روحانی بیماری مراد ہے اور یا یہ مراد ہے کہ جماعت کے کسی ایسے مریض کو اللہ تعالیٰ میری دعا سے شفا عطا فرمادے گا.الفضل 7.مارچ 1945ء صفحہ 2 17 فروری 1945ء 349 فرمایا : 17 فروری کے قریب میں نے خواب میں دیکھا کہ اخبار انقلاب لاہور کا ایک پرچہ میرے ہاتھ میں ہے میں اسے پڑھتا ہوں اس کے ایک صفحہ پر میری نظر پڑی تو میں نے دیکھا کہ کچھ سطریں لکھی ہوئی ہیں پھر کچھ سطریں اڑی ہوئی ہیں اور پھر ڈیڑھ سطر لکھی ہوئی ہے اس کے بعد کچھ سطریں اڑیں ہوتی ہیں جس طرح کسی مضمون کے بعض حصے سنسر نے کاٹ دیئے ہوں درمیان میں جو سطریں لکھی ہیں میں اسے پڑھتا ہوں تو اس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ”امام جماعت احمدیہ نے پنجاب یونیورسٹی کا انٹرنس کا امتحان پاس کر لیا ہے " یہ خبر پڑھ کر مجھے اپنے نفس پر بہت غصہ آیا اور میں نے دل میں کہا کہ میں نے یہ امتحان کیوں دیا جب مجھے اللہ تعالیٰ نے اتنا علم دیا ہے اور اتنا بلند مقام عطا کیا ہے تو مجھے انٹرنس کا امتحان دینے کی ضرورت ہی کیا تھی اور میں نے یہ امتحان کیوں دیا.ایک دو منٹ کے بعد میری غصہ اور انقباض کی حالت دور ہوئی تو میں نے خیال کیا کہ میں نے جب یہ امتحان دیا ہے تو یہ کوئی بیہودہ حرکت نہیں کہ اس میں بھی ضرور اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت مخفی ہو گی اور پھر میں اپنے دل میں کہتا ہوں کہ جب انٹرنس کا امتحان پاس کر لیا ہے تو اب بی اے کا امتحان بھی دے دوں پھر مجھے خیال آتا ہے کہ بی اے کا امتحان تو ایف اے کا امتحان پاس کئے بغیر نہیں دیا جا سکتا مگر خود ہی دل میں کہتا ہوں کہ یونیورسٹی مجھے بی اے کا امتحان
277 دینے کی اجازت دے دے گی.فرمایا : انٹرنس کے معنے ہیں دروازہ کے.کسی بڑی جلسہ گاہ یا تماشہ گاہ کے بڑے دروازہ کو انٹرنس کہتے ہیں اور میں نے کمیونزم کے متعلق جو لیکچر دیا اس میں پنجاب یونیورسٹی کے طلباء اور پروفیسر کثرت سے شامل ہوئے اور اس طرح ہم گویا پنجاب یونیورسٹی کے حلقوں میں داخلہ میں کامیاب ہو گئے اور اپنے خیالات کامیابی سے ان تک پہنچا دئیے.رویا کا یہ حصہ جو ہے کہ میں کہتا ہوں اب بی اے کا امتحان بھی دے دوں تو اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر ہم اس کوشش کو جاری رکھیں کہ تعلیم یافتہ طبقہ پر سے کمیونزم کا اثر دور ہو جائے تو اس میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.الفضل 14.مارچ 1944ء صفحہ 6 فرمایا : اس خبر کے اخبار انقلاب میں پڑھنے سے مراد یہ ہے کہ اسلام کا اقتصادی نظام ایک عظیم الشان انقلاب کے ذریعہ دنیا میں جاری ہو گا.الفضل 4.اگست 1945 ء صفحہ 1 350 فروری 1945ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں تقریر کر رہا ہوں ایک بہت بڑا ہجوم میرے گرد ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا.میں ان کے سامنے تقریر کر رہا ہوں اور انہیں کہتا ہوں اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی نہیں ہیں تو تم کوئی ایک ہی غیر نبی مجھے دنیا میں ایسا تا دو جو اپنے بعد اس قسم کے علماء کی ایک جماعت پیدا کر گیا ہو جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے علم کڈنی حاصل ہوتا ہو اور جو خدا تعالیٰ کے کلام کو سمجھانے والے ہوں.میں رویا کی حالت میں اس خصوصیت پر زور دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یہ نبی کی ہی شان ہوتی ہے کہ وہ اپنے بعد ایسی جماعت قائم کر دیتا ہے جس میں نئی زندگی اور نئی روئیدگی کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھ کر اور خداتعالی سے اس کے کلام کو سیکھ کر دنیا میں پھیلاتی ہے اور اس کی اشاعت کرتی ہے.یہ تقریر کرنے کے ساتھ ہی سلسلہ کے وہ خدام میرے ذہن میں آتے ہیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے علوم کو دوبارہ زندہ کیا ہے اور انہوں نے زندہ علوم کے خزانے کے طور پر اسے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس پر میری آنکھ کھل گئی.الفضل 9.مارچ 1945ء صفحہ 1
278 نیز دیکھیں.تفسیر کبیر جلد ششم جز و چهارم حصہ دوم صفحه 336 9/8.اپریل 1945ء 351 فرمایا : ابو الکلام صاحب آزاد کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ قریب مرحلہ میں ان کی ذات کے متعلق ایک عظیم الشان واقعہ ہونے والا ہے.فرمایا : اس رؤیا کے دو ماہ بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ لارڈ ویول کی طرف سے ہندوستان کی آزادی کا سوال پیش کیا گیا.لارڈ ویول نے جن کو دعوت نامے بھیجے ان میں ابوالکلام صاحب آزاد کا نام نہیں تھا.گاندھی جی کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے شمولیت سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں کانگریس کا نمائندہ نہیں.کانگرس کے صدر مولانا ابوالکلام آزاد ہیں آپ مجھے غیر جانبدار شخص کے طور پر بلا سکتے ہیں مگر کانگرس کی نمائندگی کے لئے آپ ابو الکلام صاحب آزاد کو بلائیں چنانچہ اس کے بعد لارڈ ویول کی طرف سے ابو الکلام صاحب آزاد کو دعوت دی گئی اب چاہیں تو وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور چاہیں تو اس کو ضائع کر دیں.الفضل 23 جون 1945ء صفحہ 78 352 ایریل 1945ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں قادیان کے شمال مشرق کی طرف ہوں کچھ اور لوگ بھی میرے ساتھ ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ساتھ ہیں.میں نے وہاں بڑی بڑی عمارتیں دیکھی ہیں جیسے پرانے زمانہ کے محلات ہوتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ گویا پرانے زمانہ کا نقشہ میرے سامنے آگیا ہے جو ہمارے باپ دادا کے زمانہ میں تھا اس وقت جبکہ قادیان کی ریاست تباہ نہیں ہوئی تھی اور ہمارے باپ دادا بر سر اقتدار تھے وہ نقشہ میرے سامنے ہے ان گھروں کے رہنے والوں کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ہمارے جدی رشتہ دار ہیں اس وقت مجھے کسی نے بتایا کہ ان لوگوں نے ہمارے پڑداد کو پیغام دیا ہے کہ آپ پوری طرح کفار کا مقابلہ نہیں کرتے اگر یہ غفلت جاری رہی تو اس کے نتیجہ میں ریاست جاتی رہے گی ممکن ہے ہمارے کسی پڑداد کے زمانہ میں جب ریاست میں کمزوری ہوئی ہو کسی رشتہ دار نے ایسا کہا بھی ہو بہر حال یہ
279 بات میں نے پرانے زمانہ کے متعلق وہاں سنی ہے.پھر میں وہاں سے چل پڑا اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دشمن ہمارے نقصان کی فکر میں ہے میں آگے آگے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میرے پیچھے پیچھے ہیں اور آپ کے پیچھے جماعت کے لوگ ہیں یہ خواب کا نقشہ ایسا ہی ہے جیسے شیخ احمد صاحب سرہندی نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں آگے آگے ہوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میرے پیچھے ہیں جب انہوں نے اپنا یہ خواب لوگوں کے سامنے بیان کیا تو جہانگیر کے پاس اس کی شکایت ہوئی اور اس نے سرہندی صاحب کو گوالیار کے قلعہ میں قید کر دیا کہ یہ شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہتک کرتا ہے لیکن آخر اللہ تعالیٰ نے اس کو اس طرف توجہ دلائی اور اس نے سید صاحب سے پوچھا کہ اس خواب کا مطلب کیا ہے انہوں نے بتایا جرنیل ہمیشہ بادشاہ کے آگے ہی چلا کرتا ہے جو جرنیل مقرر ہوتا ہے کیا وہ بادشاہ کو لڑائی میں آگے کیا کرتا ہے یا خود آگے ہو کر لڑا کرتا ہے اسی طرح مجھے خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کی حفاظت کے لئے تجھے جرنیل مقرر کیا گیا ہے تو سرہندی صاحب کے خواب کی طرح میں رویا میں دیکھتا ہوں کہ میں آگے ہوں میرے پیچھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں اور آپ کے پیچھے جماعت کے افراد ہیں چلتے چلتے ایک جگہ ایسی ہے جیسے حضرت خلیفہ المسیح الاول کے مکانات ہیں ان مکانات کے پاس سے ہم مکانات میں جانے کے لئے داخل ہوئے ہیں اس جگہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چوک تک جانے کے لئے دو راستے ہیں ایک راستہ کی طرف میں گیا ہوں تو وہ بند ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن نے شرارت کی وجہ سے اسے بند کیا ہے تاکہ ہمیں راستہ نہ ملے اور وہ حملہ کرنے میں کامیاب ہو سکے.جب دیکھا کہ راستہ بند ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فکر کی آواز سے کہا کہ یہ راستہ تو بند ہے.اس وقت میں نے دوسری طرف دیکھ کر کہا کہ یہ راستہ کھلا ہے وہ راستہ اس قسم کا ہے جیسے پرانے زمانہ میں مکانوں کے آگے پردہ کے لئے ایک دیوار بنائی ہوئی ہوتی تھی تاکہ باہر سے مکان کے اندر نظر نہ پڑ سکے خواب میں اس طرح کی ایک دیوار ہے اور اس کے ساتھ راستہ ہے.میں اس میں داخل ہو کر پہلے جنوب کی طرف اور پھر مڑکر مغرب کی طرف گیا ہوں وہاں بھی دروازہ بند معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل وہ بند نہیں بلکہ کھلا ہے اور جس طرح سپرنگ والا
280 دروازہ ہوتا ہے کہ کھولیں تو کھل جاتا ہے اور چھوڑ دیں تو آپ ہی آپ بند ہو جاتا ہے اس قسم کا دروازہ ہے.میں نے اس کو سوئی سے دھکا دیا تو وہ کھل گیا اس میں سے گزر کر ہم چوک میں آگئے ہیں چوک میں ایک کمرہ ہے جو بہت وسیع ہے اور اس میں ہیں پچیس کے قریب چار پائیاں آسکتی ہیں اور کچھ چار پائیاں وہاں بچھی ہوئی ہیں ان میں سے دو چار پائیاں شمالاً جنوباً بچھی ہوئی ہیں اور باقی شرقاً غربا بچھی ہوئی ہیں.ان دو میں سے ایک پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیٹھ گئے ہیں اور ایک پر میں بیٹھ گیا ہوں اور باقی جماعت کے افراد دوسری چارپائیوں پر بیٹھ گئے ہیں جو شرقا غربا بچھی ہوئی ہیں.تھوڑی دیر کے بعد میں نے چارپائی پر بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر جہاں تک یاد پڑتا ہے کھڑے ہو کر بڑے جوش سے تقریر شروع کی.تقریر میں میں نے ایک خاص بات بتائی ہے جس کا اظہار خطبہ میں کرنا مناسب نہیں سمجھتا.میں نے جماعت کے جن دوستوں کو بتانا مناسب سمجھا تھا ان کو بلا کر اس دن وہ بات بتادی تھی بہر حال میں نے ایک چیز کی طرف توجہ دلائی ہے جو جماعت کی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور بار بار میں اس کی اہمیت بیان کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اگر تم یہ کام نہیں کرو گے تو احمدیت کو نقصان پہنچے گا اور آئندہ اس نقصان کا مٹانا بہت مشکل ہو جائے گا.اس کے بعد میں نے کہا کہ دیکھو سب کے سب لوگ اس مقصد کو اپنے سامنے رکھ لو اور اس کو سامنے رکھ کر کام کرو اس وقت میں جوش میں آکر یہ آیت پڑھتا ہوں کہ دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ (البقرة : 116) کہ اس مقصد کو سامنے رکھ کر تم جدھر بھی منہ کرو گے وہیں اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہو گا اس وقت میں نے اس آیت کی ایک ایسی تغیر بیان کی جو جاگتے ہوئے میرے ذہن میں نہیں آئی تھی.میں نے اس آیت کو پڑھنے کے بعد اسے دہرانا شروع کیا اور تُوَلُّوا کے لفظ پر زور دیا اور جماعت کو توجہ دلائی کہ دیکھو تُوَلُّوا جمع کا لفظ ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مسلمانو ! تم بحیثیت جماعت جدھر بھی پھرو گے ادھر ہی اللہ تعالیٰ کا منہ ہو گا اور میں کہتا ہوں اَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر جماعت کا مقصد ایک ہو تو اس ایک مقصد کو سامنے رکھ کر پھر خواہ اس کے افراد مختلف جہات کی طرف چلے جائیں ان میں تفرقہ پیدا نہیں ہو گا بلکہ وہ بحیثیت قوم کام کرنے والے ہوں گے اور اگر کسی مقصد کے بغیر جماعت ایک طرف بھی چلے تب بھی وہ پراگندہ اور متفرق ہوں گے کیونکہ ان کے سامنے کوئی مقصد نہیں جیسے ہمارے جلسہ
281 سالانہ کے موقع پر کسیر جمع کرتے ہیں اب اگر کسیر جمع کرنے کے لئے کوئی مشرق کی طرف چلا جائے اور کوئی مغرب کی طرف چلا جائے اور کوئی شمال کی طرف چلا جائے اور کوئی جنوب کی طرف چلا جائے تو باوجود مختلف جہات کی طرف جانے کے یہ متفرق نہیں ہوں گے کیونکہ گوان کی جہات مختلف ہیں مگر مقصد ایک ہی ہے اور اس متحدہ مقصد کے لئے بظا ہر مختلف جہات میں کام کر رہے ہیں مگر خدا کے نزدیک وہ سب ایک ہی ہیں لیکن اگر وہی دس پندرہ یا ہیں آدمی اکٹھے مشرق کی طرف جا رہے ہیں مگر ان کے سامنے کوئی بھی مقصد نہ ہو اور کچھ بھی ذہن میں نہ ہو کہ کہاں کیوں اور کس کام کے لئے جا رہے ہیں تو بظاہر وہ اکٹھے نظر آئیں گے لیکن حقیقت میں وہ پراگندہ اور متفرق ہوں گے کیونکہ ان کے سامنے کوئی مقصد نہیں.تو میں خواب میں کہتا ہوں کہ یہ مت خیال کرو کہ تم سب کا ایک جہت میں جانتا ہی ضروری ہے بلکہ اگر تم مختلف جہات کی طرف ایک ہی مقصد لے کر جاؤ گے تو خدا تعالیٰ کے نزدیک تم اکٹھے ہی سمجھے جاؤ گے اور خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو گا اور تمہیں اپنا چہرہ دکھا دے گا پھر میں اس کام کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہوں کہ یہ کام بظا ہر دنیوی نظر آتا ہے لیکن یہ دنیوی نہیں جو بھی اس کام کو کرے گا جس طرف بھی وہ پھرے گا اور جس جہت کو بھی وہ نکلے گا وہاں وہ خدا تعالیٰ کے چہرہ کو دیکھ لے گا اور خدا تعالیٰ اپنے آپ کو اس پر ظاہر کر دے گا جب میں یہ تفسیر بیان کر رہا ہوں.میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا.اس کے بعد میں بیٹھ گیا اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کمزوری محسوس ہوتی ہے میں لیٹ گیا اور میں نے کہا اب دوست چلے جائیں جب میں نے کہا کہ اب دوست چلے جائیں تو کچھ دوست جلدی سے اٹھ کر چل پڑے اور کچھ آہستہ آہستہ اٹھنے لگے اور کچھ بیٹھے رہے.اس موقع پر ایک نوجوان کھڑا ہوا اچھی طرح معلوم نہیں کہ کون ہے ناصر احمد ہے یا میر محمد اسحاق صاحب (مرحوم) ہیں جو اٹھ کر لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ جب کہا گیا ہے کہ چلے جاؤ تو پھر تم کیوں نہیں جاتے اور جو بیٹھے ہیں ان کو اٹھا رہے ہیں اس وقت میری چارپائی پر دائیں طرف ایک نوجوان بیٹھا ہے جو رشتہ دار معلوم ہوتا ہے غالبا دامادوں میں سے کوئی ہے رشتہ پوری طرح ذہن میں نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے گھر کا کوئی فرد ہے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بات کو دیکھ کر کہ لوگوں نے پوری طرح میری فرمانبرداری نہیں کی چار پائی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس نوجوان کے پاس آکر اور اس کا بازو
282 پکڑ کر فرمایا کہ جانا ہے تو جاؤ اور اگر نہیں جانا تو کہہ دو کہ میں نے نہیں جاتا.اس وقت میرے ذہن میں یہ آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ خیال نہیں کہ اس نے نافرمانی کی ہے بلکہ آپ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ تعلق کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ میرا پاس رہنا ضروری ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سمجھتے ہیں کہ اگر یہ بغیر استثناء کے بیٹھا رہا تو دوسرے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ حکم کا مانا ضروری نہیں تو آپ یہ بتانے کے لئے اور یہ احساس پیدا کرنے کے لئے کہ حکم کی پوری فرمانبرداری کرنی چاہئے اور اس وسوسہ کو دور کرنے کے لئے جو اس نوجوان کے بیٹھنے سے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو سکتا ہے اس نوجوان سے فرماتے ہیں کہ جاتا ہے تو جاؤ اور اگر نہیں جانا تو کہہ دو کہ میں نے نہیں جانا.دوسرے میرا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ڈرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ اس نوجوان نے بیٹھنا ہو اور نکالنے والے اس کو باہر نکال دیں اور اس کی بہتک ہو تو یہ دونوں باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقصود تھیں کہ نکالنے والے اس کو نکالیں نہیں.اور اس کے بیٹھے رہنے کی وجہ سے کسی کو ٹھو کر بھی نہ لگے اور یہ نہ سمجھا جائے کہ حکم کا ماننا ضروری نہیں کیونکہ یہ نوجوان حکم کے باوجو د بیٹھا ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ جانا ہے تو جاؤ اور اگر نہیں جانا تو کہہ دو کہ میں نے نہیں جانا.اس وقت میری آنکھ کھل گئی.اس رویا میں بڑے اہم معاملات بتائے گئے ہیں ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ میرے پیچھے چل رہے ہیں جس میں خدا تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ اس زمانہ میں احمدیت کی ترقی کو میرے ساتھ وابستہ کر دیا ہے گویا جدھر میں ہوں گا ادھر ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوں گے اور ادھر ہی خدا تعالیٰ ہوگا.دوسرے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرے کہنے پر کہ اب دوست چلے جائیں اور جب بعض لوگوں نے سستی دکھائی تو اس پر آپ کا جوش میں آجانا کہ لوگوں نے کیوں فرمانبرداری نہیں کی اور اس جوش میں چار پائی سے ہٹا کر اس نوجوان کے بازو کو پکڑ کر کہنا کہ جانا ہے تو جاؤ اور اگر نہیں جانا تو کہہ دو میں نے نہیں جانا.یہ بتاتا ہے کہ امام کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کو مانا بھی ضروری ہے اور جو لوگ اس حکم کو ماننے سے انکار کرتے ہیں وہ خداتعالی کی ناراضگی کا موجب بنتے ہیں.تیسرے اس رویا میں اللہ تعالیٰ نے فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا کے ماتحت
283 اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جماعت کو چاہئے کہ ایک مقصد کو سامنے رکھ کر کام کرے اگر جماعت ہمیشہ ایک مقصد کو سامنے رکھ کر کام کرے گی تو خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو اپنا چہرہ دکھانے میں بخل نہیں کرے گا.الفضل 7.مئی 1945ء صفحہ 3 5C مئی 1945ء 353 ڈلہوزی میں میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ کوئی شخص ماریسن نامی انگریز ہیں وہ کہتے ہیں کہ چالیس سال کے عرصہ تک کانگڑہ کے ضلع میں میرے جیسا اور عقلمند آدمی پیدا نہیں ہو گا یا شاید یہ کہا ہے کہ پایا نہیں جائے گا میں اس وقت رویا میں سمجھتا ہوں کہ ماریسن سے وہ وزیر مراد ہے جو لیبر پارٹی کی طرف سے وزارت میں شامل ہیں.یہ فقرہ سن کر میرے دل میں فور آیہ بات گزری کہ انشاء اللہ انہوں نے نہیں کہا اگر یہ انشاء اللہ کہہ لیتے تو اچھا تھا پھر ساتھ میرے دل میں یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ کانگڑے کے ساتھ ان کا کیا تعلق ہے کانگڑہ ہندوستان کا علاقہ ہے اور یہ انگلستان کے رہنے والے ہیں اس سوال کے پیدا ہوتے ہی میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ کانگڑے کا لفظ استعارہ انگلستان کے لئے بولا گیا ہے اور کانگڑے میں چونکہ آتش فشاں پہاڑ ہیں اس لفظ میں انگلستان کی آئندہ حالت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ انگلستان میں بہت کچھ رد و بدل اور اتار چڑھاؤ کا زمانہ آ رہا ہے جس طرح آتش فشاں علاقے میں زلزلے آتے رہتے ہیں اس طرح انگلستان میں بھی سیاسی اور اقتصادی اتار چڑھاؤ رونما ہونے والے ہیں اور مسٹر ماریسن کے قول کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسے تغیرات اور فساد کے وقت میں سب سے اچھا کام کرنے والا ثابت ہو گا.الفضل 11.مئی 1945 ء صفحہ 1 نیز دیکھیں.الفضل یکم اگست 1945ء صفحہ 1و2 اور سیر روحانی جلد 2 صفحہ 41 ( شائع کردہ الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ ) الفضل 12 - فروری 1957ء صفحہ 6 354 13 جون 1945ء ( روایت مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب) فرمایا : 13 جون کو حضرت مصلح موعود کا قلم ( فونٹین پن) گم ہو گیا.حضرت نے اس کی بہت تلاش کی لیکن وہ کہیں نہ ملا اس دن حضور کی باری سیدہ ام متین صاحبہ حرم ثالث کے ہاں تھی.جب حضور وہاں تشریف لے گئے تو حضور پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور حضور نے کشف میں
284 دیکھا کہ کوئی شخص ہاتھ میں قلم لئے حضور کے سامنے پیش کر رہا ہے اس کشف کا ذکر حضور نے اس وقت سیدہ ام متین صاحبہ سے کر دیا دوسرے دن یعنی 14 جون کو حضور کی باری مهر آیا سیدہ بشری بیگم صاحبہ کے ہاں تھی صبح کو حضور کے دفتر کی صفائی کرانے کے لئے انہوں نے مکرمہ عائشہ بیگم صاحبہ زوجہ مولوی رحمت علی صاحب مبلغ سماٹرا کو دفتر میں بھجوایا اور انہوں نے صفائی کرائی.صفائی کے دوران ان کو قلم گرا ہوا مل گیا اور مکرمہ عائشہ بیگم صاحبہ نے گم شدہ قلم جو باوجود تلاش کے نہ ملتا تھا اور اس کی بجائے دوسرا قلم خرید کیا گیا تھا صفائی کروا کر واپس آنے کے بعد اسی طرح سیده مهر آپا صاحبہ کے گھر حضور کے سامنے پیش کر دیا جس طرح حضور نے کشف میں دیکھا تھا.الفضل 16.جون 1945ء صفحہ 2 355 8 جولائی 1945ء فرمایا : 6 جولائی کو کنری (سندھ) سے مکرم میاں عبدالرحیم احمد صاحب نے حضرت خلیفة المسیح الثانی کو بذریعہ تار اپنی صاحبزادی کی (جو حضور کی نواسی اور صاحبزادی امتہ الرشید بیگم کی بیٹی ہیں) شدید بیماری کی اطلاع دے کر دعا کی درخواست کی یہ تار 8.جولائی کو ڈلہوزی میں حضور کو ملا.حضور نے تار پڑھتے ہی دعا فرمائی اور اس کی پشت پر یہ جواب رقم فرمایا.میں نے آج خواب میں نوشی (صاحبزادی موصوفہ کا پیار کا نام) کو دیکھا کہ وہ آئی ہے اور مجھے آکر گلے ملی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اسے صحت دے.بظاہر تو خواب مبارک معلوم ہوتی ہے واللہ اعلم.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے صاحبزادی صاحبہ موصوفہ کو صحت بخشی اور بیماری کے سخت حملے سے بچا کر شفا عطا فرمائی اور اس طرح اس کی بیماری سے بھی قبل حضور کو ان کی صحت کی جو بشارت دی گئی تھی وہ پوری ہوئی.الحمد للہ.الفضل 8 - ستمبر 1945ء صفحہ 1 356 اوائل اگست 1945ء فرمایا : ایک رات میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے شدید محبت اور عشق کے جذبہ کے ماتحت کہ اس کی نظیر نہیں ملتی مخاطب ہو کر کہہ رہا ہوں کہ اے میرے رب تو مجھے گود میں
285 اٹھائے اور اپنی برکتوں سے مجھے چاروں طرف سے ڈھانپ لے یہ دعا اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے بار بار کر رہا تھا کہ آنکھ کھل گئی اور اوپر کے الفاظ الہانا بھی زبان پر جاری تھے.الفضل 11 اگست 1945ء صفحه1 اوائل اگست 1945ء 35.7 فرمایا : ایک تمثیلی زبان میں نظارہ دیکھا جس کی یہ تعبیر ہے کہ اللہ تعالی غیر معمولی سامانوں سے جو انسانی طاقت سے بالا ہوں گے جماعت احمدیہ کو جوانی بخشے گا اور اس کی کو شش کو بار آور کرے گا اور روشنی اور تازہ پھل اس کے کاموں کے نتیجہ میں پیدا ہوں گے اور خدا تعالٰی کی نصرت اس کے ذریعہ سے سب جہان کو ملے گی.الفضل 11 اگست 1945ء صفحہ 1 358 اوائل اگست 1945ء فرمایا : ایک اور نظارہ تمثیلی زبان میں دیکھا جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو وسعت بخشے گا اور علوم و فنون کا سوتا اس کے ذریعہ پھاڑے گا.الفضل 11 اگست 1948 ء صلح 1 اوائل اگست 1945ء 359 فرمایا : دیکھا کہ ایک جگہ مسٹر گاندھی ہیں اور اخباروں کے نمائندے ان سے انٹرویو کے لئے جا رہے ہیں اور ایک جگہ پر جہاں عام طور پر لوگوں کو جانے کی اجازت نہیں وہ ان لوگوں سے مل رہے ہیں.میں نے پہرہ داروں میں سے ایک صاحب جن کا نام محمد اسحاق ہے کہا کہ جاؤ اور اس قسم کا انتظام کرو کہ میں بھی وہاں اس طرح جاسکوں کہ کسی کو میرا علم نہ ہو.محمد اسحاق نے تھوڑی دیر میں آکر کہا کہ میں نے انتظام کر دیا ہے آپ چلے جائیں میں ایک بند کمرہ میں سے ہو کر اس جگہ گیا ہوں جہاں مسٹر گاندھی ہیں راستہ میں کچھ پہریدار ہیں ان میں سے ایک نے مجھے رو کا لیکن محمد اسحاق نے انہیں یہ کہہ کر ہٹا دیا کہ ان کے لئے اجازت لی ہوئی ہے اس کے بعد میں اندر داخل ہوا یہ ایک صحن ہے اس میں گاندھی جی تکیہ کا سہارا لگائے اپنے معروف لباس میں مغرب کی طرف مونہہ کر کے بیٹھے ہیں سامنے ایک صف اخباری نمائندوں کی ہے.میں ان میں
286 جا کر بیٹھ گیا مگر میرے بیٹھتے ہی وہ لوگ اٹھ کر مجھ سے مصافحہ کرنے لگ گئے.اور میں خواب میں حیران ہوں کہ میں تو پوشیدہ آیا تھا پھر یہ لوگ مجھ سے اٹھ کر مصافحہ کرنے لگ گئے جب سب اخباری نمائندے مجھ سے مصافحہ کر چکے تو ایک شخص اٹھا اور اس نے بھی مصافحہ کیا مگر ساتھ ساتھ ایک طویل گفتگو شروع کر دی میں نے خیال کیا کہ یہ دیوانہ ہے اس سے کسی طرح پیچھا چھڑانا چاہئے آخر سوچ کر میں نے اسے کہا کہ یہ تو گاندھی جی کی ملاقات کا وقت ہے ان سے بات کرو اس پر وہ مجھے چھوڑ کر گاندھی جی کی طرف مخاطف ہوا اور بات کرتے کرتے ان پر جھکتا چلا گیا یہاں تک کہ اس کے دباؤ کی وجہ سے گاندھی جی ایسی حالت میں ہو گئے کہ گو یا لیٹے ہوئے ہیں وہ ان کے اوپر دراز ہو گیا اور اپنی بات جاری رکھی.میں حیران ہوں کہ ان کے ملاقاتی ان کو چھڑاتے کیوں نہیں.ایسی حالت میں گاندھی جی نے انگلیاں ہلانی شروع کیں جیسے کہ کوئی شخص دل میں باتیں کرتے ہوئے انگلیاں ہلاتا ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ یہ اس طرح اس سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ گاندھی جی اپنے قدیم طریق کے مطابق کوئی ایسا قدم اٹھانے والے ہوں گے جو شور پیدا کرنے والا ہو گا تبھی اخباری نمائندوں کا اجتماع دیکھا پاگل کا ان پر بوجھ ڈالنا تھا تا ہے کہ ان پر کوئی مخالف اثر ڈالنے کی کوشش کی جائے گی اور میرے وہاں جانے کی تعبیر بظا ہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کے اس اقدام کا اثر مسلمانوں پر بھی پڑے گا.وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب - الفضل 11 اگست 1945ء صفحہ 1-2 360 اوائل اگست 1945ء فرمایا : میں صبح کے وقت بعد از نماز سویا ہوا تھا کہ مجھے آواز دے کر اندر سے کسی نے جگایا میں اٹھ کر بیٹھ گیا بیٹھتے ہی کشف کی حالت طاری ہوئی.میں نے دیکھا کہ ایک احمدیہ جماعت کا مجمع ہے سامنے ایک سکھ جو دراصل مسلمان ہے تقریر کر رہا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ قریباً پچاس سال سے جماعت احمدیہ نے سکھوں میں تبلیغ شروع کی تھی لیکن چونکہ فوراً نتیجہ نہ نکلا ان میں کچھ ستی اور مایوسی پیدا ہو گئی مگر یہ سستی اور مایوسی ان میں پیدا نہیں ہونی چاہئے تھی اس آخری فقرہ پر کشف کی حالت جاتی رہی.
287 میں سمجھتا ہوں کہ اس کشف میں ہمیں اپنے فرض کی طرف توجہ دلائی گئی اور بتایا گیا ہے کہ سکھ ضرور اسلام کی طرف آئیں گے اس لئے اس کام کی طرف خاص توجہ چاہئے.الفضل 11 - اگست 1945ء صفحہ 2 غالبا اگست 1945ء 361 فرمایا : مجھے یہاں "مَاء فَجَّاجا" کے الفاظ سے اپنا وہ خواب یاد آگیا جو تھوڑے دن ہوئے میں نے دیکھا تھا اور جس میں مجھے انسانی قلب ایک تنور کی شکل میں دکھایا گیا اور مجھے یہ نظارہ نظر آیا کہ اس تنور میں سے اللہ تعالی کے عرفان کا پانی پھوٹنا شروع ہوا اور وہ دنیا کے کناروں تک پھیل گیا میں نے جب اس پانی کو پھیلتے دیکھا تو اس وقت میں نے کہا یہ پانی پھیلے گا اور پھیلتا چلا جائے گا یہاں تک کہ دنیا کا ایک انچ بھی ایسا باقی نہ رہے گا جہاں خدا کے عرفان کا یہ پانی نہ پہنچے.تفسیر کبر جلد ششم جز و چهارم نصف اول صفحه 25 فرمودہ اگست 1945ء 362 فرمایا : قرآن کریم کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مضامین ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے القاء اور الہام کے طور پر مجھے سمجھائے ہیں اور میں اس بارہ میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا جس قدر بھی شکر ادا کروں کم ہے اس نے کئی ایسی آیات جو مجھ پر واضح نہیں تھیں ان کے معانی بطور وحی یا القاء میرے دل پر نازل کئے اور اس طرح اپنے خاص علوم سے اس نے مجھے بہرہ ور کیا.مثال کے طور پر میں سورہ بقرہ کی ترتیب کو پیش کرتا ہوں میں ایک دن بیٹھا ہوا تھا کہ یکدم مجھے القاء ہوا کہ فلاں آیت اس کی کنجی ہے اور جب میں نے غور کیا تو اس کی تمام ترتیب مجھ پر روشن ہو گئی اسی طرح سورۃ فاتحہ کے مضامین مجھے القاء اور الہاما اللہ تعالیٰ کی طرف سے رویا میں بتائے گئے تھے.اس کے بعد خدا تعالیٰ نے میرا سینہ سورۃ فاتحہ کے حقائق سے لبریز فرما دیا قرآن کریم کی ترتیس بیسیوں آیات کے متعلق خدا تعالی کی طرف سے بطور القاء مجھے سمجھائی گئی ہیں مثلاً سورہ بروج اور سورہ طارق کا جوڑ کہ ان میں سے ایک سورہ میں مسیحیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ بھی ان مضامین میں سے ہے جو لوگوں کی نگاہ سے مخفی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے
288 میرے ذریعہ ان کو ظاہر فرما دیا اور مجھے وہ دلائل دیئے جن سے میں اپنے اس استدلال کو پوری طاقت کے ساتھ ثابت کر سکتا ہوں اور کوئی منصف مزاج ان دلائل کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتا عقلی طور پر اسے بہر حال ماننا پڑے گا کہ میراد عومی دلائل پر مبنی ہے.تفسیر سورہ الفجر صفحہ 483 26 یا 27 اگست 1945ء 363 فرمایا : میں نے 26 اور 27 اگست کی درمیانی رات کو ایک عجیب رویا کمیونسٹ روس کے متعلق دیکھا ہے جس میں روس کے بارہ میں اللہ تعالٰی کے آئندہ منشاء کی ایک جھلک پائی جاتی ہے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اسے اسلام اور سلسلہ کے لئے مفید بنائے.میں نے دیکھا کہ میں ایک کمرہ میں ہوں گھر کی بعض مستورات بھی وہاں ہیں ایک عورت سفید رنگ کی ادھیڑ عمر کی کھڑی ہے اور مجھے کسی نے کہا کہ یہ موسید سٹالن ہیں اور اس وقت میں قطعاً موسیو سٹالن کے مرد ہونے کا خیال نہیں کرتا بلکہ میں اس میں کوئی تعجب محسوس نہیں کرتا کہ موسیو سٹالن عورت کیونکر ہو گئے.جس نے مجھ سے اس خاتون کو انٹروڈیوس کرایا ہے اس نے یہ بھی کہا کہ یہ روس کی ملکہ ہیں اس پر میں نے ان سے باتیں کرنی شروع کر دیں کچھ روس ہی کے متعلق باتیں تھیں جو یاد نہیں رہیں.بات کرتے کرتے میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کامل دہریت کا وجود عقلمندوں میں کم ہی ملتا ہے آدمی تعلیم والے یا کم عقل والے لوگوں میں ہی یہ خیال پایا جاتا ہے اور کمیونسٹ روس کی ابتدائی تحریک میں اچھے سمجھدار لوگ بھی تھے مثلا خود موسیو سٹالن ، لینن وغیرہ.ان میں سے آخر کوئی تو پختہ عقل کا آدمی ہو گا اگر اللہ تعالٰی پر یقین نہ ہو گا تو دل میں کبھی کبھی دھڑکن تو پیدا ہوتی ہوگی اس خیال کے آنے پر میں نے چاہا کہ میں موسیو سٹالن یا یوں کہو ملکہ سے اس بارہ میں دریافت کروں.اسی وقت میں نے دیکھا کہ موسیو سٹالن یا ملکہ کی عمر چھوٹی ہو گئی ہے اور جس طرح چھوٹے بچوں سے پیار سے بات کرتے ہیں میں نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اور پیار دے کر پوچھا ہے میں تم سے ایک بات پوچھوں " تم ٹھیک ٹھیک جواب دو گی.آگے اس لڑکی نے لڑکیوں کے انداز میں کہا کہ آپ پہلے جائیں کہ کیا بات ہے میں پھر اصرار کرتا ہوں کہ نہیں.پہلے یقین دلاؤ کہ تم ٹھیک ٹھاک جواب دو گی اسی
289 وقت مجھے خیال ہے کہ چونکہ کمیونسٹ تحریک کی بنیاد دہریت پر ہے اس لئے اپنی نسبت یا کسی دوسرے لیڈر کی نسبت یہ تسلیم کرنا کہ اس کے دل میں خدا تعالی کی ہستی پر یقین تھا یا اس بارہ میں تردد کرتا رہا تھا اس کے لئے مشکل ہو گا اس لئے میں اس سے وعدہ لے لوں مگر اس نے مجھے جواب نہیں دیا اور اصرار کرتی رہی کہ آپ پہلے یہ بتائیں کہ کیا سوال کرنا چاہتے ہیں.اس پر میں نے اس خیال سے کہ اس وقت مناسب نہیں پھر سوال کروں گا اس بات کو چھوڑ دیا اس کے بعد یوں معلوم ہوا کہ رات کا وقت ہے اور ہم سونے لگے ہیں کمرہ میں ایک ہی چار پائی ہے میں نے اس پر اسے سونے کے لئے کہا اور زمین پر میں اور میری ایک بیوی اور کچھ اور لوگ ہیں لیٹ گئے ہیں میرے پاؤں اس چارپائی کی طرف ہیں خواب میں میں سو گیا ہوں لیکن تھوڑی دیر کے بعد مجھے کسی نے گھبرا کا جگایا اور کہا موسیو سٹالن کو جسے روس کی ملکہ ہی خیال کرتے ہیں اس وقت تک عورت ہی کی شکل ہے خون کی قے آئی ہے اور حالت خراب ہے میں گھبرا کر اٹھا تو دیکھا کہ ملکہ سٹالن نڈھال ہو کر بے ہوشی کی حالت میں پڑی ہے اس کے سرہانے اور پاکتی ہمارے گھر کی عورتیں بیٹھی ہیں اور ملکہ کا سانس اکھڑا ہوا ہے اور حالت خطرہ والی معلوم ہوتی ہے میں اس فکر میں کہ کیا علاج کیا جائے کمرہ کے ایک طرف گیا ہوں کہ یوں معلوم ہوا کہ مسٹر گاندھی کمرے میں آئے ہیں اور ہمارے ساتھیوں سے کہا ہے کہ اس کی حالت خراب ہے اور یہ مرجائے گی روسی قوم سخت غضب میں آجائے گی کہ ہماری ملکہ کو زہر دے کر مار دیا اس لئے بہتر ہے کہ آپ لوگ یہاں سے چلے جائیں تاکہ آپ لوگوں کے نام یہ واقعہ نہ لگ جائے.اس پر میرے ایک ساتھی نے مجھ سے یہ بات اگر کسی اور میں نے اس پر عمل کرنے کا ارادہ کر لیا اور میں نے جلد جلد کوٹ اور پگڑی نکالی تاکہ پہن کر ہم وہاں سے چلے جائیں میں اس کمرہ سے باہر نکل کر کوٹ اور پگڑی پہننے میں لگ گیا پگڑی رات کو اتارنے کی وجہ سے کچھ پچخ گئی ہے اسے مشکل سے درست کیا اور پھر اس کمرہ میں آگیا وہاں پہنچ کر مجھے خیال آیا کہ ملکہ تو ابھی زندہ ہے اسے اسی حالت میں چھوڑ کر اپنے بچاؤ کی خاطر چلے جانا تو اخلاق کے خلاف ہے اور میں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو اس کی حالت کی درستی یا موت تک یہاں ٹھہروں گا اس عرصہ میں اس نے آنکھیں کھولیں اور نہایت نقاہت سے مجھے کہا کہ میرے لئے دودھ منگوائیں.میں نے اسے کہا.بہت اچھا اور ارادہ کرتا ہوں کہ کسی کو دودھ منگوانے کے لئے بھجواؤں کہ آنکھ کھل گئی.
290 فرمایا : اس خواب میں بہت سے گذشتہ اور آئندہ امور پر روشنی پڑتی ہے.الفضل یکم ستمبر 1945ء صفحہ 21.نیز دیکھیں الفضل - 25 - ستمبر 1945ء صفحہ 1 - 11 فروری 1957ء صفحہ 6 9 یا 10.ستمبر 1945ء 364 فرمایا : دس تاریخ کو جب میں قادیان گیا تو میں نے اسی دن یا اس سے پہلے دن رؤیا میں دیکھا کہ ایک احمدی نوجوان نهایت بیش بہا لباس میں ملبوس چلا آرہا ہے (اور یہ نوجوان اس وقت بالکل بے کار ہے کوئی غیر احمدی ملاقاتی اس کے لباس کو دیکھ کر اس لئے حیران ہے کہ احمدی تو سادہ ہوتے ہیں اس نے ایسا اچھا لباس پہنا ہوا ہے میں نے اس کے چہرہ سے اس کی حیرت کو پہچانا اور کہا کہ یہ فلاں جگہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آیا ہے اس لئے اس کا لباس ایسا اعلیٰ ہے.قادیان میں مجھے یہ نوجوان ملے اور ان کو میں نے یہ رویا سنا دیا جبکہ اور دوست بھی پاس کھڑے تھے ابھی اس رویا پر دس دن ہی گزرے تھے کہ اسی تعلیم کے نتیجہ میں جس کی طرف میں نے خواب میں اشارہ کیا تھا کہ اس کی وجہ سے اس کا یہ اعلیٰ قیمتی لباس ہے اس نوجوان کے متعلق ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ مجھے پرسوں ان کا مخط ملا کہ اللہ تعالیٰ کچھ ایسے سامان پیدا کر رہا ہے کہ یا تو صوبہ کی ایک بہترین ملازمت ان کو مل جائے گی یا پھر کروڑوں روپیہ کی تجارت کا راستہ کھل جائے گا.اس وقت اس نوجوان کی چند سو کی بھی حیثیت نہیں ہے.چونکہ نام اور تفصیل کے اظہار سے نقصان کا ڈر ہے اس لئے سردست میں نام اور تفصیل کو ظاہر نہیں کرتا اللہ تعالیٰ عزیز کی امیدوں کو پورا کرے اور سچا احمدی رہنے کی توفیق بخشے.11/12.ستمبر 1945ء فرمایا ہوئے.365 الفضل 25.ستمبر 1945ء صفحہ 2 11 اور 12 ستمبر 1945ء کی درمیانی رات کو یکدم میرے دل پر یہ الفاظ نازل ملک بھی رشک ہیں کرتے" یہ الفاظ اتنے زور سے نازل ہوئے کہ اسی زور سے میری آنکھ کھل گئی اور آنکھ کھلنے کے بعد
291 " اسی مصرعہ کی تکمیل بھی ساتھ ہی ہو گئی یعنی یہ الفاظ بیداری کی حالت میں دل میں گزرے کہ وہ خوش نصیب ہوں میں " یہ ایک میرے ہی شعر کا پہلا مصرعہ ہے جو یہ ہے ملک بھی رشک ہیں کرتے وہ خوش نصیب ہوں میں وہ آپ مجھ سے ہے کہتا نہ ڈر قریب ہوں میں اس میں در حقیقت اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح شعر میں میں نے بحیثیت انسان ہونے کے اس مضمون کو باندھا ہے کہ انسان ایسا خوش نصیب ہے کہ ملک اس پر رشک کرتے ہیں لیکن حقیقی طور پر بعض ایسے انسان ہی اس کے مستحق ہوتے ہیں جو خلافت کے مقام پر مقرر کئے جاتے ہیں کیونکہ خلافت آدم کا ہی مقام ہے جبکہ فرشتوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ اب آدم کی اتباع میں تم کام کرو گویا ملائکہ کی نصرت اور تائید کو اسی کے لئے لگا دیا گیا ہے.اس الہام میں اس طرف اشارہ ہے اور گویا وعدہ ہے کہ فرشتوں کو میری تائید اور نصرت کے لئے خداتعالی کی طرف سے مقرر کر دیا گیا ہے اور لازمی بات ہے کہ ایسے انسان پر ملائکہ بھی رشک کریں گے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے ہر فعل کی قیمت سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ خدا تعالی کا کسی کو کام کے لئے مقرر کرنا ایک بہت بڑا فضل ہوتا ہے.الفضل 21.ستمبر 1945ء صفحہ 2 366 17.ستمبر 1945ء فرمایا : آج رات یعنی 16 - 17 - ستمبر 1945ء کی درمیانی رات کو قریباً دو تین بجے میں نے دیکھا کہ میں ہوائی جہاز پر سوار ہوں اور انگلستان جا رہا ہوں ہوائی جہاز بہت بڑا ہے کہ اس میں اور مسافر بھی سوار ہیں ہم انگلستان کے ایک پہاڑی علاقہ میں اترے ہیں اور اترنے کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ناشتہ وغیرہ کر لیں تو پھر جہاز روانہ ہو.یہ علاقہ جہاں جہاز اترا ہے لندن سے شمال کی طرف معلوم ہوتا ہے گویا ہم پرواز کرتے ہوئے آگے گزر چکے ہیں.جہاز کے دوسرے مسافر ناشتہ کے لئے چلے گئے اور میں غسل خانہ میں ہاتھ دھونے کے لئے گیا اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری جیبوں میں کچھ روپے ہیں جو مجھے بعض لوگوں نے ہدیہ دیتے ہیں میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ان کو نکال کر ایک جیب میں ڈال لوں جب میں نے ان کو نکال کر جمع کرنا شروع
292 کیا تو وہ میرے اندازہ سے بہت زیادہ نکلے ہر جیب میں سے کچھ نہ کچھ روپے نکلتے چلے آئے اور اس کے بعد معلوم ہوا کہ میرے ساتھ ایک اٹیچی کیس ہے اس میں بھی روپے ہیں میں نے یہ عجیب بات دیکھی کہ وہ روپے سفید چاندی کے ہیں اور بہت سے عام روپے کے سائز سے بڑے ہیں اور بعض ایسی شکل کے ہیں کہ وہ موجودہ سکے سے کوئی مناسبت ہی نہیں رکھتے چنانچہ بعض ان میں سے بجائے گول کے چو گوشہ ہیں جیسے پرانے زمانہ میں ہول ولیاں عورتیں گلے میں لٹکایا کرتی تھیں مگر وہ ہول ولیوں سے بہت بڑے سائز کے ہیں ایک انچ سے زیادہ چوڑے اور کوئی پونے دو انچ کے قریب لمبے اور بھاری بھاری معلوم ہوتے ہیں میں اس بات سے حیران ہوتا ہے کہ روپیہ رکھوں کہاں.پھر میں نے معلوم نہیں کیا ان روپوں کو کیا کیا لیکن میں باہر آیا اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میں قریباً پون گھنٹہ لیٹ ہو گیا ہوں لیکن پھر میں چلا گیا اور میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ جہاز کہاں جا کر اترے گا تو اس نے کہا سکاٹ لینڈ میں.پھر میں نے اس سے پوچھا کہ سکاٹ لینڈ کے کون سے شہر میں.تو اس نے جواب دیا.گلاسکو میں.پھر میں نے اس سے و ریافت کیا.گلاسکو یہاں سے کتنی دور ہے تو اس نے کہا ایک لحاظ سے پندرہ سو میل اور ایک لحاظ سے دو سو میل.اس پر میں نے اس سے کہا کہ پندرہ سو میل تو کسی طرح نہیں ہو سکتا.میں نے بھی انگلستان کا جغرافیہ پڑھا ہوا ہے لنڈن سے سکاٹ لینڈ کے آخری سروں تک رات رات میں ریل پہنچ جاتی ہے پندرہ سو میل کس طرح ہو سکتا ہے دو سو میل ٹھیک ہو گا اس پر یا تو اس نے جواب نہیں دیا یا میں نے سنا نہیں مگر اسی میں میری آنکھ کھل گئی.میں سمجھتا ہوں شاید اللہ تعالی سکاٹ لینڈ میں احمدیت کی اشاعت کے سامان کرے اور شاید کوئی ایسی تحریک پیدا ہو جو گلاسکو سے دو سو میل جنوب کی طرف سے شروع ہو کر گلاسکو تک جاری ہو کیونکہ گلاسکو سے دو سو میل ورے ہوائی جہاز ٹھہرا ہے اور یہ جو جواب دینے والے نے کہا کہ ایک طرف سے پندرہ سو میل.اگر بات کہنے والے کی غلط نہیں.تو پھر اس کے یہ منے بنتے ہیں کہ یہ مقام شمال مغربی انگلینڈ کے قریب واقعہ ہے وہاں سے اگر مغرب کی طرف سے بجائے خشکی کے راستے سے جانے کے جہاز کے رستے جائیں تو غالبا ہزار پندرہ سو میل کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے.گلاسکو اور اس کے نواح کا علاقہ ایک اور لحاظ سے بھی اہمیت رکھتا ہے جس کا میری بعض
293 سابق خوابوں کے ساتھ تعلق ہے مگر سمجھنے والے سمجھ جائیں شاید موجودہ وقت اس کے اظہار کی اجازت نہ دیتا ہو.الفضل 21.ستمبر 1945ء صفحہ 2 ستمبر 1945ء 367 فرمایا : 24/23 - رمضان کی درمیانی رات کو رویا میں دیکھا کہ میں اپنے دفتر واقع قادیان میں ہوں ان سیڑھیوں سے اترا ہوں جو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف جاتی ہیں سیڑھیوں کی شکل بھی اس شکل سے جو واقعہ میں ہے مختلف معلوم ہوتی ہے موجودہ سیڑھیاں گول ہیں اور جن کو خواب میں دیکھتا ہوں وہ سیدھی ہیں اور اصل سیڑھیوں سے چھوٹی لگتی ہیں جب میں نیچے آیا تو میں نے دیکھا مولوی سید سرور شاہ صاحب کھڑے ہیں اور ان کے ہاتھ میں ایک سفید لمبا لفافہ ہے جیسے دفتری لفافے ہوتے ہیں.اس وقت مولوی صاحب اپنی موجودہ عمر اور جسمانی حالت کی نسبت بہتر معلوم ہوتے ہیں کمر سیدھی ہے اور چہرے پر طاقت اور نضارت کے آثار ہیں.میں نے اس لفافہ کو لے کھولا اور دفتر کے پاس کی گلی سے ہوتا ہوا احمد یہ چوک کی طرف چل پڑا اندر سے دو کاغذ نکلے ایک وصیت کا کاغذ ہے جو سفید خوبصورت اور فل سکیپ سائز سے کوئی اڑھائی گنے بڑا ہے.کاغذ موٹا اور اس طرح کا ہے جیسے بنک یا اشٹاموں کے کاغذ ہوتے ہیں اور ساتھ کاغذ حنائی فل سکیپ سائز کا ہے جس پر دفتر بہشتی مقبرہ کی کوئی رپورٹ ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ کاغذ مولوی صاحب نے اس لئے پیش کیا ہے کہ میں کسی وفات یافتہ شخص کے مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کی منظوری دوں جب میں کاغذ کو دیکھنے لگا تو مولوی سرور شاہ صاحب نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے ہیں ان کے دفنانے کی اجازت کے متعلق یہ کاغذ ہے.یہ بات سن کر مجھے اتنا صدمہ ہوا کہ آنکھوں کے آگے اندھیرا آ گیا اور وصیت کے کاغذ پر جو در حقیقت ایک اس قسم کی سند معلوم ہوتی ہے جیسے حکومت کی طرف سے انعام کے طور پر سند ملا کرتی ہے) جو عبارتیں لکھی ہوئی ہیں میں ان کے پڑھنے کے قابل نہ رہا اسی وقت یکدم مولوی سرور شاہ صاحب غائب ہو گئے اور میری لڑکی امتہ القیوم مجھے معلوم ہوا جیسا کہ میرے پہلو میں کھڑی ہے.میں نے اسے کہا کہ مجھے تو لفظ نظر نہیں آتے تم مجھے بتاتی جاؤ
294 جہاں دستخط کرنے ہیں میں دستخط کرتا جاؤں گا ایک جگہ مجھے اس نے دستخط کرنے کے لئے کہا.میں نے وہاں دستخط کر دئیے اس کے بعد اس نے دوسری جگہ بتائی.میں نے پوچھا.یہاں کیا لکھا ہوا ہے اس نے کہا کہ یہ لکھا ہوا ہے کہ گزشتہ دو سال کی آمد کیا تھی اس کی تفصیل بتائی جائے میں نے ہاتھ جھٹک کر حقارت سے کہا کہ میں اس پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں گویا مجھے یہ بات بری معلوم ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دفن کرنے کے لئے ان کی گزشتہ آمد کا ریکارڈ وفتر کو معلوم ہونا چاہئے پھر تیسری جگہ میری لڑکی نے اشارہ کیا اور میں نے دستخط کر دیئے یہ جو میں نے کہا میری آنکھوں کے آگے اندھیرا آ گیا اس سے یہ مراد نہیں کہ مجھے نظر نہیں آتا تھا بلکہ جیسے ضعف کی وجہ سے چکر آجاتا ہے اور حروف اچھی طرح نظر نہیں آتے وہ حالت تھی.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.غور کرنے سے میں نے سمجھا کہ یہ کسی ایسے صحابی یا کسی مقامی جماعت کے اہم انسان کی موت کی خبر دی گئی ہے کیونکہ خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص موصی ہے پس کسی ایسے ہی شخص کے متعلق یہ خواب ہو سکتی ہے جس کے لئے وصیت کرنا ضروری ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص اپنے اخلاص میں اتنا بڑھا ہوا ہے کہ باوجود موصی ہونے کے میں نے یہ سمجھا کہ اس کے دفن ہونے کے لئے کسی رقم کی ادائیگی کی بحث فضول ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کی خدمات سلسلہ کے لئے ایسی ہیں کہ وہ ایک رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلاة والسلام کا جانشین عام جماعت کے لحاظ سے یا پھر مقامی جماعت کے لحاظ سے سمجھا جا سکتا ہے.یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کی وصیت کے گذشتہ دو سال کی ادائیگی کے متعلق کوئی سوال پیدا ہو سکتا ہے یا پیدا کیا جائے گا.الفضل 21.ستمبر 1945ء صفحہ 1 368 ستمبر 1945ء فرمایا : آنکھ کھلنے کے بعد میں پھر سو گیا تو میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک مجلس بیٹھی ہے اس میں بہت سے لوگ ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ میں تقریر کر رہا ہوں لیکن اس طرح بیٹھ کر تقریر کر رہا ہوں جیسے میں درس دیا کرتا ہوں مگر وہ تقریر ہے.درس نہیں کیونکہ تقریر شروع
295 کرنے سے پہلے جو مسنون الفاظ ہیں وہ میں پڑھ رہا ہوں مسنون الفاظ کی تلاوت کے بعد میں نے خوش الحانی سے سورہ فاتحہ پڑھنی شروع کی جیسے کہ میری عادت ہے کہ ہر تقریر سے پہلے میں (سورہ فاتحہ پڑھتا ہوں.لیکن بسم اللہ سے پہلے یا اس کے بعد یہ مجھے اچھی طرح یاد نہیں.میں نے یہ الفاظ پڑھے وَإِنَّا اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً" قرآن شریف میں اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً (الفرقان : 49) تو آتا ہے مگر انا کا لفظ اس کے ساتھ نہیں چنانچہ سورہ حجر میں سورہ مومنین میں سورہ فرقان میں سورۃ لقمان میں یہ الفاظ میں انا ان میں سے کسی مقام پر نہیں مگر میں نے إِنَّا أَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً پڑھا گویا واؤ اور اَنْزَلْنَا کے درمیان انا زائد کیا اس وقت میں اس کو قرآن شریف کی آیت سمجھتا ہوں یہ آیت کچھ ایسی خوش الحانی سے پڑھی ہے کہ مجمع سے بے اختیار سُبْحَانَ اللہ کی آوازیں بلند ہوئیں اس کے بعد میں نے سورہ فاتحہ کی تلاوت الْحَمْدُ سے لے کر وَلَا الضَّالِّينَ تک کی اس تلاوت کے درمیان میں بھی ایک جگہ میری آواز میں ایسی خوبصورت اور تاثیر پیدا ہوئی کہ سارا مجمع بے اختیار سُبْحَانَ اللهِ کہ اٹھا لیکن مجھے یاد نہیں کہ کس مقام پر ایسا ہوا.وَلَا الضَّالِّينَ کے بعد پھر میں نے ایک اور آیت پڑھی جو ساری مجھے یاد نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ میں نے پڑھا وَعِنْدَ رَبِّكَ لیکن قرآن کریم میں اس رنگ میں تو کوئی آیت نہیں.مجھ پر جو اثر ہے وہ یہ ہے کہ میں نے جو آیت پڑھی اس میں تسبیح کا ذکر تھا اس مضمون کی آیت سورہ اعراف میں آتی ہے جو یہ ہے اِنَّ الَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ (الاعراف : 207) بہر حال جب میں نے یہ آیت پڑھی تو اس وقت بھی میری آواز میں ایسی خوبصورتی اور تاثیر پیدا ہوئی کہ تمام حضار مجلس نے بے اختیار سُبْحَانَ اللهِ کہا اس موقع پر حافظ صوفی غلام محمد صاحب بی اے بول پڑے کہ عِندَ پر زیر کیوں نہیں آئی حالانکہ اس سے پہلے واؤ ہے اور وہ معیت کے لئے ہے.میں خواب میں سمجھتا ہوں کہ یہ اعتراض کلی طور پر عربی کے قاعدہ کو نہ جاننے کی وجہ سے ہے یہاں زیر تو آہی نہیں سکتی اور واؤ زیر نہیں لاتی اور اسی قسم کا جواب جو مجھے یاد نہیں رہا میں نے انہیں دیا ہے.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی لیکن جاگنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ جو فقرہ صوفی
296 صاحب کے منہ سے کہلوایا گیا تھا وہ نحوی لحاظ سے نہ تھا بلکہ معنوی لحاظ سے تھا اور مراد زیر سے اتباع ہے اور واؤ معیت سے مراد نحوی اصطلاح نہیں بلکہ معیت معنوی مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ جن کو اللہ تعالیٰ کی اتباع حاصل ہو وہ تو صرف خدا تعالیٰ کی اتباع کرتے ہیں اور اسی کو سجدہ کرتے ہیں دوسرے کسی اور کے آگے نہیں جھکتے.جب اس کا پس پردہ دیکھا جائے تو یہ مضمون اس کے بالکل مطابق آجاتا ہے اور وہ پس پردہ یہ ہے کہ رات کو سوتے وقت میں نے کمیونسٹوں پیغامیوں اور بہائیوں کے فتنہ کے دور ہونے کے متعلق دعا کی تھی سو اللہ تعالیٰ نے تین ہی قسم کی آیات اس بارہ میں نازل فرما دیں اِنَّا اَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً میں پیغامیوں کا رد ہے سورۃ فاتحہ میں کمیونسٹوں کا رد ہے (اس بارہ میں ایک الهام مجھے پہلے بھی ہو چکا ہے جو یہ ہے کہ اِنَّمَا أُنْزِلَتِ السُّوْرَةُ الْفَاتِحَةُ لِتَدْمِيرِ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ) اور آخری آیت جو میں نے پڑھی اس میں بہائیوں کا رد کیا گیا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ سے ان کا کوئی تعلق ہو تا تو غیر اللہ کو سجدہ کرنا کیوں جائز رکھتے جیسا کہ خود بہاء اللہ اور ان کے اتباع نے جائز رکھا ہے.سو تینوں آیات قرآنیہ سے تین فرقوں کا رد کیا گیا ہے اور الہی امداد کی بشارت دی گئی ہے فَالْحَمْدُ لِلَّهِ - الفضل 21 - ستمبر 1945ء صلح 2 8 369 اکتوبر 1945ء فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک بڑے فراخ کمرے میں ہوں جس کا نقشہ اس کمرہ سے ملتا ہے جو شیخ صاحب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور) نے ہمارے رہنے کے لئے دیا ہوا ہے شیخ صاحب کا کمرہ تو اوپر کی منزل پر ہے مگر خواب میں جو کمرہ دیکھ وہ زمین پر ہے اس کمرہ میں ایک طرف ایک چارپائی بچھی ہے اور سامنے والی دیوار کے پاس ایک میز رکھی ہے میز کے سامنے دو کرسیاں بچھی ہیں ان پر میری بیوی ام متعین اور حضرت (اماں جان) بیٹھی ہیں کرسیوں اور چار پائی کے درمیان جو راستہ ہے میں اس میں ٹہل رہا ہوں.میز پر کچھ ناشتہ کی چیزیں رکھی ہیں اور ساتھ ہی اس پر ایک طرف کو کچھ حصہ میں گھاس اگی ہوئی ہے اور کچھ کیچڑ اور دلدل ہے جیسا کہ میوزیم میں اکثر دکھانے کے لئے چھوٹی چھوٹی کیاریاں اور گھاس لگائے
i 297 ہوتے ہیں.میں مل رہا ہوں کہ اتنے میں اس کمرہ کا مغربی دروازہ کھلا اور اس میں سے ایک شخص داخل ہوا اس کے ہاتھ میں ایک بٹیر ہے جو نہایت کمزور ہے.جسم پر جو پر ہیں وہ تیتر کی مانند زیادہ سیاہی مائل ہیں اور ان کی رنگت بھورے رنگ کی ہے.بشیر لمبائی میں تو قریب بٹیر کے ہی ہے مگر چوڑائی میں محض پری کے برابر ہے اور بھوک اور کمزوری کی وجہ سے نہایت مضمحل ہو رہا ہے وہ شخص بیر مجھے دے کر کہتا ہے کہ یہ آپ کا بٹیر ہے جو کچھ دنوں سے گم ہو گیا تھا یہ آپ لے لیں.میں بھی یہ سمجھ رہا ہوں کہ جیسے یہ بٹیر ہمارا ہے یا ہمارے خاندان میں سے کسی کا ہے یا ہماری جماعت کا ہے بہر حال ہے ہما را چنانچہ میں اس کے ہاتھ سے لے لیتا ہوں اور ام متین کو دے کر کہتا ہوں کہ اس کو کچھ کھلاؤ بھوک کی وجہ سے یہ کمزور ہو گیا ہے شاید یہ بچ جائے مگر یہ سوچ کر کہ شاید ایک دم زیادہ کھلا دینے سے یہ مر نہ جائے میں کہتا ہوں کہ احتیاط سے کھلانا.پہلے تھوڑا سا کھانے کے لئے اسے دو پھر آہستہ آہستہ جیسے اسے قوت آتی جائے اس کو کھانے کو دیتے جاؤ یہ کہہ کر میں نے پھر ٹھملنا شروع کر دیا اور انہوں نے بٹیر کو دلدل کے کنارے کھڑا کر دیا تاکہ یہ اپنی خواہش کے مطابق خوراک لے لے چنانچہ اس نے اس دلدل میں سے ایک چونچ بھری اور جیسے ہی وہ اس کے گلے کے نیچے گئی بٹیر ایک دم سے بے ہوش ہو کر دلدل کے کنارے گر گیا میں نے ام متین سے کہا کہ میں نے کہا نہیں تھا اسے احتیاط سے کھلانا.دیکھو ضعف کی وجہ سے اس سے برداشت نہیں ہو سکتا اور اب یہ مر گیا ہے انہوں نے کہا میں نے اسے زیادہ تو نہیں کھلایا.میں نے تو اسی لئے اسے دلدل میں کھڑا کر دیا تھا تا کہ یہ خود اپنی ضرورت کے مطابق خوراک لے لے اتنے میں وہ بشیر ہوش میں آگیا اور کھڑا ہو گیا اور ایسا معلوم ہوا جیسے غذا کے اندر جانے کی وجہ سے اسے Shock ہوا تھا مگر جب وہ غذا ہضم ہو گئی تو اسے ہوش اور طاقت آگئی اور وہ کھڑا ہو گیا اور جب وہ کھڑا ہوا تو پہلے سے کچھ بڑا معلوم ہو تا تھا.اس کے بعد میں نے پھر ملنا شروع کر دیا اتنے میں وہ بٹیر اپنی جگہ سے چل کر میز کے دوسرے کنارے پر آگیا.میری اس طرف پیٹھ تھی کہ ام متین نے آواز دی کہ وہ آپ کی طرف آرہا ہے.میں مڑا تو دیکھا کہ وہ اڑ کر میرے پاس آنا چاہتا ہے مگر اس کا اڑنا ایسا نہیں جیسے پرندوں کا ہوتا ہے کہ پر پھیلے ہوئے ہوں اور ٹانگیں زمین کی طرف.وہ اس طرح اڑا ہے جیسے گھوڑا اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوتا ہے اور اگلی ٹانگوں کے سم سامنے کی طرف کر لیتا ہے.وہ اڑا ہے مگر
298 کمزوری کی وجہ سے مجھ تک نہیں پہنچ سکتا اور زمین پر گرنے لگتا ہے کہ میں اس کے آگے اپنا ہاتھ کر دیتا ہوں اور وہ میرے انگوٹھے پر اس طرح بیٹھ جاتا ہے جس طرح لوگ شکرے کو بٹھاتے ہیں.جب میں دیوار تک پہنچ کر واپس لوٹا اور میز کے قریب پہنچا تو وہ پھر اڑ کر میز پر چلا گیا اور کچھ اور کھایا اب وہ پہلے سے زیادہ بڑا معلوم ہونے لگا.جب میں ٹہلتا ہوا پھر دیوار کی طرف گیا تو پھر وہ اڑ کر میز پر چلا گیا اور کچھ اور کھایا.اب وہ پہلے سے زیادہ بڑا معلوم ہونے لگا.جب میں ٹہلتا ہوا پھر دیوار کی طرف گیا تو پھر وہ اڑ کر میز پر چلا گیا اور کچھ اور کھایا.اب وہ پہلے سے زیادہ بڑا معلوم ہونے لگا.جب میں ٹہلتا ہوا پھر دیوار کی طرف گیا تو پھر وہ اڑ کر میری طرف آیا.ام متین نے پھر آواز دی کہ وہ آپ کی طرف آرہا ہے میں نے پھر اس کو اپنے انگوٹھے پر لے لیا مگر اب کی مرتبہ دقت نہیں ہوئی اور میں نے اپنا انگوٹھا اس طرح اس کے سامنے کر دیا جس طرح باز اور شکرہ کے شکاری کرتے ہیں اور وہ میرے ہاتھ پر بیٹھ گیا جب میں پھر دیوار سے لوٹ آیا تو وہ اڑ کر میز پر آگیا چنانچہ تین چار مرتبہ اسی طرح ہو ا حتی کہ آخری مرتبہ جب وہ اڑ کر میری طرف آیا تو زمین پر گرنے لگا مگر میں نے اپنا انگوٹھا آگے کر کے اس کو اس پر لے لیا اور وہ گرتے گرتے بچ گیا اس کے بعد جب پھر میں ملتا ہوا دیوار کے پاس سے لوٹ کر آرہا تھا تو وہ اڑ کر میز کی طرف گیا مگر میں نے دیکھا کہ اس کی پرواز نیچی ہوتی جاتی ہے اس پر میں نے ام متین کو آواز دے کر کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ تھک گیا ہے اس کو پکڑ کر میز پر رکھ دو مگر وہ ان کے قریب جاکر زمین پر گر گیا اس وقت میں نے دیکھا کہ وہ بٹیر انسان کی صورت میں بدل گیا مگر نہایت نحیف اور کمزور اور قد بھی نہایت چھوٹا جیسے ہوتا ہوتا ہے اس نے ایک چھوٹا ساتہ بند پہنا ہوا تھا اور نہایت کمزور معلوم ہوتا تھا اور اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.فرمایا.خواب میں بتایا گیا ہے کہ جاپانی قوم اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہے اللہ تعالٰی اس کے دل میں احمدیت کی طرف رغبت پیدا کرے گا اور وہ آہستہ آہستہ پھر طاقت اور قوت حاصل کرے گی اور میری آواز پر اسی طرح لبیک کہے گی جس طرح پرندوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہا تھا.الفضل 19.اکتوبر 1945ء صفحہ 2-1
299 370 27 یا 28.اکتوبر 1945ء فرمایا : پرسوں یا اترسوں میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص آیا ہے اور اس نے کچھ انڈے دیئے ہیں اور کہا ہے کہ آپ کے لئے لایا ہوں رومال سا ہے جس میں وہ بندھے ہیں اس نے کہا یہ کپڑا خالی کردیں میں نے وہ انڈے رکھ لئے.صبح کو ایک عورت آئی جس نے آکر انڈے دیئے.میں نے کہا.میں نے خواب میں انڈے لانے والا مرد دیکھا تھا.اس نے کہا یہ انڈے میرے بھائی نے بھیجے ہیں.الفضل یکم نومبر 1945ء صفحہ 8 371 غالباً اکتوبر 1945ء فرمایا : ایک دفعہ میں نے اپنے خیال میں دس روپے کا نوٹ کوٹ کی جیب میں ڈالا جو کھونٹی سے لٹک رہا تھا اور با ہر کسی کام سے آیا پھر جب اندر گیا تو دیکھا کہ جیب میں نوٹ نہ تھا وہاں ایک لڑکا بیٹھا تھا اس سے پوچھا کہ کوئی آیا تھا اس نے کہا.نہیں اس وقت میں نے دعا کی کہ الہی یہ ایسی صورت ہے کہ لڑکا زیر التزام آ رہا ہے مجھے پتہ لگ جائے کہ اصل بات کیا ہے اس پر معا میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ نوٹ رکھنے کے بعد میں جہاں تک گیا تھا وہاں تک جاؤں چنانچہ میں گیا تو دیکھا کہ جہاں میرا آخری قدم پڑا تھا وہاں نوٹ پڑا تھا.الفضل یکم نومبر1945ء صفحہ 6 372 اکتوبر 1945ء فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص نے جس نے کبھی کوئی تحفہ نہ بھیجا تھا سو روپیہ بھیجا ہے اور ایک دوسرے دوست چوہدری محمد شریف صاحب جن کی طرف سے پہلے کبھی منی آرڈر آنا یاد نہیں ان کے متعلق دیکھا کہ چار روپے کا منی آرڈر ان کی طرف سے آیا ہے چنانچہ دوسرے دن یہ دونوں منی آرڈر مل گئے.الفضل یکم نومبر 1945ء صفحہ 6
300 373 نومبر 1945ء فرمایا : دیکھا کہ میں عربی بلاد میں ہوں اور ایک موٹر میں سوار ہوں ساتھ ہی ایک اور موٹر ہے جو غالبا میاں شریف احمد صاحب کی ہے پہاڑی علاقہ ہے اور اس میں کچھ ٹیلے سے ہیں جیسے پہلگام کشمیر یا پالم پور میں ہوتے ہیں.ایک جگہ جا کر دوسری موٹر جو میں سمجھتا ہوں کہ میاں شریف احمد صاحب کی ہے کسی اور طرف چلی گئی اور میری موٹر ایک طرف.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری موٹر ڈاک بنگلہ کی طرف جارہی ہے.بنگلہ کے پاس جب میں موٹر سے اترا تو میں نے دیکھا کہ بہت سے عرب جن میں کچھ سیاہ رنگ کے ہیں اور کچھ سفید رنگ کے میرے پاس آئے ہیں.میں اس وقت اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرف جانا چاہتا ہوں لیکن ان عربوں کے آجانے کی وجہ سے ٹھہر گیا ہوں.انہوں نے آتے ہی کہا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا سَيِّدِی.میں ان سے پوچھتا ہوں مِنْ اَيْنَ حِلْتُم کہ آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں وہ جواب دیتے ہیں حقنَا مِنْ بِلادِ الْعَرَبِ وَذَهَبْنَا إِلَى قَادِيَانَ وَ عَلِمْنَا أَنَّكَ سَافَرْتَ فَاتَّبَعْنَاكَ حَتَّى عَلِمْنَا أَنَّكَ حقتَ إِلَى هَذَا الْمَقَامِ یعنی ہم قادیان گئے اور وہاں معلوم ہوا کہ آپ باہر گئے ہوئے ہیں اور آپ کے پیچھے چلے یہاں تک کہ ہمیں معلوم ہوا کہ آپ یہاں ہیں.اس پر میں نے ان سے پوچھا لِاَتِي مَقْصَدٍ حِفْتُم کس غرض سے آپ تشریف لائے ہیں تو ان میں سے لیڈر نے جواب ديا كه حِقْنَا لِنَسْتَشِيرَكَ فِى الْأُمُورِ الْاِقْتِصَادِيَّةِ وَالتَّعْلِيمِيَّةِ اور غالبا سیاسی اور ایک اور لفظ بھی کہا.اس پر میں ڈاک بنگلہ کی طرف مڑا اور ان سے کہا کہ اس مکان میں آجائیے وہاں مشورہ کریں گے جب میں کمرہ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ میز پر کھانا چتا ہوا ہے اور کرسیاں لگی ہیں اور میں نے خیال کیا کہ شاید کوئی انگریز مسافر ہوں ان کے لئے یہ انتظام ہو اور میں آگے دوسرے کمرے کی طرف بڑھا وہاں فرش پر کچھ پھل اور مٹھائیاں رکھی ہیں اور ارد گرد اسی طرح بیٹھنے کی جگہ ہے جیسا کہ عرب گھروں میں ہوتی ہے میں نے ان کو وہاں بیٹھنے کو کہا اور دل میں سمجھا کہ یہ انتظام ہمارے لئے ہے ان لوگوں نے وہاں بیٹھ کر پھلوں کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ میری آنکھ کھل گئی.اس رویا سے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بلاد عرب میں احمدیت کی ترقی کے
301 دروازے کھلنے والے ہیں.الفضل 17.دسمبر 1945ء صفحہ 8-7 374 نومبر 1945ء فرمایا : میں نے ایک اور رویا دیکھا کہ میر قاسم علی صاحب مرحوم آئے ہیں انہوں نے گرم گوٹ اور گرم پاجامہ پہنا ہوا ہے اور وہ مضبوط جوان معلوم ہوتے ہیں.قاسم علی میں بھی عرب کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے.قاسم کے معنے تقسیم کرنے والے کے ہیں اور علی کے معنی بڑی شان والے کے.پھر میر قاسم علی سید بھی تھے.پس وقت آگیا ہے کہ لوگ کثرت سے احمدیت کی طرف رجوع کریں گے اور ان کے رجوع کرنے کے سامان اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز بروز زیادہ پیدا ہو رہے ہیں.الفضل 17.دسمبر 1945ء صفحہ 8 375 19.جنوری 1946ء فرمایا : کل بھی میں نے دیکھا کہ ام طاہر مرحومہ اماں جان کے پاس بیٹھی ہیں پھر اٹھ کر اوپر چلی گئی ہیں اور اس کمرے میں جس میں میں نے آج امتہ الحی مرحومہ کو دیکھا ہے جا کر لیٹ گئیں.چونکہ ہمارے گھر کا دستور یہی ہے کہ خواہ ایک لمبا عرصہ شادی پر گزر جائے اپنے بزرگوں کے سامنے بیویوں سے بے تکلف بات نہیں کرتے عام باتیں کر لیتے ہیں لیکن خاص گفتگو یا گھر کے معاملات کے متعلق کوئی تفصیلی باتیں یا ایک دوسرے کی خیریت کے متعلق ایسی گفتگو جس میں زیادہ ہمدردی اور محبت کا لہجہ پایا جاوے ہم لوگ نہیں کرتے اس لئے میں ان کے پیچھے گیا کہ وہ حضرت (اماں جان) کے پاس تھیں اور میں ان سے بات نہیں کر سکتا تھا اور اس نیت سے گیا کہ جا کر ان سے بات کروں گا.میں جب وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کمرہ میں کوئی عورت چار پائی پر سوئی ہوئی ہے اور ایک اور عورت کو نہ میں سوئی ہوئی ہے.چارپائی کے ساتھ دروازہ مسجد میں کھلتا ہے اور وہ کھلا ہے اور لوگ باہر مسجد میں بیٹھے ہیں.یہ خیال کر کے کہ شاید یہ مریم لیٹی ہوئی ہیں میں نے کہا مریم دروازہ کھلا ہے اور سامنے سے نظر پڑتی ہے.یہ بہت بری بات ہے یہ بہت بری بات ہے پھر اس آواز پر وہ چارپائی پر لیٹی ہوئی عورت اٹھی اس پر معلوم ہوا کہ وہ اجنبی
302 عورت ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مہمان ہے.اس وقت میرے دل میں یہ خیال گزرتا ہے کہ مریم نے اس مہمان کو اپنی چارپائی دے دی ہے اور آپ زمین پر کمرے کے ایک گوشہ میں لیٹ گئی ہیں اور یہ جو مسجد کا دروازہ کھول کے بے پردگی ہوئی ہے یہ اس مہمان عورت کی غلطی ہے اس میں مریم کا کوئی دخل نہیں.تعبیر.یہ دو دنوں میں مردوں کا زندہ ہو کر واپس آنا دیکھا اور میری امتہ الحی مرحومہ جنہیں میں نے قریباً ہمیں سال سے رویا میں نہیں دیکھا تھا ان کا رویا میں دیکھنا بتاتا ہے کہ در حقیقت بعض ایسی باتیں ہونے والی ہیں جو جماعت کے لئے نقصان دہ نظر آئیں گی لیکن آخر اللہ تعالی ان میں سے احیاء کا کوئی پہلو پیدا کر دے گا.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا کی دعا بھی تاتی ہے کہ در حقیقت جماعتی اور نظامی امور اور دعا کی طرف ان خوابوں کا اشارہ ہے.ان افراد کی طرف نہیں جن کو خواب میں دیکھا گیا ہے اسی طرح پہلی خواب جو ہے اس میں دشمن کا حملہ دکھایا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فعل کہ پہلے جوتی اٹھا کر میرے آگے رکھنے کی کوشش کرنا اور پھر میرے کمرے میں سے نکلتے ہوئے مجھے آگے چلنے کا ارشاد فرمانا اس میں جماعت کی تنظیم اور اس کے آداب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نقش قدم پر چلے اس کا فرض ہے کہ نظام سلسلہ کا احترام ایسے رنگ میں کرے جیسے کہ صحابہ انبیاء کا کرتے چلے آئے ہیں جو لوگ اس نکتہ کو نہیں سمجھتے وہ در حقیقت مقام نبوت کے سمجھنے سے ہی عاری ہیں.خواہ منہ سے نبی نبی کی رٹ لگاتے رہیں.الفضل 22.جنوری 1946 ء صفحہ 2.3 376 20 جنوری 1946ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک پہاڑی پر چڑھ رہا ہوں جس وقت میں نے پہاڑی پر چڑھنا شروع کیا تو جیسے پہاڑ میں بعض سڑکیں کو ٹھی کی طرف اوپر جاتی ہیں اور نیچے بھی ساتھ ساتھ رستہ جا رہا ہے ایسے ہی رستے پر میں چڑھنے لگا ہوں.میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا جس کے ہاتھ میں دو تین پتھر ہیں جنہیں پنجابی میں کھنگر کہتے ہیں سلسلہ کے خلاف بلند آواز سے کچھ بکواس کرتا جا رہا
303 ہے.میرے کان میں اس کی یہ آواز پڑی کہ پہلے مرزا صاحب تو کچھ بولنا جانتے تھے لیکن یہ جو موجودہ ہیں ان کو تو بالکل تقریر کرنی نہیں آتی.پھر کچھ اور باتیں اس نے سلسلہ کے خلاف اور میرے خلاف کہیں اس کے بعد اس نے ان پتھروں میں سے جو اس کے ہاتھ میں تھے ایک پتھر اٹھا کر میری طرف پھینکا مگر وہ میرے پہلو کی طرف سے ہو کر گزر گیا مجھے لگا نہیں.پھر اس نے دوسرا پتھر پھینکا وہ بھی مجھے نہیں لگا میں سیدھا چلتا چلا گیا اور وہ لڑکا نچلی سڑک پر دوڑتے ہوئے آگے نکل گیا اور کہیں سے چکر کاٹ کر وہ پھر سامنے آگیا اس وقت پھر اس کے ہاتھ میں پتھر ہیں.اس وقت کسی نے مجھے آواز دی کہ یہ لڑکا آپ پر حملہ کرنا چاہتا ہے.اس دفعہ بھی اس کے پتھر ادھرادھر کرے سوائے ایک کے جسے میں نے اپنے ہاتھوں میں دبوچ لیا پھر میں آگے چل پڑا اور اس لڑکے نے میرا تتبع کیا بعض اور واقعات بھی ہوئے جو مجھے بھول گئے ہیں.میں بلندی پر چڑھتے چڑھتے ایک مقام پر پہنچا جو پہاڑ کی چوٹی معلوم ہوتی ہے وہاں میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور چند اور دوست ہیں اور ایک طرف ہمارے گھر کی مستورات بھی معلوم ہوتی ہیں.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ واقعہ سنایا کہ اس طرح میرے ساتھ رستہ میں ہوا ہے.اس وقت خواب میں مجھے باقی واقعات بھی یاد ہیں اور وہ بھی میں نے کسی قدر تفصیل سے سنائے ہیں مگر اب وہ مجھے یاد نہیں اور کچھ حصہ اس واقعہ کا میں خواب میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں نے جان کے چھوڑ دیا ہے تاکہ بات لمبی نہ ہو جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طبیعت پر گراں نہ گزرے اور کچھ حصہ واقعات کا میں خواب میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رعب کی وجہ سے مجھے بھول گیا ہے.اس بھولے ہوئے حصہ کے متعلق اس موقع پر میں نے ایک بات کہی ہے جس میں داتہ جو ضلع ہزارہ میں ہے اس کا ذکر آتا ہے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ عرض کیا کہ یہ بات دانہ میں ہوئی یا دانہ کے کسی آدمی نے کی ہے کیونکہ اس وقت تک خواب میں اس گزشتہ واقعہ کو واقعہ سمجھتا ہوں خواب نہیں سمجھتا.میری اس بات پر کسی حاضر مجلس نے آگے سے یہ کہا ہے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں مولوی محمدیحیی صاحب ہوتے تھے اس پر میں نے کہالو آپ نے یاد دلا دیا.میں نے مولوی محمد یحیی صاحب ویپ گراں والوں کا تو اس موقع پر ذکر کیا تھا گویا میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ مولوی محمد یحیی صاحب ضلع ہزارہ کے تھے اس لئے ان کا بھی اس واقعہ سے تعلق
.304 ہے اس بناء پر میں کہتا ہوں میں نے خواب میں مولوی محمد یچی صاحب دیپ گراں والوں کا نام لیا تھا.اس موقع پر میں اس واقعہ کو خواب سمجھنے لگ جاتا ہوں اور یہ خیال کرتا ہوں کہ یہ خواب تھی جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سنائی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نتائج کے لحاظ سے اس خواب کو اچھا سمجھتے ہیں یا تو اس بناء پر کہ ایک شخص نے حملے کئے اور میں محفوظ رہا ان حصوں کی بناء پر جو مجھے اس وقت یاد تھے اب یاد نہیں آپ کچھ مسکرائے اور کچھ اس پر اظہار اطمینان فرمایا کہ اچھی خواب ہے.اس کے بعد میرا ارادہ یہ ہوا کہ یہ دوسرے حصہ میں گھر کی طرف جاؤں جہاں مستورات ہیں میں نے پاؤں میں جوتا پہننا چاہا ہے جو مجھے انگریزی بوٹ معلوم ہوتا ہے میں جب جو تا پکڑنے اور اس کو پاؤں کے قریب کرنے کے لئے جھکا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی تیزی سے جھک کر ایک پاؤں جوتے کا میرے پاؤں کے آگے کرنا چاہا.مجھ پر اس وقت بڑی ندامت اور شرمندگی کے آثار ظاہر ہوئے اور میں نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر بوٹ کا ایک پاؤں جو آپ کے ہاتھ میں تھا لے لیا اور دوسرے ہاتھ میں دوسرا پاؤں جلدی سے اپنے قریب کر لیا تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہیں اس کے متعلق بھی ہاتھ بڑھانے کا خیال نہ فرمائیں جب میں بوٹ پہن کر کھڑا ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی کھڑے ہو کر دروازہ کے پاس تشریف لے آئے.یوں معلوم ہوتا ہے کہ آپ بھی کمرہ سے باہر تشریف لانا چاہتے ہیں اس پر میں نے آپ کی طرف دیکھا اور عرض کیا کہ آپ تشریف لے چلیں مگر آپ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور ہاتھ سے میری طرف اشارہ کیا کہ تم پہلے چلو اس پر پھر میرے دل میں نہایت ہی ندامت اور حیا پیدا ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھے آگے چلنے کے لئے فرما رہے ہیں اور میں نے عاجزانہ طور پر خواہش کی کہ آپ پہلے تشریف لے چلیں مگر میرے اس اصرار پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی جگہ پر کھڑے رہے اور پھر جلدی سے ہاتھ آگے کو مارا کہ پہلے تم چلو چنانچہ میں کمرے سے باہر آگیا اور پیچھے پیچھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کمرہ سے نکلے.باہر آکر میں نے وہی خواب کسی شخص کو سنانا شروع کیا ور اسی میں میری آنکھ کھل گئی.الفضل 22.جنوری 1946ء صفحہ 2 -1
305 377 20.جنوری 1946ء فرمایا : دوسری رویا میں نے یہ دیکھی کہ ایک مکان ہے جسے میں گھر کی طرح اپنا مکان ہی سمجھتا ہوں.اس کے بعض کمرے ہمارے گھر کے کمروں کے مشابہ ہیں اور بعض نہیں مگر ایسے کشادہ کمرے ہیں جیسے شاہی قلعوں کے کمرے ہوتے ہیں یا ہال ہوتے ہیں.میں نے رویا میں دیکھا کہ ام طاہر اور امتہ الحی مرحومہ دونوں گھر میں آئی ہوئی ہیں اور حضرت (اماں جان) کے پاس بیٹھی ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی وجہ سے حیا کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے دونوں مجھے سے کچھ جھینپتی ہیں.امتہ الحی مرحومہ تو اتنے میں کھسک کر کسی اور کی طرف چلی گئیں میں نے غالبا ان کو دیکھا نہیں مگرام طاہر کو دیکھا ہے اس پر میں نے ان سے پوچھا کہ امتہ الھی کہاں ہے.انہوں نے کچھ ایسا جواب دیا ہے کہ پتہ نہیں کہاں ہے یا یہیں ہوں گی.اسی قسم کا مشتبہ ساجواب ہے میں امتہ الحی کی تلاش میں گھر کے دوسرے کمروں کی طرف چل پڑا ہوں.آخر مختلف کمروں میں سے گذرتے ہوئے جو بڑے بڑے وسیع کمرے ہیں میں ایک کمرے میں پہنچا جو کسی زمانے میں امتہ الحی مرحومہ کے کام میں ہی آیا کرتا تھا کمرہ تو وہی معلوم ہوتا ہے لیکن بڑا ہے اور کچھ شکل اس کی بدلی ہوئی ہے وہاں میں نے دیکھا کہ دو چار پائیاں بچھی ہوئی ہیں.ایک چارپائی پر ایک عورت لیٹی ہوئی ہے جس کا منہ دیوار کی طرف ہے جب میں اس کے قریب گیا تو میں نے سر اور کانوں اور گردن سے پہچانا کہ یہ امتہ الحی ہے مگر میں نے مناسب نہ سمجھا کہ انہیں سوتے ہوئے جگاؤں دوسری چارپائی پر میں نے اپنی لڑکی امتہ الحکیم کو لیٹے ہوئے دیکھا جب میں امتہ الحی کی طرف گیا تو امتہ الحکیم وہاں سے بھاگ کر دوسرے کمرہ کی طرف چلی گئی.اس پر میں بھی پاس ہی ایک بڑے ہال کمرہ کی طرف آیا جہاں حضرت اماں جان) بھی ہیں.ام طاہر بھی ہیں اور گھر کی دوسری عورتیں بھی ہیں میں نے ام طاہر سے کہا کہ تم نے تو مشتبہ جواب دیا تھا مگر میں نے آخر امتہ الھی کو ڈھونڈ لیا.اتنے عرصہ میں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ امتہ الھی وہاں سے اٹھ کر پھر کہیں ادھر ادھر ہو گئی ہیں.اس پر میں نے کہا اب امتہ الھی کہاں گئی ہیں تو نہ معلوم ام طاہر نے یا کسی اور نے جواب دیا کہ وہ اپنی اماں کے ہاں ملنے گئی ہیں.اس پر میں نے کسی کو ان کے پاس بھیجا کہ آیا میں وہاں ملنے کے لئے آجاؤں یا تم یہاں ملنے کے لئے آؤ گی.اس شخص نے واپس آکر جواب
306 دیا کہ امتہ الحی کی طبیعت بیمار ہو گئی ہے اور کچھ دمہ یا دم کشی کی سی شکایت بتائی کہ ایسی ان کی حالت ہے سانس کچھ رکتا ہے اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ میں ان کو دیکھ بھی آؤں اور کوئی ہو میو پیتھک دوا بھی ان کے لئے لے جاؤں.میں اپنے دفتر آیا ہوں وہاں میری چارپائی کے نیچے ہو میو پیتھک دواؤں کا ڈبہ پڑا ہوا ہے.دفتر کے کمرے بھی بہت بڑے اور وسیع معلوم ہوتے ہیں میں نے ڈبہ کو کھول کر اس میں سے دوائی نکالنی چاہئے تو اتنے میں میری لڑکیاں امتہ الجمیل اور امتہ المتین دونوں کھیلتی اور دوڑتی ہوئی اس کمرہ میں آگئیں اس وقت اس احساس کے ماتحت کہ امتہ الحی اتنی مدت کے بعد واپس آئی ہے اور آتے ہی بیمار ہو گئی ہے دوائی نکالتے وقت مجھ پر کچھ رقت کی حالت طاری ہوئی جب یہ لڑکیاں اندر آئیں تو میں نے حیاء سے یہ نہ چاہا کہ ان پر میری یہ حالت ظاہر ہو اور میں نے ان کو ہاتھ سے اشارہ کیا کہ یہاں سے چلی جاؤ.وہ بھاگ کر اندر کی طرف چلی گئیں اور میں اٹھا.جب میں اٹھا تو اس وقت بلند آواز سے میری زبان پر قرآن کریم کی یہ دعا جاری ہوئی.دوائی کی پڑیہ میرے ہاتھ میں تھی اور میں گھر کی طرف جا رہا تھا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور میری زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهّاب (ال عمران : 19 بار بار اور متواتر با چشم گریاں نہایت ہی بلند آواز سے میں یہ دعا پڑھتا چلا جاتا ہوں.الفضل 22 جنوری 1946ء صفحہ 4 378 5.فروری 1946ء فرمایا : میں نے چار پانچ فروری کی درمیانی رات جبکہ چوہدری فتح محمد صاحب ووٹوں کی گنتی میں پیچھے جارہے تھے ان کے لئے اور نواب محمد دین صاحب کے لئے دعا کی.میں نے خواب میں دیکھا کہ دن چڑھا ہے اور بارش ہو گئی ہے اور سارا دن بارش ہوتی رہی ہے پھر دیکھا نواب محمد الدین صاحب میرے سامنے کھڑے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا تعالی کے فضل سے اچھا کام چل رہا ہے لیکن ان کا جسم پہلے سے چھوٹا ہے.میں نے اس خواب کی تعبیر کی کہ چوہدری صاحب کو اب کامیابی شروع ہو جائے گی چنانچہ پانچ تاریخ کو انہیں 1600 سے زیادہ ووٹ ملے اور جو کمی تھی پوری ہو کر ہزار کے قریب ان کے
307 ووٹ اپنے حریف سے زیادہ ہو گئے.نواب صاحب کے متعلق میں نے یہ تعبیر کی کہ ایک پہلو منذر اور ایک مبشر ہے اور نواب صاحب کو یہ خواب لکھ دی اور لکھا کہ خدا کرے منذر پہلو پہلے پورا ہو جائے اور مبشر بعد میں مگر جیسا کہ خواب میں دکھایا گیا اسی طرح ہوا.نواب صاحب خطوں میں لکھتے رہے کہ کام ٹھیک ہو رہا ہے مگر آخر نتیجہ امید کے خلاف نکلا اور وہ ناکام رہے.خواب بعض دفعہ لفظاً پوری ہوتی ہے چنانچہ نواب صاحب نے جو کچھ شروع میں اندازہ کیا تھا اس کے مطابق ان کے منہ سے یہ نکلا کہ الحمد للہ کام ٹھیک ہو رہا ہے مگر جو جسم ان کا چھوٹا کیا گیا تھا اس کے مطابق وہ ناکام رہے.اس بارہ میں ایک خواب مجھے سال ہوا جبکہ نواب صاحب کا ارادہ کھڑا ہونے کا بھی نہ تھا ، آئی تھی غالبا خواب شائع ہو چکی ہے مگر اس میں بوجہ انذاری پہلو کے نام ظاہر نہ کیا تھا.الفضل 9.مارچ 1946ء صفحہ 1 فروری 1946ء 379 فرمایا : میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ ایک انگریز جرنیل میرے پاس آیا ہے اور وہ مجھے سے کہتا ہے کہ آپ کا کیا فتویٰ ہے آیا قتل کے بدلہ میں قتل ہی ہے یا قاتل کو کوئی اور سزا بھی دی جا سکتی ہے یا پھر اس نے کہا ہمارے بعض آدمیوں کو جب سرحد پر مارا جاتا ہے تو ان کی لاشوں کو چونہ میں ڈال کر جلا دیا جاتا ہے یا ان کو مختلف قسم کے عذاب دے کر مارا جاتا ہے.ایسی صورت میں قاتل کو صرف قتل کی سزا ہی دی جائے یا تعذیب کی سزا بھی اسے ملے گی.میں نے اسے جواب میں کہا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ.وَجَزاوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا (الشورى : 41) یعنی بدی کی سزا برے فعل کے مطابق دینی چاہئے بس میرا فتوی یہی ہے کہ قتل کے بدلہ میں قتل اور تعذیب کے بدلہ میں تعذیب.گو عام حالات میں قتل کے بدلہ میں قتل ہی کیا جائے گا لیکن اگر کسی وقت مصلحت کے ماتحت لوگوں کو تعذیب اور شرارت سے روکنے کے لئے یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ قتل کے بدلہ میں قتل ہو گا اور تعذیب کے بدلہ میں تعذیب تو یہ بالکل جائز ہو گا.تفسیر کبیر جلد ششم جز و چهارم حصہ دوم صفحه 287
308 380 $1946 فرمایا : قریباً تین ہفتہ ہوئے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کسی طرف سفر کر رہا ہوں کہ بغیر امید کے میں نے اپنے آپ کو مدینہ منورہ میں پایا اور اس بات پر بے انتہاء خوش ہوں.مسجد نبوی یا اس کے پاس کی کسی وسیع عمارت کے صحن میں ہم سب جن میں گھر کی بعض مستورات بھی معلوم ہوتی ہیں بیٹھے ہوئے ہیں اور اس غیر مترقب کامیابی پر خوش ہیں کہ اتنے میں میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ مکہ مکرمہ بھی ہوتے چلیں اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان ریل کا سلسلہ جاری ہے اور میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کا کرایہ کیا ہے اس شخص نے بتایا تیرہ روپے.میں اس وقت خواب میں اس کرایہ کو کم سمجھتا ہوں لیکن پھر میں دل میں حساب کرنے لگا کہ دونوں شہروں کا فاصلہ قریبا تین سو میل ہے اس لئے ہندوستان کے کرایہ کے اصول پر تو تھرڈ کلاس کا کرایہ اس سے کم بنتا ہے.صرف اس ملک کی مشکلات کی وجہ سے یہاں کرایہ زیادہ رکھا گیا ہے.اس عرصہ میں میری آنکھ کھل گئی.الفضل 9.مارچ 1946 ء صفحہ 1-2 381 فروری 1946ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں مسجد مبارک میں ہوں اور محراب میں بیٹھا ہوں.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی میرے پاس ہیں کچھ مقتدی بھی ہیں ان میں چوہدری صاحب کے ماموں چوہدری عبد اللہ صاحب مرحوم و مغفور ( اللہ تعالیٰ ان کے مدارج بلند کرے) وہ بھی بیٹھے ہیں چوہدری صاحب سے ایک نا پسندیدہ حرکت ہوئی جس پر میں جلدی سے نماز کے لئے کھڑا ہو گیا کہ لوگوں کی توجہ اس طرف سے ہٹ جائے مگر چوہدری عبد اللہ خان صاحب مرحوم نے ان کو اپنے زمیندارہ طریق پر جیسا کہ ان کی عادت تھی ایک طنز آمیز لہجہ میں تادیب کی.اتنے میں میں نے نماز شروع کر دی چوہدری صاحب اس وقت مسجد سے چلے گئے ہیں.میں نماز پڑھا کر گھر آگیا وہ واپس آگئے اور میں نے انہیں کہا کہ آپ نماز پڑھ لیں انہوں نے مسجد میں نماز
309 شروع کی اس وقت میں نے گھر سے جھانک کر دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے مگر منہ مشرق کی طرف تھا.رکوع کی حالت میں میں نے انہیں دیکھا اور ان کے پہلو میں ان کی سالی زہرا بیگم بھی نماز میں شامل تھیں.میں نے اس وقت دیکھا کہ دونوں نے جوتیاں پہنی ہوئی ہیں جو دہلی کی طرف کے طلائی کام والی خوبصورت جوتیاں ہیں ان کی خوبصورتی نہایت نمایاں ہے.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ خواب میں ہی میں چوہدری صاحب کو یہ خواب سناتا ہوں اور کہتا ہوں کہ خواب اچھا ہے یعنی انجام اچھا ہو گیا ہے.الفضل 9.مارچ 1946 ء صفحہ 2 382 اوائل مارچ 1946ء فرمایا : تین چار دن ہوئے میں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی عبد الرحمان صاحب مصری کا ذکر آیا ہے اور میرے دل میں ان کے لئے دعا کی تحریک بڑے زور سے ہوئی.میں اس وقت چار پائی پر قبلہ رخ بیٹھا تھا فور اُسجدہ میں گر گیا اور نہایت عاجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ انہیں ہدایت دے اس دعا کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ دعا قبول ہو گئی ہے اس پر میں نے سجدہ سے سرا ٹھایا اور میرے دل میں یقین تھا کہ اب شیخ صاحب کھنچے ہوئے وہاں پہنچ گئے ہوں گے.میں نے دائیں اور بائیں دیکھا لیکن وہ نظر نہیں آئے اس وقت چوہدری فتح محمد صاحب اس کمرہ میں داخل ہوئے اور میں نے ان سے کہا کہ میں نے اس طرح دعا کی تھی اور مجھے یقین تھا کہ اس دعا پر وہ کھنچے ہوئے آگئے ہوں گے مگر میں نے سراٹھا کر دیکھا تو وہ نہیں آئے.یہ کہہ کر میں باہر آیا کہ ایک ایسی جگہ ہے جیسے بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کا صحن ہے اس جگہ میں میں ایک شخص کے ساتھ جو غالبا عزیزم مرزا بشیر احمد ہیں مل رہا ہوں کہ اتنے میں شیخ صاحب وہاں آگئے اور عقیدت کے ساتھ مجھ سے مصافحہ کیا اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ تائب ہو گئے ہیں.اس وقت پھر مجھے چوہدری فتح محمد صاحب نظر آئے ہیں انہیں مخاطب کر کے میں نے کہا دیکھئے میں نے آپ سے کہا تھا کہ شیخ صاحب کے لئے میں نے دعا کی اور مجھے یقین تھا کہ وہ قبول ہو گئی ہے لیکن جب میں نے سراٹھا کر دیکھا تو وہ نہیں آئے لیکن اب وہ آگئے ہیں اور میری دعا قبول ہو گئی ہے.اس کے بعد نظارہ بدلا اور میں نے دیکھا کہ میں کہیں با ہر ہوں اور ایک بڑے فراخ کمرہ میں
310 میرا ڈیرہ ہے اتنے میں ڈاکٹر بشارت احمد صاحب وہاں آئے ہیں اور اظہار کرتے ہیں کہ وہ بیعت میں شامل ہو گئے ہیں.ان کو میرے والے کمرہ میں ہی دوستوں نے جگہ دی اور اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ یہ تو شدید مخالف ہیں ممکن ہے بری نیت سے آئے ہوں اس خیال پر میں کمرے سے باہر نکلا اور میں نے پوچھا کہ پہرہ دار کہاں گئے ہیں وہ میرے کمرہ میں ہی سوئیں اس وقت پہرہ دار وہاں نہیں مگر میں کچھ آگے گیا تو پہرہ دار مل گئے میں نے ان سے کہا کہ وہ میرے کمرہ میں سوئیں مگر فور آمیرے دل میں خیال آیا کہ جب ایک شخص توبہ کر کے آیا ہے تو مجھے اس کی بات پر یقین کرنا چاہئے اور میں تسلی سے اپنے کمرہ میں داخل ہوا کہ میری آنکھ کھل گئی.اس آخری خواب کی رات کو میں نے پنجاب کے سیاسی حالات کے برے پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کوئی ایسی صورت پیدا کرے کہ جماعت احمدیہ خصوصاً اور دوسرے مسلمان عموماً ان حالات کے برے اثرات سے محفوظ رہیں پس میں سمجھتا ہوں کہ شیخ عبد الرحمان صاحب کا اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کا تائب اور عقیدت سے ملنے آنا دیکھنا نیک انجام پر دلالت کرتا ہے اور انشاء اللہ ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے کہ مسلمانوں کے لئے کوئی نیک راہ نکل آئے گی.انشاء اللہ.الفضل 9.مارچ 1946ء صفحہ 2 - 383 25 مارچ 1946ء فرمایا : خواب میں دیکھا کہ لکھنو میں ہوں ایک خاتون ہماری رشتہ دار ملنے آئی ہیں ہمارے گھر کی مستورات بھی ہمراہ ہیں میں نے اس خاتون سے جو گو یا لکھنو میں رہتی ہیں پوچھا کہ یہاں کون کون سے مقامات قابل دید ہیں.انہوں نے جواب دیا کہ برود دیکھنے کی جگہ ہے میں نے کہا بڑودہ تو ایک اور شہر ہے انہوں نے کہا کہ بڑودہ نہیں برود.پھر میں وہاں سے چلا تو اپنے آپ کو امرتسر میں پایا وہاں ایک غیر احمدی کے گھر میں ہوں.انہوں نے گھر کی اور شاید محلہ کی مستورات کو بلوایا کہ میں کچھ وعظ انہیں کروں میں نے ان میں کھڑے ہو کر مسلمانوں کی مستورات کی قربانیوں پر تقریر شروع کی اور احد کے موقع پر جس عورت کے کئی رشتہ دار
311 مارے گئے تھے پھر بھی اس نے ان کے ذکر کو چھوڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خیریت معلوم کرنے پر زور دیا تھا اس کا ذکر بھی تقریر میں آگیا.اس وقت ایک شخص غیر احمدی مولوی اس مکان میں داخل ہوا اور اس نے محسوس کیا کہ میری تقریر کا بہت اثر گھر والوں پر ہے اور اس نے تقریر کو ٹوک کر باتیں شروع کر دیں جو مجھے یاد نہیں رہیں.گھر کا مالک برا منا کر اسے ٹوکتا ہے.اس کے بعد ایک شخص داخل ہوا جس نے مصافحہ کر کے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے بابی عربی کی کتاب کہاں سے مل سکتی ہے.میں نے اسے جواب دیا کہ عربی تو زبان ہے نہ وہ بابی ہے نہ مسلمان نہ عیسائی جو اسے سیکھے وہ اسی کی ہو جائے گی.اس کے بعد کچھ رؤساء شہر مجھے ملنے کے لئے آئے اور ایک ساتھ کے کمرہ میں جس میں قالینوں کا فرش بچھا ہوا ہے بیٹھ گئے.ایک صاحب نے مجھ سے سوال کیا کہ روح کے زندہ رکھنے کی کیا صورت ہے.میں نے انہیں جواب میں کہا کہ زندہ رہنے والی دو چیزیں ہوتی ہیں.جسم اور روح.جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو نہ بول سکتا ہے نہ چل سکتا ہے نہ خود کوئی کام کر سکتا ہے اسے زندہ رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کیا سامان پیدا کیا ہے؟ یہی کہ اس کے اندر رونے کی طاقت پیدا کر دی ہے اس کی ماں ہر وقت تو اس کے پاس نہیں رہتی.کبھی کھانا پکا رہی ہوتی ہے کبھی کپڑے دھو رہی ہوتی ہے کبھی برتن مانجھ رہی ہوتی ہے کبھی اپنی سہیلیوں سے باتوں میں مشغول ہوتی ہے اور کبھی اپنے خاوند سے چونچلے کر رہی ہوتی ہے (یہ فقرہ مجھے خوب یاد ہے یہ چونچلے کا لفظ اور یہ فقرہ اسی طرح خواب میں میں نے استعمال کیا) اس وقت کبھی بچہ کو کوئی مرض ستاتا ہے کبھی بھوک لگتی ہے کبھی کوئی اور خطرہ پیش آتا ہے تو وہ زور سے چلاتا ہے اور روتا ہے تو اس کی ماں دوڑ کر اس کے پاس آجاتی ہے.یہ طریقہ خدا تعالیٰ نے جسم کو زندہ رکھنے کے لئے تجویز کیا ہے بعینہ ایسا ہی طریقہ روح کے زندہ رکھنے کے لئے اس نے تجویز کیا ہے جب روح کمزور ہو جب اس پر مردنی طاری ہونے لگے انسان سجدہ میں گر جاتا ہے اور بچہ کی طرح خدا تعالیٰ کو رو رو کر پکارتا ہے تب خدا تعالیٰ بھی اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے اور اس کی ضرورت کو پورا کرتا ہے.اس وقت میری تقریر میں جوش پیدا ہو گیا اور آواز بلند ہو گئی اور میں نے انگلی اٹھا کر اور اسے الٹا کر کے قالین پر مارا اور کہا کہ یوں مصلی پر سر رکھ کر جب روح کا بچہ روتا ہے اور یہاں اس کے آنسو گرتے ہیں تو اسی طرح خدا تعالیٰ بھی اس کی تکلیف کو دور کرنے کے لئے اس
312 کے پاس آجاتا ہے جس طرح ماں بچہ کے پاس آجاتی ہے.غرض رونا اور آنسو ہی جسم کو بچاتے ہیں اور رونا اور آنسو ہی روح کو بچاتے ہیں اس وقت میں نے دیکھا کہ سب لوگ میری تقریر سے بہت متاثر تھے اور خود میں بھی ایک وجد کی حالت میں تھا اس حالت میں میری آنکھ کھل گئی.تعبیر.یہ خواب نہایت لطیف ہے گو مضمون تو عام ہے مگر طرز بیان بالکل نیا اور تشبیہ نہایت موزوں ہے لکھنو میں برود جگہ سے اشارہ اس طرف معلوم ہوتا ہے کہ لکھنو میں کوئی دل کی ٹھنڈک کا سامان پیدا ہو گا اور امرتسر میں یہ تقریریں بتاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ امرتسر میں بھی کوئی سامان ترقی کے پیدا کرے گا یہ رویا 25 مارچ کی ہے.الفضل 3 اپریل 1946ء صفحہ 2.1.نیز دیکھیں.تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ سوم 384-385 384 13 26.مارچ 1946ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں گھوڑے پر سوار ہوں چھ سات اور آدمی بھی گھوڑوں پر سوار ہیں وہ جرنیل معلوم ہوتے ہیں اور کسی احمدی لشکر کی کمان کرتے معلوم ہوتے ہیں مگر یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ صداقت کے رستہ سے بھٹک گئے ہیں اور ان راہوں سے دور جا پڑے ہیں جس پر میں نے جماعت کو پختہ کیا ہے اور جماعت کو غلط راستے پر چلا رہے ہیں میں نے ان کو نصیحت کی.وہ مجھے پہچان گئے ہیں لیکن میری دخل اندازی کو نا پسند کرتے ہیں.(یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی آئندہ زمانہ ہے صدیوں بعد کا.میں گویا دوبارہ زندہ ہو کر دنیا میں آیا ہوں) اسی بحث مباحثہ میں انہوں نے مجھ پر حملہ کر دیا ہے اور چاہتے ہیں کہ مجھے قتل کر دیں تا لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ میری تعلیم کیا تھی اور وہ لوگوں کو کد ھر لے گئے ہیں.اس وقت میرے ہاتھ میں ایک تلوار ہے جو بہت لمبی ہے.عام تلوار سے دو تین گنے لمبی.مگر میں اسے نہایت آسانی سے چلا رہا ہوں ہم سب ایک خاص سمت کی طرف گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں لڑتے بھی جاتے ہیں مگر وہ کئی ہیں لیکن میں ان کا مقابلہ خوب کر رہا ہوں اور ان کے کندھوں پر میں نے کئی کاری ضربیں لگائی ہیں.بعض چھلتی ہوئی ضربیں میرے جسم پر بھی لگی ہیں لیکن مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی.اسی طرح
313 لڑتے لڑتے ہم ایک مکان کے پاس پہنچے اور گھوڑوں سے اتر کر اس کے اندر داخل ہو گئے.اس مکان کے باہر احمدی لشکر کا ایک حصہ کھڑا ہوا معلوم ہو تا ہے.میں نے اس مکان پر پہنچ کر ان لوگوں کو پھر سمجھانا شروع کیا اور بتایا کہ اسلام کی صحیح تعبیر وہ نہیں جو وہ کر رہے ہیں اور یہ کہ وہ اس راہ سے دور چلے گئے ہیں جس پر میں نے انہیں ڈالا تھا اور چونکہ تشریح کرنے کا اختیار اللہ تعالی نے مجھے دیا تھا ان کا رویہ نا درست ہے اور ان کو توجہ کرنی چاہئے مگر اس تمام تقریر کا ان پر کچھ اثر نہیں ہوا اور وہ اپنی ضد پر مصر رہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ میری بات ماننے میں اپنی لیڈری کو خطرہ میں پاتے ہیں اور اس لئے اپنی ضد پر پختہ ہیں بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ اب جبکہ وہ ایک نئے طریق پر جماعت کو ڈال چکے ہیں مجھے بھی ان کی بات مان کر اس کی تصدیق کرنی چاہئے جب میں سمجھا کر تھک گیا تو میں نے ایک دروازہ جو صحن کی طرف کھلتا ہے اور اس جہت کے مخالف ہے جس طرف لوگ بیٹھے تھے کھولا اور اس ارادہ سے نکلا کہ میں اب خود جماعت سے خطاب کروں گا جب میں نے وہ دروازہ کھولا تو اپنی طرف کا دروازہ جلدی سے ان لوگوں نے کھول دیا اور باہر کھڑی ہوئی فوج کو حکم دیا کہ مجھے قتل کر دیں جب میں دروازہ کھول کر نکلا تو میں نے دیکھا کہ مکان کی کرسی اونچی ہے اور صحن تک چار پانچ سیڑھیاں اتر کر جانا پڑتا ہے اور سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی پر وہ کی دیوار ہے جس کے ساتھ فوج قطار در قطار صحن میں کھڑی ہے اور ان کا سینہ تک کا جسم دیوار پر سے نظر آتا ہے اور پوری طرح مسلح ہے.جس وقت میں نکلا تو اس وقت یوں معلوم ہوا کہ تین چار آدمی میرے ساتھ بھی ہیں میں نے ایک دو سیڑھی اتر کر فوج کی طرف منہ کیا اس وقت دیوار کے ساتھ کی قطار نے میری طرف منہ کیا اور ان جرنیلوں کے حکم کے ماتحت مجھ پر حملہ کرنا چاہا اس وقت میں نے سینہ تان دیا اور ان لوگوں سے کہا.سپاہیو! تمہارا اصل کمانڈر میں ہوں (میں خواب میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ میں دوبارہ دنیا میں آیا ہوں اس لئے میں اپنا تعارف ان سے کرا دوں تاکہ وہ سمجھ جائیں کہ میں کون ہوں) کیا تم اپنے کمانڈر پر حملہ کرنے کی جرات کرو گے.اس سے سپاہی کچھ گھبرا سے گئے اور حملہ میں متردد ہو گئے مگر دوسری طرف سے ان کے جرنیل انکو انگیخت کرتے چلے گئے تب میں نے اپنے دو تین ساتھیوں سے کہا کہ وہ نعرہ تکبیر بلند کریں.انہوں نے تکبیر کا نعرہ لگایا لیکن فوج کے ہجوم اور آوازوں کی بھنبھناہٹ کی وجہ سے آواز میں گونج نہیں پیدا ہوئی.پھر بھی کچھ لوگ متاثر
314 ہوئے اس پر میں نے کہا کہ سپاہیو! میں تمہارا کمانڈر ہوں.تمہارا فرض ہے کہ میری اطاعت کرو اور میرے پیچھے چلو تب میں نے ان سے کچھ اور چہروں پر شناخت اور اطاعت کا اثر دیکھا اور ں ان سے کہا کہ بلند آواز سے نعرہ تکبیر لگاؤ اور پھر اپنی عادت کے خلاف نہایت بلند آواز سے پکارا.اللہ اکبر.جب میں نے یہ نعرہ لگایا تو گویا ساری فوج کے دل دہل گئے اور سب نے نہایت زور سے گرجتے ہوئے بادلوں کی طرح اللہ اکبر کہا اور ساری فضا نعروں سے گونج گئی تب میں نے انہیں کہا میرے پیچھے چلے آؤ اور خود آگے کو چل پڑا اس وقت میں نے دیکھا کہ تمام فوج میرے پیچھے قطاریں باندھ کر چل پڑی.اس وقت ان میں جوانی اور رعنائی اپنی پوری طاقت پر معلوم ہوتی ہے.ان کے بھاری قدم جو وہ جوش سے زمین پر مارتے تھے.یوں معلوم ہو تا تھا کہ زمین کو ہلا رہے ہیں اور زمین پر ایک کامل سکوت کے درمیان اس فوج کے قدموں کی آواز جو میرے پیچھے چلی آرہی تھی عجیب موسیقی سی پیدا کر رہی تھی.میں سڑک پر ان کو ساتھ لئے ہوئے چلا گیا.یہ سڑک ایک ٹیلے کے گرد خم کھا کر گزرتی تھی جب اس ٹیلے کے پاس سے وہ سڑک مڑی تو میں نے دیکھا کہ کوئی ڈیڑھ منزل کے قریب بلندی پر ایک وسیع کمرہ ہے اور اس کے اندر بہت سے لوگوں کا ہجوم ہے اور وہ بھی احمدی فوج کے آدمی ہیں اور گویا اسی جھگڑے کے فیصلہ کا انتظار کر رہے ہیں میرے ہمراہیوں میں سے ایک شخص دوڑ کر اوپر چڑھ گیا اور اوپر جا کر جو ان کا افسر دروازہ پر کھڑا تھا اسے اس نے سمجھانا شروع کر دیا کہ یہ جماعت کے کمانڈر ہیں اور انہوں نے جرنیلوں کی غلطی کی وجہ سے خود کمان سنبھال لی ہے اور گویا دوبارہ دنیا میں آگئے ہیں.وہ شخص جسے میں نے دیکھتے ہی پہچان لیا کہ چوہدری مولا بخش صاحب مرحوم سیالکوٹی ہیں (ڈاکٹر میجر شاہ نواز صاحب کے والد) اس سے کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ درست ہے تو ہمیں پہلے کیوں اطلاع نہیں دی گئی.میں نے اپنے ساتھی کو روکا اور چوہدری صاحب سے کہا کہ افسر میں ہوں.یہ میرا کام ہے کہ بتاؤں کہ کب اور کس طرح اطلاع دی جائے (اس وقت میں نے جرنیلوں سے جھگڑے کی تفصیل سے بچنے کے لئے مختصر جواب دیا ہے) پھر کہا کہ میں سیالکوٹ جا رہا ہوں وہاں ہمارے کچھ دوست ہیں آپ لوگ بھی اس فوج میں آملیں.چوہدری صاحب مرحوم نے اس پر فوری رضامندی کا اظہار کیا اور کمرہ میں ٹھہری ہوئی فوج کو چلنے کا حکم دیا تب میں اس فوج کے پیچھے چل پڑا جو میرے ساتھ تھی اور جسے میں نے گفتگو کے وقت آگے چلنے کا حکم دے دیا تھا اس وقت میں
315 نے دیکھا کہ ایک اور فوج بھی مجھ سے آملی ہے اور پہلی فوج اور بعد میں آنے والی فوج کے درمیان میں چلا جا رہا ہوں اور سیالکوٹ کی فوج کا انتظار کرتا جاتا ہوں.اس وقت میرے دل میں خیال ہے کہ اس فتنہ و فساد سے محفوظ ہونے یا محفوظ ہو جانے کی صلاحیت سیالکوٹ کی اس احمدی فوج میں ہے جو سیالکوٹ میں ہے اور میں جب وہاں پہنچ جاؤں گا تو ان کی مدد سے اس فتنہ کو دور کر دوں گا.اسی حالت میں میری آنکھ کھل گئی.تعبیر.اس خواب کی تعبیر ظاہر ہے معلوم ہوتا ہے آئندہ کسی زمانہ میں ایک فتنہ کے وقت سیالکوٹ کو پھر وقت کے امام کا ساتھ دینے کی اور اس کے لئے قربانیاں کرنے کی توفیق ملے گی اور کسی ایسے وجود کو جو مجھ سے ہوگا اور مجھ میں ہو کر خدا تعالیٰ کا فضل پائے گا اس فتنہ کے استیصال کی توفیق ملے گی.عجیب بات ہے کہ کوئی پندرہ سولہ سال یا زیادہ کا عرصہ گزرا ہو گا کہ میں نے ایک دفعہ پہلے بھی دیکھا تھا کہ دنیا میں فتنہ پیدا ہو گیا ہے اور میں اسے دور کرنے کے لئے دوبارہ دنیا میں آیا ہوں اور توحید پر تقریر کر رہا ہوں اور لوگ میری بات کو مان رہے ہیں اس خواب ہی میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ واقعہ ایک سو ستائیس سال کا ہے اس کی تعبیر اس وقت ظاہر نہیں.ممکن ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ سے ایک سو ستائیس سال بعد یا اگلی ہجری یا مسیحی صدی کا ستائیسواں سال اس سے مراد ہو.غرض اس کی تشریح معین نہیں.اللہ تعالیٰ اسے اپنے وقت پر ظاہر فرما دے گا.الفضل 3.اپریل 1946 ء صفحہ 4 -3 385 اپریل 1946ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں کسی پہاڑ پر گیا ہوں اور وہیں سے واپس آرہا ہوں میرے ساتھ میری بیویاں اور دوسرے دوست بھی ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک عورت ہے جو کسی بڑے بھاری غیر احمدی کی لڑکی ہے.اس وقت میرے ذہن میں یہ نہیں کہ بڑے بھاری سے کیا مراد ہے.لیکن میں خواب میں سمجھتا ہوں کہ وہ کسی بہت بڑے غیر احمدی کی لڑکی ہے اس نے احمدیت قبول کی ہے اور میں نے اس سے شادی کرلی ہے وہ عورت بھی میرے ساتھ ہے پیچھے
316 سے اس کے غیر احمدی رشتہ دار اسے لینے کے لئے آئے ہیں.یوں ان میں چھین کرلے جانے کی جرأت تو نہیں لیکن وہ لڑکی پر اثر ڈال کر اسے لے جانا چاہتے ہیں.راستہ میں ہم ڈاک بنگلے میں اترے ہیں اور چونکہ قافلہ بڑا ہے.ڈاک بنگلے میں جگہ تھوڑی ہے اس لئے بجائے چارپائیوں کے زمین پر ہی بستر کئے ہیں خواب میں میں دیکھتا ہوں کہ اس عورت کے پاس ایک بچہ بھی ہے جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ میرا ہی ہے جب بستر بچھائے گئے تو بیچ میں میرا بستر ہے.ایک طرف اس عورت کا بستر ہے اور دوسری طرف ام متین کا بستر ہے اور اس عورت کے رشتہ دار پاس کے ایک ٹیلہ پر بیٹھے ہوئے ہیں اور اس عورت کو پیغام بھیجتے ہیں کہ ہمارے ساتھ واپس چلو.ہم تمہیں لینے کے لئے آئے ہیں.میں اس وقت خاموش ہوں اور دل میں کہتا ہوں کہ دیکھوں تو کس حد تک احمدیت اس کے دل میں قائم ہو چکی ہے.میں نے اسے کہا تو نہیں لیکن میں دل میں اسے اجازت دے چکا ہوں اور میں خیال کرتا ہوں کہ اگر یہ جاتی ہے تو چلی جائے لیکن اس عورت نے اپنے رشتہ داروں کو یہ جواب دیا ہے کہ میں کس طرح جا سکتی ہوں اب تو میں کسی طرح بھی جانے کو تیار نہیں.پھر اس کے رشتہ داروں نے اس سے جذباتی باتیں کی ہیں تو ان کے جواب میں وہ ان سے کہتی ہے کہ اب میں کس طرح جا سکتی ہوں اب تو میں نے شادی بھی کرلی ہے اور میرے ہاں لڑکا بھی پیدا ہو گیا ہے اس پر وہ پیغامبرمایوس ہو کر کمرہ سے باہر چلا گیا ہے جب وہ چلا گیا تو میں اس کے اخلاص اور نیکی کی وجہ سے کہ وہ دل سے احمدیت پر قائم ہو چکی ہے اس کو پیار کرتا ہوں.بچہ اس کی گود میں ہے اور میں اس کے پاس لیٹ گیا ہوں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر تا ہوں.پیار کرتے ہوئے معا میرے دل میں خیال گزرا کہ اسلام میں تو چار بیویوں کی اجازت ہے اور پہلے ہی میری چار بیویاں موجود ہیں یہ تو پانچویں ہے.یہ کیا مجھ سے ذھول ہو گیا.شادی کئے ہوئے ایک سال گزر گیا ہے اور مجھے اس بات کا علم ہی نہیں ہوا.اس کے ہاں بچہ بھی پیدا ہو گیا.میں اسے اب طلاق کس طرح دوں.یہ بیچاری اب کدھر جائے گی.اس نے اپنے رشتہ دار بھی چھوڑ دیئے مجھے اس کی حالت پر بھی رحم آتا ہے اور میں سخت گھبرا گیا ہوں.ام متین میرے دل کی بات سمجھ گئی ہیں اور میری گھبراہٹ کے سبب کو جان گئی ہیں (گو میں نے یہ بات بیان نہیں کی اور مجھ سے کہتی ہیں کہ آپ گھبراتے کیوں ہیں.حضرت خلیفہ اول کا تو یہ مذہب تھا کہ اسلام میں نو بیویوں تک کی اجازت ہے.میں ان سے کہتا ہوں کہ
317 جماعت کا تو یہ مذہب نہیں اور میں ڈرتا ہوں کہ لوگ مجھے کیا کہیں گے کہ ہمیں تو کہتے تھے کہ اسلام میں چار بیویوں کی اجازت ہے اور خود پانچ کرلی ہیں.اس گھبراہٹ سے مجھے پسینہ پر پینہ آتا ہے اور مجھے اس عورت کی حالت پر بھی رحم آتا ہے کہ اس بے چاری نے اپنے ماں باپ بھی چھوڑ دیئے ہیں.اب اس کا کیا بنے گا بعض فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے فقیہ کے مذہب پر عمل کرے جو دوسرے فقہاء سے مذہب میں اختلاف رکھتا ہے تو اس پر عمل کرنے والے پر اس کا کوئی گناہ نہ ہو گا لیکن میں کہتا ہوں میرے لئے تو سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ میرے بہت سے دشمن ہیں وہ میرے کسی عذر کو نہیں سنیں گے اور مجھ پر بد نیتی کا الزام لگائیں گے اس گھبراہٹ میں میری آنکھ کھل گئی.اس خواب کی تعبیر میرے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالی غیر احمدیوں میں ہماری تبلیغ کو کامیاب بنائے گا اور ان میں سے ایک معتدبہ حصہ احمدیت کو قبول کرے گا.لڑکی لینے والے عام طور پر فائق سمجھے جاتے ہیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالٰی ہمیں ان پر فوقیت عطا کرے گا پس میں سمجھتا ہوں کہ غیر احمدیوں میں سے معزز لوگوں کا ایک گروہ احمدیت میں داخل ہو گا اور لڑکا ہو جانے کے معنی یہ ہیں کہ ان کا تعلق سلسلہ سے پائیدار ہو گا.الفضل 2.مئی 1946ء صفحہ 4-5 386 مئی 1946ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک مجمع میں بیٹھا ہوں جو اسی طرز کا جس طرح اس وقت یہاں دوست بیٹھے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے پاس بعض مبلغین بھی بیٹھے ہیں میں نے مجمع کو مخاطب کر کے تقریر کرنا شروع کی ہے میں اپنی تقریر میں کہتا ہوں کہ آدمی باسی لوگوں کی کتابوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق اور میرے متعلق پیش گوئیاں ہیں ان کا پتہ لگانا چاہئے.تقریر کرنے کے بعد ایسا معلوم ہوا کہ مولوی عبدالرحیم صاحب نیر شمال مشرقی کونے میں کھڑے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اس بات کے معلوم کرنے کے لئے تو آدمی بھیجنے پڑیں گے اور بہت سا روپیہ خرچ کرنا پڑے گا اس طرح کے عذرات انہوں نے بیان کرنے شروع کر دیئے ہیں کہ یہ بات آسانی سے معلوم نہ ہو سکے گی بلکہ بہت کو شش کرنی پڑے گی اور
318 بہت سا روپیہ صرف کرنا پڑے گا.اس پر میں نے ان کو یہ جواب دیا کہ یہ کونسی بڑی بات ہے جو کام کرنا ہوتا ہے اس کے لئے اس بات کا خیال نہیں کیا جاتا کہ کتنار و پیہ خرچ ہو گا اور کتنے آدمی لگانے پڑیں گے.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.تعبیر.فرمایا : معلوم ہوتا ہے اس قوم کی کتابوں میں ہمارے سلسلہ کے متعلق کچھ پیشگوئیاں ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے تاکہ لوگ ان کے ذریعہ.ہدایت پائیں.یکم جون 1946ء صفحہ 1 مئی 1946ء 387 فرمایا : ایک اور رویا میں نے ڈلہوزی میں غالبا منگل یا بدھ کی رات کو دیکھا یہ رویا عجیب قسم کا ہے.میں نے رویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں اور میں ہوں.آپ نے لباس جائوں کی طرح سادگی سے پہنا ہوا ہے گو لباس وہی ہے جو آپ پہنا کرتے تھے.پہننے کے طریقہ میں زمیندارہ سادگی معلوم ہوتی ہے اور جس طرح زمیندار اپنے بچوں کو چیچک کا ٹیکہ کروانے یا سکول میں داخل کرانے کے لئے ساتھ آتے ہیں اور بچوں کو نصیحت کرتے چلے جاتے ہیں کہ ہیڈ ماسٹر کو اس طرح ملمنا اور اس طرح اس کے سوال کے جواب دینا یا اگر ٹیکہ لگوانا ہو تو بتاتے ہیں کہ اس اس طرح کرنا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھے بھی نصیحت کرتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا میں اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے والا ہوں.مجھے آپ کا یہ فقرہ اچھی طرح یاد ہے آپ فرماتے ہیں تم ہادی بھی ہو تم مہدی بھی لیکن تم اللہ تعالٰی سے اصرار کرنا کہ وہ مہدی کی پیشگوئی کو پورا کرے ہادی ہونا اس کے نتیجہ کے طور پر آپ ہی ظاہر ہو جائے گا.وہاں سامنے کوئی کیمپ وغیرہ تو نہیں لیکن مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا میں خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے والا ہوں اور آپ مجھے بتاتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے یہ چیز مانگنا.گویا آپ نے بتایا کہ تمہارے متعلق ہادی اور مہدی ہونے کی پیشگوئی ہے تم اللہ تعالیٰ سے مہدی ہونے کی پیشگوئی کو پورا کرنے پر اصرار کرنا کیونکہ ہادی ہو نا مہدی ہونے کے تابع ہے.
319 تعبیر.فرمایا.جو شخص مہدی ہو یعنی وہ خود کامل ہدایت پر ہو اس کے دل میں ہر وقت یہ جوش موجزن ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے اس انعام میں شریک کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ ہادی کہلائے گا.ایک شخص جس کو اتنی بڑی نعمت مل جائے وہ کس طرح خاموش رہ سکتا ہے پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ تم مہدی ہونے پر اصرار کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ تم اللہ تعالٰی سے یہ اصرار کرنا کہ وہ تحمیل مہدویت کرے.جب تحمیل مہدویت ہو جائے گی تو تمہارا ہادی ہونا خود بخود ظاہر ہو جائے گا.الفضل یکم جون 1946ء صفحہ 2.1 388 مئی 1946ء فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا.میں دہلی میں ہوں اور وہاں کی مسجد کے افتتاح کا سوال در پیش ہے اور میں اس کے متعلق سمجھتا ہوں کہ اس جگہ پر مسجد بنانا مناسب نہیں یا اس وقت اس کا افتتاح مناسب نہیں چنانچہ میں نے اپنی رائے کا اظہار دوستوں پر کیا اور کہا کہ ان وجوہ سے میں ابھی افتتاح نہیں کرتا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہلی کی جماعت کو میری اس رائے سے اختلاف ہے اور ان کے اندر نشوز کے آثار پائے جاتے ہیں.اس کے بعد میں دیکھتا ہوں کہ ایک جلسہ میں میں افتتاح کا اعلان کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں جس جگہ ہم جلسہ کرنے والے ہیں اس کا کچھ حصہ چھت ہے اور کچھ حصہ صحن معلوم ہوتا ہے.خواب میں میں دل میں کہتا ہوں کہ میں افتتاح تو کرلوں گا لیکن ساتھ ہی اپنی ناپسندیدگی کا بھی اظہار کر دوں گا.جس جگہ میں کھڑا ہوں وہاں پاس ہی ایک چھوٹی سی جھیل ہے جس میں سرکنڈا اگا ہوا ہے میں کھڑا ہوا ہوں اور میں نے اپنی رائے کا اظہار کر دیا ہے کہ میں آپ لوگوں کے کہنے پر افتتاح کر دیتا ہوں لیکن اس کی ذمہ داری آپ لوگوں پر ہے.اس وقت ایک آدمی کھڑا ہوا ہے جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ پیغامیوں میں سے آیا ہے میں اس کی شکل سے پہلے واقف نہیں ہوں تعجب کی بات ہے کہ ہماری جماعت کے جتنے لوگ موجود ہیں میں ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں جانتا اور جتنے لوگ وہاں ہیں میرے لئے سب غیر ہیں ان میں سے ایک شخص جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ پیغامیوں میں سے آیا ہے میری بات پر اعتراض کرتا ہے اور میری بات کی مخالفت کرتا ہے کہ آپ کا یہ خیال غلط ہے کہ اس جگہ مسجد بنانا مناسب نہیں.اس کا اختلاف مجھ سے معاندانہ نہیں
320 بلکہ جیسے کوئی شخص اپنی بات زبر دستی منوانا چاہتا ہے اسی طرح وہ اپنی بات پر زور دیتا چلا جاتا ہے.اتنے میں یکدم دائیں طرف سے موسیقی کی طرح آواز بلند ہونی شروع ہو گئی.میں دیکھتا ہوں کہ میر ناصر نواب صاحب مرحوم اس جھیل کے پرے کھڑے جماعت کے لوگوں کو توجہ ولا رہے ہیں کہ خلیفہ کی بات کا ادب کرنا چاہئے اور اس کی رائے کی قدر کرنی چاہئے اور اس سے اختلاف پیدا نہیں کرنا چاہئے تمام برکت اسی میں ہے کہ خلیفہ کی اطاعت کی جائے.پھر میں ان لوگوں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ میں ناپسندیدگی سے اس مسجد کا افتتاح کروں گا اور بعد میں نماز نہیں پڑھاؤں گا تم میں سے جو چاہے نماز پڑھے.اسی قسم کی کچھ اور باتیں میں نے کی ہیں اور پھر وہاں سے اٹھ کر واپس چلا آیا ہوں.جب میں وہاں سے چلا ہوں اس وقت میرے ساتھیوں میں سے کوئی بھی میرے ساتھ نہیں اور نہ ہی گھر کی مستورات میں سے کوئی میرے ساتھ ہے لیکن کچھ دور آکر میں نے دیکھا کہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب میرے ساتھ آرہے ہیں جب ہم آگے بازار میں آئے ہیں تو میں نے دیکھا کہ میری بیوی بشری بیگم اور میری لڑکی امتہ الحکیم ہمارے آگے آگے جارہی ہیں.میں ڈاکٹر صاحب سے پوچھتا ہوں کہ میر صاحب یہاں کہاں سے آگئے.ڈاکٹر صاحب مجھے جواب دیتے ہیں کہ میر صاحب تو فوت ہو چکے ہیں یہ تو ان کی روح بول رہی تھی.خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنے نتھیال میں ٹھرا ہوا ہوں.چلتے چلتے ہم ایک ایسی جگہ پہنچے ہیں جہاں سے گلی دوسری طرف کو مڑتی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ وہاں میرے نھیال میں سے کوئی بزرگ عورت کھڑی ہے اور راستہ کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ادھر آؤ.وہاں میں ایک گلی میں داخل ہوا ہوں جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے ماموں کے گھر کو جاتی ہے لیکن کچھ دور چل کر معلوم ہوا کہ میری بیوی اور بیٹی اور وہ سن رسیدہ عورت ایک دوسری گلی کی طرف مڑگئی ہیں.میں اس گلی میں چلتا چلا گیا ہوں آگے جاکر میں ایک گھر والوں سے پوچھتا ہوں کہ میں مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب کا مہمان ہوں کیا آپ لوگ ان کے مکان کا پتہ مجھے بتا سکتے ہیں وہ جواب دیتے ہیں کہ ہمیں معلوم نہیں وہ کون ہے.اس وقت میں دل میں کہتا ہوں کہ مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب تو دیلی کے مشہور ادیبوں میں سے ہیں اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں ان کا علم نہیں.میں وہاں سے آگے چلا ہوں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں نے رنگکرسی پہنی ہوئی ہے جیسی کہ نہر میں نہاتے وقت پہنی جاتی ہے.آگے جاکر میں ایک گلی میں سے گزرا ہوں میں
321 نے دیکھا کہ کچھ مستورات جمع ہیں اور نماز پڑھ رہی ہیں وہ مجھے دیکھ کر کہتی ہیں کہ آپ دیکھتے نہیں کہ آگے عورتیں نماز پڑھ رہی ہیں.آپ ادھر کیسے آگئے.میں اس بات سے بہت شرمندہ ہوا اور اس جگہ سے مڑکر ایک کھلی جگہ پہنچ گیا جہاں مجھے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب پھر مل گئے ہیں میں نے ان سے کہا کہ آپ پر وہ کریں تو میں فکر اتار کر پاجامہ پہن لوں ابھی ڈاکٹر صاحب اسی خیال میں ہیں کہ پردہ کریں کہ میری نگاہ سامنے ایک جگہ پر پڑی جس سے میں سمجھتا ہوں کہ ہم کسی بلند جگہ پر ہیں اور بہت سے لوگ تیرا کی کے مقابلہ کے لئے جمع ہیں جس طرح آگرہ کے سلیم شاہی دربار میں باؤلی بنی ہوئی ہے اور لوگ ایک اونچی عمارت سے نیچے باؤلی میں کو دتے ہیں.اسی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ہم پہاڑ کی چوٹی پر جو کہ نصف میل بلند ہے کھڑے ہیں اور نیچے پانی میں کودنے کا مقابلہ ہے یکدم مجھے خیال آیا کہ بجائے اس کے کہ میں پاجامہ پہنو.کیوں نہ میں بھی چھلانگ لگا دوں اور تیراکی کے مقابلہ میں شامل ہو جاؤں اس طرح میرے رنگر پہننے پر بھی پردہ پڑ جائے گا چنانچہ میں نے شلوار ڈاکٹر صاحب کو دے دی اور اس چوٹی پر سے چھلانگ لگا دی جہاں سے لوگ چھلانگ لگا رہے ہیں اس وقت میں دل میں خیال کرتا ہوں کہ میں سب سے بڑا تیراک ہوں چنانچہ جب میں پانی میں اترا میں نے ایک لمبا غوطہ لگایا اور دور جاکر سر نکالا اور کئی رنگ کی تیرا کیوں کا نمونہ دکھایا اس پر سارے لوگ حیران ہیں اور شور مچ گیا ہے کہ یہ جیت گئے.اتنے میں میری آنکھ کھل گئی.تعبیر.فرمایا.اس خواب کا پہلا حصہ منذر ہے اور آخری حصہ مبارک ہے ( عجیب بات ہے کہ میں نئی اور پرانی دہلی کے سو دو سو آدمیوں کو جانتا ہوں لیکن اس وقت کوئی آدمی بھی ایسا نہیں جس کو میں نے پہچانا ہو) شاید اس کی یہ تعبیر ہو کہ ہماری جماعت میں بعض پیغامی مل جائیں گے اور جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ایک ذریعہ جماعت میں تفرقہ اور انشقاق پیدا کرنے کا یہ بھی ہے.بشری نام بشارت پر دلالت کرتا ہے اسی طرح حشمت اللہ نام سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حشمت اور شان ظاہر ہوگی اور امتہ الحکیم نام سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی حکمت کی بات ہے.فرحت اللہ بیگ نام بھی بہت اچھا ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پر دلالت کرتا ہے اور تیرنے کے مقابلہ میں غیر معمولی قدرت کا ملنا اور دوسروں کو شکست دینا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دشمنوں کے مقابلہ میں غیر معمولی فتح بخشے گا اور ان کے سب منصوبے
322 خاک میں مل جائیں گے.الفضل 4.جون 1946 ء صفحہ 2-1 22/23.مئی 1946ء 389 فرمایا : تین چار دن ہوئے میں نے رویا میں دیکھا کہ میں اس طرح کی مجلس میں بیٹھا ہوں اور میں دوستوں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ اللہ تعالٰی نے مجھے وحی اولیاء کا بھی علم دیا ہے اور وحی انبیاء کا بھی علم دیا ہے میں آپ کو وحی اولیاء کے متعلق بتا چکا ہوں اب وحی انبیاء کے متعلق بتاتا ہوں.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.تعبیر.معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں انبیاء اور اولیاء کی پیشگوئیاں پوری ہوں گی.ہم وحی انبیاء تو ہر روز ہی سناتے ہیں لیکن رویا کے الفاظ اس طرح ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وحی اولیاء کا بھی علم دیا ہے اور وحی انبیاء کا بھی علم دیا ہے شاید وحی اولیاء کو اس لئے پہلے رکھا گیا ہو کہ اولیاء کی پیشگوئیاں عوام الناس میں زیادہ مشہور اور نمایاں ہوتی ہیں اس لئے وحی اولیاء کا ذکر پہلے کیا گیا اور وحی انبیاء کا بعد میں.الفضل 5.جون 1946ء صفحہ 1 مئی 1946ء 390 فرمایا : رویا میں میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے الفاظ مجھ پر نازل ہو رہے ہیں لیکن بول میں رہا ہوں.میں عربی میں تقریر کر رہا ہوں لفظ قریباً سب کے سب مجھے یاد ہیں سوائے کسی جگہ قلیل تغیر کے جو حافظہ کی وجہ سے ہو گیا ہو میں سردار وریام سنگھ کے متعلق کہتا ہوں قَبْلَ مَجِيْنِهِ إِلى قَادِيَانَ كَانَ شَابًا طَيِّبًا نَظِيْفًا فَلَمَّا لَقِيَهُ الرَّبُّ خَرَّبَ اخلاقهُ وَ أَفْسَدَ قَلْبَه یعنی قادیان یا کها گورداسپور آنے سے پہلے وہ پاک اور کھرے خیالات کے آدمی تھے مگر جب "رب" ان کو ملا تو اس نے ان کے اخلاق خراب کر دیئے اور دل بگاڑ دیا.جب میں نے آخری فقرہ کہا تو میری طبیعت گھبرائی ہے کہ میں یہ کیا کہہ رہا ہوں اللہ تعالٰی سے ملاقات کے نتیجہ میں تو اصلاح ہوتی ہے لیکن میں کہہ رہا ہوں کہ جب اسے رب ملا تو اس کی اخلاقی حالت خراب ہو گئی.اس وقت خواب میں ہی چودھری محمد اسحاق صاحب جو پہریدار ہیں
323 کہتے ہیں کہ حضور "رب" سے مراد رب نواز ہے.میں سمجھتا ہوں کہ کوئی شخص رب نواز ہے جو سلسلہ کا دشمن ہے اور چوہدری محمد اسحاق اس کو جانتے ہیں اور اس کے متعلق وہ کہہ رہے ہیں کہ اس نے سردار وریام سنگھ پر برا اثر ڈالا.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی جب میں بیدار ہوا تو میرے ذہن میں فوراً یہ بات گزری کہ "رب" سے مراد کنج بہاری لال بھی ہو سکتا ہے.کیونکہ وہ بھی اپنے آپ کو ” رب قادیان" کہتا ہے.معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس میں بتایا ہے کہ سردار وریام سنگھ صاحب تو اچھے آدمی تھے لیکن جب انہیں کنج بہاری لال ملا تو اس نے ہمارے متعلق ان کے خیالات خراب کر دئیے.مجھے ایسا معلوم ہو تا ہے جیسے رویا میں یہ عبارت لکھی ہوئی بھی میرے سامنے آئی.اور "رب" کا لفظ اس میں خطوط وحدانی میں تھا.اگر جو معنے میں نے بیداری میں سمجھے تو چونکہ ”الرب" کا لفظ خطوط وحدانی میں تھا وہ طنز پر دلالت کرے گا اور اس کے معنے ہوں گے کہ وہ شخص جو گستاخی اور جہالت سے اپنے آپ کو "رب" کہتا ہے اور اس کا استعمال ایسا ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم متکبر سے کہیں گے ذُقْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ (الدخان : 50) کہ اب اس جہنم کا مزا چکھ کیونکہ تو تو اپنے آپ کو شریف اور معزز سمجھتا تھا اس جگہ یہ مراد نہیں کہ تو واقعہ میں شریف اور معزز ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ چونکہ وہ اپنے آپ کو شریف اور معزز سمجھتا تھا اس لئے بطور طنز ا سے کہا جائے گا کہ تو بڑا عزیز اور کریم ہے اس طرح "الرب بھی اسے طنز کیا گیا ہے کہ وہ کہتا اپنے آپ کو رب ہے اور اس کا کام لوگوں کے دلوں میں منافرت کے جذبات پیدا کرنا ہے.الفضل 5.جون 1946ء صفحہ 12 391 جون 1946ء فرمایا : لاہور جانے سے تین چار روز قبل دیکھا کہ مسجد مبارک کے نیچے جو کمرہ ہے اور جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑے پر کشف میں چھینٹے پڑے تھے اس میں چار پائی پر میں بیٹھا ہوں کہ مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم آئے ہیں.جو ان شکل میں ہیں.داڑھی مونچھیں منڈی ہوئی ہیں اور سر پر پگڑی کی بجائے ٹوپی ہے.میں انہیں دیکھ کر خوش ہوا کہ آئے.انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور پوچھا قادیان آجاؤں؟ میں نے کہا ضرور آجائیں.مولوی صاحب نے
324 کسی بر سبیل تذکرہ پر کہا.آپ نے کہا تھا تو میں چلا گیا تھا اس بات سے میں نے انکار کیا مگر انہوں نے پھر اصرار کیا میں نے کہا میں اس کو ٹھڑی میں آیا تھا جب میں جانے لگا تو آپ نے رقعہ دیا جس میں لکھا تھا کہ اجازت دیں تو میں چلا جاؤں اس پر میں نے اجازت دی تھی اس پر مولوی صاحب کو اپنی بات یاد آگئی اور انہوں نے مان لیا.میں نے کہا.آپ کو گئے چار سال ہو گئے انہوں نے کہا نہیں دس مہینے.تعبیر.فرمایا جا کر آنے کے معنے اصلاح کی صورت پیدا ہونے کے ہیں ممکن ہے ان کے کسی بچہ میں کمزوری ہو اور اس کی اصلاح ہو جائے.داڑھی منڈا د یکھنا یوں تو اچھا نہیں مگر نو جوانی پر دلالت کرنے کے لئے اس طرح ہو جاتا ہے.الفضل 15.جون 1946 ء صفحہ 5 فرمایا : ہاں ایک بات یاد آگئی کہ اس کمرہ میں ایک لڑکا ہے میں نے اسے کہا کہ انگیٹھی میں آگ جلا دو.نیز فرمایا جوانی سے مراد انسان کی اولاد ہوتی ہے جو باپ کی جوانی کو قائم رکھتی ہے.الفضل 21 جون 1946ء صفحہ 2-1 جون 1946ء 392 فرمایا : میں نے دیکھا لاہور کا ایک غیر احمدی رئیس مجھ سے ملنے کے لئے آیا ہے اس وقت میرے پاس کوئی سیکرٹری ہے اسے یہ کیس صاحب نے اشارہ کیا کہ الگ ہو جائیں تاکہ میں بات کر سکوں.وہ الگ ہو گئے تو انہوں نے کہا " حضور آپ کی پیشگوئی پوری ہو گئی اس وقت ذہن میں یہ نہیں آیا کہ کونسی پیشگوئی کے متعلق کہا ہے ممکن ہے لاہو ر سے کوئی تعلق رکھنے والی بات پوری ہو.الفضل 15.جون 1948 ء صفحہ 5 فرمایا : ”میں نے دیکھا کہ لاہور کا ایک غیر احمدی رئیس مجھے ملنے کے لئے آیا ہے اس کے نام میں "شیر" کا لفظ آتا ہے ".الفضل 21.جون 1946ء صفحہ 2 جون 1946ء 393 فرمایا : حضور کو دکھایا گیا کہ آپ اٹلی تشریف لے گئے ہیں وہاں جماعت کا کوئی آدمی قید ہے
325 مگر قید ایسی ہے جیسے شہزادوں کی ہوتی ہے.حضور کے ساتھ مولوی جلال الدین صاحب شمس بھی ہیں وہاں کے لوگوں کے دلوں میں حضور کی ایسی عظمت ڈالی گئی کہ وہ قیدی سے ملنے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتے.حضور قیدی سے ملتے اور دریافت فرماتے ہیں کہ حکومت آپ کس قسم کی باتیں معلوم کرنا چاہتی ہے وہاں حضور سے پوپ بھی ملا جو یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ ملنے پر قیدی نے کیا راز بتائے ہیں آگے غیر مبائعین کا بھی ذکر آتا ہے.الفضل 29.جون 1946ء صفحہ 3 فرمایا : اس کے بعد میں وہاں سے آگیا ہوں کہہ نہیں سکتا کہ اٹلی سے ہی آگیا ہوں یا روم ہے.بہر حال ایک میدان میں کھڑا ہوں جو چار پانچ فٹ اونچا ہے.اس کے سامنے ایک گلی ہے.اتنے میں کوئی شخص آکر کہتا ہے کہ ایک آدمی آپ سے ملنا چاہتا ہے یہ سن کر میں میدان کے سرے پر آگیا دیکھا تو شیخ مولا بخش صاحب لائل پوری معلوم ہوتے ہیں جو غیر مبائع ہیں ان کے ساتھ ایک دوسرا شخص ہے گورا رنگ جوان آدمی 30/35 سال کی عمر کا معلوم ہوتا ہے.داڑھی منڈھی ہوئی ہے اور اس نے ڈنر سوٹ پہنا ہوا ہے اس کا رنگ انگریزوں جیسا سفید تو نہیں لیکن ایسا ضرور ہے جیسے ہمارے ملک میں عام طور پر کھلے رنگ کے لوگ ہوتے ہیں.شیخ پر مولا بخش صاحب کہتے ہیں یہ میرے والد صاحب ہیں جو آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں عجیب بات ہے کہ شیخ صاحب اس وقت اپنی موجودہ عمر کے ہی معلوم ہوتے ہیں وہ صاحب جن کو والد کہتے ہیں ان سے جوان ہیں.یہ کہ کر شیخ مولا بخش صاحب خود پیچھے ہٹ گئے ہیں.میں نے کہا آپ دونوں آجائیں میں ان کو لے کر ایک کمرہ کی طرف گیا جو میدان کے کنارہ کے پاس ہی بنا ہوا ہے.اس کمرہ میں ایک کوچ ایک کھڑکی کے ساتھ جو فرنچ ونڈو کی طرز کی ہے یعنی جس کا عرض اس کی اونچائی کے برابریا اس سے چھوٹا ہے اس کے ساتھ بیٹھنے کی جگہ بنی ہوئی ہے وہ اس پر بیٹھنے لگے مگر میں نے ان سے کہا کہ آپ کوچ پر بیٹھ جائیں وہاں انہیں بٹھا کر میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور شیخ صاحب کے والد مرحوم سے جو مقبرہ بہشتی میں مدفون ہیں پوچھا کہ آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں.انہوں نے کہا آپ روم جو گئے تھے تو کیا آپ اس قیدی سے بھی ملے تھے.میں نے کہا.ہاں ملا تھا.انہوں نے کہا کہ ہمارے متعلق بھی اس نے کوئی راز آپ کو بتایا.میں نے کہا.ہاں بتایا تھا اس نے مجھے بتایا تھا کہ
326 آپ کی ایک چیز روم میں رہ گئی تھی وہ اس نے آپ کو تلاش کر کے دے دی تھی.خواب میں وہ چیز بھی معلوم تھی مگر جاگنے پر یاد نہیں رہی.اس وقت میں خیال کرتا ہوں کہ گو وہ قیدی مبائع تھا مگر اس نے یہ خیال کر کے کہ ان لوگوں کو نقصان پہنچاتو ہم پر بھی اثر انداز ہو گا.غیر مبائعین کی مدد کر دی.یہ خبر بتا کر میں نے ان سے کہا کہ اَوَّلُ اَمْرِ اتَّحَدَتْ فِيْهِ جَمَاعَةُ الْأَحْمَدِيَّةُ الْمُبَائِعُونَ وَ غَيْرُ الْمُبَائِعِینَ یعنی یہ پہلا امر ہے جس میں جماعت احمد یہ کسی معاملہ میں متحدہ ہوئی ہے خواہ مبائعین سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں یا غیر مبائعین سے.تعبیر :- غیر مبائعین کی ہمارے ساتھ مخالفت ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ممکن ہے کہ بیرون جات کی تبلیغ کے سلسلہ میں کبھی کوئی ایسا موقع آجائے جبکہ ہمارے مبلغ ان کے کسی مبلغ کو بچانے اور اس کی مدد کرنے کا موجب بن جائیں تاکہ اس فتنہ کی وجہ سے اسلام کو نقصان نہ پہنچے نیز اس الہام کی عبارت سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ اتفاقی اتحاد ہے جبکہ ان کا نقصان ہمارا نقصان سمجھا جائے ورنہ کسی با قاعدہ اتحاد کی طرف اشارہ نہیں.اگر مستقل اتحاد کی طرف اشارہ ہو تا تو اتَّخَذَتْ کے الفاظ ہوتے اتَّحَدَتْ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اتحاد ضمنی اور عارضی وجوہ سے ہوا ہے.میں اس خواب سے سمجھتا ہوں کہ اٹلی میں خدا تعالیٰ احمدیت کی کامیابی کا ضرور ایسا راستہ کھول دے گا کہ وہاں احمدیت کو خاص اہمیت اور ترقی حاصل ہوگی اور وہ ترقی حکومت کی نظر میں اتنی اہم ہوگی کہ سمجھا جائے گا کہ اب ان کو آزاد رکھنا مضر ہے اور ان کے بڑے آدمیوں کو نظر بند کئے بغیر چارہ نہیں پھر پوپ وغیرہ جو ملے ہیں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اٹلی میں بعض ایسے لوگ احمدیت میں داخل ہو جائیں گے جو ان کے خاندانوں میں سے ہوں گے اور جن کے احمدی ہونے سے وہ گھبرا جائیں گے.الفضل یکم جولائی 1946ء صفحہ 2-1 394 جولائی 1946ء فرمایا : میں نے شروع جولائی میں رویا میں دیکھا کہ کوئی شخص تعلیم الاسلام کالج کے نتیجہ کا اعلان کر رہا ہے اور جو نتیجہ اس نے سنایا ہے اس کے لئے طبیعت میں افسوس پیدا ہوا کہ جو امید تھی اس سے کم نتیجہ نکلا ہے.یہ رویا نتیجہ نکلنے سے کوئی پانچ چھ دن پہلے کی ہے میں نے ڈلہوزی میں یہ رویا دیکھا اور دیکھنے
1 327 کے بعد میں بھول گیا اتفاقاً ایک دن میں اور دوسرے دوست سیر کر رہے تھے اور ڈاکٹر عبد الاحد صاحب جو کالج کے سائنس کے شعبہ کے انچارج بھی ہیں ان دنوں ڈلہوزی آئے ہوئے تھے.میری ان پر نظر پڑی اور معا مجھے وہ خواب یاد آگئی اور میں نے ان سے کہا کہ میں نے ایسی ایسی ، خواب دیکھی ہے اور نتیجہ کے متعلق پوچھا کہ کب نکلنا ہے.انہوں نے بتایا کہ کل نکلے گا پھر انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا کہ غالبا آرٹ کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا.سائنس کے نتیجہ کے متعلق انہوں نے کہا کہ ستر اسی فیصد کے قریب نکلے گا لیکن جب نتیجہ نکلا تو معلوم ہوا کہ سائنس کا نتیجہ صرف 41 فیصدی تھا اور گو آرٹ کا نتیجہ بھی ایسا اچھا نہیں نکلا مگر بہر حال سائنس کے نتیجہ سے اچھا تھا.نتیجہ نکلنے کے بعد نہ صرف یہ خبر جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی پوری ہوئی بلکہ اس کا یہ پہلو بھی ایک عجیب حکمت رکھتا تھا جو ماہرین تعبیر کے نزدیک خود خواب کی نسبت کم اہم نہیں ہوتا اور وہ یہ کہ پہلے مجھے خواب بھول گئی پھر ڈاکٹر عبد الاحد صاحب کو دیکھ کر جو سائنس کے انچارج تھے یاد آئی اور انہی سے میں نے یہ خواب بیان کی.یہ بھی خوابوں کا ایک پہلو ہوتا ہے کہ بعض دفعہ جس شخص کو دیکھ کر خواب یاد آئے وہ اس سے کسی رنگ میں تعلق رکھتی ہے چنانچہ نتیجہ میں یہی ہوا کہ سائنس جس کے متعلق خیال تھا کہ اس کا بہت اعلیٰ نتیجہ نکلے گا اس کا نتیجہ ہی خراب نکلا اور امید ہے سے بہت کم نکلا.خیال کیا جاتا ہے کہ اس سال ہمارے کالج کا لڑکا سائنس میں فرٹ یا سیکنڈ آئے گا اور اسی طرح ایک دوسرا لڑکا بارھویں یا تیرھویں نمبر تک آجائے گا لیکن جس کی نسبت یہ خیال تھا کہ فسٹ آئے گاوہ کہیں پیچھے رہا اور جس کی نسبت یہ خیال تھا کہ بارھویں تیرھویں نمبر پر آئے گا وہ تو بہت ہی نیچے چلا گیا.الفضل 23.اگست 1946 ء صفحہ 1 غالبا کیم یا 2 اگست 1946 ء 395 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں موٹر پر سوار ہوں اور میرے ساتھ دو اور آدمی بھی ہیں موٹر ایک سڑک پر جس کے ساتھ ساتھ ایک ٹیلہ چلا جاتا ہے چل رہی ہے.وہ ٹیلہ چھوٹی سی پہاڑی کی طرز کا معلوم ہوتا ہے چلتے چلتے سامنے ایک شخص نظر آتا ہے جس کے ہاتھ میں بندوق ہے.اس نے ہاتھ سے اشارہ کرنا شروع کیا کہ موٹر ٹھہرا لو لیکن ڈرائیو نے اس کے اشارہ کی پرواہ نہ کی اور وہ آگے چلتا چلا گیا.وہ بندوق والا شخص جو نظر آرہا ہے اس نے اور زیادہ
328 گھبراہٹ سے اشارے کرنے شروع کئے اور گو وہ کرتا تو اشارے ہی ہے لیکن آخر میں اس کے اشاروں سے یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں موٹر پرے رکھنی چاہئے کیونکہ سامنے ایک شیر ہے.ایسانہ ہو کہ وہ ہم پر حملہ کر دے تب میں نے پہاڑی سے دامن کی طرف جو نظر کی تو مجھے مندرجہ ذیل شکل کا نظارہ نظر آیا.ایک دوسرا شخص جس کے ہاتھ میں بھی بندوق ہے اشارہ کرنے والا شخص جس کے ہاتھ میں بندوق ہے الف موٹر الف طرف سے باء کی طرف جارہی ہے با پہاڑ میں تین محراب سے ہیں جن میں گڑھا سا ہے اور وہ مسجد کے محراب کی شکل کے ہیں.ہر محراب میں کھڑا ہوا شخص اپنے پاس کے محراب کے اندر نہیں دیکھ سکتا.جس طرف موٹر آکر کھڑی ہوئی ہے وہاں بھی ایک شخص ہے اور اس کے پاس بندوق ہے اس کے ساتھ کے محراب میں جس کے قریب ہماری موٹر جا کر کھڑی ہوئی ہے شیر کھڑا ہے اور اس سے پر لے محراب میں وہ شخص تھا جو ہمیں سب سے پہلے نظر آیا اور جو پہلی محراب والے شخص کی طرح بندوق سے مسلح ہے.اس وقت یوں معلوم ہوا جیسے دائیں اور بائیں کے دونوں شخص موقع ملنے پر آگے بڑھ کر شیر کی طرف گولی چلا دیتے ہیں اور پھر اپنے اپنے محراب میں گھس جاتے ہیں مگر اس وقت تک شیر کو کوئی گولی لگی نہیں.جب موٹر کھڑی ہو گئی اور موٹر میں سے ہم اتر آئے اور حفاظت کے خیال سے موٹر کے پیچھے کھڑے ہو گئے تو جو شخص مجھے پہلے نظر آیا تھا اس نے ہمارے پاس بندوق دیکھ کر مجھے اشارہ کرنا شروع کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ شیر پر ہم لوگ بھی فائر کریں کیونکہ ہم شیر کے سامنے ہیں اور ہمارے لئے زیادہ موقع ہے کہ ہم شیر پر زیادہ کامیاب حملہ کر سکیں.اس پر میں نے بندوق اپنے ہاتھ میں لے لی اور دیکھا کہ میرے ساتھ اس وقت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور میاں خان میر افغان ہیں.خان میر صاحب کے گلے میں کارتوسوں کی پیٹی ہے.ان کو
329 میں نے اشارہ کیا کہ وہ کارتوس مجھے نکال کر دیں.انہوں نے کارتوس نکالنے شروع کئے لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ کارتوس پیٹی میں پھنسے ہوئے ہیں جلدی سے نکلتے نہیں میں نے پیٹی پر جھپٹا مار کر اپنے ہاتھ سے دو کارتوس نکالے اور بندوق میں ڈال دیئے اس وقت میں نے کارتوس دیکھے تو میں نے یا میاں خان میر صاحب نے کہا کہ "کار توس تو صرف نمبر 4 کے ہیں جن سے پرندے تو مرسکتے ہیں لیکن شیر کا مرنا نا ممکن ہے".اس پر مجھے بہت افسوس ہوا کہ ہم نے بڑے کارتوس کیوں اپنے پاس نہیں رکھے.میرے ساتھی تو یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کارتوسوں سے حملہ کرنا گویا شیر کو اپنے پر حملہ کرنے کی دعوت دینا ہے لیکن اس وقت میں نے پرواہ نہیں کی بلکہ بندوق اٹھا کر فائر کر دیا.میرا فائر بھی یا تو خالی گیا یا شیر کو لگا تو اس نے پرواہ نہیں کی.ہاں یہ بات بیان کرنی بھول گئی کہ میں نے جب شیر کی طرف دیکھا تو میں بھی اس کو سمجھتا تو شیر ہی ہوں مگر اس کی شکل بالکل ریچھ کی طرح ہے اور کھڑا بھی آدمیوں کی طرح ہے جو چو پاؤں کی طرح چار پاؤں پر نہیں کھڑا.دوسری دفعہ میں نے شست کر کے اس کے پیٹ کی طرف بندوق چلائی.نہ معلوم اس کو چھرے لگے یا نہ لگے مگر بہر حال دوسرے فائر پر وہ سیدھا آگے کی طرف کو دا اور میرے دونوں ساتھی اس کے پیچھے پیچھے دوڑے.سامنے ایک لمبی عمارت بنی ہوئی ہے جیسے فوجی بیرک ہوتی ہے یا ملٹری سٹور ہوتا ہے اس میں دیواروں کے اوپر کے حصہ میں اکثر شیشہ لگا ہوا ہے.میں نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سے کہا کہ وہ آگے بڑھ کر دیکھیں کہ وہ شیر کہاں گیا ہے انہوں نے اس مکان کے پہلو میں سے ہو کر یا مکان کے اندر گھس کر شیشوں میں سے دیکھا اور پھر مڑ کر مجھے اشارہ کیا کہ وہ سامنے ہے.میں نے بھی شیشوں میں سے جھانکا تو مجھے وہ شیر دوسری جہت سے جس طرف کہ وہ شخص تھا جس نے ہمیں اشارہ کر کے کھڑا کیا تھا دوڑتا ہوا نظر آیا اس وقت شیر کی شکل ریچھ کی طرز کی معلوم ہوتی ہے مگر وہ چاروں پیروں پر دوڑتا ہوا نظر آتا ہے اس پر میں نے بندوق میں کارتوس بھرے اور اس بیرک کے اندر گھس گیا.اس کا ایک دروازہ اس طرف بھی کھلتا تھا جس طرف سے ہو کر اس شیر نے عمارت کے پاس سے گزرنا تھا.میں اس دروازے کے سامنے بندوق کا نشانہ باندھ کر کھڑا ہو گیا جو نہی وہ شیر گذرے گا میں اس پر بندوق کا فائر کر دوں گا جب وہ شیر دروازہ کے سامنے آیا تو اس وقت پھر وہ کھڑا ہوا ہی چل رہا تھا
330 جیسے ریچھ چلتا ہے اس پر میں نے اس پر فائر کیا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فائرا سے لگا ہے لیکن کارگر نہیں ہوا.اس پر وہ میری طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا.اور میں نے دوسرا فائر عین اس کی ناف پر نشانہ کر کے کیا.اس وقت مجھے نظر آیا کہ تمام کے تمام چھرے اس کی ناف کے گرد پیٹ میں گھس گئے ہیں مگر اسے کوئی نمایاں نقصان نہیں پہنچا اور اس نے اپنا ہاتھ پیٹ کی طرف کر کے اس طرح مجھے اشارہ کیا جس کے معنے یہ تھے کہ ابھی میرے لئے مرنا تو مقدر نہیں پھر آپ مجھ پر کیوں حملہ کر رہے ہیں.اس کے بعد میں اس مکان سے نکل کر صحن کی طرف آگیا اور وہ مکان کے اوپر سے چکر کاٹ کر ہمارے پاس آگیا اور پاس آکر اس نے مجھ سے سوال کیا کہ مجھے کچھ دو.مجھے ضرورت ہے مگر یہ بھی اشاروں میں ہی سوال کیا.بات نہیں کی مگر اشارے اتنے واضح ہیں کہ ہم پوری طرح اس کا مفہوم سمجھتے ہیں.میں نے اس وقت اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر دس روپیہ کا نوٹ اس کے ہاتھ میں دیا مگر چونکہ نوٹ میرے ہاتھ میں پوشیدہ ہے.مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نوٹ کو وہ پانچ روپیہ کا نوٹ سمجھا ہے اور اس نے اشارہ کیا کہ مجھے تو اس سے زیادہ رقم کی ضرورت ہے.یہ تھوڑی ہے میں نے سمجھتے ہوئے کہ اس نے پانچ کا نوٹ سمجھا ہے اسے جواب میں کہا کہ میں نے پانچ روپیہ کا نوٹ نہیں دیا دس روپیہ کا نوٹ دیا ہے اتنے میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے بھی اس کو کچھ روپے دیئے ہیں جو خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ اڑھائی روپے ہیں پھر میرے دل میں بھی یہ خیال گزرا کہ میں کچھ اور اس کو دے دوں اور میں نے جیب میں سے کچھ رقم نکالی جس کے متعلق میرا خیال ہے کہ وہ ساڑھے سات روپے ہیں.میں نے یہ رقم اسے دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے تمہیں اڑھائی روپے دیئے ہیں اور یہ ساڑھے سات روپے ہیں.دس روپے میں نے پہلے دیتے ہیں اس طرح ہمیں روپے ہو گئے ہیں.اس پر شیر یا ر کچھ وہاں سے چلا گیا اور میری آنکھ کھل گئی.اس خواب کی تعبیر میرے ذہن میں یہ آئی کہ تین الگ الگ علاقوں میں تین حکومتیں اسی طرح کھڑی ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے اپنے حالات پوشیدہ رکھ رہی ہیں.ان میں سے دواس بات پر متفق ہیں کہ وہ تیسری حکومت پر حملہ کریں مگر ان کا حملہ تیسری حکومت کو کوئی ضرر نہیں پہنچاتا.مزید تعبیر میں نے یہ کی کہ وہ آدمی جس نے مجھے اشارہ کیا تھا کہ کھڑے ہو جاؤ اور گولی چلاؤ وہ انگریزی حکومت ہے اور دوسرا آدمی جو شیر پر حملہ کرتا ہے لیکن اس نے ہمیں اشارہ
331 نہیں کیا وہ امریکہ کی حکومت ہے اور وہ درمیان میں کھڑا ہوا شیر جس کی شکل ریچھ کی سی ہے وہ روس ہے یعنی ہم سمجھتے تو اس کو شیر ہیں گویا اس نے اپنی جنس بدلی ہوئی ہے مگر ہے وہ وہی پرانا روس.وہی امنگیں اور وہی آرزوئیں اور وہی ارادے اس کے ہیں جو زار روس کے وقت میں تھے صرف اتنی بات ہے کہ اس نے اپنا نام بدل لیا ہے اور شیر کہلانے لگ گیا ہے.جس شخص نے مجھے اشارے کئے ہیں کہ تم بھی حملہ کرو اس کے معنے یہ ہیں کہ انگریزی حکومت اس بات کی محتاج ہے کہ دوسروں کی تائید کے ساتھ وہ روس کا مقابلہ کر سکے.اور جو میں نے چار نمبر کے کارتوس سے اس پر فائر کیا ہے میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ جتنی دعاؤں اور جتنی گریہ زاری کی اس فتنہ کے دبانے کے لئے ضرورت ہے وہ ہم نہیں کر رہے بلکہ جس کام کے لئے گولی کی ضرورت ہے ہم نمبر 4 کا چھرہ اس کے لئے استعمال کر رہے ہیں مگر یہ جو میں نے دیکھا کہ میرے فائز پر وہ بھاگ پڑا ہے میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ ہماری دعاؤں سے اس کے اندر ایک ایسی حرکت ضرور پیدا ہو جائے گی کہ وہ نمایاں طور پر دنیا کے سامنے آجائے گا اور دنیا کا نشانہ بننے کے لئے تیار ہو جائے گا اور یہ جو میں نے دیکھا کہ وہ مکان کے اوپر سے چکر لگا کر اسی طرف کو نکل رہا ہے جدھر اشارہ کرنے والا شخص تھا اس کی میں نے یہ تعبیر کی کہ وہ انگریزی علاقوں کی طرف رخ کرے گا اور پھر جو میں نے حملہ کیا اور باوجود اس کے کہ اس کے پیٹ کے اندر چھرے چلے گئے اور پھر بھی اس پر کوئی اثر نہ ہوا اور اس نے کہا ابھی میرے لئے موت مقدر نہیں.میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ کمیونزم کو ڈھیل دی جائے گی اور وہ دنیا میں کچھ نفوذ پیدا کرے گا اور یہ جو میں نے دیکھا کہ اس کو کچھ روپے دیئے ہیں میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ بعض اسلامی ممالک سے وہ فائدہ اٹھائے گا.الفضل 23 اگست 1946 ء صفحه 1 تا 3 396 اگست 1946ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں چند دوستوں کے ساتھ ایک جگہ پر ہوں جو قادیان کے مغرب کی طرف معلوم ہوتی ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری وہاں کچھ زمینیں ہیں اور کچھ سیرگاہ ہے.ہم وہاں سیر کے لئے گئے ہیں.میں نے دیکھا کہ ایک کھلا جو ہر ہے جو پانی سے بھرا ہوا ہے.اس وقت میرے دل میں خیال پیدا ہوا ہے کہ ہم نہائیں اور میں اس جوہڑ میں کو دگیا.میرے ساتھ
332 دو اور ساتھی بھی تھے جن میں سے ایک مجھے خواب میں خیال پڑتا ہے کہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم ہیں میں اس وقت تیرتے تیرتے ذرا آگے نکل گیا اور سانس لینے کے لئے میں نے کھڑا ہونا چاہا تو معلوم ہوا کہ پانی بہت ہی گہرا ہے.اس وقت مجھے خیال آیا کہ اگر میں تھک گیا تو آرام کرنے کی کوئی صورت نہ ہوگی اور میں نے اپنے ساتھیوں کو آواز دی کہ یہاں پانی گہرا ہے اس ہمیں اپنے لئے کوئی رستہ تلاش کرنا چاہئے.اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جوہڑ کا پانی پھیل کر ایک سمندر کی طرح ہو گیا ہے اسے دیکھ کر میرے دل میں گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ اب ہمیں کنارے کا کیونکر پتہ لگے گا وہ کس طرف ہے جب میں نے اپنے ساتھیوں کو آواز دی کہ آگے سمندر گہرا ہے ہمیں کسی طرح کنارے کا پتہ لگانا چاہئے تو ان دونوں ساتھیوں نے مجھے تسلی دی اور فوراً مثلث کی شکل میں کھڑے ہو گئے جس مثلث کا ایک سرا میں ہوں اور دوسرے وہ دونوں ساتھی ہیں اور انہوں نے مجھے اشارہ کیا کہ میں اس مثلث کی صورت میں واپس تیرنا شروع کر دوں.اور اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ ہم ویسی ہی تدبیر اختیار کر رہے ہیں جیسا کہ نپولین نے بحرہ احمر میں اختیار کی تھی.تھوڑی دیر میں ہمارے ایک ساتھی نے آواز دی کہ پایاب پانی آگیا ہے اور اس کی آواز پر ہم دونوں ساتھی اس کی طرف چلے گئے اور تھوڑی دیر میں ہی کنارہ آگیا جہاں با ہر نکل کر ہم بیٹھ گئے اس وقت مجھے یاد آیا کہ ہمارے کچھ ساتھی کنارے پر بھی تھے.ان میں سے ایک عزیز کے متعلق جس کا نام تو مجھے یاد ہے مگر منذر خواب میں نام بیان کرنا مناسب نہیں ہوتا میں نے سوال کیا کہ وہ کہاں ہے؟ کسی نے جواب دیا کہ انہیں پاخانہ کی حاجت محسوس ہوئی تھی اس لئے وہ ایک طرف کو گئے تھے.میں نے کہا بہت دیر ہو گئی ہے.وہ آئے نہیں اور میں اپنے ساتھیوں کو لے کر ادھر چلا جیسے قادیان کے مغرب میں جنوب کی طرف سے شمال کی طرف جائیں تو آگے ہندو محلہ آتا ہے اسی طرح وہاں میں نے ہندوؤں کی کچھ دکانیں دیکھیں مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی اور شہر ہے جس میں خالص ہند و بستے ہیں میں نے وہاں بہت ساری ہندوؤں کی دکانیں دیکھیں جو اپنی دکانوں پر مختلف قسم کے پکوان پکا رہے ہیں.ان میں سے ایک شخص کو میں نے پہچانا کہ وہ قادیان میں رہ چکا ہے اور گویا ہندو سے مسلمان ہو چکا ہے میں اس سے پتہ پوچھنے کے لئے آگے بڑھا تو اس نے مجھے اشارہ کیا کہ میں ہوں وہی مگر آپ میرا راز نہ بتائیں.میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں معلوم ہے فلاں شخص کہاں ہے اس نے شہر کی
333 طرف اشارہ کیا کہ ادھر.میں نے انہیں جاتے ہوئے دیکھا ہے اس پر میں اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک گلی میں سے ہوتے ہوئے شہر کے اندر گھس گیا.وہاں میں نے ایک وسیع بازار دیکھا جو بڑے شہروں کے بازاروں سے ملتا ہے اس بازار کو دیکھ کر پھر مجھے یہی خیال آتا ہے کہ یہاں سب ہندو ہی ہندو ہیں کوئی مسلمان نہیں.اس وقت میں نے مختلف لوگوں سے سوال کرنا شروع کیا کہ کیا انہوں نے ایسے ایسے لباس والے شخص کو دیکھا ہے اکثر لوگوں نے انکار کیا مگر ایک شخص جو کچھ فاصلہ سے آیا ہے اس نے ایک بڑی بھاری عمارت کی طرف اشارہ کر کے جو چھ سات منزل کی ہے اور بڑی دور تک چلی گئی ہے جیسے بمبئی وغیرہ میں یا یورپین شہروں میں فلیٹس کی عمارت ہوتی ہے کہا میرا خیال ہے کہ وہ شخص اس میں ہے.میں نے اس سے پوچھا کہ اسے کس طرح معلوم ہوا ہے تو اس نے کہا میں نے دیکھا تو نہیں لیکن وہ یہ عمارت ہے جس میں سے متفرق اوقات میں لاشیں نکلی ہیں.اب آپ نے جو کہا کہ وہ شخص واپس نہیں لوٹا تو میں قیاس کرتا ہوں کہ وہ اسی عمارت میں گیا ہے اس بات کو سن کر میرے دل میں نہایت ہی گھبراہٹ پیدا ہوئی اور میں نے اپنے ساتھیوں کو اس عمارت کے گرد گھیرا ڈال لینے کا حکم دیا.اس وقت میرے ساتھی تعداد میں زیادہ معلوم ہوتے ہیں اتنے میں پولیس بھی آگئی اور انہوں نے مجھ سے پوچھنا شروع کیا کہ کیا بات ہے.کچھ ہمارے گھر کی مستورات بھی اس وقت پاس کھڑی ہیں.میں نے لوگوں کا ہجوم دیکھ کر انہیں اشارہ کیا کہ وہ پرے چلی جائیں.یہ انتظام کر کے میں عمارت میں داخل ہونے لگا ہوں اور دل میں یہ دعا کر رہا ہوں کہ اگر وہ شخص نہیں گیا ہے اور دشمن کے ہاتھ میں پھنس گیا ہے تو خدا کرے وہ زخمی ہو.مرا نہ ہو اس پر میری آنکھ کھل گئی اور بے اختیار میری زبان پر یہ فقرہ جاری ہوا کہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى اَذْهَبَ عَنِى الْحُزْنَ وَايْقَظَنِى مِنَ النَّوْمِ مگر اس وقت کامل بیداری ہو چکی تھی میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ فقرہ الہامی تھایا بیداری کی دعا تھی.ہاں بے سوچے سمجھے یہ فقرہ جاری ہو ا تھا.الفضل 23 اگست 1946ء4-3 اگست 1946ء 397 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ کھڑا ہوں اور میرے ساتھ میری ایک بیوی
334 بھی ہیں اور غالبا بشری بیگم ہیں.اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سامنے ایک پہاڑ ہے اس پہاڑ پر ہمارا کوئی لڑکا رہتا ہے.اس نے کچھ اخراجات کا مطالبہ کیا ہے اور ہم اسے خرچ دینے جار ہے ہیں یا یہ کہ اس سے حساب کرنے کے لئے جا رہے ہیں.جب ہم پہاڑ کے دامن کے پاس پہنچے تو اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے ہم دونوں کے پر نکلے ہوئے ہیں.بشری بیگم میدان کے ایک طرف ہیں اور میں دوسری طرف ہوں.پہاڑ کے دامن میں کچھ جھاڑیاں ہیں اور ہم اس سے کوئی پچاس ساٹھ گز پرے ہٹ کر کھڑے ہیں.ایک ہی وقت میں وہ بھی اپنی جگہ سے اڑتی ہیں اور میں بھی اپنی جگہ سے اڑتا ہوں ہم دونوں کے ہاتھ میں ایک ایک جوتی ہے جب ہم اڑ کر زمین کے پاس آتے ہیں تو وہ جوتی زمین پر زور سے مارتے ہیں اور اس میں کوئی اشارہ مخفی ہے جو خواب میں تو میں سمجھتا ہوں مگر بیداری کے بعد مجھے یاد نہیں رہا اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس جوتی کی آواز کے مقابل پر ہمیں کوئی جواب ملے گا جس سے ہمارے آنے کی غرض پوری ہو جائے گی.متواتر ہم اسی طرح کرتے چلے جاتے ہیں یعنی جوتی مارتے ہیں پھر دوبارہ اڑ کر جاتے ہیں پھر واپس آتے ہیں پھر اڑ کر جاتے ہیں.اتنے میں میں نے دیکھا کہ وہ تمام میدان پانی سے بھر گیا اور میری بیوی نے مجھے کہا کہ اب ہمیں واپس چلنا چاہئے.ہم دونوں اس پانی میں تیرتے ہوئے واپس ہوئے.میں آگے آگے ہوں اور پیچھے میری بیوی ہیں.اس وقت تیرتے ہوئے پھر یہ معلوم ہوا کہ جیسے سمندر کا پانی ہے نیلا اور گہرا.تیرتے ہوئے ایک جگہ پر میں نے کچھ ستی کی اور جس سیدھ میں تیر رہا تھا اس کے نیچے کی طرف جانا شروع ہوا.اس وقت میں نے معلوم کیا کہ وہاں بڑا گہرا پانی ہے معامیری بیوی نے پیچھے سے مجھے آواز دی کہ یہاں آگے نہایت ہی ٹھنڈا پانی آتا ہے آپ اس طرف سے بچیں اس وقت مجھے خیال آتا ہے کہ پہلے بھی مجھے رویا میں یہ بات بتائی گئی ہے.بیداری کے بعد میرا ذہن پہلی رؤیا کی طرف منتقل ہوا کہ اس میں بھی اس سے ملتا جلتا نظارہ ہے میں نے اپنی بیوی کی آواز سن کر پھر زور لگایا اور اس جہت میں آگیا جس طرف جانا چاہتا تھا.اس وقت میں نے دیکھا کہ یہ سمندریا جھیل جو کچھ بھی ہے ایک بہت بڑی مسجد کے دامن میں ٹکراتی ہے.وہ مسجد ایسی ہی شاندار بلکہ اس سے بھی زیادہ شاندار ہے جیسے دہلی کی جامع مسجد ہے.تب ہم دونوں تیر کر اس مسجد کے پاس آئے اور پھر مسجد کی عمارت پر چڑھ گئے.میں نے اس وقت دیکھا کہ میرے بھی اور میری بیوی کے بھی کپڑے بالکل سوکھے ہیں اور ذرا بھی پانی کا
335 ان پر اثر نہیں.اتنے میں پیچھے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور اس نے میرے ہاتھ میں ایک کاغذ دیا اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں کسی حکومت کے عہدہ پر مامور ہوں اور یہ کوئی حکومتی دستاویز ہے جو میرے ہاتھ میں دی گئی ہے.میں نے وہ کاغذ لے کر کھولا اور اس کو پڑھنا شروع کیا اور ساتھ ہی مسجد کے دو سرے کنارہ کی طرف چلتا بھی گیا اور ساتھ ہی ساتھ میرے ذہن میں اس بات پر بھی حیرت پیدا ہوئی کہ اتنا لمبا تیرنے کے بعد ہمارے کپڑے کس طرح خشک رہے ہیں.اس وقت مجھے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہم یا مسجد میں رہتے ہیں یا مسجد کے ساتھ کسی حجرہ میں رہتے ہیں.میں وہ کاغذ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر چل رہا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی.تعبیر : اس خواب میں جو جھیل والا حصہ ہے وہ پہلے خواب سے ملتا ہے مسجد سے مراد دین ہوتا ہے.اسی طرح مسجد سے مراد مذ ہبی جماعت بھی ہوتی ہے.میں نے جو پہلی خواب میں دیکھا تھا کہ نپولین کی سی کیفیت ہے وہ واقعہ تاریخوں میں یوں لکھا ہے کہ نپولین جب مصر میں آیا اس وقت وہ مسلمانوں کے اثر سے مسلمان ہو گیا.ان ایام میں اس کے دل میں خیال آیا کہ میں بحرہ احمر کی وہ جگہ بھی دیکھوں جہاں سے بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام گزرے تھے اور فرعون غرق ہوا تھا.جب وہ سمندر کے کنارے پر پہنچا تو اس وقت بھی اتفاق کر پیچھے گئی ہوئی تھی اس نے اپنے ساتھیوں سمیت ریت میں گھوڑے ڈال دیئے اور دور تک سیر کرتا ہوا نکل گیا اتنے میں یکدم لہر کے لوٹنے کا وقت آگیا اور ہر لوٹ آئی نپولین اور اس کے ساتھیوں نے جلدی سے کنارے تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن ریت کی وجہ سے کنارے کو نہ پاسکے.اور تمام علاقہ میں پانی ہی پانی ہو گیا اس وقت اندھیرا ہو رہا تھا اور خشکی کی طرف کا معلوم کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا.بالکل ممکن تھا کہ وہ لوگ بجائے خشکی کے سمندر کی طرف چلے جاتے اور ڈوب جاتے تب نپولین نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ وہ ایک مربع کی صورت میں صفیں بنالیں اور چاروں جہت کی صفیں اپنی اپنی جہت کو روانہ ہونی شروع ہو جائیں.جس کے سامنے پانی چھوٹا ہو تا چلا جائے وہ دوسروں کو آواز دیتی چلی جائے اور جن کی جہت میں پانی گہرا ہو تا چلا جائے وہ دوسروں کو اس طرف سے ہو شیار کرتی جائیں اور خود واپس لوٹ آئیں اس طرح سمندر کی گہرائیوں سے بچتے بچتے بڑی مشکل سے وہ لوگ کنارہ پر پہنچے.نپولین اس محنت سے اور اس واقعہ کے ہول سے اس قدر متاثر ہوا کہ تھک کر ریت پر لیٹ گیا اور وہاں لیٹے ہوئے اس نے کہا ”اگر آج میں یہاں
336 غرق ہو جاتا تو ساری عیسائی دنیا میں شور پڑ جاتا کہ یہ دوسرا فرعون تھا جو غرق ہوا اس تاریخی واقعہ کی طرف میرا اس وقت ذہن گیا.ان دونوں خوابوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بڑی مشکل ہمارے لئے پیش آنے والی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہمارے ساتھ رہے گا اور خدا تعالیٰ ہمارے کپڑوں تک کو ان بلاؤں کے اثرات سے محفوظ رکھے گا اور ہمارے غموں کو دور کرے گا اور یہ جو میں نے دیکھا کہ بہت بڑی مسجد کے ساتھ وہ پانی ٹکڑا تا ہے اور ہم اس مسجد میں رہتے ہیں اس کے معنے یہ ہیں کہ ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ بہت بڑی وسعت اور ترقی بخشے گا اور ہمارے مسجد میں رہنے کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رات دن جماعت اور احمدیت کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے گا.الفضل 23.اگست 1946ء صفحہ 5-4 غالبا 14.اگست 1946ء 398 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ ہم ڈلہوزی سے قادیان آئے ہیں اور وہاں بجائے اس حصہ مکان کے جہاں ہم رہتے ہیں میں نے اپنے آپ کو اس دالان میں پایا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رہا کرتے تھے اور جس میں اب حضرت اماں جان رہتی ہیں میں نے دیکھا کہ بیت الدعا کے سامنے جہاں آج کل تخت بچھے رہتے ہیں وہاں ایک بڑی چارپائی بچھی ہوئی ہے.اس پر بستر لگا ہوا ہے اور اس پر سارہ بیگم مرحومہ لیٹی ہوئی ہیں.اور میں ان کے پاس ہوں اس وقت خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ یہ کسی سے روٹھ کر چلی گئی تھیں اور پھر آگئی ہیں.میں نے ان سے مختلف باتیں کرنی شروع کیں.اس وقت ان کی باتوں سے معلوم ہوا کہ گویا وہ ڈلہوزی میں ہی واپس آگئی تھیں اور وہیں سے ہمارے ساتھ آئی ہیں میں متفرق باتیں ان سے واپسی کے متعلق پوچھتا رہا اور مختلف لوگوں کے متعلق سوال کرتا رہا کہ فلاں سے ملی ہو فلاں سے ملی ہو.اس وقت میرے دل میں بار بار جوش اٹھتا ہے کہ میں پوچھوں کہ تم امتہ النصیر اپنی بیٹی سے بھی ملی ہو مگر بار بار دل میں یہ خیال آنے کے باوجود میں اس کو دباتا تھا اس خیال سے کہ جب یہ مجھے امتہ النصیر سے ملنے کا واقعہ بتائیں گی تو اتنے عرصہ کے بعد جو ان کی لڑکی ان کو ملی ہو گی تو اس کی کیفیت نہایت ہی رقت والی ہوگی اور اگر یہ واقعہ مجھے بتائیں گی تو میرے دل کو اس سے تکلیف
337 پہنچے گی.اس خیال سے میں اس سوال کو دباتا چلا جاتا ہوں پھر میں نے ان سے پوچھا تم رہتی کہاں ہو ؟ تو انہوں نے بتایا وہ اسی مکان میں رہتی ہیں جس مکان میں ام طاہر مرحومہ رہتی تھیں.در حقیقت وفات کے وقت وہ اسی مکان میں رہا کرتی تھیں گو ہم عارضی طور پر دار الحمد میں گئے ہوئے تھے اور وہیں وہ فوت ہو ئیں.اس وقت مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ بشری بیگم جو آج کل اس مکان میں رہتی ہیں ان سے بھی ان کی بول چال نہیں.میں نے ان سے سوال کیا کہ بشریٰ بیگم سے تمہاری بول چال نہیں اس کے جواب میں انہوں نے کہا نہیں ہماری بول چال ہے کئی دفعہ ہم نے باتیں کی ہیں.اس وقت میرے دل میں یہ بھی خیال آیا کہ اس مکان کا جو نیا حصہ ہے اس کی چھت پر میں ان کے لئے مکان بنوا دوں مگر میرے دل میں اس کے معابعد یہ خیال گزرا کہ میں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ خلیل احمد کا مکان وہاں بناؤں.اگر اب میں نے ان کا مکان بنوایا تو امتہ الحی مرحومہ کو اس سے صدمہ ہو گا اس خیال کے آنے کے بعد میں نے یہ سوچا کہ ام طاہر مرحومہ کے مکان کے شمال کی طرف جو مکان میں نے خریدے ہوئے ہیں اور جہاں کچھ عمارت کے آثار بھی بنائے جاچکے ہیں.وہاں میں دوسری منزل پر ان کے لئے مکان بنوا دوں.غرض کبھی باتیں کرتے ہوئے کبھی مختلف باتیں دل میں سوچتے ہوئے ساری رات ہی معلوم ہوتا ہے گذر گئی اور باتیں کرتے ہوئے صبح کی اذان کی آواز مسجد سے آئی.بہت صاف اور عمدہ آواز اذان کی آرہی تھی کہ کسی شخص نے پائنتی کی طرف سے ہاتھ لمبا کر کے میرے ہاتھ کو پکڑ کے ہلایا اور کہا کہ اذان ہو گئی ہے نماز پڑھ لیں میں نے دیکھا کہ اس شخص نے اپنا منہ میری طرف کیا ہوا ہے تاکہ ہم دونوں کے تخلیہ میں خلل انداز نہ ہو مگر جس ہاتھ نے میرے ہاتھ کو پکڑا وہ مجھے ام طاہر کا ہاتھ معلوم ہوتا ہے پھر اس نے مجھے ایک عورت کا نام لے کر کہا کہ وہ گرم پانی کالوٹا آپ کے لئے لا رہی ہے.آپ وضو کر لیں.اس وقت سارہ بیگم اس چار پائی سے اٹھ کر اس کے بالمقابل ایک اور چار پائی پر جو اس سے چھوٹی ہے چلی گئیں وہ چار پائی اس جگہ پر بچھی ہوئی ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی چار پائی ہوا کرتی تھی جیسا کہ میں بتا چکا ہوں میری چار پائی اس وقت مغربی طرف بیت الدعا کے ساتھ بچھی ہوئی تھی اور یہ چار پائی جس پر سارہ بیگم گئیں مشرق کی طرف تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پلنگ بھی مشرق کی طرف ہوا کرتا تھا.میں وضو کرنے کے لئے اٹھا تو یکدم میرے دل میں خیال آیا کہ میں ان سے پوچھوں
338 تو سہی کہ وہ اتنی مدت رہیں کہاں؟ چنانچہ پھر میں اپنی چارپائی سے اٹھ کر ان کی چارپائی پر چلا گیا اور میں نے ان سے کہا کہ تم یہ بتاؤ کہ تم یہاں سے جانے کے بعد رہیں کہاں؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نوے دن تو میں ہسپتال میں بیمار پڑی رہی.پھر میں اپنی اماں کے پاس چلی گئی.تھا" اس وقت مجھے ان کی والدہ کے متعلق خیال آتا ہے کہ وہ تو فوت ہو چکی ہیں مگر ان کے اس جواب سے کہ میں اپنی والدہ کے پاس گئی تھی میں سمجھتا ہوں کہ شاید میری غلطی ہو گی وہ فوت نہیں ہوئی ہوں گی مگر میں اس کو ظاہر نہیں ہونے دیتا.اس ڈر سے کہ سارہ بیگم کو اس بات سے صدمہ ہو گا کہ مجھے ان کی والدہ کے متعلق یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا فوت ہو چکی ہیں.تب میں نے انہیں کہا کہ والدہ کے پاس کتنی دیر ٹھہریں.انہوں نے جو جواب دیا وہ آہستہ تھا اور میں نے اس میں سے صرف ڈیڑھ کا لفظ سناتب میں نے ان سے کہا ڈیڑھ کیا ؟ تو انہوں نے جواب دیا.ڈیڑھ گھنٹہ.میں نے آگے اسے کہا کہ اتنی تم بیمار رہیں.اور ہم لوگوں سے جدار ہیں تو اپنی اماں کے پاس صرف ڈیڑھ گھنٹہ رہیں.اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ”دل نہیں لگتا تھا " میں ان کی اس بات سے سمجھا کہ ان کا مطلب یہ ہے کہ مجھے آپ سے جدا ہوئے دیر ہو گئی تھی اور میرا دل چاہتا تھا کہ جلدی آپ کے پاس آؤں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اس خواب کی تعبیر ساری تو میری سمجھ میں نہیں آئی مگر بہر حال مرحومہ کا نام سارہ تھا یعنی خوش ہونے والی.یہ نام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پہلی بیوی کا بھی تھا پس میں سمجھتا ہوں کہ اس خواب کی تعبیر بہر حال اچھی ہے.اس خواب سے میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ شاید جو لوگ زخمی ہو کر فوت ہوتے ہیں یا کسی حادثے سے فوت ہوتے ہیں اگلے جہان میں بھی کچھ عرصہ تک ان کی روح کسی قدر تکلیف پاتی ہے جب تک کہ جسم سے اس کا پورے طور پر انقطاع نہیں ہو جاتا نوے دن ہسپتال میں رہنے کے معنی یہی معلوم ہوتے ہیں کہ تین مہینے تک اس صدمہ کی وجہ سے جو جسم اور روح کی جدائی کی وجہ سے ہوا تھا وہ کچھ تکلیف محسوس کرتی رہیں.بعض احادیث میں بھی ایسا آتا ہے کہ بعض لوگ مرنے کے بعد چالیس دن بعض تین مہینے اور بعض زیادہ ایک صدمہ کی حالت میں رہتے ہیں یہاں تک کہ روح کو جسم سے جدائی کی عادت پڑ جاتی ہے.یہ خواب اس لحاظ سے بھی غیر معمولی خوابوں میں سے ہے کہ ساری رات متواتر ایک لمبا
339 نظارہ دیکھا گیا ورنہ عام طور پر خواب میں چند منٹوں یا چند گھنٹوں کا نظارہ ہوتا ہے.الفضل 24.اگست 1946ء صفحہ 12 399 25 اگست 1946ء فرمایا : میں نے آج رات ایک ایسی خواب دیکھی ہے جو احمدیت اور مسلمانوں کے لئے نہایت ہی اہمیت رکھتی ہے اور آئندہ آنے والے بعض بہت خطرات کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ہماری جماعت اور دوسرے مسلمانوں کے لئے ایک انذار ہے.کاش آنکھیں رکھنے والے دیکھیں اور کان رکھنے والے سنیں.میں نے دیکھا کہ میں قادیان میں اپنے مکان کی دوسری منزل پر ہوں جہاں کہ ہم کم رہتے ہیں اور ام ناصر کا جو حصہ مکان ہے اس میں ہوں ایک سیڑھیاں ہمارے مکان کے شمال کی طرف اس حصہ کی طرف آتی ہیں جہاں ام ناصر رہتی ہیں.ان کے ساتھ ہی ایک کمرہ ہے جس کا ایک دروازہ سیڑھیوں میں کھلتا ہے اور ایک دروازہ صحن کی طرف کھلتا ہے جب میری پہلی شادی ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شروع میں ہم کو وہی کمرہ رہائش کے لئے دیا تھا.اس کے سامنے صحن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گرمیوں میں سویا کرتے تھے میں نے دیکھا کہ میں اس کمرہ میں ہوں اور ایسا معلوم ہو تا ہے کہ ایک دشمن گھر میں گھس کر اس صحن کی طرف آرہا ہے.میں نے صحن کی طرف کا دروازہ بند کر دیا اور سیڑھیوں سے نیچے اترا اور نچلے صحن میں سے ہوتا ہوا اس کمرہ کی طرف پلٹا جو گول کمرہ کہلاتا ہے اور جو مسجد مبارک کے ساتھ واقعہ ہے.مسجد مبارک کی سیڑھیاں اس کے ساتھ ساتھ چڑھتی ہیں.ابتدائی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مہمانوں سے اکثر وہیں ملاقات فرمایا کرتے تھے اور مہمانوں کے ساتھ کھانا وہیں کھایا کرتے تھے.اپنی خلافت کے شروع ایام میں میرا دفتر بھی وہیں تھا اور میں بھی وہیں ملاقاتیں کیا کرتا تھا.پہلے چند جلسوں میں جلسہ کی ملاقات بھی وہیں ہوا کرتی تھی.جب میں اس جگہ پر پہنچا تو اس کمرے کے ساتھ ایک کو ٹھڑی ہے جس میں سے ہو کر بہت سے دوست اس جگہ پر کھانا کھا رہے ہیں.اس پر مجھے اندر جانے میں کچھ حجاب محسوس ہوا اور میں اس انتظار میں کھڑا ہو گیا کہ یہ لوگ کھانے سے فارغ ہو جائیں تو میں جاؤں.میں دروازہ
340 کے پاس کھڑا ہی تھا کہ یوں معلوم ہوا وہ لوگ کھانا کھا چکے ہیں اور انہوں نے مجھے ملاقات کے لئے بلوایا ہے.جو شخص مجھے اطلاع دینے کے لئے نکلا چونکہ اسے معلوم نہیں تھا کہ میں دروازہ کے پاس کھڑا ہوں وہ دروازہ سے نکل کر سیدھا گھر کے اندرونہ کی طرف چلا گیا اس وقت مجھے یوں معلوم ہوا جیسے وہ شخص مولوی سید محمد احسن ہیں.میں نے تو منہ نہیں دیکھا لیکن پگڑی اور کوٹ وغیرہ ایسا ہی ہے جیسا کہ وہ پہنا کرتے تھے.میں نے انہیں تو کچھ نہیں کہا وہ تو اندرونی صحن کی طرف چلے گئے اور میں اندر کمرہ میں گھس گیا جب میں اندر گھسا تو میں نے دیکھا کہ وہاں آٹھ نو آدمی رہ گئے ہیں باقی کھانا کھا کر چلے گئے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ قوموں کے سردار یا بادشاہ ہیں.ان میں سے ایک شخص بالکل مفتی محمد صادق صاحب کی شکل کا ہے اور دو سرا عربی لباس میں ہے.اس نے سر پر چھوٹی قسم کی کو فیہ (یعنی عربی قسم کی پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دوسرے لوگ بھی مختلف علاقوں کے بادشاہ اور رئیس ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مفتی محمد صادق صاحب اور اس عرب بادشاہ کے درمیان کوئی اتحاد اور صلح کا معاہدہ ہو رہا ہے اور معاہدہ کرانے کے لئے مجھے درمیان میں ثالث کے طور پر مقرر کیا گیا ہے.میں نے ان دونوں سے باتیں کر کے ایک معاہدہ لکھوایا ہے جس کا مضمون اس قسم کا ہے کہ ہم آپس میں صلح اور اتحاد سے رہیں گے.یہ معاہدہ جب میں لکھوا چکا ہوں تو میں نے خود پڑھ کر اس مجلس کو سنایا ہے یا جس شخص نے یہ معاہدہ لکھا تھا اس سے سنوایا ہے اور دونوں فریق اس پر متفق معلوم ہوتے ہیں.قریب تھا کہ وہ لوگ اس معاہدہ پر دستخط کر دیں میں نے دیکھا کہ میری بائیں طرف سے ایک شخص اٹھ کر گول کمرہ کے اس دروازہ کی طرف گیا ہے جو مسجد مبارک کی سیڑھیوں میں کھلتا ہے.جب وہ اٹھا تو مجھے یوں معلوم ہو ا جیسے وہ حضرت خلیفہ اول ہیں.اٹھتے وقت انہوں نے ایک فقرہ بولا جس کا مطلب میں نے یہ سمجھا کہ اگر کوئی فریق اس معاہدہ کو توڑے گا تو ہم سب مل کر اس کی مخالفت کریں گے یہ فقرہ سنتے ہی مجھے خیال آیا کہ یہ شرط ضرور لکھنی چاہئے اور میں نے دونوں فریق کو بتایا کہ یہ خیال میرے دل میں پہلے نہیں آیا مگر حضرت مولوی صاحب نے اٹھتے وقت اس طرف اشارہ کیا ہے اور میرے نزدیک یہ ضروری شرط ہے ( خواب میں مجھے یہ خیال آیا کہ خلیفہ اول کا لفظ استعمال کریں مگر پھر مجھے صلح حدیبیہ کا واقعہ یاد آگیا اور میں نے کہا یہ لوگ تو ہماری خلافت کے قائل ہی نہیں یہ لفظ
341 بولنا ان کے ساتھ مناسب نہیں اور میں نے بجائے خلیفہ اول کے حضرت مولوی صاحب کے الفاظ استعمال کئے ) اس پر جس شخص کو میں مفتی محمد صادق سمجھتا ہوں اس نے کچھ انکار کا پہلو اختیار کیا اور اس شرط کو ماننے پر آمادگی ظاہر نہ کی تب جو دوسرا فریق ہے اور جو عرب بادشاہ معلوم ہوتا ہے اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا بات ہے اور میں نے اس کے سامنے یہی بات بیان کرنی شروع کی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ میں پہلے تو اس سے عربی بولتا تھا اس وقت میں نے اس سے اردو بولنی شروع کی اور اس کی شکل سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اردو سمجھ رہا ہے.میں نے اسے کہا آخر ہمارے ذریعہ سے معاہدہ کروانا اور دوسرے بادشاہوں کو جمع کرنا اس کی کوئی غرض ہونی چاہئے اور وہ غرض یہی ہے کہ ہم لوگ اس بات کی نگرانی کریں کہ اس اتحاد کے معاہدہ پر عمل کیا جاتا ہے اور یہ کہ اگر کوئی عمل نہ کرے تو ہم لوگ پھر اس کی تائید میں ہو جائیں جو معاہدہ کا پابند رہا ہے اور اس کے خلاف ہو جائیں جو معاہدہ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے.اس پر اس شخص نے میری تائید میں سر ہلانا شروع کیا مگر آخر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس خیال سے کہ فریق ثانی جو اس بات کو نہیں مانتا تو شاید اس میں کوئی بات ہو گی اس نے بھی تردد کا اظہار شروع کر دیا تب مجھے جوش آگیا اور میرے سامنے جو شخص بیٹھا ہے جس کو میں کوئی بادشاد اور رئیس سمجھتا ہوں اور اس کی طرز اور شکل سے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ یمن کا بادشاہ ہے میں اس سے مخاطب ہوا اور میں نے بڑے زور سے کہا دیکھو یہ وقت اسلام کے لئے اتحاد کا وقت ہے (جب یہ فقرہ میں نے کہا تو معا میرے دل میں یہ خیال گذرا کہ یہ لوگ کہیں گے کہ آپ کی جماعت بھی تو دوسرے مسلمانوں سے عقائد میں اختلاف رکھتی ہے اور نماز وغیرہ امور میں دو سروں سے الگ رہتی ہے.پس اس شبہ کے ازالہ کے لئے میں نے معاً اس کے بعد فقرات بڑھا دیئے کہ مذہبی اختلاف باہمی کتنا بھی ہو مگر اسلام کی ظاہری شوکت کی حفاظت کے لئے تو مسلمانوں کو جمع ہونا چاہئے کیونکہ اس کا بھی تو اثر اسلام کی آئندہ ترقی پر پڑتا ہے.پھر میں نے کہا دیکھو جو شخص ایسے نازک وقت میں بھی اتحاد کے لئے کوشش نہیں کرتا وہ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے گردن اونچی کس طرح کر سکے گا.جب میں نے یہ فقرہ کہا تو میرے دل میں بہت زیادہ جوش پیدا ہو گیا اور رقت کے ساتھ میرے گلے میں پھندا پڑ گیا اور میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے اپنے سامنے کے شخص
342 کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جب تم لوگوں میں سے کوئی شخص اپنے بیٹے کے پھٹے ہوئے کپڑے دیکھتا ہے تو اس کے دل میں سوزو گداز پیدا ہو جاتا ہے اور رقت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں مگر تمہیں یہ خیال نہیں آتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی طرف منسوب ہونے والوں کا تفرقہ دیکھتے ہوں گے تو ان کو کتنی تکلیف ہوتی ہو گی.جو شخص ایسے وقت میں بھی باہمی اتحاد کی طرف قدم نہیں اٹھا تا یقینا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گردن اٹھا کے کھڑا نہیں ہو سکے گا.میرے ان فقرات کو سن کر تمام حاضرین پر بھی ایک رقت طاری ہو گئی اور وہ شخص جسے میں سمجھتا ہوں یمن کا بادشاہ ہے اس کی آنکھوں میں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگ گئے اور وہ جوش سے کود کر آگے آیا اور میرا ہاتھ اس نے اپنے ہاتھ میں لیا اور نہایت گرمجوشی کے ساتھ اس کو بوسہ دیا اور میں نے دیکھا کہ دونوں فریق جن کے درمیان معاہدہ کرا رہا تھا وہ بھی اس بات پر متفق ہو گئے کہ اس شرط کو معاہدہ میں لکھ لیا جائے.اس وقت معاہدہ میرے ہاتھ میں آگیا ہے جو فل سکیپ سائز کے سفید کاغذوں پر خوش نما لکھا ہوا ہے وہ شخص جو معاہدہ لکھ رہا تھا میں نے اس کے ہاتھ میں یہ معاہدہ دیا اور کہا کہ اس شرط کو اس میں بڑھا دو اور ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ جلدی چلے جائیں.کل تک یہ معاہدہ ضرور اصلاح ہو کے لکھا جائے تاکہ ان لوگوں کے دستخط ہو جائیں پھر میں اٹھا اور جنوبی طرف کی دیوار کی طرف گیا جہاں خواب میں میں دیکھتا ہوں کہ فون لگا ہوا ہے.اس وقت ایک شخص سفید رنگ چینیوں کی سی شکل کا آگے بڑھا اور اس نے مجھے کہا کہ لورینگ" کا فون نمبر کیا ہے (لاہور میں ایک انگریزی کھانے کی دوکان ہے) میں نے اسے کہا کہ آپ کو لورینگ کے پتہ کی کیا ضرورت ہے.اس نے جواب میں کہا کہ میں نے بڑے بیٹے کے ہاتھ میں صفحے کا مضمون چھپنے کے لئے بھجوایا تھا پھر دوسرے بیٹے کے ہاتھ میں صفحے کا مضمون چھپنے کے لئے بھجوایا (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضمون اس واقعہ کے ساتھ کچھ تعلق رکھتا ہے) اس وقت تک اس لڑکے کو وہاں پہنچ جانا چاہئے تھا اور اس کو اطلاع دینی چاہئے تھی کہ میں وہاں پہنچ چکا ہوں مگر وہاں سے کوئی اطلاع نہیں آئی اس لئے میں فون کرنا چاہتا ہوں.اس وقت میرے دل میں خیال گذرا کہ لورینگ تو کھانے کی دکان ہے شاید اب وہاں رہائش کا بھی انتظام ہو گیا ہو گا جہاں اس کے لڑکے ٹھرے ہیں پھر میں نے جواب میں اس شخص سے کہا کہ مجھے فون کا نمبر تو معلوم نہیں لیکن آپ ایک چینج کو فون کیجئے اور
343 اسے کہئے کہ مجھے لورینگ سے ملا دو.ایکھینچ والوں کے پاس نمبروں کی کتاب ہوتی ہے وہ دیکھ کر بتلا دے گا اس پر انہوں نے بڑی حیرت سے کہا کہ اچھا اس طرح بھی ہو سکتا ہے پھر تو بڑی سہولت ہے میں ان کے ساتھ یہ بات کر کے گھر کی طرف لوٹا.جب میں اس کو ٹھڑی کے اندر داخل ہونے لگا جو اندرونی والان اور گول کمرہ کے درمیان واقعہ ہے اور جس کے دروازہ پر کھڑا ہوا میں شروع رویا میں انتظار کرتا رہا تھا اور جو گھر کی طرف کھلتا ہے تو میں نے دیکھا کہ وہاں ایک چارپائی پر میری ایک لڑکی بیٹھی ہے.اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ امتہ الرشید ہے پھر کبھی امتہ النصیر کی جھلک پڑ جاتی ہے چونکہ اندھیرا ہے میں اچھی طرح شکل نہیں دیکھ سکا اس کی گود میں ایک بچہ ہے.چارپائی کے سامنے ایک مرد اور ایک عورت کھڑے ہوئے میری لڑکی سے اس بچہ کے متعلق کچھ باتیں کر رہے ہیں.میں جب کمرہ میں داخل ہوا تو اس وقت میرے ذہن میں یہ گذرا کہ یہ مرد میر ناصر نواب صاحب ہیں (جب میر صاحب کا ذکر آئے تو میں ہمیشہ ان کو نانا جان مرحوم ہی کہا کرتا ہوں اور ان کی زندگی میں بھی ہم انہیں نانا جان ہی کہا کرتے تھے.ان کا نام نہیں لیتے تھے لیکن اس وقت میرے ذہن میں بجائے نانا جان کے میر ناصر نواب صاحب کے ہی لفظ گذرے ہیں) اور جو عورت کھڑی ہے اس کے متعلق ایک شبہ سا ہے کہ یہ ہماری نانی اماں ہیں.ان کے متعلق جو بھی الفاظ ذہن میں آئے ہیں وہ نانی اماں کے آئے ہیں.نام نہیں آیا (ان) کا نام سیدہ تھا میں نے ان کو باتیں کرتے ہوئے مذاقاً کہا "اچھا اس بچے کے متعلق باتیں ہو رہی ہیں یہ کہہ کر میں اندر کی طرف آیا اور میری آنکھ کھل گئی.اس خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے لئے ایک بہت ہی نازک وقت آنے والا ہے اور مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان معاملات میں آپس میں اتحاد کرلیں جن میں اختلاف کرنے پر ان کا مذہب اور عقیدہ انہیں مجبور نہیں کرتا.جاگنے پر مجھے خیال گذرا کہ شاید وہ شخص جسے میں نے کوفیہ میں دیکھا ہے اس سے مراد مسٹر جناح ہوں اور مفتی محمد صادق صاحب ضلع سرگودھا کے رہنے والے ہیں شاید اس سے مراد ملک خضر حیات ہوں کیونکہ وہ بھی ضلع سرگودھا کے رہنے والے ہیں اور میر ناصر نواب کے متعلق مجھے خیال آیا کہ ان کے نام کا جزو نواب ہے شاید اس سے مراد نواب صاحب بھوپال ہوں کیونکہ میر صاحب کی ہمشیرہ بھوپال میں
344 بیاہی ہوئی تھیں اور بھوپال کا شاہی خاندان ان کا معتقد تھا.یہ محض جاگنے کے بعد کے خیالات ہیں ممکن ہے یہ میری تعبیر درست نہ ہو اور اس سے زیادہ اہم معاملے کی طرف اس میں اشارہ کیا گیا ہو مگر بہر حال موجودہ زمانہ میں چونکہ ہندوستان کے لئے ایک نازک دور آرہا ہے اور مسلمانوں کی ہستی خطرہ میں پڑ رہی ہے میں نے اس خواب کی یہی تعبیر کی اور یہ جو دوسرے ملکوں کے مسلمان بادشاہ دکھائے گئے ہیں میں نے ان کی یہ تعبیر کی کہ شاید ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنی نجات کے لئے ایک بین الاقوامی اتحادی سکیم جاری کرنی پڑے گی وَاللهُ اَعْلَمُ بالصواب مگر بہر حال اس رویا نے ہمیں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اسلام کے لئے ایک نہایت ہی نازک دور آ رہا ہے اور مسلمانوں کو دنیوی اور سیاسی معاملات میں اپنے آپ کو متحد کر لینا چاہئے اور ہر شخص کو دوسرے تمام امور کی نسبت اتحاد کو مقدم کر لینا چاہئے کیونکہ اسی میں مسلمانوں کی نجات ہے یہ نہایت ہی مشکل بات ہے آسان بات نہیں.اس وقت مختلف مسلمان گروہوں کی طبائع میں اس قدر اختلاف پیدا ہو چکا ہے کہ وہ اختلافی مسائل پر زور دیتا زیادہ پسند کرتے ہیں یہ نسبت اتحاد کی کوشش کے.بحیثیت مجموعی انہیں مسلمانوں کی بہبودی کی اتنی فکر نہیں جتنی ہر پارٹی کو اپنی پارٹی کی فکر ہے.میں یقین کرتا ہوں کہ اگر اب بھی مسلمان اختلاف پر زور دینے کی بجائے اتحاد کے پہلوؤں پر جمع ہو جائیں تو اسلام کا مستقبل تاریک نہیں رہے گا ورنہ افق سماء پر مجھے سپین کا لفظ لکھا ہوا نظر آتا ہے.الفضل 28.اگست 1946ء صفحہ 1 تا 3 400 5.ستمبر 1946ء فرمایا : میں نے کل رات ایک رؤیا دیکھا ہے جس میں جماعت کو تبلیغ کی طرف متوجہ کیا گیا ہے.میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک کمرے میں ہوں اور خواب میں یہی سمجھتا ہوں کہ میں قادیان میں ہوں کمرے میں کچھ لوگ میرے سامنے ہیں اور کچھ لوگ دروازہ میں سے نظر آتے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں جماعت کے دوستوں کو جماعت وار تبلیغ کے متعلق ہدایات دے کر تبلیغ کے لئے رخصت کر رہا ہوں.ایک وفد میرے سامنے آیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ان کو ہندوؤں کی طرف بھیج رہا ہوں.مجھے یاد ہے اس وقت میں جوش کے ساتھ ان کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ جاؤ یہ علاقے ہندوؤں کے ہیں ان میں پھیل جاؤ اور ان کو کہو کہ جس
345 او تار کے آنے کی خبر تمہاری کتب میں ہے وہ اوتار آچکا ہے تم اسے مان لو.اگر نہیں مانو گے تو تم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے مورد بن جاؤ گے تم اب اللہ تعالٰی کو کیا جواب دو گے جبکہ وہ بھی جو اس او تار کا مثیل ہے آگیا ہے اور تمہیں مخاطب کر کے کہہ رہا ہے کہ تم اپنی زندگی برباد نہ کرو.پھر ان سے یہ بھی کہو کہ آنے والا او تار اور اس کا مثیل بھی اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خادم کہتے ہیں پس تم کو محمد رسول اللہ پر ایمان لا کر مسلمان ہونا پڑے گا پھر میں اس وند میں جانے والے دوستوں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ اب تم جاؤ اور اس تمام علاقے میں چھا جاؤ.خواب میں میں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ اٹھے کر چلے گئے ہیں اور اسی طرح میرے پاس مبلغوں کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے جن کو میں مختلف قوموں کی طرف بھیج رہا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس رویا میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر جماعت جلدی کامیاب ہونا چاہتی ہے تو اسے تبلیغ کی طرف زیادہ سے زیادہ متوجہ ہونا چاہیئے.الفضل یکم نومبر 1946ء صفحہ 4-3 401 25 ستمبر 1946ء فرمایا : دہلی جاتے ہوئے میں نے رویا میں دیکھا کہ بہت سے لوگ جمع ہیں.میں ان کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی پر تقریر کر رہا ہوں اور آیت قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام : 163) کو لے کر اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہوں اور لوگوں سے کہتا ہوں دیکھو قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے تمام پہلو بیان ہوئے ہیں.اس کے بعد خواب میں ہی میں کئی دفعہ بیدار ہوا اور سویا مگر جب میں بیدار ہوتا تو دیکھتا کہ میں قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ پڑھ کر تقریر کر رہا ہوں.اس طرح ساری رات سونے سے اٹھنے تک یہی ہوتا رہا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی پر تقریر کر رہا ہوں مگر میری تقریر قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ کے گرد ہی چکر کاٹتی رہتی ہے.اس سے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالٰی نے بیج کے طور پر اس آیت کے مطالب کو میرے قلب میں داخل کر دیا ہے اور جب ضرورت ہوگی وہ اس کے مطالب کو
346 میرے ذریعہ سے روشن فرمائے گا.الفضل 31 اکتوبر 1946 ء صفحہ 1 نیز دیکھیں.الفضل 31 جنوری 1962ء صفحہ 2 و 6.نومبر 1946ء صفحہ 4 اکتوبر 1946ء 402 فرمایا : دوسرا ر و یا جو میں نے دیکھا وہ بھی دلی میں ہی دیکھا اور اس وقت دیکھا جب ہمارا سفر نصف کے قریب گذر چکا تھا.رویا میں میں نے دیکھا کہ میں عرب میں ہوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی وہیں موجود ہیں.میں خواب میں یہ نہیں سمجھتا کہ مجھے وہ پہلا زمانہ دکھایا گیا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دنیا میں موجود تھے اور نہ اس امر کا خیال گزر رہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوبارہ دنیا میں تشریف لائے ہیں بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں موجود ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ہیں اور ہم بھی مکہ میں ہیں اور مدینہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت ہے.معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ مشکلات درپیش تھیں اس پر آپ حضرت ابو بکر سے مشورہ کرنے کے لئے مدینہ تشریف لے گئے.حضرت ابو بکر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو باتیں کیں ان میں ایک واقعہ بھی بیان کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس واقعہ سے ہی فوراً ایک نتیجہ اخذ کر لیا اور اس پر عمل کر کے مشکلات کو حل کر لیا.وہاں بہت سے لوگ ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرا مونہہ مغرب کی طرف ہے یعنی افریقہ کی طرف ہے کیونکہ افریقہ عرب سے مغرب کی طرف ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنوب کی طرف کھڑے ہیں اور آپ بالکل نوجوان دکھائی دیتے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی عمر چھپیں ستائیس سال کے قریب ہے آپ کے سر پر چھوٹی سی پگڑی ہے وہ پگڑی نہیں جو آج کل عرب لوگ باندھتے ہیں اور جسے کو فیہ کہتے ہیں بلکہ وہ پگڑی جو عرب کے لوگ پہلے زمانہ میں پہنا کرتے تھے.آپ کے پٹے کانوں کی لو تک ہیں.کچھ نیچے مگر کندھوں سے کافی اوپر تک ہیں.رنگ سفید ہے اور قد حدیثوں میں تو کچھ لمبابیان ہوا ہے مگر میں نے آپ کا قد اس سے کچھ چھوٹا دیکھا ہے ، آپ کچھ فاصلہ پر میری طرف منہ کر کے کھڑے ہیں.میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اشارہ کر کے لوگوں کو کہتا ہوں کہ دیکھو ایک واقعہ جو
347 حضرت ابو بکر کو تھیں چالیس سال سے معلوم تھا مگر باوجود تمیں چالیس سال سے معلوم ہونے کے وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے معلوم کر کے فور آفائدہ اٹھا لیا اور جھٹ اس سے نتیجہ اخذ کر کے اپنی مشکل حل کرلی.الفضل 31 اکتوبر 1946ء صفحہ 2.1.نیز دیکھیں.الفضل 6 نومبر 1946 ء صفحہ 4 اکتوبر 1946ء 403 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک جگہ ہے جہاں ام طاہر ایک چارپائی پر لیٹی ہوئی ہیں.چار پائی شمالاً جنوبا بچھی ہوئی ہے.ام طاہر کا سر جنوب کی طرف ہے اور پاؤں شمال کی طرف.ان کے سامنے ایک اور چار پائی پر میری لڑکی امتہ الحکیم ( آج کل اس کے رخصتانہ کی تیاریاں ہو رہی ہیں ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اس نے اپنی شادی کے سامان میں کچھ کمی محسوس کرتے ہوئے کسی چیز کی مجھ سے خواہش ظاہر کی ہے مگر میں نے اس کی خواہش کو پورا کرنے سے گریز کیا ہے.اس پر اس نے اپنی والدہ سے کہا کہ وہ مجھے اس بارے میں کہیں.انہوں نے مجھ سے کہا کہ اس کی یہ خواہش پوری کر دیں.میں نے کہا کہ جب آپ سفارش کرتی ہیں تو میں کر دوں گا.میں جہاں کھڑا تھا وہیں ٹھرا رہا.آگے نہیں بڑھا مگر وہیں کھڑے کھڑے میں نے ام طاہر کو مخاطب کرتے ہوئے غالب کا یہ شعر پڑھا.کاوے کا وے سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا اس پر میری آنکھ کھل گئی.بعد میں میں نے اپنی ان بیوی سے جو اس وقت میرے کمرے میں تھیں اس خواب کا ذکر کیا اور کہا کہ معلوم ہوتا ہے لڑکی کی خواہش ہے اس کا پتہ لگاؤ.اس شادی کا انتظام میں نے اپنی بڑی لڑکی ناصرہ بیگم کے سپرد کیا ہوا ہے چنانچہ وہلی سے آنے پر انہوں نے ام متین کی معرفت مجھے کہلا بھیجا کہ میں نے اپنی طرف سے آپ کی دی ہوئی رقم میں سب کام پورا کرنے کی کوشش کی لیکن باوجود کوشش کے وہ نہیں ہو سکا.ابھی کچھ اشیاء تیار کرنی ہیں اس لئے گو مجھے کہتے شرم آتی ہے مگر یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کچھ روپیہ اور دے دیں اس پر میں نے پہلے ام متین سے کہا.انہیں کہو کہ میں نے تو روپیہ دیتے وقت یہ ہدایت کی تھی اس روپیہ میں سے تمام اخراجات کو
348 پورا کیا جائے اب میں اور روپیہ نہیں دے سکتا مگر بات کرتے کرتے مجھے اپنا ر و یا یاد آگیا اور میں نے کہا کہ بہت اچھا.میں اور روپیہ دے دوں گا اس طرح یہ رویا چند دن میں ہی پورا ہو گیا پیغام لانے والی بھی ام متین تھیں جن کا نام مرحومہ کی طرح مریم ہے اور شرعی طور پر وہ بھی امتہ الحکیم کی ماں ہیں.الفضل 31.اکتوبر 1946 ء صفحہ 2 اکتوبر 1946ء 404 فرمایا : قادیان آکر میں نے یہ رویا دیکھا کہ سارہ بیگم مرحومہ میرے سامنے آئی ہیں.میں ان کی شکل خواب میں بالکل ویسی ہی دیکھتا ہوں جیسی کہ جاگنے میں نظر آتی تھی گویا اس وقت مجھے معلوم ہی نہیں ہو تا کہ یہ خواب دیکھ رہا ہوں شکل تو کلی طور پر وہی ہے مگر ان کے چہرے پر کچھ اداسی سی معلوم ہوتی ہے ویسے چہرہ روشن ہے اور لباس بھی بہت اچھا ہے میں نے کہا سارہ ! تمہارے چہرے پر اداسی کیوں ہے؟ وہ کہتی ہے.میرے تین بہن بھائی بیمار ہیں.اس پر میں نے ان سے پوچھا کہ انہیں کیا تکلیف ہے.وہ کہتی ہیں بڑے بھائی ہیں.اس پر میں نے ان سے پوچھا کہ انہیں کیا تکلیف ہے.وہ کہتی ہیں بڑے بھائی بہن اور چھوٹے بھائی کے پیٹ میں کیڑے ہیں.یہ سن کر مجھے تعجب ہوا کہ ان کا چھوٹا بھائی تو کوئی نہیں پھر انہوں نے چھوٹے بھائی کا کس طرح ذکر کر دیا چنانچہ میں نے کہا.چھوٹا بھائی کونسا؟ انہوں نے کہا.مجنہ.میں خیال کرتا ہوں کہ مجنہ تو کوئی نام نہیں ہو تا شاید مجتہ ہو.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.میں نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سے اس رویا کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ممکن ہے پیٹ میں کیڑے ہونے سے مراد ٹائیفائیڈ مراد ہو چونکہ سارہ مرحومہ کا چھوٹا بھائی کوئی نہیں.اس لئے میں نے اس سے یہ مراد لیا کہ ممکن ہے بھائیوں اور بہن سے مراد ان کی اپنی اولاد ہو کیونکہ سارہ مرحومہ نے میری بیعت کی ہوئی تھی اور اس طرح ان کی اولاد روحانی لحاظ سے ان کے بھائی بہن بھی کہلا سکتے ہیں ڈاکٹر صاحب نے مشورہ دیا کہ بچوں کو ٹائیفائیڈ کا ٹیکہ کر دیا جائے.الفضل 31.اکتوبر 21946 فرمایا : اس رویا میں در حقیقت فسادات بہار کی طرف اشارہ تھا.سارہ بیگم بہار کی رہنے والی تھیں ان فسادات کے وقت ان کا بڑا بھائی اور ان کا سب سے چھوٹا بھائی اور بہن بہار میں تھے.اور انہی کو
349 تکالیف کا سامنا کرنا پڑا.خواب میں کوئی دیکھے کہ اس کے پیٹ میں کیڑے ہیں تو اس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ اس کا مالی نقصان ہو گا.جیسا کہ خواب سے ظاہر تھا سارہ بیگم کے بھائیوں اور بہن کو جانی نقصان سے اللہ تعالٰی نے بچالیا صرف مالی نقصان ہوا اور پریشانی ہوئی.الفضل 6.دسمبر 1946 ء صفحہ 2-1 405 اکتوبر 1946ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک چار دیواری ہی ہے جس کی چھت نہیں ہے.وہ ایک چھوٹا سا کمرہ دس بارہ فٹ کا ہو گا اس میں ہم نماز پڑھ رہے ہیں صرف چار یا پانچ نمازی ہیں میں نماز پڑھا رہا ہوں اس کمرہ کی ایک دیوار میں کھڑکی ہے.باہر ایک شخص نے آکر شور مچانا شروع کر دیا.وہ کہتا ہے مولوی محمد علی صاحب میں یہ بھی نقص ہے.مولوی محمد علی صاحب میں یہ بھی نقص ہے اور تیسرا نقص جو بیان کیا کہ مولوی محمد علی صاحب میں بد دیانتی کا بھی نقص ہے.میں دل میں کہتا ہوں اس شخص نے یہ کیسا شور مچا رکھا ہے.ہماری نماز خراب ہو رہی ہے.اس شخص کی آواز سے میں سمجھتا ہوں کہ ماسٹر غلام محمد صاحب سیالکوٹی ہیں یوں تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے مگران کے خیالات شروع سے ہی پیغامیوں سے ملتے تھے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے ہی لنگر خانہ کے اخراجات اور دوسرے امور پر پیغامیوں والے اعتراضات کیا کرتے تھے) ڈاکٹر عبد الحمید صاحب جو پنجاب کے ڈائریکٹر آف ہیلتھ رہے ہیں اور اب ریٹائر ہو چکے ہیں ان کے بیٹے ہیں اور پروفیسر تیمور صاحب جو اسلامیہ کالج پشاور کے وائس پرنسپل ہیں اور اب ریٹائر ہو چکے ہیں ان کے داماد ہیں.بہر حال غلام محمد صاحب کے خیالات شروع سے ہی موجودہ پیغامیوں سے ملتے جلتے تھے اور جب اختلاف ہوا تو وہ مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب کی پارٹی سے جاملے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ پروفیسر تیمور صاحب علی گڑھ جا رہے تھے.میں ان کو ذرا آگے تک چھوڑنے گیا اور چلتے چلتے ہم وڈالہ پہنچ گئے.رستہ میں انہوں نے کہا.حضرت خلیفہ اول کے پاس متعدد جگہوں سے میرے رشتہ کے لئے درخواستیں آئی ہیں اور حضرت خلیفہ اول میری شادی کے لئے زور دے رہے ہیں مگر میں نے ابھی تک کوئی رشتہ پسند نہیں کیا اس کے بعد وہ کہنے لگے.پہلے تو میں نے آپ کو اس کے متعلق نہیں بتایا مگر ایک جگہ ایسی ہے جہاں میں شادی کرنے کی خواہش رکھتا ہوں چنانچہ انہوں نے ماسٹر غلام محمد صاحب سیالکوٹی کا نام لیا مگر ساتھ بھی کہا چونکہ سلسلہ کے متعلق ان کے خیالات اچھے
350 نہیں ہیں اس لئے مجھے رشتہ کرنے سے ڈر بھی معلوم ہوتا ہے کہ مجھ پر اس کا برا اثر نہ پڑے.میں نے انہیں کہا کہ اگر انسان میں ہمت ہو تو وہ دوسروں پر اپنا اثر ڈال سکتا ہے کجا یہ کہ دوسروں سے اثر ہے.بہر حال خواب میں اس شخص کی آواز سے میں سمجھتا ہوں کہ وہ ماسٹر غلام محمد صاحب ہیں وہ اپنے ان الفاظ کو بار بار دہراتے ہیں کہ مولوی محمد علی صاحب میں فلاں نقص ہے.مولوی محمد علی صاحب میں فلاں نقص ہے اور مولوی محمد علی صاحب میں بد دیانتی کا بھی نقص ہے.ہم نے جب نماز ختم کی تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کمرے کا چکر کاٹ کر دروازہ سے گزرے اور میرے پہلو میں آکر گر گئے.میں نے ان کی طرف توجہ کی اور اس خیال سے کہ انہیں کہیں چوٹ تو نہیں آئی.پہلے میں نے ان کے جسم پر ہاتھ رکھا مگر وہ لیٹے لیٹے ہی جوش میں اپنے الفاظ کو دہراتے جاتے ہیں.پہلی دو باتیں تو مجھے یاد نہیں تیسری بات یاد ہے وہ کہتے تھے مجھے مولوی محمد علی صاحب کی دیانت پر بھی اعتراض ہے.میں رویا میں ہی ان سے کہتا ہوں کہ مجھے بھی مولوی محمد علی صاحب کے خلاف ان کی دیانت کے متعلق شبہ ہے.یہ کہتے وقت میرا ذہن قرآن کریم کے ترجمہ کی طرف گیا ہے جو سلسلہ کے روپیہ سے تیار ہوا اور وہ جاتے وقت اپنے ساتھ لے گئے.اسی طرح یہاں کی کتب مانگ کرلے گئے اور واپس نہ کیں.باقی دو باتوں کے متعلق میں کہتا ہوں کہ جب تک ثبوت نہ ملے میں ان کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جب تک کسی الزام کا ثبوت نہ ہو اسے نہ مانا کرو.اس وقت میں نے قرآن کریم یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر نہیں کیا کہ انہوں نے یوں کہا ہے بلکہ میں کہتا ہوں خدا تعالٰی نے مجھے حکم دیا ہے کہ جب تک کسی کے خلاف ثبوت موجود نہ ہو میں کوئی بات نہ مانا کروں اس لئے میں تمہاری یہ بات نہیں مان سکتا.جب میں نے یہ کہا تو ایک شخص جو میرے پہلو میں بیٹھا ہوا ہے اس کا چہرہ کچھ متغیر سا ہو گیا اس کے چہرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ یہ سوچ کر حیران ہے کہ مولوی محمد علی صاحب میں تو یہ بات پائی جاتی ہے کہ آپ کے خلاف انہیں کوئی ذراسی بات بھی کی جائے تو خواہ وہ جھوٹی ہی کیوں نہ ہو اسے خوب پھیلاتے ہیں مگر آپ کی یہ حالت ہے کہ خود مولوی صاحب کی پارٹی میں سے ایک آدمی کہ رہا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب میں یہ یہ نقائص ہیں مگر آپ کہتے ہیں جب تک ثبوت نہ ہو میں ماننے کے لئے تیار نہیں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.الفضل 31.اکتوبر 1946 ء صفحہ 3-2
351 406 22 23.اکتوبر 1946ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں اور کہہ رہا ہوں اے خدا جب کبھی میں بہار ہوتا ہوں تو تو کمال محبت سے میری خبر گیری کرتا ہے مگر میرے دل میں خلش جو تیرے وصال اور قرب کے لئے ہے اسے تو کیوں پورا نہیں کرتا.کیا وجہ ہے کہ جب تو میری ہر خواہش کو پورا کر دیا کرتا ہے تو میری یہ خواہش کہ مجھے تیرے قرب کا کمال حاصل ہو.پوری نہیں ہوتی یہی دعا کر رہا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی.اس خواب کو سمجھنے کے لئے سورۃ فاتحہ کو سمجھنا ضروری ہے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کیوں پڑھتے تھے کیا انہیں صراط مستقیم اب تک نصیب نہیں ہوا تھا.اس کا جواب یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے صراط مستقیم کی دعا سکھائی ہے کسی منزل کی نہیں اور چونکہ خدا تعالیٰ غیر محدود ہے اس لئے اس کی طرف جانے والا صراط بھی غیر محدود ہے جب انسان خدا تعالیٰ سے اتصال پیدا کر لیتا ہے اس کے بعد اسے دوسرا درجہ جو پہلے سے اعلیٰ ہوتا ہے معلوم ہوتا ہے اور وہ اس کے لئے دعا شروع کر دیتا ہے اور اسی طرح کرتا چلا جاتا ہے نہ صرف اس دنیا میں بلکہ اگلے جہان میں بھی اسی طرح کرتا چلا جاتا ہے.عشق الہی اور مخلوق کے عشق میں یہی فرق ہے.مخلوق کا عشق وصال کے بعد ٹھنڈا پڑ جاتا ہے کیونکہ جو کچھ ملنا تھا مل گیا مگر اللہ تعالیٰ کا عشق وصال کے بعد اور بھی بڑھ جاتا ہے کیونکہ وصال کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اوپر وصال کے مقام اور بھی ہیں اور جب ان کو حاصل کر لیتا ہے تو پھر اور بڑا انکشاف ہوتا ہے اور اسی طرح ہوتا جائے گا اور ابدا الاباد تک یونہی ہوتا جائے گا.تب انسانی روح جو غیر محدود کی کنہ کو نہیں پاسکتی یقین کامل کے درجہ تک پہنچ جائے گی کہ میرا خدا غیر محدود ہے اور اس کا علم الیقین، حق الیقین میں بدل جائے گا.الفضل 31.اکتوبر 31946 407 26 یا 27.اکتوبر 1946ء فرمایا : رویا میں دو الفاظ مجھ پر الہاما نازل ہوئے.پہلا لفظ تو بھول گیا لیکن دوسرا سلاما یاد
352 رہا بعد میں میں نے قرآنی آیات پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ ایک آیت كُونِي بَرْدًا وَسَلَاماً (الانبیاء : 70) کی ہے مگر یہ آیت یقینا نہیں تھی میرا ذہن زیادہ تر صِدْقًا و سلاما قسم کے الفاظ کی طرف جاتا تھا اور پہلی رویا جو اس کے بعد دکھائی گئی اسی کی تصدیق کرتی ہے.الفضل -4- نومبر 1946ء صفحہ 2 408 29.اکتوبر 1946ء فرمایا : آج رات تین بجے کے قریب تہجد کے وقت میں نے ایک رویا دیکھا مجھے یہ نظارہ نظر آیا کہ میرے سامنے ایک نیلے رنگ کا کاغذ ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کاغذ پر کوئی شعر لکھ رہا ہوں.میرے دائیں طرف کوئی ہستی کھڑی ہے جو ہیولی کی طرح معلوم ہوتی ہے یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں یا کوئی فرشتہ ہے بہر حال استاد کی طرح معلوم ہوتی ہے ویسے اس کی شکل تو آدمی کی طرح ہے مگر مادی نہیں بلکہ روحانی ہے.دو شعر میں نے لکھے ہیں ان کے نیچے تیسرا شعر لکھ رہا ہوں.پہلا مصرعہ یوں ہے.رہے وفا و صداقت........پر پہلے میں نے وفا کی جگہ کوئی اور لفظ لکھا مگر اس ہستی نے کٹوا کر اس جگہ وفا لکھوایا یعنی رہے وفا و صداقت پہ." یہ بھی صحیح طور پر یاد نہیں رہا کہ لفظ " رہے تھا یا ” رہیں تھا اس کے بعد الفاظ یوں تھے.”میرا پاؤں مدام " یہ اچھی طرح یاد نہیں رہا کہ لفظ ” مدام " تھایا ” مقام " یعنی مصرعہ یوں ہے کہ رہے وفا و صداقت پہ میرا پاؤں مدام یا اس طرح کہ رہے وفا و صداقت پہ ہمیشہ میرا مقام بهر حال ان دنوں شکلوں میں سے کوئی ایک ہے.ہاں پہلی شکل جب میں جاگا ہوں تو ذہن پر غالب تھی اور اٹھ کر یہی الفاظ میری زبان پر تھے یعنی
353 رہے و فا و صداقت پہ میرا پاؤں مدام قرآن کریم میں بھی قَدَمَ صِدْقٍ کے الفاظ بطور محاورہ استعمال ہوئے ہیں.جب کسی چیز کے قیام اور اس کے دوام کا اظہار کرنا ہو تو قَدَمَ صِدق کا محاورہ استعمال کیا جاتا ہے گویا مطلب یہ ہوا کہ ہمیشہ ہمیش رہنے والی سچائی یا ہمیشہ ہمیش رہنے والی برکت.اسی قرآنی مفہوم پر مجھے یہ مصرعہ سکھایا گیا کہ رہے و فا و صداقت یہ میرا پاؤں مدام یعنی میرا قدم وفاء صداقت سے کبھی منحرف نہ ہو اور میں ہمیشہ اس پر قائم رہوں بعد میں میں نے سوچا کہ اس مصرعہ کے ساتھ دوسرا مصرعہ لگا کر شعر کو مکمل کر دیا جائے اس قافیہ میں الفاظ بہت کم ملتے ہیں اور اس ردیف پر غزل کہنا مشکل نظر آتی ہے یوں تو پاؤں کے مقابل پر جفاؤں " کا لفظ بھی استعمال ہو سکتا ہے مگر اس قافیہ کے ساتھ "جفاؤں " کی بجائے "جفائیں" لکھنا پڑے گا بہر حال میں نے ایک مصرعہ اس کے ساتھ لگا دیا اور میں نے دوسرا مصرعہ یوں بنایا که ہو میرے سر پہ مری جان تیری چھاؤں مدام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ یہ مصرعہ بنایا کہ ہراک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے ابھی آپ نے دوسرا مصرعہ نہیں بنایا تھا کہ یکدم الہام ہوا اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے اسی طرح میں نے اس الہامی مصرعہ پر اپنا مصرعہ لگایا اور اس طرح شعر یوں ہو گیا کہ رہے وفا و صداقت پہ میرا پاؤں مدام ہو میرے سر پر مری جان تیری چھاؤں مدام خواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو دعا سکھائی جاتی ہے صلحاء کا اس کے متعلق یہ تجربہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی لکھا ہے کہ ایسی دعا ضرور پوری ہوتی ہے ور نہ وہ ایسی دعانہ سکھائے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنے بندے کو خود ایک دعا سکھائے اور پھر اسے پورا نہ کرے.الفضل 4.نومبر1946ء صفحہ2 -1
354 409 31.اکتوبر 1946ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں دلی میں ہوں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہے اس جگہ تو نہیں جہاں میں ہوں بلکہ اس سے کچھ فاصلے پر وہ اسمبلی ہال ہے یا وائسریگل لاج اس کے متعلق کوئی وضاحت نہیں.وہاں کانگریس اور مسلم لیگ کے ممبر جمع ہیں.میں اس وقت مشرق میں ہوں اور وہ مقام جہاں مسلم لیگ اور کانگریس کے ممبر جمع ہیں مغرب کی طرف ہے.میں نے دیکھا کہ بعض اور لوگ بھی اس طرف گئے ہیں اور وہ یہ ذکر کر رے ہیں کہ مسلم لیگ نے کوئی تیاری نہیں کی.ان کے پاس نہ لاٹھیاں ہیں نہ تلواریں اور نہ کوئی دوسرا سامان.اگر کانگریس نے حملہ کر دیا تو کیا کریں گے وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو رہے ہیں مجھ سے کوئی نصف میل کے فاصلے پر ہے مگر مجھے کشفی طور پر تمام واقعات دور بیٹھے ہی نظر آرہے ہیں.اس کے بعد مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کانگریس نے مسلم لیگ پر حملہ کر دیا ہے اور مسلم لیگ والے گھبرا گئے ہیں.ایک شخص بلند آواز سے پکار رہا ہے مسلمانو! مدد کے لئے پہنچو جب اس نے یہ اعلان کیا کہ جس میں اس قسم کے بھی الفاظ تھے کہ مسلم لیگ کے والنٹیئرز مدد کو پہنچیں تو میں بھی مسلمانوں کی مصیبت کا خیال کر کے نہایت تیزی سے دوڑا اور بجائے اس طرف جانے کے جدھر سے آواز آئی تھی شمال کو گیا کیونکہ معلوم ہوتا ہے وہاں سے کوئی راستہ اس طرف جاتا ہے جہاں مسلم لیگ اور کانگریس کے ممبر جمع ہیں.اتنی دیر میں پھر آواز آئی کہ مدد کے لئے پہنچو اس پر کسی نے کہا خورشید! جلدی مدد کو پہنچو اور میں نے بھی یہ فقرہ دہرایا.جب میں دروازے پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ مسلم لیگ کے چونتیس یا پینتیس آدمی ایک جگہ کھڑے ہیں اور ایک افسرانہیں ورزش کرا رہا ہے ان آوازوں پر وہ افسران لوگوں کو لے کر مکان کی طرف بھاگا.والٹیئر ز آگے آگے ہیں اور وہ پیچھے ہے.اس وقت میں نے دیکھا کہ ہماری جماعت کے بھی وہاں کافی آدمی موجود ہیں ہزاروں تو نہیں سینکڑوں اور دروازے کے پاس دیوار کے ساتھ جمع ہیں.میں نے اس خیال سے کہ لیگ کے والٹیئر ز کم ہیں انہیں بھی آواز دی کہ آپ لوگ لیگ کے آدمیوں کے ساتھ مدد کے لئے جائیں اور ساتھ ہی آواز دی دیکھنا کوئی فساد کی بات نہ کرنا چنانچہ لیگ کے آدمیوں کے پیچھے ہمارے احمدی بھی چلے گئے اور میں ان کے پیچھے پیچھے روانہ ہوا.ایسا معلوم
355 ہوتا ہے کہ دروازے سے گزر کر اندر کمپاؤنڈ میں لوگ جمع ہو رہے ہیں.میں بھی چلتا جا رہا ہوں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا ہوں دیکھو کسی قسم کا دنگا فساد نہیں کرنا یہ کہتے وقت میں خیال کر رہا ہوں کہ جب اصل مقام پر پہنچ جائیں گے تو حالات کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے.اس وقت میں نے سوچا کہ مسلم لیگ والے تو ہمارے خیر خواہ نہیں ہم ہی ان کے خیر خواہ ہیں.ایسا نہ ہو مجھے کوئی وہاں سے گزرنے سے روک دے مگر میں ان کے پاس سے گزرا اور کسی نے مجھے نہ روکا.اس وقت میں نے دیکھا کہ مسلم لیگ کے والٹیئر زاپنی تنظیم کر رہے ہیں اور صفوں کو درست کر رہے ہیں اور کمپاؤنڈ میں بہت سے آدمی کھڑے ہیں اس میدان کے ایک طرف ایک بہت بڑا وسیع کمرہ ہے ایک طرف دیوار ہے اور سامنے ایک بنگلہ بہت اونچی چھت والا ہے وہ اتنا اونچا ہے کہ ایسا معلوم ہو تا ہے دو چھتوں کی اونچائی سے بھی اونچا ہے اس کے آگے ایک برآمدہ ڈھلوان چھت والا بنا ہوا ہے اس بر آمدے کی چھت پر جست کی دھاری دار چادریں لگی ہوئی ہیں.میں کمرہ میں گیا اور معلوم ہوا کہ میں کمرہ میں کسی اونچی جگہ پہنچ گیا ہوں اس کے بعد وہ نظارہ تو اسی طرح قائم رہا مگر بجائے لڑائی، دنگا فساد لاٹھی اور تلوار وغیرہ کے معلوم ہوا کہ ورزش کا مقابلہ ہو گا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کانگرس والے اپنا ہنر دکھا چکے ہیں اب مسلمان اپنا ہنر دکھانے لگے ہیں.ورزش شروع ہوئی اور سب سے لمبی چھلانگیں لگائی جانے لگیں جتنی لمبی چھلانگیں ہم جاگتے میں دیکھا کرتے ہیں اس سے وہ چھلانگیں دگنی اور منگنی لمبی ہیں.دو تین دفعہ جب چھلانگیں لگ چکیں تو کسی نے کہا اب اونچی چھلانگیں لگائی جائیں.ہم نے جو عام طور پر اونچی چھلانگوں کے مقابلہ میں دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ چھلانگ لگانے والا ایک لمبا بانس پکڑ کر چھلانگ لگاتا ہے مگر وہاں کسی نے بانس نہیں پکڑا پھر بھی وہ چھلانگیں لگانے والے اتنی اونچی چھلانگیں لگاتے ہیں کہ ہمارے خیال اور وہم میں بھی نہیں آسکتیں.ان میں سے پہلے نے انہیں فٹ چھلانگ لگائی دوسرے نے ہیں یا انہیں فٹ چھلانگ لگائی مگر تیسرے نے اتنی اونچی چھلانگ لگائی کہ برآمدہ کے چھیجے پر پہنچ گیا اس کو دیکھ کر میں سمجھتا ہوں کہ یہ شخص کامیاب ہو گیا اس نے جب چھلانگ لگائی اور اوپر چلا گیا تو میں انتظار کر رہا ہوں کہ اب بیچے آتا ہے مگر مجھے ایسا معلوم ہوا کہ گویا آسمان کو اڑ گیا ہے کیونکہ اس کے چھت پر گرنے کی آواز نہیں آئی.میں نے دل میں کہا کہ
356 اگر وہ جست کی چادر پر گرتا تو زور سے آواز آتی.میرے ساتھ میاں بشیر احمد صاحب ہیں یا کوئی اور آدمی یہ اچھی طرح یاد نہیں رہا.بہر حال میں ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ چھلانگ لگانے والا کہاں گیا.انہوں نے کہا چھت پر پہنچ گیا ہے.اس کے بعد لوگوں نے بڑی بلند آواز سے نعرہ لگایا جس کے معنے یہ تھے کہ وہ جیت گئے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ وہ چھلانگ لگانے والا چھت پر سے اثر رہا ہے اس کی لاتیں مجھے چھت پر سے لٹکتی نظر آئیں اس کے بعد یہ نعرہ لگا کہ مسلمان جیت گئے.میں جب اس اونچی جگہ سے نیچے اترا میں نے دیکھا کہ ایک لڑکی دس بارہ سال کی عمر کی کمرہ میں دوڑتی ہوئی آئی اور اس نے کہنا شروع کیا کانگریس جیت گئی کانگریس جیت گئی.وہ دیوانی معلوم ہوتی ہے میں اس لڑکی کو دیکھ کر سمجھتا ہوں کہ وہ ہمارے دلی کے کسی عزیز داری والے خاندان میں سے ہے.میں نے اس کو پکڑ کر پیار سے اپنے سینے سے لگالیا اور کہتا ہوں بی بی ہوش کرو.بی بی ہوش کرو.مگر وہ دیوانہ وار جوش سے یہ کہتی جاتی ہے کانگریس جیت گئی کانگریس جیت گئی.میں سمجھتا ہوں کہ اسے کانگریس سے ہمدردی تھی جب اس نے دیکھا کہ کانگریس ہار گئی تو اس کے دماغ کو صدمہ پہنچ گیا اور اس کے بعد اس کی آواز بند ہو گئی اور اس کا سانس رک گیا.میں نے اس طرح بیٹھے بیٹھے اس کے ہاتھ اٹھا کر اس کو سانس دلانے کی کوشش کی مگر سانس نہیں آیا اتنے میں ایک عورت جو اس لڑکی کی ماں یا خالہ ہے کمرہ میں داخل ہوئی اور میں نے اس سے کہا اس کا سانس رک گیا ہے اسے لٹا کر سانس دلانے کی کوشش کرنی چاہئے.اس پر اس عورت نے رضامندی ظاہر کی میں نے لڑکی کو زمین پر لٹا کر سانس دلانا شروع کیا مگر اثر نہ ہوا پھر اس عورت نے ٹھنڈے پانی سے تولیہ تر کر کے لڑکی کے پیٹ پر رکھا.اتنے میں لڑکی نے آنکھ کھولی.ایک سانس لیا مگر پھر بے ہوش ہو گئی وہ عورت جس کو میں سمجھتا ہوں اس لڑکی کی ماں یا خالہ ہے وہ باتوں سے کچھ سیاسی عورت معلوم ہوتی ہے.وہ مجھے کہتی ہے میرے خاوند کو آپ جانتے ہیں اور بتایا کہ وہ کو نسل یا کانگریس کے پریذیڈنٹ تھے پھر معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے متعلق بتایا کہ میں اسمبلی کی سپیکر رہی ہوں اس کے بعد میں نے کہا ڈاکٹر لطیف صاحب کو بلاؤ شاید وہ لڑکی کو ہوش میں لا سکیں جب کوئی آدمی ان کو بلانے گیا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنی بیوی امینہ بیگم صاحبہ کو موٹر میں ساتھ لے کر چلے گئے ہیں میں کہتا ہوں کوئی اور ڈاکٹر ہی بلا لاؤ.اتنے میں میری آنکھ کھل گئی.
357 فرمایا : بظاہر یہ خواب دیر بعد کے حالات کے متعلق ہے مگر ممکن ہے جلد ہی اس کے مطابق حالات ظاہر ہوں.وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّواب.الفضل 4- نومبر 1948ء صفحہ 3-2 یکم نومبر 1946ء 410 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ عید کا دن آگیا ہے اور ہم عید کی نماز پڑھنے عید گاہ کو جار ہے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس دن گورنمنٹ کی طرف سے راستوں پر چلنے کی پابندی عائد کردی گئی ہے.قادیان کے درمیان ایک بڑی بھاری چوڑی سڑک ہے میں اس پر سے گزر رہا ہوں ایک آدمی میرے آگے آگے چل رہا ہے اور کچھ آدمی میرے پیچھے آرہے ہیں میں بیچ میں اکیلا چل رہا ہوں.ہم ایک جگہ پہنچے ہیں تو آواز آئی یہاں سے نہیں چلنا.کوئی دوسرا آدمی کہتا ہے کہ میں اس کے متعلق افسروں سے بات چیت کر آیا ہوں ہم نے یہاں سے ہی جانا ہے وہ سپاہی کہتا ہے نہیں جانا.وہاں کوئی سپر نٹنڈنٹ پولیس یا کوئی بڑا افسر ہے وہ کہتا ہے جانے دوان کو اجازت مل گئی ہے آگے جانے والے نے کہا ہم کو الفضل تک جانے کی اجازت ہے.گویا اس نے اس سڑک کے ایک حصہ کا نام الفضل رکھا ہے.وہاں سے چل کر ہم عید گاہ میں پہنچے عید کی نماز کا وقت عموماً نو بجے کا ہوتا ہے جب دو نیزے کے قریب سورج چڑھ آتا ہے عید الفطر ذرا دیر سے پڑھی جاتی ہے مگر عید الاضحیہ جلدی پڑھ لی جاتی ہے تاکہ لوگ جا کر قربانی کر سکیں.اس وقت وہ جگہ جہاں ہم پہنچے ہیں ایک ٹیلے پر معلوم ہوتی ہے اس سے نیچے ڈھلوان ہوتی چلی جاتی ہے اور آگے جا کر میدان آجاتا ہے میں نے دیکھا کہ ایک جگہ وہاں صفیں بھی بچھی ہوئی ہیں ، چٹائیاں بھی بچھی ہوئی ہیں، دریاں بھی بچھی ہوئی ہیں اور آگے امام کا مصلی بھی ہے.تھوڑے سے آدمی وہاں پہنچ چکے ہیں اور کچھ لوگ آرہے ہیں اس وقت حالا نکہ نو بجنے والے ہیں اچھی تاریکی سی معلوم ہوتی ہے خیال کرتا ہوں کہ شاید یہ بادلوں کی تاریکی ہے یا کچھ دھوئیں وغیرہ کی وجہ سے اندھیرا سا ہے مگر پھر دل میں ہی کہتا ہوں کہ بادلوں کی تاریکی اتنی تو نہیں ہو سکتی اور دن کے وقت اگر بادل بھی ہوں تو معمولی سا اندھیرا ہوتا اور روشنی کافی ہوتی ہے.اس وقت روشنی بہت دھندلی سی ہے میں مصلی پر بیٹھ گیا ہوں اتنے میں آواز آئی سانپ سانپ سانپ.یوں معلوم ہوتا
358 ہے کہ حضرت اماں جان) نے چیخ ماری ہے میں لوگوں کو کہتا ہوں دوڑ کر جاؤ وہاں سانپ ہے تو کسی نے کہا کہ سانپ وہاں نہیں بلکہ یہاں تھا اور اس کو مار دیا گیا ہے وہ یا تو دو سانپ ہیں یا دومنہ کا سانپ ہے کسی نے مجھے اس کے ٹکڑے بھی دکھائے ہیں اس کے بعد مجھے خیال آیا کہ اتنے اندھیرے میں یہاں کوئی روشنی کا انتظام ہونا چاہئے.ایسا نہ ہو اور سانپ نکلیں میں اپنے ساتھیوں سے پوچھتا ہوں کسی کے پاس ٹارچ ہے.اس وقت بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی نظر آتے ہیں انہوں نے یا ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے ساتھی نے مجھے اپنی ٹارچ دی مگر اس کی روشنی اتنی مدھم ہے جیسے جلاتے رہنے سے خرچ ہو چکی ہے اس لئے میں خیال کرتا ہوں کہ اتنا اندھیرا ہے اگر واپس جاتے ہوئے روشنی کی ضرورت پڑی تو یہ ٹارچ بھی جلانے کی وجہ سے بیکار ہو چکی ہوگی کیونکہ اس کی روشنی تو اب بھی بہت مدھم ہے اس لئے اس کو نہیں جلانا چاہئے اور میں نے دوستوں سے کہا کچھ موم بتیاں لاؤ.میرے سامنے سو گز کے فاصلے پر کچھ احمدی بیٹھے ہوئے ہیں سامان ٹھیک کر رہے ہیں جب میں نے کہا.موم بتیاں لاؤ تو وہاں سے بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں موم بتیاں لاتا ہوں اور ایک بنڈل دکھایا اس سے پہلے وہ ان آدمیوں میں تھے جو میرے پیچھے نماز کے انتظار میں بیٹھے تھے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اڑ کر وہ اس دوسری جگہ کو پہنچ گئے اور بنڈل لے کر میرے پاس آگئے.اور بنڈل میں سے ایک موم بتی نکالی اور اس کو جلانا چاہا میں نے بھی اس خیال سے کہ شاید ایک آدمی یہ کام آسانی سے نہ کر سکے اور دیا سلائی ہوا کی وجہ سے بجھ جائے.خود ایک دیا سلائی جلائی اور بھائی جی سے کہا کہ موم بتی قریب کریں کہ میں جلا دوں اس عرصہ میں انہوں نے خود بھی جلالی تھی مگر جب انہوں نے دیا سلائی قریب کرتے ہوئے دیکھا تو فور آ شمع بجھا کر میری طرف بڑھا دی اور یہ ادب سے انہوں نے کیا ہے تاکہ میری جلائی ہوئی دیا سلائی ضائع نہ ہو جائے میری دیا سلائی سے بتی جلاتے ہوئے انہوں نے اپنے ایک بیٹے کا ذکر شروع کر دیا کہ بڑا سعید لڑکا ہے اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے اتنی محبت ہے اور اتنا احترام ہے کہ جب اس نے اپنی بتی جلائی اور دیکھا کہ حضرت صاحب میری طرف اشارہ تھا) نے بھی دیا سلائی جلائی ہے تو اس نے اپنی بچی کو فور آبجھا دیا اور ان سے دیا سلائی لے کر اپنی بھی کو روشن کر لیا اور کہا یہ روشنی اب کبھی نہ بجھے گی وہ اس واقعہ کو بڑے اخلاص سے بیان کر رہے ہیں ان کا مطلب یہ ہے کہ میں
359 نے بھی اس وقت اس طرح کیا ہے اس وقت ایک فقرہ جو بالکل موزوں معلوم ہوتا ہے اور اس میں روشنی کا لفظ ہے یا نور کا لفظ ہے اور یہ بھی الفاظ ہیں کہ ہمیشہ تک قائم رہے گی.(مسجد میں خواب سناتے ہوئے مجھے کچھ حصہ بھول گیا تھا بعد میں یاد آیا کہ لڑکے کا فقرہ انہوں نے یہ بتایا تھا کہ یہ شمع ہمیشہ جلتی رہے اور ان کا فقرہ یہ تھا یہ روشنی کبھی نہ بجھے گی) اس کے بعد میں نے کہا اب روشنی کافی ہو گئی ہے اب کوئی خطرے کی بات نہیں.اس خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ عید پر خطرہ ہے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان فسادات نہ ہو جائیں شہروں میں تو عموماً ہمیشہ اس عید پر گائے کی قربانی کی وجہ سے فساد ہوتا ہے اور آج کل فریقین کی طبائع میں اشتعال بھی بہت زیادہ ہے اور یہ دعا کے الفاظ جو آئے ہیں کہ یہ شمع کبھی نہ بجھے.یہ الفاظ ہماری دائی ترقی اور نور کے قائم رہنے کے لئے دعا ہے دوسرا فقرہ کہ یہ روشنی کبھی نہ بجھے گی.یہ ایک زبر دست بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ میری اسلام کے لئے کوششوں کو بار آور کرے گا اور ان کے نیک نتائج کو دوام بخشے گا اس قسم کا فقرہ ہمارے لئے ایک قسم کی بشارت ہے.الفضل 4.نومبر 1946 ء صفحہ 4-3 411 3 نومبر 1946ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں اسی مسجد میں ہوں (مسجد مبارک میں) اور وسط مسجد میں بیٹھا ہوں کچھ اور دوست بھی بیٹھے ہیں ہندوستان کی آزادی کے متعلق باتیں ہو رہی ہیں " تفصیل اس وقت یاد نہیں) اور معلوم ہوتا ہے کہ میں ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں کچھ حصہ لے رہا ہوں انگریزی حکومت اسے ناپسند کرتی ہے.دوست مجھے کہہ رہے ہیں کہ اس کے متعلق کوئی تدبیر اختیار کرنی چاہئے ایسا نہ ہو کہ حکومت آپ کے خلاف کوئی اقدام کرے جو مضر اور نقصان دہ ثابت ہو.دوستوں کی یہ بات سن کر میں ان کو تسلی دیتا ہوں.اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب وائسرائے کے نمائندے ہیں جب دوستوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ ہمیں اس کے متعلق کچھ کرنا چاہئے تو میں ان سے کہتا ہوں کہ میں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سے جو وائسرائے کے نمائندے ہیں اس کے متعلق بات چیت کروں گا تا
3.360 گورنمنٹ کا عندیہ معلوم ہو جائے جب میں وہاں سے اٹھ کر اس غرض کے لئے چلا کہ میں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کو بلاؤں اور میں ان دوستونوں سے پرے پہنچا ہوں (حضور نے محراب کے پاس مجلس میں تشریف رکھتے ہوئے مسجد مبارک کے دائیں طرف کے دوستونوں کی طرف اشارہ کیا جو سابق مسجد کے پاس ہیں) تو وہاں میں دیکھتا ہوں کہ کوئی پادری کھڑا ہے اس کا قد بہت لمبا ہے کوئی آٹھ نو فٹ ہے وہ بڑے موٹے آدمی سے بھی دگنا موٹا ہے اور ایک دیو کی طرح معلوم ہوتا ہے.ایک جبہ اس نے اپنے کندھوں پر ڈالا ہوا ہے ایسا جبہ جو علماء یا پادری عام طور پر استعمال کرتے ہیں اس پادری نے مجھ سے مصافحہ کیا اور بڑے جوش سے میری طرف جھک گیا وہ مجھ سے آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگا اور مجھے کہنے لگا کہ آپ کو اپنا موجودہ رویہ بدل لینا چاہئے اور یہ طریق اختیار نہیں کرنا چاہیئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مجھ پر اس بارے میں زور دیتا ہے کہ آپ آزادی کی جدوجہد میں حصہ نہ لیں.میں ان کو ٹلاتا ہوں کہ میں اس سے کیوں بات کروں میں دل میں کہتا ہوں کہ میں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سے بات کروں گا جو ایک ذمہ دار شخص ہیں.(جن کو میں خواب میں وائسرائے کا نمائندہ سمجھتا ہوں) مگر وہ پادری وحشی کی طرح مجھ پر جھکتا چلا آتا ہے اور مجھ پر دباؤ ڈالتا ہے میں اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ اس کو ہٹاؤ جب اس کو ہٹا دیا گیا تو میر محمد اسماعیل صاحب نظر آئے وہ مسجد مبارک کے پرانے حصہ میں کھڑے تھے میں نے ان سے کہا کہ میں آپ سے کچھ بات چیت کرنی چاہتا ہوں مگر میں نے خیال کیا کہ دوستوں کے سامنے بات کرنا مناسب نہیں میں ان کو پہلے سابق مسجد کے آخری مغربی ستون کی طرف لے گیا پھر وہاں بھی آدمی دیکھ کر انتہائی مغربی چھت کی طرف لے گیا پھر وہاں بھی یہ خیال کر کے کہ لوگوں تک آواز پہنچ جائے گی میں نے کہا چلئے بیت الذکر میں بات کرتے ہیں (مسجد کے ساتھ کا شمالی حجرہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام عبادت و تحریر کا کام کیا کرتے تھے) میں بیت الذکر میں بیٹھ گیا اور میر محمد اسماعیل صاحب میرے سامنے بیٹھ گئے.اتنے میں دروازہ کھلا اور حضرت اماں جان) نے دروازہ سے اندر جھانکا اور میر محمد اسماعیل صاحب نے کہا آئیے بیٹھ جائیے.میں دل میں سمجھتا ہوں عورتوں کا دل نرم ہوتا ہے اور حضرت اماں جان تو بہت ہی نرم دل ہیں ایسا نہ ہو ہماری باتیں سن کر ان کو تکلیف پہنچے کیونکہ یہ باتیں ایسی ہیں جن میں گورنمنٹ سے ٹکر لینے کا ذکر آئے گا اس لئے میں دل میں نہیں چاہتا کہ حضرت اماں جان وہاں بیٹھیں چونکہ میر
361 صاحب نے کہا کہ آکر بیٹھ جائیں تو میں خاموش ہو گیا.میں نے ان کے بیٹھ جانے کے بعد میر محمد اسماعیل صاحب سے کہا کہ لوگ اس طرح کہہ رہے ہیں میں آپ سے بات کر کے اس کے متعلق فیصلہ کرنا چاہتا ہوں.لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ نے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا تو گورنمٹ آپ کو گرفتار کر کے سزا دے گی مگر میں جو کچھ کر رہا ہوں بالکل ٹھیک کر رہا ہوں اور میں اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہوں اور جو کام اللہ تعالیٰ نے میرے سپرد کیا ہے وہ میں نے بہر حال کرنا ہے اس کے بعد میں نے جوش میں آکر کہا گو ر نمنٹ زیادہ سے زیادہ یہی کرے گی کہ مجھے قید کرے گی یا کوئی اور سزا دے دے گی اگر خدا تعالیٰ کا منشاء اسی طرح ہے کہ میں قید ہو جاؤں یا مارا جاؤں تو میں کیا کر سکتا ہوں اور مجھے اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ کا منشاء اس طرح نہیں تو وہ خود میری حفاظت کرے گا اور پہلی ہی رات جس میں مجھے جیل میں رکھا جائے گا اس میں ہندوستان کے بڑے افسر بھی مر جائیں گے اور انگلستان کے بڑے افسر بھی مر جائیں گے اور میں نے اس پادری کا بھی ذکر کیا اور اس پر شبہ ظاہر کیا کہ یہ پادری شاید گورنمنٹ کی طرف سے مقرر ہے.میری بات سن کر میر صاحب نے اس امر کی تردید کی کہ گورنمنٹ میرے خلاف کوئی قدم اٹھانا چاہتی ہے اور پادری کی نسبت کہا کہ اس نے مجھ سے یہ باتیں بیان کی ہیں مگر وہ تو پاگل ہے گورنمنٹ کو اس سے کوئی تعلق نہیں جب میں نے یہ کہا کہ زیادہ سے زیادہ گورنمنٹ یہی کرے گی کہ مجھے قید کرے گی یا کوئی جسمانی سزا دے گی تو ایسا کہتے وقت میرا خیال تھا کہ اماں جان کو یہ الفاظ سن کر تکلیف ہوگی مگر میرا یہ فقرہ سن کو اماں جان کے چہرے پر کوئی گھبراہٹ کے آثار نہ پیدا ہوئے.بلکہ وہ اطمینان سے بات سنتی رہیں پھر جب میں نے کہا کہ قید ہونے پر پہلی ہی رات جو مجھے جیل میں آئے گی اسی رات ( اس ظلم کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت) ہندوستان کے ذمہ دار افسر بھی مر جائیں گے اور انگلستان کے چوٹی کے افسر بھی مر جائیں گے تو اماں جان نے کہا.درست ہے میں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کسی بزرگ نے کہا ہے کہ خداتعالی بڑے بڑے بادشاہوں کو جب وہ ظلم کریں یوں مٹا دیتا ہے اور یہ کہتے ہوئے اپنے ہاتھ کو اس طرح حرکت دی جس طرح مٹی کو ہموار کرنے کے لئے ہاتھ ہلاتے ہیں.یہ سن کر معا مجھے خیال آیا کہ اس قول کو ایک شاعر نے بھی باندھا ہے اور اس کے بعد یہ مصرعہ میرے
362 ذہن میں آیا کہ بنے ہیں زمیں آسماں کیسے کیسے یعنی کیسے کیسے بلند شان والے بادشاہ جو آسمان کی طرح بلند شان تھے خدا تعالیٰ نے زمین کی طرح ہموار کر دیئے اور آسمان ہونے کے بعد انہیں زمین کی طرح کر دیا.اس گفتگو کے دوران میں خان میر صاحب جو پہریدار ہیں مسجد کی کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے بولے.انہوں نے جوش سے کہنا شروع کیا دو پٹھان پہرہ دار مارے گئے ہیں اس کا کچھ انتظام ہونا چاہیئے ورنہ ہمارے لئے مشکل ہے میں سمجھتا ہوں کہ ان کا یہ الزام احمدیوں کے بارے میں ہے کہ احمدیوں نے پٹھانوں کو مارا ہے میر محمد اسماعیل صاحب نے ان کو خاموش کرانے کے لئے کہا کوئی بات نہیں کوئی بات نہیں.مگر مجھے خان میر کا احمدیوں پر اس طرح الزام لگانا برا معلوم ہوا اور میں نے کہا کہ آج ان کی جگہ کوئی ہندوستانی پہریدار مقرر کر دیا جائے (تا ان کی جان خطرہ میں نہ پڑے ) وہ عید الاضحیہ کا دن معلوم ہوتا ہے.میں نماز کے لئے اٹھا ہوں اور اس کمرے میں گیا ہوں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام بیٹھا کرتے تھے وہاں میاں بشیر احمد صاحب بھی موجود ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گاندھی جی بھی بطور مہمان آئے ہوئے ہیں.میں میاں بشیر احمد صاحب سے کہتا ہوں کہ گاندھی جی کی حفاظت کے لئے پہریداروں کا انتظام کریں اور تاکید کرتا ہوں کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے.انہوں نے کہا بہت اچھا.ابھی انتظام کر دیتا ہوں.میں نے پھر اس بات پر زور دیا کہ دیکھیں عورتوں سے بھی زیادہ ان کی حفاظت کی جائے.انہوں نے یہ سن کر تعجب سے کہا عورتوں سے بھی زیادہ.میں نے کہا ہاں وہ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.جب آنکھ کھلی اور میں خواب کے اس حصے پر غور کرنے لگا کہ اگر مجھے قید کیا گیا تو جیل میں پہلی رات میں جو مجھے آئے گی اس میں خدائی قہر سے ہندوستان کے بڑے افسر بھی مر جائیں گے اور انگلستان کے بڑے افسر بھی مر جائیں گے تو ابھی اس پر ایک منٹ بھی پورا نہ گزرا تھا کہ یکدم زلزلہ کے دو جھٹکے آئے (اس وقت عین بارہ بجے کا وقت تھا میں نے گھر والوں کو جگا کرتا یا تو پہلے تو انہوں نے کہا کہ یہ وہم ہی نہ ہو مگر میں نے کہا وہم نہیں.بلکہ میں جاگ رہا تھا جب زلزلے کے جھٹکے آئے پہلے شمال کی طرف والا دروازہ ہلا پھر جنوب والا دروازہ ہلا تب انہوں نے کہا.ٹھیک
363 ہے کیونکہ بجلی کا لیمپ جو سر پر لٹک رہا ہے زور زور سے ہل رہا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ نے دو نشان دکھائے ہیں.ادھر خواب میں بھی دو ملکوں کے بڑے افسروں کے مرجانے کا ذکر تھا اور ادھر زلزلے کے بھی دو جھٹکے آئے گو یا اللہ تعالی نے یہ یقین دلایا ہے کہ اگر ایسا ظلم ہو گا تو انگلستان اور ہندوستان دونوں جگہوں کے ظالموں پر تباہی آئے گی.اس رویا سے معلوم ہوتا ہے شاید بعض پادری اور ان کے ہمد رد ہندوستان کی آزادی کے رستہ میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں اور لوگوں کو راغب کرنے کے لئے ان لوگوں کی طرف سے مشہور کیا جائے کہ حکومت بھی ان کے ساتھ ہے اور اند ر سے ہندوستان کی آزادی کی حامی نہیں ہے کیونکہ رویا میں میر صاحب نے جن کو میں نے حکومت کا نمائندہ سمجھا ہے حکومت کو اس الزام سے بری قرار دیا ہے.اور پادری صاحب کی حرکت کو غیر حکومتی کوشش قرار دیا ہے.اس رویا میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ہندو مسلمان کی صلح ہونی چاہئے اور ایک دوسرے کی حفاظت انہیں کرنی چاہئے اور اسلام کی ترقی کی طرف بھی اشارہ ہے کیونکہ یہ کہنا کہ گاندھی جی تو ہمارے مہمان ہیں اس کا یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ کتنے بھی انقلابات آئیں آخر اسلام ہی جیتے گا کیونکہ مہمان کا لفظ عارضی طور پر آنے والے کے لئے بولا جاتا ہے پس اس فقرہ سے یہ مطلب ہے کہ ہندو مذہب ہندوستان میں عارضی ہے.آخر اسلام ہی پھیلے گا اور ممکن ہے کسی وقت گاندھی جی بھی قادیان آئیں.میں تو سیاسیات سے الگ رہنے کی کوشش کرتا ہوں سوائے اس کے کہ ہندوؤں کو بھی نیک مشورہ دے دیا اور مسلمانوں کو بھی نیک مشورہ دے دیا یا مصیبت زدہ کے حق میں اور ظالم کا ظلم روکنے کے لئے کسی کو تنبیہ کر دی اس سے زیادہ کبھی نہیں کیا.مگر اب متواتر اس قسم کی خوابوں رویا اور کشوف سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے ندو مسلم صلح کے لئے یا ہندوستان کی آزادی کے لئے کسی اقدام کے لئے دھکیل رہا ہے یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کس رنگ میں ہو گا آیا صرف دعاؤں کے ذریعہ سے یا نصیحت کے ذریعہ سے یا اس سے زیادہ کسی عملی اقدام کے ذریعہ سے جب وقت آئے گا خود یہ بات ظاہر ہو جائے گی.بہر حال ہماری جماعت میں سے ہر شخص کو یہ سمجھ لینا چاہئے اور پختہ عزم کر لینا چاہئے کہ کچھ بھی ہو وہ تبلیغ اسلام سے پیچھے نہ ہٹے گا.آئندہ قریب کے زمانے میں بڑے بڑے تغیرات رونما ہونے الے ہیں اور وہ وہ باتیں بھی آنے والی ہیں جو وہم و گمان میں بھی نہیں
364 آسکتیں.ہماری جماعت کو دن رات دعاؤں میں لگے رہنا چاہئے کہ خدا تعالٰی موجودہ بے چینی اور بدامنی کو دور فرمائے.آمین.الفضل 11.نومبر 1946ء صفحہ 1 37 5.نومبر 1946ء 412 فرمایا : آج رات میں نے رویا میں دیکھا ایک خیمہ سا معلوم ہوتا ہے میں اس کے اندر بیٹھا ہوں اس جگہ میاں بشیر احمد صاحب بھی ہیں اور ایک باہر سے آئے ہوئے ہیں کوئی غیر احمدی صوفی بھی ہیں.میرا خیال ہے وہ خواجہ حسن نظامی صاحب تھے اتنے میں دروازہ کھلا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کچھ سکھ باہر کھڑے ہیں اور وہ دروازہ میں سے اندر جھانک رہے ہیں.وہ سکھ کچھ حیران سے معلوم ہوتے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں یہ خبر مشہور ہوئی تھی کہ مجھ کو سانپ نے ڈس لیا ہے اور اس کے ڈسنے سے میری موت واقع ہو گئی ہے وہ بار بار جھانکتے اور مجھے دیکھتے ہیں اور مجھے دیکھ کر وہ بڑے حیران ہوتے ہیں کہ میں تو بالکل خیریت سے بیٹھا ہوں وہ بہت متاثر ہیں میں نے ان کو بلایا اور کہا.اندر آجائیں وہ اندر آئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے آپ لوگ کیوں یہاں آئے ہیں وہ کہتے ہیں ہم نے سنا تھا کہ آپ کو سانپ نے ڈس لیا ہے اور ہم نے آپ کے متعلق بری بری باتیں سنی تھیں جس کی وجہ سے ہم سخت گھبرائے ہوئے تھے مگر آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اور اس قسم کے الفاظ بھی انہوں نے کہے کہ پر میشور کی بڑی دیا ہو گئی ہے.میں نے ان سے کہا کہ ہاں مجھے سانپ نے ڈسا تو تھا مگر خد اتعالیٰ نے فضل کیا اور خیریت رہی.اس وقت میرے ذہن میں وہ رویا آتی ہے جو چند دن پہلے شائع ہو چکی ہے اور اس رویا کو میں خواب میں حقیقت سمجھتا ہوں لیکن اس فرق سے کہ رؤیا میں تو تھا کہ سانپ مجھے سے پچھلی قطار کے پاس نکلا تھا اور دوستوں نے اسے مار دیا تھا مگر میں خواب میں خیال کرتا ہوں کہ اس نے مجھے کا ٹا بھی تھا چنانچہ میں نے ان کو اپنا دائیں پیر کا انگوٹھا دکھایا اور کہا کہ یہاں سانپ نے مجھے ڈسا تھا مگر مجھے تو کچھ بھی تکلیف نہیں ہوئی.صرف اس جگہ کا چمڑا کچھ کالا سا معلوم ہو تا ہے میری اس بات کو سن کر وہ بہت متاثر ہوئے اور یہ دیکھ کر کہ اللہ تعالیٰ خود میری حفاظت کر رہا ہے ان میں اس قدر عقیدت پیدا ہوئی کہ جیسے سکھوں میں رواج ہے کہ وہ اظہار عقیدت کے طور پر سجدہ کرتے ہیں ان میں سے ایک بڑھا سکھ آگے بڑھا اور اس نے مجھے سجدہ کرنا چاہا جب وہ
365 میرے پاؤں کی طرف جھکا تو میں نے اس کا سر پکڑ کر اونچا کر دیا اور کہا خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں.میاں بشیر احمد صاحب سامنے بیٹھے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کی توجہ میرے اس فعل کی طرف پھر انا چاہتے ہیں.اس غرض سے انہوں نے حاضرین کو مخاطب کر کے کہا.دیکھئے انہوں نے اس سکھ کو سجدہ کرنے نہیں دیا اس پر اس سکھ کو پھر جوش آ گیا اور وہ پھر سجدہ کرنے کے لئے جھکا.اس پر میں نے اس کو پھر ہٹا دیا اور کہا یہ منع ہے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں مگر بڈھے نے تیسری دفعہ پھر سجدہ کرنے کے لئے اپنا سر جھکایا میں نے پھر اس کا سر پکڑ کر اونچا کر دیا اس پر اس نے کہا.یہ میرا مذ ہب ہے آپ کو اس سے کیا.یعنی آپ مجھے اپنے عقیدہ کے مطابق عمل کرنے سے کیوں روکتے ہیں.میں نے کہا جب یہ بات خدا تعالیٰ نے ناجائز قرار دی ہے تو میں کس طرح اجازت دے سکتا ہوں کہ تم مجھے سجدہ کرو اس پر وہ بڑھا شور مچاتا ہے کہ یہ میرا مذ ہب ہے آپ کو اس سے کیا.جب میں نے دیکھا کہ وہ سجدہ کرنے کے لئے زیادہ اصرار کر رہا ہے تو میں نے دوستوں سے کہا اس کو باہر نکال دو چنانچہ دوستوں نے اس کو پکڑ کر باہر نکال دیا اس کے بعد کسی شخص نے کوئی سوال کیا میں اس کے جواب میں کہتا ہوں میں تو سپاہی ہوں اور میری سب سے بڑی خواہش یہی ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے راستے میں جان دے دوں.میرے امام بننے میں میری مرضی کا دخل نہیں بلکہ جو کچھ ہوا اللہ تعالٰی کے منشاء کے ماتحت ہوا.میں تو اسلام کا ایک سپاہی ہوں اور خدا تعالیٰ کے راستہ میں جان دینا اپنی سب سے بڑی خواہش سمجھتا ہوں.یہ کہہ کر میں کسی کام پر گیا جب کام کر کے واپس لوٹا تو اس وقت بھی راستہ میں دوستوں سے اس مضمون پر گفتگو کر رہا تھا کہ میں تو دین کا ایک سپاہی ہوں اور میری ساری خوشی اسی میں ہے کہ خدا تعالیٰ کے راستہ میں مارا جاؤں مجھے تنظیم کرنے اور چندے کرنے اور اس قسم کے دوسرے کاموں سے کیا تعلق ہے خدا تعالیٰ نے مجھے ان کاموں پر لگا دیا تھا تو میں مجبور تھا ورنہ میں تو ایک سپاہی کی طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں لڑتے ہوئے مارے جانے کو پسند کرتا ہوں.اس خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ سکھوں میں سے ایک طبقہ کے دل میں احمدیت کی محبت گھر کر گئی ہے اور وہ لوگ توجہ کے قابل ہیں اگر پورے طور پر ان کی طرف توجہ کی جائے تو وہ احمدیت قبول کرلیں گے.انشاء اللہ.الفضل 12.نومبر 1946 ء صفحہ 3
366 413 نومبر 1946ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں دہلی میں ہوں اور انگریز حکومت چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے ہیں اور ہندوستانیوں نے حکومت پر قبضہ کر لیا ہے اور بڑی خوشی کے جلسے کر رہے ہیں کہ حکومت ہمارے ہاتھ میں آگئی ہے.ایک بہت بڑا چوک ہے اس میں کھڑے ہو کر بڑے زور شور سے لوگ تقریر کر رہے ہیں اور خطابات تجویز کر رہے ہیں کہ ہندوستان نے حکومت حاصل کی ہے فلاں کو یہ رتبہ دیا جائے اور فلاں کو یہ عہدہ دیا جائے.میں نے ان کی ان خوشیوں کو دیکھ کر کھڑے ہو کر ان میں تقریر کی اور کہا یہ کام کرنے کا وقت ہے خوشیاں منانے کا وقت نہیں ، انگریز تو صرف عارضی طور پر پیچھے ہٹے ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پھر لوٹیں اور سب خوشیاں بیکار ہو جائیں اس لئے تقریر میں نہ کرو خوشیاں نہ مناؤ تنظیم اور تیاری کرو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں پر میری اس بات کا اثر ہوا ہے لیکن اکثروں پر نہیں ہوا اور وہ اس خوشی میں کہ ہم نے ملک پر قبضہ کر ہی لیا ہے نعرے مارتے ہوئے اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں.جب وہ نعرے مار کر اپنے گھروں کو واپس چلے گئے اور میدان خالی ہو گیا تو میں نے دیکھا کہ سامنے سے انگریزی فوج مارچ کرتی ہوئی چلی آرہی ہے اور میں نے کہا.دیکھو.وہی ہوا جس سے میں ڈرتا تھا اس وقت میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اب جبکہ ملک آزاد ہو چکا ہے ملک کی آزادی کو قائم رکھنے کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے.میں اپنے دل میں سوچتا ہوں کہ کتنے آدمیوں سے میں یہ کام کر سکتا ہوں اور میں نے خیال کیا کہ اگر پندرہ سو آدمی جمع ہو جائیں تو ہم اپنی اس آزادی کو برقرار رکھ سکیں گے اس پر میری آنکھ کھل گئی.فرمایا : آخر وہی ہوا جو میں نے خواب میں کہا تھا پنڈت نہرو کو میرٹھ کانگرس کے اجلاس میں کہنا پڑا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انگریز آہستہ آہستہ آزادی دینے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور انگریزوں کے ارادے اب بدلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ ہمیں آزدی دینے کو تیار نہیں.جنگ احزاب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بارہ سو سے پندرہ سو کے درمیان آدمی تھے اور بعض روایات میں دو ہزار کی تعداد بھی بیان کی گئی ہے لیکن بالعموم پندرہ سو کی تعداد ہی تاریخوں میں آئی ہے.میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے یہ
367 تعداد بتا کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ ابھی تمہاری حالت جنگ احزاب کی سی ہے.پس پندرہ سو آدمیوں سے مراد غزوہ احزاب کا طریق کار ہے اور اس خواب سے میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی مشکلات آہستہ آہستہ حل ہوں گی.فوری طور پر حل نہیں ہو سکتیں ہاں جس طرح غزوہ احزاب آخری جنگ تھی اسی طرح اب ہندوستان کی آزادی کے لئے جو جد وجہد ہوگی وہ بھی آخری جد و جہد ہو گی.الفضل 8.دسمبر 1948ء صلحہ 13 6.دسمبر 1946ء 414 فرمایا : آج رات میں نے ایک خواب دیکھا ہے میں دوستوں کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں میں نے دیکھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یا حضرت مسیح موعود عليه الصلوٰۃ والسلام (اس وقت پوری طرح یاد نہیں) لوگوں کے گھروں پر آتے ہیں اور جس گھر پر آتے ہیں اس کا دروازہ اگر بند پاتے ہیں تو واپس چلے جاتے ہیں.ایک گھر پر میں نے ایک بورڈ لگا ہوا دیکھا جس پر احمد منزل یا اس کے قریب قریب کوئی نام لکھا ہو ا تھا وہ گھر مجھے ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب یا پیر منظور احمد صاحب کا معلوم ہوتا ہے.خواب میں میں کہتا ہوں کہ انہوں نے بہت اچھا بورڈ لگایا ہے اگر اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئیں گے تو وہ سمجھیں گے کہ یہ ہمارا امکان ہے اور اس کے اندر آجائیں گے.اس کو دیکھ کر میرے دل میں بھی خیال پیدا ہوا کہ میں بھی ایک مکان بنواؤں اور اس پر اس قسم کا بورڈ لگاؤں چنانچہ خواب میں ہی میں مکان تعمیر کرتا ہوں (خواب کے نظارے بھی عجیب ہوتے ہیں) میں دیکھتا ہوں کہ ایک مکان مجھے نظر آ رہا ہے اس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ میں نے ہی بنوایا ہے اس کے باہر میں نے چونے کی ایک لمبی سی صاف جگہ بنادی ہے اور اس پر موٹے حروف سے یہ عبارت لکھوائی ہے ” میرے آقا یہ مکان آپ کا ہے.میرا تو نہیں " میں سمجھتا ہوں کہ جس مکان پر یہ بورڈ لگا ہوا ہو گا اس مکان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام داخل ہو جائیں گے ہاں ایک بات بیان کرنا رہ گئی تھی خواب میں میں نے پہلے ایک لمبی عبارت تجویز کی ہے کہ اس جگہ تفصیل کے ساتھ لکھوا دوں لیکن جگہ اتنی نہیں اس لئے میں نے یہ مختصر سا فقرہ تجویز کیا کہ ”میرے آقا یہ مکان آپ کا ہے
368 میرا تو نہیں " اور خواب میں میں بہت خوش ہوتا ہوں کہ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سید ھے اس گھر میں داخل ہو جائیں گے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اس خواب کی ایک تعبیر تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ چونکہ ظاہر لحاظ سے جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کے لئے یہاں مکانوں کی قلت ہے اس لئے اس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں پر دروازے بند کرتا ہے گویا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر دروزاے بند کرتا ہے.اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کے لئے دروازے کھولتا ہے گویا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے اپنے گھر کے دروازے کھولتا ہے.الفضل 25.دسمبر 1946 ء صفحہ 1 دسمبر 1946ء 415 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ پر ہوں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے گھر کی طرف واپسی ہو رہی ہے میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں ہم وہاں سے گھر کی طرف چلے ہیں جس جگہ ہم چل رہے ہیں وہ کوئی باقاعدہ سڑک نہیں ہے بلکہ پگڈنڈی سی ہے جیسے مٹی ڈال کر راستہ بنایا ہوتا ہے وہ راستہ دو قسموں میں تقسیم ہے.تھوڑی سی پگڈنڈی ایک طرف ہے اور تھوڑی سی پگڈنڈی دوسری طرف ہے اس کے بیچ میں درخت لگے ہوئے ہیں اور کسی کسی جگہ دیوار اور باڑی ہے جب ہم چلے ہیں تو ہمارے ساتھ کچھ غیر احمدی پٹھان ہیں اور کچھ احمد ی ہیں ہم جس سڑک پر چلے جا رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کہیں دیوار ہے اور کہیں باڑ ہے دونوں راستوں میں حد فاصل چلی جاتی ہے.میں نے ایک راستہ پر کچھ احمدیوں کو چلنے کے لئے کہا اور خود دوسرے راستہ پر چلنے لگا جس راستہ پر میں چلا اس پر ہی غیر احمدی بھی ہیں جو پٹھان معلوم ہوتے ہیں.میرے ساتھیوں میں بھی کچھ پٹھان ہیں جب ہم چلے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان غیر احمدی پٹھانوں نے احمد می پٹھانوں کو کندھے مار کر صف میں سے باہر نکالنا چاہا ہے.میں سمجھتا
369 ہوں کہ اس سے ان کا ارادہ شرارت کرنے کا ہے اتنے میں میرے ساتھیوں میں سے بھی ایک شخص نے کہا کہ یہ شرارت کر رہے ہیں.میں نے دیکھا کہ ایک ایک احمدی پٹھان بیچ میں ہے اور ان کے دونوں طرف ایک ایک غیر احمدی پٹھان ہے جو ان کو کندھے مار رہے ہیں یعنی ایک ایک احمدی پٹھان کو دو دو غیر احمدی پٹھان باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں.جب میں نے دیکھا کہ یہ شرارت بڑھتی جا رہی ہے میں اس تاڑ میں ہوں کہ اگر راستہ مل جائے تو میں دوسری طرف والے دوستوں کو بھی اس سے آگاہ کر دوں.چلتے چلتے ایک جگہ میں نے دیکھا کہ باڑ میں ایک چھوٹا سا شگاف ہے میں نے ہاتھ سے اس شگاف کو بڑا کیا اور اس میں سے جھک کر دوسری طرف نکل گیا اور میرے راستہ پر جو متوازی جا رہا تھا دوسرے ساتھیوں کو اطلاع دی پھر ان کو ساتھ لے کر اس راستہ پر آیا جس پر غیر احمدی پٹھان جو احمدیوں پر حملہ کر رہے تھے چل رہے ہیں اور آکر ان پر حملہ کر دیا اور اس وقت مجھے تین چار ہی مخالف آدمی معلوم ہوتے ہیں اور جو میرے ساتھ ہیں وہ بھی تین چارہی ہیں.ان مخالفین میں سے ایک کو میں نے پکڑ کر گرا دیا اور دوسروں.کو میرے ساتھیوں نے ایک ایک کر کے پکڑ لیا اور گرا دیا اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا با قاعدہ لڑائی یا جہاد ہو رہا ہے میں نے دوسرے ساتھیوں کی طرف تو نہیں دیکھا لیکن میں اس وقت تلوار نہیں چلا رہا بلکہ میرا مخالف خود اپنے آپ کو تلوار مار رہا ہے اور میں صرف اس کے سینے پر چڑھ کر بیٹھ گیا ہوں میں اس سے کہتا ہوں تمہیں تو تلوار چلانی نہیں آتی.اس پر اس نے اپنے پیٹ میں چھری دور تک گھیر دی اور پھر اسے پیٹ میں چکر دیا اور کہا اب تو ٹھیک ہے.میں نے کہا.ہاں اب ٹھیک ہے اس کے بعد وہ مر گیا اور میں اس کے سینہ پر سے اٹھ کھڑا ہوا اس وقت نہ مجھے کوئی لاش نظر آتی ہے اور نہ کوئی دشمن نہ میرا ساتھی تب میں قادیان کی طرف چل پڑا.راستہ اور جہت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوب کی طرف سے جس طرف مقبرہ بہشتی ہے قادیان کی طرف آرہا ہوں اس وقت ایک نوجوان آدمی میرے ساتھ ہے گو میں نے لڑائی کے وقت اسے نہیں دیکھا تھا مگر اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سب مخالفوں کو مارا ہے.میں اپنے دل میں کہتا ہوں کہ جب میں جماعت میں پہنچوں گا تو لوگوں کو بتاؤں گا کہ اس شخص نے دشمنوں کو مارا اور یوں بہادری کی.جب میں قادیان کے پاس پہنچاتو وہاں دیکھا کہ سڑک پر بہت سے آدمیوں کا ہجوم ہے جیسے کوئی جلسہ ہو رہا ہے.میں نے دوستوں سے کہا کہ اس شخص کو
370 ساتھ لے آؤ مجھے خیال ہوتا ہے کہ وہ شخص حیا کی وجہ سے بھاگ نہ جائے اور اپنے دل میں کہتا ہوں کہ میں پہنچ کر اس کے کارنامے لوگوں کو سناؤں گا جب میں نے کہا کہ اس شخص کو لاؤ تو اچانک وہ شخص کہیں غائب ہو گیا دوست اس کو ڈھونڈنے لگے اور ایک شخص کو پکڑ کر میرے سامنے لائے جس کی داڑھی مونچھیں تھیں مگر میں کہتا ہوں کہ جس نے مارا تھا اس کی داڑھی مونچھیں بالکل نہ تھیں اور اس شخص کی داڑھی مونچھیں ہیں اس لئے یہ وہ شخص نہیں.اتنے میں ہجوم میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور مجھ سے اس نے کوئی بات پوچھنی چاہی جو نہی میں نے اس کی طرف توجہ کی میں نے دیکھا کہ وہ سوال کرنے والا وہی نوجوان ہے اور میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بعض دوسروں کے ہاتھ میں یہ کہہ کر پکڑوایا ہے کہ یہی شخص ہے جس نے آج ایسی خدمت دین کی ہے اسے میرے ساتھ لے آؤ مگر نہ معلوم میرے ہاتھ سے یا ان دوستوں کے ہاتھ سے چھٹ کر وہ پھر غائب ہو گیا.فرمایا : خواب میں بغیر داڑھی اور مونچھوں کے نوجوان کو دیکھنے سے مراد فرشتہ ہوتا ہے اور پھر خواب میں اس شخص کا غائب ہو جانا بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ فرشتہ تھا کیونکہ ہم لوگوں کے سامنے اس کی تعریف کرنا چاہتے تھے اور بتانا چاہتے تھے کہ اس نے یوں بہادری کی اور یوں دشمن کو مارا مگر وہ غائب ہو گیا اور اس نے سمجھا کہ میں تعریف سے بالا تر اور مستغنی ہوں میں نے جو خواب میں دیکھا کہ میرا مخالف خود اپنے آپ کو مارتا ہے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے نے ہی اسے مارا ہے اور میرا اس پر حملہ کرنا بلکہ اس کا خود اپنے آپ کو مارنا ظاہر کرتا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارے دشمنوں کی ہلاکت فرشتوں کے ہاتھوں سے ہوتی ہے.خواب میں مجھے جو افغان دکھائے گئے ہیں ممکن ہے افغانستان میں تبلیغ کے لئے اللہ تعالٰی کوئی سامان پیدا کر دے.اس وقت یہ حالت ہے کہ اکاد کا پٹھان یہاں آجاتا ہے اور بیعت کر جاتا ہے لیکن وہ شور نہیں جو صاجزادہ عبد اللطیف صاحب کی شہادت کے زمانہ میں ہوا تھا اور اس سے وہاں کے بہت سے لوگ متاثر ہو گئے تھے مگر اس خواب سے معلوم ہو تا ہے کہ اللہ تعالیٰ پھر وہاں تبلیغ کے سامان پیدا کرنا چاہتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ہماری مخالفت پھر سے تیز ہو جائے گی لیکن خدا تعالیٰ ایسے سامان کرے گا کہ ہمارے دشمن خود بخود اپنے ہاتھوں ہلاک ہو جائیں گے.الفضل 3.جنوری 1947ء صلح 1-2
371 416 8 جنوری 1947ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں کسی جگہ پر ہوں اور مہارا بہ صاحب پٹیالہ کی طرف سے مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں ان کے لئے زیور خریدوں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیخ یعقوب علی صاحب یہ پیغام مہا راجہ صاحب کی طرف سے لائے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ مجھے اس طرح زیور خریدنے میں تردد ہے کیونکہ ممکن ہے کہ اگر میں زیور خریدوں تو وہ مہاراجہ کو پسند آئے یا نہ آئے مگر شیخ یعقوب علی صاحب کہتے ہیں کہ مہاراجہ صاحب کا یہ پیغام ہے کہ آپ اپنی مرضی سے جو زیور خریدیں گے انہیں پسند ہو گا.اس کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ مہاراجہ صاحب خود مجھ سے ملنے کے لئے آئے ہیں انہوں نے اس وقت ایسے زیورات پہنے ہوئے ہیں جیسے عام طور پر راجے مہاراجے پہنتے ہیں.ان کا لباس بھی زرق برق ہے.انہوں نے آکر مجھ سے مصافحہ کیا اور میں نے ان کو اپنے پاس بٹھا لیا.ایک طرف میں بیٹھا ہوں درمیان میں مہا راجہ صاحب پٹیالہ اور ان کے پرے شیخ یعقوب علی صاحب بیٹھے ہیں اس وقت میں اپنے دل میں ارادہ کرتا ہوں کہ چونکہ مہاراجہ صاحب خود آگئے ہیں اس لئے اب میں ان کے سامنے ان کے لئے زیور خریدوں گا اس طرح ان کی مرضی معلوم ہو جائے گی.میں یہ ارادہ کرہی رہا تھا کہ یکایک غیب سے ایک زیور میرے سامنے آگیا اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی زیور دکھاتا ہے وہ زیور ایک ہی ہے اور سامنے لٹک رہا ہے جیسے وہ ہوا میں معلق ہو.کوئی آدمی نظر نہیں آتا جس نے اسے پکڑا ہوا ہو وہ زید رعام زیورات سے بہت بڑا ہے.اس کی شکل اس قسم کی ہے جیسے سینہ پر پہننے والے ہاروں کے نیچے ٹیکے ہوتے ہیں مگر نی کے تو بہت چھوٹے ہوتے ہیں مگر وہ زیو را نتا بڑا ہے جیسے زرہ ہوتی ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بیچ میں ایک چیز ہے جو چو کو رسی ہے.اس کے کنارے اٹھے ہوئے ہیں اور بیچ سے وہ خالی ہے اس چوکور کے ارگرد بیضوی شکل میں ہیرے اور زمرد جڑے ہوئے ہیں اور غالبا تین قطاروں میں ہیں اس زیور کی شکل قریباً یوں بن جاتی ہے.
372 وہ ہیرے اور زمرد اتنے بڑے ہیں کہ اخروٹ سے بھی بڑے نظر آتے ہیں.ایک زمرد جو اس وقت میری آنکھوں کے سامنے ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ میں نہایت حیرت سے اس کو دیکھتا ہوں.وہ سارے کے سارے ہیرے اور زمرد نہایت صاف ہیں اور کوئی داغ یا نشان ان میں نہیں ہے.مہاراجہ صاحب پٹیالہ بھی اس زیور کو دیکھ رہے ہیں اتنے میں میں نے دیکھا کہ میری لڑکی امتہ القیوم بھی آگئی ہے وہ زیور کو دیکھ کر کہتی ہے باقی سب جگہوں پر تو ہیرے اور زمرد جڑے ہوئے ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہو تا اگر درمیانہ چوکور مربع جگہ کے اندر بھی کوئی جو ہر ہوتا تب یہ زیور زیادہ خوبصورت نظر آتا جب میری لڑکی نے یہ کہا کہ اس مربع کے اندر بھی کوئی جو ہر ہونا چاہئے تھا تو میں نے دیکھا کہ وہ چو کو رسی بیچ والی چیز جس کے پہلو اٹھے ہوئے ہیں اور جو بجائے سونے کے چاندی کی ہے اور اس کے اندر گہرا سرخ رنگ بھرا ہوا ہے اس کے اندر سے روشنی آرہی ہے اس روشنی سے وہ سرخی اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ نہایت خوش نما معلوم ہوتی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں ان کے ارد گرد جو ہیرے اور زمرد دائروں کی شکل میں زیور پر جڑے ہوئے ہیں آپ کی اولاد یا خلفاء ہیں.اس کے بعد میں اپنی لڑکی سے کہتا ہوں اس چوکور کے اندر کسی ہیرے یا زمرد کا نہ لگنا ہی اس کی اصل خوبصورتی ہے.اس کے بعد میں نے اس چو کو رخانہ کی طرف نظر ڈالی جدھر سے روشنی آتی ہے تو میں نے دیکھا کہ اس طرف نیچے کی طرف سے ایک سوراخ ہے جس کے پہلو میں ایک تیز روشن بلب لگا ہوا ہے.عجیب بات یہ ہے کہ باوجو د بلب کھلا ہونے کے اس کی روشنی اور تو کسی طرف نہیں جاتی صرف اس چوکور کے اندر آتی ہے اور اس روشنی سے اس چوکور خانہ کی سرخی اتنی تیز اور خوش نما ہو جاتی ہے کہ لعل کو بھی مات کرتی ہے.میں اپنی لڑکی سے کہتا ہوں کہ تمہارا یہ خیال کرنا کہ اس چوکور کے اندر بھی کوئی ہیرا یا زمرد ہونا چاہئے تھا تمہاری غلطی ہے یہ
373 چوکور اس کے بغیر ہی ہونا چاہئے.کیونکہ دوسری چیزیں جو ہیرے اور زمرد وغیرہ ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ان کی بناوٹ میں انسانی کسب کا دخل ہے یعنی خلفاء اور اولاد اپنے متبوع یا اپنے آباء سے بھی علم سیکھتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اندر کسی کسب کا سوال نہ تھا انہوں نے سب کچھ براہ راست اللہ تعالیٰ سے سیکھا اس لئے چوکور میں کوئی جو ہر نہ ہونا چاہئے تھا جب میں یہ باتیں کر رہا ہوں (چونکہ میری نظر ظاہر میں بھی کمزور ہے) وہ ہیرے اور زمرد جو نظر آتے ہیں ان کے نیچے مجھے تو کوئی شعر نظر نہیں آتا مگر مہا راجہ صاحب پٹیالہ کہتے ہیں کہ ان کے نیچے کیسے عمدہ شعر لکھے ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں ہر ہیرے اور زمرد کے نیچے ایک ایک شعر ہے انہوں نے کئی شعر پڑھے اور درمیان چو کو روالا شعر بھی پڑھا جب انہوں نے شعر پڑھا تو وہ بہت خوش معلوم ہوتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اب ان کی تسلی ہو گئی ہے اور ان کو یہ زیور پسند آگیا ہے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.ان شعروں سے معلوم ہو تا ہے کہ ہر ہیرے کی ایک کیفیت شعر میں بیان ہوئی ہے جو شعر مہاراجہ صاحب نے خالی چوکور خانہ کے نیچے پڑھا اس میں سے مجھے یہ الفاظ یاد رہ گئے " احمد مختار مجھے گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مجھے "احمد مختار " کہتا ہے یا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جو کہ اصل "احمد مختار " تھے مجھے چاہتے ہیں اور مجھ سے پیار کرتے ہیں اس شعر کا صرف یہی حصہ یا د رہا باقی شعر میں اس وقت بھول گیا ہوں.تعبیر : پٹیالہ سے میں سمجھتا ہوں کہ ممکن ہے اس رویا سے اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا ہو کہ خود انہیں یا ان کی اولاد کو اللہ تعالیٰ ہدایت بخشے گا کیونکہ کسی سے خوبصورتی لینے سے مراد ایمان نصیب ہوتا ہوتا ہے اور پھر ان کو ایسا زیور پسند آجانا جس پر ”احمد مختار " کے الفاظ ہوں اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو یا ان کی اولاد کو ہدایت نصیب کرے گا.الفضل 21.جنوری 1947ء صفحہ 3.نیز دیکھیں.الفضل 5.فروری 1948ء صفحہ 4 417 مارچ 1947ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک انگریز ڈاکٹر کو ہدایات دے رہا ہوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی وباء پھیلی ہوئی ہے اور میں اس سلسلے میں ہدایات دے رہا ہوں.ہے تو وہ ڈاکٹر
374 لیکن بعض ضروری باتوں کے متعلق میں اسے سمجھانا چاہتا ہوں.میں نے چار باتیں بتائی ہیں کہ فلاں قسم کی دوائی استعمال کی جائے اور فلاں فلاں باتوں کی طرف خاص خیال رکھا جائے.بیان کرنے کے بعد میں اسے کہتا ہوں کہ جو باتیں میں نے تمہیں بتائی ہیں وہ دہراؤ اس نے ان باتوں کو دہرایا ہے لیکن ایک بات رہ گئی ہے میں اسے کہتا ہوں کہ ایک بات رہ گئی ہے اور اس کا خیال رکھنا ضروری ہے ابھی میں نے اپنی بات پوری نہیں کی کہ میرے سامنے ایک نوجوان کھڑا ہو کر او بو یہ کہتا ہے کہ آپ کا مطلب یہی ہے نا کہ ان تینوں باتوں پر عمل کرنے کے علاوہ جو بیمار ہو اس کے متعلق آپ کو اطلاع دی جائے اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ چوتھی بات جو وہ بھول گیا ہے وہ یہی ہے کہ مجھے دعا کے لئے بھی لکھا جائے.چنانچہ میں نے اس شخص سے کہا کہ ٹھیک ہے یہی میرا مطلب ہے میں توجہ دلا رہا ہوں کہ دعا بھی ضروری چیز ہے اس کے بعد میں بیدار ہو گیا.بیداری کے بعد مجھ پر کشفی حالت طاری ہو گئی اور میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ میرے بائیں ہاتھ میں ایک دوائی کی شیشی ہے اس کا کارک کھلا ہوا ہے اور وہ دوائی سرخ رنگ کی ہے اس کے بعد یہ حالت جاتی رہی.تعبیر کرتے ہوئے فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ کسی وباء کے پھیلنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ دوا کے ساتھ دعا کو بھی شامل رکھنا چاہئے اور اسے بھی ضروری سمجھنا چاہئے.الفضل 20.مارچ 1947ء صفحہ 1 418 مارچ 1947ء فرمایا : آج میں نے ایک رؤیا دیکھا ہے بظاہر اس کے مضامین ایسے ہیں جو کہ قابل اعتراض نظر آتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ دشمن اس کی ہنسی اڑائے لیکن اس کی ہنسی کی ہمیں پرواہ نہیں اس رویا میں اللہ تعالیٰ نے بعض علمی مضامین کی طرف اشارہ فرمایا ہے لوگوں نے اپنے اپنے علم کے مطابق حقائق کے مختلف معیار اپنے ذہنوں میں مقرر کئے ہوئے ہیں جب کوئی بات ان کے علم کے مطابق نہ ہوا سے ماننے کو تیار نہیں ہوتے.اس رویا میں اللہ تعالیٰ کی رحمیت کی صفات کی طرف لطیف رنگ میں اشارہ کیا گیا ہے.وہ رو یا دنیوی زندگی کی مشکلات اور کامیابیوں کے رستے کا ایک روحانی نقشہ ہے اور اس میں جنت کی نعمتوں اور دوزخ کے حالات پر روشنی ڈالی ۱۱
375 گئی ہے اور وہ مناظر ایسی تیزی کے ساتھ میری آنکھوں کے سامنے سے گزرے ہیں جیسا کہ فلم تیزی کے ساتھ چلتی ہے اس کے سارے حصے تو اس وقت یاد نہیں جو حصے یاد ہیں وہ بیان کرتا ہوں.میں نے دیکھا کہ میں سفر کر رہا ہوں اور مجھے سفر میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں کہیں دریا اور نالے رستے میں آجاتے ہیں کہیں پہاڑیاں رستہ میں آجاتی ہیں بعض پہاڑیاں خوشنما ہیں اور بعض بالکل پھسلنی اور سخت ہیں کسی جگہ گھاس اور سبزہ ہے اور بعض جگہ بالکل ننگی پہاڑیاں ہیں ان پر کوئی درخت و غیرہ نہیں اور بعض جگہ میلوں میں نیچے کھڈ دکھائی دیتی ہیں جن کو دیکھ کر دل سخت گھبرا جاتا ہے.میں ان سب پر سے گزرتا جاتا ہے ہوں اس رویا میں میں نے جو نظارے دیکھے ہیں وہ اس دنیوی زندگی کے بالکل مشابہ ہیں.بعض دفعہ انسان کو اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ وہ گھبرا جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میرے لئے یہ دنیا جہنم بن گئی ہے یا میرے دل میں جہنم کی آگ سلگ رہی ہے اور بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے آرام کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور اس کے لئے اس دنیا کو جنت بنا دیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ (الرحمن : (47) کہ مومن کے لئے دو جنتیں ہوتی ہیں اسی طرح میں نے جو مختلف قسم کے نظارے دیکھے ہیں وہ بھی اس دنیا کی دوزخیں اور جنتیں ہیں ان میں سے گذرتے ہوئے میں ایک عجیب جگہ پر پہنچا ہوں جہاں سے نظارے کی شکل بدلتی ہے خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ یہ دنیا ختم ہو گئی ہے اور اگلا جہاں شروع ہو گیا ہے.اس میں میں نے ایک نظارہ دوزخ کا دیکھا.میں نے دیکھا کہ دوزخ میں بچھو ہیں لیکن وہ بچھو اس دنیا کی طرح کے نہیں یہاں تو بچھو عام طور پر انگلی سے چھوٹے ہوتے ہیں لیکن وہاں جو میں نے بچھو دیکھے وہ چھ سات گز کے قریب لمبے ہیں پہلے مجھے صرف دو بچھو نظر آتے ہیں جو علاوہ سات آٹھ گز لمبے ہونے کے موٹے بھی بہت ہیں جیسے ہوائی جہاز ہوتا ہے ویسے لگتے ہیں.مگر ہوائی جہاز جتنے جسم کے نہیں جو کہ ایک دوسرے کے قریب ہوتے جا رہے ہیں ان میں سے ایک دوسرے پر اس طرح گرا ہے جس طرح کہ جانور جفتی کے لئے جمع ہوتے ہیں جب ایک دوسرے پر کو دنے کی کوشش کرتا ہے تو میں نے دیکھا کہ دوسرے نے اوپر گرنے والے بچھو کو زور سے ڈنگ مارا اور وہ اچھل کر سامنے جاپڑا پھر اس نے دوسرے کی طرف منہ کر کے آگ کا شعلہ نکالنا شروع کیا جو دور اوپر تک جاتا ہے اور
376 دوسرے نے بھی اس کے جواب میں آگ کا شعلہ نکالنا شروع کر دیا اور دونوں شعلوں کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ لڑائی کرتے ہیں اس کے بعد کچھ اور بچھو پیدا ہو گئے ان کے قد بھی اسی طرح سات آٹھ گز کے قریب ہیں پھر وہ بھی آگے شعلوں سے لڑائی کرتے ہیں اس کے بعد کچھ اور چھو پیدا ہو گئے ہیں ان کے قد بھی اسی طرح سات آٹھ گز کے قریب ہیں پھر انہوں نے بھی آگ کے شعلوں سے لڑائی شروع کر دی اور ان کے شعلوں کا نظارہ نہایت ہیبت ناک تھا میں نے دیکھا کہ یکدم ایک بچھو نے پلٹا کھایا اور آدمی کی شکل اختیار کرلی اور اس نے اسی کمرہ کی طرف بڑھنا شروع کیا جہاں میں بیٹھا تھا میں گھبرا کر وہاں سے چل پڑا ہوں اس وقت مجھے پیچھے کی طرف سے آواز آئی.معلوم نہیں کہ وہ فرشتے کی آواز ہے یا کسی اور کی.قرآن پڑھو.قرآن پڑھو.اس آواز کے آتے ہی میں نے قرآن شریف بلند اور سریلی آواز میں پڑھنا شروع کر دیا.میں نے محسوس کیا کہ میری آواز بہت سریلی اور بلند ہے اور میں جس طرف سے گزرتا ہوں میری آواز پہاڑیوں اور میدانوں میں گونج پیدا کر دیتی ہے گویا ساری دنیا میں پھیل رہی ہے اور جس کے کانوں میں وہ آواز پڑتی ہے وہ بھی قرآن کریم پڑھنے لگ جاتا ہے میں چلتا جا رہا ہوں اور قرآن کریم پڑھتا جا رہا ہوں چاروں طرف سے قرآن کریم پڑھنے کی صدائیں میرے کانوں میں آ رہی ہیں.میری آواز کے بعد میں نے محسوس کیا کہ کوئی عورت بھی قرآن کریم پڑھتی ہوئی میرے پیچھے آرہی ہے یا ذکر الہی کر رہی ہے.رستہ میں کئی ہاں آتے ہیں جن کے کمرے نہایت خوبصورت اور عالیشان ہیں اور ان کمروں میں خوبصورت گوچیں (COUCH) اور کرسیاں بچھی ہوئی ہیں.میں رستہ چلتے ہوئے کسی چیز کو ایک طرف کر کے نہیں گزرتا بلکہ جو چیز رستے میں آئے اسے سیدھا پھلانگ کر گزرتا ہوں اور ادھر ادھر سے گزرنے کے لئے میں رستہ تلاش نہیں کرتا بہت بڑے بڑے ہال میرے رستہ میں آتے ہیں.میں ان کے اندر سے ان کے سامانوں پر پاؤں رکھ کریا کو دکر گزر جاتا ہوں آخر ایک ایسی جگہ میں پہنچا ہوں جہاں ایک میدان ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہاں ایک باغ ہے جس میں میرا مکان ہے میرے پیچھے پیچھے وہ عورت بھی وہاں پہنچ گئی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ جنت میں میرے ساتھ رہنے کے لئے آئی ہے وہ بہت ہی خوبصورت عورت ہے میں اس کی ٹھوڑی کو پکڑ کر کہتا ہوں کیا تم بھی جنت میں میرے ساتھ رہو گی.اس نے کہا.ہاں میں آپ کے ساتھ جنت میں رہوں گی میں نے اسے کہا کہ تمہیں
377 میری بیویوں کے ساتھ رہنا پڑے گاوہ کچھ حیرت ظاہر کرتی ہے کہ بیویوں کے ساتھ ؟ مگر اس نے انکار نہیں کیا اس وقت یکدم میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ خوبصورت عورت اللہ تعالیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ میرے ساتھ جنت میں رہے گا اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.فرمایا : جہاں تک میں نے اس خواب پر غور کیا ہے اللہ تعالیٰ نے اس خواب میں روحانی علم سکھایا ہے.خواب میں میں نے جو بچھو دیکھے ہیں اور اس کے ساتھ آواز آئی کہ قرآن پڑھو قرآن.اس میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو سبق سکھایا ہے کہ دوزخ سے بچنے کا ذریعہ صرف قرآن کریم ہے اور بچھوؤں کے نظارہ سے ایک اور نکتہ بھی حل ہو گیا.یہودی اور عیسائی لٹریچر میں بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ دوزخی آپس میں ہی ایک دوسرے کو کاٹیں گے اور وہ لوگ جو بچھو کی طبیعت رکھنے والے ہیں ان کی بد اعمالیاں ان کو بچھوؤں کی شکل دے دیں گی ورنہ دوزخ میں کہیں با ہر سے بچھو لا کر نہیں ڈالے جائیں گے.اس رویا میں جماعت کے لئے اس رنگ میں بشارت ہے کہ میں نے اس عورت سے کہا ہے کہ میری بیویوں کے ساتھ رہنا ہو گا اور وہ رضامند ہو گئی جنت میں بیویوں سے مراد ساتھی ہیں.الفضل 20.مارچ 1947 ء صفحہ 2.1 419 3.اپریل 1947ء فرمایا : آج رات میں نے سحری سے پہلے ایک رویا میں دیکھا کہ ایک جگہ میرا بستر بچھایا جا رہا ہے یا بچھایا جانے والا ہے اور کوئی شخص آکر مجھے کہتا ہے کہ گاندھی جی آپ سے ملنے کے لئے آنا چاہتے ہیں مگر ان کی یہ شرط ہے کہ وہ آپ کے ساتھ ایک ہی چارپائی پر سوئیں گے پہلے تو مجھے یہ شرط سن کر کچھ نفرت سی ہوئی پھر میں نے یہ خیال کر کے کہ اگر اس طرح صلح کی کوئی صورت ہوتی ہے تو کیا حرج ہے کہا کہ اچھا مجھے منظور ہے.چنانچہ وہ آگئے اور ایک ہی بستر پر وہ بھی لیٹ گئے اور میں بھی لیٹ گیا ان کا جسم کچھ موٹا سا معلوم ہوتا ہے اور اوپر کے دھڑ پر بھی کپڑا ہے (ان کی عادت کے خلاف) اس کے بعد ایک منٹ یا ڈیڑھ منٹ لیٹ کر ہی وہ اٹھ بیٹھے جیسے اب سونے کا ارادہ نہیں ہے.اس کے بعد باتیں شروع ہو گئیں.اس گفتگو کے دوران وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہندوستان کی زبانوں کا کیا حال ہے.میں نے کہا ہندوستان کی زبانوں میں سب سے
378 اچھی زبان اردو ہے.جو نہایت شیریں اور مطالب کے ادا کرنے پر بہت قادر ہے گاندھی جی نے اس کی تصدیق کی کہ واقعی اردو زبان اچھی ہے اس کے بعد میں نے کہا اردو زبان سے اتر کر پنجابی زبان اچھی ہے اس پر وہ کچھ حیرت میں پڑ گئے اور کہتے ہیں.پنجابی ؟ میں نے کہا ہاں.پنجابی زبان بھی اچھی ہے کیونکہ اس زبان میں اردو کے بعد مافی الضمیر خوب ادا ہو سکتا ہے میں نے بعض دفعہ پنجابی زبان میں تقریریں کی ہیں اور میں گھنٹہ گھنٹہ دو دو گھنٹے تک تقریر میں کرتا رہا مگر تقریر کرتے زبان رکتی نہیں ہے اسی اثناء میں مولوی محمد اسماعیل صاحب ( ترگڑی) والوں کا خیال آگیا کہ وہ پنجابی زبان میں نہایت عمدہ نظمیں کہتے ہیں ایسے عمدہ مضامین باندھتے ہیں جو نہایت اعلیٰ پایہ کے ہوتے تھے اس پر گاندھی جی کچھ حیران سے ہو گئے پھر وہ کہتے ہیں آپ نے عورتوں میں بھی تقریر کرنی ہے چنانچہ ہم دونوں وہاں سے اٹھ کر ایک جگہ گئے وہاں تھوڑی سی عورتیں بیٹھی ہیں کوئی آٹھ دس کے قریب ہوں گی یہ معلوم نہیں کہ وہ کس مذہب کی ہیں ان عورتوں کی تعداد دیکھ کر مجھے خیال گزرتا ہے کہ میں ان میں کیا تقریر کروں گا زیادہ ہوتیں تو کر دیتا گاندھی جی کو بھی اس کا احساس ہوا کہ عورتوں کی تعداد تو تھوڑی ہے اس لئے انہوں نے کہا چلئے پھر کبھی تقریر ہو جائے گی اس کے بعد کچھ اور نظارہ بھی تھا مگر وہ مجھے یاد نہیں رہا.فرمایا : اس رویا سے میں سمجھتا ہوں کہ جیسا کہ موجودہ حالات کی وجہ سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین صلح ہونی بالکل ناممکن ہے ان کا یہ خیال غلط ہے کیونکہ رویا میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اور بظاہر اس رؤیا کا مفہوم بھی یہی ہے کہ صلح کی کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے گی میرا گاندھی جی سے یہ کہنا کہ اردو زبان سب زبانوں سے اچھی ہے اس سے بھی ہندو مسلم اتحاد کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے پھر میرا یہ کہنا کہ اردو زبان سے اتر کر پنجابی زبان ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید سکھ قوم کی بھی دل جوئی ہو جائے بہر حال ابھی ایسا وقت نہیں آیا کہ صلح کے امکانات ہی نہیں رہے.ہمیں اس طرف سے توجہ نہیں ہٹانی چاہئے لوگوں کا یہ خیال کہ صلح نہیں ہو سکتی غلط ہے.یہ رویا اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ تھوڑی سی کوشش سے مسلمانوں کے حقوق تسلیم کرلئے جائیں گے گاندھی جی کا یہ کہنا کہ میں آپ کے ساتھ سوؤں گا اس کا مطلب بظاہر یہی ہے کہ وہ اکھنڈ ہندوستان کی شرط ضرور منوانا چاہتے ہیں اس طرح اردو اور پنجابی کا ذکر ہندوستان کی مختلف اقوام کے اتحاد کی طرف اشارہ
379 کرتا ہے پھر عورتوں کا لیکچر نہ سننا.اس سے شاید یہ مراد ہے کہ چونکہ ہندو عورتوں میں مردوں کی نسبت تفاخر کا جذ بہ زیادہ پایا جاتا ہے ممکن ہے وہ ہندو مردوں جتنا راضی نہ ہوں یا پھر عورتوں سے مراد تابع اور عوام الناس بھی ہو سکتے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ عوام الناس اسے پسند نہ کریں گے مگر لیڈ ر راضی ہو جائیں گے.الفضل 12.اپریل 1947ء صفحہ 2 420 11 اپریل 1947ء فرمایا : تکل رات میں نے ایک رؤیا دیکھی ہے جو کہ آئندہ کے حالات کے متعلق معلوم ہوتی ہے میں نے دیکھا کہ میں ایک مکان میں ہوں اور خواب میں سمجھتا ہوں کہ قادیان سے باہر ہوں.اونچا سا مکان ہے اس مکان کی شکل حضرت خلیفہ اول کے مکان کی سی ہے اس مکان کے مشرق کی طرف ایک دالان ہے اس میں میں آرام کرنے کے لئے گیا ہوں اور میرے ساتھ میری بیوی مریم صدیقہ معلوم ہوتی ہے اور اس مکان کے مغرب کی طرف ایک اور دالان ہے اس میں میری دوسری بیویاں اور بچے گھرے ہوئے ہیں اور درمیان میں صحن ہے اور پرے کر کے کچھ اور مکانات ہیں جن میں میرے ساتھ کے دوست ٹھرے ہوئے ہیں یکدم بہت شور و غوغا ہوا ہے.میں اس شور کو سن کر باہر آیا ہوں اس وقت میاں شریف احمد صاحب کی آواز کہیں سے آئی ہے وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوج قابو سے نکل گئی ہے میں یہ سن کر جلدی سے اس دالان کی طرف جاتا ہوں.جہاں میری بیویاں اور بچے ٹھرے ہوئے ہیں اور ان کو جلدی تیار ہونے کے لئے کہتا ہوں.انہوں نے جلدی جلدی کپڑے پہن لئے ہیں.ہم سب وہاں سے نکل کر مغرب کی طرف چل پڑے ہیں میں نے عورتوں کو آگے رکھا ہوا ہے اور مردوں کو پیچھے تاکہ جس رفتار سے عورتیں چل سکیں اسی رفتار سے آہستہ آہستہ مرد بھی ان کے پیچھے چلتے چلے جائیں کچھ دور جا کر کچھ کچے مکانات نظر آئے.میں نے دیکھا کہ ہمارے پیچھے کچھ لوگ گھوڑے دوڑاتے ہوئے آ رہے ہیں.میں یہ سمجھتا ہوں کہ فوج نے اب اس طرف رخ کیا اور اب وہ جلدی جلدی ہماری طرف بڑھ رہی ہے.جب وہ گھوڑ سوار ہمارے قریب آئے تو میں نے دیکھا کہ ان میں سے ایک میاں شریف احمد صاحب ہیں اور کچھ ہمارے اور ساتھی ہیں اس کے بعد ان کچے مکانات میں ہم داخل ہوتے ہیں جب میں اندر ایک کمرے میں داخل ہوا تو مجھے یکدم
380 خیال آیا کہ میرے اوپر تو ٹھنڈا کوٹ تھا وہ کہاں گیا.معلوم ہوتا ہے کہ گرمی کا موسم ہے کیونکہ خواب میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں نے ٹھنڈا کوٹ پہنا ہوا تھا وہ کہیں رہ گیا ہے اور اس کی جیب میں تین ہزار روپے تھے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ کوٹ وہیں رہ گیا ہے جہاں سے ہم نکل کر آئے ہیں پھر میں خیال کرتا ہوں کہ تمام روپے تو اس کوٹ میں رہ گئے ہیں اب خرچ کہاں سے لائیں گے.میں نے سوچا کہ کسی آدمی کو بھیجوایا جائے جو کوٹ لے آئے.ہو سکتا ہے کہ دشمن کو اس کوٹ کا خیال نہ آیا ہو یہ خیال کر کے میں نے بہت سے دوستوں کو کہا (وہ دوست سینکڑں اور ہزاروں کی تعداد میں نہیں بلکہ چالیس پچاس کے درمیان معلوم ہوتے ہیں) کہ جان کو خطرے میں ڈالنے کا معاملہ ہے اس لئے اگر کوئی دوست اس جگہ واپس جا کر کوٹ لانے کو تیار ہو تو وہ اپنے آپ کو پیش کرے میں نے دو تین دفعہ یہ کہا مگر کوئی نوجوان کھڑا نہ ہوا.آخر ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کھڑے ہوئے اور وہ کہتے ہیں کہ میں جا کر کوٹ لاتا ہوں میں خیال کرتا ہوں کہ یہ بھاگ دوڑ کا کام ہے اور ڈاکٹر صاحب کی عمر ساٹھ برس کی ہے.کمزور آدمی ہیں اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کی نظر بھی کمزور ہے اور کچھ اندھیرا سا ہے جیسے صبح یا شام کے وقت کسی قدر اندھیرا ہوتا ہے اس لئے ڈاکٹر صاحب کا اکیلا وہاں جانا مناسب نہیں.میرے دل میں یہ خیال آیا ہی تھا کہ بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی میرے پاس آگئے اور کہا کہ میں بھی ان کے ساتھ جاتا ہوں میں دل میں خیال کرتا ہوں کہ بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی کو ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بھیج دینا چاہئے پھر خیال آیا کہ کوٹ لٹکایا کہاں تھا اور اپنی بیوی مریم صدیقہ سے پوچھا کہ میں نے کوٹ لٹکا یا کہاں تھا.وہ کہتی ہیں کہ سرہانے کی طرف جو کھونٹی ہے اس کے ساتھ لٹکایا تھا.میں باہر آتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ ایک شخص کھڑا یہ کہہ رہا ہے کہ فوج نے لوٹ مار شروع کر دی ہے اور بہت سے لوگ مارے جارہے ہیں.اس کی یہ بات سن کر مجھے خیال آیا کہ ہمارا گزارا تو کسی نہ کسی طرح ہو ہی جائے گا یہ دو قیمتی جانیں کیوں خطرہ میں ڈالی جائیں پھر میں میاں شریف احمد صاحب کے پاس جاتا ہوں کہ ان سے مشورہ کروں کہ آیا اس صورت میں ان دو آدمیوں کا بھیجوانا درست ہو گایا نہیں.میں نے جب ان سے مشورہ پوچھا تو وہ کہتے ہیں کہ اگر بچہ ایسی جگہ پھنس جائے تو اس کو نکالنا بہر حال ضروری ہوتا ہے میں دل میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے ان سے روپے کا ذکر کیا ہے اور یہ بچے کا ذکر کرتے ہیں کہیں میرا کوئی بچہ تو پیچھے نہیں رہ گیا.
381 اس وقت میرے دل میں میری چھوٹی لڑکی امتہ الجمیل کا خیال آیا کیونکہ چھوٹے بچوں میں سے وہی ہے جس کی والدہ فوت ہو چکی ہے اس لئے مجھے اس کا بہت خیال رہتا ہے ، میاں شریف احمد صاحب کی یہ بات سن کر میں گھبرا کر اندر جاتا ہوں کہ میرا کوئی بچہ تو پیچھے نہیں رہ گیا اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.حضور نے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا ” معلوم ہوتا ہے کہ شاید اس شورش میں جو آج کل ہندوستان میں ہے خدانخواستہ فوج کے کسی حصہ میں بھی گڑ بڑ پیدا ہو.یہ فساد پھیل جانے کا اندیشہ ہے.ہمیشہ پہلے تو فسادات ایک محدود حد تک ہوتے ہیں لیکن پھیلتے پھیلتے وہ فوجوں میں چلے جاتے ہیں اور یہ حالت ملک کے لئے نہایت خطرناک ہوتی ہے.یہ پہلی دفعہ ہے کہ میں نے فوج کو بھی فسادات میں ملوث دیکھا ہے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.الفضل 12.اپریل 1947 ء صفحہ 1-2 17/16.اپریل 1947ء 421 فرمایا : دو دن ہوئے میں نے ایک رؤیا دیکھا تھا ( یعنی سولہ سترہ اپریل کو) وہ میں دوستوں کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں میں نے دیکھا کہ میں ایک کوٹھے پر ہوں مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں.میں نیچے اترنے کے لئے سیڑھیوں کی طرف گیا میں جب سیڑھیوں سے اتر رہا ہوں اس وقت میں نے سیڑھیوں میں ایک شخص کو دیکھا وہ مجھے منافق معلوم ہوتا ہے کیونکہ جب میں نیچے اترنے لگا تو اس نے ایک دوسرے آدمی کو آواز دی کہ گرا دو.یا یہ کہا کہ دھکا دے دو مگر میں نے اس کی پرواہ نہ کی اور سیڑھیوں سے نیچے اتر گیا.میں نے دیکھا کہ ایک برآمدے میں رسی باندھ کر اس پر پر وہ لٹکایا گیا ہے اور پر وہ کے دوسرے طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف رکھتے ہیں اور لوگ ملاقات کر رہے ہیں.میں نے ذرا سا پردہ ہٹایا تو مجھے آپ کی شکل نظر آئی مگر میں نے اس وقت اندر داخل ہو نا مناسب نہ سمجھا کیونکہ میں نے خیال کیا کہ پہلے یہ لوگ ملاقات کر لیں.میں بعد میں مل لوں گا یہ سوچ کر میں آگے بڑھ گیا میں نے دیکھا کہ وہاں لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم ہے ان میں سے کچھ لوگ روسی معلوم ہوتے ہیں اور کچھ تاشقند کے رہنے والے.کسی شخص نے مجھے ان کا تعارف کرانا شروع کیا اور کہا یہ فلاں ملک کے لوگ ہیں اور یہ فلاں ملک کے باشندے ہیں اس کے بعد میں اور آگے
382 بڑھ گیا اور اس ہجوم کو دیکھتا چلا جاتا ہوں اس وقت مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا مکان کئی فرلانگ لمبا ہے اور کچھ دور جا کر میں واپس لوٹا.واپسی پر مجھے ایک فقیر ملا اس نے ایک لمبا سا چغہ نیلے رنگ کا پہن رکھا تھا.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کچھ گستاخانہ الفاظ کہے.میں نے وہ الفاظ سن کر اس کا کان پکڑ لیا اور کہا تمہاری یہ بات ایسی نا پسندیدہ ہے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے نہیں ایک عیسائی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ہندوستانی کی حیثیت سے مجھے یوں معلوم ہو رہا ہے کہ تم نے ان الفاظ سے ہندوستان کی ہتک کی ہے اور تم نے یہ نہایت ذلیل حرکت کی ہے وہ فقیر یوں تو بڑا قوی آدمی معلوم ہوتا ہے مگر جب میں نے اس کا کان ذرا سا مروڑا تو یوں معلوم ہوا کہ جیسے اسکو بجلی کے کرنٹ کی طاقت کا دھکالگا اور وہ زمین پر گر کر بے ہوش ہو گیا اور اس کے بعد کسی اور شخص نے مجھے پانی لا کر دیا یا میں نے خود پانی منگوایا اور اس کے منہ میں ڈالا تو وہ ہوش میں آگیا.پاس ہی کوئی شخص اس سے کہتا ہے کہ اب تو پاک پانی تمہارے منہ میں ڈالا گیا ہے اس لئے اب تم شدھ ہو گئے ہو اس کے جواب میں وہ فقیر کہتا ہے ایسے پانی میں نے کئی دیکھے ہیں گویا اس کی شرارت کی روح ابھی تک باقی ہے اس کے بعد میں واپس اس طرف چلا آیا جدھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف رکھتے تھے لیکن جب میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ آپ تشریف لے جاچکے ہیں.فرمایا : شدھ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہندوؤں کی طرف اشارہ ہے اور پھر رویا میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ بعض لوگ بلاوجہ مخالفت کریں گے رویا میں اس شخص کا مذہب تو نہیں سمجھ سکا مگر میں نے جو اس سے یہ کہا کہ چاہے تمہارا کوئی مذہب ہو مگر ایک ہندوستانی کی حیثیت سے تم نے یہ نہایت ہتک آمیز الفاظ کے ہیں اور تم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نہیں ملک کی ہتک کی ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ بعض اخلاقی جرائم ایسے ہوتے ہیں جن کا تعلق کسی خاص مذہب یا فرقہ سے نہیں ہو تا.الفضل 21.جون 1947 ء صفحہ 2.1 غالبا 1947ء 422 فرمایا : میں ایک دفعہ سندھ سے آرہا تھا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ کسی نے مجھ سے کہا کہ قرآن کریم میں کھیعص آتا ہے ان حروف مقطعات میں تمہارا بھی ذکر ہے.گویا مجھے بتایا گیا
383 ہے کہ کھیعص میں میرا بھی ذکر ہے اور چونکہ میرا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کا کام ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام مثیل مسیح ناصری ہیں اس لئے در حقیقت ان حروف مقطعات میں میرا ذ کر ہونے کے یہ معنے ہیں کہ کھیعص میں مسیحیت کا ذکر ہے اور جب اس میں پہلی مسیحیت کا ذکر ہے تو لازماً اس میں دوسرے مسیح کا ذکر بھی ہو گا.الفضل 30 اپريل 1947 ء ص 3 تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 116 423 20.اپریل 1947ء فرمایا : تحمل صبح نماز کے وقت جب میری آنکھ کھلی تو میری زبان پر یہ عربی کا مصرع جاری ہوا که فَإِنْ كَانَ فِي الْإِسْلَامِ حَقٌّ فَأَظْهِرٍ - فَأَظْهِر اصل میں فَأَظْهِرُ ہے جو بوجہ وقف کے متحرک کیا گیا ہے اور فاظھر کے معنی ہیں غالب کر کیونکہ أَظْهَرَ عَلَى عَدُوّہ کے معنی دشمن پر غالب کرنے کے ہوتے ہیں اللہ تعالٰی نے فَإِنْ كَانَ فِي الْإِسْلَامِ حَقٌّ فاظھر میں حق کو ٹکرہ بیان فرمایا.تنوین کے کئی معنی ہوتے ہیں تنوین تعظیم کے لئے بھی آتی ہے اور تحقیر کے لئے بھی.پس حق کے معنے کچھ حق بھی ہو سکتے ہیں اور بہت بڑے حق کے بھی پس اگر حق کے معنے تحقیر کے کئے جائیں تو اسلام سے اشارہ اس وقت کے مسلمانوں کے اسلام کی طرف ہو گا اور مراد یہ ہوگی کہ مسلمان خواہ اسلام سے کتنی دور جا پڑے ہوں مگر دعوئی اسلام میں ذرا بھی صداقت ہو تو اس کی صداقت کی خاطر ان کو غلبہ دے اور ان کو مغلوب ہونے کا جو خطرہ ہے اس سے اسے محفوظ رکھ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں خود اس دعا کی طرف متوجہ کیا ہے کہ اے خدا اسلام کو لوگوں نے خواہ کتنا ہی بگاڑ دیا ہے اور اسلام کے مسائل کو کتنا ہی مروڑ دیا ہے.اور اسلام کے اندر کتنے ہی رخنے واقع ہو چکے ہیں پھر بھی اے خدا اگر اسلام کے اندر کچھ بھی سچائی موجود ہے تو یہ مستحق ہے اس بات کا کہ اس کو دوسرے تمام ادیان پر غلبہ عطا فرمایا جائے اور اسلام کے خلاف دوسرے ادیان باطلہ کی جو جد وجہد شروع ہے اس کو ناکام فرمایا جائے اور اسلام کی فوقیت کو ظاہر فرمایا جائے.الفضل 11 - جون 1947ء صفحہ 1
384 424 $1947-5/2 فرمایا : کوئی دس بارہ دن کی بات ہے کہ القاء ہوا.گیارہ اگست تک یا گیارہ اگست کو.نہ معلوم کس امر کے متعلق ہے بہر حال ذات یا خاندان یا ملک یا قوم کے کسی اہم تغیر کی طرف اشارہ ہے.الفضل 21.جون 1947 ء صفحہ 1 *1947-25/24 425 فرمایا : پرسوں یا ترسوں رات کے وقت جب میری آنکھ کھلی تو بڑے زور کے ساتھ میرے قلب پر یہ مضمون نازل ہو رہا تھا کہ برطانیہ اور روس کے درمیان ایک ماڈیفائیڈ ٹریٹی (Modified Treaty) ہو گئی ہے جس کی وجہ سے مشرق وسطی کے ممالک میں بڑی بے چینی اور تشویش پھیل گئی ہے.ماڈیفائیڈ کے معنے ہوتے ہیں سمویا ہوا وسطی.میں سمجھتا ہوں کہ یہ الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ غالبا بیرونی دباؤ اور بعض خطرات کی وجہ سے برطانیہ مخفی طور پر روس کے ساتھ کوئی ایسا سمجھوتہ کرلے گا جس کی وجہ سے روسی دباؤ مشرق وسطی پر بڑھ جائے گا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ جو ہمیشہ روس کے مفاد کے رستہ میں حائل رہتے تھے اب بعض سیاسی حالات یا اغراض کے ماتحت اس کی مخالفت کو چھوڑ دیں گے اور ادھر روس بھی جو بعض باتوں میں برطانیہ اور امریکہ سے چپقلش رکھتا تھا اب ان کی مخالفت ترک کر دے گا.الفضل 30.مئی 1947ء صفحہ 1 426 5.جون 1947ء فرمایا : آج رات میں نے رویا دیکھا جو اس وقت میں دوستوں کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں یہ ایک اتفاق کی بات ہے کہ جس گاؤں کے متعلق مجھے رویا میں کچھ دکھایا گیا ہے اس گاؤں کے دو آدمی بھی میری ملاقات کے لئے آئے تھے.میں نے رویا میں دیکھا کہ میں کسی کام کے لئے قادیان سے باہر گیا ہوں یہ یقین تو نہیں مگر غالبا بٹالہ گیا ہوں کسی مکان کا ایک بڑا سا کمرہ ہے جس
385 میں ایک چارپائی پہ بیٹھا ہوں اس وقت ایک سکھ مجھے ملنے کے لئے آیا اور خواب میں سمجھتا ہوں کہ وہ مجھ سے کسی امداد کا طلبگار ہے میری چارپائی کے پاس ہی ایک خالی کرسی پڑی ہوئی ہے اس پر وہ سکھ بیٹھ گیا اور اس نے ذکر کیا کہ سردار سند سنگھ صاحب مجیٹھہ والے نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے.خواب میں بھی اس کی اس بات پر حیران ہو تا ہوں کہ سردار سندر سنگھ مجیٹھے والے تو فوت ہو چکے ہیں انہوں نے اس کو کس طرح بھیجا ہے یوں میں ان سے اچھی طرح واقف تھا وہ وزیر بھی رہے اور ان کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی تھے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ الیکشن کے متعلق کوئی بات چیت ہے اور ہم سے مدد مانگی جارہی ہے.( مجیٹھہ امرتسر کے علاقہ میں ہے لیکن جب سردار سندر سنگھ صاحب ممبرنی کے لئے کھڑے ہوئے تو وہ امر تسر کے علاقہ میں نہیں بلکہ بٹالہ کے علاقہ میں کھڑے ہوئے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کو اپنے علاقہ میں کامیابی کی امید نہ تھی اور وہ بٹالہ کے علاقہ میں اس لئے کھڑے ہوئے تھے کہ ہمارے ساتھ ان کے تعلقات تھے اور ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کے چیفس کالج میں ہم جماعت بھی رہ چکے تھے اور چونکہ بٹالہ کے علاقہ میں ہمارا اثر کافی تھا اس لئے وہ اسی حلقہ سے کھڑے ہوئے.) اس سکھ نے مجھے کہا کہ مجھے سردار سندر سنگھ مجیٹھہ والے نے آپ کے پاس امداد کے لئے بھیجا ہے کیا آپ کچھ امداد کریں گے میں نے کہا ہاں جب سردار صاحب پہلے کھڑے ہوئے تھے تو ہم نے ان کی امداد کی تھی اور وہ کامیاب بھی ہو گئے تھے پھر ان کے بیٹے سردار کرپال سنگھ صاحب کھڑے ہوئے تو انہوں نے مجھے خط لکھا کہ کیا آپ ہماری مدد کریں گے میں ان دنوں سندھ میں تھا میں نے انہیں جواب میں لکھا کہ ہم آپ کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن جب میں قادیان واپس آیا تو ان کا کوئی آدمی مدد لینے کے لئے میرے پاس نہ پہنچا اور وہ کامیاب نہ ہو سکے اس پر میں نے انہیں خط لکھا کہ ہم تو آپ کی مدد کے لئے تیار تھے مگر آپ نے اپنا کوئی آدمی ہمارے پاس نہ بھیجا.اس کے جواب میں ان کا پیغام آیا کہ ہاں آپ نے تو مدد کا وعدہ کر دیا تھا مگر افسوس ہے کہ بعض وجوہات کی بناء پر میں آپ سے مدد نہ طلب کر سکا.چنانچہ ایک وجہ انہوں نے یہ لکھی کہ مجھے مشورہ دیا گیا تھا کہ اگر آپ نے احمدیوں سے مدد لی تو ہندو اور سکھ آپ کا ساتھ نہ دیں گے.وہ ناراض ہو جائیں گے اس لئے میں نے آپ کو مدد کے لئے نہ لکھا اب میں پچھتا رہا ہوں
386 کہ میں نے غلطی کی تھی.پھر میں نے اس سکھ سے کہا کہ جب سردار کرپال سنگھ کے بڑے بھائی کھڑے ہوئے تو انہوں نے بھی ہم سے کوئی مدد نہ چاہی اور ہمارے ساتھ تعلق نہ رکھا اس کے بعد میں نے کسی سے کہا کہ جماعت کھو کھر کو بلاؤ.کھو کھر کی جماعت کے بہت سے آدمی اس کمرہ میں آگئے.ویسے تو جہاں تک میرا علم ہے کھو کھر کی جماعت کے آدمی تھوڑے ہیں مگر خواب میں میں دیکھتا ہوں کہ ان لوگوں کے آنے سے کمرہ بھر گیا اور ان کی تعداد اتی اور سو (۱۰۰) کے در میان معلوم ہوتی ہے.میں نے ان سے پوچھا.آپ کے کتنے ووٹ ہیں ان میں سے ایک بوڑھے نے کسی احمدی کا نام لے کر کہا اس کا ایک ووٹ ہے اس کے بعد اس نے بیل بیل کا لفظ متواتر بولنا شروع کر دیا.میں خواب میں سمجھتا ہوں کہ یہ شخص مجلس میں بولنے سے گھبرا رہا ہے پھر وہی شخص کوئی نام لیتا ہے اور اس کے بعد پھر بیل بیل کہنا شروع کر دیتا ہے اس پر میں نے اس بڑھے سے کہا آپ ایک طرف ہو جائیے میں دوسروں سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اتنا کہنے کے بعد پھر مجھے خیال آیا کہ اس بڑھے سے تو پوچھنا چاہئے کہ بیل بیل کہنے سے اس کی کیا مراد ہے چنانچہ میں نے بڑھے کو بلا کر پوچھا کہ آپ بیل بیل کیا کہہ رہے تھے اس بڑھے نے عجیب بات سنائی اور اس وقت یوں معلوم ہونے لگا کہ بڑھا گھبراتا نہیں ہے اور اب اس کو اپنے نفس پر قابو ہے.بڑھے نے کہا ہمارا ایک آدمی ہے اس کو کہیں گرنے سے ہونٹوں پر چوٹ لگ گئی اور اس کے ہونٹ بہت موٹے اور بھرے ہو گئے تھے جس کی وجہ سے اس کو بیل کے نام سے پکارا جاتا ہے گویا اصل نام اس کا اور ہے مگر ہونٹوں کی نسبت سے اس کی آئی بیل پڑگئی (جیسے عام طور پر کسی لیے آدمی کو لمبو اور چھوٹے قد والے کو ٹھگنا یا گٹھ مٹھیا کہہ دیتے ہیں) جب وہ بڑھا بیل کے لفظ کی تشریح کر رہا تھا تو وہ سکھ بیچ میں بول پڑا اور اس نے کہا کہ سردار صاحب آپ کا شکریہ ادا کرتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ میں جماعت احمدیہ قادیان اور جماعت احمد یہ لاہور کا بھی ممنون ہوں.یہ سن کر ہماری جماعت کے دوستوں کو غصہ آیا اور ان میں سے کسی نے کہا کہ ووٹ تو سارے ہمارے ہیں.ان کا کیا ہے ہمارے پندرہ ہزار ووٹ ہیں اور ان کے پندرہ سو بھی نہیں.اس وقت خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ بٹالہ کے علاقہ میں ہماری جماعت کے ووٹوں کا اندازہ پندرہ ہزار ہے.اس کے بعد اس سکھ نے نوٹوں کا ایک گٹھا میری چارپائی پر رکھ دیا جیسے کوئی ہدیہ پیش کرتا ہے مجھے خواب میں خیال گزرتا ہے کہ نوٹوں کا گٹھا اس لئے پیش کر رہا ہے کہ لوگوں کی
387 مہمان نوازی پر جو اخراجات ہوں وہ اس روپے سے ادا کئے جائیں اور خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ ان نوٹوں کی مالیت ڈیڑھ سو روپیہ ہے میں نے اس سکھ سے کہا.اس موقع پر ہم کسی شخص سے کچھ نہیں لیا کرتے اس کے بعد اس نے ایک او.گٹھانوٹوں کا میری طرف پھینکا نگر میں نے کہا.ہم آپ سے کچھ نہیں لیں گے کیونکہ یہ طریق اخلاق کے خلاف ہے اس کے بعد مجھے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نظر آتے ہیں.میں نے ان سے کہا کہ ان کے کھانے کا انتظام کیا جائے وہ کہتے ہیں.اس وقت اور تو کوئی موزوں آدمی نہیں ہے کیا میں یہ انتظام میاں خلیل احمد صاحب کے سپرد کر دوں.میں نے کہا کسی کے بھی سپرد کر دیں بہر حال انتظام ہونا چاہئے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.فرمایا : واقعات بالکل اسی طرح گزرے ہیں جیسا کہ خواب میں مجھے دکھائے گئے ہیں سردار سندر سنگھ صاحب مجیٹھ والوں کا واقعہ بھی اسی طرح تھا اور سردار کرپال سنگھ کا جو واقعہ خواب میں آیا ہے وہ بھی بالکل ویسے ہی تھا میں نے ان کی ممبری کے لئے کھڑے ہونے کے وقت ان کے خط کے جواب میں سندھ سے لکھا تھا کہ ہم آپ کی مدد کریں گے مگر جب ہم واپس قادیان آئے تو ان کا کوئی آدمی ہمارے پاس نہ پہنچا اور انہوں نے ہم سے مدد نہ لی اور جب ان کے ہار جانے پر ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے مدد کیوں نہ لی تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ مجھے ہندوؤں اور سکھوں نے ورغلایا تھا کہ ان سے مدد نہ کی جائے اور اب اسی وجہ سے میں ہار گیا ہوں اور افسوس کر رہا ہوں کہ مدد کیوں نہ لی گئی پھر ان کے دوسرے بھائی کا بھی خواب میں ذکر آیا ہے اور اسی رنگ میں آیا ہے کہ انہوں نے مدد نہ لی.یہ رویا پردے کی ہے اور اس کا پورا انکشاف مجھ پر نہیں ہو سکا مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سکھوں کو مسلمانوں کی مدد کی ضرورت پڑے گی اور ان کی مدد کے بغیر ان کو امن نہیں ملے گا عجیب بات یہ ہے کہ اب جبکہ باہر سے آنے والے دوستوں نے مجھ سے بھی ملاقات کی تو ان میں دو آدمی اس جگہ کے تھے جس کے ساتھ خواب کا تعلق تھا.یعنی مجیٹھ کے.اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ رویا کوئی خاص مقصد رکھتی ہے.الفضل 8.اگست 1951 ء صفحہ 4
388 427 15/14.جون 1947ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ چار پانچ لنگور ہیں جو میرے بائیں طرف سینے کے ساتھ چھٹے ہوئے ہیں ممکن ہے وہ کوئی اور چیز ہوں مگر خواب میں میں ان کو لنگو رہی سمجھتا ہوں لیکن وہ اتنے چھوٹے چھوٹے ہیں کہ اگر ہاتھ کی ہتھیلی کو پھیلا دیا جائے تو اس میں آسکتے ہیں وہ سارے کے سارے بڑے زور کے ساتھ میرے سینے کو پکڑے ہوئے ہیں میں اپنے دل میں خیال کرتا ہوں کہ جب میں ان کو ہٹانے لگوں گا یہ میرا ضرور مقابلہ کریں گے اور میں سوچتا ہوں کہ کونسا مناسب موقع ہو کہ ان کو ہٹایا جائے.میں اسی فکر میں تھا کہ میں نے خیال کیا کہ اب ان کو ہٹانا چاہئے.یہ سوچ کر میں نے اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھایا تاکہ میں ان کو ہٹاؤں مگر جب میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو انہوں نے بھی اپنے ہاتھ لمبے کر کے میری کلائی پکڑ لی اور دوسرے ہاتھ سے میرے سینہ پر زور دینا شروع کیا اس وقت ان کا زور اچھا خاصا معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ اکٹھا زور ڈال رہے ہیں اور انہوں نے میرا ہاتھ اس طرح پکڑا ہوا ہے کہ مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ میرے ہاتھ کو وہ اپنی طرف نہیں جانے دیں گے اس وقت پھر میں اپنے دل میں سوچتا ہوں کہ اس وقت موقع ہے یا نہیں کہ میں ان کو ہٹاؤں.میں اسی تردد میں تھا کہ آخر میں نے اپنے دل میں فیصلہ کیا کہ اب ان کو پکڑ کر پرے پھینک دینا چاہئے یعنی جب یہ فیصلہ کر کے میں نے اپنے ہاتھ کو زور سے آگے بڑھایا تو وہ ایک ہی جھٹکے سے مُردہ جسموں کی طرح دور جا کر گر گئے اس وقت میری آنکھ کھل گئی اور آنکھ کھلنے پر بھی مجھے یوں محسوس ہوا جیسے یہ واقعہ سچ سچ ہو رہا تھا.فرمایا : اس خواب سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چار یا پانچ کی تعداد میں ہمارے دشمن ہیں یا بعض نقصان دہ چیزیں ہیں یعنی یا تو چار یا پانچ چیزیں ہیں یا چار پانچ فرقے ایسے ہیں جن کا تھوڑا بہت دباؤ احمدیت پر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا ہے کہ وہ ان سب دشمنوں کو دور پھینک دے گا اور جماعت کو ان کے شر سے محفوظ رکھے گا.الفضل 25.جون 1947ء صفحہ 1 428 17 جون 1947ء فرمایا : آج رات میں نے ایک رؤیا دیکھی ہے اس کے بعض حصے بتانا میں مناسب نہیں سمجھتا
389 صرف خلاصہ بیان کر دیتا ہوں میں نے رویا میں اپنے آپ کو کسی شہر میں دیکھا.کوئی بازار ہے جس میں سے میں گزر رہا ہوں میرے آگے آگے درد صاحب (مولوی عبدالرحیم صاحب درد) جا رہے ہیں اتنے میں ایک کونے میں سے کسی شخص نے شور مچانا شروع کر دیا جس پر پولیس اور کچھ فوج آپہنچی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ درد صاحب اور میں کسی ضروری کام کے لئے جارہے ہیں جب ادھر سے شور ہوا اور پولیس اور فوج آپہنچی تو ہمیں خطرہ پیدا ہوا کہ گورنمنٹ ہم پر کوئی الزام نہ لگا دے کہ ان کا بھی اس فساد میں کوئی ہاتھ ہے.میں نے دیکھا کہ درد صاحب تیزی کے ساتھ وہاں سے نکل جانا چاہتے ہیں ان کے تیزی سے چلنے کی وجہ سے میرے اور ان کے درمیان دو تین سو گز کا فاصلہ ہو گیا.یکدم مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ درد صاحب کے پاس کچھ سلسلہ کے کا غذات ہیں اور انہیں خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ اگر گورنمنٹ تلاشی لے تو یہ کاغذات ان سے چھین نہ لئے جائیں وہ کاغذات گورنمنٹ کے خلاف تو نہیں ہیں مگر چونکہ وہ جماعت سے تعلق رکھنے والے ضروری کا غذات ہیں اس لئے خطرہ ہے کہ پولیس تلاشی کے وقت ان کو قبضہ میں نہ لے لے.تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ہم دونوں ایک مکان کے اندر چلے گئے وہاں میں نے دیکھا کہ درد صاحب او ہو " کرتے ہوئے پیچھے کو دوڑے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کاغذات پیچھے رہ گئے ہیں اور انہیں خطرہ ہے کہ کہیں پولیس ان کا غذات پر قبضہ نہ کرلے.میں نے ان کی یہ گھبراہٹ دیکھ کر یہ فیصلہ کیا کہ میں ان کاغذات پر جا کر قبضہ کرلوں اور واپس لوٹ کر جلد جلد پیچھے کی طرف چلا مگر پھر نہ معلوم کاغذ لے کر یا ان کے بغیر واپس ہو گیا جدھر ہم پہلے جا رہے تھے اور میں نے دیکھا کہ ہم دونوں ایک مکان کے اندر چلے گئے وہاں میں نے دیکھا کہ کچھ غیر احمدی ہیں ایک درد صاحب اور ایک میں ہوں اس کے بعد مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کے حکام دروازے پر پہنچ گئے ہیں اور وہ اس مکان کے اندر آکر مسلمانوں کو اور خصوصاً ہمارے متعلق دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہاں ہیں یا نہیں.اتنے میں صاحب خانہ نے ہمیں کہا کہ آپ لوگ اوپر چڑھ جائیں مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی پوشیدہ جگہ ہے پہلے کچھ غیر احمدی اوپر چڑھے اور پھر میں چڑھا وہ جگہ ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے جہازوں کے اندر سیڑھیاں ہوتی ہیں اور وہ جگہ بہت تنگ سی ہے.میں اوپر چڑھ کر اس سوراخ کے دائیں بائیں لاتیں پھیلا کر لیٹ گیا جس جگہ میں لیٹا ہوں وہاں میرے اوپر ایک کینوس (Canvas) پڑی ہے میرا منہ تو نگار ہا اور باقی سارا
390 جسم کینوس کے اوپر آجانے سے ڈھانپا گیا میں نے دیکھا کہ آگے ساری چھت پر ہندو بیٹھے ہیں ان کو دیکھ کر میں اپنے دل میں خیال کرتا ہوں کہ یہ اچھی محفوظ جگہ ہے جن کی طرف سے ہمیں کسی الزام کا خطرہ ہو سکتا ہے وہ لوگ یہاں موجود ہیں اتنے میں وہ افسر جو نیچے دروازہ کی طرف آئے تھے مکان کے پچھواڑے کی طرف سے آتے ہیں اور نیچے سے آواز دے کر پوچھتے ہیں کہ یہاں کوئی مسلمان ہیں یا نہیں یا وہ ہمارے متعلق پوچھتے ہیں کہ وہ یہاں ہے یا نہیں.ان افسروں نے جب یہ سوال کیا کہ مسلمان اندر ہیں یا نہیں تو میں نے دیکھا کہ چھت پر بیٹھے ہوئے مسلمانوں نے ہندوؤں سے اتنی لجاجت کی کہ جس کی کوئی حد ہی نہیں وہ بار بار کہتے ہیں کہ اپنے بچوں کا صدقہ اپنی جوتیوں کا صدقہ ہمارا نام نہ لینا.جس شخص کا وہ گھر ہے (ان کا نام تو میں جانتا ہوں وہ ایک بڑے لیڈر ہیں مگر اس وقت میں ان کا نام بتا نا مناسب نہیں سمجھتا) ان کی بیوی تو فوت ہو چکی ہے مگر خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ وہ زندہ ہے اور وہ بھی تاکید کرتی ہے کہ مسلمانوں کا نام نہ لیا جائے یہ ہمارے مہمان ہیں اتنے میں پھر ان افسروں نے وہی سوال کیا کہ مسلمان اندر ہیں یا نہیں اس پر ان سینکڑوں ہندوؤں نے زور سے اپنی انگلیاں بہلانی شروع کیں جس کا مطلب یہ تھا کہ یہاں کوئی مسلمان نہیں.فرمایا : اس خواب سے میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کے لئے ابھی کچھ مزید ابتلاء باقی ہے.یوں تو ان کی تسلی ہو چکی ہے کہ ان کے مطالبات مان لئے گئے ہیں اور گورنمنٹ نے ان کا حق انہیں دلا دیا ہے مگر میرے نزدیک ابھی کچھ ابتلاء ان کے لئے مقدر ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ برطانوی افسر ابھی تک مسلمانوں کے خلاف ہیں اور ہندوؤں کے حق میں ہیں اور یہ جو سمجھا جا رہا ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو جھگڑے تھے ان کا فیصلہ ہو گیا ہے میرے نزدیک ابھی پوری طرح اس کا فیصلہ نہیں ہوا.ابھی مسلمانوں کے لئے کچھ اور مشکلات بھی ہیں.الفضل 25.جون 1947ء صفحہ 2.1 21 جون 1947ء 429 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ جیسے میں اپنے دفتر میں ہوں اور نیچے سے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور میاں بشیر احمد صاحب کی آوازیں آرہی ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ مجھ سے
391 ملنے کے لئے آئے ہیں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اس خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ ظفر سے مراد کامیابی ہوتی ہے اور بشیر سے مراد بشارت ہوتی ہے اس لئے خدا تعالٰی نے کسی فتح اور بشارت کی طرف اشارہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ خودان کو پورا کرنے کے سامان فرمائے.الفضل 8 اگست 1951ء صفحہ 5 21 جون 1947ء 430 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک مکان اسی قسم کا ہے جیسے فوجی بار کیس ہوتی ہیں یعنی وہ شیڈ سا بنا ہوا ہے اور اس پر ٹین کی چادریں پڑی ہوئی ہیں.میں اس شیڈ کی طرف گیا وہاں میں نے دیکھا کہ ملک غلام فرید صاحب کھڑے ہیں وہ مجھے بلاتے ہیں اور پاس ہی کھڑے ہوئے ایک شخص کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں مولوی سید سرور شاہ صاحب کے اس داماد نے ان کی بیٹی کو چھوڑ دیا ہے اور یہ اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا.ملک غلام فرید صاحب نے جس شخص کے متعلق کہا ہے کہ اس نے مولوی سید سرور شاہ صاحب کی بیٹی کو چھوڑ دیا ہے نہ تو اس کی شکل عبدالرحیم صاحب جیسی ہے اور نہ ہی خواب میں اس کو عبدالرحیم سمجھتا ہوں وہ شخص سفید رنگ کا ہے اس کا قد بہت اونچاتو نہیں البتہ درمیانہ قد سے اونچا ہے اور اس نے لباس بھی ایسا پہن رکھا ہے جیسے عام طور پر آسودہ حال تاجر پہنا کرتے ہیں اور وہ مکان جس میں ہم کھڑے ہیں وہ اس قسم کا ہے جیسے پہاڑوں پر دکانوں کے آگے شیڈ سے بنے ہوتے ہیں.ملک غلام فرید صاحب اس طرز میں بات سناتے ہیں کہ ایک طرف تو اس کی غلطیاں بیان کر رہے ہیں کہ اس نے مولوی سید سرور شاہ صاحب کی لڑکی کو چھوڑ دیا ہے اور اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا اور دوسری طرف اس کی دل جوئی بھی کر رہے ہیں کہ غلطیاں بیان کرنے کی وجہ سے وہ کچھ برا محسوس نہ کرے بہر حال ملک غلام فرید صاحب نے اس سلسلہ کلام کو اس طرح شروع کیا کہ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اسی قسم کی اور بہت سی باتیں انہوں نے کیں جو اس وقت مجھے یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ جب ملک غلام فرید صاحب بات کرتے ہیں تو وہ شخص ان کے ہی ہر فقرہ کے ختم ہونے پر کہتا ہے.تو بہ.تو بہ.باتیں کرتے کرتے ملک غلام فرید صاحب نے مسکرا کر کہا.انہوں نے دو کمرے رکھے ہوئے ہیں ایک کمرے میں ان کے ملازم اور نوکر چاکر
392 رہتے ہیں اور دوسرا کمرہ انہوں نے اپنے لئے رکھا ہوا ہے اور یہ نوکروں کے کمرہ میں ان پر سختی کرنے کے بعد دوسرے کمرہ میں چلے جاتے ہیں.معلوم نہیں وہ کمرہ انہوں نے کس غرض کے لئے رکھا ہوا ہے.اس فقرہ کے اختتام پر بھی اس شخص نے کہا.توبہ.تو بہ.اس کے بعد جب ملک غلام فرید صاحب نے اس کی غلطیوں کے متعلق اس کو سمجھانے پر زیادہ زور دیا تو اس نے کہا یہ واقعی میری غلطی ہے اور میں اب اس لڑکی کے ساتھ صلح کرلوں گا اس پر میں نے کہا اگر تم اس لڑکی کے ساتھ صلح بھی کر لو گے تو تم اپنے نفس کی خواہش کو پورا کرنے والے ہو گے کیونکہ وہ لڑکی تمہاری بیوی ہے اور تمہارا اپنی بیوی کو راضی کر کے گھر لے جانا اپنے نفس کے لئے ہے.اصل چیز تو یہ ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے ساتھ صلح کرو اور اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اس خواب کا مضمون تو ظاہر ہے کہ مولوی سید سرور شاہ صاحب کے داماد کا کیا مطلب ہے.اس بات کی سمجھ نہیں آسکی میں خواب میں اس شخص کو مولوی سید سرور شاہ صاحب مرحوم کا موجودہ داماد نہیں سمجھتا بلکہ ایک اجنبی آدمی سمجھتا ہوں.غلام فرید کی تعبیر بھی صحیح طور پر معلوم نہیں ہو سکی.فرید کے لفظی معنے تو منفرد اور احد کے ہوتے ہیں اور غلام کے معنے عبد کے ہوتے ہیں.اس طرح غلام فرید کے معنے ہوں گے عبداللہ یا عبد الاحد - بہر حال فرید کے معنے سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کی ذات پر ہی چسپاں ہوتے ہیں یعنی ایسی ہستی جو اپنے کمالات اور خصوصیات کی وجہ سے منفرد حیثیت رکھتی ہو.اور اس کو ممتاز اور نمایاں حیثیت حاصل ہو.بعض دفعہ ایک نام بندوں کا بھی ہوتا ہے اور وہی نام خدا تعالیٰ کا بھی ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اول ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے (عام طور پر فقیر جب کسی کے پاس جا کر سوال کرتے ہیں تو وہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ دستگیر کے نام ہمیں فلاں چیز دے دو یا فلاں پیر کے نام ہمیں خیرات دے دو.انہوں نے بعض اصطلاحیں مقرر کی ہوتی ہیں مثلاً جب وہ کہتے ہیں کہ گیسوؤں والے کے نام پر دے دو تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کے نام پر کچھ دے دو اور جب انہوں نے خواجہ معین الدین صاحب چشتی کا ذکر کرنا ہو تو وہ ان کا نام نہیں لیتے بلکہ کہتے ہیں خواجہ کے نام پر کچھ دے دو اسی طرح جب انہوں نے عبد القادر صاحب جیلانی کا ذکر کرنا ہو تو وہ کہتے ہیں کہ دستگیر کے نام پر کچھ دے دو.غرض انہوں نے ہر بزرگ کے متعلق الگ الگ اصطلاحیں مقرر کی ہوئی ہیں.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ہم نئے نئے اہلحدیث
393 ہوئے تھے اور شرک کے خلاف ہمارے اندر زیادہ جوش پایا جاتا تھا ایک فقیر ہمارے پاس آیا جو بہت تجربہ کار اور کائیاں آدمی تھا اس نے زور سے کہا کہ دلائیے کچھ دستگیر کے نام پر.میں نے توحید کے جوش میں آکر فقیر کو جواب دیا میں تمہارے دستگیر کو نہیں جانتا.وہ فقیر چونکہ تجربہ کار اور خرانٹ تھا اس نے میرے طرز کلام سے جھٹ سمجھ لیا کہ یہ کوئی اہلحدیث ہے اس لئے اس نے فوراً پینترا بدلا اور کہا کہ مولا خدا کے سوا بھی کوئی دستگیر ہے ؟ اس پر میں خاموش ہو گیا حالانکہ بات دراصل یہ تھی کہ جب اس نے دستگیر کے نام پر سوال کیا تھا تو دستگیر کے لفظ سے اس کی مراد حضرت سید عبد القادر صاحب جیلانی ہی تھے مگر اس نے میرے اندر شرک کے خلاف جوش دیکھ کر بات بدل لی اور کہہ دیا ”مولا خدا کے سوا بھی کوئی دستگیر ہے " پس بعض اوقات ایک نام مشترک ہوتا ہے یعنی وہی نام کسی بندے کا بھی ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا بھی ہوتا ہے جیسے عبد القادر صاحب جیلانی کو بھی لوگ دستگیر کہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو بھی دستگیر کہا جا سکتا ہے اور ایسا نام سننے والا بھی کسی طرف دھیان کرتا ہے اور کبھی کسی طرف.کبھی تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ جو نام لیا گیا ہے یہ کسی انسان کا ہے اور کبھی وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ نام خدا تعالیٰ کا ہے.اسی طرح حضرت بابا فرید گنج والے بھی مشہور ہیں.وہ حضرت خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکی کے شاگر دتھے ان کا مزار پا کپٹن میں ہے اور وہاں ایک بہت بڑا دروازہ بنا ہوا ہے سال میں ایک دفعہ ان کے مرید وہاں جمع ہوتے ہیں اور کنجی لگا کر اس دروازہ کو کھولتے ہیں اور لوگ اس دروازے سے گزرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ جو شخص اس دروازے سے گزر جائے گاوہ بہشتی ہو جائے گا.سب سے پہلے بزرگ جو ہندوستان میں آئے اور جنہوں نے تبلیغ اسلام کی وہ حضرت خواجہ معین الدین صاحب اجمیری تھے ان سے کسب کمال اور علم حاصل کر کے حضرت خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکی نے دہلی میں تبلیغ اسلام شروع کی.دہلی میں قطب صاحب کی جو لاٹ ہے وہ انہی کے نام سے منسوب ہے گویا لاٹ انہوں نے بنوائی نہیں بلکہ اسے ایک بادشاہ نے تیار کرایا تھا مگر ان کی مشہوری کی وجہ سے عوام یہی سمجھتے ہیں کہ یہ لاٹ انہی کی ہے.حضرت خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکی سے ہی حضرت خواجہ فرید الدین صاحب شکر گنج نے استفادہ کیا اور دین سیکھ کر پاک پین چلے آئے اور یہاں آکر انہوں نے اسلام پھیلانے کا کام شروع کیا.اس وقت دہلی میں اسلام قائم ہو چکا تھا.حضرت خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء
394 کے والد نے ان سے کہا.بیٹا دہلی کا سارا علم تو پنجاب لے گیا ہے اب میں تم پر تب خوش ہوں گا.جب تم یہ خلافت پھر دہلی میں واپس لے آؤ.چنانچہ حضرت خواجہ نظام الدین صاحب پاک نین آئے اور حضرت غلام فرید صاحب شکر گنج سے علم حاصل کر کے ایسے مقام پر پہنچ گئے کہ انہوں نے خرقہ خلافت ان کو پہنایا اور پھر وہ واپس دہلی چلے گئے جہاں انہوں نے اسلام کا جھنڈا گاڑا غرض حضرت خواجہ غلام فرید صاحب شکر گنج والے بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں.ہمارے ملک میں جب لوگ کسی کا نام غلام فرید رکھتے ہیں تو ان کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ یہ بچہ حضرت خواجہ فرید الدین صاحب شکر گئج کا غلام ہے.لیکن ایک موحد شخص جب اپنے بچے کا نام غلام فرید رکھتا ہے تو اس کی مراد یہ ہوتی ہے کہ فرید معنی منفرد یعنی احد کا غلام یا دوسرے لفظوں میں اس کا نام غلام اللہ اور اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کی ذات سے کون اعلیٰ اور ارفع ہو سکتا ہے جس کی طرف ایسا نام منسوب کیا جائے پس خواب میں جو ملک غلام فرید صاحب کا ذکر آیا ہے اس سے میں سمجھتا ہوں کہ غلام فرید سے مراد غلام اللہ یا عبد اللہ ہے یعنی ایسا انسان جو خدا تعالٰی کی تو حید پر کامل ایمان رکھتا ہو اور وہ صحیح معنوں میں موقد ہو اور وہ مولوی سید سرور شاہ صاحب کے داماد کو سمجھا رہا ہے کہ تمہارے اندر فلاں عیب ہے یا فلاں غلطی ہے.تمہیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے گویا وہ اس کو نصیحت کر رہا ہے.پھر اس خواب سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس شخص کا سلوک کمزوروں اور ماتحتوں سے اچھا نہیں اسی طرح اس رویا کے الفاظ سے یہ بھی ایک سبق حاصل ہوتا ہے کہ انسان اگر دنیا کے لوگوں کے ساتھ صلح بھی کرلے تو یہ اس کی نفس پرستی ہوگی اور اس کا صلح کرنا اپنے نفس کی خواہش کو پورا کرنا ہو گا.فرمایا : مولوی سید سرور شاہ صاحب کی یوں تو بہت سی بیٹیاں تھیں مگر اس وقت ان کی صرف ایک بیٹی زندہ ہے باقی فوت ہو چکی ہیں وہ لڑکی جو زندہ ہے وہ میاں عبد اللہ خان صاحب افغان کے بیٹے عبدالرحیم صاحب سے بیاہی ہوئی ہے کہ رؤیا انہی کے متعلق ہے.الفضل 3.اگست 1951ء صفحه 5 11/10.اگست 1947ء 431 فرمایا : دیکھا کہ ایک مجلس میں کچھ آدمی بیٹھے ہیں ایک چارپائی بچھائی گئی جس پر ایک طرف
395 میں بیٹھا درمیان میں کوئی اور شخص جس کا نام یاد نہیں اور پھر ایک نوجوان.میں نے نام پوچھا تو اس نے یا کسی اور نے کہا.”غلام احمد عطاء" الفضل 18 اگست 1947ء صفحه 1 12.اگست 1947ء 432 فرمایا : آج صبح جب تہجد کی نماز ادا کرنے کے لئے کھڑا ہوا تو اس کی پہلی رکعت میں ہی مجھے اللہ تعالی کی طرف سے آواز آئی ”مولوی رحمت علی آئے ہیں “ الفضل 18 اگست 1947ء صفحہ 1 12.اگست 1947ء 433 فرمایا : آج صبح کی نماز پڑھا کر جب میں گھر گیا تو میں نے رویا میں دیکھا کہ میرے سر کی طرف ایک فون پڑا ہے جو باوجود میرے پیچھے ہونے کے مجھے نظر آ رہا ہے اس میں کوئی شخص بات کرنا چاہتا ہے.مجھے گھنٹی کی آواز نہیں آئی.میری ایک لڑکی نے ریسیور اٹھا کر اسے کان سے لگایا اور آواز سنی تو خوش ہو کر کہنے لگی " آہاہا.ابا جان ".الفضل 18 - اگست 1947ء صفحہ 2-1 12.اگست 1947ء 434 فرمایا : آج عصر کے بعد مجھے الہام ہوا کہ اَینَمَا تَكُونُو آيَاتِ بِكُمُ اللهُ جَمِيعًا اس الہام میں تبشیر کا پہلو بھی ہے اور انذار کا بھی.تفرقہ تو ایک رنگ میں پہلے ہو گیا ہے یعنی ہماری کچھ جماعتیں پاکستان کی طرف چلی گئیں اور کچھ ہندوستان کی طرف.ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان کے اکٹھا ہونے کی کوئی صورت پیدا کر دے اگر ہمارا قادیان ہندوستان کی طرف چلا جاوے تو اکثر جماعتیں ہم سے کٹ جاتی ہیں کیونکہ ہماری جماعتوں کی اکثریت مغربی پنجاب میں ہے.الفضل 18.اگست 1947 ء صفحہ 2.الفضل 3 فروری 1948ء صفحہ 4 435 17.اگست 1947ء فرمایا : ہمیں چونکہ بہتر پاکستان ہی نظر آتا تھا اس لئے ہم پاکستان میں شمولیت کے لئے دعائیں کرتے رہے.ان دعاؤں کے دنوں میں میں نے جب کبھی کشفی نظارے دیکھے وہ یہی تھے کہ کبھی
396 میں اپنے مبلغین کو جالندھر روانہ کرتا تھا اور کبھی لدھیانہ.آج ہی میں نے ایک کشف دیکھا کہ میں عزیزم میاں ناصر احمد کو لدھیانہ بھیج رہا ہوں گویا ان کشفی نظاروں میں قادیان کے مشرقی پنجاب میں شامل ہونے کی طرف اشارہ تھا.الفضل 5.فروری 1948ء صفحہ 4 436 اگست 1947ء فرمایا : جب میں قادیان سے یہاں آیا تو اس سے ایک دن پہلے جب کہ میں دعائیں کر رہا تھا میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے کہ اَغْرَ قُنُهُمْ یعنی ہم نے ان کو غرق کر دیا.اس الہام کو اللہ تعالیٰ نے عجیب رنگ میں پورا کیا ہے.آج ہی قادیان سے ایک دوست کا خط آیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ 11.ستمبر کو دشمن نے حملہ کی تیاری کی.اللہ تعالیٰ نے بارش کے ذریعہ اسے روک دیا اس کے بعد ہر دوسرے دن عین اس وقت جب حملہ کی اطلاعیں آتی تھیں اللہ تعالیٰ بارش کے ذریعہ اسے پسپا کر دیتا رہا.الفضل یکم اکتوبر 1947ء صفحہ 1 اگست 1947ء 437 فرمایا : انہی ایام میں ایک اور فقرہ میری زبان پر جاری ہوا کہ بَلَجَتْ آيَاتِي یعنی میرے نشانات روشن ہو گئے الفضل یکم اکتوبر 1947 ء صفحہ 1 438 25 ستمبر 1947ء فرمایا : رات بھی میں دعائیں کر رہا تھا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ مشرقی پنجاب کی حکومت نے ریڈیو پر اعلان کرایا ہے کہ مرزا صاحب ہمیں امرتسر کے مقام پر باہمی گفت و شنید کے لئے ملیں.گو میں جانتا ہوں کہ جب کوئی شخص ایک حکومت سے نکل کر دو سری حکومت میں آجائے تو سیاسی قانون کے مطابق دوسری حکومت اسے بلانے کا حق نہیں رکھتی اور پہلی گورنمنٹ اس پر کوئی دباؤ نہیں ڈال سکتی مگر خواب میں مجھے خیال گزرتا ہے کہ یہ حکومت کی طرف سے ایک حکم ہے جس کی مجھے تعمیل کرنی چاہئے مگر ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ کہیں یہ بات دھوکا دینے
397 کی نیت سے نہ ہو چنانچہ میں خواب میں ہی کہتا ہوں کہ میں اس بارہ میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور شیخ بشیر احمد صاحب سے مشورہ لے لوں.مجھ پر اس وقت یہ بھی اثر ہے کہ مغربی پنجاب کی حکومت کے بعض افراد اور مسٹر لیاقت علی خان بھی اس مشورہ میں شامل ہوں گے.الفضل یکم اکتوبر 1947ء صفحہ 1 439 ستمبر 1947ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں مسجد اقصیٰ کے شمالی طرف پرانے بازار کے اس حصہ کی طرف گیا ہوں جہاں چوک ہے اور جس میں ہندو حلوائیوں کی دکانیں ہیں اس وقت مجھے خیال ہے کہ گھر کی کچھ مستورات اور بچے میرے پیچھے آرہے ہیں اور میں اس چوک میں کھڑا ہو کر ان کا انتظار کرنے لگا ہوں.اس وقت میں نے دیکھا کہ ایک دو سکھ چوک کے مشرقی حصہ سے اس طرف کو گئے ہیں جدھر سے مستورات اور بچوں کا انتظار ہے.ان کو دیکھ کر مستورات اور بچے چوک کے کنوئیں کے مغرب کی طرف چلے تا وہ سکھ ان کا راستہ نہ روکیں جب وہ ادھر چلے تو ایک سکھ ادھر کو بھی چلا جسے دیکھ کر مستورات اور بچے جنوب کی طرف مڑگئے.میں اس خیال سے کہ یہ لوگ راستہ نہ بھول جائیں کنوئیں کے اوپر یعنی مغرب کی طرف سے ان کی طرف چلا مگر ان کو نہ دیکھا اور مسجد اقصیٰ کی طرف چل پڑا جب میں مسجد اقصیٰ کی طرف مڑا تو میں نے دیکھا کہ وہ سب لوگ مسجد اقصیٰ کے اندر ایک مینار کی چوٹی پر کھڑے ہیں لیکن اس مینار کی جگہ موجودہ مینار سے مختلف ہے وہ مسجد کی مستقف عمارت کے جنوب کی طرف ہے اور وہ بہت ہی بلند مینار ہے جس طرح قطب صاحب کی لاٹ ہے.یہ رویا اپنے اند ر بشارت کا پہلو رکھتی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات خواہ بظاہر کیسے ہی خطرناک ہوں خدا تعالٰی موجود مینار سے زیادہ شاندار مینار عطا فرمائے گا اور ہماری طاقت اور قوت میں اضافہ فرمائے گا.یکم اکتوبر 1947ء صفحہ 2-1 4.اکتوبر 1947ء 440 فرمایا : آج صبح میں نے خواب میں دیکھا کہ میاں بشیر احمد صاحب آئے ہیں اور انہوں نے کہا
398 ہے کہ بٹالہ کے پاس ان لڑکوں پر جو آئے تھے حملہ ہوا ہے وہاں سے آدمی آیا ہے اور اس نے کہا ہے کہ وہ کپڑے مانگتے ہیں اور شاید چار سو کے قریب کپڑے تھے.تھوڑی ہی دیر میں اس رویا کی تصدیق ہو گئی اور خبر آئی کہ بٹالہ میں ٹرکوں پر حملہ ہو گیا ہے اور وہاں سو آدمی سے زیادہ مارا گیا ہے کچھ لڑکوں میں اور کچھ لڑکوں پر چڑھنے کی کوشش میں.الفضل 7.اکتوبر 1947ء صفحہ 3 اہے کچھ ٹرکوں 4.اکتوبر 1947ء 441 فرمایا : میں نے دیکھا کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب آئے ہیں اور میرے پاس آکر بیٹھ گئے ہیں انہوں نے صرف قمیض پہنی ہوئی ہے تھوڑی دیر تک انہوں نے مجھ سے باتیں کیں اور پھر یہ نظارہ غائب ہو گیا.جو شخص قید میں ہو اس کے رہا ہونے کی دو ہی تعبیریں ہوتی ہیں یا وفات اور یا پھر واقعہ میں رہا ہو نا.گویا اس رویا کی ایک تعبیر تو اچھی ہے اور ایک منذر الفضل 7.اکتوبر 1947 ء صفحہ 3 442 10.اکتوبر 1947ء فرمایا : میں نے آج رات رویا میں حضرت خلیفہ اول حضرت مولوی نورالدین صاحب کو دیکھا.ایک کمرہ ہے چھوٹے سے سائز کا ایسا جیسا 12 x 12 فٹ کا ہوتا ہے ایک طرف اس کے اندر داخل ہونے کا دروازہ ہے اور تین طرف دروازہ کوئی نہیں.تین دیواریں ہیں جن میں سے ہر دیوار کے ساتھ ایک ایک چارپائی لگی ہوئی ہے.میں اس چارپائی پر بیٹھا ہوں جو دروازہ کے سامنے ہے.حضرت خلیفہ اول میرے دائیں طرف کی چارپائی پر بیٹھے ہیں اور میرے بائیں طرف کی چارپائی پر میری لڑکی امتہ القیوم بیٹھی ہیں اور میری چارپائی پر ایک طرف ہو کر ایک اور لڑکی بیٹھی ہے جو غالبا امتہ العزیز ہے.حضرت خلیفہ اول جب گھوڑی پر سے گرے اور آپ کے سر میں زخم آیا تو وہ زخم رفتہ رفتہ ناسور کی شکل اختیار کر گیا تھا اور بہت دیر تک درست ہونے میں نہیں آیا تھا.ان دنوں آپ ایک ٹوپی کٹوپ کی طرح پہنتے تھے تاکہ زخم ڈھکا ر ہے اسی طرح اس طرز کی ایک ٹوپی آپ نے پہنی ہوئی ہے.اس وقت میرے دل میں خیال آتا ہے کہ میں امتہ القیوم کو جو حضرت خلیفہ اول کی نواسی ہے آپ سے ملاؤں میں خواب میں اس وقت یہی
399 سمجھتا ہوں کہ اس کی والدہ امتہ الحی مرحومہ فوت ہو چکی ہیں لیکن حضرت خلیفہ اول کے متعلق سمجھتا ہوں کہ آپ زندہ ہیں مگر یوں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے لڑکی کو دیکھا ہوا نہیں.اس وقت امتہ الحی مرحومہ کی یاد کی وجہ سے میرے دل میں کچھ رقت سی آئی ہے اور یہ مضمون میرے دل میں آتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول جو اپنی لاتیں لٹکائے بیٹھے ہیں میں اس لڑکی کو ساتھ لے کر جا کر آپ کی ٹانگوں کے درمیان پیروں میں بٹھا دوں گا اور کہوں گا کہ یہ آپ کی نواسی ہے اس کو دعا دیں.جب میں نے لڑکی کی طرف دیکھا تو اس نے چار پائی پر کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی.ایک رکعت اس نے کھڑے ہو کر پڑھی ہے اور ایک رکعت اس نے بیٹھ کر پڑھی ہے یہ یاد نہیں رہا کہ پہلی رکعت اس نے کھڑے ہو کر پڑھی ہے اور دوسری رکعت بیٹھ کر پڑھی ہے یا دوسری رکعت کھڑے ہو کر پڑھی ہے اور پہلی رکعت بیٹھ کر پڑھی ہے اس وجہ سے میں نے جو ارادہ کیا تھا وہ پورا نہ کر سکا.پھر میں اٹھ کر باہر چلا گیا وہاں کچھ لوگ مجھے ملے ہیں جو ایسے معلوم ہوتے ہیں جیسے فوجی ہوتے ہیں تین آدمی ہیں وہ مریم صدیقہ کے متعلق جو میری بیوی ہے کہتے ہیں کہ ان سے کہہ دینا اگر روپیہ کی ضرورت ہو تو روپیہ آگیا ہے.اس وقت خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ میری بیوی نے اپنے پاس امانتیں رکھی ہوئی ہیں جیسے بعض لوگ دوسروں کی امانتیں اپنے پاس رکھ لیتے ہیں میں اندر گیا تو دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول چار پائی سے اتر کر زمین پر بیٹھے ہیں دری بچھی ہوئی ہے تین عورتیں آپ کے آگے بیٹھی ہیں اور آپ غالبا بخاری کا درس دے رہے ہیں ایک تو مریم صدیقہ ہے اور دوسری عورتوں کے متعلق میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا وہ امتہ العزیز اور امتہ القیوم ہی ہیں یا گھر کی کوئی مستورات ہیں.میں یہ دیکھ کر ایک طرف ہو گیا کچھ دیر پڑھانے کے بعد ایک چیز سامنے لائی گئی ہے وہ چیز ایسی ہے جیسے گھاس ہوتی ہے زرد رنگ کی اور خشک گھاس ہے.اس کی جڑ چھوٹی سی ہے مگر پودے کی جو شاخیں ہیں وہ تو نو دس دس انچ کی ہیں اور نہایت باریک ہیں ایسی باریک جیسے خس کا گھاس ہوتا ہے مگر خس کی نسبت زیادہ سخت ہے.مریم صدیقہ ان کو نکال نکال کر حضرت خلیفہ اول کے سامنے رکھتی جاتی ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی حدیث کے ذکر میں مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی کی کسی کتاب کا حوالہ بھی پڑھا گیا ہے اور اس کی تشریح کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اول اپنے شاگردوں کو وہ گھاس دکھاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے.اس وقت حضرت خلیفہ اول نے مریم صدیقہ اور
400 دوسری مستورات سے باتیں کرتے ہوئے جس طرح استاد اپنے شاگرد کو بتلاتا ہے ایک فقرہ کہا.مجھے افسوس ہے کہ وہ فقرہ مجھے یاد نہیں رہا مگر اتنا یقینی طور پر یاد ہے کہ اس میں مہاراجہ پٹیالہ کا ذکر آتا تھا حدیث کی روایت اور اس حوالہ کی تشریح کرتے ہوئے آپ گھاس دکھا کر فرماتے ہیں کہ اس سے مہاراجہ پٹیالہ کے متعلق یہ بات نکلتی ہے گویا حدیث کی کوئی روایت ہے جس کا تعلق گھاس سے ہے اور اسی وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے وہ گھاس پیدا کیا جاتا ہے اور حضرت خلیفہ اول فرماتے ہیں کہ اس سے مہاراجہ پیالہ کے متعلق یہ بات نکلتی ہے خواب میں تو مجھے یاد تھی عمر اٹھنے پر میں بھول گیا.فرمایا : بهر حال نور الدین نام بڑا اچھا ہے یعنی دین کا نور.امتہ القیوم امتہ العزیز اور مریم صدیقہ بھی بڑے اچھے نام ہیں.بخاری شریف کا پڑھانا بھی بڑا اچھا ہے گو آخر میں جو نتیجہ نکالا گیا تھا وہ یاد نہیں رہا.مگر اتنی تعبیر تو بہر حال واضح ہے کہ دین کا نور پھر زندہ کیا جائے گا.الفضل 10.اکتوبر 1947ء صفحہ 2-1 28 اکتوبر 1947ء فرمایا : مجھے الہام ہوا کہ 443 إِنَّهُمْ أَنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ وہ ایک ایسا گروہ ہے جو تکلف سے نیکی ظاہر کرتا ہے یعنی وہ نیک تو نہیں لیکن وہ دعوی خیر کا دعوی تقویٰ کرتا ہے.الفضل 11.نومبر 1947ء صفحہ 1 30.اکتوبر 1947ء 444 فرمایا : دوسرا الہام کل ہی ہوا جو تجد سے کچھ دیر پہلے مجھ پر نازل ہوا اس کے الفاظ یہ تھے کہ ذلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ قادیان کے متعلق ہی میں دعا کر رہا تھا کہ یکدم یہ الہام میری زبان پر جاری ہوا اور پھر کافی دیر تک جاری رہا.الفضل 11.نومبر 1947ء صفحہ 2
401 445 اوائل نومبر 1947ء فرمایا : کچھ دن ہوئے میں دعا کر رہا تھا کہ متواتر یہ آیات میری زبان پر جاری ہو ئیں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اور یہ آیات بھی سورۃ فاتحہ کی ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ہمیں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ موجودہ فتنہ کا علاج ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے کسی اور کے ہاتھ میں نہیں.الفضل 26.نومبر 446 41947 18.نومبر 1947ء فرمایا : میں نے ایک رویا دیکھی جس میں میں نے دیکھا کہ ایک میدان ہے اسی طرز کا جس طرز کا یہ میدان ہے مگر اس سے بڑا.اس میدان میں کچھ دوست ہیں اور کوئی شخص غیر بھی شاید ہند و ملاقات کے لئے آیا ہوا ہے.میں نے اس وقت چاہا کہ قرآن شریف کا درس دوں چنانچہ میں نے اس آنے والے سے کچھ باتیں کرنے کے بعد جو مجھے یاد نہیں رہیں درس دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ میں اب قرآن شریف کا درس دینا چاہتا ہوں یہ کہہ کر میں اٹھاتا کہ میں اپنا وہ قرآن لے آؤں جس پر میرے نوٹ لکھے ہوئے ہیں.ایک چھوٹی سی دیوار ہے جس میں طاقچہ سابنا ہوا ہے میں نے سمجھا کہ میرا قرآن وہاں پڑا ہو گا.مگر جب میں نے دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہاں نہیں.اس کے مقابل میں ایک اور دیوار ہے اور اس میں بھی طاقچے سے بنے ہوئے ہیں پھر میں نے وہاں دیکھنا شروع کیا مگر وہاں بھی کاغذات کو الٹ پلٹ کر دیکھنے سے معلوم ہوا کہ میرا قرآن وہاں نہیں.اس وقت مجھے پہلے تو یہ خیال آیا کہ میں گھر سے قرآن منگواؤں اور درس دے دوں مگر اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ میرے درس کا سلسلہ جاری ہو چکا ہے اور جہاں پہلے درس دیا تھا اس کے اگلے حصہ سے اب درس شروع کرنا ہے لیکن جس طرح درمیان میں وقفہ پڑ جائے اور ایک دو دن گزر جائیں تو انسان بھول جاتا ہے کہ وہ کو نسار کو ع تھا جس کا میں درس دے رہا تھا اسی طرح میں بھی بھول گیا ہوں کہ میں کونسے رکوع کا درس دے رہا تھا اس وجہ سے میں کسی اور قرآن سے درس نہیں دے سکتا.میں سمجھتا ہوں کہ میرے قرآن پر
402 درس کے مقام پر نشان رکھا ہوا تھا مگر اب چونکہ وہ قرآن مجھے ملا نہیں اس لئے کسی اور قرآن سے میں وہ مقام تلاش نہیں کر سکتا.اس وقت میں نے سوچا کہ درس کے اعلان کے بعد یہ مناسب معلوم نہیں ہوتا کہ میں درس نہ دوں اگر اس رکوع کا میں درس نہیں دے سکتا تو کسی اور رکوع کا ہی درس دے دوں اس وقت کوئی خاص آیت میرے ذہن میں نہیں لیکن جس طرح نقطہ میں میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ ہے اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ کوئی آیت بھی میرے سامنے آئے گی تو میں درس دے دوں گا.یہ خیال آتے ہی میرے دل میں آیا کہ میں کیوں نہ اس بات پر درس دوں کہ قرآن کریم کی تفسیر کس طرح کرنی چاہئے اور قرآن شریف کے صحیح مطالب سمجھنے کے لئے ہمارے پاس کو نساذ ریعہ ہے.یہ خیال آتے ہی میں نے کہا کہ میں آج حسب دستور تو درس نہیں دیتا کیونکہ وہ قرآن کریم جس پر میرے نوٹ ہیں اس وقت میرے پاس نہیں اور مجھے معلوم نہیں کہ پہلا درس کہاں ختم ہوا ہے مگر آج میں اس بات پر درس دیتا ہوں کہ قرآن کریم کی تفسیر کن اصول پر کی جانی چاہئے.اس وقت جیسے عام سنت اللہ میرے ساتھ ہے میں یہ فقرے تو کہہ رہا ہوں مگر نہ مضمون میرے ذہن میں ہے اور نہ کوئی آیت میرے ذہن میں ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جب میں نے اس موضوع پر تقریر شروع کی تو خود بخود مضمون میرے سامنے آتا جائے گا.آیت بھی میرے سامنے آجائے گی.عام طور پر جب میں بغیر نوٹوں کے تقریر کیا کرتا ہوں تو بسا اوقات دو چار فقرے کہنے تک مجھے خود بھی معلوم نہیں ہو تا کہ میرا مضمون کیا ہے اس وقت اچانک مضمون مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے اور میں تقریر شروع کر دیتا ہوں.اس وقت بھی یہ تو میرے ذہن میں آگیا ہے کہ میں قرآن کریم کی تفسیر کے اصول بیان کروں مگریہ کہ کن آیتوں سے یہ اصول مستنبط کروں گا یہ بات میرے ذہن میں نہیں.جب میں نے کہا کہ میں قرآن کریم کی تفسیر کے اصول بیان کرنا چاہتا ہوں تو یکدم میری زبان پر ایک آیت جاری ہوئی.آج تک جاگتے ہوئے میں نے اس آیت سے کبھی یہ مضمون اخذ نہیں کیا اور نہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی بھر کبھی اس آیت سے وہ استدلال کیا ہوا ہو جو میں خواب میں کرتا ہوں بہر حال جب میں نے قرآن کریم کی تفسیر کے اصول بیان کرنے چاہے تو یکدم یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہوئے کہ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي أَمْرٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَإِلَى الرَّسُولِ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ
403 اور میں نے کہا کہ قرآن کریم کی تفسیر کے بہترین اصول ان الفاظ میں بیان کئے گئے ہیں (اصل آیت ان الفاظ میں نہیں ہے بلکہ یوں ہے یايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُوْلِ (النساء : 60) لیکن خواب میں میں اس طرح پڑھتا ہوں جس طرح اوپر بیان ہوا ہے خواب کے الفاظ میں شیئی کی جگہ امر ہے اور الرَّسُولِ کے بعد اولی الامر کے الفاظ بھی ہیں.ان الفاظ کی تبدیلی سے آیت کی تفسیر کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کیونکہ شیئی اور امر کے الفاظ کے معنے تو ایک ہیں مگر امر کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ آیت کے پہلے حصہ میں جو اولی الامر کے الفاظ ہیں وہ دوسرے حصہ میں بھی مراد ہیں ، صرف اختصار کے لئے حذف کر دئیے گئے ہیں جیسا کہ قرآن کریم کے کئی اور مقامات پر بھی کیا گیا ہے.میں کہتا ہوں کہ تَنَازَعْتُمْ فِی الامر کے معنے گو دنیادی تنازع کے بھی ہیں مگر ایک معنے اس کے اور بھی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ امر کے معنے اس جگہ کلام الہی کے ہیں اور در حقیقت وہی اصل امر ہو تا ہے اور اس کے ذریعہ بتایا جاتا ہے کہ انسان کن ذرائع سے دنیا میں ترقی حاصل کر سکتا ہے اور کن ذرائع سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے پس تَنَازَعْتُمْ فِی الاَمرِ کے معنی ہیں تَنَازَعْتُمْ فِي تَفْسِيرِ الْأَمْرِ يَا تَنَازَعْتُمْ فِی مَعْنِى الْأَمْرِ یعنی جب تمہیں کسی آیت کا صحیح مفہوم معلوم کرنے میں شبہ ہو جائے.ایک کہے.اس کے یہ معنے ہیں اور دوسرا کے اس کے یہ معنے ہیں تو فَرُدُّوهُ إلى الله تم اس اختلاف کے وقت سب سے پہلے یہ کام کیا کرو کہ اس آیت کو خدا تعالیٰ کی طرف لے جاؤ کہ وہ اس کو حل کرے اور پھر میں اس کی تشریح کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ احادیث میں اس مفہوم کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ کلامُ اللهِ يُفَسِرُ بَعْضَهُ بَعْضًا خدا تعالى کے کلام کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی تفسیر کر دیا کرتا ہے.پس جب تم میں کسی آیت کے معنے کے متعلق اختلاف پیدا ہو جائے تو تمہیں قرآن کریم کی دوسری آیتوں کو دیکھنا چاہئے کہ وہ مختلف معانی میں سے کس کی تائید کرتی ہیں پھر جس کی تائید کریں ہمارا فرض ہے کہ وہ سننے کریں اور جس کی تائید نہ کریں وہ معنے نہ کریں.پھر میں نے کہا دوسری چیز الی الرَّسُول کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے.یعنی اگر قرآن کریم کی آیات سے تم پر حقیقت واضح نہیں ہوتی تو فَرُدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ تم احادیث کو ٹولو اور دیکھو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ
404 وآلہ وسلم نے اس کے کیا معنے بیان فرمائے ہیں اور وہ سنے تمہارے مفہوم کی تائید میں ہیں یا اس کے مخالف ہیں اگر احادیث نبوی تمہارے معنوں کی تائید میں ہیں تو وہ درست ہیں اور اگر وہ غیر کی تائید میں ہیں تو اس کے معنے درست ہیں.پھر میں کہتا ہوں کہ تیسرا اصول یہ ہے کہ اگر تمہارا اختلاف دور نہ ہو تو اولی الامر کی طرف اس تنازع کو لوٹاؤ اس تفسیر کے لحاظ سے أولى الأمرِ مِنْكُمْ کے ایک نئے معنے اس وقت میں کرتا ہوں عام طور پر اس آیت میں ہم اولی الامر کے اور معنے کیا کرتے ہیں اور وہ معنے بھی اس جگہ درست ہیں لیکن اس وقت میں یہ معنے کرتا ہوں کہ اولی الامر سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو خد اتعالیٰ اپنے الہام کے ذریعہ سے معانی سمجھاتا ہے اور میں کہتا ہوں کہ خدا اور رسول کے بعد تم اس شخص کی طرف رجوع کر دیا اس کی کتابیں پڑھو.جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام سے کلام الہی کے معنے سمجھائے ہوں.یہ مضمون ہے جو خواب میں میں نے بیان کیا.اس کے بعد خواب کی حالت بدل گئی اسی دوران ایک معترض بھی اٹھا اس نے بعض اعتراضات کئے مگر اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں بسر حال میں نے تین اصول قرآن کریم کی تفسیر کے بیان کئے ہیں.الفضل 9.دسمبر 1947ء صفحہ 4-3 447 30 31 دسمبر 1947ء مایا : دو تین دن کی بات ہے مجھے الہام ہوا جس کی عبارت کچھ اس قسم کی تھی کہ إِنَّمَا يَسْتَجِيْبُ اللَّهُ الَّذِينَ* اس سے آگے کی عبارت یاد نہیں رہی اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی انہی کی دعائیں قبول کرتا ہے.الفضل 4.فروری 1948ء صفحہ 6 448 2 جنوری 1948ء فرمایا : آج سورۃ الرحمن کی بہت سی آیتیں متواتر میری زبان پر جاری ہوئیں جن میں سے کچھ تو مجھے یاد نہیں رہیں مگر یہ فقرہ جو بار بار جاری تھا مجھے یاد ہے کہ قرآن مجید میں اس مضمون کی آیت یوں ہے وَيَسْتَجِيْبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُو الصَّلِحَتِ (الشورى) یعنی اللہ تعالی ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے (مرتب)
405 فَبِأَيِّ الآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبُنِ (الرحمن : (14) اس کے علاوہ عَيْنِ نَضَّاخَتْنِ (الرحمن : 67) کے لفظ بھی یاد ہیں اور بھی بعض آیتوں کے الفاظ یاد تھے مگر وہ جاگنے کی حالت میں بھول گئے وہ آیتیں یاد نہیں رہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اس میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ تو انسان کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے معمور کرنا چاہتا ہے مگر انسان اپنی غفلتوں اور کو تاہیوں کی وجہ سے اس انعام سے محروم رہ جاتا ہے اور اس کو ضائع کر دیتا ہے.الفضل 4.فروری 1948ء صفحہ 6 جنوری 1948ء 449 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک جلسہ میں تقریر کر رہا ہوں اور مغربی پنجاب کے لوگ میرے مخاطب ہیں.میں ان سے کہتا ہوں کہ اسلام کے معنی ہی امن دینے کے ہیں اس لئے مسلمانوں کو اسلام کے نام کا ادب کرتے ہوئے غیر مسلموں کو اپنے ملک میں امن دینا چاہئے اگر یہ کہا جائے کہ مسلمانوں کو مشرقی پنجاب میں امن حاصل نہیں تو یہ خطرہ اس بات کا موجب نہیں ہونا چاہئے کہ مسلمان اپنے علاقہ میں ہندوؤں اور سکھوں کو قتل کریں یا انہیں امن سے نہ رہنے دیں مسلمان کا بہر حال فرض ہے کہ وہ اسلامی تعلیم کے مطابق اپنے علاقہ میں غیر مسلموں کی جان کو خطرے میں نہ پڑنے دے اگر غیر مسلم اسے کسی دوسری جگہ قتل بھی کرتے ہیں تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ جب ایک عام آدمی بھی اپنے کارندے کی حفاظت کرتا ہے اور اس کا ساتھ دیتا ہے تو مسلمان اگر خدا تعالی کے حکم کے ماتحت غیر مسلموں کے جان ومال کی حفاظت اس ملک میں کریں گے تو خدا تعالی خود دوسرے علاقہ میں ان مسلمانوں کی جان اور ان کے مال کے نقصان کا بدلہ لے گا.یہ نہیں ہو سکتا کہ مسلمان خداتعالی کی تعلیم پر عمل کریں اور پھر گھاٹے میں رہیں.الفضل 27.جنوری 1948ء صفحہ 5 جنوری 1948ء 450 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں بیٹھا ہوا ہوں اور میری دائیں طرف ایک اور احمدی بیٹھے ہیں جہاں تک میرا حافظہ کام دیتا ہے وہ قاضی محبوب عالم صاحب ضلع گوجرانوالہ کے معلوم ہوتے
406 ہیں.وہ مجھ سے کہتے ہیں آپ کی شکل بعض دفعہ بالکل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملتی ہے.پہلے بھی آپ کی شکل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملتی تھی اور اب پھر مجھے بالکل انہی کی طرح آپ کی شکل نظر آتی ہے.الفضل 27.جنوری 1948ء صفحہ 5 451 جنوری 1948ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ جس مکان میں ہم اب ہیں اس کی اوپر کی منزل کے برآمدہ میں ایک سانپ کوئی ڈیڑھ گز کا پڑا ہے.اچھا موٹا سانپ ہے اس کی اوپر کی کھال کا رنگ سبز ہے اور نیچے کی کھال کا رنگ بھو سلا ہے.اس کے ارد گرد تین آدمی کھڑے ہیں جن کے ہاتھوں میں سوئیاں ہیں.میں اپنے کمرے میں شور سن کر باہر نکلا اور اس سانپ کو دیکھا اس کے دائیں بائیں چھوٹی چھوٹی چیزیں جیسے اون کے گولے ہوتے ہیں پڑی ہوئی ہیں ان کی شکل اور قد بالکل ایسے ہیں جیسے پہلے دن کے مرغی کے بچے ہوتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ مرغی کے بچے ہمارے عزیز ہیں خاص طور پر یہ ذہن میں نہیں کہ یہ ہمارے خاندان میں سے ہیں یا احمدی ہیں یا دوسرے مسلمان فرقوں میں سے ہیں.صرف میں ان کو عزیز خیال کرتا ہوں جس دائرہ میں کہ دوسرے مسلمان کہلانے والے لوگ بھی آجاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ وہ لوگ جن کے ہاتھ میں سوٹیاں ہیں وہ اس سانپ کو مارنا چاہتے ہیں لیکن اس ڈر کے مارے پوری ضرب نہیں لگاتے کہ کہیں ان بچوں کو نقصان نہ پہنچ جائے جس طرح ان چھوٹے چھوٹے چوزوں کو میں آدمی سمجھتا ہوں اور اپنے عزیز وجود سمجھتا ہوں اسی طرح رویا میں میں اس سانپ کو ایک ریاست کا مہاراجہ سمجھتا ہوں اور خواب میں مجھے اس بات پر کوئی تعجب نہیں آتا کہ یہ سانپ مہاراجہ کس طرح ہے اور وہ چھوٹے چھوٹے اون کے گولے میرے عزیز کس طرح ہیں.مجھے اس طرح یہ بات طبیعی معلوم ہوتی ہے جیسا کہ وہ انسانی شکلوں میں ہوں.میرے ہاتھ میں بھی سوئی ہے میں نے ان دوسرے ساتھیوں سے مل کر اس سانپ کو مارنا شروع کیا لیکن ہر دفعہ اس احتیاط سے ضرب لگائی کہ کہیں بچوں کو نقصان نہ پہنچ جائے آخر میں نے یا کسی اور نے (کہا) کہ سانپ مارا گیا.الفضل 27 جنوری 1948ء صفحہ 5
407 452 جنوری 1948ء فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک چھوٹا سا پارسل کسی نے میرے ہاتھ میں دیا پرانے کاغذوں پر مشتمل معلوم ہوتا ہے.میں نے اسے کھولا تو وہ ایک رجسٹر بن گیا جو حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کے الہاموں کا معلوم ہوتا ہے اس پر چند الہام آپ کے لکھے ہیں ان میں ایک ہے افیناك ہم نے تجھ سے دوستوں والا رشتہ قائم کیا تو ہمارا دوست ہے اور ہم تیرے دوست ہیں دوسرا الہام اولينك کی طرح معلوم ہوتا ہے پوری طرح لفظ پڑھا نہیں گیا اس لفظ کے معنی ہیں ہم تجھ کو والی کر دیں گے.مالک کر دیں گے.گویا یہ قادیان کی طرف اشارہ ہے کہ آخر احمدیوں کو ملے گا.تیسر الفظ عربی طرز پر لکھا ہوا ہے مگر ہے عجیب قسم کا.یوں معلوم ہوتا ہے کہ انجليناك لکھا ہے.یہ کوئی عربی لفظ نہیں مگر میں خواب میں سمجھتا ہوں کہ لفظ انجیل سے بنایا گیا ہے اور خواب میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کے معنی ہیں ہم نے تیری طرف جبریل کو اتارا گویا انجیل کے اترنے کے معنے جبریل کے اترنے کے ہیں اور انجل سے مراد انجیل کا اتارنا ہے اور اشارہ جبریل کے اتارنے کی طرف ہے اس کے بعد میں نے دیکھا ایک اور پارسل کسی نے مجھے دیا ہے اسے کھولنے پر کچھ جلی ہوئی میں یعنی فلفل دراز اور دو چھوٹے پیکٹ ہیں اور ایک پیکٹ دیا ہے جس میں سے کچھ ادویہ نکلی ہیں جو کسی مقوی نسخہ کے اجزاء ہیں دو جزو پرندہ شکل کے ہیں مگر چھوٹے چھوٹے پرندے جیسے سنفور پچھلی ہوتی ہے.پہلی دوا سے مراد سرمہ معلوم ہوتا ہے شمایہ یہ سرمہ آنکھوں کے لئے مفید ہے آج کل میری آنکھوں میں تکلیف ہے.الفضل 30.جنوری 1948ء صفحہ 4 مارچ 1948ء 453 فرمایا : میں گذشتہ دنوں نا صر آباد (سندھ) میں تھا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں اپنے مکان کے برآمدہ میں ایک پیڑھی پر بیٹھا ہوں کہ اتنے میں اخبار آیا اور میں نے اسے کھولا تو اس میں یہ خبر درج تھی کہ رات نیو یارک ریڈیو سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب شہید کر دیئے گئے ہیں اس خواب کے اچھے معنے بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ شہادت ایک بڑا رتبہ ہے
408 پس اس سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ انہیں کوئی بڑی کامیابی حاصل ہو گی لیکن ظاہری تعبیر کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ خواب منذر بھی ہو سکتی ہے 104 اس کے یہ معنے بھی کئے جاسکتے ہیں کہ ان کے کام میں مشکلات پیدا ہو جائیں گی اور دشمن انہیں نا کام کرنے کی کوشش کرے گا چنانچہ اس رؤیا کے بعد جب میں کراچی پہنچا.تو تیرہ مارچ ( 13 مارچ 1948ء) کو میں نے انہیں تار دیا کہ میں نے ایسا ر دیا دیکھا ہے اور میں نے لکھا کہ گو خواب میں قتل سے مراد کوئی بڑی کامیابی ہو سکتی ہے لیکن ظاہری تعبیر کے لحاظ سے چونکہ یہ رویا منذر ہے اس لئے احتیاط رکھنی چاہئے.اس کے جواب میں مجھے ان کی طرف سے تار بھی ملا اور پھر تفصیلی خط بھی آگیا جس میں ذکر تھا کہ بعض حکومتیں اپنی ذاتی اغراض کے لئے مخالفت کر رہی ہیں اور کام میں مشکلات پیدا ہوتی جا رہی ہیں.سیر روحانی جلد 2 صفحہ 66-65 (شائع کردہ الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ) نیز دیکھیں.الفضل 26.فروری 1950ء صفحہ 2 و 28 فروری 1950ء صفحہ 2 454 مارچ 1948ء فرمایا : چند دن ہوئے میں نے دیکھا کہ میں اپنے آپ کو بغیر آئینہ کے دیکھ رہا ہوں میں نے دیکھا کہ میں اٹھارہ بیس سال کا ہوں میری داڑھی مونچھ نہیں اور میرا رنگ موجودہ رنگ سے بہت سفید ہے.خواب میں مجھے اپنی عمر پر کوئی تعجب نہیں آتا لیکن رنگ کے متعلق میں کسی سے کہتا ہوں کہ جتنا سفید رنگ میرا پہلے تھا اب اس سے بہت زیادہ صاف اور سفید ہو گیا ہے.الفضل 18.اپریل 1948ء صفحہ 5 455 مارچ 1948ء فرمایا : چند دن ہوئے میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ پر بیٹھا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی شدت میں رو رہا ہوں اور اس قدر خدا تعالیٰ کی محبت میرے دل میں پیدا ہو رہی ہے کہ میرا جسم اندر سے گداز ہو کر اس طرح بہہ رہا ہے جیسے نہر جاری ہوتی ہے.میری آنکھوں سے آنسوؤں کی بجائے پانی کا ایک چشمہ جاری ہے اور میری ناک سے بھی پانی کی ایک نہر رواں معلوم ہوتی ہے اور باوجود اس کے کہ آئینہ میرے سامنے نہیں.میں اپنے آپ کو اسی طرح دیکھ رہا ہوں
409 جس طرح آئینہ سامنے ہونے کی حالت میں انسان اپنے آپ کو دیکھتا ہے میں اپنے نتھنوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان میں بڑے بڑے سوراخ نظر آتے ہیں وہ پھولے ہوئے ہیں اور پانی کی سوزش کی وجہ سے اندر سے نہایت سرخ ہیں اور آنکھوں کو دیکھتا ہوں تو ان سے بھی پانی بہتا چلا جاتا ہے اس وقت میں کہتا ہوں یہ آنسو نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے میرا نفس گداز ہو کر بہہ رہا ہے.الفضل 18.اپریل 1948ء صفحہ 4 456 28.مارچ 1948ء فرمایا : میں نے ایک نہایت مبشر خواب دیکھا.جاگا تو وہ خواب مجھے یاد تھا میں اس سے لطف اٹھاتا رہا مگر دوبارہ سونے کے بعد جب صبح اٹھا تو وہ خواب مجھے بھول گیا صرف اتنا یاد ہے کہ ڈلہوزی یا اس کے قریب کا کوئی پہاڑی مقام ہے وہاں ہم ہیں اور اس جگہ ہم نے کوئی بات شروع کی ہے.آنکھ کھلنے پر سب باتیں مجھے یاد تھیں مگر جب میں دوبارہ سویا اور سو کر اٹھاتو وہ باتیں مجھے بھول گئیں لیکن بہر حال وہ مبارک باتیں تھیں.اس کے بعد صبح میں نے دیکھا کہ گویا میں قادیان میں ہوں وہ چوک جو مسجد مبارک کے سامنے ہے میں نے دیکھا اس میں کچھ سکھ سوار ہیں اور ان کے پاس رائفلیں بھی ہیں وہ گھوڑوں پر ہیں یا اونٹوں پر.اس کے متعلق میں کچھ کہہ نہیں سکتا اس کے بعد میں نے اپنے آپ کو قادیان کے مشرق یعنی دارالانوار کی طرف جاتے ہوئے دیکھا مشرق کی طرف دار الانوار اور پرانے قادیان کے درمیان جو علاقہ ابھی خالی ہے اس پر ہوتے ہوئے میں نے دیکھا کہ میں جنوب میں ننگل گاؤں کی طرف جا رہا ہوں.میں تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ میرے ایک ساتھی نے مجھے اشارہ کیا کہ دیکھیں کھیت میں کچھ تیرا ترے ہیں پچاس ساٹھ یا اس کے قریب تلیر ہیں.گویا ان کی ایک ڈار وہاں آکر اتری ہے اور اس خواہش سے اس نے مجھے اشارہ کیا ہے کہ مجھے ان کا شکار کرنا چاہئے.میں نے اسے کہا کہ اچھا بندوق منگواؤ.خواب میں میں ایسا سمجھتا ہوں کہ بندوق ساتھ ہے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ ساتھ نہیں.چنانچہ تھوڑی دیر انتظار کے بعد جب میں نے پوچھا کہ کیا بات ہے تو مجھے بتایا گیا کہ بندوق لینے کے لئے آدمی گئے ہیں اس وقت میں خواب میں سمجھتا ہوں کہ شیخ نور الحق صاحب جو ہماری زمینوں کے دفتر کے انچارج ہیں اور مولوی نور الحق
410 صاحب مبلغ یہ دونوں نور الحق نامی بندوق لینے کے لئے گئے ہیں.میں ان کی آمد کا انتظار کر رہا تھا کہ اتنے میں میں نے دیکھا کہ وہ سکھ سوار جو چوک میں کھڑے تھے وہ اپنی سواریوں پر بیٹھے ہوئے رائفلیں لگائے مشرق کی طرف بھاگے چلے جا رہے ہیں اور ان کے پیچھے پیچھے ایک گڈر بھی ہے جس پر بہتر اور گھر کا سامان وغیرہ معلوم ہوتا ہے.میں انتظار کی حالت میں ایک عمارت کے برآمدہ میں ٹہلنے لگا اس دوران میں ایک شخص میرے پاس آیا اس کی داڑھی ایسی ہے جیسے مسلمانوں کی داڑھی ہوتی ہے یعنی تراشی ہوئی ہے اور مونچھیں بھی شریعت کے مطابق ہیں اس کی شکل و صورت سے خیال کرتا ہوں کہ کہ غالبا یہ مسلمان ہے.اس نے مجھے آکر کہا کہ آپ میری امداد کریں وہ لوگ مجھے دق کرتے ہیں کچھ بو تلیں اس کے گھر رکھ جاتے ہیں.میں خواب میں سوچتا ہوں کہ وہ بوتلیں شاید تیزابی مادہ کی ہوتی ہوں گی یا شراب کی بوتلیں ہوں گی جو لوگ اس کے گھر میں رکھ جاتے ہیں تاکہ ناجائز شراب رکھنے کے الزام میں اسے پکڑوا دیں.مجھے خیال تھا کہ چونکہ اس کی شکل مسلمانوں والی ہے اس لئے وہ مسلمان ہی ہو گا مگر جب میں نے اس کا نام پوچھا تو اس نے مجھے اپنا نام ہندوانہ بتایا تب میں نے اسے کہا یہ معاملہ پولیس سے تعلق رکھتا ہے میں تو صرف نصیحت کر سکتا ہوں تم پولیس کو اطلاع دو اس کا فرض ہے کہ وہ اچھے شہریوں کی امداد کرے اور اس فرض کی وجہ سے وہ تمہاری بھی ضرور امداد کرے گی.باقی جہاں تک میں نصیحت کر سکتا ہوں وہ بھی کردوں گا پھر میں نے اس شخص سے کہا دیکھو تم ہندو ہو اور تم میرے پاس امداد کے لئے آئے ہو مگر تمہارے جیسی بے مروت قوم میں نے آج تک نہیں دیکھی.میرے پاس سینکڑوں خطوط ہندوؤں کے موجود ہیں جن میں انہوں نے اقرار کیا ہوا ہے کہ مصیبتوں اور تباہیوں کے وقت صرف احمدیوں نے ان کی جانیں بچائیں اور ہر جگہ اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر ان کی حفاظت کی (میں صرف خواب میں ہی ایسا نہیں کہہ رہا بلکہ واقعہ میں ایسے سینکڑوں خطوط ہندوؤں کے ہمارے پاس موجود ہیں) پھر میں اس سے کہتا ہوں اس وقت میری جیب میں بھی ایک خط پڑا ہوا ہے جس میں ایک ہندو نے اقرار کیا ہے کہ آپ کی جماعت نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر ہماری جانیں بچائیں اور واقعہ بھی یہ ہے کہ اس وقت میرے کوٹ کی جیب میں ایسا خط پڑا ہوا تھا مگر باوجود اس کے کہ ہر جگہ ہم نے تمہاری جانوں کی حفاظت کی ، تمہارے مالوں کی حفاظت کی، تمہاری عزت و آبرو کی حفاظت کی ، تمہارا جس جگہ
411 بھی بس چلا اور جس جگہ بھی تمہارا زور چلا تم نے ہمارے آدمیوں کو مارا پس تمہارے جیسی بے مروت قوم دنیا میں اور کوئی نہیں.پھر میں نے اسے کہا تم اپنی موجودہ حالت پر خوش نہ ہو.ایک زمانہ آنے والا ہے جب ہندوستان میں کوئی ہندو نظر نہیں آئے گا جب میں نے یہ کہا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی بالا طاقت مجھ سے یہ الفاظ کہلوا رہی ہے.اس پر خود میرے نفس نے مجھ سے سوال کیا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہندوستان میں کوئی ایک ہندو بھی باقی نہ رہے.تب خواب میں ہی میں اس کا یہ جواب دیتا ہوں کہ اگر ہم خدا تعالیٰ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اسلام کی زور شور سے تبلیغ کریں گے تو پھر سارے ہندو مسلمان ہو جائیں گے.اس وقت ہندو اور مسلمان کی کوئی تمیز نہیں رہے گی اور سارے کے سارے ہندو مسلمان ہو جائیں گے.اس کے بعد اس شخص نے کہا لیکھرام نے خواہش کی تھی اسے قادیان آنے کا موقع دیا جائے میں اس وقت خواب میں سمجھتا ہوں کہ لیکھرام قادیان کے مشرق کی طرف کی جگہ پر ہے اس کے بعد اس نے کہا کہ گورنمنٹ سوچ رہی ہے کہ اسے قادیان میں آنے کا موقع دے یا نہ دے.اس وقت اس نے کہا یا میرے دل میں خیال گذرا کہ لیکھرام ایک دفعہ قادیان آیا تھا اور اس نے مشرق قادیان میں ایک تقریر کی تھی جب اس نے کہا کہ لیکھرام قادیان آنے کی خواہش رکھتا ہے تو میں نے اسے جواب میں کہا کہ یہ معاملہ حکومت وقت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہ جو چاہے کرے لیکن معا مجھے خیال آیا کہ اسے تو مرے ہوئے پچاس سال گذر چکے ہیں تب میں اسے کہتا ہوں دیکھو پچاس سال ہو چکے جب وہ مارا گیا تھا اور تم اس کا اب ذکر کر رہے ہو اور پھر میں نے اسے کہا کہ جس لیکھرام کا تم ذکر کر رہے ہو اس کی عمر کیا ہے.پچاس سال سے اوپر ہے یا پچاس سے نیچے.اس نے کہا پچاس کے قریب ہے جب اس نے کہا لیکھرام کی عمر اس وقت پچاس سال کے قریب ہے تب میں کہتا ہوں اگر ہندو قوم یہ بھی کہہ دے کہ لیکھرام مارا نہیں گیا تھا بلکہ حملہ سے بچ گیا تھا تب بھی اس وقت اس کی عمر نوے سال سے اوپر ہونی چاہئے اور تم کہتے ہو کہ اس کی عمر پچاس سال سے نیچے ہے معلوم ہوتا ہے دنیا کو دھوکا دے کر کوئی اور آدمی کھڑا کر دیا گیا ہے جس کا نام لیکھرام رکھ دیا گیا ہے یہ کیا چالا کی ہے معلوم ہوتا ہے ہندو قوم سمجھتی ہے ہم اس طرح ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا لیکھرام کھڑا کر دیں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ لیکھرام زندہ ہے ورنہ خدا کی پیش گوئی کے مطابق تو وہ مارا جا چکا ہے اور یہ صرف مصنوعی نام
412 ہے.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک گاڑی آرہی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اندر وہ لوگ سوار ہیں جن کو بندوق لینے کے لئے بھیجا گیا تھا وہ گاڑی تانگا کی شکل کی ہے مگر دراصل رتھ ہے جب سواریاں اتریں تو میں نے دیکھا کہ اترنے والے شیخ نور الحق صاحب مولوی نورالحق صاحب مبلغ اور میاں بشیر احمد صاحب تھے اور ان کے ہاتھ میں بندوق تھی اس پر میری آنکھ کھل گئی.میں نے سمجھا کہ نور الحق روشنی کے معنوں میں ہے اور شیخ کے لفظ سے میں اب سمجھتا ہوں کہ نو مسلموں کے لئے عام طور پر شیخ کا لفظ ہی بولا جاتا ہے خود تو وہ نو مسلم نہیں ہیں پرانے زمانہ میں ان کے آباء واجداد میں سے کوئی نو مسلم ہوا ہو تو اور بات ہے بہر حال شیخ نور الحق صاحب مولوی نور الحق صاحب ارمیاں بشیر احمد صاحب تینوں نام ایسے ہیں کہ خواب کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں ان ناموں سے ہندوؤں سے مسلمان ہونے والے اور بیرونی ممالک میں سے مسلمان ہونے والے لوگ مراد ہیں ان کے ساتھ ہی اسلام اور احمدیت کی ترقی کی بھی بشارت ہے.الفضل 18.اپریل 1948 ء صفحہ 4-3 فرمایا : یہ خواہیں بتا رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کا مستقبل تاریک نہیں جیسے لوگ سمجھتے ہیں یقیناً خدا ہم کو ان مشکلات پر غالب آنے کی توفیق بخشے گا اور یقینا ہم کو نہ صرف ان مشکلات پر غالب آنے کی توفیق بخشے گا بلکہ ہمارے ذریعہ اللہ تعالٰی پھر ہندوستان میں اسلام کی روحانی حکومت قائم کر دے گا اور روحانی حکومت کے قیام کے بعد جسمانی حکومت اس کے تابع ہوا کرتی ہے.الفضل 18.اپریل 1948ء صفحہ 5 457 اپریل 1948ء فرمایا : پشاور کے سفر سے پہلے میں نے ایک رؤیا دیکھی تھی جو اس طرح مخفی زبان میں تھی کہ میں خواب میں حیران تھا کہ یہ کیا بات ہے اور اس چیز کا اس قدر مجھ پر اثر تھا کہ جب میں جاگا تب گاتب بھی تھوڑی دیر تک مجھ پر حیرت طاری رہی.آخر ایک لفظ میرے دل میں ڈالا گیا اور تعبیر مل گئی.میں نے دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں اور وہ پاخانہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ
413 والسلام قضائے حاجت فرمایا کرتے تھے.میں اس میں ہوں اس میں اسی طرح کی لکڑی کی چوکی بنی ہوئی ہے اور اس کے نیچے پاخانہ کا پاٹ پڑا ہوا میں اس کے اوپر بیٹھا ہوں گویا قضائے حاجت کر رہا ہوں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاخانہ جو آیا وہ پتلا سا ہے پھر وہ کچھ پھیل بھی گیا ہے اور چوکی کے کناروں پر بھی کچھ گرا ہے جب میں نے طہارت شروع کیا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے میں ٹیڑھا ہو گیا ہوں اور چوکی سے نیچے گرنے لگا ہوں ٹیڑھا ہونے سے وہ پاخانہ جو چوکی پر گرا تھا میری سلوار کے ایک حصہ کو لگ گیا جب میں سنبھلنے لگا تو دوسری طرف زیادہ جھک گیا اور دوسری طرف کے پاجامہ کے حصہ کو کچھ پاخانہ لگ گیا اس پر میں نے پانی کے لوٹے سے پاخانہ کو دھویا.اس وقت میں ڈرتا ہوں کہ شاید لوٹے میں اتنا پانی نہ ہو جس سے میں پاجامہ کو صاف کر سکوں لیکن وہ پاخانہ بھی صاف ہو گیا اور میں نے طہارت بھی کرلی اور پھر بھی لوٹے میں پانی بچ گیا جس سے میں وضو کرنے لگ گیا اور اسی چوکی پر کھڑے ہو کر میں نے نماز شروع کر دی.مشرق کی طرف میرا منہ تھا پاخانہ کی جگہ ایسی ہے کہ اگر مکان کو جنوب کی طرف کھینچا جا سکے تو وہ جگہ مسجد مبارک کے مغرب میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور مولوی عبدالکریم صاحب نماز پڑھا کرتے تھے چلی جائے لیکن حقیقتاً درمیان میں کچھ کمرے ہیں اور پاخانہ کوئی تھیں بہتیس فٹ مسجد سے شمال میں ہے جس وقت میں نماز پڑھ رہا ہوں ایک نوجوان میرے دائیں اور دو نوجوان میرے بائیں آکر کھڑے ہوئے ہیں.مجھے ایسا معلوم ہوا ہے کہ دائیں طرف کوئی نوجوان ہے بغیر داڑھی مونچھ کے اور بائیں طرف میاں غلام محمد اختر صاحب ہیں اور ان کے ساتھ پھر ایک داڑھی مونچھ کا نوجوان ہے اور ہم نماز پڑھ رہے ہیں اور نماز بھی باجماعت.میں اس وقت سخت حیران ہوں کہ سجدہ کہاں کروں گا جس چوکی پر کھڑا ہوں اس پر تو پاخانہ گرا ہوا ہے اور میرے ساتھی جہاں کھڑے ہیں وہ طہارت اور پیشاب پاخانہ بننے کی جگہ ہے دائیں طرف کا نوجوان بے شک ایک چوکی پر ہے مگر وہ بھی پاخانہ کا حصہ ہے آخر گھبرا کر میں نے پاؤں کی طرف نظر کی تو مجھے یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی کہ پاخانہ کی چوکی ایک بیٹھنے والی یا نماز کی چوکی میں بدل گئی ہے اور بالکل صاف ہے اسی طرح جس طرح فرش پر بائیں طرف کے دوست کھڑے ہیں وہ بھی بالکل خشک اور صاف ہے اور کوئی گندگی اس پر نہیں ہے اس پر میں نے نماز شروع کی.قیام کے بعد جب رکوع کے لئے جھکا اور رکوع کر کے اٹھ تو کچھ بھنبھناہٹ
414 اور حرکت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد مبارک میں نماز ہو رہی ہے اور وہ لوگ مغرب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے ہیں جس وقت میں رکوع کر کے اٹھا تو اختر صاحب کے پاس جو نوجوان تھا وہ اردو زبان میں مسجد مبارک کے نمازیوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے ہم کچھ آگے بڑھ گئے ہیں.خواب میں ہی میں تعجب کر رہا ہوں کہ وہ نماز بھی پڑھ رہا ہے اور بات بھی کر رہا ہے پھر ہم نے سجدہ کیا جگہ بالکل صاف تھی پھر کھڑے ہوئے اور دوسری رکعت شروع کی جب میں دوسری رکعت میں رکوع کے بعد کھڑا ہوا تو پھر اس نوجوان نے مسجد مبارک کے نمازیوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم کچھ اور آگے بڑھ گئے ہیں.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.فرمایا : میرے دل میں القاء ہوا کہ دیکھو پاخانہ کو عربی میں کیا کہتے ہیں پاخانہ کو عربی میں براز کہتے ہیں اور براز کے معنی لڑائی کے بھی ہیں اور مقعد کے بھی ہیں جہاں سے پاخانہ نکلتا ہے پس میرا ذہن اس طرف گیا کہ پاخانہ پھرنے اور پاخانہ میں ہونے کے معنی مقابلہ کی جگہ پر بیٹھنے اور مقابلہ کے سامان مہیا کرنے اور مقابلہ کرنے کے ہیں گویا ہم لڑائی کی تیاری کر کے قادیان کی طرف بڑھیں گے اور اس لڑائی کے نتیجہ میں قادیان سے قریب تر ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاخانہ کو دکھانے کا یہ مطلب ہے کہ ہم نے مبارزت اور براز کا وہ طریق اختیار کرنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اختیار کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام دعائیں کیا کرتے تھے اور دنیوی سامانوں کو بھی استعمال کیا کرتے تھے مگر زیادہ زور دعاؤں پر دیتے تھے.فرمایا : یہ رویا مبشر بھی ہے اور اس میں متوحش فقرات بھی پائے جاتے ہیں اس میں مبارزت کی شرط ہے یعنی ہمیں مقابلہ کرنا پڑے گا رویا میں میں نے چار آدمی دیکھے ہیں یہ بھی تشویش میں ڈالتا ہے اگر چہ یہ درست ہے کہ وہ اتنی چھوٹی جگہ تھی کہ وہاں تین چار آدمی ہی دکھائے جاسکتے تھے مگر اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جماعت کا قلیل حصہ اس میں حصہ لے گا اور باقی محروم رہ جائیں گے.الفضل یکم مئی 1948ء صفحہ 4-3 458 ابریل 1948ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ پاخانہ کر رہا ہوں پاخانہ والی جگہ پر خارش ہوئی ہے میں نے خیال کیا
415 کہ کہیں کوئی چھونا وغیرہ نہ ہو طہارت کے لئے جب میں نے ہاتھ آگے بڑھایا تو میں نے کوشش کی کہ وہ ہاتھ کو لگ جائے جب میں نے اس کو نکالا تو وہ ایک چھوٹا تھا کہ میں نے اس کو پاٹ کے کنارے کے ساتھ لگا دیا.اتنے میں میاں شریف احمد صاحب آگئے اور انہوں نے اس چھونے کو اٹھا کر زمین پر پھینک دیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت کے کچھ لوگوں میں کمزوری پائی جاتی ہے اور یہ کہ براز کے موقع پر ان میں سے بعض احمدیت کے مطالبات پورے نہ کر سکیں گے وہ کیڑے ثابت ہوں گے اور کیڑے بھی پاخانہ کے اور میاں شریف احمد صاحب کے اس چھونے کو نیچے پھینک دینے کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ وہ لوگ الگ کر دئیے جائیں گے یا یہ کہ وہ مٹ جائیں گے اور فنا ہو جائیں گے.الفضل یکم مئی 1948ء صفحہ 4 459 6 مئی 1948ء ' فرمایا : آج شب میں نے رویا میں دیکھا کہ ہم قادیان گئے ہیں اور ہمارے ساتھ بہت سے اور لوگ بھی ہیں جن میں بعض احمدی ہیں اور بعض دوسرے لوگ ہیں ہم قادیان میں اسی راستہ سے داخل ہوئے ہیں جو میاں بشیر احمد صاحب کے فارم کے اوپر سے ہو کر سٹیشن کی طرف جاتا ہے پھر ہم چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی کوٹھی کی طرف سے ہو کر دار الانوار والی سڑک پر سے قادیان میں اس گلی میں سے شہر میں داخل ہوئے جس گلی میں مولوی سید سرور شاہ صاحب مرحوم کا اور بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی کا مکان ہے.مکرم حاجی محمد الدین صاحب آف تهال حال در ویش قادیان نے بیان کیا کہ حضور نے اس رؤیا کے آخر میں یہ بھی فرمایا تھا کہ جب ہم قادیان میں داخل ہونے لگے تو پولیس یا ملٹری نے ہمیں روک لیا.حضور نے فرمایا ” روک نہیں لیا گیا روکنا چاہا کیونکہ بعد میں میں نے اپنے آپ کو قادیان کے احمدی محلہ میں دیکھا." الفضل 17.جون 1950ء صفحہ 2 ا یہ رویا حضور نے قادیان جانے والے قافلے کے احباب کے سامنے رتن باغ لاہور میں 11 مئی 1948ء کو بیان فرمایا
416 460 کیم جون 1948ء فرمایا : کل میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ فاصلہ پر کوئی شخص ہے اور وہ خوش الحانی سے کچھ شعر پڑھ رہا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شعر میرے ہی ہیں.اس شخص کی آواز خوب بلند اور سُریلی تھی جب میری آنکھ کھلی تو شعر تو کوئی یاد نہ رہا لیکن ان کا وزن، قافیہ اور ردیف اچھی طرح یاد تھے میں نے اس وقت ایک مصرعہ بنایا کہ وزن قافیہ اور ردیف یا د رہ جائیں اور چونکہ و زن ردیف اور قافیہ یاد تھے اس لئے اس ایک مصرعہ کی مدد سے میں نے ایک نظم تیار کی یہ نظم الفضل جون 1948ء میں شائع ہو چکی ہے) ان اشعار کا مضمون تو مجھے یاد نہیں رہا تھا اس لئے نظم کا مضمون میرے دل کا ہے لیکن خواب بظا ہر مبارک ہے.الفضل 24.جولائی 1948 ء صفحہ 3 جون 1948ء 461 فرمایا : جون میں جب میں ناصر آباد سندھ میں تھا تو وہاں میں نے دیکھا کہ ایک منارہ ہے بہت اونچا اور سفید.قادیان کے منارہ کی شکل کا.اس کی نچلی منزل کے اوپر کے چھجے پر دروازہ کے پاس میری لڑکی امتہ الجمیل بیگم سلمہا اللہ تعالی بیٹھی ہے بڑی بے تکلفی سے مجھے پر سے اس نے پیر لٹکائے ہوئے ہیں.اتنے میں میری نظر منارہ پر پڑی تو میں نے دیکھا کہ منارہ کی سب سے اوپر کی منزل یا اس سے مچلی منزل کے دروازہ میں سے ایک بہت بڑا سانپ جو کوئی فٹ ڈیڑھ فٹ موٹا اور کئی گز لمبا تھا اور اس کا رنگ سبز کی طرح کا تھا اس نے سر نکال کر مچلی منزل کی طرف اترنا شروع کیا.پہلے اس نے سر جھکایا اور نچلی منزل کے دروازہ کی دہلیز کے ساتھ اندر کی طرف سہارا لے کر باقی دھر نیچے گر الیا اسی طرح دروازہ سے اتر تا آیا حتی کہ سب سے نچلی منزل سے اوپر کی منزل پر پہنچ گیا اور پھر اس نے مچلی منزل کی چھت کی طرف رخ کیا اس وقت یہ خیال کر کے کہ امتہ الجمیل چھجے پر دروازہ کے پاس بیٹھی ہوئی ہے میرے دل میں خیال گزرا کہ ایسا نہ ہو یہ مڑکر اس کو کاٹ لے.ساتھ ہی میں ڈرتا ہوں کہ اگر لڑکی بلی تو گر جائے گی اور اسے چوٹ لگے گی تب میں نے نہایت لجاجت سے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنی شروع کی جس کا یہ فقرہ مجھے یاد ہے کہ اللهم أعِذْهَا لِي وَلِلْجَمَاعَةِ الْاَحْمَدِيَّةِ وَلِغُرَبَائِهَا ہمارے اللہ اس کو میری
417 خاطر اور جماعت احمدیہ کی خاطر اور اس کے غرباء کی خاطر اس بلاء سے نجات دے.عربی میں غرباء کے معنے مسافروں کے ہوتے ہیں اور اردو میں غرباء کے معنے مسکینوں کے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ بہتر جانے کہ اس جگہ اردو محاورہ استعمال کیا گیا ہے یا عربی محاورہ.اور اس میں بعض مسافروں کی طرف اشارہ ہے.بہر حال میں یہ دعا کرتا گیا اور میں نے دیکھا کہ امتہ المجمیل نے خود بخود خطرہ محسوس کر کے چھجے کی طرف سرکنا شروع کیا اور سرکتے سرکتے کئی گروہ دروازے سے پرے ہٹ گئی اتنے میں سانپ اس دروازہ سے اتر کر امتہ الجمیل کی طرف متوجہ ہوا انگر چونکہ وہ کچھ دور ہو چکی تھی اس لئے اس کا پیچھا نہیں کیا بلکہ زمین کی طرف اترنا شروع کیا.یہ رویا بظاہر بچی کے لئے نہایت مبارک ہے کیونکہ اس میں دعا ہے وہ میرے لئے ٹھنڈک کا موجب ہونے کے علاوہ جماعت اور غرباء کے لئے بھی مفید ہوگی.وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ الفضل 19.دسمبر 1948ء صفحہ 3 12/11.ستمبر 1948ء 462 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ پر ہوں جو نہ قادیان معلوم ہوتی ہے اور نہ لاہور کا موجودہ مکان بلکہ کوئی نئی جگہ معلوم ہوتی ہے ایک کھلا مکان ہے جس کے آگے وسیع معلوم ہوتا ہے.میں اس کے صحن میں کھڑا کچھ لوگوں سے باتیں کر رہا ہوں باتوں کا مفہوم کچھ اس قسم کا ہے کہ قریب زمانہ میں مسلمانوں پر ایک بڑی آفت آئی ہے اور عنقریب کچھ اور حوادث ظاہر ہونے والے ہیں جو پہلی مصیبت سے بھی زیادہ سخت ہوں گے اور مسلمانوں کی آنکھوں کے آگے قیامت کا نظارہ آجائے گا.یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ دُور افق میں سے ایک چیزا ڑتی ہوئی نظر آئی اور یہ چیز ابو الهول کی شکل کی سی تھی اور اسی کی طرح عظیم الجثه معلوم ہوتی تھی.ابو الهول کی طرح اس کی بنیاد بہت چوڑی تھی اور اوپر آ کے اس کا جسم نسبتاً چھوٹا ہو جاتا تھا میں نے دیکھا کہ اوپر کے حصہ میں بجائے ایک سرکے اس کے دو سر لگے ہوئے ہیں ایک سر ایک کو نہ پر ہے اور دوسرا سر دو سرے کو نہ پر اور درمیان میں کچھ جگہ خالی تھی.اس چیز کی جسامت اور ہیبت کو دیکھ کر میں نے قیاس کیا کہ یہی وہ بلاء ہے جس کے متعلق خبرپائی جاتی ہے اور میں نے ان لوگوں سے جن سے میں باتیں کر رہا تھا کہ وہ دیکھو وہ چیز آگئی ہے میرے
418 دیکھتے دیکھتے وہ بلاء عظیم اڑتی ہوئی ہمارے پاس سے آگے کی طرف گزر گئی اور تمام علاقہ کے لوگوں میں شور پڑ گیا کہ اب کیا ہو گاوہ قیامت خیز تو آگئی.اس وقت میں نے دیکھا کہ مستورات جلدی جلدی کمروں کے اندر گھس گئیں لیکن میں صحن میں ملتا جا رہا تھا میں ٹہل ہی رہا تھا کہ کسی نے باہر سے آواز دی.میں دروازہ پر گیا تو میں نے دیکھا کہ دو کشتیاں دروازہ کے پاس کھڑی تھیں لیکن وہاں کوئی پانی نہیں اور کشتیوں کے نیچے چھوٹے چھوٹے پیتے ہیں ایسے چھوٹے جیسے بعض ٹرائی سائیکلوں کے اگلے پیئے چھوٹے ہوتے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ چھوٹے.مجھے دیکھ کر جو کشتی میں بیٹھے ہوئے آدمیوں کا افسر تھا اس نے کہا آپ اور آپ کے ساتھی کشتیوں میں بیٹھ جائیں یہ آپ کے لئے بھجوائی گئی ہیں تاکہ آپ ان میں بیٹھ کر محفوظ مقام پر چلے جائیں اور اس جگہ کا نام اس نے سٹیشن لیا.گویا پاس کوئی سٹیشن ہے جس پر جانے سے اس کے نزدیک نسبتی طور پر حفاظت حاصل ہو جاتی ہے مجھے یہ یاد نہ رہا کہ اس نے کس شخص کی طرف منسوب کیا کہ اس نے کشتیاں بھجوائی ہیں.ہاں یہ یقینی یاد ہے کہ خدا تعالی کی طرف اس نے منسوب نہیں کیا بلکہ کسی انسان کی طرف منسوب کیا ہے.میں نے اس شخص سے کہا کہ یہاں پانی تو کوئی نہیں.یہ کشتیاں کس طرح چلیں گی اس نے جواب میں کہا یہ کشتیاں بغیر پانی کے چلتی ہیں ان کشتیوں میں بادبان لگے ہوئے تھے اور ان کے نیچے پہئے لگے ہوئے تھے پہلے میں نے چاہا کہ گھر کے لوگوں اور باقی ساتھیوں کو لے کر ہم کشتیوں میں بیٹھ جائیں اور سٹیشن پر چلے جائیں جسے نسبتا محفوظ کہا جاتا ہے لیکن پھر میرے دل میں خیال آیا کہ سٹیشن پر جانے کا کیا فائدہ ہے اللہ تعالیٰ میں طاقت ہے وہ چاہے تو ہلاء کو ٹلا سکتا ہے.تب میں نے اس شخص سے کہا کہ میں تو وہاں نہیں جاتا میں تو یہیں رہوں گا اس کے تھوڑی دیر بعد گو مجھے وہ بلاء نظر تو نہیں آتی جو اڑتی ہوئی آئی تھی اور جس کے دو سر تھے لیکن میں نے یوں محسوس کیا کہ گویا وہ بلاء آپ ہی آپ سکڑنے لگ گئی اور چھوٹی ہوئی شروع ہو گئی اس وقت کسی شخص نے آکر مجھے مبارک باد دی اور کہا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ پر تو کل کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس بلاء کا اثر ہٹا دیا ہے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.فرمایا : اس رویا میں بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں پر قریب زمانہ میں ایک دوسرے سے پیوستہ دو مصیبتیں آنے والی ہیں اور بظاہر یوں نظر آئیں گی کہ گویا مسلمانوں کو تباہ کر دیں گی لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اور ان لوگوں کے طفیل جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کے عادی ہیں ان مصیبتوں
419 کے بد نتائج کو مٹادے گا اور اس خطرہ عظیمہ سے مسلمان محفوظ ہو جائیں گے.یہ جو خواب میں میں نے بلاء دیکھی ہے اس کے دو سر تھے.ایک سر تو اس ابتلاء کی طرف اشارہ ہے جو قائد اعظم کی وفات کی وجہ سے مسلمانوں کو پہنچا لیکن جو دو سرا سرد کھایا گیا اس سے کیا مراد ہے دوسرے دن یہ خبر شائع ہوئی کہ ہندوستانی فوجوں نے حیدر آباد پر حملہ کر دیا ہے تب میں نے قیاس کیا کہ دوسرے سر سے مراد حیدر آباد پر حملہ ہے اور چونکہ خواب میں کسی مصیبت کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اس لئے میرے دل میں خیال گذرا کہ کہیں یہ حیدر آباد کا حملہ بھی ایک مصیبت نہ بن جائے آخر کل کی خبروں سے معلوم ہوا کہ حیدرآباد نے ہتھیار ڈال دیتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ نظام نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں.الفضل 21.ستمبر 1948ء صفحہ 3 463 دسمبر 1948ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں لیکن عارضی طور پر گیا ہوں پھر واپس آنے کا خیال ہے.کچھ ایسے خطرات ہوتے ہیں جن سے واپسی کے رستہ میں مشکلات ہوں.الفضل 19.دسمبر 1948ء صفحہ 3 15.دسمبر 1948ء 464 فرمایا : میں نے دیکھا جبکہ میں کوئٹہ سے واپس آچکا تھا کہ میاں محمد اسماعیل تاجر لائل پور مجھے ملے وہ نسبتا کم عمر ہیں لیکن ادھیڑ عمر سے بھی کم ہیں حالانکہ ان کی عمر ستر پچھتر سال کی تھی اور ان کے دائیں بائیں ان کے دو لڑکے کھڑے ہیں میں نے دوسرے دن ڈاکٹر عبدالحمید صاحب ڈویرنل آفیسر ریلوے کوئٹہ سے اس خواب کا ذکر کیا تو انہوں نے بتایا کہ محمد اسماعیل صاحب واقع میں آئے ہوئے ہیں اور ایک لڑکا بھی ان کے ساتھ ہے اور انہوں نے کہا کہ غالبا ایک اور لڑکا بھی آیا تھا.جو واپس چلا گیا ہے مگر انہوں نے بتایا کہ وہ بیمار ہیں.بیمار کو تندرست اور جوان دیکھنے کی تعبیر اکثر موت ہوتی ہے چنانچہ کچھ دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ وہ فوت ہو گئے ہیں.الفضل 19.دسمبر 1948ء صفحہ 3
420 465 دسمبر 1948ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک مجلس ہے جس میں لوگ حلقہ باندھے بیٹھے ہیں.حلقہ کے اندر ایک اور نیم دائرہ سا بنا ہوا ہے جس میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیٹھے ہیں ان کے ساتھ میں بیٹھا ہوں یوں معلوم ہوتا ہے کہ میں نے کسی مضمون پر درس دینے کے لئے انہیں مقرر کیا ہے اور ان کے پاس اس لئے بیٹھا ہوں کہ اگر وہ غلطی کریں تو اصلاح کردوں جب وہ سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کو جو حلقہ باندھے بیٹھے تھے کچھ باتیں بتا رہے تھے تو ایک شخص نے سوال کیا کہ چوہدری صاحب وينك کے کیا معنے ہیں.چوہدری صاحب نے کوئی ایسا جواب دیا کہ کوئی قوم ہوتی ہے یا ایسا ہی کچھ ہے اس پر میں نے کہا کہ کشمیریوں کی بھی ایک قوم وائی یا وائیں ہوتی ہے ممکن ہے یہ لفظ اس سے بگڑا ہوا ہو.رویا میں تو میں نے بھی یہی جواب دیا.لیکن رؤیا کے بعد خیال گذرا کہ شاید یہ کسی عربی لفظ سے بگڑا ہوا ہے عربی زبان میں ونی کے معنے ترک کرنے کے ہوتے ہیں اور و ناک کے سنے ہوں گے تجھے ترک کر دیا شاید کسی دوست یا تعلق رکھنے والے کے قطع تعلق کی طرف اشارہ ہے وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ الفضل 19 - دسمبر 1948ء صفحہ 3 466 15.دسمبر 1948ء فرمایا : میں نے دیکھا ہے کہ میں کسی جگہ پر کھڑا ہوں اور مولوی محمد علی صاحب تشریف لائے ہیں.ان کے ساتھ ایک نوجوان ہے جس کی شکل سے رُشد کے آثار ٹپکتے ہیں مولوی صاحب نے اس کو مجھ سے ملوایا اور کہا یہ میرا لڑکا ہے یہ انگلستان جا رہا ہے اور یہ آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے اس کے بعد مولوی صاحب تو کہیں چلے گئے اور وہ نوجوان مجھ سے دین کے متعلق کچھ سوالات کرتا رہا اور میں نے دیکھا کہ اس نوجوان کی طرز میں ادب اور حیا پایا جاتا ہے.اس رؤیا کے دو تین دن بعد ہم کسی دعوت میں جا رہے تھے اتفاقا پھر ڈاکٹر حمید صاحب کی کار ہی میں جا رہے تھے میں نے ان سے رویا کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ رویا بھی آپ کی پوری ہو رہی ہے کیونکہ محمد علی صاحب کے چھوٹے لڑکے انگلستان تعلیم کے لئے جا رہے ہیں میں نے کہا کہ آپ کو کیونکر معلوم ہوا انہوں نے کہا کہ وہ میرے پاس طبی سرٹیفکیٹ کے لئے آئے تھے نیز
421 انہوں نے کہا کہ اس لڑکے کے چہرے سے واقعہ میں حیا اور شرم کے آثار پائے جاتے ہیں اور شریف الطبع نوجوان معلوم ہوتا ہے اللہ بہتر جانے کہ رویا میں مجھے اس نوجوان کا جانا کیوں دکھایا گیا.الفضل 19 - دسمبر 1948ء صفحہ 4-3 467 دسمبر 1948ء فرمایا : جب عزیزم میجر محمود شہید ہوئے تو میں نے دیکھا جیسے ہمارے گھر کے پاس ایک مشتبہ شخص کو پکڑے ہوئے پولیس سوال کر رہی ہے اور شاید کچھ سختی بھی کر رہی ہے اور اس شخص کی آواز آرہی ہے ”قاضی " " قاضی " اور "رمضان" "رمضان" دوسرے دن پولیس کے کچھ افسر مجھے ملے جن میں سے دو کے نام سے پہلے قاضی آتا ہے تب میرے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ خداتعالی ہی رحم کرے.شاید اس طرف اشارہ ہے کہ بعض پولیس کے افسر ہی اس کیس کو دبانے کی کوشش کریں گے اور اس طرح اس جرم میں شریک کار ہو جائیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اب تک اس کیس کے متعلق کوئی تحقیق نہیں ہوئی اور نہ ہی سراغوں کا پیچھا کرنے کی کوشش کی گئی.الفضل 19.دسمبر 1948ء صفحہ 4 468 15.دسمبر 1948ء فرمایا : انہی ایام میں میں نے دیکھا کہ جیسے کسی وزیر نے تقریر میں یہ لفظ بولے ہیں کہ ہم پاکستان کو ہندوستان کے فتح کرنے کا اڈہ بنائیں گے اس پر محترم لیاقت علی خان صاحب وزیر اعظم پاکستان نے اعلان کے ذریعہ اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا.الفضل 19.دسمبر 1948ء صفحہ 4 469 15.دسمبر 1948ء فرمایا : انہی ایام میں میں نے دیکھا کہ میں قادیان گیا ہوں اور حضرت (اماں جان) کے گھر کے حصہ کی طرف سے دفتر آ رہا ہوں جب میں دفتر کے قریب پہنچا تو کسی بچے نے مجھے کہا کہ بلی آپ کو سلام کرنا چاہتی ہے میں نے سمجھا کسی بچے نے بلی پالی ہوئی ہے اور وہ اس کا کوئی تماشہ دکھانا چاہتا ہے.جب میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک بلی کو اس بچے نے زمین پر رکھا مگر اس بلی کا قدم ایک چڑیا
422 کے برابر ہے اس کے پر بھی ہیں وہ پر پھیلا کر دو پیروں کے اوپر ناچتی ہے اور کبھی اڑتی ہے.ایک دفعہ اڑ کر میرے کندھے پر آبیٹھی اس کے بعد اس قسم کی ایک اور ہلی سامنے نمودار ہوئی.میں اس جگہ سے ہٹ کر دفتر کی طرف گیا تو میرے پیچھے پیچھے میری ایک بیوی اور ایک لڑکی آئیں اور انہوں نے کہا کہ کچھ عورتیں اور لڑکیاں آپ سے ملنا چاہتی ہیں میں نے اجازت دی تو کچھ عورتیں جو طالب علم معلوم ہوتی ہیں آئیں اور انہوں نے ایسی کاپیاں پیش کی ہیں جیسے تصویر کے البم ہوتے ہیں جن پر نہایت خوبصورت نقش بنے ہوئے ہیں پہلے میں نے ایک لڑکی کی کاپی دیکھی اور جب واپس کرنے لگا تو اس نے کہا.نہیں.یہ میں آپ کے لئے بطور تحفہ لائیں ہوں اس کے بعد دوسری لڑکیوں نے بھی اپنی اپنی کاپیاں میرے سامنے رکھ دیں اتنے میں کچھ مردوں کی طرف سے اطلاع آئی کہ وہ ملنا چاہتے ہیں.میں نے ان کو اجازت دی اور لڑکیاں وہاں سے چلی گئیں اور مردان کی جگہ پر آگئے ان لوگوں نے بھی کچھ تختیاں میرے سامنے پیش کی ہیں جو ایسی شکل کی ہیں جیسے قرآن شریف رکھ کر پڑھنے والی رملیں.میں نے دیکھا کہ ان پر بھی نہایت خوبصورت کام کیا ہوا ہے.جیسے تاج محل میں سنگ مرمر پر خوبصورت کام کیا ہوا.ویسا ہی خوبصورت کام ان پر ہے میں ان کو دیکھ کر تعریف کر رہا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی.شاید اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے بعض نوجوان مردوں اور عورتوں کو ایسے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو نہایت ہی خوبصورت اور اعلیٰ درجہ کے ہوں.الفضل 19.دسمبر 1948ء صفحہ 4 470 16/15.دسمبر 1948ء فرمایا : آج رات میں نے (بدھ اور جمعرات یعنی پندرہ سولہ دسمبر کی درمیانی رات کو دیکھا کہ گویا خدا تعالی یا کسی فرشتے نے کوئی سوال کیا ہے.جس کے جواب میں میں نے یا کسی اور خدا تعالیٰ کے بندے نے ایک فقرہ کہا ہے جو ایک لطیف اور موزوں مصرعہ بن گیا ہے مجھے وہ مصرعہ یاد نہیں رہا.اس کا مفہوم قریباً یہ تھا کہ دیکھ ”تیرے " یا " اس کے بندے کس طرح آرام میں رہتے ہیں میں اس مصرعہ کو بار بار دہرا رہا تھا کہ آنکھ کھل گئی.اور اس وقت یہ مصرعہ خوب یاد تھا مگر صبح کے وقت بھول گیا عجیب بات ہے کہ آج کل صحت کی خرابی جماعتی مشکلات اور بعض پریشانیوں کی وجہ سے طبیعت مضمحل تھی.ایسے وقت میں یہ
423 مضمون نازل کر کے اللہ تعالی نے خوش خبری عطا فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے لئے غم ظاہری ہوتا ہے خوشی باطنی ہوتی ہے جس طرح کہ اللہ تعالٰی سے دور بندوں کی خوشی ظاہری ہوتی ہے مگر غم باطنی ہو تا ہے.الفضل 19.دسمبر 1948ء صفحہ 4 31.دسمبر 1948ء 471 فرمایا : آج آدھی رات کے قریب اچانک میری آنکھ کھل گئی اور میں جاگ اٹھا اور کچھ دعائیں وغیرہ کرتا رہا اسی حالت میں جبکہ میں جاگ رہا تھا اور غنودگی وغیرہ کی حالت نہیں تھی مجھے ایک آواز آئی جو کافی بلند تھی.کسی نے کہا السلام علیکم.یہ آواز اس طرح واضح تھی اور اتنی بلند تھی کہ واہمہ کے کسی گوشہ میں بھی یہ خیال نہیں آسکتا تھا کہ یہ کوئی کشفی یا الہامی آواز ہے بالکل ایسی ہی آواز تھی جیسے کوئی سمجھتا ہے کہ اسے کوئی آواز دے رہا ہے.میں نے خیال کیا کہ غالبا میری آنکھ کھل گئی ہے.نماز کا وقت ہے اور کوئی شخص مجھے نماز کی اطلاع دینے آیا ہے.میں نے وعلیکم السلام کہا اور پوچھا کون ہے.مگر کون ہے کا کسی نے جواب نہیں دیا پھر میں نے دوبارہ کہا کون ہے.مگر پھر بھی کوئی شخص نہ بولا تب میں نے سمجھا کہ در حقیقت یہ الہامی آواز ہے اور میں نے اسے ظاہر پر محمول کیا ہے پھر معلوم ہوا کہ اس وقت آدھی رات کا وقت ہے اور اس وقت کسی کے آنے کا امکان ہی نہیں ہو سکتا تھا.اس قسم کے السلام علیکم کا معاملہ میرے ساتھ پہلے بھی بعض دفعہ ہوا ہے مگر نیم خوابی اور غنودگی کی حالت میں لیکن اس قسم کا نظارہ میں نے پہلی دفعہ دیکھا ہے اس وقت میں اتنا جاگ رہا تھا کہ میرے واہمہ میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ یہ غیر معمولی نظارہ ہے اس رات بھی میں بہت دعا کر کے سویا تھا اور اس نظارہ سے خدا تعالیٰ نے اس امر کے لئے جس کے لئے میں نے دعا کی تھی یا کسی اور امر کے لئے حفاظت اور سلامتی کا اشارہ فرمایا ہے.الفضل 6.اپریل 1949ء صفحہ 3 472 اوائل فروری 1949ء فرمایا : مجھے سیالکوٹ میں ہی ایک رویا ہوا ہے میں نے رویا میں دیکھا کہ گویا میں قادیان میں ہوں اور قادیان میں بھی اس کمرہ میں ہوں جس میں ابتدائی ایام میں ہماری پیدائش سے بھی پہلے
424 جیسا کہ حضرت اماں جان) کی روایت سے معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رہا کرتے تھے مسجد کی سیڑھیاں اترتے ہوئے ایک دروازہ گول کمرہ کی طرف کھلتا ہے اس کمرے سے گھر کی طرف جائیں تو اس کے ساتھ ایک کو ٹھڑی ہے اس کو ٹھڑی کے ساتھ ایک دالان ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ابتدائی ایام میں جب آپ نے والدہ سے شادی کی تھی اس دالان میں رہا کرتے تھے.میں نے رویا میں دیکھا کہ میں دالان میں ہوں اور کسی شخص نے آکر مجھے تین ہزار پانچ سو پونڈ صدقہ کے لئے دیا ہے اور کہا ہے کہ آپ یہ رقم غرباء پر خرچ کر دیں جس وقت اس شخص نے یہ رقم دی ہے اس وقت میرے پاس میری بیوی بشری بیگم بھی ہیں.میں نے انہیں وہ روپیہ دیا اور کہا کہ یہ روپیہ نذیر کو دے دو (نذیر احمد میرا ایک موٹر ڈائیور ہے اس کا پورا نام نذیر احمد ہے لیکن رویا میں میں نے صرف نذیر کا لفظ کہا ہے) جب میری بیوی بشری بیگم مجھ سے روپیہ لے کر چلی گئیں تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اتنی بڑی رقم ہے میں نے ایک ہی شخص کو دے دی ہے بعض لوگ اعتراض کریں گے کہ اتنی بڑی رقم ایک ہی شخص کو کیوں دے دی گئی.میں اس اعتراض کا خود ہی جواب دیتا ہوں کہ آخر دینے والے نے وہ رقم مجھے ہی دی تھی اور اس نے خود ہی کہا تھا کہ یہ رقم جسے میں چاہوں دے دوں.اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے ؟ پھر میں خود ہی یہ شبہ پیدا کر تا ہوں کہ گو میں نے وہ رقم ایک ہی شخص کو دے دی ہے اور مجھے اختیار تھا کہ جسے چاہوں دے دوں لیکن کیا میں ہر جگہ اعتراضات اور سوالات کے جواب دیتا رہوں گا اس پر میں نے سوچا کہ میں نذیر احمد سے کہوں گا کہ وہ روپیہ واپس کر دے لیکن میں پھر یہ خیال کرتا ہوں کہ روپیہ دے کر واپس لینا ٹھیک نہیں اس کے بعد میں ایک اور تجویز کرتا ہوں کہ اچھا.میں اسے تحریک کروں گا کہ وہ اس روپیہ میں سے کچھ روپیہ واپس کر دے اور اس میں میں کچھ اپنے پاس سے ملا کر جماعت کو دے دوں گا تا کہ وہ جہاں چاہے اس کو خرچ کر لے.میرے دل میں اس قسم کے سوالات اور شبہات پیدا ہوتے ہیں اور میں رویا میں ہی ان کے جواب دیتا ہوں.اتنے میں میری بیوی واپس آگئیں میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے وہ روپیہ نذیر کو دے دیا ہے انہوں نے جواب دیا نذیر تو گھر نہیں تھا میں وہ روپیہ اس کی بیوی کو دے آئی ہوں.
425 فرمایا : اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء نذیر ہوتے ہیں مگر نذیر خدا تعالیٰ بھی ہوتا ہے.یہاں نذیر سے مراد خد اتعالیٰ ہے.کیونکہ وہ خوش خبریاں بھی دیتا ہے اور تنبیہہ بھی کرتا ہے سرزنش بھی کرتا ہے اور اپنے بندوں کو ہو شیار بھی کرتا ہے پس میں نے اس رویا کی یہ تعبیر کی کہ جماعت پر بعض ابتلاء آئیں گے جن کے دور کرنے کے لئے جماعت کو صدقہ دینا چاہئے.میری جب آنکھ کھلی اس وقت میں نے تین ہزار پانچ سو پونڈ کا اندازہ باون ہزار روپیہ کا لگایا لیکن جب حسابی طور پر اس کا اندازہ لگایا تو یہ رقم اڑتالیس ہزار روپیہ کے قریب ہوتی ہے اور رویا میں میں نے وہ رقم جو نذیر کو دی ہے اس کی میں نے یہ تعبیر کی کہ ہمیں یہ رقم خداتعالی کی راہ میں خرچ کرنی چاہئے اور پھر خواب میں وہ رقم نذیر کو نہیں دی گئی اس کی بیوی کو دی گئی ہے اس کی میں نے یہ تعبیر کی کہ صدقہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں نہیں جاتا اس کے بندوں کے پاس جاتا ہے جیسے بیوی اپنے بندے کے تابع ہوتی ہے اس طرح خداتعالی کے بندے بھی اس کے تابع ہوتے ہیں.الفضل 16.فروری 1949ء صفحہ 3 473 مارچ 1949ء فرمایا : کچھ دن ہوئے میں نے رویا میں دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں اور اس دالان میں سے نکلا ہوں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی زندگی کے آخری ایام میں رہا کرتے تھے اور جس کے جنوب میں دارالفکر کا کمرہ لگتا ہے جس میں سے ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد میں تشریف لے جایا کرتے تھے میرے ساتھ ہی اس کمرہ میں سے حضرت خلیفہ اول بھی نکلے ہیں پہلے حضرت خلیفہ اول اس رستہ کی طرف سے تشریف لے گئے جس سے مسجد مبارک کے شمال مشرقی دروازہ کی طرف جاتے ہیں اور میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا اس رستہ کے دروازہ کے پاس پہنچ کر حضرت خلیفہ اول مڑے اور مجھے سینہ سے لگالیا اور میرے ماتھے کو آپ نے بوسہ دیا اور پھر فرمایا " الفضل سے فن کار کا تعلق تھا تو اور بات تھی اب اور بات ہے میں اس وقت سمجھتا ہوں کہ فن کار سے آپ کا اشارہ میری طرف ہے اور یا تو آپ کا یہ اشارہ ہے کہ الفضل میں کچھ دنوں سے میرے مضامین شائع نہیں ہوتے یا یہ کہ ابتدائی الفضل کی طرف اشارہ ہے جب میں اس کا ایڈیٹر ہوا کرتا تھا.الفضل یکم اپریل 1949ء صفحہ 2
426 474 مارچ 1949ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک بڑا سا دالان ہے اور میں اس میں ڈنٹرپیل رہا ہوں میرے ڈنٹر پیلیتے ہوئے اوپر سے کچھ لوگ آگئے ہیں اور جیسے ظاہر میں ایسے موقع پر کچھ حجاب ہو تا ہے میرے دل میں کچھ حجاب پیدا ہوا لیکن میں ڈنٹر پیلتا رہا.اس رویا سے معلوم ہوتا ہے کہ سلسلے کے سامنے پھر کوئی اہم کام آنے والا ہے جس کے لئے تیاری کی ضرورت ہے.الفضل یکم اپریل 1949ء صفحہ 2 21.اپریل 1949ء 475 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک شخص اس طرح کھڑا ہے جیسے حضرت مسیح کی صلیب پر تصویر لٹکی ہوئی ہوتی ہے.میں نے اس کے پیٹ پر پستول کا فائر کیا اور اس کے پیٹ کے عین وسط میں گولی لگی.پھر دوسرا فائر کیا تو گولی اس کے پیٹ کے وسط سے ذرا نیچے لگی اس کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک شخص جو اس کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کا دشمن ہے یا دوست.میں اس کو پکڑ کر ایک طرف لے گیا اور اس کے سر کی پشت پر پستول کا فائر کیا.گولی اس کے سر کے پچھلے حصہ پر لگی اور اس کے سر میں سے دھواں نکلنا شروع ہوا.یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا اس کے سر میں بھس بھرا ہوا ہے.پستول چلنے کی آواز وغیرہ اس طرح کی نہیں ہے جس طرح مادی پستول کی ہوتی ہے بلکہ وہ کوئی معمولی قسم کی چیز معلوم ہوتی ہے.الفضل 5.اپریل +1949 476 21 اپریل 1949ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک غیر مبائع ہے اس سے میں گفتگو کر رہا ہوں اور اس وقت میں یہ کہہ رہا ہوں کہ تم نے کہا تھا کہ پچاسی فیصدی آدمی ہمارے ساتھ ہیں لیکن پھر بھی خدا تعالٰی نے ہمیں فتح دے دی اس پر وہ کہتا ہے کہ پچاسی نہیں ہم نے پچپن کہا تھا میں نے اسے کہا پچپن ہی سی بہر حال کثرت کے تم مدعی تھے.الفضل 5.اپریل 1949ء صفحہ 3
427 477 21.اپریل 1949ء فرمایا : جلسہ کے اختتام کے بعد جس دن ہم ربوہ سے واپس چلے (یعنی 21.اپریل 1949ء بروز جمعرات) مجھے ایک الہام ہوا.میں نے جس دن ربوہ سے واپس آنا تھا خاندان کی اکثر سواریاں ٹرین کے ذریعہ آئیں اور میں موٹر کے ذریعہ آیا.اس سے ایک تو پیسے کی بچت ہو گئی کیونکہ اگر میں موٹر میں نہ آتا تو موٹر نے خالی آنا تھا.دوسرے وقت کی بچت ہو گئی.میں تین چار مستورات اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے چند آدمی ہم موٹر پر آئے اور باقی افراد ٹرین کے ذریعہ.پہلے ٹرین لیٹ تھی اور اس کے آنے میں دیر ہو گئی اور یقین ہو گیا کہ یہ گاڑی لاہور کو جانے والی گاڑی کو نہیں پکڑ سکے گی اس لئے ہم نے سب سواریوں کو واپس بلا لیا کہ سب کو لاریوں میں لے جائیں گے لیکن جب ٹرین آئی تو ایک انسپکٹر جو ساتھ تھا اس نے کہا کچھ ڈبے لاہور سے اگلے جنکشن پر آئے ہوئے ہیں اور آپ لوگوں کے لئے ریز رو ہیں اس لئے اگلی گاڑی ان سواریوں کو لئے بغیر نہیں چلے گی.اس اطلاع پر پھر سواریوں کو ٹرین کے ذریعہ بھیج دیا گیا.جب ٹرین چلی تو معلوم ہوا کہ ان کا کھانا رہ گیا ہے چنانچہ کھانا موٹر کے ذریعہ چنیوٹ بھجوایا گیا.اب صورت یہ تھی کہ جب تک موٹر واپس نہ آئے میں لاہور نہیں آسکتا تھا اس لئے میں لیٹ گیا اور مجھ پر ایک غنودگی سی طاری ہو گئی اس نیم غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں خداتعالی کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھ رہا ہوں.جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب پاؤں کے نیچے سے میرے پانی بہا دیا میں نے اسی حالت میں سوچنا شروع کیا کہ اس الہام میں ” جاتے ہوئے" سے کیا مراد ہے.اس پر میں نے سمجھا کہ مراد یہ ہے کہ اس وقت تو پانی دستیاب نہیں ہو سکا لیکن جس طرح حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے زمزم پھوٹ پڑا تھا اسی طرح اللہ تعالی کوئی ایسی صورت پیدا کر دے گا کہ جس سے ہمیں پانی با فراط میسر آنے لگے گا اگر پانی پہلے ہی مل جاتا تو لوگ کہہ دیتے کہ یہ وادی بے آب و گیاہ نہیں یہاں تو پانی موجود ہے.فرمایا : ”پاؤں کے نیچے" سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اسماعیل قرار دیا ہے جس طرح وہاں اسماعیل علیہ السلام کے پاؤں رگڑنے سے پانی بہہ نکلا تھا اسی طرح یہاں خدا تعالیٰ
428 میری دعاؤں کی وجہ سے پانی بہا دے گا ، بہانے سے مطلب یہ ہے کہ پانی وافر ہو جائے گا.الفضل 18 - اگست 1949ء صفحہ 5 - الفضل 26 دسمبر 1961ء صفحہ 8 478 غالبا 9.جون 1949ء فرمایا : میں ابھی لاہور میں تھا کو ئٹہ نہیں گیا تھا کہ میں نے ایک رؤیا دیکھی کہ گویا جلسہ سالانہ ہے اور جلسہ قادیان میں نہیں بلکہ قادیان سے باہر ہو رہا ہے اور بے انتہاء مخلوق جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئی ہے.عورت اور مرد اتنی کثرت سے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے ان سے زمین بھر گئی ہے.میں دوستوں سے مصافحہ کرنے کے لئے مختلف ہجوموں میں چلا جاتا ہوں اور دوستوں سے مصافحہ کرتا ہوں اور جن کو پہچانتا ہوں ان سے باتیں کرتا ہوں بہت سے ہجوموں میں جا کر لوگوں سے مصافحہ کرنے کے بعد جب میں واپس لوٹا تو ایک شخص مجھے ملا جس نے مجنونانہ طور پر مجھے گالیاں دینی شروع کر دیں اور برا بھلا کہنے لگا.میں نے دوستوں سے کہا کہ اسے پکڑ لو اور باہر نکال دو چنانچہ دوستوں نے اسے پکڑ لیا اور باہر نکال دیا تب میں واپس لوٹا اور ایک جگہ پہنچا جہاں جلسہ گاہ کا انتظام ہو رہا ہے میں نے چاہا کہ اسے بھی دیکھوں میں وہاں پہنچاتو ایک شخص نے عربی لباس والے ایک شخص کو ملاقات کے لئے پیش کیا جس کی نسبت اس نے کہا کہ یہ صاحب مصری ہیں اور یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور اس نے کہا یہ شیخ عبد الرحمان مصری نہیں بلکہ اصل مصری ہیں.تب اس مصری شخص نے عربی زبان میں میری تعریف میں ایک خطبہ پڑھایا شعر پڑھے.اس کے متعلق مجھے یاد نہیں رہا اس جگہ پر مجھے چوہدری نعمت خان صاحب ریٹائرڈ سیشن جج بیگم پور ضلع ہوشیار پور ملے.انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا ان کا رنگ اصل سے زیادہ گورا معلوم ہوتا ہے اور صحت بھی اچھی معلوم ہوتی ہے پھر میں اور آگے چلا تو ایک جگہ پر نہ معلوم کس لئے میں بیٹھ گیا ہوں بڑے بڑے پتھر ہیں.میں ان پر بیٹھا ہوں کہ اتنے میں ایک سکھ نوجوان آیا ہے اس کا رنگ گورا جسم موٹا اور قد اچھا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مشرقی پنجاب سے آیا ہے وہ میرے پاس آیا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ ہمارے گو روؤں نے ایک آنے والے شخص کے متعلق پیشگوئی کی ہوئی تھی اور وہ آپ ہیں.میں اس کی نشانی دیکھنا چاہتا ہوں اور وہ نشانی یہ ہے کہ اس کی پیٹھ پر ایک خاص قسم کا نشان بتایا گیا تھا.اگر مجھے وہ نظر آجائے تو میں اس کے پیچھے کھڑے ہو کر
429 جیسا کہ پیشگوئی میں تھا آپ کی تائید میں سکھوں کو مخاطب کر کے ایک تقریر کروں گا.میں نے اسے کہا کہ ہاں ہاں.وہ نشان میری پیٹھ پر موجود ہے اور رویا میں مجھے خیال آتا ہے کہ پہلے نبیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت کے نشان کی پیشگوئی کی تھی جسے اب نشان خاتم النبین کہتے ہیں اسی طرح سکھ گوروؤں نے بھی سکھوں کی اصلاح کے متعلق ایک آدمی کی آمد کی پیشگوئی کی تھی اور اس کا نشان بھی بتایا تھا جو اس کی پیٹھ پر ہو گا اور وہ میری پیٹھ پر ہے.تب میں نے اپنی پیٹھ پر سے کپڑا اٹھا دیا اور اس شخص نے وہ نشان دیکھا اور تصدیق کی کہ واقع میں نشان موجود ہے.تب اس شخص نے چاہا کہ وہ کھڑا ہو کر سکھ قوم کو مخاطب کر کے کچھ شہد پڑھے جن میں ان کو سچائی کے قبول کرنے کی دعوت دی گئی ہے میں نے اسے کہا کہ میرے پہلو میں آکر کھڑے ہو جاؤ اور شہید پڑھو.انہوں نے کہا کہ پیشگوئی میں تو یہ آتا ہے کہ اس پیٹھ کے نشان کے پیچھے کھڑا ہو کر وہ اعلان کرے گا.میں نے اسے جواب دیا کہ اب جبکہ تم نے وہ نشان دیکھ لیا ہے تم میرے پہلو میں بھی کھڑے ہو تو وہ پیٹھ کے پیچھے ہی کہلائے گا گویا میں اس پیشگوئی کی تاویل یہ کرتا ہوں کہ اس نشان کو دیکھ کر اور نشان والے کو مان کر وہ یہ اعلان کرے گا تب اس شخص نے میرے پہلو میں کھڑے ہو کر بلند آواز سے سکھ قوم کو مخاطب کر کے کچھ شہد پڑھنے شروع کئے.وہ پرانی سکھی زبان میں ہیں جیسا کہ گرنتھ کی زبان ہے میں اس زبان کو سمجھتا نہیں لیکن اس شخص کے اندر جوش پیدا ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ بلند آواز سے شہد پڑھتا چلا جاتا ہے اور میں یوں محسوس کرتا ہوں کہ پنجاب میں سکھ اس آواز کو سن رہے ہیں اور ان تک اس ذریعہ سے تبلیغ پہنچ رہی ہے.الفضل 25.نومبر 1949ء صفحہ 3-2 479 جون 1949ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں اور مسجد مبارک کے اوپر کے صحن میں ہوں اس وقت مسجد مبارک کی وہی وسعت معلوم ہوتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تھی اور اس قسم کی شاہ نشین اس پر بنی ہوئی ہے اس شاہ نشین پر بیٹھے ہوئے میں نیچے دیکھ رہا ہوں اور میری نظر اس کمرہ پر ہے جس میں اب ہماری گیراج تھی مگر کسی زمانہ میں وہاں ضیاء الاسلام پریس کام کرتا تھا جو حضرت خلیفہ اول کے مطلب گاہ اور کتب خانہ احمدیہ کے
430 درمیان کا کمرہ ہے میں نے وہاں نظر کی تو دیکھا کہ وہاں ایک مجلس لگی ہوئی اور اس مجلس میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علی گڑھ کالج کے کچھ لڑکے ہیں اور کچھ پر وفیسر ہیں جن میں کچھ ہندو بھی شامل ہیں.ہندوؤں میں ایک موٹا تازہ بوس نامی شخص ہے وہاں کوئی میٹنگ ہو رہی ہے اور کوئی مشورے ہو رہے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ اس جلسہ کی پریذیڈنٹ میری لڑکی عزیزہ امتہ القیوم سلمہا اللہ تعالیٰ ہے.وہ جلسہ کی صدارت کر رہی ہے اور مختلف ممبر کھڑے ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں.اس خواب میں ایک لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ کس طرح جماعت قادیان کو دوبارہ اپنی تنظیم مکمل کرنی چاہئے اور اپنے کام کو وسیع کرنا چاہئے.الفضل 25.نومبر 1949ء صفحہ 4 جون 1949ء 480 فرمایا : میں نے دیکھا کہ امریکہ کے لوگوں کو مخاطب کر کے میں انہیں ایک پیغام دے رہا ہوں اور پیغام یہ دیتا ہوں کہ امریکہ اور یورپ کے لوگ جو یہ کو شش کر رہے ہیں کہ دنیا میں امن قائم ہو اس میں وہ کامیاب نہیں ہوں گے نہ انکا طریق کار درست ہے اور نہ انکے اندروہ جذبہ اخلاص پایا جاتا ہے جس کے بغیر دل فتح نہیں ہو سکتے.اس کام میں تو وہ جذبہ اور وہی صحیح کوشش کامیاب ہو سکتی ہے جو اسلامی اصول کے مطابق ہو اور خدا تعالی کی طرف سے کھڑے ہوئے لوگ اس کام کو کریں اس سلسلہ میں یہ کہتا ہوں کہ اس کام کو کامیاب بنانے کے لئے جس بات کی ضرورت ہے وہ تو یہ ہے کہ ا یہ مشرقی محبت یہ رنگ مومنانہ یعنی جو خلوص اور محبت ہم مشرقی لوگوں کے دلوں میں پائی جاتی ہے اور جو مادی اثرات کی سے مغربی لوگوں میں نہیں پائی جاتی اس سے یہ کام ہو سکتا ہے.دوسرے اس کے لئے اسلامی تعلیم کی ضرورت ہے اور یہ چیزیں امریکہ اور یورپ کے لوگوں میں نہیں پائی جاتیں ہم میں پائی جاتی ہیں.پس ہم اس کام میں کامیاب ہوں گے ، وہ نہیں ہوں گے.الفضل 25.نومبر 31949
431 481 جون 1949ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ہمارے ایک دوست کو دشمن نے دعوت دی ہے اس دوست نے مجھ سے بھی خواہش کی کہ میں اس کے ساتھ چلوں میں نے ہچکچاہٹ ظاہر کی کہ ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی فتنہ کی صورت پیدا کر دے لیکن اس دوست نے اصرار کیا کہ ایسا نہیں ہو گا آپ ضرور چلیں.جب میں بلانے والے کے گھر کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ دو شخص اس گھر میں سے نکلے اور ایک طرف کو دور پڑے جن میں سے ایک شخص وہ بھی تھا جس نے بلوایا تھا.کچھ فاصلے پر جا کر اس نے جیب میں سے پستول نکالا اور مجھ پر فائر کیا.تین فائر اس نے یکے بعد دیگرے کئے جن کی گولیاں میرے آگے سے قریب سے گزر گئیں تب میں نے بھی پستول اپنی جیب میں سے نکالا تاکہ اس کے ذریعہ سے خود حفاظتی کروں مگر مجھے یاد نہیں کہ میں نے پستول چلایا یا نہیں چلایا.ہاں اتنا یاد ہے کہ جب میں نے دیکھا حملہ کی ناکامی اور میرے دفاع کی تیاری کی وجہ سے وہ شخص رک گیا تو میں تیزی سے اس جگہ سے دوڑ پڑا اور ایک محلہ میں آیا جہاں احمدی زیادہ تھے میں ان کو یہ واقعہ سنا رہا تھا کہ ایک پولیس افسر آیا اور اس نے کہا کہ گورنمنٹ کے حکم کے ماتحت میں آپ کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں.میں اس کے ساتھ چلا گیا وہ مجھے اپنے گھر لے گیا جس گھر میں اس کے بیوی بچے بھی ہیں.گھر کی مستورات چھوٹے چھوٹے بچوں کو اٹھا کر میرے پاس دعا کے لئے لائیں اور بچوں کے سر پر انہوں نے مجھ سے ہاتھ پھر وائے اور دعا کروائی.اس وقت میں دل میں حیران ہوں کہ یہ کیسی نظر بندی ہے کہ یہ لوگ مجھ سے دعائیں بھی کرواتے ہیں اور برکت کے لئے ہاتھ بھی پھرواتے ہیں.اس کے بعد نماز کا وقت آیا اور میں نے کہا کہ میں نے نماز پڑھنی ہے اس پر اس پولیس افسر نے کمرے کا انتظام کر دیا.اس وقت بہت سے احمدی دوست اس کمرہ میں آگئے جن میں مجھے یاد ہے کہ شیخ بشیر احمد صاحب بھی ہیں اور ماسٹر فقیر اللہ صاحب بھی ہیں جو لاہور کی جماعت کے دوست ہیں (گو یہ رویا سفر سندھ میں ہوئی تھی میں نماز پڑھانے کے لئے کھڑا ہوا تو میرے دل میں خیال آیا کہ اس واقعہ کی اطلاع جماعتوں کو دے دینی چاہئے.میں نے شیخ بشیر احمد صاحب سے جو میرے پیچھے ہیں پوچھا کہ کیا جماعت کے دوستوں کو اس واقعہ کی اطلاع دے دی گئی ہے انہوں نے کہا ہاں دے دی گئی ہے.تب میرے دل میں خیال آیا کہ میں
432 ان سے پوچھوں کہ کیا چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو بھی اطلاع دیدی گئی ہے اور پھر معا میرے دل میں خیال گزرا کہ ایسا خیال کرنا تو کل کے کچھ خلاف ہے کیونکہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب حکومت کے افسر ہیں ان کو اطلاع کرنے کے معنی تو یہ ہوئے کہ ان سے امداد کی خواہش کی جائے اس خیال کے آنے پر میں نے یہ سوال نہیں کیا اور میں نے نماز شروع کر دی.میں نماز پڑھ کر سنتوں میں مشغول تھا اور باقی دوستوں میں سے اکثر سنتیں پڑھ کر میرے گرد حلقہ باندھ کر بیٹھے تھے کہ مجھے آواز میں آنی شروع ہو ئیں جن سے معلوم ہو تا تھا کہ کوئی شخص بیہودہ بکواس کر رہا ہے وہ کبھی ایک احمدی کے پاس جاتا ہے اور کبھی دوسرے احمدی کے پاس جاتا ہے اور بے ربط سی باتیں کرتا ہے.میں نے خواب میں سمجھا کہ وہ پولیس افسر ہے جس کے گھر پر میں ہوں.اتنے میں مجھے ماسٹر فقیر اللہ صاحب کی آواز آئی کہ تمہیں شرم نہیں آتی تم نے شراب پی ہوئی ہے اور ایسی بیہودہ باتیں کرتے ہو.میں تمہارے افسروں کے پاس شکایت کروں گا.اس پر وہ شخص گھبرا گیا اور اس نے کہا اوہو مجھ سے غلطی ہو گئی ہے مجھے معاف کر دیا جائے.اتنے میں میں سنتیں پڑھ کر فارغ ہوا اور کمرے کے آگے صحن ہے اس میں جا کر کھڑا ہو گیا.اس وقت میں نے دیکھا کہ پنجاب کی مختلف جماعتوں کے نمائندے اس خبر کو سن کر میرے ملنے کے لئے آرہے ہیں.سیالکوٹ کا ایک وفد میرے پاس آیا ان کا لیڈر ایک بڑھا صحابی معلوم ہوتا ہے.اس کے چہرہ سے بہت غم ٹپک رہا ہے.اس نے غمگین آواز میں مجھ سے پوچھا کہ حضور یہ کیا بات ہے کہ حملہ دوسرے شخص نے کیا اور حکومت پرسش آپ سے کر رہی ہے.میں اس دوست کی غمگین آواز سن کر اور غمگین چہرہ کو دیکھ کر ہنس پڑا اور میں نے اسے جواب میں کہا کہ چوہدری صاحب گورنمنٹ نے یہ سوچا ہوگا کہ دشمن نے حملہ تو کر لیا اب یہ کہیں اس کا جواب نہ دیں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.الفضل 25.نومبر 1949 ء صفحہ 2 482 جون تا نومبر 1949ء فرمایا : میں نے اس عرصہ میں دو دفعہ دیکھا کہ میں قادیان گیا ہوں.تفصیلات مجھے یاد نہیں رہیں 3 الفضل 25.نومبر 1949ء صفحہ 2
433 483 جولائی یا اگست 1949ء فرمایا : جولائی یا اگست کے مہینہ میں میں نے یہ خواب دیکھی تھی.میں نے انہی دنوں اس خواب کا بعض دوستوں سے ذکر کر دیا تھا.میں نے دیکھا کہ گویا میں قادیان میں ہوں اور حلقہ مسجد مبارک کے شمال میں جو چوک ہے جس میں سے دار الحمد کو قصر خلافت کو اور بیرونی محلوں کو رستہ پھٹتا ہے اس طرف سے دوڑا چلا آرہا ہوں.آگے آگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام ہیں اور ان کے پیچھے ایک لڑکا کوئی سات آٹھ سال کا ہے جس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے جو ہندوستانی طرز کی ہے یعنی بڑی سی پگڑی ہے لیکن چونہ اس نے عربوں کا سا پہنا ہوا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیچھے پیچھے دوڑتا چلا جاتا ہے میں خیال کرتا ہوں کہ وہ میرا بیٹا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ آئندہ کسی وقت اسلام کی خدمت کے منصب پر فائز ہونے والا ہے.میرے پیچھے کچھ لوگ دوڑتے ہوئے آرہے ہیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ مخالف ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر حملہ کرنا چاہتے ہیں.میں پیچھے پیچھے اس لئے چل رہا ہوں کہ اگر دشمن قریب آجائے تو میں اس کا مقابلہ کروں.اتنے میں ہم احمدیہ چوک میں پہنچ گئے جو مسجد مبارک کے سامنے ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیڑھیوں پر چڑھ کے گھر میں داخل ہو گئے.سیڑھیاں تو مجھے وہ نظر آرہی ہیں جو مسجد مبارک میں جاتی ہیں لیکن اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح مسجد مبارک کی پرانی سیڑھیوں میں سے کوئی رستہ گھر کی طرف جاتا ہے اسی طرح ان سیڑھیوں میں سے کوئی رستہ گھر کی طرف جاتا ہے.جب آپ گھر میں داخل ہو گئے تو میں پرانی سیڑھیوں کے رستہ سے آپ کے پیچھے گھر میں چلا گیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کمرہ کے سامنے جس میں آپ آخری ایام میں رہا کرتے تھے صحن میں کھڑے ہو گئے اور کچھ آدمی آپ کے گرد جمع ہو گئے.میں اس اطمینان سے کہ اب حملہ کا کوئی خطرہ نہیں رہا جنوبی طرف کے دالان میں سے ہوتے ہوئے عمارت کے ایک مشرقی صہ میں چلا گیا.جس کا ایک حصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بنا ہوا تھا لیکن اب اس کی شکل بالکل بدل گئی ہے.میں نے وہاں سے دیکھا کہ یکدم ایک ہجوم نے حملہ کیا ہے اور سخت لڑائی ہوئی ہے.میں بھاگ کر پھر جنوبی والان کی طرف آیا اس میں صرف چند سیکنڈ
434 لگے ہیں غالبا ایک منٹ بھی نہیں گزرا لیکن اتنے میں معلوم ہوتا ہے کہ لڑائی ختم ہو گئی ہے اور دشمن بھاگ گیا ہے لیکن ہمارے بہت سے احمدی شہید ہو گئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خیریت سے ہیں اور ان کے پاس حضرت اماں جان) (مد ظله العالی) کھڑی ہیں اس وقت میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ میرے اکثر لڑکے اور داماد مارے گئے ہیں اور میری طبیعت میں اس پر کچھ رنج محسوس ہوا لیکن معا میرے دل میں خیال آیا کہ اس سے زیادہ خوش قسمتی کیا ہوگی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حفاظت میں مارے گئے ہیں اور میں نے وہ جذبات وبا لئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ ان کا انجام ایسا اچھا ہوا ہے.پھر میں نے حضرت (اماں جان) (مد ظله العالی) کو مخاطب کر کے پوچھا کہ کتنے مارے گئے ہیں تو انہوں نے تیرہ یا چودہ کا لفظ بولا ہے ان کی طبیعت پر بھی اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی افسردگی کا اثر نہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ یہ قربانی نهایت اچھی اور عمدہ ہے پھر انہوں نے ایک اور بیٹے کا نام لے کر کہا کہ اس کے بھی دو بیٹے مارے گئے ہیں اور وہ ماتھے پر ہاتھ رکھے بیٹھا ہے اور یہ سمجھ رہا ہے کہ اتنا نقصان کسی اور کا نہیں ہوا.یہ فقرہ انہوں نے افسوس کے ساتھ کہا ہے کہ گویا اس نے اس قربانی کی اہمیت کو نہیں سمجھا.معلوم ہوتا ہے کہ ان چند سیکنڈوں میں ہی کہ جن میں لڑائی ہوئی اور لوگ مارے گئے فرشتوں نے ان کی لاشیں اٹھا کر مسجد مبارک میں رکھ دی ہیں.میں نے غالبا حضرت اماں جان) (مد ظله العالی) سے ہی پوچھا کہ ان کی لاشیں کہاں ہیں.میں چاہتا ہوں کہ ان کو دیکھ لوں تو انہوں نے اشارہ کیا کہ مسجد مبارک میں پڑی ہیں.اس پر میں مسجد مبارک میں گیا اور میں نے دیکھا کہ وہاں لاشوں کے ڈھیر پڑے ہیں اور لاشیں اس طرح اوپر نیچے رکھی ہوئی ہیں جس طرح کھالیں رکھی ہوئی ہوتی ہیں اور وہ تین سو سے زیادہ لاشیں معلوم ہوتی ہیں.میں خواب میں حیران ہو تا ہوں کہ مارے تو پندرہ میں گئے تھے لیکن لاشیں تین سو سے اوپر ہیں.یہ کیا بات ہے اس سوال کا جواب میں خود ہی دیتا ہوں کہ تیرہ چودہ یا پندرہ آدمی تو شاید ہمارے خاندان کے ہیں اور باقی دوسرے احمدی لیکن میں خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائی کہ ہم نے قربانی کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات کی حفاظت کی اور میں کہتا ہوں کہ اس سے زیادہ کیا خوش قسمتی ہوگی کہ ہم نے جان قربان کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بچا لیا اس وقت میں نے دیکھا جیسے فرشتوں نے مسجد سے لاشیں اٹھا کر کسی اور
435 جگہ پر رکھ دی ہیں اور مسجد صاف ہو گئی ہے.تعبیر : موت کے معنے لازمی موت کے نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ قربانی بھی موت کی شکل میں دکھائی جاتی ہے اور بعض دفعہ اس کے معنے لفظی بھی ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ بات کس رنگ میں پوری ہونے والی ہے لیکن بہر حال اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت پر بعض بڑے بڑے ابتلاء ابھی آنے والے ہیں جن میں اسے جانی قربانی بھی پیش کرنے پڑی گی اور وہ لوگ خوش قسمت ہوں گے جو دلیری کے ساتھ یہ جانی قربانیاں پیش کریں گے اللہ تعالی ان کے ذریعہ سلسلے کو زندہ رکھے گا اور اس کی ترقی کے سامان پیدا کرے گا.الفضل 25.جنوری 1950ء صفحہ 3 484 ستمبر 1949ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ پر بیٹھا ہوں.چوہدری شاہ نواز صاحب سیالکوٹ والے جو کراچی میں تجارت کرتے ہیں وہ آئے ہیں اور ایک تین چار ماہ کا بچہ جو انہوں نے گود میں اٹھایا ہوا ہے وہ لے کر انہوں نے میری گود میں بٹھا دیا جیسا کہ بچے کو پیار دلوانے کے لئے بٹھاتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ وہ چوہدری شاہ نواز صاحب کا لڑکا ہے رنگ سانولا موٹا تازہ اور ذہین لڑکا معلوم ہوتا ہے.نہ معلوم اس سے یہ مراد ہے کہ ان کے ایک اور لڑکا ہونے والا ہے یا کسی مشکل کام میں ان کو کامیابی ہونے والی ہے.الفضل 25.نومبر1949ء صفحہ 4 نومبر 1949ء : 485 فرمایا میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور میری دعاؤں کی قبولیت سے میرے دشمن ہلاک کئے جائیں گے اور خدا تعالیٰ ان کے نام کو مٹاتا چلا جائے گا اور ان کی طاقت کو کم کرتا چلا جائے گا یہاں تک کہ ان کا وجود سکڑتا جائے گا اور ان کی شہرت گھٹتی جائے گی اور ان کے کاموں پر پر وہ پڑ جائے گا اور ان کی عزتیں خاک میں مل جائیں گی.الفضل 25.نومبر 1949ء صفحہ 3
436 486 نومبر 1949ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک جلسہ میں ہوں اور تقریر کر رہا ہوں جلسہ گاہ کے ساتھ ہی چپو ترا بنا ہوا ہے اور اس پر بھی کچھ دوست بیٹھے ہوئے ہیں جن میں مفتی محمد صادق صاحب بھی ہیں اور مفتی صاحب کے پاس وہ شخص بھی بیٹھا ہوا ہے جس کے متعلق پہلی خواب میں میں نے دیکھا تھا کہ وہ مجھ پر حملہ آور ہوا ہے مفتی صاحب نے ایک رقعہ پر ایک سوال لکھ کر بھیجا کہ یہ صاحب اس کا جواب پوچھتے ہیں.میں نے وہ سوال پڑھا تو مجھ پر یہ اثر ہوا کہ سوال کرنے والے کی غرض سوال نہیں بلکہ اظہار تعلق کر کے وہ سابق کشیدگی دور کرنا چاہتا ہے.الفضل 25.نومبر 21949 نومبر 1949ء 487 فرمایا : خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے خلیفہ کی مدد کرے گا اور اس کی دعاؤں کو سنے گا اور اس کے لئے دو فضلوں کے دروازے کھولے گا.یعنی مادی بھی اور روحانی بھی اور وہ اس کے مردہ کاموں کو زندہ کرے گا اور نا امیدی میں سے اس کے لئے امید کی راہیں نکالے گا.الفضل 25.نومبر 1949ء صفحہ 3 488 نومبر 1949ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ آنریبل نواب زادہ لیاقت علی خان صاحب وزیر اعظم پاکستان مجھے ملنے کے لئے آئے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس کوئی شکایتیں کی گئی ہیں میں ایک وسیع مکان میں ہوں جہاں وہ میرے پاس آئے ہیں مگر ان کا رویہ نہایت شریفانہ ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان شکایتوں کو حل تو کرنا چاہتے ہیں مگر بغیر تحقیقات کے ان پر یقین لانا پسند نہیں کرتے.مختلف سوالات انہوں نے مجھ سے کئے جن کے میں نے جوابات دیئے مگر وہ مجھے یاد نہیں رہے اس کے بعد وہ کہتے ہیں.میں نے سنا ہے کہ قادیان کے لوگوں کو حکومت ہندوستان نے تین تھے دیئے ہیں.وہ تھے انہوں نے بیان بھی کئے مگر مجھے یاد نہیں رہے.ان کا مطلب یہ
437 معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی حکومت جو اتنے گہرے تعلقات قادیان کے لوگوں سے پیدا کر رہی ہے تو ضرور اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومت کو پاکستان کے احمدیوں سے بھی کوئی امید لگی ہوئی ہے میں اس بات کو سن کر حیران ہوا ہوں کیونکہ وہ بات بالکل جھوٹی ہے لیکن میں تردید کرنے سے اس لئے ڈرتا ہوں کہ چونکہ یہ محکمہ میرے پاس نہیں.ممکن ہے کوئی تھوڑی بہت بات ہو جس کا مجھے علم نہ ہو پس میں نے ان سے کہا کہ میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں.کسی نے غلط بات کہی ہے لیکن قادیان کی انجمن کا تعلق انتظامی طور پر میرے چھوٹے بھائی مرزا بشیر احمد صاحب کے سپرد ہے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کو بھی بلوا کر پوچھ لیا جائے اس پر میں نے کسی شخص کو بھیجا اور وہ میاں بشیر احمد صاحب کو بلوا لایا.میں نے میاں بشیر احمد صاحب کے سامنے ساری بات دہرائی انہوں نے بڑے زور سے اس کا انکار کیا اور کہا یہ محض کسی دشمن کی شرارت ہے ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا.تب میں نے وزیر اعظم صاحب سے کہا کہ جہاں تک ہندوستان کے احمدیوں کی وفاداری کا سوال ہے وہ باہمی سمجھوتہ ہے کہ ہر ملک کی رعایا اس کی وفادار رہے گی اس لئے ہماری جماعت کے وہ لوگ جو ہندوستان میں رہتے ہیں بہر حال حکومت ہندوستان کے وفادار رہیں گے لیکن حکومت کی طرف سے بھی ان کو امن میسر نہیں اور وہ تو قیدیوں کی طرح وہاں زندگی بسر کر رہے ہیں وہ لوگ آزادی سے اپنے محلوں سے باہر نہیں جا سکتے.کوئی کام کاج نہیں کر سکتے کوئی گزارہ کی صورت نہیں جب میں نے تفصیل سے یہ باتیں بتائیں تو یوں معلوم ہوا جیسے وزیر اعظم پر ان کا اثر ہوا اور ان کے چہرہ سے رقت کے آثار ظاہر ہوئے تب وہ اٹھے اور رخصتی سلام کر کے باہر موٹر کھڑی ہے اس میں سوار ہو گئے.میں بھی ان کے اعزاز میں موٹر تک گیا ہوں.موٹر میں بیٹھتے ہوئے انہوں نے مجھے سلام کیا اس کے بعد پھر کچھ ان کے دل میں خیال گذرا اور وہ میری طرف مڑے اور کہنے لگے کہ آپ اگر چاہیں تو میں کوشش کروں گا کہ آپ کا لڑکا وسیم احمد ادھر آجائے.میں نے کہا نواب زادہ صاحب آپ یہ کیا کہتے ہیں.قادیان کو تو ہم نے آباد رکھنا ہے اگر میں اپنے لڑکے کو بلالوں تو دوسرے لوگ قربانی کے لئے کس طرح تیار ہوں گے اور وہاں کس طرح آباد ہوں گے پھر میں نے کہا کہ اگر وہ لڑکا خود بھی آجائے اور اس کی جگہ پر کوئی دوسرا جانے کے لئے تیار نہ ہو تو لازماً پھر میں کوشش کروں گا کہ میں وہاں چلا جاؤں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کو سن کر وہ بہت متاثر ہوئے اور موٹر
438 میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے.الفضل 25.نومبر 1949 ء صفحہ 4 -3 489 نومبر 1949ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ جب تک تم لوگ دجال کو نہ مار لو اس وقت تک تم دنیا کو فتح نہیں کر سکتے جب میں نے یہ فقرہ کہا تو میں نے دیکھا کہ جماعت کے لوگوں کے چہرہ پر ایک افسردگی سی آگئی اور یوں معلوم ہوا جیسے وہ سمجھتے ہیں کہ دقبال کا مارنا تو بڑا مشکل کام ہے اس لئے ہماری ترقی بھی ایک موہوم چیز ہے.تب میں نے ان سے کہا دیکھو جب خدا تعالٰی نے یہ فرمایا کہ جب تک تم دجال کو نہ مار لو تم دنیا پر غالب نہیں آسکتے تو خدا تعالیٰ کا منشاء اس بات پر زور دینے کا نہیں تھا کہ تمہاری ترقی موہوم ہے بلکہ اللہ تعالی اس بات پر زور دینا چاہتا ہے کہ تم جلد سے جلد کو شش کر کے دقبال کو مار لو.پس مایوس ہونے کی وجہ نہیں بلکہ اپنے فرض کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے.الفضل 25 نومبر 1948ء صفحه 4 نومبر 1949ء 490 فرمایا : جلسہ سرگودھا کے بعد میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک کمرہ میں ہوں اور ایک شخص نے سات آٹھ گنے رسی میں باندھے ہوئے میرے سامنے لا کر رکھے ہیں اور کہا ہے کہ یہ ڈپٹی کمشنر صاحب نے بھیجے ہیں اس کے بعد اس نے نہایت خوبصورت زمردی رنگ کا ایک حملہ سا میرے آگے رکھا اور اس میں ایک اور چیز اس کے سائز کی پڑی ہوئی ہے.اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرزا عبد الحق صاحب میرے پاس کھڑے ہیں وہ آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے.وہ شخص کہتا ہے کہ یہ بھی گئے ہیں.یہ برازیل کے گئے ہیں.انہیں تعجب ہوتا ہے کہ یہ کس قسم کے گنے ہیں نہایت خوبصورت گنے کی شکل کی چیز ہے اور اس کے اندر ایک اور چیز ہے جو لیپ کے گلوب کی طرز کی معلوم ہوتی ہے.اس رنگ کی خوبصورت سی چیز پڑی ہے لیکن وہ شخص کہتا ہے کہ یہ برازیل کے گئے ہیں.اس بات کے بعد مرزا عبد الحق صاحب نے کہا کہ میں نے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس ہفتہ سے میں لوگوں کے گھروں پر جایا کروں.میں اس کے معنے یہ
439 سمجھتا ہوں کہ آئندہ گھروں پر جا جا کر تبلیغ کیا کروں.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.گنے کی تعبیر غم ہوا کرتی ہے لیکن خواب میں جس قسم کی شکل برازیل کے گنے کی دیکھی ہے.میں سمجھتا ہوں اس سے مراد بظا ہر غم نہیں کیونکہ وہ بہت ہی خوشنما شکل تھی.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو دوسرے گئے دیکھے ہیں ان سے مراد غم ہو اور جو برازیل کے گنے دیکھے ہیں ان سے مراد غم کا ازالہ ہو کیونکہ بعض دفعہ تعلق قریب کی وجہ سے وہی نام رکھ دیا جاتا ہے.الفضل 25.نومبر 1949ء صفحہ 4 دسمبر 1949ء 491 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب دو غیر احمدی پاکستانی افسروں کے ساتھ مجھے ملے اور انہوں نے مجھ سے کوئی بات پوچھی ہے.میں نے ان کے سوال کا جواب پنجابی میں دیا ہے (چوہدری صاحب ابتدائے ایام سے میرے ساتھ پنجابی بولنے کے عادی ہیں اور اسی طرح میں بھی ان سے بات کرتا ہوں تو ان کی عادت کے مطابق پنجابی میں ہی کرتا ہوں.اسی عادت کے مطابق میں نے رویا میں ان کو پنجابی میں جواب دیا) میرا جواب سن کر چوہدری صاحب کہتے ہیں کہ حضور نے تو یہ فیصلہ کیا تھا کہ اردو میں باتیں کی جائیں گی.میں نے ان کی بات سن کر کہا کہ ہاں ٹھیک ہے اور ان سے اردو میں بات شروع کر دی لیکن چوہدری صاحب نے جب مجھ سے جواب میں باتیں کیں تو پنجابی میں کیس اور میں رویا میں کچھ حیران ہوا ہوں کہ انہوں نے خود ہی مجھے توجہ دلائی ہے کہ اردو میں باتیں کرنی چاہئیں اور آپ پنجابی میں بات شروع کر دی ہے.یہ خواب منذر معلوم ہوتی ہے بظاہر اس طرف اشارہ ہے کہ چوہدری صاحب سے کوئی غلطی سرزد ہوگی.اللہ تعالیٰ اس کے شرسے ان کو بھی اور ہم کو بھی محفوظ رکھے.الفضل 25.جنوری 1950ء صفحہ 4 جنوری 1950ء 492 فرمایا : عزیزہ امتہ الباسط سلمہا اللہ تعالیٰ کے ابھی لڑکی پیدا نہیں ہوئی تھی کہ میں نے رویا
440 میں دیکھا کہ امتہ الباسط کے ہاتھ میں ایک خوبصورت لڑکا ہے اور وہ اس کو اپنی ہتھیلی پر بیٹھا کر میرے سامنے پیش کرتی ہے اور کہتی ہے کہ اس کا نام رکھیں.میں نے کہا اس کا نام قمر احمد رکھیں گے اس پر اس نے اس بچے کو اپنے ہاتھ پر اچھالا اور کہا کہ پھر لوگ اسے قمری قمری کہا کریں گے یا قمری قمری کہا ( قاف کی پیش سے).اس کے بعد اس کے ہوئی تو لڑکی ہے لیکن تعبیر الرویا میں لکھا ہے کہ اگر خواب میں کسی کے ہاں لڑکا دیکھا جائے تو اس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ اس کے ہاں لڑکی پیدا ہو گی اور اگر دیکھا جائے کہ لڑکی پیدا ہوئی ہے تو اس کی تعبیر ہوتی ہے کہ لڑکا پیدا ہو گا.پس تعبیر الرؤیا کے لحاظ سے تو یہ خواب پوری ہو گئی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ غالبا اللہ تعالٰی نے دل کو ایک تسلی دی ہے کہ پہلے بچے کی پیدائش کے وقت عام طور پر رشتہ دار یہ چاہتے ہیں کہ لڑکا ہو اور لڑکی ہونے پر ایک حد تک مایوسی سی ہوتی ہے پس اللہ تعالی نے رویا میں یہ بتایا ہے کہ لڑکی ہونے پر افسوس نہیں کرنا چاہئے اللہ تعالیٰ اس کے بعد لڑکا بھی دے گا جو دینی اور اخلاقی طور پر قمراحمد کہلانے کا مستحق ہو گا.الفضل 25 جنوری 1950ء صفحہ 4-3 جنوری 1950ء 493 فرمایا : پہلی خواب کوئی مہینہ بھر پہلے کی ہے اس سے مہینہ بھر بعد میں نے رویا میں دیکھا کہ پاکستان کی حکومت نے ایک اعلان شائع کیا ہے جس میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی بہت سی تعریف کی گئی ہے.اتنی تعریف کی گئی ہے کہ اس کو پڑھ کر حیرت آتی ہے اور یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ چوہدری صاحب نے اپنے اس کام سے پاکستان کی جڑیں مضبوط کر دی ہیں اور اس کو بین الاقوامی صف اول میں لاکر کھڑا کر دیا ہے میں اس وقت سمجھتا ہوں کہ یو این او میں یا برطانوی یا امریکی حلقوں میں چین کے متعلق روس کے بڑھتے ہوئے اثر کو روکنے کے لئے کوئی خدمت ہندوستان کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوا تھا اور اس خدمت کے نتیجہ میں ہندوستان کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہو جاتی تھی اور پاکستان کی حیثیت گر جانے والی تھی لیکن چوہدری صاحب نے محترمہ صاحبزادی صاحبہ کو اللہ تعالی نے 25 جون 1954 ء کو لڑ کا عطا کیا جس کا نام قمر سلیمان احمد تجویز کیا گیا (مرتب)
441 معاملہ کی اہمیت کو بھانپ کر یو این او یا امریکی اور برطانوی حکومتوں پر (یہ تعین مجھے یاد نہیں کہ آیا یو این او مراد تھی یا برطانوی اور امریکن حکومتیں اس سے مراد تھیں) واضح کیا کہ پاکستان اس خدمت میں بہت بڑا حصہ لے سکتا ہے اور یہ کہ کم سے کم ایک حصہ خدمت کا ایسا ہے جسے صرف - پاکستان ہی بجالا سکتا ہے اور ایسے زور سے اس معالمہ کو پیش کیا اور اتنے زبر دست دلائل دیئے کہ حکومتوں کو ان کے دعوی کی صداقت تسلیم کرنی پڑی اور بجائے اس کے کہ وہ خدمت کلی طور پر ہندوستان کے سپرد کی جاتی اس کا ایک حصہ پاکستان کے بھی سپرد کیا گیا جسے کامیاب طور پر پورا کرنے کی صورت میں پاکستان بہت بڑی اہمیت حاصل کرلے گا اور دنیا کی سیاست میں صف اول پر آجائے گا.الفضل 25.جنوری 1950ء صفحہ 4 جنوری 1950ء 494 فرمایا : چند دن ہوئے میں نے دیکھا کہ میں ایک گیلری میں ہوں جس کے ایک طرف ایک ہال میں احمدی عورتیں جمع ہیں اور اس کے ساتھ ایک جگہ میں احمدی مرد جمع ہیں اس گیلری میں میرے ساتھ صرف چند احمدی ہیں اور باقی کچھ لوگ غیر احمدی ہیں جن کو میں تبلیغ کر رہا ہوں اور وہ لوگ شریف معلوم ہوتے ہیں اور میری باتوں کو آرام سے سن رہے ہیں میں نے چند منٹ ہی تبلیغ کی تھی کہ اس لمبی گیلری کے ایک کنارہ پر سے ایک آواز آئی جو گیلری سے ملحقہ کمرے میں سے آتی ہوئی معلوم ہوتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو نبی بنا کر بھیجتا ہے تو اسے ایک طاقت بھی بخشا کرتا ہے وہ طاقت آپ کے ساتھ کہاں ہے.میں اس وقت رویا میں اس بحث میں پڑنا نہیں چاہتا کہ میں نے تو نبوت کا کوئی دعوی نہیں کیا اس لئے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہو تا بلکہ میں صرف اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ نبی کو جو طاقت بخشی جاتی ہے وہ کیسی ہوتی ہے اور خیال کرتا ہوں کہ نبیوں کے خلفاء سے بھی تو نبیوں والا سلوک کیا جاتا ہے اس لئے اس بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ آیا میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے یا نہیں.بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نائب ہونے کے دعویٰ کی وجہ سے میرے
442 ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا سلوک اپنے رنگ میں اور اپنے درجہ کے مطابق ان کے مشابہ ہی ہونا چاہئے.بس میں نے اس آواز کو سن کر یہ نہیں کہا کہ میں نے نبوت کا دعویٰ کب کیا ہے بلکہ یوں کہا کہ آپ یہاں تشریف لائیے میں آپ کو ساری بات سمجھا دیتا ہوں.اس پر اس کمرہ میں سے جو ابا آواز آئی کہ ہمیں آپ کے پاس آنے کی کیا ضرورت ہے.آپ نے سمجھانا ہے تو آپ ہمارے پاس آکر سمجھائیں.اس جواب کو سن کر وہ شریف غیر احمدی جو میری تبلیغ سن رہے ہیں انہوں نے بہت برا منایا اور جو چند احمدی میرے پاس تھے انہوں نے بھی برا منایا اور جب میں اٹھنے لگا تو انہوں نے مجھے روکا کہ آپ نہ جائیے ان کا رویہ نہایت گستاخانہ ہے لیکن میں نے کہا میری اس میں کوئی جتک نہیں سچائی کا پیغام سنانا میرا فرض ہے اس لئے میں خود ہی ان کے پاس جاتا ہوں چنانچہ میں گیلری کے اس سرے تک گیا جس کے پاس وہ کمرہ تھا جہاں سے آواز آئی تھی میرے ساتھ میرا ایک لڑکا بھی گیا ہے جو غالباً ڈاکٹر مرزا منور احمد ہے جب میں گیلری کے دوسرے سرے تک پہنچا تو اس کے پہلو کے کمرہ سے چند مشائخ جنہوں نے مشائخین کا لباس پہنا ہوا تھا اور جن کی ساری طرز وظیفہ پڑھنے والے مشائخین کی سی تھی باہر نکل آئے بڑے بڑے جسے انہوں نے پہنے ہوتے ہیں اور بڑی بڑی داڑھیاں ہیں.ان میں سے جو سردار معلوم ہوتا ہے اس نے میرے ساتھ مصافحہ بھی کیا لیکن مصافحہ کر کے پھر اس نے میرا ہاتھ چھوڑا نہیں بلکہ میرا ہاتھ پکڑے رکھا اس وقت میں نے دیکھا کہ میرا لڑکا وہاں سے واپس چلا گیا ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس پر یہ اثر ہوا ہے کہ کوئی خطرے کی بات نہیں ہے.میں دل میں سمجھتا ہوں کہ خطرہ ہے اور اس سے غلطی ہوئی ہے اسے جانا نہیں چاہئے تھا مگر میں نے اسے منع نہیں کیا.اس جگہ پر کوئی قالین یا دری وغیرہ بچھی ہوئی نہیں لیکن عمارت ایسی ہے جیسے پرانی بادشاہی عمارتیں ہوتی تھیں اور پتھر کا فرش ہو تا تھا میں نے چاہا کہ اسی فرش پر بیٹھ جاؤں اور ان سے باتیں کروں اس وقت وہ شخص جو ان مشائخ کا سردار معلوم ہوتا ہے اس نے پاس پڑے ہوئے ایک پتھر پر بیٹھنا چاہا لیکن میں نے اس کی طرف توجہ نہیں کی بلکہ زمین پر نیچے بیٹھ گیا ابھی اس کا جسم پتھر پر نکا ہی ہو گا کہ اس نے دیکھا کہ میں زمین پر بیٹھا ہوں اور میں نے اس کے اوپر بیٹھنے کی کوشش پر برا نہیں منایا.معلوم ہوتا ہے وہ دل میں یہ خیال کرتا تھا کہ وہ اوپر بیٹھے گا اور میں نیچے بیٹھوں گا تو یہ مجھے برا لگے گا اور مجھے اپنی ہتک محسوس ہوگی لیکن چونکہ مجھے اس کا احساس
443 رو بھی نہیں ہوا اور میری کسی حرکت سے یا چہرہ کے رنگ سے اس پر ناپسندیدگی ظاہر نہیں ہوئی اس کا دل خود ہی شرمندہ سا ہو گیا اور وہ فور آکھسک کر نیچے میرے ساتھ بیٹھ گیا.اس عرصہ میں میرا ہاتھ اس نے پکڑے رکھا اور دوسرے علماء جو اس کے ساتھ ہیں انہوں نے میرے گرد گھیرا ڈال لیا اور بعض نے میری کمر کے پیچھے سے ہاتھ ڈال کے اور ہاتھ کو لمبا کر کے مجھے اپنے بازو کی گرفت میں لے لیا اور پھر میری قمیض کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر میرے ننگے جسم کے ساتھ اپنی انگلیاں پیوست کر دیں ان انگلیوں کے ناخن بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اس وقت میں نے سمجھا کہ مشائخ کے سردار نے میرا ہاتھ اس لئے پکڑے رکھا تھا کہ میں کہیں چلا نہ جاؤں اور اس کے سرے ساتھیوں نے میری کمر کے گرد اس لئے ہاتھ پیوست کر دیئے ہیں تاکہ مجھے گرفت میں لے آئیں اور مجھے جسمانی دکھ پہنچا ئیں چنانچہ انہوں نے اس طرح بات شروع کی کہ ہاں بتائیے خدا تعالیٰ نے جب موسیٰ کو بھیجا تو ان کو ایک طاقت بخشی اور جب مسیح علیہ السلام کو بھیجا تو ان کو ایک طاقت بخشی اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیجا تو ان کو ایک طاقت بخشی آپ کو خدا تعالیٰ نے کیا طاقت بخشی ہے جب مشائخین کے سردار نے یہ بات کی تو اس کے ساتھ ہی اس کے ساتھیوں نے بڑے زور سے اپنے ناخن میری پسلیوں میں چھونے شروع کئے اور بازوؤں کو بھینچنا شروع کیا جس سے یوں معلوم ہو تا تھا کہ وہ اپنے زور سے میرے سینہ کی ہڈیوں کو توڑنا چاہتے ہیں اور میرے گوشت کو زخمی کرنا چاہتے ہیں اور اس طرح گویا وہ اپنی دلیل کو مضبوط کر رہے ہیں کہ آپ کو وہ طاقت نہیں ملی جو نبیوں کو ملا کرتی ہے اسی کے ساتھ ان میں ایک شخص نے زور کے ساتھ مجھے تھپڑ مارا تب میں نے ان کو جواب میں کہا کہ دیکھو یہ وہی تھپڑ ہے جو موسیٰ کو پڑا تھایا میں نے کہا عیسی کو پڑا تھا.نام کی تعیین مجھے یاد نہیں رہی اور اس کو برداشت کر لینے کی ہی طاقت نبیوں والی طاقت ہوتی ہے تم نے مجھے بھینچ کر اور تھپڑ مار کے اور میں نے اس تھپڑ کو اور اس تکلیف کو صبر اور شکر کے ساتھ برداشت کر کے ثابت کر دیا ہے کہ میں موسیٰ عیسی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل ہوں اور آپ لوگ ان کے دشمنوں کے ظل ہیں اور وہ طاقت جس کا تم مطالبہ کرتے ہو وہ میں نے تم پر ظاہر کر دی ہے گویا میں ان کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نبیوں کو جو نشان ملتا ہے وہ مار کی طاقت کا نہیں ہو تادہ صبر اور استقلال کی طاقت کا ہوتا ہے اور وہ صبر اور استقلال کی طاقت خدا تعالیٰ نے مجھ کو بھی بخشی ہے میں خود خوشی سے ان
444 کے پاس گیا اور ان کی مار کو اور ان کی تکلیف کو برداشت کیا اور یہی وہ نشان ہے جو خدا تعالیٰ کے بندوں کو عطا کیا جاتا ہے جب میں نے یہ بات کہی تو یوں معلوم ہو ا جیسے آپ ہی آپ ان کے ہاتھ ڈھیلے ہو گئے اور میں ان کے پنجہ سے آزاد ہو گیا اور کھڑا ہو گیا اور واپس اپنی جگہ پر آگیا ان لوگوں میں سے کسی نے میرا پیچھا نہیں کیا نہ پھر مجھے پکڑنے یا دکھ دینے کی کوشش کی.گیلری سے وہ آدمی تو کہیں چلے گئے جن کو میں تبلیغ کر رہا تھا لیکن میں سیدھا اس جگہ پر آیا جس کے ایک طرف احمدی عورتیں بیٹھی ہیں اور دوسری طرف مرد بیٹھے ہیں اور جیسے کوئی تقریر کرتا ہے میں نے بلند آواز سے کہا.مجھ سے مشائخ نے کہا کہ نبیوں کو تو طاقت کا نشان دیا جاتا ہے.تمہیں وہ نشان کہاں ملا ہے اور میں نے اس بحث میں نہ پڑنا چاہا کہ میں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے یا نہیں کیا بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کہ نبیوں کے شاگرد بھی تو نبیوں والی برکتیں پاتے ہیں.میں ان کے پاس چلا گیا اور انہوں نے مجھے پکڑ لیا اور انہوں نے مجھے مارا اور چاہا کہ وہ بالکل ہی مار دیں اور مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں موسیٰ اور عیسیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی طاقتوں کا بھی مظاہرہ کروں تب میں نے ان سے کہا کہ موسیٰ اور عیسی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی طاقت ملی تھی کہ وہ لوگوں کے ظلموں کو برداشت کرتے تھے اور اسی طاقت کا مظاہرہ میں نے تمہارے سامنے کر دیا ہے.تم نے مجھے تھپڑ مارا ہے اور تم نے بھی مجھے پر جسمانی ظلم کئے جس طرح ان پر کئے گئے تھے اور جس طرح انہوں نے اس کو خوشی کے ساتھ برداشت کیا اور صبر و استقلال کے ساتھ کام کرتے رہے میں نے بھی وہی نمونہ دکھایا ہے تب ان کے ہاتھ ڈھیلے ہو گئے اور لاجواب ہو گئے اور میں ان کی گرفت سے آزاد ہو گیا.جب میں نے یہ کہا تو تمام سامعین پر ایک مجذوبانہ کیفیت طاری ہو گئی اور کیا مرد اور کیا عورتیں ان سب نے زور سے تکبیر کا نعرہ بلند کیا گویا وہ خدا تعالیٰ کے اس نشان پر خوش ہوئے اور مطمئن ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ جو اب سمجھایا جو حقیقی جواب تھا اور دشمن کا مونہہ اس کی اپنی ہی حرکتوں سے بند کر دیا.الفضل 25.جنوری 1950ء صفحہ 5.4
445 495 اپریل 1950ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ جیسے میں قادیان میں ہوں اور باہر کے محلہ سے جس طرف سے پہلے زمانہ میں یکے وغیرہ آتے تھے آ رہا ہوں بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی میرے ساتھ ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی دشمن کے نرغہ میں گھر جائے تو وہ کیا طریق اختیار کرے.اگر وہ اندر چھپ کر اپنے دن گزارے تو کیا یہ ایمان کے خلاف تو نہ ہو گا.میں نے ان کے جواب میں کہا کہ یہ امرنا جائز نہیں ہے.اس وقت میں سمجھتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود مجھے ایک شخص کمرہ میں سے نکال کر دکھایا تھا اور بتایا تھا کہ یہ اس طرح دشمن کے نرغہ میں گھر گیا تھا مگر گھر میں پوشیدہ رہ کر اس نے دن گزارے چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عملاً مجھے ایک شخص ایک کمرہ سے جو (میاں عبد اللہ کے مکان میں تھا) نکال کر دکھایا جو دشمن کے نرغہ میں گھر گیا تھا اور اس نے پوشیدہ رہ کر دن گزارے تھے پھر میں نے مزید وضاحت کے لئے کہا کہ میاں عبد اللہ صاحب جلد ساز کے گھر میں تھا یعنی اس مکان میں جو قادیان میں تھا.اس کے بعد میں گھر میں داخل ہوا اس وقت میرے ہاتھ میں ایک ڈبہ ہے اور ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب بھی وہیں موجود ہیں.میں نے وہ ڈبہ انہیں دکھایا اور کہا کہ میری طبیعت خراب رہتی ہے اور یہ دوا کسی نے جگر کے مقام پر لیپ کرنے کے لئے بنائی ہے مگر میں ڈرتا ہوں کہ کہیں اس میں پارہ نہ ہو چونکہ میرے دانت آگے ہی کمزور ہیں پارہ دانتوں کے لئے مضر چیز ہے اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں ہاتھ کو دوا لگے اور ہاتھ دانتوں کو لگیں اور دانت خراب ہو جائیں.انہوں نے کہا اس میں پارہ نہیں وہ ڈبہ ایسا ہے جیسے انٹی فلو جسٹین کا ہوتا ہے مگر اس میں جو دوائی نظر آرہی ہے وہ ذرا بھورے رنگ کی ہے.یوں وہ ڈبہ بند ہے مگر کشفی طور پر مجھے اس کے اندر کی دوائی بھی دکھائی دے رہی ہے اور وہ بھورے رنگ کی ہے.اس رویا سے معلوم ہوتا ہے کہ ممکن ہے بعض جگہ احمدیوں کے لئے ایسا فتنہ پیدا ہو کہ ان کے لئے کھلے بندوں پھرنا مشکل ہو جائے خواب کے دوسرے حصہ میں مجھے اپنے علاج کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ممکن ہے میرے جگر میں خرابی ہو جس کی وجہ سے باقی عوارض پیدا ہو رہے
446 ہیں.یا ممکن ہے یہ حصہ بھی تعبیر طلب ہو.الفضل 18 - اپریل 1950ء صفحہ 2 ں.امکان ہے یہ حصہ اپریل 1950ء 496 فرمایا : دوماہ ہوئے میں نے رویا میں دیکھا کہ گویا میں کشمیر میں ہوں اور مکرم شیخ عبد اللہ صاحب جو فنانشل کمشنر صاحب کے دفتر میں انڈر سیکرٹری تھے اور جو حال میں غالبا انڈسٹریل ڈیپارٹمنٹ میں تبدیل ہو گئے ہیں وہ گویا سری نگر میں کسی اہم کام پر لگے ہوئے ہیں اور انہی کے ہاں مہمان ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میں صرف چند گھونٹ کے لئے وہاں گیا ہوں اور اسی دن میں نے واپس آجاتا ہے شیخ صاحب مجھ سے اصرار کرتے ہیں کہ میں کچھ کشمیر کی سیر بھی کرلوں اور ایک دو دن ٹھہر جاؤں لیکن مجھے یہ اصرار ہے کہ میں آج ہی واپس جانا چاہتا ہوں اور ان کے اصرار پر میں نے کہا مثلا کونسی جگہیں ہیں جن کے متعلق آپ سمجھتے ہیں دیکھ لینی چاہئیں.انہوں نے دو جگہوں کا نام لیا جن میں سے ایک کو ٹر ناگ ہے.دوسری کا نام مجھے یاد نہیں رہا اور انہوں نے مجھے تصویریں دکھائیں کہ یہ ان جگہوں کی تصویریں ہیں وہ تصویر میں مجھے کچھ عجیب طرز کی معلوم ہو ئیں اور میں نے پوچھا کہ یہ تصویر میں کس طرح لی گئی ہیں انہوں نے کہا یہ تصویر میں ہوائی جہاز کے ذریعہ سے لی گئی ہیں عجیب بات یہ ہے کہ وہ تصویر میں حرکت کرتی ہیں مثلاً جب میں نے کو ثر ناگ کی تصویر دیکھی تو میں نے دیکھا کہ اس کا پانی نہایت شفاف ہے اور حرکت کر رہا ہے اور اچھل اچھل کر کناروں پر گر رہا ہے لیکن چونکہ مجھے کوئی ضروری کام معلوم ہو تا ہے میں نے مکرم شیخ صاحب کی بات نہیں مانی اور واپس آگیا.دوسرے دن پھر میں نے اسی تسلسل میں رویا میں دیکھا کہ گویا میں گھر میں واپس آکر افسوس کرتا ہوں کہ میں نے شیخ صاحب کی بات کیوں نہ مان لی اور کیوں نہ ایک دو دن کے لئے سری نگر ٹھر گیا اور یہ خیال مجھ پر اتنا غالب آیا کہ میں نے دوبارہ کشمیر جانے کا ارادہ کیا اس وقت مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے علاقہ سے کشمیر تک ریل جاتی ہے اور میں اسی خیال کے زور پکڑ جانے پر سٹیشن کی طرف روانہ ہوا اس وقت میرے ساتھ کوئی احمدی نہیں لیکن سٹیشن پر پہنچا تو اس وقت کچھ اور مسافروں کے متعلق بھی معلوم ہوا کہ وہ کشمیر جا رہے ہیں.میں ان سے بات کر ہی رہا تھا کہ اتنے میں سٹیشن کی طرف سے سیٹی کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ کشمیر جانے والی ریل
447 روانہ ہو گئی ہے.میں دل میں خیال کرتا ہوں کہ میں تو کبھی ریل سے رہا نہیں اور دوسرے لوگ جو مایوس ہو گئے تھے ان سے میں نے کہا کہ چلو ریل آگے چل کے ضرور کھڑی ہو جائے گی چنانچہ میں ان کو لے کر سٹیشن کی طرف روانہ ہوا تو معلوم ہوا.ریل واقعہ میں تھوڑی دیر چل کے کھڑی ہو گئی ہے جب میں ریل کے پاس پہنچا تو بعض کمروں میں داخل ہونے سے معلوم ہوا کہ ٹرین کے کمرے اس طرح کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں کہ کسی آدمی کی گنجائش نہیں تب میں حیران ہو کے سڑک پر کھڑا ہو گیا کہ اب میں کیا کروں میں اسی طرح کھڑا تھا کہ مکرم شیخ فضل دین صاحب سابق تاجر ڈلہوزی حال لاہور پر میری نظر پڑی وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے سے پوچھا کہ میں اس طرح کیوں کھڑا ہوں میں نے ان کو حال بتایا تو وہ کہنے لگے کہ میں جا کر آپ کے لئے جگہ تلاش کرتا ہوں چنانچہ وہ ریل کے مختلف کمروں میں گئے پھر انہوں نے مجھے بلایا جب کمرہ میں داخل ہوا تو وہ ایک سیلیون نما کمرہ ہے لیکن عام کمروں سے بڑا.اس میں صفائی کچھ زیادہ اچھی نہیں مگر جگہ ہے.میں اس کی صفائی کی وجہ سے کچھ متردد سا تھا کہ اتنے میں مکرمی شیخ رحمت اللہ صاحب رئیس لاہور چھاؤنی کہ ان کی بھی جائیداد ڈلہوزی میں تھی اور وہیں سے ہماری واقفیت ہوئی نظر پڑے.شیخ صاحب نے ان سے کہا کہ ان کو اچھی جگہ نہیں ملتی آپ ان کے لئے کوئی اچھی سی جگہ تلاش کریں.جناب شیخ رحمت اللہ نے اور کمرے دیکھے اور پھر مجھے ایک نہایت اچھے سے کمرے میں لے گئے کہ یہاں آپ بیٹھ سکتے ہیں وہ کمرہ زیادہ اچھا اور صاف اور عمدہ ہے اور اس وقت کوئی آدمی بھی اس میں نہیں میں اس کمرہ کو دیکھ ہی رہا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی.الفضل 3.جون 1950 ء صفحہ 3 497 ابریل 1950ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میری لڑکی امتہ النصیر بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ نے ناک میں ایک لونگ پہنا ہوا ہے.یہ زیور ہمارے ملک سے اب قریباً اڑ گیا ہے.پہلے اس کا بہت رواج تھا وہ لونگ بہت بڑا ہے اور اس کانگ اس شکل کا ہے کہ جیسے ستارے بنائے جاتے ہیں لیکن ستارے تو چار گوشہ بنائے جاتے ہیں وہ شش گوشہ ہے اور وہ تنگ جو ستاروں کے گوشوں میں لگے ہوئے ہیں نہایت روشن چمکدار اور سفید ہیں اور عام نگوں سے مختلف ہیں.الفضل 3.جون 1950 ء صفحہ 3
448 498 21/20.مئی 1950ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں اور اس گلی میں سے گذر رہا ہوں جس گلی میں سے گذر کر بٹالہ سے تانگوں میں آنے والے مسافر مہمان خانہ کی طرف جایا کرتے تھے.میں تیز تیز چل رہا ہوں اور اللہ تعالی سے خطاب کر کے ایک شعر پڑھ رہا ہوں اس شعر کا پہلا مصرعہ تو قریباً پوری طرح مجھے یاد ہے ممکن ہے کوئی لفظ آگے پیچھے ہو گیا ہو.دوسرا مصرعہ اپنی اصلی شکل میں مجھے بھول گیا ہے لیکن اکثر الفاظ یا د رہ گئے جس سے میں نے اس مصرعہ کو مرتب کر لیا وہ شعر جو میں پڑھ رہا تھا یہ تبدیل قلیل یہ ہے.کتنی ہی راتیں لمبی ہوں یا کتنے ہی دن لمبے ہوں جب تم ہو میرے پہلو میں یونہی گزر جاتے ہیں وہ 499 الفضل 3 جون 1950ء صفحہ 3 27/26.مئی 1950ء فرمایا : میں نے ایک خواب میں دیکھا کہ ایک مرد ہے جو اپنے پاؤں سے کسی چیز کو مسل رہا ہے مگر خواب میں میں اس کو ایک مرد نہیں سمجھتا بلکہ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ تمام مردوں کا نمائندہ ہے یا ان کا قائم مقام ہے اس مرد پر ایک چادر پڑی ہوئی ہے اور وہ اپنے پیروں کو زمین پر اس طرح مار رہا ہے جیسے کسی چیز کو مسلنے کے لئے بار بار پیر مارے جاتے ہیں اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ جہاں اس کے پیر ہیں وہاں کیچڑ میں دنیا بھر کی عورتیں مچھلیوں کی صورت میں پڑی ہوئی ہیں اور وہ ان کو اپنے پیروں سے مسلنا چاہتا ہے.یہ دیکھ کر میرے دل میں عورتوں کی ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا اور میں اس کے سینے پر چڑھ گیا اور پھر میں نے اپنی لاتیں لمبی کیں اور جہاں اس کے پاؤں ہیں وہاں میں نے بھی اپنے پاؤں پہنچا دیئے مگر وہ تو ان عورتوں کو مسلنے کے لئے اپنے پیر مار رہا ہے اور میں اس کے پاؤں کی حرکت کو روکنے اور ان عورتوں کو ابھارنے کے لئے اپنے پاؤں لمبے کر رہا ہوں اس دوران میں میں ان عورتوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں.اے عورتو! تمہارے لئے آزادی کا وقت آگیا ہے.تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ
449 نے اسلام اور احمدیت کے ذریعہ تمہاری ترقی کے راستے کھول دیئے ہیں اگر اس وقت بھی تم نہیں اٹھو گی تو کب اٹھو گی اور اگر اس وقت بھی تم اپنے مقام اور درجہ کے حصول کے لئے جد و جہد نہیں کرو گی تو کب کرو گی.میں نے دیکھا کہ جوں جوں میں نے ان کو ابھارنے کے لئے اپنے پیر ہلانے شروع کئے.نیچے سے وہ مچھلیاں جن کو میں عورتیں سمجھتا ہوں ابھرنی شروع ہو ئیں اور وہ اتنی نمایاں ہو گئیں کہ میرے پیروں میں ان کی وجہ سے کھجلی شروع ہو گئی اور اس آدمی کے پیر آپ ہی آپ گھلنے شروع ہو گئے یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ بالکل گھل گئے پھر میں نے اپنے مضمون کو بدل دیا اور عورتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے میں نے کہا.یہ وقت اسلام اور احمدیت کی خدمت کرنے کا وقت ہے اگر اس وقت مرد اور عورت مل کر کام نہیں کریں گے اور اسلام کے غلبہ کی کوشش نہیں کریں گے تو اسلام دنیا میں غالب نہیں آسکے گا.تم کو چاہئے کہ اپنے مقام کو سمجھو اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس رکھتے ہوئے دین کی جتنی خدمت بھی کر سکو اتنی خدمت کرو.پھر میں اور زیادہ زور سے ان سے کہتا ہوں.اگر تمہارے مرد تمہاری بات نہیں مانتے اور وہ دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے اور تمہیں بھی دین کا کام نہیں کرنے دیتے تو تم ان کو چھوڑ دو اور انہیں بتا دو کہ تمہارا ان سے اسی وقت تک تعلق رہ سکتا ہے جب تک وہ دین کی خدمت کے لئے تیار رہتے ہیں اور یہ الفاظ کہتے کہتے میری آنکھ کھل گئی.یہ رویا اس رویا سے جو پہلے شائع ہو چکی ہے اور جس میں ایک باغ اور ایک بادشاہ کا ذکر ہے ایک دو دن پہلے کی ہے.الفضل 20 جون 1950 ء صفحہ 2 28 مئی 1950ء - 500 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ پر ہوں جس میں کچھ میدان ہے اور اس میں اس طرح دھوپ پڑ رہی ہے جیسے کہ آٹھ نو بجے کا وقت ہوتا ہے اور اس میدان کے پہلو میں ساتھ ساتھ ایک باغ چلا جاتا ہے کہ وہ بھی ہمارا معلوم ہوتا ہے اس باغ کے درخت نظر نہیں آتے لیکن سایہ
450 بڑا گھنا ہے جیسے برسات کے موسم میں گھنے جنگل والے پہاڑوں پر سایہ ہوتا ہے اسی طرح کا سایہ ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ یا جیسے کسی چھت والے بر آمدہ کے در بند کر کے اندھیرا کیا جائے اسی قسم کی تاریکی وہاں نظر آتی ہے غرض وہ نہایت سایہ دار باغ ہے جس میں دھوپ کی کوئی کرن بھی نہیں پڑتی اس باغ کے درمیان میں سے باہر کی طرف دروازہ جاتا ہے اور خواب میں میں اس جگہ کو اپنا ملک سمجھتا ہوں اور اس سے باہر غیر ممالک سمجھتا ہوں اتنے میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ باغ کے دروازہ کے پاس ایک کھڑکی میں سے ایک شخص کھڑے ہو کر آواز دیتا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنے باغ کا دروازہ ہمارے لئے کھول دیں کہ ہم اندر داخل ہوں اور آپ کے باغ کی سیر کریں اور اس کے سایوں میں بیٹھیں اور اس کی ٹھنڈک سے لطف اٹھائیں.مجھے اس وقت یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی غیر ملک کا بادشاہ ہے اور یہ صلح کر کے ہمارے ملک میں داخل ہونا چاہتا ہے اور اس پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور میں یہ خیال کرتا ہوں کہ اگر ہم نے دروازہ کھولا تو پھر یہ زور سے داخل ہو گا اور قہر سے قبضہ کرنا چاہے گا تب میں نے مناسب سمجھا کہ میں خود باہر نکل کے اس سے بات کروں.میں نے اپنے پیچھے کی طرف دیکھا اور آواز دی کہ ہمارے خاندان کے لوگ مرنے کے لئے میری پیٹھ کے پیچھے کھڑے ہو جائیں گویا میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس سے مقابلہ کرنا پڑے گا اور موت تک مقابلہ کرنا پڑے گا.اس وقت بہت ہی کم آدمی ہمارے ساتھ ہیں صرف پانچ چھ آدمی نظر آئے جو میرے پیچھے آکر کھڑے ہو گئے.میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ سارے ہمارے خاندان کے تھے یا کوئی اور بھی تھا اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ ان میں سے ایک جس نے لدھیانی چار خانہ کا کوٹ پہنا ہوا ہے میاں بشیر احمد صاحب ہیں اور کچھ میرے لڑکے ہیں اور کچھ اور لوگ ہیں شاید ہمارے خاندان کے ہی ہیں یا غیر.بہر حال پانچ چھ آدمی ہیں جو آکر کھڑے ہوئے تب میں نے باغ کا دروازہ کھول دیا اور اس بادشاہ سے بات کرنے کے لئے باہر نکلا اس وقت میں نے اپنے ہاتھ میں ایک باریک شنی درخت کی پکڑی ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میں اس کے ساتھ اس بادشاہ کی اس فوج پر حملہ کروں گا وہ ایک کھدار شمنی ہے.ایک انگلی کے برابر موٹی اور کوئی ڈیڑھ گزلمبی جس کے سرے پر کچھ پتے بھی ہیں میں نے دیکھا کہ بادشاہ ہمارے دروازہ کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کے پیچھے میرے ہمرا ہی ہیں آج کل کی فوج کی قسم اس کے ساتھ نہیں بلکہ جیسے پرانے زمانہ میں یورپ کے بادشاہوں کے ساتھ ٹائٹ ہوتے
451 تھے اسی قسم کے کئی سوجہ نیل اس کے ساتھ معلوم ہوتے ہیں.سب کے کوٹ کالے ہیں قد بہت لمبے لمبے اور سر پر ایک عجیب قسم کی ٹوپی ہے جو رومی ٹوپی کے مشابہہ ہے لیکن اس کا اوپر کا سرا کلاہ کی طرح پتلا ہے میں اس بادشاہ کے پاس پہنچا اور میں نے اس سے گفتگو کی.میں اس وقت اس سے اردو میں عربی کے طریق پر بات کرتا ہوں یعنی تو تو کہہ کر مخاطب کرتا ہوں چنانچہ میں نے اسے کہا.تو صلح کے نام سے ہمارے ملک میں داخل ہونا چاہتا ہے تو کہتا ہے کہ ہم تمہارے باغ کی سیر کریں گے اور اس کے سایوں میں بیٹھیں گے اور اس کی ٹھنڈک سے لطف حاصل کریں گے لیکن تیرا منشاء یہ ہے کہ تو ہمارے ملک پر قبضہ کرے اور صلح کر کے دھوکا دے.میں اسے ماننے کے لئے تیار نہیں اور یہ کہہ کر میں نے اپنی چھڑی سے اس پر حملہ کیا بجائے اس کے کہ وہ میرا مقابلہ کرتا وہ اس چھڑی سے گھبرا کر پیچھے ہٹا اور ساتھ ہی اس کے ہمراہی بھی پیچھے ہے.میں تبدیلی الفاظ کے ساتھ اوپر والے مضمون کو دہراتا چلا گیا اور چھڑی سے اس پر حملہ کرتا گیا اور وہ بادشاہ اور اس کے ساتھ کے جرنیل پیچھے ہٹتے گئے.کچھ عرصہ چلنے کے بعد ایک موڑ آیا اس پر وہ بادشاہ مڑ گیا پھر ایک اور موڑ آیا اور اس پر بھی وہ مڑ گیا اس موڑ پر جب میں نے اس پر حملہ کیا تو وہ کسی اونچی چیز پر چڑھ گیا جیسے کوئی بڑے درخت کا ئنڈ ہوتا ہے اس وقت میں نے پھر وہی بات دہراتے ہوئے کہا کیا تیرے لئے باز نتا ئین حکومت کا نشان کافی نہیں تھا ( یعنی وہ رومی حکومت جو قسطنطنیہ میں قائم تھی اور جس کا اسلام کے ساتھ مقابلہ ہوا تھا) کیا خدا نے تم کو اس کے ذریعہ سے خبردار نہیں کر دیا تھا جب باز نتائین حکومت نے مسیح کا مقابلہ کرنا چاہا اور اسے مغلوب کرنا چاہا تو خدا تعالیٰ نے اس کے درخت میں کیڑا لگا دیا اور وہ کھو کھلا ہو تا گیا یہاں تک کہ آخر گر گیا.جب میں نے یہ لفظ کہے تو میرے سامنے ایک درخت نمودار ہوا جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ باز نتائن حکومت کا درخت ہے اور اس درخت کی جڑھ میں ایک بڑا سا سوراخ نظر آیا جس نے اس کے اندر کی ساری لکڑی کھالی اور وہ ایک طرف کو جھکا ہوا ہے جیسے وہ گرنے کے لئے تیار ہے لیکن اس درخت کو باز نتائن کے باشندوں نے خوب سجایا ہوا ہے اور قسما قسم کے رنگوں کی دھجیاں اس کے گرد لپٹی ہوئی ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ یہ درخت جو یکدم سامنے لایا گیا ہے تو یہ اس بادشاہ کو دکھانے کے لئے لایا گیا ہے جب میں نے یہ کہا کہ پھر وہ درخت گر گیا تو اس بادشاہ
452 نے نہایت مرعوب ہو کر میری بات کی تصدیق کی اور کہا ہاں پھر باز متائن کا درخت گر گیا.میں نے کہا کیا تو نے اس سے بھی سبق حاصل نہ کیا اور تو نے چاہا کہ تو ہمارے باغ میں داخل ہو اور اس پر قبضہ کرلے.یہ کہہ کر میں نے سمجھا کہ میں نے حجت تمام کر دی ہے اور میں واپس لوٹا.جب میں واپس لوٹنے لگا تو میں نے دیکھا کہ تمام راستہ میں اس بادشاہ کے جرنیل کھڑے ہیں.سب کے سیاہ لباس ہیں لمبی شیروانیاں ہیں جن کے گلے بند ہیں اور سر پر وہی عجیب قسم کی ٹوپیاں ہیں جب میں مڑا تو میری پیٹھ کے عین پیچھے ایک جرنیل میرا راستہ روکے ہوئے کھڑا تھا.اس کا قد کوئی نوفٹ کا معلوم ہوتا ہے کیونکہ میری آنکھیں اس کے سینہ کی مچلی پسلیوں تک پہنچی ہوئی معلوم ہوتی ہیں.اس کے باقی ساتھی بھی ایسے ہی لمبے ہیں اس وقت میں نے دیکھا کہ وہ درخت کی شاخ جو میرے ہاتھ میں تھی اور جس سے میں حملہ کر رہا تھا بار بار مارنے کی وجہ سے اس کا اگلا حصہ ٹوٹ گیا ہے اور وہ چھوٹی ہو گئی ہے لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اس چھوٹی سی ٹہنی سے ہی میں ان لوگوں کا مقابلہ کر سکوں گا.وہ جرنیل جو سب سے آگے تھا اور جس نے میرا راستہ روکا ہوا تھا میں نے اس کے پیٹ پر شاخ ماری اور کہا رستہ چھوڑ دو جب میں نے کہا رستہ چھوڑ دو تو اس بادشاہ نے بھی کہا.رستہ چھوڑ دو اور میں نے بار بار وہ ٹہنی ان جرنیلوں کو مارنی شروع کی اور وہ راستہ کھولتے چلے گئے آخر میں نے وہ سڑک بھی طے کی اور دوسرا موڑ بھی طے کیا اور تیسرے موڑ کی طرف مڑا جہاں سے ہمارے باغ کی طرف راستہ جاتا تھا جب میں اس موڑ پر مڑا تو اس وقت مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ہمارے گھر کی کچھ عورتیں بھی ہمارے ساتھ ہو گئی تھیں اور مجھے میری پشت کی طرف سے ایک آواز آئی جو اُتم ناصر کی معلوم ہوتی ہے آواز یہ تھی کہ ”واہ عبد اللہ کا ڈنڈا " مجھے یہ فقرہ عجیب سا معلوم ہوا اور میں نے کہا.عبد اللہ کاڈنڈا کیسا.اس پر ارم ناصر نے کہا کہ آپ آگے چلے گئے اور دشمن نے رستہ روک لیا تو عبد اللہ نے (جو ہمارے ساتھیوں میں سے کوئی معلوم ہوتا ہے مگر میں اسے جانتا نہیں) یہ سمجھا کہ اب یہ لوگ آپ کو پکڑنے کی کوشش کریں گے چنانچہ اس نے ایک ڈنڈا پکڑ لیا اور دیوانہ وارد شمن کے جرنیلوں پر حملہ کرنا شروع کیا جہاں اس کا ڈنڈا گر تا تھا دشمن کچلا جا کر بالکل زمین سے پیوست ہو جاتا تھا.یہاں تک کہ لڑتے لڑتے عبد اللہ شہید ہو گیا.اس وقت گوند کو رہ بالا عبد اللہ کی لاش کچھ فاصلہ پر ہے اور اس کے درمیان کچھ رستے کے موڑ بھی ہیں لیکن کشفی طور پر مجھے اس عبد اللہ کی لاش
453 دکھائی گئی.وہ بڑے قومی بدن کا اور تن و توش والا آدمی ہے.اس کا رنگ سفید ہے گول چہرہ ہے اور داڑھی مونچھ بالکل نہیں گویا داڑھی کے لحاظ سے تو وہ دس گیارہ سال کا لڑکا معلوم ہوتا ہے لیکن قد اور جسم کے لحاظ سے وہ ایک نوجوان بالغ مرد معلوم ہوتا ہے.میں بھی خواب میں عبد اللہ کی بہادری اور اس کی وفاداری پر تعجب اور تحسین کرتا ہوں اس کے بعد میں باغ میں داخل ہونے لگا تو باغ میں سے دو تین آدمی نکلے ان میں سے ایک آدمی جو مجھ سے مخاطب ہو کر بولا در میانے سے کسی قدر چھوٹے قد کا تھا اور سر پر اس نے پشاوری لنگی بندھی ہوئی تھی ، اس نے بڑی حیرت اور تعجب سے مجھے کہا ہم نے جو کنواں لگا یا ہے اسے ہم متواتر کئی دن سے رات اور دن بغیر وقفے کے چلا رہے ہیں لیکن اس کا پانی بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور اس میں کوئی کمی نہیں آتی وہ اس بات کو زور دے دے کر بیان کرتا ہے گویا وہ خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کے انعام کا ذکر کر رہا ہے.اس واقعہ سے پہلے میں اس جگہ کے متعلق یہ خیال بھی نہیں کرتا تھا کہ یہ ربوہ ہے بلکہ محض کوئی جگہ تصور کرتا تھا لیکن جب اس شخص نے یہ باتیں کیں تو اس وقت مجھے یہ خیال آیا کہ یہ ربوہ ہی مقام ہے اور یہ کنواں وہی کنواں ہے جو ربوہ کے مقام پر کھودا گیا ہے اور جس میں ٹیوب یہ ویل نصب کیا گیا ہے.الفضل 3.جون 1950 ء صفحہ 4-3 501 20/21 جون 1950ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ ہم قادیان میں اسی دالان میں ہیں جس میں حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام رہا کرتے تھے اور اس میں بجلی جل رہی ہے رات کا وقت ہے مگر ابتدائی رات معلوم ہوتی ہے جیسے مغرب کے بعد کا وقت ہو تا ہے بجلی کی روشنی بہت تیز ہے اس وقت میں نے دیکھا کہ وسط دالان میں گاؤ تکیوں سے سہارا لگا کر ہمارے خاندان کی کچھ مستورات بیٹھی ہوئی ہیں جن میں میں نے اپنی تائی صاحبہ مرحومہ مرزا غلام قادر صاحب مرحوم کی بیوی کو پہچانا وہ اچھے مضبوط جسم کی ہیں جیسے جوانی میں کسی مضبوط اور طاقت ور انسان کا جسم ہوا کرتا ہے ان کی جوانی کا زمانہ تو ہم نے نہیں دیکھا.ادھیڑ عمر میں ہم نے ان کو دیکھا ہے مگر اس عمر میں بھی وہ بڑی مضبوط اور طاقت ور تھیں اور جس طرح ہمارے خاندان کے تمام افراد بڑے
454 لمبے قد کے اور چوڑے چکے ہوا کرتے ہیں اسی طرح ان کا جسم ہے.ان کے ساتھ بعض اور رشتہ دار عورتیں بھی ہیں جن کو میں نے پہچانا نہیں یا اس طرف میں نے توجہ نہیں کی.اس دالان میں بیٹھے ہوئے ہم آپس میں باتیں کر رہے ہیں اور اس وقت ہم اس طرح سمجھتے ہیں جیسے ہم قادیان سے باہر ہیں.وہ ہے تو اپنا گھر مگر باتوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ قادیان سے باہر کوئی جگہ ہے.ہماری تائی صاحبہ مرحومہ مجھ سے باتیں کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میرے لئے (قادیان میں) اپنے گھر میں الگ جگہ محفوظ رکھنا اس وقت مجھے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے قادیان میں چونکہ ہمارے مکانوں میں درویشوں نے قبضہ کیا ہوا ہے ہماری تائی صاحبہ یہ کہہ رہی ہیں کہ میرے لئے وہاں مکان میں الگ جگہ محفوظ رکھنا.انہوں نے درویشوں کا نام نہیں لیا.مگر میں سمجھتا ہوں کہ قادیان پر درویشوں کا قبضہ ہے اور وہ اسی طرف توجہ دلا رہی ہیں کہ میرے لئے الگ کمرہ محفوظ رکھنا.ایسا نہ ہو کہ وہ ہمارے سارے مکان پر قبضہ کر لیں.پھر وہ کہنے لگیں جب میں مرنے لگوں گی تو موت سے تین چار مہینے پہلے قادیان چلی جاؤں گی حالانکہ وہ اس وقت قادیان میں ہی ہیں.میں جواب میں انہیں تائی صاحبہ کہنے کی بجائے پھوپھی صاحبہ کہتا ہوں اور وہ ہماری پھوپھی بھی لگتی تھیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چچا کی بیٹھی تھیں مگران کا تائی ہونے کا رشتہ زیادہ قریب تھا اور ہم ہمیشہ انہیں تائی صاحبہ ہی کہا کرتے تھے مگر اس وقت رویا میں میں انہیں پھوپھی صاحبہ کہتا ہوں اور ساتھ ہی سوچتا ہوں ان کا ہمارے ساتھ ایک اور رشتہ بھی ہے مگر اس وقت خواب میں یہ رشتہ ذہن میں نہیں آتا اور میں انہیں کہتا ہوں کہ پھوپھی صاحبہ آپ یہ کیوں نہیں کرتیں کہ تھوڑا سا خرچ کر کے اپنے مکان کے اوپر تین چار کمرے بنوالیں اور میں یہ بھی تجویز پیش کرتا ہوں کہ آپ ایک اینٹ کی دیواریں بنوالیں جب آپ کہتی ہیں کہ موت سے تین چار مہینے پہلے قادیان چلی جاؤں گی تو آپ ایک ایک اینٹ کی دیوار میں بنوالیں اس طرح تھوڑے خرچ میں دو تین کمرے بن جائیں گے.آپ یہ کیوں کہتی ہیں میرے لئے مکان محفوظ رکھنا.جب وہ مکان کا ذکر کرتی ہیں تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے مکان کی طرف اشارہ کیا مگروہ مغرب کی طرف اشارہ کرتی ہیں حالانکہ ان کا مکان شمال کی طرف تھا بعد میں مجھے خیال آیا کہ ان کے میکے کا مکان یعنی ان کے والد کا مکان جنوب مغرب کی طرف تھا اور انہوں نے ہاتھ سے اسی طرف اشارہ کیا.اس کے بعد وہ باہر آگئیں اور جیسے کسی پر
455 ربودگی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے وہ ربودگی کی حالت میں شمال کی طرف منہ کر کے کھڑی ہو ئیں اس طرف دیکھ رہی ہیں جدھر ان کا مکان ہے.میں بھی باہر نکل کر ان کے پاس کھڑا ہو گیا اتنے میں مریم صدیقہ میرے پاس آئیں اور انہوں نے بیان کیا کہ مجھے کچھ زنانہ تکلیف محسوس ہو رہی ہے (انہیں واقعہ میں کچھ زمانہ تکالیف رہتی ہیں) میں نے انہیں عارضی علاج بتایا کہ ایسا کر لو.مگر وہ یاد نہیں رہا.اس کے بعد ام متین (حضرت سیدہ مریم صدیقہ.ادارہ) بعض عورتوں کو اپنے ساتھ لے کر اس کمرہ کی طرف چلی گئی ہیں جو چھوٹی مسجد کی طرف جاتے ہوئے رستہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے اتنے میں تائی صاحبہ میری طرف مڑیں اور مجھے مخاطب کر کے کہنے لگیں کہ ہماری امتہ الحی کہاں گئی.میں خواب میں حیران ہو تا ہوں کہ امتہ المی کون ہے ؟ اور ان سے دریافت کرتا ہوں کہ کون امتہ الحی؟ اس پر وہ کہتی ہیں یہی روشن دین کی پوتی جیسے وہ روشن دین کی پوتی اور ان کی کچھ رشتہ دار ہے.اس وقت میرا ذہن بابو روشن دین صاحب مرحوم صحابی سیالکوٹ مدفون بہشتی مقبرہ کی طرف گیا کہ ان کی مراد اس سے ہے.اس کے والد بشیر احمد صاحب اس وقت کراچی میں ملازم ہیں اس نے میری بچی امتہ النصیر کے ساتھ غالبا دودھ پیا ہوا ہے اور ان کے باہم تعلقات ہیں.اس وقت میں حیران ہو تا ہوں کہ امتہ الحی سے ان کے اتنے گہرے تعلقات کس طرح ہو گئے ہیں.پھر وہ کہتی ہیں اس نے قادیان میں مجھے اپنا لڑ کا دکھایا نہیں اور اب دکھایا ہے گویا یوں معلوم ہوتا ہے کہ عزیزہ امتہ الحی کے ہاں قادیان میں لڑکا ہو ا تھا گوفی الواقع اس کی شادی چند ماہ ہوئے بابو اکبر علی صاحب مرحوم کے ایک لڑکے سے ہوئی ہے اور اب تک کوئی بچہ نہیں ہوا اتنے میں میں نے دیکھا کہ وہاں ایک چارپائی بچھی ہوئی ہے چونکہ رات کا وقت ہے میں اس پر لیٹ گیا ابھی مجھے لیٹے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ اندھیرے میں تائی صاحبہ میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہتی ہیں کہ لاؤ میں دیکھوں میں خواب میں ان کے اس فقرہ سے گھبرا سا گیا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اندھیرے میں انہیں غلط فہمی ہوئی ہے انہوں نے مجھے مریم صدیقہ سمجھ لیا ہے چونکہ مریم صدیقہ نے یہ کہا تھا کہ میں کچھ بیمار ہوں اور مجھے زنانہ تکلیف ہے اس لئے جس طرح عام طور پر عورتیں یہ خیال کیا کرتی ہیں کہ زنانہ تکالیف کی زیادہ وجہ یہ ہوا کرتی ہے کہ ناف پڑ جاتی ہے اس طرح وہ کہتی ہیں آؤ میں ناف ٹول کر دیکھوں کہ کہیں ٹیڑھی تو نہیں ہو گئی اس پر میں انہیں کہتا ہوں پھوپھی صاحبہ یہاں مریم صدیقہ نہیں.
456 یہاں تو میں لیٹا ہوا ہوں.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.یہ نظارہ جو میں نے دیکھا ہے کچھ عجیب قسم کا ہے قادیان میں اپنی موجودگی کا نظارہ تو میں نے بہت دفعہ دیکھا ہے مگر یہ نئی قسم کا نظارہ ہے کہ قادیان میں ہوتے ہوئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم باہر ہیں اور ہم آپس میں اس طرح باتیں کر رہے ہیں جس طرح قادیان سے باہر ہونے والے کرتے ہیں اس میں بعض وفات یافتہ لوگوں کا آنا اور تائی صاحبہ کا یہ کہنا کہ میں اپنی موت سے تین چار مہینے پہلے قادیان ضرور چلی جاؤں گی شاید اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس رویا میں بعض وجودوں کے متعلق یہ خبر دی گئی ہے کہ شاید وہ قادیان جا کر فوت ہوں گے.الفضل 22.جولائی 1950ء صفحہ 4-3 جون 1950ء 502 فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک اشتہار ہے جو کسی شخص نے لکھا ہے جو مجھے خواب کے بعد یا د رہا ہے مگر میں ان کا نام نہیں لینا چاہتا.صرف اتنابتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ اشتہار ہمارے کسی رشتہ دار نے دیا ہے مگر اس کی رشتہ داری میری بیوی کے ذریعہ سے ہے اس اشتہار میں میرے بعض بچوں کے متعلق تعریفی الفاظ ہیں اور ان کی بڑائی کا اس میں ذکر کیا گیا ہے.میں رویا میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض ایک چالا کی ہے در حقیقت اس کی غرض جماعت میں فتنہ پیدا کرنا ہے اگر کوئی غیر کی تعریف کرے تو وہ سمجھتا ہے کہ جماعت میں بیداری پیدا ہو جائے گی یا مجھے خیال آجائے گا کہ اس ذریعہ سے جماعت میں فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے اور میں اس کو روکنے کی کوشش کروں گا لیکن اگر میرے بعض بچوں کا نام لے کر ان کی تعریف کی جائے تو تعریف کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح میری توجہ اس کے فتنہ کی طرف نہیں پھیرے گی اور میں یہ کہوں گا کہ اس میں تو میرے بیٹوں کی تعریف کی گئی ہے اس میں فتنہ کی کونسی بات ہے اسی نقطہ نگاہ سے اس نے اشتہار میں میرے بعض بیٹوں کی تعریف کی ہے لیکن رویا میں میں کہتا ہوں کہ میں اس بات کو پسند نہیں کرتا.چاہے تم کتنے ہی چکر دے کر بات کرو.ظاہر ہے کہ تم جماعت میں اس سے فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہو اور تمہاری غرض یہ ہے کہ میں بھی دنیا داروں کی طرح اپنے بیٹوں کی تعریف سن کر خوش ہو جاؤں گا اور اصل بات کی طرف میری توجہ نہیں پھرے گی پس رویا میں میں نے اس
457 اشتہار پر اظہار نفرت کیا اور میں نے کہا کہ میں اس قسم کی باتوں کو پسند نہیں کرتا مجھے وہ بیٹے بھی معلوم ہیں جن کا نام لے کر اس نے تعریف کی ہے اور مجھے لکھنے والا بھی معلوم ہے لیکن میں کسی کا نام نہیں لیتا.اس رویا کے کچھ عرصہ بعد مجھے اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ ایک طبقہ جماعت میں اس قسم کی حرکات کر رہا ہے گو خواب کے دنوں میں اس طرف کبھی خیال نہ گیا تھا لیکن بعض واقعات سے قریباً سال بھر سے میرے اندر یہ احساس تھا کہ جوں جوں میری عمر زیادہ ہوتی جا رہی ہے جماعت کا منافق طبقہ یہ سمجھنے لگا ہے کہ اب تو ان کی زندگی کے تھوڑے ہی دن رہ گئے ہیں.آئندہ کے لئے ابھی سے اپنے قدم جمانے کی کوشش کرو گویا وہی پیغامیوں والا فتنہ جو 1914ء میں پیدا ہوا اسی کو ایک اور رنگ میں پیدا کرنا چاہتے ہیں اور قرآن کریم سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جب بادشاہت بدلتی ہے نچلے طبقہ کے لئے ابھرنے کا موقع نکل آتا ہے پس بعض لوگ جن کے اندر اخلاص نہیں اور جو سمجھتے ہیں کہ پتہ نہیں اس پر کس وقت موت آجائے انہوں نے ابھی سے اپنے قدم جمانے کی کوشش شروع کر دی ہے اور قریباً سال بھر سے مجھے یہ بات نظر آ رہی ہے مگر وہ تو قیاسی بات تھی اب اللہ تعالیٰ نے رویا میں بھی مجھے بتایا ہے کہ بعض لوگ اس قسم کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ اپنا تعلق جتا کر اور اپنی محبت کا اظہار کر کے مختلف ناموں سے اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں جو جماعت میں فتنہ پیدا کرنے والی ہیں لیکن یہ ظاہر بات ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے اس لئے کہ اول تو خدا تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی صداقت دنیا میں آتی ہے وہ جب تک پوری طرح قائم نہ ہو جائے اس وقت تک اسے کوئی مٹا نہیں سکتا یہ ایک موٹا اصول ہے جس کے خلاف دنیا میں کبھی نہیں ہوا.دوسرے خدا تعالٰی نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی غرض میں شامل کیا ہے اور گزشتہ انبیاء کی پیشگوئیاں اس بات کا ثبوت ہیں بلکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث سے بھی یہ بات ثابت ہے آپ نے جہاں یہ فرمایا ہے کہ لَو كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالتُّرَ يَّالَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ هؤلاء وہاں آپ نے رجال کا لفظ بھی استعمال فرمایا ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ در حقیقت ایک سے زیادہ آدمی ہوں گے جن کے ہاتھ سے یہ پیشگوئی پوری ہوگی اس لئے وہ میرے کام کو تبھی مٹا سکتے ہیں جب اس کے ساتھ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام
458 بھی مٹادیں گے.ایک غیر احمدی کے لئے تو یہ یکساں بات ہے وہ کہے گا ان کا نام بھی مٹ جائے اور ان کا نام بھی مٹ جائے مگر کم سے کم جو ہماری جماعت میں داخل ہو اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام مٹ نہیں سکتا اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام مٹ نہیں سکتا تو اس قسم کا فتنہ میرے کام کے متعلق بھی پیدا نہیں کیا جا سکتا بہر حال یہ ایک اہم رویا ہے جو جماعت سے بہت زیادہ تعلق رکھتی ہے.الفضل 22.جولائی 1950ء صفحه 4 نیز دیکھیں.الفضل 28 اپریل 1957ء صفحہ 6 جون 1950ء 503 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ لیکچر دینے لگا ہوں خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ وہ جگہ کوئٹہ میں ہے مگر میرا رخ قبلہ کی طرف ہے اور لوگ میری طرف منہ کر کے بیٹھے ہیں اس وقت مجھے کچھ ایسے لوگ بھی معلوم ہوتے ہیں جن کے متعلق رویا میں میں سمجھتا ہوں کہ وہ غیر احمدی ہیں.اس رویا کا مضمون بہت ہی لطیف تھا مگر افسوس ہے کہ اس کا بہت سا حصہ یاد نہیں رہا مگر جو اصل نکتہ میں نے خواب میں بیان کیا وہ مجھے یاد رہ گیا ہے اور اس کو مد نظر رکھتے ہوئے انسان جب بھی چاہے مضمون تیار کر سکتا ہے.میں رویا میں تقریر کرتے ہوئے بیان کرتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خداتعالی کا جو باہمی تعلق تھا وہ عاشقوں کا سا بھی نظر نہیں آتا اور معشوقوں کا سا بھی نظر نہیں آتا مگر وہ رقیبوں کا سا نظر آتا ہے.قریب قریباً ایسا ہی فقرہ تھا جو میں نے استعمال کیا اور یہ الفاظ مجھے اچھی طرح یاد ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالی کا جو باہمی تعلق تھا وہ عاشقوں کا سا بھی نظر نہیں آتا اور معشوقوں کا سا بھی نظر نہیں آتا بلکہ رقیبوں کا سا نظر آتا ہے یعنی وہ عاشق ہیں جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنے عشق کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں پھر میں آگے تشریح کرتا ہوں کہ رقیب سے مراد کیا ہے اور میں کہتا ہوں جب کوئی بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں اور وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ میں خدا تعالیٰ کا بڑا عاشق ہوں تو معا اللہ تعالیٰ دوسری طرف سے کوئی ایسی بات کرتا ہے جس سے وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زیادہ عاشق ہوں گویا ایک رقابت ہے جو آپس میں
459 جاری ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ میں خد اتعالیٰ کا بڑا عاشق ہوں اور اللہ تعالیٰ یہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا عاشق ہوں گویا عشق کے لحاظ سے ایک رقابت جاری ہے اور دونوں اپنے عشق کو زیادہ سے زیادہ ثابت کرنا چاہتے ہیں پھر میں اس کی مثال دیتا ہوں، رویا میں میں نے دو مثالیں دی ہیں مگر مجھے ایک یا د رہ گئی ہے اور دوسری بھول گئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ میں نے بہت سی مثالیں سوچی ہوئی ہیں جن کو آگے بیان کروں گا بہر حال میں نے اس کی مثال یوں بیان کی کہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے نکلے تو مکہ سے نکلنے کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہ تھی کہ مکہ والے آپ کو اللہ تعالیٰ کی توحید پھیلانے نہیں دیتے تھے یوں مکہ آپ کا وطن بھی تھا آپ کو پیارا بھی تھا مقدس مذہبی مقامات بھی وہیں تھے جن سے آپ کے خاندانی تعلقات تھے مگر ان سب چیزوں کے باوجود آپ نے مکہ چھوڑ دیا.اور اس طرح آپ نے اپنے عمل سے ظاہر کیا کہ اے خدا مجھے تجھ سے اتنی محبت ہے کہ جس جگہ تیری توحید کو پھیلانے کی مجھے اجازت نہیں ملتی میں اس جگہ میں رہنے کے لئے بھی تیار نہیں اور میں اسے تیری خاطر چھوڑ رہا ہوں پھر میں کہتا ہوں کہ دیکھو آپ کے اس عشق کا ثبوت اس طرح ملتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غار ٹور سے نکلے اور مدینہ روانہ ہونے لگے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا خدا اس بستی کو ہلاک کرے جس کے رہنے والوں نے خدا کے رسول کو دکھ دیا اور اسے اپنے وطن سے نکال دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا ابوبکر ایسا مت کہو اور پھر آپ نے مکہ کی طرف دیکھا آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے فرمایا اے مکہ ! تو مجھے بہت ہی پیارا تھا اور میں نہیں چاہتا تھا کہ تجھ کو چھوڑوں لیکن تیرے بسنے والوں نے مجھے یہاں رہنے کی اجازت نہیں دی.اس اجازت نہ دینے کا مطلب یہی تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم خدائے واحد کی پرستش کرنا چاہتے تھے اور اس کی توحید لوگوں میں پھیلانا چاہتے تھے مگر مکہ والوں نے آپ پر ظلم کیا اور انہوں نے آپ کو اپنے شہر میں سے نکال دیا میں نے اس وقت تقریر کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا مکہ سے نکلنا یقیناً خدا تعالیٰ کی خاطر تھا اور آپ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے عشق کے ثبوت میں ہی وہاں سے نکلے حالانکہ مکہ آپ کو تمام شہروں سے زیادہ عزیز تھا اور آپ کے دل میں اس شہر کی جو عظمت تھی اس کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ باوجود اس کے کہ
460 مکہ والوں نے آپ پر شدید ظلم کئے جب حضرت ابو بکر نے سخت الفاظ استعمال کئے تو آپ نے فرمایا ابو بکر مکہ کی حرمت کا خیال رکھو اور پھر آپ نے فرمایا اے مکہ تو مجھے بڑا پیارا ہے مگر تیرے باشندوں نے مجھے یہاں رہنے نہیں دیا اس لئے میں یہاں سے جا رہا ہوں.میں نے کہا آپ نے خدا کے لئے ایک بڑی پیاری چیز قربان کی.آپ نے خدا کے لئے اپنا وہ وطن چھوڑا جو آپ کو بے حد پیارا تھا جس میں مقدس مذہبی مقامات تھے اور جس کے لئے آپ کے خاندان کی قوت اور جدوجہد خرچ ہوتی رہتی تھی بہر حال آپ نے ان میں سے کسی چیز کی بھی پرواہ نہ کی اور مکہ سے جاتے ہوئے یہ الفاظ کہے کہ اے بلکہ تو مجھے بڑا پیارا ہے مگر میں تجھے چھوڑتا ہوں کیونکہ خدا کا نام لینے کی یہاں اجازت نہیں.یہ محمد رسول اللہ کا عشق تھا جس کا آپ نے مظاہرہ کیا مگر میں نے کہا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بعثت کے تیرھویں سال اس عشق کا اظہار کیا اور خد اتعالیٰ نے اس سے سال بھر پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہ دیا إِنَّ الَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَرَادُّكَ إِلَى مَعَادٍ (القصص : 86) اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی ذات ہی کی قسم کہ لوگ تجھے مکہ سے نکال دیں گے مگر میں تجھے ضرور اس شہر میں واپس لاؤں گا میں نے کہا دیکھو خداتعالی کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنا عشق تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد میں اپنے عشق کا اظہار کرتے ہیں اور خداتعالی پہلے سے اپنے عشق کا اظہار کرتے ہوئے کہہ دیتا ہے کہ اے محمد رسول اللہ یہ تجھے مکہ سے تو نکال دیں کے مگر مجھے بھی تجھ سے عشق ہے میں یہ نہیں برداشت کر سکتا کہ یہ لوگ تیری ہتک کریں اور اس لئے میں ضرور تجھے اس شہر میں واپس لاؤں گا گویا عشق کا ایک مقابلہ تھا جو خداتعالی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جاری تھا اس کے بعد میں نے ایک اور مثال بھی دی مگر وہ مجھے یاد نہیں رہی بہر حال رویا میں جو نکتہ میں نے بیان کیا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ اس پر ایک بڑا وسیع مضمون تیار ہو سکتا ہے اور ایک خاصہ لطیف رسالہ اس بات پر لکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر قربانی کا جواب اللہ تعالی نے غیر معمولی رنگ میں پہلے سے دے رکھا تھا اللہ تعالیٰ کے لئے قربانی کا لفظ تو استعمال نہیں ہو سکتا.یہی کہا جا سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک رنگ میں خدا تعالیٰ سے اظہار عشق کرتے تو خداتعالی بھی ویسے ہی رنگ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار عشق کرتا اور اس
461 طرح عشق اور محبت کا آپس میں تبادلہ ہو تا رہتا.الفضل 22.جولائی 1950ء صفحہ 5.4 27 جون 1950ء 504 فرمایا : ایک رویا میں نے آج رات دیکھی ہے یہ رویا نا مکمل رہ گئی کیونکہ تہجد کے وقت مجھے جگا دیا گیا.میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ پر ہوں اور وہاں ہماری ایک رشتہ دار عورت جو ہمارے مخالفوں میں سے ہے موجود ہے جس کمرہ میں میں ہوں اس کے اندر کی طرف ایک کھڑکی کھلتی ہے اور لوگ باہر بیٹھے ہیں اس نے کھڑکی میں سے جھانکا اور مسکراتے ہوئے اپنے ایک رشتہ دار کا نام لے کر کہا کہ وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے اگر آپ کہیں تو وہ آکر مل جائے اس پر میں نے اس رنگ میں اپنا منہ پرے پھیر لیا کہ گویا میں جواب دینا نہیں چاہتا.اور میں یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ مجھے ملے.ایک چار پائی ہے جس پر میں بیٹھا ہوا ہوں اور سامنے ایک دوسری چارپائی پر کچھ اور لوگ بیٹھے ہیں.اتنے میں میرا وہ رشتہ دار اندر آیا اور میرے ساتھ چارپائی پر بیٹھ گیا.اس کے بعد وہ ایک شخص کا نام لے کر کہتا ہے (یہ سارے نام مجھے معلوم ہیں جو بات کر رہے ہیں اس کا نام بھی اور جس کا اس نے ذکر کیا اس کا نام بھی مجھے معلوم ہے مگر میں ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتا) کہ وہ اب متکبر ہو گیا ہے حالانکہ کالج میں ہم لوگوں کے ساتھ پڑھا کرتا تھا اور ہم سے زیادہ ہوشیار نہ تھا اور ہماری اس سے زیادہ قدر ہوا کرتی تھی.معلوم نہیں اب وہ اپنے آپ کو کیا سمجھنے لگ گیا ہے.میں نے کہا دیکھو ایسی باتیں کرنا مناسب نہیں.میں ایسی گفتگو کو پسند نہیں کرتا اور سمجھتا ہوں کہ اس قسم کا ذکر میرے سامنے پسندیدہ نہیں پھر میں نے کہا.میں اس کے معاملات سے بالکل الگ ہو چکا ہوں اور اس کی بری یا بھلی کوئی بات سننا پسند نہیں کرتا مگر وہ برابر اپنی بات کا تکرار کرتا چلا جاتا ہے.جب اس نے بار بار یہ ذکر کیا تو میں نے دیکھا کہ سامنے چار پائی پر ایک اس شخص کا دوست بھی بیٹھا ہوا ہے جس کے خلاف وہ گفتگو کر رہا ہے میں اس وقت اپنے اس رشتہ دار کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ اس ذکر سے تمہاری غرض سوائے اس کے اور کیا ہو سکتی ہے کہ تم اس شخص پر یہ اثر ڈالو کہ گویا میں نے ہی تم کو بلوا کر مجلس میں باتیں کہلوائی ہیں اور تم اس کو دھو کا میں مبتلاء کرو حالانکہ میں ان باتوں کو سخت نا پسند کرتا ہوں اول تم بغیر میرے بلانے کے خود بخود آگئے اور پھر تم نے ایسی گفتگو شروع کر دی جو سخت ناپسندیدہ ہے اور جس سے
462 تم دوسروں کو یہ دھوکا دینا چاہتے ہو کہ گویا میں نے خود تم کو بلوا کر اس کے خلاف مجلس میں یہ باتیں کہلوائی ہیں.اس پر وہ اس شخص کی طرف منہ کر کے جو اس آدمی کا دوست ہے جس کے خلاف باتیں کر رہا ہے کہتا ہے کیوں صاحب کیا آپ کے خیال میں میری باتوں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے وہ غیر احمد ی ہے مگر وہ اس کے جواب میں کہتا ہے کہ ”اس کے سوا اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے" اور اس جواب میں سے اس کا منشاء مجھ پر طنز کرنا نہیں بلکہ اس کو ملامت کرنا ہے کہ تم نے جو بات کی ہے وہ احمقانہ ہے اور اس سے یہی دھوکا لگتا ہے کہ گویا انہوں نے خود بلوا کر مجلس میں یہ باتیں کروائی ہیں اور اس کے سوا تمہاری باتوں کا اور کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا یہیں تک میں نے رویا دیکھی تھی کہ گھر والوں نے مجھے تہجد کے لئے جگا دیا.الفضل 22.جولائی 1950ء صفحہ 5 505 تمبر 1950ء فرمایا : میں نے کوئٹہ کے سفر کے آخری ایام میں دیکھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنی سات صفات کا علم دیا ہے ان کے ظاہری خواص کے متعلق بھی اور باطنی خواص کے متعلق بھی اس بارہ میں تقریر میں یا کسی مجلس میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنی سات صفات کا علم دیا اور میں نے چاہا کہ جماعت اس علم سے فائدہ اٹھا لے مگر باوجو د توجہ دلانے کے جماعت نے اس علم کو سیکھنے کی کوشش نہیں کی صرف ایک شخص نے کچھ توجہ کی لیکن اس نے بھی ایک صفت کے ظاہری خواص تک جانے میں کامیابی حاصل کی اور باقی خواص کی طرف توجہ نہیں کی.یہ رویا جہاں ذاتی طور پر میرے لئے نہایت ہی مبارک ہے وہاں جماعتی طور پر یہ منذر رویا بھی ہے علوم دو قسم کے ہوتے ہیں ایک اصولی اور ایک کلی اور ایک وقتی اور مقامی.اصولی اور کلی علوم ذاتی اہمیت کے لحاظ سے سب سے مقدم ہوتے ہیں لیکن شخصی اور قومی فائدہ کے لحاظ سے وقتی اور مقامی مظاہر ان میں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں مثلاً قرآن کریم میں جو اصولی علوم بیان کئے گئے ہیں شان کے لحاظ سے تو وہی اعلیٰ ہیں لیکن ان علوم کے وہ مظاہر جو وقتی اور مقامی ہیں جب تک اس وقت اور مقام سے تعلق رکھنے والی قوم ان سے فائدہ نہیں اٹھاتی وہ کامیاب نہیں ہو سکتی اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کی کامل طور پر وارث نہیں ہو سکتی.یہ وقتی اور مقامی مظاہر کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں اور مامورین کے قریب زمانہ سے ان کا تعلق ہو تا ہے سب سے بڑی شان
463 میں یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کے زمانہ میں ظاہر ہوئے تھے.اس کے بعد نہایت محدود رنگ میں اور محدود مقامات میں چند ملکوں میں اور چند افراد کے ذریعہ سے ان کا ظہور ہوا پھر دوبارہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کے ظل کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں نہایت شان سے ظاہر ہوئے اور انہی میں سے خدا تعالٰی نے مجھے بھی حصہ عطا فرمایا مگر میں دیکھتا ہوں کہ جماعت جہاں علمی طور پر استفادہ کر رہی ہے وہاں روحانی اور وقتی مظاہر سے فائدہ اٹھانے کی طرف اس نے کم توجہ کی ہے اگر جماعت کے لوگ اس زمانہ کی اہمیت کو سمجھتے اور ان مظاہر کی عظمت کو محسوس کرتے تو یقیناً ان کی حالتیں بدل جاتیں اور وہ خدا تعالیٰ کے بالواسطہ فضلوں کو جذب کرتے کرتے اس کے بلاواسطہ فضل بھی جذب کرنے لگتے اور دنیا کے پردہ پر ہزاروں لاکھوں مومن ہی نظر نہ آتے ہزاروں لاکھوں ولی اللہ نظر آتے.الفضل 23.نومبر 1950ء صفحہ 3 506 تمبر 1950ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ پاکستان کے ایک صوبے کے گورنر میرے گھر پر آئے ہیں اگر تعبیر نام سے لی جائے تو پھر تو خیر مبارک تعبیر ہے لیکن اگر ظاہر سے تعبیر لی جائے تو علم الرؤیا کے مطابق ایک غیر اور صاحب اقتدار شخص جب کسی کے گھر آئے تو اس کی دونوں تعبیریں ہوتی ہیں یعنی یا اس سے کوئی بڑا خیر ملتا ہے اور یا کسی شر کا وہ موجب ہو جاتا ہے چنانچہ اس رویا کے کوئی مہینہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ صاحب جن کو میں نے اپنے گھر پر آئے دیکھا تھا انہوں نے کسی موقع پر احمدیت کے خلاف بعض ناواجب کلمات کہے اور اس طرح وہ رؤیا انہوں نے پوری کر دی.الفضل 23.نومبر 1950ء صفحہ 2 نومبر 1950ء 507 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں کسی جگہ پر ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سب سے چھوٹی چچا زاد بہن فضل النساء بیگم صاحبہ جن کو میں نے صرف ایک دو دفعہ بچپن میں دیکھا تھا وہ اس جگہ پر ہی ہیں جہاں کہ میں ہوں اور میں خواب میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ فوت
464 نہیں ہو ئیں بلکہ زندہ ہیں وہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی تبلیغ دین کے لئے وقف کی ہے اور میں ان سے کہتا ہوں کہ پھوپھی ! تبلیغ دین کے لئے تو بڑے علم کی ضرورت ہے آپ دنیا کے مختلف حصوں میں کس طرح تبلیغ کر سکیں گی اس پر وہ کہتی ہیں کہ میں تبلیغ کر سکتی ہوں یہ کونسی مشکل بات ہے اس کے بعد وہ کہتی ہیں کہ سردست تو میں قادیان جانا چاہتی ہوں اس کے آگے کچھ حصہ رویا کا مجھے بھول گیا ہے کیونکہ یہ رویا دیکھے ہوئے دیر ہو گئی ہے.آخر میں میں نے دیکھا کہ میری بیوئی بشری بیگم اسی سلسلہ میں ان سے کوئی مذاق کی بات کرتی ہیں مثلاً کوئی ایسا فقرہ کہتی ہیں کہ پھوپھی آپ قادیان جا کر کیا کریں گی یا پھوپھی آپ تبلیغ کس طرح کریں گی مگر وہ فقرہ مجھے یاد نہیں رہا پھوپھی فضل النساء صاحبہ بھی ان کا کچھ جواب دیتی ہیں.میں نے بھی ان کی دل جوئی کے لئے ہاتھ سے بشری کی گردن پکڑ لی اور ہنستے ہوئے کہا پھوپھی ! دیکھو سیدانی کو منہ لگایا تو کیسی گستاخ ہو گئی ہیں اور اب آپ سے مذاق کرتی ہیں یہ کہہ کر میں نے زور دے کر بشری بیگم کو ان کے ساتھ لٹا دیا اور خواب میں میں خیال کرتا ہوں کہ ایک اور عورت بھی ان کے ساتھ لیٹی ہوئی ہے.اس وقت میں بھی اپنی پھوپھی کے ساتھ لیٹنا چاہتا ہوں لیکن اس خیال سے کہ وہ نامحرم عورت میرے قریب نہ ہو.میں نے اس عورت اور پھوپھی صاحبہ مرحومہ کے در میان بشری بیگم صاحبہ کو لٹا دیا تا کہ ان دونوں کے درمیان میں خود لیسٹ سکوں اس پر میری آنکھ کھل گئی.اس رویا میں فضل النساء صاحبہ کا دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرنا ایک نہایت ہی مبارک بشارت ہے اور اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عورتوں میں سے بہترین عورتوں کے لئے دین کے لئے جوش عطا فرمائے گا اور وہ دنیا کے تمام گوشوں میں احمدیت کی تبلیغ کر سکیں گی اور میرا اپنی پھوپھی صاحبہ اور بشری بیگم کے درمیان لیٹنا میرے لئے ذاتی طور پر بھی بشارت ہے کہ اللہ کا فضل اور بشارت میرے شامل حال رہے گی.الفضل 23.نومبر 1950ء صفحہ 3 508 نومبر 1950ء فرمایا : مشرقی پنجاب سے ہجرت کے بعد قادیان سے نکلنے والے کیا اور مشرقی پنجاب سے دوسرے نکلنے والے کیا سب کو جو مالی نقصان پہنچا ہے اس کا اندازہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی
465 نہیں کر سکتا لیکن اکثر لوگ اس طرح اپنی جان چھڑا لیتے ہیں کہ اپنے قرض خواہوں کو یہ جواب دے دیتے ہیں کہ ہم تو اپنی جائیدادیں لٹا بیٹھے ہیں اس لئے اپنے قرضے ادا نہیں کر سکتے لیکن میرے لئے یہ بات نا ممکن تھی اس لئے قدر تا میری طبیعت پر یہ بوجھ تھا کہ وہ کثیر قرضے جو قادیان کی جائیداد کو مد نظر رکھتے ہوئے بالکل معمولی کہلا سکتے ہیں اب میں ان کو کس طرح اتاروں گا میں نے ہر طرح کوشش کر کے ان قرضوں کو آہستہ آہستہ اتارنے کی کوشش کی لیکن کوشش کے بعد میں نے دیکھا کہ قدم اگر پیچھے نہیں گیا تو آگے بھی نہیں بڑھ سکا.میں نے قادیان میں کچھ شہری اور سکنی زمین ایسی اکٹھی کی ہوئی تھی کہ جس کو فروخت کر کے ایک کافی حصہ قرض کا میں اتار سکتا تھا.قادیان کی زمین کی قیمت 1947ء میں دو ہزار سے دس ہزار روپیہ کنال تھی اور میں نے دس ایکٹر زمین ایسی جمع کرلی تھی جسے مکانوں کے لئے فروخت کیا جا سکتا تھا اگر اسے فروخت کیا جاتا تو ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے قریب اس سے مل سکتا تھا.اسی طرح منڈی کی زمینوں کا حصہ بھی ایک لاکھ روپیہ کی قیمت کا تھا.مرزا شریف احمد صاحب نے اپنا حصہ قریباً ایک لاکھ روپیہ کو بیچ کر اپنے کارخانہ میں لگایا تھا میرا اور مرزا بشیر احمد صاحب کا حصہ باقی تھا جو ہم نے فروخت نہ کیا کہ پہلے مرزا شریف احمد صاحب اپنی ضرورت کو پورا کرلیں کہ اتنے میں پارٹیشن کا وقت آگیا اسی طرح لاہور میں میری کچھ زمین تھی جس کی قیمت پانچ ہزار سے چودہ ہزار روپیہ فی کنال اس وقت پڑ رہی تھی اور اقل ترین قیمت بھی اس کی ڈیڑھ دو لاکھ روپیہ کے قریب تھی.قادیان سے نکلنے کے بعد قادیان کی جائیداد تو اغیار کے قبضہ میں چلی گئی اور لاہور کی جائیداد بھی ہندوؤں کے جانے کی وجہ سے کم قیمت ہو گئی اور وہی چیز جس کی اوسط قیمت آٹھ دس ہزار روپیہ فی کنال تھی دو سال کی برابر کوشش سے اس کی دو ہزار روپیہ فی کنال دینے والا کا بگ بھی ابھی تک میسر نہیں آسکا پس یہ خیال کہ جن لوگوں کا روپیہ میں نے لیا ہوا ہے ان کو کس طرح ادا کیا جاسکے گا طبیعت میں فکر پیدا کرتا رہتا تھا کچھ عرصہ ہوا میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ پر قضائے حاجت کے لئے بیٹھا ہوں اور بڑی مقدار میں پاخانہ آیا ہے.یہ رویا میں نے دو دفعہ دیکھی ہے بظاہر حالات تو پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گئے ہیں لیکن ان دونوں رویا کی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جلد یا بدیر کوئی صورت بقیہ جائیدادوں کے فروخت ہونے کی یا ان کی آمد میں بڑھوتی کی ایسی پیدا کر دے گا جس سے لوگوں کے قرضے آسانی
466 سے ادا ہو سکیں.الفضل 23.نومبر 1950ء صفحہ 4-3 18.نومبر 1950ء 509 فرمایا : میں صبح کی نماز کے وقت نماز پڑھ کر لیٹ گیا بالکل جاگ رہا تھا کہ کشفی طور پر دیکھا کہ کمرہ کے آگے برآمدہ میں میاں عبداللہ خان صاحب چار پائی سے اتر کر زمین پر کھڑے ہیں.میں ہی ان کے سامنے ہوں ان کو جو کھڑے دیکھا تو اس خیال سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت بخشی ہے بے اختیار میرے منہ سے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نکلا اور پھر جیسا کہ عام طور پر ہمارے ملک میں نظر لگ جانے کا وہم ہوتا ہے مجھے بھی اس وقت خیال آیا کہ میری نظر نہ لگ جائے.میں نے جھٹ اپنی آنکھیں نیچی کرلیں اور پھر یہ نظارہ جاتا رہا.اس وقت میں مکمل طور پر جاگ رہا تھا بالکل نیند کی حالت نہ تھی خواب میں مریض کو یکدم تندرست ہوتا دیکھنا عام طور پر منذر ہوتا ہے مگر چونکہ ساتھ الحمد للہ کہا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ نیک اور مبشر کشف ہے.الفضل 23.نومبر 1950 ء صفحہ 4 510 نومبر 1950ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ کسی شخص نے مجھے کچھ پھل بھیجے ہیں وہ ایک ٹرنک میں پڑے ہوئے ہیں ان پھلوں میں سے کچھ تو گلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور کچھ صاف ہیں ان میں سے ایک پھل میں نے نکالا ہے جس کی شکل گوشہ بگو یا ناشپاتی سے ملتی ہے یعنی ایک طرف اس کی بہت پتلی ہے اور دوسری طرف بہت موٹی ہے.میں نے جب وہ پھل ہاتھ میں لیا تو قدرت نے اس کے اوپر کا سرا کاٹ دیا جیسے نارنگی کو کاٹتے ہیں لیکن نارنگی کو تو بیچ میں سے کاٹتے ہیں.اس کا صرف اوپر کا سرا کاٹا گیا جب اس کا اوپر کا سرا کٹ گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ پھل اس سے بہت بڑا ہو گیا ہے جتنا کہ میں نے اٹھایا ہوا تھا.جہاں سے وہ کاٹا ہوا ہے وہاں سے اس کا چھلکا باقی مغز سے کسی قدر اونچا ہے اور مغز چھلکے کے کناروں سے ذرا نیچا ہے جیسا کہ فیرنی یا فالودہ کسی پیالہ میں ڈالتے ہیں.اس کے جوف میں باریک باریک سوراخ بھی معلوم ہوتے ہیں.میں نے یہ معلوم کرنے کے لئے کہ اس میں ہے کیا چیز اس پھل کو بہت آہستگی سے انگلیوں سے دبایا جو نہی میری انگلیوں کا
467 خفیف سا دباؤ اس پھل پر پڑا تو جیسے بیسیوں چشمے زمین میں ہوں اس طرح اس میں سے رس نکلنا شروع ہوا اور وہ اس طرح زور سے نکلنا شروع ہوا جیسے کوئی طاقت در چشمہ پھوٹتا ہے اور مغز کی تہہ پر وہ پانی جمع ہونا شروع ہوا میں اس خیال سے کہ بعض پھل خراب بھی تھے اسے غور سے دیکھتا ہوں کہ آیا اندر سے نکلنے والا رس کہیں گدلا تو نہیں لیکن وہ اتنا شفاف اور اتنا خوشبودار اور اتنا خوش رنگ معلوم ہوتا ہے کہ میں اس کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ جیسے یہ ایک جنتی پھل ہے میں نے اسے چوسنے کے لئے سرجھکایا ہی تھا کہ آنکھ کھل گئی.الفضل 23.نومبر 1950ء صفحہ 4 511 نومبر 1950ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک منافق جس کے نام کے معنے اچھے ہیں کھڑا مجھ سے باتیں کر رہا ہے اور میں حیران ہوں کہ اس کو میرے پاس آنے کا کیو نکر خیال پیدا ہوا شاید تعبیر نام میں ہو یا شاید کہ اس منافق کو کسی وقت اللہ تعالی ہدایت دے دے اور وہ اپنی منافقت سے توبہ کرلے.الفضل 23 نومبر 1950ء صفحہ 4 19.نومبر 1950ء 512 فرمایا : آج 19.نومبر کو صبح کی نماز پڑھ کر دائیں طرف منہ کر کے لیٹا ہوا تھا کہ یکدم جاگتے ہوئے ایک کشفی نظارہ دیکھا.میں نے دیکھا کہ ایک کھلی جگہ میں میں ٹہل رہا ہوں اور تمام صحن میں چیونٹیاں ہی چیونٹیاں پھر رہی ہیں.صحن ان سے بھرا ہوا ہے میں خیال کرتا ہوں کہ میرے پاؤں تلے چیونٹیاں نہ روندی جائیں اور پاؤں بچا کر اور خالی جگہ دیکھ کر اس پر پاؤں رکھتا ہوں.اس وقت دل میں یہ خیال آتا ہے کہ یہ کیا جگہ ہے اور اتنی چیونٹیاں کیوں ہیں اس خیال کے آتے ہی دل میں اس کا یہ جواب گذرتا ہے کہ یہ حضرت سلیمان کی وادی ہے.اور میں حضرت سلیمان کا مثیل ہوں اور اس پر وہ نظارہ جاتا رہا.اس نظارہ کے جاتے ہی مجھے خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے چند دن بعد مجھے الہام ہوا تھا کہ اِعْمَلُوا آلَ دَاوُدَ شكراً یعنی اے داؤد کی نسل شکریہ کے ساتھ زندگی بسر کرو سو یہ نظارہ بھی اسی الہام کے
468 تسلسل میں ہے.الفضل 23.نومبر 1950ء صفحہ 4 جنوری 1951ء 513 فرمایا : میں نے روس کے متعلق ایک مضمون لکھا تھا جو امریکہ میں شائع ہوا اور اَلْحَمْدُ لِلَّهِ مقبولیت حاصل کر رہا ہے اس کے بعد رات میں یہ الہام ہوا.سُورُ زَنْدَ الَّتِي انْهَدَمَتْ وَسُوْرُ زَنْدَالَّتِي لَمْ تُهْدَمَ سور کے معنے دیوار کے ہوتے ہیں لیکن عربی میں یہ لفظ مذکر استعمال ہوتا ہے مگر اس الہام میں صلہ مونث استعمال ہوا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سور کو زندگی کی طرف مضاف کیا گیا ہے اور شہر اور وادیاں عربی زبان میں مونث سمجھی جاتی ہیں اور جب کسی لفظ کو کسی دوسرے لفظ کی طرف مضاف کیا جائے تو جائز ہوتا ہے کہ مضاف الیہ کے مطابق ہی اس کی تذکیر و تانیث قرار دی جائے جیسے قرآن شریف میں آتا ہے کہ لَوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ (البقرة : (70) لون مذكر ہے لیکن تَسُر میں مؤنث کی ضمیر اس کی طرف پھیری گئی ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ تھا کی طرف لونُ مضاف ہے اور مضاف الیہ چونکہ مونث تھا اس لئے مضاف کو بھی مٹئونٹ ہی قرار دیا گیا.اس الہام کے معنے یہ ہیں کہ زند کی وہ دیوار جو ٹوٹ گئی ہے اور زند کی وہ دیوار جو ابھی نہیں ٹوٹی.یہ الہام بھی میں نے اس مضمون کے آخر میں درج کر دیا تھا.اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ روس کے دو حملے متمدن دنیا پر ہوں گے جن میں سے ایک حملہ شروع ہو گیا ہے لیکن دوسرا اور اصل حملہ ابھی شروع نہیں ہوا اس سے نتیجہ نکالتا ہوں کہ کو ریا کی جنگ کو جو اہمیت دی جارہی ہے اتنی اہمیت اس جنگ کو حاصل نہیں بلکہ اصلی حملہ کے لئے روس ابھی کچھ دن اور انتظار کرے گا اور اس کا اصل اور اہم مقام غالبا ایران کی سرحدیں ہوں گی یا اس کے ساتھ ملتا ہوا علاقہ کیونکہ زند کا شہر اور زند کی وادی بخارا کے علاقہ میں ہے.الفضل یکم فروری 1951ء صفحہ 2 514 جنوری 1951ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ پر ہوں اور گویا میرے ساتھ ریاست قنوج کے کچھ
469 امراء باتیں کر رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ ان کا سردار یا خود راجہ جے چند راجہ قنوج ہے یا اس کا بڑا وزیر.اور میں خواب میں یہ خیال کرتا ہوں کہ یہ زمانہ وہ ہے جب پر تھوی راج چکرورتی بن چکا تھا.چکرورتی کی جگہ کوئی اور لفظ میرے ذہن میں آتا ہے مگر مفہوم یہی ہے کہ وہ سارے ہندوستان کا راجہ ہونے کا دعوی کر چکا تھا.یہ خواب بہت ہی مبارک ہے اور اس میں ایک عظیم الشان واقعہ کی خبر دی گئی ہے جو مسلمانوں کے لئے نہایت مبارک اور کامیابی کا موجب ہو گی.الفضل یکم فروری 1951ء صفحہ 2 515 جنوری 1951ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ مجھے کوئی شخص کہتا ہے کہ فلاں شخص نے فلاں صوبہ کے افسر سے چارج لے لیا ہے.میں دونوں آدمیوں کو جانتا ہوں لیکن صوبہ کا افسر تو مجھے یاد رہ گیا ہے اور دو سرے آدمی کا نام مجھے یاد نہیں رہا مگر مصلحت میں اس صوبہ کے افسر کا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا.خواب میں میں حیران ہوں کہ ابھی تو ان کے چارج دینے کا وقت نہیں آیا تھا انہوں نے چارج کیوں دیا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ کیا وہ بیمار ہو گئے ہیں یا ان کو کہیں بدل دیا گیا ہے یا انہیں ہٹا دیا گیا ہے یا وہ فوت ہو گئے ہیں.فوت ہونے کا لفظ خاص طور پر میرے ذہن میں نہیں ہے لیکن سارے خیالات کے نتیجہ میں اس کا بھی طبیعت پر اثر ہے اور میں سوچتا ہوں کہ وہ کونسی وجہ ہے جو ان کے عہدہ سے قبل از وقت ہٹنے کا باعث ہو سکتی ہے.الفضل یکم فروری 1951 ء صفحہ 2 516 فروری 1951ء فرمایا : سندھ جانے سے قبل میں نے دیکھا کہ برادرم عبد الشکور کنڑے جرمن نو مسلم نے مجھ سے کوئی سوال کیا ہے.اس سوال کے جواب میں میں نے اللہ تعالی کی بعض صفات کو پیش کیا ہے جن میں سے ایک رب بھی ہے.اس پر مسٹر عبدالشکور نے کہا کہ ان صفات کا ذکر بائبل میں بھی آتا ہے.اس فقرہ کے دونوں معنی ہو سکتے ہیں یہ بھی کہ چونکہ بائبل میں بھی بعض صفات کا ذکر ہے اس لئے یہ دلائل عیسائیوں پر بھی اثر کر سکتے ہیں اور یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ گویا قرآن کریم بائبل کی نقل کرتا ہے میں نے ان دونوں معنوں کا خیال کر کے دل میں سوچا کہ یہ نو مسلم
470 ہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ قرآن کریم کی بہت سی تعلیم بائیل سے ملتی جلتی ہے پھر اس کی فضیلت کیا ہوئی اس خیال کے پیدا ہونے پر میں نے بڑے جوش سے ان کے سامنے تقریر شروع کی کہ بائبل میں جو یہ صفات آئی ہیں ان سے قرآنی صفات کو امتیاز حاصل ہے بائبل میں محض رسمی ناموں کے طور پر وہ صفات بیان کی گئی ہیں اور قرآن کریم نے ان صفات کی باریکیوں کو بیان کیا ہے اور ان مضامین میں وسعت پیدا کی ہے اور ان کے راز بیان کئے ہیں چنانچہ میں نے کہا دیکھو رب کا لفظ ہے بائبل نے بھی خدا تعالیٰ کو پیدا کرنے والا یا پالنے والا کہا ہے یا زمین و آسمان کا رب کہا ہے لیکن قرآن کریم یہ نہیں کہتا بلکہ قرآن کریم سورہ فاتحہ میں خدا تعالیٰ کو رب AT WALLULANA کے طور پر پیش کرتا ہے اور لفظ رَبِّ اور لفظ العالمين دونوں اپنے اند ر امتیازی شان رکھتے ہیں.رب صرف اس مضمون پر ہی دلالت نہیں کرتا کہ وہ پیدا کرنے والا ہے اور پالنے والا ہے بلکہ اس امر پر بھی دلالت کرتا ہے کہ وہ نہایت ہی مناسب طور پر اس کی باریک دربار یک قوتوں اور طاقتوں کو درجہ بدرجہ اور مناسب حال ترقی دیتا چلا جاتا ہے اور عالمین کا لفظ محض زمین و آسمان پر دلالت نہیں کرتا بلکہ زمین و آسمان کے علاوہ مختلف اجناس کی مختلف کیفیتوں پر بھی دلالت کرتا ہے اور یہ مضمون پہلی کتب میں بالکل بیان نہیں ہوا مثلاً عالمین میں جہاں یہ مراد ہے کہ اس جہان کا بھی رب ہے اگلے جہاں کا بھی رب ہے آسمانوں کا بھی رب ہے اور زمینوں کا بھی رب ہے وہاں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ عالم اجسام اور عالم ارواح اور عالم نساء اور عالم رجال اور پھر عالم فکر اور عالم شعور اور عالم تصور اور عالم تقدیر اور عالم عقل ان سب کا بھی وہ رب ہے یعنی وہ صرف روٹی ہی مہیا نہیں کرتا وہ صرف انی چیزوں کو مہیا نہیں کرتا جو جسموں کو پالنے والی ہیں بلکہ وہ ارواح کے پالنے کا بھی سامان کرتا ہے اور پھر مختلف تقاضے جو انسان کی فطرت میں پائے جاتے ہیں ان میں سے ہر ایک کے نشو و نما کے لئے اس نے قرآن کریم میں تعلیم دی ہے چنانچہ اس قسم کے مضمون پر تفصیلی لیکچر ان کے سامنے دے رہا ہوں اور خود مجھے نہایت لذت اور سرور حاصل ہو رہا ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ ایک نیا مضمون اور نئی کیفیت میرے اندر پیدا ہو رہی ہے یہی لیکچر دیتے دیتے میری آنکھ کھل گئی.فی الواقع ایک نیا نقطہ نگاہ جس کے ذریعہ سے رَبُّ الْعَالَمِینَ کی آیت کی تفسیر ایک نئے
471 رنگ میں اور نئے اسلوب سے کی جاسکتی ہے جو نہایت بصیرت افروز اور علم پیدا کرنے والی ہوگی.الفضل 29 مارچ 1951 ء صفحہ 3.نیز دیکھیں.تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ دوم 197 - 196 مارچ 1951ء 517 فرمایا : میں نے ایک رویا دیکھی ہے جس کی تفصیل کا بیان کرنا مناسب نہیں مگر ریکارڈ میں لانے کے لئے اس کے بعض حصوں کو مبہم کرتے ہوئے اس جگہ بیان کرتا ہوں.میں نے دیکھا کہ پاکستان سے باہر دنیا کے کسی ملک کا ایک حصہ ہمارے قبضہ میں آیا ہے یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا پاکستان کی فوجوں نے اسے فتح کیا ہے یا تبلیغ کے ذریعہ سے ہم نے اس ملک کے حاکم عصر کو اپنے تابع کر لیا ہے بہر حال وہ حصہ ہمارے قبضہ میں آیا اور میں سمجھتا ہوں کہ گویا اس کا انتظام میرے سپرد ہے.میں اس انتظام کے متعلق جو میں وہاں جاری کرنا چاہتا ہوں اپنے لوگوں کو جمع کر کے ایک تقریر کر رہا ہوں اور میں کہتا ہوں کہ میں فلاں قوم کے لوگوں کو ( قوم مجھے معلوم ہے مگر میں اس کا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتا ) اکٹھے گاؤں دار بساؤں گا اور فی گھر پندہ پندرہ ایکٹر زمین دوں گا اور کاشت کا انتظام ایک خاص قانون کے ماتحت کروں گا جس میں باہمی تعاون کا رنگ پایا جائے گا.جب میں یہاں تک پہنچا تو کسی شخص نے اعتراض کیا کہ یہ دونوں باتیں آپ کی تشریحات اسلامیہ کے خلاف ہیں.ہر خاندان کو پندرہ ایکٹر زمین دینے کے معنے یہ ہیں کہ بعض کی زمینیں چھین کر آپ بعض دوسروں کو دے دیں گے اور تعاون با ہمی کا نظام قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان کی مالکانہ آزادی میں دخل اندازی کریں گے اور یہ دونوں باتیں آپ کی اس تشریح کے خلاف ہیں جو آپ اسلام کے متعلق پہلے بیان کرتے رہتے ہیں.میں نے اس کے جواب میں کہا کہ آپ لوگ میرا مطلب نہیں سمجھے.یہ علاقہ تو ہمارا مفتوحہ ہے اس لئے اس کی جائیدادیں تو ہماری جائیدادیں ہیں پس ہم کسی کی جائیداد نہیں چھینیں گے ہم تو اپنی جائیداد اس اصول کے ماتحت لوگوں میں تقسیم کریں گے اور جب ہم کسی شخص کو کوئی چیز دیتے ہیں تو ہمیں اختیار ہوتا ہے کہ ہم اپنے دیئے ہوئے ہدیہ کے متعلق کچھ شرائط بھی لگا دیں پس اس پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ یہ میری بیان کردہ تشریح اسلام کے خلاف بات ہے کیونکہ میری تشریح تو ذاتی ملکیتوں کے بارہ میں ہے اور یہ کسی دوسرے کی ذاتی ملکیت نہیں ہو گی بلکہ ہماری دی
472 ہوئی چیز ہو گی جس کو ہم بعض شرائط کے ساتھ دیں گے (اب بھی اگر گورنمنٹ ایسی شرطیں لگا کر کسی کو سرکاری زمین دے تو وہ جائز ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اعتراض صرف اس پر ہے کہ حکومت لوگوں کی کامل ملکیت والی چیزیں چھین لے یا ان پر نئی قیدیں لگا دے) پھر میں نے کہا کہ اس سکیم میں میں نے ایک بڑی حکمت مد نظر رکھی ہے.جب میں پندرہ ایکٹر زمین فی خاندان دوں گا حالانکہ ان میں سے بہتوں کے پاس پہلے اس سے کم زمین ہو گی تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان لوگوں کو ہم سے محبت ہو جائے گی اور ان کا میلان اسلام کی طرف ہو جائے گا اور یہ جو کاشت کے متعلق تعاون باہمی کی میں نے بعض شرائط لگائی ہیں اس میں میری یہ حکمت ہے کہ اس بات کی نگرانی کے لئے اور اس رنگ میں کام چلانے کے لئے افسر مقرر کرنے پڑیں گے اور میں وہ افسر مبلغ ہی مقرر کروں گا.اس طرح آہستہ آہستہ ان لوگوں میں اسلام پھیل جائے گا.اور یہ علاقہ مسلمان ہو جائے گا.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.الفضل 29.مارچ 1951ء صفحہ 3 17/18.مارچ1951ء 518 فرمایا : 17 یا 18 مارچ کی شب کو مجھے یہ الہام ہوا کہ ”سندھ سے پنجاب تک دونوں طرف متوازی نشان دکھاؤں گا" جس وقت یہ الہام ہو رہا تھا میرے دل میں ساتھ ہی ڈالا جاتا تھا کہ متوازی کا لفظ دونوں طرف کے ساتھ لگتا ہے اور دونوں طرف سے مراد یا تو دریائے سندھ کے دونوں طرف ہیں اور یا ریل یا سڑک کے دونوں طرف ہیں جو کراچی اور پاکستان کے مشرقی علاقوں کو ملاتی ہے.اسی طرح میرے دل میں یہ ڈالا گیا کہ یہ نشان ہمارے لئے مبارک اور اچھے ہوں گے یہ ضروری نہیں کہ ہر مبارک چیز اپنی ساری شکل میں ہی خوش کن بھی ہو.بعض دفعہ انذاری نشان بھی خدائی سلسلوں کے لئے مبارک ہوتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کی توجہ صداقت کے قبول کرنے کی طرف پھر جاتی ہے.بہر حال اس الہام سے ظاہر ہے کہ کوئی ایسا بڑا نشان یا ایسے کئی نشان ظاہر ہوں گے جو کہ دریائے سندھ کے جنوبی علاقوں یا شمالی علاقوں یا ریل کے جنوبی علاقوں یا شمالی علاقوں میں عمومیت کے ساتھ وسیع اثر ڈالیں گے جس کے یہ معنی بھی بنتے ہیں کہ شمالی اور جنوبی سندھ یا بلوچستان تک ان کا اثر جائے گا اور ادھر دریائے سندھ کے
473 اس پار بھی اور اس پار بھی یعنی ڈیرہ غازی خان میانوالی کیمل پور اور صوبہ سرحد کے علاقوں تک بھی اس کا اثر جائے گا یا ان علاقوں میں سے اکثر حصوں پر ان کا اثر پڑے گا دونوں طرف " سے یہ شبہ پڑتا ہے کہ خدانخواستہ اس سے کسی طوفان کی طرف اشارہ نہ ہو کیونکہ بظاہر دونوں طرف ظاہر ہونے والا نشان دریا کی طغیانی معلوم ہوتی ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی.ہمیں بھی اس انتظار میں رہنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ جس صورت میں چاہے نشان دکھائے.ہاں یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ یہ نشان ہمارے لئے کئی رنگ میں مبارک ہو گا.الفضل 29 مارچ 1951 ء صفحہ 3.نیز دیکھیں.الفضل 4 نومبر 1955ء صفحہ 4 519 جون 1951ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں اور وہاں ایک بہت بڑی مسجد ہے میں نماز پڑھانے کے لئے جا رہا ہوں.جب میں مسجد میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ سینکڑوں آدمی لمبی لمبی قطاروں میں بیٹھے ہوئے امام کا انتظار کر رہے ہیں.میں مسجد میں داخل ہوا اور مصلیٰ پر جاکر کھڑا ہو گیا اور میں نے نماز پڑھانی شروع کر دی اس وقت حالات کا خیال کر کے کہ یہاں خدا تعالٰی نے کتنے لوگوں کو جمع کیا ہوا ہے اور کتنی بڑی مسجد ہے جس میں لوگ انتظار کر رہے ہیں طبیعت میں نہایت ہی رقت پیدا ہوئی اور میں نے سورۃ فاتحہ اور قرآن شریف کی کوئی سورۃ یا اس کا کوئی حصہ نہایت ہی سوز اور جذب سے پڑھنا شروع کیا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کے اثر سے تمام فضا معطر ہو رہی ہے نماز پڑھاتے پڑھاتے جب میں سجدہ میں گیا تو معلوم ہوتا ہے کہ جوش کی حالت میں کلمات تسبیح بھی میں کسی قدر بلند آواز میں پڑھتا ہوں تلاوت کی طرح بلند نہیں لیکن اتنی آواز میں کہ وہ سنے جاسکتے ہیں جب میں سجدہ میں گر رہا تھا تو یوں معلوم ہوا جیسے میری آنکھ کھل گئی اور اپنی چارپائی پر لیٹے ہوئے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ میں جاگ رہا ہوں میں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ گویا میں دو وجود ہوں میرا ایک وجود نماز پڑھا رہا ہے اور ایک وجود چار پائی پر لیٹا ہوا ہے اور میرا وہ وجو د جو نماز پڑھا رہا تھا اس نے میرے پہلو میں سجدہ کیا اور اس کی تسبیح کی آوازیں مجھے آرہی تھیں اس کے بعد کشف کی حالت جاتی رہی.الفضل 15 - جون 1951ء صفحہ 3
474 520 جون 1951ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مکانات اور مسجد اقصیٰ کے درمیان میں سلسلہ کے لئے کچھ عمارت بنوا رہا ہوں.جتنا فاصلہ مسجد اقصیٰ اور ان مکانات کے درمیان میں ہے اس سے فاصلہ بہت زیادہ معلوم ہوتا ہے اور درمیانی زمین دس پندرہ یا ہیں ایکٹر کی معلوم ہوتی ہے.اس تمام زمین میں بنیادیں کھو دی ہوئی ہیں اور جس طرح یورپ اور امریکہ میں بہت بڑے بڑے فلیٹس ہوتے ہیں اسی طرز کی عمارت کا کوئی نقشہ معلوم ہوتا ہے اسی جگہ پر سینکڑوں یا ہزاروں کمروں کی بنیادیں کھدی ہوئی معلوم ہوتی ہیں اور عمارت کی بنیاد میں زمین سے اوپر تک آچکی ہیں عمارت کا مصالحہ نہایت قیمتی ہے اور وہ سیمنٹ یا پتھر کا معلوم ہوتا ہے.میں ایک جگہ کھڑا ہوا اس وسیع عمارت کے اوپر جو تیار ہو رہی ہے نظر ڈالتا ہوں کہ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی.الفضل 15.جون 1951ء صفحہ 3 521 جون 1951ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ گویا حکومت پاکستان کی معرفت ہم نے قادیان میں جلسہ کرنے کی اجازت لی ہے اور ہندوستان کی گورنمنٹ نے ہم کو دس بارہ دنوں کے لئے قادیان جانے کی اجازت دیدی ہے اور ہندوستان اور پاکستان سے احمدی بڑے جوش سے وہاں جمع ہو رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام والے مکان میں ہم ٹھرے ہوئے ہیں لیکن وہ مکان بہت وسیع ہو چکا ہے اس کی چوٹی بہت ہی بلند چلی گئی ہے اور اس کی کئی منزلیں ہیں لیکن منزلیں اتنی زیادہ نہیں جتنی کہ اس کی چھتوں کی بلندی.یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ہر کمرہ کی چھت پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ ستر سترفٹ اونچی ہے اور ایک منزل سے دوسری منزل تک جانا کار دارد ہے.سیڑھیوں کی تکلیف سے بچنے کے لئے لفٹ کی طرح کی ایک چیز جو میں نے اس دنیا میں نہ دیکھی ہے نہ سنی بنائی گئی ہے.ربڑ کابنا ہوا ایک موٹا سا کپڑا ترپالوں کی طرز کا اس مکان کی سیڑھیوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے اور اس میں اس طرح بڑے بڑے جفتے ڈالے گئے ہیں جس طرح اکار ڈین باجے (ہارمونیم) میں ہوتے ہیں اور ڈھلوان کی طرز پر وہ فرش سے لے کر چھت تک کھینچا گیا ہے.جب آدمی اس کے ایک جفتے پر پیر رکھتا ہے اور
475 ہاتھوں سے اوپر کے جفتے کو پکڑتا ہے تو اس سیڑھی میں ایسی لچک پیدا ہوتی ہے کہ آدمی کئی فٹ اوپر چڑھ جاتا ہے اور وہاں وہ ایک اور جفتے پر اپنے پیر رکھ دیتا ہے اور اس سے اوپر کے جفتے کو پکڑ لیتا ہے اس طرح چند جھٹکوں میں وہ چھت پر چڑھ جاتا ہے.جہاں تک میرا علم ہے ایسی سیڑھی آج تک ایجاد تو نہیں ہوئی لیکن عقل ضرور کہتی ہے کہ ایسی سیڑھی ایجاد کی جاسکتی ہے کمرے بھی بہت بڑے بڑے اور وسیع ہیں ساٹھ ستر فٹ کے چوڑے اور سو سو ڈیڑھ ڈیڑھ سوفٹ کے لیے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مستورات مہمانوں کا انتظام تو اس گھر میں کیا گیا ہے اور مرد مہمانوں کا باہر انتظام کیا گیا ہے.اس گھر کو جاتے وقت بہت سے مرد مجھے ملے جو مہمان کے طور پر آئے ہوئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ابھی بہت تھوڑے مہمان آئے ہیں.بہت سے مہمان ابھی آنے باقی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شوق محبت میں لوگ دیوانہ وار چاروں طرف سے کھنچے چلے آتے ہیں.میں اس نظارہ سے متاثر ہو کر مکان کے اندر یہ دیکھنے کے لئے کہ عورتوں کے لئے کیا انتظام ہوا ہے مختلف کمروں میں پھرا ہوں.وہاں میں نے دیکھا کہ مختلف جگہوں کی عورتیں آئی ہوئی ہیں اور کمروں کے مختلف حصوں میں اپنی جگہیں بنا رہی ہیں کسی نے کہا کہ مرد کم آئے ہیں میں نے کہا.نہیں.یہاں تو تمہیں عورتیں ہی نظر آتی ہیں.مرد با ہر ہیں اور ابھی چاروں طرف سے لوگ آرہے ہیں.ایک عجیب خوشی کی لہر احمد یوں میں پھیل رہی ہے اور اس خوشی میں کوئی تسبیح کے کلمے کہہ رہا ہے.کوئی تحمید کے کلمے کہہ رہا ہے اور کوئی شعر پڑھ رہا ہے.نیچے کے کمروں کو دیکھ کر میں نے اوپر کے کمروں کی طرف جانا چاہا اور اس وقت میں نے وہ سیڑھی دیکھی جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے کوئی سوفٹ کے قریب اونچی سیڑھی ہے جو مچلی منزل سے اوپر کی منزل کی طرف جاتی ہے اس کے ربڑ کے جفتوں پر جب میں نے پیر رکھ کر ذرا پیر کو دبایا تو یکدم اس سیڑھی نے مجھے اٹھانا شروع کیا اور نہایت سہولت کے ساتھ میں اوپر پہنچ گیا.وہاں بھی کچھ نظارہ میں نے دیکھا جو کچھ عرصہ تک تو مجھے یاد رہا لیکن خواب لکھوانے میں چونکہ دیر ہو گئی اس لئے اب وہ مجھے یاد نہیں رہا.الفضل 15.جون 1951 ء صفحہ 3 522 جون 1951ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں گویا قادیان گیا ہوں اور وہاں سے پھر آگے پٹھانکوٹ وغیرہ کے علاقوں کی طرف بھی میں گیا ہوں وہاں میں نے دیکھا کہ کچھ مسلمان موجود ہیں وہ گو جر ہیں یا
476 قصائی ہیں.ان کے اچھے مضبوط جسم اور سفید کپڑے ہیں.ان سے معلوم ہوا کہ وہ مضبوطی سے اسلام پر قائم ہیں.وہ لوگ مجھے بڑے شوق سے آکر ملے اور اپنے حالات سنانے شروع کئے.باتوں باتوں میں انہوں نے کہا کہ ہمارے کچھ رشتہ دار پاکستان میں ہیں ہم انہیں کچھ روپیہ بھیجوانا چاہتے ہیں.کیا آپ اپنے ساتھ لے جاسکتے ہیں.ان کی باتوں سے معلوم ہوا کہ ان کی مالی حالت اچھی ہے.میں نے ان سے کہا کہ یہ تو شاید ناجائز ہو مگر آپ لوگ قادیان میرے پاس آئیں وہاں ہم مشورہ کریں گے کہ کوئی قانونی صورت اس قسم کی نکل سکتی ہیں یا نہیں.الفضل 15.جون 1951ء صفحہ 3 جون 1951ء 523 فرمایا : میں نے دیکھا کہ گویا میں ہندوستان کے کسی شہر میں ہوں.مغربی بنگال یا بہار کی طرف معلوم ہوتی ہے کچھ لوگ میرے پاس ملنے کے لئے آئے جو تعلیم یافتہ اور رؤساء معلوم ہوتے ہیں.میں اس وقت ذکر الہی کر رہا ہوں.بجائے اس کے کہ میں ذکر الہی چھوڑ کر ان سے باتیں کرتا اپنی عادت اور سلسلہ کے دستور کے خلاف میں نے ذکر الہی بلند آواز سے کرنا شروع کر دیا جیسے پرانے زمانہ میں صوفیاء کیا کرتے تھے.اس وقت میری آواز میں نہایت ہی سوز و گداز پیدا ہوا اور میں نے محسوس کیا کہ اگر میں ان کو تبلیغ کرتا تو ان پر اتنا اثر نہ ہو تا جتنا کہ ذکر الہی سے ان پر ہوا ہے اور مجھے محسوس ہوا کہ ان لوگوں کے دل آپ ہی بدلتے جا رہے ہیں اور احمدیت کی طرف مائل ہو رہے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب میں اس جگہ پر پہنچا ہوں تو وہ عصر کا ابتدائی وقت ہے اور سفر میں ظہر کی نماز کا وقت گزر گیا ہے اور ہم نے اکٹھی نمازیں پڑھتی ہیں.میں نے نماز کا خیال کر کے ذکر الٹی کو ختم کر دیا اور ان لوگوں سے کہا کہ ہم نے نماز پڑھنی ہے ایک بڑھا آدمی جو بہت فهمیدہ بھی معلوم ہوتا ہے اور رئیس بھی معلوم ہوتا ہے اس کی سفید ریش بہت اچھی اور بھلی معلوم ہوتی ہے.اس نے کہا بہت اچھا.ہم بھی ساتھ ہی نماز پڑھیں گے.آپ وضو کیجئے چنانچہ سب لوگ اٹھ بیٹھے مجھے وہ شخص ایک غسل خانہ میں لے گیا وہاں کسی نوکر سے اس نے کہا ان کو وضو کراؤ ایک پیتل کا خوبصورت لوٹا صراحی کی شکل کا رکھا ہوا ہے جس سے میں نے وضو کرنا شروع کیا ہے جب میں وضوء کر کے فارغ ہوا اور اس کمرہ کی طرف گیا جہاں نماز
477 ہوئی تھی تو میں نے دیکھا کہ کوئی احراری ملا بیٹھا ہوا ان لوگوں کے اندراحمدیت کے خلاف سخت غیظ و غضب سے بھری تقریر کر رہا ہے میں نے دل میں سوچا کہ اب تو شاید یہ لوگ ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھیں بلکہ شاید ہمیں بھی اس جگہ نماز پڑھنے سے روکیں مگر میرے جاتے ہی وہ ملا خاموش ہو گیا اور وہ لوگ جو غیر احمدی معززین تھے کمرہ میں ادھر ادھر پھیل کر بیٹھ گئے.جب تکبیر ہونے لگی اور وہ لوگ نماز میں شامل ہونے لگے تو میں نے ان سے کہا کہ ہم لوگ سفر میں تھے اور ظہر کی نماز ادا نہیں کر سکے ہم نے پہلے ظہر کی نماز ادا کرنی ہے پھر عصر کی اور آپ لوگ تو شاید ظہر کی نماز پڑھ چکے ہوں گے.اس پر وہ الگ الگ ہو گئے اور میں ظہر کی نماز پڑھانے کے لئے کھڑا ہوا وہ بڑھا آدمی جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.وہ ایک چادر لے کے ایک کو نہ میں لیٹ گیا اور اس نے اونچی اونچی آواز سے یہ کہنا شروع کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو سب چیزوں پر مقدم رکھتے تھے اگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اس طرح کرو تو اس طرح کرتے تھے اور اگر اللہ تعالیٰ فرماتا اس طرح کرو تو اس طرح کرتے تھے.اور اگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اکڑ کر چلو تو اکٹر کر چلتے تھے اور اگر اللہ تعالیٰ فرماتا کہ لنگڑا کر چلو تو لنگڑا کر چلتے تھے جیسا کہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی دفعہ مدینہ میں نماز جمع کی ہے بغیر اس کے کہ کوئی لڑائی ہو یا کوئی اور ایسا کام ہو ( احادیث میں آتا ہے کہ بغیر بارش اور بادل کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ مدینہ میں نماز جمع کر لیا کرتے تھے) اس شخص کی یہ باتیں سن کر سمجھتا ہوں کہ یہ اپنے ساتھیوں کو بتانا چاہتا ہے کہ ان کے نماز جمع کرنے سے تمہارے دل میں کوئی شبہ پیدا نہیں ہونا چاہئے.یہ جو کچھ کر رہے ہیں اسلام کے مطابق ہے اور اسلامی تعلیم پر عمل کرتے وقت کسی شخص کے طعن و تشنیع کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے پھر اس شخص نے کہا کہ نماز اگر پڑھ لی گئی ہو تو پھر بھی یہ ثابت ہے کہ اگر دوبارہ نماز پڑھ لی جائے تو کوئی حرج نہیں ہوتا اور یہ کہہ کے وہ اٹھاتا کہ وہ بھی ظہر کی نماز میں ہمارے ساتھ شامل ہو جائے اور اس کا اثر اس کے ساتھیوں پر پڑے اور وہ بھی شامل ہو جائیں لیکن پھر میں نے نہیں دیکھا کہ آیا وہ نماز میں شامل ہوا ہے یا نہیں مگر اس نظارہ کو دیکھ کر میری طبیعت میں بھی جوش پیدا ہوا اور کلمات تسبیح وغیرہ میں نے ایسی صورت میں کہنے شروع کئے کہ پاس کا بیٹھا ہوا آدمی سن سکتا تھا اس پر میری آنکھ کھل گئی اور میں نے دیکھا کہ فضاء میں تسبیح و تحمید کے گونجے ہوئے الفاظ
478 میرے کان سن رہے ہیں.الفضل 15.جون 1951ء صفحہ 4 -3 جون 1951ء 524 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا جیسے کسی غیر احمدی رئیس نے میری دعوت کی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا میں لاہور میں ہوں.میں چند دوستوں کے ساتھ مل کر دعوت کے لئے جا رہا ہوں راستہ میں ایک چوک پر میں نے دیکھا کہ ایک کتا تین زنجیروں سے بندھا ہوا ہے ان زنجیروں کی شکل اسی طرح ہے.کنے کی گردن ایک زنجیر سامنے کی طرف ایک کیلے سے گاڑی ہوئی ہے ایک دائیں طرف ہے اور ایک بائیں طرف ہے یہ تینوں زنجیریں کتے کے پٹہ میں پڑی ہوئی ہیں.وہ اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہو تا.کوشش بھی اس کی زیادہ زور دار نہیں.معمولی سی ہے مجھے اس پر رحم آیا اور میں نے وہ تینوں زنجیریں کھول دیں اور وہ آزاد ہو گیا.آزاد ہونے پر اس نے جھر جھری لی اور میری طرف منہ کر کے انسان کی طرح باتیں کرنے لگا.اس نے کہا آپ نے مجھے آزاد کروایا ہے اب میں آپ کی رفاقت نہیں چھوڑوں گا اور ہمیشہ آپ کے ساتھ رہوں گا.مجھے یہ بات دیکھ کر بہت تعجب ہوا کہ کتا انسانوں کی طرح باتیں کر رہا ہے میں نے اسے کہا کہ تم انسانوں کی طرح باتیں کر لیتے ہو.کیا انسانوں کی طرح سیدھا چل بھی لیتے ہو.اس نے کہا نہیں.میں نے کہا.ریچھ تو دو پاؤں پر چل لیتا ہے ( بعض قسم کا بندر بھی چل لیتا ہے مگر خواب میں مجھے بندر کا خیال نہیں آیا) اس نے جواب دیا کہ ہاں بعض قسم کے جانور بے شک چل لیتے ہیں لیکن عام طور پر جانور کا یہ خاصہ نہیں کہ وہ دو پیروں پر چلے.اس کے بعد کچھ اور باتیں بھی
479 اس سے ہوئیں اور وہ کتا بھی میرے ساتھ اس دعوت میں چلا گیا وہاں بہت سے لوگ جمع ہیں.بیسیوں غیر احمدی مہمان بھی آئے ہوئے ہیں.کھانے کا انتظام میزوں پر نہیں بلکہ فرش پر ہے اور گاؤ تکیے وغیرہ لگے ہوئے ہیں.یہ بولنے والا کتا دیکھ کر لوگوں کی توجہ اور باتوں سے ہٹ گئی ہے اور زیادہ تر لوگ اس سے آ آ کر باتیں کرتے ہیں اور وہ بڑی سہولت اور آسانی سے جواب دیتا ہے لیکن ہے کتے کی شکل.اسکی بیٹھک اور چال سب کتے والی ہے.اور مجھ سے کچھ دور ہٹ کر مؤدب ہو کر بیٹھا ہوا ہے جیسے کتا اگلی ٹانگیں اٹھا کر اور پچھلی ٹانگیں بچھا کر بیٹھتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ کوئی جماعت یا کوئی فرد جو غیر تربیت یافتہ ہے اور اسلامی اخلاق سے بے بہرہ ہے لیکن سیاسی یا معیشتی یا عائلی جکڑ بندیوں میں پھنسا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ اس قوم یا اس شخص کو میرے ذریعہ سے نجات دے گا اور اس کے بعد اس کی ایک حد تک اصلاح ہو جائے گی اور وہ وفاداری کے ساتھ میرا ساتھ دینے پر آمادہ ہو جائے گا یا وہ قوم آمادہ ہو جائے گی.(الفضل 15 - جون (41951 جون 1951ء 525 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میری ایک عزیزہ خاتون کہتی ہیں.میں نے اپنے خاوند کی جدائی کو بھلانے کی کوشش کی تھی اور میں سمجھتی ہوں میں کامیاب ہوں گی لیکن فلاں فلاں حادثات کی وجہ سے میری کوشش ناکام ہوتی نظر آتی ہے.الفضل 15.جون 1951ء صفحہ 4 جون 1951ء 526 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ پر بیٹھا ہوں.میری عمر جوانی کی ہے جیسے کوئی سترہ اٹھارہ سال کی عمر کا لڑکا ہوتا ہے میرے ساتھ ایک اور لڑکی بیٹھی ہوئی ہے جو کوئی سات آٹھ سال کی معلوم ہوتی ہے اس کے سر پر اوڑھنی ہے اور جیسے بچے بڑوں کی نقل میں بعض دفعہ پردے کا اظہار کرتے ہیں اس طرح وہ اوڑھنی منہ پر ڈالے بیٹھی ہے ہمارے سامنے کوئی بزرگ عورت ہیں لیکن نظر نہیں آتیں.البتہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے سامنے ایک بزرگ عورت بیٹھی ہیں.وہ بزرگ خاتون مجھ سے پوچھتی ہیں کیا تمہیں اپنی زندگی کا وہ واقعہ یاد ہے جب کہ
480 ریلوے جنکشن پر گھر کے بڑے آدمی تمہیں چھوڑ کر چلے گئے تھے اور تم ریل گاڑی میں اکیلے رہ گئے تھے.میں نے اس غیر مرئی خاتون سے کہا میری زندگی کا یہ واقعہ مجھے ہمیشہ ہی پریشان رکھتا ہے.مجھے اتنا تو یاد پڑتا ہے کہ ہم گھر سے نکلے پھر یہ یاد پڑتا ہے کہ ایک جگہ جا کر ہمارے بزرگ ہم سے الگ ہو گئے لیکن اگلا واقعہ مجھے یاد نہیں آتا اور میرا حافظہ میری بالکل مدد نہیں کرتا.کہ پھر ہم نے کس طرح سفر کیا.کہاں پہنچے اور کس طرح پہنچے.میں نے اتنی ہی بات کہی تھی کہ وہ چھوٹی سی لڑکی جو میرے پاس بیٹھی تھی آگے جھکی اور اس نے کہا مجھے یاد ہے.میں بھی ساتھ تھی اور میں بھی پیچھے رہ گئی تھی اور اس نے اس بات کو ذرا لمبے پیرایہ میں بیان کرنا شروع کیا چونکہ میں خیال کرتا تھا کہ وہ پریشان کرنے والا خیال شاید آج حل ہونے والا ہے.اس لئے اس کی لمبی گفتگو مجھے نا پسند ہوئی اور میں نے اس لڑکی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر کہا.چھوڑو ان لمبی باتوں کو کہ تم تو یوں بیٹھی ہوئی تھی اور تمہارے سر پر اس وقت بھی اوڑھنی تھی.چھوڑو یہ کیا بات ہے" اس پر لڑکی نے کہا نہیں نہیں.میں اصل واقعہ کی طرف آتی ہوں.جب ہم نے دیکھا کہ ہم اکیلے رہ گئے ہیں اور بزرگ ہمیں بھول کے اتر گئے ہیں تو میں نے اپنی اوڑھنی ذرا اور نیچے کھینچی اور گردن جھکا کے بیٹھ گئی اور ہونٹ باہر نکالنے شروع کئے اور رونے کی تیاری کی.اس وقت وہ عملاً بھی اوڑھنی کو اور نیچے جھکا لیتی ہے اور جس طرح بچیاں روتی ہیں اسی طرح اس نے اپنی شکل بنالی ہے پھر اس نے کہا جب میں رونے لگی تو ایک شخص لبے سے چہرہ کا اور لمبی سی داڑھی والا ریل کی کھڑکی میں سے سر نکال کے اندر کی طرف جھکا اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کے اس نے کہا ”بی بی یہ کونسی رونے کی بات ہے انسان کی زندگی میں ایسے واقعات آیا ہی کرتے ہیں " جب اس لڑکی نے کہا کہ ایک آدمی لمبے سے منہ کا اور لمبی داڑھی والا اندر جھکا.تو معا مجھے خیال آیا مولوی برہان الدین صاحب مولوی برہان الدین صاحب گویا یہ وہ تھے پھر اس لڑکی نے کہا.اس کے بعد وہ آدمی کمرے کے اندر داخل ہوا اور آکر ہمارے پاس بیٹھ گیا اور ہمارے ساتھ گیا اور ہم منزل مقصود پر خیریت سے پہنچ گئے.تب میرے دل میں آیا.مولوی برہان الدین نہیں.خدا کا فرشتہ.آنکھ کھلنے کے بعد اس وقت بھی اور بعد میں بھی اس عجیب رویا پر میں نے غور کیا اور میں نے سمجھا کہ یہ میری زندگی کی تفسیر ہے.اس وقت تک جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ چھوٹی لڑکی جو میں نے دیکھی وہ جماعت احمد یہ ہے اور جنکشن پر
481 بزرگوں کا اتر جاتا اور ہم کو چھوڑ جانا یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات ہے اور ایک فرشتے کا آکر یہ کہنا کہ رونے کی کونسی بات ہے انسان کے ساتھ یہ واقعات پیش آیا ہی کرتے ہیں اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مامورین آخر ایک وقت میں جماعت سے جدا ہو ہی جایا کرتے ہیں لیکن بجائے رونے دھونے کے جماعت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ فرشتوں کی مدد سے دین کے احکام کو دنیا میں پھیلائے اور میرا یہ کہنا کہ اس کے بعد کے واقعات کا مجھے پتہ نہیں کہ ہم کس طرح گئے اور کہاں پہنچے اس نے مجھے تعبیر کی طرف توجہ دلائی کیونکہ زندگی کے متعلق انسان نہیں جانتا کہ اس کی آخری منزل کہاں ہو گی اور اس کا سفر کس طرح ختم ہو گا لیکن رویا نے بتایا کہ گو وہ حالات جو آئندہ پیش آنے والے ہیں ان کو کما حقہ سمجھنا تو انسان کے لئے نا ممکن ہے اور انسان جب تک اپنی منزل پر پہنچ نہیں جاتا وہ حیران ہی رہتا ہے کہ میرے اس سفر کا انجام کیا ہو گا؟ لیکن تم کو اتنا بتایا جاتا ہے کہ تمہارا سفر برہان الدین اور فرشتوں کی معیت میں ہو گا یعنی خدا تعالیٰ اس سفر کو پورا کرنے اور اس کا انجام نیک کرنے کا خود ذمہ دار ہو گا.الفضل 15 جون 1951ء صفحہ 5-4 جولائی1951ء 527 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میرے پاس کچھ لوگ ریاست کشمیر کے آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ ہماری مدد کریں تو ہم کشمیر کا ایک علاقہ فتح کرنا چاہتے ہیں میں نے کہا کہ پہلے آپ مجھے وہ علاقہ دکھائیں.اس کے بعد میں فیصلہ کروں گا.دل میں اس وقت شک پیدا ہوا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ ملک کے بدخواہ ہوں اور خود ایسے علاقے میں فساد کرنا چاہتے ہوں جو پاکستان کے ساتھ ہے یا پاکستان کے ماتحت ہے مگر میں نے اپنا یہ شبہ ان پر ظاہر نہیں کیا.ان لوگوں نے میرے ساتھ ایک وقت مقرر کیا اور وہ مجھے اپنے ساتھ اس جگہ پر لے گئے.میں نے دیکھا کہ ایک پہاڑی سا علاقہ ہے وہ مجھے اس کی چوٹی کے اوپر لے گئے جہاں ایک دیوار سی کھڑی ہے جیسے قلعوں کی فصیل ہوتی ہے یا مورچوں کی فصیل ہوتی ہے وہاں لوگ بڑی تیزی سے اترتے ہیں چڑھتے ہیں اور کام کرتے ہیں کوئی گولیوں کی آوازیں میں نے نہیں سنیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ مقابلہ ہو رہا ہے.علاقہ کو دیکھنے کے بعد میری طبیعت پر یہی اثر ہوا کہ یہ لوگ پاکستان کے ساتھ تعلق رکھنے
482 والے کشمیری علاقہ میں کچھ گڑ بڑ کرنا چاہتے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد لیڈر میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے.تب میں نے حقیقت معلوم کرنے کے لئے ان سے کہا کہ کشمیر کا لفظ جب ہم آج بولتے ہیں تو اس کے تین معنے ہوتے ہیں اول جو اس وقت پاکستان کے انتظام کے نیچے ہے دوم وہ حصہ جو آزاد کشمیر گورنمنٹ کے انتظام کے نیچے ہے اور در حقیقت وہ بھی پاکستان کا ہمدرد اور پاکستان سے تعلق رکھنے والا ہے تیسرے وہ حصہ جو ابھی مہاراجہ کے ماتحت ہے.جو حصہ پاکستان کے ماتحت ہے یا پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ہے اس کو فتح کرنے کے کوئی معنے ہی نہیں.اس کے فتح کرنے کے معنے ہی فساد پیدا کرنا اور ملک سے غداری کرنا.ہاں ملک کو طاقت ان علاقوں کو فتح کرنے سے بے شک ہو سکتی ہے جو ابھی آزاد کشمیر گورنمنٹ کے ماتحت نہیں آئے یا پاکستان گورنمنٹ کے ماتحت نہیں آئے تو آپ یہ بتائیے کہ یہ علاقہ جو آپ لینا چاہتے ہیں ان تینوں میں سے کس قسم کا ہے.میں نے دیکھا کہ وہ میرے اس سوال کا جواب دینے سے ہچکچاتے ہیں اور میں نے سمجھ لیا کہ در حقیقت وہ اس علاقہ میں فساد کرنا چاہتے ہیں جو پاکستان کے ماتحت ہے یا آزاد کشمیر کے ماتحت ہے.یہ بات معلوم کر کے میں نے سمجھا کہ میں ان لوگوں کی مدد نہیں کر سکتا چنانچہ میں نے بغیر اس کے کہ ان پر پوری بات ظاہر کروں ان سے کہا کہ ایسے علاقہ کو فتح کرنے کی کوشش کرنا جو پہلے ہی پاکستان کے ماتحت ہے یا پاکستان سے تعلق رکھتا ہے ملک سے غداری ہے پس جب تک میری اس بارہ میں تسلی نہ ہو جائے آپ کی مدد کے لئے تیار نہیں.انہوں نے میری اس بات کا جواب تو نہیں دیا لیکن ان کے چہروں سے پتہ لگتا ہے کہ میری اس بات کو انہوں نے بہت ہی ناپسند کیا ہے اور میں نے رویا میں سمجھا کہ اب یہ لوگ مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے اور میں نے مناسب سمجھا کہ ان لوگوں سے الگ ہو جاؤں لیکن ساتھ ہی میں ڈرا کہ ان لوگوں کو میرے خیالات کا پتہ لگ گیا ہے اور یہ لوگ مجھے پر حملہ کریں گے پس میں نے اپنے اس ارادہ کا ان پر اظہار نہیں کیا اور خاموشی سے ان کے ساتھ چلتا رہا.یہاں تک کہ سڑک کے پاس مجھے ایک رستہ نظر آیا جو جنگل میں سے گزرتا ہے اس وقت میں دوڑ کر ان سے الگ ہو گیا اور اس رستہ پر میں نے دوڑنا شروع کیا.چند سو گز تک مجھے معلوم ہوا کہ میرا تعاقب کر رہے ہیں لیکن اس کے بعد ان کے پیروں کی
483 آوازیں آنی بند ہو گئیں.میں چلتے چلتے ایک پانی کے کنارے پر پہنچا جس کے متعلق بوجہ رات کے اندھیرے کے (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک سورج ڈوب گیا ہے) میں معلوم نہیں کر سکتا کہ آیا کوئی دریا ہے یا جھیل ہے یا نہر ہے.مگر میں نے یہ سمجھا کہ جدھر وہ جا رہے ہیں اگر اسی طرف میں اس کنارے کنارے چلتارہوں تو مجھے اس مقام کا پتہ لگ جائے گا جہاں میرا گھر ہے کیونکہ وہیں سے وہ لوگ مجھے ساتھ لائے تھے.اس وقت یہ خیال ہے کہ میں اکیلا ہوں اور مجھے گھر کا رستہ بھولا ہوا ہے چنانچہ میں پانی کے کنارے کنارے اس طرف چلنا شروع ہوا اور تھوڑی دیر میں مجھے معلوم ہو گیا کہ وہ ایک نہر ہے چلتے چلتے ایک گاؤں آیا.اس گاؤں سے آگے میں نے دیکھا کہ نہر پر پل بنا ہوا ہے اور دور سے مجھے وہ لوگ اس پل کی طرف آتے ہوئے نظر آئے اور میں نے سمجھ لیا کہ اس پل پر سے گزر کر ان لوگوں نے گھر جاتا ہے اور اس کے پاس کے علاقے میں میرا گھر بھی ہے لیکن معا مجھے خیال آیا کہ وہ گاؤں جو پل کے پاس نہر کے کنارے پر ہی ہے میں کیوں نہ اس گاؤں کے لوگوں کو تیار کروں کہ وہ ان لوگوں کا مقابلہ کریں تا ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ فساد کر کے پاکستان کو نقصان پہنچا ئیں چنانچہ میں نے ان لوگوں میں کھڑے ہو کر یہ تقریر شروع کی کہ دیکھو کہ کچھ لوگ آرہے ہیں ان کی نیت یہ ہے کہ ایک پاکستان سے تعلق رکھنے والے کشمیری حلقہ میں فساد پیدا کریں اور یہ ملک کی غداری ہے ہمیں چاہئے کہ پیشتر اس کے کہ یہ ایسا کر سکیں ان کا مقابلہ کریں چنانچہ میری ان باتوں کا نوجوانوں پر اثر ہوا اور وہ تیار ہو گئے کہ ہم ان کا مقابلہ کرتے ہیں مگر اسی دوران میں گاؤں کے کچھ بڑھے ان لوگوں سے جاملے اور انہوں نے ان کو مذہب کی بناء پر برانگیخته کر دیا چنانچہ انہوں نے وہاں سے واپس آکر نوجوانوں کو کہنا شروع کر دیا.یہ تو مرزائی ہیں کیا تم نے ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہو اور میں نے دیکھا کہ وہ نوجوان پہلے اس بات پر آمادہ تھے کہ ان کو روکیں اور پیشتر اس کے کہ وہ فساد پر آماد ہوں ان کو شکست دے دیں وہ پھسل گئے اور انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ہم مرزائیوں کے ساتھ مل کر کس طرح کام کر سکتے ہیں تب میں جوش کے ساتھ ان میں تقریر کرنے لگا کہ دیکھو یہ مرزائیت اور احمدیت کا سوال نہیں.یہ سوال تو تمہارے ملک کا ہے میں تمہیں اس وقت احمدیت کی تبلیغ نہیں کر رہا.میں تو یہ کہتا ہوں کہ ان لوگوں کے افعال کا نتیجہ تمہارے ملک کے لئے نقصان دہ ہو گا اگر میرا یہ
484 خیال ٹھیک ہے تو تم کو اپنے ملک کی محبت کی خاطر ان کا مقابلہ کرنا چاہئے اور ان کو اس فتنہ سے روکنا چاہئے لیکن میں نے دیکھا کہ میری ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا.وہ بڑھے برابر یہی کہتے چلے گئے کہ یہ مرزائی ہے اور مرزائی کے ساتھ ہمارا ملاپ نہیں ہو سکتا اور نوجوان جوش میں آگئے جب میں نے محسوس کیا کہ اب یہ لوگ جوش میں آگئے ہیں اور مجھ پر حملہ کریں گے تو میں نے نہر میں چھلانگ لگادی اور میں نے چاہا کہ نہر پار کر کے وہاں سے چلا جاؤں لیکن میرے نہر میں چھلانگ لگاتے ہی پیچھے سے گاؤں کے کچھ لوگوں نے بھی چھلانگیں لگا دیں تاکہ مجھے پکڑیں چنانچہ ایک آدمی نے پیچھے سے آکر میری کمر میں اپنی بانہیں پیوست کر دیں.میں نے رویا میں محسوس کیا کہ وہ آدمی بہت مضبوط ہے اور میں کمزور ہوں میں اس سے چھٹ نہیں سکتا اس لئے مجھے کوئی تدبیر کرنی پڑے گی چنانچہ میں نے یہ سوچ کر کہ شاید اسے ایسا تیرنا نہیں آتا فور آپشت کے بل ہو کر تیرنا شروع کیا اور خیال کیا کہ اس طرح اس کا ناک پانی میں چلا جائے گا اور وہ ڈوبنے لگے گا اور مجھے چھوڑ دے گا کچھ دیر تک اس طرح تیرتے تیرتے میں نے یکدم پیر زمین پر لگائے اور زور سے اپنے بدن کو جنبش دی جس کے نتیجہ میں اس شخص کے ہاتھ چھٹ گئے میں نے جب مڑ کر دیکھا کہ اب اس کا کیا حال ہے تو میں نے دیکھا کہ وہ شخص کوئی آٹھ دس فٹ کے فاصلہ پر کھڑا ہے اور میرے ایسا کرنے سے اس کو کچھ صدمہ تو پہنچا ہے لیکن وہ ہے تندرست اور زندہ.تب میں نے سمجھا کہ یہ شخص بھی تیراک تھا اور اس نے ہوشیاری کے ساتھ اپنے سر کو پانی سے اونچا کئے رکھا جس کی وجہ سے یہ ڈوبنے سے بچ گیا ہے اتنے میں میں نے دیکھا کہ اس کے دو تین ساتھی اور بھی پہنچ گئے اور مجھے انہوں نے گھیر لیا لیکن وہ میرے زیادہ قریب نہیں آتے تین چار گز کے فاصلے پر رہتے ہیں.میں نے نہر کے کنارے کے پاس پاس کبھی ادھر اور کبھی ادھر چلنا شروع کیا تاکہ کسی وقت میں ان کے حلقہ سے باہر نکل جاؤں اور اس طرح ان سے بچ جاؤں لیکن جب میں نہر کے اوپر کی طرف جاتا ہوں تو وہ بھی ساتھ ساتھ اوپر کی طرف چلتے ہیں اور جب میں نیچے کی طرف جاتا ہوں تو ہ وہ بھی میرے ساتھ ساتھ نیچے کی طرف چلتے ہیں اور میں نے دیکھا کہ میں ان کے حلقہ سے باہر نہیں نکل سکتا جب میں اس طرح ان کے حلقہ سے باہر نکلنے سے مایوس ہو گیا تو میں نے سوچا کہ اب دلیری کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنا چاہئے چنانچہ میں نے اپنے سینہ کو نگا کیا اور چھاتی تان کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا اور یہ کہنا شروع کیا کہ
485 میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جو اپنے ملک سے غداری کرنے لگے تھے اور اس کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے اور میں نے تم لوگوں کو بتایا کہ تمہارے لئے موقع ہے کہ تم ملک کو نقصان سے بچالو اور پیشتر اس کے کہ وہ ملک سے غداری کریں تم ان کا مقابلہ کرو لیکن تمہارے بڑے لوگوں نے تمہیں یوں ورغلا دیا کہ یہ مرزائی ہے اور ان کو مارنا گویا عین ثواب ہے حالانکہ مرزائی اور احمدی ہونے کے صرف یہی معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک آواز آئی اور ہم نے اس کو قبول کر لیا.اگر خداتعالی کی آواز کو قبول کرنا انسان کو واجب القتل بناتا ہے تو لو میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں میری چھاتی تنگی ہے تم مجھ پر حملہ کرو اور مجھے مار ڈالو.پھر میں نے بڑے جوش سے کہا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص شوق رکھتا ہے کہ اس شخص کو قتل کرے جس نے خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہا تو اس کے لئے آج بہت اچھا موقع ہے میں موجود ہوں وہ اپنی اس خواہش کو پورا کر لے.مگر جب میں نے یہ باتیں بڑے جوش سے کیں تو بجائے اس کے کہ وہ لوگ مجھ پر حملہ کرتے ان کے چہرہ سے ڈر اور خوف کے آثار ٹپکنے لگے اور انہوں نے پانی میں پیچھے کی طرف ہٹنا شروع کیا گویا میں ان پر حملہ کر رہا ہوں اور وہ بھاگ رہے ہیں.میں بھی ان کی طرف بڑھتا چلا گیا اور بار بار میں نے اوپر والی باتیں دہرانی شروع کیں اور ہر دفعہ ان کا خوف بڑھتا ہی چلا گیا اور وہ پیچھے ہٹتے چلے گئے یہاں تک کہ وہ ساری نہر گذر کر خشکی پر چلے گئے اور گاؤں تک پہنچ گئے.میں نہر کے کنارے کھڑا ہوا یہی باتیں بار بار دہراتا چلا جاتا ہوں.اس وقت مجھے خیال آیا کہ اب ان لوگوں کے دل میں خدا تعالیٰ کی خشیت پیدا ہو گئی ہے اگر میں پھر ان کو پہلی بات کی طرف بلاؤں تو یہ لوگ میری بات کو مان لیں گے.تب میں نے پھر ان سے کہنا شروع کیا کہ اے لوگو کچھ لوگ تمہارے ملک سے دشمنی کرنا چاہتے ہیں.میں نے تم کو وقت پر ہوشیار کیا اور تم کو بتایا کہ اگر تم چاہو تو پیشتر اس کے کہ وہ تمہارے ملک کو نقصان پہنچائیں تم ان کے شر کا ازالہ کر سکتے ہو مگر بجائے اس کے کہ تم میری بات سے فائدہ اٹھاتے تم نے مرزائیت اور احمدیت کا سوال اٹھا دیا اور یہ نہ سمجھے کہ اس معالمہ میں مرزائیت اور احمدیت کا کیا تعلق ہے.تمہارے اپنے ملک کی زندگی اور موت کا سوال ہے.اب بھی میں تمہیں کہتا ہوں کہ میرا قصور سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ خدا تعالیٰ نے ایک آواز بلند کی اور میں نے اس کو سن کر قبول کر لیا یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کی وجہ سے تم خود اپنے ملک سے دشمنی کرنے
486 لگو لیکن فرض کرو کہ میں ایسا ہی برا ہوں تب بھی وہ بات جو میں نے تمہیں کسی ہے وہ تمہارے ملک کے فائدہ کی ہے اگر وہ بات تمہاری سمجھ میں آتی ہے تو اس پر عمل کرو اب میں پھر تم کو بلاتا ہوں تم آؤ اور میرے ساتھ مل کر اس فتنہ کا ازالہ کرو.میں نے اپنے دل میں سمجھا تھا کہ جو خوف اور ڈر ان لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوا ہے اس کی وجہ سے پھر نوجوان میرے ساتھ مل جائیں گے مگر میں نے دیکھا کہ وہ ڈرتے تو تھے مگر میرے ساتھ ملنے کے لئے بھی تیار نہیں تھے ان میں سے صرف دو تین نوجوان آئے اور ان کو لے کر میں نہر کے پار گزر گیا اور ان کو اس سڑک کی طرف لے گیا جدھر سے وہ لوگ جن کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں گزرے تھے اور جس طرف میں سمجھتا ہوں کہ میرا گھر واقع ہے اس وقت کچھ سایہ سا ہے جیسے شام کا سایہ ہو جاتا ہے یا بادلوں کا سایہ ہو تا ہے میں ان نوجوانوں کو لے کر گھر کی طرف سڑک پر تیز قدم چلا جاتا ہوں اور ساتھ ساتھ کہتا جاتا ہوں کہ یہ خیال نہ کرنا کہ چونکہ تم نے صداقت قبول کرلی ہے اس لئے تمہارے لئے کوئی بڑی دولتوں اور حکومتوں کے دروازے کھل جائیں گے.میں تم سے کسی دولت یا کسی حکومت کا وعدہ نہیں کرتا.میں تو صرف یہ بتا سکتا ہوں کہ صداقت کے قبول کرنے کی وجہ سے تم کو ماریں بھی پڑیں گی تم کو گالیاں بھی سنی پڑیں گی تم کو تکلیفیں بھی برداشت کرنی پڑیں گی اور یہی وہ چیز ہے جس کے لئے میں تم کو بلاتا ہوں لیکن دنیوی مال اور دولت کے لئے تم کو نہیں بلاتا اور مومن کے لئے یہی بڑی راحت کی چیز ہوتی ہے کہ وہ خدا کے لئے دکھ اور تکلیف اٹھاتا ہے.اس سے بڑھ کر وہ کسی اور چیز میں اپنی کامیابی نہیں سمجھتا وہ نوجوان میرے دائیں بائیں دوڑتے چلے جاتے ہیں.انہوں نے کچھ کہا نہیں مگر میرا ساتھ نہیں چھوڑا اتنے میں میری آنکھ کھل گئی.الفضل 30.اکتوبر 1951ء صفحہ 4-3 528 13.ستمبر 1951ء فرمایا : رات کو میں نے ایک رؤیا دیکھا.میں نے دیکھا کہ میں کہیں سے آرہا ہوں وہ بازار ہے یا گلی ہے جہاں کہیں جا رہا ہوں.میں نے اس کے پہلو میں ایک مکان دیکھا جہاں میں جانا چاہتا ہوں معین صورت میں مجھے یاد نہیں کہ میں اس مکان میں کیوں جانا چاہتا ہوں اس مکان کا جو
487 دروازہ ہے وہ گلی یا بازار میں ذرا اونچا کر کے لگایا گیا ہے وہ قریباً تین فٹ کے قریب بازار یا گلی سے اونچا ہے.خواب میں مجھے یہ احساس ہے کہ میرے گھٹنے میں تکلیف ہو رہی ہے میں نے سہارا لے کر پتھر پر پاؤں رکھا ہے آگے ایک کھلا میدان ہے اس کھلے میدان میں میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے ہیں (آپ کی زیارت ایک عرصہ کے بعد اس خواب کے ذریعہ ہوئی) آپ نے داڑھی پر خضاب لگایا ہوا ہے وہی خضاب جو آپ سے منقول ہے اور میں بھی وہی لگا تا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس میں مہندی ذرا زیادہ ملایا کرتے تھے لیکن میں ذرا کم مہندی ملاتا ہوں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بالوں پر ذرا سرخی رہ جاتی ہے ایسی سرخی جیسے وفات کے قریب جب آپ خضاب لگاتے تھے تو بالوں پر دکھائی دیتی تھی.آپ کا چہرہ روشن تھا.آپ پگڑی پہنے ہوئے تھے میں نے السلام علیکم کہا آپ نے جواب دیا اور و علیکم السلام فرمایا مجھے خیال آیا کہ ذرا آگے جاؤں وہاں اور لوگ بھی بیٹھے ہیں.میں ایک دو قدم ہی آگے چلا تھا کہ میں نے دیکھا وہاں لوہے کا ایک پلنگ رکھا ہوا ہے یہ پلنگ اسی طرف پڑا ہے جس طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چار پائی پر بیٹھے ہوئے ہیں.یہ پلنگ عام پلنگوں سے اونچا ہے اور چوڑا بھی ہے اور تار کے ساتھ بنا ہوا ہے اس پلنگ پر میاں جان محمد صاحب جو قادیان کے رہنے والے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کا کام کرنے والے حجام خاندان میں سے ہیں اور قادیان میں پوسٹ مینی کا کام کرتے ہیں تشہد کی حالت میں نماز پڑھ رہے ہیں ان کے بیٹے تجارت کا کام کرتے ہیں اور ان کے بھتیجے میاں محمد عبد اللہ صاحب ربوہ میں حجام کا کام کرتے ہیں) باوجود اس کے کہ میاں جان محمد صاحب تشہد کی حالت میں نماز پڑھ رہے ہیں مجھے خیال آتا ہے کہ وہ بیمار ہیں اس لئے بیٹھ کر نماز پڑھ رہے ہیں.میرے پاس سے گزرتے ہوئے انہوں نے سلام پھیرا اور میں آگے چلا گیا میرا خیال ہے کہ میں آگے جس جگہ جانا چاہتا ہوں وہ کچھ فاصلہ پر ہے.وہ فاصلہ میلوں کا نہیں وہ فاصلہ فرلانگوں کا نہیں بلکہ یہی ہیں تمیں گز کا ہے میں آگے چلا تو میں نے دیکھا کہ پاس ہی ایک کھلی جگہ ہے اور اس میں کرسیاں رکھی ہوئی ہیں ان کرسیوں پر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ملنے کے لئے آئے ہیں.میرے ذہن میں آتا ہے
488 کہ میں اس جگہ کی طرف آرہا تھا ان میں ایک نوجوان بھی ہے جس کی داڑھی منڈی ہوئی ہے یا اس کی داڑھی ابھی نکلی ہی نہیں لیکن اس کی شکل ایسی ہے جیسے غیر احمدی نوجوانوں یا کمزور احمدیوں کی ہوتی ہے.اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی جو تا پہن کر میرے پیچھے چل پڑے ہیں جب آپ میرے قریب آئے تو آپ نے زور سے کچھ الفاظ دہرانے شروع کئے جو اس قسم کے تھے کیا کا ہو مل گیا.بتھوا مل گیا.اور ایک تیسری چیز کا نام بھی لیا جو یاد نہیں رہا.آپ کے ان الفاظ کے جواب میں اس داڑھی منڈے شخص نے جسے اب میں کوئی طبیب خیال کرتا ہوں کہا کہ کا ہو مل گیا اور ایک اور چیز کے بارہ میں کہا کہ وہ مل گئی ہے اور تیسری شئے کے متعلق کہا اس کی تلاش ہے.مجھے کا ہو اور بتھوا کا نام یا د رہا ہے.تیسری چیز میں بھول گیا ہوں شاید وہ کاسنی ہے یا کوئی اور چیز مجھے اب یاد نہیں.مجھے چونکہ اس وقت بہت ہی خوشی تھی کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا ہے اس لئے اس خوشی سے آنکھ کھل گئی اور خواب پوری طرح یاد نہ رہا کہ گو خواب ایسا تھا کہ اب بھی میں اس خواب کو بیان کر رہا ہوں آپ کی شکل میرے سامنے پھر رہی ہے کچھ دیر کے بعد میری آنکھ پھر لگ گئی اور میں نے ایک اور رویا دیکھا.ایسا معلوم ہوتا ہے ہم ایک ایسے ہی گھر میں رہتے ہیں جس قسم کے گھر میں آج کل رہتا ہوں لیکن وہ ذرا کھلا ہے اور خاندان کے کچھ لوگ وہاں جمع ہیں.وہاں ایک عورت ہے جس کی گود میں ایک بچہ ہے اس بچہ کو دیکھتے ہی محسوس کرتا ہوں کہ وہ مولود احمد ہے جو میری لڑکی امتہ احکیم اور سید داؤد مظفر احمد کا لڑکا ہے وہ اس عورت کی گود میں بیٹھا ہے.میں نے اس بچہ کو دیکھا اور کہا مولود احمد ہے پھر میں نے کہا کیا اس کی ماں بھی آئی ہے اس عورت نے کہا نہیں.اس کے معا بعد نظارہ بدلا اور میں نے محسوس کیا کہ مولو د احمد بڑی عمر کا ہے اور وہ اس عورت کی گود سے اتر گیا ہے اور دوڑتا ہوا میرے سامنے سے گزر رہا ہے.یہ دونوں نظارے میں نے دیکھے اس وقت ان کی تعبیر میرے ذہن میں نہیں آئی.صبح اٹھ کر میں نے اتنا سمجھا کہ کا ہو کھانسی نزلہ اور سوزش گلو کے علاج میں استعمال ہوتا ہے اور بتھوا بھی کھانسی اور حدت معدہ وغیرہ کے کام آتا ہے.تیسری چیز بھی غالبا ایسی قسم کی ہوگی.اس حصہ کے متعلق صبح میرا ذہن اس طرف گیا کہ شاید جس طرح کی کھانسی کے دورے پچھلے سال مجھے
489 ہوئے تھے اس قسم کے دورے پھر مجھے ہوں ہاں ایک بات میں بھول گیا گذشتہ سال جب میں کھانسی سے بیمار ہوا کراچی اور لاہور کے ڈاکٹر میرا علاج کرتے رہے لیکن کوئی خاص فائدہ نہ ہوا لیکن ایک ایسی دیسی نسخہ کے استعمال سے مجھے کافی فائدہ ہوا تھا.خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھانسی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ کو وہ نسخہ بتاؤں لیکن ابھی میں یہ بات کہنے نہ پایا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی.صبح خیال آیا کہ شاید یہ نسخہ بھی کھانسی نزلہ اور سوزش گلو کے لئے بتایا گیا ہے لیکن زیادہ خیال یہ ہے کہ اس خواب کا تعلق جماعت سے ہے.جب یہ دیکھا جائے کہ امام کو کچھ تکلیف ہے تو اس کی تعبیر یہ ہوا کرتی ہے کہ اس کے توابع کمزور ہیں.کھانسی ورم اور گلے کی سوزش کا تعلق بولنے سے ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ جماعت میں بولنے کی عادت زیادہ ہو گئی ہے جس سے کھانسی ورم اور سوزش گلو پیدا ہوتی ہے اور عمل کی عادت کم ہو گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کا علاج کا ہو ، بتھوا اور ایک اور چیز جس کا نام بھی بھول گیا ہوں بتایا ہے.مطلب اس کا یہ ہے کہ کوئی ایسا علاج کیا جائے کہ جس سے سوزش گلو بلغم اور کھانسی دور ہو اور ایک قسم کی گرمی مفید ہوتی ہے انسان محنت کرتا ہے اور اس میں تیزی اور گرمی پیدا ہوتی ہے یہ گرمی اور تیزی مفید ہے لیکن ایک قسم کی گرمی بیکار ہوتی ہے اس سے بلغم پیدا ہوتی ہے اور انسان تکلیف اٹھاتا ہے.کھانسی والی گرمی کے یہ معنے ہیں کہ طبائع میں ایک جوش پیدا ہو گیا ہے جس کے صحیح استعمال نہ کرنے کی وجہ سے ایک بیکار قسم کی گرمی اور سوزش پیدا ہو گئی ہے یعنی محض باتیں اور بڑے بڑے دعوے کرنے بلا وجہ فخر کرنے اور یہ کہنے کی کہ ہم یوں کر دیں گے ہم ووں کر دیں گے کی عادت پیدا ہو گئی ہے جس کے نتیجہ میں بعض روحانی امراض مثلاً بلغم کا آنا، سوزش گلو کھانسی اور نزلہ پیدا ہو گئی ہیں.خواب میں یہ نظارہ دکھا کر خدا تعالیٰ اس طرح توجہ دلاتا ہے کہ یہ عادت دور ہونی چاہئے اور عمل کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے.میری طبیعت پر یہی اثر ہوتا رہتا ہے اور اس نظارہ کے دیکھنے کے بعد وہ اثر زیادہ نمایاں ہو گیا ہے کہ جماعت میں بولنے کی عادت زیادہ ہو گئی ہے اور عمل کی طرف توجہ بہت کم ہے.الفضل 7.اکتو بر1951ء صفحہ 4 -3
490 529 غالبا ستمبر 1951ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں قادیان زیارت کے لئے گیا ہوں اور پھر وہاں سے واپس آرہا ہوں.میں نے دیکھا کہ جس ریل میں چڑھنے کا ارادہ تھا وہ قبل از وقت چُھٹ گئی ہے جیسے کسی نے شرارتا چلا دی ہے تاکہ مجھے تکلیف پہنچے لیکن ایک موڑ کے بعد میں نے دیکھا کہ ریل پھر کھڑی ہو گئی ہے گویا کوئی حادثہ ایسا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے وہ چل نہیں سکی اور میں نے سمجھا کہ شاید میں اسے اب پکڑلوں گا اس وقت میں نے دیکھا کہ لالہ ملاوامل قادیان والے میرے ساتھ ہیں اور ایک دو اور آدمی بھی تیرے ساتھ ہیں اس وقت میرا خیال ہے کہ یہ ریل بھا مڑی یا بھا مڑے کی طرف جا رہی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بمبئی کے پاس کوئی جگہ ہے لیکن لالہ ملا وامل صاحب مجھے کہتے ہیں کہ یہ قادیان کے پاس ہی ہے ( قادیان کے پاس ایک گاؤں بھا مڑی ہے مگر ادھر ریل نہیں جاتی ) میں خیال کرتا ہوں کہ شاید ان کو غلطی لگ رہی ہے یہ نام کی مشارکت کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ گاڑی وہاں جا رہی ہے حالانکہ یہ گاڑی بمبئی کی طرف جارہی ہے.انہی باتوں میں میری آنکھ کھل گئی.اس کے بعد اطلاع آئی کہ لالہ ملاوائل صاحب فوت ہو گئے ہیں ممکن ہے یہ ریل کا چھٹنا اس طرف اشارہ کرتا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لمبی صحبت اٹھانے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام میں داخل ہونے کا موقع نہیں دیا اور وہ فوت ہو گئے موڑ پر ریل کا جاکر کھڑا ہو جانا اور میرا اسے دیکھ لینا اور سمجھ لینا کہ میں اس میں بیٹھ جاؤں گا یہ بھی اوپر ہی کی تعبیر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بہر حال لالہ ملا وامل صاحب کا تعلق سلسلہ سے ہمیشہ ہی اخلاص کا رہا ہے اور گذشتہ فساد کے موقع پر وہ اپنی اولاد کو نصیحت کرتے رہے کہ احمدیوں کو دکھ دینے میں کبھی حصہ نہ لیتا کیونکہ میں نے مرزا صاحب کے ساتھ اپنی عمر گزاری ہے جو راست باز انسان تھا اور ان کی خواہیں کبھی جھوٹی نہیں ہوتیں.اس لئے ہماری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان سے نرمی اور عفو کا معالمہ کرے.الفضل 30 اکتوبر 1951ء صفحہ 45
491 530 14/13.اکتوبر 1951ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ ہمارا سالانہ جلسہ ہے اور گویا وہ جلسہ قادیان میں ہی ہے جلسہ کے بعد میں چند دوستوں کی دعوت کرنا چاہتا ہوں میں نے انہیں کہلا بھیجا کہ وہ کھانا میرے ساتھ کھائیں.ان میں سے ایک ذوالفقار علی خان صاحب اور ایک حیدرآباد کے کوئی صاحب ہیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ وکیل ہیں اور نئے احمدی ہوئے ہیں اور کوئی شخص کہتا ہے کہ حیدر آباد کے وکیلوں میں سے نواب اکبر یار جنگ بہادر کے بعد یہ قابل وکیل سمجھے جاتے ہیں.میں ان کی استمالت قلب کے لئے چاہتا ہوں کہ ان کی دعوت کروں اسی طرح کوئی تیسرے شخص ہیں اور وہ بھی باہر سے آئے ہوئے مہمان ہیں ان کا نام بھول گیا ہوں.میں نے تینوں کو کہلا بھیجا کہ کھانا میرے ساتھ کھائیں اور پھر میں اس کمرہ میں گیا ہوں جس میں انہوں نے میرے ساتھ کھانا کھانا ہے اور میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ تمام کمرہ مہمانوں سے بھرا ہوا ہے.ان لوگوں میں کوئی شخص کہتا ہے کہ ہم نے سنا تھا کہ آپ نے چند آدمیوں کی دعوت کی ہے ہم نے چاہا کہ ہم بھی شامل ہو جائیں اور تبرک کے طور پر کچھ کھالیں میں خواب میں حیران ہو تا ہوں کہ میں نے تو تین آدمیوں کی دعوت کی تھی اور یہاں بیسیوں آدمی جمع ہو گئے ہیں.تین چار آدمی کا کھانا ان سب کے لئے کس طرح کافی ہو گا ان کے لئے تو بیشک تبرک ہو جائے گا مگر جن کی دعوت کی گئی ہے ان کا پیٹ تو خالی رہے گا.میں حیرت ہی میں تھا کہ کھانا آگیا اور دستر خوان بچھایا گیا اس وقت وہ دوست جو حیدر آباد کے ہیں اور جن کو میں نواحمد ی اور کامیاب وکیل سمجھتا ہوں انہوں نے کھانے میں ہاتھ ڈال دیئے اور میری طرف دیکھ کر کہا کہ کھانا شروع کیا جائے اور ان کے چہرہ پر اس قسم کی مسرت اور خوشی کا اثر پایا جاتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اس عجیب حالت سے مزہ اٹھا رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب یہ دعوت اگر چه صرف تبرک بن گئی ہے مگر اس حالت پر ناراضگی یا غصہ ظاہر نہیں کرنا چاہئے بلکہ خوشی پر سے اسے قبول کرنا چاہئے چنانچہ میں نے بھی ہاتھ ڈالا اور شاید ایک دو لقمے کھائے اور باقی سب دوستوں نے بھی اسی طرح ایک ایک دو دو لقھے کھائے لیکن میں نے یہ دیکھا کہ اس کے بعد کچھ ایسی تسکین محسوس ہوئی کہ یہ معلوم نہیں ہوا کہ ہم نے کھانا کھایا اور صرف ایک ایک دو دو لقمے
492 چکھے ہیں بلکہ یوں محسوس ہوا جیسے پیٹ میں سیری کی کیفیت معلوم ہوتی ہے.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.شاید اللہ تعالیٰ حیدرآباد کے بعض اور لوگوں کو بھی ہدایت بخش دے اور اس طرح حیدر آباد کی تباہی کی جو حالت ہے وہ ترقی میں بدل جائے اور احمدیت وہاں پھیل جائے.الفضل 30.اکتوبر 5.1951 15/14.اکتوبر 1951ء 531 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں اور میرے گھر کے کچھ لوگ اس طرح سیر کے لئے جا رہے ہیں جس طرح بادشاہی عمارتوں کی سیر کے لئے لوگ جایا کرتے ہیں تھوڑے سے فاصلہ پر ایک بڑی بارہ دری نظر آئی پھر ایک باغ نظر آیا پھر ایک جھیل نظر آئی اور اس جھیل کے بعد پھر ایک بارہ دری نظر آئی.ہم پہلی بارہ دری میں سے گزر رہے تھے کہ میں تیز قدم چل کر جھیل کے کنارے کی سڑک پر چلا گیا اور میں نے اس پر چلنا شروع کیا میرے پہلو میں میری لڑکی امتہ الجمیل سلمها اللہ تعالیٰ جارہی ہیں جو ہمار ا سب سے چھوٹا بچہ ہے اور ام طاہر مرحومہ کی لڑکی ہے اس کی عمر تو کوئی تیرہ سال کی ہے مگر قد و قامت اس کا بہت بڑا ہے لیکن بہر حال انسان کی حرکتیں عمر کے مطابق ہوتی ہیں چنانچہ میرے پہلو میں چلتے چلتے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ میرے ساتھ کھیلنا چاہتی ہے جیسے بچے کھیلتے ہیں چنانچہ اس نے اپنا وہ پیر جو میری طرف ہے اس کو لمبا کرکے میرے دونوں پاؤں کے پیچھے کر دیا اور اوپر سے میرے کندھے کو کندھا مارا.یہ ایک مشہور پہلوانی داؤ ہے جس سے آدمی تھوڑی سی ٹکر سے بھی گر جاتا ہے اس نے اپنے بچپن میں یہی سمجھا کہ یہ ذرا لڑکھڑائیں گے اور میں ہنسوں گی لیکن میں چونکہ بالکل بے دھیان تھا اس کے کندھا مارتے ہی میں جھیل میں گر گیا اور بجائے اس کے کہ پھر دوبارہ سڑک کی طرف آؤں میں نے تیرنا شروع کر دیا اور مقابل کی طرف چلا گیا وہاں جھیل کے اندر ایک درخت ہے اور اس کے ساتھ کچھ اونچی زمین ہے.میں اس کے اوپر جا کر کھڑا ہو گیا وہاں سے تھوڑے سے فاصلہ پر وہ دوسری بارہ دری کی طرف چلا گیا اور پھر بارہ دری سے گزر کر اسی سڑک پر آ گیا جہاں ہم پہلے چلے جا رہے تھے امتہ الجمیل سلمہا اللہ تعالیٰ کہیں آگے گزر گئی ہے چنانچہ میں پھر واپس پہلی بارہ دری
493 کی طرف لوٹا اور میں نے وہاں اپنی لڑکی امتہ النصیر بیگم سلمها اللہ تعالیٰ (جو سارہ بیگم مرحومہ کی لڑکی ہے) کی آواز سنی.وہ بارہ دری کے آگے کھڑی ہے اور اس کے سامنے ایک بڑا اونچا سا درخت ہے جیسے پرانے زمانے میں بارہ دریوں کے آگے باغیچہ ہوا کرتا تھا امتہ النصیر بیگم سلمها اللہ تعالیٰ اس درخت کی طرف اشارہ کر کے کہتی ہیں کہ یہاں ایک چیز رسی کی طرح لپٹی ہوئی تھی.میں نے اسے رسی سمجھ کر ہاتھ مارا مگر وہ سانپ نکلا لیکن میرے اس طرح ہاتھ مارنے سے ہی وہ مر گیا میں دل میں خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے فضل کر دیا کہ ایک معمولی چوٹ سے ہی سانپ مرگیا اور اسی پر میری آنکھ کھل گئی.یہ کچھ ایسا ہی نظارہ تھا جیسے حضرت آدم کا واقعہ آتا ہے وہاں بھی درخت کے نیچے سانپ یعنی شیطان تھا مگر خواب بظاہر انجام کے لحاظ سے مبشر ہے کیونکہ اس میں یہی دکھایا گیا ہے کہ ہاتھ مارنے سے سانپ مرگیا اسی طرح سے میرے متعلق بھی بتایا گیا ہے کہ میں تیر کر اس جھیل کو پار کر گیا ہوں اور مجھے کسی قسم کا گزند نہیں پہنچا.الفضل 30.اکتوبر1951ء صفحہ 5 15.اکتوبر 1951ء 532 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں گویا کسی پہاڑ پر ہوں اور وہاں مولوی ظفر علی صاحب اور مولوی اختر علی صاحب بھی ہیں انہوں نے بھی وہاں پر کوئی مکان کرایہ پر لیا ہوا ہے اور مولوی اختر علی صاحب نے میری دعوت کی ہے کچھ اور لوگوں کی بھی انہوں نے دعوت کی ہے میں حیران ہو تا ہوں کہ ایسے شدید دشمن کا دعوت کرنا کیا معنے رکھتا ہے مگر میں نے دعوت قبول کرلی اور ان کے گھر پر چلا گیا وہاں میں نے دیکھا کہ ایک کرسی پر مولوی ظفر علی صاحب بیٹھے ہیں لیکن کمزور معلوم ہوتے ہیں اور بڑھاپے کے شدید آثار ان پر ظاہر ہیں.دونوں باپ بیٹا مجھ سے ملے اور پھر انہوں نے مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ ہمار امکان چھوٹا ہے اگر آپ کہیں تو آپ کی کو ٹھی میں ہی دعوت ہو جائے.میں نے خوشی سے اس کو منظور کر لیا چنانچہ میں بھی اور دوسرے مہمان بھی اور مولوی ظفر علی صاحب بھی اور مولوی اختر علی صاب بھی ہماری کو ٹھی پر آگئے وہاں ایک بڑا کمرہ ہے اس میں سارے بیٹھ گئے کہ یہیں کھانا کھایا جائے گا اس کے بعد میں نہیں کہہ سکتا کہ میری آنکھ کھل گئی یا بعد کا نظارہ مجھے یاد نہیں رہا بہر حال خواب اس حد تک یاد ہے.
494 مولوی ظفر علی صاحب نے جماعت کی بڑی لمبی مخالفت کی ہے گو کبھی کبھی جماعت کے کاموں سے متاثر ہو کر اس کی تعریف بھی کی ہے بہر حال ان کے والد سلسلہ کے بڑے مداح اور حضرت صاحب کے بڑے عقیدت مند تھے.اس کی وجہ سے ان کی مخالفت کے باوجود بھی ہمارے دل میں ہمیشہ یہی خیال رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور وہ اپنا رویہ بدلیں ان کی مخالفت کے ساتھ کبھی بھی طبیعت میں کمی انقطاع ان سے پیدا نہیں ہوا بوجہ ان کے والد مرحوم کے تعلق کے اور بوجہ اس کے کہ کبھی کبھی ان پر بھی یہ دور آتا ہے کہ وہ صداقت کا اظہار کرنے سے رکے نہیں اور جماعت کے اچھے کاموں کی انہوں نے تعریف کی ہے پس ممکن ہے ہماری ان خواہشات کے نتیجہ میں کسی وقت اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کے بیٹے کو میانہ روی کی توفیق دے دے اور وہ اپنے اس طریقہ کو جو متانت کے بھی خلاف ہے اور اسلامی تعلیم کے بھی خلاف ہے ترک کر کے صلح کی طرف ہاتھ بڑھائیں یا کم سے کم ایسا ہو کہ جہاں ہمارے عیب ان کو نظر آتے ہیں وہاں ہماری خوبیاں بھی ان کو نظر آنے لگیں اور وہ ہماری مخالفت میں حد سے گزرنے کی بجائے میانہ روی کو اختیار کریں.الفضل 30.اکتو برا 195 ء صفحہ 5 16.اکتوبر 1951ء 533 فرمایا : نواب زادہ لیاقت علی خان صاحب کے واقعہ والی رات ہی (یعنی 16 اکتوبر کو) میں نے رویا میں دیکھا کہ میں پشاور گیا ہوں اور وہاں جماعت کے لوگ میرے ساتھ ہیں اور کسی بڑی دعوت یا جلسہ کا انتظام کر رہے ہیں اور وہ مجھے یا جلسہ گاہ دکھانے کے لئے یا شہر دکھانے کے لئے شہر میں پھر رہے ہیں چنانچہ بعض بازار جو منڈی کے طور پر نظر آتے ہیں میں نے دیکھے مثلاً میں نے دیکھا کہ ترکاری اور پھلوں کے چوک کی طرح ایک جگہ ہے وہاں سے ہم گزرے مجھے خوب یاد ہے کہ جو لوگ میرے ساتھ بین ان میں قاضی محمد یوسف صاحب بھی ہیں ہم دور تک کئی بازاروں کو دیکھتے ہوئے گزرے ہیں آگے چل کر معلوم ہوا جیسے اب ہم اس جگہ کی طرف جانے لگے ہیں جہاں ہم نے ٹھرنا ہے.اس جگہ پر قاضی محمد یوسف صاحب اور بہت سے احباب ہم سے جدا ہو کر اپنے گھروں کی طرف چلے گئے اور صرف پانچ اصحاب میرے ساتھ رہ گئے گو شہر کے لوگوں کا رویہ بہت اچھا نظر آتا تھا اور کوئی مخالفت نظر نہیں آتی تھی.لیکن ان علاقوں کی عام
495 شہرت کی وجہ سے مجھ کو یہ برا محسوس ہوا کہ قاضی صاحب اور دوسرے دوست ہمیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں قیام کی جگہ تک چھوڑ کر ان لوگوں کو جانا چاہئے تھے مگر بہر حال میں باقی دوستوں کے ساتھ چل پڑا اور میں نے دیکھا کہ شہر کے لوگوں کا رویہ ہمارے ساتھ ہمدردانہ ہی تھا مخالفانہ نہیں تھا.چلتے چلتے ہم شہر کے شمال مغربی جانب کی طرف لوٹے وہاں مجھے یوں محسوس ہوا جیسے سڑک تنگ ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کے اوپر مورچے بنے ہوئے ہیں یکدم مجھے سامنے ایک مشین گن نظر آئی جس کے اوپر کوئی پاکستانی سپاہی کھڑا ہے اور اس کے بعد متواتر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مشین گنیں نظر آئیں جن پر پاکستانی سپاہی کھڑے ہیں جو میرے ساتھ احمدی ہیں انہوں نے دوڑ کر معلوم کیا کہ کیا بات ہے اور واپس آکر مجھے بتلایا کہ کسی افغان یا سرحدی علاقہ کی طرف پاکستانی علاقہ کے اوپر توپ چلائی گئی ہے اور دشمن مورچے بنا کر کھڑا ہو گیا ہے.اس کے جواب کے لئے پاکستانی فوجوں نے بھی مشین گنیں لگا دی ہیں اور مقابلہ کے لئے کھڑی ہو گئی ہیں.یہ لفظ بھی بتانے والے نے کہے کہ شاہ محمدی کہا یا شیخ محمدی کی جہت کی طرف سے گولے آئے ہیں مجھے اچھی طرح یاد نہیں رہا کہ اس نے شاہ محمدی یا شیخ محمدی کہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی گاؤں کا نام ہے یا علاقہ ہے یا اس نام کے کسی شخص کی جائیداد ہے.زیادہ تر تو مجھے شاہ محمد کا لفظ یاد پڑتا ہے لیکن ساتھ اس کے یہ بھی شبہ پڑتا ہے کہ میں نے اچھی طرح سنا نہیں شاید شیخ محمدی ہو.بہر حال لفظ یا شاہ محمدی تھا یا شیخ محمدی تھا اس وقت میری طبیعت پر یہ اثر پڑتا ہے کہ پاکستانی فوجیں نہایت چستی کے ساتھ اپنے فرائض ادا کر رہی ہیں اور کہ وہ منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار ہیں ایک دو گولوں کی آوازیں میں نے بھی سنیں لیکن طبیعت پر اثر یہی ہے کہ ہمارا پہلو غالب ہی رہے گا چنانچہ میں اس دیوار پر سے جو پناہ کے طور پر بنائی ہوئی ہے کود کر شہر کے اندر کے حصہ کی طرف چلا گیا اور میری آنکھ کھل گئی.یہ رؤیا مجھے اس وقت آئی جب کہ ابھی صرف اتنی خبر شائع ہوئی تھی کہ پرائم منسٹر صاحب شہید کر دیئے گئے ہیں اور ایک ہزارہ کا شخص ہے جس نے ان پر کوئی چلائی ہے.اس رؤیا سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ اس واقعہ میں افغانستان کے بعض لوگوں کا دخل تھا اور اس حملہ کو در حقیقت افغان بارڈر کی طرف سے توپ چلانے کا مترادف قرار دیا گیا ہے دوسرے دن اخباروں میں جو خبریں آئیں ان سے معلوم ہوا کہ
496 وہ شخص جس کو ہزارہ کا سمجھا گیا تھا اصل میں افغانستان کا تھا اور اس طرح چند گھنٹوں میں اس رویا کی تصدیق ہو گئی.الفضل 30.اکتو بر1951ء صفحہ 6-5 534 20 اکتوبر 1951ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ پر ہوں یہ ایک اچھا وسیع صحن یا میدان معلوم ہو تا ہے.میرے ساتھ چند ایک آدمی بھی ہیں.اس کے ایک کو نہ میں ایک مکان بنا ہوا ہے جو صرف سات آٹھ فٹ اونچا ہو گا اور شاید 7x7 فٹ چوڑا ہو گا مرغیوں کے ڈربے کی طرز کا ہے مگر مجھے ایک عام کمرہ معلوم ہوتا ہے جیسے غرباء کا کمرہ ہوتا ہے اس کی چھت پر تین یا چار آدمی کھڑے ہیں ایک لیڈر ہے اور باقی دو تین آدمی اس کے تابع معلوم ہوتے ہیں میرے ساتھ بھی دو تین آدمی ہیں وہ چھت پر کھڑے ہوئے آدمی مخالفین سے معلوم ہوتے ہیں اور ہم ان کو نیچے اتارنا چاہتے ہیں آخر وہ نیچے اتر آئے اس لیڈر کے جو ساتھی ہیں ان کے ساتھ تو شاید میرے ساتھی مقابلہ کرنے لگے ہیں نہ معلوم ان کے ساتھ کیا ہوا.مگر جو ان کا افسر ہے اس کو میں نے پکڑ لیا میں نے زور سے اپنے ہاتھ سے اس کے ماتھے کے بال پکڑ لئے اور اس کو زمین پر بٹھا دیا پھر اس کو کبھی گھسیٹتا ہوا ایک طرف لے جاتا ہوں اور کبھی گھسیٹتا ہوا دوسری طرف لے جاتا ہوں اور عجیب بات یہ ہے کہ میں اس کے ساتھ عربی میں اپنے خیالات ظاہر کرتا جاتا ہوں وہ الفاظ قریباً قریباً مجھے یاد رہ گئے ہیں تھوڑا بہت شاید فرق ہو اور وہ یہ ہیں إِنَّكَ كُنْتَ تَسْحَبُ مَوْلَوِى سَرْوَرُ شَاهُ وَ أَصَحَابَهُ وَ تَجُرُّهُمْ عَلَى الْأَرْضِ أَخِذًا بِنَاصِيَتِهِمْ وتُؤْذِيهِمْ بِأَنْوَاعِ الْعَذَابِ وَ تَزْعَمُ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ مَقْهُورِينَ مُذَلَّلِينَ فَيَا أَيُّهَا الْكَذَّابُ أَيْنَ نُبُوتُكَ الأن جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے میں بِنَاصِيَتِهِمْ کیا ہے عام قاعدہ کے مطابق نَوَاصِيَهُمْ کہنا چاہئے تھا لیکن بعض دفعہ بات پر زور دینے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ فرداً فرداً ہر شخص سے یہ معاملہ کیا جاتا تھا مفرد کو بھی جمع کی جگہ استعمال کر دیا جاتا ہے اور اس طرح اس کے معنے یہ بن جاتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کے ماتھے کے بال پکڑ کر تو ایسا کرتا تھا.اس عبارت کے معنے یہ ہیں کہ اے شخص تو مولوی سرور شاہ اور ان کے ساتھیوں میں سے ہر ایک ماتھے کے بال پکڑ کر گھسیٹا کرتا تھا اور ان کو زمین پر کھینچا کرتا تھا اور قسم قسم کی تکلیفیں دیگر
497 ان کو دکھ پہنچایا کرتا تھا اور تو یہ دعویٰ کیا کرتا تھا کہ وہ لوگ مغلوب ہو جائیں گے اور ان کی شوکت ٹوٹ جائے گی پس اے کذاب اب بتا کہ وہ تیری پیشگوئی کہاں گئی گویا آخر میں تو تجھ کو ذلت نصیب ہوئی اور تو ہی گھسیٹا گیا اور تو ہی کھینچا گیا اور تیرے ہی ماتھے کے بال پکڑے گئے.اس وقت میں نے دیکھا کہ جب میں گھسیٹتا ہوں تو آہستہ آہستہ اس کی ٹانگیں گھس کر مٹتی چلی جاتی ہیں اور صرف سرین تک اس کا جسم باقی رہ گیا ہے اور ایک گڑیا کی سی شکل ہو گئی ہے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.مولوی سرور شاہ صاحب کو تو فوت ہوئے چار سال ہو چکے ہیں مگر سرور کے معنی سردار کے ہوتے ہیں اس لئے بالکل ممکن ہے کہ اس رویا میں میری طرف اشارہ ہو کہ جماعت کا امام ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اشارہ اس سے پاکستان کے حکام کی طرف ہو جن کو بعض اندرونی و بیرونی دشمن ذلیل کرنا چاہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت کرے گا اور ان کو بچائے گا.یہ خیال مجھے زیادہ تر اس لئے آیا کہ مولوی سرور شاہ صاحب ہزارہ کے رہنے والے تھے اور نواب زادہ لیاقت علی خان صاحب کا قاتل بھی ان ایام میں ہزارہ میں بس گیا تھا اس کی مناسبت کی وجہ سے خیال آتا ہے کہ شاید اس میں اشارہ ان دشمنان پاکستان کی طرف ہو جو یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ پاکستان ذلیل ہو جائے اور قسم قسم کی خفیہ کارروائیاں کر کے اس کو کمزور کرنا چاہتے ہیں.الفضل 30.اکتوبر 1951ء صفحہ 6 21 اکتوبر 1951ء 535 فرمایا : میں نے آج (21.اکتوبر) کو رویا میں دیکھا کہ ایک پہاڑی رستہ پر سے میں گزر رہا ہوں اور کچھ اور لوگ بھی جو میرے ساتھی معلوم نہیں ہوتے ہیں مسافر معلوم ہوتے ہیں وہ بھی گزر رہے ہیں.میرے ساتھ اپنے بھی کچھ آدمی ہیں چلتے چلتے سڑک ایک اونچی چوٹی کے اوپر سے گزری اور پھر نیچے کی طرف جھکی اور پہلو کی طرف مڑگئی وہاں میں نے دیکھا کہ ایک ٹنل بنی ہوئی ہے اور لوگ اس ٹنل کے نیچے سے گزرتے ہیں لیکن وہ ٹنل بہت ہی بوسیدہ ہے.اس میں سے پانی ٹپکتا ہے اور اینٹیں گرتی ہیں میں اس کو دیکھ کر بہت گھبرایا اور میں نے کہا کہ میں تو اس ٹنل میں سے نہیں جاتا اور میں واپس لوٹا.تھوڑی دور واپس آنے کے بعد میں نے
498 دیکھا کہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب مجھے ملے اور وہ کہتے ہیں کہ ایک دو سرا رستہ بھی اس کے پہلو میں ہے میں ادھر سے لے چلتا ہوں ان کا اتنا کہنے کے ساتھ ہی ایک کشتی آگئی اور ہم کشتی میں بیٹھ گئے اور چوہدری صاحب ملاح کے طور پر کھڑے ہو گئے اور بانس انہوں نے ہاتھ میں پکڑ لیا.کشتی کے آنے سے پہلے اس جگہ ہمیں کوئی پانی یا نالہ نظر نہیں آتا تھا لیکن جب چوہدری صاحب نے چپو مارا تو وہ کشتی اس طرح تیزی سے چلنے لگی جیسے کہ نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی اور سیدھی نہر میں کوئی فنکار آدمی کشتی چلاتا ہے نہایت ہی لطیف اس کی رفتار ہے اور سرعت اور تیزی اور صفائی رفتار میں پائی جاتی ہے لیکن دائیں بائیں زمین ہی نظر آتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا صرف اتنی ہی پتلی نہر ہے جتنی کشتی چوڑی ہے اور ایسی عمدگی اور فنکاری کے ساتھ چوہدری صاحب اسے چلاتے ہیں کہ نہر سے ادھر ادھر وہ کشتی ذرا بھی نہیں سرکتی سیدھی نہر میں چلی جاتی ہے تھوڑی ہی دیر میں وہ کشتی خطرناک علاقہ سے پار آگئی وہاں ایک سٹیشن معلوم ہو تا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس خطرہ میں سے گزارنے کا کام کچھ اور لوگوں کے بھی سپرد تھا اور وہ دوسرے رستوں سے ریلوں کے ذریعہ یا کسی اور ذریعہ سے لوگوں کو لا رہے ہیں جب منزل پر کشتی پہنچ گئی تو چوہدری صاحب اس کشتی میں سے اتر گئے اور اس وقت ان کی شکل یکدم ایک عورت کی سی ہو گئی جو مغربی لباس میں ہے اور انہوں نے مجھے سے کہا کہ میں جاکر دفتر میں رپورٹ دے دوں اور دیکھوں کہ وہ لوگ جو دوسرے رستوں سے لوگوں کو لا رہے ہیں وہ پہنچے ہیں یا نہیں اس وقت مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ تین آدمی اس کام پر مقرر تھے ایک چوہدری صاحب اور دو اور آدمی جو اس کام میں ان کے معاون تھے اور ان کی مدد کر رہے تھے اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ ایک سٹیشن کے پاس ہم آئے ہوئے ہیں اور میں سٹیشن کی طرف جو پاس ہی تھا یہ دیکھنے کے لئے گیا کہ گاڑی کس وقت کس کس طرف جائے گی میں ابھی سٹیشن پر ہی تھا کہ آنکھ کھل گئی.میں اس کی تعبیر یہ سمجھتا ہوں کہ شاید چوہدری صاحب کو اپنے ملک کی خدمت کا کوئی اچھا موقع ملے گا اور اس میں غالبا دو ان کے اور بھی شریک کار ہوں گے یا گزشتہ دنوں میں دو رفیق کار ان کے ساتھ خدمت ملک کر رہے تھے.عورت کی شکل میں دیکھنے کے یہ معنے ہیں کہ ان کو تلطف اور رحم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے گا کیونکہ عورت کی شکل میں بیٹھے ہوئے کسی کو
499 دیکھیں تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس میں کمزوری پائی جاتی ہے اور جب عورت کی شکل میں کسی کو کام کرتے دیکھیں تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ کام بھی کرتا ہے اور سختی اور زبر دستی سے بھی پر ہیز کرتا ہے.الفضل 30.اکتوبر 1951ء صفحہ 7 نومبر 1951ء 536 فرمایا : میں نے دیکھا کہ گویا ہم قادیان سے ہجرت کر رہے ہیں.یہ خیال نہیں آتا کہ وہی ہجرت ہے جو پہلے ہو چکی ہے اور اسی کا دوبارہ نظارہ دکھایا گیا ہے یا کوئی نئی ہجرت ہے حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام بھی ساتھ ہیں گویا وہ ہجرت کر رہے ہیں اور میں ان کے ساتھ ہوں.جماعت نے اس خیال سے کہ پہلو پر سے کوئی حملہ نہ کرے تمام رستہ پر ایک طرف رسه باندھا ہوا ہے اور دوسری طرف ریل یا ایسی ہی کسی چیز کی پٹری ہے درمیان میں چھوٹا سا رستہ ہے جس پر سے ہم گزر رہے ہیں.میں آپ کے ساتھ چل رہا ہوں اور ادب سے ایک دو قدم آپ سے پیچھے رہتا ہوں لیکن جہاں رستہ تنگ ہو جاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ باہر والی جانب آپ کے قریب ہو جائے گی اور حملہ کا امکان زیادہ ہو جائے گا وہاں میں تیز قدم چل کر آپ کے پہلو میں ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیتا ہوں تاکہ اگر حملہ ہو تو اس کی زد آپ پر نہ پڑے اسی حالت میں میری آنکھ کھل گئی.الفضل 30.نومبر1 195 ء صفحہ 2 537 مبر 1951ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے ہیں مگر وہ مطب اس شکل کا نہیں جیسے وہ مطلب تھا جس میں آپ بیٹھا کرتے تھے آپ کے پاس میں اور ایک اور نوجوان آدمی بیٹھے ہیں میں بھی اس وقت کوئی میں بائیس سال کی عمر کا معلوم ہو تا ہوں حضرت خلیفہ اول فرماتے ہیں کہ فلاں نکاح جو ہوا ہے وہ شاید مشتبہ ہے اور میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ہم اس لڑکی کا کسی دوسری جگہ نکاح کر دیں اس پر وہ دوسرا نوجوان جو بیٹھا ہے اور جو آپ کا شاگر و معلوم ہوتا ہے کہتا ہے حضور کیا یہ درست ہو گا جب نکاح ہو چکا تو پھر دوسری جگہ نکاح کے کیا معنے ؟ حضرت خلیفہ اول کو کچھ تردد سا معلوم ہوتا ہے مگر وہ کچھ تھوڑی سی اس سے بحث
500 کرتے ہیں اسی دوران میری رائے بھی اس نوجوان کے ساتھ مل جاتی ہے اس پر میں نے آپ سے کہا کہ آپ نے یہ فقرہ کہا تھا کہ شاید مشتبہ ہے تو جب خود آپ کو یہ یقین نہیں کہ اشتباہ یقینی ہے بلکہ خود اشتباه جو کہ قطعی چیز نہیں اس میں بھی تردد ہے تو پھر تو میرے نزدیک ایسا قدم اٹھانا درست نہیں ہو سکتا اس پر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا ” بہت اچھا اسی طرح سہی.الفضل 30.نومبر1 195 ء صفحہ 2 538 نومبر 1951ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا جیسے میں کھڑا ہوں اور سامنے راجہ علی محمد صاحب بیٹھے ہیں.اس کی دونوں قسم کی تعبیریں ہو سکتی ہیں شر کے معاملہ کے لئے بھی انسان پیش ہوتا ہے اور خیر کے معاملہ کے لئے بھی انسان پیش ہوتا ہے.وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ الفضل 30 نومبر 1951 صفحه 2 539 نومبر 1951ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح ناصری بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے کچھ ان کے شاگرد بھی ہیں میں اس مجلس میں بیٹھا ہوں پولوس کا ذکر اس مجلس میں شروع ہو گیا ہے.حضرت مسیح نے پولوس کے متعلق کچھ اختلاف یا ناراضگی کے الفاظ کے ہیں لیکن وہ لفظ زیادہ سخت نہیں ہیں اس پر میری آنکھ کھل گئی.میں اس خواب سے سمجھتا ہوں کہ گو پولوس کا کچھ قصور ضرور ہے بعض غلطیاں اس سے ایسی ہوئی ہیں جن سے عیسائیت میں بگاڑ پیدا ہوا ہے لیکن شرک صریح اور ایسی ہی بعض اور خطرناک غلطیاں جو اس کی طرف منسوب کی جاتی ہیں در حقیقت وہ لوگوں نے بعد میں بنائی ہیں اور پولوس کی طرف منسوب کر دی ہیں ورنہ وہ اتنا برا نہیں تھا جتنا کہ اس تعلیم کو اس کی طرف منسوب کر کے وہ برا بن جاتا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کو غالبا یہ دوسری بار ہے جو میں نے دیکھا ہے پہلی بار ایک بچہ کی شکل میں دیکھا تھا.الفضل 30.نومبر 1951ء صفحہ 2
501 540 دسمبر 1951ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ احمدی زمیندار سرگودھا کے میرے سامنے آئے اور ساتھ ہی ان کے کوئی ان کے خاندان کا نوجوان بھی ہے وہ ان کا بیٹا ہے یا چھوٹا بھائی خواب میں میں پورا امتیاز نہیں کر سکا اس کے بعد میں نے کچھ نظارہ دیکھا جو مجھے بھول گیا لیکن آنکھ کھلنے پر یہ اثر رہا کہ یہ خواب اس خاندان کے لئے منذ رہے.اس جلسہ پر جب سرگودھا کی جماعت ملاقات کر رہی تھی اور امیر ضلع سرگودھا اور ان کے ساتھ کچھ اور کار کن بیٹھے ہوئے مجھے جماعت کے افراد سے روشناس کرا رہے تھے تو ایک دوست جو مصافحہ کر کے گزرے تو ان کے کچھ دور آگے چلے جانے کے بعد مجھے یاد آیا کہ ان ہی کے خاندان کے متعلق میری یہ رویا تھی.اس پر میں نے مرزا عبد الحق صاحب امیر جماعت ضلع سرگودها ( مرزا عبد الحق صاحب امیر جماعت صوبہ پنجاب بھی ہیں مگر اس وقت بحیثیت امیر جماعت ضلع سرگودھا بیٹھے ہوئے تھے) سے مخاطب ہو کر کہا آپ نے ان کا نام کیا بتایا ہے کیا آپ نے ان کا نام چوہدری ہدایت اللہ بتایا ہے انہوں نے کہا ہاں یہی تھا.میں نے ان کو کہا کہ میں نے ان کے فلاں بھائی کے متعلق ایک رؤیا دیکھی ہے کہ اس کے ساتھ اس کا ایک بیٹا یا کوئی چھوٹا بھائی کھڑا ہے اور وہ نظارہ تو مجھے بھول گیا مگر میں سمجھتا ہوں کہ وہ رؤیا ان دونوں کے متعلق منذر ہے اس لئے آپ ان کو کہہ دیں کہ وہ کچھ صدقہ کر دیں شاید اس طرح وہ ابتلاء ٹل جائے دوسرے دن شام کے قریب سیالکوٹ کی جماعت کی ملاقات ہو رہی تھی تو چوہدری غلام محمد صاحب پوہلہ امیر جماعت حلقہ نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کل کوئی خواب مرزا عبد الحق صاحب کو سنائی تھی میں نے کہا.ہاں.انہوں نے کہا وہ پوری ہو گئی ہے اور آج ہی ایک واقعہ چوہدری ہدایت اللہ صاحب کے بھائی اور بھتیجا سے ایسا پیش آیا ہے جس سے وہ خاندان سخت ابتلاء میں پڑ گیا ہے.ان کو پورا واقعہ یاد نہیں تھا دوسرے دن یعنی جلسہ کے آخری دن جمعہ کو مرزا عبد الحق صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے چوہدری ہدایت اللہ صاحب کو بلا کر آپ کی خواب بھی سنادی اور کہہ دیا کہ اس کے متعلق آپ لوگ کچھ صدقہ کر دیں انہوں نے اس وقت ایک آدمی اپنے بھائی کی طرف دوڑایا کہ تم کوئی بکرا ذبح کر دو شاید اس خواب کے اثر سے بچ جاؤ.
502 جب وہ شخص ان کو خبر دینے کے لئے پہنچا تو ایک ایسا واقعہ ہوا ( چونکہ مقدمہ عدالت میں ہے.اس لئے تفصیل لکھنے کی ضرورت نہیں جس کی وجہ سے چوہدری ہدایت اللہ صاحب کے وہ بھائی بھی اور ان کا بیٹا بھی ایک سنگین جرم میں ماخوذ ہو گئے جس جرم کا الزام ایک ایسے واقعہ کی بناء پر لگایا گیا جو اس خواب کے سنائے جانے کے سولہ سترہ گھنٹہ کے بعد ظہور میں آیا.اس طرح چوبیس گھنٹہ کے اندر اندر اس رویا کا ایسی شان سے پورا ہو نا ان لوگوں کے ایمان کی بہت ہی زیادتی کا موجب ہوا جنہوں نے یہ رویا مجھ سے سنی تھی یا مجھ سے سننے والوں سے سنی تھی.الفضل 27 جنوری 1952 ء صفحہ 3 541 جنوری 1952ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ گویا میں کھڑے ہو کر درس قرآن دے رہا ہوں اور اس مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا حضرت خلیفہ اول دونوں میں سے کوئی بیٹھے ہیں میری پشت پر جو لوگ ہیں ان میں وہ بھی بیٹھے ہیں حلقہ باندھے ہوئے چاروں طرف لوگ بیٹھے ہیں یہ یاد نہیں رہا کہ میں کس جگہ سے درس دے رہا ہوں صرف اتنا یاد ہے کہ قرآن کریم کے ابتداء یا آخر کا درس نہیں بلکہ آٹھویں نویں یا دسویں پارہ سے لے کر سترھویں اٹھارہویں پارہ تک کسی حصہ کا درس ہے.الفضل 27.جنوری 1952ء صفحہ 3 جنوری 1952ء 542 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں اور لالہ ملاوائل صاحب نے جو کہ فوت ہو چکے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جوانی کے دوستوں میں سے تھے میری دعوت کی ہے میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ ہندوؤں کے محلہ میں جانے میں کوئی خطرہ تو نہیں اس نے کہا نہیں جب لالہ ملاوامل نے دعوت کی ہے تو وہ لوگ احترام اور عزت سے پیش آئیں گے.الفضل 27.جنوری 1952ء صفحہ 3
503 543 جنوری 1952ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ پر بیٹھا ہوں اور میرے سامنے سرگودھا کے کچھ دوست ہیں جن میں سے ایک محمد اقبال صاحب پراچہ معلوم ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں آپ پھر دوبارہ سرگودھا میں لیکچر دیں اور میں کچھ معذوری کا اظہار کر رہا ہوں اس پر انہوں نے زور دینا شروع کیا اور ایک دوست نے کہا کہ وہاں کے لوگوں کو تو بہت ہی شوق ہے کہ آپ وہاں دوبارہ آکر لیکچر دیں آپ کے پہلے لیکچر کی وہ بہت تعریف کرتے ہیں میں نے اس کے جواب میں کہا کہ آج کل لوگوں کی یہ عادت ہے کہ دوسروں کو خوش کرنے کے لئے منہ سے تعریفیں کر دیتے ہیں اور دل میں کچھ بھی نہیں ہوتا اس پر ان صاحب نے جن کو میں محمد اقبال صاحب پر اچہ سمجھتا ہوں کہا کہ نہیں یہ تعریف کرنے والے بچے طور پر متاثر ہیں چنانچہ انہوں نے کہا کہ محمد شفیع نامی ایک شخص (جو کوئی تاجر ٹھیکہ دار یا کارخانہ دار یا ایسا ہی کوئی کام کرنے والا ہے) پہلے بہت مخالف ہوا کرتا تھا اور احمدیت کی بات سننا برداشت نہیں کرتا تھا اب اس کی یہ حالت ہے کہ بڑے افسوس سے یہ کہتا ہے کہ پھر کب آپ کے امام یہاں لیکچر دیں گے اور بعض دفعہ حسرت سے کہتا ہے کہ ہماری کہاں ایسی قسمت کہ وہ پھر یہاں لیکچر دیں.الفضل 27.جنوری 1952ء صفحہ 3 544 جنوری 1952ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک مکان میں ہوں جو بہت بڑا ہے کئی دالان اس میں ہیں.کئی روشیں ہیں جیسے پرانے شاہی محلات ہوتے ہیں ایک دالان میں میں ہوں اور اس کے سامنے کے بر آمدہ میں شیخ عبد الرحمان صاحب مصری ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ ہمارے ساتھ ہیں یہ خیال نہیں گزرتا کہ وہ تو بہ کر کے ہمارے ساتھ آملے ہیں یا یہ کہ ساتھ ہی ہیں بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں اور ایک عورت بھی وہاں ہے بڑی عمر کی معلوم ہوتی ہے مگر کمزور نہیں بلکہ بڑی قد آور اور مضبوط عورت ہے جس دالان میں میں ہوں میری اس کے دروازوں کی طرف جو نظر پڑی تو میں نے دیکھا کہ دروازہ کے اوپر کانس پر ایک بڑا سانپ ہے کوئی پانچ چھ گز لمبا اور چھت کی بڑی کڑی کے برابر موٹا.میری نظر پڑتے ہی وہ وہاں سے بھاگا اور میں نے کہا
504 سانپ سانپ لیکن وہ اس دالان میں سے نکل کر آگے کی طرف چلا گیا میری آواز سن کر شیخ عبدالرحمان صاحب مصری اس کے پیچھے بھاگے اور تھوڑی دیر کے بعد مجھے ان کی شیخ کی آواز آئی جیسے کوئی ڈر کر تکلیف میں چیخ مارتا ہے میں نے کہا کہ شاید شیخ صاحب کو سانپ نے کاٹ لیا ہے وہ عورت جو وہاں تھی اس نے کہا.نہیں.یہ آپ کو یونہی خیال ہے.میں نے کہا.نہیں.دیکھی ہوئی چیز کا خیال کس طرح ہو سکتا ہے.سانپ میں نے خود دیکھا ہے.اس پر وہ اس طرف بھائی جدھر سے آواز آئی تھی اور اس طرح شیخ صاحب کو اٹھا کر لے آئی جس طرح ختنہ کرنے کے بعد بچوں کو اٹھا کر لایا جاتا ہے ایک بازو پر سے ٹانگیں لکھی ہوئی ہیں اور دوسرے بازو پر سر رکھا ہوا ہے اور نہایت مضبوطی کے ساتھ ان کو اٹھائے ہوئے ہے پھر وہ ان کی طرف اشارہ کر کے کہتی ہے یہاں ان کو سانپ نے کاٹا ہے اور پھر ان کو کسی کرسی پر اس نے بٹھا دیا میرے دل میں خیال گذرتا ہے کہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے ساتھ میں سیر کے لئے جا رہا تھا اور ڈاکٹر صاحب ذرا آگے چلے گئے تھے چنانچہ اس دالان کے سامنے ایک میدان ہے جس کے دونوں طرف عمارتیں بنی ہوئی ہیں اور بیچ میں کھلی سی جگہ ہے میں سمجھتا ہوں اس کے سرے پر ڈاکٹر صاحب ہیں.میں اسی طرح ننگے قدم جس طرح دالان میں ٹہل رہا تھا ڈاکٹر صاحب کی طرف چل پڑا ہوں اور آواز دیتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر صاحب پھر دوسرے آدمیوں سے کہتا ہوں جلدی ڈاکٹر صاحب کو بلاؤ اتنے میں کسی نے بتا دیا کہ سامنے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب چلے آرہے ہیں چنانچہ میں نے آگے بڑھ کر ان کو اطلاع دی کہ شیخ عبدالرحمان صاحب مصری کو سانپ نے کاٹ لیا ہے آپ جلدی آئیں اور ان کا علاج کریں اور میں انہیں بن ران کے قریب ہاتھ لگا کر کہتا ہوں کہ یہاں کاٹا ہے اور دو انگلیوں کی اس طرح شکل بنا تا ہوں گویا بہت بری جگہ پر کاٹا ہے ان کو تاکید کرکے میں لوٹا تو لوٹتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اس میدان کی ایک طرف عمارت کے چبوترے پر دیوار کے ساتھ ساتھ ویسا ہی ایک بڑا سانپ اس طرف جا رہا ہے جدھر ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ہیں.میں انہیں ہوشیار کرنے کے لئے مڑا تو میں نے دیکھا کہ ان کے ساتھ میرا ایک بیٹا بھی ہے اور وہ اسی طرف چلے آرہے ہیں جس طرف سے سانپ نے گزرتا ہے میں نے انہیں آواز دی لیکن اس کے ساتھ ہی سانپ پھنکارے مارتا ہوا ان لوگوں کی طرف کو دا دہ دونوں زمین پر بیٹھ گئے اور ایک درمیانی گلی میں جو ایک بازو پر تھی اس میں سانپ گھس گیا اس گلی کے
505 اندر کی طرف میرا بیٹا تھا اور کنارے پر ڈاکٹر صاحب تھے سانپ کے گزرنے کے بعد دونوں کھڑے ہوئے اور ان سے معلوم ہوا کہ وہ بغیر کسی ضرر کے بچ گئے ہیں اس پر پھر میں گھر کی طرف آگیا اور میں نے آواز دی کہ شیخ صاحب کا کیا حال ہے اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ انہیں چارپائی پر لٹا دیا گیا ہے کسی عورت نے میرے اس سوال کے جواب میں کہا کہ شیخ صاحب کو ایک سو ساڑھے پانچ درجہ (5ء105) کا بخار ہے میں نے جواب میں کہا کہ شیخ صاحب کو تسلی دلائیں.بخار کے معنے یہ ہیں کہ زہر انشاء اللہ ملک نہیں ہو گا کیونکہ زہر جلد کی طرف آگیا ہے دل کی طرف اس کا زور نہیں.پھر میں ایک دوسرے دالان کی طرف گیا جہاں میں سمجھتا ہوں میری ہو میو پیتھک دوائیں پڑی ہیں تاکہ میں کوئی ہو میو پیتھک دوائی لا کر جلدی سے دے دوں مگر پھر کسی وجہ سے میں بغیر دوائی کے ہی واپس آگیا ہوں اور پھر ڈاکٹر صاحب کی طرف چلا ہوں کہ دیکھوں کہ ابھی تک پہنچے کیوں نہیں.اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ شام کا وقت ہو گیا ہے اور اند ھیرا ہو رہا ہے.جس دالان میں میں ٹہل رہا ہوں اس میں گھر کے پرانے اتارے ہوئے کپڑوں کا ایک ڈھیر فرش پر پھیلا ہوا ہے.دالان کے کنارے پر شیخ نورالحق صاحب جو میری زمینوں کے دفتر میں کام کرتے ہیں بیٹھے ہوئے ہیں پاس ہی ایک ہری کین لالٹین پڑی ہے اور ایک سرے پر ایک اور لالٹین نظر آتی ہے گو وہ چھوٹی ہے مگر اس کی روشنی بجلی سے مشابہہ ہے میں ان دونوں روشنیوں کو اس بڑے دالان کے لحاظ سے کافی نہیں سمجھتا اس لئے میں نے شیخ نور الحق صاحب کو کہا کہ بازار جا کر موم بتیوں کے ایک دو بنڈل خرید لاؤ تاکہ گھر کو اچھی طرح روشن کیا جا سکے.مگر میں ان کو کہتا ہوں موٹی موم بتیاں لانا پتیلی موم بتیاں نہ لانا.یہ کہتے ہوئے مجھے یوں معلوم ہوا جیسے میرے پیچھے کی طرف سے سرسراہٹ ہوئی ہے اس پر میں نے پیچھے کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ ان میلے کپڑوں کے ڈھیر میں سے نکلتا ہو اوہی اژدھا دو ڑ کر مجھے پر حملہ کرنے کے لئے چلا آرہا ہے اور میرے پیروں تک پہنچ چکا ہے لیکن جونہی میری نظر اس کی نظر سے ملی تو وہ بے تحاشاڈر کے بھاگا چونکہ اس کا کچھ حصہ میرے پاؤں کو چھوا ہے.مجھے خیال آیا کہ شاید سانپ نے مجھے کاٹا ہے میں نے اونچی آواز سے کہا کہ سانپ نے میری ایڑھی پر کاٹا ہے اس وقت میرے دل میں خیال آتا ہے کہ آدم کو بھی اس کی ایڑی پر سانپ نے کاٹا تھا میری آواز سن کر شیخ نور الحق صاحب موم بتیاں لانے کا کام چھوڑ کر فوراً اس جگہ کی طرف دوڑے گئے ہیں
506 جہاں وہ سانپ چھپا ہے پاؤں ان کے بھی ننگے ہیں.جوتی انہوں نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہے.وہ جوتی سے بے تحاشا اس جگہ پر مارتے ہیں جہاں سانپ کو چھپا ہوا سمجھتے ہیں.میں کہتا ہوں دیکھو جوتی پہن لو.ایسا نہ ہو سانپ تمہیں کاٹ لے اور ان کے ساتھ میرا ایک لڑکا بھی جو چودہ پندرہ سال کی عمر کا معلوم ہوتا ہے ایک چھوٹی سی سوئی کے ساتھ اس کو پیٹ رہا ہے.اتنے میں شیخ نور الحق صاحب نے کہا.میں نے سانپ مار لیا ہے مگر جو سانپ انہوں نے مارا ہے وہ معمولی سانپ دو تین فٹ کا معلوم ہوتا ہے اس پر میں نے ان سے کہا کہ یہ وہ سانپ نہیں وہ سانپ تو بڑا تھا.ذرا میلے کپڑوں سے ہوشیار رہو ایسا نہ ہو کہ وہ میلے کپڑوں کے ڈھیر میں چھپ گیا ہو یا کسی کو نہ میں چھپا ہوا ہو کوئی مضبوط سونٹا پکڑ کر اس کی تلاش کرو اس وقت مجھے سانپ کے چھو جانے کی وجہ سے وہم سا پڑتا ہے کہ سانپ نے مجھے کاتا ہے لیکن ساتھ ہی میں کہتا ہوں کہ ایڑی پر کوئی زخم تو نظر نہیں آتا اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.الفضل 27.جنوری 1952ء صفحہ 4-3 545 22 جنوری 1952ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ کراچی کا کوئی اخبار ہے جو کسی دوست نے مجھے بھیجا ہے اور اس میں کچھ باتیں احمدیت کی تائید میں لکھی ہوئی ہیں اس اخبار پر سرخ سیاہی سے اس دوست نے نشان کر دیا ہے تاکہ میں اس کو پڑھ سکوں اس کا مطالعہ کرنے کے بعد میں نے دیکھا کہ اخبار کے اوپر کے حصہ میں چار کالموں میں چار قطعات دو دو شعر کے چھپے ہوئے ہیں اور اچھے اچھے موٹے موٹے حروف میں لکھے ہوئے ہیں مضمون تو میرے ذہن میں نہیں ہے مگر وہ طریقہ پسند آیا اور میں نے چاہا کہ میں بھی ایک قطعہ لکھوں اس پر میں نے رویا میں ایک قطعہ کہنا شروع کیا جو یہ ہے.میں آپ سے کہتا ہوں کہ اے حضرت لولاک ہوتے نہ اگر آپ تو بنتے نہ یہ افلاک ہے جو آپ کی خاطر ہے بنا آپ کی شئے میرا تو نہیں کچھ بھی یہ ہیں آپ کی املاک یوں معلوم ہوتا ہے کہ جوں جوں میں یہ شعر کہتا جاتا ہوں گویا اس جگہ پر یعنی اسی اخبار میں
507 بہت ہی خوبصورت طور پر ساتھ ہی لکھے جاتے ہیں.میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ الفاظ تو یہ سارے کے سارے اسی طرز پر تھے.لیکن مضمون اور اکثر الفاظ یہی تھے صرف رویا کی حالت بدل جانے کے بعد غنودگی میں میں یہ شعر پڑھتا رہا ہوں اس لئے ممکن ہے کہ بعض الفاظ اس میں بدل کر دو سرے آگئے ہوں.الفضل 27 جنوری 1952 ء صفحہ 4.الفضل 29.جنوری 1952ء صفحہ 2 - 13 فروری 1952ء صفحہ 5-4 546 مارچ 1952ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میری ایک ڈاڑھ گر گئی ہے مگر وہ میرے ہاتھ میں ہے اور میں اسے دیکھ کر تعجب کرتا ہوں کہ وہ اتنی بڑی جسامت کی ہے کہ دو بڑی ڈاڑھوں کے برابر معلوم ہوتی ہے میں خواب میں بہت حیران ہوتا ہے کہ اتنی بڑی ڈاڑھ ہے اسے دیکھتے دیکھتے میری آنکھ کھل گئی.چونکہ ڈاڑھ کے گرنے کی تعبیر کسی بزرگ کی وفات ہوتی ہے اور چونکہ منذر خواب کا بیان کرنا منع آیا ہے.میں نے یہ رویا بیان نہیں کی لیکن جب سندھ کے سفر میں حضرت اماں جان) کی بیماری کی خبریں آنی شروع ہوئیں تو اس رویا کی وجہ سے مجھے زیادہ تشویش ہوئی اور گو ابتداء ان کی بیماری کی خبریں ایسی تشویشناک نہیں تھیں لیکن اس رویا کی وجہ سے چونکہ مجھے تشویش تھی میں نے انتظام کیا کہ روزانہ ان کی بیماری کے متعلق نظارت علیا کی طرف سے بھی اور میرے گھر کی طرف سے بھی الگ الگ تاریں پہنچ جایا کریں چنانچہ آخر میں وہی بات ثابت ہوئی که مرض جسے پہلے معمولی ملیریا سمجھا گیا تھا آخر میں ان کے لئے مہلک ثابت ہوا.خواب میں جو ڈاڑھ کو دو ڈاڑھوں کے برابر دکھایا گیا ہے اس سے اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اماں جان) ہمارے اندر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بھی قائم مقام تھیں اور اپنی بھی قائم مقام تھیں اور گو بظاہر وہ ایک نظر آتی تھیں لیکن در حقیقت ان کا وجود دو کا قائم مقام تھا.اللہ تعالیٰ اس خلاء کو جو پیدا ہو گیا ہے اسے اپنی رحمت اور فضل سے پر کرے.الفضل 9.جولائی 1952ء صفحہ 3
508 547 اوائل اپریل 1952ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ہم ایک میدان میں ہیں اور وہاں سے نکل کر کسی اور طرف جانا چاہتے ہیں تھوڑی دور چل کر ایک ایسی جگہ پر پہنچے ہیں جہاں ایک فصیل سی بنی ہوئی ہے لیکن وہ فصیل ساری کی ساری بند نہیں بلکہ دو طرف دیواریں ہیں اور بیچ میں خلاء ہے اور تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر اس خلاء میں بھی ایک دیوار لکڑی کی یا اینٹ کی آجاتی ہے یوں شکل سمجھ لیجئے جیسا کہ بغیر چھت والی لیکن اونچی دیوار والی مال گاڑیاں ہوتی ہیں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب آگے آگے ہیں اور میں اور کچھ دوست ان کے پیچھے ہیں گویا وہ ہمیں رستہ دکھاتے جارہے ہیں وہ اس عمارت میں گھس گئے ہیں اور گویا اس کو وہ منزل مقصود کا رستہ سمجھتے ہیں گڑھوں میں اترنا اور پھر اگلی دیوار کو پھاند نا یہ عجیب مشکل سا کام معلوم ہوتا ہے مگر تھوڑی دور چل کر جب ڈبے گہرے ہوتے چلے گئے اور بعض جگہ پر یوں معلوم ہوا جیسے اس جگہ پر پانی بھی ہے اور پاؤں رکھتے ہیں تو پاؤں نیچے دھنس جاتا ہے تو گھبراہٹ پیدا ہو نا شروع ہوئی چنانچہ ایک ڈبہ میں تو پہنچ کر معلوم ہوا کہ اس میں پانی ہی پانی بھرا ہوا ہے اور اوپر جو گھاس تھی وہ ہلکا سا تھا اس پر پیر رکھتے ہی وہ نیچے دب گیا اور میں پانی میں جا پڑا اس پر میں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ چوہدری صاحب آپ کہاں ہم کو لے آئے ہیں یہ تو کوئی رستہ نہیں معلوم ہو تا چوہدری صاحب ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اگلے ڈبہ میں ہیں وہ میری طرف دیکھ کر کہتے ہیں رستہ تو بالکل ٹھیک ہے دیکھ لیجئے میں آرام سے کھڑا ہوں اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ چوہدری صاحب کے نیچے نہ پانی ہے اور نہ گڑھا ہے بلکہ جیسے کوئی سطح ہموار اونچی بنی ہوئی ہے اس پر وہ کھڑے ہوئے ہیں جس ڈبہ میں میں ہوں وہاں کیچڑ بھی ہے پانی بھی اور کوئی چلنے بلکہ کھڑے ہونے کی جگہ بھی نظر نہیں آتی.میں کود کر آگے ہوا اور اس دیوار کو پکڑ لیا جو میرے ڈبہ اور چوہدری صاحب والے ڈبہ کے درمیان میں ہے اس وقت وہ دیوار لکڑی کی معلوم ہوئی.جیسے گویا ریل ہی کا ڈبہ ہوتا ہے میں نے اپنے پاؤں سے ٹولا تو اس میں کوئی ایک دو انچ کی پڑی ہوئی لکڑی درمیان میں نظر آئی اس پر میں نے اپنے گھٹنے ٹیک لئے لیکن مجھے شرم محسوس ہوئی کہ میں چوہدری صاحب کی بات کو رد کروں کہ رستہ خراب ہے اور میں نے کہا چلو اسی طرح سہارا لے لیں گے اللہ تعالیٰ کوئی
509 صورت نکال دے گا جب میں اس دیوار کو پکڑ کے اور اس کے نیچے پڑی ہوئی ایک لکڑی کے اوپر گھٹنوں کا سہارا لے کر لٹک گیا ہوں تو یکدم اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسا تغیر پیدا کیا کہ وہ فصیل ریل کی شکل اختیار کر گئی اندر جو پانی اور کیچڑ بھرا ہوا تھا.وہ سب غائب ہو گیا اور وہ چلنے لگ گئی گویا بجائے اس کے کہ ہم چلتے وہ ڈبے چلنے لگ گئے چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد یوں معلوم ہوا کہ وہ ڈبے منزل مقصود پر پہنچ گئے ہیں چوہدری صاحب بھی اترے.میں بھی اترا اور چوہدری صاحب نے مجھے ہنس کر کہا کہ دیکھئے رستہ ٹھیک ہی تھا ہم پہنچ ہی گئے ہیں.میں نے دل میں کہا رستہ دستہ تو کوئی ٹھیک نہیں تھا.یہ تو اللہ تعالیٰ کا کام تھا کہ اس نے رستہ کو ہی ریل بنا دیا اور ہم پہنچ گئے.ور نہ وہاں تو کھڑے ہونے کی بھی جگہ نہیں تھی لیکن پھر بھی میں نے چوہدری صاحب کی بات کی تردید کرنی مناسب نہیں سمجھی صرف یہ سن کر میں مسکرا دیا.یہ رویا کراچی کے واقعہ سے کوئی مہینہ بھر پہلے کی ہے ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اس میں کچھ اس واقعہ کی طرف بھی اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ مشکلات آئیں گی اور سخت آئیں گی اور شاید کچھ حصہ ان مشکلات کا اس مخالفت کی وجہ سے ہو گا جو بعض لوگوں کو چوہدری صاحب کی ذات سے ہے اور ہمیں بھی اس میں حصہ لینا پڑے گا مگر جب ہم تو کل کر کے اور خدا تعالیٰ کی اس مشیت پر صبر کر کے اپنے آپ کو خدا پر چھوڑیں گے تو اللہ تعالیٰ ہماری کھڑی گاڑی کو چلا دے گا اور ہم منزل مقصود پر پہنچ جائیں گے.الفضل 9.جولائی 1952ء صفحہ 4 548 23/22.اپریل 1952ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا ہال ہے اس میں حضرت اماں جان) کی چار پائی ہے ہال کے درمیان میں یعنی اس کی دیواروں سے ہٹ کر چار پائی رکھی ہوئی ہے پائنتی کی طرف میاں بشیر احمد صاحب بیٹھے ہیں اور سامنے فرش پر کچھ اور عور تیں بیٹھی ہیں میں کمرے میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ ان کی طبیعت اچھی معلوم ہوتی ہے بیماری نہیں صرف ضعف ہے اس لئے وہ لیٹی ہوئی ہیں اور اوپر کمبل اوڑھا ہوا ہے جب داخل ہوا تو کسی شخص نے جو نظر نہیں آتا کہ کون ہے یا کوئی فرشتہ یا روح ہے آپ کو مخاطب کر کے اور میری طرف اشارہ کر کے یہ الفاظ کہے کہ
510 آپ کو ایک ایسا بیٹا ملا ہے جو روحانی آسمان پر ستارہ بن کر ایسا چمک رہا ہے کہ کوئی ایسا کیا چمکے گا" اس کے بعد حضرت اماں جان) میری طرف مخاطب ہوئیں اور کہا بس.”بس" کے لفظ کے آگے انہوں نے کچھ نہیں کہا لیکن اس وقت میں یہ سمجھتا ہوں کہ ”بس " کا لفظ دو طرح استعمال ہوتا ہے ایک بات کے خاتمہ پر اور ایک بات کے ابتداء میں.تو وہ ”بس “ جو انہوں نے استعمال کیا ہے وہ بات کے خاتمہ کا نہیں جیسے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں.بس.بلکہ یہ بس وہ ہے جو ابتداء میں استعمال ہوتا ہے جیسے کہتے ہیں ”بس بات تو یہ ہے کہ “ اس ”بس " کے معنے خلاصہ کلام کے ہوتے ہیں خاتمہ کلام کے نہیں ہوتے تو میں ذہن میں یہی سمجھتا ہوں کہ یہ بس خلاصہ کلام کے معنوں میں ہے.خاتمہ کلام کے معنوں میں نہیں.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.دوا آج کل احرار وغیرہ چونکہ شور مچاتے رہتے ہیں ممکن ہے اس رویا کو بھی کوئی غلط رنگ دے کر وہ لوگوں کے سامنے پیش کریں اس لئے میں ایسے بے دینوں کے لئے نہیں کیونکہ ان کے اندر سے حیاء اور شرم بالکل جاتی رہی ہے مگر صرف شریف لوگوں کے لئے کہتا ہوں کہ یہ جو الفاظ ہیں کہ کوئی ایسا کیا چمکے گا اس میں ستاروں کی طرف اشارہ ہے کوئی خبیث الفطرت آدمی اس کو محمد رسول اللہ کی طرف منسوب کر کے اس کے غلط معنے نہ لے لے.محمد رسول اللہ کا نام قرآن کریم میں سورج آتا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع آگے ستارے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس رویا میں یہ خبر دی ہے کہ اس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں سے جو نور اور روشنی مجھے ملی ہے وہ کسی اور کو نہیں ملی اور یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص مدعی ہے تو وہ آگے آئے اور بتائے کہ اس کو اسلام کی خدمت اور قرآن کریم کی اشاعت کے لئے کیا توفیق ملی اور اس کے ذریعہ کتنے آدمی اسلام میں داخل ہوئے اگر کوئی اس بات کو ثابت کر دے تو بیشک اس کا دعوی سچا ہو گا ورنہ اس کو ماننا پڑے گا کہ اس زمانہ میں اسلام کی اشاعت اور اس کی خدمت کے لئے خدا تعالیٰ نے میرے ہی وجود کو مخصوص کیا ہوا ہے اور میرے مقابلہ میں کوئی گھر نہیں سکتا، ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ الفضل 9.جولائی 1952 ء صفحہ 34
511 549 جون 1952ء فرمایا : میں نے رویا دیکھا کہ میں ہندوستان گیا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کی جماعتوں نے ہندوستان کی حکومت سے مل کر کوئی انتظام کیا ہوا ہے کہ مجھے چند دن کے لئے آنے کی اجازت دیں.جہاں میں گیا ہوں وہ قادیان نہیں ہے بلکہ وسط ہند کی کوئی جگہ ہے لیکن حیران ہوتا ہوں کہ اگر ان لوگوں نے میرے آنے کی اجازت لینی ہی تھی تو قادیان میں لیتے.میرے پوچھنے پر مجھے بتایا گیا کہ اس انتظام کی دو وجہیں ہیں ایک تو یہ کہ یہ مرکزی جگہ ہے.ہندوستان کی مختلف جماعتوں کے لوگ یہاں آکر مل سکیں گے اس بات کو سن کر مجھے خاص خوشی ہوئی اور فوراً خیال آیا کہ برادرم سیٹھ عبد اللہ بھائی کو ملے ہوئے مدت ہوئی وہ یہاں آکر ملاقات کر سکیں گے دوسری بات انہوں نے یہ بتائی کہ اس ضلع کا یا اس شہر کا افسر کوئی احمدی ہے یعنی ڈپٹی کمشنر یاسی مجسٹریٹ یا پولیس کا افسر یعنی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ یا سپرنٹنڈنٹ پولیس.پس شہر یا ضلع کے افسر کے احمدی ہونے کی وجہ سے انتظام میں زیادہ سہولت رہے گی جس جگہ پر ہمیں ٹھرایا گیا ہے وہ بہت بڑی عمارت معلوم ہوتی ہے بہت بڑے بڑے ہال ہیں چنانچہ میں ایک چھت پر ہوں اور ارد گرد بہت سے دوست ہیں.چھت ایک وسیع میدان کی طرح نظر آ رہی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں آدمیوں کے ٹھہرانے کے خیال سے وہ مکان لیا گیا ہے وہ احمدی افسر جو اس جگہ پر ہیں وہ بھی مجھے نظر آئے اور میں نے ان سے باتیں کیں.قران کا چھوٹا ہے جسم موٹا تو نہیں لیکن گدرا ہے مگر ان کے سر پر پگڑی ہندو آنہ طرز کی ہے جیسے مرہٹوں یا مارواڑیوں کی ہوتی ہے میں اس وقت دل میں تکلیف محسوس کرتا ہوں کہ یہاں مسلمانوں کو تکلیفوں سے بچنے کے لئے اپنے لباس بھی بدلنے پڑے ہیں اتنے میں میری آنکھ کھل گئی.الفضل 9.جولائی 1952 ء صفحہ 3 جون 1952ء 550 فرمایا : میں نے دیکھا کہ ہم قادیان میں صرف چند گھنٹوں کے لئے گئے ہیں پھر ہم نے واپس آتا ہے.میں گھر سے باہر دوستوں سے ملاقات کر کے جلدی سے اندر آیا ہوں تا کہ ہم روانہ ہو جائیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قادیان میں ریل نہیں بلکہ پر انا زمانہ ہے جب بٹالہ سے ریل پر سوار
512 ہونا پڑتا تھا میں جب اس مکان کے پاس پہنچا جس کو گول کمرہ کہتے ہیں اور جو موجودہ دفتر سے پہلے میرا دفتر ہوا کرتا تھا تو میں نے دیکھا کہ وہاں کمرے کے پاس کی کوٹھڑی میں چھوٹی چھوٹی چوکیاں لگی ہوئی ہیں اور ان پر چائے کا سامان کیک اور پیسٹریاں وغیرہ پر تکلف سامان پڑا ہے میں خیال کرتا ہوں کہ یہاں ہمارے گھر کے لوگوں کو ناشتہ کروا دیا گیا ہے مگر میں نے وہاں آدمی کوئی نہیں دیکھا.کھانے کی چیزیں بہت سی پڑی ہیں لیکن پیالیاں وغیرہ مستعمل معلوم ہوتی ہیں جیسا کہ لوگ ناشتہ کر چکے ہیں لیکن فوراً اس کمرہ سے نکل کر مسجد مبارک کی سیڑھیوں پر چڑھ کر گھر میں گیا ہوں وہاں جا کر میں نے سب لوگوں سے کہا کہ دیر ہو گئی ہے.دو کے یا تین کہے کہ اتنے بیچ گئے ہیں بٹالہ میں ہم نے جا کر گاڑی پر سوار ہوتا ہے اور تم لوگ دیر کر رہے ہو اس پر انہوں نے تیاری شروع کی میں نے ان سے پوچھا کہ کیا جانے کے لئے سواریوں کا بھی انتظام ہے انہوں نے جواب دیا کہ چھ رتھیں ہم نے تیار کی ہیں میں نے کہا رتھ تو تین سے پانچ گھنٹے تک پہنچتی ہے اس سواری پر تو رات ہو جائے گی مگر انہوں نے کہا یہی رتھیں ہماری پرانی موجود تھیں انہیں میں ہم نے انتظام کیا ہے گویا خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ جب ہم قادیان میں ہوتے تھے تو ہماری بہت ی رتھیں ہوتی تھیں گو ظاہر میں ایسا نہیں تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے وقت ایک رتھ ہمارے گھر میں تھی بعد میں وہ بھی فروخت کر دی گئی تھی.الفضل 9.جولائی 1952ء صفحہ 3 551 جون 1952ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی عمارت ہے جو سرائے کی طرز سے ملتی ہے یعنی بیچ میں بہت بڑا صحن ہے اور چاروں طرف عمارت ہے وہ اتنی بڑی عمارت ہے کہ ایک طرف تو الگ رہا.بیچ میں کھڑا ہوا آدمی بھی چاروں طرف عمارت کے پاس کھڑے ہوئے آدمیوں کو پہچان نہیں سکتا.میں اس عمارت میں داخل ہو کر گوشے کی طرف بڑھنا شروع ہوا ہوں گویا سمجھتا ہوں کہ حضرت اماں جان) یہاں رہتی ہیں اس گوشے کی دونوں طرف کمرے ہیں جو باورچی خانہ کے کمرے معلوم ہوتے ہیں اور بڑے بڑے دیگچے کھانا پکانے کے لئے رکھے ہوئے ہیں جیسے سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی دعوت ہوتی ہے اور بہت سی عورتیں جن کو میں پہچانتا نہیں عمدہ
513 لباس پہنے ہوئے کھانا پکانے میں لگی ہوئی ہیں اور حضرت اماں جان ) ایسی عمر میں جو تیس چوبیس سال کی معلوم ہوتی ہے ان کی نگرانی کر رہی ہیں جسم جیسے جوانی میں ہوتا ہے مضبوط ہے لیکن نہ دہلانہ موٹا.ہاتھ میں انہوں نے ایک بڑی سی لمبی کفگیر پکڑی ہوئی ہے جس سے وہ مختلف عورتوں کے پکے ہوئے کھانوں کو دیکھتی ہیں کہ وہ ٹھیک پک گئے ہیں یا نہیں ، مجھے دیکھ کر وہ کمرے سے باہر آئیں ہاتھ میں کفگیر پکڑی ہوئی ہے مجھے دیکھ کر مسکرائیں اور میری طرف دیکھتی رہیں لیکن نہ مجھے آگے بڑھنے کی جرأت ہوئی اور نہ وہ آگے آئیں اتنے میں آنکھ کھل گئی.اس رویا میں غالباً آپ کے اخروی مدارج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہاں اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑے خاندان کی پرورش اور نگرانی کا ذمہ دار بنایا ہے.الفضل 9.جولائی 1952ء صفحہ 4 552 جون 1952ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ عصر کا وقت ہے یکدم مجھے خیال آیا کہ مدینہ ہو آئیں پھر خیال آیا کہ حج بھی کرتے آئیں کیا ہوا دو ہر احج ہو جائے گا.اس خیال کے آنے پر میں نے ام ناصر سے کہا کہ میرا سامان تیار کرو اور ساتھ جانے کے لئے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب عزیز مرزا حفیظ احمدہ جو میرا بیٹا ہے اور کسی اور بیٹے کو تیار ہونے کو کہا ہے.پھر میں نے کہا کہ ناصرہ بیگم جو میری بیٹی ہے اسے بھی بلو الو کہ وہ بھی جاتے ہوئے مجھے مل لے.اسباب تیار ہو رہا ہے اور سورج ایک نیزہ اوپر نظر آتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے ابھی روانہ ہونا ہے کہ میری آنکھ کھل گئی.آنکھ کھلتے وقت میری زبان پر یہ آیت جاری تھی.فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ (المائدة : 118) مجھے یاد نہیں کہ اس سے پہلے کبھی مجھے اپنی وفات کے بارہ میں اشارہ ہوا ہو یہ الفاظ یا تو میری عمر کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا پھر زیارت مدینہ کے خیال کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی طرف که فَا قُوْلُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ الفضل 9 جولائی 1952ء صفحہ 5 1211.جون 1952ء 553 فرمایا : ایک رات خاص طور پر دعاؤں کی آئی.رمضان کے درمیانی عشرہ کی یہ کوئی رات
514 تھی غالبا آج سے سات آٹھ دن پہلے میں نے دیکھا کہ مجھ پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو کبھی کبھی طاری ہوا کرتی ہے یعنی ساری رات جاگتے اور سوتے دعاؤں میں گزر جاتی ہے کامل ہوش میں تو اپنی مرضی کی دعائیں کی جاتی ہیں لیکن خواب یا نیم خواب کی حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے زبان پر دعائیں جاری کی جاتی ہیں اور یہ کیفیت قریب قریباً ساری رات صبح تک جاری رہتی ہے کبھی کبھی آنکھ کھلتی ہے تو اس وقت بھی وہ دعائیں زبان پر ہوتی ہیں جب آنکھ لگ جاتی ہے تو اس وقت بھی وہ دعا ئیں زبان پر ہوتی ہیں گویا اس رات کی کیفیت لیلتہ القدر کی سی ہوتی ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ تَنَزَّلُ الْمَلَئِكَةُ وَالرُّوحُ فِيْهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ سَلَامٌ - هِىَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر : 65) اس قسم کی رات یہ آئی تھی ساری ساری رات خواب میں بھی اور جاگتے میں بھی قرآن کریم کی کچھ آیات زبان پر جاری رہیں جو جاگتے ہوئے مجھے حفظ نہیں ہیں ان کا ایک حصہ یہ تھا کہ رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ (ابراہیم : 37) رات کے گزرنے کے بعد یہ الفاظ تو بار بار مجھے یاد آتے رہے باقی آیتیں میں پڑھتا ضرور ر ہوں لیکن مجھے یاد نہیں رہیں صبح کے وقت میرا خیال یہ تھا کہ شاید حضرت نوح کی دعاؤں میں سے ہے مگر جب قرآن شریف کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں میں سے ہے جو آبادی مکہ کے وقت آپ نے مانگیں.اس وقت وہ اپنی اولاد کے لئے اور مکہ کے رہنے والوں کے لئے دعائیں کرتے وقت ان کے ایمان کے لئے بھی دعا کرتے ہیں اور ان کے رزق کے لئے بھی دعا کرتے ہیں ایمان کی دعا میں وہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کو شرک سے بچایا جائے اور بتوں کے اثر سے محفوظ رکھا جائے اور اس تسلسل میں وہ فرماتے ہیں.رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ خدایا ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے تو ان کے اثر سے میری اولاد اور مکہ کے رہنے والوں کو بچا.دوسری دعا جو بار بار میری زبان پر جاری ہوئی جو گویا ساری رات پہلی دعا کے ساتھ مل کر زبان پر جاری ہوتی رہی.کبھی وہ جاری ہو جاتی تھی کبھی یہ.وہ یہ تھی کہ
515 رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ (الانبياء : اے خدا مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے اچھا وارث ہے.یہ دونوں دعائیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے میری زبان پر جاری کی ہیں نہایت مبارک ہیں پہلی دعا میں جماعت کی حفاظت اور ربوہ کی حفاظت کا ایک رنگ میں وعدہ کیا گیا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی رنگ میں اس مرکز کو توحید کے قیام کا ذریعہ بنائے گا اور دوسری دعا میں جماعت کی ترقی کی طرف اشارہ ہے اور دشمنوں کے ظلم سے بچانے کی طرف بھی اشارہ ہے.الفضل 9.جولائی 1952ء صفحہ 4 جون 1952ء 554 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں اور ایک چارپائی پر لیٹا ہوا ہوں اور سامنے فرش پر ایک سکھ اور دو تین ہندو بیٹھے ہوئے ہیں.میں ان سے مذاقیہ کہتا ہوں کہ آپ لوگوں نے تو اردو کو تباہ کرنے کی بہت کوشش کی مگر یہ پنجابی زبان اردو سے اتنی ملتی ہے کہ اس کی وجہ سے آپ اسے مٹا نہیں سکے اس پر سکھ اٹھ کر میرے پلنگ کے پاس آگیا اور بڑے زور سے کہنے لگا کہ دیکھئے ہم لوگ تو پنجابی کو قائم رکھے ہوئے ہیں اور اس طرح اردو کی بھی مدد کر رہے ہیں مگر یہ ہند و مخالفت کر رہے ہیں مگر ہندو بولے.نہیں.نہیں.ہم ایسا نہیں کر رہے مگر میں مذاق کے رنگ میں انہیں طعن کرتا گیا اور اس میں آنکھ کھل گئی.الفضل 9.جولائی 1952ء صفحہ 5-4 جولائی 1952ء فرمایا 555 ہیں پچیس دن ہوئے احراری فتنہ کے دنوں میں نے دعا کی تو میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک مکان میں ہوں جو بہت وسیع بنا ہوا معلوم ہو تا ہے.مکان سے باہر کسی شخص نے آواز دی یا دستک دی.میں کمرہ سے ادھر جانے کے لئے نکلا ہی تھا کہ میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سامنے کے کمرہ سے نکل کر تیزی سے باہر تشریف لے جارہے ہیں میں نے ساتھ تو جانا چاہا لیکن آپ نے مجھے ہاتھ کے اشارہ سے روک دیا.میری طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ باہر چونکہ خطرہ ہے اس لئے میرا ساتھ جانا ٹھیک نہیں آپ کے باہر
516 تشریف لے جانے پر مجھے خیال آیا کہ آپ کو کچھ دیر کے بعد میں نے دیکھا ہے میں آپ کو نذرانہ پیش کروں میں خیال کرتا ہوں کہ میری جیب میں چھ سو روپیہ ہے یہ میں پیش کروں گا یہ میں سوچ ہی رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام واپس تشریف لے آئے.میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا کہ میں روپیہ نکال کر آپ کو دوں لیکن معا یہ خیال آیا کہ آپ کے سامنے اس طرح روپیہ نکال کر دیکھنا اور گننا کہ یہ چھ سو پورا ہے یا نہیں یہ گستاخی کا رنگ رکھتا ہے اور میں نے خیال کیا کہ جب آپ کمرہ کے اندر چلے جائیں گے تو میں روپیہ گن کر دو سرے موقع پر پیش کروں گا آپ جب کمرہ میں داخل ہوئے تو آپ نے السلام علیکم کہا اور پھر درمیانی رستہ میں سے جو مکان کے کمروں میں ہے گزرتے ہوئے اپنے کمرہ میں داخل ہو گئے اور اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.الفضل 17.اگست 1952ء صفحہ 3 جولائی1952ء 556 فرمایا : میں نے دیکھا کہ گویا ہم قادیان میں ہیں اور اسی مکان میں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا لیکن کمروں وغیرہ میں کچھ فرق معلوم ہوتا ہے مکان کی شکل زیادہ تر اس پرانے نقشہ کے مطابق ہے جو کہ ابتداء میں مکان کا تھا.میں حضرت اماں جان) کے صحن میں سے گزر رہا ہوں صحن میں دو عورتیں چادر اوڑھے لیٹی ہیں جیسے کچھ بیمار ہوتی ہیں حضرت اماں جان) مکان کے اس حصہ سے باہر تشریف لائیں جس میں ہجرت کے وقت ام متین رہا کرتی تھیں ان کو دیکھتے ہی مجھے یہ احساس ہوا کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ابھی فوت ہوئے ہیں اور میں دل میں خیال کرتا ہوں کہ اب آپ کے گزارہ کی کیا صورت ہوگی یہ خیال آتے ہی میں نے اپنے دل میں کہا کہ جو کچھ میری آمد ہو گی وہ میں ان کی خدمت میں پیش کر دیا کروں گا اور وہ خود اپنی مرضی سے جو کچھ ہمارے گزارہ کے لئے دینا چاہیں گی دے دیا کریں گی.یہ سوچ کے میں پاس کے ایک صحن کی طرف چلا گیا جو مشرق کی طرف ہے اور جہاں آخری زمانہ میں باورچی خانہ تھا مگر پہلے کسی زمانہ میں وہ گھر کا حصہ تھا اور اپنی شادی کے ابتدائی زمانہ میں میں بھی وہاں رہا ہوں میں جب اس صحن میں داخل ہونے لگا تو حضرت اماں جان) نے فرمایا میں بھی آجاؤں اور کچھ دیر کے لئے وہاں بیٹھوں.میں نے کہا ”شوق سے " اور یہ کہہ کر میں صحن میں داخل ہوا
517 اس کے ساتھ ایک کمرہ ہے.وہ کمرہ بھی ابتدائی زمانہ میں ہوا کرتا تھا اور میں اسی میں پڑھا کرتا تھا اس کمرہ میں ہماری کچھ اور رشتہ دار عورتیں بھی ہیں.میں جب وہاں گیا تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کھانے کا وقت ہے.کسی نے کہا.دستر خوان بچھائیں اور دستر خوان بچھانا شروع کر دیا.بہت سی عزیز عورتیں اور بچے جن میں سے بعض کسی قدر دور کے رشتہ دار بھی ہیں کھانے کے لئے بیٹھ گئے جو عورتیں دور کی عزیز ہیں وہ بجائے سامنے کی صف میں بیٹھنے کے پہلو کی صف میں بیٹھیں تا کہ پردہ بھی قائم رہے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.الفضل 17.اگست 1952 صفحہ 3 557 اگست 1952ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ بیٹھا ہوں اور کوئی سوڈیڑھ سو کے قریب احمدی میرے ارگرد بیٹھے ہیں سب کے لباس سفید ہیں اور پگڑیاں بڑی بڑی باندھی ہیں اور وہ بھی سفید ہیں میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں میں سے بعض کے دل پر میری مخالفت کا کچھ بوجھ ہے مگر بوجھ اس رنگ میں ہے کہ بعض لوگوں کو تو شہادت مل رہی ہے اور ہم شہادت سے محروم ہیں.میں ان لوگوں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ یہ نہ سمجھو کہ انعامات وہی لے گئے ہیں جو شہید ہو گئے تم لوگ بھی جو اپنے دل میں اس بات کی امید رکھتے ہو کہ خدا کی راہ میں اگر ہم مارے جائیں تو کوئی پرواہ نہیں اس میں ہماری خوش نصیبی ہے ویسے ہی شہید ہو جیسے وہ لوگ جو کہ عملاً شہید ہوئے ان کا عملاً شہید ہونا ان کے کاموں کا نتیجہ نہیں بلکہ خدا تعالٰی کے فعل کا نتیجہ ہے اگر تم شہید نہیں ہوئے تو خدا تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا نہیں کئے کہ تم شہید ہو جاتے پس اس کی وجہ سے خدا تعالیٰ تم کو شہادت کے مرتبہ سے محروم نہیں کرے گا بلکہ خدا تعالیٰ کی نظروں میں تم بھی ویسے ہی شہید ہو جیسا کہ وہ لوگ جو کہ ملا شہید ہو گئے.الفضل 17.اگست 1952ء صفحہ 3 558 اگست 1952ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ گویا ہم قادیان میں ہیں اور رات کا وقت ہے میں اور ام متین وہاں سو رہے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ گھر کے اندر نہیں سو رہے بلکہ اس چوک میں سو رہے ہیں جو کہ مسجد مبارک کے سامنے اور مرزا نظام الدین صاحب کے مکان کے سامنے ہے تہجد کے وقت
518 میری آنکھ کھلی تو میں نے ام متین سے کہا کہ چلو اندر بستر لے چلیں کیونکہ اب صبح کا وقت قریب ہے ممکن ہے کہ اس گلی کی طرف سے جو مسجد اقصیٰ کی طرف سے آتی ہے کچھ لوگ آئیں تو بے پردگی ہو مگرام متین کہتی ہیں کہ ابھی ٹھر جائیں کوئی نہیں آتا مگر میں نے اصرار کیا اور بستر اٹھانا شروع کیا بستر کا ایک حصہ اٹھا کے میں مسجد مبارک کی سیڑھیوں پر سے چڑھا.مسجد مبارک کی سیڑھیوں میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائی زمانہ میں ایک چھوٹا دروازہ کھلتا تھا وہ وہاں موجود ہے میں نے اس پر دستک دی پہلی بار دستک دی مگر کوئی نہیں بولا دوسری دفعہ دستک دینے پر اندر سے آواز آئی.کون ہے.اور میں نے بتایا کہ میں ہوں.دروازہ کھولو.اس پر حضرت اماں جان) کی ایک مرحومہ خادمہ جن کا نام سردار تھا اور جو نو مسلمہ تھیں ہندو سے مسلمان ہوئی تھیں ان کی آواز آئی کہ حضرت صاحب ہیں دروازہ کھولو اور آگے بڑھ کے انہوں نے اور ایک اور عورت نے دروازہ کھول دیا میں نے بستر کا وہ حصہ جو اٹھا کے لایا تھا وہاں رکھ دیا اور میں نے کہا.ابھی دروازہ کھلا رکھو میں باقی بستر لاتا ہوں جب میں واپس آنے لگا تو انہوں نے کہا کہ ہم کچھ آدمی ساتھ بھیج دیں وہ بستر اٹھا لائیں میں نے انہیں منع کیا او کہا کہ میں خود ہی بستر اٹھا لاتا ہوں واپس جاکر میں نے کچھ حصہ اور بستر کا اٹھایا اور ام متین سے کہا کہ میں یہ چھوڑ آؤں تو پھر باقی بستر اٹھا کر لے جاؤں گا اور تم بھی ساتھ ساتھ چلے چلنا لیکن جب میں یہ بستر چھوڑنے جارہا تھا تو میری آنکھ کھل گئی.الفضل 17 - اگست 1952ء صفحہ 3 14.اگست 1952ء 559 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ ہم کہیں ربوہ سے باہر کسی شہر میں ہیں جمعہ کا دن ہے اس جگہ کی جماعت اچھی خاصی بڑی ہے اور میں جمعہ پڑھنے کے ارادہ سے تیاری کر رہا ہوں.عزیزم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ بھی وہاں ہیں جمعہ کی تیاری کرنے کے بعد گھر کے ایک بڑے کمرہ میں سنتیں پڑھنے میں مشغول ہو گئے یہ مجھے اب یاد نہیں رہا کہ کس خیال سے آیا بیماری کے خیال سے یا کسی اور خیال سے میں نے نماز ہی میں خیال کیا کہ آج جمعہ میں نہ پڑھاؤں بلکہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پڑھائیں.اس وقت نماز میں ہی مجھ پر خطبہ کے متعلق کچھ انکشافات شروع ہوئے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانی اعلیٰ زندگی کے دو حصے ہوتے ہیں ایک
519 اخلاقی اور ایک روحانی.کچھ امور اخلاقی زندگی کے ستون کے طور پر ہوتے ہیں اور کچھ روحانی زندگی کے ستون کے طور پر ہوتے ہیں اور ان دونوں زندگیوں کے متعلق یہ قاعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے سعید بندوں کے دل میں کسی ایک یا ایک سے زیادہ مضمونوں میں مناسبت رکھ دیتا ہے اس مناسبت کی ادنی صورت تو یہ ہوتی ہے کہ اس شخص کے دل میں ان اعمال کے کرنے کی خواہش بڑے زور سے پیدا ہوتی ہے اور وہ گویا ان اعمال کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھنے لگتا ہے اور اس کا اعلیٰ مقام یہ ہوتا ہے کہ وحی خفی کے طور پر اس ایک خلق یا ایک سے زیادہ اخلاق کی طرف اس کی توجہ پھیری جاتی ہے اور وہ ان کا مبلغ بن جاتا ہے اور دیوانہ وار بنی نوع انسان میں ان کی اشاعت کرنے لگ جاتا ہے.جو روحانی حصہ ہے مذہبی رنگ کا اس میں بھی اسی طرح ہوتا ہے کہ پہلے انسان کی فطرت میں کچھ مضمون رکھے جاتے ہیں اس کے بعد ایک خاص زمانہ میں اللہ تعالیٰ وحی جلی یعنی وحی اور الہام کے ذریعہ سے اس شخص کو ان مضامین کی طرف توجہ دلاتا ہے اور نہ صرف خود وہ کام کرنے لگ جاتا ہے بلکہ ان کی تبلیغ میں مشغول ہو جاتا ہے اور اس کام میں بالکل محو ہو جاتا ہے جو لوگ پہلے حصہ یعنی اخلاقی حصہ کی وحی خفی پاتے ہیں ان میں غیر مذاہب کے بعض سعید الفطرت لوگ بھی ہوتے ہیں مگر زیادہ تر بچے مذہبوں کے ماننے والے ہوتے ہیں یہ لوگ اخلاقی حصہ کی اتباع تو اپنی فطرت اور وحی خفی سے کرتے ہیں اور روحانی حصہ کی اتباع اپنی فطرت اور نبی کی وحی جلی کے تحت کرتے ہیں نبیوں کو دونوں حصوں کا علم بخشا جاتا ہے لیکن فرق یہ ہوتا ہے کہ اخلاقی حصہ پہلے انہیں طبیعت اور وحی خفی سے ملتا ہے اور پھر بعد میں وحی جلی میں وہی علم زیادہ وضاحت کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے.پھر مجھے بتایا گیا کہ صلحاء کو اخلاقی حصے کا علم طبیعی اپنے اپنے درجہ کے مطابق ایک ایک دو دو تین تین چار چار قسم کے ملتا ہے حتی کہ طبیعت تامہ کاملہ جو ہوتی ہے اس کو سارے اخلاق کا علم ودیعتاً اور وحی خفی کے ذریعہ سے بھی ملتا ہے اسی طرح روحانی امور کا حصہ بھی انبیاء کو ایک ایک دو دو تین تین چار چار قسم کا ملتا ہے مگر انسان کامل کو سارے اقسام کا علم ملتا ہے جب مجھے یہ مضمون سمجھایا جا رہا تھا تو دو تختیاں بھی میرے سامنے پیش کی گئیں جو ہیں تو الگ لیکن جڑی ہوئی ہیں ان کی شکل کچھ اس قسم کی ہے.
520 نمبرا نمبر 2 پہلی تختی پر جو نشان ہیں مجھے بتایا گیا کہ یہ اخلاقی اصولوں کے نشان ہیں جو حصہ ہاتھ میں پکڑنے والا ہے جہاں کی لکیریں درمیان میں آکے رک جاتی ہیں وہ اخلاق کے متعلق ہیں اور دوسری سختی روحانیت کا نقشہ کھینچتی ہے اس رنگ کا نقشہ بنا ہوا ہے جیسا کہ پیانو وغیرہ باجوں کا نقشہ ہوتا ہے مگر ان میں تو سوراخ ہوتے ہیں ان کی لکیریں جہاں دکھائی گئی ہیں وہاں سوراخ نہیں ہیں صرف گڑھے دار لکیریں بنی ہوئی ہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ گویا انسانی روح ایک لکیر سے شروع ہو کر اس کے آخر تک چلی جاتی ہے اور وہ اس حصہ کا علم حاصل کر لیتی ہے پھر دوسری سے شروع کر کے آخر تک چلی جاتی ہے اور اس حصہ کا علم حاصل کر لیتی ہے.علیٰ ہذا القیاس.اور یہی طریقہ روحانی سختی میں بھی استعمال ہوتا ہے.پھر مجھے بتایا گیا کہ انسانی روحیں مختلف مدارج میں بعض دفعہ کچھ اخلاقی مسائل پر عبور کرلیتی ہیں اور بعض دفعہ سارے اخلاقی مسائل پر عبور کر لیتی ہیں اور بعض روحانی لوگ روحانی سختی کے بعض حصوں پر عبور کر لیتے ہیں مگر یہ روحانی لوگ کچھ اخلاقی حصوں پر بھی عبور کر لیتے ہیں گو اخلاقی لوگوں کے لئے ضروری نہیں کہ کچھ روحانی امور پر بھی عبور کریں.پھر مجھے بتایا گیا کہ ایک وجود ایسا بھی ہے جس نے سارے ہی اخلاقی امور پر بھی عبور کیا ہے اور سارے ہی روحانی امور پر بھی عبور کیا ہے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وجود ہے آپ کا کمال یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ آپ نے ساری شقوں پر عبور حاصل کیا ہے بلکہ ہر شق کے ماہروں سے بھی آپ او پر نکل گئے ہیں گویا انفرادی تحمیل بھی آپ کو حاصل ہے اور مجموعی تکمیل بھی آپ کو حاصل ہے یہ وہ مضمون ہے جو اس وقت میرے دل میں ڈالا گیا اور میں سمجھتا ہوں کہ میں اسے خطبہ میں بیان کروں گا جب میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں چوہدری صاحب سے کہہ دوں کہ وہ خطبہ دیں تو ساتھ ہی میں نے خیال کیا کہ یہ مضمون لمبا ہے ایک خطبہ میں بیان نہیں ہو
521 سکتا آج چوہدری صاحب اخلاقی حصہ کو بیان کر دیں پھر کسی موقع پر میں روحانی حصہ کو بیان کر دوں گا یہ خیال کر کے جبکہ سنتوں کے بعد میں بھی اور چوہدری صاحب بھی بیٹھے ہوئے ہیں جیسا کہ ذکر الہی کے لئے بیٹھتے ہیں تو میں نے وہ تختیاں چوہدری صاحب کی طرف بڑھائیں اور میں نے کہا کہ آج آپ جمعہ کا خطبہ پڑھیں اور یہ مضمون بیان کر دیں پھر میں ان تختیوں کے متعلق جو مضمون مجھے بتایا گیا تھا ان سے بیان کرتا ہوں اور یہ بھی کہتا ہوں کہ دوسرا حصہ میں بیان کروں گا آپ پہلی تختی کے متعلق بیان کریں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.پہلی دو رویا سے معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ کے لئے بہت زیادہ قربانی کرنے کا وقت آگیا ہے مخلصین کو اللہ تعالیٰ اس کی توفیق بخشے گا اور تیسری خواب سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قادیان کو موجودہ ہندوستانی فتنہ سے نسبتاً امن بخشے گا اور چوتھی رویا سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک حد تک موجودہ فتنہ اور بڑھے گا اور ایک جماعت مخلصین کی ایسی پیدا ہو جائے گی جو السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ میں شامل ہو جائے گی اور اخلاص کا اعلیٰ مقام حاصل کرلے گی اور اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں فتوحات روحانیہ بخشے گا اور بغیر ظاہری شہادت ملنے کے وہ شہیدوں میں شامل کئے جائیں گے فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَ مِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب : 24) الفضل 17 اگست 1952ء صفحہ 4 -3 560 نومبر 1952ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک دوست جنہوں نے مجھے کچھ تحفہ دیا ہے وہ میرے ساتھ ہیں اور میں ان سے کہ رہا ہوں کہ میں نے سنا ہے کہ آپ پر یہ بات گراں گزری ہے کہ میں نے آپ کا تحفہ آگے سلسلہ کی طرف منتقل کر دیا ہے لیکن یہ رپورٹ آپ کو غلط ملی ہے میں نے سارا تحفہ منتقل نہیں کیا.اس کا ایک حصہ منتقل کرنے کا ارادہ کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تحفہ بہت بڑا تھا اور میں سمجھا تھا کہ اس کا ایک حصہ دین کو بھی چلا جائے تاوہ ایسے رنگ میں استعمال ہو کہ مجھے تقسیم کنندہ کے طور پر ثواب مل جائے اور آپ کو اصل خرچ کرنے والے کے طور پر ثواب مل جائے.الفضل 18.نومبر 1952ء صفحہ 2
522 561 ومبر 1952ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا جلسہ ہے اور اس میں میں نے تقریر کرنی ہے میں جلسہ گاہ میں گیا ہوں تو میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا وسیع میدان ہے جس میں کرسیاں بچھی ہوئی ہیں اور علاوہ عام قسم کی کرسیوں کے کو چیں اور گرے والی کرسیاں بھی ہیں بڑی قیمتی اور خوشنما جیسے بہت بڑے بڑے جلسوں اور چائے کی دعوتوں میں امراء اور گورنمنٹ کے ہاں کرسیاں ہوتی ہیں اسی قسم کی ہیں اور ان تمام پر لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ جلسہ گاہ کھچا کھچ بھری ہوئی ہے درمیان میں تو اچھی قسم کی لیکن بغیر بازوؤں والی کرسیاں ہیں اور کناروں پر اعلیٰ قسم کی کو چیں اور ان کے ساتھ کی کرسیاں ہیں.سٹیج ایک اونچی جگہ پر ہے جیسے وہ کسی پہاڑی کا دامن ہو تا ہے اور اسے بھی نہایت خوشنما سامانوں سے سجایا ہوا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ تقریر میری ہے اور اس کے صد رسید رضا علی مرحوم ہیں.سید رضا علی قبل از تقسیم ہندوستان میں عرصہ تک پبلک سروس کمیشن کے ممبر رہے ہیں اور لیگ کے بھی سرکردہ ممبروں میں سے تھے اور ایک اجلاس کی انہوں نے صدارت بھی کی تھی جو بمبئی میں ہوا تھا اسی سال کابل میں ہمارے تین مبلغ شہید کئے گئے تھے اور عام طور پر مسلمان اخبارات اس کے خلاف آواز اٹھانے سے ہچکچاتے تھے لیکن سید رضا علی صاحب مرحوم نے اپنے خطبہ صدارت میں اس فعل کی مذمت کی اور بڑی دلیری سے اس کو خلاف اسلام قرار دیا خواب میں میں دیکھتا ہوں کہ وہی اس تقریر میں صدر ہوں گے جب میں جلسہ گاہ میں آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ پہلے ہی اپنی کرسی صدارت پر بیٹھے ہیں رنگ سفید ہے جیسا کہ ان کا تھا عمران کی اس سے چھوٹی معلوم ہوتی ہے جس عمر میں کہ میں نے ان کو دیکھا تھا یعنی خواب میں وہ زیادہ جوان معلوم ہوتے ہیں وہ داڑھی منڈوایا کرتے تھے مگر مجھے یہ یاد نہیں رہا کہ ان کی مونچھیں ہوا کرتی تھیں یا نہیں خواب میں میں نے ان کی بہت چھوٹی چھوٹی مونچھیں دیکھیں جس کی وجہ سے ان کا رنگ اور بھی سفید نظر آتا ہے ایک عجیب بات میں نے یہ دیکھی کہ عام طور پر تقریر صدر کے ساتھ کھڑے ہو کر کی جاتی ہے مگر رویا میں میں نے دیکھا کہ انتظام یہ ہے کہ صدر کے بالمقابل ہجوم کے دوسری طرف کھڑے ہو کر سٹیج کی طرف منہ کر کے تقریر ہوگی چنانچہ میں جلسہ گاہ کے آخری سرے پر گیا ہوں وہاں بھی بہت سی کو چیں بچھی ہوئی ہیں ایک کھلی کوچ پر
523 میں جا کر بیٹھ گیا میرے ساتھ عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب بھی آکر بیٹھ گئے اور ان کے ساتھ ایک سرا شخص آکر بیٹھ گیا جس کو چ پر ہم بیٹھے ہیں اس کے ساتھ کی ایک کرسی خالی پڑی ہے اتنے میں ایک شخص آیا جو مکہ مکرمہ سے آیا ہے جس شخص نے آکر اس کو ملایا ہے وہ بتاتا ہے کہ انہوں نے احمدیت کی تعلیم سنی ہے اور یہ احمدی ہونے کے لئے آئے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ معزز اور آسودہ حال آدمی ہے انہوں نے مصافحہ کرتے ہوئے مجھے کچھ نذرانہ دیا وہ نذرانہ پاکستان کے سوسو کے نوٹوں کی صورت میں ہے شاید پانچ نوٹ ہیں نوٹ موجودہ نوٹ سے کوئی اڑھائی گنے بڑا ہے.رنگ سبز ہی ہے لیکن بہت زیادہ خوشنما اور اعلیٰ درجہ کے ریشم کی طرح.آنکھوں کو تراوت بخشتا ہے ان سے پہلے یا بعد کسی سلسلہ کے کام کے متعلق کوئی مسل ہے جو ذوالفقار علی خان صاحب اور میاں بشیر احمد صاحب نے پیش کرنی ہے وہ مسل میاں بشیر احمد صاحب نے میری گود میں رکھ دی ہے اور یا تو اس عرب دوست نے جو نذرانہ دیا ہے وہ بعد میں دیا ہے اور میں نے اس مسل کے اوپر نوٹ رکھ دیئے ہیں یا وہ مسل بعد میں پیش ہوئی ہے لیکن میں نے اس کو نوٹوں کے نیچے رکھ دیا ہے بہر حال وہ مسل نوٹوں کے نیچے معلوم ہوتی ہے اس وقت ذوالفقار علی خاں صاحب برادر اکبر علی برادران مرحوم آگے کی طرف بڑھے اور میاں بشیر احمد صاحب سے کہا کہ وہ مسل پیش کر دی ہے انہوں نے کہا کہ ہاں پیش کر دی ہے اور یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ کاغذات میرے پاس ہیں انہوں نے جلدی سے وہ کاغذات اٹھائے ہیں اور اس کے ساتھ وہ نوٹ بھی اٹھالئے ہیں پھر یہ دیکھ کر کہ ان کاغذات کے ساتھ تو کچھ نوٹ بھی ہیں اور یہ خیال کر کے کہ یہ ان عرب صاحب کے ہی ہیں انہوں نے وہ کاغذات تو اٹھا کے دیکھنے شروع کر دئیے اور وہ نوٹ عرب صاحب کی جیب میں ڈال دیئے کہ یہ روپے آپ کے رہ گئے ہیں اس وقت میری جیب سے یا غالبا میرے ہاتھ سے دو روپے کا ایک نوٹ ان نوٹوں پر گرا ہے عرب صاحب نے غالبا یہ خیال کر کے کہ میرا نذرانہ واپس کر دیا گیا ہے نوٹ تو رکھ لئے مگر دو روپے جو میرے ہاتھ سے گر گئے تھے میرے دامن میں ڈال دیئے اس پر میری آنکھ کھل گئی.اس خواب میں چار اہم شخصیتیں معلوم ہوتی ہیں سید رضا علی جو مذ ہبا بھی غالبا شیعہ تھے اور ان کے نام میں بھی علی آتا ہے اور ذوالفقار علی جو مذ ہبا سنی احمدی ہیں لیکن ان کے نام میں علی اور ذوالفقار آتا ہے اور عرب نوجوان جو کہ سلسلہ کی خبر سن کر سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے
524 آئے اور مرزا بشیر احمد صاحب جن کے نام میں بشارت پائی جاتی ہے جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس رویا میں دو پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ایک تو اس طرف کہ عرب میں ہماری مخالفت کے لئے جو کوشش کی جائے گی وہ انشاء اللہ الٹا نتیجہ پیدا کرے گی اور ہمارے حق میں مفید سامان پیدا ہوں گے اور دوسرے یہ کہ علی کی رضا اور اس کی تلوار ہمارے ساتھ شامل ہوں گی جس کے ظاہری معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ شیعہ جماعت کا ایک حصہ جو صاحب رسوخ اور طاقت والا ہو گا اس کو اللہ تعالیٰ انصاف کی توفیق بخشے گا اور وہ ہمارا ساتھ دے گا اور ہمارے لئے خوشخبری اور برکت کے سامان پیدا ہوں گے.الفضل 18.نومبر 1952ء صفحہ 2 562 نومبر 1952ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک جگہ پر میں بیٹھا ہوں میرے ساتھ ایک دو اور آدمی بھی ہیں یہ یاد نہیں رہا کہ وہ مستورات ہیں یا مرد ہیں ایک نوجوان آیا جو کہ ایک معلوم خاندان کا فرد ہے لیکن وہ خاندان تو معلوم ہے وہ نوجوان مفقود ہے یعنی اس کا وجود ظاہری کوئی نہیں ہے خواب میں میں اسے موجود سمجھتا ہوں وہ ایک مخلص احمدی کا بیٹا معلوم ہوتا ہے (جس کا کوئی اس قسم کا بیٹا نہیں ہے ) وہ آ کے مجھے کہتا ہے کہ میرا کچھ کام ہے ظفر اللہ خان سے کہیں کہ وہ یہ کام کر دیں اس وقت میرے دل میں اثر یہ ہے کہ گو یہ کسی کام کے لئے آیا ہے لیکن اصل غرض اس کی یہ ہے کہ میری کسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے اور اس کے لئے درخواست دینا چاہتا ہے مگر شرم کے مارے فوراً اس کا ذکر نہیں کر سکتا دوسری باتوں کے بعد ادھر آنا چاہتا ہے رویا میں مجھ پر یہ اثر ہے کہ یہ لڑکا تو نیک ہے لیکن اس کی طبیعت میں کچھ غرور اور خود پسندی ہے اگر اس کا علاج ہو جائے تو لڑکا اچھا ہے اس خیال کے ماتحت میں نے سمجھا کہ میں اس کے اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے جو اس نے کیا ہے اسے توجہ دلاؤں کہ وہ اپنی حیثیت اپنی حقیقت سے زیادہ سمجھتا ہے چنانچہ اس خیال کے ماتحت میں نے اسے کہا کہ ظفر اللہ خاں کا ان معاملات سے کیا تعلق ہے لیکن فرض کرو کہ ہو تو وہ کیوں تمہارے معاملہ میں دخل دیں اور پھر وہ تو اس وقت یہاں ہیں بھی نہیں وہ امریکہ گئے ہوئے ہیں اس پر اس لڑکے نے پھر کہا کہ میرا معاملہ تو اتنا اہم ہے کہ ظفر اللہ خاں کو اگر امریکہ سے بھی آنا پڑے تو ان کو آکر یہ کام کرنا چاہئے اس کا یہ جواب سن کر میں نے
525 نہایت غصہ سے اسے کہا کہ تم عجیب آدمی ہو ظفر اللہ خاں پاکستان حکومت کے نوکر ہیں اور اس کے فوائد کو مد نظر رکھنا ان کا فرض منصبی ہے وہ اس کے کام کو چھوڑ کر تمہاری طرف توجہ کس طرح کر سکتے ہیں اور فرض کرو کہ وہ پاکستان کے نوکر نہ بھی ہوتے تب بھی پاکستان مجموعہ افراد اور قوم اور ملک کا نام ہے اور تم ایک شخص ہو ایک شخص خواہ کتنا بھی اہم ہو اس کے لئے قومی ضرورتوں کو کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے یہ تمہارا اسوال بالکل غلط ہے اور میں ایسا کرنے کے لئے تیار نہیں اس پر وہ مایوس ہو کے اٹھا اس کے اٹھتے ہی ایک گھو ڑالا یا گیا جو نہایت خوبصورت اور بے عیب گھوڑا معلوم ہوتا ہے وہ لڑکا اس کے اوپر چڑھ گیا اور گھوڑے پر چڑھتے ہی اس کا جسم بہت بڑا ہو گیا سینہ بڑا چوڑا ہو گیا پیٹ بڑا پھیل گیا غرض ایک غیر معمولی قسم کا جسیم آدمی معلوم ہونے لگا گھوڑے پر بیٹھنے کے بعد بھی اس نے وہی بات پھر دہرانی چاہی اس پر میں نے اسے کہا کہ تمہاری سمجھ کم ہے اگر تمہیں سمجھ ہوتی تو کم سے کم تم اتنا خیال کرتے کہ خلیفہ وقت کے سامنے تم گھوڑے پر سوار ہو کر باتیں کر رہے ہو اس وقت پھر میرے دل میں خیال آیا کہ اس میں تربیت کی کمی ہے ورنہ یہ لڑکا بہت سلیم الفطرت ہے کاش کہ اس کی اصلاح ہو جائے مجھے پوری طرح یاد تو نہیں رہا لیکن غالبا جس وقت میں نے آخری بات کہی ہے وہ گھوڑے سے اتر آیا اور اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.الفضل 18.نومبر 1952ء صفحہ 3-2 563 نومبر 1952ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک پہاڑی ہے مگر اس کے اوپر کوئی سبزہ اور گھاس نہیں لیکن وہ جگہ خنک اور سرد ہے میرے دل میں خیال آیا کہ یہ جگہ لے کر ہم احمدی آبادی بسا دیں تو پہاڑ پر آنے جانے میں جو وقت ہوتی ہے وہ دور ہو جائے میری تحریک پر بعض لوگوں نے اس جگہ پر زمینیں لیں اور میں ذہن میں یہ سوچتا ہوں کہ اس جگہ پر بعض ٹکڑے صاف کر کے ان میں باہر سے مٹی لا کر ڈلوا دی جائے اور اس جگہ پر درخت اگا دیئے جائیں اور سبزہ اگا دیا جائے تو یہ جگہ خوشنما ہو جائے گی یہ خیال آتے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ جگہوں پر خدا نے ایسا انتظام کر بھی دیا ہے میں اس جگہ سے ہٹ کر ذرا پیچھے آیا تو ایک بہت بڑا مکان بنتے میں نے دیکھا جو کسی احمدی کا ہے ایسا خیال پڑتا ہے کہ وہ چوہدری غلام مرتضی صاحب سیالکوٹی کا ہے جو ملتان میں رہتے ہیں
526 وہ باہر سے مٹی اٹھا اٹھا کے اس کی دیواروں کے ساتھ ڈلوار رہے ہیں مجھے دیکھ کر وہ آگئے اور کہنے لگے کہ ہمارے لئے تو ضرورت ہے کہ کوئی جگہ الگ خرید کر وہاں مکان بنا ئیں یہ غیر احمدی لوگ ہمارے اتنے دشمن ہیں کہ دیکھیں ہمیں مٹی بھی اٹھانے نہیں دیتے اور یہ ہماری ہمسائگت کو بھی برداشت نہیں کر سکتے مجھے اس وقت رویا میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ چوہدری صاحب زیادتی کر رہے ہیں چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ چوہدری صاحب غالبا آپ مٹی ایک ایسی جگہ سے اٹھا رہے ہیں جہاں سے اٹھانے سے پبلک کو نقصان پہنچتا ہے اس لئے آپ کو کمیٹی روکتی ہے پس آپ کو ان پر بدظنی نہیں کرنی چاہئے آخر کسی کام سے پبلک کو نقصان پہنچے تو اس کو روکنا ہی اچھا ہوتا ہے اسی جگہ پر پاس ہی گھر کی مستورات بھی بیٹھی ہوئی ہیں میں ان سے بات کر کے ان مستورات کے پاس آیا وہاں دو بچے کھیل رہے ہیں حضرت (اماں جان) وہاں ہیں وہ ان بچوں کی طرف اشارہ کر کے کہتی ہیں کہ ان بچوں کو جانتے ہو ؟ میں کہتا ہوں ہاں! ہاں ! یہ لڑکے چوہدری رحیم بخش کے رشتہ داروں کے لڑکے ہیں (نام پوری طرح یاد نہیں رہا غالبار حیم بخش یا اس سے ملتا جلتا نام تھا اور وہ رشتہ دار راہوالی کے رہنے والے ہیں میرے چوہدری رحیم بخش صاحب کہنے پر حضرت اماں جان) کے چہرے سے کچھ تعجب کے آثار ظاہر ہوئے کہ گویا میں نام غلط لے رہا ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ رہا ہوں کہ میں ان کو جانتا ہوں اس پر میں نے جھٹ کہا کہ ہاں وہی چوہدری رحیم بخش جن کو چوہدری محمد شریف بھی کہتے ہیں منٹگمری والے گویا خواب میں میں چوہدری محمد شریف صاحب کا دوسرا نام رحیم بخش بھی سمجھتا ہوں.راہوالی گوجرانوالہ کا ایک گاؤں ہے میرے علم میں تو چوہدری محمد شریف صاحب کی وہاں کوئی رشتہ داری نہیں.ممکن ہے کوئی پرانے زمانہ کی رشتہ داری ہو اور ممکن ہے راہوالی ضلع سیالکوٹ میں بھی کوئی گاؤں ہو جہاں کے وہ اصل باشندے ہیں یا شاید اس کی کوئی اور تعبیر ہو.راہوالی کے معنے راستہ والے کے ہوتے ہیں.صراط مستقیم کے معنی بھی اس میں پائے جاسکتے ہیں یہ بات کر کے میں مستورات سے الگ ہوا تو چوہدری محمد شریف صاحب بھی آگے کھڑے ہیں اور ان کے والد نواب محمد دین صاحب مرحوم بھی ہیں اور ساتھ ان کے چوہدری محمد شریف صاحب کی والدہ مرحومہ یعنی نواب محمد دین صاحب مرحوم کی بیوی بھی ہیں نواب صاحب اچھے مضبوط معلوم ہوتے ہیں اور ان کی بیوی اچھی جو ان معلوم ہوتی ہے چوہدری محمد شریف صاحب پر نظر
527 پڑتے ہی مجھے کچھ حیاسی محسوس ہوئی کہ یہ کہیں گے کہ میرا نام انہوں نے غلط لیا ہے یعنی ساتھ ہی میں خیال کرتا ہوں کہ ان کا نام رحیم بخش بھی ہے غلط نام میں نے نہیں لیا نواب صاحب نے میرے ساتھ کچھ بات شروع کر دی اور میرے ساتھ میدان میں ٹہلنا شروع کر دیا اور انہوں نے کہنا شروع کیا کہ اسلام پر جو اعتراضات ہوتے ہیں یا جو نئے نئے عقدے مسلمانوں کے لئے پیش آتے ہیں ان کے جواب کے لئے بڑی وقت ہوتی ہے میرے ساتھ کئی دفعہ لوگوں نے گفتگو کی کہ اس کے لئے کون سے لٹریچر کی ضرورت ہے تو میں نے ہمیشہ ان کو یہ جواب دیا ہے کہ ان ساری باتوں کا جواب تفسیر کبیر میں آجاتا ہے اور جس کا اس وقت تک جواب نہیں آیا اس کا اگلے حصوں میں آجائے گا پس مجھے تو اس کتاب سے سارے جواب مل جاتے ہیں اس پر میری آنکھ کھل گئی.اس رویا سے ایک تو میں سمجھتا ہوں کہ اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جماعت میں بعض افراد خواہ مخواہ دو سروں پر بد ظنی کرلیتے ہیں کہ وہ ہمارے دشمن ہیں احراری ، جماعت اسلامی یا ان کے چیلے چانٹے جو ہیں ان کو چھوڑ کر باقی مسلمانوں میں اکثریت شرفاء اور نیک لوگوں کی ہے ہماری طرف توجہ کریں یا نہ کریں یہ اور بات ہے ورنہ فطرتا وہ سلیم لوگ ہیں اور ہمیں بجائے ان سے قطع تعلق کرنے کے اپنا تعلق بڑھانا چاہئے.تعلق بڑھانے سے ان کو ہمارے حالات معلوم ہوں گے اور ہمیں ان کے حالات معلوم ہوں گے اور ایک دوسرے کی بد ظنیاں دور ہوں گی اور ایک دوسرے کی نیکیاں معلوم ہوں گی.دوسری بات ذاتی طور پر نواب محمد دین صاحب کے خاندان کے متعلق معلوم ہوتی ہے شاید اللہ تعالیٰ چوہدری محمد شریف صاحب اور ان کے خاندان سے رحیمیت کا معاملہ کرے.تیسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں تفسیر کبیر مقبول ہے اور اگر اس کے فضل سے مزید حصے شائع کرنے کی توفیق ملی تو ان میں بھی اسلام کی مضبوطی اور اس کے کمالات کے ثبوت کا بہت سا مواد انشاء اللہ تعالیٰ مہیا ہو جائے گا.الفضل 18.نومبر 1952ء صفحہ 4 - 3 دسمبر 1952ء 564 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ کوئی تحریر میرے سامنے پیش کی گئی ہے اور اس میں یہ ذکر
528 ہے کہ ہمارے سلسلہ کا لٹریچر سنہالیز زبان میں شائع ہونا شروع ہو گیا ہے اور اس کے نتائج اچھے نکلیں گے میں خواب میں کہتا ہوں کہ سنگھالیز زبان تو ہے یہ سنہالیز کیوں لکھا ہے پھر میں سوچتا ہوں کہ سنہالیز زبان کونسی ہے تو میرا ذ ہن اس طرف جاتا ہے کہ شاید یہ ملائی زبان کی کوئی قسم ہے اس کے بعد آنکھ کھل گئی.عجیب بات یہ ہے کہ دوسرے ہی دن سیلون کے کسی نوجوان کا خط آیا کہ ہمارے ملک میں جو مبلغ آتے ہیں وہ انگریزی دان ہونے چاہئیں کیونکہ انگریزی کا زیادہ رواج ہے حتی کہ گو نام کے طور پر ہماری زبان سنگھالی کہلاتی ہے لیکن در حقیقت انگریزی زبان کو سمجھنے والے زیادہ لوگ ہیں اور ہمارے مبلغ سنگھالی سیکھ کر آتے ہیں انگریزی اچھی نہیں جانتے اور اسی زبان میں لٹریچر شائع ہوتے ہیں میں نے سمجھ لیا کہ وہی خواب والا مضمون اس میں آیا ہے چنانچہ میں نے ان کو لکھا کہ اب انگریزی کی وسعت کو آپ ختم سمجھئے.سنگھالی ترقی کرے گی اور اسی میں ہمارا لٹریچر مفید ہو گا کیونکہ یہی مجھے آج رویا میں بتایا گیا ہے آپ کے خط نے وہ مضمون میرے سامنے کر دیا ہے.الفضل 24.دسمبر 1952ء صفحہ 2 565 دسمبر 1952ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک جگہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیٹھے ہیں ان کے پہلو میں میں بیٹھا ہوں دو اور آدمی سامنے بیٹھے ہیں جن کو میں جانتا نہیں ہم سب سادگی کے ساتھ جیسے گھاس پر زمیندار بیٹھتے ہیں بیٹھے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کوٹ پہنا ہوا ہے لیکن جو دو سرنے لوگ ہیں انہوں نے کھنڈر کے صاف لباس پہنے ہوئے ہیں کوٹ نہیں پہنا ہوا اپنی نسبت مجھے یاد نہیں کہ میں نے کوٹ پہنا ہوا ہے یا نہیں کچھ باتیں ہو رہی ہیں اور ان باتوں ہی کے سلسلہ میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مخاطب ہو کر کہا کہ قرآن کریم میں جہاں جہاں مومنوں کے بارہ میں انکاریا کرہ کا مفہوم استعمال ہوا ہے اس سے مراد حقیقی انکار یا کرہ نہیں ہو تا بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مومن زیادت علم کے لئے تفصیل یا تشریح چاہتے ہیں کرہ کا لفظ تو قرآن کریم میں وضاحت سے مومنوں کے لئے آتا ہے لیکن انکار کا لفظ لفظی طور پر نہیں آتا ہاں ایک جگہ پر خَشِيتُمْ کے الفاظ آتے ہیں اسی طرح قرآن کریم پر غور کرنے سے شاید اور الفاظ بھی نکل آئیں بہر حال اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ مخلص صحابہ یا
529 مومن اللی باتوں کے متعلق کبھی حقیقی ناپسندیدگی یا حقیقی انکار محسوس نہیں کیا کرتے بلکہ اگر کسی جگہ پر تردد یا تذبذب ان میں پایا جاتا تھا تو اس کا مطلب یہ ہو تا تھا کہ ہم اس بارہ میں مزید روشنی چاہتے ہیں اور حقیقتاً یہی مومن کا مقام ہے مومن کو جب کوئی حکم دیا جاتا ہے تو کسی قسم کا انقباض اس کے پورا کرنے میں محسوس نہیں کرتا بعض دفعہ عارضی طور پر وہ اس کی تشریح کی درخواست کرتا ہے لیکن اس کی تشریح ملے یا نہ ملے تسلی ہو یا نہ ہو وہ عمل میں پیچھے نہیں ہوتا اور حقیقی انقباض صرف منافق یا کمزور ایمان والا ہی محسوس کرتا ہے.الفضل 24.دسمبر 1952ء صفحہ 2 566 *1952-13/12 فرمایا : میں نے دیکھا کہ سید محمود اللہ شاہ صاحب مجھے ملنے آئے ہیں میں اور وہ بیٹھے ہیں.پاس ہی غالبا میری وہ بیوی بھی ہیں جو محمود اللہ شاہ صاحب کی بھتیجی ہیں یعنی مہر آپا.انہوں نے مجھے مخاطب ہو کر کہا کہ میری طبیعت آج اتنی خراب ہو گئی ہے کہ میں نے سکول کے لڑکوں سے کہدیا ہے کہ ادھر ادھر دور نہ جایا کرو.کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے پیچھے کوئی واقعہ ہو جائے.اسی طرح میں آپ سے بھی کہتا ہوں کہ اگر آپ کا کہیں باہر جانے کا اراد ہو تو مجھے رخصت کر کے جائیں اور رخصت کے معنے میں اس وقت رویا میں جنازہ کے سمجھتا ہوں.میں نے آنکھ کھلتے ہی اس رویا کا آخری حصہ ام متین کو بتا دیا کہ جن کی باری اس رات تھی لڑکوں والے حصہ کا میں نے ان سے ذکر نہیں کیا جس وقت یہ رویا ہوا اس وقت خیال بھی نہیں تھا کہ ان کی موت اتنی قریب ہے اس رویا کے تیسرے دن ان کو تھر مباسر (Thermbosis) کا حملہ ہوا جو ان کی موت کا باعث ہو گیا.بعض اور خواہیں بھی اس عرصہ میں آئیں جو مجھے یاد تھیں مگر لکھوانے میں میں نے دیر کردی اور وہ ذہن سے اتر گئیں بہر حال ان چند ہفتوں میں جو رویا ہوئے ان میں سے ایک تو دوسرے دن ہی اور ایک تیسرے دن پورا ہو گیا.ہاں ایک رویا یاد آگئی جو اوپر کی خوابوں سے ایک دو دن پہلے کی ہے چونکہ اہم تھی میں نے ام متین کو سنا دی ان کے ذہن سے بھی اتر گئی کل پرسوں ایک دوست کا خواب پڑھنے پر ان کو یاد
530 آگئی اور انہوں نے مجھے یاد کرا دیا.الفضل 24.دسمبر 1952ء صفحہ 2 567 دسمبر 1952ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں کچھ لوگوں سے کہتا ہوں کہ ہجرت مکہ مکرمہ کی طرف بھی مقدر ہے اور یہ مجھے اللہ تعالیٰ نے پہلے بتا رکھا ہے اور میری کاپی میں لکھا ہوا ہے اس وقت میں ایک کاپی نکال کر دکھاتا ہوں کہ دیکھو اس میں یہ لکھا ہوا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بہت سی غیب کی اخبار لکھی ہوئی ہے.اس رویا کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید کسی وقت مکہ مکرمہ کی حفاظت کے لئے مسلمانوں کو مکہ کی طرف ہجرت کرنی پڑے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے اس مقدس شہر کو ہر شر سے بچائے اور اگر کسی وقت اسے خطرہ ہو تو ہم سب کو احمدی ہوں یا غیر احمدی اس کی حفاظت کے لئے سچی قربانی کی توفیق بخشے اگر ظاہر مراد نہیں تو شاید اس رویا کی کوئی باطنی تعبیر ہو.وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب الفضل 24 - دسمبر 1952ء صفحه 2 568 فروری 1953ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ خلیفہ رشید الدین صاحب سامنے کھڑے ہیں پھر نظارہ بدلا تو دیکھا کہ خواجہ حسن نظامی صاحب بیٹھے ہیں اور سلسلہ کے خلاف کچھ باتیں کر رہے ہیں میں خواب میں حیران ہو تا ہوں کہ خواجہ صاحب تو نہایت سنجیدگی سے بات کرنے والے تھے اور ہم سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے اور حال ہی میں نہایت شاندار جرأت سے سلسلہ کی غیر معقول مخالفت کی تردید کر چکے ہیں اور یہ ایسا کیوں کرتے ہیں.اس دن شام کو مغرب سے چند منٹ پہلے ایک کارڈ ایک بچہ لایا جس پر SMH GHAZI اور پروفیسر مراد لکھا تھا غازی کی نسبت پیغام تھا کہ یہ خواجہ حسن نظامی کے قریبی ہیں.اتفاق کی بات ہے اسی دن صبح کے وقت ہمارے ایک عزیز ملنے آئے جن کی ہمشیرہ خواجہ صاحب کے ایک صاحب زادے کو بیاہی ہوئی ہے اس وقت مجھے خیال آیا کہ شاید یہ خواب ان کے متعلق ہو لیکن وہ اپنے کام آئے تھے ان کی بات سن کر معلوم ہوا کہ ان کے متعلق نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ تو اپنی
531 احتیاج کے لئے آئے تھے اس کے بعد اس خیال سے کہ خواب کی کچھ اور تعبیر ہوگی.خواب ذہن سے اتر گئی جب مذکورہ بالا احباب ملنے کے لئے آئے اور انہوں نے باتیں شروع کیں تو غازی صاحب نے کہا کہ آپ ہمارے متعلق کوئی نشان دکھا سکتے ہیں میں نے کہا میں نجومی ہونے کا مدعی نہیں.الہی سلسلوں میں خدا تعالیٰ جو کچھ بتائے اتنا کہہ دیا جاتا ہے اس سے زیادہ میرے اختیار میں نہیں اس وقت یہ رویا بالکل میرے ذہن سے اتری ہوئی تھی گو میں نے صبح کے وقت یہ رویا اپنی بیوی ام متین کو سنائی ہوئی تھی کچھ دیر اور گفتگو ہوئی تو غازی صاحب نے کچھ مخاصمانہ بلکہ معاندانہ رویہ اختیار کیا اس پر مجھے وہ رویا یاد آئی اور میں نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو وہ رویا سنائی اور کہا کہ مجھے خیال تھا کہ اس رویا میں خواجہ صاحب سے مراد ان کا کوئی رشتہ دار ہے.پہلے میں نے فلاں شخص کو سمجھا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اس سے مراد نہیں پھر آپ آئے تو رویا بالکل بھول چکی تھی اب آپ کی باتوں کی وجہ سے یاد آگئی.الفضل 8.فروری 1953ء صفحہ 2 فروری 1953ء 569 فرمایا : میں نے دیکھا کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ یہ کیا ہے کہ قرآن کریم کہتا ہے کہ پہلے ایک شخص ایک کام کرتا ہے اور پھر اسے خراب کر دیتا ہے یہ کس طرح ہو سکتا ہے.گو اس کے متعلق كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا (النحل : 93) والی آیت ایک کھلی مثال ہے (لیکن رویا میں اس طرف خیال نہیں گیا) میں اسے جواب میں لکھتا ہوں کہ دیکھو قرآن کریم میں آتا ہے اَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ أَمَنُوا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ (الحدید : 17) اس آیت کا مفہوم کسی نے اس رنگ میں بتایا ہو گا کہ جو تم کو غلطی لگی.اس میں اُمَنُوا کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ایمان لائے پھر ایمان کے ثمرات سے محروم رہ گئے کیونکہ ایمان کی غرض خد اتعالیٰ کا قرب ہو تا ہے لیکن مراد یہ نہیں کہ کامل ایمان ہوتے ہوئے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتے بلکہ مراد یہ ہے کہ ایمان تو اس غرض سے لائے تھے کہ خد اتعالیٰ کا قرب حاصل ہو مگر ایمان کے بعد مقصود کو بھول گئے اور اپنی محنت ضائع کر دی.اس کے بعد کسی اور شخص نے ایک اور آیت پر اعتراض کیا مگر مجھے وہ آیت اور جو میں نے
532 تشریح کی یاد نہیں رہی.الفضل 8.فروری 1953ء صفحہ 2 570 فروری 1953ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک جگہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور ایک اور شخص بیٹھے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ایک ملک ہے جس کا رقبہ دولاکھ مربع میل ہے اس میں ایک لاکھ مربع میل اور شامل ہوتا ہے.(ملک کا نام ذہن میں نہیں) اور اس ملک کے متعلق ایک پیش کوئی ہے کہ اس پر تاریکی کا زمانہ آنے والا ہے یہ خیال آتے ہی جس کمرہ میں ہم بیٹھے ہیں اس کے ایک کونہ کی دیوار سامنے سے ہٹادی گئی یا وہاں دروازہ ہے اسے کھول دیا گیا بہر حال اس کے کھیلنے سے سامنے کے علاقہ پر نظر پڑی تو معلوم ہو ا مغرب کا وقت ہے جیسے سورج ڈوبے پچیس تیں منٹ گزرے ہوتے ہیں روشنی کم ہو چکی ہے مگر راستہ وغیرہ نظر آتا ہے آدمی اور چیزیں بھی نظر آتی ہیں اس پر وہ تیسرا شخص حضرت مسیح موعود سے کہتا ہے کہ حضور ابھی اندھیرا نہیں ہوا ( یعنی پیش گوئی پورا ہونے کا وقت نہیں آیا ) اس پر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ تاریکی تو ہو گئی ہے (یعنی پیش گوئی کے لحاظ سے اتنی کافی ہے) یہ خدا جانے کہ اس وقت کون مقابلہ کرتا ہے اور کون مقابلہ نہیں کرتا.الفضل 8.فروری 1953ء صفحہ 2 571 فروری 1953ء فرمایا : دیکھا کہ میں باہر سے آیا ہوں کچے مکان بیر کس کی طرح ہیں میرے مکان میں ام متین ہیں پاس کے مکان میں پیر افتخار احمد صاحب اور پیر منظور احمد صاحب اور ان کی ہمشیرہ حضرت من خلیفہ اول کی اہلیہ ہیں جب میں مکان کے قریب پہنچا تو میں نے سنا پیر افتخار احمد صاحب اونچی آواز میں رو رہے ہیں اور شور کر رہے ہیں کہ میں مر گیا ہمارے پاس کچھ نہیں ہمارے پاس کھانے کو بھی نہیں.میں نے جلدی سے اندر داخل ہو کرام متین سے کہا کہ اس وقت روپیہ بھجوائیں تو کھانا پیر صاحب نہیں پکواسکتے فوراً دودھ بھجوا دو اور جو کچھ گھر میں پکا ہے وہ بھی سب بھیجوا دو اس وقت معلوم ہوتا ہے مونگ کی دال پکی ہے چنانچہ انہوں نے برتن میں دودھ ڈالا ایک سینی میں دال ڈالی جو بعد میں بریانی بن گئی اور پیر صاحب مرحوم کی بہو مریم بیگم کو جو اس وقت موجود
533 ہیں دی ہے کہ یہ انہیں پہنچادو انہوں نے کچھ دال پہلے نکال کر رکھ دی ہے گویا گھر والوں کے لئے پھر اس میں سے ایک مٹھی بھر دال نکالی ہے جو بریانی بن چکی ہے.صبح ہی وہ ہمارے گھر آئیں تو میں نے ان سے کہا کہ رات تمہارے خسر کو اس حالت میں دیکھا ہے انہوں نے بتایا کہ عجیب بات ہے کہ پیر صاحب کے بیٹے اور ان کے خاوند نے کل خزانہ میں ایک کلرک کی غلطی سے ایک شخص کو پانچ سو روپیہ زائد دے دیا جس کی وجہ سے ساری رات پریشانی رہی اور صبح آدمی اس روپیہ کی وصولی کے لئے گئے.الفضل 8.فروری 1953ء صفحہ 2 مارچ 1953ء 572 فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک شخص کے پاس ایک مضمون ہے جس پر یہ لکھا ہوا ہے کہ قرآن اور حدیث کی رو سے اگر یہ یہ حالات ہوں تو ایسے ایسے نتائج نکلتے ہیں (جاگتے وقت مجھے یہ مضمون یاد تھا لیکن اب بھول گیا ہے) اس پر ایک شخص نے جس کی شکل حضرت خلیفہ اول سے ملتی ہے اور میں نے پہلے یہی سمجھا کہ حضرت خلیفہ اول ہیں آگے بڑھا اور اس کے ساتھ ایک اور آدمی بھی ہے اور اس نے کہا قرآن و حدیث سے یہ بات کہاں سے نکلتی ہے ؟ گویا اس کی تردید کی.اس پر میں نے آگے بڑھ کر کہا قرآن و حدیث سے یہ بات نکلتی ہے اس وقت اس شخص کا چہرہ دیکھنے سے میں نے معلوم کیا کہ وہ حضرت خلیفہ اول سے صرف سطحی مشابہت رکھتا ہے ورنہ اس کا ناک آپ کی ناک سے چھوٹا ہے چہرہ آپ کے چہرہ سے پتلا ہے ماتھا آپ کی طرح چکلا تو ہے مگر اس کی شکل اور ہے سر کے بال کالے ہیں مگر موٹے ہیں اور اس طرح مڑے ہوئے ہیں جیسے چھوٹے پٹوں کو بعض لوگ موڑ لیتے ہیں اور سر پر ایک کپڑے کی ٹوپی ہے غرض کچھ مشاہتیں تو اس کی شکل کو حضرت خلیفہ اول کی شکل سے ہیں مگر ہے وہ کوئی اور شخص.المصلح 27.جون 1953ء صفحہ 3 573 جون 1953ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ گویا اللہ تعالیٰ کی صفت یکتائی ظاہر ہوئی اور وہ میری طرف متوجہ ہے اور میں اس کی طرف متوجہ ہوں.المصلح 27.جون 1953 ء صفحہ 3
534 574 جون 1953 فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک جگہ پر میں چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اور میرا لڑ کا مبارک احمد ہے کچھ اور لوگ بھی ہیں چوہدری صاحب نے ذکر کیا کہ سنا ہے ہندوستان میں جوٹ بہت پیدا ہونے لگ گئی ہے اور قیمتیں کم ہیں کچھ تجربتا ادھر منگوا کر دیکھنی چاہئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرزا مبارک احمد ادھر ہندوستان میں رہ رہا ہے لیکن پاسپورٹ پر.باشندہ پاکستان کا ہی ہے لیکن میں نے چوہدری صاحب سے کہا ہے کہ سنا ہے کہ چار روپے من وہاں کچی جوٹ آتی ہے یہ خواب کی بات ہے ورنہ نہ مجھے جوٹ کی قیمت معلوم ہے اور نہ فروخت کا طریق معلوم ہے) اور اس پر دو روپے کے قریب کرایہ ریل وغیرہ خرچ آکر چھ روپے من ہو جاتی ہے اور آٹھ روپے پر بکتی ہے اس پر مبارک احمد نے کہا میری پاسپورٹ کی مدت تو ختم ہو رہی ہے اور شاید مجھے وہاں سے آنا پڑے گا.میں کوشش کروں گا کہ اور مہلت مل جائے اور میں سودا کر سکوں اس پر آنکھ کھل گئی.اس خواب کے دیکھنے کے تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ ایک مجلس ہے اس میں چند دوست بیٹھے ہیں مگر نام لکھنا ٹھیک نہیں میں نے ان کو دیکھ کر ادھر کا رخ کیا ایک صاحب نے ہاتھ میں کوئی چیز پکڑی ہوئی ہے اور انہوں نے دوسرے صاحب کو اشارہ کیا ہے جیسے کوئی یہ کہتا ہے کہ آپ کام جاری رکھیں اس دوسرے شخص کے ہاتھ میں کوئی موٹی سی چیز پکڑی ہوئی ہے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے تاش کی گڑی ہے انہوں نے اس میں سے پتے نکال کر چار پانچ آدمیوں کے آگے ڈالنے شروع کئے ہیں.حیران ہو تا ہوں کہ انہوں نے یہ کام شروع کیا ہے اس پر میری آنکھ کھل گئی.اس میں ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے درمیان مقابلہ کی طرف اشارہ تھا.بعض دفعہ ظاہر مکروہ دکھایا جاتا ہے مگر حقیقت اچھی ہوتی ہے.المصلح 27.جون 1953ء صفحہ 4 جون 1953ء 575 فرمایا : میں نے دیکھا کہ ملکہ الزبتھ کی تاجپوشی کے لئے ایک مچان بنایا گیا ہے اس پر ہلکے آسمانی
535 رنگ کا جو فیروزی رنگ سے مشابہ معلوم ہوتا ہے روغن کیا گیا ہے.وہ مچان زمین سے اتنا اونچا ہے کہ سینہ کے اوپر کے حصہ تک آتا ہے اور اس پر لکڑی کا سائبان ہے جو لکڑی کے کھمبوں پر کھڑا ہے سائبان اور کھمبوں کا بھی وہی رنگ ہے جو کہ مچان کا ہے میں اس کے پاس کھڑا ہوں اور حیران ہوں کہ مچان اتنا اونچا کیوں بنایا گیا ہے اس پر چڑھنا تو مشکل ہے میں نے دیکھنا چاہا کہ اس پر آسانی سے چڑھا جا سکتا ہے یا نہیں تو معلوم ہوا کہ مشکل سے ہی چڑھا جا سکتا ہے اتنے میں ملکہ الزبتھ آئیں اور دونوں ہاتھ مچان پر ٹیک کر اور زور دے کر اوپر چڑھ گئیں اور جس طرف لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے اس طرف منہ کر کے انہوں نے ایک کتاب اٹھائی اور اس کی ورق گردانی کرنے لگیں میں نے دیکھا کہ وہ کتاب میری کتاب " احمد بیت " ہے ملکہ نے مجھے مخاطب کر کے کہا یہ کتاب مجھے آپ کی جماعت نے تاجپوشی کے تحفہ کے طور پر دی ہے میں نے ورقوں پر نظر ڈالی تو وہ کتاب ہاتھ کی لکھی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور غالباً اس کے آخر میں میرے دستخط ثبت ہیں.میں خیال کرتا ہوں کہ ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب کا پڑھنا مشکل ہو گا تاجپوشی کا تحفہ دینے والے دوست بہتر ہو تا چھپی ہوئی کتاب دیتے اور غالبا میں نے اس خیال کا اظہار بھی کیا کیونکہ ملکہ انگلستان نے مجھے دیکھ کر کہا کہ ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب اچھی ہے میری لائبریری میں ہاتھ کے لکھے ہوئے اس قسم کے نسخے کم ہیں.یہ کتاب میں نے دیکھا کہ کتاب کی سائز کی نہیں بلکہ تصویروں کے البم کی شکل کی ہے یعنی عرضا لمبی ہے اور طولاً چھوٹی ہے اس کے بعد میں نے دیکھا کہ ملکہ انگلستان اس مچان سے اتر کر ایک میدان میں آگئیں جہاں بہت سے مہمانوں کے لئے کرسیاں لگی ہوئی ہیں اور وہ اس کے صدر میں بیٹھ گئیں اور پھر یکدم اٹھ کر اس جگہ کے پچھواڑے میں آکر کسی شخص کو آواز دینے لگیں جو بظا ہر نو کر معلوم ہوتا ہے جون یا جیمس جیسا اس کا نام ہے کتاب ”احمدیت ان کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہے وہ اس شخص کو کہتی ہیں یہ کتاب لے جاؤ اور میرے بیٹھنے والے کمرہ کی میز پر رکھ دو میں اسے پڑھنا چاہتی ہوں اس وقت ان کی شکل بدل گئی ، قد لمبا ہو گیا لیکن جسم پہلے سے بھی دبلا ہو گیا اور رنگ سرخی مائل ہو گیا جیسا کہ خاص عمر میں جاکر سفید رنگ کی عورتوں کا ہو جاتا ہے اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ یہ ملکہ آب وکٹوریہ * ہیں.المصلح 27.جون 1953ء صفحہ 3 یہ رویا تاجپوشی سے کوئی تین چار دن پہلے کی ہے (مرتب)
536 576 جون 1953ء فرمایا : آٹھ دس جون کی بات ہے کہ ساری رات میری زبان پر یہ مصرعہ جاری رہا کہ الٹی پڑ گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا یہ یاد نہیں رہا لفظ ” ہو گئیں" تھایا ” پڑ گئیں " بار بار اس مصرعہ کے جاری ہونے پر میرے دل میں گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ یہ ہمارے لئے انداری پیغام نہ ہو تو تہجد کے وقت میں یہ انکشاف ہوا کہ یہ انذاری پیغام نہیں ہے جس کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں یا تو کسی شخص کی عارضی مصیبت کی طرف اشارہ ہے یا ہمارے بعض مخالفوں کی طرف اشارہ ہے.المصلح 27.جون 1953ء صفحہ 3 577 جون 1953ء فرمایا : چودہ اور پندرہ جون کی درمیانی رات کو متواتر اور بڑے زور سے یہ الہام دیر تک ہوتا رہا أيْنَمَا وُ جِدُوا أَخِذُوا وَتُقِفُوا وَقتِلُوا تَقْتِيلاً شاید کئی درجن بار یہ الفاظ جاری ہوئے اس فقرہ کے قریباً تمام الفاظ قرآن کریم کے ہیں اور دو مختلف آیات کے الفاظ جوڑ کر بتغیر قلیل یہ فقرہ بنا ہوا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی وہ لوگ جن کا ذکر اس الہام میں ہے پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور پھر گرفت کو ان پر اور بھی مضبوط کر دیا جائے گا اور آخر میں وہ بالکل تباہ و برباد کر دیئے جائیں گے واللہ اعلم یہ کس گروہ کی طرف اشارہ ہے اگر تو یہ کسی سیاسی صاحب اقتدار لوگوں کی طرف اشارہ ہے تو پھر اس کے الفاظ ظاہر پر دلالت کرتے ہیں اور اس فقرہ کے الفاظ تشبیہہ اور استعارہ کے رنگ میں ہیں تو پھر گرفتاری اور قتل وغیرہ سے مراد محض شکست اور ناکامی کے ہیں.وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب المصلح 27 جون 1953ء صفحہ 2 16 جون 1953ء 578 فرمایا : میں نے دیکھا کہ گویا قادیان کا نظارہ میرے سامنے ہے اور جس مکان میں میں ہوں
537 وہاں سے مجھے وہ نظر آرہا ہے مجھے یوں معلوم ہوا کہ کسی جگہ تیز آگ لگی ہوئی ہے میں نے ادھر جھانکا اور یوں معلوم ہوا جیسے آگ کے شعلوں کی وجہ سے دن کی سی روشنی ہو رہی ہے میں نے دیکھا کہ دھواں بڑی تیزی سے اٹھ رہا ہے اور ایک مکان پر دو شخص ربڑ کی بڑی بڑی نلکیاں پکڑے ہوئے کھڑے ہیں اور دھوئیں پر ڈال رہے ہیں میں ان کو دیکھ کر کہتا ہوں کہ یہ میرے ہی مکان ہیں جو میرے بچوں کے ہیں جہاں یہ آگ لگی ہوئی ہے اور شہتوت بیدانہ کے درختوں کے پاس جو مکان ہیں وہاں یہ آگ لگی ہوئی ہے اور پھر تعجب سے کہتا ہوں کہ یہ لوگ ربڑ کی نلکی سے پٹرول ڈال رہے ہیں لیکن تعجب ہے کہ بجائے آگ لگنے کے آگ بجھ رہی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مکانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا کیونکہ چھتیں بالکل سلامت نظر آ رہی ہیں جو لوگ آگ بجھا رہے ہیں ان میں سے ایک بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی معلوم ہوتے ہیں جو اس وقت قادیان میں ہی رہتے ہیں دیکھتے دیکھتے یوں معلوم ہوا کہ جیسے وہ روشنی جو پہلے آگ سے پیدا ہوئی تھی ختم ہو گئی ہے لیکن اس کی جگہ پر ایسی روشنی ظاہر ہے جیسے دن کی ہوتی ہے اور تمام جو بالکل روشن ہے اور نہایت خوبصورت روشنی ہے اور اس قسم کی روشنی ہے جیسی کہ نورانی روشنی ہوتی ہے دھوپ کی تمازت نہیں ہے آنکھوں کو طراوت بخشتی ہے یہ دیکھتے ہوئے کہ آگ بجھ گئی ہے.بھائی عبدالرحمان صاحب نے وہ ربڑ کی نالی جس سے پٹرول پھینک رہے تھے ہاتھ سے چھوڑ دی ہے اور وہ چھت پر گر گئی ہے اس کے بعد وہ چھت کی دوسری طرف جس طرف صحن ہے ادھر اس نیت سے گزرے ہیں کہ اس صحن میں اتریں مجھے وہ صحن بھی نظر آ رہا ہے بڑا صاف شفاف ہے جب وہ صحن میں اتر کر آگئے ہیں تو میں نے دیکھا کہ شیخ عبدالرحیم صاحب نو مسلم جو سکھوں سے مسلمان ہوئے ہیں اور جو دیر تک قادیان رہ کر حال میں ہی واپس آئے ہیں وہ اس مکان کی دیوار کے پاس کھڑے ہیں جس میں میں ہوں مجھے ان کی شکل تو نظر نہیں آتی آواز پہچانتا ہوں انہوں نے بھائی عبد الرحمان صاحب سے مخاطب ہو کر کہا آگ بجھ گئی ہے تو میرے بھائیوں کو بھی اندر سے نکال لو.اس آواز کو سن کر صحن سے پرے جو دو سرا مکان ہے اس میں سے آواز آئی کہ ہم آرہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی دو نوجوان بہت خوبصورت لیکن داڑھیاں مسلمانوں کی طرح تراشی ہو ئیں سکھ قوم کے فرداچھے لباس میں باہر نکلے وہ باہر نکل کے چھت کی طرف جانے لگے اس پر شیخ عبدالرحیم صاحب نے آواز دی کہ تم لوگ میری
538 طرف آجاؤ وہ یہ آواز سن کر شیخ صاحب کی طرف لوٹے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس خیال سے کہ شیخ صاحب مسلمان ہیں ان کے اندر کچھ تردد پیدا ہوا.جو نہی ان کے دل میں کچھ تردد پیدا ہوا میں نے دیکھا ان کے پاؤں کے ارد گرد کیچڑ لگا ہوا.ان کے کپڑے میلے ہو گئے اور ان کی شکل مسخ ہو گئی گویا ایک مسلمان کی طرف آنے سے انقباض ہونے سے خدا تعالیٰ نے ان کی یہ حالت کر دی اور اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.☆ پہلی دو رؤیا پاکستان کے متعلق معلوم ہوتی ہیں دوسری ہندوستان کے متعلق.معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی کچھ فتنے اٹھتے رہیں گے اور شاید ہماری جماعت کے لئے بھی کچھ مشکلات پیش آئیں لیکن آگ جلانے والے سامانوں سے ہی خدا تعالیٰ آگ بجھانے کا کام لے گا.جوٹ جو میں نے رویا میں دیکھی اس کی تعبیر اس وقت تک میں نہیں سمجھ سکا تاش عام طور پر مقابلہ کے لئے کھیلا جاتا ہے اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ ایک مقابلہ کے سامان پیدا ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ ایک کھیل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے.جن لوگوں کو دکھایا گیا ہے ان کے نام مبارک ہیں.آخری رویا مرزا شریف احمد صاحب اور مرزا ناصر احمد صاحب کی گرفتاری سے چند دن پہلے کی ہے اور بظاہر انہی کے متعلق ہے اور خبر دی گئی ہے کہ جو سامان اس فتنہ کا موجب بنے ہیں وہی بھلائی کا موجب ہو جائیں گے.المصلح 27.جون 1953ء صفحہ 4 579 25.اکتوبر 1953ء فرمایا : آج رات دو بجے کے قریب میں نے ایک رویا میں دیکھا کہ پنسل سے لکھے ہوئے کچھ نوٹ ہیں جو کسی مصنف یا مورخ کے ہیں اور انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں.پنسل بھی Copying یا Blue رنگ کی ہے نوٹ صاف طور پر نہیں پڑھے جاتے اور جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نوٹوں میں یہ بحث کی گئی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد مسلمان اتنی جلدی خراب ہو گئے باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کے عظیم الشان ہیں ان سے مراد رویا 574 اور 576 ہیں جو اس پرچہ میں جس میں یہ رویا چھپی ، شائع ہوئیں اور نمبر1 اور نمبر 2 کے طور پر درج ہیں (مرتب)
539 احسانات ان پر تھے اعلیٰ تمدن اور بہترین اقتصادی تعلیم انہیں دی گئی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا تھا پھر بھی وہ گر گئے اور ان کی حالت خراب ہو گئی.یہ نوٹ انگریزی میں لکھے ہوئے تھے لیکن عجیب بات یہ کہ جو انگریزی لکھی ہوئی تھی وہ بائیں طرف سے دائیں طرف کو نہیں لکھی ہوئی تھی بلکہ دائیں سے بائیں طرف کو لکھی ہوئی تھی لیکن پھر بھی میں اسے پڑھ رہا تھا گو وہ خراب کی لکھی ہوئی تھی اور الفاظ واضح نہیں تھے.بهر حال کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا تھا اس میں سے ایک فقرہ کے الفاظ قریباً یہ تھے.There reasons were the for it.There temperament becoming Morbid and anarchical.یہ فقرہ بتا رہا تھا کہ مسلمانوں پر کیوں تباہی آئی اس فقرہ کے یہ معنے ہیں کہ وہ خرابی جو مسلمانوں میں پیدا ہوئی اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کی طبائع میں دو قسم کی خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں ایک یہ کہ وہ ماریڈ (Morbid) ہو گئے تھے ان نیچرل (Un-natural) اور ناخوشگوار ہو گئے تھے اور دوسرے ان کی ٹنڈنسیز (Tendencies) انار کیکل (Anarchical) ہو ہو گئی تھیں میں نے سوچا کہ واقعہ میں یہ دونوں باتیں صحیح ہیں.الفضل یکم اپریل 1964ء صفحہ 3.(نیز دیکھیں.تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ سوم صفحہ نمبر 166 580 1817.نومبر 1953ء فرمایا : 17 یا 18 نومبر 1953ء کی بات ہے کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ پر ہوں میاں بشیر احمد صاحب اور درد صاحب میرے ساتھ ہیں کسی شخص نے مجھے ایک لفافہ لا کر دیا اور کہا کہ یہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا ہے میں نے اس لفافے کو کھولے بغیر یہ محسوس کیا کہ اس میں کسی عظیم الشان حادثے کی خبر ہے جو چوہدری صاحب کی موت کی شکل میں پیش آیا ہے یا کوئی اور بڑا حادثہ ہے میں نے درد صاحب سے کہا لفافہ کو جلدی کھولو اور اس میں سے کاغذ نکالو درد صاحب نے لفافہ کھولا اس میں بہت سے کاغذ نکلتے آتے تھے لیکن اصل بات جس کی خبردی گئی تھی نظر نہیں آتی تھی آخر کا ر لفافہ میں صرف ایک دو کاغذ رہ گئے لیکن اصل خبر کا پتہ نہ لگا.میاں بشیر احمد صاحب نے کہا.پتہ نہیں چوہدری صاحب کے دماغ کو کیا ہو گیا ہے وہ ایک اہم خبر
540 لکھتے ہیں لیکن اسے اچھی طرح بیان نہیں کرتے میں نے کہا گھبراہٹ میں ایسا ہو ہی جاتا ہے اس پر لفافہ میں دو کاغذ جو باقی رہ گئے تھے ان میں سے ایک کاغذ کو میں نے باہر کھینچا تو وہ ایک فہرست تھی لیکن اصل واقعہ کا اس سے پتہ نہیں لگتا تھا اس فہرست میں ایک سے پہلے ملک لکھا تھا اور آخر میں محمد لکھا تھا درمیانی لفظ پڑھا نہیں جاتا تھا اس سے اتنا تو پتہ لگتا تھا کہ واقع میں کوئی اہم خبر ہے لیکن اصل واقعہ کا پتہ نہیں لگتا تھا پھر لفافہ میں سے ایک اور شفاف کاغذ نکلا جو Tracing Paper تھا میں اسے دیکھنے لگا اور میں نے کہا یہ خبر ہے جو چوہدری صاحب نے ہم تک پہنچانی چاہی ہے مگر بجائے کوئی واقعہ لکھنے کے اس کاغذ پر ایک لکیر کھینچی ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ہوائی جہاز ہے جو مشرق سے مغرب کی طرف جا رہا ہے آگے جا کر وہ لکیر یکدم اور اریوی صورت میں نیچے آجاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جہاز یکدم نیچے آگیا ہے.اس جگہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ رکا اور معا "Crashed" کا لفظ میرے سامنے آجاتا ہے نیز معا سمندر میرے سامنے آجاتا ہے اس میں ہلکی ہلکی بریں ہیں میں خواب میں کہتا ہوں کہ نہ معلوم چوہدری صاحب کو تیرنا آتا ہے یا نہیں.خدا کرے اس حادثہ کی خبر معلوم کر کے کسی حکومت نے ہوائی جہاز یا کشتیاں بچانے کے لئے بھیج دی ہوں تاکہ چوہدری صاحب اور دوسرے لوگ بیچ جاویں.جب میں نے یہ رویا دیکھی تو اس وقت تقریباً دو بجے رات کا وقت تھا.جب میں نے رویا دیکھی تو چوہدری صاحب امریکہ پہنچ چکے تھے اور میں نے رویا میں یہ نظارہ دیکھا تھا کہ چوہدری صاحب مشرق سے مغرب کو جار ہے ہیں اگر وہ امریکہ سے پاکستان آرہے ہوتے تو یہ سفر مشرق سے مغرب کو نہ ہو تا بلکہ مغرب سے مشرق کو ہوتا پھر میں نے رویا میں یہ دیکھا تھا کہ چوہدری صاحب خود ہی اس حادثہ کی خبر دے رہے ہیں اور یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ اگر اس حادثہ میں ان کی جان کا نقصان ہے تو وہ اس کی خبر کیسے دے رہے ہیں میں نے اس خواب کی تین تعبیریں کیں اول یہ کہ کوئی حادثہ چوہدری صاحب کو سخت مہلک پیش آنے والا ہے اور خدا تعالیٰ انہیں اس سے بچالے گا کیونکہ وہ خود اس حادثہ کے متعلق تبھی خبر دے سکتے ہیں جب وہ محفوظ ہوں دوسرے میں نے یہ تعبیر کی کہ اس دن ملک غلام محمد صاحب گورنر جنرل سفر پر روانہ ہو رہے تھے شاید انہیں کوئی حادثہ پیش آجائے.میں نے ملک اور محمد کے الفاظ دیکھے تھے
541 بیچ میں ایک لفظ اور بھی تھا جو پڑھا نہیں گیا میں نے خیال کیا کہ شاید اس سے ملک غلام محمد صاحب مراد ہوں کیونکہ ان کے نام سے پہلے بھی ملک اور آخر میں محمد کا لفظ آتا ہے اور چوہدری صاحب کے دوست کا صدمہ خود انسان کا اپنا صدمہ کہلاتا ہے چنانچہ میں نے صبح انہیں تا ر دیدی چونکہ وہ احمدی نہیں ہیں اس لئے میں نے یہ نہ لکھا کہ میں نے رویا دیکھی ہے بلکہ صرف یہ لکھا کہ آپ سفر پر جا رہے ہیں میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس سفر کے دوران میں آپ کو حفاظت میں رکھے.تیسرے چونکہ چوہدری صاحب مغرب میں پہنچ چکے تھے اور پاکستان کی طرف سفر کرتے ہوئے انہوں نے مغرب سے مشرق کو آنا تھا اور پھر حادثہ کی خبر بھی انہوں نے خود ہی دی تھی اس لئے میں نے خیال کیا کہ شاید اس سے یہ مراد ہو کہ جو خاص کام مرا کو وغیرہ کی خدمت کا وہ کر رہے تھے اس میں انہیں ناکامی ہو بہر حال میں نے ایک بکر ابطور صدقہ ذبح کروا دیا اور چوہد رہی صاحب کو بھی خط لکھا کہ وہ خود بھی صدقہ دے دیں چنانچہ انہوں نے بھی صدقہ دے دیا اور ہم نے دعائیں جاری رکھیں.چوہدری صاحب خیریت سے کراچی پہنچ گئے اور اس قسم کا کوئی حادثہ انہیں پیش نہ آیا.کراچی سے پنجاب آئے تو یہ سفر بھی خیریت سے گزر گیا لیکن جب کراچی واپس گئے تو رستہ میں اس گاڑی کو جس میں چوہدری صاحب سفر کر رہے تھے خطرناک حادثہ پیش آیا اور انڈین ریڈیو پر جب یہ خبر نشر ہوئی تو اس کے متعلق Crashed کا لفظ ہی استعمال کیا گیا.گاڑی پیٹرول کے ڈبوں سے ٹکرا گئی اور ایسا خطرناک حادثہ پیش آیا کہ ایک احمدی دوست نے مجھے لکھا کہ میں سمجھتا تھا کہ خدا تعالیٰ کا عذاب آگیا.جس جگہ پر یہ واقعہ ہوا چوہدری صاحب کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے دس دس میل تک پکی سڑک نہیں ہے صرف ریل کی پٹڑی گزرتی ہے اس لئے امداد کے لئے اس جگہ تک کوئی موٹر نہیں آسکتی تھی اس طرح وہ جگہ جزیرے کی طرح تھی میں سمجھتا ہوں کہ رویا میں ہوائی جہاز کا دکھایا جاتا اور واقعہ ریل میں ہونا اور پھر یہ گاڑی بھی مشرق سے مغرب کو جارہی تھی اور اسی طرح دوسری باتوں کا ہونا بتا تا ہے کہ یہ ایک تقدیر مبرم تھی لیکن خدا تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کو سن کر اس حادثہ کو بجائے ہوائی جہاز کے ریل میں بدل دیا ہوائی جہاز میں ایسا حادثہ پیش آجائے تو اس سے بچنا مشکل ہوتا ہے شاذ ہی کوئی شخص اس قسم کے حادثے سے بچتا ہے لیکن یہی حادثہ ریل میں پیش آجائے تو اس سے کسی انسان کا بچ جانا ممکن ہے اور پھر وہ ریل مشرق سے مغرب کو جارہی تھی جب میں نے اخبار میں وہ 3
542 واقعہ پڑھا تو میں نے محسوس کیا کہ میری وہ خواب پوری ہو گئی ہے.دوسرے دن چوہدری صاحب کی تار آگئی کہ آپ کی رؤیا پوری ہو گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھے اس حادثہ سے بچالیا ہے.المصلح 18.فروری 1954 ء صفحہ 4 - 3 581 دسمبر 1953 ء یا جنوری 1954ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب آئے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ اگلے جہاں میں مجھے فرصت ملی اور میں نے آپ کی کتاب ”دعوۃ الا میر" پڑھی ہے اور حوالوں کا مقابلہ کیا ہے میں نے کئی بار اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور نئے نئے مطالب مجھ پر کھلے ہیں.الفضل 26 ستمبر 2,1954 غالبا فروری 1954ء 582 فرمایا : دیکھا کہ ایک مکان میں ہوں جو مقبرہ بہشتی کی طرف ہے اس کے باہر ایک وسیع مسجد ہے.میں گھر سے نکلا اور ارادہ کیا کہ قادیان میں مسجد مبارک کی طرف جاؤں مسجد کے سامنے وسیع صحن دیکھا جس کے آگے کچھ سایہ دار درخت بھی ہیں ایک شخص چست لباس میں کھڑا ہے گویا پہرے دار ہے میں اس کے پاس سے ہو کر مقبرہ بہشتی اور مسجد مبارک کے درمیان کی سڑک پر چل پڑا میرے ادھر جانے پر وہ شخص جو پہرے دار کے طور پر کھڑا ہے ساتھ چل پڑا میں نے اس کے پاؤں کی آہٹ سن کر خوشی محسوس کی کہ اس نے خطرہ کا احساس کیا ہے اور حفاظت کے لئے ساتھ چل پڑا ہے حالانکہ میں نے اسے کچھ نہیں کہا.جب میں چلتے ہوئے اس مقام پر پہنچا جہاں دار الضعفاء تھا اور جس کے آگے پل بنا ہوا تھا تو میرے پیچھے سے آکر ایک شخص نے حملہ کرنا چاہا مجھے آہٹ آگئی اور میں نے مڑکر اس پر سوئی کا جو میرے ہاتھ میں تھی وار کیا.اتنے میں ایک دوسرا آدمی آگیا وہ بھی حملہ کرنا چاہتا ہے میں نے اس پر بھی دار کیا اور میں نے دیکھا کہ وہ لولا لنگڑا ہے یا یہ کہ میرے وار پر لولا لنگڑا ہو گیا ہے بہر حال وار سے بچنے کے لئے وہ عجیب طرح اپنے مڑے ہوئے ہاتھ اور اپنا بد نما جسم مروڑ تا ہے جو مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے اتنے میں وہ پہرے دار یا کوئی اور احمدی آگیا اور ان حملہ آوروں کو
543 ہٹانے لگا (ممکن ہے اس خواب سے ان دو شخص کی طرف اشارہ ہو جو حملہ کی نیت سے ناصر آباد گئے تھے اور جس کے متعلق قوی گنجائش شبہ کی تھی کہ مودودی پارٹی سے ان کا تعلق تھا) الفضل 26 ستمبر 1954ء صفحہ 3 غالبا فروری 1954ء 583 فرمایا : میں نے دیکھا کہ قادیان میں ایک نیا لنگر خانہ بنا ہے نہایت وسیع اور شاندار ہے میں اس کے معائنہ کے لئے گیا ہوں.سامان کا کمرہ اتنا وسیع ہے کہ بندرگاہوں کے بڑے گودام بھی اس کے سامنے بیچ معلوم ہوتے ہیں کوئی دو اڑھائی سو گز لمبا اور کوئی ڈیڑھ سو گز چوڑا وہ کمرہ ہے سامان کو گردو غبار سے بچانے کے لئے چھت سے زنجیروں سے بندھے ہوئے پھٹے لٹکے ہوئے ہیں جن پر اجناس کی بوریاں دھری ہیں شاید لاکھوں کی ضیافت کا سامان ہے اس کے علاوہ دور تک بتنوروں اور چولھوں کے لئے جگہ بنی ہوئی اور دیگر اشیاء کے سٹور ہیں ایک بڑے قصبہ کے برابر وہ لنگر خانہ ہے اس وقت میں کہتا ہوں کہ موجودہ ضرورتوں کے مطابق میں نے یہ لنگر خانہ بنوایا ہے جب ضرورت بڑھ جائے گی میں اسے اور بڑھا دوں گا اس وقت معا مجھے خیال آیا کہ اور جگہ کہاں ہے مگر پھر ذہن میں آیا کہ اور جگہ ہے اور اس لنگر کو اس طرف بڑھایا جا سکتا ہے.الفضل 24 ستمبر 1954ء صفحہ 3 غالبا فروری 1954ء 584 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں انکوائری کمیشن کے ہال میں ہوں (گواہی کے بعد کی رؤیا ہے) اس وقت مجھ پر پیچھے سے ایک شخص نے حملہ کیا ہے اور میں گر گیا ہوں اس کا نام میں جانتا ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ساتھ کوئی اور آدمی بھی ہے اسے میں نہیں جانتا مگر قیاس سے اس کا نام تجویز کرتا ہوں حملہ آور نے یہ دیکھ کر کہ میرے حملہ سے یہ مرے نہیں بھاگ کر کوئی اور ہتھیار لانا چاہا اور مجھے چھوڑ کر پیچھے ہٹاتب میں اٹھ کر تیزی سے ایک دروازے کی طرف گیا اور اس دروازہ سے باہر آکر دروازہ بند کر کے اینٹوں پر جو باہر نکلی ہوئی ہیں بیٹھ گیا لیکن جگہ اتنی چھوٹی ہے کہ میں لٹکا ہوا ہوں.
544 سامنے ایک پولیس کا افسر ہے اس نے آنکھ سے ایک اور شخص کو جو وکیل معلوم ہوتا ہے اشارہ کیا کہ ذرا ان کی نگرانی رکھو.اتنے میں مجھے معلوم ہوا کہ عدالت میں میرے اس طرح نکلنے پر ہتک عدالت کا سوال اٹھایا گیا ہے اور شیخ بشیر احمد صاحب اس اعتراض کا جواب دے رہے ہیں مجھے ان کی آواز آئی کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ میرے موکل پر اس عدالت میں حملہ کیا گیا اور اسے گرا دیا گیا مگر جب وہ اپنی حفاظت کے لئے کمرہ سے باہر نکل گیا تو اسے ہتک عدالت کا نام دیا جاتا ہے جب ان کی یہ آواز آئی تو اس پولیس افسر نے جو میرے ساتھ بیٹھا تھا پھر آنکھ سے دوسرے شخص کو اشارہ کیا جس کا میں یہ مطلب سمجھا کہ اب ان کی نگرانی کی ضرورت نہیں اس وقت میں اتر کر بازار میں چل پڑا ہوں تاکہ گھر جاؤں وہ شخص جسے پولیس افسر نے میری نگرانی پر مقرر کیا تھا معلوم ہوتا ہے وکیل ہے اور شریف الطبع ہے وہ میرے ساتھ چل پڑا مگر نیک نیتی سے یعنی میری حفاظت کی نیت ہے.کچھ دور چلنے پر مجھے معلوم ہوا کہ کچھ اور احمدی ساتھ ہیں اور آگے آگے چل رہے ہیں میں نے اس کھلی جگہ پہنچ کر یہ خیال کیا کہ لوگ اس شخص کو میرے ساتھ دیکھ کر اس کے مخالف ہو جائیں گے اسے کہا کہ آپ جائیں ہم لوگ تو ایسی مخالفت کے عادی ہیں آپ کو میرے ساتھ دیکھ کر لوگ آپ کے بھی مخالف ہو جائیں گے اس پر وہ شخص حقارت کی ہنسی ہنسا اور کچھ ایسی بات کی کہ میں حق کے لئے لوگوں کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتا چونکہ آپ کو خطرہ ہے اس لئے میں ساتھ ہوں تھوڑی دور سڑک پر چل کر شہر کی گلیاں آگئیں اور میں چند دوستوں کے ساتھ ادھر کو مڑ گیا.یہ رویا حملہ سے ایک ماہ پہلے کی ہے اور بعض دوستوں کو سنادی گئی تھی اس وقت جو لوگ مسجد میں تھے انہوں نے بتایا کہ حملہ کے معابعد ایک شخص مسجد سے نکل کر بھا گا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور کا کوئی اور ساتھی بھی تھا جو نتیجہ کی رپورٹ لینے کے لئے ساتھ آیا تھا یا الگ بھجوایا گیا جب اس نے دیکھا کہ حملہ پوری طرح کامیاب نہیں ہوا تو وہ بھاگا اس کے بعد بعض دوستوں نے رپورٹ کی کہ ایک جیپ جس میں بعض مودودی لوگ تھے چنیوٹ کے پاس کھڑی ہوئی دیکھی گئی جو حملہ کے ایک گھنٹہ کے بعد وہاں سے لاہور کی سڑک پر روانہ ہو گئی بعض واقف کاروں نے یہ بھی بتایا کہ حملہ آور کے تعلقات بعض مودودی مولویوں سے بھی تھے) الفضل 26.تمبر 1954ء صفحہ 4
545 585 مئی 1954ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ ہوں اور مولوی محمد علی صاحب کے گھر سے وہاں آئے ہیں اور مجھ سے پوچھتے ہیں کہ انجمن نے (انجمن اشاعت اسلام) ایک ریزولیوشن کر کے مجھے بھیجوایا ہے کیا ان کو ایسا حق حاصل ہے.میں نے کہا یہ تو قانونی سوال ہے اور میں قانون سے ناواقف ہوں اس لئے میں تو جواب نہیں دے سکتا.اس وقت خواجہ نذیر احمد صاحب خلف خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم بھی میرے پاس کھڑے ہیں انہوں نے موصوفہ کی بات سن کر فوراً اپنے کوٹ پر ہاتھ مارا اور اس میں سے کاغذ کے ملنے کی آواز آئی اس وقت میں نے سوچا کہ شاید ان کے پاس بھی اس ریزولیوشن کی نقل آئی ہے اور انہوں نے تسلی کرنی چاہی کہ آیا وہ کاغذ محفوظ ہے یا نہیں.الفضل 26.ستمبر 1954ء صفحہ 3 غالنا جولائی 1954ء 586 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ بیٹھا ہوں اور درد صاحب میرے پاس بیٹھے ہیں سامنے سے ایک فوجی افسر گزرا جس کا جسم نہایت سڈول اور خوبصورت تھا اور بہت چست معلوم ہوتا تھا اس کے پیچھے پیچھے اس کا اردلی تھا جس وقت وہ فوجی افسر ہمارے سامنے آیا تو اس نے منہ ہماری طرف کر کے فوجی طرز پر سلام کیا اس سلام میں بھی خاص اخلاص اور ادا پائی جاتی تھی میں نے درد صاحب سے پوچھا یہ کون ہے آپ جانتے ہیں تو درد صاحب نے کہا آپ ان کو نہیں جانتے یہ بھائی عبد الرحیم صاحب قادیانی کے پوتے ہیں.میں نے کہا کہ کیا وہ غیر احمدی نہیں! انہوں نے کہا نہیں وہ تو بڑا مخلص احمدی ہے پشاور یا کسی اور جگہ کا نام لیا کہ وہاں خدام الاحمدیہ کا قائد رہا ہے پھر انہوں نے کہا کہ وہ تو مذاق سے مجھے کہا کرتا ہے کہ تم پرانے لوگ ربوہ سے نکلو کہ ہم نوجوان وہاں آکر رہیں گے اور اسے احمدیت کا نمونہ بنائیں گے.نوٹ.جہاں تک مجھے علم ہے بھائی عبدالرحیم صاحب کا ایک بیٹا ہے جو فوج میں ملازم ہے اور ڈاکٹر ہے مگر جوان پوتے کا مجھے علم نہیں شاید ساری خواب تعبیر طلب ہو یا آئندہ کوئی مخلص پوتا بھائی جی کے پیدا ہونے والا ہے.الفضل 5.اکتوبر 1954ء صفحہ 3
546 587 غالبا جولائی 1954ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک مجلس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں میں ہوں اور کچھ اور دوست ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام آمنے سامنے دو زانو بیٹھے ہیں اتنے میں ایک شخص آیا جو ہندوستانی معلوم ہوتا ہے اس نے آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت لی کہ میں کچھ سنانا چاہتا ہوں آپ کی اجازت سے اس نے اپنے فارسی اشعار سنانے شروع کئے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڑا قادر الکلام شاعر ہے پہلے اس نے قصیدہ سنایا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مناقب بیان کئے گئے ہیں کچھ میری مدح کی گئی ہے اس تمام عرصہ میں میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام آمنے سامنے دو زانو بیٹھے رہے لیکن باقی لوگ شاعر کی طرف منہ کر کے بیٹھ گئے.پہلے قصیدہ کے ختم ہونے کے بعد اس نے پھر اجازت لی اور اجازت سے پھر ایک قصیدہ سنانا شروع کیا وہ بھی فارسی میں تھا اور اس میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام مخاطب تھے اس کا مضمون کچھ اس قسم کا تھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت اور اس کو روشنی پہنچانے کے لئے مامور کیا اور آپ کا لایا ہوا نور دنیا میں مختلف گوشوں میں پھیل گیا پھر وہ متعدد ممالک کا نام لیتا ہے اس کے بعد وہ اس مضمون سے گریز کرتا ہوا ادھر آتا ہے کہ کاٹھیاواڑ (یا ایسا کوئی علاقہ اس نے ہندوستان کا بتایا ہے ) کہ وہاں میں گیا اور وہاں لوگ آپ کے نام سے واقف تھے اور آپ کی تعلیم کسی تک نہیں پہنچی تھی آخر میں چند شعر آپ کو غیرت دلانے کے لئے تھے اور ان کا مضمون یہ تھا کہ اے مسیح موعود کیا آپ اس علاقہ کے لئے مبعوث ہی نہیں ہوئے تھے یا آپ کے پیغام کو اس علاقہ میں ناکامی ہوئی جب وہ آخری شعر پڑھنے لگا تو مجلس مسحور ہو گئی اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی متاثر نظر آتے تھے اور بار بار ذکر الہی کرتے تھے اس کے بعد پھر اس نے مزید کلام پڑھنے کی اجازت لی اور پھر ایک فارسی نظم پڑھنی شروع کی جس میں احمد یہ جماعت مخاطب تھی اشعار کا مطلب یہ تھا کہ احمد یو! اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور تقومی طہارت اور پرہیز گاری کا مادہ اس میں رکھا اور اگر وہ غلطی کر بیٹھے تو تو بہ اور استغفار اور خدا سے معافی مانگنے کی طاقت اور رغبت اس میں پیدا کی لیکن لومڑی میں اس نے یہ خصلتیں نہیں رکھیں.میں دیکھتا ہوں کہ ایک لومڑی تمہارے اندر داخل ہو گئی ہے اور بہت ہی تو بہ
547 استغفار اور انابت الی اللہ کا اظہار کرتے ہوئے تمہارے اندر رسوخ پیدا کر رہی ہے اور تم اس کے اظہار خیالات پر خوش ہو حالانکہ تم نہیں جانتے کہ جو مادہ خدا تعالٰی نے اس میں پیدا ہی نہیں کیا اس کا اظہار اس سے کس طرح ہو سکتا ہے یہ مادہ تو انسانوں میں پیدا کیا گیا ہے اگر انسان ایسی باتیں ظاہر کریں تو تم دھوکے میں آسکتے ہو کہ شاید یہ وہی ہو لیکن اگر ایک لومڑی ایسی باتیں کرے تو پھر دھو کا لگنا ممکن ہی کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ جو چیز خدا تعالیٰ نے پیدا ہی نہیں کی وہ اس سے کس طرح ظاہر ہو سکتی ہے.اس وقت یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمثیلی زبان میں جماعت میں ہونے والے کسی فتنہ کا ذکر کر رہا ہے اور بتاتا ہے کہ عارضی طور پر تبدیلی ظاہر کرنے والوں کو مستقل اور مجرب لوگوں پر ترجیح کس طرح دی جا سکتی ہے وہ تبدیلی کتنی بھی شاندار نظر آئے بہر حال اس میں منافقت کا امکان موجود ہے لیکن ایک مستقل وفاداری اور نیکی خواہ بظاہر چھوٹی ہی نظر آئے وہ زیادہ قابل اعتبار ہوتی ہے.ہاں مجھے یاد آیا کہ اس رویا کے شروع میں میں نے دیکھا کہ کسی سرکاری افسر نے کوئی تقریر ایسی کی ہے جس میں احمدیت پر کچھ اعتراضات ہیں اس کو سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک پبلک فون کی جگہ پر چلے گئے ہیں اور فون پر اس کی تردید شروع کی ہے مگر بجائے آپ کی آواز فون میں جانے کے ساری دنیا میں پھیل رہی ہے اس فون میں آپ نے سب اعتراضوں کو رد کیا ہے جو اس افسر کی طرف سے کئے گئے ہیں.الفضل 5.اکتوبر 1954ء صفحہ 3 فرمایا : اس رویا میں جس لومڑی کا ذکر ہے اس کی شرارتوں کے متعلق جو گواہیاں مل رہی ہیں وہ 1953ء اور 1954ء کے زمانہ سے مل رہی ہیں بعضوں نے کہا ہے کہ شاید یہ لومڑی اللہ رکھا ہو لیکن اللہ رکھا تو کسی شمار و قطار میں نہیں اس سے جماعت کے آدمی کہاں دھوکا کھا سکتے ہیں اس سے تو سوائے چند بیوقوفوں کے جماعت میں کوئی دھوکا نہیں کھا سکتا.یہ لو مڑکی تو وہی ہے جو پدرم سلطان بود کا نعرہ لگاتی پھرتی ہے بہر حال یہ خواب دوبارہ الفضل میں شائع کی جاتی ہے تا کہ دوست اس کو پڑھ کر دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے 1954ء میں کتنا زبردست غیب مجھ پر ظاہر کیا ہے دو چار دن کے بعد ہم ایک دوسری رویا شائع کریں گے جو 1950 ء میں ظاہر کی گئی اور جس میں اس لومڑی کی تعیین بھی کر دی گئی ہے اس کو پڑھ کر دوستوں کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمارا
548 خدا کیسا غیب دان خدا ہے اور کوئی چیز اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں اور وہ اپنے بندوں کو واقعہ کے ظاہر ہونے سے سالوں پہلے خبردار کر دیتا ہے.الفضل 5.ستمبر 1956 ء صفحہ 3 اگست 1954ء 588 فرمایا : اگست کے شروع میں الہام ہوا رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبِّينِي صَغِيراً (سوره بنی اسرائیل : (25) اے خدا! میرے والدین پر رحم کر کہ جس طرح انہوں نے مجھے ایسی عمر میں پالا تھا جب میں کسی کام کے قابل نہ تھا یعنی اب جبکہ وفات کے بعد وہ نئے اعمال سے محروم ہو گئے ہیں جس طرح میں بچپن میں اعمال سے محروم تھا تو اس وقت جو انہوں نے میری خدمت کی تھی اب اس کے بدلہ میں تو ان کی مدد کر.الفضل 5.اکتوبر 1954 ء صفحہ 3-4 589 اگست 1954ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ حضرت اماں جان) بیمار ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کا آخری وقت ہے اس وقت میں ان کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ اماں جان اس وقت جماعت پر نازک وقت ہے آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے.حضرت اماں جان) نے اپنا ہاتھ بڑھایا جس طرح مصافحہ کے لئے بڑھاتے ہیں اور میں نے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا تب آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ ہو.اس پر میں نے کہا کہ اماں جان دعا کریں اللہ تعالی ساری جماعت کا حافظ ہو اس پر انہوں نے پھر کہا اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ ہو.اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ ہو.اس پر میری آنکھ کھل گئی.الفضل 26.ستمبر 1954ء صفحہ 3 590 30.اگست 1954ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک وسیع سٹیشن پر ہوں (یہ رویا 29 اور 30.اگست کی درمیانی شب کی ہے مجھے کسی نے بتایا کہ ایک ویٹنگ روم میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی ٹھہرے ہوئے ہیں میں ان سے ملنے کے لئے گیا.وہ ویٹنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے جو حکومت کے افسر معلوم ہوتے تھے مگر یہ بھی معلوم ہو تا تھا کہ ان
549 لوگوں میں ڈاکٹر ا قبال صاحب مرحوم بھی بیٹھے ہوئے ہیں میں وہاں جا کر بیٹھ گیا چوہدری صاحب سے کوئی بات کرنی مجھے یاد نہیں ایک شخص کمرہ میں داخل ہوا اور اس نے ایک پلندہ ڈاک کا جو رسی سے بندھا ہوا تھا میرے سامنے رکھ دیا کہ آپ کی ڈاک آتی ہے اس پلندہ میں علاوہ پوسٹ آفس کے ذریعہ آنے والی ڈاک کے کچھ دستی رقعے بھی ہیں جو معلوم ہوتا ہے دفتر نے ڈاک کے ساتھ رکھ دیئے ہیں ان دستی خطوں میں سے ایک خط جو میں نے کھولا تو اس میں ایک روپیہ کے چند نوٹ نکلے ہیں جو معلوم ہوتا ہے کسی نے نذرانہ کے طور پر دیئے ہیں چونکہ کئی لفافے ایک ہی شکل کے تھے میں نے سمجھا ان سب میں کچھ رقم نذرانے کی ہے میں وہاں سے اٹھ کر اپنے ویٹنگ روم کی طرف چل پڑا.اس ویٹنگ روم کے سامنے چند احمدی لیٹے ہوئے تھے جن میں ایک بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی بھی تھے.میں نے ان کو دیکھ کر کہا کہ یہ ڈاک آپ مجھے پہنچا دیں اور خود اپنے ویٹنگ روم کی طرف چل پڑا.جب میں واپس جا رہا تھا تو ایک پولیس کا افسر مجھے ملا اور اس نے کہا کہ ہمیں رپورٹ ملی ہے کہ یہاں جو آبہت کھیلا جاتا ہے اور آپ کی نسبت بھی رپورٹ ملی ہے کہ آپ نے جو آکھیلا چنانچہ آپ کی جیب میں کچھ روپیہ ہے وہ کہاں سے آیا ہے میں نے کہا کچھ لوگوں نے نذرانہ دیا ہے وہ میری جیب میں ہے اس نے کہا اگر نذرانہ ہوتا تو کچھ چاندی کے روپے بھی ہوتے یہ تو سب نوٹ ہیں اس پر میں نے کہا کہ میں نذرانہ والے کو کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ تم بیچ میں چاندی کے روپے بھی دو یہ کہہ کر میں ویٹنگ روم میں گھس گیا.دروازہ میں داخل ہونے سے پہلے بھائی عبد الرحمان صاحب نے مجھے لا کر ڈاک دے دی اور جن لفافوں کے متعلق میں سمجھا تھا کہ ان میں نذرانہ ہے وہ میں نے جیب میں ڈال لئے جیب میں ڈالتے ہی وہ لفافے آپ ہی کھل گئے اور ان میں سے روپے اچھل کر میری جیب میں آپڑے ان میں سے کچھ چاندی کے معلوم ہوتے ہیں اور کچھ نوٹوں کی صورت میں.کچھ دیر کے بعد پھر ویٹنگ روم سے نکلا تو اس پولیس افسر نے پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا ہمیں رپورٹ ملی ہے کہ آپ نے جو آکھیلا ہے آپ ہمارے ساتھ چلیں ہم آپ کا بیان لینا چاہتے ہیں وہ شخص مجھے اپنے ساتھ لے کر چلا اور میرے دل میں خواہش ہوئی کہ میں جماعت احمدیہ کو اس واقعہ کی اطلاع دے دوں چلتے چلتے تین جگہ پر ہم لوگوں کے ہجوم میں سے گزرے ہر ہجوم میں سے گزرتے ہوئے میں نے لوگوں کو
550 مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے لوگو ! اگر تم میں سے کوئی متقی اور نیک بندہ ہے تو وہ جماعت احمدیہ کو اطلاع کر دے کہ پولیس مجھے اس طرح گرفتار کر کے لے جا رہی ہے اور ان کا منشاء یہ ہے کہ مجھے طرح طرح کے دکھ پہنچائیں تاکہ ان کے دکھوں سے تنگ آکر میں جھوٹ بول کر ان کے الزام کی تصدیق کر دوں تین متفرق موقعوں پر میں نے یہی اعلان کیا.اس کے بعد پولیس لوگوں سے دور مجھے ایک جگہ پر لے گئی وہ سورج کے غروب کے بعد کا وقت معلوم ہوتا ہے جس میں تھوڑی تھوڑی روشنی ہوتی ہے اس وقت دو تین اور پولیس افسر بھی آگئے جن میں سے ایک انگریز ہے انہوں نے مجھے ایک جگہ پر کھڑا کر دیا اور لوہے کے پچھدار ہند میرے بازوؤں اور پنڈلیوں میں باندھ دیئے.ہیں وہ لوہے کے مگر بہت کچھکدار ہیں اور پٹی کی طرح باندھے جاسکتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ان کے ساتھ بجلی کی تاریں لگی ہوئی ہیں اور بجلی کی روان میں چھوڑ کر جب ان پر ہتھوڑا مارا جاتا ہے تو انسانی اعصاب کو ایسا صدمہ پہنچتا ہے کہ وہ تکلیف اس کے لئے نا قابل برداشت ہو جاتی ہے اور اس کے ذریعہ سے پولیس جو بیان چاہے دلوا دیتی ہے.جب یہ پٹیاں ان لوگوں نے باندھ لیں اور میں نے سمجھا کہ اب یہ عذاب دے کر مجھ سے کوئی جھوٹا بیان دلوانے کی کوشش کریں گے تو میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے یہ دعا کی کہ اے اللہ میں کمزور انسان ہوں اور میری صحت بھی بہت گر گئی ہے جسمانی تکالیف کے برداشت کی طاقت مجھ میں نہیں ہے یہ لوگ چاہتے ہیں کہ قسم قسم کی تکلیف دیکر مجھ سے کوئی جھوٹا بیان دلوائیں اے خدا ! تو میری مدد کریا اس عذاب کو ٹلا دے یا اس کی برداشت کی مجھے طاقت دے تاکہ ایسا نہ ہو کہ میں تکلیف برداشت نہ کر کے اپنی جان بچانے کے لئے کوئی غلط بیانی کر بیٹھوں جس سے میری روحانیت کو کوئی نقصان پہنچے یا وہ جماعت کی بدنامی کا موجب ہو میری اس دعا کے معا بعد پولیس افسروں میں سے ایک نے ہتھوڑی اس لوہے کی پٹی پر ماری جو میرے بازو میں باندھی گئی نی وہ یہ تجربہ کرنا چاہتا تھا کہ تعذیب کا سامان کس حد تک مکمل ہو گیا ہے لیکن اس ہتھوڑی کی ضرب مجھے بالکل محسوس نہیں ہوئی سوائے اس کے جیسے کوئی انگلیوں سے چھوتا ہے اس کے بعد مجھ پر بے ہوشی طاری ہو گئی اور مجھے نہیں معلوم ہو سکا کہ کس کس رنگ میں اور کتنی دیر انہوں نے مجھ کو عذاب دیا.جب مجھے ہوش آئی تو میں نے دیکھا کہ میں ایک چارپائی پر بیٹھا ہوں اور میرے پہلو میں وہ انگریز پولیس افسر بیٹھا ہے جو تعذیب میں شامل تھا وہ سامنے کی طرف منہ
551 کر کے زور زور سے بول رہا ہے ہوش آتے ہی مجھے یوں معلوم ہوا جیسے وہ یہ کہہ رہا ہے کہ میرا تو اس معاملہ میں کوئی قصور نہیں میں تو دوسرے ہندوستانی افسر سے کہہ رہا تھا کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے مگر اس نے اصرار کیا اس پر میں نے بڑے جوش سے کہا تمہارا کیوں قصور نہیں تم کو بھی سزا دی جائے گی اس وقت میں نے سنا کہ دور کنارہ پر شور کی آواز آئی جیسے جنگ کی شدت میں لوگ آواز نکالتے ہیں جس میں کوئی الفاظ نہیں ہوتے میں نے سمجھا کہ یہ احمدی نوجوان ہے اور میں نے بلند آواز سے کہا یہ شخص شور کیوں کر رہا ہے اس پر دور میدان کے سرے پر بیٹھے ہوئے مجھے چوہدری مشتاق احمد باجوہ نظر آئے انہوں نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ اس شخص کا فلاں نام ہے (جو مجھے بھول گیا) آپ تو اس پر خفا ہو رہے ہیں کہ یہ شور کیوں کر رہا ہے اور میاں بشیر احمد صاحب اس پر اس لئے ناراض ہو رہے ہیں کہ تو کنارہ پر حملہ کر کے کیوں لوٹ آیا تو اس جگہ تک کیوں نہیں پہنچا جس جگہ خلیفہ المسیح تھے.اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ وہ اعلان جو میں نے مختلف ہجو موں میں کیا تھا اس کو کسی نیک آدمی نے جماعت احمد یہ تک پہنچا دیا ہے جس پر جماعت احمدیہ کے بہت سے نوجوانوں نے دیوانہ وار حملے کر کے مجھے چھڑوانے کی کوشش کی اور وہ آواز بھی اسی سلسلہ میں سے ایک تھی لیکن وہ لوگ نظر نہیں آتے تھے جنات کی طرح آنکھوں سے اوجھل تھے بہر حال ان کی کوشش اور اللہ تعالیٰ کے فضل نے ایسے سامان کر دیئے کہ وہ لوگ جو تعذیب کے درپے تھے ڈر گئے اور حالات بدل گئے تب میں چارپائی پر سے اٹھا اور گھر کی طرف چل پڑا.میں سمجھتا ہوں کہ میں قادیان میں ہوں جب مسجد مبارک والے چوک میں میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ میرے ساتھ ایک گروہ احمدیوں کا بھی ہے جو میرے پیچھے پیچھے چلا آ رہا ہے میں نے یہ سمجھ کر کہ تعذیب کی وجہ سے میرا بدن کمزور ہے میں کہیں گر نہ جاؤں ان لوگوں سے کہا کہ میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ پھر میں نے مسجد مبارک کی پرانی سیڑھیوں پر چڑھنا شروع کیا اور ان احمدی نوجوانوں کو اشارہ کیا کہ میرے ساتھ آتے جاؤ اس وقت مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے دروازہ میں سے اس انگریز پولیس افسر اور ہندوستانی افسر کے ہاتھ آگے آئے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ مجھ سے مصافحہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں میں نے حقارت سے منہ موڑ لیا اور ان سے مصافحہ نہیں کیا اس پر ان دونوں نے السلام علیکم بڑے زور سے کہا میں نے ان کے سلام کا
552 جواب بھی نہیں دیا.اس پر ان میں سے ایک نے کہا کہ سلام کا جواب دینا تو ضروری ہوتا ہے تب میں نے بادل نخواستہ وعلیکم السلام کہا اور سیڑھیاں چڑھنی شروع کر دیں.دار المسیح کے دروازے پر میں نے دوستوں کو رخصت کیا اور آپ گھر میں داخل ہوا دروازہ کے اندر میں نے دیکھا کہ دروازہ کے ساتھ بہت سی زنجیریں بندھی ہوئی ہیں اور ہر زنجیر کے ساتھ ایک کتا بندھا ہوا ہے مگر وہ عجیب قسم کے کتے ہیں مرغی سے لے کر بڑی ہلی تک کے قد کے ہیں وہ کتے میرے پاؤں کے چاروں طرف اپنی زنجیروں سمیت لیٹ گئے ہیں میں نے طبعی کراہت کی وجہ سے اپنے پیران سے چھڑوائے اور سامنے کے دالان میں گھس گیا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام رہا کرتے تھے اور خواب میں بھی اس جگہ موجود تھے لیکن کتوں کے خیال سے میں دالان میں ٹھہرا نہیں.سامنے کے صحن میں چلا گیا وہاں خاندان کا ایک نوجوان کھڑا ہے میں نے اسے کہا تم نے اتنے کتے کیوں باندھ چھوڑے ہیں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بات کرنی تھی مگر کتوں کی نفرت کی وجہ سے ادھر باہر آنا پڑا.اس نوجوان نے کتوں کو دھکیل کر دروازے بند کر دیئے اور مجھے کسی نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بلاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیا بات ہوئی ہے میں اندر گیا تو دیکھا کہ ایک وسیع تخت پوش پر آپ بھی لیٹے ہوئے ہیں اور حضرت اماں جان بھی لیٹی ہوئی ہیں.میرے وہاں پہنچنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھ گئے اور میں نے زمین کے فرش پر بیٹھ کر آپ سے مصافحہ کیا آپ اس وقت دہلے معلوم ہوتے ہیں مگر رنگ زیادہ سفید اور سرخی مائل ہے مصافحہ کرتے وقت میں نے ہاتھ کو بوسہ بھی دیا اور مجھے رقت آگئی ہے میری رقت کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگے اور حضرت اماں جان بھی رونے لگ گئیں جس کی آواز بھی سنائی دیتی تھی اور اسی رقت کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرہ پر افسردگی کے آثار بڑھتے گئے جب میں سب واقعہ سنا چکا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا افسوس ان لوگوں نے تو ہمارا ان کے ساتھ مل کر رہنا بھی مشکل بنا دیا ہے اس پر میری آنکھ کھل گئی.جو آ ایک ایسا فعل ہے جس میں بغیر انجام کے واضح ہونے کے انسان اپنے مال کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے ممکن ہے اس سے مراد یہ ہو کہ پاکستان یا ہندوستان کی حکومت احمدیوں پر کوئی سیاسی شبہ کرے گی.سیاسی چالبازی بھی جوئے کے ہم رنگ ہوتی ہے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جماعت
553 کا دامن ایسے داغ سے پاک ہے لیکن بعض لوگ ایسا شبہ کریں گے لیکن اللہ تعالٰی برداشت کی طاقت دے گا اور ان وساوس کے شکاروں کے حیلوں اور تدبیروں سے نجات بخشے گا.میں نے دیکھا ( شروع 1954ء کی بات ہے) کہ احمدیہ جماعت کے متعلق کوئی فرشتہ کہتا ہے كه أُعْلِمَتْ بِهَا وَ اُعْجِبَتُ بِهَا یعنی فلاں امر کی اس کو خبر دی گئی اور اس بات سے اسے خوش کیا گیا.یہ مجھ پر حملہ سے پہلے کا الہام ہے ممکن ہے اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ اس حملہ سے بچالے گا اور جماعت کو اس سے خوشی پہنچے گی یا ممکن ہے کہ کوئی اور خوشخبری مراد ہو جو اللہ تعالیٰ جماعت کو پہنچائے گا.میں نے دیکھا کہ حضرت اماں جان) کے متعلق کوئی کہتا ہے رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً یعنی خدا سے وہ راضی ہیں اور خدا ان سے راضی ہے.الفضل 6.اکتوبر 1954ء صفحہ 6-5 13/12.ستمبر 1954ء 591 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں اور اس مکان میں ہوں جو مرزا نظام الدین صاحب کا ہے ( یہ عجیب بات ہے کہ گو ریاست کے وارث ہمارے دادا قرار پائے تھے اور ان کو ریاست کے وارث ہونے کی وجہ سے گورنمنٹ نے زائد حصہ دیا تھا لیکن مکانات کے لحاظ سے وہ مکانات بہت شاندار تھے جو مرزا نظام الدین صاحب کے حصہ میں آئے جو ہمارے دادا کے چھوٹے بھائی کی اولاد تھے.ان کے مکان میں بڑے بڑے ہاں تھے جیسے کہ دتی کے شاہی زمانہ کے مکانات ہوتے ہیں) خواب میں مجھے وہ مکان اور بھی زیادہ وسیع معلوم ہوتا ہے اور اندرون خانہ کے صحن کی جگہ بھی بڑے بڑے وسیع کمرے بنے ہوئے نظر آتے ہیں ان کمروں میں بہت سا سامان رکھا ہے جیسے کہ نمائش کا ہوتا ہے میں بھی وہاں ہوں گھر کے کچھ اور افراد بھی.اس وقت مجھے کسی نے کہا اس سامان میں دو ہاتھ کے لکھے ہوئے قرآن شریف ہیں جو بہت پرانے زمانہ کے ہیں میں یہ سن کر اس طرف چل پڑا جدھر وہ قرآن شریف رکھے ہیں تاکہ ان کو سنبھال کر کسی محفوظ جگہ پر رکھ دوں میں نے جب وہ قرآن شریف اٹھائے تو بجائے دو کے تین نکلے ان میں سے ایک اتنا پرانا تھا کہ بوسیدہ ہو کر اس کی جلد ٹوٹ گئی تھی وہ جلد بھی نہایت اعلیٰ طلائی کام کی تھی جلد کے گتے کے گر جانے کی وجہ سے قرآن کریم کے اصل صفحات ننگے ہو گئے اور میں نے
554 دیکھا کہ قرآن کریم جس کاغذ پر لکھا ہوا تھا وہ نہایت ہی قیمتی تھا اور اس پر طلائی کام تھا اور جواہرات سے حاصل کئے ہوئے رنگوں کا کام تھا جیسا کہ تاج محل آگرہ میں ہے.میں نے جلد کا گفتہ اٹھالیا اور تینوں قرآن کسی الماری میں محفوظ کرنے کے لئے چل پڑا اس وقت مجھے پیچھے سے حضرت اماں جان کی آواز آئی کہ میاں اگر ان قرآنوں میں سے کوئی ایسا قرآن بھی ہو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کا لکھا ہوا نہ ہو تو میرے لئے رکھ لینا.میں اس پر تلاوت کیا کروں گی یہ سوچ کر پہلے تو مجھے یہ تعجب ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے لکھے ہوئے قرآن بھی اب تک موجود ہیں اور پھر دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کوئی ایسا قرآن کریم ملے تو میں بھی اسے دیکھوں اس کے بعد دل میں تعجب پیدا ہوا کہ حضرت اماں جان) نے یہ کیوں کہا کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کا لکھا ہوا نہ ہو تو رکھ چھوڑنا اس پر میں تلاوت کیا کروں گی ان کو تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ اگر کوئی ایسا قرآن ہو تو میرے لئے رکھنا.اس کے بعد معا خیال آیا کہ آپ نے یہ بات اس لئے کسی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو قرآن لکھے جاتے تھے ان پر نہ زیر زبر ہوتے تھے اور نہ نقطے ہوتے تھے اور طرز تحریر بھی جداگانہ تھی.حتی کہ وہ خط جو آپ نے قیصر کو لکھوایا تھا اور جواب تک قسطنطنیہ میں محفوظ ہے اسے اچھے عالم بھی نہیں پڑھ سکتے پس چونکہ آپ نے تلاوت کے لئے قرآن مانگا تھا اس لئے آپ نے یہ کہہ دیا کہ پرانے زمانہ کی تحریر والا قرآن نہ ہو.اس کے بعد ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ لالہ شرم پت (حضرت صاحب کے جوانی کے زمانہ کے دوستوں میں سے تھے) کے پوتے اوم پرکاش نے امتحان پاس کر لیا ہے اور ہندو اسے سہرے لگا کر مردانہ (مرزا نظام دین صاحب کا مردانہ) میں لائے ہیں وہ لوگ مرزا بشیر احمد صاحب سے ملنے گئے ہیں (اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام والے مکان کے حصہ میں ہیں) اور ہندوؤں نے میری طرف پیغام بھیجا ہے کہ اوم پرکاش پاس ہو گیا ہے اس کا منہ میٹھا کرنے کے لئے کوئی تحفہ بھجوائیں اور سہرے لگا کر اسے بٹھایا ہوا ہے میں خواب میں کہتا ہوں کہ لالہ شرم پت کا پوتا ہے اور پاس ہوا ہے اسے ضرور کوئی تحفہ دینا چاہئے.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.یادر ہے کہ لالہ شرم پت کا ایک پوتا جسے میں جانتا ہوں اس کا نام راجہ رام پر کاش ہے ہندو رام کا لفظ بھی خدا کے لئے بولتے ہیں اور اوم کا لفظ بھی خدا کے لئے بولتے ہیں ممکن ہے اس
555 نسبت کی وجہ سے اس کا نام اوم پرکاش بتایا گیا ہو یا ممکن ہے اس کے یا اس کی نسل کے کسی نیک اور روحانی تغیر کی طرف اشارہ کیا گیا ہو (اس کے بعد میاں بشیر احمد صاحب کو قادیان سے اطلاع ملی کہ لالہ شرم پت کے ایک اور بیٹے کی نسل سے ایک ہوتا ہے جس کا نام اوم پرکاش ہے اور وہ بھی دہلی میں نوکر ہے پس غالبا اس کی کسی جسمانی یا روحانی کامیابی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے) پرانے زمانہ کے لکھے ہوئے جو تین قرآن دکھائے گئے ان سے اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے بھولے ہوئے علوم مجھے عطا کرے گا اور جماعت کو بھی برکات نصیب ہوں گی.الفضل 12.اکتوبر 1954 ء صفحہ 3 13/12.ستمبر 1954ء 592 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں ہوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عید کی رات ہے پہلا حصہ رات کا ہے یا پچھلا حصہ ہے.یقین نہیں کر سکتا مگر پورا اندھیرا نہیں ہے میں خواب میں سمجھتا ہوں کہ گھر کے اس حصہ میں جہاں پہلے ام طاہر مرحومہ رہا کرتی تھیں اور پھر مریم صدیقہ رہتی تھیں، امتہ الحی مرحومہ رہتی ہیں.میں گھر کے کئی حصوں سے گزرتے ہوئے اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایک چارپائی پر لیٹی ہوئی ہیں اور ایک پتلی دولائی اوڑھی ہوئی ہے نیچے فرش پر سرہانے کی طرف چارپائی کے پہلو میں ایک عورت چادر اوڑھ کے لیٹی ہوئی ہے اور عید کا لباس اس نے پہنا ہوا ہے سبز مرینہ کا تنگ پاجامہ ہے اور اس کے پائنچے پر سنہری گوٹ لگی ہوئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ امتہ الٹی مرحومہ کی والدہ اور حضرت خلیفہ اول کی اہلیہ ہیں میں ان کے پاؤں کی طرف سے ہو کر امتہ الحی کے پاس گیا اور چار پائی پر بیٹھ گیا اور انہیں پیار کرنا چاہا لیکن انہوں نے ہاتھ سے مجھے پرے کرنے کی کوشش کی اور کہا ایسا نہ کریں میں نے اس پر کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو اپنی بیویوں کو پیار کیا کرتے تھے مطلب یہ تھا کہ جو ان کے لئے جائز تھا وہ ہمارے لئے سنت ہے اس پر انہوں نے کہا کہ ان کی اور بات تھی ان کے ساتھ وعدے تھے.میں نے جوابا کہا کہ کیا میرے متعلق کوئی وعدے نہیں.یہ بات اشاروں اشاروں میں ہی ہوئی.مطلب یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وعدے ان کے اتباع کی طرف بھی منتقل ہو جاتے ہیں اور آپ جو
556 کام بھی کرتے تھے وہ آپ کے اتباع کے لئے بھی جائز ہوتا ہے میں نے ابھی بات ختم ہی کی تھی کہ امتہ الحی کی والدہ صاحبہ اٹھ کر بیٹھ گئیں اور میں نے ان کو یہ بات بتائی انہوں نے میری تائید کی اور امتہ الحی مرحومہ کو سمجھانا شروع کیا.اتنے میں میری آنکھ کھل گئی.3 یہ خواب اتنا پیچیدہ ہے کہ اب تک اس کی تعبیر سمجھ میں نہیں آئی.الفضل 12 اکتوبر 1954ء صفحہ 19.ستمبر 1954ء 593 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک گلی میں سے گزر رہا ہوں جس کے پہلو میں ایک بڑے چبوترہ پر بہت سے لوگ بیٹھے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مشاعرہ ہو رہا ہے اور صوبہ کا گورنر بھی اس میں شامل ہے مگر صوبہ میرے ذہن میں نہیں کہ کونسا ہے میرے ساتھ کوئی شخص جا رہا ہے میں نے اس کو کہا کہ یہ تو مشاعرہ کی طرز معلوم ہوتی ہے اس نے جواب میں کہا کہ یہاں تو کثرت سے مشاعرے ہوتے رہتے ہیں.گلی کی نکڑ پر ایک گھر ہے جس میں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے خاندان کے لوگ ہیں میں اس میں چلا گیا.اپنے عزیزوں سے بات کر کے پھر میں باہر کی طرف نکلا تو میں نے دیکھا کہ ایک ہماری ننھیالی رشتہ دار میرے پیچھے چلی آرہی ہے ایک اونچی جگہ پر حضرت اماں جان) بیٹھی ہوئی ہیں مجھے یوں معلوم ہوا اس عورت نے آکر حضرت (اماں جان کی گردن زور سے پکڑلی ہے اور زور سے دبانے کی وجہ سے گلے میں کراہنے کی آواز آتی ہے میں نے مڑ کر دیکھا تو میں نے دیکھا کہ اس نے آپ کی گردن پکڑی ہوئی ہے میں اس طرف گیا مجھے دیکھ کر اس نے گردن چھوڑ دی اور ایک طرف کو چل دی میں نے قدم تیز کر کے اس کو پکڑ لیا اور اس کی گردن کے آگے کی طرف ایک ہاتھ اور پیچھے کی طرف ایک ہاتھ رکھ کر زور سے دبانا شروع کیا اس پر اس نے کہا کہ آپ تو اتنے زور سے دبا رہے ہیں کہ میرا سانس رک جائے گا میں نے کہا تم نے حضرت اماں جان) کی گردن پکڑی تھی اگر ان کو کچھ ہوا تو میں تمہاری گردن توڑ دوں اس وقت مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے بازوؤں میں اتنی طاقت ہے کہ محض ہتھیلیوں کے زور سے میں آدمی کی گردن توڑ سکتا ہوں اتنے میں معلوم ہوا کہ حضرت اماں جان کو کھانسی اٹھی اور آپ کی طبیعت ٹھیک ہو گئی جس پر میں نے اس عزیزہ کو چھوڑ دیا اور باہر
557 3 MI کی طرف روانہ ہوا اور وہ بھی میرے ساتھ چل پڑی ہاں یہ بات لکھنی میں بھول گیا کہ جب میں اس عزیزہ کا گلا دبا رہا تھا تو اس نے کہا میں تو یونہی رشتہ داروں والا مذاق کر رہی تھی جب میں باہر کی طرف آرہا تھا کہ ایک لڑکا کہ وہ بھی ہمارا ننھیالی رشتہ دار معلوم ہوتا ہے آیا اور اس نے کہا آپ کو گورنر صاحب یاد کرتے ہیں میں نے اسے کہا کہ تجھے کس طرح پتہ لگ سکتا ہے کہ گورنر صاحب مجھے یاد کرتے ہیں.اس نے کہا لاؤڈ سپیکر میں دو تین دفعہ آپ کے نام کا اعلان ہوا تھا اس پر میں نے دل میں خیال کیا کہ مشاعرہ ہو رہا تھا کہیں مجھے وہ یہ نہ کہہ دیں کہ اپنے شعر سناؤ میں تو مجلس میں شعر نہیں پڑھا کرتا جب میں جلسہ گاہ میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ مشاعرہ ختم ہو چکا ہے اب پہلوانوں کا ایک دنگل ہو رہا ہے لوگ اسے دیکھ رہے ہیں دو جگہ مجھے دنگل ہو تا ہوا نظر آیا ایک جگہ تو میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان اور ایران کے پرانے زمانہ کے پہلوان رستم وغیرہ کشتیاں لڑ رہے ہیں اور دوسری جگہ پر موجودہ زمانہ کے آدمی.پرانے زمانہ کے پہلوان موجودہ زمانہ کے آدمیوں سے کئی گنا بڑے معلوم ہوتے ہیں.پہلوان اتنے دور ہیں کہ وہ اچھی طرح نظارہ نظر نہیں آسکا جب دنگل ختم ہو گئے تو گورنر صاحب اور معزز مہمان ایک بڑے ہال میں جمع ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک چائے کا کمرہ ہے میزیں اور کرسیاں لگی ہوئی ہیں میں بھی ان لوگوں میں ہوں مگر چائے کا سامان مجھے نظر نہیں آیا.علاوہ زندہ مسلمان لیڈروں کے کچھ وفات یافتہ مسلمان لیڈر بھی وہاں موجود ہیں مثلاً سر شفیع ، مولانا محمد علی اور ڈاکٹر انصاری وغیرہ.میز کے ارد گرد بیٹھ جانے کے بعد گورنر صاحب نے ایک نوجوان سے سوال کیا کہ سٹیشن پر تمہاری ہندوستانی نو وار دلیڈ ر سے کیا بات ہوئی تھی؟ اس نوجوان نے کہا کہ اس شخص نے مجھے کہا تھا کہ تم لوگ ذلیل ہو جاؤ گے تو میں نے اسے یہ کہا تھا کہ عزت اور ذلت تو خدا کے ہاتھ میں ہے گورنر نے اس نوجوان کے اس جواب کو بہت سراہا مگر وفات یافتہ مسلمان لیڈروں میں سے ایک لیڈر جو اس نوجوان کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے اور مجھ سے تیسرے نمبر پر تھے اور جن کو میں سر شفیع سمجھتا ہوں انہوں نے کہا کہ قرآن شریف میں جو آتا ہے کہ تُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ اس کے یہ معنے تو نہیں ہیں کہ ہر عزت اور ہر ذلت خدا کی طرف سے آتی ہے اس کے معنے تو یہ ہیں کہ بعض لوگوں کو خدا عزت دیتا ہے اور بعض لوگوں کو خدا ذلیل کرتا ہے اس پر میں ان سے مخاطب ہوا اور میں نے کہا آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن یہ بھی تو ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص
558 غرور سے کوئی دعوی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی ذلت کے سامان کر دیتا ہے چنانچہ اس کی توضیح میں میں آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کا ایک واقعہ سناتا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ایک جنگ پر گئے اس دفعہ انصار اور مہاجرین میں کچھ جھگڑا ہو گیا.جھگڑے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عبد اللہ بن ابی بن سلول نے جو منافقوں کا سردار تھا یہ فقرہ کہا یہ مکہ سے آئے ہوئے لوگ بہت مغرور ہو گئے ہیں مدینہ چل لینے دو میں ان لوگوں کی خبر لوں گا وہاں چل کر لَيُخْرِ جَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ المنافقون : 9) (یہ قرآن شریف کے الفاظ ہیں جن میں اس کے قول کو بیان کیا گیا ہے) میں جو مدینہ کا سب سے معزز آدمی ہوں مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی یعنی نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مدینہ سے نکال دوں گا یہ خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پہنچی اور اس کے بیٹے کو بھی پہنچی جو نهایت مخلص مسلمان تھا.اس کا بیٹا ر سول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے باپ نے ایسا ایسا کیا ہے اور وہ واجب القتل ہے اس کے قتل کا جب آپ حکم دیں تو مجھے دیں کیونکہ کسی اور مسلمان نے اسے مارا تو شاید کسی وقت میرا نفس مجھے دھوکا دے آپ نے فرمایا ہم نے کوئی ایسا ارادہ نہیں کیا لیکن جب مدینہ پہنچے تو مدینہ کے اندر قدم رکھنے سے پہلے عبد اللہ کا بیٹا اپنی سواری سے کود کر گلی کے سرے پر کھڑا ہو گیا اور تلوار نکال لی اور اپنے باپ سے کہا کہ خدا کی قسم اگر تم نے مدینہ میں داخل ہونے کی کوشش کی تو میں تمہارا سرکاٹ دوں گاور نہ اپنے منہ سے یہ اقرار کرو کہ میں مدینہ کا سب سے ذلیل آدمی ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سب انسانوں میں سے معزز آدمی ہیں جب اس نے دیکھا کہ میں اپنے بیٹے کے ہاتھوں سے مارا جانے والا ہوں تو ذلت کا گھونٹ پی کر وہ فقرے دہرائے جو اس کے بیٹے نے کیے تھے تب اس کے بیٹے نے اسے مدینہ میں داخل ہونے دیا یہ واقعہ سنا کر میں نے اسے کہا کہ دیکھو ایک شخص نے بلا وجہ غرور سے اپنے آپ کو بڑا درجہ دیا اور دوسرے شخص کو جو واقعی بڑے درجہ کا مستحق تھا بلا قصور ادنی درجہ دیا اس پر اللہ تعالیٰ نے اس کے بیٹے کو کھڑا کر دیا کہ اس کو ذلیل کرے.پس اس نوجوان نے جو کچھ کہا وہ ٹھیک کہا جو لوگ دوسروں پر بڑائی جتاتے ہیں اور تعلی کرتے ہیں اور ظلم کرتے ہیں خدا تعالیٰ ان کی ذلت کے سامان پیدا کرنے میں ضرور حصہ لیتا ہے اور جب میں نے یہ کہا تو وہ صاحب بولے آپ نے اپنی گفتگو میں پچتاؤ
559 پچتاؤ کیا لفظ بولا تھا میں سمجھتا ہوں کہ میں نے جو یہ کہا تھا کہ عبد اللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے نے اپنے باپ سے مدینہ کے دروازہ پر جو یہ برتاؤ کیا تھا اس کو انہوں نے پچتاؤ سمجھا ہے.تب میں نے کہا کہ میں نہ پچھتاؤ نہیں برتاؤ کہا تھا اور اس کے معنے سلوک کے ہیں اس پر انہوں نے کہا کہ یہ برتاؤ برتاؤ کیا ہوا.اس پر میرے پیچھے بیٹھے ہوئے ایک صاحب نے جس کے لہجہ سے معلوم ہو تا تھا کہ وہ یوپی کے ہیں کہا کہ " برتاؤ کالفظ " سلوک" کے معنوں میں اردو میں استعمال ہوتا ہے چنانچہ اشرف شاعر نے بھی اس کو استعمال کیا ہے پھر انہوں نے مجھے آواز دے کر کہا مرزا صاحب آپ اشرف کے شعروں کو پسند کرتے ہیں میں خواب میں سمجھتا ہوں کہ اشرف کوئی بڑا شاعر ہے اور میں اس کو جانتا ہوں اور اس کے شعروں کو پسند کرتا ہوں اس پر میں نے کہا ہاں میں اس کے شعروں کو پسند کرتا ہوں اس پر انہوں نے اس کے ایک دو شعر پڑھے جن میں برتاؤ " معنے سلوک کے آتا تھا اس کے بعد مجلس برخواست ہوئی میں جب اٹھا تو دیکھا کہ میرے پیچھے تین چار یوپی کے معزز شعراء بیٹھے ہیں انہوں نے مجھے اٹھتے ہوئے دیکھ کر سر جھکا کر ہاتھ ہلا کر آداب عرض کیا جیسا کہ یوپی کا دستور ہے میں نے بھی ان کے سلام کا جواب دیا اور باہر کی طرف چل پڑا.تھوڑی دور جا کر مجھے محسوس ہوا کہ میری سوئی میرے ہاتھ میں نہیں ہے اور میں اس شبہ میں پڑ گیا کہ سوئی گھر سے ساتھ لایا تھا یا نہیں.اس خیال سے کہ میں پوری تحقیق کرلوں میں واپس لوٹاتو میں نے نیر صاحب کو آتے دیکھا ان کے کندھے پر برساتی کوٹ پڑا ہوا ہے اور بازو پر کہنی کے مقام پر دو تین سو نٹیاں لٹکی ہوئی ہیں مگر ان میں میری سوئی نہیں ہے اس پر میں ان کو لے کرنذ کو رہ بالا کمرہ میں آیا اور سوئی تلاش کرنی شروع کی.ابھی سوئی تلاش ہی کر رہا تھا کہ آنکھ کھل گئی.الفضل 12.اکتوبر 1954 ء صفحہ 4-3 وو 594 اکتوبر 1954ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک چبوترہ پر بیٹھا ہوں اتنے میں چبوترہ کے نیچے دامن میں ایک مجھے نظر آیا جو سر سے پیر تک ایک سفید چادر میں لپٹا ہوا تھا اور دو تین پگڑیوں کے برابر ایک سفید پگڑی اس نے باندھی ہوئی تھی اس نے مجھے کہا کہ میں ملاقات کرنا چاہتا ہوں میں کچھ گھبرا سا گیا اور حیران سا ہوا کہ یہ شخص پہرہ داروں کی موجودگی میں گھر میں کیسے گھس آیا ہے اور
560 اسے کہا یہ ملاقات کا کونسا وقت ہے اس غیر اس شخص نے نہایت افسردہ لہجہ میں کہا کہ میں 23 سال کے عرصہ کے بعد ملنے آیا ہوں اور آپ کہتے ہیں کہ یہ کونسا وقت ہے اس شخص کے بولنے پر میں نے فوراً اسے پہچان لیا اور کہا اچھا شادی خاں صاحب ہیں آپ کب آئے اور اتنا عرصہ کہاں رہے.انہوں نے کہا کہ میں سیالکوٹ میں رہا (شادی خاں صاحب مرحوم مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور حافظ روشن علی صاحب کے خسر تھے.سیالکوٹ کے رہنے والے تھے ہجرت کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو گئے تھے.غالبا 1923ء میں وہ فوت ہوئے تھے) میرے اس جواب پر وہ چبوترہ پر چڑھ کر آئے اور میرے دائیں طرف بیٹھ گئے.تب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا حال کیسا ہے اور آپ آج کل کیا کام کر رہے ہیں انہوں نے کہا اچھا حال ہے اب کچھ کمزوری ہو گئی ہے جب میں جماعت سیالکوٹ کے سامنے جمعہ کا خطبہ دیتا ہوں تو میرا دایاں پاؤں کچھ سوج جاتا ہے پھر میں نے پوچھا آپ کی والدہ کا کیا حال ہے تو کہا کہ وہ تو فوت ہو گئی ہیں وہ ان کی وفات سے چند سال پہلے فوت ہوئی تھیں اور وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کے لئے ہجرت کر کے قادیان آگئی تھیں غالباً اسی نوے سال کی عمر میں فوت ہوئی تھیں) شادی خان نام خوشی پر دلالت کرتا ہے شاید اللہ تعالیٰ کوئی خوشی کے سامان پیدا کرے.یوں بھی ایک وفات یافتہ نیک اور بزرگ آدمی کا دیکھنا مبارک ہوتا ہے مگر مرحوم کا تو نام ہی شادی خان تھا.(الفضل 5 اکتوبر 1954 ء صفحہ 4) 595 18.اکتوبر 1954ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک نشان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند کھڑا کیا گیا ہے جیسے جھنڈے ہوتے ہیں مگر جھنڈے کی شکل نہیں بلکہ جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین اور آسمان بغیر ستونوں کے کھڑے ہیں اسی طرح وہ نشان بغیر ستون کے کھڑا ہے.ایک نورانی سی چادر ہے جو جھنڈے کی طرح لٹکی ہوئی ہے ہم بہت سے لوگ اس کے سامنے کھڑے ہوئے درود پڑھ رہے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی درجات کے لئے دعائیں کر رہے ہیں اس کے بعد یوں معلوم ہوا جیسے اس جلوہ کے درمیان کچھ وقفہ کر دیا گیا ہے
561 جیسے سکولوں میں ری سیس پیریڈ ہوتا ہے اس دوران ایک اور جھنڈا کھڑا کیا گیا ہے جس کا ستون فیروزی رنگ کا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ پاکستان کا جھنڈا ہے میں نے اور میرے ساتھیوں نے اس جھنڈے کی عزت کے قیام کے لئے بھی دعائیں کوں اور بعض جاہلوں نے اس جھنڈے کو سلام بھی کیا حالانکہ اسلام سے یہ طریق ثابت نہیں چند منٹ کے بعد وہ جھنڈا نظروں سے غائب ہو گیا اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نشان دوبارہ ظاہر ہوا اور اس کے ظاہر ہوتے ہی میں اور میرے ساتھی پھر اس کے سامنے جا کر کھڑے ہو گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا شروع کیا اور آپ کے مدارج کی ترقی کے لئے دعائیں کرنی شروع کیں اس وقت نا معلوم کمزوری کی وجہ سے یا کسی اور مصلحت سے میں زمین پر منہ کے بل لیٹ گیا مگر ما تھا زمین پر مگر نہیں جیسے سجدہ کرتے ہیں بلکہ جیسے آرام کے لئے سینہ کے بل لیٹ جاتے ہیں اس حالت میں میں درود پڑھتا جاتا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعائیں کرتا جاتا تھا باقی میرے ساتھی کچھ کھڑے تھے کچھ بیٹھے تھے اسی حالت میں مجھے الہام ہوا کہ تَاجُ الْمَدِينَةِ نَزَلَتْ على رأسى (تاج) عربی زبان میں مذکر ہے مگر اس فقرہ میں غالب گمان یہی ہے کہ منونث استعمال ہوا ہے گو ادھر بھی خیال جاتا ہے کہ نزلت کی بجائے نکل ہی استعمال ہوا تھا اس کی حکمت آگے چل کر بیان کی جائے گی) مطلب یہ تھا کہ مدینہ کا تاج میرے سر پر اترا جس وقت یہ الہام ہوا ہے اسی وقت میں نے دیکھا کہ ایک تاج جو ایک لکڑی کے خوبصورت رنگ دار ڈبہ میں نہ کیا ہوا بند ہے میرے سر کے پاس منہ کے سامنے رکھا ہوا ہے اس وقت پھر دل میں القاء ہوا " تیجان" یہ لفظ تاج کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں بہت سے تاج سے اس لفظ کے القاء ہوتے ہی میں نے پیچھے کی طرف مڑ کر دیکھا تو میں نے دیکھا تیرہ چودہ آدمی کرسیوں پر بیٹھے ہیں سب کے سروں پر تاج ہیں اور وہ تاج بجائے دھات کے بنے ہوئے ہونے کے زری کی تاروں سے بنے ہوئے کپڑوں کے ہیں جو پگڑیوں کے گرد لپیٹے جاتے ہیں بیچ میں ایک شخص بہت جسیم اور قد آور بیٹھا تھا جس کے سر پر سب سے بڑا تاج ہے بلند بھی بہت زیادہ ہے اور گھیر میں بھی بہت زیادہ ہے مگر اس کے گرد جو لوگ بیٹھے ہیں ان کے سروں پر تاج ہیں تو اسی شکل کے مگر بعض کے چھوٹے ہیں اور بعض کے بڑے ہیں مگر ہیں سب اسی قسم کے.شاید جو شخص درمیان میں دکھایا گیا.وہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور جو لوگ اردگرد بیٹھے تھے وہ آپ کے نائب
562 تھے جو مختلف وقتوں میں امت میں پیدا ہوتے رہے.میں نے سمجھا کہ یہ چھوٹے بڑے تاج ان لوگوں کے درجہ کے مطابق ہیں مگر ہیں سب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تاج کے نمونہ پر بنائے ہوئے تاکہ آپ کے نائب ہونے پر دلالت کریں اور معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تاج کے مشابہ تاج آپ کے نائبوں کو دیا جاتا ہے اس وقت میں نے پہلے الہام کو دوسرے الفاظ میں ڈھالا اور کہا تَاجُ الْمَدِينَةِ وُضِعَتْ عَلَى رَأْسِى (پھر کر کو مونث صورت میں بیان کیا گیا، یعنی مدینہ کا تاج میرے سر پر بھی رکھا گیا میں نے وہ تاج کھول کر نہیں دیکھا جوڈ بہ میں بند میرے پاس رکھا گیا ہے لیکن اس کے نہ ہونے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی دھات کا نہیں تھا بلکہ زری کی تاروں سے بنا ہوا تھا جو پگڑی پر باندھا جاتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے کہ جاگنے پر معلوم ہوتا ہے کہ "نَزَلَتْ" اور "وُضِعَتْ" کی بجائے نَزَلَ اور وُضِعَ تھا لیکن زیادہ خیال یہی ہے کہ مونث کا صیغہ استعمال ہوا ہے اس صورت میں اس کی توجیہ یہ ہوگی کہ چونکہ اس قسم کا تاج پگڑی سے باندھا جاتا ہے جسے عربی زبان میں عصابہ کہتے ہیں جو مؤنث کا صیغہ ہے اس لئے اس کی رعایت سے تاج کے لئے بھی مؤنث کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا کہ یہ تاج عجمی لوگوں کے طریق کا نہیں جو دھات کا بنایا جاتا ہے بلکہ اسلامی علامت ہے جو پگڑی کے گرد لپیٹی جاتی ہے اس کے بعد وہ نظارہ غائب ہو گیا اور میں اس جگہ سے اٹھ کر اس جگہ آیا جسے میں اقامت گاہ سمجھتا ہوں راستہ میں مجھے کسی شخص نے ایک خط دیا جو حضرت اماں جان) کے نام لکھا ہوا تھا اسے میں نے پڑھا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ حضرت عبد الغنی صاحب یا ایسا ہی کوئی نام تھا ان کا ذکر کر کے لکھا تھا کہ وہ آج کل قرآن کریم کے بڑے معارف بیان کر رہے ہیں اور ایمان کو بڑی تازگی حاصل ہوتی ہے آپ بھی ان ایام میں نہیں ٹھہریں اور ربوہ نہ جائیں میں اس وقت یہ خیال کرتا ہوں کہ یہ کوئی جھوٹا بنا ہو ا صوفی ہے جو ذوقی باتیں بیان کر کر کے بعض لوگوں کو دھوکا دے رہا ہے اور یہ بھی سمجھتا ہوں کہ میں وفات یافتہ ہوں اس خط کو پڑھ کر میں نے کہا افسوس.اللہ تعالیٰ نے اتنے قرآنی علوم کے دریا میرے ذریعہ سے بہائے جن کی مثال دنیا کے پر وہ پر نہیں مل سکتی لیکن میری وفات کے چند سال بعد ہی جماعت کے کچھ کمزور لوگ ایسی دھو کا والی باتوں کا شکار ہو گئے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو معرفت اور آسمانی علوم قرار دے رہے ہیں میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ میری آنکھ کھل گئی.
563 میں نے جو خواب پچھلے دنوں امتہ الحی مرحومہ کے متعلق لکھی تھی اور کہا تھا کہ اس کی تعبیر ظاہر نہیں ہوئی اس کی تعبیر ایک نوجوان مبلغ نے لکھ کر بھیجی ہے جو میرے نزدیک بہت حد تک صحیح معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ماؤں کو اپنے بچوں سے اتنی محبت ہوتی ہے کہ باپ خواہ جائز طور پر ہی ان پر خفا ہو ان کو تکلیف پہنچتی ہے پس معلوم ہوتا ہے کہ آپ ان کے بچوں میں سے کسی پر کسی وجہ سے ناراض ہوئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے دل کی کیفیت دکھائی ہے واقعی اس تعبیر سے اس خواب کے بعض مشکل حصے حل ہو جاتے ہیں اور مجھے اس بات سے خوشی ہوئی کہ ہمارے بعض نوجوان مبلغ روحانی امور کی طرف بھی توجہ رکھتے ہیں.الفضل 20.اکتوبر 1954ء صفحہ 2 21.اکتوبر 1954ء 596 فرمایا : میں نے دیکھا کہ ہم گویا قادیان میں ہیں میں باہر سے گھر میں داخل ہوا ہوں حضرت اماں جان) بھی وہاں گھر میں ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خطرے کے دن ہیں اور میرا با ہرا کیلا جاتا حضرت (اماں جان) کو نا پسند ہوا ہے انہوں نے اس قسم کا اظہار کیا اور میں جلدی سے اپنے حصہ مکان میں آگیا جہاں ام ناصر اور میں رہا کرتے تھے اس وقت میں اپنے آپ کو انیس بیس سال کا محسوس کرتا ہوں میں نے کمرہ میں داخل ہو کے اندر سے کنڈی لگانے کی کوشش کی.اس خیال سے کہ حضرت اماں جان آکر خفا نہ ہوں جب میں کنڈی لگا رہا تھا تو صحن میں حضرت (اماں جان) آگئیں اور باہر سے آواز دیکر ام ناصر سے کچھ کہا جس کا مفہوم ایسا ہی تھا کہ انہوں نے کیسی بے احتیاطی کی ہے کہ باہر اکیلے چلے گئے یا ایسے وقت میں چلے گئے.حضرت (اماں جان) کے چلے جانے کے بعد پھر میں کمرے سے باہر آیا اور گھر کے ایک طرف کچھ مستورات اپنے گھر کی تھیں ان کے پاس چلا گیا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک کھڑکی جس کے سامنے پردہ پڑا ہوا ہے اس کے پاس وہ کھڑی ہوئی کسی کی تقریر سن رہی ہیں میں بھی ان کے پاس آکھڑا ہوا اور میں نے بھی تقریر کرنی شروع کی.مختصر مختصر چٹکلے اس میں بیان ہو رہے ہیں اور غیر احمدیوں کو قائل کیا جا رہا تھا تھوڑی دیر ہی تقریر سننے کے بعد مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ میں نے چاہا کہ کھڑکی کا پردہ ہٹا کے میں تقریر کرنے والے کو دیکھوں تقریر خوب سنائی دے رہی ہے لیکن آواز غیر مانوس معلوم دے رہی ہے، تقریر
564 کرنے والے کو دیکھنے کے لئے آگے بڑھا اور عورتوں سے کہا ایک طرف ہو جاؤ میں اس شخص کو دیکھنا چاہتا ہوں ان عورتوں میں ام طاہر بھی ہیں میں نے بازو سے زور دے کر ان کو پیچھے کیا اور ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ یہ ایسی زبردست تقریر ہے کہ ساری دنیا میں ایسی تقریر یا میں کر سکتا ہوں یا میرا نور الدین کر سکتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے میں نے سینہ پر ہاتھ مارا جیسا دعویٰ کرتے ہوئے بعض لوگ ایسا کرتے ہیں مگر میں نے ساری عمر میں جاگتے ہوئے ایسا کبھی نہیں کیا اسی طرح میں نے کبھی حضرت خلیفہ اول کو نور الدین کہہ کر یاد نہیں کیا اور میرا "نور الدین“ کے الفاظ جو ایک کم عمر بے تکلف دوست کے لئے بولے جاتے ہیں اس کا تو کبھی خیال بھی نہیں آسکتا تھا حضرت خلیفہ اول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیار سے مرزا یا میرا مرزا کہہ دیا کرتے تھے لیکن ہم لوگوں نے ساری عمر انہیں بڑے مولوی صاحب، مولوی صاحب، حضرت مولوی صاحب اور حضرت خلیفہ اول کے نام سے ہی یاد کیا مگر خواب کی حالت میں ان کا ذکر ” میرا نورالدین " کہہ کر کرتا ہوں عورتوں کو ایک طرف ہٹا کر جب میں نے پر وہ ہٹایا تو تین چار سو گز کے اوپر ایک بہت بڑا پلیٹ فارم بنا ہوا دیکھا جس پر کچھ آرام کرسیاں اور صوفے ہیں لیکن مقرر کے سوا اور کوئی آدمی سٹیج پر نہیں جلسہ گاہ پلیٹ فارم سے چھپا ہوا ہے اس لئے سامعین بھی نظر نہیں آتے.حضرت خلیفہ اول اپنے اسی سادہ لباس میں جس میں وہ ہوا کرتے تھے کھڑے تقریر کر رہے ہیں آخری عمر کی نسبت زیادہ جو ان معلوم ہوتے ہیں اور طاقتور معلوم ہوتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سامنے غیر احمدی سامعین بیٹھے ہیں اور کچھ لوگوں نے شرارت کر کے ی بات پھیلا دی ہے کہ احمدیوں نے باقی مسلمانوں سے کچھ دشمنی کی ہے اس مضمون کو سامنے رکھ کر حضرت خلیفہ اول تقریر کر رہے ہیں سفید لباس پر ایک گرم واسکٹ پہنی ہوئی ہے اور سر پر اسی طرح پگڑی باندھی ہوئی ہے جس طرح وہ باندھا کرتے تھے جو پگڑی کی بجائے چادر باندھی ہوئی زیادہ معلوم ہوتی ہے.جس وقت میں نے پر وہ ہٹایا تو وہ یہ دلیل دے رہے تھے تم میں سے بعض نے کہا ہے کہ احمدیوں نے فلاں شرارت کی ہے احمدی پنجاب میں فلاں فلاں چار ضلعوں میں زیادہ ہیں اگر ابھی گھوڑوں پر چڑھ کر کچھ لوگ انہیں بلانے کے لئے چلے جائیں اور چاروں ضلعوں کے احمدیوں کو لے آئیں تو وہ سارے مل کر اتنے بھی نہیں ہوں گے جتنے کہ تم لوگ میرے سامنے بیٹھے ہو پھر کیا اتنے تھوڑے لوگ اس قسم کی شرارتیں کر سکتے ہیں کیا تم لوگ اتنی
565 چھوٹی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے یہ الزام لگانے والے لوگ اپنے جھوٹ کا یا تو خود اقرار کریں گے یا ہم انہیں مجبور کر دیں گے کہ وہ اقرار کریں.ہماری شرافت کی وجہ سے یہ لوگ اتنے دلیر ہو گئے ہیں مگر ہم اب جواب دینے پر مجبور ہو گئے ہیں یہ کہہ کر انہوں نے دائیں طرف بیٹھے ہوئے ایک آدمی کو اشارہ کیا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاص طور پر انہوں نے ایک آلہ بنوا کے رکھا ہوا تھا اس اشارہ پر ایک شخص اس چیز کو اٹھا کر لے گیا وہ چیز کوئی پانچ چھ گز لمبی ہے اور اس کے اوپر کے حصہ کا تین چار گز قطر ہے لیکن بجلی کے بلب کی طرح وہ ایک طرف سے موٹی اور ایک طرف سے پتلی ہے وہ شخص اسے بڑی آسانی سے اٹھا کر سٹیج پر لے آیا اور حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ میں دے دیا وہ چیز آپ نے ہاتھ میں پکڑی اور کہا ابھی ان سے اقرار کروا دیتے ہیں پھر انہوں نے اپنی بائیں طرف دیکھا اسٹیج سے کوئی تین چار سو گز کے فاصلہ پر ایک پختہ باؤلی بنی ہوئی معلوم ہوتی ہے اس کی منڈیر بھی کوئی پندرہ میں فٹ اونچی ہے اور ایسی مضبوط بنی ہوئی ہے جیسے قلعہ کی دیوار ہوتی ہے آپ نے اس تارپیڈو کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور لہراتے ہوئے اس کو اس باؤلی کی طرف پھینک وہ چیز عین اس باؤلی کے اوپر جا کر اس کے اندر گری.باؤلی کے اندر اس کا گرنا تھا کہ اس باؤلی میں سے ایک شور پیدا ہوا اور اس کا پانی اہل اہل کرنا ہر نکلنا شروع ہوا اور باؤلی میں سے آواز میں آنی شروع ہوئیں.بک پڑے.بک پڑے.میں اس وقت یہ سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں نے شرارت کی تھی وہ بھاگ کر اس باؤلی میں چھپ گئے تھے اس باؤلی میں پانی کی سطح کے قریب بڑے بڑے طاقچے بنے ہوئے ہیں جن میں آدمی چھپ سکتا تھا پولیس کو ان لوگوں پر شبہ ہوا اور وہ ان کے پیچھے گئی لیکن وہ لوگ مصر تھے کہ جو کچھ انہوں نے کہا تھا سچ کہا تھا احمدیوں نے ہی ایسی شرارت کی تھی لیکن جب حضرت خلیفہ اول کی پھینکی ہوئی چیز کنویں میں جاکر گری اور کنویں میں ایک طلاطم پیدا ہو گیا تو انہوں نے سمجھا عذاب الہی آگیا ہے تو حقیقت بیان کر دی جس پر پولیس افسروں نے زور سے اطلاع دی کہ تبک پڑے.بک پڑے یعنی انہوں نے حقیقت بیان کر دی اس کے بعد حضرت خلیفہ اول نے تقریر بند کر دی اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چل پڑے.اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگ قادیان میں نہیں بلکہ سرگودھا اور جھنگ کے علاقہ میں ہی ہیں گھوڑوں پر چڑھے ہوئے سینکڑوں آدمی اس راستہ پر سے اپنے گھروں کو جار ہے تھے یہ تو ایک راستے کا حال تھا چاروں طرف سے راستے جاتے تھے ان پر معلوم نہیں کتنے لوگ
566 تھے میں اتنے گھوڑوں کو دیکھ کر حیران رہ گیا اور میں نے دل میں کہا قادیان کے ارد گرد تو اتنے گھوڑے نہیں ہوتے تھے اس وقت مجھے یوں معلوم ہوا کہ حضرت خلیفہ اول حضرت اماں جان کی تسلی کے لئے گھر میں آئے ہیں میں بھی اس کمرے میں چلا گیا جہاں حضرت (اماں جان) برقعہ یا چادر اوڑھے لیٹی تھیں حضرت خلیفہ اول کمرے میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھ اماں جی یعنی ان کی اہلیہ بھی تھیں انہوں نے سیاہ برقعہ پہنا ہوا تھا اور ان کی عمر بھی اس وقت کوئی چالیس سال کی معلوم ہوتی تھی.حضرت خلیفہ اول تو حضرت (اماں جان) کی طرف آگے بڑھے اور انہیں تسلی دینے لگے کہ خطرہ جاتا رہا ہے فکر کی بات نہیں اور میں ایک چارپائی پر اماں جی کے ساتھ بیٹھ گیا ان کے ہاتھ میں ایک مجلد کاپی پکڑی ہوئی تھی میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کاپی کیسی ہے انہوں نے کہا کچھ نہیں میں نے بھی ایک تقریر کی تھی.وہ تقریر میں نے اس کاپی میں لکھی تھی میں نے وہ کاپی ان سے لے لی اور کھول کر وہ تقریر پڑھنی شروع کی.وہ تقریر مجھے معقول معلوم ہوئی اور میں نے ان سے کہا تقریر تو اچھی لکھی ہے اور دل میں کہا کہ جب حضرت خلیفہ اول باہر جانے لگیں گے تو ان کو مبارکباد دوں گا کہ اماں جی نے تقریر اچھی لکھی ہے اتنے میں وہ کمرے سے باہر نکلنے کے لئے اٹھے اور میرے پاس سے گزرے اور مجھے السلام علیکم کہا میں نے وعلیکم السلام کا جواب دیا اور اماں جی کی تقریر کا ذکر کرنا چاہا لیکن فور آمجھ پر حیا طاری ہو گئی اور میں تقریر کا ذکر نہ کر سکا حضرت خلیفہ اول کمرے سے نکل کر باہر چلے گئے اور میری آنکھ کھل گئی.الفضل 26.اکتوبر 1954 ء صفحہ 3 597 نومبر 1954ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک شخص ایک پختہ سڑک کے کنارے کھڑا ہے اور لوگ اس کے ارد گرد جمع ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بچپن کا ساتھی ہے اور ان کے ساتھ کھیلا ہوا ہے لوگ اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حالات پوچھ رہے ہیں.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات بتاتا جاتا ہے.اسی سلسلہ میں اس نے بیان کیا کہ ہم شکار کو جایا کرتے تھے اور سرکاری رکھ کے پاس پاس شکار کو جاتے تھے اور ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں لگتا تھا کہ نماز کا وقت کب آیا اور کب گیا پھر حضرت مسیح
567 موعود علیہ السلام کا کوئی بے تکلف سا نام لے کر ہیرو یا بہادر (جو کئی دن تک یاد رہا لیکن اب بھول گیا ہے) کہنے لگا کہ شاید وہ نماز پڑھ لیتے ہوں گے اس کے بعد اس نے کہا کہ انہوں نے یہ بتایا تھا کہ ایک لڑکا میری طرح ہو گا اور پھر اس نے میری طرف اشارہ کر کے جب کہ میں اس مجلس سے پرے جا رہا تھا کہا دیکھو جوں جوں ان کی عمر بڑی ہوتی جاتی ہے اس کی طرز حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملتی جاتی ہے پھر کہا دیکھو ان کے کندھے اسی طرح کے ہیں ان کی چال اسی طرح کی ہے مجھے اس شخص کے اس قول سے بہت تکلیف ہوئی کہ شاید مرزا صاحب نماز پڑھ لیتے ہوں گے گو یہ بچپن کے زمانہ کے متعلق بات تھی میں اسی بات پر سوچتا چلا جاتا تھا کہ سڑک کا موڑ آیا اور سڑک مڑکر اسی طرف لوٹ گئی جس طرف سے وہ آ رہی تھی اس موڑ پر چلتے ہی میں نے دیکھا کہ سامنے سے ایک سراڑ تا آرہا ہے اس کے ساتھ دھڑ نہیں تھا وہ اس طرح اڑ کر آرہا تھا جیسے ستارے اڑتے ہیں چہرہ انسانی تھا مگر بہت بڑا.چار پانچ انسانی چہرے ملالئے جائیں تو ان کے برابر.میں نے جب اس پر نظر ڈالی تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا چہرہ تھا چہرہ کے دائرہ کے ارد گرد کی ڈھال اور شکن اس طرز کے تھے کہ یوں معلوم ہو تا تھا کہ رحم اور محبت کو کھینچ رہے ہیں میں نے یہ دیکھتے ہی کہا کہ یہ شخص تو جب بھی خدا تعالیٰ کے سامنے جاتا ہو گا معاً اس کے فضل اور اس کی محبت کو کھینچ لیتا ہو گا.الفضل 16.دسمبر 1954ء صفحہ 2 598 11/10.دسمبر 1954ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ سارہ بیگم مرحومہ گھر پر آئی ہیں میں کہیں باہر سے گھر میں آیا ہوں تو لوگوں نے مجھے بتایا کہ سارہ بیگم آگئیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کہیں وہ روٹھ کر چلی گئی تھیں اسی قسم کا نظارہ میں پہلے بھی دیکھ چکا ہوں) میں نے دیکھا کہ دو آیا اچھے لباس میں جیسے کہ انگریزی گھروں میں آیا ہوتی تھیں آئیں اور ان میں سے ایک آیا نے ایک بچہ اٹھایا ہوا ہے اچھے اجلے رنگ کا فربہ خوش شکل ، بڑی بڑی آنکھوں والا بچہ ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارہ بیگم کا بچہ ہے جس آیا نے بچہ اٹھایا ہوا ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ بات مجھ سے کرنا چاہتی ہے مگر دوسری آیا نے اشارہ کر کے اس کو وہاں سے ہٹا دیا اس کے بعد میں اس کمرہ کی طرف چلا گیا جہاں میرا خیال تھا کہ وہ ہیں.راستہ میں مجھے کسی نے بتایا کہ وہ تو سامنے والے مکان کے چوبارہ میں چلی گئی
568 ہیں میں اس طرف گیا تو جس کمرہ میں وہ تھیں اس کا دروازہ بند پایا میرے دستک دینے پر انہوں نے دروازہ کھول دیا اور خود چار پائی پر لیٹ گئیں اور یوں معلوم ہو تا تھا کہ رو رہی ہیں میں نے کہا اٹھو اپنے کمرے میں چلو.لیکن انہوں نے کہا مجھے ضعف ہے میرے لئے چلنا مشکل ہے اس پر میں نے ان کی کمر میں ہاتھ ڈال کر انہیں اٹھا لیا اور کہا کہ میں تمہیں سہارا دے کر لے چلتا ہوں.سہارا دیے دیئے میں ان کو لے کر چلا ایک جگہ ڈھلوان آئی لیکن اس کے گرد کٹر ا لگا ہوا تھا میں الٹے پاؤں ہو گیا ایک ہاتھ سے کٹہرا کو پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے ان کو سہارا دیتے ہوئے نیچے اترنے لگا انہوں نے کہا کہ آپ تو مجھ سے خفا ہو گئے ہیں.میں نے کہا تم نے مجھے چھیرو امتہ النصیر) جیسی بیٹی دی ہے میں خفا کیسے ہو سکتا ہوں اسی طرح میں ان کو ان کے کمرے میں لے آیا اور وہ وہاں چارپائی پر بیٹھ گئیں اور میں چارپائی کے پاس کھڑا ہو گیا اور جھک کر ان سے کہا اچھا بتاؤ تم کہاں کہاں رہیں انہوں نے کہا.کہیں نہیں گھر پر ہی رہی (گویا اپنے میکے رہی) میں نے کہا نہیں یہ بات تو نہیں ایک احمدی نے مجھے بتایا ہے کہ تم نے اسے کہا کہ تم میری سفارش کر کے نوکری دلواد و استانی وغیرہ کی) تم اگر مجھے بتا دو کہ تم کہاں رہیں تو میں خفا نہیں ہوں گا پھر میں نے ان سے کہا کہ ایک دو دفعہ پہلے بھی تم اسی طرح روٹھ کر گھر چلی گئی تھیں (پہلے بھی ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ روٹھ کر چلی گئی ہیں اور پھر آگئی ہیں خواب میں میں اس کو واقعہ ہی سمجھ کر ان کے سامنے دہراتا ہوں) خواب پیچیدہ ہے مگر بہر حال مبارک معلوم ہوتی ہے کیونکہ سارہ کے معنے ہیں خوش کرنے والی.پس ان کے چلے جانے سے اور دوبارہ آجانے سے مراد یہ ہے کہ پہلے کچھ ہموم و غموم ہوں گے اور پھر اللہ تعالیٰ ان کو خوشی سے بدل دے گا اور بچہ دیکھنے سے شاید یہ مراد ہو کہ ان کے بچوں میں سے کسی کے ہاں کوئی اچھا بچہ پیدا ہو.الفضل 16.دسمبر 1954ء صفحہ 2 کس کے ہاں ک 599 دسمبر 1954ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک میدان ہے جس کے بیچ میں کچھ لوگ کھڑے ہیں اور میں ان کی طرف جا رہا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ مجھے انہوں نے بلایا ہے.جب میں ان لوگوں کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ ان لوگوں میں سے ایک حضرت خلیفہ اول بھی ہیں وہ چند قدم آگے بڑھ کر
569 آئے اور مجھ سے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو بلایا تھا مگر وہ کسی کام کے لئے تھوڑی دیر کے لئے کہیں چلے گئے ہیں اور مجھے آپ کو پیغام پہنچانے کے لئے مقرر کر گئے ہیں جس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے ہیں وہاں لکیر کھینچی ہوئی ہے جس طرح کبڈی کھیلنے والے کھینچ لیتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دو ملکوں کی حد فاصل ہے حضرت خلیفہ المسیح الاول سمت مخالف کی طرف اشارہ کر کے فرمانے لگے یہ اٹلی کا ملک ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارادہ ہوا کہ اس کو فتح کیا جائے اور انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے یہ کام آپ کے سپرد کیا جائے پھر فرمایا کہ شاید ہم آپ کو اتنی چھوٹی سی بات کے لئے تکلیف نہ دیتے لیکن ہم نے اللہ تعالیٰ کے تقدیر کے رجسٹر کو دیکھا جس میں ہر کام کے کرنے والوں کے نام درج ہیں کسی کام کے متعلق لاکھوں کروڑوں کے نام لکھے ہیں.کسی کے متعلق ہزاروں کے.کسی کے متعلق سینکڑوں اور کسی کے متعلق درجنوں کے نام لکھے ہوئے ہیں لیکن جب ہم نے اٹلی کے فتح کرنے کا خانہ دیکھا تو اس میں صرف آپ کا نام تھا اور کوئی نام نہ تھا اگر کوئی اور نام ہو تا تو ہم آپ کو تکلیف نہ دیتے مگر مجبوراً آپ کو بلانا پڑا پھر آنکھ کھل گئی.الفضل 16.دسمبر 1954ء صفحہ 2 غالبا 15.اپریل 1955ء 600 فرمایا : میں نے دیکھا کہ دو نوجوان مجھے ملنے آئے ہیں اور میں نے ان کو ملاقات کا وقت دیا ہے اور ان کے ساتھ کوئی ان کے پروفیسر بھی ہیں کچھ دیر کے بعد نیم خوابی کی حالت ہوئی اور میں نے محسوس کیا کہ ابھی وہ طالب علم اور ان کے پروفیسر ملنے نہیں آئے اور میں نے اپنی بیوی کو کہا اور وقت پوچھا انہوں نے کہا گیارہ بجے ہیں پھر میں نے ان سے پوچھا کہ وہ طالب علم جنہوں نے وقت مقرر کیا تھا وہ نہیں آئے انہوں نے کہا نہیں آئے.پھر میں نیند کے زور سے دوبارہ سو گیا.الفضل 20.اپریل 1955ء صفحہ 1 601 28.اپریل 1955ء فرمایا : خواب میں دیکھا کہ میں ایک مکان میں ہوں میرے ساتھ ایک اور شخص بھی ہے جس کو میں جاگنے کی حالت میں پہچانتا نہیں.میں نے دیکھا کہ اسی مکان کے ایک کمرہ میں ڈاکٹر سر محمد
570 اقبال مرحوم اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بیٹھے ہیں اور ایک دوسرے کو کچھ فارسی کے شعر سنا رہے ہیں اور قرآن شریف کی تلاوت بھی کر رہے ہیں اور مجھے ایسا معلوم ہوا کہ قرآن شریف کی تلاوت شیخ یعقوب علی عرفانی کر رہے ہیں.میں اوپر کی منزل سے اتر کر نیچے آیا اور ایک اور شخص جو ان لوگوں کے پاس تھا اس سے پوچھا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے اس نے کہا کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم نے فارسی کے شعر شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو سنائے تھے اور شیخ یعقوب علی صاحب نے پرانے شعراء کے کچھ شعر سرا قبال کو سنائے تھے جن کو سرا قبال نے بہت پسند کیا اور شیخ صاحب کے پڑھنے کو بھی بہت پسند کیا پھر شیخ یعقوب علی صاحب نے کچھ قرآن شریف پڑھ کر سرا قبال کو سنایا میں نے کہا قرآن شریف پڑھنا سرا قبال کو کیسا پسند آیا اس شخص نے جواب دیا کہ شیخ صاحب کی آواز میں کچھ زیادہ خوبصورتی نہیں تھی اور سرا قبال کو ان کی آواز کچھ زیادہ پسند نہیں آئی تھی اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.رویا میں میں نے سر محمد اقبال صاحب مرحوم کو دیکھا بھی.جیسا کہ آج سے چوبیس پچیس سال پہلے ان کی شکل ہوتی تھی ویسی ہی ان کی شکل رویا میں دیکھی رویا میں جب میں ابھی اوپر کے کمروں میں تھا میں نے دیکھا کہ سر محمد اقبال مرحوم نے ایک رقعہ میری طرف بھیجا اس کا مضمون یہ تھا کہ ہم اس وقت فارسی کے شعر ایک دوسرے کو سنا رہے ہیں اور میں آپ کو یہ رقعہ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ کسی زمانہ میں آپ کے خاندان کی زبان فارسی تھی (جیسا کہ فی الواقع تھی عورتیں بھی گھر میں فارسی بولتی تھیں اور مرد خط و کتابت فارسی میں کرتے تھے) میں نے سمجھا کہ سرا قبال مجھ سے چاہتے ہیں کہ میرا بھی کوئی فارسی کلام ہو تو ان کو بھجواؤں میں اس رقعہ کو پڑھ کر سخت شرمندہ ہوا اور میں نے کہا ہم لوگوں نے اپنی زبان کس طرح بھلا دی ہے.میں نے تو فارسی میں شعر نہیں کہے ہوئے.اب میں ان کو کیا بھجواؤں.حقیقت یہ ہے کہ حضرت خلیفہ اول فارسی کے سخت مخالف تھے گو مثنوی مولانا روم انہوں نے مجھے سبقاً پڑھائی.فرماتے تھے کہ میاں مجھے فارسی سے بغض ہے کیونکہ فارسی نے عربی کی جگہ لے لی ہے اور عربی دنیا سے مٹ گئی ہے اس وجہ سے ہم لوگوں کو بھی فارسی پڑھنے کی طرف توجہ نہیں رہی حالا نکہ اردو عربی جاننے والے کے لئے فارسی کوئی حقیقت نہیں رکھتی چند مہینے میں اچھی فارسی سیکھ سکتا ہے اگر میں ان کے اس قول سے انتنا متاثر نہ ہو تا تو کم از کم فارسی دان دنیا سے قریب ترین تعلق پیدا کر
571 سکتا.ابھی تک کبھی کبھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے فارسی کتاب پڑھ لیتا ہوں مگر خود لکھنے بولنے کی مہارت نہیں.الفضل 3.مئی 1955ء صفحہ 2 مئی 1955ء 602 فرمایا : میں نے دیکھا کہ ایک لڑکا آٹھ یا نو یا دس سال کا بیٹھا ہے اس شکل کا جیسے پرانے زمانہ میں فرشتوں کی شکلیں بتائی جاتی تھیں میں نے اس سے کوئی بات کی جو مہتر معلوم ہوتی ہے مگر آنکھ کھلنے پر یاد نہیں رہی.الفضل 29.مئی 1955ء صفحہ 3 603 19.مئی 1955ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ کوئی شخص غیر ملکی مصری ہے یا یورپین وہ مجھ سے احمدیت یا اسلام کے متعلق دریافت کرتا ہے اور میں اسے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے بھی ایسے بزرگ ہوتے چلے آئے ہیں جو صاحب کشف اور رویا اور الہام تھے اس وقت ہمارے خاندان کا ایک لڑکا ہمارے پاس کھڑا ہے میں اسے کہتا ہوں کہ یہ خواجہ میر درد صاحب کی اولاد میں سے ہے اس وقت میں نے اس کے چہرہ کی طرف دیکھا اور میں نے سمجھا کہ یہ حیران ہے کہ خواجہ میر درد صاحب کون تھے میں نے اسے کہا کہ خواجہ میر درد ایک مسلمان بزرگ گزرے ہیں جو نہایت متقی اور پرہیز گار تھے ان کے والد بادشاہ کی فوج میں ملازم تھے.ایک دفعہ وہ والد کی معیت میں بادشاہ کے پاس گئے اور بادشاہ کو بہت پسند آئے اور بادشاہ نے ان کے والد سے کہا کہ کسی دن لڑکے کو لاؤ ہم اس کو فوج میں بڑا عہدہ دیں گے (بالکل یہی نہیں مگر اس سے ملتا جلتا واقعہ تاریخ میں ان کے متعلق آتا ہے) خواجہ میر درد صاحب نے بادشاہ سے کہا کہ میں تو خدا تعالیٰ کی ملازمت چاہتا ہوں اس پر بادشاہ نے جو نیک دل آدمی تھا ان کے والد سے کہا آپ بچے کو تنگ نہ کریں جب یہ کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی ملازمت کرنا چاہتا ہوں تو اس کو اپنے رستہ پر چلنے دیں (کسی دن توفیق ملی تو انشاء اللہ کتاب میں دیکھ کر میں اصل واقعہ بھی شائع کر دوں گا) خواجہ میرد رو صاحب جب گھر آئے تو یہ خیال کر کے کہ میرے والد صاحب مجھے دنیا میں پھنسانے لگے تھے گھر کے ایک کمرہ میں گھس گئے اور خوب روئے اور اتنا
572 روئے کہ ان کے درد نے اللہ تعالیٰ کے رحم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو جذب کر لیا تب آپ کو اونگھ آگئی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو نظر آئے اور فرمایا کہ میرد رو اٹھو میں تم کو طریقہ ناصریہ کی تعلیم دیتا ہوں یہ طریقہ آئندہ سب طریقوں سے اونچا رہے گا اور قیامت تک چلے گا اور آخر میں یہ مہدی آخر الزمان کے طریقہ سے جذب ہو جائے گا سو اس پیشگوئی کے مطابق جو کوئی سو سال پہلے ہوئی تھی اور کتابوں میں شائع ہو چکی ہے حضرت اماں جان پیدا ہو ئیں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بیاہی گئیں اس طرح خواجہ میر درد صاحب کے منہ سے جو پیش گوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کروائی تھی اس کا ایک حصہ حضرت اماں جان کے ذریعہ سے پورا ہوا اس کے بعد آپ کے بطن سے اور حضرت مہدی الزماں کی نسل سے میں پیدا ہو ا ر سول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیش گوئی کا دوسرا حصہ میرے ذریعہ سے پورا ہوا پس میں اس پیش گوئی کے مطابق بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہوں میں نے دیکھا کہ میرے اس بیان سے اس مصری یا یورپین کے چہرے پر آثار تعجب و حیرت پیدا ہوئے گویا کہ اس نے معلوم کر لیا کہ اسلام میں اظہار غیب کا ایک لمبا سلسلہ جاری ہے جو سینکڑوں سال سے چلا آ رہا ہے اور ختم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے نشانات متواتر اس کی تائید میں ظاہر ہوتے ہیں.فَسُبْحَانَ الَّذِى اَخْرَى الْأَعادِي الفضل 29 - مئی 1955ء صفحہ 3 604 24 مئی 1955ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ ہزاروں ہزار آدمی جماعت کے اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہیں اور میرے لئے دعا کر رہے ہیں وہ اتنا دردناک نظارہ تھا کہ اس سے میرا دل دہل گیا اور میری طبیعت پھر خراب ہو گئی یہی وجہ تھی کہ باوجود ارداہ کے میں عید پڑھانے نہیں جاسکا چو نکہ اس رویا کی میرے دل میں ایک دہشت تھی اور اب بھی اس کا نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے میں سفر میں اس رؤیا کو لکھ کر بھیجوانا پسند نہیں کرتا اس عرصہ میں جو ربوہ سے خطوط آئے ہیں اس میں بھی یہ لکھا ہوا تھا کہ آخری رمضان کی شام کو جو دعا کی گئی وہ ربوہ میں ایک غیر معمولی دعا تھی اور یہ معلوم ہو تا تھا کہ گویا عرش بھی ہل گیا ہو گا ان خطوں میں بھی گویا میری رویا کا نقشہ کھینچا گیا تھا جَزَى اللهُ سَاكِنِي رَبْوَةً خَيْرًا الفضل -14 جون 1955ء صفحہ 3.نیز دیکھیں.رپورٹ مجلس
473 مشاورت 1956ء صفحہ 82-81 الفضل 18.نومبر 1955ء صفحہ 6 605 54.جون 1955ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میرے سامنے کوئی شخص بیٹھا ہے اور میں نے کوئی فقرہ کہا ہے جس میں جماعت احمدیہ پر کچھ تنقید ہے میں نے محسوس کیا کہ اس دوسرے شخص نے تنقید کو نا پسند کیا ہے اور یہ سمجھا ہے کہ اس تنقید کو سن کر دشمن اور دوست دلیر ہو جائیں گے اور جماعت احمدیہ کا درجہ گرائیں گے اس کے بعد میرے دولڑکوں نے بھی اس قسم کا کوئی فقرہ کہا ہے اور ان دو لڑکوں میں سے ایک مرزا ناصر احمد معلوم ہوتے ہیں میرے لڑکوں کا فقرہ سن کے اس شخص کے چہرہ پر ایسے آثار ظاہر ہوئے کہ گویا وہ کہتا ہے دیکھئے جو میں سمجھا تھا ویسا ہی ہوا اس پر میں نے کہا کہ تم ان لڑکوں کی بات نہیں سمجھے انہوں نے تو وہ کہا ہے جو میں کہلوانا چاہتا تھا ان کے فقرے سے یہ مراد ہے کہ جماعت احمدیہ کے تقویٰ اور اخلاق کا مقام اونچا کرنا چاہئے اور ہم اب اس کے لئے کوشش کریں گے پھر میں نے کہا کہ اگر اسی طرح جماعت کے دوسرے مخلصین میں بھی احساس پیدا ہو جائے جو میری غرض تھی تو تھوڑے ہی عرصہ میں جماعت نہایت بلند روحانی معیار پر پہنچ جائے گی اور اس طرف توجہ دلانا میرا مقصود تھا پھر میری آنکھ کھل گئی.الفضل 14 - جون 1955ء صفحہ 3 غالبا 13.اگست 1955ء 606 فرمایا : میں نے جاگتے ہوئے نظارہ دیکھا کہ آپ (حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مراد ہیں) سامنے ٹہل رہے ہیں اور ہشاش بشاش ہیں اور سوئی کا ہینڈل پکڑ کر پیچھے کی طرف لٹکایا ہوا ہے.دو سرے ہی دن خط ملا جس سے معلوم ہوا کہ آپ کی طبیعت پہلے سے بہتر ہے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو بھی یہ رویا سنادی تھی.مکتوب محر رہ 16 اگست 1955ء بنام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بحواله الفضل 25.اگست 1955ء صفحہ 3
474 607 غالبا ستمبر 1955 فرمایا : میں واپسی کے وقت غالبا زیورک میں تھا کہ میں نے خواب دیکھی کہ میں ایک رستہ پر گزر رہا ہوں کہ مجھے اپنے سامنے ایک ریوالونگ لائٹ Revolving Light یعنی چکر کھانے والی روشنی نظر آئی جیسے ہوائی جہازوں کو رستہ دکھانے کے لئے منارہ پر تیز لیمپ لگائے ہوتے ہیں جو گھومتے رہتے ہیں.میں نے خواب میں خیال کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نور ہے پھر میرے سامنے ایک دروازہ ظاہر ہوا جس میں پھاٹک نہیں لگا ہوا.بغیر پھاٹک کے کھلا ہے میرے دل میں خیال گزرا کہ جو شخص اس دروازہ میں کھڑا ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کا نور گھومتا اس کے اوپر پڑے تو خدا تعالیٰ کا نور اس کے جسم کے ذرہ ذرہ میں سرایت کر جاتا ہے تب میں نے دیکھا کہ میرا لڑکا ناصر احمد اس دروازہ کی دہلیز پر کھڑا ہو گیا اور وہ چکر کھانے والا نور گھومتا ہوا اس دروازہ کی طرف مڑا اور اس میں سے تیز روشنی گزر کرنا صراحمد کے جسم میں گھس گئی پھر میں نے دیکھا کہ ناصر احمد دہلیز سے اتر آیا اور منور احمد نے اس کی طرف بڑھنا شروع کیا جس وقت مرزا منور احمد اس دہلیز کی طرف بڑھ رہا تھا میں نے دیکھا کہ اس نے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے تھے دایاں ہاتھ دائیں طرف اور بایاں ہاتھ بائیں طرف اور اس کے ساتھ ساتھ پہلو میں عزیزم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب جا رہے تھے مرزا منور احمد بڑھ کر اس دروازہ کی دہلیز پر کھڑا ہو گیا اور پھر پہلے کی طرح روشنی چکر کھا کے اس کی طرف آنا شروع ہو گئی اور اس کے جسم پر پڑنے لگی اس وقت میرے دل میں خیال گزرا کہ کاش چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے بھی اس کا ہاتھ پکڑا ہوا ہو تو اس میں سے ہو کر خدا تعالیٰ کا نور ان میں بھی داخل ہو جائے تب میں نے ذرا سا منہ پھیرا اور دیکھا کہ عزیزم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے عزیزم مرزا منور احمد کا دایاں ہاتھ پکڑا ہوا ہے اس پر میں نے دل میں کہا الحمد للہ چوہدری صاحب نے بھی عین موقع پر مرزا منور احمد کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اب انشاء اللہ منور احمد میں سے ہوتے ہوئے الہی نور چوہدری صاحب کے بھی سارے جسم میں گھس گیا ہو گا اس پر میری آنکھ کھل گئی.خوابوں کے ساتھ یہ پہلو لگا ہوا ہوتا ہے کہ اگر انسان اپنے آپ کو ان کے مطابق بنانے کی
475 کوشش کرے تو وہ زیادہ شان سے پوری ہوتی ہیں اگر عزیزم مرزا ناصر احمد عزیزم مرزا منو ر احمد اور عزیزم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس خواب کے مطابق اپنے آپ کو بنانے کی کوشش کی اور دعاؤں اور توکل علی اللہ اور خدمت دین اللہ کی طرف توجہ کی تو انشاء اللہ دعاؤں کی قبولیت اور قرب الی اللہ کے نظارے وہ دیکھیں گے اور خود بھی فائدہ اٹھائیں گے اور دنیا کو بھی فائدہ پہنچائیں گے.انشاء اللہ تعالی.الفضل 8 - اکتوبر 1955ء صفحہ 2 27.اکتوبر 1955ء 608 فرمایا : میں نے ایک رویا میں دیکھا ہے جس کا میں اس وقت ذکر کر دینا چاہتا ہوں.میں نے رویا میں دیکھا کہ دو سگریٹ میرے ہاتھ میں ہیں بعض غیر احمدی دوست جب ملنے کے لئے آتے ہیں اور وہ سگریٹ پیتے ہیں تو جس طرح وہ سگریٹ کو ہلاتے ہیں تو وہ دو انگلیوں میں آجاتا ہے اس طرح ان دونوں سگریٹوں میں سے ایک سگریٹ کو میں نے انگلیوں میں لے لیا اور اسے دیا سلائی لگا کر کش لگایا اور اس کی ہوا باہر نکال دی.دوسرے سگریٹ کے متعلق مجھے معلوم نہیں کہ میں نے اسے جلایا ہے یا نہیں جلایا.خواب میں عام طور پر تمباکو یا حقہ برا سمجھا جاتا ہے لیکن چونکہ رویا میں میں نے سگریٹ پیا نہیں بلکہ صرف سلگایا ہے اور پھر ایک کش لگا کر اس کی ہوا باہر نکال دی ہے اس لئے امید ہے کہ اگر کوئی فکر والی بات بھی ہوئی تو اللہ تعالیٰ اسے دور فرما دے گا کیونکہ ہوا کا باہر نکالنا بتاتا ہے کہ غم اور تشویش والی چیز کو میں نے تلف کر دیا ہے.الفضل 4.نومبر 1955ء صفحہ 4 16 دسمبر 1955ء 609 فرمایا : میں جب انگلستان میں تھا تو ایک دن اخبار الفضل آیا اس میں یہ خبر چھپی ہوئی تھی کہ سید نذیر حسین صاحب گھٹیالیاں والے فوت ہو گئے ہیں.سید نذیر حسین صاحب پرانے صحابہ میں سے تھے اس لئے طبعا ان کی وفات کا مجھے صدمہ پہنچا میں ان کے لئے دعا کرتے کرتے سو گیا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک عورت مجھ سے ملنے کے لئے آئی ہے اس نے ”سوسی کی
476 شلوار پہنی ہوئی ہے اس کا کرتا اور دوپٹہ سفید ہیں ”سوسی ایک کپڑے کا نام ہے جو پرانے زمانہ میں پنجاب میں اکثر استعمال ہو تا تھا اس کپڑے کے درمیان سرخ سفید دھاریاں ہوتی تھیں یا اس میں مختلف قسم کے نشان ہوتے تھے.اب اس کپڑے کا رواج نہیں رہا کیونکہ اب اس سے اچھی قسم کے کپڑے نکل آئے ہیں بہر حال وہ عورت میرے سامنے آئی اور اس نے مجھے سلام کیا.میں سمجھتا ہوں یا وہ خود کہتی ہے) کہ وہ سید نذیر حسین صاحب مرحوم کی بیوی ہے وہ سلام کر کے واپس لوٹی تو میں نے اسے بلایا اور کہا بی بی ذرا بات سنو جب وہ میرے پاس آئی تو جس طرح مجھے بیداری کے عالم میں یہ فکر تھا کہ سید نذیر حسین صاحب کا معلوم نہیں کوئی بیٹا بھی ہے یا نہیں اسی طرح خواب میں بھی مجھے یہی فکر ہے اور میں نے اس سے دریافت کیا کہ بی بی سید نذیر حسین صاحب کی کوئی اولاد بھی ہے اس نے کہا سید نذیر حسین صاحب کی اولاد مجھ سے تو نہیں مگر دوسری بیوی سے ہے اب مجھے یہ پتہ ہی نہیں تھا کہ سید نذیر حسین صاحب مرحوم کی دو بیویاں تھیں اس لئے اس خواب کی وجہ سے میں بہت حیران تھا کہ اس کا کیا مطلب ہے.اتفاق کی بات ہے کہ آج ڈاک آئی تو اس میں ایک خط چوہدری محمد عبد اللہ صاحب کا بھی نکل آیا انہوں نے لکھا ہے کہ پچھلے دنوں ربوہ گیا تھا تو حضور نے ایک دن مسجد میں مجھ سے دریافت فرمایا تھا کہ کیا سید نذیر حسین صاحب مرحوم کی دو بیویاں تھیں یا ایک اور پھر ان کا جو بیٹا موجود ہے وہ کس بیوی سے ہے میں نے کہا تھا کہ مجھے اس کا علم نہیں میں واپس آیا تو میں نے سید نذیر حسین صاحب مرحوم کے بیٹے کو سارا واقعہ سنایا اس نے کہا یہ درست ہے کہ میرے والد سید نذیر حسین صاحب مرحوم کی دو بیویاں تھیں اور میں دوسری بیوی سے ہوں ان کی پہلی بیوی بد و ملی کی تھی جس سے ان کی کچھ ناچاقی ہو گئی اور انہوں نے اسے طلاق دے دی تھی اس کے بعد انہوں نے میری والدہ سے شادی کی اور ان سے میں پیدا ہوا.اب دیکھو کہ میں لنڈن میں بیٹھا ہوا ہوں وہاں اللہ تعالیٰ کے فرشتے آتے ہیں اور مجھے بتاتے ہیں کہ سید نذیر حسین صاحب مرحوم کی اولاد ہے اور وہ ان کی دوسری بیوی سے ہے.الفضل 3.جنوری 1956ء صفحہ 4-3
477 610 16.دسمبر 1955ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی بچہ کئی منزلوں سے نیچے گرا ہے مگر پھر بھی وہ بچ گیا ہے اب کئی منزلوں سے نیچے گرنا یہی مفہوم رکھتا ہے کہ میں اچھی بھلی صحت کی حالت میں تھا کہ یکدم بیمار ہو گیا ہوں ایک منٹ پہلے میری اس بیماری کا کسی کو خیال بھی نہیں آسکتا تھا میں ٹہلتے ٹہلتے قرآن کریم پڑھ رہا تھا کہ یکدم بیمار ہو گیا پس میری یہ بیماری کئی منزلوں سے گرنے کے مشابہ ہے اور پھر جس طرح رویا میں دکھایا گیا تھا کہ وہ بچہ بچ گیا اسی طرح میں بھی بچ گیا یہ رویا بہت لمبی ہے اس کا صرف ایک حصہ میں نے دوستوں کے سامنے بیان کر دیا ہے.الفضل 3 جنوری 1956ء صفحہ 5 جنوری 1956ء 611 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا ہے کہ میرے ہاتھ میں ایسے لوگوں کا فائل ہے جو سلسلہ کے مخالف ہیں اس فائل میں کچھ باتیں ہمارے خلاف لکھی ہیں میں کہتا ہوں یہ باتیں انہوں نے اپنا بجٹ بننے کے بعد لکھی ہیں پھر میں کہتا ہوں ہماری جماعت کو بھی چاہئے کہ وہ تجارت میں لگ جائے اس کے بعد میں کہتا ہوں یا کسی اور دوست نے مجھ سے کہا ہے کہ تاجر لوگ بہت کم چندہ دیتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ تاجروں کو شروع سے ہی تحریک کر کے چندہ کی عادت ڈالنی چاہئے.رویا میں میں دیکھتا ہوں کہ گویا کوئی شخص مجھ سے کہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تو احمدی تاجروں نے بڑی قربانی کی تھی چنانچہ اس زمانہ میں سیٹھ عبد الرحمان صاحب مدراسی اور شیخ رحمت اللہ صاحب نے بہت بڑی خدمت کی تھی میں کہتا ہوں کہ تاجر طبقہ کو شروع سے ہی چندہ دینے کی عادت ڈالنی چاہئے تاکہ جوں جوں ان کی تجارت بڑھے ، چندے بھی بڑھیں اور سلسلہ کی مالی حالت مضبوط ہو.الفضل 28.جنوری 1956ء صفحہ 5
478 612 16.مارچ 1956ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک تعلیم یافتہ عورت کہہ رہی ہے کہ مرد اور عورت کے تعلقات کی بنیاد بد اخلاقی پر ہے گویا وہ اس بات پر طعن کرتی ہے کہ اسلام نے جو شادی بیاہ جائز رکھا ہے یہ کوئی اچھی بات نہیں اس وقت یہ معلوم نہیں ہو تا کہ وہ عیسائیت کی تائید کر رہی ہے اور اس کی رہبانیت کی تعلیم کو ترجیح دیتی ہے یا محض عقلی طور پر وہ ان تعلقات پر اعتراض کرتی ہے میں نے اسے جواب میں کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ مرد اور عورت کے تعلقات کی بنیاد بد اخلاقی پر رکھے جانے کا خیال اس لئے پیدا ہوا ہے کہ نر اور مادہ کے تعلقات صرف انسان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں چونکہ جانور کسی شریعت کے حامل نہیں بلکہ کسی بڑی اخلاقی تعلیم کے حامل بھی نہیں اس لئے ان کے سارے کام بہیمیت کے ماتحت ہوتے ہیں اور ان کو دیکھ کر بعض لوگ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ مرد اور عورت کے تعلقات کی جو اسلام نے اجازت دی ہے وہ بھی اسی قسم کی چیز ہے حالانکہ مرد و عورت کے تعلقات کی بنیاد بہیمیت پر نہیں بلکہ خالص اخلاق اور تقویٰ پر ہے جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْاَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (النساء : (2) پس بیشک جانوروں کے نرومادہ بھی آپس میں ملتے ہیں اور مرد اور عورت بھی آپس میں ملتے ہیں مگر دونوں میں فرق یہ ہے کہ جانوروں کے نر و مادہ آپس میں ملتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں صرف جانور پیدا ہوتے ہیں کوئی اخلاقی یا روحانی تغیر دنیا میں رونما نہیں ہوتا.لیکن جب مرد و عورت آپس میں ملتے ہیں تو ایسے انسان پیدا ہوتے ہیں جو تقویٰ اللہ کی بنیاد رکھنے والے ہوتے ہیں اور تقویٰ کی بنیاد بہیمیت پر نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی اخلاقی اور روحانی کیفیت پر ہے بہر حال یہ شبہ اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ بظاہر جانور اور انسان اس فعل میں اشتراک رکھتے ہیں اور غلطی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جس طرح جانوروں کا یہ جذبہ بہیمیت پر مبنی ہے اسی طرح انسان بھی بہیمیت کے ماتحت ایسا کرتا ہے حالانکہ جانوروں کے آپس میں ملنے کے نتیجہ میں صرف بہیمیت پیدا ہوتی ہے اس طرح انسان
479 بھی بہیمیت کے ماتحت ایسا کرتا ہے اور مرد و عورت کے اختلاط کے نتیجہ میں ایسی پاکیزہ نسلیں پیدا ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے والی اور ذکر الہی کو قائم کرنے والی ہوتی ہیں پس ان تعلقات کی بنیاد بد اخلاقی پر نہیں بلکہ ایک اعلیٰ درجہ کے روحانی مقصد پر رکھی گئی ہے اور جانوروں کے نر و مادہ کے تعلقات کو دیکھ کر اس پر اعتراض کرنا نادانی کی بات ہے یہ اشتراک محض سطحی ہے جو دونوں میں پایا جاتا ہے ورنہ حقیقت کے لحاظ سے ان دونوں کی آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں.غرض ایک لمبی تقریر تھی جو میں نے خواب میں کی.وہی خواب میں نے آج خطبہ میں بیان کر دی ہے.در حقیقت اس رویا میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اولادوں کی اچھی طرح تربیت کریں اور ایسی پاکیزہ نسل دنیا میں پیدا کریں کہ ہر شخص کو دیکھ کر یہ ماننا پڑے کہ ان تعلقات کی بنیاد بد اخلاقی پر نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور روحانیت پر رکھی گئی ہے.الفضل یکم اپریل 1956ء صفحہ 3 613 فرمودہ 29.مارچ 1956ء فرمایا : وسیم احمد کا پاسپورٹ گورنمنٹ آف انڈیا نے واپس لے لیا تھا انہی دنوں میں نے خواب میں دیکھا کہ وسیم احمد مجھ سے دور دور جا رہا ہے اس کے ساتھ ایک نوجوان بھی ہے جس نے فوج یا پولیس کی طرح پگڑی باندھی ہوئی ہے وسیم احمد نے جب دیکھا کہ میں اس بات پر حیران ہوں کہ وہ کیوں مجھ سے دور جا رہا ہے تو اس نے کہا لیلا رام مجھے لے جا رہا ہے باقی عِنْدَ الطَّلَبُ اس خواب سے میں نے سمجھا کہ دعاؤں اور ادھر کی کوششوں کے نتیجہ میں اس کا پاسپورٹ بنے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اسے پاسپورٹ مل گیا.(رپورٹ مجلس مشاورت 1956ء صفحہ (11 614 فرمودہ 29.مارچ 1956ء فرمایا : رؤیا میں دیکھا کہ میں قادیان گیا ہوں دفتر کے نیچے سے اہم ناصر کے گھر کو جو رستہ جاتا
580 ہے وہاں بیٹھا ہوں چھتری میں میں نے ہار ڈالے ہوئے ہیں میں نے چابیوں کا ایک کچھا نکالا اور میں اپنی بیویوں سے کہتا ہوں کہ چابیوں کو زنگ لگ گیا ہے اور مجھے شبہ تھا کہ کہیں تالے کھولتے وقت وہ ٹوٹ نہ جائیں اس لئے میں نے نئی چابیاں بنوائی ہیں اب ہم تالے کھول کر اندر چلے جائیں گے.رپورٹ مجلس مشاورت 1956ء صفحہ 12 مارچ 1956ء 615 فرمایا : چند دن ہوئے مجھے رویا میں ایک عورت نظر آئی جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اس نے مجھے غافل پا کر مجھ پر توجہ کی تھی خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ 1953ء کے فسادات میں چونکہ جماعت کے دشمن بری طرح خائب و خاسر ہوئے تھے اس لئے اس ناکامی کے بعد میرے متعلق ان کے اندر یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کاش یہ شخص ختم ہو جائے کیونکہ یہ ہمارے راستہ میں روک بنا ہوا ہے اگر یہ رستہ سے ہٹ جائے تو یہ جماعت بھی ختم ہو جائے گی جب مجھے محسوس ہوا کہ اس عورت نے مجھ پر توجہ کی تھی تو میں نے اسے کہا کہ تم نے بے خبری کے عالم میں مجھ پر توجہ کرلی تھی اب مجھ پر توجہ کرو تو جانوں اتنے میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک مرد اس عورت کو اشارہ کر رہا ہے اس پر اس عورت نے بھی انگلی سے اشارہ کیا میں نے اس وقت اس کی انگلی پر توجہ کی اور میں نے دیکھا کہ اس توجہ کے نتیجہ میں اس کی انگلی بالکل اکڑ گئی پھر میں نے اس کی انگلی کو پکڑ کر دیکھا تو وہ مڑتی نہیں تھی اس مرد نے اس کی انگلی مروڑی لیکن وہ نہ مڑی اس سے میں نے یہ سمجھا کہ میری یہ بیماری چونکہ دشمنوں کی ایک مخفی توجہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی تھی اس لئے اس کا تعلق زیادہ تر دعاؤں سے ہی ہے چنانچہ میں نے تجربہ کیا ہے کہ جن دنوں کثرت سے دعائیں ہوں مجھے آرام آنا شروع ہو جاتا ہے.رپورٹ مجلس مشاورت 1956ء صفحہ 81 نیز دیکھیں.الفضل 8.اگست 1956ء صفحہ 3 616 ریل 1956ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ مفتی فضل الرحمان صاحب آئے ہیں جہاں میں سوتا ہوں اس کے قریب ہی ایک قالین نماز کے لئے بچھا ہوا ہے میں نے دیکھا کہ مفتی صاحب آئے اور
581 اس پر بیٹھ گئے اس پر میں بھی چارپائی سے اتر کر ان کے پاس بیٹھ گیا اور میں نے انہیں کہا کہ آپ نے حضرت خلیفہ اول کی صحبت میں بڑا وقت گزارا ہے اور آپ ان کے کمپونڈر رہے ہیں حضرت خلیفہ اول کو فالج کے علاج کا بڑا دعویٰ تھا آپ کو ان کے تجربات کا علم ہو تو مجھے بھی بتائیں اس پر انہوں نے بڑی لمبی باتیں شروع کر دیں مگر مجھے کوئی نسخہ یاد نہ رہا اور آنکھ کھل گئی.مفتی فضل الرحمان صاحب چونکہ طبیب تھے اس لئے میں نے سمجھا کہ اب اللہ تعالٰی اپنی رحمانیت کے نتیجہ میں فضل نازل فرمائے گا چنانچہ اس رویا کے پانچ سات دن کے بعد ڈاکٹروں کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ معدہ اور انتڑیوں کا علاج کرنا چاہئے اور طبیعت سنبھل گئی.الفضل 25.اپریل 1956ء صفحہ 4 ایریل 1956ء 617 فرمایا : ہمارے ایک مبلغ کرم الہی صاحب ظفر ہیں جو سپین میں کام کر رہے ہیں ان کے والد حال ہی میں فوت ہوئے ہیں اگر میں پہلے ان کا جنازہ نہیں پڑھا چکا تو آج جمعہ کے بعد ان کا جنازہ پڑھاؤں گا.اللہ بخش ان کا نام تھا یہ ایک عجیب بات ہے کہ کوئی شخص اتنے قریب عرصہ میں فوت ہوا ہو اور پھر وہ اتنی جلدی خواب میں مجھے نظر آگیا ہو.بہر حال میں نے رویا میں دیکھا کہ وہ مجھے ملنے آئے ہیں اور انہوں نے ایک درخواست پیش کی ہے اس کا کاغذ ایسا ہے جیسے پرانے زمانے میں عدالتوں میں استعمال ہوا کرتا تھا اور درخواست انگریزی میں لکھی ہوئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر حکومت کرم الہی ظفر کو چین سے نکال دے تو اسے دو سال تک کسی اور جگہ رکھیں اور اس کا کام دیکھیں اگر اچھا ہو تو اسے رہنے دیں ورنہ اسے فارغ کر دیں بہر حال اتنی مدت تک دین کا کام کرنے کے بعد اسے فور آفارغ نہ کریں اس پر میں نے اس درخواست پر انگریزی میں یہ فقرہ لکھا I recommend to Tahrik-i-Jadid to consider it and not to reject it out of hand.یعنی میں یہ درخواست تحریک جدید کو اپنی اس سفارش کے ساتھ بھجواتا ہوں کہ وہ اس پر غور کرے.
582 فرمایا : واقعہ بھی یہی ہے کہ کرم الہی ظفر کو گورنمنٹ کی طرف سے نوٹس دیا گیا ہے کہ ہمارے ملک میں اسلام کی تبلیغ کی اجازت نہیں ہے چونکہ تم لوگوں کو اسلام میں داخل کرتے ہو جو ہمارے ملک کے قانون کی خلاف ورزی ہے اس لئے تمہیں وار ننگ دی جاتی ہے کہ تم اس قسم کی قانون شکنی نہ کرو ورنہ ہم مجبور ہوں گے کہ تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں.الفضل 15.مئی 1956ء صفحہ 2 3 1956-22 618 فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں کسی شخص سے کہہ رہا ہوں کہ ہم تو قادیان جاتے ہیں اب یہاں جو میرے پاس زمینیں ہیں اور گورنمنٹ نے الاٹ کی ہیں وہ کسی مہاجر کو دیدیں یا گو ر نمنٹ کو واپس کر دیں اس پر کسی نے کہا کہ یہ تو عارضی الائمنٹ ہے آپ یہ زمینیں دے کس طرح سکتے ہیں میں نے اسے کہا کہ میری زمینیں تو بہت تھیں مجھے تو یہاں گورنمنٹ نے قریباً چوتھا حصہ زمین دی ہے دوسرے قادیان کی زمین بہت قیمتی تھی اور یہ زمین بہت ہی ادنی ہے اس لئے میں اس طرح کر سکتا ہوں.اس وقت دل میں اس قسم کا کوئی خیال نہیں ہے کہ آیا آبادی کے تبادلہ کا دونوں حکومتوں میں باہمی کوئی فیصلہ ہو گیا ہے یا پاکستان نے ہندوستان کا کوئی حصہ فتح کر لیا ہے اتنا میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کے ایک حصہ میں جس میں قادیان بھی شامل ہے کچھ لوگ واپس جاسکیں گے اور اس میں کوئی قانونی روک نہیں ہوگی یہ کہ ایسا کسی معاہدہ سے ہو رہا ہے یا فتح کے ذریعہ سے یہ ذہن میں نہیں ہے.الفضل 31.جنوری 1957ء صفحہ 1 619 16/15 جون 1956ء فرمایا : 15 اور 16 جون کی درمیانی رات کو مجھ پر الہام کی سی کیفیت طاری ہوئی اور یہ الفاظ زبان پر جاری ہوئے.اِنَّ اَعَزَّ أَعْمَالِ الْإِنْسَانِ أَنْ يُسَمَّى الْحَمْلَانَ یعنی انسان کا بہترین عمل وہ ہوتا ہے جس کے سبب سے وہ حملان کہلانے لگتا ہے یعنی بہت سا بوجھ اس پر لادا جاتا ہے اس کے بعد وہ کامل قبضہ جو الہام کی صورت میں روح پر ہوتا ہے کچھ کم ہوا اور کشف کی حالت طاری ہوئی اور میں نے اس الہام کا مطلب اپنے دماغ میں دہرانا شروع کیا اور وہ یہ تھا کہ
583 انسانی زندگی کا کمال یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ کی طرف پورا متوجہ ہو جائے اور اس کے طے شدہ مقصد کو اپنے کندھوں پر اٹھالے دوسرے بنی نوع انسان کی بہتری اور کلام الہی کے پھیلانے کا بوجھ کامل طور پر اٹھالے پھر پہلے میرے دل میں ڈالا گیا کہ پہلے صوفیاء نے جو ولایت کے ایک مقام کا نام قطب رکھا ہے اس کو اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے حملان کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے حملان کے معنی بھی ہیں بوجھ اٹھانے والا اور قطب ستارہ بھی سارے عالم سمسی کو اپنی کشش ثقل سے کھینچے ہوئے کسی غیر معلوم جگہ کی طرف لے جا رہا ہے.پس حملان وہ شخص ہے جو دین اور دنیا کا بوجھ اٹھاتا ہے اور بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا ہے اسی کو پرانے زمانے کے صوفیاء نے قطب کے لفظ سے تعبیر کیا تھا جب یہ الہام ہوا اس وقت 15 - 16 - جون کی درمیانی رات کے تین بجے تھے اسی وقت مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا گیا کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوا اس سے معراج محمدی مراد ہے جو دوسرے معراجوں سے الگ قسم کا اور زیادہ کامل ہے ورنہ یہودنی کتب میں موسیٰ کے معراج کا بھی ذکر ہے الیاس کے معراج کا بھی ذکر ہے اور یسعیاہ کے معراج کا بھی ذکر ہے اسی طرح بائبل سے حضرت نوح کے باپ کے معراج کا بھی پتہ لگتا ہے مگر یہ سب معراج ان کی شان کے مطابق تھے اور محمدی معراج کو نہیں پہنچتے تھے اس طرح امت محمدیہ کے سابق اولیاء کو بھی اپنے اپنے درجہ کے مطابق معراج ہوا جس کو قرآن کریم میں دَنَا فَتَدَلَّى (النجم : 9) کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے یعنی کچھ حد تک بندہ اوپر چڑھتا ہے اور کچھ حد تک خدا اوپر سے آتا ہے جس طرح کھدر بھی ایک کپڑا ہے اور زربفت بھی ایک کپڑا ہے اور پیتل بھی ایک دھات ہے اور سونا بھی ایک دھات ہے اسی طرح ہر شخص کا معراج اس کی شان کے مطابق ہوتا ہے کسی کی روحانی بلندی چند گز کی ہوتی ہے اور کسی کی روحانی بلندی عرش تک جاتی ہے محض بلندی کے لفظ میں اشتراک نہ ان کو برابر کرتا ہے نہ ان کو ایک درجہ میں شامل کرتا ہے جیسا کہ حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے معراج کا واقعہ کئی دفعہ اور کئی شکلوں میں ہوا ہے اسی طرح ہر انسان کو روحانی ترقی فاصلہ فاصلہ پر اور درجہ بدرجہ ملتی ہے قرآن کریم میں آتا ہے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (البقرة : (149) نیکیوں کی طرف آگے بڑھو اور اپنے سے پچھلوں کو کھینچ کر آگے بڑھاؤ اس حکم کے تحت جو شخص بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہے آپ بھی اسے کھینچ
584 کر اپنی طرف قریب کرتے ہیں اور جتنا وہ آپ کے قریب ہو تا ہے اتنا ہی وہ خد اتعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اور اسی معیار کے مطابق اسے ایک روحانی بلندی کا درجہ مل جاتا ہے اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تا قیامت اپنے پر درود بھیجنے والوں کے مدارج بلند کرنے کا موجب ہوتے جائیں گے یہ ایک وسیع مضمون تھا جو دل میں آتا چلا گیا.الفضل 9 - تمبر 1956 ء صفحہ 1 $1956 620 فرمایا : میں نے ایک رؤیا دیکھا کہ جرمنی کے مبلغ کا ایک خط آیا ہے کہ جرمنی کا ایک بہت بڑا آدمی احمدی ہو گیا ہے بعد میں رویا میں ہی مجھے تار بھی آئی اور اس میں بھی یہ لکھا تھا کہ وہ احمدی ہو گیا ہے اور امید ہے کہ اس کے ذریعہ جرمنی میں جماعت کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا.الفضل 8.فروری 1957ء صفحہ 2 29.جولائی 1956ء 621 فرمایا : اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہوئے کہ.ود الحمد للہ اللہ تعالیٰ نے تو مجھے بالکل اچھا کر دیا مگر میں اپنی بد بختی اور مایوسی کی وجہ سے اپنے آپ کو بیمار سمجھتا ہوں" یعنی مجھے نفس پر بدظنی ہے کہ وہ خد اتعالیٰ کے فضل کو پوری طرح جذب نہیں کرتا اور بیماری کے متعلق یہ مایوسی ہے کہ وہ ابھی دور نہیں ہوئی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے بالکل صحت عطا فرما دی ہے.الفضل 8.اگست 1956ء صفحہ 4 622 2 ستمبر 1956ء فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا جیسے کوئی غیر مرئی وجود مجھے کہتا ہے (اخلبا فرشتہ ہی ہو گا) کہ اللہ تعالیٰ جو وقفہ وقفہ کے بعد جماعت میں فتنہ پیدا ہونے دیتا ہے تو اس سے اس کی یہ غرض ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ جماعت کس طرح آپ کے پیچھے پیچھے چلتی ہے یا جب آپ کسی خاص طرف مڑیں تو وہ کس سرعت سے آپ کے ساتھ مڑتی ہے یا جب آپ اپنی منزل مقصود کی طرف جائیں تو وہ کس طرح اس منزل مقصود کو اختیار کر لیتی ہے جب وہ فرشتہ یہ کہہ رہا تھا تو میری
585 آنکھوں کے سامنے جو لاہوں کی ایک لمبی تانی آئی جو بالکل سیدھی تھی اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ صراط مستقیم کی مثال ہے جس کی طرف آپ کو خدا لے جا رہا ہے اور ہر فتنہ کے موقع پر وہ دیکھتا ہے کہ کیا جماعت بھی اسی صراط مستقیم کی طرف جارہی ہے یا نہیں.تانی دکھانے سے یہ بھی مراد ہے کہ کس طرح نازک تاگے آپس میں باندھے جا کر مضبوط کپڑے کی صورت اختیار کر لیتے ہیں یہی حالت جماعت کی ہوتی ہے جب تک ایک امام کا رشتہ اسے باندھے رکھتا ہے وہ مضبوط رہتی ہے اور قوم کے تنگ ڈھانکتی رہتی ہے لیکن امام کا رشتہ اس میں سے نکال دیا جائے تو ایک چھوٹا سا بچہ بھی اسے تو ڑ سکتا ہے اور وہ تباہ ہو کر دنیا کی یاد سے منادی جاتی ہے.الفضل 5.ستمبر 1956 ء صفحہ 1 623 21 ستمبر 1956ء فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک کمرہ ہے اور اس میں ایک چارپائی بچھی ہوئی ہے اس چارپائی پر ام ناصر لیٹی ہوئی ہیں اتنے میں اس کمرے میں حضرت خلیفہ اول داخل ہوئے اس وقت میرے ایک ہاتھ میں ثمر بہشت کی قسم کا ایک آم پکڑا ہوا ہے میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ آم حضرت خلیفہ اول کو کھلاؤں آم کو اپنے ہاتھ میں چکر دے رہا ہوں اتنے میں حضرت خلیفہ اول نے خواہش کی کہ مجھے کچھ کھانے کو دو جس کمرے میں ہم تھے اس کے پہلو میں ایک اور کمرہ تھا اسی طرح جیسے مسجد مبارک کے پہلو میں بیت الفکر کا کمرہ تھا اس میں ایک کھڑکی تھی میں نے وہ کھول دی اور دیکھا کہ کمرہ میں فرش بچھا ہوا ہے شاید کسی خادمہ کو میں نے اشارہ کیا تھا کہ کھانا لائے پھر حضرت خلیفہ اول کو اس کمرہ میں بیٹھنے کے لئے کہا جب آپ کھانے پر بیٹھ گئے تو میں نے دیکھا کہ ان کے پہلو میں میرا ایک چھوٹا بچہ بیٹھا ہوا ہے خواب میں میں یہی سمجھتا ہوں کہ میرا بچہ ہے گو اتنا چھوٹا بچہ اس وقت میرا کوئی نہیں.ہاں بعض پوتے ہیں جب حضرت خلیفہ اول کھانے بیٹھے تو میں اپنے ہاتھ میں آم کو چکر دیتا رہا پھر میں نے خیال کیا کہ آپ کے سامنے ثابت آم رکھنا مناسب نہیں بلکہ کاٹ کر اس کی قاشیں رکھنی چاہئیں اور ام ناصر سے کہا کہ چھری اور طشتری منگو اؤ اتنے میں انگریزی قسم کی ایک چھری اور ایک چینی کی طشتری ان کے سرہانے نظر آئی اور میں نے آم ان کو دیا کہ اس کو کاٹ کر اس کی قاشیں کر دیں جب انہوں نے آم کی قاشیں کاٹ
586 کر طشتری میں رکھ دیں تو میں نے طشتری اٹھالی کہ حضرت خلیفہ اول کو کھانے کے لئے دوں پاس کے کمرہ کی کھڑی جب میں نے کھولی اور آموں والی طشتری آپ کے سامنے رکھنی چاہی تو میں نے محسوس کیا کہ پاس والے کمرہ کی چھت نیچی ہونے کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ آپ کے سامنے کھانے کی بہت سی طشتریاں رکھی تھیں میں سہولت سے طشتری آپ کے سامنے نہیں رکھ سکتا اور آم والی طشتری کو اس طرح جنبش دی کہ حضرت خلیفہ اول سمجھ جائیں اور اپنے سامنے کی طشتریاں پرے کر دیں آپ سمجھ گئے اور آپ نے اپنے سامنے کی طشتریاں پرے کر دیں تب میں نے کھڑکی کی دہلیز کو ایک ہاتھ سے پکڑ لیا اور اس کے سہارے سے خوب جھک کر آموں کی طشتری جس میں بہت سی قاشیں تھیں آپ کے سامنے رکھ دی اس پر میری آنکھ کھل گئی.بیت الفکر میں آپ کو دیکھنا بتاتا ہے کہ آپ کے لئے اپنی اولاد کا موجودہ فتنہ فکر کا موجب بن رہا ہے اور ثابت آم کی بجائے اس کی قاشیں کرکے دینے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ کسی وقت آپ کی اولاد میں تفرقہ پیدا ہو گا اور شاید وہی وقت آپ کی اولاد کے لئے تو بہ کا مقرر ہے اور اسی میں وہ حضرت خلیفہ اول کے سامنے پیش ہونے کے قابل ہوں گے.الفضل 3.اکتو بر 1956 ء صفحہ 8 21 ستمبر 1956ء 624 فرمایا : میں نے خواب میں ایک اسلامی ملک کے متعلق دیکھا کہ وہاں کے خاندانوں پر عیسائیت کا اثر بڑھتا جاتا ہے خدا تعالیٰ اس ملک کو عیسائیت کے اثر سے محفوظ رکھے کیونکہ وہ ملک اسلام کی بہت خدمت کر رہا ہے.الفضل 4.اکتوبر 1956 ء صفحہ 3 30 $1956 625 فرمایا : خواب میں دیکھا کہ میں ایک شہر میں ہوں جس میں ایک بڑی عمارت کے سامنے ایک چوک ہے جس میں بہت سی سڑکیں آکر ملتی ہیں میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ میری طرف آ رہا ہے اور میں نے اس کے آنے کو برا محسوس کیا اس وقت میرے ساتھ کوئی پہرہ دار نہیں میں فوراً پاس والی عمارت کے پھاٹک کی طرف مڑا اور پھاٹک میں سے ہو کر اندر چلا گیا اس عمارت کے چاروں طرف لوہے کی مضبوط چپٹی چپٹی سلاخوں کا کمرہ ہے جیسا کہ اہم سرکاری عمارتوں
587 میں یورپ میں ہوتا ہے جب میں اندر گیا تو میں نے دیکھا کہ اس عمارت کے وسطی حصہ کے سامنے جو مسقف ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیٹھے ہیں آپ نے مہندی لگائی ہوئی ہے اور آپ کے چہرہ کا رنگ اور مہندی کا رنگ خوب روشن ہے جو اب تک میری آنکھوں کے سامنے پھرتا ہے.میرے اندر جانے پر آپ کٹہرے کی طرف آئے گویا یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ باہر کون کون لوگ ہیں میں وسطی حصہ کے گرد چکر لگا کر پیچھے کی طرف چلا گیا اور میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرسی پر بیٹھے ہیں اس کی پشت کی عمارت کے پیچھے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کھڑے ہیں جیسے کوئی احترام یا حفاظت کے لئے کھڑا ہو تا ہے اتنے میں حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کٹہرے کے پاس جاکر اور تسلی کر کے واپس آگئے اور یوں معلوم ہوا جیسے کوئی خطرہ یا تو تھا ہی نہیں یا جاتا رہا.عجیب بات ہے کہ فالج کے حملہ کے بعد اور ولایت سے واپسی کے بعد جب بھی مجھے رویا نظر آتی تھی تو شروع میں تو اس طرف جس طرف فالج کا حملہ ہوا تھا اندھیرا سا نظر آتا تھا اور بعد میں چہرے روشن نظر نہیں آتے تھے لیکن وہ رویا جو میں نے ایبٹ آباد میں دیکھا اور جس میں حضرت خلیفہ اول کو دیکھا اس میں کمرہ ، چار پائی ، چھری پلیٹ اور ام ناصر اور حضرت خلیفہ اول کی شکلیں مجھے صاف نظر آئیں اور دوسرے نظارے بھی مجھے صاف نظر آئے.اسی طرح اب جو پرسوں 29 / 30 ستمبر کی درمیانی رات میں خواب دیکھی اس میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شکل صاف نظر آئی اور مکان کی شکل بھی صاف نظر آئی یہ ایک عجیب بات ہے کہ فالج کے حملہ کے معا بعد یورپ میں جو خواہیں نظر آئیں ان میں شکلیں صاف دکھائی دیتی تھیں لیکن سات آٹھ ماہ بعد وہاں سے واپسی پر خوابوں میں ایک دھند لکا سا نظر آتا تھا حالانکہ عقلاً اس عرصہ میں بیماری کم ہو گئی تھی اور ہو جانی چاہئے تھی.اس کے بعد ایک وقفہ آیا اور اس وقفہ کے بعد ایبٹ آباد سے خواب کے نظارے صاف ہونے شروع ہو گئے اس فرق کا طبی راز تو شاید کوئی طبیب جانے اور روحانی راز میرے لئے خوشی کا موجب بنا ہے اور امید پڑتی ہے کہ اللہ تعالیٰ پھر نیند کی حالت میں اور جاگنے کی حالت میں صحت کامل عطا فرمائے.الفضل 4.اکتوبر 1956 ء صفحہ 3
588 626 کتوبر 1956ء فرمایا : 30 ستمبر اور یکم اکتوبر کی درمیانی رات خواب میں قرآن شریف کی ایک آیت کی تلاوت کرتے ہوئے میں نے اپنے آپ کو دیکھا اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ آیت اڑ کر میرے پاس آگئی ہے آیت کا مضمون خوش کن ہے اور جو مفہوم اس وقت میرے ذہن میں گزر رہا ہے وہ بھی خوش کن ہے.وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب الفضل 4- اکتوبر1958ء صفحہ 4 627 3 نومبر 1956ء فرمایا : دو اور تین نومبر کی درمیانی رات کو میں نے رویا میں ایک نظارہ دیکھا وہ نظارہ تو مجھے بھول گیا لیکن اس سے متاثر ہو کر میں نے کچھ فقرے کہنے شروع کئے جو میری زبان پر بار بار جاری ہوئے.آنکھ کھلی تو ساڑھے تین بجے کا وقت تھا جو پہلا فقرہ تھا وہ مجھے یا د رہا میں نے اپنی ایک بیوی کو جگا کر کہا کہ اسے یاد رکھو کہیں مجھے بھول نہ جائے اور انہوں نے لکھ لیا لیکن دوسرا فقرہ مجھے یاد نہ رہا جب میں صبح کی نماز کے لئے اٹھا تو وہ اس وقت مجھے بھول چکا تھا میں نے اس کو یاد کرنے کی کوشش کی مگروہ یاد نہ آیا ہفتہ کے روز میں لاہور چلا گیا وہاں شیخ بشیر احمد صاحب کی بھتیجیوں کی شادی تھی وہاں ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات کو دعا کر کے سویا تو پھر پہلے فقرہ کے ساتھ ایک اور فقرہ میری زبان پر جاری ہوا اب میں نہیں جانتا کہ آیا یہ وہی فقرہ تھا جو اس سے پہلی رات میری زبان پر جاری ہوا تھا اور مجھے بھول گیا تھا یا اس کے ہم معنے یا ہم مضمون کوئی اور فقرہ ہے بہر حال چاہے وہ فقرہ وہی ہے جو پہلی رات میری زبان پر جاری ہوا تھا یا اس کا قائم مقام کوئی اور فقرہ ہے جب میں وہ فقرے پڑھتا تھا تو میرے دل میں آیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کی دعاؤں کی قبولیت کے لئے ایک راستہ کھولا ہے اگر جماعت کے دوست اپنی دعاؤں میں ان دونوں فقروں کا استعمال کریں گے تو ان کی دعائیں پہلے سے زیادہ مقبول ہوں گی.یہی سوچتے سوچتے میں فقرہ کہتا چلا گیا پھر میری آنکھ کھل گئی.اب پہلے دن کا دوسرا فقرہ تو مجھے یاد نہیں رہا میں نے بتایا ہے کہ وہ مجھے بھول گیا تھا لیکن لاہور میں دوسری دفعہ ایک ایک فقرہ پہلے فقرہ کے ساتھ ملا کر میری زبان پر جاری کیا گیا میں نہیں کہہ
589 al 3 سکتا کہ آیا یہ بعینہ وہی فقرہ ہے جو بھول گیا تھایا اس کے ہم معنے کوئی فقرہ ہے بہر حال وہ فقرہ اگر وہی ہے تو بھی اور اگر اس کے ہم معنے ہے تو بھی میں اس کو اور پہلی رات والے فقرہ کو جو یا د رہا بیان کرتا ہوں جن کے متعلق مجھے بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کی دعاؤں کو زیادہ سننے کے لئے بیان فرمایا ہے یعنی اگر جماعت اپنی دعاؤں میں ان فقروں کو کہے گی تو اس کی دعائیں زیادہ سنی جائیں گی وہ پہلا فقرہ جو مجھے یا د رہا تھاوہ یہ تھا.ہم قدم قدم پر خدا تعالی کی طرف توجہ کرتے ہیں" وسرا فقرہ جو مجھے بھول گیا اور پھر لاہور جا کر ہفتہ اور اتور کی درمیانی رات کو دوبارہ میری زبان پر جاری ہو اوہ یا تو وہی فقرہ تھا جو بھول گیا یا اس کے ہم معنے کوئی اور فقرہ تھا وہ یہ تھا.اور اس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں" مجھے بتایا گیا ہے کہ اگر یہ فقرے ہماری جماعت کے دوست پڑھیں گے تو ان کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی میں نے بعد میں ان پر غور کیا اور سمجھ لیا کہ اس میں واقع میں دعائیں قبول کرنے کا ایک گر بتایا گیا ہے.ہم قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں" کے معنے یہ ہیں کہ ہم اپنی زندگی کے ہر فعل کے وقت خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارا یہ فعل مبارک ہو جائے اب یہ سیدھی بات ہے کہ جو شخص اپنے ہر فعل کے وقت خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتا چلا جائے گا لازماً اس کی دعائیں زیادہ قبول ہوں گی کیونکہ قدم قدم سے مراد چلنا تو ہو نہیں سکتا اس سے یہی مراد ہے کہ ہماری زندگی میں جو بھی نیا کام آتا ہے اس میں ہم خد اتعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا تو ہم پر اپنی رحمت اور فضل نازل کر اور جو شخص اپنی زندگی کے ہر نئے کام میں خدا تعالیٰ سے دعا کرے گا جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کھانا کھاؤ تو بسم اللہ کہہ لو.کپڑا پہنے لگو تو بسم اللہ کہہ لو.کھانا کھا لو تو الْحَمْدُ لِلَّهِ کہو.نیا کپڑا پہن لو تو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ خدا تعالیٰ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا موجب ہے اور ہرنئی نعمت کے ملنے پر اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کہنا بھی خدا تعالیٰ کو متوجہ کرنے کے مترادف ہے گویا ہم قدم قدم پر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرتے ہیں اور جب ہم اپنے ہر کام میں خدا تعالی کی طرف توجہ کریں گے تو لازمی بات ہے کہ خدا تعالٰی کہے گا کہ میرا یہ بندہ تو کوئی
590 کام میری مدد کے بغیر نہیں کرنا چاہتا اور وہ لازماً اس کی مدد کرے گا پھر دوسرا فقرہ ہے کہ اور اس کی رضا کی جستجو کرتے ہیں" اس کو پہلے فقرہ کے ساتھ ملا ئیں تو اس کے یہ معنے ہو گئے کہ ہم ہر کام میں دیکھ لیتے ہیں کہ اس میں خدا تعالیٰ کی رضا ہے یا نہیں اور اگر ہر کام کے کرتے وقت انسان خدا تعالیٰ سے دعا کرے اور ہر کام کے متعلق یہ سوچے کہ اس میں خدا تعالیٰ کی رضا ہے یا نہیں تو سیدھی بات ہے کہ اس کی کامیابی اور اس کی دعاؤں کی قبولیت میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کیونکہ جو شخص خدا تعالی کی رضا کے لئے کوئی کام کرے گا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی مدد نہ کرے وہ تو خدا تعالیٰ کا کام ہو گیا بندے کا کام ہو تو خدا تعالیٰ کہہ بھی سکتا ہے کہ یہ تیرا کام ہے تو آپ کر مگر جب وہ کام خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کرنا چاہتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ یہ نہیں کہے گا کہ یہ تو تیرا کام ہے تو آپ کر بلکہ وہ کہے گا کہ یہ تو میرا کام ہے اسے میں ہی کروں گا.الفضل 23.نومبر1956ء صفحہ 4-3 نومبر 1956ء 628 فرمایا : میں نے خواب دیکھا تھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائکہ ربوہ کے اوپر سارے جو میں وہ آیتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں جو قرآن شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لئے آئی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ مدینہ سے نکل جائیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑائی کریں گے لیکن قرآن کریم منافقوں سے فرماتا ہے کہ نہ تم یہودیوں کے ساتھ مل کر مدینہ سے نکلو گے اور نہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑو گے یہ دونوں جھوٹے وعدے ہیں اور صرف یہودیوں کو انگیخت کرنے کے لئے ہیں.چنانچہ دیکھ لو پہلے تو پیغامیوں نے کہا ہمارا اس فتنہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن اب وہ منافقوں کو ہر ممکن مدد دینے کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا روپیہ اور ہماری تنظیم اور ہمارا اسٹیج سب کچھ تمہارے لئے وقف ہے گویا وہی کہہ رہے ہیں کہ جو خواب میں بتایا گیا تھا لیکن ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرے گا کہ وہ اس مدد کے اعلان سے پیچھے ہٹ جائیں گے اور ان لوگوں سے بے تعلق ہو جائیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہے کسی بڑے آدمی کی طرف منسوب ہو نا ان
591 باغیوں کو کوئی فائدہ نہیں دے گا اور پیغام صلح والے اپنے وعدے جھوٹے ثابت کریں گے اور کبھی وقت پر ان کی مدد نہیں کریں گے.الفضل 16.نومبر 1956ء صفحہ 4.نیز دیکھیں.نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر ( تقریر جلسہ سالانہ 27 دسمبر 19576) شائع کردہ الشرکتہ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ 11.نومبر 1956ء 629 فرمایا : میں نے ایک رؤیا دیکھی ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ رویا ہندوؤں میں تبلیغ کے متعلق ہے اس لئے میں اسے بیان کر دیتا ہوں میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک چارپائی پر کھڑا ہوں ایک طرف میں ہوں اور دوسری طرف چوہدری اسد اللہ خان صاحب ہیں اور سامنے ایک چار پائی پر ایک ہندو بیٹھا ہوا ہے چوہدری اسد اللہ خان صاحب کے ہاتھ میں ایک کتاب ہے جو وہ پڑھ کر سنا رہے ہیں اس کتاب کا سائز خطبہ الہامیہ جتنا ہے یعنی وہ بڑے سائز کی کتاب ہے چوہدری اسد اللہ خان صاحب نے اس کتاب میں سے ایک فقرہ یہ پڑھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گورداسپور میں ایسا ایسا بیان کیا ہے اس پر وہ ہندو کہتا ہے کہ اس کی معین مثالیں بھی تو دیں تا یہ بات ہماری سمجھ میں آجائے چوہدری اسد اللہ خان صاحب وہ کتاب اس طرح پڑھ رہے ہیں کہ اصل بات تو آجاتی ہے لیکن مثالیں غائب ہیں اسی لئے اس ہندو نے کہا کہ آپ مثالیں بھی تو دیں تاکہ یہ بات ہماری سمجھ میں آجائے.اس پر میں کھڑا ہو گیا اور اس کی بات کا جواب دینے لگا.میں سمجھتا ہوں کہ یہ سارا مضمون کشفی ہے کیونکہ میرے ہاتھ میں اس وقت کوئی کتاب نہیں تھی میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ ہندوؤں میں اپنے پرانے بزرگوں کی جو شکلیں بنائی جاتی ہیں اور ان کے کئی کئی ناک کئی کئی ہاتھ اور کئی کئی آنکھیں دکھائی جاتی ہیں ان کو ظاہر پر محمول کرنا درست نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے مامور تو اس لئے آتے ہیں کہ لوگ ان سے سبق سیکھیں لیکن ہندوؤں کی تصویروں میں جو بزرگوں کی شکلیں دی جاتی ہیں ان کے کئی کئی ناک ہاتھ آنکھیں اور بسعر دکھائے جاتے ہیں اور وہ سخت بھیانک شکلیں ہوتی ہیں ایسی شکل والے سے تو انسان بھاگتا ہے نہ کہ محبت کرتا ہے پس اگر وہ لوگ واقعی ایسے تھے تو پھر دنیا کو تعلیم نہیں دے سکتے کیونکہ ان کے زمانہ کے لوگ ان کو دیکھ کر بھاگ جاتے ہوں گے حالانکہ خدا تعالیٰ کے مامور
592 لوگوں کو سبق سکھانے کے لئے دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں اس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام سے یہ ملتی ہے کہ آپ فرماتے ہیں دنیا میں جو بھی مصلح آتا ہے وہ کسی اچھی قوم سے آتا ہے تاکہ لوگ اس سے نفرت نہ کریں اور جب خدا تعالیٰ نے ہر مصلح کے لئے اچھی قوم میں سے ہونے کی شرط رکھی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کے کئی کئی ناک ہوں کئی کئی ہاتھ ہوں یا کئی کئی سر اور کئی کئی آنکھیں ہوں اس سے تو لوگ ڈر جائیں گے اور ایسے مصلح کو دیکھتے ہی بھاگ جائیں گے اس سے فائدہ کیا اٹھائیں گے اگر اس کے کئی بڑے بڑے ناک ہوں گے تو وہ خیال کریں گے یہ انسان نہیں بلکہ ہاتھی کی طرح کوئی جانور ہے اگر اس کے کئی سر ہوں تو وہ کہیں گے یہ انسان نہیں بلکہ کوئی عجیب الخلقت حیوان ہے اور اگر کئی کئی آنکھیں ہوں گی تو وہ کہیں گے کہ یہ انسان نہیں بلکہ کوئی نئی قسم کا سانپ ہے وہ اس سے ڈر کر بھاگ جائیں گے پھر میں بتاتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئی کئی ناک کان اور آنکھیں ہونے کی فلاسفی بھی بیان فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ ان مصلحین کی فی الواقع اس قسم کی شکلیں تھیں بلکہ اگر تصویر میں یہ دکھایا گیا ہے کہ مصلح کے کئی ناک تھے تو اس کا یہ مطلب تھا کہ ان میں اس قدر قوت شامہ پائی جاتی تھی کہ وہ دور سے عیب روحانی کو سونگھ لیتے تھے اور جب ان کے بڑے بڑے کان دکھائے جاتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہو تا تھا کہ دور سے فریادیوں کی فریاد سن لیتے تھے اور ان کی ضرورت کو پہچان لیتے تھے اور جب ان کی کئی آنکھیں دکھائی جاتی تھیں تو اس کا یہ مطلب ہو تا تھا کہ وہ حقیقت کو بہت جلد پہچان لیتے تھے اسی طرح تصویری زبان میں کئی کئی ہاتھ بنانے کا یہ مطلب تھا کہ اس مصلح کے پاس ایسے دلائل و براہین تھے کہ ان سے دشمن مبہوت ہو جاتا تھا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ہی قرآن کریم میں آتا ہے فَبُهِتَ الَّذِى كَفَرَ (البقرة : 259) کافران کے دلائل و براہین سے مبہوت ہو گیا غرض خواب میں ہندو کو یہ مثالیں دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ چوہدری اسد اللہ خان صاحب تو صرف خلاصہ بیان کر رہے تھے اس لئے انہوں نے مثالیں بیان نہیں کیں اس پر وہ خاموش ہو گیا.اس رویا سے میں سمجھتا ہوں کہ کسی زمانہ میں خدا تعالیٰ ہندوؤں میں بھی تبلیغ اسلام کا راستہ کھول دے گا وہ لوگ اس قسم کے دیوتاؤں کے قائل ہیں جن کے کئی کئی ہاتھ کئی کئی ناک اور
593 کئی کئی آنکھیں ہوتی تھیں لیکن ایک وقت آئے گا کہ خدا تعالیٰ ان پر حقیقت کھول دے گا کہ وہ دیوتا بھی ہمارے جیسے انسان ہی تھے صرف ان کی روحانی طاقتوں کو تصویری زبان میں اس طرح دکھایا گیا ہے کہ گویا ان کے کئی کئی ہاتھ تھے کئی کئی سرتھے کئی کئی آنکھیں اور کئی کئی ناک تھے اور یہ روحانی طاقتیں سب بزرگوں کو دی گئی ہیں.الفضل 16.نومبر 1956 ء صفحہ 5.4 18 جنوری 1957ء 630 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں قادیان گیا ہوں اور مسجد مبارک کی چھت پر ہوں وہاں خوب چہل پہل ہے اور لوگ آتے جاتے ہیں میں نے دیکھا کہ دو تین آدمی میرے پاس بیٹھے ہوئے ہیں.ہیں تو وہ ادھیڑ عمر کے لیکن توانائی اور طاقت کی وجہ سے وہ جوانی کے زیادہ تر قریب معلوم ہوتے ہیں ان میں سے ایک کا نام عبد الحق ہے اور دوسرے کا نام نوراحمد ہے عبدالحق بات کر رہا ہے اور نور احمد پہلو میں بیٹھا ہوا ہے عبد الحق نے مجھ سے کہا کہ فلاں شخص گواہی دے رہا ہے اور اس سے فلاں نے کہا ہے کہ اس طرح گواہی نہ دو بلکہ اس طرح گواہی دو کہ عبد الحق یا نور احمد کو فائدہ پہنچ جائے اس وقت میرے ذہن میں یہ نہیں کہ وہ گواہی عدالت میں ہے یا سلسلہ کے محکمہ قضاء میں ہے پھر یہ بھی مجھے یاد نہیں کہ اس شخص سے عبدالحق کے متعلق گواہی دینے کے لئے کہا جا رہا ہے یا نور احمد کے متعلق کہا جا رہا ہے بہر حال میں نے کہا کہ مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ وہ گواہی عبد الحق یا نور احمد کے خلاف ہے یا ان کے حق میں ہے مجھے صرف اس بات سے غرض ہے کہ وہ سچ بولے اور جو کہے ٹھیک کہے.یہ کہ وہ عبد الحق یا نو ر احمد کے فائدہ کے لئے گواہی دے اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں.میں صرف یہ کہتا ہوں کہ وہ جو کہے سچ کہے کیونکہ سچ میں ہی برکت ہے چاہے اس کی گواہی عبد الحق یا نور احمد کے خلاف ہو یا ان کے حق میں ہو.ان باتوں کے بعد مجھے یکدم یوں محسوس ہوا کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یاد آئی ہے اور میں نے خیال کیا کہ گھر جاؤں اور حضرت صاحب کو دیکھوں ہمارے مکان کا وہ حصہ جو مسجد مبارک کی اوپر کی چھت سے ملحق ہے اور اسی کے دروازہ سے میں مسجد میں نماز کے لئے آیا کرتا تھا میں اس حصہ میں سے گزرا اور پھر چھت کو پار کر کے سیڑھی سے اترا اور اس دالان میں گیا جہاں حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام رہا کرتے تھے میں جب اس دالان
594 میں گیا تو وہاں میں نے دیکھا کہ ایک بڑا شاندار پلنگ رکھا ہوا اور اس پر ایک اعلیٰ درجہ کا بستر بچھا ہوا ہے میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس پلنگ پر لیٹے ہوئے ہیں اس پلنگ کے پہلو میں ایک چھوٹا سا میز پڑا ہوا ہے وہ میز ایسا ہے جیسے مہمانوں کے آگے کھانا رکھنے کامیز ہوتا ہے اس کے اوپر کھانا بھی رکھا ہوا ہے.اس کھانے کی ایک چیز پلاؤ تھی مگر اس کے چاول بہت ہی اعلیٰ درجہ کے تھے اس سال بدو ملی کے ایک مخلص دوست نے کچھ چاول بھجوائے ہیں وہ چاول ہم نے گھر میں پکائے تو میری بیوی نے ان کی بہت تعریف کی کہ بڑی اچھی قسم کے چاول ہیں جب ہم جابہ گئے تو ان میں سے کچھ چاول وہاں بھی اپنے ساتھ لے گئے لیکن میں نے دیکھا کہ وہ چاول ان سے بھی بہتر تھے.وہ پکنے کے بعد لمبے ہو گئے ہیں اور پھر الگ الگ رہے ہیں اور ٹوٹے بھی نہیں.یہی اچھے چاولوں کی علامت ہوتی ہے بد و ملی کے دوست جو چاول لائے تھے وہ بھی پکانے کے بعد لمبے ہو جاتے تھے اور الگ الگ رہتے تھے.لیکن یوں معلوم ہوا ہے کہ پکانے کے بعد کچھ کھردرے سے ہو جاتے ہیں بہر حال اس پلاؤ کے چاول ان چاولوں سے زیادہ اچھے تھے اور وہ پلاؤ بڑے اعلیٰ درجہ کا تھا اس پلاؤ کے اوپر بڑے اعلیٰ درجے کا قورمہ بھی پڑا ہوا تھا پھر میں نے دیکھا کہ پلاؤ کے ساتھ ہی ایک پلیٹ میں میٹھا کھانا پڑا ہوا ہے جو کچھ فرنی سے کچھ حریرہ سے مشابہ ہے حریرہ وہ چیز ہے جس کو نشاستہ سے تیار کیا جاتا ہے اس میں میٹھا اور گھی ڈالتے ہیں پھر اس میں پیتے اور بادام کی ہوائیاں ڈالتے ہیں بعض دفعہ کشمش بھی ڈال لیتے ہیں اور دماغ کی طاقت کے لئے استعمال کرتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اپنی زندگی میں بعض اوقات حریره استعمال فرمایا کرتے تھے تاکہ دماغ کو طاقت حاصل ہو یہ جو پستہ وغیرہ کے باریک ٹکڑے ہوتے ہیں اور جن کو اردو میں ہوائیاں کہتے ہیں ان کو حریرہ میں بھی ڈالتے ہیں اور زردہ میں بھی ڈالتے ہیں چونکہ وہ اتنے باریک ہوتے ہیں کہ اگر زور سے ہوا چلے تو انہیں اڑا کر لے جائیں اس لئے انہیں ہوائیاں کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ اس میٹھے کھانے میں ہوائیاں تھیں یا نہیں لیکن وہ اعلیٰ درجہ کا حریرہ تھا جسے دیکھ کر کھانے کی رغبت ہوتی تھی یوں معلوم ہو تا تھا جیسے کوئی مہمان آرہا ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کھانا رکھوایا ہے تب میں نے چاہا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملوں جس جگہ میز پڑی ہے اس کا چکر کاٹ کر میں چارپائی کے سرہانے کی طرف گیا جدھر حضرت مسیح موعود علیہ
595 الصلوۃ والسلام کا سر تھا میں نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ روشن تھا داڑھی مہندی سے رنگی ہوئی تھی اور نہایت خوش نما تھی اور یوں معلوم ہو تا تھا جیسے بالوں میں کنگھی کی ہوئی ہے آخری عمر میں آپ مہندی میں خضاب ملا لیا کرتے تھے جس کی وجہ سے بالوں میں کچھ سیاہی آجاتی تھی لیکن ابتداء میں آپ صرف مہندی لگایا کرتے تھے یہ خضاب کا نسخہ میر حامد شاہ صاحب کہیں سے سیکھ کر آئے تھے.وہی خضاب صحت کی حالت میں میں بھی لگایا کرتا تھا لیکن آپ مہندی زیادہ ملایا کرتے تھے اس لئے سیاہی کم ہوتی تھی اور سرخی زیادہ لیکن میں مہندی کم ڈالا کرتا تھا اس لئے سیاہی زیادہ ہوتی تھی اور سرخی کم.ابتداء میں حضرت صاحب صرف مہندی لگایا کرتے تھے بہر حال آپ کی داڑھی مہندی سے رنگی ہوئی تھی جو چمکتی تھی میں نے جھک کر آپ کا چہرہ دیکھا جب میں آپ کے قریب ہوا تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ایک ہاتھ آپ نے میرے دائیں کلے پر رکھ لیا اور دوسرا ہاتھ میرے بائیں کلے پر رکھ لیا اور میرے سر کو جھکایا اور پیار سے میرے ہونٹوں کو یہ کہتے ہوئے بوسہ دیا کہ بیٹا تم اس طریق پر عمل کرو گے یا اس طریق پر.میں نے جواب دیا کہ مجھے نہ اس طریق سے غرض ہے نہ اس طریق سے غرض ہے مجھے تو حضور کے ارشاد سے غرض ہے حضور جو ارشاد فرمائیں گے میں وہی کروں گا مجھے اس طریق سے یا اس طریق سے کوئی تعلق نہیں.آپ نے میری اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا لیکن میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ پر رونق آگئی ہے پھر آپ نے خوشی سے کہا میں نے تمہیں ٹرنک کال کی تھی میں نے کہا حضور آپ نے ٹرنک کال کی ہوگی مگر مجھے نہیں ملی.میں تو مسجد مبارک کے اوپر تھا اور وہاں ٹیلی فون نہیں بہر حال آپ کی ٹنک کال مجھے نہیں ملی میرے دل میں خود ہی خواہش پیدا ہوئی کہ میں حضور کو دیکھوں اس لئے میں آگیا.اس کے بعد آنکھ کھلی تو میرا ذ ہن اس طرف گیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اگلے جہان میں بھی ٹرنک کال کا طریق جاری کیا ہوا ہے جب اگلے جہان میں روحیں دنیا کے لوگوں سے ملنا چاہتی ہیں تو فرشتے ٹیلی فون لگا دیتے ہیں صرف فرق یہ ہوتا ہے کہ یہاں کی ٹرنک کال کانوں سے سنی جاتی ہے اور وہاں کی ٹرنک کال دل سے سنی جاتی ہے اگلے جہان میں جب کسی روح کا دل چاہتا ہے کہ وہ دنیا میں اپنے کسی پیارے کو دیکھے یا کسی رشتہ دار سے ملے تو فرشتے اسے ٹیلی فون پر کھڑا کر دیتے ہیں اور ادھر اس کے رشتہ دار کو رغبت دلا دیتے ہیں اور جو کچھ وہ روح کہتی ہے خواب میں اس کے سامنے آجاتا ہے تو گویا ٹرنک
596 کال کا طریق وہاں بھی جاری ہے اس کے بعد غنودگی کی حالت طاری ہوئی اور فارسی کے کچھ شعر میری زبان پر جاری ہوئے فارسی میں نے درسی طور پر نہیں پڑھی صرف مثنوی رومی حضرت خلیفہ اول نے پڑھائی تھی اس لئے فارسی اشعار بہت کم زبان پر آتے ہیں لیکن عربی کے وہ اشعار جو پرانے شاعروں نے کہے تھے وہ زبان پر آجاتے ہیں بہر حال میں نے دیکھا کہ فارسی کے کچھ شعر میری زبان پر آگئے ہیں لیکن مجھے یاد نہیں رہے آخر سوچتے سوچتے میرے ذہن میں آیا کہ وہ شعر جو میری زبان پر جاری ہوئے تھے ان کے اندر آرپار تار جیسے کچھ الفاظ تھے اس کے بعد میں نے سوچنا شروع کیا کہ کوئی شعر ایسے ہوں جو میں نے سنے ہوں اور جن میں ایسے الفاظ آتے ہوں اس پر یکدم مجھے یاد آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے فارسی کے دو شعر سنائے تھے اور وہی میری زبان پر جاری ہوئے تھے.دو شعر سرمد رحمہ اللہ علیہ کے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ جانان مرامن بیارید این مردہ تم با وسپارید چوں بوسہ وہد برین لبانم گر زنده شوم عجب مدارید اس میں بھی وہی بسیار آر پار کا وزن آتا تھا اس لئے اس وزن نے میری راہنمائی کی کہ وہ کون سے شعر ہیں جو میری زبان پر جاری ہوئے تھے سرمد عشق الہی کی وجہ سے بعض ایسے الفاظ کہہ جاتے تھے جن کی وجہ سے علماء سمجھتے ہیں کہ یہ بے دین ہے اور وہ کہتے تھے کہ اسے پھانسی دی جائے چنانچہ عالمگیر بادشاہ نے ان کے فتووں کی وجہ سے سرمد کو پھانسی دینے کا حکم دے دیا لیکن در حقیقت ان کا عشق مجازی نہیں بلکہ حقیقی تھا جب سرمد کو پھانسی کا حکم ہو گیا تو انہوں نے کہا جانان مرائن بیارید این مردہ تم با و سپارید کہ جب میں مرجاؤں تو میرے محبوب کو میرے پاس لانا اور میرا مردہ جسم اس کے حوالے کر دیتا.چون بوسہ دہد بریں لبانم گر زنده شوم عجب مدارید پھر اگر وہ لبوں پر بوسہ دے اور میں زندہ ہو جاؤں تو اس پر تعجب نہ کرنا.لوگوں نے قصہ بنایا ہوا ہے کہ سرید کو ایک لڑکے سے عشق تھا چنانچہ پھانسی کے بعد وہ لڑکا لایا گیا اس نے جب سرمد کے لبوں پر بوسہ دیا تو وہ زندہ ہو گئے حالانکہ ان کا عشق مذہبی رنگ کا تھا
597 اور ان کے اندر روحانی والیت پائی جاتی تھی جس کی طرف ان شعروں میں اشارہ تھا.میں نے جو تصرف الہی سے یہ شعر پڑھا تو اس میں اس طرف اشارہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو میرے پاس لاؤ اور اگر وہ میرے ہونٹوں کو بوسہ دیں گے تو پھر ایک نئی زندگی مجھ میں پیدا ہو جائے گی اور ترقی سلسلہ اور ترقی اسلام کے ایسے سامان پیدا ہو جائیں گے کہ میرے جیسا مردہ یا میرے کام جیسا مردہ پھر زندہ ہو جائے گا اور ایسی شان سے زندہ ہو گا کہ لوگ تعجب کریں گے کہ ایسا مردہ کس طرح زندہ ہو گیا مگر یہ خدائی تقدیر ہوگی اس پر تعجب کرنا غلط ہو گا پس اس کے معنے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو مجھے اسلام کی خدمت اور اس کی اشاعت کی اور زیادہ توفیق ملنی شروع ہو جاوے گی یا ممکن ہے اس میں میری صحت کی طرف اشارہ ہو.دونوں باتیں ہو سکتی ہیں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مجھے دینی خدمت کی زیادہ توفیق ملنی شروع ہو جائے اور اسلام کی اشاعت کے جو کام باقی ہیں وہ میرے ذریعہ یا میرے اتباع کے ذریعے پورے ہو جائیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ظاہری صحت دے دے اور دین کے کام اچھی طرح ہونے لگ جائیں اور یہ بھی اس خواب میں اشارہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قادیان جانے کے سامان لوگوں کے لئے پیدا کر دے.الفضل 24.جنوری 1957ء صفحہ 472 631 24 جنوری 1957ء فرمایا بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کو میں نے پھر دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں مگر اس دفعہ میں نے اپنے آپ کو مسجد مبارک کی چھت پر نہیں دیکھا بلکہ مسجد مبارک کے مستقف حصہ میں دیکھا ہے میں جب اس کے اندر گھسا تو مجھے یوں معلوم ہوا جیسے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم خطبہ پڑھ رہے تھے مگر میں نے مسجد جس شکل میں دیکھی ہے وہ وہ تھی جو اب ہے اور مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے وقت میں مسجد کی یہ شکل نہیں تھی بلکہ صرف اتنا ہی حصہ تھا جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بنایا ہوا تھا مولوی عبد الکریم صاحب 1905ء میں فوت ہوئے تھے اور 1907ء میں اس مسجد کی توسیع ہوئی تھی.یہ توسیع میر ناصر نواب صاحب نے کی تھی اور اس پر انجمن کا اور میرناصر نواب صاحب کا جھگڑا بھی ہوا تھا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک تحریر لکھ کر دی تھی جس کو ہمیشہ پیغامی اس بات کی دلیل
598 میں پیش کیا کرتے ہیں کہ انجمن ہی خلیفہ ہے تو وہ حصہ مولوی عبد الکریم مرحوم کی وفات کے بعد بنا ہے لیکن میں نے اس وقت دیکھا کہ وہ حصہ بھی مسجد میں شامل ہے مولوی عبد الکریم صاحب کھڑے تھے اور غالبا خطبہ دے رہے تھے ان کا منہ مشرق کی طرف تھا میں جب مسجد کے اندر گھسا تو میرے ساتھ ایک دو ساتھی اور بھی تھے معلوم ہوتا ہے جیسے مسجد میں گنجائش کم ہے اور آدمی زیادہ ہیں انہوں نے جب ہمیں آتے ہوئے دیکھا تو کہا لو گو بارش ہو رہی ہے ذرا سمٹ جاؤ اور رستہ دے دو.میں گزر کر اپنے ساتھیوں سمیت اس کو ٹھڑی میں گھس گیا جس میں پہلے مولوی محمد علی صاحب رہا کرتے تھے اور بعد میں مولوی محمد اسماعیل صاحب اس میں رہتے رہے ہیں اور پھر سیڑھی پر چڑھ کر گول کمرہ کی چھت پر چلا گیا اس کے ساتھ ہی وہ مکان ہے جس میں امتہ الحی مرحومہ رہا کرتی تھی اس کی کھڑکی باہر چوک کی طرف کھلتی ہے اگر اس میں کھڑے ہو جائیں تو مسجد مبارک کے آگے کا چوک اور وہ سیڑھیاں جو نئی بنی ہیں اور وہ دکانیں جو مرزا نظام دین صاحب کی ہوتی تھیں وہ سب نظر آتی ہیں میں نے دیکھا کہ ایک عورت اس کھڑکی کے پیچھے چھپی ہوئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ یہ بتانا چاہتی ہے کہ ہم پردہ دار عورتیں یہاں بیٹھی ہیں اس وقت بارش ہو رہی ہے اور ہم نماز پڑھنا چاہتے ہیں مگر بارش کی وجہ سے چونکہ کیچڑ ہے ہم نماز نہیں پڑھ سکتے اور اس جگہ جو چھت ہے وہ بالوں والی نہیں بلکہ لوہے کی سلاخوں کی ہے جس میں سے پانی گر سکتا ہے تب میں نے کسی چیز کا سہارا لیکر جو پاس کی چھت پر لوگ بیٹھے تھے ان سے کہا کہ پاس کے کمرہ میں عورتوں سے کہہ دو کہ پردہ کر لیں تاکہ ہم کمرہ میں نماز پڑھ سکیں کیونکہ باہر بارش کی وجہ سے کیچڑ ہے پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میرا منشاء تھا کہ اس جگہ مکان کو سیع کیا جائے اور کچھ اور چھت ڈال لی جائے تاکہ نمازی اس میں آسکیں اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.فرمایا.اس رویا میں بھی قادیان جانے کا ذکر ہے گو زیادہ تفصیل نہیں پہلی رویا میں زیادہ تفصیل تھی مگر بہر حال یہ بھی ایک مبارک رؤیا ہے اور مسجد مبارک کا دیکھنا بھی اچھا ہے.الفضل یکم فروری 1957ء صفحہ 3-2
599 632 جنوری 1957ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ جنرل آئزن ہاور نے میرا یا جماعت کا تعریف کے ساتھ ذکر کیا ہے یہ واقعہ ایک مجلس میں بیان ہوا تو کسی نے کہا یہ کون سی بات ہے تو اس پر میں نے کہا کہ ظاہر ہے تو بات کچھ بھی نہیں مگر اس سے یہ پتہ لگتا ہے کہ احمدیت کی اہمیت دور دور تک واضح ہو گئی ہے.الفضل 2.فروری 1957ء صفحہ 1 633 فروری 1957ء فرمایا : دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں لیکن اس دفعہ میں نے اپنے آپ کو مسجد مبارک میں نہیں دیکھا بلکہ اس صحن میں دیکھا ہے جس میں پارٹیشن کے وقت ام ناصر رہا کرتی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی وفات کے قریب عرصہ میں گرمیوں میں وہاں سویا کرتے تھے اس صحن میں ایک دروازہ کھلتا ہے جو نیچے ڈیوڑھی ہے آتا ہے جو اس گلی کے ساتھ ملتی ہے جو میاں بشیر احمد صاحب کے مکان کے پہلو میں سے گزرتی تھی ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پر انا مکان تھا.دوسری طرف میاں بشیر احمد صاحب والا مکان تھا اور بیچ میں سے گلی آتی تھی اور اس کا رستہ مسجد مبارک کے نیچے سے ہو تا تھا پھر وہ گلی مرزا سلطان احمد صاحب والے مکان کی طرف چلی جاتی تھی اور رستہ میں اس کے دائیں طرف ڈیوڑھی آتی تھی اس کے اندر داخل ہونے کے بعد سیڑھیاں آتی تھیں جن کے اوپر ہمارے گھر میں راستہ ہو تا تھا میں نے دیکھا کہ ان سیڑھیوں میں کچھ حرکت ہوئی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ہیں جو ملنے آئے ہیں اس پر میں نے جاکر کنڈی کھولی کنڈی کھولنے پر ایک ہاتھ آگے نکلا جیسے کوئی مصافحہ کرنا چاہتا ہے میں نے اس شخص کی شکل تو نہیں دیکھی لیکن ہاتھ سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ چوہدری رحمت خان صاحب کا ہاتھ ہے چوہدری رحمت خان صاحب ایک مخلص احمدی نوجوان ہیں اب تو شاید وہ نوجوان نہیں رہے بلکہ ادھیڑ عمر کے ہوں گے ) گجرات میں رہتے ہیں ان کے بھائی چوہدری غلام رسول صاحب یہاں سکول میں ماسٹر ہیں 1922ء میں میں نے جو درس دیا تھا اس میں وہ بڑے شوق کے ساتھ قادیان آگر شامل ہوئے تھے اس کے بعد میں برابر
600 سنتا رہا ہوں کہ انہوں نے اس درس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور اپنی سروس کے دوران میں انہیں جہاں جہاں بھی جانے کا موقع ملا وہ درس دیا کرتے تھے اور لوگوں کو قرآن کریم کے مضامین سے واقف کیا کرتے تھے بہر حال میں نے رویا میں سمجھا کہ یہ ہاتھ چوہدری رحمت خاں صاحب کا ہے میں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا میں کتنی ہی دیر سے آپ کو تلاش کر رہا تھا آج آپ کو پکڑا ہے اور پھر اس خیال سے کہ انہیں علمی ذوق ہے اور قرآن کریم کے مضامین سے و فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور درس دیتے رہے ہیں میں نے کہا اندر آجاؤ تاکہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتابوں کے متعلق باتیں کریں چنانچہ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور ان کو اندر کھینچ کر لے آیا اس وقت چند اور آدمی بھی اس صحن میں ہیں لیکن اس وقت وہ مجھے نظر نہیں آئے بعد میں ان میں سے بعض آدمی مجھے نظر آئے بہر حال میں ان کو لے کر صحن میں آگیا اور میں نے ان کو اپنے پہلو میں کھڑا کر لیا اور کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو کتابیں ہیں ان میں سے چشمہ معرفت میں بہت لطیف مضامین ہیں اور وہ مجھے بہت پسند ہے اس وقت میں نے دیکھا کہ سامنے ڈاکٹر شاہ نواز صاحب بیٹھے ہیں انہوں نے اس سال جلسہ سالانہ پر تقریر بھی کی تھی ڈاکٹر شاہ نواز صاحب کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب براہین احمدیہ " کو کوئی کتاب نہیں پہنچتی.میں نے کہا ” براہین احمدیہ اپنی جگہ پر اچھی کتاب ہے اور بعض اور کتابیں بھی ہیں جن میں اپنی جگہ پر بڑے اعلیٰ درجہ کے مضامین ہیں چنانچہ اس وقت میرے ذہن میں آئینہ کمالات اسلام بھی آتی ہے لیکن چشمہ معرفت " کی یہ خوبی ہے کہ اس میں بہت سے مضامین چند سطروں میں آجاتے ہیں اور چند سطروں کے بعد مضمون بدلتا چلا جاتا ہے پس ” براہین احمدیہ اپنی جگہ پر اعلیٰ ہے اور بعض اور کتا بیں اپنی جگہ پر اعلیٰ ہیں مگر ان سب میں لمبے لمبے مضامین آتے ہیں لیکن چشمہ معرفت میں بہت سے مضامین کی تشریح آجاتی ہے اور چند سطروں میں آتی ہے اس لئے میں نے خاص طور پر اس کا ذکر کیا کہ اپنے رنگ میں وہ اعلیٰ درجہ کی کتاب ہے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اس رویا میں بھی میں نے اپنے آپ کو قادیان میں دیکھا اور یہ بھی اتنی جلدی دیکھا کہ ابھی پچھلے ہفتہ میں میں نے ایک رؤیا سنائی تھی کہ میں مسجد مبارک میں پھر رہا ہوں اور مولوی عبد الکریم صاحب خطبہ پڑھ رہے ہیں اتنا تو ا تر جو خوابوں میں ہو رہا ہے اس کی بناء پر خیال آتا
601 ہے کہ الہی منشاء کے مطابق آسمان پر کوئی تحریک ہو رہی ہے.الفضل 12.فروری 1957ء صفحہ 3-2 طابق آسمان 634 22.مارچ 1957ء فرمایا : رویا میں دیکھا کہ کوئی شخص بیٹھا ہے جس کو میں پہچانتا نہیں میں اسے ایک نسخہ دے رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ ڈاکٹر فضل نے یہ لکھ کر دیا ہے اور اس کے اوپر پیڈ پر اس کا مونو گراف بھی چھپا ہوا ہے جو نہایت اعلیٰ اور خوبصورت ہے یہ بھی عجیب بات ہے کہ ایک ڈاکٹر فضل کو میں جانتا ہوں میں کوئٹہ گیا تو وہاں گاؤٹ کا دورہ ہوا تو ڈاکٹروں نے کہا دانٹ دکھائیں جب ایک ڈاکٹر کو میں دانت دکھانے گیا تو اس کے مکان پر بورڈ لگا ہوا تھا کہ ”ڈاکٹر فضل " جب ہم فیس دینے لگے تو انہوں نے کہا کہ میں تو سید محمود اللہ شاہ صاحب کا شاگرد ہوں انہوں نے کہا انہوں نے مجھے بچوں کی طرح پالا ہے اس لئے میں آپ سے فیس نہیں لے سکتا تو میں ایک ڈاکٹر فضل کو جانتا ہوں جو ڈنٹسٹ تھا یعنی خواب میں جو میں نے دیکھا ڈاکٹر فضل نسخہ دیتا ہے در حقیقت اس کے معنے صحت کے آثار تھے چنانچہ میں نے یہ خواب پر سوں دیکھی تھی اس کے بعد کل بھی میں نے سارا دن کام کیا اور آج بھی کام کیا یہ وہ فضل ہے جو چل رہا ہے.رپورٹ مجلس مشاورت 1957ء صفحہ 120 635 27/26.مارچ 1957ء فرمایا : میں نے ایک ایسی رویا دیکھی ہے جو اپنے اندر ایک انداری پہلو رکھتی ہے لیکن ساتھ ہی اس کا انجام بخیر بھی معلوم ہوتا ہے میں نے دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں اور اپنے گھر کے اس صحن میں ہوں جو مسجد مبارک کی اوپر والی چھت کے ساتھ ہے جہاں امتہ الحی مرحومہ رہا کرتی تھیں اور جس میں میں نے پہلے بھی ایک دفعہ رویا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا تھا اس وقت دروازہ کے سامنے ٹاٹ کا کپڑا لٹکا کر تا تھا رویا میں میں نے وہی ٹاٹ کا کپڑا لٹکا ہوا دیکھا مگر ٹاٹ کا وہ کپڑا ایک طرف کھسکا ہوا ہے میں نے دیکھا کچھ لوگ کھڑے ہیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ وہ غیر احمدی مخالف ہیں اور ان کی نیت اچھی نہیں اس وقت میں نے ایسا محسوس کیا کہ گویا انہی غیر احمدیوں نے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر
602 حملہ کیا تھایا میں نے یہ سمجھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خلیفہ ہوں مجھے پر حملہ کیا تھا بہر حال ذہن میں یہی آتا ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر حملہ کیا تھا تب میں نے بلند آواز سے کہا کہ اے احمد یو! تمہاری نادانی اور غفلت میں یہ لوگ ایک دفعہ حملہ کر چکے ہیں اب تم کو پتہ ہے کہ یہ لوگ حملہ کی نیت سے آئے ہیں اگر اب تم ان لوگوں کے شر کو دور کرنے کے لئے آگے نہ آئے تو تم خدا تعالیٰ کی گرفت میں آؤ گے اور تمہیں سزا ملے گی کیونکہ پہلی دفعہ تو تمہیں اس لئے معاف کر دیا گیا کہ انہوں نے تمہاری غفلت اور نادانی میں حملہ کیا تھا مگر اب تم دیکھ رہے ہو کہ یہ لوگ تم پر حملہ کرنے کے لئے آئے ہیں اور بار بار میں اونچی آواز سے کہتا ہوں اے احمد یو آگے بڑھو.اے احمد یو آگے بڑھو.میرے اس کہنے پر چند غیر احمدی کود کر اندر آگئے اور ان میں سے ایک میرے پیچھے کی طرف چلا گیا اور دو میرے سامنے آگئے جو شخص میرے پیچھے کی طرف گیا اس نے اپنے ہاتھ میری کمر کے گرد ڈال لئے ہیں جسے پنجابی میں جپھا مارنا کہتے ہیں اس نے مجھے جپھا مارا ہوا ہے یعنی اس نے میری کمر کو بھی پکڑا ہوا ہے اور میرے ہاتھ بھی پکڑے ہوئے ہیں اس وقت میرے ہاتھ میں ایک پستول ہے ان لوگوں کے کو دنے سے پہلے میں نے پستول چلانے کی کوشش کی مگر لبلبی دبی نہیں میں نے اس کو دبانے کے لئے بہتیرا زور لگایا مگروہ نہیں دبی جب میرے زور لگانے کے باوجود بھی لبلبی نہیں دبی تو میں نے رویا میں ہی سمجھا کہ یہ اصلی گولی والا پستول نہیں بلکہ کھلونا ہے لیکن ایسا کھلونا ہے جو آج کل نئے بنے ہوئے ہیں یعنی وہ ایسا بھاری بنا ہوا تھا کہ بڑے بھاری پستول کے برابر معلوم ہو تا تھا پس میں نے اپنے دل میں سمجھا کہ اگر لبلبی دبی نہیں تو کوئی حرج نہیں میں اس کا کندہ جو بڑا بھاری ہے ان کے سر پر ماروں گا اور یہ بے ہوش ہو جائیں چنانچہ میں نے پستول کا کندہ ان غیر احمدیوں کے سر پر مارنے کی کوشش کی جو کود کر میرے سامنے آگئے تھے مگر چونکہ ایک دوسرے شخص نے میری کمر اور میرے ہاتھ پیچھے کی طرف سے پکڑے ہوئے تھے اس لئے جب میں کندہ مارتا تھا تو چوٹ اچھی طرح نہیں لگتی تھی اس طرح وہ بے ہوش ہو کر گرے تو نہیں مگر یوں معلوم ہوا جیسے نیم بے ہوشی کی حالت طاری ہو گئی ہے پیچھے کی طرف سے ہاتھ پکڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے میرا ہاتھ کبھی کبھی اُچٹ بھی جاتا ہے اور اس طرح ان دو چار احمدیوں کو بھی جا لگتا ہے جو کود کر اندر آگئے ہیں میں ان کو بچانے کی کوشش کرتا ہوں مگر بوجہ اس کے کہ میرے
603 ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں انہیں پستول کا کندہ جا لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ بھی بیہوش سے ہیں لیکن غیر احمدیوں سے کم بیہوش ہیں غیر احمدی تو نیم بے ہوش ہیں لیکن احمدیوں کی ایسی حالت ہے جیسے کوئی شخص پریشان سا ہوتا ہے ان کو بھی چوٹ لگتی ہے.مگر بہت ہلکی لگتی ہے.اس رویا میں یہ دیکھنا کہ بعض غیر احمدیوں نے حملہ کا ارادہ کیا ہے اور وہ پہلے بھی حملہ کر چکے ہیں اپنے اندر خطرہ کا پہلو رکھتا ہے پھر پستول کا نہ چلنا بھی خطرہ کا پہلو لئے ہوئے ہے بعد میں ان غیر احمدیوں کا اندر کود کر آجانا اور ان میں سے ایک کا مجھے پیچھے سے پکڑ لیتا اور اس کی وجہ سے میں نے جو کندہ مارنے کی کوشش کی ہے اس میں کامیاب نہ ہونا یہ بھی خطرہ کا پہلو رکھتا ہے اور پھر اس کندہ کا کبھی کبھی کسی احمدی کو بھی لگ جانا یہ بھی خطرہ کا پہلو رکھتا ہے کہ اس کشمکش میں بعض احمدیوں کو بھی دکھ پہنچ گیا مگر آخر یہ انجام کہ وہ لوگ اپنے حملہ میں کامیاب نہ ہو سکے اور واپس چلے گئے یہ خوشی کا پہلو ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ جو مفسد لوگ حملہ کا ارادہ کریں گے وہ ناکام رہیں گے اور اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا اور انہیں احمدیوں سے زیادہ تکالیف پہنچیں گی.الفضل 4 اپریل 1957ء صفحہ 4 -3 636 اپریل 1957ء فرمایا : پچھلے ہفتہ میں نے پھر رویا میں اپنے آپ کو قادیان میں دیکھا ہے اور آج رات بھی میں نے ایسا ہی نظارہ دیکھا آج رات جو نظارہ میں نے دیکھا ہے اس میں کچھ انذار کا بھی پہلو تھا لیکن وہ انذار کا پہلو احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ وہ انذار کا پہلو غیر مسلموں کے لئے تھا مگر چونکہ اس کے بیان کرنے سے بات لمبی ہو جاتی ہے اس لئے میں اس بات کو آج بیان نہیں کرتا.الفضل 27.اپریل 1957ء صفحہ 2 637 مئی 1957ء فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ نیو دتی کے خاص حلقوں سے رپورٹ آئی ہے کہ مسٹر نہرو کو یہ یقین ہے کہ جب تک مسٹر سہروردی پاکستان کے وزیر اعظم رہتے ہیں کشمیر کا مسئلہ پاکستانیوں کو نہیں بھولے گا.الفضل 30.مئی 1957 ء صفحہ 3
604 638 مئی 1957ء فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ جماعتیں ہندوستان میں داخل ہو رہی ہیں بعض آزاد کشمیر کی طرف سے بعض سندھ کی طرف سے اور بعض ضلع فرید پور بنگال کی طرف سے جو ضلع کہ کلکتہ سے ملتا ہے اور بعض امر تسر اور فیروز پور کی طرف سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جماعتیں میرے سامنے لائی گئی ہیں اور میں انہیں کہتا ہوں کہ ہندوستان سے ظالمانہ طور پر نکالے جانے کی وجہ سے مسلمانوں کے ذہنوں پر مایوسی چھا گئی ہے ان کو ایک انگریز جرنیل کا واقعہ یا د رکھنا چاہئے جو سپین میں لڑا تھا اور نپولین کی فوجوں کے مقابلہ میں اس کی فوج بہت کچھ ماری گئی تھی اور تھوڑی سی رہ گئی تھی.اس نے اپنی فوجوں کو نصیحت کی تھی کہ تم میں سے ایک فریق کے لوگ یہ آواز بلند کریں کہ کیا ہم دل ہار بیٹھے ہیں اور دوسرے فریق کے لوگ کہیں ہرگز نہیں آپ لوگ بھی ہندوستان میں اسی طرح داخل ہوں کہ ایک طرف کے لوگ کہیں گے کہ کیا ہمارے ذہن شکست خوردہ حالت میں ہیں اور دوسرے فریق کے لوگ جواب دیں کہ نہیں.اس وقت میرے پہلو میں کسی شخص نے کہا کہ یہ واقعہ پین میں نہیں گزرا بلکہ روس میں گزرا ہے بہر حال یہ رویا میں نے دیکھی جو میں احباب کے لئے شائع کرتا ہوں جس وقت میں یہ باتیں اس پاکستانی جماعت سے کر رہا تھا جو مجھے نظر نہیں آ رہی تھی میں یہی سمجھتا تھا کہ واقع میں پاکستانی جماعتیں ہندوستان میں داخل ہو رہی ہیں اور میں ان کے حوصلے بلند کرنے کے لئے یہ بات کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اس کی تعبیر کیا ہے.الفضل 30.مئی 1957 ء صفحہ 3 639 اگست 1957ء فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کی پیٹھ کے پیچھے ایک پہاڑی ٹیلہ ہے اس پر کچھ لوگ بیٹھے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ لوگ پیغامی ہیں اس وقت میرے دل میں خیال گزرا کہ پیغامیوں کے لئے تو خدا نے شکست رکھی ہے یہ ٹیلہ پر کیوں بیٹھے ہیں تب میں نے حضرت خلیفہ اول کو مخاطب کر کے یہی بات کہی کہ قرآن کے عین وسط میں تو لکھا
605 ہے کہ مسیح موعود اور آپ کی کچی جماعت بہت اونچی ہو جائے گی اور ٹیلہ پر تو پیغامی بیٹھے ہیں اس وقت مجھے خواب میں یہ یاد نہیں آیا کہ وسط قرآن میں کون سی سورتیں ہیں میں نے یوں ہی اشارہ بات کر دی اس پر حضرت خلیفہ اول نے کہا میاں تم نے ہی اس مسئلہ کے متعلق سوچا ہے تو تم ہی اس پر تقریر کرو اس کے بعد آنکھ کھل گئی.اور کئی دن میں سوچتا رہا کہ قرآن مجید کے وسط میں کونسا مضمون ہے جس سے میں نے استدلال کیا تھا لیکن خواب کا یہ حصہ ایسا بھولا کہ کسی طرح یاد نہ آتا تھا آخر ہیں دن کے بعد یہ خواب آئی اور میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ قرآن کے وسط میں سورۃ اسراء آتی ہے جس کے مضمون کے متعلق پرانے مفسرین کا خیال ہے کہ اس میں معراج کا ذکر ہے گو میں اس خیال سے متفق نہیں ہوں.ہاں یاد آیا کہ حضرت خلیفہ اول نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر یہ بھی خواب میں کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام اور آپ کی مخلص جماعت کے لئے اتنے اونچے جانے کی خبر دی گئی ہے یعنی آسمان تک بلند ہونے کی خبر ہے.الفضل 14.اگست 1957ء صفحہ 3 640 10 اگست 1957ء فرمایا : رویا میں دیکھا کہ میں قادیان میں ہوں اور ایک مکان کی چھت پر ہوں اس پر عزیزم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی ہیں میں نے ان کو خواب سنایا کہ میں نے دیکھا میں ایک جگہ پر بیٹھا ہوں اور کچھ احمدی آئے ہیں اور بطور تحفہ کچھ گنے اور کوئی اور چیز میرے آگے کر دیتے ہیں مگر خواب میں میں سمجھتا ہوں کہ یہ نذرانہ وہ مجھے نہیں دے رہے بلکہ جماعت کو دے رہے ہیں جیسے جلسہ کے موقع پر لوگ آنا وغیرہ لے کر آتے ہیں.اس وقت میرے پاس چوہدری محمد حسین صاحب مرحوم سیالکوٹی کی بیوی بیٹھی ہیں جن کے ایک لڑکے کا نام عزیز احمد ہے جو لاہور میں غالباًا سیشن جج ہیں اور ایک لڑکے کا نام چوہدری محمد عظیم ہے جو غالبا لا ہو ر میں تحصیل دار ہیں اور ایک لڑکے کا نام چوہدری رحمت اللہ ہے جو غالبا بحری فوج میں کمانڈر ہیں جب کوئی لا کر وہ گنوں والا تحفہ میرے پاس رکھتا ہے وہ خاتون کہتی ہیں آگے کر کے رکھو.اللہ مبارک کرے جب میں نے چوہدری صاحب کو دیکھا اور یہ خواب مجھے یاد آئی تو میں نے دل میں خیال کیا کہ گنے تو خواب میں برے ہوتے ہیں اس میں ہماری جماعت کے متعلق کوئی انداری پہلو ہے اس وقت یہ معلوم ہوتا 39
606 ہے کہ جس جگہ میں اور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کھڑے ہیں وہ مسجد مبارک کے پاس دوسرے کمرے کی چھت ہے جہاں مولوی محمد علی صاحب رہا کرتے تھے اس وقت مجھے خیال آیا کہ میں نیچے جا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ خواب بیان کروں چنانچہ میں نیچے گیا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود اور بعض اور احباب بیٹھے ہیں میں نے پہلے خواب بیان کی اور کہا گنے تو منذر معلوم ہوتے ہیں آپ نے فرمایا کہ گنوں کا انذار تو کم ہوتا ہے لیکن جو دوسرے نام تم نے دیکھے ہیں وہ بہت مبارک ہیں جیسے عزیز احمد محمد عظیم اور رحمت اللہ پس ان ناموں کی وجہ سے یہ خواب آخر مبشر ثابت ہو گی.افسوس ہے مجھے چوہدری عزیز احمد صاحب کی والدہ کا نام نہیں معلوم.اگر ان کا نام معلوم ہوتا اور مبشر ہو تا تو خواب اور بھی مبشر ہو جاتی اگر اس جلسہ پر وہ آئیں یا ان کا کوئی بیٹا آیا تو ان سے پوچھوں گا بہر حال خواب میں جماعت کے لئے تھوڑا سا انذاری پہلو ہے مگر بشارت بہت زیادہ ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا چوہدری محمد حسین صاحب مرحوم جن کی بیوہ کو میں نے دیکھا بڑے تبلیغ کرنے والے تھے اور سیالکوٹ کی جماعت کا بڑا حصہ ان کی وجہ سے اور بعض اور آدمیوں کی وجہ سے احمدی ہوا ہے.الفضل 14.اگست 1957ء صفحہ 3 641 غالباً اکتوبر 1957ء فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ زمین داروں کا ایک بہت بڑا گر وہ ہے وہ زمین دارایسے ہیں جو مربعوں کے مالک ہیں وہ راجہ علی محمد صاحب کے پاس آئے اور ان سے انہوں نے مصافحہ کیا اور پھر ایک طرف چلے گئے میں ان کو دیکھ کر کہتا ہوں کہ اب خدا تعالیٰ چاہے گا تو یہ 60 ہزار ہو جائیں گے اور ان میں سے ہر شخص سال میں ایک ایک سو روپیہ مساجد کے لئے دے تو 60 لاکھ روپیہ ہو جائے گا اور 60لاکھ سے ہیں مساجد بن سکتی ہے.اس رویا سے میں نے سمجھا کہ اب خدا تعالیٰ اپنے فضل سے زمین داروں میں ہماری جماعت پھیلانا چاہتا ہے اور وہ بھی ایسے زمین داروں میں جو کم سے کم ایک سو روپیہ مساجد کے لئے دے سکیں.الفضل 7.نومبر 1957ء صفحہ 3.نیز دیکھیں.الفضل 8.جنوری 1958ء صفحہ 6
607 642 اپریل 1958ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک مجلس ہے اور بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں میں ان میں بڑھتا چلا جاتا ہوں چلتے چلتے میں نے دیکھا کہ آگے قاضی ظہور الدین صاحب اکمل بیٹھے ہوئے ہیں اور میں ان کے پاس سے ہو کے گزرا ہوں میں نے اس کی یہ تشریح کی کہ الدِّينُ سے مراد اسلام ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ (ال عمران : (20) پس اس لحاظ سے ظہور الدین اکمل کے یہ معنے ہوں گے کہ ظہور الاسلام اکمل یعنی خدا تعالیٰ نے ارادہ کر لیا ہے کہ وہ اسلام کو دنیا میں کامل طور پر غالب کرے.یہ ایک بہت بڑی خوش خبری ہے الفضل 29 اپریل 1958ء صفحہ 2 643 اپریل 1958ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں ایک مجلس میں بیٹھا تقریر کر رہا ہوں ذہن میں تو نہیں مگر وہ ایسا ہی مجمع ہے جیسے عید کا مجمع ہوتا ہے اور میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ دیکھو گو اس وقت تلوار کا جہاد نہیں ہے مگر تبلیغ کا جہاد ہے جو تلوار کے جہاد سے زیادہ آسان ہے تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھو کہ انہوں نے ایمان لانے کے بعد ایسا اخلاص دکھایا کہ یا تو وہ اتنے بتوں کو پوجتے تھے کہ ہر دن میں ایک ایک بت آجاتا تھا اور یا پھر وہ توحید کا جھنڈا اٹھا کر دنیا میں نکل گئے اور اس کے کناروں تک پھیل گئے انہوں نے ایران فتح کیا، عرب فتح کیا، افغانستان فتح کیا اور پھر سندھ کے ذریعہ ہندوستان فتح کیا پھر مصر فتح کیا پھر تیونس اور مراکش فتح کیا پھر ہسپانیہ فتح کیا پھر تاریخوں سے ثابت ہے اور بعض آثار قدیمہ بھی ایسے ملے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ پھر مسلمانوں میں سے بعض جہازوں پر بیٹھ کر امریکہ چلے گئے جہاں اب تک بھی ایک پرانی مسجد باقی ہے اور کولمبس نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ میں نے جو امریکہ دریافت کیا ہے تو اس کی اصل تحریک تو مجھے ایک مسلمان بزرگ کی تحریر سے ہوئی ہے اس کا اشارہ حضرت محی الدین ابن عربی کی طرف تھا انہوں نے اپنی کتاب فتوحاتِ مکیّہ میں لکھا ہے کہ میں نے مغرب کی طرف دیکھا تو مجھے نظر آیا کہ اس سمندر کے پرے ایک اور ملک بھی ہے چنانچہ جب لوگوں نے کولمبس
608 پر اعتراض کیا اور بادشاہ نے اس کو روپیہ دینے سے انکار کر دیا اور کہا تجھے وہم ہو گیا ہے اور تو پاگل ہے تو اس نے کہا نہیں میں نے یہ بات ایسے لوگوں سے سنی ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتے یعنی مسلمانوں سے اور پھر انہوں نے بھی یہ بات اپنے ایک بہت بڑے بزرگ کے حوالہ سے کسی ہے اس لئے میں ضرور کامیاب ہوں گا اگر ناکام واپس آیا تو آپ کا اختیار ہے کہ جو چاہیں مجھے سزا دیں.آخر ملکہ نے اپنے زیور بیچ کر اس کے لئے روپیہ مہیا کیا پادری اس وقت اتنے احمق تھے کہ ایک پادری نے دربار میں تقریر کی کہ یہ تو پاگل ہو گیا ہے اور عیسائیت کے خلاف تقریریں کرتا ہے اس وقت پادریوں کا خیال تھا کہ زمین چپٹی ہے گول نہیں اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر زمین گول ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی علاقہ ایسا بھی ہے جہاں انسانوں کا سر نیچے ہوتا ہے اور ٹانگیں اوپر اور بارش بھی اوپر سے نیچے نہیں ہوتی بلکہ نیچے سے اوپر ہوتی ہے اولے بھی نیچے سے اوپر گرتے ہے اور یہ ساری حماقت کی باتیں ہیں لیکن آخر وہی کامیاب ہوا.غرض میں نے لوگوں سے کہا کہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ یا تو اتنے کمزور اور ناطاقت تھے کہ سارے عرب میں دس ایرانیوں یا دس رومیوں کا مقابلہ کرنے کی بھی طاقت نہیں تھی اور یا وہ دن آیا کہ وہ اسلام کے سیاہ جھنڈے ہاتھوں میں لے کر نکلے اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ابھی پندرہ سال کا عرصہ ہی گزرا تھا کہ مسلمان ہندوستان اور چین تک جا پہنچے تم کو بھی چاہئے کہ چھوٹے چھوٹے سیاہ جھنڈے بنا لو اور وقف جدید کے جو مجاہد ہیں وہ دنیا میں پھیل جائیں اور اسلام کا جھنڈا ہر جگہ گاڑ دیں یہاں تک کہ ساری دنیا میں اسلام کی حکومت قائم ہو جائے اور گو یہ حکومت سیاسی نہیں ہو گی بلکہ دینی اور مذہبی ہوگی کیونکہ یہ لوگ دوسروں کو پڑھائیں گے اور علاج معالجہ کریں گے اور دین سکھائیں گے مگر پھر بھی ان کے ذریعہ اسلام کا ایک نشان قائم رہے گا.الفضل 29.اپریل 21958 644 30 مئی 1958ء فرمایا : رویا میں دیکھا کہ ایک جگہ بہت سے لوگ بیٹھے ہیں اور میں انہیں مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ مختلف مذاہب میں جو خدا تعالیٰ کا تصور پایا جاتا ہے وہ تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں
609 { چنانچہ سب سے پہلے میں نے بدھ مذہب میں جو خدا تعالیٰ کا تصور پایا جاتا ہے وہ ان کے سامنے بیان کیا اور اس پر ایک تقریر کی صبح کے وقت میں نے اپنی اس رویا پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کے تصور کے الفاظ اختصار اً بولے گئے ہیں ورنہ اس سے مراد خد اتعالیٰ سے ملنے کا تصور تھا چنانچہ میں نے ان کے سامنے جو تقریر کی وہ یہ تھی کہ دیکھو مچھلی پانی میں رہتی ہے لیکن اس پانی پر جو سورج کی شعاعیں گرتی ہیں یا دریا میں بہنے والی ریت کے ذرات سے جو چمک پیدا ہوتی ہے وہ آہستہ آہستہ مچھلی پر ایسا اثر ڈالتی ہے کہ اس پر جانے پڑ جاتے ہیں در حقیقت یہ جانے اس لئے ہوتے ہیں کہ دیر تک اس پر ریت کی چمک اور سورج کی شعاعوں کا اثر ہو تا رہتا ہے اور آخر اس کے جسم پر بھی ویسی ہی چمک آجاتی ہے اگر سنہری ریت ہو تو یہ جانے سنہری بن جاتے ہیں چنانچہ کئی مچھلیوں پر میں نے خود سنہری رنگ کے جانے دیکھے ہیں بلکہ بعض دفعہ ان پر سات سات آٹھ آٹھ رنگ کے جانے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ تو ایسے نیلے رنگ کا چانہ ہوتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ فیروزہ ہے پھر میں کہتا ہوں دیکھو جسم پر جو ایک کثیف چیز ہے اگر اس اتصال کے نتیجہ میں دوسری چیزوں کا اثر قبول کر لیتا ہے تو روح جو ایک نہایت ہی لطیف چیز ہے وہ کیوں اثر قبول نہیں کرے گی پھر میں دوسرے مذاہب پر اسلام کی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ دیکھو مذ ہب نے صرف یہ بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ سے اتصال پیدا ہو سکتا ہے مگر اتصال پیدا کرنے کا طریق اس نے نہیں بتایا اور جو بتایا ہے وہ اتنا لمبا ہے کہ انسان کے لئے اس پر عمل ممکن نہیں وہ کہتے ہیں کہ بدھ ساٹھ سال تک اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لئے ایک جنگل میں بانس کے درخت کے نیچے بیٹھا رہا اور خدا تعالیٰ کی عبادت اور ذکر الہی میں اتنا محو ہوا کہ اس کے نیچے سے ایک درخت نکلا جو اس کے جسم کو چیرتا ہوا سر سے نکل گیا اور اسے پتہ تک نہ لگا اب یہ ایک لایعنی سی بات ہے جسے عقل قبول نہیں کر سکتی لیکن اسلام نے نہ صرف وصال الہی کا تصور بیان کیا ہے بلکہ وہ رستہ بھی بتایا ہے جس پر چل کر انسان خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے مثلا بدھ نے دعا کی قبولیت پر کوئی زور نہیں دیا صرف نروانا پر زور دیا ہے یعنی اس نے کہا ہے کہ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس کی تمام خواہشات کو نکال دے حالانکہ خدا تعالیٰ کے قرب کی خواہش بھی تو ایک خواہش ہے اگر خواہشات کو نکالے گا تو یہ خواہش کیسے باقی رہ سکتی ہے.الفضل 18 جون 1958ء صفحہ 2.نیز دیکھیں.تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ سوم صفحہ 384 - 383 وہ سب
610 645 اکتوبر 1958ء فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے امتہ الحی مرحومہ ربوہ آئی ہوئی ہیں اور اپنے ماموں زاد بھائی پیر مظہر حق صاحب کے گھر میں یا ان کے قریب ٹھری ہوئی ہیں مجھے پیر مظہر حق صاحب کی بیوی ملیں تو میں نے ان سے کہا کہ امتہ الحی سے کہہ دو کہ میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ تم میرے پاس آجاؤ مگر تم نے میری بات نہیں مانی اب میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ میرے ساتھ چلو ور نہ میں تم سے خفا ہو جاؤں گا.چونکہ قرآن کریم میں حَتَّی و قیوم صفات اکٹھی آئی ہیں اس لئے امتہ الھی نام میں زندگی کی طرف بھی اشارہ ہے اور قائم رکھنے کی طرف بھی اشارہ ہے پس خواب کی تعبیر کے لحاظ سے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ میری زندگی اور صحت میں بھی برکت دے اور کچھ مالی پریشانیاں جو ہیں ان کو بھی دور کردے.وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب الفضل 24 - اکتوبر 1958ء صفحہ 3 646 اکتوبر 1958ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ جیسے اہم ناصر مرحومہ آئی ہیں اور ایک سلیپر کی جوڑی ان کے ہاتھ میں ہے وہ انہوں نے میرے سامنے رکھی اور کہا کہ یہ آپ کو کہیں سے تحفہ آئی ہے کہ آپ یہ چوڑی مبارک احمد کو دے دیں خواب کے بعد میرے ذہن پر کچھ یہ بھی اثر ہوا کہ انہوں نے صدقہ دینے کے لئے کہا ہے اس رویا کے چند دن بعد ہی امریکہ سے ایک دوست نے سلیپروں کی ایک جوڑی تحفہ کے طور پر بھیجی اور میں نے خواب کے مطابق مبارک احمد کو دے دی لیکن گو وہ سلیپر تھے مگر ان کی شکل دیسی نہیں تھی جیسی ام ناصر نے میرے آگے جو تی رکھی تھی ام ناصر نے جو جوتی رکھی تھی وہ ایسی تھی جیسے پرانے زمانہ میں ہندوستان میں عورتوں کی جوتیاں ہوا کرتی تھیں اور اس پر کچھ کام بھی بنا ہوا تھا مگر خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ چند دنوں کے بعد ہی میرا بھتیجا مرزا مجید احمد افریقہ سے آیا تو وہ وہاں سے ایک خاص جوتی بنوا کر لایا جس کی بالکل وہی طرزہ تھی جو کہ پرانے زمانہ میں ہندوستانی عورتوں کی جوتی کی ہوا کرتی تھی اور جس کی ایڑھی دبی ہوئی ہوتی تھی.چنانچہ خواب کو پورا کرنے کے لئے وہ بھی میں نے مرزا مبارک احمد کو دے دی.
611 الفضل 24 اکتوبر 1958ء صفحہ 3 647 اکتوبر 1958ء فرمایا : میں ام ناصر کو دعا کے لئے کہہ رہا تھا کہ رات کو میں نے رویا میں دیکھا کہ ان کی سوتیلی والدہ جو ڈاکٹر رشید الدین صاحب کی دوسری بیوی تھیں آئی ہیں اور میرے سامنے بیٹھی ہیں ان کا نام مراد بیگم تھا.در حقیقت اس کی تعبیریہ بنتی ہے کہ جو میری مرادیں تھیں وہ پوری ہو گئیں مراد مطلع کا ترجمہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ایک دفعہ الہام ہوا تھا کہ ”محمد مفلح الفضل 24 - اکتوبر 1958ء صفحہ 3 648 اکتوبر 1958ء فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک بڑا اجتماع ہے اور اس میں میر محمد اسحاق صاحب بھی بیٹھے ہیں میں جماعت کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ مارشل فاش فرانس کا مارشل جو پہلی جرمن جنگ کا کمانڈر انچیف تھا جب وہ مرنے لگا تو اس نے کہا تھا کہ If France ever needs me let them call Ve_Guana یعنی اگر فرانس کو کبھی میری آئندہ ضرورت پیش آئے تو انہیں چاہئے کہ وہ ویگاں کو بلالیں دیگاں بھی ایک بڑا جرنیل تھا لیکن دوسری جرمن جنگ میں اس کو بلایا گیا اور وہ نہایت ناکام ثابت ہوا.میں رویا میں کہتا ہوں کہ اس نے تو ایک تک بندی کی تھی اور اس میں وہ ناکام رہا تھا لیکن میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ان پر کوئی مشکل آئے تو وہ میر محمد اسحاق صاحب کو بلالیں حالانکہ میر محمد اسحاق صاحب دیر ہوئی فوت ہو چکے ہیں پس اس کی تعبیر یہی معلوم ہوتی ہے کہ کسی زمانہ میں جماعت کی مشکلات کے وقت میر محمد اسحاق صاحب کی اولاد میں سے کوئی شخص سلسلہ کی بڑی شاندار خدمت کرے گا.الفضل 24.اکتوبر 1958ء صفحہ 3
612 649 1958 فرمایا : میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک کمرہ میں بیٹھا ہوا ہوں کہ کسی شخص نے ایک گیس پھینکی میں نے اس گیس کو سونگھ کر کہا کہ اس میں سے تو کلورین کی بو آرہی ہے اور پھر اس کا خیال کرتے ہی میں باہر کی طرف بھاگا ( آنکھ کھلنے کے بعد میں نے بعض سائنس دانوں سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ بے ہوش کرنے والی گیس بھی کلورین سے ہی بنتی ہے مگر میں نے جو خواب میں گیس دیکھی تھی وہ عارضی بے ہوش کرنے والی ہی تھی) اس کے بعد مجھ پر سے بھی اثر جاتا رہا.اس رویا سے بھی میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کرے گا کہ دشمن پر فوقیت بھی حاصل ہو جائے گی اور عام تباہی بھی نہیں آئے گی.الفضل 23.نومبر 1958ء صفحہ 3.نیز دیکھیں.تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ سوم 142 -141 650 دسمبر 1958ء فرمایا : میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے کسی نے خواجہ کمال الدین صاحب کو برا بھلا کہا مولوی محمد علی صاحب کو برا بھلا کہا ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو برا بھلا کہا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خاموش رہے لیکن جب اس نے شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم کو برا بھلا کہا تو آپ نے فرمایا.نہیں اس کو برا نہ کہو وہ تو بڑا مخلص انسان ہے.الفضل 30.جنوری 1959ء صفحہ 4 651 18.فروری 1959ء فرمایا : صبح کے وقت سے کچھ پہلے کشفی حالت میں ایک القاء محسوس ہو ا جسے میں نے کشف کی حالت میں ہی لکھنا شروع کر دیا مگر کشفی تحریر جاگتے وقت تک کس طرح محفوظ رہ سکتی تھی جب میری آنکھ کھلی تو وہ تحریر میرے ہاتھ میں نہیں تھی بہر حال اس القاء کی قریب قریب تفصیل یہ ہے.مجھے القاء ہوا کہ سائنس دان خیال کر رہے ہیں کہ وہ مذہب کو جھوٹا ثابت کر رہے ہیں
613 لیکن خدا بھی خاموش نہیں اس کے فرشتے بھی خاموش نہیں وہ دفاع کے لئے پوری طرح تیار ہیں جب وقت آئے گا اور حقیقت حال تجربات کا لباس مکمل طور پر پہن لے گی تو سائنس دانوں پر کھل جائے گا کہ وہ ایک ایسے جال میں پھنس گئے ہیں جو دو سروں کے لئے بن رہے تھے لیکن اس وقت وہ پیٹ بھرتے بھرتے کسی اور چیز کے بھرنے کے قریب پہنچ چکے ہوں گے اور اس وقت ندامت کوئی فائدہ نہیں دے گی اس کے بعد میں نے دیکھا کہ دشمنوں کا ایک رسالہ میرے ہاتھ میں ہے اس میں کوئی اعتراض سکھوں کی شہادت کی بناء پر کیا گیا ہے میں نے اس رسالہ کا جواب لکھوانا شروع کیا اور ایک سکھ جو میرے سامنے بیٹھا تھا اسے کہا کہ کیا ایسی شہادت آپ کے پاس موجود ہے اس نے کہا میرے پاس تو کوئی ایسی شہادت موجود نہیں.میں نے اسے کہا لکھ دیجئے کہ ایسی کوئی شہادت نہیں.اس نے کہا میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ایسی کوئی شہادت موجود نہیں مگر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایسی کوئی شہادت مجھے معلوم نہیں.اس پر میں نے اسے کہا کہ اچھا یہی لکھ دیجئے.اس پر اس نے آمادگی ظاہر کی تو میں نے اس سے وہی تحریر لے لی اور یہی بات میں نے اس رسالہ کے جواب میں لکھ دی.الفضل 22.فروری 1959ء صفحہ 1 652 اکتوبر 1959ء فرمایا : مجھے بھی ایک دفعہ خدا تعالیٰ کی طرف سے رویا میں دکھایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا نور ایک سفید پانی کی شکل میں دنیا میں پھیلنا شروع ہوا ہے یہاں تک کہ پھیلتے پھیلتے وہ دنیا کے گوشے گوشے اور اس کے کونے کونے تک پہنچ گیا.اس وقت میں نے بڑے زور سے کہا کہ احمدیوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتے ہوتے ایک زمانہ ایسا آئے گا.انسان یہ نہیں کہے گا اے میرے رب اے میرے رب! تو نے مجھے کیوں پیا سا چھوڑ دیا بلکہ وہ یہ کہے گا کہ اے میرے رب اے میرے رب تو نے مجھے سیراب کر دیا یہاں تک کہ تیرے فیضان کا پانی میرے دل کے کناروں سے اچھل کر بہنے لگا.الفضل 28.اکتوبر 1958ء صفحہ 4 653 25 نومبر 1959ء فرمایا : میں نے کشف میں دیکھا کہ نواب صاحب بہاول پور مجھ سے ملنے کے لئے آئے ہیں
614 اور بڑی دیر تک میرے پاس بیٹھے رہے ہیں کوئی گھنٹہ بھر کے بعد وہ اٹھ کر چلے گئے.بہاول پور کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں چاچڑاں شریف ہے جس میں نواب صاحب کے پیر حضرت خواجہ غلام فرید صاحب رہتے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم مصدقین میں سے تھے.اب بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہاول پور میں لوگوں کا رجحان احمدیت کی طرف بڑھ رہا ہے یہاں تک کہ نواب صاحب کے بعض عزیز بھی جماعت میں شامل ہو گئے ہیں غالبا یہ کشف بھی خدا تعالیٰ نے اس لئے دکھایا ہے نواب صاحب گھنٹہ بھر میرے پاس بیٹھ کر چلے گئے انگریزی حکومت کے زمانہ میں نواب صاحب بہاول پور شملہ میں مجھے ملا کرتے تھے اور چونکہ ان کے پیر حضرت مسیح موعود کے معتقد تھے اس لئے وہ میرا بڑا لحاظ کرتے تھے بعض دفعہ انہیں مشاعرہ میں بلایا جا تا تو میری موجودگی میں مجھ سے پہلے نہیں بیٹھتے تھے بلکہ منتظمین سے کہتے تھے کہ پہلے ان کو بٹھاؤ پھر میں بیٹھوں گا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کے علاقہ کو ترقی عطا فرمائے اور نواب صاحب کو تمام مشکلات سے نجات دے.یہ خاندان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب چچا کی اولاد میں سے ہے اور خلفاء بنو عباس سے اس کا تعلق ہے اس لئے یہ لوگ اب تک انہی کے ناموں پر اپنے شہروں کے نام رکھتے ہیں چنانچہ ہارون آبادان کا ایک پرانا شہر ہے جو خلیفہ ہارون الرشید کے نام پر ہے اس طرح صادق آباد غالبا حضرت امام جعفر صادق کے نام پر ہے کیونکہ حضرت عباس کا حضرت علی سے بھی رشتہ تھا اور وہ اس کا ادب ملحوظ رکھتے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمائی تو اس وقت مدینہ کے لوگوں سے حضرت عباس نے ہی گفتگو کی تھی اور انہوں نے انصار سے کہا تھا کہ تم میرے بھتیجے کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہو مگر یاد رکھو کہ اگر یہ تمہارے پاس گیا تو سارا عرب تمہارے مخالف ہو جائے گا پس پہلے اس کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کا عہد کرو اور پھر اسے ساتھ لے جاؤ چنانچہ مدینہ والوں نے اس کا اقرار کیا اور پھر ہمیشہ انہوں نے اس عہد کو نباہا.حضرت عباس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب کے بیٹے اور حضرت حمزہ اور ابو لہب کے بھائی تھے بہر حال یہ خاندان بنو عباس میں سے ہے اور چاچڑاں شریف وہ مقام ہے جس کے سجادہ نشین حضرت خواجہ غلام فرید صاحب حضرت مسیح موعود علیہ
615 الصلوۃ والسلام کے ابتدائی معتقدین میں سے تھے.حضرت خلیفہ اول ہمیں سنایا کرتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آتھم کے متعلق پیش گوئی کی اور وہ پیش گوئی کی شرط کے مطابق تو بہ کرنے اور عذاب سے ڈر جانے کی وجہ سے پیش گوئی کی میعاد میں نہ مرا تو ایک دن مجلس میں نواب صاحب بہاول پور نے مذاقاً کہا کہ مرزا صاحب نے جو پیش گوئی کی تھی وہ پوری نہ ہوئی اس پر خواجہ غلام فرید صاحب جوش میں آگئے اور کہنے لگے تم اسلام کے پہلوان کو جھوٹا کہتے ہو اور ایک عیسائی کی تائید کرتے ہو.مجھے تو آنقم کی لاش نظر آ رہی ہے چنانچہ مولوی غلام احمد صاحب اختر نے جو ریاست بہاول پور کے رہنے والے تھے بعد میں ان کی جو ڈائریاں شائع کیں ان میں حضرت مسیح موعود کی تصدیق موجود ہے بہاول پور میں برابر احمدیت کی ترقی ہوتی چلی گئی چنانچہ موجودہ نواب صاحب جن کو آج میں نے کشف میں دیکھا ہے انہوں نے بھی ہمیشہ مجھ سے تعلق رکھا ان کا مجھے کشف میں دکھایا جاتا اور گھنٹہ بھر انکا میرے پاس بیٹھنا جتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جلد اس علاقے کے لئے بھلائی کی صورت پیدا کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کوئی لغو کام نہیں کرتا ان کا کشفی حالت میں مجھے دکھایا جاتا اور پھر گھنٹہ بھر ان کا میرے ساتھ بیٹھنا بتاتا ہے کہ ضرور اس میں بہاول پور کی بھلائی ہے کیونکہ میرا نام محمود اور فارسی زبان کا ایک فقرہ ہے الہی عاقبت محمود باد" یعنی اے خدا اس کا انجام بخیر ہو میرے سسرال کے کئی لوگ بہاول پور میں کام کرتے رہے ہیں چنانچہ میرے بڑے بھائی بھی وہاں وزیر مال رہ چکے ہیں اور پچھلے چند سال میں تو اس علاقہ میں احمدیت کے حق میں بڑی حرکت رہی ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس علاقہ کو خیر اور برکت کے لئے چن لیا ہے اور مجھے اس کشف کا دکھایا جانا ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اس علاقہ پر اور اس علاقہ کے رئیس اور اس کے خاندان پر انشاء اللہ نازل ہوں گی.الفضل یکم دسمبر 1959 ء صفحہ 3 654 14.مارچ 1960ء فرمایا : خواب میں دیکھا کہ اذان ہو رہی ہے لیکن خواب میں آواز آئی تو اس وقت میری زبان پر یہ الفاظ قرآن مجید کے متعلق جاری ہوئے "عاقلاں را پیر کامل جاہلاں را رہنما اور میں نے دیکھا کہ میری آواز کے ساتھ اور لوگوں کی آواز مل کر ساری دنیا میں اس آواز کو پہنچا رہی
616 ہے غالباوہ سکھ تھے.آنکھ کھلی تو اذان ہو رہی تھی.الفضل 18.مارچ 1960ء صفحہ1 655 ومبر 1960ء فرمایا : میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر سے نکلا ہوں اور میرا خیال ہے کہ میں اپنے لئے کوئی مکان تلاش کروں جب میں باہر آیا تو میں نے دیکھا کہ ماسٹر محمد ابراہیم صاحب جمونی کھڑے ہیں اور لوگ ان کے پاس مکانوں کے لئے آتے جاتے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے پاس مکان ہیں انہوں نے وہ مکان انتظام کے لئے ان کے سپرد کئے ہوئے ہیں اور وہ آگے دو سروں کو دیتے ہیں میں نے بھی ان سے ذکر کیا کہ مجھے اپنے لئے مکان کی ضرورت ہے انہوں نے مجھے ایک مکان دکھایا جس کے چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں مگر ان کمروں پر چھت نہیں اور کمروں کی دیواروں پر چھوٹے چھوٹے کپڑے لٹکے ہوئے ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کپڑے کیسے ہیں انہوں نے کہا چونکہ ان کمروں پر چھت نہیں اس لئے دھوپ کے وقت انہیں اوپر ڈال لیا جاتا ہے میں اس وقت اپنے دل میں خیال کرتا ہوں کہ یہ کمرے بے شک چھوٹے ہیں لیکن ہمارے کمرے تو اس سے بھی چھوٹے تھے اس وقت مجھے ربوہ کے وہ کچے مکان یاد آتے ہیں جن میں ہم پہلے رہائش رکھتے تھے لیکن ساتھ ہی میں کہتا ہوں کہ وہ کمرے روشن زیادہ تھے پھر میں کہتا ہوں وہ کمرے اس لئے روشن تھے کہ ان پر گیری کا سرخ رنگ لگا کر انہیں خوب چمکایا گیا تھا اور اندر سفیدی کی گئی تھی جب ان پر بھی رنگ کیا جائے گا اور اند رسفیدی ہو جائے گی تو یہ بھی روشن ہو جائیں گے اس کے بعد میں نے کسی کو کہتے سنا کہ.جو قوم ہجرت کے لئے تیار رہتی ہے اور نو آبادی کا شعرت سے اشتیاق رکھتی ہے وہ کبھی تباہ نہیں ہوتی" جب میں نے یہ سنا تو مجھے خیال آیا کہ ہجرت کے لئے تیار رہنے کے یہ معنے نہیں کہ وہ ہجرت پر خوش ہوتے ہیں یا ہجرت کی اپنے دلوں میں خواہش رکھتے ہیں چنانچہ خواب میں ہی مجھے صحابہ کا خیال آیا کہ انہیں بھی ہجرت کرنی پڑی تھی مگر حدیثوں میں آتا ہے کہ مدینہ آکر بعض صحابہ مکہ کی یاد میں رویا کرتے تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے خوشی سے نہیں بلکہ حالت کی مجبوری کی وجہ سے ہجرت کی تھی پس جب اس نے یہ کہا کہ جو قوم ہجرت کے لئے تیار رہتی ہے
617 اور نو آباد کاری کا شدت سے اشتیاق رکھتی ہے وہ کبھی تباہ نہیں ہوتی تو میں خواب میں اس کے جواب میں کہتا ہوں.ہجرت تو وہ مجبوری سے کرتے ہیں مگر بعد میں ہجرت پر وہ رضا بالقضاء کا جو نمونہ دکھاتے ہیں وہ بتاتا ہے کہ وہ ہجرت کے لئے تیار تھے پس تیاری کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہجرت ہو بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اگر ہجرت کا وقت آئے تو وہ رضا بالقضاء کا نمونہ دکھاتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو فور آدوسری جگہ آباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں.تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ سوم صفحہ 364
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ضمیمه رو یا کشوف سیّد نا محمود 7- اپریل 1912ء 17 فرمایا: مجھے راستہ میں ایک الہام ہوا ہے: اِنَّكَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ - احكام می ۱۹۱۲ء 17 نمبر 13 جلد 16 4- اگست 1920ء فرمایا: آج رات میں نے ایک علمی رؤیا دیکھی ہے اور اس سے پہلے اس قسم کی چار رؤیا دیکھی ہیں.-1 ایک خلافت کے متعلق.- دوسری لولا النبض لقضى الحبض - +- تیسری الحمد کی تفسیر کے متعلق.-۴- چوتھی خواجہ کے متعلق.آج رات کو میں نے دیکھا کہ شعور کے متعلق مجھے سمجھایا گیا ہے اور میں اسے آگے بیان کر رہا ہوں اور نہایت لطف اور حظ اُٹھا رہا ہوں.میں بیان کر رہا ہوں کہ شعور کے مختلف مدارج ہیں اور اس بات کے بیان کرنے میں اسلام کو دوسرے مذاہب پر خاص فوقیت ہے اور ہر درجہ شعور کے متعلق جو عمر کے ساتھ ساتھ پیدا ہوتا ہے مناسب تعلیم اور احکام دیئے ہیں.میں ان مدارج کو اوپر سے نیچے کی طرف بیان کر رہا ہوں.مثلاً انسانی عمر کے ساتویں سال میں بھی ایک تبدیلی واقع ہوتی ہے.اس تبدیلی کے وقت شریعت اسلام نے حکم دیا ہے کہ بچے کو نماز پڑھائی جائے کیونکہ عمر انسانی کا یہ حصہ اخلاق اور عادات کے حصول کے لئے نہایت مناسب اور موزوں ہوتا ہے اور دراصل یہی وقت ہوتا ہے کہ جس میں اخلاق کی بنیا درکھی جاسکتی ہے.
اس سے نیچے اتر کر پیدائش کا وقت ہے.اس وقت بھی انسان میں ایک شعور پیدا ہوتا ہے اور وہ ایک نئی دنیا میں آتا ہے.یعنی نباتی زندگی سے نکل کر وہ ایسی زندگی میں آتا ہے کہ جب اُس کے اعضاء میں حرکت پیدا ہوتی ہے اور وہ بیرونی اثرات سے متاثر ہو کر اپنے آپ کو پھیلانا چاہتا ہے.اُس وقت شریعت غراء اسلام نے حکم دیا ہے کہ بچے کے کان میں آذان کہی جائے.سلسلہ تقریر کے اس حصہ کے بیان کے بعد آنکھ کھل گئی اور ان دو مدارج کے اوپر کے مدارج مجھے یاد نہیں رہے لیکن اسی طرح بلوغت اور بڑھاپے کے متعلق قیاس کیا جا سکتا ہے اور اس مضمون پر نہایت لطیف پیرایہ میں غور کیا جا سکتا ہے مثلاً بڑھاپے کے متعلق قرآن شریف کی اس آیت سے لِكَيْلا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا ایک شعور کی تبدیلی کا پتہ چلتا ہے اور لطیف استدلال کیا جا سکتا ہے.الحکم 7 - اگست 1920 ءجلد 23 نمبر 27