RoshniKaSafar

RoshniKaSafar

روشنی کا سفر

دور حضرت مسیح موعود ؑ کی  ۱۰۰ تاریخی جھلکیاں
Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیفات کے مجموعہ روحانی خزائن، تاریخ احمدیت کی جلدوں اور کتاب حیات طیبہ سے ماخوذ مختصر واقعات سے مزین اس کتاب میں زمانہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے 100ا ہم واقعات کا انتخاب پیش کیا گیا ہے۔ الغرض یہاں مؤلف نے13 فروری 1835ء سے لیکر مئی 1908ء کے تاریخ ساز واقعات کا انتخاب بہت خوبصورتی سے جمع کردیا ہے۔


Book Content

Page 1

روشنی کا سفر دور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی 100 تاریخی جھلکیاں

Page 2

1 پہلی کرن.(13 فروری 1835ء) حضرت مسیح موعود کا سیالکوٹ میں قیام.(1864) والدہ کی وفات اور آپ کا صبر.(1868) بیت اقصی کی تعمیر.( جون 1876) آپ کے والد ماجد کا انتقال.( جون 1876) الیس الله بکاف عبدہ.(1876) حضور کے خلاف پہلا مقدمہ.(1877) له 2 3 4 50 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 براہین احمدیہ کی اشاعت.(1880) حیرت انگیز شفاء کا نشان.(1880) ماموریت کا پہلا الہام ہوتا ہے.(1882) بیت مبارک کی تعمیر.(1883 ) مرزا غلام قادر صاحب کا وصال.(1883) سفر لدھیانہ.(1884) حضور کی دوسری شادی.(17 نومبر 1884) ماموریت کا دعویٰ اور نشان نمائی کی عالمگیر دعوت.(1885) سرخی کے چھینٹوں کا نشان.( 10 جولائی 1885) آسمان کی گواہی.(28 نومبر 1885) سفر ہوشیار پور.(جنوری 1886) 19 پیشگوئی حضرت مصلح موعود.( 20 فروری 1886) 20 حضور کی تبلیغ سے ایک امریکن کا قبول حق.21 اللہ تعالی کی ایک قہری تجلی کا اظہار.22 لدھیانہ میں پہلی بیعت لی جاتی ہے.(23 مارچ 1889) 23 دس شرائط بیعت.24 آپ کا مسیح موعود ہونے کا دعوی.(1890 ) 25 26 دل بدلے جاتے ہیں.محمد حسین بٹالوی سے مباحثہ.(1891) 27 آپ کے قتل کے منصوبے.(1891) 28 بیت الذکر کا فیصلہ ہوتا ہے.

Page 3

29 جلسہ سالانہ کا آغاز.(دسمبر 1891) 30 حضور کی لاہور میں تشریف آوری.(1892) 31 مکفر علماء کومباہلے کی دعوت.(1892) 32 آئینہ کمالات اسلام شائع ہوتی ہے.(1893) 33 عربی و فارسی نعتیہ قصیدہ.(1893) 34 ملکہ وکٹوریہ کو دعوت حق.35 حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ولادت.( 20 اپریل 1893) 36 حضرت مولوی نور الدین صاحب کی قادیان میں مستقل رہائش.(1893) 37 جنگ مقدس.(1893) 38 سورج اور چاند گرہن کا نشان.(1894) 39 پادری عبد اللہ آتھم کا انجام.40 قادیان میں لنگر خانہ پر لیس اور لائبریری.(1895) 41 حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی ولادت.(1895) 42 منن الرحمان کی تالیف.(1895) 43 بابا نانک کے مسلمان ہونے کا انکشاف.(1895) 44 جلسه مذاہب عالم میں عظیم الشان فتح.(1896) 45 حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ.(2) مارچ 1897) 46 پنڈت لیکھرام کا عبرتناک انجام.( 5 مارچ 1897) 47 48 49 محمود کی آمین.( جون 1897 ) حضور کے خلاف قتل کا مقدمہ (1897) جماعت احمدیہ کا پہلا اخبار.(8اکتوبر 1897) 50 قادیان میں مدرسہ تعلیم الاسلام کا قیام.( 3 جنوری 1898) 51 حضرت مسیح موعود کا فوٹو.52 53 مسیح ہندوستان میں.(1899ء) مقدمہ دیوار.54 خطبہ الہامیہ کا نشان.(11اپریل1900) 55 پادری لیفر ا ئے کا مقابلے سے فرار.(1900) 56 مينارة اصیح.(1900-1903) 57 جماعت کا نام فرقہ احمد یہ رکھا جاتا ہے.(1901) 58 دوسروں کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت.مجلس تشخحیذ الا ذہان.(1900) 359 60 کابل میں پہلے احمدی کی شہادت.(1901) 61 حضرت اقدس کی کتابوں کے امتحان کی تحریک.(9 ستمبر 1901) 62 نشریات کی دنیا میں پہلا قدم.( نومبر 1901)

Page 4

63 رسالہ ریویو آف ریلیجنز.( جنوری 1902) 64 جماعتی چندوں کا مستقل نظام.(5 مارچ 1902) کشتی نوح اور احمدیوں کی طاعون سے حفاظت.( 5 اکتوبر 1902) 65 66 اخبار ” البدر“.( 31 اکتوبر 1902) 67 ڈاکٹر ڈوئی کا عبرت ناک انجام.68 بيت الدعا کی تعمیر ہوتی ہے.( 13 مارچ 1903) 69 حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت.( 14 جولائی 1903) 70 احمدیت کے غلبے کی ایک عظیم الشان پیشگوئی.71 وخت کرام.( 25 جون 1904) 72 زلزلے کا ایک دھکہ.73 جنگ عظیم کے بارہ میں پیشگوئی.(1905) 74 مدرسہ احمدیہ کا آغار (1906-1905) 75 نظام خلافت کی پیشگوئی.76 بہشتی مقبرہ کا قیام اور پہلی تدفین.( دسمبر 1905) 77 صدر انجمن احمدیہ کا قیام.(1906) 78 | تزلزل در ایوان کسری فتاد حقیقۃ الوحی.79 "Sorry Nothing can be Done for Abdul Karim" 80 چشمہ مسیحی کی تصنیف.(1906) قادیان کے آریہ اور ہم.(1907) 81 82 83 حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات.(16 ستمبر 1907) 84 وقف زندگی کی تحریک.(ستمبر 1907) 85 آریہ سماج لا ہور کی مذہبی کا نفرنس کیلئے حضور کا مضمون.( دسمبر 1907) 86 حضور کی زندگی کا آخری جلسہ سالانہ.(دسمبر 1907) 87 بابا گرونانک کے مسلمان ہونے کی ایک اور گواہی.(1908) 88 حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا نکاح.(17 فروری 1908) 89 ایک امریکن سیاح کی قادیان آمد (17اپریل 1908) حضرت اقدس کا آخری سفر لا ہور.(27 اپریل 1908 ) 90 91 لاہور کے روساء کو دعوت حق.(17) مئی 1908) 2 پیغام صلح کی تصنیف.(25 مئی 1908) 93 حضرت مسیح موعود کی وفات.(26 مئی 1908) 94 اشک بار آنکھیں غمگین دل.95 حضور کے گھر کے افراد کا بے مثال صبر.96 جد مبارک.لاہور سے قادیان.

Page 5

97 ایک حیرت انگیز واقعہ 98 روشنی کی نئی کرن قدرت ثانیہ کا انتخاب.(27 مئی 1908) 99 مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے.( تدفین ) 100 حضور کی خدمات کے بارے میں غیروں کا اعتراف حق.

Page 6

پیش لفظ تاریکیاں بہت گہری ہو چکی تھیں.ظلمتوں کے ایک طویل سلسلے کے بعد اب وہ وقت نزدیک تھا کہ سپیدہ سحر نمودار ہو.کیونکہ صدیوں کے اندھیروں کو روشنی میں بدلنا چھوٹے چھوٹے چراغوں کے بس سے باہر تھا.13 فروری 1835 ء کا تاریخی دن روشنی کا پیغام لے کر طلوع ہوا.ایک ایسی روشنی جو تاریکیوں کو اجالوں میں اور ظلمتوں کو نور میں بدلنے کے لئے آئی تھی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اس دور کے لئے ایک بہت بڑی نعمت اور انعام تھا جس کا فیض آج بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا.ہم بہت خوش نصیب ہیں کہ ہم اس دور میں پیدا ہوئے جو ایک روشن دور کا آغاز اور ارتقاء ہے.یہ نور بڑھ رہا ہے اور پھل پھول رہا ہے اور تمام عالم کو منور کرنے کے لئے آگے سے آگے بڑھتا چلا جارہا ہے.سالوں کی دھوپ چھاؤں اور صدیوں کے سنگم اس بات پر گواہ ہیں کہ یہ سلسلہ ہرلمحہ ہر آن آگے سے آگے بڑھتا جارہا ہے.تاریکیوں کے علمبرداروں کی پیہم مہم جوئی کے باوجود ہر آنے والا دن اس روشنی کو بڑھا رہا ہے.اور کوئی نہیں جو اس نور کا راستہ روک سکے.اور روک بھی کیسے سکتا ہے کہ قدرت اور فطرت نے تاریکی کو یہ طاقت ہی نہیں دی کہ وہ نور پر غالب آ سکے.اس کے مقدر میں تو نور کے آتے ہی بھاگ جانا لکھا ہے.یہ سلسلہ واقعات ایک ادنی سی کوشش ہے اُن واقعات کی جھلکیاں پیش کرنے کی جو ہمارے آقا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں پیش آئے اور جنہوں نے حالات کا رخ موڑ کر رکھ دیا.یہ کوشش ہے اپنی نئی نسل کو یہ بتانے کی کہ جس وجود کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں اس نے کس طرح مشکل حالات کے باوجود اپنے کام کو مکمل کیا وہ نہ تھکا نہ ماندہ ہوا بلکہ ہمیشہ قدم آگے سے آگے بڑھاتا چلا گیا.یہ واقعات ہماری تاریخ ہیں.ہماری بنیاد ہیں ہمارا سرمایہ ہیں.اور بلاشبہ ہمیں ان پر فخر ہے.اور ان سے محبت ہے.اور سب سے بڑی بات جس پر خدا تعالیٰ کا بے انتہا شکر واجب ہے وہ یہ ہے کہ ہم کوئی ایسی قوم نہیں جنہیں صرف اپنے ماضی پر فخر ہو بلکہ نور کا وہ سلسلہ جو حضرت مسیح موعود کے وجود سے جاری ہوا ہے وہ آج خلافت احمدیہ کی صورت میں ہمارے ساتھ ہے اور یوں یہ روشنی ہمارے لئے دائمی ہو چکی ہے.کتاب میں چونکہ اختصار لوظ تھا اس لئے عین ممکن ہے کہ بعض مقامات پر تشنگی کا احساس ہو.ایسی صورت میں روحانی خزائن تاریخ احمدیت اور حیات طیبہ سے واقعات کی تفصیل ملاحظہ کی جاسکتی ہے کیونکہ بیشتر موادا نہی تین ذرائع سے ماخوذ ہے.

Page 7

ا.پہلی کرن حضرت اقدس حضرت مرزا غلام احمد قادیانی" بانی سلسلہ احمدیہ 14 شوال 1250ھ بمطابق 13 فروری 1835ءکو جمعہ کے دن فجر کے وقت قادیان ضلع گورداسپور بھارت میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام مرزا غلام مرتضی صاحب اور والدہ کا نام محترمہ چراغ بی بی تھا.آپ بچپن سے ہی نہایت نیک طبیعت کے مالک تھے.آپ کی طبیعت میں ایسی نیکی تھی کہ دیکھنے والا اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا.چنانچہ آپ کے ہم عمر بھی اور عمر میں آپ سے بڑے لوگ بھی ہمیشہ اس بات کی گواہی دیتے تھے کہ آپ کا بچپن دنیا دارلوگوں سے سراسر مختلف تھا.آپ کے والد آپ کی دینداری دیکھ کر فرماتے تھے کہ ہمارے گھر میں ایک ولی پیدا ہوا ہے.نیز کہا کرتے تھے کہ یہ شخص زمینی نہیں آسمانی ہے.یہ آدمی نہیں فرشتہ ہے.(تذکرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ 302) جوں جوں آپ بڑے ہوتے گئے.آپ کی یہ نیکی اور زیادہ نکھرتی چلی گئی اور اللہ تعالی نے آپ کو اس عظیم منصب پر فائز فرمایا جو آنحضرت کی غلامی میں ایک اعلیٰ ترین امامت کا منصب تھا.وہ آیا منتظر تھے جس کے دن رات معمہ کھل گیا روشن ہوئی بات (در مشین) -۲ حضرت مسیح موعود کا سیالکوٹ میں قیام آپ کے والد کی دلی خواہش تھی کہ کسی طرح اپنی زندگی میں آپ کو برسر روزگار دیکھیں.ان کا پیار اس بات کا تقاضا کرتا تھا کہ ان کی وفات کے بعد آپ کو کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے.اسی بناء پر انہوں نے حضرت مسیح موعود کو سیالکوٹ میں ملازم کروا دیا.یہ 1864ء کی بات ہے جب آپ سیالکوٹ تشریف لے گئے اور ملازمت کا آغاز کیا.آپ نے والد کی خواہش کے احترام میں نوکری شروع تو کر دی تھی لیکن دنیا داری کے جھمیلوں سے نفرت کی وجہ سے یہ وقت آپ کے لئے بہت کٹھن تھا.تا ہم آپ نے یہاں بھی اپنے دینی معمولات ترک نہ کئے.اور ان تمام عیبوں سے بچے رہے جو ملازمتوں میں موجود ہوتے ہیں.یہی وجہ تھی کہ آپ بڑی دلیری سے دین حق کی صداقت اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عظمت کے بارے میں اپنے افسروں تک سے بھی

Page 8

بحثیں کر لیا کرتے تھے.ایک ہندو افسر پنڈت سج رام اپنی بد بختی کی وجہ سے اکثر آنحضرت اور دین حق کے خلاف زبانِ طعن دراز کیا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود اس کی بدزبانی سن کر ایک دلیر مجاہد کی طرح ڈٹ کر اسے جواب دیتے اور زبر دست دلائل کے ذریعے سے اسے عاجز کر دیتے.یہ حالت دیکھ کر وہ آپ پر غیر ضروری سختی کرتا اور تنگ کرنے کی کوشش کرتا لیکن آپ ہر مصیبت سے بے نیاز دین کے دفاع میں ہمیشہ مستعد رہتے اور افسر کی مخالفت کی کچھ بھی پرواہ نہ کرتے.دفتری فرائض کی انجام دہی کے بعد آپ کا اکثر وقت تلاوت قرآن مجید عبادات شب بیداری، خدمت خلق اور تبلیغ میں گزرتا تھا.ظہور حسد سنو عون دشمنوں کی د میدم ہے پشت ہے وقت توحید اتم ہے مائل ملک عدم ہے (در شین) شمس العلماء مولانا سید میرحسن صاحب بیان کرتے ہیں.حضرت مرزا صاحب 1864ء میں بتقریب ملازمت شہر سیالکوٹ میں تشریف لائے اور قیام فرمایا.آپ عزلت پسند اور پارسا اور فضول ولغو سے مجتنب اور محترز تھے...کچہری سے جب تشریف لاتے تھے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے.بیٹھ کر کھڑے ہو کر ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے اور زار زار رویا کرتے تھے.66 (بحوالہ حیات طیبہ صفحہ 22 تا 25) ۳.والدہ کی وفات اور آپ کا صبر سیالکوٹ کی ملازمت میں آپ نے چار سال کا وقت گزارا.یہ جدائی آپ کے والدین پر بھی گراں تھی اس لئے 1868ء میں آپ کی والدہ حضرت چراغ بی بی صاحبہ کی تشویشناک علالت کی وجہ سے آپ کے والد نے ملازمت سے استعفیٰ دے کر واپس قادیان آنے کا ارشاد فرمایا.حضرت مسیح موعود نے والد کے اس حکم پر لبیک کہا اور فوراً استعفیٰ دے کر قادیان کی طرف روانہ

Page 9

ہو گئے.امرتسر پہنچے تو قادیان جانے کیلئے آپ نے ایک یکہ کرائے پر حاصل کیا.ابھی آپ چلنے کی تیاری ہی کر رہے تھے کہ قادیان سے ایک اور آدمی آپ کو لینے کے لئے امرتسر پہنچ گیا اور یکہ والے سے جلد از جلد قادیان پہنچنے کو کہنے لگا.اس شخص نے جب بار بار جلدی چلنے کو کہا اور بتایا کہ والدہ کی حالت بہت نازک ہے تو آپ سمجھ گئے کہ آپ کی مہربان والدہ کا انتقال ہو گیا ہے.حضور نے اس شخص سے کہا کہ تم اصل واقعہ کیوں بیان نہیں کرتے ؟ تب اس شخص نے بتایا کہ والدہ صاحبہ فوت ہو چکی ہیں اور اچانک صدمے کے خیال سے آپ کو ایک دم خبر نہیں کی گئی.(بحوالہ سیرۃ المہدی حصہ اوّل صفحہ 35-34) حضرت مسیح موعود نے جب یہ سنا تو خدا تعالیٰ کی رضا پر پورے حوصلے سے راضی رہے.اور شدید غم کے باوجود صبر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا.حضرت چراغ بی بی صاحبہ کا مزار مبارک حضور کے قدیم خاندانی قبرستان میں موجود ہے جو قادیان کے مغرب میں مقامی عید گاہ کے پاس واقع ہے.۴.بیت اقصیٰ.قادیان حضرت مسیح موعود کی عظیم دینی مہمات میں مدد کیلئے اللہ تعالیٰ نے 1875ء میں آپ کے والد محترم کے دل میں یہ خیال پیدا کیا کہ تمام عمر دنیا کے کاموں میں صرف کی ہے.اب کوئی دینی خدمت بھی کی جائے.چنانچہ انہوں نے قادیان میں ایک بڑی بیت الذکر تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا.اور قصبے کے وسط میں ایک جگہ کا انتخاب کیا اور بڑے اخلاص کے ساتھ سات سورو پیادا کر کے بیت الذکرکی تعمیر کیلئے جگہ خرید لی.یوں تعمیر کا کام شروع ہو گیا.گاؤں میں چونکہ پہلے بھی کئی بیسوت الذکر موجود تھیں اور بیان سب سے بڑی بنائی جارہی تھی اس لئے اس وقت ایک شخص نے اعتراض کیا کہ اتنی بڑی بیت الذکر کی کیا ضرورت ہے؟ کس نے نماز پڑھنی ہے.اس میں تو چمگادڑ ہی رہا کرینگے.وہ شخص ظاہری حالات کو دیکھ کر یہ بات کہہ رہا تھا لیکن در حقیقت یہ کام خدائی تحریک کے ماتحت ایک عظیم مقصد کیلئے ہورہا تھا.چنانچہ 1875ء میں مرزا غلام مرتضی صاحب نے اس بیت الذکر کا سنگ بنیاد رکھا اور جون 1876ء میں یکمل ہوگئی.بعد ازاں مرز انظام مرتضی صاحب کی وفات کے بعد آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو اس کے صحن میں دفن بھی کیا گیا.۵.آپ کے والد ماجد کا انتقال حضرت مسیح موعود کے والد حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب جون 1876ء میں انتقال فرما گئے.حضور ان دنوں ایک مقدمہ کے سلسلے میں لاہور میں تھے کہ خواب میں آپ کو بتایا گیا کہ والد صاحب کی وفات کا وقت نزدیک ہے اس لئے جلد قا دیان

Page 10

پہنچنا چاہئے.چنانچہ آپ فورا لا ہور سے قادیان پہنچ گئے اور والد صاحب سے ملاقات کی.اس وقت ان کی حالت کچھ سنبھل چکی تھی لیکن بیماری ابھی جاری تھی.دوسرے روز آپ اپنے والد صاحب کی خدمت میں حاضر تھے کہ انہوں نے آپ کی بے آرامی کو محسوس کر کے آپ سے آرام کرنے کا ارشاد فرمایا.آپ ان کے ارشاد کی تعمیل میں آرام کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور اسی دوران تھوڑی سی غنودگی ہو کر آپ کو الہام ہوا کہ "والسماء والطارق، قسم ہے آسمان کی جو قضاء وقدر کا منبع ہے اور قسم ہے اس حادثہ کی جو آج آفتاب کے غروب کے بعد واقع ہوگا.اس الہام کے نتیجے میں آپ سمجھ گئے کہ آج والد صاحب وفات پا جائیں گے.اور پھر ایسا ہی ہوا اور الہام کے مطابق اس روز حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب وفات پاگئے.ان کی وصیت کے مطابق انہیں بہت اقصیٰ کے صحن میں جو حال ہی میں مکمل ہوئی تھی دفن کیا گیا.وفات کے وقت آپ کی عمر 80 سال کے قریب تھی.( بحوالہ کتاب البریہ روحانی خزائن جلد نمبر 13 صفحہ 191 حاشیہ) ۶.الیس الله بکاف عبده جس وقت اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام حضرت مسیح موعود کو آپ کے والد کی وفات کی خبر دی تو بشریت کے تقاضوں کی وجہ سے طبعاً آپ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ والد صاحب کی وفات کے بعد آمدنی کا کیا ذریعہ ہوگا اور کس طرح گزر بسر ہوگی.تب اُسی وقت آپکو دوبارہ غنودگی ہوئی اور بڑی شان کے ساتھ یہ الہام ہوا.الیس الله بکاف عبده یعنی کیا خدا اپنے بندے کیلئے کافی نہیں ہے؟ اس الہام نے آپ کی سب پریشانی دور کردی.(ماخوذ از کتاب البریہ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ نمبر 195-194 حاشیہ) آپ نے اسی وقت ایک ہندو شخص لالہ ملا وامل کو سب بات بتا کر امرتسر میں حکیم محمد شریف صاحب کی طرف بھجوایا تا کہ وہ ان کے ذریعے سے یہ الہامی الفاظ کسی نگینے پر لکھوا کر انگوٹھی بنوا لا ئیں.چنانچہ لالہ ملا وامل صاحب امرتسر گئے اور پانچ روپے میں یہ انگوٹھی بنوا کر لے آئے.یوں یہ ہندو دوست اور حکیم محمد شریف صاحب اس عظیم نشان کے گواہ بن گئے.اور دنیا نے دیکھا کہ والد کی وفات کے بعد باپ سے بڑھ کر پیار کرنے والے خدا نے ہر لحہ آپ کی کفالت کی جیسا کہ حضور خود اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں:.ہیں.ابتداء سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار آج جماعت میں ایسی انگوٹھیاں عام طور پر رائج ہیں جو اس الہام اور حضوڑ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے خاص سلوک کی یاد دلاتی

Page 11

ے.حضور علیہ السلام کے خلاف پہلا مقدمہ حضرت مسیح موعود پر پہلا مقدمہ 1877ء میں ہوا.یہ مقدمہ امرتسر کے ایک پریس کے عیسائی مالک ڈلیا رام کی طرف سے آپ کے خلاف کیا گیا تھا.آپ جو ایک لمبے عرصے سے دین حق کے ایک عظیم مجاہد کے طور قلمی خدمات سرانجام دے رہے تھے یہ بات مخالفین کی نگاہوں میں بہت کھٹک رہی تھی.چنانچہ 1877ء میں آپ نے دین حق کی تائید میں ایک مضمون اشاعت کیلئے امرتسر کے ایک پریس کو روانہ کیا.اور ساتھ مضمون کے متعلق ایک خط پیکٹ میں رکھ دیا.پریس کا مالک جو ایک انتہا پسند عیسائی تھا.اس نے یہ موقعہ غنیمت جانا اور اس بات کو بنیاد بنا کر کہ قانون کی رو سے کسی علیحدہ خط کا ایسے اشاعتی پیکٹ میں رکھنا جرم ہے آپ کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا اور گورداسپور میں اس مقدمہ کی کاروائی شروع ہوئی.کیونکہ محکمہ ڈاک خانہ کے قواعد کی رو سے ایسا کرنا واقعی جرم تھا اور ممکن نہیں کہ اس پر سزا نہ ہو.اس لئے حضور کے وکیل شیخ علی احمد صاحب نے دیگر وکلاء سے مشورے کے بعد یہ رائے دی کہ حضور عدالت میں یہ بیان دے دیں کہ یہ خط ہم نے پیکٹ میں نہیں رکھا بلکہ ڈلیا رام نے خود رکھا ہے.یوں عدم ثبوت کی بناء پر مقدمہ خارج ہو جائیگا.آپ نے یہ مشورہ سن کر اس پر عمل کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ میں کیسے جھوٹ کہہ دوں کہ یہ خط میں نے نہیں رکھا.چاہے کچھ بھی ہو میں بیچ بولوں گا.آپ کے وکیل شیخ علی احمد صاحب نے یہ حالات دیکھ کر آپ کے کیس میں حاضر ہونے سے انکار کر دیا اور آپ وکیل کے بغیر ہی عدالت کے سامنے پیش ہوئے.اور انگریز جج کے سامنے سچا بیان دیا کہ یہ خط میں نے ہی رکھا تھا لیکن کسی بدنیتی سے نہیں بلکہ مضمون کا ہی ایک حصہ سمجھ کر اسے ساتھ شامل کر دیا تھا.انگریز جج پر آپ کی سچائی کا ایسا اثر ہوا کہ باوجود مخالف وکیل کی پوری کوشش کہ اس نے آپ کو عزت کے ساتھ اس مقدمے سے بری کر دیا.یوں سچائی کی فتح ہوئی جو خود آپ کے وکیلوں کے لئے بھی حیران کن تھی..براہین احمدیہ کی اشاعت (خلاصه از آئینہ کمالات اسلام ) حضرت مسیح موعود اسلام کی تائید میں دیگر تمام مذاہب کے ساتھ جو علمی جہاد شروع کر چکے تھے اس کا تقاضہ تھا کہ دین حق کی حقانیت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے ایک مستقل کتاب تصنیف کی جائے.جس میں دین حق کی سچائی ، حضرت محمد مصطفیٰ کی صداقت اور قرآن کریم کی فوقیت اور برتری کے بارے میں دلائل پیش کئے جائیں.چنانچہ اس ضرورت کو محسوس کر کے آپ نے

Page 12

خاص الہی تائید سے بہت کم وقت میں ایک شہرہ آفاق کتاب تصنیف فرمائی جس کا نام براہین احمد یہ رکھا گیا.آپ نے یہ کتاب ایسے وقت میں لکھی جب مالی لحاظ سے آپ اس حیثیت میں نہیں تھے کہ اس کتاب کی طباعت کروا سکیں لیکن خدمت دین کی تڑپ نے آپ کو مجبور کیا کہ جیسے بھی ہو یہ کتاب شائع کی جائے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس محبت کی قدر کی اور خود ایسے سامان مہیا فرما تا چلا گیا کہ کتاب کی اشاعت کا کام آسان ہو گیا اور 1880ء میں اس کتاب کا پہلا حصہ شائع ہو گیا.یہ کتاب ایسی اعلیٰ درجے کی تھی کہ مسلمان حلقوں میں اس کی دھوم مچ گئی.اور ہر طرف سے حضور کے لئے بے مثال خراج عقیدت پیش کیا گیا.اہلحدیث کے مشہور عالم مولوی محمد حسین بٹالوی نے اس کتاب کے بارے میں اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں لکھا ک ”ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانے میں موجودہ حالات کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی.“ (اشاعۃ السنۃ جلد ہفتم نمبر 6 صفحہ 169) دیگر علماء اور بزرگوں کی طرف سے بھی اس کتاب کی بہت تعریف کی گئی.لدھیانہ کے مشہور اور با کمال بزرگ حضرت صوفی احمد جان صاحب نے بھی اس کتاب کے بارے میں بڑے اچھے تاثرات لکھے اور حضرت مسیح موعود کے بے نظیر کلام کی شوکت کو محسوس کر کے بے اختیار کہہ اٹھے کہ:.سب مریضوں کی ہے تمہیں تم مسیحا ! نگاه نیز جب بھی کوئی شخص آپ کے پاس بیعت کرنے کو آتا تو اسے کہتے.خدا کے لئے سورج نکل آیا ہے.اب تاروں کی ضرورت نہیں.جاؤ اور حضرت صاحب کی بیعت کرو.66 حضرت صوفی احمد جان صاحب نے حضرت اقدس سے بیعت لینے کی درخواست بھی کی لیکن چونکہ ابھی حضور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کوئی حکم نہ تھا اس لئے آپ نے انکار کر دیا.۹ معجزانہ شفاء کا نشان براہین احمدیہ کی تصنیف و اشاعت کے کام میں حضور نے اپنی صحت کے خیال سے بے نیاز ہو کر جان کی بازی لگادی تھی.اور اس مسلسل جہاد کے بعد 1880 میں ہی آپ قولنج زجیری“ سے سخت بیمار ہو گئے.یہ تکلیف وباء کی صورت میں علاقے میں پھیلی

Page 13

ہوئی تھی اور لوگ پیٹ کی اس مہلک بیماری کی وجہ سے ہلاک ہورہے تھے.آپ کی یہ بیماری طویل ہوتی چلی گئی اور سولہ روز تک جاری رہی.مسلسل بیماری نے آپ کی حالت اس قدر نازک کردی تھی کہ آپ کے عزیز رشتہ دار مایوس ہو چکے تھے.انہوں نے آپ کی نازک حالت دیکھ کر مسنون طریق پر تین مرتبہ سورہ یس بھی سنائی اور یقین کر لیا کہ اب آپ کے بچنے کا کوئی بھی امکان باقی نہیں ہے.ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے اپنے اس بندے سے کلام کیا اور الہا ما آپ کو یہ دعا سکھلائی.سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم اللهم صل علی محمد و آل محمد اور یہ حکم دیا کہ یہ دعا پڑھتے ہوئے دریا کے ریت ملے پانی میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے جسم پر پھیریں.چنانچہ دریا سے ریت اور پانی منگوایا گیا اور آپ نے حکم الہی کے مطابق عمل شروع کیا.اس علاج کا شروع کرنا تھا کہ طبیعت بہتری کی طرف مائل ہونے لگی اور پانی کا پیالہ ابھی ختم بھی نہ ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اعجازی رنگ میں آپ کو شفاء عطا فرما دی.اور آپ بالکل صحت یاب ہو گئے.(ماخوذ از تریاق القلوب.روحانی خزائن جلد نمبر (208-20915 یہ ایک عظیم اعجاز تھا جوخدا تعالیٰ نے اپنے اس بندے کیلئے دکھایا جو اپنی زندگی خدا کی راہ میں قربان کر چکا تھا.اور ہر ایک پہلو سے خدا تعالیٰ کا حقیقی عبد بن چکا تھا.پس یہ معجزہ تاریخ احمدیت کا ایک روشن باب ہے جو ہمیشہ تابندہ رہے گا.۱۰.ماموریت کا پہلا الہام 1882ء کے آغاز کا واقعہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود کو ایک مرتبہ کشف میں دکھایا گیا کہ ایک باغ لگایا جارہا ہے اور آپکو اس باغ کا مالی مقرر کیا گیا ہے.یہ آپ کے مامور وقت ہونے کی پہلی بشارت تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ آپ کو حضرت محمد مصطفیٰ " سے گلشن کی حفاظت اور اس کی ترقی کیلئے خدمات کی توفیق ملنے والی ہے.اس کشف کے بعد ایک موقعہ پر آپ نے ایک اور کشف دیکھا جس میں آپ نے آنحضرت سے ملاقات کی اور ان سے معانقہ بھی کیا.آنحضرت سے ملاقات کی اس عظیم بجلی کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مامور پر الہام کے دروازے کھول دیئے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ماموریت کا پہلا اور تاریخی الہام عربی میں نازل ہوا جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے:.

Page 14

اے احمد ! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے جو کچھ تو نے چلا یا وہ تو نے نہیں بلکہ خدا نے چلایا.خدا نے تجھے قرآن سکھایا تا کہ تو ان لوگوں کو ڈرائے جن کے اباء واجداد کو نہیں ڈرایا گیا.اور تا کہ خدا کی حجت پوری ہو اور مجرموں کی راہ کھل کر سامنے آ جائے.تو کہہ دے کہ میں خدا کی طرف سے مامور اور اول المومنین ہوں“ ( براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد نمبر 1 صفحه 265 حاشیه در حاشیہ نمبر 1) یہ اس پہلے اور تاریخی الہام کا اردو ترجمہ ہے جو عربی زبان میں آپ کو ہوا.اور جس میں واضح طور پر آپ کو بتایا گیا کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے امام وقت کے طور پر چن لیا ہے اور آنحضور کی پیشگوئیوں کے مطابق دین کے احیاء کا کام آپ کے سپر د کیا گیا ہے.وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار (در مشین) مبارک و مبارک و کل امر مبارک يجعل فيه ۱۱.بیت مبارک کی تعمیر قادیان میں بیست اقصیٰ کی موجودگی میں بظاہر کسی اور بیت الذکر کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی.لیکن حضرت مسیح موعود سے اللہ تعالیٰ نے جو عظیم الشان کام لینے تھے اور آئندہ وقتوں میں ایک نئی جماعت کے لئے جو ضروریات سامنے آنے والی تھیں ان کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سی خوشخبریوں کے ساتھ آپ کو ایک بیت الذکر تعمیر کرنے کی تحریک کی گئی.جس کا نام بیت مبارک رکھا گیا جو آج بھی پوری شان اور عظمت کیسا تھ قادیان میں موجود ہے اور پوری دنیا میں شہرت رکھتی ہے.بہت مبارک کی تعمیر 1882ء میں یا بعض روایات کے مطابق 1883ء میں شروع ہوئی اور حضرت مسیح موعود کے گھر کی جنوبی دیوار کے ساتھ ایک جگہ اس کیلئے منتخب کی گئی.حضرت اقدس کے خاندانی معمار پیراں دتہ نے تعمیر کا کام شروع کیا اور اس کا اندرونی حصہ اکتوبر 1883ء میں مکمل ہو گیا.بیست مبارک کی تعمیر کے بعد حضرت مسیح موعود بیت اقصیٰ کی بجائے یہاں نماز میں ادا کرنے لگے.اس بیت کے بارے میں حضور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سی بشارتیں دی گئیں تھیں جن میں سے ایک الہام کا عنوان میں ذکر کیا جا چکا ہے یعنی خود بھی برکت والی ہے اور دوسروں کو بھی برکت دینے والی ہے اور ہر ایک

Page 15

ایک مبارک امر اس میں شامل کیا جائیگا.الہام ہی میں اسے بیت الذکر کا نام بھی دیا گیا.اور رویا میں آپ نے اس پر لا راد لفضلہ لکھا ہوا بھی دیکھا.-۱۲.مرزا غلام قادر صاحب کا وصال حضرت مسیح موعود کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب 1883ء میں وفات پاگئے.ان کی وفات کا فوری سبب یہ بیان کیا جاتا ہے که بعض رشتہ داروں نے آپ کی جائیداد میں سے حصہ لینے کے لئے مقدمہ کر دیا.مرزا غلام قادر صاحب کو چونکہ اس مقدمے میں اپنی کامیابی کا بھر پور یقین تھا اس لئے انہوں نے پیروی شروع کر دی.حضرت مسیح موعود نے یہ حالات دیکھ کر انہیں اور خاندان کے دیگر افراد کو صاف صاف بتا دیا کہ اس مقدمے میں فتحیابی ہمارے لئے ممکن نہیں ہے اس لئے اس کی پیروی سے رُک جانا چاہئے.مرز اغلام قادر صاحب نے اس بات کو قبول نہ کیا بلکہ مقدمہ جاری رکھا.ابتدائی عدالت سے ان کے حق میں فیصلہ بھی ہو گیا لیکن چیف کورٹ نے ان کے خلاف فیصلہ دے دیا.جب یہ خبر مرزا غلام قادر صاحب کو پہنچی تو وہ کانپتے ہوئے حضرت مسیح موعود کے پاس آئے اور دکھ کے ساتھ کہا کہ غلام احمد ! جو تم کہتے تھے وہی ہو گیا ہے.“ یہ دھچکہ ان کے لئے اتنا شدید تھا کہ وہ بیمار پڑ گئے.اور بالآخر یہی بیماری جان لیوا ثابت ہوئی اور مرز اغلام قادر صاحب 1883ء میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے.جس روز آپ کی وفات ہوئی اسی روز صبح کے وقت حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا کہ جنازہ.شام کے وقت مرزا غلام قادر صاحب فوت ہو گئے.ان کی بیوی حرمت بی بی صاحب حضرت مسیح موعود کے ایک الہام’تائی آئی“ کے مطابق 1921ء میں احمدی ہو گئیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کی جو رشتہ میں آپ تائی لگتی تھیں.۱۳.سفر لدھیانہ حضور کی معرکۃ الآراء کتاب براہین احمدیہ نے آپ کی شہرت میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا.لوگ آپ کو دین کے ایک عوض راہنما کے طور پر دیکھ رہے تھے.اور یہ کیفیت ہر ایک طرف تھی لیکن لدھیانہ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ حضور کے عقیدت مندوں کی ایک جماعت یہاں قائم ہو چکی تھی اور ان کی طرف سے بار بار یہ اصرار کیا جاتا تھا کہ آپ لدھیانہ تشریف لائیں لیکن حضور اس وقت تک یہ سفر اختیار نہ کرنا چاہتے تھے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بارے میں اجازت نہ مل جائے چنانچہ آپ باوجو دلوگوں کے اصرار کے 1884ء تک اس سفر کیلئے آمادہ نہ ہوئے.1884ء میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سفر کی اجازت دے دی گئی اور آپ سفر کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور اس کی اطلاع لدھیانہ بھجوادی گئی.لدھیانہ کے مشہور بزرگ صوفی احمد جان صاحب نے

Page 16

اپنے مریدوں سے کہہ رکھا تھا کہ احادیث میں اس زمانے کے مامور کا حلیہ بتایا جا چکا ہے اس لئے اگر چہ میں نے آپ کو پہلے نہیں دیکھا لیکن میں خود پہچان لوں گا.حضور پروگرام کے مطابق ریل کے ذریعے سے لدھیانہ پہنچے اور اہل شہر کی طرف سے آپ کا بے مثال استقبال کیا گیا.زائرین کا ایک جم غفیر تھا جو آپ کو دیکھنے کیلئے سٹیشن پر موجود تھا حضرت صوفی احمد جان صاحب نے حضور کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور اپنے مریدوں سے کہا کہ یہ حضرت اقدس ہیں.حضور نے لدھیانہ میں تین چار روز قیام کیا اور علم و عرفان کی بارش برساتے ہوئے شہر کے لوگوں کی علمی اور روحانی پیاس کو دور کیا جسکے بعد آپ واپس قادیان تشریف لے آئے.يتزوج ويولدله ۱۴.حضور علیہ السلام کی دوسری شادی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عمر ابھی پندرہ سال ہی تھی کہ آپ کے والد ماجد نے آپ کی شادی آپ کے سگے ماموں مرزا جمعیت بیگ صاحب کی صاحبزادی حرمت بی بی سے کر دی.یہ آپ کی پہلی شادی تھی جس کے نتیجہ میں آپ کے ہاں دو فرزند حضرت مرزا سلطان احمد صاحب اور مرز افضل احمد صاحب پیدا ہوئے.1881ء کے لگ بھگ حضرت اقدس کو دوسری شادی کے متعلق الہامات شروع ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بار بار یہ تحریک کی گئی کہ اس شادی کے نتیجے میں ایک نیا خاندان تیار کیا جائے گا جو خدا تعالیٰ کی بشارتوں اور خوشخبریوں کا حامل ہوگا.نیز اللہ تعالیٰ نے اس دوسری شادی کے تعلق میں ہر قسم کے سامان خود مہیا کرنے کا وعدہ بھی فرمایا.آپ کو الہام ہوا.ہر باید نو عروسے ساماں کنم ہماں را و آنچه مطلوب شما باشد عطات آن کریم یعنی جو کچھ دلہن کے لئے فراہم ہونا چاہئے وہ میں فراہم کروں گا اور تمہاری ہر ضرورت کو بھی خود پورا کروں گا.“ چنانچہ ان سب الہامات کی روشنی میں حضرت اقدس علیہ السلام ایک ایسے نیک اور پاک خاندان کی تلاش میں تھے جوان ย الہامات کا مصداق بن سکے اور پھر اس اعلیٰ ترین منصب کے لئے اللہ تعالیٰ نے جس خاندان کو منتخب کیا وہ دہلی کا ایک مشہور سید خاندان تھا جن کا نہیالی سلسلہ حضرت خواجہ میر در دمرحوم صاحب کے ساتھ ملتا تھا.یہ حضرت میر ناصر نواب صاحب کا خاندان تھا جو اپنی ملازمت کے سلسلے میں پنجاب کے مختلف مقامات پر رہائش پذیر رہے تھے اور انہیں ایام میں ان کی واقفیت حضرت اقدس سے بھی

Page 17

ہوئی تھی اور حضور کی نیکی کا آپ کی طبیعت پر گہرا اثر تھا.1884ء میں حضرت میر ناصر نواب صاحب کو اپنی صاحبزادی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے رشتے کی فکر پیدا ہوئی تو انہوں نے اس سلسلے میں حضرت اقدس کو بھی دعا کے لئے تحریر کیا.حضور جو خدائی خوشخبریوں کے ماتحت کسی نیک اور بزرگ خاندان کے منتظر تھے آپ نے اس خط کے جواب میں حضرت میر ناصر نواب صاحب کو سب تفصیل لکھ کر اپنا رشتہ پیش کیا جسے حضرت میر ناصر نواب نے سوچ بچار اور اپنے گھر کے افراد سے مشورے کے بعد منظور کر لیا.حضرت میر صاحب کی طرف سے رشتہ کی منظوری کی اطلاع ملنے کے قریباً8 دن کے بعد حضرت اقدس اپنے خادم حضرت حافظ حامد علی صاحب اور ایک دو دیگر احباب کے ساتھ دہلی پہنچے اور 17 نومبر 1884 کو گیارہ صد روپے حق مہر پر آپ کا نکاح حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ (حضرت اماں جان کے ساتھ مولوی سید نذیر حسین دہلوی صاحب نے پڑھایا.جس کے بعد رخصتانہ کی سادہ سی تقریب ہوئی اور اگلے روز حضور عازم قادیان ہوئے.یوں یہ مبارک شادی بخیر وخوبی انجام پذیر ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی پیش خبریوں کے مطابق اس شادی کے نتیجے میں ایک عالیشان خاندان کی بنیاد رکھی گئی.اور اللہ تعالیٰ نے دین کی خدمت کرنے والے پاک وجود جماعت کو عطاء کئے.چن لیا تو نے مجھے اپنے پہلے مسیحا کیلئے کرم ہے مرے جاناں تیرا ( در نمین) حضرت مسیح موعود کی مبشر اولاد ا.حضرت صاحبزادی عصمت صاحبہ (ولادت مئی 1886ء.وفات: جولائی 1891ء) ۲.حضرت بشیر اوّل صاحب.(ولادت : 7 اگست 1887ء.وفات:4 نومبر 1888ء).حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب.(ولادت : 12 جنوری 1889 - وفات 7-8 نومبر 1965ء) ۴.حضرت صاحبزادی شوکت صاحبہ (ولادت : 1891ء.وفات:1892) ۵.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (ولادت 20 اپریل 1893 ء وفات 2 ستمبر 1963ء).حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ( ولادت 24 مئی 1895ء.وفات 26 دسمبر 1961ء).حضرت نواب مبارکه بیگم صاحبہ (ولادت : 2 مارچ 1897ء.وفات: 23 مئی 1977ء).حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ( ولادت 14 جون 1899 ء وفات:16 ستمبر 1907 ).حضرت صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ (ولادت 28 جنوری 1903.وفات : 3 دسمبر 1903 ) ۱۰.حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ (ولادت 25 جون 1904.وفات 6 مئی 1987 ء )

Page 18

۱۵.ماموریت کا دعوئی اور نشان نمائی کی عالمگیر دعوت مارچ 1885ء میں حضرت مسیح موعود نے اللہ تعالیٰ سے حکم پا کر اپنے مامور وقت اور مسجد دہونے کا دعویٰ دنیا کے سامنے پیش کیا.آپ نے اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت مسیح ناصری کی طرز پر نرمی اور محبت سے انسانوں کی اصلاح کرنے کیلئے مبعوث کیا ہے.اور آنحضرت کی کامل غلامی اور متابعت کی وجہ سے آپ کو یہ اعلیٰ مرتبہ نصیب ہوا ہے.اس دعوی کے ساتھ ساتھ آپ نے دنیا کے تمام مذاہب کے لیڈروں اور رہنماؤں کو یہ دعوت بھی دی کہ اگر وہ سچائی کے طالب بن کر آپ کے ساتھ ایک سال تک قیام کریں تو ضرور وہ اپنی آنکھوں سے ایک سال کے اندر اندر دین حق کی سچائی اور آپ کی صداقت کے نشان دیکھیں گے.اور اگر وہ ایک سال کے اندر ایسے نشان نہ دیکھیں تو انہیں جرمانے کے طور پر دو سو روپے ماہوار کے حساب سے ایک سال کے چوبیس سو روپے ادا کئے جائیں گے.حضور نے یہ اعلان اردو اور انگریزی زبان میں ہیں ہزار کی تعداد میں شائع کروا کے ایشیا یورپ اور امریکہ کے تمام بڑے بڑے مذہبی راہنماؤں اور علماء وغیرہ کو ارسال کئے اور نشان دیکھنے کے لئے قادیان آنے کی دعوت دی.دین حق کی سچائی کا ایسا عظیم نمونہ ہندوستان کے دیگر مذاہب کے لئے دہلا دینے والا تھا لیکن کسی کو بھی اس اعلان کے مطابق قادیان آنے کی ہمت نہ پڑی اور مختلف بہانے بنا کر مخالفین ادھر ادھر ہو گئے.آریوں میں سے ایک پر جوش نو جوان لیکھرام جو خود کو آریوں کا رہنما ظاہر کرتا تھا اس نے بھی اس سلسلے میں خط و کتابت کی دوماہ کے لئے قادیان بھی آیا لیکن پھر اچانک بہانہ بنا کر واپس چلا گیا.اور دشمنی میں پہلے سے بھی بڑھ گیا بالآخر انہی بدزبانیوں کی پاداش میں 1897ء میں خدا تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بن گیا اور ہلاک ہو گیا.آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر ہر چند بلایا ہم نے مخالف کو مقابل آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا گے لو تمہیں تستی کا بتایا ہم نے ۱۶.سرخی کے چھینٹوں کا نشان یہ 10 جولائی 1885 ء کا ذکر ہے.رمضان کا مہینہ تھا اور حضرت اقدس مسیح موعود صبح کے وقت بیت مبارک مشرقی حجرے میں استراحت فرمارہے تھے.آپ بائیں کروٹ لیٹے ہوئے تھے اور دایاں ہاتھ اپنے چہرے پر رکھا ہوا تھا.حضور کے

Page 19

مخلص خادم حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب نے (جو اس وقت آپ کو دبا رہے تھے ) دیکھا کہ حضور کے ٹخنے پر سرخی کا ایک چھینٹا پڑا ہے.وہ حیرانگی سے اس سرخی کو دیکھنے لگے.تب انہوں نے مزید دیکھا تو پتہ چلا کہ حضوڑ کے کرتے پر بھی سرخی کے چندہ تازہ تازہ قطرے پڑے ہیں جب حضور بیدار ہوئے تو منشی صاحب نے آپ سے دریافت کیا کہ یہ سرخی کے چھینٹوں کا کیا معاملہ ہے.حضور نے سنوری صاحب کو اپنا کشف سنایا کہ میں نے ابھی کشفی حالت میں دیکھا ہے کہ میں نے بعض اہم فیصلے آئندہ زمانے کے بارے میں اپنے ہاتھ سے لکھے اور کشفی حالت میں ہی ان پر دستخط کروانے کیلئے خدا تعالی کے سامنے پیش کئے جو ایک حاکم کی شکل میں متمثل تھا.اللہ تعالیٰ نے ان فیصلوں پر دستخط کرنے کیلئے سرخی کو چھڑکا اور پھر دستخط فرما دئیے.خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم نشان کے طور پر یہ کشفی حالت میں دکھائی جانے والی سرخی خارجی وجود میں منتقل ہوگئی اور منشی عبداللہ سنوری صاحب اس نشان کے گواہ بن گئے.منشی صاحب نے حضور سے عرض کیا کہ آپ یہ سرخی کے چھینٹوں والا کرتا مجھے عنایت کر دیں.آپ نے اول تو شرک کے ڈر سے اس بات سے انکار فرمایا لیکن پھر سنوری صاحب کی اس یقین دہانی پر کہ یہ کر تہ ان کے ساتھ دفن کر دیا جائیگا آپ نے انہیں یہ کر تہ عنایت فرمایا جس کے بعد 7 اکتوبر 1927ء کونشی عبداللہ سنوری صاحب کی وفات پر یہ کر نہ ان کے ساتھ بہشتی مقبرہ میں دفن کر دیا گیا.آسمان کی گواہی ۱۷.شہب ثاقبہ کا گرنا 28 نومبر 1885ء کی رات اس پہلو سے قابل ذکر ہے کہ اس رات اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود کے لئے آسمان سے ایک نشان ظاہر ہوا.اور آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہا ماً بتایا گیا کہ یہ نشان آپ کے لئے ظاہر کیا گیا ہے.حضرت مسیح ناصری نے اپنی آمد ثانی کے بارے میں ایک پیشگوئی یہ بھی کی تھی کہ اس وقت جب مسیح ظاہر ہوگا تو سورج تاریک ہو جائیگا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور آسمان سے ستارے گرنے لگیں گے اور جو قو تیں آسمان میں ہیں وہ ہلائی جائیں گی.اور اس وقت لوگ ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتے دیکھیں گے.“

Page 20

(مرقس باب 13 آیات 24 تا 27) قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس موعود وقت کی نشانیوں میں ان نشانیوں کا ذکر فرمایا ہے جو سورۃ التکویر اورسورۃ الانفطار میں مذکور ہیں.چنانچہ ان پیشگوئیوں کے مطابق حضرت مسیح موعود کے زمانے میں سورج اور چاند کو گرہن بھی لگا اور آسمان سے ستارے ٹوٹنے کا منظر بھی دنیا نے مشاہدہ کیا.28 نومبر 1885 ء کی رات کو آسمان پر اس کثرت کے ساتھ شہاب ثاقب گرتے ہوئے نظر آئے کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے شعلوں کی بارش ہو رہی ہو.یہ ایک غیر معمولی نظارہ تھا جسے اس وقت کے اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا.حضرت مسیح موعود خدائی الہامات کی روشنی میں بڑی محبت کے ساتھ اس منظر کو دیکھتے رہے اور الہی بشارتوں کا تصور کر کے لطف اندوز ہوتے رہے.دنیا شاید نہیں جانتی تھی لیکن آپ جانتے تھے کہ یہ عظیم نشان آپ کے لئے ظاہر ہوا ہے.(بحوالہ آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر 5 صفحہ 110 -109 حاشیہ ) مبارک سفر ۱۸.ہوشیار پور میں چلہ کشی 1886ء کا سال اس اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اس سال آپ دو ماہ کیلئے ہوشیار پور تشریف لے گئے جہاں آپ نے 40 روز تک تنہائی میں اپنے خدا تعالیٰ کی عبادت کی جس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے اور آپ کے مقاصد کے لئے بھاری بشارتیں اور خوشخبریاں دی گئیں.حضور چلہ کشی کیلئے جنوری 1886ء میں ہوشیار پور روانہ ہوئے اور وہاں شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کے ایک مکان میں جو شہر کے ایک کنارے پر واقع تھا قیام فرمایا.حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب اور دو دیگر احباب بھی اس سفر میں حضور کے ساتھ تھے تا ہم آپ نے ان خدام کو یہ ہدایت فرما رکھی تھی کہ چالیس روز کی اس چلہ کشی کے دوران کسی اعتبار سے آپ کی تنہائی میں مخل نہ ہوں نہ ہی مقامی لوگوں کو اجازت تھی کہ ملنے کے لئے آئیں یا دعوت وغیرہ کا اہتمام کریں.آپ نے پہلے سے ہی دوستوں کو اطلاع دے دی تھی اس چالیس روزہ عبادت کے بعد آپ مزید بیس دن ہوشیار پور میں قیام کرینگے تا کہ دوست احباب سے ملاقات ہو سکے اور علمی مجالس لگائی جاسکیں.

Page 21

جب چالیس روز گزر گئے تو آپ نے حسب وعدہ 20 دن اور قیام فرمایا جس کے دوران احباب سے ملاقات بھی ہوتی رہی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی تبادلہ خیالات کیلئے آپ سے ملنے آتے رہے.اور آریہ سماج کے ایک عالم سے مباحثہ بھی ہوا جو سرمہ چشم آریہ کے نام سے حضور کی کتاب میں مذکور ہے.آپ اس کامیاب سفر کے بعد 17 مارچ 1886ء کو خدا تعالیٰ کی طرف سے رحمت اور فضل کے بے حساب وعدے اور خوشخبریاں لے کر خیریت کے ساتھ قادیان واپس پہنچ گئے.دیکھا ہے تیرا منہ مقصود مل گیا سب ہے ہم ہے جام کوکب اب لبالب تیرے يارب بر آیا میرا مطلب روز کر مبارک سبحان من مرانی ۱۹.پیشگوئی حضرت مصلح موعود ہوشیار پور کی چلہ کشی کے دوران حضرت مسیح موعود کو کثرت کے ساتھ بشارتیں اور خوشخبریاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھیں.انہیں بشارتوں میں سے ایک اہم ترین بشارت آپ کہ ہاں ایک ایسے بیٹے کی ولادت کے بارے میں تھی جس نے مستقبل میں اسلام کی سربلندی کیلئے عظیم خدمات سرانجام دینا تھیں.یہ پیشگوئی حضور نے 20 فروری 1886ء کوایک اشتہار کی صورت میں شائع فرمائی اور اس موعود بیٹے کے بارے میں خدا تعالیٰ کی بیان کردہ علامات اور نشانیاں تحریر فرمائیں نیز بتایا کہ یہ موعود بیٹا 9 سال کے عرصے میں پیدا ہوگا.مخالفین کی طرف سے اس پیشگوئی پر مخالفت کا ایک سیلاب امڈ آیا.اور طرح طرح کے حملے کئے جانے لگے.اس پیشگوئی کے بعد حضرت مسیح موعود کے ہاں صاحبزادی عصمت اور بشیر اول پیدا ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے سے دی گئی خبروں کے مطابق کہ بعض بچے کم عمری میں فوت ہو نگے یہ فرزند بشیر اؤل 4 نومبر 1888ء کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے.ان کی وفات پر مخالفین کے شور میں اور بھی اضافہ ہو گیا کہ پیشگوئی جھوٹی نکلی.حضور نے ان باتوں کے جواب میں یکم دسمبر 1888ء کو ایک اشتہار سبز رنگ کے کاغذ پر شائع فرمایا جس میں ان تمام اعتراضات کا مفصل جواب اور پیشگوئی تحریر فرمائی.یہ اشتہار ”سبز اشتہار کے نام سے معروف ہے.ان تمام باتوں کے بعد بالآخر 12 جنوری 1889ء کو پیشگوئی کے مصداق موعود بیٹے کی پیدائش ہوئی جن کا نام مرزا

Page 22

بشیر الدین محمود احمد رکھا گیا.اور اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ وعدوں کے مطابق آپ جماعت احمدیہ کے دوسرے امام کے طور پر منتخب ہو کر زمین کے کناروں تک شہرت پا کر دور دراز کی قوموں کے لئے برکت کا موجب بنے.اور آپ کے ہاتھ سے اسلام کے درخت کی وہ آبیاری کی گئی کہ جو بے نظیر ہے.7 اور 8 نومبر 1965 ء کی درمیانی شب آپ کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ کی اندرونی چار دیواری میں حضرت اماں جان کے پہلو میں آپ کو دفن کیا گیا.۲۰.حضور کے ذریعہ ایک امریکن کا قبول حق حضرت مسیح موعود کے دعاوی کی وجہ سے ہندوستان میں آپ کی مخالفت بڑے زوروں پر تھی.لیکن ان تمام معاندانہ کاروائیوں کے باوجود نیک اور سعید روحیں کشاں کشاں حضرت مسیح موعود کے پیغام پر دین حق قبول کر رہی تھیں.چنانچہ انہی لوگوں میں سے ایک امریکہ کے ایک گرجے کے پادری اور امریکہ کے مشہور روز نامہ ڈیلی گزٹ کے ایڈیٹر مسٹر الیگزینڈ رسل وب بھی تھے.جنہوں نے حضور کے ایک اشتہار کو دیکھ کر آپ سے خط و کتابت شروع کی جس کے بعد بالآخر وہ دین حق قبول کرنے پر تیار ہو گئے.اور امریکہ کی تاریخ میں دین حق کی تبلیغ واشاعت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا.مسٹر محمد الیگزینڈ روب 1846ء میں امریکہ میں پیدا ہوئے.آپ کے والد ایک مشہور صحافی اور ایک اخبار کے مدیر تھے اس لئے آپ نے بھی کالج کی تعلیم کے بعد صحافت ہی کے میدان کا انتخاب کیا اور ایک اخبار جاری کر کے عوام میں مقبولیت حاصل کی.ادب اور صحافت کے میدانوں میں آپ کی غیر معمولی قابلیت دیکھ کر بعض دیگر مشہور اخبار بھی آپ کے سپرد کئے گئے جن کا نظم ونسق آپ نے بڑی عمدگی سے چلایا.ان کی علمی شہرت اور قابلیت جلد ہی حکومت کی نظروں میں بھی آگئی اور انہیں فلپائن میں امریکہ کا سفیر مقرر کیا گیا.1872ء میں یہ عیسائیت سے متنفر ہو کر سچائی کی تلاش میں دیگر مذاہب کا مطالعہ کرنے لگے اور اسی دوران حضور کے ایک اشتہار کو دیکھ کر دین حق کی طرف مائل ہوئے اور بالآخر مسلمان ہو گئے.۲۱.حضور کی ایک قہری پیشگوئی پوری ہوتی ہے حضرت اقدس مسیح موعود کے خاندان میں آپکے چچازاد بھائی مرزا نظام الدین، مرزا امام دین اور ان کے لگے بندھے مرزا احمد بیگ وغیرہ دین کے اشد ترین مخالف تھے.یہ لوگ دین اور حضرت محمد مصطفی کے بارے میں ایسے ایسے ناپاک کلمات زبان پر

Page 23

لاتے تھے کہ کوئی ہندو یا آریہ بھی کیا لاتا ہوگا.خدا کی ہستی کے منکر یہ لوگ نہ صرف اپنی ذاتی مجالس میں یہ گند بولتے تھے بلکہ 1885ء میں انہوں نے امرتسر کے ایک اخبار چشمہ نور میں بڑی دلیری اور بے باکی کے ساتھ ایک خط بھی شائع کیا جو دین حق اور آنحضرت کے بارے میں گالیوں سے پُر تھا.نیز اس میں حضرت مسیح موعود کی دین سے والہانہ محبت کی وجہ سے آپ کو بھی برا بھلا کہا گیا تھا اور خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کے طور پر اپنے بارے میں نشان دکھانے کا مطالبہ کیا گیا تھا.یہ حالت دیکھ کر حضور اللہ تعالیٰ کے سامنے سر بسجو د ہو گئے اور دین کی سچائی کا نشان دکھانے کی التجا کی.اللہ تعالیٰ نے الہاماً یہ بتایا کہ ان لوگوں پر بڑی بڑی بلائیں اور آفات آنے والی ہیں لیکن ساتھ ہی اپنی بے پایاں رحیمیت کی وجہ سے اس خاندان کو عذاب سے بچنے کا ایک موقعہ بھی دے دیا.یہ لوگ چونکہ ہند وعقائد سے متاثر تھے اور دینی تعلیمات پر ہنتے تھے اس لئے یہ اس بات کے بھی قائل تھے کہ دین حق میں جو رشتے کے چا یا ماموں سے شادی جائز ہے یہ غلط ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسی پہلو سے اس خاندان کی آزمائش کرنے کا فیصلہ کیا اور حضور کو حکم دیا کہ مرز انظام الدین وغیرہ کی سگی بہن کی بیٹی محمدی بیگم کا رشتہ اپنے لئے مانگیں.(محمدی بیگم کی والدہ حضور کی سنگی چچا زاد بہن تھیں جس لحاظ سے آپ رشتے میں محمدی بیگم کے غیر حقیقی ماموں بنتے تھے).اس حکم ربانی پر آپ نے بلا جھجک اس خاندان کو رشتے کے لئے پیغام بھجوایا اور لڑکی کے والد مرزا احمد بیگ کو واضح طور پر بتایا کہ یہ رشتہ خدائی تحریک پر صرف تمہارے فائدے کیلئے مانگا جارہا ہے اگر یہ رشتہ منظور نہ کیا گیا تو لڑکی کا دوسری جگہ نکاح مبارک نہ ہوگا.اور نکاح کی صورت میں تین سال کے اندر اندر تمہاری موت مقدر ہے اور لڑکی کے خاوند کی موت بھی اڑھائی سال میں ہو جائیگی.اس خط کو مرزا احمد بیگ نے لڑکی کے ماموؤں مرزا امام الدین وغیرہ کی ہدایت پر اخبار میں شائع کر دیا اور یوں یہ پیشگوئی جو انفرادی نوعیت کی تھی پبلک میں عام ہوگئی اور زبان زدعام ہونے لگی.مرزا احمد بیگ نے خدائی وعید کی پروانہ کرتے ہوئے ضد کے ساتھ 7 اپریل 1892ء کومحمدی بیگم کا نکاح مرزا سلطان محمد آف پٹی سے کر دیا.اس پر خدائی غضب جوش میں آیا اور اس واقعے کے چھٹے مہینے 30 ستمبر 1892ءکومرزا احمد بیگ ہلاک ہوکر پیشگوئی کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کر گیا.اس ہلاکت نے اس خاندان کو ہلا کر رکھ دیا اور خود ان کے گھر کے لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی سچ ثابت ہوئی.اس خوف نے محمدی بیگم اور اس کے خاوند مرزا سلطان محمد کو بھی یہ ماننے پر مجبور کیا کہ مرز اصاحب بچے ہیں اور انہوں نے بھی عاجزی اور گریہ وزاری کو اختیار کیا.بڑے درد سے دعائیں کیں جس کے نتیجے میں ان کی ہلاکت کی پیشگوئی خدا تعالیٰ کی طرف سے ٹال دی گئی.گو ان کے زندہ رہنے پر مخالفین نے بہت شور مچایا لیکن خود مرزا سلطان محمد کی اپنی گواہیاں یہ تھیں کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری ہوئی اور وہ دین کے بچے خدمتگار نیک اور بزرگ تھے.چنانچہ اس عظیم نشان کے بعد اس خاندان کے بہت سے لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے جن میں مرزا احمد بیگ کی اہلیہ (محمدی بیگم کی والدہ ) ان کا بیٹا مرزا محمد بیگ ( محمدی بیگم کا بھائی ).اس کی تین بیٹیاں سردار بیگم عنایت بیگم محمودہ بیگم (محمدی بیگم کی بہنیں ).اور سب سے بڑھ کر خود محمدی

Page 24

بیگم کا اپنا بیٹا مرزا محمد اسحاق بھی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو کر اس پیشگوئی کی سچائی ثابت کر گیا.مخالفین کی طرف سے گواس پیشگوئی کے متعلق بہت باتیں بنائی جاتی ہیں لیکن ان تمام لوگوں کا جو محمدی بیگم کے قریبی ترین رشتہ دار تھے احمدیت قبول کرنا اور ان کا اور ان کے خاوند کا اس پیشگوئی کی سچائی کو تسلیم کرنا صاف بتاتا ہے کہ یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی جو بڑی صفائی کے ساتھ پوری ہو کر دین کی صداقت پر گواہ بن گئی ہے.کوئی بے وقوف اس پر لا کھ اعتراض کرے اس کی شان میں کمی واقع نہیں ہوسکتی.خدا کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ۲۲.لدھیانہ میں پہلی بیعت حضرت مسیح موعود کے بہت سے مخلص احباب مختلف مواقع پر آپ سے بیعت کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکے تھے لیکن حضور نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ مجھے ابھی اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی علم نہیں دیا گیا اس لئے تکلفاً بیعت لینا میں جائز نہیں سمجھتا لیکن 1888 ء کی پہلی سہ ماہی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہاما آپ کو خلصین کی بیعت لینے کا ارشاد ہوا جس کے بعد یکم دسمبر 1888ء کو آپ نے بیعت لینے کے لئے اشتہار شائع فرمایا.بیعت لینے کیلئے لدھیانہ کا مقام منتخب ہوا اور یہاں آ کر آپ حضرت صوفی احمد جان صاحب کے مکان پر ٹھہرے جو محلہ جدید لدھیانہ میں واقع تھا.آپ نے یہاں سے 4 مارچ 1889ء کو ایک اور اشتہار شائع فرمایا جس میں بیعت کی اغراض اور ضرورت کے بارے میں سمجھایا اور بیعت کے خواہش مند ا حباب کو 20 مارچ کولدھیانہ پہنچنے کا ارشاد فرمایا.اس اشتہار کے نتیجے میں ملک کے مختلف حصوں سے مخلصین بیعت کرنے کے لئے لدھیانہ پہنچ گئے جہاں 23 مارچ 1889ء کو پہلی بیعت صوفی احمد جان صاحب کے مکان پر لی گئی.سب سے پہلے بیعت کرنے کی سعادت مردوں میں سے حضرت مولانا نورالدین صاحب کو حاصل ہوئی جن کے بعد پہلے دن کل 40 افراد نے بیعت کی.مردوں سے بیعت لینے کے بعد حضور گھر میں آئے تو بعض عورتوں نے بھی بیعت کی.یہ وہ تاریخ ساز دن تھا جس دن ایک نئی زمین اور نیا آسمان بننے کی بناء پڑی ایک ایسی جماعت کا قیام ہوا جو دین حق کی سربلندی اور حق وصداقت کی تبلیغ کیلئے قائم کی گئی تھی.یہ بیعت 23 مارچ1889ء کے روز شروع ہوئی.حضور کی خواہش تھی کہ بیعت کرنے والوں کے نام اور پتے ایک رجسٹر میں محفوظ کر لئے جائیں اس لئے آپ نے حکم دیا کہ ہر بیعت کرنے والا اپنا نام و پستہ ایک کاغذ پر لکھ کر دے دے.ناموں کا اندراج کر کے ایک رجسٹر تیار کیا گیا.جس پر لکھا گیا.بیعت تو بہ برائے حصول تقویٰ و طہارت

Page 25

۲۳.دس شرائط بیعت حضرت مسیح موعود نے بیعت کے لئے درج ذیل دس شرائط تحریر فرمائی تھیں.جن پر عمل کرنا ہر بیعت کرنے والے احمدی پر لازم ہے.اول: بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو جائے شرک سے مجتنب رہے گا.دوم: یہ کہ جھوٹ اور زنا اور بدنظری اور ہر ایک فسق و فجور اور نظلم اور خیانت اور فساد اور بغاوت کے طریقوں سے بچتار ہے گا اور نفسانی جوشوں کے وقت ان کا مغلوب نہیں ہوگا اگر چہ کیسا ہی جذ بہ پیش آوے.سوم : یہ کہ بلاناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول کے ادا کرتا رہے گا اور حتی الوسع نماز تہجد کے پڑھنے اور اپنے نبی کریم ﷺ پر درود بھیجنے اور ہر روز اپنے گناہوں کی معافی مانگنے اور استغفار کرنے میں مداومت اختیار کرے گا اور دلی محبت سے خدا تعالیٰ کے احسانوں کو یاد کر کے اس کی حمد اور تعریف کو اپنا ہر روز ورد بنالے گا.چہارم: یہ کہ عام خلق اللہ کو عموما اور مسلمانوں کو خصوصا اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے..پنجم : یہ کہ ہر حال رنج اور راحت اور عسر اور میسر اور نعمت اور بلا میں خدا تعالی کے ساتھ وفاداری کرے گا اور بہر حالت راضی بقضاء ہوگا.اور ہر ایک ذلت اور دکھ کے قبول کرنے کے لیے اسکی راہ میں تیار رہے گا اور کسی مصیبت کے وارد ہونے پر اس سے منہ نہیں پھیرے گا بلکہ آگے قدم بڑھائے گا.ه ششم : یہ کہ اتباع رسم اور متابعت ہوا و ہوس سے باز آجائیگا اور قران شریف کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کریگا اور قال اللہ اور قال الرسول کو اپنے ہر ایک راہ میں دستورالعمل قراردے گا.ہفتم: یہ کہ تکبر اور نخوت کو بکلی چھوڑ دے گا اور فروتنی اور عاجزی اور خوش خلقی اور علیمی اور مسکینی سے زندگی بسر کرے گا.ہشتم: یہ کہ دین اور دین کی عزت اور ہمدردی ( دین.ناقل ) کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا.نم : یہ کہ عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض اللہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا.

Page 26

دہم : یہ کہ اس عاجز سے عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہوگا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو.(اشتہار تکمیل تبلیغ 12 جنوری 1889ء) جسم کو مل مل کے دھونا تو کچھ مشکل نہیں دل کو جو دھووے وہی ہے پاک نزد کردگار ۲۴.آپ کا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ 1890ء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور کو یہ عظیم اطلاع دی گئی کہ حضرت مسیح ناصری جن کو مسلمان آسمان پر زندہ متصور کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آخری زمانے میں وہ اپنے مادی جسم کے ساتھ آسمان سے نازل ہو نگے.وفات پاچکے ہیں اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے مثیل کے طور پر دنیا کی ہدایت اور اشاعت دین حق کے لئے مبعوث کیا ہے.اس انکشاف پر آپ نے فتح اسلام توضیح مرام اور ازالہ اوہام کے نام سے تین کتابیں شائع کیں جن میں اس دعوئی کا اعلان فرمایا.آپ نے قرآن کریم کی آیات اور احادیث نبوی کی روشنی میں وفات مسیح ثابت کی اور جن احادیث میں مسیح کی آمد ثانی کا ذکر ہے ان کی درست تشریح دنیا کے سامنے پیش کی اور یہ سمجھایا کہ آنے والے موعود مسیح کو ابن مریم کے نام سے پکارنا ایک لطیف استعارہ ہے ورنہ در حقیقت مسیح موعود امت محمدیہ میں سے ایک امام ہوگا.آپ کے ان دعاوی کے نتیجے میں مخالفت کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا.مولوی محمد حسین بٹالوی جو آپ کی خدمت دین کے گن گایا کرتے تھے آپ کی شدید مخالفت پر کمر بستہ ہو گئے.اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ کو انہوں نے حضور کی مخالفت کے لئے وقف کر دیا اور اول المکفرین بن کر آپ کی کتابوں میں موجود بعض عبارتوں کو سیاق و سباق سے الگ کر کے لوگوں کے سامنے پیش کیا اور علماء سے آپ کے متعلق کفر کے فتوے حاصل کر لئے.مولوی محمد حسین بٹالوی نے اس دشمنی میں سچ اور جھوٹ کی کوئی تمیز نہ کی اور بہت سے ایسے علماء کے نام بھی اس فتویٰ تکفیر میں شامل کر دئیے جنہوں نے حضور کے خلاف ہر گز کفر کا فتویٰ نہیں دیا تھا.نیز بعض ایسے لوگوں کے نام بھی لکھ دیئے جنہوں نے کسی اور رنگ میں بات کی تھی جسے مولوی محمد حسین بٹالوی نے بدل کر اپنے مقصد کیلئے استعمال کر لیا.کئی ایسے علماء میں سے بعض نے تردید کی اور بعض نے جب حضور کی کتابیں مکمل طور پر پڑھیں تو آپ کی سچائی پر ایمان لے آئے اور اس فتوے کے اگلے ہی سال احمدی ہو گئے.

Page 27

کیا شک میں تمہیں اس مسیح کے ہے ماننے جس کی مماثلت کو خدا نے دیا حاذق طبیب پاتے ہیں تم یہی خطاب خوبوں کو بھی تو تم نے مسیحا بنا دیا بعد ازاں 4 نومبر 1904ء کوسیالکوٹ میں ہونے والے ایک لیکچر میں حضرت اقدس علیہ السلام نے پہلی مرتبہ ہندوؤں کے لئے کرشن ہونے کا دعوی بھی فرمایا.جس کی تفصیل لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد نمبر 20 کے صفحات 230-227 میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے.۲۵.دل بدلے جاتے ہیں حضور کے دعوی مسیحیت کے بعد جہاں ایک طرف مخالفت کا طوفان اٹھا و ہیں اس مخالفت کی کوکھ سے خوشنما مناظر بھی جنم لینے لگے.مولویوں نے تو آپ کی مخالفت اپنا پیشہ بنا لیا تھا اور عوام الناس کو آپ کے متعلق غلط باتیں بتا کر آپ سے متنفر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو گئے تھے.1891ء میں جب آپ لدھیانہ تشریف لے گئے تو ایک واعظ نے بازار میں کھڑے ہو کر بڑے جوش سے حضور کے خلاف تقریر کی اور لوگوں کو اکسایا کہ جو آپ کو قتل کرے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا.ایک دیہاتی یہ تقریرین کر بہت متاثر ہوا اور جنت کے حصول کے لئے ہاتھ میں لاٹھی لئے آپ کو قتل کرنے کے ارادے سے چل پڑا.جب وہ حضور کی قیام گاہ پر پہنچا تو حضور اس وقت احباب جماعت سے خطاب فرما رہے تھے.یہ دیہاتی وہاں بیٹھ کر موقع کا انتظار کرنے لگا.چند منٹ کے اندراندر حضور کی گفتگو کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ سب مخالفت ہوا ہوگئی اور آگے بڑھ کر حضور کی بیعت کر لی.ذکر حبیب مرتبه مفتی محمد صادق صاحب صفحه (14) اسی طرح ایک روز مخالف مولویوں نے پانچ آدمیوں کو بہکا کر آپ کی طرف بھیجا اور کہا کہ یہ شخص تمام نبیوں کو گالیاں دیتا ہے اور قرآن کریم اور رسول اللہ کو نہیں مانتا.یہ لوگ غصے میں بھرے ہوئے آپ کی قیام گاہ میں داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضور کسی قرآنی آیت کی تفسیر فرمارہے ہیں.یہ خاموشی سے بیٹھ گئے اور آپ کی تفسیر سننے لگے.جب آپ بات مکمل کر چکے تو انہوں نے آگے بڑھ کر حضور سے مصافحہ کیا اور آپ کے ہاتھوں کو چوم لیا پھر کہنے لگے کہ لوگ ہمیں دھوکہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کا فر ہیں حالانکہ وہ خود کا فر ہیں کیونکہ اگر آپ مسلمان نہیں تو پھر کوئی مسلمان نہیں.

Page 28

یہ خدائی تصرفات تھے جو اس وقت لوگوں کے دل بدل رہے تھے اور سعید فطرت لوگ کی باتوں کے باوجود کشاں کشاں آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے.۲۶ - محمد حسین بٹالوی سے مباحثہ لدھیانہ میں قیام کے دوران حضور کا مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ ایک تحریری مباحثہ ہونا قرار پایا.جو 20 جولائی سے 29 جولائی 1891 ء تک دس روز جاری رہا.مباحثے کے لئے وفات مسیح کا موضوع تجویز کیا گیا تھا لیکن مولوی محمد حسین بٹالوی آخری دن تک موضوع سے گریز کرتا رہا.تا ہم اس مباحثے کے نتیجے میں علمی طور پر ایک عظیم خزانہ مقام قرآن وحدیث کے بارے میں میسر آ گیا.مباحثے کیلئے مولوی محمد حسین بٹالوی حضور کے مکان پر آئے اور حضور سے سوال کرنے لگے.چونکہ معاہدہ تحریری مباحثے کا تھا اس لئے آپ نے جواب لکھنا شروع کئے.لیکن ان سوال جواب کے بعد مولوی محمد حسین نے خلاف عہد زبانی تقریر کرنا شروع کر دی جس میں یہ بیان کیا کہ مرزا صاحب کا یہ عقیدہ غلط ہے کہ قرآن شریف ہر ایک چیز سے بالا اور مقدم ہے.اور حدیث کی حیثیت خادم قرآن کی سی ہے جو قرآنی مطالب کو سمجھانے میں مدد دیتی ہے.مولوی محمد حسین بٹالوی نے کہا کہ درحقیقت حدیث قرآن کریم سے بالا اور مقدم ہے کیونکہ حدیث قرآنی مطالب کو کھولتی ہے اس لئے آپ کے دعوے کا فیصلہ حدیث کی روشنی میں ہونا چاہئے.ان کی تقریر کے بعد حضوڑ نے جوابی تقریرفرمائی اور بتایا کہ چونکہ مولوی صاحب نے معاہدہ تو ڑ کر زبانی تقریر کی ہے اس لئے اب میرا بھی حق ہے کہ زبانی جواب دوں.آپ نے مولوی صاحب کے اعتراض کو سامنے رکھ کر اس کا مدلل جواب دینا شروع کیا اور اس خوبصورتی کے ساتھ قرآنی عظمت اور حدیث پر قرآن کی فضیلت بیان کی کہ مولوی صاحب کے ساتھ آنے والے لوگ بھی عش عش کر اٹھے.مولوی صاحب دراصل حضور سے وفات مسیح پر بات کرنے سے ڈرتے تھے اور جانتے تھے کہ اگر وفات مسیح پر گفتگو ہوئی تو وہ لا جواب ہو جائیں گے اس لئے انہوں نے مباحثے کے آخر تک انہی فروعی مسائل پر گفتگو جاری رکھی.مباحثے کے آخری روز حضور نے فرمایا کہ اصل مسئلہ تو وفات مسیح کا ہے اور مولوی صاحب بار بار کہنے کے باوجود اس طرف آنے کے لئے تیار نہیں ہیں.آپ نے بڑی وضاحت سے وفات مسیح کا مسئلہ لوگوں کے سامنے رکھا اور دلائل بیان کرنے شروع کئے تو مولوی صاحب بوکھلا اٹھے اور عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگے.عوام نے بھی دیکھ لیا کہ اس مباحثے میں مولوی محمد حسین بٹالوی حضور کے سامنے نہ ٹھہر سکا اور اسے ہر لحاظ سے شکست فاش ہوئی.بعد ازاں حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے یہ مباحثہ اپنے رسالہ الحق میں شائع بھی کر دیا.لیکن محمد حسین بٹالوی نے باوجود توجہ دلانے کے اس بحث نہ چھاپا اور یوں اپنی شکست کا اعتراف کر لیا.یہ مباحثہ روحانی خزائن کی جلد نمبر 4 میں ” مباحثہ

Page 29

الحق لدھیانہ کے نام سے موجود ہے.والله يعصمك من الناس ۲۷.آپ کے قتل کے منصوبے 1891ء میں حضور تبلیغ واشاعت دین کیلئے دلی تشریف لے گئے.آپ 29 ستمبر 1891ء کو دلی پہنچے اور نواب لوہارو کی کوٹھی میں قیام فرما ہوئے.مخالفین کو جب آپ کی آمد کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے لوگوں کومشتعل کر کے آپ کے خلاف اکسانا شروع کیا.یہ لوگ شرمناک طریقے سے آپ کی قیام گاہ کے باہر آ کر گندی گالیاں دیتے اور کوٹھی پر پتھراؤ کرتے.انہی دنوں حضور نے دتی کے بعض علماء کو وفات مسیح پر تحریری مباحثہ کرنے کی دعوت دی.ان میں سے ایک عالم شمس العلماء مولوی عبدالحق تھے جنہوں نے حضور سے نہایت ادب کیساتھ معذرت کر لی.جبکہ ایک اور مولوی سید نذیر حسین نے مولوی محمد حسین بٹالوی کے اکسانے پر مباحثے کی دعوت قبول کر لی اور فریقین سے پوچھے بغیر مولوی محمد حسین بٹالوی نے مباحثے کا دن بھی مقرر کر دیا.آپ نے باوجود اس شرارت کے جلسے میں جانے کا فیصلہ کر لیا لیکن مباحثہ سے راہ فرار اختیار کرنے کے لئے عین جلسے کے وقت بٹالوی اور اس کے ساتھیوں نے دہلی کے عوام کو مشتعل کر کے آپ کی قیام گاہ کا محاصرہ کروا دیا اور بڑا فساد برپا کرنے کی کوشش کی.بعض سرکش لوگ تو مکان کے اندر بھی داخل ہو گئے.ان حالات میں مباحثے کے لئے جانا نا ممکن تھا اس لئے آپ نے پیغام بھجوایا کہ ایسے فتنہ میں مباحث ممکن نہیں.مولوی نذیر حسین اور ان کے ساتھیوں نے اس پیغام پر فتح کے نعرے لگانے شروع کر دیئے اور کہنے لگے کہ مرزا بھاگ گیا.ان باتوں کو سن کر حضور نے ایک اشتہار دیا جس میں مولوی نذیر حسین کو مباحثہ کرنے کیلئے کہا اور مباحثہ نہ کرنے کی صورت میں یہ تجویز دی کہ وفات مسیح کے بارے میں صرف میرے دلائل سن لیں اور اس کے بعد یہ قسم کھا جائیں کہ یہ دلائل درست نہیں اور حضرت مسیح ناصری زندہ آسمان پر موجود ہیں.اس اشتہار کے بعد مولوی نذیر حسین نے راہ فرار اختیار کرنا چاہی لیکن عوام کے اصرار پر 20 اکتوبر 1891ء کو جامع مسجد دہلی میں بعد نماز عصر مباحثے کا وقت طے کر دیا.حضور کے مخالف مولویوں نے یہ منصوبہ بھی بنایا کہ مباحثے کے دن مشتعل ہجوم کی آڑ میں آپ کو قتل کر دیا جائیگا.مخلص احباب کی طرف سے حضوڑ کو یہ اطلاع مل چکی تھی کہ جامع مسجد دہلی میں آپ کے قتل کا منصوبہ تیار ہو چکا ہے لیکن آپ اپنے خدا پر کامل تو کل کرتے ہوئے وقت مقررہ پر چند احباب کے ساتھ جن کی تعداد محض بارہ تھی جامع مسجد پہنچ گئے.مولوی نذیر حسین مباحثے سے تو عاجز تھے اس لئے انہوں نے مختلف بہانوں سے بحث کو ٹالنا چاہا.اور قسم کھانے سے بھی احتراز کرنے لگے.اور حضور کے دیر تک وہاں رکے رہنے اور بار بار پیغام دینے کے باوجود مولوی صاحب حجرے سے باہر نہیں نکلے.ہجوم میں موجود فتنہ

Page 30

پرداز لوگوں نے یہ عالم دیکھا تو منصوبے کے مطابق فساد شروع کرنے لگے.موقع پر موجود انگریز سپرینٹنڈینٹ پولیس نے فتنہ بڑھتا دیکھ کر حضور کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر واپس آپ کی قیام گاہ تک پہنچا دیا.یوں مخالفین کا ایک خونی منصوبہ ناکام ہوگیا.۲۸.اگر یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے.دہلی کے مباحثے کے بعد حضور لدھیانہ تشریف لائے اور یہاں ایک جلسہ عام سے خطاب فرمایا.آپ کی تقریر کے بعد کپورتھلہ کے رہنے والے منشی فیاض علی صاحب نے عرض کیا کہ حضور ہماری بیت الذکر کا مقدمہ چل رہا ہے اور شہر کے تمام رئیس اور حکام غیر از جماعت لوگوں کے ساتھ ہیں اور یہ دلیل دے رہے ہیں کہ بیت الذکر کا بانی چونکہ غیر از جماعت تھا اس لئے یہ بیت الذکر احمدیوں کو نہیں دی جا سکتی.آپ اس بارے میں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حق میں فیصلہ کروادے.اس پر حضور نے جلالی رنگ میں فرمایا:.اگر یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے تو بیت ، تمہارے پاس واپس آئے گی“ منشی صاحب نے یہ پیشگوئی فریق مخالف کو بھی سنوا دی اور بیت میں بھی تحریر کر کے چسپاں کر دی.اب اتفاق یہ ہوا کہ چیف کورٹ کے اس حج نے جس کے پاس مقدمہ تھا پہلی ہی پیشی میں فریقین کی موجودگی میں یہ کہ دیا کہ چونکہ بیت کا بانی غیر احمدی تھا اس لئے احمدی اپنی علیحدہ بیت بنالیں.حجج نے کہا کہ میں پرسوں یہ فیصلہ لکھ دوں گا.اس زبانی فیصلے کو سن کر مخالفین نے بہت خوشی منائی اور حضور کی پیشگوئی کا خوب مذاق اڑایا لیکن تیسرے ہی دن ان کی یہ خوشی خاک میں مل گئی کیونکہ یہ متعلقہ حج عدالت میں آنے سے قبل ہی حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے فوت ہو گیا.اور احمدیوں کے خلاف فیصلہ لکھنے کی حسرت لئے اس دنیا سے رخصت ہو گیا جبکہ نئے حج نے از سر نو تحقیقات کرنے کے بعد بالآخر 1905ء میں اس بیت الذکر کا فیصلہ احمدیوں کے حق میں دے دیا اور وہ احمدیوں کو مل گئی.۲۹.جلسہ سالانہ کا آغاز دسمبر 1891 ء کے آغاز میں حضور نے ایک کتاب آسمانی فیصلہ تصنیف فرمائی جس میں آپ نے غیر مذاہب کے لوگوں کے علاوہ تمام مکفر علماء صوفیوں، پیروں اور سجادہ نشینوں کو روحانی مقابلے کی دعوت دی اور اعلان کیا کہ یہ لوگ مومنوں کو ملنے والے انعامات مثلاً دعاؤں کی قبولیت، غیبی باتوں کا پتہ چلنا اور قرآنی معارف کے علم وغیرہ میں حضور کے ساتھ مقابلہ کر لیں.اس کے ساتھ ساتھ آپ

Page 31

نے یہ تجویز بھی دی کہ اس مقابلے کو فیصلہ کن بنانے کے لئے پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک انجمن منتخب کر لی جائے جو ایک سال تک دونوں فریقوں کے نشانات دیکھ کر اس روحانی مقابلے کا فیصلہ سنائے اور بتائے کہ کونسا فریق اس روحانی مقابلے میں غالب آیا ہے.اس تجویز پر مزید غور کرنے کیلئے حضور نے جماعت کے دوستوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ 27 دسمبر 1891 ء کو قادیان تشریف لائیں.چنانچہ 27 دسمبر کو 75 احباب اس جلسے کیلئے جمع ہوئے اور نماز ظہر کے بعد بیت اقصیٰ میں اس اجلاس کی کاروائی کا آغاز ہوا.مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے حضور کی تصنیف آسمانی فیصلہ پڑھ کر سنائی جس کے بعد یہ مشورہ کیا گیا کہ انجمن کا انتخاب کیسے کیا جائے.تمام حاضرین نے بالا تفاق یہ مشورہ دیا کہ فی الحال اس مقابلے کا اشتہار دیا جائے اور پھر فریقین کی رضا مندی سے فیصلے کیلئے انجمن مقرر کر لی جائے.جلسے کے آخر میں حضور نے تمام احباب سے مصافحہ کیا.یہ جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ سالا نہ تھا جس کے بعد حضور نے اعلان فرمایا کہ آئندہ سے ہر سال 27, 28, 29 دسمبر کی تاریخوں میں جلسہ ہوا کرے گا.۳۰.حضور کی لاہور میں تشریف آوری جنوری 1892ء کے آخری عشرے میں حضرت مسیح موعود دعوت و تبلیغ کے لئے لاہور تشریف لائے اور اپنا پیغام اہالیان لا ہور تک پہنچایا.ہر ایک قوم اور مذہب کے لوگ بڑی دلچسپی کے ساتھ آپ سے ملنے کے لئے آتے اور سوالات کرتے.جن کے مدلل جواب سن کر یہ لوگ مطمئن ہو جاتے.31 جنوری 1892ء کو آپ نے منشی میراں بخش صاحب میونسپل کمشنر لاہور کی کوٹھی کے احاطے میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا.باوجود مخالفین کے منع کرنے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد آپ کی تقریر سننے کے لئے وہاں جمع ہوگئی اور قریباً دس ہزار کا مجمع آپ کو دیکھنے اور آپ کی باتیں سننے کے لئے ٹوٹا پڑ رہا تھا.حضرت اقدس نے اس خطاب میں اپنے دعوے کے بارے میں لوگوں کو بتایا اور سمجھایا کہ وقت کے علماء چونکہ قرآن کریم کے دلائل کے ساتھ آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس لئے آپ کے خلاف کفر کے فتوے دئے جارہے ہیں.آپ نے فرمایا کہ اس شہر لاہور میں کافر کہنے والے آئیں اور قرآن مجید کے ارشادات کی روشنی میں اپنے اور میرے ایمان کا فیصلہ کر لیں.حضور کی تقریر کے بعد حضرت مولانا نورالدین صاحب نے ایک انتہائی خوبصورت اور سچے جذبات سے پر تقریر کی.جس میں آپ نے بڑے درد سے کلمہ شہادت پڑھ کر کہا کہ

Page 32

”اے لوگو! کیا میں اس عمر میں جھوٹ بولنے کی آرزو کر سکتا ہوں.“ آپ کے سچے جذبات ایسے تھے کہ انہوں نے دلوں کو موہ لیا اور آنکھیں اشکبار ہو گئیں.حضرت مسیح موعود فروری کے دوسرے ہفتے تک لاہور میں قیام فرما رہے جس کے بعد سیالکوٹ کے احباب جماعت کی خواہش پر سیالکوٹ جانے کا قصد کیا.۳۱.مکفر علماء کومباہلہ کی دعوت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اب تک مخالف علماء کو اپنے دعوے کی سچائی کیلئے قرآن اور حدیث کے علاوہ آسمانی نشانوں کی طرف توجہ دلا رہے تھے لیکن مخالف علماء نے ایک طویل عرصہ گزر جانے کے باجود بھی آپ کے پیغام کی سچائی کو قبول نہ کیا تھا اب جبکہ آپ تبلیغ کا ایک مرحلہ طے کر چکے تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو حکم دیا گیا کہ آپ ان تمام علماء کو جو آپ کو کافر کہنے پر اصرار کر رہے تھے اور آپ کو کافر اور دجال کہتے رہے تھے مباہلہ کا چیلنج دیں.اس خدائی حکم کے ماتحت حضرت اقدس نے 10 دسمبر 1892ء کو وقت کے علماء کو مباہلہ کی پہلی دعوت عام دی اور اس مباہلے کیلئے چار ماہ کی مہلت دی.اس دعوت مباہلہ میں آپ کے اولین مخاطب مولوی نذیرحسین دہلوی صاحب اور ان کے انکار کی صورت میں شیخ محمدحسین بٹالوی صاحب تھے.لیکن فردا فردا تمام علماء کو دعوت مباہلہ بھجوانے کے باوجود کسی کو بھی مردمیدان بننے کی جرات نہ ہوئی.اور اگر ایک آدھ مولوی نے آمادگی کا اظہار کیا بھی تو اس کے ساتھیوں نے اسے منع کر دیا اور کوئی سامنے نہ آیا.حضرت مسیح موعود اسی مضمون کو اپنے ایک شعر میں یوں بیان فرماتے ہیں:.آزمائش کے لئے کوئی نہ آیا ہر ہر مخالف کو مقابل چند بلایا ہم نے ۳۲.خدا کی بارگاہ میں قبولیت کا شرف پانیوالی ایک اور تصنیف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی عظمت اور کمالات کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے اور دین پر فلسفہ اور سائنس و عقل کے حوالے سے اعتراض کرنے والوں کے جواب میں 1892ء میں ایک کتاب لکھنی شروع کی جو فروری

Page 33

1893ء میں آئینہ کمالات اسلام کے نام سے شائع ہوئی.اس کتاب کی تصنیف کے دوران دو مرتبہ آپ نے رسول ﷺ کی زیارت کی اور حضور نے اس کتاب کی تصنیف پر خوشنودی کا اظہار کیا.11 جنوری 1893ء کو جب کتاب کا اردو حصہ مکمل ہو گیا تو مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے عرض کیا کہ اس کتاب کے ساتھ مسلمان پیروں اور مشائخ پر اتمام حجت کیلئے ایک خط بھی شائع کیا جانا چاہئے.حضور نے اس تجویز کو پسند کیا اور آپ کو یہ تحریک ہوئی کہ یہ خط عربی زبان میں لکھا جائے.اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے پر آپ کو ایک رات میں الہامی طور پر چالیس ہزار عربی مادے سکھائے گئے اور ای الہام کی برکت سے آپ نے التبلیغ کے نام سے عربی زبان میں ایک فصیح و بلیغ خط لکھا جو اس کتاب کا ایک اہم حصہ ہے.یہ کتاب حضور کی پہلی عربی تصنیف بھی ہے.اور روحانی خزائن کی جلد نمبر 5 میں موجود ہے.اس کتاب کے بارے میں حضور فرماتے ہیں:.یہ کتاب ان نادر اور نہایت لطیف تحقیقاتوں پر مشتمل ہے جو مسلمانوں کی ذریت کیلئے نہایت مفید اور آج کل کے روحانی ہیضہ سے بچنے کے لئے جو اپنے زہرناک مادے سے ایک عالم کو ہلاک کرتا جاتا ہے نہایت محبوب اور شفا بخش شربت ہے.“ ( تبلیغ رسالت جلد دوم صفحه 116) ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے کوئی دیں دین محمد سا پایا ہم نے ۳۳.عربی اور فارسی نعتیہ قصیدہ آئینہ کمالات اسلام میں عربی زبان میں آنحضرت ﷺ کی شان میں ایک خوبصورت قصیدہ بھی حضرت اقدس نے تحریر فرمایا جس کا پہلا شعر یہ ہے.ــن فـيــــــض اللـ ـــرف ان الیک ـمـــــــان اور اس کا آخری شعر یہ ہے کہ الیک مــــن شـــوق عـــلا اليـــــــت كـــــــانــــــت قـــــــــة الـــــطيــــــران

Page 34

اس قصیدے کے کل 70 اشعار ہیں اور یہ خوبصورت نعتیہ قصیدہ حضرت اقدس نے اپنی عربی تصنیف التبلیغ کے آخر پر رقم فرمایا تھا.جب آپ نے یہ قصیدہ مکمل کیا تو خوشی سے آپ کا چہرہ مبارک چمک رہا تھا.آپ نے فرمایا کہ یہ قصیدہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہو گیا اور خدا تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا ہے کہ جو شخص یہ قصیدہ حفظ کرلے گا اور ہمیشہ پڑھے گا میں اس کے دل میں اپنی اور اپنے رسول ﷺ کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دوں گا اور اپنا قرب عطا کروں گا.حضرت اقدس نے آئینہ کمالات اسلام میں ایک خوبصورت فارسی نعت بھی تحریر فرمائی.چوں زمن آید ثنائے سرور عالی تبار عاجز از مد حش زمین و آسمان و هر دو دار ۳۴.برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ کو دعوت حق حضرت اقدس مسیح موعود نے اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں ایک خط کے ذریعے سے سلطنتِ برطانیہ کی عظیم ملکہ وکٹوریہ کو کمال جرات اور دلیری سے دین حق کی دعوت دی.حضرت اقدس مسیح موعود نے آنحضرت ﷺ کے الفاظ میں ہی ملکہ کو ( دین حق ) کی طرف بلایا اور لکھا کہ.66 اے ملکہ ( دین حق قبول کرلے ) تو اور تیری سلطنت محفوظ رہے گی.“ ( ترجمه عربی عبارت) اس خط میں حضور نے ( دین حق ) کی دعوت کے ساتھ ملکہ وکٹوریہ کو مسلمانوں سے حسن سلوک کے بارے میں نصائح بھی فرمائیں اور اسے سمجھایا کہ مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ وہ اس ملک ہند پر ایک ہزار سال سے زائد عرصہ حکمران رہے ہیں.ملکہ وکٹوریہ کو جب یہ دعوت موصول ہوئی تو اس نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو شکریہ کا خط ارسال کیا نیز اس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ حضور اپنی باقی تصنیفات بھی اسے ارسال کریں ۳۵.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ولادت 20 اپریل 1893ء کا دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک اہم دن ہے.اس روز اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ

Page 35

السلام کو ایک بیٹے سے نوازا جن کا نام بشیر احمد رکھا گیا.آپ کی پیدائش سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے الہام کی ذریعے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک عظیم فرزند کی خوشخبری دے دی تھی.اور الہاماً اس بیٹے کو قمر الانبیاء یعنی نبیوں کے چاند کا خطاب دیا گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش اور تمنا تھی کہ آپ کو M.A کروایا جائے تا کہ آپ دین کی عظیم الشان خدمات سرانجام دیں سکیں.چنانچہ آپ نے 1916ء میں M.A کا امتحان پاس کیا.اور اس کے بعد اپنے عظیم قلمی جہاد کا آغاز فرما دیا.آپ نے قریباً ہر ایک موضوع پر مضامین لکھے جن کے ذریعے سے جماعت کی تربیت اور تعلیم کا فریضہ سرانجام دیا.آپ کی بلند پایا تصنیف سیرت خاتم النبین آنحضرت ﷺ کی زندگی کے دلکش پہلوؤں کو بڑی تفصیل سے بیان کرتی ہے.اور اپنی نوعیت کی کتابوں میں ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہے.اسی طرح 1939ء میں آپ کی ایک یاد گار تصنیف ”سلسلہ احمدیہ شائع ہوئی جو جماعت احمدیہ کے پچاس سالہ کارناموں کی مختصر مگر جامع اور مستند تاریخ ہے.عظیم علمی، ادبی اور انتظامی خدمات سرانجام دینے کے بعد 2 ستمبر 1963 ء کو یہ عظیم وجود اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا.آپ کی وفات لاہور میں ہوئی اور آپ کا مزار بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہے.لاتصبون الى الوطن ۳۶.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی قادیان میں مستقل رہائش حضرت خلیفہ المسیح الاول مہاراجہ کشمیر کی ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد اپنے آبائی علاقہ بھیرہ میں ایک بڑا شفاخانہ کھولنا چاہتے تھے.یہ 1892 ء کا واقعہ ہے.اس سلسلے میں آپ نے ایک عظیم الشان مکان کی تعمیر شروع کی اور بڑے زورو شور سے تعمیر کا کام ہونے لگا.اسی اثناء میں 1893ء میں آپ کو مکان کی تعمیر کے سلسلے میں بعض ضروری چیزوں کی خریداری کے سلسلے میں لاہور جانا پڑا.لاہور پہنچ کر جی چاہا کہ قادیان نزدیک ہے حضرت اقدس سے بھی ملاقات کر لیں.اس لئے آپ نے قادیان جانے کا ارادہ باندھا.خیال یہ تھا کہ چونکہ بھیرہ میں تعمیر کا سلسلہ جاری ہے اس لئے جلدی سے قادیان جا کرواپس آجائیں گے.آپ نے بٹالے سے قادیان جانے کیلئے یکہ لیا اور یکے والے سے کہا کہ کچھ دیر ٹھہر کر تمہارے ساتھ ہی واپسی ہوگی.آپ جب حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے فرمایا ” اب تو آپ فارغ ہو گئے ہیں آ.نے جواب دیا ” جی حضور ! اب تو میں فارغ ہی ہوں.“ آپ نے یکے والے کو فارغ کر دیا اور سوچا کہ دو تین دن کے بعد واپسی کی اجازت لیں گے.لیکن اگلے ہی روز حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ سے فرمایا کہ آپ کو اکیلے رہنے میں دقت ہو گی آپ اپنی بیوی کو بھی یہاں بلوالیں.آپ نے بغیر کسی

Page 36

عذر کے گھر خط لکھ دیا جس میں یہ بھی لکھ دیا کہ مکان کی تعمیر روک دی جائے کیونکہ شاید میں جلدی نہیں آ سکوں گا.اس کے بعد ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہا السلام نے آپ سے فرمایا کہ اب آپ اپنے وطن بھیرہ کا خیال بھی دل میں نہ لاویں.“ نیز حضور نے مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی سے فرمایا کہ مجھے مولوی نور الدین صاحب کے بارے میں یہ الہام ہوا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میرے واہمہ اور خواب میں بھی بھیرہ کا خیال پیدا نہ ہوا.اور یوں آپ ہمیشہ کیلئے قادیان کے ہوگئے.(مرقاة اليقين في حياة نورالدین صفحه 302) یہی وہ اطاعت کا اعلی معیار تھا جسکے سبب حضرت مسیح موعود نے آپ کی تعریف میں فرمایا کہ:.خوش بودے چه اگر ہمیں بودے اگر ہر ہر یک زامت نوردیں بودے دل پر از نور یقیں بودے یعنی کیا ہی اچھا ہو کہ امت کا ہر فردنور دین بن جائے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے جب ہر ایک دل یقین کے نور سے بھر جائے.۳۷.جنگ مقدس جنگ مقدس سے مراد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا وہ مباحثہ ہے جو حضور نے 22 مئی 1893 سے 5 جون 1893 ء تک عیسائی پادریوں سے امرتسر کے مقام پر کیا اور جس میں قدم قدم پر اللہ تعالی نے آپکو عظیم فتوحات سے نوازا.اس مباحثے کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ جنڈیالہ جہاں پادریوں کا ایک زبر دست مشن موجود تھا وہاں کے ایک مسلمان میاں محمد بخش پاندہ صاحب عیسائیوں کے واعظوں کو عیسائیت پر اعتراضات پیش کر کے لاجواب کرتے رہتے تھے.جب عیسائی پادری ان سے تنگ آئے تو انہوں نے کہا کہ یہ طریق مناسب نہیں.بہتر یہ ہوگا کہ تم اپنے مولوی کو بلاؤ اور ہم اپنے پادری بلاتے ہیں یوں ایک جلسہ میں عیسائیت اور اسلام کے بارے میں بحث ہو جائے.پاندہ صاحب نے اس بات کو منظور کر لیا اور حضرت اقدس مسیح موعود کو اس سلسلے میں خط تحریر کیا کہ آپ اس مباحثے کے

Page 37

لئے تشریف لائیں.حضرت اقدس نے اس دعوت کو بڑی خوشی سے قبول فرمالیا اور بالاخر مباحثے کے لئے 22 مئی سے 5 جون 1893ء کی تاریخیں مقرر ہو گئیں نیز طے ہوا کہ یہ مباحثہ امرتسر کے مقام پر ہوگا.عیسائیوں کی طرف سے اس مباحثے کی تجویز در اصل ہنری مارٹن کلارک نے پیش کی تھی اسلئے وہ عیسائیوں کے نمائندہ تھے.اور انہوں نے اپنے ساتھ عبداللہ آتھم کو بھی مباحثے میں شریک کرلیا تھا.جو ان کے شدید اصرار پر بڑی مشکل سے حضرت اقدس کے مقابلے پر آنے کے لئے تیار ہوا تھا.یہ مباحثہ تحریری تھا جس میں دونوں فریقوں کی طرف سے سوال اور جواب لکھ کہ پیش کئے جاتے تھے.حضور کی طرف سے مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی یہ پرچے پڑھ کر سناتے تھے.اس مباحثے کی ابتداء سے ہی حضرت اقدس مسیح موعود نے پادریوں کو لاجواب کر دیا اور عبداللہ ھم تو لا جواب ہو کر یہ لکھوانے پر مجبور ہو گیا کہ مسیح تمیں برس تک عام انسانوں کی طرح تھا پھر جب اس پر روح القدس نازل ہوا تو وہ مظہر اللہ کہلایا.اس پر حضرت اقدس نے جواب لکھوایا کہ ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ مسیح انسان اور نبی تھا.اور جب کسی انسان پر روح القدس نازل ہوتا ہے تو وہ مظہر اللہ یعنی نبی بن جاتا ہے.الوہیت مسیح پر لگنے والی یہ ضرب دیکھ کر عیسائیوں کے رنگ زرد ہو گئے اور انہوں نے آتھم صاحب سے کہا کہ یہ آپ نے کیا لکھوا دیا ؟ آتھم نے جواب دیا میں کیا لکھواتا.جولکھوانا تھا سولکھوادیا.میں بیمار ہوں مجھے چھوڑو میں جاتا ہوں تم جو چاہو کھواؤ.غرض اللہ تعالیٰ نے اس مباحثے میں عیسائیت کو شکست فاش دی اور یہ مقدس جنگ خدا تعالیٰ کے فتح نصیب جرنیل نے جیت اس عظیم الشان مباحثے کی مکمل روداد جنگ مقدس کے نام سے روحانی خزائن کی جلد نمبر 6 میں موجود ہے.۳۸.چاند اور سورج گرہن کا نشان آنحضرت ﷺ نے امام مہدی اور مسیح موعود کی سچائی کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی بیان فرمائی تھی کہ مسیح موعود کے وقت میں ایک ایسا عظیم نشان ظاہر ہو گا جو اس سے پہلے روئے زمین پر کسی دعویٰ کرنے والے کی سچائی کے اظہار کے لئے ظاہر نہیں ہوا.اور وہ نشان یہ ہوگا کہ امام مہدی کے وقت میں رمضان کے مہینے میں چاند کو گرہن کی تاریخوں میں سے) پہلی تاریخ یعنی 13 رمضان کو گرہن لگے گا جبکہ سورج کو گرہن کی تاریخوں میں سے ) درمیانی تاریخ یعنی اٹھائیس تاریخ کو گرہن لگے گا.حضور اکرم ﷺ کی یہ روایت حضرت امام باقر سے مروی ہے اور احادیث کی کتاب دار قطنی میں موجود ہے.صداقت کی یہ علامت ایسی کڑی تھی کہ کوئی شخص منصوبہ کر کے اسے اپنے حق میں استعمال نہیں کر سکتا تھا.اور پھر جب اللہ تعالیٰ کا سچا مہدی ظہور پذیر ہوا تو 1894ء میں یہ نشان بھی پوری صفائی کے ساتھ ظاہر ہو گیا.چنانچہ اس پیشگوئی کے عین مطابق 20 مارچ 1894ء کو چاند گرہن اور صلى الله

Page 38

16اپریل 1894ء کو اسی رمضان کے مہینے میں ہی سورج گرہن ہوا.جبکہ اگلے سال رمضان کے مہینے میں ہی یہ نشان امریکہ اور اس کے ملحقہ ممالک میں ظہور میں آیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کر گیا.آپ اپنے ایک منظوم کلام میں اسی نشان کے بارے میں فرماتے ہیں.آسماں میرے لئے تو نے نے بنایا اک گواہ چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار عیسائیوں کی شکست ۳۹.پادری عبداللہ ا عظم کا ذلت آمیز انجام الله عیسائیوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود کا ایک طویل مباحثہ 22 مئی سے 5 جون 1893 ء تک امرتسر کے مقام پر ہوا.اس مباحثے میں مسلمانوں کی طرف سے حضرت مسیح موعود نمائندہ مقرر ہوئے اور عیسائیوں کی طرف سے ان کے مشہور عالم عبداللہ آ تم مقرر ہوئے.حضور نے آنحضرت ﷺ کی صداقت اور قرآن اور دین حق کی سچائی کے زبر دست عقلی ونقلی دلائل دیئے.اور عبداللہ آتھم کے پیش کردہ دلائل کو رڈ کرتے ہوئے دین کی صداقت کو ثابت کیا.جو ” جنگ مقدس“ کے نام سے شائع ہوا.اسی مباحثے کے آخری دن یعنی 5 جون 1893ء کو حضور نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر یہ ز بر دست پیشگوئی فرمائی کہ:.’اس بحث میں دونوں فریقین میں سے جو فریق عملاً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ پندرہ ماہ کے عرصے میں ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی.بشرطیکہ وہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.“ یر زبر دست پیشگوئی سن کر عیسائیوں کے دریدہ دہن عالم اور مباحثے میں حضور کے مقابل پر آنے والے پادری عبداللہ آ تم کا رنگ فق اور چہرہ زرد ہو گیا اور اس نے بلا توقف یہ اقرار کیا کہ تو بہ تو بہ میں نے بے ادبی اور گستاخی نہیں کی.یہ مباحثہ تو ختم ہو گیا لیکن حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کا پادری عبداللہ اعظم پر بہت گہرا اثر ہوا.اور اسے خدائی تصرف کے ماتحت مختلف خوفناک نظارے نظر آنے لگے جنہوں نے اسے دہلا کر رکھ دیا.اور وہ گریہ وزاری پر مجبور ہو گیا دیگر پادریوں کے لئے یہ صورتحال بڑی پریشان کن تھے اس لئے انہوں نے پیشگوئی کی ہیبت کم کرنے کے لئے دن رات عبد اللہ آتھم کو شراب کے نشے میں مد ہوش رکھنا شروع کر دیا.اس پندرہ مہینے کے میعاد میں آتھم نے دین کی مخالفت سے کلیتا کنارہ کشی کر لی اور یہ اقرار کر لیا کہ میں ان

Page 39

عیسائیوں کے ساتھ شامل نہیں ہوں جنہوں نے حضرت مرزا صاحب کے ساتھ کچھ بے ہودگی کی ہے.پیشگوئی میں چونکہ یہ پہلو موجود تھا کہ اگر آ قم حق کی طرف رجوع کرے گا تو بچ سکتا ہے اس لئے اس کی عملی حالت نے بھی اور زبان نے بھی جب حق کی طرف رجوع کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق یہ انذاری پیشگوئی ٹال دی.اور آتھم بچ گیا.ادھر یہ حال تھا اور دوسری طرف عیسائیوں اور مخالف مسلمان علماء نے یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ حضور کی پیشگوئی جھوٹی نکلی اور عبداللہ آ تم بچ گیا.حضور نے فرمایا کہ میرے خدا نے الہاما مجھے بتایا ہے کہ آتھم نے حق کی طرف رجوع کر لیا تھا اور اس کے دل کے ہم و غم کی اطلاع دی گئی ہے اور پیشگوئی میں یہ شرط بھی تھا کہ اگر وہ حق کی طرف رجوع کرے گا تو بچ جائے گالہذا خدا نے مجھے بتایا ہے کہ اس وجہ سے وہ بچ گیا ہے.رہی یہ بات کہ کیا میری بات سچ ہے اور آتھم نے رجوع کر لیا تھا.اس کا آسان فیصلہ ہے کہ آتھم قسم کھا لے کہ اس نے رجوع نہیں کیا تھا اگر وہ قسم کھا کر ایک سال تک زندہ رہا تو میں جھوٹا اور قسم کھانے کی صورت میں حضور نے اس کو چار ہزار روپے انعام پیش کرنے کا وعدہ بھی کیا اس کو خدا کی قسم اور عیسائیت کی سچائی کی غیرت بھی دلائی لیکن اس کے تن مردہ میں جان نہ پڑ سکی.ان تمام باتوں کے باوجود جب خاموشی اختیار کئے رکھی تو بالآخر حضور نے یہ آخری پیشگوئی فرمائی کہ اب اگر آتھم صاحب قسم کھا لیں تو ( ان کی ہلاکت کا ) وعدہ ایک سال کا قطعی یقینی ہے جس کے ساتھ کوئی شرط نہیں اور تقدیر مبرم ہے اور اگر تم نہ بھی کھاویں تو پھر بھی خدا تعالیٰ ایسے مجرم کو بے سزا نہیں چھوڑے گا جس نے حق کا اخفاء کر کے دنیا کو دھوکہ دینا چاہا.“ تبلیغ رسالت جلد سوم صفحه 177) لیکن آتھم کو تم نہ کھائی تھی اس نے نہ کھائی اور بالآ خر حق کو چھپانے کے جرم کی پاداش میں 27 جولائی 1896ء کو فیروز پور میں وفات پا گیا.اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دل دُکھانا گستاخ ہوتے جانا اس کی جزا یہی ہے ۴۰.قادیان میں لنگر خانہ پر لیں اور لائبریری کا آغاز حضرت اماں جان کے ساتھ حضرت اقدس کا نکاح 1884ء میں ہوا تھا.اور در حقیقت اسی دور سے حضور کے گھر آنے

Page 40

والے مہمانوں کی خدمت اور مہمان نوازی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا.نفاست اور امور خانہ داری میں مہارت ہونے کی وجہ سے حضرت اماں جان ان فرائض کو بڑی خوبی کے ساتھ ایک لمبا عرصه سرانجام دیتی رہیں اور دعوئی ماموریت کے بعد ایک لمبے عرصے تک آنے والے مہمانوں کی دیکھ بھال حضرت اماں جان ہی کرتی رہیں.پھر بعد میں بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے پیش نظر میان خانہ فصیل کی جگہ پر تیار شدہ عمارت میں منتقل کردیا گیا.سلسلہ احمدیہ کی عظیم ترقیات کے ساتھ ساتھ اب ضروریات بھی بڑھتی جارہی تھیں اس لئے 1895ء کے تاریخی سال میں قادیان میں پریس لائبریری اور مطب کی ابتداء ہوئی.یہ سب ادارے قادیان کی پرانی منہدم فصیل کی جگہ پر کچی عمارتوں میں قائم کئے گئے.اگر چہ قادیان میں مرکزی پریس قائم کئے جانے کی تجویز 1892ء کے جلسہ سالانہ میں اتفاق رائے سے منظور ہو چکی تھی لیکن اس کا قیام 1895ء میں عمل میں آیا.اس پریس میں سب سے پہلے جو کتاب شائع ہوئی وہ حضور کی تصنیف ضیاء الحق تھی.یہ ضیاء السلام پریس کا نکتہ آغاز تھا.کتب خانہ (لائبریری) بھی فصیل کی جگہ پرنئی عمارت میں قائم ہوا جس کے پہلے انچارج حکیم فضل دین بھیروی صاحب بنائے گئے.۴۱.حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی ولادت حضرت اقدس مسیح موعود کو 1894ء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت دی گئی تھی کہ آپ کو ایک فرزند عطا کیا جائے گا اور آپ نے اپنی تصنیف ” انوار الاسلام میں قبل از وقت اس کی خبر بھی شائع فرما دی تھی.چنانچہ اس پیش خبری کے عین مطابق 24 مئی 1895ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی ولادت ہوئی.آپ کی پیدائش پر حضور نے عالم کشف میں یہ دیکھا کہ آسمان سے ایک رو پیداترا اور آپ کے ہاتھ پر رکھا گیا.اس روپیہ پر معمر اللہ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے.آپ حضرت مصلح موعود سے عمر میں چھ سال چھوٹے تھے.انتہائی سخی اور غریب نواز تھے اور ہر سوال کرنے والے سائل کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش فرمایا کرتے تھے.مختلف عہدوں پر جماعت کی خدمات سرانجام دیتے رہے جن میں خصوصیت سے نظارت تعلیم اور نظارت اصلاح وارشاد قابل ذکر ہیں جن میں بطور ناظر خدمت کرنے کی توفیق ملی.فتنہ احرار کے زمانے میں دشمنوں کے مقابلے میں اور ان کے منصوبوں کے ازالے کے لئے جس نظارت خاص کا قیام عمل میں آیا تھا آپ اس کے ناظر کے طور پر بھی خدمات انجام دیتے رہے.آپ قریباً 67 سال کی عمر پا کر 26 دسمبر 1961ء بمطابق سترہ رجب 1381 هجری بوقت صبح آٹھ بجے جبکہ جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسے کا افتتاحی اجلاس

Page 41

شروع ہونے والا تھار بوہ میں وفات پاگئے.آپ کی نماز جنازہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل آئی.عربی زبان "ام الالسنہ ہے ۴۲ - زبر دست علمی تحقیق پر مبنی کتاب 1895ء کے سال کو یہ تاریخی حیثیت بھی حاصل ہے کہ اسی سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ”معرکۃ الآراء کتاب من الرحمن تالیف فرمائی.اس کتاب میں آپ نے یہ عظیم علمی تحقیق پیش فرمائی کہ عربی زبان ”ام الالسنہ، یعنی تمام زبانوں کی ماں ہے.اس انکشاف کے بارے میں حضور نے بڑی محنت سے تحقیق فرمائی اور پھر اس کتاب کے ذریعے یہ تحقیق بیان کی.یہ تصنیف اس اعتبار سے بھی ایک معجزہ تھی کہ یہ کتاب محض ڈیڑھ ماہ کے قلیل عرصے میں لکھی گئی چنا نچھا پر میل 1895 ء میں یہ کتاب مکمل ہو گئی.حضور نے اس کتاب میں پانچ زبر دست اور قطعی دلائل سے یہ ثابت فرمایا کہ عربی زبان ہی ”ام الالسنہ “ اور کامل اور الہامی زبان ہے.ان دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ.ا.عربی زبان کے مفردات کا نظام کامل ہے یعنی انسانی ضرورتوں کو وہ مفردات پوری مدد دیتے ہیں جبکہ دوسری لغات اس سے بے بہرہ ہیں.۲.عربی زبان میں اسماء باری اسماء ارکان عالم نباتات و حیوانات اور جمادات اور اعضائے انسان کی وجوہ تسمیہ بڑے بڑے علوم حکمیہ پر مشتمل ہیں.دوسری زبانیں اس کا مقابلہ ہرگز نہیں کر سکتیں.۳.عربی کے مواد الفاظ کا تسلسل بھی ایک مستقل نظام رکھتا ہے اور اس نظام کا دائرہ تمام افعال اور اسماء کو جو ایک ہی مادے کے ہیں ایک سلسلہ حکمیہ میں داخل کر کے ان کے باہمی تعلقات دکھاتا ہے.۴.عربی کی تراکیب میں الفاظ کم اور معانی زیادہ ہیں.۵.عربی زبان ایسے مفردات اور تراکیب اپنے ساتھ رکھتی ہے کہ جو انسان کے تمام بار یک در بار یک دلی خیالات کا نقشہ کھینچنے کے لئے کامل وسائل ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود نے اس زمانے میں عربی کی ترویج کے لئے ایک خوبصورت عملی مہم یہ شروع فرمائی کہ اپنی جماعت کے احباب کو یہ تحریک فرمائی کہ وہ عربی سیکھیں اور اپنی عام گفتگو میں اسے استعمال کریں.اس مقصد کے لئے آپ نے حضرت

Page 42

ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کو (جو اس وقت صرف 14 سال کے تھے ) ایک ہزار کے قریب عربی فقرات بھی ترجمے کے ساتھ لکھوائے تا کہ انہیں یاد کیا جاسکے.آج بھی اس بات کی طرف توجہ کی ضرورت ہے کہ ہماری نئی نسلیں عربی زبان سے واقفیت پیدا اور اس زبان کو سیکھنے کی کوشش کریں.۴۳.بابا نانک کے مسلمان ہونے کا انکشاف حضرت اقدس مسیح موعود نے قریباً 1878ء میں یہ کشف دیکھا تھا کہ بابا نانک مسلمان تھے اور انہوں نے بھی اسلام ہی کے چشمہ صافی سے پانی پیا تھا.آپ کو اس وقت سے ہی کامل یقین تھا کہ آئندہ وقت میں اس کشف کی تصدیق ضرور ہو جائیگی.چنانچہ 1895ء میں آپ نے اسی بات کی تصدیق کی خاطر ڈیرہ بابا نانک ضلع گورداسپور کے سفر کا ارادہ فرمایا جہاں سکھ روایات کے مطابق حضرت بابا گرونانک کا ایک چولہ مقدس یادگار کے طور پر محفوظ تھا.جس کے بارے میں سکھوں کا اس بات پر اتفاق تھا کہ یہ چولہ آسمان سے بابا نانک کیلئے اترا تھا اور قدرت کے ہاتھ سے تیار ہوا تھا اور قدرت کے ہاتھ ہی سے بابا صاحب کو پہنایا گیا تھا.حضور 30 ستمبر 1895 ء بروز پیر صبح سویرے اپنے دس مخلص خدام کے ساتھ اس سفر کیلئے روانہ ہوئے اور قریباً دس بجے صبح ڈیرہ نانک پہنچے.اور قریباً گیارہ بجے ایک مخلص خادم کی نہایت درجہ کوشش سے یہ چولہ حضور کو دکھانے کیلئے کھولا گیا.اور اس پر لکھی ہوئی تمام تحریریں آپ نے اپنی آنکھوں سے خود ملاحظہ فرمائیں اس مقدس چولے پر جگہ جگہ قرآن کریم کی آیات کلمئہ طیبہ اور کلمات شہادت درج تھے، کسی جگہ سورۃ فاتح لکھی ہوئی تھی اور کسی جگہ سورۃ اخلاص اور بعض جگہوں پر یہ لکھا تھا کہ قرآن خدا کا پاک کلام ہے اسے ناپاک لوگ ہاتھ نہ لگائیں.یہ چولہ حضرت بابا نانک کے مسلمان ہونے پر بہت بڑا گواہ تھا پس حضور نے اس سفر کے بعد سکھوں پر اتمام حجت کی غرض سے ایک کتاب ”ست بچن تحریر فرمائی جو نومبر 1895ء میں شائع ہوئی جس میں حضور نے حضرت بابا نانک کے مسلمان ہونے کے دلائل کا تفصیل سے ذکر کیا ہے.اور اس عظیم تصنیف کو پڑھ کر متعد دسکھوں نے دین حق بھی قبول کیا.

Page 43

مضمون بالا رہا ۴۴.جلسہ مذاہب عالم میں عظیم الشان فتح 1896ء کا سال جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بڑی شان و شوکت کا حامل ہے.اس سال لاہور میں ایک عظیم الشان جلسے کا اہتمام کیا گیا جسے ” جلسہ مذاہب عالم کا نام دیا گیا.سوامی سادھوشوگن چندر نامی ایک صاحب اس جلسے کے بانی اور منتظم تھے اور وہ اس سے پہلے اس قسم کا ایک جلسہ اجمیر میں بھی منعقد کروا چکے تھے.اور اس سلسلے کے دوسرے جلسے کیلئے انہوں نے لاہور کا انتخاب کیا اور تمام مذاہب کے نمائندوں سے درخواست کی کہ وہ اپنے اپنے مذہب کی روشنی میں درج ذیل پانچ سوالوں کی وضاحت کریں:.ا.۲.٣.۵ انسان کی جسمانی اخلاقی اور روحانی حالتیں کیا ہیں؟ انسان کی زندگی کے بعد کی حالت یعنی آخرت کیا ہے؟ دنیا میں انسان کی ہستی کی غرض وغایت کیا ہے؟ اعمال کا اثر دنیا اور آخرت پر کیا ہے؟ علم اور معرفت کے ذرائع کیا ہیں؟ سوامی شوگن چندر صاحب اس جلسے کی دعوت دینے کیلئے قادیان بھی تشریف لائے اور حضرت اقدس سے اس کے لئے مضمون لکھنے کی درخواست کی.آپ نے اول تو اپنی بیماری کی وجہ سے معذرت کی لیکن پھر اس کے شدید اصرار پر دعا کے ساتھ یہ مضمون لکھنا شروع کر دیا.جب آپ یہ مضمون لکھ چکے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو الہام ہوا کہ:.دد مضمون بالا رہا چنانچہ حضور نے اس جلسے سے قبل ہی 21 دسمبر 1896ء کے ایک اشتہار میں اس مضمون کی برتری اور غلبے کا ذکر فرما دیا.یہ جلسہ 26, 27 اور 28 دسمبر 1896ء کو انجمن حمایت اسلام لاہور کے ہائی سکول میں منعقد ہوا اور حضور کا تحریر کردہ مضمون حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھ کر سنایا.وقت کی کمی کے باعث یہ مضمون وقت مقررہ میں پورا نہ ہو سکا تو اس کے لئے زائد وقت دیا گیا اور پھر سامعین کے بے انتہا اصرار پر اس مضمون کی خاطر جلسے کا ایک دن اور بڑھا دیا گیا.یوں لوگوں کی توجہ ان کے انجاک اور پسندیدگی نے صاف بتادیا کہ یہ مضمون دیگر تمام مضامین پر بالا رہا.ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگوں نے بھر پور دلچسپی سے یہ مضمون سنا.اور بعد ازاں ہیں کے قریب اخبارات نے اس مضمون کی تمام

Page 44

مذاہب کے نمائندگان کی تقریروں پر برتری اور شاندار فتح کا ذکر کیا.مجموعی طور پر یہ لیکچر قریباً چھ گھنٹے جاری رہا.اور بعد ازاں اسے کتابی شکل میں بھی شائع کیا گیا.آپ سب یقیناً جانتے ہیں کہ یہ کون سی کتاب ہے ! جی ہاں.اس کتاب کا نام ہے اسلامی اصول کی فلاسفی جو روحانی خزائن کے جلد نمبر 10 میں موجود ہے.۴۵.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ حضرت سید ہ نواب مبار که بیگم صاحبہ کی ولادت 2 مارچ 1897ء کو ہوئی.حضرت مسیح موعود کو آپ کی پیدائش سے قبل اللہ تعالی نے ایک لڑکی کی بشارت دے رکھی تھی.پھر جب سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کی عمر چار سال کے لگ بھگ تھی تو حضوڑ کو آپ کے بارے میں الہام ہوا ” نواب مبار کہ بیگم ، جس میں آپ کے تابناک مستقبل اور نیک بختی کی طرف اشارہ کیا گیا تھا.چنانچہ اس الہام کے عین مطابق حضرت صاحبزادی صاحبہ کی شادی حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس اعظم ریاست مالیر کوٹلہ سے ہوئی.آپ کا نکاح 17 فروری 1908ء کو ہوا جبکہ ایک سال بعد 14 مارچ 1909 ء کو آپ کی تقریب رخصتانہ عمل میں آئی.آپ کا نکاح حضرت مولانا نورالدین صاحب نے حضرت مسیح موعود کی موجودگی میں پڑھایا.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود سے نسبی تعلق کا فخر عطا فر مایا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ بلند پای علمی اور ادبی ذوق سے بھی نوازا تھا.آپ کی شعری خدمات کا سلسلہ 1924 ء سے شروع ہوا اور آپ کی خوبصورت اور دلکش نظموں کا مجموعہ ” در عدن“ کے نام سے شائع ہوا.جو سچے جذبات اور خوبصورت اشعار کا ایک حسین مرقع ہے.آپ نے 23 مئی 1977ء کو قریباً80 سال کی عمر میں وفات پائی.آپ کے اشعار کی گونج آج بھی گھر گھر سنائی دیتی ہے.بنترس از تیغ بران محمد ۴۶.شاتم رسول پنڈت لیکھرام کا عبرتناک انجام اسلام اور پانی ،اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں دلیری کے ساتھ گستاخیاں کرنے والے آریہ لیڈر پنڈت لیکھرام پشاوری کے بارے میں حضرت مسیح موعود فروری 1893ء میں اس کے مسلسل اصرار پر ایک مفصل پیشگوئی شائع فرما چکے تھے جس

Page 45

میں اس کی سزا کیلئے چھ سال کی مدت مقررفرمائی تھی.1897ء کا سال اس پیشگوئی کو پورا کرنے والا بن کر آیا اور پنڈت لیکھرام اپنی گستاخیوں کے سبب سے خدا تعالیٰ کے غضب کا مورد بنتے ہوئے اپنے عبرتناک انجام سے دو چار ہوا.5مارچ 1897ء کو عید الفطر تھی جو سکون سے گزرگئی.لیکن اگلے روز چھ مارچ کو شام سات بجے جبکہ پنڈت لیکھرام لاہور میں اپنے گھر کی بالائی منزل پر بیٹھا پنڈت دیانند کی سوانح عمری لکھ رہا تھا اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک اجنبی شخص نے جو پنڈت لیکھرام کے پاس آریہ دھرم اختیار کرنے کی غرض سے آیا تھا اچانک منجر کا ایک بھر پور وار کر کے لیکھرام کو شد ید زخمی کر دیا.یہ وار ایسا شدید تھا کہ اس کی انتڑیاں تک باہر نکل آئیں اور وہ منہ کے بل زمین پر جا گرا.چیخ و پکار کی آوازیں سن کر لوگ جمع ہوگئے اور لیکھر ام کو فوری طور پر لاہور کے میوہسپتال پہنچا دیا گیا.انگریز سرجن ڈاکٹر پیری نو بجے کے قریب ہسپتال پہنچے اور زخموں کو سینا شروع کیا.بارہ بجے کے قریب وہ اس کام سے فارغ ہوئے تو ٹانکے ٹوٹ گئے جس کی وجہ سے انہیں دوبارہ سینا پڑا.لیکن یہ تمام طبی تدابیر بالکل بریکار گئیں اور صبح چار بجے کے قریب لیکھرام نے تڑپ تڑپ کر جان دے دی.اور یوں حضرت مسیح موعود کی وہ پیشگوئی بالکل سچ ثابت ہوئی جو آپ نے اس گستاخ کے بارے میں 20 فروری 1893ء کو کی تھی کہ.دو چھ برس کے عرصے تک یہ شخص اپنی بدزبانیوں کی سزا میں عذاب شدید میں مبتلا ہو جائیگا.نیز آپ نے فرمایا تھا کہ اگر اس شخص پر چھ برس کے عرصے میں کوئی عذاب نازل نہ ہوا جو خارق عادت اور اپنے اندر الہی ہیبت رکھتا ہو تو سمجھو کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں.“ اس کے بعد آپ نے مزید دعا کی تو آپ کو بتایا گیا کہ لیکھرام کی ہلاکت عید کے دوسرے روز ہوگی نیز یہ کہ ایک قوی ہیکل مہیب شکل فرشتہ جس کی آنکھوں سے خون ٹپکتا تھالیکھرام کی ہلاکت کے لئے متعین کیا گیا ہے.اس کے بالمقابل لیکھر ام نے بھی یہ اعلان کیا تھا مرزا صاحب کذاب ہیں اور تین سال کے عرصے میں تباہ و برباد ہو جائیں گے.وہ نادان یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی ہلاکت کی خبر تو خود خدا تعالیٰ نے دی تھی جبکہ اس کی پیشگوئی محض ایک دھمکی اور جھوٹ پر مشتمل تھی.سے آخر لیکھو مرا تھا کٹ کر جس کی دعا ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا یہی ہے

Page 46

۴۷ محمود کی آمین جون 1897ء میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ختم قرآن کی مبارک تقریب ہوئی جس میں کافی تعداد میں احباب نے شرکت کی.اور حضرت اقدس نے اس موقع پر تمام حاضرین کیلئے ایک دعوت کا اہتمام بھی فرمایا.حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ (حضرت اماں جان ) نے اس تقریب آمین کیلئے امرتسر سے ایک شائع شدہ منظوم آمین بھی منگوائی تھی جس کے ہر شعر کے آخر میں ”سبحان من سیرانی آتا تھا.حضرت مسیح موعود نے اس منظوم آمین کے بجائے ایک اور آمین تحریر فرمائی جو فوری طور پر چھپوائی گئی اور اس تقریب میں پڑھ کر سنائی گئی.یہ آمین کچے دلی جذبات اور دعاؤں پر مشتمل تھی جس کے ہر ہر شعر سے محبت ٹپکتی ہے.آج بھی خوشی کے اکثر مواقع پر یہ ظم پڑھی جاتی ہے اور دلوں پر گہرا اثر ڈالتی ہے.حمد و ثناء اسی کو جو ذات جادوانی ہمسر نہیں ہے اس کا کوئی نہ کوئی ثانی باقی وہی ہمیشہ غیر اس کے سب ہیں فانی غیروں سے دل لگانا جھوٹی ہے سب کہانی غیر ہیں وہی ہے اک دل کا یار جانی دل میں مرے یہی ہے سبحان من میرانی پڑھ کے آیا دل دیکھ کر یہ احساں تیری ثنائیں گایا تو نے یہ دن یہ دن دکھایا دکھایا محمود صد شکر ہے خدایا صد شکر ہے خدایا روز کر مبارک سبحان من برانی ہے آج ختم قرآں نکلے ہیں دل کے ارماں تو نے دکھایا یہ دن میں تیرے منہ کے قرباں اے میرے رب محسن کیونکر ہو شکر احساں روز کر مبارک سبحان من برانی اے قادر و توانا آفات سے بچانا ہم تیرے در پہ آئے ہم نے ہے تجھ کو مانا غیروں دل غنی ہے جب سے ہے روز کر مبارک سبحان تجھ کو جانا من میرانی ( در نمین)

Page 47

۴۸.حضور کے خلاف قتل کا مقدمہ جنگ مقدس میں عیسائیت کو دین حق کے مقابل پر جو شکست فاش ہوئی تھی اُس نے پادریوں کو غضبناک کردیا تھا اور وہ اس ہنر یت کا بدلہ لینے کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف انتقامی کاروائی کرنے کیلئے کسی موقعہ کی تلاش میں تھے.اور یہ موقعہ انہیں جہلم کے رہنے والے ایک آوارہ مزاج نوجوان عبدالحمید نے فراہم کر دیا.عبدالحمید نامی یہ شخص بار بارا پنا مذھب تبدیل کرنے کا عادی تھا.کبھی یہ عیسائی ہوتا، کبھی ہندو اور کبھی مسلمان بن جاتا اور اسی چکر میں وہ قادیان بھی گیا لیکن حضرت مسیح موعود نے اس کی حرکتوں کی وجہ سے اس کی بیعت لینے سے انکار کر دیا.قادیان سے نکلا تو یہ شخص عیسائیوں کے ایک پادری ہنری مارٹن کلارک کے ہتھے چڑھ گیا جس نے قادیان سے آنے کا سن کر فورا عبدالحمید کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنے کا منصوبہ بنالیا.اس نوجوان پر پادریوں نے دباؤ ڈال کر اسے یہ بیان دینے کے لئے تیار کر لیا کہ اسے قادیان سے مرزا غلام احمد نے پادری ہنری مارٹن کلارک کو قتل کرنے کیلئے بھیجا ہے.اور یوں آپ کو ایذا پہنچانے کیلئے اقدام قتل کا یہ جھوٹا مقدمہ انگریزی عدالت میں پیش کردیا.اس زمانے میں ڈپٹی کمشنر گورداسپور ولیم مانڈیگو ڈگلس تھے جو ایک معاملہ فہم اور زیرک انسان تھے.انہوں نے مقدمہ کی ابتداء سے ہی یہ سمجھ لیا تھا کہ یہ مقدمہ جھوٹ پر مبنی ہے.اس لئے انہوں نے شروع سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بڑی عزت کا معاملہ کیا آپ کے لئے کمرہ عدالت میں کرسی کا انتظام کیا اور نہایت نرم الفاظ میں آپ سے کہا کہ گو ڈاکٹر کلارک آپ پر اقدام قتل کا الزام لگاتا ہے مگر میں نہیں لگاتا.“ ابتداء میں یہ مقدمہ امرتسر میں شروع کیا گیا لیکن خدا تعالیٰ تقدیر اسے وہاں سے ٹال کر بٹالہ میں لے آئی.جہاں ایک منصف مزاج ڈپٹی کمشنر ولیم مانٹیگو ڈگلس نے اس کیس کی سماعت کی.10 اگست 1897 ء کو بٹالہ میں اس مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا اور باوجود پادریوں کی معاندانہ کوششوں کے یہ جھوٹا مقدمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکا.اللہ تعالی نے حضور کو پہلے سے ہی خوشخبریاں دے رکھی تھیں کہ اس مقدمے سے آپ کوئی گزند نہیں پہنچے گا چنانچہ تمام گواہوں کے بیانات وغیرہ سننے کے بعد مسٹرو لیم مانڈیگو ڈگلس نے 23 اگست 1897 ء کو حضرت اقدس کو اس مقدمے سے باعزت بری کر دیا اور پھر ہنستے ہوئے حضور کو مبارک باددی اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو ڈاکٹر کلارک کے خلاف مقدمہ کر سکتے ہیں.حضرت اقدس نے ان کی بات سن کر بہت ہی خوبصورت جواب دیا.آپ نے فرمایا.میں کسی پر مقدمہ نہیں کرنا چاہتا میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے.“

Page 48

یوں یہ مقدمہ ایک عظیم آسمانی نشان بن کر جماعت کی تاریخ میں یاد گار بن گیا.اور اسی آسمانی نشان سے لوگوں کو آگاہ کرنے کیلئے حضرت اقدس نے جنوری 1898ء میں ” کتاب البریہ تصنیف فرمائی جس میں اس مقدمے کی تمام تفصیل کا ذکر ہے.ارادوں سے کر کے مقدمات پس ایسے ہی چاہا گیا کہ دن مرا ہو جائے مجھ رات آخر کو خدا وہ جو کریم و قدیر ہے جو عالم القلوب عليم و خبير ہے اترا مری مدد کیلئے کرکے عہد یاد پس ره گئے وہ سارے ڈگلس سارا سیه روی و نامراد حال بریت کھل گیا عزت کے ساتھ تب میں وہاں سے بری ہوا قتل کی ٹھانی شریروں نے چلائے تیر مکر بن گئے شیطاں کے کے چیلے اور نسل ہونہار پھر لگا یا ناخنوں تک زور بن کر اک گواہ نہ آیا کوئی بھی منصوبہ ان کو سازدار ( در مشین) ( درمین) واذا الصحف نشرت ۴۹.جماعت احمدیہ کا پہلا اخبار "الحکم 18اکتوبر 1897ء کا دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک یادگار دن کی حیثیت رکھتا ہے.اس دن جماعت احمدیہ کی نمائندگی میں حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اخبار ” الحکم کا پہلا پرچہ شائع کیا اور ایک نئے دور کا آغاز کیا.جماعت احمدیہ کے قیام کو اب تک کوئی آٹھ برس کے قریب عرصہ گزر چکا تھا لیکن اقتصادی مشکلات کی وجہ سے ابھی تک

Page 49

جماعت کی طرف سے کسی اخبار کا جاری کرنا ممکن نہیں ہو سکا تھا.جماعت کے مخلصین کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ جماعت کانمائندہ اخبار ہونا بہت ضروری ہے لیکن حالات ابھی تک اس کی اجازت نہ دیتے تھے.ایسے میں جماعت کے ایک باہمت اور پر جوش نوجوان صحافی حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی نے حضرت اقدس کی خدمت میں خطا لکھا اور ایک اخبار جاری کئے جانے کی درخواست کی.حضرت اقدس نے اپنے دست مبارک سے اس خط کا جواب دیا اور فرمایا کہ اخبار کی ضرورت تو ہے لیکن ہماری جماعت غرباء کی جماعت ہے مالی بوجھ برداشت نہیں کرسکتی.آپ اپنے تجربے کی بناء پر جاری کر سکتے ہیں تو کر لیں اللہ تعالی مبارک کرے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بھی مالی اعتبار سے مضبوط نہ تھے حضرت اقدس کی طرف سے حوصلہ دلانے پر آپ نے باوجود نامساعد حالات کے اس میدان میں قدم رکھ دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ”الحکم“ کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار جاری کرنے میں کامیاب ہو گئے.ابتداء میں یہ اخبار امرتسر سے شائع ہوتار ہا لیکن پھر 1898ء کے آغاز میں یہ قادیان منتقل ہو گیا.الحكم جماعت احمدیہ کا پہلانمائندہ اخبار تھا اور اس کو حضور نے اپنا ایک باز و قرار دیا.۵۰ - مدرسہ تعلیم الاسلام کا آغاز قادیان میں بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے دو اسکول موجود تھے ایک سرکاری سکول جو پرائمری کلاسوں تک تھا اور دوسرا آریہ سکول جس میں اوپر کی کچھ جماعتیں بھی شامل تھیں.لیکن یہ دونوں سکول بچوں کی تربیت کے لئے انتہائی مہلک ثابت ہورہے تھے.سرکاری سکول کا ہیڈ ماسٹر بھی آریہ تھا اور دونوں سکولوں میں بچوں کو دین سے بیزار کرنے کے لئے بھر پور کوششیں کی جاتی تھیں.بچے اپنے اساتذہ سے اثر لیتے ہیں اس لئے یہ دونوں سکول بچوں کو دینی تعلیمات سے دور کرنے میں بڑا اہم کردارادا کر رہے تھے.ان حالات کو دیکھتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان میں ایک دینی سکول کھولنے کی خواہش کا اظہار فرمایا اور جماعت کے مخلصین کو اس سلسلے میں تحریک فرمائی.تاکہ بچوں کو عام دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دین کی خوبیوں اور محاسن سے بھی روشناس کروایا جاسکے.حضرت اقدس کی اس خواہش کے پیش نظر حضور کی ہدایت پر ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کا پہلا اجلاس 27دسمبر 1897ء کو ہوا.اس اجلاس میں مدر سے کیلئے ایک انتظامیہ تشکیل دی گئی جس کے صدر حضرت مولانا نورالدین صاحب تھے.اس اجلاس میں یہ فیصلہ بھی ہوا کہ مدرسہ جنوری 1898ء میں شروع کر دیا جائے گا.چنانچہ حضرت اقدس کی خواہش کی روشنی میں 3 جنوری 1898ء کو مہمان خانہ کی عمارت میں ہی ابتدائی طور پر اس سکول کو جاری کر دیا گیا.اور حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی

Page 50

نب پہلے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے.آہستہ آہستہ جب ضروریات بڑھنے لگیں تو مدرسہ کیلئے علیحدہ جگہ خرید کر عمارت بنائی گئی.یہ سکول جس کا آغاز بہت مختصر تھا اپنی ترقیات کی منازل طے کرتا چلا گیا اور احمدی بچوں کی علمی اور روحانی پیاس بجھانے کے لئے خدمات سرانجام دیتے ہوئے ہائی سکول بنا اور پھر کالج کے معیار تک پہنچ گیا.تقسیم ملک کے بعد یہ سکول اور کالج از سرنو چنیوٹ میں جاری کیا گیا اور مارچ 1952ء میں اپنی موجودہ مستقل عمارت واقع ربوہ میں منتقل ہوا.۵۱.حضرت مسیح موعود کا فوٹو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے یورپ کے لوگوں کو احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے ایک کتاب کی تصنیف کا ارادہ فرمایا تو ساتھ ہی ساتھ یہ بھی تجویز ہوا کہ چونکہ وہاں کے لوگ قیافہ شناسی کے ماہر ہیں اور محض تصویر کے خدو خال دیکھ کر صاحب تصویر کے اخلاق کا پتہ چلا لیتے ہیں اس لئے اس کتاب کے ساتھ مصنف اور مترجم کی تصاویر بھی لگا دی جائیں لہذا اس دینی اور تبلیغی ضرورت کے پیش نظر حضرت اقدس نے فوٹواتر وانے پر آمادگی ظاہر فرمائی تا کہ یہ تصویر حق کی شناخت کیلئے معاون ثابت ہو.چنانچہ بعد میں آنے والے وقتوں میں ایسے بہت سے واقعات ہوئے کہ دور دراز ملکوں میں بسنے والے لوگوں نے محض آپ کی تصویر دیکھ کر احمدیت قبول کر لی.آپ کے اس فوٹو کے لئے میاں معراج دین صاحب عمر لاہور سے ایک فوٹوگرافر کو لے کر آئے جس نے حضور کے تین فوٹو کھینچے.ان میں سے دو گروپ فوٹو تھے جبکہ ایک تصویر پورے قد کی علیحد ہ تصویر تھی.حضرت اقدس علیہ السلام کی عادت غض بصر کی تھی اس لئے فوٹوگرافر کو بار بار یہ درخواست کرنا پڑی کہ حضور آنکھیں ذرا کھول کر رکھیں اور نہ تصویر اچھی نہیں آئے گی چنانچہ اس کے اصرار پر حضور نے ایک مرتبہ آنکھوں کو کچھ زیادہ کھول نگر پھر وہ اپنی اصل حالت پر لوٹ آئیں.فوٹوگرافر نے لباس اور بعض دیگر چیزوں کے بارے میں بھی معروضات کیں لیکن آپ نے انتہائی سادگی اور بے تکلفی سے فوٹو کھنچوایا.اور یہی رنگ تصویر میں بھی جلوہ گر رہا.یہ فوٹو وسط 1899ء میں قادیان میں لیا گیا جس کے بعد میاں معراج دین صاحب عمر نے ان تصویروں کی طباعت کا انتظام کر کے 10 اگست 1899ء کو بذریعہ الحکم ان کی اشاعت کا باقاعدہ اعلان شائع کیا.حضرت اقدس مسیح موعود کی طرف سے

Page 51

تصویر اتروانے کے اس قدم پر مخالف علماء جو تصویر کشی کو حرام قرار دیتے تھے ان کی طرف سے سخت شور برپا ہوا اور بڑی مخالفت کی گئی کہ اسلام میں تصویریں کھینچنا حرام ہے.لیکن بالآخر وقت نے ثابت کریا کہ مامور وقت کا فیصلہ الہی منشاء کے عین مطابق تھا اور فوٹو گرافی جو دراصل ایک قسم کا آئینہ ہے.اس کا استعمال ہر گز حرام نہیں ہے.آج جدید دنیا میں فوٹو گرافی کے ذریعے سے بڑے بڑے علمی کام لئے جارے ہیں اور دنیا کی خدمت کی جارہی ہے.۵۲ مسیح ہندوستان میں 1895ء کا سال اس اعتبار سے بہت اہم تھا کہ اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کے سامنے یہ انکشاف فرمایا کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام جنہیں عیسائی دنیا خدا کا بیٹا بنا کر آسمان پر بٹھا چکی ہے.وہ دراصل صلیب سے نجات پانے کے بعد صحتیاب ہو کر ہندوستان کی طرف تشریف لائے تھے اور کشمیر میں سرینگر کے محلہ خانیار میں ان کی قبر موجود ہے جو اصل شہر سے قریباً 3 میل کے فاصلے پر خواص وعوام کے لئے ایک زیارت گاہ بنی ہوئی ہے اور یوز آسف نبی کی قبر کے نام سے موسوم ہے.اس انکشاف نے مذہبی حلقوں میں ایک زلزلہ برپا کر دیا اور ہر طرف سے اس خیال کی تردید پیش کی جانے لگی.لیکن خدا تعالیٰ نے جہاں ایک طرف اپنے مامور کی زبان سے یہ اعلان کروایا و ہیں دوسری طرف اس واقعہ کی تائید میں غیر معمولی گواہیاں بھی مہیا فرما دیں.چنانچہ ہندوستان میں دو ایسے قدیم سکے برآمد ہوئے جن میں سے ایک پر حضرت مسیح کا نام پالی زبان میں کندہ تھا اور دوسرے پر آپ کی تصویر بنی ہوئی تھی.جس سے یہ پتہ چلتا تھا کہ حضرت مسیح اس ملک میں ضرور تشریف لائے ہیں.اس انکشاف کو حضرت اقدس نے اپنی کتاب میں نور القرآن میں تحریر فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ آپ نے احباب جماعت کا ایک وفد اس بات کی مزید تحقیقات اور دلائل اکٹھے کرنے کے لئے سرینگر روانہ کیا جس نے اپنی تفصیلی رپورٹ حضور کی خدمت میں پیش کی.جس کے بعد اپریل 1899 ء میں حضوڑ نے ایک تفصیلی کتاب اس موضوع پر مسیح ہندوستان میں“ کے نام سے تحریر فرمائی جس کی پہلی بار عام اشاعت 20 نومبر 1908ء کو ہوئی.اس کتاب میں حضور نے تفصیل سے حضرت مسیح کے صلیب سے بچنے اور ہجرت کے واقعات پیش کئے اور ناقابل تردید دلائل پیش فرمائے.آپ نے قرآن و حدیث.بائیل نیز تاریخی اور طبی کتب کے حوالوں سے یہ بات ثابت کی کہ حضرت مسیح نہ مصلوب ہوئے اور نہ ہی آسمان پر گئے تھے اور نہ کبھی وہ زمین پر دوبارہ نازل ہونگے.بلکہ وہ 120 سال کی عمر پا کر سرینگر میں فوت ہوئے اور وہیں محلہ خانیار میں ان کی قبر موجود ہے.یہ کتاب علم کلام کے خوبصورت اسلوب اور دلائل کو بڑی وضاحت سے اپنے اندر سموئے ہوئے ہے.اور اس مسئلے کو واضح کرنے کے لئے اپنی نوعیت کی منفرد کتاب ہے.(روحانی خزائن کی جلد نمبر 15 میں یہ کتاب موجود ہے)

Page 52

۵۳ - مقدمه دیوار بیسویں صدی کا آغاز ایک انتہائی دردانگیز اور تکلیف دہ واقعہ سے ہوا جس نے قریباً پونے دوسال تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کو نہایت پریشانی میں مبتلا کئے رکھا.حضرت اقدس کے چچا زاد بھائیوں مرزا امام الدین وغیرہ نے آپ کو اور آپ کے خدام کو تکلیف پہنچانے کی غرض سے بیت مبارک کو مہمان خانے سے ملانے والی سڑک پر اینٹوں کی دیوار بنا کر اسے لوگوں کے استعمال کئے لئے بند کر دیا.جس کی وجہ سے احمدی آبادی کو اپنے آقا سے ملنے اور آپ کے پاک کلمات سننے کے لئے قصبے کا ایک طویل چکر لگا کر آنا پڑتا تھا.یہ راستہ نا ہموار اور خراب تھا جو بارش کے ایام میں اور بھی زیادہ تکلیف دہ بن جایا کرتا تھا.بعض معززین نے مرزا امام الدین کو اس ظلم سے ہاتھ کھینچنے کو بھی کہا لیکن انہوں نے بڑے تکبر سے ہر قسم کی بات چیت کے دروازے بند کر دئیے.اور یوں ایک تکلیف دہ سلسلے کا آغاز ہو گیا.اس ناروا سلوک کو دیکھ کر اول تو حضرت اقدس نے قادیان سے ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا لیکن پھر یہ تجویز ہوا کہ اس دیوار کی تعمیر کے خلاف دیوانی مقدمہ دائر کر دیا جائے.حضرت اقدس کی زندگی کا یہ پہلا اور آخری مقدمہ تھا جس میں آپ نے مدعی کی حیثیت سے کسی کے خلاف دعوی کیا.اور وہ بھی صرف اس لئے کہ جماعتی اعتبار سے یہ مسئلہ زندگی موت کا مسئلہ تھا اور وکلاء کا کہنا یہ تھا کہ چونکہ یہ راستہ خاندان کا پرائیویٹ راستہ ہے اس لئے آپ کے علاوہ کوئی اور قانونی چارہ جوئی کرنے کا حق نہیں رکھتا.یہ مقدمہ شروع ہوا اور باوجود نامساعد حالات کے الہاما تو اتر کے ساتھ آپ کو اس مقدمے میں کامیابی کی نوید سنائی جاتی رہی.اور پھر انہی پیش خبریوں کے مطابق 12 اگست 1901 ء کو عدالت نے مقدمے کا فیصلہ آپ کے حق میں کرتے ہوئے دیوار گرانے کا حکم صادر کر دیا اور مدعا علیہ مرزا امام الدین پر اخراجات مقدمہ کے علاوہ ایک صد روپیہ بطور ہرجانہ بھی ڈال دیا.حضرت اقدس نے کمال شفقت سے ایک مرتبہ پھر اپنے دشمنوں کو نہ صرف معاف کر دیا بلکہ ان کی تکلیف کا احساس کرتے ہوئے خرچہ وغیرہ کی بیڈ گری بھی واپس کروا دی.۵۴.خطبہ الہامیہ کا نشان 11 اپریل 1900 ء کا دن ایک عظیم علمی نشان کا دن تھا.اس روز عید الاضحیہ تھی اور اسی دن صبح کے وقت حضرت اقدس کو بذریعہ الہام یہ تحریک کی گئی کہ آج عید کا خطبہ عربی زبان میں ارشاد فرمائیں.جناب الہی سے ارشاد پاتے ہی آپ نے اپنے بہت

Page 53

سے خدام کو اس بارے میں اطلاع کروادی نیز مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی اور مولانا نورالدین صاحب کو یہ ہدایت فرمائی کہ وہ قلم اور دوات ساتھ لائیں تا کہ یہ خطبہ لکھا جا سکے.حضرت اقدس ساڑھے آٹھ بجے بیت اقصیٰ تشریف لائے جس کے بعد سوا نو بجے مولوی عبدالکریم صاحب نے عید کی نماز پڑھائی.نماز کے بعد خطبہ عید کیلئے حضرت اقدس کھڑے ہوئے اور پہلے اردو میں ایک پر معارف خطبہ ارشاد فر مایا اور پھر عربی زبان میں فی البدیہہ خطبہ ارشاد فرما نا شروع کیا.باوجود عربی زبان سے ناواقفیت کے حاضرین پر جن کی تعداد 200 کے قریب تھی ایک وجد کی سی کیفیت طاری تھی.خود حضور بھی ایک عجیب کیفیت میں یہ خطبہ دے رہے تھے.آپ نے بعد ازاں بتایا کہ میں خود امتیاز نہیں کر پار رہا تھا کہ میں بول رہا ہوں یا میری زبان سے فرشتہ کلام کر رہا ہے.دوران خطبہ الفاظ خود آپ کی زبان پر جاری ہوتے جاتے تھے اور بعض اوقات لکھے ہوئے بھی نظر آتے تھے.اس طرح جب تک یہ کیفیت رہی آپ بولتے گئے اور جب یہ کیفیت ختم ہوگئی تو حضور نے خطبہ ختم کر دیا.یہ خطبہ چونکہ ایک عظیم علمی نشان تھا اس لئے حضرت اقدس نے احباب کو اسے زبانی یاد کرنے کی تحریک بھی فرمائی اور اگست 1901ء میں یہ خطبہ کتابی شکل میں شائع بھی ہو گیا جس میں اس کا اردو اور فارسی ترجمہ بھی خود حضور نے کر کے ساتھ لکھا اور اس تصنیف کا نام ”خطبہ الہامیہ رکھا.یوں خدا تعالیٰ کی خاص نصرت و تائید سے عربی خطبہ کا یہ علمی نشان وقوع پذیر ہوا.ہم سب کو بھی چاہئے کہ حضرت اقدس کی تحریک کے مطابق اس خطبے کو زبانی یاد کرنے کی کوشش کریں اور اس یاد کو تازہ کریں جو اس عظیم نشان کے ساتھ وابستہ ہے.۵۵ مشہور عیسائی مشنری بشپ آف لاہور پادری لیفرائے کا مقابلے سے فرار ہندوستان میں سیاسی غلبہ حاصل ہوتے ہی عیسائی پادریوں نے مذہبی غلبے کے خواب بھی دیکھنے شروع کر دیے تھے.اور اس مقصد کیلئے دن رات کوششیں شروع ہو چکی تھیں.ہر ایک طرح سے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کا کام زوروں پر تھا اور کوئی نہیں تھا جو عیسائیت کے ان حملوں کا جواب دے سکے.اسی پروگرام کے تحت ایک مشہور اور پر جوش پادری جارج الفریڈ لیـــفـــــرائـے

Page 54

(1854-1919) کولاہور کا بشپ مقرر کیا گیا تا کہ وہ تبلیغ عیسائیت کے کام میں تیزی پیدا کرے.پادری لیسفرائے جو عیسائیت کا عالم ہونے کے ساتھ ساتھ اردو فارسی اور عبرانی زبانوں پر بھی عبور رکھتا تھا اپنے مذہب کی تبلیغ میں جارحانہ پالیسی کا قائل تھا اور دنوں میں ہندوستان میں ہر مسلمان کو عیسائی بنا دینے کا خواہش مند تھا.18 مئی 1900ء کو اس نے لاہور میں ایک بڑے مجمع میں تقریر کی جس میں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو معصوم نبی ثابت کیا جبکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو گناہگار ثابت کرنے کی کوشش کی.مجمع میں موجود باقی لوگ تو پادری صاحب کی دلیلیں سن کر خاموش ہو گئے لیکن حضرت اقدس کے ایک مخلص مرید حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بڑی تفصیل سے اس کے ہر ایک اعتراض کا بھر پور جواب دیا اور اس کے سارے دلائل کی دھجیاں بکھیر دیں.اور تمام مسلمان اس فتح پر بہت خوش ہوئے اور کئی دن تک اس بات کا چر چارہا کہ مرزائی جیت گئے.پادری لیفرائے نے اپنی خفت کو مٹانے کیلئے یہ اشتہار دیا کہ وہ 25 مئی کو پھر لیکچر دیں گے جس میں حضرت مسیح ناصری کو زندہ رسول ثابت کرینگے.حضرت اقدس مسیح موعود نے اس لیکچر کا جواب دینے کیلئے ایک جامع اور مفصل مضمون تحریر کیا جس میں ناقابل تردید دلائل سے وفات مسیح ثابت کی اور ثابت کیا کہ حقیقی طور پر زندہ نبی اور زندگی بخش نبی صرف اور صرف حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں.اشتہار کے مطابق پادری لیفرائے نے زندہ رسول کے موضوع پر لیکچر دیا اور وقفہ سوالات میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت اقدس کا لکھا ہوا مضمون بڑی شان و شوکت کے ساتھ پڑھ کر سنایا.اگر چہ یہ مضمون پادری صاحب کے لیکچر سے قبل ہی لکھا گیا تھا لیکن خدائی تصرف کے ماتحت اس مضمون میں پادری صاحب کی ہر ایک بات کا رد موجود تھا اور لوگ حیران تھے کہ پادری صاحب کی تقریر کے معا بعد ایسا خوبصورت جواب کیسے لکھا گیا.پادری صاحب نے اپنی شکست کو محسوس کر لیا اور انہوں نے جوا با صرف اتنا کہا کہ.معلوم ہوتا ہے کہ تم مرزائی ہو.ہم تم سے گفتگو نہیں کرتے.ہمارے مخاطب عام مسلمان ہیں.66 صف دشمن کو کیا ہم نے بحجت پامال سیف کا کام قلم ہی دکھایا ہم نے ۵۶.منار المسیح کی بنیاد رکھی جاتی ہے (در مشین) حضرت رسول کریم ﷺ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ جب عیسی بن مریم کو مبعوث کرے گا تو وہ ایک سفید مینارہ کے

Page 55

پاس نزول ہونگے جو دمشق سے شرقی جانب واقع ہوگا.سواس حدیث کی روشنی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت اقدس کو تحریک ہوئی کہ قادیان کی بیست اقصیٰ میں (جو حدیث کے مطابق دمشق سے ٹھیک مشرقی جانب واقع ہے ) ایک سفید مینار تعمیر کیا جائے.اس وقت جماعت کی مالی حالت کے پیش نظر یہ ایک مشکل کام تھا لیکن جونہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ تحریک ہوئی آپ نے جماعت کو اس امر سے آگاہ فرمایا اور مینار کی تعمیر کے لئے مالی معاونت کی تحریک فرمائی.اس مینار کی تعمیر کے لئے خرچ کا اندازہ قریباً دس ہزار روپے تھا جو اس وقت کے اعتبار سے ایک بڑی رقم تھی.تا ہم مخلص احباب نے حتی المقدور اس سلسلے میں چندہ دینا شروع کر دیا.خود حضرت اماں جان نے اس مینار کی تعمیر کے لئے ایک ہزار روپے کا چندہ لکھوایا جو آپ نے دہلی کے ایک ذاتی مکان کی فروخت سے ادا کیا.حضرت اقدس نے اس مینار کے لئے تحریک تو 1900ء میں کی تھی تاہم مختلف وجوہات کی بناء پر اس کی تعمیر میں دیر ہوتی چلی گئی جس کے بعد بالآخر مارچ 1903ء کو جمعہ کے روز اس مینار کا سنگ بنیاد رکھا گیا.حضرت اقدس نے ایک اینٹ منگوا کر اس پر لمبی دعا کی جس کے بعد یہ اینٹ منارة اسبیح کے مغربی حصہ کی بنیاد میں رکھ دی گئی.اس مینار کی تعمیر تو شروع کر دی گئی لیکن مالی مشکلات اور بعض دیگر وجوہات کی بناء پر یہ مینار آپ کی زندگی میں مکمل نہ ہوسکا.جس کے بعد خلافت ثانیہ میں اس کام کو دوبارہ شروع کیا گیا اور بالآخر دسمبر 1915ء میں یہ خوشنما، دلکش اور شاندار مینار تعمیر ہو گیا.یہ مینار 105 فٹ اونچا ہے اس کی تین منزلیں ہیں جبکہ اوپر جانے کے لئے 92 سیٹرھیاں ہیں.حضرت اقدس نے اس مینار کی تین اغراض بیان فرمائیں.ا.اس پر چڑھ کو مؤذن اذان دیا کرے گا تا کہ لوگ جان لیں کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ اللہ کی آواز ہر کان تک پہنچے.۲.اس پر ایک بڑا لالٹین لوگوں کی آنکھوں کو روشن کرنے کے لئے لگایا جائے گا تا کہ یہ بتایا جاسکے کہ آسمانی روشنی کا زمانہ آ گیا ہے..اس میں ایک بڑی گھڑی نصب کی جائیگی تا کہ لوگ اپنا وقت پہچانیں اور یہ جانیں کہ وہ وقت آچکا ہے جب آسمان کے دروازے کھلنے تھے اور وقت کا امام آچکا ہے.۵۷.جماعت کا نام...فرقہ احمدیہ سلسلہ احمدیہ کی بنیاد اگر چہ مارچ 1889ء کو رکھی جا چکی تھی لیکن ابھی تک اس سلسلے کا کوئی الگ نام تجویز نہیں کیا گیا تھا ای بناء پر دوسرے فرقوں سے امتیاز کیلئے بعض لوگ پنجاب میں حضرت اقدس کے ماننے والوں کو مرزائی اور ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں قادیانی کہا کرتے تھے.1901ء میں ہونے والی مردم شماری نے اس بات کا موقعہ پیدا کر دیا کہ اب جماعت کا کوئی علیحدہ نام تجویز کیا جائے چنانچہ

Page 56

اس مقصد کے لئے حضرت اقدس نے 4 نومبر 1900ء کو ایک اشتہار کے ذریعے جماعت کا نام ”جماعت احمدیہ تجویز فرمایا.اور وو سیہ نام آنحضرت کی جمالی صفات کے مظہر نام ”احمد“ سے تعلق کے اظہار کے طور پر تجویز ہوا آپ نے فرمایا.یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ آخری زمانے میں پھر اسم احمد ظہور کرے گا اور ایسا شخص ظاہر ہوگا جس کے ذریعے سے احمدی صفات یعنی جمالی صفات ظہور میں آئیں گی اور تمام لڑائیوں کا خاتمہ ہو جائیگا پس اسی وجہ سے مناسب معلوم ہوا کہ اس فرقہ کا نام فرقہ احمد یہ رکھا جائے تا اس نام کو سنتے ہی ہر ایک شخص سمجھ لے کہ یہ فرقہ دنیا میں آشتی اور صلح پھیلانے آیا ہے اور جنگ اور لڑائی سے اس فرقے کو کچھ سروکار نہیں..(اشتہار واجب الاظہارمند رجہ مجموعہ اشتہارات ) نیز آپ نے اپنی جماعت کو بھی نصیحت کی کہ وہ آنحضرت کی صفت احمد کے مظہر بنیں اور شانِ احمدیت کو ظاہر کریں نیز اپنے ہر ایک بے جاجوش پر موت وارد کر کے عاشقانہ فروتنی دکھلائیں.بدتر ب ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی دخل ނ ہو دار الوصال میں چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے ہو جاؤ خاک مرضی مولا اسی میں ہے ( در مشین) ۵۸.دوسروں کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت جماعت احمدیہ کی بنیاد 23 مارچ 1889ء کو رکھی گئی تھی جس کے بعد سے غیر احمدی علماء کی طرف سے مسلسل ایذا رسانی اور تکلیف پہنچانے کا سلسلہ جاری تھا.1892ء میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے علمائے ہند سے تکفیر کا ایک فتوی لیکر جماعت کو کافر اور مرتد قرار دے دیا جس کے مطابق احمدیوں کے ساتھ نماز پڑھنا تعلق نکاح قائم کرنا اور ان کا جنازہ پڑھنا حرام تھا.اور اس فتوے پر بڑی سختی سے عمل درآمد بھی شروع کروادیا گیا.ان تمام تکالیف کے باوجود بھی جماعت احمد یہ دوسرے فرقہ کے ان لوگوں کے ساتھ جو براہ راست تکفیر میں شامل نہیں تھے نمازیں ادا کرتی رہی لیکن جب تکفیر کا سلسلہ حد سے بڑھ گیا تو حضرت اقدس نے احادیث کی روشنی میں اس باہمی کشمکش کو دور کرنے کے لئے یہ ہدایت فرمائی کہ آئندہ کسی مکفر و مکذب و مترڈ شخص کی اقتداء میں بالکل نماز نہ ادا کی

Page 57

جائے تاکہ اللہ کے گھروں میں فتنوں کا احتمال ختم ہو جائے.تھی.یہ ہدایت 1898ء کے لگ بھگ دی گئی تھی لیکن ابھی اس سلسلے میں حضرت اقدس نے کوئی تحریری ہدایت جماعت کو نہیں دی لیکن جب غیروں کی سختیاں انتہاء کو پہنچ گئیں تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے 1900ء کے آخر میں تحریری شکل میں بھی جماعت کو بذریعہ اشتہار غیروں کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت فرما دی.آپ نے فرمایا یاد رکھو کہ جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے تمہارے پر حرام ہے اور قطعی حرام ہے کہ کسی مکفر اور مکذب یا متر ڈد کے پیچھے نماز پڑھو بلکہ چاہئے کہ تمہارا وہی امام ہو جو تم میں سے ہو.اسی کی طرف حدیث بخاری کے ایک پہلو میں اشارہ ہے کہ امامکم منکم..نیز آپ نے فرمایا.66 اربعین نمبر 3 روحانی خزائن جلد نمبر 17 صفحہ نمبر 417 حاشیہ ) میر کرو اور اپنی جماعت کے غیر کے پیچھے نماز نہ پڑھو.بہتری اور نیکی اسی میں ہے اور اسی میں تمہاری نصرت اور فتح عظیم ہے اور یہی اس جماعت کی ترقی کا موجب ہے.دیکھو! دنیا میں روٹھے ہوئے اور ایک دوسرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن کو چار دن منہ نہیں لگاتے اور تمہاری ناراضگی اور روٹھنا تو خدا کیلئے ہے.تم اُن میں اگر ترلے ملے رہے تو خدا تعالیٰ جو خاص نظر تم پر رکھتا ہے وہ نہیں رکھے گا.پاک جماعت جب الگ ہو تو پھر اس میں ترقی ہوتی ہے.(الحکم 10 اگست 1901ء) چنانچہ پھر ایسا ہی ہوا.آپ کے اس فرمان کی تعمیل کے نتیجے میں جماعت ایک نمایاں حیثیت میں سامنے آئی اور روز افزوں ترقی کرتی چلی گئی.۵۹ مجلس اور رسالہ "تشحیذ الا ذھان“ 1900 ء کا تاریخی سال اس اعتبار سے بھی یادگار ہے کہ اسی سال حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک مجلس کی بنیا د رکھی جس کا نام حضرت اقدس مسیح موعود نے تفخیذ الاذہان تجویز فرمایا.یہ مجلس دنیا میں احمدی نوجوانوں کی پہلی فعال

Page 58

مجلس تھی.اس مجلس کے پہلے صدر بھی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہی منتخب ہوئے.اس مجلس کی غرض و غایت یہ تھی کہ احمدی نوجوانوں کو دعوت الی اللہ کے میدانوں کے لئے علمی اور اخلاقی اعتبار سے تیار کیا جائے.یہ مجلس اگر چہ 1900ء میں وجود میں آئی لیکن نمایاں رنگ میں اس کی سرگرمیاں 1906ء میں جماعت کے سامنے آئیں جب اس مجلس کا از سر نو احیاء ہوا اور تشخیذ الاذہان ہی کے نام سے اس مجلس کا تر جمان رسالہ بھی شائع ہونے لگا.یکم مارچ 1906ء کا دن سلسلے کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے کیونکہ اس دن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی ادارت میں ایک سہ ماہی رسالے کا اجراء کیا گیا جس کا نام حضرت مسیح موعود نے مجلس تشید الاذہان کی مناسبت سے تفخیذ الا ذہان“ تجویز فرمایا.اس سلسلے کا پہلا رسالہ یکم مارچ 1906 ء کو شائع ہوا جس میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ ثانی) نے چودہ صفحات کا ایک تعارف اس رسالے کی بابت تحریر فرمایا.بنیادی طور پر اس رسالے کے اجراء کے 6 اغراض و مقاصد تھے.ا.( دین حق ) کا نورانی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنا.۲ - حضرت اقدس مسیح موعود کے وہ نصائح شائع کرنا جو آپ گھر میں فرماتے ہیں..( دین حق ) اور احمدیت پر ہونے والے اعتراضات کا تہذیب کے ساتھ رڈ کرنا.۴.دین کے ممتاز لوگوں کے حالات اور سوانح عمریاں پیش کرنا.۵.شریعت کے مسائل بیان کرنا تا کہ نا واقف لوگوں کو ان کا علم ہو سکے.۶.اس رسالے سے کوئی مالی فائدہ نہ اٹھایا جائے بلکہ جو بھی آمد ہو وہ دین حق کی اشاعت میں صرف کی جائے.چنانچہ ان خوبصورت اغراض و مقاصد کے ساتھ یہ رسالہ جاری کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت برکت عطا فرمائی.یہ رسالہ ابتداء میں تین ماہ بعد شائع ہونا شروع ہوا لیکن ایک ہی سال کے بعد ماہانہ شائع ہونے لگا.جماعت احمدیہ کے پہلے شہید ۶۰.حضرت مولوی عبد الرحمان صاحب.کابل کابل افغانستان کے ایک یگانہ روزگار عالم اور بزرگ حضرت صاحبزادہ عبد الطیف صاحب تک جب حضرت اقدس مسیح موعود کا پیغام پہنچا تو انہوں نے اپنی خداداد فراست اور روحانیت کے نور سے اس پیغام کی سچائی کو معلوم کر لیا اور دسمبر 1900ء میں اپنے چند شاگردوں کو بیعت کا خط دے کر حضرت اقدس کی خدمت میں روانہ کیا.ان شاگردوں میں حضرت مولوی عبدالرحمان صاحب بھی شامل تھے جو حضرت مسیح موعود کی خدمت میں دو یا تین مرتبہ حاضر ہوئے اور حضور کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے.

Page 59

آخری بار آپ دسمبر 1900ء میں قادیان آئے.یہ وہ زمانہ تھا جب علماء نے جہاد کا خوب شور و غوغا بلند کر رکھا تھا اور جہاد کے نام پر انگریزوں کے قتل کا فتویٰ دے رکھا تھا.خود افغانستان کے امیر عبدالرحمان نے اس سلسلے کو بہت ہوادی اور پشاور اور بنوں میں کئی انگریزوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا.حضرت مولوی عبد الرحمان صاحب جہاد کے بارے میں حضرت اقدس مسیح موعود کے نکتہ نظر سے واقف تھے اور اسی مسلک کو صحیح خیال کرتے تھے اس لئے جب وہ کابل پہنچے تو انہوں نے جہاد کے غلط مسلک کی مخالفت کی اور جہاد کے نام پر معصوم لوگوں کے قتل عام کو غلط قرار دیا.امیر کا بل کو جب آپ کے عقائد کی اطلاع ہوئی تو وہ سخت غضبناک ہوا اور آپ کی نظر بندی کا حکم دے دیا جس کے کچھ عرصہ بعد ہی آپ کو گلا دبا کر شہید کر دیا گیا.آپ جماعت احمدیہ کے سب سے پہلے شہید ہیں جنہوں نے اس راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا.یہ 1901ء 1ء کے وسط کا واقعہ ہے.اللہ تعالیٰ نے امیر عبدالرحمان کے اس ظلم کی پاداش میں اسے فوری طور پر عبرتناک سزا دی.اسی سال یعنی ستمبر 1901ء میں امیر عبدالرحمان پر فالج کا شدید حملہ ہوا جس سے وہ مکمل طور پر معذور ہو گیا.بہت علاج کئے گئے لیکن کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی اور ایک ماہ معذوری کی اذیت جھیلنے کے بعد 3 اکتوبر 1901ء کوامیر عبدالرحمان وفات پا گیا.۶۱ - کتب حضرت اقدس کے امتحان کی تحریک ہم میں سے ہر ایک نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں تنظیمی پرچہ جات اور امتحانوں میں شرکت کی ہوگی.لیکن شاید ہم میں سے بہت سے اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی میں ہی یہ تحریک فرمائی تھی کہ ہر سال دسمبر کی تعطیلات میں حضور علیہ السلام کی کتابوں کا امتحان لیا جائے اور جو لوگ اس امتحان میں کامیاب ہوں ان کو سلسلہ کی تبلیغی خدمات پر مامور کیا جائے.حضرت اقدس نے 9 ستمبر 1901ءکو مفید الاخیار' کے نام سے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں آپ نے اپنی اس دلی خواہش کا اظہار فر مایا کہ ہماری جماعت میں کم از کم ایک سواہل کمال و فضل ہونے چاہیں جو سلسلہ کے عقائد اور دلائل سے پوری طرح واقف اور آگاہ ہوں چنانچہ اسی غرض کے لئے آپ نے یہ تحریک فرمائی کہ ہر سال قادیان میں حضور کی کتابوں کا امتحان لیا جایا کرے.پہلے امتحان کے لئے جو کورس تجویز کیا گیا وہ ان کتب پر مشتمل تھا.فتح اسلام توضیح مرام ازالہ اوہام انجام تقتم ایام الصلح،

Page 60

سرمہ چشم آریہ حمامۃ البشری اور خطبہ الہامیہ.نیز یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ یہ امتحان 27 دسمبر 1901ء کومکمل ہوگا اور دور دراز کے رہنے والے وہ لوگ جو قادیان آ کر امتحان میں شامل نہ ہو سکتے ہوں ان کے لئے وہیں پرچے روانہ کر دیے جائیں گے.امتحان میں شامل ہونے والے امیدواروں کی فہرست کی تیاری کا کام شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے سپرد ہوا.لیکن افسوس کہ باوجود اس ساری کوشش اور جدوجہد کے حضرت اقدس کی زندگی میں یہ تحریک عمل میں نہ لائی جاسکی اور سات سال تک معرض التوا میں رہنے کے بعد حضرت خلیفہ اول کے عہد میں 1908ء میں اس سلسلے کا پہلا امتحان ہوا.جس کے بعد با قاعدہ رنگ میں حضرت خلیفہ ثانی کے عہد میں حضرت مسیح موعود کی کتب کے امتحان کا سلسلہ شروع ہوا اور مختلف انداز میں آج تک جاری ہے.تحریری امتحان کے ساتھ ساتھ جب جماعت احمد یہ عالمگیر نے نشریات کی دنیا میں قدم رکھا اور MTA جاری ہوا تو اس ذریعے کو بھی حضرت مسیح موعود کی کتابوں کی تریج واشاعت کے لئے استعمال کیا جانے لگا اور MTA پر کوئز پروگراموں کے ذریعے سے حضرت اقدس کی کتب کے امتحان کا سلسلہ شروع کیا گیا.پیارے مہدی کی پیاری باتیں کے نام سے ایک کوئز پروگرام MTA پر یہ خدمت سرانجام دے رہا ہے.فونوگراف ۶۲ - نشریات کی دنیا میں پہلا قدم آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ عالمگیر سٹیلائیٹ چینل کے ذریعے تمام دنیا میں احمدیت یعنی دین حق کا پیغام لوگوں تک پہنچا رہی ہے.اور آج سے قریباً ایک سو سال قبل قادیان کی چھوٹی سی بستی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلے کی پہلی اینٹ رکھ رہے تھے.کیا آپ جانتے ہیں کیسے؟ جی ہاں فونوگراف کے ذریعے.فونوگراف مشہور موجد ایڈیسن کی ایجاد ہے جو انہوں نے 1877ء میں تخلیق کیا.اور آوازوں کی ریکارڈنگ کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا.ہندوستان میں جب یہ متعارف ہوئی تو حضرت اقدس کے ایک مخلص خادم اور سلسلے کے معروف بزرگ حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے بھی فونوگراف خریدا.حضرت اقدس کو جب اس بات کی اطلاع ہوئی تو آپ بہت خوش ہوئے اور اس اہم سائنسی ایجاد کو پیغام حق دنیا تک پہنچانے کے کام میں استعمال کرنے کے بارے میں سوچنے لگے.آپ نے نواب محمد علی خان صاحب کو لکھا کہ جب وہ قادیان آئیں تو فونوگراف ساتھ لیتے آئیں چنانچہ نومبر 1901ء میں وہ فونوگراف قادیان لے آئے.اور 15 نومبر 1901ءکونماز عصر کے بعد اس کے ریکارڈ سنائے اور مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی کی آواز بھی ریکارڈ کی.

Page 61

قادیان میں جب فونوگراف کا چرچا ہوا تو دوسرے لوگ بھی بڑی بے تابی سے اسے دیکھنے اور سننے کی درخواستیں کرنے لگے.اور قادیان کے آریہ سماجی لالہ شر مپت رائے کو تو اس قدر اشتیاق ہوا کہ انہوں نے براہ راست حضرت اقدس سے اس خواہش کا اظہار کر دیا.یہ 20 نومبر 1901 ء کا واقعہ ہے.حضور نے ان کی درخواست نہ صرف منظور کر لی بلکہ اس تقریب کو بھی ایک تبلیغی نشست میں تبدیل فرما دیا.آپ نے اس تقریب کیلئے فوری طور پر ایک خوبصورت نظم کہی جس کا پہلا شعر یہ تھا کہ آواز آرہی ہے فونوگراف ނ ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے اور پھر حضرت اقدس کی ہدایت کے ماتحت حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے خوش الحانی سے قرآن کریم کی تلاوت کی نظم اور چند اور نظمیں ریکارڈ کروائیں اور یہ تیاری مکمل کر کے ساڑھے چار بجے کے قریب اسی روز درخواست کرنے والے آریوں ہندوؤں اور مسلمانوں کو حضور کے بالا خانے کے صحن میں بٹھا کر فونوگراف کے ذریعے یہ تمام چیز میں سنوائی گئیں.یہ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا جلسہ تھا جو 20 نومبر 1901ء کو منعقد ہوا اور یوں جماعت احمدیہ نے نشری دنیا میں اپنا پہلا قدم بھی رکھا.افسوس کہ یہ آوازیں جو ریکارڈ کی گئی تھیں دیر پا ثابت نہ ہوئیں اور یہ تاریخی آواز میں فونوگراف کے سلنڈربے کار ہونے کی وجہ سے ضائع ہوگئیں.تاہم ان آوازوں کی گونج آج MTA کے ذریعے سے دنیا کے کونے کونے میں سنائی دے رہی ہے.۶۳.رسالہ ریویو آف ریچن شائع ہونا شروع ہوتا ہے.(Review of Religions حضرت اقدس مسیح موعود نے مغربی ممالک کے لوگوں تک پیغام حق پہنچانے کے لئے ایک انگریزی رسالہ شائع کرنے کی تجویز فرمائی تھی جس کی روشنی میں رسالہ ریویو آف ریلیچز انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں جنوری 1902 ء سے شائع ہونا شروع ہو گیا.حضور کی توجہ اور دعاؤں کی بدولت اس رسالے کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی اور علمی اور ادبی حلقوں میں اس کی نیک شہرت تیزی کے ساتھ پھیلنے لگی.شروع شروع میں رسالے کے اکثر اردو مضامین حضرت اقدس کے ہی تحریر کردہ ہوتے تھے جو قارئین کی طبیعت پر انمٹ نقوش مرتب کرتے تھے.یہی وجہ تھی اس وقت کے بڑے بڑے اخباروں اور رسالوں نے اس رسالے کی تعریف میں مضامین لکھے اور مغربی ممالک کے علم دوست اور سنجیدہ طبقے نے اس رسالے کا بڑی خوشی سے خیر مقدم کیا.کیونکہ ان ممالک کے

Page 62

لوگوں کے لئے دین حق کو سمجھنے اور اس کے بارے میں پیدا شدہ غلط فہمیاں دور کرنے کا اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ میسر نہیں تھا لیکن جہاں ایک طرف علمی اور ادبی حلقوں میں اس کی تعریف کی جارہی تھی وہیں دوسری طرف عیسائیت کے علمبرداروں کے لئے یہ رسالہ ایک مشکل چیلنج کی حیثیت اختیار کرتا جارہا تھا.وہ اس کے دلائل اور براہین سے خائف تھے جن کا جواب دینا ان کی استطاعت سے باہر تھا.چنانچہ انگلستان کے اخبار چرچ فیملی (Church Family) نے لکھا کہ مرزا غلام احمد صاحب کے پیدا کردہ لٹریچر کا جواب نہ دیا جائے (ورنہ ) وہ عیسائیت کے خلاف ایسا حربہ لٹریچر کی شکل میں پیدا کر دینگے کہ بائیل کا صفایا ہو جائیگا.سلسلے کی یہ مضبوط اور محکم شاخ جنوری 1902ء کو قائم ہوئی اور آج تک بڑی شان اور شوکت کے ساتھ نہ صرف قائم ہے بلکہ ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہی ہے.مالی قربانی ۶۴.چندوں کا مستقل نظام خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود کو جو نور عطا کیا گیا تھا آپ کی شدت سے خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس نور سے منور ہوں.آپ کے پاس زیادہ سے زیادہ آکر ر ہیں اور اپنے وجودوں کو اس آسمانی روشنی سے فیضیاب کریں.نیز یہ بھی کہ جو لوگ آ کر نہ رہ سکیں ان تک پیغام پہنچانے کے لئے کتابیں یا اشتہار شائع کئے جائیں.اور ظاہر سی بات ہے کہ ان تمام کاموں کیلئے ہر ایک احمدی مخلص کی طرف سے مالی معاونت کی ضرورت تھی.گو جماعت کے فدائی خدام کی طرف سے یہ سلسلہ پہلے سے جاری تھا کہ وہ ہر ایک خدمت کے لئے حسب توفیق بوجھ اٹھاتے چلے جاتے تھے لیکن اب وقت آچکا تھا کہ جماعت کے بڑھتے ہوئے مصارف کے لئے چندوں کا ایک مستقل اور با قاعدہ نظام قائم کیا جائے جس میں ہر ایک احمدی اپنی اپنی توفیق کے مطابق شامل ہو.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے 5 مارچ 1902ء کو بذریعہ اشتہار جماعت کو یہ ہدایت فرمائی کہ ہر ایک احمدی اپنی توفیق کے مطابق ماہوار چندہ مقرر کرے اور پھر اس کے مطابق ادا ئیگی کرے آپ نے فرمایا.ہر ایک شخص جو مرید ہے اس کو چاہئے جو اپنے نفس پر کچھ ماہواری چندہ مقرر کر دے خواہ ایک پیسہ ہو اور خواہ ایک دھیلہ.اور جو شخص کچھ بھی مقر نہیں کرتا اور نہ جسمانی طور پر اس سلسلے کے 66 لئے کچھ بھی مدد دے سکتا ہے وہ منافق ہے.اب اس کے بعد وہ سلسلہ میں نہیں رہ سکے گا.“ اس اشتہار کے نتیجے میں جماعت کے احباب میں بیداری کی ایک نئی لہر دوڑ گئی اور ہر ایک طرف سے پوری ہمت اور سرگرمی

Page 63

دکھائی گئی.اور جماعت کے مخلصین کی قربانیاں روز بروز آگے سے آگے بڑھتی چلی گئیں.حضرت اقدس مسیح موعود اپنی پاک جماعت کو خدا تعالیٰ کی راہ میں جس مالی قربانی کی عادت ڈال کر گئے وہ آج بھی جماعت احمدیہ کا ہی ایک امتیاز ہے.اسی بناء پر حضرت امام جماعت احمدیہ الرابع نو مبایعین کے حوالے سے جماعت کو بار بار یہ نصیحت فرما چکے ہیں کہ انہیں ابتداء سے ہی مالی قربانی کی عادت ضرور ڈالنی چاہئے کیونکہ یہ بات ان کی تربیت اور روحانیت کے لئے بہت ہی عمدہ ہے.انی احافظ كل من في الدار ۲۵ کشتی نوح اور احمدیوں کی طاعون سے حفاظت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 5 اکتوبر 1902ء کو ایک عظیم الشان کتاب شائع فرمائی جس کا نام کشتی نوح تھا.اس کتاب میں حضور نے طاعون کے سلسلے میں گورنمنٹ کی طرف سے کئے جانے والے حفاظتی انتظامات کی تعریف کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے طاعون کے تعلق میں مجھے ایک عظیم نشان عطا کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو بھی شخص میرے گھر اور چاردیواری کے اندر ہو گا اور جو کامل پیروی اور اطاعت اور بچے تقویٰ سے مجھ میں محو ہو جائیگا وہ طاعون سے بچایا جائے گا.پس اس عظیم نشان کو دنیا کے سامنے واضح کرنے کے لئے آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ ہم طاعون سے بچانے والے حفاظتی ٹیکے نہیں لگوائیں گے تا کہ خدا تعالیٰ کا یہ نشان کسی بھی اعتبار سے مشتبہ نہ رہے.پس اس کتاب میں ایک طرف تو آپ نے ٹیکے لگوانے سے احباب جماعت کو منع کیا اور ساتھ ہی ساتھ بڑی تفصیل سے جماعت کو نیکی اور تقوی اختیار کرنے کی تعلیم دی ہماری تعلیم“ کے عنوان سے اس کتاب میں آپ نے ایک تفصیلی مضمون تحریر کر کے جماعت کو یہ سمجھایا کہ محض زبان سے بیعت کا اقرار کرنا کچھ بھی چیز نہیں ہے.جب تک نیکی میں غیر معمولی ترقی اور بدیوں سے کلینا بے زاری نہ اختیار کی جائے کوئی بھی شخص حقیقی طور پر مسیح پاک کی جماعت میں سے کہلانے کا مستحق نہیں ہوسکتا.یوں تو حضرت مسیح موعود کی تمام تحریرات ہی فصاحت و بلاغت اور اثر انگیزی کی صفات کی حامل ہیں تا ہم اس کتاب میں آپ نے بہت ہی سادہ مگر دلکش اور پر اثر انداز میں اپنی جماعت کو قیمتی نصائح سے نوازا ہے.چنانچہ ان سب پیشگوئیوں اور پیش خبریوں کے مطابق طاعون کے دنوں میں خدا تعالیٰ نے جماعت کی غیر معمولی حفاظت فرمائی جسے غیروں نے بھی محسوس کیا حفاظتی ٹیکے لگوانے کے باوجود جہاں عام لوگ ہزاروں کی تعداد میں طاعون کا شکار بن رہے تھے وہاں اللہ تعالیٰ نے حفاظتی ٹیکے نہ لگوانے کے باوجود احمدی احباب کو طاعون سے کلیتا محفوظ رکھا اور ان ایام میں لوگ کثرت کے ساتھ

Page 64

احمدیت میں داخل ہونے لگے.1902ء میں ہی جماعت کی تعداد ہزاروں سے نکل کر ایک لاکھ تک پہنچ گئی.1904 ء میں یہ تعداد دولا کھا اور 1906ء میں تیزی سے بڑھ کر چار لاکھ تک پہنچ گئی.حضرت اقدس ان دنوں میں بیعت کرنے والوں کو از راہ مزاح طاعونی احمدی کہا کرتے تھے.قادیان میں حضور کے گھر اور اس سے ملحق احمدیوں کی بھی اللہ تعالیٰ نے خارق عادت حفاظت فرمائی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا تھا کہ انی احافظ كل من في الدار “ اور باوجود اس کے کہ قادیان میں بھی طاعون کی وجہ سے ہندؤوں اور دوسرے لوگوں کی بہت سے موتیں ہوئیں لیکن حضرت اقدس کے الدار میں ان ایام میں کوئی چوہا تک طاعون سے نہ مرا.یہ نصرت اور تائید کا عظیم نشان تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وقت کے مامور کیلئے دکھایا گیا جس نے بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں.ایک طوفاں ہے خدا کے قہر کا جوش پر نوح کی کشتی میں بیٹھے وہی ہو رستگار.۶۶ - اخبار البدر" مرکز احمدیت قادیان سے اس سے قبل الحکم کا اجراء ہو چکا تھا جو جماعت احمدیہ کا پیغام محفوظ کرنے اور دور دور تک پہنچانے کی خدمات سرانجام دے رہا تھا.اب 31 اکتوبر 1902ء سے ایک اور ہفت روزہ اخبار البدربھی جاری ہو گیا.اس کا پہلا نمونے کا پرچہ القادیان“ کے نام سے شائع ہوا تھا جس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود نے اس کا نام البدر تجویز فرمایا اور نیک تمناؤں کے ساتھ اس کے اجراء کی اجازت مرحمت فرمائی.البدر کے مالک اور مدیر مکرم محمد افضل صاحب تھے جو بڑے اخلاص اور محنت سے یہ ذمہ داریاں نبھاتے رہے لیکن عمر نے وفا نہ کی اور آپ 21 مارچ 1905ء کواچانک انتقال فرما گئے.ان کی وفات کے بعد یہ اخبار میاں معراج الدین صاحب نے خرید لیا اور حضرت مسیح موعود نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو جو ان دنوں تعلیم الاسلام اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے اس اخبار کا نیا مدیر مقرر فرمایا.الحکم کی طرح البدر نے بھی حضرت اقدس مسیح موعود کے تازہ الہامات اور ملفوظات کو محفوظ کرنے اور مرکزی خبروں کو دور کی جماعتوں تک پہنچانے کے سلسلے میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے.یہی وجہ تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود نے الحکم اور البدر کو اپنے دو بازو قرار دیا.

Page 65

۶۷.ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوئی عبرت کا نشان ڈاکٹر جان الیگزینڈر ڈوٹی کا نام سلسلہ احمدیہ سے وابستہ لوگوں کے لئے جانا پہچانا نام ہے.کیونکہ یہ وہ شخص تھا جو حضرت مسیح موعود کی پیش خبریوں کے مطابق خدا تعالی کی قبری قبلی کا شکار ہوا اور ہمیشہ کیلئے عبرت کا نشان بن گیا.ڈاکٹر ڈوئی سکاٹ لینڈ کا رہنے والا تھا جو بچپن میں ہی اپنے والدین کے ساتھ آسٹریلیا چلا گیا تھا جہاں 1872ء کے لگ بھگ وہ ایک کامیاب مقرر اور پادری کے طور پر ابھرا اور 1888ء میں امریکہ پہنچ کر اپنے خیالات کا پرچار کرنے لگا.اس کے معتقدین کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی گئی جس کی بناء پر 22 فروری 1896ء کو اس نے ایک نئے فرقے کی بنیاد رکھی جس کا نام کریچن کیتھولک چرچ رکھا.اور کچھ ہی عرصہ بعد 1900 ء میں اس نے نبی ہونے کا دعوی بھی کر دیا.اپنی بڑھتی ہوئی ترقی کو دیکھ کر ڈوئی نے میحون نامی ایک شہر کی بنیاد رکھی اور یہ اعلان کیا کہ مسیح اس شہر میں نازل ہونگے.اس کے مریدوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی اور آمدنی بھی بے انتہاء ہونے لگی.ڈوئی عملاً اب ایک بادشاہ کی طرح اپنے بسائے ہوئے شہر میں شادمانی کی زندگی بسر کر رہا تھا.اس کا دعوی تھا کہ ہم محض ہیں سال میں تمام دنیا فتح کرلیں گے.اپنی فتوحات کی خبروں کے ساتھ ساتھ ڈوئی نے اسلام کی تباہی و بربادی اور مسلمانوں کی ہلاکت کی پیشگوئیاں بھی کرنا شروع کر دیں اور بار بارلکھا کہ خداوند یسوع مسیح نے اسے خبر دی ہے کہ اب تمام مسلمان تباہ اور ہلاک ہو جائیں گے سوائے ان کے جو مریم کے بیٹے کی خدائی کو قبول کر لیں گے اور ڈوئی کو رسول مانیں گے.حضرت مسیح موعوڈ تک جب ڈوئی کی ان پیشگوئیوں کی اطلاع پہنچی تو آپ کی دینی غیرت نے جوش مارا.آپ نے اس شخص کے بلند و بانگ دعاوی کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے مختلف اشتہارات دیئے جن میں آپ نے ڈوئی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ سب لوگوں کو مارنے کی کیا ضرورت ہے.اگر تم اپنے دعووں میں بچے ہو تو صرف مجھے ذہن میں رکھ کر دعا کرو کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ بچے کی زندگی میں عبرت ناک موت کا شکار ہو جائے.آپ کے اشتہارت مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتے رہے لیکن ڈوئی با وجود بار بار بلانے کے مقابلے پر نہ آیا.اور ڈوئی باوجود لیکن پھر 26 دسمبر 1903 کو اس نے اپنی خاموشی توڑ ہی دی اور اپنے اخبار میں لکھا کہ میں ان کیڑوں مکوڑوں کی باتوں کا کیا جواب دوں جنہیں میں اپنا پاؤں رکھ کر ایک دم میں کچل سکتا ہوں.اسی طرح اگلے ہی دن 27 دسمبر کے اخبار میں اس نے حضرت مسیح موعود کے خلاف سخت بد زبانی بھی کی.اور یوں وہ کھلم کھلا آپ کے مقابلے پر اتر آیا.اور اس مقابلے کے لئے میدان میں اترتے ہی اس کی تباہی اور بربادی کی داستان کا آغاز ہو گیا.سب سے پہلے تو یہ ہوا کہ امریکہ کے اخبار نیویارک ورلڈ نے ثبوتوں کے ساتھ یہ لکھا کہ ڈاکٹر ڈوئی اپنے معلوم باپ

Page 66

”مرے ڈوٹی کا بیٹا نہیں ہے بلکہ ولد الحرام ہے.یہ تباہ کن خبر ڈوئی کی اخلاقی موت کا پیام لے کر آئی لیکن صرف اسی پر بس نہیں ہوئی بلکہ یکم اکتوبر 1905ء کو اس پر فالج کا سخت حملہ ہوا جس کے بعد 19 دسمبر 1905ء کو فالج کے دوسرے حملے نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی اور ڈوئی مکمل طور پر معذور ہو گیا.مریدوں پر اس کی بیماری کے دوران اس کے کالے کارنامے کھلے تو انہوں نے اسے نہ صرف چھوڑ دیا بلکہ ہر اعتبار سے معزول کر دیا.عدالتی چارہ جوئی بھی اس کے کچھ کام نہ آئی اور بالآخر 9 مارچ 1907ء کی صبح نہایت حسرت کے ساتھ وہ اس دنیا سے رخصت ہو گیا.اور حضرت مسیح موعود کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کر گیا.جو خدا کا ہے اُسے للكارنا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر ڈال اے روبه زار و ہے راه پر مرے وہ خود کھڑا مولا اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ نزار کریم وار ( در مشین) ۶۸.بیت الدعا کی تعمیر قادیان کے متبرک مقامات سے واقفیت رکھنے والوں کے لئے بیت الدعا کا نام بہت معروف ہے.وہاں جانے والوں کی بھاری اکثریت یہ خواہش رکھتی ہے کہ اپنے قیام کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور اس کمرے میں گزاریں اور اس مقدس مقام پر دعا ئیں کریں جہاں حضرت مسیح موعود نے تنہائی میں بہت دعائیں کیں.حضرت اقدس کو بچپن ہی سے علیحدگی میں اپنے خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگنے کا بڑا شوق تھا.عبادات سے آپ کو عشق تھا اور یہ عشق وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا.چنانچہ 1903ء میں آپ نے کثرت سے تنہائی میں دعائیں کرنے کے لئے ایک علیحدہ کمرے کی بنیاد رکھی جس کا نام آپ نے بیت الدعاء تجویز فرمایا.یہ 13 مارچ1903ء کا واقعہ ہے.حضور اس کمرے کی بابت فرماتے ہیں.”ہم نے سوچا کہ عمر کا اعتبار نہیں.ستر سال کے قریب عمر سے گزر چکے ہیں.موت کا وقت مقرر نہیں خدا جانے کس وقت آجائے اور کام ہمارا ابھی بہت باقی ہے ادھر قلم کی طاقت کمزور ثابت

Page 67

ہوئی ہے.رہی سیف اس کے واسطے خدا تعالیٰ کا اذن اور منشاء نہیں.لہذا ہم نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور اسی سے قوت پانے کے واسطے ایک الگ حجرہ بنایا اور خدا سے دعا کی کہ بیت الدعا کو امن اور سلامتی اور اعداء پر بذریعہ دلائل نیرہ اور براہین ساطعہ کے اس.فتح کا گھر بنادے.“ (ذکر حبیب صفحہ 110-109 ) چاہے خدا قبضہ تقدیر میں دل ہیں اگر پھیر دے میری طرف آجائیں پھر بے اختیار گر کرے معجز نمائی ایک دم میں نرم ہو وہ دل سنگیں جو ہووے مثل سنگ کوهسار (در مشین) کابل ۶۹.خدا کی نظر سے گری ہوئی بد قسمت زمین کابل افغانستان کے رہنے والے ایک عظیم عالم اور صاحب کشف والہام بزرگ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب تک جب حضرت مسیح موعود کا پیغام پہنچا تو آپ کی باتوں کی سچائی کو انہوں نے اپنی خداداد فراست کی بناء پر فوراً محسوس کر لیا اور دسمبر 1900ء میں آپ نے اپنے کچھ شاگردوں کے ہاتھ اپنی بیعت کا خط حضور کی خدمت میں قادیان بھجوا دیا.جس کے بعد 1902ء میں آپ حضرت اقدس مسیح موعود سے ملنے کیلئے قادیان تشریف لائے اور یہاں آ کر امام وقت سے محبت اور پیار کا یہ تعلق عشق میں بدل گیا جس نے آپ کے دل سے دوسرا ہر نقش مٹا دیا.تقریباً چھ ماہ تک آپ قادیان میں ٹھہرے رہے جس کے بعد آپ نے واپسی کا ارادہ کیا کیونکہ آپ کابل میں امیر کابل کے دربار کے ساتھ وابستہ تھے اور چھ ماہ ہی کی رخصت لے کر کابل سے روانہ ہوئے تھے.یہ غالبا جنوری 1903 ء کا واقعہ ہے جب آپ قادیان سے رخصت ہوئے.حضرت مسیح موعود خود آپ کو رخصت کرنے کے لئے قادیان سے باہر تک تشریف لائے اور بڑی محبت سے آپ کو رخصت کیا.

Page 68

بٹالہ اور لاہور سے ہوتے ہوئے آپ کو ہاٹ پہنچے جہاں سے خوست کے لئے روانہ ہوئے.اور کابل کی ریاست میں داخلے سے پہلے ہی انہوں نے بذریعہ خط تمام حالات لکھ کر کابل روانہ کر دئیے تا کہ امیر کا بل حبیب اللہ خان کا رویہ معلوم کرسکیں لیکن امیر کابل نے چالاکی کے ساتھ اپنی دلی کیفیات کو چھپا کر آپ کو یہ پیغام بھجوایا کہ آپ بلاخوف کابل آجا ئیں اگر مسیح موعود کا دعوی سچا ہوگا تو میں بھی مان لوں گا اور ان کا مرید ہو جاؤں گا.اور ساتھ ہی اس ظالم شخص نے خوست کے حاکم کو آپ کی گرفتاری کا حکم بھی روانہ کر دیا.کر دیا گیا.امیر حبیب اللہ خان کے حکم کے مطابق خوست میں آپ کو گرفتار کر لیا گیا اور آٹھ سپاہیوں کے نرغے میں آپ کو کابل روانہ ایک دردناک داستان کا آغاز ہو چکا تھا.جس کا انجام حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت پر ہونا مقدر ہو چکا تھا.آپ کو جب گرفتار کر کے امیر کابل کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ آپ کے ساتھ بہت بدتمیزی سے پیش آیا بلکہ یہاں تک کہا کہ اس شخص کو مجھ سے دور کھڑا کرو مجھے اس سے بو آتی ہے.اس کے بعد امیر کے حکم پر آپ کو قلعے میں قید کر دیا گیا اور قریباً 64 سیر وزنی لوہے کی زنجیر آپ کی گردن اور کمر میں ڈالدی گئی.یہ وہی صاحبزادہ عبداللطیف تھے جو احمدیت قبول کرنے سے قبل کابل میں علم وفضل کے حوالے سے مستند ترین نام تھے.خود امیر کابل آپ کی علمی اور روحانی صلاحیتوں کا معترف تھا اور آپ کو بڑی عزت دیا کرتا تھا.لیکن حق کو قبول کرنے کی پاداش میں حالات نے کیا عجیب رُخ اختیار کیا تھا کہ وہی صاحبزادہ عبداللطیف قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے.صرف اسلئے کہ انہوں نے وقت کے امام کی آواز پر لبیک کہا تھا.یہ قید و بند کا سلسلہ چار ماہ تک جاری رہا جس کے دوران امیر کا بل نے بار بار آپ کو اپنے عقیدے سے تو بہ کرنے کے لئے کہا.بہت سے لالچ دیئے اور سمجھایا کہ اپنا نہیں تو اپنے بیوی بچوں کا ہی خیال کرو اور اس عقیدے کو چھوڑ دوور نہ اس جرم کی پاداش میں سنگسار کر دیئے جاؤ گے.صدق و وفا کے اس عظیم پیکر نے ہر مرتبہ امیر کی باتوں کو سنا اور بڑے عزم سے انہیں رد کر دیا اور کہا کہ نعوذ باللہ سچائی سے کیونکر انکار ہوسکتا ہے.اور جان اور بیوی بچوں کی کیا حیثیت ہے کہ میں ان کے لئے ایمان کو چھوڑ دوں.غرض جب امیر کے پیہم اصرار کے باوجود آپ نے احمدیت چھوڑنے سے انکار کیا تو امیر نے ان سے مایوس ہو کر اپنے ہاتھ سے آپ کے خلاف ایک لمبا چوڑا پر چہ لکھا جس میں مولویوں کے فتاوی درج کر کے لکھا کہ ایسے کافر کی سزاسنگسار کرنا ہے چنانچہ اس فتویٰ کے مطابق آپ کے ناک کو چھید کر اس میں رسی ڈالی گئی اور بڑے اذیت ناک طریق پر کھینچ کر سنگسار کرنے کے لئے میدان میں پہنچایا گیا.شہر کے ہزاروں لوگ خدا تعالیٰ کے غضب سے بے پرواہ اس نظارے کو دیکھنے کے لئے میدان میں جمع تھے.وہ نہیں جانتے تھے کہ سرز مین کابل پر کتنے بڑے ظلم کا ارتکاب ہونے جارہا ہے.ایسا ظلم جس کی سزا صدیوں تک چلنی تھی.

Page 69

قاضی شہر نے گھوڑے سے اتر کر آپ پر پہلا پتھر چلایا.جس کے بعد بد قسمت امیر نے آپ کو پتھر مارا پھر کیا تھا عوام الناس کی طرف سے آپ پر پتھروں کی بارش شروع ہو گئی.اور آپ شہید ہو گئے.یہ واقعہ 14 جولائی 1903ء کو وقوع پذیر ہوا.حضرت مسیح موعود نے اپنی تصنیف ”تذکرۃ الشہادتین میں اس واقعہ کا تفصیلی ذکر فرمایا جس میں آپ نے یہ بھی لکھا.یہ خون بڑی بے رحمی کے ساتھ کیا گیا ہے اور آسمان کے نیچے ایسے خون کی اس زمانے میں نظیر نہیں ملے گی.ہائے اس نادان امیر نے کیا کیا.کہ ایسے معصوم شخص کو کمال بے دردی سے قتل کر کے اپنے تئیں تباہ کر لیا.اے کابل کے زمین تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا.اے بدقسمت زمین! تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے.“ آج دنیا میں کون ایسا شخص ہے جو افغانستان اور کابل کے دردناک واقعات اور حالات سے آگاہ نہ ہو.باوجود اس کے کہ صاحبزادہ صاحب کی شہادت کے واقعہ کو سو سال پورے ہونے کو ہیں پھر بھی خدا تعالیٰ کے غضب کا سلسلہ اس بدقسمت سرزمین پر جاری ہے.اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کا بل کی زمین اُس پیغام کو تعظیم نہیں دیتی جس پیغام کے لئے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تھا.اے مرے پیارے جہاں میں تو ہی ہے اک بے نظیر جو ترے مجنوں حقیقت میں وہی ہیں ہوشیار کون چھوڑے خواب شیریں کون چھوڑے اکل و شرب کون لے خار مغیلاں چھوڑ کر پھولوں کے ہار عشق ہے جس سے ہوں طے سارے جنگل پر خطر ہے جو سر جھکا دے زیر تیغ آبدار عشق ۷۰.احمدیت کا روشن مستقبل حضرت مسیح موعود نے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی شہادت کے بعد ایک کتاب ”تذکرۃ الشہادتین، تصنیف فرمائی جس میں آپ کے واقعات شہادت کا تفصیلی ذکر فرمانے کے ساتھ ساتھ جماعت کی ترقی سے متعلق ایک عظیم الشان پیشگوئی بھی فرمائی جس میں آپ نے لکھا.”اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا.وہ اپنی اس

Page 70

جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا اور حجت اور برہان کی رُو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا.وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.خدا اس مذہب اور اس سلسلے میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نا مرا در لکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا.ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی ان میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر ان کی اولا د جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور ان میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولا د مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی تب خدا ان کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبے کا بھی گزر گیا دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسی اب تک آسمان سے نہ اترا تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدے سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدے کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے.(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 67) آج جماعت احمد یہ اس پیشگوئی کے مطابق ترقیات کی منازل طے کرتی چلی جارہی ہے اور وہ دن آنے والے ہیں جب یہ عظیم پیشگوئی بھر پورشان و شوکت کے ساتھ پوری ہوگی.اے.ذحت کرام حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود کی مبشر اولاد میں سے آخری وجود تھیں.آپ کی ولادت با سعادت 25 جون 1904 ء کو ہوئی.آپ کے بارے میں حضرت اقدس کو یہ الہام ہوا ” ذحت کرام“ چنانچہ آپ کی پیدائش کے بعد حضور نے حقیقۃ الوحی میں اس الہام کا تذکرہ بھی فرمایا ہے.آپ کی شادی حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب سے 22 فروری 1917ء کو ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹوں اور چھ بیٹیوں سے نوازا.آپ نے خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک لمبی اور فعال زندگی بسر کی اور 6 مئی 1987ء بروز بدھ سہ پہر 3 بجے قریباً 83 سال کی عمر میں وفات پائی اور اپنے مالک حقیقی کے

Page 71

حضور حاضر ہو گئیں.آپ کی نماز جنازہ 7 مئی بروز جمعرات شام 5 بجے بیت اقصیٰ ربوہ میں حضرت مولوی محمدحسین صاحب (رفیق حضرت مسیح موعود ) نے پڑھائی جس کے بعد شام 6.30 بجے بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی.احمد مسیح پاک کی لخت جگر دختر ہوں ہزاروں رحمتیں اس کی مبارک ذات پر پاک سیده طینت باصفا عالی وخت کرام جان مہدی کی نیں نور نظر نشانی بھی مرے مرے محبوب رخصت ہوئی نہ دیکھ پائے گی نظر چاہے پر نہ از محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبه منقول از کتاب دخت کرام صفحه 467-466) حضرت مسیح موعود کی صداقت کا نشان ۷۲.زلزلے کا ایک دھکہ 1903ء کے آخر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلسل یہ خبر دی جارہی تھی کہ خدا تعالیٰ اپنے مرسل کی سچائی کے ثبوت کے طور پر زلزلوں کی شکل میں اپنے زور آور حملے ظاہر کرے گا.چنانچہ دسمبر 1903ء میں حضور کو بذریعہ رویا زلزلہ کا ایک دھکہ آنے کی خبر دی گئی.اور اس کے بعد کئی ایک الہامات میں یہ بات کھول کر بتا دی گئی کہ ایک خطرناک زلزلہ آنے والا ہے نیز یہ بھی بتا دیا گیا کہ آپ اور آپ کے روحانی گھر میں شامل افراد ان زلازل کی تباہی اور ہلاکت سے غیر معمولی طور پر بچائے جائینگے.چنانچہ آپ کی یہ سب پیش خبریاں جماعت کے اخبارات اور اشتہارات کے ذریعے سے کھول کر دنیا کے سامنے پیش کردی گئیں.14 اپریل 1905 ء کا دن ان تمام الہامات اور پیش خبریوں کی تصدیق کرنے والا دن بن کر طلوع ہوا جس دن خدائی تقدیر کے مطابق کانگڑہ کی ایک بے ضررسی پہاڑی حرکت میں آگئی اور طلوع آفتاب کے وقت صبح چھ بجے کے لگ بھگ کانگڑہ اور اس کے ارد گر د سینکڑوں میل تک ایک قیامت خیز زلزلے کا آغاز ہو گیا.زلزلے کے مرکز میں تو اس کی اتنی شدت تھی کہ عمارتوں کے پر نچے اڑ گئے.اور مضبوط تعمیرات مٹی کا ڈھیر بن گئیں.جبکہ دیگر شہروں مثلاً لاہور، گوجرانوالہ جموں امرتسر دہلی اور شملہ وغیرہ میں بھی اس زلزلے سے خاصا نقصان ہوا اور ہزاروں لوگ اس زلزلے میں ہلاک ہو گئے.یہ دن قیامت کی یاد دلانے والا دن تھا جس نے ایسے خوفناک تاثرات پیچھے چھوڑے کہ اخبارات اور رسائل نے فی الحقیقت اسے قیامت صغریٰ ہی قرار دیا.اس زلزلے کے جھٹکے قادیان میں بڑی شدت سے محسوس کئے گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق نہ صرف

Page 72

قادیان میں بلکہ دیگر مقامات پر بھی احمدی احباب کی غیر معمولی حفاظت فرمائی.حضور زلزلے کے دوران گھر سے اپنے باغ میں تشریف لے آئے جہاں آپ کی معیت میں دیگر احمدی بھی آکر رہنا شروع ہو گئے.آپ 14اپریل 1905 ء کو باغ میں تشریف لائے اور قریباً 3 ماہ تک باغ میں ہی عارضی رہائش گاہ میں قیام فرمایا جس کے بعد 2 جولائی 1905ء کو ظہر کی نماز ادا کر کے خیریت سے قادیان واپس آگئے.۷.جنگ عظیم کے بارے میں پیشگوئی ، حضرت اقدس مسیح موعود نے اپریل 1905ء میں اپنی کتاب براھین احمدیہ حصہ پنجم میں دنیا پر ایک بہت بڑی مصیبت کے آنے کی پیشگوئی فرمائی اور بتایا کہ مجھے خدا تعالی کی طرف سے بار بار ہولناک زلازل کے آنے کی خبر دی گئی ہے.اور بتایا گیا ہے کہ ایسے زلزلے آئینگے جو قیامت کے نمونے ہونگے.لیکن فرمایا کہ میں ابھی تک اس زلزلے کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر محمول نہیں کر سکتا.ممکن ہے کہ یہ معمولی زلزلہ نہ ہو کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نظارہ دکھلا دے.اور جسکی نظیر کبھی اس زمانے نے نہ دیکھی ہو اور جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی آئے.نیز آپ نے اس کتاب میں 456 اشعار پر مشتمل ایک نظم بھی تحریر فرمائی جس کے آخر میں اس ہولناک آفت کا بھی ذکر کیا.آپ نے لکھا اک نشان ہے آنے والا آج سے کچھ دن کے بعد گردش کھا ئینگے دیہات و شہر و مرغزار جس آئے گا قہر خدا ނ خلق پر اک انقلاب برہنہ ہوگا کہ باندھے ازار مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن و انس زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی باحال زار غرض آپ نے بڑی تفصیل سے اس آنے والی آفت کا ذکر کیا.لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ نے خدا تعالی سے یہ دعا ئیں بھی جاری رکھیں کہ یہ آفت آپ کی زندگی میں نہ آئے.چنانچہ آپ نے دعائیں کیں تو اللہ تعالیٰ نے الہاما آپ کو بتایا کہ اخره الله الى وقت مسمى یعنی اللہ تعالیٰ نے مصیبت کو ایک معین عرصہ کے لئے ٹال دیا ہے.

Page 73

اور پھر ایسا ہی ہوا.1908ء میں آپ کی وفات ہوئی اور 1914ء میں دنیا نے جنگ عظیم اوّل کی ہولنا کیوں میں قدم رکھ دیا.چار سال تک متواتر دنیا ایک دوسرے کے خلاف لڑتی رہی.لاکھوں لوگ مارے گئے.حکومتوں پر انقلاب آگئے.اور روس کا طاقتور اور جابر بادشاہ جسے زار کا لقب دیا جاتا تھا.15 مارچ 1917ء کو با حالت زار حکومت سے علیحدہ کر دیا گیا.اور صرف اسی پر بس نہیں ہوئی بلکہ 16 جولائی 1918ء کو بہت دکھ اور تکلیفیں دیکھنے کے بعد بالآخر زار روس کو اس کے بیوی بچوں سمیت بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا.۷۴.مدرسہ احمدیہ کا آغاز حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد دسمبر 1905 ء میں سلسلہ احمدیہ کے ایک اور بزرگ مولوی برہان الدین صاحب جہلمی بھی وفات پاگئے.ان دونوں علماء کی وفات سے جماعت میں جو خلاء پیدا ہوا اس کی وجہ سے خدائی تصرف کے ماتحت حضور کا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ جماعت میں علماء پیدا کرنے کا کوئی مستقل نظام ہونا چاہئے.چنانچہ آپ نے 6 دسمبر 1905 ء کوفر مایا.”ہماری جماعت میں سے اچھے اچھے لوگ مرتے جاتے ہیں چنانچہ مولوی عبد الکریم صاحب جو ایک مخلص آدمی تھے اور ایسا ہی اب مولوی برہان الدین صاحب جہلم میں فوت ہو گئے.اور بھی بہت سے مولوی صاحبان اس جماعت میں فوت ہوئے مگر افسوس کہ جو مرتے ہیں ان کا جانشین ہم کو کوئی نظر نہیں آتا.“ چنانچہ حضرت اقدس نے اس صورتحال کا جائزہ لینے اور اصلاحی قدم اٹھانے کے لئے بہت سے احباب کو بلا کر ان سے مشورہ کیا کہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں ایسی اصلاح ہونی چاہئے کہ یہاں سے واعظ اور علماء پیدا ہوں جو دنیا کی ہدایت کا ذریعہ بنیں.بعض احباب نے اس پر یہ رائے دی کہ مدرسہ تعلیم الاسلام کو توڑ کر ایک خالص مذہبی مدرسے کی بنیا د رکھی جائے لیکن حضرت مولوی نورالدین صاحب اور حضرت مرزا بشیر الدین صاحب محمود احمد صاحب نے اس تجویز کی مخالفت کی اور حضرت اقدس کے منشاء کے مطابق یہ مشورہ دیا کہ مدرسہ تعلیم الاسلام قائم رہے لیکن اس میں ایسی تبدیلیاں کی جائیں کہ اصل مقصد حاصل ہو سکے.حضرت مسیح موعود نے بھی اسی خیال کو پسند فرمایا اور مدرسہ تعلیم الاسلام میں ہی دینیات کی ایک شاخ کھولنے کا فیصلہ فرمایا جو جنوری 1906ء میں کھول دی گئی.اسی شاخ کے قیام سے در اصل مدرسہ احمد یہ یا جامعہ احمدیہ کی بنیاد پڑی جو آج خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا ایک اہم علمی حصہ بن چکا ہے.اور امام وقت کی ہدایات کے تابع ایسے علماء پیدا کر رہا ہے جو دنیا کے کونے کونے میں اشاعت احمدیت کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں.

Page 74

۷۵.رسالہ الوصیت اور جماعت احمدیہ میں نظام خلافت کی پیشگوئی اللہ تعالی نے ۱۹۰۵ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ظاہر فرمایا کہ آخری حصہ زندگی کا یہی ہے جواب گزررہا ہے.چنانچہ ۱۸ اکتوبر ۱۹۰۵ کو حضور نے رویا میں دیکھا کہ ایک کو ری ٹنڈ (مٹی کا برتن جس میں پانی رکھا جاتا ہے ) میں کچھ پانی مجھے اللہ نے دیا ہے.پانی صرف دو تین گھونٹ باقی اس میں رہ گیا ہے لیکن بہت مصفی اور منقطر پانی ہے.اس کے ساتھ یہ الہام ہوا آب زندگی پھر الہام ہوا خدا کی طرف سے سب پر اداسی چھا گئی دسمبر ۱۹۰۵ میں بتایا گیا قرب اجلک المقدر ( یعنی تیری اجل مقدر آگئی ہے ) بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں اس دن سب پر اداسی چھا جائے گی.یہ ہوگا یہ ہوگا یہ ہوگا بعد اس کے تمہارا واقعہ ہوگا.تمام عجائبات قدرت دکھلانے کے بعد تمہارا حادثہ آئے گا.دسمبر 1907ء میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مزید اس حادثہ کی تعین میں یہ الہام ہوا.ستائیس کو ایک واقعہ ( ہمارے متعلق ) اللہ خیر و ابقی.الوصیت کی تصنیف ان الہی خبروں کی بناء پر حضور نے 20 دسمبر 1905ء کو الوصیت“ کے نام سے ایک رسالہ شائع فرمایا جس میں ان الہامات کا تذکرہ کر کے حضور نے جماعت کو نہایت شفقت بھرے الفاظ میں اپنے اندر روحانی انقلاب بر پا کرنے کی تلقین فرمائی اور اپنے بعد قدرت ثانیہ یعنی نظام خلافت کے ظہور کی خوشخبری دی.چنانچہ لکھا.یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ انسان کو اس زمین میں پیدا کیا ہے ہمیشہ اسی سنت کو وہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور ان کو غلبہ دیتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے کتب الله لا غلين انا ورسلی اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ وہ اور اس کے نبی غالب رہیں گے ) اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کر سکے.اسی طرح خدا تعالیٰ قومی نشان کے ساتھ ان کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اس کی تخمریزی انہیں کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دیکر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے.مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور

Page 75

طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں.غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (۱) اول خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے (۲) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمر ٹوٹ جاتی ہے اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں.خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبر دست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے.پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے اس معجزہ کو دیکھتا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق کے وقت میں ہوا جبکہ آنحضرت ﷺ کی موت ایک بے وقت موت سمجھی گئی اور بہت سے بادیہ نشین نادان مرتد ہو گئے اور صحابہ بھی مارے غم کے دیوانہ کی طرح ہو گئے تب خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو کھڑا کر کے دوبارہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا اور اسلام کو نا بود ہوتے ہوتے تھام لیا اور اس وعدہ کو پورا کیا جو فرمایا تھا وليــمـكـنـن لـهـم ديـنـهـم الـذي ارتضى لهم وليبد لنهم من بعد خوفهم امنا يعنی خوف کے بعد پھر ہم ان کے پاؤں جما دیں گے.ایسا ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں ہوا جبکہ حضرت موسی مصر اور کنعان کی راہ میں پہلے اس سے جو بنی اسرائیل کو وعدے کے موافق منزل مقصود تک پہنچادیں فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل میں ان کے مرنے سے بڑا ماتم برپا ہوا جیسا کہ توریت میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل اس بے وقت موت کے صدمہ سے اور حضرت موسیٰ کی ناگہانی جدائی سے چالیس دن تک روتے رہے.ایسا ہی حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ معاملہ ہوا.اور صلیب کے واقعہ کے وقت تمام حواری تتر بتر ہو گئے اور ایک ان میں سے مرتد بھی ہو گیا.سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دوقدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم مری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو.اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جاویں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائی ہے جس کا سلسلہ قیامت

Page 76

منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن جب میں جاؤں گا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.“ (رساله الوصیت روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 305-304) ۷۶.بہشتی مقبرہ کا قیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 1898ء کے قریب ایک کشف ہوا جس کی تفصیل آپ کے الفاظ میں یہ تھی.” مجھے ایک جگہ دکھلائی گئی کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہوگی.ایک فرشتہ میں نے دیکھا کہ وہ زمین کو ناپ رہا ہے تب ایک مقام پر اس نے پہنچ کر مجھے کہا کہ یہ تیری قبر کی جگہ ہے، پھر ایک جگہ مجھے اور دکھلائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا اور ظاہر کیا گیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں“ حضور نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے نام 16 اگست 1898ء کو ایک مکتوب میں تحریر فر مایا کہ.”میرے دل میں خیال ہے کہ اپنے اور اپنی جماعت کے لئے خاص طور پر ایک قبرستان بنایا جائے جسطرح میں بسایا گیا تھا.بقول شیخ سعدی کہ ” بداں را به نیکاں بخشد کریم یہ بھی ایک وسیلہ مغفرت ہوتا ہے جس کو شریعت میں معتبر سمجھا گیا ہے.اس قبرستان کی فکر میں کہ کہاں بنایا جائے.امید ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی جگہ میسر کر دے اور اس کے اردگر دایک دیوار چاہئے.“ اس لحاظ سے آپ گو 1898 ء سے ایک خاص قبرستان کی بنیاد کے لئے کوشاں تھے مگر چونکہ موقعہ کی عمدہ زمینیں بہت قیمت سے ملتی تھیں اس لئے یہ غرض مدت دراز تک معرض التواء میں رہی.بالآخر اللہ تعالیٰ کی مصلحتوں کے ماتحت اس کا قیام دسمبر 1905ء کے آخر میں عمل میں آیا.بہشتی مقبرہ اور اس میں دفن ہونے کی شرائط کا اعلان حضور نے اپنی ملکیتی زمین الہی حکم کی تعمیل میں مقبرہ کے لئے وقف فرما دی اور رسالہ الوصیت میں اس میں دفن ہونے والوں کے لئے مندرجہ ذیل شرائط کا اعلان فرمایا:.وو چونکہ اس قبرستان کے لئے بڑی بھاری بشارتیں مجھے ملی ہیں اور نہ صرف خدا نے یہ فرمایا کہ یہ

Page 77

مقبره بهشتی ہے بلکہ یہ بھی فرمایا انزل فيها كل رحمۃ یعنی ہر ایک قسم کی رحمت اس قبرستان میں اتاری گئی ہے اور کسی قسم کی رحمت نہیں جو اس قبرستان والوں کو اس سے حصہ نہیں.اس لئے خدا نے میرا دل اپنی وحی خفی سے اس طرف مائل کیا کہ ایسے قبرستان کے لئے ایسے شرائط لگا دیئے جائیں کہ وہی لوگ اس میں داخل ہوسکیں جو اپنے صدق اور کامل راستبازی کی جہ سے ان شرائط کے پابند ہوں.سو وہ تین شرطیں ہیں اور سب کو بجالا نا ہوگا.ا.اس قبرستان کی زمین موجودہ بطور چندہ کے میں نے اپنی طرف سے دی ہے لیکن اس احاطہ کی تکمیل کے لئے کسی قدر اور زمین خریدی جائے گی جس کی قیمت انداز ہزار روپیہ ہوگی اور اس کے خوشنما کرنے کے لئے کچھ درخت لگائے جائیں گے اور ایک کنواں لگایا جائے گا اور اس قبرستان سے شمالی طرف بہت پانی ٹھہرا رہتا ہے جو گذرگاہ ہے اس لئے وہاں ایک پل طیار کیا جائے گا اور ان متفرق مصارف کے لئے دو ہزار روپیہ درکار ہوگا.سوکل یہ تین ہزار روپیہ ہوا جو اس تمام کام کی تکمیل کے لئے خرچ ہوگا.سو پہلی شرط یہ ہے کہ ہر ایک شخص جو اس قبرستان میں مدفون ہونا چاہتا ہے وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ان مصارف کے لئے چندہ داخل کرے اور یہ چندہ محض انہی لوگوں سے طلب کیا گیا ہے نہ دوسروں سے.بالفعل یہ چندہ اخویم مکرم مولوی نورالدین صاحب کے پاس آنا چاہئے لیکن اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو یہ سلسلہ ہم سب کی موت کے بعد بھی جاری رہے گا.اس صورت میں ایک انجمن چاہئے کہ ایسی آمدنی کا روپیہ جو وقتاً فوقتاً جمع ہوتا رہے گا.اعلائے کلمہ...اور اشاعت توحید میں جس طرح مناسب سمجھیں خرچ کریں.۲.دوسری شرط یہ ہے کہ تمام جماعت میں سے اس قبرستان میں وہی مدفون ہوگا جو یہ وصیت کرے جو اس کی موت کے بعد دسواں حصہ اس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت ( دین.ناقل ) اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہوگا.اور ہر ایک صادق کامل الایمان کو اختیار ہوگا کہ اپنی وصیت میں اس سے بھی زیادہ لکھ دے.لیکن اس سے کم نہیں ہو گا.اور یہ مالی آمدنی ایک بادیانت اور اہل علم انجمن کے سپر در ہے گی اور وہ باہمی مشورہ سے ترقی ء (دین حق.ناقل ) اور اشاعت علم قرآن و کتب دینیہ اور اس سلسلہ کے واعظوں کے لئے حسب ہدایت مذکورہ بالاخرچ کریں گے.اور خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس سلسلہ کو ترقی دے گا.اس لئے امید کی جاتی ہے کہ اشاعت (دین.ناقل ) کے لئے ایسے مال بھی بہت اکٹھے ہو جائیں

Page 78

گے اور ہر ایک امر جو مصالح اشاعت ( دین.ناقل ) میں داخل ہے جس کی اب تفصیل کرنا قبل از وقت ہے وہ تمام اموران اموال سے انجام پذیر ہوں گے.اور جب ایک گروہ جو متکفل اس کام کا ہے فوت ہو جائے گا تو وہ لوگ جو ان کے جانشین ہوں گے ان کا بھی یہی فرض ہوگا کہ ان تمام خدمات کو حسب ہدایت سلسلہ احمدیہ بجالا دیں.یہ مت خیال کرو کہ یہ صرف - دور از قیاس باتیں ہیں بلکہ یہ اُس قادر کا ارادہ ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال جمع کیونکر ہوں گے اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہوگی جو ایمان داری کے جوش سے یہ مردانہ کام دکھلائے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپرد ایسے مال کئے جائیں وہ کثرت مال کر دیکھ کو ٹھو کر نہ کھاویں اور دنیا سے پیار نہ کریں سو میں دعا کرتا ہوں کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لئے کام کریں ہاں جائز ہوگا کہ جن کا کچھ گزارہ نہ ہو ان کو بطور مد دخرچ ان میں سے دیا جائے.۳.تیسری شرط یہ ہے کہ اس قبرستان میں دفن ہونے والا متقی ہو اور محرمات سے پر ہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہو.سچا اور صاف مسلمان ہو.۴.ہر ایک صالح جو اس کی کوئی بھی جائیداد نہیں اور کوئی مالی خدمت نہیں کر سکتا.اگر یہ ثابت ہو کہ وہ دین کے لئے اپنی زندگی وقف رکھتا تھا اور صالح تھا تو وہ اس قبرستان میں دفن ہوسکتا ہے.“ الوصیت میں حضور نے یہ بھی لکھا کہ.الوصیت صفحہ 22-20) میری نسبت اور میرے اہل و عیال کی نسبت خدا نے استثناء رکھا ہے باقی ہر ایک مرد ہو یا عورت ان کو ان شرائط کی پابندی لازم ہوگی اور شکایت کرنے والا منافق ہوگا.“ نیز تحریر فرمایا.( الوصیت صفحہ نمبر 29) ی انتظام منافقوں پر بہت گراں گزرے گا اور اس سے ان کی پردہ دری ہوگی اور بعد موت وہ مرد ہوں یا عورت اس قبرستان میں ہرگز دفن نہ ہوں گے.“ (الوصیت صفحہ نمبر 30) بہشتی مقبرہ میں سب سے پہلے دفن ہونے والے بزرگ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی تھے.

Page 79

حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی 1858ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے.آپ کا نام کریم بخش تھا جسے حضرت مسیح موعودؓ نے عبد الکریم میں تبدیل فرما دیا.حضرت مولوی نورالدین صاحب سے محبت کا گہرا تعلق آپ کے احمدیت سے تعارف کا باعث بنا اور مارچ1888ء میں آپ کی ملاقات حضرت اقدس مسیح موعود سے ہوئی جس کے بعد یہ تعلق روز بروز بڑھتا ہی چلا گیا اور جلد ہی آپ حضور کے قریبی رفقاء میں شامل ہو گئے.چنانچہ حضرت اقدس کی آپ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ کی آخری بیماری میں حضور آپ کے لئے بہت بے چین اور فکرمند رہتے اور علاج کے لئے دعاؤں کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے مادی ذرائع بھی مہیا فرماتے.آپ کی اپنے اس غلام سے محبت کا یہ عالم تھا کہ فرماتے تھے کہ مولوی صاحب کی ملاقات کو بہت دل چاہتا ہے مگر ان کی تکلیف نہیں دیکھ سکتا.111اکتوبر 1905 ء کو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوئی دن 2:30 بجے کے قریب عالم جاودانی کو رحلت فرما گئے.حضرت اقدس ان دنوں اپنے مخلص اور نیک خدام کے لئے ایک الگ قبرستان بنانے کا ارادہ فرما رہے تھے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بشارتیں دی گئی تھیں اس لئے حضور نے اپنے اس پیارے غلام پر شفقت فرماتے ہوئے انہیں ابتداء میں امامنا وفن کروایا.اور بہشتی مقبرہ کے قیام کے بعد آپ 27 دسمبر 1905ءکو بہشتی مقبرے میں دفن کئے گئے.حضرت مولوی صاحب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کا لیڈر ہونے کا خطاب بھی دیا گیا تھا.وو بهشت ۷۷ صدر انجمن احمدیہ کا قیام مقبرہ کی آمد کی حفاظت اسے فروغ دینے اور خرچ کرنے کے لئے حضور نے ایک انجمن بنائی جس کا نام انجمن کار پردازان مصالح بهشتی مقبرہ تجویز فرمایا اور اس سلسلہ میں بعض خاص ہدایات الوصیت میں بطور ضمیمہ درج کر کے لکھا کہ یہ ضروری ہوگا کہ مقام اس انجمن کا ہمیشہ قادیان رہے کیونکہ خدا نے اس مقام کو برکت دی ہے.‘ یہ انجمن کوئی دنیوی یا جمہوری طرز کی کوئی انجمن نہیں تھی بلکہ ان اموال کی حفاظت اور توسیع اور اشاعت دین کی غرض سے بنائی گئی تھی جو نظام الوصیت کے نتیجہ میں جماعت کو عطا ہونے والے تھے.خواجہ کمال الدین صاحب نے مشورہ دیا کہ بہشتی مقبرہ والی انجمن کو قانونی وسعت دے کر دوسرے جماعتی اداروں ( مثلا ر یو یو آف ریلیجنز اور مدرسہ تعلیم الاسلام وغیرہ) کو بھی اس کے ساتھ شامل کر دیا جائے اور اس کا نام صدرانجمن احمد یہ رکھا جائے.جماعتی تنظیم کے اعتبار سے یہ ایک معقول اور مفید مشورہ تھا اس لئے حضور نے اسے قبول بھی فرمالیا اور 31 جنوری 1906 ء تک اس کے قواعد وضوابط تجویز کر لئے گئے جو 10 فروری 1906ء کے ”الحکم اور 16 فروری کے ”بدر میں جماعت کی اطلاع کے لئے شائع بھی کر دیئے گئے.اس طرح اصل انجمن کار پرداز مصالح قبرستان میں ہی دوسرے تمام

Page 80

جماعتی ادارے مدغم کر کے موجودہ صدر انجمن احمدیہ کی بنیاد پڑی.اور اس کے پہلے صدر حضرت مولانا نورالدین صاحب مقرر ہوئے.۷۸ تزلزل در ایوان کسر می فتاد ایران ایک بہت پرانا تاریخی ملک ہے.زمانہ قدیم سے اس ملک کے بادشاہوں کا لقب کسری چلا آتا تھا.حضرت اقدس کو 15 جنوری 1906ء کو الہام ہوا." تزلزل در ایوان کسری فتاد جس وقت یہ الہام شائع ہوا ہے.اس وقت ایران پر شاہ مظفر الدین حکمران تھے اور اس الہام سے چند ماہ قبل 1905ء میں عوام کے مطالبات کو قبول کر کے پارلیمنٹ کے قیام کا اعلان کر چکے تھے اور ایران کے لوگ بادشاہ کے اس اعلان سے بہت خوش تھے اور بادشاہ بھی اپنی مقبولیت پر خوش ہورہا تھا لیکن رب العرش خدا جس نے الہام " تزلزل در ایوان کسری فتاد نازل فرمایا تھا وہ اپنے اس الہام کو پورا کرنا چاہتا تھا.مظفرالدین قاچارشہنشاہ ایران 1907ء میں وفات پاگئے اور ان کا ولی عہد مرزا محمد علی اپنے باپ کی جگہ تخت نشین ہوا.اگر چہ اس نے بھی تخت حکومت پر بیٹھتے ہی مجلس کے استحکام اور نیابتی حکومت کے دوام کا اعلان کیا.مگر خدا کی قدرت سے ملک میں ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ بادشاہ اور مجلس میں مخالفت شروع ہوگئی.مجلس بادشاہ کے بعض در بار یوں کوفتنہ کا بنی بجھتی تھی اور اس کا مطالبہ تھا کہ وہ دربار سے علیحدہ کر دیئے جائیں.گو بادشاہ نے مجلس کا مطالبہ مانے کا وعدہ تو کر لیا مگر ساتھ ہی یہ ارادہ بھی کیا کہ وہ طہران کو چلے جائیں.تبدیلی کے وقت بادشاہ کی باڈی گارڈ فوج اور قوم پرستوں کے حمایتیوں کے درمیان بگاڑ پیدا ہو گیا.اور حضرت اقدس کا الہام اس رنگ میں پورا ہوا کہ بادشاہ نے پارلیمنٹ کو موقوف کر دیا.بادشاہ کے اس فعل سے ملک میں عام بغاوت پھیل گئی.بالآخر بادشاہ کی باڈی گارڈ فوج بھی جس پر بادشاہ کو بہت ناز تھا، باغیوں کے ساتھ مل گئی اور مرزا محمد علی قاچار کسری ایران کے ایوان میں ایسا تزلزل پڑا کہ اسے پندرہ جولائی 1909 ءوک اپنے حرم سمیت روسی سفارتخانہ میں پناہ لینی پڑی.نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنت ہمیشہ کے لئے اس خاندان سے نکل گئی اور کسریٰ کا وجود دنیا سے مٹ گیا.۷۹.حضرت اقدس کی کتاب حقیقۃ الوحی 1906ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دور مسیحیت کی سب سے ضخیم اور جامع کتاب حقیقۃ الوحی تصنیف کرنا شروع فرمائی جس میں قرآنی حقائق و معارف کے علاوہ اپنی صداقت کے سو 100 سے زائد آسمانی نشانات درج فرمائے.یہ بے

Page 81

نظیر کتاب 1907ء میں شائع ہوئی.وجہ تصنیف اس عظیم الشان کتاب کی وجہ تصنیف حضور کے الفاظ میں بیتھی:.اس زمانہ میں جس طرح اور صد ہا طرح کے فتنے اور بدعتیں پیدا ہوگئی ہیں اسی طرح یہ بھی ایک بزرگ فتنہ پیدا ہو گیا ہے کہ اکثر لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ کس درجہ اور کس حالت میں کوئی خواب یا الہام قابلِ اعتبار ہو سکتا ہے اور کن حالتوں میں یہ اندیشہ ہے کہ وہ شیطان کا کلام ہو نہ خدا کا.اور حدیث النفس ہو نہ حدیث الرب...سوان کی یہ نشانی ہے کہ خدا کے فضل کی بارشیں ان پر ہوتی ہیں اور خدا کی قبولیت کی ہزاروں علامتیں اور نمو نے ان میں پائے جاتے ہیں جیسا کہ ہم اس رسالہ میں انشاء اللہ ذکر کریں گے.لیکن افسوس کہ اکثر لوگ ایسے ہیں کہ ابھی شیطان کے پنجہ میں گرفتار ہیں مگر پھر بھی اپنی خوابوں اور الہا موں پر بھروسہ کر کے اپنے ناراست اعتقادوں اور نا پاک ندیوں کو ان خوابوں اور الہاموں سے فروغ دینا چاہتے ہیں بلکہ بطور شہادت ایسی خوابوں اور الہاموں کو پیش کرتے ہیں...یہ وہ خرابیاں ہیں جو اس ملک میں بہت بڑھ گئی ہیں ایسے لوگوں میں بجائے دین داری اور راستبازی کے بیجا تکبر اور غرور پیدا ہو گیا ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ حق اور باطل میں فرق کرنے کے لئے یہ رسالہ لکھوں.“ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ 4-3) یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک عظیم علمی شاہکار ہے جس سے حضور کی سچائی بھی روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے اور ( دین حق ) کا زندہ مذہب ہونا بھی ! ۸۰ مسیح محمدی اور احیائے موتی کا ایک نشان Sorry Nothing Can Be Done For Abdul Karim 1907ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا اور توجہ سے احیائے موتی کا ایک بے نظیر نشان ظاہر ہوا جس نے دنیا کے خصوصی ماہرین امراض کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا.اس نشان کی تفصیل خود حضرت اقدس کے الفاظ میں یہ ہے:.

Page 82

عبد الکریم نام ولد عبدالرحمن ساکن حیدر آباد دکن ہمارے مدرسہ میں ایک لڑکا طالب العلم ہے قضاء قدر سے اس کو سگ دیوانہ کاٹ گیا.ہم نے اس کو معالجہ کے لئے کسولی بھیج دیا.چندر روز تک اس کا کسولی میں علاج ہوتا رہا پھر وہ قادیان میں واپس آیا.تھوڑے دن گزرنے کے بعد پھر اس میں آثار دیوانگی کے ظاہر ہوئے جو دیوانہ کتے کے کاٹنے کے بعد ظاہر ہوا کرتے ہیں اور پانی سے ڈرنے لگا اور خوفناک حالت پیدا ہوگئی تب اس غریب الوطن عاجز کے لئے میرا دل سخت بیقرار ہوا اور دعا کے لئے ایک خاص توجہ پیدا ہوگئی.ہر شخص سمجھتا تھا کہ وہ غریب چند گھنٹے کے بعد مر جائیگا.ناچار اس کو بورڈنگ سے باہر نکال کر ایک الگ مکان میں دوسروں سے علیحدہ ہر ایک احتیاط سے رکھا گیا اور کسولی کے انگریز ڈاکٹروں کی طرف تار بھیج دی اور پوچھا گیا کہ اس حالت میں اس کا کوئی علاج بھی ہے.اس طرف سے بذریعہ تار جواب آیا کہ اب اس کا کوئی علاج نہیں.مگر اس غریب اور بے وطن لڑکے کے لئے میرے دل میں بہت توجہ پیدا ہوگئی اور میرے دوستوں نے بھی اس کے لئے دعا کرنے کے لئے بہت ہی اصرار کیا.کیونکہ اس غربت کی حالت میں وہ لڑکا قابل رحم تھا اور نیز دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر وہ مر گیا تو ایک برے رنگ میں اس کی موت شماتت اعداء کا موجب ہوگی.تب میرا دل اس کے لئے سخت درد اور بیقراری میں مبتلاء ہوا اور خارق عادت توجہ پیدا ہوئی جو اپنے اختیار سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ محض خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتی ہے.اور اگر پیدا ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے اذن سے وہ اثر دکھاتی ہے کہ قریب ہے کہ اس سے مردہ زندہ ہو جائے.غرض اس کے لئے اقبال علی اللہ کی حالت میسر آ گئی.اور جب وہ توجہ انتہا ء تک پہنچ گئی اور درد نے اپنا پورا تسلط میرے دل پر کر لیا تب اس بیمار پر جو در حقیقت مردہ تھا اس توجہ کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے.اور یا تو وہ پانی سے ڈرتا اور روشنی سے بھاگتا تھا اور یا یک دفعہ طبیعت نے صحت کی طرف رخ کیا اور اس نے کہا کہ اب مجھے پانی سے ڈر نہیں آتا.تب اس کو پانی دیا گیا تو اس نے بغیر کسی خوف کے پی لیا بلکہ پانی سے وضو کر کے نماز بھی پڑھ لی اور تمام رات سوتا رہا اور خوفناک اور وحشیانہ حالت جاتی رہی.یہاں تک کہ چند روز تک بکلی صحت یاب ہو گیا.میرے دل میں فی الفور ڈالا گیا کہ یہ دیوانگی کی حالت جو اس میں پیدا ہوگئی تھی یہ اس لئے نہیں تھی کہ وہ دیوانگی اس کو ہلاک کرے بلکہ اس لئے تھی کہ تا خدا کا نشان ظاہر ہو اور تجربہ کار لوگ کہتے ہیں کہ کبھی دنیا میں ایسا د یکھنے میں نہیں آیا کہ ایسی حالت میں کہ جب کسی

Page 83

کو دیوانہ کتے نے کاٹا ہو اور دیوانگی کے آثار ظاہر ہو گئے ہوں پھر کوئی شخص اس حالت سے جانبر ہو سکے.“ تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد نمبر 22 صفحہ 481-480) ۸۱.چشمی مسیحی تصنیف ہوتی ہے یہ 1906ء کا واقعہ ہے جب بانس بریلی کے رہنے والے ایک شخص نے حضرت اقدس کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں اس نے ایک پادری کی کتاب ” ینابیع الاسلام سے متاثر ہو کر دین حق پر اپنے بعض شبہات کا ذکر کیا.اس شخص کا یہ خط پڑھ کر حضرت اقدس مسیح موعود نے 9 مارچ 1906ء کو چشمیہ مسیحی کے نام سے ایک خوبصورت رسالہ تصنیف فرمایا جس میں عیسائی پادری کی کتاب کا بھر پور جواب دیا.آپ نے لکھا:.میں سخت متعجب ہوں کہ آپ ایسے شخص کی تحریروں سے کیوں متاثر ہوئے.یہ لوگ ان ساحروں سے بڑھ کر ہیں جنہوں نے موسیٰ نبی کے سامنے رسیوں کے سانپ بنا کر دکھا دیئے تھے مگر چونکہ موسیٰ خدا کا نبی تھا اس لئے اس کا عصا ان تمام سانپوں کو نگل گیا.اسی طرح قرآن شریف خدا تعالیٰ کا عصا ہے وہ دن بدن رسیوں کے سانپوں کو نگلتا جاتا ہے اور وہ وقت آتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ ان رسیوں کے سانپوں کا نام ونشان نہیں رہے گا.“ حضرت اقدس کی یہ کتاب عیسائیوں کی طرف سے پیش کئے جانے والے اعتراضات کا بھر پور جواب اپنے اندر رکھتی ہے.۸۲ کتاب ”قادیان کے آریہ اور ہم “ کی تصنیف قادیان کے رہنے والے آریہ سماجی ابتداء سے ہی حضرت اقدس کی مخالفت میں پیش پیش رہتے تھے مگر 1905 ء کے بعد سے یہ مخالفت اور شوخی اپنی انتہاء کو پہنچ گئی.مدرسہ تعلیم الاسلام کے مقابل پر انہوں نے دیا نند جو بلی اسکول کھولا.سلسلے کو بدنام کرنے اور احمدیوں پر الزامات لگانے کے لئے انہوں نے قادیان سے شبھ چنتک“ کے نام سے ایک اخبار جاری کیا.اور صرف اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ 27 دسمبر 1906ء کو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ایک بد زبان آریہ نے حضوڑ اور آپ کے خدام کو بے انتہا ء گالیاں دیں.

Page 84

جن سے آپ کو اور آپ کے غلاموں کو سخت دکھ پہنچا.حضرت اقدس نے یہ عالم دیکھ کر ایک بہت پر اثر تقریر فرمائی جس میں اپنے خدام کو بتایا کہ خدا تعالیٰ اس سب ظلم کو دیکھتا ہے تم صبر کرو وہ ظالم کو خود سزا دے گا.قادیان کے آریہ تو میرے موجود میں بہت سے نشان بھی دیکھ چکے ہیں.پس ان پر خدا کی حجت پوری ہو چکی ہے.اس تقریر پر آریوں کے اخبار ”شجھ چنک“ نے بہت غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ کسی بھی قسم کا کوئی نشان ظاہر نہیں ہوا.چنانچہ اس تحریر کے جواب میں حضرت اقدس نے 20 فروری 1907ء کو ایک رسالہ قادیان کے آریہ اور ہم تحریر فرما کر شائع کیا جس میں بطور نمونہ اپنے نشانات درج کر کے انہیں ملزم کیا اور چیلنج دیا کہ آریوں کے سرکردہ لالہ ملاوامل اور لالہ شر میت وغیرہ خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ بیان کریں کہ یہ نشانات انہوں نے نہیں دیکھے.اس کتاب کی اشاعت کے بعد آریوں میں سے بعض شوخ اور بد زبان لوگ طاعون کا نشانہ بھی بنے اور حسرت کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو گئے.ان آریوں کا پیشہ ہر دم ہے ویدوں میں آریوں نے شاید پڑھا یہی جس ہمارا وہ پیشوا بد زبانی ہے نور سارا ہے نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی اس نور فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں پر وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے " ( منقول از قادیان کے آریہ اور ہم) ۸۳.حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی وفات حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی ولادت سے قبل ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اُن سے متعلق الہاماً خبر دی گئی تھی کہ انی اسقط من الله واصيبه ، یعنی میں رو بخدا ہوں گا یا جلد فوت ہو جاؤں گا.علاوہ ازیں ان کی ولادت کے بعد حضور کو 1906ء میں بھی مختلف الہامات و کشوف کے ذریعہ سے بار بار ان کی وفات کی اطلاع ملی.چنانچہ ان آسمانی خبروں کے عین مطابق حضرت صاحبزادہ صاحب 16 ستمبر 1907 ء کو بوقت صبح انتقال فرما گئے.صاحبزادہ صاحب حضرت اقدس کے سب سے چھوٹے بچے تھے اس لئے حضور کو بھی طبعاً اُن سے بہت محبت تھی مگر حضرت صاحبزادہ صاحب کی وفات پر حضوڑ نے صبر وتحمل کا بینظیر نمونہ دکھایا.حضرت صاحبزادہ صاحب بیمار ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام دن رات ان کی تیمار داری میں مصروف رہتے تھے اور

Page 85

بڑے فکر اور توجہ کے ساتھ ان کے علاج میں مشغول رہتے تھے اور چونکہ حضرت صاحب کو ان سے بڑی محبت تھی اس لئے لوگوں کا خیال تھا کہ اگر خدانخواستہ وہ فوت ہو گئے تو حضرت صاحب کو بڑا صدمہ گزرے گا جس وقت صاحبزادہ مبارک احمد فوت ہونے لگے تو وہ سوئے ہوئے تھے.حضرت مولوی نورالدین صاحب نے ان کی نبض دیکھی تو غیر معمولی کمزوری محسوس کی جس پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کی کہ نبض میں بہت کمزوری ہے کچھ کستوری دیں.حضرت صاحب جلدی سے صندوق میں سے کستوری نکالنے لگے مگر مولوی صاحب نے پھر کہا کہ حضور نبض بہت ہی کمزور ہوگئی ہے.حضرت صاحب نے کستوری نکالنے میں اور جلدی کی مگر پھر مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور نبض نہایت ہی کمزور ہے.اس وقت دراصل مبارک احمد فوت ہو چکے تھے مگر حضرت مولوی صاحب حضرت مسیح موعود کی تکلیف کا خیال کر کے یہ کلمہ زبان پر نہ لا سکتے تھے مگر حضرت صاحب سمجھ گئے اور خود آ کر نبض پر ہاتھ رکھا تو دیکھا کہ صاحبزادہ مبارک احمد صاحب فوت ہو چکے ہیں.اس پر حضور نے انا للہ وانا الیہ راجعون کہا اور بڑے اطمینان کے ساتھ بستہ کھولا اور بڑے جذبہ کے ساتھ بیرونی احباب کو خط لکھنے بیٹھ گئے کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے اور ہم کو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونا چاہئے.اور مجھے بعض الہاموں میں بتایا گیا تھا کہ بیٹر کایا تو بہت خدارسیدہ ہوگا یا بچپن میں ہی فوت ہو جائے گا.سو ہم کو اس لحاظ سے خوش ہونا چاہئے کہ خدا کا کلام پورا ہوا.آپ کی وفات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رقت آمیز نظم کہی جو آپ کے کتبہ پر درج ہے.جگر کا ٹکڑا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خو تھا وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر کہا کہ آئی ہے نیند مجھ کو یہی تھا آخر کو قول لیکن کچھ ایسے سوئے کہ پھر نہ جاگے تھکے بھی ہم پھر جگا جگا کر برس تھے آٹھ اور کچھ مہینے کہ جب خدا نے اسے بلایا بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر ۸۴ وقف زندگی کی تحریک احمدیت کا پیغام اب تک محض خدا تعالیٰ کے خاص تصرفات اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب وغیرہ سے پہنچ رہا تھا.واعظین کا کوئی با قاعدہ نظام اس غرض کے لئے موجود نہیں تھا.لیکن اب چونکہ سلسلہ کا کام بہت بڑھ چکا تھا اور ایک تنظیم کے ساتھ اندرون ملک اور بیرونی دنیا کو پیغام حق پہنچانے کی ضرورت بشدت محسوس ہو رہی تھی.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے

Page 86

ستمبر 1907ء میں جماعت کے سامنے ”وقف زندگی“ کی پر زور تحریک فرمائی.ابتدائی واقفین زندگی اس تحریک پر قادیان میں مقیم نو جوانوں کے علاوہ بعض اور دوستوں نے بھی زندگی وقف کرنے کی درخواستیں حضور کی خدمت میں پیش کیں.حضرت اقدس کی ڈاک کی خدمت ان دنوں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے سپر د تھی اس لئے حضرت اقدس نے مفتی صاحب ہی کو ہدایت فرمائی کہ ایسے واقفین کی فہرست بنا ئیں چنانچہ انہوں نے اس غرض کے لئے ایک رجسٹر کھول دیا.ابتدائی واقفین زندگی میں حضرت سید سرور شاہ صاحب چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب قابل ذکر ہیں.وقف زندگی کی شرائط حضرت اقدس مسیح موعود نے ”وقف زندگی کی تحریک کا اعلان کرنے کے بعد میر حامد شاہ صاحب سے اس کی شرائط لکھوائیں اور کچھ اصلاح کے ساتھ ان کو پسند فرمایا.ان شرائط میں سے ایک شرط یہ تھی کہ میں کوئی معاوضہ نہ لوں گا.چاہے مجھے درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرنا پڑے میں گزارہ کروں گا اور تبلیغ کروں گا.“ ایک ضروری ہدایت حضور نے بی دی کہ واقعین کو ہر ہفتہ با قاعدگی سے اپنی رپورٹ بھجوانی ہوگی.تحریک ”وقف زندگی کی بنیاد گو حضرت اقدس علیہ السلام ہی کے ہاتھ سے رکھی گئی.مگر حضور کی زندگی میں اپنے نام پیش کرنے والے واقفین کو اندرون ملک یا بیرون ملک بغرض تبلیغ مقرر کرنے کی نوبت نہیں آسکی.تاہم حضور کے منشاء مبارک کی تکمیل خلافت ثانیہ کے زمانہ میں ہوئی.اور خدمت دین کے جذبے سے سرشار واقفین زندگی نے اپنی جانیں اس عظیم مقصد کے لئے پیش کیں اور پوری دنیا میں احمدیت کا پیغام پہنچایا.آج وقف زندگی کی یہ تحریک بڑی خوبی سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہے جسے حضرت مسیح موعود نے اپنے مبارک عہد میں شروع کیا تھا.۸۵.آریہ سماج لاہور کی مذہبی کانفرنس اور حضرت اقدس کا مضمون آریہ سماج لا ہور وچھووالی نے نومبر 1907ء میں اپنے تئیسیویں 23 سالانہ جلسہ کے موقع پر ایک مذہبی کا نفرنس منعقد کرنے کا اشتہار دیا اور لکھا کہ مختلف مذاہب کے منتخب نمائندے نہایت مہذبانہ رنگ میں اس سوال پر روشنی ڈالیں گے کہ کیا کوئی

Page 87

کتاب الہامی ہو سکتی ہے.اور اگر ہوسکتی ہے تو کونسی؟ سیکرٹری آریہ سماج ڈاکٹر چرنجیو بھاردواج نے اس اشتہار کے علاوہ حضور کی خدمت میں کئی انکسار کے خط لکھے اور عاجزانہ درخواست کی کہ آپ بھی ان سوالات کے جواب لکھیں کیونکہ ہم لوگ آپ کے درشن کے بھی مشتاق ہیں مگر حضور کو چونکہ اس ملمع دار اشتہار اور انکساری کے خطوط پر اعتماد نہیں تھا اس لئے آپ نے اس میں شرکت سے انکار کر دیا.مزید برآں اخبار الحکم (10 نومبر 1907ء) میں نوٹ شائع کیا کہ اشتہار کے مطابق مذہبی کا نفرنس کے لئے صرف چند گھنٹے مخصوص کئے گئے ہیں.آریہ سماج کو اگر مذہبی شوق تھا تو وہ کئی دن اس غرض کے لئے رکھ سکتی تھی.پس یہ اشتہار محض نمائشی ہے.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کا اصرار اور حضور کی طرف سے رضامندی اس نوٹ کی اشاعت کے بعد آریہ سماج لاہور نے مذہبی کا نفرنس کے لئے چار دن (2-3-4-5 دسمبر 1907 ء ) مقرر کر دئیے.اس دوران میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اسٹنٹ سرجن لاہور بھی حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آریہ سماج کا سیکرٹری میرا دوست ہے اس نے پختہ یقین دلایا ہے کہ اس جلسہ میں مذاہب کے متعلق کوئی دل شکنی کی بات نہ ہوگی بلکہ وہ اس بات کے لئے گویا قسم کھانے کو بھی تیار ہو گئے.حضرت اقدس نے ان کی طرف سے جو اس قدر اصرار دیکھا تو جلسہ میں مضمون بھجوانے کے لئے رضامند ہو گئے اور اپنے خدام کو بھی اطلاع دے دی کہ وہ آریہ صاحبوں کے جلسہ پر حاضر ہوں اور ان کو تسلی دی کہ وہ بڑی شرافت اور تہذیب سے مضمون سنائیں گے.2 دسمبر 1907ء کو سناتن دھرم اور عیسائیوں کی طرف سے مضامین پڑھے گئے اور 3 دسمبر کا دن برہموں اور مسلمانوں کے لئے مخصوص تھا.حضرت اقدس کے لئے آریہ سماج نے 3 دسمبر 1907 ء کی شام کو 8 بجے سے 10 بجے تک کا وقت مقرر کر رکھا تھا.جہاں پہلے اجلاسوں میں حاضری معمولی تھی وہاں اس روز لوگ 5 بجے ہی آنا شروع ہو گئے اور 6 بجے تک آریہ مندرو چھووالی ( جہاں جلسہ ہورہا تھا ) کا صحن، کمرے اور گیلری سب پر ہو گئے 6 بجے کا روائی شروع ہوئی اور سب سے پہلے ماسٹر رگھوناتھ سہائے نے برہمو سماج کے نمائندہ کی حیثیت سے ایک گھنٹہ لیکچر دیا.یہ لیکچر ابھی ختم نہ ہوا تھا کہ داخلہ ٹکٹ بند کردینا پڑے.سلسلہ احمدیہ کے مخالفوں نے قبل از میں قلمی اشتہار چسپاں کر دئیے تھے کہ لوگ اس جلسہ میں نہ جائیں مگر اس کا الٹا اثر یہ ہوا کہ لوگ اس قدر کثرت سے پہنچے کہ تل دھرنے کو جگہ نہ رہی.ماسٹر رگھوناتھ کا لیکچر ختم ہوا تو حضرت مولوی نورالدین صاحب سٹیج پر تشریف لائے اور نہایت درجہ بلند آواز سے لیکچر پڑھنا شروع کیا جب کوئی آیت آپ تلاوت فرماتے تو مجلس پر وجد کی سی کیفیت طاری ہو جاتی.مضمون کا ابتدائی حصہ حضرت مولوی صاحب نے اور آخری حصہ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے پڑھا یہ مضمون سوا دو گھنٹے تک جاری رہا.4 دسمبر 1907 ء کا دن آریہ سماج نے اپنے لئے مخصوص کیا تھا.عیسائیوں سنا تنیوں اور دوسرے غیر مذاہب کے نمائندوں کی تقریر میں کوئی خلاف تہذیب وشائستگی بات نہ تھی.اور حضور کا مضمون تو سرتا پاصلح و ان کا پیغام تھا.مگر افسوس اس روز وہی ڈاکٹر چر نجیو بھاردواج ( جس نے بار بار تہذیب و شائستگی کا یقین دلایا تھا) کھڑا ہوا اور اپنے مضمون میں نہایت شوخی اور بیبا کی سے ا

Page 88

پاکوں کے سردار حضور سرور کائنات فخر موجودات مﷺ کی مقدس ذات بابرکات پر ایسی ایسی تہمتیں لگا ئیں کہ مسلمانوں کے جگر پاش پاش ہو گئے.اجلاس کے پریذیڈنٹ نے اگر چہ بعد ازاں معذرت کی کہ یہ لیکچر ہم نے پہلے سے نہیں دیکھا تھا.مگر یہ عذر گناہ بدتر از گناہ تھا.وہ چاہتے تو لیکچر کو دورانِ تقریر میں بھی روک سکتے تھے.در حقیقت یہ پرلے درجہ کی شرارت اور بدگوئی ایک سوچی سمجھی انتقامی سازش کے ساتھ عمل میں لائی گئی تھی.حضرت اقدس کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو حضور نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ تم لوگوں کو وہاں ایک منٹ بھی نہیں ٹھہرنا چاہئے تھا.فوراً اٹھ کر آ جاتے.بہت دیر کے بعد حضور کی ناراضگی دور ہوئی.حضور کا یہ مضمون چشمیہ معرفت میں موجود ہے.جو روحانی خزائن کی جلد نمبر 23 میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے.۸۶ - حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا آخری جلسہ سالانہ 1907 ء کا سالانہ جلسہ تاریخ احمدیت میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ آخری جلسہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک زندگی میں ہوا.6 جلسہ سالانہ 1907ء کے لئے احباب کی آمد 19 دسمبر سے شروع ہو گئی تھی.چند ایک دوست اس سے بھی پہلے قادیان پہنچ چکے تھے مگر سب سے پہلے آنے والی جماعت دوالمیال کی تھی جو اپنے امیر مولوی کرم داد صاحب کے ہمراہ قادیان پہنچی تھی.اس کے بعد ہر روز ملک کے چاروں طرف سے بکثرت احباب کی آمد شروع ہو گئی.24 دسمبر کی شام اور اس کے بعد سیالکوٹ...وزیر آباد گوجرانوالہ جہلم گجرات، لاہور، امرتسر، کپورتھلہ لودھیانہ جالندھر دہلی اور دیگر مختلف اطراف کی جماعتیں وارد ہوئیں.27-26 دسمبر کو بھی مہمانوں کی بکثرت آمد ہوئی.27 دسمبر کو بیت اقصیٰ میں جمعہ پڑھا گیا.جمعہ کے وقت بیت اقصیٰ کے اندر اور باہر کا صحن پوری طرح بھر گیا اور خدام نے اردگرد کے دوکانوں، گھروں اور ڈاکخانہ کی چھتوں پر نماز جمعہ کے ساتھ ہی نماز عصر بھی جمع کی.اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود نے اپنے خدام سے نہایت روح پرور خطاب فرمایا جس میں حضور نے سورۃ فاتحہ کی لطیف تفسیر بیان فرمانے کے بعد جماعت کو تزکیہ نفس کی طرف توجہ دلائی.28 دسمبر 1907ء کو ظہر وعصر کی نمازیں بیست اقصیٰ میں جمع ہوئیں.بعد ازاں حضرت اقدس نے دوسری تقریر فرمائی جس کی ابتداء میں حضور نے فرمایا جو کچھ کل میں نے تقریر کی تھی اس کا کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا کیونکہ بسبب علالت طبع تقر برختم

Page 89

نہ ہوسکی اس واسطے آج پھر میں تقریر کرتا ہوں.زندگی کا کچھ اعتبار نہیں جس قدر لوگ آج اس جگہ موجود ہیں معلوم نہیں ان میں سے کون سالِ آئندہ تک زندہ رہے گا اور کون مرجائے گا ؟“ ان دردانگیز الفاظ کے بعد جو دلوں کو ہلا دینے والے تھے حضور نے اپنے خدام کو نہایت لطیف پیرائے میں شرح وبسط کے ساتھ صبر کی تلقین فرمائی.علاوہ ازیں ان کو اور بھی قیمتی نصائح سے نوازا.اور یہ سوز و گداز میں ڈوبی ہوئی تقریران الفاظ پر ختم ہوئی :.کیا پہلے سے نہیں کہا گیا تھا کہ آخری زمانہ میں ایک قرناء آسمان سے پھونکی جائے گی.کیا وحی خدا کی آواز نہیں.انبیاء جو آتے ہیں وہ قرناء کا حکم رکھتے ہیں.نفخ صور سے یہی مراد تھی کہ اس وقت ایک مامور کو بھیجا جائے گا وہ سنا دے گا کہ اب تمہارا وقت آ گیا ہے.کون کسی کو درست کر سکتا ہے.جب تک خدا درست نہ کرے.اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو ایک قوتِ جاذبہ عطا کرتا ہے کہ لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہوتے چلے جاتے ہیں.خدا کے کام کبھی حبط نہیں جاتے.ایک قدرتی کشش کام کر دکھائے گی.اب وہ وقت آ گیا ہے جس کی خبر تمام انبیاء ابتداء سے دیتے چلے آئے ہیں.خدا تعالیٰ کے فیصلہ کا وقت قریب ہے اس سے ڈرو اور تو بہ کرو اسی روز 28 دسمبر 1907ء کو بعد از نماز مغرب صدر انجمن احمدیہ کی کانفرنس ہوئی جس میں بیرونجات کی اکثر انجمنوں کے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ شامل ہوئے سیکرٹری صاحب کی پیش کردہ رپورٹ مختلف صیغوں کی پڑھی گئی اور اس کے بعد بجٹ برائے 1908 ء پیش ہوا.بجٹ کے بعد خواجہ کمال الدین صاحب نے تمام ضروری امور پر ایک مفصل بحث کی.ازاں بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب نے ایک تقریر فرمائی جس میں بتایا کہ قرآن شریف کی رو سے کس قسم کی انجمنوں کا بنانا جائز ہے.اس تقریر سے ظاہر ہوتا تھا کہ قرآن شریف علوم کا ایک ایسا سمندر ہے کہ اس میں ہر ایک ضروری چیز پائی جاتی ہے.ایام جلسہ میں ہر روز بیعت کا سلسلہ جاری رہا.بیعت کرنے والوں کی تعداد بعض اوقات اتنی بڑھ جاتی کہ لوگوں کو حضور تک پہنچنا اور معمول کے مطابق حضرت اقدس علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کرنا ناممکن ہو جاتا اس لئے پگڑیوں کے ذریعہ بیعت کی جاتی اور اس کا طریق یہ ہوتا کہ لوگ اپنی پگڑیاں اتار کر مختلف سمتوں میں پھیلا دیتے اور بعض پگڑیوں کو ایک دوسری سے باندھ کر دور دور تک پہنچا دیا جاتا.ان پگڑیوں کا ایک سرا اُن بیعت کرنے والوں کے ہاتھ میں ہوتا جو حضرت اقدس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کر رہے ہوتے تھے اور دوسرے بیعت کرنے والے ان پگڑیوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیتے اس طرح گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان بیعت کرنے والوں میں روحانی روکا تسلسل قائم کیا جاتا.

Page 90

قرآن شریف تسبیح..۸۷.بابا گرونانک کے مسلمان ہونے کی ایک اور گواہی 1908ء میں حضرت مسیح موعود کو با وانا تک صاحب کے مسلمان ہونے کی ایک نئی شہادت ملی اور وہ یہ کہ گورو ہر سہائے واقع ضلع فیروز پور میں سکھوں کے ایک نہایت معزز خاندان کے قبضہ میں باوا نانک صاحب اور بعد کے گدی نشین گوروؤں کے چند تبرکات چلے آتے تھے جن میں باوا صاحب کی ایک تسبیح ، پوتھی، قرآن شریف اور چند دیگر اشیاء بھی تھیں.یہ قرآن شریف اور دیگر تبرکات نہایت ادب کے ساتھ بہت سے ریشمی غلافوں میں بند تھے اور گورو بشن سنگھ صاحب کے پاس تھے جن کے مورث اعلیٰ سکھوں کے چوتھے گورو رام داس تھے.امرتسر کا مشہور سنہری مندر ان ہی گور و صاحب سے موسوم ہے.ان تبرکات کے سبب یہ خاندان سکھ قوم میں ہمیشہ ممتاز اور بڑی بڑی جاگیروں کا مالک رہا ہے.چنانچہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مہاراجہ والی ریاست فرید کوٹ بھی وہاں گئے اور ایک ہاتھی اور ایک ہزار روپیہ نقدان تبرکات کے سبب گر و صاحب کی نذر کیا.حضور علیہ السلام نے چشمہ معرفت میں یہ تمام تفصیلات درج فرما کر لکھا کہ.’باوانا تک صاحب کا وجود تمام ہندوؤں پر خدا تعالیٰ کی ایک حجت ہے، خاص کر سکھوں پر جو ان کے پیرو کہلاتے ہیں.خدا نے آریوں میں سے ایک ایسا مقدس شخص پیدا کیا کہ وہ گواہی دیتا ہے کہ اسلام سچا ہے اور جو تکذیب کرتے ہیں وہ ان کے منہ پر تھوکتے ہیں.پس اے وہ....لوگ! جو اس مقدس گرو کے سکھ ہو خدا سے ڈرو! صرف میں ہی تم کوملزم نہیں کرتا بلکہ وہ مقدس بزرگ بھی تم کو ملزم کر رہا ہے جس کی پیروی کا تم کو دعوئی ہے.اگر تم اس مقدس گرو کے بچے سکھ ہو تو ہندوؤں کا تعلق چھوڑ دو جیسا کہ اس نے چھوڑ دیا تھا.اور اس پاک مذہب کی روشنی سے تم بھی نور حاصل کرو جس کے نور سے وہ بزرگ روشن ہو گیا تھا.“ چشمیه معرفت روحانی خزائن جلد نمبر 23 صفحہ 355-354).حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح 17 فروری 1908ء کو حضرت سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح حجۃ اللہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ سے

Page 91

چھپن ہزار روپیہ ہر پر بیت اقصیٰ میں ہوا.خطبہ نکاح حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودگی میں پڑھا.نواب صاحب موصوف کے خاندان میں حق مہر کے متعلق دستور تھا کہ کئی کئی لاکھ روپیہ مقرر کیا جاتا تھا اور انہوں نے اپنی خاندانی رسم کی وجہ سے اب بھی یہی کہا تھا کہ مہر زیادہ رکھا جائے مگر حضرت اقدس علیہ السلام نے اسے پسند نہ فرمایا.البتہ مہر کے متعلق تحریر کو با قاعدہ رجسٹری کروا کے اس پر شہادتیں ثبت کروا دیں.نکاح کی مبارک تقریب میں شمولیت کے لئے لاہور کے میاں چراغ دین صاحب ڈاکٹر حکیم نور محمد صاحب، حکیم محمد حسین صاحب قریشی، ابو غلام محمد صاحب، مستری محمد موسیٰ صاحب شیخ رحمت اللہ صاحب خواجہ کمال الدین صاحب اور خلیفہ رجب دین صاحب اور بعض دیگر احباب بھی قادیان پہنچ گئے.رخصتانه رخصتانہ کی تقریب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد 14 مارچ 1909ء کو بروز اتوار منعقد ہوئی.حضرت نواب محمد علی خان صاحب کا بیان ہے کہ رخصتانہ نہایت سیدھی سادی طرز سے ہوا.دو بجے حضرت اماں جان مبارکہ بیگم صاحبہ کو اپنے ساتھ لے کر میرے مکان پر ان سیٹرھیوں کے راستہ سے جو میرے مکان اور حضرت اقدس کے مکان کو ملحق کرتی تھیں، تشریف لائیں میں چونکہ بیت میں تھا اس لئے ان کو بہت انتظار کرنا پڑا.اور جب بعد نماز میں آیا تو مجھ کو بلا کرمبارکہ بیگم صاحبہ کو بایں الفاظ نہایت درد بھری آواز سے رخصت کیا کہ ”میں اپنی یتیم بیٹی کو تمہارے سپرد کرتی ہوں اس کے بعد ان کا دل بھر آیا اور فور اسلام کرکے تشریف لے گئیں.اب دیکھتے ہو کیسا رجوع جہاں ہوا ۸۹.ایک امریکن سیاح کی قادیان میں آمد 17اپریل 1908ء کو شکاگو کے ایک سیاح مسٹر جارج ٹرنر اپنی بیوی مس بار دون اور ایک سکاٹ مسٹر بانسر کے ہمراہ قریباً دس بجے قادیان آئے.بیت مبارک کے نیچے دفاتر میں ان کو بٹھایا گیا اور چونکہ انہوں نے حضرت اقدس سے ملاقات کرنے کی درخواست کی تھی اس لئے حضرت اقدس بھی وہیں تشریف لے آئے.ڈپٹی مجسٹریٹ علی احمد صاحب ایم.اے اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب تر جمان بنے.سیاح نے سلسلہ کلام شروع کرتے ہوئے سوال کیا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ نے مسٹر ڈوئی کو کوئی چیلنج دیا تھا.کیا یہ درست ہے.؟ اس کے جواب میں حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ہاں یہ درست ہے.ہم نے ڈولی کو چیلنج دیا تھا.اس کے بعد سوال و جواب کا ایک سلسلہ جاری ہو گیا.کچھ دیر بعد امریکن سیاح نے سوال کیا آپ نے جو دعویٰ کیا ہے اس کی دیا

Page 92

سچائی کے دلائل کیا ہیں؟ حضور علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا کہ خود آپ کا اتنے دور دراز ممالک سے یہاں ایک چھوٹی سی بستی میں آنا بھی ہماری صداقت کی ایک بھاری دلیل ہے کیونکہ ایسے وقت میں جبکہ ہم بالکل گمنامی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا یـاتــون مـن كل فج عميق و يا تيك من كل فج عمیق یعنی اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہو جائیں گے اور خدا کی مدد ایسے راستوں سے آئے گی کہ وہ لوگوں کے بہت چلنے سے گہرے ہو جائیں گے سیاح نے سوال کیا کہ آپ کے آنے کا مقصد کیا ہے؟ حضور نے مفصل جواب دیا.اس گفتگو کے بعد ان کے سامنے کھانا رکھا گیا.اس دوران انہوں نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب سے پوچھا کہ مرزا صاحب کی وفات کے بعد کیا ہوگا.مفتی صاحب نے کہا.”وہ ہو گا جو خدا کو منظور ہوگا اور جو ہمیشہ کی موت کے بعد ہوا کرتا ہے.“ کھانے کے بعد یہ لوگ مدرسہ تعلیم الاسلام میں گئے جہاں ایک طالبعلم نے سورہ مریم کی ابتدائی آیات نہایت خوش الحانی سے پڑھ کر سنائیں جسے سن کر وہ بہت خوش ہوئے.۹۰.حضرت اقدس کا آخری سفر لاہور چشمہ معرفت کی اہم تصنیف اور دوسرے مسلسل علمی و دینی مشاغل کی وجہ سے حضرت مسیح موعود کی صحت پر بہت اثر پڑا تھا.مزید برآں حضرت اماں جان کی طبیعت بھی ان دنوں ناساز تھی اور ان کی خواہش تھی کہ بغرض علاج لا ہور جانا چاہئے.حضور نے حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے فرمایا کہ مجھے ایک کام در پیش ہے دعا کرو اور اگر کوئی خواب آئے تو مجھے بتانا.چنانچہ انہوں نے رویا میں دیکھا کہ وہ چوبارہ پر گئی ہیں اور وہاں حضرت مولوی نورالدین صاحب ایک کتاب لئے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو! اس کتاب میں میرے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں..دوسرے دن حضرت سیدہ موصوفہ نے حضور کو یہ خواب سنائی تو حضرت اقدس نے ارشاد فرمایا:.” یہ خواب اپنی اماں کو نہ دو سنانا اس خواب کے علاوہ 26 اپریل 1908ء بوقت چار بجے صبح یعنی تیاری سے صرف ایک روز قبل خود حضرت اقدس علیہ السلام پر بھی الہام ہوا:.مباش ایمن از بازی روزگار ان آسمانی خبروں کی بناء پر حضور کو احساس ہو چکا تھا کہ اس سفر میں حضور کو سفر آخرت بھی پیش آنے والا ہے اور اسی لئے

Page 93

حضور لا ہور تشریف لے جانے میں بہت متامل تھے.قادیان سے روانگی لیکن خدائی تقدیر چونکہ یہی تھی اس لئے حضور علیہ السلام 27 اپریل 1908ء کی صبح قادیان سے بٹالہ روانہ ہو گئے.حضور کے ہمراہ اس سفر میں گیارہ افراد تھے.روانگی سے قبل حضرت اقدس علیہ السلام نے وہ حجرہ بند کیا جس میں آخری عمر میں حضور تصنیف فرمایا کرتے تھے.حضور نے حجرہ بند کرتے ہوئے کسی کو مخاطب کرنے کے بغیر فرمایا:.اب ہم اس کو نہیں کھولیں گے.“ بٹالہ پہنچے تو خلاف توقع ریز روگاڑی نہ مل سکی.حضور اقدس نے ریز روگاڑی کے انتظار میں ایک روز بٹالہ قیام فرمایا.اور 29 اپریل 1908ء کو بٹالہ سے گاڑی میں سوار ہوئے.گاڑی امرتسرسٹیشن پر پہنچی تو مخلصین امرتسر نے حضور سے مصافحہ کیا.اس وقت جذب و کشش کا یہ عالم تھا کہ اسٹیشن پر جس انسان کے کان میں آپ کا نام پہنچا شوق زیارت میں بھاگا چلا آیا.اسی اثناء میں ایک معزز غیر احمدی دوست چند ا حباب کے ساتھ تشریف لائے.حضرت اقدس نے ان کو گاڑی کے اندر بلا کر بٹھالیا اور نہایت محبت بھرے الفاظ میں ان کو مسئلہ وفات مسیح کے بارے میں قرآنی شہادت پیش فرمائی.جب تک گاڑی اسٹیشن پر رکی رہی حضور گفتگو فرماتے رہے.یہاں تک کہ گاڑی روانہ ہوئی اور حضور بالآخر بخیریت لاہور پہنچ گئے.۹۱.لاہور کے رؤسا کو دعوت حق 17 مئی 1908ء کا دن قیام لاہور کے عرصہ میں ایک یادگار دن تھا کیونکہ اس روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق لاہور کے عمائدین و رؤسا کو کھانے پر مدعو کیا گیا.حضور کی طبیعت 16 مئی کی شب کو اسہال کے باعث بہت ناساز ہوگئی تھی اور یہ امید نہ رہی تھی کہ حضور خود تقریرفرما سکیں گے چنانچہ اسی خیال سے حضور نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو ارشاد فرمایا کہ معزز مہمانوں کو کچھ سنا دیں اور انہوں نے تقریر شروع بھی کر دی تھی مگر صبح کو اللہ تعالیٰ نے بشارت دی..چنانچہ حضور وعدہ الہی کے مطابق غیبی طاقت وقوت پا کر بنفس نفیس تشریف لے آئے اور 11 بجے سے ایک بجے بعد دو پہر تک بڑی پرزور اور مؤ ثر تقریرفرمائی.بارہ بجے حضور نے فرمایا اگر آپ چاہیں تو میں تقریر بند کر دوں آپ کھانا کھالیں.مگر تمام معزز سامعین نے یک زبان ہو کر عرض کیا کہ نہیں آپ تقریر جاری رکھیں وہ کھانا تو ہم روز کھاتے ہیں مگر یہ روحانی غذا پھر کہاں میسر آئے گی.الغرض ایک بجے کے بعد حضور کی یہ پر معارف تقریرختم ہوئی.اس تقریر میں حضور نے صوبہ کے صدر مقام لاہور کے معز زمسلمانوں اور تعلیم یافتہ رؤساء پر

Page 94

اتمام حجت کر دی.اس جلسہ دعوت میں لاہور کے بڑے بڑے رؤساء امراء وکلاء بیرسٹر اور اخبارات کے ایڈیٹر مدعو تھے جن میں سے اکثر غیر احمدی تھے.حضرت اقدس کی بے نظیر تقریر سے وہ بہت متاثر ہوئے.یہ جلسہ سید محمدحسین شاہ صاحب کے مکان نے نچلے صحن میں منعقد ہوا.۹۲.پیغام صلح کی تصنیف حاله حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قیام لاہور کے دوران صرف تقاریر کے ذریعہ سے ہی اتمام حجت نہیں فرمائی بلکہ حضور نے ان دنوں ایک عظیم الشان رسالہ ”پیغام صلح بھی لکھا جو حضور کی آخری تصنیف تھی.حضور کے لکھے ہوئے مسودہ کو ساتھ ہی ساتھ کاتب بھی لکھتا جاتا تھا.ایک مرتبہ حضرت اقدس نماز عصر کے بعد حسب معمول تشریف فرما تھے اور احباب جھرمٹ ڈالے بیٹھے تھے.خواجہ کمال الدین صاحب بھی موجود تھے.کا تب لکھ رہا تھا اور خواجہ صاحب اپنی نگرانی میں لکھوا رہے تھے.حضور نے فرمایا کہ خواجہ صاحب جلدی کیجئے.کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہماری صحت کا کیا حال ہے.“ وو ”پیغام صلح میں حضور نے ملک کی دو بڑی قوموں مسلمانوں اور ہندوؤں کو صلح اور آشتی کا شاندار پیغام دے کر اتحاد کی ایک مضبوط و مستحکم بنیاد قائم کر دی اور ہندو مسلم کشمکش کے مسئلہ کے خاتمہ کے لئے ایک نیا دروازہ کھول دیا.حضور نے اس رسالہ میں خدا تعالیٰ کی عالمگیر صفت ربوبیت کا تذکرہ کرنے کے بعد ہندؤوں کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ہندو اور آریہ صاحبان اگر ہمارے نبی ﷺ کو خدا کا سچا نبی مان لیں اور آئندہ توہین و تکذیب چھوڑ دیں تو میں سب سے پہلے اس اقرار نامہ پر دستخط کرنے پر تیار ہوں کہ ہم احمدی سلسلہ کے لوگ ہمیشہ وید کے مصدق ہوں گے اور وید اور اس کے رشیوں کا تعظیم اور محبت سے نام لیں گے.اور اگر ایسا نہ کریں گے تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہ ہوگی ہند و صاحبوں کی خدمت میں ادا کریں گے.اور اگر ہند و صاحبان دل سے ہمارے ساتھ صفائی کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی ایسا ہی اقرار لکھ کر اس پر دستخط کر دیں اور اس کا مضمون بھی یہ ہوگا کہ ہم حضرت محمد ﷺ کی رسالت اور نبوت پر ایمان لاتے ہیں اور آپ کو سچا نبی اور رسول سمجھتے ہیں اور آئندہ آپ گوادب اور تعظیم کے ساتھ یاد کرینگے.جیسا کے ماننے والے کے مناسب حال ہے.اور اگر ہم ایسانہ کریں تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہوگی احمدی سلسلہ کے پیش رو کی خدمت میں پیش کریں گے.پیغام صلح صفحہ 455 اس تجویز کے ساتھ ہی حضور نے صاف صاف لفظوں میں لکھا:.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن اُن لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنیا جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے نا پاک حملے کرتے ہیں.“

Page 95

پیغام صلح روحانی خزائن جلد نمبر 23 صفحہ 459) مولا میرے پیارے مولا ۹۳.حضرت مسیح موعود کی وفات (190826) فرائض ماموریت کی تکمیل کے بعد وہ وقت آ گیا کہ یہ برگزیدہ اور خدا نما وجود اس دنیا کو خیر باد کہہ دے.جیسا کہ ہم نے بتایا ہے سفر لا ہور سے پیشتر ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ الہام اطلاع ہو چکی تھی کہ یہ سفر سفر آخرت کا پیش خیمہ ثابت ہونے والا ہے.لاہور میں 9 مئی 1908ء کو الرحيل ثم الرحيل الہام ہوا تو حضور علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کی اہلیہ محترمہ کو بلایا کہ جس جگہ ہم مقیم ہیں اس میں آپ آجا ئیں اور ہم آپ والے حصہ میں چلے جاتے ہیں کیونکہ خدا نے الہام میں الرجیل فرمایا ہے جسے ظاہر میں بھی نقل مکانی سے پورا کر دینا چاہئے اور معذرت بھی فرمائی کہ اس نقل مکانی سے آپ کو تکلیف تو ہوگی مگر میں اس خدائی الہام کو ظاہر میں پورا کرنا چاہتا ہوں چنانچہ خواجہ صاحب والا مکان بدل کر حضور سید محمد حسین شاہ صاحب والے مکان میں تشریف لے گئے.ایک ہفتہ بعد 17 مئی 1908ء کو مکن تکیه برعمر نا پائدار کا الہام ہوا جس میں صاف طور پر وفات کی خبر تھی.اس کے بعد 20 مئی کو جبکہ حضرت اقدس ”پیغام صلح کی تصنیف میں مصروف تھے آخری الہام ہوا.الرحيل ثم الرحيل والموت قريب یہ الہام اپنے اندر کسی تاویل کی گنجائش نہیں رکھتا تھا لیکن سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دانستہ اس کی تشریح نہیں فرمائی تاہم ہر سمجھدار شخص سمجھتا تھا کہ اب وقت مقدر سر پر آ گیا ہے.اس پر ایک دن حضرت اماں جان نے گھبرا کے حضرت مسیح موعودؓ سے کہا کہ اب قادیان واپس چلیں.حضور نے فرمایا اب تو ہم اسی وقت جائیں گے جب خدا لے جائیگا.اور آپ بدستور پیغام صلح کا مضمون لکھنے میں مصروف رہے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ سرعت اور توجہ کے ساتھ لکھنا شروع کر دیا.بالآخر 25 مئی کی شام کو آپ نے اس مضمون کو قریباً مکمل کر کے کاتب کے سپر د کر دیا.حضور عصر کی نماز سے فارغ ہو کر حسب طریق سیر کے خیال سے باہر تشریف لائے.ایک کرامیہ کی گھوڑا گاڑی حاضر تھی جو

Page 96

فی گھنٹہ مقررہ شرح کرایہ پر منگائی گئی تھی.آپ نے اپنے نہایت مخلص رفیق شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی سے فرمایا کہ اس گاڑی والے سے کہہ دیں اور اچھی طرح سے سمجھا دیں کہ اس وقت ہمارے پاس صرف ایک گھنٹہ کے کرایہ کے پیسے ہیں وہ ہمیں صرف اتنی دور لے جائے کہ ہم اس وقت کے اندر اندر ہوا خوری کر کے گھر واپس پہنچ جائیں.چنانچہ اس کی تعمیل کی گئی اور آپ تفریح کے طور پر چند میل پھر کر واپس تشریف لے آئے.اس وقت آپ کو کوئی خاص بیماری نہیں تھی صرف مسلسل مضمون لکھنے کی وجہ سے کسی قد رضعف تھا اور غالباً آنے والے حادثہ کے مخفی اثر کے ماتحت ایک گونہ ربودگی اور انقطاع کی کیفیت طاری تھی.حضرت اقدس سیر سے واپس بخیریت سید محمد حسین شاہ صاحب کے مکان تک پہنچے مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا فرمائیں.پھر تھوڑا سا کھانا تناول فرمایا اور آرام کے لئے لیٹ گئے.(25 مئی کی شام کو ) حضور نے کھانے کے چند نوالے ہی کھائے تھے کہ اسہال کی حاجت ہوئی.اس کے بعد تھوڑی دیر تک حضور کو دبایا جاتا رہا اور آپ آرام سے لیٹ کر سو گئے اور حضرت اماں جان بھی سوگئیں.لیکن تھوڑی دیر بعد آپ کو پھر حاجت محسوس ہوئی.کوئی گیارہ بارہ بجے کے قریب طبیعت بے حد کمزور ہوگئی.حضور نے حضرت اماں جان کو جگایا آپ اٹھیں اور حضور کے پاؤں مبارک دبانا شروع کیا.کچھ وقت کے بعد حضور کی حالت ضعف سے بہت نازک ہو گئی جس پر حضرت اماں جان نے پوچھا کہ مولوی صاحب (حضرت مولوی نورالدین صاحب) کو بلالیں؟ حضور نے فرمایا.بلا لو.نیز فرمایا.محمود کو جگالو.حضرت کے علاج کے لئے کوشش کی گئی لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر کچھ اور رنگ دکھا رہی تھی.بالآخر 26 مئی 1908ء کو حضور دن کے ساڑھے دس بجے اس جہان فانی کو الوداع کہہ کر اپنے مالک حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.بھی اک سرا ہے شکوه روز برس رہا گا جو ملا ہے کو پھر جدا جدا ہے سبحان دوستو ! پیار بسارو کچھ زاد راه لے لو جائے فانی دل مبارک سبحان گزارو اتارو میرانی (درشین)

Page 97

راضی ہیں ہم اسی میں جسمیں ترمی رضا ہو ۹۴.اشکبار آنکھیں غمگین دل حضور کی وفات کی خبر برق رفتاری سے شہر میں پھیل گئی.احمد یہ جماعتوں کو بذریعہ تار اس حادثہ کی اطلاع دے دی گئی او را نہیں ہدایت دی گئی کہ وہ جنازہ لے کر قادیان پہنچیں.اسی دن یا دوسرے روز اخبارات کے ذریعے تمام ہندوستان کو اس عظیم الشان انسان کی وفات کی خبر ملی.یہ محض خبر نہیں تھی ایک قیامت تھی جو آنا ا نا آئی جس نے حضور کے خدام کے دل و دماغ پر ایک زلزلہ طاری کر دیا.اُن کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور باوجود یکہ خدام کا پیارا نہیں خدائی الہامات سنا سنا کر اپنی واپسی کی متواتر اطلاع دیتا آرہا تھا اور دو سال پہلے الوصیت بھی لکھ دی تھی مگر اس کے پروانے یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ہمارا پیارا ہمارا راز داں مجسمئہ رحم و شفقت محبوبوں کا محبوب باپ سے بڑھ کر شفیق و غمگسار جس کے نورانی چہرہ پر ایک نظر سے غموں کی گھٹائیں پاش پاش ہو جاتی تھیں.اور جس کا ہر لفظ زندگی کی ایک نئی روح پیدا کر دیتا تھا.ہم سے کبھی جدا ہو سکتا ہے.اہلِ قادیان کی یہ حالت تھی کہ یہاں خواجہ کمال الدین صاحب کی طرف سے مولوی محمد علی صاحب صاحب کو شام کے پانچ بجے کے قریب تارمل گیا تھا اس کے باوجود کسی کو حضوڑ کی وفات کا یقین نہ آتا تھا بلکہ شبہ گزرا کہ شاید کسی دشمن کا تار ہو.کسی نے کہا کہ کوئی آدمی بٹالہ بھیجا جائے جو لا ہور سے بذریعہ تار اصل حالات معلوم کرے.اسی دوران میں بیت مبارک میں ایک مجمع ہو گیا.عین اس وقت چوہدری نعمت اللہ صاحب گوہر جو صبح نو بجے تک احمد یہ بلڈنکس میں ہی تھے لاہور سے صبح دس بجے کی گاڑی سے چل کر قادیان پہنچ گئے انہوں نے حضور کی شدید علالت کا کھول کر ذکر کیا اور وہ الہامات جو حضور علیہ السلام کو دو تین روز پیشتر ہوئے تھے حاضرین کو سنائے تب کہیں لوگوں کو یقین آیا کہ حضور فی الواقعہ انتقال فرما گئے ہیں یہ معلوم کر کے قادیان اس طرح غم کدہ بن گیا جس طرح صبح 10:30 بجے احمد یہ بلڈنگز کی سرزمین بن گئی تھی.مغرب کی نماز میں بیت مبارک کی چھت پر آہ و بکاہ اور گریہ وزاری سے حشر کا سماں تھا اور نمازیوں کے منہ سے نماز کے فقرات بھی پر آہ پوری طرح نہیں نکل سکتے تھے.آنسوؤں کی شدت گلے میں گرہ ڈال دیتی تھی.غرض جہاں جہاں یہ خبر پہنچی حضور کے خدام مارے غم کے دیوانے ہو گئے وہ سچ مچ سمجھتے تھے کہ ہم یتیم ہو گئے ہیں.کوئی آنکھ نہ تھی جو اشکبار نہ ہو اور کوئی دل نہ تھا جو شدت غم سے پارہ پارہ نہ ہو رہا ہو آنسوؤں کا ایک سیلاب تھا جو خود بخود بہتا آ رہا تھا.-۹۵ حضرت اقدس کے گھر کے افراد کا بے مثال صبر

Page 98

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے والہانہ عقیدت رکھنے والے عشاق جو جماعت کی ذمہ داری کو سمجھتے اور وقت کی نزاکت کو پہچانتے تھے اپنے دلوں کے جذبات کو روکے ہوئے تھے اور چشم پر آب ہونے کے باوجود انہوں نے اس وقت صبر وتحمل کا قابل رشک نمونہ دکھایا.بالخصوص حضرت اقدس کے اہل نے اس عظیم ترین صدمہ میں جس رضا بالقضاء کا ثبوت دیا اس کی مثال نہیں ملتی.حضرت اقدس علیہ السلام کی زندگی کے آخری لمحات کے وقت حضرت اماں جان نے بجائے دنیا دار عورتوں کی طرح رونے چیخنے اور بے صبری کے کلمات منہ سے نکالنے کہ صرف اللہ تعالیٰ کے حضور گر کر سجدہ میں نہایت عجز وانکسار کے ساتھ دعائیں مانگنے کا پاک نمونہ دکھایا.جب اخیر میں سورۃ یس پڑھی گئی اور حضور کی روح مقدس قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے محبوب حقیقی کے حضور حاضر ہو گئی تو حضرت اماں جان نے فرمایا.” ہم خدا کے ہیں اور اسی کے طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.“ اور بس خاموش ہو گئیں.کسی قسم کا جزع فزع نہیں کیا.اندر بعض مستورات نے رونا شروع کیا تو آپ نے ان عورتوں کو بڑے زور سے جھڑک دیا اور کہا کہ میرے تو خاوند تھے میں نہیں روتی تم رونے والی کون ہو.صبر و استقلال کا نمونہ ایک ایسی پاک عورت سے جو ناز و نعمت میں پلی ہو اور جس کا ایسا روحانی بادشاہ اور ناز اٹھانے والا مقدس خاوند انتقال کر جائے ایک زبر دست اعجاز تھا.یہی نہیں حضرت اماں جان نے حضور کی وفات کے وقت یا اس کے تھوڑی دیر بعد اپنے بچوں کو جمع کیا اور صبر کی تلقین کرتے ہوئے انہیں ان الفاظ میں نصیحت بھی فرمائی.بچو گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ گئے انہوں نے آسمان پر تمہارے لئے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے جو تمہیں وقت پر ملتارہے گا.“ آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اس موقعہ پر نہ صرف صبر کا عدیم النظیر نمونہ دکھایا بلکہ سب سے پہلا کام یہ کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سرہانے کھڑے ہو کر یہ عہد کیا کہ.اگر سارے لوگ بھی آپ کو چھوڑ دیں گے اور میں اکیلا رہ جاؤں گا تو میں اکیلا ہی ساری دنیا کا مقابلہ کروں گا اور کسی مخالفت اور دشمنی کی پروا نہیں کروں گا.-۹۶.جسدِ مبارک.لاہور سے قادیان حضور کا وصال ساڑھے دس بجے کے قریب ہوا تھا.انتقال کے معمولی وقفہ کے بعد لاہور میں تمام موجود احمدی یکے بعد دیگرے آئے اور حضور اقدس کی پیشانی مبارک کو بوسہ دیتے گئے.کچھ دیر کے بعد حضور کے خدام ذرا باہر بیٹھے اور شیخ رحمت اللہ صاحب خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب لاہور کے سول سرجن کے

Page 99

رٹفیکیٹ کے لئے گئے.( کیونکہ ریلوے قواعد کی رو سے کسی میت کو بذریعہ ریل لے جانے کے لئے ڈاکٹری سر ٹیفیکیٹ کی ضرورت تھی) بٹالہ کے لئے ریز روگاڑی کا انتظام کیا گیا.اڑھائی بجے تک غسل اور کفن سے فراغت ہوگئی.غسل دینے والے بھائی عبدالرحیم صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب اور ایک اور احمدی دوست تھے.ایک کثیر جماعت نے جنازہ پڑھا اور اس کے بعد جوق در جوق احمدی اور غیر احمدی زیارت کے واسطے آتے رہے.حضرت اقدس کا چہرہ مبارک نہایت منور تھا اور کسی قدر رسرخی بھی رخسار پر تھی.چار بجے کے قریب پہلے مستورات اسٹیشن کی طرف روانہ ہوئیں بعد ازاں احمد یہ بلڈ کس سے چار پائی پر جنازہ اٹھایا گیا.اسٹیشن پر پہنچ کر تابوت گاڑی میں رکھا گیا.پونے چھ بجے کے قریب گاڑی لاہور سے بٹالہ کو روانہ ہوئی.گاڑی میں جنازہ کے ساتھ حضرت مولوی نورالدین صاحب.حضرت میر ناصر نواب صاحب حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے علاوہ حضرت اقدس کے بہت سے خدام تھے.گاڑی لاہور سے امرتسر پہنچی تو یہاں سے بھی بہت سے احمدی دوست مثلا میاں نبی بخش صاحب سوداگر اور ڈاکٹر عبداللہ صاحب اور احباب کپورتھلہ شہر مثلاً حضرت منشی ظفر احمد صاحب جنازہ کے ساتھ ہوئے.گاڑی رات دس بجے کے قریب بٹالہ پہنچی نعش مبارک ریز روڈ بہ میں ہی رہی جس کے پاس خدام موجودر ہے.رات 2 بجے کے قریب احباب جنازہ کو شانہ بشانہ اٹھا کر قادیان کی طرف روانہ ہو گئے.دیوانی والی کے تکیہ میں دوستوں نے صبح کی نماز ادا کی.نہر کے پل کے قریب جماعت قادیان کے دوست بھی شامل ہوئے.کوئی آٹھ بجے جنازہ قادیان پہنچا اور حضور کی نعش مبارک بہشتی مقبرہ سے ملحق باغ میں واقعہ پکے مکان میں رکھ دی گئی.۹۷.ایک حیرت انگیز واقعہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے ایام میں صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب جالندھر میں افسر مال کی حیثیت میں متعین تھے.حضور کی وفات سے پیشتر آپ باہر اپنے حلقہ میں دورہ پر تھے.دورہ ختم کر کے آپ واپس گھوڑے پر سوار جالندھر کی طرف تشریف لا رہے تھے کہ راستہ میں آپ کو یکا یک الہام ہوا ماتم پر سی“ آپ گہری سوچ میں پڑ کر بدستور چلتے چلے گئے کہ راستہ میں دوبارہ الہام ہوا.اب خیالات بہت پراگندہ ہو گئے قیاس کیا کہ شاید تائی صاحبہ (حضرت مرزا غلام قادر صاحب کی اہلیہ محترمہ) کا انتقال ہو گیا ہومگر ابھی گھوڑے پر سوار چلے ہی تھے کہ تیسری مرتبہ پھر الہام ہوا ”ما تم پر سی“ جس پر آپ سخت خوفزدہ ہو گئے اور فورا گھوڑے سے اتر کر راستہ میں ہی زمین پر بیٹھ گئے اور سخت پریشانی میں سوچنے لگے کہ الہام کا مطلب کیا ہے.آخر گہری

Page 100

سوچ بچار کے بعد دل میں یہ خیال آیا کہ خدا تعالی کی جانب سے ماتم پر سی ہو تو لازمی ہے کہ یہ کسی اعلی اور ارفع ہستی کی موت اور وصال سے وابستہ ہو.اس خیال کا آنا تھا کہ آپ کو قطعی یقین ہو گیا کہ بس یہ حضرت والد صاحب (مسیح موعود ) کا ہی وصال ہے.یہ خیال راسخ ہوتے ہی آپ پھر گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہو گئے اور اس غم وحزن کی حالت میں بجائے اپنے بنگلہ پر جانے کے سیدھے انگریز ڈپٹی کمشنر صاحب جالندھر کے بنگلہ کو تشریف لے گئے ڈپٹی کمشنر سے ملاقات ہوئی تو ان کو اطلاع دی کہ میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے فور أرخصت دے دی جائے میں جارہا ہوں اور یہ بھی بتلایا کہ میں اس غرض سے دورہ سے سیدھا آپ کے بنگلہ پر آیا ہوں.صاحب موصوف نے دریافت کیا کہ کیا والد صاحب کی وفات کی خبر آپ کو راستہ میں ملی ہے یا کوئی اطلاع موصول ہوئی ہے یا کوئی آدمی آیا ہے.مگر آپ نے جواب دیا کہ نہ کوئی تار آیا ہے نہ کوئی آدمی اور نہ کسی اور ذریعہ سے اطلاع ہوئی ہے صرف خدائی تار آیا ہے اور صاحب موصوف کے دریافت کرنے پر آپ نے راستہ کا تمام ماجرا سنایا تو صاحب کو بہت حیرت ہوئی کہ اس پر اتنا یقین کر لیا اور کہا یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے یونہی آپ کو وہم ہو گیا ہے آپ اطمینان رکھیں ایسا کوئی حادثہ نہیں ہوا ہے.آپ رخصت کے لئے جلدی نہ کریں اور گھبرائیں نہیں لیکن آپ بدستور اپنے یقین کامل سے رخصت پر مصر رہے مگر صاحب بہادر کے اصرار پر اپنے بنگلہ پر واپس تشریف لے آئے.تھوڑی دیر بعد ہی آپ کو حضرت اقدس علیہ السلام کی وفات کا تاربھی موصول ہو گیا.چنانچہ آپ وہ تارلے کر صاحب کے بنگلہ پر دوبارہ گئے اور بتلایا کہ اس وقت میں دورہ سے سیدھا آپ کے بنگلہ پر آ گیا تھا وہ خدای اطلاع کی بناء پر تھا.اب یہ تار بھی آ گیا ہے صاحب بہادر یہ کیفیت دیکھ کر بہت ہی حیران اور ششدر رہ گئے کہ آپ لوگوں کو خدا پر کیسا یقین اور وثوق اور ایمان ہے اور صاحبزادہ صاحب کو رخصت دے دی.چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف فوراً قادیان روانہ ہو گئے.جب آپ جالندھر سے امرتسر پہنچے تو اسٹیشن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جنازہ پہنچ چکا تھا.روشنی کی نئی کرن ۹۸.قدرت ثانیہ کا ظہور نعش مبارک کے قادیان پہنچنے کے بعد سب سے پہلا کام جو سلسلہ کے مقتدر بزرگوں نے اس وقت کیا وہ جانشین یعنی خلیفہ المسيح کا انتخاب تھا.چنانچہ جماعت کے دوست اکٹھے ہوئے اور مشورہ ہوا تو سب کی نظریں حضرت مولوی نورالدین صاحب کی طرف اٹھیں چنانچہ متفقہ فیصلہ ہو چکا تو اکا بر سلسلہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے مکان پر حاضر ہوئے اور مناسب رنگ میں بیعت خلافت کے لئے درخواست پیش کی.آپ نے کچھ تردد کے بعد فرمایا ”میں دعا کے بعد جواب دوں گا چنانچہ وہیں پانی منگایا گیا آپ نے وضو کیا نماز نفل ادا کی اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا چلو ہم سب و ہیں چلیں جہاں ہمارے آقا کا جسدِ

Page 101

اطہر ہے اور جہاں ہمارے بھائی انتظار میں ہیں.چنانچہ حضرت مولوی صاحب کی معیت میں تمام حاضرین باغ میں پہنچے.حضرت مولوی نورالدین صاحب کو جماعت نے متفقہ طور پر پہلے خلیفہ کے طور پر منتخب کیا اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.آپ نے پہلے خطاب میں فرمایا.” میری چھلی زندگی پر غور کرلو.میں کبھی امام بنے کا خواہشمند نہیں ہوا.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم امام الصلوۃ بنے تو میں نے بھاری ذمہ داری سے اپنے تئیں سبکدوش خیال کیا تھا.میں اپنی حالت سے خوب واقف ہوں اور میرا رب مجھ سے بھی زیادہ واقف ہے.میں دنیا میں ظاہر داری کا خواہشمند نہیں.میں ہرگز ایسی باتوں کا خواہشمند نہیں.اگر خواہش ہے تو یہ کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جائے.اس خواہش کے لئے میں دعائیں کرتا ہوں اور قادیان میں بھی اسی لئے رہتا ہوں اور رہوں گا.میں نے اسی فکر میں کئی دن گزارے کہ ہماری حالت حضرت صاحب کے بعد کیا ہوگی اس لئے میں کوشش کرتا رہا کہ میاں محمود کی تعلیم اس درجہ تک پہنچ جائے.حضرت صاحب کے اقارب میں اس وقت تین آدمی موجود ہیں.اوّل میاں محمود احمد وہ میرا بھائی بھی ہے بیٹا بھی اس کے ساتھ میرے خاص تعلقات ہیں.قرابت کے لحاظ سے میر ناصر نواب صاحب ہمارے اور حضرت کے ادب کا مقام ہیں.تیسرے قریبی نواب محمد علی خاں صاحب ہیں.اسی طرح خدمت گذاران دین میں سے.اور بھی کئی ( احباب.ناقل ) ہیں.پس میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جن عمائد کا نام لیا ہے ان میں سے کوئی منتخب کر لو میں تمہارے ساتھ بیعت کرنے کو تیار ہوں.اگر تم میری بیعت ہی کرنا چاہتے ہو تو سن لو کہ بیعت بک جانے کا نام ہے.ایک دفعہ حضرت نے مجھے اشارتاً فرمایا کہ وطن کا خیال بھی نہ کرنا.اس کے بعد میری ساری عزت اور سارا خیال انہی سے وابستہ ہو گیا اور میں نے کبھی وطن کا خیال تک نہیں کیا.پس بیعت کرنا ایک مشکل امر ہے.آخر میں فرمایا:.اب تمہاری طبیعتوں کے رخ خواہ کسی طرف ہوں تمہیں میرے احکام کی تعمیل کرنی ہوگی اگر یہ بات تمہیں منظور ہو تو میں طوع و کر ہا اس بوجھ کو اٹھا تا ہوں.“ وہ بیعت کی دس شرائط بدستور موجود ہیں.ان میں خصوصیت سے میں قرآن کو سیکھنے اور زکوۃ کا انتظام کرنے واعظین کے بہم پہنچانے اور ان امور کو جو وقتا فوقتا اللہ میرے دل میں ڈالے شامل کرتا ہوں.پھر تعلیم دینیات دینی مدرسہ کی تعلیم میری مرضی اور منشاء کے مطابق کرنا ہوگی.اور میں اس بوجھ کوصرف اللہ کے لئے اٹھاتا ہوں جس نے فرمایا ولتكن منكم امة يدعون الى الخير.یادرکھو کہ ساری خوبیاں وحدت میں ہیں جس کا کوئی رئیس نہیں وہ امت مرچکی.تدفین

Page 102

99 - مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے بیعت خلافت ہو چکی تو حضرت خلیفہ امتع الاول نے کچھ وقفہ بعد نماز جناز و پڑھائی.اس وقت رقت کا یہ عالم تھا کہ ہر اصبح طرف سے گریہ وزاری کی آواز اٹھ رہی تھی.نماز عصر کے بعد سب خدام نے یکے بعد دیگرے حضور کے نورانی چہرہ کا آخری بار دیدار کیا.حضرت اقدس کا جسدِ مبارک اس وقت اس مکان کے درمیانی کمرہ میں جنوبی دیوار کے دونوں مغربی دروازوں کے درمیان رکھا ہوا تھا جو بہشتی مقبرہ کے شمال مغرب کی طرف ہے.یعش مبارک اس چار پائی پر رکھی ہوئی تھی جو لا ہور سے ساتھ لائی گئی تھی.پہلے مردوں نے پھر مستورات نے زیارت کی.احباب صحن کی طرف مغربی دیوار کے جنوبی حصہ میں لگے ہوئے دروازہ سے صحن اور صحن سے کمرہ میں آتے اور زیارت کر کے کمرہ کے شمالی دروازہ سے باہر نکلتے جاتے.حضور کے چہرہ مبارک پر نور برس رہا تھا اور جسم مقدس پر گرمی کے اثرات کا کچھ بھی اثر نہ تھا.حضرت اماں جان اس وقت صحن کے جنوب مغربی حصہ میں خواتین کے مجمع میں تشریف فرما تھیں.آخری زیارت کے بعد فش مبارک صحن کے مشرقی دروازے سے نکال کر مدفن ایک بہائی گئی اور کوئی چھ بجے کے قریب حضور کا جسد مبارک اشکبار آنکھوں اور غمزدہ دلوں کے ساتھ بہشتی مقبرہ کی خاک مقدس کے سپرد کر دیا گیا.۱۰۰ حضور کی خدمات کے بارے میں غیروں کا اعتراف حق.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جیسی بین الاقوامی شخصیت کا انتقال جس نے مذہبی دنیا میں اپنے فولادی قلم زبر دست مقناطیسی جذب و کشش، مقدس تعلیمات اور غیر معمولی قوت قدسی کے ساتھ ربع صدی سے زائد عرصہ تک تہلکہ مچائے رکھا کوئی معمولی حادثہ نہیں تھا کہ اس پر خاموشی اختیار کی جاسکتی.ادھر یہ چونکا دینے والی خبر سنی گئی ادھر ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک پریس میں ایک شور پڑ گیا اور اخبارات نے حضور کی وفات کی خبر شائع کرتے ہوئے آپ کو خراج عقیدت پیش کیا.ان اخبارات میں مسلمان ہندو اور عیسائی وغیرہ ہر قسم کے مکتبہ خیال کے لوگ شامل تھے.ہندوستان کے جن مسلم اخبارات نے اس موقعہ پر تبصرے شائع کئے ان میں سے اخبار ” وکیل امرتسر ” البیان لکھنؤ تہذیب نسواں لا ہور اخبار کرزن گزٹ دہلی ”البشیر اٹاوہ یونین گزٹ بریلی میونسپل گزٹ لاہور ” علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ ” صادق الاخبار ریواڑی خاص طور پر قابل ذکر ہیں.

Page 103

اخبار وکیل امرتسر مسلمان اخبارات میں سب سے پُر زور اور موثر اور حقیقت افروز ریویو اخبار وکیل امرتسر کا تھا جو مولانا ابوکلام آزاد کے قلم سے نکلا.انہوں نے لکھا:.وو وہ شخص بہت بڑا شخص تھا جس کا قلم سحر اور زبان جادو.وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا.جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تارا لجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹیاں تھیں.وہ شخص مذہبی دنیا کے لئے تئیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا.جو شور قیامت ہو کے خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا رہا.دنیا سے اٹھ گیا....مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جاوے اور مٹانے کے لئے اُسے امتدادِ زمانہ کے حوالے کر کے صبر کر لیا جائے.ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں دنیا میں انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں.میرزا صاحب کی اس رفعت نے ان کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا ہے کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اس کی ذات سے وابستہ تھی خاتمہ ہو گیا.( حضرت مسیح موعود کے تصنیف کردہ علم کلام اور خلافت احمدیہ کے ذریعہ اللہ کے فضل سے یہ مدافعت جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی.مصنف) ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاوے تا کہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پامال بنائے رکھا.آئندہ بھی جاری رہے.مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں.اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے.اس لئے کہ وہ ہرگز لوح قلب سے نیا منیا نہیں ہو سکتا جبکہ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے عالم اسباب وسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے قصوروں کی پاداش میں پڑے سسک رہے تھے اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے یا نہ کر سکتے تھے.ایک طرف حملوں کے امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دنیا اسلام کی شمع عرفان حقیقی کو سر راہ منزل مزاحمت سمجھ کر مٹا دینا چاہتی تھی اور عقل و دولت کی زبر دست طاقتیں اس حملہ آور کی پشت گری کے لئے ٹوٹی پڑتی تھیں اور دوسری طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ توپوں کے مقابلہ پر تیر بھی نہ تھے اور حملہ اور مدافعت کا قطعی وجودہی نہ تھا.کہ مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا.

Page 104

66 آئندہ امید نہیں کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو “ علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ، علیگڑھ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ نے لکھا کہ:.وو مرحوم ایک مانے ہوئے مصنف اور مرزائی فرقہ کے بانی تھے.1874 سے 1876 تک شمشیر قلم عیسائیوں آریوں اور بر ہموصاحبان کے خلاف خوب چلایا.آپ نے 1880ء میں تصنیف کا کام شروع کیا.آپ کی پہلی کتاب اسلام کے ڈیفنس میں تھی جس کے جواب کے لئے آپ نے دس ہزار روپیہ انعام رکھا تھا آپ نے اپنی تصنیف کردہ اسی کتا بیں پیچھے چھوڑ میں ہیں جس میں سے ہیں عربی زبان میں ہیں.بیشک مرحوم اسلام کا ایک بڑا پہلوان تھا.“ وو ” صادق الاخبار ریواڑی نے لکھا کہ.صادق الاخبار، ریواڑی مرزا صاحب نے اپنی پر زور تقریروں اور شاندار تصانیف سے مخالفین اسلام کو ان کے لچر اعتراضات کے دندان شکن جواب دے کر ہمیشہ کے لئے ساکت کر دیا ہے اور کر دکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایت اسلام کا کما حقہ ادا کر کے خدمت دین اسلام میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.انصاف متقاضی ہے کہ ایسے اولوالعزم حامئی اسلام اور معین المسلمین فاضل اجل عالم بے بدل کی ناگہانی اور بیوقت موت پر افسوس کیا جائے.“

Page 104